Shanasay E Yaar By Zainab Faiza Romantic Complete Novel Story
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Shanasay E Yaar By Zainab Faiza Complete Novel |
Novel Name:Shanasay E Yaar
Writer Name: Zainab Faiza
Category: Complete Novel
مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔
"کتنی بار کہا ہے میں نے کہ جب میں ماما کے پاس بیٹھا ہوں تو مت سامنے آیا کرو۔۔۔۔۔"
نضحت بیگم کے اٹھتے ہی وہ دبے دبے لہجے میں وارننگ دیتے بولا تو عبادت نے سہمی نظروں سے اصلال کی جانب دیکھا۔۔۔ "
مگر بھائی میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔۔۔"
وہ سوں سوں کرتی اپنی ناک دوپٹے سے صاف کرتے بولی تو اصلال کو بے حد افسوس ہوا ، وہ چاہے کچھ بھی کر لیتا مگر عبادت کو سمجھا پانا نا ممکن تھا۔۔۔۔
ایک بات بتاؤں آپ کو بھائی۔۔۔ وہ ایک نظر کچن لے کھلے ڈور سے باہر جھانکتے وہ سرگوشیانہ انداز اپناتے بولی تو اصلال نے لب دبائے مسکراہٹ ضبط کی۔۔۔
کوئی نہیں ہے باہر عبادت تم بتا سکتی ہو۔۔۔۔" اصلال نے آنکھوں میں شریر سی چمک لئے استفسار کیا۔۔۔ وہ ناں میری کلاس کی لڑکیاں آپ کو دیکھ رہی تھی اور ایک نے کہا تھا کہ میری بہن کو نمبر چاہیے تمہارے بھائی کا۔۔۔۔۔ وہ ہمیشہ کی طرح رازداری سے اپنی دوست سمیعہ کی بات اسے بتانے لگی۔۔
اچھا تو پھر تم نے کیا کہا۔۔۔۔" وہ ہاتھ میں پکڑا چائے کے کپ سے گھونٹ بھرتے پوچھنے لگا لہجہ مسرور سا تھا ۔۔۔۔
عبادت کی ایسی ہی باتیں اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دیتی تھیں۔۔۔جبھی وہ روز ان سب سے ملنے آتا تھا۔۔ ویسے بھی رشتوں کے نام پر اسکے پاس تھا ہی کیا۔۔۔ ایک عدد باپ جو دوسرے ملک میں اسکے بچپن سے مقیم تھے۔۔
اسے کہنا کہ میرے بھائی کا نمبر ہے تمہاری بہن کے پاس میں جانتا ہوں اسے اچھے سے ۔۔' اصلال نے اسے اندر کی بات بتائی تھی ایک عبادت ہی تو تھی جس سے وہ اپنے دل کی ساری بات کر لیا کرتا تھا۔۔۔
اب میں گھر جا رہا ہوں پیچھے سے کوئی شرارت نہیں کرنا اور ماما کو تنگ بھی مت کرنا۔۔۔۔" اصلال نے موبائل نکالتے دیکھا جہاں پر سامنے جگمگاتے نمبر کو دیکھ اسکے حسین چہرے پر مسکراہٹ بکھری تھی۔۔
وہ عبادت کو وارن کرتے کپ اسکے ہاتھ میں دیے باہر نکلا تھا۔۔۔۔
**********
کہاں تھے تم کب سے کالز کر رہی ہوں میں ۔۔۔۔۔!_ فون سے آتی امل کی آواز پر وہ مسکراتا اپنے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔ جانتی تو ہو کہاں ہوتا ہوں اس وقت پھر بار بار کیوں پوچھتی ہو، ۔۔۔۔۔" اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتے وہ بےزار سے لہجے میں بولا ۔۔۔۔۔تو امل نے اسکے لہجے کی اکتاہٹ محسوس کرتے فون کو زور سے ہاتھ میں دبوچا ۔۔۔۔۔۔
مجھے اچھا نہیں لگتا اصلال کہ تم یوں ہر روز عبادت سے ملنے جاؤ میں سارا کام ختم کرکے سب سے چھپ چھپا کر تم سے بات کرنے کا انتظار کرتی ہوں اور تم جب بھی فارغ ہو پہلے ماموں کے گھر چلے جاتے ہو۔۔۔۔۔اسکا لہجہ انتہائی روکھا تھا۔۔
اصلال کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے ۔۔۔ تم مجھے وہاں جانے سے روک نہیں سکتی امل وہ میرے چاچو کا گھر کم میرے بابا کا گھر زیادہ ہے بھولو مت میں انہی کے ہاتھوں پلا بڑھا ہوں اور وہ میرے لیے میرے باپ سے بھی آگے ہیں۔۔۔
وہ ایسا ہی تھا جب بات سچ کی ہو وہ لخاظ نہیں رکھتا تھا اپنے رشتوں کو ان کی جگہ پر رکھنا اسے کافی اچھے سے آتا تھا ۔۔۔۔ ویسے بھی وہ امل کی بے جا ضد کی وجہ سے ان سے ملنا چھوڑ نہیں سکتا تھا۔۔۔
اچھا چھوڑو اس بات کو تم نے بڑے بابا سے بات کی میرے اور اپنے رشتے کی۔۔۔۔ امل نے اسے غصے میں دیکھ دوبارہ سے اپنے مطلب کی بات پوچھی۔۔۔
اصلال نے گہرا سانس فضا کے سپرد کرتے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائی۔۔ نہیں وہ گھر نہیں ہیں ، وہ آئیں تو میں بات کرتا ہوں۔۔۔۔ " اصلال آج کافی تھکا ہوا تھا۔۔ کل اسکی پھپھو کے بیٹے کی شادی تھی اور وہ پورا دن کام کرتے اب کافی تھک سا گیا تھا۔۔
اس وقت اسکا دل سونے۔کا تھا مگر امل کی ناراضگی کا سوچتے وہ اس سے بات کر رہا تھا۔۔۔ جس کی سوئی ایک ہی بات پر اٹکی تھی۔۔۔
اصلال ماما میرا رشتہ ڈھونڈ رہی ہیں۔ اور میں کچھ بھی نہیں کر سکتی اس سے پہلے کہ میرا رشتہ کہیں اور ہو تم کچھ کرو۔۔۔ " امل نے پھر سے اس پر دباؤ ڈالا تو اصلال نے آنکھوں موندے اپنا سر دبایا۔۔۔۔ فلحال انتظار کرو تم میں جانتا ہوں تم ابھی پھپھو کے گھر ہو کوئی رشتہ نہیں ہو رہا تمہارا تو مجھے مزید پریشان مت کرو۔۔۔۔۔۔
اصلال نے بے زاری سے کہتے کال کٹ کی۔۔۔۔ تو امل اپنی ناکامی پر تلملا کے رہ گئی۔۔
***********
اتنی لیٹ کیوں آئے تم۔۔۔۔ " اپنی جانب دوڑتے اسے آتا دیکھ وہ منہ بنائے بولی تو اشکان نے بیگ کندھے پر ڈالے اسے گھورا۔۔ اتنا آسان نہیں تھا میڈم چوری چھپے کسی کے گھر جانا اور پھر وہاں سے امرود توڑ کے لانا۔۔۔۔ " وہ اپنا بیگ اوزگل کے نازک ہاتھوں میں تھمائے بولا۔۔۔
اسے پکڑو اشکان کیا کر رہے ہو یہ گر جائے گا۔۔۔۔ وہ ہربڑاتے اس بھاری بیگ کو سنبھالنے کی کوشش کرتے بولی تو اشکان نے اوزگل کے سرخ چہرے کو دیکھ قہقہہ لگایا۔۔۔
اگر کھانے کا اتنا ہی شوق ہے تو اسے اٹھاؤ بھی۔۔۔۔ اپنے ایک ہاتھ میں بیگ کو اس سے لیتا وہ طنز کرتے گویا ہؤا۔۔ تو اوزگل نے دانت پیستے اسے گھورا۔۔
کوئی احسان نہیں کیا تم نے جو یوں مجھ پر طنز کر رہے ہو۔۔۔ وہ ناک چڑھاتی نخوت سے بولی تو اشکان نے ائبرو اچکاتے اسے سر تا پاؤں دیکھا۔"
اوہ میڈم پورے ایک گھنٹے سے چوروں کی طرح چھپتا چھپاتا دیوار پھلانگ کے اندر گیا اور پھر اتنے بڑے بڑے کتوں سے جان بچاتے تمہارے لئے امرود توڑ کے لایا ہوں اور تم کہہ رہی ہو کہ کوئی احسان نہیں کیا۔۔۔۔ " وہ چیخ ہی تو پڑا تھا جون کی کڑی دوپہر میں وہ پسینے سے شرابور اپنے اوزگل کو دیکھ بولا۔۔۔ جسے اسکی اتنی ساری محنت سے فلحال کوئی فرق نہیں پڑا تھا
احسان تو نہیں کیا دوست ہو اور دوست تو جان بھی دے سکتے ہیں اس میں کونسی بڑی بات ہے جو تم نے کری۔۔۔ امرود ہی توڑ کے لائے ہو اور وہ بھی اتنی باتیں سنا رہے ہو۔۔
ہارنا تو اس نے سیکھا ہی نہیں تھا پھر بھلا کیسے وہ اس کی بات کو ٹھیک مان لیتی ۔۔
اشکان نے بیگ سے امرود نکالتے ساتھ ہی اوزگل کو دیے۔۔۔
گھر چلیں ماما ویٹ کر رہی ہوں گی ۔۔۔۔" وہ امرود اپنے بیگ میں ڈالتے بولی تو اشکان نے اس احسان فراموش لڑکی کو دیکھا۔۔
جو اسکی اتنی بڑی قربانی کے بعد اسے دیکھ تک نہیں رہی تھی ۔۔۔۔۔
اوزگل رکو تو۔۔۔۔ اسے گھر کی طرف جاتا دیکھ اسکے پیچھے ہوا تھا ۔۔۔۔ ہاں کہو کیا بات ہے۔۔۔ !" اوزگل نے مڑتے اس سر یوں آوازیں لگانے کی وجہ دریافت کی۔۔
کل ہمارے گھر دعوت ہے تم آؤ گی۔۔۔۔ "
اسکے حسین چہرے کو دیکھتا وہ سوالیہ ہوا ، وہ دونوں ایک دوسرے کے اچھے دوست اور کزنز تھے۔۔ اوزگل سے زیادہ اشکان کو یہ دوستی عزیز تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ لڑکی بہت کم دوست بناتی تھی۔۔
اگر ماما بابا آئے تو میں آؤں گی۔۔۔۔۔ "اوزگل نے کچھ سوچتے سنجیدگی سے کہا تو اشکان نے مسکراتے اسے دیکھا۔۔
تھینکس گل میں ویٹ کروں گا ۔۔۔۔ وہ خوشی سے چہکتا اسے کہتے ساتھ ہی اپنی گاڑی کینجانب بڑھا ۔۔۔۔ اوزگل انیس سال کی تھی جبکہ اشکان اکیس سال کا ۔۔۔۔۔ مگر پھر بھی ان دونوں کی کافی اچھی دوستی تھی۔۔ میں انتظار کروں گا۔۔۔۔ اسے جاتا دیکھ وہ پھر سے ہانک لگاتے بولا تو اوزگل نے مڑتے آنکھوں سے اوجھل ہوتی اسکی گاڑی کو دیکھا ۔۔۔
************
اشکان کہاں جا رہے ہو تم۔۔۔۔۔ " اسے یوں روم سے نکلتا دیکھ عافیہ بیگم نے حیرانگی سے پوچھا جو یوں بنا بتائے رات کے بارہ بجے جا رہا تھا۔۔۔
کہیں نہیں ماما کچھ دوستوں نے بلایا ہے بس وہیں جا رہا ہوں۔۔۔۔۔ " اشکان نظریں چرائے جلدی سے انہیں آگاہ کرتا باہر کی جانب بڑھا تھا ۔۔۔۔۔ عافیہ بیگم اسے آوازیں دیتی رہ گئی جو یوں عجلت میں جا رہا تھا جیسے اسکا ابھی جانا ضروری ہو۔۔۔۔
اشکان صدیقی عافان صدیقی اور عافیہ صدیقی کا سب سے چھوٹا اور لاڈلا بیٹا تھا ان کی تین بیٹے تھے مگر عالیحان ساری فیملی کا لاڈلا اور چھوٹا بھی تھا۔۔۔۔ کہاں گیا ہے یہ ۔۔۔۔! خدیجہ بیگم جو ابھی تسبیح کرتے پانی پینے کی خاطر باہر آئ تھیں۔ اپنی بہو کو یوں پریشان سا کھڑا دیکھ وہ سمجھ گئی کہ ضرور اشکان کہیں گیا ہے۔۔
اماں ہتہ نہیں کہہ رہا تھا کہ دوستوں کے پاس جا رہا ہوں۔۔۔۔" عافیہ بیگم نے پریشانی سے گویا ہوئیں ۔۔۔ آ جائے گا اس طرح پریشان ناں ہو تم بڑا ہو گیا ہے اب وہ۔۔۔۔۔" عافیہ بیگم کا کندھا تھپکتے خدیجہ بیگم وہاں سے واپس اپنے کمرے کی جانب بڑھی تھی ۔۔۔
عافیہ بیگم کا ایک بھائی تھا ، اظہر انصاری جن کی اکلوتی بیٹی اوزگل تھی ، ماں باپ کی لاڈلی اور حساس طبیعت ہی مالک۔۔۔
اشکان کا اوزگل کی جانب کھنچاؤ سبھی محسوس کرتے تھے وہ بچپن سے ہی اسکے معاملے میں پوزیسو تھا اسی وجہ سے عافیہ بیگم کو ہر وقت ڈر رہتا تھا کہ کہیں وہ کچھ ایسا ناں کر جائے جس کی وجہ سے اسکا بھائی ان سے دور ہو جائے۔۔۔
کہیں ناں کہیں انہیں یہ ڈر بھی تھا کہ کہیں اشکان کا اس قدر پوزیسو ہونا آگے جاتے ان سب کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا تھا۔۔
*************
بابا آپ نے کیوں بلایا ہے ہمیں سب کچھ ٹھیک تو ہے۔۔۔۔ " شایان جعفری اس وقت کافی پریشان تھے یوں اچانک سے سکندر جعفری کے بلانے پر وہ سب اس وقت بڑی بیٹھک میں جمع تھے ۔۔
رضیہ بیگم۔کا سانس پھولا ہؤا تھا یہ سوچتے ہی کہ انکے شوہر کیا فیصلہ لیں گے۔۔۔
میں نے ایک فیصلہ لیا ہے شایان ۔۔۔۔۔۔ اپنی محسوس با روعب آواز میں وہ کمرے میں جمع اپنی اولاد کو دیکھتے بولے تو شایان صاحب کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے ۔۔۔۔۔ کہیں ناں کہیں سب ہی اس بات سے آگاہ تھے کہ وہ کیا فیصلہ لینے والے تھے۔۔۔
میں چاہتا ہوں کہ اب بچے بڑے ہو گئے ہیں اس سے پہلے کہ ان کے دماغ کہیں اور بھٹکیں انہیں اس بات سے آگاہ کر دو کہ ہم نے بچپن سے ہی اپنے اصلال کے لیے اپنے شہزادی کو مانگ رکھا ہے ۔۔۔۔
جیسا آپ کا حکم بابا جان۔۔۔۔۔۔ " نضحت بیگم نے خوشی سے نہال ہوتے سب سے پہلے جواب دیا تھا انکی خوشی پر سکندر جعفری بھی مسکرائے تھے ۔۔۔۔ نضحت۔۔۔ " سکندر جعفری نے اپنی بیٹیوں کو دیکھا جن کا چہرہ بالکل سپید ہوا پڑا تھا جیسے یہ فیصلہ ان میں سے کسی کو بھی پسند نہیں آیا تھا۔۔
جی بابا جان ۔۔۔۔" شایان صاحب کی نظریں بھی اپنی بیوی پر تھیں جو کافی خوش تھی۔۔۔
عبادت کو یہ بات تم بتاؤ گی کہ وہ بچپن سے اصلال عالم کے نام سے منسوب ہے۔۔۔۔ اور شایان اصلال کو تم اس بات سے آگاہ کرو گے۔۔۔۔ " ابکی بار وہ دونوں کو ہی آگاہ کرتے اپنے بیوی کی جانب دیکھنے لگے جن کا چہرہ انکی سے بات سنتے ہی فق ہوا تھا۔۔
سکندر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں عبادت ابھی بچی ہے میٹرک کر رہی ہے اور اصلال بھی کونسا اتنا بڑا ہے جب وہ بڑے ہونگے ان کو آگاہ کر دیں گے اس بابت ۔۔۔۔ " رضیہ بیگم نے اپنی سی کوشش کی وہ کسی بھی طور اصلال تک یہ بات پہنچنے نہیں دے سکتی تھی۔۔۔
اس خاندان کا سربراہ میں ہوں رضیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کسی نے بھی میرے فیصلے کی تردید کی تو اچھا نہیں ہو گا مجھے مجبور مت کرو کہ میں ابھی اور اسی وقت اصلال اور عبادت کا نکاح کر دوں۔۔۔۔۔۔ رضیہ بیگم کے ٹوکنے پر وہ انتہائی غصے سے بولے تو کمرے میں ایک دم سے سرد خاموشی چھا گئی۔۔۔۔
وہ سب جانتے تھے کہ کسی میں بھی اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ سکندر جعفری کے فیصلے کی تردید کرتا۔۔۔۔
جیسا آپ نے کہا ہے ویسا ہی ہو گا بابا۔۔۔۔۔ شایان جعفری اپنے بابا کے ہاتھ پر بوسہ دیے سرشاری سے بولے تو وہاں موجود کئی نفوس کو سانپ سونگھ گیا۔۔۔۔
جبکہ سکندر جعفری اس بات سے اچھی طرح سے واقف تھے کہ ان کا لیا یہ چھوٹا سا فیصلہ پورے خاندان میں کیا تباہی پھیلانے والا ہے۔۔
*************
گل میری جان کھانا نہیں کھانا آپ نے۔۔۔" فرخندہ بیگم جو اوزگل کو کھانا کا پوچھنے آئی تھیں اسے یوں سوتا دیکھ وہ متفکر سی اسکے پاس گئی اور نرمی سے اسکی پیشانی پر بوسہ دیے وہ محبت سے استفسار کرنے لگی۔۔
ماما بس طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو اسی وجہ سے سو گئی۔۔۔۔
اوزگل نے اپنی سرخ ہوتی خوبصورت آنکھوں سے اپنی ماما کو دیکھا جو کافی متفکر سی تھی۔۔۔ " میری جان آپ کو تو بخار ہو رہا ہے ،رکیں میں آپکے پاپا کو بلاتی ہوں، اوزگل کے گھنے سیاہ لمبے بالوں کو ہاتھ سے سنوارتی وہ پریشانی سے کہتے وہاں سے جانے لگی کہ اوزگل نے فورا سے انکا ہاتھ تھاما۔۔
ماما میں ٹھیک ہوں کچھ نہیں ہوا مجھے بس ہلکا سا فیور ہے ۔۔۔ " اوزگل انکی گود میں سر رکھتے محبت سے انکے ہاتھ پر بوسہ دیے بولی تو فرخندہ بیگم اسکا سر تھپکتے اسے پرسکون کرنے لگی۔۔
**************
سکندر جعفری اپنے پورے خاندان میں سب سے بڑے اور روبعدار شخصیت کے مالک تھے اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد جبکہ انکی ماں کی دوسری شادی سے انکا ایک بھائی اور بھی تھا۔۔
سکندر جعفری کے دو بیٹے سفیان ، شایان جعفری اور دو بیٹیاں نازیہ اور فرذانہ تھیں۔۔گھر کا ہر فیصلہ سکندر جعفری لیتے تھے ۔۔ انکے بڑے بیٹے سفیان کی شادی رضیہ بیگم کی پسند کیخلاف ہوئی تھی جبھی شادی کے ایک سال بعد ہی اصلال جعفری کی پیدائش کے بعد سفیان جعفری بیرون ملک چلے گئے جس کے بعد سحرش پر زندگی مزید تنگ ہوئی تھی ۔۔۔ بالآخر ان سے دو ماہ کے اصلال کو چھینتے بہت سے بہتان لگاتے ان کو گھر سے نکال دیا گیا ۔۔۔۔
سفیان جعفری کے سامنے ان کی بدکرداری کا ایسا نقشہ کھینچا انکی ماں اور بہنوں نے کہ وہ بنا بیوی کی سنے انہیں فورا سے طلاق دے گئے۔۔۔ شایان صاحب کی شادی اپنے سوتیلے چچا کی بیٹی نضحت سے ہوئی جن سے رضیہ بیگم کو خاصا بیر تھا ۔۔۔ مگر وہ آگے ہی ایک بہو کو اجاڑ چکی تھی اسی وجہ سے اب کوئی نیا بکھیڑا نہیں کھڑا کر سکتی تھی۔۔
جبھی سب سے پہلے نضحت بیگم کی گود میں اصلال عالم کو ڈالا گیا جو انکی شادی کے وقت تین سال کا تھا۔۔ نضحت بیگم اور شایان جعفری کا بڑا بیٹا آنش جو انکی شادی کے ایک سال بعد پیدا ہوا اور پھر تین سال بعد ہی انکے ہاں عبادت پیدا ہوئی جس کی پیدائش پر شایان جعفری نے پورے خاندان میں مٹھائیاں تقسیم کیں کہ میرے رب نے مجھے نعمت سے نوازا ہے جبکہ سکندر جعفری نے سب سے پہلے اپنی پوتی کو گود میں بھرتے کچھ ایسے الفاظ کہے۔۔۔
"آج سے اسکا نام عبادت شایان جعفری ہے اور یہ میرے پوتے اصلال عالم جعفری کی منگ ہے اسکا نام آج سے ہی میں اپنے پوتے اصلال عالم کے نام سے منسوب کرتا ہوں کوئی بھی میری اجازت کے بنا ناں تو میری پوتی کا رشتہ کہیں اور طے کر سکتا ہے اور ناں ہی ان دونوں کو اس رشتے کی بابت بتا سکتا ہے۔۔ انہیں کیسے اور کب اس بارے میں آگاہ کرنا ہے یہ میں طے کروں گا۔۔۔ اور جس نے بھی میرے فیصلے کے خلاف جانے کی کوشش کی تو میں سمجھوں گا کہ وہ سکندر جعفری سے بغاوت کر رہا ہے اور باغیوں کی سزا میرے قانون میں سزائے موت ہے۔۔۔"
سکندر جعفری کے اچانک سے پورے خاندان کے سامنے کہنے پر شایان جعفری سکتے میں چلے گئے ۔۔۔۔
یہ اچانک کیا فیصلہ سب کیلئے ہی غیر متوقع تھا نضحت بیگم خاموش سرد پڑی سکندر جعفری کے ہاتھوں میں موجود اپنی کچھ لمحوں کی معصوم بیٹی کو دیکھ رہی تھیں۔۔ جس کی قسمت اسکے پیدا ہوتے ہی لکھ دی گئی تھی۔۔
***************
میرا سامان لائے ہو۔۔۔۔۔۔" گاڑی سے نکلتے ہی اس نے سب سے پہلا سوال پوچھا تو علی نے اسے حیرت سے دیکھا ۔۔
بندہ سلام دعا ہی کر لیتا ہے اشکان ۔۔۔۔۔۔ توں تو ایسے کر رہا ہے جیسے جانتا ہی ناں ہو۔۔۔۔۔ " علی نے اسے شرم دلانے کو کہا جبکہ اسکی بات سنتا وہ گہرا مسکرا دیا۔۔ علی اسکا یونی کا فیلو اور اچھا دوست تھا۔۔
اج اوزگل کو کالج سے پک کرنے کی وجہ سے وہ اپنا کام اسے سونپ آیا تھا۔۔۔ جبھی علی اس وقت اسکی امانت اسے دینے آیا تھا۔۔۔
یہ لو تمہارا سامان۔۔۔ وہ ایک بڑا سا ڈبہ اسکے ہاتھمیں رکھتے بولا ۔۔۔تھینکس یار۔۔۔۔" اشکان نے اسے گلے ملتے شکریہ کہا تو علی نے تججس سے اسکے ہاتھ میں موجود اس ڈبے کو دیکھا۔۔۔
ویسے اس میں ہے کیا۔۔.؟" علی نے بےچینی سے پوچھا کیونکہ وہ صرف اشکان کے کہنے پر دکان سے یہ پیک ہوا بڑا سا ڈبہ لایا تھا۔۔
باقی اسے کچھ بھی علم نہیں تھا۔۔۔ کہ اس میں ایسا کیا ہے جسکی وجہ سے اسے یوں آدھی رات کو اشکان نے بلایا تھا۔۔
یہ تجھے بتانے والی چیز نہیں ۔۔۔تیرا بہت بہت شکریہ کہ توں نے میری مدد کی اب توں جا گھر اور سو جا۔۔۔۔۔" اسکا کندھا تھپکتے وہ اسے بچوں کی طرح پچکارتے ہوئے بولا تو علی نے منہ پھلائے اسے خفگی سے دیکھا جس کا اشکان پر فلحال کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔۔۔
اب یہ تو صرف وہی دیکھی گی جسکے لئے میں نے اسے لیا ہے۔۔ وہ مسکراتا اس پیک ہوئے خوبصورت سے ڈبے کو دیکھ مسکرایا۔۔۔۔
اماں آپ نے تو کہا تھا کہ اصلال کی شادی میری بیٹی امل سے ہی ہو گی اب دیکھیں ابا نے کیا فیصلہ لے لیا ہے اب کیا ہو گا۔۔۔۔ نازیہ بیگم جب سے سکندر جعفری کے کمرے سے آئی تھیں انکی حالت بری تھی ۔۔۔۔
تم چپ کرو نازیہ میرے ہوتے ایسا کچھ نہیں ہو سکتا میں نے آج تک اس نضحت کو بہو نہیں مانا تو اسکی بیٹی کو کیسے قبولوں گی۔۔۔ اصلال کی شادی تو امل سے ہی ہو گی بس ایک بار ہاشم کی شادی بخیریت ہو جائے۔۔۔۔
رضیہ بیگم نے اسے جھڑکتے خاموش کروایا ۔۔۔۔ تو وہ انسوں صاف کرتی اپنی بہن فرزانہ۔کو دیکھنے لگی ہاشم فرزانہ کا بیٹا تھا جبکہ امل اور نبیل نازیہ کے بچے تھے ۔۔۔
اماں اب کیا ہو گا وہ نضحت تو بہت خوش ہو گئی ہو گی ۔۔۔ اسکی بیٹی کی قسمت چمک پڑی اکلوتا بیٹا ہے اصلال ناں ناں بہن ناں بھائی اور باپ تو ہے ہی باہر ۔۔۔۔ " نازیہ نے جلتے دل سے رضیہ بیگم کو ہلاتے کہا جو آگے ہی کافی غصہ تھیں ۔۔۔
فکر مت کر توں امل سے کہہ کہ اصلال کو کل ہی ولیمے والے دن اپنے قابو میں کرے اور پھر دیکھ میں کل کیسا تماشا لگاتی ہوں کل کے کل ہی امل اور اصلال کا نکاح ناں پڑھوایا تو کہیو۔۔"
رضیہ بیگم نے کچھ سوچتے نازیہ کو دیکھ کہا جو اپنی ماں کی بات سنتے دل سے خوش ہوئی تھی۔۔۔
*********
💖💖💖💖💖💖💖
اسلام علیکم ماموں____" اشکان کی آواز پر سامنے بیٹھے اخبار پڑھتے اظہر انصاری نے مسکراتے اخبار ایک جانب رکھا ، آؤ بیٹا بیٹھو ۔۔۔۔ سناؤ کیسے ہو عافیہ کیسی ہے____؟"
اشکان کو بیٹھنے کا کہتے وہ ساتھ ہی اپنی بہن کی بابت پوچھنے لگے یوں تو انکا گھر دو گلی چھوڑ کے ہی پاس میں تھا مگر اظہر صاحب کا جانا پھر بھی بہت کم ہوتا تھا ۔
جی ماموں ٹھیک ہیں ماما ___!" اشکان نے بیگ مضبوطی سے کندھے پر ڈالے کیا مگر وہ بیٹھا نہیں تھا۔۔ کیا بات ہے بیٹا کیا ڈھونڈ رہے ہو۔۔۔۔" اشکان کا بار بار اندر جھانکنا وہ نوٹ کر چکے تھے جبھی ماتھے پر بل ڈالے پوچھنے لگے اشکان گڑبڑا سا گیا انکے یوں کہنے پر۔۔۔
نن نہیں ماموں جان کچھ بھی نہیں میں بس یونی کیلئے جا رہا تھا تو سوچا کہ گل کو بھی کالج چھوڑ دوں گا۔۔"
اسنے گڑبڑاتے اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتے کہا۔۔۔
اسکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اشکان۔۔۔۔ آج نہیں جائے گی وہ۔۔۔" اظہر صاحب نے اسے گہری نظروں سے دیکھتے بتایا جس کے چہرے پر یہ سنتے ہی ایک سایہ سا لہرایا۔۔
کک کیا ہوا ہے اسے ماموں ، بخار تو نہیں ہو گیا میں ابھی دیکھ کر آتا ہوں۔۔۔" وہ متفکر سا ایک ہی سانس میں بولتا اظہر صاحب کے ماتھے پر کئی بل نمودار کر گیا۔۔۔۔انہوں نے سرد سانس فضا کے سپرد کرتے اشکان کے چہرے کی بدلتی رنگت کو دیکھ اسے روکا ۔
بیٹا ہلکا سا فیور ہے بس اور کچھ بھی نہیں میں نے کالج جانے سے روک دیا تھا تم پریشان ناں ہوں وہ ٹھیک ہے۔۔"
اظہر صاحب نے چائے کپ اٹھائے منہ سے لگاتے کہا تو اشکان نے لب بھینجتے اپنے آپ پر ضبط کیا ۔۔۔۔اسکی آنکھوں میں سرخی اتر رہی تھی ، بظاہر وہ ایک بہت نرم مجاز سمجدار لڑکا تھا مگر آج اسکی آنکھوں میں کچھ اور ہی چمک آباد تھی جسنے اظہر انصاری کو ٹھٹکا دیا تھا ، اچھا ماموں میں چلتا ہوں۔۔۔" اشکان نے ابکی بات ان سے نظریں ملانے کی غلطی نہیں کی تھی۔۔
اظہر صاحب نے بغور اسکی پشت کو نظروں سے اوجھل ہونے تک گھورا۔۔
************
بابا آپ نے بلایا تھا کوئی کام ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔" آنش نے اپنے بابا کو دیکھتے ہوئے پوچھا جو انہی کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔
آؤ بیٹا دانش کہاں ہے۔۔۔؟" آنش کو اکیلا آتے دیکھ شایان صاحب نے حیرت سے سوالیہ نظروں سے آنش اور پھر نضحت بیگم کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔
بابا وہ آج اسکا میچ تھا تو ابھی تک نہیں آیا۔۔۔" آنش نے انکے قریب بیٹھتے کہا تو شایان صاحب کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔۔۔
یہ لڑکا کبھی نہیں سدھر سکتا _____ آج آنے دو میں کرتا ہوں اسکا علاج " وہ غصے سے دانش کے یوں رات دیر تک باہر رہنے کی وجہ سے بولے تھے جبکہ نضحت بیگم نے تو آنش کو التجائی نظروں سے دیکھ رہے تھی جانتی جو تھی کہ اب ضرور دانش کی خیر نہیں۔۔۔
بابا میری بات ہوئی تھی بس آ ہی رہا ہے وہ۔۔۔۔" شایان صاحب اپنے بچوں کے ساتھ الگ گھر میں رہتے تھے مگر انکا گھر اپنے خاندانی گھر کے بالکل ساتھ تھا۔۔ یہ گھر بھی انہوں نے صرف اور صرف اپنے بچوں کی وجہ سے بدلا تھا ۔۔
جو بھی تھا عبادت اور اصلال کا رشتہ وہ خود بھی دل سے تسلیم۔کر چکے تھے اور اسی وجہ سے کچھ سوچتے انہوں نے الگ گھر بنایا تھا ۔۔۔۔
تم اسکا بچاؤ مت کیا کرو آنش وہ بےشرم کبھی نہیں سدھر سکتا۔۔۔۔ " شایان صاحب نے آنش کو گھورتے کہا ۔۔۔۔ بابا آپ چھوڑیں اسے مجھے یہ بتائیں آپ نے کیوں بلایا تھا مجھے ۔۔۔۔۔۔ آنش نے انکے قریب ہوتے محبت سے پوچھا تو شایان صاحب نے گہرا سانس فضا کے سپرد کرتے اپنی بیوی کو دیکھا اور پھر اپنے بڑے بیٹے کو۔۔۔۔۔۔
بیٹا میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔امید ہے کہ تم میری بات کو سمجھو گے ۔۔۔٫ آنش کے ہاتھ کو تھامتے وہ محبت سے بولے تو آنش نے انہیں حیرت سے دیکھا کیا ہوا ہے ڈیڈ ٹھیک سے بتائیں۔۔"
انش نے گھبراتے ہوئے استفسار کیا۔۔۔'
انش میرے بچے تمہاری بہن عبادت کا رشتہ تمہارے بڑے بابا نے بچپن سے ہی اصلال سے طے کیا ہے۔۔ یہ بات ہم نے تم سبھی بچوں سے چھپائی تھی بیٹا ۔۔۔۔۔ مگر اب مجھے لگتا ہے کہ تم سب کو اس بارے میں معلوم۔ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔ شایان صاحب نے آنش کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھتے کہا تھا ۔۔۔جو بنا کوئی جواب دیے وہاں سے اٹھتے باہر نکلا۔۔۔۔۔۔
اسے کیا ہوا ۔۔۔۔" آنش کا یوں اٹھتے جانا شایان صاحب کو حیران کر گیا وہ حیرت زدہ سے نضحت بیگم سے پوچھنے لگے جو خود بھی حیرانگی سے کندھے آچکا گئی۔۔۔۔
اللہ جانے کیا ہوا ہے اسے۔۔۔۔۔۔۔ وہ ششدر سی شایان صاحب کو دیکھ بتانے لگی جو اسکی بات سنتے لب بھینجتے گہری سوچ میں مبتلا تھے۔۔۔
***********
بیٹا آج اصلال پر ایسا جادو چلا کہ وہ بس تجھے ہی دیکھتا رہے۔۔۔۔۔" آئینے کے سامنے کھڑی امل جو کہ کافی دلجمعی سے تیار ہو رہی تھی ۔۔۔ اسے دیکھ نازیہ بیگم نے چہکتے ہوئے اپنی خوبصورت بیٹی کو دیکھتے کہا۔۔۔۔۔ جو آگے سے مسکراتے اپنے بالوں کو پیچھے کی جانب جھٹکتے وہ ایک ادا سے مڑی۔۔۔۔
بس بیٹا کسی بھی طرح سے اس اصلال کو قابو کر سارا برنس سب کچھ اسی کے نام ہے اور اگر یہ تیرے قابو میں آ گیا تو سمجھ کہ ہماری پانچوں انگلیاں گھی میں۔۔۔۔۔
نازیہ نے امل کے چہرے پر آتی لٹ کو پیچھے کرتے کہا تو امل نے ہنستے ہوئے اپنی ماں کو دیکھا ۔۔ بے فکر رہیں آپ امی آج ایسا دھماکہ ہو گا کہ سب حیران رہ جائیں گے۔۔۔۔ وہ پرسوچ انداز میں اصلال عالم کو یاد کرتے مسکرا اٹھی۔۔۔۔
***********
اشکان توں نے بتایا نہیں کہ توں نے وہ گفٹ کس کے لئے لیا تھا۔۔۔ " اسے یونی کے پارکنگ ایریا کی جانب جاتا دیکھ علی اسکے پیچھے آیا تھا اشکان نے مڑتے اسے دیکھا اور پھر بنا کچھ کہے وہ گاڑی کا ڈور کھولتے اندر بیٹھا۔۔۔
یار مجھے تو لے چل ساتھ علی نے تڑپتے کار کے شیشے پر ہاتھ مارتے کہا تو اشکان نے غصے سے اسکے عکس کو دیکھا اور ایک دم سے فل سپیڈ سے گاڑی کو سٹارٹ کیا کہ علی کی چیخ سی نمودار ہوئی وہ ہکا بکا سا ڈر سے لرزتا اپنی آنکھوں سے ہوا کی مانند اوجھل ہوتی اسکی گاڑی کو دیکھتا رہ گیا۔۔
وہ پورے راستے رش ڈرائیونگ کرتے گھر آیا تھا ، اسکے دماغ صرف اور صرف اس وقت اوزگل کی بابت سوچ رہا تھا۔۔۔وہ بیمار تھی اور ماموں نے اسے ایک بار دیکھنے تک نہیں دیا تھا۔۔ اشکان نے آنکھیں میچتے اپنے سینے میں اٹھتی ٹیسوں کو نظر انداز کیا۔۔۔ " اظہر نے انکار تو نہیں کیا مگر اقرار بھی نہیں کیا ۔۔۔۔ اوزگل ابھی بہت چھوٹی ہے اور اوپر سے ہر دوسرے دن کوئی ناں کوئی رشتہ لئے آ جاتا ہے ۔۔۔۔!" عافیہ بیگم کی آواز پر اشکان کا سیڑھیوں پر رکھا قدم وہیں تھما تھا ۔۔۔۔اسنے وخشت ناک نظروں سے اپنی ماما پاپا کے بند کمرے کو دیکھا۔۔۔
اسے لگا جیسے کسی نے اسکی روح کھینچ لی ہو اسکے اندر سے ۔۔۔۔۔۔ اسکا سر بری طرح سے چکرانے لگا اشکان نے رلینگ پر ہاتھ رکھتے اپنے اندر اٹھتے طوفان پر قابو پانے کی سعی کرنے لگا۔۔۔
بیٹا جو بھی ہے ابھی وہ بچی سترہ سال کی ہے تمہارے بھائی کو ابھی کسی کو بھی حامی نہیں بھرنی چاہئے ویسے ھی ماشاءاللہ سے بچی تو انتہائی حسین ہے اور پھر وقت پر ایک سے ایک بڑھ کے رشتہ آئے گا اسکے لئے۔۔۔ " حدیجہ بیگم نے عافیہ بیگم کو پرسکون کرتے کہا تھا ۔۔۔ جو آج دن سے ہی کافی پریشان تھی۔۔
اماں آپ نے دیکھا نہیں اس عورت کو اسکا بس چلتا تو وہ کل ہی ہماری اوزگل کو بیاہ کے لے جاتی ۔۔۔۔ مجھے اب خوف آ رہا ہے اگر بھائی نے کسی بھی طرح کی حامی بھر لی تو پھر۔۔۔۔۔ " ارے ایسے کیسے حامی بھر لے گا توں نے بتایا نہیں تھا کہ تو بچپن سے اپنے اشکان کیلئے اسے سوچ چکی ہے ۔۔۔۔ حدیجہ بیگم تو سنتے ہی ہتھے سے اکھڑ چکی تھی لاڈلا چھوٹا پوتا تھا اوپر سے اسکی محبت سے بھی کہیں ناں کہیں سب واقف تھے۔۔۔
میں نے بھائی سے کہا تھا مگر انہوں نے مجھے صاف انکار کر دیا ہے کہ میں کوئی امید ناں رکھوں۔۔۔" عافیہ بیگم تو اپنے دل میں اٹھتے درد اپنا غم کو جانے کب سے چھپائے ہوئے تھی مگر اب وہ خود کو روک نہیں پائی تھیں۔۔ مگر وہ انجان تھی کہ باہر کھڑا وہ جنونی شخص یہ سب کچھ سن چکا تھا ۔۔ اسکی آنکھوں میں اوزگل کا حسین عکس تھا۔۔
اسنے بچپن سے اسے کسی دوسرے کے نزدیک نہیں جانے دیا تھا اسے دوست نہیں بنانے دیے تو اب کیسے وہ اسے کسی بھی غیر کے لے جانے دیتا۔۔۔۔۔ اشکان نے ضبط سے جبڑے بھینجتے قدم نیچے اتارے اور چلتا اپنی ماما کے کمرے میں گیا۔۔۔
ماما _____ اشکان کی کربناک آواز کو سنتے عافیہ بیگم جھٹکے سے جگہ سے اٹھی تھی۔۔۔ انکی آنکھوں میں خوف تھا کہ کہیں اس نے کچھ سن تو نہیں لیا۔۔۔
بچپن میں ایک مرتبہ ایک لڑکی نے میری گل کو تھپڑ مارا تھا ، اس کے بعد اس لڑکی کو کسی نے اتنا ڈرایا اتنا ڈرایا کہ وہ سکول جانے سے ڈرنے لگی۔۔۔مہینہ بخار میں مبتلا رہی اور بالآخر اسے سکول چھوڑنا پڑا۔۔۔۔ " جانتے ہیں کہ وہ کون تھا ۔۔۔۔
اسکی آنکھوں میں جنون آباد تھا اسے حاصل۔کرنے کا جنون اپنے نام کرنے کا جنون ، حدوں کو توڑنے کا جنون ۔۔۔۔عافیہ بیگم لرزتے اسکے قریب ہوئی ۔۔۔۔۔ مگر وہ مزید پیچھے ہوا۔۔۔
وہ شخص میں تھا مام صرف ایک بار نہیں بار بار ایسا کیا جس کسی نے اسے چھونے کی کوشش کی اسکے قریب آنے کی کوشش کی میں نے اسے گل سے دور کر دیا کیونکہ وہ میری ہے تو اسکی توجہ بھی صرف میری ہوئی ۔۔۔ اسکا وقت بھی اور وہ تو ویسے بھی میری ہے۔۔۔ بیٹا یہ یہ سب کیا کہہ رہے ہو اشکان میری جان ہوش کرو کچھ۔۔۔۔۔
عافیہ بیگم اسکے لفظوں میں چھپے جنون اسکے پاگل پن کو دیکھ سہم سی گئی تھی۔۔ انہوں نے آگے بڑھتے اسے روکنا چاہا مگر اشکان نے انہیں قریب آنے سے روک دیا۔۔
آپ ابھی کے ابھی ماموں کے گھر جائیں گے اور میرے نکاح کی بات کریں گے ۔۔ ابھی اور اسی وقت ۔۔۔۔۔
اسکے لہجے میں دخشت کا جہان آباد تھا شہد رنگ آنکھوں میں بسا اوزگل کا عکس عافیہ بیگم کو اسکے لفظوں میں بسے جنون سے خوف آنے لگا ۔
بیٹا میری بات سنو اشکان۔۔۔۔۔ عافیہ بیگم اسکے اس روپ سے انجان تھی وہ کبھی نہیں جان پائی کہ ان کا نرم ہو معصوم سا دکھنے والا بیٹا اپنے اندر اپنا آپ چھپائے بیٹھا تھا۔۔ اسکی شہد رنگ آنکھیں جنون کی بڑھکتی آگ سب کچھ تباہ و بربار کرنے کی تپش رکھتی تھی۔
نہیں ماما اب نہیں پہلے اوزگل پھر اسکے بعد کوئی بات ہو گی ۔۔" اشکان نے حتمی انداز میں اپنا آخری فیصلہ عافیہ صدیقی کو سنایا ۔۔۔۔
وہ نہیں دیں گے میں گئی تھی بھائی نے انکار کر دیا۔۔۔عافیہ صدیقی نے چیخنے کے سے انداز میں کرب ناک لہجے میں کہا ۔۔۔
تو پھر ٹھیک ہے اگر اوزگل نہیں تو پھر میرے جینے کا کوئی مقصد نہیں۔۔۔ وہ غصے سے بپھرے انداز میں کسی پاگل کی سی مانند کہتے باہر نکلا تھا۔۔ اسکے پاگل پن پر عافیہ بیگم دہل سی گئی ۔۔۔ بب بیٹا اشش اشکان ۔۔۔۔۔۔ " وہ پاگلوں کی طرح چیختے ہوئے اسکے پیچھے ہی باہر آئی تھیں۔۔ جو بنا کچھ سنے کچن میں۔ جاتے چاقو اٹھائے اپنے ہاتھ پر رکھ چکا تھا ۔۔۔
نن نہیں اشکان ______ عافیہ بیگم ہذیانی سی ہوتے چلائی مگر اشکان کے سر پر جنون سوار تھا اسنے ایک جھٹکے سے چاقو اپنے بازو پر چلایا تھا۔۔۔۔ فون پھوارے کی مانند اسکے ہاتھ سے نکلتے کچن کے سفید فرش کو خون آلود کرنے لگا۔۔۔
*************
تم نے کپڑے کیوں نہیں چینج کیے عبادت۔۔۔۔" اصلال جو ابھی ہی سارے اریجمنٹس نمٹاتے اندر آیا تھا سامنے ہی اسے منہ پھلائے بیٹھا دیکھ وہ حیرانگی سے گویا ہوا۔۔۔
کیونکہ اس وقت تک تو تقریباً سبھی فنکشن پر موجود تھے ۔۔ سوائے نضحت بیگم اور عبادت کے۔۔۔۔۔
رہنے دو اسے بیٹا ۔۔۔ جان کا عذاب بن گئی ہے یہ لڑکی ۔۔۔ کل رات کو اس کے لئے نئے جوتے اور ڈریس لائی ہوں اور میڈم کو پسند نہیں آیا اب پھر سے آنش کے ساتھ بازار گئی تھی۔۔۔
تو میڈم پھر سے منہ سجھا کے بیٹھ گئی ہیں کچھ بھی پسند نہیں آیا اس کو ۔۔ باپ کے بےجا لاڈ پیار سے بگڑ گئی ہے اج یاں تو ایسے ہی ولیمہ کھائے گی یا پھر ناں آئے ولیمے پر اسکی مرضی۔۔۔۔ تم جاؤ اندر تمہارے کپڑے پریس کر دیے ہیں عبادت نے۔۔۔"
نضحت بیگم اسے عبادت کے متلعق آگاہ کرتے ساتھ ہی بولی کیونکہ یہ اصلال کی عادت تھی وہ کپڑے اسی کے ہاتھ کے پریس کیے پہنتا تھا ۔۔۔ کیونکہ عبادت کپڑے پریس کرنے کی ماسٹر تھی۔۔
جی ماما میں کر لوں گا چینج اور آپ پریشان ناں ہوں میں اسے لے جاتا ہوں اور اس کی مرضی کی شاپنگ کروا کے اسے سیدھا فنکشن پر لے آؤں گا۔۔۔۔۔ اصلال نے اپنی سیاہ آنکھوں میں محبت سموئے نضحت بیگم کے ماتھے پر بوسہ دیتے کہا تو وہ خاموش سی رہ گئی۔۔۔۔ جانتی جو تھی اب بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔۔
تم پہلے خود چینج کرو پھر تب تک میں اسے بھی بولتی ہوں۔۔۔۔۔
عبادت جو کہ کمرے میں بیٹھی سب سن رہی تھی اچانک سے اپنی مام کو کمرے میں آتا دیکھ وہ جھٹ سے بھاگتے بیڈ پر اوندھے منہ لیٹی۔۔۔۔ عبادت اصلال آیا ہے اب زیادہ نخرے دکھانے کی کوشش مت کرو اور جلدی سے تیار ہو جاؤ۔۔۔۔
نضحت بیگم نے اسکے سنہری بالوں کو پکڑتے اسکا رخ اپنی جانب کیا تو وہ آنکھیں مٹکاتے ہی ہی کرتی ہنسنے لگی۔۔۔۔ ماروں گی تمہیں دانت اندر کرو۔۔۔اسکی سفید دودھیا رنگت کو دیکھ وہ مصنوعی غصے سے کہتے کمرے سے نکلی۔۔۔۔۔
عبادت جلدی سے اٹھتے فریش ہوتے باہر نکلی تھی جہاں وہ بلیک فور پیس میں ملبوس اپنی چھا جانے والی پرسنالٹی میں کھڑا اسی کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔ بھائی چلیں۔۔۔۔ عبادت اسے موبائل میں بزی۔دیکھ اسکے قریب آتے بولی تو اصلال نے جلدی سے کال کٹ کرتے اسے دیکھا جو بلیو کلر کے سوٹ میں دودھیا رنگت میں بالکل معصوم سی دکھ رہی تھی ۔
چلیں ناں بھائی۔۔۔۔ میں اپنی پسند کے کپڑے لوں گی۔۔۔۔" اپنے سر پر رکھے دوپٹے کو ٹھیک کرتے وہ چہکتے ہوئے بولی تو اصلال کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رقص کرنے لگی ۔۔ جو کچھ لینا ہو وہ لے لینا تمہیں کوئی روک نہیں سکتا۔۔۔ وہ مسکراتے گاڑی کا ڈور کھولتے بولا تو عبادت جلدی سے اندر بیٹھی۔۔۔
کہاں ہے اصلال ماما آپ نے تو کہا تھا کہ وہ سب سے پہلے یہاں پہنچا ہو گا۔۔۔ امل نے بےچینی سے چاروں اطراف نظریں دوڑائیں مگر اصلال کہیں نہیں تھا۔۔ آ جائے گا پتہ تو ہے سارے گھر کا کام وہی کرتا ہے پریشان ناں ہو یہیں کہیں ہو گا آ جائے گا۔۔۔۔۔ اسکا گال تھپکتے وہ اسے پرسکون کرتے بولی تو امل نے سر ہاں میں ہلا دیا۔۔۔
ماما عبادت کہاں ہے۔۔۔۔ کہیں اصلال اسی کے ساتھ تو نہیں۔۔۔۔ " میں ابھی اسے کال کرتی ہوں۔۔
بھائی آپ کا فون بج رہا ہے۔۔۔۔ اپنے ساتھ چلتے اصلال کو دیکھ وہ شرارت سے بولی تو اصلال نے اسے گھورا۔۔ ویسے مجھے امل اتنی خاص پسند نہیں آپ کے لئے بہت بری لگتی ہے مگر آپ کو پسند ہے تو چلے گی۔۔۔۔ اپنی سنہری آنکھوں کو نچاتے وہ کھلکھلاتے ہوئے بولی تو غیر ارادی طور پر اصلال کی نظر پیچھے کھڑے لڑکوں پر پڑی جو عبادت کو بغور دیکھ رہے تھے۔۔
ایک دم سے اسکا چہرہ بالکل سپاٹ سا ہوا تھا۔۔۔ وہ ماتھے پر بل لیے ان لڑکوں کو غصے سے گھورتے جارخانہ انداز میں اسے بازو سے تھامتے گاڑی میں بٹھاتا اپنی سیٹ پر آیا ۔۔۔۔۔۔
آج کے بعد تم عبائے اور خجاب کے بنا باہر نہیں نکلو گی۔۔ " عبادت جو اسکے غیر متوقع ردعمل پر سہمی ہوئی سی تھی ایک دم سے اصلال کے سختی سے کہنے پر وہ ڈرتے سر ہاں میں ہلا گئی۔۔۔
اصلال نے سرخ ہوئی نظروں سے بیک مرر سے پیچھے کھڑے ان لڑکوں کو گھورا، اور گاڑی سپیڈ سے چلاتے وہ زن سے بھگاتے وہاں سے نکلا۔۔۔۔
***********
اشکان یہ کونسا پاگل پن ہے اٹھو جلدی اسے ابھی کے ابھی ہاسپٹل لے جانا ہو گا۔۔۔۔۔ دیوار سے ٹیک لگائے اسے گم سم سا بیٹھا دیکھ عافان صدیقی تڑپتے اسکے قریب آئے تھے خون ابھی تک روانی سے بہہ رہا تھا مگر وہ سرخ نظروں سے فرش کو گھورتا اوزگل کا تصور اپنے سامنے لہراتا دیکھ رہا تھا۔۔۔
عافیہ بیگم نے ہی عافان صدیقی کو کال کر کے بلایا تھا۔۔۔ کیونکہ اشکان ناں تو کسی کی سن رہا تھا ناں ہی کسی کو اپنے قریب آنے دے رہا تھا اسکی حالت پر وہ بھی خود ہی پاگل ہو گئی تھیں کیسے اپنا ہاتھ کاٹے آنکھوں میں وخشت سموئے وہ اپنے پاپا کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
چلا جاؤں گا پہلے اوزگل کو لا دیں ۔۔۔۔ اسنے سرد ٹھٹھرتے ہوئے لہجے میں کہا کہ عافان صدیقی نے چونکتے اسکے لہجے کی پختگی اسکی آنکھوں میں ڈھلے غضب کو دیکھا ۔۔۔
تم پاگل ہو گئے ہو۔۔ وہ کوئی کھلونا نہیں ہے اشکان ۔۔۔ یہ بچپنا نہیں چلے گا اب اٹھو فورا سے۔۔۔۔۔۔" اسکی ضد پر عافان صدیقی نے خود پر ضبط کرتے مضبوط لہجے میں کہا تو اشکان کا قہقہ روم کی ساکن فضا میں بکھرا۔۔
پاگل ہوا نہیں ہوں پاپا اگر وہ ناں ملے تو ہو جاؤں گا۔۔۔ پلیز اسے لا دیں بس ایک بار میرے نام کر دیں اسے۔۔۔
اپنے پاپا کے ہاتھ کو تھامے وہ التجائی نظروں سے انہیں دیکھتا کربناک لہجے میں بولا تو عافان صدیقی نے اپنے ہاتھ پر لگے اپنے جوان بیٹے کے بیٹے خون کو دیکھا ۔۔ دل میں درد کی ٹیس سی اٹھی تھی ۔۔۔
انہوں نے بےساختہ اسے خود میں بھینجا۔۔۔۔ میں ابھی تمہارا نکاح اوزگل سے کروا دوں گا مگر تم ابھی پٹی کروا لو۔۔۔۔
عافان صدیقی نے اسے نرمی سمجھانا چاہا تھا ۔۔۔۔ انہیں لگا تھا کہ وہ مان جائے گا۔۔۔
نہیں جب تک میرا نکاح نہیں ہوتا گل سے کوئ بھی مجھے ہاتھ نہیں لگائے گا نکاح ہوتے ہی میں پٹی کروا لوں گا۔۔۔۔۔ وہ ہاتھ پیچھے کھینچتے سرد لہجے میں بولا تو عافان صدیقی نے اپنے بیٹے کو دیکھا جس کا یہ روپ آج سے پہلے انکے سامنے کبھی ناں آیا تھا۔۔
یہ تو طے تھا کہ اب اوزگل کو وہ اپنے اشکان کے نام کر کے ہی دم لیں گے۔۔۔منٹوں میں فیصلہ لیے وہ اشکان کے سر پر بوسہ دیے کمرے سے باہر نکلے تھے۔
**************
ماشاءاللہ دیکھو تو کیسی خوبصورت جوڑی ہے دونوں کی ۔۔۔۔۔۔ سکندر صاحب نے بہت ہی اچھا فیصلہ کیا تھا دیکھو تو اصلال کو کیسے سنبھال رہا ہے عبادت کو۔۔۔۔۔ خاندان کی عورتیں جو سامنے سے ایک ساتھ آتے عبادت اور اصلال کو دیکھ رہی تھی مسکراتے وہ ان کی جوڑی کو سراہتے تعریف کرتی امل کو حدردجہ بری لگیں۔۔
اسنے نفرت سے پیچھے سے آتی عبادت کو دیکھا جو اس وقت سفید رنگ کے خوبصورت سے سوٹ میں ملبوس بنا کسی بناوٹی سنگھار کے بھی خوبصورت دکھ رہی تھی۔۔۔
اصلال نے اسکا ہاتھ تھامتے اسے سامنے کیا ۔۔۔ تو امل نے غصے نفرت سے رخ پھیر لیا۔۔۔
میں نے جو کچھ بھی کہا ہے اس کا۔ذکر کسی سے بھی مت کرنا ۔۔۔۔۔ مگر اب سے تم خجاب میں جاؤ گی باہر میں ساتھ ہوں یا پھر نہیں۔۔۔۔۔ اوکے۔۔۔" عبادت کی آنکھوں میں اپنے لئے ڈر وہ بھانپ چکا تھا جبھی اسے نرمی سے سمجھاتے ہوئے بولا جو سنتی سر ہاں میں ہلا گئی۔۔
مگر میں کونسا آپ کی بیوی ہوں آپ اپنی بیوی کو بولئے گا مجھے نہیں۔۔۔۔۔اسے غصے سے دیکھتے وہ اپنی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسوں لائے بولی تو اصلال نے سرد سانس فضا کے سپرد کیا۔۔
بیوی کے رولز الگ ہیں عبادت_______ وہ میری بیوی ہو گی جس پر صرف اور صرف اصلال عالم کا حق ہو گا میرے ہر رشتے کا مداوا وہ کرے گی میں اپنے ایک رشتے میں ہر رشتے کو پاؤں گا ۔۔۔۔ تم دیکھ لینا میری جب بھی شادی ہوئی تمہاری بھابھی اپنے سارے رشتے ختم کر کے میرے پاس آئے گی، میرے ہر رشتے کی کمی کو وہ اکیلی ہی پورا کرے گی۔۔۔۔ اس پر صرف اور صرف میرا حق ہو گا وہ اپنے سارے رشتے سب کچھ چھوڑ کر میرے پاس آئی گی۔۔۔ تو پھر مجھے کیوں کہہ رہے ہیں خجاب کا اپنی بیوی سے کروائیے گا۔۔۔۔۔۔۔؟' عبادت نے رومال لیے اپنے آنسوں صاف کرتے پوچھا۔۔۔
چھوڑو یہ تمہارے سمجھنے کی بات نہیں۔۔۔ " عبادت کے سر کو تھپکتے وہ اسکی ناک کھینچتے وہاں سے نکلا۔۔۔۔
عبادت نے الجھن سے اسکی چوڑی پشت کو دیکھا۔۔
**********
اصلال یہ سب کیا ہے تم اس عبادت کے ساتھ کیا کر رہے تھے تم_______" کیا مطلب ہے تمہاری اس گھٹیا بات کا ۔۔۔۔۔۔۔ اسکے ماتھے پر ایک دم سے جانے کتنے ہی بل نمودار ہوئے تھے وہ غصے سے تیوری چڑھائے اسے دیکھنے لگا۔۔
میں نے کچھ غلط بھی نہیں کہا جو تم ایسے ری ایکٹ کر رہے ہو۔۔۔۔۔وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولی تو اصلال نے دانت پیستے اسے دیکھا۔۔ دیکھو امل میں تمہیں پسند ضرور کرتا ہوں کیونکہ تمہاری اور میری بونڈنگ کافی اچھی ہے مگر اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ میں تمہیں عبادت یا پھر اپنے کردار کے متلعق بات کرنے دوں گا۔۔
اصلال کا غصہ حد سے سوا تھا اسکے پاکیزہ رشتے کو وہ کیا نام دے رہی تھی حالانکہ سب جانتے تھے کہ اصلال کیلئے وہ بہن تھی اور عبادت تو اسے بڑا بھائی کہتی تھی۔۔۔
اچھا اگر تو تم اپنی بات کے اتنے ہی سچے ہو تو چلو ابھی کے ابھی بڑے بابا کو نکاح کیلئے مناؤ۔۔۔۔۔۔ " امل نے ایک دم اچانک سے اسکے سامنے چینلج کیا ۔۔۔اصلال کو اسکی حرکت کافی ناگوار گزری۔۔۔۔
میں کر لوں گا بات مگر فلحال میں ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتا ابھی میں نے خود آفس سنبھالا ہے پہلے اپنے پاؤں پر۔ کھڑا ہونا چاہتا ہوں اسکے بعد شادی کروں گا۔۔۔ اسکے بات کو سرے سے رد کرتے وہ حتمی ٹہرے لہجے میں بولا ، ۔۔۔۔۔۔"
نہیں میں ابھی اور اسی وقت سب کو بتاؤں گی۔۔ کہ تم اور میں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور ہمارا نکاح ابھی کریں۔۔۔۔وہ بدتمیزی سے کہتے وہاں سے بھاگتے اسٹیج کی جانب بڑھی تھی جہاں سکندر جعفری دولہا دولہن کے ساتھ بیٹھے تھے۔۔۔
بڑے بابا مجھے آپ سب سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "امل چلو یہاں سے ۔۔۔" اصلال بات بگڑتی دیکھ اسے بازو سے تھامے وہاں سے لے جانے لگا۔۔۔
رکو اصلال مجھے بات کرنی ہے نیلم سے ، کہو کیا بات ہے نیلم۔۔۔۔۔۔" سکندر صاحب نے ایک نظر پورے ہال میں دوڑائی خاندان کے سبھی لوگ انکی جانب متوجہ تھے سامنے ہی سفید سوٹ میں ملبوس عبادت آئسکریم کھاتے ان سب سے بےگانہ بیٹھی تھی ۔۔۔ نضحت بیگم اور شایان صاحب دونوں ہی حیرانگی سے اصلال اور امل کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔
جبکہ رضیہ بیگم، نازیہ اور فرزانہ تینوں ہی کافی خوش تھی کہ اب بس انکا کام ہونے والا تھا۔۔۔
بڑے بابا میں اور اصلال ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور نکاح کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ ابھی اور اسی وقت۔۔۔۔ " نیلم نے اصلال کینجانب دیکھتے ہوئے سب کے سروں پر بم پھوڑا۔۔۔ لوگ حیرانگی سے منہ کھولے انہیں دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔جبکہ خاندان کے بڑے کو اصلال اور عبادت کے رشتے سے آگاہ تھے وہ سبھی یہ سب دیکھ حیرت زدہ سے تھے۔۔۔
یہ کیا کہہ رہی ہو تم بیٹا ۔۔۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے بھلا۔۔۔۔۔ !" نضحت بیگم تڑپتے جگہ سے اٹھی تھی انکی معصوم بیٹی جو پورے سترہ سالوں سے اصلال عالم کے نام تھی بھلا وہ کیسے اپنی بچی کے حق پر اسے یوں کھلے عام ڈاکا ڈالنے دیتی۔۔
میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ممانی ابھی سے نہیں ایک سال سے ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اصلال سب کے سامنے یہ بتاتے ہوئے گھبرا رہا ہے اسی لئے میں خود سب کو بتا رہی ہوں کہ میں اور اصلال ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔۔۔۔
بابا ہم بعد میں اس پر بات کریں گے امل تماشہ مت کرو ۔۔۔۔ اسے بازو سے کھینچا وہ سکندر جعفری کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا جو اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی خاموش پرسکون کھڑے تھے۔۔
بہو۔۔۔۔۔۔" سکندر صاحب کی گرجدار آواز پر ماحول میں موت کا سا سناٹا چھایا تھا۔۔۔ لوگ انکے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔۔ کیا وہ اپنے کہے سے مکر جائیں گے ۔۔۔۔۔
جی بابا سرکار۔۔۔۔نضحت بیگم نے رندھے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔
عبادات بچی کو اندر لے جاؤ اور اسے بتاؤ کہ آج سے سترہ سال پہلے اسکے پیدا ہوتے ہی اسکے دادا نے اسے اپنی گود میں بھرتے پورے خاندان کے سامنے اصلال عالم جعفری کے نام کیا تھا اب اس رشتے کو پورا کرنے کا وقت آن پہنچا ہے اصلال اور عبادت کا نکاح ابھی اور اسی وقت ہو گا۔۔۔۔
اصلال کی بے یقین آنکھوں میں دیکھتے وہ بآواز بلند لہجے میں بولے تو ہال میں موجود سبھی نفوس پر سکتہ طاری ہوا۔۔۔۔۔۔
جبکہ اصلال عالم جعفری اس وقت کسی بے جان مردہ وجود کی مانند کھڑا تھا۔۔۔
یہ سب یقین کر پانا نا ممکن تھا کہ جس لڑکی کو وہ بہن مانتا تھا وہ لڑکی بچپن سے اسکی منگ تھی اسکی نام سے منسوب۔۔۔
اب فیصلہ تمہارا ہے اصلال عالم جعفری کہ تم اپنی منگ سے جبکہ اصلال عالم جعفری اس وقت کسی بے جان مردہ وجود کی مانند کھڑا تھا۔۔۔
یہ سب یقین کر پانا نا ممکن تھا کہ جس لڑکی کو وہ بہن مانتا تھا وہ لڑکی بچپن سے اسکی منگ تھی اسکی نام سے منسوب۔۔۔
اب فیصلہ تمہارا ہے اصلال عالم جعفری کہ تم اپنی منگ سے نکاح کرو گے یا پھر میں اس خاندان کے کسی بھی لڑکے کا نکاح تمہاری منگ کے ساتھ کے کروا دوں ۔۔ اسکا کندھا تھپکتے وہ گہرا مسکرائے تھے وہ جانتے تھے انکا پو جان تو دے سکتا مگر اپنے نام سے منسوب کسی بے جان چیز کو نہیں چھوڑ سکتا اور یہاں تو سوال اسکی منگ اسکی عزت کا تھا
اصلال تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے ۔۔۔۔ “ امل روتے ہوئے بت بنے اصلال کے گریبان کو پکڑتے اسے جھنجھوڑنے لگی۔۔۔ جو جبڑے بھینجتے اپنے اندر اٹھتے اشتعال کو دبا رہا تھا۔۔ بتاؤ پھر اصلال عالم کیا فیصلہ لیا ہے پھر تم نے۔۔۔ سکندر جعفری کی نظریں بس اسی پر ٹکی ہوئی تھیں۔ جو شل ہوئے اعصاب کے ساتھ بت بنے ایک ہی نقطے کو گھور رہا تھا۔۔
مجھے سمجھ آ گیا اصلال عالم تم اپنی منگ کو چھوڑنا چاہتے ہو ۔۔۔۔ میں سکندر جعفری سب کے سامنے باضابطہ اعلان کرتا ہوں کہ میری پوتی عبادت شایان جعفری جو کہ بچپن سے میرے پوتے اصلال عالم جعفری کے نام سے منسوب ہے ۔۔۔ میں اسکا نکاح ابھی اور اسی وقت کرنا چاہتا ہوں خاندان میں سے جو کوئی بھی خواہش مند ہے وہ سامنے آئے۔۔۔
سکندر جعفری کا لہجہ چٹانوں کی طرح مضبوط تھا آنکھوں میں غضب کی سرخی تھی ۔۔ جبکہ پورا خاندان جیسے اسی طاق میں بیٹھا تھا لوگ دوڑتے اپنے اپنے بیٹوں کو پکڑتے آگے آئے تھے ۔۔ انش نے غصے سے اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینجا اس سے پہلے کہ وہ سکندر جعفری سے کچھ کہتا شایان جعفری نے اسکا ہاتھ تھامے اسے خاموش کروا دیا۔۔
اصلال کی آنکھوں میں لہو اترنے لگا لوگوں کی باتیں اسکے کان میں سیسے کی طرح جا رہی تھی۔۔۔۔۔
قاسم بیٹا آؤ میں تمہیں اپنی بیٹی کیلئے چنتا ہوں۔۔۔!” سب سے پیچھے کھڑے مخفل میں ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے وہ اطمینان سے اصلال عالم کی ہار پر مسکرا رہا تھا۔۔ وہ جانتا تھا سکندر جعفری اسی کا نام لے گا کیوںکہ اصلال۔کے بعد خاندان بھر کا چہیتا خونخوار اور محنتی صرف وہی تو تھا جسے اصلال عالم سے اور اصلال عالم کو اس سے بے حد نفرت تھی۔۔
جی دا جان جیسا آپ کا حکم_____!” وہ تابعداری سے مسکراتے اپنی گھنی مونچھوں کو تاؤ دیے بولا تو اصلال نے ضبط سے اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینجا۔۔۔
اصلال نے قہر بھری سرخ نظروں سے اسے نفرت سے دیکھا جو ٹانگ پر ٹانگ جمائے اب نکاح کے لئے تیار بیٹھا تھا۔۔ توں کرے گا نکاح اصلال عالم کی منگ سے ۔۔۔ تیری اتنی اوقات یا ہمت ہے کہ توں میری منگ کو اپنے ساتھ جوڑنے کا تصور بھی کر سکے۔۔۔ قاسم کا گریبان اسکے ہاتھ میں تھا اسکی گردن کی رگیں غصے سے پھول چکی تھی ۔۔ امل کو لگا کہ اسکا سانس بند ہو جائے گا ۔ اسنے لب بھینجتے اپنے آنسوں پر قابو کیا۔
چھوڑو اسے اصلال اگر تم نہیں کرو گے تو پھر میں جس سے مرضی کرواؤں کیا تکلیف ہے تمہیں۔۔۔۔۔۔” سکندر جعفری نے روعب دار آواز میں پوچھا تو اصلال نے خون کی مانند سرخ پڑتی نظروں سے سکندر جعفری کو دیکھا اور پھر ضبط سے لب بھینجتے وہ جھٹکے سے اسے خود سے دور کر گیا۔۔۔۔ میں نے آج تک اپنے ایک بار پہنے کپڑے کسی دوسرے کو چھونے نہیں دیے ۔۔۔۔ جس چیز پر میرا نام آ جائے تو صرف اور صرف اصلال عالم کی ہوتی ہے اور پھر یہ تو میرے نام سے منسوب میری منگ کا سوال ہے۔۔۔ اگر نکاح ہوا تو میرے ساتھ ہو گا وگرنہ پوری زندگی وہ ایسے ہی کاٹے گی مگر میرے علاؤہ کسی دوسرے کا نام اسکے نام کے ساتھ نہیں لیا جائے گا۔۔
اسکے لہجے میں چھپا اشتعال ، آنکھوں میں موجود دہشت ہال میں موجود سبھی لوگ دم سادھ گئے۔۔قاسم اسکی جنونیت کو کافی گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔ اصلال کے لفظوں نے سکندر جعفری کا سینہ فخر سے چوڑا کر دیا۔۔ جبکہ امل اسکے فیصلے پر اسے نفرت سے دیکھے روتے ہوئے وہاں سے بھاگی۔۔۔۔
*********
اوزگل میری جان اٹھیں ادھر آئیں میرے پاس۔۔۔۔۔” وہ جو سٹڈی ٹیبل کے نزدیک بیٹھی انہماک سے اپنے نوٹس تیار کر رہی تھی ۔ اظہر صاحب کے یوں اچانک سے ہانپتے ہوئے اپنے کمرے میں آنے پر وہ حیران سی رہ گئی۔ بابا کیا ہوا آپ ٹھیک تو ہیں ۔۔
بلیک کلر کے گھٹنوں تک جاتی فراک کے ساتھ چوڑی دار پاجامہ پہنے اور ساتھ میچنگ ہی بلیک ستاروں سے مزین خوبصورت دوپٹہ شانے پر رکھے اپنے سیاہ ریشمی بال جو کہ اسکی کمر سے نیچے تک جاتے تھے ان کو ہمیشہ کی طرح کھولے اپنے کندھے پر کھلا چھوڑ ، سرخ و سفید دمکتی رنگت میں سیاہ جھیل سی آنکھوں میں حیرانگی سموئے مڑتے اظہر صاحب کو دیکھ انکے قریب آئی تھی ۔ “
اظہر صاحب نے اسے ساتھ لگاتے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا تو گل کے خوبصورت ہونٹوں پر مسکان بکھری وہ مسکراتے آنکھیں موندے اپنے بابا کی محبت انکی شفقت کو محسوس کر رہی تھی۔۔
میری جان آپکی پھپھو کی طبیعت خراب ہے وہ آپ کو یاد کر رہی ہیں آپ چلیں میرے ساتھ۔ ۔۔ “ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو عافان صدیقی کا فون آیا تھا جس قدر پریشان تھے وہ ۔۔۔ عافیہ کا سنتے آئے اظہرصاحب دوڑتے اوزگل کے پاس آئے تھے ۔۔۔۔ جی پاپا ہم ابھی چلتے ہیں پھپھو کے پاس۔۔۔۔ اوزگل نے پریشانی سے کہا۔۔ ہاں بیٹا ہمیں چلنا چاہئے۔۔۔۔۔اوزگل کو ساتھ لگائے وہ تیزی سے باہر کینجانب نکلے _____ بابا ماما کو بھی لے لیتے ہیں ساتھ۔۔۔ “ اوزگل نے سر اٹھائے اظہر صاحب کو دیکھتے کہا ۔۔ بیٹا وہ گھر نہیں ہیں چیک اپ کیلئے گئی ہیں ڈرائیور کے ساتھ آپ چلو میں انہیں بلا لوں گا وہیں۔۔۔”اظہر صاحب نے اسے عجلت سے بتایا اور پھر گاڑی کی جانب بڑھتے وہ تیزی سے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے اندر بیٹھے تھے۔۔۔ جبکہ اوزگل اس بات سے بے خبر تھی کہ آگے اسکے لیے کونسا نیا طوفان انتظار کر رہا ہے ایسا طوفان جو پل بھر میں اسکی زندگی کو بدلنے والا تھا۔۔
**********
ماما کیا ہوا ہے آپ مجھے کیوں لے آئیں ابھی تو میں نے دو آئسکریم اور بھی کھانی تھی ۔۔۔ نضحت بیگم کے ہاتھ میں موجود اپنا دودھیا ہاتھ نکالنے کی کوشش کرتے وہ چیختے بولی ۔ ویسے بھی کہاں اسے آئسکریم ملتی تھی کھانے کو ۔۔۔ گلا خراب ہونے کے ڈر سے کوئی بھی نہیں لا کر دیتا تھا۔۔ اور آج جب اسے شادی پر موقع ملا تھا تو پھر سے اسکی کھڑوس ماں اسے وہاں سے کھینچتے لے آئی تھی۔۔
آواز مت کرو یہاں بیٹھو خاموشی سے۔۔۔ “ اسکی قینچی کی طرح چلتی زبان پر وہ غصے سے چلاتے ہوئے بولی آگے ہی انکا دل و دماغ ماؤف ہونے والا تھا انکی معصوم بیٹی کو بے زبان جانور سمجھتے اسکی زندگی کا فیصلہ لیا جا رہا تھا اور وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔
بات سنو میری عبادت میری بچی۔۔۔ کچھ ہے جو تمہارے بابا نے اور میں نے تم سے چھپایا ہے۔۔ اب تم خاموشی سے سنو گی میری بات بیچ میں ٹوکنا مت مجھے۔۔۔۔ وہ اسے ہاتھ سے پکڑتے اپنے سامنے بیڈ پر بٹھائے بولیں تو عبادت نے اپنی سنہری آنکھوں کو سکیڑتے انہیں بغور دیکھا۔۔
تمہیں بچپن میں ہی پیدا ہوتے اصلال عالم کے نام کر دیا گیا تھا تمہاری شادی اس سے ہو گی اور یہی بات طے پائی تھی ۔۔ تمہیں اور اصلال کو سکندر جعفری کے کہنے پر لاعلم رکھا گیا وہ نہیں چاہتے تھے کہ تم دونوں کے ذہنوں پر کوئی غلط اثر پڑے۔۔۔مگر اب اور نہیں میں نے خود پر ہر بات ہر تکلیف برداشت کی ہے مگر اب میں کسی کو بھی اپنی بچی کا حق نہیں کھانے دوں گی۔۔ امل تمہاری جگہ لینا چاہتی ہے۔۔
اسی وجہ سے بابا جان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ تمہارا نکاح ابھی اور اسی وقت اصلال سے کریں گے۔۔۔ “
وہ جو آرام سے بیٹھی انکی بات سننا چاہتی تھی ۔۔ نضحت بیگم کے کہے ایک ایک لفظ پر اسے ایسا لگا جیسے کہ ساتوں آسمان۔ٹوتتے اسکے سر پر گرے تھے۔۔ وہ خوف سے آنکھیں پھیلائے زرد پڑنے لگی۔۔۔ یہ سب کچھ کیا تھا عبادت کو لگا کہ یہ ایک ایسا خواب تھا جسے وہ جاگتی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ۔
ماما وہ میرے لئے میرے بھائی ہے اور میں ان کی بہن ۔۔۔۔ اصلال بھائی امل کو پسند کرتے ہیں آپ سب کیسے سوچ سکتے ہیں کہ میں ان سے نکاح کروں گی امل میرے حق پر نہیں بلکہ میں اسکے حق پر ڈاکا ڈال رہی ہوں۔۔۔ میں ایسا کچھ بھی نہیں کرنے والی ، میں نے کبھی بھی بھائی کو اس نظر سے نہیں دیکھا میرے لئے وہ میرے بڑے بھائی ہیں ۔۔ میں خود بابا جان سے بات کروں گی مجھے نہیں کرنا کوئی نکاح ۔۔۔ وہ بدتمیزی سے چیختے تیز لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔ اسکا سفید شفیون کا دوپٹہ جسکے چاروں اور کناروں پر گولڈن زرک کا خوبصورت کام ہوا تھا اسکے کندھے سے گرتے زمین بوس ہوا تھا ۔۔ سنہری بال جو جوڑے میں مقید تھے اسکی آنکھوں میں چمکتی نمی اور سرخ ڈورے وہ اس وقت کوئی سوگوار حسن کی مورت دکھ رہی تھی۔۔
نضحت بیگم نے ضبط سے جبڑے بھینجتے اسے بازو سے تھامتے جھٹکے سے بیڈ پر بٹھایا ۔ خاموش بالکل خاموش ۔۔۔۔اگر کچھ بھی کہا تو مجھ سے برا کوئی بھی نہیں ہو گا۔۔۔ اگر تم نے ایسا کچھ بھی کیا تو بابا جان ہم سب کو عاق کر دیں گے اب کیا اپنے ماں باپ کو یہی تخفہ دینا چاہتی ہو کہ وہ تمہاری وجہ سے تا عمر بڑھاپے میں دربدر بھٹکیں۔۔
کس حق کی بات کر رہی ہو تم امل کو صرف اصلال سے نہیں دس اور لڑکوں سے محبت ہے تو کیا وہ سب سے شادی کر لے گی۔۔۔ ایسے مت دیکھو میں نے خود اسے فون پر کسی شاکر سے بات کرتے سنا تھا ۔۔۔ عبادت کی آنکھوں۔ میں حیرانگی دیکھ انہوں نے اسے کندھوں سے پکڑتے جھنجھوڑا۔۔عبادت کا پورا وجود سن سا پڑ گیا۔۔۔۔جیسے بولنے کو کچھ نہیں بچا تھا ۔۔۔ اسکے ننھا سا دماغ یہ سوچ رہا تھا کہ کیا ہر انسان اپنی بیٹی کو پیدا ہوتے ایسے ہی بوجھ کی مانند اتار دیتا ہے یا پھر صرف وہی بدقسمت تھی جس سے ایک بار بھی اسکی رضا پوچھنا تو دور اسے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا۔۔
********
کیا ہوا ہے آپ سب کیوں اکھٹے ہوئے ہیں یہاں اب کچھ ٹھیک تو ہے۔۔۔اظہر صدیقی عجلت میں اندر داخل ہوتے پوچھا جہاں عافیہ بیگم کے گھر میں سارا خاندان جمع تھا ۔۔۔ اوزگل عورتوں کی تیز نظریں خود پر پاتے سہمتی اپنے بابا سے جا لگی ۔۔۔ اسکی سیاہ خوبصورت آنکھوں میں عجیب سی بے چینی تھی ۔۔۔ بیٹا ادھر آؤ آپ۔۔۔۔ اچانک سے اندر سے آتی عافیہ بیگم بنا اظہر صاحب سے ملے اوزگل کو بازو سے تھامے اندر لے گئی ۔۔ اوزگل حیران سی تھی آخر یہ سب کیا ہو رہا تھا ۔۔ پھپھو تو بالکل ٹھیک تھی پھر بابا نے جھوٹ کیوں بولا۔۔۔
پھپھو بابا کہہ رہے تھے کہ آپ بیمار ہیں ۔۔!” اوزگل نے حیرت سے انکی سرخ آنکھوں کو دیکھ پوچھا ۔۔ میں ٹھیک ہوں میری بچی میں ٹھیک ہوں مگر میرا بچہ اشکان۔۔۔۔ وہ ٹھیک نہیں اسے بچا لو۔۔۔۔ وہ اسے ساتھ لیے اندر اپنے کمرے میں۔ آئی تھی جہاں اوزگل کی دو بڑی کزنز بھی موجود تھی۔۔
اوزگل کے باریک ہونٹ آدھ کھلے سے تھے سیاہ جھیل سی آنکھوں میں الجھن لیے وہ اپنی پھپھو کو دیکھ رہی تھی۔ بیٹا اشکان نے اپنا ہاتھ کاٹ لیا ہے وہ کہہ رہا ہے کہ اگر ہم نے اسی وقت اسکا نکاح تمہارے ساتھ ناں کروایا تو وہ ہاسپٹل نہیں جائے گا اسکے ہاتھ سے ایک گھنٹے سے خون۔بہہ رہا ہے ۔۔ پلیز میرے بچے کو بچا لو۔۔وہ بری طرح سے روتی ہوئی کہہ رہی تھی جبکہ اوزگل کا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا یہ سب کچھ کیا تھا اخر سب کیا کہہ رہے تھے۔۔۔ دیکھو اوزگل اگر اشکان نے اپنا ہاتھ کاٹا ہے تو اسکی وجہ تم ہو اسنے تمہاری وجہ سے اپنا ہاتھ کاٹا ہے اب تم ہی سب کچھ ٹھیک کرو گی ۔۔۔ اسکی کزن نے اسے بازو سے پکڑتے اوزگل کا رخ اپنی جانب کرتے کہا تو اوزگل نے دھندلائی نظروں سے انہیں دیکھا۔۔۔
دیکھو اظہر بچے کے ہاتھ سے بہت زیادہ خون بہہہ رہا ہے اور کہیں ناں کہیں اوزگل اسکی ذمہ دار ہے تو اب اگر تم نے اپنی بچی کا نکاح اشکان سے ناں کروایا اور بدلے میں اسے کچھ ہوا تو اسکے ذمہ دار تم ہو گے۔۔۔ خاندان کے لوگ اظہر صاحب پر دباؤ ڈال رہے تھے جو خود اشکان کی اس حرکت پر حیرت زدہ سے تھے کہ آخر کو اس نے یہ سب کیوں کیا۔۔۔۔
عافیہ تمہاری بہن ہے اس سے آگے تمہیں کوئی بھی رشتہ نہیں ہونا چاہیے اس لیے تم سوچ سمجھ کر فیصلہ لے لو ویسے بھی صرف نکاح ہی کریں گے ہم۔کونسا کہہ رہے ہیں کہ اپنی بچی کو آج ہی رخصت کروا کے بھیج دو۔۔۔۔ بس اشکان کے دل میں جو خوف بیٹھ چکا ہے وہ تو ختم ہو جائے گا۔اور وہ علاج کروانے کو مان جائے گا۔۔۔اظہر انصاری بے بس سے بیٹھے تھے کچھ تھا ہی نہیں کیا کہتے اپنوں سے ہی اتنا بڑا دھوکا ملے گا کبھی سوچا نہیں تھا مگر وہ جانتے تھے اب وہ اس طرح سے پورے خاندان کے بیچ سے اوزگل کو واپس نہیں لے کر جا سکتے تھے۔۔
**********
اصلال عالم جعفری آپکا نکاح عبادت شایان جعفری سے بعوض دس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت طے پایا گیا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ۔۔ ہال میں گونجتی آواز پر وہ جو سن ہوئے اعصاب سے بیٹھا تھا ایک دم سے اپنی سرخ آنکھوں کو میچتے اس نے قبول ہے کہا تھا ۔۔ دل میں ایک ٹھیس سی اٹھی تھی اصلال نے سر اٹھائے سامنے دیکھا امل بری طرح سے روتے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ اصلال عالم آج پہلی بار کسی سے شرمندہ ہوا تھا اسکی نظریں جھک گئیں جبکہ امل روتے ہوئے وہاں سے بھاگی تھی ۔۔ نازیہ اپنی بیٹی کو یوں جاتا دیکھ بھاگتے اسکے پیچھے گئی تھی۔۔
جبکہ سکندر جعفری اپنی فتح پر سرشار سا مسکرا رہے تھے بالآخر اتنے سالوں کی خواہش جو پوری ہوئی تھی۔۔
اصلال ایک دم جھٹکے سے اٹھا تھا نکاح مکمل ہوا تو سبھی اسے مبارک باد دینے اسکے قریب آئے تھے مگر وہ بنا کسی سے ملے ہال سے نکلتا چلا گیا۔۔
آنش نے جبڑے بھینجتے خود پر ضبط کیا تھا۔۔ امل امل پلیز میری بات سنو۔۔۔ اسے گاڑی میں بیٹھتا دیکھ وہ تڑپتے اسکے قریب ہوا تھا ۔۔امل نے جارحانہ انداز میں اپنا بازؤ اسکی گرفت سے نکالا۔ ۔۔ دور رہو تم اصلال عالم جعفری میں نے کہا تھا تم سے کہ دور رہو اس منحوس سے۔۔۔ میں نے کہا تھا کہ بابا جان سے بات کرو ہمارے لیے مگر تم بھی ایک نمبر کے دھوکے باز نکلے ۔ مجھے دھوکہ دیا۔تم نے میرے جذبات سے کھیلا۔۔ “
وہ روتے ہوئے اسکے اوپر چیخ رہی تھی جو جبڑے بھینجے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ میں۔ سب کچھ ٹھیک کر دوں گا امل پلیز ایسے ناں جاؤ۔۔۔!’ اصلال نے اسے گاڑی میں بیٹھتا دیکھ پھر سے تڑپتے پکڑا ۔۔۔۔ ہاتھ مت لگاؤ مجھے۔۔ تمہارے ان جھوٹے وعدوں میں نہیں آنے والی میں۔۔ جس دن عبادت کو طلاق دو گے آ جانا میں نکاح کر لوں گی اگر نہیں کر سکتے تو اپنی بے بسی کا جھنڈا لہرائے اب کبھی میرے پیچھے مت آنا۔۔۔ وہ غصے سے اسکا ہاتھ جھٹکتے ہوئے بولی تھی۔۔
اصلال نے سرخ نظروں سے اپنی آنکھوں سے اوجھل ہوتی گاڑی کو دیکھا۔۔
***********
بابا اوزگل جو سب کی باتوں سے سہمی حراساں سی سانس روکے بیٹھی تھی اچانک سے اظہر صاحب کے اندر آنے پر وہ تڑپتے انکے سینے سے جا لگی۔۔۔اظہر صاحب نے بےبسی سے لب بھینجتے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا۔۔۔
بابا گھر چلیں مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔ اوزگل نے روتے ہوئے کہا تو اظہر صاحب نے اپنی سرخ آنکھوں کو میچا۔۔ آئیں مولوی صاحب۔۔۔۔ اظہر صاحب کے کہنے پر اوزگل نے جھٹکے سے ان سے الگ ہوتے پیچھے دیکھا جہاں عافان صدیقی مولوی صاحب کے ساتھ اندر آئے تھے۔۔ ببب بابا ____!” اوزگل نے ڈرتے اپنے بابا کو خوف سے پکارا جو نظریں چُرا رہے تھے بیٹا صرف نکاح ہو گا ۔ اشکان کی حالت بہت خراب ہے وہ ضد پر اڑا ہے آپ پلیز میرے کہنے پر نکاح کر لیں۔۔۔ اظہر صاحب نے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ملتجی لہجے میں کہا تھا۔۔ اوزگل نے ایک خاموش نظر ان پر ڈالی اور پھر خاموشی سے بیڈ پر جاتے بیٹھی۔۔۔۔
اوزگل اظہر انصاری آپ کا نکاح اشکان عافان صدیقی سے بعوض بیس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت طے پایا گیا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔۔ عافیہ بیگم نے اپنے پہلے سے تیار رکھی سرخ چادر اس پر اوڑھی تھی۔۔۔ اوزگل کی آنکھ سے ایک بے مول آنسوں اسکے رخسار پر گرا تھا۔۔۔ اپنے عنابی ہونٹوں کو بھینجتے وہ اپنے حلق میں اٹکتے آنسوں کے گولے کو نگلنے کی کوشش کرنے لگی جو کہ ناممکن سا لگا تھا اسے۔۔۔۔ اسنے بے بسی سے اس نکاح کو قبول کیا تھا اب سے وہ اشکان عافان صدیقی کے نام کر دی گئی تھی۔۔۔۔ بنا اسکی رضا جانے بس اسے خاموشی سے اس شخص کے نام کر دیا گیا ۔۔
**********
پوری رات سڑکوں کی خاک چھانتے وہ بکھری حالت میں واپس آیا تھا ۔۔ آنکھیں نشے کے باعث سرخ ہو رہی تھیں جبکہ عنابی ہونٹ کثرت سے سگریٹ پینے کی وجہ سے سرخی مائل ہوئے جا رہے تھے۔۔۔۔۔ امل کے کہے الفاظ اسکے کانوں میں گونجتے اسے مزید پاگل کر دینے کو تھے۔۔۔ وہ ہاتھ میں پکڑی ادھ جلی سگریٹ کو ہونٹوں میں دبائے اپنے مخصوص طریقے سے لاک کھولتا شایان جعفری کے گھر میں داخل ہوا تھا۔۔۔ اسکے قدموں کی لڑکھڑاہٹ ، گہری کالی آنکھوں میں غصے بے بسی کی سرخ ڈوریاں جھلک رہی تھیں۔۔۔ اسکا روم روم جل رہا تھا اندر لگی آگ سے اسکا پورا وجود جیسے جل کے بھسم ہونے کو تھا ۔۔۔ اور جسکی وجہ سے وہ دو راتوں سے اس اذیت میں تھا بھلا وہ کیسے سکون سے رہ سکتی تھی ۔ وہ اندر داخل ہوا ایک نظر دائیں جانب بنے شایان جعفری کے کمرے کو دیکھا رات کے تین بجے ہال میں مکمل تاریکی تھی مگر وہ تو اس گھر کے چپے چپے سے واقف تھا ۔۔ جبھی ایک سرد نظر اس بند دروازے پر ڈالے وہ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے سیڑھیاں چڑھتے اوپر کی جانب بڑھا تھا۔۔
انش اور دانش کے کمروں کے بند دروازے کو دیکھ اسنے ہنستے سر نفی میں ہلایا ۔۔
دو بھائیوں کی لاڈلی جسکا کمرہ ان دونوں کے کمروں کے درمیان موجود تھا کیسے پرسکون سو رہی ہو گی۔۔۔
وہ ہنستے آگے بڑھا تھا اور پھر سرد سانس خارج کرتے اسنے دروازے کو دیکھا بالآخر وہ منزلِ مقصود تک پہنچ چکا تھا۔ اصلال نے سگریٹ کو منہ میں دبایا اور پھر ایک ہاتھ سے لاک کھولتا وہ پینٹ کی پچھلی پاکٹ سے اپنی مخصوص چیز نکالتے اندر بڑھا ۔۔۔
دروازہ کھلتے ہی روم میں پھیلی اس نازک وجود کی مسرور کرتی خوشبو اسکے نتھنوں سےرائی۔۔۔ بےساختہ ہی اسکے قدم تھمے تھے وہ آنکھیں موندے اس پاگل کرتی خوشبو کو خود میں انڈیلنے لگا۔۔۔ کمرے کے وسط میں کھڑا وہ بھول چکا تھا کہ وہ کس مقصدکے تحت یہاں آیا تھا اس وقت وہ شاید اپنے ہی ہوش و حواس میں نہیں تھا۔۔ معا عبادت سوتے ہوئے بڑبڑائی تو اصلال پر چھایا سحر جھٹ میں ٹوٹا تھا۔ اپنی آنکھوں کو کھولے وہ سرخ نظروں سے بیڈ پر آڑھی ترچھی لیٹی عبادت کو دیکھنے لگا۔اسکا سفید دودھیا چہرہ کھڑکی سے پڑتے چاند کی روشنی میں دمک رہا تھا۔۔ گلابی ہونٹ آدھ کھلے تھے جبکہ سنہری بال اسکے دونوں اطراف کسی بادل کی مانند پھیلے ہوئے تھے۔۔ کالے کلر کی نائٹ شرٹ میں ملبوس میں ایک ہاتھ سر کے نیچے رکھے لیٹی تھی۔۔۔ اصلال کی نظریں اسکے چہرے سے ہوتی اسکی دودھیا گردن پر رکی۔۔۔۔ دل کے جذبات بدلے تھے اسکے اندر یہ احساس پیدا ہوا کہ وہ اسکی ملکیت تھی اصلال عالم کی اکلوتی ملکیت جس پر اب صرف اسکا حق تھا ۔۔ چاہے پھر رشتہ کیسے بھی جڑا مگر اب رشتہ تو جڑ چکا تھا۔۔
وہ بھاری قدم اٹھائے اسکے قریب ہوا۔۔۔۔ بیڈ پر اسکی چھوڑی جگہ پر بیٹھے اصلال نے سگریٹ منہ سے نکالتے پاؤں کے نیچے مسلا ۔۔۔۔ دھواں ابھی تک اسکے منہ کے اندر تھا ۔ اصلال نے منہ اوپر کیے دھواں فضا میں خارج کیا اور پھر جھکتے اسکے گھنے ریشمی بالوں میں ہاتھ چلاتے اسکی خوشبو کو سونگھتے وہ مدہوش ہونے لگا۔۔ کہ معا اپنے قریب کسی دوسرے وجود کو محسوس کرتی وہ نیند میں ہی کسمساتی اٹھی تھی ۔۔۔ اپنے اوپر سایہ بنے جھکے اصلال عالم کو دیکھ اسکی سنہری آنکھیں حد سے زیادہ پھیلی تھی چہرہ پل بھر میں تاریک پڑا ۔۔۔۔ اصلال نے آنکھیں موندے اپنے ہونٹ اسکی پیشانی پر رکھے کہ عبادت نے ڈرتے اسے اونچی آواز میں پکارا۔۔۔
بھائی______!” اسکے بھائی کہنے پر اصلال عالم کا سارا نشہ ہوا تھا وہ بھک سے آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگا جو اسے اتنے آرام سے بھائی کہتے رونے کا شخل فرما رہی تھی۔۔ اصلال نے جبڑے بھینجتے اپنی گن اسکے ماتھے پر رکھی توعبادت نے آنسوں سے تر چہرے سے سہمی نظروں سے اسے دیکھا
۔۔۔۔ جبکہ ابکی بار اسکی آنکھوں میں خوف دیکھ وہ گہرا مسکرایا۔۔
بھائی کسے کہا۔۔۔۔!” اسنے جبڑے بھینجتے سرد ٹھٹرا دینے والے لہجے میں اسکے قریب جھکتے استفسار کیا۔۔۔ نکاح کے بعد عبادت اسے اب دیکھ رہی تھی ۔۔ دو دن سے ناراض تھی سب سے۔۔۔ کسی سے بات تک نہیں کی تھی خود کو اپنے کمرے میں قید کر لیا تھا ۔۔ مگر اب اس شخص کو اچانک ایک نئے رشتے سے اپنے اس قدر قریب دیکھ اسکا ننھا سا دل لرزنے لگا۔۔۔۔ دھڑکنیں خوف سے دھک دھک کر رہی تھیں۔
کیا پوچھا ہے میں نے بھائی کسے کہا ۔۔” اصلال نے گن اسکے ماتھے پر رکھتے لیکر کھینچتے نیچے لے جاتے اسکی تھوڑی اوپر کیے پوچھا۔۔۔ عبادت سانس روکے خاموش پڑی تھی۔۔۔ اصلال کو اسکا خاموش رہنا آگ لگا گیا ۔۔
مجھے نافرمان انسانوں سے سخت نفرت ہے ______! اور خاص طور پر وہ شخص جس کا تعلق میرے ساتھ جڑا ہو۔۔۔۔ میرے جنون سے واقف ناں۔۔۔۔ ہو یا نہیں۔۔۔ اسنے گن اسکی شہہ رگ پر رکھی تو عبادت نے ڈرتے سر کو زور سے ہاں میں ہلایا۔۔۔۔
تو پھر مجھے بتاؤ بھائی کسے کہا۔۔۔۔ ایک وقت تھا جب عبادت کا بھائی کہنا بہت پسند تھا مگر آج اسکا یوں اپنے نکاح میں ہونے کے بعد اسے بھائی کہنا ۔۔ اسے ایسا لگا تھا جیسے کسی نے اسے جلتی بھٹی میں پھینک دیا ہو ۔۔
سسسس سوری ابب ننن نہیں کہوں گی ۔۔۔!” اپنے آنسوں کو نگلنے کی کوشش کرتے وہ گھٹی گھٹی سی آواز میں بولی تو نا چاہتے ہوئے بھی اصلال کو اس پر رحم آیا۔۔۔ تم اصلال عالم کی ملکیت ہو آئندہ ایسی غلطی ہونی بھی نہیں چاہیے۔۔۔ عبادت کے چہرے کو گہری نظروں سے دیکھتے اصلال عالم نے اسکے کان میں جھکتے سرگوشی کیے اپنے ہونٹ اسکے کان کی لو پر رکھے ۔۔ توعبادت نے ڈرتے بیڈ شیٹ کو مٹھیوں میں دبوچا۔۔۔۔۔
اصلال بکا یوں خود سے قریب انا اسے خوفزدہ کر رہا تھا ۔ وہ ایسا تو نہیں تھا مگر اب وہ یوں اسکے قریب تھا جیسے فضا میں بکھری خوشبو، ۔۔۔
اگر ایسے ہی فرمانبرداری سے میری ہر بات مانو گی تو فائدے میں رہو گی۔۔۔ عبادت کی بند آنکھوں دیکھ اسنے مسکراتے اسکی لرزتی پلکوں کو دیکھ ہونٹ اسکی ناک پر رکھتے کہا ۔۔۔۔۔ عبادت کا پورا وجود پسینے سے شرابور تھا اسکا سانس روکنا اصلال عالم کو بہت بھایا تھا۔۔۔
جب تک میری مرضی کے مطابق چلو گی۔۔ تب تک تم خوشی خوشی جی سکتی ہو اپنی زندگی ۔۔۔ مگر جب کہیں میری مرضی کے خلاف کوئی کام کیا تو پھر میں خود نہیں جانتا کہ میں کیا سزا دوں گا تمہیں۔۔۔۔ اصلال نے سرد لہجے میں سرگوشی کرتے ہونٹ عبادت کی شہہ رگ پر رکھے تو اسکے سلگتے ہونٹوں کے لمس پر وہ کی جان سے لرزی تھی ۔ عبادت کو اپنا سانس آسکی قربت میں رکتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔ اسکا دل چاہ رہا تھا کہ وہ روتے ہوئے سب اکھٹا کر لے مگر اصلال عالم کا خوف اس قدر حاوی تھا کہ اسکی آواز بھی اسکے حلق میں دب سی گئی ۔ اصلال نے ایک مسکراتی نظر اسکے نازک وجود پر ڈالی اور پھر ایک گہرا سانس فضا میں بکھری اسکی خوشبو میں بھرتے وہ گہری مسکراہٹ سے باہر نکلا۔۔
**********
نننن نہیں مم مجھے نہیں جانا۔۔۔۔۔ وہ روتی ہوئی اندر جانے سے انکاری تھی اسے خوف آ رہا تھا اپنی آنکھوں کے سامنے ہی تو اشکان کا خون دیکھا تھا اب بھلا کیسے اسکے سامنے چلی جاتی ۔۔۔ عافیہ بیگم نے اسے محبت سے سمجھایا اگر وہ ناں جاتی تو اشکان کبھی بھی ہاسپٹل ناں جاتا ۔۔ جبھی وہ پیار سے سمجھاتے اپنے ساتھ لائی اور اشکان کے کمرے کا دروازہ ناک کرتے وہ اسے چھوڑتے واپس گئی۔۔۔
اوزگل کا پورا وجود ڈر سے کانپ رہا تھا ۔۔۔ اشکان کی آنکھیں اسے ابھی تک خود پر ٹکی محسوس ہو رہی تھی اسے لگا کہ وہ اسے جان سے مار دے گا۔۔۔۔ اسکی آنکھیں خوف سے سیاہ پڑنے لگی کہ ایک دم سے وہ ڈرتی اپنا سکت کھوئے ہوش و حواس سے بےگانہ زمین بوس ہوئی پڑی تھی ۔
اپنے رخسار پر کچھ گرتا محسوس کرتے اوزگل نے مندی مندی آنکھیں کھولی تو اسکی نظریں خود پر سائے کی طرح جھکے اشکان صدیقی پر پڑی ۔۔ وہ رو رہا تھا۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں خوف کے آنسوں تھے اسے کھو دینے کا خوف ۔۔۔ اوزگل کتنی دیر تک سن ہوئے وجود سے اسے دیکھے گئی جبکہ اسکے ہوش میں آنے پر اشکان نے فورا سے اپنے آنسوں صاف کرتے مسکراتے اسے دیکھا۔۔۔۔ اوزگل نے محسوس کیا اسکا ہاتھ ابھی تک اشکان کے ہاتھ میں تھا وہ جھٹ سے اٹھ بیٹھی اور کھینچتے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے نکالا ۔ اشکان نے بغور اسکی آنکھوں میں دیکھا جو نظریں چراتے اپنے خوف ہر قابو پا رہی تھی۔۔۔ جانتی ہو تمہیں کھو دینے کا خوف کیسا تھا۔۔۔ اشکان نے بےساختہ ہی اسکی ہرن کی مانند بڑی بڑی آنکھوں میں دیکھتے پوچھا وہ واقعی میں اشکان صدیقی کی چاہت کے قابل تھی اسکا جنون اسکا عشق سب کچھ۔۔۔۔
اوزگل اسکے ہاتھ کے سرد لمس پر ہچکیاں بھرتے اسکے ہاتھ سے بہتے خون کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ خخ خون ۔۔۔۔ اسکے پنکھڑیوں کی مانند گلابی باریک ہونٹ پھڑپھڑائے اشکان نے اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھتے اسے خاموش کروایا ۔۔
یہ کچھ بھی نہیں اگر مجھے اپنے وجود میں موجود اس خون کا قطرہ قطرہ نچوڑنا پڑتا میں تب بھی اپنے کہے سے پیچھے نہیں ہوتا۔۔۔ اب تم میری ہو ہمیشہ کیلئے ۔۔۔ اشکان صدیقی کی گل میری اوزگل۔۔۔۔ اسکے جنون پر اوازگل سن سی رہ گئی۔
تمہاری خوشبو بہت پسند ہے مجھے۔۔۔ میرا بس چلے تو میں اپنا ایک ایک لمحہ تمہاری خوشبو کو خود میں اتارتے اس دنیا جہاں سے غافل ہو جاؤں۔۔۔اوزگل اسکے جنون پر مزید خوفزدہ ہو رہی تھی اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کچھ ایسا ویسا ہو گا۔۔۔اس نے تو صرف ایک اچھا دوست مانا تھا اشکان کو ۔۔۔مگر اب اسکی باتیں اسے مذید سہما سی گئی ۔۔ وہ معصوم لرزتے وجود سے بمشکل سے اسکے سامنے بیٹھی تھی۔۔۔
ممم مجھے جانا ہے ۔۔ اوزگل نے ڈرتے کہا تو اشکان نے اپنے سرخ آنکھوں کو موندا۔۔
تمہیں پتا ہے مجھے تمہارے یہ بال کتنے پسند ہیں ۔۔۔۔ اسکے قریب بیٹھتے اشکان نے اوزگل کے نظر آتے بالوں کو دیکھتے کہا تو اوزگل نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔۔۔۔ پہلے دیکھے تھے ایک بار ابھی تک انکی خوشبو نہیں بھولا میں ۔۔۔۔ " اوزگل کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھتے اشکان نے بہکتے اسکے گھنے بالوں کو ہاتھ میں لیا تو اوزگل سہمتے ڈر سے آنکھیں موند گئی ۔ اشکان اسکے خوبصورت بالوں کو اپنے ہاتھوں میں محسوس کرتا بحور سا ہوا تھا انکی خوشبو انکی نرماہٹ اسے الگ ہیں دنیا میں لے جاتی تھی۔ اوزگل اسکی عجیب سی حرکت پر کپکپاتے اپنے بالوں کو دیکھ رہی تھی جو اسوقت اشکان کے ہاتھ میں تھے۔۔
اشکان نے سرد آنکھوں سے اسکی جانب دیکھا جو آنکھیں موندے کپکپا رہی تھی اور پھر اٹھتے وہ نرمی سے اسکے ماتھے پر بوسہ دیے آنکھیں موند گیا۔ اپنی پیشانی پر اسکے لمس کو محسوس کرتے اوزگل سانس روک سی گئی جبکہ اشکان ان لمحوں کو اپنی یادوں میں کسی قیمتی خزانے کی طرح قید کرتے اوزگل کے ماتھے پر بوسہ دیے پیچھے ہوا۔۔
ممم مجھے جج جانا ہے۔۔ اشکان کو پیچھے ہوتا دیکھ وہ لرزتی ہوئی آواز میں بمشکل سے بولی تھی۔۔
اوکے جاؤ۔۔۔۔۔ اشکان نے سرد لہجے میں کہا جبکہ اوزگل تو آگے ہی یہ سننے کا انتظار کر رہی تھی اشکان کے کہنے پر وہ دوڑتے کمرے سے نکلی۔۔۔۔جبکہ اشکان کی نظریں اسکے بالوں میں اٹکی تھیں۔
*******۔
اوزگل میری بچی کیا ہوا ہے___ “ نضحت بیگم جو ایمرجنسی میں سب کچھ چھوڑے عافیہ بیگم کے گھر آئی تھی اب یوں اشکان کے کمرے سے اوزگل کو بکھری حالت میں نکلتا دیکھ وہ تڑپتے اسکے قریب ہوئی جس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے تھے ۔ چہرے پر سالوں کی تھکن لیے وہ انہیں اپنی اوزگل نہیں لگی تھی آج۔۔۔۔ “ ممم ماما ممم مجھے گھر جانا ہے ۔۔ اوزگل اپنی ماما کو اپنے سامنے پاتے تڑپتے انکے سینے سے لگی تھی۔ فرخندہ بیگم نے اسے سینے سے اپنی آغوش میں چھپا لیا۔۔ گل میری گڑیا کیا ہوا ہے ۔
فرخندہ گھر چلو ہم گھر چل کے بات کرتے ہیں۔۔ اظہر صاحب نے ہاتھ پشت پر باندھے بے تاثر لہجے میں کہا تو فرخندہ بیگم نے حیرانگی سے انہیں دیکھا _ آخر کوئی بتائے گا کہ ہوا کیا ہے ۔۔۔؟" فرخندہ بیگم نے ماتھے پر بل ڈالے اوزگل کے لرزتے وجود کو تھپکتے اپنے سینے میں بھینجا۔۔ عافیہ بیگم اور عافان صدیقی دونوں اس وقت اشکان کے پاس تھے جبھی وہ کسی کو بھی ناں پاتے حیران تھیں۔۔ مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ انکی غیر موجودگی میں انکی لاڈلی کو کیسے بنا اسکی رضامندی کے اشکان کے نام کر دیا گیا تھا۔
میں کہہ رہا ہوں کہ چلو گھر ۔۔۔ گھر جاتے بات ہو گی۔۔ اظہر انصاری نے سخت لہجے میں کہا اور پھر ایک نظر روتی ہوئی اوزگل پر ڈالے وہ تیزی سے باہر نکلے ____
*************
کیا ہوا ہے عبادت کو۔۔۔۔۔ !" سکندر جعفری صبح ہی صبح شایان جعفری کے گھر پہنچے تھے دانش نے کالج جانے سے پہلے انہیں بتایا تھا کہ عبادت کو رات سے تیز بخار تھا وہ سنتے تڑپ اٹھے تھے۔۔ رضیہ بیگم اور فرزانہ تو ایسے چپ ہوئی تھی جیسے جانے کونسی قیامت ٹوٹ پڑی ہو۔۔ مگر سکندر جعفری سنتے ہی پریشان ہوتے دوڑتے اسے دیکھنے کو آئے۔۔
پتہ نہیں بابا ابھی صبح نضخت اٹھانے گئی تھی تو بخار میں پھنک رہی تھی ۔
جبھی وہ پریشان سی باہر آئی تھی آنش دو دن سے ناراض تھا اسنے شایان صاحب سے خاصی لڑائی کی تھی کیونکہ وہ پہلے سے جانتا تھا کہ اصلال عالم اور امل ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں ۔ تبھی شایان کے بتانے پر وہ خاموشی سے چلا گیا تھا اور اب اس وقت بھی عبادت کی حالت کا قصور وار اسے اصلال ہی لگا تھا ۔۔
بابا جان آپ ____ بخار ہو گیا ہے عبادت کو بس آنش لے کر جا رہا ہے اسے ہاسپٹل۔۔۔۔۔۔!" شایان جعفری نے مڑتے سکندر جعفری کو دیکھ کہا تھا۔۔
جبکہ سکندر جعفری اندر کمرے میں آتے ایک نظر عبادت کو دیکھ انش کو دیکھنے لگے۔۔۔ تمہیں نہیں جانا پڑھنے۔۔۔ انہوں نے روعب دار لہجے میں گرجتے ہوئے پوچھا تو آنش نے لب بھینج لیے ۔۔ عبادت کو ہاسپٹل لے کر جانا ہے میں کل چلا جاؤں گا۔۔۔۔ اسنے گیلی پٹی عبادات کے تپتے ماتھے پر رکھی ۔ جو تقریباً ہوش و حواس سے بےگانہ بخار سے دہکتے سرخ لال انگارہ ہوئے چہرے سے بے سدھ سی پڑی تھی۔۔
کیوں تم کیوں لے کر جاؤ گے۔۔۔۔ اصلال کی بیوی ہے وہی لے کر جائے گا ۔۔ " سکندر جعفری نے بیڈ کی دوسری جانب عبادت کے قریب بیٹھتے کہا تو آنش نے سنتے جبڑے بھینج لیے۔۔۔۔۔ نہیں بڑے بابا میں خود ہی لے جاؤں گا ۔۔۔۔ اصلال بھائی کو رہنے دیں۔۔۔۔ !" آنش نے بنا سوچے تیزی سے کہا تو نضحت بیگم جو ابھی چائے لیے کمرے میں آئی تھیں آنش کو یوں سکندر جعفری کے سامنے جواب دیتا پاتے وہ ڈر سی گئی۔
تم بتاؤ گے اب مجھے کہ کیا سہی ہے اور کیا نہیں۔۔۔۔؟" سکندر جعفری کا غصے سے بر احال تھا ایک عمر گزاری تھی انہوں نے وہ جانتے تھے کہ آنش کو انکا فیصلہ پسند نہیں آیا تھا مگر وہ اپنے فیصلے پر کسی کو بھی جواب دینا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔۔
بابا جان بچہ ہے معاف کر دیں میں اصلال کو بلاتا ہوں وہ لے جائے گا عبادت کو ۔۔۔۔ شایان جعفری نے سکندر جعفری کو نرمی سے سمجھایا وہ نہیں چاہتے تھے کہ آنش مزید کچھ کہے اور بات مزید بگڑے ۔۔۔
میں نے کہا تھا اسے وہ آتا ہی ہو گا۔۔۔ !" سکندر جعفری نے ایک تیز نظر آنش پر ڈالی اور پھر شایان جعفری کو جواب دیے وہ سرد سانس فضا کے سپرد کرتے عبادت کے ماتھے کو چھوتے دیکھنے لگے ۔۔
اسلام علیکم_____! معا وہ اپنے بھاری قدم اٹھائے دروازہ ناک کیے اندر آیا۔۔۔ شایان جعفری نے مڑتے اسے سر تا پاؤں دیکھا ۔۔
سفید رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس وہ فریش سا بالوں کو اچھے سے سیٹ کیے ایک ہاتھ میں برینڈڈ واچ پہنے سیاہ آنکھوں میں اطمینان عجیب سی چمک لیے، ہلکی سی بئیرڈ میں وہ انہیں کافی ہشاش بشاش سا دکھا۔۔۔ وہ چونکے تھے اسے خوش دیکھ۔۔۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس قدر مطمئن ہو گا ۔۔۔۔
و علیکم السلام اصلال ادھر آؤ۔۔ " سکندر جعفری نے مسکراتے اسکے خوبرو چہرے کو دیکھتے اسے پاس بلایا۔۔۔
اصلال نے ترچھی نگاہوں سے بیڈ پر بےہوشی کی حالت میں پڑے اس نازک وجود کو دیکھا۔۔۔۔ اسے حیرت نہیں ہوئی تھی کیونکہ جو کچھ وہ کل رات کر چکا تھا اس پر وہ خود بھی حیران تھا عبادت کیلئے تو پھر بھی یہ سب غیر متوقع تھا۔۔
جی بابا جان۔۔۔۔ وہ شایان جعفری سے ملتے سکندر جعفری کے قریب گیا۔۔۔
بچی کو بخار ہے تیز اسے لے جاو ہسپتال کچھ ہوش ہے یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔۔۔!" سکندر جعفری نے اسے حکم دینے کے ساتھ ساتھ جھڑکا تھا ۔۔۔ وہ مخفوظ سا ہوتے سر جھکا گیا۔
سوری بابا جان میں لے جاتا ہوں۔۔۔ " وہ معذرت کرتے گھومتے بیڈ کی دوسری جانب گیا جہاں آنش مسلسل عبادت کا ہاتھ تھامے بیٹھا تھا۔۔۔۔
آپ گاڑی سٹارٹ کریں میں چلتا ہوں ساتھ۔۔۔۔ عبادت کی جانب بڑھتے اصلال عالم کے ہاتھ کو تھامے وہ بے تاثر لہجے میں بولا تو ابکی بار اصلال کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔۔
میری بیوی ہے عبادت ، اور مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں میں خود خیال رکھ سکتا ہوں اسِکا۔۔۔۔۔ " اصلال نے بمشکل اپنے غصے پر ضبط کیا تھا۔۔۔ وگرنہ دل تو اسے اچھی خاصی سنانے کا تھا
۔۔ آنش وہ لے جائے گا تم جاؤ کالج۔۔۔۔ شایان جعفری نے اسے جھڑکا تو وہ جبڑے بھیجتے تن فن کرتا وہاں سے نکلا تھا۔۔۔ اصلال نے جھکتے نرمی سے اس نازک وجود کو اپنی بانہوں میں بھرا۔۔۔ احساس ِ ملکیت کے جذبات اسکے روم روم میں سرائیت کر رہے تھے ۔۔۔ شایان جعفری نے اسکے چہرے کے تاثرات کو جانچنا چاہا مگر وہ یونہی مطمئن تھا ۔۔۔ جسے دیکھ وہ خود بھی اب
کافی پرسکون ہوئے تھے۔۔۔۔۔ اصلال عالم کی نظریں عبادت کے سرخ چہرے سے ہوتے اسکی سنہری زلفوں میں اٹکی تھیں۔۔۔ اسنے سرد سانس فضا کے سپرد کرتے بیڈ کی جانب دیکھا جہاں اسکا دوپٹہ ایک جانب پڑا تھا۔۔۔۔۔ ماما ۔۔۔!' نضحت بیگم جو کب سے خاموش کھڑی تھی اصلال کے بلانے پر وہ چونکتے اسے دیکھنے لگی۔۔۔
ماما عبادت کا دوپٹہ دیں مجھے۔۔۔۔۔۔!" اسنے اشارہ بیڈ پر پڑے دوپٹے کینجانب کیا تو نضحت بیگم سمجھتے آگے بڑھی اور دوپٹہ اٹھائے اسکے ہاتھ میں دیا ۔
اصلال نے ایک نظر عبادت کے سرخ چہرے پر ڈالی اور پھر نرمی سے اس نازک وجود کو لیے وہ سیڑھیاں عبور کیے اپنی گاڑی کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ اسے باہر نکلتا دیکھ ڈرائیور نے جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولا تو اصلال نے اسے سر ہلاتے وہاں سے جانے کا اشارہ کیا جسے سمجھتے وہ فورا سے سر ہلاتے وہاں سے غائب ہوا تھا۔۔ اصلال نے نرمی سے اسے سیٹ پر بٹھائے سیٹ پیچھے کینجانب کی اور سیٹ بیلٹ پہناتے اپنے ہاتھ میں تھامے اسکے دوپٹے کو جلدی سے اسکے سر پر دیے اچھے سے لپیٹا۔۔ وہ بغور اسکی گھنی سیاہ پلکوں کو دیکھ رہا تھا جو عارضوں پر سایہ فگن کیے ہوئے تھی۔۔ سفید چہرہ دہکتے آگ کی مانند سرخ ہو رہا تھا جبکہ گلابی ہونٹ خشک ہوئے پڑے تھے۔۔۔ اصلال نے سرد سانس لیے ڈور بند کیا اور پھر اپنی سیٹ سنبھالتے اسنے گاڑی سٹارٹ کی۔۔۔
**************
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اظہر ۔۔۔ایسے ہوتی ہیں شادیاں ایسے کیا جاتا ہے نکاح____!" آپ نے کس کی رضا سے میری معصوم بچی کے ساتھ یہ ظلم کیا ہے۔۔۔۔؟" فرخندہ بیگم غصے سے آگ بگولہ ہوئی پڑی تھی انہیں تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ان کے اپنوں نے ہی ایسا کھیل رچایا تھا ۔۔۔ وہاں سے آتے ہی اوزگل نے خود کو کمرے میں لاک کر لیا تھا ۔۔۔۔ فرخندہ بیگم کافی پریشان تھی اسکے لئے۔۔ انہیں یقین نہیں آیا تھا کہ انکا شوہر خود ہی یہ سب کچھ کر گیا تھا۔
بس کر دو فرخندہ ۔۔۔ کیا کرتا میں پورا خاندان مجھے گھیرے بیٹھا تھا اور اوپر سے وہ پاگل لڑکا ہاتھ کاٹ کے بیٹھ گیا تھا میں بھلا کیسے اپنی بچی کو بچاتا ۔۔ ویسے بھی صرف نکاح ہی ہوا ہے ابھی ہم کونسا اپنی بیٹی کو رخصت کر رہے ہیں۔۔۔ ۔اظہر صاحب نے جھنجھلاتے ہوئے کہا تھا جبکہ فرخندہ بیگم کا غصہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔
ایک ہی تو بیٹی تھی اور اسکی شادی بھی اس حال میں ۔۔۔ کہاں سوچا تھا انہوں نے کہ ایسا کچھ ہو جائے گا ۔۔ مگر اب وہ اوزگل کے لئے پریشان تھی کہ وہ کیسے ان سب چیزوں کو برداشت کرے گی۔۔ اگر میری بچی کو کچھ ہوا تو آپ ان سب کے زمہ دار ہوں گے اظہر۔۔۔ وہ غصے سے تقریباً رندھی ہوئی آواز میں کہتے اوزگل کے کمرے کی جانب بڑھی تھی۔ ۔
اوزگل میری بچی اٹھو جلدی سے ۔۔۔۔ فرخندہ بیگم اسے یوں سوتا دیکھ پریشانی سے متفکر ہوئے اسکے قریب گئی ، گل میری بچی اٹھو میری شہزادی۔۔۔ فرخندہ بیگم نے قریب جاتے اسکے پاس بیٹھے کہا مگر اوزگل بالکل بےحس و حرکت پڑی تھی فرخندہ بیگم نے ڈرتے اسکے کندھے کو تھامے اسکا رخ اپنی جانب کیا تو وہ بے ہوش تھی ۔۔ جبھی وہ ڈرتے باہر نکلی۔۔
اظہر ڈاکٹر کو بلائیں گل بےہوش ہو گئی ہے ۔۔!" وہ روتے ہوئے اپنے کمرے میں جاتے بولی تو اظہرصاحب گھبرا سے گئے ۔ وہ تیزی سے باہر نکلے اوزگل کے کمرے میں گئے ، اور فورا سے ڈاکٹر کو کال کئے بلایا۔۔۔ دیکھ لیں اظہر آپ کا ایک فیصلہ میری بچی کی حالت کیا سے کیا ہو گئی۔۔ فرخندہ مسلسل روتے ہوئے کہہ رہی تھی انہیں روتا دیکھ اظہر انصاری بھی کافی مضطرب ہوئے تھے۔۔
ڈاکٹر کیا ہوا ہے میری بچی کو۔۔۔۔؟" ڈاکٹر جو اوزگل کا چیک اپ کر رہی تھی فرخندہ نے بے چینی سے پوچھا ۔۔۔ ڈاکٹر نے مڑتے فرخندہ بیگم کو دیکھا۔۔۔ جو کافی متفکر سی تھیں۔۔ سٹریس لیا ہے کسی بات کا انہوں نے ۔۔۔ عمر دیکھیں بچی کی ایسا کیا ہوا ہے کہ جو وہ اس قدر ٹینس ہیں۔۔ ؟"
ڈاکٹر کے پوچھے گئے سوال پر فرخندہ بیگم نے کاٹ دار نظروں سے اظہر انصاری کو دیکھا جو پہلوں بدلتے وہ گئے۔۔۔
انہیں ریسٹ کی ضرورت ہے خیال رکھیں اور جتنا ہو سکے پریشانی سے دور رکھیں۔۔۔ " ڈاکٹر نے ہدایت دیتے ساتھ ہی کچھ دوائیاں لکھتے اظہر صاحب کو دیں۔۔۔ جو خاموشی سے نظریں جھکائے باہر کینجانب نکل گئے۔۔۔
*****************
ڈاکٹر کو بھیجیں اندر۔۔۔۔۔۔" عبادت کو بانہوں میں بھرے وہ چلتا اندر داخل ہوا ، سب کو اگنور کیے اپنی شاہانہ چال سے چلتا ایک روم میں داخل ہوا ۔۔ اسکے یوں بنا اجازت اندر آنے پر اندر موجود نرس نے مڑتے اصلال کو حیرت سے دیکھا۔۔۔ اصلال نے ایک نظر نرس کو دیکھے اسے حکم دیا جو منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
نرس کو یوں خود کو گھورتا پاتے اصلال نے نرمی سے عبادت کو بیڈ پر لٹائے مڑتے نرس کو دیکھا جو گڑبڑاتے باہر نکلی تھی ۔۔۔
اصلال تاسف سے سر نفی میں ہلاتے عبادت کو دیکھ اسکے قریب بیٹھا اور پھر اسکے نازک ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیے وہ بغور اسکی مخروطی دودھیا انگلیوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
معا ڈاکٹر اندر آئی اصلال نے سر اٹھائے ڈاکٹر کو دیکھا اور پھر سرد سانس فضا کے سپرد کیے وہ جگہ سے اٹھتے ایک جانب ہوتے کھڑا ہوا ۔۔
کیا ہوا ہے انہیں۔۔۔۔؟" ڈاکٹر نے ایک نظر اصلال عالم اور پھر اس نازک سی لڑکی کو دیکھ جانچتی نظروں سے اصلال کو دیکھتے استفسار کیا۔۔
اگر مجھے علم ہوتا تو ہاسپٹل کیوں لاتا اسے۔۔۔۔!" اصلال نے ایک دم سے ماتھے پر بل ڈالے ناگواری سے کہا کیسی ڈاکٹر تھی جو اسی سے پوچھ رہی تھی کہ عبادت کو کیاہوا ہے۔۔۔؟"
کیا لگتی ہیں یہ آپ کی۔۔۔۔۔۔!" ڈاکٹر کو اس مغروری گھمنڈی شخص پر کافی غصہ آیا تھا وہ سر جھٹکتے عبادت کا چیک اپ کرتے پوچھنے لگی۔۔ " ظاہر سی بات ہے شوہر ہوں کیا آپ یہاں آنے والے ہر شخص کو ایسے ہی سوال جواب پوچھتی ہیں_____!"
اپنے ہاتھ پشت پر باندھے وہ دانت کچکچاتے ہوئے طنز کرنےلگا۔۔ ڈاکٹر کو وہ کوئی پاگل لگا تھا۔۔۔
دیکھئے یہ میرا پیشہ ہے اور میں نے ایسے ہی سوال پوچھ لیا آپ تو لگتا ہے مرچیں چبا کے آئے ہیں۔۔۔!" ڈاکٹر نے تاسف سے سر نفی میں ہلاتے کہا۔۔شکل و صورت سے تو وہ پڑھا لکھا لگ رہا تھا مگر حرکتیں پاگلوں کی جیسی تھی ۔
مجھے یہ بتائیں کیا ہوا ہےمیری بیوی کو۔۔۔" اصلال نے بات کاٹتے کھردرے لہجے میں پوچھا اسکے اکھڑ لہجے پر ڈاکٹر نے دانت پیسے۔۔۔۔ فیور ہے بہت تیز ۔۔۔۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ کھایا پیا نہیں انہوں نے اور اوپر سے اچانک کسی غیر متوقع حادثے کی وجہ سے وہ اس قدر ڈر گئی ہیں کہ ان کا بے ہوش وجود بھی کپکپا رہا ہے ۔۔۔۔" ڈاکٹر نے اسے تفصیل سے آگاہ کیا تو اصلال نے سرخ نظروں سے عبادت کے نرم و ملائم نازک وجود کو دیکھا ۔
آپ میڈیسن دے دیں بخار اتر جائے اسکا باقی ڈر تو اب وقت کے ساتھ ہی جائے گا۔۔۔ وہ ایسے کہہ رہا تھا جیسے کہ وہ خود ہی ڈاکٹر ہو جیسے وہ جانتا تھا کہ عبادت کا ڈر ایسے نہیں نکلے گا۔۔۔
آپ تھوڑی دیر انتظار کریں مجھے تھوڑا ٹریٹمنٹ کرنے دیں تاکہ یہ ہوش میں آ سکیں۔۔۔
ڈاکٹر نے اس سر پھرے پاگل کو دیکھتے تھکے لہجے میں کہا تو اصلال سر ہاں میں ہلائے ایک جانب دیوار سے ٹیک لگائے بغور عبادت کو دیکھنے لگا۔۔۔۔
******************
اپنی مندی مندی آنکھیں کھولتے اوزگل نے چھت کو گھورا ۔۔۔۔ دماغ بالکل سن ہوا پڑا تھا اسکا دماغ بالکل ساکن تھا کچھ دیر پہلے جو کچھ بھی ہوا تھا اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا ۔۔۔
اپنے دکھتے سر کو ہاتھ سے دبائے اپنے ہاتھوں پر دباؤ دیے وہ اٹھ بیٹھی ، بیڈ کروان سے ٹیک لگائے بیٹھی۔۔۔ اسکے سفید دودھیا رنگت میں سرخی گھلی تھی وہ آنکھیں بند کیے بیٹھی تھیں لمبی سیاہ زلفیں اسکے دونوں کندھوں پر ڈھلکی ہوئیں تھی۔ وہ آنکھیں بند کیے خود کو پرسکون کرنا چاہتی تھی مگر ایک دم سے اشکان کا عکس اسکی آنکھوں کے سامنے لہرایا ۔۔۔ اوزگل نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں وہ اپنے چاروں اطراف دیکھتے خود کو اپنے کمرے میں پائے تھوڑی پرسکون ہوئی تھی ۔۔۔ گرزا ہر ایک لمحہ اسکی آنکھوں کے سامنے لہرایا ۔۔ اشکان کا جنون اسکی آنکھوں میں خود کو کھو دینے کا خوف ڈر وخشتیں کیا کچھ نہیں دیکھا تھا اسنے۔۔۔۔ اوزگل نے تھوک نگلتے اپنے گلے میں اٹکتے آنسوں کے گولے کو نگلا۔۔ تکلیف حد سے سوا تھی ابھی تو اس نے اپنے خواب جینے تھے۔۔۔
اسے کیا معلوم تھا کہ زندگی اسکے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کرے گی کہ اسے سنبھلنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔۔
اپنے ساتھ ہوئے ظلم پر جانے کتنے ہی آنسوں اسکی جھیل سی آنکھوں میں تیرنے لگے۔۔۔ معا اسکے فون رنگ ہؤا۔
اوزگل نے آنسوں صاف کرتے ٹیبل پر رکھے اپنے فون کو دیکھا ۔۔۔۔ کوئی انناون نمبر تھا۔۔
اسنے بےبسی غصے سے کال کٹ کی اور پھر سے فون پٹھکنے کے سے انداز میں بیڈ پر رکھا ۔۔ فون پھر سے رنگ ہوا تھا کوئی مسیج تھا۔۔۔۔ اوزگل نے میسج اوپن کیا۔۔۔۔اسکی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی ۔۔۔۔کال کر رہا ہوں گل فورا سے پک کرنا میں اشکان ۔۔۔" اسے حیرانگی ہوئی آخر اسکا نمبر کیسے اشکان تک پہنچا۔۔۔۔
وہ ابھی اسی سوچ میں تھی کہ فون پھر سے رنگ ہوا ۔ اوزگل نے موبائل کو دیکھا وہ ویڈیو کال کر رہا تھا۔۔ اوزگل نے لب بھینجتے کپکپاتے ہاتھوں سے کال پک کی ، تو سامنے ہی وہ آنکھوں میں فکر کا جہاں سموئے اپنی سرخ نظروں سے اسی کو۔دیکھنے کی چاہ لیے بیٹھا تھا ۔۔ ۔
کیسی ہو۔۔۔؟" روم میں پھیلی معنی خیز سی خاموشی میں اشکان کی بھاری فکر سموئی آواز گونجی اوزگل نے لب بھینج لیے، اس وقت اسکا ارادہ نہیں تھا اشکان سے بات کرنے کا ۔۔۔۔۔۔ نمبر کہاں سے لیا تم نے____! وہ بے تاثر سخت لہجے میں بولی تو اشکان کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔۔ مجھے کسی سے مانگنے کی ضرورت نہیں ۔۔ تمہارا نمبر نکالنا کوئی مشکل کام نہیں ہے میرے لیے۔۔۔۔۔۔۔ یہ بتاؤ کیاہوا ہے بیمار کیسے پڑی تم۔۔۔؟" اشکان نے بات بدلتے اوزگل کی سرخ آنکھوں میں دیکھتے پوچھا۔۔
ٹھیک ہوں میں کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔۔!" اوزگل کا لہجہ کافی روکھا تھا جیسے وہ بات ناں کرنا چاہ رہی ہو ۔۔۔
دیکھو گل میں جانتا ہوں کہ جو کچھ بھی ہوا وہ ٹھیک نہیں لگا تمہیں ۔۔۔۔ مگر مجھے یہ سب کچھ مجبوری میں کرنا پڑا میں کسی بھی طور تم سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔ تمہیں بچپن سے میں نے صرف اپنے لیے سوچا ہے اپنے ساتھ ____! میں کبھی بھی یہ بات برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی دوسرا تم پر حق جتائے۔۔۔۔ ۔
اوزگل نے لب بھینجتے اسے دیکھا۔۔۔ مگر میرا کیا اشکان میں نے تو کبھی بھی ایسا کچھ نہیں سوچا تھا۔۔۔۔میرے اپنے بھی تو ہزاروں خواب ہیں ۔۔۔میں پڑھنا چاہتی ہوں کچھ بننا چاہتی ہوں ، مگر تم نے سب کچھ جانتے بوجھتے میرے ساتھ یہ کیا ہے ، اسکا لہجہ دکھ سے چور تھا سارے خواب ریزہ ریزہ ہوئے تھے ، اب لفظوں میں ٹوٹے خواب کی کرچیاں تھیں جو اسے مزید بے بسی کی موت مار رہے تھے۔۔۔
گل تم میرے لئے ضروری ہو میں چاہتا ہوں تمہیں اسی لیے کھونے کے ڈر سے ایسا کیا۔۔۔مگر میں کبھی بھی تمہارے خواب ٹوٹنے نہیں دے سکتا ۔۔ تم اس بات کا وہم دل سے نکال دو کہ تمہارے خوب ٹوٹیں گے میں پورا کروں گا تمہارا ہر ایک خواب مگر شرط یہ ہے کہ تم مجھے کبھی نہیں چھوڑو گی تا عمر میرے ساتھ رہو گی میری ہو کے ۔۔۔۔۔۔۔"اشکان نے سرد نظروں میں عجب سا جنون سموئے کہا تو اوزگل پل بھر کو ساکت سی رہ گئی اسنے جلدی سے کال کٹ کی اور پھر فون ایک جانب رکھے وہ اشکان کی بابت سوچ رہی تھی۔۔۔
***************
کیسا محسوس ہو رہا ہے اب۔۔۔۔۔!" عبادت کی ہلتی پلکوں کو دیکھ وہ جھٹ سے ٹیک چھوڑے اسکے قریب آیا تھا۔۔۔۔ اور جھکتے متفکر سا اسکے پاس دائیں جانب ہاتھ رکھے اصلال نے بغور اسکی سنہری آنکھوں میں دیکھتے استفسار کیا۔۔۔
مم میں کک کہاں۔۔۔۔۔؟" عبادت اصلال کو دیکھ ایک دم سے ڈرتے اٹھ بیٹھی ۔۔۔۔ اصلال نے پیچھے ہوتے سرد سانس فضا کے سپرد کیا اور پھر سے بیڈ پر اسکے قریب بیٹھا عبادت اسے پاس بیٹھتا دیکھ خود میں سمٹ سی گئی جبکہ اصلال عالم کی نظریں اسکی سرخ پڑتی ناک پر تھی۔۔۔
ہاسپٹل میں ہو بخار ہو گیا تھا تمہیں اچانک سے ڈر کیوجہ سے حالانکہ ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا۔۔۔۔
اصلال نے اپنے دونوں ہاتھ بیڈ پر پیچھے کو پھیلائے اپنی ٹانگ ہلاتے کہا ۔۔۔
تو عبادت نے سہمی نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔ نہیں ہونا چاہیے تھا ناں عبادت ۔۔۔۔۔
کیونکہ تمہیں تو معلوم ہے کافی اچھے سے کہ میں اپنی چیزوں کے لئے کس حد تک پاگل ہوں ۔۔۔۔ اصلال نے اسکی سنہری آنکھوں میں دیکھتے گھبیر لہجے میں کہا اور پھر جھکتے اسکے چہرے پر آتی سنہری لٹوں کو انگلی پر لپیٹا۔۔ عبادت نے اصلال کے بھاری ہاتھ کو دیکھ تھوک نگلا تھا۔۔۔۔
مم مگر آپ آپ تتت تو اااا امل سس سے ممم محبتتت کک کرتے ہیہہ ہیں ننن ناں۔۔۔۔ اسکی سنہری آنکھیں نم تھی ، اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اصلال اس سے بدلا لے رہا تھا کیونکہ امل اسکی وجہ سے واپس اپنے گھر چلی گئی تھی ۔۔۔ اصلال کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر۔۔۔۔۔
تو محبت کرتا ہوں مگر ملکیت تو نہیں وہ میری ۔۔۔ حق نہیں رکھتا میں اس پر میرا حق میری ملکیت تم ہو عبادت اصلال عالم۔۔۔۔۔۔۔ اور تم جانتی ہو جب ایک بار کوئی چیز میرے نام کر دی جائے پھر وہ تا عمر اصلال عالم جعفری کی رہتی ہے ۔۔۔۔ جیسے کہ اب تم ۔۔۔۔۔" وہ دھیرے دھیرے اپنے لفظوں سے اسکی جان لے رہا تھا۔۔۔ عبادت نے جھٹکے سے سر اٹھائے اسے گھورا۔
ممم مگر آ آپ تت تو ممم مجھے بب بہن ککک کہتے تھے ممم میں خخخ خود اسسس اس رر رشتے کو تت تسلیم نننن نہیں ککک کر پا در رہی۔۔۔۔" عبادت کو لگا تھا کہ اگر وہ اسے سمجھائے گی تو شاید وہ اسے چھوڑنے پر مان جائے ۔۔۔
مگر اسکی بات سنتے اصلال عالم کی آنکھوں میں سرد پن اترا۔۔۔ اسنے جھٹکے سے عبادت کی نازک کمر کے گرد ہاتھ لپیٹتے اسے کھینچتے اپنے قریب تر کیا۔۔۔
بہن کہا تھا اب ہو تو نہیں ____ میں نےاس رشتے کو قبول کر لیا ہے اب بہتر ہو گا کہ تم بھی اپنے اس چھوٹے سے دماغ کو سمجھاؤ اور جتنی جلدی ہو سکے مجھے اپنا شوہر تسلیم کر لو ۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ تمہاری بد قسمتی ہے کہ تم نا چاہتے ہوئے بھی اب اصلال عالم کی ملکیت میں ہو ۔۔۔۔ اور جب تم میری ملکیت میں ہو تو پھر تمہارا دل تمہاری روح سب کچھ صرف اور صرف اصلال عالم کا ہے ۔۔۔۔۔
عبادت کے کان میں جھکتے ٹھٹرا دینے والے لہجے میں سرگوشی کرتے اصلال نے اپنے ہونٹ اسکے کندھے پر رکھے تو عبادت اپنے کندھے پر اسکے ہونٹوں کے لمس پر مچل اٹھی۔۔۔۔ مگر اصلال کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا اسکا مچلنا تڑپنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔۔
وہ ملکیت تھی اسکی ، وہ حق رکھتا تھا اس پر پھر چاہے عبادت مانے یا پھر نہیں ، ۔۔۔۔۔۔ ع عالمممم۔۔۔۔۔۔" اصلال نے اپنے بھاری ہاتھ سے اسکا دوپٹہ سرکاتے اسکے بالوں کو اپنی انگلیوں کے پوروں سے سہلایا تو عبادت نے ڈرتے اسے پکارا۔۔۔۔۔ جو جھکتا اسکی گردن پر اپنی من مانیاں کر رہا تھا۔
عبادت کے پکارنے پر اصلال نے سر اٹھائے مسکراتی نظروں سے عبادت کو دیکھا جو اسکی قربت سے خوفزدہ سی گہرے سانس بھر رہی تھی ۔۔۔۔۔
مجھے اچھا لگا تمہارا عالم کہنا اب سے تم اسی نام سے پکارو گی مجھے۔۔۔" اصلال نے جھکتے اسکی تھوڑی پر ہونٹ رکھتے مسکراتے کہا تو عبادت نے سختی سے آنکھیں میچتے لب آپس میں پیوست کیے۔۔۔۔
میں میڈیسن لے کر آتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ " عبادت کی پیشانی پر بوسہ دیے وہ پھر سے چہرے پر پر سنجیدگی لیے باہر کینجانب بڑھا تھا۔۔۔ عبادت کئی لمحے اسکی خوشبو کو محسوس کرتی رہی ۔۔۔ کیا تھا یہ سب یہ انسان ایسا نکلے گا اسے اندازہ نہیں تھا ۔۔۔
اصلال کے جاتے ہی وہ گہرے سانس لیے خود کو پرسکون کرتی اپنا حلیہ درست کیے سیدھے ہوئے بیٹھی تھی۔۔ کہ معا اصلال کے فون کی رنگ نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا ۔
عبادت نے سامنے ہی اپنے پاس بیڈ پر پڑے اسکے موبائل کو دیکھا ۔۔ جہاں امل کا نام جگمگا رہا تھا۔۔۔۔۔
محبت نہیں ملکیت ہو تم میری ۔۔۔۔" اصلال کی کہی بات یاد آتے ہی اسکی آنکھوں میں ایک دم سے جانے کتنے آنسوں آئے تھے ۔۔۔۔۔ وہ سمجھ چکی تھی کہ اصلال صرف اسے اپنی ملکیت سمجھ کر اسکے جذبات کو تباہ کرنا چاہتا تھا ۔۔۔ میں تمہاری باتوں میں کبھی نہیں آؤں گی ۔۔۔۔۔ بہت جلد میں تم سے دور چلی جاؤں گی اصلال عالم۔۔۔۔۔۔" نفرت سے اصلال کا سوچتے اسنے اپنے آنسوں بے دردی سے رگڑے تھے۔۔
چلیں _____!" میڈیسن لیے وہ اندر آیا تو نظریں عبادت کے ساکت وجود پر پڑی۔۔ اصلال نے حیرت سے اسے بلایا تو عبادت بے تاثر چہرے سے اسے دیکھ ایک دم سے جگہ سے اٹھی۔۔ویٹ میں اٹھاتا ہوں۔۔۔۔۔" اصلال نے آگے بڑھتے اسکا ہاتھ تھامتے کہا تو عبادت نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا جیسے اسکے چھونے سے اسے نفرت ہوئی تھی۔۔۔
صحیح سلامت ہوں پاؤں سلامت ہیں، چل سکتی ہوں میں۔۔۔" انتہائی روکھے لہجے میں کہتے وہ دوپٹہ ٹھیک سے لیے باہر کینجانب نکلی۔۔۔ اصلال نے جبڑے بھینجتے عبادت کی پشت کو دیکھا، عبادت بنا کچھ کہے دھیمے قدموں سے چلتی باہر نکلی تھی مگر ایک دم سے اسے اپنا سر چکراتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔ جبھی وہ دیوار کا سہارہ لیے اپنی آنکھوں کو کھولنے کی سعی کرنے لگی ۔۔۔۔۔ کمزوری کے باعث پورا وجود کپکپا رہا تھا۔۔ کیونکہ دو دن سے اسنے صرف برائے نام ہی کھایا پیا تھا ۔۔
اہہہ چچ چھوڑیں مم مجھے _____!" اصلال جو کہ غصے سے جبڑے بھینجتا اسکے قریب ہوا تھا ۔۔۔۔ عبادت کے بازو کو پکڑتے اسنے سختی سے اسے اپنی جانب کھینچا۔۔۔۔
شٹ اپ یو میڈ گرل_____!" وہ دھیمے لہجے میں اسے جھڑکتے جھکتے عبادت کے ناچاہتے ہوئے بھی اسے بانہوں میں بھرتا باہر آیا تھا۔۔
عبادت کا دماغ صرف ایک ہی بات میں اٹکا تھا۔۔۔ اسے یوں اصلال کا بار بار قریب آنا عجیب لگ رہا تھا۔۔۔۔ اسکا دوغلا پن وہ سمجھ گئی تھی۔۔۔ جبھی جس قدر اسکے لئے دل میں عزت تھی اب وہ بھی ختم ہوئی تھی۔۔۔۔
بہت شوق ہے تمھیں اپنی من مانیاں کرنے کا۔۔۔۔۔۔ سمجھتی کیا ہو خود کو تم۔۔۔۔؟" اسے باہر لے جاتے اصلال نے جیسے ہی اسے سیٹ پر بٹھایا تھا ایک دم سے وہ ہاتھ اسکی گردن کے گرد لپیٹے عبادت کا رخ سامنے کرتے غرایا ۔۔۔ عبادت اسکے لہجے کی غراہٹ ، ایک دم سے یوں اچانک پکڑنے پر ، اپنے چہرے پر پڑتی اسکی سلگتی سانسوں کو محسوس کرتے کپکپا سی گئی۔۔۔۔۔
چچ چھوڑیں ممم مجھے______!" اصلال عالم کا یہ بدلا وخشی روپ اسے سہما سا گیا تھا ۔۔۔۔یہ وہ اصلال عالم تو نہیں تھا جو اسکی چھوٹی سے چھوٹی خوشی کا بھی خیال رکھتا تھا یہ تو کوئی اپنی ذات میں گم ایک ظالم سفاک شخص لگا تھا اسے۔۔۔۔۔۔!"
ایک بار پھر سے کہہ رہا ہوں عبادت _____ اپنے کان کھول کر اچھے سے سن لو____!" اسکے چہرے پر جھکتا وہ تیز لہجے میں آنکھوں میں عجیب سی سرد مہری لیے بولا۔۔۔ عبادت کی سنہری آنکھوں میں نمی تیرنے لگی ، جیسے ابھی آنسوں بہتے اسکے رخساروں کو بھگوئیں گے۔۔۔
"مجھے رشتوں کے نام پر صرف ہیش ٹیگ ڈیش ملا ہے۔۔۔ میرے پاس رشتے ہوتے ہوئے بھی نہیں تھے ۔۔۔۔ناں بھائی ناں بہن ناں ماں اور باپ تو جیسے پیدا کر کے بھول گیا۔۔۔۔ میں ایک سنکی انسان ہوں میں نے نہیں چاہا تھا کہ کبھی میرا تمہارے ساتھ کوئی ایسا رشتہ بنے کہ تمہیں میری وجہ سے تکلیف ملے۔۔۔ اور ناں ہی کبھی چاہوں گا کہ ایسا ہو ۔۔۔۔۔ امل تھی اب نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔ میں رشتوں کے معاملے میں انصاف پسند ہوں مجھے ناں تو فریب پسند ہے ناں میں خود سے فریب کرنے والے کو چھوڑتا ہوں۔۔۔۔ میری کل کائنات میرا سارا وجود حسیات بنے اب تمہاری جانب متوجہ رہے گا۔۔۔۔۔ تمہاری سانسوں کا حساب بھی اصلال عالم رکھے گا کیونکہ تمہاری سانسیں بھی میری ملکیت ہیں۔۔۔۔ تو مائی لٹل گرل جتنی جلدی ہو سکے خود کو سمجھا لو ۔۔۔۔۔ کیونکہ میں اب سے کسی سائے کی طرح تمہاری زندگی میں شامل تو ہو گیا ہوں مگر ناں تو تم نکال سکتی ہو ناں ہی کوئی اور۔۔۔۔۔۔ مجھے دھوکے سے شدید نفرت ہے مجھے امید ہے کہ تم مجھے نا امید نہیں کرو گی اگر دل میں کسی دوسرے کو بسایا ہے تو نکال دو کیونکہ میرے علاؤہ کسی دوسرے کی مہک بھی تمہارے قریب گئی __ تو پھر .... اپنی بھاری آواز میں سرگوشیاں کرتے وہ عجیب سا مسکرایا۔۔۔۔۔ عبادت کی آنکھوں میں خوف تھا کہ اب وہ کیا کہنے والا تھا ۔۔۔۔۔
تو پھر ناں تو اس وجود کو زندہ چھوڑوں گا ناں ہی تمہیں اس قابل چھوڑوں گا کہ تم کسی دوسرے کے تصور بھی اپنے خواب میں کرو۔۔۔۔۔۔"اب مجھے اچھے بچوں کی طرح مسکرا کے دکھاؤ۔۔۔
وہ بلکل نارمل انداز میں آتا عبادت کے گال کو تھپکتے بولا۔۔۔۔
اسکی کہی آدھے سے زیادہ باتیں اس معصوم کے سر کے اوپر سے گزر گئی تھی سوائے اس کے کہ اب سے وہ اصلال عالم کے ہاتھوں کا کھلونا تھی ۔۔
کچھ کہا ہے میں عبادت_______!"اپنی جیب سے رومال نکالتے اصلال نے نرمی سے اسکی آنکھوں میں آتی نمی کو جذب کیا تو عبادت نے ہچکی بھرتے جبرا مسکرانے کی کوشش کی۔۔۔۔۔
دیٹس لائک مائی گرل۔۔۔۔۔ اسکے مسکرانے پر وہ چہکتے اپنے بھاری ہاتھ سے اسکے رخسار کو سہلاتے ڈرائیونگ سیٹ کی جانب بڑھا۔۔۔۔
*************
بیٹا آپ کی طبیعت نہیں ٹھیک آپ آج چھٹی کر لیں میری جان________!" اوزگل کے سیاہ بالوں میں کنگھی کرتے فرخندہ بیگم نے محبت سے کہا ۔۔۔۔۔ تو اوزگل نے سرد سانس فضا کے سپرد کیا۔۔۔۔
نہیں ماما آج جانے دیں آگے ہی کافی دن ہو گئے ہیں۔۔۔۔۔۔ مجھے جانا ہے آج کالج۔۔۔۔۔" اوزگل نے نرمی سے بس اتنا ہی کہا تھا اظہر صاحب سے اسکی بات نکاح والے دن کے بعد کی بند تھی مگر فرخندہ بیگم خود ہی اس سے باتیں کرتے اسے مسکرانے پر مجبور کرتی تھی۔۔
آپ ناراض ہو اپنے بابا سے۔۔۔۔۔۔" اسکے گھنے سیاہ بالوں کو سنوارتے فرخندہ نے ہونٹ اسکے سر پر رکھے محبت سے اسے حصار میں لئے پوچھا، تو اوزگل خاموش سی ہو گئی۔۔۔۔ گہری جھیل سیاہ آنکھوں میں گہرے سائے تھے ۔۔۔۔ نہیں میں ناراض نہیں ہوں ان سے بس خفا ہوں۔۔۔۔ باقی سب تو غیر تھے وہ تو میرے ہیرو میرے آئیڈیل تھے۔۔۔۔۔۔"اسکے لہجے میں چھپے درد کو محسوس کرتے فرخندہ بیگم نے اسے خود میں بھینج لیا۔۔۔ اوزگل جانتی تھی کہ وہ اپنے آنسوں کو روک رہی تھی اوزگل کے سامنے کمزور جو نہیں پڑنا چاہتی تھی۔۔۔۔
میری جان آپ کے بابا آپ سے بے حد محبت کرتے ہیں رات کو سوتے نہیں۔۔۔ پریشان سے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔ جو کچھ بھی ہوا وہ سب اچانک ہوا تھا سب نے ان پر دباؤ ڈالا اس فیصلے کیلئے ورنہ آپ کی پھپھو کئی بار آپ کا رشتہ مانگ چکی ہیں آپ کے بابا سے مگر انہوں نے ہر بار انکار کیا ہے اور وجہ اشکان کا اس قدر پوزیسو ہونا ہے مگر شاید ایسے ہی اللہ نے تمہاری قسمت میں اشکان کا ساتھ لکھا تھا ۔۔۔۔ اب زیادہ سوچ کے خود کو ہلکان مت کرو ۔۔۔۔ سب کچھ ویسا ہی ہے کچھ بھی نہیں بدلا ۔۔۔۔ بس کسی بھی بات کو خود پر سوار نہیں کرنا میری جان۔۔۔۔"
وہ محبت سے اسے سمجھا رہی تھی جانتی جو تھی کہ انکی معصوم بیٹی اپنے رشتوں کے معاملے میں کافی حساس تھی ۔۔
ماما آپ فکر ناں کریں میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔۔!" انکے ہاتھ پر بوسہ دیے اوزگل نے محبت سے کہا تھا فرخندہ بیگم مسکراتے اسے اپنے سینے سے لگا گئی۔۔۔
*************
اترو نیچے______!" اصلال کے اچانک کہنے پر وہ چونکتے ہوش میں آتے گاڑی سے اتری ۔ معا وہ اسے تھامتا اچانک سے اسکا فون پھر سے رنگ ہوا تھا ۔۔۔ اصلال نے دانت پیستے خود پر ضبط کیا ۔۔۔۔ عبادت بنا کسی تاثر کے چلتے اندر کی جانب بڑھی تھی ، اصلال نے ایک نظر عبادت کو دیکھ فون نکالا تو سامنے ہی امل کا نمبر دیکھ وہ چونکا تھا ۔۔ اچانک اسکی کال ، اسے کسی گڑبڑ کا اندیشہ ہوا ،اصلال نے جلدی سے کال پک کی۔۔ ہلیو ____' اسکے چہرے پر اضطراب پھیلا تھا انگ انگ سے بے چینی واضح تھی۔۔
" اگلے آدھے گھنٹے میں تم مجھ سے ملنے ناں آئے تو اصلال میری موت کے ذمہ دار تم ہو گے_____!"
امل کا۔رندھی آواز میں کہا جملہ اسے ہلا کے رکھ گیا ۔بکواس بند کرو کیا کہہ رہی ہو یہ تم امل۔۔۔۔۔۔۔" اسکی بیوقوفانہ بات پر اسے شدید طیش آیا تھا ۔۔۔ جبھی وہ غصے سے اونچی آواز میں بولا۔۔ عبادت نے بغور سنا تھا امل کا نام ۔۔۔۔۔۔ اسکے ہونٹوں پر ایک عجیب سی بے معنی مسکراہٹ بکھری وہ سر جھٹکتے اپنا ایک ہاتھ دیوار پر رکھے سہارے سے بمشکل سے اندر کی جانب بڑھی تھی ۔۔
میں جو کہہ رہی ہوں اسے سچ کر دکھاوں گی اصلال اگر تم میرے پاس ابھی اور اسی وقت ناں آئے ۔۔۔۔۔۔
امل نے کہتے ساتھ ہی کال کٹ کی تھی ۔۔۔۔۔ اصلال نے دانت پیستے غصے سے موبائل کو گھورتے اپنے ۔ہاتھ کا مکہ بنائے گاڑی کے بونٹ پر دے مارا ۔
**************
گل ________!" اوزگل جو کہ ابھی ابھی کالج سے باہر نکلی تھی ایک دم سے پیچھے سے آتی اشکان کی آواز سنتے اسنے بیگ پر اپنے ہاتھ کی گرفت مضبوط کی ، اور تیزی سے قدم لیے وہ آگے کی جانب بڑھنے لگی۔۔۔ اشکان نے حیرت سے اسے دیکھا جو اسکے پکارنے پر بھی نہیں رکی تھی۔۔
گل یار ویٹ کہاں جا رہی ہو ____!اشکان بھاگتے اسکے قریب ہوا تو گل نے آنکھیں میچتے خود کو کچھ سخت کہنے سے روکا ، مجھے گھر جانا۔ ہے اشکان راستہ چھوڑو____ اوزگل بنا اسکی جانب دیکھ کہتے وہاں سے جانے لگی کہ اشکان نے جلدی سے اسکا ہاتھ تھاما، اوزگل نے حیرت سے مڑتے اسے گھورا ۔۔ اور پھر اپنے ہاتھ کو ابھی تک اسکے ہاتھ میں تھا ۔۔
چھوڑ دوں گا پہلے بات سن لو میری ۔۔۔۔۔ اسکا لہجہ التجائیہ تھا اوزگل نے سرد سانس فضا کے سپرد کیے قدم روکتے اسے دیکھا۔۔ بولو میں سن رہی ہوں_____"
وہ سنجیدگی سے کہتے اپنا ہاتھ چھڑائے سینے پر باندھ گئی ۔۔ گل تم ایسے ری ایکٹ مت کرو یار ہم اچھے دوست بھی تو ہیں۔۔۔ اسکا یوں بے تاثر لہجے میں سنجیدگی سے کہنا اشکان کو چھبا تھا جبھی وہ بولے بنا ناں رہ سکا ۔۔۔۔ تو کیسے ری ایکٹ کروں اشکان ۔۔۔۔۔ ارے واو اشکان تم۔کیسے ہو میں تو کب سے سوچ رہی تھی کہ تم مجھ سے ملنے نہیں آئے۔۔ یو نو وٹ جیسے تم نے میرے ساتھ دھوکے سے نکاح کیا میں تو بہت خوش ہوئی ہوں یقین جانو میرا انگ انگ خوشی سے مسرور ہے ۔۔۔ " سٹاپ اِٹ یار ۔۔۔۔ اوزگل کے طنز کرنے پر اشکان نے جھنجھلاتے ہوئے کہا ، اچھا تمہیں سنتے ہی اتنا دکھ لگا ہے اور میرا کیا جس کے اوپر یہ سب کچھ بیتا ہے سہا ہے میں نے یہ سب۔۔۔۔۔ " اوزگل کی آنکھوں میں نا چاہتے ہوئے بھی نمی آئی تھی۔۔ وہ مضبوط نہیں تھی کبھی بھی وہ تو لاڈوں میں پلی اپنے ماں باپ کے آنگن کی اکلوتی چہچہاتی چڑیا تھی جس کے دم سے اسکے ماں باپ کی سانسیں تھیں۔۔ جس میں انکی سانس اٹکی رہتی تھی۔۔۔
گل پلیز مجھے ایک بار مؤقع دو اپنی بات کہنے کا پلیز۔۔۔۔۔اسکے بعد میں کبھی بھی تمہیں تنگ نہیں کروں گا کچھ بھی نہیں کہوں گا پلیز_____؛ اشکان ایک دم سے اسکے قریب ہوا ،۔۔ گل کے نازک ہاتھ کو تھامے وہ التجائیہ بےبسی سے بولا تھا
۔۔وہ صبح سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔ کتنے دنوں سے اسے انتظار تھا کہ وہ کب کالج آئے گی تاکہ وہ اسکی بدگمانیوں کو اپنی طرف سے ختم کر سکے۔۔۔
مجھے کوئی بھی صفائی نہیں چاہیے کیونکہ مجھے تم سے کوئی بھی غرض نہیں اب تم جا سکتے ہو۔۔۔۔" اوزگل نے بے لچک لہجے میں کہا تھا اشکان نے بےبسی سے اپنے بالوں کو نوچا ۔۔۔۔ یارررررر ہماری دوستی کی خاطر زیادہ وقت نہیں لوں گا پلیز صرف ایک بار۔۔۔۔۔"
اشکان کا لہجہ منت بھرا تھا اوزگل نے اسکی آنکھوں میں دیکھ سرد سانس فضا کے سپرد کیا۔۔۔۔ٹھیک ہے مگر صرف کچھ وقت کیلیے۔۔۔۔اس کے بعد تم مجھے روکو گے نہیں۔۔۔۔ " ٹھیک ہے چلو پھر۔۔۔۔ " وہ اسے ساتھ لئے گاڑی کی جانب بڑھنے لگا ۔۔۔۔ایک منٹ ہم یہیں بات کریں گے گاڑی میں نہیں۔۔۔۔۔ اوزگل کو اب عجیب سے لگ رہا تھا اسکے ساتھ اکیلے جانا ۔۔۔۔۔ نئے رشتے کی عجیب کشمکش تھی اسکے اندر۔۔۔۔۔
یہ وقت تم نے مجھے دیا ہے اور اب تم کچھ بھی نہیں کہو گی اعتبار رکھو مجھ پر______" اشکان نے مضبوط لہجے میں کہا تھا جیسے اسے یقین تھا کہ ابکی بار وہ مان جائے گی۔۔۔۔اوزگل دانت پیستے گاڑی کی جانب بڑھی تھی جبکہ اشکان مسکرا رہا تھا اسے یقین تھا کہ وہ اوزگل کو اپنی محبت کا یقین دلا لے گا۔۔
*************
وہ تیزی سے گاڑی بھگاتا امل کے گھر پہنچا تھا دل میں کہیں ناں کہیں ندامت بھی تھی کہ جو بھی ہوا اس میں غلطی اصلال۔کی اپنی تھی۔۔۔ مگر فل وقت وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ امل اپنی بے وقوفی کی وجہ سے کوئی غلط قدم اٹھائے۔۔۔۔ گاڑی جھٹکے سے گیٹ کے باہر رکی تھی ۔۔۔۔اصلال تیزی سے ڈور کھولے باہر آیا ۔۔۔۔ اور بھاگتے اندر گیا۔۔۔املللل۔۔۔۔۔ وہ جیسے ہی اندر داخل ہوتے امل کے کمرے میں گیا سامنے ہی اسے چاقو ہاتھ پر رکھے روتا پاتے اصلال غصے سے چیخا تھا
بببب بیٹا اصلال میری بچی کو بچا لو پہ پلیز۔۔۔۔۔ نازیہ بیگم روتے اسکے آگے ہاتھ جوڑے بولی جبکہ اصلال کا غصہ آؤٹ آف کنٹرول ہو رہا تھا ۔۔۔۔ امل آئی سیڈ لیو اٹ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ غصے سے چیختے اونچی آواز میں غرایا ۔۔۔۔۔ امل نے بھیگی نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔کتنی چاہ تھی اسے اس حسین مرد کو اپنی دسترس میں کرتے دنیا کو جلانے کی ۔۔۔۔ مگر وہ تو خود ہی اپنے آپ کو کسی دوسرے کے مقدر میں لکھ چکا تھا۔۔
نہیں ااا اسیے نننن نہیں ۔۔۔۔ تم طلاق دو گے ابھی کے ابھی عبادت کو تبھی میں اسے پھینکو گی۔۔۔۔ امل نے روتے ہوئے کہا تھا اسے لگا تھا کہ اسکے جانے کے بعد وہ پاگلوں کی طرح اسکے پیچھے آئے گا مگر وہ تو جیسے بھول ہی گیا تھا اسے ۔۔۔۔۔ جبھی اج اسنے اتنا بڑا قدم اٹھایا تھا۔۔۔
تم ابھی کے ابھی طلاق دو گے عبادت کو اصلال بولو دو گے طلاق یا نہیں۔۔۔۔ اپنی سرمئی آنکھوں میں نفرت کی سرخی ، رت جگے کے سرخ ڈورے لئے وہ اپنی کلائی پر رکھے چاقو کا دباؤ بڑھاتے بولی۔۔۔۔
اسٹاپ اِٹ امل ۔۔۔۔۔۔ پھینکو اسے نیچے ۔۔۔۔۔۔" اصلال نے غراتے لہجے میں کہتے قدم اسکی جانب بڑھائے مگر اسے قریب آتا دیکھ امل ایک دم سے پیچھے ہوئی۔۔۔۔۔
تم اگر میرے نہیں ہوئے تو پھر اس عبادت کے کیسے ہو گئے۔۔۔۔محبت کرتے تھے تم مجھ سے۔۔۔۔۔" امل نے بے بسی سے آہ بھرتے کہا اسکا چہرہ آنسوں سے تر تھا ۔۔ جبکہ نازیہ بیگم اپنی بیٹی کی حالت پر تڑپ اٹھی تھیں۔۔
دماغ ٹھکانے لگاؤ اپنا امل میں نے کبھی تم سے محبت کا اظہار نہیں کیا کیونکہ مجھے تم سے محبت نہیں تھی میں نے بارہا کہا تم سے کہ میں تمہیں پسند کرتا ہوں ایک لائف پاٹنر کے طور پر کیونکہ ہم دونوں ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔۔"میں نے کبھی کوئی محبت کا دعویٰ نہیں کیا ۔۔۔۔۔
اصلال نے مٹھیاں بھینجتے غصے سے سرخ پڑتے چہرے سے اسے دیکھتے کہا۔۔
تو کیا پسند کرنا محبت کرنا نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔ میں تو کرتی ہوں محبت تم سے یہ کیسا قانون ہوا کہ مجھے اتنے برس اپنی محبت کا چھلاوہ دے کر تم آج خوشی خوشی اس عبادت کو قبول کر بیٹھے۔۔۔۔ جب میں نے تمہیں اس سے دور رہنے کا کہا تب تم نے کہا کہ میرے لئے وہ بہن جیسی ہے اب کیسے اس پر دل آ گیا۔۔۔۔۔۔امل کے لہجے میں زہر تھا۔۔۔۔ عبادت کا سوچتے ہی اسے بے تحاشہ نفرت سی ہونے لگتی تھی اور اب بھی ایسا ہی تھا۔۔۔۔
بہن جیسی تھی بہن تھی تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔میرا کوئی سگا رشتہ نہیں تھا اس سے ۔۔۔۔۔۔ میں نے کبھی اسے اس نظریے سے نہیں دیکھا مگر اب سوچتا ہوں کہ بہت غلط کیا مجھے پہلے ہی اپنے دل کو عبادت کی طرف لگانا چاہیے تھا ۔۔۔۔ جو بلکل میری ہر خواہش پر پورا اترتی ہے۔۔۔۔
اصلال نے بنا توقف کے کہا تھا کیونکہ وہ کسی بھی طرح کا کوئی بھی جھوٹ یا فریب نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔ وہ پھر سے اسے کسی جھوٹی آس میں نہیں رکھ سکتا تھا جس سے آگے جاتے ان تینوں کی زندگی برباد ہوتی ۔۔۔۔
تو پھر ٹھیک ہے کیوں آئے مجھے بچانے رہتے اس عبادت کے پاس ۔۔۔۔اگر تم مجھے نہیں ملے تو پھر میرا جینے کا کوئی مقصد نہیں۔۔۔
وہ سرخ لال انگارہ ہوئی نظروں سے اصلال کو دیکھے ایک دم سے چیختے چاقو کو تیزی سے اپنی کلائی پر پھیر چکی تھی۔۔۔
خون کا ایک پھوارا تھا جو ایک دم سے بہتے پورے فرش کو لہو لہان کر رہا تھا۔۔۔۔
املللللل_______' اصلال ایک دم سے چیختے اسکے بے جان ہوتے وجود کی جانب بھاگا
**************
عبادت میری بچی کیا ہوا ہے تم اکیلے کیسے اصلال کہاں ہے۔۔۔۔؟" نضحت بیگم جو کہ ابھی سیڑھیاں اترتے کچن کی جانب بڑھی تھی کہ اچانک سے گیٹ سے اندر آتی دیوار کے سہارے کھڑی عبادت کو دیکھ گھبراتے اسکے قریب ہوئی ۔۔۔
ممم ماما مجھے روم میں لے چلیں_____!" اپنے گلے میں اٹکتے آنسوں کے گولے کو نگلتے وہ نم لہجے میں بولی تو نضحت بیگم اسکے کندھوں کے گرد اپنا مضبوط حصار بنائے اسے تھامے اسکے کمرے کی جانب لے جانے لگی۔۔۔۔۔ بیٹا اصلال کہاں گیا وہ کیوں نہیں آیا اندر۔۔۔۔۔۔" نضحت بیگم نے پریشانی سے استفسار کیا بھلا وہ ایسے باہر ہی عبادت کو چھوڑتے کہاں گیا ہو گا۔۔۔۔
ماما امل کی کال تھی مجھ سے زیادہ انکے لئے وہ ضروری ہے اسی کے پاس گئے ہونگے۔۔۔۔ عبادت نے مسکراتے نضحت بیگم کو بتایا جو سنتے ہی ایک دم سے حیرت زدہ سی رہ گئی۔۔۔۔ اصلال امل سے ملنے کیوں گیا کیا ابھی بھی اسکے دل میں امل تھی۔۔۔۔۔" ایک ساتھ جانے کتنے ہی سوال تھے جو انکے دل و دماغ پر حاوی ہوئے۔۔۔
تم کدھر جا رہی ہو عبادت طبیعت ٹھیک نہیں یہاں آؤ واپس۔۔۔۔۔ وہ ہوش میں آتے عبادت کو ڈریس تھامے واشروم کی جانب بڑھتا دیکھ بھاگتے اسکے قریب ہوئیں۔۔۔ نہیں ماما مجھے شاور لینا ہے بعد میں ریسٹ کروں گی۔۔۔۔۔ اپنا ہاتھ انکی گرفت سے نکالتے وہ اکتاہٹ بھرے لہجے میں بولی ۔۔۔
بیٹا بخار ہے اتنا تیز ابھی شاور لو گے تو طبیعت مزید بگڑ جائے گی ابھی ریسٹ کرو بعد میں شاور لے لینا۔۔۔۔ " اسکے چہرے پر آتی سنہری لٹوں کو پیچھے کرتے نضحت بیگم نے محبت سے کہتے اسکی آگ کی مانند دہکتی پیشانی پر ہونٹ رکھے۔۔۔
نہیں ماما مجھے ابھی شاور لینا ہے ان کپڑوں میں سے اور اپنے وجود میں سے مجھے اصلال عالم کی خوشبو محسوس ہو رہی ہے ۔۔۔۔ ایسے مجھے سکون کی نیند نہیں آئے گی ۔۔۔۔میں ابھی شاور لے کر آتی ہوں۔۔۔۔۔
وہ نضحت بیگم کے کندھوں۔ کو تھامے ان سے پیچھے ہوتے بولی تو نضحت بیگم اسکے لفظوں کی گہرائی پر حیران سی رہ گئی تھی۔۔۔۔ توکیا ہر بات کو مذاق سمجھنے والی انکی عبادت اتنی بڑی ہو گئی تھی کہ اسے ان سب باتوں کا علم۔ہونے لگا تھا۔۔۔۔۔
وہ جانتی تھی کہ عبادت اندر سے ٹوٹی تھی ۔۔۔۔ اور یہ سب کچھ اصلال کی وجہ سے ہوا تھا۔۔۔۔۔ وہ اصلال سے کھل کر اس بابت سوال کرنے کا اردہ بنائے عبادت کیلئے سوپ بنانے کا سوچ کمرے سے باہر نکلی۔۔۔۔
*************
یہ کہاں لے آئے ہو تم مجھے اشکان۔۔۔۔۔اوزگل نے حیرت سے کھڑکی سے باہر کی جانب دیکھ استفسار کیا ۔۔۔۔ تو اشکان نے مسکراتے اپنی آنکھوں سے سن گلاسز اتارتے اسے دیکھا۔۔۔۔
خوشبو۔۔۔۔۔ وہ جھکتے اسکے قریب ہوا ۔۔۔۔ اور گہرا سانس اسکی مدہوش کرتی خوشبو میں بھرے وہ مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔۔ اوزگل ایک دم سے گھبراتے سیٹ کی پشت سے جا لگی۔۔۔۔ اشکان کا یوں قریب آنا اسکی
سانسیں روک رہا تھا۔۔۔۔۔ اوزگل نے اپنی جھیل سی گہری آنکھوں سے اشکان کے خوبرو چہرے کو دیکھا ۔۔۔ جو نک سک سا تیار اس وقت سکائے بلیو کلر کی شرٹ میں ملبوس ایک ہاتھ میں برینڈڈ واچ پہنے گہری شربتی آنکھوں میں محبت کا خمار لیے، اپنے ہونٹوں پر دلکش سے مسکراہٹ لیے بے حد حسین دکھ رہا تھا۔۔
اوزگل نے ایک دم سے نظریں چرائیں۔۔۔۔ ویٹ"_____اوزگل کو گھبراتا دیکھ وہ جلدی سے باہر نکلا تھا اور اوزگل کی جانب کا دروازہ کھولے اسنے ہاتھ اسکی جانب بڑھایا۔۔۔
اوزگل نے گھورتے اسکے ہاتھ کو دیکھا اور پھر گہرا سانس لیے اپنا نازک دودھیا ہاتھ اسکے چوڑے سرخ ہاتھ پہ رکھا۔۔۔۔
اوزگل مبہوت سی اس جگہ کو دیکھ رہی تھی اسکی آنکھوں میں قدرت کی اس خوبصورتی پر رشک تھا۔۔۔ ایک الگ ہی لو دیتی چمک تھی ۔۔۔ اشکان اسکے مبہوت ہونے پر دھیمے سے مسکراتے اسے ساتھ لیے ایک جانب بڑھا ۔۔۔۔
اوزگل نے کسی خواب کی مانند اس خوبصورت جگہ کو دیکھا۔۔۔۔
جہاں ساحل سمندر کے کنارے وہ ریت سے تھوڑا دور کھڑے تھے۔۔۔۔ ماحول میں پھیلی سرخ گلاب کی خوشبو اس قدر محسور کن تھی کہ اوزگل کے حواس جھنجھلانے لگے۔۔۔۔ ویٹ ۔۔۔۔ اوزگل جو مبہوت سی ان سرخ گلابوں کے بنے رستے کو مبہوت نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ ایک دم سے اشکان نے اسے روکا۔۔۔۔اوزگل جو اس خوبصورت ماحول میں کھوئی تھی اس نے بمشکل سے گردن گھمائے اشکان کو دیکھا ۔۔۔۔اشکان نیچے بیٹھے اسکے پاؤں کو جوتے سے آزاد کرنے لگا ۔۔۔کہ اوزگل نے قدم پیچھے لیے۔۔۔ گھبراؤ مت کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔وہ اسکا گریز سمجھتے شرارت سے بولا تو اوزگل نے نظریں پھر سے پھیر لیں۔۔۔۔
اشکان محبت سے اسکے دونوں پاؤں کو جوتے سے آزاد کیے کھڑا ہوا۔۔۔۔۔اود اسکے ہاتھ کو تھامے آگے بڑھا۔۔۔۔۔ اوزگل نے دھڑکتے دل سے اپنے قدم ان سرخ پھولوں کی پتیوں پر رکھے۔۔۔اسکے حسین چہرے پر مسکراہٹ تھی۔۔ تھوڑی دیر پہلے چھائی افسردگی کہیں دور جا سوئی تھی۔۔۔۔
ایک دم سے اوپر سے برستے گلاب اوزگل کو حیران کر گئے وہ کھلکھلاتے ان سرخ پھولوں پر گھمومتے وہ بے تحاشہ خوش تھی ۔۔۔۔ اشکان مسکراتے اسکی حسین چہرے کو والہانہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ جو خود کو اس خوشبو میں خوش محسوس کر رہی تھی۔۔۔
مگر اشکان صدیقی کے لئے اسکے بالوں کی خوشبو جان لیوا تھی۔۔۔۔۔ وہ اپنی سوچ پر سر جھٹکتے مسکرایا اور نرمی سے اسکا ہاتھ تھامے وہ اسے ساتھ لیے آگے بڑھا۔۔۔
اسے یہ سب کچھ ایک خواب سا محسوس ہو رہا تھا اوزگل کسی تتلی کی طرح ان پھولوں پر چلتے کھلکھلا رہی تھی جیسے وہ ان ہواؤں میں بکھری جان لیوا مدہوش کن خوشبو کے ساتھ ہی اڑ جانا چاہتی ہو۔۔۔۔۔ اشکان اپنے ہاتھ میں موجود اسکے نازک ہاتھ کی مومی نرم و ملائم انگلیوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ اسکا دل اسے کسی گستاخی پر اکسا رہا تھا مگر وہ ایسا کچھ بھی کر کے گل کو پھر سے خود سے دور نہیں کر سکتا تھا۔۔۔وہ دونوں پھولوں کے بنے اس راستے سے ہوتے آگے آئے تو سامنے صحرا سمندر کی ٹھنڈی ریت تھی جس پر پاؤں رکھتے ہی ایک الگ سا سرور تھا جو اسکے رگ و پے میں سرایت کر گیا۔۔
تمہیں پتہ ہے گل یہ جگہ میری فیورٹ کیوں ہے ۔۔۔۔۔؟" اوزگل کے چہرے پر لپٹے خجاب کو اپنے ہاتھ سے کھولتے وہ مسکراتا پوچھ رہا تھا۔۔۔اوزگل نے جھٹ سے اسکے ہاتھ پر اپنا نازک ہاتھ رکھتے اسے روکا ۔۔۔ یار محرم ہوں اب تمہارا ۔۔۔۔ مجھ سے پردہ لازم نہیں۔۔۔۔" وہ مسکراتے شرارت سے بولا تو اوزگل کی جھٹ سے گردن جھکا لی۔۔
یہ جگہ اس لیے میری خاص ہے کیونکہ اس جگہ اس فضا میں سے مجھے تمہاری خوشبو محسوس ہوتی ہے میں جب بھی یہاں آتا ہو۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے تم میرے قریب ہو بے حد پاس۔۔۔۔ اوزگل کے خجاب کو کھولتے وہ مسکرا رہا تھا جبکہ اوزگل تو اسکی بات سے چونک سی گئی۔۔۔ کیا یہ شخص پاگل تھا یا پھر کیا وہ سچ میں اس حد تک دیوانہ تھا اسکا۔۔۔۔۔ میری باتوں کو مذاق مت سمجھنا۔۔۔کیونکہ میری ہر بات تم سے شروع اور تم پر ختم ہوتی ہے۔۔۔۔ اشکان نے جھٹکے سے اسکے بالوں میں ہاتھ پھنسائے انہیں کیچر سے آزاد کیا تو اوزگل کی سیاہ ریشمی زلفیں جھٹ سے اشکان کے چہرے پر لہرانے لگی ۔۔۔۔
اشکان آنکھیں موندے ان زلفیں کی خوشبو کو اپنی سانسوں میں اتار رہا تھا ۔۔ کیا سرور تھا ایک الگ نشہ تھا جو آج تک کسی بھی ڈرگز میں نہیں تھا دنیا کی ہر خوشبو ان گیسوں کی خوشبو کے سامنے بے معنی تھی اشکان صدیقی کیلئے۔۔۔ اششش اشکان اوزگل نے گھبراتے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے پکارا تو اشکان پیچھے ہوئے اسکی بند آنکھوں کو دیکھنے لگا ۔۔۔
چلو آؤ تمہیں کچھ دکھانا ہے۔۔۔۔ اوزگل کے خجاب کو اسکی گردن کے گرد لپٹائے وہ پھر سے اسکا ہاتھ تھام چکا تھا اوزگل تو حیران تھی کہ آخر یہ شخص چاہتا کیا تھا۔۔ وہ آج اسے جھٹکے پر جھٹکا دے رہا تھا۔۔۔
اشکان اسے ساتھ لئے ایک جانب بڑھا جہاں خوبصورتی سے گھنے درخت کی چھاؤں تلے دو کرسیاں اور میز سجایا گیا تھا چاروں اطراف مصنوعی پلرز رکھے گئے تھے جس کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔۔۔
اشکان نے آگے بڑھتے چئیر پیچھے کیے اسے بیٹھنے کا کہا تو اوزگل اسے دیکھ جگہ پر بیٹھی۔۔۔ اوزگل میں جانتا ہوں کہ میں نے جو کچھ بھی کیا وہ غلط تھا مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا مگر یہ سب کچھ میں نے تمہیں کھو دینے کے خوف سے کیا تھا میرا ارادہ تمہیں تکلیف دینے کا ہرگز بھی نہیں تھا اور ناں ہی مجھے یہ علم تھا کہ ماما پاپا نے جھوٹ بول کر تمہیں فورس کیا ہے ایم سوری تمہیں ہرٹ کیا میں نے ۔۔۔۔" اشکان نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے کہا تو اوزگل سوچ میں پڑی ۔۔۔
اشکان ہم اچھے دوست تھے ہیں اور رہیں گے اس سے زیادہ میں اس رشتے کو کوئی بھی نام نہیں دے سکتی ابھی۔۔۔" اوزگل نے ایک دم سے سچ بولا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ کسی بھی قسم کا جھوٹ بول کر وہ اشکان کو کوئی جھوٹی امید لگائے۔۔۔۔ مگر اوزگل۔۔۔۔ " اشکان نے اسے سمجھانا چاہا تھا مگر گل اس وقت کچھ بھی سننا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ ہم اس بارے میں اب بات نہیں کریں گے ۔۔۔اوزگل نے حتمی لہجے میں کہتے اسے مزید بولنے سے روک دیا ۔۔۔۔
****************
اسلم گاری پارک کرو۔۔۔۔ گاڑی کی چابی دور سے اسلم کینجانب اچھالتے وہ تھکا ہارا سا ملگجے حلیے میں اندر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ آج دو دن کے بعد وہ گھر لوٹا تھا اسلم آج پہلی بار اسے اس قدر گندے حلیے میں دیکھ حیران۔ رہ گیا وہ جانتا تھا کہ اصلال کس حد تک نفاست پسند تھا مگر پھر وہ کچھ ناں سمجھ آنے پر کندھے اچکاتے گاڑی پارک کرنے لگا۔۔
اسلام علیکم ماما۔۔۔۔۔۔" اصلال جانتا تھا کہ رات کے آٹھ بجے تک نضحت بیگم کے علاؤہ سبھی اپنے اپنے کمروں میں ہوتے تھے ۔۔۔ نضخت بیگم جو کہ کچن کا پھیلاوا سمیٹ رہی تھی اصلال کی آواز پر چونکتے وہ حیرت سے مڑی۔۔۔۔ اصلال بچے یہ کیا حال بنایا ہوا ہے کہاں تھے تم دو دن سے۔۔۔۔وہ متفکر سی ہوتے اسکے قریب گئی اور ہاتھ اسکے کندھے پر رکھتے پوچھا۔۔
ماما کچھ نہیں بس کچھ کام تھا تو اس وجہ سے دو دن تک گھر بھی نہیں آ سکا۔۔۔۔۔" وہ نظریں چراتے بولا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ امل کی اس حرکت کی بابت وہ جان کر مزید افسردہ ہوتی۔۔
اصلال مجھے تم سے بات کرنی ہے یہاں بیٹھو۔۔۔۔" نضخت بیگم کو اسکا جھوٹ بولنا اچھا نہیں لگا جبھی انہوں نے خود سے بات کرنے کا سوچا ۔۔۔ جی ماما کہیں میں سن رہا ہوں۔۔۔۔" اصلال بغور انکی جانب متوجہ تھا ۔۔۔۔۔
بیٹا تم امل سے ملنے گئی تھے یہ میں جانتی ہوں ۔۔۔۔۔۔ اگر تم اسے پسند کرتے تھے تو پھر تمہیں پہلے ہی سٹینڈ لینا چاہیے تھا ۔۔۔۔۔ اس طرح سے چوری چھپے امل سے ملنا ۔۔۔اس سے تم اپنی عبادت اور امل تینوں کی زندگی برباد کر رہے ہو ۔۔۔۔اصلال نے سنتے مٹھیاں بھینچ لیں۔۔۔
دیکھو بیٹا میں جب بیاہ کر آئی تھی تو تب تمہیں میری گود میں ڈالا گیا میں نے ایک ماں کی طرح تمہاری پرورش کی ہے تم بیٹے ہو میرے مگر عبادت بھی میری اکلوتی بیٹی ہے۔۔۔۔۔ تم جانتے ہو کہ یوں اچانک سے نکاح اسکے لئے کسی شاک سے کم نہیں ۔۔۔۔۔ وہ خود بھی یہ نکاح نہیں کرنا چاہتی تھی مگر میں نے اسے فورس کیا۔۔۔۔۔۔"
میں نہیں چاہتی کہ تم دونوں کے رشتے میں کوئی بھی بدگمانی پیدا ہو جس سے تمہارا رشتہ مزید بگڑ جائے ۔۔۔۔اسی لئے ایک ماں ہونے کے ناطے سمجھا رہی ہوں۔۔۔۔ " اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے وہ محبت سے اسے سمجھا رہی تھی جو خاموشی سے سر جھکائے سن رہا تھا۔۔۔۔ عبادت پرسںوں سے چپ چاپ سی ہو گئی ہے بلکل بات نہیں کرتی ۔۔۔ اسنے مجھے یہاں تک کہا ہے کہ اصلال سے بولیں کہ مجھے چھوڑ کر امل سے شادی کر لیں ۔۔۔"
ماما ڈونٹ وری وہ پاگل ہے آپ اسکی باتوں کو سئرئیس مت لیا کریں اور چھوڑنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔۔ اپ بے فکر رہیں ایسا کچھ بھی نہیں۔۔۔ دراصل پرسںوں جب میں عبادت کو لے کر آ رہا تھا تو امل کی کال آئی تھی اس بےوقوف لڑکی نے اپنا ہاتھ کاٹ لیا تھا اور اسی وجہ سے مجھے دو دن ہاسپٹل میں رکنا پڑا ۔۔ میں آپکو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اسی لئے نہیں بتایا ۔۔۔۔ عبادت میری بیوی ہے اور مجھے اب امل سے کوئی غرض نہیں اعتبار رکھیں اپنی پرورش پر ۔۔۔۔۔ اصلال نے نضخت بیگم کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے کہا تو وہ پہلے تو امل کا۔سن کر گھبرائی مگر اصلال کے آخری جملے پر وہ دل سے خوش ہوئ تھیں۔۔
مجھے خود سے بھی زیادہ اعتبار ہے تم پر میرے بچے جگ جگ جیو اپنا خیال رکھو۔۔۔۔۔۔ "
تم بیٹھو میں ابھی تمہارے کپڑے پریس کر کے لاتی ہوں ۔۔۔اسکے بعد تم۔فرہش ہو کے کھانا کھانا۔۔۔۔ "
وہ کہتے ساتھ ہی اٹھنے لگی تو اصلال نے انکا ہاتھ تھاما۔۔۔۔اپ جانتی ہیں کہ میں عبادت کے پریس کیے کپڑے پہنتا ہوں تو پلیز آپ اسے بھیج دیں میرے کپڑے پریس کر دے اور پھر بعد میں۔کھانا کھاوں گا۔۔۔۔۔۔ وہ جگہ سے اٹھتے بولا ۔۔۔۔ مگر بیٹا عبادت تو۔۔۔۔۔۔ کوئی اگر مگر نہیں آپ بھیجیں اسے ۔۔۔۔ میری بیوی ہے وہ اور اسکا فرض ہے میرے کام کرنا۔۔۔۔۔۔٫
اصلال انکی پیشانی پر بوسہ دیے اپنے گھر کی جانب نکلا تھا ۔۔
******************
کہاں تھی تم گل آج اتنا لیٹ کیوں آئی ۔۔۔۔۔۔؟" فرخندہ بیگم جو کب سے اوزگل کا انتطار کر رہی تھی اسے آتا دیکھ وہ ترچھی نگاہوں سے اسکا سر تا پاؤں جائزہ لیتے بولی ۔۔۔۔۔ ماما اشکان آیا تھا تو اس وجہ سے اسکے ساتھ تھی ۔۔۔۔۔وہ جھوٹ نہیں بولتی تھی کبھی بھی ۔۔۔۔ جو بات ہوتی وہ سچ کہنے کو ترجیح دیتی تھی۔۔
اشکان کے ساتھ۔۔۔ وہ کیوں آیا تھا کیا کہا اسنے۔۔۔۔۔" فرخندہ بیگم نے حیرت سے اسکے قریب جاتے پوچھا۔۔۔کچھ خاص نہیں بس معافی مانگنے آیا تھا کہ جو کچھ بھی ہوا وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔۔۔۔۔ ماما مجھے ریسٹ کرنی ہے ابھی میں بعد میں بات کروں گی ۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ فرخندہ کوئی اور سوال پوچھتی گل انہیں جواب دیے تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔۔
اپنی بکس کو سٹڈی ٹیبل پر رکھے وہ شاور لینے گئی۔۔۔ ڈارک چاکلیٹ کلر کے خوبصورت سوٹ میں ملبوس اپنے سیاہ گھنے بالوں کو خشک کرتے باہر آئی۔اور ڈریسنگ ٹیبل سے ڈرائیر اٹھائے بالوں کو۔خشک کرنے لگی معا اسکا فون رنگ ہوا۔۔۔۔
اوزگل نے مڑتے بیڈ پر پڑے اپنے فون کو دیکھا اور چلتے بیڈ کے قریب گئی ۔۔۔ اشکان کالنگ دیکھ اسنے منہ بنائے موبائل دوبارہ سے رکھ دیا۔۔ کہ ساتھ ہی فون پھر سے بجنے لگا۔۔۔۔ اوازگل نے جھنجھلاتے ہوئے فون کو اٹھایا ۔۔۔ بولو کیا کام ہے۔۔۔۔؟"فون اٹھائے کان سے لگاتی وہ خاصے تپے لہجے میں پوچھنے لگی۔۔
کیوں میں صرف کسی کام کیلئے کال۔کر سکتا ہوں۔۔۔۔ ؟" اشکان نے ایبرو اچکاتے کھڑکی سے باہر دیکھ پوچھا۔۔۔ اوزگل نے سنتے سرد سانس اپنے اندر کھینچا۔۔۔ ہاں کیونکہ میرے پاس اتنا فضول وقت نہیں جو ہر وقت تم سے ہی باتیں کرتی رہوں۔۔ "
اوزگل نے بنا کسی تردد کے کہا تھا اور چلتے ڈریسنگ مرر کے سامنے گئی۔۔۔۔۔ میں شوہر ہوں تمہارا گل ٫ آج کے بعد ایک ہی بیل میں کال پک کر لینا ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔۔وہ۔جبڑے بھینجتے اسے وارن کر رہا تھا ابھی وہ اسے کتنا۔سمجھا کے آیا تھا مگر اوزگل ایک ہی بات پر قائم تھی کہ ہم صرف اچھے دوست ہیں اسکے سوا اور کچھ بھی نہیں۔۔۔
مجھے ابھی سونا ہے اشکان بعد میں بات کروں گی وہ بنا اسکی بات کا جواب دیے کہتے ساتھ ہی کال کٹ کر گئی۔۔۔۔ جبکہ اشکان نے آنکھیں موندے اپنے غصے کو قابو کرنے کی کوشش کی۔۔
**************
عبادت کو سبق چھکانے کا سوچتا وہ جبڑے بھینجتے اپنے روم میں داخل ہوا تھا اور صوفے پر پھیلتے بیٹھ وہ عبادت کے آنے کا۔انتظار کرنے لگا۔۔۔۔ اسکے سمجھانے کے باوجود بھی عبادت اسے ہلکے میں لے رہی تھی اور یہ بات اصلال عالم کو بلکل بھی پسند نہیں تھی۔
وہ صوفے پر پھیلتے بیٹھ اپنے دونوں پاؤں میز پر رکھتے سگریٹ نکال چکا تھا ۔۔ بہت کم وہ سگریٹ پیتا تھا ۔۔۔ جب اسکا دماغ گھوم جاتا تو اس وقت خود کو سکون دینے کا طریقہ سگریٹ نوشی سے نکال رکھا تھا اسنے۔۔۔اور عبادت کے علاؤہ اسکی فیملی اس بات سے ابھی تک ناواقف تھی کہ اصلال عالم سگریٹ پیتا تھا۔۔۔
وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھا جب دروازے پر دستک ہوئی اصلال نے کش لگائے مڑتے دروازے کو دیکھا ۔۔۔ جہاں عبادت نظریں جھکائے کھڑی تھی۔۔۔
ہممممم آ جاو۔۔۔۔۔۔اسنے بھاری لہجے میں کہتے عبادت کا سانس خشک کیا وہ تھوک نگلتے اندر آئی تھی۔۔۔۔۔ پورا وجود کپکپا رہا تھا۔۔۔۔عبادت سٹڈی کر رہی تھی جب نضحت بیگم نے اسے ڈانٹتے سب بتایا تھا اور پھر اسے غصے سے بڑے گھر بھیجا چونکہ گھر ایک ساتھ جڑے تھے تو آنے جانے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا دونوں گھروں میں کوئ دیوار نہیں تھی ۔۔۔۔دیکھنے میں وہ ایک ہی عمارت کے جیسے تھے مگر شایان جعفری علیحدہ رہتے تھے۔۔۔
پنک کلر کی گھٹنوں تک جاتی گول گھیرے دار قمیض کے نیچے پنک ہی کیپری پہنے سر پہ پنک دوپٹہ ٹکائے وہ کبرڈ سے اصلال عالم کے کپڑے نکال رہی تھی۔۔۔
اصلال نے سر تا پاؤں ترچھی نظروں سے اسکا جائزہ لیا اسکی سیاہ آنکھیں عبادت کی کیپری جو کہ گھٹنوں سے ذرا اوپر تھی اسی وجہ سے اسکے دودھیے پاؤں اور گھٹنوں پر تھیں۔۔۔۔ عبادت اپنی پشت پر اسکی چھبتئ نظروں کو محسوس کرتی درود شریف کا ورد کرتے کبرڈ کو بند کرتے مڑی۔۔۔۔
اصلال نے سرخ نظروں سے اسکے سپید پاؤں کو دیکھا اور کش لگاتے دھواں اپنے اندر اتارا ۔۔۔۔۔ عبادت آج اسے دوسری بار سگریٹ پیتا دیکھ رہی تھی اور اب اسے مزید خوف محسوس ہو رہا تھا اصلال عالم کی یہ خاموشی اسے کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ لگی تھی ۔
وہ کبرڈ کو بند کیے سامنے ایک جانب پڑے آئرن سٹینڈ کی جانب بڑھی۔۔۔۔ اسکے ہاتھ میں اصلال کا بلیک سوٹ تھا ۔۔۔۔۔ آگے وہ اسکی مرضی سے اسکا پسندیدہ سوٹ پریس کرتی تھی مگر آج اصلال کا خوف ہی اس قدر تھا کہ عبادت کو لگا رہا تھا کہ بس ابھی گری یا پھر ابھی۔۔۔۔
عبادت نے جلدی سے کپڑے پریس کرتے اصلال کو اگنور کرنا چاہا ۔۔ مگر اسے اٹھتا محسوس کرتے عبادت کا ہاتھ کانپنے لگا۔۔۔۔ اسکے بھاری قدم اپنی جانب اٹھتے دیکھ عبادت کو ایسا لگ رہا تھا کہ آج اسکا آخری دن تھا۔۔
اصلال نے سگریٹ پاؤں کے نیچے مسلا۔اور چلتے عبادت کے قریب اسکی پشت پر کھڑا ہوا۔۔۔۔۔۔ جلدی کرو۔۔۔۔۔ " اپنےکان کے قریب اسکی بھاری سرد آواز سنتے وہ ڈر سے لرزنے لگی ۔۔۔۔ اصلال نے حکمیہ انداز میں کہتے ساتھ ہی اسکے سر سے دوپٹہ سرکایا۔۔۔۔۔ عبادت کا سانس سینے میں دب سا گیا ۔۔۔۔ اصلال کی حواسوں پر طاری ہوتی تیز خوشبو سے اسکے حواس جھنجھلانے لگے ۔۔۔۔۔ اصلال نے ہاتھ اسکے سنہری بالوں میں پھیرتے جھکتے ناک قریب لے جاتے انکی خوشبو کو خود میں اتارا۔۔۔۔
عبادت کا۔پورا وجود لرز گیا۔۔۔۔ سنہری آنکھوں میں خوف میں کی سرخی آنے لگی ۔۔۔۔ وہ ڈرا رہا تھا اسے۔۔۔یا پھر آہستہ آہستہ اپنا گھیرا تنگ کر رہا تھا۔۔۔۔عبادت کو اپنا وجود اسکی قربت میں جھلستا ہوا سا محسوس ہونے لگا۔۔۔
ہہہہ ہہہو گگگ گگگگگگئئےے۔۔۔۔۔۔۔۔" عبادت نے جھٹ سے مڑتے کپڑے اسکے سامنے کرتے کہا تو اصلال جو جھکتے اسکے بالوں کی خوشبو کو خود میں اتار رہا تھا ۔۔۔۔ جھٹکے سے عبادت کے مڑنے پر اسکے چہرے کو بغور دیکھنے لگا۔۔۔ عبادت ڈر سے آنکھیں میچ گئی ۔۔۔۔اصلال نے گہری نظروں سے اسکے سرخ چہرے گلابی ہونٹوں اور پھر لرزتی پلکوں کو دیکھا۔۔۔۔ اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ آنے لگی جبھی اسنے جھکتے اپنی سرد سانسیں اسکے چہرے پر پھونکی اور کپڑے لیے واشروم کی جانب بڑھا۔۔۔۔
عبادت نے آنکھیں کھولے اسے دیکھا جو واشروم کی جانب جا رہا تھا۔۔۔ کھانا لاؤ ۔۔۔۔۔ اگلا حکم سناتے وہ ٹھک سے دروازہ بند کر گیا ۔۔
عبادت جو ابھی جان بخشی پر کھل کر سانس بھی نہیں لے پائی تھی اسکے نئے حکم پر کلس کے رہ گئی۔۔وہ پاؤں پٹھکتے کمرے سے باہر نکلی ۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ شاور لے کر آئیں مممم میں کھانا رکھ کے بب بھاگ آؤں گی۔۔۔ وہ خود سے منصوبہ بنائے جلدی سے کھانا گرم کرتے ٹرے سجائے دوبارہ سے اوپر اصلال کے روم کی جانب بڑھی ۔۔۔۔۔ عبادت کے چہرے پر پھیلی ساری خوشی ہوا ہوئی تھی جب نظریں ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑے اصلال عالم پر پڑی جو پرفیوم کی ساری بوتل خود پر انڈیل رہا تھا۔۔
رک کیوں گئی جلدی آؤ۔۔۔۔۔۔" اسے یونہی فریز ہوا دیکھ اصلال نے تیز آواز میں پکارا تو عبادت جلدی سے اندر گئی اور فورا سے میز پر کھانا رکھتے وہ بھاگنے لگی کہ اصلال عالم کی آواز نے اسے روک دیا ۔۔۔ چپ چاپ بیڈ پر بیٹھو۔۔۔۔۔ بات کرنی ہے مجھے______!" اسنے کھردرے سخت لہجے میں کہا تو عبادت کی سنہری آنکھوں میں پانی آنے لگا ۔۔۔
ووو وہووی عععع عععاللللمم مممم مجھے ننننیندد ائئی ہہہہے۔۔۔۔۔۔" اصلال عالم کی چوڑی پشت کو گھورتے اسنے منمناتے نم آواز میں کہا تو اصلال نے شیشے سے ہی اسکے سرخ چہرے کو گھورا۔۔تو میں نے کونسا تمہیں ساری رات یہیں روکنا ہے صرف بات کرنی ہے اب چپ چاپ بنا کوئی بخث کیے بیڈ پر بیٹھو۔۔۔ "
برش میز پر رکھتے اسنے کالر ٹھیک کرتے کہا تھا۔۔۔ عبادت نے اسکے چوڑے کندھوں اور پھر بھاری ہاتھوں کو دیکھ تھوک نگلا وہ تو اسے ایک تھپڑ میں ہی جان سے مار سکتا تھا۔۔۔۔۔ عبادت گھبراتی دہک دہک کرتی دھڑکنوں کے ساتھ بیڈ پر اٹک کے بیٹھی۔۔ اصلال نے ایک نظر اسے گھورتے دیکھا اور پھر واشروم سے ہاتھ واش کیے وہ واپس آتے صوفے پر ںیٹھا۔۔۔۔ اور انہماک سے کھانا کھانے لگا۔۔۔۔ عبادت اسکی اس قدر خاموشی پر ڈری ہوئی تھی وہ جانتی تھی کہ اسکی خیر نہیں۔۔۔۔۔ وہ انگلیاں چٹخاتے اپنے خوف پر قابو کرنے کی سعی کرنے لگی جو کہ ناممکن تھا۔۔
یہاں آؤ۔۔۔۔۔ اصلال نے سلیقے سے برتن اٹھائے ٹرے میں رکھے اور ہاتھ ٹشو سے صاف کرتے عبادت کو بلایا۔۔۔۔ججج جی۔۔۔۔۔۔۔ وہ فرمانبرداری سے کہتے اٹھی تھی اور فورا سے ٹرے کو تھاما۔۔۔اونہہہ چھوڑو اسے یہاں میرے پاس بیٹھو۔۔۔۔۔ " اصلال نے اسے ٹوکتے ساتھ ہی نیا حکم جاری کیا ۔۔۔ عبادت سنتے اسے ملتجی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔۔
جس کا فلحال اصلال پر کوئی اثر نہیں تھا۔۔۔ میں نے کچھ کہا ہے عبادت اصلال عالم۔۔۔۔۔۔۔ اب کی بار وہ سخت ٹھٹرا دینے لہجے میں غرایا تو وہ کپکپاتی فورا سے اسکے قریب صوفے پر بیٹھی۔۔۔۔
بہت پتہ ہے تمہیں میرے بارے میں آج بتاؤ میں سننا چاہتا ہوں کیا کیا جانتی ہو تم میرے بارے میں۔۔۔۔۔۔" وہ رخ موڑتے اب کی بار پورا اسکی جانب متوجہ تھا جو سر جھکائے موت کے ڈر سے سانس روکے بیٹھی تھی۔۔۔ عبادت اصلال عالم میں نے کہا تھا تم سے کہ امل تھی تم ہو ۔۔۔۔۔۔۔!" وہ پسند ضرور تھی مگر میری ملکیت تم ہو ۔۔۔۔۔ " تو پھر کیا سوچ کر تم نے اپنے اس دماغ میں اتنا زہر بھرا۔۔۔۔۔۔ ایک جھٹکے سے اسکے کمر کے گرد بازوؤں حائل کیے اصلال نے کھینچتے اسے خود سے قریب تر کیا۔۔۔۔عبادت خوفزدہ سی ہوتے اپنی آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی۔۔۔ اسے لگ رہا تھا کہ آج اصلال عالم اسے نہیں چھوڑے گا۔۔۔
جب تمہارے اس دماغ میں یہ فضولیات آئی تھی تو مجھ سے سوال کرتی ماما کو۔کیوں بتایا طلاق چاہیے تمہیںمجھ سے بولو۔۔۔۔۔ " اصلال کی گرم سانسیں عبادت کے چہرے کو جھلسا رہی تھیں ۔۔۔۔ کمر کے گرد اسکا تنگ ہوتا حصار اسے مزید سہما گیا تھا ۔۔۔
دل تو چاہتا ہے اس بے وقوفی کی ایسی سزا دوں کہ تمہارے ہوش ایسے ٹھکانے لگیں کہ میرے کمرے سے باہر قدم بھی ناں رکھ پاو۔۔۔۔۔ مگر میں صرف کسی وجہ سے خاموش ہوں اپنی ان فضول کی سوچوں اور حرکتوں سے مجھے مجبور مت کرنا کہ تمہارے لئے مشکلات برپا ہو جائیں۔۔۔۔۔
وہ سرد لہجے میں کہتا اپنے بھاری ہاتھ سے عبادت کے سرخ رخسار کو سہلا رہا تھا۔۔۔ وہ خوفزدہ سی ہوتے بیٹھی تھی۔۔۔ آج کے بعد ایسا کچھ ناں ہو_____!" کوئی بھی بات ہو کچھ بھی پوچھنا ہو تم ڈائریکٹ مجھ سے پوچھو گی ۔۔ انڈرسٹینڈ۔۔۔۔۔۔۔۔ عبادت کو سانس روکا دیکھ وہ لہجہ نرم کر گیا وگرنہ جس حد تک اسے غصہ تھا آج ناجانے وہ کیا کر جاتا ۔۔۔۔۔۔ آج کے بعد یہ رنگ پہن کے میرے سامنے مت آنا ہممممم _____!" اپنے جذبات کو دباتا وہ نرمی سے اسکی بھیگی پلکوں پر ہونٹ رکھتے بولا تو عبادت نے فورا سے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔ جاؤ یہاں سے ۔۔۔۔۔۔ " ایک دم سے اپنا حصار توڑتے وہ عجیب سے لہجے میں بولا تو عبادت نے ڈرتے حیرانگی سے اسے دیکھا جسکی آنکھوں میں الگ ہی رنگ نمایاں تھی وہ بھاگتے کمرے سے نکلی۔۔۔۔۔۔ اصلال نے اسکی پشت کو گہری نظروں سے دیکھتے گہرا سانس فضا کے سپرد کیا۔۔۔
رات کے پچھلے وہ ہوش و خرد سے بےگانہ گہری نیند میں مبتلا تھی ۔۔ کمرے میں ملگجہ سا اندھیرا تھا جبکہ باہر آسمان پر چمکتا چاند بادلوں کی اوٹ میں چھپا بیٹھا تھا۔۔ معا ٹھاہ کی سی آواز سے کچھ گرنے کے شور پر وہ ڈرتے ایک دم سے اٹھ بیٹھی۔۔ اوزگل نے نیند سے بھری سرخ ڈوریوں سے لبریز آنکھوں سے سامنے دیکھا جہاں اسکی کھڑکی کے پاس ہی کوئی وجود چہرے پر ہڈ ڈالے جھکا بیٹھا تھا۔۔ اوزگل کی سیاہ آنکھوں میں خوف ابھرنے لگا۔۔
وہ سمہتے بمشکل سے اپنے لرزتے وجود سے اس انجان کو دیھتے زیر ِ لب بڑبڑائی۔ککک کوننننن_______؟" اسکے ہلتے لبوں سے ادا ہوئے لفظ سنتا وینیو گھنٹے کے بل جھکا بیٹھا تھا ایک دم اسکے مغرور حسین چہرے پر قاتلانہ مسکراہٹ نمودار ہوئی
کون ہو سکتا ہے جان اشکان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اشکان نےمسکراتے اپنی چھوٹی سی دشمن جاں کو دیکھا۔۔۔۔۔۔جو کہ اس وقت ڈر حوف سے اپنی جھیل سی گہری سیاہ آ نکھوں کو پھیلائے اس کی جانب دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
کسی اور کی جرت جو اشکان صدیقی کی بیوی کے کمرے میں داخل ہو سکے ۔۔۔۔۔۔اس نے اوزگل کی جانب دیکھتے ٹھٹھرا دینے والے لہجے میں کہا تھا ۔۔۔۔۔اشششکان ، تت تت تم اس وقت میرے کمرے میں کیا کر رہے ہو ۔۔۔۔
اوزگل نے ایک نظر اشکان کی جانب دیکھتے پھر اپنے کمرے کے بند دروازے کو دیکھا ۔۔۔۔۔
میں جس وقت بھی چاہوں تم سے مل سکتا ہوں ۔۔۔ کیونکہ شرعی حق رکھتا ہوں میں تم پر ۔۔۔۔اوزگل اس کے بڑھتے قدموں کی چاپ پر فوراً بیڈسے اترتے دروازے کی جانب لپکی تھی ۔۔۔۔اہہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہاں چلی جانم ______!" اشکان نے ایک دم سے اسکے بازوؤں سے جھپٹتے اسے اپنی جانب کھینچا اوزگل حواس بافتہ سی سانس روک گئی اشکان نے اسے کمر سے تھماتے اپنے نزدیک کیا اور پھر نرمی سے لے جاتے بیڈ پر لٹایا۔۔۔۔ اسکے قریب آہنگ بھاری ہاتھ رکھے وہ بغور اسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔۔ جبکہ خود پر جھکے اشکان کو دیکھتے اوزگل نے تھوک نگلتے اپنی آنکھوں کو زور سے میچا تھا ۔۔۔ اشکان کی نظریں اوزگل کے گھنے سیاہ بالوں پر اٹکی ہوئی تھیں۔۔۔۔ آہہہ یہ خوشبو۔۔۔۔۔۔۔۔ "
اشکان نے آہ بڑھتے اوزگل کے گھنے بالوں کو اپنے ہاتھ میں لپیٹے۔اس کے سیاہ بالوں کو اپنے ناک کے قریب لے جاتے ان کی خوشبو کو خود میں اتارا تھا اشششکان
،پپ،پپ،پلیز ننننہیں کروو اوزگل روتے ہوئے لرزتی آواز میں بولی تھی ۔۔۔۔۔اس کے رونے پر اشکان نے غصے سے اس کی جانب دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاموش ہو جاؤ اوزگل اگر اب روئی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔اسکے سخت لہجے میں کہنے پر اوزگل نے فوراً سے سسکیاں بھرتے آپنے آنسوں پر قابو پانا چاہا تھا جو کہ اس وقت نا ممکن تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری کال کیوں نہیں پک کر رہی تھی تم اس نے اوزگل کے چہرے پر جھکتے سرگوشی نم آواز میں استفسار کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر اوزگل کی جانب سے کوی بھی جواب نہ ملنے پر اسنے دانت پیستے اوزگل کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔۔
اوز گل میں نے کچھ پوچھا ہے ۔۔۔اشکان نےاوزگل کے سرخ پسینے سے شرابور چہرے کو دیکھتے غراتے ہوئے لہجے میں اپنا سوال دہرایا ۔۔۔۔۔۔
ووووہ مممم میں سو گئی تھی ۔۔اس لیے کککک کال پک ننن نہیں کی۔۔۔۔اچھا تو تم سو گئی تھی اور پھر سوتے سوتے پہلے کال جاتی رہی اٹینڈ نہیں کی اور پھر خود سے ہی فون آف ہو گیا۔۔۔ کیا جادو ہے تمہارے فون میں۔۔۔۔ وہ طنزیہ مسکراتا اوزگل ہے حسین چہرے کو دیکھتا بولا۔۔۔
نننن نہیں تتت تو میں نے آف نہیں ککک کیا۔۔۔۔" گل نے فوراً سے صفائی پیش کی۔۔۔
ہمممم۔ پہلی اور آخری غلطی سمجھ کر معاف کر رہا ہوں میں گل______!" مجھے سب کچھ قبول ہے مگر تم مجھے بھولو یہ میں قطعی برداشت نہیں کروں گا۔۔۔۔۔ اوزگل کے دہکتے رخسار کو اپنی سرد انگلیوں کے پوروں سے سہلاتے وہ بھاری گھبیر لہجے میں بولا تو اوزگل کا سانس سینے میں الجھ گیا۔۔
اشکان کا ہر بدلتا روپ اس معصوم کے لیے نیا امتحان ثابت ہو رہا تھا۔۔۔۔ جبکہ اسکی بے انتہاء قریب بیٹھے اشکان صدیقی کی نظریں اوزگل کے حسین نقوش کا طواف کرنے لگے۔۔۔ وہ بے خودی میں آنکھوں میں گہری چمک لئے اسکے حسن کو مبہوت ہوتی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ جو سہمی ہرنی کی مانند اسکے سامنے اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود اشکان کے جزبات کو دہکا گئی ۔۔۔
اشکان صدیقی نے بے اختیار ہی اپنے جذبات سے ہارتے اپنے دہکتے ہونٹ اوزگل کی شفات گردن پر رکھے تو اسکے سلگتے آگ کی مانند دہکتے لمس پر وہ جی جان سے لرزی تھی جبکہ مقابل تو جیسے اسکی خوشبو میں کھویا خود کو بھی فراموش کر گیا۔۔۔۔۔۔
*************
اسلام علیکم ماما۔۔۔۔۔۔" بلیک کلر کا عبایہ پہنے وہ سر پر بلیک ہی خجاب لپیٹے جلدی سے سیڑھیوں سے اترتے بولی تھی۔۔ شایان صاحب نے مڑتے عبادت کی جانب دیکھا اسے عبائے میں انکے ماتھے پر ایک ساتھ جانے کتنے ہی بل نمودار ہوئے تھے ۔۔۔۔
و علیکم السلام او عبادت جلدی سے ناشتہ کرو۔۔۔۔ انش جو یونی کیلئے نک سک سا تیار بیٹھا بریک فاسٹ کر رہا تھا مسکراتے اپنی شہزادی کو آتا دیکھ بولا۔۔۔
عبادت دوڑتی اسکے گلے میں بانہیں ڈالے لاڈ سے اسکے سر پر بوسہ دیے کھلکھلا اٹھی۔۔ شایان صاحب نے گہری نظروں سے اپنی لاڈلی کو دیکھا جو ابھی تک اپنا غصہ دکھا رہی تھی۔۔وگرنہ اب سے پہلے وہ صبح ان سے ہی ملتی تھی ۔۔۔
مارننگ بھائی۔۔۔۔۔۔ وہ جان بوجھ کر شایان صاحب کے ساتھ والی کرسی چھوڑ انش کے ساتھ بیٹھی۔ ۔۔دانش نے مسکراتے اپنے پاپا کے دھواں دھواں چہرے کو دیکھا ۔۔
کیا ہے دانت اندر کرو۔ وہ پہلوں بدلتے دانش کو جھڑکنے لگے ۔۔۔۔جبکہ نضخت بیگم نے افسوس سے سر نفی میں ہلایا۔۔۔ چپ چاپ ناشتہ کریں سب۔۔۔۔!" شایان صاحب نے اونچی آواز میں کہا تو عبادت نے اپنی سنہری آنکھوں میں چمک لیے آنش کو دیکھا جو بمشکل سے قہقہ ضبط کیے بیٹھا تھا۔۔۔
عبادت بیٹا یہ عبایا کیوں پہنا آپ نے پہلے تو کبھی پہن کر نہیں گیے۔۔۔۔۔
شایان صاحب نے اسے ڈائریکٹ مخاطب کیا۔۔۔۔ میں نے کہا تھا پاپا ۔۔۔۔۔" اسکے جواب دینے سے پہلے ہی اصلال جو گرے کلر کی شرٹ کے اوپر بلیک کوٹ پہنے سلیقے سے بالوں کا پف بنائے ہلکی سی بییرڈ میں چہرے پر سنجیدگی لیے اندر داخل ہوا۔۔۔
عبادت نے اسکی بھاری آواز پر پہلوں بدلتے تھوک نگلا۔۔۔۔
انش نے جبڑے بھینجتے اپنے غصے پر ضبط کیا تھا اسے لگا تھا کہ عبادت نے اپنی خوشی سے پہنا تھا مگر اب اصلال کا سنتے ہی اسے مزید غصہ آیا ۔۔۔۔ مگر بیٹا کیوں اب ایسا کیا ہے جو پہلے نہیں تھا۔۔۔۔۔ اصلال کو دیکھتے شایان صاحب نے حیرت سے استفسار کیا۔۔۔۔
پاپا پہلے کی بات الگ تھی مگر اب عبادت اصلال عالم کی ملکیت ہے اور میں کسی کی گندی نظریں اپنی ملکیت پر برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔ وہ اطمینان سے انہیں جواب دیتا عبادت کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھا۔۔۔۔جوس کا سپ عبادت کے حلق پھنس گیا۔۔۔۔اصلال۔عالم کی تیز حواس جھنجھلانے والے پرفیوم اسکے حواسوں پر چھانے لگی اسکی آنکھوں میں رات کے پل لہرائے چہرے تپتے انگارہ ہوا تھا۔۔۔
عبادت کوئی بے جان وجود نہیں جو آپ ایسے اپنی مرضی اس پر چلائیں گے۔۔۔۔۔۔ آنش نے دانت پیستے سرد آواز میں کہا تو اصلال نے گردن گھمائے عبارت کی پشت سے جھانکتے اسے دیکھا۔۔۔۔
بے جان ہوتی تو بھی میری ملکیت میں آنے کے بعد اس پر میرا حق ہونا تھا اور اب بھی ہے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ وہ کندھے اچکائے بلکل بے تاثر لہجے میں بولا تو ڈائنگ ٹیبل پر ایک دم سے خاموشی چھا گئی۔۔ ناشتہ کر لیا ہے تو چلو میں کالج ڈراپ کر دوں گا۔۔۔۔۔
وہ اٹھتا نضخت بیگم کی جانب بڑھا۔۔۔۔ اور عقیدت سے انکی پیشانی پر ہمیشہ کی طرح لب رکھے ۔۔ میں چھوڑ دوں گا بھائی آپ جائیں۔۔۔۔۔!" آنش نے پھر سے اسکی چوڑی پشت کو گھورا۔۔۔۔۔اصلال نے سرد سانس فضا کے سپرد کیے مڑتے عبادت کو دیکھا جو اسکے دیکھنے پر ایک دم سے جگہ سے اچھلتے کھڑی ہوئی۔۔۔
آنش تم اپنا کام کرو میری ذمہ داریاں مجھے اچھے سے نبھانی آتی ہیں اور عبادت میری ملکیت کے ساتھ ساتھ میری ذمہ داری ہے ۔ چلو عبادت وہ ایک نظر سب کو دیکھتے عبادت سے مخاطب ہوا تو عبادت نے فورا سے اپنا بیگ تھاما ۔۔۔ اسکی فرمانبرداری پر اصلال عالم کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے ۔۔۔۔۔ وہ سر جھٹکتے تیزی سے باہر کی جانب نکلا۔۔۔
************
ماما مجھے بات کرنی ہے آپ سے۔۔۔۔۔!" عافیہ بیگم جو کشن سیٹ کر رہی تھی انہیں پیچھے سے حصار میں لیتے اشکان صدیقی نے مسکراتے کہا تو عافیہ اس پر دل و جان سے نثار ہوئی۔۔۔جی میری جان آپ بولیں میں سن رہی ہوں ۔۔۔۔۔ عافیہ بیگم نے اشکان کے ماتھے پر لب رکھے۔۔ تو اشکان نے مسکراتے انہیں تھانیے صوفے پر بٹھایا۔
وہ دراصل میں چاہتا ہوں کہ آپ ماموں سے بات کریں میری اور گل کی رخصتی کی۔۔۔۔" انکے ہاتھ کو تھامے وہ محبت سے بولا جبکہ عافیہ بیگم جو کہ اسی کو بغور دیکھ رہی تھی ایک دم سے اسکے کہنے پر آنکھیں پھیلائے حیرت زدہ سی ہوئی۔۔۔
اشششش اشکان پپ پاگل تو نہیں ہو گئے تم یہ کیا کہہ رہے ہو تم۔۔۔۔؟" عافیہ بیگم نے چیخنے کے سے انداز میں پوچھا تو اشکان نے آنکھیں میچتے انکے ری ایکشن پر افسوس کیا۔۔۔تو کچھ غلط نہیں کہہ رہا یار۔۔۔ میری بیوی ہے گل اب میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا آپ پلیز ماموں سے بات کریں۔۔۔۔۔
اشکان نے عافیہ بیگم کی آنکھوں میں دیکھتے مضبوط لہجے میں کہا تو وہ گھبرا گئی۔۔
بیٹا خدا خدا کر کے یہ نکاح ہوا ہے تمہارے ماموں ابھی تک ناراض ہیں مجھ سے اگر اوپر سے رخصتی کا شور ڈالا تو ایسا ناں ہو وہ رشتہ ہی توڑ دیں۔۔عافیہ بیگم نے اسے حقیقت سے روشناس کروایا۔۔۔ تو وہ لب بھینجتا اپنا غصہ دبانے کی سعی کرتا گردن جھکا گیا ۔۔۔۔
جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا ناں مام اب میں اوزگل کا شوہر ہوں ماموں اس بات کو جھٹلا نہیں سکتے آپ پلیز بات کریں ان سے ۔۔۔۔۔ " وہ جھنجھلاتے ہوئے اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔
جو بھی ہو پورے خاندان کے سامنے یہ طے پایا گیا تھا کہ جب تک اوزگل کی پڑھائی مکمل نہیں ہو جاتی ہم رخصتی کا دباؤ نہیں ڈالیں گے مگر اب ایسا تو کچھ بھی نہیں ہو رہا ۔۔۔ تم اپنے کہے سے کیسے مگر سکتے ہو اشکان۔۔۔ عافیہ بیگم اسے حقیقت کا آئنہ دکھانے لگی ۔۔۔۔ سچ ہی تو تھا آگے ہی بیٹے کی جان کی خاطر اپنے جان از عزیز بھائی کی نظروں میں گر گئی تھی وہ اب اور کیا کرتی ۔۔۔
تو ٹھیک ہے میں خود ماموں سے بات کروں گا۔۔۔۔" وہ ہتھے سے اکھڑتا ایک دم سے غرانے لگا ۔۔۔۔ اسکی حرکتوں کہ وجہ سے عافیہ بیگم کافی مضطرب تھی۔ اسے سمجھانا کافی مشکل تھا۔۔ رکو اشکان تم کچھ نہیں کرو گے ۔۔۔ وہ تڑپتے خوفزدہ سی ہوتے لپکتے اسے تھام گئی اشکان نے اپنے ہونٹوں پر بکھرتی مسکراہٹ کو بمشکل سے ضبط کیا۔۔۔۔۔
میں خود تمہادے بابا سے بات کرتی ہوں اسکے بعد ہم بھائی سے بھی بات کریں گے مگر تم کچھ بھی نہیں کرو گے۔۔۔ وعدہ کرو۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں دیکھتے عافیہ بیگم نے اپنا ہاتھ اسکے سامنے پھیلایا۔ ۔ہممم وعدہ نہیں کرتا کچھ بھی مگر مجھے جلد ہی مثبت جواب کا انتظار رہے گا۔۔۔۔
وہ مسکراتے عافیہ بیگم کے گال کو کھینچتے خوشی سے سرشار اپنے روم کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔
***************
یہ لو _________!" اپنے ہاتھ میں تھامے ہزار والے کئی نوٹ اسکے سامنے کرتا وہ مرر سے باہر دیکھنے لگا۔۔۔۔
عبادت نے چونکتے اس ایناکونڈا کو اور پھر اسکے ہاتھ میں کافی تعدادِ موجود نوٹوں کو دیکھا۔۔۔
یی یہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔" اپنے بایاں ہاتھ کندھے پر بیگ کی سٹرپ پر رکھتے وہ کچھ کنفیوژ سی ہوتے پوچھنے لگی ۔۔ تمہاری پاکٹ منی۔۔۔" اپنی آنکھوں پر لگے بلیک گلاسز کو ہٹائے وہ سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔۔ نظریں ابھی تک عبادت کے دائیں ہاتھ پر تھیں جہاں پر اصلال عالم کی سخت گرفت کی وجہ سے رات کو ہی سرخ نشانات پڑ چکے تھے۔۔۔ اصلال کی زبان لڑکھڑا اٹھی سیاہ آنکھوں میں سرخی چھانے لگی وہ بھول گیا کہ اسے کیا کہنا تھا۔۔۔۔
مگر میرے پاس ہے پاپا نے دی ہے مجھے پاکٹ منی۔۔۔۔۔۔" وہ من مناتے ہوئے بولی تو اصلال ایک دم سے جیسے ہوش میں آیا۔۔۔۔۔ہاں پاپا نے دیے ان کا فرض تھا مگر تمہاری ہر ضرورت کا خیال رکھنا میرا فرض ہے۔۔ اس لئے رکھو ان کو۔۔۔۔" اصلال نے اپنے بھاری ہاتھ میں اچانک سے عبادت کا نرم و نازک دودھیا ہاتھ تھامتے پیسے رکھے ۔۔۔۔
مجھے اچھا لگا تم نے میری بات کا اثر کیا ۔۔۔۔۔اسکا اشارہ عبادت کے خجاب کی جانب تھا ۔۔۔۔ عبادت جو آسی کو دیکھ رہی تھی سنتے سر جھجھکتے جھکا گئی۔۔ امل سے ملنے جا رہا ہوں اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ۔۔۔ " اصلال نے سگریٹ کی ڈبی نکالتے اسے بتایا تو عبادت کو ایسا لگا جیسے کسی نے اسکا دل مٹھی میں دبوچ لیا ہو۔۔۔
اچچھبھ اچھھھھا۔۔۔۔" وہ بمشکل سے ادا کر پائی تھی حلق میں کانٹے سے اٹکنے لگے۔۔۔۔
آخری بار جا رہا ہوں اسے یہ بتانے کہ میری زندگی میں اس کی کوئی جگہ نہیں اب ۔۔۔۔۔۔۔" عبادت نے خفا نظریں اسکے ہاتھ میں موجود سگریٹ پر ڈالی۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ جان بوجھ کے ایسا کر رہا تھا صرف اور صرف اسے اذیت دینے کو وہ سگریٹ پیا کرتا تھا اور وہ کتنی بے بس ہو گئی تھی کسی کو اسکے کالے کرتوت کا کھل کر بتا بھی نہیں سکتی تھی تبھی تو وہ جان بوجھ کے ایسا کیا کرتا تھا۔۔۔
آپ پہ پلیز میرے سامنے اسے مت پیا کریں۔۔۔ عبادت کو انکی خوشبو یہ دھواں زہر لگتا تھا ۔۔۔۔اسکی سانسیں اکھڑنے لگتی تھی اس دھوئیں میں جبھی ناگواری سے بولی۔۔ مجبوری ہے پینا جب تم پاس آئی تو منہ نہیں لگاؤں گا ان کو۔۔۔۔۔!" وہ گہرے بے باک لہجے میں عبادت کے چہرے کو دیکھتا سنجیدگی سے بولا تو عبادت نے حیرانگی سے اسے گھورا اور پھر اسکے کہے جملے کا مفہوم سمجھتے وہ سر تا پاؤں سلگتی باہر جانے لگی۔۔۔
کہ اچانک سے کسی وخشی کی طرح جھپٹتے اصلال نے اسکے ہاتھ کو تھامے اپنی جانب کھینچا کہ عبادت جھٹکے سے حواس بافتہ سی چیختے اسکے چوڑے شانے سے آ لگی۔۔۔
میں نے اجازت دی جو یوں جا رہی ہو۔۔۔۔۔" اصلال عالم نے سرد لہجے میں اسکے چہرے پر دھواں چھوڑتے کہا تو بری طرح سے کھانسنے لگی۔۔۔ کتنا بے حس تھا وہ شخص صرف اپنی بیوی کے معاملے میں آخر کیوں تھا وہ ایسا ۔۔۔۔۔!" عبادت کی آنکھوں میں اپنی بے بسی پر ایک ساتھ جانے کتنے ہی آنسوں آئے ۔۔۔
اصلال کے ہاتھ میں تھامے سگریٹ کا شعلہ اسکی انگلی کو جلا رہا تھا مگر اسکے سینے میں اس وقت جو آگ تھی اسے صرف عبادت اصلال عالم ہی بجھا سکتی تھی۔۔
مجھے یوں تڑپتا چھوڑ کر تم کیسے جا سکتی ہو بھلا۔۔ اسکے لہجے میں کرب تھا عبادت کو وہ اپنے ہوش میں نہیں لگا کچھ تھا اسکی آنکھوں میں ان کہا درد کچھ ایسا جسے وہ محسوس تو کر رہی تھی مگر وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ آخر ایسا کیا تھا جو اس قدر ٹوٹ گیا تھا وہ۔۔۔۔
عع عععالم اپپ ٹٹٹ ٹھیک تو ہیں۔۔۔۔" وہ متفکر سی ہوتے اسکے چہرے پر اپنا کپکپاتا ہاتھ رکھتے بولی تو اصلال کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوا تھا اسنے ایک دم سے اسے کھینچتے اپنی بانہوں میں بھینج لیا ۔ سر غم سے پھٹنے کو تھا۔۔۔۔ اسکی وخشتیں ایسی تھی جیسے کوئی معصوم بچہ ہو جسے پھر سے اسکی دخشتوں میں تنہایوں کے سپرد کر دیا گیا ہو_______!" عالم آپ کو تو بخار ہے اتنا تیز۔۔۔ وہ گھبراتے ہوئے اپنے سینے سے لگے اس بھاری وجود کی آگ جیسی تپش کو محسوس کرتے حیران سی تھی۔ ۔
ٹھیک ہوں میں کچھ نہیں ہوا مجھے۔۔۔۔۔ ایک دم سے وہ خود کو سنبھالتا پیچھے ہوتے اپنی سن گلاسز اٹھائے آنکھوں پر لگا گیا۔۔۔۔ تم جاؤ۔۔۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھتا گویا ہوا۔۔۔ نہیں میں نہیں جا رہی کہیں بھی۔۔۔۔ آپ ابھی میرے ساتھ گھر جائیں گے پہلے آپ کی صحت ضروری ہے۔۔۔۔عبادت نے اسکی بات کاٹتے کہا تو اصلال نے حیرت سے مڑتے اسے دیکھا۔۔۔۔۔
میں ٹھیک ہوں عبادت آئی سیڈ گو۔۔۔۔۔ اس بار وہ قدرے سخت لہجے میں بولا مگر عبادت اپنی جگہ سے ہلی بھی نہیں تھی۔۔۔۔ گھر جائیں گے یا پھر بابا کو کال کروں اندر جا کر۔۔۔۔ وہ اسکے دیکھنے پر دھمکی دینے کے سے انداز میں کہتی ائبرو اچکا گئی تو بے ساختہ ہی اصلال کے ہونٹوں پر ناچاہتے ہوئے بھی مسکراہٹ بکھری۔۔۔ اسنے استحقاق سے جھکتے عبادت کے ہونٹوں پر چھوٹی سی گستاخی کی تو عبادت کا وجود سن سا ہو گیا۔۔۔۔۔۔ قینچی کی طرح چلتی زبان کو بریک لگ گیا وہ دھواں دھواں ہوتے چہرے سے رخ موڑتے بیٹھ گئی۔۔
جبکہ اصلال اسکی حالت سے محفوظ ہوتے مسکرا رہا تھا۔۔
***********
ماما آپ نے تو کہا تھا کہ اگر میں اسے فون کر کے بلاؤں گی تو وہ دوڑتا چلا آئے گا مگر دیکھ لیں وہ آیا بھی تو مجھے لیکچر دینے ۔۔۔۔ اس انسان کی وجہ سے مجھے اپنا ہاتھ کاٹنا پڑا مگر اسے اب بھی اس عبادت سے لگاؤ ہے میری محبت نہیں دکھتی اسے۔۔۔۔ وہ غصے دکھ بے بسی سے چیخنے کے سے انداز میں بولی تو نازیہ نے سیب کاٹتے پلیٹ اسکے پاس بیڈ پر رکھی ۔۔
تجھے لگتا ہے کہ وہ کوئ آسان شکار ہے جو تیرے بہلاوے میں پھنس جائے گا ، وہ اصلال عالم ہے جانتی ہے ناں کیسے تجھے اسکی چھوٹی سے چھوٹی بات سے میں نے واقف کیا تاکہ توں اسکی پسند کے مطابق ڈھل کر اسے اپنی محبت کے رنگ میں رنگ دے مگر توں تجھے تو یہ کرنا بھی نہیں آیا۔ ۔۔۔ تجھ سے اچھی تو وہ کل کی پیدا ہوئی چھوکری نکلی ۔۔۔۔دیکھا کیسے دو ہی دن میں اسے دیوانہ بنائے پھرتی ہے۔۔۔ اسکے خلاف تو کوئی بات بھی نہیں سنتا ۔۔۔ نازیہ بیگم اسکے پاس بیٹھتے اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑ رہی تھیں۔۔۔ جبکہ امل سنتی عبادت کے ذکر پر پہلوں بدلتے رہ گئی۔۔
اماں اب کیا کرنا ہے مجھے یہ بتائیں وہ آئے گا آج کہ نہیں۔۔۔ !" امل نے اپنے ہاتھ کو دیکھتے پوچھا جس پر سفید پٹی بندھی ہوئی تھی میں نے اسے روتے ہوئے دوہایاں دے کر منایا ہے ۔۔ تو کیا وہ آ رہا ہے مجھ سے ملنے ۔۔۔امل نے خوشی سے اچھلتے ہوئے پوچھا اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اصلال اس سے ملنے آئے گا ہاں ہاں ۔خود پہ قابو رکھ لڑکی اگر اس بار آئے تو اسے ایسا پھانس کے وہ اس عبادت کو بھول کر تیرا دیوانہ ہو جائے
ماما آ پ فکر مت کریں اس بار تو وہ مجھ سے نکاح کر ہی واپس جائے گا ۔۔امل نے پر سکون انداز میں سوچتے ایک عزم سے کہا تھا ۔۔۔
*************
اپنے ہاتھ میں پکڑی بکس کو علی کی جانب اچھالتے اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتا وہ اپنے بلاگ میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ڈارک پرپل کلر کی سلیو لیس سکرٹ جس کے جس کے ساتھ ڈارک بلیو کلر کی جینز پہنے کمر تک جاتے کرل کیے بالوں کو دونوں شانوں پر بکھیرے ہونٹوں پر ڈارک ریڈ لیپسٹک لگائے سونیا سامنے سے آتے اشکان صدیقی کو دیکھ آنکھوں میں چمک لیے اس کی جانب بڑھی تھی
ہائے ایش ہاؤ آ ر ۔یو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سونیا کے ایک دم سامنے سے آ جانے پر اشکان کے ماتھے پر ڈھیروں بل نمودار ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے سرد سانس فضا کے سپرد کیے ناگواری سے سونیا کی جانب دیکھا ۔۔۔
ہممممم فائن تم سناو ۔۔۔۔" اشکان نے جان چھڑانے کے سے انداز میں پوچھا تھا ۔۔۔۔ہاں میں بھی ٹھیک ہوں ۔۔۔تم بتاؤ اتنے دنوں سے یونی کیوں نہیں آ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔تمھیں پتا ہے میں نے تمھیں کتنا مس کیا اتنے دنوں میں ۔۔۔۔۔۔۔تمھیں تو کوئی احساس ہی نہیں ہے میرا ۔۔۔۔۔۔۔" تو کیا میرا تمہارے ساتھ کوئی ایسا ریلیشن ہے کہ مجھے تمہارا احساس کرنا چاہئے۔۔وہ نظریں جھکائے بے زار سا کھڑا تھا۔۔۔ میں نے آج ایک پارٹی ارینج کی ہے رات کو تو کیا تم آؤ گے ، اشکان اسے اگنور کیے آگے بڑھا تو سونیا دوڑتے اسکے ساتھ ساتھ چلتی پوچھنے لگی۔۔ نہیں میں نہیں آ سکتا ۔۔۔۔۔۔۔!" اشکان نے بلکل سپاٹ لہجے میں کہا__ کیوں کیوں نہیں آ سکتے تم۔۔۔۔۔۔؟" سونیا کو جھٹکا لگا تھا وہ تو اشکان کی وجہ سے پارٹی رکھ رہی تھی اگر وہی ناں آئے گا تو پھر پارٹی کا کیا فائدہ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ میں اپنی بیوی کے ساتھ کہیں جا رہا ہوں ۔۔۔" اشکان نے رکتے مضبوط لہجے میں کہا اسکے چہرے پر اوزگل کے ذکر سے ہی ایک دلکش سی مسکراہٹ بکھری، جبکہ سونیا کے چہرے پر اچانک سے تاریک سائے لہرائے وہ پریشانی سے اسے دیکھنے لگی جیسے اسکے کہے پر یقین ناں آیا ہو_____ کککک کیا کہا تت تم نے وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں پوچھنے لگی ۔ میں نے کہا کہ میں اپنی مسز کے ساتھ ڈنر پر جا رہا ہوں۔۔۔ اوہ مجھے تو یاد ہی نہیں رہا بتانے کا ۔۔۔۔ دراصل میں نے شادی کر لی ہے اپنی بچین کی محبت اپنے جنون کے ساتھ، تتت تم جھوٹ بول۔ریے ہو۔۔۔۔۔۔" سونیا کی آواز بھرا گئی دل میں درد ہلکورے مارنے لگا۔۔۔
نہیں یہ سچ ہے میں مذاق نہیں کر رہا۔۔۔۔" اشکان نے سنجیدگی سے کہتے کندھے اچکائے۔۔۔۔۔ اب ذرا پیچھے ہٹو میں نے کلاس لینی ہے۔۔۔۔" وہ ناگواری سے کہتا ایک سائیڈ سے نکلتا اپنے کلاس روم کی جانب بڑھا۔
**************
کیا ہوا ہے اصلال میرے بچے ______!" سکندر جعفری جو کہ کسی کام کے سلسلے میں گاؤں گئے تھے اچانک اصلال کی طبیعت خرابی کا سنتے وہ گھبرائے ہوئے سے واپس آئے تھے ۔۔۔ اصلال جو آنکھوں پر ہاتھ رکھے لیٹا تھا اچانک سے بڑے بابا کی آواز پر وہ ایک دم سے اٹھا تھا۔۔۔۔عبادت نے بھی گردن گھمائے انہیں دیکھا۔۔ جو کافی مضطرب سے تھے۔۔۔ بابا کچھ بھی نہیں ہوا ٹھیک ہوں میں۔۔۔۔ " اصلال ایک دم سے اٹھتے انکے قریب گیا تھا۔اود نرمی سے انکے بازو کو تھامے وہ محبت سے بولا۔۔
حالت دیکھو اپنی بخار ہو رہا ہے کتنا تیز تمہیں۔۔۔۔۔۔ اور اوپر سے جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔۔"
سکندر صاحب نے اسے گھورتے غصے سے جھڑکا جبکہ اصلال یہ سوچ رہا تھا کہ آخر انہیں کیسے پتہ چلا ، اسکی طبیعت خرابی کا۔۔؟" بڑے بابا ڈاکٹر کو نہیں بلانے دے رہے کہتے ہیں کہ کوئی ضرورت نہیں فضول میں کسی ڈاکٹر کو بلانے کی۔۔۔۔۔عبادت فورا سے انکے قریب جاتے انکے بازو کو تھامے بولی تو اصلال کے دماغ میں جھماکا سا ہوا اسنے غصے سے آنکھیں چھوٹی کیے اس لومڑی کو گھورا۔۔۔۔۔
ایسے کیسے ڈاکٹر کو نہیں بلانا تم بلاؤ ڈاکٹر کو ۔۔۔۔۔میں بھی دیکھتا ہوں کہ یہ کیسے علاج نہیں کرواتا۔۔۔۔۔سکندر جعفری نے روعب سے کہا تو عبادت کے ہونٹوں پر خوبصورت سی مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔۔ جبکہ اصلال کو دیکھنے سے وہ گریز برت رہی تھی یہی بات اصلال کو مزید طیش دلا رہی تھی۔۔
عبادت تم جاؤ گھر میں خود دیکھ لوں گی اصلال کو۔۔۔۔ رضیہ بیگم نے آگے بڑھتے عبادت کے ہاتھ کو تھامے کہا تو وہ جو مسکرا رہی تھی ایک دم سے سہم گئی۔۔۔ سنہری آنکھوں میں خوف چھانے لگا۔۔۔۔ اصلال نے بغور اپنی دادو کو دیکھا جو جانے کس بات کی بھڑاس نکالنے کی کوشش میں تھیں۔۔ہاں تم جاؤ اور یہ عبایا بھی اتارو کیا عجیب لگ رہی ہو۔۔۔۔ ماں کو دیکھ فرزانہ بیگم نے بھی بات میں حصہ لیتے نخوت سے ناک چڑھائے کہا۔۔۔
پھپھو ایک منٹ یہ عبایا ہے عورت کا تخفظ اسکا مان۔۔۔۔ ہمارے اسلام میں عورتیں خود کو ایسے ہی ڈھانپ کر چلتی ہیں اس بارے میں آئندہ کچھ بھی مت کہیے گا۔۔ عبادت جاؤ تم چینج کر کے فورا سے واپس آؤ ماما کو کچھ مت بتانا پریشان ہوں گی بس آتے وقت سوپ بنا کے لانا اپنے ہاتھوں سے۔۔۔۔۔" اصلال نے فرزانہ کو اچھی خاصی سنانے کے بعد اب عبادت کو مخاطب کیا۔۔۔جو ہونقوں کی طرح منہ کھولے اسے دیکھنے لگی مگر مجھے تو کچھ بھی بنانا نہیں آتا ۔۔ وہ آنکھیں پھیلائے بولی تو اصلال کے لیے اپنی مسکراہٹ کو روکنا نا ممکن ہو گیا۔۔۔۔۔۔
جیسا بھی ہو۔گا میں پی لوں گا مگر اپنے ہاتھوں سے بنانا۔۔۔ وہ پھر سے تنبیہہ کرتا بیڈ کی جانب بڑھا۔۔۔۔
جبکہ عبادت اسکی باتوں میں الجھی خود پر گھڑی رضیہ اور فرزانہ بیگم دونوں کی نظروں سے انجان خود سے بڑبڑاتے باہر کی جانب بڑھی۔۔
*************
مس اوزگل صدیقی کو بھیجو باہر۔۔۔۔۔۔۔۔' یونی سے نکلتا وہ جلدی سے اوزگل کے کالج پہنچا تھا ۔۔۔۔۔ باہر کھڑے چوکیدار سے اسے بلانے کا کہہ وہ گاڑی سے ٹیک لگائے مسکراتا اسی کی بابت سوچ رہا تھا۔۔۔۔ کل رات کیسے اسکی قربت میں وہ سہمی سی پڑی تھی جبکہ اشکان صدیقی تو اسکی جادوائی خوشبو کا اسیر ہو کے رہ گیا تھا۔۔۔۔کیسا سرور تھا اسکی قربت میں جو اشکان کی رگ و پے میں سرائیت کر چکا تھا۔۔۔ اسکی آنکھوں میں اپنی گل کو دیکھنے کی طلب تھی ایک چمک تھی جیسے وہ صدیوں سے اسے دیکھنے کو ترسا ہوا تھا۔۔
صاحب ____!" چوکیدار کی آواز پر وہ اپنے خیالوں کی دنیا سے نکلا تھا۔۔
صاحب وہ تو چلی گئی ہیں ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی نکلی تھی ۔۔۔" چوکیدار نے اسے اوزگل کی بابت آگاہ کیا تو اشکان کی آنکھوں میں عجیب سے تاثرات امڈے۔۔۔۔ وہ دانت پیستے اسکی جانب بڑھا۔۔ تم ایک لڑکی کا خیال نہیں رکھ سکے جب کل میں نے تمہیں کہا تھا کہ آج کے بعد اسے اکیلا مت جانے دینا تو پھر کیوں جانے دیا تم نے ۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ بمشکل سے اپنے غصے کو ضبط کر رہا تھا وگرنہ دل تو اس چوکیدار کو جان سے مار دینے کا چاہ رہا تھا۔۔۔۔سس سوری صاحبببب______وہ گھبراتا معذرت کرنے لگا تمہیں میں بعد میں پوچھوں گا۔۔۔۔ چوکیدار کو وارن کرتے وہ غصے سے پلٹتا ساتھ ہی اپنی گاڑی کی جانب بڑھا۔۔ پپپ پلیزززز مممم مجھے ججج جانے درد دو______!" وہ روتے ہوئے اپنی جھیل سی آنکھوں میں ڈھیروں آنسوں لائے ڈر سے کپکپاتے بول رہی تھی۔۔ ایسے کیسے جانے دوں کتنے دنوں سے تمہارا پیچھا کر رہا ہوں آج تو موقع ملا ہے بس تھوڑی دیر باتیں کریں گے پھر تم جا سکتی ہو۔۔۔۔ وہ ہنستا اوزگل کو سر تا پاؤں گہری نظروں سے دیکھتے بولا تو اوزگل نے روتے ہوئے اپنے آگے پیچھے دیکھا۔۔۔
اس معصوم کو کیا خبر تھی کہ اسے کوئی یوں راستے میں روکے پریشان کرے گا اسکا چہرہ خدررجہ سرخ ہو رہا تھا۔۔۔۔ نازک وجود ڈر سے لرز رہا تھا۔۔ وہ بمشکل سے اپنے پاؤں پر کھڑی تھی۔۔۔۔۔ اوزگل نے اس لڑکے کو اپنے آگے پیچھے چکر کاٹتے دیکھ جھٹ سے بھاگنے کی کوشش کی کہ اس لڑکے نے جھپٹتے اوزگل کے بازو کو پکڑا۔۔۔ کہاں جا رہی ہو۔۔۔۔۔اتنی جلدی ۔۔۔۔" وہ ہنستا اوزگل کی بے بسی کا مذاق بنائے کہہ رہا تھا۔۔۔
اوزگل نے التجائی نظروں سے اسکی جانب دیکھا جس کا اس لڑکے کو کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ اوزگل کو مزید پریشان کرتا پیچھے سے آتی اشکان صدیقی نے ٹھاہ سے اسکی کمر پر زور دار لات رسید کی۔۔۔۔وہ لڑکا اس اچانک حملے پر اوندھے منہ زمین پر گر گیا۔۔۔۔جبکہ۔اوزگل اپنے سامنے اشکان کا بپھرا ہوا روپ دیکھ وخشت زدہ سی ہو گئی۔۔۔اسکے چہرے پر تاریک سایہ لہرایا ۔۔
جبکہ اشکان اسے سرد نظروں سے گھورتے اب اس لڑکے کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔ اشکان نے اسکا دایاں ہاتھ جس سے اس نے اوزگل کا بازو تھاما تھا جھٹکے سے اوپر کھینچتے اسے گول گول گھمایا۔۔۔۔۔ وہ لڑکا درد کی شدت سے چیخنے لگا۔ اوزگل کا چہرہ ایک دم سے تاریک پڑ گیا۔۔۔جبکہ اشکان صدیقی نے اسکے بازو کو گھمائے توڑ ڈالا اور پھر جھکتے اسکے بالوں کو نوچتے وہ اسکا چہرہ اونچا کر گیا تیری اتنی اوقات کہ توں نے میری گل کی طرف آنکھ اٹھا کے دیکھا۔۔۔۔۔
اسکے سر کو زمین پر پٹختے اشکان نے زور دار ٹانگ اسکے پیٹ پر رسید کی۔۔۔۔اس لڑکے کے منہ سے خون ابلتا زمین پر گرا۔۔۔۔۔۔ اوزگل اسکی حالت کو دیکھ سانس روکے زرد پڑنے لگی۔۔۔ جبکہ اشکان اسکے بعد بھی رکا نہیں تھا ۔۔۔۔۔ وہ کسی زخمی ہوئے شیر کی مانند اسے پیٹ رہا تھا۔۔۔ بس لڑکے کیا جان سے مارو گے ۔۔دو موٹر سائیکل سوار اشکان کو یوں مارتا دیکھ بھاگتے آئے تھے اور فورا سے اسے تھامے اسے پرسکون کرنا چاہا ۔۔۔۔ جبکہ اشکان نے نفرت سے اسے گھورا جو ہوش و حواس سے بےگانہ ہوئے خون سے لت پت پڑا تھا۔۔۔۔۔۔
اپنے ہاتھ ان سے چھڑواتے وہ مڑتے اوزگل کو دیکھتا اسکی جانب بڑھا تھا جس کی ٹانگیں بری طرح سے کپکپا رہی تھی۔۔
************
ایک منٹ رکو یہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!" عبادت جو کہ ہاتھ میں سوپ کا باؤل تھامے اصلال کے کمرے کی جانب جا رہی تھی فرزانہ بیگم نے غصے سے آگے بڑھتے عبادت کا راستہ روکا۔۔۔ ججج جی پپ پھپھو۔۔۔۔۔" اپنے خشک پڑتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے وہ سمہی سی بولی۔۔ِ۔۔ فرزانہ بیگم نے اسکا سر تا پاؤں جائزہ لیا۔۔ جو اس وقت نیوی بلیو کلر کے پرنٹڈ سوٹ میں ملبوس تھی سر پر خوبصورتی سے دوپٹہ سجائے وہ بنا کسی بناوٹی سنگھار کے بھی بے حد حسین دکھ رہی تھی۔۔۔۔۔ دودھیا رنگت گلاب کی طرح سرخ تھی ۔۔۔ خوبصورت ہونٹوں پر لالی سے بکھری ہوئی تھی ۔۔۔۔۔اسکا دمکتا حسن فرزانہ بیگم کو آگ لگا گیا ۔۔۔۔ وہ دانت پیستے اسے گھورنے لگی۔۔۔
زیادہ آگے پیچھے پھرنے کی ضرورت نہیں ،اصلال کے سمجھی تم حد میں رہا کرو اپنی پہلے بھائ بھائی بول کر اپنے جال میں پھانس لیا اب یوں سج دھج کے اسے اپنا اسیر کرنا چاہتی ہو ___!" اسکے بازو کو دبوچتے وہ دھیمی آواز میں غرائی۔۔۔ نننن نہیں پپپ پھپھو ممممم مممیںںں ننننے ______!" عبادت ایک دم سے نم لہجے میں آنکھوں میں ڈھیروں آنسوں لیے بولی ۔۔۔۔۔ اسنے تو کبھی اصلال کو پھانسا نہیں تھا تو پھر اسکی پھپھو اسے کیوں ایسے کہہ رہی تھیں۔۔۔ زیادہ بھولی مت بنو تم ۔۔۔۔۔ سب جانتی ہوں تمہارے ناٹک ۔۔۔۔ جتنا ہو سکے دور رہا کرو اصلال سے، میرے ہوتے ہوئے تم کبھی بھی رخصت ہو کر اس گھر میں نہیں آؤ گی۔۔۔۔ " وہ نفرت سے تیز لہجے میں پھنکارتے جھٹکے سے اسکا بازؤ چھوڑتے ایک کاٹ دار نظر عبادت پر ڈال وہاں سے نکلی تھی۔۔۔ جبکہ عبادت اپنی بے قدری پر روتے ہاتھ میں پکڑے باؤل کو غصے بے بسی سے نیچے فرش پر رکھتی وہیں بیٹھے رونے لگی۔۔ اسے اندازہ تو تھا کہ اسکی دادو اور پھپھو اسے پسند نہیں کرتے تھے مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ ان سب کی نظر میں وہ اس قدر بری لڑکی تھی ۔۔۔ ماں باپ کی لاڈلی بھائیوں کی چہیتی بہن جس میں سب کی جان بستی تھی ، کیسے وہ اس پر ایسے برے برے الزام لگا گئی تھیں۔۔۔کیا وہ اسکی پھپھو ہو کر بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ ایسی نہیں تھی۔۔۔۔۔
وہ بچوں کی طرح آوازیں نکالتے ہچکیوں میں رو رہی تھی ۔۔۔ چھوٹی سے ناک بھی رونے کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھی ۔۔۔۔ اصلال جو اسے دیکھنے نیچے اترا تھا اچانک سے کسی کی رونے کی آواز پر ٹھٹھکا ، ماتھے پر بل ڈالے وہ سیڑھیوں کے درمیان کھڑا اپنا بایاں ہاتھ ریلنگ پر رکھے غور سے اس آواز کو سنتے سمت کا تعین کرنے لگا کہ آخر آواز کہاں سے آ رہی تھی ۔۔
اصلال نے غور کی تو سامنے ہی ہال میں ایک جانب۔ صوفے کے پیچھے سے نظر آتے عبادت کے آنچل کو دیکھ وہ بھاگتے سیڑھیاں اتراتے اسکے قریب گیا۔۔۔۔۔ عبادت کیا ہوا ہے کیوں رو رہی ہو ۔۔ گھٹنوں کے بل اسکے قریب جھکتے اصلال نے اپنا بھاری ہاتھ عبادت کے ناتواں کندھے پر رکھا ۔۔۔۔ عبادت نے مڑتے اسے دیکھا تو اصلال کی نظریں عبادت کے آنسوں سے تر چہرے سے ہوتی اسکی سنہری سرخ آنکھوں پر پڑی۔۔۔۔۔ اصلال نے آنکھیں میچتے اپنے اشتعال کو دبانا چاہا تھا۔۔
ععع عالمممممم _____ اصلال کو دیکھ عبادت کے رونے میں روانی آئی تھی وہ اونچی آواز میں روتے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی۔ اصلال نے لہو رنگ آنکھوں سے چاروں اطراف دیکھا۔۔۔ وہ تو پہلے ہی کبھی اسکے آنسوں برداشت نہیں کر پاتا تھا اور اب اب تو وہ اسکی ملکیت میں تھی۔۔۔۔ اسکی بیوی ۔۔۔۔۔۔ " اصلال نے عبادت کی کمر کو تھامے اسے کھینچتے خود سے قریب تر کیا ، عبادت سہم سی گئی ___ اششششششش آواز مت آئے ۔۔۔۔۔ اسکے ہلتے لبوں کو دیکھ اصلال نے اپنی شہادت کی انگلی اسکے ہونٹوں پر رکھی عبادت نے آنکھیں پھیلائے اصلال عالم کو دیکھا جس کی آنکھوں سے لہو ٹپک رہا تھا۔۔۔ اصلال نے اسے بانہوں میں بھرا تو عبادت نے مضبوطی سے اسکے گریبان کو اپنی مٹھیوں میں دبوچا ______ عبادت ایک دم سے خاموش ہوتے چپ سادھ گئی ، اسکے دماغ سے فرزانہ کا ڈر نکلتے حواسوں پر اصلال عالم کا روعب طاری ہوا۔۔۔
اصلال نے پاؤں سے دروازہ کھولا اور چلتے اسے صوفے پر بٹھائے وہ اسکے پاس بیٹھا۔۔۔۔۔ عبادت ہنوز اسکے ڈر سے نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔۔ کس نے کچھ کہا تمہیں عبادت نام بتاؤ______" وہ بولا تو لہجہ بلکل سرد تھا آنکھوں میں وخشت طاری تھی۔۔ ننننن نہیں ککک کسی ننننے کک کچھ نننن_____" شٹ اپ۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ دھاڑا تھا عبادت پر وہ سہمتی چیختی جگہ سے اچھل پڑی۔۔۔۔ جھوٹ نہیں۔۔۔۔۔۔" عبادت کی آنکھوں میں اپنی سیاہ غصے سے لبریز آنکھوں کو گھاڑے وہ چٹان سے مضبوط لہجے میں بولا ۔۔۔۔۔ اگر اب جھوٹ بولا تو اسی کمرے میں تمہاری قبر بناؤں گا اپنے ہاتھوں سے۔۔۔۔۔۔ " اسکے لہجے میں ٹہراؤ تھا جیسے وہ اپنے کہے پر عمل کرنے سے ذرا بھی کترانے والا نہیں تھا۔۔
عبادت نے لب بھینج لیے۔۔۔۔۔ اصلال عالم کی نظریں اسکے بھیگے آنسوں سے تر چہرے سے ہوتے اسکی سرخ چھوٹی سی ناک پر ٹہری۔۔۔۔۔ اسنے سرد سانس فضا کے سپرد کیے عبادت کی گردن کے گرد اپنا بھاری ہاتھ لپیٹ ایک دم سے عبادت کے چہرے پر جھکے اپنے سلگتے ہونٹوں سے اسکے آنسوں چننے لگا۔۔۔ عبادت نے ڈرتے آنکھیں زور سے میچ لیں۔۔۔۔ عبادت کا سانس اصلال کے شدت بھرے لمس پر بھاری پڑنے لگا ، کمرے کی معنی خیز خاموشی میں عبادت کی بھاری ہوتی سانسیں اصلال عالم کو بخوبی سنائی دے رہی تھی ۔۔ اب بتاؤ کس نے ڈانٹا تمہیں۔۔۔۔۔ وہ ہیچھے تو ہوا تھا مگر ابھی تک عبادت کے چہرے کے قریب اپنا چہرہ لے جاتے وہ ابکی بار نرم لہجے میں استفسار کرنے لگا۔۔۔
وو ووہ پپپ پھپھو نن نے ککک کہا کہ آپپپ سسے دور رررررہوں میں۔۔۔۔۔۔ اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو مروڑتے وہ نظریں جھکائے بولی جبکہ اصلال جانتا تھا کہ وہ آدھی بات چھپا رہی تھی۔۔۔۔۔ ہمممممم تمہیں کسی دوسرے کی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں تم میری بیوی ہو جیسے میں اپنا حق جتاتا ہوں تم پر تم بھی سب کے سامنے جتایا کرو ۔۔۔۔۔۔ بتایا کرو کہ تمہارا کیا رشتہ ہے اصلال عالم سے کسی کو کوئی بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ تمہیں مجھ سے دور کرے ۔۔۔۔۔۔ اور ناں ہی میں تمہیں یہ حق دوں گا کہ تم دوسروں کے کہنے پر مجھ سے دور جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔ " میری بات سمجھ آئی وہ اسے سمجھاتا استفسار کرنے لگا تو عبادت نے فورا سے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔
سوپ کہاں ہے میرا _____؟" عبادت کا دھیان بھٹکانے کو اصلال نے حیرت سے آگے دیکھتے پوچھا۔۔۔وو وہ ںبب باہر ہے میں لل لاتی ہوں۔۔۔۔۔" عبادت اسے بتاتے ساتھ ہی سوپ کا باؤل جو اسنے باہر فرش پر رکھا تھا لینے باہر کی جانب بڑھی۔۔۔۔ اصلال نے گہری نظروں سے گردن گھمائے عبادت کی پشت کو دیکھا۔۔اور چلتا کھڑکی کے پاس گیا ۔۔۔۔۔
ہاں راحب بات سنو ____ میری کل کی ٹکٹ کنفرم کراؤ دوبئی کی____!" اسکی آنکھوں میں گہرے سائے تھے جیسے بہت مشکل سے فیصلہ لیا ہو مگر اسے جانا تھا کل ہی ایک آخری بار اپنی غلطی پوچھنے اپنے کیے اس گناہ کا پوچھنے جس کی سزا میں اس سے اسکا بچپن چھن گیا تھا۔۔۔
اشکان اسے گاڑی میں بٹھائے بنا کچھ کہے خود بھی گاڑی میں بیٹھا ، اوزگل کا پورا وجود اشکان کے خوف سے کپکپا رہا تھا اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ اسے جان سے ہی ناں مار دے۔۔۔ جبکہ اشکان صدیقی تنے اعصاب سے جبڑے بھینجتے ڈرائیو کر رہا تھا اسنے ایک نظر بھی اوزگل پر نہیں ڈالی تھی جس وجہ سے اوزگل مزید ڈری سمہی سی تھی۔
گاڑی مخصوص جگہ پر ایک جانب روکتے اشکان نے سرد سانس فضا کے سپرد کیے اوزگل کو دیکھا، اشششکانن____ اوزگل ڈرتے اسکا نام توڑتے ادا کرنے لگی جبھی اشکان نے آنکھیں موندے خود کو پرسکون کرنا چاہا تھا___ اشکان نے گردن گھمائے اوزگل کے آنسوں سے تر چہرے کو دیکھا،اور پھر بے حد نرمی سے اسکے نازک ہاتھ کو اپنے مضبوط ہاتھ میں لیے اشکان نے بغور اس سرخ نشان کو دیکھا اور پھر جھکتے اپنے ہونٹ اسکے ہاتھ پر پڑے نشان پر رکھے ۔
اوزگل جو کسی سخت ردعمل کی متوقع تھی اچانک سے اپنے بازو پر اشکان کے ہونٹوں کو محسوس کیے اسنے پٹ سے آنکھیں کھولی ، تو اپنے ہاتھ پر جھکے اشکان صدیقی کو دیکھ اسکا دل دہک سے رہ گیا۔۔ اپنی جھیل سی آنکھوں کو پھیلائے وہ بغور اسے دیکھنے لگی جس کے لمس میں محبت تھی وہ نرمی سے اوزگل کے ہاتھ پر لب رکھتا اپنے غصے کو قابو کرنے کی سعی کرنے لگا۔۔
اشششکانن ممم ممجھے بھوک لگگگی تتتھی ممممم میںں اسسی لئے ممم۔میں ککک کالج سے نکلی ___ اپنے چہرے پر دنیا جہاں کی معصومیت سجائے وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھتے رندھی آواز میں بولی تو اشکان نے سرد سانس فضا کے سپرد کرتے اوزگل کے ہاتھ کی پشت پر لب رکھے۔ تم جانتی ہو میں کتنا ڈر گیا تھا تمہارے لئے تمہیں کالج ناں پا کر ____
میری پہلی محبت میرا عشق میرا سب کچھ ہو تم __ تمہیں کوئی دیکھے تو مجھ سے گوارہ نہیں ہوتا میرا بس چلے تو میں ان سب کی آنکھیں نوچ لوں جو اپنی ہوس بھری گندی نگاہوں سے تمہیں گھورتے ہیں ۔ اشکان نے بے حد آہستگی سے اوزگل کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے اپنے دہکتے ہونٹ اوزگل کی پیشانی پر رکھے اوزگل اشکان کے لمس پر ڈرتے آنکھیں مضبوطی سے موند گئی ۔
اشکان صدیقی اسکی مدہوش کرتی خوشبو میں کھویا اپنے ہونٹوں سے اسکے معصوم چہرے کو چھوتا اپنا شدت بھرا لمس چھوڑنے لگا۔ اوزگل کا سانس اسکے سینے میں الجھنے لگا اسنے مضبوطی سے اشکان کی شرٹ کو مٹھیوں میں دبوچا _ بھوک لگی ہو گی میں ابھی آتا ہوں۔۔۔۔ نرمی سے پیچھے ہوتے اشکان نے پھرپور نظر اوزگل کے سرخ چہرے پر ڈالی اور پھر گاڑی لاک کیے وہ ہوٹل۔کی جانب بڑھا ۔۔۔
وہ جانتا تھا اوزگل کو بھوک لگی ہو گی جبھی وہ ہوٹل آیا تھا مگر وہ ہوٹل میں لے جاتے اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں۔کر سکتا تھا کیونکہ یہ وقت وہ صرف اور صرف اپنی گل کے ساتھ گزرانا چاہتا تھا۔۔۔
وہ واپس آیا تو اوزگل بے چینی سے پہلوں بدلتے اسی کا انتظار کر رہی تھی اسنے بے تابی سے اشکان کو دیکھا جو اسکی بے تابی نوٹ کرتا گہرا مسکرایا۔۔ اوزگل نے جھٹ سے نظریں گھما دیں ۔
بریانی _____ بریانی کو دیکھتی وہ خوشی سے چہکتے بولی تھی گہری سیاہ آنکھوں میں بریانی کو دیکھ ایک الوہی سی چمک دھر آئی ۔۔۔۔اوزگل کی بے تابی اشکان کو مسکرانے پر مجبور کر گئی۔ میں خود کھلاتا ہوں وہ جانتا تھا میڈم کو بریانی بے حد پسند ہے جبھی وہ خاص اسکی خوشی کیلئے بریانی لایا تھا۔۔
مجھے صبر نہیں آتا ایسے اشکان۔۔۔۔ اشکان کی ذرا سی محبت کئیر سے وہ پھر سے پہلے کی جیسے منہ بنائے بولی ۔۔ تو اشکان نے گہرا سانس فضا کے سپرد کرتے اپنی۔حسین بیوی کو دیکھا۔۔
تو عادت کیسے ڈالو گی خود کو میں چاہتا ہوں کہ میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے کھلاؤں ، وہ مسکراتے اوزگل کی تیکھی ناک کو کھینچتے ہوئے شرارت سے بولا"۔ عادت کیسی اشکان ہم اچھے دوست ہیں ناں۔۔۔۔۔ اوزگل جیسے یقین دہانی چاہ رہی تھی اشکان کئی سانیے اسے بغور دیکھتے سر جھٹک گیا ۔
ہاں ہم اچھے دوست ہیں مگر اسکے ساتھ ساتھ ہمارا ایک اور رشتہ بھی ہے میاں بیوی کا______ اشکان نے گہرے لہجے میں کہتے اوزگل کے تاثرات دیکھے جو اب سکون سے بریانی سے انصاف کر رہی تھی۔ اشکان خاموشی سے اسے دیکھتا رہا ۔ جو پہلے سے کئی زیادہ پرسکون اسکے ساتھ بنا ڈرے بیٹھی تھی ۔
اشکان نے سوچ لیا تھا کہ وہ اپنی محبت سے اسے جیتے گا۔۔ اسے سمجھائے گا کہ یہ رشتہ ان دونوں کیلئے کس قدر اہم ہے ۔۔ ایک لڑکی جب مرد سے محبت لاڈ اٹھواتی ہے تو اسکے اندر کا خوف سارا ڈر کہیں دور جا سوتا ہے ۔ وہ خود میں ایک مان محسوس کرتی ہے جیسے یہ ساری سلطنت اسی کی ہو ۔۔۔ اشکان سمجھ گیا تھا کہ اسے ضد سے نہیں محبت سے اوزگل کو اپنا بنانا تھا۔
***************
بہت جلدی ہی نہیں آئی تم سوپ لے کر ____!" وہ شاور لیتا فریش سا اپنے نم بالوں میں ہاتھ چلاتے عبادت کی پشت کو گہری نظروں سے دیکھتے طنز کرنے لگا ۔ عبادت جو سوپ کا باؤل میز پر رکھ رہی تھی اصلال کی آواز پر ایک دم سے چونکتے مڑی ۔۔۔ مگر اصلال عالم کو شرٹ لیس اپنے نم بالوں میں ہاتھ چلاتے اپنی جانب آتا دیکھ عبادت کی سنہری آنکھیں حدردجہ پھیلی ۔
وہ جھٹکے سے رخ موڑتے آنکھیں مضبوطی سے میچ گئی۔۔ چہرہ شرم سے دہکتا لال انگارہ ہونے لگا ۔۔
اب لے آؤ سوپ_______" وہ پاؤں لٹکائے بیڈ پر بیٹھا اپنی سیاہ آنکھوں میں عجیب سی کشش لئے عبادت کی پشت کو گھورتے بولا تو وہ گڑبڑا سی اٹھی۔
ہہہ ہاں نن نہیں ممم مطلب آپ پہلے شش شرٹ ڈالیں۔۔۔۔ وہ پزل سی ہوتے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے تھوک نگلتے بمشکل سے بول پائی تھی اصلال جو دونوں ہاتھ پیچھے بیڈ پر پھیلائے لیٹنے سے انداز میں بیٹھا تھا اسکے ماتھے پر بل نمودار ہوئے وہ سوچ میں مبتلا ہوا اور پھر ایک دم سے جیسے اسے سمجھ آیا تھا ۔۔۔وہ سر ہلائے جگہ سے اٹھا۔۔۔
اور وارڈروب سے اپنی بلیک شرٹ نکالے وہ کف پیچھے کو فولڈ کرتا اوپری دو بٹن کھلے چھوڑ نیچے والے سب بٹن بند کیے بیڈ کی جانب آیا اور غصے سے عبادت کی پشت کو گھورا جو پیٹھ کیے کھڑی تھی ۔۔
ہمممم پہن لی عبادت میڈم______ وہ دانت پر دانت جمائے بدمزہ ہوئے بولا تھا ۔۔ جبکہ عبادت سنتی شکر کا سانس خارج کرتے باؤل اٹھائے مڑی ۔۔۔
یییی یہ اپپ انن کو ببببھی بببنند کریں____" عبادت کی نظریں سیدھے اسکے کھلے بٹنوں میں سے جھلکتے شفاف سینے پر ٹہری وہ تھوک نگلتے آنکھوں میں شرم و جھجھک کے تاثرات لیے بولی تو اصلال دانت پیستے جگہ سے اٹھا۔۔
عبادت نے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھا جو تیزی سے اسکی جانب بڑھ رہا تھا عبادت ڈرتی پیچھے ہوتے دیوار سے جا لگی۔۔۔ اسکے ہاتھ میں موجود سوپ کا باؤل کپکپا رہا تھا جیسے ابھی گرنے لگا ہو ۔ اصلال نے آگے بڑھتے تیزی سے باؤل تھامے مڑتے میز پر رکھا اور پھر واپس مڑتے اپنے دونوں ہاتھ دیوار پر عبادت کے دائیں بائیں جمائے وہ بغور اسکی بند لرزتی پلکوں کو دیکھنے لگا۔۔۔
کئی لمحوں تک اسکے سحر میں جکڑا وہ اسکے معصوم۔نقوش کو نظروں سے میں اتارتے اسکے چہرے کے قریب جھکا۔۔
اصلال کی سلگتی گرم سانسیں عبادت کو اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ مگر وہ لرزتے وجود سے کانپتی ٹانگوں سے بمشکل سے کھڑی تھی۔۔
مانا کہ شریف ہوں مگر اتنا بھی نہیں ہوں۔۔۔ " اسکا اشارہ عبادت کی کہی بات کی طرف تھا۔۔۔ وہ جھکتے اسکے کان کی لو پر لب رکھتے اپنے ہونٹ وہاں سے نیچے کو سرکاتا عبادت کی گردن پر ثبت کر گیا ۔۔۔۔عبادت نے ڈرتے اصلال کی مونچھوں کی چبھن کو محسوس کرتے اپنے حواسوں پر طاری ہوتی اسکی جان لیوا مدہوش کن خوشبو میں گہرا سانس بھرتے اپنے ڈر پر قابو پانا چاہا ۔۔
جبکہ اصلال عالم تو جیسے اپنے ہونٹ عبادت کی گردن پر رکھے پلٹنا ہی بھول چکا تھا۔۔۔ وہ بس ساکن سا ایک ہی جگہ کھڑا اپنے ہونٹ اسکی گردن پر ایک ہی مقام پر ثبت کیے جانے کتنی دیر اس نازک وجود کو خوشبو کو خود میں انڈیلنے لگا۔۔۔
عبادت کا لرزتا وجود وہ بخوبی محسوس کر رہا تھا مگر وہ اپنے جذبات کے آگے اسکے ڈر کی کوئی پرواہ نہیں کرتا تھا۔۔ وہ جانتا تھا کہ وہ غلط کر رہا تھا اسے عبادت کو وقت دینا چاہیے تھا خود کو وقت دینا چاہیے تھا کہ رشتہ جس قدر جلدی میں قائم ہوا تھا اس کے لئے ضروری تھا کہ عبادت اپنی سوچ اور دماغ دونوں کا رخ بدلتی مگر وہ خود پر بھی حیران تھا کہ آخر کار وہ کیوں اسے وقت نہیں دے پا رہا تھا۔۔
وہ محبت تو نہیں کرتا تھا عبادت سے ۔۔۔۔ وہ جنون بھی نہیں تھا اسکا ۔۔ وہ پسند بھی نہیں تھی اصلال عالم کی ___ اگر کوئی رشتہ تھا تو وہ صرف ایک ہی تھا اصلال عالم کی ملکیت کا۔۔۔۔ اسکا نشہ جیسے اصلال عالم کی سانسوں کے لئے ضروری ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔
کل دوبئی جا رہا ہوں کسی کام سے ________" اصلال کا بایاں ہاتھ عبادت کے سر پر تھا اپنی شہادت کی انگلی سے اسکے دوپٹے کو پیچھے کی جانب پھینکتے وہ گھبیر ہوئے لہجے میں بولنے لگا۔۔ عبادت نے پھک سے آنکھیں کھولے اسے دیکھا۔۔
کسی کو بھی مت بتانا تمہیں بتا رہا ہوں کیونکہ تم بیوی ہو میری ______" وہ احتیاط سے سر آگے کی جانب کرتا دھیان سے عبادت کے بالوں کو کھولنے لگا کہ اسے تکلیف ناں ہو اور وہ اپنا کام مکمل کر سکے۔ جبکہ عبادت تو کبھی اسکی باتوں سے الجھ رہی تھی کبھی اسکی بے باکیوں سے کانپ رہی تھی جو سرعام اپنی من مانیاں ڈھٹائی سے سر انجام دے رہا تھا ۔۔
کچھ چاہیے تو بتا دو ____ کیچر پیچھے کی جانب پھینکتے وہ ہاتھ سے عبادت کے چہرے پر آتے سنہری بالوں کو پیچھے کرتے اپنے ہاتھ سے انکی نرماہٹ محسوس کرنے لگا ۔
عبادت ہنوز دم سادھے اسکے سینے سے لگی سانس روکے ہوئے تھی۔ زبان ہے پاس ____ " اسے خاموش کھڑا دیکھ اصلال نے ہاتے اسکی نازک کمر کے گرد لپیٹتے اسے قریب تر کیا ۔۔۔ عبادت کا دل جیسے اچھل کے حلق میں آیا تھا۔۔۔ اصلال کی آنکھوں میں جھلکتا خمار وہ پہلے ہی دیکھ چکی تھی جبھی جلدی سے واپس جانے کو پرتول تھی مگر اصلال عالم کے چاہے بنا ایسا کیسے ہو سکتا تھا۔۔ بولو کچھ چاہیے ۔۔۔۔۔ اصلال نے نرمی سے اسکے سر کے پیچھے سے بالوں میں ہاتھ ڈالے نرمی سے کھینچتے عبادت کا چہرہ اوپر کی جانب کیا ۔۔۔
اسکی بھٹکتی نظریں عبادت کے لرزتے گلابی ہونٹوں پر تھیں۔۔۔ وہ بے بس سی کسی پرندے کی مانند اسکے مضبوط حصار میں قید کھڑی تھی ۔۔۔ نننننن______" وہ بشمکل سے لڑکھڑاتی آواز میں بولنے لگی کہ ایک دم سے جھکتے اصلال عالم نے مدہوشی سے عبادت کے نازک ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لیا ۔۔
عبادت اپنے ہونٹوں پر اصلال عالم کی گرفت محسوس کرتی اہنی۔منتشر ہوئی دھڑکنوں سے بےجان سی آنکھیں میچے کھڑی تھی ۔ جبکہ اصلال عالم آج پہلی بار اپنے جائز حق کے ہوتے اسکی سانسوں سے قریب تر اسکی خوشبو کو اپنی سانسوں میں بھرنے لگا۔۔
اسکا پور پور مدہوش ہونے لگا ۔۔۔ وہ کسی سائے کی مانند اس نازک وجود پر اپنا سایہ کئے اسکی سانسوں کو خود میں الجھائے اسے خود میں بھینجتا چلا جا رہا تھا۔۔عبادت کی مزاخمت دم توڑ چکی تھی جبکہ اصلال عالم کی مونچھوں کی چبھن اپنے ہونٹوں پر وہ بخوبی محسوس کر پا رہی تھی۔
اس نازک جان کا سوچتے وہ ناچاہتے ہوئے بھی اپنے جذبات پر بندھ باندھے پیچھے ہوا ۔۔۔۔ کیسا سرور تھا اسکی قربت میں کیسا نشہ تھا ان مہکتی سانسوں کا۔۔۔۔۔ " مجھے آج یقین ہو گیا ہے عبادت اصلال عالم کہ تم مجھے ان سگریٹوں کو چھوڑنے میں کافی مدد گار ثابت ہونے والی ہو ۔۔۔۔۔۔
عبادت جو اسکے چوڑے سینے پر سر رکھے اپنا سانس بحال کر رہی تھی اپنی کمر کے گرد اسکے بھاری ہاتھ کی سخت گرفت اصلال کے بےباک جملے کو سنتی سہم سی گئی۔۔۔۔ سنہری آنکھوں میں آنسوں آنے لگے اسنے غصے سے ناک اسکے کھلے بٹن سے نمودار ہوتے سینے سے رگڑی تو اصلال نے ہیٹھ تھپتھپاتے اسے شاباش دی تھی جیسے۔۔۔۔۔"
سوری مسز عالم مگر یہ ڈوز ضروری تھی امید ہے کہ آپ کو برا نہیں ہو گا۔۔۔ اپنی مرضی کرتا وہ جھکتے اسکے بالوں میں چہرہ چھپائے مسکراتے پوچھنے لگا ۔۔ جیسے وہ اسکے پوچھنے پر جواب دے دے گی۔۔
آج دو بجے نکلنا ہے مجھے ۔۔ انش کے ساتھ کالج چلی جانا اور اسی کے ساتھ واپس آنا۔۔۔۔۔ میں کوشش کروں گا جلد ہی واپس آ ںسکوں۔۔۔
وہ اب نرمی سے اسکے سر کو سہلاتے اسے پرسکون کرنے لگا۔۔ حقیقتاً اسے اپنی کی اس بے اختیاری پر برا لگ رہا تھا مگر وہ شرمندہ بلکل بھی نہیں تھا ناں ہی کبھی ہو سکتا تھا عبادت کے معاملے میں___!" کچھ چاہیے تو بتا دو لیتا آؤں گا___ کمرے کے معنی خیز خاموشی کو توڑنے کی سعی کرتے اصلال عالم نے پھر سے نرمی سے پوچھا ۔۔۔
عبادت نے گردن نفی میں گھمائے اس بار خود کو بولنے سے باز رکھا تھا۔۔ اچھا جاؤ ریسٹ کرو ۔۔۔۔۔۔ اصلال نے جلے دل سے اس نرم و ملائم وجود کو خود سے دور کرتے نظریں پھیرے کہا تھا عبادت نے جلدی سے اپنے کیچر کو ڈھونڈا مگر اسے ناں پاتے وہ یونہی دوپٹہ الٹا سیدھا لیے الٹے قدموں سے بھاگتے باہر نکلی ۔۔۔ اصلال نے مسکراتے تاسف سے سر نفی میں ہلایا۔۔۔
اور چلتے بیڈ کے قریب گیا ۔۔ایک نظر باؤل کو دیکھ اسنے بیٹھتے باؤل کو تھاما تھا سوپ اچھا خاصا ٹھنڈا ہو چکا تھا جس کا قصور وار وہ خود ہی تھا جبھی بنا سوچے وہ باؤل ہی اٹھائے منہ کو لگاتا ایک ہی سانس میں سوپ پی گیا ۔۔
ٹیسٹ اتنا اچھا نہیں تھا مگر پہلی بار کے حساب سے اچھا بنا تھا ۔۔۔۔ اسنے ایک نظر گھڑی کو دیکھا رات کے گیارہ بج رہے تھے ۔۔۔ وہ سو نہیں سکتا تھا کچھ ہی دیر میں اسے نکلنا تھا جبھی ریسٹ واچ پر وقت دیکھتا وہ گہرا سانس فضا کے سپرد کیے اٹھا۔۔
*************
اوزگل کو گھر ڈراپ کیے وہ مسکراتا آگے سے کئی گناہ زیادہ پرسکون اندر داخل ہوا تھا۔۔۔ اسکے چہرے پر اطمینان کی عجب سی کشش بکھر رہی تھی جیسے سکون اسکے انگ انگ میں سرائیت کر رہا ہو۔۔
اشکان ادھر آؤ بات سنو _____!" وہ جو سب کو اگنور کیے سیٹی کی دھن پر گنگناتا کمرے کی جانب بڑھا تھا عافیہ بیگم نے اسے آواز دیے روکا۔۔
اشکان نے مڑتے اپنی دادو اور ماما کو دیکھ اور پھر گہرا سانس فضا کے سپرد کیے وہ کندھے اچکائے انکے قریب گیا ۔
باہر سے آ کر سلام دعا کرتے ہیں بیٹا_____" دادو نے اسکے سر پر بوسہ دیے ہدایت دی۔۔ ڈارلنگ میں نے سلام بھی کیا تھا اور دعا بھی ____ اپنی دادو کے قریب بیٹھتے وہ ہاتھوں کا حصار بنائے شرارت سے بولا ۔۔۔اسکے اچھے موڈ پر عافیہ بیگم چونکی تھی مگر پھر دل سے خوش ہوتے اللہ کا شکر بھی ادا کیا کہ چلو خوش تھا ۔۔ان کا بیٹا۔۔
مجھے تو سنائی نہیں دیا پتر کب کیا توں نے سلام___!" دادو نے اسے گھورتے استفسار کیا۔۔۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو مجھ سے سچی محبت نہیں ہے دادو اگر ہوتی تو میرے دل سے نکلی آواز آپ تک ضرور جاتی۔۔۔ عافیہ بیگم جو فروٹ کاٹ رہی تھیں انکی پلیٹ سے جھکتے سیب کا ٹکڑا اٹھائے وہ سنجیدگی سے بولا ۔۔ دادو نے جز بز سا ہوتے اسے گھورا اور پھر سمجھ آنے پر زور دار تھپڑ اسکے چوڑے بازو پر جھڑا۔۔
کھوتے دادی سے مذاق کرتا ہے۔۔۔ " وہ مصنوعی غصے روعب سے بولی تو اشکان نے قہقہ لگاتے انکے سر پر ہونٹ رکھے ۔۔۔۔ مذاق نہیں تھا ڈارلنگ میں نے سچ میں دل میں سلام بھیجا ہے آپ پر۔۔۔" وہ جان بوجھ کے انہیں چڑانے کو بولا تو عافیہ بیگم نے خفگی سے اسے گھورا۔۔
اچھا چھوڑ سب کچھ یہ بتا میری بہو سے ملا آج کہ نہیں۔۔۔" دادو نے مسکراتے اسکے خوشگوار موڈ کی وجہ ڈھونڈنی چاہی۔۔۔
اہا ابھی سے شک کرنےلگی ہیں آپ ویری بیڈ دادو ۔۔۔ وہ ناک چڑھاتے عورتوں کی طرح بولا تو دادو کا منہ کھلے کا کھلے رہ گیا جبکہ عافیہ بیگم نے بمشکل سے مسکراہٹ ضبط کی۔۔
شرم کر کچھ لڑکے میں کیوں شک کرنے لگی اور توں چاہے کھلے عام مل وہ بیوی ہے تیری تجھی کون روک سکتا ہے بھلا۔ دادو نے پہلوں بدلتے کہا تو اشکان نے فورا سے سر ہاں میں ہلاتے اتفاق کیا ۔
ماما آپ سے بات کرنی تھی_____" عافیہ بیگم جو خوش تھی کہ چلو وہ بھول گیا تھا اپنی بات اب پھر سے اسکے مخاطب کرنے پر گڑبڑا سی گئیں۔۔
ہاں بب بولو میں سن رہی ہوں۔۔۔
وہ نظریں چرائے بولیں۔۔ آپ بابا سے بات مت کریں جب تک گل کی سٹڈی مکمل نہیں ہوتی میں اسے وقت دینا چاہتا ہوں۔۔۔۔ اوزگل سے کیے وعدے کا سوچتے وہ فورا سے بولا تو عافیہ بیگم نے حیرت سے آنکھیں پھاڑے اسے گھورا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہوں۔
کیا ہو گیا ہے یار ماما ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں آپ____!" انکے گھورنے پر وہ چونکتے استفسار کرنے لگا۔۔۔ ییی یہ تم نے سچ میں کہا کہ یا پھر سے کوئی مذاق کر رہے ہو۔۔۔۔ انہیں یقین نہیں تھا آ رہا کہ کل تک جو رخصتی کیلئے پاگل ہوا جا رہا تھا اب اچانک سے کیسے مان گیا ۔۔
بس ماما میں نے بہت سوچا اور مجھے لگتا ہے کہ ابھی مجھے صبر کرنا چاہیے ویسے بھی اب گل میرے نکاح میں ہے اسے کوئی بھی مجھ سے الگ نہیں کر سکتا۔۔۔
اشکان نے رسان سے انہیں سمجھایا تو وہ سنتے سر ہاں میں ہلا گئی۔۔۔ وہ ابھی تک بے یقینی کی سی کیفیت میں تھی جبکہ اشکان اپنی دادو کے سر پر بوسہ دیے انہیں یونہی چھوڑتا اپنے روم کی جانب بڑھا۔۔
*************
سفید ماربل کی روش پر اپنے سیاہ بھاری بوٹوں میں مقید پاؤں رکھتے وہ شاہانہ چال چلتے آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔ بلیو تھری پیس کی جینز کے اوپر وائٹ شرٹ جس کے اوپری دو بٹن حسب معمول کھولے ایک کندھے پر اپنا بلیو کوٹ لٹکائے سیاہ آنکھوں میں بلا کا اعتماد غرور لئے وہ اپنے دراز قد سے شاہانہ انداز میں چلتا لفٹ میں داخل ہوا۔۔ اسکی آنکھوں میں عجیب سی سرد مہری دھری تھی ۔۔ جیسے وہ کسی انجان شخص سے بہت اہم مسلئے پر بات کرنے آیا ہو۔۔۔۔۔ اصلال نے اپنے بھاری سیاہ بوت میں مقید دائیں پاؤں کو ہلاتے اپنے نادر چلتے اضطراب کو دبانے کی سعی کی۔۔ اسکی بے چینی حد سے سوا تھی مگر وہ بظاہر خود کو پرسکون رکھ رہا تھا۔
خود پر کسی دوسرے کی نظروں کی تپش کو محسوس کرتے وہ چونکتے گردن بائیں جانب گھما گیا جہاں پرپل کلر کے سوٹ میں ملبوس اونچی پونی ٹیل بنائے ایک خوبصورت سی لڑکی اپنے بائیں ہاتھ کو سینے سے لگائے فائلز کو سینے سے پیوست کیے اسے ہی بغور دیکھ رہی تھی ۔۔
اصلال نے سر جھٹکتے نظروں کا رخ بدلا ۔۔۔ اور جلدی سے لفٹ کھلنے کا انتظار کرنے لگا۔۔۔ فورتھ فلور پر پہنچتے ہی لفٹ رکی تھی اصلال نے شکر بھرا سانس خارج کرتے قدم باہر رکھے اور پھر ایک ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے وہ خود پر اٹھتی ستائشی نظروں کو نظر انداز کرتا سیدھ سے چلتا جا رہا تھا۔
وہ پروقار چال سے چلتا کئیوں کے دل دھڑکا گیا، اسکی نظروں کا محور خود سے چند قدموں کے فاصلے پر موجود سفید شیشوں کا بنا دروازہ تھا ۔۔ اصلال نے تیز رفتار سے چلتے سیکنڈوں میں اس فاصلے کو ختم کیا اور بنا ناک کیے وہ ڈائریکٹ اندر داخل ہوا۔۔
ہُو دا ہیل آر یُو ___ کس سے پوچھ کر تم اندر آئے۔۔۔۔ میٹنگ روم میں موجود سینئرز جو انہماک سے کسی ٹینڈر کے متعلق بحث کر رہے تھے اچانک سے کسی اجنبی شخص کو اندر آتا دیکھ سہیل جعفری ایک دم سے اپنی جگہ سے اٹھتے دھاڑا ۔۔اصلال نے آواز پر ایبرو اچکائے سر تا پاؤں اپنے باپ کو دیکھا ۔
بلیک کلر کے تھری پیس میں ملبوس سفید داڑھی ہلکے سفید بال میں ڈرچو سفید دمکتی رنگت کا مالک وہ بالکل اصلال عالم کا عکس تھا مگر عمر میں بڑا___ آئی ایم دی سن آف مسٹر سہیل جعفری ون آف دی بیگیسٹ بزنس مین آف دوبئی۔۔۔۔۔وہ مسکراتے اپنے کندھے پر لٹکا کوٹ ایک کرسی پر رکھتے مسکراتے بولا۔۔۔
تو وہاں موجود پر شخص کے ماتھے پر ڈھیروں بل نمودار ہوئے ، سہیل جعفری نے الجھن سے اصلال عالم کے خوبرو چہرے کو دیکھا جو انکی جوانی کا عکس تھا، مگر اسکی آنکھیں اسکی آنکھیں بہت گہری تھی جیسے بہت کچھ چھپائے ہوئے ہوں اپنے اندر کچھ ایسا جیسے کئی گہرے پنے اسنے خود میں سمائے ہوں۔
بات کرنی ہے آپ سے مسٹر سہیل جعفری_____!" وہ ٹہرے لہجے میں سنجیدگی سے سہیل جعفری کی چھوڑی سربراہی کرسی پر بیٹھتا وہ ٹانگ پر ٹانگ جمائے بولا ۔
اسلام علیکم ممانی جان۔۔۔۔۔۔"اشکان صدیقی لان میں آتے بآواز بلند فرخندہ بیگم کو سلام کرتے سر آگے کیے بولا۔۔ وہ جو دوپہر کی چاہے سے لطف اندوز ہو رہی تھیں اشکان کی آواز پر چونکی اور پھر مسکراتے اپنا ہاتھ اشکان کے سر پر رکھا۔
ارے بیٹا آپ کب آئے۔۔۔۔۔"نکاح کے بعد آج وہ پہلی بار گھر آیا تھا فرخندہ سمجھ ناں سکیں کہ کیسا ری ایکشن دیں۔۔
بس ابھی آیا ہوں ممانی سوچا کہ آپ سے ملتا جاؤں۔۔" اشکان انکے ساتھ والی کرسی پر بیٹھتے بولا مگر اسکی نگاہیں بے تابی سے گل کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ اسکی یاسیت فرخندہ بیگم سے چھپی نہیں تھی۔مگر وہ کچھ بھی کہنا نہیں چاہتی تھیں۔
اچھا کیا آپ نے بیٹا آپ بیٹھو میں چائے بنا کر لاتی ہوں۔۔" وہ اٹھنے لگی مگر اشکان نے جلدی سے انکے ہاتھ کو تھاما ۔۔۔نہیں ممانی جان۔۔۔۔ آپ سے بات کرنی ہے کچھ۔۔۔۔" اشکان نے نظریں جھکائے کہا تو فرخندہ نے لمبا سانس لیے اسے دیکھا اور پھر اسکے ساتھ ہی واپس بیٹھیں۔۔
کہو اشکان کیا کہنا چاہتے ہو۔۔۔۔" انہوں نے بغور اشکان کے جھکے سر کو دیکھتے استفسار کیا۔ دراصل میں آپ سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔۔جو کچھ بھی ہوا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ممانی مگر میرا یقین کریں مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ۔ماما پاپا نے ماموں سے جھوٹ بولا ہے۔۔۔"
اشکان نے نظریں جھکائے کہا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ فرخندہ بیگم اسکے لیے دل میں کوئی بھی میل رکھیں۔۔ بیٹا جو بھی ہوا وہ ٹھیک نہیں تھا یہ بات تم بھی جانتے ہو کیونکہ کوئی بھی رشتہ جھوٹ کی بنیاد پر قائم نہیں رہ سکتا مگر مجھے خوشی ہوئی کہ تمہیں اپنی غلطی کا۔احساس ہے۔۔"
فرخندہ بیگم نے رسان سے اسے سمجھایا ،تو اشکان نے سنتے سرد سانس فضا کے سپرد کیا۔۔۔۔ ممانی اوزگل کہاں ہے۔۔۔" ناچاہتے ہوئے بھی وہ پوچھ بیٹھا، فرخندہ بیگم مسکرائی۔۔اندر ہے کمرے میں جاؤ مل لو۔۔۔۔ " فرخندہ بیگم نے مسکراتے اسے اجازت دی تو اشکان اٹھتے اندر اوزگل کے کمرے کی جانب بڑھا۔۔۔
اشکان صدیقی بنا ناک کیے اندر آیاتھا کیونکہ اسکے مطابق اسے اجازت کی ضرورت نہیں تھی وہ اسکی اوزگل کا کمرہ تھا مطلب اشکان صدیقی کا کمرہ۔۔ اشکان نے متاثر ہوتی نظروں سے پورے کمرے کو دیکھا جو کہ پورا پنک کلر سے ڈیکوریٹڈ تھا۔
اشکان دھیمے قدموں سے چلتا آگے بڑھا ، اسکی نظریں اوزگل کو ڈھونڈ رہی تھی معا وہ ٹھٹکا اسکی آنکھوں میں تیزی سے سرخی پھیلنے لگی وہ مبہوت سا صوفے سے نیچے فرش پر بکھرے ان سیاہ گیسوں کو دیکھتا سن سا ہو گیا۔ اشکان نے مسکراتے اپنے نچلے لب کو دبایا،اور پھر وہ دبے قدموں سے آگے بڑھتا اوزگل کے پیچھے کھڑا ہوا جو انہماک سے کوئی کتاب پڑھنے میں مصروف تھی۔۔
اشکان جھکتے اوزگل کے کان میں چیخا تو اوزگل اس اچانک افتاد پر ڈرتے جگہ سے اچھلتے اٹھی تھی، اسکے اچھلتے چیختے جگہ سے اٹھنے پر کتاب ایک دم سے نیچے گری تھی۔۔۔ اشکان اپنی ہنسی دبانے کے چکر میں سرخ ہوا کھڑا تھا۔اوزگل نے چونکتے مڑتے دیکھا تو سامنے ہی اشکان صدیقی ہاتھ کمر پر ٹکائے اپنی ہنسی دبانے کی کوشش میں لال پیلا ہوا جا رہا تھا،
اشششکانن___ اوزگل نے غصے سے دانت پیستے کہا تھا جبکہ اشکان صدیقی مبہوت سا ان ریشم جیسے سیاہ بالوں کو دیکھ رہا تھا جو اوزگل کے دونوں کندھوں پر لہرا رہے تھے۔ اشکان نے آگے بڑھتے اوزگل کا ہاتھ تھاما تو اوزگل نے چونکتے اسے دیکھا جس کی آنکھوں میں کئی رنگ تھے محبت کی ایک الوہی سی چمک تھی۔۔
"میں نے کبھی کسی سے محبت نہیں کی گل، مجھے شوہر سے پہلے اپنا دوست سمجھنا، میں نہیں چاہتا کہ میں اپنے اس رشتے کو کھو دوں ۔۔ " اوزگل کے ہاتھوں کو تھامے وہ محبت سے بولتا اسے کئی لمحوں تک ساکت سا ہونے پر مجبور کر گیا۔۔
اوزگل۔کی سیاہ جھیل سی آنکھوں میں ایک سایہ سا لہرایا، اوزگل نے جھٹ سے اپنا ہاتھ اشکان صدیقی کے ہاتھ سے نکالا۔۔تم کب آئے۔۔۔۔؟" اوزگل نے بے ساختہ اپنے بال ٹھیک کیے دوپٹہ صوفے سے نیچے جھول رہا تھا۔اشکان نے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا اور پھر بنا کچھ کہے وہ چلتا صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھا۔۔
کوئی کام تھا تمہیں۔۔۔۔۔"اوزگل نے فورا سے دوپٹہ خود پر لیتے پوچھا۔۔ نہیں دل چاہا تو ملنے چلا آیا۔۔" کندھے اچکاتے اشکان نے مسکراہٹ سے کہا تو اوزگل نے سر نفی میں ہلا دیا۔۔۔
تمہارے بال مجھے بے حد پسند ہیں گل۔۔۔۔"اشکان نے اوزگل کے ہاتھ کو پکڑتے کھینچتے اپنے قریب بٹھایا۔اوزگل سنتی نظریں جھکا گئی اسے سمجھ نا آیا کہ وہ کیسا ری ایکشن دے۔۔۔میں نے کچھ لیا ہے تمہارے لئے بہت پہلے ہی دینا چاہتا تھا مگر یاد نہیں رہا اب لاؤں گا کل ۔۔۔۔" اپنا ہاتھ آوزگل کے بالوں میں سے گزارتے وہ محبت سے اسے دیکھتے بولا۔۔ کیا لایا ھے مجھے بھی دکھاو ۔۔۔۔" اوزگل نے آنکھیں پھیلائے تجسّس سے پوچھا ابھی نہیں صبح تیار رہنا میں خود کالج ڈراپ کروں گا۔۔"
اوزگل کے حسین چہرے کو نظروں میں بسائے وہ محبت سے بولا۔۔
***********
زیادہ حیران ہونے کی ضرورت مسٹر جعفری۔۔۔۔ آپ سب بھی سوچ رہے ہوں گے کہ کیسا باپ ہے جو اپنے بیٹے کو ہی پہچان نہیں رہا۔۔۔دراصل میں چار سال کا تھا چھوٹا سا جب سب سے چھپ کر ایک کونے میں بیٹھ کر انہیں کال کی تھی بچہ تھا ناں مجھے لگا کہ اپنے بابا سے خود بات کروں گا ان سے پوچھوں گا کہ وہ کیوں مجھ سے بات نہیں کرتے ،مگر وہ آخری بار تھا جب میری مسٹر جعفری سے بات ہوئی۔۔۔"
ہے ناں مسٹر جعفری۔۔۔۔" میٹنگ میں موجود سبھی لوگ حیرت سے ایک دوسرے سے سوال و جواب کرتے اب مسٹر سہیل جعفری کو دیکھ رہے تھے۔۔ جو یک ٹک اصلال عالم کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ان کی آنکھوں کے سامنے آج سے بیس اکیس سال پہلے کا منظر لہرایا جب وہ آفس سے تکھے ہارے گھر لوٹے تھے۔۔
سکندر جعفری اپنے باپ کا نام دیکھ انہوں نے جھٹ سے کال پک کی تھی مگر سامنے ہی کوئی چار پانچ۔ سالہ معصوم وجود تھا جس کی آنکھیں رونے سے سرخ سوجھی ہوئی تھی وہ کسی دروازے کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا۔ لمحوں کا کھیل تھا جب اصلال عالم نے انہیں بابا کہا تھا وہ فورا سے چونکتے نفرت سے اسے جھڑک گئے۔۔
اصلال عالم نے فورا سے سہمی نظروں سے سانس روکے اپنے بابا کو دیکھا۔۔۔ کیوں چھوڑ گئی تمہاری ماں تمہیں ساتھ کیوں نہیں لے گئی اپنے۔۔۔ نا جانے کس کا خون ہو۔۔۔۔۔ " وہ نفرت و حقارت سے اس ننھے وجود کو دیکھتے کہہ رہے تھے۔۔۔۔اصلال عالم کی ہچکی بندھ گئی وہ معصوم جسے ان لفظوں کا مطلب تک نہیں پتہ تھا۔وہ بس خاموش دم سادھے اپنے بابا کو دیکھے گیا۔۔
اج کے بعد کال مت کرنا مجھے۔۔۔۔" یہ وہ آخری الفاظ تھے جن کی چھاپ آج تک اصلال عالم کے ذہن پر نقش تھی ۔۔۔وہ مطلب نہیں جانتا تھا ان باتوں گا مگر وقت نے اسے سب سمجھا دیاتھا۔۔۔۔اور آج اسکے اندر اپنے باپ سے بھی زیادہ نفرت موجود تھی کہ وہ اس شخص کا خون اسکا بیٹا تھا۔۔۔۔
پلیز آپ جائیں باہر ۔۔۔۔" مسٹر جعفری نے دہاڑتے کہا تھا لوگ سرگوشیاں کرتے باہر نکلے ۔۔ جبکہ اصلال عالم کرسی پر شاہانہ انداز میں جھولتا مسرور سا اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
کیا لینے آئے ہو تم جب میں نے کہا تھا کہ میرا تم سے کوئی رشتہ نہیں۔۔۔" اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینجتے وہ طیش سے سخت آواز میں غرائے۔۔۔۔۔ آہا ویٹ مسٹر جعفری آپ کے مطابق میں ناں تو آپ کا بیٹا ہوں ناں ہی آپ کا خون تو پھر ذرا زبان سنبھال کر اور لہجہ دھیما رکھ کر بات کریں۔۔۔۔" جھٹکے سے جگہ سے اٹھتے وہ چلتا انکے مقابل کھڑا ہوا۔۔۔۔۔
اچھا تو پھر کیا لینے آئے ہو یہاں اتنے سالوں کے بعد کیا ہے تمہارا میرے پاس۔۔۔۔" مسٹر جعفری نے ابکی بار اطمینان سے اسے دیکھتے پوچھا تھا مگر وہ خود جانتے تھے کہ کہیں ناں کہیں اتنے سال پہلے انکے کہے الفاظ بلکل غلط تھے۔۔۔ دل کے کسی کونے سے آواز آئی کہ اسے سینے میں بھینج۔لیں اپنے کہے لفظوں کی معافی مانگ لیں مگر انا کی دیوار نے انہیں روکے رکھا۔۔۔۔
یہ ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹس جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ بدقسمتی سے ہی سہی مند مسٹر سہیل جعفری آپ میرے باپ ہیں۔۔" یہ لیں غور سے دیکھ لیں۔۔۔۔ اسنے نفرت سے رپورٹس انکے سامنے میز پر پھینکی۔۔۔
سہیل جعفری کے چہرے پر سایہ سا لہرایا۔۔۔ انہوں نے بے یقینی سے ان رپورٹس کو تھاما۔۔۔۔ جس میں لکھا ایک ایک لفظ انکے چہرے کو تاریک کرتا گیا۔۔ گھبرائیں مت آج صبح آٹھ بجے کی رپورٹس ہیں۔۔۔ بہت محنت لگی دوبئی کی سب سے بیسٹ لائبریری سے ڈی این اے ٹیسٹ کروایا ہے۔۔۔" وہ پھر سے طعنہ دینے سے باز نہیں رہا۔۔۔
اتنے سالوں سے بے چین تھا۔۔۔ دنیا تسلیم ناں کرے تو انسان برداشت کر لیتا ہے مگر جب اپنا پیدا کرنے والا باپ ہی ماننے سے انکار کر دے تو پھر کیا گزرتی ہے انسان پر یہ آپ کبھی نہیں سمجھ سکتے۔۔۔۔۔" وہ کہتے قہقہ لگاتے انکے آگے پیچھے گھومنے لگا۔۔ جن کے کندھے جھکے ہوئے تھے آنکھوں۔ میں شرمندگی ہی شرمندگی تھی۔۔۔
ان۔پیپیرز پر سائن کریں۔۔۔۔۔۔ اسنے سپاٹ لہجے میں انہیں بولنے سے پہلے ہی وارن کیا۔۔۔۔ اس میں کیا ہے بببب۔بیٹا۔۔۔۔ "سہیل جعفری نے نظریں جھکائے کہا تھا ہاتھ کپکپا رہے تھے زبان بیٹا کہتے ہی شرمندگی سے لرز گئی۔۔
ہاہاہا مذاق اچھا کرتے ہیں آپ مسٹر پاپا ہاہاہاہاہا ۔۔۔۔۔۔۔ ان کاغذات میں لکھا ہے کہ میں مسٹر سہیل جعفری اپنے پورے ہوش و ہواس میں اپنی پراپرٹی جو میں نے بذات خود اپنے پیسوں سے پاکستان میں خریدی ہے میں وہ ساری کی ساری اصلال عالم کے نام۔کر رہا ہوں۔۔۔"
اصلال نے سرد سانس فضا کے سپرد کیے اپنے مقصد کی بات کی تھی جس کی وجہ سے اسے یہ ڈی این اے ٹیسٹ کرواتے سہیل جعفری کے سامنے اپنا آپ ثابت کرنا لازم تھا۔۔ کاغذ دو مجھے میں ابھی سائن کرتا ہوں۔۔۔٫" اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کرتے سہیل جعفری نے نگاہیں جھکائے کہا تو اصلال عالم اپنی فتع پر دلکشی سے مسکرایا۔۔۔
************
فون کر اصلال کو کہاں رہ گیا۔۔۔۔" نازیہ بیگم ہاتھ مسلتے چکر کاٹتے بولیں ۔۔۔۔جبکہ امل جو کب سے اصلال کا نمبر ٹرائے کر رہی تھی آؤٹ آف رینج سنتے بھڑک اٹھی۔۔۔۔
ماما میں تو کہتی ہوں چھوڑیں اسے۔۔۔۔ وہ نکل گیا ہے ہاتھ سے میں کسی اور کو پھانسنے کی کوشش کرتی ہوں۔۔"امل نے نازیہ بیگم کو مشورہ دیا جنہوں نے سنتے اسے سخت نظروں سے گھورا۔۔۔ کوئی بھی نہیں ملے گا اصلال جیسا۔۔جس کے سر پر ناں باپ ہے ناں ماں ناں کوئی بہن ناں بھائی۔۔۔۔" نازیہ بیگم نے امل کے کندھے پر چمٹ لگاتے دانت پیستے اس بے وقوف کو سمجھایا۔۔۔
ماما ایسے تو وہ قابو نہیں آنے والا ہمیں عبادت کو اسکی نظروں سے گرانا ہو گا ایسے کہ وہ خود ہی اسے طلاق دے دے۔۔۔۔" امل نے گہرے پرسوچ انداز میں سوچتے کہا تو نازیہ کو اسکی بات میں دم لگا تھا۔۔ کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو۔۔۔۔ مگر یہ۔کام ہم اتنی دور سے نہیں کرسکتے۔۔۔۔ "
فکر مت کریں ماما سامان پیک ہے میرا ہم آج ہی جائیں گے دادو کے گھر اور دوسری بات میرے پاس کوئی ہے ایسا شخص جو اس کام میں ہماری مدد کرے گا۔۔۔" امل نے شاطرانہ انداز میں سوچتے کہا تو نازیہ نے سنتے سر ہلایا۔۔۔۔۔ جو مرضی کرو مگر یاد رہے عبادت میرے بھائی کی بیٹی ہے چاہے اسکی ماں سے جتنی بھی نفرت ہو مجھے مگر میں عبادت کے ساتھ کچھ الٹا سیدھا نہیں ہونے دے سکتی۔۔۔ " امل کو دیکھتے نازیہ بیگم نے اسے وارن کیا۔۔۔
مگر حقیقتاً وہ جانتی تھی کہ اگر عبادت کے ساتھ کچھ بھی الٹا سیدھا ہوا تو اسکا بھائی تو بعد میں اسکا باپ پہلے ہی اسکی چمڑی ادھیڑ دے گا۔۔"
************
عبادت توں نے پوچھا تھا اپنے بھائی سے میرے بارے میں۔۔۔۔۔" عبادت جو تھکی ہاری سی چھٹی کے وقت گیٹ کی جانب بڑھی رہی تھی اچانک سے رومیسہ کی آواز پر چونکتے مڑی۔۔۔ عبادت کتنے دنوں سے اسے اگنور کر رہی تھی جبھی رومیسہ نے خود سے ہی اس سے بات کرنے کی ٹھانی۔۔۔۔۔
نہیں پوچھا میں نے کسی سے بھی____" پورا دن ہوئے ٹیسٹس کے بعد وہ خاصی تھکی تھی رومیسہ کا بھائی کہنا وہ نوٹ نہیں۔کر پائی۔۔۔ یار میں نے انہیں اتنی کالز کیں مگر وہ ہینڈسم کال ہی پک نہیں کرتا۔۔۔۔" رومیسہ نے منہ بگاڑتے افسوس سے کہا۔۔۔۔۔
عبادت اب کافی بور ہو چکی تھی اس کی بک بک سے۔۔۔۔۔۔ عبادت یہ میرا لو لیٹر پلیز اپنے بھائی مسٹر اصلال عالم کو دے دینا۔۔۔۔۔ پلیز میرا یہ کام کر دو۔۔۔" رومیسہ نے اسکی اکتاہٹ محسوس کیے بنا۔فورا سے خوبصورتی سے ریپ کیا لو لیٹر اسکے سامنے لہرایا۔۔۔
عبادت کے ذہن میں جھماکا سا ہوا وہ آنکھیں پھیلائے اسے دیکھے گئی۔۔۔اوہ میڈم ہوش سے کام لو ، کیا اول فول بکے جا رہی ہو ۔۔۔ کیوں پارسل کروں میں تمہارا خط۔۔۔۔" عبادت چیختے اس پر برس پڑی۔۔۔۔لڑکیاں رکتے عبادت کے غصے سے سرخ پڑے چہرے کو دیکھے گئی۔۔۔
کیا ہو گیا ہے یار عبادت نہیں دینا تو صاف صاف بتاؤ یہ لڑائی کیوں کر رہی ہو میں کسی اور طریقے سے بھیج ۔۔۔۔۔۔۔" شٹ اپ چڑیل کیوں بھیجو گی تم اسے لو لیٹر۔۔۔کیا لگتا ہے وہ تمہارا۔۔۔۔۔" عبادت نے غصے سے اسے ٹوکتے دانت پیستے اونچی آواز میں پوچھا۔۔۔۔
تمہیں کس بات کا غصہ آ رہا ہے عبادت کیوں چیخ رہی ہو۔۔۔۔ " رومیسہ نے ناگواری سے اسے گھورا۔۔۔ تو کیا کروں تمہیں گلے لگاؤں۔۔۔ اصلال عالم شوہر ہے میرا۔۔۔۔ آئی سمجھ آئندہ اسکا نام بھی اپنی اس گندی سے زبان سے ادا کیا تو خشر بگاڑ دوں گی۔۔۔۔ " عبادت جھپٹنے کے سے انداز میں اسے مارنے کو لپکی تھی۔۔ اسکا بس نہیں تھا کہ وہ اس چڑیل کو جان سے مار دیتی۔۔۔ جبکہ شوہر کا سنتے ہی رومیسہ نے حیرت سے عبادت کو دیکھا۔۔۔۔
جھوٹ مت بولو عبادت۔۔۔۔ سیدھے سے بولو دل آ گیا ہے اس پر اتنا بڑا جھوٹ بولنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔" رومیسہ نے اسے پیچھے کو دھکہ دیے کہا تھا۔۔۔ عبادت نے دانت پیستے اس چڑیل کو گھورا اور پھر تیزی سے لپکتے اسے زور سے دھکہ دیا۔۔۔۔ رومیسہ دو قدم پیچھے ہوئی تھی۔۔۔۔ جبکہ عبادت کا چہرہ غصے سے لال انگارہ ہو چکا تھا۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھتے مزید کوئی حملہ کرتی معا کسی نے اپنا بھاری ہاتھ عبادت اصلال عالم کی کمر کے گرد لپیٹتے اسے کھینچتے خود سے لگایا۔۔۔۔
عبادت۔۔۔۔۔۔۔" اصلال نے اسے خود سے لگائے غصے سے تیز آواز میں کہا۔ عبادت اصلال عالم کی آواز ،اسکے حصار میں خود کو محسوس کرتی سن سی پڑ گئی۔۔ اگر وہ جان جاتا کہ وہ اسکی وجہ سے جھگڑ رہی تھی تو پھر ۔۔۔۔ عبادت نے سوچتے اصلال عالم کی شرٹ کے بٹن کو دانتوں تلے دبایا۔۔
اصلال نے آہستگی سے اسکی کمر کو تھپکتے رومیسہ کو دیکھا جو سرخ چہرے سے کھڑی اصلال اور عبادت کو دیکھ رہی تھی۔۔ اصلال اپپ۔۔۔۔' رومیسہ کی زبان لڑکھڑا اٹھی اپنے سامنے کھڑے اصلال عالم کو دیکھ اسنے غصے سے عبادت کو دیکھا جو اسکے سینے سے چپکی کھڑی تھی۔۔
کیا میں جان سکتا ہوں کہ آپ دونوں کس وجہ سے لڑ رہی تھیں۔۔" وہ نظروں کا رخ گھمائے رومیسہ سے مخاطب ہوا تو عبادت کا سانس رک سا گیا۔۔۔کچھ نہیں ہوا بس ایسے ہی مذاق تھا ہے ناں رومی ۔۔۔۔۔۔ " عبادت نے سر اسکے سینے سے نکالے رومیسہ کی جانب دیکھتے کہا اور جھٹ سے اصلال سے دور ہوئے کھڑی ہوئی۔۔۔
جی ہاں دراصل عبادت کا کہنا ہے کہ آپ اس کے شوہر ہیں اور اگر میں نے آپ کا۔۔۔۔۔" بس کر دو رومی بتا تو دیا ہے کہ شوہر ہیں میرے نکاح ہو گیا ہے ہمارا تو بس بات ختم چلیں عالم ہم چلتے ہیں۔۔۔۔۔" اصلال کے بازو کو تھامے وہ معصومیت سے بولی جانتی تھی اگر اصلال عالم جان گیا کہ عبادت اسکی وجہ سے جھگڑی تھی تو پھر جانے کیسے کیسے اپنی شدتیں لٹاتے اسے بے بس کر دیتا ۔
نہیں مسزز عالم ویٹ میں سننا چاہتا ہوں کہ آخر آپ جھگڑی کس بات پر۔۔۔۔۔" اصلال کے ہونٹوں پر دلکش سی مسکراہٹ رقص کرنے لگی عبادت کا بھاگنا اسے شک مبتلا کر چکا تھا اور اب تو وہ بنا جانے واپس جانے والا نہیں تھا ۔ ہاں جی تو کیا بتا رہی تھیں آپ۔۔۔۔" عبادت کو ساتھ لگائے اصلال رومیسہ سے مخاطب ہوا،۔۔۔ عبادت نے کہا کہ میں ایک نمبر کی چڑیل ہوں اگر میرے شوہر کا نام بھی اپنی گندی زبان سے ادا کیا تو خشر بگاڑ دوں گی۔۔۔۔"
رومیسہ کو جیسے مؤقع مل چکا تھا وہ خوش تھی کہ اب اصلال عالم عبادت کی اچھے سے کلاس لے گا اور وہ بھی سب کے سامنے۔۔۔۔ کیا یہی سب کہا اس نے۔۔۔" اصلال نے تصدیق کرتے بات پر زور دیے استفسار کیا۔۔۔ جی ہاں بلکل سو فیصد یہی کہا ۔۔۔۔۔"
رومیسہ نے چہکتے عبادت کو دیکھ کہا تھا جو لب دانتوں تلے دبائے اصلال عالم سے بچنے کا کوئی بہانہ تلاش رہی تھی۔۔۔۔ تو پھر تو مسز عالم نے آج تک کی سب سے بہترین اور عقل کی بات کی ہے۔۔" اصلال جان نثار کرتی نظروں سے عبادت کے جھکے سر کو دیکھے خوشی سے بولا۔۔۔
آئندہ بنا کسی وجہ سے میری بیوی سے جھگڑنے کا سوچنا بھی مت ورنہ میں بھول جاؤں گا کہ آپ ایک لڑکی ہیں۔۔۔" ٹھنڈے ٹھار لہجے میں اسے اچھے سے کھری کھری سناتا وہ عبادت کو خود سے لگائے بولا تھا۔۔ جبکہ عبادت تو اسکی خوشبو میں گھلی سگریٹوں کی بو کو ناک سکیڑتے سونگھتی کروفت سے سر جھٹک گئی۔۔۔۔۔
اصلال عالم اسے تھامے گاڑی کی جانب بڑھا تھا جبکہ عبادت کو اپنی موت صاف نظر آ رہی تھی۔۔ وہ جانتی تھی اب اصلال اسے اتنی آسانی سے چھوڑنے والا نہیں تھا۔۔
ننن نہیں عالم میں کافی تھک چکی ہوں میں پپ پیچھے بیٹھ جاتی ہوں۔۔۔" اپنا ہاتھ اصلال عالم کی گرفت سے نکالتے وہ اپنی جانب سے بڑی صفائی سے اسے خود سے دور رکھنے کی کوشش کیے منمنائی۔۔۔ عالم نے ائبرو اچکاتے عبادت کی جانب دیکھا۔۔۔
تھک تو میں بھی گیا ہوں۔۔مگر میری تھکن کا حل میرے پاس موجود ہے۔۔۔" وہ بنا۔اسکی بات کا اثر لئے اپنی کہتا دروازہ کھول عبادت کو زبردستی اندر بٹھا گیا۔ عبادت نے منہ پھولائے اصلال کی چوڑی پشت کھا جانے والی نظروں سے گھورا، جو کہ اب چلتا ڈرائیونگ سیٹ کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
اپپپپ تو دوبئی گئے تھے پپ پھر اتنی جلدی واپس کیسے آ گئے۔۔۔۔" اپنے حجاب کے گرد الجھتے اصلال عالم کے ہاتھ کو اپنے ناتواں ہاتھوں سے تھامے وہ اپنی سنہری آنکھوں میں عجیب سی حیرت لیے استفسار کرنے لگی۔۔۔
" ہممممم گیا تھا ڈونٹ وری کام کر کے آیا ہوں بس ڈوز کا اثر ختم ہو گیا تھا تو جلدی میں آنا پڑا۔۔۔۔"وہ گہرے بے باک لہجے میں عبادت کے ہونٹوں کو دیکھے بولا تو عبادت سٹپٹاتے اپنا سرخ انگارہ ہوا چہرہ موڑ گئی۔۔۔
"ایک بات بتاؤ اس لڑکی سے کس وجہ سے جھگڑی تم۔۔۔۔۔"گاڑی کے شیشے اوپر کیے اصلال نے اے سی کی سپیڈ بڑھائی تھی ۔وجہ عبادت کے چہرے پر جھلکتا پیسنہ تھا۔۔۔۔ مممم میں نہیں جھگڑی اس سے۔۔۔" عبادت نے زور سے سر نفی میں ہلاتے اپنی کہی بات کی تصدیق کروائی تھی۔ اصلال نے سنتے ہونٹ او شیپ میں سمیٹے سر ہاں میں ہلایا۔۔
سیاہ آنکھوں میں عبادت کے لئے الگ سی چمک برپا تھی اصلال نے احتیاط سے اسکے خجاب کو کھولتے اپنے گلے میں ڈالا تو عبادت جو ہاتھ آگے بڑھاتے اپنے حجاب کو لینا چاہتی تھی اصلال کی گردن کے گرد اپنے حجاب کو لپٹا دیکھو وہ لب بھینجتے ہاتھ پیچھے کو کھینچ گئی۔۔
ددد دیکھیں آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔میں نے تو بس ایسے ہی کک کہا تھا۔۔۔۔مگر میں تو کچھ سمجھا ہی نہیں ابھی تک مسزز عالم۔۔۔۔"اپنی شیو کو انگوٹھے سے مسلتا وہ عبادت کی گھبراہٹ کا بھرپور مزہ لیتے بولا۔۔۔ مم مگر میں جانتی ہوں آپ بہت کچھ غلط سمجھ رہے ہیں حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے آپ ممیرا حجاب واپس کریں۔۔" عبادت نے تھوک نگلتے اپنے ڈر پر قابو پاتے کہا وہ اتنی بچی بھی نہیں تھی جتنا اصلال عالم اسے سمجھ چکا تھا۔
"ذرا بتانا پسند کریں گی آپ کہ میں کس طرح سے اور کیا غلط سمجھ رہا ہوں۔۔۔۔"اصلال اپنا رخ عبادت کی جانب کیے اسکی جانب جھکتے سرگوشی میں پوچھنے لگا عبادت سرخ چہرے سے تپی بیٹھی تھی جبکہ اسے اپنی باتوں میں الجھائے اصلال نے نرمی سے اسکے بالوں کو جھٹکے سے آزاد کیا جو سیدھے اسکے چہرے پر گرتے اسے مدہوش ہونے پر مجبور کر گئے۔۔۔عع عالم آپ اچھا نہیں کر رہے مممیرے ساتھ ممم میرا کیچر واپس کریں کل ببھی گم کر دیا تھا۔۔"
وہ ہوش میں آتے جھپٹتے اپنا کیچر چھیننے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔ اصلال جو مدہوش سا عبادت کے بالوں کی بھینی بھینی سی خوشبو میں آنکھیں موندے سکون خود میں اتار رہا تھا۔ عبادت کے الفاظ اسکے بےزار لہجے کو سنے اصلال نے جھٹ سے آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھا جو پرزور کوشش۔کرتے اپنا کیچر اصلال کی مٹھی سے نکال رہی تھی۔۔
اصلال نے سرد سانس کھینچتے اپنا ہاتھ پیچھے کیا اور ایک دم سے کیچر پچھلی سیٹ پر پھینکا عبادت نے دانت پیستے اصلال کو گھورا اور پھر لپکتے اپنا کیچر اٹھانے کی کوشش کرنے لگی مگر اصلال نے ہاتھ اسکے بالوں میں۔ الجھائے جھٹکے سے کھینچتے عبادت کا رخ اپنی جانب کیا۔
کیچر معنی رکھتا ہے تمہارے لئے میرے جذبات نہیں۔۔۔۔ ایسے ہزراوں کیچر لا دوں گا مگر آئندہ کسی بےجان چیز کی وجہ سے میرے کام میں مداخلت مت کرنا۔۔" عبادت کی بند آنکھوں کو اپنی انگلیوں کے پوروں سے چھوتے وہ بھاری گھبیر لہجے میں بولا تو عبادت نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔۔۔اصلال عالم کی آگ کی مانند جھلساتی سانسیں اسکے چہرے پر پڑ رہی تھی۔۔
اصلال نے مخمور نگاہوں سے عبادت کے حسین چہرے کو دیکھا اور پھر جھکتے اپنے ہونٹ عبادت کی گردن کی ہری رگوں پر رکھے۔۔عبادت کا دل اصلال عالم کے شدت بھرے لمس پر جیسے پسلیوں سے پٹھکتے باہر آنے کو تھا۔۔وہ بری طرح سے مچلتے سانس رکنے پر اسے خود سے دور کرنے لگی۔۔مگر اصلال عالم بنا اسکی مزاخمت کی پرواہ کیے عبادت کی گردن کو اپنے ہونٹوں سے۔چھوتے کسی اور ہی دنیا میں تھا۔۔
ععععع عالم پپپلیز۔۔۔۔۔" وہ خوفزدہ سی اصلال کی شدتوں سے نڈھال ہوئی بمشکل سے بول پائی تھی۔ اصلال نے ذرا سا نظریں اٹھائے عبادت کو دیکھا جسکا چہرہ ضبط سے سرخ ہو رہا تھا۔۔ تھوڑا بہت تو برداشت کرنا ہی پڑے گا آپ کو مسزز عالم وگرنہ میں مجبور ہو جاؤں گا کہ آپ کو پرمانینٹ اپنے کمرے میں شفٹ کروا لوں۔۔۔۔" وہ اسے کھلے عام دھمکی دیتا اپنی شیو عبادت کے سرخ گال سے رگڑتے بولا۔۔۔
عبادت اصلال کی وارننگ پر خفگی سے نتھنے پھولائے اپنے دونوں ہاتھ اصلال کے سینے پر رکھے اسے خود سے دور کرنے لگی، اصلال نے دانت پیستے اسے گھورا۔۔۔" تم ایسے باز نہیں آؤ گی۔۔" اصلال نے دانت پیستے عبادت کے کان کی لو کو دانتوں تلے دبایا اور پھر عبادت کے سمجھنے سے پہلے ہی اسکے ہاتھوں کو ایک ہاتھ میں تھامے اپنی گردن سے عبادت کا خجاب نکالے مضبوطی سے دونوں ہاتھوں کو باندھا۔۔
عبادت کا رنگ سفید پڑ گیا وہ آنکھیں پھیلائے اسے حیرت سے ڈرتے دیکھے گئی۔۔جسکی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ عبادت کے دیکھنے پر وہ آنکھ دبائے اسے کمر سے تھامے خود سے قریب تر کر گیا۔۔اور پھر فورا سے عبادت کے ہاتھوں کو اپنی گردن میں ڈالے وہ شدت سے جھکتا عبادت کے ہونٹوں کو قید کیے اپنی شدتیں لٹانے لگا۔۔
***********
سٹڈی کیسی جا رہی ہے گل۔۔۔۔!" گل جو کب سے اپنے پاپا کو اگنور کرنے کی کوشش میں مگن ناشتے کی پلیٹ پر جھکی ہوئی سی تھی اظہر صاحب کی آواز سنتے اسنے ائبرو اچکاتے انہیں دیکھا وہ ابھی تک ناراض تھی ان سے ۔۔۔۔۔اور اظہر انصاری یہ سوچ سوچ کے ہلکان تھے کہ آخر اسے منائیں کیسے۔۔۔؟ الحمداللہ اچھی جا رہی ہے نیکسٹ منتھ سے پیپرز ہونگے ۔۔۔۔" جوس کا گلاس لبوں سے لگائے وہ سرسری سا بولی۔۔۔
بیٹا آج میں ڈراپ کر دوں گا آپ کو جلدی سے ناشتہ کر کے آ جاؤ۔۔۔۔" اظہر صاحب جگہ سے اٹھتے مسکراتے ہوئے بولے ارادہ آج اسے منانے کا تھا۔۔۔نہیں اشکان آئے گا لینے میں اسکے ساتھ جاؤں گی۔۔۔" اظہر صاحب کو دیکھتے اوزگل نے جگہ سے اٹھتے کہا تو انکے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔۔
کیا مطلب ہے کہ تم اس کے ساتھ جاؤ گی۔۔۔" اظہر صاحب نے ماتھے پر بل ڈالے سنجیدگی سے پوچھا۔۔ اس نے کہا تھا کہ مجھے وہ خود ڈراپ کیا کرے گا اور لے کر بھی جائے گا ساتھ ۔۔۔۔ تو آپ بے فکر رہیں ڈیڈ میں چلی جاؤں گی۔۔۔۔" وہ مسکراتے جان بوجھ کے انہیں طیش دلانے کو بولی تھی۔۔
جو سنتے جبڑے بھینجتے اپنے اشتعال کو دبا رہے تھے۔ اچھا ماما اشکان آ گیا ہے میں چلتی ہوں۔۔ ہارن کی آواز سنتے وہ مسکراتے اپنا بیگ تھامے باہر کی جانب بڑھی۔۔
اسلام علیکم آؤ۔۔۔۔" گرے کلر کی لائننگ والی شرٹ جسکے دونوں جانب سے کف فولڈ کیے وہ چہرے پر ایک دلکش سی مسکراہٹ لیے اوزگل کے انتظار میں تھا۔ اوزگل جلدی سے اندر بیٹھی۔۔ و علیکم السلام اب دو مجھے میرا گفٹ۔۔۔۔؛" گاڑی میں بیٹھتی وہ جھٹ سے ہاتھ پھیلائے آنکھوں میں چمک لیے بولی ۔۔ تو اشکان کے لبوں پر مسکراہٹ دھر ائئ۔۔۔ اور اگر میں کہوں کہ میں لانا بھول گیا تو۔۔۔۔۔"
اپنے سیاہ بالوں میں ہاتھ چلاتے وہ ایبرو اچکائے پوچھنے لگا۔۔۔ تو میں منہ توڑ دوں گی تمہارا، رات سے مجھے نیند نہیں پڑی یہ سوچ سوچ کر ہی کہ کونسا گفٹ ہو گا۔۔۔۔" وہ ہاتھ نچاتے اپنی تیکھی ناک پر غصہ لائے بولی۔۔ اشکان نثار جاتی نظروں سے اسکا یہ روپ اپنے دل میں اتار رہا تھا۔۔
اوکے دیتا ہوں مگر اس کے لئے تمہیں آنکھیں بند کرنی ہوں گی۔۔۔" اشکان نے جذبے لٹاتی نظروں سے اوزگل کو دیکھتے کہا تھا۔۔۔۔۔
اوکے۔۔۔۔۔!" آوزگل سر ہلاتی جلدی سے آنکھیں موند گئی۔ اشکان نے لب دانتوں تلے دبائے اوزگل کے دوپٹے کو سر سے سرکایا۔۔۔اششش اشکان۔۔۔" وہ سہمتے اشکان کے ہاتھ کو تھامے بولی ، اششش کچھ نہیں کر رہا میں ریلکیس۔۔۔۔"
اشکان نے انگلی اوزگل کے ہلتے لبوں پر رکھتے اسے خاموش کروایا
اور پھر نرمی سے اوزگل کے گھنے بالوں کو آزاد کرتے وہ جھٹکے سے اسکی کمر پر بکھیر گیا۔۔اوزگل اسکی سلگتی سانسوں کو محسوس کرتے لرزتے آنکھیں موند گئی۔۔۔
مجھے معلوم نہیں تھا کہ میری گل کے بال اس قدر حسین ہیں۔۔۔۔۔" اوزگل کی پلکیں لرز پڑی، گال حیا سے گلنار ہو گئے۔۔ اشکان نے سرگوشی کرتے لب اوزگل کے کان کی لو پر رکھے۔
اور پھر اپنی گود میں رکھے باکس میں سے ایک خوبصورت سا بروج نکالتے وہ انہماک سے اسکے بالوں میں سیٹ کرنے لگا۔۔۔ اوزگل اپنے بالوں میں کچھ محسوس کرتی حیران بھی تھی ۔۔۔مگر وہ اس سے زیادہ متجسس سی تھی کہ آخر وہ کیا کر رہا تھا۔۔۔
اشکان محویت سے اسکے بالوں میں اپنا لایا بروج لگائے کئی سانیے ساکت سا اسکے بالوں میں دمکتے اس حسین سے بروج کو دیکھے گیا۔۔۔ جو بلکل ایسے تھا جیسے بنا ہی ان بالوں کیلئے تھا۔۔ اشکان نے بےساختہ جھکتے اپنے لب اوزگل کے بالوں پر رکھتے ان کی مہکتی خوشبو کو خود میں اتارا۔۔۔
اششششکان یہ سب۔۔۔۔"اوزگل نے حیرت سے آنکھیں پھیلائے اپنی گود میں موجود اس باکس کو دیکھا، جس میں کافی تعداد میں بروج موجود تھے۔ ایک دوست کا اپنی دوست کیلئے چھوٹا سا تخفہ۔۔۔۔۔ وہ خوبصورتی سے اوزگل کی آنکھوں میں دیکھتا اسے چونکنے پر مجبور کر گیا۔۔۔۔ اوزگل کے حسین چہرے پر سجی مسکراہٹ اشکان کی دھڑکنیں میں اودھم مچا گئی۔۔۔ مگر وہ خود پر ضبط کرتے بس دور سے ہی اسے تکے جا رہا تھا۔۔
***********
سنو تھوڑی دیر تک فریش ہو کر آؤ میرے کمرے میں کام ہے مجھے۔۔۔۔۔" گاڑی کے رکتے ہی عبادت جو الجھی سی اپنے بکھرے حلیے کو درست کرنے میں مگن تھی اسے دیکھتے اصلال نے گھبیر لہجے میں فرمائش کی حالانکہ وہ اسے تنگ کر رہا تھا صرف، اسکا ارادہ آج عبادت کا ٹیسٹ لینے کا تھا جب سے یہ رشتہ بدلا تھا۔۔۔ وہ اسے پڑھا بھی نہیں سکا تھا اور جانتا تھا کہ میڈم خود سے پڑھیں گی نہیں۔۔۔۔
نن نہیں مممیرا ٹیسٹ ہے تو مممجھے تیاری کرنی ہے۔۔۔!" عبادت نے جھٹ سے حجاب لپیٹتے انکار کیا تو اصلال نے ناگواری سے اسے گھورا۔۔۔۔ پوچھا نہیں بتایا ہے تمہیں اور کیچر لگانے کی ضرورت نہیں بال ایسے ہی کھلے چھوڑ کر آنا اور ہاں بکس بھی لانا ذرا ٹیسٹ لے سکوں میں۔۔۔۔!" وہ ایک ساتھ جانے کتنے دھماکے اس نازک سی جان پر کرتا اسے یونہی فریز ہوا چھوڑ خود مسکراتا دروزہ کھولے باہر نکلا۔۔۔
عبادت کی سانسوں کی مدہوش کرتے مہک اسے ابھی تک اپنی سانسوں میں محسوس ہورہی تھی یا پھر وہ خود کو ان لمحوں سے نکالنا ہی نہیں چاہ رہا تھا۔۔۔
اصلال۔۔۔۔" امل کی اواز پر اصلال نے ماتھے پر بل ڈالے مڑتے امل کو دیکھا۔۔۔۔
تم نے کہا تھا کہ ملنے آؤ گے مگر آئے نہیں تو میں خود ہی آ گئی تمہارے پاس۔۔۔۔۔" گاڑی سے نکلتی عبادت کو دیکھ وہ محبت سے نارضگی جتاتے بولی جیسے وہ مسلسل رابطے میں ہو اصلال سے۔۔
پھپھو سے کہا تھا میں نے کہ کوشش کروں گا آ سکوں مگر تمہارا نمبر بلاک کیا ہے میں نے۔۔۔۔!" وہ خاصے سنجیدہ لہجے میں ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے اطمینان سے بولا تو امل کا۔چہرہ دھواں دھواں ہوا۔۔ جبکہ عبادت جو سنتی لب بھینجے ہوئے تھی اصلال کی آخری بات پر جانے کیوں اسے اپنے دل میں خوشی سی محسوس ہوئی۔۔۔۔
ہونٹ خودبخود ہی مسکراہٹ میں ڈھلے وہ شرماتی اصلال عالم کی تھوڑی دیر پہلے کی گستاخیوں کا سوچتے شرم سے لال پیلی ہوئے اپنے گھر کی جانب بڑھی۔۔
*********************
عبادت بیٹا کہاں جا رہی ہو۔۔۔۔۔۔!" ڈارک بلیو کلر کی گھٹنوں تک جاتی سکرٹ جسکے گلے پر خوبصورت گولڈن کلر کی سندھی کڑھائی کا کام ہوا تھا اسی طرح سے بازوؤں اور سکرٹ کے دائیں جانب درمیان پر خوبصورت سا کڑھائی سے کندا ہوا کام اسکے ساتھ ہی بلیو میچنگ ٹراؤزر پہنے سر پر بلیو دوپٹہ لیے وہ ہاتھ میں تھامی کتابوں کو سینے سے لگائے کچن کی جانب آئی، عبادت کے فریش نکھرے نکھرے چہرے کو دیکھ نضحت بیگم نے مسکراتے پوچھا تھا۔۔
ماما وہ بڑے گھر جا رہی ہوں۔۔۔۔!"وہ جھجھکتے بولی تو نضحت بیگم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری۔۔اچھا کیا لینے۔۔۔۔؟" وہ جان بوجھ کر اسے تنگ کرنے کو سنجیدگی سے پوچھنے لگی۔ حالانکہ اسکے ہاتھ میں تھامی کتابوں سے ہی انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ضرور عالم نے اسے پڑھنے کو بلایا ہو گا۔۔
وہ عالم نے بلایا ہے پڑھنے کو۔۔۔۔۔۔" وہ جز بز ہوتے سرخ چہرے سے بولی تو نضحت بیگم نے ہنستے اسے دیکھا۔۔۔۔ ویسے اب مجھے تمہاری پڑھائی کی کوئی فکر نہیں کیونکہ اب اصلال تمہیں اچھے سے پڑھا لے گا۔۔۔۔" پریشر کُکر بند کرتے وہ چلتی اسکے قریب آئی۔۔۔
ماما آپ اتنا خوش مت ہوں میں ڈرتی نہیں ہوں ان سے۔۔۔۔۔" وہ ناک چڑھائے بولی تو نضحت بیگم نے سنتے سر ہاں میں ہلایا ۔۔ عبادت میری جان ادھر آؤ۔۔۔۔وہ اسے تھامے اپنے ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر بٹھائے بولی۔۔۔۔عبادت پوری طرح سے انکی جانب متوجہ تھی۔۔۔
بیٹا تم اصلال کی بیوی ہو، اور تمہیں چاہیے کہ اب تم اسے اپنی جانب راغب کرو، اسے اپنی محبت میں اپنے ساتھ باندھو،امل آئی ہے پھر سے اور میں جانتی ہوں کہ وہ ضرور اصلال کو بہکانے کیلئے کچھ کرے گی مگر تمہیں اصلال کو اسکے جھانسے میں آنے سے روکنا ہو گا اور یہ تبھی ہو گا جب اصلال کی ساری توجہ صرف تم پر ہوگی۔۔"
ماما تو آپ کیا چاہتی ہیں وہ شخص باندھے بغیر بھی جان نہیں چھوڑتا میں مزید اپنی جان عذاب میں ڈال لوں۔۔۔۔" عبادت نے منہ بنائے اصلال کی شدتوں کو اسکے پاگل پن کو سوچتے نضخت بیگم سے کہا ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی وہ، بھلا اسے کوئی۔ ضرورت تھی کہ وہ اصلال کو اپنی جانب راغب کرتی وہ تو پہلے ہی اسکی جان پر بنا ہوا تھا۔۔اب مزید اپنی طرف سے کوشش کرتے اپنی جان کو عذاب میں ڈالتی۔۔
کیا مطلب ہے تمہارا لہجہ درست کرو اپنا، اگر اسکا کوئی کام کرتی ہو یا پھر اسکا حکم مانتی ہو تو یہ سب کرنا تمہارا فرض ہے سمجھ آئی۔۔۔ ایسے رونی شکل بنا کر یہ مت جتلاو جیسے بہت ظلم ہو رہے ہیں تم پر۔۔۔۔" نضحت بیگم نے اسے اچھے سے گھرکا تھا۔۔ وہ اسے سمجھا رہی تھیں مگر عبادت بجائے سننے کے اپنی ہی سنائے جا رہی تھی ۔
جاؤ یہ سوٹ بدلی کرو اور وہ شارٹ فراک پہنو جو تمہارے پاپا لائے تھے،اور ان ہونٹوں پر کچھ لگاؤ، آنکھوں میں ہلکا سا کاجل لگاو اور بال اچھے سے بنا کر پھر جانا۔۔۔ نضحت بیگم نے اسکے حلیے تو دیکھ ناگواری سے دیکھتے اسے تنبیہ کی جبکہ عبادت کی آنکھیں یہ سنتے ہی حیرت کی زیادتی سے پھیل سی گئی۔۔۔
نو کبھی بھی نہیں میں اسی حلیے میں جاؤں گی نہیں تو جاؤں گی ہی نہیں۔۔۔" وہ سرخ چہرے سے اپنی ماں کو دیکھتے پھٹ ہی تو گئی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے کی اصلال عالم کی من مانیوں کے نشانات ابھی تک اسکے وجود پر موجود تھے اب کیا وہ اس ڈریکولا کے سامنے پوری کی پوری قربانی کی گائے بن کر جاتی۔۔۔ عبادت کیا بکواس کر رہی ہو۔۔۔" نضخت بیگم نے دانت پیستے اسے بازو سے کھینچتے دوبارہ سے کرسی پر بٹھایا۔۔
ماما آپ نہیں جانتے اسے۔۔۔ وہ شخص مجھے ایک ہی نوالا بنا کر کھا جائے میں نہیں جانے والی۔۔۔۔" وہ رونے کی سی ہو چکی تھی۔۔۔۔۔ مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اگر اسکی ماما کہہ رہی تھی تو اسکا مطلب وہ یہ سب سچ کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔۔
تم مجھے نہیں جانتی عبادت تمہارا علاج تو میں کرتی ہوں اٹھو چلو میرے ساتھ۔۔۔۔" نضخت بیگم سیخ پاہ ہوئے عبادات کے بازو کو جکڑتے اپنے ساتھ کھینچنے لگی۔۔
ماما نو میں نہیں جاؤں گی وہ پاگل ڈریکولا، مگرمچھ مجھے ایسے ہی کھا جائے گا۔۔۔۔۔" عبادت مسلسل اپنا بازؤ چھڑانے کی کوشش کرتے چیخ رہی تھی۔۔۔ اسکے منہ سے ادا ہوئے اصلال عالم کے لیے الفاظ سنتے نضخت بیگم نے رکتے گردن گھمائے اسے گھورا۔۔
یہ کیا بدتمیزی ہے لڑکی۔۔۔ شوہر کو ایسے بولتے ہیں ذرا شرم لخاظ نہیں تم میںں۔۔۔ ایک کام ڈھنگ کا نہیں کر سکتی تم، پتہ نہیں میرا بچہ کیسے گزارا کرے گا چلو تم تمہیں تو میں خود تیار کروں گی۔۔۔۔"عبادت کو کھری کھری سناتے وہ اسے زبردستی پکڑتے عبادت کے کمرے کی جانب بڑھی تھی۔۔
جبکہ عبادت تو ماں کے ساس والے روپ سے ہی ششدر سی رہ گئی۔۔۔۔ماما آج مجھے یقین ہوگیا میں آپ کی سوتیلی بیٹی ہوں، میں بھائی کو بتاؤں گی بابا کو بھی، مجھے اس ڈریکولا کے آگے سجا کے پیش کر رہی ہیں میری لاش بھی نہیں ملنے والی آپ کو۔۔۔۔"
وہ دروازے کو تھامے پوری قوت سے اپنا ہاتھ چھڑواتے بھاگتے آنش کے کمرے میں گھسی۔۔۔۔
گڑیا کیا ہوا ادھر آؤ۔۔۔۔!" آنش جو ابھی بابا کو فائل دیے واپس آیا تھا اب دروازہ دھاڑ سے کھلتے اور عبادت کے اندر آنے پر وہ چونکتے عبادت کے فق چہرے کو دیکھے بولا۔۔
آنش کو دیکھ عبادت کی سنہری آنکھوں میں چمک سی نمودار ہوئی وہ بھاگتے اسکے سینے سے جا لگی۔۔۔بھائی ماما ماما نہیں رہی وہ ساس بن گئی ہیں میری، مجھے زبردستی عالم کے پاس بھیج رہی ہیں پپ پلیز بچا لیں مجھے ۔۔۔۔۔ مجھے نہیں جانا۔۔۔۔" وہ من من کے آنسوں آنکھوں میں سجائے انش ہے سینے سے لگی رندھی آواز میں بولی تو آنش کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔۔
عبادت کیا بچوں جیسی حرکتیں کر رہی ہو چلو میرے ساتھ۔۔۔۔" نضخت بیگم اسکی حرکت پر سخت غصہ تھی ابھی اسے انش کے سینے سے لگا دیکھ وہ دانت پیستے اندر آئی۔۔۔۔
نو ماما اگر عبادت نہیں جانا چاہتی تو آپ اسے فورس نہیں کر سکتے۔۔۔" عبادت نے سنتے شکر بھرا سانس لیا۔۔
تم چپ کرو آنش۔۔۔ جب کچھ جانتے نہیں ہو تو خاموش رہو۔۔۔۔" نضخت بیگم نے اسے سخت لہجے میں کہتے عبادت کا ہاتھ تھاما۔۔۔ نہیں ماما سوری بٹ عبادت کہیں نہیں جا رہی، جاؤ عبادت بکس لاو آج میں پڑھاؤں گا تمہیں۔۔۔۔"
اپنی بات کہتے وہ نضخت بیگم کو دیکھنے لگا جو کہ شاید خود پر ضبط کر رہی تھی۔ تم اچھا نہیں کر رہے آنش۔۔۔۔۔ آخر کیا برائی ہے اصلال عالم میں جو تم ایسے خار کھاتے ہو۔۔۔۔" نضخت بیگم نے چھبتے لہجے میں دو ٹوک انداز میں پوچھا۔۔
اصلال کی سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ وہ زبردستی میری بہن کی زندگی میں مسلط ہوا ہے۔۔۔" وہ سرد ٹھٹرا دینے والے لہجے میں بولا تو نضخت بیگم سن سی ہو گئی۔۔۔۔
***************
پیچ کلر کی گھٹنوں تک جاتی شرٹ جسکے دامن پر خوبصورت گولڈن تلے کا کام نفاست سے ہوا تھا بائیں ہاتھ پر بلیک کلر کی خوبصورت سی گھڑی پہنے آنکھوں میں ہلکا سا کاجل اور پاؤں میں ویلوٹ کے سینڈلز پہنے وہ ہاتھ میں ٹرے تھامے اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔اسکے چہرے پر بکھری معصومیت خوبصورت نقوش میں گھلی ہلکی سی سرخی وہ کئیوں کو مبہوت کر چکی تھی۔۔
عافیہ بیگم مسکراتے دل نثار ہوتی نظروں سے اوزگل کو دیکھ رہی تھی۔۔ نکاح کے بعد آج وہ کافی دنوں کے بعد پھپھو کے گھر آئی تھی۔ وہ بھی قرآن خوانی کا بلاوا تھا جس وجہ سے فرخندہ بیگم انکار نہیں کر پائیں۔ محفل احتتامی مراحل میں تھی عورتیں اوزگل کی معصومیت اسکے حسن سے متاثر کئی بار عافیہ بیگم سے اوزگل کی تعریف کر چکی تھیں۔۔
وہ جوس سرو کرتے اپنی ماما کے پاس بیٹھی۔۔۔۔ فرخندہ پہلوں بدل رہی تھی۔لوگوں کی نظریں اپنی بیٹی پر مرکوز پاتے وہ آیتوں کا ورد کرتے اوزگل پر بارہا پھونک چکی تھی۔۔۔
اوزگل انکی فکر پر مسکراتے سر جھٹک گئی۔۔
آپی آپ کو وہ بھائی بلا رہے ہیں۔۔۔۔۔!" معا ایک بچہ دوڑتا اوزگل کے قریب آتے مسکراتے ہوئے بولا اوزگل نے چونکتے اس معصوم بچے کو دیکھا۔۔اوہ کونسے بھائی۔۔۔۔۔۔!"گل نے مسکراتے اسکے گالوں کو کھینچتے محبت سے پوچھا تو بچے نے انگلی سے پیچھے کی جانب اشارہ کیا ۔۔۔مگر وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔۔
اچھا میں جاتی ہوں۔۔۔۔ بچے کا ہاتھ تھامے وہ فرخندہ بیگم کو بتائے اٹھی تھی۔۔
کس نے بلایا یے۔۔۔۔'وہ لان میں آتے بچے کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے ہوئے بولی تو بچہ کندھے اچکاتے ہاتھ چھڑوائے بھاگا تھا۔۔ ارے اوہ بے بی کہاں جا رہے ہو۔۔۔۔" اوزگل چیختے اس بچے کو اپنے پاس بلانے لگے جو ہاتھ چھڑوا کر بھاگ گیا تھا۔۔
گل میں نے بلایا ہے۔۔۔۔"اوزگل جو گھبراتے واپسی کو مڑی تھی اچانک سے اشکان نے آگے بڑھتے اسکے ہاتھ کو تھامے کہا۔۔ اوزگل کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے، اشکان تم۔۔۔" وہ حیرت زدہ سی بولی۔۔ کیونکہ پھپو نے اسے بتایا تھا کہ اشکان یونی کے کسی ٹوور کے سلسلے میں نکلا تھا اور رات سے پہلے اسکی واپسی ممکن نہیں تھی۔۔
ہاں میں اچھا نہیں لگا تمہیں۔۔۔۔" وہ مسکراتے اسکا ہاتھ مضبوطی سے تھامے اپنے ساتھ لے جانے لگا۔۔۔۔۔ ننننی نہیں ایسی بات نہیں دراصل مجھے پھپھو نے بتایا تھا کہ تم یہاں نہیں ہو بس اسی وجہ سے۔۔۔۔۔۔!" وہ فارمل سا مسکراتے بولی۔ پہلے نہیں پتہ تھا کہ تم آنے والی ہو اگر پتہ ہوتا تو جاتا ہی نہیں خیر جیسے ہی پتہ چلا بھاگتے چلا آیا۔۔
آنکھوں میں محبت کا جہاں بسائے وہ شریر نگاہوں سے اوزگل کے حسین چہرے کو دیکھے بولا۔۔۔ وہ آج معمول سے کچھ زیادہ پیاری دکھ رہی تھی اور آج اشکان کیلئے اس پر سے نظریں ہٹانا مشکل ہو چکا تھا۔۔
نہیں تمہیں ایسے نہیں آنا چاہیے تھا اپنے دوستوں کے ساتھ انجوائے کرتے میں تو یہیں ہوں۔۔۔!" اوزگل نے صاف لفظوں میں کہا تو اشکان اسکے ساتھ الٹے قدموں سے چلتا اوزگل کے چہرے کو دیکھے مسکرانے لگا۔۔ دوستوں کے ساتھ تو بہت بات وقت گزارا ہے آج بیوی کے ساتھ گزرانا چاہ رہا ہوں۔۔۔۔۔"
اسکے لہجے میں ایک الگ سا سرور تھا ایک خوشی آباد تھی جیسے وہ کب سے ان لمحوں کا منتظر رہا ہو، اشکان میں تو دوست ہوں تمہاری۔۔۔۔" اوزگل چونکی اسکی بات سنتے ہی اسے ٹوکا تھا۔۔۔
جانتی ہو اوزگل اس جہاں میں سب سے پیارا مقدس رشتہ کونسا ہے۔۔۔" بنا اسکی بات کا برا منائے وہ سرد سانس فضا کے سپرد کیے بولا لہجہ گھبیر گہرا تھا، ہمممممم ماں باپ کا۔۔۔۔ !" اپنی سوچ کے مطابق وہ اسے بتاتے کندھے آچکا گئی ۔۔اشکان مسکرایا اور پھر اسے تھامے ایک جانب گھاس پر بیٹھا اور پھر رخ اوزگل کی جانب کیے وہ بغور اسے دیکھنے لگا۔۔۔
اس دنیا میں سب سے پیارا اور مقدس رشتہ میاں بیوی کا ہے۔۔۔۔ سب سے افضل ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں وہ۔۔۔ اور ہر دکھ سکھ کے ساتھی۔۔۔جب کبھی بیوی کو غم ملے تو شوہر تکلیف محسوس کرتا ہے اور جب کبھی شوہر کو ملے تو بیوی تڑپ جاتی ہے۔۔۔ یہ رشتہ صرف کہنے کا نہیں ہوتا گل۔۔۔۔۔ جب اللہ کے پاک کلام کو پڑھ کر دو لوگ ایک رشتے میںں بندھتے ہیں تو پھر چاہے حالات کیسے ہی کیوں ناں ہوں اس رشتے میں محبت وہ اللہ ڈالتا ہے۔۔۔" اوزگل پہلی بار اسکی ایسی باتیں سن رہی تھی یا یوں کہا جائے اشکان صدیقی کو آج پہلی بار بغور سن رہی تھی۔۔
میاں بیوی میں کوئی پردہ نہیں ہوتا اسی لیے تو اللہ نے انہیں ایک دوسرے کا لباس کہا ہے۔۔۔ بیوی شوہر کیلئے سکون کا سامان ہے اور بیوی کا سکون اپنے شوہر میں بسا ہوتا ہے۔۔۔۔ ہمارا صرف دوستی کا ہی نہیں بلکہ میاں بیوی کا رشتہ بھی ہے گل۔۔۔۔ میرے جذبات میرے احساسات میں نے کبھی نہیں چھپائے جائز رشتے سے تمہیں اپنے نام کیا جانتا ہوں طریقہ غلط تھا مگر مقصد اور نیت صاف تھی میری۔۔۔۔۔"
وہ کہتا ہنسا تو اوزگل نے اسکی شفاف ہنسی کو سنا ، وہ خوبصورت تو تھا مگر باتیں بھی بہت اچھی کرتا تھا، میں اگر بھاگتا آیا ہوں تو اپنی دوست کیلئے نہیں بلکہ اپنی بیوی کیلئے۔۔۔۔میں چاہتا ہوں کہ یہ رشتہ جسے میں محسوس کرتا ہوں اسے تم بھی محسوس کرو۔۔۔۔ تم بھی اس رشتے کی بابت سوچو تاکہ تم اس رشتے کی گہرائی کو جان سکو ۔۔۔۔۔۔"
اوزگل کے چہرے پر آتی لٹ کو محبت سے کان۔کے پیچھے اڑستے اشکان نے بےساختہ ہی لب اوزگل کی پیشانی پر ثبت کیے، تو اوزگل اسکے نرم لمس کو ماتھے پر پاتے سن سی سانس روک گئی۔۔۔
چہرے پر عجب سے رنگ حیا بکھرنے لگے،جبکہ سیاہ خمدار پلکیں مڑی ہوئی سایہ فگن تھیں۔۔۔۔کچھ سمجھ آئی میری جان۔۔۔۔!" وہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی اپنے جذبات کو لگام نہیں لگا پایا تھا،۔جبھی اوزگل کے گالوں کو چھوتے وہ گہرے لہجے میں پوچھنے لگا۔۔
میں کوشش کروں گی اشششکانن۔۔۔۔۔"نظریں جھکائے وہ تابعداری سے بولی تو اشکان کا دل تیزی سے دھڑکا تھا۔۔۔
*************
وہ بے چینی سے وقت دیکھتا کمرے سے باہر نکلا تھا۔۔۔ گردن اور ماتھے کی پھولی رگیں اسکے اندر برپا ہوئے اشتعال کی صاف نشانی تھی وہ۔ ایک گھنٹے سے عبادت کا انتظار کر رہا تھا مگر اب اسکے ناں آنے پر وہ مجبوراً کمرے سے تنے اعصاب سے نکلا۔۔۔
اصلال بیٹا کہاں جا رہے ہو۔۔۔۔" رضیہ بیگم اصلال کو عجلت میں سیڑھیاں اترتا دیکھ بولی تو امل جو انکے قریب ہی صوفے پر بیٹھی تھی اسنے جھٹ سے مڑتے مسکراتے اصلال عالم کو دیکھا۔۔
ہاف وائٹ کلر کے کاٹن کے سوٹ میں ملبوس ماتھے پر بکھرے گھنے سیاہ بال جو گیلے ہونے کی وجہ سے اسکے ماتھے سے چپکے تھے۔ سیاہ آنکھوں میں ہمہ وقت مقید سنجیدگی کھڑی مغرور ناک سرخ و سفید رنگت کا مالک اس وقت وہ امل کو دنیا کا حسین ترین مرد لگا تھا۔۔ آج سہی معنوں میں اسکے دل کی دھڑکنیں اتھل پتھل ہوئی تھیں۔ ۔
دھڑکنوں کا شور الگ ہی تھا کہ وہ خود ہی اپنے جذبات پر گھبرا گئی۔۔۔
عبادت کو دیکھنے جا رہا ہوں کیوں کوئی کام تھا آپ کو۔۔۔۔۔؟" اپنے مخصوص روبعدار ٹہرے لہجے میں وہ نظریں فرش پر گاڑھے استفسار کرنے لگا۔۔
امل کے ہاتھ کا چیک اپ کروانا تھا پٹی بھی بدلوانی ہے اسے لے جاو ساتھ۔۔۔۔۔!" عبادت کا نام۔سنتے ہی رضیہ بیگم کا لہجہ اکھڑ سا گیا۔۔وہ حکمیہ انداز میں بولیں تو امل نے چور نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔
مجھے ایک کام سے نکلنا ہے ڈرائیور کو بولوں گا کہ لے جائے۔۔۔۔ وہ رسان سے انکار کرتا باہر نکلا تھا۔۔۔ عبادت پر غصہ ڈبل ہوا، جو بنا اسکے جذبات کی پرواہ کیے اسکے کہنے پر بھی نہیں آئی تھی۔۔۔
بھائی اسکا ٹیسٹ نہیں ہے۔۔۔۔" اصلال جیسے ہی دہلیز عبور کیے اندر بڑھا تو عبادت کی جھنجھلائی ہوئی سی آواز اسکے کانوں میں گونجی۔۔۔اصلال نے جبڑے بھینجتے سرخ لہو رنگ نظروں سے صوفے پر آنش کے سامنے بیٹھی عبادت کی پشت کو گھورا۔۔۔
ارے اصلال بیٹا آؤ۔۔۔۔؛" انش کیلئے چائے بناتے نضخت بیگم جو وہاں آئیں تھی سامنے ہی دروازے کے بیچ کھڑے اصلال کو دیکھ خوشگوار حیرت سے اسے پکارا۔۔۔۔۔ جس کی نظریں عبادت کے وجود کے آر پار ہو رہی تھیں۔۔۔
اسکے نام کی پکار عبادت کی دھڑکنیں منتشر کر گئی، وہ بےساختہ ہی مڑی تھی دوپٹہ سر سے ڈھلک چکا تھا اسکے کھلے سنہری بال جو گردن پر لہراتے گستاخیاں کر رہے تھے۔۔۔ اصلال عالم کا ضبط یہیں تک تھا۔۔۔ عبادت کو اپنے حلق میں کانٹے سے چھبتے محسوس ہونے لگے۔۔۔۔
دھڑکنوں کا شور اس قدر تیز تھا کہ وہ دوپٹہ تک اوڑھنا بھول۔چکی تھی۔۔۔۔ اوپر سے اصلال عالم کا نکھرہ نکھرہ روپ اسکے دل میں ہلکی سی ہلچل ہونے لگی۔۔۔۔۔ اصلال عالم کی نظریں بڑی بےباکی سے اپنی ملکیت کو سراہ۔رہی تھیں ۔۔۔۔
جبکہ آنش اصلال کو یوں اپنی بہن کو دیکھتا پاتے پاؤں پٹھکتے غصے سے وہاں سے نکلا تھا۔۔مگر اصلال عالم کی نظریں ابھی تک عبادت پر تھیں۔۔۔۔۔ ساکت سی جیسے اسے وارن کر رہی ہوں۔۔۔
ماما امل کو ڈاکٹر کے لے کر جا رہا ہوں آپکی میڈیسن ہیں یا پھر ختم ہو گئی میں آتے وقت لیتا آؤں گا۔۔۔" ہاتھ پشت پر مضبوطی سے باندھے وہ اب پوری طرح سے نضخت سے مخاطب تھا۔۔۔
بیٹا میری میڈیسن ہیں۔۔۔۔!" امل کے ساتھ جانے کا سنتے ہی انکا دل بری طرح سے دھڑکا تھا وہ خونخوار نظروں سے اپنی بیٹی کو گھورنے لگی جس کی رنگت لٹھے کی مانند ہونے لگی۔۔۔
رات کو ڈنر باہر ہی کریں گے ہم دونوں آپ انتظار مت کیجیئے گا۔۔۔۔!" وہ مسکراتا ہمیشہ کی طرح انکی پیشانی پر بوسہ دیے بنا عبادت کو دیکھے باہر نکلا تھا۔۔۔ جبکہ عبادت کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی نے تیز دھار آلے سے اسکے وجود کو کاٹ دیا ہو۔۔۔ سنہری آنکھوں سے جھلکتے شفاف قطرے کب اسکے گالوں پر لڑکھے وہ جان ناں سکی۔۔۔۔ دل میں عجیب سا درد ہوا تھا وہ الٹے قدموں سے بھاگتے اپنے کمرے میں جاتے خود کو لاک کر گئی۔۔
جبکہ نضخت بیگم نے اپنی بےوقوف بیٹی کو دیکھ سرد سانس فضا کے سپرد کیا۔۔
اصلال مجھے تم سے بات کرنی ہے ۔۔۔۔۔!"انگلیاں چٹخاتے وہ اپنے اندر کی بے چینی گھبراہٹ پر خود ہی پریشان سی گھبرائی بمشکل سے بولی تھی۔۔۔۔ اصلال نے جبڑے بھینج لیے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا، امل اسکے روکھے لہجے پر پہلوں بدل گئی۔۔۔
اصلال میں جانتی ہوں تم نے مجھے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو کوئی جھوٹا دعوا نہیں کیا مگر تم نے یہ تو کہا تھا کہ تم مجھے اپنی ہمسفر کے طور پر اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتے ہو۔۔۔۔" اصلال نے سنتے گاڑی کے شیشے نیچے کیے۔۔۔۔
تم نہیں مگر میں تمیں پسند کرتی ہوں محبت کرتی ہوں بہت زیادہ میں کیسے بھولوں گی تمہیں۔۔۔۔؟" وہ رونے جیسی ہو چکی تھی اصلال کو امل کے کہے الفاظ سخت مگر سچ لگے تھے۔۔۔ مگر وہ بنا کوئی جواب دیے گاڑی ہاسپٹل کے گیٹ سے اندر لے گیا۔۔
امل کا دل تیزی سے دھڑکتے اسے اپنے کانوں میں بجتا محسوس ہو رہا تھا، گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی،امل کا دل اچھلتے حلق میں اٹکا تھا۔۔اصلال نے سرد سانس فضا کے سپرد کیے رخ گھمائے اسے دیکھا۔۔
امل تم اچھے سے جانتی ہو کہ میں نے کبھی تمہیں کسی غلط بات پر نہیں اکسایا، پسند کرنا گناہ نہیں ہے مگر محبت صرف محرم سے جچتی ہے، جو کہ مجھے اپنی محرم سے یعنی کہ عبادت اصلال عالم سے ہے۔۔۔۔۔ اسکے علاؤہ کوئی بھی محبت میرے لئے معنی نہیں رکھتی اور ناں ہی تمہارے لئے رکھنی چاہیے۔۔۔ اگر ہمارا ساتھ لکھا ہوتا تو ہم ایک ہوتے محرم رشتے میں بندھے ، اگر ہم ایک ساتھ نہیں تو یہ یقیناً اللہ کی کوئی مصلحت ہے۔۔۔۔۔۔!"
اصلال عالم نے اسے لمحوں میں لاجواب کیا تھا امل کے ہونٹ ایک دوسرے میں پیوست تھے جیسے کچھ بولنے کو بچا ہی نہیں تھا۔۔۔اندر جاؤ ڈریسنگ کروا لو۔۔۔ڈرائیور کے ساتھ گھر چلی جانا مجھے کچھ کام ہے۔ ابھی جانا ہے۔۔۔۔!"
مگر اصلال۔۔۔۔۔۔" نو مور آرگیو____جاؤ اندر۔۔۔" اسے خاموش کرواتے اصلال نے سپاٹ لہجے میں کہا تو امل لب بھینجتے آنسوں اپنے اندر اتارنے لگی۔۔۔۔ امل گو۔۔۔۔۔۔!" اصلال نے سخت لہجے میں کہا تو امل چارو ناچار دروازہ کھولے باہر نکلی۔۔۔۔
اسکے نکلتے ہی اصلال زن سے گاڑی بھگائے اسکی آنکھوں سے اوجھل ہوا۔۔۔۔۔۔ تم کیسے اس عبادت سے محبت کر سکتے ہو اصلال_____؟ جب تمہیں مجھ سے ایک سال میں محبت نہیں ہوئی تو پھر بھلا اس دو دن کی اپنی زندگی میں آئی لڑکی سے کیسے ہو گئی۔۔۔۔اگر اس محبت کو نفرت میں نا بدلا تو میرا نام بھی امل نہیں۔۔۔۔۔۔"
اپنے گالوں پر لڑکھتے آنسوں کو بےدردی سے صاف کرتی وہ کرب ناک لہجے میں نفرت سے پھنکاری۔۔
**************
اشکان تم نے بتایا نہیں مجھے تم کہاں سے لائے تھے یہ اتنے سارے بروج۔۔۔۔۔' پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ ایک ساتھ بیٹھے تھے۔۔۔ درختوں کی گھنی چھاؤں میں ہوا کے ٹھنڈے جھونکے خوشگوار سا ماحول برپا کر رہے تھے، اشکان نے محبت بھری نگاہوں سے اوزگل کو دیکھا۔۔۔۔ اور پھر جلدی سے جھکتے سر اوزگل کی گود میں رکھتے وہ سکون سے آنکھیں موند گیا۔۔۔۔
اششششکان____"اشکان کے ایک دم سے گود میں سر رکھنے پر وہ جھٹکے سے اچھلی دل تیزی سے دھڑکتا پسلیوں سے پٹھک رہا تھا۔۔۔ اسکے برعکس اشکان صدیقی اپنی محبت کی پناہوں میں اسکی گود میں سر رکھے لیٹا کسی اور ہی جہاں میں تھا۔۔۔
گل کے وجود کی مدہم سی بھینی بھینی خؤشبو اسکے حواسوں پر طاری تھی،وہ آنکھیں موندے سکون خود میں اتار رہا تھا، جی جاناں اشکان۔۔۔۔۔" اوزگل کے نازک ہاتھ کو تھامے ہونٹوں سے چھوتا وہ پرنم محبت بھرے لہجے میں بولا۔۔۔ تو اوزگل کو عجیب سی بے چینی ہونے لگی۔۔۔
وہ کسی بھی نئے احساس کسی دوسرے رشتے کو سمجھنے سے انکاری تھی اسکے نزدیک اشکان کا اسکے ساتھ دوستی کا رشتہ ہی سب سے مضبوط اور اہم تھا اسکے علاؤہ وہ مزید کچھ بھی نہیں چاہتی تھی مگر اشکان آہستہ آہستہ اپنی محبت کا جال۔اسکے چاروں اطراف بکھیرتا اسے بے بس کر رہا تھا۔۔۔
اوزگل۔کی سانسیں سینے میں الجھ گئی۔۔۔۔وہ بے ساختہ گھبراہٹ الجھن میں مبتلا ہونے لگی۔۔۔۔ گل۔۔۔۔۔"جذبات سے بھاری گھبیر آواز اوزگل سنتے خوف زدہ ہوئی۔۔۔۔ میرے بالوں میں ہاتھ چلاؤ۔۔۔ گل کے ہاتھ کو لبوں سے لگائے وہ مان سے فرمائش کرتے بولا۔
ایسے جیسے یقین ہو کہ وہ انکار نہیں کرے گی، گل کا چہرہ سرخ لال انگارہ ہونے لگا وہ سمجھ ناں پائی کہ کیا کرے،جبھی اپنے نازک ہاتھ کو غیر ارادی طور پر ہی اشکان کے بالوں میں رکھتے وہ گہرے سانس لینے لگی۔
اشکان اسکی حالت سے بخوبی واقف تھا مگر وہ چاہتا تھا کہ اگر اوزگل اسکے قریب ہو گی تو ہی وہ اس رشتے کو سمجھ پائے گی۔۔
اشکان نے فورا سے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے اسکے بالوں کو سہلانے کی فرمائش کی۔ تو اوزگل نے تھوک نگلتے نرمی سے اسکے بالوں کو سہلانا شروع کیا۔۔۔ اوزگل کا ایک ہاتھ اشکان کے ہاتھ میں تھا، وہ بغور اسکی سرخ و سفید ہتھیلی کو دیکھ رہا تھا۔۔ گل یہ دیکھو،" اشکان نے چہکتے خوشی سے پرجوش لہجے میں کہا۔
کک کیا۔۔۔۔۔۔" وہ چونکتے حیرت سے پوچھنے لگی۔ یہ دیکھو میرا نام تمہاری ہتھیلی پر لکھا ہے۔۔۔۔!" گردن اٹھائے وہ محبت سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے اوزگل کی ہھتیلی پر انگلی رکھے بولا۔
یہ یہاں دیکھو (A) اے لکھا ہؤا ہے۔۔۔۔وہ مسکراتا اسکی ہتھیلی پر پڑی لکیروں کو دیکھتے اسے خوشی سے بتا رہا تھا اوزگل نے ماتھے پر بل ڈالے بغور اپنی ہتھیلی کو دیکھا۔ اسکا مطلب کہ تمہارے ہاتھ پر میرا نام بچپن سے لکھا ہوا ہو گا۔۔۔۔ میں نے پہلے کیوں نہیں دیکھا۔۔۔۔وہ۔افسوس خوشی کے ملے جلے تاثرات سے بول رہا تھا، اسکی بات سنتی اوزگل خود بھی حیران تھی کیا یہ سب سچ تھا جو اشکان اسے کہہ رہا تھا۔
اچچھا۔۔۔۔۔" اوزگل نے گردن کو زور زور سے ہاں میں ہلائے تائید کی تھی۔۔ اشکان ایک نظر اوزگل کے حسین چہرے کو دیکھ اپنے دہکتے ہونٹ اسکی شفاف ہتھیلی پر ثبت کیے۔۔۔۔۔
*************
مجھے کیوں رونا آ رہا ہے میری بلا سے جس مرضی کے ساتھ جائے۔۔۔۔۔۔!" شیشے کے آگے کھڑی وہ ٹشو سے اپنے آنسوں صاف کرتی سرخ نظروں سے اپنے عکس کو گھورتے استفسار کر رہی تھی۔۔۔۔۔
ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کچا کھا جائے گا مگرمچھ ناں ہو تو۔۔۔۔۔۔۔" اصلال کے جانے کے بعد سے وہ کمرے میں بند کبھی بیڈ پر تو کبھی شیشے کے سامنے کھڑی رو رہی تھی۔ اصلال کا امل کے ساتھ جانا اسکے دل کو تکلیف دے رہا تھا جانے کیوں اسکا دل چاہ رہا تھا کہ اس چڑیل کو جان سے مار دے۔۔۔۔
سب کو یہی ملتا ہے اتنا پیارا تو نہیں ہے،۔اسی کے پیچھے پڑ گئی ہیں۔۔۔۔۔!"وہ غصے سے ٹشو سے ناک کو صاف کرتی اصلال کا تصور کرتے بڑبڑائی۔۔۔۔۔۔ نضخت بیگم اسے کھانے پر بلانے آئی تھی مگر وہ غصے سے انکار کر چکی تھی، دل پر جیسے چھریاں چل رہی تھی،مگر میں رو کیوں رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ مجھے کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔!"
معا وہ چونکتے خود سے پوچھنے لگی آخر کو وہ اس قدر کیوں رو رہی تھی، اگر اصلال امل کے ساتھ گیا تھا تو اس میں بڑی بات کیا تھی جو اسے اتنا دکھ مل رہا تھا۔۔مگر وہ یہ نہیں سمجھ پائی ۔۔۔کہ اصلال عالم کے ساتھ جس رشتے میں وہ بندھ چکی ہے وہ رشتہ اس قدر پاک اور مضبوط ہے کہ اسکے ناچاہتے ہوئے بھی وہ اصلال کے جانے پر دکھی تھی۔۔۔ یہ جلن جو اسے اپنے اندر محسوس ہو دہی تھی یہی جلن اس مقدس رشتے کے خلوص کی نشانی تھی۔۔۔
محبت کی شروعات ہی تو اس جلن سے ہوتی ہے جو عبادت کے پور پور کو زخمی کر رہی تھی۔۔۔۔
میں اب نہیں روتی میری بلا سے جس کو مرضی لے جائے، مگر کیا وہ کھانا بھی کھائے گا امل کے ساتھ میں نے نہیں کھایا تو وہ کیسے کھا سکتا ہے۔۔۔۔ خود کو سمجھانے کی کوشش کرتی وہ اب نئی بات یاد آنے پر رونے سی ہو چکی تھی ۔۔۔
مگرمچھ،ایناکونڈا،جب اس چڑیل کے ساتھ کھانا کھانا تھا تو میرے ساتھ کیوں شادی کی۔۔۔۔۔" دانت پر دانت جمائے وہ دم گھنٹے پر دروازہ کھولے چھت پر جانے لگی۔۔۔۔
یہ دیکھو اتنے زیادہ ستاروں میں تم بھی اکیلے ہو چندا ماموں، تمہاری چندی بھی میرے مگر مجھ کی طرح دو نمبر نکلی۔۔۔۔" وہ سوں سوں کرتی کھلے آسمان پر جھلکتے چاند کو دیکھ بولی____"
کون مگرمچھ۔۔۔۔۔؟" معاً اپنے پیچھے بھاری سرد آواز سنتے عبادت ایک دم سے جگہ سے اچھلی تھی ، وہ خوفزدہ سی ہوتے مڑتے اپنی سنہری آنکھوں کو پھیلائے پیچھے دیکھنے لگی جہاں ہوا میں دھوئیں کے بادل بناتا وہ سرخ لہو نما آنکھیں لیے بے تاثر چہرے سے دیوار سے ٹیک لگائے عبادت کو دیکھ رہا تھا۔
عع عععالم۔۔۔۔۔۔۔۔!" عبادت کی آواز کہی کھائی سے آتی سنائی دے رہی تھی۔۔۔۔ اصلال نے سنتے ائبرو اچکائے سگریٹ کا کش لگائے قدم آگے بڑھائے تھے____!"
ننن نہیں یییی کیسے ہو سکتے ہیں عععاللللمم تو اس چچچ چڑیل کے ساتھ گئے تھے۔۔۔۔۔۔؛" وہ حواس بافتہ سی اسے دیکھ خود سے بڑبڑانے لگی، آنسوں جیسے خشک ہو چکے تھے اس وقت اسے سامنے کھڑے سالم اصلال عالم سے جو خوف تھا وہ تو اسے آج تک محسوس نہیں ہوا تھا۔۔۔۔
ببب بھوت۔۔۔۔۔۔!" وہ ڈرتے ایک دم سے چیختی الٹے قدموں سے بھاگی مگر اس سے پہلے ہی اصلال عالم پھرتی سے بھاگتے آگے ہوا تھا ۔۔۔۔ وہ جو دروازے کی جانب بھاگ رہی تھی اب سامنے ہی اسے کھڑا دیکھ عبادت کا سانس حلق میں اٹکا،وہ شل ہوتے اعصاب کے ساتھ لرزتی پیچھے کو ہونے لگی۔۔۔۔
کندھوں سے ڈھلکتا دوپٹہ کب زمین بوس ہوا عبادت کو ہوش تک نہیں تھا جبکہ اصلال عالم اسکے ایک ایک حرکت کو بغور نوٹ کر رہا تھا____اسکی سرد نظریں عبادت کے بھیگے چہرے سے چمٹی سنہری لٹوں سے ہوتے اسکی گردن کی ابھری ہری رگوں پر ٹکی۔۔۔۔
ککک۔ کون ہو تت تم۔۔۔۔۔۔؛" ڈر سے لرزتی وہ اصلال کو کوئی بھوت گردانتے پوچھنے لگی۔۔۔ اصلال نے قدم اسکے قریب کرتے بغور اسکے لٹھے کی مانند سفید پڑتے چہرے کو دیکھا۔۔۔۔۔۔ مگرمچھ____!" عبادت کے ہی انداز میں اسے جواب دیتے وہ دانت پیستے عبادت کو بھاگنے کے لئے پر تولتا دیکھ آگے بڑھا تھا۔۔
اور بجلی کی سی تیزی سے جھپٹتے اسکے بازوؤں کو تھامے اسے اپنی جانب کھینچا کہ وہ کسی کٹی شاخ کی مانند سیدھا اسکے کشادہ سینے سے جا لگی۔۔۔۔۔
میں تو بہت معصوم سمجھتا تھا آپ کو مسزز عالم۔۔۔۔۔؟" عبادت کے کپکپاتے وجود کے گرد اپنے مضبوط حصار کو بنائے اصلال نے کھینچتے اسے سینے سے لگائے کان میں سرگوشی کی، تو عبادت اسکی آواز اسکی خؤشبو پر سانس روکتی آنکھیں مضبوطی سے میچ گئی۔۔۔۔
مگر آپ تو بہت پہنچی ہوئی چیز نکلی۔۔۔۔۔" وہ لفظوں میں طنز بھگو کر مارتا عبادت کو پل بھر میں شرمندہ سا کر گیا۔۔۔۔
عبادت نے لب دانتوں تلے دبائے اسکے غصہ سہنے کیلئے خود کو مضبوط کیا۔۔۔
اگر بروقت آ جاتی تو اس وقت اپنے مگرمچھ کو اس بھیانک روپ میں ناں دیکھنا پڑتا۔۔۔" اصلال کی آنکھوں میں جنون کی سرخی نمایاں تھی وہ کہتے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ عبادت کے بالوں میں پھنسائے اسکا چہرہ اونچا کرتے اسکی بند آنکھوں کو دیکھ اب استحقاق سے اسکے چہرے کے ایک ایک نقش کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
تمہیں لگتا ہے تم نے مجھے سزا دی ہے خود سے دور رکھ کر۔۔۔۔۔۔ اپنی انگلی اسکے چہرے کے کے ایک ایک نقش پر پھیرتے اصلال نے اسکے نچلے ہونٹ پر رکھی ۔۔۔۔ عبادت نے ڈرتے لب بھینجے تو اصلال عالم نے اپنی انگلی پر اسکے نرم و نازک ہونٹوں کا لمس محسوس کیے اصلال نے جھکتے ہونٹ عبادت کے ہونٹوں پر رکھے، اصلال عالم کے نرم لمس اسکی انگلی کو ہونٹوں کے درمیان پاتے عبادت کا نازک وجود جی جان سے لرزا تھا۔۔
عععاللللمم۔۔۔۔۔۔۔۔" اصلال عالم کے دہکتے ہونٹوں کا لمس اپنی تھوڑی سے سرکتا شہہ رگ پر پاتے عبادت کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوئے تھے۔۔۔۔۔ آسکی شدتیں برداشت کر پانا کہاں اس نازک جان کےںبس میں تھا۔
آہا جاناں یہ آپ کی خطا ہے اگر بروقت ڈوز دینے آ جاتی تو اس وقت ڈبل ڈوز لینے مجھے خود ناں آنا پڑتا۔۔۔ " عبادت کے کان میں جھکتے وہ بےباکی سے سرگوشی کیے اس نازک وجود کو اپنی بانہوں میں بھینجتے اندر عبادت کے کمرے کی جانب بڑھا جبکہ عبادت تو اسے اندر اپنے کمرے کی جانب بڑھتا دیکھ شل سی ہو چکی تھی۔۔۔
*************
اتنی رات کو یوں کسی غیر سے ملنا اچھے گھر کی لڑکیوں کا شیوا نہیں امل میڈم۔۔۔۔۔۔۔!" اسے آتا دیکھ وہ ٹانگ ہلاتے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے مسکراتا بولا تو امل نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا۔۔۔۔
کزن لگتی ہوں تمہاری کوئی غیر تو نہیں ہوں اور ایک بات اپنے کام سے کام رکھو مجھ پر طنز مت کرو۔۔۔۔۔۔!" وہ خاصی تپی ہوئی۔تھی واپسی پر ہی اسنے قاسم کو۔کال کرتے ہوٹل بلایا تھا اب وہ کسی بھی صورت عبادت کو اصلال عالم کی زندگی میں برداشت نہیں کر سکتی تھی۔۔۔
اچھا چھوڑو یہ سب باتیں ویسے مجھے گہرا دکھ ہوا اصلال عالم نے تمہیں چھوڑ کر اس عبادت سے شادی کر لی۔۔۔۔۔۔' امل کا چہرہ دھواں دھواں ہوا تھا۔۔قاسم اسکی حالت سے لطف اٹھاتا مزید گویا ہوا۔۔۔
ویسے اسکا قصور نہیں اب وہ کم سن حسن ہے ہی ایسا کسی کا بھی ایمان ڈگمگا جائے۔۔۔۔۔۔!" ایک آنکھ دبائے وہ بےباکی سے عبادت پر تبصرہ کرتے امل کو زہر لگا تھا۔۔
جیسے کہ تمہارا دل آ گیا تھا اور تم اپنی ماں کے ساتھ اسکا رشتہ لے کر آنے والے تھے مگر عین وقت پر میں نے شور ڈال دیا اور پھر جب بڑے بابا نے تمہیں چنا تو تم نے سوچا ایک تیر سے تین نشانے لگاتا ہوں۔۔"
پہلے تو عبادت کو اپنا نام کر لوں ، دوسرا سب کی نظروں میں اچھا بنوں گا اور تیسرا اصلال عالم کی منگ کو بیوی بنا کر اسے ذلیل کروں گا۔۔۔۔۔! مگر تمہارے اس خواب پر اصلال نے پانی پھیر دیا۔۔۔۔۔" وہ مسکراتے اپنے بالوں کو ایک ادا سے جھٹکتے آخر میں آنکھ دبائے قاسم کا ضبط آزما رہی تھی۔۔۔
تمہادی ماں۔نے بتایا تھا میری ماما اور نانو کو کہ کس طرح تم عبادت کے حسن میں پاگل تین دن سے بھوکے بیٹھے ہو۔۔۔۔ہاہاہاہاہا۔۔۔۔!" وہ رازدارانہ کہتی اسکے دھوآں دھواں چہرے کو دیکھ قہقہ لگا اٹھی۔۔۔
کام کی بات کرو کیوں بلایا ہے مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔؟" قاسم جان چکا تھا کہ اس وقت امل سے بحث اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا جبھی وہ پہلوں بدلتے کام کی بات پر آیا۔۔۔۔
کام کی بات یہ ہے کہ مجھے اصلال عالم چاہیے کسی بھی قیمت ہر۔۔۔۔۔وہ ضدی جنون بھرے لہجے میں قاسم کی آنکھوں میں دیکھتے بولی تو قاسم ہنس دیا۔۔۔
اور مجھے عبادت چاہیے۔۔۔۔۔!" جبڑے بھینجتے وہ کسی بھیڑیے کی مانند دھیمی مگر بھاری عجیب سی آواز میں غرایا تھا اسکے لہجے کی لپک آنکھوں کا اشتعال امل کے رگ و پے میں سکون دوڑا گیا۔۔۔
تو پھر کچھ کرو ایسا کہ تمہیں وہ مل جائے جسکی تمہیں طلب ہے اور مجھے وہ مل جائے جسکا مجھے جنون ہے۔۔۔۔۔۔"
************
ععع عععاللللمم_____" اصلال عالم کی آنکھوں میں چھائی خمار کی سرخی عبادت کو لرزنے پر مجبور کر گئی وہ سہمی حراساں سے اسکے کشادہ سینے پر اپنے نازک ہاتھوں سے دباؤ ڈالتی اسے خود سے دور کرنے لگی جو کسی سائے کی طرح عبادت پر جھکا اسکی سہمی نظروں میں دیکھ اسے مزید خوفزدہ کر گیا۔۔۔
اب بولو میں کیا ہوں۔۔۔۔۔" وہ اطمینان سے اپنے دونوں ہاتھ عبادت کے دائیں بائیں تکیے پر ٹکائے انہماک سے اسے دیکھ استفار کرنے لگا ۔۔۔ عبادت نے تھوک نگلتے خود کو بچانے کا کوئی بہانہ ڈھونڈنا چاہا مگر برا ہو قسمت کا جو عین وقت پر اسے کوئی بھی بہانہ نہیں ملتا تھا۔۔
آپ ایک اچھے شریف بہت سمجھدار انسان ہیں۔۔۔۔۔!" اپنی سنہری آنکھیں اصلال عالم کی سیاہ آنکھوں میں گاڑھتے وہ معصومیت سے اسکی تعریف کرتی اصلال کو کوئی چالاک لومڑی لگی تھی۔۔۔
اچھا تو میں شریف ہوں۔۔۔"اپنے بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی عبادت کے دائیں گال پر پھیرتے وہ اسکے رونگٹے کھڑے کر گیا۔۔۔ بولیں مسزز عالم کیا میں شریف ہوں۔۔۔وہ لفظوں پر زور دیتا تیز لہجے میں تصدیق کرنا چاہ رہا تھا ۔۔۔ وہ سنتی اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے سر ہاں میں ہلا گئی۔۔۔
اہا سمجھدار بھی ہوں۔۔۔۔۔۔" وہ ائبرو اچکاتے انگلی اسکی ناک پر لے جاتے پوچھنے لگا۔۔۔وہ سرخ چہرے سے لرزتے وجود سے اصلال کے بھاری وجود کے نیچے دبی سی پڑی تھی۔۔۔۔ دھڑکنوں کا شور الگ سے طوفان مچا رہا تھا رہی سہی کسر اصلال عالم کی قربت نے نکال دی تھی۔۔
عبادت مرتی کیا ناں کرتی کی مصداق کے تحت سنتی سر ہاں میں ہلا گئی۔۔۔تو پھر میں جو بھی کہوں گا وہ بھی ٹھیک ہو گا۔۔۔" وہ گہرے لہجے میں معنی خیز سا پوچھ رہا تھا۔ عبادت تو اسکے خوف سے اسکے لہجے کی وارننگ کو سمجھ تک ناں سکی۔۔ وہ پھر سے تابعداری کا مظاہرہ کرتی گردن ہاں میں ہلا گئی۔۔
دھین کس می ناؤ_____" وہ مخمور نگاہوں سے انگلی سرکاتے عبادت کے سرخ ہونٹوں پر رکھتے گھبیر لہجے میں سرگوشی کرتے بولا عبادت سنتی دہل سی گئی۔۔۔وجود جیسے جھٹکوں کی ضد میں تھا۔۔۔اسے لگا کہ شاید اسے سننے میںں غلطی ہوئی تھی کیونکہ وہ ہر طرح کی حرکت کا سوچ سکتی تھی مگر اسے اندازہ نہیں تھا کہ اصلال عالم اسے ایسا ویسا کچھ بھی کہے گا۔۔۔
وہ تھوک نگلتے اپنی آنکھوں میں ڈھیروں آنسوں لائے اسے بے یقینی سے دیکھنے لگی۔۔اشششش روؤ مت یہ۔صرف مجھے تڑپانے کی سزا ہے۔۔۔۔!" عبادت کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ وہ جھکتے اسکے کان میں سرگوشی کیے اپنے دہکتے ہونٹوں سے اسکی گردن کو چومتا مدہوش سا ہو گیا۔۔۔۔
عبادت کا پورا وجود ہلکا ہلکا لرز رہا تھا۔۔۔۔ اسے شدید افسوس ہوا کاش کہ وہ چلی جاتی تو اس وقت اسے اس مگرمچھ کے اس قدر بھیانک روپ کا سامنا ناں کرنا پڑتا۔۔۔۔۔
پپپ پلیز ععععع عععاللممم۔۔۔۔۔۔وہ آنکھوں میں ڈھیروں آنسوں لائے منت کرتی سوں سوں کرنے لگی۔۔۔ اصلال نے ناک سکیڑتے اسے گھورا۔۔۔ اچھا تمہارے پاس دو آپشن ہیں اگر منظور ہے تو بتاؤں۔۔۔۔۔"
وہ انگلی پر اسکے سنہری لٹوں کو لپیٹتا بہکی نگاہوں سے اسکے سراپے کو دیکھے پوچھنے لگا۔۔۔۔ ہہہ۔ہاں۔۔۔۔۔ عبادت بنا سنے فورا سے حامی بھر گئی۔۔۔۔ خود سے کس کرنے سے بہتر تھا کہ وہ اسکی کوئی بھی شرط مان۔لیتی۔۔۔۔ ویری گڈ بہت سمجھدار ہو۔۔۔۔۔؛ "میں ابھی تمہیں فورس نہیں کروں گا مگر شادی کے بعد تم خود مجھے کس کرو گی منظور ہے۔۔۔۔"
عبادت کی گردن پر جابجا اپنا۔لمس چھوڑتے وہ لب دبائے پوچھنے لگا۔۔۔۔
عبادت نے آنکھیں میچتے سر ہاں میں ہلا دیا۔۔اصلال عالم کا شدت بھرا لمس اپنی گردن پر سرکتا محسوس کرتی وہ لرزتی کپکپاتی بھاری سانس لیتے خود کو مضبوط بنا رہی تھی۔۔ اور دوسری یہ کہ تم ابھی اپنی بانہیں میری گردن میں ڈالے مجھے خود سے نزدیک کرو گی کہ میں تمہیں تمہاری غلطی کی سزا دے سکوں۔۔۔۔" وہ مسکراتا عبادت کی تھوڑی کو چومتے بولا۔۔
عبادت نے جھٹکے سے اسکے سینے پر ہاتھ رکھتے اسے پیچھے کرنا چاہا مگر اصلال نے جھٹ سے اسکے بازوؤں تھامے اپنی گردن میں حائل کیے ، اور ایک دم سے اسکے ہونٹوں پر جھکتا وہ شدت سے اسکی دہکتی سانسوں اسکے نرم و ملائم ہونٹوں کے لمس کو محسوس کرتا مدہوش سا ہو گیا۔۔
************
وہ کب سے گیٹ کے پاس کھڑی اصلال کا ویٹ کر رہی تھی۔۔۔۔ اب تو کھڑے ہو کر بھی اسکی ٹانگوں میں درد سا ہو رہا تھا۔۔۔۔۔ کل رات کو اصلال کی شدتوں کی وجہ سے وہ کافی خفا تھی اس سے۔۔۔۔۔ جو اچھے طریقے سے اسکا دماغ ٹھکانے لگائے اسے جاتے وقت یہ بتا گیا تھا کہ کل وہ کسی میٹنگ کیلئے لاہور جا رہا ہے اور اسے جلدی نکلنا تھا جبھی اسے حکم دیا تھا کہ جاتے وقت آنش کے ساتھ جائے مگر واپسی پر وہ خود اسے پک کرے گا۔۔۔
عبادت ساری رات اسے بدعائیں دیتے سوئی تھی اور پھر صبح اسنے انش کو بھی لینے آنے سے منع کر دیا تھا اور اب لاڈ صاحب خود ہی غائب تھے۔۔۔سارا کالج حالی تھا مگر کالج کی۔پرنسپل اور ٹیچرز ابھی تک یہیں تھے کسی میٹنگ کے سلسلے میں ۔۔۔۔ عبادت نے سوچ لیا تھا کہ اگر تو وہ میٹنگ ختم ہونے تک آ گیا تو ٹھیک نہیں تو وہ پرنسپل سے سیل لیتے وہ آنش یا پھر پاپا کو کال کرے گی اور اصلال عالم کو خوب ڈانٹ بھی پڑوائے گی۔۔۔۔
وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی جب چوکیدار چلتا اسکے قریب آتے اسے مخاطب کرنے لگا۔۔۔ عبادت جھٹکے سے ہوش میں آتی اسے دیکھنے لگی۔۔ جج جی۔۔۔۔۔!" وہ سہمی سی پوچھنے لگی۔۔۔ بیٹا باہر کوئی آیا ہے آپ کو بلا رہے ہیں___!"
عبادت کے چہرے پر سنتے ہی خوشی کی۔لہر دوڑی تھی وہ خجاب ٹھیک کرتے بیگ اٹھائے کندھے پر ڈالے باہر نکلی مگر سامنے ہی کسی اور مرد کی پشت کو دیکھ وہ پہچان چکی تھی کہ وہ اصلال نہیں تھا۔۔۔۔
اپپ کک کون۔۔۔۔؟" وہ چونکتے حیرانگی سے پوچھنے لگی۔۔۔۔۔ السلام علیکم عبادت میں تمہارا کزن قاسم بیگ۔۔۔۔۔۔" عبادت کی دھیمی باریک آواز سنتے قاسم کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑی تھی وہ رخ موڑتے سنجیدہ سا ہوتے اسے آگاہ کرنے لگا۔۔۔
وعلیکم السلام۔۔۔۔۔!"بھائی میں پہچان گئی ہوں آپ کو،مگر آپ یہاں۔۔۔۔۔"ہمیشہ کی طرح اپنے سخت لہجے میں کہتے وہ اسے دیکھتے پوچھنے لگی___ عبادت کے بھائی کہنے پر وہ لب بھنجتے اپنے اشتعال کو دبائے عبادت کے حسین چہرے کو دیکھتا خود کو ریلکس کرنے لگا۔۔۔
ہاں یہاں سے گزرا تو مجھے ایسا لگا کہ تم یہیں کالج میں ہو پھر واچ مین سے پوچھا تو اسنے میرے شک کی تصدیق کر دی آؤ گھر چھوڑ دوں۔۔۔" وہ مسکراتا۔ہلکے پھلکے انداز میں بتاتا مسکرا رہا تھا۔۔
عبادت کو اسکا بہانہ بے تکا لگا بھلا اسے کیسے شک پڑا کہ وہ اندر ہے۔۔۔۔
نہیں آپ زخمت مت کریں عالم آتے ہوں گے میں انکے ساتھ چلی جاؤں گی۔۔۔۔۔" قاسم کی نظروں سے حائف وہ دانت پیستے ہوئے بولی تو قاسم نے سنتے گہرا سانس بھرا۔۔۔
میں لاہور سے ہی آ رہا ہوں عبادت میٹنگ کب کی ختم ہو چکی ہے عبادت کسی دوست کی پارٹی میں انجوائے کر رہا ہے میں نے کہا بھی کہ چلو ایک ساتھ چلتے ہیں مگر وہ نہیں مانا مجھے ماما کو ہاسپٹل لے کر جانا تھا تو میں جلدی سے واپس آ گیا ویسے بھی مجھے ایسی پارٹیز پسند نہیں۔۔۔۔"
عبادت کے جھکے چہرے اسکے پھیلی آنکھوں میں بے یقینی غصہ دیکھ وہ مسکراہٹ روکنے لگا۔۔۔اگر تمہیں انتظار کرنا ہے تو کر لو۔۔۔میں نے اس لئے کہا تھا کیونکہ میں گھر ہی جا رہا ہوں۔۔۔۔" وہ کہتا دوبارہ سے گاڑی کی جانب بڑھا ۔۔۔
جبکہ عبادت کی آنکھیں ایسی تھیں جیسے کسی نے سلگتے سیسے لگا دیے ہوں ۔۔۔ اصلال عالم کی نظروں میں اپنی اہمیت جان کر اسکا روم روم دکھی تھا۔۔۔ رکیں بھائی مجھے ڈراپ کر دیں۔۔۔۔"
وہ فورا سے فیصلہ لیتے مضبوط لہجے میں بولی قاسم نے مسکراتے اپنی چال کامیاب ہونے پر خود کو داد دی۔۔۔اور پھر مسکراتے اسکے لئے فرنٹ ڈور کھولا۔۔۔۔ میرے سوا کسی کے ساتھ فرنٹ سیٹ شئیر مت کرنا کبھی۔۔" اصلال عالم کی رات کو کی مدہوش سی مگر سخت سرگوشی اسکے دماغ میں گھومی مگر غصہ اس وقت اس قدر تھا کہ وہ بنا سوچے سمجھے جھٹ سے بیٹھی تھی۔۔۔
اپنی کامیابی پر سامنے ہی دوسری گاڑی میں بیٹھی امل نے مسکراتے ساتھ موجود پروفیشنل فوٹو گرافر کو اشارہ کیا جس نے بہت اچھے سے قاسم اور عبادت کا مسکراتا ایک دوسرے کا دیکھتا چہرہ قید کیا تھا۔۔۔۔
آئسکریم کھاؤ گی۔۔۔۔" اسنے جان بوجھ کر گاڑی آئسکریم پارلر کے سامنے روکے مسکراتے پوچھا۔۔۔ ننن نہیں گے گھر لے چلیں۔۔۔۔ اصلال عالم کو اگر بھنک بھی پڑی تو اسکا کیا حال ہو گا یہ سوچ سوچ کر ہی اسکا چہرہ پسینے سے تر تھا۔۔
وہ جلدی سے اس گھٹن سے نکلتے اپنے گھر جانا چاہتی تھی۔۔۔۔ ارے یار پہلی بار آئی ہو ایسے تو نہیں جانے دوں گا۔۔۔۔" وہ مسکراتا عبادت کے سراپے کو گہری نظروں سے دیکھتا سٹاربری فلیور منگوا گیا۔۔۔۔
عبادت بری طرح سے ڈری انگلیاں چٹخاتے گھر جانے کو بےچین تھی مگر وہ قاسم سے بدتمیزی بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔
قاسم نے ائیسکریم لیتے اسے خیال میں کھویا دیکھ سامنے امل کی گاڑی کو دیکھا اور پھر جان بوجھ کر اسکے ناک پر مسکراتے ائیسکریم لگا دی۔۔۔۔ییی یہ کیا آپ نے۔۔۔۔.!" وہ جو اصلال عالم کو سوچ رہی تھی اچانک سے قاسم کی اس حرکت پر حیرت زدہ سی اسے دیکھتے سخت لہجے میں پوچھنے لگی۔۔۔
سوری یار پتہ نہیں کیسے ہو گیا۔۔۔۔؟" وہ شرمندگی چہرے پر سجائے مظلومیت طاری کرتے بولا تو عبادت جل بھن کر رہ گئی۔۔۔ مجھے گھر لے چلیں پلیز مجھے نہیں کھانی۔۔۔۔۔" وہ کھردرے لہجے میں کہتے رخ موڑتے بیٹھ گئی۔۔۔
تو قاسم نے کندھے اچکاتے اسکی پشت کو اور پھر آئسکریم کو دیکھا وہ مسکراتا ائیسکریم کے اس حصے سے بائٹ لینے لگا جسے عبادت کی ناک سے مس کیا تھا۔۔
آنکھیں موندے وہ ٹیسٹ کرتا باقی کی ائیسکریم باہر پھینک گیا۔۔۔۔ شکریہ بھائی آپ کا ۔۔۔۔۔" گیٹ پر پہنچتے ہی وہ تشکر بھرا سانس لیتے باہر نکلی۔۔ قاسم بھی اسکے ساتھ ہی نکلا تھا ۔۔۔۔
عبادت اسے شکریہ ادا کرتے تیزی سے اندر جانے لگی کہ معا قاسم نے پاؤں اسکے سامنے کیا۔۔۔جس سے وہ بیلنس کھوتے چیختے نیچے گرنے لگی کہ قاسم نے آگے ہوتے اسے بانہوں میں بھرتے اسکی کمر کو مضبوطی سے تھاما۔۔۔۔۔
عبادت کا پورا وجود قاسم کے لمس پر سن سا۔پڑ گیا وہ حواس بافتہ سے اسے دھکہ دیے ایک دم سے سرخ چہرے سے پیچھے ہوتی اندر بھاگی تھی۔۔۔ جبکہ اسکے جانے کے بعد وہ بالوں میں ہاتھ چلاتا سیٹی کی دھن پر امل کی گاڑی کو آنکھ دبا گیا۔۔۔۔
فضا میں امل کا معنی خیز قہہقہ بلند ہوا تھا۔۔۔
***********
پچھلے دو گھنٹوں سے وہ کڑی دھوپ میں تیزی سے چل رہا تھا ۔۔۔اسکی گاڑی نے عین موقع پر اسکا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔۔اوپر سے موبائل بھی جانے سگنلز نہیں اٹھا رہا تھا۔۔۔
آج پہلی بار اصلال عالم کے ساتھ ایسے عجیب سے واقعات ہوئے تھے۔۔۔ اسے خوف تھا عبادت کا کہ کہیں وہ پاگل لڑکی ابھی تک کالج میں بیٹھی اس کی۔منتظر ناں ہو۔۔۔۔ عبادت کے ذکر سے ہی اسکے ساتھ گزارے لمحات کا سوچ اسکے چہرے پر پرکشش سی مسکراہٹ بکھر گئی۔۔۔
کتنی معصوم تھی وہ۔۔۔ صرف ایک اسکے شامل ہونے سے پر خلاء بھر چکا تھا وہ خود کو مکمل محسوس۔کرتا تھا۔۔۔۔ عبادت کا شرمانا ، ڈرنا پھر الٹی سیدھی حرکتیں کرنا پھر خود کو اسکے آگے ہار جانا کتنا کچھ تھا ایسا خاص جو صرف اصلال عالم کے لئے تھا۔۔۔۔ وہ بس جلدی سے استک پہنچنا چاہتا تھا۔۔۔۔
معا وہ چونکا جب اسکا فون رنگ ہوا۔۔۔ اسنے تشکر بھرا سانس لیتے فون جیب سے نکالا۔۔۔ سگنلز پرفیکٹ تھے۔۔۔ وہ گہرا سانس لیتے ڈرائیور کو کال کرنے لگا تاکہ وہ دوسری گاڑی جلدی سے لا سکے ۔۔اور ساتھ ہی آنش سے عبادت کے متلعق پوچھے۔۔۔۔
اسنے ڈرائیور کو لوکیشن سینڈ کی مگر ساتھ ہی قاسم کے واٹس ایپ کے میسجز دیکھ وہ چونکا۔۔۔ ماتھے پر بل ڈالے اسنے تصاویر اوپن کیں تو جیسے وہ سانس لینا بھول گیا تھا۔۔۔۔ان تصویروں میں قاسم کی بانہوں میں گری وہ لڑکی کوئی اور نہیں اسکی ملکیت اسکی بیوی عبادت اصلال عالم تھی۔۔۔ اسنے خون آلود نظروں سے سب تصاویر کو بھیجنے تاثرات سے دیکھا۔۔۔
اسے یاد تھا اسنے وارننگ دی تھی اسے کہ چاہے کچھ بھی ہو وہ فرنٹ سیٹ اصلال عالم کے سوا کسی سے شئیر ناں کرے اور آئسکریم کھاتے وہ کیسے خوش تھے ایک ساتھ۔۔۔ ساتھ ہی قاسم کا مسیج آیا۔۔
"Made for each other 💏"
اصلال نے جبڑے بھینجتے غصے سے فون کو ہاتھ میں دبوچا۔۔۔۔۔ عبادتتتتت۔۔۔۔۔۔۔۔۔اصلال عالم کی غصے بھرے غراہٹ آسمان تک گونجی تھی۔۔
************
کمرے میں پھیلے گھپ اندھیرے میں فضا میں بکھرتا تیز دھواں ہوا میں مرغولے کھاتا بادل بنا رہا تھا۔۔۔ خوشگوار فضا میں بکھری اس نرم و نازک وجود کی خوشبو کے ساتھ گھلتی ان سگریٹوں کی تیز بو کے بعد اچانک سے تیز دھوئیں سے ہوا میں موجود آکسیجن کم ہوتے عجیب سا وخشت ناک سا ماحول برپا کرنے لگا۔۔۔۔ سانس لینے میں دشواری محسوس کیے وہ بے چینی سے منہ بنائے کروٹ بدل گئی کہ ساتھ ہی اسکے نتھنوں سے سگریٹوں کی تیز بو ٹکرائی وہ نیند میں بھی اسی خوشبو کو محسوس کیے بےچین سی ہوئی کہ معا کچھ غیر معمولی احساس کے تحت عبادت نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں ۔
پورا کمرہ تاریکی سے نہایا ہوا تھا۔۔۔وہ حواس بافتہ سی چاروں اور نظریں دوڑائے سامنے موجود صوفے کو دیکھ سانس روک گئی۔۔ جہاں وہ ٹانگیں پھیلائے آنکھیں میں سرخ خون کی ڈوریاں لیے ایک ہاتھ میں موجود سگریٹ کو منہ میں دبائے عجیب سی سرد نظروں سے عبادت کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
کمرے میں بکھرے دھوئیں سے عبادت کا سانس رکنے لگا اسنے خوف سے اسے وہم سمجھتے اپنی سنہری آنکھوں کو رگڑا مگر وہ وہیں موجود تھا سرد بے تاثر نظروں سے اسے دیکھتا وہ اسے آج سہی معنوں میں خوف زدہ کر گیا۔۔۔
اصلال عالم کی آنکھوں میں جھلکتے شعلے اسکے نازک وجود کو بھسم کرنے کے دم پر تھے۔۔۔ عبادت نے ڈرتے اپنے دونوں ہاتھوں میں بیڈ کو دبوچا آواز جیسے حلق میں کہیں دب سی گئی تھی۔۔ معا اسے ایک جگہ پر ساکت بت کی مانند بیٹھا محسوس کرتے عبادت لرزتے وجود کے ساتھ بمشکل سے خود میں ہمت پیدا کرتے اٹھی اور ایک دم سے دوڑ لگائے وہ پھرتی سے باہر جانے لگی کہ معا اسنے اٹھتے عبادت کو اسکی کمر سے جھپٹتے اسے جھٹکے سے اٹھائے بیڈ پر کسی کانچ کی گڑیا کی مانند پھینکا _ عبادت کا پورا وجود اصلال عالم کے خوف سے لرز رہا تھا ۔ وہ جھٹکے سے گرتی اپنا چکراتا سر تھام گئی ۔۔
میں نے آج تک امانت میں خیانت نہیں کی عبادت اصلال عالم تو پھر تم نے کیسے میرا حق کسی دوسرے کو دیا___ اسکے چہرے کے قریب جھکے وہ سرد ٹھٹرا دینے والے لہجے میں استفسار کرنے لگا جبکہ عبادت کو اسکے لہجے کے سرد پن اسکی کہی بات پر ہی سن ہوتے رہ گئی۔ اسکا دماغ بری طرح چکرانے لگا بھلا اسنے کب اصلال عالم کا حق کسی دوسرے کو دیا تھا۔۔
عع عالم ____" اشششش تم نے جو کرنا تھا وہ کر لیا اب میں وہ کروں گا جو مجھے کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اسکے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ عبادت کانپ کے رہ گئی جبکہ اصلال عالم آج ان چند ہی سانیے میں اسکی زندگی کو اپنی مٹھی میں دبوچنے والا تھا۔۔۔۔
اہہہہ ععع عععالممممم کیا ہوا ہے پپ پلیز مجھے نیچے اتاریں۔۔۔۔۔۔" اصلال نے ایک دم سے بری طرح سے اسکی کمر کو تھامتے اسے کندھے پر ڈالا تھا۔۔۔ عبادت کا سر گھوم سا گیا۔۔۔ اصلال کا یہ روپ اسکا سانس روک رہا تھا۔۔۔
جبکہ اصلال عالم بنا اسکی پرواہ کیے اسکی چیخوں کو نظر انداز کیے اسے اٹھائے باہر نکلا تھا۔۔۔ عبادت کا چہرہ آنسوں سے تر ہونے لگا تھا، مگر آج اصلال عالم کو اسکی ذرا بھی پرواہ نہیں تھی وہ بکھر رہی تھی اسکا وجود سارا مان ختم ہو رہا تھا جو اسے اس شخص نے دیا تھا۔۔۔
اصلال بنا کسی تاثر کے سپاٹ چہرے سے اسے کسی گڑیا کی مانند اپنے کندھوں پر لادے اپنے کمرے کی جانب آیا تھا۔۔۔۔ جھٹکے سے دروازہ کھولتے اسنے اندر جاتے عبادت کو بیڈ پر پٹکھا تھا۔۔۔۔
جو سن ہوتے اعصاب سے لرزتی اپنے بالوں کو چہرے سے پیچھے کرتے روتی اصلال کو دیکھنے لگی۔۔۔ اصلال نے ایک سرد نظر اس پر ڈالی،اور پھر ہاتھ سے اپنے شرٹ کو پھاڑتے دور پھینکا۔۔۔۔ اسکے تاثرات دیکھ عبادت کا پورا وجود لرز پڑا، آنکھوں سے آنسوں بہتے بے مول ہو رہے تھے مگر اس وقت اسے سب سے زیادہ خوف وخشت اصلال عالم کا تھا۔۔۔
معا اسے ایک جگہ کھڑا دیکھ عبادت اٹھتے باہر کو بھاگنے لگی مگر اسے بے دردی سے پکڑتے اصلال نے ہاتھ اسکے بالوں میں پھنسائے اسکا چہرہ اپنی جانب کیا۔۔۔
ععععع عالممم نننن نہیں پللپیز۔۔۔۔۔۔" اسکی عجیب سی نظروں کو اپنے وجود کے اندر تک اترتا محسوس کرتی وہ اپنے بالوں میں اسکی جارحانہ گرفت اس درد کو نظر انداز کیے منت کرنے لگی۔۔۔۔
اصلال نے مسکراتے اسے بغور دیکھا۔۔۔ اشششش روؤ مت جانِ عالم۔۔۔۔۔ تمہاری رخصتی کر کے لایا ہوں۔۔۔۔اب سے یہی کمرہ تمہارا مرکز ہے۔۔۔ میرے قریب میری دسترس میں۔۔۔۔!" اب دیکھتا ہوں کس میں اتنی ہمت ہے جو میرے کمرے سے تمہیں نکال سکے۔۔۔۔
اسکے چہرے پر اپنی گرم سانسیں چھوڑتا وہ آنکھوں میں اشتعال لئے تمسخر اڑاتے کہتا عبادت کو پیچھے بیڈ پر دھکہ دے گیا۔۔۔۔
*************
ععععع عالممم وہ چیختی بری طرح سے گرنے پر حواس بافتہ سی اسکے بدلے تیوروں سے حائف بھیگے آنسوں سے تر چہرے سے بولی،اصلال بپھرے تاثرات سے اسکی جانب بڑھا تھا، جو بکھری کسی کانچ کی گڑیا کی مانند لرزتی اپنی آنکھوں میں التجا منت لیے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
اصلال چلتا بیڈ کے نزدیک ہوا اور اپنا دایاں ہاتھ عبادت کی تھوڑی کے نیچے رکھتے اسکا آنسوں سے بھیگا چہرہ اوپر کیے وہ بغور اسکی آنسوں سے بھری سنہری بھیگی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔۔۔
جانتی ہو آج کیسے مرا ہوں میں۔۔۔!" سرد برفیلے لہجے میں وہ کربناک سا کہتے ہنس دیا اسکے لہجے پر عبادت ٹھٹکی تھی۔۔وہ سر اٹھائے اسکی آنکھوں میں بغور دیکھنے لگی۔۔
قاسم بیگ نفرت کرتا ہے مجھ سے جانتی ہو، میری اور اسکی کبھی نہیں بنی بچپن سے آج تک۔۔۔۔۔ مجھے سے اس کوئی گلا نہیں کیںونکہ میں جانتا ہوں اس کمینے نے مجھے ذلیل کرنے کیلئے ایسی حرکت کی،____" عبادت کی آنکھوں میں الجھن دیکھتے اصلال نے موبائل اسکی گود میں پھینکا۔۔
عبادت کپکپاتے ہاتھوں سے فون اٹھائے دیکھنے لگی،۔ مگر سامنے کا منظر اسکی جان نکالنے کے مترادف تھا،اسکے ہاتھ لرز پڑے وہ چیختی موبائل بیڈ پر پھینکتے رونے لگی۔۔یہ سب کیا تھا__اسکی سوچیں معاوف ہونے لگیں، دماغ جیسے سن ہو گیا تھا وہ تو بس اسکے ساتھ گھر تک آئی تھی مگر یہ سب کیا تھا ان تصویروں میں تو بلکل ایسا دکھائی دے رہا تھا جیسے وہ بہت خوش ہوں ایک ساتھ۔۔۔۔۔"
عبادت نے روتے خود پر جھکے اصلال عالم کو دیکھا۔ جس کی نظریں اسی پر ٹکی تھیں۔۔۔ ععععع عالممم مممم میںں نننن نہیں______!" وہ روتے اپنے کردار کی صفائی دینے کی کوشش کرنے لگی کہ معاً اسکے چہرے کو دبوچتے اصلال عالم نے جھکتے اسکے الفاظ کو اپنے ہونٹوں سے بے دردی سے چنا تھا۔۔
عبادت اپنے ہونٹوں پر اسکی جارحانہ گرفت پر سانس رکنے پر اسکے سینے پر دباؤ دیے اسے پیچھے کرنے جو اسکی سانسوں کو خود میں اتار رہا تھا، اصلال نے عبادت کے دونوں ہاتھوں کو تھامے اپنی گرفت میں لیا جبکہ عبادت خود پر اسے جھکتا محسوس کرتی بے بسی سے آنکھیں میچ گئی اصلال نے اس پر سایہ کر دیا جو بےدم سی بیڈ پر اسکے نیچے سرخ چہرے سے پڑی تھی۔۔
عبادت کے رکتے سانس کو محسوس کرتا وہ سرخ چہرے سے اسکے ہونٹوں کو آزادی دیے چہرے پیچھے کیے عبادت کے بکھرے سراپے کو دیکھتا اپنی شدت سے سرخ ہوتے اسکے لبوں کو دیکھنے لگا۔۔
"مجھے اتنا گھٹیا سمجھ رکھا ہے عبادت اصلال عالم کہ میں تم سے تمہارے کردار کی صفائی مانگوں گا۔۔۔۔" عبادت کے دونوں ہاتھ اصلال کے ہاتھ میں قید تھے جنہیں وہ پہلے ہی تکیے سے لگا چکا تھا۔۔
عبادت جو لمبے لمبے سانس لیتی اپنا سانس بحال کر رہی تھی اصلال عالم کی بات سنتے وہ حیرت زدہ سی جھٹ سے آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ تو اگر وہ اسے اس وجہ سے ناراض نہیں تھا اگر اسے یقین تھا اسکے کرادر پر تو پھر سے غصہ کس بات کا۔۔۔وہ ماتھے پر بل ڈالے دل ہی دل میں الجھی سوچ رہی تھی۔۔۔
اصلال نے جھکتے اسکے ہونٹوں پر اپنی دہکتی سانسوں پھونکی عبادت اسکے انداز پر جھرجھری لیتے لب آپس میں پیوست کرتے اسے مسکرانے پر مجبور کر گئی۔۔
جب میں نے کہا تھا عبادت اصلال عالم کہ تم میرے علاؤہ کسی دوسرے کے ساتھ فرنٹ سیٹ شئیر نہیں کرو گی تو پھر تم نے کیوں کی۔۔۔" وہ سرد لہجے میں بڑی توجہ سے اسکی۔گردن سے سنہری بالوں کو انگلی پر سمیٹتے تکیے پر رکھتے استفسار کرنے لگا۔۔۔
عبادت سنتی جھٹکوں کی ضد میں آئی، اسکے تو وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ وہ اتنی چھوٹی بات کیلئے اسے اس قدر ڈرائے گا۔۔۔۔ بولو مسزز عالم وقت نکل رہا ہے۔۔۔۔عبادت کی گردن پر جھلکتی رگوں کو اپنے ہاتھ کی پشت سے سہلاتے وہ اسے وقت کے متعلق یاد کروانے لگا۔۔۔
ووووہ وہ بببب بھائی ننن_____!" شٹ اپ۔۔۔ بھائی کہاں کا بھائی وہ انسان کس رشتے سے تمہارا بھائی بنا، کیا محرم ہے وہ تمہارا۔۔۔۔۔" وہ غصے سے اسکی بات کاٹتے دھاڑا تھا عبادت نے زور سے اپنے ہونٹوں پر دانت گاڑھتے خود کو چیخنے سے باز رکھا تھا وگرنہ اصلال عالم نے اسے جان سے مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔۔۔
کیا تم آنش کو نہیں بلا سکتی تھی ایسی بھی کیا ایمرجنسی آ گئی جو تمہیں اسکے ساتھ آنا پڑا ، چلو چھوڑو اس بات کو مجھے فرق نہیں پڑتا اس گھٹیا شخص کی باتوں سے مگر تم نے فرنٹ سیٹ شئیر کی میرے منع کرنے کے باوجود۔۔۔۔۔"وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتا دانت پیستے بولا تھا۔۔
عبادت کی ہچکی بندھ گئی مگر وہ بے بس سی تھی جانتی تھی یہ غلطی اسی کی تھی اس پر غصے کی وجہ سے وہ جان بوجھ کر بیٹھی تھی اب کیا ہو سکتا تھا۔۔۔۔۔ وہ سوائے رونے کے اور کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔
جانتی ہو غلطی کیا تھی میری۔۔۔۔۔۔۔"وہ استحقاق سے عبادت کے نازک وجود کو گہری نظروں سے دیکھتا بلکل عجیب سے سرد مگر مضبوط لہجے میں استفسار کر رہا تھا۔۔
تم وہ پہلی چیز ہو عبادت اصلال عالم جو میری ملکیت میں آنے کے بعد میری دسترس میں نہیں آئی۔۔۔جس پر نام تو میرا ہے حق تو میرا ہے مگر میری پہنچ سے دور۔۔۔۔مگر اب یہ غلطی سدھار لی ہے میںں نے_____ تم میری ملکیت ہو میری بیوی تو پھر اب سے میری دسترس میں رہو گی۔۔۔۔۔!"
عبادت کی حد سے زیادہ پھیلی سنہری آنکھوں میں دیکھتا وہ ٹھٹرا دینے والے لہجے میں بولتا اسے لرزنے پر مجبور کر گیا۔۔۔وہ تو سوچ رہی تھی کہ اس وقت وہ غصے میں یہ سب کر رہا ہے مگر وہ تو سب کچھ سوچ چکا تھا۔۔
عبادت کی اڑی رنگت کو دیکھتا وہ گہرا مسکرایا۔۔۔ اسکی سیاہ آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی وہ لاحاصل کو حاصل کر لیتا تھا یہاں تو بات ہی اپنی دسترس کی تھی۔۔ اب اچھی بیویوں کی طرح اپنے شوہر کا ساتھ دو تاکہ صبح جب تمہیں۔سب دیکھیں تو خود ہی خاموش ہو جائیں۔۔۔۔"
اصلال نے ہاتھ بڑھاتے لائٹ آف کی تو عبادت کی ٹانگیں جیسے بے جان سی ہو گئی تھی۔۔۔وہ لرزتی مسلسل خود کو چھڑوانے لگی۔۔۔اسکا رونا ،ہچکیوں کی آواز سنتے اصلال نے ناگواری سے منہ بنائے اسے گھورا۔۔۔۔
شٹ اپ آواز مت کرو، صرف اپنی محبت کی چند نشانیاں دے رہا ہوں تمہارے وجود کو، باقی دو دن کے بعد جب اس کمرے میں میری دلہن بن کے بیٹھو گی پھر پورے طریقے سے اپنا حق وصولوں گا۔۔۔۔۔"عبادت کی گردن پر اپنا شدت بھرا لمس چھوڑتے وہ بھاری سرگوشیاں کرتا اسکا سانس روک چکا تھا۔۔۔
عبادت اپنے چہرے اور گردن پر سرکتے اصلال عالم کے سلگتے ہونٹوں کو محسوس کرتی بے بس سے لیٹی تھی جانتی تھی وہ اتنی آسانی سے اسے چھوڑنے والا نہیں۔۔۔مگر جس بات نے اسکے رگ و پے میں سکون برپا کیا وہ اصلال عالم کا خود پر یقین تھا۔۔ اسکا دل جانے کیوں مگر الگ لہ پر دھڑک رہا تھا اصلال عالم کی اپنی سانسوں میں اترتی خوشبو کو محسوس کرتی وہ آنکھیں موندے اسکی من مانیاں برداشت کرنے لگی۔۔
************
اشکان کہاں لے جا رہے ہو مجھے ____"اوزگل اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے نکالنے کی کوشش کرتے مچل اٹھی۔۔کیونکہ اشکان صدیقی اسے اندر لے کر جا رہا تھا اور اندر سبھی موجود تھے، اششششش خاموش رہو گل، بیوی ہو تک میری میں جہاں مرضی لے جاؤں کوئی روک نہیں سکتا مجھے۔۔" اوزگل کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے اشکان نے اسے ایک دم سے خاموش کروا دیا۔۔
بیوی نہیں منکوحہ ہوں میں تمہاری۔۔ اوزگل نے فوراً سے تصدیق کی تو اشکان نے بغور اسے دیکھا، میرے لیے یہ بات معنی نہیں رکھتی اوزگل اشکان صدیقی۔۔۔۔۔ تم میرے نکاح میں ہو یہ بات میرے لیے اہم ہے۔۔۔۔۔!"شکان نے فوراً سے کہا تھا اوزگل خاموش سی۔ہو گئی۔
اب یہی کھڑے رہنے کا ارادہ ہے کیا۔۔۔؟" اوزگل کو یونہی کھڑا دیکھ اشکان اسکا ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں تھامے اسے ساتھ لیے اندر داخل ہوا۔۔ اوزگل نے گھبراتے سامنے دیکھا جہاں سبھی خواتین چائے کے لوازمات سے لطف اٹھا رہی تھیں۔
سبھی نے بیک وقت اندر آئے اوزگل اور اشکان کو دیکھا مگر اشکان بنا کسی کی پرواہ کیے گل کو تھامے اوپر اپنے کمرے کی جانب بڑھا تھا۔۔ عورتیں سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے حیرت کا اظہار کر رہی تھیں عافیہ بیگم اپنے بیٹے کی اس حرکت پر شرمندہ سی سب کے سامنے لاجواب ہوئے بیٹھی تھی۔۔
جبکہ فرخندہ بیگم لب بھینجے خاموش تھیں۔۔۔ اششکان۔۔ چچچھوڑ میرا ہاتھ۔۔اوزگل نے اپنے ہاتھ کو آزاد کروانا چاہا جو کے ناممکن تھا۔۔
چلو آو کچھ دکھانا ہے مجھے اشکان اسے لیے کمرے میں داخل ہوا تھا ۔۔کککیا، دکھانا ہے تتممم نے اوزگل نے سوالیہ نظروں سے اشکان کی جانب دیکھ سوال کیا تھا۔ہممممم۔دکھاتا ہوں اتنی جلدی بھی کیا ہے جان اشکان۔۔۔۔"
اشکان نے اسے بیڈ پر بٹھائے شرارت سے کہا تو اوزگل نے اپنا سرخ چہرہ جھکا لیا۔۔۔میرے پاس کچھ ہے تمہارے لئے۔۔۔۔۔" اشکان نے محبت سے اوزگل کے چہرے پر بکھرے ان خوبصورت رنگوں کو دل میں اتارتے کہا تو اوزگل نے ماتھے پر بل ڈالے اسے دیکھا۔۔
ویٹ میں ابھی آیا۔۔۔!"اشکان جلدی سے اٹھتے کبرڈ کی جانب بڑھا تھا، اور پھر اپنا لاک کھولے وہ کچھ نکالتا مڑتے اسکی جانب آیا۔۔ جو حیرانگی سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔ آنکھیں بند کرو۔۔۔۔ اشکان گھٹنوں کے بل اسکے قریب بیٹھتے محبت سے بولا تو اوزگل نے جھجھکتے سر ہلایا اور پھر جھٹ سے اپنی جھیل سی سیاہ آنکھوں کو بند کیا۔۔۔
میری زندگی کیلئے ایک چھوٹا سا تخفہ یہ بہت محبت سے بنوایا ہے میں نے گل، اس سے میرے جذبات میں محبت میرے احساسات جڑے ہیں اسے کبھی بھی مت اتارنا۔۔۔۔"
اوزگل جو حیرت زدہ سی اپنی دودھیا گردن پر جگمگاتی اس باریک مگر خوبصورت سی چین کو دیکھ رہی تھی اشکان کے الفاظ سنتے وہ ساکت سی رہ گئی۔۔۔
گل نے بغور اس چین کو دیکھا جس پر بلکل باریک لکھائ میں اے لکھا ہوا تھا۔۔۔ اششکان
۔۔۔۔۔!" وہ مہبوت سی اس چین کو دیکھ رہی تھی جب بے ساختہ ہی اشکان نے اپنے دہکتے ہونٹ اسے چین پر رکھے اوزگل اس اچانک افتاد پر سہمتی اسکے گریبان کو تھام گئی ۔۔
اشکان نے ہونٹ اوزگل کی گردن پر رکھے تو اسکے دہکتے ہونٹوں کے لمس پر وہ جی جان سے لرزی تھی۔۔ اشکان اسے کپکپاتا دیکھ اپنے جذبات پر بندھ باندھے پیچھے ہوا اور نرمی سے اسکے ہاتھ کو تھامے اسے کھڑا کیا جس کا چہرہ خون جھلکا رہا تھا۔۔
تمہارے آنے سے پہلے ہی میں نے تیاری شروع کر دی ہے۔۔۔!"وہ وارڈوب کا دروازہ کھول اسے سامنے کھڑا کیے خود اسکی پشت پر کھڑے ہوتے تھوڑی اوزگل کے نازک کندھے پر ٹکائے بولا ۔۔۔ اوزگل نے حیرانگی سے سامنے دیکھا جہاں وارڈروب میں ایک جانب اشکان صدیقی کے کپڑے تھے تو دوسری طرف اوزگل اشکان صدیقی کے۔۔۔۔
اششکان۔۔۔۔۔" اوزگل چونکتے آنکھیں پھیلائے یہ سب دیکھ رہی تھی، اشکان کے کمرے میں یہ سب سامان وہ بھی اپنے لئے دیکھ جانے کیوں مگر اوزگل کے چہرے پر خوشی بکھیر گئے تھے۔
وہ لب دبائے اب دوسرے کبرڈ کو دیکھ رہی تھی جو جیولری سے بھرا تھا۔۔۔ اسے سمجھ ناں آیا کہ یہ شخص آخر کب اور کیسے یہ ساری چیزیں کمرے میں لاتا ہو گا۔۔۔۔
ان سب چیزوں کو تم کمرے میں کیوں لائے کیا پتہ ہماری شادی ہی ناں ہو۔۔۔۔!"وہ جان بوجھ کر اسے تنگ کرنے کو بولی مگر اشکان کے چہرے پر تاثرات پل بھر میں سرد ہوئے تھے اسنے جھٹکے سے اپنا ہاتھ اوزگل کی کمر کے گرد حائل کیے اسے کبرڈ سے پن کیا ۔۔
جو سانس روکے اسے دیکھ رہی تھی۔۔سوچنا بھی مت ایسا کچھ بھی گل جانم___میں سب کچھ برداشت کر سکتا ہوں مگر تم سے دوری ہرگز نہیں۔۔۔"وہ سخت لہجے میں مگر نرمی سے اسکی آنکھوں میں دیکھ بول رہا تھا۔۔
اوزگل بنا پلکیں جھپکائے اشنان صدیقی کے سرخ ہوئے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔۔اسکا انداز محبت سے چور تھا آنکھوں میں محبت کے دیے جل رہے تھے، تمہاری سمجھ سے بالاتر ہے میری عقیدت میری محبت کی شدت۔۔۔!"
وہ گہرے لہجے میں اپنے دونوں ہاتھ اسکے دائیں بائیں دیوار کی مانند حائل کیے محبت سے بولا تو اوزگل اپنے چہرے پر اشکان صدیقی کی دہکتی سانسوں کو محسوس کرتی مچل اٹھی۔۔
اشکان نے بے ساختہ ہی اپنے ہونٹ اوزگل کی پیشانی پر رکھے تو اوزگل کی دھڑکنیں ڈھول کی مانند بجنے لگیں۔۔وہ ہاتھوں کی مٹھیاں بھینجے بمشکل سے کھڑی تھی۔۔
کمرے کے معنی خاموش ماحول میں بکھرتی اشکان صدیقی اور اوزگل کی سانسیں ماحول کو فسؤں خیز بنا رہی تھیں۔۔۔۔ اوزگل دم سادھے اپنے دائیں گال پر اشکان صدیقی کی ہلکی سی بئیرڈ کی چُبھن کو محسوس کرتی بمشکل۔سے اپنے پاؤں پر کھڑی تھی۔۔
اشکان نے گال سے اسکے ہونٹوں تک کا سفر طے کیے اسکے ہونٹوں کو نرمی سے اپنے ہونٹوں میں قید کیا۔۔۔۔" اوزگل جو اس کی غیر متوقع حرکت اپنے ہونٹوں پر اشکان صدیقی کے نرم لمس کو پاتے مچل اٹھی تھی۔۔
مگر اشکان پہلی بار اوزگل کو اپنی سانسوں سے قریب تر کیے بلکل مدہوش سا ہونے لگا۔۔۔۔
اوزگل کا سانس سینے میں دب سا گیا تھا مگر اشکان اسکی کمر سے تھامے اسے خود سے قریب تر کیے ہوئے تھے۔۔۔۔ معا دروازے پر ہوتی اچانک دستک پر دونوں نے ہی جھٹ سے آنکھیں کھولی تھی۔۔۔
اوزگل ہوش میں آتی اسے خود سے دور دھکیلتے رخ پھیرے اپنے سرخ چہرے پر ہاتھ پھیرتے اپنا سانس بحال کرنے لگی۔۔
اشکان نے دانت پیستے دروازے کو گھورا اور پھر جلدی سے کبرڈ بند کرتے وہ دروازہ کھول گیا۔۔ ممانی آپ۔۔۔۔ سامنے کھڑی فرخندہ بیگم کو دیکھ وہ گڑبڑا سا گیا ۔۔ اوزگل نے جھٹکے سے سر گھمائے اشکان کے کندھے کے اوپر سے نظر آتے اپنی ماما کے چہرے کو دیکھا۔۔۔
بیٹا ہم گھر جا رہے ہیں گل بیٹا آؤ۔۔۔۔۔!"وہ مسکراتے اسے جواب دیے گل کو بلانے لگیں۔۔جو خود بھی انکے بلانے پر فورا سے دوڑتے باہر نکلی تھی۔۔۔
**************
عالم پلیز چھوڑیں مجھے، میں نے کالج جانا ہے۔۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ اسکے حصار کو توڑنے کی کوشش کرتے جھنجھلائی ہوئی سی بولی تھی۔چہرہ غصے کی شدت سے سرخ ہو رہا تھا۔۔ پوری رات اصلال عالم نے اسے خود میں بھینجتے اپنے سینے سے لگائے رکھا تھا۔
اسکے مضبوط حصار میں وہ کسی چڑیا کی مانند دکھتی تھی۔۔ جس کے پر کاٹ کر اسے قید کر دیا گیا ہو۔۔ اصلال نے اسے کافی اچھے سے سزا دی تھی اسکی غلطی کی، ایسے کہ اب عبادت نے توبہ کر لی تھی کہ وہ اس قاسم کو دوبارہ دیکھے گی بھی نہیں۔۔
عالم شرافت سے چھوڑیں مجھے۔۔۔۔" وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی کمر کے گرد بندھے اصلال عالم کے بھاری ہاتھوں کو کھولنے کی کوشش میں مگن غصے سے دانت پیستے بولی تو اصلال نے حیرت سے ایک آنکھ وا کیے عبادت کو دیکھا جو ایڑھی چوٹی کا زور لگاتی بکھرے سراپے میں غصے سے آگ بھبوکا اپنے آپ کو چھڑوانے کی کوشش میں تھی۔۔
آہہہ____!" اصلال نے جھٹکے سے اسے کھینچتے خود سے قریب تر کرتے تکیے پر گرایا تو اس اچانک افتاد پر عبادت کے منہ سے چیخ سی نمودار ہوئی تھی۔
وہ آنکھیں پھیلائے خود پر جھکے اصلال کو دیکھنے لگی جسکی آنکھوں میں رت جگے کی سرخی تھی جیسے وہ پوری رات ناں سویا ہو,ماتھے پر بکھرے سیاہ بال اسکی آنکھوں سے ہم رنگ ہوتے سرخ و سفید رنگت پر غضب ڈھا رہے تھے۔۔۔ وہ سنجیدگی سے عبادت کو دیکھنے لگا ۔
جو اسکی نظروں کا محور خود کو پاتے سرخ چہرے سے نظریں جھکا گئی مگر جیسے ہی نگاہیں اسکے کشادہ سینے پر ٹہری وہ تھوک نگلتے فورا سے گردن دائی جانب گھمائے دیوار کو گھورنے لگی۔۔
کیا تمہاری جان کو آرام نہیں جو صبح صبح اٹھ کر شور مچا رہی ہو۔۔۔۔۔" اصلال نے ائبرو اچکاتے سختی سے پوچھا، رات اپنی من مانیاں کرنے کے بعد وہ اسے باور کروا چکا تھا کہ وہ ابھی تک اسکی حرکت پر خفا ہے تو اسے عبادت اپنے طرہقے سے منائے،اور اسی وجہ سے وہ غصے سے ذرا سخت لہجے میں بولا تھا۔۔
وو وہ مجھے کک کالج جانا ہے۔۔۔۔!"وہ روہانسی ہوتے اپنی سنہری آنکھوں سے اسے دیکھ کہتے نظریں جھکا گئی۔۔ ہممم رخصتی سے اگلے دن دلہن اپنے دولہا سے کہیں گھومنے پھرنے جانے کی فرمائش کرتی ہے، مگر تم عجیب دلہن ہو۔۔۔" وہ ہنستا عبادت کے بالوں سے چھیڑ خانی کرنے لگا۔۔
عبادت جانتی تھی اسکا اگلا شکار عبادت کی گردن ہونے والی تھی۔۔وہ تھوک نگلتے اصلال کو خود پر جھکتا محسوس کرتے عبادت نے جھٹ سے اپنا ہاتھ اسکے ہونٹوں پر رکھا، اصلال نے سرخ نظروں سے اسے گھورتے عبادت کے ہاتھ کو دیکھا ۔۔
وو وہ ممم مجھے فریش ہونا ہے۔۔۔۔۔!" اسے غصے میں آتا دیکھ وہ جلدی سے منمنائئ تھی۔اصلال نے بنا کچھ کہے اسکے ہاتھ کو سخت نظروں سے گھورا تھا، سس سورئ___
عبادت نے فورا سے اسکے غصے سے ڈرتے معذرت کیے اپنا ہاتھ پیچھے کیا تھا ۔۔۔!"اصلال نے سرد سانس فضا کے سپرد کیے اسے دیکھا، سمجھدار ہو کافی۔۔۔" اصلال اسکے کان میں جھکتے معنی خیز سی سرگوشی کرتا اسے لرزنے پر مجبور کر گیا۔
کالج تو تم اب تبھی جاؤ گی جب اصلال عالم چاہے گا۔۔۔۔!" عبادت کی گردن پر مدہوشی سے لب رکھے وہ بہکے سے مدہوش لہجے میں بولتا عبادت کو لب بھیجنے پر مجبور کر گیا۔۔ معا دروازے پر ہوتی تیز دستک پر اصلال سنتے اصلال نے برا۔سا منہ بنائے دروازے کو گھورا، آ گئی ہماری فیملی۔۔۔بی رئیڈی فار انٹرنیشنل وار_____!" وہ شرارت سے عبادت کو دروازے کی جانب متوجہ پاتے ہنستے کہتا بیڈ سے اترا تھا۔۔
***********
"گل ادھر آؤ_____!" رات کو کھانے کے بعد اوزگل کو کمرے میں جاتا دیکھ فرخندہ بیگم نے اسے آواز دیے بلایا، اوزگل جانتی تھی وہ کیا بات کرنا چاہتی ہیں۔وہ گھبرائی سی سر ہلائے مڑتے انکی جانب دیکھا۔۔
پنک کلر کے نائٹ ڈریس میں ملبوس گہرے سیاہ بال دونوں کندھوں پر ڈالے وہ سرخ و سفید دودھیا رنگت میں عجب سی لالی گھلی دیکھ فرخندہ بیگم نے سرد سانس فضا کے سپرد کیا۔۔۔
جی ماما۔۔ وہ گھبراہٹ سے ہونٹ چباتے انکے قریب کھڑے ہوتے بولی۔۔ ادھر بیٹھو میرے پاس ۔۔" فرخندہ بیگم نے اسکے ہاتھ کو تھامے اسے پاس بٹھایا۔۔۔ جو پزل سی نظریں چرا رہی تھی۔۔
بیٹا میں جانتی ہوں کہ آپ کا نکاح جیسے بھی حالات میں ہوا وہ سب ٹھیک نہیں تھا۔۔ اشکان کی محبت سے بھی میں بخوبی واقف ہوں، میں بس اتنا پوچھنا چاہتی ہوں کیا اشکان کا رویہ ٹھیک ہے آپ کے ساتھ ۔۔۔" وہ بات گھمائے اسکے چہرے کو گہری نظروں سے دیکھتے پوچھنے لگی۔۔
نن نہیں ماما ایسا ویسا کچھ بھی نہیں، وہ بہت اچھا ہے ہم اچھے دوست ہیں۔۔۔!"گل نے فورا سے انہیں حقیقت سے آگاہ کیا۔۔
بیٹا وہی بتانے کی کوشش کر رہی ہوں میں___ اب وہ تمہارا دوست ہی نہیں ہے بلکہ شوہر بھی ہے، اس رشتے کے تقاضے بہت ہوتے ہیں، جیسے اشکان کی ہر بات ماننا تم پر فرض ہے۔۔۔۔ اپنے آپ کو بدلو اور اس رشتے کو سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔۔!"
فرخندہ بیگم نے اسکے ہاتھ کو تھپکتے کہا تو اوزگل نے سنتے سر ہاں میں ہلا دیا۔۔میں کوشش کروں گی ماما۔۔۔!"اوزگل سنتے مسکراتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔ مجھے تم سے یہی امید تھی بیٹا شاباش اب جاؤ آرام کرو ۔۔!"فرخندہ بیگم نے محبت سے اسکی پیشانی پر بوسہ دیے کہا تھا جو سر ہلاتے اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔۔۔
تو کیا مجھے عزت کرنی ہو گی اشکان کی۔۔!"وہ اندر آتی چلتے مرر کے سامنے جاتے خود کو دیکھتے سوچنے لگی۔۔۔ اچانک اسکی نظریں اپنے گلے میں موجود اس چھوٹی سی چین پر پڑیں۔۔۔
گل نے ساختہ ہی اس چین کو اپنی انگلی سے چھوتے محسوس کیا۔۔ ایک انوکھا سا احساس تھا جو اسکے اندر سرائیت کرتا اسکے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر گیا۔۔
اشکان کے ساتھ گزرے وہ چند لمحات اسکے محبت سے بھرے لمس کو یاد کرتے اوزگل کا چہرہ شرم سے لال ہونے لگا۔۔ وہ شرماتے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا گئی۔۔
************
وہ وارڈروب سے شرٹ نکالتا جلدی سے بٹن لگائے دروازے کی جانب بڑھا تھا عبادت جلدی سے سیدھے ہوتی گود بنائے بیٹھی تھی اسکی آنکھوں میں تجسس پریشانی تھی کہ اب کیا ہو گا۔۔
اصلال بیٹا وہ عبادت نہیں ہے گھر میں__ میں نے پورا گھر چھان مارا مگر وہ کہیں بھی نہیں ۔۔ تم چلو میرے ساتھ پولیس اسٹیشن چلتے ہیں۔۔ شایان جعفری جو ڈرے سہمے سے گھبرائے بھاگتے اسکے پاس آئے تھے اب اصلال کو دیکھتے جلدی سے بولے۔
نضخت بیگم جو صبح عبادت کو نماز کیلئے اٹھانے گئی تھی اسے کمرے میں ناں پاتے انہوں نے ہر جگہ دیکھا تھا اور گھبراتے شایان اور انش کو بھی جگایا تھا وہ گھبراتے سارا گھر دیکھ چکے تھے مگر اب شایان بھاگتے اصلال کے پاس آئے تھے کہ وہ جلدی سے رپورٹ کروا سکیں۔
انکی جوان بیٹی کمرے سے غائب تھی پریشانی سے انکی جان جا۔رہی تھی۔۔۔۔
پاپا گھبرائیں مت عبادت یہ رہی میرے پاس۔۔۔۔" اصلال نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھے نرمی سے کہا تو پیچھے سے آتے سکندر جعفری اور أنش اسکی بات پر چونکے تھے۔۔
نضخت بیگم نے ڈرتے منہ پر ہاتھ رکھا تھا جبکہ شایان جعفری ماتھے پر بل ڈالے اپنے بھتیجے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ تمہیں ہوش بھی ہے کیا کہہ رہے ہو یہ تم اصلال۔۔۔۔" وہ بھپرتے سخت لہجے میں بولے تھے۔۔
اور پھر ایک دم سے اسے سائیڈ کرتے تیزی سے اندر داخل ہوے جہاں سامنے ہی عبادت بیڈ پر بیٹھی باہر کی جانب ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔ عبادت میری بچی تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔۔" شایان صاحب بھاگتے اسکے قریب گئے تھے اسے سینے سے لگاتے وہ متفکر سا پوچھنے لگے۔۔۔
اصلال پرسکون سا چلتا صوفے پر جاتے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا تھا اسکے پیچھے ہی سکندر جعفری اور آنش بھی اندر آئے تھے۔۔
" پاپا میں لایا ہوں عبادت کو۔۔۔" اپنے بالوں کو ماتھے سے پیچھے کرتے وہ اطمینان سے بولتے سب کو چونکنے مجبور کر گیا۔۔۔
تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی اسے یوں زبردستی لانے کی ،کس سے پوچھ کر کس کی اجازت سے میری بچی کو لائے..."
عبادت کے بکھرے حلیے کو دیکھتے وہ دھواں دھواں ہوئے چہرے سے بپھرے غصے سے دھاڑتے اسکے قریب جاتے اسے گریبان سے تھام چلائے تھے۔۔
ارے شایان کیا کر رہا چھوڑ بچے کو۔۔۔" امل ، رضیہ بیگم اور نازیہ جو شور پر بھاگتے اصلال کے کمرے میں آئے تھے شایان صاحب کے ہاتھ میں اصلال کے گریبان کو دیکھتے بولی ۔۔
جبکہ امل تو حیرت زدہ سی اصلال کے بیڈ پر بکھری حالت میں سرخ چہرے سے خاموش بیٹھی عبادت کو دیکھ شاک میں تھی اسے لگا شاید اسکی آنکھیں اسے دھوکہ دے رہی ہیں۔۔۔۔۔ وہ منہ کھولے حیرت سے ششدر سی دیکھ رہی تھی۔۔
دادو آپ سب خاموش رہیں پلیز۔۔۔۔ اصلال فورا سے انہیں خاموش کرواتا شایان صاحب کو دیکھنے لگا۔۔
سوری پاپا آپ کو برا لگا تو مگر عبادت میری بیوی ہے میرے نکاح میں میری ملکیت آج نہیں تو کل یہ رخصتی ہونی تھی میں نے رات کو ہی کر لی بات ختم۔۔۔۔۔"وہ رسان سے اپنی بات کہتا اپنا گریبان انکے ہاتھ سے آزاد کروا گیا۔۔
بابا دیکھ لیں اسے ۔۔۔۔آپ کے کہنے پر میں نے اپنی معصوم بچی کو بنا اسکی رضا کے اسکے نام کر دیا۔۔اور آج یہ کیسے خودسر بنا کیسے میری بچی کو زبردستی اٹھا لایا۔۔۔۔ میں آج ہی اس رشتے کو ختم کرتا ہوں۔۔۔۔۔ بہت جلد میری بچی کو اس رشتے سے آزاد کروا لوں گا۔۔" یہ میرا آخری فیصلہ ہے چلو عبادت۔۔۔۔" وہ غصے سے اپنا فیصلہ سنائے عبادت کا بازو تھامے اسے لے جانے لگے۔۔
پاپا اب ان سب کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ عبادت میری بیوی ہے اور وہ کل رات سے میرے ساتھ ہے میرے کمرے میں، مجھے یقین ہے کہ اب عبادت بھی جانا نہیں چاہے گی کیوں مسزز عالم۔___"وہ مسکراتا عبادت کے سراپے کو گہری نظروں سے دیکھ اونچی آواز میں بولا تو سکندر جعفری نے مٹھیاں بھیجتے اپنے اشتعال کو دبایا۔۔۔
وہ جانتے تھے کہ اصلال کچھ ناں کچھ بکھیڑا کرے گا مگر اس قدر بڑا وہ یہ نہیں جانتے تھے۔نضخت بیگم تو شل سی ہو گئی تھی عبادت کی بکھری حالت انہیں بہت کچھ سمجھا گئی تھی۔۔ وہ تیزی سے آگے بڑھتے عبادت کو تھامے ایک جانب صوفے پر بٹھائے فورا سے اصلال کی شال نکالتے اسے اوڑھا گئی۔۔۔
عبادت خود کنفیوژ سی تھی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور اصلال ایسے کیوں بات کر رہا تھا جیسے جانے کیا ہو گیا ہو۔۔۔۔" اصلال مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی یہ کیا حرکت کی ہے تم نے۔۔۔۔" سکندر جعفری کی گرج دار آواز سنتے اصلال نے لب بھینج لیے امل نے بے یقینی سے نم آنکھوں سے اصلال عالم کو دیکھا، اس کا دل دھاڑیں مارنے کو کر رہا تھا۔۔
اسنے تو سوچا تھا کہ اصلال سارے خاندان کے سامنے عبادت کی تذلیل کرتے اسے چھوڑ دے گا مگر یہاں تو وہ اسے رخصت کرا کے کمرے میں لے آیا تھا۔۔۔ عبادت کی بکھری حالت اسکے سینے میں موجود اس دل کے سو ٹکڑے کر رہی تھی۔۔ سارے ارمان ریزہ ریزہ ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔
بڑے بابا مجھے بھی خود سے ایسی کسی حرکت کی امید نہیں تھی۔۔۔۔" وہ سنجیدہ سا نظریں جھکائے بولتا سکندر جعفری کو لاجواب کر گیا۔۔ عبادت چلو میرے ساتھ ، بہت ہو گیا یہ تماشہ آپ سب کا میری بہن کو بے زبان جانور نہیں ہے جب دل چاہا اٹھا کے نکاح کروا دیا اور اب ایسے زبردستی بنا رخصتی کے لانے کا مطلب۔۔۔۔" میں لے کر جا رہا ہوں عبادت کو یہاں سے اب کوئی کچھ بھی کہہ لے مگر یہ رشتہ میں ختم کروں گا۔۔۔۔"
آنش جو کب سے اپنے اشتعال کو دبا رہا تھا اب سب کو یوں سکتے میں دیکھ وہ چلاتے نفرت سے اصلال کو دیکھتا عبادت کی جانب بڑھا تھا۔۔
چلو عبادت۔۔۔۔۔!" عبادت کا ہاتھ تھامے وہ غصے سے تیز آواز میں بولا۔۔۔
تمہاری بہن بعد میں یہ میری بیوی پہلے ہے اور ایسے ہی نہیں لایا بتا تو رہا ہوں کندھوں پر اٹھا کر رخصتی کرا کے لایا ہوں۔۔۔۔" عبادت کے ہاتھ کو اسکی۔گرفت سے آزاد کرواتا وہ جان بوجھ کر عبادت کو خود سے لگائے بے باک لہجے میں بولا تو آنش نے شرر بار نظروں سے اسے گھورا۔۔۔
بڑے بابا میں چاہتا ہوں کہ کل میرا اور عبادت کا ولیمہ رکھا جائے تاکہ پورا خاندان جان سکے کہ عبادت اصلال عالم کس کی ملکیت ہے۔۔۔۔۔" سکندر جعفری کی جانب دیکھتے اصلال نے ختمی فیصلہ سنایا تھا۔۔
امل اسکی بات سنتے بری طرح سے روتے کمرے سے نکلی تھی۔۔۔
تم۔۔۔۔۔۔۔" شایان صاحب غصے سے اسکی جانب لپکے تھے جو اطمینان سے عبادت کو سینے سے لگائے کھڑا تھا۔۔۔ اسے کسی بات کی پرواہ نہیں تھی مگر وہ خوش تھا کہ عبادت کی قینچی کی طرح چلتی زبان بند تھی مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس وقت عبادت خود الجھی تھی کہ آخر یہ سب چل کیا رہا ہے ورنہ عین ممکن تھا کہ وہ سب کی غلط فہمی منٹوں میں دور کر دیتی۔۔۔
شایان چلو میرے ساتھ مجھے بات کرنی ہے۔۔۔" سکندر جعفری نے اصلال کی جانب بڑھتے شایان کو ٹوکا۔۔۔ مگر بابا۔۔۔۔"
میں نے کہا کہ چلو میرے ساتھ۔۔۔" سکندر جعفری نے اپنے کہے پر زور دیتے انہیں خاموشی سے اپنے ساتھ چلنے کا کہا تھا جو سرخ نظروں سے جبڑے بھینجتے سکندر جعفری کے پیچھے ہی روم سے نکلے تھے۔۔
بابا آپ کیا چاہتے ہیں کہ میں گونگا بہرہ بن جاؤں میں کسی بھی طور اصلال عالم کے ساتھ اپنی بیٹی کو رخصت نہیں کروں گا۔۔۔۔" شایان جعفری نے ختمی لہجے میں کہا تھا انکی آنکھوں۔ میں ابھی تک غضب کی سرخیاں تھیں۔۔ جانے کیسے وہ خود پر ضبط کر رہے تھے۔
شایان سمجھنے کی کوشش کرو، یہ بات اگر باہر نکلی تو ہماری ہی بدنامی ہے،لوگ باتیں بنائیں گے سو الگ۔۔۔۔ اب اس بات کا اس سے بہتر کوئی حل نہیں کہ ہم عبادت کی اچھے سے رخصتی کر دیں۔۔ بابا آپ رخصتی کا کہہ رہے ہیں سنا نہیں وہ خودسر لڑکا کہہ رہا ہے کہ رخصتی ہو گئی۔۔کیا ایسے ہوتی ہیں شادیاں۔۔۔۔!"
وہ ہانپتے غصے طیش سے بولے بس نہیں تھا کہ اصلال کو گریبان سے پکڑتے گھر سے نکال دیتے۔۔ صبر کرو شایان اگر اصلال نے کچھ کیا ہے تو غلط نہیں کیا۔کیونکہ عبادت بیوی ہے اسکی کوئی غیر نہیں۔۔۔۔" سکندر جعفری نے انہیں سخت نظروں سے دیکھتے کہا۔۔
تو وہ لب بھینج گئے جو بھی تھا وہ باپ کو جواب نہیں دے سکتے تھے، نضخت بیگم تو خود ہی جھٹکوں میں تھی کیا کیا تھا اصلال نے ہر کوئی حیرت زدہ سا تھا۔۔۔ اپنی اپنی جگہ سن خاموش سے جیسے کچھ کہنے کو ناں ہو۔۔۔
تو یہ طے رہا کہ کل اصلال اور عبادت کا ولیمہ ہو گا۔۔ سارے انتظامات کرو،دھوم دھام سے یہ ولیمہ ہو گا تاکہ سب جان سکیں سکندر جعفری کے پوتی پوتے کا ولیمہ ہے۔۔۔۔" وہ گرج دار جوش سے لبریز آواز میں حتمی فیصلہ لیے اٹھے تھے۔۔
*************
وہ بکھری سی کمرے کے وسط میں گھٹنوں کے بل آنسوں سے بھیگے چہرے سے لرزتی رو رہی تھی۔۔۔ آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی تھیں۔۔۔ عبادت کا سرخ چہرہ بار بار امل آنکھوں کے سامنے لہراتا اسے رونے بلکنے پر مجبور کر رہا تھا۔
سارے ارمان ساری پلیننگ چکنا چور ہو چکی تھی۔۔ جس اصلال کو حاصل کرنے اسے پانے کی خاطر اسنے اتنا یہ سارا کھیل کھیلا تھا وہ تو کل رات ہی اپنا آپ عبادت کے نام کر چکا تھا اسکے حصے میں تو خسارے ہی آئے۔۔۔ لاحاصل محبت کا دکھ اسکے کانوں میں اصلال عالم کے الفاظ گونجتے جیسے اسے پاگل کر دینے کے دم پر تھے۔
نازیہ بیگم اور رضیہ بیگم کب سے دروازہ کھٹکھٹا کھٹکٹھا کر جا چکی تھی وہ بکھری شکست خوردہ سی اپنی بے نام محبت کا سوگ منا رہی تھی۔۔
معا اسکے قدموں میں پڑا موبائل بری سے چیختے اسے اپنی جانب راغب کر گیا،امل نے خون برساتی نگاہوں سے موبائل پر جگمگاتے گڑگٹ لفظ کو دیکھا اور پھر غصے سے دانت پیستے موبائل اٹھایا۔۔۔
ہاں امل بتایا نہیں تم نے کیا بنا___؟تم نے کہا تھا کہ ویڈیو بنا کر سینڈ کرو گی مجھے جب وہ اصلال میری عبادت کو ڈانٹے گا اسے برا بھلا کہہ کر طلاق دے گا۔۔۔ میں صبح سے ویٹ کر رہا ہوں تمہاری کال کا مگر تم نے تو مجھے یاد بھی نہیں کیا۔۔" قاسم اسکے کال پک کرتے ہی خود سے بولتا جا رہا تھا جبکہ دوسری جانب سے مکمل خاموشی اسے ٹھکٹکا گئی،
امل تم موجود ہو کہ مر گئی۔۔۔ " وہ دانت پیستے اسکی خاموشی پر طنز کرتے بولتا سر جھٹک گیا۔۔ ہاں مر گئی ہوں میں اور اب تمہاری باری ہے مرنے کی۔۔۔۔" وہ پھٹ پڑی تھی اس گڑگٹ پر اچھے سے جانتی تھی وقت بدلتے ہی سب سے پہلے وہ امل کا نام ہی لے گا۔۔
کیوں کیا ہوا اصلال کہیں صدمے سے مر تو نہیں گیا ۔۔ ہاہاہا پتہ ہے کیوں کیونکہ میں نے تصویروں کے ساتھ ہاٹ ایموجیز اور ساتھ میں میک فار ایچ ادر لکھ کر بھیجا تھا۔۔۔" وہ ہنستا امل کی پریشانی کی وجہ اصلال کو سمجھتا مسکراتے اپنا کارنامہ سنا گیا۔۔
ابے گدھے۔۔۔۔۔ یہ کیا کیا تم نے قاسم جاہل انسان۔۔۔ "وہ سنتی اپنا چکراتا سر ہاتھوں میں تھام گئی۔۔ اسکے گدھا کہنے پر قاسم نے فون کان سے ہٹاتے سامنے کرتے دیکھا، تمہاری اس بے وقوفی کی وجہ سے اس بکواس کی وجہ سے اصلال کا دماغ یقیناً گھوما ہو گا۔۔۔۔"
وہ کڑی سے کڑی ملانے لگی۔۔۔" تو قاسم نے اسے ٹوکا۔۔۔ہوا کیا ہے بتانا پسند کرو گی سارا پلان میرا بنایا تھا اب مجھے بھی بتاؤ آخر ہوا کیا۔ہے۔۔۔؟' قاسم کو لگا کہ وہ سارا کریڈٹ خود لے رہی ہے جبھی اسنے یاد کروانا ضروری سمجھا۔۔۔امل سنتی قہقہ لگا اٹھی۔۔
پاگل ہو گئی ہو کیا سائیکو۔۔۔۔۔" اسکا بے بات ہنسنا قاسم کو تپ چڑھا رہا تھا اوپر سے وہ بتانے کی بجائے الٹی الٹی باتیں کر رہی تھی۔۔سن لو قاسم جیسا ہم نے پلان کیا تھا ویسا کچھ بھی نہیں۔۔الٹا اصلال اس عبادت کو زبردستی اپنے کمرے میں لے آیا ہے اور تو اور اسنے اعلان کر دیا ہے کہ اب اسنے خود ہی اپنی رخصتی کرا لی ہے تو کل اسکا اور عبادت کا ولیمہ ارینج کیا جائے۔۔۔"
وہ روتی اپنے لب کچلتے آنسوں سے تر چہرے سے بولی تو قاسم نے چکراتے صوفے کا سہارہ لیا۔۔
ییی یہ کیا کہہ رہی ہو تم اممل۔۔۔" وہ حیرت زدہ سا چیخا تھا ایسا۔تو کچھ بھی نہیں ہونا تھا مگر اب یہ سب کچھ کیوں ہوا۔۔۔اصلال کے اس قدم نے اسے حیران کر کے رکھ دیا تھا۔۔۔جو تصویریں اسنے جس طرح سے بھیجی تھی اس حساب سے تو اب تک اصلال نے تباہی برپا کی ہوتی مگر اصلال عالم۔اسکی سوچ سے بالاتر نکلا تھا۔۔
امل تت فکر مت کرو ہمارے پاس وقت ہے ولیمہ کل ہے ناں، ہم کچھ سوچتے ہیں ایسا کہ اصلال سب کے سامنے کل ہی عبادت کو طلاق دے دے ۔۔"قاسم نے بالوں کو مٹھیوں میں دبوچتے کہا تھا،
اب کچھ نہیں ہو سکتا قاسم، سب بیکار ہے۔۔۔۔۔" وہ روتی بیڈ سے ٹیک لگائے اپنے گھٹنوں کے گرد ہاتھ مضبوطی سے باندھے بولی۔۔۔
ککک کیوں نہیں ہو سکتا کچھ بھی ہو گا سب کچھ ہو جائے گا بس تم پریشان مت ہو۔۔۔" امل نے سنتے سرد سانس فضا کے سپرد کیا وہ سمجھ ناں سکی کہ وہ اسے بہلا رہا تھا یا کہ اپنے دل کو۔۔۔۔
قاسم کسی بھی چیز کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اصلال اب میرا نہیں رہا اسنے عبادت کو اپنا لیا ہے اسکے ساتھ اپنی زندگی کی شروعات کر لی اب تم بھی اس جھوٹی آس میں جینا بند کر دو،۔وہ کل رات صرف رخصتی نہیں کرا کے لایا بلکہ اپنی زندگی میں عبادت کو شامل بھی کر لیا ہے۔۔۔" اب یہ کوششیں بیکار ہیں ۔
ہمیں سمجھنا ہو گا اگر وہ ہمارے نصیب میں ہوتے تو ہمیں اتنے فریب نہیں کرنے پڑتے، ہم نے محبت نہیں کی صرف غرض رکھی میں نے دولت کی غرض اور تم نے خوبصورتی اور نفرت کی غرض۔۔۔۔ اسی وجہ سے آج ہم حالی ہاتھ رہ گئے ہیں۔۔۔" وہ۔سرد سانس فضا کے سپرد کرتی آج اپنی غلطیوں پر دل سے شرمندہ ہوتے بولی تھی۔۔
قاسم کئی سانیے اسکی باتوں کو سنتا ساکت سا رہ گیا۔۔۔۔ اسے یقین ناں آیا کہ یہ وہی امل ہے جو اس قدر برا سوچتی تھی آج کیسے وہ اپنی محبت سے دستبردار ہو سکتی ہے۔۔ ہم دونوں کل ولیمے میں آئیں گے اپنے کیے کی معافی عبادت اور اصلال سے مانگیں گے۔اور انہیں دل سے خوش رہنے کی دعا بھی دیں گے۔۔"
وہ ختمی انداز میں کہتی قاسم کے جواب کی منتظر تھی۔۔۔ کئی لمحوں تک دوسری جانب اسے قاسم کی۔تیز سانسوں کی آواز کے بعد کال۔ڈسکنیکٹ ہوتے ہی امل نے بے بسی سے لب کچلتے گردن گھمائے جائے نماز کو دیکھا۔۔ شرمندگی کے انسوں اسکی آنکھوں سے بہتے اسکی روح کو جھنجھوڑ رہے تھے۔۔ کچھ دنوں میں رمضان آنے والا ہے اور اس بار میں اپنے رب سے مانگوں گی کہ وہ میرے نصیب میں لکھا میرا ہمسفر مجھے شناسا کر دے، جو میرے نصیب میں ہوا وہی میرا شناسائے یار ہو گا۔۔۔۔"
وہ جائے نماز کو چھوتی دل سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتی آنکھیں موندے گئی آج وہ دل سے اپنے کیے پر شرمندہ رب کے آگے جھکی تھی۔۔
***********
اشکان بیٹا ادھر آؤ۔۔۔۔" اشکان جو تیزی سے کمرے سے نکلتا علی سے ملنے جانے والا تھا۔ عافیہ بیگم کی آواز پر وہ ماتھے پر بل ڈالے چلتا انکے قریب گیا۔۔۔
یس ماما بتائیں کیا ہوا۔۔۔۔؟" وہ ماما کے ماتھے پر بوسہ دیے خوشگواری سے بولا۔۔۔تو عافیہ ہنس دی۔ ہوا تو کچھ نہیں بس میںنے اور تمہارے پاپا نے کچھ سوچا ہے۔۔۔۔"عافیہ بیگم مسرت سے بولیں تو اشکان نے حیرت سے انہیں دیکھا،انکے پاس بیٹھتے وہ بانہیں انکے گرد پھیلائے محبت سے انہیں دیکھتے پوچھنے لگا۔۔۔
کیا میں جان سکتا ہوں کہ آخر ایسا کیا سوچا ہے آپ نے جو اس قدر مسکرائے جا رہے ہیں۔۔۔!"
اشکان نے تھوڑی اپنی ماما کے کندھے پر ٹکائے ترچھی نگاہوں سے انہیں دیکھ پوچھا تو عافیہ بیگم مسکراتے اسکے بالوں کو بکھیر گئی۔ بیٹا ہم کل بھائی کے پاس جا رہے ہیں تمہاری اور اوزگل کی رخصتی کی بات کرنے۔۔۔۔۔" عافیہ بیگم نے گردن گھمائے اپنے خوبرو بیٹے کو دیکھا،اشکان کی خوبصورت مسکراہٹ ایک دم سے معدوم ہوئی تھی وہ نظریں چرائے ٹانگ ہلاتا بے چین سا تھا۔۔ عافیہ بیگم نے پریشانی سے اسے دیکھا وہ تو سوچ رہی تھیں ۔
کہ اشکان سنتا خوشی سے نہال ہو جائے گا مگر وہ تو خاموش ہو گیا تھا۔۔۔ کیاہوا میری جان اگر آپ نہیں چاہتے تو ہم ابھی بات نہیں کریں گے۔۔۔!" اشکان نے سنتے جھٹ سے انکے منہ پر ہاتھ رکھا، نہیں ماما ایسا کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ میں تو بس یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا گل مانے گی۔۔۔۔!" وہ اداسی سے نظریں چرائے منہ لٹکائے بولا،
تو عافیہ بیگم نے مسکراتے اسکے ہاتھ کو پیچھے کیا۔۔ بیٹا وہ مان جائے گی تم بے فکر رہو تمہاری ماں اسے منا لے گی ۔۔۔" عافیہ بیگم نے اشکان کی پیشانی پر بوسہ دیے کہا تو اشکان نے سرد سانس فضا کے سپرد کیا۔۔۔۔
ماما ابھی نہیں میں پہلے خود گل سے پوچھوں گا اگر اسے کوئی اعتراض نہیں ہوا تو پھر آپ بات کر لیجیے گا۔۔۔۔" وہ جلدی سے انکے ہاتھ کو تھامے بولا تو عافیہ بیگم نے حیرانگی سے اسے دیکھا ابھی کچھ دن پہلے تو زبردستی رخصتی کی بات کر رہا تھا اور اب جب وہ خود یہ کہہ رہی تھیں تو کیسے کہہ رہا تھا کہ پہلے گل سے پوچھوں گا۔"
بیٹا جیسے تم چاہو ویسا ہی کرو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ وہ رسان سے اسے تسلی دیے بولیں تو اشکان نے تشکر بھرا سانس لیتے انہیں سینے میں بھینجا۔۔۔۔ تھینک یو ماما میں بس ابھی آیا۔۔۔۔۔" وہ جلدی سے کہتا جگہ سے اٹھا تھا عافیہ نے اسے جاتا دیکھ آواز دی ۔تو وہ مڑتا انہیں جلدی واپس آنے کا کہتا نکلا تھا۔۔وہ ابھی گل سے اسکی رضامندی جاننا چاہتا تھا۔۔۔۔اسکے چہرے پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں چمک۔۔۔
*************
عالم ماما رو کیوں رہے تھے،وہ خود پر لپٹی اصلال کی شال کو اتارتے اپنا دوپٹہ ڈھونڈتے بیڈ کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھی جھمجھلائی ہوئی سی پوچھنے لگی اصلال جو ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑا بال بنا ریا تھا اسنے ماتھے پر بل ڈالے مڑتے اسے دیکھا جو کہیں بھی نہیں تھی۔۔ عبادت وہ پریشان سا اسے پکارنے لگا ۔۔جی عالم یہاں ہوں۔۔۔۔" وہ یونہی بیڈ کے نیچے دیکھتی بولی تو اصلال نے آواز پر آنکھیں چھوٹی کیے جھکتے اپنی سائیڈ سے نیچے ہوتے دیکھا تو اسکی آنکھیں حددرجہ پھیلی۔۔
پاگل لڑکی کہاں گھس رہی ہو باہر نکلو۔۔۔!٫ وہ اسے دوسرے سائیڈ سے تقریباً اندر بیڈ کے نیچے آتا دیکھ چلایا تھا عبادت نے ناک چڑھاتے اسے اگنور کیا۔۔۔۔عبادتتتتت۔۔۔۔" اصلال نے اسے بات کان میں مارتا دیکھ دانت پیستے غصے سے پکارا تو وہ منہ بگاڑتی باہر نکلی۔۔۔
کیا ہو گیا ہے عالم دوپٹہ ڈھونڈ رہی ہوں میں۔۔۔" وہ بالوں کو کندھے سے پیچھے کرتی جھلائی ہوئی سی بولی تو اصلال جو اس وقت ڈارک بلیو کاٹن کے سوٹ میں ملبوس نک سک سا تیار تھا اسنے گہری نگاہوں سے عبادت کے نازک سراپے کو دیکھا جو دوپٹے سے بیگانہ سرخ چہرے سے تپی ہوئی اسے ہی گھور رہی تھی۔
گھورو مت دوپٹہ تو رات تمہارے پاپا کے گھر رہ گیا تھا۔۔"وہ آنکھ اٹھائے اسے اشارہ کرتے یاددہانی کروانے لگا ۔۔۔
پاپا کا نہیں میرا گھر اور میرا کمرہ ہے۔۔"وہ سنتی اسے فورا سے ٹوک گئی، اصلال مسکراتے ڈریسنگ سے ہاتھ بڑھائے اپنی واچ اٹھاتا اسکی جانب آیا جو ناک چڑھائے غالباً رونے کی تیاری میں تھی۔۔
تمہارا تھا مگر اب سے وہ تمہارا نہیں ہے یہ گھر تمہارا گھر ہے جہاں پر تمہارا شوہر رہتا ہے تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔۔" وہ چلتا واچ پہنتا اسکے سامنے رکا اور ہاتھ پشت پر باندھے وہ گہری دلچسپ نظروں سے عبادت کے سراپے کو دیکھتے بولا۔۔
تو کیا ماں باپ کا گھر گھر نہیں رہتا رخصتی کے بعد۔۔۔۔۔" عبادت کی سنہری آنکھوں میں ایک دم سے پانی دھر آیا اصلال کی بات اسے بلکل بھی اچھی نہیں لگی تھی وہ کیسے کہہ رہا تھا کہ وہ اسکا گھر نہیں رہا اب۔۔ جس آنگن میں وہ بچپن سے اب تک کھیلی کودی تھی لاڈ سے رہی تھی اب کیسے وہ گھر وہ لوگ بے گانہ ہو گئے ۔۔۔
اششش رونے کی کوشش بھی مت کرنا۔وہ بھی تمہارا گھر ہے میں نے منع نہیں کیا بس یہ بتا رہا ہوں کہ اب سے تمہاری پہلی ترجیح میری ذات ہونی چاہیے ۔۔۔۔میری موجودگی میں تمہارا وقت ، تمہاری توجہ صرف اور صرف اصلال عالم کیلئے ہو۔۔۔۔۔کسی دوسرے کے لئے مجھے پیچھے کیا تو مجھ سے اچھے کی امید مت رکھنا۔۔۔۔" سمجھ آیا۔۔۔۔۔!" وہ محبت سے اسکی سنہری بالوں کو سنوارتا ٹہرے مگر مضبوط لہجے میں بولا۔
عبادت نے پلکیں جھپکتے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔ تھوڑا سا کام ہے جلد ہی واپس لوٹوں گا خیال رکھنا۔۔"عبادت کو کمر سے پکڑتے اپنے نزدیک کرتا وہ محبت سے اسکی گردن پر بوسہ دیے اسکی خوشبو میں گہرا سانس بھرتے بولا۔۔۔
مگر میرا دوپٹہ تو لا دیں اور میرے کپڑے بھی۔۔۔۔" اسے روم سے نکلتا دیکھ عبادت نے پھر سے ٹوکا تھا۔۔۔ اصلال نے گردن گھمائے اسے دیکھا۔۔۔ تمہارا دوپٹہ میں صبح فجر ٹائم ہی لے آیا تھا، وارڈروب میں ہے لے لو اور کمرے سے باہر مت نکلنا جب تک میں ناں آؤں اندر سے لاک رکھنا۔۔۔" وہ اسے آگاہ کرتا آخر میں تنیبہ کرتا جانے لگا کہ عبادت نے پھر سے ٹوکا۔۔
وووو میں پوچھ رہی تھی کہ کیا میں انہی کپڑوں میں گزاروں گی سارا دن ۔۔۔۔" وہ سر کھجاتی اصلال کے اچانک دیکھنے پر گڑبڑا سی گئی ۔۔۔ جو پہلے تھے وہ اب نہیں پہنو گی تم میں جا رہا ہوں تمہاری شاپنگ کرنے تھوڑی دیر تک آ جاؤں گا۔۔۔۔ اگر پرانے کسی کپڑے کو پہنا بھی تو اچھا نہیں ہو گا۔۔۔" وہ گہری سیاہ نظروں سے اسے دیکھتا وارن کرتے باہر کو نکلا تو عبادت نے تھوک نگلتے سر جھٹکا۔۔۔۔
*************
ککک۔کون۔۔۔۔۔؟" وہ دروازہ کھٹکنے کی آواز پر ڈری سہمی دبی آواز میں استفسار کرتی لب کچلنے لگی۔۔ میں ہوں گل اشکان۔۔۔۔" اشکان نے جلدی سے کہا تو وہ شکر بھرا سانس لیتے دروازہ کھول گئی۔
تھوڑی دیر پہلے ہی اسے اشکان کی کال آئی تھی وہ اسے ملنا چاہ رہا تھا پہلے تو اوزگل نے یوں رات کو ملنے سے سرے سے انکار کر دیا مگر اشکان نے اسے ضروری بات کا کہتے ابھی ملنے کیلئے فورس کیا وہ یوں رات کو پچھلے دروازے سے آیا تھا۔۔
کیسی ہو۔۔۔؟" گل کے دروازے کھولتے ہی وہ مسکراتا اوزگل کے پریشان سے چہرے کو دیکھتا استفسار کرنے لگا۔
اوزگل نے سرد سانس فضا کے سپرد کیے سر ہاں میں ہلاتے روم کو اندر سے لاک کیا۔۔۔ایسا کیا کام تھا اشکان جو تم یوں رات کو ملنے چلے آئے۔۔۔۔؟" ماتھے پر بل ڈالے گل نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے پوچھا ۔۔
اشکان کی نظریں اوزگل کے سراپے میں اٹکی تھی جو اس وقت لائٹ پنک کلر کے نائٹ ڈریس میں ملبوس اپنے گھنے سیاہ بالوں کو شانوں پر بکھیرے نیند سے بھری سیاہ جھیل سی سرخ ہوتی آنکھوں سے اشکان کے دل کی دنیا تہ و بالا کر گئی۔۔
وہ قدم قدم اٹھائے اوزگل کے قریب ہونے لگا جو سرخ چہرے سے اشکان کو دیکھ رہی تھی اور ابھی اسکے یوں اپنی جانب آنے پر وہ تھوک نگلتی پیچھے کو ہوتی دیوار سے جا لگی۔۔۔۔
اشکان نے کھڑکی سے پڑتی اس حسین چاند کی جگمگاتی روشنی میں اپنے چاند کو دیکھا جو آنکھیں بند کیے اسکے ڈر سے اب ہلکا ہلکا لرز رہی تھی۔۔۔ اشکان کی نگاہیں اوزگل کی دودھیا۔صراحی دار گردن پہ تھی جس میں وہ باریک چین پورے استحقاق سے جگمگاتے اسے مسکرانے پر مجبور کر گئی۔۔۔۔
اگر میں تم سے کہوں کہ میں کچھ مانگنے آیا ہوں تم سے تو کیا تم دو گی مجھے۔۔۔۔" اشکان نے اسکے بے حد قریب جاتے اپنی انگلی اس چین پر گھماتے استفسار کیا۔۔۔ اوزگل نے پٹ سے آنکھیں کھولیں اپنے بے انتہاء قریب آنکھوں میں محبت کی چمک لئے کھڑے اشکان صدیقی کو دیکھا۔۔
جو سراپا محبت بنا اوزگل کو دھیرے دھیرے سے اپنے رنگ میں رنگ رہا تھا۔۔۔ اوزگل اپنے دل کی بدلتی کیفیت سے خود ہی انجان تھی۔ گل میں انتظار کر رہا ہوں۔۔۔" اسے کھویا دیکھ اشکان نے یاد دلایا۔۔وہ سسنتے سر ہاں میں ہلا گئی۔ تو اشکان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری۔۔
ماما پاپا ماموں سے رخصتی کی بات کرنا چاہتے ہیں تو اگر ماموں تم سے تمہاری رضامندی پوچھیں تو تم کیا میرے لئے ہاں کر دو گی۔۔۔؟" اشکان نے اوزگل کی حیرانگی سے پھیلی آنکھوں میں دیکھ وہ محبت سے التجا اور سوال کیا۔۔۔
مممگر اششکان یہ سسب۔۔۔۔۔۔؟" اوزگل نے حیرت سے کنگ ہوتے پوچھا اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ۔اشکان ایسا کچھ کہے گا۔۔ ہاں گل ماما نے مجھ سے بات کی ہے ابھی ۔۔ اور سچ کہوں تو میں بھی کب سے یہی چاہتا ہوں کہ میں تمہیں اپنے پاس ہمیشہ کیلئے اپنے قریب رکھوں، مگر میں نے ابھی ماما کو بول دیا ہے کہ جب تک میں تم سے بات کر کے تمہاری رضامندی نہیں جان لیتا تب تک میں ایسا ویسا کچھ بھی نہیں کرنے والا۔۔۔۔۔!"
اشکان نے جلدی سے اسکے ہاتھ کو مضبوطی سے اپنی گرفت میں لیتے کہا تھا دل دھک دھک کر رہا تھا وہ کہہ تو چکا تھا مگر اب وہ اندر سے ڈر رہا تھا کہ کہیں اوزگل انکار ناں کر دے۔۔۔
مگر اشکان میری پڑھائی ابھی تو پیپرز بھی ہونے ہیں پھر ۔۔۔!" گل نے جلدی سے اپنا مدعی سنایا وہ اسے ناراض نہیں کر سکتی تھی اشکان کی آنکھوں میں چمک وہ دیکھ چکی تھی اب اسے اداس دیکھنے سے بھی گھبرا رہی تھی۔
اس بات کی فکر مت کرو یار میں خود تمہیں پڑھاؤں گا تمہاری پڑھائی میں کوئی فرق نہیں آنے والا ۔۔۔۔ تم بس یہ بتاؤ کیا تم تیار ہو اس رشتے کو ایکسیپٹ کرنے کیلئے ۔۔۔۔" اشکان نے دھڑکتے دل سے اسے بتاتے اوزگل کی سیاہ جھیل سی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔۔
اگگر پاپا ماما کو کوئی اعتراض نہیں ہوا تو مجھے بھی نہیں۔۔۔۔" وہ کہتی ساتھ ہی نظریں جھکا گئی۔۔۔۔اشکان کئی لمحوں تک اسے دیکھتا سن سا رہ گیا۔۔۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اوزگل سچ میں مان گئی تھی۔۔
آئی لو یو گل تھینکیو تھینکیو سسسو مچچچچچ_____!" اشکان خوشی سے چیختا اسے بانہوں میں اٹھائے گول گول چکر کاٹتے اپنی خوشی کا اظہار کر رہا تھا جبکہ اوزگل نے اپنے چکراتے سر کو تھامے اسکے منہ پر ہاتھ رکھے اسے خاموش کروایا۔۔۔
کوئی سن لے گا اشکان۔۔۔۔" وہ آنکھوں میں فکر ڈر پریشانی لیے بولی تو اشکان نے محبت سے مخمور نگاہوں سے اسکے نازک سراہے کو اپنے سینے سے لگائے خود میں بھینج لیا۔۔ اوزگل شرم سے سرخ چہرے سے نظریں جھکائے اسکے حصار میں کھڑی تھی۔۔۔۔ جو آنکھیں موندے ان لمحات اس خوشی کو محسوس کر رہا تھا۔۔۔
مجھے تم سے تب سے محبت ہے جب سے میں محبت نام کے معنی سے بھی نا آشنا تھا تمہاری معصومیت ، سب سے الگ اپنے آپ تک محدود رہنے کی یہ ادا میرے دل کو اچھی لگتی تھی پھر میں نے دل کی مانتے تم سے دوستی کی اور تمہارا واحد دوست بنا۔۔۔ تمہاری باتیں مجھے حکم دینا بہت اچھا لگتا ہے میں چاہتا ہوں کہ تم تا عمر میدے دل پر ایسے ہی حکمرانی کرو اور میں تمہارا ہر حکم بجا لاؤں۔۔۔۔۔"
اوزگل کے معصوم چہرے کو ہاتھوں میں بھرتے وہ محبت سے اسے اپنے دل کا حال سنا رہا تھا اوزگل کی انکھوں میں حیرانگی بھی تھی مگر اسکے خوبصورت گلاب کی پنکھڑیوں کے مانند ان خوبصورت ہونٹوں پر مسکراہٹ بھی تھی۔۔۔ اسے اچھا لگتا تھا اشکان صدیقی کا اظہار کرنا اس سے محبت کا ذکر کرنا ، وہ لڑکی جو اس رشتے کو دوستی کی حد تک محدود رکھنا چاہتی تھی اب خود ہی اس رشتے کو محبت کے رنگوں سے دیکھ رہی تھی۔
اشکان نے مخمور نگاہوں سے ان جھکی نظروں، اور پھر ان مسکراتے ہونٹوں کو دیکھا۔۔۔۔ دل کی دنیا عجیب تر تھی وہ جانتا تھا شاید وہ پہلے بھی اپنی بے ہودی میں اوزگل کو خود سے دور کر چکا تھا مگر وہ بے بس تھا اپنی محبت ان جذبوں کے آگے جو ایک محرم رشتے میں بندھنے کے بعد اسے اوزگل اشکان صدیقی سے جوڑے رکھتے تھے۔۔
اشکان کی نظریں اسکے گھنے بالوں میں اٹکی وہ مسکراتا اپنے ہونٹ اسکی سیاہ گھنی زلفوں میں رکھتے انکی خوشبو کو سانسوں میں اتارنے لگا۔۔ اسکا انداز اسکی محبت کرنے کا ہر روپ الگ تھا سب سے جدا، جو اوزگل کے دل میں اسکے لئے عزت بڑھا رہا تھا۔۔
مجھے ہر ایک چیز منظور ہے گل مگر مجھے کبھی اپنی خوشبو سے محروم مت کرنا۔۔۔" گل کی پیشانی پر لب رکھتے وہ پر سوز مدہم لہجے میں عقیدت سے بولا تھا اوزگل سنتی کئی لمحوں تک ساکت سی رہ گئی۔۔
اسکی آنکھوں میں بے ساختہ ہی جانے کتنے آنسوں آئے تھے کیا کوئی شخص اس طرح سے بھی محبت کر سکتا تھا۔ وہ لب بھینجتے اپنے گلے میں اٹکتے آنسوں کے گولے کو نگلنے کی کوشش کرنے لگی۔
اشکان نے اسکے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے اپنے ہونٹ اسکی آنکھوں پر رکھے تو اوزگل نے گہرے سانس لیتے سکون اپنے اندر تک اتارا تھا۔۔۔
انہیں جو ناز ہے خود پر نہیں ہے بےوجہ صاحب۔۔۔
کہ جس کو ہم نے چاہا ہو وہ خود کو عام کیوں سمجھیں۔۔"
***************
ماما میں اتار دوں اسے_____!" وہ آنکھیں بند کیے دروازے کھولے باہر نکلتے بولی تو نضخت بیگم جو بیوٹیشن کے ساتھ اسکے کمرے میں آ رہی تھی انہوں نے حیرت سے منہ کھولے عبادت کو دیکھا، جس نے چہرے پر لگا سارا ابٹن ہاتھوں کی مدد سے اتار دیا تھا۔۔ یا اللہ پاگل لڑکی یہ کیا کیا ہے ۔۔؟" وہ غصے سے دانت پیستے اپنے ہاتھوں میں تھامے عبادت کے لہنگے کو امل کو تھمائے آگے بڑھی۔ جو کہ خود منہ کھولے حیرت سے اس عجیب سی دلہن کو دیکھ رہی تھی جس کی آنکھوں پر ابٹن تھا ہاتھوں پر اور چہرے پر بلکل بھی نہیں تھا ایسے جیسا لگا ہی ناں ہو۔۔۔۔
یہ کیا حال کیا ہے عبادت چلو تم اندر۔۔۔۔۔" امل نے جھڑکتے اسے آنکھیں دکھائی تو وہ ایک آنکھ کھولتے اسے دیکھ منہ بسور گئی۔۔۔بیوٹیشن اس نرالی دلہن کو دیکھتی اپنی ہنسی چھپا رہی تھی۔۔
چلو تم میرے ساتھ۔۔۔۔۔!"نضخت بیگم اسے زبردستی پکڑتے اپنے ساتھ لیے واشروم میں گھسی۔۔۔امل نے مسکراتے سر نفی میں جھٹکا۔۔۔ کل رات سے ہی اصلال کے آنے سے پہلے نضخت بیگم عبادت کو اپنے ساتھ لے آئیں تھی کہ آج انکی بیٹی انکے ساتھ رہے گی اور کل وہ اپنے گھر سے اسے اچھے سے رخصت کریں گی۔۔
اصلال جب شاپنگ کے بعد روم میں آیا تو عبادت کو ناں پاتے وہ غصے سے آگ بھبھوکا ہوا شایان۔صاحب کے گھر گیا مگر نضخت بیگم نے اسے عبادت کے کمرے میں جانے سے روک دیا تھا، اور ساتھ میں یہ بھی کہا تھا کہ آج رات وہ انکے ساتھ رہے گی وہ اچھے سے اپنی بیٹی کی رخصت کریں گی۔۔۔
اصلال لاکھ چاہنے کے باوجود بھی اپنی ماما کا دل نہیں دکھا سکا جبھی وہ دل پر پتھر رکھے واپس گھر آیا تھا ویسے بھی تو ایک ہی رات کی بات تھی کل سے تو عبادت ہمیشہ کیلئے اسکے کمرے میں اسکی دسترس میں تھی۔۔۔
ہماری لڑکی کو اچھے سے تیار کریں ایسے کہ سارا خاندان دیکھتا رہ جائے بس۔۔۔۔۔" نضخت بیگم جیسے ہی عبادت کا فیس واش کروا کر اسے ساتھ باہر لائیں امل مسکراتی اسکے قریب گئی اور محبت سے عبادت کا ہاتھ تھامے مرر کے سامنے موجود چئیر پر عبادت کو آرام سے بٹھاتے امل نے بیوٹیشن کو مخاطب کیا جو مسکراتے سامان نکالنے لگی۔
امل کل رات سے ہی عبادت کے ساتھ تھی۔۔۔۔ نازیہ بیگم نے اسے کئی بار روکنا چاہا تھا مگر وہ اپنی غلطی کی معافی عبادت سے مانگنا چاہتی تھی جبھی وہ خود عبادت کے پاس آئی اور اسے سب کچھ بتایا تھا اپنے کیے کی معافی مانگتے وہ واپس جانے لگی مگر عبادت نے اسے روک لیا کہ ایک ہی تو کزن تھی اسکی اور پھر وہ ساری رات دونوں خوب باتیں کرتی رہی تھیں۔قاسم کی کئی بار امل کو کال آ چکی تھی مگر امل نے تنگ آتے فون آف کر دیا تھا اب وہ اپنے دل میں کسی قسم کا کچھ بھی وہم نہیں پالنا چاہتی تھی۔
آپ بے فکر رہیں میں اچھے سے تیار کروں گی ان کو۔۔۔" بیوٹیشن نے مسکراتے امل کو دیکھتے کہا تھا جو ابھی تک خود بھی گھر کے کپڑوں میں ملبوس تھی، بیٹا فون بج رہا ہے تمہارا۔۔۔" نضخت بیگم اسکے پاس آتے بولی تو امل نے دانت پیستے بیڈ پر پڑے اپنے موبائل کو گھورا۔۔۔
مگر جیسے ہی اسنے فون اٹھایا تو سامنے اصلال کے نمبر کو دیکھ وہ حیران بھی ہوئی ایک نظر سب پر ڈال وہ سائیڈ سے ہوتے کمرے سے باہر نکلی۔۔۔ ہیلو۔۔۔۔" امل نے گھبراہٹ سے فون کان سے لگائے پوچھا مبادا وہ اسے عبادت کے پاس رکنے کی وجہ سے کچھ ناں کہے۔۔ ہاں امل ایک کام ہے کر سکتی ہو۔۔۔" وہ مسلسل کمرے میں چکر کاٹتا پریشانی سے گویا ہوا ۔۔
امل نے ماتھے پر بل ڈالے فون سامنے کرتے اسے گھورا جیسے اصلال کو گھور رہی ہو۔۔۔ بھلا اصلال کو اس کی مدد چاہیے تھی۔۔ ہاں بولو میں کیا کرسکتی ہوں ۔اگر ہو سکا تو میں ضرور کروں گی۔۔۔۔" لہجہ مضبوط تھا، وہ کل خود کو سنبھال چکی تھی اب کوئی امید آس نہیں جگانا چاہتی تھی۔۔
دراصل مجھے عبادت کو دیکھنا ہے جیسے ہی وہ تیار ہو سب سے پہلے۔۔۔۔ تو کیا تم کچھ کر سکتی ہو۔۔۔" وہ سر کھجاتا اپنی بے قراری اس پر عیاں کر گیا اور امل جو سوچ رہی تھی کہ وہ کچھ اور کہے گا اسکی بات سنتی وہ بمشکل سے اپنی ہنسی ضبط کر پائی تھی ۔
ہممم تو جناب کو ہماری دلہن سے ملنا ہے۔۔۔۔" اب وہ شوخ لہجے میں ہنسی چھپائے گویا ہوئی اور نضخت بیگم کو نکلتا دیکھ وہ چلتی اندر گئی۔۔۔ موبائل اسپیکر پر کرتے عبادت کو آنکھوں سے خاموش رہنے کا اشارہ کیا جو امل اور اسکے موبائل جو گھور رہی تھی۔۔۔
ہاں کہہ تو رہا ہوں کہ دیکھنا چاہتا ہوں۔۔ " وہ جھلایا ہوا سا بولا تھا ابھی اسکے کزنز آنے والے تھے اور وہ جانتا تھا فنگنش کے شروع ہونے تک وہ اسکی جان نہیں چھوڑیں گے۔۔اسی لئے وہ ابھی ایک بار عبادت سے مل کر اپنی بے تابیاں کم کرنا چاہتا تھا۔۔
تو رات کو فنکشن ہے ایک بج رہا ہے تو ایسا کرنا فنکشن میں ہی دیکھ لینا۔۔۔" وہ ہنستی عبادت کے گلال بکھیرتے چہرے کو دیکھ بولی۔۔ تو اصلال نے دانت پیسے۔۔۔۔دیکھنا ابھی ہے رات کا کیا اچار ڈالوں۔۔۔۔۔۔؟" وہ جلا بھنا بولا تو امل نے بمشکل سے اپنا قہقہہ ضبط کیا۔۔۔۔ ہممم تو ایسی بات ہے اگر دیکھنا ہی ہے تو تصویر بنا کر بھیج دیتی ہوں دیکھ لینا۔۔۔۔۔"
امل جان بوجھ کر اسے چھیڑ رہی تھی جو کافی بے چین دکھ رہا تھا جبکہ عبادت تو اصلال عالم کی بے تابیوں کو سنتے ہی گھبراہٹ شرم سے دوچار تھی۔۔۔ حالی تصویر کا کیا کروں گا میں مجھے ملنا ہے اس سے،تم سمجھ رہی ہو میری بات۔۔۔۔" اپنے بالوں کو مٹھی کو دبوچے وہ بے باکی سے بولا تو جہاں عبادت کا سر شرم سے جھک گیا تھا وہیں امل پر سکتہ طاری ہوا۔۔۔ وہ تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اصلال کوئ ایسی ویسی بات کرے گا۔۔۔
رات کو تمہارے پاس ہی آئے گی تو جی بھر کر دیکھ لینا اور مل بھی لینا اب مجھے تنگ مت کرنا۔۔" وہ شرم سے دھواں دھواں چہرے سے کہتی ساتھ ہی کال کٹ کر گئی۔۔۔۔
ان دونوں کے سرخ چہرے دیکھ ابکی بار بیوٹیشن کا قہقہہ کمرے میں گونجا۔۔
**************
وہ بے چینی سے اپنے ہاتھ مسلتی کمرے میں کب سے ٹہل رہی تھی، دل کی دھڑکنیں بے تحاشہ تیز تھیں۔۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے عافیہ بیگم اپنے بھائی کے پاس بیٹھی تھیں۔۔ اشکان کی کئی بار کال آ چکی تھی اوزگل کو، جو خود بھی کافی پریشان تھا۔۔ اسے ڈر تھا کہ اظہر صاحب کہیں انکار ناں کر دیں۔۔
اوزگل نے بے بسی سے دروازے کو دیکھا اور پھر گہرے سانس لیتے وہ بیڈ پر جا بیٹھی معا اچانک سے دروازے پر ناک ہوئی۔۔وہ دھک دھک کرتے دل سے جلدی سے اٹھی تھی اور چلتے دروازہ کھولا اظہر صاحب متفکر سے ہاتھ پشت پر باندھے کھڑے تھے۔
پپپپاپا آپ آئیں انندر ائیں۔۔۔۔۔" اوزگل کا چہرہ پسینے سے تر تھا وہ سمجھ ناں پائی کہ کیا کہے۔۔۔۔ اوزگل کو پزل سا گھبرایا دیکھ اظہر صاحب نے سرد سانس فضا کے سپرد کیے اندر آئے۔۔۔۔ اوزگل کے نین نقوش بلکل اپنے پاپا کے جیسے تھے وہی خوبصورتی وہی ٹہراؤ۔۔۔ اگر اظہر صاحب کا عکس کہا جائے تو غلط ناں ہو گا۔۔
بیٹا کچھ ضروری بات کرنی ہے تم سے۔۔۔۔۔" اظہر صاحب نے اوزگل کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے نظریں جھکائے کہا تھا۔۔ اوزگل کے دل کی دھڑکنیں تیزی سے دھڑکتے اسے اپنے کانوں میں بجتی محسوس ہو رہی تھی، وہ جانتی تھی کہ وہ کیا پوچھنے والے ہیں مگر فطری شرم و گھبراہٹ تھی جو اسے خوفزدہ کر رہی تھی۔۔
جججی پاپا۔۔۔۔" اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتی وہ اپنی سیاہ جھیل سی آنکھوں میں کئی رنگ الجھن کے لئے انہیں دیکھ پوچھنے لگی۔۔ بیٹا وہ دراصل تمہاری پھپھو آئے ہیں ۔۔۔۔!" اظہر صاحب خود بھی کافی الجھے سے تھے آخر کیسے اور کیا بات کریں۔۔
پاپا کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟" وہ حلق تر کیے انکے سامنے ہوئی تو اظہر صاحب نے اسے سینے سے لگائے خود کو تسلی دی۔۔۔۔
بیٹا تمہاری پھپھو رخصتی کا کہنے آئی ہیں وہ رخصتی چاہتے ہیں میں نے ابھی کوئی حامی نہیں بھری وہ کہہ رہی ہیں کہ تمہاری پڑھائی میں کوئی خرج نہیں آئے گا تم اپنی پڑھائی ایسے ہی جاری رکھ سکو گی۔۔ بس وہ تمہیں بیٹی بنا کر اپنے گھر لے جانا چاہتے ہیں میں نے ابھی تک کوئی حامی نہیں بھری تم سے پوچھے بنا میں کوئی بھی بات نہیں کر سکتا۔۔"
اوزگل نے اپنی نم سیاہ آنکھوں سے سر اٹھائے اپنے پاپا کو دیکھا، جنہوں نے مسکراتے اپنی گڑیا کی آنکھوں پر بوسہ دیے اسکے سر پر ہونٹ رکھے۔۔۔ وہ خود پریشان تھے ایک ہی تو بیٹی تھی انکی جسے لاڈ پیار سے پالا تھا انکے گھر کی رونق انکی تو جان ہی اوزگل میں بستی تھی مگر وہ مجبور تھے۔۔۔۔
بالآخر اپنی بیٹی کو آج یا کل رخصت کرنا ہی تھا انھوں نے لاکھ عافیہ بیگم سے کہا تھا کہ وہ اوزگل کو پڑھائیں گے اسکے بعد رخصتی کا سوچیں گے مگر عافیہ بیگم نے یہ بات بھی ختم کر دی تھی کہ وہ خود اوزگل کی پڑھائی مکمل کروائیں گی۔۔۔
بہن کے بندھے ہاتھوں انکی چاہت کو دیکھ اظہر صاحب مجبور ہوتے اوزگل کے پاس آئے تھے مگر عافیہ بیگم کو واضح لفظوں میں بتا چکے تھے کہ اگر گل نے انکار کیا تو وہ کسی بھی طور رخصتی نہیں کریں گے۔۔۔
بیٹا آخری فیصلہ آپ کا ہو گا اپنی رضا کے بغیر میں کچھ بھی نہیں کروں گا۔۔اپ بتائیں میں کیا جواب دوں جیسا آپ کہو گے ویسا ہی ہو گا۔۔۔!" اظہر صاحب نے محبت سے اوزگل کو اپنے ہونے کا احساس دلایا، اوزگل نے آنکھیں سکون سے موندے اپنا سر اپنے پاپا کے سینے سے ٹکایا ۔۔۔پاپا آپ جو بھی فیصلہ لیں گے مجھے قبول ہو گا۔۔۔۔!"
اوزگل نے دھڑکتے دل سے کہا تو اظہر صاحب نے چہرے پر ایک فخریہ مسکراہٹ رقص کرنے لگی انہیں اعتبار تھا کہ انکی بیٹی ایسا ہی کہے گی مگر اب خود اوزگل کے منہ سے سنتے وہ پرسکوں ہو چلے تھے۔۔
بیٹا پھر بھی آپ کی پھپھو بضد ہیں کہ وہ رخصتی چاہتی ہیں۔۔۔ " اظہر صاحب نے پھر سے کہا تو اوزگل نے سرد سانس فضا کے سپرد کیا۔۔ پاپا مجھے آپ کے اور ماما کے کسی بھی فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔"
اوزگل نے مسکراتے انہیں اپنی جانب سے پرسکون کیا تو وہ مسکراتے اسے خود میں بھینج گئے۔۔
***********
ایسی بھی کیا بے تابی ہے دولہے میاں آپ کی بیوی ہے آپ کی دلہن آپ کے ہی پاس لایا جائے گا۔۔۔۔" اشکان جو کب سے اصلال عالم کی بے تاب نگاہوں کو بھٹکتا دیکھ رہا تھا اسنے ایک دم سے اصلال کے کندھے پر بازو رکھتے شریر لہجے میں سرگوشی کی تو اصلال کے عنابی ہونٹوں پر ایک خوبصورت مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔۔۔
بلیک فور پیس میں ملبوس اپنے بائیں ہاتھ پر برینڈڈ واچ پہنے بالوں کا ہمیشہ کی طرح اچھے سے ہے سٹائل بنائے۔۔۔ گیری سیاہ آنکھوں میں محبت کی چمک ایک عجیب سی کشش بےتابی لیے وہ بات بہ بات مسکراتا آج کہیں سے بھی اصلال عالم نہیں لگ رہا تھا۔۔
بیٹا صبر کر جا تُو آنٹی گئے ہیں انکل سے بات کرنے جب تیرا ولیمہ ہو گا پھر دیکھوں گا تجھے۔۔۔اور مجھے یقین ہے جتنا تُو کمینہ انسان ہے لازماً اپنا راستہ صاف کر کے ہی آیا ہو گا۔۔۔۔!" اصلال کہاں سے کم تھا اسنے جھٹکے سے اسکی گردن کو دبوچتے اپنے ساتھ لگائے میٹھا سا طنز کیا تو اشکان کا جاندار قہقہ فضا میں بکھرا۔
ہوپ سو کہ ایسا ہی ہو۔۔۔ اپنی باری یاد رکھیو دو دن پہلے آنا ہو گا اور بھابھی کے ساتھ۔۔۔۔۔!" اشکان نے مسکراتے اسے آگاہ کیا تو اصلال نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا۔۔۔
تجھے کیوں لگتا ہے کہ میں اپنے خاص دن تیری شادی پر برباد کرنے والا ہوں ۔۔۔!" اصلال نے ہاتھ پینت کی پاکٹ میں ڈالے اشکان کو گھورتے استفسار کیا جو اس وقت بلیو تھری پیس میں ملبوس چہرے پر ایک جاذب خوبصورت سی مسکراہٹ سجائے اصلال عالم کو کافی مطمئن اور خوش لگا۔۔۔
کیونکہ خبیث انسان میں اپنی زندگی کے اتنے بڑے فیصلے کے دن بجائے اپنے ماموں کے ترلے کرنے کے تیرا ولیمہ اٹینڈ کرنے آیا ہوں۔۔۔۔" اشکان نے غصے سے دانت پیستے اسکے پیٹ پر مکہ رسید کیا تو اصلال نے اوور ایکٹنگ کرتے اپنے پیٹ کو پکڑا۔۔ چل چل بس کر زیادہ بن مت سب دیکھ رہے ہیں کہ دولہا کیسے پیٹ پکڑے کھڑا ہے۔۔۔۔!" اشکان نے اسے سیدھا کرتے ساتھ ہی اپنی جانب متوجہ ان لوگوں کو دیکھ کہا۔۔۔
تو اصلال فورا سے سیدھا ہوتے اپنے کالر کو ٹھیک کرتا آگے پیچھے دیکھنے لگا۔۔۔ اشکان سے اسکی ملاقات لاہور میں آج سے ایک سال پہلے ہوئی تھی جب اصلال اپنی سٹڈی مکمل کرتے پہلی بار وہ شایان جعفری کی جگہ میٹنگ میں گیا تو وہاں پر اسکی ملاقات اپنے بزنس پارٹنر عافان صدیقی کے چھوٹے بیٹے اشکان صدیقی سے ہوئی۔۔۔ عافان صاحب کے آنے تک اشکان نے کافی اچھے سے اصلال کے ساتھ وقت گزارا تھا اور اب وہ دونوں اتنے عرصے میں کافی اچھے دوست بن چکے تھے۔۔۔
وہ بظاہر دو الگ شہروں میں مقیم تھے مگر انکے دل ایک دوسرے کے قریب تھے۔۔۔ اسی وجہ سے تو انکی دوستی وقت کے ساتھ ساتھ مزید گہری ہوتی گئی تھی۔۔
معًا شور اٹھا لوگوں کی چہچہاہٹ پر اشکان اور اصلال دونوں نے ہی مڑتے پیچھے دیکھا جہاں بڑے سے دوپٹے سے دولہن کو کور کیے سٹیج کی جانب لایا جا رہا تھا۔۔اشکان نے ماتھے پر بل ڈالے اصلال کی جانب دیکھا ۔تو اصلال نے اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں ریلیکس رہنے کا اشارہ کیے تو اشکان خاموش ہو گیا۔۔۔
یار یہ کہاں لے کر جا رہے ہیں بھابھی کو۔۔۔" اشکان۔اسکے کان میں گھستا بولا تو اصلال نے مسکراتے اسے دیکھا۔۔ ہمارے خاندان میں دلہن کو مردوں کے سامنے نہیں بٹھاتے صرف عورتوں کی موجودگی میں اور گھر کے چند فرد اسے دیکھ سکتے ہیں جو اپنے قریبی ہوں۔۔۔ تو ابھی عبادت کو ساتھ دوسری جانب بنے سٹیج پر لے جایا جا رہا ہے۔۔۔
اصلال نے اسے بتایا تو اشکان نے کندھے اچکاتے سر ہلایا کہ آج کل بھی ایسا ہوتا ہے وہ خاموش ہو گیا تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ ایسا کچھ بھی ہوگا مگر اسے یہ بات اچھی بھی لگی تھی۔ کہ کم از کم ہر مرد جو جانے کن نظروں سے دلہن کو دیکھے ان سب سے مخفوظ اسکے اپنے ہی اسے دیکھیں۔۔
بیٹا چلو۔ اندر رسمیں کر لیں۔۔۔ " سکندر جعفری جو اس وقت سفید کھدر کے سوٹ میں ملبوس تھے وہ مسکراتے اسکے قریب آتے چوڑے سینے سے فخریہ اسے ساتھ لگاتے بولے تو اشکان نے سرد سانس فضا کے سپرد کیا۔۔۔۔
ہاں بابا چلیں۔۔۔۔" اصلال نے مسکراتے ان سے الگ ہوتے کہا تو اشکان اندر دوسری جانب جانے لگا مگر اصلال نے اسکا ہاتھ تھامے اسے روک لیا۔۔۔ اشکان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔
میری عزت تیری عزت میری بیوی تیری بہن جیسے تیری بیوی میری بہن تو کیا آج اپنی بہن کو دعائیں نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔" اصلال نے اسکے ہاتھ پر گرفت مضبوط کرتے کہا تو اشکان سنتا مسکراتے اسکے سینے سے جا لگا۔۔۔
اب بس کر چل اندر چلتے ہیں۔۔۔ اصلال نے ہنستے اسے کہا تو وہ مسکراتے اسکے ساتھ اندر داخل ہوئے۔۔۔۔ سامنے ہی ایک جانب بنے سٹیج جسے خوبصورت گلاب کے پھولوں اور مختلف ڈیکوریشن پھولوں سے سجایا گیا تھا۔۔
اصلال کی نظریں سرخ بڑے سے گھونگھٹ میں مقید اپنی دلہن پر تھیں۔۔۔ آخر کار اسکے انتظار کا پھل آج اسکے سامنے تھا۔۔ آنش جو غصے سے منہ پھلائے ایک جانب کھڑا تھا اصلال کی نظریں غیر ارادی طور پر اس پر پڑیں وہ چلتا اسکے قریب گیا۔۔۔
انش نے اسے دیکھ رخ پھیرے جانے لگا مگر اصلال نے اسے روک لیا۔۔۔۔ کیا اتنا ہی اعتماد ہے اپنے بڑے بھائی پر۔۔۔۔؟ ہم نے اتنے سال ایک ساتھ گزارے ہیں کیا تمہیں کبھی لگا کہ مجھے تمہارا بھائی کہلانے کا کوئی حق نہیں۔۔۔"
آنش سنتا نظریں جھکا گیا وہ چاہے کچھ بھی کہہ لیتا مگر یہ بات تو سچ تھی کہ اصلال عالم نے ہمیشہ اسے بڑے بھائی کی طرح رکھا تھا اسے کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ وہ اکیلا ہو بلکہ ہر جگہ اصلال عالم اسکی پرچھائی کی طرح اسکے ساتھ تھا۔
آنش نے بے اختیار ہی سر نفی میں ہلایا تو اصلال مسکرا دیا ۔۔۔ بے فکر رہو عبادت تمہاری بہن ہے تو میری عزت ہے میں اسے کبھی تکلیف نہیں دوں گا۔۔۔ ایک موقع تو دے ہی سکتے ہو۔۔۔۔"
اصلال نے اسے دیکھتے میٹھا سا طنز کیا تو آنش ایک دم سے اسکے گلے سے جا لگا، سوری بھائی میں کچھ زیادہ پوزیسو ہو گیا تھا مگر مجھے یقین ہے کہ آپ گڑیا کو کبھی تکلیف نہیں ہونے دیں گے۔۔۔۔" آنش نے نظریں جھکائے معذرت کرتے کہا تو اصلال نے اسکا تھپکا۔۔۔
چلو بھائی دلہن انتظار کر رہی ہے اور یہاں تم دونوں کا ملن ختم نہیں ہو رہا۔۔۔۔ امل انکے قریب آتے اکتائے لہجے میں بولی تو اصلال اور آنش نے قہقہ لگاتے اسے دیکھا۔۔ اور پھر سر ہلاتے ایک ساتھ آگے بڑھے۔۔۔
**************
بھائی اب گھونگھٹ اٹھائیں تاکہ ہم بھی دلہن کا دیدار کر سکیں۔۔۔۔" عبادت کی دوستیں جو کب سے اصلال کو یونہی عبادت کو گھورتا دیکھ رہی تھیں اسے ٹوکتے کہا۔۔۔۔اصلال نے سرد سانس فضا کے سپرد کرتے سب کو دیکھا بڑے اس وقت اپنی کسی گفتگو میں مگن تھے اور سٹیج پر دولہا دولہن کے قریب نوجوان نسل نے ڈیرا ڈالا ہوا تھا ۔۔
تم سب نے دیکھ کر کیا کرنا ہے بیوی میری ہے میں دیکھ لوں گا۔۔۔!" اصلال نے پہلو بدلتے لڑکیوں کو دیکھ کہا تو اصلال کے پیچھے کھڑے اسکے دوستوں کا قہقہ گونجا۔۔۔ دانت اندر رکھو تم سب کے سب ہمیں بھی دیکھنا ہے آخر ہمارا بھی حق ہے اور ویسے بھی رسم کے مطابق جب تک دولہا گھونگھٹ نہیں اٹھاتا تب تک کوئی دوسرا دولہن کو نہیں دیکھ سکتا ہمیں بھی دیکھنا ہے کہ ہماری عبادت کیسی دکھ رہی ہے۔۔۔۔۔"
امل نے بضد ہوتے کہا تو دور کھڑی نازیہ بیگم جو کب سے اپنی بیٹی سے بات کرنے کی کوشش کر رہی تھیں وہ سرد سانس فضا کے سپردِ کرتے افسوس بھری نظریں پھیر گئیں۔۔۔
تو تم کل دیکھ لینا اور یقین جانو کل مسز عالم بنا ہار سنگھار کے بھی زیادہ پیاری دکھیں گی۔۔۔۔" عبادت کے کپکپاتے نازک ہاتھ کو اپنی گرفت میں لیتے وہ شوخ لہجے میں بولا تو اشکان نے سیٹی بجاتے اسے داد دی۔۔۔ تو ٹھیک ہے ایسا کرتے ہیں ہم خود ہی گھونگھٹ اٹھا لیتے ہیں۔
امل نے دانت پیستے سب کو گھورا اور آگے ہوتے گھونگھٹ اٹھانے لگی کہ اصلال نے ایک دم سے عبادت کے گھونگھٹ کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور بنا گھونگھٹ اٹھائے اپنا چہرہ اندر لے گیا۔۔۔
اسکی اچانک حرکت پر جہاں سبھی حیران منہ کھولے اسے گھور رہے تھے وہیں عبادت آنکھیں پھیلائے اصلال عالم کو دیکھ رہی تھی جو آنکھوں میں محبت کے پرحدت جذبات کی آنچ لیے عبادت کے سجے چہرے کو استحقاق سے دیکھ رہا تھا۔
اصلال نے سرد سانس فضا کے سپرد کیے چہرہ باہر لایا اور پھر سے گھونگھٹ برابر کیا۔۔۔۔ یہ کیا گھونگھٹ کیوں دیا اٹھاؤ ہم نے بھی دیکھنا ہے۔۔۔۔۔!"لڑکیوں کا اختجاج زور شور پر تھا۔۔ میں نے دیکھ لیا اب بس تم سب کل دیکھ لینا۔۔۔" وہ ہاتھ کھڑے کیے حتمی انداز میں بولا تو لڑکیوں نے منہ پھلائے اس شاطر انسان کو گھورا۔۔
کوشش بھی مٹ کرنا مسز۔۔۔۔۔ اگر یہ گھونگھٹ اٹھایا تو یہاں سب کے سامنے کچھ ایسا ویسا ہو گا،کہ تم نظریں بھی نہیں ملا پاؤ گی کسی سے ۔۔۔۔۔۔۔" عبادت کے گھونگھٹ اٹھاتے ہاتھ کو زبردستی تھامے وہ اسکے کان میں سرگوشی کرتا عبادت کو سہما گیا وہ خاموشی سے دانت پیستے رہ گئی۔۔
ارے قاسم بھی آیا ہے۔۔۔" اشکان سامنے سے آتے قاسم کو دیکھ خوشگواری حیرت سے بولا تو اصلال نے ماتھے پر بل ڈالے سامنے دیکھا امل بھی حیرت زدہ سی پریشان سامنے دیکھنے لگی۔ جہاں وہ ہاف وائٹ کلر کے سوٹ میں ملبوس ساتھ ہی بلیک جیکٹ پہنے چہرے پر سنجیدہ تاثرات سجائے اب قدم قدم چلتا سٹیج کی جانب بڑھ رہا تھا ۔۔
امل کا دل دھک سے رہ گیا اگر اب پھر سے کوئی تماشہ ہوا تو پھر۔۔۔۔امل کا دل زوروں سے دھڑکا تھا۔۔۔ قاسم نے گہری نظروں سے امل کے ماتھے پر چمکتے پسینے کے ننھے قطروں کو دیکھا اور پھر نظریں اصلال عالم پر ٹکائیں جو بھینجے جبڑوں کے ساتھ ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینجتا اب آٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔
کیا لینے آئے ہو تم یہاں ۔۔۔" اصلال کے سوال پر قاسم اسکے سامنے کھڑا ہوتے پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے اسے دیکھنے لگا، اشکان جانتا تھا کہ ان دونوں کے تعلقات خراب ہیں مگر اس قدر یہ اندازہ نہیں تھا۔۔
اپنی بہن کو دعائیں دینے۔۔۔۔۔!" ایک دم سے مسکراتے قاسم نے اصلال کی آنکھوں میں دیکھتے کہا تو اصلال نے لب بھینج لیے کیا وہ جانتا نہیں تھا اسکی نیت جو اب یہ ڈرامہ کر رہا تھا۔۔
خوش رہو عبادت جو بھی ہوا میں نے کیا اسکے لئے معذرت خواں ہوں۔۔ اللہ سے دعا ہے کہ تم یونہی خوش اور آباد رہو۔۔۔" قاسم نے ہاتھ عبادت کے سر۔پر رکھے اسے دعا دی تو اصلال اور امل دونوں ہی ساکت سی رہ گئے۔۔
تمہارا اور میرا جو بھی ہے وہ چلتا رہے گا یہ مت سوچنا کہ تمہیں چھوڑ دوں گا۔۔۔۔۔ مگر میں اپنے کیے پر شرمندہ ہوں عبادت سے ۔۔اسی لئے اس سے معافی مانگنے آیا اب چلتا ہوں۔۔۔۔۔" اصلال کی آنکھوں میں دیکھ وہ ڈھٹائی سے کندھے اچکاتے ہولا تو اصلال کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔۔۔
اب آ ہی گئے تو کھانا کھا کر ہی جانا۔۔۔۔۔" اصلال نے طنز کرتے اسے روکنا چاہا قاسم نے گردن گھمائے اسے دیکھا۔۔
فکر مت کر کھا کر ہی جاؤں گا امل سے بات کرنی ہے مجھے کچھ_____آتا ہوں ابھی۔۔۔۔" وہ آنکھ دبائے اشکان اور اصلال کو دیکھتا کہتے امل کا ہاتھ پکڑتے وہاں سے نکلا۔۔۔اصلال کی گہری نظروں نے دور تک قاسم کی پشت کو گھورا۔۔
**************
***************
ہاتھ چھوڑو میرا قاسم_____،" اپنا ہاتھ قاسم کی گرفت سے نکالتے امل نے کرخت لہجے میں کہا تو قاسم نے مڑتے گردن گھمائے امل کو سر تا پاؤں گہری نظروں سے دیکھا۔ نیوی بلیو کلر کے غرارے میں ملبوس اپنے ڈارک چاکلیٹ بالوں کو دونوں سائیڈ سے کرل کیے کندھوں پر ڈالے لائٹ سے میک اپ میں کانوں میں بھاری گولڈ کے آویزے ڈالے ماتھے پر مانگ ٹیکا سجائے وہ اکتائی ہوئی نظروں سے قاسم کو دیکھتی اسے ساکت سا کر گئی۔۔
قاسم نے سرد سانس فضا کے سپرد کرتے غصے سے آتش فشاں بنتی امل کو دیکھا۔ ہممممم بری بھی نہیں۔۔۔۔!" وہ خود سے زیرِ لب بڑبڑایا،امل نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا، کیا کہے جا رہے ہو ہمت ہے تو سامنے کہو منہ ناں توڑ دوں تمہارا_____!"
امل نے دانت پیستے غصے سے تیز مگر دھیمی آواز میں غراتے استفسار کیا وہ شریف ہوئی تھی باقی سب کیلئے قاسم کیلئے تو وہ ابھی تک وہی امل تھی۔۔لڑکی ذرا سنبھل کر آگے جا کر تمہیں ہی مشکل ہو گی۔۔۔" قاسم اسکے دبنگ انداز پر محفوظ ہوتے سرگوشی میں بولا تو امل نے ماتھے پر بل ڈالے اسے گھورا بھلا اسے کس بات کی اور کیا مشکل ہونی تھی۔
شادی کرنا چاہتا ہوں تم سے، ماما کو بتا دیا ہے تمہاری ماما سے وہ بات کر لیں گی اور نانو سے بھی، تمھیں اس لئے بتا رہا ہوں تاکہ تمہاری جانب سے کوئی بکھیڑا ناں ہو ورنہ یہ تو جانتی ہو کتنا برا ہوں میں۔۔۔۔!" وہ دونوں اس وقت گھر سے باہر لان میں تھے۔۔
ٹھندی یخ بخستہ ہواؤں میں بھی امل کا وجود پیسنے سے شرابور تھا۔۔۔ ککک کیا بکواس کر رہے ہو تم۔۔۔۔"؛ امل چیختے بولی تو قاسم نے ایک دم سے اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھے اسے خاموش کروایا۔۔۔
بکواس نہیں ہے ڈارلنگ جب شریف لوگ آپس میں شادیاں کر سکتے ہیں تو ہم جیسے کمینوں اوہ سوری ہم جیسے بروں کی جوڑی بھی تو بننی چاہئے۔۔۔" وہ امل کی جانب جھکتا رازداری سے کہتا آنکھ دبا گیا۔۔۔
امل کا چہرہ سرخ پڑ گیا وہ سمجھ ناں پائی کہ کیا کہے آج تک تو وہ خود سب سے اظہار محبت کرتی تھی آج پہلی بار یوں بے باکی سے کسی نے اسے واضخ اظہار کیا تھا اسکی آنکھوں کے گوشے نم تھے ابھی تو اصلال کی مردہ محبت کا سوگ بھی نہیں منایا تھا اسنے کہ اب قاسم۔۔۔۔
ققق قاسم مممیں اصللا۔۔۔۔۔۔،"اششششش ایک لفظ نہیں۔۔وہ محبت نہیں صرف دلکشی تھی جس نے تمہیں اور مجھے اپنی جانب راغب کیا کیونکہ اگر ہمیں محبت ہوتی تو ہم ایسا کچھ بھی نہیں کرتے کیونکہ محبت جیسا جذبہ بے غرض ہوتا ہے وہ محبوب کو نہیں محبوب کی خوشی کو چاہتا ہے۔۔۔، تمہاری باتوں نے مجھے تمہاری جانب راغب کیا امل۔۔۔۔۔،مجھے احساس دلایا کہ میں کتنا غلط تھا،،میرے دل میں کوئی جذبات نہیں ناں ہی کوئی محبت ہے تم سے،،، بس تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں،،،" کندھے اچکائے وہ سادہ مگر صاف الفاظ میں بولا تو امل کو لگا کہ اسکا سانس اٹک گیا ہو۔۔۔۔
تتتت تم ایسا ویسا کچھ بھی نہیں کرو گے قققاسم ۔۔۔۔" امل نے بھرپور کوشش کرتے اپنے لہجے کو مضبوط بنانے کی سعی کرتے انگلی اٹھائے اسے وارن کیا،قاسم نے ایبرو اچکاتے اس گھورا۔۔تم سے پوچھا نہیں امل بلکہ بتا رہا ہوں تمہیں اپنی ماں کو سمجھا دو اگر انکار آیا تو جانتی ہو تم مجھے بعد میں کسی بھی بات پر پچھتانا مت۔۔۔ سمجھ تو گئی ہوگی ویسے سمجھدار تو کافی ہو،،" ڈیٹس لائک آ گڈ گرل۔۔" امل کو خاموش دیکھ وہ خود سے اسے ماننے پر شاباش دیتا اسکے گال کو تھپکنے لگا۔
چلو اندر چلتے ہیں اصلال کے ولیمے کا کھانا ہمارا انتظار کر رہا ہے۔وہ زبردستی امل کا ہاتھ تھامے اندر کی جانب بڑھا۔
***************
یار اب مجھے اجازت دے نکلتا ہوں ویسے بھی کافی رات ہو گئی ہے۔" اشکان نے اصلال سے ملتے ہوئے کیا وہ دونوں اس وقت باہر کوریڈور کے پاس کھڑے تھے،لڑکیوں کی جانب سے کی جانے والی چھوٹی موٹی رسومات طے ہونے کے بعد اشکان نے اس سے اجازت مانگی تو اصلال نے ہنستے اسے الوادع کیا۔۔
عبادت کو سب بڑوں کی دعاؤں کے سائے تلے رخصت کر کے اسکے کمرے میں لے جایا جا چکا تھا ۔۔اسنے ایک نظر اپنے ہاتھ میں پہنی گھڑی پر ڈالی جو رات کے بارہ بجا رہی تھی،فضا کے سپرد ایک تھکا سانس خارج کیے وہ اپنے بھاری سیاہ بوٹوں میں مقید پاؤں رکھتا آگے بڑھا تھا،
آج اسکی زندگی کا سب سے بڑا دن تھا اسکی زندگی میں اب کوئی اپنا شامل ہو چکا تھا جس پر سب سے زیادہ حق اصلال عالم کا تھا۔ اب کوئی بھی اس سے یہ سوال نہیں پوچھے گا کہ تم اکیلے کیوں ہو؟ تمہارا باپ تمہیں چھوڑ کر باہر کیوں گیا ؟ تمہاری ماں کیوں چھوڑ کر چلی گئی کیا اسے خیال نہیں آیا کہ اسکا چھوٹا سا چھ ماہ کا بچہ تھا اگر وہ اصلال کو ساتھ لے جاتی تو کیا تھا۔۔اسکی آنکھوں میں ہر اٹھتے قدم کے ساتھ گزرے وقت کی سیاہ کرچیاں تھیں جو ٹوٹ کر ان سیاہ آنسوں کی صورت بہنے کو بےتاب تھیں مگر وہ اصلال عالم تھا ۔
ٹوٹنا،جھکنا کیا کچھ نہیں سیکھا تھا اسنے۔ وہ تو ہار کر بھی ہنستا تھا لوگوں کی باتوں کو سنتے بھی اپنے ماں باپ کی صفائیاں دیتا تھا۔ وہ بھلا کیسے رو سکتا تھا،وہ جانتا تھا شاید عبادت اس رشتے کیلئے ابھی چھوٹی تھی شاید اصلال کو اسے وقت دینا چاہیے تھا مگر وہ ایسی کسی بھی فضول بات کو اپنے ذہن میں نہیں لانا چاہتا تھا۔
بچپن سے جو احساس کمتری اس زمانے نے اسکے دماغ میں پروئی تھی اب وہ کسی بھی صورت یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ ہاں وہ اکیلا نہیں تھا اسکا بھی کوئی تھا جو اسکے ساتھ ہر خوشی ہر غم میں اسکے ساتھ خوش ہو گا اگر وہ رویا تو کوئی ہو گا جو اسکے غم میں روئے گا۔۔
اپنی ہی سوچوں کے بھنور میں الجھا وہ کب چلتا اپنے کمرے کے سامنے پہنچا اسے اندازہ نہیں ہو سکا،اصلال نے گہرا سانس فضا کے سپرد کیا،، چاروں اطراف پھیلی معنی خیز سی خاموشی اصلال عالم کے جذبات کی ترجمانی تھی شاید۔۔۔۔!"
اپنے دائیں ہاتھ سے دروازہ کو کھولتے وہ اندر داخل ہوا معا دروازے کے بیچ پہنچتے اسکا موبائل بری طرح سے بجتے اسے اپنی جانب متوجہ کر گیا۔اصلال کی نظریں اپنی سیج پر بیٹھی اس نازک سی جان پر پڑیں جو پنک کلر کے لہنگے میں چہرے پر گھونگھٹ اوڑھے اصلال عالم کی دل کی دھڑکنیں منتشر کر گئی۔۔
اصلال نے چونکتے اپنے دماغ کو جھٹکتے خود پر ضبط کیا اور پھر اپنے فون پر ہوتی اس مخصوص رنگ پر اسکے ماتھے پر رگیں ابھری۔اصلال نے دروازہ پھر سے بند کیا اور باہر نکلا۔۔عبادت جو اصلال کے دروازہ کھولنے پر اپنے پسلیوں سے پٹھکتے دل کو بمشکل سے سنبھالے بیٹھی تھی اب اسکی خوشبو کو نامحسوس کرتے عبادت نے اپنی بوجھ سے چور پلکیں اٹھائیں سنہری آنکھوں میں بے چینی بڑھنے لگی کیونکہ دروازہ بند تھا اور اصلال عالم کہیں بھی نہیں تھا۔۔
عبادت یونہی کتنی دیر بیٹھے رہنے کے بعد تھکتے کراؤن سے ٹیک لگا گئی۔۔۔اسکی سوچوں کا محور اصلال عالم کی ذات تھی جس نے ان چند ہفتوں میں عبادت کے دل و دماغ پر بری طرح سے قبضہ کیا تھا شاید یہ سچ ہے کہ عورت مرد کی ذرا سی محبت اسکی جانب سے ملی اہمیت پر خود کو دنیا کی سب سے مغرور اور خوش قسمت عورت تصور کرنے لگتی ہے اور جب وہی مان وہی غرور ٹوٹتا ہے تو پھر چاہے وہ مرد سونے کا بن کر کیوں ناں آ جائے اسکے سچے جذبات بھی اس عورت کو پگھلا نہیں سکتے۔۔
عبادت نے تھکن سے چور اپنی دکھتی کمر کو سہلایا اور پھر سائیڈ میز پر پڑی اس ٹائم پیس پر وقت دیکھا جو صبح کے ساڑھے تین بجا رہی تھی۔۔ اصلال عالم کے یوں چھوڑ جانے پر جانے کتنے عجیب و غریب سے وہم اسکے ننھے سے دماغ میں گھسے، سنہری آنکھوں سے جھلکتے سفید موتی بارش کے بعد نکلتی سورج کی کرنوں کی چمک سا منظر برپا کر رہی تھیں۔
اصلال عالم کا انتظار کرتے وہ نازک سی جان جانے کب سوئی تھی مگر ناں تو اسے آنا تھا ناں ہی وہ آیا تھا۔
*************
ماما کیا میں اندر آ سکتا ہوں۔۔۔!" وہ بے تاب سے گھر پہنچتے ہی عافیہ بیگم کا دروازہ ناک کرتے پوچھنے لگا جو کہ گہری نیند میں تھیں اشکان کی آواز پر وہ چونکتے نیند سے ہڑبڑاتے اٹھیں،اشکان بیٹا آپ ہو؟' آ جاؤ اندر،،" عافیہ بیگم نے اٹھتے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے کہا تو اشکانی جلدی سے اندر داخل ہوا۔۔عافان صدیقی ملک سے باہر گئے تھے میٹنگ کے سلسلے میں اور صبح تک کا ویٹ اشکان سے کر پانا نا ممکن تھا۔
ماما کیا ہوا سب ٹھیک رہا ناں ماموں نے کیا کہا۔۔۔۔,"" عافیہ بیگم کے پریشان چہرے کو دیکھتا وہ متفکر سا دھڑکتے دل سے پوچھنے لگا عافیہ بیگم نے مسکراتے اسے دیکھ اسکے سر پر ہاتھ رکھا۔ مان گئے ہیں تمہارے ماموں اس جمعہ کو ہم۔اپنی بیٹی کو سادگی سے رخصت کروا کر گھر لے آئیں گے۔۔"
عافیہ بیگم نے مسکراتے محبت سے کہا تو اشکان کئی لمحے بے یقینی سے انہیں دیکھے گیا۔۔ مماما کیا آپ سچ کہہ رہی ہیں۔۔۔" عافیہ بیگم کے ہاتھ کو تھامے وہ بے یقین سا دھڑکتے دل سے پوچھنے لگا۔۔ ہاں بیٹا سچ ہے یہ،،،"میں نے بھائی سے وعدہ کیا ہے کہ گل کی پڑھائی میں کسی قسم کی کوئی بھی روکاوٹ نہیں آئے گی وہ پہلے جیسے ہی اپنی پڑھائی مکمل کر سکے گی اور کوئی بھی زمہ داری اس پر مسلط نہیں کی جائے گی جب تک وہ اپنی پڑھائی مکمل ناں کر لے۔،،،"
عافیہ بیگم نے رسان سے اسے سمجھایا جو خوشی سے سرشار چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ سجائے ہوئے تھا،، ماما جمعہ تو پرسوں ہے تو کل میں گل کو ساتھ لے جاؤں تاکہ وہ اپنا برائیڈل ڈریس لے سکے،"اشکان نے محبت سے انکے ہاتھوں پر بوسہ دیے استفسار کیا تو مسکراتے سر ہاں میں ہلا گئیں۔۔
تھینک یو ماما آپ دنیا کی سب سے اچھی ماما ہیں لو یو۔۔۔" وہ خوشی سے انکی پیشانی چومتا کھلکھلاتا کمرے سے نکلا۔۔۔
***********
امل تجھے ہو کیا گیا ہے کیا کوئی چال چل رہی ہو پہلے سے مجھے بتا دے مگر یہ عبادت کو اپنانا اس سے معافی مانگنا اور پھر کیسے خوشی خوشی شرکت کی توں نے ولیمے میں____میںں بتا رہی ہوں ایسا ویسا کچھ بھی نہیں چلے گا تُو اپنا مقصد بھول گئی کیا،،،؟" فرزانہ پچھلے ایک گھنٹے سے اسکے سر پر سوار تھیں، نازیہ کو تو جیسے چپ سی لگ گئی تھی۔۔
بیٹی کا بدلہ روپ انہیں خاموش سا کر گیا، حالہ بس کر دیں آپ لوگ میں نے آج تک ممانی یا پھر عبادت کے منہ سے اپنے لئے یا پھر آپ میں سے کس کیلئے بھی برا نہیں سنا،۔
اور ایک آپ لوگ ہیں انکی برائی کر کے تھکتے نہیں۔۔مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اور اب مجھے اس بارے میں کسی سے کوئی بات نہیں کرنی، بہتر ہو گا کہ آپ لوگ بھی وقت پر آنکھیں کھول کر حقیقت کو تسلیم کریں عبادت کوئی غیر نہیں آپ کے اسی جان از عزیز بھائی کی بیٹی ہے جسے آپ لوگ اتنا چاہتے ہیں، ایسی محبت کا کیا فائدہ کو ماموں سے تو ہے مگر انکی اولاد سے بلکل بھی نہیں۔۔!"
امل نے نپے تلے انداز میں انہیں حقیقت واضح کی تو رضیہ بیگم لب بھینج گئی جانتی تھی کہ جو امل کہہ رہی تھی وہ غلط نہیں تھا مگر تسلیم کرتے اپنی آنا غرور آڑے آ رہا تھا۔ مجھ نیند آئی ہے میں سونے جا رہی ہوں۔۔۔"امل نے لب بھینجتے کہا اور اٹھ کر جانے لگی۔
امل_____؟" نازیہ بیگم کی آواز پر امل نے گردن گھمائے اپنی ماں کو دیکھا، صبح جلدی اٹھنا ہم اپنے گھر جا رہے ہیں، قاسم کی ماں تمہیں دیکھنے آنا چاہتی ہیں میں کل ہی گھر جانا چاہتی ہوں۔۔۔" نازیہ کسی گہری سوچ میں مبتلا مختصر بولیں تو رضیہ بیگم کے ساتھ ساتھ فرزانہ بھی چونکی۔۔۔
بہت ہو گیا یہ سب،،،یہ نفرتیں یہ عداوتیں کچھ حاصل نہیں ہو سکا اماں۔۔ اب میں اپنی بیٹی کی زندگی برباد نہیں کر سکتی میں کل ہی واپس جاؤں گی قاسم کی ماں نے بہت محبت سے رشتہ مانگا ہے سب باقی جو بھی ہو گا امل کا باپ کرے گا۔۔" نازیہ بیگم نے حتمی لہجے میں کہا تو سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا ۔
*************
عبادت میری جان کھانا کیوں نہیں کھایا آپ نے_____!" نضخت بیگم کمرے میں آئے تو عبادت کو یونہی حلاء کو گھورتا پاتے اپنے آنسوں نگلتے وہ چلتی اسکے قریب گئی۔۔ جو اجڑی شکست خوردہ سی حالت میں اپنی سنہری ویران آنکھوں سے اپنی ماما کو دیکھنے لگی۔
بھوک ہی نہیں لگتی ماما کیا کھاؤں،،،؟" وہ سادہ سے لہجے میں بولی تو نضخت بیگم کا دل بے چین ہو کے رہ گیا اصلال عالم کیا گیا تھا عبادت نے اپنی جان سے روگ لگا لیا تھا،ماما کیا میں خوبصورت نہیں ہوں۔؟"نضخت بیگم جو کمرہ سمیٹ رہے تھے عبادت کے اچانک پوچھنے پر اور ایسے سوال پر وہ ڈرتے انکے قریب بھاگتے پہنچی۔
میری جان کس نے کہا آپ سے کہ آپ خوبصورت نہیں ہو،میری جان تو بے حد حسین ہے۔۔۔"نضخت بیگم کا دل کٹ کے رہ گیا وہ بے چینی محبت سے بولیں،اچھا اگر میں خوبصورت ہوں تو پھر عالم کیوں چھوڑ گیا مجھے،؟" وہ درد سے چور گہرے لہجے میں بولی تو نضخت بیگم نے اسکے چہرے کو ہاتھوں میں بھرا ۔
بیٹا ایسی کوئی بات نہیں آ جائے گا اصلال،،" نضخت بیگم نے اسے جھوٹی امید دلائی، تین دن سے اصلال گھر نہیں تھا کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں ہے اسکا نمبر مسلسل بند جا رہا تھا،،،شایان جعفری اپنی بیٹی کی چپی سے بےحد پریشان تھے جبھی اسے اپنے ساتھ واپس لے آئے تھے،،
مگر یہاں آنے کے بعد عبادت کی حالت مزید خراب ہوئی تھی وہ شوخ چنچل سی عبادت اصلال عالم کی تین دن کی بے رخی سے جانے کہاں جا سوئی تھی،ہر شخص اصلال عالم کے اس قدم سے پریشان حیرت زدہ تھا ہر کوئی دوسرے سے نظریں چرا رہا تھا،
معا باہر ہوتے شور پر نضخت بیگم چونکتے جگہ سے اٹھیں انکا دل سہم رہا تھا وہ ڈرتے ریلنگ سے جھانکتے خوفزدہ سی ہوئی جہاں سامنے ہی شایان صاحب اصلال عالم کو بری طرح سے پیٹ رہے تھے۔۔
**********
*****************
یہ والا ٹرائے کرو___!"پیچ اور گولڈن کلر کے خوبصورت کامبینشن سے بنا خوبصورت لہنگا اوزگل کے سامنے کرتے اشکان نے مسکراتے کہا،تو اوزگل جو سامنے ہینگ ان خوبصورت لہنگوں کو کب سے گھور رہی تھی اسنے مڑتے حیرانگی سے پہلے اشکان اور پھر اسکے ہاتھ میں موجود اس لہنگے کو دیکھا جو واقعی میں اسے کافی اچھا لگ رہا تھا۔
اشکان یہ تو بہت ہیوی ہے،اوزگل نے ڈریس کو ہاتھ سے اٹھانا چاہا مگر وہ کافی ہیوی تھا اسنے حیرت سے مضطرب سا ہوتے اشکان سے کہا،سو واٹ گل تم نے کون سا اسے سارا دن اٹھانا ہے بس ریڈی ہو کر سٹیج تک پہنچ آنا باقی میں کس لئے ہوں۔۔۔!"
وہ سنجیدگی سے چہرے پر سخت تاثرات سجائے جھکتے معنی حیز سی سرگوشی کرتے بولا تو گل اسکے اچانک یوں بے باکی سے کہنے پر گھبراتی اپنا شرم سے سرخ پڑتا چہرہ جھکا گئی۔
ٹرائے کرو اسے___!" اوزگل کے ہاتھوں میں اس خوبصورت ڈریس کو تھمائے وہ اسے زبردستی چینجنگ روم کے جانب لے جاتے بولا تو گل برے سے منہ بنائے ڈریس تھامے چینجنگ روم میں گھسی،اشکان متذبذب سا چکر کاٹتا اسکا انتظار کر رہا تھا،اسے یقین تھا کہ یہ ڈریس اسکی گل پر کافی جچے گا جبھی تو اپنے پسند کیے ڈریس میں اسے دیکھنے کی بے چینی حد سے سوا تھا۔
معا چینجنگ روم کا دروازے کھلا گل نے سر باہر نکالتے اشکان کو دیکھا اس سائیڈ رش کم تھا مگر پھر بھی اسے باہر آنے میں جھجھک سی محسوس ہو رہی تھی،اشکان تو اپنی تمام تر حسیات کے ساتھ اسکی جانب متوجہ تھا فورا سے چلتا دروازے کے قریب پہنچا۔۔
گل باہر آؤ میں دیکھوں تو کیسا لگ رہا ہے یہ ڈریس____" بےقرراری حد سے سوا تھی وہ جلدی سے اسے اپنے سامنے دیکھنے کی حسرت کے تحت بولا تو گل نے ایک لمبا سانس اندر کھینچتے سر نفی میں ہلا دیا ۔
باہر اتنے لوگ ہیں میں سب کے سامنے باہر کیوں آؤں۔۔"گل نے مدہم سرگوشی نما آواز اپنائے کہا تو اشکان کے ماتھے کے بلوں میں کمی آئی وہ سمجھتا سر ہلا گیا اور پھر چلتا اندر روم میں جاتا دروازہ اندر سے لاک کر گیا۔
یییی یہ ککیا تتم اندر کیوں آئے____" اسے اندر داخل ہوتے دروازے لاک کرتا دیکھ اوزگل نے اپنی سیاہ بڑی بڑی آنکھیں پھیلائے حیرت سے ڈرتے کہا، مگر جواب ناں پاتے اسنے غصے سے اشکان کو دیکھا جو استحقاق بھری نظروں سے اس خوبصورت لہنگے میں دمکتے اس نازک وجود کو گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔
اشکان کی گہری معنی خیز نظریں اپنے وجود پر پاتے وہ شرم سے سرخ ہوتی جھٹ سے رخ پھیر گئی کہ معا اشکان نے ہاتھ اسکی کمر کے گرد لپیٹتے اسے سینے سے لگایا۔۔۔ اوزگل کا دل اس اچانک افتاد پر دو سو کی سپیڈ سے بھاگ رہا تھا۔۔ اپنے دل کی دھڑکنوں کی دھک دھک کی آواز اسے کانوں میں واضخ سنائی دے رہی تھی،،،
پوچھو گی نہیںں کہ کیسا لگ رہا ہے یہ ڈریس تم پر۔۔۔۔معنی خیز سی خاموشی کو توڑتے اشکان کی جذبات سے بوجھل آواز سنتے اوزگل کی پلکیں لرز سی گئی وہ سرخ چہرے سے مدہم سانس بھرتی اسکے بےپناہ قریب اشکان کے مضبوط حصار میں کھڑی تھی۔۔۔
اشکان نے لب دبائے اپنے ہونٹ اوزگل کی پیشانی پر رکھے تو وہ بری طرح سے ڈرتی خوفزدہ سی سانس روک سی گئی۔۔۔اسے لگا یا تو یہ لمحہ طویل ہو گیا تھا یا پھر اشکان اسکی پیشانی پر ہونٹ رکھے پلٹنا بھول گیا تھا۔
خوبصورت لفظ بہت چھوٹا ہے گل میری محبت میرے جذبات کی ترجمانی کیلئے____،،جانے کونسا کوئی ایسا نیک عمل میرے اللہ کو پسند آ گیا کہ اسنے مجھ جیسے گناہ گار کی قسمت میں میری زندگی کا ساتھ تاعمر کے لیے لکھ کر مجھے اپنا مشکور کرلیا۔۔۔۔"
اسکے گناہگار کہنے پر اوزگل نے جھٹ سے اپنا نرم و نازک ہاتھ اشکان کے ہونٹوں پر رکھا تو اشکان نے اپنے ہونٹوں پر اس ملائم روئی جیسے لمس کو محسوس کیا دل کی دھڑکنیں الگ رقص مچا رہی تھیں،اپنے ہونٹوں سے گل کے نازک ہاتھ کو چھوتا وہ اپنی گردن کے گرد لپیٹتا اسے مزید قریب تر کیا گیا۔۔
چھوٹی موٹی گستاخیاں تو میں کر ہی سکتا ہوں آخر کار بندہ بشر ہوں مجھے بھی اس ہیوی ڈوز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔۔،،اوزگل کے رنگ بکھیرتے سرخ چہرے کو دیکھتا وہ اسکے کان میں جھکتے سرگوشی کرتا اوزگل کو بے چین سا کر گیا،
اوزگل نے جھٹکے سے سر اٹھائے اسے دیکھا جس کی آنکھوں میں جھلکتے جذبات کا ٹھاٹھے مارتا سمندر دیکھ وہ لب کا کونہ دانتوں تلے دبائے نظریں جھکا گئی۔۔۔ اشکان نے فورا سے پہلے اسکے ہونٹ کو دانتوں کی قید سے آزاد کیا۔۔۔کمرے میں پھیلی معنی خیز سی خاموشی میں دونوں کی رقص کرتی سانسوں کا الگ ہی ساز کمرے میں بکھر رہا تھا۔
اشکان جھکتے اوزگل کی کپکپاتی نازک پنکھڑیوں کو اپنی نرم گرفت میں لیتے اوزگل کی سانسوں میں اپنی دہکتی سانسیں اتارنے لگا۔ اوزگل آنکھیں میچے اپنے ہونٹوں پر اشکان کے نرم لمس کو محسوس کرتی ڈر سے آنکھیں مضبوطی سے بند کیے تھی اشکان دھیرے سے پیچھے ہوتے گل کے چہرے پر بکھرے گلال ،شرم و حیا کے رنگوں کو دیکھ اسے خود میں بھیںنج گیا۔
*************
کیا کر رہے ہیں شایان چھوڑیں کیوں مار رہے ہیں میرے بچے کو____؟"نضخت بیگم حواس بافتہ سی بھاگتے گرتے نیچے پہنچی تھی شایان کا ہاتھ تھامے وہ چلاتے کہتی اصلال کو دیکھنے لگیں جو بکھرے حلیے میں ابھی تک ولیمہ والے فورپیس میں ملبوس تھا، اسکی جھکی نگاہیں شایان کو مزید طیش دلا رہی تھی۔
پیچھے ہٹو تم نضخت آج کوئی بیچ میں نہیں آئے گا۔۔۔میری بیٹی کو زبردستی اٹھا کر لے گیا میں نے پھر بھی رخصتی کی حامی بھر دی اب یہ زلیل انسان میری بچی کی خوشیاں روندھ کر اسے پھر سے اذیت دینے پہنچ آیا۔۔اور ڈھٹائی تو دیکھو اسکی کیسے کہہ رہا ہے کہ عبادت کو لینے آیا ہوں۔۔۔جیسے اسکے کہنے پر میں اپنی بچی کو اسکے ساتھ جانے دوں گا،،؟"
تین دن سے اپنے اندر دبایا سارا غصہ ساری طیش اب آہستہ آہستہ باہر نکل رہا تھا سکندر جعفری جانتے تھے اپنے پوتے کو جبھی وہ تین دن سے یہیں مقیم تھے وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اصلال کسی وجہ سے گیا ہو گا مگر اس بار وہ اسکا ساتھ یا اسکی طرف داری کرنے کے موڈ میں نہیں تھے یہ اسکی اپنی لڑائی تھی جسے وہ خود ختم کر سکتا تھا۔۔
اصلال نے تھکن سے چور اپنی سرخ ہوتی سیاہ آنکھیں اٹھائے بلاارادہ اوپر دیکھا جہاں وہ جھٹ سے پلر کے پیچھے ہوتے کمرے میں بھاگی تھی وہ سرد سانس فضا کے سپرد کرتا آنکھیں مضبوطی سے بند کرتے خود میں ہمت لانے لگا۔
پاپا میں عبادت کے سوا کسی کو جواب دہ نہیں ہوں مجھے اس سے بات کرنے دیں اگر اسنے مجھے جانے کا کہا تو میں چلا جاؤں گا خاموشی سے۔۔۔۔" جبڑے بھینجتے وہ عاجزانہ گویا ہوا تھا مگر شایان صاحب کے ہاتھ سے پڑتے تھپڑ نے اسے لب بھیجنے پر مجبور کر دیا،تم میں ذرا سی شرم باقی ہے اگر میری پرورش کا ذرا سا بھی اثر باقی ہے تو ابھی کے ابھی میری نظروں سے دور ہو جاؤ،،،،،"شایان کا حصہ کم ہونے میں نہیں تھا۔
اور یہ غصہ کل رات سے بڑھا تھا جب عبادت کے کمرے میں آتے وہ باہر سے اپنی بیٹی کی کربناک سسکیاں سنتے الٹے قدموں سے واپس لوٹے تھے پوری رات وہ سو ناں پائے تھے یہ بات ہی انہیں کھائے جا رہی تھی کہ انہوں نے اپنی معصوم بچی پر ظلم کیا ہے اب رہی سہی کسر اصلال نے اچانک انکے سامنے آتے نکال دی تھی۔
ارے ارے شایان تُو پاگل ہو گیا اپنی بیٹی کے پیچھے، کیا جان سے مارے گا میرے بچے کو،،،؟ اصلال میرا بچہ،دادی کی جان۔۔۔۔۔!" رضیہ بیگم جو شور سنتے آئیں تھیں اب شایان کے یوں تھپڑ مارنے پر وہ تڑپتی اصلال تک پہنچی، آخر کار دادی تھی وہ، اپنے ہاتھوں میں اسے پالا تھا، کیسے اسے مار کھاتا دیکھ لیتی۔۔
خبردار جو آپ میرے نزدیک آئیں۔۔۔۔"اصلال کے نفرت سے کہے جملے نے رضیہ بیگم کے بڑھتے قدموں کو جکڑ لیا بھوڑی آنکھوں میں عجیب سا خوف منڈلانے لگا انکا دل شدت سے دھڑکا تھا آج پہلی بار اسکے لہجے میں نفرت دیکھتی وہ دہل سی گئیں۔۔
آپ کی وجہ سے آج یہ سب کچھ ہوا ہے آپ ہیں میری اس حالت کی ذمہ داد،،،،،،" وہ نظریں جھکائے تیز لہجے میں شکست خوردہ سا بولا تو سکندر جعفری پیچھے موجود صوفے پر ڈھے سے گئے۔۔
بببب بیٹا ککیا ککہہ رہے ہو۔۔۔۔؟"رضیہ بیگم نے ڈرتے خوفزدہ سے ہوتے اسکے نزدیک ہوتے پوچھا تو اصلال ایک دم سے ہنسنے لگا اسکی ہنسی میں کچھ عجیب سی وخشت برپا تھی شایان جعفری سمیت سبھی چونک سے اٹھے، کچھ تھا جو اسکے انگ انگ سے جھلک رہا تھا مگر وہ سب سمجھنے سے قاصر اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے،
وہی جو سچ ہے آپ نے میری ماں کو مجھ سے چھین لیا میرے باپ کو جھوت بولا انکے کرادر پر بہتان لگائے،" وہ غصے سے دھاڑتا ایک دم سے غضب ناک تاثرات سے بولا کہ ہال میں مکمل خاموشی چھا گئی ایسی خاموشی جو موت کے وقت چھائی ہو،،
نننننن نہیں ببب بیٹا وہ سچ میں ایسی تھی۔۔۔"؟" اصلال کی نفرت نے اس بھوڑے وجود کو جیسے بے جان کر دیا تھا وہ تڑپتے اپنے جھوٹ کو سچ کرنے کی کوشش کرتی بولیں تو اصلال نے قہر برساتی نگاہوں سے انہیں دیکھا ہر کسی کی نظریں اس بپھرے اصلال عالم پر تھیں۔
سچ ہے،،تو کھائیں میرے سر کی قسم کہ میری ماں بدکردار تھی اسنے میرے باپ کے ساتھ دھوکہ کیا وہ بدچلن تھی۔۔" دانت پر دانت جمائے وہ آج کسی بھی طور اپنی بات کو سچ کرنے کے دم پر تھا یہ سب تو وہ بہت پہلے سے جانتا تھا مگر کبھی اس بات کی کوشش نہیں کی کہ اپنی ماں کو انصاف دلائے، سب کے سامنے انہیں بے گناہ ثابت کرے،مگر آج وہ ایسا کر رہا تھا آخر کیوں،،،؟
ببب بیٹا___!" اگر جھوٹ بولا تو میرا مرا منہ دیکھیں گے سب۔۔کھائیں میرے سر کی قسم کی میری ماں بدکردار تھی۔۔۔۔" اس نے بولنے سے پہلے رضیہ بیگم کو تنبیہ کرتے انکا ہاتھ اپنے سر پر رکھا، جن کی آنکھیں اشک بار تھیں۔۔ وہ لب بھیںجتی سب سے نگاہیں چراتے جھٹکے سے اپنا ہاتھ اٹھائے ،سر بے بسی سے ہاں میں ہلا گئی۔۔۔
ہہہ ہاں ممم میں نے ججج جھوٹ بولا تھا۔۔" وو وہ ایسی نہیں تھی بب بس مممیں نے حسدد نفرت کی وجہ سے اسے سب کی نظروں سے گرانے کو جھوٹ بولا،،،" رضیہ بیگم نے بے باکی سے آخر کار اتنے برسوں کا اپنے اندر چھپایا یہ راز کھول ہی دیا تھا،جسے سنتے اصلال کے چہرے پر زہر خند سی مسکراہٹ نمودار ہوئی تو وہیں پیچھے کھڑے سہیل جعفری جو اپنے بیٹے سے معافی مانگنے اتنے عرصے کے بعد لوٹے تھے انکے ہاتھ سے بیگ گرتے زمین بوس ہوا جس کی آواز پر سبھی نے چونکتے پیچھے دیکھا جہاں وہ دروازے کے سہارے شکست خوردہ سے کھڑے تھے۔۔
************
ہاں بولو کیوں بلایا مجھے سب خیریت تو ہے،،،!" امل جو عجلت میں کہیں جانے کو تیار تھی اب اچانک سے قاسم کے بلانے پر وہ اسکی دھمکی سے خوفزدہ ہوتے ہوٹل آئی تھی مگر بظاہر وہ بلکل براعتماد تھی جیسے قاسم کی دھمکی یا کسی بھی بات کا اسے کوئی ڈر خوف نہیں تھا۔
تم نے ابھی تک جواب نہیں دیا میرے پرپوزل کا،"امل کے بےزار تنے نقوش کو دیکھتا وہ سنجیدگی سے مدعے پر آیا، امل نے جھنھلاتے اسے اگنور کیا وہ اپنے بیگ سے کچھ تلاش رہی تھی اسے تھوڑی دیر میں نکلنا تھا مگر بدقسمتی سے اسکا سامان ہی بیگ سے غائب تھا،
میں نے بتا دیا تھا ماما کو،تم سے مطلب___" وہ تڑخ کر بولتی قاسم کے ماتھے پر ڈھیروں بل نمودار ہونے کا باعث بنی،،،قاسم نے ایک دم سے دانت پیستے امل کے دائیں ہاتھ کو ٹیبل کے اس پار سے اپنی آہنی گرفت میں دبوچا،اہہہ جاہل انسان کیا کر رہے ہو بازو توڑو گے میرا چھوڑو میرا ہاتھ،،،" وہ چیختی اپنا ہاتھ چھڑانے کی سعی کرتے ایک دم سے چلّا پڑی، قاسم نے اس کی غیر متوقع حرکت پر ناگواری سے امل کے تپے تپے چہرے کو دیکھا،
تم نے انکار کس سے پوچھ کر کیا اور کس وجہ سے کیا۔۔؟"اب کی بار وہ دانت پیستے اس قدر غصے سے مگر دبے دبے لہجے میں غرایا تھا کہ امل کا سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھا وہ بس دھڑکتے دل سے اسکے ستے چہرے کو دیکھ رہی تھی جو واقعی کافی غصے میں دکھ رہا تھا،
ممم میری مرضی مجھے نہیں کرنی شادی،،" وہ تھوک نگلتے اپنے اعتماد کو بحال کرتے اونچی آواز میں بولی۔تو قاسم نے آس پاس بیٹھے لوگوں کو دیکھا جو انکی جانب متوجہ ہو رہے تھے،فرار چاہتی ہو مجھ سے ۔۔۔۔!" قاسم کے ایک دم سے کہنے پر امل نے چونکتے حیرانگی سے اسے دیکھا،
ممم مطلب،،،،،"اپنے خشک لبوں پر زبان پھیرتی وہ نظریں چرائے استفسار کرنے لگی قاسم مسکرایا تمہارا پاسپورٹ اور ٹکٹ میرے پاس ہے اور تمہاری ترقی کی ٹکٹ کینسل ہو چکی ہے ڈارلنگ،،،" وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے اطمینان سے بولتا اسکے سر پر بم گرا گیا امل نے منہ کھولے حیرت سے اسے دیکھا اسے کیسے پتہ کہ وہ ترقی جا رہی تھی،،
زیادہ زور مت ڈالو اپنے اس چھوٹے سے دماغ پر۔۔۔ابھی کے ابھی گھر جاؤ اور ساسوں ماں سے کہو کہ تمہیں اس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں اگر اگلے دو گھنٹوں میں مجھے پازیٹو جواب ناں ملا تو سوچ لو اگر تمہارے گھر سے تمہارا پاسپورٹ اور ٹکٹ غائب ہو سکتی ہے تو تمہیں غائب کرنا کونسا مشکل ہے،، باقی تم سمجھدار ہو،،،،"
وہ کندھے اچکاتے اسے نارمل سے لہجے میں بولا،جبکہ اسکے نارمل انداز میں چھپی وارننگ وہ واضخ مخصوص کر پائی تھی جبھی تو فوراً سے جگہ سے اٹھی تھی اسے کیا بتاتی کہ اسکی ماں تو اسکی مرضی کے خلاف پہلے ہی قاسم کی ماما کو ہاں کرنے والی تھی اسی وجہ سے تو وہ باہر بھاگ رہی تھی مگر یہ پلان بھی قاسم نے فلاپ کر دیا۔۔
اب کہاں جا رہی ہو،،،،،؟"قاسم نے اچکتے اسکا ہاتھ تھاما اور شریر لہجے میں پوچھا۔گھر جا رہی ہوں ہاتھ چھوڑو میرا،، وہ بے زار سی دانت پیستے کہتی اپنا ہاتھ چھڑائے وہاں سے نکلی،قاسم نے مسکراتے دور تک اسکی پشت کو گھورا۔
*************
عبادت،،،،،"وہ بپھرے تاثرات سے سرخ چہرے سے اوپر آتا کیز سے دروازہ کھولے اندر داخل ہوا مگر وہ سامنے کہیں بھی نہیں تھی اصلال تیزی سے ڈریسنگ روم کی جانب گیا جو اندر سے لاک تھا اصلال نے دانت پیستے دروازہ پیٹا تو عبادت لرزتی دروزے سے ٹیک لگائے نیچے بیٹھی،،، اصلال عالم کے ڈر کے آگے عبادت کی ناراضگی کہیں دور جا سوئی تھی،،،،،
دروازہ کھولو عبادت نہیں تو توڑ دوں گا،،،اصلال نے چیختے اونچی آواز میں اس وارن کیا جبکہ عبادت ڈرتے فورا سے اٹھی تھی اسکی سنہری آنکھوں میں خوف چھانے لگا،ٹھاہ کی زوردار آواز کے ساتھ دروازہ کھلتا چلا گیا،،،عبادت نے خوفزدہ سا ہوتے اصلال کو دیکھا جو بکھرے حلیے میں عجب سی وخشت بھری سرخ نگاہوں سے عبادت کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا،
عبادت کا وجود کپکپا رہا تھا اصلال کی بکھری حالت اسے گھبراہٹ کا شکار کرنے لگی جبکہ وہ قدم قدم اٹھائے اسکی جانب آیا جو مٹھیاں بھینجے آگے پیچھے دیکھ رہی تھی،اصلال نے اسکے بےحد قریب جاتے اسے خود میں بھینج لیا اتنا کہ اصلال کی شدت بھری سخت گرفت پر عبادت کو اپنی پسلیاں ٹوٹتی ہوئی سی محسوس ہونے لگی،،،
جبکہ اصلال عالم کی گرفت مزید بڑھتی گئی تھی سانس گھٹنے پر عبادت نے اپنے سرخ چہرے کو اصلال کی گردن سے اٹھانا چاہا مگر اصلال اسپے جھکا اسے مضبوطی سے خود میں بھینجے ہوئے تھا جبھی عبادت نے اپنے ہاتھ اسکی پشت پر مارتے اسے پیچھے کرنا چاہا جس کا اثر بھی ہؤا،وہ فورا سے پیچھے ہوتے عبادت کے بھیگے آنسؤں سے تر چہرے کو دیکھ ایک دم سے اسکے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے اصلال نے اپنے سلگتے ہونٹ عبادت کی پیشانی پر رکھے عبادت آنکھیں موندے اسکے لمس کو محسوس کرتی اپنی ہچکیوں کو دبانے لگی۔
وہ ساحر تھا ہمشیہ کی طرح اپنی ذرا سی قربت اپنے لمس سے اسے اپنے بس میں کرنے کی صلاحیت وہ اپنے اندر رکھتا تھا،اصلال نے فوراً سے اسکے نازک ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبوچا اور اسے ساتھ لیے باہر کی جانب بڑھا،عبادت نے حیرانگی سے اسے دیکھا،،،
چھوڑوں گا تو ہرگز نہیں،کسی بھی قیمت پر نہیں خود چلو گی تو مجھے خوشی ہو گی اگر نہیں تو مجھے لے جاتے ہوئے بھی کوئی پریشانی نہیں۔۔۔۔!"عبادت کے سرخ چہرے کو دیکھتا وہ کندھے اچکائے واضع بولا عبادت نے اسکی سرخ آنکھوں میں دیکھا جن میں رقم اذیت اسے جھنجوڑ گئی جبھی وہ بنا کچھ کہے اسکے ہاتھ پر گرفت سخت کرتے اسکے ساتھ ہمقدم ہوئی۔۔۔
اصلال نے سرد سانس اپنے اندر کھینچتے اپنے جلتے دل کو پرسکون کیا،،اور عبادت کو تھامے وہ تیزی سے نیچے اترا، جہاں موجود ہر کوئی شاک میں تھا وہ سب کو نظر انداز کیے اپنی گاڑی میں بیٹھ وہاں سے نکلا۔۔
******💝💝******
کسے ڈھونڈ رہے ہیں دولہا صاحب،"علی نے پیچھے سے آتے اشکان کی گردن میں ہاتھ حائل کیے شریر لہجے میں پوچھا،یار اصلال ابھی تک نہیں آیا اس سے کہا بھی تھی کہ دو دن پہلے آنا مگر یہاں تو وہ فنکشن پر بھی نہیں پہنچا،اپنی کمر پر ہاتھ ٹکائے اشکان نے غصے سے دانت پیستے اصلال کا سوچتے کہا، علی نے سر نفی میں ہلاتے اشکان کو دیکھا جو اس وقت ڈارک بلیو تھری پیس میں ملبوس چہرے پر ایک الوہی سی چمک لئے بے حد جاذب نظر دکھ رہا تھا اسکے چہرے پر پھیلی مسرت اسکے اندر کی خوشی کو عیاں کر رہی تھی،
یار اسکی شادی کو ابھی ہفتہ نہیں گزرا وہ اپنی بیوی کے ساتھ وقت گزارے گا یا میری طرح تجھ جیسے فضول کے شادی میں وقت گنوا دے،"اشکان نے دانت پیستے علی کے پیٹ پر کوہنی سے وار کیا تو وہ ہنستا پیچھا ہوا،چل بھابھی کے آنے کا وقت ہے۔۔"علی ایک دم سے اسکے گلے ملتے بولا تو اشکان کے لبوں پر تبسم بکھر سا گیا،
علی کے ہمراہ وہ سٹیج پر گیا جہاں سب بڑے اسے دعائیں دینے کیلئے اکٹھے تھے،تبھی ایک دم سے ہر طرف اندھیرا چھاہ گیا، ہال میں سرگوشیاں گونجنے لگی کہ ساتھ ہی سپاٹ لائٹ چھت کی اوپری حصے پر مرکوز ہوئی، سبھی نے گردن اٹھائے اوپر دیکھا جہاں سے مدہم میوزک کے ساتھ ایک دم سے سپاٹ لائٹ کی روشنی میں وہ ایک خوبصورت گول شیپ میں بنا جھولے نما سٹیج تھا جس کا رخ سٹیج سے دوسری جانب تھا سٹیج پر بیٹھی اوزگل کی گردن واضخ دکھائی دے رہی تھی۔
اشکان کے دل کی دھڑکنیں سست پڑنے لگی اور ساتھ ہی ایک دم سے تیز ہوئیں تھی لوگ مسمرائز سے دولہن کو دیکھنے کیلئے بے چین تھے صرف خاندان کے قریبی لوگ ہی فنکشن مدعو تھے مگر فنکشن کافی خوبصورتی سے رکھا گیا تھا یہ اشکان کی خواہش کو مدِنظر رکھتے کیا گیا تھا،،
بیک گراؤنڈ میں چلتا دھیما میوزک ماحول میں الگ سا سُر بکھیر رہا تھا، اشکان فریز سا سامنے دیکھ رہا تھا جہاں اسکی گل نظریں جھکائے بیٹھی اپنے بے تحاشہ حسن کے ساتھ اشکان صدیقی کے دل کی دھڑکنوں کو منتشر کر گئی، وہ دم سادھے اسے دیکھ رہا تھا جو اشکان کے پسند کیے ڈریس میں بلکل کوئی نازک گڑیا دکھ رہی تھی، اشکان ٹرانس کی سی کیفیت میں چلتا اسکے قریب گیا،
اسکا دل پسلیوں سے پٹھکتے باہر آنے کو تھا، وہ کب چلتا سٹیج کے قریب پہنچا وہ خود بھی نہیں جانتا تھا،اوزگل نے اپنی گھنی پلکیں اٹھائے اشکان صدیقی کو دیکھا جس کی آنکھوں میں اپنی محبت کے ہزاروں رنگ اسے نظریں جھکانے پر مجبور کر گئے،اوزگل نے بے ساختہ نگاہیں جھکا لیں۔
اشکان نے اپنا مضبوط ہاتھ اسکے سامنے پھیلایا جسے اوزگل نے تھام لیا،چاروں اطراف سے ایک سے تالیوں اور ہوٹنگ کا شور گونج اٹھا،،
جب اشکان نے اوزگل کے دونوں ہاتھوں کو تھامے اسکے بے حد قریب ہوتے اپنے سلگتے ہونٹ اوزگل کی پیشانی پر رکھے پر وہ شرم و حیا سے جھجھکتی آنکھیں موند گئی، سرخ گلاب کی پتیاں جابجا ان دونوں پر برس رہی تھیں، اشکان کے ہمقدم ہوتے وہ سٹیج پر اسکے ساتھ آئی تو اشکان نے اسے نرمی سے اسے بٹھایا اور خود اسکے قریب بیٹھنے لگا مگر اسکی کزنز بھاگتی اسے پیچھے کیے فورا سے اوزگل کے ساتھ جڑتے بیٹھیں۔۔
ارے اٹھو تم سب یہ میری جگہ ہے۔۔۔"ماتھے پر بل ڈالے اشکان نے ان سب کو گھورا،تو سبھی اسکی غیر ہوتی حالت پر قہقہ لگانے لگیں۔۔ نہیں بھئی جیجا جی ہماری حسین پری کے ساتھ آپ کو بیٹھنا تب ہی نصیب ہو گا جب آپ ہمارا نیگ دیں گے۔۔" سبھی نے یک زبان کہا تو اشکان نے ماتھے پر بل ڈالے اوزگل کو دیکھا جس سے ایک منٹ کی دوری بھی اب محال تھی، وہ فورا سے جیب سے والے نکالتا انکو تھما گیا۔۔۔۔اشکان کے اتنی جلدی مان جانے پر وہ سبھی حیران ہوئی مگر فورا س جگہ سے اٹھی تھیں،
اشکان پوری طرح سے پھیلتا گل کے قریب بیٹھا، یہ کیا ہے اس میں دو صرف دو سو روپے ہیں،،،"وہ سبھی ایک دم سے چیختے والٹ سے سو سو کے دو پرانے نوٹ نکالتے چیخ ہی تو پڑی تھی، جب تک سب سمجھتے اشکان کا جاندار قہقہ سب کو ہنسنے پر مجبور کر گیا،تم سب کو کیا لگتا ہے کیا میں نہیں جانتا ان رسموں کو،،، کیا یاد کرو گی،میرے جتنا نیگ کبھی کسی دولہا نے نہیں دیا ہو گا،وہ فخریہ اپنے بالوں کو سیٹ کرتا ہنستا بولا تو اوزگل کے چہرے پر مسکراہٹ رقص کرنے لگی،
یہ تو چینٹنگ ہے،ابکی بار علی بھی لڑکیوں کی سائڈ ہوتے اونچی آواز میں اجتجاج کرتے بولا تو اشکان نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا، جانتا تھا بس نمبر ٹاگنے کو کر رہا تھا کمینہ یہ سب۔اشکان نے سر جھٹکتے اوزگل کے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لیا،تو اوزگل گھبراتے اپنا ہاتھ کھینچنے لگی،
مگر اشکان کی گرفت مضبوط تھا بالآخر ایک گھنٹے کی بحث کے بعد سب رسموں کی ادائیگی ہوتے ہی رخصتی کا شور گونجا،اوزگل کا سانس بھاری ہونے لگا دل اتنی شدت سے دھڑک رہا تھا جیسے جانے ابھی پھٹ کر باہر آ جائے گا اپنے ماما پاپا کے ساتھ گزارے وہ خوبصورت لمحات کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا اسے،
سیاہ جھیل سے نین پل بھر میں آنسوں سے بھر گئے،اپنے پاپا کے سنگ چلتی وہ باہر تک آئی تھی،اظہر صدیقی نے اپنے جگر کے گوشے کو اپنے سینے میں بھینج لیا،انکا دل اپنی لاڈلی کو خود میں چھپا دینے کا تھا مگر یہ مجبوری تھی آج نہیں تو کل اپنی بیٹی اپنی پری کو رخصت کرنا ہی تھا،فرخندہ بیگم اسے سینے سے لگائے اپنی ممتا کی پیاس بجھاتی رہیں مگر دل کو کسی بھی طور سکون نہیں تھا،
اوزگل بری طرح سے رو رہی تھی اسکا پورا وجود بری طرح سے رونے سے لرز رہا تھا،اشکان نے اسے خود سے لگائے گاڑی تک لے جاتے اسے اندر بٹھایا تھا، اور پھر خود فرنٹ سیٹ سنبھالتے گاڑی جلدی سے سٹارٹ کی،
************
اشششکان یہ ہہہہ ہم کہاں جا رہے ہیں،،،؟" اپنے آنسوں صاف کرتے گل نے جب ان انجان رستوں پر نظریں دوڑائیں تو وہ حیرت زدہ سی ڈرتی پوچھنے لگی،اشکان نے گردن گھمائے اپنی نئی نویلی دلہن کو دیکھا جس کا ہتھیاروں سے لیس یہ روپ اسے بری طرح سے گھائل کر رہا تھا،ہم سب سے دور جہاں پر کوئی بھی ہمیں ڈسٹرب کرنے والا ناں ہو،"گل کے ہاتھ کو محبت سے ہونٹوں سے چھوتے وہ گھبیر لہجے میں بولا تو اوزگل نے تھوک نگلتے اپنے حلق کو تر کیا اشکان کے ساتھ وقت گزارنا اسکی بولتی آنکھوں سے بچ پانا کس قدر مشکل تھا یہ کوئی اس وقت اوزگل اشکان صدیقی سے پوچھتا۔۔
گاڑی ایک دم سے رکی،تو اوزگل نے آنکھیں پھیلائے آگے پیچھے دیکھا سامنے ہی ایک خوبصورت سا ہٹ بنا تھا جس تک جاتا سارا راستہ لائٹوں آور پھولوں سے مزین پررونق ایک الگ سا سما بنا رہا تھا،
اشکان نے باہر نکلتے گل کی سائڈ کا دروازے کھولتے اپنا ہاتھ اسکے آگے پھیلایا جسے دیکھ گل نے اپنا کپکپاتا ہاتھ اشکان کے ہاتھ پر رکھا،
جسے تھامے اشکان اسے قریب تر کرتا گہری نگاہوں سے اوزگل کو دیکھے گیا اسکی نظروں سے اوزگل کو عجیب سی جھنجھلاہٹ ہونے لگی،دل کی حالت عجیب بے کیف سی تھی،اشکان نے نرمی سے اسے بانہوں میں بھرا، اشکان نے قدم جیسے ہی اس راستے پہ رکھے دونوں اطراف سے خوبصورت سی روشنیاں نکلتی ماحول کو پرسوز بنا گئی،
وہ دھیمے قدموں سے چلتا اپنی نظریں گل پر گاڑھے آگے بڑھ رہا تھا اسکا ہر اٹھتا قدم گل کے دل کی دھڑکنوں کو بڑھا رہا تھا، وہ چلتا ہٹ کے کھلے دروازے سے اندر داخل ہوا جسے اندر سے بھی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا،اشکان نے دھیرے سے گل کو سرخ گلابوں سے سجے بیڈ کے بیچوں بیچ بٹھایا اور خود دروازہ بند کرتا وہ واپس مڑا تو اسکے ماتھے پر بل نمایاں ہوئے،کیا ہوا تم ٹھیک تو ہو ناں گل،؟" اشکان متفکر سا گل کے قریب جاتے پوچھنے لگا جو بیڈ کے قریب کھڑی انگلیاں چٹخا رہی تھی،
ووو وہ دراصل ممم مجھے گٹھن ہو رہی ہے ان کپڑوں میں۔۔۔"کچھ ناں سوجھنے پر وہ فورا سے بات بناتے صفائی دینے لگی تو اشکان نے لب دانتوں تلے دبائے،مگر ابھی تک تو میں نے جی بھر کر تمہیں دیکھا بھی نہیں۔۔" وہ افسوس بھری نظروں سے معصومیت سے بولا تو گل کو بے بسی سی محسوس ہونے لگی،گل نے جھٹ سے اپنی سیاہ آنکھیں اٹھائے اشکان کی بولتی نگاہوں میں دیکھا اور پھر نظریں جھکا لیں،
آج کا دن میری زندگی کا سب سے حسین دن ہے گل۔۔!" گل کے نازک ہاتھوں کو اپنے پرحدت ہاتھوں کی مضبوط گرفت میں لیے اشکان نے اپنے سلگتے ہونٹ اسکی پیشانی پر رکھتے کہا،
تو گل اپنی پیشانی پر اشکان کے دہکتے ہونٹوں کے لمس پر خود میں سمٹنے لگی،اشکان نے اسے نرمی سے بانہوں میں بھرتے بیڈ پر بٹھایا، چاروں اطراف ہلکی سی روشنی معنی خیز سی خاموشی عجیب سا فسوں بکھیر رہی تھی،اشکان کا بھاری ہاتھ اوزگل کے سر پر خوبصورتی سے سیٹ ہوئے دوپٹے کو کھولنے میں مصروف تھا،اشششکان____"اوزگل نے ڈرتے اسے پکارا،تو اشکان نے مدہم سی روشنی میں اوزگل کی خوفزدہ سی نظروں میں دیکھا اور پھر مسکرائے اسکے گال پر لب رکھتے دوپٹہ اتارتے ایک جانب رکھا،
اپنی حدیں جانتا ہوں میں اوزگل اشکان صدیقی مگر____اس حسین رات کو تمہاری قربت میں مزید حسین بنانے کا یہ اتنا اچھا موقع میں کیسے گنوا دوں،،"اوزگل کی کمر کے گرد اپنا بھاری ہاتھ لپیٹتے اشکان نے اسے بے حد نزدیک کرتے جھکتے اسکے کان میں جان لیوا سرگوشی کی،تو اوزگل کے وجود میں ایک سنسنی سی دوڑی،اپنے چوڑیوں سے بھرے دونوں بازوؤں اشکان کے سینے پر رکھتے اوزگل نے اسے خود سے دور کرنے کی ذرا سی کوشش کی،جبکہ اشکان نے ایک دم سے اسکے ہاتھوں کو تھامے اپنی گردن کے گرد لیٹتے اوزگل کے کپکپاتے ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لیا،
*********
عبادت ہنوز خاموش بیٹھی اپنی انگلیاں چٹخا رہی تھی یہ کوئی عجیب سا رستہ تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ عالم اسے کہاں لے جا رہا تھا اور اب وہ جاننا بھی نہیں چاہتی تھی اس پر اعتبار کر کے وہ گھر سے نکل آئی تھی اب اسے اپنے اعتماد پر قائم رہنا تھا، عبادت نے چور نظروں سے اسے دیکھا جس کی کنپٹی کی ہری رگیں اُبھری ہوئی تھیں،،عبادت کو اسکے حالت کافی بے چین کر رہی تھی آخر وہ تھا کہاں اور یہ سب کچھ کیسے اور کیوں ہوا،،،؟ وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی جب گاڑی ایک زور دار جھٹکے سے رکی،عبادت کا سر ایک دم غیر متوقع طور پر زور دار جھٹکے سے ڈیش بورڈ پر لگنے لگا کہ معا اصلال نے اپنا ہاتھ رکھتے اسے بچایا۔
عبادت نے اپنی سنہری آنکھوں کو کھولے حیرت سے اسے گھورا، اور پھر اس جگہ کو،جہاں چاروں اطراف گھنا جنگل تھا،گہرے سناٹوں میں رات کی تاریکی میں گونجتی جانوروں کی عجیب سی آوازیں اسے خوف زدہ کر رہی تھیں،اپنے خوف میں مبتلا وہ یہ بھی ناں جان سکی کہ کب اصلال اسکا تھامے اسے باہر نکال چکا تھا،اور جب ہوش آیا تو خود کو اس کی آہنی گرفت میں دیکھ وہ بری طرح سے اچھلتی دو فٹ دور ہوئی۔
اصلال کو اسکی حرکت ناگوار گزری مگر وہ سرد سانس فضا کے سپرد کیے اپنا ماتھا مسلتے خود کو پرسکون کرتا آگے بڑھا تھا عبادت دھیمے قدموں سے چلتی اسکے ساٹگ ساتھ تھی مگر اچانک سے کسی عجیب سے جانور کی دہاڑ نما وخشت ناک آواز سنتے وہ چیختی اصلال کا بازو گرفت میں لیے کپکپاتے اسکے سینے میں سر دے گئی۔۔
اصلال نے اسکے سر سے ڈھلکے اس سفید آنچل کو چاند کی چمکتی روشنی میں دیکھا اور پھر نرمی سے اپنے ہونے کا احساس دلائے اسکا سر سہلایا،وہ پرسکون ہوئی تھی،مگر اب اس سے دور ہونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔
تین دن کی یہ ہجر کی کربناک راتیں اصلال عالم نے کیسے گزاری تھیں یہ وہی جانتا تھا،اصلال نے اپنے سینے سے لگے اس نرم روئی جیسے وجود کے گرد اپنا مضبوط حصار بنائے عبادت کی کمر کے گرد گرفت سخت کیے اسے ذرا سا اونچا کیا اور پھر اسکے دونوں ہاتھ اپنی گردن کے گرد حائل کیے اسے بچوں کی طرح اٹھاتے اپنے سینے میں بھینچ لیا۔
اسکی اچانک کی جانے والی اس حرکت نے عبادت کا سانس روک سا دیا وہ خود کو اصلال عالم کی گود میں وہ بھی اس سچوئیشن میں پاتی شرم سے پانی پانی ہوئی تھی جبکہ اصلال ہمیشہ کی طرح بنا نوٹس لیے اسے یونہی گود میں بھرے اپنا بھاری قدم دہلیز پر رکھتے آگے بڑھا تھا ایک ہاتھ سے کیز جیب سے نکالتے اسنے دروازہ کھولا، اور اپنا بایاں قدم آگے رکھا،
پورے فارم ہاؤس میں اس وقت حددرجہ گہرا سکوت چھایا تھا، عبادت نے تھوک نگلتے اس تاریکی میں ڈھلے درو دیوار کو دیکھا،اصلال اسکے ڈر کا نوٹس لے چکا تھا مگر بنا کچھ کہے وہ قدم در قدم چلتا آگے بڑھتے سیڑھیاں عبور کرتا اپنے مخصوص کمرے میں داخل ہوا جس میں وہ یہاں آتے قیام پزیر ہوا کرتا تھا۔
پاؤں سے دروازے کھولتے وہ اندر داخل ہوا تاریکی میں ڈھلا کمرہ اصلال کے قدم رکھتے ہی رنگ برنگی روشنیوں سے بھر گیا،
عبادت نے اتنی تیز روشنی پر آنکھیں سختی سے میچیں،اصلال نے بھرپور نظر پورے کمرے پر دوڑائی اور پھر چلتے عبادت کو نرمی سے بیڈ پر بٹھایا وہ ہنوز نظریں جھکائے فرش کو گھور رہی تھی مگر اسکی تیزی سے دھڑکتی ان دھڑکنوں کا شور اصلال کو اپنے بہکانے لگا کبھی وہ بنا کچھ کہے پیچھے ہوا تھا وارڈوب سے اپنا بلیک سوٹ نکالتے وہ شاور لینے کی غرض سے واشروم میں گھسا۔۔
پیچھے وہ انگلیاں چٹخاتی اب آگے کیا ہو گا۔ سوچ رہی تھی اسنے تو غصہ کرنا تھا اصلال پر نفرت دکھانی تھی پھر وہ کیوں بے بس ہو جاتی تھی اس شخص کے آگے، مگر اب اور نہیں عبادت نے سوچ لیا تھا جیسے ہی وہ باہر نکلے گا وہ اس سے ناراضگی دکھائے گی اور اس کمرے میں اسکے ساتھ تو ہرگز نہیں رہے گی۔
کلک کی آواز پر وہ خیالوں سے نکلتی گردن گھمائے اصلال عالم کو دیکھنے لگی جو اس وقت سیاہ شلوار پہنے اپنے برہنہ شفاف کسرتی سینے کے ساتھ بالوں میں انگلیاں چلاتا باہر نکلا تھا،عبادت جو ٹکٹکی باندھے اصلال کے بےسکون مگر حسین تنے نقوش جو بغور دیکھ رہی تھی اصلال کے گردن گھمائے دیکھنے پر وہ جھٹکے سے بیڈ سے اٹھی،
اصلال سمجھتا اپنے ہاتھ میں پکڑی قیمض صوفے کی جانب اچھالتا آگے بڑھا تھا اور اسے بازو سے تھامے دوبارہ سے بیڈ کے وسط میں کھینچتے اپنے قریب تر بٹھایا،عبادت جلدی سے بدکی مگر وہ ایک دم سے اپنا سر عبادت کی گود میں رکھتا اسے بت کا کر گیا عبادت اپنی گود میں رکھے اس جوان مرد کے سر کو دیکھتی اپنے لب کاٹنے لگی، اسکا دل مزید بے چین ہوا جیسے اب یقین ہو گیا ہو کہ واقعی وہ پریشان تھا۔
ععععالممم۔۔۔۔۔،،،"وہ گھبرائی سے خود سے ہی بات کا آغاز کرنے لگی مگر اصلال نے انگلی عبادت کی نرم پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پر رکھے اسے خاموش کروا دیا،،،،
"آج سے سات سال پہلے جب میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا تب پہلی بار میں اپنی امی کا پتہ ڈھونڈتا انکے گھر پہنچا،۔مگر وہاں سے خبر ملی کہ انکی شادی ہو چکی ہے، عبادت نے ماتھے پر بل ڈالے اپنے ہاتھ کی نازک انگلیاں اصلال عالم کے نم بالوں میں چلائی اصلال نے سر اٹھائے عبادت کو دیکھا جو متفکر تھی اصلال عالم کیلئے
،،،، وہ۔مسکرایا اسے دیکھ اور پھر سے آنکھیں موندے اس نرم آغوش میں اپنا سر چھپائے اپنی بات کا آغاز کیا۔
میری امی کا کرادر صاف ہے یہ میں پہلی سے جانتا ہوں کیونکہ مجھے یہ بات ماما (نضخت بیگم) نے بتائی تھی وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں اپنی بے گناہ ماں سے نفرت کروں ، میں جب وہاں پہنچا تو میری ماں کی حالت کسی اسی سالہ بھوڑیا کے جیسی تھی، وہ بے حد کمزور ہو چکی تھی،انکی آنکھوں میں ممتا کی ادھوری پیاس میں نے دیکھی تھی عبادت، وہ بنا کچھ کہے میرے سینے آ لگی اور کہا تو بس اتنا کہ______ اتنے برس انتظار کروا کر ماں سے ملنے آئے ہو اب تو موت بھی آنے والی ہے۔۔۔"
میرے آنسوں تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے میں نے تڑپ کر انکی پیشانی پر بوسہ دیا وہ مسکراتی اپنے اس چھوٹے سے گھر میں لے گئی انکی شادی کسی خان سے انکے بھائی یعنی میرے ماموں نے کر دی تھی، میرے علاؤہ انکے پانچ بچے ہیں دو بیٹے تین بیٹیاں جو بہت چھوٹے تھے۔
مجھے حیرت ہوئی عبادت کیونکہ وہ سب مجھے خود سے آ کر ملے اور میرا نام بھی لیا اور کہا کہ اماں نے آپ کا ذکر کیا ہے روز کہتی ہیں کہ آپ ملنے آؤ گے۔۔۔
میرے گلے میں آنسوں کا پھندا اٹک گیا انکے حالات بہت برے تھے عبادت، میرا سوتیلا باپ کسان ہے اور انکی آمدن سے گھر کا خرچ چلتا ہے،میرا ارادہ انکے پاس رہنے کا تھا مگر میرا دل بھر گیا تھوڑی دیر بیٹھا اور پھر واپس آ گیا وہ ساری رات میں سو نہیں سکا اپنے نرم بیڈ کو دیکھتا تو ماں کی ٹوٹی چارپائی آنکھوں کے سامنے آ جاتی اسکے بعد میں نیچے سونے لگا،اور پھر اپنی پاکٹ منی جوڑ کر میں نے کچھ رقم اکٹھی کی جب مہینے کے بعد ملنے گیا تو بہت خوشی سے امی کو دی مگر انہوں نے روتے ہوئے کہا میں تو تجھے آج تک کچھ نہیں دے سکی اب مجھے مزید شرمسار مت کرو،
میں نے وہ پیسے بچوں کو دے دیے میں جانتا تھا ماں نہیں لے گی مجھ سے۔۔۔۔۔۔، اسکے بعد میں کئی عرصہ نہیں جا سکا کیونکہ وہ جانے کہاں چلے گئے تھے بہت ڈھونڈا نہیں ملے مجھے،،، اصلال عالم کے آنسوں عبادت کی گود میں جذب ہو رہے تھے جبکہ وہ اپنے نازک ہاتھوں کے لمس سے اسے پرسکون کرنا چاہ رہی تھی نہیں جانتی تھی پگلی کہ اسکی قربت میں جو سکون اصلال عالم کو ملتا ہے وہ تو صدا سے اس سکون کا طلب گار تھا۔
وہ تو خود پر ہی حیران تھا جب وہ پہلی بار اس نئے رشتے سے عبادت کے قریب آیا تھا تو اسے کوئی دوسرا احساس نہیں تھا ہوا، بس سکون تھا ایسا سکون، جس کی تلاش میں وہ کئی کوچے بھٹک چکا تھا جبھی تو اسے ہر لحاظ سے وہ اپنا پابند کرنے لگا اور آج جب وہ اسکے پاس تھی تو غم تھا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا،،
میں نے بہت برا کیا تمہیں چھوڑ کر چلا گیا تمہارے جذبات کو روندھ ڈالا،،،اب وہ اسکے ہاتھ کو اپنے کھردرے مضبوط ہاتھ میں تھامے اپنے سینے پر دل کے مقام پر رکھتے جیسے اپنی دھڑکنوں میں ہوتی اس سرگم کو سنا رہا تھا، عبادت نے بے اختیار ہی نظریں چرائی،یہ تو سچ تھا کہ وہ خود بھی اصلال عالم کی قربت کی طلبگار بن بیٹھی تھی۔
کیونکہ میں پچھلے سات سالوں سے اپنی ماں کو تلاش رہا ہوں اور اس دن مجھے کال آئی تھی کہ وہ ایک گورنمنٹ ہاسپٹل کے بیڈ پر زندگی موت سے لڑ رہی ہیں،،مجھے کچھ بھی یاد نہیں رہا عبادت، میری آنکھوں کے سامنے میری ماں کا چہرہ تھا دھندلا سا، عبادت نے بے اختیار اصلال کے ہچکی بھرنے پر اسکی پیشانی سے سیاہ بال ہٹائے اپنے ہونٹ رکھے تو اصلال نے لب بھینچتے اپنے جذبات پر قابو کیا ورنہ دل تو دھاڑیں مار کر رونا کا کر رہا تھا۔
میں وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ انکے دل کا پروبلم کافی بڑھ چکا ہے دو وال بند ہو چکے ہیں اور اگر وقت پر آپریشن ناں ہوا تو سب کچھ برباد ہو جائے گا میں انہیں کھو دوں گا انکے چھوٹے چھوٹے بچے انہیں کھو دیتے میں اپنے جیسے اصلال عالم نہیں چاہتا تھا عبادت، میں نے انہیں فورا سے پرائیوٹ ہاسپٹل شفٹ کیا اور انکا آپریشن کرنے کا کہا ڈاکٹرز نے ایک دن بعد ساری رپورٹس کلیئر کرنے کے بعد اپریشن بتایا میرا فون گم ہو گیا جانے کہاں گیا مجھ علم نہیں تھا۔۔
کچھ ہوش نہیں تھا بس دل و دماغ میں جنم دینے والی ماں کو کھو دینے کا خوف کنڈلی مارے بیٹھا تھا،پھر اگلے دن انکا آپریشن ہوا، آپریشن کامیاب رہا تھا، اللہ نے انکو بچا لیا، پھر میں ان سے ملا۔۔۔۔۔ اصلال نے سر اٹھائے عبادت کی سنہری آنکھوں میں دیکھا جہاں اپنا عکس دیکھنا اسے بے حد اچھا لگتا تھا۔
دوبئی سے مسٹر جعفری سے جو پراپرٹی اپنے نام کرائی تھی وہ میں نے ماں اور انکے بچوں کے نام کر دی ،جب تک وہ ٹھیک ہوتی میں نے انکا نیا گھر لیا سامان سب کچھ سیٹ کیا اور انکے شوہر کو۔کپڑوں کی شاپ ڈال دی زیادہ بڑی نہیں مگر وہ بہت مخنتی ہیں، اپنی ساری جمع پونجی امی کے علاج پر لگا دی وہ کاروبار کو ترقی دیں گے،
جانتی ہو میں کچھ دیر کیلئے ملا تھا آتے وقت ماں سے،،،" اصلال نے کہتے سرد سانس اپنے اندر کھینچا عبادت کا دل زوروں سے دھڑک رہا تھا،،۔میں نے ان سے پوچھا کہ آپ مجھے کیوں چھوڑ کر آئی تھیں،،؟
جانتی ہو انہوں نے کیا کہا۔۔۔؟"
اسے دیکھتا وہ سیاہ نم آنکھوں سے بولا۔تو عبادت کی ہچکی سی بندھی اسنے سر نفی میں ہلا دیا،انہوں نے کہا کہ بیٹا کسی کی غلطی نہیں میرا قصور ہے جو میں اپنے بیٹے کو چھوڑ آئی،اپنے دل میں کسی کے لئے نفرت مت پالنا وہ سب تمہارے اپنے ہیں اور تمہیں انکے ساتھ اچھے سے رہنا ہے،مجھ سے زیادہ سنا نہیں گیا عبادت فورا سے اٹھا گھر تمہارے پاس آیا،مگر تم کمرے میں نہیں تھی بہت برا لگا مجھے مگر پھر جب تم ساتھ آئی تو دل کو سکون ملا کہ اصلال عالم اکیلا نہیں اس دنیا میں،،،تم ہو ناں میرے ساتھ،،"
عبادت کی آنکھوں میں دیکھتا جیسے یقین دہانی چاہتا تھا،عبادت نے جھٹ سے سر ہاں میں ہلایا،
مگر اپنے اندر ہوتی گھٹن پر وہ ایک دم سے اٹھتے باہر جانے لگا کہ عبادت نے اسکا ہاتھ تھام لیا، اس غیر متوقع ردعمل پر اصلال کی سیاہ آنکھیں عبادت کے انسوں سے تر چہرے پر پڑیں، وہ معصوم خود نہیں جانتی تھی کہ وہ کتنی بری طرح اصلال عالم کو اپنی جانب راغب کر رہی ہے۔۔
اصلال نے اپنے منہ زور ہوتے جذبات کو قابو کیے نظریں پھیرے اسے مخاطب کیا،،، عبادت ہاتھ چھوڑو،،،" کیوں آپ نے سگریٹ بھرنا ہے اپنے سینے میں،،،،،" وہ خفا خفا سی دانت پیستے بنا سوچے سمجھے بولی ،اصلال پہلے تو اسکے درست اندازے پر چونکا اور پھر ایک دم سے اسکی گردن کے گردن ہاتھ لیٹتے وہ جھک سا گیا عبادت کے چہرے پر۔۔۔
ایسے کہ اسکی سلگتی آگ کی تپش دیتی تیز سانسیں عبادت کے چہرے پر پڑ رہی تھیں، وہ آنکھیں مضبوطی سے میچ گئی، بہت عرصے کا ساتھ رہا ہے اس سگریٹ کا ہر غم بھلا دیتا ہے۔۔۔۔جذبات سے بوجھل لہجے میں ہر سوں پھیلی اس گہری خاموشی میں اصلال کی بھاری سرگوشی عجیب سا فسوں باندھ رہی تھی ماحول میں،،،تو میں ہوں ناں اسے مت پیا کریں،،،،"
اصلال کو جاتا دیکھ عبادت نے پھر سے اسکے بازو کو تھامے اصلال کے برہنہ چوڑے سینے سے نظریں چرائے کہا تھا اگر وہ چلا جاتا تو کیا ساری رات ان سگریٹوں کو پیتے اور روتے گزار دیتا اسی خوف نے اسے شیرنی بنا۔دیا تھا کہ وہ اسے روکنے کی جی توڑ کوشش کر رہی تھی،،
اشششش آج مت روکو مجھے عبادت،اگر آج رکا تو خود سے کیے ہر وعدے کو توڑ دوں گا۔۔" سرسراتے سے معنی خیز لہجے میں کہتے اصلال نے اپنے ہاتھ کی پشت سے عبادت کے سرخ رخسار کو سہلاتے ان لرزتی پلکوں کے کھیل کو گہری نظروں سے دیکھا۔
ننننن نہییں چاہے کچھ بھی ہو جائے اپپپپ کہیں نہیں جا رہے میں یہ گندا دھواں نہیں پینے دوں گی اس سے پھیپھڑے خراب ہوتے ہیں۔۔"عبادت نے اپنی سی کوشش کرتے جھلاتے ہوئے کہا تو اصلال عالم شدت سے اسکے لبوں کو اپنی دسترس میں لے گیا۔۔اسکے شدت بھرے لمس پر وہ اصلال کے خود پر جھکنے سے پیچھے بیڈ پر جا گری، اصلال عالم مدہوش سا اتنے دنوں کے بعد عبادت کی نرم سانسوں کو اپنی سانسوں میں اتارتا خود کو پرسکون کرنے لگا۔۔
چار سوں پھیلا گہرہ اندھیرا معنی خیز رات کے پہر اصلال عالم کو بہت کچھ کرنے کو بہکا رہے تھے، اصلال بمشکل سے خود پر پہرے بٹھائے پیچھے ہوا،،، دھواں پھیپھڑوں کیلئے نقصان دہ ہو سکتا مگر میرے لئے ان سانسوں سے کم نقصان دہ ہے، جو میں تمہارے لبوں سے خود میں انڈیل رہا ہوں۔۔۔"
بڑی مشکل سے خود پر ضبط کر رہا ہوں میں اگر آج کمزور پڑ گیا تو ہر حد توڑ دوں گا شکایت مت کرنا،" عبادت کے دوپٹے کو گردن سے نکالتے ایک جانب رکھتا عبادت کی شفاف دودھیا گردن کو گہری نظروں سے دیکھتے کہتا، جان بوجھ کر اسے خوفزدہ کر رہا تھا، ان دنوں وہ فیصلہ کر کے آیا تھا کہ ابھی عبادت کو کچھ وقت دے گا اپنے رشتے کی شروعات وہ فلحال نہیں کرنا چاہتا تھا مگر آج جیسے عبادت خود ہی اپنا آپ اس پہاڑ کو سونپنے کو تلی تھی جس کی ہر وارننگ وہ نظر انداز کر چکی تھی۔
اصلال نے ایک نظر اپنے نیچے چھپی اس معصوم لڑکی پر ڈالی جو صرف اور صرف اسکے غم میں ہلکان یہ قربت کے لمحات سہنے کو تیار تھی مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ اس غم سے پہلے ہی وہ بری طرح سے اسکے حواسوں پر کسی نشے کی طرح حاوی ہو چکی تھی۔۔۔
اصلال نے گہری نظریں عبادت کی بند آنکھوں پر ڈالی اور پھر سے اسکے ہونٹوں پر جھکتے عبادت کی نرم گرم سانسوں کو خود میں انڈیلا، اپنی کمر پر سرکتے اصلال عالم کے بھاری ہاتھ کو محسوس کرتی وہ جی جان سے لرزتے اسے خود سے دور کرنے لگی، دل الگ ہی اودھم مچا رہا تھا مگر اب اسے خود سے دور کر پانا عبادت کے بس کی بات نہیں تھی۔۔
ععععالم۔۔۔۔۔" اپنے کندھے پر اصلال عالم کے دہکتے ہونٹوں کا لمس، محسوس کرتی وہ بکھری حالت میں تیز تیز سانس لیتی ڈرتے خوف سے گھبراتی اسے روکنے کو پکارنے لگی، جبھی اصلال نے اسکے ہلتے لبوں کو اپنی قید میں لیتے، اپنے ہھاری ہاتھ عبادت کے نازک ہاتھوں میں الجھائے تکیے سے لگا دیے،،، عبادت کی مزاخمت اصلال عالم کی شدت بھری قربت میں دم توڑ گئی،رات مزید گہری ہوتی جا رہی تھی اور اس گزرتے وقت میں اصلال عالم کی جان لیوا شدتیں اسکا پاگل پن عبادت کو سہما گیا تھا،،،
وہ پوری طرح اسکے وجود پر قابض ہوتا عبادت کے پور پور کو اپنی محبت،اپنے ہونٹوں سے چھوتا اسے پاگل کر دینے کے دم پر تھا جو اب واقعی اسکے رک جانے پر پچھتا رہئ تھی۔۔ اس نازک وجود کی قربت میں اپنا ہر غم ہر درد تکلیف بھولے وہ آج اسے ہمیشہ کے لیے خود میں اتارتا اپنی میں پناہوں میں قید کر گیا۔
کھڑکی سے آتی تیز روشنی کے آنکھوں میں پڑتے ہی ایک ساتھ جانے کتنے ہی بل عبادت کے ماتھے پر نمودار ہوئے تھے،خود کو کسی مضبوط گرفت میں محسوس کرتے عبادت کے چہرے کے زاویے بری طرح سے بگڑے،
وہ کسمساتے ہوئے اپنی گردن سے آگے کی جانب آتا اصلال کا بھاری ہاتھ ہٹانے کی کوشش کرتے اپنی رت جگے سے سرخ پڑتی سنہری آنکھیں وا کیے سامنے دیکھنے لگی،
گزری رات کا ایک ایک پل کسی فلم کی طرح اسکی آنکھوں کے سامنے چلنے لگا،اصلال عالم کی نرم گرم سانس ابھی تک عبادت کی گردن پر پڑ رہی تھیں۔
عبادت نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے اصلال کے حصار کو توڑنے کی اپنی سی کوشش کی، جو کہ پوری طرح سے عبادت کو اپنے حصار میں قید کیے تھوڑی دیر پہلے ہی سویا تھا،
عبادت نے لب دانتوں تلے دبائے نرمی سے اصلال کے ہاتھ کو پیچھے ہٹانا شروع کر دیا، اسکا چہرہ سانس روکنے سے سرخ پڑ رہا تھا مگر وہ کسی بھی طرح کا رزک لے کر اسے جگانا تو ہرگز نہیں چاہتی تھی۔
مگر اب کسی بھی طور اصلال کے حصار میں رہنا بھی اب ممکن نہیں تھا،
بالآخر انتھک محنت کے بعد وہ سانس روکتے اصلال کے حصار کو توڑتی دھیرے سے اپنے دونوں پاؤں فرش پر رکھتے دھیرے سے اٹھی تھی اسکا سارا دھیان اصلال عالم کی جانب تھا،
وہ اس وقت اصلال کی بلیک کرتے میں تھی جو بڑا ہونے کی وجہ سے عبادت کے پاؤں میں بری طرح سے الجھ رہا تھا،اسکے دونوں بازوؤں بھی کہیں اندر ہی چھپ گئے تھے،
وہ دبے قدموں گردن گھمائے اسے دیکھتی اپنے سنہری چہرے پر آتے بالوں کو کان کے پیچھے اڑستے جلدی سے باہر نکلنا چاہتی تھی،
مگر اچانک بے دھیانی میں اسکا پاؤں بری طرح سے پاؤں تک آتے اصلال کے پہنے کرتے میں الجھا اور وہ اوندھے منہ نیچے گری تھی،فضا میں عبادت کی دلدوز چیخ گونجتی اصلال کو اپنی جانب متوجہ کر گئی،
وہ جو پہلے سے ہی اسکی حرکتوں اور خود کو چھڑوانے کی کوشش کے دوران جاگ چکا تھا مگر صرف یہ دیکھنے کیلئے کی وہ کیا کرتی ہے اصلال آنکھیں بند کیے سونے کا ناٹک کیے ہوئے تھا اب یوں اچانک عبادت کی چیخ پر وہ جھٹکے سے بیڈ سے اترتا اسکے قریب پہنچا۔۔
ایک دم سے عبادت کی کمر کے گرد اپنا بھاری ہاتھ لپیٹتے اصلال نے اسے بازو میں بھرتے خوفزدہ سا ہوتے عبادت کے چہرے پر آتے بالوں کو ہٹایا،عبادتتتت۔۔۔۔!"
وہ جو درد سے اپنے سرخ لب بھینچے ہوئے خاموش تھی اصلال کے چلاتے اپنا نام لینے پر وہ ڈرتے جھٹ سے آنکھیں کھولے خود پر جھکے اصلال عالم کو دیکھنے لگی جس کی سیاہ آنکھیں رت جگے اور کچھ عبادت کی اس حالت پر حدرجہ سرخ پڑ رہی تھیں۔
عبادت کا سانس سینے میں الجھا،ااصلال کی غصے بھری نگاہوں سے اپنی نگاہیں چرائے وہ اصلال کے شفاف سینے کو دیکھنے لگی، شرم و حیا سے چہرہ دہکتا انگارہ ہونے لگا تھا،
اپنی کمر کے گرد اصلال کی سخت ہوتی گرفت پر وہ بری طرح سے کسمسائی مگر خود کو اس چٹان سے اسکی مرضی کے بنا آزاد کروانا کہاں ممکن تھا،
عبادت کے پاؤں کی انگلی بڑی طرح سے مڑی تھی درد کی شدت کو سہتے وہ اصلال کے غصے سے پہ دم سادھے ہونٹ دانتوں تلے کچلنے لگی،
اصلال نے گہری نگاہوں سے اسکے سفید چھوٹے دانتوں کو دیکھا جن کے نیچے وہ بڑے مصروف انداز میں اپنے نازک ہونٹوں کو کچل رہی تھی،**
اہنی بانہوں میں موجود اس نازک جان کے وجود سے اٹھتی اپنی خوشبو کو محسوس کرتے عبادت کی لا پرواہ سی حرکتوں سے اصلال عالم کا سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھا تھا۔
اب آنکھیں میں گزری رات کے وہ دلکش مناظر لہرائے تھے جب عبادت اسکی پناہوں میں اسکے بے حد قریب تھی،اصلال نے سرد سانس فضا کے سپرد کیے اسے بانہوں میں بھرا،
اور گہری بولتی نظروں سے اپنی قمیض میں چھپے اس نازک وجود کو دیکھتے وہ چلتا بیڈ کے قریب جاتا اسے نرمی سے لٹائے اسکے قریب کھڑا ہوا،
عبادت خود کو پرسکون رکھنے کی سعی میں تھی وہ جانتی تھی اگر عالم کو اسکے پاؤں پر آئی چوٹ کا علم ہوا تو وہ صبح ہی صبح اسے بری طرح سے ڈانٹے گا،
کہاں جا رہی تھی تم۔۔۔۔!" اپنی ہی سوچوں میں گم وہ یہ بھی ناں جان سکی کہ کب اصلال عالم اسکے پاؤں کے قریب گیا تھا جو کہ اب اسکی انگلی کا معائنہ کر رہا تھا،
عبادت نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے سر تکیے سے اٹھایا اور اپنی انگلی کو دیکھتی وہ اصلال عالم کو دیکھنے لگی جس کی رگیں تن چکی تھیں،ووو وہ ممممیں کہیں نہیں جا رہی تھی،بس ایسے ہی اٹھی تھی،وہ فورا سے جھوٹ بولتی اس سے نظریں چرانے لگی،،
درد ہو رہا ہے،"عبادت کے سرخ پاؤں کو اپنی کھردرے ہاتھ سے چھوتے وہ گہرے خمار آلود لہجے میں پوچھنے لگا عبادت بنا سمجھے سر فورا سے نفی میں ہلا گئئ،
نہیں تو مجھے چوٹ آئی ہے کیا،،؟ مجھے تو معلوم بھی نہیں تھا کچھ نہیں ہوتا اتنی چھوٹی چھوٹی چوٹیں مجھے درد نہیں دیتی، "
وہ مصنوعی ہنستی اصلال کو ری لیکس کرنے لگی، اصلال اسکی آنکھوں اور پھر ہونٹوں کو دیکھ ائبرو اچکاتا سر ہاں میں ہلا گیا۔
اسکی گردن کو ہلتا دیکھ عبادت کو گڑبڑ کا احساس ہوا وہ تھوک نگلتے اصلال کی شفاف پیشانی پر آتے ان سیاہ بالوں کو دیکھنے لگی جو اسے مزید پرکشش بنا رہے تھے یا پھر وہ آج عبادت کو کچھ زیادہ حسین دکھ رہا تھا،۔
اچھی بات ہے جو تمہیں درد نہیں ہے۔۔"اصلال نے کہتے ساتھ ہی عبادت کے پاوں کی انگلی کو اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں میں ہلکا سا دبایا۔۔
آہ ننن نہیں ععععالممم درد ہے بہت زیادہ پلیز مت کریں درد ہو رہا ہے۔۔۔۔۔"
اپنی سنہری سرخ ہو رہی آنکھوں میں آنسوں لائے وہ ہونٹ پھیلائے اس انداز سے بولی کہ اصلال کو جی بھر کر اس پر پیار آیا،اصلال نے ایک نظر اپنے سیاہ کُرتے میں ملبوس اس نازک وجود پر ڈالی جو کہ بلکل چھپ سی گئی تھی اس کے کُرتے میں،
وہ گہرا سانس اپنے اندر لے جاتے اٹھا تھا اور چلتے کھڑکی کے قریب جاتے پردے برابر کیے،
عبادت نے حیرت سے اصلال عالم کی چوڑی پشت کو گھورا وہ سمجھ ناں سکی کہ وہ کیا کر رہا تھا،اسے مڑتا دیکھ عبادت نے جھٹ سے سر تکیے پر گرائے رخ پھیرا،
کمرے میں ہوتے گھپ اندھیرے کو دیکھ وہ سچ میں سہم سی گئی،عععع عالمممم___"اپنی بے انتہاء قریب اصلال عالم کی خوشبو کو محسوس کرتی وہ جھٹ سے اٹھ بیٹھی تھی،دھڑکنیں بے حد تیز تھیں،
وہ گھبرائی سی آگے پیچھے دیکھتے اسے ڈھونڈنے لگی جب اچانک سے اصلال نے اسکی کمر کے گرد ہاتھ لپیٹتے اسے کھینچتے خود پر گرایا،اہہہ___،
وہ خوفزدہ سی چیخنے لگی کہ اصلال نے اپنا بھاری ہاتھ اسکے ہونٹوں پر رکھتے اسے خاموش کروا دیا،
عععالمممم سسوری اب سے ایسا نہیں کروں گی،پپلیز معاف کر دیں،اصلال نے جھٹکے سے اسے تکیے پر ڈالے اپنے سلگتے ہونٹ عبادت کی گردن پر رکھے،تو عبادت ڈرتے اس سے معافی مانگنے لگی اسے لگا تھا کہ شاید وہ اسے سزا دے رہا ہے عبادت کے یوں بنا پوچھے اٹھنے اور پھر اس چوٹ کی وجہ سے،،
اشششش کون کافر اتنی حسین صبح کو سزا دینے میں برباد کرے گا،"خمار آلود گھمبیر لہجے میں عبادت کے کان میں جھکتا وہ معنی خیز سی سرگوشی کرتا اپنے دہکتے ہونٹ اسکے کان کی لو پر رکھتے بولا ،
تو عبادت اسے پھر بہکتا دیکھ گھبراتی اسکے سینے پر اپنے نازک ہاتھ رکھے اسے خود سے دور کرنے لگی،
ممم مجھے نیند آئی ہے عالم پلیز۔۔۔۔،"مسلسل اصلال عالم کی بڑھتی گستاخیوں سے وہ گھبراتی منت بھرے لہجے میں بولی،کہاں ممکن تھا اس نازک سی جان کیلئے اصلال عالم کی شدتوں کو دوبارہ سے جھیلنا،،
میری نیندیں اڑا کر خود نیند کی طلب کرنا کہاں کا انصاف ہوا،،" عبادت کے نقوش کو اپنے دہکتے ہونٹوں سے چھوتے وہ شریر لہجے میں معنی خیزی سے بولا تو عبادت کی پلکیں لرز پڑیں۔
وہ آنکھیں موندے گہرے سانس بھرتے اپنے نقوش پر اصلال عالم کے شدت بھرے لمس کو محسوس کرتے بے بس سے اسکے حصار میں پڑی تھی،
اصلال نے مسکراتے اسکی بند آنکھوں پر اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑا اور ایک بار پھر سے اس نازک وجود میں گم ہوتا چلا گیا
🖤🤍🤍🖤🤍🤍🖤
اشکان پلیز اٹھیں ناں مجھے گھر جانا ہے،،"اوزگل جھنجھلائی سی اسکے سر پر کھڑی کب سے اشکان کو اٹھانے کی ناکام سی کوشش کر رہی تھی جو ایسے پرسکون سویا تھا جیسے آج سے پہلے ایسی نیند میسر ہی ناں ہوئی ہو، اششکانننن،،،،"
چپ کرو یار سو جاؤ تم بھی،مجھے محسوس کرنے دو خود کو،" نیند سے بوجھل اپنی سرخ ہوئی آنکھوں کو کھولے وہ بھاری لہجے میں اپنے برابر گری گل کی پھیلی آنکھوں میں دیکھتا محبت سے بولا،
ننن نہیں ہم گھر چلتے ہیں مجھے عجیب لگ رہا ہے یہاں پر،"
اشکان نے جیسے ہی اسکی کمر کے گرد ہاتھ حائل کیے اسے خود سے نزدیک کیا تو اوزگل نے جھلاّتے ہوئے کہا، کیوں عجیب لگ رہا ہے تمہیں۔۔۔۔"
اشکان نے آنکھیں چھوٹی کیے اوزگل کی جانب دیکھا، گزری رات کے ایک ایک لمحے کو سوچتے اشکان کے ہونٹوں پر خوبصورت مسکراہٹ رقص کرنے لگی،
پوری رات اوزگل کے ساتھ باتیں کرتے اسے اپنی محبت اپنی فیلنگز اپنے خواب کیا کچھ نہیں سنایا تھا اشکان نے، گل کے دل میں جو تھوڑی بہت گھبراہٹ تھی وہ بھی اب اشکان کے محبت بھرے رویے سے بلکل ختم ہو گئی تھی،
جبھی وہ اس طرح سے بلکل نڈر ہوتے بات کر رہی تھی اس سے۔۔۔!
اشکان میرا گفٹ کہاں ہے،،"ایک دم سے اسے یاد آیا تو وہ سر اشکان کے چوڑے بازو پر رکھتے بلکل بیویوں کی طرح ائبرو اچکائے پوچھنے لگی،
اشکان کو بے ساختہ ہی اس پر جی بھر کے پیار آیا جس کا اظہار وہ فورا سے کر بھی گیا، اسکی گستاخی پر گل نے اپنے سرخ ہو رہے چہرے کا رخ موڑتے لب بھینچ لیے، اشکان اسکی کیفیت سے لطف اندوز ہوتے لب دانتوں تلے دبا گیا۔
ڈونٹ ڈُو دِز گل جانم۔۔۔۔ اب عادت ڈال لو کیونکہ اب تو میرے پاس پرمنٹ بھی آ گیا ہے،,
اب یہ چھوٹی موٹی گستاخیاں تو تمہیں اپنی نازک جان پر سہنی ہی ہونگی۔۔"
اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لیتے اشکان نے اوزگل کی پشت کو سینے سے لگائے کہا تو اوزگل کی پلکیں لرز پڑیں،اشکان کی بے باکیوں سے بچنے کیلئے وہ جلدی سے آنکھیں موندے سونے کی کوشش کرنے لگی کہ اسکی چالاکی پر اشکان نے قہقہ لگاتے اسے خود میں بھینچ لیا۔
💗🔲💝💝💟🔲💗
کیا ہوا کال پک کی اصلال نے___"شایان جعفری مسلسل ٹہلتے بے چینی سے آنش کے قریب آتے پوچھنے لگے،کو کل رات سے وہ مسلسل اصلال کا نمبر ٹرائے کر رہا تھا جو کہ بند تھا،،
پاپا بیل جا رہی ہے۔۔۔۔مگر بھائی کال نہیں پک کر رہے،،،"آنش نے گھبراتے ہوئے شایان جعفری سے کہا ، جن کے چہرے پر خوف کے بادل منڈلا رہے تھے۔
عالم پلیز اٹھا لیں کیا پتہ کوئی ضروری کام ہو۔۔" عبادت نے سہمی نگاہوں سے اپنے سامنے بیٹھے اصلال عالم کو دیکھتے کہا ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی وہ اٹھا تھا۔
عبادت کو سوتا دیکھ وہ مسکراتا فریش ہوتے نیچے آیا اور کچن میں جاتے اچھا سا بریک فاسٹ اپنے ہاتھوں سے تیار کیا،تب تک عبادت بھی فریش ہوتی نیچے آئی تھی،،
جسے دیکھتے اصلال نے مسکراتے اسکی پیشانی پر بوسہ دیا اور پھر اپنے منگوائے کپڑے اسے تھمائے چینج کرنے کا کہتے وہ ٹیبل سیٹ کرنے لگا،
تبھی عبادت چینج کرتے نیچے آئی تو اصلال نے مصروف سے انداز میں جب نظریں اٹھائے سامنے دیکھا تو کتنی دیر وہ ساکت سا رہ گیا تھا، سلور کلر کی گھٹنوں تک جاتی خوبصورت سی شارٹ فراک جس پر سلور اور گولڈن رنگوں سے خوبصورتی سے ہوا کام مزید جاذب نظر بنا رہا تھا،
فراک کے ساتھ چوڑی دار پاجامہ زیب تن کیے،سنہری بال جو کہ نم ہونے کے سبب کیچر سے بس ذرا سا کلوز کیے تھے،
نکھرے نکھرے روپ میں وہ خود میں اصلال عالم کی چاہت کے سارے رنگ بھرے اصلال کو ساکت سا کر گئی،اسکا نکھرہ نکھرہ روپ اصلال کو بے خود کر رہا تھا،وہ ٹرانس کی سی کیفیت میں چلتے عبادت کے قریب گیا،
اور نرمی سے اسے حصار میں لیتے خود میں بھینچ لیا۔
عبادت ہنوز خاموش اسکے حصار میں کھڑی تھی،اصلال نے محبت سے عبادت کی پیشانی پر بوسہ دیے اسکا ہاتھ تھامے اسے ساتھ لئے ٹیبل تک گیا،اور پھر نرمی سے کرسی پر بٹھائے اسکے سامنے بیٹھا،
اپنے ہاتھوں سے اسے کھلاتے وہ مسلسل عبادت کے تاثرات ابزرو کر رہا تھا جو اسکی گہری نظروں سے جزبز ہوتے آنکھیں جھپکتے خود کو پر سکون کرنے کی سعی کر رہی تھی، مگر خود پر اسکی گہری نظروں سے وہ جھنجھلائے اسے موبائل فون کی جانب راغب کرنے لگی۔
رہنے دو جو بھی ہوا خود تھک کر رکھ دے گا فون،" اصلال نے موبائل کو اگنور کرتے عبادت کی جانب دیکھتے کہا تو وہ برے سے منہ بنائے خود ہی فون اٹھانے لگی ۔
کہ اصلال نے جھٹ سے سیل اٹھایا،مگر سامنے آنش کا نام دیکھ اسکے ماتھے پر بل نمودار ہوئے،
فورا سے کال پک کرتے وہ اٹھتا ایک سائڈ ہوا، ہلیو،،" بھائی کہاں ہیں آپ رات سے نمبر بند جا رہا ہے آپ کا ٹھیک تو ہیں آپ اور عبادت وہ کیسی ہے۔۔۔۔"
آنش نے چھوٹتے ہی ایک ساتھ جانے کتنے سوال پوچھے تھے،اصلال نے گردن گھمائے پیچھے دیکھا جہاں عبادت اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
ہاں ٹھیک ہیں ہم تم بتاؤ کوئی کام ہے ورنہ میں کال رکھوں۔۔"وہ سخت لہجے میں بولا اسکا کوئی ارادہ نہیں تھا واپس جانے کا وہ عبادت کے ساتھ یہیں رہنا چاہتا تھا کچھ عرصہ کیلئے ،جبھی جلدی سے بات ختم کرنا چاہی۔۔
بھائی دادو ان کی طبیعت ٹھیک نہیں،کل رات سے ہاسپٹل میں ہیں سب آپ پلیز آ جائیں جلدی سے آپ کو یاد کر رہی ہیں وہ،"آنش نے اسے آگاہ کیا تو اصلال کے ماتھے پر بل نموداد ہوئے، اچھا تو میں کیا کروں اب مجھے کال کر کے ڈسٹرب مت کرنا۔۔"
انتہائی روکھے لہجے میں۔ کہتا وہ کال کٹ کرنے لگا کہ آنش کی اسپیکر سے آتی آواز نے اسے روک لیا۔۔
بھائی ڈاکٹرز نے کہا ہے کہ دادو کے پاس وقت بہت کم ہے انکا بچ پانا انتہائی مشکل ہے آپ پلیز ایک بار ان سے مل لیں وہ آپ کو یاد کر رہی ہیں۔۔"
اصلال نے مٹھیاں بھینچتے اپنی سرخ لہو رنگ آنکھوں کو موندا،
کون سے ہاسپٹل۔۔۔"وہ شدت ضبط سے جبڑے بھینچے اپنے اشتعال کو دبانے کی سعی کرتا ایک دم طیش سے پوچھنے لگا،سٹی ہاسپٹل آپ جلدی سے آ جائیں۔۔۔ اصلال نے سنتے کال کٹ کی۔۔
💟🖤🖤🖤🤍🖤🖤🖤💟
دادو_____"دروازہ کھولے وہ سرخ چہرے سے اندر آتے رضیہ بیگم کو پکارنے لگا جو بری طرح سے مشینوں میں جکڑی ایک ہی رات میں کوئی سو سال کی بیمار مریضہ دکھ رہی تھی
۔اصلال اور عبادت کو آتا دیکھ سبھی انکی جانب متوجہ ہوئے، سہیل جعفری دیوار کے ساتھ نیچے ٹیک لگائے شکست خوردہ سا بیٹھے تھے۔
سکندر جعفری تو گھر سے ہی نہیں آئے تھے وہ جانتے تھے اب کیا ہونے والا ہے مگر اپنی بیوی کے حسد سے تباہی ہوئی اپنے بیٹے کی گرہستی انکا ضمیر انہیں اجازت نہیں دے رہا تھا کہ وہ خود چل کر رضیہ کے پاس جاتے،
نضخت بیگم نے روتی ہوئی عبادت کو خود سے لگایا تو وہیں امل بھی جگہ سے اٹھتی اصلال کیلئے جگہ چھوڑتے پیچھے ہوئے تھی۔۔
اصلال عالم کی آواز پر انکی بھوڑی رات سے نم آنکھیں ہلکی سی وا ہوئی تھیں۔وہ ہاتھ کے اشارے سے اسے دیکھتے پاس بلانے لگی،اصلال بے جان قدموں سے چلتا انکے قریب گیا تھا، اصلللاللل۔"
اسکے ہاتھ کو اپنے بھوڑے ہاتھ میں لیے وہ آکسیجن ماسک اتارے اسے دیکھتی رو پڑی۔۔۔دادو میں آ گیا کچھ بھی نہیں ہو گا آپ کو۔۔۔اصلال نے روتے ہوئے انکے ہاتھ کو چومتے کہا تو وہ ہلکا سا مسکرا دی۔۔
بہت گناہ کیے ہیں مممیرے بچے، میں گگناہ گار سب برداشت کر سکتی ہوں ببب بس تم خفا مت ہو مجھ سے۔۔۔"وہ روتی اصلال عالم جو کہ ان کے قریب جھکا تھا
اسکے سر پر بوسہ دیے بولی،اپنے ہاتھوں میں اسے پالا تھا پھر بھلا کیسے اسکی ناراضگی اسکی نفرت جھیل لیتی۔
تتتم ممعاف کر دو اپپہنی دادی کو،،"اسکے چہرے کو ہاتھ پھیرتے وہ شرمندہ سی نم آنکھوں سے بولی تو اصلال نے شدت سے اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں سے کچل ڈالا،
اپپ معافی مت مانگیں دادو میں خفا نننن نہیں ہوں آپ سے۔۔۔وہ روتا مسلسل ان سے باتیں کر رہا تھا ہر آنکھ اشک بار تھی وہ سبھی جانتے تھے کہ اب رضیہ بیگم کا بچ پانا نا ممکن تھا،
تم سب کے ساتھ بہت نن ناانصافی کی میں نے اپنی بب بہوؤں پر ظلم کککیا۔۔اپنی ماں سے میرے لئے معاففی کی بھیک مانگنا کہنا ہو سکے تتت تو معاف ککک کر دے،اور اپنے باپ سے خفا مت ہونا اسے معاف کر دینا اسکی غلطی نہیں سب میری غلطی تھی ۔
اپپپنے دادا سے ککککہنا ہو سکککے تو مممجھ بوڑھی کو معاف کر دے۔۔۔اور تتتم سبب مممیرے جججانے کے بعد خوش رہنا ایک سساتھ اصصص۔۔۔۔۔۔"دادو"اپنے ہاتھ سے بے جان ہوتے گرتے انکے ہاتھ کو انکی بند ہوتی آنکھوں کو دیکھتا وہ وخشت زدہ سا چیخا تھا۔
ہاسپٹل روم میں ایک دم سے موت کا سا سماں بن گیا صرف ایک سہیل جعفری تھے جن کی آنکھوں میں ایک آنسوؤں بھی نہیں تھا،
*******▶️▶️▶️*******
اشکان کیا ہمارا جانا ضروری ہے،،،؟"اوزگل معصومیت سے منہ بنائے اسکے پیچھے کھڑے استفسار کرتی اپنی ناخن منہ میں ڈالے کتر رہی تھی، کتنی بار منع کیا ہے جانم ایسی حرکت مت کیا کرو،،!"
اشکان جو اپنا اور اوزگل کا سامان پیک کر رہا تھا جب گردن گھمائے اوزگل کو دیکھا جو منہ میں ناخن لئے کتر رہی تھی وہ فورا سے اسکے قریب جاتے اسے منع کر گیا۔
اوزگل نے ناک پھلائے رخ موڑ لیا مطلب کہ حد تھی اسکی بات کی کوئی ویلیو ہی نہیں تھی اشکان کے آگے۔۔۔"اشکان نے بغور اس نخریلی میڈم کو دیکھا،
جو اپنی ضد پوری ناں ہونے پر یوں نخرے دکھا رہی تھی،
گل ہم ساری عمر کیلئے نہیں جا رہے جان صرف چند دن کیلئے ایک ساتھ کچھ وقت گزارنا ہے مجھے،پوری زندگی تو یہیں رہے گے ناں سب کے بیچ سب کے پاس،،،"
وہ محبت سے اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھامے بھرپور محبت بھری نظروں سے دیکھتے بولا،تو اوزگل نے سرد سانس فضا کے سپرد کیا۔
آپ نے کہا تھا کہ ہم لوگ اصلال بھائی کے ساتھ جائیں گے، اب اسکے پاس ایک نیا بہانہ تھا وہ منہ بنائے اسے گھورتے سوالیہ نظروں سے دیکھتے بولی تو اشکان نے اسے دیکھ گردن نفی میں ہلائئ۔
تمہارا بھائی ابھی نہیں جا سکتا۔کیونکہ ابھی اسکی دادو کو گزرے ایک ماہ ہوا ہے اور عید پر بھی ہم کہیں نہیں جا سکے۔رمضان بھی گھر پر گزار دیا۔۔۔"
اشکان نے اسے دیکھتے تفصیل سے آگاہ کیا تو اوزگل نے رونے جیسی شکل بنائے اسے خود سے دور کیا جو بڑی ہی چالاکی سے اسے اپنے حصار میں قید کر رہا تھا،
اصلال اور اشکان کی دوستی کے سبب ہی اوزگل اصلال کو اتنے اچھے سے جانتی تھی اور اکثر انکی ملاقات بھی ہوتی تھی اسی وجہ سے اصلال اسے اپنی بہن مانتا تھا،
پیچھے ہٹو زیادہ تیز مت بنو، مجھے پھپھو کے پاس جانا ہے کچھ کام ہے،
تیزی سے اشکان کے حصار کو توڑنے کی کوشش کرتے وہ دانت پیستے جلدی سے بولی تو اشکان نے ہنستے اسے خود میں بھینچ لیا، ایسے کیسے میری معصوم جان سامان پیک ہے اور اب تو ہم ابھی نکلنے والے ہیں،،"
اشکان نے کہتے ایک دم سے اوزگل کی کمر کے گرد ہاتھ لپیٹتے اسے اپنے بے حد قریب کیا،اگر باہر کوئی ہوشیاری دکھائی تو ایک بات یاد رکھنا جانا تو تم نے میرے ساتھ ہی ہے، پھر وہاں چل کر میں اپنے حساب سے بدلے لوں گا کیونکہ وہاں کوئی بھی نہیں ہوگا جو تمہیں تمہارے معصوم ہبی سے بچا پائے،،
اشکان نے جھکتے گل کے کان میں رازداری سے کہا تو وہ تھوک نگلتے لب بھینچ گئی جانتی تھی اگر وہ کہہ رہا تھا تو وہ کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
💟💟💟🌹🌹💟💟💟
سناٹوں سے بھرے اس بڑے سے عالیشان فلیٹ میں اسکے بھاری پاؤں کی دھمک فضا میں ارتعاش برپا کر رہی تھی،
ایک کندھے پر اپنا لائٹ سلور کوٹ ڈالے شرٹ کے اوپری دو بٹن ہمیشہ کی طرح لاپرواہ سے کھولے وہ ماربل کی بنی ان شفاف سیڑھیوں پر اپنا بھاری سیاہ بوٹ میں مقید پاؤں رکھتے اوپر چڑھ رہا تھا،،
آنکھوں میں عجیب سی بے بسی سرد پن جمع تھا جیسے ہی وہ بھینچے جبڑوں کے ساتھ تنی رگوں کے ہمراہ اوپر اپنے کمرے کے قریب پہنچا کارٹ نکالتے ہی اسنے کراس کرتے ایک سائڈ بنے اس سوارخ میب کارڈ کو لگایا دروازہ گرین سنگلز کے ساتھ کھلتا چلا گیا۔۔
وہ پتھریلے تاثرات سے ہاتھ میں پکڑی جلی سگریٹ کا گہرہ کش لگاتا کوٹ ایک جانب اچھالتے ایسے ہی باتھ کی جانب بڑھا،،، سرد ٹھٹرا دینے والی سردی میں شاور سے گرتا یخ پانی کسی کے بھی اعصاب کو جھنجھوڑ سکتا تھا،
اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے وہ دس منٹ تک یونہی شاور لیتے باہر آیا، وقت دیکھا اور بنا چینج لیے سیل اٹھائے وہ سامنے موجود کھڑکی کے پاس کھڑا ہوا۔۔۔
ایک ماہ ہو گیا تھا اسے دوبئی آئے رضیہ بیگم کے انتقال کے بعد وہ کسی سے بھی نہیں ملا عبادت کو فورس کرنے کے باوجود بھی وہ ساتھ آنے کو نا مانی اور کچھ اپنی ذہنی کیفیت کی وجہ سے وہ غصے میں سب سے روٹھا دوبئی آ چکا تھا۔
مگر اس گزرے ایک ماہ میں سوائے عبادت کے اسکی بات کسی سے بھی نہیں ہوئی تھی کیونکہ وہ کسی سے بھی بات نہیں کرنا چاہتا تھا،،
اصلال نے شدید طلب محسوس کرتے وڈیو کال کی مگر دوسری جانب سے فورا سے کٹ کر دی گئی،یہ پہلی بار ہوا تھا کہ عبادت نے ایسی جرت دکھائی ہو،
وگرنہ وہ خاموشی سے کال پک کر لیتی تھی اور یہ عبادت کا ہی ضبط تھا کہ جو اس پتھر کو براداشت کرتی تھی کیونکہ اصلال نے اسے پہلے ہی دن سختی سے وارن کیا تھا۔
کہ کسی کو بھی اس بات کی بھنک نہیں لگنی چاہیے کہ تم مجھ سے بات کرتی ہو اور اس ایک ماہ میں ان چند لفظوں کے علاؤہ عبادت کے لاکھ چاہنے کے باوجود وہ کچھ نہیں بولا تھا بس وڈیو کال کرتا پوری رات اسے دیکھتا رہتا اور کئی بار تو عبادت موبائل آن رکھتے ہی ہاتھ میں پکڑے سو جاتی تھی،
کال پک کرو مسز عالم ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔" اصلال نے طیش سے دانت پیستے اسے کال کرتے کہا عبادت نے امل کو دیکھا جو اسے ہاتھ کے اشارے سے ری لیکس رہنے کا کہہ رہی تھی آپ نے بببات ہی تتتتو کرنی ہے آپ ایسے ہی کر لیں۔۔
وہ ہمت کرتے تھوک نگلتے سرخ چہرے سے خوفزدہ سی بولی، تم سے مشورہ نہیں مانگا میں نے آخری بار کہہ رہا ہوں اگر کال پک نہیں کی تو تمہارے باپ دادا بھی تمہیں اصلال عالم کے قہر سے بچا نہیں پائیں گے۔
امل نے ائبرو اچکائے عبادت کو دیکھا جو اسکے معنی خیز جملے پر یوں امل کے پاس بیٹھی سٹپٹاتے کال کاٹنے لگی کہ امل نے ہاتھ روک دیا۔۔۔اور اسے اصل بات کہنے کا اشارہ کیا
عععالمممم۔۔۔۔ آپ واپس نہیں آ رہے پاپا نے خلح کا کیس فائل کر دیا ہے پلیز آپ واپس آ جائیں،"
وہ معصومیت سے نم آواز میں اصلال عالم کے سر پر دھماکہ کر گئی، جسکے ماتھے پر ایک ساتھ جانے کتنے بل نمایاں ہوئے تھے
اسکی نظر تھی سب پر ایک ایک قدم پر وہ کڑی نظر رکھے ہوئے تھا مگر یہ سب کیا ہوا تھا اس بات کا علم اسے کیوں ناں ہو سکا، وہ ناراض تھا اپنے باپ سے اپنے دادا سے ، جبھی بنا کسی کی سنے بنا کسی کو معافی مانگنے کا موقع دیے وہ باہر چلا گیا
ایک بات یاد رکھنا عبادت اگر یہ جھوٹ ہوا تو تمہارے لئے بہت بھاری پڑنے والا ہے یہ جھوٹ۔۔۔"
اصلال نے اسے گہرے لہجے میں وارن کیا تو موبائل عبادت کے ہاتھ سے چھوٹ گیا ساتھ ہی کال ڈسکنیکٹ ہوئی تھی
کیا کر رہی ہو پاگل لڑکی اللہ اللہ کر کے وہ واپس آ رہا ہے اور تم کیا کرنے والی ہو فون دو ادھر عبادت۔۔۔"
عبادت کی اڑی رنگت کو دیکھ امل سمجھ گئی تھی کہ وہ ضرور اصلال کو کال کر کے سچ بتانے والی ہے۔۔ جبھی وہ جھپٹتے اسکے ہاتھ سے موبائل لینے لگی
نہیں امل۔۔۔تم نہیں جانتی وہ شخص کتنا بھیانک ہے اگر اسنے کہا ہے تو مطلب وہ مجھے سچ میں سزا دے گا بہت بڑی، پلیز سیل دو ہم کچھ اور طریقہ ڈھونڈ لیں گے عالم کو واپس لانے کا۔۔۔" عبادت نے صلح جو انداز اپناتے اسکی منت کی تھی جو اسکے فون آف کرتی اپنے ہاتھ میں تھامے کھڑی تھ
پاگل لڑکی وہ کچھ نہیں کہے گا بس اسکا غصہ تمہیں دیکھتے ہی محبت میں پگھل جائے گا، تمہارا یہ دمکتا حسن کس دن کام آئے گا۔۔۔"
وہ معنی خیزی سے اسے ٹہوکا مارتے بولی تو عبادت کا منہ کھل سا گیا وہ شرم سے لال انگارہ بنی اسے پیٹنے لگی،جو اب اپنی ہی کہی بات پر عبادت کے ری ایکشن پر قہقہ لگا رہی تھی
♡♡✿💖♡♡✿💖
اشکان میں نے کہا تھا کہ مجھے نہیں جانا آپ پھر مجھے لے آئے اتنی ٹھنڈی میں۔۔۔۔
اپنے ٹھنڈ سے سرخ ہو رہے چھرے سے وہ خفگی سے اسکا ہاتھ مضبوطی سے تھامے بولی تو اشکان نے مسکراتے اسے دیکھا
برف باری بہت زیادہ ہوئی تھی جس کی وجہ سے ان۔دونوں کے پاؤں برف میں دھنس رہے تھے،اوزگل اسکے بازوں کو تھامے احتیاط سے قدم اٹھائے چل رہی تھی،
ہم دنیا کے وہ پہلے کپل ہونگے گل جانم جو رات کے ڈیڑھ بجے گرم بستر کو ایک دوسری کی محبت بھری آغوش کو چھوڑتے اس برف باری کو انجوائے کرنے آئے ہیں
وہ شرارت سے گل کے گال پر لب رکھتے بولا تو اوزگل نے جھنجھلاتے سر نفی میں ہلایا۔۔بس یہی سب آتا ہے آپ کو ایسی باتیں کروا لو جتنی مرضی۔۔۔"
وہ تاسف سے گردن ہلاتئ بڑی عورتوں کی طرح بولی تو اشکان کا فلگ شگاف قہقہہ فضا میں گونجا
کیا آپ تھوڑی دیر ڈانس کریں گی میرے ساتھ۔۔۔۔"اپنی مقررہ جگہ پر پہنچتے اشکان نے گھنٹوں کے بل جھکتے اپنا ہاتھ گل کے سامنے پھیلایا،،
اوزگل تو بس حیرت زدہ سی اپنے آگے پیچھے دیکھ رہی تھی جہاں پر برف سے بنے بت کپل کی صورت میں انکے آگے پیچھے کھڑے تھے،
پوری جگہ ایک دم سے سنہری اور سفید روشنیوں سے جگمگا اٹھی،
ماحول میں بکھرتا فسوں میوزک کی دھنوں نے ایک الگ سا سماں باندھ دیا تھا یہ سب کچھ اسکے لیے حیران کن تھا،
اسے یقین نہیں ہو پا رہا تھا کہ یہ سب کچھ حقیقت میں ہوا ہے اور اشکان نے یہ سب کچھ گل کیلئے کیا ہے،
وہ مسکراتے نم آنکھوں سے اپنا ہاتھ خوشی سے پورے دل کے ساتھ اشکان کے ہاتھ میں تھما گئ،
اشکان نے اسکی کمر کے گرد ہاتھ حائل کیے اوزگل کا ایک ہاتھ اپنے کندھے پر رکھا اور پھر ہلکے ہلکے سے اسٹیپ لیتا وہ ساتھ ساتھ گنگنا رہا تھا،
" دل مانگ رہا ہے مہلت تیرے ساتھ دھڑکنے
تیرے نام سے جینے کی تیرے نام سے مرنے کی
تیرے سنگ چلوں ہر پل بن کر کے پرچھائی
اک بار اجازت دے مجھ خود میں ڈھلنے کی"
اشکان کی خوبصورت آواز اسکی آنکھوں میں جھلکتے جذبات یہ خوبصورت ماحول سب کچھ اسکے جذبات کی عکاسی کر رہا تھا،
اوزگل خود کو اس ماحول کا حصہ سمجھنے لگی، اشکان نے اسے کمر سے پکڑتے اٹھائے گول گول گھومتےچکر کاٹتے اسے خود سے بے انتہا قریب کیا،
کہ گل کا بھاری ہوتا سانس اشکان کی تپتی سانسوں میں دہکنے لگا،
اشکان بے خود سا ہوتے اوزگل کے کپکپاتے ان نازک لبوں پر جھکتا انہیں اپنی گرفت میں لیتا مدہوش سا ہو گیا۔۔۔۔؛
🌺🌺🌺🌺🌺🌺
🌺🌺🌺
عبادتتت،،،،"رات کے ساڑھے دس بجے وہ سب ایک ٹیبل پر خاموش بیٹھے کھانے کو ہمیشہ کی طرح سرد نظروں سے گھور رہے تھے جب ماحول میں ارتعاش اصلال عالم کی بپھری آواز نے ڈالا،ایک ماہ کے بعد اسکی آواز نے سکندر جعفری کے دل کو سرور دیا تو وہیں سہیل جعفری جھٹکے سے جگہ سے اٹھے تھے، رضیہ بیگم کے جانے کے بعد وہ سبھی ایک ہی گھر میں شفٹ ہو چکے تھے اور یہ بھی سکندر جعفری کے کہنے پر ہوا تھا۔
عبادت نے ڈرتے اپنے ساتھ بیٹھی نضخت بیگم اور امل کو دیکھا امل نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے اسے پرسکون کرنا چاہا تھا وہ تھوک نگلتے حراساں سی دروازے کی جانب دیکھنے لگی،
نازیہ بیگم اور فرزانہ دونوں ہی عمرے کیلئے روانہ ہوئیں تھی اپنی ماں کے لئے بخشش کے ساتھ ساتھ وہ اللہ سے اپنے کیے کی معافی بھی مانگنا چاہتی تھیں،
اصلال بیٹا آؤ میرے شیر،،،،،"سکندر جعفری نم آنکھوں سے بانہیں پھیلائے اسکی جانب بڑھے تھے،مگر وہ رکتا سب کو دیکھتے اب عبادت کو غصے سے گھور رہا تھا جو ناخن منہ میں ڈالے کتر رہی تھی،، عبادت ادھر آؤ،،،"وہ سب کو اگنور کرتے اونچی آواز میں عبادت سے مخاطب ہوا تو وہ ڈرتی اپنے پاپا کو دیکھنے لگی جن کی نظریں اسی پر تھیں،
شایان جعفری نے اسے آنکھوں ہی آنکھوں سے پر سکون رہنے کا کہا اور پھر چلتے اصلال کے قریب جاتے اسکا ہاتھ تھاما۔۔وہ جگہ سے ہلا تک نہیں مگر سر اور نظریں جھکی ہوئی تھی،ایک لگاؤں گا کان کے نیچے ابھی اتنے بڑے نہیں ہوئے تم جو اپنے باپ کا اشارہ ناں سمجھ پاو،،شایان جعفری نے اکڑتے اسے گھورتے مان سے کہا تو وہ لب بھینچ گیا ان سے بدتمیزی وہ کسی بھی صورت نہیں کر سکتا تھا۔۔
بابا بھائی سب آئیں مجھے بات کرنی ہے،اصلال کا ہاتھ تھامے وہ آگے بڑھتے سہیل جعفری اور سکندر جعفری سے مخاطب ہوئے،اور خود اصلال کو تھامے بڑے روم میں گھسے،،
پاپا مجھے کسی سے بات نہیں کرنی آپ جو بولیں گے میں وہ سنوں گا بس۔۔۔"وہ حتمی لہجے میں بولا تو سکندر اور سہیل جعفری نے ایک دوسرے کو دیکھا،، بیٹا ایک موقع تو دو سب کو کچھ کہنے کا اگر غلطی کی معافی ہم انسان ہی نہیں دے سکتے تو اللہ ہمیں کیسے معاف کرے گا،وہ ہمیشہ کی طرح اسے محبت سے سمجھاتے بولا تو لاجواب خاموش سا ہو گیا۔۔
اصلال میرے بچے مجھ سے کس بات پر خفا ہو میری جان، یہی کہ میں تمہاری دادی کے پاس نہیں گیا، میرے بچے میں کس منہ سے جاتا وہاں،،؟ کیا میرا ضمیر مجھے اجازت دیتا کہ وہ سکندر جعفری جو خاندان کا ہر فیصلہ انصاف سے کرتا ہے وہ اپنی بہو کے ساتھ ہوئے ظلم کیلئے اپنے بیوی کو معاف کر دیتا اور فورا سے اس سے ملنے چلا جاتا۔۔۔"
پھر بھی میں نے اس سے معافی مانگ لی ہے اب رضیہ مجھے معاف کرے یاں نہیں مگر مجھے تم معاف کر دو میں نے تمہارا دل دکھایا ہے۔۔"سکندر جعفری کہتے ساتھ ہی اسکے آگے ہاتھ جوڑنے لگے کہ اصلال نے آگے بڑھتے ان کے ہاتھ کو تھاما اور ایک دم سے انکے سینے سے جا لگا۔۔
کتنی ہی دیر وہ دونوں اپنا غم غلط کرتے رہے۔۔ بڑے بابا میں بس خفا تھا آپ سے اور کچھ بھی نہیں آپ ایسے معافی مانگ کر مجھے شرمندہ تو مت کریں۔۔
وہ نظریں جھکائے انکے ہاتھ پر بوسہ دیے بولا تو سکندر جعفری نے سکون بھرا سانس خود میں اتارا۔۔
بیٹا جو کچھ بھی ہوا۔سہیل کی اس میں کوئی بھی غلطی نہیں تم اسے معاف کر دو،،"سکندر جعفری نے اپنے تڑپتے بیٹے کو دیکھ اصلال سے کہا تو اصلال نے انہیں ٹوک دیا۔۔
بڑے بابا ایسا کچھ مت کہیے گا جو میرے لئے ممکن نہیں،انکی غلطی کیوں نہیں یہ بتائیں مجھے کیا مرد اتنا نا سمجھ ہو سکتا ہے کہ اسے اپنے بچے کی ماں اپنی بیوی جس کے ساتھ اسکا تا عمر کا ساتھ رہنا ہو اس پر ایک پل کو بھی یقین نہیں کر سکتا،اس کی کسی بھی بات کو سننے کے بجائے اسے بنا بولنے کا موقع دیے گھر سے طلاق دے کر نکال دے،
نہیں بابا ایسا صرف تبھی ہوتا ہے جب مرد کا اعتبار کمزرو ہو ،عورت تو مرتے دم تک مرد سے وفا نبھا جاتی ہے مگر مرد کیسے اپنی بیوی پر یقین نہیں کر سکتا، اگر دادی لوگوں نے انکو ورغلایا تو ان کے دل میں کوئی خلش تھی انکے اعتبار کی بنیاد کمزور تھی جو ایسے ٹوٹ گئی۔۔۔ مجھ سے معافی کی بھیک مت مانگیں وقت لگے گا مجھے، جب دل سے یہ سب کچھ اتر گیا تو خود ہی انکو معاف کر دوں گا۔۔ اپنی بات کہتا وہ تیزی سے کمرے سے نکلا تھا،۔سہیل جعفری شکست خوردہ سے ڈھے سے گئے۔۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥
امممل پپلیز دروازہ مت کھولنا،،،،"عبادت جو اصلال کے آتے ہی امل کے کمرے میں چھپی ہوئی تھی اب اصلال کے دستک دینے پر وہ خوفزدہ سی ڈرتے ہوئے بولی تو امل نے سر ہاں میں ہلائے اسے تسلی دی۔۔۔
تم ایسا کرو ڈریسنگ میں چھپ جاؤ، میں اس سے کہتی ہوں کہ تم یہاں نہیں ہو اوکے۔۔۔۔"امل نے چالاکی سے نیا پینترا پھینکا تو عبادت فورا سے سنتی سر ہاں میں ہلائے ڈریسنگ میں گھسی تھی۔۔
کیا ہے کیا لینا ہے۔۔"ایک ہاتھ کمر پر ٹکائے وہ روکھے لہجے میں پوچھنے لگی، پیچھے ہٹو چھپکلی میری بیوی کو خراب کرنے میں تمہارا ہاتھ ہے کیا پٹیاں پڑھاتی رہی ہو اسے۔۔۔کہ وہ پہلی بار مجھ سے اتنا بڑا جھوٹ بول گئی۔۔۔" وہ خلع والے جھوٹ کی طرف اشارہ کرتے آنکھیں چھوٹی کیے پوچھنے لگا۔ تو امل نے سنتے سر ہاں میں ہلاہا۔۔۔
تمہاری بیوی تمہیں واپس بلانا چاہتی تھی۔میں نے تو بس آئیڈیا دیا باقی تم خود دیکھ لو میرا آئیڈیا کتنے کام آیا عبادت کے۔۔"سینے پر ہاتھ باندھتے وہ مسکراہٹ دبائے مغرور سی ہوتے بولی تو اصلال نے اسے بازو سے پکڑے پیچھے کیا۔۔
بات سنو میری اصلال آج کیلئے تم میرے کمرے میں رہ سکتے ہو مجھے کوئی پروبلم نہیں۔۔۔"وہ دانت دکھاتے کھلے دل سے اسے آفر کرنے لگی تو اصلال نے اسے گردن گھمائے گھورا۔۔۔
عبادت نے اس میسنی دھوکے باز لڑکی کو دل ہی دل میں گالیوں سے نوازا تھا۔۔
مس امل آپ کو بٹرنگ کرنے کی ضرورت نہیں میرے پاس اپنا ذاتی کمرہ ہے اور آپ بے فکر رہیں کیونکہ قاسم کل ہی نکاح کی ڈیٹ لینے آ رہا ہے ،وہ اچھے سے جانتا تھا وہ جان بوجھ کر اصلال سے مدد لینے کو مکھن لگا رہی تھی امل نے سنتے غصے سے دانت پیسے۔۔۔
اگر ایسا ہے تو پھر تمہیں عبادت نہیں ملے گی جاؤ میرے روم سے۔۔"اب وہ بھی لخاظ بالائے طاق رکھتے اسے انگلی سے وارن کرتے بولی تو اسکا تپا تپا چہرہ دیکھ اصلال نے مسکراتے سر نفی میں ہلایا۔۔
تم سے پوچھا کس نے ہے میں اسے اسکی خوشبو سے ڈھونڈ سکتا ہوں،،"وہ کہتے ساتھ ہی ڈریسنگ روم میں گیا تو امل نے منہ کھولے اسکی پشت کو گھورا۔۔۔
ڈونٹ وری تم سے کل حساب مکمل کروں گا فلحال اپنی بیوی کو سیدھا کرنا ہے بیچاری سو گئی نیچے ہی ۔۔۔"اپنی گود میں موجود عبادت کی ڈر سے لرزتی پلکوں کو دیکھتا وہ امل سے کہتا باہر نکلا تھا،،
پاؤں سے ڈور کھولے وہ چلتا اندر داخل ہوا ،گہری نظروں سے عبادت کو دیکھ وہ چلتا اسے بیڈ پر ڈالے، ہاتھ سینے پر باندھے آج ایک ماہ بعد اسے اپنی آنکھوں کے سامنے بغور دیکھتا اپنی آنکھوں کی پیاس بھجا رہا تھا۔۔
عبادت کا چہرہ اصلال کی گہری نظروں کو اپنے وجود پر محسوس کرتے سرخ پڑنے لگا، وہ مڑتے دروازہ اچھے سے بند کیے کمرے میں مکمل اندھیرا کر گیا کہ عبادت نے اندھیرا محسوس کرتے پٹ سے آنکھیں کھولیں،،
اپنے آگے پیچھے دیکھتی وہ خوفزدہ سی ہوتے اصلال سے بچنے کی سعی کرتے دھیمے قدموں سے بیڈ سے اتری تھی،،اسے ڈر بھی تھا کہ اگر اصلال نے پکڑ لیا تو کیا ہو گا۔۔۔
وہ جلدی سے اندھیرے میں ہاتھ آگے پیچھے چلاتی دروازے کے قریب تک پہنچی تھی مگر اس سے پہلے کہ وہ اسے کھولتی جھٹکے سے اسکا بازوؤں تھامے اصلال نے اسکا رخ اپنی جانب کھینچا وہ خواس بافتہ سے اسکے سینے سے ٹکراتی کہ اصلال نے اسکی کمر سے تھامے ایک دم سے اسکے ہونٹوں کو اپنے جھلستے آگ کی مانند پرتپش سلگتے ہونٹوں میں قید لیا۔۔
عبادت آج اتنے عرصے بعد اسکی جان لیوا شدت بھری گرفت اپنی کمر پر سرکتے اسکے بھاری ہاتھ کی گستاخیوں سے پل میں ہی سہم سی گئی، کمرے کے معنی خیز خاموش ماحول میں عبادت اصلال عالم کی حد سے زیادہ تیز چلتی سانسیں اصلال کو مزید بے خود کر رہی تھیں۔
وہ یونہی اسے ساتھ لگائے بیڈ کی جانب بڑھا تھا،عبادت نے سانس رکنے پر اسکی گردن پر اپنے ناخنوں سے خراشیں ڈالی اس اچانک ہوتے ردعمل پر وہ سسکتا،پل بھر کو پیچھے ہوا تھا جھٹکے سے اسے بیڈ پر پٹھکتے اصلال نے ہاتھ اسکی گردن میں حائل کیے اپنے ایک ہاتھ سے عبادت کے دونوں ہاتھوں کو قید کیا اور پھر سے اسکے ہونٹوں پر جھکا تھا۔۔
عبادت کو لگا کہ آج وہ اسکی سانسوں کو۔ختم کرتے ہی پیچھے ہٹے گا۔۔ عبادت کی سانسوں کی خوشبو کو خود میں انڈیلتا وہ اسے چھوڑتے پیچھے ہوا ۔۔
ععععالمم سسسوری میں نے بس آپ کککو بلانے کیلئے یہ سب کککہا تھا،،،"عبادت کو اپنے آگے پیچھے خطرہ منڈلاتا نظر آ رہا تھا جبھی وہ فوراً سے بیٹھتی اپنی صفائی دینے لگی۔کہ اصلال نے ایک دم سے اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھ اسے خاموش کروایا۔۔۔
غلطی کی ہے تو اب بھگتو گی بھی تم۔۔۔۔"معنی خیزی سے گھبیر لہجے میں سرگوشی کرتے اصلال نے انگلی عبادت کے ماتھے پر رکھتے اسے پیچھے کو دھکہ دیا تھا اس کے اچانک سے ایسا کرنے پر وہ جھٹکے سے پیچھے گری تھی۔۔ سوچا تھا کہ تمہیں کچھ دن آزادی سے جینے دوں مگر تم خود ہی میری دوری برداشت نہیں کر پائی تو اب یہ قربت اپنی چھوٹی سے جان پر بنا کسی اختججاج کے جھیلنی پڑے گی،،،"
اصلال نے اپنے دہکتے ہونٹ عبادت کی گردن پر رکھتے کہا،تو عبادت کی جان لبوں پر بن آئی وہ دھڑکتے دل سے خوفزدہ سی اسے پیچھے کرنے لگی کہ اصلال نے اسکے ہاتھوں کو قابو کیے اسکی ساری مزاحمت کو توڑتے اسے خود تک محدود کر لیا۔
🌼🌼🌼🌼💝🌼🌼🌼🌼
▶️▶️چند ماہ بعد⏪⏪
امل فیصل ولد فیصل خان آپ کا نکاح قاسم سلیمان ولد سلیمان علی کے ساتھ پانچ لاکھ روپے بعوض سکہ رائج الوقت کے طے پایا گیا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے،،،،؟"
امل نے گھبراتے اپنی لرزتی پلکوں کو اٹھائے اپنے ساتھ بیٹھے اپنے بابا کو دیکھا،اسکے آس پاس اسکی ساری فیملی موجود تھی فیصل صاحب کا ہاتھ اپنے سر پر محسوس کرتے امل نے سرد سانس اپنے اندر تک اتارا تھا اور پھر کپکپاتے لبوں سے قبول ہے کہا،،"جسے سنتے ہی قاسم جو کہ سامنے ہی پردے کی دوسری جانب موجود تھا اس نے آنکھیں موندتے اللہ کا شکر ادا کیا۔۔
نکاح مکمل ہوتے ہی امل کو روم میں لے جایا گیا،کیونکہ رخصتی ایک سال۔بعد ہونا طے پائی تھی، بہت بہت مبارک ہو مسز قاسم۔۔۔۔" روم میں جاتے ہی عبادت جو کہ اس وقت سفید اور سرخ امتراج کے خوبصورت کرتا شلوار میں ملبوس تھی دونوں ہاتھوں پر سرخ گجرے ڈالے ہونٹوں پر بھری بھری لال لپ اسٹک لگائے وہ آج کوئی الگ ہی عبادت دکھ رہی تھی،
امل نے مدہم سا مسکراتے عبادت کے چہکتے خوشربا روپ کو نظروں سے سراہا اس گزرے عرصے میں کس قدر قریب ہوئی تھیں وہ دونوں کہ کبھی کبھار تو امل کو اپنے کیے پر شرمندگی سی ہوتی تھی۔
یار کیا ہوا جانی،،،،"اسکی آنکھوں میں چمکتے آنسوں کو دیکھ عبادت تیزی سے اسے قریب ہوتے۔اسکے گلے لگی، تو امل نے اسے مضبوطی سے خود میں بھینچ لیا،،،
ارے ارے کیا چل رہا ہے یہاں پر تو محبتیں بانٹی جا رہی ہیں،وہ بھی میرے بغیر۔۔۔۔۔"کمر پر دونوں ہاتھ ٹکائے اوزگل ان دونوں کو گھورتے منہ پھلائے بولی تو امل اور عبادت نے پہلے ایک دوسرے کو اور پھر مسکراتے اس چھوٹی آفت کو دیکھا اور پھر اپنی بانہیں پھیلائے اسے اپنے پاس بلایا گل دوڑتی ان کے ساتھ جا لگی،تھوری دیر پہلے جو کمرہ سوگوار سے ماحول سے متاثر تھا اب ان تینوں کی چہچہاہٹ سے گونج رہا تھا۔۔
ویسے یہ وقت نہیں آنے کا میڈم نکاح تو ہو گیا اتنی لیٹ کیوں آئی تم،،"اس گزرے وقت میں وہ سبھی ایک دوسرے کے بے انتہاء قریب ہوئے تھے جب دلوں میں خلوص اور چاہیتں ہوں تو تب خون کا رشتہ ہونا معنی نہیں رکھتا،،،
وہ بس گاڑی خراب ہو گئی تھی راستے میں،،،،"گل نے جلدی سے بہانہ بنایا تو امل نے اسے گھورا، رہنے دو میڈم سیدھے سے کہو بھائی کی نیت خراب ہو گئی تھی بس اور کچھ بھی نہیں،،،"عبادت کے تڑخ کا کہا ایسے جیسے وہ اچھے سے جانتی ہو،، امل کا جاندار قہقہ سنتے اوزگل سرخ ہو رہے چہرے سے عبادت کو گھورنے لگی، ان دونوں نے ہی آج سیم ڈریسنگ کی تھی امل کا سارا غرارا سفید تھا جس پر گولڈن خوبصورت زرک کا کام ہوا تھا،
جسکے ساتھ سر پر سجا سرخ دوپٹہ اسے اس نکاح کے بندھن میں بندھ جانے کا الگ سا روپ اسکے چہرے کو نکھار رہا تھا، جبکہ اوزگل اور عبادت نے سیم سرخ اور سفید رنگ کی ڈریسنگ کی تھی اور دونوں کے ہاتھوں میں موجود مہکتے سرخ پھولوں کے گجرے انہیں مزید دلکش بنا رہے تھے۔
رہنے دو میڈم اپنا پتہ ہے زبردستی لایا آنش اسکے لاڈ صاحب کو اور اسے کمرے سے وہ بھی نکاح سے دو منٹ پہلے،،، ورنہ صبح بس ایک بار شکل دکھائی تھی میڈم نے،مگر پھر اصلال نے ایسا کمرے میں بلایا کہ میڈم باہر کا راستہ ہی بھول گئیں۔۔۔"
اوزگل کے پھولے چہرے کو دیکھ امل نے اسے ساتھ لگائے محبت سے اسے آگاہ کیا تو عبادت نے اپنی سنہری آنکھوں کو پھیلائے امل کو دیکھا اور پھر اوزگل کو جو اب شریر نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی،،
اپنے بارے میں کیا کہو گی میڈم چوزی،، بھائی کو دیکھتے ہی اسکی بولتی بند ہو جاتی ہے اور ایسے ععععالمممم اٹک اٹک کر انکا نام لیتی ہے جیسے کوئی گن پکڑ کے گھوم رہے ہوں بھائی،امل کا ساتھ ملتے ہی گل بھی شیرنی بنے اسکی ٹانگ کھینچنے لگی، عبادت نے دانت پیستے دونوں کو گھورا اور پھر گردن ہاں میں ہلائے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھے،،
گل وہ باہر تمہاری گاڑی تو کب کی کھڑی تھی پھر تم اندر کیوں اتنی دیر سے آئی کیا کچھ ہوا تھا،،،؟"عبادت نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے اوزگل کو دیکھتے کہا تو گل کا کھلتا چہرہ پل بھر میں مرجھا گیا،،امل میڈم کل رات کون تھا آپ کے روم میں، جو چوری چُھپے کھڑکی سے بھاگا تھا، رات کے بارہ بجے،،" ابکی بار چونکنے کی باری امل کی تھی،،
عبادت ان دونوں کی اڑی رنگت دیکھ پیٹ پکڑتے بری طرح سے قہقہے لگاتی دوہری ہو رہی تھی،امل اور اوزگل نے لب بھینچے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر گردن ہلائے ایک دوسرے کو اشارہ کرتے عبادت جو کہ بری طرح سے ہنستی لوٹ پوٹ رہی تھی،
آہہہہ____"امل اور اوزگل نے آگے بڑھتے اسے دبوچا،اس سے پہلے کہ وہ چیختے اصلال کو بلاتی امل نے جلدی سے اسکے منہ پر ہاتھ رکھا،،
»»»»»»»»»»♦️♦️♦️»»»»»»»»»»
بہت بہت شکریہ اصلال تمہاری وجہ سے آج یہ نکاح ہو پایا ہے،،،"قاسم چلتا مہمانوں کے بیچ کھڑے اصلال کے پاس آیا اور سب کے سامنے اسے گلے لگائے دل سے اسکا شکریہ ادا کیا، شایان جعفری سکندر جعفری اور سہیل جعفری کب سے اصلال کو دیکھ رہے تھے جس نے سارا انتظام سنبھالا تھا سب کی نظروں میں اسکے لئے مان غرور اور عزت تھی،،
امل کو منانے سے لے کر سکندر جعفری سب کو اصلال نے منایا تھا،اتنا پیار مجھ سے ہضم نہیں ہو رہا حد میں رہ تُو۔۔۔۔۔۔"
اسکی کمر پر دھپ رسید کرتے اصلال نے میٹھا سا طنز کیا جس پر قاسم کے لبوں پر مسکراہٹ بکھری،،،اوہو یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں کہیں قیامت تو نہیں آ گئی۔۔۔"
اپنی آنکھوں کو رگڑتے اشکان جو ابھی ابھی مسکراتا اندر آیا تھا اپنے سامنے اصلال اور قاسم کو یوں بھائیوں کی طرح محبت کرتا ایک دوسرے کے گلے لگا دیکھ وہ اونچی آواز میں بڑبڑاتے انکے قریب آیا تھا،،
تجھے کیوں جلن ہو رہی ہے تُو بھی آ جا جگہ ہے تیرے لئے بھی،،اصلال نے اسے دیکھتے مسکراتے کہا تو اشکان مسکراتا انکے نزدیک آیا،نکاح مبارک ہو یارا۔۔۔۔"قاسم کو مضبوطی سے سینے میں بھینچتے اشکان نے دل سے اسے مبارک باد دی، تو قاسم نے بھی اسکی کمر تھپکی،، بالآخر اصلال کو منانے کی ساری پریکٹس اشکان نے ہی تو کروائی تھی قاسم کو۔۔۔
ویسے کچھ زیادہ جلدی نہیں آیا تُو،،"اصلال نے اپنی ہلکی بئیرڈ کو انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے سہلاتے ائبرو اچکائے پوچھا،
سمجھا کر یار تُو بھی تو شادی شدہ ہے،اصلال کو دیکھتے وہ بےشرمی سے آنکھ دباتے معنی خیزی سے بولا کہ اصلال نے تاسف سے اسے گھورتے سر نفی میں ہلایا،،،
بیٹا یہ اپنی اپنی ہوشیاریاں آج مجھے دکھا دو تب مانوں تم دونوں کو،،،،"قاسم کے شیطانی دماغ میں فورا سے کچھ آیا وہ ہنسی چھپائے ان دونوں کو دیکھتا اپنے مطلب کی بات پر آیا،، مطلب کے تُو چیلنج کر رہا ہے ہمیں،،،"ائبرو اچکاتے اصلال نے قاسم کو گہری نظروں سے دیکھتے استفسار کیا،،
تم بلکل ٹھیک سمجھے ہو،،ایسا ہی ہے۔۔۔ناک چڑھاتے قاسم نے تصحیح کی، اچھا تو بتا کیا کرنا ہے،،"اشکان نے جھٹ سے کہا تھا بھلا وہ کیسے پیچھے رہتا،، کچھ خاص نہیں بس یہ کہ میری نئی نویلی ایک عدد بیوی جو کہ بمشکل سے میرے ساتھ جڑی ہے فل وقت وہ تم دونوں کی بیویوں کے قبضے میں ہے،بس میری ملاقات میری بیوی سے یقینی بنا دو،،"
سینے پر ہاتھ باندھے وہ اصلال اور اشکان کو دیکھتا اپنی بات مکمل کرتے دانتوں کی نمائش کرنے لگا،
اور اگر ہم نے ایسا کر دیا تو پھر بدلے میں تُو ہم دونوں کے ہنی مون کے ٹکٹ بک کروائے گا اب بتا منظور ہے،،"اصلال نے چہرے پر بلا کا اعتماد سجائے اشکان کو دیکھتے کہا تھا جو خود اسکی بات سے بلکل متفق تھا۔۔
ٹھیک ہے ڈن کرو،،،"قاسم نے جلدی سے حامی بھری تھی ویسے بھی وہ پہلے سے ان دونوں کے لئے ٹکتس بک کرو چکا تھا مگر تھا تو ایک نمبر کا کمینہ کیسے پہلے بتا دیتا اور اب تو اتنا اچھا موقع تھا اپنا کام بھی نکلوانا تھا بھلا کیسے پہلے ان کمینوں کو بتا کر رنگ میں بھنگ ڈالتا،،،
اوکے چل اشکان،،،اپنے سفید کلف لگے سوٹ کے کف فولڈ کرتا وہ سیاہ آنکھوں میں چمک لیے بولتا آگے بڑھا تھا،،،ویسے تجھے نہیں لگتا کہ یہ کمینہ کچھ سوچ کر حامی بھر رہا ہے۔۔۔"قاسم کے چہرے پر پھیلی معنی خیز مسکراہٹ اشکان کو شک میں مبتلا کر رہی تھی،جبھی وہ اصلال کے جیسے اپنے بازوؤں کے کف فولڈ کرتا اسکے کان میں گھستے بولا تھا،
ان دونوں کا انداز ایسا تھا جیسے کوئی بہت بڑا مشن لڑنے جا رہے ہوں۔۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا تُو۔۔۔"اصلال نے سیڑھیاں چڑھتے اپنے ساتھ چلتے اشکان کو دیکھ گردن گھمائے قاسم کو دیکھا جو سینے پر ہاتھ باندھے انہی کو دیکھ رہا تھا،ہاں بول میں سن رہا ہوں۔۔۔"اشکان نے بھی اسی کی طرح گردن گھمائے قاسم کو دیکھتے اصلال سے کہا تھا،،
کمینہ انسان کوئی بھی ہو اگر وہ بولے بھی کہ میں کمینہ نہیں رہا تو اس کی بات کا یقین مت کرنا کیونکہ وہ شریف کسی حد تک ہوتا ہے اسکا کمینہ پن کہیں ناں کہیں نکل کر باہر آ جاتا ہے، اور یہ کمینوں کا سردار اپنی سردارنی سے ملنے کیلئے ہمیں چونا لگانے کا سوچ رہا ہے۔۔۔۔"
اصلال نے سرد نظروں سے قاسم کو دیکھ کہا،،،
ہیں وہ کیسے،،،؟"ریلنگ پر ہاتھ رکھتے اشکان نے اسے دیکھتے پوچھا،، کیونکہ یہ کمینہ ہمارے ٹکٹس پہلے سے بک کروا چکا ہے،،"اصلال نے دانت پیستے کہا جیسے دانتوں کے نیچے قاسم کو صالم رکھا ہو،،
تو اب کیا ہوگا،،،"اشکان نے حیرت افسوس سے پوچھا تو اصلال مسکرایا۔۔۔
بیٹا اب ہم پیرس نہیں ہانگ کونگ جائیں گے کیونکہ اس نے ٹکٹس پیرس کے بک کروائے ہیں اور اسکے علاؤہ ہمارا سارا خرچ بھی اس قاسم کمینے کے جیب سے وصول ہو گا،،،"
اصلال نے آنکھ دباتے رازداری سے اشکان کو بتایا جو سنتا قہقہ لگا اٹھا، ویسے ایک بات ہے،،اشکان بغور اصلال کو سر تا پاؤں گھورتے بولا،، وہ کیا۔۔۔!"اصلال کا موڈ کافی اچھا تھا جبھی اس قدر اچھے سے بات کر رہا تھا،،
وہ یہ کہ اگر تُو بھی چاہے تو کمینوں کی لسٹ میں شامل ہو سکتا نہیں کوئی زبردستی نہیں اگر تٗو چاہے تو۔۔۔!" اصلال کے ماتھے پر ابھرتی شکنوں کو دیکھتا وہ فورا سے بات بدل گیا۔۔۔۔
چل دروازے ناک کر اور اپنی والی کو لے کر گم ہو جا۔۔۔"کمرے کے قریب پہنچتے اصلال نے ہاتھ پشت پر باندھے اشکان کو اشارہ کیا۔۔۔"
وہ سمجھتا فورا سے دروازہ ناک کرنے لگا اصلال جھٹ سے غائب ہوا تھا،،،
اسلام علیکم بھابھی گل کدھر ہے۔۔۔"دروازے کھلتے ہی سامنے سے جھانکتی عبادت کو دیکھتا وہ سیریس انداز اپنائے بولا وہ بزی ہے بہت زیادہ، آپ پلیز بعد میں مل لیجیے گا۔۔"
امل اور اوزگل جو کہ دروازے کے پیچھے چھپی ہوئی تھی اشکان کی آواز اور عبادت کے اعتماد سے کہنے پر اپنے منہ پر ہاتھ رکھتے اپنی ہنسی دبا رہی تھیں،،،،
آپ اس سے کہیں صرف دو منٹ بات سن لے اور پھر چاہے تو وہ جا سکتی ہے بس کچھ ضروری کام ہے،،،" عبادت کے اس طرح سے منع کرنے پر اسے شک تو ہو چلا تھا کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے،
دراصل آپ کو بھی اصلال یاد کر رہا ہے اس نے کہا تھا کہ آپ کو بھیجوں،،،"
اصلال جو ایک سائیڈ دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا اشکان کے کہنے پر وہ بغور اس جانب متوجہ ہوا کہ عبادت کیا جواب دے گی،،؟ آپ ان سے کہہ دیں کہ میرے پاس اتنا فضول وقت نہیں جو کہ ان پر ضائع کروں ابھی چپ چاپ اپنا کام کریں اور مجھے اپنا کام کرنے دیں۔۔۔۔"
اپنے کندھے سے بالوں کو سٹائل سے پیچھے جھٹکتے وہ اسٹائل سے بولی تو امل اور اوزگل نے حیرت سے منہ کھولے عبادت کو دیکھا کیا روب جمایا ہوا۔تھا عبادت نے اصلال پر، وہ حیرت زدہ سی تھیں۔ جبکہ اصلال کا چہرہ دھواں دھواں ہو چلا تھا اشکان کن اکھیوں سے دیوار کی جانب دیکھتا اپنی ہنسی پر ضبط کر رہا تھا۔۔
بھابھی اصلال کو برا لگے گا۔۔۔،،"اب وہ معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولا،، بھائی کہا تو ہے کہ مجھے نہیں جانا ابھی،، نننن نہیںںںںںںں ،،،، میرا مطلب ہے ککہ میں ابھی جاؤں گی میں کیوں نہیں جاؤں گی پیچھے ہٹیں مجھے جانا ہے،،"
اشکان کے پیچھے کھڑے اطمینان سے سینے پر بازوؤں باندھے اصلال عالم کو دیکھتئ وہ جھٹ سے بات پلٹتی اصلال کی جانب بڑھئ،،گل اور امل اسکے یوں کہنے پر حیرانگی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگی کہ آخر عبادت کو کیا ہوا،،،،؟"
اشکان نے منہ کھولے حیرانگی سے اپنے پاس سے گزرتی عبادت کو دیکھا تو پیچھے کھڑے اصلال عالم کو دیکھ وہ ہنستا سر نفی میں ہلائے روم میں گیا۔۔
اب تم بھی چلو گی کہ اٹھا کر لے جاؤں۔۔۔" دروازے سے اندر جھانکے وہ امل اور اوزگل کو دیکھ ائبرو اچکاتے پوچھنے لگا،
اوزگل تھوک نگلتے امل کو دیکھ سوری کہتے فوراً سے اشکان کا ہاتھ تھامے کمرے سے نکلی تھی،، امل پیر پٹھکتے غصے سے دروازے لاک کرنے لگی کہ معا قاسم کا بھاری ہاتھ دروازے کے بیچ آیا جسے دیکھ وہ پوری قوت سے دروازہ بند کرنے لگی،مگر قاسم نے ایک ہاتھ کی مدد سے بآسانی دروازے کھولا تھا۔۔
کیا ہوا بیگم اتنی ناراضگی،،مانا کے آنے میں دیر ہو گئی مگر آ تو گئے ہم دیدار یار کیلئے،،،"
امل کے نکھرے نکھرے روپ کو دیکھتا وہ استحقاق سے اسے سر تا پاؤں دیکھ اپنی نظروں سے ہی دل میں اتارتا آگے بڑھا تھا،
دددد دیکھو تتتم۔۔۔۔۔۔۔"اپنی انگلی اٹھائے اسے وارن کرتی وہ تیکھی نظروں سے اسے دیکھ بولی جبکہ قاسم قدم قدم اٹھائے اسکی جانب بڑھا، اور ایک جھٹکے سے امل کی انگلی کو اپنی انگلی میں پھنسائے وہ ایک دم سے اپنی جانب کھینچ گیا جو اچانک سے اسکے کھینچنے پر اسکے سینے سے جا لگی،،
امل کی تیز تر ہوتی دھڑکنیں قاسم بخوبی سن پا رہا تھا، کمرے میں ایک دم سے خاموشی چھا گئی دونوں کے سانس بھاری ہو رہے تھے،میرئ زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہو تم امل تمہیں اپنی زندگی میں شامل کر کے آج اپنا آپ مکمل لگ رہا ہے،"
معنی خیز سی سرگوشی کو قاسم کی بھاری آواز نے توڑا تھا وہ جھکتے امل کی تھوڑی سے پکڑے اسکا چہرہ اونچا کیے اسکی پیشانی پر بوسہ دیے بولا،،
تو ایک انجانا سا سکون تھا جو امل کو اپنے اندر تک اترتا محسوس ہو رہا تھا،لاکھ چاہنے کے باوجود وہ قاسم کو دھتکار نہیں سکی،،اور قاسم تو اسکے خاموش ہونے پر ہی بے ساختہ خوش تھا،،
قاسم نے اسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے اپنا محبت بھرا لمس امل کے نقوش پر چھوڑتے اسے سینے میں بھینچ لیا۔
®®®®®®®🌺🌺🌺®®®®®®®®®
اشکان مجھے ملنے تو دیں سب سے کہاں لے کر جا رہے ہیں آپ،،،،؟"گل اسکے ساتھ بمشکل سے چلتی ہانپتے ہوئے بولی،،اشکان بنا کوئی جواب دیے اسے ساتھ لئے باہر نکلا تھا،،،
تم نے تو کہا تھا کہ ہم ایک ہفتہ اصلال بھائی کے گھر گزاریں گے اب کیا ہوا کہاں لے جا رہے ہو مجھے،،،"اشکان جو کہ اسے گاڑی میں بیٹھائے سیٹ بیلٹ پہنا رہا تھا اوزگل کی آواز پر اسنے ہنستے نظریں اٹھائے اسے دیکھا جو سجے سنورے روپ میں آج صبح سے اسکے دل پر بجلیاں گرا رہی تھی،،
کہیں نہیں جانم تمہاری سٹڈی کمپلیٹ ہو چکی ہے اور تمہارے مطابق امل کا نکاح بھی اٹینڈ ہو چکا تھا تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ہمیں اب اپنے بچوں پر فوکس کرنا چاہیے تاکہ وہ بھی جلد از جلد اس دنیا میں آئیں اور انکی ماں کے بعد میں انکی سٹڈی کا سوچوں۔۔۔۔"
وہ آنکھ دبائے گہرے لہجے میں کہتا اسکے حیرت سے کھلے منہ کو دیکھ جھکتے اسکے گال پر لب رکھتا پیچھے ہوا تھا۔۔۔
دروازہ کھولو تم اشکان میں بھائی کو بتاتی ہوں،"وہ غصے سے دروازہ کھولنے کی ناکام سی کوشش کرتے دانت پر دانت جمائے بولی،،
جانم تمہارے بھائی کو جب تک علم ہو گا تب تک ہم مری میں ہوں گے ایک دوسرے کی بانہوں میں قید پھر کسے ہوش ہو گا کہ کون بھائی کہاں کا بھائی،؟"
اپنی سیٹ پر بیٹھتے وہ اوزگل کے ہاتھ دروازے سے ہٹائے اپنے ہاتھ میں تھامے گہرے لہجے میں بولا تو گل کا چہرہ اشکان کی بے باکی پر دہکتا انگارہ ہو گیا،،
وہ شرم سے سرخ پڑتی اپنے لب کاٹنے لگی،،اب یہ ظلم مت کرو،،ابھی تو میرا حق باقی ہے ان پر۔۔۔۔" گل کے ہونٹوں کو اسکے دانتوں سے آزاد کرواتے وہ گہرے بے باک لہجے میں بولا تو اوزگل سنتی لب بھینچ گئی۔۔۔
اگر اجازت ہو تو چلیں۔۔"اشکان نے اپنا ہاتھ اسکے سامنے پھیلایا۔۔۔اسکے مان اسکی محبت اتنے عرصے میں اسکے ساتھ گزارے حوبصورت وقت کو یاد کرتی وہ جی۔کڑا کرتی اپنا ہاتھ اشکان کے ہاتھ میں تھما گئی ۔
جسے دیکھ اشکان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔۔۔۔ آج سے ہم اپنی زندگی کا ایک نیا سفر شروع کریں گے ایک دوسرے کے سنگ،،ایک دوسرے کے ہمقدم،ساتھی بن کر۔۔۔" اوزگل کے ہاتھ کی پشت پر لب رکھتے وہ محبت سے بولا تھا۔۔
آج اسے اسکی محبت مل چکی تھی ،اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اتنے صبر کے بعد بالآخر آج اسنے اپنی محبت کو مکمل طور پر پا لیا تھا۔۔
✨✨✨✨✨✨
اصلال۔۔۔۔۔"عبادت کا ہاتھ تھامے وہ تیزی سے اپنے روم کی جانب بڑھ رہا تھا جب سہیل جعفری کی آواز پر اصلال کے قدم تھمے۔۔ وہ یونہی رُک گیا مگر پیچھے نہیں دیکھا وہ خود ہی اپنے آپ کو مضبوط بنائے اسکے سامنے آئے۔۔
عبادت نے کن اکھیوں سے اسکے چہرے کو دیکھا جو ضبط سے سرخ پڑ رہا تھا،،
بیٹا میں جانتا ہوں کہ میرا گناہ معافی کے قابل نہیں مگر کیا تم اپنے بھوڑے باپ کو معاف نہیں کر سکتے،،'اصلال سنتا ہنوز خاموش رہا اسکی نظریں اپنے پاؤں پر تھیں مگر وہ منہ سے کچھ بھی نہیں بولا۔۔
میرے بچے پلیز ایک بار اپنے باپ کو معاف کر دو،،اب کی بار اسکی خاموشی سے ڈرتے سہیل جعفری نے اپنے ہاتھ اسکے سامنے جوڑے،یہ کیا کر رہے ہیں آپ،،پلیز ایسا مت کریں،،اپ نے جو کیا وہ آپ کے اعمال ہیں مگر میں اتنی جلدی کچھ بھی بھول نہیں سکتا اپنے رشتے اپنے خون کی پہچان ہے مجھے اور آپ کی عزت کا میری ماں نے مجھ سے کہا تھا اور اسی لئے میں آپ کی عزت کروں گا۔۔
مگر محبت وہ شاید اب ممکن نہیں مگر میں کوشش کروں گا سب کچھ بھول کر آپ کو اپنا سکوں۔۔۔۔"وہ کل مل کر آیا تھا اپنی امی سے اور اُنہوں نے بہت محبت سے اسے سب کچھ سمجھایا تھا اسے ہر ایک چیز سے آگاہ کیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو وہ اسکے باپ ہیں۔
اصلال انکی جانب سے مطمئن تھا کیونکہ اب وہ بلکل ٹھیک تھیں اور انکا کاروبار کافی اچھا چل رہا تھا،اب اسے خود سے کوئی شکایت نہیں رہی تھی،
تمہارا بہت بہت شکریہ کہ تم نے مجھے معاف کر دیا میرے بچے۔۔۔۔"سہیل جعفری تو اسکے معاف کرنے سے ہی خوشی سے نڈھال ہوتے اسے سینے سے لگا گئے،، انکا دل اپنی سابقہ بیوی سے معافی مانگنے کا بھی تھا مگر وہ جانتے تھے کہ ایسا ممکن نہیں وہ اپنے رب سے صبح شام اپنے کیے کی معافی مانگتے تھے۔اور اب اصلال کے معاف کرنے سے اُنہیں کچھ سکون ملا تھا،،،
اصلال بمشکل سے ضبط کرتا انکے جانے کے بعد خاموش کھڑا تھا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کیسا ری ایکشن دے۔۔۔ عبادت جانتی تھی کہ کیسے اصلال کو ٹھیک کرنا ہے جبھی بڑی ہوشیاری سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے نکالتے وہ دبے قدموں سے پیچھے کو بھاگی تھی ۔۔
میں اس دنیا سے غافل ہو سکتا ہوں مگر مسز عالم آپ سے نہیں۔۔۔۔تمہاری خوشبو بھی مجھ سے دور جائے تو مجھے علم ہو جاتا ہے اور یہاں تو تم ہتھیاروں سے لیس قاتل روپ میں موجود ہو،،
اسکے ہاتھ کو پکڑتے اپنی جانب کھینچتے اصلال نے عبادت کی پشت کو سینے سے لگائے معنی خیز سی سرگوشی کی۔۔۔ جسے سنتے وہ شرم و حیا سے خود میں سمٹ گئی۔۔
تو کچھ کہہ رہی تھی آپ کہ میں نہیں ڈرتی جا کر بتاو کہ میں مصروف ہوں وغیرہ وغیرہ،،،،"اصلال بنا کسی کی پرواہ کیے اسے بانہوں میں بھرے اپنے روم میں داخل ہوتے پوچھنے لگا،عبادت نے تھوک نگلتے اسے دیکھا اور پھر لاڈ سے اپنے دونوں ہاتھ اسکی گردن میں مضبوطی سے حائل کیے،،،
نہیں تو ایسا کچھ بھی نہیں کہا میں نے۔٫وہ گردن زور شور سے نفی میں ہلاتے اپنی کہی بات سے مکرتے بولی۔۔"تو اصلال نے اسے آنکھیں چھوٹی کیے گھورا۔۔۔
وہ تو عبادت نے کہا تھا اور میں تو مسز عالم ہوں۔۔۔"وہ ہوشیاری سے کہتے آنکھیں مٹکانے لگی کہ اسکی حرکت پر اصلال کو اس پر جی بھر کر پیار آیا،،وہ جب بھی اسے دیکھتا تھا کتنا شکر ادا کرتا تھا اللہ کا کہ اس نے جانے کونسی نیکی کے صلے میں اس چھوٹی سی لڑکی کو اسکے نصیب میں لکھ دیا تھا،،
تم بہت زیادہ تیز ہو مسز اور مجھے تمہاری یہ ادائیں بے حد پسند ہیں اب انعام تو بنتا ہے،،،"اپنی محبت سے نکھرے عبادت اصلال عالم کے نازک وجود کو اپنے سامنے بیڈ پر بٹھائے وہ اسکے بے حد قریب بیٹھے اسے کمر سے تھامے اسے قریب تر کر گیا،،
بس اب یہ چھچھوری حرکتیں آج سے ہی بند میرے اگزامز ہیں ایک ہفتے میں اور مجھے اچھے بچوں کی طرح صرف اور پڑھائی کروائیں۔۔۔"
اصلال کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے وہ سخت لہجے میں گردن اکڑائے بولی تو اصلال نے فورا سے اسکے ہاتھ کی پشت پر لب رکھے،،، اگر تمہاری سانسیں اپنے پھیپھڑوں میں ناں اتاری تو سوچ لو سگریٹ تو آگے ہی دوسرے آپشن کے طور پر موجود ہیں۔۔"
وہ کندھے اچکائے کہتا عبادت کے دوپٹے کو اتارتا ایک سائڈ پر رکھتے اسے باتوں میں الجھا گیا،،نہیں آپ سوچیں گے بھی نہیں اس گھٹیا چیز کے بارے میں پتہ ہے میں نے کل گوگل پر سرچ کیا ہے کہ ایک سگریٹ پینے سے کتنا نقصان ہوتا ہے۔۔
اپنی سنہری آنکھوں کو پھیلائے وہ اسے آگاہ کرنے لگی یہ اسکا روز کا معمول تھا وہ کچھ ناں کچھ سگریٹوں کے بارے میں سرچ کرتے اسے ان نقصانات سے آگاہ کرتی رہتی تھی،یہ بات الگ تھی کہ اصلال نے اب عبادت کے کہنے پر پینا چھوڑ دیے تھے مگر جب کبھی وہ اسکے قریب آنے سے بھاگتی تھی تو یہ فارمولا اصلال کے خوب کام آتا تھا،،
اچھھھھھاااا۔۔۔۔۔تو تم نے یہ نہیں سرچ کیا کہ ایک کِس کرنے سے کتنی کیلوریز ایک دوسرے میں منتقل ہوتی ہیں،،،"عبادت کو گود میں بھٹائے وہ گہری نظروں سے عبادت کے ہونٹوں کو دیکھتے پوچھنے لگا،عبادت اسکے بےباکی سے کہنے پر ایک دم سے چپ ہو گئی۔
میں بتاتا ہوں کتنی کیلوریز جاتی ہیں۔۔"عبادت کو بھاگنے کی کوشش کرتا دیکھ اصلال نے جھٹکے سے اسکی کمر کو مضبوطی سے دبوچے مخمور آنکھوں سے عبادت کو دیکھ کہا تھا،
شکریہ مسز عالم مجھے بھائی سے اماں کا جمائی بنانے کیلئے ۔۔۔۔" عبادت کے ماتھے پر بوسہ دیے وہ محبت سے شریر لہجے میں کہتا کھلکھلا اٹھا،، کمرے میں ایک ساتھ ان دونوں کی پرسوز محبت سے بھری کھلکھلاہٹ گونج اٹھی۔
----------ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Shanasay E Yaar Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Shanasay E Yaar written by Zainab Faiza . Shanasay E Yaar by Zainab Faiza is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment