Kya Hui Hai Khata By Rimsha Hussain Complete Romantic Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday, 25 June 2024

Kya Hui Hai Khata By Rimsha Hussain Complete Romantic Novel Story

Kya Hui Hai Khata By Rimsha Hussain Complete Romantic Novel Story 

Madiha Shah Writer: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Rude Hero Based Romantic  Novel Enjoy Reading.....

Kya Hui Hai Khata By Rimsha Hussain Complete Romantic Novel 





Novel Name: Kya Hui Hai Khata  

Writer Name: Rimsha Hussain

Category: Complete Novel 

ساری تیاریاں ہوگئ ہے نہ آج میری نواسی پورے ایک سال بعد پاکستان آرہی ہے۔۔۔اُسماعیل صاحب روعب بھری آواز میں ملازموں سے پوچھنے لگے جن کی ڈور یہاں سے وہاں ہورہی تھی"پاس ہی ہال میں اُن کے پوتے غباروں میں ہوا بھرنے میں لگے تھے جن کے پاس اُن کی ایک بے نیاز پوتی اپنے سیل فون میں کچھ دیکھنے میں مگن تھی آس پاس کیا ہورہا ہے اُس سے اُس کو کوئی سروکار نہیں تھا۔۔۔

حیات بیٹا آپ کیوں اِس قدر لاپرواہ انداز میں بیٹھی ہیں جائے جاکر دیکھے تازہ پھول میں نے منگوائے تھے وہ آئے ہیں یا نہیں؟اُسماعیل صاحب نے اپنی نخریلی پوتی حیات سے کہا

دادا جان وہ اپنے شوٹ سے آرہی ہے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا جو آپ اِتنی تیاریاں کررہے ہیں اور مجھے تو وہ لفٹ بھی نہیں کرواتی اور میرا بھی کوئی انٹرسٹ نہیں کے میں بلاوجہ اُس کی آمد کی تیاری کرو مجھے بس احناف کا انتظار ہے وہ آئے گا تو میں اُس کے ساتھ چلی جاؤں گی۔۔۔حیات اُسماعیل صاحب کی بات پر سنجیدگی سے دو ٹوک لہجے میں کہتی آخر میں اپنے منگیتر کا ذکر کیا جس سے اُس کو انتہا کی محبت تھی۔۔

سہی کہہ رہے میری بیٹی آپ نے تو خوامخواہ اُس کو سر پہ چڑھا لیا ہے تبھی اِس قدر گھمنڈی اور مغرور ہوگئ ہے ہم سے تو بات کرنا بھی جیسے اُس کو توہین لگتا ہے۔۔۔کچن سے باہر آتی منیبہ بیگم(حیات کی ماں)ناک منہ چڑھا کر بولی

تم سب کا یہی رویہ دیکھ کر اُس کو تم لوگوں سے بات کرنے میں انٹرسٹ نہیں ہوتا خُدا جانے میرے جانے کے بعد میری نواسی کا کیا ہوگا۔۔۔اسماعیل صاحب اُن کے جوابات سن کر رنجیدہ آواز میں بول کر اُپر کی طرف جانے لگے مگر ایک آواز پہ اُن کو رُکنا پڑا

السلام علیکم ایوری ون۔۔۔احناف گھر میں داخل ہوتا سب کو سلام کرنے لگا

وعلیکم السلام میرا شیر پوتا آگیا۔۔۔وائٹ گول گلے والی شرٹ کے ساتھ بلیک پینٹ میں ملبوس جس نے بالوں کو جیل کی مدد سے سیٹ کیا تھا چہرے پر ہلکی سی بیئرڈ اور ہونٹوں پہ مبہم مسکراہٹ سجائے کھڑے احناف کو دیکھ اسماعیل صاحب نے محبت بھرے لہجے میں کہا

جی میں آگیا۔۔۔احناف نے جواب دیا

اچھا ہوا تم آگئے میں تو تمہارے انتظار میں یہاں بیٹھ کر بور ہوگئ تھی۔۔۔احناف کو دیکھ کر حیات کی جان میں جان آئی

اب تو میں آگیا ہوں جہاں کہو گی وہاں لے چلوں گا۔۔احناف نے مسکراکر کہا تو حیات کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ نے احاطہ کیا

احناف آگئے ہو تو بیٹھ جاؤ تمہاری کزن آتی ہوگی۔۔۔"اُس سے مل کر چلے جانا۔۔۔اُسماعیل صاحب نے نرم لہجے میں کہا

دادا سائیں ہم سے مل کر اُس نے کیا کرنا ہے دیکھیے گا گھر میں داخل ہوکر آپ کو سلام کرے گی آپ سے ملے گی پھر گھر کو ریڈ کارپیٹ سمجھ کر ریمپ کرتی اپنے کمرے میں چلی جائے گی۔۔۔احناف کے کچھ بھی کہنے سے پہلے حیات بول پڑی تو باقی سب کزن اُس کی باتوں کا چسکا لیکر ہنس پڑے

السلام علیکم نانا سائیں۔۔۔۔خوبصورت آواز پہ سب لوگوں کی ہنسی کو بریک لگی تھی"اور سب کی نظریں داخلی دروازے پہ جم سی گئ تھی۔۔۔"جہاں تئیس سال کی عمر کے درمیان فل بلیک جنیز پینٹ میں ملبوس خوبصورت نین تارا کھڑی تھی جس کے سلکی لونگ ہیئر  پشت پہ بکھرے پڑے تھے اور آنکھوں میں سن گاگلز تھے جن کو ابھی اُس نے آنکھوں سے اُپر کیا تھا۔۔اُس کا چہرہ ہر احساس سے عاری تھا"سب کی نظروں میں اُس کو دیکھ کر ستائش اُبھری تھی سوائے دو لوگوں کے ایک حیات جس نے اُس کو دیکھ کر اپنی نظروں کا زاویہ بدلا تھا تو دوسرا احناف جس نے ایک نظر کے بعد دوسری نظر اُس پہ نہیں ڈالی تھی۔۔

وعلیکم السلام میری جان یہاں آؤ۔۔۔اسماعیل صاحب کی آنکھوں میں جیسے ٹھنڈک پڑگئ تھی۔۔تبھی بانہیں پھیلا کر اُس کو اپنی طرف آنے کا کہا تھا"نین تارہ کے چہرے پہ ہلکی مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا اور وہ بھاگ کر اُن کے سینے لگی تھی۔۔

میں نے آپ کو مس کیا۔۔۔نین تارا اُن کے سینے سے لگی بولی

میں نے بھی اپنی جان کو بہت مس کیا۔۔۔اُسماعیل صاحب اُس کا ماتھا چوم کر بولے

شروع ہوگیا اِن کا میلو ڈرامہ میرے خیال سے ہمیں نکلنا چاہیے۔۔۔حیات نے بیزار لہجے میں کہا تو احناف کی نظریں بے ساختہ نین تارا پہ اُٹھی جو ابھی تک اُسماعیل صاحب کے ساتھ لگی ہوئی تھی مگر اپنے چہرے پہ کسی کی نظروں کا ارتکاز اُس نے صاف محسوس کیا تھا تبھی آنکھیں کھولی تو نظر سیدھا احناف پر پڑی دونوں کی نظریں چار ہوئی تو احناف نے ایک لمحہ ضائع کیے بنا نظریں دوسری طرف کرلی

میں اب ریسٹ کروں گی کوئی مجھے ڈسٹرب نہ کرے۔۔۔نین تارا ایک اچٹنی نظر احناف پہ ڈالے اُسماعیل صاحب سے بولی

سب سے مل تو لو۔۔۔اُسماعیل صاحب نے کہا

بہت تھکی ہوئی ہوں بس آرام کرنا چاہوں گی۔۔۔نین تارا نے کہا

کیوں کیا جہاز کو دھکا دے کر آئی ہو یا ایئر ہوسٹ کی ڈیوٹی دے کر آئی ہو؟حیات نے مصنوعی حیرت سے سوال کیا تو سب لوگ پھر سے ہنس پڑے مگر نین تارا نے سخت ناگوار نظروں سے اُس کو دیکھا تھا مگر کوئی بھی جواب دینا اُس نے ضروری نہیں سمجھا تھا۔۔

حیات ہمیں لیٹ ہورہا ہے۔۔احناف حیات کا ہاتھ تھامے اُس کا دھیان اپنی طرف کیا

ہاں سوری میں بھول گئ تھی چلو۔۔حیات نے اپنے سر پہ ہاتھ مار کر کہا"نین تارا جبکہ خاموشی سے دونوں کو دیکھ رہی تھی۔۔

تم بھی اُپر جاؤ آرام کرو پھر مل کر کھانا کھائے گے۔۔۔"اور احناف تم رات کا ڈنر ہمارے ساتھ کرنا۔۔۔اسماعیل صاحب نین تارا کو مُخاطب کرنے کے بعد احناف سے بولے جو حیات کو لیے جانے والا تھا

سوری دادا جان مگر مجھے اور حیات کو آنے میں لیٹ ہوجائے گا کیونکہ دوستوں کے ساتھ پارٹی کا پروگرام بنا ہے۔۔۔احناف نے عاجزی سے کہا

چلو کوئی بات نہیں اگلی بار کرلینا۔۔اسماعیل صاحب نے مسکراکر کہا"نین تارا جبکہ کب کا جاچُکی تھی۔

شیور۔۔۔۔احناف نے مسکراکر سراثبات میں ہلاکر کہا

❤❤❤❤❤❤

اُسماعیل صاحب کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی"بڑے بیٹے کا نام الطاف جتوئی تھا جن کی شادی اپنی کلاس فیلو بینش سے ہوئی اور اُن کے تین بچے تھے"ایک بڑا بیٹا سلطان جس کی عمر اٹھائیس سال کی تھی اور وہ سافٹ ویئر انجیئر تھا دوسرے بیٹے کا نام احناف جتوئی تھا جس کی عمر پچیس سال تھی اور اُس کا انٹرسٹ فائن آرٹسٹ میں تھا مگر اپنے والد کی ضد پہ وہ اُن کی کمپنی میں senior software developer" تھا۔۔۔اور تیسری بیٹھی انابیہ جو اٹھارہ سالہ کالج اسٹوڈنٹ تھی"الطاف جتوئی نے جوائنٹ فیملی میں رہنے کے بجائے الگ رہنے کو ترجیح دی تھی تبھی اپنی بیوی بچوں سمیت وہ الگ گھر میں شفٹ ہوگئے تھے"باقی دو بھائی اپنے باپ کے ساتھ ہی رہا کرتے تھے چنانچہ الطاف خانزادہ کے بعد اُن کی آخری بیٹی رافعہ اور دوسرے نمبر پہ بیٹا جس کا نام اختر جتوئی تھا اِن دونوں بہن بھائی کی شادی ایک ساتھ ہوئی تھی"اختر جتوئی کی شادی اپنی کزن منیبہ بیگم سے ہوئی تھی جبکہ رافعہ کی شادی اُسماعیل صاحب نے اپنے دوست کے بیٹے سُہیل بلوچ سے کروائی تھی"جو بلوچستان کے ایک گاؤں کے رہائشی تھے"رافعہ کی دو بیٹیاں تھی ایک بڑی بیٹی جس کا نام چاندنی تھا اور دوسری بیٹی نین تارا تھی جس کو بچپن سے اپنے آپ میں رہنا پسند تھا مگر اپنی بڑی بہن میں اُس کی جان تھی"کیونکہ نین تارا پانچ سالہ کی تھی اور چاندنی بارہ سال کی تھی جب کار ایکسیڈنٹ میں رافعہ بیگم اور سُہیل بلوچ کا انتقال ہوگیا تھا تب سے چاندنی نے اپنی بہن کا خیال رکھا تھا۔۔۔چاندنی اور اختر جتوئی کا بیٹا یہ دونوں ہم عمر تھے"جبکہ اختر جتوئی کی دو بیٹیاں اور بھی تھی ایک حیات جو نین تارا سے دو سال بڑی تھی دوسری بیٹی کا نام فضا تھا جو انابیہ کی عمر کی تھی اُن کے بڑے بیٹے کا نام خاور جتوئی تھا"اسماعیل صاحب کا تیسرا بیٹا جن کا نام اصغر جتوئی تھا جن کی شادی بھی اپنی خالہ زاد انعم سے ہوئی تھی"اُن کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھی"بڑے بیٹے کا نام ازلان جو حیات کی عمر کا تھا دوسرے بیٹے کا نام ارسلان تھا جو اُنیس سال کا تھا"بڑی بیٹی کا نام سومل تھا اور چھوٹی بیٹی کا نام مومل تھا۔۔"یہ سب ایک گھر میں اپنی خوشحال زندگی بسر کررہے تھے جب اچانک اُن کی زندگی میں ایک طوفان آیا تھا اور وہ طوفان باقی کا تو کچھ نہیں مگر نین تارا کا سب کچھ لے گیا تھا"اپنے والدین کے بعد نین تارا کا سب رشتہ چاندنی سے جڑا تھا مگر جانے کیا بات تھی جس نے چاندنی کو حرام موت مرنے پہ مجبور کیا تھا اور وہ صبح کا اُجالا نہ دیکھ پائی۔۔۔بس اِس فانی دُنیا سے ہمیشہ کے لیے رُخصت ہوگئ۔جب چاندنی کا انتقال ہوا تھا تو اُس کی عمر اکیس سال تھی اور نین تارا چودہ سال کی تھی"جس کو اسماعیل صاحب اپنے ساتھ شہر لائے تھے اور چودہ سالہ نین تارا اپنے نانا کے ساتھ رہنے لگی تھی جب وہ شہر آئی تھی تو اُس کے پاس کچھ نہیں تھا سِوائے ایک ڈائری کے جو چاندنی کی ڈائری تھی"جس کو نین تارا نے پڑھنا تھا اور جاننا تھا کے اُس کی بڑی بہن نے خودکشی جیسا عمل کیوں کیا؟ایسا کیا ہوگیا تھا اُس کی زندگی میں جس وجہ سے اُس نے موت کو گلے لگادیا تھا"ایسے کئ راز نین تارا کے سینے میں دفن تھے"جن کو جانے کُھلنا بھی تھا یا نہیں یا بس ہمیشہ نین تارا کے سینے میں دفن ہوکر رہنا تھا"

❤❤❤❤❤❤❤

تم نے دیکھا تارا کو کیسے ناک منہ چڑھایا تھا مجھے تو وہ سخت زہر لگتی ہے"کتنا اٹیٹیوڈ ہے یار اُس میں آئے مین سیریسلی اِن دو تین سالوں میں اُس نے جسٹ ایک دو بڑے ماڈلنگ کے پروجیکٹ کیا کردیئے وہ تو خود کو کوئی توپ چیز سمجھنے لگی ہے۔۔۔۔احناف حیات کو ریسٹورنٹ لایا تھا جہاں آکر حیات نان سٹاپ بولنا شروع ہوگئ تھی۔۔ 

پانچ ماڈلنگ کے پروجیکٹ دو فلمز اور چار ایڈز کیے ہیں اُس نے اِن تین سالوں میں۔۔۔احناف نے سرسری لہجے میں بتایا

ہاں کتنی شرم کی بات ہے نہ ویسے آئے دن کسی نہ کسی غیرمرد کی بانہوں میں جھولتی نظر آتی ہے۔۔۔"دادا جان پتا نہیں کیوں اُس پہ سختی نہیں کرتے ڈریسنگ چیک کی تم نے اُس کی؟کس قدر ٹائیٹ تھی شرٹ اور جینز۔۔حیات اپنا کھانا بھول کر اُس سے بولی

جہاں تم ہوتی ہو وہاں مجھے کچھ اور نظر نہیں آتا۔۔احناف اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر بولا تو حیات نے شرما کر سرجُھکالیا۔

ویسے ہمیں تو ڈیڈ فرینڈ کے گھر ایک دن بھی نہیں رہنے دیتے اور یہ تارا پورے ایک سال بعد گھر آئی جانے کیا کچھ کیا ہوگا اُس نے دوسرے مُلک میں ظاہر سی بات ہے وہ اکیلی تھی"کسی کی کوئی روک ٹوک بھی نہیں تھا جو جی میں آیا ہوگا وہ کیا ہوگا بے لگام جو ہے۔۔حیات افسردہ سانس خارج کیے بولی

حیات اِف یو ڈونٹ مائینڈ پر کیا ہم نین تارا کے علاوہ کچھ اور ڈسکس نہیں کرسکتے؟آئے میں نین تارا کا ہمارے درمیان کیا ذکر یہ ہم دونوں کا اسپیشل مومنٹ ہے تو پلیز تم مجھے وہ انجوائے کرنے دو۔۔۔احناف اُس کی ساری بات سن کر سنجیدگی سے بولا تو حیات کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی

مجھے خود ہمارے درمیان ٹھرڈ پرسن کا ذکر پسند نہیں پر آج اِتنے وقت بعد تارا کو دیکھا تو تبھی باتیں کرنے لگ گئ۔۔"میں یار احناف سوچتی ہو وہ کیوں ہے ایسی؟وہ ہماری طرح کیوں نہیں؟اُس کا شوبز میں جانا ضروری تھا کیا؟کیا کمی تھی اُس میں ہر چیز بن کہے دادا جان اُس کے سامنے رکھتے ہیں ورنہ وہ کیا اُس کی اوقات کیا؟وہ ایک گاؤں کی رہائشی تھی اگر میرے دادا جان ترس کھاکر اُس کو یہاں نہ لاتے تو باقیوں کی طرح وہ بھی گنوار ہوتی یا اب تک شادی وغیرہ بھی اُس کی ہوچکی ہوتی جسٹ امیجن تب وہ کیسی لگتی"؟حیات جو بنا سانس لیے ان گنت سوالوں کا انبار کھول لیا تھا آخر میں اُس کا لہجہ پرشوق ہوگیا تھا اِس بیچ میں وہ احناف کے بدلتے تاثرات بھی نوٹ نہیں کرپائی تھی۔۔

پلیز یار لِیو دِس ٹاپک مجھے چڑ ہورہی ہے نین تارا کا نام سن سن کر وہ کیوں ہے؟کیسی ہے؟کیا ہے؟کیا ہوتی؟یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے ہم اُس کو یاد تک نہیں ہوتے ہماری سوچ تک اُس کے دماغ میں نہیں آتی پھر میں یا تم کیوں اُس کو ڈسکس کررہے ہیں؟ہمارے مومنٹ میں اُس کا ذکر کیوں امپورٹنٹ ہے وہ یہاں نہیں ہے مگر تم نے اُس کو یہاں بھی لا کھڑا کیا ہے تم کہتی ہو تمہیں اُس سے نفرت ہے تو یار کیوں اُس کی باتیں لیکر بیٹھ گئ ہو۔۔چھوڑدو اُس کے ذکر کو میں نہیں سُننا چاہتا اُس کے بارے میں کچھ بھی۔۔۔احناف کا صبر جیسے جواب دے گیا تھا تبھی ایک سانس میں بولتا چلاگیا

یو آر رائٹ اینڈ  آئے ایم سوری میں اگین اُس کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گی۔۔حیات اپنے دونوں کان پکڑتی کیوٹ سے منہ کے زاویئے بنا کر بولی

پلیز۔۔۔۔احناف محض اِتنا بولا

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

یہ کس حُلیے میں تم باہر آئی ہو گھر میں جوان کزنز بھی رہتے ہیں کوئی حیا شرم تم میں بچی ہے یا نہیں۔۔۔شام کے وقت نین تارا ہال میں آئی تو اُس کو دیکھ کر منیبہ بیگم نے سخت ناگوار لہجے میں کہا جو پیروں کو چھوتے اپنے نائٹ گاؤن میں ملبوس تھی۔۔

کیا خرابی ہے اِس میں؟یہ میرے نانا کا گھر ہے میں جیسے چاہے یہاں رہ سکتی ہوں یہ آپ کا مسئلہ نہیں اگر آپ کو اِتنا مسئلہ ہے تو اُن جوان کزنز سے کہے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لے کیونکہ ہر ایک چیز کا ٹھیکا نین تارا بلوچ نے نہیں لے رکھا۔۔۔نین تارا نے بھرپور طنز لہجے میں کہا تو منیبہ بیگم کو اُس پہ سخت تاؤ آیا

کس قدر بدلحاظ بے ادب لڑکی ہو اچھا ہوا جو یہ دن دیکھنے سے پہلے رافعہ مرچُکی ہے کب کا ورنہ اِس قدر بدلحاظ اولاد کے چال چلن دیکھ کر اُس نے ویسے بھی مرجانا تھا۔۔۔منیبہ بیگم کانوں کو ہاتھ لگاکر بولی تو نین تارا نے کوفت سے اُن کو دیکھا

ماجدہ میرے لیے گرین ٹی کا کپ میرے کمرے میں لیکر آؤ فاسٹ۔۔۔"یا ایسا کرو ٹیرس پہ لے آنا"نین تارا نے منیبہ بیگم کی بات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا تبھی اُن کو نظرانداز کیے مُلازمہ کو اُونچی آواز میں کہہ کر اُس نے اپنے قدم دوبارہ اُپر کی طرف بڑھائے

دیکھا انعم تارا کو تم نے؟منیبہ بیگم بیچ وتاب کھاتی انعم بیگم سے بولی

نظرانداز کرے بھابھی بچی ہے۔۔۔انعم بیگم نے رسانیت سے کہا

بچی نہیں ہے وہ اب اگر میری بچی ایسی بدلحاظی کا مظاہرہ کرتی تو میں نے اُس کو گلا گھونٹ کر مار دینا تھا۔۔منیبہ بیگم حقارت سے بولی تو انعم بیگم نے گہری سانس ہوا کے سُپرد کرتے اُن کو دیکھا

___________❤_________

گرین ٹی کا کپ پکڑے اور سیل فون لیے تارا ریلنگ کے پاس کھڑی ہوئی تو نظر غیرارادی طور پہ احناف اور حیات پہ پڑی جن کی گاڑی ابھی گھر میں داخل ہوئی تھی اور "حیات احناف کے گلے لگے اُس کے کان میں کچھ کہہ رہی تھی"گرین ٹی کا سِپ لیتے تارا نے نوٹ کیا جیسے احناف نے حیات کے گرد اپنے بازوں کا گھیرا نہیں ڈالا تھا۔۔"نین تارا نے اِس چیز کا خاص نوٹس نہیں لیا بس آسمان کی جانب اپنی نظریں اُپر کی جب اچانک اُس کو خود پہ کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی پر وہ نظرانداز کرتی ڈھیٹ بنی کھڑی رہی"پانچ منٹ بعد جب اُس نے اپنی نظریں نیچے کی تو حیات شاید گھر میں داخل ہوچُکی تھی اور احناف کی گاڑی ابھی باہر نکل گئ تھی"نین تارا گیٹ کو ہی دیکھ رہی تھی جب اُس کا سیل فون رِنگ کرنے لگا تو موبائل اسکرین کو دیکھا جہاں "life line"کالنگ دیکھ کر اُس کی رگ رگ میں سکون کی لہر ڈور گئ تھی اور بنا تاخیر کیے اُس نے کال ریسیو کی۔

مل گئ فرصت مجھے کال کرنے کی میں تو یہ سوچ کر آئی تھی کے تم ایئرپورٹ پہ میرے انتظار میں ہوگے مگر تمہاری بے چینی بے قراری سب کھوکھولی تھیں ۔بس فضول کے داعوے ہوتے ہیں محبت کے۔ایئرپورٹ لینے تو آئے مگر پھر نظر ہی نہیں آئے بول تو بہت بولے تھے کے ایک لمحے کے لیے بھی دور نہیں کروں گا خود سے"نین تارا اب وہاں موجود جھولے پہ بیٹھتی کافی خوشگوار لہجے میں بولی جب دوسری طرف سے جانے کیا کہا گیا جو اُس کی ہنسی کے جلترنگ چاروں طرف گونج اُٹھے تھے"اُس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ ایک لمحے کے لیے بھی غائب نہیں ہوئی تھی نیلی آنکھیں الگ انداز میں چمک رہی تھی۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

بھائی!

بھائی اچھا ہوا آپ آگئے مجھے یہ ٹاپک سمجھنا تھا پلیز میری ہیلپ کردے۔۔۔۔احناف گھر میں داخل ہوا تھا انابیہ اُس کی طرف بھاگ کر آتی بولی

پہلے جاؤ میرے لیے پانی لاؤ۔۔۔احناف نے کہا اور صوفے پہ ڈھے سا گیا

اوکے بھیا جی۔۔انابیہ اب جھٹ سے کچن کی طرف بھاگی

احناف مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔۔بینش بیگم احناف کے ساتھ بیٹھ کر بولی

جی امی بولے کیا بات ہے؟احناف سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا

سلطان کے ساتھ میں تمہاری شادی بھی کروانا چاہتی ہوں تمہارا بھی تو لاسٹ ایئر ہے اب۔۔۔بینش بیگم نے مسکراکر کہا

میری شادی ہوگی مگر یار امی پہلے میرا یہ سال کمپلیٹ ہوجائے ویسے بھی حیات ابھی پڑھ رہی ہے میں اِس لیے جلدبازی نہیں کرنا چاہتا۔۔۔احناف نے جوابً مسکراکر کہا تبھی انابیہ بھی کچن سے باہر آئی

بلکل سہی کہا آپ نے اگر شادیاں ایک ساتھ ہوگی تو جسٹ ایک بار ہمارے گھر میں ایوینٹس ہوگا شادی الگ الگ ہو تو یہ زیادہ بہتر ہوتا ہے۔۔انابیہ پانی کا گلاس احناف کو دیتی بینش بیگم سے بولی

تم تو چپ رہو ہر وقت بس تمہارے دماغ میں شادی فنکشن رہتے ہیں۔۔۔بینش بیگم نے اُس کو جھڑکا

بھائی آپ خود امی کو سمجھائے۔۔۔انابیہ نے منہ بسورا

آپ کو اچانک میری شادی کا خیال کیسے آیا؟احناف نے سنجیدگی سے پوچھا

انابیہ تم اپنے کمرے میں جاؤ۔۔۔بینش بیگم نے انابیہ سے کہا

میں کیوں جاؤں اِتنی اہم ڈسکشن چھوڑ کر۔۔۔انابیہ نے ہاتھ کھڑے کیے

انابیہ۔۔۔۔۔بینش بیگم نے تنبیہہ کرتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر نام لیا تو ناچار انابیہ کو اُٹھنا پڑا

مُنیبہ کا فون آیا تھا وہ چاہتی ہے حیات کی شادی نین تارا سے پہلے ہو اُس کو ڈر ہے کہی ابو سارا کچھ جہیز میں نین تارا کو نہ دے ڈالے۔۔بینش بیگم آہستہ آواز میں بتانے لگی۔۔

واٹ ربش۔۔۔احناف کا موڈ بُری طرح سے خراب ہوا

باقیوں کی طرح تمہارا بھی کیوں موڈ بگڑ جاتا ہے نین تارا کا نام سن کر۔۔۔بینش بیگم نے جاننا چاہا

امی یار کیا خاندان میں بس ایک نین تارا ہے جو سب کی لبوں پہ اُس کا نام ہوتا ہے؟آپ چچی سے کہے دے ہمیں کونسا جہیز میں انٹرسٹ ہے حیات خالی ہاتھ بھی آئے تو مجھے قبول ہے اُن کو اِس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں"احناف نے سنجیدگی سے کہا

میں بات کروں گی تم ٹینشن نہیں لو۔۔۔بینش بیگم نے اُس کو تسلی کروائی 

میں کیوں ٹینشن لینے لگا۔۔احناف کو سمجھ نہیں آیا

اچھا دفع کرو اِن باتوں کو فریش اپ ہوجاؤ میں کھانا لگواتی ہوں۔۔ بینش بیگم نے کہا

اُس کی کوئی ضرورت نہیں میں باہر سے کھاکر آیا ہوں۔۔۔احناف نے بتایا

ویسے میں ایک بات سوچ رہی تھی حیات تمہاری منگیتر ہے تو اب شادی تک اُس سے میل جول کرنا زرا کم کرو۔۔۔بینش بیگم نے کہا

اور ایسا کیوں؟احناف نے پوچھا

ایسے ہی نظر لگ جاتی ہے۔۔۔بینش بیگم نے کہا تو احناف مسکرایا

نہیں لگتی نظر فکر نہیں کرے میں اب اپنے کمرے میں جارہا ہوں۔۔۔احناف اُٹھ کر بولا تو جوابً بینش بیگم نے محض اپنے سر کو جنبش دی۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

صبح تارا کی آنکھ نو بجے کے وقت کُھلی تو اُس نے سب سے پہلے اپنا سیل فون چیک کیا جہاں اُس کی سوچ کے مُطابق میسج آیا ہوا تھا۔۔

Good morning my life have a good day.

میسج پڑھنے کے بعد نین تارا کا موڈ خوشگوار ہوگیا تھا۔۔تبھی کچھ سوچ کر اُس نے بھی ایک میسج اُس کے نمبر پہ چھوڑا

Can we meet?

میسج سینڈ کرنے کے بعد وہ اُٹھنے والی تھی جب خلاف توقع رپلائے جلدی موصول ہوا تھا جیسے دوسری طرف بیٹھا شخص اُس کے جاگنے اور میسج کے انتظار میں تھا

Yeah of course why not.

میسج ریڈ کرنے کے بعد وہ زِیر لب مسکرائی

OK then I'm coming in 3 hours.

میسج سینڈ کرنے بعد وہ اُس کے جذبات کے بارے میں سوچنے لگی وہ جانتی تھی "یہ تین گھنٹے دوسری طرف تین صدیوں کے برابر ہوگے۔۔۔

Waiting.

اُس کا میسج پڑھنے کے بعد اب کی تارا نے اپنا سیل فون آف کیا اور واشروم میں نہانے کے غرض سے چلی گئ۔۔۔بیس منٹ بعد وہ نہاکر باہر آئی تو ڈھیلی ڈھالی شرٹ اور ٹراؤزر میں تھی وہ گیلے بالوں کو تولیے سے رگڑتی مرر کے سامنے کھڑی ہوئی تو اچانک اُس کے دماغ میں ایک خیال آیا تو وہ جلدی سے اپنے سیل فون کی طرف بڑھی اور میسج لکھنے لگی اِس وقت اُس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا ہاتھوں میں لرزش واضع تھی بلآخر سب اس نے میسج لکھ کر سینڈ کیا۔

Did you see my new photo shoot?

میسج سینڈ کرنے کے بعد وہ سانس رُکے اُس کے رپلائے کی منتظر ہوئی

No.

اِس بار جواب پانچ منٹ بعد آیا تھا وہ بھی مُختصر یکلفظی جس کو پڑھ کر اُس نے موبائیل بیڈ پہ پھیکا پھر کمرے کی کھڑکی کے پاس جاکر کھڑی ہوئی جو گھر کے لان کی طرف کُھلتی تھی"جہاں کا منظر وہ صاف دیکھ سکتی تھی۔۔

"ازلان "حیات"فضا ارسلان سومل اور مومل یہ سب اُتوار ہونے کی وجہ سے کرکیٹ گیم کھیلنے میں مگن تھے۔۔یہ دیکھ کر وہ کھڑکیوں کا پٹ بند کرتی لیپ ٹاپ لیے کمرے سے باہر نکلنے لگی۔۔۔

ماجدہ میرے لیے کافی کا کپ لان میں لانا۔۔۔ہال سے گُزرتے ہوئے اُس نے کام کرنے والی سے کہا

تم آؤٹ ہوئے ہو ازلان بیٹ مجھے دو۔۔حیات نے گھور کر ازلان سے کہا

میں آؤٹ نہیں ہوا تمہیں بالنگ ہی نہیں آتی۔۔ازلان صاف مکرگیا۔۔۔نین تارا سب پہ ایک نظر ڈالتی لان میں موجود چیئر پہ بیٹھ کر اپنا لیپ ٹاپ کھول کر ٹیبل پہ رکھا

آپ بھی ہمیں جوائن کرلے۔۔فضا نے نین تارا سے کہا تو وہ چونک کر اُس کو دیکھنے لگی

مجھے بچوں والے گیم کھیلنے کا شوق نہیں۔۔نین تارا نے سرجھٹک کر کہتے اپنے کام میں مگن ہوگئ۔۔

اوو یس احناف آگیا میں اب اُس کی پارٹی میں ہوگی دیکھتی ہوں تم کیسے اب چیٹنگ کرتے ہو۔۔۔حیات ازلان کو زبان دیکھاتی احناف کی طرف بھاگی۔۔

تم نے تو آج سرپرائز کردیا اور خوب وقت پہ آئے ہو اگین ٹاسک کرتے ہیں کرکیٹ گیم کھلتے ہیں میں اور تم ایک ٹیم میں ہوگے۔۔۔حیات نے گاڑی سے نکلتے احناف کو دیکھ کر پرجوش لہجے میں کہا

مجھے دادا جان سے ایک ضروری کام ہے میں پھر کبھی کھیلوں گا۔۔۔احناف نے سنجیدگی سے انکار کیا

نو پلیز احناف ابھی آج کھیلو پلیزززززز پلیززززز

پلیززززز۔۔۔حیات اُس کا ہاتھ پکڑے ضدی لہجے میں بولی تو احناف جو اُس کے انداز میں کان میں انگلی تھونسے یہاں وہاں دیکھ رہا تھا نظر ہر ایک سے بے نیاز "نین تارا پر پڑی جو لیپ ٹاپ میں کچھ ٹائپ کرتی وقفے سے کبھی کافی کا گھونٹ بھر رہی تھی۔

ٹھیک ہے چلو۔۔۔احناف نے ہار مان لی تو سب نے یاہوووو کا نعرہ لگایا جس پہ نین تارا اکتاہٹ بھرے لہجے میں اُن کو دیکھتی اپنے کان میں ایئر پوڈ ڈالنے لگی۔۔۔

بیٹنگ میں کروں گا سب سے پہلے۔۔۔احناف شرٹ کے کف فولڈ کرتا ازلان سے بیٹ لیکر بولا

اوکے میں پھر بالنگ میں کروں گا۔۔۔ازلان نے گھاس سے بال اُٹھاکر کہا

ایز یو وِش۔۔۔۔احناف اِتنا کہتا اپنی جگہ سنبھالی

یہاں سکسر ہے اور وہاں چونکا۔۔حیات نے اُس کو سمجھایا تو احناف گھور کر اُس کو دیکھنے لگا

پہلی بار نہیں کھیل رہا میں۔۔احناف نے جتانے والے انداز میں کہا تو حیات کھسیانی ہوئی پھر سب نے اپنی اپنی جگہ سنبھالی تو ازلان نے بالنگ شروع کی۔۔۔

چھکا۔۔۔۔۔۔احناف نے جیسے ہی بیٹنگ شروع کی حیات اور مومل نے چیخ کر کہا

ارسو جان نہیں ہے کیا بال کیچ نہیں کرسکتا۔۔۔ازلان نے ارسلان کو گھور کر کہا جو نین تارا کو دیکھنے میں مگن تھا

ڈونٹ وری برو اب کروں گا۔۔۔نین تارا سے نظریں ہٹاکر ارسلان نے جھٹ سے کہا تو احناف نے چیلنج کرتی نظروں سے اُس کو دیکھا پھر اگین ازلان نے بالنگ شروع کی تو اُس کے مخالفین نے اپنے ہاتھ کھڑے کیے جس پہ احناف نے تیز بیٹنگ کی تو بال سیدھا ہر چیز سے لاپروا بیٹھی "نین تارا کے برہنہ بازوں پہ زور سے لگا تھا جس پہ کچھ پل کے لیے خاموشی کا راج ہوگیا تھا مگر وہ جو غور سے لیپ ٹاپ اسکرین کو دیکھ رہی تھی اِس اچانک افتاد پہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوتی اپنا بازوں دیکھنے لگی جہاں اُس کے گورے بازو پہ سرخ نشان صاف عیاں تھا۔۔"بال جتنی زور سے لگی تھی اُس پر بڑی مشکل سے اُس نے اپنی چیخ کا گلا گھونٹا تھا

واٹ دا یہ کس جاہل نے مارا بال؟نین تارا اپنی جگہ سے اُٹھتی اُن پہ چلائی تو سب لوگ نے گردن موڑ کر "احناف کو دیکھا جو اپنے کان کی لو کُھجاتا آسمان کی طرف دیکھ کر جانے کیا تلاش کررہا تھا"یہ دیکھ کر نین تارا کو غُصہ تو بہت آیا تھا مگر خود پہ ضبط کرتی وہ دندناتی وہاں سے اندر کی طرف بڑھی

او مائے گوڈ یہ کہی دادا جان سے شکایت نہ لگادے۔۔اُس کے جانے کے بعد سومل نے کہا

نہیں لگائے گی ڈونٹ وری۔۔۔مومل نے اُس کو تسلی دی

ویسے اُس کی سرخ رنگت دیکھنے والی تھی قسمے سواد آگیا۔۔حیات مزے سے بولی

وہ تو گئ ہم تو اپنا گیم شروع کرے۔۔۔ارسلان نے نین تارا کو گھر میں اندر جاتا دیکھ لیا تو اُن سب سے کہا

ہاں کیوں نہیں۔۔حیات نے کہہ کر احناف کو دیکھا جو جانے کِن خیالوں میں گُم تھا

تمہیں کیا ہوا؟ میں تو ویسے آج بڑی تم سے ایمپریس ہوئی ہو۔۔حیات نے چہک کر کہا تو احناف نے چونک کر اُس کو دیکھ کر بیٹ خود سے دور پھینکی پھر بنا کسی پہ نظر ڈالے وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا

اِس کو کیا ہوا؟ازلان حیرت سے اُس کی پشت کو دیکھنے لگا

کیا ہوتا جو تارا باہر نہ آتی اچھا خاصا ہمارا موڈ برباد کیا۔۔۔فضا نے منہ کے زاویئے بگاڑ کر کہا

سویٹی وہ تو یہاں آئی ہی ہمارا وقت اور زندگی برباد کرنے۔۔حیات نے سرجھٹک کر کہا

بُری بات ہے حیات وہ بھی ہماری کزن ہے تو پلیز تم اپنا رویہ اُس کے ساتھ ٹھیک رکھو۔۔۔ازلان نے سنجیدگی سے اُس کو ٹوک کر کہا

تم نہ ہر وقت اُس کی طرفداری مت کیا کرو۔۔۔حیات نے بیزاری سے اُس کو ٹوکا جس پہ ازلان اپنا سر نفی میں ہلاتا رہ گیا۔

❤❤❤❤❤❤

تم اگر وہاں کھیل نہیں رہی تھی تو بیٹھی کیوں؟انعم بیگم اُس کے بازوں پہ برنال لگاتی بولی

مجھے وہاں بیٹھ کر اپنا کام کرنا تھا اور یہ چوٹ جان کر احناف نے مجھے دی ہے۔۔۔۔تارا جلتی نظروں سے اُن کو دیکھ کر بولی

احناف ایسا نہیں ہے وہ جان کر کسی کو ہرٹ نہیں کرتا "تمہاری بات تو الگ ہے تم نے کونسا اُس کا کچھ بگاڑا ہے جو وہ ایسی پچکانی حرکتیں کرے گا۔۔۔انعم بیگم نرم لہجے میں بولی

آپ نے تو اُس کی سائیڈ لینی ہے پر میں نے اُس کا کیا یہاں کسی کا بھی کچھ نہیں بگاڑا مگر پھر بھی سب کا اٹیٹیوڈ آپ کے سامنے ہے مجھے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔تارا نے کہا تو انعم بیگم نے گہری سانس خارج کیے اُس کو دیکھا

تارا بیٹا تم نے خود سب سے خود کو دور کیا ہے آج یا کل سے نہیں بلکہ سالوں سے تم نے اِس گھر کو کبھی اپنا گھر نہیں سمجھا اور نہ یہاں کے افراد کو۔۔انعم بیگم نے کہا تو تارا چپ رہی

آج بھی مجھے وہ دن یاد ہے جب نانو کے کہنے پہ نانا جان مجھے یہاں لائے تھے تو اختر چاچا نے مجھے اپنی بیٹی تو کیا بہن کی بیٹی بھی سمجھ کر گلے نہیں لگایا تھا بس سیدھا نانا سے یہ کہا کے تارا کو اپنے ساتھ کیوں لائے ہیں؟کچھ توقع بعد تارا نے کہا

اِس میں کونسی بڑی بات ہے۔۔

آپ کے لیے نہیں ہوگی مگر میرے لیے تھی میرا دل ایسے لوگوں سے بات کرنے کو بھی نہیں کرتا میں بس یہاں نانا جان کی وجہ سے ہوں۔۔۔تارا سنجیدگی سے اُن کو جواب دیتی اپنے کمرے میں آئی"پہلے تو یہاں سے وہاں ٹہل کر خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کرنے لگی مگر پھر میسج ٹیون نے اُس کا دھیان اپنی طرف کھینچا

I am anxiously waiting for you

میسج پڑھ کر اُس نے گہری سانس خارج کی پھر ٹائپ کرنے لگی۔

Plan cancel,today we can not meet.

میسج سینڈ کرنے کے بعد وہ سیل فون رکھتی بیڈ پہ اوندھے منہ لیٹ گئ"اُس کی آنکھوں کے سامنے بار بار کبھی بے نیازی کا مظاہرہ کرتے "احناف کا چہرہ سامنے آتا تو کبھی مسکراہٹ ضبط کرتی "حیات کا"وہ اُن میں سے کسی کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتی تھی تبھی تکیہ منہ پہ رکھ کر سونے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔"خوشقسمتی سے دوبارہ اُس کو نیند جلدی آگئ تھی مگر اُس کے فون پر مسلسل "life line"کالنگ لکھا چمک رہا تھا پر کال رِنگ بند ہونے کی وجہ سے وہ بے خبر لیٹی رہی۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

تارا کہاں ہے؟اسماعیل صاحب نے دوپہر کے وقت کھانے کی میز پر تارا کو نہیں دیکھا تو پوچھا

وہ سو رہی ہے۔۔۔۔انعم بیگم نے بتایا

یہ کونسا وقت ہے سونے کا؟اختر صاحب نے پوچھا

طبیعت تو ٹھیک ہے نہ اُس کی؟اسماعیل صاحب پریشان ہوئے

طبیعت کو کیا ہونا ہے ابھی آجکل فری ہے تو بستر توڑ رہی ہے۔۔۔مُنیبہ بیگم نے منہ بناکر جواب دیا

آج احناف کی بال لگ گئ تھی اُس کے بازو پر تو یہ بھی ہوسکتا ہے وہ انتظار کررہی ہو آپ کا کے دو میں تین چار ملاکر آپ کو اُس کی شکایت لگادے۔۔۔حیات نے بھی اپنا حصہ ڈالا

کریکٹ۔۔۔سومل نے اپنا ہاتھ آگے کیا تو حیات نے ہنس کر اُس کے ہاتھ پہ تالی ماری

یہ چیپ حرکتیں نین تارا نہیں کرتی۔۔۔۔ڈائینگ ہال میں اچانک نین تارا کی آواز پہ وہ چپ ہوئے

واٹ ایور۔۔حیات نے منہ کے زاویئے بگاڑے

اِن کو چھوڑو بچہ اور یہاں ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ۔۔۔اسماعیل صاحب ایک نظر سب پہ ڈال کر سنجیدگی سے کہا

شیور مگر میری جگہ پہ تو کوئی اور بیٹھا ہے۔۔تارا کا صاف اِشارا حیات کی طرف تھا جو اسماعیل صاحب بائیں طرف بیٹھی تھی جبکہ دائیں طرف اختر صاحب تھے۔۔

تمہاری جگہ کیسی؟یہ ہمارا گھر ہے سمجھی۔۔حیات نے پلٹ کر اُس کو گھورا

حیات۔۔۔اسماعیل صاحب نے اُس کو تنبیہہ کرتی نظروں سے اُس کو دیکھا

رہنے دے نانو ہم لان میں کرتے ہیں لنچ۔۔۔تارا طنز نظروں سے حیات کو دیکھ کر "اسماعیل صاحب سے بولی

تمہیں کرنا ہے تو تم کرو مگر ابو نہیں آئے گے۔۔منیبہ بیگم نے اُس کو گھورا

ماجدہ سے میں کہتا ہوں تم جاؤ میں بھی آتا ہوں۔۔اسماعیل صاحب کے ازلی روعب دار آواز میں کہا تو باقی سب حیرت سے اُن کو دیکھنے لگے۔۔

دادا جان ہم سب ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔۔آپ کہی نہیں جانے والے۔۔تم حیات دوسری چیئر پہ بیٹھو تمہیں پتا ہے یہاں تارا نے بیٹھنا ہوتا ہے۔۔۔ازلان "اسماعیل صاحب سے کہتا حیات کو بولا

یہاں اُس کا نام نہیں لکھا ہوا۔۔حیات دانت پیس کر بولی

ازلان بھائی اِٹس اوکے ہم ویسے بھی باہر جارہے ہیں۔۔نین تارا نے کہا

حیات دوسری چیئر پہ جاکر بیٹھو۔۔۔ازلان ایک سخت نظر اُس پہ ڈالتا دوبارہ سے بولا

لگتا ہے تمہارے بھائی کو "نین تارا کا بھائی لفظ ہضم نہیں ہوا۔۔۔۔سومل ارسلان کے کان میں سرگوشی نما آواز میں بولی

ظاہر سی بات ہے اِتنی خوبصورت اور اسٹائلش لڑکی کے منہ سے بھائی لفظ برداشت کرنا کسی بھی مرد کے لیے پاسبل بھی نہیں۔۔۔جوس کا گھونٹ بھرتا ارسلان مسکراہٹ ضبط کیے بولا تو سومل ہنس پڑی

میں

حیات بحث نہیں کرو اُٹھو یہاں سے ویسے ہی کھانے کے وقت اچھا تماشا لگ چُکا ہے۔۔۔حیات کچھ کہنے والی تھی جب اِس بار اختر صاحب نے کہا تو ناچار اُس کو اُٹھنا پڑا مگر دوسری چیئر پہ بیٹھنے سے پہلے اُس نے کھاجانے والی نظروں سے نین تارا کو دیکھا جو دل جلانے والی مسکراہٹ سے اُس کو دیکھ رہی تھی۔۔"مگر جیسے ہی دونوں کی نظریں چار ہوئی نین تارا نے آنکھ کا کونا دبایا جس نے جلے پر نمک کا کام کیا تھا

آجاؤ بیٹا ہوگئ ہے تمہاری فرمائش پوری۔۔اسماعیل صاحب نے اُس کو کھڑے دیکھا تو مسکراکر بولے

شکریہ نانوں جان ایک آپ کو خیال ہے میرا ورنہ باقی سب تو بھول گئے ہیں کے اِس گھر میں میری ماں کا حصہ بھی نکلتا ہے۔۔۔تارا اُن کے پاس والی چیئر پہ بیٹھ کر سرسری لہجے میں بولی جس پہ بے اختیار کسی نے اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچا تھا۔۔

*************†**********

تیرا بیمار میرا دل

میرا جینا ہوا مشکل

کروں کیا ہائے

ہائے

تیرا بیمار میرا دل

میرا جینا ہوا مشکل

کروں کیا ہائے

ہائے

سارا دن سونے کی وجہ سے رات کے وقت اُس کو نیند نہیں آرہی تھی تبھی وہ اپنے سوشل اکاؤنٹس چیک کررہی تھی جب کسی آواز نے اُس کا دھیان اپنی طرف کھینچا"تارا نے غور کیا تو یہ آواز کھڑکی سے آرہی تھی۔۔

شٹ۔۔۔ایک خیال کے آتے ہی وہ جلدی میں گانے کی آواز کم کرتی کمبل سے نکلتی کھڑکی کی طرف آکر کھڑکیاں کُھولی تو اپنی سوچ کے مُطابق اُس کو کھڑا دیکھ کر تارا بے یقین نظروں سے اپنے سامنے اُس کو دیکھنے لگی۔جو مسکراکر اُس کو ہی دیکھ رہا تھا"

کیا ہوا؟اُس نے اپنا ہاتھ لہرایا

تم یہاں کیا کررہے ہو؟تمہارا دماغ ٹھیک ہے اگر کسی نے دیکھ لیا تو؟تارا ایک نظر اپنے کمرے کے بند دروازے پہ ڈالتی اُس کو گھور کر بولی جس پہ جوابً اُس کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ آئی

ڈرتا نہیں کسی سے"تمہیں بھی ڈرنا نہیں چاہیے۔۔۔کمرے میں داخل ہوتا وہ پرسکون لہجے میں گویا ہوا

میں اِن سے کبھی ڈر سکتی بھی نہیں۔۔۔تارا سرجھٹک کر بولی تو اُس نے تارا کو اپنی جانب کھینچا

حد میں رہو اپنی۔۔۔تارا نے اُس کو خود سے دور کرنا چاہا

پلین کیوں کینسل کیا؟تمہیں اندازہ ہے کتنا انتظار کرتا رہا میں تمہارا۔۔وہ اُس کے گرد اپنا حصار قائم کرکے بولا

موڈ خراب ہوگیا تھا۔۔۔تارا نے وجہ بتائی

مجھ سے ملنے آجاتی چٹکی میں موڈ اچھا کردیتا تمہارا۔۔۔وہ اُس کے چہرے پہ آتے بالوں کو سائیڈ پہ کرتا بولا تو تارا نے اپنا سر اُس کے سینے پہ رکھا

چینج دِس ٹاپک۔۔۔نین تارا بیزار ہوئی

ایز یو وِش۔۔۔وہ آرام سے کہتا اُس پہ گرفت اپنی مضبوط کی تو"تارا سی کرتی اُس سے دور ہوئی

کیا ہوا؟وہ پریشان ہوا

کچھ نہیں۔۔۔تارا اپنے بازوں پہ ہاتھ رکھتی نفی میں سرہلاگئ

کیا کچھ نہیں دیکھاؤ مجھے۔۔وہ اُس کا ہاتھ دور کرتا بازوں چیک کرنے لگا جہاں بڑا سا سرخ نشان دیکھ کر اُس نے اپنے ہونٹوں کو بھینچا

یہ؟وہ بس یہ کہہ پایا

بال لگا تھا بس۔۔۔تارا نے اُس کا دھیان ہٹانا چاہا

دوائی لی ہے؟اُس نے پوچھا

کیا ہوگیا ہے بال لگی ہے کونسا گولی لگی تھی۔۔تارا کو ہنسی آئی مگر اُس کے الفاظوں پر سامنے والے کے دل کو کچھ ہوا تھا

آئے لو یو یار لو یو سومچ دوبارہ ایسا کچھ منہ سے مت نکالنا۔۔۔وہ زور سے اُس کو اپنے سینے سے لگاکر بولا تو نین تارا مسکرائی

نہیں کہتی کچھ مگر ابھی تم جاؤ۔۔۔تارا نے کہا

کیوں جاؤں میں؟آج میں یہی رہنے والا ہوں۔۔۔وہ آرام سے کہتا بیڈ پہ لیٹ گیا

پاگل ہوگئے ہو؟اُٹھو اور جاؤ اِس سے پہلے کسی کو شک ہوجائے۔۔تارا کو غُصہ آیا


آ جا چل توں میرے ساتھ

یاراں چل توں یہ رات

کبھی نہ آوے آوے

آنکھ لڑ جاوے ساری رات

نیند نہ آوے


غُصے میں آفت لگتی ہو ویسے گانا مست لگایا ہے۔۔۔گانا دوسرا شروع ہوا تو اُس کو دیکھ کر آنکھ وِنک کیے بولا تو تارا نے تاسف سے اُس کو دیکھا

ایک تمہارے سامنے بے بس ہوجاتی ہوں۔۔۔تارا نے ہار مان لی۔۔۔

کیا اِس کو مرضِ محبت کہتے ہیں؟وہ شوخ ہوا

تمہیں کیا لگتا ہے؟تارا نے اُس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں اُس کا عکس تھا۔۔۔

یہی لگتا ہے مجھے تو۔۔۔اُس نے تارا کے ماتھے پہ بوسہ لیا

زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں یہ لو تکیہ اگر یہاں سونا ہے تو صوفہ پڑا ہے ایڈجسٹ کرلوں خود کو۔۔۔تارا نے شانِ بے نیازی سے بولی

سونے نہیں آیا تمہیں دیکھنے آیا ہوں اور ساری رات یہی کام کروں گا"تمہیں تو میری بے خودی کا اندازہ تک نہیں۔۔۔وہ جذب سے بولا

کیوں کرتے ہو اِتنی محبت؟تارا نے ہمیشہ سے کیا جانے والا سوال کیا

محبت کرنے کے لیے کسی وجہ کا ہونا ضروری نہیں ہوتا میں نے جب پہلی بار تمہاری اِن نیلی آنکھوں میں دیکھا تھا تب سے دل ہار گیا تھا۔۔۔وہ مبہم مسکراہٹ سے جواب دینے لگا۔۔

اگر ایسا ہے تو تم جو کام کرنے آئے ہو وہ کرو کیونکہ میں اب سونے لگی ہوں۔۔۔تارا پرسکون لہجے میں کہتی اپنا سر اُس کی گود میں رکھا تو اُس کے ہونٹوں کو گہری مسکراہٹ نے چھوا

بچی ہو تم۔۔۔وہ اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا تو تارا کو گونا سکون میسر ہوا

کیونکہ تم میرے لاڈ اُٹھاتے ہو اِس لیے ہوں میں ایسی۔۔۔تارا نے بنا تاخیر کیے جواب دیا۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

امی میرا شیفون کا ڈوپٹہ نہیں مل رہا جو کریمی رنگ کا تھا۔۔۔۔حیات اپنے کمرے سے باہر آتی مُنیبہ بیگم کو آواز دیتی بولی

مجھے نہیں اپنے کمرے کی الماری میں ٹھیک سے چیک کرو۔۔۔۔مُنیبہ بیگم نے لاعلمی کا مُظاہرہ کیے کہا

پورا کمرہ چھان مارا ہے میرا ڈوپٹہ نہیں ملا اب یونی کیسے جاؤں گی؟حیات پریشان ہوئی

کیا ہوگیا ہے بیٹا کوئی اور ڈریس پہن لو۔۔۔انعم بیگم نے کہا

چینج کرنے کا وقت نہیں ہے آج میرا ضروری لیکچر ہے مجھے جلدی جانا تھا یونی اور میرا دوسرا جوڑا بھی کوئی استرہ شُدہ نہیں۔۔۔حیات نے بتایا

تو ڈوپٹہ تلاش کرنے سے اچھا اپنا کوئی ڈریس پریس کرو۔۔۔مُنیبہ بیگم نے کہا

میں نے کبھی پریس نہیں کیے آپ کسی ملازمہ سے کہے۔۔۔حیات نے سرجھٹک کر کہا

وہ ناشتے کی تیاری میں ہیں تم ایسا کیوں نہیں کرتی ایک مرتبہ نین تارا سے پوچھ لوں کیا پتا اُن کے کپڑوں میں چلاگیا ہو تمہارا ڈوپٹہ۔۔۔۔انعم بیگم نے کہا

میں دیکھتی ہوں اُپر جاکر۔۔۔حیات اِتنا کہتی سیڑھیوں کی طرف بھاگی.

نین تارا کے کمرے میں آکر وہ بنا نوک کیے کمرے میں داخل ہوئی تو اُس کو نین تارا نظر نہیں آئی البتہ واشروم سے پانی گِرنے کی آواز سے اُس کو اندازہ ہوگیا تھا کے وہ نہا رہی ہے"

خود چیک کرتی ہوں۔۔۔حیات بڑبڑاتی وارڈروب کی طرف بڑھنے والی تھی جب اُس کو کچھ غیرمعمولی پن سا محسوس ہوا اُس نے گہری سانس لی تو چونک پڑی پھر ایک طائرانہ نظر پورے کمرے میں ڈالی

یہ خوشبو کیسی ہے؟تارا تو ایسا کوئی مردانہ پرفیوم استعمال نہیں کرتی؟حیات کی چھٹی حس بیدار ہوئی یکخلت اُس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر ایک واچ پر پڑی تو اُس نے احتیاطی نظر واشروم کے بند دروازے پر ڈالی پھر بھاگنے والے انداز میں سائیڈ ٹیبل سے وہ واچ اُٹھائی اور غور سے اُس گھڑی کو دیکھنے لگی جو بلیک کلر کی مہنگی اور خوبصورت گھڑی تھی اُس کو دیکھ کر حیات کو اُس گھڑی کی قیمت کا اندازہ ہوگیا کے بہت قیمتی ہوگی۔۔۔

او مائے گوڈ یہ مردانہ گھڑی اور پہلے پرفیوم کی خوشبو"اِٹس مین تارا کے کمرے میں رات کے وقت کوئی آیا تھا"پر کون؟نہ تو یہ گھڑی ہماری کسی فیملی میمبر کی ہے اور نہ ایسا پرفیوم کوئی گھر میں استعمال کرتا ہے تو کون ہے جس کو رات کی تاریخی میں تارا اپنے کمرے میں دعوت دیتی ہے؟یہ لڑکی تو میری سوچ سے زیادہ چیپ ہے یعنی اففف توبہ۔۔۔حیات گھڑی کو دیکھتی خود سے ایک کے بعد ایک سوال کرتی آخر میں نفرت انگیز لہجے میں بولی

تم یہاں کیا کررہی ہو؟نین تارا کے آواز سن کر اُس نے جلدی سے گھڑی کو اپنے ہاتھ میں چُھپایا

میرا ڈوپٹہ نہیں مل رہا تھا تم اپنے وارڈروب میں دیکھو شاید وہاں ہو۔۔۔حیات گہری نظروں سے اُس کا جائزہ لیتی بولی تو "نین تارا کو اُس کو دیکھنے کا انداز تھوڑا عجیب لگا مگر وہ اگنور کرتی بالوں میں لپیٹا تولیہ نکال کر بیڈ پہ پھینکا پھر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہوئی

میرے روم میں تمہاری کوئی چیز نہیں اب تم جاسکتی ہوں اور دوبارہ میرے کمرے میں دروازہ نوک کیے بنا نہ آنا۔۔۔نین تارا کے لہجے میں وارننگ تھی

میری مرضی میں جیسے چاہے آسکتی ہوں"تم سے مجھے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں"خیر کیا تمہارے کمرے میں کوئی آیا تھا؟حیات نے پوچھا تو ہاتھوں میں لوشن لگاتی نین تارا چونکی

میرے کمرے میں اگر کوئی آنے والا ہوگا تو مجھ سے پہلے تم سب کو پتا چلے گا ہاں اگر تم کمرے میں پھیلی خوشبو سے اندازہ لگا رہی ہو تو یہ میرا نیو لیٹسٹ پرفیوم کی خوشبو ہے۔۔۔نین تارا کے لہجے میں طنز واضع تھا"پر اُس کے چہرے پر بلا کا اعتماد تھا جس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حیات یقین کر بھی لیتی اگر گھڑی پر اُس کی نظر نہ پڑی ہوتی یا تارا کا ایسا کِھلا ہوا روپ اُس کی آنکھوں میں ٹھٹکتا نہیں

یقینً پھر چہرے پر فیشل بھی کوئی نیا کیا ہوگا تبھی اِتنا چہرہ گِلو کررہا ہے ورنہ دن کے وقت تو تمہارا چہرہ ایسا چمک دمک نہیں رہا تھا۔۔ حیات نے بھی جوابً طنز کیا

اِس کا جواب دینا میں ضروری نہیں سمجھتی خیر اب تم جاسکتی ہوں مجھے کپڑے چینج کرنے ہیں۔۔۔۔نین تارا نے کہا

واشروم میں کرکے آسکتی تھی۔۔۔"مجھے ابھی اپنا ڈوپٹہ دیکھنا ہے جو ضرور یہی ہوگا۔۔۔حیات نے کہا تو نین تارا نے بیزاری سے اُس کو دیکھا

ٹھیک ہے تم وہ دیکھو تب تک کپڑے میں تمہارے سامنے بدل لیتی ہوں مجھے کوئی مسئلہ نہیں بکاز وی آر کزنز۔۔۔۔نین تارا شانے اُچکاکر بولی تو حیات آنکھیں پھاڑ کر اُس کو دیکھنے لگی۔۔۔ابھی نین تارا اپنی پہنی ڈھیلی شرٹ اُپر کرنے والی تھی جب حیات ہوش میں آئی

بے شرم بے ہودہ لڑکی۔۔حیات اپنی نظریں فرش پر گاڑھتی کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئ۔۔تو نین تارا نے اپنے شرٹ ٹھیک کی اور وارڈروب سے اپنے ڈریس کا انتخاب کرتی اُس کو لیکر چینج کرنے کے لیے دوبارہ واشروم میں گُھس گئ۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

یہ گھڑی تمہاری ہے؟اپنے کمرے میں واپس آکر یونی بیگ اُٹھا کر وہ جیسے ہی کمرے سے باہر نکلی تو سامنا ازلان سے ہوا تبھی پوچھا

نہیں تو کس کی ہے؟ازلان پہلے تو گھڑی کو دیکھتا رہا پھر انکار میں سرہلاتا بولا

یہاں آؤ۔۔۔حیات اُس کا ہاتھ پکڑتی تنہا گوشے میں کھڑا کیا

کیا ہوا؟ازلان کو وہ ٹھیک نہیں لگی

یہ مجھے تارا کے کمرے سے ملی۔۔حیات نے بتایا

اوو تو تم اُٹھا کر کیوں لائی؟اور مجھ سے کیوں پوچھا کے میری ہے یا نہیں؟ازلان نے کہا وہ سمجھ نہیں پایا حیات کو

بیوقوف انسان یہ مردانہ گھڑی اُس کے کمرے میں کیا کررہی تھی یہ سوچنے کی بات ہے اور تمہیں پتا ہے اُس کے کمرے سے میل پرفیوم کی خوشبو بھی آرہی تھی۔۔۔حیات نے بتایا تو اُس کی بات کا مطلب سمجھ کر ازلان تیکھی نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا

حیات اپنی بات پر غور کرو اندازہ ہے کچھ تمہاری اِس بکواس کا کیا مطلب نکلتا ہے۔۔۔۔ازلان نے سنجیدگی سے کہا"اُس کو حیات کی ایسی بات بہت بُری لگی تھی

واٹ ایور ڈیوڈ میں سچ بول رہی ہو۔۔۔۔حیات نے یقین دلوانا چاہا

اِسٹاپ یار اور جسٹ لِیو اِٹ مجھے دو یہ گھڑی "اور تم اِس بات کا ذکر کسی سے بھی نہیں کرو گی گاٹ اِٹ۔۔ ازلان اُس کے ہاتھ سے وہ گھڑی چھین کر بولا

ایکسکیوز می مسٹر تم بڑے ہونے کا روعب نہیں جماسکتے واپس کرو یہ گھڑی۔۔۔حیات آنکھیں دیکھاکر کہتی اُس کے ہاتھ سے گھڑی واپس لی۔۔۔

حیات

یو نو ازلان آئے ڈونٹ نو بٹ یار تمہارے پاس نہ ہزار دلائل ہوتی ہیں جس سے تم اُس تارا کو سپورٹ کرتے ہو مگر حقیقت یہ ہے وہ جیسی نظر آتی ہے وہ ویسی نہیں ہے"اُس کا اٹینشن ہماری فیملی کو توڑنے کا ہے۔۔۔ازلان کچھ کہنے والا تھا جب حیات نے اُس کی بات درمیان کاٹ کر کہا

تم کیوں اُس کے لیے اِتنا نیگیٹو سوچ رہی ہو؟شی از ویری انوسینٹ اپنے کام سے کام تو رکھتی ہے نہ۔۔۔پھر کیا مسئلہ ہے تمہیں؟ازلان اُس کو کندھوں سے تھام کر بولا

First of all She is not innocent,and secondly you love her.

حیات اُس کے ہاتھ جھٹک کر کہتی جانے لگی تو ازلان اُس کا ہاتھ پکڑ کر زور سے اُس کو دیوار سے لگایا تو حیات کا بیگ اور ہاتھ میں پکڑی گھڑی زمین بوس ہوئی تھی اور خود ہکا بُکا ازلان کا انداز دیکھ رہی تھی جو خاصی ناگوار نظروں سے اُس کو دیکھ رہا تھا۔

ازلان؟؟؟؟حیات بے یقین نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی۔۔۔

ازلان اُس کو دیکھ کر کہنا تو بہت کچھ چاہتا تھا مگر اپنی زبان پر قفل لگاتا بنا کچھ کہے لمبے لمبے ڈُگ بھرتا وہاں سے نکلتا چلاگیا۔۔۔

ہے کیا اُس میں جو ہر کوئی دیوانہ بنا ہوا ہے اُس کا۔۔حیات حیرت سے بڑبڑائی اُس کو ازلان کا انداز ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔"پر وہ خود کو پرسکون کرتی اپنی گِری چیزیں اُٹھاتی باہر کے راستے نکل پڑی۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

السلام علیکم چچی جان حیات کہاں ہیں اُس کو کہے جلدی سے آجائے۔۔۔احناف ہال میں انعم بیگم کو دیکھتا حیات کے مطلق بولا

وعلیکم السلام احناف حیات تو ڈرائیور کے ساتھ چلی گئ۔۔۔۔انعم بیگم نے بتایا

ڈرائیور کے ساتھ مگر کیوں؟ہر روز تو اُس کو پِک کرنے میں آتا ہوں۔اور مجھے تو ایسا کچھ حیات نے بتایا بھی نہیں تھا۔۔احناف کو حیرت ہوئی

اُس کا کوئی ضروری لیکچر تھا تبھی جلدی میں نکل گئ"۔۔۔انعم بیگم نے وجہ بتائی

ہاں وہ مجھے بتایا تھا اُس نے پر ٹریفک کی وجہ سے میں تھوڑا لیٹ ہوگیا خیر اب چلتا ہوں"خُدا حافظ۔ احناف اِتنا کہتا دوبارہ واپس جانے والا تھا جب انعم بیگم نے اُس کو آواز دی

احناف اگر بُرا نہ لگے تو ایک بات کہوں؟

جی چچی بلکل پوچھے۔۔۔احناف نے مسکراکر اُن کو دیکھا

میں جانتی ہوں کل غلطی سے تمہاری بال تارا کو لگی ہوگی مگر بیٹا تمہیں تو پتا ہے وہ کتنا خائف رہتی ہے ہم سب سے۔۔۔انعم بیگم نے تھوڑا جِھجھک کر کہا

جی جانتا ہوں"ہم سے بات کرنا ہمیں دیکھنا وہ اپنی توہین سمجھتی ہے۔۔۔احناف سرجھٹک کر بولا

احناف بیٹا کم از کم تم تو اپنے منہ میں حیات کی زبان ڈال کر بات نہ کرو"تم سب کے اِس اٹیٹیوڈ کی وجہ سے وہ کسی سے کلوز نہیں ہوتی۔۔۔انعم بیگم کو افسوس ہوا احناف کی بات سن کر۔۔۔

اِس میں غلط کیا ہے چچی؟ہمارا اٹیٹیوڈ اگر ایسا بنا ہے تو اُس کی وجہ وہ خود ہے ورنہ یہاں فیملی جوائنٹ سسٹم میں وہ کیوں خود کو تنہا سب سے دور رکھتی ہے؟ہر ایک کو شک بھری غُصے سے بھری نظروں سے دیکھتی ہے بس اپنی منمناتی کرتی ہے"قابلِ اعتراض ڈریسنگ کرتی ہے ہر وہ چیز کرتی ہے جو اُس کو نہیں کرنی چاہیے"نہ اُس کے جانے کا کوئی وقت ہوتا ہے اور نہ آنے کا۔۔۔احناف سنجیدگی سے دو ٹوک لہجے میں بولا

"میرے پاس تمہاری اِن باتوں کا جواب نہیں"برحال میں بس اِتنا چاہوں گی وہ اِس وقت لاؤنج میں بیٹھی ہے تمہیں چاہیے کے کل کی وجہ سے اُس سے ایکسکیوز کرو کیونکہ وہ سمجھتی ہے کل جان کر اُس کو تکلیف دینے کے لیے تم نے اُس کو بال ماری تھی۔۔۔انعم بیگم نے سنجیدگی سے کہا

خودساختہ سوچیں پالنا اُس کا کام ہے"وہ خوامخواہ بات کو بڑھاوا دے رہی ہے۔۔احناف نے کہا

احناف وہ بات کو کوئی بڑھاوا نہیں دے رہی تم اُس سے بس ایکسکیوز کرو جاکر اُس کو اچھا لگے گا۔۔۔۔"تم سب کیوں بھول جاتے ہو وہ اکلوتی تم سب کی پُھُپھو زاد کزن ہے۔۔۔انعم بیگم نے کہا تو احناف نے گہری سانس ہوا کے سُپرد کی

آپ کے کہنے پر میں اُس سے معافی مانگ لوں گا۔۔۔احناف سنجیدگی سے کہتا اپنے قدم لاؤنج کی طرف بڑھائے جہاں وہ کوئی میگزین پڑھنے می مصروف تھی اور پاس بیٹھی ماجدہ اُس کے پاؤں میں مساج کررہی تھی۔۔۔

سوری۔۔۔۔۔۔احناف اُس کے سر پہ کھڑا ہوتا سیدھا یہ بولا تو نین تارا نے چونک کر اپنا سراُٹھایا

سوری فار واٹ؟نین تارا نے آئبرو اُپر کیے سوال داغا

چچی نے بتایا تمہیں یہ لگتا ہے کے میں نے جان کر تمہیں بال ماری مگر درحقیقت ایسا نہیں۔۔۔۔احناف اپنا چہرہ دوسری طرف کرتا بولا

تم جاؤ۔۔۔نین تارا نے ماجدہ کو جانے کا اِشارہ کیا تو وہ سراثبات میں ہلاتی اُٹھ کر چلی گئ۔۔۔

مجھے تمہارا سوری نہیں چاہیے کیونکہ مجھے پتا ہے تم نے جان کر یہ کیا تاکہ مجھے تکلیف ہو۔۔۔نین تارا نے کہا تو احناف نے اُفسوس سے اُس کو دیکھا

میں تمہارے سامنے کوئی وضاحت پیش نہیں کروں گا۔۔۔احناف نے کہا

مجھے تمہاری کسی وضاحت میں کوئی انٹرسٹ ہے بھی نہیں۔۔۔تارا نے دوبدو کہا جس ہر ایک آخری نظر احناف اُس پہ ڈالتا وہاں سے چلاگیا۔۔۔"تارا نے بھی اُس کے جانے کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا بس دوبارہ میگزین پڑھنے میں محو ہوگئ

❤❤❤❤❤❤❤

احناف تم یہاں واٹ آ سرپرائز یار۔۔۔۔حیات نے اپنی یونی میں احناف کو دیکھا تو خوشگوار حیرت بھرے لہجے میں کہا

صبح تم سے مُلاقات نہیں ہوئی تھی تو سوچا تم سے مل کر آفس چلا جاؤں،اگلی بار میرے بغیر یونی مت آنا۔۔۔۔احناف اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولا

سو کیوٹ دراصل میں آج بھی نہ آتی مگر میری ضروری کلاس تھی آٹھ بجے خیر وہ ہوگئ ہے اب ہم کہی بیٹھ کر ناشتہ کرتے ہیں۔۔۔حیات نے کہا تو احناف نے چونک کر اُس کو دیکھا

تم نے ناشتہ نہیں کیا تھا آنے سے پہلے؟احناف نے پوچھا تو حیات معصوم شکل بنائے اپنا سر نفی میں ہلانے لگی۔

حد کرتی ہوں یار خیر آؤ اُٹھو کیفٹیریا چلتے ہیں۔۔۔احناف نفی میں سر کو جنبش دے کر بولا

شیور اور تم نہ پروفیسر قدوس سے ضرور ملنا بہت تعریف کیا کرتے ہیں تمہاری۔۔۔حیات نے کہا

ہممم تمہارا لاسٹ ایئر ہے اُس کے بعد تمہاری بھی تعریف ہوگی۔۔۔۔احناف اُس کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر بولا

میں اِتنی خوش قسمت کہاں؟تمہاری بات الگ ہے تم ایک ہوشیار ذمیدار شاگرد تھے۔۔۔حیات نے شوخ لہجے میں کہا

تم احناف ہو؟ اور تم حیات رائٹ؟وہ دونوں ابھی کیفے داخل ہوئے تھے تو اُن کا سامنا ایک لڑکے سے ہوا جس پہ غور اُنہوں نے تو نہیں کیا تھا مگر سامنے والے نے کرلیا تھا۔۔۔۔

ہاں میں حیات ہوں اور یہ احناف ہے۔۔۔جواب حیات نے دیا تھا جبکہ احناف کی پرسوچ نظریں اسجد کے چہرے پہ تھیں

گائیز مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو میں ہوں،اسجد جمال حد ہے بھول گئے دونوں۔۔۔اسجد دونوں کے تاثرات دیکھ کر ہنس کر بولا تو حیات جہاں حیران ہوئی تھی وہی احناف کے دماغ میں کچھ کلک ہوا تھا

ایسی بات نہیں ہمیں تم یاد ہو بائے داوے تم تو آؤٹ آف کنٹری تھے نہ پھر پاکستان کیسے کب آئے؟حیات نے مسکراکر پوچھا

تارا کی وجہ سے آیا ہوں کیسی ہے وہ؟اسجد نے مسکراکر بتانے کے بعد پوچھا تو حیات کا منہ ایسے بن گیا جیسے کوئی کچا کڑوا کریلا کھالیا ہو

تم پاکستان آئے ہو تو ایسا کیسے ممکن ہے کہ تمہاری مُلاقات پہلے نین تارا کے بجائے ہم سے ہوئی ہو۔۔۔احناف نے سنجیدگی سے کہا تو جہاں اسجد خُجل ہوا تھا وہی حیات کے دماغ میں صبح والا واقع تازہ ہوا تو وہ غور سے اسجد کو دیکھنے لگی۔۔۔"وجیہ مضبوط سِراپا سیاہ آنکھیں کھڑی ناک اور عنابی ہونٹوں پہ مسکرائے سجانے والا اسجد ہر کسی لڑکی کا ڈریم بوائے ہوسکتا تھا"اُپر سے ایک مشہور فلم ڈاریکٹر کا بیٹا تھا اور وہ کسی بھی لحاظ سے کسی سے کم نہیں تھا مگر جہاں نین تارا کا مزاج ساتویں آسمان پہ ہوتا تھا وہی اسجد سُلجھا ہوا لڑکا تھا اور اُس کا تعلق بھی فلم انڈسٹری سے تھا

ہمیں جوائن کرلوں تم اسکول کی یادیں تازہ کرے گے۔۔۔حیات نے دونوں کے درمیان مُداخلت کی

شیور مگر آج نہیں پھر کبھی آج ابھی مجھے بہت ضروری کام سے جانا ہے۔۔۔۔اسجد نے مسکراکر کہا

اوکے ایز یو وِش چلو حیات۔۔۔احناف سنجیدگی سے اُس کی بات پہ کہتا حیات کا ہاتھ تھامے اندر چلاگیا پیچھے اسجد نے خاصے تعجب سے اُس کا انداز دیکھا تھا

یہ ابھی بھی نہیں بدلا۔۔۔اسجد ہنس کر بڑبڑاتا آنکھوں پہ گاگلز چڑھائے اپنے راستے چل دیا

اسجد کتنا چینج ہوگیا ہے میں نے اُس کو لاسٹ ٹائیم ایک فلم میں دیکھا تھا اب شاید دوسری فلم کی شوٹ میں مصروف ہوتا ہے وہ۔۔۔۔ایک ٹیبل پہ بیٹھ جانے کے بعد حیات نے باتوں کا سلسلہ شروع کیا

تمہاری آج اگر کوئی دوسری ایکسٹرا کلاس نہیں تو ہم آؤٹنگ پہ جائے باہر؟احناف نے سِرے سے اُس کی بات نظرانداز کی

گِریٹ میری کوئی کلاس نہیں پھر چلتے ہیں جہاں تم کہو۔۔۔۔۔حیات پرجوش ہوئی جبکہ احناف نے سر ہلانے پہ اکتفا کیا

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

دس سال پہلے!!!

بچوں اِدھر آؤ اپنی کزن تارا سے ملو۔۔۔۔۔۔۔اسماعیل صاحب ہاتھوں میں ٹیڈی بیئر تھامے چودہ سالہ تارا کو اپنے ساتھ لائے لان میں کِھلتے بچوں سے بولے تو اُن کی آواز پہ سب بچے"سُلطان ،احناف،خاور ازلان

،ارسلان،حیات فضا،مومل سومل انابیہ جو اُتوار ہونے کی وجہ سے مُل جُل کر کھیلنے میں مصروف تھے اپنے دادا کی آواز پہ بھاگ کر اُن کی طرف آئے

سلام کرو اپنی کزن کو اب سے یہ بھی ہمارے ساتھ رہے گی۔۔۔۔اسماعیل صاحب چودہ سالہ نین تارا کو اپنی گود میں اُٹھائے بولے تو سب بچوں کا مُنہ حیرت سے کُھل گیا

دادا جان یہ اِتنی بڑی ہے پھر بھی آپ اِس کو گود میں لے رہے ہو اور کیا یہ اِتنی بڑی ابھی تک ٹیڈی بیئر سے کِھلتی ہے؟سولہ سالہ حیات کھی کھی کرتی بولی تو سب بچے ہنس پڑے سِوائے"خاور ازلان اور احناف کے وہ تینوں بس تارا کو دیکھ رہے تھے جو اپنی نیلی آنکھوں میں اُداسی لیے اُن کو دیکھ رہی تھی اُس نے پہنا بھی نیلے رنگ کا فراق تھا جس سے وہ بہت پیاری اور معصوم گُڑیا لگ رہی تھی

اپنی ایج سے کم لگتی ہے اور دادا یہ اِتنی کمزور کیوں ہے؟"کیا وہاں اِس کو کوئی کِھلاتا پِلاتا نہیں تھا؟سولہ سالہ ازلان فکرمندی سے تارا کو دیکھ کر بولا جو اُن کے ساتھ ہوکر بھی نہیں تھی۔

یہاں رہے گی تو ہٹی کٹی ہوجائے گی پِچھلے کچھ دِنوں سے بیمار تھی تبھی یہ حال ہے اور حیات بیٹا یوں کسی پر ہنسا نہیں کرتے یہ تو پھر آپ کی چھوٹی کزن ہے۔۔۔۔"ٹیڈی بیئر سے یہ کِھیلا نہیں کرتی اِس کے بغیر ہماری تارا کو نیند نہیں آتی اِس لیے اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے۔۔۔۔اُسماعیل صاحب نے نرم لہجے میں محبت پاش نظروں سے تارا کو دیکھ کر اُن سے کہا

کچھ زیادہ ہی چھوٹی ہے۔۔۔اِس بار سومل منہ پہ ہاتھ رکھ کر بولی تو اُسماعیل صاحب نے نفی میں سر کو جنبش دی

اِس کی آنکھیں کتنی پیاری ہے لائیک جیسے یہ کوئی نیلی پری ہے۔۔۔۔سترہ سالہ سالہ احناف جو اب تک خاموش تھا ہاتھ میں فٹبال لیے تارا کو دیکھ کر ستائش لہجے میں بولا

میری تارا پریوں سے زیادہ پیاری ہے اب چلو باری باری اپنا تعارف کرواؤ۔۔۔۔اُسماعیل صاحب تارا کو نیچے اُتار کر اُن سب سے بولے

میں تمہارا فرسٹ کزن ہوں سُلطان۔۔۔۔اور یہ احناف ہے اور یہ ہماری چھوٹی بہن انابیہ جس کو ہم انا کہتے ہیں۔۔۔۔سُلطان نے احناف اور انابیہ کی طرف اِشارہ کرکے اُس کو بتایا

"اور میرا نام خاور ہے۔۔۔۔۔

ازلان اور ارسلان میرا بھائی

"حیات اور یہ چھوٹی بہن ہے میری فضا

سومل اور یہ مومل ہم دونوں بہنیں ہیں ازلان اور ارسلان یہ ہمارے بھائی ہیں دونوں

سب نے ایک ساتھ اپنا نام بتایا اور اپنا ہاتھ بھی آگے کیا مگر تارا اُن سے ہاتھ ملانے کے بجائے خاموش نظروں سے سب کو دیکھنے لگی۔

لگتا ہے اِس کو ہم پسند نہیں آئے۔۔۔اُس کو چپ دیکھ کر احناف نے اندازہ لگایا

ایسی بات نہیں تارا بچے ہائے فائے کرو۔۔۔اُسماعیل صاحب نے خود ہی تارا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر کہا

ہم کرکیٹ کھیل رہے ہیں تم ہمیں جوائن کرو۔۔۔۔ازلان نے پیش کش کی

ہاں ضرور تم اِن کے ساتھ کھیلوں میں تب تک آتا ہوں۔۔۔تارا کے بولنے سے پہلے اُسماعیل صاحب نے کہا اور گھر کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گئے

کیا تم گونگی ہو؟مومل نے اُس کو ایک لفظ بھی بولتا نہیں دیکھا تو آہستہ رازدرانہ انداز میں پوچھا

تمہارا ٹیڈی بیئر ویسے بہت پیارا ہے۔۔۔حیات اُس کے ٹیڈی بیئر پہ ہاتھ پھیر کر مسکراکر بولی


"دادا جان یہ اِتنی بڑی ہے پھر بھی آپ اِس کو گود میں لے رہے ہو اور کیا یہ اِتنی بڑی ابھی تک ٹیڈی بیئر سے کِھلتی ہے؟""


حیات کو دیکھ کر تارا کو اُس کے پہلے کہا جُملا یاد آیا تو غیرشعوری طور پہ اُس نے اپنا ٹیڈی بیئر دور کیا

آؤ ہمارے ساتھ۔۔۔احناف نے تارا کو دیکھے کہا

میں نہیں کھیلوں گی۔۔۔تارا پہلی بار لب کُشائی کرکے جانے والی تھی جب اُس کی نظر میڈ پہ گئ جو پُرانہ سامان شاید جلا رہی تھی یہ دیکھ کر وہ بھاگ کر اُس تک آتی اپنا فیورٹ ٹیڈ بیئر جلتی آگ میں جھونک دیا تو اُس کی حرکت پہ سب ایک دوسرے کا چہرہ تکتے رہ گئے

یہ اِس نے کیا کردیا؟دادا نے تو بتایا تھا ٹیڈی بیئر کے بغیر اِس کو نیند نہیں آتی۔۔۔ازلان حیرت زدہ لہجے میں بولا

حیات نے اِس کے ٹیڈی بیئر کو چھوا شاید اِس وجہ سے۔۔سومل نے اندازہ لگایا

میں کوئی اچھوت ہو کیا۔۔۔۔حیات کو غُصہ آیا

نہیں دوست تم اچھوت نہیں بس وہ شاید اپنی چیزوں کے لیے پوزیسیو ہے۔۔۔احناف نے ہنس کر کہا

ہماری طرف واپس آرہی ہے۔۔۔مومل نے اُن کا دھیان تارا کی طرف کروایا جو آہستہ آہستہ اُن کی طرف آرہی تھی

اگین میری چیز کو ہاتھ نہ لگانا۔۔۔تارا سنجیدگی سے اُس کو کہہ کر گھر کے اندر چلی گئ

بدتمیز جاہل گوار خود کو سمجھتی کیا ہے۔۔"یہ کیا اُور اِس کی اوقات کیا ایک گاؤں میں رہتی تھی اور اب دیکھو دماغ سوا نیزے پہ کرلیا ہے۔۔۔سب کے سامنے نین تارا کے الفاظ نے اُس کو شرمندگی میں مبتلہ کرلیا تھا تبھی غُصے سے پاگل ہوتی بولی کیونکہ آج سے پہلے کبھی اُس سے ایسے بات نہیں کی تھی وہ گھر بھر کی لاڈلی تھی۔۔

وہ گوار ہے تو تم اپنے پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت دو،یہ کیسی لینگیویج استعمال کررہی ہو وہ ہماری کزن ہے پہلی بار یہاں آئی ہے اُس کے ساتھ اِتنی بڑی ٹریجڈی ہوئی ہے تو یہ اُس کا ردعمل فطری ہے۔۔"ویسے بھی تم نے پہلے اُس پہ ٹیڈی بیئر کا بہانا بناکر ٹیز کیا پھر تعریف کی تو اُس کو غُصہ تو آئے گا نہ۔۔۔۔ازلان اُس کی بات سن کر تحمل سے بولا

ویسے وہ اٹیٹیوڈ گرل گوار نہیں لگی مجھے۔۔۔احناف نے پرسوچ لہجے میں کہا

گائیز تم دونوں کو ہوا کیا ہے اُس دو ٹکے کی تارا کی وجہ سے مجھے باتیں سُنارہے ہو اور احناف تمہیں اُس کی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ازلان کو اُس کی طرفداری کرنے کی۔۔۔۔حیات دونوں کو گھور کر بولی تو وہ چُپ ہوگئے۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

"اے لڑکی

تارا اکیلے ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی تھی جب مُنیبہ بیگم نے اُس کو مُخاطب کیا

میرا نام نین تارا ہے لڑکی نہیں۔۔۔۔نین تارا نے سراُٹھاکر اُس کو دیکھ کر کہا

میرے سامنے زبان چِلانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں جو کہو بس وہ سُناکر۔۔۔منیبہ بیگم اُس کا نازک بازو دبوچ کر بولی تو تارا کے چہرے پہ تکلیف دہ آثار نمایاں ہوئے

چھوڑو میرا بازو۔۔۔۔"میں نے نانا سائیں کو شکایت لگا دینی ہے ورنہ۔۔۔۔اپنے آپ کو اُن کی گرفت سے آزاد کروانے کی جدوجہد میں ہلکان ہوتی تارا نے کہا

مجھے دھمکی دیتی ہے۔۔۔

چٹاخ

منیبہ بیگم اُس کی بات سن کر غُصے سے آگ بگولہ ہوتی ایک زناٹے دار تھپڑ اُس کے نازک گال پہ مارا تو وہ اُوندھے منہ نیچے گِری تھی اور اُس کا سر ٹیبل پہ لگا تھا۔۔"درد سے اُس کے منہ سے سسکی نکلی تھی مگر منیبہ بیگم طنز نظروں سے اُس کو دیکھا تھا تبھی گھر میں داخل ہوتے کالج یونیفارم میں ملبوس احناف نے یہ منظر صاف اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا جبھی پریشانی سے تارا کی طرف بڑھا تھا جو حراساں نظروں سے اپنے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی جہاں خون کے چھینٹے تھے۔

چچی یہ کیا کردیا آپ نے بن ماں باپ کی چھوٹی بچی ہے یہ۔۔۔احناف خاصی مایوس نظروں سے حواس باختہ منیبہ بیگم کو دیکھ کر تارا کی پیشانی چیک کرتا بولا جبکہ منیبہ بیگم کو قطعاً اندازہ نہیں تھا کوئی اُن کو دیکھ سکتا ہے۔۔

بدتمیزی کررہی تھی یہ۔۔۔اپنا دامن چھڑانے کے لیے اُنہوں نے سارا ملبہ تارا پہ ڈالا جو خاموش بیٹھی تھی جیسے چوٹ اُس کو نہیں کسی اور کو آئی ہو ضبط سے اُس کی گوری رنگت سرخ پڑگئ تھی مگر حیرت انگیز طور پر اُس کی آنکھوں سے ایک بھی آنسو نہیں آیا

فرسٹ بوکس لائے آپ۔۔۔احناف بس اِتنا بولا تو منیبہ بیگم میڈ سے کہتی خود وہاں سے رفو چکر ہوگئیں

درد ہورہا ہوگا رو لو ویسے بھی بچی ہو تم۔۔۔احناف اُس کو صوفے پہ ببیٹھاتا بولا جس کے ایک گال پہ منیبہ بیگم کے ہاتھ کی پانچ اُنگلیوں کا نشان واضع تھا

مجھے رونا نہیں آتا اور آپ کالج میں پڑھتے ہو۔۔۔؟جواب میں تارا نے بس اِتنا کہا

ہاں میں سیکنڈ ایئر کا اسٹوڈنٹ ہوں تم اپنا بتاؤ کہاں تک پڑھی ہو دوبارہ اسٹڈی کب شروع کرو گی؟احناف نے بتانے کے بعد پوچھا

اپنے گاؤں میں دسویں جماعت کی طالبا تھیں میں اور میرے پرچے ہورہے تھے پھر نانا جان مجھے یہاں لائے۔۔۔۔تارا نے بتایا

اُردو کی اسٹوڈنٹ تھی؟احناف نے مسکراکر اُس کو دیکھا میڈ جب وہاں آئی تو اُس کے ہاتھ سے فرسٹ ایڈ بوکس لیکر جانے کا اِشارہ کیا

میرے کورس کی کتابیں پانچ تھیں وہاں اُس میں آسان اردو بھی تھا۔۔۔تارا نے جواب دیا

دوبارہ کب پڑھو گی؟نرمی سے وہ اُس کے ماتھے پہ آیا خون صاف کرتا پوچھنے لگا

جب نانا داخلہ کروائے گے۔۔۔تارا نے بتایا

تم ہمارے ساتھ آنا ہم سب کالج وین میں جاتے ہیں ہلا گُلا کرتے ہیں مزہ آتا ہے بہت تم بھی سب سے گُھل مل جاؤ۔۔۔احناف نے اُس کو مشورہ دیا

ازلان نے بتایا تھا یہ۔۔۔"نانا سے میرے داخلے کی بات بھی کی اُنہوں نے جب داخلہ ہوجائے گا تو اُن کے ساتھ جاؤں گی کیونکہ وہ گاڑی میں جاتے ہیں۔۔۔۔"الگ تھلگ۔۔۔۔تارا نے بتایا

ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی۔۔۔احناف نے شانے اُچکائے

ہے احناف تم یہاں اور تارا کو کیا ہوا؟ازلان گھر میں آیا تو جہاں احناف کو دیکھ کر اُس کو خوشگوار حیرت ہوئی تھی وہی تارا کے ماتھے پہ آئی چوٹ دیکھ کر وہ پریشان ہوا

چچ

میں گِرگئ تھی۔۔۔احناف اُس کو سب بتانے والا تھا جب نین تارا بول پڑی تو احناف نے حیرت سے اُس کو دیکھا وہ سمجھا تھا تارا سب کو بتادے گی مگر ایسا نہیں ہوا تھا ۔

خیال سے چلا کرو نہ اور یہ دیکھو میں تمہارے لیے ٹیڈی بیئر لایا ہوں بلکل ویسا جیسا تمہارا پہلے والا تھا۔۔۔ازلان نے گُلابی رنگ کا خوبصورت ٹیڈی بیئر اُس کے سامنے کیا جس کو دیکھ کر تارا کی نیلی آنکھوں میں چمک آئی اُس نے مشکور نظروں سے ازلان کو دیکھا

آپ کا بہت شکریہ۔۔۔۔ٹیڈی بیئر کو ہاتھ میں لیے تارا نے اُس کا شکریہ ادا کیا

مائے پلیرز اور احناف تم بتاؤ خیریت کالج سے سیدھا یہی آئے ہو کیا؟ازلان نے احناف سے پوچھا جو اب اپنے ہاتھ صاف کررہا تھا۔۔۔

ہاں حیات نے کہا تھا ایک سبجیکٹ اُس کو سمجھ نہیں آرہا تھا ہیلپ کرنے چلا آیا پھر مجھے سینٹر بھی جانا ہوتا ہے۔۔۔احناف نے وجہ بتائی یہاں آنے کی

میں اُس کو سمجھا دیتا پر اُس نے تمہیں پریشان کرنا ہوتا ہے خیر وہ ابھی تک آئی نہیں کیا؟ازلان آس پاس نظریں ڈورا کر پوچھنے لگا

ڈونٹ نو۔۔۔۔احناف نے لاعلمی کا مُظاہرہ کیا

تارا یہاں آجاؤ میں نے نوڈلز بنائے ہیں غضب خُدا کا اناڑی لڑکی ہے کھانے کے معاملے میں۔۔۔۔انعم بیگم کچن سے آتی تارا کو آواز دیتی بولی اور جب اُن کی طرف آئی تو انعم بیگم کی نظر اُس کے ماتھے پر چوٹ دیکھی تو پریشان ہوئی

یہ کیا ہوا ہے تمہیں دس منٹ پہلے تو ٹھیک ٹھاک میں تمہیں یہاں بیٹھا کر گئ تھی۔۔۔انعم بیگم گُھٹنوں کے بل اُس کے پاس بیٹھی

گِرگئ تھی ٹھیک سے کھائے گی نہیں تو یہی حال ہوگا دیواروں سے سر مارے گی یا ٹیبل سے اپنا پاؤں ٹکرائے گی۔۔۔جواب ازلان نے دیا تھا۔۔۔

تمہیں بھوک کی دوائی کھیلانی پڑے گی۔۔انعم بیگم نے تاسف سے اُس کو دیکھ کر کہا پر تارا نے کوئی جواب نہیں دیا

السلام علیکم چچی حیات کہاں ہے؟احناف نے اُن کو مُخاطب کیا

وعلیکم السلام احناف تم کب آئے؟انعم بیگم کی اب اُس پہ نظر گئ

کچھ دیر قبل۔۔۔احناف نے بتایا

اچھا حیات اسٹڈی روم میں ہوگی۔۔۔۔انعم بیگم نے بتایا تو احناف اپنا بیگ اُٹھاتا اسٹڈی روم کی طرف بڑھ گیا۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

آج ہاف ڈے تھا اور پھر بھی احناف تم آج لیٹ آئے ہو بیٹا۔۔۔۔۔احناف اپنے گھر تھکا ہارا لوٹا تو بینش بیگم نے کہا

امی وہ دادا کی طرف گیا تھا حیات کو ہیلپ چاہیے تھی کچھ۔۔۔۔احناف صوفے پہ ڈھے ہوتا بتانے لگا

کسی ہیلپ؟اور وہاں تارا بھی ہوتی ہے نہ کیسا ہے رویہ ہے سب کا اُس کے ساتھ؟"بچاری معصوم بچی کے ساتھ بُرا ہوا ہے بارہ سال کی عمر میں پہلے ماں باپ کو کھویا اور اب اِس چودہ سال کی عمر میں اکلوتا سہارا اپنی بہن کو بھی گنوادیا۔۔۔۔بینش بیگم افسردگی سے بولی

اچھا رویہ نہیں ہے کسی کا بھی اُس کے ساتھ۔۔۔۔احناف آہستگی سے بڑبڑایا

کچھ کہا کیا تم نے؟بینش بیگم نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا

میں نے کچھ نہیں کہا میں کمرے میں جارہا ہوں سوؤں گا پھر رات کو میرا کرکٹ میچ ہے۔۔۔۔احناف کلسمندی سے بولا

احناف پیپرز قریب ہیں تمہارے اُس پہ فوکس کرو اور اپنی اِن ساری فضول ایکٹویٹیز کو بند کرو باپ تمہارا پہلے ہی ناخوش ہے تم سے خیر سے بڑے ہو تم مگر بچوں کے ساتھ رہ رہ کر خود کو بچا بنالیا ہے۔۔۔۔بینش بیگم نے سنجیدگی سے کہا

فکر نہ کرے میرے مارکس اِس بار اچھے آئے گے ابھی آپ دعا کرنا میں میچ جیت جاؤں۔۔۔احناف نے اُن کی ساری باتیں ایک کان سے سُنی اور دوسرے کان سے نکال دی

❤❤❤❤❤❤

دادا جان۔۔۔۔ازلان اور حیات اُسماعیل صاحب کے کمرے میں آکر اُن سے مُخاطب ہوئے جو سوئی ہوئی تارا کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہے تھے۔۔۔۔۔

رات کے اِس وقت خیریت؟اُسماعیل صاحب نے تارا کے نیند میں ہونے کا خیال کرکے آہستگی سے پوچھا

بہت ضروری بات کرنی ہے آپ سے باہر آئے۔۔۔ازلان نے بھی اِس بار آہستگی سے کہا

کونسی بات؟اسماعیل صاحب نے سوالیہ نظروں سے اُن دونوں کو دیکھا

آپ باہر آئے تو سہی۔۔۔حیات نے تیز پرجوش لہجے میں کہا تو تارا کی نیند ٹوٹ گئ تھی وہ مندی مندی آنکھوں سے کبھی ازلان حیات کو دیکھتی تو کبھی اُسماعیل صاحب کو جو خشمگین نظروں سے حیات کو گھور رہے تھے۔۔

میں نے مشکل سے تارا کو سُلایا تھا۔۔۔اُسماعیل صاحب نے حیات سے کہا تو اُس نے لب دانتوں تلے دبائے

سوری۔۔۔۔۔۔حیات معذرت خواہ ہوئی

اچھا ہوا جو تارا جاگ گئ دادا جان ہم سب آئسکریم کھانے جارہے ہیں تو یہ بھی ہمارے ساتھ چلے تو کتنا اچھا ہوجائے گا ویسے بھی تارا کو باہر کبھی آپ لیکر نہیں گئے۔۔۔ازلان تارا کو دیکھ کر اسماعیل صاحب سے بولا

پاگل انسان ہم آئسکریم کھانے نہیں جارہے۔۔۔حیات نے دانت پیس کر اُس کو دیکھ کر کان میں سرگوشی کی

چُپ کرو تم۔۔۔ازلان نے اُس کو ڈپٹ کر کہا

تم بچوں کو رات کے وقت کیا سوجھی ہے آئسکریم کھانے کی بیٹھو یہی میں خاور سے کہتا ہوں وہ لاکر دے گا تم سب کو آئسکریمز۔۔۔۔۔اُسماعیل صاحب نے دونوں کو گھورا تارا جبکہ خاموشی سے اُن کو دیکھ رہی تھی۔

اِجازت دے نہ دادا جان سب لوگ سوئے ہوئے ہیں پرومس کسی کو کچھ پتا نہیں چلے گا ہم آدھے گھنٹے میں واپس آجائے گے کیوں تارا کیا تمہارا دل نہیں کرتا رات کے وقت آئسکریم کھانے کا؟ازلان نے درمیان میں تارا کو گھسیٹا تو وہ جزبز ہوئی

تارا بچی ہے میں رات کے اِس وقت تم لوگوں کے حوالے نہیں کرسکتا زمانہ خراب ہے اِس لیے جاؤ اور اپنے اپنے کمرے میں سوجاؤ صبج کو تم لوگوں کا کالج بھی ہے"ویسے بھی تارا کے سر پہ پہلے سے چوٹ آئی ہوئی ہے اُس کا آرام کرنا ازحد ضروری ہے۔۔۔اسماعیل صاحب نے سنجیدگی سے کہا

تارا تم کہو نہ دادا کو۔۔۔ازلان نے پھر سے تارا کو کہا "حیات جبکہ چُپ تھی کیونکہ اُس کو لگ رہا تھا اگر وہ تارا سے کوئی بات کرے گی تو تارا وہ ہرگز نہیں کرے گی جو ازلان اُس سے کروانا چاہتا ہے۔۔۔

کیا پاگل ہوگئے ہو بچیوں کو اپنے ساتھ لے جارہے ہو"اِن کا خیال کون رکھے گا؟"تمہیں تو خود سے فرصت نہیں ملتی۔۔۔اُسماعیل صاحب نے اُس کو ڈپٹ کر کہا

نانا جان مجھے آئسکریم کھانی ہے آپ لے چلو نہ۔۔۔تارا نے اِس بار اُن سے کہا تو ازلان اور حیات جہاں اُس کی پہلی بات پہ خوش ہوئے تھے وہی اُس کی آخری بات پہ اپنا ماتھا پیٹا تھا

گئ بھینس پانی میں۔۔۔۔حیات کوفت سے بڑبڑائی

اچھا چلو میری تارا کا دل ہے تو چلتے ہیں ازلان تم ڈرائیور سے کہو گاڑی نکالے۔۔۔اُسماعیل صاحب نیم رضامند ہوئے

آپ نہ چلے آپ نے آرام کی دوائیں لی ہوئی ہے نیند سے جھول رہے ٹرسٹ می آپ کی آنکھوں کے تارے کا ہم خیال رکھے گے۔۔۔ازلان جلدی سے بولا جس پہ تارا نے غور سے اسماعیل صاحب کو دیکھا جن کی آنکھیں واقع نیند سے لال ہوئیں پڑی تھیں۔۔۔

میں ہاتھ منہ دھولوں گا کوئی بڑی بات نہیں۔۔۔اُسماعیل صاحب نے اُس کا بہانا رد کیا

نانا جان آپ آرام کرے میں اِن کے ساتھ چلی جاؤں گی۔۔۔تارا نے مسکراکر اُن سے کہا

یہ مسکراتی بھی ہے؟حیات کو حیرت ہوئی

پیارا مسکراتی ہے۔۔۔ازلان ہنس پڑا

تارا نہیں تم سب بچوں کو ایک ساتھ چھوڑنا سہی نہیں۔۔۔اُسماعیل صاحب ماننے سے انکاری ہوئے

خاور بھائی ساتھ ہیں اور ہم ڈرائیور کو ساتھ لے جائے گے۔۔۔۔۔حیات نے جھٹ سے کہا تو ازلان نے داد دیتی نظروں سے اُس کو دیکھا جس نے موقعے پہ کام کا پتہ پھینکا تھا

اچھا سہی جاؤ مگر تارا کو اکیلا نہ چھوڑنا۔۔۔۔اسماعیل صاحب نے بلاآخر رضامندی دے ڈالی

آئسکریم پارلر جارہے ہیں میلے میں تھوڑئی۔۔۔۔۔۔حیات زبردستی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے بولی

تارا جلدی سے جوتے پہنو۔۔۔۔ازلان نے اُس کے سامنے اُس کی سلپر رکھی تو بیڈ سے اُٹھ کر تارا اپنے جوتے پہننے لگی۔۔۔

جلدی کرو ورنہ آئسکریم پارلر بند ہوجائے گا۔۔۔تارا نے ابھی ٹھیک سے اپنے پاؤں چپل میں ڈالے نہیں تھے جب ازلان عجلت کا مُظاہرہ کرکے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے بولا

آہستہ۔۔۔اُسماعیل صاحب فکرمند ہوئے

ڈونٹ وری دادا جان آپ آرام سے سوجائے۔۔۔۔حیات اُن کے کمرے کے باہر کھڑی ہوتی دروازہ بند کرکے بولی


ازلان اور حیات تارا کو لیے باہر آئے تو وہاں خاور تو نہیں البتہ سومل اور مومل ضرور کھڑی تھیں۔۔۔۔۔

پئسے دو جلدی۔۔۔۔ازلان نے کہا تو سب نے اپنی مٹھی میں موجود پانچ"پانچ سؤ کا نوٹ ازلان کی طرف بڑھائے سِوائے تارا کے جو یہ سوچنے میں لگی ہوئی تھی"پانچ والی کونسی آئسکریم ہوگی؟

یہ لو دو ہزار ہیں صبح جو کوئی بھی پوچھے کہنا ہم بیس منٹ میں واپس آئے تھے ٹھیک ہے؟ازلان سب کے پئسے جمع کرتا اپنی جیب سے بھی ایک پانچ سؤ کا نوٹ نکال کر چوکیدار کی طرف بڑھائے بولا

فکر نہیں کرے صاحب۔۔۔چوکیدار خوش ہوکر بولا

یہ ساتھ آئے گی کیا۔؟مومل نے تارا کی طرف اِشارہ کیا

ہاں بلکل اِس وجہ سے تو اجازت ملی ہے اب سب گاڑی میں بیٹھو جلدی سے میچ شروع ہوگیا ہوگا۔۔۔ازلان نے کہا تو وہ تینوں گاڑی کی پچھلی سیٹ بیٹھ گئ۔۔۔

سائیڈ پہ ہوجاؤ تارا تم لوگوں کے ساتھ بیٹھے گی۔۔۔ازلان نے اُن کو دیکھ کر کہا

بھائی اِس کی کیا ضرورت ہے اپنے ساتھ بیٹھائے نہ ایڈجسٹ ہوجائے گی۔۔۔سومل نے کہا

بکواس نہیں کرو اور جو بول رہا ہوں وہ کرو۔۔۔۔ازلان نے گھور کر کہا تو وہ منہ کے زاویئے بگاڑ کر تارا کے لیے جگہ بنانے لگے۔۔

تارا کے بیٹھنے کے بعد ازلان فرنٹ سیٹ پہ آیا اور ڈرائیور کو گاڑی چلانے کا اِشارہ کیا"مطلوبہ جگہ پہنچ کر ڈرائیور نے گاڑی روکی تو سب پرجوشی سے گاڑی میں سے باہر نکلتے گئے"ازلان جبکہ ڈرائیور کو کچھ سمجھانے میں مگن تھا تو تارا اُس کے پاس ہی رُک گئ۔۔۔۔

ہے احناف میچ شروع نہیں ہوا نہ؟حیات احناف کی طرف بھاگ کر آتی اُس سے گویا ہوئی

ابھی ٹاسک کرنے لگے تھے ہم۔۔۔۔۔"یہ بتاؤ ازلان کہاں ہے؟احناف نے بتانے کے بعد پوچھا

وہ آتا ہوگا بونی کو اپنے ساتھ لیکر۔۔۔حیات نے بتایا

بونی؟احناف ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگا

تارا بھی آئی ہے۔۔۔۔سومل نے بتایا

واقع؟احناف کو خوشگوار حیرت ہوئی

ہاں وہ دیکھو۔۔۔۔مومل نے سامنے کی طرف اِشارہ کیا تو احناف نے اُس کی نظروں کا تعاقب کیا تو نظر نائٹ سوٹ یعنی نیلی سلیولیس شرٹ اور ٹخنوں سے تھوڑا اُپر پاجامے میں ملبوس تارا پہ گئ جس کے گورے بازوں برہنہ تھے اور بالوں کی چوٹی بنی ہوئی تھی اور وہ ارد گرد سے بے نیاز ازلان کی کوئی بات سن رہی تھی۔۔۔"احناف اپنی نظروں کا زاویہ تارا سے ہٹانے کے بعد پھر آس پاس دیکھنے لگا جہاں زیادہ تر اُس کے عمر جتنے لڑکوں کی بھیڑ تھی لڑکیاں تو شاید دس یا بارہ ہوگی۔۔۔۔

احناف و

یہ تم تارا کو کس حُلیے میں لائے ہو؟لانے سے پہلے اِس کو لباس تو بدلنے دیتے۔۔۔۔ازلان اُن لوگوں کے پاس پہنچ کر احناف سے کچھ کہنے والا تھا جب وہ اُس کی بات نظرانداز کرتا ناگوار لہجے میں بولا اُس کی خوشگواریت تارا کو ایسے دیکھ کر غائب ہوگئ تھی۔۔۔

ہمارے پاس اِتنا وقت نہیں تھا اور کیا ہوا ہے اچھا خاصا حُلیہ تو ہے اِس کا۔۔۔۔جواب حیات نے دیا تھا

نائٹ سوٹ میں ہے وہ بھی جس میں یہ عیاں ہورہی ہے یہ گھر نہیں ہے ہمارا پبلک ہے۔۔۔۔۔احناف نے دانت پیس کر اُس کو دیکھ کر کہا

کیا جاہلوں والی باتیں کررہے ہو احناف بچی ہے یہ اور تمہاری باتوں سے تارا ڈسٹرب ہورہی ہے۔۔۔ازلان نے سنجیدگی سے کہا تو احناف کی نظر تارا پہ گئ جو بے تاثر نظروں سے اُس کو دیکھ رہی تھی

بچی نہیں ہے چودہ سال کی جوان لڑکی ہے اور تم سب اِس کو اِس کے قد کی وجہ سے جج نہ کرو تو اچھا ہوگا۔۔۔۔احناف کے لہجے میں کوئی لچک کوئی ٹھیراؤ نہیں تھا۔۔۔

لو جی اب جو کل بچی تھی اب وہ جوان لڑکی بن گئ کیونکہ اُس نے سلیولیس شرٹ پہنی ہے۔۔۔حیات نے طنز کیا

چھوڑو اِسے دادا جان کو ویسے بھی اعتراض نہیں تھا تو احناف تمہیں بھی نہیں ہونا چاہیے اپنی سوچ کو زرا بدلو "چلو تارا۔۔۔ازلان اُس کو جواب دیتا تارا کو اپنے ساتھ لیجانے لگا تو جب وہ احناف کی سائیڈ سے گُزرنے لگی تو احناف نے اُس کا دوسرا ہاتھ تھاما جس سے اب وہ دونوں کے درمیان آگئ تھی۔۔۔۔۔

کہاں لیکر جارہے ہو تارا کو؟احناف نے سنجیدگی سے پوچھا

یہاں کھڑی تو نہیں ہوگی نہ جو ہماری لیول کا اسٹینڈیم ہے وہاں بیٹھ کر باقیوں کی طرح ہمیں کِرکٹ میچ کِھیلتا ہوا دیکھے گی۔۔۔۔ازلان نے بتایا

مجھے آئسکریم کھانی ہے کرکٹ نہیں دیکھنی۔۔۔۔تارا نے پہلی بار لب کُشائی کی تو احناف نے آئبرو اُپر کیے ازلان کو دیکھا

وہ دراصل آئسکریم کے بہانے اِس کو نیند سے اُٹھا لائے ہیں"یہ ہماری شطرنج کی وہ رانی ہے جس کی وجہ سے ہم رات کے اِس وقت یہاں ہیں۔۔۔ازلان دانتوں کی نمائش کرتا بولا تو پہلی بار احناف کو اُس پہ غُصہ آیا

ٹھیک ہے پھر جاؤ اور اِس لیے آئسکریم لاؤ۔۔۔۔احناف نے تارا کو اپنی طرف کیا

میچ کے بعد۔۔۔۔۔ازلان نے کہا

ابھی جاؤ ٹاسک میں ویسے بھی پہلے میری ٹیم کی باری ہے۔۔۔۔احناف نے بتایا

اچھا جاتا ہوں مگر جلدی ختم نہ کرلینا تم لوگ میچ اور تارا کا خیال رکھنا۔۔۔۔ازلان ایک نظر تارا پہ ڈالے بولا

ہمممم تم جاؤ۔۔۔احناف نے اُس کو باہر کا راستہ دیکھایا

حیات"سومل مومل یہ تو اپنی ٹیم والوں کے ساتھ بزی ہوجائے گا تارا کو اکیلا نہ چھوڑنا تم تینوں۔۔۔۔ازلان نے جاتے ہوئے اُن تینوں سے کہا

ہاں ہاں اب جا بھی چُکو تم۔۔۔حیات کوفت سے بولی تو ازلان تیز قدم اُٹھاتا باہر کی طرف چلاگیا

احناف آجاؤ۔۔۔احناف کے ساتھی نے اُس کو آواز دی

آتا ہوں۔۔۔۔احناف نے جواب دیا

تم سب اُس سامنے والی جگہ پہ موجود بینچ پہ بیٹھنا اور تارا کو اکیلا نہ چھوڑنا وہ چھوٹی ہے تم تینوں سے۔۔۔احناف کے جانے کا وقت آیا تو اُس نے کہا

یہ جوان لڑکی ہے اپنا خیال خود رکھ سکتی ہے"اور ہم اِس کو اِس کے قد کی وجہ سے جج نہیں کرسکتے۔۔۔۔وہ تینوں ایک آواز میں بولیں تو احناف نے تیکھی نظروں سے اُن کو دیکھا

زیادہ ہوشیار بننے کی ضرورت نہیں جو کہا ہے وہ کرو اور تارا اِن سے الگ ہوکر نہ بیٹھنا رات ہے اندھیرے کا راج بہت ہے زیادہ روشنی نہیں۔۔احناف اُن سے کہتا آخر میں تارا کو بولا تو اُس نے سراثبات میں ہلانے پہ اکتفا کیا

چلو بونی۔۔۔۔حیات نے تارا کا ہاتھ پکڑا

نین تارا بلوچ نام ہے میرا۔۔۔تارا نے جوابً کہا تو احناف نے آنکھیں گُھمائی


یہ بچی کون ہے احناف؟احناف اپنے دوست سے بیٹ لینے لگا تو ایک ساتھی نے تارا کی طرف اِشارہ کیے پوچھا تو وہ اُس کو ناگواری سے دیکھنے لگا جس کی عمر بیس سال تھی اور بہت خراب نیچر کا تھا

کزن ہے میری اور تم میچ پہ دھیان دو۔۔۔احناف کا لہجہ جتایا ہوا تھا

کول ڈیوڈ کیا ہوگیا ہے پہلی بار دیکھا تبھی پوچھا۔۔ وہ لڑکا اُس کو پرسکون کرنے کی خاطر بولا

پہلی بار کو آخری بار نہ بناؤ۔۔۔احناف دو ٹوک ہوکر کہتا اپنی جگہ پہ کھڑا ہوا"بیٹنگ کرنے کے دوؤران احناف کی نظریں مسلسل تارا پہ جارہی تھی جس کے چہرے پہ کوفت بھرے تاثرات تھے اور وہ بار بار جمائی لینے میں تھی۔۔۔

یار پاپ کارن اور چپس کے پاکٹ تو ہم گاڑی میں بھول آئے۔۔۔سومل سر پہ ہاتھ مار کر بولی

میں احناف کی اِتنی اچھی بیٹنگ چھوڑ کر کہی نہیں جانے والی۔۔۔حیات نے انکار کیا

تمہیں کرکٹ پسند نہیں کیا؟مومل نے تارا سے پوچھا جو اب نیند سے جھول رہی تھی

نہیں کرکٹ دیکھ کر مجھے نیند آنے لگتی ہے تبھی چاندنی آپی رات کے وقت مجھے کہانی سُنانے کے بجائے کمرے میں ٹی وی چلاکر اسپورٹس والا چینل لگایا کرتیں تھیں۔۔۔تارا نے بتایا

اچھا تو ایک کام کرو ہمارا پھر میں تمہیں ایک اچھا آئیڈیا دوں گی جس سے تمہاری جان یہ میچ دیکھنے سے چھوٹ جائے گی۔۔۔مومل اِشاروں کناروں میں حیات اور سومل کو کچھ سمجھاتی تارا سے بولی

کیسا آئیڈیا؟تارا نے پوچھا

ہماری گاڑی میں ایک شاپر پڑا ہوگا تمہاری آنکھوں کے رنگ جیسا وہ یہاں تک لانا پڑے گا۔۔۔۔مومل نے بتایا

گاڑی تو بہت دور کھڑی ہے اور وہاں اندھیرا تھا ازلان اور احناف نے اکیلے جانے سے منع بھی کیا ہے۔۔۔"اگر مجھے کچھ ہوگیا تو نانا جان پریشان ہوجائے گے۔۔۔تارا اُس کی بات سن کر بولی تو مومل کا دل چاہا اپنا ماتھا پیٹے

یہ ضرورت سے زیادہ معصوم نہیں بنتی۔۔۔حیات تپ کے بڑبڑائی

اندھیرا نہیں ہے اور تم کیوں اِن لڑکوں کی باتوں میں آرہی ہو اِن کو لگتا ہے تارا چھوٹی ہے ڈرپوک ہے پر تارا تو بہادر ہے نہ؟سومل نے اب کی اُس کو اپنے طریقے سے سمجھایا

ہاں میں بہادر ہوں مگر رات کو اندھیرے سے لال بیگ اور دن میں چھپلی سے ڈر لگتا ہے بہت۔۔۔تارا نے بتایا

تو ڈیئر بونی کزن پارکنگ ایریا میں کونسا اندھیرا ہے وہاں روشنی کا جہاں آباد ہے جاؤ اور لے آؤ۔۔۔۔۔سومل نے کہا

پارکنگ ایریا تو یہاں کوئی نہیں تھا ڈرائیور نے تو دیوار کے پاس گاڑی روکی۔۔۔۔نین تارا کو حیرانگی ہوئی

یہ ہمارا دماغ خراب کرے گی۔۔۔حیات کو اُس پہ غُصہ آنے لگا

تو تم ہمارا کام نہیں کرو گی؟ٹھیک ہے دیکھو پھر تم بورنگ میچ۔۔۔۔مومل نے کہا تو وہ لب کُچلنے لگی

اچھا میں جاتی ہوں۔۔۔۔اِتنا کہہ کر تارا بینچ سے اُٹھ کھڑی ہوئی

جلدی سے واپس آنا اور یہاں وہاں نہ دیکھنا سیدھا گاڑی کے پاس جانا اور بیگ لاکر دوبارہ بھاگ کر یہاں آنا۔۔۔اُس کو جاتا دیکھ کر حیات نے کہا


احناف اب یہ میچ تیرے ہاتھ میں ہے جلدی سے اچھا اسکور بنانا۔۔۔۔احناف کا ساتھی اُس سے ہائے فائے کرتا بولا تو پسینے سے شرابور احناف نے سرہلانے پہ اکتفا کیا"وہ دوبارہ بیٹنگ کرنے والا تھا جب نظر سامنے بینچ پہ گئ جہاں تارا کو نہ دیکھ کر اُس کی پیشانی میں بل نمایاں ہوئے

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

یار آج کوئی مال ہی ہاتھ نہیں آیا پتا نہیں کیوں آج لاہور کی سڑکیں اِتنی سنسان کیوں ہے؟شراب تو ہے مگر شباب نہیں۔۔۔۔دو اوش پاش لڑکے نشے میں دُھت ایک دوسرے سے بولے

پتا نہیں یار یہ رات کیسے کٹے گی؟دوسرا جوابً بولا تبھی ایک آواز نے اُن کو اپنی طرف متوجہ ہوا


اللہُ اکبر

اللہُ اکبر

اللہُ اکبر

اللہُ اکبر


یہ تو کسی لڑکی کی آواز ہے لگتا ہے شباب کا انتظام ہوگیا۔۔۔۔آواز سن کر لڑکے کی آنکھوں میں شیطانیت ٹپکنے لگی

غور سے سُن یار لڑکی کی نہیں کسی بچی کی آواز ہے وہ دیکھ۔۔اُس کا دوست بول کر سامنے کی طرف اِشارہ کرنے لگا جہاں تارا سیدھا چلتی تیز تیز قدم اُٹھانے میں تھی

کیا مست بچی ہے یار دور سے اُس کا حُسن اِتنا چمک رہا ہے تو قریب سے تو قیامت ہوگی۔۔۔وہ اپنی آنکھوں میں ہوس لیے تارا کو دیکھ کر خباثت سے بولا

چھوڑ شبی کوئی اور مل جائے گی اِس بچی کو چھوڑ ہمارے کسی کام کی نہیں۔۔۔دوسرا والا اُس کی بات سے انکاری ہوا"دوسری طرف نین تارا کا پاؤں کسی چیز میں اٹکا تھا اور وہ زمین بوس ہوئی تھی

مجھے تو یہی چاہیے دیکھ قُدرت کا بھی یہی اِشارہ ہے۔۔اُس کو گِرتا دیکھ کر شبی نے گھٹاگھٹ شراب کی بوتل خود میں انڈیلی تو اب کی بار بار انکار اُس کا دوست بھی نہیں کرپایا اور دونوں تارا کی طرف بڑھنے لگے۔۔۔

نام کیا ہے تمہارا؟ شبی تارا کے روئی جیسے گال کو چھو کر پوچھنے لگا تو وہ جو اپنی ٹوٹی ہوئی چپل کو دیکھ رہی تھی کسی کو اپنے بے حد قریب پاکر حواس باختہ ہوئی

کون ہو تم دونوں۔۔۔تارا جلدی سے اُٹھ کھڑی ہوئی

ہم سے دوستی کرو گی؟شبی نے پوچھا دوسرا جبکہ تارا کے پیچھے کھڑا ہوگیا

نہیں۔۔۔تارا اِتنا کہتی جانے لگی تو تصادم دوسرے سے ہوا تو پیچھے والے نے اُس کو اپنی طرف کھینچا

چھوڑو مجھے۔۔۔۔اُس کی گرفت میں تارا مچلی

چھوٹی سی نازک تو ہو کیوں اپنی انرجی ضائع کررہی ہو اففف آفت ہو پوری۔۔۔۔شبی سرتا پیر اُس کو گھورنے لگا تو تارا کو اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا وہ خوفزدہ نظروں سے آس پاس دیکھتی اُن سے بچنے کی ترکیب تلاش کرنے لگی

ماں کے ساتھ آئی ہو وہ بھی تیری طرح

آآآہ آہ

کون ہے سالہ۔۔۔۔وہ کچھ غلاظت بک کر تارا کا برہنہ بازو چھونے والا تھا جب اچانک کوئی آندھی طوفان کی طرح آیا تھا اور پوری قوت سے اُس کے ہاتھ کی کلائی میں بیٹ ماری تو شبی کے ہاتھ کی ہڈیاں یقینً ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی تھیں تبھی اُس پہ ہاتھ رکھتا چیخا

"توں چھٹانگ بھر کا لڑکا ہم سے مقابلہ کرے گا؟دوسرے والے نے جب سترہ سالہ بچے یعنی احناف کو دیکھا تو کٹیلی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا جس کی خونخوار نظریں شبی پہ تھیں۔۔۔وہ نین تارا کو ناپاکر اپنا میچ درمیان میں چھوڑ کر حیات سے تارا کے مطلق پوچھنے لگا تو اُس کو پتا چلا اُنہوں نے تارا کو اکیلے کہی بھیجا تو وہ اُن کو ملامت کرتی نظروں سے دیکھ کر ایک منٹ ضائع کیے بغیر تارا کے پیچھے جانے لگا اور اِس درمیان بیٹ رکھنا وہ یکسر فراموش کرگیا تھا پر ایک سنسان جگہ پہ احناف نے دو آدمیوں کو تارا سے بدتمیزی کرتا دیکھا تو پہلے اُس کو یقین نہیں آیا کہ یہ دو مرد ایک اکیلی بچی کو حراس کررہے ہیں"مگر جب اُس نے اُن کو حد سے بڑھتا دیکھا تو غُصے میں اُن کی طرف آکر جتنی طاقت سے وہ اُس کو مارسکتا تھا اُتنا مارا تھا۔۔۔۔

نین میرے پاس آؤ۔۔احناف اُن کو نظرانداز کرتا تھرتھر کانپتی نین تارا سے بولا

تیری تو۔۔۔۔۔دوسرا والا احناف کو مارنے والا تھا جب ایک زوردار لات احناف نے اُس کے پیٹ پہ ماری جس سے وہ دو جاکر گِر کر بیہوش ہوگیا کیونکہ شراب کا نشہ اب سر پہ چڑھنے لگا تھا

بہری ہو سُنائی نہیں دے رہا کیا؟احناف نے سختی سے اِس بار اُس سے کہا اب تک باقی کے لوگ بھی وہاں جمع ہوگئے تھے۔۔۔

احناف یہاں آؤ کر کیا رہے ہو تم۔۔۔۔حیات نے اُس کو آواز دی

نین حیات کے پاس جاؤ۔۔۔۔احناف تھوڑا نرم ہوا مگر تارا کو جیسے غش طاری ہوگیا تھا وہ کچھ بھی سُننے سمجھنے کی کیفیت میں نہیں تھی

اِس بچی کو تو کوئی جانے نہیں دے گا اب۔۔۔۔شبی اُٹھنے کی کوشش کرتا بولا تو احناف اُس کی بات سن کر بنا سوچے سمجھے بیٹ زور سے اُس کے سر پہ ماری تو اُس کا پورا سر لولُہان ہوگیا تھا "احناف کی حرکت پر سب ہکا بُکا رہ گئے تھے۔۔ حیات سومل"مومل کا سر چکرا کر رہ گیا تھا اور وہی نین تارا کی بس ہوئی تھی۔۔۔"اُس کا دماغ پوری طرح سے ماؤف ہوچُکا تھا جیسے تبھی دھڑام سے وہ نیچے گِری تھی۔۔۔"احناف جو اپنے چہرے پہ آیا پسینہ صاف کرتا ابھی بھی اُس شبی کو نفرت سے دیکھ رہا تھا تارا کے گِرنے پہ اُس کی طرف متوجہ ہوا خاموش فضا"اور رات کی تاریخی میں پولیس سائرن نے آواز نے ارتعاش پیدا کیا تھا"وہاں موجود سب لڑکوں نے ڈور لگادی تھی۔۔۔

سومل

حیات

مومل

یہ تینوں جلدی سے احناف کی طرف آئیں

احناف بھاگو پولیس کو جانے کس نے خبر دی ہے جو وہ یہاں پہنچ گئ ہے۔۔۔حیات اُس کا بازو پکڑے پریشانی سے بولی

تم دونوں نین کو جگانے کی کوشش کرو میں تب تک پانی کی بوتل لاتا ہوں۔۔۔احناف نے جیسے اُس کی بات سُنی ہی نہیں تھی

چھوڑو اِس مصیبت کی پوٹلی کو اور چلو تم نے آدمی کا سر پھاڑ دیا ہے اور دوسرے کو زخمی کیا ہے پولیس آگئ نہ تمہیں اپنے ساتھ لے جائے گی ہوش کرو کچھ۔۔۔۔حیات نے اُس کی عقل پہ ماتم کیا

چھوٹی کزن ہے ہماری دماغ ٹھیک ہے تمہارا؟ہوش ہے کچھ بول کیا رہی ہو؟اور رہی بات اِن کی تو میں نے کچھ غلط نہیں کیا یہ جن نظروں سے نین کو دیکھ رہے تھے میرے بس میں ہوتا تو میں اِن کی آنکھیں نوچ لیتا۔۔۔۔۔احناف دبے دبے لہجے میں غِرایا تھا

یہ ہو کیا گیا ہے تمہیں جوش میں ہوش گنوا بیٹھے ہو اگر پولیس کے ہاتھ چڑھے نہ تو بھی پولیس سے بچ جاؤ گے مگر چچا جان نے تمہاری پیٹھ سے خال اُڈھیر دینی ہے۔۔۔سومل نے دانت پیس کر کہا

لڑائی بعد میں کرلینا مگر پہلے اِس تارا کو دیکھو کہی مر ور تو نہیں گئ۔۔۔۔مومل نے اکتاہٹ سے اُن کو دیکھ کر کہا تو اُس سے پہلے احناف تارا کی طرف بڑھتا پولیس والے وہاں پہنچ گئے تھے جن کو دیکھ کر اُن کے چہرے کی ہوائیاں اُڑ گئ تھیں۔۔"مگر لاشعوری طور میں حیات نے احناف کے ہاتھ میں موجود بیٹ کو اپنے ہاتھ میں لیے چُھپانے کی کوشش کی تھی کیونکہ اُس میں خون کے دھبے لگے ہوئے تھے۔۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

کیا ہورہا تھا یہاں اور اِس بچی کے ساتھ کیا"کیا ہے تم بچوں نے؟پولیس آفسر اُن چاروں کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگا جبکہ لیڈی کانسٹبل نے تارا کو اپنی گود میں اُٹھایا تھا اور باقی بیہوش اُن دو آدمیوں کو دیکھ رہے تھے۔۔۔

ہماری کزن ہے یہ اکیلا دیکھ کر اِس کو تنگ کررہے تھے۔۔۔پھر میں نے اِن کا یہ حال کردیا۔۔۔احناف بے خوفی سے بولا وہ تینوں اپنا سر پکڑ کے بیٹھ گئ۔۔۔

تم بچہ پارٹی یہاں کیا کررہے تھے۔۔۔؟ایک کانسٹبل نے سوال کیا

کرکٹ کِھیلنے آئے تھے۔۔۔جواب حیات نے دیا

نین کو نیچے اُتارے ۔۔۔احناف لیڈی کانسٹبل سے بولا

اوو ہیرو زیادہ شان پتی نہ کر چلو تم سب تھانے۔۔۔پولیس آفسر کی بات پر حق دق رہ گئے

ہم تھانے کیوں آئے؟آپ کو اِن دونوں کو لے جانا چاہیے۔۔۔۔احناف نفرت سے ہوش وحواسوں سے بیگانہ آدمیوں کو دیکھ کر بولا

ابھی تم اپنا حساب دو عمر دیکھو اپنی اور کام چیک کرو زرا"ارشد بیٹھاؤ اِن کو گاڑی میں۔۔۔۔پولیس آفسر نے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا

آپ لوگ شاید جانتے نہیں میں کون ہوں۔۔۔۔ایک نے احناف کو بازوں سے پکڑا تو وہ طنز لہجے میں بولا

تھانے چلو یہ بھی پتا چل جائے گا کہ آپ کون ہو؟جوابً پولیس والا بھی طنز ہوا

ایک منٹ میری کزنز کو چھوڑو آپ اِن کو مارا میں نے ہے تو مجھے لے جاؤ جبکہ اِن کو باحفاظت گھر چھوڑ آئے۔۔۔۔وہ لوگ حیات سومل مومل کی طرف بڑھے تو احناف کو غُصہ آیا

یہ بھی تمہاری کزنز ہیں "قصور ہو یا نہ ہو مگر ساتھ تو لیجانا پڑے گا تاکہ تمہارے گھروالوں کو پتا لگے کہ رات کے وقت اِتنی کم ایج میں بچوں کو اکیلا چھوڑنے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے۔۔۔"انتہا کہ لاپرواہ والدین ہیں۔۔۔لیڈی پولیس آفسر نے باری باری اُن کو دیکھ کر کہا

ہمارے والدین کو درمیان میں نہ لائے وہ لاعلم ہیں۔۔۔۔حیات غُصے سے بولی

چھٹانگ بھر کی لڑکی ہو اور لہجہ چیک کرو پہلے تو تھوڑا لحاظ کرتے مگر اب نہیں ساجدہ فرزانہ بیٹھاؤ اِن کو بھی۔۔۔وہ حیات کو کڑے چتونوں سے گھور کر بولی تو احناف اُن تینوں کے سامنے کھڑا ہوا

میں نے کہا نہ غلطی میری ہے تو بس میری ہے میری کزنز کو اِن سب سے دور رکھے یہ تھانے نہیں آئیں گی مجرم میں ہوں۔۔۔۔۔۔احناف نے خاصا زور دیا اپنی لفظوں کو تو وہ پولیس آفسر کو دیکھنے لگی جس نے نظروں ہی نظروں میں جانے کیا اِشارہ دیا کہ اُس نے سراثبات میں ہلایا

ٹھیک ہے تم چلو۔۔۔اُس نے کہا

احناف ہم تمہیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتے اور یار یہ ازلان کہاں مرگیا ڈرائیو اور گاڑی بھی یہاں نہیں ہے۔۔۔۔سومل احناف کو کہتی آخر میں ازلان کو یاد کیے بولی

میری فکر نہیں کرو بیل ہوجائے گی میری تم تینوں بس جاؤ۔"اور نین کا خیال رکھنا۔احناف نے سنجیدگی سے کہا

تارا کی وجہ سے ہوا ہے سب۔۔۔حیات کو تاؤ آیا احناف کی بات پر

اپنے باپ کا نمبر دو۔۔۔۔پولیس آفسر نے احناف کو کہا تو اُس کا گلا خشک ہوا جس کو تر کیے وہ"الطاف جتوئی"کا نمبر بتانے لگا مگر نظریں تارا پر تھیں۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

حال

ویسے یار احناف میں تمہیں ایک بہت ضروری بات بتانا تو بھول ہی گئ تھی۔۔۔احناف حیات کو گھر ڈراپ کرنے آیا تو حیات جو گاڑی سے اُتر کر اندر کی طرف جانے والی تھی کچھ یاد آنے پر اپنے سر پہ ہاتھ مار کر بولی

کونسی ضروری بات؟احناف اُس کی طرف متوجہ ہوا

ویٹ۔۔۔حیات اُس کو اِشارہ کرتی اپنا بیگ کُھولنے لگی۔۔۔۔

یہ دیکھو۔۔۔بیگ سے گھڑی نکال کر حیات نے وہ"احناف"کی طرف بڑھائی تو اُس کی نظروں میں ستائش اُبھری

نائیس بہت پیاری ہے اور ایکسپینسو بھی ہے مگر تم نے یہ کہاں سے لی؟میرا نہیں خیال پاکستان میں ایسی گھڑیاں ملتی ہیں۔۔۔۔۔احناف غور سے اور ہر اینگل سے گھڑی کو دیکھ کر آخر میں حیات سے بولا

مذاق نہیں کرو پاکستان میں سب کچھ ملتا ہے اور یہ گھڑی مجھے تارا کے بیڈروم کی سائیڈ ٹیبل پہ پڑی ملی ہے۔۔۔حیات نے بتایا تو احناف کے تاثرات یکدم سپاٹ ہوئے

یعنی یہ اُس کی ہے۔۔۔۔احناف نے گھڑی واپس اُس کی طرف بڑھائی

نہیں اُس کے بوائی فرینڈ کی ہے؟حیات نے گھڑی اپنے ہاتھ میں لیکر کہا تو احناف کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا وہ حق دق حیرانگی کا بُت بنا اُس کو دیکھنے لگا جس کے تاثرات کافی نارمل تھے۔۔۔۔

بوائے فرینڈ لائیک سیریسلی؟احناف گہری سانس بھر کر خود کو کمپوز کرتا سرسری لہجے میں بولا

تمہیں مجھ پہ ٹرسٹ نہیں ہے کیا؟حیات نے اُس کو گھورا

آئے ٹرسٹ یو مور دین یو مگر جو تم بات کررہی ہو اُس پہ یقین نہیں آرہا۔۔۔۔احناف نے اُس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے کہا

وہ اُس وجہ سے کہ تارا کی شکل حدرجہ معصوم ہے اپنے چہرے پہ معصومیت کا نقاب چڑھائے وہ سب کو بے وقوف بناتی آئی ہے۔۔۔اسپیشلی دادا جان افففففف اللہ ہمارے دادا کی جان جہاں ہم میں بستی تھی اب اُن کی زندگی کا دارومدار بس صرف اُس تارا کے گرد تک ہے۔۔۔حیات نخوت سے سر پکڑ کر بولی

سمپل سی بات ہے حیات نین تارا اُن کی اکلوتی بیٹی کی آخری نشانی ہے تو ظاہر سی بات ہے وہ اُس کو اپنے سینے سے لگاکر رکھے گے"ہماری زندگی میں الحمداللہ ہر رشتہ ہے مگر اُس کا کوئی بھی نہیں سِوائے دادا جان کہ اِس لیے تم زیادہ نہ سوچو۔۔۔احناف نے ہلکی مسکراہٹ سے کہا

آئے نو مگر سِوائے دو شخصیت کہ اُس کی زندگی میں کوئی اور بھی ہے"تمہیں پتا نہیں کبھی کبھی وہ بہت زیادہ خوش ہوتی ہے"ورنہ خود سوچو وہ ہنسنے والوں میں سے کہاں تھی؟"اب اکیلے بیٹھی بلاوجہ اُس کے چہرے پہ مسکراہٹ ہوتی ہے۔۔۔۔حیات نے کہا تو احناف خاموش رہا

تمہیں کسی پر شک ہے؟احناف نے سنجیدگی سے پوچھا

تھوڑا بہت۔۔۔۔حیات نے بتایا

کس پر؟احناف نے ہنوز سنجیدگی سے پوچھا

مجھے لگتا ہے وہ "اسجد ہے تمہیں تو یاد ہوگا تارا کی کالج لائیف میں اسجد سے بہت جمنے لگی تھی وہ کلوز فرینڈز بن گئے تھے تو ہوسکتا ہے اب رشتہ بدل لیا ہو اُن دونوں نے اب دیکھنا جلد تارا اسجد کو "دادا جان سے متعارف کروائے گی۔۔۔حیات پرسوچ لہجے میں بولی اُس کے لہجے میں انجانا سا یقین تھا جو احناف کی سمجھ سے تو بلاآتر تھا مگر ایک خیال کے تحت وہ چونکا

"حیات؟احناف نے اُس کو مُخاطب کیا

ہمممم۔۔۔حیات اُس کی جانب متوجہ ہوئی

تم نے کہا یہ گھڑی اُس کے بوائی فرینڈ کی ہے"ٹھیک ہے مان لیا مگر تم اِتنا شیور کیسے ہو؟اور تم اُس کے کمرے میں کیوں گئ تھی؟"جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے شروع سے وہ اپنی چیزوں کے معاملے میں اوور سینسٹو رہتی ہے تو کیا اُس کو پتا نہیں چلا ہوگا کہ تم نے اُس کے کمرے سے یہ واچ اُٹھائی ہے؟"اور ایک اہم بات اگر واقع یہ گھڑی اُس کے بوائی فرینڈ کی ہے بھی تو نین تارا اپنے کمرے کی سائیڈ ٹیبل پہ کیوں رکھے گی؟احناف نے ایک ساتھ کئ سوال پوچھ ڈالے جس پر حیات مسکراتی تھوڑا اُس کے قریب ہوئی

وہ سم ون کل رات اُس کے ساتھ اُس کے بیڈروم میں تھا۔۔۔۔حیات نے آہستگی سے بتایا تو جانے کتنے بل احناف کی کشادہ پیشانی پر نمایاں ہوئے

حیات۔۔۔۔تنبیہہ کرتا انداز

جانتی ہوں تمہیں ایسی باتیں پسند نہیں مگر احناف مجھے ہماری محبت کی قسم یہ سچ ہے۔۔۔"میں نے نہ تو کبھی پہلے جھوٹ بولا ہے تم سے اور نہ آج اور نہ کبھی بولوں گی۔۔۔۔حیات دھیمے لہجے میں اُس سے بولی تو احناف نے سختی سے اپنے ہونٹوں کو بھینچ کر اُس کو دیکھا حیات کی آنکھوں میں سچائی وہ محسوس کرسکتا تھا۔۔

وہ کیوں سب کو اندھیرے میں رکھنا چاہتی ہے؟احناف محض اِتنا بول پایا

کیونکہ وہ دھوکے باز اور احسان فراموش ہے"ہمارا کھاتی ہے اور ہماری ہی پیٹھ پر چُھڑا گھونپتی آئی ہے دیکھنا وہ لڑکا بھی اُس کے ساتھ لویل نہیں ہوگا کیونکہ جن میں لویلٹی ہوتی ہے وہ یوں اِس طرح رات کے اندھیرے میں چُوری چُھپے ملنے نہیں آیا کرتے۔۔۔۔حیات نفرت سے بولی

اندر جاؤ تم میں بھی گھر جاؤں گا اب۔۔۔۔احناف سنجیدگی سے گویا ہوا

اوکے میں جارہی ہوں اور شکر ہے تو نے ازلان کی طرح اوور ری ایکٹ نہیں کیا سچی مجھے تو لگا تھا وہ میری جان ہی نکال دے گا۔۔۔حیات پرجوش انداز میں کہتی اُس کے گلے لگی عین اُسی وقت "نین تارا"کی گاڑی پورچ میں داخل ہوئی تھی اور ڈرائیونگ سیٹ کی کھڑکی کُھلی ہونے کی وجہ سے یہ منظر بخوبی اُس نے دیکھ لیا تھا جس پر اُس کے چہرے پہ طنز مسکراہٹ آئی تھی۔۔

حیات یار امی کو اِتنی کلوزنس اچھی نہیں لگتی۔۔۔احناف نے آرام سے اپنے اور اُس کے دونوں کے درمیان فاصلہ اختیار کیا

اِس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے احناف اِس ماہ کے آخر میں ہماری آفیشل انگیجمنٹ پھر شادی ہے ویسے بھی یہ آجکل عام ہے۔۔۔۔حیات کو احناف کا ایسا اجتناب برتنا اچھا تو نہیں لگا مگر اُس کے باوجود بھی مسکراکر بولی کیونکہ ایک وجہ"نین تارا"بھی تھی جو گاڑی سے اُتر کر گارڈ سے کوئی بات کررہی تھی۔۔۔۔

جو بھی مگر فلحال ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔۔۔۔احناف نے مسکراکر کہا

میں تمہارے پاس پہلی بار نہیں آئی لیکن لِیو اِٹ وہ دیکھو۔۔۔حیات نے "تارا کی طرف اِشارہ کیا تو احناف نے اُس کو دیکھا جو آج نیلے کلر کی ٹی شرٹ اور بلیک جینز میں تھی بڑے بالوں کا جبکہ جوڑا بنایا ہوا تھا چہرہ میک اپ سے پاک وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔

دیکھی ہوئی ہے۔۔۔۔احناف ایک نظر اُس پر ڈالے دوبارہ حیات کی طرف متوجہ ہوا

کہاں گئ تھی؟تارا بنا یہاں وہاں دیکھے گھر کے اندر جارہی تھی جب احناف کو دیکھتی حیات نے اُس کو مُخاطب کیا

تم کہاں سے آئی ہو"اور اکیلے اِس کے ساتھ کیا کررہی تھی؟احناف کی جانب اشارہ کرکے تارا نے اُلٹا اُس سے سوال داغا

ایکسکیوز می تم ہوتی کون ہو مجھ سے یہ سوال پوچھنے والی؟حیات آگ بگولہ ہوئی

ایکزائکلی تم ہوتی کون ہو مجھ سے یہ سوال پوچھنے والی؟تارا بھی تُرکی پہ تُرکی بولی یکخلت اُس کی نظر حیات کے ہاتھوں میں موجود گھڑی پہ گئ تو اُس کی نیلی آنکھوں میں جیسے خون اُتر آیا

اوو تو ڈوپٹے کے بہانے تم میری چیزیں چوری کرنے آئی تھی۔۔۔غُصے سے کہتے تارا نے اُس سے گھڑی لینی چاہی مگر حیات نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا

یہ میل واچ تمہاری کیسے ہوئی؟حیات نے زچ کرتی نظروں سے اُس کو دیکھا

ڈرامہ بند کرو تم دونوں اپنا۔۔۔احناف جو چُپ تھا غُصے سے اُن دونوں کو دیکھ کر بولا

اپنی فیانسی سے کہو مجھے یہ گھڑی واپس کرے ورنہ اللہ کی قسم میں اِس کا حشر نشر کردوں گی۔۔۔تارا احناف کو دیکھتی بے لچک انداز میں بولی اُس کی حالت عجیب ہوگئ حیات کے ہاتھ میں "گھڑی"دیکھ کر جس پر احناف دمبخود رہ گیا۔۔

جسٹ ایک گھڑی ہے اُس کے لیے اِتنا پاگل پن؟حیات کے لہجے میں حیرانگی تھی

مجھے میری گھڑی واپس کرو۔۔۔تارا اُس کی بات نظرانداز کرتی اُس سے گھڑی چِھیننے لگی تو خود کو بچانے کی خاطر حیات نے اُس کو دھکا دیا مگر اُس سے پہلے وہ گِرتی احناف نے آگے بڑھ کر اُس کو تھام لیا تھا

تم ٹھیک ہو۔۔۔۔؟لیا دیا انداز

تمہیں اِس سے غرض نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔۔تارا اُس سے دور ہوتی سپاٹ لہجے میں کہتی دونوں کو نظرانداز کیے جانے لگی جب حیات نے اُس کا راستہ روکا

اپنی گھڑی لیکر جاؤ ایسا نہ ہو کہ سانس رُک جائے تمہارا۔۔۔۔۔حیات نے گھڑی اُس کے سامنے کی مگر تارا اُس کو نظرانداز کرتی وہاں سے چلتی گئ۔۔۔پھر آگے چل کر رُکی اور پلٹ کر اُس کو دیکھا

مجھ سے دور رہا کرو ورنہ میں تمہیں برباد کردوں گی۔۔۔وارننگ بھرے لہجے میں کہتا وہ تیر کی تیزی سے اندر داخل ہوئی

پاگل ہے یہ آئی بڑی مجھے برباد کرنے والی۔۔۔۔حیات بڑبڑاتی سامنے دیکھنے لگی تو اُس کو احناف کہی نظر نہیں آیا

احناف کہاں چلاگیا اِتنا جلدی؟حیات حیرت سے خود سے سوال جواب کرنے لگی۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

ماضی

اِن کی ہمت کیسے ہوئی تمہیں لاکپ میں ڈالنے کی۔۔۔۔۔"الطاف جتوئی اور سلطان رات کے پہر تھانے سے آتی کال پہ جب پولیس اسٹیشن آئے تو وہ سیدھا احناف کی طرف آئے تھے اُس سے ملنے جبھی سلطان غُصے سے بولا تو "الطاف صاحب نے اُس کو خاموش رہنے کا اِشارہ کیا اور خود احناف کے قریب سے قریب تر آئے جتنا وہ آسکتے تھے

ایکزام قریب ہیں اور تمہیں آورگردگی کرنے سے فرصت نہیں"تم کیا اِس لیے پیدا ہوئے تھے"جس نام کو بنانے کے لیے میں نے سالوں سال گُزارے تم ایک لمحے میں اُس کو ڈوبا دینا چاہتے ہو؟یہ مار دھار کی سِکھیا تمہیں کہاں سے ملی؟کیا یہی اسکول اور کالجوں میں سِکھایا گیا ہے؟کیا میں اِس لیے تمہاری پڑھائی کا سوچتا ہوں کہ تم اپنے مستقبل کا یہ حال کرو؟آخر میں تمہارا کروں کیا احناف؟اب تم بچے نہیں ہو بڑے ہوگئے ہو تو بڑپن کا مُظاہرہ بھی کرو کچھ عقل کے ناخن لو ہوش کرو کچھ کتنی بار کتنی بار کہا ہے کہ اپنے بڑے بھائی سے کچھ سیکھو اُس نے تو مجھے کہی بھی کبھی بھی شرمندہ نہیں کروایا تو پھر تم کیوں ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑے ہو؟الطاف صاحب سخت ناگوار اور تیکھی نظروں سے اُس کو دیکھتے چبا چبا کر بولے تو سلطان نے اُن کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر رلیکس کرنے کی کوشش کی جو کھاجانے والی نظروں سے احناف کو دیکھ رہے تھے۔۔

""نین کیسی ہے؟اُن کی اِتنی بڑی تقریر کے جواب میں احناف کے سوال نے جیسے جلتی پہ نمک کا کام کیا تھا"الطاف صاحب کا ایک بار دل چاہا وہ تھپڑوں لاتوں سے اُس کا حال بے حال کردے مگر خود پہ ضبط کے پہرے ڈالے دوسری طرف سلطان اُس کو ایسی نظروں سے دیکھنے لگا جیسے احناف کا دماغ سٹیا گیا ہو کیونکہ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ احناف نے اپنی بے عزتی محسوس نہ ہوئی ہو۔۔

یہی سڑو تو اچھا ہے۔۔۔الطاف صاحب تیز گھوری سے اُس کو نوازتے جانے لگے

بھائی آپ بتائے نین کیسی ہے؟سلطان بھی اُن کے پیچھے جانے لگا تو احناف نے اُس کو آواز دے کر پوچھا

یہاں ہم پریشان ہے اور تمہیں اُس تارا کی پڑی ہے سیریسلی احناف؟اور وہ نین نہیں تارا ہے سب اُس کو تارا بولتے ہیں۔۔۔سلطان نے تاسف سے اُس کو دیکھ کر کہا

نین کیسی ہے؟یہ لائن تو جیسے احناف کی زبان میں چپک گئ تھی

تم نے ایک آدمی کا سر پھاڑا ہے احناف تم اِس وقت سلاخوں کے پیچھے ہو کل ہفتہ پھر اُتوار ہے اِن دو دنوں میں تمہاری ضمانت مشکل ہے امی اِس فکر میں ہلکان ہے اور تمہیں کچھ احساس نہیں۔۔۔سلطان خشمگین نظروں سے اُس کو گھور کر کہتا بنا اُس کے سوال کا جواب دیئے چلاگیا

میرے خلاف کونسا رپورٹ درج ہے۔۔۔احناف نے پیچھے سے ہانک لگائی پھر مایوسی ہوتا چاروں اِطراف دیکھنے لگا تو نظر تاش کھیلتے لڑکوں پر گئ تو وہ اُن کے ساتھ بیٹھا جو عمر کے لحاظ سے بہت بڑے تھے اُس سے

لڑکی ورکی کے چکر میں یہاں ہو؟ایک آدمی اُس کو دیکھ کر بولا

میری چھوٹی کزن کو کچھ نے حراساں کرنے کی کوشش کی تھی.۔۔جواب میں احناف نے مختصر بتایا

تم تو خود چھوٹے ہو تو وہ یعنی تم سے بھی زیادہ چھوٹی پھر یہ بتاؤ وہ کم عمری میں قیامت خیز حُسن رکھتی ہے کیا؟وہ رازدرانہ انداز میں اُس کے کندھے پہ اپنا بازوں حائل کیے پوچھنے لگا تو احناف نے ایک نظر اُس کو دیکھا پھر اپنے کندھے کو جھٹکا دیا جس پر اُس کا ہاتھ نیچے آیا

میری کزن ہے وہ اُس کے خلاف کوئی بکواس نہیں سُنوں گا میں اُن لڑکوں کا تو بس سر پھاڑا تھا مگر تم نے مزید کوئی بکواس کی تو تمہارے جسم کی دو سؤ چھ ہڈیوں کو توڑ ڈالوں گا۔۔۔۔۔احناف وارن کرتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہتا وہاں سے اُٹھنے والا تھا جب دو آدمیوں نے ٹانگوں سے کھینچ کر اُس کو نیچے گِرایا تھا جس سے اُس کا سر زور سے فرش پر لگا تھا۔۔۔۔

_____❤___

آفیسر آپ کے پاس کوئی ثبوت بھی ہے یا بس شک کی بُنیاد پہ میرے بیٹے کو جیل میں ڈالا ہوا ہے۔۔۔۔الطاف صاحب نے سنجیدگی سے پولیس آفسر سے کہا

آپ کے بیٹے کی بیٹ جس سے احناف نے ایک آدمی کا سر لہولہان کردیا تھا یہ ہے ثبوت۔۔۔آفیسر نے جوابً کہا

میرا وکیل آتا ہوگا اُس کے رہائی کے پیپرز لیکر "بغیر کیسی کمپلینٹ کے آپ نے میرے بیٹے کو جیل میں ڈالا ہے اُس سے آپ کی یہ وردی بھی اُتر سکتی ہے۔۔۔۔الطاف صاحب کے لہجے میں وارننگ تھی۔۔

آپ کا بیٹا بہت جنونی ہے میرے خیال سے اُس کو ماں باپ کی ایکسٹرا کیئر کی ضرورت ہے اچھا ہوگا جو میری وردی کی فکر کرنے کے بجائے آپ اپنے بیٹے کی تربیت پر توجہ دے۔۔۔۔پولیس آفسر طنز لہجے میں بولا تو الطاف صاحب نے زور سے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچا

سر یہاں آئے اور دیکھے اندر لڑائی ہوگئ ہے۔ ۔۔کانسٹبل نے ہڑبڑی میں آکر بتایا تو سلطان جلدی سے اُٹھ کھڑا ہوا

دیکھ لے یہاں بھی وہ باز نہیں آرہا۔۔۔۔آفیسر طنز انداز میں کہتا اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔۔

احناف کی وجہ سے دو ٹکے کے لوگوں کی وجہ سے مجھے باتیں سُننا پڑ رہی ہیں۔۔۔۔الطاف صاحب نے زور سے اپنا ہاتھ ٹیبل پر مارا تو سلطان نے گہری سانس خارج کی

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

حال

امی دادا جان کے پاس جائے میری اور حیات کی منگنی کی ڈیٹ فائنل کرنے۔۔۔اپنے گھر آتا سنجیدگی سے احناف بینش بیگم سے کہتا سیڑھیوں کی طرف بڑھا پیچھے بینش اُس کو پشت دیکھتی رہ گئ کل تک جب وہ اُس سے شادی کی بات کرتی تھی تو وہ انکار کردیتا تھا مگر آج جانے کیا ہوگیا تھا جو وہ خود اپنی منگنی کی بات کرگیا تھا۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

حیات یہاں آؤ ضروری بات بتانی ہے تمہیں۔۔۔۔۔حیات اپنے کمرے میں جانے لگی تو سومل نے کہا

بتاؤ کچھ ہوا ہے کیا؟حیات اُس کے پاس آکر بیٹھی

بینش چچی کا فون آیا تھا۔۔۔۔سومل نے سسپینس پیدا کرنا چاہا

دن میں بہت بار اُن کی کال آتی رہتی ہے"اِس میں کونسی بڑی بات ہے۔حیات کو اُس کی بات ٹھیک سے سمجھ نہیں آئی

اِس بار خاص مقصد کے لیے کال کی تھی۔۔سومل نے بتایا تو اُس کی چھٹی حس بیدار ہوئی

خاص مقصد؟حیات کو تجسس ہوا

اُنہوں نے دادا ابو سے تمہاری اور احناف کی منگنی کے بارے میں بات کہی۔ ۔۔۔سومل نے آخر بتادیا

کیا؟ ؟؟؟؟؟؟خوشی کے مارے حیات کی چیخ نکل گئ۔ ۔

بلکل اور تمہیں پتا ہے دادا ابو نے کیا کہا؟ اب کی اُس کا انداز تھوڑا مایوس کن تھا

کیا جواب دیا؟ حیات نے پوچھا

اُنہوں نے کہا ون ویک بعد منگنی ہوگی ان شاءاللہ۔ ۔۔۔سومل نے بتایا

پاگل یہ تو اور مزے کی بات ہے یعنی فائنلی ہماری آفیشلی انگیجمنٹ ہوگی میں تو خوشی سے پاگل ہوجاؤں گی۔۔۔حیات اُٹھ کر گول گول گھومنے لگی۔۔۔

تو ہوجاؤ کس نے روکا ہے۔۔۔سیڑھیاں اُترتی تارا نے اُس کی آخری بات سُنی تو کہا

افففف تارا میری جان آج تو تم بھی مجھے بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔حیات اُس کے پاس آتی گلے لگ کر بولی تو سومل نے مسکراہٹ دبائی مگر تارا نے اُس کو خود سے دور کیا

اپنی حد میں رہو۔۔۔۔لہجے میں وارننگ تھی۔۔۔

سُنا ہے تم کوئی پارٹی تِھرو کرنے والی ہو؟سومل اُس کو دیکھ کر بولی تو حیات جو مسکرانے میں مگن تھی چونک کر تارا کو دیکھنے لگی

سہی سُنا ہے دو دن بعد ہے۔۔۔تارا نے بتایا

پارٹی مگر کیوں؟حیات کو سمجھ نہیں آیا

نانا جان نے ایک بہت بڑا کُنٹریکٹ حاصل کیا ہے تو اُس خوشی میں۔۔۔تارا نے احسان کرنے والے انداز میں بتایا

ہمیں تو ایسا کچھ پتا نہیں لگا۔۔سومل نے لاعلمی کا اِظہار کیا

ابھی میں نے بتایا نہ۔۔۔تارا نے طنز نظروں سے اُس کو دیکھا

دادا جان کہاں ہے؟حیات کی خوشی مانند ہوئی

وہ آرام کررہے ہیں تم زرا ٹھیک سے اپنی وہ خوشی انجوائے کرو جو تمہیں خیرات میں ملی ہے۔۔۔۔تارا نے تمسخرانہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

تمہاری اِس بکواس کا مطلب؟غُصے سے سومل نے پوچھا جبکہ زلت کے احساس سے حیات کی گوری رنگت میں سرخی ڈور گئ تھی۔۔۔۔

تمہیں نہیں پتا یا بھول گئ ہو حیات کا وہ برتھ ڈے جس پہ احناف کو تمہاری سویٹ کزن نے پرپوز کیا تھا احناف کو سب کے سامنے"  اور احناف نے ریجکٹ بھی کیا تھا سب کے سامنے۔۔۔تارا نے مصنوعی حیرانگی کا اِظہار کیا

یاد ہے اور اُسی دن احناف واپس آیا تھا سب کے سامنے حیات سے ایکسکیوز بھی کیا تھا اور اُس کا پرپوزل قبول بھی کیا تھا۔ ۔۔سومل نے جتانے والے انداز میں کہا تو تارا نے آنکھیں گُھمائی

تم بس جیلس ہونا خود کا تو تمہارے پاس کوئی ہے نہیں۔۔۔حیات نے اُس کا انداز دیکھ کر اُس کو گھورا تو تارا نے رونی صورت بنائی

اُس کے باوجود بھی میں کسی کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ٹسوے نہیں بہاتی اور نہ ٹھکرانے والے کی بانہوں میں جھولتی ہوں۔۔۔۔تارا کے الفاظ حیات کے لیے کسی تماچے سے کم نہیں تھے۔۔۔۔

لِسن تارا اُتنا کہو جتنا سُن پاؤ۔۔"احناف میرا ہے وہ مجھے دل وجان سے چاہتا ہے میرے لیے اپنے لیے جان تک دے سکتا ہے"تم تبھی جیلس ہو کیونکہ تمہارے پاس ایسا کوئی پیار کرنے والا شخص نہیں مگر میں ایک بات واضع کرلوں اگر میرے ساتھ ایسے پیش آئی دوبارہ تم تو جو میں کروں گی وہ تمہارے لیے اچھا نہیں ہوگا۔۔۔حیات نے کاٹ کھاتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

مسئلاً کیا کروں گی تم میرا؟تارا نے پرسکون لہجے میں پوچھا جیسے بہت بڑا لطف حاصل ہوا ہو اُس کو حیات کی بات سے۔۔۔۔

میں تم سے تمہارا سب کچھ چھین لوں گی۔۔۔۔حیات نے کہا تو تارا ہنسی اور پھر ہنستی ہی چلی گئ۔۔۔حیات اور سومل عجیب نظروں سے اُس کو دیکھنے لگیں۔

ابھی تم نے کہا میرے پاس کچھ بھی نہیں خود کا اور ابھی یہ بول رہی ہو میرا سب کچھ چھین لو گی یار تمہیں تو وزیرِ اعظم ہونا چاہیے تھا۔ ۔۔۔تارا ہنستی ہوئی بولی

سومل اُٹھو اِس کی اِتنی اوقات نہیں جو ہم اِس سے بات بھی کرے۔ ۔۔حیات اب کی تارا کو نظرانداز کرتی سومل سے بولی جو اُس کے ایک بار کہنے پر اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ 

اوقات؟ تارا نے اُس کا لفظ دوہرایا

سویٹی تمہارا جو یہ ڈریس ہے نہ۔ ۔۔۔تارا نے حیات کے پہنے ہوئی ڈریس کی جانب اِشارہ کیا جو نفیس اور بہت خوبصورت ڈریس تھا۔ ۔۔

اِس کی قیمت محض دس یا بیس ہزار کے درمیان ہوگی اور یقیناً یا تو یہ ڈریس تمہیں چچی چچا میں سے کسی نے لیکر دیا ہوگا یا پھر کسی اسپیشل ڈے پر تمہارے سوکالڈ فیانسے نے دیا ہوگا مگر جو میرا یہ ڈریس ہے نہ؟ اب کی تارا اُس کے مُقابل کھڑی ہوتی اپنے ڈریس کی طرف اِشارہ کرنے لگی تو حیات نخوت سے سرتا پیر اُس کو دیکھنے لگی جو سلیولیس گُھٹنوں تک آتے ٹاپ اور ٹخنوں سے تھوڑا اُپر اسکرٹ میں ملبوس سادہ حُلیے میں بھی اپنی مثال آپ لگ رہی تھی۔ ۔۔۔

یہ میرا لیٹسٹ برینڈڈ ڈریس ہے جس کی مالیت دس بیس ہزار سے زائد پئسو کی ہے اور یہ ڈریس میں نے اپنے کمائے ہوئے پئسو سے لیا ہے"اِس لیے آئیندہ مجھے میری اوقات یاد دِلانے سے پہلے ایک مرتبہ تم اپنی اوقات ضرور نظر میں رکھنا۔ ۔۔تارا نے خاصے جتائے ہوئے لہجے میں کہا تو حیات کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اپنے ہاتھ کے پنجوں سے اُس کا خوبصورت چہرہ بگاڑ لیتی

شرم کرو تم دونوں جب دیکھو تب ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے میں لگ جاتی ہو۔ ۔۔انعم بیگم کی آواز پہ وہ دونوں ایک دوسرے سے ایک قدم دور کھڑے ہوئے

شروع اِس نے کیا تھا۔ ۔۔۔حیات نے تارا کی طرف اِشارہ کیا

ریئلی؟ طنز سے بھرپور انداز

اور 

میم آپ کا فون بج رہا تھا کب سے۔ ۔۔حیات کچھ کہنے والی تھی جب میڈ نے آکر تارا کو بتایا تو تارا موبائل اسکرین کو دیکھتی بنا کسی پر نظر ڈالے وہاں سے چلی گئ تو حیات کو وہ مشکوک لگی جبکہ سومل بھی تارا کی پشت دیکھتی رہ گئ جس کے تیور اچانک سے بدل گئے تھے ۔۔۔

حیات تمہارے اب رشتے کی بات چلنے والی ہے اِس لیے اپنا رویہ بہتر بناؤ میں نہیں چاہتی تمہارا انداز بینش آپا دیکھے۔۔۔انعم بیگم نے تارا کے جانے کے بعد حیات سے بولی

امی چچی جان کو پتا ہے حیات کیسی ہے۔۔۔۔سومل نے مُداخلت کی

پہلے کی بات اور تھی اب کی بات کچھ اور ہے"تم اُن کے گھر کی بہو بننے جارہی ہو تو اُن پر تمہارا ایمپریشن اچھا پڑنا چاہیے ویسے بھی بینش آپا کو پسند نہیں جو تم لوگ اشارے کناروں میں ایک دوسرے پر طنز کرتے رہتے ہو۔۔۔۔انعم بیگم نے کہا تو حیات نے گہری سانس اپنے اندر کھینچ کر خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کی۔

گھر میں پارٹی کے ساتھ ساتھ سلطان کے یہاں مہندی کا بھی فنکشن ہے تو تم لوگ اُس کی تیاری پوری کرو جو بھی لینا ہے جلدی سے اپنی خریداری کرلوں ورنہ عین موقعے پر یاد آجاتا ہے سب کو۔۔۔انعم نے بیگم نے مزید کہا

میں شاپنگ آنلائن کروں گی۔۔۔۔حیات نے اپنا پلان بتایا

مجھے ضرور بتانا ہم سب کزنز سیم ڈریسنگ کرینگی۔۔۔۔سومل نے پرجوش انداز میں کہا

افکورس۔۔۔حیات نے بھی اُس کے انداز میں کہا اور اُس کے ہاتھ پر تالی ماری

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

ماضی!

اِس کی وجہ سے آج میری عزت دو کوڑی کی رہ گئ تھی۔ ۔۔۔الطاف صاحب احناف کی طرف اِشارہ کیے غُصیلے انداز میں بولے جس کی بیل جیسے تیسے ہوگئ تھی کیونکہ جن کو اُس نے زخمی کیا تھا اُن میں سے ایک کو ابھی ہوش نہیں آیا تھا جبکہ دوسرے سے جب بیان لیا گیا تو اُس نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا تھا جس پر پولیس نے احناف کو رہائی دے ڈالی تھی مگر اُس کے باوجود الطاف صاحب کا غُصہ تھا جو احناف کے لیے ختم ہونے کو نہیں آرہا تھا۔ ۔۔

ڈیڈ

چٹاخ

احناف اپنی صفائی میں کچھ کہنے والا تھا جس پر الطاف صاحب نے زناٹے دار تھپڑ اُس کے چہرے پر مارا تو وہ اپنے ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔ ۔"لیکن بینش بیگم کا ہاتھ اپنے دل پہ پڑا تھا۔ 

الطاف کیا ہوگیا ہے جوان اولاد ہے"گرم خون ہے کون اِس طرح اپنی جوان اولاد پر ہاتھ اُٹھاتا ہے؟اور آپ کو کیا نظر نہیں آرہا احناف کے سر پہ کتنی گہری چوٹ آئی ہے۔ ۔۔۔بینش بیگم نے افسوس سے اُن کو دیکھ کر کہا

تمہاری ڈھیل کا نتیجہ ہے ورنہ یہ ایسا کچھ نہیں کرتا سترہ کا ہوگیا ہے مگر ابھی تک اِس سے سیکنڈ ایئر پاس نہیں ہورہا"اِس کی ساری غلطیاں تم چُُھپاتی آتی ہو اچھا پردہ رکھا ہوا تھا جس کا خامیازہ بھی نظر آرہا ہے۔ ۔۔الطاف صاحب نے سارا ملبہ اُن پہ ڈال دیا تھا جبکہ احناف اپنی جگہ سے اُٹھتا اپنے کمرے میں جانے لگا۔ 

احناف میری بات سُنو تم۔ ۔سلطان نے اُس کو اُٹھتا دیکھا تو پیچھے گیا۔ ۔۔

بے جا پابندیاں بچوں کو باغی بنادیتی ہیں" اور ماں باپ سے دور بھی۔ ۔۔"اور خُدانخواستہ ہمارے احناف میں کوئی بُری عادتیں نہیں ہے پر اگر کبھی کبھی اُس نے اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیل لیا تو کیا ہوگیا ہے؟ ضروری تو نہیں جو آج ہوا وہ پہلے بھی ہوتا آیا ہو یا آگے بھی ہوجائے۔ ۔۔بینش بیگم سنجیدگی سے بولی

اُس کی طرفداری مت لو بینش ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔ ۔۔مجھے جانے کیا ہونے لگتا ہے جب احناف کو ایسے نان سیریس دیکھتا ہوں تو خاور کو دیکھ لو وہ بھی سولہ سترہ کا تھا جب پڑھائی کے ساتھ ساتھ اُس نے اپنے باپ کا بزنس بھی دیکھنا شروع کیا اُس کے ساتھ دیا اور اب آہستہ آہستہ ازلان بھی اُس کے نقشِ قدم پہ چل کر آفس کا تھوڑا بہت کام سمجھنے لگا ہے اور اپنے باپ کی مدد کرتا ہے اور ایک ہمارا بیٹا ہے جس کو فضول ایکٹویز کرنے سے فُرصت حاصل نہیں۔۔۔الطاف صاحب نخوت سے بولے

آپ نے ہمیشہ یہی کیا ہے سب بچوں سے احناف کا مقابلہ کیا ہے آپ کو لگتا ہے احناف کچھ نہیں کرسکتا جب کہ وہ آپ کے لیے جو بھی کرے وہ آپ کو نظر نہیں آتا" اگر آپ چاہتے ہیں وہ آپ کا آفس بھی دیکھے تو آپ خود سوچے اُس کی پڑھائی کا بھی تو حرج ہوگا خاور ازلان سلطان" اِن کے لیے پاسنگ مارکس ہی سب کچھ ہوتا ہے جبکہ احناف نے ہمیشہ ہر جگہ پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ ۔۔بینش بیگم نے بڑھ چڑھ کر احناف کی حمایت کی آخر کرتی بھی کیوں نہ "ماں تھی اپنے بیٹے کو کسی احساسِ کمتری کا شکار ہونے نہیں دینا چاہتی تھیؑ۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

اُس رات کے واقعے نے تارا پر گہرا اثر چھوڑا تھا اُس کو بہت تیز بُخار ہوگیا تھا جو اُترنے کا نام تک نہیں دے رہا تھا" ازلان کو جب جیسے ہی سارا کچھ معلوم ہوا تب سے وہ دل ہی دل میں خود کو ہر چیز کا قصوروار سمجھ رہا تھا کیونکہ اسماعیل صاحب اور انعم بیگم نے جھوٹ بولنے کی وجہ سے اُس سے بول چال بند کرلی تھی جس کی وجہ سے شرمندگی اُس کو کچھ زیادہ محسوس ہونے لگی۔ ۔۔"تارا کی طبیعت بھی سنبھلنے میں نہیں آرہی تھی دو دن ہوسپٹل میں رہنے کے باوجود جب اُسماعیل صاحب اُس کو گھر لائے تو تارا ہر وقت غنودگی کی حالت میں رہتی

السلام علیکم ۔۔۔احناف کی آواز پر اسماعیل صاحب نے چونک کر دروازے کی جانب دیکھا جہاں وہ کھڑا تھا

وعلیکم السلام بیٹا آؤ اندر۔۔۔اُسماعیل صاحب نے اپنے سینے سے لگی سوئی ہوئی تارا کو احتیاط سے بیڈ پہ سہی سے لیٹایا

کیسے ہیں آپ اور نین کیسی ہے؟احناف بیڈ کے تھوڑا پاس آکر اُن سے پوچھنے لگا

آج تھوڑی طبیعت سنبھلی ہے میری پھول جیسی بچی دیکھو کتنی کمزور ہوگئ ہے۔۔۔۔اُسماعیل صاحب تارا کو دیکھ کر بولے

مجھے پتا نہیں تھا کہ ازلان وہاں نین کو لیکر آنے والا ہے اور میں نے اپنی طرف سے بہت کوشش کی تھی کہ نین کا خیال رکھوں۔ ۔۔۔احناف نے اپنی طرف سے صفائی دی تو اسماعیل صاحب بے اختیار مسکرائے

یہاں آؤ۔۔۔اُنہوں نے اُس کے لیے اپنی بانہیں کھولی تو احناف اُن کے پاس آکر بیٹھا

جانتا ہوں تم نے اپنی طرف سے بہت خیال رکھا تارا کا مگر اب بس دعا کرو کہ وہ ٹھیک ہوجائے اور نارمل زندگی گُزارنے لگے کیونکہ اب تک جو کچھ بھی اُس کے ساتھ ہوا ہے مجھے ڈر لگنے لگا ہے کہ تارا زندگی جینا نہ چھوڑدے"میری جان میری بیٹی رافعہ کی آخری نشانی ہے جس کو میں کھو نہیں سکتا بیٹا اور نہ میں چاہتا ہوں زندگی سے بیزار ہوکر چاندنی جیسا کوئی عمل کرے وہ۔۔۔۔اُسماعیل صاحب کی آنکھیں بھیگنے لگی تو احناف نے تڑپ کر اُن کو دیکھا

دادا جان اللہ نہ کرے کہ ایسا کچھ ہو آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں۔۔۔۔نین ٹھیک ہوجائے گی آپ بس کالج میں اُس کے لیے ایڈمیشن کی بات کیجئے گا اور دادا جان چودہ سال کی عمر میں نین دسویں کلاس میں ہے کیا یہ بات آپ کو عجیب نہیں لگ رہی؟ حیات سولہ کی ہے اور گیارہویں کا پیپر دینے والی ہے۔ ۔۔۔احناف نے آخر میں اُلجھن زدہ لہجے میں اُس سے کہا

نین تارا اسٹڈی میں ہوشیار تھی تو جمپ لگایا تھا۔ ۔۔"تبھی دسویں میں ہے۔ ۔۔۔اُسماعیل صاحب ہنس کر اِس بار مزاحیہ انداز میں بولے

اچھا تو اب نین کا ایڈمیش دسویں میں ہوگا یا گیارہویں میں؟ احناف نے پوچھا

دسویں میں ہوگا خیر سے۔ ۔۔۔اُسماعیل صاحب نے بتایا

تو کیا آپ اُس کو ایک سال نیچے کرے گے؟ احناف نے پوچھا

بلکل چھوٹی سی تو ہے ہماری نین۔ ۔۔۔اُسماعیل صاحب نے کہا

جی پھر آپ جلدی سے اِس کی ایڈمیشن کا انتظام کرے ہمارے کالج میں پڑھے گی نہ یہ؟ احناف نے سوئی ہوئی نین تارا کو دیکھ کر پوچھا

بلکل وہاں ہوگی ایڈمیشن۔ ۔۔اُسماعیل صاحب نے بتایا تو جانے کیوں احناف کو عجیب خوشی کا احساس ہونے لگا۔ ۔۔۔۔

___❤____

حیات تم سے بات کرنی ہے۔ ۔۔مُنیبہ بیگم اسائمنٹ بناتی حیات کے کمرے میں آتی اُس سے بولی

جی امی بتائیں کیا بات کرنی ہے؟ حیات نے بیڈ پر اُن کے بیٹھنے کی جگہ بنائی۔ ۔۔۔

احناف کو تارا سے دور کرو مجھے احناف کا تارا کے لئے فکرمند ہونا کچھ خاص پسند نہیں آرہا۔ ۔۔منیبہ بیگم مدعے کی بات پر آئی۔ ۔

کیا مطلب؟ حیات کو اُن کی بات سمجھ نہیں آئی

احناف تمہارا کزن اور تمہارا بیسٹ فرینڈ ہے میں جانتی ہوں تم ابھی سے اُس کو لائیک کرتی ہو تبھی میں کہہ رہی ہوں تارا کو احناف کے آس پاس بھٹکنے نہ دو۔ ۔۔۔منیبہ بیگم نے کہا تو حیات کچھ پل خاموش رہی

تارا بچی ہے اور وہ احناف سے تو کیا کسی کے بھی پیچھے نہیں جاتی آپ فکر نہ کرے اُس کی۔ ۔حیات نے اپنی طرف سے اُن کو تسلی کروائی

میسنی ہے یہ اپنی معصومیت سے احناف کو خود کے راغب کرلے اُس سے پہلے تم اپنی اور احناف کی دوستی کو زیادہ گہرا بناؤ تاکہ تارا درمیان میں نہ آ پائے تمہیں سمجھ آرہی ہے نہ تمہیں میری بات؟منیبہ بیگم کی بات کا مطلب کافی گہرا تھا جس کو سمجھ کر حیات کا سر خودبخود اثبات میں ہلنے لگا۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

کچھ دن بعد!

نین تارا کی طبیعت میں آہستہ آہستہ سُدھار آگیا تھا مگر وہ سب سے اب دور رہتی تھی پاس تو وہ کبھی کسی کے گئ نہیں تھی مگر احناف کو دیکھ کر اُس کی نظروں میں خون میں لت پت وہ دو آدمی آجاتے جس سے اُس کے اندر ایک انجانا سا خوف بیٹھ گیا تھا۔ ۔۔اور اِس کا گریز احناف کی آنکھوں سے پوشدہ نہیں تھا وہ سب سمجھ رہا تھا کئ بار اُس نے تارا سے بات کرنے کی کوشش بھی کی مگر ہر بار وہ کوئی کہ کوئی بہانا بناکر اُس کو نظرانداز کرکے اُٹھ جاتی۔ ۔۔۔

_____❤____،

مجھے آپ کی کلاس میں چلنا ہے۔ ۔۔تارا بضد انداز میں ازلان سے بولی کیونکہ وہ اپنے کلاس میں جانا نہیں چاہتی تھی

میں ضرور تمہیں اپنی کلاس میں لے جاتا مگر یار سمجھنے کی کوشش کرو میری پہلی کلاس میں جو سر ہیں وہ کافی اکڑ مزاج کے ہیں تمہیں دیکھ کر مجھے بھی کلاس سے آؤٹ کردے گے"اِس لیے تم اپنے کالج کا پہلا دن ضائع نہ کرو اور اچھے بچوں کی طرح اپنے کلاس میں جاؤ لکھو پڑھو اور میرا نام روشن کرو۔ ۔۔۔ازلان نے اُس کو سمجھانا چاہا

مجھ

السلام علیکم ۔۔۔تارا کچھ کہنے والی تھی جب احناف کی آواز پر اُس کی زبان کو بریک لگی۔ 

وعلیکم السلام احناف شکر ہے یار کہ تم آگئے ورنہ تارا تو میری بات ماننے کو تیار نہ تھی۔ ۔۔ازلان نے شکر کا سانس لیا

کونسی بات؟ احناف نے تارا کو دیکھ کر اُس سے پوچھا جو اُس سے چُھپنے کی کوششوں میں تھی

یہ اپنے کلاس میں جانے کے لیے راضی نہیں بلکہ میرے ساتھ میری کلاس میں جانے پر بضد ہے اب تم بتاؤ میں کیا کروں؟ازلان نے ساری بات بتانے کے بعد اُس سے پوچھا

تم اپنے کلاس میں جاؤ کیونکہ نین اگر اپنی کلاس میں نہیں جانا چاہتی تو کوئی بات وہ یہ پیریڈ مس کرسکتی ہے۔۔"نین تم آؤ میرے ساتھ۔۔۔احناف نے اپنا ہاتھ اُس کی طرف بڑھایا

میں آپ کے ساتھ نہیں آؤں گی۔۔۔تارا نے انکار کیا

نین ضد نہیں کرو آؤ میری بھی کلاس کا وقت ہونے والا ہے اور ازلان تم کھڑے کیوں ہو؟"جاؤ اپنی کلاس میں۔۔احناف تارا سے کہتا آخر میں ازلان سے بولا تو وہ جلدی سے سراثبات میں ہلاتا وہاں سے نو دو گیارہ ہوگیا اور پیچھے تارا اکیلے رہ گئ احناف کے ساتھ۔۔

نین تم مجھ سے خوفزدہ ہو؟احناف نے سنجیدگی سے پوچھا تو جوابً اُس نے سرہلانے پر اکتفا کیا جس پر وہ مسکرایا

وجہ؟مختصر سوال

آپ بُرے ہو"لوگوں کو مارتے ہو۔۔تارا نے بتایا

میں بُرا بنا اُس کی وجہ تھی وہ تمہیں ہرٹ کررہے تھے تبھی مجھ سے ایسا ہوگیا اِس لیے تم بھی وہ بھول جاؤ اور چلو اینڈ میں واعدہ کرتا ہوں دوبارہ کبھی غُصہ نہیں کروں گا۔۔۔۔احناف نے مسکراکر کہا تو تارا نے ایک نظر اُس کو دیکھا جس کے چہرے کے تاثرات قدرے نارمل تھے۔ "کچھ سوچ کر اُس نے اپنا سراثبات ہلاکر اُس کے ساتھ کلاس میں جانے پر حامی بھری تو احناف کے ہونٹوں کو مسکراہٹ نے چُھوا 

____❤__

دن تیزی سے گُزر رہے تھے باقیوں سے تو نہیں مگر تارا کی احناف اور ازلان سے کافی بن گئ تھی احناف پڑھائی میں اُس کی بہت مدد بھی کرلیا کرتا تھا اور ہر لحاظ سے اُس کا خیال بھی رکھتا تھا" کالج میں بھی ہر وقت ازلان یا احناف کے ساتھ ہوا کرتی تھی دوسرا کوئی اُس نے اپنا دوست نہیں بنایا تھا" سومل مومل حیات یہ تینوں بھی اُس کالج میں ہوا کرتی تھی مگر اُس کے باوجود بھی اجنبیت کا مُظاہرہ کیا کرتیں تھیں نہ اُنہوں نے کبھی تارا کو مُخاطب کیا اور نہ کبھی تارا نے اُن کو مُخاطب کرنا ضروری سمجھا کبھی" وہ بس اپنے آپ میں مگن رہا کرتی تھی اور کچھ دِنوں سے اُس کے پاس جو ڈائری تھی وہ پڑھنا بھی اُس نے شروع کرلی تھی جو پوری انگلش میں لکھی ہوئی تھی شروع شروع میں عام سی باتیں لکھی ہوئی تھی جہاں تک اُس نے پڑھی تھی مگر ڈائری میں کچھ مشکل الفاظ بھی تھے جس کی اُس کو سمجھ نہیں آتی تھی تبھی اُس نے اُن الفاظوں کو الگ رجسٹر میں اُتارا تھا تاکہ احناف سے وہ اُن الفاظوں کا مطلب جان پائے۔ ۔۔۔

____❤______

مجھے تم سے کچھ پوچھنا تھا۔ ۔۔بریک ٹائم میں تارا نے احناف کو مُخاطب کیے کہا جو اُس کو کالج گراؤنڈ میں لایا تھا

ضرور پوچھنا ابھی تم یہاں بیٹھو میں تمہارے لیے پانی کی بوتل لاتا ہوں پیاس لگی ہوگی تمہیں اور بتانا اگر کچھ کھانے میں چاہیے ہو تو۔۔۔احناف نے مسکراکر بینچ پہ اُس کو بیٹھنے کا اِشارہ دیئے کہا

بس پانی۔۔۔۔تارا نے کہا

ٹھیک ہے میں جاتا ہوں تم تب یہی رہنا اور کسی اور سے غیرضروری مُخاطب ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔احناف نے جاتے ہوئے اُس کو وارن کرنا ضروری سمجھا جس پر تارا گہری سانس بھر کر اپنے بیگ سے ایک کِتاب نکال کر بیٹھ گئ۔۔۔۔۔

میرا نام اسجد ہے اور تمہارا کیا نام ہے اینڈ فائنلی آج تمہارے اِرد گرد تمہارا کوئی باڈی گارڈ نہیں۔۔۔۔اُس کو بیٹھے ابھی پانچ منٹ ہی ہوئے تھے جب غیرشناسا آواز پہ تارا نے اپنا سر کِتاب سے اُٹھائے سامنے دیکھا جہاں "احناف کی عُمر کا لڑکا کالج بیگ کندھے پہ لٹکائے مسکراکر اُس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔"اُس کو دیکھ کر تارا نے اپنی نظریں دوبارہ سے کِتاب کی جانب مرکوز کی

کیوٹ گرل ہینڈ شیک تو کرو"میں تمہارے پاس دوستی کا ہاتھ لیکر آیا ہوں"بات تو بہت دِنوں سے کرنا چاہتا تھا مگر وقت آج ملا۔۔۔اسجد نے اپنا ہاتھ اُس کی طرف بڑھائے کہا جس پر نین تارا تنقیدی نظروں سے آس پاس کا جائزہ لینے لگی جہاں سب کِھیلنے میں مصروف تھے مگر اُس کی نظروں کو احناف کی تلاش تھی کہی نہ کہی اُس کے اندر احناف کا ڈر اور خوف کُنڈلی مارے بیٹھ گیا تھا۔

نین تارا نام ہے میرا۔۔۔۔۔احناف کو ناپاکر جوابً تارا نے مصافحہ کے لیے اپنا نازک سا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں دیا"تبھی تارا کے لیے پانی کی بوتل لائے احناف کی نظر اُن دونوں پر گئ تو اُس کا پرسکون مزاج بِگڑا جانے کیوں اُس کو تارا کے آس پاس کسی کا بھی وجود برداشت نہیں ہوتا تھا۔پھر یہ تو سامنے والا منظر تو اُس کے لیے ناقابلِ برداشت تھا

تارا کلاس میں چلو۔۔۔کھینچے والے انداز میں احناف نے تارا کو بینچ سے اُٹھایا تو وہ کراہ کے رہ گئ۔۔۔۔

آرام سے ڈوڈ یہ اُس کا ہاتھ ہے کوئی بریف کیس نہیں۔۔۔اور بریک ٹائیم میں کلاس میں جاکر تارا نے کیا کرنا ہے۔۔۔۔اسجد اُس کو دیکھ کر بولا

یہ میری کزن ہے میں جب چاہوں جہاں چاہوں اِس کو لے کر جاسکتا ہوں تمہیں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔احناف نے چبا چبا کر الفاظ ادا دیئے

مجھے مسئلہ ہے"یا یوں کہو مجھے اعتراض بھی ہے تم اِس معصوم کے ساتھ ایسا رویہ رواں دواں نہیں کرسکتے۔۔۔۔احناف کسی گُڑیا کی طرح تارا کو لے جانے والا تھا جب اسجد نے کہا

ایکسکیوز می تم کون ہوتے ہو اعتراض اُٹھانے والے؟اسجد کے الفاظ کافی تھے احناف کے تن بدن میں آگ لگانے کے لیے تبھی سرخ چہرے سے اُس کو دیکھتا گویا ہوا تو تارا پہلے اسجد کو دیکھنے لگی جس کے تاثرات نارمل تھے پھر احناف کو دیکھا جو کاٹ کھانے کے در پہ تھی تارا کو اُس سے وحشت سے ہونے لگی وہ اُس سے دور کھڑے ہونے کی کوشش کرنے لگی مگر اُس کا ہاتھ ابھی تک احناف کی گرفت میں تھا تبھی وہ دور نہ ہو پائی

❤❤❤❤❤❤❤

میں تارا کا نیو فرینڈ ہوں۔۔۔۔اسجد نے بتایا تو احناف کے ماتھے پر بل نمایاں ہوئے تھے اور تارا کے ہاتھ پر اُس کی گرفت مزید مضبوط ہوئی تھی"جس پر وہ سی کرتی رہ گئ۔۔۔۔

نین یہ کیا بکواس کررہا ہے۔۔۔اسجد کو غُصے سے دیکھتا وہ اُس سے پوچھنے لگا

آپ۔ہاتھ۔۔چھوڑے۔۔۔تارا کو بس ابھی اپنے ہاتھ کی پڑی تھی جو احناف کی بے رحم گرفت کے رحم وکرم پر تھا۔۔۔

رلیکس احناف جانی اور اُس بیچاری کا ہاتھ چھوڑو میں بس نین تارا سے ایک بات کرنے آیا تھا۔۔۔تارا کی نم ہوتی آنکھیں دیکھ کر اسجد نے معاملہ رفع دفع کرنا چاہا جس پر احناف بنا اُس کو جواب دیئے کوئی تارا کو کیفٹیریا لایا

آپ بہت بُرے ہو اور جھوٹے بھی۔۔۔تارا نے غُصے سے اُس کو دیکھا تو اُس کے کیوٹ ایکسپریشن دیکھ کر احناف ناچاہتے ہوئے بھی مسکرایا

دوبارہ تم کسی سے بات نہ کرنا۔۔۔احناف نے کہا

کیوں؟

آپ کون ہوتے ہیں مجھ پر پابندیاں لگانے والے؟"میری مرضی میں جو چاہے کروں"جس سے چاہوں بات کروں آپ کو اُس میں نہیں پڑنا چاہیے۔۔۔اپنے ہاتھ پر سرخ نشان دیکھ کر تارا کا دل بھر آیا

میں تمہارا کزن ہوں نین اور میں جو بھی کرتا ہوں تمہاری بھلائی کے لیے کرتا ہوں اور تم اُلٹا مجھ سے خفا ہوجاتی ہو۔۔۔احناف کو تارا کی بات پسند نہیں آئی تبھی خفگی بھرے لہجے میں اُس سے گویا ہوا

آپ حیات سومل مومل اِن میں سے کسی پر پابندی کیوں نہیں لگاتے؟بس ہر وقت مجھے روکتے ٹوکتے ہیں حیات اپنے کلاس کے سب لڑکوں سے بات کرتی ہے سومل کی بھی اپنی کلاس فیلوز سے فرینڈشپ ہے"اور مومل تو فٹبال گیم بھی کھیلتی ہے لڑکوں سے اُن کو تو کبھی آپ نے آنکھیں نہیں دیکھائی یہ؟میں اکیلی ہوں تو بلاوجہ روعب جھاڑنے آجاتے ہو میں نانا جان سے اب آپ کی شکایت کروں گی"آپ کی وجہ سے کوئی بھی مجھ سے دوستی نہیں کرتا۔۔۔۔تارا جو ہمیشہ خاموش رہتی تھی آج تنگ آکر بولنے پر آئی تو بولتی چلی گئ جس کو سُن کر احناف شد سا رہ گیا اُس کو اندازہ نہیں تھا کہ تارا اِس قدر اُس سے بدگمان بھی ہوسکتی ہے۔۔۔

نین کیا ہوگیا ہے یار میں نہیں چاہتا تم کسی کی باتوں میں آؤ "حیات سومل اور مومل کی بات الگ ہے یار وہ سب تم سے بڑی ہیں عمر میں اور سمجھدار بھی جبکہ اُن کے برعکس تم میں اِتنی عقل نہیں ہے تم معصوم ہو اور میں نہیں چاہتا کوئی تمہاری معصومیت کا غلط فائدہ اُٹھائے۔۔۔احناف نے اِس بار رسانیت سے اُس کو سمجھانے کی خاطر کہا

احناف میں بچی نہیں ہوں۔۔۔۔تارا جیسے زچ ہوئی تھی مگر آج پہلی بار اُس کے منہ اپنا نام سُن کر احناف کو انجانی سی خوشی اور انجانا سا احساس شدت سے ہوا تھا مگر پھر نظر جب چھوٹی سی تارا پھر اپنی سوچ پر گئ تو خود پر ہزار بار ملامت کرکے اُس نے اپنا سر ہر بُری سوچ سے آزاد کیا

بچوں والا انداز تو ہے نہ تمہارا چہرہ دیکھو اپنا کیسے بنایا ہوا ہے اور اِن سب باتوں کو اگنور کرو اور بتاؤ تم مجھے کونسی بات بتانے والی تھی؟احناف نے مسکراکر اُس کو دیکھ کر پوچھا

وہ میں

احناف تم یہاں ہو چلو باسکٹ بال کھیلتے ہیں۔۔۔تارا اُس کو کچھ بتانے والی تھی جب حیات وہاں آکر بولی

میرا موڈ نہیں تم لوگ کِھیلو۔۔۔احناف نے انکار کیا

تمہارے موڈ کی ایسی کی تیسی اُٹھو اور چلو ورنہ میں نے ہمیشہ کے لیے ناراض ہوجانا ہے۔۔۔حیات نے اُس کا بازوں پکڑ کر زبردستی اُٹھانے کی کوشش کی مگر ناکام ہوئی

اچھا یار رُکو میں چلتا ہوں۔۔۔احناف نے آخر مان لیا

گُڈ بوائے۔۔۔حیات چہکی

نین تم بھی آؤ۔۔۔احناف نے تارا کو دیکھ کر کہا

میں یہی ٹھیک ہوں۔۔۔تارا بنا اُس کو دیکھ کر بولی

کبھی اپنے اِس خول سے باہر بھی آجایا کرو اور عمر کتنی ہے اور انداز دیکھو بزرگوں والا ہے۔۔۔اُس کا ہمیشہ والا انکار سُن کر حیات زچ ہوتی بولی

مجھے پسند نہیں یہ سب۔۔۔۔تارا نے کہا

کالج میں ہر اسٹوڈنٹ ہر ایکٹویٹی میں پارٹ لیتا ہے مگر تم نہیں لیتی لو ورنہ بعد میں پچھتاؤ گی۔۔۔حیات نے کہا

نہیں۔۔۔۔تارا کا وہی انداز

مرو پھر یہاں اور تم چلو۔۔۔حیات اُس کو وہی چھوڑتی احناف کو اپنے ساتھ لے جانے لگی۔۔

میں ایک بار نین سے کہتا ہوں۔۔۔گراؤنڈ واپس جانے سے پہلے احناف اچانک رُک کر حیات سے بولا

اففففف اللہ"میرے خیال سے امی ٹھیک کہتی ہیں مجھے واقع تمہیں تارا سے دور رکھنا چاہیے یار جب سے وہ آئی ہے تم ہم باقی کزنز کو اگنور کرنے لگے ہو بس اُس کی جی حضوری میں لگے ہوئے ہو وہ بڑی ہے کوئی چھوٹی کاکی نہیں اِس لیے تم اُس کے ابا مت بنا کرو میں تمہاری بیسٹ فرینڈ ہوا کرتی تھی مگر اب لگ رہا ہے جیسے تمہیں ہماری دوستی بھولنے لگی ہے۔۔۔حیات سخت خائف ہوتی بولی تو احناف نے گہری سانس بھر کر اُس کو دیکھا

تم حیات ہو اور وہ نین تارا ہے میرے لیے تم دونوں کزنز برابر ہو۔۔۔۔احناف نے سنجیدگی سے کہا

نو نو احناف میں اُس سے زیادہ تمہاری لیے ضروری ہونی میں چاہیے"ہم بچپن سے ایک ساتھ ہیں اور وہ تارا اُس کو ہماری زندگی میں آئے چند ماہ ہوئے ہیں تم ہم دونوں کو ایک جتنے مارکس نہیں دے سکتے تمہارے لیے پہلے میری بات کا ماننا لازمی ہونا چاہیے اُس کے بعد تارا کی۔۔۔حیات دو ٹوک انداز اپنائے بولی

ٹھیک ہے جیسا تم کہو۔۔۔۔احناف نے ہار مان لی ویسے بھی اِس وقت وہ بحث کے موڈ میں نہیں تھا

اچھا ایک بات بتاؤ جتنی کیئر تم تارا کی کرتے ہو وقت آنے پر میری بھی کروگے نہ؟یا بس یہ نوازشات تارا کے لیے ہیں؟حیات نے کھڑے کھڑے ہی پوچھا

افکورس تمہاری بھی کروں گا"اور میرا تارا کی کیئر کرنے کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا وہ اکیلا فیل کرے اگر وہ خود کو اکیلا فیل کرے گی تو مایوس ہوجائے گی پھر اُس کو مایوس دیکھ کر دادا جان رنجیدہ ہوجائے گے جو میں نہیں چاہتا اِس لیے میں چاہتا ہوں"تارا نارمل لائیف گُزارے۔۔۔احناف نے کہا تو حیات مسکرائی

میں جانتی تھی یہی وجہ ہوگی کیونکہ بچپن سے ہی تم ایک ہمدرد انسان ہو۔۔۔حیات اُس کے گال کھینچ کر بولی

ہممم وہ جب ہماری طرح نارمل ایکٹ کرے گی تو میں اُس کو تنگ نہیں کروں گا اور نہ یوں اُس پر روک ٹوک کروں گا کوئی"میں بس دادا جان کو پریشان نہیں دیکھ سکتا نین کی وجہ سے۔۔۔احناف نے ہنکارہ بھر کر کہا تو حیات نے سمجھنے والے انداز میں سر کو جنبش دی تھی مگر اُس کے الفاظ تارا نے بھی سُنے تھے جو اپنی کلاس کی طرف جانے والی تھی"اُن دونوں کا اپنے بارے میں ایسی رائے اور باتیں سُن کر تارا کو جو احناف پہلے سب سے الگ لگتا تھا اب باقیوں کی طرح لگا تھا"اُس کو سخت چڑ تھی"ہمدرد"لفظ سے اور اُس کو غُصہ بھی آیا تھا جس کو ضبط کرتی وہ ایک آخری نظر اُن دونوں پہ ڈالے وہاں سے چلی گئ اُس نے سوچ لیا تھا اِتنا کچھ سُن لینے کے بعد وہ اب کبھی احناف سے بات نہیں کرے گی"اُس کے پاس مخلص پیار کرنے والا اُس کا نانا تھا اور اُس کو کوئی ضرورت نہیں تھی کسی کی بھی ہمدردی بٹورنے کی۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

حال۔۔۔

کُنٹریکٹ سائن ہوجائے پھر؟ایک بڑی کمپنی کا ایڈمن صدام تارا کو دیکھ کر بولا

کُنٹریکٹ سائن کرنے سے پہلے میں ایک بار کوسٹیوم دیکھنا چاہوں گی۔۔۔تارا نے اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا

وہ ابھی پوری طرح سے ریڈی نہیں ہوا آپ تب تک تصویریں دیکھے۔۔۔صدام نے لیپ ٹاپ کی اسکرین اُس کی طرف کی تو تارا اُس کی طرف متوجہ ہوئی

اِس ڈریس میں کوئی حجاب وغیرہ نہیں؟تارا نے لیپ ٹاپ سے نظریں اُٹھائے اُس کو دیکھ کر پوچھا

حجاب کُونٹیکٹ نہیں ہے"آپ جانتی ہیں یہ بات ہمارے پاس کلاسیکل کپڑے ہوتے ہیں جن کی ہم

آپ کو بھی پتا ہونا چاہیے میں ایسے کلاسیکل کپڑے ویئر نہیں کرتی کسی کی بھی شوٹ پر۔۔۔۔تارا اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر بولی

مس تارا مسئلہ کیا ہے یہ برینڈڈ کپڑے ہیں جس کو پہننے کے بعد آپ کو بھی فائدہ ہوگا۔۔اور پیمنٹ بھی تو ہم آپ کو آپ کی مرضی سے دینگے۔۔صدام نے کہا

ٹاپ چیک کرے آپ اور اسکرٹ بھی دیکھو۔۔ٹاپ سلیولیس ٹھیک ہے مگر ڈیپ گلا "بیک لیس ٹاپ میں پہن کر کیمرہ کے آگے کھڑی نہیں ہوسکتی۔۔۔تارا نے سنجیدگی سے کہا

آپ کسی سے مشورہ لے ٹھنڈے دماغ سے سوچے اُس کے بعد آپ کوئی فیصلہ لے کیونکہ یہ ایک بڑا پروجیکٹ ہے سال کا سب سے بڑا آپ کو یہ چانس گنوانا نہیں چاہیے۔۔۔"اِس پروجیکٹ کے بعد ماڈلز کی آفرز آپ کو دوسرے ممالک سے بھی ہوسکتی ہے۔۔۔صدام نے کہا تو تارا گہری سوچ میں ڈوب گئ

ٹھیک ہے میں کل تک آپ کو جواب دوں گی۔۔۔کچھ سوچ کر تارا نے کہا

شیور۔۔۔صدام نے اُس کی بات سن کر سراثبات میں ہلایا

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

جلدی کرو لیٹ ہورہا ہے آپ لوگوں کو شاپنگ پہ چھوڑنے کے بعد مجھے بہت ضروری کام سے جانا ہے۔۔۔ازلان ہال میں کھڑا اُونچی آواز میں بولا جہاں بھاگم بھاگ لگی ہوئی تھی۔

آتے ہیں صبر کرو تم۔۔۔انعم بیگم اپنا بیگ سنبھالیں ازلان سے بولیں

حیات تم بھی آجاؤ کیا اپنی منگنی کا جوڑا نہیں لینا تمہیں؟منیبہ بھی ہال میں آتی حیات کو آواز دیتی ہوئیں بولی

اُس نے کہا تھا آنلائن شاپنگ کرے گی۔۔انعم بیگم نے بتایا

سچ پوچھو تو میرا دل بلکل بھی نہیں چاہ رہا کل کا فنکشن اٹینڈ کرنے کو ابو نے اچھا نہیں کیا ہم سے یہ بات چُھپاکر مگر میں بس یہ سوچ رہی ہوں کہ گھر کی بات گھر میں رہے باہر نہ جائے۔۔۔مُنیبہ بیگم منہ کے زاویئے بگاڑ کر بولی

چچی دادا جان نے کوئی بات چُھپائی تو نہیں ہے۔۔ازلان بولے بغیر نہ رہ پایا

رہنے دو تم بیٹا یہ بات ہمیں کسی اور سے پتا چلی ہے۔۔۔منیبہ بیگم گھر میں داخل ہوتی تارا کو دیکھ کر بولی

السلام علیکم چچی جان اور ازلان۔۔۔تارا اُن دونوں کو سلام کرتی صوفے پہ بیٹھ گئ۔

چچی اور ازلان کے علاوہ بھی کوئی موجود تھا۔۔مُنیبہ بیگم نے چُھبتے لہجے میں کہا

اچھا کون؟تارا حیرت کا مُظاہرہ کرتی آس پاس دیکھنے لگی.جیسے واقع کوئی اُس کو نظر نہیں آرہا تھا مگر منیبہ بیگم تو کلس کر رہ گئ تھیں۔

آپ لوگوں کے ساتھ میں بھی آؤں گی۔۔حیات جلدی سے سومل کے ساتھ آتی اُن سے بولی

پوری فوج تیار کرنی ہے یا کچھ اور کرنا ہے مگر جو بھی کرنا ہے پلیز جلدی کریں۔۔ازلان کوفت سے بولا وہ تنگ آگیا تھا۔۔۔۔

تارا اُٹھو تم بھی ہمارے ساتھ آؤ۔۔انعم بیگم نے اپنا سر دائیں بائیں ہلاتی تارا سے بولی

میرے پاس آلریڈی کپڑے ہیں آپ لوگ جائے۔۔۔تارا نے سہولت سے انکار کیا

جانتی ہوں تمہارا اپنا ڈیزائنر ہے مگر کبھی ہمیں بھی وقت دے دیا کرو اُٹھو شاباش۔۔۔انعم بیگم نے اُس کو آنکھیں دیکھائی تو اُن کے بار بار کہنے پر اِس بار وہ انکار نہیں کرپائی

کپڑے اپنے چینج کرلینا اور اپنا چہرہ بھی ڈہانپ لینا۔۔۔"ورنہ خوامخواہ کا رش لگ جائے۔۔۔۔اُس کو اُٹھتا دیکھ کر ازلان نے سنجیدگی سے کہا

تمہیں تو دیر ہورہی تھی۔۔۔حیات نے طنز کیا

ہٹ پہن لوں گی میں۔۔تارا نے سنجیدگی سے بس اِتنا کہا

چلیں پھر۔۔۔۔ازلان اِتنا کہتا باہر کی طرف بڑھا تو سب لوگ باری باری اُس کے پیچھے ساتھ نکلنے لگے۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

تم نے کہی اور جاب کے لیے اپلائے کیا ہے؟احناف لیپ ٹاپ پر کچھ ٹائپ کرنے میں مصروف تھا جب الطاف صاحب اُس کے سر پہ کھڑے ہوئے سنجیدگی سے پوچھنے لگے تو چائے سرو کرتی بینش بیگم چونکی یہی حال سلطان کا بھی تھا

جی کچھ ماہ پہلے ایک بہت بڑی کمپنی میں اپلائے کیا تھا اور اب رسپانس مل گیا ہے"کل سے جوائننگ ہے۔۔۔۔احناف نے سنجیدگی سے بتایا

برخودار یہاں لاہور میں سلطان جتوئی انڈسٹری کے علاوہ کوئی اور بڑی کمپنی نہیں ہے اور تمہیں کس چیز کی کمی تھی جو تم اپنی کمپنی میں موجود بڑی پوسٹ کو چھوڑ کر دو ٹکے کی جاب کرنے کی ضرورت پڑگئ؟سلطان صاحب نے ناگوار لہجے میں کہا تو احناف نے گہری سانس خارج کرکے لیپ ٹاپ کی اسکرین کو بند کیا اور پوری طرح سے اُن کی جانب متوجہ ہوا

وہ آپ کی کمپنی ہے ڈیڈ ہے جس کو آپ نے کھڑا کیا ہے اور میں اپنے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں"بغیر آپ کی کسی سپورٹ کے"آپ بھی تو یہی چاہتے تھے نہ پھر اِس بار بھی آپ کو اعتراض کیوں ہے؟احناف نے سنجیدگی سے اُن کو دیکھ کر پوچھا

میں کچھ نہیں جانتا تم کہی اور جاب نہیں کرو گے"تم احناف الطاف جتوئی ہو میرے بیٹے اور میرا بیٹا کسی اور جگہ جاب نہیں کرے گا"تم بس مجھے نام بتاؤ اُس شخصیت کا جس نے تمہیں یہ پٹی پڑھائی ہے۔۔۔الطاف صاحب نے نخوت سے کہا

میں جاب کروں گا ڈیڈ بہت اچھی اپرچونیٹی ہے جس کو میں گنوا نہیں سکتا۔۔احناف نے بس اِتنا کہا جبکہ اُن کی آخری بات وہ سِرے سے نظرانداز کرگیا تھا

احناف باپ کے سامنے ضد کیوں کررہے ہو؟بینش بیگم نے بات بگڑتی دیکھی تو مُداخلت کی

ہاں امی ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔۔سلطان نے بھی کہا

ڈیڈ ہمیشہ آپ مجھ سے یہ کہتے آتے ہیں کہ آپ کے بغیر میں کچھ نہیں میری کوئی اوقات نہیں تو بس آپ یوں سمجھ لے کہ میں اپنی اوقات بنانا چاہتا ہوں آپ کے نام کے بغیر"اِس لیے میں چاہتا ہوں کوئی درمیان میں نہ آئے۔۔۔احناف الطاف صاحب کو دیکھ کر بولا

باپ سے مقابلہ کرنے کا سوچ رہے ہو؟الطاف صاحب کا لہجہ چُھبتا ہوا تھا

اِتنا گُستاخ نہیں ہوں میں بس خود سے کچھ کرنا چاہتا ہوں"تاکہ چار لوگوں میں اگر بیٹھو تو کوئی یہ نہ کہے کہ اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر اِس لڑکے نے اپنے باپ کا بزنس جوائن کیا تھا۔۔۔احناف اُن کی آنکھوں میں دیکھ کر اٹل لہجے میں کہا

غلط کررہے ہو۔۔الطاف صاحب نے اُس کو باز رکھنا چاہا

غلطی سے اِنسان بہت کچھ سیکھتا ہے اِس لیے اگر یہ غلط ہے تو بھی آپ مجھے یہ کرنے دے"آپ کو اندازہ نہیں اسٹارٹنگ میں ہی مجھے ایک بہت بڑا پراجکیٹ ملا ہے۔۔۔احناف نے کہا

اچانک تمہیں جاب کی کیا سوجھی ہے؟سلطان نے اِس بار پوچھا

اچانک نہیں بہت پہلے سوچا تھا مگر کسی اچھی کمپنی سے رسپانس نہیں مل رہا تھا مگر اللہ کا شکر ہے اِس بار مل گیا۔۔۔احناف نے بتایا

یعنی ہماری کمپنی سے تم قطعیً تعلق ہورہے ہو؟الطاف صاحب نے پوچھا

جی کیونکہ میں اپنا خود کا نام اپنے بُل بوتے سے بنانا چاہتا ہوں۔۔۔احناف نے جواب دیا

یہ لگژری زندگی چھوڑنا آسان نہیں احناف اِس لیے ابھی سے تھم جاؤ"وگرنہ میں تمہیں دی ہوئی ہر آسائش کو تم سے چھین لوں گا لاپرواہ ہوجاؤں گا تم سے تمہارا اکاؤنٹ تک بند کردوں گا جس میں ہر ماہ پئسے ٹرانسفر ہوتے ہیں۔۔۔الطاف صاحب نے ایک اور کوشش کی اُس کو سمجھانے کی

میں اپنے فیصلے پر قائم ہوں۔۔۔۔احناف اپنی جگہ بضد تھا

حیات کو پتا ہے یہ بات؟بینش بیگم گہری سانس بھر کر بولی

نہیں سوچا اُس کو سرپرائز دوں گا۔۔۔۔احناف نے بتایا

سرپرائز کم شاک زیادہ ہوگا اگر تم کنگلے ہوگے تو وہ تمہیں دیکھے گی بھی نہیں۔۔۔الطاف صاحب کا انداز خاصا تضحیک آمیز تھا

میں اپنی بیوی کو جس حال میں رکھوں گا وہ اُس میں خوش رہے گی۔۔احناف نے پُریقین لہجے میں کہا تو الطاف صاحب اُس کو دیکھتے رہ گئے۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

Do you have in a bigger size?

ایک سبز رنگ کی پارٹی ڈریس ہاتھ میں لیے تارا نے سامنے کھڑے لڑکے سے پوچھا تو حیات جو بے دلی سے آس پاس ٹنگے کپڑے دیکھ رہی تھی اُس کی نظر بھی اُس ڈریس پہ ٹھیر گئ تھی جو بہت خوبصورت تھا اور کافی مہنگا بھی لگ رہا تھا مگر تھا وہ شارٹ گُھٹنوں تک

جی میم ہے۔۔لڑکے نے بتایا

شو می۔۔۔تارا نے کہا

شیور۔۔وہ جوابً بولا

Do you have this in another colour.

حیات وہ ڈریس چھیننے والے انداز میں تارا کے ہاتھ سے لیا اور بولنے کا انداز اپنا تارا جیسا بنایا تھا تو تارا کے چہرے پہ ناگواریت بھرے تاثرات اُبھرے مگر وہ خاموش رہی کیونکہ وہ پبلک پلیس پہ کوئی تماشا نہیں چاہتی تھی۔۔۔

یس میم۔۔۔وہ حیات کو دیکھ کر بولا

شو می اِن ریڈ کلر۔۔۔۔حیات نے مسکراکر کہا

مجھے سیم ایسا چاہیے مگر سائز الگ ہو۔۔۔تارا نے مکمل طور پر حیات کو نظرانداز کیا تھا۔

حیات تمہیں کوئی ڈریس پسند آیا ہم نے ڈیسائیڈ کیا تھا کہ ہمارا تھیم کوڈ ایک جیسا ہوگا۔۔۔سومل اور مومل بھی وہاں آئی

ہاں یہ دیکھو۔۔۔حیات زچ کرتی نظروں سے تارا کو دیکھ کر اُن کو ڈریس دیکھانے لگی

یہ تو نائٹی ہے۔۔مومل کی زبان پھسلی تو تارا طنز مسکرائی

میم یہ نائٹی نہیں ہے پارٹی ڈریس ہے اور پارٹی ڈریس اب ایسا ہی ہوتا ہے"اور اِنہوں نے ہمیں پارٹی ڈریس دِکھانے کا کہا تھا۔۔۔وہ لڑکا مومل سے کہتا آخر میں تارا کی طرف اِشارہ کیا حیات اور سومل نے مومل کو گھورا جس نے خود کے ساتھ ساتھ اُن کو بھی شرمندہ کروایا تھا۔

ہمیں پتا ہے اِس کا سائیز چھوٹا تھا جبھی اِس نے کہا۔۔سومل نے اُس لڑکے کو گھورا جبکہ مطلوبہ ڈریس ملتے ہی تارا ڈریسنگ روم کی چلی گئ۔۔۔

"حیات اِس ڈریس کے ساتھ تو کوئی ڈوپٹہ نہیں پتا نہیں کل ڈیڈ والے پہننے دے بھی یا نہیں ہمیں کوئی اور لینا چاہیے۔۔۔"تارا کے جانے کے بعد مومل آہستہ آواز میں حیات سے بولی

یہ تارا بغیر ڈوپٹے کے ٹی وی اسکرین پر آتی ہے اور کیا ہم اپنے گھر کے فنکشن میں آزادی سے گھوم نہیں سکتے۔۔۔حیات غُصے سے بولی

تارا کی بات الگ ہے وہ تو لاوارث ہے کوئی اُس کو روکنے ٹوکنے والا نہیں مگر ہمارے پاس ہمارے والدین ہیں۔۔۔"جن کو شاید پسند نہ آئے ہم تارا کی طرح خودمختار نہیں۔۔۔سومل کو مومل کی بات سہی لگی۔۔

ہم یہی ڈریس پہنے گے"وہ لاوارث ہوکر خودمختار ہوسکتی ہے تو میں بھی حیات ہوں اپنی مرضی کی مالک۔۔حیات اٹل انداز میں بولی

وہ لاوارث ہی سہی مگر اخلاق والی ہے مگر تم تینوں اُس کو نیچا دیکھانے کے چکر میں ہمیشہ خود نیچے گِرجاتی ہو۔۔۔اچانک ازلان کی آواز پر وہ بُری طرح سے سٹپٹائی

آگیا تارا باجی کا حمایتی۔۔۔حیات طنز ہوئی

بھائی تو ہمارا ہے مگر آفرین ہے جو کبھی ہماری طرفداری بھی کی ہو۔۔۔سومل نے بھی تاسف سے ازلان کو دیکھا

طرفداری کرنے والا کوئی کام بھی کرلیا کرو پھر۔۔۔ازلان نے افسوس سے اُس کو دیکھ کر کہا

میرے خیال سے تمہیں کہی جانا تھا تو جاؤ نہ آنے سے پہلے تو بڑی جلدی مچائی ہوئی تھی۔۔حیات کوفت سے اُس کو دیکھ کر بولی

میں تو جارہا ہوں مگر تم لوگ سنبھل جاؤ اور میں یہ کارڈز دینے آیا تھا جس کے بغیر تم لوگ شاپنگ کرنے میں مصروف تھیں۔۔۔ازلان دو کارڈز ایک حیات اور دوسرا سومل کی طرف بڑھائے بولا تو وہ اچھی خاصی شرمندہ ہوئی تھیں۔۔۔"دوسری طرف تارا جیسے ہی ڈریسنگ روم میں داخل ہوئی تو اُس کی نظر سامنے مردانہ پشت پر گئ اُس کو لگا شاید وہ غلط جگہ چلی آئی ہے تبھی واپس جانے کے لیے وہ جیسے ہی پلٹی تو وہ جو کوئی بھی تھا اُس نے تارا کا بازو اپنی آہنی گرفت میں لیے اُس کا رخ اپنی جانب کیا تو اِس اچانک ہوتی افتاد پر تارا بوکھلائی جبھی بنا سوچے سمجھے اُس نے سامنے والے کو تھپڑ مارنا چاہا پر اُس نے درمیان میں روک لیا اور اُس کے کان کے پاس جُھک کر سرگوشی نما آواز میں بولا

اِٹس می رلیکس۔۔۔۔

جانی پہچانی آواز سن کر ایک ٹھوکا تارا نے اُس کی پسلی پر مارا تو وہ تڑپ اُٹھا جبکہ تارا مسکراہٹ ضبط کرتی اُس کے چہرے سے ہٹ اُتارنے لگی

یہ کیا تھا۔۔۔وہ اُس کو گھور کر بولا

میں ڈر گئ تھی۔۔۔ڈریس ایک جانب کرکے تارا نے بتایا

نظر آرہا ہے کتنا ڈر گئ تھی تم۔۔وہ طنز بولا

یہاں کیا کررہے ہو تم اگر کوئی آگیا تو۔۔تارا نے اُس سے پوچھا

تمہاری یاد آرہی تھی تو آگیا۔۔۔وہ دلکش مسکراہٹ چہرے پہ سجائے اُس کو اپنے روبرو کھڑا کیے بولا

میرے یہاں ہونے کا تمہیں کس نے بتایا؟اور یہ بھی کہ میں ڈریس دیکھنے کے لیے یہاں آؤں گی؟تارا نے پوچھا

میرے دل نے بتایا۔۔۔وہ آرام سے بولا

اچھا اب جاؤ مجھے چینج کرنا ہے۔۔۔"اور یہ دیکھو پیارا ہے نہ؟کل میں یہ پہنوں گی۔۔۔تم آؤ گے نہ؟تارا نے ڈریس اُس کو دیکھایا

بہت بُرا ہے۔۔۔اُس نے بُری شکل بنائی

ریٹ دیکھو۔۔۔"کتنا ایکسپینسو ہے۔۔۔تارا نے اُس کو گھورا

ایکسپینسو تب ہوگا جب تب یہ پہنو گی۔۔اُس نے تھوڑا پیچھے ہوکر ایک ڈریس اُس کی طرف کیا تو تارا کا منہ بن گیا۔۔

نیلا؟گول گلے والی نیلے رنگ کی میکسی دیکھ کر تارا کا بُرا منہ گیا تھا

تمہاری آنکھوں کا۔۔۔وہ اُس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا

تمہیں کیوں عشق ہے اِس نیلے رنگ سے؟میں نہیں پہننے والی۔۔۔تارا نے صاف صاف انکار کیا

تم یہی پہنو گی اور اپنے اِس بالوں کی لٹ کو نیلا رنگ لگاؤں گی۔۔۔وہ اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر حکم سُنا رہا تھا۔

اچھا مذاق تھا۔۔۔تارا نے اُس کو خود سے دور کیا

یہ مذاق نہیں تھا میں سیریس ہوں۔۔تمہیں نہیں پتا نیلے رنگ میں پوری آفت لگتی ہو اور میں چاہتا ہوں میرے لیے تم ہمیشہ نیلا رنگ پہنو۔۔۔وہ جذب کے عالم میں اُس کو دیکھ کر بولا

تمہارا بس نہیں چلتا ورنہ میرے چہرے پر بھی نیلا رنگ لگادیتے۔۔وہ سرجھٹک کر بولی تو وہ ہنس پڑا

اب ایسا بھی نہ کہ میں تمہارا چہرہ نیلا کرو اپنی محبت دِکھاکر شرم وحیا سے سرخ کرسکتا ہوں مگر نیلا نہیں۔۔۔وہ مسکراہٹ دبائے بولا تو اُس کی نظروں کی آنچ سے تارا کو اپنے گال تپتے محسوس ہوئے

میری کزنز بھی ساری یہاں ہیں تم جاؤ اگر کسی نے دیکھ لیا تو مسئلہ ہوجائے گا ۔۔تارا نے اُس کو باہر نکالنا چاہا

میں باہر جاؤں گا تو تمہیں دیکھوں گا کیسے؟وہ سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا

کل دیکھ لینا ابھی جاؤ۔۔تارا نے اُس کو باہر کی طرف زبردستی کرنا چاہا

نہیں میں پیٹھ کرکے کھڑا ہوجاتا ہوں تم جلدی سے چینج کر میں پھر تمہیں دیکھ کر چلا جاؤں گا۔۔۔وہ بھی اپنے نام کا شاید ایک تھا ڈھیٹ

جاؤ ۔۔۔تارا نے دانت پیس کر کہا

نو۔ ۔۔اُس نے زبان دیکھائی

میں نے کہا جاؤ۔ ۔۔تارا نے زبردستی اب کی زور سے اُس کو دھکا دیا تو اُس کی شرٹ کا ایک بٹن ٹوٹ کر دروازے کے باہر گِرا تھا۔۔۔

تمہیں تو میں بعد دیکھ لوں گا۔۔بند دروازے کو گھورتے وہ اُس کو وارن کرنے لگا مگر تارا نے کوئی جواب نہیں دیا جس سے وہ جانے لگا تبھی دوسری طرف سے ایک ڈریس لیے حیات آئی تو لڑکیوں والی سائیڈ پہ کسی لڑکے کو نکلتا دیکھ کر اُس کا ماتھا ٹھٹکا جبھی وہ بھاگ کر اُس کے پیچھے جانے لگی تاکہ اُس کا چہرہ دیکھ پائے مگر وہ اچانک جانے کیسے غائب ہوگیا تھا

اگر یہاں تارا ہوئی تو؟ڈریسنگ روم کے دروازے کو دیکھ کر بے اختیار اُس کے من میں پہلا خیال تارا کا آیا تھا۔۔

ہاؤ چیپ۔۔۔دروازے کے پاس ٹوٹے بٹن پہ اُس کی نظر گئ تو بٹن ہاتھ میں لیے حیات کی آنکھوں میں تارا کے لیے نفرت اُبھری

تم؟تارا باہر آئی تو حیات کو کھڑا دیکھ کر وہ چونکی جبکہ حیات نے بٹن والا ہاتھ سرعت سے پیچھے کیا تھا اور اپنے شک پہ یقین کی مہر دیکھ کر وہ بنا تارا کو کوئی جواب دیئے ڈریسنگ روم میں چلی گئ۔۔۔اُس کا رویہ تارا کو عجیب تو بہت لگا مگر اُس نے حیات کے بارے میں سوچنا ضروری نہیں سمجھا تبھی سرجھٹک کر وہاں سے ہٹ گئ۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

یہ بٹن؟؟ڈریسنگ روم کا دروازہ بند کرتی حیات پرسوچ نگاہوں سے ہاتھ میں موجود "بٹن کو دیکھنے لگی۔۔اُس نے پوری طرح سے ڈریسنگ روم کو دیکھا تھا کہ شاید اُس کو تارا کے خلاف کوئی اور چیز نظر آجائے مگر بے سود کیونکہ اُس کو سِوائے اِس شرٹ کے بٹن کے کچھ اور نظر نہیں آیا تھا۔۔۔

لڑکا کون ہوسکتا ہے جس سے تارا اکیلے میں ملتی ہے؟"اگر پیار وغیرہ کا سین ہے بھی تو تارا کو کس چیز کا ڈر ہے جو وہ دادا جان کو بتانے کے بجائے چوری چوری تنہائی میں اُس سے ملتی ہے"وہ تو ہڈ دھرمی کرنے میں ماہر ہے"پھر ایسی کیا بات ہے جو وہ اُس لڑکے کو سب سے چُھپاتی بھی ہے اور خود چُھپ کر ملتی بھی ہے۔۔۔حیات جتنا اِن باتوں کو سوچ رہی تھی اُتنا اُلجھتی جارہی تھی۔۔

جو بھی ہو مجھے پتا لگانا پڑے گا آخر وہ شخص کون ہے؟"ہوسکتا ہے دونوں محض وقت گُزاری کررہے ہو۔۔اِس خیال کے آتے ہی حیات چونک اُٹھی تھی

ہاں ایسا ممکن ہے ایسا ہوسکتا ہے۔۔۔حیات جیسے اب ساری بات سمجھ گئ تھی تبھی تارا کو سوچنے کے بجائے اب اپنا ڈریس پہن کر چیک کرنے لگی۔۔۔

❤❤❤❤❤❤

تمہاری شاپنگ ہوگئ نہ؟اُن لوگوں کی گاڑی گھر کے گیٹ کے پاس رُکنے لگی تو ازلان نے تارا سے پوچھا

ہاں میں نے لے لیا جو مجھے چاہیے تھا۔۔۔تارا نے بتایا اور گاڑی سے اُتر کر جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی تو اُس کو عجیب گہماگہمی نظر آئی

بھائی آپ۔۔۔۔ابھی وہ کچھ سمجھتی جبھی اُس کے برابر سے تیز بھاگتی حیات خاور کے سینے سے لگی تھی جو کچھ سالوں سے پاکستان سے باہر تھا اور اب اچانک آکر اپنے سب گھروالوں کو سرپرائز کر ڈالا تھا"خاور کو دیکھ کر ہر کوئی خوش ہورہا تھا مگر اُس کو دیکھ کر تارا کے قدم سست پڑے تھے وہ خاموشی سے بس اُس کو دیکھنے لگی جو حیات کا ہاتھ چومتا اُس کی کوئی بات سُننے میں مصروف تھا۔۔

السلام علیکم ۔۔۔تارا نے مروتً سلام کیا

وعلیکم السلام تارا کیسی ہو؟خاور نے خوشگوار لہجے میں اُس سے پوچھا

ٹھیک۔۔۔یکلفظی جواب دیا

آؤ بیٹھو سب کے ساتھ ساتھ میں تمہارے لیے بھی تحائف لایا ہوں"تمہاری پسند کا مجھے اندازہ تھا۔۔خاور نے مسکراکر کہا

میں تھک گئ ہوں اپنے کمرے میں جاؤں گی اور آپ کا شکریہ پر مجھے کسی تحائف کی ضرورت نہیں۔۔۔تارا نے ہنوز سنجیدگی سے کہا تھا۔

تارا میری جان بیٹھو بڑا کزن ہے تمہارا اور تحائف کوئی بھی ضرورت کے تحت نہیں لیتا اور نہ دیتا ہے بلکہ تحائف میں تو انسان محبت کو دیکھتا ہے۔۔۔اُسماعیل صاحب نے محبت سے اُس کا چہرہ دیکھ کر کہا تو تارا اُن کے پاس جڑکر بیٹھ گئ جو بھی تھا پر وہ اپنے پیار کرنے والے نانا کی کوئی بھی بات سے انحراف کرنے کی جُرئت نہیں رکھتی تھی اپنے ماں باپ اور بہن کے علاوہ اگر کوئی اُس کا تھا جو ہر حال میں اُس کے ساتھ کھڑا رہے گا تو وہ اُس کا نانا ہی تھا۔۔۔

بلکل ٹھیک کہا آپ نے۔۔۔ازلان نے اُن کی بات سے اتفاق کیا

آپ نے دوائی کھائی ہے؟تارا نے آہستگی سے اُن سے پوچھا

ایک تو تمہیں اپنے پاس بیٹھاؤ تو تمہیں دوائیاں یاد آجاتیں ہیں۔۔۔اسماعیل صاحب نے مصنوعی گھوری سے اُس کو نوازہ

آج آپ کا بلیٹ پریشر اور شوگر چیک کرنا ہے میں نے جو مجھے نارمل نظر آنا چاہیے۔۔۔تارا نے جتاتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا تو اسماعیل صاحب اپنی جگہ چور سے ہوگئے۔۔

آپ مجھے تو بتاتے نہ میں احناف کو یہاں بلوالیتی۔۔۔حیات خاور کو دیکھ کر لاڈ سے بولی

میں کونسا ایک دن کے لیے آیا ہوں احناف سے پارٹی میں مل لوں گا۔۔۔خاور نے مسکراکر کہا

کل کیوں میں ابھی اُس کو کال کرتی ہوں دیکھیئے گا بھاگا بھاگا آئے گا میری ایک کال پر۔۔.۔حیات نے فخریہ انداز میں کہا تو اُس کی بات پر سب مسکرائے

ہاں بلاؤ مجھے بھی بات کرنی ہے اُس سے۔۔۔۔اختر صاحب نے کہا تو سب چونک کر اُن کو دیکھنے لگے جن کا انداز کافی سنجیدہ تھا

خیریت والی بات ہے نہ؟منیبہ بیگم اُن کے پاس بیٹھی

تمہیں پتا نہیں وہ کیا حماقت کرنے جارہا ہے۔۔اختر صاحب کافی غُصے میں معلوم ہورہے تھے جس پر ناچاہتے ہوئے بھی تارا کا دھیان اُن کی طرف گیا

بات بتائے ڈیڈ کیا ہوا ہے؟حیات احناف کے نمبر پر مسیج چھوڑتی اختر صاحب کی طرف متوجہ ہوئی

ہمارے مخالفین کی طرف نوکری کرنے لگا ہے احناف۔۔۔اختر صاحب نے بتایا

نوکری؟حیات ہنس پڑی "اُس کو اختر صاحب کی بات پر یقین نہیں آیا تھا

ڈیڈ اُس کو کیا ضرورت ہے نوکری کرنے کی ہمارا اپنا اِتنا بڑا بزنس ہے چچا نے کہاں اِجازت دینی ہے اُس کو۔۔۔حیات نے اُن کی بات کی نفی کی۔

سچ بات ہے آئے تو پوچھ لینا۔۔۔اختر صاحب نے سرجھٹک کر کہا

اگر ایسا ہوا تو حیات تم سمجھانا احناف کو یوں ناشکری کرنے والے سے اللہ ناراض ہوجاتا ہے"بھلا اپنا اِتنا بڑا بزنس ہونے کے باوجود اُس کو ضرورت کیا ہے دو ٹکے کی نوکری کرنے کی"اور نوکری بھی وہاں جو اُس کے چچا اور ہونے والے سسر کے دُشمن ہے۔۔۔۔منیبہ بیگم نے کہا تو حیات نے سراثبات میں ہلایا

کبھی اپنا دماغ بھی یوز کرلیا کرو۔۔ازلان جو اُس کے پاس والے صوفے پر بیٹھا تھا حیات کی حرکت پر بولے بغیر نہ رہ پایا جس پر حیات نے فقط اُس کو گھورا تھا۔۔۔


"السلام علیکم ۔۔۔کچھ دیر بعد احناف آیا تو سب کو اکھٹا بیٹھا دیکھ کر اُس نے سلام کیا

وعلیکم السلام بیٹا کیسے ہو؟آؤ بیٹھو.۔۔احناف کے سلام کا جواب سب نے دیا اور اسماعیل صاحب نے محبت سے اُس کو دیکھ کر کہا تو وہ خاور سے اچھی طرح سے ملنے کے بعد اُن کے ساتھ آکر بیٹھ گیا اب "اسماعیل صاحب کی ایک سائیڈ پر تارا تھی تو دوسری طرف احناف اور درمیان میں وہ خود تھے۔۔۔

تم نے جاب کرنے کا سوچا ہے؟اختر صاحب نے بات کا آغاز کیا

جی۔۔مختصر جواب

وجہ؟اگلا سوال

اپنے آپ کو ثابت کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔احناف نے سنجیدگی سے بتایا جس پر اسماعیل صاحب نے فخریہ انداز میں اُس کو دیکھا

تمہیں پتا ہے جس کمپنی کو تم نے جوائن کرنے کا سوچا ہے اُس کی وجہ سے ہمارے کمپنی کے کتنے شیئرز گِرچُکے ہیں۔۔۔۔اختر صاحب نے طنز انداز میں کہا

مجھے نہیں پتا آپ بتائے"کتنے گِرے ہیں؟احناف نے بڑی توجہ سے اُن کو دیکھ کر پوچھا تو اختر صاحب نے خشمگین نظروں سے اُس کو دیکھا تھا جبکہ اُن کے غُصیلے انداز میں احناف کا ٹھنڈا جواب سن کر تارا کو ہنسی آگئ تھی جس کو اُس نے کھانسی میں بدلا تھا۔۔

ٹھیک ہو؟اسماعیل صاحب نے فکرمندی سے اُس کو دیکھا جس کی رنگت میں سرخی چھاگئ تھی۔

میں ٹھیک ہوں۔۔۔تارا نے خود کو کمپوز کیا

ڈیڈ کو تمہاری جاب سے مسئلہ ہے"میرے خیال سے تمہیں اپنے فیصلے پر غور کرنا چاہیے۔۔۔حیات اُٹھ کر اُس کے ساتھ بیٹھ گئ۔

چچا جان میری جاب سے آپ کو مسئلہ کیا ہے؟"جبکہ میں مطمئن ہوں۔۔۔احناف نے سیدھا اختر صاحب سے سوال کیا

وہ تمہیں ہمارے خلاف بھی استعمال کرسکتا ہے۔۔۔اختر صاحب نے سنجیدگی سے کہا

میں کوئی بچہ نہیں۔۔۔احناف جوابً بس اِتنا بولا

میں کچھ نہیں جانتا تم بس یہ جاب چھوڑو میں نہیں تو بھائی صاحب سے بات کروں گا۔۔۔اختر صاحب نے کہا

آپ کو نہیں لگتا مجھے اِس حالت میں آپ کو چاہیے کہ مجھے سپورٹ کرنا چاہیے؟احناف نے افسوس سے اُن کو دیکھا

سپورٹ والا کام بھی تو کرو نہ کوئی یعنی ہمارے خاندان کا لڑکا کسی اور کے انڈر کام کرے گا۔۔۔۔اختر صاحب کے لہجے میں حقارت در آئی

میں تو اپنے پوتے کے ساتھ ہوں۔۔۔اُسماعیل صاحب نے احناف کا کندھا تھپتھپایا تو احناف نے اُن کے ہاتھوں کا بوسہ لیا

احناف کی بات ٹھیک ہے اگر وہ کوئی تجربہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو اِس میں کوئی قباحت نہیں ہے"رہی بات اپنے بزنس کی تو وہ بھی احناف کا ہے وہ جب چاہے اُس کی دیکھ بھال کرسکتا ہے۔۔۔انعم بیگم نے بھی باتوں میں اپنا حصہ ڈالا

یہ تو بچہ ہے آپ لوگ کیوں بچیں بن رہے ہیں؟منیبہ بیگم نخوت سے بولی

میں بچہ نہیں ہوں چچی"بچپن سے ڈیڈ چاہتے تھے میں کچھ کروں اور آپ سب بھی یہی چاہتے تھے کہ میں خود سے کچھ کروں تو میں وہی کرنے جارہا ہوں پر پتا نہیں آپ سب کو کیا ہوگیا ہے اب۔۔۔احناف سرجھٹک کر کہتا وہاں سے اُٹھ گیا اُس کا رخ اب ٹیرس کی جانب تھا کیونکہ جب بھی وہ اپنے دادا کے گھر آتا تھا تو ٹیرس ضرور جاتا تھا کیونکہ یہ اُس کی پسندیدہ جگہ تھی۔۔

میں دیکھتی ہوں۔۔۔حیات اِتنا کہتی اُٹھ گئ

بیٹھ جاؤ ابھی اُس کو اکیلا رہنے دو۔۔۔خاور نے اُس کو اُٹھتا دیکھا تو بیٹھنے کا اِشارہ کیا

تم جاؤ۔۔۔اسماعیل صاحب نے تارا کو دیکھ کر آہستگی سے کہا

میں؟تارا تعجب سے اُن کو دیکھنے لگی

کزن ہے تمہارا جاؤ اور دیکھو۔۔۔۔اسماعیل صاحب نے نرمی سے کہا تو تارا ناچاہتے ہوئے بھی اُٹھ گئ۔۔۔۔

میں اپنے کمرے میں آرام کروں گا اب۔۔۔خاور نے مسکراکر سب کو دیکھ کر کہا

ٹھیک ہے آرام کرو کیونکہ کل مصروف دن ہونے والا ہے۔۔۔منیبہ بیگم نے اُس کو دیکھ کر کہا


"تارا ٹیرس پر آئی تو احناف کو ریلنگ کے پاس خاموش کھڑا پایا جو دور خلاؤں میں جانے کیا تلاش کررہا تھا۔۔۔"اُس کو دیکھ کر تارا اُس کے کچھ فاصلے پر کھڑی ہوئی مگر بولی کچھ نہیں


"کیا میں غلط ہوں؟اچانک احناف کے مُخاطب کرنے پر تارا نے چونک کر اُس کو دیکھا

آپ کو کیا لگتا ہے؟تارا نے اُلٹا اُس سے سوال داغا تو احناف نے گردن موڑ کر اُس کو دیکھا جس نے آج بہت عرصے بعد اُس کو"آپ"کہے مُخاطب کیا

انسان کو اپنا آپ کبھی غلط نہیں لگتا۔۔۔۔احناف دوبارہ آسمان کی جانب دیکھتا اُس سے بولا

لگتا ہے بلکل لگتا ہے"البتہ وہ ظاہر ہونے نہیں دیتا ورنہ ہر انسان کو پتا ہوتا ہے جو وہ کرنے جارہا ہے یا وہ کرچُکا ہے وہ غلط ہے۔۔"یہ بات اچھے سے پتا ہوتی ہے۔۔تارا نے اُس کی بات کی نفی کی

ڈیڈ کو خوش کرنا چاہتا ہوں میں۔۔۔احناف نے بتایا

انسان کبھی اپنی زندگی سے خوش نہیں ہوتا تو تم نے کیسے سوچ لیا کہ وہ محض تمہاری ایک جاب سے خوش ہوجائے گے؟تارا کا لہجہ طنز ہوگیا تھا

جاب اچھی ہے میری"سیلیری پکیج بھی اچھا ہے۔۔۔احناف نے بتایا

اچھی ہوگی مگر سب کو تمہارا جاب کرنا اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔تارا شانے اُچکاکر بولی

تو تمہیں کیا لگتا ہے آپ مجھے اُن کی بات مان لینی چاہیے؟احناف نے پھر سے اُس کو دیکھا

میں کون ہوتی ہوں تمہارے مطلق اندازہ لگانے والی پر اگر تم نے عزم کرلیا ہے کہ کچھ کرنا ہے تو تمہیں اپنی قسمت آزمانی چاہیے پھر جب تمہارا دل نہ لگے تو واپس اپنے ڈیڈ کے پاس چلے جانا۔۔۔۔تارا نے سرسری لہجے میں کہا

ڈیڈ نے ایک حساب سے مجھے اپنی جائیداد سے عاق کرلیا ہے۔۔۔احناف نے کہا تو تارا کو اچنبھا ہوا

ریئلی؟

بس ایک جان کی وجہ سے؟تارا بے یقین تھی

اُن کی حکم عدولی کرنے کی وجہ سے۔۔۔احناف نے کہا تو تارا نے گہری سانس خارج کی پھر کچھ منٹس کھڑے رہنے کے بعد اُس نے جانا ضروری سمجھا تبھی اُس نے جانے کے لیے ابھی قدم آگے بڑھائے تھے کہ احناف نے اُس کی کلائی اپنے شکنجے میں لی۔۔۔

ہاتھ چھوڑو میرا۔۔۔تارا کو اُس کی حرکت پسند نہیں آئی اور اپنی اِس نے اختیاری پر احناف خود کو ملامت کرتا اُس کی کلائی چھوڑ چُکا تھا

تارا۔۔۔ازلان وہاں آتا تارا کو آواز دینے لگا تو تارا اور احناف نے ایک ساتھ اُس کو دیکھا جس کے ساتھ حیات بھی کھڑی تھی"حیات کے چہرے پر ناگواری والے تاثرات دیکھ کر تارا نے اپنے قدم ازلان کی طرف بڑھائے جبکہ حیات ایک اچٹنی نظر اُس پر ڈالے احناف کی طرف آئی تھی۔

احناف تم غُصہ کیوں ہورہے ہو؟حیات اُس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں بھر کر بولی

میں غُصہ نہیں ہوں۔۔۔۔احناف نے کہا جبکہ نظریں تارا پر اٹک گئ تھی جو ازلان کے ساتھ نیچے کی طرف جارہی تھی۔۔۔۔

اگر تمہیں جاب کرنا ہے تو فائن کرلوں مجھے کوئی اعتراض نہیں میں ڈیڈ اور موم کو بھی یہ بات سمجھادوں گی۔۔۔۔حیات نے اُس کا ہاتھ پکڑا

میں جانتا تھا۔۔۔احناف پہلی بار مسکرایا

بناوٹی مسکراہٹ کیوں ہے تمہارے چہرے پر؟حیات نے غور سے اُس کی آنکھوں میں دیکھا

بناوٹی مسکراہٹ کیوں ہوگی میری؟احناف نے اُلٹا اُس سے سوال داغا

اچھا فائن چھوڑو اور میرے ساتھ آؤ میں نے کل کے لیے ایک خوبصورت سا ڈریس سلیکٹ کیا ہے۔۔۔حیات نے مسکراکر بتایا

کل پہنوں گی تو دیکھ لوں گا ابھی میں چلتا ہوں"میرا موڈ آف ہوچکا ہے۔۔۔۔احناف نے انکار کیا

ڈنر کرنے کسی اچھی جگہ جائے؟تمہارا موڈ بہتر ہوجائے گا۔۔۔۔حیات نے پیش کش کی

آ نہیں میں بس گھر جاکر سوؤں گا۔۔۔احناف نے مسکراکر انکار کیا

ایز یو وِش۔۔۔۔حیات نے مزید بحث نہیں

❤❤❤❤❤❤❤

نیلے رنگ کی میکسی پہنے"ہونٹوں پر ڈارک لپ اسٹک لگائے تارا نے مسکراکر آئینے میں اپنے عکس کو دیکھا اُس کے بال جوڑے میں مقید تھے سِوائے آگے کو نکلی چند لٹوں کہ جن پر اُس نے نیلا کلر کیا تھا۔۔۔

پرفیکٹ۔۔۔خود پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر وہ آہستگی سے بڑبڑاٹی سینڈل پہننے کے اِرادے سے بیڈ پر آئی۔۔اِس درمیان اُس کی نظریں وال کلاک پر جمی ہوئی تھیں وہ جانتی تھی گھر اب تک پورا مہمانوں سے بھر گیا ہوگا وہ لیٹ ہوچکی ہے۔۔۔"اور شاید اب تک پارٹی شروع بھی ہوگئ ہوگی.."جبھی وہ جلدی جلدی اپنے ہاتھ پاؤں چلانے لگی

❤❤

یہ آپ کی بیٹیاں ہیں نہ"کیا اِن کو بھی ماڈلنگ میں بھیجا ہے؟اختر جتوئی اور اصغر جتوئی مہمانوں کے ساتھ خوش گپوں میں مصروف تھے جب اُن میں سے ایک نے سیڑھیوں کی جانب اِشارہ کیے مزاحیہ انداز میں پوچھا تو وہ دونوں چونک کر سیڑھیوں کی جانب دیکھنے لگے جہاں"حیات"سومل"مومل سلیولیس پارٹی ڈریس میں ملبوس"پشت پر کُھلے بال چھوڑے "فل میک اپ کیے مسکراتی ہوئی آپس میں کوئی بات کرنے میں مصروف تھیں۔۔"اُن کی ایسی ڈریسنگ دیکھ کر اُن دونوں کا چہرہ احساس توہین کی وجہ سے سرخ ہوا تھا۔

ایسی کوئی بات نہیں دراصل گھر میں فنکشن تھا تو تبھی بچیوں نے ایسی ڈریسنگ کی ہے۔۔"اصغر صاحب نے مسکراکر اُن کی بات کی نفی کی

اچھا اچھا ویسے آپ کی بھانجی نظر نہیں آرہی؟سارا کچھ تو اُس نے کیا ہے نہ؟اور اُس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ماشااللہ سے جوان ہوگئ ہے اُس کے ہاتھ بھی پیلے کردینے چاہیے۔۔۔اب کی ایک خاتون نے رازدرانہ انداز میں اُن سے کہا

مُناسب رشتہ نظر آیا تو ضرور۔۔اصغر صاحب مسکراکر بولے تو اُنہوں نے سر کو خم دیا

"السلام علیکم ۔۔۔حیات اپنے باپ کے سامنے کھڑی اُن کو سلام کرنے لگی

وعلیکم السلام بیٹا کیسی ہو؟خاتون نے مسکراکر اُس کو دیکھ کر پوچھا

میں ٹھیک الحمداللہ آپ بتائے۔۔حیات نے بھی جوابً مسکراکر بتانے کے بعد پوچھا

اللہ کا شکر ہے۔۔۔۔خاتون بولی تو حیات کی نظر الطاف صاحب اور بینش بیگم کے ساتھ "سلطان احناف انابیہ بھی پر پڑی جو ابھی آئے تھے۔"اُن کو دیکھ کر حیات ایکسکیوز کرتی بینش بیگم کی طرف بڑھی

چچی جان کیا حال چال ہے۔۔حیات اُن کے گلے لگی۔

میں ٹھیک تم بتاؤ اور بیٹا تمہیں بھی تارا کی ہوا لگی ہے کیا؟بینش بیگم نے مسکراکر دل کی بات کردی تو احناف جو اپنے سیل فون میں بزی تھا اپنی ماں کی بات سن کر چونک کر سراُٹھایا تو نظر حیات کے بجائے اُس کے پیچھے آتی تارا پر گئ جو پاؤں کو چھوتی خوبصورت میکسی میں ملبوس آہستہ آہستہ چلتی لوگوں سے مل رہی تھی۔۔"اُس کے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ تھی جس کو احناف نے بڑے غور سے دیکھا تھا مگر جلدی دیکھنے سے محروم بھی ہوگیا تھا کیونکہ وہاں لوگوں نے اُس کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا ۔۔

اچھی نہیں لگ رہی کیا؟حیات کی آواز پر احناف کا دھیان اب حیات پر گیا تھا۔۔"اور اُس کو دیکھ کر چہرے پر ناپسندیدگی والے تاثرات نمایاں ہوئے

بلکل بھی اچھی نہیں لگ رہی۔۔۔احناف نے ناگواری سے کہا

احناف۔۔۔۔بینش بیگم نے اُس کو تنبیہہ کی جس پر وہ ایک اچٹنی نظر حیات پر ڈالتا وہاں سے ہٹ گیا۔

احناف رُکو۔۔۔حیات فورن سے اُس کے سامنے کھڑی ہوئی

یہ کیا ہے حیات؟احناف نے اُس کے کپڑوں کی جانب اِشارہ کیا

اچھے نہیں ہیں کیا؟مجھے لگا تھا تمہیں پسند آئے گے۔۔۔حیات آہستگی سے منمنائی

سیریسلی؟تمہیں لگا میں اِن واحیات کپڑوں میں تمہیں دیکھ کر خوش ہوجاؤں گا؟احناف نے طنز کیا

ہاں تو اِس میں غلط کیا ہے آجکل ایسا ہی چلتا ہے ہر جگہ اور ہم لاہور میں ہیں بلوچستان کے کسی گاؤں میں نہیں۔۔۔حیات نے آخر میں مزاحیہ انداز میں کہا تھا

بلوچستان کے گاؤں کی لڑکی نے بھی قابلِ تعریف کپڑے پہنے ہیں۔۔۔احناف نے کہنے کے ساتھ ہی اُس کا رُخ تارا کی طرف کیا جس پر حیات کے ماتھے پر بل نمایاں ہوئے تھے اُس کا چہرہ دیکھنے لائق ہوا تھا۔۔۔"اُن سب سے انجان تارا کسی کو کال کرنے میں محو تھی۔۔۔

ہیلو۔۔۔۔سلطان تارا کی طرف آیا

السلام علیکم ۔۔۔۔تارا اپنا فون بند کرتی اُس کی طرف متوجہ ہوئی

وعلیکم السلام ڈانس؟سلطان نے اُس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا

ڈانس؟تارا شش وپنج میں مبتلا ہوئی

ہاں کیوں اِس میں اِتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے؟اسٹیج کی طرف دیکھو ہر کوئی ڈانس کرنے میں مصروف ہے۔۔۔سلطان نے کہا تو آس پاس نظریں ڈوراتی تارا اُس کی بات پر حامی بھرگئ

شیور۔۔۔۔تارا نے مسکراکر اپنے ہاتھ اُس کے ہاتھ میں دیا تو سلطان اُس کو لئے اسٹیج پر آیا اور اُس کی کمر پہ ہاتھ رکھ کر تھوڑا اپنے نزدیک کیا

آؤ ڈانس کرتے ہیں۔۔۔۔حیات نے پرجوش لہجے میں احناف سے کہا

میرا موڈ نہیں۔۔۔۔۔احناف نے انکار کیا

کم آن یار احناف چلو حد ہے تمہاری بھی۔۔۔حیات اُس کو آنکھیں دیکھاتی زبردستی اپنے ساتھ اسٹیج پر لائی"دوسری طرف سومل خاور کے پاس آئی تھی"

ڈانس۔۔۔سومل نے مسکراکر خاور سے کہا تو وہ جو میسج ٹائپ کررہا تھا اُس کی طرف دیکھا

وائے ناٹ۔۔۔خاور نے سب کو ہلکے ہلکے میوزک پر ڈانس کے اسٹیپس لیتا دیکھا تو مسکراکر مثبت جواب دینے لگا جس پر اُس کی باچھیں کُھل گئ۔۔۔۔۔

آپ کا موڈ کیوں آف ہے؟کولڈ ڈرنک کا سِپ لیتے ارسلان نے مومل سے پوچھا جس کی نظریں سلطان اور تارا پر تھیں۔۔

تارا کو دیکھو زرا بچپن میں احناف کو اپنے پیچھے لگایا تھا"پھر یونی فیلو "اسجد اُس کے بعد ازلان اور اب دیکھو سلطان کو اپنی طرف مائل کرنے میں لگی ہوئیں ہیں۔۔۔مومل نفرت بھرے لہجے میں گویا ہوئی

خُدا کا خوف کرو آپی سلطان بھائی کی کچھ ماہ بعد شادی ہے اور منگنی شُدہ ہے۔۔۔۔"اور تارا کو تو وہ اکثر اپنی چھوٹی بہن سمجھا کرتے ہیں۔۔۔۔ارسلان اُس کی بات سن کر ہنس کر بولا

تمہیں نہیں پتا کچھ۔۔۔مومل سرجھٹک کر بولی

واقع مجھے کچھ نہیں پتا خیر میں بھی جارہا ہوں ڈانس کرنے آپ بھی اپنا کوئی پارٹنر تلاش کرلے۔۔۔ارسلان اپنے ہاتھ کھڑے کیے کہتا انابیہ کی طرف بڑھا تھا

ازلان بھائی۔۔۔۔فضا نے سب کو ڈانس میں مگن دیکھا تو ازلان کے پاس آئی جو اپنے دوستوں کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا۔

ہممم۔۔۔ازلان نے اُس کی طرف اپنا رُخ کیا

آئے نہ ڈانس کرتے ہیں ہر کوئی کررہا ہے اور بڑے لوگوں کو بزنس کی باتوں سے فرصت نہیں ایسے میں مجھے بوریت محسوس ہورہی ہے۔۔۔۔فضا نے کہا تو ازلان اُس کی بات پر مسکرایا

تم چلو میں آتا ہوں۔۔۔ازلان اُس کے بال بگاڑ کر بولا

اوکے۔۔۔وہ مسکراکر کہتی اسٹیج کی طرف بڑھی۔

""تمہیں کسی کا انتظار ہے؟سلطان کی بات پر تارا جو آس پاس دیکھنے میں تھی چونک کر اُس کو دیکھنے لگی

نہیں تو آپ کو ایسا کیوں لگا؟تارا نے زبردستی مسکراہٹ چہرے پر سجائی

تمہارے چہرے پر بے چینی والے تاثرات تھے تبھی مجھے لگا۔۔سلطان نے وجہ بتائی

ایسا کچھ نہیں۔۔۔تارا نے نفی میں سر کو جنبش دی"


"تم ان کمفرٹیبل فیل کررہے ہو کیا؟حیات نے بغور احناف کے تاثرات جانچے جس کا ایک ہاتھ تو اُس کی کمر پر تھا اور دوسرا اُس کے ہاتھ میں تھا مگر اُس کے چہرے سے لگ رہا تھا جیسے وہ کچھ پریشان سا ہے۔۔

تمہاری کمر بیک لیس ہے۔۔۔احناف نے مختصر اِتنا بتایا یہی وجہ تھی جو احناف بار بار وہاں سے اپنا ہاتھ ہٹا رہا تھا کیونکہ اُس کو عجیب محسوس ہورہا تھا۔۔۔

تو کیا ہوا میں تمہاری منگیتر ہوں"اِس لیے شرماؤ نہیں۔۔حیات ہنس کر پڑی

ایسی ڈریس کے ساتھ تمہیں اپر پہننی چاہیے تھی۔۔۔احناف محض اِتنا بولا

تمہاری سوچ کافی پُرانے خیالات کی ہے۔۔۔حیات نے جھرجھری سی لی

نین تارا کے پاس ہوتیں ہیں تم ایک اُس سے لینی چاہیے تھیں اگر تمہارے پاس نہیں تھی تو۔۔۔احناف نے کہا تو اُس کی بات پر حیات نے آنکھیں گُھمائی

اُس کی یوزلیس چیزیں استعمال کرنے سے اچھا میں مرجاؤں۔۔۔حیات سرجھٹک کر بولی تو احناف نے تاسف سے اُس کو دیکھا"جبھی ڈانس کے دوران ہر کپل نے پوزیشن چینج کی "تو جس وقت سلطان تارا کو گول گھمارہا تھا اُس وقت تارا کا ہیل والی سینڈل والا پاؤں اپنی میکسی پر اٹکا تھا مگر اُس سے پہلے وہ گِرتی ازلان نے جلدی سے اُس کو تھام لیا تھا۔۔۔ازلان کے کندھوں کو مضبوطی سے پکڑتی تارا نے شکر کا سانس خارج کیا

ٹھیک ہو نہ تم؟ازلان اُس کو سہی سے کھڑا کرتا فکرمندی سے پوچھنے لگا

جی میں ٹھیک ہوں آپ کا شکریہ ورنہ بہت بُری موچ آتی۔۔۔اپنے پاؤں کو دیکھتی تارا ہنس کر بولی تو اُس کو مسکراتا دیکھ کر ازلان بھی مسکرایا تھا۔۔

ضرورت کیا ہے تم لڑکیوں کو اِتنی بڑی ہیل پہننے کی۔۔۔ازلان اُس کو دیکھ کر بولا

مجھے عادت ہے بس آج یہ ہوگیا۔۔۔۔تارا نے جوابً بس اِتنا کہا جس پر ازلان نے ڈانس کے دوران اُس کی پوزیشن ٹھیک کی۔۔"اُن دونوں کو دیکھ کر احناف کی گرفت انجانے میں حیات کی کمر پر مضبوط ہوئی تھی جس نے اُس کو پوزیشن بدلنے کے دوران چھوڑا نہیں تھا۔۔"دوسری طرف خود پر کسی کی نظروں کا ارتکاز محسوس کیے اپنے دونوں ہاتھ ازلان کے کندھوں کو پکڑتی تارا نے نظریں سامنے اُٹھائی تو نگاہیں احناف سے ملیں تھی جو بے تاثر نظروں سے اُس کو دیکھ رہا تھا"تارا نے بار بار اُس کو دیکھا پر احناف نے اُس سے اپنی نظریں اُس پر ہٹائی نہیں تھیں جس پر تارا کو عجیب فیل ہونے لگا تبھی ازلان کے کان میں کچھ کہتی وہ اپنی پشت احناف کی طرف کرگئ تھی۔۔۔

آہستہ یار۔۔۔۔حیات نے اُس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر تھوڑا سا خود سے دور کیا تو احناف ناسمجھی سے حیات کا چہرہ دیکھنے لگا

تمہارے پاس ہوں کہی بھاگی نہیں جارہی اِس لیے رلیکس رہو اور اپنا ہاتھ ہولہ رکھو۔۔۔حیات نے شرارت سے مزید کہا تو احناف کو محسوس ہوا وہ کیا کرگیا ہے تبھی سرعت سے وہ اپنے ہاتھ پیچھے کرگیا تھا شرمندگی کیا ہوتی ہے؟"اِس بات کا احساس اُس کو شدت سے ہوا تھا اور اپنی اِس حرکت پر دل ہی دل میں کئ بار خود کو کوس بھی چُکا تھا۔۔۔"اور جب اُنہوں نے دوبارہ پوزیشن چینج کی تو حیات گول گول گھومتی خاور کے پاس آئی اور "مومل سلطان کے پاس جبکہ باقیوں کا بھی پارٹنر بدل گیا تھا اور تارا احناف کے پاس آئی تو اپنے ہاتھ اُس کے کندھوں پر محسوس کیے وہ پیچھے ہونے لگی جب احناف نے اُس کے گرد اپنا حصار بناکر اُس کی کوشش کو ناکام بنا گیا تھا

"ازلان کے کندھوں کو تو بڑی مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اب کیا ہوا؟احناف نے کہا تو اُس کی بات کا مطلب جان کر تارا نے ناگواری سے اُس کو دیکھا

میں گِرنے والی تھی۔۔۔تارا نے جانے کیوں صفائی پیش کی

اوو۔۔۔۔۔احناف نے اپنے ہونٹوں کو"گول"شیپ دیا پھر اُس کی نظریں تارا کے چہرے پر آتی آوارہ لٹوں پر گئ۔۔

یہ نقلی ہے؟احناف نے اُس کے نیلے بالوں کی لٹوں کو چھیڑا

اصلی ہیں۔۔۔۔تارا بغیر اُس کو دیکھ کر بولی

اوو کافی شوق ہے تمہیں اچھی چیزوں کا بیڑا غرق کرنے کا۔۔۔۔احناف نے اُس کو دیکھ کر طنز انداز میں کہا

میرے بال میری مرضی۔۔۔۔تارا نے اُس کو گھورا

بلکل مگر نیلی آنکھیں"نیلی ڈریس اور اُپر سے یہ نیلی آوارہ لٹیں بات کچھ جمی نہیں"ایک تھا ڈائن والے ڈرامے کی "سیکنڈ قسط والی ڈائن سے مشابہت کھا رہی ہو مگر فرق بس اِتنا ہے کہ اُس کے سفید ڈریس کے ساتھ سفید آنکھیں تھیں اور تم پوری کی پوری نیلی بنی ہوئی ہو۔۔۔۔احناف نے بڑے افسوس بھرے لہجے میں اُس کو دیکھ کر کہا تو تارا کو اُس کی بات بُری تو بہت لگی مگر خاموش رہی بس اپنی نظریں ڈانس کرتے کپلز پر جمائی

خوبصورت لگ رہی ہو۔۔۔احناف نے دوبارہ بات کی شروعات کی تو تارا نے اِس بار چونک کر نظریں اُُٹھاکر اُس کو دیکھا جو پہلے اُس میں سے نقص نکال رہا تھا اور اب جلدی سے تعریف میں کررہا تھا۔۔۔۔

کون میں؟تارا کو یقین نہیں آیا کہ احناف نے اُس کی تعریف کی ہے"بھلا اِتنی جلدی کون بدلتا ہے؟

ہاں سوچا کرلوں کیونکہ میں شیور ہوں تمہاری تعریف یہاں کسی نے بھی نہیں کی ہوگی۔۔۔۔احناف نے جوابً کہا جس پر تارا نے دانت پیس کر اُس کو دیکھا مگر کہا کچھ بھی نہیں پر اُس کو مسلسل خود پہ احناف کی نظروں کا ارتکاز اچھے سے محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔"جس سے وہ کوفت کا شکار ہوئی

ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟تارا نے بلآخر پوچھ لیا کیونکہ وہ اُس کی نظروں سے زچ ہورہی تھی۔۔۔۔

کچھ تلاش کررہا تھا تمہاری اِن آنکھوں میں۔۔۔۔احناف نے بتایا

اچھا اور وہ کیا؟تارا نے آئبرو اُپر کیے اُس سے پوچھا

شرم"حیا"جو اِن آنکھوں میں کہی بھی نہیں ہے۔۔۔۔احناف نے بتایا تو تارا کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا وہ غُصیلے نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی جس نے اب اپنی نظروں کا زاویہ خاور کے ساتھ ڈانس کے اسٹیپ لیتی حیات کی طرف کرلیا تھا۔۔۔۔۔۔"مگر تارا کے صبر کا پیمانہ جیسے اِن دو الفاظوں سے لبریز ہوگیا تھا۔۔

تم کون ہوتے ہو مجھے جج کرنے والے۔۔۔تارا نے اُس کو خود سے پرے دھکیلا اور بنا اُس کی سُنے جانے والی تھیں جب احناف نے اُس کو اپنی طرف کھینچا جس پر اُس کی پشت احناف کے سینے سے لگی تھی۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

دور رہو تم۔۔۔۔تارا جھٹکے سے اُس کی طرف پلٹ کر درمیان میں فاصلہ قائم کرنے کی کوشش کرنے لگی مگر کسی کا بھی دھیان نہ پاکر احناف نے مزید اُس کو تنگ کرنے کی خاطر اُس کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کی

دور کیوں بھاگتی ہو؟احناف نے اُس کے بالوں کی لٹ کان کے پاس اُڑسی

حد میں رہو تم۔۔۔۔۔تارا نے اُس کا ہاتھ جھٹکا

یاد ہے میں تم سے بڑا ہوں عمر میں؟احناف نے یاد کروانا چاہا

مجھے تنگ مت کرو تم بس۔۔۔۔تارا کو کوفت ہونے لگی اور دائیں بائیں سر گُھمانے لگی

کوئی آنے والا ہے کیا؟احناف نے اُس کا چہرہ اپنی طرف کیا

تم سے مطلب۔۔۔۔تارا نے بیزاری سے جواب دیا تبھی وہاں حیات آئی تو اُس کے تنے ہوئے تاثرات دیکھ کر تارا جو بیزار کھڑی تھی جانے اُس کے دل میں کیا سمائی جو اپنا ایک ہاتھ احناف کے ہاتھ میں دیا اور دوسرا اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ڈانس کے اسٹیپ لینے لگی تو جہاں اُس کی حرکت پر احناف حیران ہوا تھا وہی حیات کے تن بدن میں آگ لگی تھی۔

احناف سے دور رہو۔۔۔۔حیات نے چبا چبا کر لفظ ادا کیا اُس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ تارا کا حشر کردیتی

کیوں؟تارا نے معصوم لہجے میں پوچھا

احناف اِس کو دھکا دے کر خود سے دور کرو۔۔"مگر خود کے قریب نہ آنے دو۔۔حیات نے اب کی احناف کو مُخاطب کیا جس پر تارا یکطرفہ مسکراتی احناف کو دیکھنے لگی۔

دھکا دو مجھے تمہاری لولی فیانسی کی فرمائش ہے۔۔۔تارا اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی تو احناف کے گلے کی ہڈی اُبھر کے معدوم ہوئی تھی یکایک اُس کے کانوں میں تارا کے الفاظ گونجنے لگے


"وحشت ہوتی ہے مجھے آپ کے لمس سے مجھ سے دور رہا کرے"نہیں چاہیے مجھے آپ کی ہمدردی میں اپنی زندگی میں خوش ہوں"اُس میں آپ کی گُنجائش نہیں مجھے نفرت ہے آپ سے اور بار بار یوں آپ کے حق جتانے والے انداز سے میں کوئی آپ کی زرخرید غُلام نہیں ہوں جو بس آپ کی بات پر سرجُھکادوں گی۔۔۔۔


اِن الفاظوں میں جانے کیا تھا جو احناف کی آنکھیں سرخ ہونے لگیں تھی اور اُس نے کسی اچھوت کی طرح تارا کو خود سے دور کیا تھا جس پر نیچے گِرتی تارا کے پاؤں میں بہت گہری موچ آئی تھی جس کی تکلیف کے آثار اُس کے چہرے پر واضع طور پر ظاہر تھے"مگر منہ سے آہ تک نہ نکلی تھی۔۔۔۔"اُس کو گِرتا دیکھ کر ہر کوئی اُس کی طرف متوجہ ہوا تھا تیز میوزک اچانک سے بند ہوگیا تھا مگر بدقسمتی سے وہاں اُسماعیل صاحب یا ازلان میں سے کوئی بھی نہیں تھا جو تارا کی مدد کو آتے


تارا

احناف اپنے بے اختیاری میں کیے جانے والے عمل پر شرمندگی میں مبتلا ہوتا اُس کی طرف بڑھنے والا تھا جب کوئی اور تارا کی طرف اُس سے پہلے آیا تھا۔

ا۔۔سجد۔۔۔اپنے پاؤں پر ہاتھ رکھتی تارا درد سے کراہی

آر یو اوکے؟اسجد نے فکرمندی سے اُس کو دیکھا جس پر تارا اپنا سر نفی میں ہلانے لگی۔

لِیو اِٹ۔۔۔حیات نے احناف کے بازوں کو پکڑا جس پر احناف لب بھینچتا تارا کو دیکھنے لگا

موچ لگتا ہے گہری آئی ہے۔۔۔وہاں کھڑے لوگوں میں سے کسی نے کہا

کال دا ڈاکٹر۔۔۔۔اسجد پاس کھڑے ارسلان سے کہتا تارا کو اپنے بازو میں اُٹھانے والا تھا جب احناف نے ایک جھٹکے سے اُس کو تارا سے دور کیا تھا اور اُس کے چہرے پر ایک زوردار مُکہ مارا تو سب حق دق رہ گئے

واٹ دا۔۔۔اپنی ناک پہ ہاتھ رکھ کر اسجد نے ناپسندیدہ نظروں سے اُس کو دیکھا اور جوابی مُکہ مارنے کے لیے اُس کی طرف بڑھا جس پر آس پاس چہ مگوئیاں ہونے لگیں تھیں

احناف۔۔۔۔حیات چیخی جبکہ احناف نے سرعت سے اسجد کا ہاتھ درمیان میں روک لیا

یہ کیا ہورہا ہے؟بند کرو سب اپنا تماشا۔۔۔اُسماعیل صاحب کو پتا چلا تو وہ وہاں آکر گرج اُٹھے جس پر احناف کھاجانے والی نظروں سے اسجد کو دیکھتا تارا کی طرف آیا تھا اور بنا کسی پر ایک نظر ڈالے اُس کو اپنے بازوں میں اُٹھاتا سب کے درمیان سے نکلتا گیا اُس کا رُخ اب تارا کے کمرے کی طرف تھا.۔۔"گھروالوں کے ساتھ ساتھ وہاں موجود مہمانوں نے اُس کی پشت کو گہری نظروں سے دیکھا تھا جبکہ حیات کی آنکھیں آگ برسانے کی حد تک سُرخ ہوگئیں تھیں۔۔۔"حالات کو یوں بدلتا دیکھ کر انعم بیگم مہمانوں سے معذرت کرنے لگیں جس پر وہ باری باری گھر سے نکلتے چلے گئے

"تم ٹھیک ہو؟تھوڑی دیر بعد ازلان آیا تو اسجد کی طرف بڑھا تھا

میں ٹھیک ہوں تم تارا کے پاس جاؤ پہلے احناف اُس کو تکلیف پہنچا کر اب مرہم لگانے کے چکروں میں ہے۔۔۔"اسجد سرجھٹک کر اُس سے بولا

میں جاتا ہوں اور احناف کی طرف سے میں سوری کرتا ہوں۔۔۔ازلان نے تھوڑی شرمندگی سے کہا

تمہیں یہاں انوائٹ تارا نے کیا تھا؟"کس حیثیت سے اُس نے تمہیں یہاں آنے کا کہا اور کیا رشتہ ہے تمہارا اُس کے ساتھ جو احناف سے اُلجھ پڑے۔۔۔۔۔حیات اسجد کے سر پہ کھڑی ہوتی اُس سے استفسار ہوئی

حیات۔۔۔۔۔۔ازلان نے اُس کا بازو دبوچ کر تنبیہہ بھری نظروں سے اُس کو دیکھا

کیا حیات؟اور کیا تم ہر وقت اُس کی حمایت میں لگے رہتے ہو۔۔۔حیات نے اُس کو گھورا تو ازلان نے لب بھینچ کر حیات کا چہرہ دیکھا

مجھے دادا جان نے انوائٹ کیا تھا اور احناف سے میں نہیں بلکہ وہ مجھ سے اُلجھ پڑا تھا ہمیشہ کی طرح وہ بھی بے وجہ میں بس تارا کی مدد کرنا چاہ رہا تھا وہ میری دوست ہے اور اِس سے زیادہ میں تمہیں کوئی صفائی نہیں دوں گا۔۔۔۔اسجد اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے گویا ہوا

تمہارا اور تارا کا سین آن ہے نہ ہتاؤ مجھے؟حیات نے کہا تو سب ہکا بکا رہ گئے

حیات شرم کرو یہ بہتان ہے جو تم لگا رہی ہو۔۔انعم بیگم نے اُس کو سمجھانا چاہا

میری بیٹی نے اگر کہا ہے تو ضرور اُس نے کچھ ایسا دیکھا ہوگا"حیات میری جان پوری بات بتاؤ۔۔۔منیبہ بیگم انعم بیگم کو جتاتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولیں

آنٹی ایسا کچھ نہیں وی آر جسٹ فرینڈ۔۔۔اسجد نے گہری سنجیدگی سے کہا اُس کو اندازہ نہیں تھا یہاں آنے کے بعد اُس کو ایسی سُچویشن کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔۔۔۔

خاور تمہارے گھروالے میرے بھائی پر الزام تراشی کررہے ہیں اور تم بُت بن کر کھڑے ہوئے ہو۔۔۔ایک لڑکی خاور کے برابر کھڑی ہوتی کاٹ دار لہجے میں بولی تو اُس کو دیکھ کر خاور کی آنکھیں چمکی جو سلیولیس لونگ بلیک میکسی میں غضب دھاڑ رہی تھی اُپر سے اُس کے چہرے کے تیکھی تاثرات نے اُس کی خوبصورتی میں چار چاند لگادیا تھا۔۔۔

مایا تم پاکستان کب آئی۔۔؟۔اُس کی بات نظرانداز کرکے خاور نے اُس کا رخ اپنی جانب کیا

میں کب کا آچُکی تھی پر یہ میری بات کا جواب نہیں اپنی بہن سے کہو میرے بھائی کے کردار پر اُنگلی نہ اُٹھائے۔۔۔مایا نے دو ٹوک انداز اپنائے کہا

تم غُصہ نہ ہو میں سمجھاتا ہوں حیات کو۔۔۔خاور نے جلدی سے کہا

"جسٹ فرینڈ سیریسلی کس کو پاگل بنانا چاہ رہے ہو؟حیات طنز مسکرائی

حیات چھوڑو یہ ٹاپک یہ ہمارے گیسٹ ہیں۔۔۔۔خاور جلدی سے حیات تک پہنچا

پر بھائی

چندا میں نے کہا نہ لِیو اِٹ۔۔۔۔حیات کچھ کہنے والی تھی جب خاور نے اُس کی بات کاٹی

اسجد آج کے لیے اِتنا کافی ہے"آئے تھنک وی شُڈ گو ناؤ۔۔۔۔مایا اسجد کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولی تو اُس نے سراثبات میں ہلایا

ایسے کیسے آپ لوگ تو ابھی آئے تھے۔۔۔اختر صاحب نے اُن کو روکنا چاہا

شکریہ انکل مگر ہمیں لیٹ ہورہا ہے۔۔۔۔مایا نے سہولت سے انکار کیا اور اسجد کو اپنے پیچھے آنے کا کہتی خود بھی باہر کی طرف لپکی

ڈونٹ ٹچ می۔۔۔۔تارا کو کمرے میں لانے کے بعد اُس کو احتیاط سے بیڈ پر لیٹا کر احناف اُس کے پاؤں پر مساج کرنے کے اِرادے سے اُس کا پاؤں ابھی اپنی گود میں رکھا ہی تھا جب تارا تیل کی بوتل کو نیچے پھینکتی زخمی شیرنی کے انداز میں غرائی عین اُسی وقت اُسماعیل صاحب اُس کے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔۔

میں نے ڈاکٹر کو کال کی ہے وہ آتا ہوگا میرا بچہ تم پریشان نہ ہو"اور احناف تم جاؤ یہاں سے۔۔۔تارا کو پرسکون کرنے کی خاطر کہتے وہ آخر میں احناف سے مُخاطب ہوئے جو نیچے گِری تیل کی بوتل کو دیکھ رہا تھا

دادا جان پلیز۔۔۔۔اُن کی ناراضگی کا سوچ کر احناف بے بس ہوا

تم نے آج اچھا نہیں کیا مجھے ارسلان نے بتایا کہ کیسے تم نے میری بچی کو ڈانس کے دوران دھکا دیا یہاں ہمدم تو تارا کا کوئی اور پہلے بھی نہ تھا مگر تم؟"تم سے مجھے ایسی توقع ہرگز نہ تھی۔۔۔۔اپنے سینے سے تارا کو لگائے اسماعیل صاحب نے افسوس کا اِظہار کیا

میں نادم ہوں۔۔۔احناف نے کہا

جاؤ تم فی الوقت ڈاکٹر آنے والا ہے۔۔۔اسماعیل صاحب محض اِتنا بولے

مساج سے ٹھیک ہوجائے گا آپ مجھے کرنے دے ورنہ اِس کا پاؤں سوجھ جائے گا۔۔۔۔احناف نے کہا

ہوتا ہے تو ہوجائے گا مگر تم جاؤ۔۔۔اِس بار تارا نے ناگواری سے اُس کو دیکھا

تم چُپ کرو۔۔۔۔۔احناف نے اُس کو گھورا

یہ آنکھیں تم کسی اور کو جاکر دیکھاؤ نانا جان اِس کو جانے کا کہے ورنہ میں خود کے ساتھ کچھ غلط کر بیٹھوں گی۔۔۔۔تارا احناف کو مُخاطب ہونے کے بعد اسماعیل صاحب سے بولی تو احناف پہلے تو اُس کو دیکھتا رہا پھر بنا کچھ کہے لمبے لمبے ڈُگ بھرتا کمرے سے باہر نکلتا چلاگیا

پرسکون رہو میری بچی۔۔اسماعیل صاحب اُس کو اپنے سینے لگائے ماتھا چوم کر بولے تو تارا گہری سانس بھرنے لگی اور اپنے پاؤں کو دیکھا جہاں آہستہ آہستہ سوجھن اپنی جگہ بنا رہی تھیں۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

ڈاکٹر چیک اپ کرنے کے بعد اُس کو کچھ میڈیسن لکھ کر دی تھی"کچھ وقت بعد اسماعیل صاحب کے سونے کا وقت ہوا تو وہ تارا کو ہدایت دینے کے بعد اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے تھے مگر شام میں ہوئے واقعے کا تضکرا اُنہوں نے کسی سے نہیں کیا تھا"اور اب تارا اپنے کمرے میں سونے کی نیت سے لیٹی تھی جب اُس کو کھڑکی کے پاس کسی کھٹکے کی آواز محسوس ہوئی مگر اُس کے باوجود وہ بیڈ پر چت لیٹی رہی آہستہ آہستہ کوئی اُس کے بیڈ کے پاس آکر بیڈ کِنارے آکر بیٹھا اور نرمی سے اپنا ہاتھ اُس کے موچ آئے پاؤں پر نرمی سے پھیرنے لگا جس پر تارا نے اپنی انکھیں بند کرلیں تھی۔وہ جانتی تھی اُس کے ساتھ کون ہے"اِس لمس سے وہ واقف تھی پر پھر بھی اُس نے نہ کوئی بات کی اور نہ کوئی خاص ری ایکٹ کیا"مگر وہ آہستہ نرمی اور چاہت سے اُس کا درد کم کرنے کی کوشش کرتا زیرو بلب کی روشنی میں اُس کا چہرہ دیکھنے لگا جو سپاٹ تھا"آنکھیں بند تھیں اور ہونٹ آپس میں پیوست تھے۔۔

یہ سب اب زیادہ ہورہا ہے۔۔۔وہ اُس کو خاموش دیکھ کر بولا ہاتھ ہنوز اُس کے پاؤں پر حرکت دے رہے تھے

جو بھی ہورہا ہے ہونے دو۔۔۔۔جوابً تارا نے سنجیدگی سے کہا

مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوتا۔۔۔۔اُس کی نظر تارا کے پاؤں پر تھی جہاں اب سوجھن میں اضافہ ہوگیا تھا

مجھے سکون ملتا ہے۔۔۔وہ جذب سے بولی

تمہیں اب فیصلہ لینا ہوگا۔۔۔اُس کا انداز حتمی تھا جس پر تارا نے چونک کر اُس کو دیکھا

کیسا فیصلہ؟تارا نے سنجیدہ نظروں سے اُس کو دیکھا

ہمارے بارے میں تم کب سب کو بتاؤں گی؟بتانے کا اِرادے ہے بھی یا نہیں؟وہ طنز ہوگیا تھا

تمہیں جلدی کس بات کی ہے؟تارا اکتاہٹ کا شکار ہوئی

میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا یہ دوریاں میرے لیے اذیت ناک سزا ہے ایک ایک پل تمہارے بنا مجھے صدیوں جیسا لگتا ہے۔۔۔وہ شدت سے گویا ہوا

خود پر کنٹرول رکھو ابھی یہ وقت اِن باتوں کا نہیں۔۔۔تارا نے اُس کو ٹالا

تم مجھے استعمال تو نہیں کررہی نہ؟تمہیں واقعی میں مجھ سے محبت ہے بھی یا نہیں؟اگر نہیں ہے تو ابھی بتادو۔۔وہ دو ٹوک لہجے میں بولا تو تارا نے شاک کی کیفیت میں اُس کو دیکھا جو شک بھری نظروں سے اُس کو دیکھ رہا تھا

محبت نہ ہوتی تو رات کے وقت یوں تم میرے کمرے میں نہ آتے جاتے"اور نہ یہاں میرے بیڈ پر بیٹھے ہوتے اور نہ تمہارا نام یہاں ہوتا۔۔۔۔تارا اپنے ایک ایک لفظ پہ زور دے کر کہتی آخر میں اپنے کندھے سے شرٹ سرکائی جہاں اُس کے نام کا پہلا حرف چمک رہا تھا۔۔۔

تمہاری یہ بے نیازی مجھے کاٹتی ہے میں اِظہار چاہتا ہوں"اور چاہتا ہوں تمہارے چہرے پر وہ سب رنگ ہو جو میرے چہرے پر آتے ہیں تمہیں دیکھ کر۔۔۔وہ تھوڑا اُس کے قریب ہوا اور گال پر ہاتھ رکھ کر اُس کا چہرہ اپنی طرف کیا جبکہ دوسرے ہاتھ سے اُس کی شرٹ کندھے پر سہی کی تھی

جو میں چاہتی ہوں ایک بار ہوجائے اُس کے بعد سب وہ ہوگا جو تم چاہتے ہو۔۔۔تارا نے اُس کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کا دباؤ بڑھائے یقین دِلوانا چاہا

میں بس تمہیں چاہتا ہوں۔۔۔۔وہ اُس کو دیکھ کر گھمبیر لہجے میں بولا

جانتی ہوں۔۔۔تارا پہلی بار مسکرائی

کچھ بھی ہوجائے میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا۔۔۔وہ پُریقین لہجے میں گویا ہوا

میں یہ بھی جانتی ہوں۔۔۔تارا سرشاری کیفیت میں مسکرائی

تمہیں تکلیف میں دیکھتا ہوں تڑپ میرا دل جاتا ہے"میرا دل چاہتا ہے تمہیں لیکر کہی دور چلا جاؤں جہاں ہم دونوں کے علاوہ کوئی اور نہ ہو۔۔۔۔وہ وارفتگی سے اُس کو دیکھتا بولتا گیا تو تارا نے اپنا سر اُس کے سینے پر ٹِکایا

جائے گے ضرور جائے گے"یہاں سے بہت دور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مگر ابھی نہیں ابھی بہت کچھ مجھے کرنا ہے۔۔۔تارا اُس کے سینے سے لگی احساس سے عاری لہجے میں بولی

سوجاؤ۔۔۔اُس کی بات سن کر وہ گہری سانس بھر کر بولا "وہ جان گیا اب بحث بیکار ہے۔۔۔

ہممم اور تمہیں بھی جانا چاہیے اب۔۔۔تارا اُس سے الگ ہوئی

تمہیں ایسے اکیلا چھوڑ کر جانے کا سوال ہی نہیں بنتا۔۔۔وہ نفی میں سرہلاکر بولا

مطلب رات یہی رہنے کا اِرادہ ہے؟تارا نے جان کر بھی پوچھا

بلکل۔۔۔۔اُس نے اپنا سراثبات میں ہلایا

لیٹ جاؤ پھر۔۔۔۔تارا نے بیڈ کی ایک سائیڈ اُس کے لیے خالی کی اور خود آہستہ سے ایک طرف ہوئی

پیر پر زیادہ موومنٹ نہ دو۔۔۔وہ اُس کو ٹوکنے لگا

کچھ نہیں ہوتا۔۔۔تارا لاپرواہ ہوئی

"ویسے کب تک تم میرے بارے میں سب کو بتانے کا اِرادا رکھتی ہو؟بیڈ پر لیٹنے کے بعد اُس نے دوبارہ سے اپنا سوال دوہرایا تو آنکھیں موندیں لیٹی تارا نے تاسف سے اُس کو دیکھا

تمہیں کیا جلدی ہے؟تارا زچ ہوئی

میں تمہیں کھونے سے ڈرتا ہوں۔۔۔"اور جو کھیل تم کھیلنے والی ہو وہ بہت رِسکی ہے۔۔۔وہ سنجیدگی سے بولا تھا

مجھے پرواہ نہیں۔۔۔۔تارا سپاٹ لہجے میں بولی

تمہارا سونا ضروری ہے۔۔۔۔اُس نے تارا کا سر اپنے سینے پر رکھ کر اُس کے بالوں میں اُنگلیاں چلانے لگا۔۔۔

تم پر اعتبار کیا ہے میں نے دھوکہ نہ دینا"ورنہ مرتے دم تک تمہاری شکل تک نہیں دیکھوں گی۔۔۔۔تارا کچھ توقع بعد بولی تو ایک پل کو اُس کے ہاتھ تھمے تھے

ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔سرجھٹک کر اُس نے تارا کو یقین کروانا چاہا جس پر تارا نے دوبارہ سے اپنی آنکھوں کو موند لیا"بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ مسلسل تارا نے اپنے بالوں پر اُس کا لمس محسوس کیا تھا مگر آنکھوں میں نیند کی خُماری اِتنی چھائی ہوئی تھی کہ وہ کچھ بول نہ پائی۔۔۔"جبکہ وہ کافی دیر تک اُس کا چہرہ اپنی آنکھوں میں جذب کرتا جُھک کر اُس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور تھوڑی دیر بعد وہ خود بھی گہری نیند کی وادیوں میں اُترگیا تھا

❤❤❤❤❤❤❤

تارا

تارا

تم ٹھیک ہو؟

اُٹھ جاؤ بیٹا۔۔۔

اگلے دن اُس کی آنکھ انعم بیگم کے جگانے پر ہوئی جس پر اُس نے مندی مندی آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ اپنے چہرے پر فکرمندی سجائے اُس کو دیکھ رہی تھی اُن کو دیکھنے کے بعد تارا نے غیراِرادی نظر بیڈ کی دوسری سائیڈ پر ڈالی جو خالی اور بے شِکن دیکھی وہ شاید ہمیشہ کی طرح اُس کو سوتا دیکھ کر چھوڑ کر چلاگیا تھا جس پر اُس نے شکر کا سانس لیا اور خود کو ملامت بھی کری کہ وہ کیسے کل اپنے کمرے کا دروازہ لاک کرنا بھول گئ تھی؟"اگر رات کے پہر کوئی اُس کے کمرے میں آجاتا تو؟"اِس خیال نے اُس کو جھرجھری لینے پر مجبور کردیا تھا

تارا تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں کیا؟اُس کو گم سم دیکھ کر "انعم بیگم نے پریشانی سے پوچھا

میں ٹھیک ہوں آپ بتائے کیسے آنا ہوا؟تارا اُن کی طرف متوجہ ہوئی

تمہارے پاؤں میں موچ آئی تھی تو سوچا دیکھ بھی آؤں"اور ناشتے کا بھی پوچھ لوں۔۔۔انعم بیگم نے اپنے آنے کی وجہ بتائی

ناشتہ میں باہر سب کے ساتھ کروں گی اور اللہ کا شکر ہے پاؤں ٹھیک ہے میرا۔۔۔۔تارا نے جواب دیا

گھر میں کوئی بھی نہیں ہے۔۔۔انعم بیگم نے اُس کو بتایا

کیا مطلب کوئی بھی نہیں؟انعم بیگم کی بات پر تارا ناسمجھی سے اُن کو دیکھنے لگی۔

سلطان کی شادی اگلے ماہ فِکس ہے اور کچھ دِنوں بعد احناف اور حیات کی منگنی تو سب شاپنگ پر گئے ہیں"سومل اور مومل کا تو تمہیں پتا ہے جہاں حیات ہوتی ہے اُن دونوں نے بھی وہی جانا ہے باقی سب مرد حضرات اپنے اپنے دفتروں کو نکل چُکے ہیں ۔۔انعم بیگم نے تفصیل سے سب کچھ اُس کو بتادیا جس پر تارا نے گہری سانس اپنے اندر کھینچی

نانا جان؟اُس کو اپنے نانا کا خیال آیا

اُن کی بھی ضروری میٹنگ تھی مجبورن اُن کو بھی جانا پڑگیا تمہاری زمیداری مجھے سونپی۔۔۔انعم بیگم نے بتایا

آپ کو بھی کچھ لینا ہوگا رُکنا نہیں چاہیے تو خوامخواہ میرے لیے"میڈز تو ہیں یہاں مجھے جو کچھ چاہیے ہوتا اُن سے کہہ دیتی آپ نے تکلف ایسے ہی کرلیا۔۔۔تارا کو اچھا نہیں لگا

ایسی کوئی بات نہیں تم دماغ پر زیادہ زور نہ دو"میرے ساتھ چلو میں واشروم تک تمہیں چھوڑ آتی ہوں"تم فریش ہوجاؤ تب تک میں ناشتہ لگواتی ہوں۔۔۔انعم بیگم سادہ لہجے میں بولی تو تارا نے سر کو جنبش دینے پر اکتفا کیا

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

افففففف اللہ آج تو میں تھک گئ"اگر احناف نہ ہوتا ساتھ تو جانے میرے ساتھ کیا ہوتا؟صبح کے گئے وہ شام تک واپس آئے تو حیات اپنے بیگز جان کر تارا کے پاس رکھ کر تھکن سے چور لہجے میں بولی"جس سے تارا بے نیاز تھی اپنا پاؤں سیدھا کیے میئگزین پڑھنے میں مصروف تھی اُس نے گھر میں آنے والے لوگوں کو دیکھ کر کوئی خاص ری ایکٹ نہیں کیا تھا

ہاں یار تمہارے سارے بیگز تو اُس نے اُٹھائے مگر ازلان یا ارسلان میں سے کسی ایک نے بھی میری مدد نہیں کی۔۔۔سومل اُس کے ساتھ جڑ کر بیٹھ گئ

میرے تو پاؤں میں چھالے پرگئے ہیں لگتا ہے "اگر مجھے اندازہ ہوتا بینش چچی کی شاپنگ اِتنی لمبی ہوگی تو میں کبھی اُن کے ساتھ جانے کو ترجیح نہ دیتی۔۔۔فضا بھی اُن کی بات سے اتفاق کرتی ہوئی بولی اُن سب کے برخلاف مومل کافی چُپ سی تھی جس پر دھیان کسی کا بھی نہیں گیا تھا کیونکہ ہر کوئی اپنی خوشی میں مگن تھا ۔

بائے دا وے تم کیسی ہو؟سومل نے اچانک تارا کو مُخاطب کیا جس پر حیات نے آنکھیں گُھما کر اُس کو دیکھا جو وائٹ ٹراؤرز کے ساتھ بلیک گول گلے والی شرٹ میں تھی جس کی سلیوس محض شولڈر تک تھیں اور اُس نے اپنے بالوں کی چوٹی بنائی ہوئی تھی جو ایک کندھے پر ڈھلکی ہوئی تھی۔۔۔"اُس کے خوبصورت سِراپے کو دیکھ کر حیات کو اُلجھن سی ہونے لگی کیونکہ اُس کو احناف کا سب کے سامنے تارا کو بانہوں میں بھرنا یاد آگیا تھا جس پر ایک بار پھر اُس کو لگنے لگا جیسے کسی نے اُس کی آنکھوں میں مرچیں ڈال دی ہو"جلن کا احساس اُس کو شدت سے ہوا تھا وہ جانتی تھی احناف بس اُس کا ہے اور ہمیشہ بس اُس کا رہے گا مگر اُس کے باوجود اُس کو تارا سے کوئی اچھی ویب نہیں آتی تھی۔۔

"فائن۔۔۔۔تارا نے یکلفظی جواب دیا

آج کل تمہاری خبریں ٹی وی چینلز پر نہیں آتیں"خیریت؟ماڈلنگ بند کرنے کا سوچا ہے کیا؟سومل نے رازدرانہ انداز میں اُس سے سوال کیا

آپ کو بتانا ضروری نہیں سمجھتی میں۔۔۔تارا نے بنا دیکھے جواب دیا جبھی وہاں احناف آیا تھا۔

حیات تمہارا بریسلیٹ گاڑی میں بھول آئی تھی۔۔احناف نے ڈائریکٹ حیات کو مُخاطب کیا

اففف کتنی بُھلکر ہوں میں پلیز تم پہنادو نہ یہ بہت اسپیشل ہے یاد ہے تمہیں مجھے پرپوز کرنے کے ٹائیم تم نے دیا تھا۔۔۔۔حیات اُس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاکر بتانے لگی۔

ہمممم یاد ہے۔۔۔۔اُس کی کلائی میں بریسلیٹ پہناتا احناف نے جواب دیا جس پر حیات کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ نے احاطہ کیا اور تارا کے چہرے پر طنز مسکراہٹ نے کیونکہ اُس کو حیات کی بات پر کچھ اور یاد آگیا تھا۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

کچھ سال پہلے۔۔۔۔۔

جتوئی وِلا میں آج خوشیوں کا سماں تھا کیونکہ آج "حیات کی بیسویں سالگرہ تھی جس کے لیے اختر صاحب نے بہت بڑی پارٹی آرگنائز کی تھی اور بڑے تعداد میں لوگوں کو مدعو کیا تھا"مہمانوں کی آمد رفت جاری تھی اور اُپر اپنے کمرے میں حیات اپنے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ سجائے تیار ہونے میں مگن تھی۔۔

"وائٹ فراق اور چوڑیدار پاجامے کے ساتھ اُس نے ریڈ کلر کا ڈوپٹہ اپنے ایک کندھے پر رکھا ہوا تھا چہرے پر لائیٹ سا میک اپ جس نے اُس کی خوبصورتی کو مزید نکھار کر رکھ دیا تھا"آنکھوں پر آئے لائنر لگانے سے پہلے اُس نے ایک نظر وال کلاک پر ڈالی پھر جلدی جلدی اُس سے فارغ ہونے کے بعد ڈریسنگ ٹیبل سے سرخ چوڑیاں اُٹھاکر اپنی خالی کلائیاں بھرنے لگی"پوری تیاری کرنے کے بعد اُس نے طائرانہ نظروں سے خود کو دیکھا اور اپنے بالوں کو اُس نے کُھول کر پشت پر چھوڑا دیا جبھی اُس کے کمرے میں کوئی داخل ہوا۔


"او ہو محترمہ کی تیاریاں تو چیک کرو زرا"کیا ٹشن ہے بھئ جیسے سالگرہ نہیں بلکہ نکاح ہونے جارہا ہو۔۔۔سومل نے شرارتی انداز میں اُس کو چھیڑا جس پر وہ ہنس پڑی

تمہیں پتا ہے آج ہر طرح سے میرا دن اسپیشل ہے"آج میں اپنی محبت کا اِظہار احناف سے کرنے والی ہوں جس کے لیے میں بہت پرجوش ہوں۔۔۔حیات کسی ٹرانس کی کیفیت میں بولی

وِش یو بیسٹ آف لک مجھے پتا ہے تمہارے حالِ دل کا اور یہ بھی کہ تمہارے پرپوز کرنے کے بعد احناف نے باقی رسمی طور پر تیاریاں کرڈالنی ہے اور تمہیں اپنے نام کرنا ہے۔۔۔سومل اپنا کندھا اُس کے کندھے سے ٹکرائے چھیڑنے لگی اُس کا چھیڑنا حیات کو بُرا نہیں لگ رہا تھا بلکہ ایک انوکھی خوشی سے روشناس کروانے جارہا تھا

"اِن شاءاللہ ایسے ہی ہوگا مگر یار نیچے ڈیڈ نے اِتنا کچھ کیا ہے اور باہر ہم نے جہاں پارٹی کرنے کا سوچا ہے وہاں احناف اور ہمارے باقی دوست انتظار میں ہے تمہیں پتا ہے نہ میں نے اُن کو ٹریک لینے کے بجائے دینے کا واعدہ کیا تھا اور کہا تھا اُسی وقت احناف کو پرپوز کروں گی۔۔۔حیات کو اب پریشانی سی ہونے لگیں

ڈونٹ وری اور چِل کرو یہاں فضا سب سنبھال لے گی ہم نے بس بیک ڈور سے نکلنا ہے اور ہاں میں نے تارا کو بھی آنے کا کہا ہے۔۔۔سومل نے بتایا

اُس کو کیوں کہا؟ہزار تو نخرے کرتی ہے وہ۔۔۔حیات کو کوفت ہوئی

تمہیں پتا ہے نہ یونی فرینڈز اُس کو کتنا لائیک کرتے ہیں اگر وہ نہیں ہوگی تو سب نے سوالوں کا پینڈورا کھولنا ہے "اور میں اُن کے سامنے کوئی میس نہیں چاہتی. ۔سومل نے بتایا

اوکے فائن اب جلدی کرو میں تب تک اپنی چادر پہن لوں۔۔۔حیات نے کہا اور بیڈ کی طرف بڑھی

ہممم جلدی آنا باہر سب ریڈی ہے۔۔۔کمرے سے باہر جاتے ہوئے سومل نے اُس سے کہا۔۔

مطلوبہ جگہ پہنچ جانے کے بعد حیات گرمجوشی سے اپنے سب دوستوں سے ملنے لگی"رسمی گفتگو کے بعد جب کیک کٹنے کا وقت آیا تو حیات احناف کی طرف آئی جو مسکراکر اُس کو دیکھ رہا تھا"اُس کی مسکراہٹ دیکھ کر حیات کو دھارس ملی جیسے۔۔جبھی وہ آس پاس دیکھنے لگی۔

برتھ ڈے گرل کیا ہوا؟احناف نے اپنا ہاتھ اُس کی طرف لہرایا

مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔۔۔حیات نے بات کی شروعات کی

ہممم کہو میں سُن رہا ہوں۔۔۔احناف نے اِجازت دی تو "حیات سومل اور مومل کو دیکھنے لگیں جنہوں نے تھمب کا اِشارہ دیا تھا اُن سب سے لاپرواہ"تارا کونے والی ٹیبل پر اکیلی بیٹھی کوفت سے آس پاس دیکھے جارہی تھی اُس کا ذرا من نہیں تھا یہاں آنے کا پر سومل نے اُس کو قسم دی تھی جس پر وہ ناچار آگئ تھی۔"مگر اب پچھتا رہی تھی۔۔

I love you Ahnaf.

اپنے اندر ہمت مجتمع کرکے حیات بلآخر اُس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھتی اعترافِ محبت کرنے لگی تو ہر ایک نے ہوٹنک کرنا شروع کردی تھی"سِوائے دو لوگوں نے ایک تارا نے جو کافی حیرت سے حیات کو دیکھ رہی تھی جس نے سب کے سامنے کُھلے عام کسی لڑکے کو پرپوز کیا تھا اُس کو حیات سے اِتنی بولڈنس کی توقع ہرگز نہ تھیں"دوسرا جبکہ ازلان تھا جو خود حیرانی کا بُت بنا ہوا تھا اُس کے دل و دماغ میں بھی وہی سب آیا تھا جو تارا کے دماغ میں آیا تھا۔۔۔"اور ان سب سے الگ احناف تھا جس کو لگ رہا تھا جیسے کسی نے اُس کے پاؤں کے نیچے سے زمین کِھسکالی ہو وہ یک ٹک بے یقینی سے حیات کا چہرہ دیکھنے لگا جو گُلنار سا تھا اور خوشی سے چمک بھی رہا تھا

حیات۔۔۔آس پاس ہجوم دیکھ کر احناف نے اُس کو باز رکھنا چاہا

Will you marry me?

جوابً حیات نے نئ پیش کش اُس کے سامنے کی تھی جس پر احناف بس اُس کو دیکھتا رہ گیا

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

حیات پہلے تم کھڑی ہوجاؤ۔۔۔۔احناف سنجیدگی سے کہتا اُس کو کندھوں سے تھامے کھڑا کیا تو حیات کھڑی ہوتی بس اُس کو دیکھنے لگی۔۔

جواب دو۔۔۔۔حیات نے اُمید بھری نظروں سے اُس کو دیکھا تو احناف اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگا

سے یس

سے یس

سے یس

احناف حیات کا پرپوزل قبول کرلوں۔۔۔۔احناف کے کچھ کہنے سے پہلے وہاں کھڑے لڑکیوں اور لڑکوں نے احناف کو اُکسایا جبکہ تارا بھی اپنا کام چھوڑے احناف کو دیکھنے لگی جس کی بس وہ پشت ہی دیکھ سکتی تھی وہ سِرے سے لاعلم تھی اُس کے چہرے پر چھائے تاثرات سے

کام ڈاؤن ایوری ون حیات از مائے جسٹ بیسٹ فرینڈ"میں اُس سے شادی کیسے کرسکتا ہوں۔۔۔؟احناف اُونچی آواز میں بولا تو سب کو جیسے سانپ سوگھ گیا جبکہ حیات کی حالت ایسی تھی جیسے کاٹو بدن لہو نہیں

"دوسری طرف اُس کا جواب سن کر تارا چیئر سے پشت ٹِکاتی سرجھٹک کر کول ڈرنک کا گلاس پینے لگی اُس کو حیات کی اُڑی رنگت مزہ دینے لگی۔۔

اور کرو سرے عام مردوں کو پرپوز۔۔۔تارا طنز انداز میں بڑبڑاتی وہاں سے اُٹھ کر باہر کے راستے کی جانب بڑھی

"احناف وی آر آلسو کزنز اینڈ آئے نو وی آر بیسٹ فرینڈز بٹ

حیات

حیات

ہم اچھے کزنز اور اچھے دوست رہے تو کیا اچھا نہیں؟یہ پیار وغیرہ کا ریلیشن ہمارے درمیان کیوں لانا چاہتی ہو۔۔۔؟میں ہمارے درمیان موجود اچھی بورڈنگ کو ہمیشہ برقرار رکھنا چاہتا ہوں۔۔،مگر شادی کے بعد ویسا نہیں رہے گا۔۔۔حیات خود کو کمپوز کیے کچھ کہنے والی تھی جب احناف اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر نرمی سے بولا

احناف تمہیں کیوں لگتا ہے سب بدل جائے گا؟"ٹرسٹ می ایسا کچھ نہیں ہوگا میں بہت پیار کرنے لگی ہوں تم سے۔۔۔حیات اپنے ہاتھ اُس کے گال پر رکھ کر بولی باقی سب خاموش تماشائی کا رول پِلے کرنے میں لگے ہوئے تھے۔۔۔۔

حیات یار پلیز آج تمہارا برتھ ڈے ہے اور میں نہیں چاہوں گا کہ وہ اسپوئل ہو اِس لیے لیٹس انجوائے۔۔۔احناف مسکراکر بولا

احناف حیات جیسی پرفیکٹ لڑکی تمہیں کہی اور نہیں ملے گی تم ایک بار اُس کو چانس دے کر تو دیکھو نہ۔۔۔سومل نے دونوں کے درمیان مداخلت کی

یہ میرے بس میں نہیں۔۔۔احناف سنجیدگی سے کہتا وہاں سے جانے لگا جبکہ اُس کی بات سن کر حیات نیچے بیٹھتی چلی گئ تھی"اُس نے ایسا کچھ سوچا تو نہیں تھا جیسا ہوگیا تھا۔

❤❤❤❤❤❤❤

آپ کہاں کھوئی ہوئی ہیں؟فضا کی آواز پر تارا حقیقت کی دُنیا میں واپس آئی

کہی نہیں۔۔۔تارا نے مختصر جواب دیا

تمہاری موچ کیسی ہے؟احناف نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

آپ سے مطلب نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔تارا اجنبی لہجے میں اُس کو دیکھ کر بولی

تمہاری اوقات سے زیادہ احناف کے احسانات ہیں تم پر اِس لیے اپنی ٹون اچھی بنایا کرو"جب احناف بات کرے تو۔۔۔۔احناف کے کچھ کہنے سے پہلے اِس بار حیات درمیان میں بول پڑی

تم سے میں نے کتنی بار کہا ہے مجھے میری اوقات یاد کروانے سے اول اپنی اوقات نظر میں رکھا کرو۔۔۔۔تارا نے طنز انداز میں اُس کو بھی سُنا ڈالی

یہ جو تم اِتنا اِتراتی ہو،بتانا پسند کرو گی کہ اصل غرور ہے کس بات کا تم میں؟حیات نے تگڑی گھوری سے اُس کو نوازا

ہر چیز کا۔۔۔۔جواب فوراً حاضر ہوا تھا،جبھی وہاں گھر کے سارے مرد حضرات ایک ساتھ اندر آئے تھے

کیسی ہو تارا؟اسماعیل صاحب تارا کے پاس آئے

مچ بیٹر۔۔۔۔تارا نے اُن کو دیکھ کر مسکراکر جواب دیا

ابو کیا آپ کو نہیں لگتا آپ کو اب آفس سے ریٹائر ہونا چاہیے"میرا مطلب آپ کی طبیعت بھی آجکل بہت خراب رہتی ہے۔۔۔۔اختر صاحب اصغر صاحب کو دیکھ کر بولے

کیا ہوا ہے آپ کو دادا جان ٹھیک ہیں نہ آپ؟احناف فکرمندی سے اُن کو دیکھ کر گویا ہوا جبکہ تارا بھی پریشان سی اُن کو دیکھنے لگی

ارے مجھے کچھ نہیں ہوگیا تمہارے چچا کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔۔۔اُسماعیل صاحب ہنس کر بولے تو تارا اختر صاحب کو دیکھنے لگی جن کے تاثرات کچھ عجیب سے تھے۔

مطلب؟اِس بار تارا نے اُن سے پوچھا

تمہارا ماما چاہتا ہے میں اب گھر میں رہوں مگر تم بتاؤ کیا میں زیادہ بوڑھا ہوگیا ہوں؟اُسماعیل صاحب نے آخر میں اُس سے پوچھا تو تارا اپنا سر نفی میں ہلانے لگی،کیونکہ واقع میں اُسماعیل صاحب نے خود کو اِس عمر میں بھی تندرست رکھا تھا

بس تو چار سے پانچ سالوں تک میرا اپنا آفس چھوڑنے کا کوئی اِرادہ نہیں۔۔۔اُسماعیل صاحب نے ہاتھ کھڑے کیے کہا

آپ کیوں چاہتے ہیں کہ نانا آفس کو خیرآباد کرے؟"جبکہ اُن کا بزنس الگ ہے"وہ الگ سے اپنا بزنس اور ڈیلز کو دیکھتے ہیں۔۔۔ تارا نے جانچتی نظروں سے اُن کو دیکھ کر سوال داغا

ویسے ڈیڈ واقع میں بغیر کسی کام کے گھر بیٹھنے سے اچھا ہے دادا جان کام پر فوکس کرے"خالی دماغ تو ویسے بھی شیطان کا گھر ہوتا ہے۔۔۔۔حیات نے بھی باتوں میں حصہ ڈالا

یہی تو مسئلہ ہے ابو نے اپنا بزنس الگ ایسے کیا ہے جیسے ہم کوئی غیر ہو"اور آج اِتنا بڑا پراجیکٹ ہمیں مل سکتا تھا مگر وہ ابو کو مل گیا اگر ہم ساتھ ہوتے تو ہمارا ہوتا۔۔۔جواب میں اصغر صاحب نے کہا

دادا جان جو کررہے ہیں وہ آپ لوگوں کے لیے ہی کررہے ہیں۔۔۔احناف بولے بغیر نہیں رہ پایا

غلط ابو جو کررہے ہیں وہ اِس تارا کے لیے کررہے ہیں۔۔۔اختر صاحب نخوت سے بولے

تو اِس میں کیا غلط ہے؟"کل کُلاں کو اگر مجھے کچھ ہوجاتا ہے تو اللہ کی ذات کے علاوہ کون ہے میری معصوم بچی کا؟تم لوگوں کو میری تارا کو کبھی اپنی بھانجی کے روپ میں دیکھتے تو آج میں ہر فکر سے آزاد ہوتا۔۔۔۔اُسماعیل صاحب نے کہا تو چند لمحوں کے لیے وہاں خاموشی چھاگئ۔

آپ بلاوجہ پریشان ہورہے ہیں ورنہ اِس بھری دُنیا میں بہت سے چاہنے والے موجود ہیں اِس کے۔۔۔۔حیات معنی خیز نظروں سے تارا کو دیکھ کر بولی جس پر تارا نے اُس کو دیکھنا گوارہ نہیں کیا

میں اب چلتا ہوں۔۔۔۔احناف کو وقت کا احساس ہوا تو بولا

رات کا کھانا کھا کر جانا۔۔۔۔اُسماعیل صاحب نے نرمی سے کہا

پھر کبھی۔۔۔احناف نے مسکراکر ٹالا

تمہاری یہ پھر کبھی والی عادت کبھی ختم نہیں ہوگی،چُپ چاپ بیٹھ جاؤ۔۔۔حیات اُس کو مصنوعی گھوری سے نوازتی اپنے ساتھ بیٹھایا

تمہیں پتا ہے ابو کو پراجکیٹ کس کمپنی سے ملا ہے؟اصغر صاحب نے احناف سے کہا

مجھے کیسے پتا ہوگا؟احناف نے لاعلمی کا مُظاہرہ کیا

مہران احمد سے جو تمہارا بوس ہے.۔۔اصغر صاحب نے بتایا تو احناف نے چونک کر اُن کو دیکھا آج آفس نہ جانے کی صورت میں وہ ہر چیز سے لاعلم تھا دوسرا اُس کی جوائننگ بھی نیولی تھی جس وجہ سے اُس کو زیادہ کچھ پتا نہیں تھا

جو آپ کے مُخالف تھے،جن کی وجہ سے میرا وہاں جاب کرنا آپ کو ناگوار لگ رہا تھا آپ اُن کے ساتھ ڈیل کرنا چاہتے تھے جو نہیں ہوئی تو آپ کو افسوس ہورہا ہے۔۔۔احناف کو جیسے یقین نہیں آیا

صلح ہوگئ ہے ہماری۔۔۔اصغر صاحب بنا اُس کو دیکھ کر بولے

کانگریس نانا جان آپ کو۔۔۔تارا مسکراکر اُسماعیل صاحب سے بولی

شکریہ میری بچی۔۔۔وہ بھی جوابً مسکرائے

یہ سب چیزیں؟اختر صاحب نے کی نظر اب ہر جگہ پھیلے ہوئے شاپنگ بیگز پر پڑی

منگنی کی شاپنگ کرنے گئے تھے اور آپ کو پتا ہے چچی جان نے انگیجمنٹ ایونٹ کے لیے جو مجھے لہنگا لیکر دیا ہے وہ پورے پانچ لاکھ کا ہے۔۔۔۔حیات نے پرجوش انداز میں اُن کو بتانے لگی تو منیبہ بیگم نے اُس کی نظر اُتاری

فضول خرچی "چند گھنٹوں کے لیے جو ڈریس خریدہ ہے اُس پر اِتنا پئسا برباد کرنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔اُسماعیل صاحب کو یہ بات پسند نہیں آئی

میں نے اُن سے کہا تھا منگنی کی تقریب اگر سادگی سے نہیں بھی تو اِتنا مہنگا ڈریس لینے کی کیا تُک بنتی ہے اِس سے اچھا بندہ غریبوں کے لیے کچھ کرے۔۔۔۔انعم بیگم نے بھی کہا

تم تو چُپ کرو میڈل کلاس گھرانے سے عورت بیاہ لاؤ تو یہ باشن سُننے کو ملتا ہے۔۔۔اصغر صاحب نے بنا کسی کی موجودگی کا لحاظ کیے اُن کو سُنائی

ڈیڈ پلیز۔۔۔۔ازلان جو ابھی گھر میں داخل ہوا تھا سب کے سامنے اُن کا لہجہ اپنی ماں سے بات کرتے ہوئے دیکھ کر بامشکل اُس نے اپنا لہجہ نارمل کیا تھا جبکہ اُس کے علاوہ تارا بھی کافی ناپسندیدہ نظروں سے اصغر صاحب کو دیکھ رہی تھی جنہوں نے اپنی بیوی کو یوں سب کے سامنے سر جُھکانے پر مجبور کردیا تھا۔

میرے باپ بننے کی ضرورت نہیں تمہیں۔۔۔ازلان کو سخت نظروں سے گھور کر کہتے وہ وہاں سے اُٹھ گئے ماحول میں اچانک سے ایک تناؤ سا آگیا تھا۔

امی آپ میرے لیے کھانے کا بولے کسی سے۔۔۔ازلان نے سنجیدگی سے خاموش کھڑی انعم بیگم سے کہا تو اُنہوں نے مسکراکر سراثبات میں ہلایا"اُن کی مسکراہٹ میں چُھپے درد کو جان کر ازلان کو اپنے باپ پر افسوس ہونے لگا مگر اختر صاحب کچھ اور ہی سوچنے میں محو تھی یکایک اُن کی نظریں احناف پر گئ۔۔۔

"ویسے یہ ڈریس زیادہ مہنگا ہوسکتا تھا اگر احناف تمہیں دلاتا تو کیوں احناف؟"تم نے اپنی ہونے والی بیوی کا ڈریس کیوں نہیں لیا؟"کیا انگھوٹی تمہاری طرف سے ہوگی؟اختر صاحب نے اپنی نظریں احناف پر گاڑھی جو اپنے سیل فون میں جانے کیا تلاش کررہا تھا۔۔۔۔

یہ کیسا سوال ہے احناف ہو یا بینش آپا اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ لڑکے والوں سے لڑکے کی ماں کرتی ہے۔۔۔۔احناف کے بجائے منیبہ بیگم نے کہا

احناف لیکر دیتا تو اور اچھا ہوتا کیوں حیات؟اختر صاحب نے درمیان میں حیات کو گھسیٹا

احناف نے میرے لیے ایک خوبصورت سا بریسلیٹ بنانے کا دیا ہے جیولر کو اور جہاں تک مجھے اندازہ ہوتا ہے وہ کافی ایکسپینسو ہے۔۔۔۔حیات نے مسکراکر بتایا تو""سومل اور فضا کا منہ پورا کُھلا کا کُھلا رہ گیا جبکہ احناف تعجب سے حیات کو دیکھنے لگا

اچھا دیکھتے ہیں خیر مُنیبہ تم میرے کپڑے نکالوں میں فریش ہوجاؤں۔۔۔اختر صاحب اِتنا کہہ کر اُٹھ گئے

یہ سب سمیٹو تم لوگ۔۔۔۔مُنیبہ بیگم اختر صاحب کے پیچھے جاتی اُن کو بولنے لگی

آپ بھی فریش ہوجائے۔۔۔تارا اُسماعیل صاحب کو دیکھ کر بولی

میڈ سے کہو کپڑے نکالے میرے۔۔۔اُسماعیل صاحب بھی اُٹھ کھڑے ہوئے

تمہارا زیادہ چلنا اچھا نہیں تمہیں بیڈ ریسٹ کرنا چاہیے۔۔۔۔احناف نے اُس کو ایک پاؤ پر زور دے کر اُٹھتا دیکھا تو بے ساختہ بولا

آپ کے بتانے کا شکریہ مگر میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔تارا بنا اُس کو دیکھ کر بولی،اور آہستہ قدم اُٹھاکر وہاں سے جانے لگی۔۔۔۔

"حیات میری بات سُننا۔۔۔۔حیات بھی اُٹھنے لگی تو احناف نے اُس کو مُخاطب کیا

ہاں کہو کیا بات ہے؟حیات نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا

یہ تم نے چچا جان سے جھوٹ کیوں بولا؟"کہ میں نے تمہارے لیے جیولر کو ایکسپینسو بریسلیٹ کا کہا ہے۔۔۔۔احناف نے سنجیدگی سے پوچھا

اِس میں جھوٹ کیا ہے؟"اور تم زیادہ بنو نہیں کیونکہ میں نے شاپنگ کرنے کے درمیان تمہیں جیولر کے پاس جاتے دیکھا تھا بس وہ ڈیزائن نہ دیکھ پائی جو تم اُس کو بتارہے تھے۔۔۔حیات شوخی سے بولی

حیات ایک بار تم مجھ سے بات تو کرتی،سوری ٹو سے مگر وہ میں تمہارے لیے نہیں بنانے کا بول رہا تھا بلکہ میرے ایک دوست نے کہا تھا وہ اُس کا تھا۔۔۔احناف نے اُس کی غلطفہمی دور کرنے کی کوشش کی

اوو کوئی نہیں تم ویسا میرے لیے بھی بنانے کا کہنا کیونکہ اِنگیجمنٹ گفٹ تو بنتی ہے نہ۔۔۔۔حیات عام لہجے میں بولی

ضرور پر ابھی پوسیبل نہیں۔۔۔احناف نے گہری سانس بھری

مطلب؟حیات ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی

ڈیڈ نے مجھے ایک طرح سے عاق کرلیا ہے جب تک میں جاب کروں گا تب تک اُن سے مجھے کچھ نہیں ملے گا۔۔۔۔احناف سرسری لہجے میں بولا تو حیات ہونک بنی اُس کا چہرہ تکنے لگی اُس کو یقین نہیں آیا کہ ابھی جو اُس نے جو کچھ سُنا وہ سچ تھا یا جھوٹ؟

احناف سیریسلی؟"اِتنی بڑی بات تم نے مجھ سے چُھپائی آئے مین یہ سب کیا ہے؟اِتنا سب کچھ اگر تمہارے ساتھ محض ایک جاب کی وجہ سے ہورہا ہے تو چھوڑ کیوں نہیں دیتے تم یہ جاب؟حیات جھنجھلاہٹ سے بولی

نہیں چھوڑ سکتا میں یہ جاب یہ جاب"بڑی مشکل سے مجھے حاصل ہوئی ہے۔۔۔۔احناف سنجیدگی سے بولا

مگر

ہم کسی اور موضوع پر بات کرے گے۔۔۔۔حیات کچھ کہنے لگی تو احناف نے اُس کی بات درمیان میں کاٹی جس پر حیات بس اُس کو دیکھتی رہ گئ۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

ماضی!!!

ہیلو نین کیسی ہو؟احناف تارا کے کمرے میں آتا خوشگوار لہجے میں اُس سے حال دریافت کرنے لگا،جواب میں تارا خاموش رہی وہ بس اپنا اسائمنٹ پورا کرنے میں مگن رہی

مجھے پتا چلا کل تمہارا ٹیسٹ ہے میتھ کا،آؤ میں تیاری کروا دیتا ہوں۔۔۔۔احناف نے اُس کو چُپ دیکھا تو دوبارہ بات کی شروعات کی مگر اِس بھی تارا نے کوئی رسپانس نہیں دیا

تم

تارا بی بی آپ کے ٹیوٹر آپ کا ڈرائنگ روم میں انتظار کررہے ہیں۔۔۔۔احناف کچھ کہنے والا تھا جب میڈ کی آواز پر وہ حیرت سے کبھی اُس کو دیکھتا تو کبھی تارا کو۔

ٹیوٹر کیوں؟احناف ناسمجھی سے میڈ کو دیکھنے لگا

اِن کو پڑھانے کے لیے۔۔۔۔میڈ نے تارا کی طرف اِشارہ کیے بتایا جو اپنی کتابیں سمیٹ رہی تھی

پڑھائی میں تمہاری مدد تو میں کرتا ہوں پھر یہ ٹیوٹر کیوں؟احناف نے سنجیدگی سے اِس بار اُس سے پوچھا پر تارا بنا جواب دیئے کمرے سے نکلنے لگی تو اِس بار احناف نے اُس کا نازک بازو دبوچا

مجھے جواب چاہیے۔۔۔۔احناف نے اپنی بات پر زور دیا

میں آپ کے سامنے جوابدے نہیں ہوں اور پلیز آپ میرا بازو چھوڑے۔۔۔تارا بے تاثر لہجے میں بولی

ناراض ہو میری کسی بات پر؟احناف نے اندازہ لگایا

ناراض دوستوں سے ہوا جاتا ہے اور آپ میرے فرینڈ نہیں میں آپ کو اپنا فرینڈ نہیں مانتی۔۔۔۔تارا اُس کا ہاتھ جھٹک کر بولی

اِس بدتمیزی کی وجہ؟غُصے سے احناف کا بُرا حال ہونے لگا

مجھے آپ کی ہمدردی کی ضرورت نہیں میں نے کالج میں آپ کی اور حیات کی باتیں سُن لی تھی"لہذا یہ ہمدردی والا ڈرامہ آپ کسی اور سے کرے مجھ سے نہیں۔۔۔۔تارا نے آخر اپنے لہجے کی وجہ بتائی

تم غلط

مجھے سہی غلط کچھ نہیں جاننا مجھے بس جو کہنا تھا وہ میں کہہ چُکی۔۔۔۔تارا نے اُس کی بات کاٹی

حیات تمہارے بارے میں ٹھیک کہتی ہے تم سے بات کرنی چاہیے ہی نہیں۔۔۔غُصے میں احناف کے منہ میں جو آیا وہ بولتا چلاگیا

اگلی بار اگر وہ کچھ میرے بارے میں کہے تو اُس کی بات ماننے میں دیر نہ لگائیے گا۔۔۔۔تارا کو جیسے کوئی فرق نہیں پڑا

تم سے بات کرنے کے لیے میں بھی کوئی مرا نہیں جارہا گو ٹو ہیل۔۔۔۔احناف کو چڑ ہونے لگی

اگر کبھی مجھ سے بات کرنے کے لیے مرنے لگے تو سچ مچ میں مر ہی جائیے گا۔۔۔۔تارا اپنی بات کہہ کر وہاں رُکی نہیں پیچھے احناف نے اپنے ہاتھ کی مٹھی زور سے دیوار پر ماری تھی۔۔۔۔"اُس کو سمجھ نہیں آیا وہ کیوں اُس کی باتوں پر اِتنا پریشان یا غُصہ کیوں ہورہا ہے

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

حال!

آج احناف اور حیات کی منگنی تھی جس وجہ سے گھر میں بھاگ ڈور مچی ہوئی تھی"حیات"سومل مومل فضا یہ سب لڑکیاں پارلر تیار ہونے چلی گئ تھیں،جبکہ تارا اپنے گھر میں تھی اُس کا پاؤ اب قدرے بہتر تھا جس پر وہ اب مطمئن تھی۔۔۔۔

سال کا بہت بڑا ماڈلنگ شو تھا جس کے لیے تم نے مجھے اِجازت نہیں دی۔۔۔۔تارا خفگی بھرے لہجے میں اپنے سامنے کھڑے شخص سے بولی جو اُس کے ہاتھوں میں چوڑیاں پہنا رہا تھا۔۔۔۔

ماڈلنگ کا مطلب ہوتا ہے کپڑوں کی نُمائش کرنا ناکہ اپنے جسم کی نمائش کرنا"اور تم جس شو کی بات کررہی ہو وہ کوسٹیوم تم دیکھ چُکی ہو پھر اِس ناراضگی کی وجہ؟وہ سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر بولا

ایک بار تم بول دیتے ڈریس چینج ہوجاتا۔۔۔تارا نے کہا تو اُس نے تارے کے دونوں ہاتھ تھامے

تمہیں ماڈلنگ کرنے کا شوق تھا تم نے کہا میں نے مان لیا لاکھ اعتراضات ہونے کے باوجود میں تمہاری خوشی کا سوچ کر خاموش رہا پر یار تم خود سوچو میں کیسے تمہیں ایسے کپڑوں میں دیکھوں گا؟"اور کیسے میں چاہوں گا کہ اِتنے لوگوں کی نظریں تم پر ہو اِتنا بے غیرت نہیں ہوں میں۔۔۔وہ بے لچک انداز میں بولا

پر

ہشششش

تارا کچھ کہنے والی تھی جب اُس کے ہونٹوں پر اُنگلی رکھ کر اُس کو چُپ کروایا

آج تمہیں بس ہماری بات کرنی چاہیے"تمہیں یاد ہے نہ اپنا واعدہ؟وہ اُس کو دیکھ کر وارفتگی سے بولا تو تارا پہلی بار مسکرائی

مجھے سب یاد ہے بس تم نہ بھولنا۔۔۔۔تارا اُس کے چہرے پر پھونک مار کر بولی

تو پھر رات کو آجاؤں میں؟وہ اُس کو دیکھ کر آنکھ کا کونا دباکر شرارت سے بولا جس پر تارا کے گال تپنے لگے

فضول مت بولو ابھی وہ وقت نہیں آیا۔۔۔تارا نے اُس کے کندھے پر ہاتھ مار کر کہا تو وہ ہنس پڑا

جیسا تم کہو اور آؤ تمہیں گھر ڈراپ کردوں۔۔۔وہ مسکراکر اُس کا ماتھا چھو کر بولا

میں اپنے گھر کے ٹیرس پر ہی موجود ہوں۔۔۔۔تارا نے اُس کو جتایا

میں اِس گھر کی بات نہیں کررہا وہ گھر جو ہمارا ہوگا"ہم دونوں کا۔۔۔۔وہ بھی اُس کو جتانے کی خاطر بولا

ابھی نہیں۔۔۔۔تارا نے اپنا سر نفی میں ہلایا

اچھا پھر نیچے جاؤ۔۔۔۔اُس نے کہا

دل نہیں کررہا۔۔۔تارا منہ کے زاویئے بگاڑ کر بولی

جانا تو پڑے گا۔۔۔۔وہ شانے اُچکاکر بولا تو تارا ناچار اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

کیسی لگ رہی ہوں میں؟حیات نے پرجوش لہجے میں سومل سے ہزار بار کیے جانے والا سوال کیا

بہت حسین وجمیل لگ رہی ہو اب اپنے آپ پر کنٹرول پاؤ کیونکہ سب لوگ تمہاری بے چینی نوٹ کررہے ہیں۔۔۔۔سومل اُس کے چہرے پر آتے بال ٹھیک کرتی بولی تو حیات مسکرائی

بیٹھ جائے جیجا صاحب۔۔۔۔اپنے ساتھ احناف کو لائے فضا شوخ لہجے بولی تو وہ مسکرایا اور حیات کے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا۔

السلام علیکم ۔۔۔۔حیات نے سلام کیا

وعلیکم السلام پیاری لگ رہی ہو۔۔۔۔۔احناف اُس کو دیکھ کر مسکراکر بولا جس پر حیات کا چہرہ سرخ ہونے لگا۔۔

میری آپی کو ہمیشہ خوش رکھیے گا۔۔۔۔فضا نے اِتراکر کہا

تمہیں کہنے کی ضرورت نہیں وہ ویسے بھی ہمیشہ خوش رہے گی۔۔۔ارسلان نے اُس کے بال بگاڑے تو فضا نے اُس کو گھورا

میرے بالوں کو کچھ نہ کرو۔۔۔فضا نے تپ کر کہا

بھائی ون سیلفی۔۔۔سب کو سائیڈ پر آتی انابیہ اُن دونوں کے درمیان بیٹھی اور اپنا سیل فون آگے کیا

شکر کسی نے تو عقل والی بات کہی۔۔۔۔مومل نے کہا تو انابیہ ہنس پڑی

فضا جاؤ،خاور بھائی کو بھی آنے کا کہو۔۔۔۔چند تصویروں کے کلک ہونے کے بعد حیات نے فضا سے کہا

ابھی جاتی ہوں۔۔۔فضا اُس کی بات پر فورن سے اُٹھ کھڑی ہوئی جبھی وہاں بڑے آئے تو باقی سب لوگ سائیڈ پر کھڑے ہوئے

یہ لو بیٹا احناف کو انگھوٹی پہناؤ۔۔۔۔منیبہ بیگم نے ایک انگھوٹی حیات کی طرف بڑھائی جس کو حیات نے جلدی سے اپنے ہاتھوں میں لی اور مسکراکر احناف کو دیکھا جو براؤن کلر کے شلوار قمیض پہنے کندھوں پر شال اُوڑھے بہت وجیہہ لگ رہا تھا۔۔۔

ہاتھ دے جناب۔۔۔۔حیات نے شوخ نظروں سے اُس کو دیکھ کر اپنی ہتھیلی اُس کے سامنے پھیلائی تو احناف نے اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں دیا تو تھوڑی چھیڑ چھاڑ کے بعد حیات نے اُس کی انگلی میں انگھوٹی ڈالی تو ہر کوئی تالیاں بجانے لگا جبکہ اُس کے کزن زور شور سے ہوٹنگ کرنے لگے۔۔۔۔۔۔

اب تمہاری باری۔۔۔۔۔بینش بیگم آنکھوں ہی آنکھوں میں اُن دونوں کی نظریں اُتارتی احناف کی طرف ایک قیمتی انگھوٹی بڑھائی جو اُن کی خاندانی انگھوٹی تھی"اور ہر ساس اپنی بڑی بہو کو دیا کرتیں تھی۔۔۔

ارے بینش آپا یہ انگھوٹی آپ نے سلطان کی منگیتر کو نہیں پہنائی تھی کیا؟منیبہ بیگم احناف کے ہاتھوں میں موجود انگھوٹی کو دیکھ کر بولی

وہ کہتی ہے اولڈ فیشن ہے تو سوچا اپنی حیات کو دوں جو اِس کا خیال بھی رکھے گی اور سنبھالے گی بھی۔۔۔بینش بیگم نے کہا تو سب مسکرائے جبکہ احناف غور سے انگھوٹی کو دیکھنے لگا جو اِتنی پُرانی ڈیزائن کی بھی نہیں تھی۔۔

سوچ کیا رہے ہو پہناؤ۔۔۔۔۔حیات نے احناف کو گم سم دیکھا تو ایک ٹھوکا مارا

پہناتا ہوں۔۔۔احناف اُس کی اِس قدر بے چینی پر ہنس پڑا

یہ لو میرا ہاتھ۔۔۔حیات نے مسکراہٹ دبائے اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں دیا تو احناف اُس کے ہاتھ کی انگلی میں انگھوٹی پہنانے والا تھا جب ایک شور نے اُن کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی

یہ کیسا شور ہے؟انعم بیگم پریشان ہوئی

چچی جان

یہاں آئے فضا سیڑھیوں سے گِرگئ ہے۔۔۔۔مومل کی حواس باختہ آواز سن کر ہر کوئی اپنی جگہ شد رہ گیا تھا جبکہ حیات اور مُنیبہ بیگم بھاگ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھے تھے"اچانک سے افراتفری کا ماحول بن گیا تھا۔۔۔۔

احناف نے بینش بیگم کو نہیں دیکھا تو وہ بھی انگھوٹی جیسے تیسے کرتا اپنی جیب میں ڈالے وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا اور جلدی سے سیڑھیوں کی طرف آیا جہاں فضا نیچے بے سُدھ ہوش وحواس سے بیگانہ پڑی تھی جبکہ اُس کے پاس حیات پریشان سی اور نم نظروں سے اُس کو دیکھ رہی تھی مُنیبہ بیگم نے تو ابھی سے واویلہ مچایا ہوا تھا۔۔۔

کال دا ایمبولنس۔۔۔تارا کوفت بھری نظر ماتم کُناں منیبہ بیگم پر ڈالتی ازلان سے بولی جو خود شاید اُسی کام میں لگا ہوا تھا۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

پریشان نہیں ہو فضا کو کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔احناف نے حیات کو پریشان دیکھا تو اُس کو تسلی کروانے کے غرض سے بولا وہ لوگ فضا کو اب ہوسپٹل لائے تھے جہاں اُس کو ایمرجنسی وارڈ میں شفٹ کیا گیا تھا۔

اِن شاءاللہ۔۔۔۔حیات محض یہی بول پائی اُس کو بس وارڈ سے ڈاکٹر کے نکلنے کا انتظار تھا تاکہ وہ کوئی تسلی بخش جواب دے۔۔۔

کچھ بتایا ڈاکٹرز نے؟اختر صاحب اُن لوگوں کے پاس آکر استفسار ہوئے

ابھی تک تو نہیں۔۔۔حیات نے جواب دیا

یہ ہوا کیسے؟اختر صاحب فکرمندی سے گویا

ہیل والی سینڈل پہنی ہوئی تھی ہوسکتا ہے پاؤں اٹک گیا ہو خوش بھی تو بہت تھی نہ آج،یہاں سے وہاں بس بھاگے جارہی تھی۔۔۔۔حیات اُن کی بات کے جواب میں بولی

خاور بھائی کہاں ہے؟احناف کو خاور نظر نہیں آیا تو پوچھا

اُس کو ضروری کام تھا۔۔۔۔اختر صاحب نے بتایا

آج کیا ضروری کام پڑگیا؟احناف کو سمجھ نہیں آیا

آگیا ہوگا بہت کام ہوتے ہیں اِنسان کو۔۔۔اختر صاحب کو چڑ ہونے لگی"جبھی روکھے لہجے میں بولے

❤❤❤❤❤❤❤

تم کسی اور کو ڈیٹ کیسے کرسکتی ہو؟خاور بے یقین نظروں سے مایا کو دیکھ کر بولا جس کو اُس نے کسی لڑکے کے ساتھ دیکھا تھا اور اُن دونوں کی نزدیکیوں سے اُس کو اندازہ ہوگیا کہ مایا اُس لڑکے میں کافی انٹرسٹ لے رہی ہے جو بات اُس کو سخت چُبھ رہی تھی۔۔۔

حیران ایسے ہورہے ہو جیسے خود تم نے میرے علاوہ کسی اور لڑکی کو آنکھ اُٹھاکر نہیں دیکھا۔۔۔۔مایا طنز لہجے میں بولی

ہاں واقعی میں تمہارا میری زندگی میں آنا خوش بخت ثابت ہوا ہے اور جب سے تم میری زندگی میں آئی ہو میں نے کسی اور لڑکی کو آنکھ اُٹھاکر نہیں دیکھا کیونکہ آئے ریئلی لو یو۔۔۔۔خاور اُس کو اپنے روبرو کھڑا کیے شدت سے بولا جس پر مایا نے کوفت بھری نظروں سے اُس کو دیکھا

پلیز خاور ایسی اسٹوپڈ لائنز تم میرے سامنے مت بولا کرو میں فیڈ اپ ہوچکی ہوں۔۔۔۔مایا اُس سے دور کھڑی ہوئی

تم میری محبت سے بیزار ہوچکی ہو سیریسلی مایا؟خاور کا لہجہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا

دیکھو خاور ہمارے درمیان جو کچھ تھا وہ کب کا ختم ہوچکا ہے یہ میں کلیئر کرچکی ہوں ایک بار نہیں بار بار مگر آئے ڈونٹ نو تمہیں میری بات سمجھ کیوں نہیں آتی۔۔۔۔مایا نے اِس بار سخت لہجہ اپنایا

کیونکہ میں تم سے بے انتہا پیار کرتا ہوں"شادی کرنا چاہتا ہوں تم سے تم خود بتاؤ کیا کوئی تمہیں میرے علاوہ اِتنا چاہ سکتا ہے جتنا میں چاہتا ہوں؟خاور نے سراُٹھایا

محبت کرنے والوں کی کمی نہیں ہے یہاں خاور میں مایا ہوں جس کے ایک اِشارے پر ہر کوئی قطار کھڑی کرلیتا ہے۔۔۔۔مایا مغرور لہجے میں بولی اُس کی آنکھوں میں خاور کے لیے کوئی احساس نہیں تھا جس کو دیکھ کر خاور کا دل کٹ کے رہ گیا تھا،جبکہ اُس کی حالت سے بے نیاز مایا اپنا پرس اُٹھائے ہیل کی ٹِک ٹِک کرتی برابر سے گزرگئ تھی اور خاور کو لگا جیسے اُس کے قدم زمین پر منجمد ہوگئے ہیں۔

❤❤❤❤❤❤❤

ڈرا دیا تھا تم نے تو ہمیں۔۔۔سومل فضا کو مصنوعی گھوری سے نواز کر بولی تو وہ بامشکل مسکرا پائی

تم گِری کیسے سیڑھیوں سے؟حیات اُس کو اپنے ساتھ لگائے بولی

پاؤں سِلپ ہوگیا تھا میرا۔۔۔۔فضا نے آہستگی سے بتایا

شکر ہے زیادہ خطرے والی کوئی بات نہیں تھی۔۔۔منیبہ بیگم اُس کا صدقہ اُتار کر بولی

میں احناف کو دیکھ کر آتی ہوں۔۔۔۔حیات نے "احناف کی غیرموجودگی نوٹ کی تو کہا اور اُٹھ کر باہر آئی

احناف۔۔۔۔حیات نے احناف کو جاتا دیکھا تو اُونچی آواز میں اُس کو پُکارا

ہممم کہو۔۔۔۔احناف اُس کی طرف متوجہ ہوا

کہاں جارہے تھے؟حیات نے پوچھا

ڈسپینسری۔۔۔احناف یک حرفی بولا

اچھا میری رِنگ جو پہنا نہیں پائے تھے تم۔۔۔۔۔حیات نے مسکراکر اپنا ہاتھ آگے کیے کہا تو جوابً احناف بھی مسکراتا اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر رِنگ ٹٹولنے لگا تو چونک سا گیا۔

کیا ہوا سب ٹھیک ہے؟حیات نے بغور اُس کے تاثرات جانچے

ایک منٹ۔۔۔۔احناف اُس کو اِشارہ دیتا ٹھیک سے چیک کرنے لگا

احناف ڈونٹ ٹیل می کہ انگھوٹی گُم ہوگئ ہے۔۔۔حیات نے بے یقین نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

حیات میں نے افراتفری میں انگھوٹی یہی جیب میں ڈالی تھی پر اب مل نہیں رہی۔۔۔۔احناف پریشانی کے عالم میں بولا

او گاڈ۔۔۔۔حیات اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرتی اُس کو دیکھنے لگی.

مجھے یقین نہیں ہورہا احناف کہ تم نے اِتنی مہنگی اسپیشلی ہمارے خاندانی انگھوٹی کو گُم کردیا تم اِتنے غیرذمیدار کیسے ہوسکتے ہو؟تمہیں اندازہ تک نہیں اُس کی قیمت کا۔۔۔حیات کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل تھی۔۔

جان کر نہیں کیا ایسا کچھ میں نے "تھوڑی دیر قبل جیسی صورتحال بن گئ تھی تب گِرگئ ہوگی تم گھر کال کرو کیا پتا کسی میڈ کے ہاتھ لگی ہو صفائی کے دوران۔۔۔۔۔ایک خیال کے آتے ہی احناف نے اُس سے کہا

دعا ہی کرسکتی ہوں میں۔۔۔۔۔حیات سرجھٹک کر اُس سے کہتی گھر کا نمبر ملانے لگی

مل جائے گی پریشان نہ ہو تم۔۔۔۔احناف نے سنجیدگی سے کہا

❤❤❤❤❤❤❤❤

کچھ دن بعد!

بس کردو یار یہ سوگ منانا وہ بس ایک انگھوٹی تھی۔۔۔سومل نے کوفت سے حیات کو دیکھ کر کہا کیونکہ اُس کو اُس کی انگیجمنٹ رِنگ نہیں ملی تھی گھر کا ایسا کونا نہیں تھا جہاں اُنہوں نے انگھوٹی کو تلاش نہ کیا ہو مگر وہ نہیں تھی ملنی تو نہ ملی جس کا افسوس حیات کا بہت ہوا تھا اور اُس کے غم میں وہ ابھی تک تھی۔۔۔

وہ صرف ایک انگھوٹی نہیں تھی یار۔۔۔۔حیات نے اُس کو گھورا

جو بھی مگر بینش چچی نے اپنے جیولر کو ایسی انگھوٹی بنانے کا کہا ہے نہ تو بس بات ختم تم اب کیوں پریشان ہوتی ہو جب کہ تمہیں ویسی کی ویسی پلس نیو انگھوٹی ملے گی۔۔۔۔حیات نے اُس کو سمجھانے کی خاطر کہا

جو چچی اب دے گی اُس میں اور گم ہوئی انگھوٹی میں فرق ہے"وہ ہماری خاندانی انگھوٹی تھی جس کو میں پہننا چاہتی تھی۔۔۔جو ہر بڑی بہو کو ملتی ہے امی کو نہ مل پائی پر میں خوشقسمت تھی جو مجھے مل جاتی اگر احناف سے کوتاہی سرزند نہ ہوتی تو۔۔۔۔حیات سرجھٹک کر بولی

رلیکس اور بھول جاؤ یہ سوچو احناف کو گِفٹ کیا دینا ہے آفٹر آل اُس کا برتھ ڈے آرہا ہے۔۔۔مومل نے باتوں میں حصہ لیا

اُپسس میں تو بھول گئ تھی۔۔۔۔حیات نے بے ساختہ اپنے سر پہ ہاتھ مارا

اب تو یاد آگیا نہ تو سوچو اُس کو کیا سرپرائز دینا ہے۔۔۔سومل نے طنز کیا

ہاں سوچتے ہیں۔۔۔۔حیات پرسوچ لہجے میں بولی

❤❤❤❤❤❤❤❤

ماجدہ نانا جان نے ناشتہ کرلیا؟تارا صبح سویرے اپنے شوٹ کے لیے تیار ہوتی گھر سے باہر جانے لگی تھی جب باہر اُس کو اُسماعیل صاحب کی گاڑی نظر آئی تو رُک کر میڈ سے پوچھا

جی وہ تو صبح سے اپنے کمرے میں موجود ہیں۔۔۔۔ماجدہ نے بتایا تو اُس کا ماتھا ٹھٹھکا

کیا مطلب وہ صبح سے اپنے کمرے میں ہے تم کیا اُن کو جگانے نہیں گئ؟آج نو بجے اُن کی اہم میٹنگ تھی۔۔۔۔تارا وال کلاک میں وقت دیکھتی سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر بولی

اُن کے کمرے کا دروازہ لاک ہے میں نے نوک کیا تھا پر کوئی رسپانس نہیں کیا تھا اُنہوں نے۔۔۔ماجدہ نے بتایا تو تارا کو اب فکر ہوئی

مجھے ڈوپلیکیٹ چابی لاکر دو۔۔۔اپنا ہینڈ بیگ ٹیبل پر رکھتی تارا نے اُس سے کہا تو وہ سر کو جنبش دیتی کچن کی طرف گئ۔۔۔

یہ لے۔۔۔تھوڑی دیر میں وہ واپس آتی چابی تارا کی طرف بڑھائی جس کو پکڑ کر وہ تیزی سے اُسماعیل صاحب کے کمرے کی طرف گئ۔۔


"یہ تو تارا کا پرس ہے شاید؟"چیک کرتی ہوں کیا پتا اِس کے انون بوائے فرینڈ کا کوئی کِلو مل جائے۔۔۔۔

"اُس کے جانے کے بعد نیچے حیات آئی تھی اور ٹیبل پر تارا کے پرس دیکھ کر اُس کے دماغ میں ایک خیال آیا تھا جبھی خود سے بڑبڑاتی وہ ایک احتیاطی نظر آس پاس حال میں ڈوراتی اُس کا پرس اپنے ہاتھ میں لیا اور زِپ کھول کر اندر ٹٹولنے لگی تو پئسو کے ساتھ ساتھ اُس کو تارا کا قیمتی موبائل نظر آیا۔۔۔

کوئی رِنگ وغیرہ نہیں اِس میں جسٹ فضول چیزیں ہیں موبائیل کا پاسورڈ بھی جانے کیا ہوگیا۔۔۔حیات کو اُس کے مطلب کی چیز نظر نہیں آئی تو اُس نے اُس کے موبائل کی اسکرین آن کی جہاں وال پیپر پر اُس کی تصویر تھی مگر پاسورڈ دیکھ کر اُس کا منہ بن گیا تھا۔۔۔

ضرور اپنا نام ہوگا۔۔۔۔حیات اندازہ لگاتی جلدی سے اُس کا پورا نام لکھا جو کی غلط ثابت ہوا مگر پھر اُس نے ہار نہیں مانی"اور نین تارا سے بس تارا نام کی اسپیلنگ لکھی اُس پر بھی لاک نہیں کُھولا تو کچھ سوچ کر اُس نے"نین"لکھا مگر پھر بھی لاک ان لاک نہیں ہوا تو اُس کو غُصہ آنے لگا مگر پھر اُس کو یاد آیا وہ اپنی بہن چاندنی سے بہت پیار کرتی تھی تو شاید اُس کے نام کا پاسورڈ لگایا ہو مگر بے سود کیونکہ یہ پاسورڈ بھی غلط تھا اور جتنے غلط پاسورڈ اُس نے لگادیئے تھے کہ اب اُس کو تیس سیکنڈز کے بجائے ایک منٹ کا انتظار کرنا پڑرہا تھا اور دل تیزی سے دھڑک الگ سے رہا تھا کیونکہ چوری چُھپے موبائل یوز کرنے کا تجربہ اُس کا پہلا تھا وہ جانتی تھی اگر تارا کو زرا بھی شک ہوا تو وہ ضرور اُس سے سوال جواب کرے گی۔۔۔۔

کیا مصیبت ہے یار ایسا بھی کیا خوفیہ پاسورڈ ہوگا۔۔۔۔اب ایک غلط پاسورڈ سے پھر سیکنڈز آنے لگے تو حیات کو چڑ ہونے لگی جبھی اُس نے بے دلی سے موبائل اُس نے تارا کی پرس میں واپس ڈالا

ہو نہ ہو ضروری پاسورڈ بھی اُس لڑکے کے نام کا ہوگا۔۔۔حیات کو اب اُس لڑکے پر شک ہونے لگا

کون ہوگا جو اِس بونی کو دل دے بیٹھا ہے"خوبصورت آنکھوں اور گوری رنگت کے علاوہ ہے کیا اُس میں۔۔۔۔حیات سرجھٹک کر نخوت سے بڑبڑائی بلاجواز اچانک سے اُس کا موڈ خراب ہوگیا تھا۔۔۔۔۔

نانا جان آپ ٹھیک ہو؟تارا دروازہ کھول کر جلدی سے اُسماعیل صاحب کی طرف بڑھی جو بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے

ہاں میں ٹھیک ہوں میری جان۔۔۔۔اُسماعیل صاحب نے اُٹھنے کی کوشش کی مگر سر میں ایسی ٹیسیں اُٹھی کہ وہ واپس بیڈ پر ڈھے سے ہوگئے

نانا۔۔۔تارا کے چہرے کی رنگت پل بھر میں اُڑی

ارے کچھ نہیں ہوا میں ٹھیک ہوں بس رات کو شاید نیند پوری نہیں ہوئی تبھی سر میں بہت درد ہے۔۔۔اُسماعیل صاحب نے زبردستی مسکراہٹ چہرے پر سجائی

آٹھ بج چُکے ہیں نانا اور آپ پانچ بجے کے اُٹھنے والے شخص ہیں"آپ کی روٹین اِتنی پختہ ہوتی ہے کہ رات کے وقت آپ چاہے جس ٹائیم پر سوئے مگر پھر بھی بغیر الارام کے آپ وقت پر اُٹھ جایا کرتے ہیں اور آج تو آپ کی ایک بہت اہم میٹنگ تھی اور یہاں آپ نے سر درد کا بہانا بنالیا ہے۔۔۔۔تارا اُفسوس سے اُن کو دیکھ کر بولی

بیٹا میں خود حیران ہوں ایک تو رات میں مجھے نیند جلدی آگئ اُپر سے سر الگ درد کرنے لگا ہے ایسی حالت میں مشکل ہے میرا آفس جانا۔۔۔۔اُسماعیل صاحب نے بتایا

آپ کی میٹنگ؟تارا نے جیسے یاد کروایا

مینجر سنبھال لے گا اُس کو سب پتا ہے۔۔۔اُسماعیل صاحب اُس کی فکرمندی پر مسکرائے بغیر نہ رہ پائے

نانا اِتنا بڑا پراجکیٹ آپ کو ملا تھا جو آپ محض ایک مینجر کے حوالے کرکے مطمئن ہورہے ہیں سیریسلی؟تارا نے تاسف سے اُن کو دیکھا

تو میں اور کیا کروں؟"تمہیں بزنس کا الف ب تک نہیں پتا"احناف کی اپنی جاب لگی ہوئی ہے اگر وہ میرے کہنے مطابق لیو کر بھی لے تو غلط ہوگا کیونکہ میٹنگ تو اُن کے ساتھ ہے جہاں وہ جاب کرتا ہے دوسرا بچا ازلان جس کا آج لاسٹ سمسٹر ہے اور وہ اُس میں بزی ہے باقی ارسلان تو بچہ ہے۔۔۔۔اُسماعیل صاحب نے جوابً کہا تو تارا لب کُچلتی خاموشی سے بس اُن کو دیکھنے لگی۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

لگتا ہے اُسماعیل صاحب کے آنے کا کوئی موڈ نہیں۔۔۔میٹنگ روم میں موجود ایک شخص نے کہا تو اصغر صاحب کی نظر اپنے بڑے بھائی اختر صاحب پر گئ جو خاصے مطمئن نظر آرہے تھے۔۔۔۔

ابو جی کی عمر آرام کرنے کی ہے تم نے جلدبازی کرلی تھی اُن کو اِتنا بڑا براجیکٹ دے کر "پانچ کڑور کوئی معمولی رقم نہیں ہوتی۔۔۔اصغر صاحب نے کہا تو اُنہوں نے گہری سانس خارج کی۔"جبکہ خاموش بیٹھے احناف نے تاسف سے اپنے چچا پلس ہونے والے سُسر کو دیکھا

سر آپ کو نہیں لگتا ہمیں تھوڑا ویٹ کرنا چاہیے۔۔۔احناف ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھتا اُن سے بولا وہ خود پریشان تھا کہ آج آخر اُسماعیل صاحب نے ایسی لاپرواہی کر کیسے لی بھلا جس پراجیکٹس کے لیے اُنہوں نے اِتنی زیادہ محنت کی تھی عین ٹائم پر اب جب اُن کو اپنا آپ منوانا تھا تو وہ کیوں پیچھے رہ گئے

"یہاں وقت کی پابندی کو اہم رکھا جاتا ہے۔۔۔ا

بلکل سہی کہا عمیر جیلانی صاحب آپ نے جس انسان کو وقت کی پابندی کا پتا نہیں ہوتا وہ کبھی اپنی زندگی میں آگے بھر نہیں پاتا۔۔وہ ابھی کچھ کہنے والے تھے جب اچانک روم کا دروازہ کُھلا تھا اور وہاں تارا داخل ہوتی بولی تھی جس کو دیکھ کر ہر کوئی اپنی جگہ حیران تھا"احناف بھی کافی تعجب بھری نظروں سے اُس کو دیکھ رہا تھا جو آج ہر روز سے ہٹ کر الگ حُلیے میں تھی گُلابی پینٹ کوٹ اور وائٹ شرٹ میں ملبوس تارا کافی پُراعتماد سی کھڑی تھی۔۔

یہ یہاں کیسے آگئ؟اختر صاحب نے دانت پیس کر آہستہ مگر سخت لہجے میں اصغر صاحب سے کہا

بھائی صاحب پریشان نہ ہو کچھ نہیں ہوگا۔۔۔اصغر صاحب نے اُن کو پرسکون کرنے کی خاطر کہا جس پر وہ چُپ ہوگئے۔

"آپ تو ماڈلنگ کرتیں ہیں نہ؟عمیر جیلانی نے سرتا پیر اُس کو دیکھا جبکہ اُس کے بیٹے اور بیٹی کی نظریں بھی تارا پر جمی ہوئیں تھیں

میں آج یہاں اپنے نانا کی نواسی بن کر آئی ہوں اور اُن کی جگہ پر آپ کے سامنے پریزیٹیشن میں دوں گی۔۔۔تارا سنجیدگی سے محض یہی بولی جبکہ اصغر صاحب نے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچ کر اُس کو دیکھا

آجائے۔۔۔۔۔عمیر جیلانی نے کہا تو تارا نے گردن ترشی کرکے اُسماعیل صاحب کے مینجر کو دیکھا پھر چل کر احناف کے پاس والی خالی چیئر پر بیٹھ گئ۔۔۔۔

"آنے کا انداز تو ایسے بنایا ہوا تھا جیسے پوری دُنیا کو فتح کرکے آگئ ہو۔۔۔۔وہ جیسے ہی بیٹھی احناف اُس کے کان کے پاس سرگوشی نما آواز میں بولا جس پر تارا نے کاٹ کھاتی نظروں سے اُس کو دیکھا جو زچ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا

دُنیا فتح کرلوں یا کچھ آپ کو کیا؟تارا نے اُس کو گھور کر کہا

ویل تمہیں دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے تم پوری دُنیا کی بہت بڑی بزنس وومن ہو۔۔۔احناف باز نہیں آیا تھا مگر اِس بار تارا نے اُس کو کوئی بھی جواب دینا ضروری نہیں سمجھا تھا۔۔۔"کچھ ہی دیر میں پریزیٹیشن دینے کا وقت آیا تو تارا کلمہ پڑھتی اُٹھ کھڑی ہوئی تھی اور بیحد خوبصورت طریقے سے پریزٹیشن دینے لگی جس پر احناف کافی ایمپریس ہوا تھا اُس سے جبکہ اختر صاحب اور اصغر صاحب کی شکل دیکھنے لائق ہوئی تھی۔۔۔۔۔

ایک ماڈل سے کنفیوزن اور جِھجھک کی اُمید کیسے رکھ لی میں نے۔۔۔؟اصغر صاحب افسوس سے بڑبڑانے لگے جس پر اختر صاحب کو مزید تاؤ آیا تھا۔

Beauty with brain.

وہ جیسے ہی پریزیٹیشن سے فارغ ہوئی تو سب نے تالیاں بجاکر اُس کو حوصلہ افزائی کی تھی جبکہ عمیر جیلانی کا بیٹا عمر نے اپنا ہاتھ اُس کی طرف بڑھا کر مسکراکر کُمپلیمنٹ دیا جس پر تارا جوابً مسکراتی ہاتھ ملانے والی تھی جب اچانک سے احناف درمیان میں آیا

Congratulations.

احناف اُس سے مصافحہ کرتا مسکراکر بولا جس پر تارا نے کِن اکھیوں سے اُس کو دیکھا جبکہ عمر شرمندہ سا اپنا ہاتھ پیچھے کرگیا تھا۔

Thank You.

تارا سنجیدگی سے کہتی اُس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالا

میرے خیال سے ہمیں فائنل ڈسکشن کرلینی چاہیے۔۔۔۔عمیر جیلانی نے کہا

شیور۔۔۔۔تارا اِتنا کہتی واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئ ۔

یہ کیسے کیا تم نے؟احناف نے اُس کو دیکھ کر پوچھا

اللہ نے دماغ دیا ہے مجھے۔۔۔۔تارا نے بتایا

جس کو آج پہلی بار استعمال کرنے کی زحمت کر ڈالی۔۔۔احناف نے سمجھنے والے انداز میں سر کو جنبش دے کر کہا تو تارا نے ضبط سے اُس کو دیکھا جو اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا تھا

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

بہت پیاری لگ رہی ہے تمہارے ہاتھ میں یہ انگھوٹی۔۔۔بینش بیگم مسکراکر حیات سے بولی"وہ آج خاص حیات کے ہاتھ کی انگلی میں انگھوٹی پہنانے آئی تھی۔

شکریہ چچی مگر پہلی والی رِنگ سے عجیب سا اپنا پن تھا۔۔۔حیات گہری سانس بھر کر بولی

اُس کو اب آپ بھول جاؤں اور یہ بھی بہت ایکسپینسو ہے۔۔۔انابیہ نے اُس کو دیکھ کر کہا

وہ تو نظر آرہا ہے۔۔۔حیات نے اپنے ہاتھ میں چمکتی انگھوٹی کو دیکھ کر کہا

منیبہ میں آج خاص ایک اور مقصد کے لیے بھی یہاں آئی ہوں۔۔۔۔بینش بیگم نے مُنیبہ بیگم کو دیکھ کر کہا

اور کیا مقصد؟منیبہ بیگم نے ناسمجھی سے اُن کو دیکھا باقی سب کا دھیان بھی اُنہیں کی طرف تھا جبکہ انعم بیگم ریفریشمنٹ کا سامان دیکھنے میں مصروف تھی۔

اگلے ماہ سلطان کی شادی کی تاریخ طے پائی گئ ہے تو میں سوچ رہی تھی احناف اور حیات کی بھی شادی خیر سے ہوجائے"ہماری حیات کا آج ویسے بھی اب آخری سال ہے۔۔۔۔بینش بیگم نے کہا تو حیات کا چہرہ گُلنار ہوگیا تو اُس کے اگل بگل میں بیٹھیں سومل اور مومل نے اُس کو ٹھوکا مارا جس پر وہ اُن دونوں کو گھور بھی نہیں پائی

اگلے ماہ شادی؟آپا یہ سب کیسے ممکن ہے آپ تو لڑکے والوں کی طرف سے ہیں آپ کو تیاریوں میں وقت نہیں لگے گا مگر ہم لڑکی والے ہیں سؤ کیا ہزار کام ہوتے ہیں ہمیں کرنے کے لیے۔۔۔۔منیبہ بیگم اُن کی بات پر جہاں خوش ہوئی تھیں وہی اُن کو پریشانی نے بھی آ گھیرا تھا

ہمیں کونسا جہیز کی لالچ ہے اللہ بچائے ایسی رسم ورواج سے جو ایک لعنت ہے۔۔۔"اور احناف بھی جہیز کے سخت خلاف ہے۔۔۔بینش بیگم اُن کی بات سن کر بولی

جو بھی آپا ہمیں اپنی طرف سے کچھ تو تیاری کرنی ہوگی نہ جس میں وقت لگے گا اور ایک ماہ کم عرصہ ہے۔۔۔منیبہ بیگم نے کہا تو حیات کو اُداسی ہونے لگی مگر سومل نے اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ دے کر تسلی کروائی

"بول تو ایسے رہی ہو جیسے تم نے کچھ کیا نہیں ہوگا بھئ کچھ تو تم نے بھی تیاری کی ہوگی نہ بس پھر فائنل تاریخ کرتے ہیں اور جو کچھ رہتا ہے اُس کی تیاری تم کل سے شروع کردو۔۔۔۔بینش بیگم نے کہا تو منیبہ بیگم سوچ میں پڑگئ

بینش بیگم سہی بول رہی ہے بیٹیوں کے فرض سے جتنی جلدی سبکدوش ہوجائے اُتنا اچھا ہوتا ہے۔۔۔انعم بیگم چائے کا کپ بینش بیگم کو دیتی بولی

اچھا ٹھیک ہے اگر آپ سب کچھ سوچ کر آئیں ہیں تو میرے انکار کرنے کی اب کیا ویلیو۔۔۔منیبہ بیگم نے کہا

مُبارک ہو بھئ مبارک ہو۔۔۔سومل نے خوشی خوشی اُس کو اپنے گلے لگایا جس کے چہرے پر گہری مسکراہٹ تھی۔۔۔۔

"احناف بھائی تو آپ کے پکے والے عاشق نکلے۔۔۔انابیہ بھی اُس کو مبارک دیتی چھیڑنے والے انداز میں بولی تو سب کا قہقہقہ چھوٹ گیا۔۔

تمہارے بھائی سے تو میں پوچھوں گی آخر مجھ سے یہ بات کیوں چُھپائی مجھے تو ایٹلیسٹ پتا ہونا چاہیے نہ۔۔۔حیات اِتنا کہتی اُٹھ کھڑی ہوئی باقی سب بس اُس کی بے قراری دیکھتے رہ گئے۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

میں بہت خوش ہوں آج۔۔۔۔احناف کے کانوں پر حیات کی چہکی آواز پڑی تو وہ مسکرایا

لگتا ہے امی تم لوگوں کی طرف ہے۔۔۔۔احناف جیسے ساری بات جان گیا۔

بلکل پر اب امی کا بیٹا کب آئے گا۔۔۔؟حیات نے شوخی سے پوچھا

وہ نہیں آسکتا وہ اپنے کام میں بیحد مصروف ہے۔۔۔احناف نے بتایا

ویسے جب سے تم نے جاب کی ہے تب سے مجھے وقت دینا کم کردیا ہے تم نے۔۔۔حیات کے لبوں سے شکوہ پھسلا

کام کا برڈن زیادہ ہوتا ہے مگر تم فکر نہیں کرو آہستہ آہستہ ہر چیز روٹین میں آجائے گی۔۔۔احناف نے اُس کو مثبت جواب دیا

اچھا پر آج میں ڈنر کسی اچھی جگہ کرنا چاہتی ہوں پلیز انکار کرکے میرا دل مت توڑنا تمہیں پتا نہیں میں کتنا خوش ہوں۔۔۔حیات خاصے پرجوش لہجے میں اُس سے گویا ہوئی

مجھے تمہاری خوشی کا اندازہ ہے اِس لیے ڈونٹ وری میں تمہاری یہ خوشی اسپوئل نہیں کروں گا شام میں تمہیں پِک کرنے آؤں گا"لونگ ڈرائیو کے بعد تمہارے فیورٹ ریسٹورنٹ جائینگے۔۔۔احناف نے مسکراتے لہجے میں کہا تو خوشی کے مارے حیات کی چیخ نکل گئ جیسے جانے کونسا اُس کے ہاتھ کارون کا خزانہ لگا ہو۔۔۔

تم بہت اچھے ہو آئے لو یو احناف۔۔۔حیات نے جذب سے کہا

اچھا میں اب کال رکھتا ہوں پھر شام میں مُلاقات ہوگی۔۔۔اپنے سامنے پڑی فائلز کو دیکھ کر احناف نے اُس سے کہا

بہت بے مروت ہو تم کیا ہوجاتا جو اگر جوابً آئے لو یو ٹو کہتے۔۔۔حیات کو افسوس ہوا

اِظہار کے لیے پوری زندگی پڑی ہے اِس لیے فکر نہیں کرو اور نہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل پر لگایا کرو۔۔۔احناف نے نرم لہجے میں اُس سے کہا

تمہیں نہیں پتا احناف ورنہ محبوب کا ہر وقت اِظہارِ محبت ہمارے لیے کسی امرت یا آبِ حیات سے کم نہیں ہوتا تمہیں ابھی اِس بات کا اندازہ نہیں پر جب تم مجھے میری طرح چاہوں گے تو تمہیں اچھے سے لگ پتا جائے گا۔۔۔۔حیات نے کسی ٹرانس کی کیفیت میں کہا تو احناف کچھ بول نہیں پایا بس خاموش رہا شاید بولنے کے لیے الفاظوں کا چُناؤ کررہا تھا۔

تم ٹھیک بول رہی ہو پر ابھی میں مصروف ہوں پھر باتیں ہوگی۔۔احناف اُس کی بات سے اتفاق کرتا بولا

ٹھیک ہے بائے مگر ایک بات سن لو میں اپنی شادی کی ہر شاپنگ تمہارے ساتھ کرنے کا سوچے ہوئی ہوں تو میں تمہارے کوئی بھی لیم ایکسکیوز نہیں سُنوں گی۔۔۔۔حیات نے باور کروایا تو احناف مسکرایا

جیسا تم کہو۔۔۔۔احناف نے فرمانبرداری سے کہا تو حیات نے ایک دو مزید اور باتیں کرنے کے بعد کال کاٹ دی اور مسکراکر اپنے آنے والے کل کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔"جہاں وہ احناف کے سنگ اپنی ہر خوشی کو سیلیبریٹ کررہی تھی جہاں وہ بس اُس کی تھی تو وہ بس اُس کا دونوں کے درمیان کوئی تیسرا نہیں تھا۔۔۔

"میں وہ واحد لڑکی ہوں جس کی محبت کی کہانی میں کوئی ویلن یا ظالم سماج درمیان میں نہیں آیا۔۔۔اپنی بات پر حیات خود ہی ہنس پڑی

ماشااللہ ماشااللہ اللہ نظرِبد سے بچائے۔۔۔اپنے سر پر چپت مارے وہ آخر میں جلدی سے بڑبڑانے لگی۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

تارا اور اختر صاحب کی گاڑیاں جتوئی ویلا میں ایک ساتھ داخل ہوئیں تھیں۔۔"جس پر تارا ایک اچٹنی نظر اُن کی گاڑی میں ڈالے اپنی گاڑی کا دروازہ لاک کیے اندر کی طرف بڑھنے لگی تھی جب عین ٹائیم اختر صاحب بھی گاڑی سے باہر نکلتے اُس کو مُخاطب کیا

آج جو تم نے کیا وہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔

میں نے آج کیا کیا؟جوابً تارا اُن کی طرف پلٹی

تمہارا آفس میں آنا ہمیں شرمندگی میں مبتلا کرگیا تھا اِس لیے اپنا وجود ہماری کمپنی میں نہ لایا کرو۔۔۔اِس بار اصغر صاحب نے دو ٹوک لہجے میں کہا

فرسٹ آف آل وہ آپ کی کمپنی نہیں میرے نانا جان کی کمپنی تھی جہاں میں جب چاہے آسکتی ہوں میرا پورا حق ہے۔۔۔۔"کوئی مجھے روک نہیں سکتا اِیون آپ دونوں بھی نہیں اور میرے وہاں آنے سے یا جو میں نے آج کیا میرا نہیں خیال اُس سے آپ کو شرمندہ ہونا چاہیے۔۔۔۔تارا سنجیدگی سے دو ٹوک انداز میں کہتی باری باری اُن کو دیکھنے لگی۔

تمہیں کیا لگتا ہے ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا یہ جو تم ہر ایک کی تعریفیں بٹور رہی ہو اُس کا مقصد ہمیں اچھے سے پتا ہے۔۔۔اختر صاحب نے اُس کو گھورا

جان کر دل کی گہرائیوں سے خوشی ہوئی پر پتا ہے کیا پیارے چچا جان۔۔۔۔تارا نے لمحے بھر کا وقفہ لیا پھر بولی

"کل رات غلطی سے نانا جان نے نیند کی گولیاں کھالی تھیں اور ایک سے زیادہ گولیاں تھیں تو وہ اُٹھ تو گئے صبح مگر اُن کے سر درد نے بیڈ سے اُٹھنے کی اِجازت نہیں دی اور جیسا کہ وہ اکیلے نہیں میں اُن کے ساتھ ہوں جو اُن کی محنت کو کبھی ضائع نہیں ہونے دے گی تو میں نے سب سنبھال لیا اور ان شاءاللہ آئیندہ بھی ایسے سب کچھ سنبھال لوں گی۔۔۔تارا کی بات پر بے ساختہ اختر صاحب اور اصغر صاحب نے ایک دوسرے کو دیکھا اُن کے چہرے کی بدلتی رنگت کو تارا نے پل بھر میں محسوس کرلیا تھا۔

آپ کو اُن سے ملنا چاہیے اور مجھے مبارک آباد بھی آپ اُن کے سامنے دیجئے گا اُن کو اچھا لگے گا۔۔۔تارا مسکراکر کہتی وہاں رُکی نہیں تھی۔۔۔

بھائی صاحب اِس کو واپس بلوچستان بھیجنے کا بندوبست کرلے آپ۔۔۔۔اصغر صاحب نے سنجیدگی سے اختر صاحب کو دیکھا

فکر نہیں کرو اِس کا پتہ تو میں جلدی کٹ کروں گا بہت اُونچی اُڑان اُڑ لی اِس نے اب پٙر کاٹنے کا وقت آگیا ہے۔۔۔۔اختر صاحب پُراسرار لہجے میں بولے اُن کی آنکھوں میں ایک الگ سی شیطانی چمک تھی جس کا مطلب اصغر صاحب اچھے سے جان گئے تھے جبھی وہ بھی مطمئن ہوتے اپنے قدم اندر کی طرف بڑھا گئے تھے۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

بس کردو یار تصویروں نکالنا۔۔۔احناف اب زچ ہوا

کیوں بس کروں تمہیں پتا نہیں آج ہم ایک ماہ بعد یہاں اپنی فیورٹ جگہ آئے ہیں یادگار مومنٹس تو بنتے ہیں۔۔۔۔حیات مزے سے کہتی پوز بناکر اُس کے ساتھ تصویریں بنانے لگی تو احناف بھی ناچاہتے ہوئے اُس کا ساتھ دینے لگا۔۔۔۔

ایک منٹ ویٹ میں اسٹوری اور اسٹیٹس لگادوں،تم اپنا سیل فون بھی دینا زرا۔۔۔۔حیات مسکراکر اُس کو دیکھ کر بولی پھر اپنے سیل فون کی طرف متوجہ ہوئی

پہلے ہمیں کچھ کھانا چاہیے میں بہت ہنگری ہوں۔۔۔احناف نے کہا

تم کھانے کا آرڈر کرو میں جب تک اِن کاموں سے فارغ ہوجاؤں۔۔۔حیات مصروف لہجے میں بولی

ایز یو وِش۔۔۔۔۔احناف شانے اُچکاکر کہتا ویٹر کو اپنے پاس آنے کا اِشارہ کیا

تم نے اپنا سیل فون نہیں دیا۔۔۔حیات نے سراُٹھا کر اُس کو دیکھا

سیل فون کیوں دینا تھا؟احناف ناسمجھی سے اُس کو دیکھا

تمہاری اور تمہاری سم ون اسپیشل کی پرائیویٹ چیٹ پڑھنا تھی۔۔۔۔حیات نے بڑی سنجیدگی سے کہا

بہت بُرا جوک تھا۔۔۔احناف نے اُس کو گھورا

یار فون دو تمہارے سیل فون سے بھی اسٹوری اور اسٹیٹس لگانا ہے۔۔۔حیات بضد ہوئی

میرے فون سے الگ کیوں؟"تمہیں پتا ہے مجھے یہ سب پسند نہیں۔۔۔۔احناف نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر مسکراکر کہا

واٹ ایور یہ تم اسٹائلش مولا اب بنے ہو ورنہ تمہارے شوق بھی ہمارے جیسے ہوا کرتے تھے۔۔۔۔حیات آنکھیں گُھماکر بولی تو احناف تاسف سے اُس کو دیکھتا اپنا موبائل اُس کی طرف بڑھایا جس کو حیات نے مسکراکر تھام لیا۔۔۔

تمہارے پاس تارا کا نمبر بھی ہے؟حیات کو حیرت ہوئی

ہاں۔۔۔۔احناف نے مختصر جواب دیا

حیرت ہے۔۔۔حیات جھرجھری سی لیکر بولی

اِس میں اِتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے؟کیا تمہارے پاس اُس کا نمبر نہیں؟احناف کو اُس کا حیران ہونا سمجھ نہیں آیا

بلکل میرے پاس تو کیا ہمارے یہاں ازلان اور ارسلان کے علاوہ کسی کے پاس بھی اُس کا نمبر نہیں ہے۔۔۔حیات نے بتایا

مجھے دادا جان نے سیو کروالیا تھا خیر تمہاری اگر جاسوسی ہوگئ ہو تو وہ کرو جس کے لیے سیل فون لیا تھا۔۔۔۔احناف سرجھٹک کر بولا تو حیات نے مسکراہٹ دبائی

اوو تو فیس بُک میں بھی فرینڈ لِسٹ میں ایڈ ہے وہ حیرت ہے میں نے کبھی جانا ہی نہیں خیر تم یہ بتاؤ چیٹ ہوتی ہے تمہاری اور اُس کی؟حیات واٹس ایپ چیٹ کے بعد مسنجر میں جاکر اُس سے پوچھنے لگی

خود دیکھ لو۔۔۔۔احناف ایک نظر اُس پر ڈالتا بولا تو حیات نے واقع ایسے کیا تو اُس کو پتا چلا اُن دونوں کی آپس میں کبھی گپ شپ نہیں ہوئی تھی"ہائے ہیلو تک بھی نہیں کچھ سوچ کر حیات نے ایک چور نگاہ احناف پر ڈالی جو آس پاس کے ماحول میں نظریں پھیرا رہا تھا اُس سے نظریں ہٹانے کے بعد حیات نے جب تارا کو آنلائن دیکھا تو احناف کے موبائل سے اُس کے نمبر پر میسج چھوڑا

Hey..

میسج سینڈ ہونے کے بعد حیات اُس کے رِپلائے کا انتظار کرنے لگی اُس کے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ تھی وہ بس دیکھنا چاہتی تھی کہ تارا کیا رسپانس کرتی ہے۔۔۔۔"کچھ ہی دیر میں ویٹر اُن کا آرڈر لے آیا تو احناف نے اُس کو کھانے کی طرف متوجہ ہونے کا کہا تو "حیات سراثبات میں ہلاتی احناف کا موبائل آن کیا جہاں پانچ منٹس سے زائد وقت ہوگیا تھا پر تارا نے احناف کا میسج سین نہیں کیا تھا جبکہ وہ مسلسل آنلائن تھی۔

بدتمیز۔۔۔۔حیات ناگواری سے بڑبڑاتی میسج ڈیلیٹ کیا اور احناف کی طرف متوجہ ہوئی

تمہیں پتا ہے میں نے آنلائن نکاح ڈریس سلیکٹ کرلیا ہے آرڈر بھی دے دیا ہے بس وہ کل تک ڈیلیور ہوجائے گا۔۔۔۔حیات نے کھانا کھاتے احناف کو بتایا

نکاح ڈریس تو امی نے لینا تھا۔۔۔۔اور باقی ولیمے کا ڈریس ہم نے مل کر خریدنا تھا۔۔۔احناف کو تعجب ہوا حیات کے پل میں بدلتے انداز کو دیکھ کر

ہاں پر چچی بینش نے بتایا وہ اپنی ساس کا جوڑا دے گی مجھے آئے مین احناف سیریسلی؟اِتنا پُرانہ ڈریس میں اپنے اسپیشل ڈے پر کیسے زیب تن کرسکتی ہوں؟"جو اُن کے علاوہ امی اور چچی انعم نے بھی پہنا ہوا تھا توبہ ہے مطلب اولڈ فیشن جیولری کی سمجھ آتی ہے پر جوڑا۔۔۔۔حیات کے زاویئے بگاڑ کر بولی

ایک دن کی بات تھی پہن لیتی تو امی کو اچھا لگتا۔۔۔اُس کی بات سن کر احناف نے کہا

نو وے احناف تم دادا جان کی پُرانی شیروانی پہن سکتے ہو مگر میں نہیں۔۔۔۔حیات نے اپنے ہاتھ کھڑے کیے تو احناف نے مزید بحث نہیں کی۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

مجھے تم پر فخر ہورہا ہے میں نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ تمہیں بھی بزنس کی سوجھ بوجھ ہوگی۔۔۔اُسماعیل صاحب محبت پاش نظروں سے تارا کو دیکھ کر بولے تو وہ مسکرائی

آپ خوش ہیں نہ کُنٹریکٹ سائن کروا کر لائی ہوں۔۔۔تارا عقیدت سے اُن کے ہاتھ چوم کر بولی

میں تو بھئ بہت خوش ہوں"اور اختر دیکھ لیا اپنی بھانجی کا کمال ایسا کچھ تو سومل یا حیات میں سے کوئی بھی نہ کرپاتا۔۔۔۔اُسماعیل صاحب کے لہجے میں بس تارا کے لیے محبت بول رہی تھی۔

بلکل ابو کیونکہ ہماری بیٹیاں اِس جیسی نہیں اور نہ ہم نے اُن کو چُھوٹ دی ہے۔۔۔اختر صاحب طنز لہجے میں بولے

اور نہیں تو کیا۔۔۔مُنیبہ بیگم نے بھی اپنا بولنا ضروری سمجھا

تم سب

آپ ٹھیک ہے اب اگر تو میں اپنے کمرے میں جاؤں گی اور آج سے آپ کی ساری میڈیسن وقت پر میں دیا کروں گی۔۔اُسماعیل صاحب اُن سے کچھ کہنے والے تھے جب تارا درمیان میں بول اُٹھی

رات کو تمہارے گھر آنے کا وقت ہوتا ہے کوئی؟مُنیبہ بیگم پھر سے بول پڑی

آپ کی بیٹی کی شادی قریب ہے میرے خیال سے آپ کو اُس کی تیاریوں میں مصروف ہونا چاہیے"میرا کیا ہے میں یہی ہوں میری جاسوسی بعد میں بھی ہوتی رہے گی۔۔۔۔۔تارا گردن ترشی کیے اُن کو دیکھ کر بولی

اگر ایسی زبان میری بیٹی کی ہوتی تو میں گدی سے زبان کھینچ لیتا اُس کی۔۔۔اصغر صاحب غُصے سے گویا ہوئے

اچھی بات ہے۔۔"نانا آپ اپنا بہت خیال رکھنا میں تھک گئ ہوں آرام کروں گی۔۔۔۔تارا سب کو جواب دیتی اُسماعیل صاحب سے بولی تو وہ محض اپنا سراثبات میں ہلا پائے۔۔۔۔۔

آپ بھی ریسٹ کرے۔۔۔تارا اُن سے کہتی کمرے سے باہر آئی تو موبائیل چیک کرتی ایک پل کو وہ چونکی

احناف کا میسج؟تارا نے پہلی بار احناف کے نمبر سے میسج دیکھا تو اُس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا


"آنے کا انداز تو ایسے بنایا ہوا تھا جیسے پوری دُنیا کو فتح کرکے آگئ ہو۔۔۔۔"


مگر جیسے ہی اُس کو احناف کی بات یاد آئی تو اُس کا موڈ بُری طرح سے خراب ہوگیا تھا۔

غلطی سے کرگیا ہوگا۔۔۔۔سرجھٹک کر وہ خود سے بڑبڑاتی اپنے کمرے کی طرف چلی گئ۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

ازلان تم فِری ہو؟حیات ازلان کے برابر بیٹھتی اُس سے پوچھنے لگی جو ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا نیوز دیکھنے میں مصروف تھا

ہاں میں فِری ہوں۔۔۔۔ازلان ٹی وی آف کرتا اُس کی طرف متوجہ ہوا

مارکیٹ جانا تھا مجھے تم چلو گے میرے ساتھ؟حیات نے پوچھا

احناف بزی ہے کیا؟ازلان نے پوچھا

احناف کا یہاں کیا ذکر؟حیات ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر بولی

مارکیٹ کے چکر تم زیادہ تر اُس کے ساتھ ہی لگایا کرتی ہو تبھی پوچھا۔۔ازلان کندھے اُچکاکر بولا

یا رائٹ مگر یار اُس کی برتھ ڈے کا گفٹ لینا تھا مجھے تو وہ اُس کے ساتھ تو نہیں لی سکتی تھی۔۔۔حیات نے آرام سے وجہ بیان کی

تم ریڈی ہوجاؤ پھر چلتے ہیں۔۔۔ازلان نے بس اِتنا کہا

اوکے تھینک یو سوچ مچ میں بس دو منٹ میں اپنا بیگ لیکر آئی۔۔۔۔حیات پرجوش لہجے میں کہتی اندر کی طرف بھاگی"ازلان بھی پورچ میں آیا تو لان میں بیٹھی تارا پر اُس کی نظر گئ جس کے کان میں ایئرپوڈز تھے اور ساتھ میں وہ کافی سے لطف اندروز ہورہی تھی۔

تارا؟ازلان چیئر گھسیٹ کر اُس کے پاس بیٹھا

جی؟تارا نے اپنے کان سے ایئرپوڈ نکالے

تم احن

ازلان چلیں؟ازلان اُس سے کچھ کہنے والا تھا جب حیات لان میں آئی

تم گاڑی میں بیٹھو میں آتا ہوں۔۔۔۔ازلان اُس کو دیکھ کر بولا

ابھی کیا مسئلہ ہے؟حیات نے ایک اچٹنی نظر تارا پر ڈالی جو کبھی اُس کو تو کبھی تارا کو دیکھ رہی تھی۔

"مجھے تارا سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔ازلان نے بتایا

یہ بات تمہیں پہلے یاد نہیں تھی اب جب میرا کام تم میں پڑا ہے تو تمہیں باتیں کرنا یاد آگیا ہے۔۔۔حیات طنز انداز میں اُس کو دیکھ کر بولی

کیا بات کرنی ہے آپ نے؟تارا حیات کو دیکھتی ازلان سے بولی

مجھے کل کے بارے میں پتا چلا بس اُس کے مطلق بات کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔ازلان نے بتایا

میں سن رہی ہوں۔۔۔۔تارا نے کہا

ازلان اگر تم نے نہیں آنا تو مجھے صاف صاف بتادو۔۔۔۔حیات ضبط سے بولی

بعد میں بات ہوگی۔۔۔۔ازلان تاسف سے حیات کو دیکھتا تارا سے بولی تو اُس نے شانے اُچکائے سراثبات میں ہلایا

آؤ۔۔۔۔حیات سے کہتا خود ازلان گیٹ کی طرف بڑھا

تم مردوں کو لُبھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے مت دینا۔۔۔۔حیات اُس کو گھور کر کہتی خود بھی ازلان کے پیچھے گئ جبکہ تارا عجیب نظروں سے اُس کی پشت کو دیکھنے لگی وہ سمجھ نہیں پائی یہ اچانک"حیات کو کس چیز کا دورہ پڑگیا ہے۔۔۔"یکایک اُس کے موبائل میں بپ ہوئی تو وہ اُس کی طرف متوجہ ہوئی


"آنکھیں پیاسی ہیں دیدار کی تیرے

توں ایک بار آکر اُن کی پیاس بُجھادے"


لائیف لائن سے آنے والا میسج پڑھ کر اُس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی

خیریت؟آج موڈ کافی شاعرانہ معلوم ہوتا ہے؟چہرے پر مسکراہٹ بِکھیرے تارا نے میسج سینڈ کیا


صرف تیرے تصور سے جی اُٹھتا ہوں

تُجھ سے سامنا ہوں تو جان سے جاؤں گا۔۔۔۔


جوابً میں پھر سے شعر عرض ہوا تو تارا کو اب عجیب سے فیلنگز آنے لگیں۔۔۔۔


دن میں جانے کتنی بار سامنا ہوتا ہے اگر ایسا کچھ ہے تو تم جان سے تو کبھی نہیں گئے۔۔۔۔سرجھٹک کر تارا نے میسج ٹائپ کیا جو فورن سین ہوگیا تھا


کوئی لمحہ ہو رہائی کا

کوئی دُنیا تیرے سِوا بھی ہو۔۔۔


اب کی یہ میسج پڑھ کر تارا کا پارہ ہائے ہوا تھا۔

اِنسانوں کی طرح اگر بات کرنی ہے تو کرو ورنہ میں نے بات نہیں کروں گی۔۔۔تارا نے گویا دھمکی دی


"ایک شہزادی ہے سرد مزاج کہانی میں

ایک شہزادہ ہے جو دل سے اُس پہ مرتا ہے"


میسج جگمگایا تو تارا نے گہری سانس لی مگر اِس بار واقعی میں اُس نے کوئی رسپانس نہیں کیا۔"مگر بار بار بپ ہونے پر اُس نے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر میسج کھولا جہاں اِس بار یہ تھا۔۔۔

سُنو۔۔۔

سُناؤ۔۔۔تارا نے مسیج سینڈ کیا اور اُس کے جواب کا انتظار کرنے لگی۔۔۔۔۔

I love You.

مسیج پڑھ کر تارا بے ساختہ مسکرائی

آج مجھ پر کچھ زیادہ پیار نہیں آرہا؟تارا نے پوچھ لیا

"تمہیں تو جب بھی دیکھوں پیار آتا ہے۔۔۔جواب فورن حاضر ہوا تھا

ریئلی؟تارا موبائیل اسکرین کو بس دیکھتی رہی

بلکل۔۔۔۔اُس کی طرف سے اُس کی چاہ مطابق جواب آیا تھا۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

مجھے مارکیٹ جانا ہے ہوسپٹل نہیں۔۔۔۔حیات نے سنجیدگی سے ایک ہاتھ سے ڈرائیونگ اور دوسرے ہاتھ سے موبائیل یوز کرتے ازلان کو دیکھ کر کہا

وہی جانے والے ہیں۔۔۔۔ازلان نے جوابً کہا

تو فون میں کیوں لگے ہوئے ہو؟حیات نے پوچھا

"بس یہ ای میلز امپورٹنٹ تھیں سینڈ کرنا۔۔۔۔ازلان اُس کو جواب دیتا اپنا سیل فون ڈیش بورڈ پر رکھا

تم احناف کو کیا گفٹ دینے والے ہو؟حیات نے اشتیاق سے پوچھا

احناف کو بچہ نہیں جس کو ہر سال سالگرہ پر تُحفہ دیا جائے اگر چچی نے پارٹی آرگنائز کی ہے تو بس اُس کو اٹینڈ کرینگے۔۔۔۔ازلان نے سنجیدگی سے جواب دیا

سیریسلی ازلان؟ حیات کو اُس کی بات ہضم نہیں ہوئی

گھڑی گفٹ کروں گا میں اُس کو۔۔۔۔ازلان نے بلآخر بتایا

خرید لی ہے؟حیات نے نیا سوال داغا

کل تک خرید لوں گا۔۔۔ازلان نے کہا تو حیات نے سمجھنے والے انداز میں سر کو جنبش دی

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

تارا تم یہاں بیٹھی ہو کیا تم نہیں جاؤ گی ساتھ؟اگلے روز انعم بیگم نے تارا کو اپنے رف حُلیے میں ہال میں لیپ ٹاپ گود میں لیے بیٹھا پایا تو سوال کیا

آپ لوگ کہاں جانے والے ہیں؟تارا نے سب کی تیاریوں کو دیکھ کر پوچھا

تارا کس دُنیا میں رہتی ہو بیٹا آج احناف کی برتھ ڈے ہے ینگ جنریشن وہی جانے میں لگی ہوئی ہے"اُٹھو اور تم بھی تیار ہوجاؤ۔۔۔۔انعم بیگم اُس کے ریشمی بال سنوار کر بولی

میں میسج پر وِش کرلوں گی اُس کو۔۔۔تارا نے بس اِتنا کہا

ساتھ چلتی تو اچھا تھا۔۔۔ارسلان اُس کے کچھ فاصلے پر بیٹھا

مجھے ضروری کام ہے۔۔۔۔تارا نے بہانا بنایا

کونسا کام؟فضا اُس کی طرف سائیڈ پر بیٹھی

آج پھر کوئی اور شوٹ ہوگا۔۔۔۔مومل نے اندازہ لگایا"تارا بس باری باری اُن کو دیکھتی وہاں سے اُٹھ گئ

Happy birthday darling.

حیات احناف سے ملتی شوخ لہجے میں بولی

Thank you.

احناف اُس کو گھور کر شکریہ ادا کرنے لگا

کیسی لگ رہی ہوں میں؟حیات نے اپنی طرف اُس کو متوجہ کیا

بیوٹیفل۔۔۔۔احناف مسکراکر اُس کو دیکھ کر بولا جو اسکن کلر کے گھٹنوں تک آتے فراق اور پاجامے میں ملبوس تھی ڈوپٹہ ایک کندھے پر ڈالا ہوا اور بالوں کو کُھلا چھوڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔"جس سے وہ واقعی میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔

تارا کو ساتھ نہیں لائے؟بینش بیگم کو تارا نظر نہیں آئی تو پوچھا تو احناف کی توجہ بھی وہاں گئ تارا کی طرف

اُس کو ضروری کام تھا۔۔۔۔حیات نے بتایا

کزن کی سالگرہ تھی آجاتی تو اچھا تھا۔۔۔۔بینش بیگم گہری سانس بھر کر بولی تو حیات کو اُن کی بات پسند نہیں آئی

تمہارا گِفٹ ۔۔۔۔حیات نے کچھ دیر بعد ایک بڑا سا پیکٹ اُس کی طرف بڑھایا

تھینک یو مگر اِس میں کیا ہے؟احناف نے ہنس کر پوچھا

ہے بس کیک کٹ ہونے کے بعد خود سے دیکھ لینا۔۔۔حیات نے شانے اُچکاکر کہا

تار آگئ۔۔۔

اچانک کسی نے اُونچی آواز میں کہا تو احناف نے چونک کر داخلی دروازے کی جانب دیکھا جہاں فُل بلیک ڈریس میں ملبوس تارا آہستہ آہستہ قدم اُٹھا کر داخل ہورہی تھی اُس کو آتا دیکھ کر ہر کوئی حیران ہوا تھا۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

Happy birthday czn.

تارا سب کو اگنور کرتی سیدھا احناف کے روبرو کھڑی ہوتی اُس کی طرف گفٹ بڑھاکر بولی تو احناف کی حیرت میں اضافہ ہوا

تمہیں تو ضروری کام تھا؟احناف کے پاس کھڑی حیات نے طنز نظروں سے تارا کو دیکھا

یہ بھی ضروری کام ہے میرے کزن کی سالگرہ کا دن تو کیسے ممکن ہے میں مس کروں؟تارا اُس کو دیکھ کر پرسکون لہجے میں بولی

تمہارا آنا اور نہ آنا ہمارے لیے ایک جیسا ہے"اور تم ہر سال نہیں آتی جو ایسا بول رہی ہو۔۔۔حیات نے جتایا

"مگر میں تو تم لوگوں کے نہیں آئی میں تو احناف کے لیے آئی ہوں۔۔۔تارا احناف کو دیکھتی حیات سے بولی

اچھا کیا جو تم آئی تم سب لوگ انجوائے کرو میں اپنے کمرے میں جاؤں گی۔۔۔۔بینش بیگم سب پر نظر ڈال کر کہتیں اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئ۔۔۔

تھینک یو۔۔۔۔احناف سرجھٹک کر اُس کا شکریہ ادا کرنے لگا

تھینکس کس لیے؟تارا کو سمجھ نہیں آیا

اِس تُحفے کے لیے۔۔۔احناف نے اپنا ہاتھ اُس کے سامنے لہرایا جہاں اُس کا دیا گیا گِفٹ تھا

کوئی بڑی بات نہیں۔۔۔۔تارا عام لہجے میں بولی

اگر تمہیں آنا تھا تو ہمارے ساتھ آجاتی۔۔۔سومل بھی وہاں آئی

میں نے یہاں آنے کا پروگرام اچانک بنایا تھا۔۔۔۔تارا نے بتایا

تم بہت سالوں بعد یہاں آئی ہوں۔۔۔۔سُلطان تارا کو دیکھ کر بولا

یہ پہلی بار یہاں آئی ہے۔۔۔احناف اپنے بڑے بھائی کی بات کے جواب میں بولا تو تارا خاموشی سے اُن کو دیکھتی کارنر میں موجود ایک ٹیبل پر اکیلے بیٹھ گئ۔۔

"تم اِتنی اٹینشن سیکر کیوں ہو؟مومل بھی اُس کے برابر آ کر بیٹھی

تمہیں یہ کیوں لگا؟تارا نے چونک کر اُس کو دیکھا

تم اِتنا تیار ہوکر آئی ہو،تمہاری اٹینشن یہی ہوگی نہ کہ احناف یا کوئی اور تم میں انٹرسٹ لے کیونکہ ہمارا بھائی تو ویسے بھی تمہارا پکا والا حمایتی ہے۔۔۔۔مومل نے اُس کو دیکھ کر تیکھی لہجے میں کہا

مجھے کسی کی اٹینشن کی ضرورت نہیں اور نہ مجھے ایسا کوئی شوق ہے جو ایسی چیپ حرکت کرتی پِھیروں زندگی میں اِن چیزوں کے علاوہ بھی میرے پاس بہت سے کام ہیں۔۔۔۔تارا نے جتاتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر بہت کچھ باور کروایا تھا۔۔۔۔

مومل آؤ کیک کٹ ہونے کا وقت ہوگیا ہے۔۔۔۔سومل اور حیات مومل کے پاس آکر بولیں جبکہ تارا کو دونوں نے سِرے سے نظرانداز کیا تھا

اِف یو ڈونٹ مائینڈ میں تم سے ایک سوال پوچھوں؟مومل اُٹھنے لگی تو تارا نے حیات کو مُخاطب کیا

پوچھو۔۔۔۔حیات نے جیسے احسان کیا

تمہارے فیانسی کا برتھ ڈے رات کو بارہ بجے تھا اور تم یہاں سب کے ساتھ مل کر بورنگ انداز میں سیلیبریٹ کررہی ہو،کیا تمہیں نہیں لگتا تمہیں پرسنلی اُس کو سرپرائز دینا چاہیے تھا ناکہ غیروں کی طرح اُس کی سالگرہ میں بس ایویں شرکت کرنا چاہیے تھا۔۔۔تارا اُس کو دیکھ کر سرسری لہجے میں بولی جس پر حیات نے کڑے چتونوں سے اُس کو گھورا تھا

یہ میرا اور میرے فیانسے احناف کا آپسی معاملہ ہے میں اُس کو کہاں؟کس انداز میں"سالگرہ وِش کرتی ہوں یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے اِس لیے دوبارہ مجھ پر ایسا طنز مت کرنا۔۔۔۔حیات نے اُس کو وارن کیا

ویل میں نے تو جسٹ ایک بات کہی تو تم اِتنا دل پر کیوں لے رہی ہو؟"بہت بولتی ہو نہ اپنے اور احناف کے بارے میں اور اپنے ریلیشن پر تمہیں ناز بھی بہت ہے تو میں نے سوچا مطلب جسٹ میری یہ تھینکنگ تھی کہ تم نے تو پوری رات اُس کے ساتھ گُزاری ہوگی اُس کی سالگرہ کا ڈے خوبصورت بنانے کے لیے۔۔۔۔تارا نے ہاتھ کھڑے کیے ہنوز سادہ لہجے میں کہا

ہمیں اپنی حدود پتا ہے۔۔۔حیات نے جتایا

اوو ریئلی؟تمہیں تمہاری حدود پتا ہے تو یہ ساری باتیں تمہارے مائینڈ سے تب آؤٹ کیوں ہوجاتیں ہیں جب تم اُس کے گلے کا ہار بنتی ہوں یا بے باک انداز میں اُس کے گال چومتی ہو تو؟تارا نے میٹھا سا طنز کیا تو حیات کی رنگت پل بھر میں سرخ ہوئی تھی

حیات رلیکس تم اِس کی باتوں کو سر پر سوار نہ کرو آج تمہارا دن ہے اور یہ بس اُس کو اسپوئل کرنا چاہتی ہے۔۔۔۔سومل نے اُس کو غُصے میں دیکھا تو پرسکون کرنے کی خاطر کہا

دیکھو تارا میں کیا کرتی ہوں اور کیا نہیں یہ تمہارا سر درد نہیں اِس لیے دوبارہ مجھے آئینہ دیکھانے سے پہلے وہاں اپنا عکس دیکھنا"میں چُپ ہوں تو مجھے چُپ رہنے دو۔۔۔۔حیات نے چبا چبا کر لفظ ادا کیے کہا

جاؤ کیک کٹ کا وقت ہورہا ہے۔۔۔تارا نے جیسے اُس کی بات سُنی ہی نہیں

لیٹس گو۔۔۔۔۔حیات ایک اچٹنی نظر اُس پر ڈالے اُن دونوں سے بول کر وہاں رُکی نہیں تھی۔۔۔۔


"تم یہاں کیوں بیٹھی ہو؟ازلان تارا کے پاس آیا

مجھے مزہ نہیں آرہا میں نہیں تھی آنے والی تھی بس نانا جان کی وجہ سے آئی۔۔۔۔تارا اُس کو دیکھ کر بولی

کیک کٹ ہونے والا ہے چلو اگر یہاں تک آگئ ہو تو وہاں تک بھی چلنا چاہیے تمہیں۔۔۔ازلان اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے گویا ہوا

اُن کو مجھ سے مسئلے بہت ہیں"میں یہی ٹھیک ہوں۔۔۔تارا نے سرجھٹک کر کہا

احناف شاید تمہارا انتظار کررہا ہے۔۔۔۔ازلان سامنے احناف کو دیکھ کر اُس سے بولا تو تارا چونک کر سامنے دیکھنے لگی جہاں احناف کے ہاتھ میں نائیف تھی اور وہ بڑی توجہ سے اپنے کان کے پاس جُھکی حیات کی کوئی بات سُن رہا تھا یہ دیکھ کر"تارا کو کچھ یاد آگیا تھا۔۔۔

آج میری سالگرہ ہے اور تم یہاں بیٹھی ہوں۔۔۔۔۔سترہ سالہ احناف چودہ سالہ تارا کے پاس بیٹھ کر بولا تو اُس کو اچانک قریب دیکھ کر تارا نے جلدی سے اپنی ڈائری کو چُھپایا تھا۔"یہ اُن دونوں کی بات تھی جب تارا نیولی پاکستان آئی تھی اور زیادہ تر اکیلا ہی رہتی تھی کسی سے اُس کی بات چیت وغیرہ نہیں ہوتی تھی

آپ کی سالگرہ سے میرا کوئی لینا دینا نہیں۔۔۔تارا روکھے لہجے میں بولی

میں جانتا ہوں تم ہم سب کو لائیک نہیں کرتی پر کیا آج تم سب کچھ بُھلا کر اندر آسکتی ہو پلیز؟احناف غور سے اُس کو دیکھ کر بولا تو تارا نے بھی نظریں اُٹھائے اُس کی طرف دیکھا جس کے انداز میں عاجزی تھی

میرا آپ کی سالگرہ میں ہونا یا نہ ہونا ایک برابر ہے وہاں اندر آپ کے سارے کزنز موجود ہیں میرا نہیں خیال وہاں آپ کو میری کمی محسوس ہوگی۔۔۔تارا اُس سے نظریں ہٹاتی بولی

کمی محسوس نہ ہوتی تو یہاں لان میں تمہیں تلاش کرتا ہوا نہ آتا۔۔۔۔احناف ہلکی مسکراہٹ سے بولا

آپ کو مجھ سے ایسے بات کرنے کی ضرورت نہیں میں خود کو اکیلا فیل نہیں کرتی کیونکہ میں جانتی ہوں اِس دُنیا میں اللہ کے سِوا میرے نانا میرے پاس ہیں۔۔۔۔تارا اپنے ہاتھوں کی اُنگلیوں سے کھیلتی اُس سے بولی

ایک بات کہوں؟احناف نے پہلے اِجازت چاہی

جی؟

تم پر یہ سنجیدگی سوٹ نہیں کرتی اور نہ تمہاری نیلی آنکھوں میں ہر وقت اُداسی والا تاثر اچھا لگتا ہے میں جانتا ہوں تم نے اپنے قریبی رشتوں کو کھویا ہے تمہارا دُکھ بڑا ہے مگر اب تمہیں موو آن کرنا چاہیے آخر کب تک تم پورے گھر میں تنہا گوشا تلاش کرو گی بیٹھنے کے لیے؟"میں آج یہاں آیا تھا تو بس تمہارے لیے تاکہ مل کر پارٹی کرے میں جانتا تھا تو ہمارے یہاں نہیں آؤں گی۔۔۔۔۔احناف نے اُس کا خوبصورت ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے کہا

مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا میں بس یہاں اپنے نانا کی وجہ سے ہوں ورنہ مجھے وحشت ہوتی ہے یہاں۔۔۔۔تارا عجیب نظروں سے اپنے اطراف دیکھ کر بولی تو اِس بار احناف مسکرایا

وحشت لفظ کی معنٰی پتا ہے تمہیں؟احناف کے لہجے میؓ شرارت تھی۔

جی پتا ہے"جب آپ سانس لینا چاہو پر سانس لینے وقت آپ کو حبس کا احساس ہو تو اُس کو وحشت کہتے ہیں"آپ کُھل کر جینا چاہو مگر آس پاس کی درو دیواریں آپ کو کاٹ کھانے لگ جائے تو اِس کو وحشت کہتے ہیں سب کچھ ہونے کے باوجود اگر آپ کا دل کسی ایک چیز میں بھی نہ لگے تو اُس کو وحشت کہتے ہیں"آپ اُس دوہراے پر نہیں جہاں میں ہوں میری محسوسات سے آپ بلکل لاعلم ہیں اِس لیے آپ کو نہیں پتا کہ مجھے کیا کچھ پتا ہے اور میرے خیال سے اِن چیزوں کو حقیقتاً "وحشت"کا نام دیا جاتا ہے پر آپ چاہے تو مجھے غلط قرار کرسکتے ہیں۔۔۔۔تارا گہرے سنجیدگی سے بولی تو احناف بس اُس کو دیکھتا رہ گیا اُس کو یقین نہیں آیا کہ سامنے بیٹھی چھوٹی لڑکی اُس سے ایسی باتیں بھی کرسکتی ہیں۔۔۔۔

نین تم بہت اسپیشل ہو۔۔۔۔احناف نے اُس کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کا دباؤ بڑھایا

اسپیشل اور میں؟تارا حیرت سے اپنی آنکھوں کو بڑا کیے احناف کو دیکھنے لگی۔

ہاں بلکل۔۔۔۔احناف نے سرہلایا

کیسے؟تارا نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھا اُس کی آنکھوں میں الجھن اور یکے دیگر کئ سوالات آئے تھے۔

اللہ کے سامنے جو اسپیشل ہوتا ہے وہ اُس کو آزماتا ہے اُس کی پیاری چیزوں کو لیکر۔۔۔۔۔احناف نے کہا تو تارا خاموش رہی

کیا ہوا؟احناف کو اُس کی خاموشی سمجھ نہیں آئی

اسپیشل لوگوں کی تو ہر چیز کا خیال رکھنا پڑتا ہے کوئی اپنی اسپیشل لوگوں کو تکلیف کیسے دے سکتا ہے؟تارا بس اِتنا بولی

وہ مالک ہے جو چاہے کرسکتا ہے مگر تم ایک بات یاد رکھنا وہ ہم سب سے بے انتہا محبت کرتا ہے"اور ہاں تم یہاں اگر یہاں چچی جان کی کسی بات کی وجہ سے ہو تو اُن کو اگنور کیا کرو سیڈ مت ہوا کرو۔۔۔احناف نے نرمی سے اُس کو سمجھایا

میں چچی کی کسی بات پر خفا یا سیڈ نہیں ہوتی۔۔۔۔تارا نے بتایا

کتنی مرتبہ بولا ہے چچی نہیں مامی بولا کرو۔۔۔احناف نے اُس کو ٹوکا

آپ اور ازلان باقی سب بھی تو چچی کہتے ہو میں نہ بول دیا تو کیا ہوا۔۔۔تارا نے سرجھٹکا

وہ اِس لیے کہ ہماری چچی ہیں مگر وہ تمہاری مامی ہیں یعنی تمہارے ماما جان کی بیوی اور تمہاری امی کی بھابھی۔۔۔۔۔احناف نے اُس کو سمجھایا

میں اُنہیں چچی ہی کہوں گی آسان یہی لگتا ہے"ویسے بھی اُن کو میں کچھ بھی کہوں کونسا اُن کو فرق پڑتا ہے۔۔تارا اپنی بات پر قائم تھی۔۔۔۔۔

اچھا چھوڑو یہ باتیں اور چلو میں نے کیک کٹ کرنا ہے سب انتظار میں ہیں۔۔۔۔احناف نے باتوں کا رُخ بدلا

میں نہیں آؤں گی آپ پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دے۔۔۔تارا کو چڑ ہونے لگی۔

نین ضد نہیں کرو آؤ تمہارے بغیر میں کیک نہیں کاٹنے والا۔۔۔وہ بضد تھی تو احناف بھی اپنی جگہ ضد پر اڑ گیا جس پر تارا نے تھکی ہوئی سانس خارج کی

آپ نے میری بہت سی مدد کی ہے تبھی میں آج آپ کی بات مان رہی ہوں۔۔۔۔تارا اُٹھ کر اُس سے بولی

تمہارا بہت شکریہ۔۔۔۔احناف اُس کی بات سن کر مُسکرایا

ویسے کیا سچ میں آپ کیک نہ کاٹتے؟تارا اُس کے ساتھ چلتی تجسس سے پوچھنے لگی

بلکل یہاں منانے کا ریزن ہی تم تھی پھر اگر تم نہ آتی تو کیک کٹ کرنے کا کیا فائدہ؟احناف شانے اُچکاکر عام انداز میں بولا

کِن کے خیالوں میں گُم ہو؟احناف کی آواز سن کر تارا چونک کر خیالوں کی دُنیا میں واپس لوٹ آئی اور اپنی آنکھیں جھبپکیں آس پاس دیکھنے لگی جہاں ہر کوئی آپس میں باتوں میں مگن تھا اور اُس کے ساتھ ازلان نہیں بلکہ احناف کھڑا تھا ہاتھ میں کیک پکڑے"ازلان جانے کب کا جاچُکا تھا جس کی اُس کو خبر تک نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔

کسی کے بھی نہیں۔۔۔۔تارا نے خود کو کمپوز کیا

تم نہیں آئی سوچا یہی دے آؤں۔۔۔احناف نے کیک اُس کی طرف بڑھائے کہا

کیک کٹ ہوگیا؟تارا کو جانے کیوں حیرت ہوئی

ہاں ہوگیا تمہیں پتا نہیں چلا شاید تم سم ون اسپیشل کے خیالوں میں تھی۔۔۔احناف اُس کو دیکھ کر طنز لہجے میں بولا

میں کسی سم ون اسپیشل کے خیالوں میں نہیں تھی۔۔۔تارا نے اُس کو گھورا

اُپسسس پھر تو یقیناً میرے بارے میں سوچ رہی ہوگی۔۔۔احناف نے اندھیرے میں تیر پھینکا

خوشفہمی اچھی چیز ہے اگر ایک حد تک رکھی جائے تو۔۔۔۔اپنی چوری پکڑے جانے پر تارا نے مشکل سے خود کو سنبھالا

میں آج تم سے بحث نہیں کرنا چاہتا یہ پکڑو بس تم۔۔۔۔احناف نے مسکراکر کیک اُس کی طرف بڑھایا

میں یہ کیک نہیں کھاتی۔۔۔تارا بنا ایک نظر کیک پر ڈالے بولے

اوو مگر اب تو یہی ہے کیونکہ میرا فیورٹ کیک ہے تو میں کھاؤ گی تو اچھا لگے گا۔۔احناف مصنوعی افسوس سے بولا

مجھے نہیں کھانا اور مجھے گھر جانا چاہیے اب۔۔۔۔تارا سنجیدگی سے کہتی اپنا سیل فون اُٹھائے جانے لگی۔۔

یار کیا مسئلہ ہے تمہارا کیک کھاؤ سب نے انجوائے کیا ہے تمہیں بھی انجوائے کرنا چاہیے۔۔۔۔احناف اُس کے راستے کی دیوار بنا

مجھے جو چیز پسند نہیں ہوتی وہ نہیں ہوتی۔۔۔تارا نے اُس کو گھورا جس نے اُس کے جانے کے راستے مسدود کرلیے تھے بنا کسی بھی انسان کا خیال کیے

چھوٹا سا پیس کھانے میں کیا جائے گا تمہارا۔۔۔۔احناف نے کیک کا ایک پیس اُس کے ہونٹوں کے بیحد قریب کیا مگر تارا نے اپنا منہ نہیں کھولا جس پر احناف نے کیک کا وہی ٹکڑا اپنے منہ میں ڈالا جس پر تارا نے کاٹ کھاتی نظروں سے اُس کو دیکھا تھا۔

یمی بہت ٹیسٹی تھا ایک مرتبہ تمہیں بھی ٹرائے کرنا چاہیے۔۔۔۔۔احناف زچ کرتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولا تو اپنا منہ صاف کرتی تارا اپنے ہاتھ کی پشت زور سے اُس کے کندھے پر مار اُس کے برابر سے گُزرگئ جبکہ اُس کا تپا ہوا انداز احناف کو مزہ دے گیا تھا۔۔۔

"کیا ہورہا تھا یہاں؟حیات احناف کے پاس آتی مسکراکر بولی

کچھ نہیں تم بتاؤ کیک کھایا؟احناف نے جواباً مسکراکر کہا

ہاں میں نے کھایا پر لگتا ہے آج تمہیں کیک زیادہ پسند آگیا ہے۔۔۔حیات کا اِشارہ اُس کے ہاتھ کی طرف تھا۔

نہیں یہ تو میں ایٹیٹیوڈ گرل کے لیے لایا تھا جس نے کھانے سے صاف انکار کردیا۔۔۔احناف سرجھٹک کر بولا

تارا نام ہے اُس کا۔۔۔۔۔حیات نے بتایا

آئے نو۔۔۔۔احناف نے اُس کو دیکھ کر کہا

تم اُس کا نام نہیں لیتے تو مجھے لگا شاید تم بھول گئے ہو اُس کا نام۔۔۔۔حیات اُس کے ہاتھ میں موجود کیک کو لیکر بولی

ایسا بھی نہیں اب۔۔۔۔احناف نے کہا

ایس

حیات کچھ کہنے والی تھی جب اچانک آس پاش ہلچل مچ گئ تو سب کا دھیان اُس کی طرف گیا۔

جہاں یہ لڑکی ہو وہاں سکون کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔حیات نے تارا کو کسی لڑکے کے ساتھ بحث کرتا دیکھا تو کوفت سے بڑبڑائی تھی مگر احناف کے تاثرات یکدم تن گئے تھے۔۔۔"تبھی لمبے لمبے ڈُگ بھرتا اُن کی طرف آیا

"کیا ہورہا ہے؟احناف اُن دونوں کے پاس کھڑا ہوا

کچھ نہیں یار میں بس اِن کو ڈیٹ کی آفر کررہا تھا۔۔۔۔ایک لڑکا تارا پہ نظریں جمائے بولا تو احناف کے ماتھے پر بلوں کا جال بِچھ گیا تھا۔۔۔۔"جبکہ تارا سخت ناگواری سے اُس کو دیکھ رہی تھی

اگر بکواس ہوگئ ہو تو سائیڈ پہ ہوجاؤ۔۔۔تارا نے غُصے سے کہا

ارے آپ

آآہ آہ

وہ تارا کے کندھے پر ہاتھ رکھتا کچھ کہنے والا تھا جب احناف درمیان میں اُس کا ہاتھ روک کر مڑور چُکا تھا جس پر اُس لڑکے کے منہ سے چیخ بے ساختہ نکلی تھی۔۔۔

"پارٹی میں موجود ہر کوئی چہ مگوئیاں کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کو دیکھ رہے تھے"

تمہاری میں جان لے لوں گا سالے۔۔۔۔

احناف ہوش کرو کچھ کررہے ہو تم۔۔۔۔احناف دوبارہ اُس لڑکے کو مارنے کے لیے بڑھنے والا تھا جب حیات نے جلدی س اُس کو روکا

تارا آر یو اوکے؟ازلان شاک میں کھڑی تارا کے پاس آیا

ہاں۔۔۔میں. ٹھیک ہوں۔۔۔ٹھیک ہوں میں۔۔۔تارا جیسے نیند سے جاگی

تمہیں گھر جانا چاہیے۔۔۔۔۔ازلان کو وہ ٹھیک نہیں لگی۔


"حیات تم درمیان میں مت آؤ تمہیں نہیں پتا اِس نے کیا بکواس کی ہے۔۔۔۔احناف کا غُصے سے بُرا حال ہوا تھا۔

ہمارے گیسٹ ہیں احناف تم اپنے کمرے میں چلو۔۔۔ حیات نے زبردستی اُس کو اپنے ساتھ گھسیٹا


"میں گھر جانے والی تھی جب سیم راستے میں آیا۔۔۔۔اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتی تارا نے جواب دیا

میں بھی گھر جانے والا ہوں آؤ تم بھی۔۔۔ازلان نے کہا تو اُس نے سراثبات میں ہلایا


آؤ بیٹھو اور پانی کا گلاس پیو۔۔۔۔حیات اُس کو کمرے میں لاتی بیڈ پر بیٹھاکر بولی تو احناف نے اپنا سرجھٹکا

تمہارا غُصہ بہت خراب ہے احناف کبھی کبھی آتا ہے مگر سانس خشک ہوجاتا ہے ہمارا۔۔۔۔حیات پانی کا گلاس اُس کے ہاتھ میں دیتی برابر بیٹھ گئ۔۔۔

وہ شخص ہمارے گھر میں کھڑا ہمارے خاندان کی عزت میں ہاتھ ڈالنے والا تھا۔۔۔احناف تنے ہوئے تاثرات سے بولا

ایسے واقعات بس تارا کے ساتھ ہوتے ہیں احناف کیونکہ وہ جس فیلڈ میں ہے وہاں لڑکیوں کو عزت نہیں ملتی۔۔۔حیات نے کہا تو احناف نے لب بھینچ لیے

میں دادا سے بات کروں گا۔۔۔۔احناف نے کہا تو حیات چونک کر اُس کو دیکھنے لگی

کیا کہو گے تم؟حیات نے پوچھا

یہی کے اپنی نواسی کو گھر میں بیٹھائے۔۔۔احناف اپنے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیے بولا

کم آن احناف تمہیں لگتا ہے دادا جان تمہاری بات سن لے گے؟حیات کا لہجہ تمسخرانہ تھا

اُن کو بس سُننا نہیں بلکہ ماننا بھی ہوگا۔۔۔احناف کا لہجہ مضبوط تھا۔۔۔"حیات بھی جواب میں کچھ کہنے والی تھی جب اُس کی نظر ڈریسنگ ٹیبل پر گئ جہاں تارا کا احناف کو دیا گیا گِفٹ پڑا تھا اور باقی تحائف کمرے میں موجود ایک ساتھ صوفے پر پڑے تھے"جس میں اُس کا دیا گیا گفٹ بھی شامل تھا۔

یہاں میرا تحفہ ہونا چاہیے تھا۔۔۔۔۔حیات نے کہا تو احناف نے اُس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا

تسلیم"(میڈ")کو سارے تحائف دیئے تھے کہ وہ رکھ آئے۔۔۔۔احناف بالوں میں ہاتھ پھیر کر بولا

چیک کروں کیا ہے اِس میں۔۔۔حیات کسی خیال کے تحت تارا کا پیک شدہ گفٹ اُٹھایا اور اُس کو کھولنے لگی۔۔۔

پرفیوم؟گِفٹ کھول کر حیات حیران ہوئی

حیران کیوں ہورہی ہو اِتنا؟پرفیوم ہے تاج محل کے کاغذات نہیں۔۔۔۔احناف کو اُس کا حیران ہونا سمجھ نہیں آیا تبھی بولا

یہ تمہارا فیورٹ پرفیوم ہے جو بہت ایکسپینسو ہوتا ہے اور تمہیں پتا ہے میں خود تمہیں یہ دینا چاہتی تھی مگر یہ مجھے نہیں ملا۔۔۔۔حیات واپس بیڈ پر آتی اُس کو بتانے لگی"احناف کے آخری الفاظ جبکہ اُس نے اگنور کیے تھے۔۔۔

تم اپنا گفٹ لاؤ دیکھوں تو سہی اُس میں کیا ہے؟احناف نے مسکراکر کہا

لاتی ہوں مگر یہ تم استعمال نہ کرنا۔۔۔حیات نے پرفیوم کی طرف اِشارہ کیا

کیوں؟

کیونکہ تمہاری ہونے والی بیوی بول رہی ہے ایسا تو بس "کیوں"کی گُنجائش نہیں نکلتی۔۔۔حیات اِتراکر بولی

اچھا اب تم اپنا گفٹ تو لاؤ۔۔۔۔احناف مسکراکر بولا تو حیات بھاگ کر اپنا گفٹ صوفے سے اُٹھانے لگی اور وہ ہاتھ میں لیے احناف کے طرف آکر اُس کے کندھے پر سر رکھ کر بیٹھ گئ جبکہ احناف اُس کا گفٹ کھولنے لگا۔

❤❤❤❤❤❤❤

واہ۔۔۔۔احناف نے حیات کے پیک شُدہ گِفٹ کا کور کُھولا تھا اُس کے فیورٹ رِنگ کی ٹی شرٹ کے ساتھ ایک کافی کا کپ تھا جس میں"حیات"نام لکھا ہوا تھا اور ساتھ میں فریم بھی تھا جس میں اُن دونوں کی بچپن سے لیکر آج تک کی کئ تصاویریں اُس میں چسپاں تھی جس کو دیکھ کر احناف مسکرایا تھا۔

پسند آیا تمہیں؟حیات نے متجسس لہجے میں اُس سے پوچھا

ہاں بہت خوبصورت ہے یہ۔۔۔۔احناف نے مسکراکر تعریفی انداز میں کہا

میں تو بس یہ دعا کررہی تھی کہ میرا دیا گیا گِفٹ ہر ایک سے الگ اور اسپیشل ہو۔۔۔حیات فضا میں گہری سانس چھوڑ کر بولی

تمہارا تحفہ واقع میں بہت اسپیشل ہے اِس میں ایسی پکچرز بھی ہیں جو واقعات میں سِرے سے بھول چُکا ہوں تم نے تو بچپن کی یادیں تازہ کردی۔۔۔احناف نے کسی ٹرانس کی کیفیت میں کہا تو حیات کے چہرے پر گہری مسکراہٹ نے احاطہ کیا

میں جانتی تھی تمہارے پاس اِن میں سے زیادہ تصویریں نہیں ہوگی مگر پتا ہے کیا میرے پاس تم سے وابستہ ہوئی ہر چیز موجود ہے میں نے اُس کو بہت چاہ سے سنبھال کر رکھا ہے اور ہمیشہ سنبھال کر رکھوں گی۔۔۔۔حیات اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر بولی تو احناف بس اُس کو دیکھتا رہ گیا

ایک بات پوچھوں؟احناف نے اُس کو دیکھ کر کہا

ہزار پوچھو۔۔۔۔حیات نے کُھلے دل سے اجازت دی

تم مجھ سے اِتنی محبت کیوں کرتی ہو؟"مجھ میں ایسا بھی کیا ہے جو تمہارا دل مجھ پر آیا۔۔۔احناف کے لہجے میں اُلجھن تھی جس کو محسوس کرتی حیات بے ساختہ مسکرائی

محبتیں بے وجہ ہوتیں ہیں مجھے تم سے بہت پیار ہے کیونکہ مجھے میری زندگی میں ایک جنونی اور پوزیسیو مرد چاہیے تھا"تمہیں پتا ہے احناف جب تم سترہ سال کے تھے اور تارا کو کسی نے ہراس کرنا چاہا تو تم نے اُن لوگوں کا حشر نشر کردیا تھا تب سے میں تارا کی جگہ خود کو امیجن کرتی ہوں کہ اگر تم اُس کے لیے اِتنا پاگل ہوسکتے ہو تو میرے لیے کتنا ہوگے۔۔۔؟میں تو تمہاری دوست ہوں اور جیون ساتھی بننے والی ہوں۔۔۔ حیات مسکراکر کہتی اُس کے گلے لگی تو احناف چُپ رہا شاید اُس کے پاس کچھ بولنے کے لیے نہیں تھا

اچھا سُنو۔۔۔۔حیات نے اپنا سر اُس کے سینے سے اُٹھایا

ہمم کہو؟احناف نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا

آج ڈنر باہر کرے اور ڈنر کے بعد لونگ ڈرائیو پر بھی؟حیات نے پرجوش لہجے میں کہا

آج؟احناف نے پریشانی سے اُس کو دیکھا

ہاں آج کیوں کیا کچھ مسئلہ ہے؟حیات نے اُس کو دیکھا

میں کچھ اچھا فیل نہیں کررہا آرام کرنا چاہتا ہوں"ڈنر اور لونگ ڈرائیو کا پلان ہم کسی اور دن کرتے ہیں۔۔۔۔احناف نے کہا

اچھا چلو کوئی بات نہیں۔۔۔حیات نے اُس کی حالت کے پیش نظر کوئی بحث نہیں کی جس پر احناف نے سر کو جنبش دی

❤❤❤❤❤❤

تارا گھر آنے کے بعد سیدھا اپنے کمرے میں آئی تھی جہاں اندھیرے نے اُس کا استقبال کیا تھا بس ایک زیرو بلب تھا جو روشن تھا"اور اِس وقت اُس کو جتنی تھکاوٹ محسوس ہورہی تھی اُس نے ہنوز ویسے ہی جیسی اپنی حالت تھی بیڈ پر بے سُدھ لیٹ گئ تھی"جب اُس کو اچانک احساس ہوا کے کمرے میں اُس کے علاوہ بھی کوئی تھا جو اب اُس کے پاؤں کے پاس جُھکا اُس کے سینڈل کی اسٹریپ کھول کر اُتار رہا تھا۔۔۔یہ دیکھ کر تارا نے اپنا پاؤں کھینچنا چاہا مگر اُس شخص نے کوشش کو ناکام بنادیا جبھی تارا نے بھی مزید بحث نہیں کی اور کروٹ کے بل لیٹ گئ۔۔۔"کچھ ہی وقت میں تارا کو اپنا آپ اُس کے حصار میں محسوس ہوا تو وہ اُس کی طرف کروٹ لیتی پیچھے کی جانب اُس کو دھکیلنے لگی تو جواب میں وہ شخص اُس کے دونوں ہاتھوں کو اپنی قید میں لے گیا۔۔۔"کتنا ہی وقت وہ دونوں آپس میں خاموشی کی لڑائی لڑتے رہے جس پر آخر تنگ ہوکر تارا نے زیرو بلب کی روشنی میں اُس کو گھورا

چھوڑو مجھے اور جاؤ یہاں سے۔۔۔۔تارا کے لہجے میں آج جھنجھلاہٹ صاف محسوس کی جاسکتی تھی

آج نہیں۔۔۔وہ اُس کے کان کے پاس سرگوشنی نما آواز میں بولا تو تارا کو اُس کے اِرادے ٹھیک نہیں لگے

میں تھکی ہوئی ہوں مجھے سونا ہے تم پلیز جاؤ یہاں سے۔۔۔۔تارا نے بیزاری کا مُظاہرہ کیا

میں بھی بہت تھک گیا ہوں"سالوں سے تم نے انتظار کی سولی پر لٹکائے رکھا ہے مگر آج نہیں آج میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔۔۔وہ اُس کا ماتھا چھو کر بولا تو تارا کا گلا خُشک ہوا تھا اُس نے تنبیہہ کرتی نظروں سے اُس کو دیکھا جس پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا اور لمحے بھر میں اپنا حصار اُس پر تنگ کیا تھا۔۔۔"جس پر تارا بے بس ہوئی تھی۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

جتوئی ویلا میں سلطان کے ساتھ ساتھ حیات اور احناف کی شادی کی تیاریاں بھی زور شور سے شروع ہوچکی تھیں۔۔"جیسے جیسے شادی کا دن قریب آتا جارہا تھا ویسے ویسے حیات کے پاؤں زمین پر نہیں ٹِک رہے تھے اُس کے چہرے پر آجکل الوہی چمک ہوا کرتی تھی اور وہ خود کو بہت خوشقسمت سمجھتی تھی کہ اُس نے جس کو چاہا اُس کو پالیا تھا"اپنی محبت کو پانے کا احساس ایک بہت خوبصورت احساس تھا جو وہ آئے دن محسوس کرتی تھی۔۔۔"مسکراہٹ تو جیسے اُس کے چہرے پر چپک سی گئ تھی۔۔۔


"میم آپ کا فون بار بار بج رہا ہے۔۔۔۔تارا اپنے شوٹ سے فارغ ہوتی ابھی بیٹھی ہی تھی جب ایک لڑکا اُس کی طرف اُس کا سیل فون بڑھائے بولا تو تارا نے بیزاری سے اپنا فون اُس کے ہاتھ سے لیا جیسے وہ جان گئ تھی کہ کال کرنے والا کون تھا۔۔۔

تم جاؤ۔۔۔تارا نے اُس لڑکے کو دیکھا پھر کال بیک کرنے لگی جو جلدی سے ریسیو ہوگئ تھی۔

جان نکالنے کا اِرادہ ہے کیا؟اور تم ایک دن میری جان نکال کر دم لو گی۔۔۔اُس کے کچھ بولنے سے پہلے دوسری طرف سے آواز اُبھری تھی کیونکہ اُس رات کے بعد تارا اُس کو بھی نظرانداز کرنے لگی تھی اُس نے ہر ممکن کوشش کی تھی تارا کو منانے کی پر تارا کو اچانک کیا ہوگیا تھا جو وہ اُس کی کوئی بھی بات سُننا تک گوارا نہیں کرتی تھی۔

کیوں کال کی ہے؟تارا نے سنجیدگی سے بس اِتنا کہا

اپنی ٹون دیکھو۔۔۔وہ ناگواری سے بولا اُس کو تارا کے بات کرنے کا انداز پسند نہیں آیا تھا یہاں وہ پل پل اُس کی نارضگی کا سوچ کر تڑپ رہا تھا اور ایک وہ تھی جس کو شاید اُس کی حالت کا اندازہ نہیں تھا۔۔۔۔۔

میں ایسی ہی بات کرتی ہوں۔۔۔۔تارا نے جتایا

روٹھی ہوئی محبوبہ کب تک رہو گی آئے مس یو اور جو اُس دن ہوا اُس میں کچھ غلط نہیں تھا۔۔۔وہ سنجیدگی سے بولا

میں اِن چیزوں کے لیے ابھی راضی نہیں تھی۔۔۔تارا نے بھی جواباً سنجیدگی سے کہا

راضی نہیں تھی یا اب تک مجھ پر اعتبار نہیں ہوا تھا؟وہ بولا تو تھا مگر لہجے میں ایک عجیب سی بے بسی تھی اور زمان بھر کی تھکاوٹ جیسے بس اُس کے ایک جُملے نے لے رکھی تھی۔۔۔۔

یہی سمجھ لو۔۔۔۔تارا نے محض یہ بولی

میں تمہیں عشق کی حد تک چاہتا ہوں وہ تمہیں کیا نظر نہیں آتا؟وہ جیسے تھک گیا تھا اپنی محبت کا یقین دِلاتے دلاتے

ایک رات میں لگتا ہے مجھ سے جی بھرگیا ہے۔۔۔اُس کا لہجہ محسوس کیے وہ طنز ہوئی تھی

فضول مت بولا کرو تم جانتی ہو میں تمہیں کتنا چاہتا ہوں۔۔۔وہ جیسے تڑپ اُٹھا تھا

مجھے ثبوت چاہیے تمہاری محبت کا تمہاری اُس چاہت کا جو مجھ سے عشق کی حد تک ہے۔۔۔تارا نے چیلینج کرنے والے انداز میں کہا

تمہارے لیے میں کچھ بھی کرسکتا ہوں۔۔۔وہ پُرعزم لہجے میں بولا

ٹھیک ہے تو وہ اب دن قریب آگیا ہے جب تمہیں اپنا آپ منوانا ہے۔۔۔۔تارا نے کہا

میں تیار ہوں۔۔۔۔"بس تم اپنی ناراضگی ختم کرلوں۔۔۔۔وہ جلدی سے بولا تھا

ٹھیک ہے۔۔۔تارا پہلی بار مسکرائی تھی

تو میں آجاؤں تمہیں پِک کرنے ایک عرصہ ہوگیا ہے جیسے تمہارے ساتھ کُھلی فضا میں سانس نہیں لیا۔۔۔اُس نے کہا

آجاؤ میں تمہارا انتظار کررہی ہوں۔۔ تارا نے وال کلاک میں وقت دیکھ کر کہا

میں جلدی آتا ہوں۔۔۔وہ بولا تو تارا نے کال ڈراپ کردی اور آنے والے وقت کے بارے میں سوچنے لگی تو اُس کی آنکھوں میں ایک الگ سی چمک آنے لگی۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

سجنا ہے مجھے سجنا کے لیے۔۔۔

"حیات گانا گُنگُناتی اپنا عکس آئینے میں دیکھنے لگی"وہ آج پور پور احناف کے لیے سجی تھی اُس کی خوشی کا آج کوئی ٹھکانہ نہیں تھا"بس کچھ پل کا انتظار پھر ہر لحاظ سے وہ احناف کی اور احناف کو اُس کا ہوجانا تھا۔۔.

السلام علیکم دولہن صاحبہ۔۔۔۔۔سومل مومل فضا یہ سب ایک ساتھ اُس کے کمرے میں داخل ہوئیں

وعلیکم السلام کہاں غائب تھی تم سب اور بتاؤ میں کیسی لگ رہی ہوں؟حیات گول گول گھومتی ہوئی اُن سے پوچھنے لگی۔

نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی ہو بس اللہ تمہیں نظرِبد سے بچائے۔۔۔۔سومل نے کہا تو اُس کے چہرے پر گہری مسکراہٹ نے احاطہ کیا

بارات آگئ ہے؟حیات نے بے چینی سے پوچھا

لڑکی صبر کرو ابھی تو ہم نے سلطان بھائی کے نکاح میں جانا ہے اُس کے بعد پھر تمہارا نمبر آئے گا۔۔۔سومل اُس کو مصنوعی گھوری سے نواز کر بولی

افففف کاش میں بھی نکاح اٹینڈ کرپاتی۔۔۔حیات کو افسوس ہوا

تم بس اپنی خوشی کو محسوس کرو۔۔۔۔اِس بار مومل نے کہا

تمہارے چہرے کی بتی کیوں گُل ہے۔۔۔؟سومل نے اُس کو چھیڑا

ایسا کچھ نہیں میں باہر انتظار کررہی ہوں تم لوگ آجانا۔۔۔۔مومل سنجیدگی سے اُن کو کہہ کر کمرے سے باہر چلی گئ۔

تم تو میرے پاس رہو گی نہ؟حیات نے فضا سے پوچھا

بلکل آپی میں آپ کے ساتھ رُکنے والی ہوں۔۔۔فضا نے مسکراکر بتایا تو حیات نے شکر کا سانس لیا

تم یہی بیٹھ کر احناف کے خیالوں میں ڈوب جاؤ ہم تب تک سلطان بھائی کے نکاح سے ہو آئے۔۔۔سومل شرارت سے اُس کو کہہ کر چلی گئ تو حیات مسکرائی

بیٹھ جائے آپ۔۔۔۔فضا نے اُس کو بیٹھنے کا اِشارہ دیا تو وہ اپنا لہنگا سنبھالتی آرام سے بیٹھ گئ۔۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

ماشااللہ

ماشااللہ بہت پیارے لگ رہے ہو۔۔۔۔بینش بیگم احناف کا صدقہ اُتار کر بولی تو وہ محض مسکرایا

کیا ہوا خوش نہیں ہو؟الطاف صاحب نے جانچتی نظروں سے اُس کو دیکھا

کیسی باتیں کررہے ہیں آپ احناف خوش کیوں نہیں ہوگا آخر کو جو یہ چاہتا تھا وہ ہونے جارہا ہے۔۔۔۔احناف کے بجائے بینش بیگم نے جواب دیا تھا

چلیں؟احناف نے بس یہ کہا

ہاں چلو بھئ بارات کا ہی انتظار ہوگا اب وہاں۔۔۔۔بینش بیگم بھی جھٹ سے بولیں

شادی بہت بڑی زمیداری ہے احناف جس کو اب تم نے پوری عمر سنبھالنا ہے۔۔۔۔احناف باہر نکلنے لگا تو الطاف صاحب نے کہا

میں جانتا ہوں ڈیڈ۔۔۔۔احناف سنجیدگی سے اُن کو جواب دیتا باہر نکلتا چلاگیا

❤❤❤❤❤❤❤❤

مہرون رنگ کے گُھٹنوں تک آتے فراق زیب تن کیے ہونٹوں پر ڈراک لپ اسٹک لگائے تارا نے ایک سنجیدہ نظر آئینے میں اُبھرتے اپنے عکس پر ڈالی پھر ڈریسنگ ٹیبل سے جُھمکے اُٹھاکر باری باری اپنے کانوں پر ڈالے اُس کے بعد وہ چوڑیاں اپنی خالی کلائی میں ڈالنے والی تھی جب کوئی اُس کے کمرے میں آیا

ازلان؟اپنے پیچھے ازلان کو کھڑا پایا تو سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا

بارات آگئ ہے نکاح شروع ہونے والا ہے۔۔۔۔ازلان نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر بتایا تو تارا کے چہرے پہ اب مسکراہٹ آئی تھی

آپ چلے میں آتی ہوں۔۔۔۔ڈریسنگ ٹیبل کے ڈرار کو کُھول کر اُس میں موجود ڈائری پر ایک نظر ڈالے تارا نے کہا

میں یہی ہوں آجانا تم بھی۔۔۔ازلان نے کہا تو تارا خود پر ایک آخری نظر ڈالے ازلان کے ساتھ ہال میں منعقد کی گئ تقریب میں جانے لگی۔"تو اُس کے کانوں میں قاری صاحب کی آواز آئی۔


"احناف الطاف ولد الطاف اُسماعیل آپ کا نکاح"حیات اختر ولد اختر اُسماعیل سے کیا جاتا ہے"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔۔


یہ سن کر تارا کے چہرے پر طنز مسکراہٹ اُبھری تھی اُس نے پاس سے گُزرتے ویٹر کے ہاتھوں میں موجود ٹرے سے کول ڈرنک اُٹھایا اور قدم قدم چلتی اسٹیج کے نزدیک جاتی گئ۔۔۔۔


"جبکہ قاری صاحب کی آواز سن کر احناف بے وجہ بس اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگا اُس کے پاس بیٹھی حیات کا رواں رواں احناف کے جواب کا منتظر تھا باقی سب بھی مسکراکر اُن دونوں کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔


کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے!!؟


قاری صاحب نے دوسری بار احناف سے پوچھا تو اسٹیج کے عین پاس کول ڈرنک کا گلاس ہاتھ میں پکڑے تارا زیر لب مسکرائی اور ایک گھونٹ بھر کر دلچسپ نظروں سے وجاہت سے بھرپور احناف کو دیکھا جو شاید اضطراب کی کیفیت کا شکار تھا باقی سب اُس کے جواب کہ منتظر تھے سب کو اُس کی خاموشی اب کھٹک رہی تھی اور جیسے جیسے وقت گُزر رہا تھا اُس کی خوشی کی انتہا نہیں رہی تھی وہ اپنی خوبصورت نیلی آنکھوں میں چمک لیے بے چینی سے احناف کو دیکھنے لگی کیونکہ جو وہ سُننا چاہتی تھی اب انتظار کی گھڑیاں اُس کو جیسے کاٹنے لگی۔۔۔۔"انتظار اب طویل ہوتا محسوس ہورہا تھا جو اب مزید وہ برداشت نہیں کرپارہی تھی۔

دوسری جانب خود پہ نظروں کا ارتکاز محسوس کرکے احناف نے بھی سراُٹھایا تو نظر سامنے کھڑی تارا پہ گئ تو اُس کو اپنا گلا خشک ہوتا محسوس ہوا بے ساختگی کے عالم میں اُس نے اپنی واسکٹ کا اُپری بٹن کھولا جیسے بڑھتی ہوئی گُھٹن کا احساس کم کرنا چاہا ہو" مگر جانے یہ کیسی گُھٹن تھی جو بڑھتی جارہی تھی اور بس بڑھتی جارہی تھی۔۔۔

میری جان قاری صاحب کچھ پوچھ رہے ہیں۔۔۔بینش بیگم نے اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر آہستگی سے کہا تو وہ ضبط سے آنکھیں میچ کر کھولتا اپنے ساتھ فاصلے پہ بیٹھی حیات کو دیکھا جس کی خوشی سے وہ اچھے سے واقف تھا پھر سب لوگوں کو دیکھنے لگا جو اُس کی خاموشی پہ سب چہ مگوئیاں کرنے لگے تھے۔۔۔

"کہہ دو سب کے سامنے کہ"قبول نہیں"۔۔۔تارا اُس کو دیکھ کر بڑبڑائی تو اُس کے پاس کھڑے ازلان نے اُس کو دیکھ کر گہری سانس خارج کی تھی۔۔


قبول ہے۔۔۔۔۔۔


احناف اچانک ایک فیصلے پہ پہنچ کر بولا تو جہاں سب کے اندر خوشی کی لہریں ڈور گئ تھی وہی کچھ دیر قبل خوشی اور چمک لیے تارا کی آنکھیں ساکت وجامد ہوئی تھی وہ حیرت اور بے یقین نظروں سے احناف کو دیکھنے لگی"ایسا تو اُس نے نہیں چاہا تھا اور نہ سوچا تھا پھر یہ کیسے ہوگیا اُس کو اپنے قدموں سے جان جاتی محسوس ہوئی وہ اپنی آنکھوں میں عجیب تاثرات سجائے احناف کو دیکھنے لگی تو اُس نے اپنے چہرے کا زاویہ بدل کر آنکھوں میں آتی نمی کو پیچھے کی جانب دھکیلا تھا"اگر اُس کے دو بول سُن کر کوئی ٹوٹا تھا تو یہ کہتے ہوئے بھی وہ ہزار بار مرا تھا۔۔۔


"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے!!؟


قاری صاحب نے تیسری بار پوچھا جو احناف کے لیے دوسری بار تھا


قبول ہے۔۔۔!!!


احناف نے پھر سے اپنی رضامندی تھی تو حیات کو اپنا آپ ہواؤں میں اُڑتا محسوس ہوا جبکہ تارا کے قدم اب لڑکھڑائے تھے وہ گِر بھی جاتی اگر پاس کھڑے ازلان نے اُس کو تھاما نہ ہوتا تو


قبول ہے۔۔۔!!!

تیسری بار احناف کا قبول ہے کہنا تھا اور چُھن کی آواز سے اُس کے ہاتھوں میں موجود شیشے کا گلاس فرش پر گِرتے کرچی کرچی ہوگیا تھا"ٰکرچی تو اُس کا دل بھی ہوا تھا مگر ستم یہ تھا کہ اپنے دل کے ٹوٹنے کی آواز بس وہ خود سُن سکتی تھی کسی اور کو سُنا نہیں سکتی تھی۔۔۔۔


"جہاں ہر ایک کے مُبارکباد کا شور اُٹھا تھا وہی تارا کو لگا جیسے اُس کا دل بندہ ہوجائے گا وہ ساکت پتلوں سے یک ٹک احناف کو دیکھتی اپنے قدم پیچھے لے جانے لگی...


تارا۔۔۔ازلان نے اُس کو اُلٹے پاؤں جاتا دیکھا تو آواز دی مگر تارا نے ہاتھ کے اِشارے سے اُس کو کچھ بھی کہنے سے باز رکھا اور اپنی آنکھوں سے بہتے گرم سیال کو بے دردی سے صاف کرتی وہ باہر کو بھاگی تھی"حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ازلان نے اُس کے پیچھے جانا چاہا مگر عین وقت پر اصغر صاحب اُس کے سامنے کھڑے ہوتے کام بتانے لگے تو وہ لب بھینچ کر وہی رُک گیا تھا۔۔۔۔


مُبارک کو چُھوٹے میاں۔۔۔۔۔

بھائی ایک منٹ پلیز۔۔"سلطان گرمجوشی سے اُس کے گلے لگنے والا تھا جب احناف اُس کو روکتا خود بھی اسٹیج سے اُترتا باہر کا رُخ کیا تو کسی نے بھی اُس کے جانے کا خاص نوٹس نہیں لیا تھا کیونکہ ہر کوئی آپس میں مبارکباد دینے میں مصروف تھا بس ایک سلطان تھا جس کو اُس کا انداز کھٹکا تھا مگر وہ بھی نظرانداز کرگیا تھا۔

"نین

نین

رُکو میری بات سُنو ایک بار۔۔۔۔تارا گاڑی میں بیٹھ کر جیسے ہی دروازہ لاک کیا جبھی احناف بھاگ کر اُس کے پاس آتا گاڑی کا شیشہ نوک کرنے لگا مگر تارا نے ایک نظر اُس پر ڈالنا ضروری نہیں سمجھا

باہر آؤ نین پہلے میری بات سُنو۔۔۔۔احناف نے پوری قوت سے اپنا ہاتھ شیشے پر مارا تھا مگر تارا پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا وہ بس اسٹیئرنگ ویئر پر اپنے ہاتھ کا دباؤ بڑھاتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی تو چوکیدار نے جلدی سے گیٹ کُھولا تھا۔۔

شِٹ

شِٹ

اپنے ہاتھ کی مٹھی کو دوسرے ہاتھ پر غُصے سے مارتا احناف بھی جلدی سے ایک گاڑی میں بیٹھ کر اُس کے پیچھے جانے کی نیت سے باہر کی طرف گاڑی زن سے بھگائی


سُنسان سڑک پر تارا کی گاڑی ہواؤں سے بات کرتی ڈور رہی تھی"دوسری طرف اُس کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتا احناف نے بھی اپنی گاڑی کو فُل اسپیڈ پر چھوڑا تھا۔۔۔


نین اسٹاپ دا کار۔۔۔۔۔۔۔بلآخر اُس کے برابر گاڑی چلاتا احناف نے اُونچی آواز میں اُس سے کہا تھا مگر تارا تو جیسے بہری بن گئ تھی وہ ایک ہاتھ سے بار بار اپنے آنسوؤ کو صاف کرتی نامعلوم راستوں پر گاڑی چلاتی آئی تھی اُس کو تو یہاں تک پہنچتے ہوئے یہ اندازہ بھی نہیں ہوا تھا کہ کتنی بار اُس کا خطرناک ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا تھا اُس کے اندر تو بس اِس وقت ایک آگ تھی جس میں وہ خود کو جلتا ہوا محسوس کررہی تھی اور خود کے ساتھ وہ پوری دُنیا کو بھی جلانا چاہتی تھی۔۔۔۔۔

اگر ایسا ہے تو ایسے ہی سہی آؤ اور میری گاڑی کو ٹھوک دو تم۔۔۔۔احناف نے جب دیکھا تارا اُس کی کوئی بھی بات سُننے کے حق میں نہیں تو اُس نے بنا انجام کا سوچے موڑ کاٹ کر اپنی گاڑی کو اُس کی گاڑی کے سامنے کھڑا کردیا تھا اور یہ سب اِتنا اچانک ہوا تھا کہ تارا کو کچھ سمجھنے اور سوچنے کا موقع تک نہیں ملا تھا اُس کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا تو دوسرا جارہا تھا مگر جلدی وہ اپنے حواسوں پر قابوں پائے بریک پر اپنے پاؤں کا دباؤ بڑھایا تھا اُس نے اپنی گاڑی کو سائیڈ پر کرنا بھی چاہا تھا مگر بُری طرح سے ناکام رہی۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

تارا کی گاڑی بس تھوڑی دور رُکی تھی ورنہ اگر گاڑی اٙن بیلنس ہوتی تو کوئی شک نہیں تھا کہ اُس کی گاڑی کا ٹکراؤ بُرے طریقے سے احناف کی گاڑی کے ساتھ ہوجاتا۔۔۔۔

باہر آؤ۔۔۔احناف جلدی سے اپنی گاڑی سے اُترتا تارا کے سر پر کھڑا ہوا

مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔۔تارا نے پہلی بار لب کُشائی کی

نین

نام نہ لو میرا۔۔۔احناف کچھ کہنے والا تھا جب تارا نے ضبط سے کہا

باہر آؤ تم۔۔۔۔احناف نے سخت انداز اپنایا تو تارا نے سپاٹ نظروں سے اُس کو دیکھا

پلیز۔۔۔۔۔احناف کے لہجے میں التجا تھی جس کو محسوس کیے تارا نے ناچاہتے ہوئے بھی گاڑی کا دروازہ کُھولا تو احناف کی جان میں جیسے جان آئی تھی۔

ہاتھ مت لگانا مجھے۔۔۔۔احناف اُس کی طرف بڑھنے لگا تو تارا نے درمیان میں اُس کو روک لیا

مجھے کچھ بولنے کا موقع تو دو۔۔۔احناف اُس کو دیکھ کر عاجزی سے بولا

مجھے تمہاری چیزی لائنز نہیں سُننی مجھے پتا ہے تم کیا کہو گے تم کہو گے نین مجھے حیات سے محبت ہوگئ تھی مجھے پتا نہیں چلا اور کب ہماری دوستی محبت میں بدل گئ مجھے احساس تک نہیں ہوا۔۔۔۔تارا اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر طنز سے بھرپور لہجے میں بولی تو احناف بے یقینی سے بس اُس کو دیکھتا گیا

میں نے محبت ایک بار کی ہے۔۔۔احناف نے سنجیدگی سے کہا

حیات سے۔۔۔۔تارا رُخ موڑ کر کھڑی ہوگئ۔۔

صرف تم سے۔۔۔۔احناف نے اُس کا رُخ اپنی طرف کیا

مجھ سے تم نے وقت گُزاری کی ہے احناف جتوئی اصل محبتیں نچھاور تو کسی اور پر کرنے والے ہو تم"میں تم پر اعتبار کرنا نہیں تھی چاہتی اور نہ تمہاری باتوں میں بہکنا چاہتی تھی مگر تم نے جان کر مجھے اٹینشن دی مجھے وہ سب کچھ دیا جس کی مجھے ضرورت تھی اور بعد میں بتادیا کہ تم بھی باقیوں جیسے ہو"میرا کیا ہے میں تو بچپن سے عادی ہوں مجھے تو بچپن سے کچھ نہیں ملا پہلے ماں باپ پھر بہن سب کے سب مجھے تنہا چھوڑ گئے کسی کو تارا کی ضرورت نہیں تھی تارا ایک فالتو چیز ہے جو کسی فُٹبال کی طرح یہاں سے وہاں بس گھومتی رہتی ہے جو بھی آتا ہے یا وہ جس کے راستے میں آتا ہے کیک مار کر چلاجاتا ہے۔۔۔۔تارا بھیگے لہجے میں بولی

ایسا نہیں ہے۔۔۔۔احناف نے اُس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالوں میں بھرا

ایسا ہی ہے تم مزید مجھے دھوکہ میں نہیں رکھ سکتے مجھے پتا چل گیا کہ تم پر اعتبار کرکے میں نے اپنی زندگی میں کتنی بڑی غلطی کی ہے تم جھوٹے ہو"تمہاری وہ ساری کہی باتیں جھوٹی ہیں"تمہارا پیار جھوٹا ہے سب سے بڑی بات تم ایک واعدہ خلاف شخص اور ایک بہت بڑے "ہارٹ بریکر ہو آئے ہیٹ یو احناف آئے ہیٹ یو مجھے تم سے زیادہ خود پر غُصہ آرہا ہے کہ میں نے تمہیں اعتماد کی ڈور تھمائی۔۔۔۔تارا اُس کے سینے پر مُکوں کی برسات کرتی آخر میں نیچے بیٹھتی چلی گئ۔۔۔۔"اُس کو ایسے دیکھ کر احناف کی اپنی حالت غیر ہونے لگی تھی۔۔۔

میں نے تمہیں دھوکہ نہیں دیا تارا میں حیات کے ساتھ مزید بُرا نہیں کرسکتا تھا اُس کی کوئی غلطی نہیں ہے وہ تو بے قصور ہے۔۔۔احناف گھٹنوں کے بل اُس کے پاس بیٹھ کر بولا تو تارا کا سسکیاں لیتا وجود تھما تھا اور وہ نظریں اُٹھائے بے مقصد کتنا ہی وقت بس احناف کا چہرہ دیکھنے لگی جیسے کچھ کھوجنا چاہ رہی ہو۔۔۔۔

اوو سہی کہتے ہیں لوگ کہ نکاح کے دو بول میں بہت تاثیر ہوتی ہے اب تو نتیجہ بھی میرے سامنے ہے وہاں تم نے دو لفظ بولیں اور یہاں تمہارے اندر اُس کے لیے محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر آباد ہوگیا۔۔۔۔تارا کا انداز طنز سے بھرپور تھا جس پر احناف بس تاسف سے اُس کو دیکھ پایا

میں نے بس دل وجان سے تمہیں چاہا ہے۔۔۔احناف نے بکھرے لہجے میں کہا تو تارا نے اپنا سر زور سے نفی میں ہلایا

کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا"مجھ سے کسی کو کوئی غرض نہیں اور تم نے احناف جتوئی میرا استعمال کیا تھا تمہیں مجھ سے محبت کبھی ہوئی ہی نہیں تھی۔۔۔۔تارا ہذیاتی انداز میں چیخی تھی اور یکدم کھڑی ہوتی پاگلوں کی طرح یہاں سے وہاں ٹہلنے لگی۔۔۔

کیا کہا؟مجھے تم سے محبت نہیں؟احناف جیسے بے یقین ہوا اُس نے سُنا بھی تھا تو بس اُس کا آخری جُملا وہ اُس سے ہر جُملے کی توقع کررہا تھا پر شاید اِس کی نہیں مگر تارا نے اُس کو دیکھ کر محض نفرت سے اپنا سرجھٹکا تھا

یہ میری محبت ہی تھی جو میں تمہاری ہر بات مانتا آیا ہوں۔۔۔احناف اچانک اُس کا بازوں دبوچ کر بولا

تم ایک دوغلے شخص ہو تم نے مجھے چیٹ کیا ہے احناف جتوئی اور مجھے تم سے نفرت ہے شدید نفرت تم نے جو کچھ کیا اُس میں تمہارا اپنا مفاد چُھپا تھا میرے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔۔۔وہ اپنا بازوں آزاد کرواتی غرائی تو احناف بس اُس کو دیکھتا رہ گیا تھا۔۔۔

تمہیں کبھی میری محبت پر یقین آیا ہی نہیں تھا۔۔۔احناف کی حالت کسی ہارے ہوئے جواری سے زیادہ بدتر تھی۔

بلکل کیونکہ پتا ہے کیا تمہاری رگوں میں بھی اُن کا خون ہے جن سے مجھے حددرجہ شدید قسم کی نفرت ہے پر میری مت ماری گئ تھی جو میں نے تم پر یقین کیا اور جواب میں تم نے مجھ سے اپنی ریجیکشن کا بدلا اِس طریقے سے لیا میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچا کر اور میرے دل کو توڑ کر چکنا چور کرکے۔۔۔۔تارا کا پورا چہرہ آنسوؤ سے تر تھا کیا کچھ نہیں تھا اُس کے لہجے میں جس کو احناف محسوس کرکے تڑپ ہی تو گیا تھا۔۔۔

تم نے۔۔۔۔

احناف نے اُس کی طرف اِشارہ کیا تو تارا اپنے گال صاف کرتی احساس سے عاری نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی۔

تم نے مجھ سے کہا احناف حیات کا پرپوزل ایکسیپٹ کرلوں میں نے ناچاہتے ہوئے بھی اپنے دل کو مار کر تمہاری بات مان لی اور حیات کے آگے جُھک گیا۔۔۔"پھر تم نے کہا احناف اپنے اور حیات کے درمیان نزدیکیاں پیدا کرو میں ایسا نہیں چاہتا تھا مگر تمہارے لیے صرف اور صرف تمہارے لیے "نین تارا بٹ میں نے ایسا بھی کیا تم نے کہا احناف اِس ڈیٹ پر اپنی اور حیات کی منگنی فکس کرو میں اُس سے منگنی نہیں تھا کرنا چاہتا تم سے ہزار بار کہا بھی پر تم کچھ سُننے کے موڈ میں تھی کہاں"جو بھی تھا میں نے وہ کیا میری او اُس کی شادی کا فیصلہ بھی تمہارا تھا تم نے جو جو مجھ سے کروانا چاہا میں نے کیا تم ایک بار کہتی کہ احناف مرجاؤ اللہ کی قسم میں بغیر وجہ پوچھے مرجاتا۔۔۔۔احناف بولنے پر آیا تو بولتا چلاگیا اور آخر میں اُس کے لہجے میں عجیب بے بسی کا عنصر نمایاں ہوا تھا۔۔۔

مرنا قبول ہے تمہیں مگر حیات سے نکاح نہ کرنا قبول نہیں تمہیں"تم نے ایک بار احناف ایک بار بھی میرا نہیں سوچا تمہیں بھی مجھ سے کوئی غرض نہیں تھا تمہیں بس مجھے پانا تھا اور تم اُس مقصد میں کامیاب ہوگئے تھے آخر میں بس ڈرامہ کیا تم بہت کم ظرف ہو احناف بہت کم ظرف ہو"میرے دل سے تم ایسے کِھیلے جیسے ایک بچہ دلجموئی سے اپنے کسی کھلونے سے کھیلتا ہے۔۔۔۔۔تارا کو جیسے اُس کی کسی بات کا یقین نہیں ہوا تھا

تم نے بہت بول دیا نین مگر میں اپنی محبت کے خلاف ایک لفظ مزید سُنوں گا۔۔۔۔احناف نے سنجیدگی سے کہا

محبت کی پہلے معنی جانو احناف پھر بات کرنا۔۔۔۔۔تارا نے نخوت سے سرجھٹکا

تم خود کو میری جگہ رکھو اور سوچو کیا میری جگہ ہوتی تو ایسا کرتی؟"میں کیسے حیات کو پوری محفل کے آگے رسوا کرتا جبکہ میں خود ایک لڑکی کا بھائی ہوں۔۔۔۔احناف نے اِس بار نرمی سے اُس کو دیکھ کر کہا

تم خود کو میری جگہ رکھو احناف پھر مجھ سے یہ سوال کرو"بچپن سے تم نے وہ نہیں دیکھا جو میں دیکھتی آئی ہوں"تم نے وہ سب برداشت نہیں کیا جو میں کرتی آئی ہوں تم کبھی کسی کے لمس کے لیے ترسے نہیں ہو مگر میں ترستی آئی ہوں"مجھے جب چوٹ لگتی تھی تو کوئی مرہم لگانے کے لیے میرے آگے پیچھے نہیں تھا ہوتا مگر جب ایک خروچ بھی حیات یا سومل میں سے کسی کو لگتی تو پورا گھر اُن کے آگے پیچھے رہتا تھا" تمہاری پُکار پر ہر کوئی تمہارے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے مگر میں چلا چلا کر اپنا گلا بھی خُشک کردو تو کوئی نہیں آتا میں کس جگہ پر ہوں وہ تو تم کبھی سمجھ نہیں سکتے کیونکہ تم نے کسی کو کھویا نہیں ہے پر میں نے بس کھویا ہے"کسی دل کے قریب شخص کو کھونے کا درد اُس کی تکلیف کیا ہوتی ہے یہ تم کبھی نہیں سمجھ سکتے یہ بس میں خود اکیلے سمجھ سکتی ہوں کیونکہ میں نے بس اپنوں کو کھویا ہے اور آج تمہیں بھی کھودیا۔۔۔۔تارا نے رنجیدہ آواز میں کہا تو احناف کو اُس کی آخری بات پر کچھ غلط ہونے کا احساس شدت سے ہوا تھا اُس کے گلے کی ہڈی اُبھر کے معدوم ہوئی تھی۔۔۔"اور وہ سانسیں روکتا تارا کو دیکھنے لگا

نین

بس احناف۔۔۔۔احناف نے کچھ کہنا چاہا تھا جب تارا نے اِشارے سے اُس کو روک دیا

بچپن میں حیات نے میرے ٹیڈی بیئر کو ٹچ کیا تھا میں نے وہ ٹیڈی بیئر آگ میں جھونک دیا تو تم نے کیسے سوچ لیا کہ اگر تم خود کو اُس کے حوالے کرو گے اور پھر جب میرے پاس آؤ گے تو میں تمہارے لیے دروازے کھول دوں گی؟"تم نے مجھے جاناں ہی نہیں اگر جانتے تو ایسا کبھی نہ کرتے۔۔۔۔تارا اٹل انداز میں کہتی جانے لگی جب احناف نے اُس کے دونوں کندھے تھمامے

مجھے میرے حق میں بولنے کا موقع تو دو میں نے اِتنی بڑی خطا کونسی کی جو تم اِتنی بڑی سزا دے رہی ہو۔۔۔۔۔احناف اُس کو دیکھ کر بولا تو تارا طنز مسکرائی اور اپنے اور اُس کے درمیان فاصلہ قائم کیا

میرا سب کچھ اُجاڑ کر تمہیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ تم سے کیا ہوئی ہے خطا؟"ایمان اور عشق کا ایک ہی کلمہ ہے احناف

وَحَدَہؙ لاَ شَریکَ لَہؙ

شرک دونوں میں ہی حرام ہے

شرک خُدا بھی برداشت نہیں کرتا تو میں تو پھر بھی بس اُن کی بندی ہوں میرے پاس اپنا اکلوتا سہارا تھا جو میں نے تمہیں سمجھا تھا مگر اب لگ رہا ہے جیسے میں اُس سے بھی گئ تمہیں تمہاری ہیپی اینڈ نیولی ویڈنگ لائیف مُبارک ہو احناف۔۔۔تارا بے دردی سے اپنے آنسو صاف کرکے کہتی وہاں رُکی نہیں تھی جبکہ اُس کے الفاظوں میں جانے کیا تھا جنہوں نے احناف کے قدموں میں زنجیریں ڈال دی تھی اور وہ چاہ کر بھی تارا کو اِس بار روک نہیں پایا تھا۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

چچی یہ احناف کہاں چلاگیا مطلب یہ زیادہ ہوگیا کہ رُخصتی کے وقت دولہا ہی غائب تھا۔۔۔۔بینش بیگم حیات کو لیکر احناف کے کمرے میں آئی تو حیات بولی جس پر بینش بیگم شرمندہ سی مسکرائی

اُس کو کوئی ضروری کام پڑگیا ہوگا تم پریشان نہ ہو میں کال کرکے اُس سے پوچھتی ہوں کہ وہ کہاں ہے۔۔۔بینش بیگم نے اُس کو تسلی بخش جواب دیا

میں اُس سے ناراض ہوں یہ بھی بتائیے گا آپ اُس سے۔۔۔۔حیات بیڈ پر اپنا لہنگا پِھیلا کر بیٹھتی اُن سے بولی

ضرور تمہیں کچھ چاہیے تو بتادینا۔۔۔۔بینش بیگم مسکراکر بولی

جی ضرور اب تو یہ میرا اپنا گھر ہے۔۔۔۔حیات چاروں اِطراف اپنے کمرے پر ڈال کر بولی

بلکل ایسے میں تو کوئی شک نہیں۔۔۔۔بینش بیگم اُس کے سر پر ہاتھ پھیر کہتی کمرے سے باہر چلی گئ تو اُن کے جانے کے بعد حیات بھی بیڈ سے نیچے اُتری اور کمرے کی ہر چیز کو چھو کر محسوس کرنے لگی۔۔۔۔


"فائنلی احناف اب میرا ہے امی خوامخواہ پریشان ہوا کرتی تھی میرے لیے۔۔۔حیات ڈریسنگ ٹیبل کے پاس کھڑی ہوتی اپنا آپ آئینے میں دیکھتی خود سے بولی

حیات

حیات

کہاں ہو بیٹا۔۔۔۔۔۔

منیبہ بیگم پورے گھر میں حیات کو تلاش کرتی پِھر رہی تھیں جو اُن کی آواز سن کر لاؤنج میں آئی تھی۔

کیا ہوگیا ہے امی؟حیات نے سوالیہ نظروں سے اُن کو دیکھا

یہاں آؤ بیٹھو میری بات سُنو۔۔۔۔۔منیبہ بیگم نے اُس کو اپنے پاس بیٹھنے کا اِشارہ دیا

جی؟حیات اُن کے پاس بیٹھی

تمہیں پتا ہے احناف نے آج بہت بڑا پراجیکٹ حاصل کیا ہے۔۔۔مُنیبہ بیگم اُس کو دیکھ کر بولی

ہاں سرسری سی بات ہوئی تھی میری تو اُس نے بتایا میں نے اُس سے ٹریٹ بھی مانگی ہے وہ شام میں آئے گا ہم سب کو لیجانے۔۔۔۔حیات نے اچانک پرجوش ہوکر بتایا

سب کو؟مُنیبہ بیگم نے دانت پیسے

ہاں سب کو ازلان"سومل مومل فضا"ارسلان۔۔۔حیات نے "تارا"کے علاوہ ہر ایک کا کام نام لیا

وہ تارا کے ساتھ ہے اِس وقت وہ بھی اکیلے۔۔۔۔مُنیبہ بیگم نے اُس کی عقل پر ماتم کیا

ہاں مجھے بتایا ہے اُس کی یونیورسٹی کے کسی کام میں لگا ہوا ہے دادا جان نے کہا ہے اُس سے۔۔۔۔"ایک تو دادا جان کو اپنے کاموں کے لیے ایک احناف نظر آتا ہے۔۔۔حیات نے سرجھٹک کر بتایا

دیکھو حیات تم میری بیٹی ہو اور میں نہیں چاہتی تمہارا حق وہ تارا لے جائے۔۔۔۔مُنیبہ بیگم اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولی

تارا کی اِتنی اوقات ہے جو وہ میرا حق چھین پائے؟بائے دا وے آپ کس حق کی بات کررہی ہیں؟حیات پوری طرح سے اُن کی جانب متوجہ ہوئی

میں تمہیں ہمیشہ سے کہتی ہوں کہ احناف کو اپنے بیحد نزدیک کرو اِتنا کہ وہ کسی اور لڑکی کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھے اگر تم نے یہ کام نہیں کیا تو یہ کام وہ تارا کرے گی۔۔۔مُنیبہ بیگم نے اپنی بات اُس کو سمجھانی چاہی

امی ہم دونوں آپس میں بیسٹ فرینڈز ہیں اور بیحد قریب ہے اِس سے آگے میں کیا کرسکتی ہوں میں کوئی جیلر تو نہیں جو اُس کو اپنا قیدی بنا ڈالوں۔۔۔۔حیات کے سر پر سے گُزری تھیں مُنیبہ بیگم کی باتیں۔۔۔

تم اِتنی کم عقل کیوں ہو حیات؟مُنیبہ بیگم زچ ہوئی

آپ مجھے صاف صاف بات کیوں نہیں کہتیں؟"جو کہنا چاہتی ہیں کُھل کر کہیں۔"جلدی سے بتائے پھر مجھے ازلان کے ساتھ اپنے ضروری کام سے جانا ہے۔۔۔حیات کو اب کوفت ہونے لگی تھی۔

دوستی وغیرہ کچھ نہیں ہوتی حیات اور یوں سمجھو احناف بھائی صاحب کی ساری جائیداد کا اکیلا وارث ہے سُلطان تو اپنی امیر گرل فرینڈ کے ساتھ پاکستان سے لینڈ کرجائے گا پر پیچھے احناف رہتا ہے جو الطاف بھائی کی پروپرٹی کا اکیلا وارث ہوگا سوچو اگر تمہاری اُس سے شادی ہوئی تو تمہاری پوری زندگی عیش میں گُزرے گی۔۔۔۔"تم ساری عمر راج کرو گی راج۔۔مُنیبہ بیگم نے کہا تو حیات پرسوچ نظروں سے اُن کو دیکھنے لگی۔

عیش تو میرے یہاں بھی ہے اُس کے لیے میری اور احناف کی شادی کیوں ہو؟حیات کو ابھی تک ٹھیک سے کچھ سمجھ نہیں آیا

تمہارا باپ تمہاری شادی ازلان سے کروادے گا اور حیات میری جان ازلان کے پاس اپنا کچھ بھی نہیں اصغر بھائی صاحب اپنے بچوں اور بیوی سے سخت ناخوش ہیں ازلان سے اگر تمہاری شادی ہوئی تو تمہیں وہ سب کچھ نہیں ملے گا جو تم ڈیزور کرتی ہو۔۔۔۔۔مُنیبہ بیگم پیار سے اُس کی ٹھوڑی چھو کر بولی

احناف ہو یا ازلان دونوں میرے کزنز اور اچھے دوست ہیں امی اور برابر بھی احناف جنونی قسم کا ہے اُس کی سوچ کافی ٹپیکل ہے آپ دیکھتی نہیں کیسے وہ تارا کے پہننے اوڑھنے پر ٹونٹ کرتا ہے بلاوجہ کا روعب جھاڑتا ہے اگر ہماری شادی ہوئی بھی تو وہ ایسا رویہ میرے ساتھ بھی رواں رکھے گا اور آپ جانتی ہیں مجھے پابندیاں پسند نہیں۔۔۔۔۔حیات جھرجھری سی لیکر بولی

تم اُس کی ٹپیکل سوچ نہیں اُس کا جنونی انداز دیکھو سوچو وہ تمہارے لیے کتنا اچھا شوہر ثابت ہوگا اُس کے پاس سب کچھ ہے حیات اور وہ سب میں تمہارا ہوتا ہوا دیکھنا چاہتی ہوں تم حیات ہو میری بیٹی جس کو بس راج کرنا چاہیے"کیا تم چاہو گی وہ سب کسی اور کو ملے۔۔۔۔؟مُنیبہ بیگم بہت خوبصورت طریقے سے اپنی باتیں اُس کے دماغ میں ڈالنے لگی جو کچی عمر کے ہونے کے باعث حیات کے دماغ میں بیٹھتی بھی چلی گئ۔۔۔۔۔

میں ایسا ہرگز نہیں چاہوں گی امی اور ظاہر سی بات ہے شادی ایک نہ ایک دن میری ہوگی پھر احناف سے کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔حیات پہلی بار مسکرائی

تو بس احناف کو اپنا بنالو ایسا بناؤ کے وہ کسی اور کے بارے میں سوچے بھی نہ ویسے بھی تم اگر اُس کو پرپوز کرو گی تو وہ کبھی تمہیں انکار نہیں کرے گا۔۔۔۔مُنیبہ بیگم نے سنجیدگی سے کہا

بلکل وہ انکار نہیں کرے گا اور میں کچھ ماہ بعد اپنے سالگرہ کے دن اُس کو پرپوز کروں گی ہوسکتا ہے مجھے الگ قسم کی محبت ہوجائے اُس سے۔۔۔۔۔حیات خوشی ہوتی بولی

خوش رہو میری جان۔۔۔۔مُنیبہ بیگم نے جُھک کر اُس کا ماتھا چوما

بھابھی؟

انابیہ کی آواز پر حیات جو سوچو میں گُم تھی چونک پڑی

انابیہ تم اِس وقت؟حیات نے پلٹ کر اُس کو دیکھا

امی نے آپ کے لیے جوس بھیجا تھا۔۔۔"اور بول رہی تھیں اگر آپ تھک گئ ہیں تو سوجائے بھائی کو آنے میں شاید وقت لگ جائے۔۔۔۔انابیہ نے بتایا

ہماری شادی تھی آج اور آج کے دن اِس سے زیادہ ضروری کیا کام ہوسکتا ہے؟حیات کو انابیہ کی بات پسند نہیں آئی جس کا اِظہار اُس نے بلاجھجھک کیا

ڈونٹ نو۔۔۔۔انابیہ نے کندھے اُچکائے اور جوس کا گلاس ٹیبل پر رکھ کر وہ چلی گئ۔۔جبکہ حیات آس پاس دیکھتی اپنا فون تلاش کرنے لگی جو اُس کو نہیں ملا مگر سائیڈ ٹیبل پر اُس کو ایک تصویر ضرور نظر آئی تھی جو اُلٹی پڑی تھی۔۔۔۔

یہ کس کی تصویر ہے؟حیات آہستہ سے بڑبڑاتی اور وہ تصویر اُٹھائی تو تارا کی تصویر دیکھ کر اُس کا حلق تک کڑوا ہوگیا تھا"تصویر میں وہ احناف کے ساتھ تھی اور یہ کالج میں لی گئ اُن کی تصویر تھی جس کو دیکھ کر حیات کو یہ خیال نہیں آیا تھا کہ تارا کی تصویر احناف کے کمرے میں کیوں ہے؟"کیونکہ کمرے کی دیواروں پر آلریڈی ہر ایک کزن کی تصوریں لگی ہوئیں تھی تارا کی تو پھر بھی ایک تھی۔۔۔۔

پتا نہیں پر تم مجھے بُہت بُری لگتی ہو۔۔حیات اِتنا کہتی فریم سے وہ تصویر نکالی اور اُس کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا

❤❤❤❤❤❤❤❤

تارا اپنا بِکھرا وجود لیے گھر میں آئی تو گھر میں ابھی تک موجود سجاوٹ دیکھ کر اُس کو وحشت سی ہونے لگی۔۔۔۔"اپنا دم گُھٹتا محسوس ہونے لگا کچھ قبل پہلے والے آنسو جو خشک ہوچُکے تھے وہ ایک بار پھر آنکھوں سے برسنے لگے۔۔۔"

"احناف حیات کے ساتھ ہوگا اُس کے ساتھ ایک کمرے میں ہوگا۔۔۔"ایسی سوچیں اُس کے دماغ میں آکر اُس کو جیسے کچوے مار رہی تھیں وہ اِن سب سے آگے سوچنا چاہتی بھی نہیں تھی پر بے بس تھی۔۔۔۔


حیات تم نے بچپن سے لیکر آج تک میرے ساتھ بُرا کیا ہے اور تم سہی تھی۔۔۔۔ہراساں نظروں سے وہ خالی ہال کو دیکھتی آہستگی سے بڑبڑائی تھی۔۔۔۔

تارا۔۔۔۔؟

سترہ سالہ حیات پندرہ سالہ تارا کے پاس آکر بیٹھی جو لاؤنج میں اپنا کالج اسائمنٹ کرنے میں بزی تھی۔

جی۔۔۔۔۔تارا نے جواباً سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا جس کے ساتھ سومل اور مومل دونوں ساتھ تھیں۔۔۔

آج بیٹھے بیٹھائے باتوں میں ہمارے دماغ میں ایک سوال آیا سوچا اُس کا جواب کیوں نہ تم سے لیا جائے۔۔۔۔اِس بار سومل نے کہا

کیسا سوال؟تارا باری باری اُن کو دیکھنے لگی

تمہاری بہن چاندنی نے خودکشی کیوں تھی؟'کیا اُس کو پتا نہیں تھا نہ خودکشی حرام ہے۔۔۔حیات نے رازدرانہ انداز میں اُس سے پوچھا تو اُن کے سوالوں پر تارا کے چہرے کی رنگت متغیر ہوئی تھی

میرے خیال سے نہیں ہوگا پتا کیونکہ بلوچستان کے ایک گاؤں میں رہا کرتے تھے یہ لوگ اور گاؤں کے لوگ تو ہوتے ہی جاہل ہیں۔۔۔۔۔مومل نے چسکا لیکر کہا تو تارا نے بے ساختہ اپنے لب کُچلے اُن کو دیکھا مگر کہا کچھ نہیں۔۔۔۔۔

پتا ہے کیا مجھے لگتا ہے ضرور اُس سے کوئی بہت بڑی غلطی ہوگئ ہوگی جس کا انجام بہت بھیانک ہوگا اور وہ کسی کو بھی فیس کرنے کے قابل نہیں بچی ہوگی جبھی تو ایسا کیا۔۔۔حیات اپنا اندازہ لگاکر بولی تو تارا اپنی کتابیں سمیٹنے لگی۔۔

کہاں ہمیں ہمارے سوال کا جواب تو دو پہلے۔۔۔۔تارا اُٹھ کر جانے لگی جب سومل اُس کے سامنے کھڑی ہوئی

مجھے کسی کو بھی جواب دینے کی ضرورت نہیں اور آپ میں سے اگر کوئی بھی میری بہن کے بارے میں غلط بولا تو میں برداشت نہیں کروں گی۔۔۔تارا نے سنجیدگی سے دو ٹوک لہجے میں کہا اُس کی بات پر وہ تینوں بے ساختہ قہقہقہ لگانے لگیں

سُنو تو بول کون رہا ہے ایسا۔۔۔حیات نے طنز نظروں سے اُس کو دیکھا

میں بلوچستان کے گاؤں میں نہیں شہر میں رہتی تھی جہاں کے لوگ کافی امن پرست اور محبت کرنے والے لوگ ہوا کرتے تھے۔۔۔وہاں ایسے وہ کسی کا مذاق نہیں اُڑایا کرتے تھے اُن کی زندگی بس محبت کرنے اور محبت بانٹنے میں گُزرا کرتی تھی۔۔وہ انجانے لوگوں کو بھی اپنا بناکر چھوڑتے تھے ہر ایک سے ادب اور احترام سے ملنا اُن کے خون میں شامل تھا۔۔۔تارا حیات کی بات پر خاصے جتانے والے انداز میں بولی

تو تمہیں وہاں رہنا تھا نہ یہاں کیوں آئی؟سومل نے کاٹ کھاتی نظروں سے اُس کو دیکھا

اپنی مرضی سے نہیں آئی میں یہاں۔۔۔تارا نے بس اِتنا کہا

"بلکل ہمارے سویٹ دادا جان نے اپنی محرومہ بیٹی کی نشانی کی طور پر تمہیں یہاں لائے کیونکہ اُن کو ڈر تھا تم بھی نہ خودکشی کرلوں کہی اور تمہیں نہ دادا کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جو تمہیں یہاں لائے ورنہ تم آج اے سی کی کولنگ میں نہیں ہوتی بلکہ کُھلے سر ننگے پاؤں تپتی دھوپ میں سڑک پر ہوتی اور تو اور ہمارا بھی تمہیں شکریہ ادا کرنا چاہیے جو اِس گھر میں تمہیں رہنے دیا ورنہ تم کیا اور تمہاری اوقات کیا۔۔۔۔حیات سرتا پیر اُس کو دیکھ کر حقارت سے بولی تو پہلی بار اُن میں سے کسی کی بات سن کر تارا کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں"مگر اُس نے ہر طرح کی کوشش کی تھی کہ اُس کی آنکھ سے آنسو نہ بہے اور وہ اُن کے آگے شرمندہ ہونے سے بچ جائے۔۔۔۔۔

بلکل ٹھیک بول رہی ہو تم۔۔۔۔سومل حیات کی بات سے متفق ہوئی

اور تمہیں پتا ہے تارا ہمارے یہاں جو بھی آتا ہے ہر کوئی تمہیں ہمدردی سے دیکھتا ہے کسی کو تمہارے لیے محبت کا احساس نہیں ہوتا اور دیکھنا آگے چل کر بھی کوئی تم سے محبت نہیں کرے گا کیونکہ تم محبت کے لائق نہیں ہو تمہارے پاس ایسا کچھ نہیں جس کی بدولت تم سے کوئی پیار کرے تم ایک یتیم اور بے سہارا لڑکی ہو جس سے ہر ایک ہمدردی تو کرسکتا ہے پر پیار؟"پیار ہرگز نہیں کرسکتا تم خوبصورت تو ہو مگر تمہاری قسمت کافی بدصورت ہے۔۔۔حیات اُس کے گرد چکر کاٹ کر آہستہ آہستہ بولنے لگی تو تارا کی اب بس ہوئی تھی جبھی وہ اُن تینوں کو دھکا دیتی اُپر کی طرف بھاگی تھی۔۔۔۔

کیوں؟؟؟؟؟

آخر کیوں احناف تم نے میری اندھیری زندگی میں اُجالا کیا اور پھر دوبارہ مجھے اندھیروں میں جھونک دیا۔۔۔آخر کیوں کیا تم نے احناف ایسا کیا میرا کیا تھا قصور۔۔۔اپنے بالوں کو نوچتی تارا شدتِ غم سے چلائی تھی مگر اُس کی سُننے والا کوئی نہیں تھا کیونکہ ہر کوئی اب شادی کی تھکاوٹ کے بعد اپنے اپنے کمروں میں خواب وخروش سے مزے لوٹ رہا تھا اور ایک وہ تھی جو اکیلی تھی اور اُس کی تنہائی جس کے ساتھ اُس نے جینا تھا۔۔۔

مجھے نفرت ہے تم سے احناف آئے ہیٹ یو میں کبھی تمہیں معاف نہیں کروں گی تم نے میرا اعتبار توڑا ہے جو میں نے تم پر کیا تھا تم بھی سب کی طرح نکلے احناف تم بھی سب کی طرح نکلے اور مجھے اب تم سے بھی نفرت ہے۔۔۔اپنے گالوں پر بار بار تھپڑ مارتی وہ کوئی پاگل لگ رہی تھی اُس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ رو رو کر آسمان سر پر اُٹھالیتی۔۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

احناف کی گھر واپسی بہت لیٹ ہوئی تھی وہ رات کے پہر جب اپنے کمرے میں آیا تو بیڈ پر حیات کا وجود دیکھ کر اُس کو اپنے سینے میں تکلیف کا احساس شدت سے ہوا تھا اگر جو آج ہوگیا تھا وہ تارا نے نہیں چاہا تھا تو ایسا کچھ اُس نے بھی کونسا چاہا تھا وہ تو بس اپنی ساری زندگی اُس کے ساتھ گُزارنا چاہتا تھا"اور اُس کے دل میں تارا کے علاوہ کسی اور لڑکی کی گُنجائش نہیں نکلتی تھی جس کو وہ اپنا دل دیتا یا وہ مقام دیتا جو اُس نے اپنے پاس بس تارا کے لیے سنبھال کر رکھا تھا"تارا کو لگنے لگا ہے وہ اُس کو دھوکہ دے گیا ہے مگر وہ ایک بار بس ایک بار اُس کے دل میں جھانک کر دیکھے تو اُس کو پتا چلے کہ وہ اُس کو دیوانگی کی جس حد تک چاہتا ہے اُس کا پتا صرف اُس کو اور اُس کے رب کو تھا۔۔۔۔

نین۔۔۔۔احناف کو شدت سے تارا کا خیال آیا تھا وہ اُس کے پاس جانا چاہتا تھا وہ جانتا تھا وہ ٹھیک نہیں ہوگی مگر وہ اُس کو کچھ وقت دینا چاہتا تھا اُس کو لگ رہا تھا شاید کل تک وہ ٹھیک ہوجائے۔۔۔۔"جبھی وہ اپنے دل کو تسلی دیتا حیات کو دیکھنے لگا جو چینج کرکے آرام دہ لباس میں ملبوس مزے سے اپنی نیند پوری کررہی تھی احناف نے رشک سے اُس کی نیند کو دیکھا تھا پھر بیڈ سے تکیہ اُٹھاکر صوفے پر چت لیٹ گیا۔۔۔"نیند اُس کی آنکھوں سے کوسو دور تھی اور دماغ میں تو بس تارا چھائی ہوئی تھی۔

کچھ سال قبل!

نین۔۔۔۔۔تارا اسجد اور اُس کی بہن مایا کے ساتھ شاپنگ مال آئی تھی جب اُس کا سامنا وہاں احناف سے ہوا

جی؟تارا اُن سے ایکسکیوز کرتی احناف کی طرف آئی

اکیلے تم اِن لوگوں کے ساتھ کیا کررہی ہو؟مجھے تمہارا اِن کے ساتھ گھومنا پِھرنا سخت ناپسند ہے تمہیں پتا ہے نہ یہ بات اچھے سے پھر کیوں کرتی ہوں ایسا؟اُس کا بازوں سختی سے دبوچے احناف نے اُس کو کارنر والی جگہ پر لاکر کھڑا کیا

آپ میرا ہاتھ چھوڑے پہلے اور میں ایک بات آپ کو بتاتی چلوں کہ میں یہاں آنے سے پہلے نانا جان سے پرمیشن لیکر آئی ہوں آپ کو خوامخواہ بلاوجہ کا غُصہ کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔تارا اُس کو خود سے دور کرنے کی کوشش کرتی ہوئی بولی

مجھے تمہارا اسجد کے ساتھ رہنا زہر لگتا ہے۔۔۔۔احناف نے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچ کر کہا

یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔۔تارا نے سرجھٹک کر کہا تو اُس کے بازو پر احناف کی گرفت مضبوط ہوئی

نین۔۔۔۔احناف نے تنبیہہ کرتی نظروں سے اُس کو دیکھا

مجھے فاصلہ اختیار کرے آپ۔۔۔تارا کو درد ہونے لگا

پہلے میری بات کا جواب دو کیوں تنگ کرتی ہو مجھے؟احناف نے اُس کا چہرہ اپنے نزدیک کیا

آپ کا دماغ خراب ہوگیا ہے ورنہ میں کیوں کروں گی آپ کو تنگ؟تارا نے عجیب نظروں سے اُس کو دیکھا

تاکہ میری سوچو کا سارا مرکز تم بن جاؤ۔۔۔۔احناف نے کہا تو تارا نے تاسف سے اُس کو دیکھا

مجھے ایسی چیپ حرکتیں کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے"مجھے آپ اُن لڑکیوں میں شُمار نہ کرے جو آپ کے پیچھے ہوتیں ہیں۔۔۔۔تارا نے طنز لہجے میں کہا

نین۔۔۔۔۔احناف نے محبت سے چور لہجے میں اُس کا نام لیا

کیا ہے؟تارا کو غُصے آنے لگا

تمہیں پتا ہے نہ؟احناف اُس سے ایک قدم دور ہوا

کیا؟تارا نے اُلجھن بھری نظروں سے اُس کو دیکھا

یہی کہ مجھے تم سے محبت ہے"آئے لو یو سو مچ"میں تمہیں اپنا بنانا چاہتا ہوں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں"تم بس اُٹھارہ سال کی ہوجاؤ پہلے جلدی سے پھر میں دادا جان سے ہماری بات کروں گا۔۔۔۔احناف نے کہا تو تارا حق دق بے یقین نظروں سے احناف کا چہرہ دیکھنے لگی جو اپنے ہونٹوں پر خوبصورت مسکراہٹ سجائے اُس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔"احناف کا ایسا انداز دیکھ کر تارا کا گلا خُشک ہوا تھا

کیا ہوا؟اُس کو چُپ دیکھ کر احناف فکرمندی سے اُس کے گال پر ہاتھ رکھ کر بولا تو تارا کو جانے کیا ہوا جو اُس نے پوری قوت سے اُس کا ہاتھ جھٹکا

نین؟احناف حیرت سے اُس کو دیکھنے لگا جس کی رنگت سرخ ہونے لگی تھی۔

ہاتھ مت لگایا کرے آپ مجھے۔۔۔تارا کی حالت غیر ہوتی گئ۔

کیوں؟احناف سنجیدہ ہوا

وحشت ہوتی ہے مجھے آپ کے لمس سے مجھ سے دور رہا کرے"نہیں چاہیے مجھے آپ کی ہمدردی میں اپنی زندگی میں خوش ہوں"اُس میں آپ کی گُنجائش نہیں مجھے نفرت ہے آپ سے اور بار بار یوں آپ کے حق جتانے والے انداز سے میں کوئی آپ کی زرخرید غُلام نہیں ہوں جو بس آپ کی بات پر سرجُھکادوں گی۔۔۔۔تارا نے جیسے پھٹ پڑی تھی"دوسری طرف احناف کو اُس کے الفاظوں کی سختی بہت بُری طرح سے محسوس ہوئی تھی مگر وہ نظرانداز کرگیا تھا

میری محبت کو ہمدردی کا نام نہ دو۔۔۔۔احناف نے ضبط سے کہا

آپ پلیز مجھے اکیلا چھوڑدے۔۔۔تارا نے جان چُھڑوانے والے انداز میں کہا

تمہیں چھوڑ ہی تو نہیں سکتا اور تمہیں جو ہمدردی لگتا ہے وہ میری محبت ہے جو میں کرتا ہوں تم سے۔۔۔"تمہیں پتا ہے نین میں کتنا پریشان رہنے لگا تھا جب تم نے مجھ سے بول چال بند کرلی تھی تو مجھے بعد میں احساس ہوا تھا کہ میں بس تم سے بات کرنے کے لیے نہیں بلکہ میں پورا کا پورا تم پر مرنے لگا ہوں۔۔۔۔احناف اُس کو دیکھ شدت سے بولا

پر مجھے آپ سے محبت نہیں ہے۔۔۔تارا اُس کو دیکھ کر چیخی

تو نہ کرو بس مجھے کرنے دو۔۔"دیکھنا پھر وہ دن دور نہیں جب دل کی گہرائیوں سے تم بھی مجھے چاہنے لگوں گی۔۔۔۔احناف کے چہرے پر مسکراہٹ اور لہجے میں بلا کا اعتماد تھا

میری زندگی میں اِن سب کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے"اور آپ سے بس میں اِتنا کہوں گی کہ میرے رستے میں مت آیا کرے۔۔۔۔تارا اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر سنجیدگی سے کہہ کر جانے لگی جب احناف نے اُس کے ہاتھ کی کلائی کو پکڑا

کب تک میری محبت کا جواب یوں بے رُخی سے دو گی؟احناف رنجیدہ آواز میں بولا

یہ آپ کی محبت نہیں"آپ کے اندر میرے لیے موجود ہمدردی بول رہی ہے۔۔۔۔تارا نے سنجیدگی سے کہا

سینہ چیر کر دیکھاؤں تو کیا یقین آجائے گا میری محبت پر؟احناف چلتا ہوا اُس کے روبرو کھڑا ہوا

آپ مجھے میرے حال پر چھوڑدے مجھے آجائے گا پھر یقین۔۔۔تارا احساس سے عاری لہجے میں کہہ کر اُس کے برابر سے گُزرگئ تو احناف نے اضبطرابی حالت میں اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

حال!

صبح فجر کی نماز کے بعد اُس کو اللہ اللہ کرکے نیند آئی تھی جب کھٹکے کی آواز نے اُس کی نیند میں خلل ڈالا تھا جس پر احناف نیند میں ڈوبی اپنی آنکھیں کھولتا اُٹھا تو نظر گیلے بالوں کو سوکھاتی حیات پر گئ جو ہر چیز کو بہت زور سے یہاں سے وہاں رکھ رہی تھی۔

حیات آرام سے چیزیں جگہ پر رکھو۔۔۔احناف نے ٹوکا

کیوں کیا تمہاری نیند میں خلل پڑا؟حیات نے پلٹ کر طنز نظروں سے اُس کو دیکھا

ہاں۔۔۔احناف نے مُختصر جواب دیا

تو وقت پر رات کو گھر آکر سوجاتے۔۔۔حیات نے دوبارہ طنز کیا

کیا تم اُس بات کی وجہ سے ناراض ہو؟احناف کو اب احساس ہوا

فائنلی میرے نام نہاد شوہر کو احساس ہوا کہ بیوی کی ناراضگی کی وجہ کیا ہے۔۔۔حیات سرجھٹک کر کہتی اپنے بالوں میں کنگھی پِھیرنے لگی۔

مجھے ضروری کام تھا۔۔۔احناف نے وجہ بتائی

لیٹ می ایکسپلین احناف کل ہماری شادی تھی ہمارا دن تھا اور اِس سے زیادہ ضروری کچھ بھی نہیں تھا تم تو چلے گئے تھے مگر شرمندگی کا سامنا مجھے کرنا پڑا تھا لوگ طرح طرح کی باتیں کررہے تھے کہ دولہا شاید شادی سے خوش نہیں"پتا نہیں کہاں چلاگیا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔حیات ناگواری سے بولی تو احناف نے اپنا سر ہاتھوں میں گِرایا

لوگوں کی ٹینشن نہ لو اُن کو موقع چاہیے ہوتا ہے چہ مگوئیاں کرنے کے لیے۔۔۔احناف سرجھٹک کر کہتا وارڈروب کی طرف آیا

احناف۔۔۔۔۔حیات نے اُس کا رُخ اپنی طرف کیا

ہممم۔۔۔۔۔جواباً احناف نے ہونکارہ بھرا

میری منہ دیکھائی کہاں ہے؟"اور تم نے میری ایک بار بھی تعریف نہیں کی کہ میں کیسی لگ رہی ہو۔۔۔۔حیات نے شکوہ کیا

تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔احناف نے زبردستی مسکراہٹ چہرے پر سجائی

اور میری منہ دیکھائی؟حیات نے اُس کے کندھوں پر اپنے بازو حائل کیے

میں پہلے فریش ہوجاؤں؟احناف اُس سے تھوڑا دور کھڑا ہوا

شیور۔۔۔حیات نے سراثبات میں ہلایا تو احناف واشروم میں چلاگیا

بھابھی باہر آجائے آپ کے گھر سے ناشتہ آگیا ہے۔۔۔۔انابیہ کمرے میں داخل ہوتی حیات سے بولی

میں آتی ہوں اور انابیہ کیا تم احناف کے کمرے میں ہمیشہ یوں بے دھڑک داخل ہوتی ہو؟حیات نے اُس کی بات کا جواب دینے کے بعد کہا

نہیں سوری دراصل میں پرجوش بہت تھی تو نوک کرنا بھول گئ۔۔۔انابیہ اپنے سر پر ہاتھ مارتی تھوڑی خُجل ہوئی

اِٹس اوکے پر دوبارہ احتیاط کرنا۔۔۔۔حیات نے کہا تو اُس نے مسکراکر سراثبات میں ہلایا

ویسے اگر تم آگئ ہو تو ایئررنگز پہنانے میں میری کچھ مدد کردو۔۔۔حیات اُس کو دیکھ کر بولی

جی ضرور کیوں نہیں۔۔۔انابیہ جلدی سے اُس کے پاس آئی تو حیات نے"ایئررنگز"اُس کو پکڑائے تو انابیہ اُس کے کانوں میں ایئررنگز ڈالنے لگی۔۔۔۔


السلام علیکم بھائی۔۔۔۔احناف واشروم سے باہر آیا تو انابیہ نے مسکراکر اُس کو سلام کیا

وعلیکم السلام ۔۔۔۔احناف نے سنجیدگی سے اُس کو سلام کا جواب دیا

نیچے سب لوگ آپ دونوں کو ناشتے پر انتظار کررہے ہیں جلدی سے آجائیے گا۔۔۔۔انابیہ ایک بار پھر کہتی اُن کے کمرے سے باہر نکل گئ۔۔۔۔

جی تو میری منہ دیکھائی؟حیات نے مسکراہٹ دبائے اُس کو دیکھا

سائیڈ ڈرار میں پڑی ہے پلیز چیک کرلوں۔۔۔۔احناف نے گہری سانس بھر کر کہا

ہاؤ مین مطلب احناف تمہیں منہ دیکھائی دینے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا جاؤ اور جو بھی میرے لیے خریدہ ہے وہ مجھے دو اپنے ہاتھوں سے۔۔۔۔حیات اُس کو مصنوعی گھوری سے نواز کر بولی تو ناچار احناف نے ویسا ہی کیا۔

اب دیکھ لو۔۔۔۔۔احناف نے ایک چھوٹا سا مخملی کیس اُس کو پکڑایا جو حیات نے خوشی خوشی تھام کر کھولا تو اُس میں ایک انگھوٹی نکلی

انگھوٹی ہے بس؟حیات نے بے تُکہ سوال کیا

تمہیں پسند نہیں آیا کیا؟احناف نے چونک کر اُس کو دیکھا

مجھے انگھوٹیاں پسند نہیں ہوتی احناف تم جانتے نہیں ہو کیا میں زیادہ تر انگھوٹیاں نہیں پہنتی یہ ٹھرڈ کلاس شوق تو تارا کے ہوتے ہیں۔۔۔حیات نے کہا تو احناف نے لب بھینچ کر اُس کو دیکھا

مجھے دو میں کوئی اور تُحفہ دے دوں گا تمہیں۔۔۔احناف نے سنجیدگی سے کہہ کر اُس سے وہ انگھوٹی لینی چاہی جب سرعت سے حیات نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا

رلیکس دوسرا بھی دے دینا اور اِس کو بھی میرا رہنے دو یہ لو اور پہناؤ مجھے ویسے بھی تمہاری ہر چیز پر اب سے میرا حق ہے تو ظاہر سی بات ہے سب کو میرے پاس ہونا چاہیے۔۔۔۔حیات نے کہا تو احناف نے اُس کے ہاتھ سے انگھوٹی لیکر پہنائی

شاباش اب اگر تم تیار ہو تو نیچے چلے سب لوگ ہمارے انتظار میں ہے۔۔۔حیات کو اب احساس ہوا

ہاں چلو۔۔۔۔احناف اپنا موبائل چیک کرتا اُس سے بولا

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

اپنے کمرے کا دروازہ لاک کیے تارا ڈائری کو دیکھنے لگی جو اُس کی بہن کی تھی جس میں کئ راز دفن تھے اگر جو وہ اُن کھولتی تو اِس گھر کا سارا سکون تہنس نہس ہوجاتا اور وہ ایسا کر بھی جاتی اگر اِس گھر میں شُمار افراد میں "اُسماعیل صاحب کا ہونا نہ ہوتا تو وہ اگر چُپ تھی اُس کی سب سے بڑی وجہ اُس کے نانا تھے جن کو وہ اِس عمر میں کوئی ایسا صدمہ نہیں دینا چاہتی تھی جو وہ رو اور تڑپ کر اپنی آنکھوں کا نور ختم کردیتے"اِنہیں سوچو میں گُم تھی تارا نے ڈائری کا درمیانی حصہ کُھولا اور پڑھنے لگی جس کو جانے وہ کتنی مرتبہ پہلے بھی پڑھ چُکی تھی۔۔۔۔


11.2.2010

Day wednesday.

میری ڈائری

میری رازار

میری ہمراز

آج کوئی مجھ سے پوچھے خوشی کیا ہے تو میں بغیر کوئی تاخیر کیے بولوں آج کا دن"

جی ہاں آج کا دن

میں آج بہت خوش ہوں اِتنا خوش کے میں اپنی خوشی کو لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔۔۔۔"خاور"

میرا کزن میری پہلی اور آخری محبت جس کی منزل آج نکاح کی صورت میں ہونے والی ہے مجھے نہیں تھا پتا محبت کیا ہوتی ہے؟اِس کا اندازہ تو خاور نے مجھے دِلوایا اور ایسا دِلوایا کہ آج میں بلوچستان سے اکیلے پنجاب صوبہ میں آگئ ہوں۔۔۔۔

زندگی نے جو کھیل میرے اور میری بہن کے ساتھ کھیلا اِس سے نکلنا بہت مشکل تھا میرے لیے کیونکہ میرے اُپر ایک بہت بڑی ذمیداری تھی اپنی چھوٹی بہن تارا میری گُڑیا کی ذمیداری جو اب مجھے دیکھ کر جیتی ہے۔۔۔"میں نے خود تو جینا چھوڑدیا تھا بس اپنی زندگی کا دارومدار ایک گُڑیا پر چھوڑ دیا تھا۔۔"ویسے تو جان چِھڑکنے والے نانا اور ماموں جان بھی ہیں ہمارے مگر جو کچھ خاور نے کیا وہ کوئی اور نہیں کرسکتا تھا اور نہ کسی نے کیا

خاور کا اچانک میری زندگی میں آنا مجھے اپنے ہونے کا احساس کروانا یہ بہت خوبصورت احساس ہے"وہ کہتا ہے "چاندنی مجھے تم سے محبت ہے۔۔۔

اُس نے جب مجھ سے کہا تو میں ہنس پڑی اور کہاں ہم بچے ہیں مگر وہ بولا نہیں ہم بالغ ہیں۔۔۔

ہماری محبت کی داستان سے دانستہ طور پر کوئی بھی نہیں جانتا سِوائے ہم دونوں کے مگر یہ باتیں جو میں کسی سے کر نہیں سکتی وہ ہمیشہ اپنی ڈائری سے کرتی ہوں اُس پر لکھ کر اور آج تو اپنی زندگی کے اِتنے بڑے دن میں بھی اُس کو اپنے ساتھ رکھا ہے میری ڈائری سے نزدیکیوں کا اندازہ کوئی اِس سے لگالے

میری باتیں بہت بڑی ہیں پر فلحال میں مختصر لکھنا چاہتی ہوں۔۔۔۔

وجہ مجھے نہیں معلوم پر کچھ دن اول خاور کی مجھے کال آئی جو اپنی آواز سے بہت پریشان لگ رہا تھا پھر اچانک اُس نے جو بات مجھ سے کہی اُس نے مجھے حیران کردیا۔۔

خاور مجھ سے خوفیہ نکاح کرنا چاہتا ہے۔۔

مطلب نکاح تو ایک پاک بندھن ہے وہ کوئی خوفیہ کیوں کرے اگر کرے تو ڈنکے کی چوٹ پر کرے پر خاور نے کہا اُس کے پاس بہت ساری وجوہات ہیں وہ کہنے لگا تمہارے دودھیال والے تمہاری شادی کسی اور سے کروالے گے جو میں نہیں چاہتا اِس لیے تمہیں چُھپ کر لاہور آنا ہوگا۔۔

لاہور میں میرے ننھال رہتے ہیں یہ سُن کر میں بہت خوش ہوئی اور مایوس بھی کے اکیلے آنا ہے"بغیر کسی کو بتائے اور سب سے بڑی بات گُڑیا(تارا) کو بھی کچھ نہیں بتانا میں اُس سے کوئی بات چُھپا نہیں پاتی پر یہ باتیں ہی کچھ ایسی تھیں جو میں واقعے گُڑیا سے چُھپانے پر مجبور ہوگئ وہ چھوٹی ہے اور میری باتیں بڑی جو فی الوقت گڑیا بلکل بھی نہیں تھی سمجھ سکتی۔۔

چناچہ میں نے فیصلہ کیا کہ خاور جو کچھ بھی کہے گا میں وہ کروں گی کیونکہ محبت تو مجھے بھی تھی"کچی عمر کی پکی محبت"چاندنی کو خاور سے"

میں اِس وقت لاہور میں ہوں لاہور کے کورٹ میں آج ہمارا نکاح ہوگا۔۔۔

میں آ تو گئ ہوں پر میرے اندر ایک فطری گھبراہٹ اور جھجھک ہے جانے کیوں پر کچھ اچھا محسوس نہیں کرپارہی میں۔۔۔


مجھے صبح سے شام ہوگئ ہے خاور کا انتظار کرتے ہوئے مگر وہ ابھی تک نہیں آیا پتا نہیں وہ کہاں رہ گیا؟ڈر بھی لگ رہا ہے کہ کہی کوئی اُس کے ساتھ حادثہ نہ پیش آگیا ہو پر نہیں اللہ خیر کرے گا مجھے اچھا گُمان اور سب کچھ اچھا سوچنے چاہیے اور تھوڑا مزید اُس کا انتظار کرنا چاہیے کیا پتا راستے میں ہو۔۔۔


اندھیرا اب اپنا راستہ بنارہا ہے پر خاور کا کچھ اتا پتا نہیں اُس کا سیل فون تک آف ہے میں کیا کروں؟"کیا میں اپنے نانا کے پاس چلی جاؤں؟"مگر وہ جب پوچھے گے میں یہاں کیسے اور کیوں؟تو میں اُن کو کیا جواب دوں گی میرے پاس تو اُن کے کسی سوال کا جواب نہیں۔۔


مجھے اب ڈر لگ رہا ہے خاور تم کہاں ہو؟پلیز آجاؤ مجھے تمہارا انتظار ہے میری خوشی اب آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہے تم نے تو مجھ سے کہا میں نے وہ کیا پر پھر تم کیوں نہیں آئے؟سب ٹھیک تو ہے نہ؟میں کس سے بات کروں کچھ سمجھ نہیں آرہا میں تو یہاں کسی کو جانتی تک نہیں۔۔۔۔

یااللہ میری مدد فرما


احساس سے عاری نظروں سے تارا نے ڈائری کا ورق پلٹا تو آگے والا پیج پھٹا ہوا تھا جس کو دیکھ کر وہ گہری سانس بھرتی اگلا پیج کھولا۔۔۔۔۔


"زندگی بہت ظالم شے ہے وہاں مارتی ہے جہاں تک اِنسان کی سوچ تک نہیں جاتی۔۔۔"

گذشتہ پیج میں جہاں اپنی خوشیوں کا اِظہار تھا وہی اب خستہ عجیب حالت میں ایک پیج تھا یہ جس کے الفاظ بھی بِکھرے ہوئے تھے کوئی اور پڑھتا تو اُس کو کچھ سمجھ نہیں آتا مگر یہ تارا تھی جس نے یہ اِتنی مرتبہ پڑھا ہوا تھا کہ اب اُس کو یاد ہوگیا تھا۔۔۔

کچھ پانی لکھتے ہوئے چاندنی کی آنکھوں سے نکلا تھا تو کچھ پانی ہربار پڑھتے ہوئے تارا کی آنکھوں سے نکل کر اُس کاغذ میں جذب ہوگیا تھا۔۔۔۔۔


سب جھوٹ تھا فریب تھا لاچ تھی"دغابازی تھی سب کچھ تھا مگر محبت نہ تھی میرا وہم تھا میرا گُمان تھا۔

اور مجھے یہ ابھی تک سمجھ نہیں آرہا میرے ساتھ ایسا کیوں کیا ہوا؟میری کیا تھی خطا جو مجھے اِتنی بڑی سزا ملی؟میرا جُرم کیا تھا؟مجھے نہیں پتا اور شاید کبھی پتا چلے بھی نہ۔

خاور نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا اُس نے میرا دل ایسے توڑا ہے کہ میں اگر باقی کی زندگی بیٹھ کر اُس کو جوڑنا بھی چاہوں تو جوڑ بھی نہ پاؤں۔۔

کوئی انسان اِتنا مطلبی کیسے ہوسکتا ہے جو اپنے مفاد میں آگے اِتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ اپنے رشتوں کا لحاظ تک بھول جاتا ہے۔۔۔۔

میری اور میرے دل کی حالت ایسی ہے جو بیان سے باہر ہے۔۔۔۔

میں چاہتی ہوں میرے اندر آج شدت سے یہ تمنا جاگی ہے کہ کاش۔۔۔۔

کاش جو اُس نے میرے ساتھ ایسا کیا ایسا اُس کے ساتھ بھی ہو۔۔۔

کوئی اُس کو محبت کے لارے دے پھر اُس کو تنہا چھوڑ دے چھوڑے تب جب اُس کی محبت کا کوئی عالم نہ ہو واپسی کے سارے راستے مسدود ہو۔۔

میرے جذبات کی اُس کے سامنے کوئی قدر و قیمت نہیں پر میں چاہتی ہوں ایسا اُس کی اپنی بہن کے ساتھ ہو۔۔۔کوئی اُس کی بہن کو محبت کے جھوٹے دلاسے دے اور عین نکاح کے وقت اُس کو چھوڑدے ٹھیک ویسے جیسے میں سُہاگن بنتی بنتی رہ گئ۔۔۔"جیسے میرے ارمانوں اور میرے جذباتوں کا خون ہوا ہے ویسے اُس طرح اُس کا بھی ہو میں جانتی ہوں ایسا نہیں ہوگا کچھ مگر میں اپنے اِس دل کا کیا کروں؟جو یہ سب چاہتا ہے کیونکہ اُس کو میرا تو کوئی احساس نہیں مگر جب اپنی بہن پر آئے گی تو اُس کو اچھے سے لگ پتا جائے گا شاید تب اُس کو میرا احساس ہو۔

اُس کو پتا چلے جو اُس نے کیا تھا وہ کتنا بڑا گُناہ تھا۔۔۔

کہتے ہیں دُنیا مکافات عمل ہے

میں اپنا مکافاتِ عمل چاہتی ہوں میں اپنا فیصلہ اللہ پر چھوڑا ہے پر میں چاہتی ہوں "وہ برباد ہوجائے جو اُس نے میرے ساتھ کیا کوئی اُس کی بہن بیٹی کے ساتھ کرے تاکہ وہ عبرت حاصل کرے۔۔۔۔


تارا نم نظروں سے مزید پڑھنے والی تھی جب دروازہ نوک ہونے پر اُس کا دھیان بھٹکا تھا۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

دروازے پر کون ہوگا؟یہ وہ اچھے سے جانتی تھی مگر وہ اِس وقت ایسی پوزیشن میں نہیں تھی کہ کسی سے مل پاتی یا بات کرپاتی۔۔۔۔

تارا دروازہ کھولو۔۔۔۔ازلان کی آواز اور دروازہ نوک کرنے پر وہ ناچاہتے ہوئے بھی اُٹھ کھڑی ہوئی اور آہستہ سے چلتی دروازے کے پاس آکر دروازہ کُھولا تو اپنے سامنے ازلان کو دیکھا جس کے چہرے پر اُس کے لیے فکرمندی کا عنصر نمایاں ہوا تھا۔۔

تارا کیا حالت بنالی ہے یار اپنی تم نے۔۔۔۔۔ازلان کو تکلیف ہوئی زیادہ رونے کی وجہ سے اُس کی آنکھوں سے کاجل خراب ہوگیا تھا چہرے پر مٹا مٹا سا میک اپ شکن زدہ کپڑے بِکھرے بال وہ کہی سے بھی پاکستان کی معروف ماڈل نین تارا بٹ نہیں لگ رہی تھی جو ہر وقت خود کو تیار رکھتی تھی اپنے ناک پر ایک مکھی تک کو بیٹھنے نہیں دیا کرتی تھی۔۔۔۔

آپ کو کوئی کام تھا؟جواب میں تارا نے محض اِتنا پوچھا

گلا خراب ہوگیا ہے تمہارا؟ازلان کی پریشانی میں اضافہ ہوگیا۔

آپ کو اگر کوئی بات نہیں کرنی تو میں کمرہ لاک کرلوں اپنا؟تارا نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر کہا تو ازلان کی نظر بیڈ پر موجود ڈائری پر گئ تو وہ ساری بات جان گیا

جس دن تم اِس ڈائری کو آگ لگاؤ گی یقین جانو اُس دن تمہاری زندگی میں موجود سارا رنجیدہ پن ختم ہوجائے گا میری مانو اِس ڈائری کو ختم کرو اور اپنی زندگی کی نئ شروعات کرو۔۔۔۔ازلان نے سمجھانے والے انداز میں کہا

میری زندگی میں رنجیدہ پن تب ختم ہوگا جب میں اپنی بہن کی آخری خُواہشات کو پورا کردوں گی"حیات نہیں تو کیا ہوا فضا تو ابھی بچی ہے نہ۔۔۔۔۔تارا طنز نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی تو ازلان شاک کی کیفیت میں بس اُس کو دیکھتا رہ گیا۔۔۔۔۔

فضا؟آر یو سیریس تارا وہ ابھی بچی ہے تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہو؟کیا ہوگیا ہے تمہیں تم تو معصوم ہوا کرتی تھی جس کو چڑیا کی تکلیف سے بھی تکلیف ہونے لگتی تھی پھر اب تم نے خود کو ایسا کیوں بنایا ہوا ہے؟تمہارے اِس بدلے سے تمہاری بہن نے واپس نہیں آنا تارا یہ بات جان لو تم بس۔۔۔۔ازلان نے تھوڑا سختی سے کہا

میری بہن بھی بڑی عمر کی خاتون نہیں تھی۔۔۔۔۔تارا نے جتاتی نظروں سے اُس کو دیکھا

تارا مجھے یقین نہیں آرہا اِتنا سب کچھ ہونے کے باوجود تم یہ سب کرنا چاہ رہی ہو"کیا تمہیں لگتا ہے چاندنی ایسا چاہتی ہوگی کہ تم بُری بنو؟کیا اُس نے اِس مقصد سے اپنی ڈائری کو چھوڑا اور خود کو ختم کرلیا تھا۔۔۔ازلان نے سوالات اُٹھائے تو تارا نے سرجھٹکا

میں جانتی ہوں آپ ایسا کیوں بول رہے ہیں آپ تو حیات کے طلبگار ہیں"مگر پتا ہے کیا ازلان بھائی میرا ظرف آپ جیسا نہیں جو سمندر کی طرح اپنے اندر خاموشی سمو لوں۔۔۔۔"جو میرا ہوکر کسی اور کے پاس جاتا ہے میں پھر اُس کو اپنا نہیں بناتی۔۔۔۔۔تارا کے لہجے میں کوئی لچک نہیں تھی وہ دو ٹوک انداز میں گویا ہوئی تھی۔

کہنا آسان ہے مگر کرنا بیحد مشکل ہوتا ہے تارا"حیات میری کبھی نہیں تھی۔۔۔۔ازلان سنجیدگی سے بس اِتنا بولا

بلکل اُس کو تو احناف چاہیے تھا۔۔۔۔۔تارا چُبھتے ہوئے لہجے میں بولی

تارا بدلے کی آگ میں بس تم جل سکتی ہو کچھ کر نہیں سکتی اِس لیے میری مانو اپنا کوئی مزید خسارہ نہ کرو پیچھے ہٹ جاؤ۔۔۔۔ازلان نے ایک اور کوشش کی

میرے خسارے کی آپ فکر نہ کرے میں عادی ہوں اور بہت ڈھیٹ ہوں قیامت بھی دل پر گُزرے تو کسی کو کانوں کان خبر تک ہونے نہیں دیتی آپ جائے اور اپنا ناشتہ کرے مجھے دوبارہ دیکھے گے تو مختلف پائے گے میں تارا ہوں اِتنی جلدی سے پیچھے نہیں ہٹوں گی۔۔۔۔تارا سنجیدگی سے بولی تو ازلان اُس کو دیکھتا رہ گیا جس کے چہرے سے بغاوت صاف جھلک رہی تھی۔۔۔۔

تارا

ازلان بھائی پلیز جائے۔۔۔۔۔ازلان کچھ کہنے والا تھا جب تارا نے درمیان میں اُس کو ٹوکا تو ازلان ایک نظر اُس پر ڈالتا وہاں سے چلاگیا"اُس کے جانے کے بعد تارا نے اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا۔۔۔۔

"میرا ٹارگیٹ کبھی فضا نہیں تھی اگر وہ ہوتی تو میں اپنا وقت حیات پر ضائع نہ کرتی اور نہ اپنی زندگی کا سُرمایہ پکے پکائے پھل کی طرح اُس کی جھولی میں ڈالتی"بادشاہ کی جان طوطے میں اور اختر جتوئی کے ساتھ خاور جتوئی کی جان حیات جتوئی میں ہے اور میرا ٹارگیٹ بھی وہی رہے گی۔۔۔۔دروازے کے ساتھ اپنی پشت ٹِکاتی تارا خود سے بڑبڑائی تھی اُس کو فضا میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا وہ جانتی تھی جتنا یہ گھروالے حیات کو چاہتے تھے جتنا وہ اُس کی تکلیف میں تڑپ اُٹھتے تھے ویسے وہ کبھی فضا کی تکلیف میں نہیں تڑپے گے

❤❤❤❤❤❤❤❤

میں آج ولیمہ نہیں چاہتا تھا۔۔۔وہ لوگ ناشتہ کرکے ڈرائینگ روم میں بیٹھے تو احناف نے سب کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا تو وہ لوگ چونک کر اُس کو دیکھنے لگے جس کا چہرہ ہر احساس سے عاری تھا

وجہ؟الطاف صاحب نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھا

"ہاں کیا وجہ ہے احناف جو تم ایسا بول رہے ہو میں نے ولیمہ کا ڈریس تک خود ڈیزائن کروایا ہے اگر ولیمہ لیٹ ہوگیا تو وہ ڈیزائن تو پُرانہ ہوجائے گا۔۔۔حیات بھی بول پڑی

شادی کے ساتھ ولیمہ بھی ایک ساتھ طے پایا تھا اور تمہیں پتا ہے اِنویٹیشن بھی ہر گھر میں پہنچ چُکا ہے ایسے میں اگر دن بدلے گے تو لوگ عجیب قسم کی باتیں کرنا شروع ہوجائے گے۔۔۔"ویسے بھی آج رات ہماری فلائٹ ہے آمریکا کی۔۔۔سُلطان بھی احناف کو دیکھ کر بولا تو احناف نے لب بھینچ کر سب کو دیکھا جن کو بس اپنی پڑی تھی۔.

وجہ کا ہونا ضروری نہیں میں بس ابھی نہیں چاہتا۔۔۔احناف نے سنجیدگی سے کہا

اِنویٹیشن پہنچ گیا ہے تمہیں یہ پہلے کہنا چاہیے تھا اب کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔۔الطاف صاحب اُس کی بات ماننے سے انکاری ہوئے

سہی بول رہا ہے الطاف اگر شادی ہوگئ ہے تو ولیمہ آج ہو یا کل اِس میں کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔اُسماعیل صاحب نے بھی کہا تو احناف کو جیسے چُپ لگ گئ۔۔۔

آپ ہی سمجھائے احناف کو۔۔۔حیات اُسماعیل صاحب کو دیکھ کر بولی تو سب مسکرائے سِوائے احناف کے

ویسے تارا اور ازلان نہیں آئے ساتھ؟بینش بیگم انعم بیگم کو دیکھ کر بولی

تارا سورہی تھی اور ازلان کے سر میں درد تھا اُس نے کہا وہ آرام کرے گا۔۔۔انعم بیگم نے کہا

ویسے اصغر ماننا پڑے گا ازلان نے کم عمری میں ہی تمہارا بہت ساتھ دیا ہے۔۔ الطاف صاحب اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھ کر بولے

جی بھائی صاحب اللہ کا شکر ہے۔۔۔۔۔اصغر صاحب جواباً بولے

ایکسکیوز می۔۔۔۔احناف اپنی جگہ سے اُٹھتا اُن سے معذرت کرتا وہاں سے جانے لگا۔

احناف کو کیوں ہوا ہے کافی خاموش اور سنجیدہ سا ہے۔۔۔اختر صاحب کو احناف کا رویہ کٹھکا

میں دیکھتی ہوں۔۔۔۔حیات بھی اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی

ہاں جاؤ اور دیکھو کیا بات ہے۔۔۔مُنیبہ بیگم نے کہا

جاب کی وجہ سے شاید کوئی پریشانی ہو۔۔۔بینش بیگم نے اندازہ لگایا

ضرورت کیا ہے کروڑوں کا بزنس ہونے کے باوجود دو ٹکے کی جاب کرنے کی۔۔۔مُنیبہ بیگم ناپسندیدہ لہجے میں بولی

بچہ اگر کچھ کرنا چاہتا ہے تو اُس کو ٹوکنے کی ضرورت نہیں بلکہ اُس کا ساتھ دینا چاہیے۔۔۔اُسماعیل صاحب نے کہا

ویسے جیسے آپ نے تارا کو سپورٹ کیا اور اُس نے ماڈلنگ کرنا شروع کی۔۔۔اختر صاحب طنز ہوئے

اگر وہ ماڈلنگ کرنا چاہتی تھی تو میں نے اِجازت دے کر کوئی غلط کام نہیں کیا۔۔۔اُسماعیل صاحب نے سنجیدہ لہجے میں کہا تو اُنہوں نے گہری سانس خارج کی۔۔


"احناف؟

احناف اپنے کمرے کی بالکنی میں کھڑا ہوتا تارا کو کال کرنے والا تھا جب حیات بھی وہاں آئی تو اُس کو دیکھ کر احناف سخت بدمزہ ہوا تھا وہ ابھی اکیلا رہنا چاہتا تھا پر کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو اُس کو اکیلے رہنے دیتا۔

کہو؟احناف اپنا سیل فون جیب میں ڈالتا اُس کو دیکھنے لگا

کیا ہوا ہے؟

تمہارا رویہ کافی عجیب سا ہے۔۔۔۔حیات پریشانی سے اُس کو دیکھ کر بولی

کچھ نہیں ہوا اور میں ٹھیک ہوں بس کچھ دیر اکیلے رہنا چاہتا ہوں"مگر بات یہ ہے کہ یہاں میں سکون کا سانس تک نہیں لے پارہا۔۔۔۔احناف تلخ ہوا

اوو ہو کیا ہوگیا ہے ایسا بھی جو تمہیں سانس لینے میں بھی مشکل ہونے لگی ہے"اور اپنی ایک دن پہلے آئی بیوی سے کون ایسے بات کرتا ہے؟حیات کو اُس کا انداز پسند نہیں آیا

حیات کیا تم مجھے تھوڑی اسپیس دے سکتی ہو پلیز؟جواباً احناف نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر کہا

احناف۔۔۔حیات حیرت سے اُس کو دیکھنے لگی

میں ہی چلا جاتا ہوں۔۔۔احناف کوفت سے مُبتلا ہوکر کہتا وہاں سے جانے لگا جبکہ پیچھے حیات حق دق اُس کا رویہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگی جو اُس کی سمجھ سے باہر تھا۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

ماضی:

نین۔۔۔۔۔

تارا جو حیات کی سالگرہ کے دن باہر نکلتی اپنے کام سے جارہی تھی احناف کا اُس کو درمیان میں روکنا حیران کرگیا۔

کوئی کام ہے کیا؟تارا نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھا

آئے لو یو۔۔۔۔۔۔جواب میں احناف نے دل کی گہرائیوں سے اُس کو دیکھ کر کہا تو "تارا کا گلا خُشک ہوا اور اُس کو یکایک حیات کا احناف کو پرپوز کرنا یاد آیا جو احناف نے اُس کا قبول نہیں کیا تھا

آپ کے پاس کچھ اور نہیں ہوتا کیا بات کرنے کے لیے؟تارا اپنا سرجھٹک کر محض اِتنا بولی

تمہیں میری محبت نظر کیوں نہیں آتی آخر۔۔۔۔احناف بے چین سا اُس کو دیکھنے لگا

میرے خیال سے آپ کو آج حیات نے پرپوز کیا ہے آپ کو اُس کے بارے میں سوچنا چاہیے"کیونکہ وہ آپ سے پیار کرتی ہے جبکہ میرے اندر آپ کے لیے ایسی کوئی فیلینگز نہیں ہیں۔۔۔تارا سنجیدگی سے بولی

مجھ سے کون پیار کرتا ہے میں اِس بارے میں نہیں جاننا چاہتا میں بس تمہیں چاہتا ہوں تم بس میری بن جاؤں خود سے محبت نہ کرواؤں تو پھر کہنا۔۔۔احناف اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں لیتا بولا تو تارا جانچتی نظروں سے اُس کا چہرہ دیکھنے لگی جہاں وہ دیکھ سکتی اُس کی آنکھوں میں اپنا عکس"وہ حیران تھی کہ احناف "حیات کا پرپوز ٹُھکراکر بھاگتا ہوا اُس کے پیچھے آیا تھا"وہ اُس کا طلبگار ہمیشہ رہا تھا مگر آج وہ ایسا کچھ کرے گا اِس کی اُمید"تارا کو نہیں تھی یعنی وہ حیات پہ اُس کو ترجیح دے رہا تھا کیا اُس میں ایسا کچھ تھا جو احناف جیسا شخص ہر بار سوالی بن کر اُس کے پاس آتا تھا"جانے وہ کتنی بار اُس کو خالی ہاتھ لوٹا چُکی تھی مگر وہ جانے کس مٹی کا بنا ہوا تھا جو پھر سے اُس کے پاس آجاتا تھا۔

آپ کو مجھ سے پیار کیوں ہے؟"ہوسکتا ہے محض یہ ہمدردی ہو۔۔۔۔۔کچھ سوچ کر تارا نے کہا تو احناف نے نظریں اُٹھاکر اُس کو دیکھا جو اُس کو ہی دیکھ رہی تھی۔

یہ ہمدردی نہیں میرا پیار ہے پر اگر تمہیں یہ ہمدردی لگ بھی رہا ہے تو میں بتادوں تمہارے علاوہ میں کسی اور کا تصور نہیں کرسکتا تمہیں کسی اور کے ساتھ دیکھتا ہوں تو میرا خون کھول اُٹھتا ہے۔۔۔۔۔احناف شدت سے بولا

میرے لیے کیا کرسکتے ہیں آپ؟تارا نے ایک قدم اُس کی طرف بڑھایا اور چیلینج کرتی نظروں سے اُس کو دیکھا

"کچھ بھی۔۔۔۔احناف نے بنا سوچے سمجھے جواب دیا

کچھ بھی؟تارا یکطرفہ مسکرائی

آزما کر دیکھ لو مایوس نہیں کروں گا تمہیں۔۔۔۔احناف نے اُس کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کا دباؤ بڑھایا

مجھے ڈر لگتا ہے۔۔۔۔تارا نے اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ سے نکالا مگر احناف نے اُس کو ایسا کرنے نہیں دیا

کس سے؟احناف ناسمجھی سے اُس کو دیکھا

بے وفائی سے اور۔۔۔۔تارا بنا اُس کو دیکھ کر بولی

اور؟

اُس کو خاموش دیکھ کر احناف نے جاننا چاہا

اور دھوکے سے اپنا اعتبار ٹوٹنے سے مجھے ڈر لگتا ہے مجھے ڈر لگتا ہے کہ اگر میں کسی سے پیار کروں گی تو وہ مجھے چھوڑ دے گا۔۔۔۔تارا نے کہا تو احناف نے اُس کو دیکھ کر گہری سانس لی

مجھ پر یقین کرو نین میں کبھی تمہیں دھوکہ نہیں دوں گا۔۔۔۔احناف نے پُریقین لہجے میں کہا

آپ بھی تو مرد ہو اور دھوکہ مرد کی فطرت میں ہوتا ہے۔۔۔۔۔تارا طنز بولی

تم اِتنا بدگُمان کیوں ہو مردوں سے؟احناف سمجھ نہیں پایا

پتا نہیں۔۔۔۔تارا نے ٹالا

نین یہاں دیکھو میری طرف۔۔۔۔احناف نے ٹھوڑی سے پکڑ کر اُس کا چہرہ اپنی طرف کیا

مجھے تمہاری نیلی آنکھوں سے عشق ہے۔۔۔۔احناف نے بتایا

آپ نے بتایا نہیں میرے لیے کیا کرسکتے ہیں آپ؟تارا نے اُس کی بات نظرانداز کی

میں نے بتایا کچھ بھی اور کچھ بھی کا مطلب ہوتا ہے کچھ بھی۔۔۔۔۔۔احناف نے اپنی بات پر زور دیا

میں کیسے مان لوں؟تارا کو جانے کیوں احناف پر اعتبار کرنے سے ڈر لگ رہا تھا اُس کو پتا تھا جو وہ احناف سے اب کروانا چاہے گی وہ اُس کو سخت ناگوار لگے گا اور ہوسکتا تھا پھر احناف بھی باقی سب کی طرح اُس سے نفرت کرنے لگ جاتا

حیات کا پرپوزل قبول کرلے۔۔۔۔۔تارا نے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تو احناف نے چونک کر اُس کو دیکھا

سوری مگر میں نہ خود کسی اور کا بن سکتا ہوں اور نہ تمہیں کسی اور کا ہونے دوں گا۔۔۔۔۔احناف گھمبیر لہجے میں بولا تھا جس کو سن کر تارا جانے کیوں مسکرائی اور اُس کو اپنے قریب مسکراتا دیکھ کر احناف کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی۔۔۔

میں نے کب کہا آپ اُس کے بن جائے؟تارا نے اُس کو دیکھ کر آئبرو ریز کیے

مطلب؟احناف کو سمجھ نہیں آیا

آپ اُس کو خود سے پرپوز کرے اُس سے پیار کا دعویٰ کرے"اپنے ہونے کا شدید احساس کروائے رشتے کی بات تک کرے"منگنی بھی کرلے"شادی تک بات بھی پہنچ جائے مگر نکاح؟" وہ نہ ہو آپ بھری محفل میں بولے گے کہ آپ کو یہ نکاح قبول نہیں پھر میں مانوں گی کہ آپ کو واقع مجھ سے محبت ہے۔۔۔.تارا اُس کو دیکھ کر بولتی گئ تو اُس کی بات سن کر احناف کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آیا وہ سمجھ نہیں پایا کہ یہ کیا تارا اُس کو کرنے کا بول رہی ہے۔۔۔۔

نین؟

"بے یقینی ہی بے یقینی تھی احناف کی نظروں اور لہجے میں میں۔۔

کوئی مسئلہ ہے کیا؟"آپ کو تو مجھ سے پیار ہے نہ پھر وہ کرے جو میں کرنے کا بول رہی ہوں کیونکہ آپ نے خود کہا تھا میرے لیے آپ کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔۔۔۔تارا لہجے میں تمسخر سمٹ آیا

تمہارے لیے جان بھی حاضر ہے پر نین یہ جو تم کرنے کا بول رہی ہو مجھے لگتا ہے اِس بات کا اندازہ تمہیں خود بھی نہیں۔۔۔۔'آئے مین وہ ہماری کزن ہے میری دوست بھی ہے اور تم چاہتی ہو میں اُس کو دھوکہ دوں"اپنے پیار کے جھوٹے جھانسے میں لاؤں"اور پھر اُس کا دل توڑدوں۔۔تم ایسا کیسے کرنے کا بول سکتی ہو مجھے یقین نہیں آرہا۔۔۔۔۔اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا احناف عجیب کیفیت سے دو چار ہوا

یہی تھا آپ کا پیار صد افسوس کہ آپ پہلے امتحان میں ہی فیل ہوگئے۔۔۔۔تارا نے سرجھٹک کر کہا اُس کو احناف سے یہی اُمید تھی

نین مجھے نہیں پتا تم ایسا کیوں چاہتی ہو مگر میں ایسا نہیں کرسکتا۔۔۔احناف نے اُس کو دیکھ کر کہا

ٹھیک ہے ایز یو وِش جیسے آپ کی مرضی کوئی زور زبردستی نہیں ہے مگر آپ میری بھی ایک بات کان کھول کر سُن لے آج کے بعد آپ دوبارہ میرے راستے میں نہیں آئے گے اور نہ ایسی کوئی چیزی لائنز بولینگے"میں کیا کرتی ہوں کس سے دوستی کرتی ہوں کس کے ساتھ گھومتی ہوں اُس سے آپ کا کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔تارا سنجیدگی سے دو ٹوک لہجے میں بولی

تم ایسا نہیں کرسکتی۔۔۔۔احناف کو بُرا لگا

میں ایسا کروں گی مسٹر احناف جتوئی۔۔۔۔۔تارا مضبوط لہجے میں بولی

تمہیں آخر حیات سے مسئلہ کیا ہے؟"تم کیوں ہمارے درمیان اُس کو لانا چاہتی ہو۔۔۔۔۔احناف زچ ہوا

اگر آپ میری بات ماننا نہیں چاہتے تو میں کیوں بتاؤں آپ کو؟"آپ محض کزن کے علاوہ میرے لگتے کیا ہیں؟تارا نے طنز نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

نین پلیز میری محبت

مجھے لفظی محبت نہیں چاہیے احناف آپ کو پروف دینا ہوگا۔۔۔۔تارا اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر بولی

جو تم چاہتی ہو وہ ممکن نہیں۔۔۔۔احناف نے سنجیدگی سے کہا

میں نے جو آپ سے کہا وہ یاد رکھیے گا آج کے بعد آپ میری پروائیویسی میں دخل اندازی نہیں کرینگے۔۔۔۔تارا اِتنا کہتی اپنی گاڑی کی طرف بڑھی تھی"پیچھے احناف کی نظروں نے دور تک اُس کا تعاقب کیا تھا

❤❤❤❤❤❤❤

حال!

ولیمہ اسپیشل

تمہارا موڈ ٹھیک ہوا؟حیات اپنے برابر بیٹھے احناف سے پوچھنے لگی مگر نظریں سامنے مہمانوں پر جمی ہوئیں تھیں۔۔۔۔۔۔

ہمممم۔۔۔احناف بے چین سا یہاں سے وہاں دیکھتا اُس سے بس اِتنا بولا

شکر اللہ کا اب میں تمہیں ایک بات بتاتی چلوں یہ رِنگ میری ناپ کی نہیں ہے کیا تم بھول گئے ہو میری ناپ؟"انگھوٹی لیتے وقت مجھ سے ایک بار مشورہ لیتے تو اچھا تھا کیونکہ وہ تو میری اُنگلی میں جیسے پھس چُکی تھی میں نے بڑی مشکل سے اُس کو نکالا تھا۔۔۔۔حیات جھرجھری لیکر اُس کو بتانے لگی تو احناف کے چہرے پر زخمی مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا۔۔۔۔

حیات

"احناف اُس سے کچھ کہنے والا تھا مگر نظر جب سامنے آتی تارا پر گئ تو الفاظ جیسے ختم ہوگئے تھے وہ بس یک ٹک دیوانوں کی طرح آہستہ چلتی ہوئی تارا کو دیکھنے لگا جو اسکن کلر کے فراق میں حد سے زیادہ سے پیار لگ رہی ہے۔۔۔"وہ آج جم کر تیار ہوئی تھی تاکہ کسی کو یہ نہ لگے کہ وہ اُداس ہے۔۔۔۔"


افففف مجھے پتا نہیں تھا یہ اِتنا سج سنور کر آئے گی۔۔۔حیات کی نظر جب تارا پر گئ تو وہ بولی مگر احناف کچھ سُن کہاں رہا تھا وہ تو بس اُس کی آنکھیں دیکھ رہا تھا کیونکہ آج تارا نے پہلی بار اپنی آنکھوں میں سیاہ لینز ڈالے تھے۔۔۔"یعنی وہ اب اُس کو اپنی آنکھوں کے رِنگ سے بھی محروم رکھنے والی تھی یہ سوچ کر احناف کو اپنے اندر درد کی ٹیسیں اُٹھتی محسوس ہوئی

Congratulations czn.

تارا اسٹیج پر آتی حیات کی طرف ایک پھولوں کا بُکے تھامتی ہوئی بولی تو وہ کافی تعجب سے اُس کو دیکھنے لگی۔

تھینک یو پر کل تم کہاں تھی؟حیات نے پوچھا

میں کل بزی تھی ورنہ آپ دونوں کو شادی کی مُبارک ایک ساتھ کل ہی دیتی خیر آپ دونوں کو بہت مُبارک ہو بہت اچھے لگ رہے ہیں ساتھ۔۔۔۔تارا احناف کو نظرانداز کرتی حیات کو دیکھ کر بولی تو اُس کے چہرے پر مغرور پن کا تاثر نُمایاں ہوا

ہم دونوں بنے ہی ایک دوسرے کے لیے ہیں۔۔۔۔حیات نے اپنا ہاتھ احناف کے ہاتھ میں دیا تو یہ منظر بڑے ضبط سے تارا نے دیکھا

آپ بھی بہت لکی ہیں۔۔۔تارا نے اِس بار براہ راست احناف کو دیکھ کر کہا جس کی آنکھیں اُس سے بہت کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔۔۔

ایکسکیوز می۔۔۔۔تارا احناف سے نظریں ہٹاتی معذرت کرتی اسٹیج سے اُترنے لگی تو اُس کے ڈوپٹے کا کونہ احناف کی گھڑی میں اٹک گیا تھا یہ اچانک ہوا تھا یا احناف کی کوئی سازش تھی تارا جان نہ پائی بس پلٹ کر سنجیدگی سے احناف کو دیکھنے لگی جس نے اپنا وہ ہاتھ اُٹھایا ہوا تھا۔"اور خاموش سا اُس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

"تارا ایک نظر آس پاس ڈالتی تھوڑا جُھک کر اُس کی گھڑی سے اپنا ڈوپٹہ آزاد کرنے لگی ایسے میں وہ اپنے چہرے پر احناف کی نظروں کا ارتکاز بخوبی محسوس کرپارہی تھی جس سے اُس کے ہاتھوں میں کپکپی سی آگئ تھی۔۔۔جبکہ یہ سین حیات کافی اکتاہٹ سے دیکھ رہی تھی۔۔

میں مدد کرتا ہوں۔۔۔۔احناف نے کہہ کر اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ کے اُپر رکھا تو تارا نے سختی سے اپنے ہونٹوں کو بھینچ کر احناف کو دیکھا جو اب جان کر اُس کے ڈوپٹے کا کونہ اپنی گھڑی میں پھسا رہا تھا۔۔۔

توبہ ہے ایک کام تم دونوں سے نہیں ہورہا ہٹو میں کرتی ہوں۔۔۔۔حیات سے جب تارا کا احناف کے اِتنا پاس کھڑا رہنا مزید برداشت نہیں ہوتا تو کہہ کر آگے بڑھنے لگی جب تارا نے اچانک اپنے ڈوپٹے کو کھینچا تھا جس سے اُس کا ڈوپٹہ پھٹ گیا تھا مگر وہ نظرانداز کرتی نیچے اُترنے والی تھی جب اُسماعیل صاحب کی آواز نے اُس کو رُکنے پر مجبور کیا۔۔۔۔

تارا میری جان یہاں آؤ اور ازلان تم بھی۔۔۔۔اُسماعیل مسکراکر آخر میں ازلان سے بولے جو ابھی وہاں پہنچا تھا۔۔۔۔

جی نانا جان۔۔۔۔تارا اُن کے پاس آتی سوالیہ نظروں سے اُن کو دیکھنے لگی"ازلان بھی جبکہ وہی آگیا تو اُسماعیل ایک طرف تارا کو کھڑا کیا اور دوسری طرف ازلان کو تو یہ دیکھ کر احناف کو کچھ غلط ہونے کا احساس شدت سے ہوا تھا وہ سانس رُکے اپنے دادا کو دیکھنے لگا جن کے چہرے پر آج ایک الگ سی چمک اور خوشی تھی۔۔۔


"آج میں ایک بہت بڑا اور ضروری اعلان کرنے جارہا ہوں۔۔۔اُسماعیل صاحب نے مائیک پر کہا تو ہر ایک کی توجہ اُن کی طرف مبذول ہوئی

کہی اِن دونوں کا رشتہ تو نہیں کرنے کا سوچ رہے؟حیات نے اندھیرے میں تیر پھینکا تھا مگر احناف نے اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو زور سے بھینچا تھا

میں اپنی نواسی تارا کا ہاتھ اپنے ہونہار پوتے ازلان کے ہاتھ میں دیتا ہوں۔۔۔۔اُسماعیل صاحب محبت سے تارا کا ماتھا چوم کر اُس کا ہاتھ ازلان کے ہاتھ میں دیا تو اُن دونوں کی رنگت پل بھر میں فِق ہوئی تھی تارا تو بُت بنی اپنے نانا کو دیکھے جارہی تھی جنہوں نے ایک دفعہ پوچھنا تو دور بتانا تک گوارا نہیں کیا تھا دوسری طرف اُسماعیل صاحب کے ایک جُملے نے جیسے احناف کی سانسیں نکال لی ہو اُس کو اپنا دل بند ہوتا محسوس ہورہا تھا وہ شاک کی کیفیت میں بیٹھا اُن کو دیکھنے لگا جو اور کچھ بھی کہنے میں مصروف تھے پر احناف کو کچھ اور سُنائی کب دے رہا تھا۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

دادا جان۔۔۔۔ازلان نے کچھ کہنا چاہا مگر اُسماعیل صاحب نے اُس کو خاموش رہنے کا اِشارہ کیا تو وہ دل پر پتھر رکھتا چُپ ہوگیا تھا مگر تارا؟"وہ تو اُسماعیل صاحب کو اِتنا خوش دیکھ کر جیسے گونگی بہری بن گئ تھی اُس کو اگر کچھ پتا تھا تو بس یہ کہ اُس کے نانا آج خوش ہیں اور تارا اپنی کسی بات کی وجہ سے اُن کی خوشی کو مانند کرنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔"یہ وہ ایک واحد ہستی تو تھی جو اُس سے خلوص دل سے محبت کرتی تھی"جس کی محبت اور اپنائیت میں نہ تو کوئی بناوٹ تھی اور نہ کوئی اپنا غرض۔۔۔۔۔۔۔

ابو جان اِتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے ہم سے پوچھا تو ہوتا۔۔۔۔اختر صاحب اُن کے پاس آکر آہستگی سے بولے

تم سے میں کیوں پوچھتا؟فیصلہ میں نے اپنی تارا کے حق میں کیا ہے اور اصغر سے میں بات کرچُکا تھا۔.اُسماعیل صاحب نے بہت کچھ باور کروایا تو انعم بیگم اپنے شوہر کو دیکھنے لگیں جو خلاف توقع آج خاموش سے تھے اور اُن کی یہ خاموشی انعم بیگم کو کسی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ لگی۔۔۔۔

اصغر۔۔۔اختر صاحب نے اصغر صاحب کو گھورا

بی پی ہائے نہ کرو آپ مہمان ہیں آس پاس گھر جاکر بات ہوگی۔۔۔اصغر صاحب سے پہلے مُنیبہ بیگم بول اُٹھی

م۔۔میں۔۔۔آتی۔۔ہوں۔۔۔۔۔تارا کو لگا اگر وہ مزید وہاں رُکے گی تو اُس کا سانس رُک جائے گا تبھی اُلٹے پاؤں چلتی وہ اسٹیج سے اُترنے لگی تو ہر کوئی بڑھ چڑھ کر اُس کو مُبارکباد دینے لگا جن کو وہ نظرانداز کرتی گئ۔۔۔۔

واؤ بم بلاسٹ تھا یہ تو۔۔۔۔حیات اِتنا کہتی سائیڈ پر دیکھا تو احناف کی جگہ اُس کو خالی نظر آئی

یہ احناف کہاں چلاگیا؟حیات حیرت سے آس پاس دیکھتی منہ ہی منہ میں بڑبڑائی

حیات تم نے سُنا دادا ابو نے کیا کہا؟اُس کے پاس سومل آکر بیٹھی

ہاں جی وہ تارا تمہاری بھابھی بننے والی ہے مُبارک ہو جی۔۔۔۔حیات نے منہ کے زاویئے بگاڑ کر کہا

بکو نہیں یار مجھے وہ اپنی بھابھی کے روپ میں قبول نہیں ہے۔۔ سومل نے اُس کو گھورا

ویل میں کیا کرسکتی ہوں"تمہیں یہ اپنے دادا ابو سے کہنا چاہیے۔۔۔۔حیات شانے اُچکاکر بولی

ہاں اب تو تمہیں یہی کہنا ہے نہ خود تو مزے سے اپنی زندگی اکیلے گھر میں گُزار کر عیش کروں گی اور ایک میں ہوگی جو ساری عمر اُس تارا کو دیکھتی رہے گی۔۔۔۔سومل دانت پیس کر بولی

تمہاری بھی ایک دن شادی ہونی ہے۔۔۔۔حیات نے اُس کو گھورا

خاور سے۔۔۔سومل قدرے شرماکر بولی

پلیز سومل بھائی کا تو تم سوچو بھی نہ۔۔۔حیات نے تاسف سے اُس کو دیکھ کر کہا

کیوں نہ سوچوں؟سومل کو اُس کی بات پسند نہیں آئی

کیونکہ وہ تم میں انٹرسٹڈ نہیں ہے اچھا ہے جو تم بھی اُن میں انٹرسٹ لینا چھوڑدو۔۔۔۔حیات نے وجہ بتائی

وہ بھی مجھ سے پیار کرینگے تم دیکھنا۔۔۔۔سومل نے اُس کو چیلنج کیا

اوکے جی دیکھتے ہیں۔۔۔۔حیات نے جان چُھڑوائی جیسے

❤❤❤❤

تارا تیز تیز قدموں سے چلتی جارہی تھی جب اچانک کسی نے اُس کو بازو سے پکڑ کر اپنے طرف کھینچ کر ایک کمرے میں لاکر دروازہ زور سے بند کیا تھا۔۔"اِس اچانک افتاد پر تارا چیخنے والی تھی جب احناف نے اُس کے منہ پر اپنا مضبوط ہاتھ جما کر اُس کی چیخ کا گلا گھونٹا

نین۔۔۔۔احناف پیاسی نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا تو تارا نے نفرت سے اُس کا ہاتھ جھٹکا

تم نے انکار کیوں نہیں کیا؟"دماغ کہاں ہوتا ہے تمہارا دادا جان نے بھری محفل میں اِتنا بڑا فیصلہ سُنایا اور تم چُپ رہی کیوں؟"تم نے اُن کو انکار کیوں نہیں کیا۔۔۔۔احناف سختی سے اُس کو کندھوں سے تھام کر بولا تو تارا زخمی نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی جو پاگل ہونے کے در پر تھا۔۔۔

کیونکہ وہ میرے نانا ہیں مجھے اُن سے محبت ہے۔۔۔۔"میں اُن کے فیصلہ پر ایک بار پہلے انحراف کرچُکی ہوں مگر دوبارہ یہ غلطی نہیں کروں گی وہ اگر چاہتے ہیں میں ازلان سے شادی کروں تو میں کروں گی۔۔۔۔تارا نے کہا تو احناف پھٹی پھٹی نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا۔

آر یو میڈ نین مطلب کہنا تو دور تم نے ایسا سوچ بھی کیسے لیا؟"تم میرے نکاح میں ہو نین تم میری ہو صرف اور صرف میری میں تم سے بے تحاشا محبت کرتا ہوں تم میری جان ہو اور تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ تم نکاح کے اُپر نکاح کرو گی۔۔احناف اپنا ماتھا اُس کے ماتھے سے ٹِکاتا تھکے ہوئے لہجے میں بولا تو تارا نے ایک لمبا سانس اپنے اندر کھینچا

مجھے ط۔۔۔لا۔ق طلاق چاہیے۔۔۔۔تارا نے اٹک اٹک کر اپنی بات پوری کی تو اُس کی بات پر حناف کا خون کھول اُٹھا

میں تمہاری جان لے لوں گا نین اگر دوبارہ ایسی کوئی بکواس کی تو۔۔۔احناف بولا نہیں بلکہ دھاڑا تھا

میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گی کبھی آئے ہیٹ یو۔۔۔تارا بے خوفی سے بولی

رہنا تو تمہیں بس میرا ہوکر ہے پھر تمہاری مرضی خوشی سے یا زبردستی سے مگر میں تمہیں طلاق مرتے دم تک نہیں دوں گا۔۔۔۔احناف نے زور سے اُس کو دیوار کے ساتھ لگائے کہا تو تارا نے غُصے سے اُس کو گھورا جواباً اُتنی ہی چاہت سے احناف نے جُھک کر اُس کی پیشانی میں بوسہ دیا۔۔۔۔

مجھے نہیں دے سکتے تو جاؤ اور ابھی سب کے سامنے حیات کو طلاق دو۔۔۔۔آئے پرومس میں ساری ناراضگی ختم کردوں گی اور نانا کو بھی بتاؤں گی کہ ہمارے درمیان کیا رشتہ ہے پلیز احناف میری بات مان جاؤ جو میں کہہ رہی ہوں وہ کرجاؤ اُس کے بعد ہمارے درمیان کوئی نہیں ہوگا پلیز احناف۔۔۔۔تارا ایک ہاتھ اُس کے سینے پر دوسرا اُس کے گال پر رکھ کر اُمید بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی تو احناف نے التجائیہ نظروں سے اُس کو دیکھا

نین بُرائی کا بدلا بُرائی نہیں ہوتا۔۔۔۔احناف نے اُس کو سمجھانا چاہا جس پر تارا کے تاثرات یکدم تن گئے تھے۔

گو ٹو ہیل مرجاؤ تم احناف آئے ریئلی ہیٹ یو میں کبھی تمہیں معاف نہیں کروں گی۔۔۔"اور اگر تم نے مجھے طلاق نہ بھی دی تو خلع کا آپشن ہے میرے پاس۔۔۔۔تارا نے پوری قوت سے اُس کو دھکا دے کر خود سے دور کیا مگر احناف کو یہ دوری کہاں برداشت تھی۔۔۔

نین کوئی ایسا قدم مت اُٹھانا کہ بعد میں خود ہی تمہیں پچھتانا پڑے۔۔۔۔احناف نے سنجیدگی سے کہا

اووو تو اب تم مجھے دھمکی دو گے؟تارا نے تمسخرانہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

حیات سے نکاح کرنا میری مجبوری تھی نین پلیز میری مجبوری کو سمجھو اور اپنا غُصہ ختم کرو۔۔۔۔احناف نے اُس کو دیکھ کر کہا

مرد کبھی مجبور نہیں ہوتا احناف اور تم تو بلکل بھی نہیں تھے"تم نے جان کر حیات سے نکاح کیا کیونکہ وہ تمہیں اچھی لگنے لگی تھی۔۔۔"اور وہ دن دور نہیں جب وہ تمہارا بچہ پیدا کرے گی پھر بھی تم نے یہی کہنا ہے کہ"نین میں مجبور تھا ہمارا اسلام ہمیں یہ اِجازت نہیں دیتا کہ بیوی سے چھ ماہ سے زیادہ دور رہا جائے۔۔۔۔تارا ہذیاتی انداز میں چلائی تھی مگر اُس کی آخری بات پر احناف اِس پیچیدہ حالت میں ناچاہتے ہوئے بھی مسکرایا تھا اور یہ دیکھ کر تارا کا خون کھول اُٹھا تھا جبھی آگے بڑھ کر ایک تھپڑ اُس کے گال پر مارا تھا کیونکہ وہ اُس کی مسکراہٹ کا ایک الگ مطلب نکال چُکی تھی

تم نے کیسے سوچ لیا میں تمہارے ساتھ ایسا کروں گا؟ایک غلطی کی ہے دوسری نہیں کرسکتا۔۔۔۔احناف نے اُس کو اپنے حصار میں لیا

واقعی احناف تم نے مجھے اِتنا بیوقوف سمجھا ہوا ہے؟تارا نے ناگواری سے اُس کو دیکھا

میں نفس کا اِتنا کچا نہیں ہوں نین اِس بات کا اندازہ تمہیں بخوبی ہونا چاہیے "تین سالوں سے تم میرے نکاح میں ہو کئ راتیں میں نے تمہارے کمرے میں گُزاری ہیں مگر ایک حد میں رہ کر تو اگر میں اپنی محبوب بیوی سے دوری اختیار کرسکتا ہوں تو حیات سے بھی کرسکتا ہوں۔۔۔احناف اُس کے چہرے پر آتے بالوں کو پیچھے کرتا بولا تو تارا لاجواب ہوئی تھی۔

گُذشتہ رات تم بھول چُکے ہو شاید۔۔۔۔۔کچھ توقع بعد تارا نے کہا تو احناف نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھا

❤❤

کچھ دن پہلے!

اگلے دن تارا کی آنکھ کُھلی تو اپنے بلکل پاس اُس کو دیکھ کر تارا نے نے رُخی سے کروٹ بدلی تھی۔۔۔۔

نین۔۔۔احناف نے بیحد نرمی سے اُس کا نام لیا

صبح ہوگئ ہے اب تم جاؤ۔۔۔۔تارا بنا اُس کو دیکھ کر بولی

ناراض ہوگئ ہو؟احناف کو پریشانی ہوئی

تمہیں کیا؟"تمہیں تو جو چاہیے تھا وہ مل گیا نہ اب جاؤ پلیز لِیو می الون۔۔۔۔تارا نے ناگوار لہجے میں اُس سے کہا

نین تمہیں پتا ہے مجھے تمہارا ایسے بات کرنا اچھا نہیں لگتا تو پلیز آئیندہ مجھ سے پیار سے بات کرنا۔۔۔احناف اُس کا رُخ اپنی جانب کرتا سنجیدگی سے دو ٹوک لہجے میں کہا تو تارا نے شکوہ کرتی نظروں سے اُس کو دیکھا جو بس حُکم کرنا جانتا تھا ااور اُس کے چہرے پر شرمندگی کا کوئی آثار نہیں تھا

میرا کام نہیں ہوا تھا احناف اور ہمارے درمیان یہی طے ہوا تھا کہ جب تک ہمارا نکاح نانا جان کے سامنے ظاہر نہیں ہوتا ہم دونوں آپس میں ازواجی رشتہ قائم نہیں کرینگے"پر تم اپنی بات سے مُکر گئے۔۔۔۔تارا نے جیسے شکوہ کیا

اِس میں کیا مسئلہ ہے ابھی چلتے ہیں دادا جان کے پاس اور بتاتے ہیں اپنے نکاح کا۔۔۔۔احناف جلدی سے اُس کے اُپر چادر ہٹاتا بولا تو تارا نے اُس کو گھورا

زیادہ ہوشیار مت بنو۔۔۔۔تارا بھی اُٹھ کر بیٹھ گئ۔

میں کل پریشان تھا اور تمہارا دیا گیا گفٹ مجھے خاص پسند نہیں آیا تبھی یہی لینے آگیا۔۔۔احناف شوخ ہوا

بہت بُرا مذاق تھا"اور میں بھولی نہیں کیسے تم نے میرے بغیر کیک کاٹا تھا۔۔۔تارا نے جلے کٹے انداز میں کہا تو احناف مسکرایا

تم نے کہا تھا ورنہ تمہاری اِجازت کے بغیر میں سانس بھی نہ لوں ویسے بھی میں نے اپنی سالگرہ پہلے تمہارے ساتھ منائی تھی کل تو بس ایک دِکھاوا کیا تھا۔۔۔احناف نے کہا تو تارا کو چُپ لگ گئ۔۔۔

تمہیں میرا جسم چاہیے تھا احنا

نین۔۔۔۔۔تارا کچھ سخت کہنے والی تھی جب اچانک احناف نے اُس کا جبڑا دبوچا تھا اُس کے ایسے وحشیانہ انداز میں تارا نے بے تاثر نظروں سے اُس کو دیکھا تھا

تم جانتی ہو ایسا کچھ نہیں میں چاہتا ہوں تمہیں۔۔۔احناف اُس سے دور ہوتا اپنے بالوں میں ہاتھ پھسا کر بولا

آپ مجھے ڈائیورس دے اور حیات کے ساتھ اپنی زندگی کی شروعات کرے اُس کو ہر وہ حق دے جو اُس کا آپ کی طرف آتا ہے مگر برائے کرم اُس سے پہلے مجھے طلاق دے تاکہ میں بھی اپنی زندگی کی نئ شروعات کرسکوں ازلان کے ساتھ۔۔۔۔تارا نے جیسے ہر ممکن کوشش کی اُس کا صبر آزمانے کی

تمہیں شرم نہیں آتی نین میرے نکاح میں ہوکر تم کسی غیر شخص کا ذکر کررہی ہو۔۔۔۔احناف کا خون کھول اُٹھا تھا

کیئرنگ کزن ہے میرا اگر آپ شراکت کرسکتے ہیں تو میں علیحدہ ہوسکتی ہوں"مجھے میری زندگی جینے کا پورا اختیار ہے۔۔۔۔تارا نے باور کروایا

نین اُس سے پہلے میں خود کو ختم کرلوں گا اور اگر تمہارے بارے میں ازلان نے ایسا سوچا بھی تو میں اُس کو بھی جان سے ماردوں گا۔۔۔۔احناف نے زور سے اپنا ہاتھ دیوار پر مارا

اور کر بھی کیا سکتے ہیں آپ سِوائے اِس کے۔۔۔۔تارا نے سرجھٹکا اور دروازے کے ہینڈل پر اپنا ہاتھ رکھ کر جانے والی تھی جب احناف نے اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا

تم باہر جاؤ گی اور انکار کروں گی۔۔۔احناف نے حکیمہ لہجے میں اُس سے کہا

میں ایسا کچھ نہیں کروں گی تمہارے کہنے پر تو بلکل بھی نہیں۔۔۔۔تارا جتاتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہتی ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کر باہر آئی تو اُس کو اپنے سر میں درد کی ایک شدید ٹیس اُٹھتی محسوس ہوئی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے کی وجہ سے بے اختیار اُس نے دیوار کا سہارا لیا

نین

کیا ہوا تمہیں؟احناف جو اُس کو ہی دیکھ رہا تھا جبھی اُس نے جب تارا کو دیوار کا سہارا لیتا دیکھا تو بھاگتا ہوا اُس کے پاس آیا

کچھ نہیں ہوا ٹھیک ہوں میں تمہیں ہمدردی جتانے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔تارا خود کو کمپوز کرتی اُس کو دیکھ کر بولی جس کو نظرانداز کیے احناف نے اُس کا ماتھا چھو کر ٹیمپریچر چیک کرنے کی ایک کوشش کی جو نارمل تھا۔۔

میں چھوڑدوں تمہیں؟احناف نے پوچھا

آپ مجھے آلریڈی چھوڑ چُکے ہیں۔۔۔۔۔تارا نے نخوت سے سرجھٹکا

میں گھر کی بات کررہا تھا۔۔۔احناف کو اُس کی بات پسند تو نہیں آئی مگر اِس بار وہ کچھ نہیں ملا

پر میں سہارے کی بات کررہی تھی جو تم نے درمیان میں چھوڑدیا تھا۔۔۔۔تارا اپنی بات کہہ کر وہاں رُکی نہیں تھی پیچھے احناف نے بڑے ضبط سے اُس کو جاتا دیکھا تھا۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

ماضی!

یہ لیں منہ میٹھا کریں۔۔۔۔۔احناف اپنے دادا کی طرف آیا تو ارسلان اُس کے راستے میں آتا پرجوش لہجے میں بولا

میٹھائی کس خوشی میں؟احناف نے اُلجھن بھری نظروں سے اُس کو دیکھا

وہ دراصل تارا کا رشتہ پکا کردیا ہے دادا جان نے اُس خوشی میں۔۔۔۔ارسلان نے بتایا تو پل بھر میں احناف کی آنکھیں سرخ ہوئی تھی اور وہ جبڑے بھینچتا بنا آس پاس دیکھے تارا کے کمرے میں آیا جو کھڑکی کے پاس کھڑی تھی۔

نین۔۔۔۔۔۔احناف نے دھاڑنے والے انداز میں اُس کو پُکارا تو تارا پلٹ کر اُس کو دیکھنے لگی جو اپنے چہرے پر کافی نافہم تاثرات سجائے اُس کو گھور رہا تھا

مبارکباد دینے آئے ہیں آپ مجھے؟تارا بازوں سینے پر باندھے اُس سے جواب طلب ہوئی

تم کیا چاہتی ہوں آخر کیوں میرے ساتھ ایسا کررہی ہو؟احناف اُس کے سر پر نازل ہوا

میری بات مان جائے یا پھر وہ ہونے دے جو ہونے جارہا ہے کیونکہ میں بہت خوش ہوں اپنے اِس نیولی فِکس ہوئے رشتے سے۔۔۔تارا اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر اٹل انداز میں گویا ہوئی

تمہاری شادی صرف مجھ سے ہوگی اور یہ بات میں دادا جان سے خود کروں گا۔۔۔۔"چلو میرے ساتھ۔۔۔۔احناف اُس کا ہاتھ پکڑتا کمرے سے باہر لیجانے لگا تو تارا کے چہرے کی ہوائیاں اُڑنے لگک

احناف چھوڑے میرے ہاتھ۔۔۔۔تارا نے اُس کے ہاتھ پر مُکے مارے

کیوں کیا مسئلہ ہے اب شادی کرنے کا اِتنا شوق چڑھا ہے تو میں یا وہ کیا فرق پڑتا ہے؟احناف رُک کر اُس کو گھورنے لگا

آپ ایسا کچھ نہیں کرینگے میں بتارہی ہوں میں خود کو کچھ کرلوں گی۔۔۔۔۔تارا نے کہا تو اُس کے بدلتے انداز دیکھ کر احناف بونچکار کر رہ گیا۔

دماغ سہی ہے تمہارا۔۔۔احناف نے جیسے اُس کی عقل پر ماتم کیا

میں سنجیدہ ہوں۔۔۔۔تارا نے محض اِتنا کہا

میں تمہیں کسی اور کا ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تمہیں نہیں پتا یہ دن میں نے کتنے عذاب میں گُزارے ہیں۔۔۔احناف بے بس ہوا

مجھے جاننا ہے آپ کُھل کر بتائیے گا مگر اُس سے پہلے آپ کو میری چاہت کو قبول کرنا ہوگا۔۔۔۔تارا ایک قدم اُس کی طرف بڑھائے بولی

مجھے۔۔۔قبول۔۔۔ہے۔۔۔۔احناف نے کہا تو تارا بے یقین نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی۔

کیا کہا؟تارا نے اپنا کان اُس کے قریب کیا

تم جو کہو گی میں وہ کروں گا مگر اُس سے پہلے میری ایک شرط ہے۔۔۔۔احناف نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر کہا

میں نانا سے کہہ دوں گی کہ مجھے اُن کے پسند کیے جانے والے لڑکے سے رشتہ منظور نہیں۔۔۔۔تارا نے اندازہ لگائے کہا

یہ بات نہیں ہے میری شرط الگ ہے۔۔۔۔احناف نے کہا تو تارا کا ماتھا ٹھٹھکا

بتائے؟تارا پوری طرح سے اُس کی جانب متوجہ ہوئی

تمہیں آج مجھ سے نکاح کرنا ہوگا۔۔۔۔احناف نے کہا تو تارا کے ماتھے پر بل نمایاں ہوئے تھے

اِتنی جلدی کیا ہے آپ کو؟تارا ناگواری سے بولی

میں شیورٹی چاہتا ہوں کہ تم بس میری رہو گی۔۔۔۔احناف نے کہا

میں نے جب کہا ہے تو بس نہ نکاح کیوں کرنا ہے؟ایسے تو سب کو خبر ہوجائے گی پھر کیا فائدہ۔۔۔تارا جھنجھلائی

کسی کو کچھ پتا نہیں چلے گا تم بس حامی بھرو باقی سب میں سنبھال لوں گا۔۔۔احناف نے پُریقین لہجے میں کہا

میں نانا کی رضا کے بغیر ایسا کچھ نہیں کروں گی۔۔۔تارا نے بے ساختہ اپنا سر نفی میں ہلایا

خود تم اُن کو کہہ نہیں سکتی مجھے بتانے بھی نہیں دے رہی تو آخر تم چاہتی ہو؟احناف زچ ہوا

اِس خاندان کی بربادی چاہتی ہوں میں"اپنے ماں باپ کے خون کا حساب چاہتی ہوں"میں اپنی بہن کے ٹوٹے دل کا حساب چاہتی ہوں اُس کا خون سستا نہیں تھا احناف جو وہ اِن خودغرض لوگوں کے لیے ضائع کرگئ اور موت کو اپنے گلے لگایا۔۔۔۔احناف کے سوال پر تارا پھٹ پڑی تھی اور احناف حیرانگی سے غوطہ زن اُس کو دیکھنے لگا جس کی نیلی آنکھیں لبالب آنسوؤ سے بھرگئ تھیں۔۔۔

یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟احناف کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

حال!

تم مصروف ہو کیا؟حیات نے احناف کو مسلسل لیپ ٹاپ میں کچھ ٹائپ کرتا دیکھا تو پوچھ بیٹھی

ہاں پریزٹیشن بنارہا تھا۔۔۔احناف بنا اُس کو دیکھ کر بولا

تم نے تو اپنے نام نہاد آفس سے لِیو لی ہوئی تھی نہ پھر یہ کام؟اپنے بالوں کو جوڑے میں قید کرتی حیات نے اُس کی بات سن کر کہا

لِیو ایک دو دن کی لی تھی کل سے آفس واپس جانا ہے۔۔۔۔احناف نے کہا تو حیات کے کام کرتے ہاتھ ایک پل کو رُکے تھے

یہ مذاق تھا؟حیات نے پوچھا

تمہیں لگ رہا ہے رات کے دس بجے میں تمہارے ساتھ مسخراپن کروں گا؟احناف نے اُلٹا اُس سے سوال داغا تھا جس کو سن کر حیات کے زاویئے بگڑے تھے اور وہ سپاٹ نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی

احناف تم ایسے بیہیو کررہے ہو جیسے میں زبردستی تمہارے سر پہ مسلط کی گئ ہوں"مطلب کل ہماری شادی ہوئی ہے اور درمیان میں بس آج کا دن گُزرا ہے ہماری آپس میں کوئی بات چیت وغیرہ نہیں ہوئی ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ ٹائیم اسپینڈ نہیں کیا۔۔۔۔"اور احناف تم مت بھولو یہ بات کہ ہماری لو میریج تھی۔۔۔حیات اُٹھ کر اُس کے پاس آکر جتانے والے انداز میں اُس سے بولی

حیات کیا تمہیں نہیں لگتا تم مجھ سے زیادہ ایک بہترین ہمسفر ڈیزور کرتی تھی؟یار میں تمہارے قابل نہیں ہوں۔۔۔۔احناف لیپ ٹاپ سائیڈ پر کرتا عجیب لہجے میں اُس سے بولا جبکہ باقی آخری باتیں وہ اُس کی اگنور کرگیا تھا۔۔۔

یہ تم کیسی باتیں کررہے ہو اور اپنی شادی کے دوسرے دن کونسا شوہر اپنی بیوی سے یہ بولتا ہے۔۔۔۔حیات نے اُس کو گھورا

رات بہت ہوگئ ہے تمہیں سوجانا چاہیے کیا پتا کل تمہیں دیکھنے لوگ آئے یا تم اپنے میکے جاؤ۔۔۔احناف نے ٹالنے والے انداز میں کہا

احناف اگر کوئی بات تمہیں پریشان کررہی ہے تو مجھے کیا بات ہے؟حیات نے جاننا چاہا

کوئی بات نہیں ہے حیات۔۔۔۔احناف تھوڑا چڑ کر بولا

اوکے فائن مت بتاؤ پر اب دوبارہ میں بھی نہیں پوچھوں گی۔۔۔۔حیات کو تاؤ آیا

مہربانی ہوگی تمہاری۔۔۔۔احناف نے کہا تو حیات نے صبر کا گھونٹ بھر کر اُس کو دیکھا پھر بنا کچھ بھی کہے بیڈ پر آکر لیٹ گئ۔۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

خاور۔۔۔

خاور گھر سے باہر جانے والا تھا جب سومل نے اُس کو آواز دی تو وہ رُک کر سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا۔۔۔

ہمم کہو؟خاور اُس کی طرف متوجہ ہوا

تم چچی سے بات کب کروگے؟سومل نے تھوڑی ہچکچاہٹ سے پوچھا

کس موضوع پر؟خاور نے آئبرو ریز کیے اُس کو دیکھا

ہمارے مطلق۔۔۔۔سومل نے اپنے اور اُس کی طرف اِشارہ کیا

ہمارے مطلق سے کیا مُراد؟کیا ہمارے درمیان کچھ ہے؟خاور نے اُلٹا اُس سے سوال داغا تو وہ شش و پنج کا شکار ہوئی ہر وقت منہ پھاڑ کر بولنے والی سومل کی ہوائیاں اِس وقت خاور کے سامنے اُڑی ہوئی تھی۔۔۔

خاور وہ میں

سومل سے کچھ بولا نہیں گیا

میں وہ کیا سومل؟جلد سے بتاؤ جو تمہیں کہنا ہے کیونکہ میں آلریڈی لیٹ ہوں۔۔۔خاور نے عجلت کا مُظاہرہ کیا

خاور آئے لو یو"اور میں چاہتی ہوں تم گھر میں ہمارے رشتے کی بات آگے بڑھاؤ۔۔۔سومل اپنی آنکھیں زور سے میچ کر بولی تو خاور کی پیشانی میں لاتعداد بلوں کا اضافہ ہوا تھا

سومل یہ گھٹیا باتیں تمہارے دماغ میں کس نے ڈالی؟"تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں یعنی خاور جتوئی تم سے شادی کروں گا۔۔۔۔خاور سخت ناگوار نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولا تو سومل حق دق اُس کو دیکھنے لگی ہر وقت ہر ایک سے ادب سے بات کرنے والے "خاور کا انداز ہی آج نرالہ تھا سومل کو یقین نہیں آیا کہ یہ وہی خاور ہے۔۔۔۔

خاور؟؟سومل کے جیسے الفاظ ہی ختم ہوگئے

گو ٹو ہیل۔۔۔۔خاور نخوت سے سرجھٹک کر کہتا باہر کی طرف بڑھا تھا اور سومل جہاں تھی وہی کی وہی رہ گئ۔۔۔

چچچچچچ بڑے افسوس کی بات ہے نہیں؟"یعنی کچھ سال قبل کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ میں ایک بے سہارا اور یتیم لڑکی ہوں جس سے ہر کوئی ہمدردی تو کرسکتا ہے مگر پیار؟پیار ہرگز نہیں کرسکتا کوئی" کیونکہ ایسے لوگ پیار کے لائق نہیں ہوا کرتے مگر آئے واز تِھنکنگ کہ تم نہ تو بے سہارا ہو اور نہ یتیم نہ مسکین پھر تمہیں کیوں پیار کی بھیک مانگنے کی ضرورت پیش آگئ؟"چلو میرے پاس تو بس میرے نانا تھے پر تمہارے پاس تو سب کچھ ہے تم تو رشتوں سے مالا مال ہو"پھر بھی یہ سب کچھ؟"آئے مین یہ رول تو مجھے پلے کرنا چاہیے تھا نہیں؟تارا جو ابھی اپنے کمرے سے باہر آئی تھی اُس نے جب اُن دونوں کو باتیں کرتا دیکھا تو اپنے قدم اُن کی طرف بڑھائے تھے"اور جہاں پہلے وہ تینوں اُس کی عزت نفس کو مجروح کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا کرتے تھے ویسے اُس نے بھی ہاتھ آئے موقع کا فائدہ بہت اچھے طریقے سے اُٹھایا تھا

یہ کہنے والی تھی تمہیں حیات تھی بہتر ہوگا یہ طعنہ بھی تم اُس کو جاکر مارو۔۔۔۔سومل جو پہلے ہی بھری پڑی تھی"تارا کے الفاظوں نے جیسے جلے پر نمک کا کام کیا تھا۔۔۔

تم بھی ساتھ تھی نہ۔۔۔۔۔تارا نے پرسوچ لہجے میں کہا تو سومل آگ اُگلتی نظروں سے اُس کو دیکھتی جانے میں ہی عافیت سمجھی"جبکہ تارا خود ڈرائینگ روم میں آئی تھی جہاں ہر کوئی آپس میں مسکرا مسکرا باتیں کرنے میں لگا ہوا تھا یہ دیکھ کر تارا کے چہرے کے ایک سایہ آکر لہرایا تھا۔۔۔۔

"لوگوں کی زندگیوں کو برباد کرکے یہ لوگ کیسے پرسکون زندگی گُزار رہے ہیں نہ تو اِن سے دُنیاوی سکون چِھینا گیا ہے اور نہ اِن کو آخرت کا کوئی خوف ہے شاید یہ وہ لوگ ہیں جن کے سینوں میں مہر لگائی جاتی ہے۔۔۔۔تارا نفرت سے ہر کو دیکھتی سوچنے لگی اُس کو سمجھ نہیں آتا تھا کہ لوگوں کی زندگیوں کو اُجاڑنے والے اِتنے مطمئن کیسے رہا کرتے تھے؟

"آپ کے لیے کچھ لاؤں۔۔۔۔؟تارا جو اپنی سوچو میں تھی"ماجدہ کی آواز پر اُس کو دیکھنے لگی مگر اُس کے ہاتھ میں دودہ کا گلاس دیکھ کر اُس کی سمیل پر تارا کو اپنا جی متلاتا محسوس ہوا جبھی اُس کو اِشارے سے جانے کا کہتی خود وہ منہ پر ہاتھ رکھے اپنے کمرے کی طرف بھاگی تھی۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

اللہ کرے یہ تارا مرجائے۔۔۔۔سومل کسی طوفان کی طرح اپنے اور مومل کے مشترکہ کمرے میں آتی دانت پیس کر بولی

خیریت۔۔۔۔۔مومل نے ایک نظر اُس پر ڈالی

تمہیں نہیں پتا آج اُس نے مجھے کتنی باتیں سُنائی ہے اور تمہیں پتا ہوگا بھی کیسے تم تو اپنی محبت کا سوگ منانے میں مصروف ہو۔۔۔۔سومل اُس کو دیکھ کر طنز ہوئی

بکو نہیں یار میں واقعی میں اپسیٹ ہوں سُلطان میرا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔۔۔۔۔مومل حسرت بھرے لہجے میں بولی

وہ تمہارا نہیں تھا اب اِس لیے اُس کو چھوڑ کر تم میری مدد کرو۔۔۔۔سومل اُس کے پاس بیٹھ کر بولی

کیسی مدد؟مومل نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا

تم کسی بھی طرح سے چچی مُنیبہ کے کانوں میں خاور کی شادی کی بات ڈالو اور اِشاروں کِناروں میں میرا نام بھی ایڈ کرو۔۔۔سومل نے بڑے رازدرانہ انداز میں کہا

سومو ڈونٹ بی اسٹوپڈ یہ کام میرا نہیں امی کا ہے اِس لیے یہ کام تم اُن کو سونپو۔۔۔۔مومل نے اپنا دامن چُھڑوایا

امی کو تو کوئی فکر نہیں کہ گھر میں دو جوان بیٹیاں موجود ہیں اُن کی شادی کا سوچا جائے اب بھی اُن کو ازلان کا خیال آیا ہے۔۔۔سومل سرجھٹک کر بولی

کیونکہ وہ ہمارا بڑا بھائی ہے۔۔۔مومل نے یاد کروایا

تارا؟

وہ کونسا ہم سے بڑی ہیں اور تم دیکھنا ازلان کی لائیف میں زیادہ اُس کو ٹِکنے نہیں دوں گی میں" بس میری خاور سے شادی ہوجائے پھر دیکھنا تم کیسے سب کو سیدھا کرتی ہوں۔۔۔۔۔سومل کی سوچ کافی دور تک تھی۔۔۔

❤❤❤❤❤

تارا نے قے کرنے کے بعد نڈھال حالت میں واش بیسن پہ جُھکا اپنا سراُٹھائے آئینے میں خود کو دیکھا تو وہ خود کو پہچان نہ پائی"پیلی رِنگت آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے دیکھ کر اُس نے اپنا چہرہ اچھے سے واش کیا پھر کمرے میں واپس آتی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آتی اپنی آنکھوں کے نیچے موجود سیاہ حلقوں پر میک اپ کا ٹچ دینے لگی تاکہ اِن نشانات کو چُھپا پائے۔۔"اپنی کاروائی سے فارغ ہوتی اُس نے اب مطمئن نظر خود پر ڈالی جبھی اُسی وقت اُس کے کمرے کا دروازہ نوک ہوا

آجاؤ۔۔۔۔اپنے بالوں کو ایک طرف کرتی تارا نے اِجازت دی

"میرا بچہ ناراض ہے کیا؟اُسماعیل صاحب کی آواز پر تارا جھٹکے سے پلٹی تھی۔

نانا آپ؟

"آپ کو کیا ضرورت ہے دروازہ نوک کرنے کی۔۔۔۔۔تارا اُن کے پاس آتی بولی

میرے سوال کا جواب نہیں یہ؟اُسماعیل صاحب نے محبت سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا

آپ سے ناراض کیوں ہوگی میں؟تارا نے اُلٹا اُن سے سوال کیا

کل میں نے تمہاری رائے کے بغیر اِتنا بڑا فیصلہ جو کرلیا۔۔۔اُسماعیل صاحب بیڈ پر بیٹھ کر بولے

میں آپ سے خفا نہیں پر نانا جان کل کا دن میرے لیے بہت شاکنگ تھا۔۔۔تارا نے گہری سانس بھر کر بتایا

ازلان بہت اچھا ہے تارا اور میں اپنی زندگی میں تمہیں خوشیاں سمیٹتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔"اُسماعیل صاحب نے کہا تو وہ یکطرفہ مسکرائی

کوئی شک نہیں کہ ازلان بہت اچھے ہیں مگر آپ کو ایک بار اُن سے پوچھنا چاہیے تھا پھر اناؤنسمنٹ کرنی چاہیے تھی۔۔۔۔تارا اُن کے پاس بیٹھ کر بولی

وہ میری بات پر کبھی اعتراض نہیں اُٹھائے گا۔۔۔۔اُسماعیل صاحب کے لہجے میں یقین تھا۔۔۔

جی یہ بات تو آپ کی دُرست ہے مگر ضروری تو نہیں نہ جو ہر ایک کی سُنے اُس کی کوئی بھی نہ سُنے۔۔۔تارا نے کہا

کہنا کیا چاہتی ہو تم؟اُسماعیل صاحب نے اِس بار سنجیدگی سے پوچھا

نانا جان وہ مجھے بچپن سے اپنی چھوٹی بہن کا درجہ دیتے ہیں۔۔۔تارا نے اُن کو سمجھانا چاہا

اِس میں کیا ہے کزنز آپس میں پہلے ایسے ہوتے ہی بہن بھائی ہوتے ہیں پہلے۔۔۔۔اُسماعیل صاحب اُس کی بات پر ایسے مسکرائے جیسے کوئی بڑا بچے کی بات سن کر مسکراتا ہے

مگر

تم ازلان کی چھوڑو اپنا بتاؤ"کیا تم خوش ہو؟تارا کچھ کہنے والی تھی جب اُسماعیل صاحب اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر بولے تو تارا کی زبان کو تالا لگ گیا۔

تارا میں کچھ پوچھ رہا ہوں؟اُسماعیل صاحب نے اُس کو کچھ بولتا نہ دیکھا تو کہا

اف۔۔۔افکورس نانا میں خوش ہوں۔۔۔۔تارا نے اٹک کر بامشکل اپنی بات مکمل کی

بس پھر میں مطمئن ہوں اپنے فیصلے پر ویسے بھی ازلان کو تو خوش ہونا چاہیے کہ میں اپنی لاڈلی اُس کو سونپ رہا ہوں۔۔۔۔اُسماعیل صاحب پرسکون لہجے میں بولے تو تارا نے کچھ کہے بنا اپنا سر اُن کے سینے پر ٹِکایا تھا

❤❤❤❤❤❤❤❤

چچی میں امی کی طرف جارہی ہوں۔۔۔۔۔حیات سیڑھیاں اُترتی ہال میں بیٹھی بینش بیگم سے بولی

احناف شام میں آئے گا اُس کے ساتھ چلی جاتی تو اچھا تھا شادی کے بعد پہلی بار اپنے میکے جارہی ہو تو اکیلے سہی نہیں لگتا۔۔۔۔بینش بیگم نے اُس کو دیکھ کر مسکراکر کہا

شام میں وہ جب آئے گا تو اپنی تھکاوٹ کا بہانہ بناکر یا تو سو جائے گا یا پھر فائلز کا انبار لیکر اسٹڈی روم میں بیٹھ جائے گا اور کہے گا کہ وہ مصروف ہے اِس سے اچھا ہے میں خود چلی جاؤں اور اُس سے کہوں زیادہ نہیں تو بس واپسی پر مجھے پِک کر لے۔۔۔۔۔بینش بیگم کی بات سن کر حیات سانس لیے بنا بولی تو بینش بیگم بس اُس کی چلتی زبان دیکھتی رہ گئ"آج سے پہلے اُنہوں نے کبھی حیات کو ایسے بات کرتا نہیں دیکھا تھا

"حیات بیٹا کیا ہوگیا ہے اِتنا روڈ کیوں ہو تم؟بینش بیگم نے پوچھ لیا

چچی جان آپ نے احناف سے کہا نہیں کہ اُس کو آج آفس نہیں جانا چاہیے تھا مطلب بس ایک دن ہوا ہے ہماری شادی کو اور آفس جاکر بیٹھ گیا ہے یعنی ایسے کون کرتا ہے جیسا اُس نے کیا ہے۔۔۔۔حیات اُن کے پاس بیٹھ کر شکایتی انداز میں بولی

میں نے منع کیا تھا مگر آفس میں ضروری کام تھا اُس کو تبھی گیا ہے ورنہ نہیں جاتا وہ آج۔۔۔بینش بیگم نے مسکراکر کہا

وہ عجیب ہوگیا ہے مطلب شادی کو ابھی اِتنا عرصہ نہیں ہوا جتنا وہ بدل گیا ہے۔۔۔۔۔حیات جھنجھلاہٹ سے بولی

حیات بیٹا ایسا ہوتا رہتا ہے تم اِتنا ری ایکٹ کیوں کررہی ہو؟"احناف کی بھی تو کوئی مجبوری ہے نہ وہ خوشی خوشی تو نہیں گیا نہ آفس۔۔۔بینش بیگم نے اُس کو سمجھانا چاہا

مجھے احناف کا رویہ برداشت نہیں ہوتا ایسا رویہ تو اُن کا بھی نہیں ہوتا جن کی ارینج میریج ہوتی ہے۔۔"میری فرینڈز نے ہمیں دعوت دی تھی جو میں نے قبول نہیں کی کیونکہ احناف کو جانا پسند نہیں تھا مطلب حد ہے۔۔حیات سرجھٹک کر بولی

احناف آئے تو میں اُس سے بات کرتی ہوں"تم پریشان نہ ہو اور ہنسی خوشی اپنے میکے جاؤ تاکہ تمہیں خوش دیکھ کر وہ بھی خوش ہوجائے۔۔۔بینش بیگم نرمی سے بولی

جی میں جاتی ہوں۔۔۔۔حیات اُٹھ کر بولی"اور اپنے قدم باہر کی جانب بڑھائے

ابھی سے یہ حال ہے تو اللہ جانے آگے کیا ہوگا۔۔۔۔حیات کو جاتا دیکھ کر بینش بیگم سرجھٹک کر بڑبڑائی۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

ماضی!

یہ لو پڑھو۔۔۔۔جواب میں تارا نے ایک ڈائری احناف کو تھمائی جو احناف نے اُس کو دیکھ کر اپنے ہاتھ میں لی جبکہ خود وہ بیڈ پر بیٹھ گئ اور اُن لمحوں کو یاد کرنے لگی جب اُس نے خود ڈائری کو پڑھا تھا۔۔۔۔

لالچ

ایسا لفظ ہے یہ "لالچ" کہ زندگی کو تباہ کردیتا ہے۔۔۔خاور کو مجھ سے پیار نہیں تھا اُس کو ہماری وہ جائداد چاہیے تھی جو ہم دو بہنوں کے نام تھی۔۔۔"خاور کو لگتا ہے میں یہ بات نہیں جانتی مگر میں سب کچھ جان گئ ہوں" اُس دن جب میں نے اپنے ٹوٹے دل سے کال ملائی تھی تو اُس کو لگا تھا جیسے وہ میری کال کاٹ گیا تھا مگر نہیں ایسا نہیں ہوا تھا کال چل رہی تھی اور وہ میں اُس کی اور مامی جان کی ساری باتیں سُن چُکی تھی اووو میرے خُدایا مجھے یقین نہیں ہوتا کہ پئسو کی حوس میں انسانوں کا خون سفید ہوجاتا ہے جو اُن کو کچھ اور دیکھائی نہیں دیتا میرے ماں باپ کا کار ایکسیڈنٹ نہیں ہوا تھا وہ ایک ایکسیڈنٹ نہیں تھا بلکہ ایک سوچی سمجھی چال تھی اُن دِنوں جب وہ لاہور جانے والے تھے۔۔

نانا اُسماعیل نے امی اور ابو کو اپنے پاس آنے کا کہا تھا کیونکہ وہ امی کو اُن کے حصے کی جائداد کے کاغذات دینا چاہتے ہیں وہ حق جو شرعی طور پر میری امی کا اُن کی طرف آتا تھا۔۔۔

مگر میرے والدین؟

وہ تو لاہور پہنچ ہی نہیں پائے کیونکہ اُن کا راستے میں ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا جس سے اللہ نے اُن کو اگلا سانس لینے کی مُہلت نہیں دی تھی۔۔۔ہم نے صبر کرلیا تھا

پر جب پتا چلا اُن کے ساتھ ایسے کرنے والے اُن کے سگے دو بھائی تھے تو مجھے یقین نہیں آیا مطلب چند رپیو کی خاطر اُنہوں نے دو انسانوں کی زندگی ختم کرڈالی یہ تک نہیں سوچا کہ اُن دونوں کے بعد اُن کے بچوں کا کیا ہوگا؟اور اُنہوں نے یہی بس نہیں کی پھر میرے معصوم دل کا بھی اُن لوگوں نے استعمال کیا خاور کی بدولت


"سولہ سالہ تارا جیسے جیسے پڑھتی جارہی تھی اُس کا پورا چہرہ پسینے سے شرابور ہوتا جارہا تھا اُس کو یقین نہیں ہورہا تھا کہ یہ سب کیا ہے؟"یعنی وہ جن کے گھر رہ رہی تھی وہ اُس کے والدین کے قاتل تھے وہ اپنے ماں باپ کے قاتلوں کے ساتھ رہ رہی تھی"ڈائری تارا کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گِری تھی۔

نانا

مجھے۔۔۔نانا کو بتانا چاہیے سب۔۔۔تارا عجیب لہجے میں خود سے کہتی باہر کی طرف بھاگی تھی۔۔۔

تارا اندھا دُھند سیڑھیاں اُتر رہی تھی جب نظر ہال میں موجود گھر کے ہر افراد پر گئ مگر جب اُس نے اُسماعیل صاحب کا جُملا سُنا تو بے بس ہوئی

"تم سب لوگ میری اولاد ہو میرے لیے ہر ایک کا الگ مقام ہے اگر تم میں سے کسی ایک کو بھی تکلیف پہنچی تو دل میرا بھی دُکھے گا۔۔۔۔


"کیسے بتاؤں نانا جان اگر سچ جاننے کے بعد اُن کو کچھ ہوگیا تو؟۔۔۔

نہیں

نہیں

نانا جان کو کچھ نہیں ہوسکتا اِن کے علاوہ میرا ہے کون؟اگر نانا جان کا ہاتھ میرے سر پر نہیں ہوگا تو یہ لوگ تو مجھے کچا کھا جائیں گے۔۔۔۔پلر کے سامنے کھڑی ہوتی تارا خود سے سوال جواب کرنے لگی اُس کی ہمت جواب دے گئ تھی وہ اِس عمر میں اُسماعیل صاحب کو کوئی صدمہ نہیں دینا چاہتی تھی۔

نین تم یہاں کیوں کھڑی ہو؟وہ جو سب کو ہنستا مسکراتا دیکھ رہی تھی احناف کی آواز پر خالی خالی نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی۔

میری مرضی۔۔۔۔تارا محض یہ بولی

نیلی پری کیا ہوا اُداس بُلبُل کیوں بنی ہوئی ہو؟احناف کو فکرمندی ہوئی

کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔تارا نے بیزاری سے جواب دیا اور واپس اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔۔۔

یہ جھوٹ ہے۔۔۔۔احناف کو یقین نہیں آیا جس پر وہ چونک کر اُس کو دیکھنے لگی جس کے چہرے کی ہوائیاں اُڑی ہوئیں تھی۔۔۔۔

یہ سچ ہے جس کو تم نے قبول کرنا ہے احناف اور میرا ساتھ دینا ہے۔۔۔۔۔تارا آس بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی تو احناف کتنے ہی پل بس اُس کا چہرہ دیکھنے لگا۔۔"جہاں اُمید کے جگنوں تھے اسر احناف اُن جگنوں کو بُجھانا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔۔

میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔۔احناف نے اُس کو دیکھ کر کہا تو تارا مدھم انداز میں مسکرائی تھی۔

❤❤❤❤❤❤

حال!

آپ کی رپورٹس آچُکی ہیں۔۔۔۔لیڈی ڈاکٹر مسکراکر اپنی جگہ پر بیٹھتی تارا کو دیکھ کر بتانے لگی جو کچھ دِنوں سے اپنی بگڑتی طبیعت سے پریشان ہوتی اپنے چیک اپ کے لیے ہسپتال آئی تھی جہاں کی ایک ڈاکٹر سے اُس کی اچھی دعا سلام تھی اور تھوڑی بہت بے تُکلفی بھی۔۔۔۔

اچھا کیا آیا ہے رپورٹس میں؟تارا نے سوالیہ نظروں سے اُن کو دیکھ کر پوچھا

آپ گیس کرے؟وہ مسکراکر اُس کو دیکھنے لگی

میرا دماغ تو خالی ہے آپ خود بتادے تو اچھا ہوگا۔۔۔تارا شانے اُچکاکر بولی

Congratulations dear,Tara you are pregnant.

ڈاکٹر نے مسکراکر بتایا تو تارا ہونک بنی اُن کا چہرہ تکنے لگی۔۔۔

Sorry?

تارا کو لگا شاید سُننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے جبھی سوالیہ نظروں سے اُن کو دیکھنے لگی۔۔۔"جبکہ دل تو آج الگ انداز میں دھڑک رہا تھا جیسے ابھی پسلیاں توڑ کر باہر آجائے گا اُس کا رواں رواں اِس وقت کان بن گیا تھا۔۔

تم پریگننٹ ہو تارا۔۔۔اُنہوں نے دوبارہ مسکراکر بتایا

میں؟

پریگننٹ ہوں؟تارا شش و پنج مبتلا ہوئی وہ سمجھ نہیں پائی کہ کیا بولے

ہاں کیوں کیا ہوا؟ڈاکٹر کو سمجھ نہیں آیا

آر یو شیور؟ مطلب یہ غلطفہمی بھی تو ہوسکتی ہے نہیں؟تارا کو ابھی بھی شک تھا

رپورٹس سامنے ہیں تمہارے خود دیکھ لو۔۔۔ اُنہوں نے گہری سانس بھر کر کہا تو تارا نے ایک ہی جست میں رپورٹ کو اپنے ہاتھ میں لیا اور اُس کو دیکھنے لگی۔

ایک بار

دو بار

تین بار

بار بار

پر اُس کا جی تھا جو بھر ہی نہیں رہا تھا وہ بس پاگلوں کی طرح رپورٹس کو پڑھنے لگی۔

میں ماں بننے والی ہوں۔۔۔۔۔بلآخر رپورٹس کو خود سے دور کرتی تارا ہنس کر بولی

ہاں تم ماں بننے والی ہو۔۔۔ڈاکٹر کو تارا ٹھیک نہیں لگی

Unbelievable.

تارا پاگلوں کی طرح ہنستی آخر میں رو پڑی

تارا

تارا کیا ہوا ہے ؟

کیا تم خوش نہیں؟

یہ تو بہت خوشی کی بات ہے پھر رونا کس بات کا؟ڈاکٹر اپنی جگہ سے اُٹھتی اُس کے پاس آئی تو تارا نے بے ساختہ اپنا سر نفی میں ہلایا

مجھے۔۔۔۔پہلی۔۔۔بار۔۔۔کوئی۔۔۔۔خوشی۔۔۔ملی ہے۔۔۔۔تو سمجھ نہیں آرہا کیسے ری ایکٹ کروں؟"ہنسوؤ یا روؤں مطلب آئے ریئلی ڈونٹ نو۔۔۔۔۔۔تارا اپنی آنکھیں صاف کرتی نم لہجے میں بولی تو ڈاکٹر بے ساختہ مسکراکر اُس کو اپنے ساتھ لگایا

میرا بچہ ہوگا جو مجھے ماما بولے گا۔۔۔"میرے اپنے وجود کا حصہ ہوگا۔۔۔جو بس میرا ہوگا جس پر بس میرا حق ہوگا۔۔۔مجھے یقین نہیں آرہا شُمائلہ مجھے یقین نہیں ہورہا۔۔۔اُس کے ساتھ لگے تارا پھوٹ پھوٹ کر روتی ہوئی بتانے لگی وہ آج عجیب کیفیت سے دوچار ہوئی تھی جس کا سامنا اُس نے آج سے پہلے کبھی نہیں کیا تھا اُس کو سوچ سوچ کر اِتنی خوشی ہورہی تھی اگر وہ بچہ سچ میں اُس کے ہاتھ آئے گا وہ تو پھر خوشی سے پاگل ہوجائے گی۔۔۔

ہاں میری جان وہ بس تمہارا ہوگا۔۔۔۔شُمائلہ اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی جواباً بولی تھی۔

احناف؟

مجھے احناف کو بتانا چاہیے وہ بہت خوش ہوگا۔۔۔"میں اُس کو بتاؤں گی پھر ہماری ایک الگ فیملی ہوگی کوئی ہمیں جُدا کرنے والا نہیں ہوگا۔۔۔ہوسپٹل کے پارکنگ ایریا میں آتی تارا یہاں سے وہاں چکر لگاتی اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر سوچنے لگی"اِس وقت اُس کو اپنا غُصہ اپنا بدلا" اپنی فرسٹریشن اپنی نفرت یہ سب یاد نہیں تھا اگر کچھ یاد تھا تو یہ کہ اُس کے پیٹ میں ایک معصوم جان تھی وہ اِس قدر خوش تھی کہ احناف کا فریب تک بھول چُکی تھی اُس کے دماغ میں کچھ بھی نہیں تھا نہ حیات نہ کوئی اور اگر کچھ تھا تو اپنا بچہ اور احناف جس کے ری ایکشن کا سوچ سوچ کر وہ پاگل ہونے کے در پر تھی۔

"احناف کو بچے بہت پسند ہیں کتنی بار مجھے وہ بتاچُکا ہے میں پہلے اُس کے آفس

نہیں نہیں میں پہلے بینکری جاؤں گی وہاں سے کیک لوں گی اُس کے بعد احناف کو کال پر وہاں آنے کا کہوں گی جہاں ہم اکثر ملا کرتے تھے وہ تو بھاگتا ہوا آئے گا پھر میں اُس کو بتاؤں گی۔۔۔گاڑی میں بیٹھنے کے بعد تارا کبھی خود کی نفی کرتی تو کبھی خود سے تانے بانے جوڑنے لگ جاتی اور پھر وہ اپنی گاڑی کو اسٹارٹ کرتی گاڑی کو بینکری کے راستے پہ کیا۔۔۔

"اپنی مطلوبہ جگہ پہنچ کر تارا نے اپنے چہرے پر ماسک لگایا اور گاڑی کو لاک کرتی باہر آئی اُس کے قدم تیز تیز بینکری کی طرف بڑھ رہے تھے وہاں پہنچ کر اُس نے احناف کا فیورٹ کیک لیا پھر خود کیک کے اُپر خوبصورت انداز میں "parents to be"لکھا پھر مسکراتی نظر اُس کیک پر ڈالی۔۔۔۔

"تارا کا اِرادہ اب گاڑی میں بیٹھ کر احناف کو کال کرنے کا تھا مگر ہٹ اُتار کر وہ جیسے گاڑی کے پاس پہنچی تو اچانک اُس کی نظر سامنے آئسکریم پارلر پر پڑی تو اُس کی خوشی کو جیسے نظر لگ گئ تھی اُس کی آنکھوں میں جہاں جگنوں روشن تھے وہ اب بُجھ گئے تھے ہونٹوں پر سجی مسکراہٹ غائب ہوگئ تھی چہرے کی چمک یکدم غائب ہوگئ تھی جیسے تھی ہی نہیں"اور کیک ہاتھ سے نیچے گِر پڑا تھا۔۔۔۔کیونکہ سامنے احناف آئسکریم کھاتی حیات کے ہونٹوں پر لگی شاید آئسکریم کو رومال سے صاف کررہا تھا یہ منظر دیکھ کر تارا کو لمحے بھر میں جانے کیا سے کیا یاد آگیا تو حیات کے مسکراتے چہرے نے اُس کے اندر جیسے آگ کے شعلے بھڑکا دیئے تھے۔۔"اُس کی آنکھ سے ایک باغی آنسو بہہ کر گال پر پھسلا تھا جس کو اُس کے بے دردی سے صاف کیا اور لات مارکر اُس کو کیک کو خود سے دور کیا جس کو اُس نے بڑی چاہ اور محبت سے خریدہ تھا۔۔

احناف یو آر چیٹر۔۔۔۔تارا کے ہونٹ پِھڑپھڑائے تھے اور بے ساختہ اُس کا ہاتھ اپنے پیٹ پر گیا تھا مگر غُصہ"نفرت اِس وقت اُس پر اِتنا حاوی تھا کہ اُس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں جیسے مفلوج ہوچُکی تھی وہ اب پہلے جیسی خوشی کو چاہ کر بھی محسوس نہیں کر پارہی تھی جبھی اپنا چہرہ ہر احساس پاک کیے وہ گاڑی میں بیٹھی تھی اور اب اُس کا اِرادہ دوبارہ ہوسپٹل جانے کا تھا۔۔۔

حیات تین آئسکریمز تم آلریڈی کھاچُکی ہو بچوں کے انداز میں اور اب میری بس ہوگئ ہے تو پلیز اب تم اُٹھنے کی تیاری کرو۔۔۔احناف نے بیزار لہجے میں حیات سے کہا

احناف شادی کے بعد ہم پہلی بار باہر آئے ہیں" تو تمہاری مہربانی ہوگی جو اِن مومنٹس کو اسپوئل نہ کرو۔۔۔حیات نے ملتجی نظروں سے اُس کو دیکھا تو احناف نے گہری سانس خارج کی

یہ لو رومال اب اچھے طریقے سے اپنی آئسکریم کھانا۔۔احناف نے کہا تو حیات نے مسکراہٹ دبائی جبکہ احناف کو جانے کیوں عجیب گھبراہٹ نے آ گھیرا تھا اُس کو کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا اُپر سے حیات کا بار بار ضد کرنا اُس کو جِھنجھلاہٹ میں مبتلا کررہا تھا۔۔۔

❤❤❤❤❤

کچھ دن بعد!

احناف نے سرخ نظروں سے اپنے ہاتھ میں موجود رپورٹس کو دیکھا تھا جن کو دیکھ کر اُس کی آنکھوں میں نمی اُترنے لگی تھی جن کو نظرانداز کیے وہ گاڑی سے باہر نکلا تھا وہ اُسماعیل صاحب کے گھر کے اندر آیا تو ہر طرف خاموشی کا راج تھا اور وہ جانتا تھا کہ گھر کے سب افراد کسی شادی میں گئے ہوئے تھے سِوائے ایک ہستی کے جس سے آج وہ ملنے آیا تھا۔۔۔"اور اُس کے کمرے کے پاس پہنچ کر احناف نے غُصے سے دروازے کو کھولا تھا جس پر تارا جو کوئی کتاب پڑھنے میں مصروف تھی چونک کر سامنے دیکھا جہاں احناف آگ اُگلتی نظروں سے اُس کو گھور رہا تھا"احناف کو دیکھ کر تارا نے ناگواری سے اُس کو دیکھا پھر کتاب کو سائیڈ پر رکھا۔

"کسی لڑکی کے کمرے میں آنے کا یہ کیا طریقہ ہے؟تارا کے لہجے میں کاٹ تھی جبکہ احناف تو اُس کی بات پر مزید غُصے میں آگیا تھا

کیا ہے یہ؟اُس نے اپنے ہاتھ میں موجود رپورٹس تارا کی طرف پھینکی جو اُس کے پاؤں کے پاس گِری

تم لائے ہو تو چیک نہیں کیا تھا کیا؟بنا رپورٹس پر ایک نظر ڈالے تارا طنز لہجے میں اُس سے گویا ہوئی تو احناف اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو زور سے آپس میں بند کیے یہاں سے وہاں ٹلہتا اپنا غُصہ کم کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگا پر جب کچھ ہاتھ نہ آیا تو ایک ہی جست میں اُس تک پہنچ کر بازو سے پکڑ کر اپنے روبرو کیا تھا

چھوڑو مجھے تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہے مجھے چھونے کی۔۔تارا خونخوار نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی

شٹ اپ بیوی ہو تم میری اور مجھے تم بتاؤ تمہاری ہمت کیسے ہوئی جو تم نے میرے بچے کی جان لی؟کس کی اِجازت سے تم نے اپنا ابارشن کروایا۔۔احناف بولا نہیں بلکہ دھاڑا تھا جس پہ تارا کی روح فنا ہوئی تھی وہ فق ہوتی رنگت سمیت احناف کا جلالی روپ دیکھنے لگی جس کی آنکھیں آگ اُگلنے کے قریب تھی پہلے جہاں ہر وقت اُس کی محبت کے دیپ جلا کرتے تھے وہاں عجیب اجنبیت تھی"وہ تو اُس کے نام کی تسبیح پڑھا کرتا تھا پھر کیسے اچانک سے اِتنا بدل گیا تھا وہ؟تارا کی آنکھیں نم ہونے لگی تھی

ڈونٹ کرائے۔"آج میں تمہاری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پگھلنے والا نہیں مجھے میرے سوال کا جواب چاہیے تو بس چاہیے تمہیں اندازہ نہیں اپنی اِس حرکت کی وجہ سے تم نے مجھے خود سے خود دور کیا ہے۔۔۔احناف کسی اچھوتے کی طرح اُس کو دور کرتا بولا تو بس تارا اُس کو دیکھتی رہ گئ پھر جلدی خود کو کمپوز کرتی احساس سے عاری لہجے میں بولی

تم میرے شوہر نہیں ہو اور نہ میں تمہاری بیوی جلدی تمہیں خلع کے کاغذات مل جائے گا پھر ہمارا یہ کاغذی رشتہ ختم ہوجائے گا،اِس لحاظ سے تمہارا کوئی حق نہیں بنتا کہ تم کوئی مجھ سے سوال جواب طلب کرو۔۔۔۔

میں تمہاری جان لے لوں گا۔۔۔اُس کی بات پہ احناف اپنے تڑپتے دل کی پُکار کو رد کرتا گلا دبوچ کر سچ مچ میں اُس کی جان لینے کے در پہ تھا

جان تو کب کا لے چُکے ہو تم۔۔۔تارا اُس کو خود دور کرتی زخمی مسکراہٹ سے بولی تو کچھ پل کے لیے احناف بول نہیں پایا

نین وہ ہمارا بچہ تھا ہمارے پیار کی نِشانی جس کو تم نے اپنی نفرت میں اِس دُنیا میں آنے سے پہلے ختم کردیا۔۔۔احناف اپنے ہاتھ آئی چیز کو توڑتا ٹوٹے ہوئے لہجے میں اُس سے بولا تو تارا بس اُس کا پاگل پن دیکھنے لگی۔

اُس کا اِس دُنیا میں نہ آنا ہی بہتر تھا میں نہیں چاہتی تھی کہ کوئی دوسری نین تارا پیدا ہو جس کی زندگی میں محض محرمیوں کو سِوا اور کچھ نہ ہو۔۔۔تارا بے لچک انداز میں بولی تو احناف نے اپنے جبڑے سختی سے بھینچے اور پلٹ کر اُس ظالم حسینہ کو دیکھا جس کے چہرے پر نہ تو کوئی پچھتاوا تھا اور نہ ندامت کا کوئی عنصر

❤❤❤❤❤❤❤

نین میں نے حیات سے نکاح کیا مانتا ہوں میں نے یہ غلط کیا"مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا مجھے تمہارے اُپر سوتن کو نہیں لانا چاہیے تھا تمہیں تکلیف پہنچی ہے اور ٹرسٹ می میرا مقصد تمہیں ہرٹ کرنا نہیں ہوتا پر میں نے حیات سے نکاح اِس لیے نہیں کیا کہ مجھے اُس سے محبت ہے میں نے اِس وجہ سے اُس کے ساتھ نکاح کیا کیونکہ اگر نہ کرتا تو اُس کی رسوائی ہوتی سو ہوتی مگر دادا جان بھی یہ بات برداشت نہیں کرپاتے میں اُن کا پوتا ہوں وہ مجھ سے سارے رشتے ختم کرلیتے مگر نین اِس کے بعد وہ ہمیں کبھی ایک ہونے نہیں دیتے تمہیں حیات پسند نہیں جانتا ہوں تم چاہتی ہو میں اُس کو طلاق دوں تو ٹھیک ہے میں اُس سے علیحدہ ہوجاؤں گا پر نین جو تم نے کیا ہے نہ وہ معافی کے قابل نہیں اللہ تمہیں معاف کر بھی لے تو میں کبھی تمہیں معاف نہیں کروں گا تم نے غلطی نہیں گُناہ کیا ہے"میرے بچے کو تم نے ختم کیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں ہمارا بچہ چاہتا تھا اور نین میں نے اپنی زندگی میں صرف اور صرف تمہیں چاہا تھا تم صبر کرتی میں وقت دیکھ کر حیات کو چھوڑ دیتا یا وہ خود مجھ سے علیحدگی اختیار کرلیتی پر یار تم نے کیوں کیا ایسا؟کیوں نین؟

کیوں؟

"احناف اُس کو دونوں بازوں سے تھامتا جواب طلب ہوا تو اُس کا انداز دیکھ کر تارا سانس روکے اُس کو دیکھنے لگی جس کی اندرونی کیفیت اُس کے چہرے سے ظاہر تھی

ا۔۔حناف

بس نین۔۔۔۔۔تارا اُس سے کچھ کہنے والی تھی جب احناف نے اِشارے سے اُس کو کچھ بھی کہنے سے باز رکھا

مجھے لگتا تھا میری محبت میں شدت ہے جو تمہیں بھی مجھ سے محبت کرنے پر مجبور کردے گی پر مجھے لگ رہا ہے جیسے میں غلط تھا تم میرے لیے نین ایک سیراب ہو جہاں تک میں پہنچنا تو چاہوں گا مگر راستہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔۔۔۔۔احناف کی آنکھ سے ایک آنسو نکل کر اُس کی ڈراھی میں جذب ہوا تھا جس کو دیکھ کر تارا ساکن ہوئی تھی"وہ ایسا تو کبھی نہیں چاہتی تھی وہ اپنی زندگی میں موجودہ دو ہستیوں پر ایک حرف تک برداشت نہیں کرسکتی تھی کجاکہ اُس کی آنکھوں میں آنسوؤں

میری بات سُنو تم۔۔۔۔۔تارا اُس کے پاس آئی مگر احناف نے اُس کو خود سے دور کیا تو وہ بے بس سی اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھنے لگی۔۔۔۔

نہیں نین بس بہت ہوگیا تمہیں مجھ سے آزادی چاہیے میرے نام سے آزادی چاہیے"میرے وجود سے آزادی چاہیے تو ٹھیک ہے میں تمہیں آزاد کردوں گا مگر صرف اور صرف اپنے وجود اپنے سائے سے "پر طلاق میں پھر بھی تمہیں مرتے دم تک نہیں دوں گا۔۔۔۔"تم نے اِن لوگوں سے بدلا لینے کے چکر میں میری محبت کو ہمیشہ ٹھکرایا مجھے ہمیشہ نظرانداز کیا اور تمہاری بے خبری کا عالم یہ ہے کہ تم نے بتائے بن میرے بچے کو ماردیا کتنی سنگدل ہو نہ تم"ظاہری طور پر جتنی نازک لگتی ہو اندر سے اُتنی سخت اور پتھر کی بنی ہوئی ہو جس کے اندر کوئی جذبات نامی چیز نہیں۔۔۔۔۔احناف اُس کو بازوں سے پکڑ کر بولا تو تارا نے اپنا سر نفی میں ہلایا اُس کو سمجھ نہیں آیا وہ کیسے احناف کو پہلے جیسا کردے۔۔۔

احناف میں

احناف میں کیا نین؟یہی نہ کہ تمہیں گِھن آئے ہوگی پر ایک حساب سے ٹھیک کیا تم نے کیونکہ اب دھوکہ صرف میں نے تمہیں دیا مجھے اِس بات کا گِلٹ نہیں رہے گا کیونکہ اصل تماشا تو میرا تم نے لگایا ہے۔۔۔احناف زخمی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کرخت آواز میں بولا تو تارا کا پورا چہرہ آنسوؤ سے تر ہوگیا وہ جو سوچے ہوئے تھی اب اپنے اندر کبھی احناف کے لیے کوئی احساس نہیں رکھے گے آج اُس کو یوں تکلیف سے تڑپتا ہوا دیکھ کر وہ خود تڑپ اُٹھی تھی۔

مُبارک ہو نین تارا بٹ آج تم کامیاب ہوگئ مجھے میرے کیئے کی سزا تم نے اچھے سے دی ہے اب میری باری ہے کہ تمہیں تکلیف دینے کی سزا بھی خود کو دوں۔۔۔۔احناف بے تاثر لہجے میں کہتا اُس کے کمرے سے باہر جانے والا تھا جب تارا اُس کے راستے میں حائل ہوئی

تمہیں تھوڑی تکلیف دی تو تم تڑپ اُٹھے ہو پر کبھی تم نے یہ سوچا ہے کہ راتوں کو میں کس ازیت سے سوتی ہوں؟"یہ بستر مجھے کاٹتا ہے میرے دماغ میں عجیب وسوسے آتے ہیں تمہیں کسی اور کے نزدیک جانے کا سوچتی ہوں تو سانس رُکنے لگتا ہے"پر شاید تمہیں اندازہ نہیں اور تمہیں کیوں ہوگا؟"اگر میری پرواہ تمہیں ہوتی تو آج کوئی اور لڑکی تمہارے نکاح میں نہ ہوتی۔۔۔۔تارا اُس کو دیکھ کر رنجیدگی سے بولی

تمہیں تکلیف ہوتی ہے تو دل میرا بھی دُکھتا ہے پر پتا ہے کیا نین؟"ہم ہر وقت اپنے دل کی سُنا نہیں کرتے کیونکہ کبھی کبھار ہمیں اپنوں کے بارے میں بھی سوچنا ہوتا ہے تم نے کہا میں حیات سے ایسا اِس لیے کروں تاکہ خاور بھائی کو مکافات عمل کا احساس ہو تو کیا یہ مکافات عمل میرے پاس لوٹ کر نہ آتا نین؟میں اگر بھری محفل میں حیات کو ٹھکراتا تو کیا میں سکون میں رہتا؟میرے سکون کی بات نہ کی جائے تو میری بہن انابیہ اگر اُس کے ساتھ کچھ غلط ہوتا تو کیا میں برداشت کرپاتا؟یا اگر ہماری بیٹی کو یہ دیکھنا پڑجاتا تو؟احناف نے اُس کو آئینے کا جو رُخ دکھایا تھا اُس کا تارا نے کبھی گُمان تک نہیں کیا تھا اُس نے تو یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ احناف اِس بات کی وجہ سے بھی اُس کی بات سے مُکر سکتا ہے۔

میں اگر تمہارا شوہر ہوں تو اُس سے پہلے ایک بہن کا بھائی ہوں میں حیات اور اپنی بات آگے بڑھانا چاہتا ہی نہیں تھا کیونکہ مجھے پتا تھا میں آخری لمحے میں کمزور پڑجاؤں گا اور ایسا کچھ کرجاؤں کہ لوگ بزدل سمجھنے لگے گے اور تم نے کہا تھا کہ مرد کبھی مجبور نہیں ہوتے تو نین یہ غلط کہا تھا کیونکہ مرد بھی مجبور ہوسکتے ہیں وہ بھی انسان ہوتے ہیں اُن کے پاس بھی دل ہوتا ہے۔۔۔۔مجبوریاں اُن کی زندگی میں بھی آتی ہے۔۔۔۔احناف نے مزید کہا تو تارا میں بولنے کی کچھ ہمت نہیں بچی تھی۔۔وہ بس خاموشی سے احناف کو دیکھنے لگی جو ہمیشہ اُس کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کی کوشش کرتا تھا اور آج جواب میں اُس نے کیا تھا؟اُس شخص کے چہرے سے ہر رنگ چِھین لیا تھا۔۔۔۔

میں اِن کو ہر چیز حاصل کرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔۔۔۔تارا بہت آہستگی سے بولی تھی۔۔

حیات نے مجھے حاصل کب کیا نین؟"کیا تم بھول گئ ہو کہ میں نے بس کم عمری سے دیوانوں کی طرح بس تمہیں چاہا ہے جس دن نکاح ہوا تھا اُس دن سے صرف بے سکون تم نہیں ہو چین"آرام مجھ سے بھی روٹھ گیا ہے ایک طرف تمہارا رویہ مجھے توڑتا ہے تو دوسری طرف یہ خیال مجھے بے چین کرتا ہے کہ میں نے نکاح کرکے حیات کے ساتھ زیادتی کی ہے اُس کے حقوق کو پورا نہ کرکے میں اُس سے زیادتی کررہا ہوں اور میں ساری زندگی اُس کو اِس بے نام رشتے سے باندھ کر رکھنے والا نہیں تھا میں چُپ ہوں تو اچھے وقت کا اِنتظار کررہا ہوں۔۔۔اِس بار احناف اپنی بات کہہ جانے کے بعد وہاں رُکا نہیں تھا بلکہ چلاگیا تھا اور پیچھے تارا میں اِتنی ہمت نہیں بچی تھی کہ وہ اُس کو روکتی یا کچھ بتا پاتی وہ تو بس نیچے بیٹھتی چلی گئ۔۔۔"اور گُذشتہ دنوں پہلے جو ہوا اُس کو یاد کرنے لگی۔

کچھ دن پہلے

تارا تم یہاں دوبارہ خیریت؟ڈاکٹر شُمائلہ نے تارا کو اپنے کیبن میں دیکھا تو تعجب سے پوچھا

مجھے رپورٹس بنوانی ہیں۔۔۔۔تارا چیئر پر بیٹھ کر بولی

رپورٹس تو میں تمہیں دے چُکی اور یہ تمہاری آنکھیں اِتنی لال کیوں ہوئی پڑی ہیں سب خیریت ہے نہ؟شُمائلہ نے فکرمندی سے اُس کو دیکھا

مجھے فیک رپورٹس بنوانی ہیں۔۔۔۔تارا نے اُس کی ساری باتوں پر جواب میں بس یہ کہا

فیک رپورٹس؟شُمائلہ نے اُلجھن زدہ نظروں سے اُس کو دیکھا تو تارا نے اُس کو اپنی ساری بات سمجھائی جس کو سن کر شُمائلہ کافی پریشان ہوئی

تارا میں یہ نہیں کرسکتی۔۔۔اُس نے جلدی سے انکار کیا

کیوں میں کونسا سچ میں ابارشن کروانے کی بات کررہی ہوں میں نے بس ایک رپورٹس کا ہے۔۔۔تارا کو اُس کا انکار پسند نہیں آیا

دیکھو تارا تمہیں نہیں لگتا یہ احناف کے ساتھ ناانصافی ہوگی؟یہ غلط ہے اِس میں ہمارے ہوسپٹل کی ساکھ بھی خراب ہوسکتی ہے یار پلیز سمجھو۔۔۔شُمائلہ نے نرمی سے اُس کو دیکھ کر سمجھانا چاہا پر اِس وقت تارا کچھ بھی سمجھنے کی کوشش میں نہیں تھی

میں تو یہاں تمہیں اپنا دوست سمجھ کر آئی تھی ورنہ لاہور میں ہوسپٹلز کی کمی نہیں ہے خیر تھینک یو میں رپورٹس کہی سے بھی بنواسکتی ہوں۔۔۔۔تارا سنجیدگی سے کہتی اُٹھنے لگی۔

رُکو بیٹھ جاؤ میں تمہارا کام کردوں گی۔۔۔۔ایک فیصلے پر پہنچ کر شُمائلہ نے کہا تو تارا نے اُس کو دیکھ کر گہری سانس ہوا کے سُپرد کی۔۔۔

❤❤❤

میں محبتوں اور رشتوں کی ترسی ہوئی لڑکی ہوں تم نے جانے کیسے سوچ لیا احناف کہ میں اپنا بچہ گِرادوں گی؟"اِتنا سنگین قدم تو میں کبھی مر کر بھی نہ اُٹھانے کا سوچوں۔۔۔۔احناف کے جانے کے بعد تارا آہستگی سے خود سے بڑبڑانے لگی تھی اور اُٹھ کر وہ رپورٹس دیکھنے لگی جو جعلی تھی۔۔۔۔

بات یہ ہے کہ تمہاری زندگی میں بہت ہیں جن سے تمہیں محبت ہے جن کے بارے میں سوچنا تم اپنا فرض سمجھتے ہو مگر مختصر یہ میری زندگی میں تمہارے اور نانا کے علاوہ کوئی نہیں۔۔۔کہنے کے ساتھ ہی تارا نے اُن رپورٹس کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا تھا۔۔۔

"میں بس تمہیں یہ بتانا چاہتی تھی کہ جب آپ کسی کی سب سے زیادہ چاہ کرو اور اگر وہ چیز چِھن جائے تو کیسا محسوس ہوتا ہے مگر تم نے کچھ اوور ری ایکٹ کرلیا ہے ایسا لگا جیسے مجھ سے زیادہ تمہیں اُس بچے سے محبت ہوگئ تھی جو میرے پیٹ میں موجود ہے۔۔۔اِس بار اُس کے لہجے میں اپنے ہی بچے کے لیے تھوڑی جیلسی کا شبہ ہوا تھا

❤❤❤❤❤❤

ماضی"!

کیسا محسوس ہورہا ہے؟کورٹ کے باہر کھڑے احناف نے اپنے برابر کھڑی تارا سے پوچھا

کچھ خاص نہیں۔۔۔۔۔تارا نے صاف گوئی کا مُظاہرہ کیا

سچ بولنا اچھی بات ہے مگر بندے کو اِتنا بھی سچا نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔احناف اُس کی بات پر بے ساختہ ہنس پڑا

میں نکاح سے پہلے آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔۔۔۔تارا اُس کے روبرو کھڑی ہوتی بولی

آئے لو یو کہنا ہے تو تمہیں نہیں لگتا پہلے"قبول ہے"کہنا بیسٹ رہے گا۔۔۔۔احناف پرسوچ لہجے میں اُس سے بولا تو تارا نے اُس کو گھورا

میں سیریس ہوں۔۔۔"تارا نے سرجھٹک کر کہا

میں کونسا نان سیریس ہوں۔۔۔احناف جواباً جلدی سے بولا

میں اپنی زندگی میں کچھ کرنا چاہتی ہوں۔"مطلب اپنے بل بوتے پر کچھ کرنا چاہتی ہوں۔۔تارا نے اُس کی بات اگنور کی

یہ تو بہت اچھی بات ہے ہر لڑکی کو خودمختار ہونا چاہیے۔۔۔۔احناف اُس کی بات سن کر مسکراکر بولا

میں ماڈلنگ کرنا چاہتی ہوں۔۔۔تارا نے کہا تو احناف کے مسکراتے لب پل بھر میں سکڑ گئے اور وہ آنکھیں چھوٹی کیے اُس کو گھورنے لگا

ایسا مشورہ تمہیں کس نے دیا؟احناف نے سنجیدگی سے پوچھا

مجھے آفر ہوئی ہے۔۔۔جانے کیوں تارا اُس کے سامنے ہچکچائی

آفر کرنے والے لازمی اسجد وغیرہ ہوگے۔۔۔۔احناف جل کر بولا

آپ کو اگر مسئلہ ہے تو آپ کی مرضی یہ نکاح نہ کرے کیونکہ میں نے ماڈلنگ کرنے کا سوچ لیا ہے اور نانا جان سے بھی میری بات ہوگئ ہے اِس مطلق اُن کو کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔۔۔تارا نے سنجیدگی سے کہا

ریئلی اُن کو کوئی مسئلہ نہیں؟احناف بے یقین ہوا

جی او مجھے اچھا لگے گا جو اگر آپ بھی اعتراض نہیں اُٹھائے گے میں شاید آپ کے اعتراض کی وجہ جانتی ہوں پر آپ فکر نہ کرے میں ماڈلنگ کے لیے نازیبا کپڑوں کا انتخاب نہیں کروں گی اور اپنے کسی بھی پراجیکٹ کو سائن کرنے سے پہلے آپ سے بات کروں گی۔۔۔۔تارا نے کہا تو احناف تھوڑا نارمل ہوا اگر ماڈلنگ کرنے سے وہ خوش تھی تو احناف کو اُس کی خوشی عزیز تھی۔۔

ٹھیک ہے مگر اپنی بات پر قائم رہنا۔۔۔احناف ناچاہتے ہوئے بھی مان گیا اور اُس کے لیکر کورٹ کے اندر داخل ہوا جہاں کچھ ہی کاروائی کے بعد اُن دونوں کا نکاح ہوگیا تھا جس سے احناف کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا


"فائنلی ہمارا نکاح ہوگیا اور میں بہت خوش ہوں۔۔۔کورٹ کے باہر آکر احناف تارا کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر بولا

اِس خوشی میں تم وہ سب کچھ بھول نہ جانا جو ہمارے درمیان طے پایا گیا ہے۔۔۔۔تارا نے اُس کو دیکھ کر کہا

تم؟ساؤنڈ از ویری کول۔۔۔۔۔احناف شوخ ہوا جبکہ تارا یہاں وہاں دیکھنے لگی۔۔۔۔

تم پریشان نہیں ہو میں کچھ نہیں بھولوں گا بس اب میں جب چاہے تمہیں کال کرسکتا ہوں"تم سے ملنے کی خواہش کرسکتا ہوں۔۔۔۔تم انکار نہیں کرو گی۔۔۔احناف اُس کو دیکھ کر بولا

میں نہیں کروں گی انکار مگر جواب میں تمہیں مجھے سپورٹ کرنا ہے تم کبھی بلاوجہ مجھ پر روک ٹوک نہیں کروگے اور نہ میری پروائیویسی ڈسٹرب کروگے۔۔۔۔تارا نے اُس کو دیکھ کر کہا تو احناف نے گہری سانس خارج کی

تمہیں سپورٹ کرنا میرا فرض ہے چاہے تم جو کرنا چاہتی ہو وہ سب مجھے پسند نہیں مگر تمہاری خوشی کے لیے میں تمہارا ساتھ ہر پل دوں گا۔۔۔"اور آڈیشن دینے جب تم جاؤں گی تو بھی میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔۔۔احناف نے مسکراکر کہا تو تارا بھی مسکرائی

اور آپ کو یاد پے نہ آج سے ہمیں کیا کرنا ہے؟کسی خیال کے تحت اچانک تارا نے اُس سے کہا

اگنور کرنا ہے سب کو یہی بتانا ہے کہ مجھے تم بلکل پسند نہیں وہ الگ بات ہے کہ تمہارے علاوہ مجھے کوئی اور پسند نہیں۔۔۔احناف ٹھنڈی آہیں بھر کر بولا

جی اگنور کے ساتھ ساتھ بات بھی نہیں کرنی اور نہ دیکھنا ہے۔۔۔۔تارا نے مزید نے کہا

جی جی بلکل کیونکہ پھر نظریں ہٹانا مشکل ہوجاتا ہے میرے لیے۔۔۔۔۔احناف نے باتوں کا اپنا رنگ دیا تو تارا بس اُس کو دیکھتی رہ گئ

❤❤❤❤❤❤

حال!

تارا ڈاکٹر کی دی ہوئی دوائیاں کھا رہی تھی جب اُس کو گھر میں عجیب شور کی آواز سُنائی دی تو وہ دوائیں چُھپاتی باہر کی طرف آئی تھی جہاں ہر ایک کے چہرے کی ہوائیاں اُڑی ہوئیں تھی یہ دیکھ کر تارا کو کچھ غلط ہونے کا احساس شدت سے ہوا تھا۔۔۔۔


اختر مجھے بتاؤ شادی میں وہ شخص کون تھا جو تم سے سالوں پُرانے کسی کام کے پئسے بٹورنے چاہ رہا تھا۔۔اُسماعیل صاحب کی کرخت آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی جبکہ اُن کے الفاظ سن کر تارا کا سر خودبخود نفی میں ہلا تھا"وہ نہیں چاہتی تھی کہ اُسماعیل صاحب کو سچ کا پتا چلے

بہتان لگا رہا تھا وہ اور کچھ نہیں۔۔۔اختر صاحب نے اپنے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا جبکہ باقی سب پریشانی سے کھڑے تھے۔۔۔۔

کوئی کسی پر اِتنا بڑا بہتان نہیں لگاتا اور وہ تھا کون جس نے کہا کہ تم نے رافعہ کا قتل اُس سے کروایا تھا۔۔۔میں سچ سُننا چاہتا ہوں اختر اِس لیے لفظوں کا چُناؤ سچائی سے کرو ورنہ میرے پاس اور بھی بہت سارے طریقے ہیں سچائی اُگلوانے کے"ورنہ وہ شخص میری بیٹی کا نام کیسے جانتا تھا؟اور اُس کو کیسے پتا چلا کہ وہ مرچُکی ہے۔۔اُسماعیل صاحب کا لہجہ کانپ رہا تھا اور وہ سخت نظروں سے اُن کو دیکھ تو رہے تھے مگر دل ایک ہی دعا مانگ رہا تھا کہ کاش یہ سب جھوٹ ہو ورنہ قیامت کے دن اپنی بیٹی کو کیا منہ دِکھاتے

ابو جان غیروں کی بات پر آپ اپنے بیٹے پر شک کررہے ہیں۔۔۔مُنیبہ بیگم نے ہمیشہ کی طرح درمیان میں مُداخلت کی

اپنے میاں کی گُناہ میں پردہ پوشی نہ کرو تو اچھا ہے ورنہ میں سمجھوں گا کہ تم برابر کی ملوث ہو۔۔۔۔اُسماعیل صاحب نے کہا تو وہ اپنی جگہ پہلو بدلتی رہ گئیں تھی

نانا آپ کمرے میں چلے آپ کو آرام کرنا چاہیے۔۔۔۔تارا خود کو کمپوز کرتی بنا کسی اور کو دیکھے ڈائریکٹ اُسماعیل صاحب سے مُخاطب ہوئی

رُکو بیٹا پہلے مجھے اِن سے بات کرنے دو۔۔۔میں یہ غیروں کی باتوں کی وجہ سے تمہارے سامنے سوال نہ اُٹھاتا اگر جو تم نے میری بچی کو اپنی بھانجی سمجھ کر اُس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا ہوتا۔۔۔۔اُسماعیل صاحب گہری سنجیدگی تارا کو جواب دینے کے بعد اختر صاحب سے بولے مگر پھر ایک لمحے کو چونک کر تارا کو دیکھنے لگے جو ہولے ہولے کانپ رہی تھی

تمہارا ری ایکشن اِتنا ٹھنڈا کیوں ہے تارا؟"یہاں جو بات ہورہی ہے وہ کسی غیر کی نہیں بلکہ تمہارے والدین کے ہورہی ہے پھر تمہاری آنکھوں میں "حیرانگی"بے یقینی نفرت حقارت جیسے جذبات کیوں نہیں ہے؟تمہاری آنکھیں بنجر کیوں ہے تارا؟اُسماعیل صاحب نے اِس بار اُس سے سوال جواب کیا تو اختر صاحب نے بے ساختہ اصغر صاحب کو دیکھا تھا جو خود پریشان سے تھے اور بار بار اپنے چہرے پر آیا پسینہ صاف کرنے میں لگے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔

باتیں ہوتیں رہے گی نانا ابھی چھوڑے یہ سب۔۔۔۔تارا نے بس اِتنا کہا

کیا چُھپارہی ہو تم؟اُسماعیل صاحب نے جانچتی نظروں سے اُس کو دیکھا تھا

گُڈ نائٹ ابو جان۔۔۔۔۔اختر صاحب موقع غنیمت جان کر وہاں سے جانے لگے

ایک منٹ میری بات مکمل نہیں ہوئی ہے اختر۔۔۔۔اُسماعیل صاحب نے کڑے چتونوں نے اُس کو گھورا

آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے نانا۔۔۔۔۔تارا کی حالت غیر ہونے لگی

ابو جان آپ کو لگتا ہے ہم اپنی بہن کا قتل کرینگے؟"کیا ہمارا خون اِتنا سفید ہوگیا ہے۔۔۔۔اصغر صاحب نے کوشش تو بات سنبھالنے کی تھی مگر اپنی بات پر وہ خود ہی بُری طرح سے پھس چُکے تھے۔۔۔۔۔

میں نے تمہیں تو کچھ نہیں کہا؟تو مطلب

اُسماعیل صاحب کی آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئ تھی اُن سے بولا نہیں گیا جبکہ تارا کی آنکھوں سے آنسوؤ رواں دواں ہوگئے تھے ایک بار پھر اُس کے زخم تازہ ہوئے تھے

ک۔۔۔یا سچ ہے۔۔۔میں بتاتا۔۔ہوں۔۔۔ازلان کے سہارے نشے میں دُھت خاور نے جب سُنا تو وہ اٹک اٹک کر بولا

تم نے ڈرنک کی ہے۔۔۔۔اختر صاحب نے دانت پیس کر خاور کو دیکھا جو ہوش میں بلکل بھی نہیں تھا۔

ہششششش

ڈیڈ مجھے.۔۔بتانے دے۔۔۔سچائی۔۔۔۔۔کیا۔۔۔ہے دادا جان کافی اُتاؤلے ہیں سچائی جاننے کے لیے۔۔۔۔خاور لڑکھڑا کر اُسماعیل صاحب کی طرف آیا جنہوں نے اپنا رخ دوسری طرف کرلیا تھا۔۔۔جبکہ تارا نفرت بھری نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی تھی۔۔۔

تو ڈیئر دادا جان۔۔۔۔خاور پوری طرح سے اُسماعیل صاحب کے سہارے کھڑا ہوا

یہ سچ۔۔۔۔ہے۔۔۔۔۔

امی۔۔۔ڈیڈ چچا اصغر۔۔۔۔اِنہوں نے پری پلیننگ سے پھوپھو اور اُن کے شوہر کا مڈر کروایا تھا۔۔۔خاور نے بتایا تو سب کے پاؤں کے نیچے جیسے زمین کِھسک گئ تھی سومل اور مومل پھٹی پھٹی نظروں سے اپنے باپ کو دیکھنے لگیں تھی"انعم بیگم کا الگ سے حال بُرا تھا وہ خود ششد سی اپنے شوہر کو دیکھ رہی تھی جن کو اپنا چہرہ چُھپانے کی جگہ تک نہیں ملی تھی۔۔۔۔"ایک ازلان تھا جس کا چہرہ ہر احساس سے عاری تھا

ججججج جھوٹ۔۔۔۔ہے ننننشے میں ہے یہ"جبھی بکواس کررہا ہے۔۔۔اختر صاحب بوکھلاہٹ زدہ آواز میں بولے جبکہ اُسماعیل صاحب لڑکھڑانے لگے تھے مگر تارا نے جلدی سے اُن کو سنبھال لیا تھا۔۔۔

نانا جان خود کو سنبھالیں۔۔۔۔اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹ کر تارا نے نم نظروں سے اُن کو دیکھ کر کہا جن کا چہرہ لٹھے مانند سفید ہوگیا تھا اور اُن کو ایسے دیکھ کر تارا کو گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔۔۔

بے غیرت اولاد ماں پر الزام لگاتا ہے۔۔۔۔مُنیبہ بیگم نے ایک زناٹے دار تھپڑ خاور کے چہرے پر مارا تھا جس سے وہ جو پہلے ہی اپنے ہوش میں نہیں تھا اب بے سُدھ نیچے گِر پڑا تھا

کیا۔۔۔کمی۔۔رہ گئ تھی۔۔۔میری تربیت میں؟"جو اپنی سگی۔۔۔بہن کے خون کے پیاسے۔۔بن گئے؟اُسماعیل صاحب رنجیدگی سے اُن سے پوچھنے لگے

ابو

مجھے کچھ اور نہیں سُننا۔۔۔"اختر صاحب کچھ کہنے لگے جب اُسماعیل صاحب نے اُن کی بات کو درمیان میں ٹوک دیا

آپ نے ہر بار اُس کو ترجیح دی تھی ہمیں برداشت نہیں ہوتا تھا۔۔"باپ تو بیٹوں کو آگے کرتا ہے مگر آپ نے ہمیشہ اُس کو آگے کیا۔۔۔۔۔"پراپرٹی کا بھی زیادہ حصہ آپ اُس کے نام کرنے والے تھے پھر ہم دو بھائی اور ہمارے بچے کہاں جاتے؟ہم کیا اپنا پیٹ کاٹ کر اُن کو کِھلاتے؟جبھی ہم نے سوچا کیوں نہ اُس کا ماردیا جائے کیونکہ اُس کی شادی کے بعد بھی ہمیں اُس سے چُھٹکارا حاصل نہیں ہوا تھا۔۔۔۔اِس بار اصغر صاحب نے منہ سے سچائی اُگلی تھی

پئسو۔۔۔ کی حوس میں میری۔۔۔بچی۔۔۔کو ماردیا۔۔۔۔میری نواسیوں کو۔۔۔۔یتیم اور۔۔۔بے سہارہ چھوڑدیا؟"ایک۔۔۔بار دونوں میں سے کوئی۔۔۔۔میرے پاس آتا تو سہی ساری جائداد اُن کے کام کردیتا۔۔۔۔یہ پئسے میری رافعہ کی جان سے۔۔۔زیادہ نہیں تھے۔۔۔۔اُسماعیل صاحب کا لہجہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا تھا اُن کی آنکھوں سے آنسو کسی برسات کی مانند بہہ رہے تھے جو وہ سُن رہے تھے یا وہ جان گئے تھے اُن پر یقین کرنا اُن کے لیے ازحد مشکل تھا اُن کو اپنا سینہ تکلیف سے بھرتا محسوس ہوا مگر وہ بس اُن کا چہرہ تکنے لگے

اب کیا ہوسکت

نانا

نانا جان

کیا ہوا آپ کو۔۔۔۔

اختر صاحب کچھ کہنے والے تھے جب اُسماعیل صاحب اپنے سینے پر ہاتھ رکھے نیچے بیٹھتے چلے گئے تھے اور یہ دیکھ کر تارا کی دلخراش چیخی نکلی تھی اور جلدی سے نیچے بیٹھ کر اُسماعیل صاحب کا سر اپنی گود میں رکھا تھا۔۔"باقی سب بھی جلدی میں اُن کی طرف جُھکے تھے

می۔۔۔ری۔۔۔تارا

اُسماعیل صاحب نے ایک ہچکی بندھی تھی اور آنکھیں خودبخود بند ہوگئ تھیں۔۔

نہیں نہیں۔۔۔۔نانا جان۔۔آنکھیں کھولے پلیززز نہ آنکھیں کھولے میرا آپ کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔۔۔ایسا نہ کرے آپ۔۔۔تارا کا وجود ہچکولے کھانے لگا اور بار بار اُن کے گال تھتھپاکر اُن کو ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگی مگر سب بے سود

ابو

خبردار جو اپنے ناپاک ہاتھوں سے میرے نانا کو چھوا بھی تو۔۔۔۔اللہ کرے۔۔۔۔تم سب پر اللہ کا قہر نازل ہو موت کی بھیگ مانگو مگر موت حاصل نہ ہو یہ دُنیا تم سب کے لیے۔۔۔جہنم بن جائے۔۔۔۔اختر صاحب اُسماعیل صاحب کی طرف آنے لگے تو تارا ہذیاتی انداز میں چلائی تھی جبکہ ازلان آگے بھر کر ارسلان کی مدد سے اسُماعیل صاحب کا وجود اُپر کو اُٹھایا تھا تاکہ اُن کو ہوسپٹل لے جایا سکے۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

حیات

احناف کمرے میں آتا سنجیدگی سے حیات سے مُخاطب ہوا جو سونے کی تیاری میں تھی۔۔۔۔

ہاں بولوں؟حیات نے نظریں اُٹھا کر اُس کو دیکھا

بات کرنی ہے تم سے۔۔۔۔احناف نے کہا

زہے نصیب

زہے نصیب آج یہ چمکتار کیسے ہوا کہ احناف صاحب کو مجھ ناچیز سے بات کرنے کا وقت مل گیا۔۔۔۔حیات ڈرامائی انداز میں بولی

میں سیریس ہوں۔۔۔۔احناف کو اُس کا انداز پسند نہیں آیا

اچھا سوری آؤ بیٹھو اور بتاؤ کیا بات کرنی ہے تم نے؟حیات نے مسکراکر اُس کا ہاتھ تھام کر کہا تو احناف نے اپنا ہاتھ پیچھے کیا

میں بیوی ہوں تمہاری اور تمہارا اِتنا گریز شادی سے پہلے بھی نہیں تھا جتنا اب ہوگیا ہے"ایسا کیوں ہے احناف"کیا تم مجھ سے کسی بات پر خفا ہو؟اگر ایسا کچھ ہے تو مجھے بتاؤ کیونکہ تمہارا رویہ میری تو سمجھ سے بلاتر ہے میں جتنا تمہارے پاس آنا چاہتی ہوں تم اُتنا مجھ کو خود سے دور کرتے ہو"مجھے وہ دن یاد نہیں جب شادی کے بعد تم نے دو لفظ تعریفی مجھے دیکھ کر بولے ہو تم تو جانے گم سم کہاں غائب ہوتے ہو؟"حیات کو احناف کا ایسے اپنا ہاتھ کھینچنا پسند نہیں آیا تبھی اپنی ساری بھڑاس ایک ہی بار میں اُس پر اُتاری

"بیٹھ کر بات کریں؟جواب میں احناف نے محض یہ کہا

ہممم۔۔۔۔حیات اِتنا کہتی بیڈ پر بیٹھ گئ اور اپنی نظریں اُس کے چہرے پر ٹِکائی

حیات میں جو تمہارے ساتھ کررہا ہوں ویسا میں نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوں اور

ایک منٹ

احناف نے جو حیات کو ساری سچائی بتانے کی ٹھان لی تھی اور وہ آج اُس کو ساری حقیقت سے آشنا کرکے اُس پر سب کچھ چھوڑنا چاہتا تھا کہ وہ خود کے لیے کوئی اچھا فیصلہ لے سکے"کیونکہ اُس کا دامن خالی تھا وہ حیات کو کچھ نہیں دے سکتا تھا"وہ تو بلکل بھی نہیں جو حیات اُس سے چاہتی تھی مگر خُدا کو شاید اور منظور تھا جو عین ٹائیم حیات کے فون میں آتی کال کی وجہ سے اُس نے احناف کو خاموش رہنے کا اِشارہ کیا اور اپنی کال رسیو کی۔۔

ہیلو سومل خیریت؟"رات کے اِس پہر تم نے کال کی ہے۔۔۔حیات کال اُٹھائے دوسری طرف سومل سے بولی

کیا؟؟؟کب کیسے؟

اوکے اوکے ہم آتے ہیں۔۔۔۔سومل نے جانے کیا کہا کہ حیات شاک میں بس یہی بولی

کیا ہوا؟احناف اُٹھتا اُس سے پوچھنے لگا

احناف گاڑی نکالو دادا جان کو ہارٹ اٹیک آیا ہے ہمیں جلدی ہوسپٹل جانا ہوگا۔۔۔۔حیات نے عجلت میں بتایا تو احناف اپنی جگہ بُت بن کھڑا ہوگیا تھا۔

"نین؟اُس کے ہونٹوں پر محض ایک نام آیا تھا۔

احناف کیا ہوگیا ہے جلدی آؤ۔۔۔۔۔حیات نے اُس کو ہلتا جُلتا نہ دیکھا تو اِس بار اُونچی آواز میں کہا

دادا جان کو کچھ نہیں ہوگا اور میں آتا ہوں۔۔۔۔احناف اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتا حیات سے زیادہ خود کو تسلی دینے لگا"تارا کے بارے میں سوچ سوچ کر اُس کی جان فنا ہونے کے در پہ تھی اُس کا بس نہیں رہا تھا ورنہ وہ اُڑ کر تارا کے پاس پہنچ جاتا

❤❤❤❤❤❤❤

ہوسپٹل کے کوریڈرو میں اِس وقت موت جیسا سناٹا تھا ہر ایک کے لبوں میں اسماعیل صاحب کی صحتیابی کی دعائیں تھی جبکہ اختر صاحب اور اصغر صاحب اُن دونوں میں سے کسی کی بھی اِتنی ہمت نہیں ہوئی تھی کہ وہ سراُٹھانے کے قابل رہتے"ازلان ارسلان اُن دونوں نے تو اپنے باپ سے پوری طرح بائیکاٹ کیا ہوا تھا"سومل اور مومل کا بھی یہی حال تھا باقی انعم بیگم پر تو جیسے سکتہ طاری ہوگیا تھا۔۔۔۔۔

"امی کیا ہوا ہے دادا جان کو؟حیات احناف کے ساتھ ہوسپٹل آئی تو سیدھا منیبہ بیگم کے پاس آئی تو اُن سے کچھ بولا نہیں گیا جبکہ احناف کی متلاشی نظریں تارا کو تلاش کررہی تھیں جو اُس کو کہی بھی نظر نہیں آئی

نین کہاں ہے؟احناف ازلان کے پاس آتا اُس سے پوچھنے لگا

پرے روم۔۔۔۔ازلان نے مُختصر جواب دیا تو احناف وقت ضائع کیے بنا پرے روم کی طرف بڑھا تھا جہاں تارا اُس کو جائے نماز پر بیٹھی نظر آئی اُس کو ایسے دیکھ کر احناف گہری سانس خارج کرتا آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا خاموشی سے اُس کے پاس بیٹھ گیا


میری وحشت کا نظارہ نہیں ہوتا مجھ سے

اپنا ہونا بھی گوارہ نہیں ہوتا مجھ سے


گھیر رکھا ہے مجھے چاروں طرف سے اس نے

اس تعلق سے کنارہ نہیں ہوتا مجھ سے


کام جتنے بھی کیے سارے ادھورے ہی رہے

اور یہ عشق بھی سارا نہیں ہوتا مجھ سے


کیا کہا عشق کروں وہ بھی نئے جذبے سے

جی نہیں اب یہ دوبارہ نہیں ہوتا مجھ سے


" تم پوچھتے تھے نہ احناف میں "خاور جتوئی پر کیس کیوں نہیں کرواتی؟"کیوں اپنے والدین کے قاتلوں کو سزا نہیں دلواتی؟"کیوں پولیس کا سہارا نہیں لیتی؟"تو احناف میں آج کے دن سے خوفزدہ ہوتی تھی جو آج ہوا ہے وہ میں نے کبھی نہیں چاہا تھا۔۔۔۔تارا بغیر اُس کو دیکھے کسی ٹرانس کی کیفیت میں بتاتی گئ۔"تو احناف کی چھٹی حسد بیدار ہوئی وہ چونک پڑا تھا تو کیا اُسماعیل صاحب ساری سچائی سے واقف ہوگئے تھے؟پر کیسے؟اور کس نے اُن کو بتایا؟ایسے کئ سوالات تھے جو احناف کے دماغ میں گھوم رہے تھے

یہ کیسے ہوا؟احناف نے اُس کا چہرہ اپنی طرف کیا

پتا نہیں احناف۔۔۔۔۔تارا نے عجیب لاعلمی کا اِظہار کیا تو احناف نے ٹھنڈی سانس بھر کر اُس کو دیکھا

دادا جان ٹھیک ہوجائے گے۔۔۔۔۔احناف نے اُس کو تسلی کروائی تو اُس کے چہرے پر اُداس مسکراہٹ نے بسیرا کیا

وہ ٹوٹ گئے تھے احناف تم نے لٹھے مانند سفید ہوتا اُن کا چہرہ نہیں دیکھا پر میں نے دیکھا"تم نے اُن کی آنکھوں میں وہ درد وہ تکلیف نہیں دیکھی جو میں نے دیکھی۔۔۔۔تارا نے رنجیدگی سے کہا اب تو اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنا بھی بند ہوگئے تھے شاید خُشک ہوگئے تھے۔۔۔۔

ہمت سے کام لو نین۔۔۔ احناف سے اُس کی ایسی حالت دیکھی نہیں جارہی تھی۔۔۔

احناف میرے ساتھ ایسے کیوں ہوتا ہے؟"کیا میرا خوشیوں پر کوئی حق نہیں؟"کیا میں اپنی باقی کی زندگی بھی ایسے گُزاروں گی ترستے ہوئے؟"میں پہلے سنبھل گئ تھی احناف پہلے سنبھل گئ تھی"پر اگر نانا جان کو کچھ ہوا نہ تو میں سنبھل نہیں پاؤں گی"سالوں سے میں نے یہ سارے راز اپنے سینے میں دفن کیے تھے کس لیے؟صرف اور صرف اپنے نانا کے لیے تاکہ اُن کو کوئی تکلیف نہیں ہو پر وہ اب جس عمر کے حصے میں ہے ایسے میں اُن کو جو دھچکا ملا ہے وہ کافی بڑا ہے وہ یہ سب کیسے برداشت کرینگے؟تارا اُس کے کندھے پر اپنا سر ٹِکاتی غمزدہ لہجے میں بولی

وہ سروائیو کرلینگے تم پریشان نہ ہو بس خود کو مضبوط رکھو ہر حالات کے لیے۔۔۔۔احناف نے اُس کے گرد اپنا حصار بنایا

اُن کو کچھ ہونا چاہیے بھی نہیں وہ تو مجھے خوش ہوتا دیکھنا چاہتے تھے ایسے میں اگر وہ یوں مجھے تنہا کرجائے گے تو پھر۔۔؟تارا کا خوف سے بُرا حال ہوگیا

نین

نین

میں نے کہا نہ دادا کو کچھ نہیں ہوگا تو بس تم خود کو سنبھالو اور اُن کے لیے بہت ساری دعائیں کرو۔۔۔۔۔احناف نے نرمی سے کہا

میری ہر سانس اُن کے لیے دعائیں مانگ رہی ہیں۔۔۔۔تارا ٹوٹے دل کے ساتھ بولی تو احناف نے اُس کے بالوں میں بوسہ دیا


حادثات یہ نہ سمجھیں ابھی کہ پست ہوں میں

شکستہ ہو کر بھی نا قابل شکست ہوں میں

❤❤❤❤❤❤

ڈاکٹر کیسی کنڈیشن ہے میرے دادا کی؟ڈاکٹر باہر آیا تو ازلان اُن کے پاس آیا

اُن کو ہارٹ اٹیک آیا ہے جس سے ابھی ہمارا کچھ بھی کہنا ٹھیک نہیں آپ بس دعا کرے۔۔۔۔ڈاکٹر پروفیشنل انداز میں کہہ کر اُس کے برابر سے گُزرگئے۔۔۔۔

اچانک ہوا کیسے؟"آج سے پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا اور نہ دادا جان کو کبھی دل کا مسئلہ ہوا پھر یہ اچانک؟حیات اُلجھن زدہ لہجے میں اُن کو دیکھ کر بولی جس کا جواب دینے کو اِس وقت کوئی تیار نہیں تھا


"آپ لوگ پئسو کی حوس میں اِتنے اندھے اور گونگے ہوچُکے تھے کہ ساری بات جانے بنا آپ لوگ اپنی سگی بہن کے قاتل بن گئے"کیا کم دیا دادا نے آپ کو یا آپ لوگوں کے ساتھ کب دادا جان نے ناانصافی والا سلوک کیا؟کب پھوپھو کو آپ دونوں سے زیادہ اہمیت دی؟اور اگر بات کی جائے جائیداد پئسا"اور زمینوں کی تو دادا جان نے آپ تینوں بھائی اور بہن چاروں کا ایک جتنا حصہ تقسیم کیا تھا پھوپھو اپنے شوہر کے ساتھ آرہی تھیں کیونکہ اُن کے شوہر پر قرضہ چڑھ گیا تھا جن کو چُکانا تھا اور پھوپھو پریشان بھی تھیں دادا جان سے اُن کی پریشانی برداشت نہیں ہوئی جبھی دادا جان نے اپنی زمین کو سیل کیا تھا تاکہ کیش دے کر وہ کچھ اُن کی مدد کرپائے پھوپھا جان نے پئسے لینے کی حامی بس ایک شرط پر دی تھی کہ وقت آنے پر وقت وہ اُن کو ساری رقم واپس لوٹادینگے پر آپ دونوں نے اُن کو مہلت ہی نہ دی اور حسد میں آکر خونی بن گئے۔۔۔۔"ایک بار تصدیق نہ کی پھوپھو کو گھر نہ آنے دیا اور نہ ایک بار دادا سے کوئی بات کی بس خود ہی سارے فیصلے کرلیے۔۔۔۔ازلان چلتا ہوا اصغر صاحب اور اختر صاحب کے مقابل کھڑا ہوا اور اُن کو حقیقت کا وہ آئینہ دِکھایا جو وہ دونوں شاید کبھی نہ دیکھتے

تمہیں یہ سب

مُنیبہ بیگم حیرانگی سے ازلان کو دیکھنے لگی جس کے چہرے پہ جانے کیسے کیسے تاثرات تھے کتنا دُکھ اور تکلیف تھی اُس کے لہجے میں"کتنا افسوس اور بے یقینی کا عالم تھا اُس کے لیے کہ وہ جس کا بیٹا ہے وہ دولت کا پُجاری ہے اُس کے نزدیک خونی رشتوں اور اپنی بہن کی کوئی وقعت نہیں کیا اُن کی نظر میں انسان کی جان اِتنی سستی تھی۔۔۔۔۔۔

"میں کیا۔؟کیسے جانتا ہوں اِن کو تو آپ رہنے دے۔۔۔۔۔ازلان استہزائیہ انداز میں بولا

یہ سب کیا باتیں ہورہی ہیں؟"کوئی مجھے بتائے گا؟حیات سوالیہ نظروں سے ہر ایک کا چہرہ دیکھنے لگی۔

پُھوپھو۔۔رافعہ کی موت۔۔۔ میں ڈیڈ۔۔۔اور چچا ملوث تھے۔۔۔سومل نے اٹک کر بتایا تو صدمے کے مارے حیات کی آنکھیں پوری کُھلی کی کُھلی رہ گئ وہ بے یقین نظروں سے اپنے باپ کو دیکھنے لگی جن کا سر اور نظریں جُھکی ہوئی تھیں۔۔

واٹ؟؟؟

کیا بکواس ہے یہ ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔۔حیات نے نفی میں اپنا سرہلایا

تم بھی اِن کی بیٹی ہو حیات اور خون میں اِن کا ہو تبھی محبت کے بجائے تم نے پئسو کا چُناؤ کیا تھا۔۔۔۔ازلان اُس کو دیکھ زخمی لہجے میں بولا تو حیات کی زبان جیسے تالو سے چپک گئ تھی کوئی اور ازلان کی بات سمجھا ہو یا نہ ہو مگر مُنیبہ بیگم اور حیات نے بخوبی اُس کی بات کا مطلب سمجھ لیا تھا۔۔۔۔

❤❤

ماضی!

حیات کہاں جانے کی تیاری ہے؟ازلان فٹبال ہاتھ میں لیتا حیات سے بولا جو اپنا پرس چیک کرتی باہر جانے لگی تھی

بینش چچی کی طرف"کیوں تمہیں کوئی کام تھا کیا؟حیات نے جواب دینے کے بعد اُس سے پوچھا تھا

ہاں مجھے جواب چاہیے تھا۔۔۔ازلان کان کی لو کُھجاکر اُس سے بولا

کیسا جواب؟حیات انجان بنی

تم جانتی ہو میں کس جواب کی بات کررہا ہوں۔۔۔۔ازلان نے جتاتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

اوو اچھا وہ جو تم نے پرپوز کیا تھا مجھے جس کا جواب میں نے کہا تھا کہ سوچ کر دوں گی۔۔۔۔حیات نے یاد کرنے ڈرامہ کیے اُس سے کہا

یاد آگیا تمہیں تو پوائنٹ پر آؤ۔۔۔ازلان نے بے چینی سے کہا تو حیات نے گہری سانس بھر کر اُس کو دیکھا جس کی آنکھیں اُس کے جواب کی منتظر تھیں

دیکھو ازلان پلیز مائینڈ مت کرنا مگر ابھی صرف میں اپنی پڑھائی پر فوکس کرنا چاہتی ہوں اور اگر شادی کرنے کا پلان بنا بھی تو میں احناف سے شادی کرنا چاہوں گی۔۔۔۔۔حیات نے سنجیدگی سے کہا تو ازلان کے چہرے پر ایک سایہ آکر لہرایا

احن۔۔۔اف۔۔سے؟ازلان کی زبان لڑکھڑائی

ہاں احناف سے وہ میرا آئیڈیل شخص ہے۔۔۔حیات نے مسکراکر کہا

اچھا تو تمہارے آئیڈیل شخص میں کیا خوبی ہونی چاہیے مجھے بتاؤ تاکہ جان پاؤں کہ احناف میں ایسا کیا ہے جو مجھ میں نہیں۔۔۔۔۔ازلان نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا ہوا تھا ورنہ ٹھکرانے جانے کا درد کیا ہوتا ہے کوئی اُس سے پوچھتا

احناف کے پاس ہر چیز ہے"خوبصورتی کے ساتھ ذہانت اور الطاف چچا کی کی جائیداد کا وارث وہ ہوگا اور میں جیسی لائیف گُزارنا چاہتی ہوں وہ مجھے احناف دے سکتا ہے"چچا الطاف کا گھر کتنا بڑا ہے جہاں بس میں راج کروں گی۔۔۔حیات نے کہا تو ازلان کے چہرے پر یکطرفہ مسکراہٹ آئی

اور محبت؟

کیا احناف تمہیں محبت دے سکتا ہے؟ویسی محبت جیسی محبت میں کرتا ہوں تم سے کیا کرتا ہے احناف تم سے؟"اور کیا کبھی احناف نے تمہاری ویسی کیئر کی ہے جیسی میں کرتا ہوں نہیں نہ؟"کیونکہ کوئی اندھا بھی بتا سکتا ہے کہ احناف کی ساری سوچو کا محور ایک ذات ہوتی ہے"اور وہ اپنے جذبات اپنی محبت بھی اُس پر نچھاور کرے گا۔۔۔۔ازلان نے کہا تو حیات کے تاثرات یکدم تن گئے تھے۔

تمہارا اِشارہ شاید تارا ہے تو میں بتادوں ایسا کچھ نہیں احناف ایک نرم دل کا مالک ہے اور تارا سے اُس کو ہمدردی ہے۔۔۔۔حیات نے ناگواری سے اُس کو دیکھ کر کہا

مجھے اپنے ٹھکرائے جانے کا غم نہیں حیات کیونکہ ہر انسان اپنے جواب کا حق رکھتا ہے مگر جس وجہ سے تم میری محبت کو اگنور کرکے احناف کے خواب دیکھ رہی ہو اِس بات کا افسوس مجھے تاعمر رہے گا۔۔۔"اور ہاں میں ایک بات بتادوں احناف کو تارا سے پیار ہے یا ہمدردی"جو بھی ہے بس اُس کے لیے ہے اور وہ جو محسوسات تارا کے لیے کرتا ہے وہ کبھی تمہارے لیے نہیں کرے گا۔"شاید تم نے وہ چمک نہیں دیکھی احناف کی آنکھوں میں جو بس تارا کو دیکھ کر آتی ہے اور احناف کا تارا کو دیکھنے کا انداز تک الگ ہوتا ہے وہ دُنیا کے لیے تارا ہے مگر احناف نے اُس نے اپنے لیے تارا کو بس"نین"بنایا ہے۔۔ازلان نے جیسے اُس کو باز رکھنے کی کوشش کی تھی۔"مگر جو کچھ اُس نے بیان کیا تھا وہ سب حیات کے لیے ماننے مشکل تھا اور یہ وہ کبھی ماننے والی تھی بھی نہیں

مجھے احناف کی ہمدردی بٹورنے کا کوئی شوق نہیں ازلان کیونکہ میں جانتی ہوں احناف مجھ سے پیار کرے گا وہ میرے علاوہ کسی اور کو سوچے گا بھی نہیں تم دیکھنا ایک نہ دن میری اور احناف کی شادی ہوگی اور ہم دونوں ایک آئیڈیل کپل والی لائیف گُزارینگے"ویسے بھی جیسا تمہیں لگتا ہے ایسا کچھ نہیں۔حیات پُریقین لہجے میں بولی

اللہ تمہاری دعا قبول کریں اور تمہارا دامن خوشیوں سے بھردے۔۔۔۔جواب میں ازلان نے اُس کو دعا دی تھی۔

آمین۔۔۔۔حیات نے مسکراکر کہا اور اُس کو دیکھ کر ازلان نے اپنی نظروں کا زاویہ بدل دیا تھا۔۔

آپ کے پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے مگر اُن کی حالت ابھی ٹھیک نہیں ہے وہ بار بار کسی احناف کو پُکار رہے ہیں تو پلیز جلدی سے احناف نامی شُخص کو بلائے۔۔۔ڈاکٹر کی آواز پر حیات ماضی کے خیالوں سے باہر آئی تھی۔۔۔"اور یہاں وہاں نظریں گُھماتی احناف کو دیکھنے لگی جو اُس کو نظر نہیں آیا

یہ احناف کہاں چلاگیا؟مومل نے بھی احناف کو نہیں دیکھا تو کہا

میں دیکھتا ہوں۔۔۔۔ازلان جانتا تھا کہ احناف کہاں ہے جبھی اُن سے کہتا اپنا روم پرے روم کی طرف کیا جہاں وہ تارا کو تسلی دینے میں لگا ہوا تھا۔

احناف دادا کو ہوش آیا ہے اور تم سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ازلان نے کہا تو تارا اُس کا حصار توڑ کر جلدی سے اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

نانا کو ہوش آگیا؟"وہ مجھ سے ملنا چاہتے ہوگے میں ابھی جاتی ہوں اُن کے پاس۔۔۔۔تارا اپنی حالت سنوارتی کہہ کر باہر جانے لگی جب ازلان نے اُس کو روک لیا

تارا ابھی دادا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوئی پوری طرح سے اور وہ بس احناف سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ازلان نے کہا تو تارا اُس کو غُصے سے دیکھنے لگی

احناف میں تمہارے ساتھ آؤں گی"مجھے نانا سے باتیں کرنی ہیں بھلا وہ کیسے مجھے خود سے ملنے کے لیے روک سکتے ہیں مجھے تو وہ اپنی جان کہتے ہیں میں تو اُن کا بچہ ہوں۔۔۔۔نہ۔۔۔۔تارا ازلان کو نظرانداز کرتی احناف کے روبرو کھڑی ہوتی بولی ایک بار پھر اُس کی آنکھوں سے آنسوؤ نے اپنا رستہ بنایا تو احناف نے اُس کا چہرہ اپنے ہاتھ کے پیالوں میں بھرتا اُس کے آنسو اپنے پوروں سے صاف کرنے لگا

نین رلیکس خود کو سنبھالو میں ابھی جاتا ہوں کیا پتا اُن کو کوئی ضروری بات کرنی ہو جو بس مجھے بتانا چاہ رہے ہو۔۔۔۔احناف اُس کو اپنے ساتھ لگاتا سمجھانے والے انداز میں بولا

نہیں نہیں احناف۔۔۔تارا نے اپنا سر زور شور سے نفی میں ہلایا

نین میری بات مان جاؤ۔۔۔۔احناف نے ایک بار پھر اُس سے کہا جس کے آنسو اُس کی شرٹ بھگو رہے تھے

تارا ہر بات میں ضد کرنا اچھا نہیں ہوتا احناف کو جانے دو دادا جان کے پاس وقت کم ہے۔۔۔۔۔ازلان نے یہ بات کس دل سے کہی تھی یہ بس وہ خود جانتا تھا مگر اُس کے الفاظوں نے تارا کو تو جیسے پتھر کا بنادیا تھا۔۔۔۔

کچھ نہیں ہوگا تم یہاں بیٹھو۔۔۔۔۔۔احناف ایک نظر ازلان پر ڈالتا اُس کو جائے نماز پر واپس بیٹھایا

تم دعا کرو اللہ سب ٹھیک کردے گا اوکے۔۔۔۔احناف نے کہا تو تارا بس خالی خالی نظروں سے اُس کا چہرہ دیکھنے لگی جبکہ احناف اُٹھ کر اُسماعیل صاحب کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔۔

"تارا خود کو مضبوط بناؤ۔۔۔۔ازلان اُس کے پاس بیٹھ کر بولا مگر تارا چُپ رہی

تارا؟ازلان نے اُس کو جھنجھوڑا

تم نے ایسا کیوں کہا کہ اُن کے پاس وقت کم ہے؟تارا احساس سے عاری لہجے میں اُس کو دیکھ کر بولی

دعا کرو میرے الفاظ غلط ثابت ہو۔۔۔۔ازلان محض یہ بولا جس پر تارا نے مِزید کچھ اور نہیں کہا پھر کچھ سوچ کر بولی

مجھے گھر جانا ہے۔۔۔۔۔

"گھر کیوں؟ازلان چونک کر اُس کو دیکھنے لگا

کچھ حساب کِتاب ہیں جو میں اپنے طریقے سے چُکانا چاہتی ہوں۔۔۔۔تارا اپنے گال صاف کرتی بولی تو اُس کا بدلتا انداز دیکھ کر ازلان بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوگیا تھا

❤❤❤

آپ کو سب پتا تھا؟حیات مُنیبہ بیگم کو دیکھ کر پوچھنے لگی جن کی حالت ساری رات جاگنے کی وجہ سے خراب تھی۔

یہ وقت اِن باتوں کا نہیں۔۔۔مُنیبہ بیگم نے اُس کو ٹالا

مجھے بتائے امی کیا آپ جانتی تھی یہ سچائی؟حیات نے اپنی بات پر زور دیا

جانتی نہیں بلکہ برابر کی شریک دار ہیں۔۔"نشے میں بھائی نے اِن کا سارا سچ بیان کردیا تھا۔فضا نے طنز انداز میں بتایاتو حیات نے اپنا سر پکڑلیا

چُپ رہو تم۔۔۔مُنیبہ بیگم نے اُس کو جھڑکا

آپ کا ضمیر سُوچکا ہے مگر ہمارا نہیں"اور میں نشے میں بھی نہیں ہوں جو آپ کے ایک تھپڑ سے چُپ ہوجاؤں ۔۔۔۔فضا باز نہ آئی

ہم نے جو بھی کیا تھا تم سب کے لیے کیا تھا۔۔۔مُنیبہ بیگم کو اپنے عمل پر کوئی پچھتاوا نہیں تھا

ساری زندگی ہم نے حرام کھایا اور طعنہ دیا تارا کو ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا ہمارے والدین کے ہاتھ خون میں رنگے ہوئے ہیں اور ہم کسی اور کا حق کھارہے ہیں۔۔۔۔فضا اِتنا کہتی وہاں سے اُٹھ گئ جس پر مُنیبہ بیگم اِس بار کچھ بول نہیں پائی تھی۔۔۔"چُپ تو حیات کو بھی لگ گئ تھی وہ سمجھ نہیں پارہی تھی یہ کیسے انکشافات آج کے دن ایک ساتھ ہورہے تھے۔۔۔

❤❤❤❤❤❤

اگلے دن خاور کی آنکھ کُھلی تو اُس کا اپنا سر بھاری ہوتا محسوس ہوا اُس نے کل کے بارے میں سوچنا چاہا مگر کچھ یاد نہیں آیا جبھی اپنے دُکھتے سر پر ہاتھ رکھتا وہ اُٹھا تو چونک اُٹھا کیونکہ اُس کا سارا کمرہ کاغذوں سے بھرا ہوا تھا۔۔۔"

مگر جب اُس نے کمرے کی دیواروں پر چاندنی کی تصاویر دیکھیں تو اُس کا حلق تک خُشک ہوگیا تھا ایک تصویر دیکھنے سے اُس کو کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا۔۔۔اُس کا وجود پورا خوف سے کانپ رہا تھا۔۔۔


"میں زیادہ کچھ نہیں کہوں گی تمہیں خاور کیونکہ غلطی تمہاری نہیں بلکہ میری ہے جو میں نے بنا تمہیں جانے تمہیں اپنا دل دیا جس کو تم نے توڑ کر رکھ دیا اور اب میں بس یہ چاہوں گی کہ جس طرح تم نے میرے اندر اپنی محبت کا زہر انڈیلا ہے ٹھیک ویسے تمہارے اندر بھی کوئی محبت کا زہر بھرے تاکہ میں مانوں"مکافات عمل ہوتا ہے اِس دُنیا میں"


آُس کو اپنے بیحد پاس چاندنی کی آواز سنائی دی تو وہ ایک جھٹکے سے بیڈ سے اُٹھ کھڑا ہوا تو اپنے پاؤں میں کچھ گیلا پن محسوس ہوا"اُس نے نظریں نیچے کی تو گہرے سرخ رنگ کا پانی دیکھ کر اُس کو آس پاس خون کی بوء محسوس ہوئی جس پر وہ سہم گیا تھا اور جلدی سے اپنے پاؤں اُپر اُٹھالیے

خون نہیں ہے صرف پانی میں لال رنگ ملایا ہے آپ خوفزدہ نہ ہو۔۔۔۔دروازے کے پاس تارا کی آواز سن کر خاور نے جھٹکے سے اپنا سراُٹھائے دروازے کی طرف دیکھا جہاں وہ حقارت سے اُس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔"اُس کی آنکھوں میں موجود"حقارت اور نفرت جیسے جذبات دیکھ کر ڈر کے مارے اُس کے گلے کی ہڈی اُبھر کر معدوم ہوئی تھی۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

احناف شکستہ خور قدموں سے باہر آیا تھا جہاں ہر کوئی اُس کی آمد کا منتظر تھا۔۔۔

کیا کہا دادا جان نے؟وہ اب کیسے ہیں؟حیات فورن اُس کی طرف لپکی

وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔۔۔۔احناف نے کہہ کر بے بسی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا جبکہ اُس کے الفاظوں نے ہر ایک کے پاؤں کے نیچے زمین کھسکا دی تھی۔۔۔

اایسسسا۔۔۔نہیں ہوسکتا ابو جان۔اختر صاحب لڑکھڑاتی زبان کے ساتھ بڑبڑاتے اندر جانے والے تھے جب احناف اُن کے راستے میں آیا

جاتے ہوئے دادا جان نے اپنی وصیعت چھوڑی ہے جس میں یہ کہا ہے آپ دونوں اُن کا مرا ہوا منہ نہیں دیکھے گے اور نہ اُن کے جنازے کو کندھا دینگے۔۔۔۔احناف نے سنحیدگی سے کہا تو سب کا ہاتھ بے ساختہ اپنے منہ پر پڑا تھا جبکہ اصغر صاحب اور اختر صاحب بے یقین نظروں سے احناف کو دیکھنے لگے۔۔۔

❤❤❤❤

یہ جھوٹ ہے ابو جان ایسا نہیں بول سکتے۔۔۔۔اصغر صاحب نے اپنا سر نفی میں ہلایا

اُن کے لبوں پر بس یہی تھا کہ آپ دونوں میں سے کوئی بھی اُن کا چہرہ دیکھ نہ پائے۔"اور نہ اُن کے جنازے کے کو کندھا دے پائے اُنہوں اپنی وصیت مجھے تھمائی ہے تو میں ویسا کروں گا جیسا دادا جان نے مجھے کرنے کا بولا ہے۔۔احناف نے سنجیدگی سے کہا

تم دو بیٹوں سے اپنے والد کو آخری بار دیکھنے کا حق چُھینوں گے؟حیات کو جیسے یقین نہیں آیا

سوری مگر یہ حق اِنہوں نے خود گنوایا ہے۔۔۔احناف نے حیات کو دیکھ کر طنز کہا

مجھے ابو جان کو دیکھنا ہے تم سائیڈ پر ہوجاؤ۔۔۔۔اختر صاحب نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر کہا

دادا جان کی رسومات ہمارے گھر میں ہوگیں آپ کے گھر پر نہیں"دادا جان کی میت ہمارے گھر سے اُٹھے گی وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایک روپیہ بھی اُن پر آپ میں سے کسی کا خرچ ہو۔۔۔احناف نے ایک اور بم اُن کے سروں پر گِرایا تھا۔۔۔۔"اُنہوں نے سمجھا تھا کہ جو وہ لوگ کرچُکے ہیں اُن کی کوئی سزا نہیں ہوگی اور نہ پکڑ وہ تو گُناہ کرکے بھول چُکے تھے مگر اللہ کے یہاں دیر ضرور ہوتی ہے مگر اندھیر نہیں جاتے ہوئے اُسماعیل صاحب نے جو اُن کے لیے سزا تجویز کی تھی اُس کا غم"اُس کا پچھتاوا تاعمر اُن کے ساتھ رہنا تھا بھلا ایک بیٹے کے لیے اِس سے زیادہ بڑی دلسوز بات کیا ہوگی جو وہ آخری بار اپنے باپ کا دیدار نہیں کرے گا اور نہ اُن کی میت کو کندھا دے پائے گا

ابو جان ناراض تھے مگر تم ایسا کچھ نہیں کروگے۔۔۔۔اختر صاحب نے سنجیدگی سے کہا تھا اُن کا لہجہ ہلکا سا کانپ رہا تھا۔۔"باقی سب اپنے آنسوؤ کو روکنے کی کوشش کرنے میں تھے

دادا جان واقعی میں ناراض تھے اور جاتے ہوئے بھی اپنی بیٹی کا خون معاف نہیں کیا۔۔۔وہ کہہ رہے تھے اللہ کی عدالت میں انصاف ہوتا ہے اور قیامت کے دن آپ دونوں کا گریبان اُن کے ہاتھوں میں ہوگا۔۔۔۔احناف بہت ضبط سے اُن کو دیکھ کر اُسماعیل صاحب کی ہر بات بتارہا تھا ورنہ اُس کے اپنے دل کی حالت کیا تھی یہ بس وہ جانتا تھا کیسے اُس کے دادا جان کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صورت میں بہہ رہے تھے یہ منظر احناف کی آنکھوں میں جیسے چُبھ گیا تھا جس سے چاہ کر وہ بھی اپنا سرجھٹک نہیں پارہا تھا۔۔۔۔

کچھ دیر قبل!

دادا جان۔۔۔۔احناف نے مشینوں میں جکڑے اُسماعیل صاحب کو دیکھا تو وہ تڑپ کر اُن کی طرف بڑھا

ااا۔حنا۔۔۔۔ف۔۔۔اُسماعیل صاحب نے مشکل سے اُس کا نام لیا

جی دادا میں یہی ہوں نین بھی یہی ہے رو رو کر اُس نے اپنا حال بُرا کردیا ہے میں اُس کو لاتا ہوں ساتھ۔۔۔۔احناف اُن کو دیکھ کر کہتا اُٹھ کر جانے لگا جب اُسماعیل صاحب نے کہا

ن۔۔۔نہیں

کیوں دادا جان؟احناف نے اُن کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا

مجھے۔۔۔۔ای۔۔سے۔۔۔دیکھے۔۔۔گی تو۔۔مزید ٹوٹ۔۔پھوٹ کا شکار ہوگی میں تو اُس سے نظریں ملانے کے قابل بھی نہ رہا۔۔۔اُسماعیل صاحب کے لہجے میں سِوائے رنجیدگی ملال کے کچھ نہ تھا۔۔۔

آپ کیوں نظریں ملانے سے گھبرارہے ہیں دادا جان؟"آپ نے تو ساری عمر اُس کو پیار دیا ہے وہ بھی بے تحاشا اور آپ اِتنے کمزور تو کبھی نہیں تھے جیسا اب بنالیا ہے خود کو۔۔۔۔احناف نے آخر میں ماحول کو ہلکا پُھلکا کرنے کے غرض سے کہا

جوان اولاد۔۔۔۔کی۔۔۔موت۔۔۔کو سہہ گیا۔۔۔تھا۔۔۔۔معصو۔۔۔م کلی اپنی۔۔۔نواسی۔۔۔کا غم بھی خاموشی۔۔۔سے کھا۔۔گیا تھا۔۔مگر جو اب پتا چلا ہے۔۔۔نہ وہ قیامت خیز خبر۔۔۔ہے جو میں بوڑھا شخص برداشت۔۔۔نہیں کرسکتا میں اپنے رب کو کیا کہوں گا؟"۔۔کہ۔۔مجھ سے میری تربیت میں کیا کھوٹ آگئ تھی۔۔۔۔اپنی بیٹی کو کیا منہ دیکھاؤں گا جو۔۔۔بے قصور تھی؟اور۔۔۔میری تارا احناف۔۔۔۔۔تارا میری معصوم۔۔۔۔بچی کو تو وہ۔۔میرے بعد۔۔۔کاٹ کھائینگے۔۔۔اُسماعیل صاحب کو بولنے میں بہت دقت پیش آئی مگر وہ اپنا دل کھول کر احناف کے سامنے رکھنا چاہتے تھے مگر زندگی کے اِس لمحے میں بھی اُن کو تارا کی فکر تھی کہ اُن کے بعد تارا کا کیا ہوگا۔۔۔

جب تک میں نین کے ساتھ ہوں کوئی تارا کو آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا آپ اُس کی ٹینشن نہ لے۔۔بس جلدی سے صحتیاب ہوجائے تاکہ مجرموں کو اُن کے کیئے کی سزا مل سکے.۔۔۔احناف اُن کا ہاتھ عقیدت سے چومتا بولا تو اُسماعیل صاحب کی آنکھ سے آنسو پھسل کر تکیے میں جذب ہوا تھا

میں نے۔۔سزا۔۔تجویز کی ہے احناف۔۔۔۔اور میرے پاس۔۔۔زیادہ وقت نہیں ہے۔۔۔۔بس تمہیں اِتنا کہوں گا۔۔۔میری تارا کا بہت سارا خیال رکھنا اگر ازلان اُس کو خوشیاں نہ دے پائے تو ت

دادا جان میں نے کہا نہ آپ تارا کی ٹینشن نہ لے اور آپ کو کچھ بھی نہیں ہوگا.۔۔آپ جلدی پہلے جیسے ہوجائے گے اِن شاءاللہ۔۔۔۔اُسماعیل صاحب جو اپنی بات کہنے کے ساتھ اُس کے آگے بڑی مشکل سے ہاتھ جوڑنے والے تھے"احناف نے جلدی سے اُن کے ہاتھوں کو نیچے کیے کہا تو وہ گہرے گہرے سانس بھرنے لگے۔۔۔

دادا جان میں کچھ آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔۔۔۔کچھ سوچ کر احناف نے کہا تو اُسماعیل صاحب تلخ مسکرائے

بیٹا۔۔۔۔وقت نہیں۔۔۔اِس لیے بس تم میری سُنو۔۔۔۔اُسماعیل صاحب نے کہا تو احناف کا دل کٹ کے رہ گیا تھا۔۔

پلیز دادا جان ایسی باتیں نہ کرے۔۔۔۔احناف نے لہجے میں منت تھی۔۔۔

میں جاتے ہوئے ایک وصیت کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔اُسماعیل صاحب نے اُس کی بات نظرانداز کیے کہا تو احناف نے چونک کر اُن کو دیکھا

وصیت؟احناف نے کہا تو اُسماعیل صاحب نے اپنی آنکھوں کو جننش دی اور پھر جو اُنہوں نے کہا اُس کے بعد احناف کتنے ہی وقت سناٹوں کی زد میں رہا تھا۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

تا۔۔۔۔۔را یہ سب کیا ہے؟خاور حیرانگی سے اُس کو دیکھنے لگا

آپ بھول گئے ہیں کیا؟تارا چلتی ہوئی اُس کے پاس آئی

کیا بول رہی ہو تم؟خاور کو کچھ غلط ہونے کا احساس شدت سے ہوا تھا

میری آپی کا قصور کیا تھا؟مجھے بتائے آپ ایسا بھی ہم نے کیا بگاڑا تھا میری آپی تو اپنی زندگی میں مگن ہوا کرتیں تھیں پھر کیوں نے اُن کی ہنستی مسکراتی پرسکون زندگی کو برباد کیا؟"کیوں میری بہن کو اِتنا ہراس کیا کہ وہ موت تک کو گلے لگا گئ کیوں کیا آپ نے ایسا کیوں؟؟؟؟خاور کا گریبان پکڑے تارا گرج اُٹھی تھی

تتتتم۔۔تمہیں غلططط۔۔۔فہمی ہوئی ہے۔۔۔خاور کی زبان لڑکھڑائی

جھوٹ

جھوٹ

اور کتنا جھوٹ بولینگے آپ کیا آپ کے اندر پچھتاوا ندامت نامی کوئی چیز موجود نہیں؟تارا نے حقارت سے اُس کو دیکھا تھا

میری بات سُنو تم تارا۔۔۔۔خاور نے اُس سے کچھ کہنا چاہا

ہاں میں سُن رہی ہوں مجھے بتائے میری بہن کا قصور۔۔۔تارا طنز ہوئی

میں واقعی میں اُس سے پیار نہیں کرتا تھا

میری بہن کو بلیک میل کیوں کیا؟خاور ابھی کچھ مزید کہتا اُس سے پہلے تارا نے اُس کی بات کو درمیان میں کاٹ لیا تھا

تارا وہ

خاور سے کچھ بولا نہیں گیا

وہ کیا خاور جتوئی؟"وہ کیا؟تارا کرخت آواز میں بولی

پراپرٹی کے کاغذات اُس نے دینے سے انکار کردیا تھا پھر۔۔۔خاور اِتنا کہتا چُپ ہوگیا تھا جانے کیوں وہ ساری سچائی تارا کو بتانے پر آمادہ ہوچُکا تھا شاید رات کا ہینگوور ابھی تک اُترا نہیں تھا دوسری طرف دروازے کے پاس موجود ازلان نے خاور کا جُملا سُنا تو اُس کو افسوس ہونے لگا"کیسا خاندان تھا اُن کا جن کے لیے صرف پئسا ہی سب کچھ تھا اور کچھ بھی نہیں تھا اگر کسی کی اہمیت تھی بھی تو محض پئسو کی بھلا اُن کو پئسو کا کرنا کیا تھا یہ پئسے قبر میں تو انسان نہیں لے جاتا جو ہر کوئی پئسوں کے پیچھے بھاگ کر اپنی آخرت کو خراب کررہا تھا۔۔۔۔

"تو آپ نے اُن کی فوٹوز کو ایڈٹ کرکے بلیک میل کرنا شروع کیا یہ تک نہیں سوچا کہ جس کی عزت کو اُچھالنے کے آپ چکروں میں وہ آپ کے خاندان کی عزت ہے آپ کی کزن تھی کوئی غیر نہیں تھی اور نہ الگ خاندان سے تھی۔۔۔۔تارا نے ملامت کرتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا تو خاور کے لیے نظریں اُٹھانا محال ہوگیا

مجھے میرے کیئے کی سزا مل چُکی ہے تارا"جس سے میں نے پیار کیا وہ کسی اور سے شادی کرنے جارہی ہے۔۔۔۔خاور کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے مگر تارا کو اُس پر رحم نہیں کیا وہ تو اُس کا دردناک انجام چاہتی تھی۔۔۔۔

آپ کی طرح آپ کو دھوکہ تو نہیں دِیا ہوگا؟تارا نخوت سے اُس کو دیکھ کر بولی

مجھے پیار میں دھوکہ دیا ہے اُس نے۔۔۔۔۔خاور نے اپنے بال مٹھیوں میں جکڑے تھے جبکہ اُس کا ری ایکشن دیکھ کر تارا کو گونا سکون میسر ہوا تھا وہ سرد نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی جو زاروقطار رونے میں مصروف ہوگیا تھا اور کبھی کبھی رونے کے درمیان اپنے گال تھپڑوں سے لال کردیتا۔۔۔۔۔۔

تڑپوں"اور تڑپوں تڑپ تڑپ کر تم پاگل ہوجاؤ موت کی بھیک مانگو اللہ سے پر اللہ تمہیں موت نہ دے تمہارے سینے میں ایسا اندھیرا بھردے جہاں پھر کبھی کوئی اُجالا نہ ہو۔۔۔"میری بہن جینا چاہتی تھی اپنی زندگی میں بہت کچھ کرنا چاہتی تھی مگر تم لوگوں نے اُس پر اللہ کی زمین تنگ کردی اور وہ سسک سسک کر مرگئ اپنی جان کی دُشمن بن گئ۔۔۔۔تارا اُس کو دیکھ کر چیخ کر بولی

مجھے معا

خبردار خاور جتوئی.۔۔"خبردار جو تم نے اپنے منہ سے معافی کا لفظ نکالا بھی تو۔۔۔۔۔خاور اُس کے آگے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے لگا تو تارا نے کاٹ کھاتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر ٹوکا تھا جبکہ بات کو مزید بگڑتا دیکھ کر ازلان کمرے میں آیا اور ڈائریکٹ تارا سے مخاطب ہوا

تارا تمہارا کام ہوگیا ہو تو چلے یہاں سے؟

جی۔۔۔۔اپنے آنسوؤ پونچھ کر تارا نے ایک اچٹنی نظر خاور پر ڈال کر ازلان کو جواب دیا پھر اُس کے کمرے میں موجود چاندنی کی تصاویر کو ایک ایک کرکے دیوار سے اُتاری جو اُس نے محض خاور کی یاداشت واپس لوٹانے کے لیے کی تھی جس میں وہ محض چاندنی کو بُھلاچُکا تھا اور تارا اُس کو تڑپتا ہوا دیکھنا چاہتی تھی پر جو منظر ابھی اُس نے دیکھا تھا وہ ابھی کافی نہیں تھا وہ اُن سب کا زوال چاہتی تھی۔۔۔


"نانا جان کو ہوش آگیا ہے تو اب وہ لازمی مجھ سے ملنا چاہ رہے ہوگے احناف نے کال کرکے تمہیں کچھ بتایا نہیں کیا؟کمرے سے باہر آکر وہ پورچ میں داخل ہوئے تو گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے تارا اپنے لہجے کو ہشاش بشاش بنائے ازلان سے بولی جس سے وہ اپنی جگہ پہلو بدلتا رہ گیا تھا۔

تارا ہم ہوسپٹل نہیں جانے والے۔۔۔۔ازلان نے آہستگی سے بتایا

ہوسپٹل کیوں نہیں جانے والے کونسا نانا کو اِتنی جلدی ڈسچارج کیسے مل سکتا ہے؟تارا ناسمجھی سے ازلان کو دیکھ کر بولی تو ازلان نے ترحم بھری نظروں سے اُس کو دیکھا

بولو ازلان ہم ہوسپٹل کیوں نہیں جانے والے؟تارا کا دل زوروں سے دھڑکنے لگا

دادا جان اب اِس دُنیا میں نہیں رہے۔۔۔۔"ہی از نو مور۔۔ازلان اُس سے نظریں چُراکر بولا تو تارا ساکت ہوئی تھی وہ اپنی پلکیں جِپھکائیں بنا ازلان کو ایسے دیکھنے لگی جیسے وہ ابھی بول دے گا کہ میں مذاق کررہا تھا۔۔۔

کک کیا؟تارا کی زبان میں لرزش ہونے لگی اُس نے بڑی مشکل سے خود کو گِرنے سے بچایا ہوا تھا

تارا دادا ہمیں چھوڑ کر جاچُکے ہیں۔۔۔۔ازلان کی آنکھیں نم ہوئیں تھی اِس بار مگر تارا؟

"تارا کی تو پوری دُنیا اُجڑچُکی تھی ایک واحد مخلص رشتہ۔۔۔بس ایک واحد مخلص رشتہ نانا کی صورت میں اُس کے پاس تھا اور آج اُس نے وہ بھی گنوایا دیا تھا۔۔"تارا کو لگا جیسے آج وہ دوبارہ یتیم ہوچُکی ہو۔۔۔"


ازلان جج جھوٹ مم مت بولو۔۔۔۔تارا نے اپنی چیخوں کا گلا گھونٹ کر آس بھری نظروں سے ازلان کو دیکھا

کاش تارا میں ایسا بول سکتا۔۔۔۔ازلان نے جیسے اُس کی اُمید کو توڑدیا تھا اور وہ ایک بار پھر سے ٹوٹ چُکی تھی۔۔۔"بے ساختہ تارا نے نظریں اُٹھائے آسمان کی جانب دیکھا تھا اپنی آنکھوں میں لاکھ سوالات"لاکھ شکوہ شِکایات لائے وہ یک ٹک اُپر کی جانب دیکھنے لگی اُس کی زبان سے تو کچھ نہیں نکل رہا تھا پر آنکھیں؟"آنکھیں بہت کچھ کہہ رہی تھیں لبوں کو اُس نے سِی لیا تھا جیسے "مگر اپنے دل و دماغ کا کیا کرتی جس کو اپنی محرومیوں کی وجہ جاننی تھی۔۔۔

کیوں ہوتا ہے میرے ساتھ؟"کیا قصور ہے میرا؟تارا اپنا سر ہاتھوں میں گِراے نیچے بیٹھتی چلی گئ تھی اور ازلان بے بسی سے بس اُس کو دیکھے گیا وہ کچھ اور کر بھی تو نہیں سکتا تھا۔۔۔۔

تارا اُٹھو ہمت سے کام لو ہمیں الطاف مینشن چلنا ہے۔۔۔۔ازلان نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر کہا تو تارا نے اپنی سوجھی آنکھیں اُٹھائے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا

دادا جان کی وصیت تھی کہ ڈیڈ اور چچا اختر اُن کا چہرہ مرنے کے بعد آخری بار نہ دیکھے اور نہ اُن کی میت کو کندھا دے اُنہوں نے احناف سے یہ تک کہاکہ جنازے میں وہ ساتھ نہ آئے۔۔۔۔۔ازلان جیسے جیسے بتاتا گیا ویسے تارا کا دل غم کی شدت سے پھٹنے کے قریب ہوا۔۔۔"میت"جنازہ کندھا۔۔۔ایسے الفاظ اپنے نانا کے لیے سُننا اُس کی برداشت سے باہر تھا۔۔۔"مگر کیا ہوسکتا تھا اب

❤❤❤❤❤❤❤

الطاف صاحب کے گھر عجیب سوگواریت ماحول بن گیا تھا۔۔"بینش بیگم نے جب اپنے گھر اُسماعیل صاحب کی میت کو دیکھا تو کتنے ہی پل اُن کو یقین کرنے میں لگا تھا۔۔۔"جبکہ الطاف صاحب تو ابھی تک بے یقین سے تھے۔

"انعم بیگم تو بس خاموشی سے آنسو بہا رہی تھیں مگر مُنیبہ بیگم نے رو رو کر پورا گھر سر پر اُٹھالیا تھا جیسے اُسماعیل صاحب کی وفات کا غم بس اُن کے سِوا کسی کو نہیں تھا۔۔۔۔


دوسری طرف جب گھر کے باہر گاڑی رُکی تو تارا نے سہم کر گیٹ کے پاس مردوں کو دیکھا تھا جو سفید لباس میں ملبوس تھے۔۔۔"اُس کو رُکتا دیکھ کر ازلان نے آگے چلنے کا اِشارہ دیا تو تارا خود کو کمپوز کرتی گیٹ کراس کرگئ تھی وہاں بھی اِتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر اُس کی ہمت جواب دے گئ تھی۔۔"سامنے ہی احناف جو ایک آدمی کو اُسماعیل صاحب کے بارے میں بتارہا تھا اُس کی نظر جب تارا پر گئ تو وہ فورن سے اُس کی طرف آیا تھا۔۔۔

"احناف یہ سب؟احناف کو دیکھ کر تارا اُس کی طرف بھاگ کر آئی تھی۔۔۔۔

نین میری جان صبر سے کام لو۔۔۔۔احناف اُس کو دیکھ کر آہستگی سے بولا تھا

احناف۔۔میرے نانا۔۔۔تارا کا تو صبر جواب دے گیا تھا۔۔۔۔

تم یہاں آؤ۔۔۔۔احناف لوگوں کا خیال کیے اُس کو گھر کی طرف لیجانے لگا تو تارا خاموشی سے اُس کے ساتھ چلتی گئ۔۔۔

تارا تمہیں مضبوط بننا ہوگا۔۔۔میں تمہارے ساتھ ہوں خود کو اکیلا محسوس نہ کرو تم تو بریو گرل ہو نہ۔۔۔احناف اُس کے گال پہ ہاتھ رکھتا نرم لہجے میں بولا تو تارا سسکی

احناف۔۔بریو ہونے کا مطلب یہ تو نہیں ہوتا نہ کہ ہر بار ٹوٹ جانا پڑے۔۔۔۔۔تارا نم نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی

نین اُٹھنے سے پہلے گِرنا پڑتا ہے اور سویرا اندھیرے کے بعد ہی آتا ہے۔۔۔۔دادا جان کو بس تمہاری فکر تھی اور اگر تم روؤں گی یا تم تکلیف میں ہوگی تو بے چین اُن کی روح ہوگی۔۔۔۔احناف نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر کہا جس پر تارا نے جلدی سے اپنا چہرہ صاف کیا اور کہا

ہیں کہاں وہ؟

اندر جاؤگی تو سامنے وہی ملینگے۔۔۔۔۔احناف کے جواب پر تارا نے بہت مشکل سے بہادی کا مُظاہرہ کیا تھا اور چلتی ہوئی گھر کے ہال میں آئی تھی کچھ عورتیں قرآن پاک پڑھنے میں مصروف تھیں تو کچھ اُسماعیل صاحب کی میت کے پاس بیٹھی ہوئیں تھی یہ دیکھ کر تارا کو اب اپنا دم گُھٹتا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔۔

دادا جان آپ ہمیں چھوڑ کر کیوں چلے گئے؟"ایک بار ہم پر ہمارے سروں پر اپنا شفقت بھرا ہاتھ تو رکھتے۔۔۔۔۔سومل کی آواز اُس کے کانوں پر پڑی تو وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اُسماعیل صاحب کی میت کے پاس آئی اور گِرنے والے انداز میں بیٹھ گئ۔۔۔۔تو انعم بیگم نے ہمدرد بھری نظروں سے اُس کو دیکھا جس کے چہرے کی رنگت پیلی زد ہوئی پڑی تھی۔۔۔

نن نانا۔۔۔۔۔۔اُن کے چہرے سے کپڑا ہٹاکر تارا نے اُن کو دیکھ کر پُکارا مگر جو ہمیشہ کے لیے اُبدی نیند سوچُکے تھے

نانا اُٹھے نہ آپ" آپ تو میری ایک پُکار پر میری طرف متوجہ ہوا کرتے ہو تو آج کیا ہوا؟"آج آپ کی تارا آپ کو رو کر پُکار کررہی ہیں۔۔"اور آپ کو کوئی فرق تک نہیں پڑ رہا۔۔۔۔تارا نے شکوہ کرتی نظروں سے اُن کو دیکھ کر کہا مگر اِس بار بھی اُس کو کوئی جواب نہیں ملا

ہائے ابو جان ۔۔۔۔مُنیبہ کا بین کرنا پھر سے شروع ہوا تو تارا نے نفرت سے اُن کو دیکھا

"آپ رونا بند کرے بند کریں یہ ڈرامہ "سب کچھ آپ کی وجہ سے ہوا ہے۔۔۔تارا اُن کو دیکھ کر کرخت آواز میں بولی تو سب عورتیں اُن دونوں کو دیکھنے لگیں

"تارا بیٹا خود کو سنبھالو۔۔۔انعم بیگم نے اُس کو ہوش دِلانا چاہا

نہیں میں کیوں سنبھالوں خود کو؟اِنہیں اُٹھائے یہاں سے ورنہ میں لحاظ نہیں کروں گی۔۔۔تارا پاگل ہونے کے در پر تھی

تارا کیا تماشا لگایا ہوا ہے۔۔۔۔بینش بیگم کو اُس کا انداز ایک آنکھ نہیں بھایا تھا دوسرا وہ ساری حقیقت سے ناآشُنا تھی

"تماشا ابھی میں نے لگایا نہیں ہے اگر آپ چاہتی ہیں میں نہ لگاؤں تو اِن کو یہاں سے جانے کا کہے۔۔۔۔تارا مُنیبہ بیگم کی طرف اِشارہ کیے بولی جو خوانخوار نظروں سے اُس کو دیکھ رہی تھی۔

تم

بینش بیگم کچھ کہنے والی تھی جب وہاں جنازہ اُٹھانے کے لیے مرد حضرات آئے تو سب خاتون اُٹھ کھڑی ہوئیں


"یہ کیا کرنے لگے ہیں آپ سب۔۔۔میرے نانا کو چھوڑے۔۔

احناف

احناف

تم اِن کا ساتھ کیوں دے رہے ہو؟میرے نانا ٹھیک ہیں۔۔۔۔اِن کو کچھ نہیں ہوا بس نیند کی دوائیاں کھائی ہیں۔۔۔"تھوڑی دیر بعد اُٹھ جائینگے آپ سب انتظار کرو نہ پلیززز۔۔۔۔

ازلان بھائی

احناف میری کوئی تو سُنو۔۔۔۔۔

تارا نے جیسے ہی اُن کو اُسماعیل صاحب کی میت کو اُٹھاتا دیکھا تو اپنا سر نفی میں ہلاتی میت کے آگے کھڑی ہوئی تو احناف نے بے بسی سے اُس کو دیکھا تھا جو اِس وقت کوئی پاگل لگ رہی تھی۔۔

تارا سائیڈ پر ہوجاؤ۔۔۔۔الطاف صاحب نے دھیمی آواز میں اُس سے کہا

آپ کے بابا ہیں یہ کیسے اِن کو۔۔۔لے جارہے ہیں؟"کیا آپ کو اِن کی یاد نہیں آئے گی؟تارا کی چیخیں وہاں موجود ہر ایک کا دل چیر رہی تھیں۔۔۔

چچی پلیز نین کو سنبھالیں۔۔۔۔احناف نے خشک پڑتے گلے سمیت انعم بیگم سے کہا تو وہ تارا کی طرف آئیں

تارا بچے عقل سے کام لو یوں میت کو روکا نہیں جاتا۔۔۔انعم بیگم نے نرمی سے اُس کو سمجھانا چاہا

میرے۔۔۔نانا چچی

نااااانااا۔۔۔۔۔تارا کی دلخراش چیخے پورے گھر میں گونجنے لگیں تھی جبکہ انعم بیگم کو سمجھ نہیں آیا وہ کیسے تارا کو سمجھائے کہ یوں رویا نہیں کرتے۔۔۔

تارا۔۔۔۔انعم بیگم اُس کو سامنے سے ہٹاتی اپنے ساتھ لگایا تو وہ دھاڑے مار مار کر رونے لگی

احناااف۔۔۔نہہ نہیں۔۔۔میرے نانا۔۔۔کو دور نہ کرو مجھ سے۔۔۔۔۔۔یہ آخری الفاظ تھے جو اُس کے منہ سے نکلے تھے اُس کے بعد وہ پوری طرح سے ہوش وحواسو سے بیگانہ ہوگئ تھی جس پر انعم بیگم کے ہاتھ پاؤں پُھول گئے تھے۔۔۔۔۔

انابیہ جلدی سے ڈاکٹر کو کال کرو۔۔۔۔انعم بیگم نے فکرمندی سے انابیہ سے کہا تو اُس نے جلدی سے اپنا سراثبات میں ہلایا تھا اور ڈاکٹر کو کال کرنے چلی گئ باقی سب ہمدرد بھری نظروں سے بیہوش تارا کو دیکھنے لگے تھے۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

دادا جان کی موت کا افسوس تو ہمیں بھی ہے اور تارا سے زیادہ ہے پر ہم تو نہیں ہوئے بیہوش۔۔۔۔مومل کوفت میں مبتلا ہوتی بولی

ڈرامے بازیاں ہیں تاکہ ہر کوئی اُس پر توجہ دے۔۔۔۔سومل سرجھٹک کر بولی

آپ لوگوں نے اُن کا چہرہ دیکھا؟ایک رات میں کتنی کمزور ہوگئیں ہیں وہ۔۔۔انابیہ جو پارہ پڑھنے میں مصروف ہوگئ تھی جب سومل اور مومل کی باتیں سُنی تو سنجیدگی سے بولی

اصل لائیف میں بیہوش نہیں ہوتا کوئی اور تمہیں تارا کا پتا نہیں۔۔۔اِس بار حیات نے کہا

میں اُن کو جانتی ہوں بھابھی ہم سے زیادہ دادا جان کے قریب وہ رہی ہیں اور اُن کا جو ری ایکشن ہے وہ ایک فطری ہے۔۔۔انابیہ جواباً بولی

تمہیں اُس کی ٹینشن کرنے کی ضرورت نہیں اپنا دھیان پارہ پڑھنے میں لگاؤ۔۔۔سومل نے اُس کو گھورا

میرا دھیان پارہ پڑھنے میں ہے آپ لوگ اُونچی آواز میں اگر بات نہیں کرینگے تو میرا دھیان نہیں بھٹکے گا۔۔۔انابیہ اِتنا کہتی سرجھکاکر دلجموئی سے پڑھنے لگی۔۔

"ڈاکٹر آگئ ہوگی میں تارا کو دیکھ کر آتی ہوں۔۔۔۔"پتا تو چلے اُس کی آنکھیں کیوں باہر کو نکلی ہوئیں تھی۔۔۔حیات اپنی جگہ سے اُٹھ کر بولی

میں بھی آتی ہوں تمہارے ساتھ۔۔۔سومل بھی اُٹھ کھڑی ہوئی تو اُن کی دیکھا دیکھی میں مومل نے بھی یہی کیا جبکہ اُن تینوں کو اُٹھتا دیکھ کر انابیہ نے گہری سانس ہوا کے سُپرد کی تھی۔۔۔

❤❤❤❤❤❤

خاور تمہارے دادا جان کی اچانک موت کیسے ہوئی؟مایا اسجد کے ساتھ اُن کے گھر آتی خاور سے پوچھنے لگی۔۔۔

ہاں میں نے جب سُنا تو کافی شاک ہوا تھا خیر یہاں تو گہری خاموشی کا راج ہے ایسا کیوں؟اسجد بھی آس پاس نظریں گُھماتا اُس کو دیکھ کر بولا

ہم تو تعزیت کرنے آئے تھے پر ایسا لگ رہا ہے جیسے غلط جگہ پر آئے ہو۔۔۔۔مایا گہری سانس بھر کر بولی اِس درمیان خاور بس خاموش سا اُس کو دیکھ رہا تھا

مجھے تو اپنی دوست تارا کی ٹینشن ہورہی تھی کہاں ہے وہ؟اسجد نے اِس بار اُس کا بازو ہلایا تو وہ جیسے ہوش میں آیا

مایا آج تو تمہاری منگنی تھی نہ؟جواب میں خاور نے جو کہا اُس پر مایا اور اسجد نے تاسف سے اُس کو دیکھا

سیریسلی مسٹر خاور آپ کے دماغ میں اِس وقت یہ سب چل رہا ہے؟اسجد کو جیسے یقین نہیں آیا

سوری آپ دونوں اندر آؤ کیونکہ یہاں تعزیت کے لیے کوئی نہیں آرہا سب لوگ الطاف چچا کی طرف اپنا رُخ کررہے ہیں۔۔۔خاور تھوڑا شرمندہ ہوتا ہوا بولا

اووو ہمیں پتا نہیں تھا خیر پھر ہم اُن کی طرف جاتے ہیں خُدا حافظ۔۔۔مایا اُس کی بات سن کر بولی

اندر تو آؤ نہ تھوڑی ہی دیر کے لیے.۔۔خاور اُس کو اُمید بھری نظروں سے دیکھ کر بولا تو یہ سب مایا کو عجیب لگا۔۔۔

خاور میرے خیال سے اپنے دادا جان کی موت کا تم نے گہرا اثر لیا ہے جبھی ایسی حالت میں بھی تم بہکی بہکی باتیں کررہے ہو۔۔۔مایا نے کہا تو خاور کے چہرے پر ازیت ناک مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا

تمہارے بریک اپ کرنے سے میرا دماغ پر گہرا اثر ہوا ہے۔۔۔۔خاور نے کہا تو مایا نے اِس بار کچھ نہیں کہا

آ آ مایا چلو۔۔۔اسجد ایک نظر خاور پہ ڈال کر مایا سے بولا

ہاں چلو۔۔۔۔مایا نے بھی جلدی سے اپنا سراثبات میں ہلایا اور واپسی کے راستے چل دیئے جبکہ پیچھے خاور کی نظروں نے دور تک اُن کا پیچھا کیا تھا تب تک جب تک اُن کی گاڑی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوئی تھی

❤❤❤❤❤❤

احناف اُٹھو چلو۔۔۔۔اُسماعیل صاحب کو منو متی تلے دفنایا گیا تو دعا مانگنے کے بعد جب ہر کوئی قبرستان سے نکل گیا تو جب ازلان نے احناف کو اُن کی قبر کے پاس بیٹھا پایا تو کہا

میں کچھ وقت دادا جان کے ساتھ گُزارنا چاہتا ہوں۔۔۔۔احناف اُن کی قبر کی مٹی پر آہستگی سے ہاتھ پھیر کر اُس سے بولا

تارا کو تمہاری ضرورت ہے اور مجھے لگتا ہے تمہیں اپنا اور اُس کا رشتہ ڈیکلیئر کرنا چاہیے۔۔۔۔ازلان اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولا

میں اب مزید وقت ضائع نہیں کروں گا میں خوفیہ نکاح نہیں چاہتا تھا میں سب کو بتانا چاہتا تھا پر نین ایسا نہیں چاہتی تھی اور اب میں میں نین کو خود سے دور نہیں کروں گا اپنے پاس رکھوں گا اُس کو ہر وہ خوشی دوں گا جس کی وہ حقدار ہے۔۔۔۔ازلان کی بات سن کر احناف پختگی سے گویا ہوا

ہوپ سو اور ابھی چلو رات ہونے والی ہے۔۔۔"تارا نے بھی رو رو کر آسمان سر پر اُٹھالیا ہوگا۔۔۔۔ازلان نے ایک بار پھر کہا تو احناف اپنے ہاتھ جہاڑ کر اُٹھ کھڑا ہوا

❤❤❤❤❤❤❤

کیا ہوا ہے اِس کو؟ڈاکٹر ابھی تارا کا معائنہ کررہی تھی جب مُنیبہ بیگم نے بیزاری سے پوچھا

تارا کو ابھی تک ہوش کیوں نہیں آیا ڈاکٹر؟"کوئی پریشانی والی بات تو نہیں؟انعم بیگم نے پریشانی سے ڈاکٹر کا چہرہ دیکھا

آپ اِن کے شوہر کو بُلوائے جو بھی بات ہے میں اُن سے کروں گی یا پھر یہ بتائے کہ آپ میں سے یہ کس کی بہو؟ڈاکٹر نے سنجیدگی سے کہا تو ہر کوئی ہونک بنا ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے لگا

شوہر"ساس اِس کا یہاں کوئی نہیں آپ یہ بس یہ بتائے کہ اِس کو ہوش کب آئے گا؟مُنیبہ بیگم سرجھٹک کر بولیں

دیکھے پریگنسی کے شروعاتی مہینوں میں بہت کیئر کی ضرورت ہوتی ہے"ہر لڑکی کو ایسی کنڈیشن میں خوش رہنا چاہیے اور پریشانی والی باتوں سے دور۔۔"مگر اِن کی حالت تو بہت بُری ہے کافی لاپرواہی کی ہے ہر ایک نے۔ڈاکٹر نے پروفیشنل انداز میں کہا

وہ سب تو ٹھیک مگر یہان پریگننٹ کون ہے؟حیات ناسمجھی سے اُن کو دیکھ کر بولی

کیا مطلب کون پریگننٹ ہے؟کیا آپ میں سے کسی کو ابھی تک پتا نہیں چلا کہ ایک ایکسپیٹ کررہی ہیں۔۔۔۔ڈاکٹر حیرانگی سے اُن کو دیکھ کر بولی تو اُن کے الفاظ سب پر کسی بم کی طرح گِرے تھے اور وہ شاک کی کیفیت میں ہوش وحواسو سے بیگانہ تارا کو دیکھ رہے تھے

آپ کو کوئی غلطفہمی ہوئی ہے یہ پریگننٹ نہیں ہوسکتی۔۔۔بینش بیگم نے ہمت کیے کہا

یہ پریگننٹ ہیں مگر ساتھ میں بہت ویک بھی اِس لیے آپ لوگوں سے جتنا ہوسکے اُتنی توجہ اور محبت دے ورنہ بچے کو نُقصان ہوسکتا ہے خیر میں کچھ دوائیاں لکھ کر دے رہی ہوں جو آپ کو اِن کو وقت پر دینی ہیں۔۔۔۔ڈاکٹر بینش بیگم کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھمائے باہر نکل گئیں تھی باقی سب تو ایسے کھڑے تھے جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔۔

تارا۔۔۔۔انعم بیگم بے یقین نظروں سے تارا کو دیکھنے لگی۔۔

اچھا ہوا جو دادا جان اِس دُنیا سے چلے گئے کیونکہ اگر اپنی لاڈلی کے کرتوتوں کا اُن کو پتا تو چلتا تو جیتے جی ویسے بھی اُن کو مرجانا تھا۔۔۔سومل حقارت سے تارا کو دیکھ کر بولی

مجھے تو پہلے سے ہی اِس کے چال چلن ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔۔۔۔حیات کہاں چُپ رہنے والی تھی۔۔۔

ابھی یہ وقت ایسی باتوں کا نہیں باہر عورتیں جمع ہیں اگر کسی کو پتا چل گیا تو بدنامی ہمارے خاندان کی ہوگی۔۔۔۔بینش بیگم حیات کو ٹوک کر بولی تو اُس نے نخوت سے سرجھٹکا

لگتا ہے تو لگ جائے پتا مگر میں اِس کالک کو مزید برداشت نہیں کروں گی۔۔۔"مُنیبہ بیگم کاٹ دار لہجے میں کہتی تارا کے اُپر سے بلینکٹ کھینچ کر اُتارا تھا

مُنیبہ ہوش کے ناخن لو۔۔۔۔بینش بیگم نے اُس کو روکنا چاہا

نہیں بینش آپا آج تو اِس کا مکروہ چہرہ دُنیا کے سامنے آجانا چاہیے بہت برداشت کرلیا ہم نے اِس کو اب مزید اور نہیں۔۔۔مُنیبہ بیگم کو جیسے موقع مل گیا تھا تارا سے حساب بے باک کرنے کا

آپا تھوڑا خیال کرے لوگوں کا نہیں تو اِس کی کنڈیشن کا۔۔۔۔اِس بار انعم بیگم نے مُلتجی لہجے میں کہا

میں نے کہا نہ اِس کو سبق آج مل کر رہے گا غضب خُدا کا اِتنی بے حیائی ابو جان زندہ ہوتے تو کیا گُزرتی اُن پر۔۔۔مُنیبہ بیگم نے واویلا مچانا شروع کیا اور تارا کو بازو سے پکڑ کر ایک جھٹکا دیا تھا تو تارا کی آنکھوں میں ہلکی سی جنبش ہوئی تھی اور وہ اپنے دُکھتے سر کو سنبھالتی بامشکل آنکھیں کھولے سب کو دیکھنے لگی جو قطار سے کھڑے اُس کو دیکھ رہے تھے مگر اِس وقت وہ جس حالت میں تھی ایسے میں کچھ بھی سمجھنا اُس کے بس میں نہیں تھا

بتا یہ کس کا گند ہے جو تیرے پیٹ میں پل رہا ہے؟شرم حیا سے کبھی پالا پڑا ہے تیرا کہ نہیں۔۔۔۔مُنیبہ بیگم اُس کو بالوں سے دبوچ کر پھنکاری تو تارا کے چہرے پر تکلیف دہ تاثرات نمایاں ہوئے اُس نے مُنیبہ بیگم کا ہاتھ اپنے بالوں سے ہٹانا چاہا مگر ناکام رہی کیونکہ کمزوری اِتنی تھی کہ اُس کے ہلنا جُلنا محال تھا۔

آپا چھوڑے بچی کو یہ پہلے سے تکلیف میں ہے۔۔۔۔انعم بیگم آگے بڑھ کر بولی مگر مُنیبہ بیگم کسی کی سُننے کے موڈ میں نہیں تھی جبھی تارا کو بے دردی سے اُٹھاتی کمرے کا دروازہ کھول کر باہر کی طرف دھکا دیا تھا جس سے وہ لہراتی گِرنے والی تھی جب کسی نے آگے آکر جلدی سے اُس کو اپنے بازوں کے حصار میں تھام لیا تھا۔۔۔۔

"نین تم ٹھیک ہو؟احناف کا چہرہ فق ہوا تھا تارا کو ایسے نڈھال حال میں دیکھ کر جبکہ وہ اپنے سوکھے لبوں پر زبان پھیر کر بس اُس کو دیکھے جارہی تھی۔۔

اِس گند کی پوٹلی کو نکال باہر کرو احناف۔۔۔۔۔مُنیبہ بیگم کو تاؤ آیا تھا باقی سب بھی کمرے سے باہر نکل آئے تھے۔۔۔

کیا کیا آپ لوگوں نے نین کے ساتھ؟جواب میں احناف نے سخت نظروں سے اُن کو دیکھا تھا

تارا کی وجہ سے ہمیں آنکھیں مت دیکھاؤ اصل چاند تو اِس نین""نے چڑھایا ہے۔۔۔حیات نے"نین"لفظ پر خاصا زور دے کر کہا تارا کو اُس کے حصار میں دیکھ کر اُس کے اندر آگ کے شُعلے بھڑک اُٹھے تھے

"ا۔۔۔حناف

تارا نے اپنا سر اُس کے سینے میں ٹِکائے کمزور آواز میں اُس کو آواز دی تھی۔۔۔

ہاں کہو میں سُن رہا ہوں۔۔۔۔سب کو نظرانداز کیے احناف اُس کی طرف متوجہ ہوا تھا

احناف جس سے تم اِتنی ہمدردی کررہے ہو اندازہ ہے کچھ اِس نے کیا کیا ہے؟حیات کا بس نہیں چل رہا تھا تارا کو کھینچ کر احناف سے دور کرتی

کیا کیا ہے؟تارا کے چہرے سے بال ہٹاتا احناف نے سنجیدگی سے پوچھا نظریں جبکہ تارا کے چہرے کا طواف کررہی تھیں۔۔۔

بدبخت پیٹ سے ہے اللہ جانے کس کا بچہ ہے اِس کی پیٹ میں پل رہا ہے۔۔۔۔مُنیبہ بیگم نفرت سے تارا کو دیکھ کر بتانے لگی۔

اچھ

احناف جو جانے چُھڑوانے والے انداز میں جواب دینے لگا تھا بات سہی سے سمجھنے کے بعد وہ چونک کر کبھی مُنیبہ بیگم کو دیکھتا تو کبھی اپنے ساتھ لگی تارا کو جو خود بھی اُس کو دیکھ رہی تھی اور احناف کو دیکھ کر پلکیں جھپکائیں جیسے مُنیبہ بیگم کی بات کی تائید کی تھی جس پر احناف خوشگوار حیرت سے اُس کو دیکھنے لگا یکلخت اُس کے چہرے پر گہری مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا۔۔۔"تارا نے ابارشن نہیں کروایا تھا یہ خیال ہی احناف کے لیے خوبصورت تھا اُس کو تارا پر بیحد پیار آیا تھا اور خود پر غُصہ بھی کے کیسے وہ زندگی میں پہلی بار اُس سے سخت ہوا تھا وہ بھی اُس بات پر جس میں کوئی صداقت کا نہ تھی

تم مسکرا رہے ہو؟حیات کو یقین نہیں آیا جیسی احناف کی نیچر تھی وہ سمجھی تھی وہ خود تارا کو دھکا دے کر گھر سے باہر نکالے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔۔

حیات کے پوچھنے پر احناف نے کوئی جواب نہیں دیا تھا بس تارا کو احتیاط سے بانہوں میں بھرے اپنے کمرے کی طرف بڑھا تھا باقی سب پیچھے حق دق اُس کا عمل دیکھنے لگا۔

اَسْتَغْفِرُاللّٰه ۔۔۔مُنیبہ بیگم نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا تھا جبکہ حیات کا پورا چہرہ غُصے سے لال ہوا تھا وہ دندناتی احناف کے پیچھے جانے والی تھی جب سومل نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر روکا تھا۔۔۔۔

بینش آپا اپنے بیٹے کو لگام دے اُس کو بتائے وہ شادی شُدہ ہے یہ حرکتیں اب اُس کو زیب نہیں دیتی۔۔۔مُنیبہ بیگم ناگواری سے بینش بیگم سے بولیں تھیں جن کی پرسوچ نظریں وہاں تھیں جہاں احناف تارا کو لیئے گیا تھا۔۔۔


"آرام سے لیٹو تم یہاں۔۔۔۔کمرے میں آکر احناف نے آرام سے تارا کو بیڈ پر لیٹایا اور اُس پر بلینکٹ ڈالا

ا۔۔حناف پانی۔۔۔۔۔تارا گہرے سانس بھرتی بہت مدھم آواز میں بولی تو احناف جھٹ سے جگ اُٹھائے گلاس میں پانی انڈیلتا تارا کے پاس آیا

تو کیا وہ رپورٹس فیک تھیں؟تارا پانی پینے لگی تو احناف گہری نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھنے لگا

ہمممم۔۔۔۔تارا پانی کا گلاس تھامتی ہُنکارا بھر کر بولی

ایسا کیوں کیا تھا اندازہ ہے میری کیا حالت ہوئی تھی۔۔۔احناف نے جیسے شکوہ کیا

تمہیں اندازہ ہے جب تم نے اپنا آپ میرے سامنے حیات کے سُپرد کیا تھا تو میری حالت کیا ہوئی تھی؟جواب میں تارا نے جو کہا اُس پر احناف لاجواب ہوا تھا

تم نے جان کر مجھے تڑپایا کیونکہ تمہیں پتا تھا میری بچوں کے ساتھ انٹینشن کتنی اسٹرونگ ہے۔۔۔احناف نے اُس کا سر اپنے کندھے پر رکھ کر کہا

میں بس تمہیں اِتنا بتانا چاہتی تھی کہ تمہیں اندازہ ہو جس سے پیار کیا جاتا ہے اگر وہ ہم سے چِھن جائے تو کیسا محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔تارا آہستگی سے بولی

میں بہت خوش ہوں نین"اور تمہارا بہت شکریہ جو تم نے ایسا کچھ نہیں کیا تم نے ہمارے بچے کو محفوظ رکھا۔۔۔۔احناف اپنا رُخ اُس کی طرف کیے اُس کے ہاتھ چوم کر بولا

تم واقعی میں بہت خوش ہو؟تارا نے جانچتی نظروں سے اُس کو دیکھا

اپنی خوشی میں لفظون میں بیان نہیں کرسکتا"اب بس تم میرے ساتھ رہو گی میں مزید تمہیں خود سے دور نہیں رکھ سکتا۔۔۔کہنے کے ساتھ ہی احناف نے اُس کو خود میں بھینچا تھا۔۔

میں تمہارے پاس لوٹ کر نہیں آؤں گی احناف۔۔۔تارا نے اُس کو خود سے دور کیے کہا تو احناف کا دل دھڑک اُٹھا تھا


‏اجازت ہو تو کہہ دُوں قِصّۂ اُلفت سرِ مَحفِل

مُجھے کُچھ تو فسانہ یاد ہے کُچھ تُم سُنا دینا _


مَیں مُجرِم ہُوں مُجھے اِقرار ہے جُرمِ محبّت کا

مگر پہلے خطا پر غور کر لو پِھر سزا دینا __


نین؟احناف سے کچھ بولا نہیں گیا

نہیں احناف اِس بار نہیں میں نے اپنی زندگی میں ہر بار کمپرومائز کیا ہے پر اِس بار نہیں کروں گی میں تمہیں کسی اور سے بانٹ نہیں سکتی تمہیں یا تو میرا ہونا پڑے گا یا پھر حیات کا کیونکہ مجھے بٹا ہوا شخص نہیں چاہیے۔۔۔۔تارا احساس سے عاری لہجے میں اُس کو دیکھ کر بولی

دو کشتوں کا مسافر میں بھی نہیں بننا چاہتا میں خود تمہارے ساتھ ایک پرسکون خوشیوں سے بھری زندگی گُزارنا چاہتا ہوں۔۔۔۔"خیر تم آرام کرو میں پھر بعد میں آتا ہوں۔۔۔اپنے اندر موجود ڈھیر ساری باتوں کو نظرانداز کیے احناف نے جواباً کہا اور اُس کے پیچھے تکیہ دُرست کرنے لگا

تم کیا کرنے والے ہو؟وہ جانے لگا تو تارا نے اُس کا ہاتھ پکڑا

پریشان نہ ہو اِس بار تمہیں کچھ کھونا نہیں پڑے گا اور نہ میں تمہارے ساتھ ناانصافی کروں گا اور نہ ہی کسی کی ناانصافی تم پر برداشت کروں گا۔۔۔۔احناف جُھک کر اُس کے ماتھے پر بوسہ دیتا کمرے سے باہر چلاگیا"پیچھے تارا کا دھیان جو پہلے کسی اور باتوں میں لگا تھا اب ایک بار پھر اُس کو اُسماعیل صاحب کی یاد کاٹنے لگی تھی۔۔

میں کیسے رہوں گی نانا آپ کے بغیر؟گُھٹنوں کے بل اپنے بازو کا حصار بنائے تارا آہستگی سے بڑبڑائی تھی


"احناف نکالو اُس منحوس کو میرے کمرے سے۔۔۔۔احناف کمرہ لاک کیے جیسے ہی پلٹا حیات کسی ناگن کی طرح اُس کو دیکھ کر بولی

نین تارا نام ہے اُس کا۔۔۔۔۔احناف نے باور کروانے والے انداز میں کہا

پورے گھر میں تمہیں یہی کمرہ ملا تھا جو اُس کو وہاں لیٹایا۔۔۔مُنیبہ بیگم کو بھی احناف کی حرکت پر غُصہ آیا تھا پر پرواہ کس کو تھی۔۔۔۔

احناف تم نے یہ کیا کردیا ہے؟"تمہارا تارا کے ساتھ اِتنا نزدیک ہونا میری سمجھ سے تو باہر ہے۔۔۔۔بینش بیگم کے لہجے میں اُلجھن تھی

شاطر ہے وہ پھسایا ہوگا احناف کو

چچی میں نین کے خلاف کوئی غلط بات برداشت نہیں کروں گا۔۔۔۔مُنیبہ بیگم کچھ کہنے والی تھیں جب احناف نے بیچ میں اُن کو ٹوک دیا تھا

کیوں نہ بولے میری امی؟"ہاں بتاؤ کیا رشتہ ہے تمہارا اُس کے ساتھ کہاں گئ تمہاری غیرت احناف؟وہ تارا کی بچی جانے کہاں اپنا منہ کال

میرا بچہ پل رہا ہے اُس کے پیٹ میں میری بیوی ہے وہ"میرے نکاح میں ہے اور میں اُس کے خلاف ایک لفظ برداشت نہیں کروں گا آپ سُن لے سب کے سب۔۔۔۔احناف حیات کی بات بھی درمیان میں کاٹتا دانت پیس کر بولا تھا جس پر سب کو لگا جیسے گھر کی پوری چھت اُن کے اُپر گِرالی گئ ہو وہ حیرت اور بے یقین نظروں سے احناف کو دیکھنے لگے جس کے تاثرات تنے ہوئے تھے جبکہ حیات کو سانس روکے احناف کو دیکھ رہی تھی۔۔۔"جس نے اِتنی بڑی بات آسانی سے بول دی تھی۔۔۔۔


"کیا بکواس ہے یہ ہوش ہے تمہیں کچھ؟کیوں اُس بدبخت کی پردہ پوشی کررہے ہو؟؟منیبہ بیگم بہت وقت بعد بولی

جس کو آپ نئے القابات سے نواز رہی ہیں وہ میری بیوی ہے اور میں بار بار یہ کہنا پسند نہیں کروں گا کہ کوئی اُس کو کچھ غلط نہ بولے آپ سب ایک ہی بار میں سمجھ جائے تو اچھا ہوگا۔۔۔۔۔احناف نے طنز نظروں سے اُن کو دیکھ کر بولا

"احناف۔۔۔میری طرف دیکھو۔۔تمہیں نہ جھوٹ بولنے کی۔۔۔ضرورت نہیں۔۔سچ بتاؤ کیا بتایا تارا نے تمہیں؟حیات اُس کا رُخ اپنی طرف کیے بولی وہ سمجھی تھی جیسے احناف نے جھوٹ کہا تھا۔۔۔

میں جھوٹ نہیں بول رہا نین میری بیوی ہے۔۔۔احناف اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولا تو حیات کے قدم لڑکھڑائے

احناف یہ کیا تماشا ہے تمہاری بیوی حیات ہے تارا نہیں۔۔۔بینش بیگم نے اُس کو جھڑکا

میری بیوی نین ہے امی۔۔۔۔۔احناف نے محض اِتنا کہا

پھر میں کون ہوں؟"بتاؤ نہ میں کون ہو؟حیات اچانک جوش میں آتی اُس کے سینے پر ہاتھ مار کر بولی

حیات اپنی حد میں رہو۔۔۔۔احناف کو اُس کا انداز پسند نہیں آیا

میں حد میں رہو سیریسلی احناف،؟"تم ابھی بھی یہ مجھے کہو گے میرے سر پر سوتن تھوپ کر تم مجھے حد میں رہنے کا بول رہے ہو۔۔اپنے بارے میں کیا کہو گے تم نے تو اپنی ساری حدود کراس کرلی ہے نہ۔۔۔۔۔حیات کڑے چتونوں نے اُس کو گھور کر بولی

سوتن تمہارے اُپر نہیں اُس کے اُپر تھوپی ہے نین تارا میرے نکاح میں آج سے نہیں بلکہ تین سال پہلے سے ہے۔۔۔۔احناف نے ایک اور نیا انکشاف کیا تو حیات کی آنکھوں میں نمی اُتری تھی۔۔۔۔


""احناف کو تارا سے پیار ہے یا ہمدردی"جو بھی ہے بس اُس کے لیے ہے اور وہ جو محسوسات تارا کے لیے کرتا ہے وہ کبھی تمہارے لیے نہیں کرے گا۔"شاید تم نے وہ چمک نہیں دیکھی احناف کی آنکھوں میں جو بس تارا کو دیکھ کر آتی ہے اور احناف کا تارا کو دیکھنے کا انداز تک الگ ہوتا ہے وہ دُنیا کے لیے تارا ہے مگر احناف نے اُس نے اپنے لیے تارا کو بس"نین"بنایا ہے۔۔""


حیات کو جانے کیوں اچانک سے ازلان کے جُملے یاد آئے تھے اور وہ بُت بنی احناف کو دیکھے گئ جس کا چہرہ ہر احساس سے پاک تھا۔۔۔۔

اگر وہ تمہاری بیوی تھی تو میری بچی کی زندگی تم کیوں برباد کی؟مُنیبہ چیخی تھی مگر حیات کا دماغ مفلوج ہوچُکا تھا۔۔۔

کیونکہ آپ لوگوں نے بھی آج سے کچھ سال قبل کسی لڑکی کی زندگی برباد کرنے کے ساتھ ساتھ ختم کی تھی جس کا احساس آپ لوگوں کو کبھی نہیں ہوا اور اُس بات کا احساس دِلانے کے لیے آپ کی خود کی بیٹی کا برباد ہونا ضروری تھا۔۔۔۔۔احناف نے جواباً کہا تو انعم بیگم کا ہاتھ اپنے منہ پر گیا تھا جبکہ مومل اور سومل ایک دوسرے کا چہرہ تکنے لگیں۔۔۔

کیا مطلب تمہارا؟بینش بیگم نے جانچتی نظروں سے اُس کو دیکھا

چاندنی کو خودکشی کرنے میں خاور اور چچی نے مجبور کرلیا تھا۔۔۔پہلے چچی نے خاور کو چاندنی کے پیچھے لگایا پھر جب کچھ ہاتھ نہ آیا تو اُس کو بلیک میل کرنا شروع کیا جس سے تنگ ہوتی وہ موت تک پہنچ گئ تھی۔۔۔۔احناف سانس لیے بنا سب کچھ بتاتا گیا۔۔۔۔

جججھوٹ جھوٹ ہے۔۔۔تارا جان کر ہمارے۔۔۔درمیان۔۔۔لڑائیاں کروا رہی۔۔۔۔مُنیبہ بیگم کے اوسان خطا ہوئے تھے جبکہ حیات چلتی ہوئی احناف کے روبرو کھڑی ہوئی تھی۔۔۔

مجھ سے نکاح کیوں کیا تھا تم نے احناف؟حیات نے گہری سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"نین چاہتی تھی عین نکاح کے وقت میں تمہیں چھوڑدوں۔۔۔۔احناف بنا اُس کو دیکھے بولا

پھر کیوں نہیں چھوڑا؟اگلا سوال

بدنامی ہماری ہوتی۔۔۔۔احناف نے کہا تو وہ یکطرفہ مسکرائی

مجھے پرپوز کرنا"میرے ساتھ ڈیٹ پر جانا میری ہر بات کو ماننا کیا یہ سب بھی اُس تارا نے کہا تھا؟حیات نے باری باری ہر چیز کے بارے میں اُس سے پوچھا تو احناف نے سرہلانے پر اکتفا کیا

کیوں؟حیات کے لہجے میں نمی گُھلنے لگی

کیونکہ نین کی بہن کے ساتھ ایسا کیا تھا خاور نے۔۔۔احناف اب کی اُس کو دیکھ کر بولا

"امی نے بھائی کو چاندنی کے پیچھے لگایا"ڈیڈ نے اُس کے والدین کو قتل کروایا مگر اِس میں میرا کیا قصور؟اپنے گال پہ بہتا آنسوؤ صاف کیے حیات اُس سے جواب طلب ہوئی

میں نے کیا بگاڑا تھا تارا کا یا تمہارا کیا بگاڑا تھا میں نے جو تم نے اُس کے کہنے پر میرے ساتھ اِتنا بڑا گیم کھیلا۔۔"جو کچھ کیا وہ تو میرے گھروالوں نے کیا نہ اُس میں میری انوالومنٹس نہیں تھیں پھر سزا تم دونوں نے مل کر میرے لیے تجویز کیوں کی؟"میرے جذبات کا مذاق کیوں بنایا؟حیات نے ایک کے بعد ایک سوال اُٹھائے

"میری بچی تم روؤ مت دیکھنا کیسے اِن کا بچہ مرتا ہے جو اللہ جانے جائز ہے بھی یا نہیں۔۔۔۔مُنیبہ بیگم زہر خند لہجے میں بولی تو اُن کے الفاظوں نے احناف کا دماغ سہی معنوں میں گُھمایا تھا

آپ

بچے کی بات تب آئے گی جب اُس کی ماں بچے گی"میں تارا کو زندہ نہیں چھوڑوں گی جان سے ماردوں گی۔۔۔۔احناف کچھ سخت کہنے والا تھا جب حیات آپے سے باہر ہوتی پاس پڑا گُلدان اُٹھائے کسی طوفان کی طرح کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تھی مگر اُس کی بات سن کر احناف اپنے جبڑے بھینچ کر اُس کے پیچھے گیا تھا۔۔۔باقی سب کو سمجھ نہیں آیا یہ اچانک اُُن کے ہنستے بستے گھر کو کس کی نظر لگی تھی جو سب آفتیں ایک ساتھ آئیں تھیں۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

تارا۔۔۔۔دروازہ تیزی سے کھولتے حیات نے خونخوار نظروں سے اُس کو دیکھا تو تارا جو آنکھیں موندیں لیٹی ہوئی تھی اُس نے اپنی آنکھوں کو کھول کر حیات کو دیکھا جس کی نظروں میں اُس کے لیے نفرت جیاں تاثرات تھے۔

آج تم نہیں بچوں گی۔۔۔۔۔حیات اِتنا کہتی تیزی سے اُس کی طرف بڑھنے لگی جب احناف بھی اُس کے پیچھے آیا

حیات۔۔۔۔"

رکو

میں نے کہا رُکو سُنائیں نہیں دیتا تمہیں؟احناف جلدی سے آگے بھرتا اُس کے راستے میں حائل ہوا اور حیات کے ہاتھوں سے گلدان چھیننے والے انداز میں لیا"جبکہ تارا ناسمجھی سے اُن کو دیکھنے لگی

احناف چھوڑو مجھے آج میں اِس کو چھوڑوں گی نہیں یہ ہمیشہ سے ہماری زندگی میں کاٹا بنتی آئی ہے۔۔۔۔حیات پاگلوں کی طرح چلائی

حیات کیا ہوگیا ہے تمہیں"کیوں جاہلوں کی طرح چیخیں مار رہی ہو۔۔۔احناف نے ناگواری سے اُس کو دیکھ کر کہا

میں پھر کیا کروں اِتنا بڑا دھوکہ دیا ہے تم نے مجھے کیا تمہیں شرم نہیں آئی میرے ساتھ ایسا کرتے ہوئے؟حیات اُس کا گریبان پکڑ کر دھاڑی تو تارا کو ایک لمحہ لگا تھا ساری بات جاننے میں۔

ہاں احناف کو نہیں آئی شرم۔۔۔۔جواب تارا نے دیا تھا۔

ساری آگ تمہاری لگائی ہوئی ہے اللہ کرے تم مرجاؤ۔۔۔حیات اُس کو بددعا دیتی بولی

بددعاؤں میں اگر اِتنا اثر ہوتا تو پھر آج تمہارے گھروالوں میں سے کوئی بھی زندہ نہ رہتا۔۔۔تارا نے اُس کی بات کا زیادہ اثر نہیں لیا

تم باہر آؤ نین کو آرام کی ضرورت ہے۔۔۔احناف اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولا

میں باہر کیوں جاؤں یہ میرا کمرہ ہے باہر تو یہ نکلے گی۔۔۔۔حیات تارا کو گھورتی احناف سے بولی

بلکل ٹھیک کہا تم نے یہ تمہارا کمرہ ہے اور تمہیں ہی مُبارک ہو مجھے یوزلیس چیزیں پسند بھی نہیں ہوا کرتیں پتا نہیں کیسے میں یہاں اِتنے منٹس بیٹھ گئ۔۔۔تارا آہستگی سے بیڈ سے اُٹھنے کی کوشش کرتی ہوئی بولی تو حیات نے اُس کو دیکھ کر سرجھٹکا تھا

نین بیٹھ جاؤ تمہاری طبیعت سہی نہیں ہے رحم کھاؤ خود پر اور ہمارے بچے پر۔۔۔۔احناف فورن سے اُس کی طرف بڑھا

اِس فکر کے یہ لائق نہیں۔۔۔۔حیات ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچ کر بولی

کیا اب بھی تم اِس کو مجھ پر فوقیت دو گے؟تارا اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولی

تم پر میں کبھی کسی کو فوقیت نہیں دے سکتا۔۔۔۔احناف کا کہنا تھا اور حیات کا یہ سُننا تھا اور اُس کی بس ہوئی تھی جبھی دونوں کو خونخوار نظروں سے دیکھ کر کمرے سے واٹ آؤٹ کرگئ تھی۔۔۔

یہ بیڈ کمرے سے باہر نکالو۔۔۔۔۔تارا اُس کو دیکھ کر بولی

نکال دوں گا۔۔۔۔۔احناف بنا تاخیر کیے بولا

کمرے کی ہر چیز نئ ہونی چاہیے یا ایسا کرو تم اپنا کمرا کوئی اور بنالوں اب یہاں نہیں رہوگے۔۔۔تارا کمرے کے چاروں اطراف دیکھتی اُس سے بولی

جو تم کہو گی وہی ہوگا بس تم خود کو کسی بات کا اسٹریس نہ دو۔۔۔۔احناف نرمی سے اُس کو دیکھ کر بولا تو تارا نے محض سراثبات میں ہلایا تھا

اچھا نہیں ہوا امی میرے ساتھ بلکل بھی اچھا نہیں ہوا۔۔۔"پہلے میرے لیے یہ بات ہضم کرنا آسان تھا جو ایک اور بم میرے سر پر گِرا ڈیڈ اور چچا جان نے پُھوپھو اور اُس کے شوہر کو مروایا اور بھائی نے چاندنی کی زندگی برباد کی اللہ اللہ۔۔۔۔حیات یہاں سے وہاں ٹہلتی عجیب انداز میں بولی

زندگی اور موت اللہ کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اِس میں انسانوں کا کوئی قصور نہیں ہوتا اور نہ ہاتھ۔۔۔مُنیبہ بیگم نے اپنا کردار صاف بنانا چاہا جس پر حیات نے تاسف سے اُن کو دیکھا

اب آپ میری ماں ہیں میں کیا بولوں آپ سے ورنہ بات تو آپ نے بہت بُری ہے بیشک زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہیں پر امی "ذریعہ" لفظ بھی کسی چڑیا کا نام ہوتا ہے جو آپ کے شوہر اور میرے بابا کے ساتھ ساتھ ازلان کے والد موصوف بھی ہیں۔۔۔"خیر میں نے ایک فیصلہ کرلیا ہے۔۔۔۔حیات سرجھٹک کر اُن سے بولی

کیسا فیصلہ؟مُنیبہ بیگم نے جیسے بس اُس کی آخری بات سُنی

یہی یہ میں اب یہاں مزید نہیں رہوں گی۔۔۔حیات مُنیبہ بیگم کو دیکھ کر اٹل لہجے میں گویا ہوئی جس پر مُنیبہ بیگم نے دانت کچکچائے

حیات عقل کے ناخن لو کوئی دوسری عورت کے لیے اپنا گھر نہیں چھوڑتا اور اگر تم نے ایسا کیا تو تارا کو تو کُھلی چھوٹ مل جائے گی یہاں عیش کرنے کی۔۔۔مُنیبہ بیگم اُس کی عقل پر ماتم کرتی بولی

میری بلا سے بھاڑ میں جائے وہ اُس نے مجھے دھوکہ دیا آپ مجھے بتائے کیا میں ایسی ہوں جو لوگ میرے سے چیٹ کرے؟حیات اُن کے ربرو کھڑی ہوتی چلائی جبھی وہاں بینش بیگم آئی

احناف شوہر ہے تمہارا حیات تم اُس کو چھوڑ کیسے سکتی ہو؟اِس بار بینش بیگم نے کہا جو کب سے دروازے کے پاس کھڑی اُن کی باتیں سُن رہی تھیں

چچی آپ کو تو خوش ہونا چاہیے بیٹھے بیٹھائے آپ کو انوکھی بہوؤ مل گئ ہے بونس میں ایک بچہ بھی ساتھ لائی ہے آپ نہ میری مانئیے گا اگر بچہ دُنیا میں آجائے نہ تو پہلے اُس کا ڈی این ٹیسٹ کروائیے گا تاکہ پتا تو چلے بچہ واقعی میں احناف کا ہے بھی یا بچپن کی طرح اُس کی غلطی پر پردہ اور اب گُناہ پر پردہ ڈال رہا ہے۔۔۔حیات نفرت انگیز لہجے میں بولی تو بینش بیگم نے تاسف سے اُس کو دیکھا

بہتان لگانا بہت بڑا گُناہ ہے حیات اِس لیے پہلے تولو پھر بولو۔۔۔بینش بیگم کو حیات کی باتیں بہت بُری لگیں تھیں

میں تو آپ کو مشورہ دے رہی ہوں کیونکہ میرے جذبات کا قتل بنائے اِنہوں نے اپنا آشیانہ بنایا ہے"خوشیاں تو اُن دونوں کو بھی میسر نہیں ہوگیں۔۔۔۔حیات بددعائیہ انداز میں بولی تو بینش بیگم کا ہاتھ اپنے کلیجے میں پڑا تھا

"میرے بیٹے کو بددعا مت دو حیات کیونکہ پُرانی کہاوت ہے باپ اور بھائی جوانی میں اپنی بہن اور بیٹی کی قسمت لکھا کرتے ہیں۔۔۔تم پر ایک بات آئی تو تم یوں تڑپ اُٹھی ہو اور جو تم سب لوگ مل کر تارا کے ساتھ ناانصافیاں کرتے تھے کیا وہ کسی کو یاد نہیں؟اِتنی کمزور یاداشت ہے تم سب کی۔۔۔تمہارا دل تمہارے جذبات ہرٹ ہوئے ہیں تو تم چلا چلا کر سب کو بتانے کے در پر ہو مگر وہ تارا؟"سالوں سے اپنے والدین کے قاتلوں کو جانے اپنے اندر گہری خاموشی کو بیٹھائے بیٹھی ہے۔"اُن کے ساتھ ایک چھت کے نیچے رہی ہے سب کہتے تھے تارا مغرور ہے تارا کسی سے بات نہیں کرتی"تو کیا کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کیوں ہے ایسی؟"کس نے بنایا ہے اُس کو ایسا اگر اُس نے کسی سے گُھلنے ملنے کی کوشش نہیں کی تو پٙہل باقیوں نے بھی نہیں کی تھی اگر تارا کو بس نفرت کرنا آتا تو وہ کبھی ازلان سے نارمل نہ رہتی وہ نارمل رہی کیونکہ ازلان کا رویہ اُس کے ساتھ ہمیشہ سے پولائیٹ سا تھا تو تبھی یہی وجہ ہے تارا بھی اُس کے ساتھ اچھے رویے سے پیش آتی رہی ورنہ قاتل تو اُس کا باپ بھی ہے یہی کہا تھا نہ تم نے اپنی ماں سے انسان کو اچھا اپنا کردار بناتی ہے اُس کے اخلاق کا پتا اُس کی زبان سے لگتا ہے۔"تم کہتی ہو تم نے کچھ نہیں کیا تو حیات بیٹا اِس غلطفہمی سے تم باہر آجاؤ کیونکہ زبان سے زیادہ کوئی بڑی تلوار نہیں ہوتی جس کے زخم تو بھر جاتے ہیں مگر نشان ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔۔۔۔"تمہارے الفاظ تارا کے دل پر تیر کے نشتر کی طرح لگے ہوگے جس نے کبھی اظہار نہیں کیا اور تم نے احساس نہیں کیا۔۔۔۔۔"بینش بیگم جب بولنے پر آئیں تو بولتی چلی گئ تھی اور حیات بس اُن کو دیکھتی رہ گئ جنہوں نے اگلی پِچھلی ساری کثریں ایک ساتھ چھوڑی تھیں

آپ اُس دو ٹکے کی تارا کی وجہ سے ہمیں باتیں سُنا رہی ہیں۔۔۔مُنیبہ بیگم کو تاؤ آیا

میں کسی وجہ سے کچھ نہیں بول رہی بس جو دیکھتی آئی ہوں وہ بیان کرنے کی ایک کوشش کی تھی"اور حیات تم تارا کو مارنے چلی تھی جس کے پورے گھروالوں کو مارنے والے تمہارے والدین ہیں"جس کا اپنا قیمتی اثاثہ چِھیننے والے تمہارے والدین ہیں۔۔۔۔بینش بیگم خشمگین نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی تو حیات کو پہلی بار شرمندگی کا احساس ہوا تھا

جو بھی چچی جان مگر ایسے تو پھر تارا اور بھائی بھی کوئی فرق نہیں بچا بھائی نے اپنے مفاد کی خاطر چاندنی کا استعمال کیا تو تارا نے اپنے مفاد کے لیے میرا کروایا۔۔۔حیات کچھ توقع بعد بولی

"تمہیں تو سجدے میں جاکر اللہ کا شکرگُزار ہونا چاہیے کہ اُس نے تمہارے بھائی کی سزا کی خاطر مکافات عمل تمہارے سامنے نہیں آیا ورنہ جانے بے گُناہی میں عورتوں کو اپنے مردوں کے کیئے کی سزا جھیلنی پڑتی ہے۔۔"میں تارا اور احناف کو سہی نہیں کہوں گی اور نہ غلط کہوں گی کیونکہ ایک لحاظ سے جس طرح تارا نے یہ سب احناف سے کروایا تو تارا یہ سب کسی اور سے بھی کروا سکتی تھی تمہیں بھی ٹارچر کرواسکتی تھی تمہاری تصاویر ایڈیٹس کروا کر تمہیں بھی بلیک میل کرواسکتی تھی یا سوشل میڈیا بھی ڈال سکتی تھی مگر اُس نے تمہارے ساتھ ایسا کچھ نہیں کیا اِس لیے ہم اُن دونوں کو ایک ترازو بھی نہیں تول سکتے کیونکہ بدلے کی آگ تارا میں بہت تھی پر وہ بدلہ لینے کی خاطر اندھی نہیں ہوئی اور نہ خاور کی طرح نیچے گِری۔۔۔۔بینش بیگم طنز لہجے میں بولی تو حیات کو چُپ لگ گئ تھی۔۔۔۔

"بڑی جلدی آپ نے اپنا پاسا پلٹ دیا اور اُس بدبخت کو قبول بھی کرلیا"سوچا ہوگا ایک بیٹا تو لڑکی لے اُڑی کہی دوسرا بھی نہ لے اُڑے۔۔۔۔۔منیبہ بیگم کو ایک بار پھر بولنے کا دورہ پڑا

میں نے پہلے سے ہی بتایا ہے میں کسی کی طرفداری نہیں کررہی بس وہ بول رہی ہوں جو میں دیکھتی آئیں ہوں اور جو اب محسوس کیا ہے۔۔۔بینش بیگم سنجیدگی سے بولی

آپ کو اپنا بیٹا کیوں بُرا لگے گا؟"آپ تو یہ تک نہیں سوچ رہی کہ اُس نے تارا کے کہنے پر کیسے میرے جذبات کا تماشا بنایا۔۔۔حیات اُن کو دیکھ کر بولی

ایک لڑکی کے پاس اُس کی زندگی کا سُرمایہ اُس کی عزت ہوتا ہے اور احناف نے تمہاری عزت پر کوئی آنچ نہیں آنے دی سوچو اگر بھری محفل میں وہ تم سے نکاح کرنے پر انکار کردیتا تو کیا ہوتا؟بینش بیگم نے کہا تو حیات کو نکاح کا وقت یاد آیا جب "نکاح کے دوران احناف کافی وقت تک چُپ تھا اور پھر بنا بتائے اسٹیج سے اُٹھ کر چلاگیا تھا۔۔۔اُس کو اب آہستہ آہستہ یاد آنے لگا کہ کیسے احناف اُس سے کھینچا کھینچا رہتا تھا اُس کو شادی کے بعد وہ پل یاد نہیں آیا جب اُس نے احناف کو بیڈ پر سوتا دیکھا ہو آئے دن کیسے بہانے بنایا کرتا تھا اُس سے۔۔۔یہ خیالات آتے ہی حیات صوفے پر بیٹھتی چلی گئ۔۔۔۔۔

حیات میری بچی تم ٹھیک ہو؟مُنیبہ بیگم جلدی سے اُس کی طرح آئی

تو وہ انکار بھی کردیتا۔۔"احناف؟وہ بھی اچھا نہیں ہے۔۔حیات بس اِتنا بولی

حیات یہ دُنیا ہے اور زندگی میں نہ تو تمہیں کوئی دودھ کا دُھلا ملے گا اور نہ گُناہوں میں ڈوبا ہوا شخص۔۔۔۔بینش بیگم جواباً بولی تو حیات اُٹھ کر اپنے کمرے میں آئی جہاں احناف یا تارا کا کوئی نام ونشان تک نہیں تھا۔۔۔"مگر حیات نے اُن کی غیرموجودگی کا خاص نوٹس نہیں لیا تھا بس ڈائریکٹ وارڈروب کی طرف آئی تو غلطی سے اپنا سیکشن کھولنے کے بجائے وہ احناف کا کھول گئ تھی۔۔۔۔"ابھی وہ واپس بند کرنے والی تھی جب کچھ کاغذات اُس کو نظر آئے جن کو دیکھ کر حیات نے اپنے ہاتھ میں لیا تو چند تصاویر بھی دیکھنے کو ملی جو احناف اور تارا کی تھی اُن کو دیکھ کر حیات کے تاثرات یکدم تن گئے تھے آج سے پہلے اُس کا احناف کا وارڈروب کھولنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا اور جب ہوا تو اُس کے اندر ایک خیال آیا کہ کاش نہ ہوتا تو اچھا مگر آج شاید ہر چیز سے پردہ اُٹھنا تھا جو حیات کو احناف کی ہینگ کی ہوئیں شرٹس میں سے ایک شرٹ نے اپنی طرف متوجہ کیا تھا جس کے بٹن دیکھ کر اچانک اُس کے دماغ میں کچھ کلک ہوا


"تو کیا اُس دن ڈریسنگ روم میں تارا کے ساتھ احناف تھا؟"پھر یقیناً کمرے میں بھی وہ آتا ہوگا۔۔۔۔حیات گہری نظروں سے شرٹس کو دیکھتی خود سے بڑبڑائی تھی پھر تپ کر اُس شرٹ کو نیچے پھینکا تھا۔۔۔

❤❤❤❤❤❤

کچھ دن بعد!

مجھے لگا تھا تم میری کال ریسیو نہیں کروگے۔۔۔۔حیات کال پر احناف سے بولی"کیونکہ وہ ایک ہفتے سے اپنی ماں کے یہاں تھی نہ اُس کو واپس آنے کا احناف نے کہا تھا اور نہ حیات خود سے وہاں گئ تھی بس آج ایک خیال کے تحت اُس نے احناف کو کال کی تھی

"تمہیں کوئی کام تھا؟احناف نے پوچھا

کچھ کہنا چاہتی تھی تم سے۔۔۔۔۔حیات نے کہا

کہو میں سُن رہا ہوں۔۔۔۔احناف نے کہا

تارا کے ساتھ جو ہم نے کیا سو کیا مگر احناف تمہیں نہیں لگتا اُس کے بہکاوے میں آکر تمہیں وہ نہیں کرنا چاہیے تھا جو میرے ساتھ کیا میں کزن ہونے کے ساتھ ساتھ تمہاری دوست تھی۔۔۔۔حیات نے کہا تو احناف نے گہری سانس لی پھر کہا

حیات میں جانتا ہوں میں نے تمہارے ساتھ جو کیا وہ غلط کیا میں اپنے کیئے پر نادم ہوں۔۔۔۔

نادم؟حیات استہزائیہ انداز میں ہنسی

تم چاہوں تو مجھ سے ڈائیورس لے سکتی ہو اور اپنی زندگی اچھے طریقے سے گُزار سکتی ہو خوشحال۔۔۔احناف نے محض یہ کہا

ساری عمر مجھے تمہارے نام پر بیٹھنا ہے بھی نہیں احناف کیونکہ میں جانتی ہوں تمہارے پاس مجھے دینے کے لیے کچھ بھی نہیں اِن دنوں میں نے بہت سوچ ویچار کیا تو مجھے پتا چلا میں تمہیں بار بار قصوروار نہیں ٹھیراسکتی کیونکہ کبھی تم نے مجھے آئے لو یو نہیں کہا"اور نہ میرے لو یو کہنے کا رسپانس دیا کبھی"ساری غلطی تو تارا کی ہے کاش وہ کبھی ہمارے درمیان میں نہ آئی ہوتی۔۔۔۔۔۔حیات نے کہا تو احناف خاموش رہا شاید اُس کے پاس کچھ بولنے کے لیے بچہ نہیں تھا مگر تارا کا نام آیا تو وہ چُپ نہیں رہ پایا

"تمہیں نین غلط لگتی ہوگی پر حیات اُس کی تمہارے ساتھ کوئی دُشمنی نہیں تھی وہ مجبور ہوئی ایسا کرنے پر کیونکہ تمہارے الفاظ اور پھر تم اپنے والدین اور بھائی کی دُکھتی رگ تھی جبھی اُس نے ایسا کیا تمہیں پتا ہے کیا جب ہم دونوں آپس میں بیٹھتے تھے تو وہ کبھی تمہاری بُرائی نہیں کرتی تھی اُس کے پاس کرنے کو زمانے کی باتیں ہوا کرتیں تھی مگر میں جب تمہارے ساتھ پانچ منٹ بھی بیٹھتا تھا تو تم اُس کی بُرائیوں میں زمین آسمان ایک کردیا کرتی تھی۔۔۔۔احناف نے کہا تو حیات مسکرائی

میں اب تمہاری نین کی طرح اچھی تو نہیں ہوسکتی نہ۔۔۔حیات کہتے ہوئے ہنس پڑی

میں تمہیں بُرا نہیں بول رہا۔۔۔احناف بول پڑا

ایک بات کہوں گی"تم نے دوستی کا مان نہیں رکھا احناف۔۔۔۔حیات نے کہا تو احناف کے گلے کی گلٹی اُبھر کر معدوم ہوئی تھی اُس کو خیال آیا جیسے اُس نے تارا کے ساتھ بھی تو غلط کیا تھا

میں نے محبت کا مان بھی نہیں رکھا۔۔۔احناف بولا تو لہجے میں زمانے بھر کی تھکاوٹ عود آئی تھی۔۔۔۔

میں کال رکھتی ہوں۔۔۔۔حیات بولی تو احناف نے کال کاٹ دی اور سامنے دیکھا جہاں ڈریسنگ ٹیبل کے پاس کھڑی تارا نیلے رنگ کی ساڑھی پہنے تیار ہونے میں مصروف تھی آج اُن کو مایا کی شادی میں جانا تھا احناف کا کوئی انٹرسٹ نہیں تھا جانے میں مگر تارا کے کہنے پر وہ راضی ہوا تھا۔۔"اور تارا الگ فلیٹ میں رہا کرتی تھی احناف نے اُس کو اپنے ساتھ آنے کا کہا تھا پر اُس کی ایک شرط تھی کہ احناف کو پورا اُس کا بن کر آنا ہوگا توں ہی وہ اُس کے پاس آئے گی

"آج کوئی خوبصورت لگ رہا ہے۔۔۔۔احناف اُس کے پیچھے کھڑا ہوتا مسکراہٹ دبائے بولا

پلیز احناف یہ مت کہنا کہ یہ سب تمہارے بچے کا کمال ہے۔۔۔تارا نے مرر میں نظر آتے اُس کے عکس کو گھور کر کہا تو جواب میں احناف کا قہقہقہ گونجا تھا

اِس میں غلط کیا ہے؟ پہلے تو بس تمہاری آنکھیں اٹریکٹو ہوا کرتیں تھی اصل کشش اور خوبصورتی تو میرے بچے نے تمہیں بخشی ہے۔۔۔۔احناف نے فخریہ انداز میں اُس سے کہا تو تارا نے اپنا رُخ اُس کی طرف کیا

مجھے مایا نے بتایا جب لڑکی پریگننٹ ہوتی ہے تو اُس کے بال جھڑتے ہیں اور اُس کے گالوں میں ڈارک سرکلز آتے ہیں اور

اور اُن کا پیٹ غبارے کی طرح پُھول جاتا ہے۔۔۔'پلیز نین بڑی ہوجاؤ اب کیونکہ یہ گھسی پٹی لائینز میں ہر روز ایک ہزار مرتبہ سُنتا ہوں اب مجھے یاد ہوگئ ہیں اور تم مایا کی باتوں میں نہ آؤ تو اچھا ہے۔۔۔تارا اُس کو دیکھ کر ایک سانس میں کچھ کہنے والی تھی جب احناف اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر چھیڑنے والے انداز میں بولا تو تارا کا منہ بن گیا۔

کتنے بدتمیز ہو نہ تم خیر باہر گاڑی نکالو مایا انتظار کررہی ہوگی میرا۔۔۔۔تارا اُس کو آنکھیں دیکھا کر بولی

ظاہر ہے انتظار تو کرے گی تم نے قاری صاحب کی جگہ پر بیٹھ کر اُس کا نکاح جو پڑھوانا ہے۔۔۔۔احناف کہہ کر کمرے میں رُکا نہیں تھا جبکہ اُس کی بات پہلے تارا کو سمجھ نہیں آئی تھی اور جب آئی تو احناف کمرے میں موجود نہیں تھا جس پر وہ دل مسوس کرتی رہ گئ۔۔۔

❤❤❤❤❤❤

کافی۔۔۔۔۔حیات ٹیرس پہ کھڑی اُپر آسمان کی جانب دیکھ رہی تھی جب ازلان اُس کے برابر کھڑا ہوتا کافی کا کپ اُس کی طرف بڑھانے لگا

تم مجھے کافی کی آفر کررہے ہو؟حیات نے چونک کر اُس کو دیکھا

اِس میں کچھ خاص بات تو کوئی نہیں۔۔۔۔ازلان شانے اُچکاکر بولا

تھینک یو ویسے تم تو بہت خوش ہوگے؟کافی کا کپ اپنے ہاتھ میں پکڑے حیات نے اُس سے کہا

خوش کس بات پر؟ازلان کو اُس کی بات سمجھ نہیں آئی

میرا گھر جو نہیں بسا میں نے تمہاری محبت کو ٹُھکرایا تو جواب میں میری محبت بھی ٹُھکرا دی گئ۔۔۔۔۔حیات نے کہا تو ازلان گردن موڑ کر اُس کو دیکھنے لگا

تمہیں احناف سے محبت نہیں تھی حیات۔۔۔ازلان نے کہا

تمہیں ایسا لگتا ہے؟"وہ میری محبت تھا ازلان۔۔۔۔حیات نے بھی اُس کو دیکھ کر کہا

اگر جے وہ تمہاری محبت ہوتا تو تم یہاں نہ ہوتی حیات مگر تمہیں جیسے احناف اور تارا کے بارے میں پتا لگا تم اُس کا گھر چھوڑ کر یہاں چلی آئی کوئی بھی انسان اپنی محبت کو ایسے نہیں چھوڑتا محبت تو وہ ہے جو تارا احناف سے کرتی ہے دور رہ کر بھی اُس کے پاس ہوتی ہے"لاکھ نفرت اور ناراضگی کا اِظہار کرنے کے باوجود احناف کے پاس رہتی ہے اُس کو چھوڑتی نہیں ہے۔۔۔اگر تمہیں محبت ہوتی احناف سے تو اپنی سی کوشش ضرور کرتی تم احناف کو پانے کی یا اُس کے دل میں اپنا گھر بنانے کی وہ تو تمہارا شوہر تھا نہ۔۔۔۔۔ازلان نے پل بھر میں اُس کو لاجواب کیا تھا

جو بھی پر احناف کو میرے ساتھ غلط نہیں کرنا چاہیے تھا اگر ایسا ہی کرنا تھا تو مجھ سے نکاح نہ کرتا اگر بھری محفل میں میری عزت کا اِتنا خیال تھا تو کوئی اور بہانا کرتا عین ٹائیم پر نہ آتا یا پھر کوئی بہانا بناتا اپنے چھوٹے ایکسیڈنٹ کا بہانا بھی کرسکتا تھا بہت آپشنز تھے اُس کے پاس۔۔۔۔حیات کو اپنا آپ قصوروار نہیں لگا۔۔۔۔

تمہاری باتیں دُرست پر اگر احناف ایسا کرتا تو بھی دُنیا والے تمہارے بارے میں غلط کہتے کہ ضرور لڑکی کے پاؤں سبز ہوگے منحوس ہوگی وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ازلان کافی کا گھونٹ بھر کر بولا تو حیات نے ترشی نظروں سے اُس کو دیکھا

ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟ازلان نے پوچھا

بہت مین ہو تم۔۔۔۔۔حیات سرجھٹک کر بولی

میں اپنی بات پر قائم ہوں ابھی بھی۔۔۔ازلان کچھ توقع بعد بولا

کونسی بات؟حیات نے پوچھا

تم سے شادی والی بات پر۔۔۔ازلان نے کہا

میں کسی کی بیوی ہوں۔۔۔"اور تم مجھے شادی کی آفر دے رہے ہو؟حیات نے اُس کو گھورا

جس کی بیوی تم ہو وہ اُس وقت کے انتظار میں ہے کہ تم کب اُس سے طلاق مانگو اور وہ تمہیں اِس بے نام رشتے سے فارغ کرے۔۔۔۔ازلان نے بھی جتایا

میں احناف کو نہیں چھوڑوں گی۔۔۔۔حیات نے کہا

اچھا اور وہ کیوں؟اب وہ تمہیں کیا دے سکتا ہے؟چچا نے تو پوری جائیداد سے اُس کو عاق کرلیا ہے اور میں ایک بات واضع کرلوں کہ تمہیں دینے کے لیے اُس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے"۔۔۔۔ازلان نے طنز کہا

بات جائیداد کی نہیں ہے۔۔۔حیات نے کہا

بات محبت کی بھی نہیں ہے حیات کیونکہ تم مانو یا نہ مانو مگر سچ یہی ہے کہ تم نے احناف کی زات میں انٹرسٹ لینا تب شروع کیا تھا جب سے تمہیں یہ پتا چلا تھا کہ اُس کا جُھکاؤ تارا کی طرف ہے۔۔۔ازلان نے کہا تو حیات اپنی جگہ پہلو بدلتی رہ گئ تھی۔۔۔

میرا ایک دوست ہے جو وکیل ہے تم کہو تو خلع کے کاغذات بنوالوں اُس سے؟"اگر نہیں تو ٹھیک ہے میں کسی اور سے شادی کرسکتا ہوں لیلہ مجنوں کی یہ کوئی فلم تو ہے نہیں جو میں پھٹے ہوئے کپڑے پہن کر گلیوں میں تمہیں تلاشتا پِھروں گا۔۔۔۔اِزلان نے آر یا پار کرنا چاہا

میری شادی کو بس ایک ماہ ہوا ہے اور تم چاہتے ہو میں خلع لیکر گھر میں بیٹھ جاؤں لوگ کیا کہیں گے؟حیات نے اُس کی عقل پر ماتم کیا

لوگوں کا منہ بند ہوجائے گا جب میں تم سے نکاح کروں گا پلیز حیات اگر تارا اور احناف کی زندگی میں رُکاوٹیں ڈالنے کا سوچ رہی ہو تو وہ نہ کرو جو ہمارے گھروالوں نے کیا ہے احناف تارا کی واحد خوشی ہے اِس لیے احناف کو اُس کے پاس رہنے دو۔۔۔۔ازلان اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولا

تو کیا تم اُس کی وجہ سے مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو تاکہ اُس کا راستہ صاف ہو؟حیات بدگمان ہوئی

فضول مت سوچو ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔ازلان نے اُس کو ٹوکا

ٹھیک ہے میں تمہاری بات مان لیتی ہوں۔۔۔۔کچھ وقت سوچ لینے کے بعد حیات نے کہا

ٹھیک ہے پھر جیسے تمہاری عدت پوری ہوگی ہم نکاح کرینگے۔۔۔۔ازلان نے جلدی سے سب طے کیا

عدت تب ہوتی جب ہمارے درمیان میاں بیوی والا رشتہ ہوتا میں جیسی گئ تھی ویسی واپس لوٹی ہوں"احناف نے تو کبھی میرے ماتھے پر ایک بوسہ تک نہیں دیا اِس معاملے میں وہ اُس تارا کا بہت وفادار نکلا جانتا جو تھا اگر تارا کو پتا چلے گا تو ابھی تو اُس کے ساتھ رہنے پر آمادگی دے چُکی ہے مگر جب میرے ساتھ رشتہ بنانے کا سوچتا تو تارا کبھی مڑ کر اُس کو نہ دیکھتی۔۔۔۔حیات نے بتایا تو ازلان کو چُپ لگ گئ وہ اِس بار کچھ بول نہیں پایا بس خاموشی سے اُس کو دیکھتا رہا

❤❤❤❤❤❤

مایا

مایا

تم یہ نکاح نہیں کرسکتی۔۔۔۔۔ہال میں شادی کی وجہ سے گہماگہی کا سماں تھا دولہن بنی مایا اپنے دولہے کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی جب وہاں خاور آتا اُونچی میں بولا تو سارے مہمان اُس کو دیکھنے لگے جس ہاتھ میں پستول بھی تھا۔۔۔۔۔

خاور یہ کیا تماشا لگایا ہوا ہے۔۔۔مایا نے سختی سے اُس کو دیکھ کر کہا مہمانوں کے سامنے اُس کو عجیب شرمندگی کا احساس ہوا تھا

تماشا نہیں لگاتا میں تم آؤ میرے ساتھ۔۔۔۔خاور بکھرے حُلیے میں کھڑا اُس کو دیکھ کر بولا"آس پاس چہ مگوئیاں تیز ہوتی گئ تھیں۔۔۔

گارڈز کہاں مرے ہوئے ہیں۔۔۔۔مایا خاور کو جواب دینے کے بجائے اُونچی میں گارڈز کو تلاشنے لگی جبھی وہاں احناف اور تارا بھی آئے تھے۔۔۔"خاور کو دیکھ کر تارا کے تاثرات بِگڑے تھے یہی حال خاور کا تھا جب اُس نے تارا کو دیکھا

تمہارا کیا دھڑا ہے نہ یہ؟خاور نے پستول لوڈ کیے تارا پر تانی تھی جس پر احناف نے تارا کو اپنے پیچھے کھڑا کیا تھا۔۔۔

یہ پاگل ہوگیا ہے۔۔۔مایا آہستگی سے بڑبڑائی تھی

میں جانتا ہوں تم نے میرے خلاف مایا کو ورغلایا ہے جیسے حیات کے خلاف احناف کو ورغلایا میں تو آج تمہارا پتہ بھی کاٹ دوں گا۔۔۔خاور پاگل پن میں بولنے لگا

گن نیچے کرے آپ۔۔۔احناف نے سنجیدگی سے کہا

سامنے سے ہٹو احناف ورنہ میری گولی کا پہلا شکار تم ہوگے۔۔۔۔خاور نے پستول پر اپنی گرفت مضبوط کی تھی

کوشش کرکے دیکھ لے۔۔۔۔احناف نے مکمل طور پر تارا کو اپنے پیچھے چُھپالیا تھا جس پر خاور غُصے میں آتا ٹریگر کو دبا دیا تھا۔۔

ٹھاہ

اچانک گولی کی آواز نے پورے ہال میں ہلچل مچادی تھی جبکہ احناف کی آنکھیں پھیل گئ تھیں مایا بھی اپنا لہنگا سنبھالتی فورن سے اسٹیج سے نیچے اُترنے لگی تھی۔۔

❤❤❤❤❤

خاور۔۔۔۔۔۔

احناف حق دق زمین پر گِری خاور کی لاش کو دیکھنے لگا جس نے اچانک سے پستول کا رُخ اپنی کنپٹی پر کرکے خود کو خود ہی شوٹ کرلیا تھا۔۔۔۔۔


"میں حرام موت نہیں مرنا چاہتی پر میری قسمت میں شاید حرام موت مرنا لِکھا ہے"مجھے زندگی کے ختم ہونے کا افسوس نہیں"افسوس اِس بات کا ہے کہ میری بخشش شاید نہ ہو آخرت میں پر میں اپنے اللہ سے کہوں گی اُن کے بندوں نے میری زندگی کو مجھ پر حرام کردیا ہے تبھی میں نے حرام موت کو ترجیح دی۔۔۔"آپ میرا اُن سے حساب لے لینا دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اپنا فیصلہ آپ پر چھوڑ کر آپ کے حوالے کرکے میں اُبدی نیند سونے لگی ہوں۔۔۔۔۔"


خاور کی لاش کو دیکھ کر تارا کو جبکہ چاندنی کی ڈائری کا پڑھا ہوا آخری پیج یاد آگیا تھا باقی سب تو خاور کی طرف بڑھے تھے مگر اُس کے پاؤں جیسے زمین میں مُنجمند ہوگئے تھے"بے ساختہ اِسی لمحے تارا کو ازلان کی کہی باتیں بھی یاد آئیں تھیں جو وہ اُس سے کرتا تھا


""دیکھو تارا کیا کبھی تم نے کرما لفظ سُنا ہے؟"کرما مکافات عمل کو کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے جو جیسا کرتا ہے اُس کے ساتھ جواب میں غلط یعنی ویسا ہوتا ہے یہ دُنیا کا دستور بنایا ہے اللہ نے یار پلیز سمجھو اور انتظار کرو دیکھنا خاور کو اپنے کیئے کی سزا خود ہی اللہ کی طرف سے مل جائے گی تمہیں اُس کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔""


❤❤❤❤

ماضی!

احناف اور تارا کے نکاح کے بعد"احناف نے تارا کے کہنے پر اپنا نکاح ڈیکلیئر نہیں کیا تھا۔۔"اور اُس نے تارا کی خوشی کی خاطر وہ سب کیا جو وہ چاہتی تھی"وہ ہر وقت تارا کو اپنی محبت کا احساس دلاتا تھا نہ ہوکر بھی وہ اُس کے دماغ میں سوار رہنا چاہتا تھا جبھی ہر وقت کالز اور ٹیکسٹ مسیجز سے اُس کو زچ کرتا تھا دوسری طرح پہلے پہل تو بیزار ہوتی تھی مگر پھر آہستہ آہستہ وہ احناف کی اِس توجہ کی عادی بن گئ تھی اور پھر خود ہی اُس کی کال اور ایک میسج کا شدت سے انتظار کرتی تھی جہاں وہ پہلے خود کو اکیلا محسوس کرتی تھی وہاں پھر اُس کو اپنی تنہائی احناف کے بدولت کم پھر ختم ہوتی محسوس ہونے لگی"اُس کو سب کچھ اچھا لگنے لگا تھا احناف کی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھ کر اُس کو خوشی کا احساس ہونے لگا تھا وہ جو پہلے اپنی زندگی سے بیزار رہتی تھی اُس کو اب جینے کا شوق چڑھا تھا وہ زندگی کو بھرپور طریقے سے جینا چاہتی تھی"اِنہیں دِنوں کا پھر ایک واقعہ تھا جب ازلان نے اُن دونوں کو ایک ساتھ ریسٹورنٹ میں دیکھا تھا جو اُس کو عجیب لگا کیونکہ دونوں کو دور سے دیکھ کر ازلان کو اُن کی بے تُکلفی کا اندازہ ہوگیا تھا جو اُس کے لیے عجیب اِس وجہ سے تھا کہ گھر میں حیات اور احناف کے رشتے کی بات ہورہی تھی اور وہ خود تارا کے ساتھ تھا۔۔۔


"یہ سب کیا ہورہا ہے؟ازلان اُن دونوں کے پاس آتا سنجیدگی سے پوچھنے لگا

کچھ نہیں بس ہم لنچ پہ آئے تھے۔۔۔۔احناف نے مسکراکر جواب دیا تو ازلان کی نظر اُس کے ہاتھ پر گئ جو تارا کے ہاتھ کے اُپر تھا

تم رشتہ حیات سے جوڑنے والے ہو اور ڈیٹ تارا کو کررہے ہو؟ازلان حیرت سے احناف کو دیکھ کر بولا

آپ بیٹھے پھر بات ہوتی ہے۔۔۔۔تارا نے اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا

تارا تمہیں پتا ہے احناف حیات سے منگنی کرنے والا ہے پھر تم یہاں اُس کے ساتھ کیا کررہی ہو؟ازلان بیٹھے بنا اُس سے بولا

آپ بیٹھے گے تو بات ہوگی۔۔۔۔۔تارا نے اپنی بات پر زور دیا

بولو؟ازلان ناچار بیٹھ کر اُس سے پوچھنے لگا

میں آپ سے سچ بول سکتی ہوں؟تارا نے پہلے پوچھا

میں یہاں سچ ہی سُننے کو بیٹھا ہوں۔۔۔۔۔ازلان نے جواباً کہا تو تارا نے شروعات سے لیکر آخری بات تک اُس کے گوش گُزار کی جس کو سُن لینے کے بعد کتنا ہی وقت ازلان اپنی جگہ ہِل نہیں پایا تھا وہ حیرانگی اور بے یقینی جیسی کیفیت میں گِھرا خود کو یقین دِلوانے لگا کہ جو اُس نے سُنا وہ غلط ہے سہی نہیں ہے

"ڈ۔۔یڈ۔۔۔۔ایسے نہیں۔۔۔۔۔ازلان کو گھبراہٹ ہونے لگی یہ انکشاف بہت بھیانک تھا اُس کے لیے۔۔۔۔

اُنہوں نے ایسا کیا تمہارے چچا اور چچی سے مل کر پھر خاور نے میری بہن کی زندگی اُجاڑ دی۔۔۔۔تارا سرجھٹک کر بولی

مان لیا"مان لیا جو تم نے کہا وہ سچ پھر تم اِس درمیان حیات کو کیوں گھسیٹ رہی ہو؟"وہ تو بے قصور ہے نہ مانا کہ اُس کا رویہ تمہارے ساتھ بُرا ہوتا ہے وہ بُری طرح سے تم سے پیش آتی ہے مگر اِس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم اِتنا بڑا گیم پلان کرو اُس کے لیے"اگر بُرا کرنے والا خاور ہے تو بُرا بھی اُس کے ساتھ ہونا چاہیے حیات کے ساتھ نہیں۔۔۔۔ازلان اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولا تو تارا اُس کو دیکھ کر یکطرفہ مسکرائی


قرآن پاک میں یہی ہے جو برائ کرتا اس کا بدلہ یا سزا بھی اسی کو دی جاتی ہے ۔

لیکن جو کسی کی بہن بیٹی کے جذبات کے ساتھ کھیلتا ہے یا غلط نگاہ ڈالتا ہے اس کا بد لہ دنیا میں اس کی بہن یا بیٹی ادا کرتی ہے اور یہ دنیاوی اس مرد کے لئے سزا ہوتی ہے اور آخرت میں بھی بہت سخت سزا ہے"ایک واقعہ ہے کہ مرد جس کی سنار کی دکان تھی ایک دن ایک عورت اس سے کوئی کنگن لینے آئ تو مرد نے غلط ارادے سے عورت کے ہاتھ کو چھوا تو مرد کے گھر کے نوکر نے اس مرد کی بیوی کو دودھ دیتے وقت ہاتھ پکڑ لیا ۔

اب سنار گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی بہت پریشان ہے تو سنار نے بیوی سے پوچھا ۔بیوی کہنے لگی کہ ہمارے گھر کا نوکر جس نے مجھے کبھی آنکھ اٹھا کہ نہیں دیکھا آج اس نے میرا ہاتھ غلط ارادے سے پکڑا تو وہ سنار رونے لگا کہ میرا ہی گناہ ہے جو تم تک پہنچا ۔

اس لئے مرد کو چاہئے کوئی بھی غلط عمل کرنے سے پہلے یہ سوچ لے کہ قرض اس کی بہن بیٹی یا بیوی کو ادا کرنا ہے۔۔۔۔۔تارا اُس کو دیکھ کر جواباً سنجیدگی سے بولی تھی تو اُس کے الفاظ ایسے تھے کہ ازلان کے پاس کوئی دلیل نہیں بچی تھی جس کو دے کر وہ تارا کو مطمئن کرتا

"جو بھی مگر میں نہیں چاہوں گا کہ اِن سب میں حیات اِنوالو ہو میں ابھی جاکر اُس کو سچ سچ بتادوں گا۔۔۔۔ازلان اپنی جگہ سے اُٹھ کر سنجیدگی سے بولا تو تارا الرٹ ہوئی

ٹھیک ہے شوق سے جائے مگر اُس سے پہلے میں اپنا گلا کاٹ دوں گی پھر جس طرح آپ کے والد میرے والدین کے قاتل تھے اُس طرح میری موت کے ذمیدار آپ بن جائے گے۔۔۔۔۔ازلان اُٹھنے لگا تو تارا نے لمحے بھر میں شیشے کا گلاس اُٹھائے اُس کو زور سے ٹیبل پر مار کر گلاس کا ٹُکرا اپنی شہ رگ پر رکھا تھا جس سے احناف کے اوسان خطا ہوئے تھے۔۔۔۔۔

نین یہ کیا پاگل پن ہے رکھو یہ نیچے۔۔۔احناف جو اب تک خاموش تھا تارا کو دیکھ کر سخت لہجے میں بولا جو ازلان کو دیکھ رہی تھی

تم مجھے ایموشنل بلیک میل نہیں کرسکتی۔۔۔ازلان نے کہا

میں محض بلیک میل نہیں کررہی اگر آپ نے ایسا ویسا کچھ کیا بھی تو میں اپنا گلا کاٹ کر رہوں گی۔۔۔۔تارا جنونی انداز میں بولی تھی

اِس کو گلے سے ہٹاؤ لگ بھی سکتی ہے ہم مل بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔احناف کہنے ساتھ اُس کی طرف بڑھنے لگا

احناف وہی رُک جاؤ میں سچ میں ورنہ اپنا گلا کاٹ لوں گی۔۔۔تارا نے اُس کو باز رکھنا چاہا جس پر احناف لب بھینچ کر اُس کو دیکھنے لگا جس نے اُس شیشے کا دباؤ اپنی گردن پہ دبایا تھا جہاں خون کی ہلکی بوند نمایاں ہونے لگی تھی

تارا چھوڑو اپنا یہ پاگل پن۔۔۔۔۔ازلان نے اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولا

پہلے واعدہ کرے آپ کسی کو بھی کچھ نہیں بتاؤ گے۔۔۔۔تارا نے اٹل انداز میں اُس سے کہا تو ازلان نے گہری سانس بھر کر اُس کو دیکھا

دیکھو تارا کیا کبھی تم نے کرما لفظ سُنا ہے؟"کرما مکافات عمل کو کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے جو جیسا کرتا ہے اُس کے ساتھ جواب میں غلط یعنی ویسا ہوتا ہے یہ دُنیا کا دستور بنایا ہے اللہ نے یار پلیز سمجھو اور انتظار کرو دیکھنا خاور کو اپنے کیئے کی سزا خود ہی اللہ کی طرف سے مل جائے گی تمہیں اُس کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔ازلان نے اُس کو سمجھانے کی خاطر کہا

"میرے حساب بہت نکلتے ہیں آپ بس اِتنا بتاؤ کیا آپ واعدہ کرتے ہیں یا نہیں۔۔۔۔تارا اپنی جگہ پر بضد تھی

ٹھیک ہے اگر تم ایسا چاہتی ہو تو ٹھیک ہے مگر تارا آخر میں اِتنا کہوں گا

Weak people

revenge.

Strong people

forgive.

Intelligent people

Ignore.

اب بتاؤ کیا تم کمزور ہو جو بدلہ لینے کے چکروں میں پڑی ہو۔۔ازلان نے سب کچھ اُس پر چھوڑا

ہاں میں کمزور ہوں۔۔۔۔۔کچھ توقع بعد تارا احساس سے عاری لہجے میں بولی

ٹھیک ہے اب جو جی میں آتا ہے تم کرو احناف کے ساتھ مل کر میں نہیں بتاؤں گا حیات کو کیونکہ میرا حق نہیں ہے یہ جاننے کے بعد تو بلکل بھی نہیں تمہارا جو حال ہے اُس میں میرے والد کا ہاتھ ہے۔۔۔۔ازلان کے لہجے میں رنجیدگی کا عنصر نمایاں ہوا تھا

اب خوش اور ہٹاؤ یہ۔۔۔احناف اُس کے ہاتھ سے ٹُکرا چِھین کر نیچے پھینک کر بولا اُس کی جیسے اٹکی سانس بحال ہوئی تھی۔۔۔"ازلان جبکہ اُن دونوں پر نظر ڈال کر وہاں سے چلاگیا تھا۔۔۔

پھر سلسلہ ویسے ہی شروع ہوگیا تھا ازلان نے خود کو انجان بنالیا تھا جیسے وہ خود کچھ جانتا ہی نہ ہو اور تارا بھی اب قدرے مطمئن تھی"ماڈلنگ کے دوران ایک شوٹ کی وجہ سے اُس کو آمریکا جانے کی آفر ہوئی تھی جس کو وہ ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ بات اُس کے کیریئر کی تھی جس پر وہ کوئی کمپرومائز نہیں کرنا چاہتی تھی اُس نے احناف سے اِس بارے میں بات کی کیونکہ اُسماعیل صاحب سے بات وہ پہلے کرچُکی تھی جن کو منانا اُس کے لیے مشکل نہیں تھا مگر احناف بہت دِنوں بعد اپنی رضا دی تھی کیونکہ بات ایک سال کی تھی جو احناف کو گوارہ نہیں تھا کہ تارا اِتنا عرصہ پاکستان سے باہر رہے مگر جیسے تیسے کرکے تارا نے اُس کو منالیا تھا پر اِس ایک سال میں وہ اکثر آمریکا اُس سے ملنے جاتا تھا جس کا پتا کسی کو بھی نہیں تھا اور تارا نے اپنی واپسی پر اُسماعیل صاحب کو منع کیا تھا کہ وہ ایئرپورٹ پر اُس کو لینے نہ آئے بلکہ گھر پر رہ کر اُس کا انتظار کرے تارا کو ریسیو کرنے بھی احناف گیا تھا جہاں پہلے دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ وقت گُزارا تھا پھر احناف نے گھر کے پاس تارا کو ڈراپ کیا تھا


"پہلے تم جاؤ میں پھر بعد میں آتی ہوں۔۔۔۔تارا اپنا بیگ اُس کی گاڑی سے نکالے بولی

ساتھ چلتی یوں اِس طرح اب تم پیدل آؤ گی۔۔۔احناف کو ٹھیک نہیں لگا

کچھ نہیں ہوتا اب تو گھر پاس ہے۔۔۔۔تارا نے مسکراکر اُس کو دیکھ کر کہا

ٹھیک ہے مگر جلدی آجانا۔۔۔۔احناف جُھک کر اُس کے ماتھے پر بوسہ دیتا بول کر چلاگیا تو تارا نے مسکراکر سراثبات میں ہلایا اور احناف کے جاتے ہی اُس نے اپنے قدم گھر کی جانب بڑھائے تھے جہاں اُس کا نانا پہلے ہی اُس کے انتظار میں کھڑا تھا جس کو دیکھ کر وہ جلدی سے آگے بڑھ کر اُن کے ساتھ لگی تھی ایسے میں جب اُس پر خود پر کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی تو وہ جانتی تھی کہ دیکھنے والا کون ہوگا جبھی اُس نے کوئی رسپانس نہیں دیا مگر یہ ارتکاز دوبارہ محسوس ہوا تو اُس نے اپنی آنکھیں کھول کر احناف کو دیکھا جو اُس کو ہی دیکھ رہا تھا جس پر تارا نے آنکھ ونک کی تھی اُس کی اِس حرکت پر احناف نے مسکراہٹ دبائے اپنی نظروں کا زاویہ بڑی مشکل سے اُس کے چہرے سے ہٹایا تھا اور اپنے چہرے پر سنجیدگی طاری کی تھی۔۔۔۔۔

❤❤❤❤

اگلے روز جب احناف اُسماعیل صاحب کے کسی کام سے آیا تھا تو اُس کی نظر جب لان میں آس پاس سے بیگانہ تارا پر گئ تو اُس کے ماتھے پر بل نمایاں ہوئے تھے کیونکہ ارسلان کی مسلسل نظریں تارا پر تھیں وہ جانتا تھا اُن نظروں میں کوئی غلاظت پن نہیں تھا پر اُس کے باوجود بھی احناف کو یہ سب برداشت نہیں ہوتا تھا اُس نے تارا کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا تھا تاکہ وہ اِشارے سے اُس کو جانے کا بول پائے پر تارا لیپ ٹاپ میں اِتنا محو تھی کہ اُس کو پتا تک نہیں لگا تھا پھر مجبوراً احناف نے اُس کی طرف بال پھینکنا پڑی تھی جو وہ پھینکنا تو اُس کے پاؤں کے پاس چاہتا تھا مگر لگ تارا کے بازو پر گئ تھی جس پہ بے اختیار احناف نے خود کو کوسا تھا اور ملامت کی تھی"اُس نے سوچا جب وہ ملنے آئے گی تو معافی مانگ لے گا پر تارا نے جب ملنے سے انکار کیا تو احناف سے رہا نہیں گیا جبھی رات کے وقت گیلری کے تِھرو اُس کے پاس کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کرنے لگا"کمرے میں داخل ہونے کے بعد جب اُس نے تارا کو اپنے حصار میں لیا تو اُس کے منہ سے سسکی سن کر وہ چونک پڑا اور فکرمندی سے اُس کو دیکھنے لگا


"کیا ہوا؟وہ پریشان ہوا

کچھ نہیں۔۔۔تارا اپنے بازوں پہ ہاتھ رکھتی نفی میں سرہلاگئ

کیا کچھ نہیں دیکھاؤ مجھے۔۔وہ اُس کا ہاتھ دور کرتا بازوں چیک کرنے لگا جہاں بڑا سا سرخ نشان دیکھ کر احناف نے اپنے ہونٹوں کو بھینچا

یہ؟وہ بس یہ کہہ پایا

بال لگا تھا بس۔۔۔تارا نے اُس کا دھیان ہٹانا چاہا

سوری یار میں زور سے مارنا نہیں چاہتا تھا مگر بائے مسٹیک لگ گئ خیر تم بتاؤ دوائی لی ہے؟احناف نے بتانے کے بعد اُس سے پوچھا تو تارا اُس کی فکرمندی پر بے ساختہ اپنا سر نفی میں ہلانے لگی جو چوٹ دے کر مرہم لگانے کا پوچھتا تھا۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

حال۔

نین

احناف کے پُکارنے پر تارا ہوش میں آتی اُس کو دیکھنے لگی۔۔۔

احناف۔۔۔۔تارا روتی ہوئی اُس کے سینے سے لگی تو احناف نے نرمی سے اُس کی پیٹھ سہلائے اُس کو پرسکون کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔

روؤ مت اب تمہارے مجرم کو سزا مل گئ۔۔۔اُس نے اپنے لیے حرام موت کو تجویز کیا اِس سے بڑی بات اور کیا ہوگی کہ اللہ نے اُس کے اندر توبہ مانگنے کی توفیق نہیں ڈالی۔۔۔۔احناف اُس کا ماتھا چوم کر بولا تو تارا کی گرفت اُس کی شرٹ پر مضبوط ہوئی

نین اب رونا بند کرو۔۔۔۔۔احناف نے اُس کا حال مزید بِگڑتا دیکھا تو پریشان ہوا

میری بہن کو انصاف مل گیا احناف جیسا وہ چاہتی تھی وہ آج ہوگیا پر ابھی میرے والدین کا قتل رہتا ہے جو میں معاف نہیں کروں گی۔۔۔۔تارا اپنے آنسوؤ صاف کرتی بولی

باپ کا آخری دیدار نصیب نہیں ہوا اور اب اُن کے جوان بیٹے نے خودکشی کرلی ہے اِس سے زیادہ اور کچھ کیا رہتا ہے۔۔۔احناف نے کہا تو تارا کے ہونٹوں پر زخمی مسکراہٹ نے احاطہ کیا جبکہ احناف نے دوبارہ اُس کو اپنے ساتھ لگایا تھا

تم نے سہی کہا تھا کہ اللہ اپنے بندوں کا حساب ضرور لیتا ہے۔۔۔۔تارا کچھ توقع بعد بولی پھر وہاں مایا اور اسجد آئے تو تارا احناف سے دور کھڑی ہوئی

سوری گائیز میں کسی ضروری کام سے چلاگیا تو پیچھے یہ تماشا ہوگیا ویل تارا تم ٹھیک ہو نہ؟اسجد معذرت خواہ لہجے میں اُن دونوں کو دیکھ کر بولا

نین ٹھیک ہے مگر یہاں خاور؟احناف الجھن زدہ لہجے میں بولا

دھوکے باز شخص تھا میرا آج کا خاص دن اُس نے اسپوئل کردیا وہ میری پوزیشن جانتا تھا اُس کے بعد جو وہ جاتے ہوئے تماشا لگا چُکا ہے اُس سے میرا پورا کیریئر داؤ پر لگ چُکا ہے۔۔۔مایا جنھجھلائی آواز میں بولی

پر وہ آیا کیسے یہاں؟تارا نے پوچھا

موت لیکر آئی تھی اُس کو۔۔۔اسجد نے سرجھٹک کر بتایا

یہاں بغیر کسی انویٹیشن کارڈ دِکھانے کے آنے پر پابندی تھی مگر خاور گارڈز کے ساتھ مار پیٹ کرکے آیا تھا اور یہ سب تماشا ہوگیا۔۔۔۔مایا نے بھی بتایا تو تارا نے گہری سانس بھر کر احناف کو دیکھا

اُس کی لاش کو ہوسپٹل میں بھیج دیا ہے فیملی لے جائے گی اُس کو وہاں سے۔۔۔۔۔اسجد نے بتایا احناف نے سراثبات میں ہلایا

❤❤❤❤❤

اختر

اختر

مُنیبہ بیگم حواس باختہ اپنا سینا پیٹتی اختر صاحب کے پاس آئیں تھیں جو اندھیرے کمرے میں موجود اپنے گُناہوں کو یاد کررہے تھے۔۔۔۔

ااخ اختر خاور۔۔۔۔۔۔مُنیبہ بیگم سے بولا نہیں جارہا تھا کچھ جبکہ اُن کی آواز پر حیات بھی وہاں آئی تھی۔۔۔۔

کیا ہوا ہے امی؟حیات نے حیرت سے اُن کی اُڑی رنگت دیکھی

ہائے میں لُٹ گئ۔۔۔میرا بب۔۔چہ خخ اور ماردیا۔۔۔ہائے ظالموں نے ماردیا۔۔۔۔۔مُنیبہ بیگم دھاڑے مار مار کر رونے لگی تو اختر صاحب نے نظریں اُپر کیے اُس کو دیکھا جبکہ حیات نے بے ساختہ ٹیبل کا سہارا لیا تھا۔

امی؟؟؟حیات شششد سی اُن کو دیکھنے لگی جس کی آنکھوں سے آنسوؤ کی برسات جاری تھی۔۔۔

چاندنی کی موت پر جب ہم بلوچستان گئے تھے تو چھوٹی سی تارا نے بھی ایسے رونا شروع کیا تھا وہ اپنے چھوٹے ہاتھ مار مار چاندنی کو جگانے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔۔اختر صاحب غیرمعی نُقطے کو دیکھ کر بتانے لگے تو منیبہ بیگم اپنی سسکیاں روکتی اُن کو دیکھنے لگیں جن کی اپنی حالت قابلِ رحم تھی۔۔

بھائی۔۔۔۔حیات آہستگی سے بڑبڑائی تھی

یہ لو۔۔۔اختر صاحب نے کچھ کاغذات مُنیبہ بیگم کی طرف بڑھائے تھے جن کو دیکھے بغیر وہ اپنا ماتھا پیٹنے میں لگی ہوئیں تھیں تو کبھی سینا جبھی حیات نے ہمت مجتمع کیے وہ کاغذات اُٹھائے دیکھے تو دنگ رہ گئ جو اُسماعیل صاحب کی پوری پراپرٹی کے کاغذات تھے اور وہ اُنہوں نے اصغر صاحب اور اختر صاحب کے نام کروائے تھے ساتھ میں یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ جن پئسوں کی حوس نے تم لوگوں کو بہن کا قاتل بنادیا تھا اُس سے پہلے وہ حوس بھانجی کا قاتل بنائے میں ساری جائیداد تم دونوں میں تقسیم کرتا ہوں۔۔۔۔الفاظوں میں کبھی گڑمڑ تھی جس سے حیات کو اندازہ ہوا جیسے یہ اُنہوں نے ہوسپٹل میں لکھا ہو

احناف نے بھیجے ہیں سارا کچھ ابو جان نے اُس کو سونپاں تھا۔۔۔اختر صاحب کی آنکھیں جھلک پڑیں تھی جن پئسو کے پیچھے اُنہوں نے اپنی زندگی لگائی تھی آج جب وہ بنا محنت کے میسر ہوئیں تو اُن کے کسی کام کی نہیں بچی تھی"اب اُن کو بس معافی کی طلب تھی پر جس سے تھی وہ اِس دُنیا میں نہیں تھا اور تارا کے پاس جانے کی اُن میں ہمت نہیں تھی۔

یااللہ۔۔۔۔حیات نے روتے ہوئے بے ساختہ اپنا سر پکڑا تھا جبکہ مُنیبہ بیگم کو غش طاری ہوگیا تھا دوسری طرف اصغر صاحب اُسماعیل صاحب کی قبر کے پاس بیٹھ کر رو رو کر اپنے کیئے کی معافی مانگ رہے تھے مگر اب اُن کی معافی کا کوئی فائدہ نہیں تھا وقت ریت کی طرح اُن کے ہاتھوں سے پھسل گیا تھا اب سِوائے پچھتانے کے اُن کے پاس کچھ نہیں بچہ تھا

❤❤❤❤❤❤

کچھ ماہ بعد!

کبھی لفظ بھول جاؤں، کبھی بات بھول جاؤں،

تجھے اس قدر چاہوں کے اپنی ذات بھول جاؤں،

اٹھ کر جو کبھی تیرے پاس سے چل دوں،

جاتے ہوۓ خود کو تیرے پاس بھول جاؤں ،

کیسے کہوں تم سے کہ کتنا چاہا ہے تمہیں،

کہنے پے تم کو آؤں تو الفاظ بھول جاؤں-


"شاید میں بھی یہاں بیٹھی ہوں۔۔۔۔۔تارا نے روہانسے لہجے میں احناف سے کہا جس کی ساری توجہ کا مرکز اپنی معصوم سی پری تھی جس کے کبھی وہ چھوٹے سے ہاتھ چوم رہا تھا تو کبھی آنکھیں جو بلکل عین کی طرح نیلے رنگ کی تھیں اُن کو دیکھ کر احناف تو گویا نحال ہوگیا تھا۔۔۔

آج اُن دونوں کو اللہ نے بیٹی کی رحمت سے نوازہ تھا جس پر وہ دونوں بہت خوش تھے مگر دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے احناف کو زیادہ خوشی تھی اپنی بچی کی

محترمہ آپ کون؟احناف اُس کو غور سے دیکھ کر ناسمجھی سے پوچھنے لگا تو تارا کا منہ حیرت کی زیادتی سے کُھلا کا کُھلا رہ گیا مگر اُس کے تاثرات دیکھ کر احناف نے بامشکل اپنی مسکراہٹ کا گلا گھونٹا اور اپنی بچی کو کاٹ میں ڈال کر اُس کی طرف آیا

اُٹھو مجھے تم سے بات نہیں کرنی کوئی۔۔۔تارا اُس کو گھور کر بولی تو احناف نے مسکراکر اُس کو دیکھا

تھینک یو۔۔۔۔۔اُس کے ہاتھوں کو عقیدت سے چوم کر احناف نے مشکور نظروں سے اُس کو دیکھا تھا۔

شکریہ تو مجھے تمہارا کرنا چاہیے اگر تم نہ ہوتے تو میں ساری زندگی بس محبت کے لیے ترستی پر پتا ہے کیا احناف؟تارا اُس کے الفاظوں پر اُداس لہجے میں بولی

کیا؟احناف نے اُس کو دیکھا

میں مرجاتی۔۔۔۔تارا نے کہا تو احناف کے تاثرات تن گئے

نین۔۔۔احناف کے لہجے میں تنبیہہ تھی جس پر نظریں اُٹھائے تارا نے اُس کو دیکھا اور ہلکہ سا مسکرائی

میرے پاس قرآن کی ایک آیت نہ ہوتی تو میں کب کا مرچُکی ہوتی مگر اُس ایک آیت نے مجھے زندہ رہنے پر مجبور کیا ہے اور ایک اُمید سے باندھ لیا ہے جس سے میری سانسیں ابھی تک چل رہی ہیں۔۔۔تارا کسی ٹرانس کی کیفیت میں بولی

کونسی آیت؟احناف نے جاننا چاہا


"_'وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضىٰ'_"

اور عنقریب تُمہارا رب تُمہیں اِتنا دے گا کہ تُم خُوش ہو جاؤ گے

اِس بار تارا کے لبوں پر مسکراہٹ ٹھیری تھی۔جبھی وہاں کوئی آیا تھا جن کو دیکھ کر احناف مسکراکر ازلان کی طرف بڑھا تھا۔۔


حیات نے احناف سے خلع لینے کے فوری بعد ازلان سے شادی کرلی تھی اور ازلان نے اُس کو بہت چاہ اور محبت سے رکھا تھا جس پر حیات اپنی قسمت پر نازاں تھی اور اُس کا بھی پریگنسی پانچواں مہینہ چل رہا تھا جس پر ازلان کی خوشی کی انتہا نہیں رہی تھی بہت وقت بعد خوشیوں نے دوبارہ اُن کے در پر دستک دی تھی۔۔۔

خاور کی موت کے بعد مُنیبہ بیگم کی آنکھوں کا نور چلاگیا تھا اور اکثر پاگلے پن کا دورہ بھی پڑجاتا تھا جبکہ اصغر صاحب کو فالج اٹیک آیا تھا اور اختر صاحب کی زندگی بے سکونی میں گُزر رہی تھی اُنہوں نے اپنا ہر جُرم قبول کیا تھا اور اپنا آپ پولیس کے حوالے کیا تھا تارا سے اُنہوں نے معافی بھی مانگی تھی جو تارا کسی بھی قیمت پر دینے کو تیار نہیں تھی پر احناف کے سمجھانے کے بعد وہ اُن کو معافی کرچُکی تھی پر کبھی اُن کو ماما نہیں کہا تھا اور نہ کبھی وہ اُن کے گھر گئ تھی بس کبھی کبھار اُسماعیل صاحب کی یادیں زور پکڑتی تو وہ جاتی تھی اور اپنا سارا وقت اُن کے کمرے میں گُزارتی تھی اور اُن کی چیزوں کو چھو کر اُن کی موجودگی کو محسوس کیا کرتی تھی۔۔۔اور خود ہی مسکرا پڑتی تھی۔۔۔"سومل اور مومل کی بھی شادی ہوگئ تھی جہاں وہ جیسے تیسے کرکے اپنی زندگی گُزار رہیں تھیں کیونکہ اُن کے دل میں نہ تو کوئی خوشی تھی اور مطمئن تھیں۔۔۔۔


Congratulations.

حیات تارا کے پاس بیٹھ کر اُس کی بیٹی کو دیکھ کر مُبارکباد دینے لگی تو تارا خاموشی سے اُس کو دیکھنے لگی جانے کیوں اُس کو اب حیات سے اچھی وائبز نہیں آتی تھی۔۔۔

بہت خوبصورت ہے یار تمہاری بیٹی تو پر پتا ہے کیا خوبصورت لوگوں کی قسمت جانے کیوں اللہ بہت خراب بناتا ہے۔۔۔۔حیات افسوس بھرے لہجے میں بولی تو تارا نے احناف کو دیکھا جو ازلان کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا۔۔۔۔

ایک بات کہوں؟حیات نے اُس کو دیکھ کر کہا تو تارا سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی

مجھے کل الٹرا ساؤنڈ کروانے پر پتا چلا کہ میرے پیٹ میں بیٹا ہے۔۔۔حیات نے رازدرانہ انداز میں اُس کو بتایا تو تارا سمجھ نہیں پائی کہ یہ سب وہ ایسے اُس کو کیوں بتارہی ہے۔

ماشااللہ اچھی بات ہے۔۔۔۔۔تارا نے زبردستی مسکراہٹ چہرے پر سجائے بولی پھر احناف کو دیکھا

تھینک یو اور تمہیں احساس تو ہوتا ہوگا کہ میرے ساتھ غلط کیا ہے۔۔۔۔حیات نے کہا تو تارا نے اُس کو دیکھا

احناف کے کہنے پر میں نے تم سے معذرت کرلی تھی جو کہ تمہیں کرنی چاہیے تھی۔۔۔تارا نے کہا تو حیات معنی خیز انداز میں مسکرائی

چھوڑو پُرانی باتیں کچھ نئ باتیں کرتے ہیں۔۔۔"حیات نے سرجھٹک کر کہا

کرو۔۔۔تارا نے غور سے اُس کو دیکھا

تم نے جو میرے ساتھ کروانا چاہا جو میرا ساتھ ہوا تو نہیں پر وہ آگے چل کر میرا بیٹا تمہاری بیٹی کے ساتھ کرے گا۔"مجھے چاہے احناف سے محبت نہیں تھی پر اب ایسا دن تمہاری بیٹی کی زندگی میں آئے جس پر وہ اپنی خوشقسمتی پر نازاں ہوگی پر اچانک پھر کوئی اُس کو خاص سے عام بناکر اپنے پاؤں کے نیچے کُچل دے گا۔۔۔حیات اُس بچی کے گال پر پیار بھری چُٹکی کاٹ کر آہستگی سے بولی تو تارا کا دل دھک دھک کر اُٹھا تھا وہ بے یقین نظروں سے حیات کو دیکھنے لگی جس نے بہت آرام سے اُس کو اپنے عزائم سے آگاہ کروایا تھا"پہلے تو خوف سے اُس کا دل دھڑک رہا تھا مگر اچانک اُس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تو حیات نے تعجب سے اُس کو دیکھا

کیا ہوا؟حیات نے بلآخر پوچھ لیا اُس کو تارا کا مُسکرانا ہضم نہیں ہورہا تھا


وہ آیت پڑھی ہے کبھی تم نے؟اپنی بچی کو گود میں لیئے تارا نے اُس سے پوچھا

کونسی آیت؟حیات نے جواباً پوچھا


وَمَا تَشَآؤُنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰہُ❝

اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللّٰہﷻ نہ چاہے۔


"ابھی تمہارا بیٹا تمہارے پیٹ میں ہے دُنیا میں ابھی وہ آیا نہیں اِس لیے تم ایسے بڑے بڑے بول نہ بولو وہ کیا ہے نہ پریگنسی کے دوران لڑکی کو بہت کرائسس کا سامنا کرنا پڑتا ہے یوں سمجھو وہ بس اپنے بچے کو جنم نہیں دیتی خود بھی اُس نے نئ زندگی حاصل کی ہوتی ہے"اللہ اگر تمہیں نواز رہا ہے تو شکر ادا کرو ناکہ اپنی نیت کو ناپاک بناؤ کہ آگے چل کر تمہیں کچھ ہوگیا تو؟زہر اُگلنے اگر حیات کو آتا تھا تو آگ لگانا تارا کو بھی اچھے سے آتا تھا۔۔۔۔"جس پر حیات نے غُصے بھری نظروں سے اُس کو دیکھا تھا پھر وہ اُٹھ کر ازلان کی طرف بڑھی تھی جبکہ تارا کو اُس کی باتوں نے گھبراہٹ میں مبتلا تو ضرور کردیا تھا پر اُس نے ظاہر ہونے نہیں دیا بس سرجھٹک کر اپنی پری جیسی بچی کو دیکھا جو اپنے مستقبل انجان پرسکون سوئی ہوئی تھی۔۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

میں نین تارا جس نے اپنی زندگی سے یی سیکھا تھا کہ زندگی میں جو بھی ہو"حالات جیسے بھی بن جائے مگر کبھی بھی زندگی میں گِیو اپ نہیں کرنا اور نہ ہار ماننا ہے۔۔

کیونکہ حضرت علی کا فرمان ہے!

کوئی تب تک ہار نہیں سکتا جب تک خود ہار نہ مان جائے"

اپنے مقصد کو پانے کی ہر جی توڑ کوشش کرنی چاہیے۔۔ اور جو میں سمجھتی تھی کہ میرا ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے میری زندگی میں محرومیاں کیوں ہوتیں ہیں تو میں خوش ہوں اب میری زندگی میں احناف جیسا شخص ہے اور ایک چاند جیسی بیٹی ہے عفاف ہماری ایک چھوٹی سی پیاری سی دُنیا۔۔۔۔۔۔تارا مسکراکر چاٹ دیوار پر لگاتی سلائیڈن ڈور کھول کر لان کا منظر دیکھا جہاں احناف عفاف کو اپنی گود میں لیئے اُس کو پِچکارنے میں مصروف تھا یہ دیکھ کر اُس کے چہرے پر چھائی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔

جب میرے پاس کچھ نہیں تھا تو اللہ نے احناف دیا تھا پیارا کرنے والا ایک نانا دیا تھا جس نے میری آسائش کا خیال رکھا تھا۔۔۔

زندگی میں غلطیاں سب سے ہوتی ہے میں نے بھی کی ہیں مجھے بھی اپنی غلطیوں کا احساس ہے۔۔"زندگی اگر پھولوں کی سیج نہیں ہوتی تو کاٹو سے بنا رستہ بھی نہیں ہوتا جن کو ہر حال میں ہم نے پار کرنا ہوتا ہے۔۔۔اور قرآن میں تو واضع لکھا ہے کہ اللہ ہمیں آزماتا ہے تاکہ ہم جان پائے کہ کون ہے ہمارا اللہ کے سِوا۔۔


میں آتی ہوں۔۔۔اپنا ہاتھ ہِلاتے تارا نے اُونچی میں احناف سے کہا

ہاں پلیز آجاؤ یار اِس نے تو اپنے رونے کا عالمی رکارڈ بنایا ہوا ہے۔۔۔احناف اُس کو دیکھ کر بولا تو تارا کِھلکھلاتی اُس کے پاس آئی تھی اور اُس کی گود سے عفاف کو لیا تھا جو فورن چُپ ہوگئ تھی جس پر احناف کا منہ بن گیا تھا۔۔۔"مگر پھر ہنس کر تارا کو اپنے حصار میں لیے اُن دونوں کے چہرے پر پیار کیا تھا جس پر تارا پرسکون انداز میں مسکرائی تھی۔۔۔۔

تم نے ٹھیک کہا تھا احناف میں اسپیشل ہوں۔۔۔۔تارا اُس کے سینے سے لگی آہستگی سے بولی تو احناف اُس کی بات پر مسکرایا تھا۔۔۔"جبکہ عفاف نے پھر سے رونے کی تیاری پکڑ لی تھی

❤❤❤❤❤❤

ماں کو لات مارتا شریر۔۔۔۔۔حیات اپنے پیٹ پہ ہاتھ رکھ کر اپنے بچے سے مُخاطب ہوئی پھر ہنس پڑی

اففففف میری جان بس تم جلدی سے آجاؤ تاکہ میں بھی لوگوں سے حساب کتاب برابر کرسکوں۔۔۔۔حیات پُرسرار لہجے میں کہتی اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ گئ تھی۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

ختم شد


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Kya Hui Hai Khata  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Kya Hui Hai Khata  written by  Rimsha Hussain . Kya Hui Hai KHata by Rimsha Hussain is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

   


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages