Wo huye Meharban By Zeenia Sharjeel New Romantic Complete Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday 26 June 2024

Wo huye Meharban By Zeenia Sharjeel New Romantic Complete Novel

Wo huye Meharban  By Zeenia Sharjeel  New Romantic Complete Novel

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Wo Huye Meharban By Zeenia Sharjeel Complete Romantic Novel 


Novel Name: Wo Huye Meharban   

Writer Name: Zeenia Sharjeel 

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

نیویارک شہر کے چھوٹے سے قصبے مونٹاک (montauk) کی یہ ایک یخ بستہ  شام تھی، کلائی پر بندھی ہوئی واچ پر نظر ڈال کر وہ جلدی جلدی اپنا کام وائینڈ اپ کر رہی تھی تاکہ گھر کے لیے روانہ ہو سکے، پچھلے چھ ماہ سے وہ ہارویسٹ کیفے (harvest cafe) میں بطور ویٹر جاب کے فرائض انجام دے رہی تھی لانگ کوٹ پہننے کے بعد سر پر اونی ٹوپا پہن کر وہ کیفے سے باہر نکلی تو ہوا کا سرد جھونکا اُس کے جسم سے ٹکرایا جس کے باعث اس نے جھرجھری لی۔۔۔ اُس کا یہ لانگ کوٹ اِس ٹھٹھرا دینے والی سردی سے بچاؤ کے لئے ناکافی تھا مگر وہ نیا گرم کوٹ خرید کر اپنی ذات پر موجودہ رقم خرچ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ ابھی اسے سیمسٹر کی فیس بھی پے کرنی تھی۔۔۔ دوسرا لینڈ لیڈی کو بھی دو دن بعد آن دھمکنا تھا کاٹیج کا کرایہ لینے۔۔۔ یہ ساری باتیں سوچتے ہوئے وہ چلی جا رہی تھی تھوڑی اور دور پیدل چلنے کے بعد اسے مخصوص شٹل (shuttle) ملتی جو اُسے اس کی منزل تک پہنچا دیتی مگر اس سے پہلے ہی دو لڑکے اُسے سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دئیے جنہیں دیکھ کر وہ سر جھکا کر تیزی سے وہاں سے نکلنے لگی

"ہے سوئٹی کیا تم میری بات سنو گی"

ان میں سے ایک لڑکا انگریزی میں اُس سے مخاطب ہوا مگر وہ ان دونوں کو اگنور کرتی ہوئی آگے بڑھنے لگی۔۔۔ یہ دونوں لڑکے کافی دنوں سے اُسے اور ریوا کو راستے میں تنگ کررہے تھے مگر اُس کی بدقسمتی یہ تھی کہ ریوا آج کیفے نہیں آئی تھی 

"سویٹی میں تم سے بات کر رہا ہوں کیا تم ہم دونوں کے ساتھ نائٹ اسپینڈ کرنے میں دلچسپی رکھتی ہوں"

وہ لڑکا اُس کے ساتھ چلتا ہوا دوبارہ اسے بولا اس لڑکے کی بات سن کر اُس کے چلنے میں مزید تیزی آگئی

"کیا تم کان سے بہری ہو یا پھر منہ میں زبان نہیں ہے تمہارے"

وہ لڑکا اچانک اُس  کا ہاتھ پکڑتا ہوا اس سے پوچھنے لگا جس کی وجہ سے اس کو روکنا پڑا 

"میرا ہاتھ چھوڑ دو میں تمہاری آفر میں دلچسپی نہیں رکھتی"

وہ اپنی گھبراہٹ چھپا کر اس لڑکے سے اپنا ہاتھ چھڑوانے لگی۔۔۔۔ جبکہ اس لڑکے کا دوسرا ساتھی بیزار ہوکر یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا

"مگر ہم دونوں تم میں دلچسپی رکھتے ہیں اس لئے فضول کے نخرے دکھانا بند کرو اور اپنے ریٹ بتاؤ" 

اب کی بار دوسرا لڑکا بولا اِس سے پہلے وہ اسے کچھ بولتی وہاں سے گزرتی ہوئی پولیس کی کیپ کو دیکھ کر وہ دونوں لڑکے رفوچکر ہوگئے وہ خدا کا شکر ادا کرتی ہوئی تیز قدم اٹھا کر وہاں سے دور جانے لگی 

*****

"اوہو زینش آج کتنی دیر لگا دی تم نے واپس آنے میں،، میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی۔۔۔ فیض تو اس چڑیل صنوبر کے ساتھ نہ جانے کب کا باہر نکلا ہوا ہے۔۔۔ اب وہ دونوں واپس ڈنر کر کے ہی گھر لوٹیں گے اور میرا خود بھی ڈنر کا پروگرام ہے جوزف کے ساتھ۔۔۔ اس لیے تم اپنے لیے خود ڈنر کا ارینج کر لینا"

شہنیلہ اپنے رنگین ناخنوں کو دیکھ کر اس پر پھونک مار دیتی ہوئی زینش بولی۔۔۔۔ 20 سالہ زینش شہنیلا کو غور سے دیکھنے لگی بالوں کو گولڈن کیے،، چہرے پر بے تحاشہ میک اپ میں وہ کہیں سے بھی اس کی ماں نہیں لگ رہی تھی۔۔۔ بلکہ اس سے چند سال بڑی اس کی بہن لگ رہی تھی۔۔۔ 

رضوان کے انتقال کے بعد وہ مزید خوبصورت، جوان پرکشش دِکھنے لگی تھی 

"ماما مجھے یہاں پر نہیں رہنا ہے" 

زینش اس کی بات کو مکمل نظر انداز کرکے ضبط کرتی ہوئی بولی

"او شکر ہے تمہاری عقل میری بات آگئی کہ تمہیں ایڈی کے ساتھ اس کا اپارٹمنٹ شیئر کر لینا چاہیے"

شہنیلا خوش ہو کر زینش سے بولی تو وہ تاسف سے اپنی ماں کو دیکھنے لگی جو نیویارک میں آنے کے ساتھ ہی یہاں کی رنگینیوں میں بالکل ہی گم ہو چکی تھی

"ماما میں ایڈی کے ساتھ اس کا اپارٹمنٹ شیئر کرنے کی بات نہیں کر رہی ہو۔۔۔ آپ یہاں کے ماحول میں ایڈجسٹ ہو چکی ہیں مگر میں نہیں، آپ مجھے واپس احمد چاچا کے پاس پاکستان بھجوا دیں پلیز"

زینش نے جتنے آرام سے شہنیلا کو یہ بات بولی تھی شہنیلا کے چہرے کے تاثرات اتنے ہی پتھریلے ہو گئے

"چھیڑ دیا ہوگا آج پھر تمہیں کسی نے یا پھر ذرا سا مذاق کر لیا ہوگا تمہارے ساتھ جس پر تم فورا ہی دل برداشتہ ہو گئی ہوگی،، زینش ہمت پیدا کرو اپنے اندر یوں بات بات پر پریشان ہو کر مت بیٹھ جایا کرو۔۔۔ اس چاچا کے پاس جانا چاہ رہی ہو تم جس نے اپنے بھائی کے مرنے کے دوسرے دن ہی فیض کو فون کرکے ہم دونوں کو بلوانے کا کہا تھا۔۔۔ کیا بھول گئی ہو اس کا اور اس کی بیوی کا سلوک وہ ساری باتیں جو انہوں نے دوسروں سے تمہارے لئے بولیں"

شہنیلا تلخی سے زینش کو اپنے سامنے کھڑا کرتی ہوئی پوچھنے لگی 

"آج دو لڑکوں نے میرا راستہ روک کر مجھ سے میری ایک رات کی قیمت پوچھی ہے، آپ کے نزدیک شاید یہ ذرا سا چھیڑنے والی یا پھر مذاق کرنے والی بات ہوگی مگر میرے نزدیک نہیں ہے ماما۔۔۔ آپ اپنے اندر اتنی ہمت پیدا کر سکتی ہیں کہ مرے ہوئے شوہر کے بعد نیا بوائے فرینڈ بنا لیں اس کے ساتھ گھومے پھریں اور ڈنر پر چلی جائیں لیکن میں اتنی باہمت نہیں ہوسکتی کہ ایڈی جیسے غلیظ انسان کے ساتھ اس کا اپارٹمنٹ شیئر کرو۔۔۔

مانتی ہوں پاکستان  جاکر احمد چچا اور ثمرہ چاچی کی باتیں برداشت کرنا کوئی اسان کام نہیں ہے مگر وہ اس زلت سے کہیں زیادہ بہتر ہے جو مجھے یہاں رہ کر اٹھانی پڑتی ہے"

زینش اُس سے زیادہ تلخ ہوکر شہنیلا کو بولی تو شہنیلا خاموش ہو کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔ ایسا آج پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ اُن دونوں کے بیچ میں تلخ کلامی نہ ہوئی ہو 

"ٹھیک ہے اس موضوع پر ہم بعد میں بات کر لیتے ہیں ابھی میں لیٹ ہو رہی ہوں"

شہنیلا ہمیشہ کی طرح بات کو نپٹا کر باہر نکلنے سے پہلے اپنا لانگ کوٹ اٹھانے لگی۔۔۔ جبکہ زینش خاموشی سے اپنی ماں کو باہر جاتا ہوا دیکھکر سوچنے لگی کہ ان دو سالوں میں اس کی ماں کی شخصیت میں کتنا بدلاؤ آچکا تھا 

*****

دو سال پہلے زینش کی زندگی اس حد تک نارمل تھی کہ رضوان یعنی اس کا باپ حیات تھا وہ لوگ پنڈی کے ایک اچھے علاقے میں رہائش پذیر تھے۔۔۔ ڈبل اسٹوری گھر ہونے کی وجہ سے ایک پورشن اُس کے چچا احمد کے پاس تھا جبکہ دوسرے پورشن میں رضوان شہنیلا اور زینش رہتے تھے۔۔۔ زینش نے بچپن سے ہی اپنے ماں باپ کو ہمیشہ کسی نہ کسی بات پر لڑتے جھگڑتے دیکھا تھا۔۔۔ اُس کے ماں باپ کی اُس کے چچا اور چچی سے بھی کچھ خاص نہیں بنتی تھی۔۔۔ 

ایسے ہی ایک دن تھا جب وہ کالج سے گھر آ رہی تھی جب اُس کے ساتھ وہ حادثہ پیش آیا جس کی وجہ سے اُس کی زندگی بدل گئی اور یہی حادثہ رضوان کی موت کی وجہ بنا۔۔۔ رضوان کی موت کے دوسرے ہی دن زینش کے چچا احمد نے شہنیلا کے بھائی فیض کو فون کرکے پاکستان بلوایا اور شہنیلا اور زینش کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے کہا 

فیض چند سالوں سے نیویارک میں رہائش پذیر تھا

وہ اپنی بیوی صنوبر کے ساتھ کرائے کے چھوٹے سے کاٹیج میں رہتا تھا۔۔۔ یہ دو بیڈروم کا کاٹیج صنوبر کی دور کی کزن کے شوہر ہیری کا تھا جن کا بیٹا ایک ہی بیٹا تھا ایڈی، جو کہ زینش سے دو سال بڑا تھا۔۔۔ کاٹیج کا رینٹ فیض اور صنوبر ہر ماہ ہیری کو پے کرتے۔۔۔ جب فیض شہنیلا اور زینش کو اپنے ساتھ (Montauk) لے کر آیا تو ان دونوں ماں بیٹی کو بھی وہاں رہنے کی صورت اور اپنے اخراجات پورے کرنے کی صورت جاب کرنا پڑی۔۔۔ فیض ہر ماہ ان کی تنخواہ سے کاٹیج کا آدھا کرایا وصول کر کے ہیری کو دیتا۔۔۔ 

شہنیلہ ایک فلاور شاپ نے کام کرتی تھی وہی اس کی جوزف سے دوستی ہوئی اور یہ دوستی بہت جلد پیار میں بدل گئی تھی۔۔۔۔ بقول شہنیلا کے کہ جوزف اُس کے حسن اور پرسنیلٹی دونوں سے متاثر ہو کر بہت جلد اسلام قبول کرنے کا ارادہ رکھتا ہے

****

"آؤ بھئی معظم تم نے تو ہمارا دل خوش کردیا،، اتنے سخت پہرے کے باوجود جس ہوشیاری سے تم پولیس کی ناک کے نیچے سے یہ اسلحہ سے بھرا ہوا ٹرک یہاں تک لائے ہو ماننا پڑے گا۔۔۔ قاسم نے ٹھیک ہی کہا تھا تم بہت ہی کام کے بندے ہو تمہارے کام کی تو داد دینی پڑے گی"

بدر اپنے سامنے کھڑے 27 28 سالہ نوجوان کو دیکھتا ہوا خوش ہو کر بولا ساتھ ہی اس نے سامنے ٹیبل پر نوٹوں کی ایک موٹی گڈی رکھی (جو کہ معظم کی مانگ سے زیادہ تھی)۔۔۔ معظم قاسم کا خاص بندہ تھا جسے قاسم نے بدر کے پاس اسلحے سے بھرے ٹرک لے کر بھیجا تھا۔۔۔ بدر اس بہادر نوجوان کو دیکھ کر کافی خوش ہوا تھا 

"جب معظم کسی بھی کام کرنے کی ایک بار ٹھان لیتا ہے تو پھر مشکل کیا اور خطرناک کیا۔۔۔ کام مکمل کر کے ہی دم لیتا ہے۔۔۔ ٹرک کی چابی آپ کے آدمی کو دے دی ہے۔۔۔ مال اس میں پورا ہے آپ چاہیں تو خود بھی چیک کر سکتے ہیں" 

معظم اپنے سامنے سوٹ بوٹ پہنے ہوئے آدمی کو دیکھ کر بولا اور نوٹوں کی گڈی اٹھا کر انہیں دیکھنے لگا جو اُسے اس کی ڈیمانڈ سے کچھ زیادہ لگ رہے تھے 

"مجھے تمہارا یہ جوش اور جذبہ پسند آیا ہے،، تم جیسے نڈر،، دلیر اور محنت کش بندوں کی مجھے کافی ضرورت ہے۔۔۔ تم چاہو تو میرے گینگ میں شمولیت اختیار کر سکتے ہو"

ظاہری طور پر دیکھنے میں اُس کا حلیہ بے شک متاثر کن نہیں تھا مگر بدر معظم کے کام کرنے کے انداز سے متاثر ہوا تھا وہ عام سے کپڑوں اور بڑھی ہوئی شیو میں اُسے خاص بندہ لگا،، جو آگے بھی اس کے کافی کام آ سکتا تھا اس لئے بدر نے معظم کو اپنا گروپ جوائن کرنےکی پیشکش کی 

"آفر آپ کی بری نہیں ہے سر یقینا اس میں میرا ہی فائدہ ہوگا مگر ایک تو یہ کہ میرے کام کرنے کے کچھ اپنے اصول ہیں جن کے دائرے میں رہ کر میں کام کرنا پسند کرتا ہوں۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ میری زیادہ دن تک کسی سے بنتی نہیں اور دوسرا یہ کہ میں کسی کے ماتحت ہو کر کام کرنے کا عادی نہیں ہوں،، آپ کو جب بھی میری ضرورت پڑے تو آپ قاسم سیٹھ کو بتا دیئے گا،، کام کی نوعیت دیکھ کر میں دوبارہ آپ کے پاس حاضر ہو جاؤں گا،، ابھی کے لئے کی اجازت دیں چلتا ہوں" 

کام مکمل ہونے کے بعد معظم نے قاسم سے جتنی رقم کا مطالبہ کیا تھا، اس نے ٹیبل سے اٹھائی ہوئی نوٹوں کی گڈی میں سے اپنی رقم نکالی باقی کی رقم ٹیبل پر واپس رکھ کر وہ وہاں سے چلا گیا 

****

"سندیلا جلدی سے بریانی لے کر آؤ"

اپنے شوہر احتشام کی آواز سن کر کچن میں کھڑی ہوئی سندیلا چاولوں کی ڈش میں جلدی جلدی بریانی بھرنے لگی


"بھابھی ذرا کیوبز تو نکال دیں پلیز یہ ڈرنگ آپ فریج میں رکھنا بھول گئی تھیں شاید"

سندیلا کے ڈائننگ ٹیبل کے پاس آتے ہی اسے اس کی چھوٹی نند فائقہ نے کہا جو فریج سے ذرا فاصلے پر بیٹھی ہوئی تھی اور بریانی سے بھرپور انصاف کرتی ہوئی سندیلا سے بول رہی تھی بغیر اس کی کنڈیشن کا احساس کیے۔ ۔۔ کسی کو یہ تک پرواہ نہیں تھی کہ وہ مسلسل کچن میں موجود ہے کوئی اس سے جھوٹے منہ ہی ایک بار کھانے کا پوچھ لے یا پھر اسے کھانا کھانے کے لئے بلالے


"بھئی ہم تو سسرال میں کسی کو شکایت کا موقع ہی نہیں دیتے تھے خوش ہو کر دل لگا کر سارا کام کرتے تھے اور آج کل کی لڑکیاں تو بس کھانا کیا بناتی ہیں احسان ہی کرتی ہیں سسرال والوں پر"

یہ نزہت بیگم تھی احتشام کی امی یعنی سندیلا کی ساس۔۔۔ جن کی بات سن کر سندیلا نے ایک نظر احتشام کو دیکھا جو کہ اس کی طرف دیکھے بغیر کھانا کھانے میں مصروف تھا


"آنٹی سسرال جگہ ہی ایسی ہوتی ہے جہاں لڑکی چاہے بھی کہ کسی کو تکلیف نہ ہو مگر پھر بھی اس کی ذات سے ہر ایک کو مسلئے ہی لاحق رہتے ہیں۔۔۔ کل آپ ہی تو بتا رہی تھی کہ آپ کی ساس آپ پر کتنے ظلم کے پہاڑ توڑتی تھیں اور صائقہ باجی،،، آج جب سے آئی ہیں مسلسل اپنے اوپر ہوئی سسرال کی ذیاتیوں کا رونا ہی ہو رہی ہیں۔۔۔ ویسے میں نے آج صرف کھانا ہی نہیں بنایا ہے اتوار ہونے کی وجہ سے کام والی نہیں آئی تھی تو سارے گھر کا کام میں نے خود اکیلے ہی کیا ہے اور فائقہ فریج تمہارے نزیک ہی ہے کیوبز تم خود ہی نکال لو"

سندیلا کی بات سن کر کھانے کی ٹیبل پر احتشام سمیت تمام افراد اس کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔ دو سالہ شادی کی زندگی میں اس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا تھا مگر جب سندیلا کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا تو پھر وہ چپ نہیں رہتی تھی


"توبہ توبہ میرے پاس ایسی زبان نہیں ہے نہ ہی اتنی ہمت جو میں سسرال والوں کے سامنے ان کو اس طرح بات سناؤ"

سب سے پہلے صائقہ کو ہوش آیا اور وہ چمچا چھوڑ کر، باقاعدہ دونوں ہاتھ گالوں کو لگا کر توبہ کرنے لگی


"وہ اس لیے صائقہ باجی کیوکہ آپ ہر ہفتے اپنے دل کا غبار اور غصہ یہاں آ کر نکال لیتی ہیں۔۔۔ کاش کہ ہفتے میں دو اتوار ہوتے اور مجھے بھی اپنے بھائی کے گھر جانے کا موقع مل جاتا"

سندیلا اپنی بڑی نند کو دیکھ کر مسکراتی ہوئی بولی


"فورا کمرے میں جاؤ سندیلا"

کافی دیر سے چپ بیٹھا ہوا احتشام ایک دم سندیلا کو غصے میں بولا جس پر سندیلا افسوس بھری نظر اس پر ڈال کر خاموشی سے اپنے کمرے میں جانے لگی


"بھائی کی حالت دیکھ کر میں نے تو سوچ لیا ہے شادی جیسی بیکار چیز تو کرنی ہی نہیں ہے"

یہ اس کا دیور تھا باسل جس کی آواز سندیلا نے اپنے کمرے میں جاتے ہوئے سنی


****


"تمہیں زبان چلانے کے علاوہ کوئی اور بھی کام آتا ہے یا نہیں، جانتی ہو صائقہ باجی آج کتنا روتی ہوئی اپنے سسرال گئی ہیں مجھ سے کہہ رہی تھی اب اگلے ہفتے یہاں نہیں آؤں گی تمہاری بیوی کو میرا یہاں آنا اچھا نہیں لگتا۔۔۔۔ امی اس بات کو یاد رکھ کر اب تم سے ہفتہ بھر ناراض رہیں گی، فائقہ اور باسل بھی تم سے سیدھے منہ بات نہیں کریں گے اس لیے اب تم مجھ سے میرے گھر والوں کی بدسلوکی کا شکوہ کرنے مت بیٹھ جانا"

رات میں صائقہ کے جانے کے بعد احتشام کمرے میں آیا تو بیڈ پر لیٹی ہوئی سندیلا کو دیکھ کر بولا


"شام آپ کو صرف میرا زبان چلانا دکھ رہا تھا۔۔۔۔۔ اپنی بہن کے تو آنسو تو نظر آ گئے مگر آپ کو یہ نظر نہیں آیا کہ آپ کی پریگنیٹ بیوی پورے دن کسی گدھے کی طرح گھر کے کاموں میں لگی ہوئی ہے، بھولے سے بھی فائقہ نے میری ہیلپ کروائی،، آپ کو یا پھر آنٹی کو احساس ہوا میرا۔۔۔۔ بے فکر رہیے صائقہ باجی آج صرف ناراض ہو کر ایسا بول کر گئی ہیں،، آپ خود دیکھ لیے گا اگلے ہفتے وہ یہی پر موجود ہوگیں۔۔۔۔ آپ کی امی کے ناراض ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے انہوں نے کبھی ان دو سالوں میں اچھے تعلقات اپنانے کی کوشش ہی نہیں کی میرے خلوص میری تیمارداری کا کیا صلہ دیا یہ مجھے آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے اور رہی بات فائقہ اور باسل کی تو شام شاید آپ بھول رہے ہیں ان دونوں نے آج تک مجھ سے سیدھے منہ بات ہی کب کی ہے"

سندیلا بیڈ سے اٹھ کر بیٹھتی ہوئی احتشام سے بولنے لگی


"یار ایک تو تم اپنی اس کنڈیشن پر رونا مت رویا کرو میرے سامنے، بچہ بھی تو تمہیں ہی چاہیے تھا نا میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا پانچ سال سے پہلے میں کوئی بچہ افورڈ ہی نہیں کر سکتا، میرے اوپر پورے گھر کے ذمہ داری ہے"

احتشام اس کی کنڈیشن والی بات پر اچھا خاصا چڑتا ہوا بولا اور سلیپنگ ڈریس لے کر واش روم میں جانے لگا تبھی سندیلا بیڈ سے اٹھ کر اس کے سامنے آئی


"آپ بھول رہے ہیں بچے کا میں نے آنٹی کے کہنے پر آپ کو کہا کیونکہ انہوں نے دو مہینے بعد ہی مجھے آپ کے رشتے داروں میں بانچھ بولنا شروع کر دیا تھا اور اگر آپ پر اتنی ہی ذمہ داریاں تھی تو آپ کو شادی ہی نہیں کرنی چاہیے تھی شام"

اپنی حالت کے پیش نظر ایک تو وہ پہلے ہی چڑچڑی ہو رہی تھی اوپر سے احتشام کی ایسی باتیں اسے مزید غصہ دلانے لگی


"واقعی شادی کرکے تو اب میں بھی پچھتا رہا ہوں پورے ہفتے ایک دن چھٹی کا ملتا ہے سالا اس میں بھی صبح شام گھر والوں کی اور بیوی کی باتیں سنو"

احتشام اسے بول کر سائیڈ پر کرتا ہوا واشروم کی طرف بڑھنے لگا


"اور مجھے تو وہ ایک دن بھی آرام کو میسر نہیں ہوتا"

سندیلا بولتی ہوئی واڈروب سے اپنا ڈریس نکالنے لگی کیونکہ کل صبح اسکول جانے کے لیے اسے اپنا ڈریس بھی آئرن کرنا تھا


"تو چھوڑ دو جاب تمہاری اس ٹکے بھر کی جاب سے آخر فائدہ کس کو ہو رہا ہے"

احتشام غصے میں بھرا ہوا واپس سندیلا کے پاس آ کر بولا


"یہ ٹکے بھر کی جاب میں اسی لیے کرتی ہوں تاکہ مجھے اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے"

سندیلا بھرپور طنز کرتی ہوئی اس کے جواب میں بولی تو احتشام نے غصے میں اس کے ہاتھ سے کپڑے لے کر کمرے کے ڈسٹ بن کے پاس پھینک دیے اور خود واش روم چلا گیا


دو سال پہلے سندیلا نے گریجویشن مکمل کیا تو اس کے بھائی انیس نے اچھا رشتہ دیکھ کر فورا سندیلا کی شادی کردی ہر عام لڑکی کی طرح وہ بھی آنکھوں میں ڈھیر سارے خواب اور دل میں کئ ارمان لے کر احتشام کے گھر میں آئی تھی مگر ایک ماہ بعد ہی سسرال والوں کا رویہ دیکھ کر اسے حقیقت کی دنیا میں آنا پڑا۔۔۔ شروع سے ہی اس کی ساس نزہت بیگم کو اس کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا پسند نہیں آتا تھا اور نہ ہی اس کے گھر کے کام کرنے کا انداز،،، جس کا وہ وقفے وقفے سے برملا سندیلا کے سامنے اظہار کرتی رہتی اور اس کے سامنے اپنے سگھڑاپے کی مثالیں پیش کرتی سندیلا خاموشی سے ان کی باتیں سن لیتی اس نے شادی کے شروع دن سے ہی اپنے دیور باسل اور نند فائقہ سے دوستانہ رویہ رکھنا چاہا تو اسے وہاں پر ان دونوں کی طرف سے نو لفٹ کا بورڈ ملا صرف اپنی ضرورت کے تحت فائقہ کبھی کبھار اسے منہ لگا لیتی مگر اپنا کام نکلتے ہی تو کون اور میں کون والا حساب ہوتا


اس کا دیور باسل عجیب لاپروا سی نیچر کا مالک تھا تعلیم مکمل ہونے کے باوجود وہ جاب کرنے سے دور بھاگتا، بس اس کا ایک ہی خواب تھا پاکستان سے باہر نکل کر کہیں بیرون ملک میں سیٹل ہونے کا اور وہ آۓ دن انہی کوششوں میں لگا رہتا۔۔۔ اس کی سب سے بڑی نند شادی شدہ تھی جو بلا ناغہ ہر ہفتے میکے آتی اور سندیلا کو عجیب انداز میں گھور گھور کر دیکھتی ان سب میں سندیلا کو بس احتشام کا ہی سہارا تھا جسے دیکھ کر وہ شکر ادا کرتی


مگر یہ شکر ادا کرنا چند عرصے تک ہی رہا،، جب سندیلا نے اس کے گھر کے دوسرے افراد کے رویوں کے بارے میں احتشام کو احساس دلایا تو احتشام نے الٹا اسے ہی سمجھایا کہ ایڈجسٹ اسی کو کرنا ہے تو برداشت بھی اسی کو کرنا ہو گا


شروع شروع میں احتشام اسے پاکٹ منی خود دے دیتا مگر چند ماہ بعد اسے احتشام سے مانگ کر اپنی پاکٹ منی لینی پڑتی مگر وہ اس سے کتنی بار خود منہ سے کہہ کر پیسے مانگتی اکثر احتشام اس کے سامنے اپنی ذمہ داریوں کا رونا روتا لیکن یہ حقیقت بھی تھا سارے گھر کی ذمہ داری اسی کے اوپر تھی۔۔۔ بھائی کو باہر بھیجنا چھوٹی بہن کی شادی کروانا وغیرہ وغیرہ


تب سندیلا نے جاب کرنے کا فیصلہ کیا، چند ماہ گزرنے کے بعد اسے اپنے سسرالی رشتے داروں سے معلوم ہوا کہ نزہت بیگم نے اسے اپنے رشتے داروں میں بانچھ مشہور کیا ہوا ہے تب سندیلا کو دلی طور پر بہت افسوس ہوا اور یہ بات اس نے احتشام سے بولی۔۔۔ جبکہ احتشام اسے شادی کی پہلی رات ہی بتا چکا تھا کہ وہ اتنی جلدی بچہ نہیں چاہتا مگر سندیلا کی ضد اور اپنی ماں کی حرکت پر اسے اپنے فیصلے کے خلاف جانا پڑا


سندیلا کو جب اپنی پریگنینسی کا معلوم ہوا تب اسے ایک انوکھی سی خوشی کا احساس ہوا مگر یہ خوشی احتشام کی شکل دیکھ کر اداسی میں مائل ہوگئی کیونکہ احتشام کی شکل دیکھ کر صاف لگ رہا تھا کہ اسے باپ بننے کی کوئی خاص خوشی نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ آگے آنے والے اخراجات کا سوچ کر ابھی سے ہی پریشان ہو رہا تھا شروع شروع میں سندیلا خاموشی سے برداشت کرتی مگر اب آہستہ آہستہ اس نے سسرال والوں کے سامنے اور پھر احتشام کے سامنے جواب دینے شروع کر دیے اسے اپنا قصور اتنا ہی سمجھ میں آتا کہ وہ اپنے آپ کو انسان سمجھتی تھی۔۔۔۔ افسوس سے واش روم کے بند دروازے کو دیکھ کر وہ نیچے گرے ہوئے اپنے کپڑے اٹھانے لگی


"ذرا جو احساس ہو اپنی بیوی کا کہ اس نے کھانا کھایا بھی ہے کہ نہیں بس بہن کی رونے کی فکر لاحق ہو گئی ہے"

بے دلی سے منہ ہی ممہ میں بڑبڑاتی ہوئی وہ اپنے کپڑے آئرن کرنے لگی


*****


صبح کا وقت تھا جب وہ قریبی پارک سے جاگنگ کرنے کے بعد واپس کاٹیج میں لوٹی پھولا ہوا سانس بحال کرنے کے بعد اس نے کچن کا رخ کیا۔۔ اس وقت فیض اور صنوبر اپنے بیڈ روم میں جبکہ شہنیلہ اپنے روم میں موجود تھی زینش نے کچن میں آکر اپنے لیے گلاس میں پانی نکالا اسے ذرا بھی احساس نہیں ہوا کہ اس کی پشت پر کوئی موجود ہے جیسے ہی اس نے گلاس اپنے ہونٹوں سے لگایا تو دو ہاتھوں نے اسے پیٹ سے پکڑ کر اٹھایا بوکھلاہٹ کی وجہ سے زینش کے ہاتھوں سے پانی کا گلاس چھوٹا


"ایڈی یہ کیا بدتمیزی ہے نیچے اتارو مجھے"

زینش غصے سے ایڈی کو دیکھتی ہوئی بولی جو شرارت میں آ کر اسے اونچا اٹھائے گول گول چکر دے رہا تھا


"اسٹاپ اٹ ایڈی یہ کیا بچپنا ہے چھوڑو مجھے"

اب کی بار زینش مزید چیخ کر بولی جس پر ایڈی نے ہنستے ہوئے اسے نیچے اتار دیا


"او سویٹ ہارٹ تم تو برا مان گۓ میں تو صرف مذاق کر رہا تھا"

ایڈی زینش کا غصے سے لال چہرہ دیکھ کر بولا وہ جن نظروں سے زینش کو دیکھ رہا تھا زینش کا دل چاہا وہ ایڈی کا منہ توڑ دے


"مجھے ایسے مذاق پسند نہیں ہے یہ مذاق تم اس گھر میں اس کے ساتھ کیا کروں جس سے تمہاری رشتہ داری ہے"

زینش سخت لہجے میں ایڈی کو دیکھتی ہوئی بولی اور کچن سے جانے لگی


"سویٹ ہارٹ ناراض تو مت ہو مجھ سے مانا کے رشتے داری میری صنوبر آنٹی سے ہے مگر میں یہاں پر صرف تمہارے لیے آتا ہوں۔۔۔۔ او اچھا تمہارے کپڑے خراب ہوگئے ہیں اس لیے مجھ پر غصہ ہو رہی ہو ایک منٹ میں انہیں صاف کر دیتا ہوں"

ایڈی نے بولتے ہوئے زینش کی شرٹ جو کہ سینے کی طرف سے پانی چھلکنے کی وجہ سے گیلی ہو گئی تھی، صاف کرنے کے لیے جیسے ہی اپنا ہاتھ بڑھایا ویسے ہی زینش نے سارا لحاظ بالائے طاق رکھ کر ایڈی کے منہ پر زور دار طمانچہ مارا


"تمہاری ہمت کیسے ہوئی ایڈی پر ہاتھ اٹھانے کی"

صنوبر کچن میں داخل ہوکر زینش پر بگڑتی ہوئی بولی جبکہ ایڈی سرخ گال پر ہاتھ رکھ کر زینش کو غصے سے دیکھ رہا تھا


"مامی یہ میرے ساتھ بدتمیزی"

زینش کے کچھ بولنے سے پہلے شہنیلہ بھی کچن میں آگئی


"زینش فورا معافی مانگو ایڈی سے"

شہنیلا ایڈی کا ٹماٹر کی طرح سرخ گال، صنوبر کا غصہ اور زینش کی خودسری دیکھ کر صورتحال کو خود سمجھ چکی تھی اس لیے وہ زینش کو دیکھ کر بولی


"معافی مانگنے کی بجائے اگر آپ مجھ سے یہ کہتی کہ اس کا دوسرا گال بھی سرخ کر دو تو میں آپ کی بات ضرور مان لیتی"

زینش اردو میں شہنیلا سے بولتی ہوئی کچن سے باہر چلی گئی ایڈی کو تو زینش کا بولا ہوا جملہ کچھ سمجھ میں نہیں آیا مگر صنوبر زینش کی بات سن کر آگ بگولا ہو گئی اور غصے میں شہنیلا کو دیکھنے لگی جو صنوبر سے نظریں چراتی ہوئی زینش اور اپنے مشترکہ روم میں چلی گئی


*****


ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ہیپی برتھ ڈے ٹو یو


رات کے بارہ بجتے ہی جویریہ کے بیڈ روم میں، ہاتھ میں کیک اور گفٹ پکڑے حسان اسے وش کرتا ہوا کمرے میں داخل ہوا اس کے پیچھے ہی بلال بھی تھا۔۔۔ جویریہ اپنے دونوں جوان جہاں بیٹوں کو دیکھ کر مسکرا اٹھی


"ہیپی برتھ ڈے امی"

حسان ٹیبل پر گفٹ اور کیک رکھ رہا تھا تب بلال نے بھی جویریہ کے پاس آکر اسے وش کیا


"بیٹا وش کرتے وقت ہی مسکرا دو، مجھے اچھا لگے گا آج کے دن اگر تم میرے لئے اپنے چہرے پر مسکراہٹ لاؤ گے"

جویریہ اپنے چھوٹے بیٹے کو دیکھ کر بولی جو کہ بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ مزید سنجیدہ ہوتا جا رہا تھا اب تو شاید ہی کسی بات پر اس کے چہرے پر مسکراہٹ آتی۔۔۔ مگر جویریہ کو تب خوشی ہوئی جب اس کے کہنے پر بلال مسکرایا،، جویریہ نے بلال کا چہرہ تھام کر اس کا سر نیچے کیا اور ماتھے پر بوسہ دیا۔۔۔ حسان سے دو سال چھوٹا ہونے کے باوجود اس نے قد کاٹھ حسان سے اچھا نکالا تھا


"اس مسکراہٹ کو اپنے چہرے سے جدا مت کیا کرو بلال،، یقین جانو یہ تمہارے چہرے پر سب سے خوبصورت اور قیمتی شے ہے"

جویریہ بلال کو دیکھ کر بولی جس پر وہ ایک بار پھر ہلکا سا مسکرایا اور جویریہ کو اپنا لایا ہوا گفٹ دینے لگا


"اور میری مسکراہٹ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے امی"

حسان مسکرا کر جویریہ کے پاس آتا ہوا اس سے پوچھنے لگا تو وہ بلال کا لایا ہوا گفٹ بیڈ پر رکھتی ہوئی مسکرا کر حسان کی طرف بڑھی


"تم تو میری جان ہو اس مسکراہٹ کو دیکھ کر ہی تو میں جیتی ہو"

اب وہ مکمل طور پر حسان کی طرف متوجہ ہو چکی تھی اس نے بلال کی طرح ہی حسان کے ماتھے پر بھی بوسہ دیا بلال ان دونوں کو مسکراتا ہوا دیکھنے لگا


"اور میں روز روز مسکراتا ہی اسی لیے ہوں تاکہ میری امی ہر پل ہر دم جی اٹھیں آپ کو معلوم ہے ناں آپ اس دنیا کی سب سے زیادہ اہم ہستی ہیں میرے لیے، یہ بات میں یہاں سے بول رہا ہوں"

حسان نے جویریہ کا ہاتھ تھام کر اپنے دل پر رکھا جس پر جویریہ مسکرا اٹھی اب حسان جویریہ کا ہاتھ تھام کر اسے ٹیبل کے پاس لے کر جارہا تھا جہاں کیک ان کا منتظر تھا


"کیا ہوا بلال کیا تمہیں یہاں پر بلانا پڑے گا"

حسان کے بولنے پر بلال بھی ان دونوں کے پاس آیا


جویریہ نے کیک کاٹا اور کیک کا بڑا سا پیس حسان کی طرف بڑھایا جسے کھانے کے بعد حسان اب جویریہ کو کیک کھلا رہا تھا ایسے ہی بلال نے بھی جویریہ کو کیک کھلایا۔۔۔ جویریہ جانتی تھی کہ چوکلیٹ کیک بلال کو بچپن سے ہی پسند نہیں ہے اسی وجہ سے اس نے کیک صرف حسان کو کھلایا تھا


"اچھا یہ بتاؤ کہ اس پیکٹ میں کیا ہے"

جویریہ کی توجہ اب حسان کے لائے ہوئے گفٹ کی طرف تھی جو کہ ٹیبل پر موجود تھا وہ حسان کو دیکھ کر پوچھنے لگی جو کہ صوفے پر بیٹھا ہوا نائف کی مدد سے کیک کا چھوٹا حصہ کاٹ رہا تھا


"آپ خود ہی کھول کر دیکھ لیں"

حسان مصروف انداز میں بولا تو جویریہ حسان کا دیا ہوا گفٹ کھولنے لگی جس میں ایک بڑا فوٹو فریم تھا اس میں جویریہ کی تصویر موجود تھی جو کہ کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی حسان اور بلال اس کے دائیں اور بائیں جانب کھڑے تھے


"اس سے زیادہ شاندار گفٹ تو اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا میری نظر میں"

جویریہ ستائشی نظروں سے تصویر کو دیکھ کر بولی


بلال کی نظریں بیڈ پر موجود اپنے لاۓ گفٹ پر گئی جس میں ایک بلیک ڈائمنڈ کا نیکلس موجود تھا اس نے خاص طور پر آرڈر دے کر یہ جویریہ کے لیے بنوایا تھا


"میں سونے جا رہا ہوں ورنہ صبح کے لیے لیٹ ہو جاؤں گا"

بلال ان دونوں کو دیکھے بغیر بولا اور کمرے سے باہر نکل گیا


****

"بدر کی آفر قبول کیوں نہیں کی تم نے یہ تمہارے پاس سنہری موقع تھا تمہارا فیچر بن سکتا تھا اگر تم اس کے انڈر کام کرتے تو بہت جلد اپنی صلاحیتوں سے اس کے رائٹ ہینڈ بن جاتے"

معظم اس وقت قاسم کے آفس میں موجودہ تھا قاسم معظم کو دیکھ کر بولا اس کے نزدیک معظم نے ایک اچھا موقع ہاتھ سے جانے دیا تھا


"اگر یہ واقعی سنہری موقع ہوتا تو میں اسے ہاتھ سے ہرگز نہیں جانے دیتا جسے آپ سنہری موقع سمجھ رہے ہیں ایسے کئی موقع معظم کی زندگی میں آئے ہیں اور چلے گئے ہیں آپ بھی جانے دیجئے بات کو۔۔۔ یہ بتائیے کہ آپ نے کس کام کے لیے مجھے یاد کیا ہے"

معظم نے قاسم سے اس کے بلانے کی وجہ پوچھی اور جیب میں سے سگریٹ کا پیکٹ نکالنے لگا۔ ۔۔۔ بے شک اس کے کپڑے پرانے اور گھسے ہوئے ہوتے مگر سگریٹ وہ ہمیشہ اچھے برانڈ کی پیتا تھا


"محمد غنی پرائیویٹ اسکول کا ایک پرنسپل ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ اس اسکول کی زمین کا وہی مالک ہے ہمیں اپنا کاروبار کرنے کے لیے زمین کا وہ ٹکڑا چاہیے جہاں اس کا اسکول موجود ہے۔۔ شریفانہ طریقے سے ایک پرکشش رقم کی آفر میں اس کو کر چکا ہوں مگر شرافت کی زبان شاید اس کے سر پر سے گزر چکی ہے اس لئے سوچا تم اس کے پاس جا کر اسے اپنی زبان میں سمجھا دو"

قاسم اسے اپنے پاس بلانے کا سبب بتانے لگا جو کہ معظم اسموکنگ کرتا ہوا غور سے سن رہا تھا


"اسکول کا نام"

سگریٹ کا دھواں ہوا میں چھوڑتا ہوا وہ قاسم سے پوچھنے لگا قاسم اسے مزید ڈیٹیل بتانے لگا


"صحیح ہے آپ کا کام ہو جائے گا"

بنا کوئی فضول بات کیے وہ قاسم سے بولتا ہوا کرسی سے اٹھا اور اس کے آفس سے باہر نکل گیا


****


"جی مس شبنم مسٹر احتشام کو سمع برادرز کے پروجیکٹ والی فائل کے ساتھ ذرا میرے روم میں بھیجے"

حسان نے اپنی سیکرٹری کو بول کر ریسیور کو کریڈل پر رکھا تھوڑی دیر بعد احتشام ہاتھ میں فائل لیے حسان کے کمرے میں آیا


"آؤ احتشام بیٹھو۔۔۔ ذرا مجھے نئے پروجیکٹ کے ڈیٹیلز کے بارے میں بتاؤ اور یہ سائیڈ پر کام اسٹارٹ ہو گیا ہے کہ نہیں"

حسان اپنے سامنے بیٹھے احتشام کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا


"جی سر کام تو پرسوں ہی شروع ہو گیا تھا کھدائی کا کام جاری ہے،، آپ تین سے چار دن بعد وزٹ کرکے دیکھ سکتے ہیں اور کام میں جو لاگت آئی ہے اس کی اماؤنٹ یہ ہے"

احتشام نے فائل میں سے ایک پیپر پر نکال کر حسان کو تھمایا جسے وہ دیکھنے لگا


"سمینٹ کی کتنی بوریاں منگوائی گئی ہیں"

پیپر پر درج ذیل رقم دیکھ کر حسان احتشام سے پوچھنے لگا


"سر ابھی فی الحال 500 بوریاں منگوائی ہیں"

احتشام حسان کے چہرے کے زاویے دیکھتا ہوا اسے بتانے لگا


"ٹھیک ہے ابھی فی الحال 300 بوریاں سائیٹ پر بھجوا دینا اور سریا خریدنے کی ضرورت نہیں ہے پرویز سے بات کر لو وہ گودام میں موجود سریا دو دن بعد سائیٹ پر بھجوا دے گا"

حسان اماؤنٹ والا پیپر اپنے میز کی ڈراز میں رکھتا ہوا احتشام سے بولا


"مگر سر وہاں پر چھ سو سیمنٹ کی بوریوں کی ضرورت درکار ہے اس کے باوجود یہاں پر 500 بوریاں لکھی گئی ہیں"

احتشام نے حسان سے بولا تو اس کے چہرے کے تاثرات ایک دم سخت ہوئے


"جتنا کہا گیا ہے احتشام اتنا کرو اب تم جا سکتے ہو"

حسان کے بولنے پر احتشام اس کے کمرے سے نکل آیا


"کیا ہوگیا موڈ کیو آف ہے میرے بھائی"

احتشام حسان کے کمرے سے نکلا تو طٰہ اس سے پوچھنے لگا


"یار دیکھنے میں حسان صاحب اچھے بھلے انسان لگتے ہیں لیکن اتنے بڑے بڑے ہاتھ مارتے ہیں کہ کیا بتاؤں ابھی جو کانٹریکٹ ملا ہے اس کے ساتھ انہیں اچھی خاصی ایک بڑی رقم ملی ہے مگر پھر بھی آدھی سیمنٹ کی بوریاں غائب کروا دی"

احتشام کے بتانے پر طٰہ ہنسنے لگا


"میرے بھائی یہ دور ہی ایسا ہے یہاں ہر کوئی اپنا فائدہ دیکھ کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا سوچتا ہے اب تم بھی اپنے آپ کو ہی دیکھ لو ایک فائل کو آگے پہنچانے کے لئے تم نے بھی پانچ ہزار روپے لیے تھے اس آدمی سے وہ جو پرسوں تمہارے پاس آیا تھا۔۔۔ تم نے اس دن اپنے لیول کی کرپشن کی، حسان صاحب اپنے لیول کی کرپشن کر رہے ہیں یہ سمجھ لو کہ ہر بندہ ہی اپنے اپنے لیول کی کرپشن کرتا ہے"

طٰہ کی بات سن کر احتشام بالکل خاموش ہو گیا اور ٹیبل پر رکھی اپنی فائل دیکھنے لگا


****


"کیا ضرورت تھی تمہیں ایڈی کے منہ پر تھپڑ جڑنے کی وہ چوڑیل صنوبر تمہاری مامی، اس نے فیض کو خوب نمک مرچ لگا کر تمہارا کل کا کارنامہ بتایا ہے۔۔۔ معلوم ہے کل تمہارے کیفے جانے کے بعد فیض کتنا ہنگامہ کر رہا تھا گھر میں،، ایک تو ویسے ہی آدھا رینٹ دینے کے باوجود یہاں پر اتنی باتیں سننی پڑتی ہیں اوپر سے تم اور مسئلہ پیدا کر دو،، اپنے خود کے لئے بھی اور میرے لئے بھی"

شہنیلا گھر میں رہ کر زینش کو اتنی باتیں نہیں سنا سکتی تھی اس لئے وہ آج صبح فلاور شاپ جانے سے پہلے اس کو واک کرنے کا کہہ کر گھر کے قریبی پارک لے کر آئی تھی اور اس وقت زینش بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی جبکہ شہنیلا اس کے سامنے کھڑی اردو میں اس سے سخت لہجے میں مخاطب تھی


"ماما ایڈی نے ایسا کوئی کارنامہ نہیں کیا تھا جو میں اسے ایوارڈ دیتی اس نے تھپڑ کھانے والے کام ہی کیا تھا اور فیض ماموں انہیں تو شرم آنی چاہیے ایڈی ان کی بیوی سے کیسے فضول انداز میں بات کر رہا ہوتا ہے جسے سن کر فیض ماموں کو غصہ آنا چاہیے مگر وہ ایڈی کی فضول باتوں کو انجوائے کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔ ماما پلیز آپ میری بات مان لیں یہاں رہتے ہوئے ہمیں واقعی آگے بھی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ہم واپس پاکستان چلتے ہیں وہاں کوئی چھوٹا موٹا فلیٹ رینٹ پر لے لیں گے،، آپ اور میں مل کر کوئی جاب کر لیں گے،، ہم دونوں ہی پاکستان میں بغیر کسی مصیبت کے آسانی سے رہ سکتے ہیں"

زینش نے آخری بات بڑے لجاحت بھرے انداز میں بولی جسے سن کر شہنیلا ایک دم بھڑک گئی


"کونسی حسین یادیں جڑی ہیں پاکستان سے ہماری جو تم وہاں پر واپس جانے کی بات کر رہی ہو،، وہاں تو جیسے بہت شریف اور ادب کرنے والے مرد موجود ہیں بھول گئی ہو کیا وہاں پر دو سال پہلے تمہارے ساتھ کیا ہوا تھا۔۔۔۔ اکیلی عورتیں کہیں پر بھی رہیں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے دیکھو زینش تم بات سمجھنے کی کوشش کرو ایڈی کو تھوڑا بہت سمجھو اسے دوسری نظر سے دیکھو وہ اتنا برا نہیں ہے اگر تم اس کے ساتھ چند دن اس کا فلیٹ شیئر کر لوں گی تو وہ تم سے شادی بھی کرلے گا"

شہنیلہ اب زینش کو اپنا نظریہ سمجھانے کی کوشش کرنے لگی تو زینش بینچ سے اٹھ کر شہنیلہ کے سامنے آئی


"آپ اپنا مقام اور مرتبہ میری نظروں سے مت گرائے ماما۔۔۔۔ جانتی ہیں آپ اپنی سگی بیٹی کو کیا کہہ رہی ہیں ایک نان مسلم ایک نامحرم لڑکے کے ساتھ بناء کسی رشتے کے رہنے کی بات کر رہی ہیں آپ۔۔۔ آخر کیسے گوارا کر سکتی ہیں آپ، کہ میں بغیر کسی تعلق کے ایک لڑکے کے ساتھ اس کے فلیٹ میں رہو"

زینش نے چاہا کہ وہ شہنیلا کو اس کی بات پر تھوڑی سی شرم دلائے مگر وہ بھول چکی تھی کہ اس عمر میں اسکی ماں خود ایک عدد بوائے فرینڈ رکھی ہوئی ہے بھلا اسے شرم کہاں آنی تھی


"اب میں تم سے سمپل اور سیدھی بات کرتی ہو ہیری نے فیض سے صاف کہہ دیا ہے کہ تم جب تک ایڈی کے ساتھ اس کا اپارٹمنٹ شیئر نہیں کرو گی تو وہ اپنے بیٹے کے تپھڑ کو نہیں بھولے گا اور فیض نے ہم دونوں کو اپنے ساتھ رکھنے کی یہی شرط رکھ چکا ہے پلیز زینش سمجھنے کی کوشش کرو مان جاؤ میری بات"

شہنیلہ کی بات سن کر زینش ہتھے سے اکھڑ گئی


"تو وہ بے شرم انسان اپنے تھپڑ کا بدلہ مجھ سے یوں لے گا۔۔۔ شرم آ رہی ہے مجھے آپ پر اور فیض ماموں پر، آپ سب مل کر مجھے یوں پریشرایز نہیں کر سکتے ہیں، ٹھیک ہے اب میں خود ہی اپنا کہیں اور بندوبست کر لیتی ہو مگر اس منحوس انسان کے ساتھ اس کے اپارٹمنٹ میں تو کبھی بھی نہیں رہوں گی"

زینش غصے کے باوجود آنکھوں میں نمی لئے بھرائی ہوئی آواز میں بولی اس کے آنسو دیکھ کر ایک پل کے لئے شہنیلا کے دل کو کچھ ہوا آخر کو وہ بیٹی تھی اس کی


"اچھا اس طرح پریشان مت ہو میں کچھ نہ کچھ سوچتی ہوں بس اب تم فیض یا صنوبر کے منہ مت لگنا بلاوجہ میں۔ ۔۔۔ کیا مسئلہ ہے اب کچھ نہ کچھ تو سوچنا ہی پڑے گا"

شہنیلہ زینش سے پریشان ہوتی ہوئی بولی اور پھر کچھ سوچنے لگے


*****


رات کے ڈنر کے بعد سیٹنگ ایریا میں بلال اور حسان دونوں ہی موجود تھے بلال ایل ای ڈی پر بڑی اسکرین پر کوئی ٹاک شو کا پروگرام دیکھنے میں مگن تھا جبکہ حسان صوفے سے اپنا سر ٹیک کر کنپٹی دبا رہا تھا تبھی وہاں پر جویریہ آئی


"کیا ہوگیا ہے حسان تمہیں"

اسے کنپٹی دباتا ہوا دیکھ کر جویریہ فکر مندی سے پوچھنے لگی۔۔۔ اس کی آواز میں چھلکتی ہوئی فکر پر بلال نے بھی اسکرین سے نظر ہٹا کر حسان کو دیکھا


"کچھ نہیں امی ہلکا سر درد کر رہا ہے" حسان نے لاپرواہ انداز میں جواب دیا تو جویریہ اس کے پاس ہی بیٹھ گئی جبکہ بلال دوبارہ ایل ای ڈی کی اسکرین کی طرف متوجہ ہو گیا


"معلوم نہیں کن چکروں میں پڑے رہتے ہو تم دونوں بھائی صبح افس جانے کے ٹائم پر اس کا بھی سر درد کر رہا تھا اور اب تم سر درد کا بول رہے ہو"

جویریہ ابھی بھی فکرمند لہجے میں بولی یہ بات صحیح تھی کہ صبح آفس جانے سے پہلے ناشتے کی ٹیبل پر بلال کی سرخ آنکھیں دیکھ کر جویریہ نے بلال سے اس کی طبعیت پوچھی تھی تب اسے معلوم ہوا کہ اس کا سر درد کر رہا ہے جس پر جویریہ نے ملازم سے کہہ کر اس کے لیے پین کلر منگوائی تھی اور ابھی وہ حسان کا سر اپنی گود میں رکھ کر دبا رہی تھی


"کن چکروں میں پڑنا ہے ہم دونوں بھائیوں کو امی، آپ کے دونوں بیٹے ہی بہت زیادہ شریف ہیں صبح گھر سے سیدھا آفس، آفس سے سیدھا گھر، کیا یہ شریف لڑکوں کی نشانی نہیں"

حسان جویریہ کی گود میں سر رکھ کر آنکھیں بند کیا ہوا بولا جس پر جویریہ مسکرا دی۔۔۔ ان دونوں کو باتوں میں مگن دیکھ کر بلال کمرے سے جانے لگا


"بلال کہاں جارہے ہو بیٹھو بات کرنا ہے مجھے"

بلال کو کمرے سے جاتا ہوا دیکھ کر جویریہ ایک دم بولی جس پر بلال رک کر اسے دیکھنے لگا


"کیا کوئی ضروری بات ہے"

وہ واپس صوفے پر بیٹھتا ہوا جویریہ سے پوچھنے لگا یقینا کوئی کام کی بات ہوگی تبھی جویریہ نے اسے روکا تھا ورنہ وہ اس کے اسطرح جانے کا کم ہی نوٹس لیتی تھی


"بات کوئی اتنی ضروری بھی نہیں تھی مگر تم بھی گھر کے فرد ہو گھر میں کیا ہو رہا ہے کیا نہیں تمہیں بھی معلوم ہونا چاہیے" جویریہ اس کے ہر معاملے پر لاتعلقی برتنے پر بلال کو احساس دلاتی ہوئی بولی


"گھر میں کیا ہو رہا ہوتا ہے کیا نہیں سب دکھ رہا ہوتا ہے مجھے میں اندھا نہیں ہوں،، خیر کیا کہنا چاہ رہی ہیں آپ وہ بولیں"

اب وہ ایسا ہی ہوتا جا رہا تھا جانے کب اسے کونسی بات بری لگ جاتی سامنے والے کو معلوم ہی نہیں ہوتا تھا حسان اس کی بات سن کر اٹھ کر بیٹھ گیا جبکہ جویریہ اس کا طنزیہ لہجہ اگنور کرتی ہوئی بولی


"میری دوست شہنیلا جو پنڈی میں رہتی تھی، معلوم نہیں وہ تم دونوں کو یاد بھی ہے کہ نہیں"

آج دو سال بعد جویریہ کے پاس اس کی کال آئی تھی شہنیلا کے شوہر کے انتقال کے بعد جویریہ کی آج شہنیلہ سے بات ہوئی تھی


"وہی نہ جن کے ہسبینڈ کی دو سال پہلے ڈیتھ ہو گئی تھی"

حسان یاد کرتا ہوا جویریہ سے پوچھنے لگا یہ تو بلال کو بھی یاد آ گیا مگر وہ خاموش ہی بیٹھا رہا


"ہاں وہی، آج اس کی کال آئی تھی میرے پاس ویسے تو رضوان بھائی کی ڈیتھ کے بعد وہ اپنے بھائی فیض کے پاس زینش کو لے کر نیویارک چلی گئی تھی مگر اب اسے وہاں پر کچھ مسئلہ درپیش آ رہے ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنی بیٹی زینش کو یہاں پاکستان بھیجنا چاہتی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ یہاں پر کسی دوسرے پر بھروسا نہیں کر سکتی ہے جوان بیٹی ہے اس کی، کافی فکر مند اور پریشان لگ رہی تھی وہ بات کرتے ہوئے۔۔۔ مجھ سے کہہ رہی تھی اگر چند ماہ زینش میرے پاس رہ لے تو میں اس کی بات کو ایگری کر چکی ہو تو سوچا تم دونوں سے بھی شیئر کر لو"

جویریہ آج صبح شہنیلا سے ہوئی بات حسان اور بلال کو بتانے لگی


"ہاں تو اس میں مسئلہ کیا ہے اچھا بڑا گھر ہے ہمارا ان کی بیٹی کیا وہ خود بھی یہاں آکر رہ لیں اس میں کیا پرابلم ہے"

حسان کندھے اچکاتا ہوا بولا تو جویریہ بلال کو دیکھنے لگی


"بڑا گھر ہونے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ کوئی بھی ایرا غیرہ یہاں آکر رہنے لگ جائے"

بلال حسان کی بات سن کر اسے دیکھتا ہوا بولا


"مجھے اندازہ تھا تمہیں مسئلہ ہوگا" جویریہ بہت نرمی سے بلال کو دیکھتی ہوئی بولی جس پر بلال جویریہ سے بولا


"امی شہنیلا آنٹی اگر واقعی کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتی تو پھر وہ کیسے اپنی جوان بیٹی کو ایک ایسے گھر بھیج رہی ہیں جہاں پہلے سے ہی دو جوان لڑکے رہتے ہیں ایسا تو نہیں ہے ان کے اپنے ریلیٹو یا پھر ان کے ہسبنڈ کے ریلیٹو یہاں پر موجود نہ ہو۔۔۔۔ اور اگر ایسا ہے بھی تو ہوسٹل کا آپشن بھی موجود ہے۔۔۔ لیکن اگر آپ ان کی بات کو ایگری کر چکی ہیں تو پھر یہ ایسی کوئی خاص بات نہیں تھی جس کے لئے اسپیشلی آپ ہمیں بتاتی"

بلال بولتا ہوا صوفے سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا


زیادہ تر ایسا ہی ہوتا ہے حسان اور جویریہ کی باتوں سے اکثر اسے اختلاف ہوتا بلال کے جانے کے بعد جویریہ حسان کو دیکھنے لگی جو اس کا ہاتھ تھام کر مسکراتا ہوا اسے دیکھنے لگا


****


"چلو یار اب اپنا موڈ تو ٹھیک کرلو میں تمہیں تمہارے من پسند ریسٹورنٹ میں لے کر آیا ہوں"

احتشام کھانا آرڈر کرنے کے بعد سندیلا کو دیکھتا ہوا بولا جو دو دن سے اس سے بالکل بھی بات نہیں کر رہی تھی۔۔۔ اس لئے وہ گھر والوں کے سامنے یہ ظاہر کرکے کہ وہ اور سندیلا اس کے دوست کے گھر جا رہے ہیں احتشام سندیلا کو ریسٹورنٹ لے کر آ گیا تھا


"وہ بھی اپنے گھر والوں سے جھوٹ بول کر، شام کیا آپ ساری زندگی ایسے ہی چھپ چھپ کر غلط بیانی کرکے مجھے کہیں لے کر جائیں گے۔۔۔ آخر ہم دونوں کو اکیلے کہیں آنے جانے کی آزادی کیوں نہیں ہے"

سندیلا احتشام کو دیکھتی ہوئی شکوہ کرنے لگی گھر میں کسی دوسرے کو شک نہ ہو کہ وہ رات کا کھانا باہر کھا کر آئیں گے، وہ نہ صرف گھر میں خود کھانا بنا کر آئی تھی بلکے تھوڑا بہت کھا کر یہاں احتشام کے ساتھ آئی تھی اور جانتی تھی گھر جانے کے بعد کچن میں جھوٹے برتن اسی کے منتظر ہوگے"


"اب تم یہاں آ کر اس بات کو ایشو بنا کر بیٹھ گئی ہو، یار اچھا نہیں لگتا ہے بہن بھائی ماں گھر پر کھانا کھائیں اور میں بیوی کو لے کر سیر سپاٹوں پر نکلا ہوں"

احتشام سندیلا کو دیکھ کر سنجیدگی سے سمجھاتا ہوا بولا تو سندیلا حیرت سے اسے دیکھنے لگی


"آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں شام جیسے ہم ہر دوسرے دن سیر سپاٹو کے لیے نکل پڑتے ہیں شادی کے ان دو سالوں میں، میں انگلیوں پر گن کر بتا سکتی ہو کہ آپ مجھے کتنی بار گھر سے باہر اکیلے لے کر آئے ہیں وہ بھی اپنے گھر والوں سے چھپ کر اور ایسی بات تو نہیں ہے شام کے آپ صرف مجھے ہی ڈنر پر لے کر آئے ہیں پچھلی دو بار آپ مجھے گھر چھوڑ کر اپنے تمام گھر والوں کو ڈنر پر لے کر گئے تھے تب میں نے برا نہیں مانا تھا"

سندیلا احتشام کو جتانے کے بعد اسے پرانی بات یاد دلاتی میں بولی


"تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے گھر پر بھوکی بیٹھی رہی تھی پھر وہاں سے کھانا بھی تو پیک کروا کے لایا تھا تمہارے لیے اور تمہیں گھر پر چھوڑ جانے کا فیصلہ میرا نہیں امی کا تھا وہ تمہاری اس حالت میں باہر جانے کو منع کر رہی تھی خیر یہ پرانی باتیں ہیں ان کو چھوڑو۔۔۔ میرا موڈ بہت اچھا ہے اس لیے اپنا موڈ بھی اچھا کرلو"

احتشام سندیلا کو دیکھتا ہوا بولا اور پھر مسکرایا آج وہ واقعی فریش دکھ رہا تھا


"اگر آپ کا اچھا موڈ ہے تو پھر میرا موڈ خود ہی اچھا ہو جائے گا"

سندیلا بھی ساری باتوں کو فراموش کرکے مسکراتی ہوئی احتشام سے بولی


"اگر اچھا نہیں ہوگا تو میں خود اچھا کر دوں گا"

احتشام نے ٹیبل پر رکھا ہوا سندیلا کا ہاتھ پکڑا تو سندیلا بلش کرتی ہوئی مسکرائی، کیو کہ پبلک پلیس میں ایسی بے باکی کے مظاہرے وہ بہت ہی کم کرتا تھا لیکن آج احتشام کو خوش دیکھتے ہوئے سندیلا نے سوچا کہ وہ احتشام سے وہ بات بھی شیئر کر دے جو بات اس نے احتشام سے چند ماہ سے چھپائی ہوئی تھی


****

"ماما آج آپ مجھے یہ بات سچ سچ بتا دیں کہ میں آپ کی سگی اولاد ہو یا پھر آپ نے مجھے کسی سے لے کر پالا ہے"

شہنیلا کو جوزف سے ملنے کے لیے جانا تھا جس کے لئے وہ اچھا سا تیار ہو رہی تھی تب کمرے میں زینش آتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی۔۔۔ اس کا لہجہ ہی نہیں بلکہ آنکھیں بھی نم تھی


"آف کورس میری اولاد ہو تم ڈارلنگ تمہیں نو ماہ تک اپنے وجود کے اندر رکھا ہے اس بات کے لئے تمہیں کسی بھی قسم کے شک و شبہات میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے"

شہنیلا دیوار میں نسب آئینے میں دیکھ کر آنکھوں میں آئی شیڈ لگاتی ہوئی مصروف انداز میں بولی زینش چلتی ہوئی شہنیلا کے پاس آئی اور شیڈز اس کے ہاتھ سے لے کر چھوٹی سی ٹیبل پر پٹخ دیے


"فیض ماموں اور صنوبر مامی چند منٹ پہلے میرے فیصلے کو سراہتے ہوئے گھر سے باہر اپنے فرینڈ کی پارٹی میں جانے کے لیے نکلے ہیں۔۔۔۔ بقول فیض ماموں کی کہ میں نے نیکسٹ ویک یعنی سیٹرڈے کو ایڈی کے ساتھ اس کا اپارٹمنٹ شیئر کرنے کا ایک معقول فیصلہ کیا ہے جس میں ایسی کوئی خاص برائی نہیں۔۔۔۔ ایسا مجھ سے فیض ماموں نے کہا ہے کیا یہ بات فیض ماموں کو آپ نے بولی کہ میں ایڈی کے ساتھ اس کا اپارٹمنٹ شیئر کرنے کے لئے تیار ہوں"

زینش نم آنکھوں کے ساتھ اب شہنیلا کو دیکھ کر پوچھنے لگی


"پھر تم نے سے کیا کہا زینش۔ ۔۔ میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ اپنا منہ بند رکھنا ان دونوں میاں بیوی کے سامنے، میرا بنا بنایا پلان خراب تو نہیں کر دیا تم نے بیوقوف لڑکی"

غصے کے باوجود شہنیلا بہت احتیاط سے بولی کہیں اس کا بیس خراب نہ ہو جائے


"کون سے پلان کی بات کر رہی ہیں آپ آخر کیا چل رہا ہے آپ کے دماغ میں ماما پلیز مجھے بتائیں"

زینش کو اب اپنے لیے فکر کے ساتھ ساتھ پریشانی بھی لاحق ہو چکی تھی شہنیلا اس کا ہاتھ تھام کر اسے صوفے پر بٹھانے لگی


"فیض اور صنوبر دونوں ہی غصے میں تھے اور ساتھ ہی اس بات پر بضد تھے کہ میں تمہیں ایڈی کے ساتھ اس کا اپارٹمنٹ شیئر کرنے کے لیے راضی کروں تو میں نے ان دونوں کو مطمئن کرنے کے لئے بول دیا کہ تم ایڈی کے ساتھ نیکسٹ سیٹرڈے کو اس کا اپارٹمنٹ شیئر کرنے کے لیے ایگری ہو۔۔۔ آنکھیں مت دکھاؤ مجھے پہلے میری بات مکمل ہونے دو"

شہنیلا اس کے آنکھیں دکھانے پر زینش کو ٹوکتی ہوئی بولی چند سیکنڈ کی خاموشی کے وقفے کے بعد وہ دوبارہ بولنے لگی


"پاکستان میں میری ایک دوست ہے جویریہ شاید تمہیں یاد ہو چند سال پہلے جب میں، تم اور رضوان کراچی گئے تھے تب ملاقات ہوئی تھی میری اس سے"

شہنیلا اس کو یاد کرواتی ہوئی بولی


"وہی جن کے دو بیٹے تھے"

زینش کو یاد آیا جب وہ سیون اسٹینڈرڈ میں تھی تب وہ رضوان اور شہنیلا کے ساتھ کراچی گئی تھی جہاں شہنیلا ایک دن اپنی دوست سے ملنے گئی تھی ان کا ایک بیٹا تو نارمل اور خوش اخلاق طریقے سے ملا تھا جبکہ دوسرا تھوڑا مغرور سا لگا تھا لیکن یہ شہنیلا کا خیال تھا کہ وہ مغرور تھا، زینش کو مغرور کم اور پاگل زیادہ لگا تھا جو اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھے زبردستی سلام کرنے آیا تھا


"ہاں بالکل وہی حسان اور بلال کی بات کر رہی ہوں میں۔۔۔۔ اب میری بات غور سے سنو میں نے اندر ہی اندر تمہارے پاکستان جانے کا سب ارینج کردیا ہے اور جویریہ سے بھی بات کر لی ہے پاکستان پہنچ کر تم اسی کے گھر میں رہوں گی، چند ماہ تک جب تک تم وہاں پر سیٹل نہ ہو جاؤ، پھر ہم بعد میں ڈیسائڈ کر لیں گے کہ آگے کیا کرنا ہے۔۔۔۔ اب اس بات کی بھنک فیض یا پھر صنوبر میں سے کسی کو بھی نہیں پڑنی چاہیے ورنہ تم اپنے فیض ماموں کی نیچر سے اچھی طرح واقف ہوں۔۔۔ بے فیض لوگوں سے اسے کوئی سروکار نہیں ہوتا جس دن اسے یہ معلوم ہو گیا کہ تم یہاں سے واپس پاکستان جا رہی ہوں وہ لازمی کو سخت اقدامات اٹھائے گا"

شہنیلا زینش کو ساری بات سمجھاتی ہوئی بولی جس پر زینش ایک دم پریشان ہوگئی


"ماما مگر میں اکیلے پاکستان کیسے جا سکتی ہیں وہ بھی ایسے گھر میں جہاں پر دو لڑکے موجود ہوں آپ کیوں نہیں چل رہی ہیں میرے ساتھ اور آپ فیض ماموں کو اکیلے کیسے سنبھالیں گی جب انہیں یہ معلوم ہوگا کہ میں پاکستان روانہ ہو چکی ہوں وہ تو پھر بہت غصہ کریں گے آپ پر"

زینش واقعی پریشان ہو چکی تھی اس کے دماغ میں نہ جانے کون کون سے سوالات اٹھ رہے تھے


"او زینش یہ پاکستان جانے کی ضد تم نے ہی لگائی تھی اب جبکہ میں نے وہاں تمہاری رہائش کا مسئلہ بھی حل کردیا تو تمہیں وہاں پر ان دو لڑکوں کی ٹینشن ستانے لگ گئی، ان دو لڑکوں کے ساتھ ان کی ماں بھی تو وہاں پر موجود ہو گی ناں بلکہ یہ اچھا نہیں ہوگا کہ ان میں سے تم کسی ایک کو شیشے میں اتار لوں اور ہمیشہ کے لئے اسی گھر میں سیٹ ہو جاؤں۔۔۔ جویریہ کا تو مجھے معلوم ہے وہ کافی بیوقوف ہے میرا مطلب ہے رحم دل ٹائپ کی عورت ہے۔۔۔۔ بغیر جوتی گھسے بیٹھے بٹھائے اسے خوبصورت لڑکی بہو کی صورت فری میں مل جائے گی وہ تو ایسے ہی خوش ہو جائے گی"

شہنیلا کا مشورہ سن کر زینش افسوس سے اپنی ماں کو دیکھنے لگی


"آپ کو معلوم ہے کہ مجھے یہ سب کرنا نہیں آتا۔۔۔ میں ایسا نہیں کر سکتی"

زینش شہنیلا کو دیکھتی ہوئی بولی مگر ساتھ ہی اس کے ذہن میں کئی اور باتیں چل رہی تھی


"مجھے معلوم ہے تم ایسا کر سکتی ہو کیو کہ تم میری بیٹی ہو، ایسے کیوں دیکھ رہی ہو مجھے میں تمھیں کچھ غلط کرنے کے لئے تھوڑی کہہ رہی ہو تمہیں یہ مشورہ نہیں دے رہی ہوں کہ تم ان سے چیٹنگ کرو یا فراڈ کرو دیکھو زینش اکیلے رہنا سب کچھ مینج کرنا ایک لڑکی کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے، تو یہ اچھا نہیں ہوگا کہ تم اپنی گڈ نیچر کے ساتھ تھوڑی بہت خدمات پیش کرو اور وہاں رہ کر سب کے دلوں میں اپنی جگہ بناؤ اور پلیز وہاں پر کسی کو بھی رضوان کی موت کی اصل وجہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے یہ بات میری ہمیشہ یاد رکھنا۔۔۔۔ ماضی کی تلخ یادوں پر مٹی ڈال دو اور ایک نئی زندگی کی شروعات کرو"

شہنیلا گھڑی میں ٹائم دیکھنے کے ساتھ ساتھ مزید زینش کا برین واش کرنے لگ گئی اگر زینش جویریہ کے گھر میں ہمیشہ کے لیے ایڈجسٹ ہو جاتی تو اس کی ٹینشن ہی ختم ہوجاتی


"پہلے آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کیوں نہیں چل رہی ہیں میرے ساتھ پاکستان"

زینش ساری باتوں کو نظر انداز کرتی ہوئی وہ سوال شہنیلا سے پوچھنے لگی جو سب سے زیادہ اسے پریشان کر رہا تھا جس پر شہنیلا نظریں چراتی ہوئی اسے بتانے لگی


"جس دن تمہاری پاکستان کی فلائٹ ہو گی اس دن میں نے اور جوزف نے کوٹ میرج کرنے کا پروگرام بنایا ہے اب اتنا افسوس سے مجھے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے شادی کرنے سے پہلے ہی وہ اسلام قبول کر لے گا"

شہنیلا کی بات سن کر زینش خاموشی سے اسے دیکھنے لگی شہنیلا ایک بار پھر اس کے پاس سے اٹھ کر آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر میک اپ کرنے میں مصروف ہو گئی


*****


"اف سندیلا تمہاری باتیں سن کر تو میرا دماغ گھوم گیا ہے تم برداشت کیسے کر لیتی ہو آخر ایسے گھٹیا لوگوں کو اور احتشام بھائی مجھے تو رہ رہ کر ان پر بھی غصہ آ رہا ہے یعنی پڑھ لکھ کر بھی وہی جاہلوں والی سوچ"

اس وقت آف ٹائم ہو گیا تھا اور اسکول تقریبا خالی ہوچکا تھا وہ دونوں بھی اپنی اپنی کلاس روم سے باہر نکل رہی تھی تب سندیلا کی بات سن کر سحرش دبے دبے غصے میں بولی


"اپنے سسرال والوں سے تو میں کچھ ایسا ہی ایکسپکٹ کر رہی تھی مگر شام کے رویے سے بہت افسوس ہوا ہے مجھے سحرش"

سندیلا اس وقت کافی دل برداشتہ ہو رہی تھی پرسوں رات میں جب احتشام اسے ڈنر پر باہر لے کر گیا تھا تب اس نے احتشام کو بتایا تھا ان لوگوں کے گھر بےبی گرل آنے والی ہے اور اسی وقت سے لے کر اب تک ایک شام کا موڈ آف تھا اور سندیلا کی ساس جو کہ خود دو بیٹیاں پیدا کر چکی تھی سندیلا کو وقفے وقفے سے ایسے گھور رہی تھی جیسے بیٹی پیدا کرنا صرف اسی کا کارنامہ ہے


"تمہاری جگہ اگر میں ہوتی ناں شوہر سمیت گھر کے ایک فرد کا دماغ درست کر دیتی سمجھ کیا رکھا ہے آخر ان لوگوں نے تمہیں"

سحرش غصے میں سندیلا کی حالت دیکھ کر بولی


"خدا نہ کریں یار تم یا پھر کوئی اور لڑکی میری جگہ پر ہوں بس تم سے یہ سب باتیں شیئر کر لیتی ہوں تو دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے"

سندیلا سست قدموں سے چلتی ہوئی افسردگی سے بولی اس کا بڑھتا ہوا وزن اسے تیز چلنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا اور طبیعت پر چھائی اداسی اس کے وجود کو مزید بوجھل کر رہی تھی


"ایسے رویوں کے ساتھ ساری زندگی کیسے گزار سکتی ہو تم سندیلا، احتشام بھائی سے دو ٹوک بات کرو یار ایسا کب تک چلے گا آخر ابھی بیٹی آئی نہیں ہے تب اُن کا اور ان کے گھر والوں کا منہ بن چکا ہے جب بیٹی دنیا میں آجائے گی تو پھر کیا کریں گے یہ لوگ، میرے خیال میں تمہیں یہ ساری باتیں اپنے بھائی سے شیئر کر لینا چاہیے"

سحرش بھی اس کی حالت کے پیش نظر سندیلا کے ساتھ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی اسے مشورہ دینے لگی


"سوچ رہی ہوں آج شام سے پوچھوں گی اگر ہمارے گھر میں بیٹی پیدا ہونے والی ہے بیٹا نہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔۔۔ اور انیس بھائی سے میں ایسی کوئی بات نہیں کر سکتی وردہ بھابھی نے صاف منع کر دیا ہے اپنے گھر کے مسئلے مسائل کو اپنے گھر تک ہی محدود رکھا کرو ہمیں بتا کر ٹینشن مت دیا کرو"

سندیلا کی بات سن کر سحرش افسردہ سی ہو کر اسے دیکھنے لگی


"سندیلا میرے خیال میں اب تمہیں اپنی طبیعت کو دیکھتے ہوئے چھٹیاں لے لینی چاہیے یار"

سحرش اس کو دیکھ کر مشورہ دیتی ہوئی بولی بہت ہی جلد ان دونوں کی کافی اچھی دوستی ہو گئی تھی


"ہاں میں بھی یہی سوچ رہی تھی کہ غنی صاحب سے چھٹیوں کے متعلق بات کرو بلکہ ابھی کر لیتی ہوں کیونکہ وہ اپنے روم میں موجود ہوں گے"

سندیلا ہاتھ سے بنی ہوئی واچ میں ٹائم دیتی ہوئی سحرش سے بولی


"ہاں تم ابھی بات کر لو یہی ٹھیک ہے بھائی مجھے لینے آ گیا ہے میں چلتی ہوں کل پھر ملاقات ہوگی"

سحرش اپنے موبائل پر آنے والی کال دیکھ کر سندیلا سے بولی اور اسکول کے گیٹ سے باہر نکل گئی جبکہ سندیلا اسکول کے پرنسپل غنی صاحب کے روم کی طرف جانے لگی


****


زوردار پڑنے والے مکے سے غنی کی ناک سے خون فوارے کی صورت باہر کی طرف ابل پڑا تھا جسے دیکھ کر پپو کے دانتوں کی بتی باہر آگئی وہ بمشکل اپنی ہنسی روک کر معظم سے بولا


"کیا کر رہے ہیں بھیا جی ذرا ادب سے پیش آۓ یہ اسکول کے پرنسپل ہیں"

غنی کو زوردار ُمکا پڑتا ہوا دیکھ کر پپو معظم سے بولا۔۔۔ اسکول کے آف ٹائم میں غنی اپنے کمرے سے نکل رہا تھا جبھی اچانک دو اجنبی اس کے کمرے میں آئے اور ان میں سے ایک نے اس کے منہ پر زور دار مُکا جڑا تھا


"جبھی تو ہاتھ ہولا رکھا ہے ورنہ پرنسپل صاحب کو تو آج دن میں تارے بے شک نہ دکھائی دیتے مگر اس سالے کی دانتوں کی بتی پر لازمی باہر آجاتی

معظم غنی کی بندھی ہوئی ٹائی سے اس کی ناک سے بیٹھا ہوا خون صاف کرتا ہوا بولا تو پپو بے ڈھنگے پن سے قہقہہ مار کر ہنسا


"دیکھیں آپ دونوں کون ہیں میں آپ دونوں کو بالکل بھی نہیں جانتا پلیز جو بھی مسئلہ ہے ہم لوگ آرام سے بیٹھ کر بات کر لیتے ہیں"

غنی کو وہ دونوں حلیے سے موالی لگ رہے تھے وہ مصلحت انگیز انداز اختیار کرتا ہوں ان دونوں سے بولا


"تیری بہتری بھی اسی میں ہے کہ تو ہم دونوں کو نہیں جانتا بات سیدھی سی ہے پرنسپل، قاسم سیٹھ نے تجھے شریفانہ انداز میں اس زمین کے اچھے دام دینے کی کوشش کی مگر تو اتنا بھی شریف نہیں ہے کہ شرافت سے اس آفر کو قبول کر لیتا تبھی قاسم سیٹھ کو مجھے یہاں پر بھیجنا پڑا تاکہ میں تجھے اپنے اسٹائل میں سمجھا دو لیکن میں اب بھی تجھ سے بہت شرافت سے بات کر رہا ہوں پپو پیپرز اور قلم لے کر آ"

معظم ہاتھ میں پکڑے ہوئے لوڈڈ ریوالور کو ٹیبل پر رکھتا ہوا بولا غنی کو اپنے یہاں آنے کا مقصد اچھی طرح سمجھ چکا تھا۔۔۔معظم کے بولنے پر پپو جھٹ سے اپنے پاس موجود پیپر غنی کے سامنے ٹیبل پر رکھ چکا تھا


یہ عدالت کی طرف سے ایک لیگل ایگریمنٹ تھا جس پر درج ذیل رقم وصول کرنے کے بعد یہ اسکول کی زمین قاسم کی ملکیت مانی جاتی


"دیکھو بھئی پرنسپل آرام سے ان پیپر پر دستخط کر دو آج بھیا جی کا موڈ ویسے ہی بگڑا ہوا ہے اللہ بھلا کرے انکا جو یہ اب تک آپ سے بہت پیار سے بات کر رہے ہیں رقم ہم اپنے ساتھہی لے کر آئے ہیں بے شک گن کر اطمینان کر لینا"

پپو غنی کو سمجھانے کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں پکڑا ہوا نوٹوں سے بھرا بریفکیس ٹیبل پر رکھ کر اسے کھول چکا تھا


غنی بےبسی سے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا ایک دم اس کی نظر کمرے کی کھڑکی پر پڑی جہاں اس کے اسکول کی ایک ٹیچر کمرے کے اندر چل رہے سارے منظر کی اپنے موبائل سے ویڈیو بنا رہی تھی۔۔۔۔ اس سے پہلے غنی اپنی نظریں کھڑکی پر سے ہٹاتا معظم نے اس کے چہرے کے تاثرات کو دیکھ کر اس کی نظروں کے تعاقب کرتے ہوئے کھڑکی میں کھڑی ایک لڑکی کو دیکھا وہ لڑکی کا چہرہ تو نہیں دیکھ پایا تھا مگر اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کمرے میں موجود ساری کاروائی کی ویڈیو بنا رہی تھی اور معظم کے مڑتے ہی وہ باہر کی سائیڈ دیوار کے پیچھے چھپ گئی تھی


"پپو بھاگ کر جا وہ لڑکی یہاں سے جانا نہیں چاہیے"

معظم چیختا ہوا پپو کو دیکھ کر بولا اور پپو بجلی کی تیزی سے کمرے سے باہر نکلا۔۔۔ سندیلا جو کہ ان لوگوں کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر گھبرا چکی تھی وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرنے لگی


*****

"یہ لیجئے بھیا جی آگئی میڈم جی"

پپو سندیلا کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے میں لے کر آیا جسے دیکھ کر معظم کو ایک پل کے لئے جھٹکا لگا مگر دوسرے ہی پل وہ سندیلا کو غور سے دیکھنے کے بعد سنبھل گیا،، یہ "وہ" نہیں تھی۔۔۔ سندیلا جو کہ وہاں سے فرار ہونے کے چکر میں اپنا ہینڈ بیگ گرا چکی تھی لیکن اس کے وہاں سے بھاگنے سے پہلے ہی اس غنڈے کا ساتھی سندیلا تک پہنچ چکا تھا جبکہ موبائل ابھی بھی سندیلا نے مضبوطی سے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا،، وہ اب اپنے سامنے اس غنڈے کو دیکھ رہی تھی جو غور سے اس کا چہرہ دیکھنے میں مصروف تھا جیسے اس کے چہرے پر کچھ تلاشنے کی کوشش کر رہا ہو


"اس حالت میں دلیری واقعی دلیری کی ہی بات ہے، پپو کمرے کا دروازہ لاک کر اور کھڑکی پر پردے ڈال"

معظم نے سندیلا کا اوپر سے لے کر نیچے تک جائزہ لینے کے بعد اس کی موجودہ "حالت" پر جملہ کسا اور ساتھ ہی اپنے ساتھی کو حکم دیا جو شاید اس کے حکم کا منتظر تھا فوراً کمرے کا دروازہ بند کرنے لگا


"دیکھیں یہ ہمارے اسکول کی معزز ٹیچر ہیں انہیں یہاں سے جانے دیں،، ہم لوگ آپس میں بات کر تو رہے ہیں"

غنی اب ٹشو کی مدد سے اپنی ناک سے بہتا ہوا خون صاف کرتا ہوا بولا تو معظم نے پلٹ کر غنی کو دیکھا


"پرنسپل اگر اب تو بیچ میں بولا تو میں تیرا یہ تھوبڑا مزید بگاڑ دوں گا۔۔۔ پپو پیپرز پر سائن کروا اس بڈھے سے"

معظم نے غنی کو تنبہیہ کرنے کے ساتھ ساتھ پپو کو دوسرا حکم دیا،، پپو فوراً اس کے حکم کی پیروی میں لگ گیا، معظم دوبارہ اس لڑکی کی طرف پلٹا۔۔۔ جوکہ مشکل سے 22 یا تیئس سال کی پریگنینٹ لڑکی تھی اور چند منٹ پہلے کمرے میں ہوئی کاروائی کی ویڈیو اپنے موبائل سے بنا رہی تھی


"تو آپ استانی جی ہیں اس اسکول کی، مگر یہ کیا استانی جی رزلٹ نکلنے میں تو ابھی تھوڑا وقت ہے۔۔۔ اور آپ پہلے سے ہی اسکول کے چکر لگا رہی ہیں"

معظم چلتا ہوا اس کے قریب آیا تھا اور ایک بار پھر اس نے سندیلا کے سراپے کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔۔۔ جس پر سندیلا کا دل چاہا کہ اپنے سامنے کھڑے اس موالی کا منہ توڑ دے۔۔۔ مگر سامنے چیئر پر بیٹھے ہوئے غنی صاحب کی حالت دیکھ کر وہ ایسا نہیں کر سکی


"شرم آنی چاہیے تم لوگوں کو کسی شریف انسان کے ساتھ ایسا بےرحمانہ سلوک کرتے ہوئے"

اپنے اوپر کسے گئے جملہ پر وہ لعنت بھیتی ہوئی، غنی صاحب کا زخمی چہرہ دیکھ کر، ہمت کرتی ہوئی اپنے سامنے کھڑے اس غنڈے سے بولی


"شرم کا بدمعاشوں سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا استانی جی،، شرم تو اس بڈھے کو آنی چاہیے جو اس عمر میں ضد باندھے بیٹھا ہے۔۔۔ ایک زرا سے دستخط کرتے ہوئے اسے موت پڑ رہی ہے شاید اسے اپنی بوڑھی ہڈیوں کی پروا نہیں مگر آپ کو اس حالت میں اپنی بہت پرواہ کرنا چاہیے،، لائیے اپنا موبائل مجھے دے دیں"

معظم سندیلا کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہوا اس کا موبائل مانگنے لگا۔۔۔ جسے سندیلا نے نہ جانے کیا سوچ کر اپنے دوپٹے کی آڑ میں اپنی شرٹ کے گلے سے نیچے، اندر کی طرف چھپالیا۔۔۔ اس کا موبائل ایسی جگہ پر محفوظ ہو چکا تھا جہاں معظم کی نظریں گئی تو سندیلہ کی حرکت پر معظم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگنے لگی


"بدمعاشوں سے بدمعاشی مہنگی بھی پڑ سکتی ہے استانی جی،، بدمعاش بدمعاش ہی ہوتا ہے۔۔۔۔ اس سے کبھی شرافت کی توقع نہیں رکھنا چاہیے، اپنا موبائل مجھے خود نکال کر دے دیں ورنہ یہ لاکر اتنا بھی سیو نہیں جتنا آپ نے سمجھ لیا ہے۔۔۔ یہ موبائل میں خود بھی نکال سکتا ہوں"

معظم کی بات سن کر سندیلا کو اپنی بیوقوفی پر ماتم کرنے کا دل چاہا معظم کے مزید آگے قدم بڑھانے پر سندیلا پیچھے کی طرف ہٹنے لگی


"دور رہو مجھ سے قریب مت آنا میرے"

وہ اپنی گھبراہٹ چھپاتی ہوئی معظم سے بولی اور پیچھے کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے دیوار سے اس کی پیٹھ جا لگی جبکہ غنی پیپرز پر سائن کر چکا تھا مگر وہ معظم کی دھمکی پر خاموش بیٹھا ہوا تھا


"موبائل"

معظم سندیلا کے بالکل قریب کھڑا تھا اپنا ایک ہاتھ دیوار پر ٹکاکر، دوسرے ہاتھ سندیلا کی طرف بڑھاتا اس سے موبائل مانگنے لگا۔۔۔ سندیلا اس کی بات مانے بغیر معظم کا چہرہ دیکھنے لگی جو کہ اس وقت بہت سنجیدہ تھا


"بات سمجھ نہیں آرہی موبائل نکال کر دو فوراً"

معظم اس کے اور بھی نزدیک آ کر سختی سے بولا۔ُ۔ تو اس غنڈے کو اپنے اتنے نزدیک دیکھ کر سندیلا کا سانس رکنے لگا، اس کا ہیوی ڈیل ڈول اس دیو قامت غنڈے کے آگے چھپ سا گیا


"پہلے پیچھے ہٹو"

سندیلا کانپتی ہوئی آواز میں معظم سے بولی وہ اس کے بلکل نزیک کھڑا تھا بھلا سندیلا اس کے سامنے موبائل کیسے نکالتی وہ اب اپنی حماقت پر سخت پچھتا رہی تھی


"لگتا ہے ایسے بات سمجھ میں نہیں آئے گی یہ موبائل اب مجھے خود ہی"

معظم نے سندیلا کو دھمکاتے ہوئے دیوار پر ٹکا اپنا ہاتھ ہٹایا


"پلیز"

سندیلا نے بولتے ہوئے بے ساختہ اس کا ہاتھ پکڑا۔۔۔ معظم ایک بار پھر اس کا چہرہ غور سے دیکھنے لگا۔۔۔ اپنا دوسرا کانپتا ہوا ہاتھ وہ معظم کا چہرہ دیکھتی ہوئی اپنی شرٹ کے گلے تک لے کر گئی، تو معظم نے اپنی نظروں کا زاویہ فوراً دوسری سمت کیا،، اور سندیلا سے اپنا ہاتھ چھڑایا سندیلا نے اپنا موبائل نکال کر اس کی طرف بڑھایا


"اسکول اسی لیے قائم کیے جاتے ہیں تاکہ یہاں پر نئی نسلوں میں تمیز اور تہذیب کا شعور پیدا کیا جائے، بچوں کے اندر موجود اچھی صفات کو اجاگر کیا جائے۔۔۔ اسکول میں تعلیم دی جاتی ہے اور تعلیم سے ہی انسان میں اچھے برے کی تمیز پیدا ہوتی ہے مگر تم جیسے جانور یہ بات بالکل بھی نہیں سمجھ سکتے"

اپنا موبائل معظم کو تھماتے ہوئے ساتھ ہی اس نے معظم کے اقدام پر ملامت کی تھی،، وہ سندیلا کا موبائل اپنے ہاتھ میں پکڑے بہت سکون سے اور غور سے اس کی ساری باتیں سن رہا تھا آخری بات پر سندیلا کو اسمائل دیتا ہوا وہ اس کے موبائل سے چند منٹ پہلے بنائی گئی ویڈیو ڈیلیٹ کرنے لگا


"لیکچر اچھا دیتی ہیں آپ استانی جی پوری امید ہے اپنے بچے کی تربیت اچھے سے کریں گیں"

معظم سندیلا کو دیکھ کر اس کا موبائل اسی کی طرف بڑھاتا ہوا بولا اور پھر غنی کے پاس آ کر اس کا چہرہ پکڑ کر دائیں اور بائیں کرتا ہوا دیکھنے لگا


"یہاں سے سیدھا ڈاکٹر کے پاس جانا اور اپنی مرھم پٹی کروا لینا"

مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی پاکٹ سے پیسے نکال کر ٹیبل پر رکھے۔۔۔ پپو کو چلنے کا اشارہ کرتا ہوا سندیلا پر آخری نظر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گیا


****


صبح سویرے وہ دونوں بھائی جاگنگ کر کے اپنے گھر کی طرف واپس آ رہے تھے ان دونوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ ان میں سے بڑا کون ہے، کوئی بھی انجان بندہ ان دونوں کو دیکھ کر بلال کو ہی بڑا سمجھتا،، وجہ اس کی نکلتی ہوئی ہائیٹ اور ورزشی جسم تھا۔ ۔۔ ظاہری طور پر دکھنے والی چیزوں میں بلال اس سے زیادہ نمبر رکھتا تھا مگر یہ بلال ہی جانتا تھا کہ حسان اس سے کن کن چیزوں میں بچپن سے ہی بازی لے جا چکا تھا


"کل شام میں جب خوشی آئی تھی تو تم اپنے کمرے سے باہر کیوں نہیں نکلے میں نے تہمینہ سے کہہ کر دو بار تمہیں بلوایا بھی،، وہ اسپیشلی تمہارے بارے میں پوچھ رہی تھی مطلب خوشی تم سے ملنے آئی تھی،، تو مجھے اس سے بولنا پڑا کہ تم آفس کے کسی ضروری کام میں بزی ہو"

حسان کو ایک دم کل شام والی بات یاد آئی تو وہ بلال کو بتانے لگا


"خوشی سے مل کر یا پھر بات کر مجھے کوئی خاص خوشی نہیں ہوتی یہ بات تم اچھی طرح جانتے ہو اگر میں مصروف نہ بھی ہو تو تم اسے یہی بولا کرو کہ میں بزی تھا"

بلال اور حسان اب آہستہ آہستہ واک کرتے ہوئے اپنے گھر کی طرف لوٹ رہے تھے تب بلال حسان سے بولا


"انسان کو اتنا بھی بے مروت نہیں ہونا چاہیے میرے بھائی، ویسے خوشی بری لڑکی نہیں ہے اچھے اخلاق کے علاوہ خوش شکل لڑکی ہے اور سب سے بڑی بات وہ ہماری پھپھو کی بیٹی ہے باوجود اس کے کہ وہ تمہارے چہرے پر نو لفٹ کا بورڈ بچپن سے دیکھتی آئی ہے پھر بھی تم سے خوش اخلاقی سے ملتی ہے اسے تھوڑا بہت ٹائم دینے میں یا پھر دو گھڑی اس سے بات چیت کر لینے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے، برا مت ماننا میری بات کا، ویسے یہ میری ذاتی رائے ہے"

حسان بلال کو دیکھ کر بڑے بھائی کے طور پر سمجھانے لگا کیونکہ اس کا یہ چھوٹا بھائی خاندان بھر میں اپنی ریزرو نیچر کی بادولت خاصا مغرور مشہور ہونے لگا تھا بلال کی اس ریزرو نیچر میں وقت کے ساتھ ساتھ میچورٹی آتی جا رہی تھی جس پر جویریہ بھی کبھی کبھار پریشان ہو جاتی تھی


"تم جانتے ہو تمہاری رائے سے میں بہت کم اتفاق کرتا ہوں اور رہی بات خوشی کی تو اس کی بلاوجہ کی ہیپی اور گڈ نیچر مجھے ذرا بھی اٹریکٹ نہیں کرتی ہے میرا مشورہ یہ ہے کہ اس سے تم ہی مروت نبھا لیا کرو"

بلال سامنے سیدھی سڑک کو دیکھتا ہوا حسان سے بولا۔۔۔ حسان اپنے جوگرز کی لیس باندھنے کے لیے نیچے جھکا تو بلال اس کا انتظار کیے بنا جاگنگ کرتا ہوا آگے نکل گیا کیونکہ وہ خوشی نامہ اتنا ہی برداشت کر سکتا تھا


****


"ہیلو"

وہ گھر کے اندر داخل ہو رہا تھا تب ایک نسوانی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔۔۔ گھر کے گیٹ سے باہر ایک 20 سالہ لڑکی ٹیکسی سے اتر کر مسکراتی ہوئی اس سے بولی تھی،، یہ اجنبی چہرہ اتنا بھی اجنبی نہیں تھا،، اس لڑکی کو بلال نے پہلے بھی کہیں دیکھا تھا مگر کہا، یہ اسے یاد نہیں آرہا تھا


"السلام علیکم"

زینش کے ہیلو کہنے پر وہ اسے ہونقوں کی طرح دیکھ رہا تھا اسی وجہ سے زینش نے اسے سلام کیا،، جس کا جواب بلال سر ہلا کر دیتا ہوا گیٹ کے اندر داخل ہونے لگا


"میں زینش ہوں"

وہ جویریہ آنٹی کا چھوٹا والا بیٹا تھا زینش اسے پہچان گئی تھی مگر شاید وہ اسے نہیں پہچانا تھا تبھی زینش اسے گیٹ سے اندر،، گھر میں جاتا ہوا دیکھ کر ایک دم اپنا تعارف کروانے لگی


"تو"

اب بلال اس لڑکی کو پہچان چکا تھا جویریہ چند دنوں پہلے اسی لڑکی کے آنے کا ذکر کر رہی تھی


بلال کے "تو" کہنے پر زینش کے مسکراتے لب ایک دم سھکڑ گئے، کتنا روکھا انداز تھا اس کا۔۔۔ بلال اب بھی زینش کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا تب زینش ایک دفعہ پھر زبردستی مسکراہٹ اپنے لبوں پر لائی


"پلیز آپ ٹیکسی سے میرے بیگز اتروانے میں میری ہیلپ کریں گے"

وہ ٹیکسی میں موجود دو بڑے سے بیگز کی طرف اشارہ کرتی ہوئی بلال سے بولی


"کس خوشی میں"

بلال کے جواب پر زینش کے ہونٹوں سے مسکراہٹ ایک بار پھر غائب ہوئی۔۔۔۔ توہین کا احساس تب ہوا جب وہ بے مروت اور بدتمیز انسان گیٹ سے گھر کے اندر چلا گیا


"چند سال پہلے تک تو نیم پاگل لگتا تھا،، شاید اب بیچارہ پورا کھسک چکا ہے"

زینش خالی گیٹ کو دیکھتی ہوئی سوچنے لگی


"اگر میں غلط نہیں ہوں تو تم زینش ہوں شہنیلا آنٹی کی بیٹی رائٹ"

حسان کی آواز پر زینش چونکی اور پلٹ کر دیکھنے لگی سامنے ایک خوش شکل اور خوش مزاج سا نوجوان کھڑا تھا جسے دیکھ کر وہ مسکرائی


"صحیح پہچانا آپ نے حسان بھائی"

شکر تھا کے پاکستان آنے سے پہلے شہنیلہ نے جویریہ کے دونوں بیٹوں کے نام کے ساتھ ساتھ ان کی تصویریں بھی اسے دکھا دی تھی۔۔۔ جو کہ جویریہ نے ہی شہنیلا کو سینڈ کی تھی


"اگر مجھے تمہاری فلائٹ کے ٹائمنگز کا پتہ ہوتا تو میں تمہیں ایئرپورٹ سے پک کر لیتا"

حسان ٹیکسی میں سے زینش کے بیگز اتارتا ہوا اس سے بولا


"بہت بہت شکریہ، ایڈریس مجھے ماما نے بتا دیا تھا تو مجھے یہاں آنے میں کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوا"

زینش مسکراتی ہوئی حسان سے بولی ورنہ تو بلال کا رویہ دیکھ کر اس کا دل ہی ٹوٹ گیا تھا


"یہ تو اچھی بات ہے، اندر چلو امی تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوگیں"

حسان گھر کے گیٹ کی طرف اشارہ کر زینش سے بولا، زینش کے گیٹ سے اندر جانے کے بعد وہ بھی زینش کے بیکز اٹھاۓ اس کے پیچھے آنے لگا


****


یہ ایک پرانے علاقے کی قدیم عمارت تھی جو کہ پرانے طرز کی بنی ہوئی تھی چھوٹی چھوٹی اور تنگ سیڑھیوں سے اوپر چڑھنے کے بعد دو دو کمروں کے فلیٹ لمبی قطار سے بنے ہوئے تھے۔۔۔ انہی میں سے ایک سیلن زدہ فلیٹ کے اندر بانس کی دو چارپائی موجود تھی جس پر وہ دونوں گہری نیند میں سوئے ہوئے تھے


چھت پر لٹکا ہوا پنکھا،، ہوا کم اور آواز زیادہ دے رہا تھا جو کہ چلتے چلتے اب بند ہو چکا تھا اور سامنے رکھے پیڈسٹل فین چلنے کے باوجود معظم کا پورا جسم پسینے سے شرابور ہو چکا تھا گرمی کا احساس بڑھنے لگا تبھی اس کی آنکھ کھلی سامنے رکھے پیڈسٹل فین پر جب اس کی نظر گئی تو معظم کی جان جل کر رہ گئی


پیڈسٹل فین کا رخ اپنی سمت کیے پپو مزے سے اپنی چارپائی پر لیٹا نیند کے مزے لوٹ رہا تھا۔۔ معظم نے چارپائی سے نیچے ٹانگ لٹکا کر اپنے پاؤں میں چپل اٹکائی اور پاؤں کے ہی مدد سے اسے زور سے ہوا میں اچھالی جو کہ اڑتی ہوئی سیدھے پپو کے منہ پر جا کر لگی


"کون ہے۔۔۔ کون ہے بے"

پپو نیند میں ایک دم گھبرا کر اٹھا اور بدحواس سا ہو کر بولتا ہوا اِدھر اُدھر دیکھنے لگا پھر اس کی نظر معظم پر پڑی جو کہ پپو کو ہی گھور رہا تھا۔۔۔ ہاتھ کے اشارے سے اس نے پیڈسٹل فین کا رخ اپنی طرف کرنے کو کہا تو پپو چارپائی سے اٹھ کر سر کُجاتا ہوا پیڈسٹل فین کو معظم کی طرف کرتا ہوا بولا


"کیا بھیا جی آپ نے سارے خواب کا مزا ہی کرکرا کر دیا۔۔۔۔ کیا نظارے تھے ایک خوبصورت بڑا سا باغ، جس میں چاروں طرف جنت کی حوریں،، ان حوروں کے بیچ و بیچ تن تنہا اکیلا کھڑا پپو ہاۓ اللہ جی"

پپو اپنی آنکھیں بند کیے بولتا ہوا جیسے ابھی بھی اپنے خواب کو انجوائے کر رہا تھا


"اور پپو کے منہ پر پڑتی ہوئی 11نمبر کی چپل"

معظم نے ٹکڑا لگایا جس پر پپو آنکھیں کھول کر برا سامنہ بناتا ہوا معظم کو گھورنے لگا


"بھیا جی میں سوچ رہا ہوں کہ کب تک ہم دونوں یوں سنگل اپنے اپنے بستر پر اکیلے سوتے رہیں گے ہم دونوں کو کچھ اپنے لیے آگے بھی سوچنا پڑے گا۔۔۔ مجھ سے تو اب اکیلے رہنا بالکل برداشت نہیں ہوتا"

پپو کی بات سن کر معظم مشکوک نظروں سے اسے گھورتا ہوا بولا


"کس ٹائپ آدمی سمجھا ہوا ہے تو نے مجھے پپو، مانتا ہوں کے میں ایک غنڈا بدمعاش ہوں دس برائیاں ہیں میرے اندر لیکن بیٹا دلچسپی میں عورت میں ہی رکھتا ہوں آئندہ اگر تو نے مجھ سے ایسی واہیات اور چھچھوری باتیں کی نہ تو میں تجھے اٹھا کر باہر پٹخ دو گا"

معظم اس کو آنکھیں دکھاتا ہوا بولا


"معاف کرنا بھیا جی آپ شاید ابھی تک نیند میں ہی ہو میں نے اپنے خواب میں حوریں ہی دیکھی ہیں پشاور کے پٹھان نہیں۔۔۔ میرا مطلب صرف یہ تھا کہ ہم دونوں کو شادی کر کے اپنے اپنے گھر بسا لینے چاہیے"

پپو اپنی بات کو اب واضح کرتا ہوا معظم کو سمجھانے لگا تو وہ لمبی سانس کھینچ کر چار پائی سے اٹھ کر بیٹھ گیا


"شادی کے لئے ایک عدد لڑکی کی ضرورت ہوتی ہے پپو اور کوئی خوبصورت پڑھی لکھی لڑکی کسی غنڈے موالی کو تو ملنے سے رہی"

معظم کی بات سن کر پپو حیرت سے آنکھوں کے ساتھ ساتھ اپنا منہ بھی کھول کر معظم کو دیکھنے لگا


"خوبصورت اور اوپر سے پڑھی لکھی لڑکی"

پپو معظم کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا جیسے اس نے کچھ غلط تو نہیں سن لیا ہو


"کیوں،، موالی اور بدمعاش ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ میں دل میں کوئی خواہش نہیں پال سکتا، سیدھی سی بات ہے بھئی اس موالی کو تو ایسی ہی لڑکی چاہیے۔۔۔ خوبصورت پڑھی لکھی بے خوف اور آگے سے دوسرے کی بولتی بند کر دینے والی"

معظم کسی ترنگ میں بولتا ہوا چارپائی سے اٹھا اور اپنی شرٹ اتار کر گردن اور سینے پر آیا ہوا پسینہ صاف کرنے لگا


"مطلب وہ کل والی استانی جی کی طرح کی لڑکی"

پپو معظم کی بات سمجھ کر جلدی سے بولا


"ہاں بالکل وہی لڑکی"

اس سے بھی زیادہ جلدی معظم بولا مگر ایک دم اسے سندیلا کا بے ڈول سراپا یاد آیا تو اس کے ہاتھوں کی حرکت وہی رک گئی ہاتھ میں موجود پسینے بھری شرٹ کھینچ کر اس نے پپو کے منہ پر دے ماری


"لعنت ہے تجھ پر پپو وہ استانی جی کسی دوسرے کی عزت تھی"

اپنے دل میں بیٹھے چور کو چھپاتا ہوا وہ سارا ملبہ پپو پر ڈالنے لگا پسینے سے بھری ہوئی شرٹ منہ پر لگنے سے پپو کو الٹی آتے آتے بچی


"معاف کرنا بھیا جی اگر وہ استانی کسی کی عزت نہیں ہوتی تب بھی کم سے کم آپ کو اپنے پاس بھٹکنے نہیں دیتی بلکہ استانی جی کیا کوئی بھی دوسری لڑکی۔۔۔ کم سے کم بندے کو دس دن بعد تو نہا لینا چاہیے یار"

پپو معظم کی شرٹ کو ہوا میں اچھالتا ہوا بولا جو کہ پنکھے پر جا ٹنگی


"نہاؤ گا پپو جس دن تیرے بھیا جی کی شادی ہوگی اس دن دو گھنٹے تک رچ کر نہاؤ گا فکر نہ کر۔۔۔۔ جا سامنے کمالے کی دکان سے سموسوں کی پلیٹ اور پکڑ کر لا"

معظم پپو کو بولتا ہوا الماری کا پٹ کھول کر دوسری دھلی ہوئی شرٹ نکالنے لگا


کل رات کے بعد اب ایک بار پھر اس کا دھیان کل والی استانی جی کے چہرے کی طرف چلا گیا تھا۔۔۔ اٌس چہرے کو بھلانے میں اسے کتنی مشکل ہوئی تھی یہ معظم کا دل ہی جانتا تھا۔۔۔ اب نہ جانے اوپر والا اس سے کیا چاہتا تھا۔۔۔ جو اس لڑکی کو معظم کے سامنے لا کھڑا کیا تھا،، وہ لڑکی ایک نئی روح اور ایک الگ جسم کی مالک تھی مگر اس کا چہرہ معظم کو "اس" کی یاد دلا گیا تھا جسے وہ دل سے بھلا چکا تھا۔۔۔ معظم شرٹ کے بٹن بند کرتا ہوا ایک بار پھر سندیلا کا چہرہ یاد کرنے لگا


*****

"اوہو زینش اب تمہیں وہاں پر کیا مسئلہ ہوگیا ہے"

شہنیلا لوگوں کی بھیڑ میں چلتی ہوئے ذینش سے موبائل پر بات کرتے ہوئے جھنجھلا کر پوچھنے لگی


"مسئلہ مجھے نہیں ہے ماما بلکہ جویریہ آنٹی کے چھوٹے بیٹے کو مجھ سے ہے، اسے دیکھ کر صاف محسوس ہوتا ہے جیسے اسے میرا یہاں پر آکر رہنا کچھ خاص پسند نہیں آ رہا"

زینش اپنے روم کے ٹیرس میں کھڑی ہوئی بے دلی سے شہنیلا کو بتانے لگی


"او ہو تو لعنت بھیجو اس کے چھوٹے بیٹے پر, اس کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے،، جویریہ اور اس کا بڑا بیٹا کیا نام ہے اسکا ہاں حسان وہ دونوں ٹھیک ہے نہ تمہارے ساتھ"

شہنیلا کی بات سن کر وہ ٹیرس سے اپنے روم میں چلی آئی تاکہ وارڈروب سے اپنے کپڑے نکال سکے


"جویریہ آنٹی اور حسان بھائی دونوں ہی اچھی نیچر کے ہیں۔۔۔ کل تو حسان بھائی مجھے اپنے ساتھ یونیورسٹی لے کر گئے تھے،، میں نے یونیورسٹی میں ایڈمیشن بھی لے لیا ہے"

زینشن اپنا ڈریس بیڈ پر رکھتی ہوئی شہنیلا کو بتانے لگی


وہاں سے چلتے وقت شہنیلا نے اسے ایک اچھی رقم دی تھی جو پاکستان میں زینش کے کام آتی اس کے علاوہ زینش کے پاس خود بھی کچھ رقم موجود تھی وہ جو ہر ماہ بہت مشکلوں سے سیو کر پاتی تبھی اس نے پاکستان آنے کے ساتھ اپنی اسٹڈی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا


"چلو یہ تو اچھی بات ہے تمہارا ایڈمیشن ہو گیا ہے اس ماہ تو نہیں اگلے ماہ میں تمہارے اکاؤنٹ میں کچھ پیسے بھجوا دو گی۔۔۔ وقت ضرورت کام آ سکتے ہیں مگر پلیز زینش حسان کو بھائی کہہ کر مت پکارو وہ بھی دیکھنے میں ہینڈسم ہی ہے۔۔۔ میں نے تمہیں وہاں پر بھیجنے سے پہلے کچھ سمجھایا بھی تھا پلیز میری بات کو اطمینان سے سوچنا"

شہنیلا کافی فکرمند ہو کر بولی تھی شاید اس کی فکر کرنے کا انداز ایسا ہی ہوگیا تھا


"اچھا یہ بتائیں کہ فیض ماموں ابھی تک ناراض تو نہیں ہیں آپ سے"

زینش شہنیلا کی بات کا جواب دینے کی بجائے اس سے فیض کے بارے میں پوچھنے لگی۔۔۔ موبائل پر شہنیلا سے باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنا ہینڈ بیگ اور شوز بھی نکال رہی تھی کیونکہ آج اس کی یونیورسٹی کا پہلا دن تھا


"ارے پرسوں بتایا تو تھا تمہیں تمہارے جانے کے بعد ان دونوں میاں بیوی نے مجھے کافی باتیں سنائیں، مگر پھر میں خاموشی سے اپنا سامان لے کر عبداللہ کے پاس چلی آئی۔۔۔۔ اچھا زینش میں بعد میں بات کرتی ہوں تم سے، اپنا خیال رکھنا"

شہنیلا شاید اپنی منزل پر پہنچ چکی تھی اس لیے اس نے کال ڈسکنکٹ کر دی۔۔۔ زینش جانتی تھی عبداللہ جوزف کا اسلامی نام ہے اور اس کی ماں عبداللہ سے شادی کر چکی ہے لیکن نہ جانے یہ بات جویریہ کے علم میں تھی کہ نہیں مگر جویریہ نے زینش کے سامنے یہ بات کبھی ظاہر نہیں کی تھی


****


زینش چینج کرنے کے بعد ڈائننگ ہال میں آئی جہاں ابھی کوئی بھی موجود نہیں تھا تو زینش نے کچن کا رخ کیا۔۔۔۔ اس کو اس گھر میں آۓ ایک ہفتہ گزر چکا تھا اس لیے وہ بے تکلفی سے پورے گھر میں گھوم رہی ہوتی تھی


"میم کسی چیز کی ضرورت ہے آپ کو"

تہمینہ (میڈ) کچن میں آتی زینش سے پوچھنے لگی


"نو تھینکس لائیے یہ نائف مجھے دے دیں بریڈ پر بٹر میں لگا دیتی ہوں آپ کوئی دوسرا کام کر لیں"

زینش تہمینہ کو دیکھ کر شائستگی سے بولی اس سے زیادہ تر فارغ بھی نہیں بیٹھا جاتا تھا وہ اکثر اپنے کام کے ساتھ شہنیلا اور صنوبر کے کاموں میں بھی مدد کرنے کی عادی تھی


"ویسے بریک فاسٹ میں کون کیا کیا پسند کرتا ہے"

زینش بریڈ پر بٹر لگاتی ہوئی تہمینہ سے یونہی سب کی پسند کے بارے میں پوچھنے لگی تہمینہ فروٹ باسکٹ میں فروٹ سوٹ سیٹ کر رہی تھی اس کے کچھ بولنے سے پہلے جواب کچن کے دروازے پر کھڑے شخص کے پاس سے آیا


"مجھے بٹر زیادہ پسند نہیں ہے"

زینش نے پلٹ کر دروازے کی طرف دیکھا تو بلال کچن میں داخل ہو رہا تھا


"مطلب کیا ہے آپ کی اس بات کا"

زینش اب پوری طرح بلال کی طرف متوجہ ہو چکی تھی جبکہ تہمینہ سر جھکائے باسکٹ میں فروٹ سیٹ کر رہی تھی۔۔۔ بلال فریج سے پانی کی بوتل نکال کر زینش کے سامنے آ کر کھڑا ہوا جو اسی کو دیکھ رہی تھی


"ابھی تم تہمینہ سے سب کی پسند کے بارے میں پوچھ رہی تھی ناں تو میں نے تم کو اپنے بارے میں بتایا ہے بٹرنگ پسند نہیں ہے مجھے"

بلال زینش کو دیکھتا ہوا بولا اور اس کے ہاتھ سے نائف لینے کے بعد بریڈ پر خود بٹر لگانے لگا


"میرے یہاں پر رہنے پر اگر آپ کو کوئی پرابلم ہے تو واضح لفظوں میں بتا دیں مجھے،، یہاں میں مجبوری میں رہ رہی ہوں شوقیہ نہیں لیکن مجبوری میں بھی میں اپنی تزلیل برداشت کرو یہ میری سیلف ریسپیکٹ کو گوارا نہیں کرتا"

وہ بریڈ پر بہت نفاست سے بٹر لگا رہا تھا تب زینش کی بات سن کر اسے دیکھنے لگا۔۔۔ زینش نے شروع شروع میں اس سے ایک دو بار خوش اخلاقی سے بات کرنا چاہی تھی مگر بلال کے انداز سے وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ اسے پسند نہیں کرتا پھر زینش نے اسے مخاطب کرنا بھی چھوڑ دیا تھا مگر اس کے باوجود بھی وہ اس پر ٹونٹنگ کا موقع جانے نہیں دیتا تھا


"میرے سامنے خود کو سیلف رسپیکٹ پرسن شو کر کے ڈرامے کرنا بند کرو۔۔۔ یہاں پر رہنا ہے تو اپنے کام سے کام رکھو زیادہ نمبر بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے اور تہمینہ اگر تمہیں اپنی نوکری پیاری ہے تو آئندہ میرا ناشتہ تم خود بنانا۔۔۔ کوئی بھی ایرا غیرہ یہاں پر منہ اٹھا کر چلا آئے اور رہنے لگ جائے تو وہ الگ بات ہے لیکن میرے کام کوئی بھی ایرا غیرہ کرے تو یہ مجھے گوارا نہیں"

بلال زینش کی انسلٹ کرتا ہوا ساتھ ہی تہمینہ کو وارن کرنے کے بعد کچن سے نکل گیا جبکہ بلال کی باتیں سن کر زینش کی آنکھیں نم اور تذلیل کی شدت سے چہرہ سرخ ہو گیا تھا


*****


"ہیلو سوئیٹ گرل کیسی ہو تم،، یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہوں یعنی آج سے تم"

ناشتے کی ٹیبل پر زینش کو دیکھتا ہوا حسان اس سے پوچھنے لگا۔۔۔ وہ ایسا ہی تھا عزت دینے والا خوش اخلاق سا انسان جو کہ پہلی ملاقات میں ہی زینش کو کافی سلجھا ہوا اور سوبر سا لگا تھا۔۔۔ زینش لاتعلق بنے بیٹھے بلال پر ایک نظر ڈال کر اسمائل دیتی ہوئی حسان کو دیکھنے لگی


"جی کلاسس دو دن پہلے ہی اسٹارٹ ہو چکی تھی سوچا گھر پر بیٹھ کر کیا کروں گی اس لیے آج یونیورسٹی جوائن کرنے کا سوچا ہے"

زینش مسکرا کر حسان کو جواب دینے لگی تھوڑی دیر پہلے ہوئے کچن میں وہ اپنی تذلیل ہرگز نہیں بولی تھی


"میں نے تو کہا تھا چند دن بعد یونیورسٹی جوائن کر لینا ابھی تھوڑا سا حسان یا بلال میں سے کسی کے ساتھ کراچی گھوم پھر لو مگر اس کی بات بھی صحیح ہے پڑھائی کا ہی حرج ہوتا اس طرح۔۔۔ اس لیے میں نے آج صبح ہی خوشی کو بلوا لیا ہے تاکہ زینش کو یونیورسٹی میں کسی بھی قسم کی پریشانی نہ ہو"

اب کی بار جویریہ حسان کو دیکھ کر بتانے لگی زینش جویریہ کی بات سن کر ہلکا سا مسکرائی


"خوشی کو یہاں بلا کر تو بہت اچھا کیا ہے آپ نے امی،، کوئی دوسرا خوش ہو یا نہ ہو مگر مجھے پوری امید ہے خوشی سے مل کر تم بہت خوش ہوگی"

حسان جویریہ کے اقدام کو سراہاتا ہوا زینش کو دیکھ کر بولا۔۔۔ تو بلال حسان پر سنجیدہ نظر ڈال کر ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گیا


تھوڑی دیر بعد وہاں پر خوشی آگئی حسان نے ٹھیک ہی کہا تھا زینش کو اس سے مل کر خوشی ہوئی تھی کیونکہ وہ ایک خوش اخلاق لڑکی تھی اور سب سے بڑی بات وہ اس کی یونیورسٹی میں ہی پڑتی تھی۔۔۔ اتنی تذلیل کے بعد زینش نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ اب یہاں پر نہیں رہے گی بلکہ خوشی کی مدد سے وہ یونیورسٹی میں موجود ہاسپٹل میں روم میں لے لےگی۔۔۔ بلال کے علاوہ سب ہی نے خوش گپوں میں مصروف ناشتہ کیا تھا۔۔۔ ایک خوش ہی تھی جو کہ تھوڑی دیر بعد بلال سے بات کر لیتی اور بلال اس کی بات کا جواب لگے بندھے انداز میں دے دیتا


*****


"واو کتنا زبردست پرنٹ ہے یہ بھابھی۔۔۔ یہ سوٹ تو میں ہی رکھ لیتی ہوں"

سندیلا تھوڑی دیر پہلے ہی سحرش کے ساتھ جا کر بازار سے اپنے لئے تین ان اسٹچ جوڑے لے کر آئی تھی۔۔۔ بے شک اسکول کا قصہ اب ختم ہوچکا تھا اسکول کی جگہ پر وہاں پر کوئی شاپنگ مال تعمیر ہو رہا تھا۔۔۔ لیکن سندیلا کو اب ویکلی ڈاکٹر کے پاس اپنے چیک اپ کے لیے جانا پڑتا اس لئے آج اس نے سحرش کے ساتھ بازار جانے کا پلان بنایا تھا وہ تھوڑی دیر پہلے ہی گھر لوٹی تھی اور تینوں سوٹ اپنے کمرے میں لاکر بیڈ پر ہی رکھے تھے تب فائقہ ان میں سے ایک سوٹ اٹھاتی ہوئی سندیلا سے بولی


"فائقہ یہ سوٹ واپس بیڈ پر رکھ دو، پرانے سارے میرے کپڑے اب مجھے ٹائٹ ہو رہے ہیں۔۔۔ کھلے کپڑوں کی ضرورت ہے اب مجھے"

سندیلا اس کا بغیر لحاظ کیے بولی تھی کیونکہ جب بھی فائقہ کو اپنا کام ہوتا ہے یا پھر کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو وہ ایسے ہی میٹھی بن جاتی تھی۔۔۔۔ شروع شروع میں تو سندیلا نے بیوقوف بن کر اپنے جہیز کے کپڑوں میں سے نئے کپڑے جو کہ اس نے خود بھی استعمال نہیں کیے تھے، فائقہ کے مانگنے پر اس کو دے دیے تھے مگر فائقہ اس سے کوئی بھی چیز لینے کے بعد اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھ لی تھی


"ہاں تو بھائی خرید کر دے دیں گے آپ کو اس جیسا دوسرا سوٹ اب یہ تو مجھے پسند آگیا ہے اس لیے میرا ہوگیا"

سندیلا کے بولنے پر فائقہ نے سوٹ رکھا نہیں تھا بلکہ اس کا سوٹ ہاتھ میں پکڑے وہ کمرے سے باہر نکلنے لگی تب ہی سندیلا اس کے سامنے آئی اور فائقہ کے ہاتھ سے آرام سے اپنا سوٹ لے کر اس سے بولی


"ڈیڑھ سال ہوگیا ہے شام نے مجھے کوئی ڈریس خرید کر نہیں دیا ہے، یہ کپڑے میں اپنے لئے اپنی سیلری سے خرید کر لائی ہو۔۔۔ تمہیں تو ہر ماہ شام پاکٹ منی تمہارے بغیر بولے تمہیں دے دیتے ہیں، اس کے علاوہ آنٹی اور تمہارے کپڑوں کے لیے شام الگ سے پیسے دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی اگر تم شام سے فرمائش کروں گی تو وہ کبھی بھی نہیں ٹالیں گے تم شام سے کہہ کر اپنے لئے اس جیسا دوسرا سوٹ منگوا لینا"

سندیلا فائقہ کو بولتی ہوئی اپنے ڈریس کو واپس بیڈ پر رکھنے لگی اور سندیلا کی بات سن کر فائقہ اچھی طرح آگ بگولہ ہو گئی


"لعنت بھیجتی ہوں میں آپ کے ان کپڑوں پر جس کی وجہ سے آپ مجھے اتنی باتیں سنا رہی ہیں، آنے دیں بھائی کو سب بتاؤں گی انہیں۔۔۔ ارے آپ اس گھر میں رہ کر میرے بھائی کا ہی تو ٹھوس رہی ہیں فٹبال جیسا فگر ہو گیا ہے آپ کا اور چلی ہیں نئے نئے کپڑے پہننے"

نہ جانے اور کیا کیا بکواس فائقہ اس کے منہ پر کہہ کر اس کے کمرے سے باہر چلی گئی تھی اب وہ رو رو کر ساری باتیں نزہت بیگم کو بتا رہی تھی جس کی آواز سندیلا کو اپنے کمرے تک آ رہی تھی سندیلا نے اپنے لائے ہوۓ کپڑوں کو اٹھا کر وارڈروب میں رکھ دیا کیونکہ اسے اندازہ ہو چکا تھا اب وہ آج شام میں ٹیلر کے پاس نہیں جاسکتی ہے البتہ احتشام کے افس سے آنے کے بعد اب گھر میں ایک نیا ہنگامہ برپا ہوگا جبکہ احتشام پہلے ہی بیٹی پیدا ہونے کی خبر سن کر سندیلا سے سیدھے منہ بات ہی نہیں کر رہا تھا وہ تھکے ہوئے انداز میں بیڈ پر لیٹ گئی


****


"کیا بکواس کی ہے تم نے فائقہ سے، میں تمہیں سکھ کا سانس نہیں لینے دیتا، تم سے زبردستی جاب کرواتا ہوں۔۔۔ اپنی ساری تنخواہ کے پیسے اپنی ماں بہن کے پیٹ میں بھرتا ہوں اور تمہیں اپنی ضرورتوں کے لیے اپنے بھائی کے گھر جا کر بھیگ مانگنی پڑتی ہے تاکہ تم اپنے لئے نئے کپڑے خرید سکوں"

احتشام آفس سے گھر آنے کے بعد اپنے کمرے میں نہیں آیا تھا بلکہ فائقہ روتی ہوئی اس کے گلے جا لگی تھی اور نزہت بیگم نے سندیلا کی کہی ساری باتیں احتشام کو سنائی تھی جس کی وجہ سے فائقہ نے دوپہر سے رو رو کر اپنا برا حال کر لیا تھا


"یہی تو آپ کی امی اور دونوں بہنوں کی خاصیت ہے شام کے وہ ہر بات کو بڑھا چڑھا کر، اپنی طرف سے لگائی باتیں آپ کو بتاتی ہیں اور آپ کی کوالٹی معلوم ہے کیا ہے آپ بنا تصدیق و تحقیق کے کمرے میں آکر مجھ پر چڑھائی کر دیتے ہیں میں آپ کو اپنی کسی بھی بات پر یقین دلانے کے لیے قسم نہیں کھاؤ گی۔۔۔ لیکن یہ سچ ہے کہ میں نے کبھی بھی اپنے بھائی بھابھی کے سامنے پیسوں کا رونا نہیں رویا نہ ہی کبھی سسرال کی برائیاں کی ہیں بھیگ مانگنا تو دور کی بعد۔۔۔ آپ کی بہن کو میرا خریدا ہوا ڈریس پسند آ گیا تھا جو اس نے مجھ سے مانگا تو میں نے اسے دینے سے صاف انکار کر دیا۔۔ اس چھوٹی سی بات کو ایشو بنا کر وہ اتنا بڑا ہنگامہ کری ایڈ کر رہی ہے"

سندیلا تھوڑی دیر پہلے ہی رات کا کھانا اور روٹیاں بنا کر کمرے میں آئی تھی اب وہ شام کو اصل بات بتانے لگی جسے سننے کے بعد احتشام خاموش ہوا شاید اس لیے بھی کہ وہ فائقہ کو ہر مہینے اچھی پاکٹ منی دیتا تھا جبکہ سندیلا کو کوئی بھی چیز خریدنا ہوتی وہ اپنی سیلری سے ہی خریدتی تھی


"جاؤ فائقہ کو وہ ڈریس دے کر آؤ میں تمہارے لیے دوسرا ویسا ہی ڈریس لادو گا اور امی سے بھی معافی مانگو جاکر"

احتشام کی بات سن کر سندیلا اسے حیرت سے دیکھنے لگی


"کس چیز کی معافی مانگو میں آنٹی سے، ان سے تو میری کوئی بات ہی نہیں ہوئی ہے"

سندیلا کے بولنے پر احتشام غصے میں چلتا ہوا اس کے نزدیک آیا


"تم نے جو میرے آنے سے پہلے زبان چلائی ہے اس کی وجہ سے وہ اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی رو رہی ہیں، دل دکھا ہے ان کا تمہاری بکواس سن کر۔۔۔ سندیلا اب مزید کوئی بحث مت کرنا جاؤ ابھی اور اسی وقت ان سے معافی مانگو اور وہ ڈریس بھی فائقہ کو دے کر آؤ"

احتشام ایک بار پھر غصے میں اس کے سر پر کھڑا سندیلا سے بولا سندیلا بیڈ سے اٹھ کے اس کے سامنے کھڑی ہو گئی


"صحیح ہے وہ ڈریس میں فائقہ کو دے دیتی ہوں،، مجھے آپ سے کوئی دوسرا ڈریس بھی نہیں چاہیے لیکن وہ آنٹی سے میں معافی نہیں مانگوں گا شام کیوکہ شوہر ہونے کے باوجود آپ اپنی بیوی کو بغیر اس کی غلطی کے، اپنے گھر والوں کی خوشی کی خاطر اسے جھکانے کے لیے تیار ہیں۔۔۔ لیکن میری خود کی نظر میں میرا اپنا وجود اتنا گیا گزرا نہیں ہے کہ میں بغیر کسی قصور کے آپ کے گھر والوں سے معافیاں مانگتی پھرو"

سندیلا اپنے آنسو ضبط کرتی ہوئی احتشام سے بولی جس سے اس کا پارہ مزید چڑھ گیا


"بیٹی پیدا کرنے والی ہو تم، تو پھر تم میں یہ آکڑ کس بات کی ہے جو تم جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوں"

احتشام کے الفاظ کسی چابک کی طرح اسے اپنے اوپر پڑتے ہوئے محسوس ہوئے۔۔۔ تو کیا ساری زندگی اسے اس بات پر جھک کر رہنا پڑے گا کہ وہ ایک بیٹی کو جنم دینے والی ہے


"بیٹی پیدا کرنے میں میرا خود کا اکیلا کتنا عمل دخل ہے شام آپ ذرا یہ بات آج مجھے سمجھا دیں۔۔۔ بیٹی کو اس دنیا میں لانے کا جتنا ہاتھ میرا ہوگا تو اتنے ہی قصوروار آپ بھی ہیں پھر آپ میں کس چیز کی اکڑ ہے۔۔۔ درخت ویسے ہی پھول اور پھل دیتا ہے جیسا اس کی نگہداشت کرنے والا مالی اس میں بیج بوتا ہے"

سندیلا کی باتیں مزید احتشام برداشت نہیں کر پایا تبھی غصے میں اس کا ہاتھ فضا میں بلند ہوا

"بہت بکواس سن لی میں نے تمہاری، اب اگر تمہاری زبان چلی نہ تو میں بھول جاؤں گا کہ تم پریگنٹ ہو دفع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے"

احتشام اپنا ہاتھ نیچے کر کے چیختا ہوا بولا سندیلا آنکھوں سے آنسو صاف کر کے وارڈروب کی طرف بڑھی اور اپنے کپڑے بیگ میں ڈالنے لگی تاکہ وہ واقعی احتشام کی نظروں کے سامنے سے دفع ہو جائے۔۔۔ دل اس کا خود بھی یہی چاہ رہا تھا کہ احتشام سمیت اس کے گھر والے اس کی نظروں کے سامنے سے دفع ہو جائیں مگر وہ سب اپنے ہی گھر سے کیسے دفع ہو سکتے تھے اس لیے سندیلا نے خود ہی اپنے وجود کو اس گھر سے غائب کرنے کا سوچا


****

"بزی تو نہیں تم حسان نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تو سامنے کھڑا بلال اس سے پوچھنے لگا


"نہیں تو اندر آجاؤ" حسان راستہ دیتا ہوا بولا تو بلال اس کے کمرے میں آ گیا


"کیا ہوا، کوئی ضروری کام تھا" حسان بلال کو دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا


"نہیں کوئی خاص ضروری کام نہیں تھا بس ایسے ہی"

بلال صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا مگر جو وہ پوچھنا چاہ رہا تھا ڈائریکٹ پوچھتے ہوئے ہچکچا رہا تھا،، حسان جو کہ اس سے چار قدم دور ٹیبل سے ٹیک لگائے بلال کے سامنے کھڑا تھا، بلال کے بولنے کا منتظر تھا


"وہ کہاں گئی"

چند سیکنڈ بعد بلال نے بولا مگر اس نے زینش کا نام لینے سے مکمل گریز کیا تھا ہفتے بھر سے وہ اُسے اس گھر میں کھانے کی میز پر تو کبھی لان میں واک کرتے ہوئے کبھی لیونگ روم میں حسان اور جویریہ کے ساتھ باتیں کرتا ہوا دیکھ رہا ہوتا تھا مگر کل شام جب وہ آفس سے گھر آیا تو زینش اسے رات کو ڈنر پر نظر نہیں آئی۔۔۔ زینش کی غیر موجودگی محسوس کرنے کے باوجود بلال نے کسی سے اس کے بارے میں نہیں پوچھا تھا مگر آج پورا دن وہ اسے گھر میں نظر نہیں آئی تو وہ حسان سے زینش کے بارے میں پوچھنے چلا آیا


"کون، کس کے بارے میں پوچھ رہے ہو" حسان انجان بن کر بلال سے پوچھنے لگا جس پر بلال کی پیشانی پر بل آئے کیونکہ بلال جانتا تھا حسان انجان بننے کی ایکٹنگ کر رہا ہے وہ اچھی طرح واقف تھا کہ بلال اس سے زینش کے بارے میں ہی بات کر رہا تھا


"تم جانتے ہو کہ میں کس کے بارے میں بات کر رہا ہوں"

بلال ماتھے پر بل لیے حسان کو دیکھتا ہوا بولا


"نہیں میں بالکل بھی نہیں جانتا تم کس کے بارے میں بات کر رہے ہو، آخر ایسا کونسا سا انسان ہے جو میرے بھائی کی نظر میں اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ میرا چھوٹا بھائی خود اس کے بارے میں پوچھنے یہاں چل کر میرے پاس آیا ہے"

حسان نارمل انداز میں بلال سے بولا بلال اس کی بات سن کر اچھی طرح چڑ گیا


"بات کو بلاوجہ میں دوسرا رنگ دینے کی ضرورت نہیں ہے حسان، وہ چند دنوں میں اسی گھر میں ایک فرد کی حیثیت سے رہ رہی تھی کل سے نظر نہیں آئی تو میں یونہی پوچھنے آگیا، اس میں اسے ایسی کوئی اہمیت دینے والی بات نہیں ہے بس میرا دماغ خراب ہوگیا تھا جو میں تم سے اس کے بارے میں پوچھ بیٹھا"

بلال نے ابھی بھی زینش کا نام لینے سے گریز کیا تھا مگر اب وہ حسان سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے صوفے سے اٹھ کر اپنے کمرے میں جانے لگا مگر حسان کی آواز پر اس کے قدم رکے


"وہ نیویارک سے یہاں پر اس لیے آئی تھی کیونکہ وہاں پر اُس کے ماموں اسے اسی شرط پر اپنے پاس رکھنے کے لئے تیار تھے کہ وہ چند دن ایڈی نام کے اس لڑکے کے ساتھ اس کا اپارٹمنٹ شیئر کرے جس کے پیرنٹس کے کوٹیچ میں وہ اس کے ماموں اور ممانی رہتے تھے۔۔۔۔ یہاں شہنیلا آنٹی کا کوئی دوسرا رشتے دار نہیں تھا جس کے گھر وہ اپنی بیٹی کو بھیجتی،، پنڈی میں ایک چچا رہتے ہیں جو زینش کو اپنے پاس رکھنے کے لئے تیار نہیں تھے اس لئے زینش ہمارے گھر آئی تھی مگر اچانک ہی زینش کو محسوس ہوا کہ اسے ہاسٹل میں رہنا چاہیے اس لیے وہ کل یونیورسٹی سے گھر اپنا سامان لینے کے لیے آئی تھی اور ساتھ ہی اس نے امی کو بہت ہی خوبصورت طریقے سے اپنے ہاسٹل میں رہنے کا پڑھائی کا بودا سا جواز پیش کردیا۔۔۔ میں آج گیا تھا اس سے ملنے ہاسٹل میں، زینش سے گھر چھوڑنے کی اصل وجہ جاننے کے لیے مگر زینش نے مجھے ذرا بھی شک نہیں ہونے دیا بہت خوبصورتی سے وہ میری بات کو ہی ٹال گئی لیکن امی اور میں دونوں ہی اُس کے گھر چھوڑنے کی اصل وجہ سمجھ چکے ہیں کیونکہ ہم دونوں بھی نہ ہی اتنے بے خبر ہیں اور نہ ہی بے وقوف"

حسان کی بات مکمل ہونے پر بلال خاموشی سے اس کے کمرے سے واپس اپنے کمرے میں چلا گیا


****


"کیا ہوا واپس اپنے سسرال جا رہی ہو کیا"

سندیلا کو تیار ہو کر گھر سے باہر جاتا ہوا دیکھ کر وردہ اچانک اس سے پوچھنے لگی


"نہیں بھابھی میں تو بس یونہی قریبی مارکیٹ میں بےبی شاپ تک جا رہی تھی"

سندیلا شرمندہ ہوتے ہوئے وردہ کو جواب دینے لگی،، کل رات میں وہ احتشام کی باتوں سے دلبرداشتہ ہوکر اپنے چند کپڑے لے کر اپنے بھائی انیس کی طرف آ گئی تھی مگر آج صبح ہی سے وردہ وقفے وقفے سے اس سے واپس جانے کے لیے تین سے چار بار پوچھ چکی تھی


"اچھا اچھا شانی اور ہنی کے لیے کوئی چیز لینا ہوگی کل رات میں ہی دونوں بچے مجھ سے کہہ رہے تھے کے پھپھو کتنے دن بعد آئی ہیں مگر ہمارے لئے کچھ بھی نہیں لے کر آئیں"

وردہ ہنستے ہوئے سندیلا کو دیکھ کر بولی تو سندیلا خفیف سی مسکراہٹ چہرے پر لاۓ گھر سے باہر نکلنے لگی


"ارے سندیلا یاد آیا اس بےبی شاپ کے پاس بریانی کی نئی دکان کھلی ہے بڑے ہی مزے دار بریانی ہوتی ہے وہاں کی۔۔۔ مجھ سے پیسے لے جاؤ واپسی پر وہاں کی بریانی لے کر آ جانا، دل ہو رہا ہے آج باہر کی بریانی کھانے کا"

سندیلا کو باہر جاتا دیکھ کر وردہ ایک دم سے بولی


"پیسے رہنے دیں بھابی میں لے کر آ جاؤ گی"

سندیلا کے بولنے پر وردہ مسکراتی ہوئی خدا حافظ کہہ کر دروازہ بند کرنے لگ گئی جبکہ سندیلا کا شدت سے دل چاہا وہ کہیں بہت دور ایسی جگہ پر چلی جائے جہاں کوئی اسے پہچانتا ہی نہ ہو


کل جب وہ اپنے بھائی انیس کے گھر پہنچی تھی اس کا یہاں کتنے ماہ بعد چکر لگا تھا پر بھی بہت سرسری انداز میں اس کا استقبال کیا گیا تھا۔۔۔ اس کا بھائی اب اپنے آفس کے مسئلے مسائل میں اور گھریلوں الجھنوں میں الجھا رہتا تھا اس نے دو گھڑی سندیلا کے پاس بیٹھ کر اس کی خیریت بھی نہیں پوچھی تھی بس کھانا سب نے بیٹھ کر اکٹھا کھایا تھا اور اس کے بعد بچے اپنے کمرے میں،، انیس اور وردہ اپنے کمرے میں چلے گئے تھے


سندیلا نے یہی سے مارکیٹ میں نیو بورن بے بی شاپ جانے کا اس لیے سوچا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے کچھ چیزیں خرید لے تاکہ کل کو اسکو سسرال والوں کی طرف سے یہ طعنہ نہ ملے کہ اس کے بھائی نے اُسے اپنے گھر سے خالی ہاتھ لوٹا دیا۔۔۔ انیس اس کی شادی کرنے کے بعد سندیلا کی طرف سے بالکل بری الذمہ اور غافل ہو چکا تھا جس کے طعنے وہ اکثر احتشام کی امی سے سنا کرتی تھی اور اسے احتشام کی مثالیں دیا کرتی تھی کہ کیسے شادی کرنے کے باوجود احتشام نے اپنی بڑی بہن صائقہ کا خیال رکھا ہوا تھا


"ہیلو استانی جی"

رکشے والے کو کرایہ دینے کے بعد سندیلا نہ صرف اپنے پیچھے سے آئی آواز پر چونکی بلکہ اس نے مڑ کر دیکھا تو سامنے اسی موالی کو کھڑا پایا جو آنکھوں میں شناسائی اور لبوں پر مسکراہٹ لیے سندیلا کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا


"لگتا ہے آپ مجھے بھول گئی ہیں میں وہی ہوں جس سے آپ اپنا موبائل چھپا رہی تھیں"

سندیلا اس کو پہلی نظر میں ہی پہچان گئی تھی مگر جو بات معظم نے اس کو یاد دلائی سندیلا سخت نظروں سے اس بےھودہ انسان کو گھورنے لگی معظم کی آنکھوں میں ناچتی ہوئی شرارت کو دیکھ کر سندیلا کو دل چاہا کہ وہ اسے کھری کھری سنائے


"تم جیسے بدمعاشوں کو کوئی شریف انسان بھول بھی نہیں سکتا کتنے پیسے کمالیے ہو گے اس دن تم نے غنی صاف کا اسکول بند کروا کر،، تمہاری وجہ سے کتنے اسٹوڈنٹس کو مسلہ ہوا ہوگا،، کتنے ٹیچر بیروزگار ہوئے اور غنی صاحب، ان بیچاروں کو اپنی زمین تم جیسے سڑک چھاپ موالی کی وجہ سے اونے پونے داموں میں بیچنا پڑی۔۔ شرم سے ڈوب مرنا چاہئے تمہیں اپنے اس گھٹیا کام پر"

اپنی طرف سے تو اس نے معظم کو بہت اچھی طرح ذلیل کیا تھا مگر معظم سندیلا کے آج کے لیکچر کو بھی بہت شوق اور دلچسپی سے سن رہا تھا


"ان ساری باتوں میں صرف ایک ہی بات بھاری ہے اور وہ یہ کہ مجھ جیسے بدمعاش کو شریف انسان نہیں بول سکتا آپ نے مجھے یاد رکھا ہوا ہے کانوں کو سن کر اچھا لگا لیکن آپ کو ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے استانی جی۔۔۔ وہاں سب کھاتے پیتے گھرانے کے بچے پڑھتے تھے انہیں ارام سے کسی دوسرے اسکول میں سے داخلہ مل جائے گا اور وہ گنجا میرا مطلب ہے غنی اس بڈھے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اپنی زمین بیچ کر،،، بلکہ فائدہ ہی ہوا ہے کیونکہ اس نے وہ زمین کسی بیوہ عورت کا حق مار کر اس سے ضبط کی تھی اور سمجھ لیں جیسے اس نے وہ زمین اس عورت سے چھینی ویسے ہی کسی دوسرے نے اس سے چھین لی۔۔ بس آپ خوش رہا کریں یہ بتائیں آپ کو تو جاب چھوڑنے سے کوئی فرق نہیں پڑا ناں"

وہ سندیلا سے دوستانہ لہجے میں بہت معصوم بنا ہوا پوچھ رہا تھا۔۔ سندیلا نے خار بری نظروں سے اس کو دیکھا اور بغیر کچھ بولے آگے قدم بڑھانے لگی


"ارے استانی جی کہاں چل دی آپ ذرا بات تو سنتی جائے میری"

سندیلا لوگوں کی بھیڑ میں آگے قدم بڑھائے جا رہی تھی تو معظم اس کے پیچھے آتا ہوا بولا وہ مزید اس کے منہ نہیں لگنا چاہتی تھی کیونکہ وہ ایک غنڈا تھا اور سندیلا نہیں چاہتی تھی کہ کوئی بھی تماشا بنے


"اتنا تیز کیو چل رہی ہے آرام سے چلیں ورنہ سانس پھولے گا آپ کا"

معظم کی بات سن کر وہ رکی اور پلٹ کر معظم کو دیکھنے لگی جو کہ اب خود بھی رک کر سندیلا کو دیکھ رہا تھا


"مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ میرا پیچھا کرنا بند کرو اور جاؤ یہاں سے اپنا کام کرو"

وہ سخت لہجے میں معظم کو دیکھ کر بولی اس سے پہلے معظم کچھ بولنے کے لئے منہ کھولتا سندیلا دوبارہ چلنے لگی


"کام کی تو آج چھٹی ہے ناں آستانی جی، کوئی ٹاسک نہیں ہے آج میرے پاس،، پپو بھی نہ جانے کہاں مر گیا ہے صبح سے۔۔۔ اس لئے سوچا تھا کہ اپنے لئے کوئی شاپنگ کرلو ویسے آپ یہاں پر اکیلی کیوں آئی ہیں شوہر کہاں ہے آپ کا"

معظم دوبارہ اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا سندیلا سے دوستانہ لہجے میں پوچھنے لگا


"میرا شوہر جہاں پر بھی ہے اس سے تمہیں مطلب نہیں ہونا چاہیے پپو اگر کہیں جا کر مر چکا ہے تو تم بھی وہی جا کر فوت ہو جاؤ اور میرا پیچھا کرنا چھوڑو اور اب نہ ہی مجھے مخاطب کرنے کی ضررت ہے سمجھ میں آیا"

بےبی شاپ کے پاس پہنچ کر سندیلا ایک بار پھر اس سے سخت لہجے میں تنبہیہ کرتی ہوئی بولی


"یقین جانیے استانی جی آپ دنیا کی پہلی بندی ہیں جو اس لب و لہجے میں مجھ سے بات کر رہی ہیں، مجھے خود پر حیرت ہو رہی ہے کہ میں کتنے آرام سے آپ کی بات سن رہا ہوں بلکہ برداشت بھی کر رہا ہوں۔۔۔ یہاں آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ابھی تک اسے توڑ پھوڑ کر ایک سائیڈ پر پھینک چکا ہوتا خیر چھوڑیں آپ یہ بتائیں بچے کی شاپنگ کرنے آئی ہے ناں یہاں پر"

معظم سامنے بڑی سی بےبی شاپ کو دیکھ کر سندیلا سے پوچھنے لگا اور سندیلا خاموشی سے اپنے سامنے کھڑے اس آدمی کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی جو بلا کی سنجیدگی لئے اسے اگاہ کر رہا تھا کہ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا یقینا یہ صحیح کہہ رہا ہوگا کیوکہ وہ غنڈہ تھا اور غنی صاحب کا حشر وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی تھی مگر بچے کی شاپنگ کا پوچھتے ہوئے اس کے آنکھوں کی سنجیدگی کہیں دور جا سوئی تھی اور وہ بہت اشتیاق سے سندیلا سے اس کے بچے کا پوچھ رہا تھا سندیلا کوئی بھی جواب دیئے بغیر بےبی شاپ کے اندر چلی گئی


"استانی جی یہ دیکھیں یہ کپڑے کیسے لگ رہے ہیں فٹ لگیں گے ایک دم آپ کے بچے پر"

سندیلا ریک پر ہینگ ہوۓ بےبی سوٹ دیکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی پرائیز بھی دیکھ رہی تھی کیو کہ اب اسے اپنے بھتیجوں کے لیۓ بھی یہاں سے کچھ لے کر جانا تھا تب اچانک معظم ایک بابا سوٹ لے کر سندیلا کو دکھانے لگا جیسے وہ دونوں بچے کی شاپنگ کرنے ایک ساتھ اکٹھا آئے ہو


"بابا سوٹ نہیں چاہیے بےبی گرل کی شاپنگ کرنی ہے" سندیلا کے منہ سے بے ساختہ نکلا اور پھر وہ بری طرح پچھتائی


"ارے واہ یعنی بیٹی ہونے والی ہے آپ کو۔ ۔۔ بیٹیاں تو بہت پیاری اور معصوم ہوتی ہیں جبکہ بیٹے تو پیدائشی بدمعاش ہوتے ہیں۔۔۔ مجھے تو پسند ہی بیٹیاں ہیں بیٹوں کے مقابلے میں"

معظم کی ایکسائٹمنٹ کا یہ حال تھا کہ سندیلا نے ہاتھ کے اشارے سے اسے دو بار آہستہ آواز میں بولنے کو کہا کیوکہ شاپ پر دوسرے لوگ بھی معظم کی بات سن کر ان کی طرف متوجہ ہو رہے تھے


"دیکھو میری بات غور سے سنو میں تمہیں بالکل بھی نہیں جانتی ہو اور ایک شادی شدہ لڑکی ہو۔۔۔ تم اپنی دوستانہ نیچر سے مجھے صرف اور صرف دوسروں کے سامنے مشکوک بنا رہے ہو پلیز میرے لیے مسئلہ مت پیدا کرو میں تم سے ریکویسٹ کرتی ہوں"

سندیلا اب کی بار اسے نرمی سے التجا کرتی ہوئی بولی تو معظم چند سیکنڈ اسے خاموشی سے دیکھنے کے بعد کچھ بولے بنا چند قدم کے فاصلے پر بےبی گرل کے دوسرے ڈریس دیکھنے لگا مگر اب نہ وہ سندیلا کو مخاطب کر رہا تھا نہ سندیلا کی طرف دیکھ رہا تھا


"بھابھی آپ یہاں کیا کر رہی ہیں"

سندیلا دوبارہ ڈریس دیکھنے میں مشغول تھی تب وہ اپنے دیور باسل کی آواز پر چونکی


"کچھ ضروری چیزیں لینا تھی اس لیے یہاں آئی ہوں تمہارا یہاں کیسے آنا ہوا"

سندیلا نے باسل کو جواب دیتے ہوئے سرسری سی نگاہ معظم پر ڈالی جو انجان بنا ہوا چند قدم کے فاصلے پر ابھی بھی بےبی گرل کے ڈریس دیکھ رہا تھا یہ پھر انجان بننے کی اداکاری کر رہا تھا


"میں کسی کام سے نکلا ہوا تھا اس بےبی شاپ کے پاس سے کزر رہا تھا تو آپ کو دیکھ کر اندر آ گیا،، آپ کل رات گھر کو چھوڑ کر چلی گئی تھیں، کیا بھائی سے پھر کوئی لڑائی ہوگئی آپ کی"

باسل اس سے کبھی بھی اتنا فرینک نہیں رہا تھا مگر باسل کے یہ سب باتیں پوچھنے پر سندیلا کو حیرت کم گھبراہٹ زیادہ ہو رہی تھی کیونکہ ایک انجان بنا ہوا اجنبی وہاں موجود تھا اور سندیلا کو نہ جانے کیوں یقین ہوا چلا تھا وہ اس کی اور باسل کی ساری باتیں سن رہا ہے


"کوئی لڑائی نہیں ہوئی ہے میری شام سے، آج ان کا فون آیا تھا وہ مجھے کل لینے آ جائیں گے"

سندیلا سنجیدگی سے باسل کو جواب دے کر بات ختم کرتی ہوئی دوبارہ ڈریس دیکھنے لگ گئی وہ بالکل بھی نہیں چاہتی تھی کہ اب باسل اس سے مزید کوئی دوسرا سوال کرے


"ٹھیک ہے بھابھی، وہ مجھے آپ سے کچھ کام تھا دراصل مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت تھی اگر آپ مجھے پیسے دے دیں تو میں واقعی بھائی کو کل آپ کے پاس کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر آپ کے بھائی کے گھر آپ کو لینے بھیج دوں گا۔۔۔ اپنے انیس بھائی کے سامنے آپ کا بھرم بھی رہ جائے گا کیونکہ آپ کو یقین ہے کہ بھائی آپ کو لینے آئیں گے مجھے نہیں لگتا کہ بھائی آپ کو ہفتے بعد بھی لینے آئیں گے"

باسل نے بولنے کے ساتھ ہی سندیلا کے کندھے سے بیگ اتار کر اس میں سے کلچ نکال لیا


"یہ کیا بدتمیزی ہے باسل واپس کرو میرا بیگ ورنہ میں تمہاری شام سے شکایت کر دوں گی"

سندیلا وہاں پر لوگوں کی موجودگی کا احساس کرتی ہوئی آہستہ آواز میں باسل کو وارننگ دینے لگی مگر باسل سندیلا کے کلچ میں موجود پوری رقم ڈھٹائی کے ساتھ نکال چکا تھا شاید باسل کو خود بھی اندازہ تھا سندیلا یہاں پر شور مچا کر کوئی ولولہ نہیں کھڑا کر سکتی ہے


"اور بھائی آپ کی بات پر یقین کرلیں گے انہیں اچھی طرح معلوم ہے ان کی بیوی اپنے سسرال والوں کے بارے میں صرف بکواس کرتی ہے"

باسل سندیلا کا مذاق اڑاتا ہوا بولا اور وہاں سے جانے لگا اب معظم پورا پورا باسل کی طرف متوجہ ہو چکا تھا وہ قدم بڑھاتا ہوا باسل اور سندیلا کی طرف آنے لگا تاکہ باسل کا دماغ ٹھکانے لگا دے مگر باسل کے وہاں سے جانے سے پہلے سندیلا نے باسل کو روکنے کے لیے اس کا بازو پکڑا کیونکہ سندیلا کے پاس واپسی جانے کے لیے رکشہ کا کرایہ موجود نہ تھا باسل نے اس سے اپنا بازو چھڑوانے کے لیے سندیلا کو بنا سوچے سمجھے پیچھے کی طرف دھکا دیا اور وہاں سے بھاگ نکلا


"آآآآآ"

بے ساختہ اس کے منہ سے چیخ نکل گئی تھی مگر سندیلا کا بے ڈول وجود زمین پر گرتا اس سے پہلے اس کے پیچھے آتا معظم مضبوطی سے اسے تھام چکا تھا


"آپ ٹھیک ہے نا استانی جی"

دل میں باسل کو گالی دیتا ہوا معظم سندیلا کے چہرے پر تکلیف کے آثار دیکھ کر اس سے فکر مندانہ لہجے میں پوچھنے لگا۔۔۔ وہ سندیلا کی تکلیف دیکھ کر شدید خواہش کے باوجود باسل کے پیچھے اس کا منہ توڑنے نہیں جا سکا تھا


"بیٹا ٹھیک ہو ناں آپ اس حالت میں کیوں نکل آئے گھر سے"

ایک عمر رسیدہ خاتون سندیلا اور معظم کے پاس آتی ہوئی سندیلا سے پوچھنے لگی جبکہ معظم نے شاپ کیپر سے اشارہ کر کے وہاں پر سندیلا کے لیے کرسی منگوائی کیونکہ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ سندیلا اپنے وزن پر کھڑی نہیں ہو پا رہی ہے معظم نے ابھی بھی اسے تھاما ہوا تھا


"میں ٹھیک ہوں آنٹی پاؤں سلپ ہونے کی وجہ سے کمر میں جھٹکا آگیا ہے شاید"

سندیلا آنسو ضبط کرتی ہوئی بولی معظم اسے گرنے سے بچا تو چکا تھا مگر اس کی کمر میں ٹیسیں اٹھنا شروع ہو چکی تھی


"آپ بیٹھیں یہاں پر"

معظم سندیلا کو سہارا دے کر کرسی پر بٹھانے لگا وہ معظم کے سہارے پر ہی بمشکل کھڑی ہوئی تھی


"ایسا کرو بیٹا اپنی بیوی کو کسی لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ، ان دنوں میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے خیال رکھا کرو اس کا"

لفظ بیوی پر جہاں سندیلا کو عجیب سا لگا تھا۔۔۔ وہی معظم سندیلا کو دیکھنے لگا


"سنی آپ نے خالہ جی کی بات کتنی احتیاط کرنے کی ضرورت ہے آپ کو اور چلی ہیں بازاروں میں گھومنے پھرنے، اسکولوں کے چکر کاٹنے ایسا تھوڑی نہ ہوتا ہے کوئی۔۔۔ اب آپ بالکل بھی ضد نہیں کریں گی میں ٹیکسی لے کر آرہا ہوں آپ کو ڈاکٹر کو دکھانا ہے"

معظم کے بولنے پر تکلیف کے باوجود سندیلا خاموشی سے اسے دیکھنے لگی


"زیادہ میری اماں بننے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں، میں بالکل ٹھیک ہوں ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے بس میں اب گھر جانا چاہتی ہوں"

وہ معظم کو دیکھ کر آہستہ سے بولی کرسی پر بیٹھی ہوئی سندیلا کو معظم گھورنے لگا


"اچھا یہ پانی کی بوتل پکڑیں میں ٹیکسی لے کر آرہا ہوں جو آپ کو آرام سے گھر تک پہنچا دے گی"

وہ سندیلا کے ہاتھ میں منرا واٹر کی چھوٹی سی بوتل تھما کر ٹیکسی لینے چلا گیا


سندیلا بوتل سے پانی پیتی ہوئی باسل کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔ وہ اس کے بھائی کی بیوی تھی جو اس کی بھتیجی کو پیدا کرنے والی تھی،، ذرا افسوس نہیں ہو باسل کو اپنی آج کی حرکت پر۔ ۔۔ اس طرح کی غیر اخلاقی حرکت تو کوئی اجنبی بھی کسی پریگنٹ عورت کے ساتھ نہیں کر سکتا تھا سندیلا آنکھوں سے آنسو صاف کرتی ہوئی معظم کا انتظار کرنے لگی جو اس کے لیے ٹیکسی لینے چلا گیا تھا۔۔۔ پہلے جو وہ معظم کو دیکھ کر اپنی قسمت کو کوس رہی تھی کہ وہ غنڈہ کیوں آج اس سے ٹکرا گیا ہے لیکن اب وہ سوچ رہی تھی کہ اگر آج وہ اسے نہیں بچاتا تو پھر اس کی بچی کیسے بچ پاتی جو ابھی تک اس دنیا میں نہیں آئی تھی۔۔۔ سندیلا کو ایک بار پھر رونا آنے لگا وہ جلدی سے اپنی آنکھوں کے کونے صاف کرنے لگی کیونکہ دور سے ہی اسے معظم اپنی طرف آتا ہوا دکھائی دیا تھا


"چلیں اٹھیں ٹیکسی آ گئی ہے ڈرائیور کو ایڈریس سمجھا دیئے گا۔۔۔ کرایہ ادا کر چکا ہوں میں اسے"

معظم سندیلا کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہوا بول رہا تھا تاکہ اس کے سہارے سے سندیلا اٹھ سکے


"شکریہ تمہارا، جتنا تم نے کر دیا ہے وہی بہت ہے، میں بغیر سہارے کے اٹھ سکتی ہو"

سندیلا اس سے بولتی ہوئی خود ہی اٹھی، چلنے میں اسے ابھی بھی کمر میں تکلیف محسوس ہو رہی تھی


"آرام سے آہستہ چلیں ٹیکسی کہیں بھاگ نہیں رہی ہے"

وہ سندیلا کی بات کا برا مانے بغیر اس کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا تو سندیلا بھی اسے دیکھنے لگی


"ہر ماں بننے والی لڑکی کی اسی طرح کیئر کرتے ہو تم"

سندیلا بلکل سیریس ہو کر اس کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی جس پر معظم بے اختیارہ ہنسا


"نہیں جی ہر ماں بننے والی استانی جی نہیں ہو سکتی۔۔۔ ویسے آپ کے دیور کا نام باسل ہے ناں۔ ۔۔ اسی نام سے پکار رہی تھی آپ اس کو"

معظم سندیلا سے کنفرم کرتا ہوا پوچھنے لگا سندیلا رک کر معظم کو دیکھنے لگی


"خبردار جو تم نے اس کو کوئی بھی نقصان پہنچایا یا پھر یا پھر اپنا موالی پن دکھایا"

سندیلا گھورتی ہوئی معظم کو وارننگ دینے لگی


"جو حکم آپ کا استانی جی"

معظم ہلکا اپنے سر کو خم کرتا ہوا آرام سے سندیلا کی بات مان گیا اسے دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی سندیلا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی


وہ بے شک دوسروں کے لئے غنڈہ یا موالی ہوگا مگر اس وقت سندیلا کو اپنے لئے کسی مہربان سے کم نہیں لگا تھا سندیلا ٹیکسی میں بیٹھتی ہوئی سوچنے لگی۔۔۔

ٹیکسی نارمل اسپیڈ میں چل رہی تھی معظم نے اپنی بائیک پر بیٹھ کر ٹیکسی کا پیچھا کیا جب ٹیکسی انیس کے گھر کے سامنے رک گئی تو پھر معظم وہ گھر نوٹ کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا


****

"ہاں تو اب بتاؤ کیا وجہ تھی جو تم اچھے خاصے بڑے گھر میں رہتے رہتے یونیورسٹی کے ہوسٹل میں شفٹ ہوگئی"

خوشی زینش کو گھیرتے ہوئے اس سے ہاسٹل میں رہنے کی وجہ پوچھنے لگی


خوشی نے ہی زینش کے کہنے پر اسے ہاسٹل میں روم دلوایا تھا کیونکہ وہاں کی انچارج خوشی کی امی کی کافی اچھی دوست تھی اسی وجہ سے خوشی اس وقت زینش کے روم میں بیٹھی ہوئی تھی


"وجہ تم اچھی طرح جانتی ہو خوشی اس بڑے سے گھر میں ایک شخص ایسا بھی ہے جو بہت چھوٹے دل کا مالک ہے، تمہارے کزن کو میرا وہاں رہنا پسند نہیں تھا اور میں یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ بلاوجہ میرا وجود کسی دوسرے کو کھٹکے اس لئے میرا ہاسٹل میں رہنا ہی بہتر ہے"

زینش کندھے اچکا کر خوشی کو بتانے لگی۔۔۔ خوشی کی فرینک نیچر کی وجہ سے زینش اور اس کی کافی اچھی دوستی ہو گئی تھی


"ارے یار تم بھی اُس بلال بدھو کی باتیں دل پر لگا کر بیٹھ گئی ہو، اس کا تو شروع سے ایسا مزاج ہے مگر وہ دل کا اتنا برا نہیں ہے،، کیا تمہیں جویریہ مامی اور حسان کے خلوص پر بھی شک ہے ان دونوں نے تو ایسا کچھ نہیں کیا ہوگا جس کی وجہ سے تم نے ہاسٹل میں رہنے کا انتخاب کیا"

خوشی کے پوچھنے پر زینش ایک دم بولی


"مجھے آنٹی یا حسان بھائی کے خلوص اور نیت پر ذرا بھی شک نہیں ہے خوشی، ان دونوں نے تو اپنے گھر میں میرا استقبال خوشدلی سے کیا ہے مگر وہ گھر ان موصوف کا بھی اتنا ہی ہے،، جن کو شاید میرا وہاں رہنا گوارا نہیں ہے۔۔۔ خیر مجھے اس جگہ پر رہنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن میں نے ایک بات نوٹ کی ہے تمہیں اپنے اس اکڑو کزن کا مزاج زیادہ ناگوار گزرتا ہے اور نہ ہی وہ اتنا برا لگتا ہے جلدی سے اصل بات بتاؤ پھر"

زینش اسے مشکوک نظروں سے دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی جس پر خوشی نے قہقہ لگایا


"جیسا تم سمجھ رہی ہو ایسا کچھ بھی نہیں ہے یار بس بلال کے ساتھ بچپن سے اچھا نہیں ہوا اس لیے مجھے اس سے دلی ہمدردی ہے اور کچھ نہیں"

خوشی بات کلیئر کرتی ہوئی زینش کو بولی تو زینش تعجب سے اسے دیکھنے لگی


"ہیں ایسا کیا ہوگیا ہے ان کے ساتھ، جو وہ اتنے سڑے ہوۓ مزاج کے ہوگئے ہیں"

زینش تجسس سے پوری آنکھیں کھول کر خوشی سے پوچھنے لگی


"معلوم نہیں تمہیں پتا ہے کہ نہیں حسان رفیق ماموں کی پہلی وائف سے پیدا ہوا ہے یعنی رفعت مامی کی ڈیتھ کے بعد رفیق ماموں نے فورا جویریہ مامی سے شادی کرلی تھی۔۔۔ حسان اس وقت چھ ماہ کا تھا۔۔۔۔۔ سوتیلی ماں کا نقشہ ہمارے زہنوں میں یہی نقش گیا ہے کہ وہ بہت ظالم ہوتی ہیں مگر حسان کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا یعنی جویریہ مامی نے اسے شروع سے ہی اپنی سگی اولاد کی طرح پیار کیا اور توجہ دی۔۔۔۔ پھر اس کے بعد ان کی زندگی میں بلال آ گیا۔۔۔۔ خاندان کے اور دوسرے لوگوں کا کہنا یہی تھا اب جویریہ مامی کا پیار اور توجہ حسان سے ہٹ کر ان کی سگی اولاد یعنی بلال کی طرف چلا جائے گا مگر ایسا غلط ثابت ہوا۔۔۔۔ بلال جویریہ مامی کی سگی اولاد ہونے کے باوجود اپنے والدین کو شروع سے ہی اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکا۔۔۔ گھر میں جو ویلیو شروع سے حسان کو دی جاتی وہ آج بھی برقرار ہے میری نظر میں یہاں جویرہ مامی نے تھوڑی سی نہیں بلکہ بہت زیادہ ناانصافی بلال کے ساتھ کردی ہے۔۔۔ امی نے بتایا تھا کہ بچپن میں ایک دن بلال گھر میں بخار میں بری طرح جل رہا تھا رفیق ماموں اور جویریہ مامی اسے نوکروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر حسان کا رزلٹ لینے اسکول چلے گئے تھے۔۔۔ واپس آنے پر انہیں بلال کو ہاسپٹل میں ایڈمٹ کروانا پڑا،، جہاں تعلیم میں حسان کی بہترین کارکردگی پر باقاعدہ پارٹی دی جاتی وہی بلال کے اچھے نمبروں سے پاس ہونے پر اسے خالی خولی گفٹ دے کر یا کبھی مبارک باد پر ہی ٹرخا دیا جاتا۔ ۔۔۔ ایک دفعہ ایسے ہی حسان بیمار ہوا تو جویریہ مامی سارا دن ساری رات اس کے نزدیک بیٹھی رہی اس کے لیے فکر مند رہیں یہی سب چھوٹی چھوٹی باتیں محسوس کر کے بلال کی شخصیت میں اس طرح کی سختی آگئی۔۔۔ بلال شروع شروع میں تو حسان کا، ماموں کا یا جویریہ مامی کا ذرا بھی لحاظ نہیں کرتا تھا۔۔۔ بہت غصہ کرتا تھا اکثر غصے میں بدتمیزی کر جاتا زبان چلاتا لیکن وہ ایسا کیوں کرتا تھا یہ کبھی بھی ماموں یا پھر مامی نے جاننے کی کوششں نہیں کی بلکہ اس کی بدتمیزی دیکھ کر اسے مزید خود سے دور کر کے بورڈنگ میں ڈلوا دیا۔۔۔ جب وہ چند سال بعد وہاں سے لوٹا تو بس اس میں اتنا فرق آیا کہ وہ لیے دیۓ انداز میں رہنے لگا۔۔۔۔ رفیق ماموں کی ڈیتھ کے بعد البتہ وہ اب جویرہ مامی اور حسان کے ساتھ ٹھیک ہوگیا ہے مگر اندر ہی اندر کہیں ابھی بھی وہ اپنے اندر ایک خول میں سمٹا رہتا ہے"

خوشی کی یہ ساری باتیں سن کر زینش کو بلال سے ہمدردی محسوس ہوئی تو اس کا غصہ بھی جاتا رہا


"یعنی تمہارے کزن کی اس نیچر کے پیچھے بچپن میں ملی ہوئی ان محرومیوں کا ہاتھ ہے جس کی وجہ سے بلال صاحب کی نیچر ایسی ہوگئی ہے"

زینش کی بات سن کر خوشی اس کی بات سے اتفاق کرتی ہوئی بولی


"ٹھیک کہہ رہی ہو تم، معلوم نہیں اب بلال کی نیچر ساری زندگی ایسی رہے گی یا کبھی وہ نارمل بھی ہو سکے گا"

خوشی افسردہ سی مسکراہٹ کے ساتھ زینش سے بولی


"کیوں نہیں ٹھیک ہو سکتے وہ بچپن سے جس بچے کو نگلیکٹ کیا جائے اس کی شخصیت میں ان باتوں کا منفی اثر پڑتا ہے مگر ایسے لوگ بہت سینسیٹو ہوتے ہیں ذرا سی پیار اور توجہ سے وہ واپس ایک نارمل لائٹ گزار سکتے ہیں بس تھوڑی سی محنت اور بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے ان پر"

زینش فلسفہ بیان کرتی ہوئی بولی تو ہاسٹل کے روم کا دروازہ بجا


"میڈم نے آپ کو نیچے بلوایا ہے ویٹنگ روم میں آپ کے کزن بلال آۓ ہیں وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں"

دروازہ کھلنے پر جو پیغام ملازمہ نے زینش کو دیا اس سے نہ صرف زینش کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا بلکہ خوشی بھی حیرت سے اسکو دیکھنے لگی


"زینش تمہیں نہیں لگتا ہمیں ایک شرط لگانا چاہیے"

خوشی کچھ سوچتی ہوئی زینش سے بولی


****


زینش ویٹنگ روم میں پہنچی جہاں صوفے پر بیٹھا بلال اسی کیا منتظر تھا وہ زینش کو ویٹنگ روم میں آتا دیکھ کر کھڑا ہوگیا


"کہیے کیسے آنا ہوا آپ کا"

وہ خود سوچ میں تھا کہ اپنے سامنے کھڑی اس لڑکی کو کیسے مخاطب کرے مگر زینش نے اسے خود مخاطب کر کے بلال کا مسئلہ حل کردیا


"میں لینے آیا ہوں تمہیں واپس گھر چلو میرے ساتھ"

بلال پینٹ کی جیبوں میں اپنے دونوں ہاتھ ڈال کر زینش کو دیکھتا ہوا بولا


"کس خوشی میں"

زینش اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر سنجیدہ انداز میں بلال سے پوچھنے لگی


"امی اور حسان تمہیں مس کر رہے ہیں اسی خوشی میں"

اس وقت بھی بلال بات کرتے ہوئے بلکل سریز تھا، اپنائیت کی ہلکی سی رمق بھی اس کے چہرے پر موجود نہ تھی


"تو آپ آنٹی اور حسان بھائی کا خیال کرکے مجھے لینے آئے ہیں یعنی آپ کو اپنے کہے ہوئے جملوں کا کوئی احساس نہیں ہے"

زینش بلال کو دیکھتی ہوئی نرمی سے پوچھنے لگی


"مجھ سے زیادہ فری ہونے کی یا فالتو بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے جتنا کہا ہے اتنا ہی کرو، اپنا سامان پیک کروں میں یہاں پر ویٹ کر رہا ہوں تمہارا۔۔۔ انچارج سے میں تمہیں اپنے ساتھ لے جانے کی بات کر چکا ہوں"

بلال اب بھی اپنے چہرے پر سنجیدگی لائے ہوئے زینش سے بولا


"مجھے آپ اپنے سے فری ہوتا دیکھنا پسند نہیں کر رہے ہیں اور خود آپ مجھ سے اتنا فری ہو گئے ہیں کہ مجھ سے پوچھے بغیر، میری مرضی کے جانے بغیر ہاسٹل کی انچارج سے مجھے اپنے ساتھ لے جانے کا بول چکے ہیں"

زینش نے بولتے ہوئے اپنے چہرے پر مسکراہٹ کو چھپا کر تاثرات کو بالکل سنجیدہ رکھا وہ بلال کی آنکھوں میں دیکھ کر اسے صحیح فری ہونے کی ڈیفینیشن بتا رہی تھی


"مجھے ایسا لگا تھا کہ تم میرے بولے گئے جملوں سے ہرٹ ہوکر یہاں پر آ گئی ہو اس لیے میں تمہیں یہاں سے واپس لینے آ گیا۔۔۔ لیکن اب شاید تمہارا ہوسٹل میں رہنے کا موڈ ہے"

بلال اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے باوجود وہاں سے جانے لگا


"کیا اپنی غلطی کو ایکسپیٹ کرکے سوری کرنے کا رواج نہیں ہے آپ کے شہر میں"

زینش کے لفظوں پر بلال کے قدم تھمے وہ مڑ کر زینش کو دیکھنے لگا جو اسی کی طرف متوجہ تھی


"تو کیا تم میرے سوری کرنے پر میرے ساتھ چلو گی"

بلال ویٹنگ روم کے دروازے پر کھڑا اسے سوال کرنے لگا جس پر زینش قدم اٹھاتی ہوئی بلال کے پاس آئی


"آپ اگر سوری نہیں کرنا چاہتے تو میں آپ سے زبردستی سے سوری نہیں کروا سکتی لیکن میں آپ کے ساتھ واپس جانا چاہتی ہوں بلال"

زینش بلال کو دیکھ کر بولی تو بلال اسے دیکھنے لگا


"کیا آپ مجھ سے دوستی کرنا پسند کریں گے مجھے اپنا دوست بنا سکتے ہیں آپ میں اسی شرط پر آپکے ساتھ چلو گی"

زینش نے بولتے ہوئے بلال کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر بلال کی پیشانی پر شکن سی ابھری لیکن زینش کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھ کر نہ جانے کیا سوچ کر بلال نے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھام لیا۔۔۔ دوستی کے لیے اس کا ہاتھ تھامنے پر زینش مزید دلکشی سے مسکرائی تو بلال ابھی بھی خاموشی سے اس کو مسکراتا ہوا دیکھ رہا تھا بلکہ آج ہی وہ اس کو غور سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ خوشی کو تو وہ اپنے سے فری ہوتا دیکھ کر بری طرح جھڑک دیا کرتا تھا لیکن زینش کو شاید اس لیے نہیں جھڑک پایا تھا کیونکہ جویریہ اور حسان اس لڑکی کے گھر آنے پر خوش تھے اور یہ لڑکی بھی اُس کی وجہ سے گھر چھوڑ کر ہاسٹل میں شفٹ ہوگئی تھی


"آپ یہیں رکیں میں بیس منٹ میں سامان پیک کرکے آتی ہوں"

زینش بلال کو بولتی ہوئی وہاں سے جانے لگی کیونکہ ان دونوں کی دوستی کا آغاز ہو چکا تھا


"بیس منٹ میں نہیں دس منٹ میں واپس آؤ دس منٹ تم یہی کھڑے کھڑے فضول میں ضائع کر چکی ہوں"

بلال کے سنجیدگی سے کہے جملے پر وہ بلال کو گھور کر بنا کچھ بولے وہاں سے چلی گئی۔۔۔ بلال ویٹنگ روم کے چکر کاٹتا ہوا اس کا انتظار کرنے لگ گیا


آج پہلی بار اس نے کسی لڑکی کا اپنی طرف دوستی کا بڑھا ہوا ہاتھ تھاما تھا مگر دوستی کس چڑیا کا نام ہے بلال اس سے واقف نہیں تھا۔۔۔۔ زینش واقعی دس منٹ میں اپنا ہینڈ کیری گھسیٹتے ہوئے اور دوسرا بیگ ہاتھ میں اٹھاتی ہوئی وہاں موجود تھی بلال نے دونوں بیگز کے وزن دیکھ کر بنا کچھ کہے زینش سے دونوں بیکز لیتا ہوا اسے باہر چلنے کا اشارہ کرنے لگا۔۔۔ بلال کی اس عنایت پر بے ساختہ زینش کے چہرے پر مسکراہٹ آئی جسے وہ ایک بار پھر چھپا چکی تھی۔۔۔


اس نے خوشی کی لگائی ہوئی شرط کو چیلینج سمجھ کر ایکسپٹ کیا تھا وہ خوشی کے اس بد دماغ کزن کو ایک نارمل انسان بنانے پر آمدہ ہوئی تھی تبھی نہ صرف اس نے بلال کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا بلکہ اس کے ساتھ واپس گھر جانے کو بھی تیار ہوئی تھی


****


"شام"

وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی تب کمرے میں اچانک احتشام آیا جسے دیکھ کر سندیلا حیرت سے اٹھ کر بیٹھ گئی


"لینے آیا ہوں تمہیں، واپس گھر چلو میرے ساتھ"

احتشام کمرے کا دروازہ بند کرتا ہوا سندیلا کے پاس آکر بولا۔۔۔ وہ جو کافی دیر سے روتی رہی تھی احتشام کی بات سن کر بیڈ سے اٹھتی ہوئی اس کے سینے سے جالگی احتشام نے سندیلا کے گرد اپنے بازو حائل کیے


"آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں ناں شام"

سندیلا کو ایک بار پھر رونا آگیا تھا وہ نم آنکھوں کے ساتھ احتشام کو دیکھ کر اس سے پوچھنے لگی


"پیار کرتا ہوں جبھی یہاں پر آیا ہوں تمہیں لینے کے لئے چلو منہ ہاتھ دھو کر آؤ میں باہر ویٹ کر رہا ہوں"

احتشام سندیلا کو بولتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا


پیار سے زیادہ شاید اسے سندیلا کی ضرورت تھی، دو دن سے سندیلا کے گھر نہ ہونے کی وجہ سے آفس سے آکر اسے نہ صرف رات کا کھانا خود گرم کر کے کھانا پڑتا بلکہ صبح کا ناشتہ خود بنانا پڑتا۔۔ اپنے آفس کے کپڑے خود ہی پریس کرنا پڑتے دو دن جب گرمی میں فائقہ کا کو کھانا بنانا پڑا تھا اس نے نزہت بیگم سمیت احتشام کو کافی باتیں سنائیں۔۔۔ نزہت بیگم کے کہنے پر ہی احتشام آج سندیلا کو لینے آگیا تھا


سندیلا منہ ہاتھ دھو کر واش روم سے باہر نکلی آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتی ہوئی بالوں میں برش کرتی ہوئی وہ انیس اور وردہ کے رویے کے بارے میں سوچنے لگی جب وہ کل خالی ہاتھ گھر آئی تھی اس نے سرسری سے انداز میں اپنا کلج چھیننے کا واقعہ بتایا تھا جسے سن کر وردہ کا اچھا خاصا موڈ خراب ہوا تھا کہ بے شک وہ اپنے بھتیجوں کے لیے کچھ بھی نہیں لے کر آتی مگر اسے بریانی ضرور لے کر آنی چاہیے تھی وردہ کا بنا ہوا منہ اور بھائی کی بے گانگی دیکھ کر سندیلا نے شدت سے دعا کی تھی کے احتشام آ کر اسے لے جائے


****


سومی کی سسکیوں کی آواز مسلسل اس کے دماغ پر ہتھوڑے کی مانند لگ رہی تھی وہ تکلیف کی شدت سے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ معظم کی طرف بڑھا رہی تھی۔۔۔ اس سے پہلے معظم بھاگتا ہوا اس کی پاس آتا زوردار ہوا کسی آندھی کی مانند چلی۔۔۔ اور اس ہوا میں سومی کا جسم تحلیل ہوگیا


"سومی"

معظم ہذیانی انداز میں چیختا ہوا چارپائی سے اٹھا۔۔ چھت پر لگا ہوا پنکھا دھیمی رفتار اور تیز آواز میں چل رہا تھا فرفر چلتا ہوا پیڈسٹل فین کے باوجود معظم کا پورا جسم پسینے سے شرابور ہو رہا تھا۔۔۔ معظم کے چیخنے پر پپو کچن میں کھانا بناتا ہوا کمرے میں آکر معظم کو دیکھنے لگا۔ ۔۔ معظم کی نظریں ٹی وی پر رکھے فریم پر ٹکی ہوئی تھی۔۔۔ وہ تصویر میں موجود اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا


"کچھ چاہیے آپ کو بھیا جی"

پپو معظم کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا پپو کی آواز پر معظم نے اس کی طرف دیکھا اور اپنا سر ہلا کر بولا


"تنہائی"

معظم کی بات سن کر پپو واپس کچن میں آگیا وہ جانتا تھا آج کے دن اس کا بھیا جی پچھلے سال کی طرح اس دن بھی تنہا اپنا وقت گزارے گا کیونکہ وہ جانتا تھا تصویر میں موجود لڑکی اس کے بھیا جی کو اس دن تنہا کر گئی تھی


*****


اپنے کیبن میں بیٹھا ہوا ہے وہ سامنے کمپیوٹر کی اسکرین کو غور سے دیکھ رہا تھا اس دن احتشام کے آفس کے کلیک طہٰ نے کہا تھا کہ ہر آدمی اپنے لیول کی کرپشن کرتا ہے تب احتشام نے سوچ لیا تھا کہ اسے بھی اپنا لیول بڑھانا ہوگا


جب سے اس نے حسان کی ہر بے ایمانی اور ہیرا پھیری پر نظر رکھتے ہوئے اس کے خلاف ثبوت اکٹھا کرنا شروع کر دیے احتشام کی قسمت کسی اور معاملے میں اچھی ہو یا پھر نہ ہو مگر اس معاملے میں اچھی تھی چند دنوں پہلے وہ سائیڈ پر سے حسان کے ساتھ وزٹ کرکے واپس آ رہا تھا تب حسان نے چند منٹ کے لئے اپنی گاڑی ندیم سومرو کے بنگلے کے اندر روکی اور احتشام کو گاڑی میں ہی چند منٹ کے لئے ویٹ کرنے کو کہا


ندیم سومرو حسان کا دوست ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست سے بھی تعلق رکھتا تھا چند منٹ گزرنے کے بعد جب حسان واپس نہیں آیا تو احتشام گاڑی سے اتر کر ملازمین کو ناپا کر بنگلے کے اندر جانے لگا تب اندر کا منظر دیکھ کر نہ صرف اس کے قدم رکھے تھے بلکہ وہ چھپنے پر بھی مجبور ہوا تھا دروازے کی آڑ میں چھپ کر وہ اندر کا منظر صاف دیکھ سکتا تھا


بے ساختہ اس نے سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کا سوچتے ہوئے اس منظر کی ویڈیو بنانا شروع کر دی۔۔


جب اس کی بیوی نے اسکول کے پرنسپل کو کسی بندے سے پٹتا دیکھ کر یہی کام کیا تھا تب احتشام نے اس بات کو لے کر سندیلا کو خوب باتیں سنائیں تھی۔۔۔ لیکن یہ موقع اگر احتشام کے ہاتھ سے جاتا تو وہ خوب پچھتاتا


اندر کا منظر صاف واضح تھا کہ ندیم سومرو صوفے پر بیٹھی ہاتھ پاؤں چلاتی ہوئی اپنی بیوی کا گلا گھونٹ رہا تھا جبکہ حسان ندیم سومرو کو روکنے یا منع کرنے کے بجائے یا اس کی بیوی کی جان بچانے کی بجائے خاموش کھڑا تماشا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ احتشام نے چند سیکنڈ کی ویڈیو بنائی تھی اور جلدی سے گاڑی میں جاکر بیٹھ گیا زندگی میں پہلی بار اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتا دیکھ کر اس کا دماغ بالکل کام نہیں کر رہا تھا تھوڑی دیر بعد حسان بھی گاڑی میں آ کر بیٹھا


اس کی حالت بھی بالکل احتشام جیسی ہی تھی بالکل غائب دماغ۔۔۔ اس ویڈیو کو بناتے ہوۓ اس وقت احتشام کے نہ صرف ہاتھ کانپ پر ہے بلکہ چہرا بھی پسینے سے بھرا ہوا تھا لیکن اس وقت اپنے سامنے کمپیوٹر کی اسکرین پر اس ویڈیو کو دیکھ کر اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ رقصاں تھی


حسان اور ندیم سومرو کے گناہ کا یہ ثبوت وہ پولیس کو فراہم کرکے بیوقوفی کرنے کی بجائے حسان کو دکھا کر اس سے تگڑی رقم وصول کرنا چاہتا تھا تبھی اس نے یہ ویڈیو اپنے موبائل کے علاوہ یو ایس بی میں بھی محفوظ کر لی تھی


"لنچ کے لیے چلنا نہیں ہے"

طہٰ ایک دم اس کے کیبن میں آتا ہوا احتشام سے بولا تو احتشام جلدی سے سامنے اسکرین پر فائل کلوز کر چکا تھا


"ہاں یار تم چلو میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں"

احتشام نے بہت غور سے طہٰ کا چہرہ دیکھ کر جواب دیا آیا اس نے کمپیوٹر کی اسکرین پر کچھ دیکھا ہے کہ نہیں مگر طہٰ کے چہرے کے تاثرات نارمل دیکھ کر احتشام بھی نارمل ہوگیا


"چلو ٹھیک ہے میں ویٹ کر رہا ہوں تمہارا"

طہٰ سرسری نظر سی پی یو میں لگی یو ایس بی ڈال کر وہاں سے چلا گیا


****


"ہاں طہٰ بولو کیا ضروری بات کرنا تھی تمہیں"

آفس ختم ہونے کے بعد حسان طہٰ کو اپنے کمرے میں بلاتا ہوا اس سے پوچھنے لگا


"سر میں کوئی بھی بات گھما پھرا کر نہیں کروں گا چند دنوں سے مجھے شک تھا کہ احتشام آپ کے ہر عمل پر نظر رکھا ہوا ہے مگر اپنی خام خیالی سمجھ کر میں خاموش رہا لیکن آج میں نے ایسا کچھ دیکھا ہے جو مجھے مزید شک و شبہات میں مبتلا کر رہا ہے"

طٰہ حسان کو دیکھتا ہوا بولا جس پر حسان کھٹکا


"ایسا کیا دیکھ لیا تم نے احتشام کے پاس میرے خلاف جو تمہیں شک و شبہات میں مبتلا کر رہا ہے۔۔۔ جو بھی بات ہے تم کھل کر کہو"

حسان کھٹکا ضرور تھا مگر طہٰ سے مسکراتا ہوا پوچھنے لگا


"سر آج جب میں اس کے کیبن میں گیا تو وہ کوئی ویڈیو دیکھ رہا تھا مجھے اپنے کیبن میں دیکھ کر وہ ایک سیکنڈ کے لئے گھبرا گیا احتشام کے گھبرائے ہوئے چہرے سے صاف لگ رہا تھا کہ کوئی بہت خاص چیز اس کے پاس یو ایس بی میں محفوظ ہے جسے وہ کسی دوسرے پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا اور کہیں نہ کہیں مجھے اس ویڈیو کا آپ سے کنکشن بھی لگ رہا ہے۔۔۔ پھر ابھی میں نے پانچ منٹ پہلے یہ اس کا موبائل، اسے بغیر خبر ہوئے اٹھا لیا شاید اس سے آپ کو کوئی ہنٹ مل جائے۔۔۔۔ یہ سب میں نے صرف آپ کے لیے کیا ہے سر"

طہٰ کی بات سن کر نہ صرف حسان بری طرح چونکا تھا بلکہ ویڈیو کی بات سن کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بھی غائب ہو گئی تھی۔۔۔ طہٰ کے ہاتھ سے احتشام کا موبائل لیتا ہوا حسان گہری سوچ میں چلا گیا


چند دنوں پہلے جب وہ ندیم سومرو سے ملا تھا تو اس کی بیوی نے غصے میں گھر آئے حسان کا لحاظ کیے بنا ندیم سومرو کے کالے کرتوت میڈیا کے سامنے ایکسپوز کرنے کی دھمکی دے تھی تب ندیم سومرو نے بھی اپنی بیوی کا لحاظ کئے بنا حسان کے سامنے ہی اس کا قتل۔۔۔


"سر۔۔۔ سر آپ ٹینشن نہیں لیں آپ کو یہ سب بتانے کا مقصد پریشان کرنا ہرگز نہیں تھا۔۔۔ میں آپ کے پاس کام کرتا ہوں آپ کا وفادار ہو۔۔۔ کسی بھی طرح وہ یو ایس بی بھی احتشام سے حاصل کر لوں گا جیسے آج اس کا موبائل حاصل کیا ہے"

طہٰ نے حسان کو دماغی طور پر غائب دیکھا تو فورا بولا


"نہیں اب تمہیں کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں احتشام کو خود اپنے طریقے سے دیکھ لوں گا۔۔۔۔ تم نے بتایا تھا تمہاری والدہ کا تین دن بعد باۓ پاس ہونے والا ہے،، ہاسپٹل کے اخراجات کی فکر بلکل نہیں کرنا کمپنی ہاسپٹل کا بل پے کرے گی اور تم جتنے دنوں کی چاہو لیو اپلائی کر سکتے ہو"

طہٰ کی آواز پر حسان ہوش کی دنیا میں آتا ہوا بولا۔۔۔ طہٰ اس کا شکریہ ادا کر کے کمرے سے جا چکا تھا جبکہ حسان نے گہری سوچ میں ٹیبل سے موبائل اٹھایا۔۔۔اس میں موجود ویڈیو دیکھنے کے بعد حسان کے منہ سے احتشام کے لیے بڑی سی گالی نکلی۔۔۔ اپنا موبائل اٹھا کر وہ قاسم کو کال ملانے لگا


****

کار پارک کر کے وہ گھر کے اندر داخل ہو رہا تھا تبھی اسے گھر کے لان میں زینش ٹہلتی ہوئی دکھائی دی۔۔۔ ہاسٹل سے واپس گھر آئے ہوئے اسے ایک ہفتہ ہو چکا تھا مگر بلال اور اس کا آمنا سامنا تھوڑی دیر کے لئے ہی ہوتا تھا بلال نے اسے اس دن کے بعد اسے مخاطب نہیں کیا تھا شاید زینش نے اس سے دوستی بھی کی تھی یا نہیں وہ یہ بھی بھول گیا تھا۔۔۔۔ لیکن دو دن سے وہ زینش کا اپنی طرف گھورنا اور ناراضگی سے دیکھنا محسوس کر رہا تھا اس لیے گھر کے اندر داخل ہونے سے پہلے وہ لان میں زینش کے پاس چلا آیا


"کیا ہو رہا ہے"

زینش کے پاس آکر بات کا آغاز کرنے کے لئے بلال کو یہی پوچھنا سمجھ میں آیا


"کون ہیں آپ"

زینش اپنی آنکھوں میں اجنبیت لائے بلال کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی بلال کو سمجھ میں نہیں آیا وہ زینش کے اس سوال پر کیا ری ایکٹ کرے


"وہی جس کی طرف ہفتے بھر پہلے تم نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا"

بلال زینش کا ناراض چہرہ دیکھ کر اسے یاد دلانے لگا


"دوستی کا مطلب جانتے بھی ہیں آپ"

زینش بلال کو دیکھ کر شکوہ کرتی ہوئی پوچھنے لگی


"نہیں میں دوستی کا مطلب بالکل بھی نہیں جانتا تم سمجھا دوں"

بلال بہت غور سے زینش کا چہرہ دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا


"اچھا دوست وہ ہوتا ہے جو اپنے دوست کا چہرہ دیکھ کر سمجھ جائے کہ اس سے ضرور کوئی پرابلم ہے اچھا دوست اپنے دوستوں سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ اپنا وقت اسپنڈ کرتے ہیں ان سے باتیں کرتے ہیں اپنی باتیں شیئر کرتے ہیں، اپنا قیمتی وقت دیتے ہیں"

زینش بلال کو دیکھتی ہوئی دوست کی بجائے اچھے دوست کی ڈیفینیشن بتانے لگی جسے بلال غور سے سن ہی نہیں رہا تھا بلکہ وہ زینش کو بہت غور سے دیکھ بھی رہا تھا اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ ایک خوبصورت لڑکی تھی بلال زینش کو دیکھتا ہوا سوچنے لگا


"یعنی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حسان تمہارا واقعی بہت اچھا دوست ہے"

بلال زینش کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا اس نے نوٹ کیا تھا کہ حسان واقعی زینش کو ٹائم دیتا تھا اور ان دونوں کی آپس میں کافی اچھی دوستی تھی


"اس میں کوئی شک نہیں ہے حسان بھائی واقعی ایک اچھے دوست ہیں مگر میں نے آپ سے بھی اچھی دوستی کی توقع کی تھی بلال"

زینش بلال کو دیکھ کر ناراض لہجے میں بولی اور وہ اسے اس طرح بولتی ہوئی بہت کیوٹ سی لگی۔۔۔۔ یا پھر وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ کیوٹ بھی تھی


"اچھا دوست بننے کے لیے مجھے کیا کرنا پڑے گا یہ بھی بتا دو"

زینش سے اس طرح بات کرنا بلال کو اچھا لگ رہا تھا تبھی بلال زینش کو دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا


"بہت سال پہلے میں کراچی آئی تھی یہاں کے راستوں اور جگہوں سے بالکل ناواقف ہو۔۔۔۔ اور جب سے کراچی آئی ہوں یہی روٹین ہے کہ یونیورسٹی سے گھر اور گھر سے یونیورسٹی۔۔۔۔ کیا یہ اچھے دوست کا فرض نہیں ہے کہ وہ اپنے دوست کو اپنا شہر گھمائے"

زینش بلال کو دیکھتی ہوئی بولی یعنی وہ اس کے ساتھ پورا شہر گھومنا چاہتی تھی بلال چند سیکنڈ تک اسے یونہی دیکھتا رہا پھر بولا


"جاؤ ریڈی ہو کر آؤ میں بھی چینج کر کے آتا ہوں"

بلال کا جواب سن کر زینش مسکرا دی


"ریڈی کیا ہونا ہے میں تو پہلے ہی ریڈی ہو آنٹی کو بتا کر آتی ہو اور حسان بھائی سے بھی پوچھ لیتی ہوں وہ بھی ہم دونوں کے ساتھ چلیں گے تو مزا آئے گا"

بلال زینش کو ایکسائٹڈ دیکھ کر مسکرا دیا اور خود چینج کرنے چلا گیا


*****


حسان اپنے ہی مسلے کو لے کر پریشان تھا اس لیے اس نے بلال اور زینش کے ساتھ جانے سے منع کردیا۔۔۔ بلال نے زینش کو خاص خاص جگہیں دکھائی رات کا ڈنر ہوٹل میں کروانے کے بعد وہ زینش کو سی ویو لے آیا تھا۔۔۔ زینش اس وقت اپنے پاؤں سے ٹکراتی ہوئی سمندر کی لہروں کو انجوائے کر رہی تھی اور بلال کو اپنے پاس آنے کا اشارہ کر رہی تھی مگر وہ دور کھڑا زینش کو آنکھوں ہی آنکھوں میں پانی میں آنے سے منع کر چکا تھا


زندگی میں پہلی بار بلال نے کسی کو اپنے آپ سے فرینک ہونے کی اجازت دی، پہلی بار اس نے کسی لڑکی سے ڈھیر ساری باتیں کی۔۔۔ پہلی بار کسی لڑکی نے اس سے اپنی باتیں منوائی اور پہلی بار ہی کسی لڑکی نے اس کے اندر احساسات جگائے تھے۔۔۔ پہلی بار بلال کا دل چاہا وہ اس لڑکی کو بہت دیر تک یونہی پلکیں جھپکائے بنا دیکھتا رہے۔۔۔ معلوم نہیں کیوں یہ لڑکی اسے اپنے دل کے قریب ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔ بلال کا دل چاہا وہ زینش سے اپنی فیلینگز شیئر کرے مگر خواہش کے باوجود اس نے ایسا نہیں کیا پہلے وہ اپنے اندر ابھرتے ہوئے اس جذبے کو خود جانچنا چاہتا تھا کہ اس کے جذبے میں کتنی پختگی ہے لیکن بلال کا دل اندر سے گواہی دے رہا تھا کہ یہ جذبہ ہرگز وقتی نہیں ہے


بلال دور کھڑی ہوئی زینش کو دیکھ کر سوچ رہا تھا جو کہ موبائل پر کسی سے بات کر رہی تھی اچانک اس کی نظر ان تین لڑکوں پر پڑی جو کہ زینش کو دلچسپی سے دیکھ رہے تھے شاید وہ تینوں زینش کو اکیلا بھی سمجھ رہے تھے اس لیے آپس میں باتیں کرتے ہوئے وہ زینش کے پاس آنے لگے۔۔۔ زینش کی توجہ اس وقت موبائل پر تھی اس لیے وہ ان لڑکوں کا نوٹس نہیں لے پائی تھی بلال نے ان لڑکوں کو دیکھ کر فوراً زینش کی طرف اپنے قدم بڑھائے


****


"ہاں تو مِس خوشی جلدی سے مجھے ایک اچھے سے ریسٹورنٹ میں ڈنر کروانے کے لیے پیسے اکٹھے کر لو کیوکہ تمہاری خود کی لگائی ہوئی شرط تم خود بہت جلدی ہارنے والی ہو۔۔۔ تمہارے کزن اکڑو صاحب آج مجھے میرے کہنے پر نہ صرف پورا کراچی گھما رہے ہیں بلکہ اچھا سا ڈنر بھی بلال صاحب مجھے کروا چکے ہیں" زینش چہکتی ہوئی آواز میں خوشی کو بتانے لگی


"بلال تمہیں اپنے ساتھ کہیں لے کر گیا ہے اور باہر ڈنر بھی کروایا ہے۔۔ ام پاسیبل میں نہیں مان سکتی وہ تو کسی کو بھی زیادہ لفٹ نہیں کرواتا"

خوشی ہ

کو تو جیسے زینش کی باتوں پر یقین ہی نہیں آیا تھا وہ حیرت کرتی ہوئی زینش سے بولی


"بیٹا بندے بندے کی بات ہوتی ہے اس دن میں نے کیا کہا تھا تمہارے کزن کو تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے جو اسے ملی،، اور وہ نارمل انسانوں کی طرح بی ہیو کرنے لگ گیا"

زینش اپنے کارنامے پر فخریہ انداز میں ہستی ہوئی بولی۔۔۔ تیز ہوا کی وجہ سے بال اڑ اڑ کر اس کے چہرے پر آرہے تھے جنہیں وہ پیچھے کرنے کی زحمت نہیں کر رہی تھی۔۔۔ ہر تھوڑی دیر بعد ٹھنڈے پانی کی لہر اس کے پاؤں سے ٹکراتی،، یہ جگہ اس وقت اس کی طبیعت پر اچھا اثر ڈال رہی تھی


"صرف توجہ کی بات نہیں ہوتی، میں نے تو کبھی بلال کی بات کا برا نہیں مانا تھا بلکہ ہمیشہ اس کے پیچھے پیچھے رہی شاید تم صحیح کہہ رہی ہو بندے بندے کی بات ہوتی ہے۔۔۔ لیکن یہ بات مجھے ہضم نہیں ہو رہی ہے اگر وہ واقعی اس وقت تمہارے ساتھ موجود ہے تو تم مجھ سے اس طرح بات کیسے کر سکتی ہو"

خوشی کا تھوڑا دماغ چلا تو وہ اب کنفیوز ہو کر زینش سے پوچھنے لگی


"ارے اس وقت ہم دونوں سی ویو پر موجود ہیں تمہارے کزن صاحب دور کھڑے ہوئے ٹھنڈی ہواؤں کے مزے لے رہے ہیں جبکہ میں اس وقت شور مچاتی ہوئی لہروں کو دیکھ کر پانی کو انجوائے کر رہی ہو"

خوشی کو اس کی آواز سے ہی محسوس ہو گیا تھا کہ زینش واقعی اس وقت انجوائے کر رہی تھی


"اگر واقعی بلال اور تم اس وقت سی ویو پر موجود ہو تو جلدی سے اپنی اور اس کی تصویر بھیجو، پکا ثبوت ملے گا تب ہی ڈنر کی توقع رکھنا مجھ سے"

خوشی کو جیسے یقین نہیں آرہا تھا وہ واقعی کنفرم کرنا چاہ رہی تھی اور ساتھ ہی اسے اپنی شرط ہارنے کا افسوس ہو رہا تھا مگر بلال کے لیے بھی خوشی محسوس ہو رہی تھی کہ اس نے زینش کو اپنا دوست بنایا


"تصویر شسویر میں نہیں لے رہی ہم لوگ اس وقت کہاں پر ہیں تم یہ حسان بھائی کو کال کرکے کنفرم کر لو۔۔۔ ہیلو خوشی۔۔۔۔ ہیلو"

خوشی کال رکھ چکی تھی زینش موبائل کو گھورتے ہوئے،، اپنے قریب آتے ہوئے بلال کو دیکھنے لگی


"کتنی دیر سے میں آپ کو بلا رہی تھی اور آپ اب آ رہے ہیں جب ہمیں واپس گھر جانا چاہیئے"

بلال زینش کے قریب آیا تو زینش اپنے بالوں کو چہرے سے ہٹا کر پیچھے کرتی ہوئی بلال سے بولی اور واپس جانے کے لئے قدم اٹھانے لگی تبھی بلال نے اس کی کلائی پکڑی


"مجھے خود سے اپنے پاس بلا کر اب تم واپسی کی بات کر رہی ہو۔۔۔ اب ایسا ناممکن ہے میں تمہیں اب ہرگز جانے نہیں دو گا شرافت سے یہی کھڑی رہو کچھ دیر میرے ساتھ"

بلال کو معلوم نہیں تھا وہ اس کی بات کا اصل مفہوم سمجھی کہ نہیں مگر زینش کا ہاتھ پکڑتے دیکھ کر وہ لڑکے ضرور سمجھ گئے تھے کہ یہ لڑکی اکیلی ہرگز نہیں ہے اس لیے بلال کو زینش کے ساتھ دیکھ کر وہ تینوں وہی سے پلٹ گئے


"اچھا تو یعنی اب آپ دوستی نبھانے کے ساتھ ساتھ روعب بھی جمائیں گے مجھ معصوم پر"

زینش بلال سے اپنا ہاتھ چھڑواتی ہوئی پوچھنے لگی


"ہاں اگر تم من مانی پر اتری تو شاید میں ایسے ہی روعب جاؤ گا تم پر"

بلال نے بولتے ہوئے ہلکی سی اسمائل دی، جبکے زینش اس کو مسکراتا دیکھ کر ایک دم زور سے چیخی


"کیا ہوا"

بلال اس کے ایک دم چیخنے پر پریشان ہوگیا اِدھر اُدھر دیکھ کر زینش سے پوچھنے لگا


"آپ کو مسکرانا آتا ہے بلال، میں نے آج آپ کو فرسٹ ٹائم یوں مسکراتے ہوئے دیکھا"

زینش حیرت زدہ سی ہو کر بلال کو دیکھتی ہوئی بولی


"زینش تم پاگل تو نہیں ہوں"

بلال اسے آنکھیں دکھاتا ہوا پوچھنے لگا جو کہ اس کے مسکرانے پر بچوں کی طرح حیران ہو رہی تھی


"پہلے آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کو کس پاگل نے کہا ہے کہ آپ سیریس سیریس سے زیادہ اچھے لگتے ہیں،،، آپ جانتے ہیں کہ آپ کی اسمائل کتنی پیاری ہے۔۔۔۔ اسمائل کرتے ہوئے آپ اور بھی زیادہ اچھے لگتے ہیں بلال"

زینش کی بات سن کر اس کو دوبارہ مسکراہٹ آئی تھی لیکن اپنی مسکراہٹ کو روکتا ہوا وہ نفی میں سر ہلا کر زینش کو دیکھنے لگا


"اس طرح کیو ایکٹ کر رہے ہیں کیا میں مذاق کر رہی ہو۔۔۔ میں سیریسلی کہہ رہی ہو آپ سے۔۔۔ چلیں ایسا کریں آپ وہی اسمائل دیں مجھے پک لینا ہے آپ کی"

زینش بولتی ہوئی ہاتھ میں پکڑے موبائل کا کیمرہ آن کرنے لگی


"یہ کچھ زیادہ ہی ہو رہا ہے واپس چلتے ہیں اب"

بلال اس کی الٹی سیدھی فرمائش کو ٹالتا ہوا مڑا تو اب زینش نے اس کی کلائی پکڑی جس پر بلال نے ایک دم چونک کر اپنی کلائی پر نظر ڈالی جو کہ اس وقت زینش کے نازک ہاتھ کے گرفت میں تھی


"دوستی کا دعوی کر کے ایسے کریں گے آپ میرے ساتھ" زینش بلال کو دیکھتی ہوئی شکوہ کرنے لگی جس پر بلال نے اس سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر زینش کا موبائل خود لیا اور زینش کو اپنی طرف کھینچا۔۔۔ زینش کا سر بلال کے شولڈر سے ٹکرایا تو وہ حیرت سے بلال کو دیکھنے لگی تب بلال نے اسمائل دے کر اس کی اور اپنی سیلفی لی


"بس یا اور تصویریں چاہیے" بلال دوبارہ سیریس ہو کر زینش سے پوچھنے لگا جس پر زینش نے جلدی سے نفی میں سر ہلایا


"نہیں ایک ہی کافی ہے، بس اب ہمیں گھر چلنا چاہیے"

زینش کے بولنے پر بلال نے اپنے قدم آگے کی طرف بڑھائے


"یہ واقعی بہت زیادہ ہو رہا ہے،، خوشی کی بچی یہ لو تصویر"

زینش بلال کے پیچھے چلتی ہوئی خوشی کو تصویر سینڈ کرنے لگی


*****


باسل اپنے یار دوستوں کے ساتھ گھر کے قریب ہی ہوٹل پر بیٹھا چائے پی رہا تھا اچانک ایک شخص نے آکر اس کا گریبان پکڑ کر اسے کرسی سے اٹھایا اور بنا کچھ بولے باسل مارنا شروع کر دیا


"ارے بھائی کون ہو تم، میں تمہیں نہیں جانتا تم مجھے کیوں مار رہے ہو اتنی بری طرح سے"

چار سے پانچ زوردار لاتیں اس کے پیٹ میں پڑی تو وہ بری طرح درد سے کرہاتا ہوا معظم سے بولا۔۔۔ معظم نے اس کے دوستوں کو پہلے ہی ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا تھا اس لئے باسل کے دوست دوسرے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوئے تماشہ دیکھ رہے تھے وہ باسل کو بچانے نہیں آئے


"بہت شوق ہے تجھے لڑکیوں سے ان کے پیسے چھیننے کا،، کیا سمجھ رہا تھا تو، میں تجھے بخش دوں گا"

معظم جو کہ قاسم کے بلانے پر یہاں آیا تھا باسل کو ہوٹل پر بیٹھا دیکھا تو پیٹنا شروع کر دیا۔۔۔ وہ باسل کی مزید دھلائی کرتا ہوا بولا


"وہ کوئی غیر لڑکی نہیں تھی بلکہ میری بھابھی تھی، میں وعدہ کرتا ہوں گھر جا کر انہیں سارے رقم لوٹا دے گا۔۔۔ پلیز اور نہیں مارنا مجھے درد ہو رہا ہے"

معظم کی سخت ہاتھ کے مُکے اور گھونسوں کی تاب نہ لاتے ہوئے اب وہ باقاعدہ رو رہا تھا۔۔۔ سندیلا سے پہلے اس نے یہ حرکت اور کسی دوسری لڑکی کے ساتھ نہیں کی تھی اس لئے باسل جان گیا تھا کہ وہ جو کوئی بھی ہے اس سے سندیلا کا ہی ذکر کر رہا تھا


"اب تو پیسے نہیں لوٹائے گا بلکہ ابھی اور اسی وقت وہ جو سامنے بچوں کی دکان دکھ رہی ہے وہ پر جا اور سارا بچوں کا سامان خرید۔۔۔ پھر سیدھا گھر جا،، اگر تو نے ایسا نہیں کیا تو میں کل تیرے گھر آکر،، تیرا کچومر تیرے گھر والوں کے سامنے ہی نکالوں گا"

معظم نے باسل کا گریبان پکڑ کر اسے ہوٹل سے باہر دھکا دیا۔۔۔ تب پیچھے سے معظم کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا


"سر گاڑی میں تمہارا انتظار کر رہے ہیں"

قاسم کا ڈرائیور معظم کے پلٹ کر دیکھنے پر اس سے مخاطب ہوا تو معظم گاڑی کی طرف بڑھ گیا


"کون تھا یہ لڑکا جس کی شامت تمہارے ہاتھوں آگئی"

معظم کے گاڑی میں بیٹھتے ہی قاسم اپنی پاکٹ سے سگریٹ کا پیکٹ اور لائیٹر نکال کر معظم سے پوچھنے لگا


"چند دنوں پہلے ایسے ہی دکان پر ہیرو بن رہا تھا آج نظر آیا تو سوچا اس کی ہیرو گیری نکال دو۔۔۔خیر آپ بتائیں آپ نے کس کام سے یاد کیا ہے مجھے"

معظم سرسری انداز میں قاسم کو بتاتا ہوا قاسم کے بڑھائے گئے سگریٹ کے پیکٹ سے سگریٹ نکالتا ہوا اس سے یہاں بلانے کی وجہ پوچھنے لگا


"اسی ایریۓ کا ایک گھر ہے، ایڈریس میں موبائل پر بھیج دوں گا اس گھر سے ایک یو ایس بی حاصل کرنا ہے۔۔۔ جس نے اس کام کا کہا ہے وہ کچھ گڑبڑ یا جھگڑا نہیں چاہتا یا کوئی جانی نقصان نہیں ہونا چاہیے بس اسے سلور کلر کی ایک یو ایس بی سے مطلب ہے جو اس کے گھر میں احتشام نام کے آدمی کے پاس موجود ہے۔۔۔۔ اس لئے میں نے سوچا یہ کام میں تمہیں سونپ دوں تم اچھے طریقے سے کر لو گے"

قاسم خود بھی سگریٹ پیتا ہوا معظم سے بولا


"کل کی تاریخ میں ہو جائے گا بےفکر رہے"

معظم منہ سے سگریٹ کا دھواں باہر نکلاتا ہوا قاسم سے بولا


"جو بھی کام میں تمہیں سونپ دیتا ہوں سمجھو کام مکمل ہو ہی جاتا ہے اس لئے میں اطمینان سے ہی رہتا ہوں۔۔۔ کل میرے دو آدمی زاہد اور ساجد بھی تمہارے ساتھ اس کے گھر جائیں گے"

قاسم کی آخری بات پر معظم کی پیشانی پر چند سلوٹیں نمایاں ہوئی


"آپ کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے میں اپنے کام میں کسی دوسرے کی مداخلت برداشت نہیں کرتا ہوں"

معظم قاسم کو دیکھتا ہوا اسے یاد کروانے لگا


"وہ دونوں تمہارے ماتحت، تمہارے انڈر کام کریں گے۔۔۔ یوں سمجھ لو ان دونوں کو میں تمہاری مدد کے لیے بھیج رہا ہوں۔۔۔ دونوں اس کام میں نئے ہیں تھوڑا بہت کام کا طریقہ سیکھ جائیں گے"

قاسم کی بات سن کر معظم خاموش ہوگیا


****


"خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو اپنی بیوی کی حرکتیں، آج صرف اس نے رات کا کھانا بنایا تھا اور کمرے میں جاکر بیٹھ گئی۔۔۔ روٹیاں میری فائقہ نے ڈالی تھی"

سندیلا اپنے کمرے میں احتشام کے صبح آفس جانے کے لیے کپڑے پریس کر رہی تھی تب اسے برابر والے کمرے سے اپنی ساس کی آواز آئی یقینا وہ احتشام سے ہی مخاطب تھی


"امی آپ اس کی حرکتیں ہی نوٹ کرتی رہتی ہیں کبھی اس کی حالت پر بھی غور کر لیا کریں۔۔۔ آج میں نے ہی اسے کہا تھا کے روٹیاں فائقہ بنا لے گی۔۔۔ جب سے میری شادی ہوئی ہے وہی تو سب کا ناشتہ کھانا اور روٹیاں بناتی ہے،، آپ فائقہ کو بھی کہا کریں کہ وہ بھی تھوڑے اپنے ہاتھ پاؤں ہلا لیا کرے کل کو اسے بھی دوسرے گھر جانا ہے"

احتشام جوکہ اپنا موبائل گم ہونے پر پہلے ہی پریشان تھا۔۔۔ نزہت بیگم کی بات پر مزید چڑ کر بولا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں آگیا۔۔۔ شادی کے دو سالوں میں شاید ایسا دو یا تین بار ہی ہوا تھا جب اس نے سندیلا کی سائیڈ لی تھی


"یہ کیا روز روز بیڈ پر چیزیں پھیلا کر بیٹھ جاتی ہوں خالی کر بیڈ کو"

اپنے کمرے میں آنے کے بعد احتشام نیو بورن بےبی کے کپڑے اور چیزیں جو کہ وہ خود چند ماہ پہلے سندیلا کے اصرار پر لایا تھا ان چیزوں کو بیڈ پر دیکھ کر سندیلا سے ہٹانے کے لئے بولا۔۔۔

سندیلا کی ڈلیوری میں ایک ہفتہ رہ گیا تھا اس لیے وہ روز ہی ان چیزوں کو نکال کر دیکھتی


"شام آپ کو ذرا بھی دلچسپی نہیں اپنے آنے والے بچے میں"

سندیلا اس کی شرٹ ہینگ کرنے کے بعد افسوس سے احتشام کو دیکھ کر پوچھنے لگی


"وہاں امی کی باتیں سنو یہاں تمہاری بلاوجہ کی سنو،، میں سونے کے لئے کمرے میں آیا ہوں۔۔۔ تم کیا چا رہی ہو گھر سے باہر نکل جاؤں میں اس وقت"

احتشام کا اندازہ غصے والا نہیں تھا مگر وہ سنجیدگی سے سندیلا کو دیکھ کر پوچھنے لگا


"کوئی باتیں نہیں سنا رہی ہو میں آپ کو۔۔۔ خالی کر دیا ہے بیڈ جائے جاکر لیٹ جائیں آپ سکون سے"

سندیلا سارا سامان بیڈ سے اٹھا کر وارڈروب میں رکھتی ہوئی بولی وہ خود نہیں چاہتی تھی کہ احتشام واقعہ گھر سے باہر نکل جائے


"اب تم کہاں جا رہی ہو"

بیڈ پر لیٹنے کے بعد اس نے سندیلا کو کمرے سے جاتا ہوا دیکھا تو پوچھنے لگا


"چائے بنانے جا رہی ہوں آپ کے لئے آپ نے کہا تھا کپڑے پریس کرنے کے بعد چائے بنا دینا"

سندیلا احتشام کو اس کی کہی ہوئی بات یاد دلانے لگی جس پر احتشام خاموشی سے اسے دیکھنے لگا


"موڈ نہیں ہو رہا ہے اب،، کمرے کا دروازہ بند کرو اور لائٹ بند کر کے لیٹ جاؤ"

سندیلا احتشام کی بات مانتی ہوئی روم کا دروازہ بند کر کے لائٹ آف کرتی ہوئی بیڈ پر لیٹ گئی


چند سیکنڈ بعد اسے احتشام کے ہونٹو

ں کا لمس اپنی گردن پر محسوس ہوا۔۔۔ نہ جانے کتنے ہی دنوں بعد وہ سندیلا کے قریب آکر اسے محبت سے اپنے اور اس کے درمیان خوب صورت رشتے کا احساس دلا رہا تھا


"شام،، شام پلیز یہ کیا کر رہے ہیں آپ"

اس کی مزید پیش رفتگی پر سندیلا ایک دم ہوش میں آئی


"کیا ہوا یار نو ماہ سے یہ ڈرامہ چل رہا ہے بندہ اپنا مائینڈ ہی ریلیکس نہیں کرسکتا۔۔۔ آج میرا موڈ اسپوائل مت کرو"

احتشام جیسے آج کسی اور ہی موڈ میں تھا وہ سندیلا کو دیکھتا ہوا بولا


"ڈاکٹر نے منع کیا ہے شام، آپ میری کنڈیشن کا نہیں مگر اپنے بچے کا ہی سوچ لیں پلیز"

سندیلا پریشان ہوتی احتشام کو دیکھ کر بولی


"بچے کا نہیں بچی کا"

احتشام بگڑے ہوئے موڈ کے ساتھ بولا اور اپنی جگہ پر لیٹ گیا


"کس کی بیٹی پیدا کرنے جا رہی ہوں میں شام،، یہ آپ ہی کی بیٹی ہے پلیز اس طرح کا رویہ اختیار کیا کریں جو مجھے اندر ہی اندر مار ڈالے"

بولتے ہوئے سندیلا کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی پھر اسے احتشام کے ہاتھ کا لمس اپنے پیٹ پر محسوس ہوا


"اچھا اب رونے مت بیٹھ جاؤ۔۔۔۔ سندیلا مائینڈ مت کرنا لیکن یہ کہتے ہوئے مجھے خود بھی عجیب سا لگ رہا ہے میں ایسا چاہتا نہیں ہوں لیکن تمہیں ڈیلیوری کے بعد واپس کوئی جاب کرنی پڑے گی تم میرے اوپر بھی موجود ذمہ داریوں کو سمجھ سکتی ہوں۔۔۔ بچی کی ٹینشن مت لینا اسے امی دیکھ لیا کریں گی"

احتشام کی بات سن کر سندیلا خاموش ہوگئی نزہت بیگم کو تو پوتی کی کوئی چاہ ہی نہیں تھی۔ ۔۔ مگر ابھی کچھ بھی بول کر سندیلا احتشام کا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتی تھی


وہ لوگ بات کر ہی رہے تھے کہ کمرے سے باہر نزہت بیگم کے رونے کی آوازیں آنے لگیں شاید کوئی باہر سے آیا تھا احتشام ایک بار پھر جھنجھلا کر بیڈ سے اٹھا اور کمرے سے باہر نکلا سندیلا بھی اس کے پیچھے اٹھ کر باہر نکلی


"پکڑیں یہ سامان آپ کے آنے والے بچے کے لئے شاپنگ کی ہے آج"

باسل نے دو بڑے بڑے شاپرز سوجھے ہوئے منہ کے ساتھ احتشام کو احسان کرنے والے انداز میں پکڑ آئے تھے


"یہ منہ پر کیا ہوا ہے تمہارے"

احتشام وہ شاپر سندیلا کو پکڑاتا ہوئا باسل سے پوچھنے لگا جبکہ باسل زہریلی نگاہوں سے سندیلا کو دیکھنے لگا


"ابھی میں بھی تو اس کا چہرہ ہی دیکھ کر پریشان ہو گئی کچھ بتا ہی نہیں رہا مجھے"

نزہت بیگم ابھی بھی پریشان ہو کر بولی


"ارے کچھ نہیں ہوا بھئی بائیک سے گر گیا تھا۔۔ عجیب سے لوگ ہیں پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں"

باسل غصہ کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا


*****

اس وقت وہ اپنے کمرے کے ٹیرس میں موجود تھا تب اس کے کمرے میں وہ خوشبو پھیلنے لگی جس سے بلال نہ صرف مانوس ہونے لگا تھا بلکہ وہ خوشبو چند دنوں سے اب ہر وقت اس کے حواسوں پر سوار رہنے لگی تھی،، جب زینش کی خوشبو کا احساس اسے ٹیرس پر اپنے قریب بکھرتا ہوا محسوس ہوا تو بلال کے لبوں پر مسکراہٹ در آئی۔۔۔ اس نے زینش کو پلٹ کر نہیں دیکھا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ زینش وہی اس کی پشت پر کھڑی ہے۔۔۔ یہ سوچ اس کی بوجھل طبیعت پر اچھا اثر ڈالنے کے لئے کافی تھی


ڈنر کے وقت بلال کو آج ٹیبل پر موجود نہ پا کر زینش نے سرسری سے انداز میں جویریہ سے بلال کے متعلق پوچھا تو اسے معلوم ہوا، آفس سے آنے کے بعد سے بلال کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور طبیعت خرابی میں وہ مزید چڑچڑا ہونے کے باعث نہ صرف اپنے کمرے تک محدود ہوجاتا ہے بلکہ کسی سے بات کرنا یا کسی کا اپنے کمرے میں آنا پسند نہیں کرتا۔۔۔ حسان اور جویریہ دونوں نے اسی بات کی وجہ سے زینش کو بلال کے کمرے میں کھانا لے جانے سے منع کیا تھا لیکن زینش جویریہ اور حسان کو اطمینان دلا کر کھانا ٹرالی میں رکھ کر ملازمہ کی بجائے خود بلال کے کمرے میں لے آئی تھی۔۔۔ کمرے میں بلال کو موجود نہ پا کر وہ آہستہ سے قدم اٹھاتی ہوئی ٹیرس میں آئی جہاں بلال کی پشت اس کے سامنے تھی۔۔۔ زینش کو حیرت ہوئی کہ وہ کس قدر گم کھڑا تھا تبھی زینش نے اپنے دونوں ہاتھوں کو بلال کی آنکھوں پر رکھا


"بتائیں بھلا کون ہوں میں"

زینش اپنے ہونٹ بلال کے کان کے قریب لا کر اس سے پوچھنے لگی مرمریں ہاتھوں کا لمس اپنی آنکھوں پر محسوس کر کے بلال کا دل چاہا وہ بے اختیار بول دے میری میری زندگی۔،۔۔۔ مگر وہ اپنی آنکھوں پر رکھے زینش کے ہاتھ تھام کر پلٹتا ہوا بولا


"ایک پاگل لڑکی"

بولنے کے بعد وہ گرل سے ٹیک لگائے خاموشی سے زینش کو دیکھنے لگا شاید اس کا دل کافی دیر سے اس چہرے کو دیکھنے کی طلب کر رہا تھا


"بجا فرمایا آپ نے پاگل ہی ہو جو آپ کا احساس کرتے ہوئے کھانا لے کر آئی ہو،، کھالیے گا، کمرے میں موجود ہے کھانا"

بلال کے منہ سے اپنے لیے پاگل کا لقب سن کر وہ منہ بنا کر جانے لگی


"تم یوں بار بار جانے کی بات مت کیا کرو، اب ایسا ممکن نہیں ہے تمہارے لیے"

بلال کی بات سن کر زینش مڑی بلال اب بھی خاموشی سے اس کو دیکھ رہا تھا


"مطلب"

نجانے وہ اس کی بات کا مفہوم سمجھ کر انجان بن رہی تھی یا پھر واقعی انجان تھی بلال سینے پر دونوں ہاتھ باندھے خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگا


"واضح لفظوں کے مطلب بیان نہیں کیے جاتے سامنے والے کو مطلب خود سمجھ جانا چاہیے۔۔ مطلب صاف ظاہر ہے تم ابھی میرے کمرے سے نہیں جا سکتی"

بلال زینش کو دیکھتا ہوا مزید واضح لفظوں میں اپنی بات بیان کرنے لگا


"اس کمرے میں میرے رکنے سے آپ کو کیا حاصل ہوجائے گا"

زینش بھی اسی کی طرح سینے پر ہاتھ باندھ کر بلال سے پوچھنے لگی


"شاید بیمار کی طبیعت تھوڑی بہل جائے"

بلال دو قدم آگے بڑھ کر اس کے قریب آتا ہوا بولا


"آپ کو اپنی طبیعت بہلانی ہے یا مکمل ٹھیک کرنی ہے چلے آئیں کھانا کھا لیں"

ایسا نہیں تھا کہ وہ بلال کی بولتی آنکھوں کا مفہوم نہیں سمجھ رہی تھی مگر انجان بنتی ہوئی بولی اور کمرے میں چلی آئی اس کے پیچھے بلال بھی اپنے کمرے میں آگیا


"اگر تم میرا حال پوچھ لیتی تو شاید طبیعت خود ہی ٹھیک ہو جاتی، کھانے کا تو میرا بالکل بھی موڈ نہیں ہو رہا"

بلال کھانے کی ٹرالی اپنے کمرے میں دیکھ کر زینش سے بولا


"بلال چھوٹے بچوں کی طرح ضد مت کیا کریں پلیز کھانا کھا لیں"

زینش تھوڑا فکرمند لہجے میں بولی جسے دیکھ کر بلال مسکرایا


"مجھے معلوم ہے یہاں میری ضدیں پوری کرنے والا کوئی نہیں ہے"

بلال بولتا ہوا صوفے پر جا کر بیٹھا تو زینش ٹرالی میں موجود کھانا میز پر رکھنے لگی


"ضدیں کرنا کون سی اچھی بات ہے بھلا،، ضد تو صرف شخصیت کی بگاڑ کی وجہ بنتی ہے"

زینش بلال کی طرف پلیٹ بڑھاتی ہوئی اس سے بولی


"میرا دل ضدی نہیں ہے مگر لگتا ہے اب ہو جائے گا۔۔۔ ویسے تمہیں کسی نے میرے کمرے میں آنے سے روکا نہیں"

بلال اس کے ہاتھ سے پلیٹ لیتا ہوا زینش سے پوچھنے لگا


"آنٹی اور حسان بھائی نے سمجھایا تھا طبیعت خراب ہے میں آپ کی بدتمیزی کا لیول آسمانوں کو چھو جاتا ہے مگر پھر بھی دل نہیں مانا، دوست بنایا ہے تو دوستی تو نبھانی ہی پڑے گی اس لیے چلی آئی"

زینش لفظ دوستی واضح جتا کر بولی اور بلال کو خوش گمان کمرے میں چھوڑ کر چلی گئی


****


"ہائے اللہ جی میں تو مر گئی آج۔۔۔ مان نہ مان احتشام یہ میرے دشمنوں کے تعویذ کا اثر ہے لوگ تو چاہتے ہیں بڑھیا کل کی مرتی آج ہی مر جائے"

رات کے کھانے کے بعد نزہت بیگم کی طبیعت خراب ہوچکی تھی وہ پیٹ پکڑ کر درد سے کرہاتی ہوئی سندیلا کو دیکھ کر مسلسل اپنے دشمنوں کو کوس رہی تھی۔۔۔ اس وقت سارے بچوں سمیت سندیلا بھی انہی کے کمرے میں موجود تھے


"امی میں نے منع کیا تھا کہ دو دن پرانا قورمہ مت کھائیں مگر آپ بھی بات کہاں مانتی ہیں"

احتشام نزہت بیگم کی آہ و پکار سن کر بولا


"بھائی امی ہے ہماری،، خدارا ان کے درد کو سمجھیں۔۔۔ امی ٹھیک ہی کہتی ہیں ہماری خوشیوں سے تو ویسے بھی سب جلتے ہیں بس جہاں ہمہیں خوش دیکھا وہی لگا دی ہماری خوشیوں پر اپنی منحوس نظر"

باسل نے احتشام سے کہتے ہوۓ زہریلی نگاہ سندیلا پر ڈالی۔۔۔ کیونکہ اس کے سارے ڈاکومنٹس مکمل تھے اور وہ باہر جانے کی تیاری کر رہا تھا۔۔۔ اس لیے بھی اس کی نزہت سے محبت جاگ رہی تھی


"اس کو مت سمجھا، یہ نہیں سمجھے گا جب پیٹ کا درد میرے دل تک پہنچے گا اور میں اس دنیا میں نہیں رہو گی تبھی اس کو قدر آئے گی"

نزہت بیگم نے اب آہ و بکاہ کے ساتھ ساتھ رونا بھی شروع کر دیا


"بھائی لے کر کیوں نہیں جا رہے ہیں آپ امی کو ہاسپٹل، جب پانی سر سے گزر جائے گا تب بیٹھ کر پچھتائیں گے"

فائقہ جو کافی دیر سے کھڑی ہوئی رو رہی تھی وہ احتشام کو دیکھ کر تڑخ کر بولی جس پر احتشام لمبا سانس کھینچ کر سندیلا کی طرف مڑا


"تم منہ اٹھا کر تماشا ہی دیکھے جا رہی ہو،، جاؤ گاڑی کی چابی لے کر اور والٹ بھی لے کر آؤ،، ساتھ ہی میری دراز سے اے ٹی ایم کارڈ لے آنا"

احتشام کے بولنے پر سندیلا خاموشی سے کمرے میں چلی آئی جبکہ باسل اور احتشام نزہت بیگم کو ہسپتال لے جانے کی تیاری کرنے لگے


ہفتے بات ہی گائنی کی ڈاکٹر نے اس کی ڈیلیوری کی ڈیٹ دی تھی۔۔۔ باسل کو بھی اگلے ہفتے جرمنی جانا تھا۔۔۔ اتفاق سے چند دنوں پہلے آنے والا رشتہ،، یعنی ایک فیملی فائقہ کو پسند کر گئی تھی اور اسی ہفتے میں باسل کے جرمنی جانے سے پہلے سادگی سے فائقہ کا نکاح ہونا تھا اور ساتھ ہی رخصتی بھی طے پائی گئی تھی کیونکہ ان لوگوں کو سیدھی سادی سگھڑ اور شرمیلی فائقہ کافی پسند آ گئی تھی


"اے اللہ پاک جو میری ماں کو پیٹھ پیچھے بددعائیں دیتا ہے اس کو خوشیاں کبھی راس نہ آئے"

سندیلا باہر کا دروازہ بند کرکے اپنے کمرے میں جا رہی تھی تب اس کے کانوں میں فائقہ کی آواز گونجی جو باآواز بولتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔ سندیلا کو ان میں سے کسی کے بھی رویہ کا دکھ نہیں تھا۔۔۔ نہ ہی وہ زیادہ سوچ رہی تھی کیونکہ ڈاکٹر نے اسے خوش رہنے کے لیے کہا تھا مگر اب اسے فائقہ کی فکر ہونے لگی تھی کیونکہ شادی کے بعد اسے جوائنٹ فیملی میں رہنا تھا


****


کوئی بارہ بجے کا وقت تھا جب سندیلا نے احتشام سے کال کرکے واپس آنے کا پوچھا کیونکہ وہ اور فائقہ اس وقت گھر میں اکیلی تھی بقول احتشام کے کہ وہ اور باسل نزہت بیگم کو ہسپتال سے واپس لے کر آدھے گھنٹے میں گھر پہنچ رہے ہیں۔۔۔ احتشام کی بات سن کر سندیلا مطمئن ہو گئی تھی مگر دوسرے ہی پل وہ ایک دم سے پریشان ہو کر بیڈ سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی کیوکہ گھر کی دیوار سے اسے اندر کی طرف کھودنے کی آواز آئی تھی جیسے کوئی گھر کے اندر کی طرف کودا ہو۔۔۔ گھبراہٹ اسے تب ہوئی جب مزید دو بار اور کسی نے دیوار پھلانگی۔۔۔ کوئی گھر کے اندر آ چکا تھا وہ پریشان سی اپنے کمرے سے نکلی تو فائقہ لاؤنچ میں ہی موجود تھی


"آواز سنی آپ نے بھابھی،، یہ کیسی آواز تھی"

فائقہ پریشان ہوتی ہوئی سندیلا سے پوچھنے لگی تو سندیلا سمجھ گئی وہ بھی ان آوازوں کو سن کر اپنے کمرے سے باہر نکلی ہے


اس سے پہلے سندیلا فائقہ کو کچھ بولتی تین آدمی باری باری لاؤنچ کے اندر داخل ہوئے ان میں سے دو کے ہاتھوں میں پسٹل موجود تھی


"اے اپنی جگہ سے ہلنے کی ضرورت نہیں ہے دونوں یہاں آ کر کرسیوں پر بیٹھو"

ایک آدمی نے پسٹل کا رخ ان دونوں کی طرف کیا مگر سندیلا اسے نہیں بلکہ اس کے ساتھ دوسرے پسٹل والے آدمی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔


معظم سے بھی ایک لمحہ وہاں سندیلا کو دیکھ کر کچھ بولا نہیں گیا،، وہ بھی یہاں پر سندیلا کو دیکھ کر اسی کی طرح حیرت زدہ تھا مگر دوسرے ہی پل وہ کرسیوں پر بیٹھی فائقہ اور سندیلا کے پاس آیا


"گھر میں اور کون کون موجود ہے"

معظم نے سوال سندیلا کو دیکھ کر کیا تھا مگر وہ بنا کچھ بولے ابھی بھی معظم کو دیکھ رہی تھی اس لیے جلدی سے فائقہ بولی


"اس وقت ہم دونوں ہی گھر پر موجود ہیں باقی سب تو گھر سے باہر نکلے ہوئے ہیں ہم لوگ بہت معصوم، سیدھے سادے، غریب اور سفید پوش لوگ ہیں"

فائقہ گھبراہٹ میں جلدی جلدی بولی


"جتنا پوچھا جائے اتنا ہی جواب دو۔۔۔ احتشام کون ہے اور کہاں ہے اس کا کمرہ"

اب کی بار زاہد فائقہ کے پاس آ کر اس سے پوچھنے لگا جبکہ معظم حیرت سے فریج پر رکھی فیملی فوٹو میں سب کے ساتھ کھڑے احتشام کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ اس احتشام کو وہ تو کیا،، احتشام بھی اسے اچھی طرح جانتا تھا


"جی میرے بڑے بھائی کا نام احتشام ہے یہ سامنے والا کمرہ ان ہی کا ہے"

فائقہ ڈرنے کے ساتھ ساتھ احتشام اور سندیلا کے بیڈروم کی طرف اشارہ کرتی ہوئی بولی


"خبردار میرے کمرے میں کوئی بھی نہیں جائے گا"

سندیلا جو اتنی دیر سے خاموش کرسی پر بیٹھی ہوئی ساری کاروائی دیکھ رہی تھی ان میں سے ایک آدمی کو اپنے کمرے میں جاتا دیکھ کر کرسی سے اٹھ کر بولی


"اے کیا بول رہی ہے پھر سے بول ذرا"

ساجد سندیلا کے پاس آتا ہوا بدتمیزی سے بولا اس سے پہلے وہ مزید سندیلا کے قریب آتا معظم ساجد کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہو گیا


"تم گھر سے باہر جاؤ اور نظر رکھو ہر آنے جانے والے پر زاہد یہی میرے ساتھ موجود ہے"

معظم ساجد کو حکم دیتا ہوا بولا ساجد معظم کو دیکھ کر گھر سے باہر نکل گیا


"تم ان دونوں پر نظر رکھو، کوئی بھی ہوشیاری دکھانے کی ضرورت نہیں ہے سمجھ میں آیا"

معظم زاہد کو تنبہیہ کرتا ہوا بولا اور کمرے میں چلا گیا اب کی بار سندیلا خاموشی سے معظم کو اپنے کمرے میں جاتا دیکھنے لگی۔۔۔


معظم نے کمرے میں جاتے ہی یو ایس بی دیکھنے کے چکر میں دس منٹ میں پورا کمرا کھنگال لیا بالآخر اسے ایک دراز میں موجود یو ایس بی مل گئی۔۔۔ وہ پہلے خود اس یو ایس بی کو چیک کرنا چاہتا تھا مگر لانچ سے آتی ہوئی شور شرابے کی آواز پر اسے کمرے سے باہر جانا پڑا


"میں کہتی ہو چھوڑ دو اسے"

سندیلا غصے میں کہتی ہوئی روتی ہوئی فائقہ کو ساجد اور زاہد سے چھڑوا رہی تھی جو کہ فائقہ کو کھینچ کر دوسرے کمرے میں لے جا رہے تھے


"اے کیا کر رہے ہو تم دونوں،، فوراً اس لڑکی کو چھوڑ دو۔۔۔۔ خبردار جو تم دونوں میں سے کسی نے بھی اپنی اوقات دکھائی تو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔ ہم یہاں پر جس مقصد کے لیے آئے تھے وہ کام مکمل ہوگیا ہے تو اب شرافت سے واپس چلو"

معظم ان دونوں کو دیکھ کر غصے میں زاہد اور ساجد کے قریب آتا ہوا بولا


فائقہ نے ان دونوں آدمیوں کی توجہ معظم کی طرف دیکھ کر راستے میں کھڑی سندیلا کو دھکا دے کر ہٹاتی ہوئی تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی اور اندر سے دروازہ بند کر لیا۔۔۔۔ سندیلا اس سے پہلے پاس کھڑے ساجد سے ٹکراتی معظم نے اس کا بازو پکڑ لیا


"لے نکل گیا شکار ہاتھ سے اِس کی وجہ سے، او بھائی اگر تیرا موڈ نہیں ہے تو جاکر گاڑی میں بیٹھ،، ہم دونوں دس منٹ میں آتے ہیں"

ساجد بگڑے ہوئے موڈ کے ساتھ معظم کو دیکھ کر بولا اس کی بات سن کر معظم کے ماتھے پر لاتعداد شکنیں آئی جبکہ معظم نے ابھی سندیلا کا بازو پکڑا ہوا تھا


"بکواس بند کرو اپنی، یہاں آنے سے پہلے تہہ ہوگیا تھا کہ کسی کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور تم دونوں جاکر شرافت سے گاڑی میں بیٹھو۔۔۔ نہیں تو میں تم دونوں کا یہی حشر کر دوں گا"

معظم ان دونوں کو دیکھ کر تنبیہ کرتا ہوا بولا۔۔ ان دونوں کی ہوس بھری نظریں اب معظم کے پاس کھڑی سندیلا پر تھی،، سندیلا کو ان دونوں کی نظروں سے گھن آنے لگی وہ تو فائقہ کی طرح یہاں سے بھاگنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھی اس لیے مزید معظم کے قریب ہو کر کھڑی ہو گئی


"گاڑی میں جاکر تم بیٹھو،، زاہد ذرا غور سے دیکھ یہ تو اس سے بھی زیادہ اچھا مال ہے،،، ماں بننے والی ہے تو کیا ہوا۔۔ آج باری باری اسی پر ہاتھ صاف کر لیتے ہیں"

ساجد بولتا ہوا سندیلا اور معظم کے قریب آیا،،


اس سے پہلے وہ سندیلا کی طرف ہاتھ بڑھاتا معظم نے زور دار مُکا اس کے منہ پر جڑا جس سے وہ دور جا گرا۔ ۔۔ معظم نے زاہد کو کوئی بھی حرکت کرنے کا موقع نہیں دیا بلکہ اپنے پاؤں سے زوردار لات اس کے ہاتھ پر ماری اس کی پسٹل فریج کے نیچے جا گری۔ ۔۔ ساتھ ہی وہ زاہد کی گھونسوں سے توازا کرنے لگا۔۔۔ ساجد نے اگے بڑھ کر سندیلا کے قریب آنے کی کوشش کی مگر اس سے پہلے ہی معظم نے ساجد کا گریبان پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا اور ساجد کو بری طرح پیٹنا شروع کردیا


ساجد کو پٹتا دیکھ کر، زاہد فریج کی طرف بڑھا اس سے پہلے وہ جھک کر پسٹل نکالتا معظم نے لاغر ہوئے ساجد کے وجود کو زاہد کے اوپر دھکا دیا۔۔۔ اپنے پاس موجود چھپی ہوئی پسٹل سے معظم نے ان دونوں کے پاؤں کے پاس فرش پر فائر کیا۔۔۔ جس سے وہ دونوں گھر سے باہر بھاگ گئے۔۔۔ فائر کی آواز پر سندیلا جیسے ہوش کی دنیا میں آئی اور ایک دم سے اس نے رونا شروع کردیا جبکہ فائقہ اپنے کمرے میں موجودہ کھڑکی سے ذرا سا پردہ ہٹا کر سارا منظر دیکھ رہی تھی


"استانی جی کیا ہوا آپ کو یہاں دیکھیں میری طرف،، وہ دونوں بھاگ گئے ہیں اب یہاں واپس نہیں آئیں گے میں آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گا آپ بے فکر ہو جائے"

معظم اپنی پسٹل واپس چھپاتا ہوا روتی ہوئی سندیلا کے پاس آ کر بولا۔۔۔


وہ اتنی ڈری ہوئی تھی کہ بنا سوچے سمجھے اس نے معظم کی شرٹ پکڑ کر اس کے کندھے پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا


وہ فائقہ کی عزت بچا رہی تھی ان دونوں غنڈو سے اور فائقہ اسے ہی دھکا دے کر اسے غنڈوں کے بیچ چھوڑ کر بھاگ گئی۔۔۔ وہ کیا تھی،، اس کی حیثیت کیا تھی اس گھر میں۔۔ ان دونوں غنڈوں کی باتیں سوچ سوچ کر اسے جھرجھری چھڑ رہی تھی۔۔ اس وقت اس کا دماغ بالکل کام نہیں کر رہا تھا بس وہ روئے جا رہی تھی


"دیکھیں آپ کا یوں رونا مجھے پریشان کر رہا ہے۔۔۔ مجھے دیکھ کر بتائیں آپ کی طبیعت ٹھیک ہے ناں"

جس طرح وہ معظم کے کندھے سے سر ٹکا کر رو رہی تھی معظم اس کے لئے فکر مند ہو کر سندیلا سے پوچھنے لگا ساتھ ہی اس نے سندیلا کو دونوں بازوؤں کو پکڑ کر اس کا سر اپنے کندھے سے ہٹا یا


"اپنے کمرے میں جانا ہے مجھے"

بے تحاشا رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں اور ناک سرخ ہو چکی تھی گالوں پر آنسوؤں کی نمی دیکھ کر معظم بنا کچھ بولے سندیلا کا بازو پکڑ کر سہارا دیتے ہوئے، سندیلا کو اس کے کمرے میں لے گیا یہ سارا منظر اپنے بیڈ روم کی کھڑکی چھپ کر حیرت سے منہ کھولے فائقہ دیکھ رہی تھی


"یہاں پر بیٹھیں آپ"

معظم بیڈ پر تکیہ سیٹ کر کے سندیلا کو بیڈ پر بٹھانے لگا تاکہ وہ تکیہ کے سہارے سے آرام سے بیٹھ جائے اب وہ ٹیبل پر موجود جگ سے سندیلا کے لئے گلاس میں پانی نکال رہا تھا۔،۔۔ جبکہ اسے خود بھی اب گھر سے نکلنا چاہیے تھا مگر معظم کا دل نہیں مانا کہ وہ اس پریشان سی روتی ہوئی لڑکی کو یوں چھوڑ کر بھاگ جائے۔۔۔ معظم کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیتے ہوئے سندیلا اسے دیکھنے لگی،، اتنی مہربانیوں کی عادت اسے کہاں تھی اور وہ خود کیا تھا ایک غنڈا،، وہ اسی کے ساتھی تھے جو اس کے ساتھ کچھ بہت زیادہ غلط کرنے کی نیت رکھتے تھے مگر پھر بھی سندیلا کو اپنے سامنے کھڑے شخص سے ڈر نہیں لگ رہا تھا۔۔۔ لیکن ساتھ ہی وہ اپنے عمل پر شرمندہ بھی تھی وہ کیسے ایک نامحرم کے یوں کندھے پر سر رکھ کر رو سکتی ہے۔ ۔۔۔ شاید اس لیے کہ وہ نامحرم اسے اپنا ہمدرد لگا تھا،، سندیلا پانی پیتے ہوئے خود کو جواز پیش کر کے مطمئن کرنے لگی


وہاں کھڑے معظم کی نظریں احتشام اور سندیلا کی تصویر پر ٹکی ہوئی تھی جوکہ بیڈ کے سائیڈ پر رکھی ہوئی تھی اسے احتشام کی قسمت پر رشک آنے لگا


"اب مجھے نکلنا ہوگا آپ آرام کریں"

معظم اسے بولتا ہوا گھر سے نکل گیا جبکہ سندیلا اپنے بے ترتیب کمرے کو دیکھنے لگی


****


نیند سے بوجھل آنکھوں سے اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھی الارم پیس پر نظر ڈالی گھڑی رات کے تین بجا رہی تھی زینش اٹھ کر کچن میں چلی آئی پانی پی کر اپنی پیاس بجھانے کے بعد، وہ گلاس میں مزید پانی بھر کر اپنے کمرے میں جا رہی تھی تب اسے بلال کے کمرے کے دروازے کے نیچے سے آتی روشنی،، جو بلال کے جاگنے کا پتہ دے رہی تھی ایک پل زینش کے دل میں آیا کہ وہ بلال کے کمرے میں چلی جائے مگر رات کے اس پہر اسے بلال کے کمرے میں جانا مناسب نہیں لگا ۔۔۔ زینش اپنے کمرے کی طرف جانے لگی تو اسے بلال کی طبیعت کا خیال آیا تب اس کے قدم خود بخود بلال کے کمرے کی طرف اٹھ گئے


"بلال کیا ہوا آپ کو"

وہ بیڈ پر لیٹا ہوا کراہ رہا تھا پسینے سے اس کا پورا چہرہ بھیگا ہوا تھا۔۔ زینش پریشان ہوکر پانی کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھتی ہوی بے ساختہ اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی


"تم میرے لیے پریشان ہو رہی ہو"

زینش کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات واضح تھے جسے دیکھ کر بلال اس سے پوچھنے لگا


"پریشان ہونے کی تو بات ہے بلال،، آپ کی طبیعت بالکل ٹھیک نہیں لگ رہی ہے۔۔۔ رکیں میں حسان بھائی کو بلا کر لاتی ہوں"

زینش مزید پریشان ہو کر بیڈ سے اٹھنے لگی تک بلال نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا


"کسی کو بھی ڈسٹرب کرنے کی ضرورت نہیں ہے طبیعت تھوڑی دیر بعد خود ہی ٹھیک ہو جائے گی"

وہ زینش کا ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھیں بند کرتا ہوا بولا


"ایسے کیسے ٹھیک ہو جائے گی بلال پلیز ضد مت کریں"

بلال بیڈ پر زینش کا ہاتھ پکڑ کر لیٹا ہوا تھا۔۔۔ زینش کے ہاتھ چھڑوانے پر اس کی گرفت میں سختی در آئی۔۔۔ وہ زینش کا ہاتھ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھا۔۔۔ بلال کو اس طرح دیکھ کر زینش واقعی پریشان ہوگئی


"تم اپنی بات کرو تم تو ڈسٹرب نہیں ہو رہی ہو"

بخار کی شدت سے سرخ ہوتی آنکھیں کھول کر بلال زینش کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا جبکہ اس نے زینش کا ہاتھ ابھی بھی پکڑا ہوا تھا


"آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں میں بالکل بھی ڈسٹرب نہیں ہو رہی ہوں مگر مجھے فکر ہو رہی ہے آپ کی"

یہ حقیقت بھی تھی وہ واقعی اس حالت میں بلال کو دیکھ کر اس کے لیے فکرمند ہو رہی تھی زینش کی بات سن کر ایک لمحے کے لئے بلال کے ہونٹوں پر مسکان در آئی


"اور مجھے تمہارا یوں اپنے لیے فکر مند ہونا بہت اچھا لگ رہا ہے۔۔۔ سال دو سال بعد مجھے ایسے ہی بخار چڑھتا ہے،، یہ صبح تک ٹھیک ہو جائے گا میں میڈیسن لے چکا ہوں،، تم پریشان مت ہو بس اسی طرح میرے پاس بیٹھی رہو۔۔۔ جب میری آنکھ لگ جائے تب چلی جانا۔۔۔ کیا تم تھوڑی دیر کے لئے اس وقت میرے پاس بیٹھ سکتی ہو"

بلال زینش کا ہاتھ تھامے بہت امید سے اس سے پوچھ رہا تھا۔۔۔ گھڑی میں ٹائم دیکھنے کے باوجود نہ چاہتے ہوئے بھی زینش کا سر اقرار میں ہلا جس پر بلال نے سکون سے اپنی آنکھیں بند کر لی۔۔۔ مگر اس نے ابھی بھی زینش کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا


"کچھ چاہیے بلال آپ کو"

چند منٹ یونہی گزرنے کے بعد جب وہ بےچین ہوا تو زینش اس سے پوچھنے لگی


"پانی"

خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتا ہوا وہ زینش سے بولا زینش کی نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھے پانی کے گلاس پر پڑی


مگر اس سے پہلے اسے بلال کو سہارا دے کر اٹھانا تھا جو کہ کافی مشکل کام تھا کیونکہ بلال نے اس کا ایک ہاتھ پکڑا ہوا تھا جو آج شاید وہ کسی صورت پر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا۔۔۔ اسے اٹھانے کے لیے زینش کو مزید اس کے قریب آنا پڑا


"تھوڑا سا اٹھنے کی کوشش کریں"

زینش اپنا دوسرا بازو بلال کے گرد شولڈر پر رکھ کر اسے اٹھنے میں مدد دینے لگی جس کے نتیجے میں وہ بلال پر جھگ گئی اور اس کا دوپٹہ اتر کر بلال کے سینے پر جا گرا،، جس کا احساس اسے بلال کی نظروں نے دلایا


زینش شرمندہ ہو کر پیچھے ہٹی اور ایک ہاتھ سے اپنا دوپٹہ ٹھیک کرنے لگی تب بلال نے زینش کا ہاتھ چھوڑا اور خود اٹھ کر بیڈ کے کراؤن میں ٹیک لگا کر بیٹھ گیا


آنکھیں اس کی ابھی بھی بند تھی،، پیاسے ہونٹوں سے پانی کا گلاس ٹکرایا تو بلال نے آنکھیں کھول کر دیکھا زینش اپنے ہاتھ میں گلاس تھامے اسے پانی پلانے کی کوشش میں پریشان تھی۔۔ وہ زینش کے ہاتھوں سے پانی پینے لگا پھر دوبارہ لیٹ کر بلال نے اپنی آنکھیں بند کر لی۔۔۔ زینش ٹشو پیپر کی مدد سے اس کے ماتھے پر آیا ہوا پسینہ صاف کرنے لگی جس پر بلال ایک بار پھر آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگا۔۔۔ نہ ایسی کرم نوازیاں اس پر کوئی کرتا تھا نہ ہی اسے ایسی کرم نوازیوں کی عادت تھی۔۔۔ اپنے ماتھے پر رکھا ہوا زینش کا ہاتھ وہ ایک بار پھر تھام چکا تھا


بیٹھے بیٹھے جب زینش کو اونگھ آنے لگی جس کے باعث وہ گرتے گرتے ایک دم سنبھلی تب اس نے بلال کو دیکھا وہ سو رہا تھا۔۔۔ زینش کا ہاتھ بھی اس کے ہاتھ میں نہیں تھا۔۔۔ زینش آئستہ سے بیڈ سے اٹھنے لگی


"زینش نہیں پلیز ایسے مت کرنا میرے ساتھ"

زینش نے حیرت سے بلال کو دیکھا اس کی آنکھیں بند تھی مگر نیند میں بھی وہ زینش کا دور جانا محسوس کر سکتا تھا۔۔۔۔ بلال آنکھیں کھولے بنا بولا اور بے چینی سے تکیے پر موجود سر نفی میں ہلانے لگا تھا تب زینش بیڈ پر واپس بیٹھ کر بلال کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ جسے بلال نے جلدی سے پکڑ لیا۔۔ بلال کی آنکھیں ابھی بند تھی زینش حیرت سے بلال کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ اس کو شک گزرا کہ جیسے وہ جاگ رہا ہوں مگر زینش نے دو سے تین بار بلال کا نام پکارا جس کا بلال نے کوئی جواب نہیں دیا


وہ دن بدن زینش سے اٹیچ ہو رہا تھا اور یہ بہت غلط تھا۔۔۔ محض ایک شرط جیتنے کی خاطر وہ بلال سے اس قدر فرینک ہوئی تھی۔۔۔ یونیورسٹی کینٹین میں بیٹھ کر خوشی کے ساتھ بلال کو ڈسکس کرنا جیسے اس کا اور خوشی کا مشغلہ بن گیا تھا۔۔۔ وہ فخر سے خوشی کو بتاتی کہ وہ بلال کے ساتھ ڈیلی واک پر جاتی ہے جس پر خوشی حیرت کا اظہار کرتی پھر خوشی کے کہنے پر اس نے اپنے ہاتھ کا بنایا ہوا چوکلیٹ کیک بلال کو کھلایا تھا جو کھانے اسے بچپن سے سخت ناپسند تھے وہ بلال زینش کا دل رکھنے کے لئے کھا لیتا۔۔۔ ان باتوں کو یونیورسٹی میں ڈسکس کر کے وہ دونوں انجوائے کرتیں یہ جانے بغیر کہ یہ مذاق میں لگائی ہوئی شرط آگے جاکے کیا رنگ لائے گی

****

"شام"

جیسے ہی احتشام کمرے کے اندر داخل ہوا سندیلا بیڈ سے اٹھ کر روتی ہوئی اس کے گلے سے لگی


"یہ سب کیا ہے سندیلا کیا ہوا ہے یہاں پر"

احتشام نے جب لاؤنچ میں قدم رکھا تھا تبھی اسے کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا تھا،، اب اپنے کمرے کی حالت اور سندیلا کو روتا ہوا دیکھ کر اسے یقین ہو چلا تھا کہ اس کے پیچھے ضرور کوئی انہونی ہوئی ہے


"ہائے میری فائقہ کہا ہے باسل، بہن کو دیکھ جلدی سے کمرے میں جا کر"

باسل اور نزہت بھی احتشام کے بیڈ روم کے دروازے پر پریشان کھڑے تھے ایک دم نزہت بیگم اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر باسل سے بولی وہ فوراً فائقہ کے کمرے کی طرف بھاگ کر گیا


"تھوڑی دیر پہلے تین آدمی گھر کے اندر دیوار پھلانگ کر آ گئے تھے انہوں نے آپ کا نام پوچھا اور یہاں ہمارے بیڈروم میں آ کر۔۔۔۔

سندیلا احتشام کو بتا ہی رہی تھی کہ اس کے کمرے میں باسل کے ساتھ فائقہ بھی چلی آئی جسے دیکھ کر وہ ایک پل کے لیے خاموش ہو گئی


"آپ بھائی کو مکمل بات بتائے ناں بھابھی،، چلیں ایسا کرتی ہوں بھائی کو پوری کہانی میں سنا دیتی ہوں۔،۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے ہمارے گھر میں تین آدمی گھر کی دیوار پھیلانگ کر آئے ان میں سے ایک بھابھی کا جاننے والا بھی تھا،، ان میں سے ایک آدمی نے مجھ سے آپکے کمرے کا کنفرم کیا پھر بھابھی کا آشنا میرا مطلب ہے جاننے والا آپ کے کمرے میں چلا گیا۔۔۔ اسی نے آپ کے کمرے کی یہ حالت کی ہے۔۔۔ اس کے دو کمینے اور ذلیل قسم کے ساتھی مجھے خالی بیڈ روم میں زبردستی لے کر جانے لگے تو میں کسی طرح اپنی عزت بچا کر اپنے کمرے کی طرف بھاگی اور اندر سے کمرے کا دروازہ بند کر لیا۔۔۔ پھر ان دونوں گھٹیا آدمیوں نے یہی حرکت بھابھی کے ساتھ کرنا چاہی۔۔۔۔ جس پر بھابھی کے جاننے والے نے بری طرح اپنے ہی ساتھیوں کو مارا اور پستول سے فائر بھی کیا۔۔۔ جس کی وجہ سے اس کے دونوں ساتھی ڈر کر بھاگ گئے۔۔۔ مگر دلچسپ کہانی تب شروع ہوئی جب ان دونوں آدمیوں کے گھر سے نکلنے کے بعد ہماری بھابھی صاحبہ اپنے اس جاننے والے کے گلے لگ کر بےتہاشہ روئی اور اس سے فرمائش کرنے لگی کے وہ انہیں ان کے بیڈ روم میں لے جائے۔ ۔۔ اور بھابھی کی مرضی پر وہ انہیں آپ کے بیڈروم میں لے گیا۔ ۔۔ پورے دس منٹ بعد وہ آپکے کمرے سے باہر نکلا کیوں بھابھی ٹائم غلط تو نہیں بتا رہی، اتنی ہی دیر رہا ناں وہ اور آپ ایک دوسرے کے ساتھ اس کمرے میں،، ہاں پھر وہ گھر سے باہر چلا گیا۔ ۔۔۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے بھابھی نے اسے یہاں کس وجہ سے بلایا تھا۔ ۔۔ یہ آپ بھابھی سے پوچھ لیں"

فائقہ کے مکمل کہانی سنانے پر کمرے میں بالکل سناٹا چھا گیا۔ ۔۔


احتشام نے کسطرح ضبط کر کے پوری کہانی سنی یہ اس کا دل جانتا تھا جبکہ باسل بالکل چپ تھا اور نزہت بیگم اپنے دونوں گالوں کو تھپتھپاتی ہوئی توبہ کر رہی تھی۔۔ بے یقینی سے خاموش کھڑی سندیلا فائقہ کے پاس آئی اور زور دار تھپڑ اس کے منہ پر رسید کیا جس سے فائقہ سمیت سب حیران ہو گئے


"تم ایک بدمزاج اور بد تمیز لڑکی ہو اس کا مجھے اندازہ تھا لیکن ساتھ ہی تم اتنی گھٹیا اور نیچ قسم کی میرے بارے میں سوچ رکھتی ہو یہ مجھے آج معلوم ہوا ہے۔۔۔ شرم آنی چاہئے تمہیں اس طرح میری ذات پر کیچڑ اچھالتے ہوئے"

سندیلا کے غصے میں بولنے پر فائقہ گال پر ہاتھ رکھ کر اسے خونخوار نظروں سے گھور رہی تھی لیکن اندر ہی اندر وہ خوش تھی سندیلا نے اگر اسے اپنا خریدا ہوا ڈریس نہیں دیا تھا تو اس نے بھی سندیلا سے بہت اچھا بدلہ لیا تھا


"میری بہن نے کوئی کیچڑ نہیں اچھالا آپ پر۔۔۔ وہ جو بھی بول رہی ہے ٹھیک ہی بول رہی ہوگی۔۔۔ بھائی آپ جانتے ہیں دو دن پہلے جو میں آپ کے بچے کے لیے شاپنگ کر کے لایا تھا وہ ایک غنڈے کے کہنے پر اور تشدد کرنے پر،، اپنے دوست سے پیسے ادھار لے کر ساری چیزیں لایا تھا۔ ۔۔۔ معلوم نہیں آپ کی بیوی کن کن لوگوں کے پاس جا کر اپنے سسرال والوں کے ظلم و ستم کا قصّہ سناتی ہو گیں جو ایک غنڈہ آپ کی بیوی اور آنے والے بچے پر اتنا مہربان ہو رہا تھا"

باسل احتشام کے سامنے آ کر بولا سندیلا نم آنکھوں سے باسل کو دیکھتی ہوئی بولی


"معلوم ہے باسل میرے ہاتھ کا ایک ایسا ہی تھپڑ تم بھی ڈیزرو کرتے ہو لیکن میں تم کو مارو گی نہیں کیوکہ۔۔۔

سندیلا اپنے جملہ مکمل کرتی اس سے پہلے ہی احتشام نے سندیلا کا بازو کھینچ کر اس کا رخ اپنی طرف کیا


"خاموش ہو جاؤ بالکل، اب ایک لفظ تمہارے منہ سے نہیں نکلنا چاہیے، باسل اپنے کمرے میں جاؤ بلکے آپ سب اپنے کمرے میں جائیں"

احتشام غصے میں پہلے سندیلا سے بولا اور پھر باری باری اس نے سب کو مخاطب کیا چند سیکنڈ میں اس کا کمرہ خالی ہوگیا۔۔۔


احتشام نے سب سے پہلے دراز میں موجود اماؤنٹ اور زیور چیک کیے جو کہ آدھے دراز میں موجود تھے اور آدھے نیچے پڑے ہوئے تھے مگر وہاں پر یو ایس بی موجود نہیں تھی،، جو وہاں موجود اور پیسوں اور زیور کی طرح قیمتی تھی۔۔۔ اس یو ایس بی کو دکھا کر تو اسے حسان سے منہ مانگی رقم کا مطالبہ کرنا تھا


"یو ایس بی کہاں ہے جو اس دراز میں رکھی ہوئی تھی"

احتشام سندیلا کے پاس آ کر غصے میں پوچھنے لگا


"مجھے نہیں معلوم شام،، وہ تینوں یہاں کیوں آئے تھے یا پھر یہاں سے کیا کیا لے کر گئے ہیں۔۔ یقین کریں میں کچھ بھی نہیں جانتی،، ہاں ان میں سے ایک وہی شخص ہے جس کا میں نے آپ سے ذکر کیا کہ جو اسکول میں۔۔۔"

سندیلا احتشام کو روانی سے بتا رہی تھی تبھی احتشام نے اس کی بات کاٹی


"اچھا یعنی ابھی جو تھوڑی دیر پہلے میرے بہن بھائی بول رہے تھے وہ سچ بول رہے تھے یعنی تم نے اسکول والے واقعے کے بعد اس موالی،، بدمعاش سے یاریاں پالی ہوئی تھیں"

احتشام سندیلا کو دیکھ کر چبھتے ہوئے لہجے میں بولا ایک پل کے لئے سندیلا خاموشی سے احتشام کو دیکھنے لگی


"مطلب۔۔۔ یاریاں پالنے سے میں آپ کی بات کا کیا مطلب اخذ کرو شام"

سندیلا بہت افسوس سے احتشام کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔۔ کیا شادی کے دو سالوں میں اسے اندازہ نہیں ہوا تھا اس کی بیوی کیسا کردار رکھتی ہے


"اپنا مطلب میں تمہیں بعد میں سمجھاؤں گا پہلے تم مطلب کی بات پر آؤ۔۔۔ دیکھو سندیلا وہ یو ایس بی میرے لئے بہت امپورٹنٹ ہے۔۔۔ مجھے وہ کسی بھی صورت میں ہر حال میں واپس چاھیے،، اس آدمی کو ابھی کال کرو اور اس سے کہو کہ وہ یو ایس بی لے کر فوراً یہاں آئے"

احتشام سندیلا کو دیکھ کر بے حد سنجیدگی سے بولا


"شام آپ تو ایسے بات کر رہے ہیں جیسے میں اس شخص سے ہر وقت کانٹیکٹ میں رہتی ہوں، میں واقعی نہیں جانتی اس کو بلکہ مجھے تو اس کا نام تک نہیں معلوم"

سندیلا افسوس کرنے کے ساتھ ساتھ پریشان ہوکر احتشام سے بولی تو احتشام نے سختی سے اس کے دونوں بازو پکڑے


"تم مجھے بہت زیادہ غصہ دلا رہی ہوں سندیلا بلاوجہ کا ناٹک بند کرو اور اس آدمی سے وہ یو ایس بی مجھے واپس لے کر دو۔۔۔ میں تمہیں کچھ کہوں گا نہ ہی اس آدمی کو لیکن اگر تم نے میری بات نہیں مانی تو میں تمہیں اپنے اوپر حرام کر لوں گا،، یہ بات میں قسم کھا کر کہہ رہا ہوں"

سندیلا کی بات سن کر احتشام کا پارہ مزید چڑھنے لگا تھا جبکہ احتشام کی بات سن کر سندیلا صدمے سے احتشام کو دیکھنے لگی


"آپ نے بہت بڑی بات کہہ دی ہے شام۔۔۔ جانتے ہیں آپ اس کا مطلب،، آپ کو میرا یقین کرنا پڑے گا کہ میں اس آدمی کو نہیں جانتی"

آخری جملہ سندیلا نے تقریبا بےبسی سے چیخ کر بولا کیونکہ بس وہ چیخ ہی سکتی تھی


"تو ٹھیک ہے پھر میں تمہیں آج ہی فارغ کر دیتا ہوں اس گھر سے بھی اور اپنی زندگی سے بھی میں تمہیں اپنے ہوش و حواس میں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں تین بار نہیں بلکہ سو بار طلاق دیتا ہوں اب دفع ہو جاؤ یہاں سے"

احتشام جو کہ غصے میں پاگل ہوا جارہا تھا سندیلا سے بھی زیادہ زور سے چیخ کر بولا


"شام"

سندیلا صدمے کی کیفیت میں بس اس کا نام ہی پکارا تھا اور فرش پر بیٹھ گئی


****


"تم اب آرہے ہو یہاں پر معظم جانتے ہو کل رات سے وقفے وقفے سے میں تمہارا موبائل ٹرائی کر رہا تھا جو کہ مسلسل آف تھا۔۔۔ پہلے کبھی تم نے ایسا نہیں کیا کام مکمل ہونے کے ساتھ ہی تم ہمیشہ خود ہی سے مجھ سے کانٹیکٹ کرتے تھے"

قاسم نے معظم کو صبح اپنے آفس میں آتا دیکھا تو اس سے بولا


"کل میرے موبائل کے ساتھ میرا موڈ بھی خراب تھا اور وہ صرف آپ کے ان دو بھیجے گئے آدمیوں کی وجہ سے۔۔۔ جانتے ہیں آپ کل ان دونوں نے وہاں پر کیا ذلالت کرنے کی کوشش کی"

کرسی پر بیٹھتے ہوئے معظم کو کل کا منظر یاد آیا تو ایک بار پھر اسے غصہ آنے لگا


"مجھے کل کی کہانی زاہد اور ساجد سے معلوم ہو چکی ہے میں نے ان دونوں کی کلاس لے لی ہے اور ان دونوں کو تمہارے کام کرنے کا طریقہ کار بھی سمجھا دیا ہے آئندہ وہ دونوں احتیاط سے کام لیں گے"

معظم قاسم کا خاص آدمی ہونے کے ساتھ ساتھ نڈر اور دلیر آدمی تھا۔۔۔ قاسم اس کے بگڑے ہوئے موڈ کو دیکھتا ہوا بولا


"میں آئندہ ان دونوں کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا ہوں ویسے آپ کو اپنے تمام آدمیوں کو عورت کی عزت کے بارے میں اچھی طرح آگاہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ سب ہی کسی نہ کسی عورت سے ہی پیدا ہیں"

بولتے ہوئے معظم کے سامنے اپنا ماضی یاد آیا اور چلا گیا


"تم میری بھی عادت اچھی طرح جانتے ہو معظم، بے شک میرے سارے کام دو نمبر ہیں مگر میں نے اپنے تمام آدمیوں پر کچھ اصول لاگو کیے ہیں۔۔ وہ دونوں نئے آئے ہیں میرے پاس،، اب میں نے ان کو سمجھا دیا ہے۔۔۔ تم بتاؤ وہ یو ایس بی کہاں ہے"

قاسم کام کی بات پر آتا ہوا معظم سے پوچھنے لگا


"یو ایس بی میرے پاس ہی ہے لیکن حسان صاحب اس یو ایس بی کی بہت کم قیمت دے رہے ہیں جبکہ اس یو ایس بی میں ایسا کچھ موجود ہے جس کے منظر عام پر آنے سے بہت کچھ بےنقاب ہو سکتا ہے"

معظم کرسی پر آرام سے ٹیک لگاتا ہوا قاسم کو بتانے لگا اس کے بات پر قاسم چونکا اور معظم کے آگے ہاتھ بڑھا کر اس سے یو ایس بی لی۔۔۔ تجسس کے تحت اسے لیپ ٹاپ سے کنیکٹ کی۔۔۔ قاسم کی نظریں اسکرین پر جمی تھی جبکہ معظم کی نظر قاسم کے چہرے پر


"اس یو ایس بی کی صحیح قیمت تو اب حسان رفیق کو دینا ہی پڑے گی"

قاسم اپنی کرسی پر جھولتا ہوا سوچ کر بولا


"اور میری قیمت"

معظم اسموکنگ کرتا ہوا سنجیدگی سے قاسم سے پوچھنے لگا جس پر قاسم نے مسکرا کر معظم کو دیکھا اور ایک اچھی اماؤنٹ کا چیک کاٹ کر معظم کی طرف چیک بڑھایا۔۔۔ جس میں موجود رقم اس کی ڈیمانڈ سے زیادہ تھی۔۔۔ معظم نے چیک پر موجود اماؤنٹ پر نظر ڈالی چیک اپنی جیب میں رکھتا ہوا وہاں سے باہر نکل گیا


****


"وہ سجی سنوری آئینے کے سامنے کھڑی خود کا مکمل جائزہ لے رہی تھی نہ جانے کتنے سالوں بعد وہ اس طرح تیار ہوئی تھی جانتی تھی وہ بہت پیاری لگ رہی ہے بس کنفیوز اسے یہ بات کر رہی تھی کہ ہاتھ میں موجود سلور کلر کی بندیا اپنے ماتھے پر سجائے کہ نہیں


آج خوشی کی انگیجمنٹ تھی اس لحاظ سے زینش تیار ہوئی تھی۔۔۔ اب خوشی کو بلال نامے میں اس طرح دلچسپی نہیں رہی تھی کیونکہ اس کی زندگی میں اپنے منگیتر صاحب آ چکے تھے جسے وہ ڈھیر ساری باتیں موبائل پر کرتی تھی اور یونیورسٹی میں آ کے زینش کو بتاتی تھی


جس دن بلال کو بخار ہوا تھا اور بلال نے جو باتیں زینش سے بولی تھی تب سے زینش کوشش کر رہی تھی کہ بلال سے اس کا کم ہی ٹکراؤ ہو اور ویسے بھی اس کے سمسٹرز اسٹارٹ ہو چکے تھے جس کی وجہ سے وہ اپنے کمرے تک محدود ہوگئی تھی۔۔۔ زینش نے ایک بار پھر بندیا ماتھے پر سجا کر آئینے میں خود کو دیکھا بندیا واپس ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کر کمرے سے باہر نکل گئی


"ماشاءاللہ کتنی پیاری لگ رہی ہے میری بیٹی"

زینش جب اپنے کمرے سے باہر نکلی تو جویریہ حسان کے ساتھ تیار کھڑی تھی۔۔۔ زینش کو دیکھ کر جویریہ کے منہ سے بے اختیار نکلا


جویریہ کے ساتھ کھڑا حسان بھی دلچسپی سے زینش کو دیکھنے لگا ایسا ہرگز نہیں تھا کہ وہ آج ہی اسے پیاری لگ رہی تھی مگر چند دنوں سے وہ اپنے ہی مسلئے مسائل میں الجھا ہوا تھا دوسرا زینش سے اس کی ملاقات اور بات چیت اب کھانے کے ٹیبل پر ہوتی تھی کیونکہ وہ اپنے سمسٹرز کی وجہ سے خود بھی اسے کم ہی نظر آتی۔۔۔ حسان نے اپنے اور زینش کے متعلق بہت کچھ سوچ رکھا تھا جس کا ذکر وہ بہت سیدھا سادے طریقے سے جویریہ سے کرنا چاہتا تھا۔۔۔ جویریہ کی بات سن کر زینش مسکراتی ہوئی جویریہ کے پاس آئی


"سوری تیار ہونے میں تھوڑا لیٹ ہو گئی اب چلیں"

زینش جویریہ کے پاس آتی ہوئی بولی


"ارے ایک منٹ میرا موبائل تو کمرے میں رہ گیا۔۔۔ آپ دونوں چلیں میں اپنا موبائل لے کر آتی ہوں"

زینش ایک دم سے یاد کرتی ہوئی بولی اور جلدی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی۔۔ جس پر مسکراتی ہوئی جویریہ حسان کو دیکھنے لگی جو کہ خود بھی زینش کو کمرے میں جاتا ہوا دیکھ رہا تھا


"بہت زیادہ اچھی لگ رہی ہیں نا آج"

جویریہ اپنی مسکراہٹ چھپاتی ہوئی حسان سے پوچھنے لگی تو حسان مسکرا کر جویریہ کو دیکھنے لگا


"بہت زیادہ تو وہ مجھے شروع دن سے ہی اچھی لگی تھی۔۔۔ امی آپ کو اپنے بیٹے کی فیلنگز کو خود سمجھ جانا چاہیے"

حسان نے موقع دیکھ کر جویریہ سے آج ہی اپنی خواہش کا اظہار کردیا۔۔۔ حسان کی بات سن کر جویریہ مسکرا دی


"بیٹے ہو تم میرے نہ صرف تمہاری ماں تمہاری فلینگز کو سمجھ سکتی ہے بلکہ میں اس بارے میں شہنیلہ سے بات بھی کر چکی ہوں وہ تو بہت زیادہ خوش ہے۔۔۔ زینش کے پیپرز ہو جائیں تو شہنیلہ خود پاکستان آ رہی ہے دیر نہیں لگاؤں گی پھر۔۔۔ شادی کرکے فوراً زینش کو اپنی بہو بنا لوں گی"

جویریہ کی بات سن کر احسان کھل کر مسکرایا بلکہ جویریہ کو گلے لگا لیا


"آئی رئیلی لو یو"

حسان خوش ہو کر جویریہ سے بولا تو وہ مسکرا دی


****


بلال آفس سے آنے میں آج لیٹ ہو گیا تھا وہ ابھی گھر آیا تو خوشی کے انگیجمینٹ کے لئے جلدی سے تیار ہوتا ہوا اپنے کمرے سے نکلنے لگا تبھی اس کی نظر زینش کے کمرے کے بند دروازے پر پڑی


بلال جانتا تھا وہ جویریہ اور حسان کے ساتھ جا چکی ہوگی، نہ جانے کیا سوچ کر وہ زینش کے کمرے میں چلایا

بہت دنوں سے وہ زینش سے دیکھ نہیں پا رہا تھا نہ ہی اس سے بات کر پا رہا تھا


وہ جانتا تھا زینش اپنے پیپرز کی وجہ سے بزی ہے اس لیے اسے کم ہی نظر آتی ہے مگر یہ بات اس کا دل نہیں سمجھ پا رہا تھا۔۔۔ جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے تھے، ویسے ویسے اس کی بے قراریاں بڑھتی جا رہی تھی اپنے دل کو سمجھانا اسے مشکل لگ رہا تھا اس لیے اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ زینش کو لے کر اپنی فیلنگز جویریہ سے شیئر کرے گا گوکہ یہ بھی ایک مشکل مرحلہ تھا کیوکہ وہ بچپن سے ہی جویریہ سے فرینگ نہیں تھا مگر زینش کو اپنا بنانے کے لیے اسے یہ قدم اٹھانا تھا


ڈریسنگ ٹیبل کے اوپر موجود بندیا پر بلال کی نظر پڑی تو بلال بندیا اٹھا کر دیکھنے لگا۔۔۔۔ بلال دیکھے بغیر ہی جانتا تھا کہ زینش آج بہت پیاری لگ رہی ہو گی وہ زینش کی بندیا کو اپنی پاکٹ میں رکھتا ہوا وہ کمرے سے باہر نکل گیا


*****


انگیجمنٹ کا فنکشن اپنے عروج پر تھا خوشی اور اس کے منگیتر ریحان منگنی کی رسم ادا کرنے کے لیے تیار تھے اسٹیج سے نیچے سارے کزن جھمکٹے کی صورت کھڑے ہوئے تھوڑی ہی دور اسٹیج کے پاس زینش بھی موجود تھی اس کی ساری توجہ اسٹیج پر ادا ہونے والی رسم پر تھی۔۔۔ مگر اچانک سے لائٹ چلی گئی ابھی سب کے موبائل کی روشنیاں آن بھی نہیں ہو پائی تھی کہ زینش کو اپنی پشت پر کسی کی موجودگی کا احساس ہوا وہ جو کوئی بھی تھا اس کے بہت نزدیک پیچھے کھڑا تھا اس سے پہلے زینش پیچھے مڑتی،، اس نے زینش کے گرد اپنا ایک بازو حائل کرکے اس کو ہلکا سا اونچا اٹھایا جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ زینش کا منہ بند کر چکا تھا


زینش زور سے اپنے ہاتھوں کو چلاتی ہوئی اس سے اپنا آپ چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی،، کوئی اسے اٹھائے وہاں سے لے کر جا رہا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اچانک دو سال پہلے والا منظر آ گیا وہ بھی تو ایک ایسے ہی دن تھا۔۔۔ ابھی وہ سمجھ بھی نہیں تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے اچانک سے اس شخص نے زینش کو نیچے اتارا اور اس کے منہ سے ہاتھ ہٹایا


"زینش میں ہوں بلال"

اس سے پہلے زینش زور دار چیخ مار کر اسٹیج کے بیک سائیڈ سے بھاگتی بلال جلدی سے اس کا رخ اپنی طرف کرتا ہوا بولا ویسے ہی لائٹ بھی آن ہو چکی تھی


زینش خوف کے مارے بلال کو دیکھ رہی تھی بلال خود اسکے روپ کو گہری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا


"یہ آپ تھے بلال، معلوم ہے جان نکال دی تھی آج آپ نے میری"

زینش نارمل ہو کر بلال سے ناراض ہوتی ہوئی بولی اور وہاں سے جانے لگی تب بلال نے اس کا ہاتھ پکڑ کر زینش کو اپنی طرف کھینچا،، زینش اپنا توازن سنبھال نہیں سکی اور بلال کے سینے سے جا لگی


"تم پچھلے دس دنوں سے مجھے اگنور کر کے میری جان نکال رہی ہو"

بلال اسے مزید قریب کر کے،، اس کے دوری برتنے کا شکوہ کرنے لگا جس پر زینش نے اس سے نظریں چرالی


"اگنور کرنے والی تو کوئی بات نہیں ہے آپ کو معلوم تو ہے میرے سمسٹرز چل رہے ہیں۔۔۔ لیکن ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ نے جو حرکت کی تھی وہ بہت غلط تھی آئندہ ایسا مت کریئے گا"

زینش نے اسے نظر انداز کرنے کا جواز بتانے کے ساتھ ساتھ بلال کو اس کی غلطی کا احساس دلا کر بلال سے تھوڑا فاصلہ قائم کیا


"یہ جو میں نے حرکت کی تھی ناں اس کے پیچھے صرف ایک ہی مقصد تھا۔۔۔ میں تمہارا یہ سجا سنورا روپ بہت قریب سے دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔ لیکن تم جو مجھے اپنی پیپرز کی وجہ سے اگنور پر رہی ہو۔۔۔ بہت غلط کر رہی ہو تمہاری طرف سے اگنورینس میں بالکل بھی برداشت نہیں کر سکتا آئندہ خیال رکھنا"

بلال زینش کی کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کر اسے خود سے قریب کرتا ہوا وارن کرنے لگا


"بلال یہ آپ کیا کرنے لگے ہیں"

بلال کا دیکھنا، اس کا اندازہ،، اس کی گفتگو،، اس کی دیوانگی ظاہر کر رہی تھی زینش تھوڑا گھبرا کر بلال سے پوچھنے لگی


"تمہیں نہیں سمجھ آ رہا کیا کرنے لگا ہوں،،، محبت۔۔۔ محبت کرنے لگا ہو تم سے"

وہ زینش کی کمر سے اپنے دونوں ہاتھ ہٹا کر اس کا چہرہ تھام کر بولا ایک پل کے لیے زینش خاموش ہو کر اسے دیکھنے لگی جیسے بلال اس کو دیکھ رہا تھا


جبکہ اسٹیج کے فرنٹ سائڈ پر منگنی کی رسم ادا ہو چکی تھی اور شور شرابہ شروع ہوچکا تھا


"آپ میری دوستی کو غلط سمجھ رہے ہیں بلال"

زینش نے بولتے ہوئے اس کے ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹانے چاہے مگر بلال نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس کا چہرہ اپنے چہرے سے مزید قریب کرتا ہوا بولا


"میرے اندر سوئے ہوئے احساسات جگا کر تم اسے دوستی کا نام نہیں دے سکتی زینش۔۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت کم چیزوں کی تمنا کی ہے بہت کم وقت میں بہت شدت سے میں تمہیں چاہنے لگا ہوں۔۔ مجھے، میرے دل کو اس راستے پر چلا کر تم پیچھے نہیں ہٹ سکتی اب"

بلال اپنا چہرہ زینش کے چہرے کے قریب لاتا ہوا بول رہا تھا۔۔ اس کے سانسوں کی تپش کا احساس زینش کے چہرے کو جھلسا رہا تھا۔۔۔ زینش کی دھڑکنوں کی رفتار بڑھنے لگی۔۔ وہ ایک دم کچھ بھی بول نہیں پائی تھی۔۔۔ سارے کے سارے الفاظ اسے اپنے اندر مرتے ہوئے محسوس ہوئے۔۔۔ بلال اس کے چہرے سے ہاتھ ہٹا کر اپنی پاکٹ سے بندیا نکالنے لگا


"تمہاری یہ خاموشی میری محبت کا اعتراف ہے"

وہ بندیا کو زینش کے ماتھے پر سیٹ کرتا ہوا بولا اور مسکرا کر زینش کا چہرہ دوبارہ تھاما پھر اسے مسکرا کر دیکھنے لگا


"تمہیں یوں قریب سے دیکھنے کا حق صرف میرا ہے۔۔۔ تمہیں چھونے کا حق بھی صرف میرا ہونا چاہیے۔۔ یہ حق میں نے اپنے پاس محفوظ کر لیا ہے"

بلال کی ساری باتیں وہ اپنی سانس روکے سن رہی تھی جب بلال نے زینش کی بندیا پر اپنے ہونٹ رکھے تو زینش اپنی پوری جان سے لرز گئی


میں تجھ سے کیسے کہو یار مہرباں میرے


کہ تو علاج ہے میری ہر اداسی کا


*****

"مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے"

نرس نے آکر ویٹنگ روم میں کرسی پر بیٹھی ہوئی وردہ کو اطلاع دی


"ارے تو میں کیا کرو بیٹی ہوئی ہے، سونے کی اشرفیاں دو تمہیں،، اس کا شوہر تین بول دے کر، بچی اور بیوی کو ہم پر مسلط کرتا ہوا خود پتلی گلی سے نکل گیا ہے۔۔۔ اب تو ہسپتال کا بل بھی ہمہیں بھرنا ہے"

وردہ جو کہ پہلے سے ہی بھری ہوئی بیٹھی تھی نرس کو دیکھ کر بگڑتی ہوئی بولی۔۔۔ وہ نرس وردہ کو عجیب نظروں سے دیکھ کر خاموشی سے وہاں سے چلی گئی


"چپ کرو گی تم وردہ یا پھر میں کہیں اور جا کر بیٹھ جاؤ۔۔۔ ایک تو پہلے ہی زندگی کے مسائل کم نہیں ہے اوپر سے انسان تمہاری زبان برداشت کرے"

انیس جو کہ خود بھی وردہ سے زیادہ تپا ہوا بیٹھا تھا مگر دل کی بھڑاس نکالنے کی بجائے خاموش تھا۔۔۔ ایک دم غصے میں بولا اور اٹھ کر وہاں سے چلا گیا


3 دن پہلے رات کے 2 بجے کا وقت ہے تب انیس کے گھر کی ڈور بیل بجی،، سندیلا کو اجڑی ہوئی حالت میں اس کا دیور گھر کی دہلیز پر چھوڑ کر جا چکا تھا۔۔۔ سندیلا تو صدمہ کے مارے کچھ بول ہی نہیں پا رہی تھی انیس کو ہی اس کے سسرال فون کرکے معلوم ہوا کہ اس کی بہن طلاق لے کر ہمیشہ کے لئے اس کے گھر آ چکی ہے


آج صبح سندیلا کی طبیعت خراب ہوئی تو آنیس اور وردہ اسے اسپتال لے کر آ گئے،، جہاں اس نے ایک بچی کو جنم دیا


****


"معلوم نہیں اللہ پاک کی کون سی آزمائش ہے جو اچانک ہمارے اوپر آ گئی ہے"

نزہت بیگم دوپٹے کے پلو سے اپنی نم آنکھوں سے صاف کرتی ہوئی بولی


"آزمائش نہیں ہے امی،، یہ سزا ہے ہمارے آعمالوں کی سزا ہے جو ہمیں فوراً ہی مل گئی ہے"

احتشام کے سامنے موبائل رکھا ہوا تھا تھوڑی دیر پہلے جو اس کو خبر ملی تھی وہ خود بھی اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔ نزہت بیگم کو دیکھتا ہوا بولا


"ہمارے کون سے اعمال خراب ہیں بھائی جو آپ یوں بول رہے ہیں، اپنی بیوی کو طلاق آپ نے خود ہی دی۔۔ تو پھر اب کیوں پچھتا رہے ہیں اور بات ہم سب کے اعمال کی کر رہے ہیں"

فائقہ اپنے کمرے میں آتی ہوئی احتشام سے تنک کر بولی تو وہ غصے میں فائقہ کو دیکھنے لگا


"تم اس وقت مجھ سے زیادہ بکواس مت کرو۔۔۔ سندیلا سے تم خود ہی لڑتی تھی آخر میں تم ہی نے اس کے کردار پر الزام لگایا تھا اور بات تم مجھ سے کر رہی ہو،، چلی جاؤ فوراً اپنے کمرے میں"

احتشام فائقہ کو دیکھتا ہوا مزید غصے میں بولا


"ارے تم دونوں آپس میں کیوں لڑنے بیٹھ گئے ہو،، میرے باسل کا سوچو اب نہ جانے وہاں کی پولیس اس کے ساتھ کیا کرے گی۔۔ ہائے میرا باسو"

نزہت بیگم باقاعدہ روتی ہوئی بولی تو احتشام اور فائقہ دونوں ہی خاموش ہو گئے


ہفتے بھر پہلے ہی غصے اور جذبات میں آکر احتشام سندیلا کو طلاق دے چکا تھا،، دوسرے دن جب وہ آفس پہنچا تو معلوم ہوا کہ حسان اسے بنا کسی جواز کے جاب سے فارغ کر چکا تھا۔۔۔ یو ایس بی اور بیوی دونوں ہی اس کے ہاتھ سے چلی گئی تھی لیکن طلاق والی بات نزہت بیگم نے سب رشتے داروں سے چھپالی تھی کیونکہ چار دنوں بعد ہی فائقہ کا نکاح ہونا تھا اور اس کے دو دن بعد باسل کو جرمنی جانا تھا


باسل نے احتشام کو پریشان دیکھ کر کہہ دیا تھا کہ وہ اسے اور نزہت بیگم کو جلد اپنے پاس بلا لے گا۔۔۔ اللہ اللہ کر کے وہ دن آیا جب فائقہ گھر سے رخصت ہوئی،، اس وقت پہلی دفعہ احتشام کو سندیلا کی کمی محسوس ہوئی لیکن ابھی فائقہ کی ذمہ داری کا بوجھ اترا ہی تھا کہ دوسرے دن فائقہ کا فون آگیا وہ کافی زیادہ رو رہی تھی۔۔۔ باسل اور اسے بلا رہی تھی


باسل اور احتشام جب اس کے سسرال پہنچے تو معلوم ہوا کے فائقہ کا شوہر ایک ذہنی مریض تھا جسے کل رات اچانک دورہ پڑا اور اس نے فائقہ دلہن بنی ہوئی فائقہ کو مارتے پیٹتے ہوئے اس کا گلا دبا کر جان لینے کی کوشش کی۔۔۔


احتشام اور باسل فائقہ کے سسرال والوں سے خوب لڑے اور جھگڑے فائقہ کو اپنے ساتھ لے کر آگئے۔۔۔ فائقہ اس واقعے سے کافی زیادہ ڈر گئی تھی۔۔۔ بھلا ساری زندگی کوئی کسی پاگل کے ساتھ کیسے رہ سکتا تھا سب ہی کے صلح مشورہ کے بعد فائقہ بھی اپنے شوہر سے خلع لینے پر آمادہ ہوگئی۔۔۔ یوں ایک دن کی بیاہی ہوئی وہ واپس اپنے گھر آ گئی تھی


گھر کا ماحول کافی سوگوار تھا مگر دو دن بعد باسل کی جرمنی روانگی تھی۔۔ سب نے مل کر اسے جرمنی کے لیے روانہ کیا مگر تھوڑی دیر پہلے ہی باسل کے دوست کی کال احتشام کے پاس آئی تھی اور اس نے یہ بری خبر سنائی کے ایئرپورٹ پر چیکنگ کے دوران ہی باسل کے سامان سے ڈرگز برآمد ہوئی تھی اور باسل خود اس وقت پولیس کی حراست میں تھا۔۔۔ نہ جانے باسل خود اس کام میں ملوث تھا یا پھر اسے پھنسایا گیا تھا اس خبر کو سن کر پورا گھر ہی پریشان ہو گیا تھا


****


"پھپھو آپ واپس اپنے گھر کب جائیں گی بتائیں ناں۔ ۔۔۔ میں کل سے آپ سے پوچھے جا رہا ہوں مگر اب بتا ہی نہیں رہی ہیں"

سندیلا کل کی طرح ہانی کی بات سن کر اس وقت بھی خاموش ہو چکی تھی۔۔۔ وہ خود کس طرح یہاں اپنے سگے بھائی اور بھابھی کے رویے کو برداشت کر رہی تھی یہ اسی کا دل جانتا تھا


"ارے تمہاری پھپھو کیا بتائے گی میں بتاتی ہوں۔۔۔ یہ اب یہاں سے کبھی بھی نہیں چائے گی بلکہ ہمیشہ ہمارے سینوں پر مونگ دلے گی"

وردہ حقارت بھری نظروں سے سندیلا کو دیکھ کر بولی تو سندیلا بہت افسوس سے اس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ وردہ کو سندیلا اور اس کی نومولود بیٹی کا وجود کس بری طرح کھٹک رہا تھا یہ وردہ سندیلا کو وقفے وقفے سے احساس دلا رہی تھی


"تو پھر ہم مری کب جائیں گے۔۔ بابا نے تو کہا تھا پھپھو جب یہاں سے جائے گیں تبھی ہم مری جائیں گے"

ہانی وردہ کو دیکھ کر منہ بنا کر بولا


"تو مری جانے کے لئے مرا جا رہا ہے۔۔۔ اتنے خرچوں کا انبار آ کر کھڑا ہو گیا ہے ہمارے سروں پر نکل یہاں سے"

وردہ پہلے ہی جھنجھنلائی ہوئی تھی اپنے بیٹے کو ڈانٹتی ہوئی بولی


سندیلا کا انیس اور وردہ کے رویے سے کافی دل دکھا تھا۔۔۔ انیس کو تو سندیلا سے اس کے حق مہر کے پیسے مانگتے ہوئے ذرا شرم نہیں آئی تھی۔۔۔ بقول انیس کے کہ اسپتال میں تین دن کا کافی خرچہ ہو گیا تھا۔۔۔ سندیلا نہ چاہ کر بھی اپنے بھائی سے یہ نہیں پوچھ پائی کے تھڑڈ کلاس آئیرے کے خیراتی اسپتال کے جنرل وارڈ میں وہ لاوارثوں کی طرح تین دن اکیلی پڑی رہی تھی تو اس کی ذات پر انیس نے ایسا کون سا خرچہ کردیا۔۔۔


ایک ماہ گزر گیا تھا وہ اپنی آنکھوں سے بھائی اور بھاوج کے رویہ کو دیکھ رہی تھی وردہ ہر وقت اس کے سامنے خرچہ کا رونا روتی اس کے کھانے پینے پر نظر رکھتی۔۔۔ کبھی کبھی ایک روٹی کھانے کے بعد اگر اس کا پیٹ نہیں بھرتا بھوک ہونے کے باوجود سندیلا دوسری روٹی تک نہیں لیتی۔۔۔ اپنے سسرال والوں کے سامنے تو وہ زبان کھول کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتی تھی لیکن وردہ کی زیاتیوں پر خاموش ہی رہتی۔۔۔ یہ چھت بھی اگر اس سے چھن جاتی تو وہ اپنی چھوٹی سی بچی کو لے کر کہاں جاتی،، بھائی کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی دوسرا ٹھکانہ نہیں تھا۔۔۔


بے قصور ہونے کے باوجود احتشام اسے طلاق دے چکا تھا اس بات کو سوچ کر سندیلا کا دل مزید دکھتا،، اپنی بیٹی کی رونے کی آواز پر سندیلا اسے گود میں اٹھا کر تھپتھپانے لگی اور اس کا بخار چیک کرنے لگی


اس کی بیٹی کل سے بیمار تھی جس کی وجہ سے وہ وقفے وقفے سے روئے جارہی تھی۔۔۔ بہت ہمت کرکے سندیلا نے انیس سے اپنی بیٹی کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لیے کہا تو انیس میں صاف انکار کردیا اور کہہ دیا کہ وہ دیسی ٹوٹکوں سے گھر پر بھی اپنی بیٹی کا علاج کر لے۔۔۔ آج صبح سے اس کی بچی کا بخار مزید بڑھ گیا تھا


سحرش (سندیلا کی دوست) کی بڑی بہن ڈاکٹر تھی،، سحرش نے جو دوا اپنی بہن سے پوچھ کر اس کی بیٹی کے لیے بتائی تھی سندیلا کے پاس پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے دوا خرید پاتی۔۔۔ پیسوں کے لیے وردہ کے آگے ہاتھ پھیلانا بےکار تھا اس لئے سندیلا نے اپنی گولڈ کی چین اور دو کڑے بیچنے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ آگے بھی اسے پیسوں کی ضرورت پڑ سکتی تھی اس کے پاس جو تھوڑی بہت رقم تھی وہ اب ختم ہوچکی تھی


"بھابھی میں آدھے گھنٹے میں دوائی لے کر واپس آ رہی ہو، وہ سو رہی ہے"

سندیلا وردہ کو بتا کر گھر سے نکلنے لگی۔۔۔ اس نے ابھی تک اپنی بیٹی کا نام نہیں رکھا تھا نہ ہی گھر میں کسی دوسرے فرد کو اس کی بیٹی کے نام سے دلچسپی تھی


"او بہن تمہاری بچی سو رہی ہے تو تھوڑی دیر بعد جاگ جائے گی پھر کون سنبھالے گا اسے۔۔۔ اپنے ساتھ ہی لے کر جاؤ اسے ٹیپ ریکارڈ کو۔۔۔ کل رات بھی میں صحیح سے نہیں سو پائی تھی ساری رات ری ری کی آوازیں آتی رہی۔۔۔ معلوم نہیں اب کب تک یہ عذاب ہمارے سروں پر مسلط رہنا ہے"

وردہ نے سندیلا سے یہ بھی جاننے کی کوشش نہیں کی تھی کہ اس کے پاس پیسے کہاں سے آئے بلکہ وہ اس کی بیٹی کو تھوڑی دیر کے لئے دیکھنے کے لیے بھی تیار نہیں تھی۔۔۔ اور سخت گرمی میں سندیلا اپنی بچی کو باہر نہیں لے جا سکتی تھی۔۔۔ اس لئے مجبوراً تھوڑی دیر کے لئے اپنی بیٹی کو کرائے دار کے حوالے کرکے خود ہی گھر سے باہر نکل گئی


"یا اللہ پاک میں تجھ سے صبر نہیں مانگوں گی کیونکہ مجھ میں مزید برداشت کی ہمت نہیں بچی ہے۔۔۔ میری مدد فرما دے کوئی ایسا وسیلہ یا ذریعہ بنا دے جو میری تکلیفیں اور پریشانیوں کو ختم کر دے۔۔۔ میں خود کشی کرکے حرام موت کو گلے نہیں لگانا چاہتی لیکن ساری زندگی یہ ذلت کیسے برداشت کر پاؤں گی۔۔ تجھے تیرے رسول کا واسطہ میری مدد کر میرے لیے کوئی بھی در کھول دے"

جیولری شاپ سے باہر نکل کر وہ دوائی لے کر گھر کی طرف جا رہی تھی تب چلتے چلتے اس نے اللہ سے فریاد کی


"استانی جی۔ ۔۔ ارے آپ یہاں پر"

معظم دور سے ہی سندیلا کو دیکھ کر پہچان گیا تھا وہ بھاگتا ہوا اس کے پیچھے آیا۔۔ سندیلا پلٹ کر معظم کو دیکھنے لگی جو آنکھوں میں شناسائی کے جھلک لیے اس کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا


"ہر ملاقات میں آپ مجھے یوں اجنبیوں کی طرح کیوں دیکھتی رہتی ہیں۔۔۔ کیا اب اپنا تعارف ہر ملاقات میں کرواؤ میں آپ کو"

معظم خاموش کھڑی سندیلا کو دیکھ کر بولا مگر وہ اسے ہمیشہ کی طرح نکھری نکھری نہیں لگ رہی تھی۔۔۔ اس کی رنگت بھی زرد مائل محسوس ہو رہی تھی،، آنکھوں کے گرد ہلکے بھی واضح ہو رہے تھے


"اجنبی نہیں ہو تم تو پھر اور کیا ہو، جواب دو۔۔ کیوں بار بار میرے راستے میں آتے ہو،، کیوں مجھے بار بار مخاطب کرتے ہو تم"

سندیلا کی بات سن کر اس کا تلخ لہجہ دیکھ کر معظم کہ چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی جبکہ سندیلا اپنی الجھنوں اور پریشانیوں میں پریشان اس سڑک چھاپ موالی کو دیکھ کر غصہ کرتی ہوئی بولی


"لگتا ہے اس وقت آپ کو کافی غصہ آرہا ہے۔۔۔ یہ بتائیں آپ کی بیٹی کیسی ہے،، احتشام تو بہت خوش ہوگا ناں آج کل"


معظم سندیلا کی بات کا برا مانے بغیر بولا۔۔۔ نہ جانے کیوں وہ اس لڑکی کی بات کا برا نہیں مان سکتا تھا،، سندیلا کا دبلا پتلا سراپا دیکھ کر وہ جان گیا تھا کہ اس کے گھر بیٹی کی پیدائش ہو چکی ہے۔۔۔ جبھی وہ سندیلا سے اس کی بیٹی کے بارے میں پوچھنے لگا مگر سندیلا کو اس کی بات سن کر اتنا غصہ آیا کہ اس نے سوچے سمجھے بغیر ہی بغیر کوئی لحاظ کیے آگے بڑھ کر معظم کے منہ پر تھپڑ مار دیا۔۔۔ جس پر راہ چلتے لوگوں کے ساتھ ساتھ معظم خود بھی حیرت سے سندیلا کو دیکھنے لگا


"تمہاری وجہ سے،، صرف تمہاری وجہ سے میری زندگی برباد ہوئی ہے۔۔۔ نہ تم اس رات میرے سسرال میں آتے نہ میری نند مجھے تمہارے ساتھ منسوب کر کے شام کے سامنے فضولیت بکتی۔۔۔ نہ تم میرے کمرے سے وہ یو ایس بی لے کر جاتے نہ ہی شام مجھے طلاق دیتے۔۔۔ بغیر کسی قصور کر نہ جانے کس بات کی سزا بھگت رہی ہوں میں،، اپنے ہی بھائی کے در پر اپنی چھوٹی سی بچی کے ساتھ کسی ناپسندیدہ بوجھ کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہو صرف اور صرف تمہاری وجہ سے۔۔۔ پہلے بھی میری زندگی کو بہت زیادہ خوشگوار نہیں تھی لیکن اب۔۔۔ اب میری زندگی صرف تمہاری وجہ سے بد سے بدتر ہوگئی ہے"

سندیلا روتی ہوئی اپنا سارا غصہ اور غبار معظم کے اوپر نکال کر وہاں سے جا چکی تھی۔۔۔ جبکہ معظم وہاں خاموش کھڑا خود کو سندیلا کا مجرم تصور کر رہا تھا


*****


"ہاں اب بتاؤ کیا مسئلہ ہے کیوں اتنی ایمرجنسی میں کال کر کے تم نے مجھے یہاں پر بلایا ہے"

خوشی نے زینش کے کمرے میں آتے ہوئے اس سے پوچھا اپنی منگنی کے بعد وہ مصروف ہو گئی تھی۔۔۔ خوشی اور زینش کل ہی اپنے پیپرز سے فری ہوئی تھی


"بہت غلط ہوگیا ہے خوشی۔۔۔ سب کچھ بہت غلط ہوگیا ہے"

زینش پریشان ہو کر خوشی سے بولی


"کیا ہوگیا ہے زینش سے اتنی پریشان کیوں ہے بتاؤ مجھے کیا ہوا"

خوشی اس کو پریشان دیکھ کر فکر مند ہوکر پوچھنے لگی تب زینش اسے اپنے ساتھ کمرے کے ٹیرس میں لے آئی


"بلال میرے لئے سیریس ہو گئے ہیں، تمہاری انگیجمینٹ پر انھوں نے باقاعدہ مجھ سے محبت کا اعتراف کیا ہے۔۔۔ پیپرز کا بہانہ بنا کر میں نے انہیں اگنور کرنے کی کوشش کی مگر وہ تب بھی مجھے سے وقت مانگتے ہیں۔۔۔ اپنے لیے مجھ سے توجہ چاہتے ہیں۔۔ میں انہیں سمجھا نہیں پا رہی ہو خوشی،، ان کے سامنے کچھ بھی بولتے ہوئے مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ان کا دل نہ ٹوٹ جائے۔۔۔ میں سچ میں بہت پریشان ہو چکی ہوں اب"

ٹیرس میں کھڑی ہوکر زینش کھل کر خوشی سے اپنا مسئلہ بیان کرنے لگی


"مجھے تو نہیں لگتا اس میں کوئی پریشانی والی بات ہے اگر بلال واقعی تمہارے لئے سیریس ہے تو اس میں برائی کیا ہے زینش، وہ اگر تم سے اپنے لئے توجہ چاہتا ہے تو مجھے یقین ہے،، تمہاری توجہ کے بدلے وہ تمہیں اس سے بھی زیادہ توجہ دے گا۔۔۔ میرے خیال میں تو تمہیں اب تک بلال سے خود بھی سیریس ہوجانا چاہیے تھا۔۔ ابھی بھی وقت ہے بلال کے بارے میں سوچو وہ آگے تمہیں خوش رکھے گا مجھے یقین ہے"

خوشی نے خوش ہو کر بہت ریلیکس موڈ میں زینش کو مشورہ دیا جس پر زینش خاموشی سے اسے دیکھنے لگی


"میں نے تمہیں یہاں اپنی پرابلم بتانے کے لیے بلایا تھا،، نہ کہ تمہارا فضول آئیڈیا سننے کے لیے۔۔۔ بلال کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے ہم دونوں نے صرف ایک شرط لگائی تھی کہ وہ تھوڑے سے وقت اور توجہ سے ٹھیک ہو سکتے ہیں لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ پیار کے چکر میں ہی پڑ جائیں گے۔۔۔ مجھے ان سے پیار نہیں ہے خوشی نہ ہی میں ایسا کر سکتی ہو"

زینش ابھی بھی پریشانی سے خوشی کو دیکھ کر بولی


"اس میں ایسا غلط کیا ہے یار اگر تمہیں اس سے پیار نہیں ہے تو کسی دوسرے سے بھی تو نہیں ہے ناں۔ ۔۔۔ پھر بلال سے پیار کرنے میں کیا حرج ہے میرا مطلب ہے تم بھی تو یہی چاہتی ہو کے بلال کا دل نہ ٹوٹے،، احساس تو کرتی ہو ناں اس کا۔۔ تو پھر پیار بھی کر کے دیکھ لو اس سے"

خوشی تحمل سے زینش کو سمجھانے لگی اسے لگ رہا تھا یہ کوئی اتنا پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے جسے زینش نے پیچیدہ خود بنا لیا ہے


"واہ کیا بات ہے تمہاری۔۔۔ ایسے ہی پیار کر کے دیکھ لو۔ ۔۔ احساس تو مجھے ہمارے ڈرائیور کے بیٹے کا بھی ہے کہ وہ بچہ تھوڑا پڑھ لکھ جائے گا تو اس کا مستقبل سنور جائے گا۔۔۔ تو کیا میں اب اس سے بھی پیار کرنے بیٹھ جاؤ۔۔۔ یار ہم دونوں کے بیچ صرف ایک شرط لگی تھی پھر مذاقاً بات آگے بڑھی پھر انجوئے منٹ کے چکر میں۔۔۔"

زینش بات کر ہی رہی تھی تب اسے اپنے کمرے میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا


اس نے جھانک کر دیکھا تو خوشی کی توجہ بھی کمرے کی طرف گئی۔۔۔ وہاں پر بلال کو موجود پاکر جہاں زینش کے قدموں تلے سے زمین نکل گئی وہی خوشی ایک دم شاک ہوگئی

بلال کے چہرے کے سخت اثرات سے واضح ہوچکا تھا کہ وہ کافی دیر سے کھڑا ہوا ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا


"بلال میں تمہیں پوری بات سمجھاتی ہو یہ لڑکی تو بالکل پاگل ہے۔۔۔ یہ تمہیں لائیک کرتی ہے اور اسے خود اس بات کا۔۔۔۔

خوشی بلال کو دیکھ کر آگے بڑھی اور ان دونوں کے بیچ معاملے کو سیٹ کرنے کا سوچا


"شٹ اپ خوشی، تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم یوں کسی غیر لڑکی کے ساتھ مل کر مجھ پر شرطیں لگاؤ۔۔۔۔ تم کزن کہلانے کے لائق نہیں ہوں آئندہ مجھے مخاطب کرنے کی غلطی مت کرنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا"

بلال خوشی کو جھڑکتا ہوا بولا تو وہ بالکل خاموش ہو گئی جبکہ اپنے لیے غیر لفظ سن کر زینش کے دل کو کچھ ہوا


"بلال آپ ایک بار میری بات سن لیں"

بلال کمرے سے جانے لگا تو بھی زینش نے آگے بڑھ کر اسے پکارا۔۔۔ وہ نہ صرف پلٹا تھا بلکہ جن نظروں سے اس نے زینش کو دیکھا وہ شرمندہ ہو گئی


"وہ میری کزن ہے،، ہو سکتا ہے بعد میں کبھی میں اس کو معاف بھی کر دو لیکن تمہاری اوقات میرے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔ ایک ایسی لڑکی جو محض انجوائے منٹ کے لئے شرطیں لگا کر کسی لڑکے کے قریب آئے، دو پیسے کی حیثیت نہیں رکھتی وہ میری نظر میں۔۔۔ تمہاری حیثیت میں تمہیں اچھی طرح بتا چکا ہوں اگر اس گھر میں رہنا ہے تو اپنی حیثیت اور اوقات یاد کر کے رہنا۔۔۔ کوشش کرنا کے میرا اور تمہارا سامنا نہ ہو اور اگر سامنے آؤ بھی تو مجھے مخاطب مت کرنا ورنہ دوبارہ میں تمہیں تمہاری حیثیت جس طرح بتاؤں گا شاید وہ تم برداشت نہیں کر پاؤں گی"

بلال زینش کو غضب ناک نظروں سے دیکھ کر دھمکی دیتا ہوا کمرے سے چلا گیا جبکہ زینش بلال کی باتیں سن کر شرمندگی کے مارے خوشی سے بھی نظریں نہیں ملا پائی


****


تھوڑی دیر پہلے جو بھی کچھ ہوا تھا وہ ٹھیک نہیں ہوا تھا۔۔۔ بلال کے کمرے سے جانے کے بعد خوشی نے زینش کو تسلی دی بقول خوشی کے کہ بلال صرف اس وقت غصے میں تھا جبھی اتنے سخت الفاظ استعمال کر گیا۔۔ خوشی نے یقین دلایا تھا کہ جب بلال کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا وہ خود اس سے بات کرے گی اور اسے سمجھائے گی۔۔۔


خوشی زینش کو ٹینشن نہ لینے کا مشورہ دیتی ہوئی وہاں سے چلی گئی مگر زینش ابھی بھی اپنے کمرے میں افسردہ بیٹھی ہوئی تھی،، اسے دکھ صرف اس بات کا تھا کہ جس طرح بلال کو یہ سب پتہ چلا تھا اس طرح پتہ نہیں چلنا چاہیے تھا


وہ بیڈ پر گھٹنوں میں سر دیئے ہوئے بیٹھی تھی تب اسے باہر سے چیزوں کے توڑ پھوڑ کی اور شور شرابے کی آوازیں آنے لگی جسے سن کر زینش اپنے کمرے سے باہر نکلی


"بلال ہوا کیا ہے پلیز مجھے بتاؤ"

حسان اور جویریہ بلال کے کمرے کے دروازے کے باہر پریشان کھڑے ہوئے تھے مختلف چیزوں کی توڑ پھوڑ کی آوازیں بلال کے کمرے کے اندر سے آ رہی تھی زینش کو ایک دم گھبراہٹ ہونے لگی وہ چلتی ہوئی جویریہ اور حسان کے پاس آئی


"بلال بیٹا دروازہ تو کھول دو میں پریشان ہو رہی ہو"

اب کی بار حسان کی بجائے جویریہ کمرے کا دروازہ بجاتی ہوئی پریشانی سے بولی


"امی آپ نے کچھ بولا ہے بلال کو وہ صبح تو بالکل نارمل موڈ میں تھا"

حسان نے ملازم سے اس کے کمرے کی چابی منگوائی تھی اور اس کے بعد وہ جویریہ سے پوچھنے لگا


"میں کیا کہوں گی بھلا اسے،، کوئی بات کرتی وہ تو ڈر کرتی ہوں معلوم نہیں کب کیا برا لگ جاتا ہے اس لڑکے کو،، مجھے تو اس نے صحیح معنوں میں پریشان کر دیتا ہے"

جویریہ اب ضبط نہیں کر پائی تھی تو رونے لگی زینش اپنی جگہ کھڑی شرمندہ سی ہو گئی کیونکہ بلال کے غصے کی وجہ صرف وہی جانتی تھی


"اچھا اب آپ تو پریشان مت ہو اب"

حسان جویریہ کو کندھے کے گرد بازو حائل کر کے تسلی دیتا ہوا بولا اتنے میں ملازم کمرے کی چابی لے آیا جس سے حسان نے کمرے کا دروازہ کھولا وہ تینوں ہی کمرے کے اندر داخل ہوئے


اس وقت کمرہ کمرہ نہیں لگ رہا تھا۔۔۔کمرے کا سارا سامان فرش پر بکھرا پڑا تھا کمرے میں موجود بڑے سائز کا ایل آی ڈی، آئینہ، سینٹر ٹیبلز کہ شیشے پرفیوم کی بوتلیں اور ڈیکوریشن پیس،، کرچیوں کی صورت فرش پر بکھری پڑی تھی یہاں تک کہ بیڈ شیٹ اور تکیے بھی بیڈ پر موجود نہیں تھے


"بلال یہ سب کیا ہے"

جویریہ اور زینش تو بالکل خاموش اور پریشان کھڑی تھیں جبکہ حسان آگے بڑھ کر بلال کے پاس آیا اور حیرت سے پوچھنے لگا


"تم نے میرے کمرے میں قدم کیسے رکھا گیٹ آؤٹ آف مائے روم"

حسان کی بجائے بلال زینش کو دیکھ کر دھاڑا وہ اس وقت بالکل اپنے آپے ہی نہیں لگ رہا تھا پنکھا اور اے سی بند ہونے کی وجہ سے کمرے میں عجیب کھٹن کا احساس ہو رہا تھا بلال کی پوری شرٹ پسینے سے بھیگی ہوئی تھی اور آنکھیں غصے کی شدت سے سرخ ہو رہی تھی


"زینش پلیز تم اپنے کمرے میں جاؤ"

حسان نے مڑ کر زینش کو دیکھ کر کہا، شرمندگی کے مارے زینش بغیر کچھ بولے وہاں سے چلی گئی


"آپ کو بھی کوئی حق نہیں پہنچتا یہاں کھڑے ہو کر آپ میری ذات کا تماشہ دیکھیں، چلی جائیں آپ بھی یہاں سے"

بلال اب جویریہ کو دیکھتا ہوا بولا جو آگے بڑھ کر بلال کے پاس آنے لگی تھی


"آپ بھی اپنے کمرے میں جاۓ امی، میں اسے سنبھال لوں گا"

حسان نے جویریہ کو اسی وجہ سے روکا کیوکہ بلال جویریہ سے مزید بدتمیزی سے پیش آتا جس سے جویریہ کا دل دکھتا تو حسان کو بہت برا لگتا جویریہ ملول سی ہو کر وہاں سے چلی گئی


"اب مجھے بتاؤ اپنے اس آگریشن کی وجہ، کسی نے کچھ کہا ہے تمہیں"

حسان بلال کے پاس آتا ہوا اس سے بولا


"میں اس وقت صرف تنہائی چاہتا ہوں حسان"

پورے کمرے کو اجاڑنے کے بعد وہ راکنگ چیئر پر بیٹھتا ہوا حسان سے واضح انداز میں بولا یعنیٰ بلال اسے بھی کمرے سے جانے کا کہہ رہا تھا۔۔۔ حسان اس کے انداز دیکھنے لگا جو اسے بالکل نارمل نہیں لگ رہے تھے


"ٹھیک ہے میں تمہیں ڈسٹرب نہیں کر رہا مگر یہاں پر خاموش بیٹھا ہوں"

حسان کمرے کا فین آن کرتا ہوا صوفے پر بیٹھنے لگا تو بلال چیئر سے ایک دم کھڑا ہو گیا


"کیا لگ رہا ہے تمہیں،، میں اپنے آپ کو کوئی نقصان پہنچا لوں گا یا جان لے گا میں خود کی۔۔۔ پاگل نہیں ہوں میں حسان۔۔۔۔ تم اور امی مجھے پاگل سمجھنا چھوڑ دو"

بلال غصے میں حسان کو دیکھتا ہوا بولا


"میں یہاں تمہارے پاس تمہارے احساس سے بیٹھا ہوں فکر ہے مجھے تمہاری،، میں یا امی تمہیں پاگل نہیں سمجھتے ہیں تم سے پیار کرتے ہیں ہم دونوں"

حسان اس کے کندھے پر اپنے ہاتھ سے دباؤ ڈالتا ہوا بولا تو بلال طنزیہ ہنسا


"پیار نہیں چاہیے یار ۔۔۔ بالکل بھی نہیں چاہیے،، کسی کا بھی نہیں چاہئے۔۔۔ صرف تنہائی چاہیے"

بلال اب حسان کو دیکھ کر غصے کے بجائے بہت آرام سے بولا تو وہ خاموشی سے اس کے کمرے سے چلا گیا۔۔۔ بلال کمرے کی لائٹ بند کرکے دوبارہ چیئر پر بیٹھ گیا


*****

"کیا بات ہے بھیا جی آج تو بڑے چپ چپ ہیں آپ"

ُپپو اپنی چارپائی پر لیٹا ہوا برابر والی چارپائی پر نظر ڈال کر بولا جس پر معظم لیٹا ہوا تھا۔۔۔ وہ شام جب گھر لوٹا تو تب سے ایسے ہی خاموش تھا


"دل بہت بے چین ہے پپو سمجھ میں نہیں آ رہا کیا کروں۔۔ ایک بار پھر مجھ سے بہت کچھ غلط ہوگیا"

معظم پپو کو دیکھنے کی بجائے چھت پر لگے پنکھے کو دیکھ کر بولا سندیلا کے روتے ہوئے چہرے کے ساتھ اسے ایک اور چہرہ بھی یاد آیا جو سندیلا سے ملتا جلتا تھا وہ بھی اس کے سامنے یونہی رو رہی تھی


"جو غلط ہوا ہے اس کو سدھار لیں بھیا جی۔۔۔ ویسے بھی آپ تو بڑے بڑوں کو سدھار دیتے ہیں،، یوں دل بے چین کریں گے تو پریشانی بڑھے گی،، اس سے بہتر ہے مسئلے کو حل کرنے کا سوچیں"

پپو اپنی رو میں معظم کو مشورہ دے رہا تھا معظم غور سے پپو کی بات سن کر کچھ سوچنے لگا


****


یوں ہی بے مقصد اپنے کمرے میں ٹہلتے ٹہلتے اس کی ٹانگیں اب تھکنے لگی تھی اس وقت رات کے دو بج رہے تھے اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ بلال سے کیسے معافی مانگے، بلال کی حالت دیکھ کر اسے اپنے کیے کی ندامت ہو رہی تھی یقیناً وہ بلال کا دل بہت زیادہ دکھا چکی تھی بے شک بلال اس پر کتنا ہے غصہ کرے لیکن اسے بلال سے معافی مانگنی چاہیے تھی زینش ٹہلتی ہوئی سوچنے لگی پھر کچھ سوچ کر اس نے بلال کے کمرے کا رخ کیا۔۔۔ اگر کمرے کا دروازہ اندر سے لاک ہوگا تو وہ پلٹ جائیں گی۔۔۔ یہ سوچ کر اس نے دروازے کا ہینڈل گھمایا تو دروازہ کھل گیا


کمرے میں بلب آن تھا جس نے کمرے کو روشن کیا ہوا تھا بلال بیڈ پر آڑھا ترچھا آنکھیں بند کئے ہوئے لیٹا تھا یوں اسے دیکھ کر زینش کو ایک بار پھر ندامت نے آ گھیرا، بیڈ کے پاس ٹرالی میں کھانا ویسے کا ویسا ہی رکھا ہوا تھا صاف اندازہ ہو رہا تھا بلال نے کھانا نہیں کھایا پورا کمرہ ویسے ہی بکھرا ہوا تھا


زینش فرش پر سے بکھرے ہوئے کانچ کے ٹکڑے اٹھانے لگی وہ بہت آہستگی سے کانچ کے سارے ٹکڑے ایک جگہ رکھ رہی تھی ساتھ ہی وقفے وقفے سے وہ بلال پر بھی نظر ڈال لیتی


"سس"

احتیاط کے باوجود کانچ کا ٹکڑا ہاتھ میں لگنے کی وجہ سے اس کے منہ سے سسکی نکلی اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھنے کے باوجود بلال کی انکھ کھل چکی تھی۔۔۔ بے اختیار اس کی نظریں بلال پر گئی جو آنکھیں کھول کر اسکو دیکھنے لگا پہلے وہ نہ سمجھیں کی کیفیت میں زینش کو دیکھ رہا تھا مگر کچھ یاد آنے پر ایک دم اس کے چہرے کے تاثرات سخت ہوئے


"تمہاری ہمت کیسے ہوئی تم دوبارہ میرے کمرے میں قدم رکھو"

بلال بیڈ سے اٹھتا ہوا اس کے پاس آیا،، زینش کے ہاتھ میں کانچ کا ٹکڑا موجود تھا بلال کو غصے میں اپنی طرف آتا دیکھ کر، کانچ کا ٹکڑا اس کے ہاتھ میں ہی رہ گیا


"بلال میں آپ سے معافی مانگنے آئی تھی میرا مقصد یا ارادہ یہ نہیں تھا کہ میں آپ کو تکلیف پہنچاؤں"

زینش بلال کو دیکھتی ہوئی بولی تو بلال نے اپنے ہاتھ سے اس کا بازو زور سے دبوچا


"تم جیسی لڑکیاں ڈیزرٹ نہیں کرتی کہ انہیں معاف کیا جائے"

بلال کی نظریں زینش کے ہاتھ پر تھی،، جس میں کانچ کر ٹکڑے کو دیکھ کر بلال نے کھینچ کر اس کے ہاتھ سے کانچ کا ٹکڑا چھینا۔۔۔ جو زینش کے ہاتھ کو بری طرح زخمی کر گیا یہی وجہ تھی کہ زینش کے منہ سے چیخ نکلنے والی تھی مگر اس سے پہلے ہی بلال نے اس کا منہ زور سے دبوچا


"کیا ہوا بہت تکلیف ہو رہی ہے،، شام میں تم نے مجھے جو تکلیف پہنائی تھی وہ اس سے کہیں زیادہ تھی۔۔۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ جس لڑکی کے لئے میں نے اپنے دل میں خالص جذبہ اور سچی فیلنگز رکھیں اس لڑکی نے محض ایک شرط کے لیے مجھ سے ڈرامہ کیا۔۔۔ بہت تکلیف پہنچی مجھے اس وقت، کیوں مزاق بنایا تم نے میری فیلنگز کا۔۔۔ بولو کیوں تم نے میرے ساتھ اس طرح کیا"

ایک ہاتھ سے زینش کا منہ زور سے پکڑ کر، دوسرا ہاتھ میں کانچ کا ٹکڑا پکڑے وہ غضب ناک نظروں سے گھورتا ہوا زینش سے پوچھنے لگا


"سس۔۔۔ سوری

اپنے گالوں میں بلال کی دھستی ہوئی انگلیوں سے زینش کی آنکھوں میں پانی بھرنے لگا وہ بہت مشکلوں سے فقط اتنا ہی بھول پائی


"ڈونٹ سے سوری،، کہا تھا نا تم جیسی لڑکیاں معافی ڈیزرو نہیں کرتی۔،۔۔ کیا سزا دو تمہیں تمہارے اس ڈرامے کی،، بگاڑ دو تمہارا یہ حسین چہرہ بولو"

وہ غصے میں بولتا ہوا کانچ کا ٹکڑا زینش کے چہرے کے قریب لایا ڈر کے مارے زینش کا سانس بند ہونے لگا


"بلال پلیز نہیں" زینش نے خوف کے مارے زور سے اپنی آنکھیں بند کرلیں اس وقت اسے بلال سے بہت زیادہ خوف محسوس ہونے لگا جبکہ زینش کو اس طرح روتا ہوا دیکھ کر بلال کے اندر کا غصہ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھنے لگا


"نہیں میرے خیال میں یہ ٹھیک نہیں ہے تمہارا چہرہ بگڑ جائے گا تو تم دوسروں کی ہمدردیاں سمیٹو گی۔۔۔ تمہارے ساتھ تو کچھ اور اسپیشل ہونا چاہیے"

بلال نے خود سے بولتے ہوئے کانچ کا ٹکڑا فرش پر پھینکا اس کے ساتھ ہی اس نے زینش کو اپنی طرف کھنچ کر اس کی کمر کے گرد سختی سے اپنے دونوں بازو لپیٹے


"بہت انجوائے کرتی تھی تم خوشی سے میری باتیں کرکے میرا مذاق بنا کر۔۔۔ آج میں تمہیں بتاؤں گا کہ کسی کی ذات کا مذاق بنانا کسے کہتے ہیں،، جسے تم بعد میں یاد کرکے صرف اور صرف اب آنسو بہاؤ گی"

بلال نے بولتے ہوئے زینش کو بیڈ کر دھکیلا


ایک پل کے لیے زینش سکتے میں آگئی اور صدمے سے بلال کو دیکھنے لگی۔۔ بے شک وہ اس کی جان لے لیتا مگر یہ کیا کرنے چلا تھا وہ اس کے ساتھ


"بلال نہیں پلیز آپ ایسا کچھ نہیں کر سکتے میرے ساتھ"

زینش بولتی ہوئی اٹھ بھی نہیں پائی تھی کہ بلال نے ایک بار پھر اسے پیچھے دھکیل کر اس پر جھکا زینش بری طرح تڑپ کر رونے لگی


"اسی طرح روؤں منتیں کرو میری معافیاں مانگو مجھ سے"

بلال زینش سے غصے میں دانت پیس کر بولا مگر اس کے یہ لفظ زینش کو ماضی میں پیچھے کہیں لے گئے۔۔۔ کوئی اور بھی تھا جو اسے اپنے آگے اسی طرح گڑگڑاتا ہوا روتا ہوا دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔ زینش جیسے وہ منظر یاد کر کے رونا بھول کر کہیں اور کھو گئی


بلال نے زینش کو خاموش دیکھ کر اس کے گلے سے دوپٹہ کھینچا۔۔۔ وہ زینش کو جان بوجھ کر ہرٹ کر رہا تھا جیسے اس نے بلال کو کیا تھا۔۔۔۔ مگر زینش اس وقت بلال کے کمرے کی بجائے دو سال پہلے اس بند کوٹھری میں پہنچ چکی تھی جہاں پر اس کے تن سے دوپٹہ کھینچ کر اسے رونے کے لئے بولا جارہا تھا اور اُس وقت وہ چیخ چیخ کر رو بھی رہی تھی


لیکن اس وقت زینش کا یوں ایک دم ساکت ہونا بلال کو مزید غصہ دلانے لگا۔۔۔ اس نے زینش کو اپنے آپ سے خوفزدہ کرنے کے لئے اس کی آستین پھاڑی۔ ۔۔۔ تب بھی زینش کے وجود میں کوئی جنبش نہیں ہوئی وہ آنکھیں کی پتلیوں کو حرکت دیے بناء کمرے کی چھت کو دیکھ رہی تھی


جبکہ دو سال پہلے اپنے برہنہ بازو دیکھ کر وہ اس وقت کس قدر روتی ہوئی بے بسی سے چیخ رہی تھی


لیکن اس وقت زینش کو سانس لینے میں تکلیف ہونے لگی۔۔۔ اپنے جسم پر ایک اور وجود کے دباؤ کے زیر اثر وہ لمبے لمبے سانس لینے لگی۔۔۔ بلال اس کی کیفیت بالکل سمجھ نہیں پایا۔۔۔ لیکن زینش نے اپنی آنکھیں بند ہونے سے پہلے اپنے اوپر جھکے ہوئے بلال کا چہرہ دیکھا۔۔۔ جو زور زور سے اس کے گال تھپتھپا کر اس کا نام پکار رہا تھا


پھر زینش کو اپنے جسم پر سے وہ دباؤ ہٹتا ہوا محسوس ہوا تو بے ربط سے جملوں میں وہ دو سال پہلے ہوئے واقعے کے بارے میں سب کچھ بولنے لگی۔۔۔ نہیں وہ خود نہیں بول رہی تھی شاید کوئی اس سے پوچھ رہا تھا۔۔۔ وہ بےہوشی کی کیفیت میں آنکھیں بند کیے بولنے پر مجبور تھی


چند منٹ بعد اس کی ایک اور دفعہ پھر آنکھ کھلی، تب اسے بلال اپنے بازوؤں میں اٹھائے بیڈ پر لٹا رہا تھا۔۔ یہ اس کا اپنا کمرہ تھا۔۔۔ اسے اپنے ہاتھ کے زخم پر نمی سی محسوس ہوئی مگر اب اس کا دماغ مکمل تاریکی میں جا چکا تھا


****


گاڑی کے ٹیک لگا کر سگریٹ پیتا ہوا معظم اپنے سامنے اونچی عمارت کو دیکھ رہا تھا جہاں ایک گھنٹے پہلے جاب کے لیے انٹرویو دینے کے غرض سے احتشام گیا تھا۔۔۔ جب وہ پنڈی میں مقیم تھا تب احتشام اور اس نے ایک ساتھ ہی ایک ہی اسکول سے میڑک کیا تھا اور یہ کافی سال پہلے کی بات تھی


جب معظم یو ایس بی لینے کے غرض سے اس کے گھر گیا تھا تب وہ تصویر میں احتشام کو پہچان چکا تھا اسے آج بھی یاد تھا اسکول کے دور میں احتشام کی نیچر کافی مفاد پرست اور مطلبی قسم کی تھی۔ ۔۔ معظم اس وقت وہاں کھڑا ہوا احتشام کا ہی انتظار کر رہا تھا یہ معلوم کرنے کے لئے کہ احتشام اسے پہچانتا ہے یا نہیں،، اسی وجہ سے اس نے اپنا حلیہ عام دنوں کی بانسبت تھوڑا بہت سدھارا ہوا تھا۔۔۔


احتشام کو سامنے عمارت سے نکلتا ہوا دیکھ کر معظم نے ہاتھ میں موجود سیگریٹ کا ٹکڑا زمین پر پھینک کر جوتے سے مسلا اور احتشام کی طرف بڑھنے لگا۔ ۔۔۔ اس وقت احتشام کے چہرے پر اطمینان اور امید کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی شاید وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکا تھا یا پھر اسے پوری امید تھی کہ وہ کامیاب ہو جائے گا


"او بھائی دیکھ کر نہیں چلا جاتا کیا"

سامنے سے آتا ہوا شخص احتشام سے ٹکرایا جس کی وجہ سے احتشام کے ہاتھ میں موجود فائل نیچے گر گئی جبھی احتشام اس آدمی کو بولا


"آنکھیں تمہارے پاس بھی موجود ہیں برادر یا پھر ان کا استعمال صرف لڑکیاں تاڑنے کے لیے کرتے ہو"

معظم کا جواب سن کر اپنی نیچے گری ہوئی فائل اٹھا کر احتشام نے باقاعدہ غصے میں اسے دیکھا۔۔۔ مگر احتشام اسے کوئی کرارا جواب دینے کی بجائے پہچاننے کی کوشش کرنے لگا


"معظم شفیق۔۔۔ معظم ہو ناں تم وہی پنڈی والے،، جو میرے ساتھ پڑھتے تھے"

وہ معظم کو پہچان چکا تھا تبھی حیرت سے اسے دیکھتا ہوا پوچھنے لگا


"او۔ ۔۔۔ تم احتشام ہو، میں یہی سوچ رہا تھا کہ کہاں دیکھا ہے تمہیں پہلے"

معظم بھی بھرپور اداکاری کرتا ہوا بولا


"تو تم یہاں اس کمپنی میں جاب کرتے ہو"

حال احوال جاننے پہچانے کے مراحل طے ہوئے تو معظم احتشام سے پوچھنے لگا


"جاب کرتا نہیں ہو بلکے جاب کے لیے انٹرویو دینے آیا تھا۔ ۔۔ پوری امید ہی نہیں یقین ہے مجھے ہی سلیکٹ کریں گے یہ لوگ،، تم بتاؤ کیا کرتے ہو آجکل"

احتشام اور اس کی کوئی خاص دوستی نہیں تھی لیکن اتنے سالوں بات ان دونوں کی ملاقات ہو رہی تھی تو احتشام بھی اس کے عام سے حلیے پر نظر ڈالتا ہوا معظم سے پوچھنے لگا


"میٹرک پاس بندہ کیا کرے گا میرے بھائی یہاں تو کوئی چپڑاسی کی نوکری دینے کو تیار نہیں ہے۔۔؟ فی الحال بیروزگار ہو،، تم تو لگتا ہے ماشاءاللہ خوب پڑھ لکھ گئے ہو شادی وادی بھی کی ہے یا پھر ابھی تک کنوارے ہو"

معظم کی بات سن کر احتشام ایک پل کے لئے سوچ میں پڑ گیا کاش کہ معظم کچھ پڑھا لکھا ہوتا تو وہ فائقہ کی اس سے شادی کروا دیتا مگر معظم کا حلیہ دیکھ کر وہ کافی مایوس ہوا تھا کیونکہ فائقہ خلع لینے کے بعد بھی ابھی تک کسی شہزادے کے خواب دیکھ رہی تھی


"شادی کو تو میرے دو سال ہو چکے ہیں اب تو ایک بیٹی کا باپ ہو۔۔۔ معلوم نہیں اچھا خاصہ تعلیمی ریکارڈ ہونے کے باوجود تم نے تعلیم کیوں آدھوری چھوڑ دی خیر میری نظر میں کوئی تمہارے لائق جاب ہوگی تو میں ضرور تمہیں بتاؤں گا"

احتشام نے اسے فی الحال اپنی شادی کے متعلق کچھ بھی بتانا ضروری نہیں سمجھا۔۔۔ اس کے لیے جاب کا بھی احتشام نے ایسے ہی بول دیا تھا


"اس وقت جاب سے بڑا مسئلہ میرے لیے ایک اور بنا ہوا ہے اسی مسلئے کے لئے یہاں ایک آدمی نے بلوایا تھا"

معظم بتاتے ہوئے تھوڑا پریشان دکھ رہا تھا تبھی احتشام اس سے اس کے مسئلہ کے بارے میں پوچھنے لگا


"ایک چھوٹا موٹا مکان یہاں پر کرائے پر لیا تھا مالک مکان کو پہلے ہی بتایا ہے کہ فیملی دوسرے شہر میں شفٹ ہے مگر دو دن پہلے آس پڑوس کے رہنے والے لوگوں نے سنگل بندے کو دیکھ کر شاید کمپلین کردی ہے اب مالک مکان بضد ہے کہ میں اپنی فیملی شو کرو ورنہ وہ مکان خالی کروا دے گا اسی لئے تھوڑا پریشان ہو"

معظم کا مسلئہ احتشام نے بہت غور سے سنا واپس جاتے وقت احتشام نے کچھ سوچ کر معظم سے اس کا موبائل نمبر لیا اگر وہ نہ بھی مانگتا تو معظم خود کسی نہ کسی بہانے سے اس کا موبائل نمبر مانگ لیتا ایسا معظم نے سوچا تھا


****


"بیٹا یوں اچانک تمہیں کیا ہوگیا ہے کل تو تم بالکل ٹھیک تھی"

جویریہ زینش کو بیڈ پر لیٹا ہوا دیکھ کر پوچھنے لگی زینش کے کمرے میں ہی کھڑا ہوا حسان بھی فکرمندی سے زینش کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ آج صبح ناشتے کی ٹیبل پر موجود نہیں تھی اس لیے ناشتے سے فارغ ہوکر جویریہ اور حسان زینش کے کمرے میں چلے آئے تھے جبکہ بلال اپنے روٹین کے مطابق بالکل نارمل انداز میں ناشتہ کرنے کے بعد آفس جا چکا تھا


"رات ہی سے اپنی طبیعت کو اچھا محسوس نہیں کر رہی ہو مگر اب بہتر ہو آپ پریشان مت ہو آنٹی"

زینش بیڈ سے ٹیک لگاتی ہوئی بیٹھی اور جویریہ سے کہنے لگی اسے کمرے میں کون لایا تھا یا اس کے ہاتھ پر موجود بینڈج کس نے کی تھی یہ وہ نہیں جانتی مگر جب صبح کی آنکھ کھلی تو وہ اپنے کمرے میں موجود تھی،، پھٹی ہوئی آستین کو دیکھ کر اسے بلال کا جارحانہ انداز یاد آیا جس پر اس کا دل کافی دکھا تھا۔۔۔ کپڑے چینج کرنے کے بعد وہ اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی تب سے وہ یونہی بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی


"ہاتھ پھر کیا ہوا تمہارے بلال کے ہاتھ پر بھی میں نے پٹی بندھی ہوئی دیکھی پوچھنے پر اس نے بتایا نہیں بلکہ ٹال گیا"

جویریہ کی بات پر زیشن ہی نہیں بلکہ حسان بھی چونکا مگر اس کے موبائل پر آنے والے میسج نے حسان کی توجہ موبائل کی طرف مبذل کر دی


"یہ تو رات میں ہی کھانا کھانے کے بعد گلاس کے ٹوٹنے سے ہاتھ زخمی ہو گیا تھا،، معمولی سا زخمی تھا اس لئے کمرے میں آکر خود ہی ڈریسنگ کر لی"

زینش نے مسکراتے ہوئے بات بنائی تھی کیونکہ وہ جویریہ کو بلال کی طرح ٹالتی تو ان دونوں کی نظروں میں مشکوک ہو جاتی


ز"ینش خیال رکھا کرو اپنا،، ابھی تو میں آفس کے لیے لیٹ ہو رہا ہوں واپسی پر آکر تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں گا"

حسان فورا ہی زینش کی بات پر مطمئن ہو گیا تھا اسی وجہ سے دیکھتا ہوا بولا


دو دن پہلے ہی قاسم نے اس سے دگنی قیمت کا مطالبہ کیا تھا کافی دن گزر جانے کے باوجود یو ایس بی اس کے ہاتھ نہیں لگی تھی مگر قاسم نے اس کو اطمینان دلایا تھا کہ وہ یو ایس بی اس کے پاس محفوظ ہے۔۔۔ قاسم دو نمبر ہونے کے باوجود اپنی زبان کا پکا آدمی تھا اس لیے حسان اس پر بھروسہ کر سکتا تھا۔۔۔ حسان اسے دوگنی قیمت دینے کے لیے بھی تیار ہو چکا تھا کیونکہ حسان اس یو ایس بی کو ندیم سومرو کو دکھانے کے بعد ندیم سومرو سے چار گناہ زیادہ قیمت وصولنے کا ارادہ رکھتا تھا


"ڈاکٹر کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے حسان بھائی میں بالکل ٹھیک ہوں"

زینش نے اپنی طرف سے حسان کو مسکراتے ہوئے جواب دیا لیکن ابھی بھی اداسی اس کو گھیرے ہوئے تھی


"تمہاری اس بات کا یقین میں تب کروں گا جب میرے آفس سے آنے کے بعد تم مجھے ہشاش بشاش اپنے کمرے سے باہر نظر آؤں گی"

حسان کی بات پر جویریہ اور زینش دونوں ہی مسکرائی دی


"آپ کی ماما سے کوئی بات ہوئی پاکستان آنے کا کب تک پروگرام ہے ان کا"

حسان کے جانے کے بعد زینش جویریہ سے پوچھنے لگی


اپنے پیپرز میں بزی ہونے کی وجہ سے وہ شہنیلا سے بات ہی نہیں کر پا رہی تھی مگر آج صبح سے ہی اسے شہنیلا کی یاد آ رہی تھی جویریہ زینش کو شہنیلا کے پاکستان آنے کے پروگرام کے بارے میں بتانے لگی جسے سن کر زینش مطمئن ہوگئی


****

سندیلا اپنی بیٹی کو فیڈ کروا کے سلانے کے بعد کچن کا رخ کرنے لگی تاکہ رات کے لئے اپنے کھانے کا انتظام کرلے۔،۔۔۔ چھٹی کے دن ہونے کی وجہ سے انیس صبح سے ہی اپنی بیوی اور بچوں کو لے کر باہر نکلا ہوا تھا


تھوڑی دیر پہلے نہ جانے کیا سوچ کر اس نے سندیلا کو کال کرکے بتایا تھا کہ وہ لوگ ڈنر باہر یہ کر کے آئیں گے اس نے سندیلا کو اپنے لئے کچھ بنا کر کھانے کی تاکید کی تھی


اسے انیس کے پاس رہتے ہوئے دو مہینے گزر چکے تھے لیکن اب اسے اپنی زندگی مشکل سے مشکل ترین لگتی تھی۔۔۔ وہ ہر نماز میں اللہ سے یہی دعا کرتی تھی کہ وردہ کو اس پر اور اس کی بچی پر ترس آجائے۔۔۔ وردہ نے اب اسے کوسنے اور طعنے دینے کا سلسلہ انیس کے سامنے بھی شروع کر دیا تھا لیکن سندیلا کو وردہ سے زیادہ حیرت اپنے بھائی انیس پر ہوتی تھی۔۔ جو کہ اب اس کے معاملے میں اندھا گونگا اور بہرہ بن چکا تھا


چند دنوں پہلے وردہ اور انیس آپس میں بات کر رہے تھے چونکہ موضوعِ گفتگو اس کی ذات تھی اس لیے سندیلا کے بھی کان کھڑے ہو گئے تھے۔ ۔۔ ان دونوں میاں بیوی کی گفتگو سے سندیلا اتنا ہی سمجھ پائی تھی کہ اس کے لیے شاید کسی نے رشتہ بتایا تھا لڑکے کی عمر 28 سے 29 کے لگ بھگ تھی جاب بھی مناسب تھی سب سے بڑی بات اس لڑکے کو سندیلا کی طلاق یافتہ ہونے سے یا پھر بچی سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ وردہ بار بار انیس کو بسم اللہ کرنے کا مشورہ دے رہی تھی جبکہ انیس کچھ اور ہی سوچے بیٹھا تھا


اس کے بعد سندیلا نے اس رشتے کے متعلق گھر میں کوئی ذکر نہیں سنا نا جانے اس کا بھائی اس کے لیے کیا سوچے بیٹھا تھا۔۔ آگے اس کا کیا مستقبل تھا وہ خود نہیں جانتی تھی،، سندیلا نے اپنے آپ کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا تھا۔۔۔


وہ کچن کا رخ کرنے ہی لگی تھی تب ڈور پر بیل بجی شاید باہر کوئی آیا تھا۔۔۔ سندیلا نے کچن کی بجائے مین ڈور کا رخ کیا


"آپ"

باہر کا دروازہ کھول کر اس کی نظر جس شخصیت پر پڑی سندیلا حیران رہ گئی


"کیوں آئے ہیں اب یہاں"

احتشام نے گھر کے اندر قدم رکھ کر گھر کا دروازہ بند کیا تو سندیلا حیران پریشان اسے دیکھ کر پوچھنے لگی


"تمہاری یاد آرہی تھی دیکھنے کا دل کر رہا تھا۔۔۔ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر آیا ہوں تمہیں دیکھنے"

احتشام سندیلا کو دیکھ کر برقرار لہجے میں بولا ساتھ ہی اس نے سندیلا کی صرف اپنے قدم بڑھائے وہ جلدی سے پیچھے کو ہوئی


"اب کس حق سے یہ باتیں کر رہے ہیں آپ مجھ سے،،، مجھے یاد کرنے کا دیکھنے کا حق آپ کھو چکے ہیں اپنے دل کو سمجھائیں"

سندیلا دو ماہ بعد اسے اپنے سامنے دیکھ کر پریشان ہوگئی تھی مگر احتشام کی بات سن کر وہ اسے جتاتی ہوئی بولی


"بہت پچھتا رہا ہو سندیلا قسم کھا کر کہی رہا ہو، بہت زیادہ پچھتا رہا ہو۔۔۔ تمہارے جانے کے بعد تباہ و برباد ہو چکا ہو، میری زندگی تمہارے جانے سے اب زندگی نہیں لگتی پلیز سندیلا مجھے معاف کردو میں اپنے کیے پر بےحد نادم ہو"

احتشام سندیلا کو دیکھ کر ندامت بھرے لہجے میں بولا

بہت کوششیں کرنے کے باوجود وہ باسل کے لیے کچھ نہیں کر پایا۔ ۔۔ اس کے پاس سے منشات برآمد ہونے کی وجہ سے اس کے اوپر کافی مضبوط کیس بنا تھا۔ ۔۔ نزہت بیگم اب زیادہ تر بیمار رہتی انہیں اپنے بچوں کے اجڑنے کے غم نے اندر ہی اندر کھوکلا کر دیا تھا۔۔۔ فائقہ خلع لینے کے بعد اب مزید چڑچڑی ہوچکی تھی۔۔۔ وہ گھر کا کام کر کے اور کھانا بنا کر روز احتشام کو اتنی باتیں سناتی کہ احتشام کو اپنے سے چھوٹی بہن کو دیکھ کر خود بھی حیرت ہوتی۔۔۔ ان سب باتوں میں آگر احتشام کے ساتھ کچھ اچھا ہوا تھا تو وہ یہ کہ اسے پہلے سے کافی بہتر جاب ملی تھی۔ ۔۔ اس وجہ سے پہلی فرصت میں اس نے سندیلا سے ملنے کا سوچا


وہ اپنے حالات سے کافی زیادہ پریشان تھا اب ہر موڑ پر اسے سندیلا کی یاد آتی،، ساتھ ہی اپنی بیوقوفی پر اسے غصہ آتا جو اس نے سندیلا کو طلاق دے کر کی تھی۔۔۔ باسل کی طرف سے مایوسی کے بعد وہ جب جب نزہت بیگم کی بگڑتی ہوئی حالت دیکھتا اور فائقہ کو چیختے چلاتے دیکھتا تب تب اسے جذباتی سہارے کی ضرورت ہوتی وہ سندیلا کو یاد کرتا


"سب کچھ میرے جانے سے برباد نہیں ہوا ہے احتشام آپ نے خود اپنے ہاتھوں برباد کیا ہے ہمارے رشتے کو ختم کر کے۔۔۔۔ اب اس طرح پچھتاوے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ اب ہمارا رشتہ دوبارہ نہیں جڑ سکتا۔۔۔ نہ ہی آپ کی معافی سب کچھ دوبارہ ویسا کر سکتی ہے پلیز چلے جائیں یہاں سے"

سندیلا اس کی بات سن کر اور اپنے حالات دیکھ کر خود بھی دلبرداشتہ ہو رہی تھی احتشام نے خود اپنے ہاتھوں سے سب کچھ گنوا کر، اسے بھی خود کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔۔۔ اس گھر میں وردہ کے ساتھ اب اس کے دونوں بھتیجے اسے باتیں سنا رہے ہوتے اور وہ خاموشی سے ان کی باتیں سننے پر مجبور تھی


"احتشام کیوں کہہ رہی ہو،، تم تو مجھے پیار سے شام بولتی تھی ناں۔۔۔۔ سندیلا میں جانتا ہوں،، جذبات میں آکر میں بہت کچھ غلط کر چکا ہوں مگر تم پریشان مت ہو میں نے فیصلہ کر لیا ہے میں سب کچھ دوبارہ خود سے ہی ٹھیک کرلو گا۔۔ تمہیں دوبارہ اپنی زندگی میں شامل کروں گا تمہارے ساتھ کی گئی اپنی ہر زیادتی کا ازالہ کروں گا بس مجھے صرف تمہارے تعاون کی ضرورت ہے"

احتشام نے دوبارہ ایک بار اس کے قریب قدم بڑھائیں سندیلا دوبارہ پیچھے ہوئی


"شام کہنے کا حق آپ نے خود مجھ سے چھینا ہے، ہمارے کچھ غلط فیصلے اور جلد بازی میں کیے گئے اقدامات صرف اور صرف زندگی بھر کا پچھتاوا بن جاتے ہیں۔۔۔ چاہنے کے باوجود آپ مجھے اب اپنی زندگی میں شامل نہیں کر سکتے ہیں اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا احتشام"

سندیلا احتشام کو دیکھ کر خود بھی نہ امیدی اور مایوسی سے بولی احتشام کے ساتھ گزرے ہوئے دو سالوں میں بے شک بہت ساری تلخ باتیں اور یادیں بھی شامل تھی مگر یہاں تو سندیلا کو اپنی زندگی بالکل ہی اندھیر لگنے لگی تھی۔۔ ایک بار پھر احتشام اس کے قریب آیا اور اب کء بار اس نے سندیلا کے دونوں بازو تھامے


"تم بہت زیادہ ناامید ہو رہی ہوں سندیلا ناممکن کچھ بھی نہیں ہوتا دنیا میں۔۔۔ کچھ کڑوے گھونٹ ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی پینے پڑتے ہیں تاکہ ہم اپنی آگے کی زندگی کو سہل کر سکے۔۔۔ میں نے بھی سوچ لیا ہے تمہیں دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اور اپنی زندگی میں شامل کرنے کے لئے میں بھی وہ سب کچھ کر گزرو گا جس کا سوچتے ہوئے مجھے اذیت ہو رہی ہے۔۔ حلالہ ہی ایک ایسا راستہ ہے جو ہم دونوں کو دوبارہ ایک کر سکتا ہے"

احتشام کی بات سن کر سندیلا نے تکلیف کی شدت سے اس کا گریبان پکڑ لیا


"جانتے ہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں مجھ سے احتشام۔۔۔ "حلالہ" کیا مطلب ہے جانتے ہیں آپ۔۔۔ ایک غیرت مند مرد حلالے جیسا قدم اٹھانے سے پہلے مر جانا پسند کرتا ہے۔۔ آپ اتنی بڑی بات بولنا تو دور کی بات سوچ بھی کیسے سکتے ہیں میرے لیے"

سندیلا روتی ہوئی ہے احتشام سے بولی


"بہت بڑا دل کیا ہے ایسا سوچتے ہوئے۔۔۔ یہ سب کرنا میرے لیے کسی اذیت سے ہرگز کم نہیں ہوگا مگر تمہیں حاصل کرنے کا بھی یہی واحد ذریعہ ہے"

احتشام کو اپنے طلاق دینے والے عمل پر نئے سرے سے پچھتاوا ہونے لگا


"مگر میں اپنا دل اتنا بڑا کیسے کرو احتشام۔۔۔ ایک رات کسی کو اپنا محرم بنا کر اس کے بستر پر جا لیٹو،، دوبارہ آپ کے پاس واپسی کے لیے۔۔۔ آپ کو کیا لگ رہا ہے یہ صرف آپ کے لئے تکلیف دہ سزا ہے۔۔۔ میں کس اذیت سے گزرو گی اس عمل سے،، اس کا احساس ہے آپ کو۔۔۔ چلے جائیں احتشام یہاں سے، آپ صرف اور صرف میری تکلیفوں میں اضافے کا باعث بنے ہیں۔۔۔ خدا کا واسطہ ہے آپ چلے جائیں یہاں سے"

رونے کی وجہ سے سندیلا کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا وہ احتشام کو جانے کے لیے کہنے لگی


"سندیلا میری بات سنو پلیز سمجھنے کی کوشش کرو صرف اسی طرح سے ہم دونوں۔۔۔

احتشام کے کچھ بولنے سے پہلے سندیلا اس کو دھکا دے کر خود اپنے کمرے کی طرف بھاگی اور اندر سے دروازہ بند کر لیا۔۔۔ احتشام تھکے ہوئے قدموں سے مایوس انیس کے گھر سے نکل گیا


*****


"جویریہ میرا یقین کرو تم نے زینش کو اپنے پاس رکھ کر صحیح معنوں میں دوستی کا حق ادا کیا ہے شاید میرے اپنے ایسا نہیں کر سکتے تھے جیسے تم نے میری بیٹی کو اپنے گھر میں اپنی بیٹی بنا کر رکھا۔۔۔ میں چاہ کر بھی تمہارے اس احسان کا بدلہ نہیں اتار سکتی"

شہنیلا کل ہی پاکستان آئی تھی یہاں اس کا قیام چند دنوں کے لیے تھا اور جویریہ کے بے حد اصرار کے باوجود وہ ہوٹل میں رکھی تھی لیکن اس وقت وہ جویریہ کے گھر پر موجود تھی جہاں پر زینش سمیت حسان اور بلال بھی موجود تھے۔۔۔ بلال شہنیلا کو صرف سلام کرنے کی غرض سے آیا تھا مگر حسان نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا تھا


"تم اس احسان کا بدلہ بہت اچھے طریقے سے چکا سکتی ہوں شہنیلا۔۔۔ میں نے اپنی دوستی کا حق ادا کردیا ہے اب باری ہے تمہاری ہے۔،۔۔ تم زینش کو ہمیشہ کے لئے میرے حوالے کر دو میں اس کو اپنی بہو بنانا چاہتی ہوں"

جویریہ کی بات پر جہاں زینش اور بلال چونکے تھے وہی شہنیلا اور حسان باقاعدہ مسکرائے تھے


"اس سے بڑھ کر میرے لئے اور خوشی کی بات ہو سکتی ہے بھلا بلکہ یہ تو زینش کے لیے بھی خوش نصیبی کی بات ہوگی اگر اسے حسان جیسا ہمسفر ملے گا"

شہنیلا کی بات پر اب کی بار جہاں جویریہ اور حسان مسکرائے وہی زینش حیرت زدہ ہو کر شہنیلا کو دیکھ رہی تھی اور جبکہ بلال حسان کے چہرے پر چھلکتی خوشی کے بعد زخمی نظروں سے جویریہ کو مسکراتا ہوا دیکھ رہا تھا۔۔۔ آج ایک بار پھر اس کی اپنی سگی ماں کو اپنی سگی اولاد کی بجائے سوتیلی اولاد کا خیال آیا تھا آج پھر بلال کا دل بری طرح چھلنی ہوا تھا


"آہم آہم لیڈیز آپ دونوں اپنی اپنی باتوں میں لگ کر کسی سے اس کی رضامندی لینا بھول چکی ہیں"

حسان نے جویریہ اور شہنیلا کو مخاطب کرتے ہوئے زینش کی طرف اشارہ کیا تھا بلال سمیت اب سب اس کو دیکھنے لگے جو خاموشی سے سر جھگائے بیٹھی تھی


"بولو بیٹا زینش تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے اس رشتے پر"

جویریہ کی آواز سن کر زینش نے سر اٹھا کر جویریہ کو دیکھا پھر اس کی نگاہ بے ساختہ اس وجود پر گئی جو شاید اپنی سانسیں تھام کر بیٹھا تھا اس کی آنکھوں سے چھلکتی ہوئی وحشت سے گھبرا کر زینش نے اپنے چہرے کا رخ دوسرے جانب کیا جہاں حسان مسکراتا ہوا منتظر نگاہوں سے اسی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ کافی دیر سے شہنیلا نے زینش کا ہاتھ تھاما ہوا تھا زینش کو اب اس پر دباؤ محسوس ہونے لگا تبھی وہ نظر جھکا کر بے ساختہ بولی


"جس میں آپ سب کی خوشی ہو"

بہت آہستگی سے زینش کے منہ سے جملے ادا ہوئی جس سے بلال کو لگا اس کی سانسیں رکنے لگی ہیں وحشت زدہ نظروں سے زینش کے جھکے ہوئے سر کو دیکھنے لگا اس کا دل چاہا سب کے سامنے وہ زینش کو صوفے سے کھڑا کر اس کے منہ پر تھپڑ لگائے اور اسے تماشہ بند کرنے کے لئے کہہ دے وہ اٹھ کر سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا


تھوڑی دیر بعد جویریہ شہنیلا کو لے کر اپنے کمرے میں چلی گٙئی اس وقت روم میں حسان اور زینش موجود تھے،، زینش ابھی بھی سر جھکائے صوفے پر بیٹھی تھی اور حسان خاموشی سے اس کے جھکے ہوئے سر کو دیکھ رہا تھا چند سیکنڈ گزرنے کے بعد حسان صوفے سے اٹھ کر زینش کے برابر میں آ بیٹھا


"کیا سوچ رہی ہو"

حسان کے سوال پر زینش سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی جو مسکراتی آنکھوں سے اسی کو دیکھ رہا تھا


"ماما اور آنٹی نے یوں اتنا اچانک،، ایسے۔۔۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا مجھے"

زینش اپنے لہجے میں پریشانی سماتے ہوئے حسان کو بولی


"تو اس میں پرابلم کیا ہے"

حسان نرمی سے زینش کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا


"آپ کو کوئی پرابلم نہیں"

زینش حسان کو غور سے دیکھ کر پوچھنے لگی۔۔۔ جس پر حسان مسکرایا


"مجھے کس بات کی پرابلم ہوگی ان فیکٹ میں اس رشتے میں پوری پوری دلچسپی رکھتا ہوں اور میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے امی نے شہنیلا آنٹی سے بات کی ہے"

حسان بہت گہری نظروں سے زینش کو دیکھتا ہوا بولا۔۔۔ کیا میرا ماضی جاننے کے بعد بھی یہ اس رشتے میں اتنی ہی دلچسپی رکھے گیں۔۔۔ زینش حسان کو دیکھتی ہوئی سوچنے لگی


"ُپر حسان بھائی اس طرح سے ابھی"

زینش نے حسان سے بولنا چاہا مگر جلدی سے حسان نے زینش کے آگے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ دیے


"پلیز یار کچھ بھی کہہ لو مگر اب بھائی مت بولنا"

حسان جس انداز میں ہاتھ جوڑ کر زینش سے بولا نہ چاہتے ہوئے بھی اسے ہنسی آ گئی۔۔۔ اس کو ہنستا ہوا دیکھ کر حسان بھی مسکرایا اور اپنی پاکٹ سے چھوٹی سی ڈبیا نکالنے لگا جسے دیکھ کر زینش کی ہنسی تھم گئی


"یہ کیا ہے"

حسان کو ڈبیا میں سے رینگ نکلتا دیکھ کر وہ سیریس ہو کر پوچھنے لگی


"ایک پیاری سی لڑکی کے لئے چھوٹا سا تحفہ"

حسان بولنے کے ساتھ ہی زینش کا ہاتھ تھام کر اسے رینگ پہنانے لگا


"تمہیں یوں قریب سے دیکھنے کا حق صرف میرا ہے۔۔۔ تمہیں چھوڑنے کا حق بھی میرا ہونا چاہیے جو اب میرے پاس محفوظ ہے"

بلال کے کہے ہوئے الفاظ زینش کو یاد آئے تو حسان کے ہاتھ میں موجود اس کا ہاتھ کانپا۔ ۔۔۔ دل کے احساسات عجیب ہونے لگے۔۔۔ حسان اسے رینگ پہنا کر مسکراتا ہوا دیکھ رہا تھا مگر زینش سے کوشش کے باوجود مسکرایا نہیں گیا


****


رات کا ڈنر کے بعد شہنیلا واپس جا چکی تھی اس وقت سب اپنے اپنے کمرے میں موجود تھے زینش بیڈ پر بیٹھی ہوئی خاموشی سے اپنی انگلی میں موجود رینگ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ خوشی کو آج کی خبر بتانے کے لیے اس نے موبائل اٹھایا مگر پھر واپس رکھ دیا۔۔۔ شہنیلہ نے ہوٹل جانے سے پہلے اسے اچھی طرح یاد دہانی کرائی تھی کہ وہ دو سال پہلے گزری ہوئی بات کا ذکر وہ حسان سے ہرگز نہیں کرے گی۔۔۔ اس کی طبیعت میں عجیب سی بے چینی شامل ہونے لگی تو وہ کمرے میں موجود ٹیرس میں کھڑی ہوگئی


چند پل گزرے تو

اس کی پشت پر کھڑے شخص نے زینش کی آنکھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے۔۔۔ بلال کے ہاتھوں کا لمس اپنی آنکھوں پر محسوس کر کے زینش کو دل بے اختیار زور سے دھڑکا۔۔۔ وہ بلال کے ہاتھ اپنی آنکھوں سے ہٹا کر مڑی تو بلال اس کے قریب خاموشی کھڑا زینش کو دیکھ رہا تھا


زینش اپنے کمرے میں موجود بلال کو حیرت سے دیکھنے لگی اس واقعہ کے بعد زینش نے کوشش کی تھی کہ بلال سے اب اس کا کم ہی سامنا ہو، کھانے کی میز پر بھی وہ بلال کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتی تھی


"ایسا مت کرو زینش"

بلال کی آواز نے ان دونوں کے درمیان حائل خاموشی کو توڑا


"کیسے نہیں کرو"

زینش کے پوچھنے پر بلال نے سختی سے لب بھینچ کر اس کے دونوں بازو پکڑے


"آخر کیوں میرے صبر کا امتحان لے رہی ہو تم،، جان بوجھ کر انجان بن رہی ہو۔۔۔ شام میں وہاں سب کے سامنے کیا بکواس کی تھی تم نے۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں تم سے۔۔۔"

بلال غصے میں بولتا ہوں اچانک رکا زینش ابھی بھی اسے منتظر نظروں سے دیکھ رہی تھی


"آپ مجھ سے کیا بلال"

زینش بلال کے غصے کو نظرانداز کر کے آرام سے اس سے پوچھنے لگی


"تم میرے جذبوں سے اچھی طرح واقف ہوں چاہتا ہوں میں تمہیں۔۔۔ کسی دوسرے شخص کے ساتھ تمہیں برداشت کرنا میرے بس سے بالکل باہر ہے"

بلال اب اس کو اپنی بات واضح لفظوں میں سمجھانے لگا


"چاہنے والوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہیں کیا جاتا جس طرح کا سلوک آپ اس رات میرے ساتھ کر چکے ہیں"

زینش اس کے ہاتھ اپنے بازوؤں سے ہٹاتی ہوئی بولی تو بلال کے ماتھے پر لاتعداد شکنیں پڑی


"وہ میرے غصے کا ردعمل تھا اس رات اگر میں نے تمہارے ساتھ کچھ غلط کیا ہوتا تو تم یوں میرے سامنے تو کیا کسی دوسرے سے بھی آنکھ نہیں ملا پا رہی ہوتی"

وہ زینش کو دیکھتا ہوا بولا مگر زینش کی نظریں بلال کے ہاتھ کی ہتھیلی پر تھی جہاں پر گہرا زخم موجودہ۔۔۔ بلال زینش کی نظروں کا تعاقب کرتا ہوا بولا


"کیا دیکھ رہی ہوں میرے ہاتھ کا زخم،، اس ہاتھ نے تمہارے ہاتھ کو سزا دی تھی۔۔ اسی لئے میں نے اس کو تکلیف پہنچائی ہے"

بلال نے بولنے کے ساتھ ہی زینش کی ہتھیلی کو تھام کر اس کے زخم پر اپنے ہونٹ رکھنے چاہے جھٹ سے زینش نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا


"بلال پلیز اس وقت چلے جائے یہاں سے"

زینش اس کی جرت پر گھبراتی ہوئی بولی۔۔۔۔ ورنہ ایڈی کے تو وہ منہ پر بھی تھپڑ لگا چکی تھی


"چلا جاتا ہوں لیکن کل تم اپنی ماما سے بات کرکے اس رشتے سے انکار کرو گی اور میں امی کو سمجھاؤں گا کہ زینش اور میں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔۔ باقی رہا حسان تو وہ خود سمجھ دار ہے سمجھ جائے گا"

بلال زینش کو دیکھتا ہوا سنجیدگی سے بولا


"میں اپنی ماما سے کوئی بات نہیں کروں گی بلال،، آپ بے شک آنٹی کو اپنی پسند اور رجحان کے مطابق آگاہ کر دیں مگر میری ذات کو بیچ میں مت گھسیٹیں کیوکہ میں نے آپ سے کوئی ایسی کمٹمینٹ نہیں کی ہے"

زینش کی بات سن کر بلال غصے میں اس کا منہ دبوچ کر خاموشی سے اس سنگدل لڑکی کو دیکھنے لگا جو اس وقت اسے بہت ظالم لگی۔ ۔۔۔ اس نے خوشی کے ساتھ مل کر جو کچھ کیا تھا بلال محبت میں سب فراموش کر چکا تھا اور وہ ابھی بھی سنگ دلی کا مظاہرہ کر رہی تھی


"یعنی تم یہ کہنا چاہ رہی ہو کہ تمہیں مجھ سے محبت نہیں ہے تو ٹھیک ہے اب تک تم نے میری محبت دیکھی ہے اب تو محبت میں ہارے ہوئے شخص کا انتقام دیکھنا"

بلال نے زینش کا چہرا جھٹکے سے چھوڑ کر اسکے دونوں ہاتھوں کو سختی سے پکڑا


"اگر ان ہاتھوں میں میرے نام کی مہندی نہیں رچ سکتی تو پھر میں ان ہاتھوں میں کسی اور کے نام کی مہندی بھی نہیں رچنے دوگا جان لے لوں گا میں اس کی"

غصے کی شدت سے آنکھیں دکھاتے ہوئے بلال نے اس کے دونوں ہاتھ جھٹکے سے چھوڑے اور کمرے سے باہر نکل گیا زینش کو بلال کی باتیں سن کر خوف آنے لگا۔۔۔


لیکن وی اچھی طرح جانتی تھی شہنیلا اس معاملے میں کبھی بھی اس کی بات نہیں مانے گی کیونکہ کوئی اندھا بھی آسانی سے دیکھ سکتا تھا کہ جویریہ کی توجہ کا مرکز بلال زیادہ حسان کی ذات ہے۔۔۔ جویریہ بلال کو اہمیت تو دے سکتی تھی مگر حسان کی خوشیوں کو نظر انداز کرکے بالکل نہیں۔ ۔۔۔ اور شہنیلا جویریہ کے سامنے بلال کا نام لے کر اسے بالکل بھی ناراض نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ اور اس نے سچ ہی تو کہا تھا وہ بلال سے محبت کہا کرتی تھی وہ تو محض ہمدردی میں اس کے لیے پریشان تھی


*****

"بھائی مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنا تھی"

انیس اور وردہ اپنے کمرے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے تب سندیلا دروازے پر دستک دیتی ہے اندر آئی اور انیس کو مخاطب کرتے ہوئے بولی


"ہاں بولو کیا کہنا چاہ رہی ہو تم" انیس سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور سندیلا کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وردہ جو تھوڑی دیر پہلے خوش باش دکھ رہی تھی سندیلا کی شکل دیکھ کر بےزار سے ہوگئی


"پہلے آپ میری پوری بات سن لیے گا اور پلیز برا مت مانیے گا، نہ ہی میری بات کو غلط سمجھئے گا"

سندیلا تہمید باندھنے لگی


"ارے بھئی اب آگے بھی چلو"

وردہ منہ بنا کر بولی تو سندیلا ایک نظر اس پر ڈال کر دوبارہ انیس کی طرف متوجہ ہوئی


"میں سمجھ سکتی ہوں مہنگائی کا دور ہے آپ ایک ہی گھر میں کمانے والے ہیں ڈھیر ساری خراجات کو پورا کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور پھر ایسے میں جب کسی دوسرے کی بھی ذمہ داری سر پر آ جائے تو سب کچھ بیلنس کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔۔۔ انیس بھائی آپ میرے بڑے بھائی ہیں آپ نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی انوار صاحب کے رشتے کے لیے حامی بھری ہوگی مگر بھائی میں انوار صاحب سے تو کیا کسی سے بھی دوسری شادی نہیں کر سکتی۔۔۔ میرے لیے ایک ہی تجربہ کافی تلخ رہا ہے۔۔۔ میں کہیں جاب کر لوں گی آپ کو، بھابھی کو یا اپکے بچوں کو میرے یا میری بیٹی کی ذات سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔۔۔ بس آپ کے گھر میں رہنے کے لئے ایک کمرے کی چھت مجھے میئسر ہے،، یہی میرے لئے بہت ہے آپ پلیز انوار صاحب کو رشتے کو انکار کر دیں"

سندیلا بہت خوشامد کرنے والے انداز میں انیس سے بولی


"او بی بی تو کیا اب تم ساری زندگی اپنی بیٹی کو لے کر اب ہمارے سروں پر ناچتی رہو گی، بھلا کیوں انوار صاحب انکار کردیں۔۔۔ ڈھنگ کی شکل دیکھ کر وہ تمہیں پسند کر گئے ہیں تو شکر ادا کرو،، اچھا خاصا رشتہ ہاتھ آیا ہے کتنے امیر لوگ ہیں ان کے طور طریقوں سے اندازہ نہیں لگایا تم نے، اگر تم سوچ رہی ہو انوار صاحب کی عمر زیادہ ہے تو اس خوش گمانی سے نکل آؤ کے اب آسمان سے تمہارے لیے کوئی رشتہ اترے گا۔۔۔ نہ صرف تمہارے ماتھے پر طلاق یافتہ کا داغ لگ چکا ہے بلکہ ایک عدد بیٹی بھی موجود ہے تمہارے پاس۔۔۔ بتاؤ بھلا یہاں کنواری لڑکیاں رشتوں کے لیے رو رہی ہیں اور ان محترمہ کے مزاج ہی نہیں مل رہے ہیں"

وردہ نے انیس کے ٹوکنے اور روکنے کی پرواہ کیے بغیر سندیلا کو کھری کھری سنائی اور کمرے سے باہر نکل گئی


"دیکھو سندیلا وردہ نے جو بھی کچھ کہا ہے بے شک اس کا لہجہ درست نہیں ہے مگر وہ بات اتنی غلط بھی نہیں کر رہی ہے آج کل واقعی رشتوں کا بحران سا ہو چکا ہے جن کی تین تین چار چار بیٹیاں ہیں وہ والدین بھی اچھے رشتوں کے لیے پریشان ہی نظر آتے ہیں تو پھر کسی طلاق یافتہ لڑکی کو۔۔۔ تم سمجھ رہی ہو نا میری بات،، دیکھو سندیلا انوار صاحب کے اوپر کوئی ذمہ داری نہیں ہے وہ اپنے بچوں کی شادیوں سے فارغ ہو چکے ہیں ویسے بھی تمہیں اب اپنے لئے نہیں اپنی بیٹی کے مستقبل کے لئے سوچنا چاہیے مجھے نہیں لگتا کہ تم رشتے سے انکار کر کے مجھے مایوس کرو گی۔۔۔ میری بھی پرابلم دیکھو دو بچے ہیں ان کی پڑھائی لکھائی گھر کے دوسرے اخراجات ڈھیر سارے دوسرے مسئلے مسائل تم سمجھ رہی ہو نا میری بات کو"

انیس وردہ کی بانسبت نرمی سے سندیلا کو سمجھاتا ہوا بولا


"اچھی طرح سمجھ گئی ہو بھائی"

سندیلا بولتی ہوئی اس کے کمرے سے نکلی اور اپنی آنکھوں میں آئی نمی میں صاف کرنے لگی


*****


"کیا کہا شادی،، مجھے جیسا بندہ ابھی کہاں ساری زندگی بھی شادی نہیں کر سکتا ہے۔۔۔ شادی وادی تو بلاوجہ کی ذمہ داری ہوتی ہے خیر میری چھوڑو تم یہ بتاؤ تم نے مجھے یہاں پر کس لیے یاد کیا ہے کوئی خاص کام تھا کیا"

آج صبح معظم کو احتشام کا میسج موصول ہوا تھا اس نے معظم کو ملنے کے لیے کہا تھا اس وقت وہ دونوں ایک دھابے پر موجود کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے


"ہاں کام تو پڑ گیا تھا اور کام بھی کچھ خاص ہی سمجھ لو مگر پہلے تم بتاؤ تمہارا گھر کا مسئلہ حل ہوا یا نہیں"

احتشام اپنے سامنے بیٹھے ہوئے معظم سے پوچھنے لگا


"کیا یار کوئی ایسی شرفا خاتون نہیں مل رہی ہے تو مجھ جیسے غریب آدمی کو دو گھنٹے کے لئے ہی سہی اپنا بیٹا بنالے۔۔۔ مالک مکان کو ایڈوانس کرایہ پر دے چکا ہوں تبھی وہ خاموش بیٹھا ہوا ہے ورنہ کب کا مجھے اپنے مکان سے نکال کر فارغ کر چکا ہوتا۔۔۔ تم اس مسئلہ کو چھوڑو یہ بتاؤ تم نے مجھے کس مسئلہ کے لئے یہاں بلایا ہے"

معظم اسموکنگ موم کرتا ہوا اپنی پریشانی بتا کر احتشام سے اس کا مسلئہ پوچھنے لگا جس کی وجہ سے وہ اپنا ایک بہت ضروری کام چھوڑ کر احتشام کے یہاں بلانے پر آیا تھا


"میرا ایک قریبی دوست ہے دو ماہ سے وہ خاصا پریشان ہے پھر تم سے ملاقات ہوئی تو تم نے اپنی پریشانی کا بتایا۔۔۔ یونہی میرے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا ہے کیوں نہ تم دونوں کے مسئلے کا حل اس طرح تلاش کروں کہ دونوں کے مسئلہ ہی ختم ہو جائے"

احتشام اسے فوری طور پر اپنا مسئلہ نہیں بتا پایا اس لئے دوست کا کہہ کر معظم سے بولا۔۔۔ معظم مزید اس کے بولنے کا انتظار کرنے لگا


"دراصل دو ماہ پہلے میرے دوست نے غصّے میں آکر اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور اب وہ اپنی اس بے وقوفی پر سخت پچھتا رہا ہے اور اپنی بیوی سے دوبارہ رشتہ قائم کرنا چاہتا ہے"

احتشام سوچ کر لفظوں کا انتخاب کرتا ہوا بول رہا تھا جبکہ معظم اسموکنگ کرتا ہوا غور سے اس کی بات سنتا ہوا بیچ میں بولا


"مگر یہ تو تمہارے دوست کا ذاتی مسئلہ ہے اس سے میرا کیا تعلق"

معظم بات کے دوران میں ہی نا سمجھنے والے انداز میں احتشام سے پوچھنے لگا تو کچھ دیر بعد احتشام پھر سے بولا


"یہ مسئلہ واقعی میرے دوست کا ہے لیکن اس کا تعلق تم سے ایسے جڑ سکتا ہے کہ تم اس کی بیوی سے اگر حلالے کے لئے۔۔۔

احتشام ابھی پوری بات بول بھی نہیں پایا تھا معظم نے منہ سے سیگرٹ کا ٹکڑا نکال کر دور پھینک دیا اور زور سے ٹیبل پر ہاتھ مارا جس سے نہ صرف آس پاس کے لوگ متوجہ ہوئے بلکہ احتشام بھی اس کا ری ایکشن دیکھ کر گھبرا گیا


"کیا سوچ کر یہ بات کی ہے تم نے مجھ سے،، سمجھ کیا رکھا ہے تم نے مجھے"

معظم احتشام پر بگڑتا ہوا بولا


"معظم میری بات ٹھنڈے دماغ سے سوچو،، دیکھو نکاح نامہ ایک ٹھونس ثبوت ہے جسے تم اپنے مالک مکان کو دکھا کر اپنا مسئلہ حل کر سکتے ہو۔۔۔ بیوی کے ساتھ ساتھ نکاح نامہ دیکھ کر تمہارا مالک مکان مطمئن ہو جائے گا اور میرا دوست اِس کام کے لیے کسی دوسرے پر اعتبار نہیں کر سکتا۔۔۔ اس طرح اس کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور تمہاری بھی اپنے مالک مکان سے جان چھوٹ جائے گی"

احتشام آرام سے اپنے فائدے کے ساتھ معظم کو اس کے فائدے کی بات بتانے لگا جس پر معظم کے چہرے کے بگڑے ہوئے زاویے درست ہوئے


"ویسے اگر تمہارا دوست اتنا ہی پریشان ہے تو تم بھی اپنے دوست کہ اس مسئلہ کو حل کر سکتے ہو"

معظم آنکھیں سکھیڑ کر احتشام کو دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا


"میں،،، میں کیسے اس کا مسئلہ حل کر سکتا ہوں ایسا ممکن نہیں ہے" احتشام ایک دم گڑبڑاتا ہوا معظم سے بولا احتشام نے اس بارے میں سوچا ہی نہیں تھا کہ معظم اس سے یہ سوال بھی کر سکتا ہے


"تمہارے اس طرح گھبرانے سے میں کیا مطلب سمجھو احتشام،، مجھے صاف اور کھری بات بتاؤ یہ مسئلہ واقعی تمہارے دوست کا ہے یا پھر تمہارا"

معظم غور سے احتشام کا چہرہ دیکھتا ہوا پوچھنے لگا


"تم صحیح سمجھے ہو، میں واقعی کافی دنوں سے تلاش میں تھا جو میرا یہ مسئلہ حل کر سکے"

احتشام بولتے ہوئے شرمندگی کے مارے معظم سے نظریں نہیں ملائی تھی


بے شک سندیلا اس کو انکار کرچکی تھی مگر احتشام خود بھی جانتا تھا سندیلا اپنے بھائی کے گھر میں کس طرح زندگی گزار رہی ہوں گی۔۔۔ وہ اس کے بھائی اور بھابھی کی نیچرل سے اچھی طرح واقف تھا۔۔۔ احتشام کو اچھی طرح اندازہ تھا وہ دوسری اور تیسری بار سندیلا کے پاس جا کر اس سے بات کرے گا تو وہ اپنے حالات کو دیکھتے ہوئے راضی ہو جائے گی


*****


"بلال واپس رکھ دو اس شرٹ کو، یہ خاص کر میں حسان کے لئے لائی ہو،، تم باقی ان دونوں شرٹ میں سے اپنے لئے کوئی بھی چوز کرلو"


"بیٹا کیسی باتیں کر رہے ہو تم، کوئی اس طرح اپنے بھائی سے لڑتا ہے۔۔ اس بیڈمنٹن میں ایسی کیا بات ہے جو تم نے اس کے پیچھے اپنے بڑے بھائی کا موڈ خراب کر دیا۔۔ جاؤ شاباش یہ بیڈمنٹن حسان کو دے کر آؤ میں رفیق سے کہہ کر اپنے بیٹے کو اس سے بھی زیادہ اچھا بیڈمنٹن منگوا دوں گی"


"بلال تمہیں کچھ آتا جاتا بھی ہے۔۔۔ حسان کو دیکھو کتنی اچھی ڈرائنگ ہے اس کی،، معلوم نہیں تم نے یہ کون سے نقش و نگار بنا دیے ہیں پیپر پر۔ ۔۔ کچھ اپنے بڑے بھائی سے بھی سیکھ لو"


اس وقت کمرے میں مکمل اندھیرا تھا وہ راکنگ چیئر پر بیٹھ کر ہاتھ میں پکڑی ہوئی پسٹل کو اپنی پیشانی کے اوپر رکھے بچپن کی تلخ یادیں سوچ رہا تھا۔۔۔ اس کی اپنی سگی ماں ہی نہیں اس کے باپ نے بھی ہمیشہ حسان کو اس کی ذات پر ترجیح دی تھی


"تم نے حسان پر ہاتھ اٹھایا"


"پہلے حسان نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر مجھے مارا تھا،، آپ اس کو بھی یہاں اپنے روم میں بلوا کر پوچھیں"


"تم میرے باپ نہیں ہوں جو مجھے حکم دے رہے ہو کہ مجھے حسان سے پوچھنا چاہیے کہ نہیں۔۔۔ وہ تمہارا بڑا بھائی ہے تمھیں اس پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا جاؤ اس کے کمرے میں اور جا کر معافی مانگو اس سے"


"میں اس سے ہرگز معافی نہیں مانگوں گا بابا، آپ اسے یہاں بلا کر سمجھا دیں کہ اگر اب کی بار اس کا مجھ ہر ہاتھ اٹھا تو بدلے میں، میں اس کا سر پھاڑ دوں گا"


بلال کے بولنے پر اس دن جویریہ نے زور دار تھپڑ بلال کے منہ پر مارا تھا


"سر پھاڑو گے اپنے بڑے بھائی کو بولو جواب دو۔۔۔ یہ تربیت کی ہے میں نے تمہاری،، تم جب تک حسان سے معافی نہیں مانگوں گا تب تک مجھے امی کہہ کر مت پکارنا"


"امی میں زینش کو پسند کرتا ہوں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں کتنے ہی سال گزر گئے اپنی خواہشوں کا گلا دبائے ہوئے مگر یہ خواہش ایسی ہے کہ جسے میں چاہ کر بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔۔ آپ پلیز حسان کو سمجھائیں وہ میرا بڑا بھائی ہے میری پسند دیدگی کو دیکھتے ہوئے وہ سمجھ جائے گا۔۔۔ اور آپ کی تو وہ ویسے بھی کوئی بات نہیں ٹال سکتا ہے،، آپ کے کہنے سے شہنیلا آنٹی بھی مان جائیں گی۔۔۔ صرف ایک آپ ہی ہے جس کی وجہ سے زینش میری زندگی میں آ سکتی ہے"

ابھی تھوڑی دیر پہلے اس نے جویریہ سے بہت امید بھرے لہجے میں یہ بات کہی تھی


"تمہیں شرم نہیں آرہی اس لڑکی پر نظر رکھتے ہوئے جو تمہارے بھائی کی پسند ہے جس سے تمہارا بڑا بھائی شادی کرنے والا ہے۔۔۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے تم نے اپنی اس فضول سی خواہش کا ذکر میرے سامنے کیا ہے، حسان کے سامنے نہیں ورنہ اس کے ذہن پر کیا اثر پڑتا۔۔ خبردار بلال اگر اب تم نے اس بات کو دوبارہ اپنے منہ سے نکالا یا پھر ایسا کچھ بھی سوچا تو۔۔ حسان تم سے بڑا ہے لیکن اپنا منہ بند رکھ کر اب بڑے پن کا ثبوت تم دو گے ورنہ میں تمہیں مرتے دم تک معاف نہیں کروں گی"

تھوڑی دیر پہلے جویریہ بلال کو اچھی طرح سنا کر اس کے کمرے سے جا چکی تھی تب سے بلال کے دماغ میں ماضی کی یادوں کے ساتھ ساتھ مختلف سوچ بھی جنم لے رہی تھی


اسے خود زینش سے کوئی امید نہیں تھی کی وہ اس کا ساتھ دیتی وہ تو اس سے پیار ہی نہیں کرتی تھی۔۔۔ پھر اس نے کیوں آخر ایسی لڑکی سے اتنی زیادہ محبت کر لی کہ زینش کے علاوہ اسے کچھ اور سوچا ہی نہیں جا رہا تھا۔۔۔


کیا کرنا چاہیے تھا اسے،، کیا اس پسٹل سے اسے خود کو ختم کر لینا چاہیے تھا یا پھر اس کانٹے کو جو ہمیشہ ہی اس کی راہ میں حائل رہا ہے


راکنگ چیئر پر بیٹھا ہوا وہ مختلف سوچیں سوچنے لگا۔۔۔ اس کا دماغ زینش کی طرف چلا گیا بلال کو وہ وقت یاد آیا جب وہ بے ہوشی میں اسے چند باتیں ایسی بتائی گئی تھی جسے سن کر وہ خود شاکڈ تھا،، وہ یہ باتیں کبھی زندگی میں زینش پر یا کسی دوسرے پر ظاہر نہیں کرسکتا تھا۔۔۔ کیا حسان یہ سب کچھ جان کر زینش کو اپنی بیوی کے طور پر قبول کر لیتا۔۔۔ وہ اپنے بھائی کی نیچر بھی اچھی طرح جانتا تھا


****


"یہ سب کیا ھو رہا ہے زینش، مجھے تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تم نے حسان کے لیے حامی کیسے بھر لی آخر"

خوشی کو جیسے ہی حسان اور زینش کی شادی کی خبر ملی تو وہ پہلی فرصت میں زینش کے پاس دوڑی چلی آئی زینش اسے اب تک کی ساری صورتحال بتا چکی تھی


"بتایا تو ہے سب کچھ اچانک ہوا ہے، جویریہ آنٹی اور ماما نے سب کچھ پہلے سے طے کیا ہوا تھا مجھ سے تو جویریہ آنٹی نے اچانک سب کے سامنے پوچھا تو میں کیا کہتی وہاں پر سب ہی خوش تھے اس لیے حامی بھر لی"

زینش اطمینان سے خوشی کو سب کچھ بتانے لگی اور خوشی کو اسکے اطمینان پر حیرت ہوئی


"اچھا تو یعنی بلال بھی خوش تھا تمہارا اقرار سن کر وہاں پر"

خوشی زینش کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی


"بلال کی حرکت ابھی بتائی تو ہے میں نے کس طرح غصہ کر کے اور دھمکی دے کر گئے ہیں مجھے یہاں میرے کمرے میں آ کر"

زینش خوشی کو بتا کر سر جھٹک کر اٹھی اور وارڈروب سے اپنے کپڑے نکالنے لگی


"غصہ تو کرے گا نا زینش تم سے پیار جو کرتا ہے اتنا، اور تم خود بھی تو پیار کرتی ہوں اس سے پھر کیوں کر رہی ہو تم اپنے اور اس کے ساتھ ایسا"

خوشی اب زینش کو دیکھ کر فکر مند لہجے میں اس سے پوچھنے لگی زینش اپنا سلیکٹ کیا ہوا ڈریس بیڈ پر رکھتی ہوئی حیرت سے خوشی کو دیکھنے لگی


"کیا ہو گیا ہے تمہیں خوشی میں نے کب کہا کہ میں پیار کرتی ہو بلال سے میں نے کب ایسا کہا تم سے"

زینش کی باتیں سن کر خوشی اس کے سامنے آ کر کھڑی ہوئی


"جب تم بلال کی باتیں مجھ سے شیئر کرتی تھی تمہاری آواز، تمھاری آنکھیں، تمہارے ہر انداز سے صاف ظاہر ہوتا ہے وہ تمہارے لیے باقی سب سے اہم ہے کیا اس بات کو نہیں مانوں گی تم"

خوشی کی بات سن کر زینش اس سے نظریں چرا گئی


"ایسی کوئی بات نہیں ہے خوشی معلوم نہیں تمہیں ایسا کیوں محسوس ہوا"

زینش بولتی ہوئی بیڈ سے اپنے کپڑے اٹھانے لگی


"تو پھر جب بلال نے میری اور تمہاری باتیں سن لی تھی اس کے ہرٹ ہونے پر اتنا پریشان کیوں ہو رہی تھی تم،، رات کے پہر اس کے کمرے میں اس سے معافی مانگنے کیوں چلی گئی تھی تم"

خوشی نے اس کے ہاتھ سے کپڑے لے کر دوبارہ بیڈ پر پھینکے۔۔۔ زینش لمبا سانس کھینچ کر خوشی کو دیکھنے لگی


"پریشان اسی وجہ سے ہو رہی تھی کیونکہ ان کو میری ذات کی وجہ سے تکلیف پہنچی تھی لیکن پھر انہوں نے اپنے کمرے میں جو میرے ساتھ سلوک کیا یہ"

زینش اپنے ہاتھ کی ہتھیلی سامنے کرتی ہوئی بولی جس پر زخم کافی حد ٹھیک ہو چکا تھا


"اگر اس نے تمہیں غصے میں درد دیا ہے تو تم اس کا بدلہ بلال سے اس طرح لے رہی ہو، بہت غلط کر رہی ہو تم زینش"

خوشی افسوس کرتی ہوئی زینش کو دیکھ کر بولی


"اپنے کزن کی سائیڈ لینا بند کر دو جس انداز میں وہ یہاں میرے کمرے میں آ کر مجھے دھمکیاں لگا کر گئے ہیں ناں اس طرح کوئی لڑکی ان کی طرف مائل نہیں ہوسکتی"

زینش آنکھیں دکھاتی ہوئی خوشی سے بولی


"میں صرف اپنے کزن کی سائیڈ نہیں لے رہی ہو پاگل لڑکی تمہاری سائیڈ بھی لے رہی ہو تم اپنی خود کی فیلنگز کو اس وقت سمجھ نہیں پا رہی ہو"

خوشی اپنی اس دوست کی عقل پر ماتم کرتی ہوئی بولی


"خوشی فضول باتیں کرکے مجھے کنفیوز نہیں کرو ماما کو جلدی واپسی کرنا ہے اس سے پہلے ہی وہ میری شادی کر دینا چاہتی ہیں۔۔ اور تم ایسی باتیں کرکے میرا بھی مائنڈ ڈسٹرب کر رہی ہو"

زینش خوشی کی بات پر اسے ٹوکتی ہوئی بولی تو خوشی خاموش ہوگئی


جو ہو رہا تھا وہی بہتر تھا۔۔۔ ایسا نہیں تھا کہ زینش بلال کی محبت سے انجان تھی لیکن وہ اپنے لیے بلال کی آنکھوں میں صرف محبت نہیں دیوانگی بھی دیکھ چکی تھی۔۔۔ جو آگے چل کر اس کے اور بلال دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی،، جو دو سال پہلے اس کے ساتھ ہوا تھا۔۔۔ وہ اسکا خود کا راز تھا جس سے وہ کسی پر بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اگر آگے جاکر اس کے راز کا علم مستقبل میں بلال کو ہوجاتا تو وہ کیا ری ایکٹ کرتا،، زینش ابھی سے اس کی جنونی طبیعت سے اندازہ لگا چکی تھی۔۔۔


بلال کے مقابلے میں حسان ہی اس کے لیے بہتر تھا۔۔ وہ بات کو تحمل سے سمجھنے والا،، جذبات کی بجائے دماغ سے سوچنے والا۔۔ نرم مزاج خوش اخلاق،، اگر اس کو کھبی اگے زندگی میں اس کے ماضی کی سُن گُن لگ بھی جاتی۔ ۔۔ تو وہ وقت اور حالات کو دیکھتے ہوئے زینش کو سمجھتا


****

"سندیلا۔۔۔۔ سندیلا یہ کیا حماقت کی ہے تم نے، جب سب کچھ طے ہوچکا تھا اور کل تمہارا نکاح ہونا تھا تو کیوں تم نے انوار صاحب کو فون کرکے انکار کیا نکاح سے"

انیس دندناتا ہوا سندیلا کے کمرے میں آیا اور غصے میں سندیلا سے پوچھنے لگا


"انوار صاحب کو میں نے فون نہیں تھی بلکہ ان کی کال خود میرے نمبر پر آئی تھی۔۔۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کے اور آپ کے درمیان جو ڈیل طے پائی گئی ہے اس سے میں لاعلم ہوں،، وہ لا علمی میں اس ڈیل کا ذکر مجھ سے کر چکے جسے سن کر مجھے نہایت افسوس ہوا اور میں نے نکاح سے انکار کر دیا"

سندیلا بے خوف ہو کر انیس کے سامنے بولی اور ڈیل کا ذکر سن کر وہ شرمندہ ہوگیا مگر جب سب کچھ سندیلا کو پتہ چل چکا تھا تو پھر شرمندہ ہونے کے باوجود انیس سندیلا کو سمجھانے لگا


"دیکھو سندیلا تحمل سے میری بات سنو ہر کسی نے اتنا ظرف نہیں ہوتا کہ دوسرے کی اولاد کو اپنی اولاد سمجھ کر پالے مگر انوار صاحب بھلے انسان ہیں۔۔۔ معاہدے کے تحت تمہاری بیٹی یہی میرے اور وردہ کے پاس رہے گی۔۔۔ وہ ہر ماہ انوار صاحب اچھی اماؤنٹ تمہاری بیٹی کے لیے خرچہ کے طور پر بھیج دیا کریں گے جس سے اس کی اچھی کفالت ہو سکے گی۔۔۔ تمھاری بیٹی کے سگے باپ کو تو اس بات کا خیال تک نہیں آیا۔۔۔ انوار صاحب تو پھر تمھاری وجہ سے اتنا ظرف دکھا رہے ہیں۔۔۔ سندیلا یہ اچھا موقع ہے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرو میں اور وردہ غیر تو نہیں ہے ہم ماں باپ بن کر پال لیں گے تمہاری بیٹی کو"

انیس سندیلا کو آرام سے ساری باتیں سمجھ آنے لگا۔۔۔ سندیلا کے کمرے میں انیس کی آواز سن کر وردہ بھی آچکی تھی اور بالکل خاموش کھڑی تھی سندیلا کو ان دونوں کو دیکھ کر آج کافی دکھ ہوا


"موقع سے فائدہ اٹھانا تو واقعی انیس بھائی کوئی آپ سے سیکھے، ایک امیر بوڑھے انسان سے آپ اسی لئے میرا نکاح کروا رہے ہیں تاکہ اس کے بدلے ہر ماہ آپ کو ایک اچھی رقم مل سکے۔۔۔ آپ بیچ میں مت بھولیے گا بھابی، میں اپنے بھائی سے بات کر رہی ہو"

وردہ نے اچانک بیچ میں بولنا چاہا تو سندیلا نے سخت لہجے میں انگلی اٹھا کر وردہ کو ٹوکا اور دوبارہ اپنا رخ انیس کی طرف کیا


"یہ جو بستر پر میری بیٹی سو رہی ہے دو ماہ ہو چکے ہیں اسے پیدا ہوئے، اس کا نام جانتے ہیں آپ،، جواب دیں۔۔۔ آپ میں یا بھابھی میں تو اس بے ضرر ذات کے لیے اتنی دلچسپی نہیں ہے کہ آپ کو اس کا نام بھی معلوم ہو،، پرورش کریں گے آپ اس کی،، آپ نے یا پھر آپ کی بیوی نے کبھی ایک بار بھی پیار سے دیکھا ہے اس کی طرف۔۔۔ آپ غیر نہیں ہے میرے اپنے ہیں مگر آپ جیسے اپنوں سے واقعی وہ غیر انسان بہتر ہے جو مجھ سے شادی کے بدلے ہر ماہ اپنی دولت میں سے زکوۃ یا خیرات کے پیسے آپ لوگوں کے منہ پر مارنے کے لیے تیار ہوگیا ہے مگر میں اپنی بیٹی کو صدقہ خیرات یا پھر کسی کی دی ہوئی بھیک سے پلتا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔۔۔ میں جانتی ہوں،، میں اور میری بیٹی دونوں ہی بدقسمت ہیں نہ اس کے باپ کو اس سے محبت ہے اور نہ میرے سگے بھائی کو مجھ سے محبت رہی ہے۔۔۔ ہانی اور شانی دونوں بیٹے جگر کے ٹکڑے ہیں ناں آپ دونوں کے،، ان سے آپ دونوں الگ ہو کر جی سکتے ہیں نہیں ناں، تو پھر آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ میں اپنی بچی سے الگ ہو کر جی پاؤ گی۔۔۔ بچا ہی کیا ہے میرے پاس اس کے علاوہ،، ایک بار آپ نے انوار صاحب سے میرا سودا کرتے ہوئے نہیں سوچا کہ جب آپ کی ڈیل کے بارے میں مجھے پتہ چلے گا تو مجھے کس قدر دکھ ہوگا"

بولتے ہوئے سندیلا کی آواز سے روندھنے لگی مگر اس نے آنکھوں سے آنسوؤں کو باہر نہیں آنے دیا


"اپنی بہن کے ایموشنل ڈائیلاگز سن کر موم بتی بننے کی ضرورت نہیں ہے انیس،، خبردار جو آپ ذرا سا بھی پگھلیں اور تم۔۔۔ ساری زندگی میں تمہیں یا تمہاری اولاد کو اپنے سر پر نہیں ناچنے دو گی۔۔ کل تمہیں ہر حال میں اس گھر سے رخصت ہونا ہے یا تو انوار صاحب کے ساتھ،، نہیں تو دوسرا کوئی ٹھکانہ اپنے لیے خود تلاش کر لو"

وردہ چھبتی ہوئی نظروں سے سندیلا کو دیکھتی ہوئی بولی


"کل تک کی مہلت دے کر مجھ پر احسان کرنے کی ضرورت نہیں ہے بھابھی میں آج ہی آپ کے اس گھر سے چلی جاتی ہو"

سندیلا وردہ کو طنزیہ بولی اور اپنا موبائل اٹھانے لگی


"کہاں جاؤں گی تم"

انیس سندیلا کو دیکھ کر بولا جو موبائل پر کوئی نمبر ملا رہی تھی


"واپس احتشام کے پاس"

سندیلا نے انیس کو دیکھے بغیر مختصر جواب دیا اور موبائل اپنے کان پر لگایا


"پاگل ہو گئی ہو تم اس بغیرت انسان کے پاس واپس جاؤ گی جس نے تمہیں طلاق دے کر آدھی رات کو اپنے گھر سے نکال دیا واپس رکھو اپنا موبائل"

انیس سندیلا کو دیکھ کر غصہ کرتا ہوا بولا


"انیس آپ بیچ میں مت بولیں وہ جو کر رہی ہے اپنی مرضی سے خود کے لیے کر رہی ہے،، آپ نے اس کو جانے سے روکا تو پھر میں بچوں کو لے کر ادھر سے چلی جاؤ گی،، نہیں کر سکتی میں تاعمر سب کی چاکریاں۔۔۔ کتنی مشکلوں سے ساس سسر سے جان چھٹی ہے تو یہ واپس آکر بیٹھ گئی"

وردہ غصے میں بڑبڑاتی ہوئی سندیلا کے کمرے سے نکلی اس کے پیچھے انیس وردہ کو پکارتا ہوا باہر نکلا


احتشام کے موبائل پر بیلز جا رہی تھی مگر وہ کال ریسیو نہیں کر رہا تھا کافی دیر بعد اس نے سندیلا کی کال ریسیو کی


"سندیلا کیسی ہو سب خیریت تو ہے نا۔۔۔ میں جانتا تھا تم مجھ سے کانٹیکٹ ضرور کرو گی میں آفس کے کام میں تھوڑا سا پھنسا ہوا تھا اس لئے دیر سے کال ریسیو کی"

احتشام اس وقت آفس میں بزی تھا کافی دیر سے بچتے ہوئے موبائل پر اچانک اس کی نظر پڑی تو حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا وہ ایکسائیڈ ہو کر سندیلا کی آواز سنے بغیر اس سے بولنے لگا


"کیا آپ مجھے لینے کے لیے آسکتے ہیں ابھی اور اسی وقت"

سندیلا اس کی سب باتوں کے جواب میں احتشام سے پوچھنے لگی تو احتشام ایک دم خاموش ہو گیا اسے تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ سندیلا اتنی جلدی راضی ہو جائے گی


"اوکے میں آفس سے نکل رہا ہوں 15 منٹ میں پہنچتا ہوں تمہارے پاس"

کوئی دوسری بات کیے بغیر احتشام سندیلا سے بولا تو سندیلا نے کال کاٹنے کے بعد آنکھوں میں آئے ہوئے آنسوؤں کو صاف کیا،، جو نہ چاہنے کے باوجود اس کی آنکھوں سے نکل آئے تھے


ایک نظر اپنی سوئی ہوئی بیٹی پر ڈال کر اس نے الماری سے اپنا بیگ نکالا اور اپنے کپڑے اور اپنی بیٹی کا سارا سامان اس میں بھرنے لگی۔۔۔ ضروری ڈاکومنٹس، اپنی ساری جیولری پیسے رکھتے کے بعد وہ احتشام کا انتظار کرنے لگی۔۔۔ جبکہ دوسرے کمرے میں سے مسلسل انیس اور وردہ کے لڑنے کی آوازیں آ رہی تھیں تب اس کا موبائل بجنے لگا


"باہر آجاؤ میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں"

احتشام کی آواز سن کر اس نے ایک بار پھر کال کاٹی۔۔۔ ہینڈ بیگ کو کندھے پر لٹکانے کے بعد ایک ہاتھ سے اپنی بیٹی کو پکڑتی ہوئی،، دوسرے ہاتھ میں ہینڈ کیری لے کر وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی


"سندیلا میں آخری بار تم سے کہہ رہا ہوں رک جاؤ، یہ پاگل عورت ہے اس کی بکواس مت سنو۔۔۔ واپس اس شخص کے پاس جاؤ گی تو خاندان میں بہت بدنامی ہوگی اور اگر اب بھی تم نے میری بات نہیں مانی تو پھر میں تم سے ہر تعلق توڑ لوں گا"

انیس سندیلا کو جاتا ہوا دیکھ کر اپنے کمرے سے نکلتا ہوا بولا


"اب جس طرح کا آپ کا اور میرا تعلق رہ گیا ہے انیس بھائی اس کا جڑے رہنا یا ٹوٹنا برابر ہی ہے۔۔۔ اللہ کا آپ پر بڑا کرم ہے کہ اللہ نے آپ کو بیٹی نہیں دی ورنہ ہانی اور شانی اپنی بہن کے ساتھ یہی سلوک کرتے جو آپ نے میرے ساتھ کیا ہے تو آپ کو اور بھابھی کو بہت زیادہ دکھ ہوتا اور آج میں اوپر والے کا اور بھی شکر ادا کرتی ہو کہ امی ابو یہ دن دیکھنے کے لیے زندہ نہیں ہیں۔ ۔۔ اپنا خیال رکھیے گا"

سندیلا بولتی ہوئی گھر سے باہر نکل گئی


****


وہ گیٹ سے باہر نکلی تو احتشام اسی کا منتظر تھا سندیلا کو دیکھ کر گاڑی سے اترتا ہوا اس کے پاس آیا


"مجھے پورا یقین تھا تم میری جانب واپس دوبارہ پلٹو گی"

سندیلا سے ہینڈ کیری لیتا ہوا وہ فاتحانہ انداز میں مسکرا کر بولا اس کے لفظوں میں غرور کی جھلک دیکھ کر سندیلا خود بھی طنزیہ مسکرائی


"کسی دوسرے مرد کے ساتھ خود سے میرا نکاح کروانے کا پورا مائنڈ بنایا ہوا ہے آپ نے،، آپ کو خوش دیکھ کر آپ کے حوصلے پر داد دینی پڑے گی۔۔۔ دعا کریں اللہ مجھے بھی آپ جتنا حوصلہ دے"

سندیلا کی بات سن کر احتشام کے چہرے پر مسکراہٹ غائب ہو کر خجالت میں بدلی۔۔۔ وہ بناء کچھ بولے سندیلا کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولنے کے بعد ہینڈ کیری گاڑی میں رکھنے لگا


وہ جتنی دیر ڈرائیونگ کرتا رہا تھا سندیلا اپنی بیٹی کو سینے سے لگائے گاڑی سے باہر دیکھتی رہی،، وقفے وقفے سے اپنی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو صاف کرنے لگی۔۔۔ احتشام نے اس کے بعد اس سے کچھ بھی نہیں کہا بلکہ گاڑی لگثری ہوٹل کے اندر پارک کی وہاں ایک کمرہ بک کروایا سندیلا اور اس کا سامان لے کر ہوٹل کے کمرے میں آیا


"فی الحال ایمرجنسی میں تو ہوٹل میں ہی تمہارے لئے روم بک کروا لیا ہے کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا اکیلے رہ لوں گی نا"

وہ سندیلا کو ہوٹل کے کمرے میں لانے کے بعد اس سے پوچھنے لگا


"مسئلہ ہوا بھی تو کوئی مسئلہ نہیں ہے،، خود سے حل نہیں ہوا تو دوبارہ مجبوری میں آپ سے کانٹیکٹ کرلوں گی"

سندیلا اپنی بیٹی کو بیڈ پر لٹاتی ہوئی بولی،، پلٹنے لگی تو احتشام اس کے سامنے کھڑا تھا


"ویسے تو یہ کوئی دو نمبر چھوٹا موٹا ہوٹل نہیں ہے لیکن پھر بھی اگر تمہیں ذرا سی بھی کوئی پرابلم ہو فوراً کال کر لینا میں اسی وقت تمہارے پاس پہنچ جاؤں گا"

احتشام اس کا چہرہ دیکھتا ہوا نرمی سے کہنے لگا۔۔۔ جس کا سندیلا نے کوئی جواب نہیں دیا اور نہ ہی احتشام کی طرف دیکھا۔۔۔ وہ چاروں طرف نظریں دوڑا کر کمرے کا جائزہ لے رہی تھی،، احتشام نے سندیلا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما تب وہ احتشام کو دیکھنے لگی


"میں جانتا ہوں تم ابھی بھی مجھ سے ناراض ہی ہوگی،، کام ہی مجھ سے اتنا غلط ہوگیا تھا غصے اور بےوقوفی میں آکر۔۔۔ کیسے میں نے اتنا بڑا اور گھٹیا قدم اٹھا لیا جس پر میں خود پر کتنی ہی ملامت کرو کم ہے مگر میں یقین دلاتا ہو سندیلا آئندہ زندگی میں، میں تمہارا کھبی دل نہیں دکھاؤ گا۔ ۔۔ تمہیں کھونے کے بعد مجھے احساس ہوا ہے کہ تم میرے لیے کتنی معنیٰ رکھتی ہو"

احتشام سندیلا کا ہاتھ تھامے ہوئے بول رہا تھا مگر وہ اپنے دل کا کیا کرتی جو احتشام کی کسی بات پر یقین کرنے سے انکار کر رہا تھا۔۔ ہر در بند ہوچکا تھا اس پر، اپنے ہی بھائی کے گھر زندگی تنگ ہوچکی تھی۔ ۔۔۔ احتشام سے کانٹیکٹ کرتے ہوئے کس اذیت سے گزری تھی وہ، یہ اس کا دل ہی جانتا تھا


"ارینج کیا آپ نے کسی کو اس کام کے لیے"

سندیلا اس کی باتوں کو اہمیت دیے بغیر اپنا ہاتھ احتشام کے ہاتھ سے نکال کر اس سے پوچھنے لگی


"ہاں چند دن پہلے مجھے ایک پرانا دوست ملا تھا اسے سب حالات بتائے تو وہ تیار ہو گیا،، آج رات ہی اس سے بات کروں گا۔۔۔ کل یا پھر پرسوں ہی نکاح کا مرحلہ عمل میں آ جائے تو اچھا ہے۔۔۔ زیادہ دیر میں خود بھی نہیں کرنا چاہتا ہوں"

احتشام سمجھ چکا تھا کہ سندیلا اس سے کس بارے میں پوچھ رہی ہے۔۔۔ اس لئے تفصیل سے اس کو بتانے لگا۔۔۔ اتنے میں بیڈ پر لیٹی ہوئی اپنی بیٹی کی طرف احتشام کی توجہ گئی جو کہ بیڈ پر لٹانے کے بعد اب نیند سے جاگ چکی تھی،، احتشام نے بیڈ کی طرف آگے بڑھ کر اپنی بیٹی کو اٹھا لیا تو سندیلا غور سے احتشام کو دیکھنے لگی جس پر احتشام سندیلا کو دیکھ کر مسکرایا


"بہت پیاری ہے ماشاءاللہ ہماری بیٹی"

احتشام اپنی بیٹی کو گود میں اٹھاتا ہوا سندیلا کو دیکھ کر بولا


"شکر ہے آپ کو یاد آگیا کہ میرے علاوہ بھی اس کمرے میں کوئی اور وجود ہے جس کو میں اپنے ساتھ یہاں لے کر آئی ہو"

سندیلا کے طنزیہ لہجے پر احتشام سیریس ہو کر اسے دیکھنے لگا


"کیا ہوگیا یار سندیلا، تم یہ سمجھ رہی ہو کہ میں اسے اگنور کر رہا ہوں،، یہ اولاد ہے میری اس کو اور تمہیں واپس حاصل کرنے کے لیے تو۔۔۔ خیر جانے دو تم تو معلوم نہیں کب تک اپنا منہ بنا کر بیٹھو گی"

احتشام سندیلا کی بات کا برا مناتا ہوا اپنی بیٹی کو لے کر صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔


لیکن تھوڑی ہی دیر میں اس کی بیٹی اجنبی چہرے کو دیکھ کر رونے کی شکل بنانے لگی۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ روتی احتشام جلدی سے اسے واپس بیڈ پر لٹا کر سندیلا کو رات کو کال کرنے کا کہہ کر وہاں سے چلا گیا


****


آج عصر کے بعد حسان کے ساتھ زینش کا نکاح انجام پا چکا تھا اس وقت گھر کے لان میں ابٹن مائیوں کا فنکشن رکھا گیا تھا۔۔۔ کل بارات کا دن تھا، اس وقت سب خاندان والے دوست احباب اس فنکشن میں موجود تھے اسٹیج پر پرپل اور گرین کلر کے ڈریس میں حسان کے پہلو میں زینش کو لا کر بٹھایا گیا تھا


"ارے شہنیلا تم یہاں اور یہ اسٹیج پر تمہاری بیٹی زینش ہے ناں۔۔۔ جبھی میں کہو یہ حسان کی دلہن کچھ جانی پہچانی سی لگ رہی ہے"

شہنیلا وہاں سے گزر رہی تھی تب ٹیبل پر ایک عورت اس کی طرف متوجہ ہو کر بولی


"فرحت تم یہاں کیسے"

شہنیلا اپنے پرانے محلے کی فرحت کو وہاں دیکھ کر حیرت زدہ ہوئی تھی


"جویریہ کے شوہر رفیق بھائی سے دور کی رشتہ داری نکلتی ہے ہماری۔۔۔ یعنیٰ تمہاری بیٹی رفیق بھائی صاحب کی ہونے والی بہو ہے"

فرحت کے تعجب بھرے لہجے پر شہنیلا بنا کوئی جواب دیئے مسکرا کر خاموش ہوگئی اور فرحت سے معذرت کرتی ہوئی وہاں سے چلی گئی


دراصل فرحت اس کی دیوانی ثمرہ کی بہت قریبی سہیلی تھی۔۔۔ اس لئے شہنیلہ نے اس کو زیادہ منہ لگانا ضروری نہیں سمجھا۔۔۔ مگر شہنیلا یہ نہیں جانتی کہ فرحت حسان اور زینش کی اپنے موبائل سے تصویر لے کر ثمرہ کو بھیج چکی تھی


*****


پھولوں سے سجے ہوئے اسٹیج پر کافی گہما گہمی تھی۔۔۔ حسان کے سارے کزنز وہی پر موجود تھے۔۔۔ اور اسٹیج پر ہونے والی رسم کو انجوائے کر رہے تھے۔۔


اسٹیج سے کافی دور لان میں بلال کھڑا ہوا اسٹیج کی طرف ہی دیکھ رہا تھا اس کی نظریں اس وقت زینش پر ٹکی ہوئی تھی جو اس وقت نیچی نظریں جھکائے ہوئے خاموشی سے حسان کے برابر میں بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد بلال کی نگاہ حسان پر بھی جاتی، جو کہ آج صبح سے ہی اسے کافی خوش باش نظر آرہا تھا اور اس وقت بھی مسکرا کر اپنے دوست احباب اور رشتہ داروں سے مبارکباد وصول کر رہا تھا


حسان کے ساتھ ہی اس کی نظریں جویریہ کی طرف اٹھی جو کہ اسٹیج کے پاس ہی کھڑی ہوئی،، رشتے داروں کو رسم کرنے کے لئے بلا رہی تھی۔۔۔ وہ اس وقت کافی مصروف دکھ رہی تھی جیسے سارا کا سارا بوجھ اس کے کندھے پر لدھا ہو۔۔۔ بلال کی نظریں ایک بار پھر زینش پر ٹہر گئیں تو خوشی چلتی ہوئی بلال کے پاس آئی


"کیا دیکھ رہے ہو"

خوشی بلال کی نظروں کا تعاقب کرتی ہوئی بلال سے پوچھنے لگی۔۔۔ اتنا تو وہ آج زینش کے لئے خوشی محسوس نہیں کر رہی تھی جتنا وہ بلال کے لیے افسردہ تھی


"غلط سوال کیا ہے تم نے،، یہ پوچھو یہ سب دیکھ کر کیسا محسوس کر رہا ہوں"

بلال نے خوشی کی طرف دیکھے بغیر اسٹیج پر دیکھتے ہوئے کہا تو خوشی کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی


"بلال اب بھول جاؤں اسے"

خوشی کو اپنے اس کزن پر ترس آیا وہ بلال کو مشورہ دیتی ہوئی بولی


"ناممکن سی بات ہے یہ،، نہ میں اس کو بھول سکتا ہوں اور نہ ہی وہ بھول سکتا ہوں جو اس نے میرے ساتھ کیا"

بلال بے حد سنجیدہ لہجے سے بولنے لگا بے اختیار خوشی نے بلال کا ہاتھ پکڑا


"مت دو اس طرح اپنے آپ کو تکلیف۔۔۔ یہ، یہ کیا ہوا ہے ہاتھ پر دکھاؤ مجھے"

خوشی نے بولتے ہوئے بلال کے ہاتھ کی ہتھیلی اپنے سامنے کھولی جہاں پر موجود زخم سے خون رس رہا تھا۔۔ یا تو یہ نیا زخم تھا یا پھر پرانے زخم کو مزید گہرا کیا گیا تھا


"چھوڑو میرا ہاتھ خوشی،، یہ کیا بچپنا ہے جاؤ یہاں سے"

بلال خوشی سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر اسے بری طرح جھڑکتا ہوا بولا تاکہ وہ اس کے پاس چلی جائے


"میں بچپنا کر رہی ہو یا پھر یہ بچپنا ہے جو تم نے کیا ہے۔۔۔ نہیں چھوڑ رہی میں تمہارا ہاتھ،، کرسی پر بیٹھو میرے ساتھ آکر اور اب یہ آنکھیں مت دکھانا مجھے میں بالکل بھی تمہاری بات نہیں ماننے والی"

خوشی غصے میں بلال کو بولتی ہوئی اس کا ہاتھ پکڑ کر لان میں سب سے آخری والی کرسی پر بیٹھی اپنے کلچ میں موجود رومال بلال کے ہاتھ پر باندھنے لگی بلال کی نظریں اب بھی اسٹیج پر تھی جہاں اب رش چھٹ چکا تھا وہاں صرف زینش موجود تھی اور دو بیوٹیشنز اس کے دونوں ہاتھوں پر مہندی لگا رہی تھیں۔۔۔ جبکہ دوسرے سب لوگ ڈانس فلور پر ڈانس پرفومنس انجوائے کر رہے تھے


****


اس وقت سب گھر کے لان میں ڈنر میں مصروف تھے اسے بالکل بھوک کا احساس نہیں تھا تو خوشی زینش کو اس کے کمرے میں چھوڑ آئی تھی مہندی ابھی تک اس کے ہاتھوں پر گیلی تھی۔ ۔۔ زینش آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر خود کو دیکھ رہی تھی کہ اچانک لائٹ چلی گئی۔۔۔ اندھیرے میں اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا اس لئے وہ ویسے کی ویسے ہی کھڑی رہی اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا


"کون"

آنکھیں جب اندھیرے میں کچھ محسوس کرنے کے قابل ہوئی تو زینش کو لگا کہ آنے والے شخص نے کمرے کا دروازہ لاک کیا ہے


"حسان آپ ہیں نا"

وہ چلتا ہوا زینش کی طرف قدم بڑھا رہا تھا زینش اس سے پوچھنے لگی


تھوڑی دیر پہلے حسان زینش سے کہہ چکا تھا کہ رات میں وہ اس کے کمرے میں آئے گا لیکن زینش کو لگا تھا حسان نے یہ بات اس سے مزاقاً کی ہے لیکن آنے والے شخص کو دیکھ کر زینش سمجھ گئی تھی کہ وہ حسان ہی ہے جس سے اس کا آج مضبوط رشتہ جڑ چکا ہے


اس نے زینش کی پشت پر کھڑے ہوکر زینش کو دونوں کندھوں سے تھاما۔ ۔۔۔ آہستہ آہستہ وہ زینش کے بازوؤں پر ہاتھ پھیرتا ہوا کہنیوں تک لایا۔۔۔ اس کی جرت پر زینش کی سانسیں بند ہونے لگی۔۔۔ اسے حسان سے اس بے باکی کی توقع ہرگز نہیں تھی۔۔۔ زینش کو اپنے ہونٹوں پر اس کے انگوٹھے کا لمس محسوس ہونے لگا


"حسان"

آنکھیں بند کئے اس نے حسان کو پکارا۔۔۔ جس سے زینش کے ہونٹوں پر پھیرتا ہوا اس کا انگوٹھا وہی تھما۔۔۔ وہ زینش کے مزید قریب آیا اتنا کے زینش کی پشت اس کے سینے کو چھونے لگی۔۔۔ تب زینش اس کے لمس کو محسوس کرکے ایک دم چونکی


"ان ہونٹوں پر صرف ایک ہی نام اچھا لگتا ہے مجھے"

وہ اپنے ہونٹ زینش کے کان کے قریب لاتا ہوا بولا زینش پوری جان سے لرز گئی


"بلال"

زینش نے لڑکھڑاتے ہوئے اس کا نام پکارا


"گڈ، کافی سمجھدار ہو"

اس کا نام پکارنے پر بلال نے زینش کا رخ اپنی طرف کیا اور اسے اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا


"کیا کر رہے ہیں آپ بلال ہوش میں تو ہیں"

اندھیرا ویسے ہی کمرے میں برقرار تھا زینش اس کا گریبان پکڑتی ہوئی چیخ کر بولی مگر اس وقت گھر کے اندر کوئی بھی موجود نہیں تھا


"تمہیں تمہارے نکاح کی مبارک باد دینے آیا ہوں"

وہ زینش کے چہرے پر نرمی سے اپنے ہاتھ کی انگلیاں پھیرتا ہوا بولا جبکہ دوسرے ہاتھ نے ابھی بھی زینش کی کمر کو اپنی گرفت میں جھگڑا ہوا تھا


"چھوڑ دیں بلال پلیز مجھے چھوڑ دیں کیا ہوگیا ہے آپ کو"

وہ بلال کی گرفت میں مچلتی ہوئی،، بغیر اپنے حنائی ہاتھوں کی پرواہ کیے اسے اپنا آپ چھڑوانے لگی


"میں نے تم سے کہا تھا نہ کہ ان ہاتھوں پر صرف میرے ہی نام کی مہندی رچے گی۔۔۔ ہمت کیسے تمہاری آج یہ مہندی لگوانے کی"

اب وہ سختی سے زینش کا منہ دبوچ کر اس سے جواب طلب کر رہا تھا۔۔۔


"میں یہ مہندی ابھی اور اسی وقت اپنے ہاتھوں سے مٹا دو گی مگر آپ پلیز یہاں سے چلے جائیں"

زینش نے بولتے ہوئے قاعدہ اپنے مہندی لگے ہوئے ہاتھوں کو اپنے ہی کپڑوں سے رگڑنا شروع کر دیا۔۔ اندھیرا ہونے کے باوجود وہ بلال کی آواز سے اس کے غضب اور غصے کا اندازہ لگا سکتی تھی


"جا رہا ہوں میں اپنی محبت کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ کر شادی بہت بہت مبارک ہو تمہیں"

بلال اسے اپنی گرفت سے آزاد کرتا ہوا بولا مگر شادی کی مبارکباد دینے سے پہلے وہ اپنے ہاتھ پر باندھا ہوا رومال کھول چکا تھا۔ ۔۔ زینش کے چہرے پر اپنا ہاتھ رگڑتا ہوا وہ زینش کے کمرے سے باہر نکل گیا


زینش کو اپنے چہرے پر عجیب سے گیلے پن اور نمی کا احساس ہوا مگر وہ اتنی خوفزدہ تھی کہ فرش پر بیٹھ کر بری طرح سسکنے لگی،، تبھی کمرے کی لائٹ آن ہوئی وہ روتی ہوئی کمرے کا دروازہ لاک کرنے کے لئے آگے بڑھی مگر آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ کر خوف کے مارے اس کے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔۔۔ اس کے چہرے پر لگا ہوا بلال کے ہاتھ کا خون اور کپڑوں پر لگی ہوئی مہندی۔۔۔


مہندی پھیلنے سے اس کے ہاتھوں کا بری طرح حشر ہو چکا تھا اپنے کمرے کا دروازہ لاک کرنے کے بعد وہ اپنا حلیہ درست کرنے لگی


*****

"بھیا جی یہ دوسرا کرائے کا مکان لینے کی کیا وجہ ہے سمجھ میں نہیں آیا کچھ۔۔۔ کہیں بھابھی جی کی ڈیمانڈ پر تو یہ کرائے کا مکان نہیں لیا آپ نے"

کل رات احتشام کی کال پر،، پرسوں کا دن نکاح کے لیے ان دونوں نے تجویز کیا تھا۔۔۔ اس لئے آج ہی معظم نے پچھلے محلے کی بانسبت تھوڑے بہتر محلے میں ایک کرائے کا مکان لیا تھا جس میں ضرورت کا سارا سیکنڈ ہینڈ فرنیچر سیٹ کر کے پپو اور وہ ابھی ابھی فارغ ہوئے تھے


"اپنی استانی جی کو ان چوروں کے محلے میں رکھوں گا جہاں پر دن دہاڑے نشئی گھوم رہے ہوتے ہیں، ماحول کتنا خراب ہے اس جگہ کا،، صبح کا آغاز ہی محلے کی آنٹیوں اور باجیوں کی لڑائی جھگڑوں سے شروع ہوتا ہے۔۔۔ ایسے ماحول میں چھوٹی سی بچی کیا پرورش پائے گی۔۔ اور سب سے بڑا مسئلہ شادی کے بعد تجھے تھوڑی اپنے ساتھ چپکا کے رکھوں گا"

معظم پپو کو بولتا ہوا اسپلٹ ان کرنے لگا جوکہ سیکنڈ ہینڈ نہیں تھا۔۔۔ مگر پپو معظم کی آخری بات سن کر صدمے سے اسے دیکھنے لگا


"لوگ شادی کے بعد بدلتے ہیں بھیا جی آپ اپنی شادی سے پہلے ہی بدل گئے ہو۔۔۔ کیا ہو جائے گا اگر بیچارا سا پپو آپ کے گھر کے ایک کونے میں اپنی چارپائی رکھ کر سو جایا کرے گا۔۔۔ بھیا جی پلیز پپو کو اپنے اس گھر میں آنے کی اجازت دے دو،، قسم سے ہوٹلوں کا اور باہر کا کھانا کھا کر اب تو میرا پیٹ مجھے کوسنے اور بد دعائیں دینے لگا ہے"

ُپپو معظم سے منت سماجت کرتا ہوا بولا


"پپو سمجھا کر یار پرائیوسی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔۔۔ ویسے بھی تو اتنا بیچارہ ہرگز نہیں ہے جو رات میں چار پائی پر آرام سے پڑ کر سو جائے۔۔۔ میں تیرے اندر کے اس خبیث انسان سے اچھی طرح واقف ہوں جو میری شادی کی ہی رات کو بہانے بہانے سے میرے کمرے کے 10 چکر لگائے گا۔۔۔ صاف بات ہے بھائی اپنا تو ہوٹل کی بجائے گھر کے کھانے کا اور صاف ستھرے کپڑوں کی دھلائی کا انتظام ہونے لگا ہے۔۔۔ اب تو بھی اپنے لئے کوئی سگھڑ لڑکی دیکھ لے۔ ۔۔۔ اور ہاں یاد آیا کل آٹھ بجے نکاح کے وقت پہنچ جانا۔۔۔ ساتھ ہی چھواروں کی تھیلی بھی پکڑ لینا۔۔۔ جاتے وقت ذرا گھر کا دروازہ بند کر کے جانا"

معظم بیڈ پر چوڑا ہو کر لیٹتا ہوا پپو سے بولا اور پپو معظم کی بے مروتی پر بری طرح جل کر رہ گیا


"ٹھیک ہے ٹھیک ہے آنکھیں آپ پھیر رہے ہو مگر یہ پپو اتنا بھی بے مروت نہیں ہے کل میں ٹائم پر چھواروں لے کر پہنچ جاؤں گا اور آپ بھی کل ذرا اچھی طرح خوشبو والے صابن سے نہا دھو کر صاف ستھرے ہو جانا۔۔۔ چھ دن سے آپ نے ان کپڑوں کو اپنے تن سے الگ نہیں کیا ہے اگر ان کپڑوں کی زبان ہوتی تو یہ بھی منہ بھر بھر کر آپ کو دوائیاں دے رہے ہوتے"

پپو معظم کو شرمندہ کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔۔۔ مگر وہ معظم ہی کیا جس نے پپو کی باتوں کو سنجیدہ لیا ہو۔۔۔ وہ سکون سے آنکھیں بند کئے بیڈ پر لیٹا رہا


****


تمام ہتھیاروں سے لیس وہ سجی سنوری اسٹیج پر بیٹھی تھی،، پر جس نے بھی اس کے ہاتھ کی مہندی دیکھی تھی تو افسوس کیا تھا ہاتھوں کو فوراً دھونے کی وجہ سے اس پر رنگ نہیں چڑھا تھا اور سارا ڈیزائن الگ خراب ہوا تھا۔۔۔ کل رات جو رویہ بلال اس کے ساتھ اختیار کر چکا تھا اس کے لیے زینش اسے کبھی معاف نہیں کرنے والی تھی۔۔۔ بہت احساس کر لیا تھا اس نے بلال کا،، لیکن اب وہ یہ سارا قصہ آج رات ہی حسان سے شیئر کرنے کا ارادہ رکھتی تھی


حسان کی بار بار اپنی طرف اٹھتی ہوئی والہانہ نگاہیں حسان کا حالِ دل اس سے بیان کر رہی تھی۔۔۔ البتہ آج سارا دن بلال اسے کہیں بھی نظر نہیں آیا وہ اپنے آپ کو کمرے میں بند کئے ہوئے بیٹھا تھا


*****


"میں آپ کا دوست ہی ہوں سومرو صاحب۔۔۔ جبھی یہ ویڈیو اب تک میرے پاس محفوظ ہے آپ چاہیں تو یہ ویڈیو میں آپ کے حوالے بھی کر سکتا ہوں اتنا تو مجھے آپ کی دوستی کا خیال ہے۔۔۔ بس اس ویڈیو کو حاصل کرنے کے لئے تھوڑا بہت آپ کو بھی اپنے اس دوست کا خیال کرنا پڑے گا"

حسان بینکوئٹ میں موجود ایک طرف کھڑا ہوا موبائل پر کسی سے گفتگو میں مصروف تھا جب اسے دور سے بلال اپنی طرف آتا ہوا دکھائی دیا اس کے ساتھ ہی ایک مرد اور خاتون بھی تھی


"اچھا اس وقت تو اجازت دیں باقی باتیں ہم بعد میں طے لیتے ہیں۔۔ رقم آپ کب اور کتنی کس جگہ پر دیں گے یہ سب باتیں ہوتی رہیں گیں"

بلال حسان کے پاس آیا تو اس سے پہلے وہ کال بند کر چکا تھا


"کہاں غائب تھے یار صبح سے لگ نہیں رہا ہے تمہارے بھائی کی شادی ہے۔۔۔ مہمانوں کی طرح کل بھی سب سے آخری ٹیبل پر بیٹھے رہے سارا وقت"

حسان نے بلال کے قریب آتے ہی اس سے شکوہ کرنا شروع کردیا


"کہاں غائب ہونا ہے مجھے صبح سے ہی میں گھر میں موجود تھا خیر پہلے ان سے ملو یہ زینش کے چچا اور چچی ہیں مجھ سے ہمارے ہی گھر کا ایڈریس پوچھ رہے تھے تو میں ان دونوں کو یہاں پر لے کر آ گیا"

بلال جوکہ صبح سے اپنے کمرے میں موجود تھا جویریہ کے لاکھ قسمیں دینے پر یہاں آیا تھا۔۔۔ وہ سوچ چکا تھا آج کے بعد وہ زینش کی طرف دیکھے گا تک نہیں


"بہت بہت مبارک ہو بیٹا آپ کو،، ہمیں کل ہی معلوم ہوا کہ زینش کی شادی ہو رہی ہے تو سوچا بھائی کی آخری نشانی ہے کیو نہ اسے یہاں آکر مبارکباد دے دیں،، اس لیے چلے آئے۔۔۔ آپ تو بہت اچھے اور نیک انسان ہو،، ورنہ آج کل کے دور میں اتنا بڑا دل کس کا ہوتا ہے جو ایک ایسی لڑکی سے شادی کرلے جسے کالج سے دن دھاڑے اغوا کر لیا جائے اور بدسلوکی کرنے کے بعد اگلے ہی دن اسے گھر کے دروازے پر پھینک دیا جائے۔۔ میری بھتیجی کو اپنا نام دے کر آپ نے بہت ثواب کا کام کیا ہے اللہ آپ کو اس کا اجر ضرور دے گا"

زینش کے چچا احمد کی بات سن کر حسان کے ساتھ ساتھ بلال کے بھی ہوش اڑ گئے


"یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں،، آپ یہ سب باتیں کرنے آئے ہیں یہاں پر "

بلال ناگوار لہجے میں احمد کو دیکھتا ہوا بولا اگر اسے ذرا بھی اندازہ ہوتا۔۔۔ زینش کے چچا اور چچی یہاں آنے کے بعد حسان سے فضول گوئی کریں گے تو وہ کبھی بھی ان کو یہاں نہیں لے کر آتا۔۔۔ زینش کو لے کر اس کا دل کتنا ہی دکھا ہو مگر وہ اس کے چچا کی بات سن کر بھڑک گیا تھا


"تم خاموش رہو بلال۔۔۔ آپ کی ان سب باتوں کو کیا مطلب ہے آپ ذرا کھل کر بیان کریں"

حسان بلال کو ٹوکتا ہوا دوبارہ احمد کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔ بلال کی نظریں دور کھڑی ہوئی شہنیلا پر پڑی جس کے چہرے پر اس وقت اپنے دیور اور دیورانی کو دیکھ کر ہوائیاں اڑی ہوئی تھی وہ تیزی سے قدم اٹھاتی ہوئی ان لوگوں کی طرف ہی آ رہی تھی۔۔۔ جبکہ بلال کو دیکھ کر جویریہ پہلے ہی ان تک پہنچ چکی تھی


"کیوں بھئی اتنے حیران پریشان کیوں ہو کیا ان دونوں ماں بیٹیوں نے تمہیں کچھ بھی نہیں بتایا"

اب کی بار ثمرہ حسان کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی


"احمد ثمرہ تم دونوں یہاں پر کیا کر رہے ہو"

اس سے پہلے حسان کچھ بولتا شہنیلا آکر اپنے دیور اور دیورانی سے سخت لہجے میں پوچھنے لگی


"وہ تو میں تمہیں بعد میں بتاؤں گی جٹھانی صاحبہ پہلے ذرا تم اپنے ہونے والے داماد کو اپنی بیٹی کے ماضی کے بارے میں تو بتاؤ اور یہ بھی کہ رضوان کی موت کے پیچھے اصل وجہ کیا تھی کون سا ایسا صدمہ تھا جسے کی وجہ سے اس کا دل بند ہوا اور وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا"

ثمرہ کی باتیں سن کر شہنیلا کا رنگ فق ختم ہو چکا تھا


"آنٹی یہ لوگ کیا بول رہے ہیں آپ نے اتنی بڑی بات ہم لوگوں سے چھپائی"

حسان شہنیلا کا سفید پڑتا چہرہ دیکھ کر غصے اور افسوس سے پوچھنے لگا


"بیٹا میں تمہیں ساری حقیقت گھر چل کر بتا دوں گی"

شہنیلا حسان کے تیور دیکھ کر کمزور لہجے میں بولی وہ اگر یہاں پر کسی بھی بات سے مکر جاتی تو اچھی طرح جانتی تھی اس کے دیور اور دیورانی یہاں پر کتنا بڑا تماشہ کرتے


"ارے اس سے کیا پوچھتے ہو یہ تمہیں معلوم نہیں کون کون سے مظلومیت کے قصے سنا کر اپنے شیشے میں اتار لے گی۔۔ اپنی بیوی زینش سے پوچھنا وہی تمہیں اصل حقیقت بتائے گی"

ثمرہ حسان کو دیکھ کر بولی تو ایک دم بلال بول اٹھا


"آپ لوگ یہاں پر اپنے مرے ہوئے بھائی کی بیٹی کو شادی کی مبارکباد دینے آئے ہیں یا پھر آگ لگانے آئے ہیں۔۔۔ میرے خیال میں کافی کچھ تماشا یہاں پر ہو چکا ہے اس سے پہلے کہ اب لوگ متوجہ ہوں آپ دونوں ہی عزت کے ساتھ یہاں سے چلے جائیں"

بلال زینش کے چچا کو دیکھتا ہوا ناگوار لہجے میں بولا جبکہ جویریہ خاموش کھڑی سارا ماجرا دیکھ رہی تھی۔۔۔ حسان کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور ایک جا رہا تھا جبکہ شہنیلا بالکل شرمندہ کھڑی ہوئی تھی


"چلو بھئی نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا ایک تو ماں بیٹی کی اصلیت سامنے لے کر آئے ہیں اور یہ ہمیں ہی نکال رہے ہیں"

ثمرہ اپنے شوہر کو دیکھ کر مزید اونچی آواز میں بولی اور وہ دونوں ہی وہاں سے چلے گئے


"بہت افسوس کی بات ہے آنٹی آپ نے اتنی بڑی بات سے ہمیں لاعلم رکھا۔۔۔ امی میں گھر جا رہا ہوں آپ ڈرائیور یا پھر بلال کے ساتھ گھر آ جائیے گا"

حسان غصے میں شہنیلا کو بولنے کے بعد جویریہ کو گھر جانے کا بولتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔۔۔ شہنیلا کے لاکھ سمجھانے اور آواز دینے پر بھی وہ نہیں رکا جبکہ جویریہ شہنیلا کو شکوہ کناہ نظروں سے دیکھنے لگی


"میری بیٹی بے قصور ہے جویریہ وہ لوگ ساری سچی باتیں نہیں کر کے گئے پلیز ایک بار میری پوری بات سن لو"

شہنیلا آنکھوں میں نمی لاتی ہوئی بےبسی سے جویریہ سے بولی۔۔۔ جویریہ وہاں سے جانے لگی تو شہنیلا نے اس کے سامنے آکر رونا شروع کر دیا ڈوپٹے کی آڑھ میں اس کے اپنے سامنے جڑے ہوئے ہاتھ دیکھ کر جویریہ رک کر اس کی بات سننے لگی


****


کالج سے باہر نکلتے وقت اس کا مائینڈ فریش تھا کیو کہ آج اس کا آخری پیپر تھا جیسے ہی پیپر ختم ہوا اسے اپنے ناتواں کندھے سے کوئی بوجھ اترتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔ پوائنٹ انتظار میں وہ دوسری لڑکیوں کے ساتھ ہی کھڑی تھی تب اس کی نظر سامنے روڈ پر گئی


"وہ" آج بھی وہاں پر موجود نہیں تھا غیر ارادی طور پر زینش "اس" کو سوچنے لگی جو چند مہینوں سے کالج آف ہونے کے ٹائم پر سامنے روڈ پر اپنی بائیک پر موجود ہوتا۔۔۔ ایسا نہیں تھا کہ زینش "اس" کو جانتی نہیں تھی۔۔۔ "وہ" اسی کے محلے میں دو گلی چھوڑ کر رہتا تھا مگر اپنی جاب کی وجہ سے اکثر شہر سے باہر ہوتا۔۔۔ "اس" کے گھر میں اس کی ماں اور ایک بہن تھی جوکہ بچپن سے ہی چلنے پھرنے سے محروم تھی


"اس" نے زینش کو کبھی بھی مخاطب نہیں کیا تھا نہ ہی کبھی کوئی بات کی تھی۔۔۔ "وہ" بس کالج ختم ہونے کے ٹائم پر جب تک زینش پوائنٹ کے انتظار میں کھڑی رہتی،، وہاں پر موجود رہتا۔۔۔ البتہ زینش "اس" کی آنکھوں میں اپنے لیے پسنددیدگی واضح طور پر دیکھ چکی تھی مگر چند دنوں سے "وہ" زینش کو دکھائی نہیں دے رہا تھا


"اُف لعنت ہے"

اپنی سوچوں میں گم ہو کر اسے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کب وین آئی تمام لڑکیاں اور مسافر اس میں سوار ہوئے اور وین چلی گئی


اب اسے اگلے پوائنٹ کا انتظار کرنا تھا،، کوفت زدہ ہوکر وہ سوچتی ہوئی،، وہاں موجود اکا دکا مسافروں کو دیکھنے لگی۔۔۔ تبھی اچانک روڈ پر ایک گاڑی کے ٹائر چرچرائے،، کوئی تیزی سے گاڑی سے باہر نکلا اور ایک دم اس کے قریب آیا


"گاڑی میں بیٹھو"

سرخ آنکھیں اور پتھریلے لہجے کے ساتھ آج پہلی بار "اس" نے زینش کو مخاطب کیا تھا


زینش کی کسی بھی بات کا انتظار کیے بنا "وہ" زینش کا ہاتھ پکڑ کر اسے گاڑی میں بٹھا چکا تھا


*****


"کک۔۔۔ کیوں ل۔ ۔۔ا لائے ہو مجھے یہاں پر"

یہ کوئی چھوٹی سی کوٹھری تھی جہاں کاٹ کباڑ پڑا ہوا تھا۔۔۔ کافی دیر بعد "اس" نے زینش کے منہ پر بند پٹی کھولی تو زینش "اس" سے پوچھنے لگی


"تمہاری زندگی برباد کرنے کے لیے"

"وہ" عجیب سے انداز میں زینش کو دیکھ کر بولا "اس" کے منہ سے یہ جملہ سن کر زینش کے پورے جسم میں سنسنی پھیل گئی


"کک۔ ۔۔ کیا ملے گا تمہیں مجھے برباد کرکے پلیز مجھے جانے دو میری ماما اور پاپا میرا انتظار کر رہے ہونگے"

زینش "اس" کے سامنے روتی ہوئی بولی،، شام کے سائے گہرے ہو کر رات میں تبدیل ہو چکے تھے وہ جانتی شہنیلا اور رضوان اس کے لئے بے حد پریشان ہوں گے


"ساری زندگی تمہیں اپنے پاس نہیں رکھوں گا آج کی رات،، صرف آج کی رات تم یہی رہوں گی میرے پاس۔۔۔ صبح میں خود تمہارے گھر چھوڑ آؤ گا اور تم مجھ سے پوچھ رہی تھی نہ کہ تمہاری زندگی برباد کر کے مجھے کیا ملے گا،، سکون ملے گا مجھے،، جب تمہارا باپ تمہیں لٹی ہوئی اور اجڑی حالت میں دیکھے گا تب میرے کلیجے میں ٹھندک پڑے گی۔ ۔۔۔ چیخو چلاؤ اور ذور ذور سے رؤ"

"وہ" جنونی انداز میں بولتا ہوا زینش کو اس وقت نارمل نہیں لگا تھا۔۔۔ زینش خوفزدہ ہوکر "اسے" دیکھنے لگی "وہ" اس وقت اپنے پاکٹ سے موبائل نکال رہا تھا


"سمجھ میں نہیں آ رہا تمہیں،، کیا کہہ رہا ہوں رو زور زور سے چیخو"

"اس" نے زینش کو چیخ کر بولنے کے ساتھ ہی غصے میں اس کا دوپٹہ کھینچ کر دور پھینکا۔۔ زینش "اس" کے اس قدم پر واقعی خوفزدہ ہو کر چیخنے لگی


"پلیز ترس کھاؤ مجھ پر،، رحم کرو مجھ پر"

وہ روتی ہوئی بولی


"اسی طرح منتیں کرو میری بلکہ معافی مانگو گڑگڑاؤ میرے سامنے"

"اس" نے بولتے ہوئے زینش کی آستین پھاڑی جبکہ دوسرے ہاتھ میں "اس" کے موبائل تھا جس سے "وہ" زینش کی ویڈیو بنا رہا تھا


"میں تم سے معافی مانگتی ہوں خدا کا واسطہ ہے پلیز مجھے چھوڑ دو"

زینش "اس" کے سامنے روتی ہوئی اپنے برہنہ بازو دیکھ کر "اس" سے معافی مانگنے لگی مگر اب "اس" کا ہاتھ زینش کے گریبان پر تھا دوسرے ہاتھ میں ویسے ہی موبائل پکڑے وہ ویڈیو بنا رہا تھا


زینش کو نہیں معلوم تھا "وہ" اسے بےلباس کرکے،، اس کا تماشا بنا کر آگے اس کے ساتھ کیا کرنے والا تھا۔۔۔ آج سے پہلے زینش نے ہمیشہ "اس" کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت کے ساتھ احترام دیکھا تھا لیکن آج "وہ" حیوان بنا ہوا تھا۔۔۔ جب "اس" نے زینش کا گریبان چاک کرنے کی کوشش کی مگر اس سے پہلے ہی زینش بےہوش ہو چکی تھی


*****

"ایک منٹ قاری صاحب، معظم ذرا یہاں آ کر بات سننا"

اس وقت احتشام نکاح خواں اور گواہوں کے ساتھ معظم کے گھر پر موجود تھا۔۔۔ نکاح شروع ہونے سے قبل احتشام معظم کو بلا کر وہاں موجود افراد سے الگ ایک کونے میں لے گیا


"پہلے یہاں پر ان پیپرز پر سائن کر دو"

معظم کے آنے پر احتشام اس کے سامنے پیپرز رکھ کر معظم سے بولا


"کیا ہے ان کے پیپرز میں"

معظم نے پیپرز کی طرف ہاتھ بڑھائے بغیر سرسری نگاہ ڈال کر احتشام سے پوچھا


"ایگریمنٹ کے پیپرز ہیں مطلب جس مقصد کے تحت یہ نکاح عمل میں لایا گیا ہے،، اس کام کے عمل میں آنے کے بعد تم سندیلا کو خود طلاق دو گے"

معظم کی پوچھنے پر احتشام اسے بتانے لگا


"اور اگر میں ان پیپرز پر سائن نہیں کرو تو"

معظم آرام سے احتشام سے پوچھنے لگا تو ایک سیکنڈ کے لئے احتشام خاموشی سے اسے دیکھنے لگا اس کی سمجھ میں نہیں آیا وہ کیا بولے


"تمہارے اس انکار سے میں تمہاری بات کا کیا مطلب سمجھو"

احتشام معظم کو دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا لیکن احتشام کو پچھلی دو ملاقاتوں کی بانسبت آج معظم کے انداز بدلے ہوئے سے لگ رہے تھے


"سیدھی سی بات ہے ہم دونوں کے درمیان ان کانٹریکٹ پیپرز کا کوئی ذکر نہیں ہوا تھا تو اب تمہیں کون سے خدشات لاحق ہوگئے ہیں جس کے بنا پر تم مجھ سے ان پیپرز پر سائن کروا رہے ہو۔۔۔ اگر تمہیں میرا اعتبار نہیں ہے تو تم یہ نکاح کسی اور سے بھی پڑھوا سکتے ہو"

معظم کندھے اچکا کر احتشام کو بولا جس پر احتشام دانت پیستا رہ گیا


چند سیکنڈ پہلے دوسرے کمرے میں موجود سندیلا نکاح نامے پر سائن کر چکی تھی اب معظم سے وہ سے ان پیپرز پر زبردستی سائن کروا کر یا بحث میں پڑ کر بات نہیں خراب کر سکتا تھا اس لئے خاموشی سے واپس ڈرائنگ روم میں آکر کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔ جہاں پر نکاح خواں اور گواہ موجود تھے معظم کے وہاں آنے پر نکاح خواں پڑھانے کا آغاز کیا


*****


دو گھنٹے گزر چکے تھے اسے نکاح نامے پر سائن کیے ہوئے۔ ۔۔ ایک رات کے لیے کسی دوسرے کو اپنا شوہر بنا کر اسے اپنے قریب آنے کی اجازت دینا اسے دنیا کا سب سے مشکل کام لگ رہا تھا۔۔۔ حلالہ کروانا طلاق دینے والے مرد کے لیے سزا ہے۔ ۔۔ایسا اس نے سنا تھا لیکن اس عمل سے عورت کس کرب سے گزرتی ہے اس کا اندازہ نہ اس کا پہلا شوہر لگا سکتا ہے نہ ہی سابقہ شوہر۔۔۔ اس دن کا تصور تو کوئی لڑکی نہیں کر سکتی ہوگی جو دن آج اس کی زندگی میں آیا تھا


آج شام کے وقت احتشام کی کال اس کے پاس آئی تھی احتشام نے اسے ہوٹل سے آٹھ بجے پک کرنا تھا اس نے اپنا ایک ڈریس اور بچی کی چند ضروری چیزیں ایک بیگ میں رکھ لیں۔ ۔۔ آٹھ بجے جب احتشام نے اسے پک کیا۔۔۔ ڈرائیونگ کے دوران آج سندیلا کی طرح احتشام بھی بالکل خاموش تھا،، گاڑی ایک لور کلاس محلے کے آکر رکی سندیلا اپنی بیٹی کو سینے سے لگائے اس جگہ کو دیکھنے لگی


"صرف ایک ہی دن کی بات ہے"

سندیلا کے یوں دیکھنے پر احتشام نے اسے ہمت دلائی وہ الگ بات تھی احتشام نے "رات" کی بجائے "دن" کا لفظ استعمال کیا تھا


سندیلا سر پر دوپٹہ اوڑھے اپنا چہرہ چھپائے احتشام کے پیچھے تنگ گلیوں میں چلنے لگی۔۔۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی کہ احتشام کے دروازے بجانے پر اس گھر کا دروازہ کس نے کھولا۔۔۔ اسے بچی اور اس کے بیگ سمیت ایک کمرے میں پہنچا دیا گیا جو کہ ایک بیڈ روم تھا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد جب کمرے کا دروازہ بجا تو سندیلا نے اپنے دوپٹے کا گھونگھٹ نکال لیا،، تب اس کا معظم نامی شخص سے نکاح پڑھوایا گیا


تھوڑی دیر پہلے اس نے اپنی بیٹی کو سُلا کر کمرے میں موجود دائیں طرف رکھے بےبی کاٹ میں لٹا دیا تھا۔۔ اس کمرے میں موجود سب چیزیں استعمال شدہ لگ رہی تھی سوائے اس بے بی کاٹ کے،، جو کہ اسے بالکل نیا لگ رہا تھا سندیلا بیڈ پر بیٹھی ہوئی سوچ رہی تھی تبھی کمرے کا دروازہ کھلا،، کمرے میں داخل ہونے والی شخصیت کو دیکھ کر سندیلا حیرت کے مارے بیڈ سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی


"کیسے مزاج ہیں آپ کے آستانی جی"

معظم سب کو فارغ کرتا ہوا کمرے میں داخل ہوا حیرت ذدہ سی کھڑی سندیلا کو دیکھ کر بولتا ہوا،، وہ کمرے کا دروازہ بند کر کے چلتا ہوا اس کے قریب آیا


"تم"

سندیلا اپنے سامنے کھڑے اس موالی کو دیکھ کر اتنی زیادہ شاک تھی کہ اور کچھ اس سے بولا ہی نہیں گیا


"جی میں آپ کا شوہر معظم شفیق۔۔۔۔ جس نے دو گھنٹے پہلے ہی آپ کا شوہر بننے کا شرف حاصل کیا ہے"

معظم اس کے چہرے پر اڑتی ہوئی ہوائیوں کو دیکھ کر بولا اور ساتھ ہی سندیلا کو ہوش میں لانے کے لئے اس کا ہاتھ تھاما۔،۔۔ سندیلا اب حیرت سے معظم کے بعد اپنے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی جوکہ اس غنڈے کے ہاتھ میں تھا اور وہ اس کا شوہر بن چکا تھا


"کیا ہوا استانی جی لگتا ہے آپ اپنے شوہر کو دیکھ کر کچھ زیادہ ہی حیران ہو رہی ہیں،، اور اگر میں غلط نہیں ہوں تو تھوڑا بہت پریشان بھی ہو رہی ہیں"

معظم نے دیکھا جب سندیلا نے اس کے ہاتھ پکڑنے کا کوئی نوٹس نہیں لیا،، بس خاموشی سے اس کے ہاتھ کو دیکھ رہی ہے تو معظم غور سے سندیلا کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا


"تمہیں اپنے شوہر کے روپ میں دیکھ کر سوچ رہی ہوں اب مجھے حیران ہونا یا پریشان ہونا چھوڑ دینا چاہیے"

سندیلا نے آرام سے معظم کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالا اور بیڈ پر بیٹھتی ہوئی بولی۔۔۔ اب وہ دوبارہ خاموشی سے معظم کو دیکھ کر سوچنے لگی کہ احتشام اسے اپنا دوست کہہ رہا تھا تو کیا یہ بات احتشام کے علم میں تھی کہ وہ یو ایس بی اس رات اس کا یہی دوست لے کر گیا تھا


"غلط سوچ رہی ہیں آپ استانی جی مجھے شوہر کے روپ میں دیکھ کر سمجھ جائیں اب آپ کی زندگی میں حیرانگیوں کا آغاز شروع ہوا جاتا ہے ہاں یہ میں آپ سے وعدہ ضرور کرتا ہوں کہ آپ کو پریشان بالکل نہیں ہونے دوں گا"

معظم آنکھیں سکھیڑ کر بیڈ پر بیٹھی ہوئی سندیلا کو دیکھ کر بولا ساتھ ہی اس کے لب مسکرائے


"کیا مطلب ہے تمہاری بات کا، میں کچھ سمجھی نہیں"

سندیلا واقعی اس کی بات کا مطلب اخذ نہیں کر پائی تھی اس لئے معظم سے پوچھنے لگی


"اتنی جلدی کیا ہے، مطلب سمجھانے کے لیے تو ابھی پوری رات پڑی ہے"

معظم سیریس ہوکر سندیلا سے بولا اس کی نظر بےبی کوٹ میں موجود سوئی ہوئی سندیلا کی بیٹی پر پڑی تو اس نے اپنے قدم بےبی کوٹ کی طرف بڑھائے


"اففف یہ ننھی سی گڑیا تو کوئی پری لگ رہی ہے۔۔۔ کیا نام رکھا ہے آپ نے اس پرنسز کا"

معظم نے آگے بڑھ کر بےبی کاٹ سے سوتی ہوئی بچی کو گود میں اٹھایا۔۔۔ وہ بھرپور دلچسپی اپنی نظروں میں میں سمائے اس کی سوتی ہوئی بیٹی کو دیکھ کر سندیلا سے اس کا نام پوچھنے لگا۔۔۔ سندیلا کی نظریں اپنی بیٹی سے اس شخص کے چہرے پر گئی، یہ پہلا انسان تھا جو اس کی بیٹی کا نام جاننے میں دلچسپی رکھتا تھا۔۔۔ اس ننھے سے وجود کا نام جاننے کی زحمت تو اس کے سگے باپ نے بھی نہیں کی تھی


"ابھی تک بے نام ہے میری بیٹی، اس کی ذات میں دلچسپی لینے والا کوئی شخص نہیں جسے اس کا نام جاننے کا شوق ہو اس لیے میں نے اس کا کوئی نام نہیں رکھا"

سندیلا کے لہجے میں اداسی گُھلی ہوئی تھی معظم اس کی بیٹی کو گود میں اٹھائے اب سندیلا کو دیکھنے لگا


"پھر آپ کیا کہہ کر پکارتی ہیں اس گڑیا کو"

معظم سندیلا کے لہجے میں اداسی محسوس کرتا ہوا بات بنا کر اس سے پوچھنے لگا


"چپ کر جا بدنصیب نہیں تو برابر والے کمرے میں تیری مامی جاگ جائے گی"

بے خیالی میں سندیلا کے منہ سے جملے ادا ہوئی جسے سن کر معظم کے ماتھے پر شکنیں پڑی


"پڑھی لکھی ہونے کے باوجود ایسی زبان استعمال کرتی ہیں آپ،، وہ بھی اس معصوم کے لیے شرم آنی چاہیے آپ کو اپنی بیٹی کو بدنصیب بولتے ہوئے"

معظم کو سندیلا کی بات اتنی بری لگی کہ وہ سندیلا کو جھڑکتا ہوا بولا


"اسے واپس لٹا دو ورنہ یہ جاگ جائے گی"

سندیلا اس کی بات کو نظرانداز کرتی ہوئی بولی مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ بہت زیادہ سخت دل اور تلخ ہو چکی تھی


"جاگتی ہے تو جاگنے دیں، کون سا ہم دونوں کو ساری رات لوڈو کھلینا ہے جو ٹینشن ہو رہی ہے آپ کو"

معظم کے لاپروائی سے بولنے پر سندیلا پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔ معظم اس کی بیٹی کو گود میں لیے سندیلا کے پاس آ کر اس کے برابر میں بیڈ پر بیٹھ گیا


"اس طرح مت گھوریں مجھے آستانی جی اور یہ بات اچھی طرح اپنے دماغ میں بٹھا لیں آج کے بعد آئندہ اگر آپ نے پری کو الٹے سیدھے ناموں سے پکارا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا"

وہ سندیلا کے قریب بیٹھ کر سنجیدگی سے نہ صرف اس کو وارن کر چکا تھا بلکہ اس کی بیٹی کا نام بھی خود ہی تجویز کر چکا تھا


"اچھا کیا کرو گے پھر تم"

سندیلا جان بوجھ کر اس سے بحث میں لگ گئی۔۔۔ وہ ایک رات کی مہمان تھی اس کے گھر میں پھر نہ جانے وہ کیسے اسے یہ بات اتنے حق سے بول رہا تھا


"یہ تو آپ اسی وقت دیکھ لئے گا جب آپ نے غلطی سے بھی کوئی غلطی کرنے کی کوشش کی،، پھر آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آپ کا یہ موالی شوہر کیا کر سکتا ہے"

معظم ابھی بھی اس کو سنجیدگی سے دیکھتا ہوا سمجھانے لگا مگر اس کے لہجے میں نرمی کے ساتھ احترام بھی شامل تھا


"شاید تم بھول رہے ہو ایک رات کا تعلق ہے میرا اور تمہارا"

معظم کے اتنے استحقاق سے شوہر لفظ استعمال کرنے پر سندیلا اس کو جتاتی ہوئی بولی


"اچھا،، یہ بھی دیکھ لیتے ہیں"

معظم کے اتنے آرام سے بولنے پر سندیلا بھنویں سکھیڑ کر اسے دیکھنے لگی


اس سے پہلے وہ کچھ بولتی کمرے کا دروازہ بجا معظم سمجھ چکا تھا کہ یہ کوئی دوسرا نہیں پپو ہے جو کہ فردِ واحد اس کے گھر میں بچا تھا۔۔ معظم نے اس کو کچن میں برتن دھونے کے کام پر لگایا تھا،، معظم اٹھ کر کمرے کا دروازہ کھولنے لگا


"میں نے سوچا بھابھی جی کو سلام کر لوں پھر گھر چلا جاؤ گا۔۔۔ ارے ارے پہلے اس چھوٹی سی گریا سے تو مل لو، لائیے بھیا جی اس کو مجھے دے دیں"

پپو کی آمد پر سندیلا پھر ایک بار پریشان ہوکر بیڈ سے اٹھ کر کھڑی ہو چکی تھی۔ ۔۔۔ اب اس کی بیٹی پپو کی گود میں تھی۔۔ معظم سندیلا کو پریشان دیکھ کر اس کے پاس آیا اور ذرا سا جھک کر آئستہ سے بولا


"یہ ہمیں پکائے بغیر بالکل اکیلا نہیں چھوڑے گا استانی جی،، دس منٹ اس کو برداشت کرلیں پھر میں خود اسے یہاں سے دفع کر دوں گا"

معظم کے سرگوشی کرنے پر سندیلا کنفیوز ہو کر معظم کو دیکھنے لگی


"السلام علیکم بھابھی جی کیسی ہیں آپ"

پپو مہذب انداز میں سندیلا سے بولتا ہوا اس کی طرف متوجہ ہوا تو معظم پپو کی گود سے دوبارہ پری کو اپنی گود میں لے چکا تھا جوکہ اب جاگ چکی تھی۔۔


مگر اس سے پہلے وہ اپنی ماں کی جگہ ایک اجنبی چہرہ دیکھ کر روتی۔۔۔ معظم منہ سے سٹی بجاتا ہوا اسے گود میں لیے ٹہلنے لگا۔۔۔ جتنی دیر پپو نے اپنے لمبے چوڑے تعارف کے بعد سندیلا سے یہ پوچھا کہ اس کو کون کون سے اچھے کھانے بنانے آتے ہیں،، اتنی دیر معظم پری کو گود میں اٹھائے ٹہلتا رہا اور وقفے وقفے سے حیران سی پری کو اسمائل دے کر بہلا رہا تھا


سندیلا پپو کی باتوں کا جواب دے رہی تھی مگر اس کا دھیان مکمل طور پر اپنی بیٹی پر تھا کیونکہ تھوڑی دیر میں اس کی بھوک کا ٹائم ہونے والا تھا،، سندیلا کارنر ٹیبل پر رکھے دودھ کے ڈبے اور فیڈر کو دیکھنے لگی ۔۔۔ معظم سندیلا کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے کارنر ٹیبل کے پاس آیا اس پر موجود دودھ کے ڈبے پر لکھی ہوئی ہدایت کو غور سے پڑھنے لگا۔۔۔ ایک بار پھر پری کے چہرے کے تاثرات بگڑ کر رونے والے ہوئے تب سندیلا کے کچھ بولنے سے پہلے معظم فیڈر میں پری کے لئے دودھ تیار کرنے لگا


سندیلا نے چاہا تھا کہ وہ اٹھ کر پری کو معظم کی گود سے لے لے مگر پپو شاید لمبی باتیں کرنے کے موڈ میں تھا،، سندیلا نے دیکھا معظم ریلکس انداز میں پری کے منہ سے فیڈر لگائے کرسی پر بیٹھا تھا اور پری سکون سے اس کی گود میں لیٹی اپنا پیٹ بھر رہی تھی


"پپو بیٹا اپنے گھر نہیں جانا تمہیں"

ُپری دودھ پی کر دوبارہ سو چکی تھی معظم احتیاط سے اسے بےبی کاٹ میں لٹاتا ہوا پپو کو دیکھ کر پوچھنے لگا


"ابھی تو گیارہ بجے ہیں بھیا جی اتنی جلدی کیا ہے"

ُپپو کی بات سن کر معظم نے اس دنیا کے فارغ انسان کو گھور کر دیکھا۔۔۔ سندیلا اس صورتحال سے پریشان ہو کر ان دونوں کو دیکھنے لگی


"میرے خیال میں پپو اب تمہیں مر جانا چاہیے"

معظم سنجیدگی سے پپو کو دیکھتا ہوا بولا،، معظم کی آنکھوں ہی آنکھوں میں ملنے والی دھمکی پر پپو کھسیا کر ہنستا ہوا کرسی سے اٹھا


"چلیں بھابھی جی اب میں مرتا ہوں، میرا مطلب ہے چلتا ہوں۔۔۔ صبح ناشتے پر ملاقات ہوگی آپ سے،، ویسے ناشتے میں آپ پراٹھے وراٹھے تو بنا لیتی ہیں نا"

پپو مسکراتا ہوا سندیلا سے پوچھنے لگا مگر سندیلا کے جواب دینے سے پہلے معظم پپو کا بازو پکڑ کر اسے اپنے کمرے سے باہر نکال کر دروازہ بند کر چکا تھا۔۔۔ سندیلا حیرت سے پپو نامی چیز کو سوچ رہی تھی جو کہ تھوڑی ہی دیر میں اس سے اس قدر بے تکلف ہو چکا تھا جیسے پیدا ہونے کے ساتھ ہی وہ اس کا دیور بن گیا ہوں۔۔ وہ اپنا سر جھٹکتی ہوئی بےبی کاٹ کی طرف بڑھتی ہوئی اپنی بیٹی کو اٹھانے لگی تبھی معظم نے سندیلا کا بازو پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا


"کیا کر رہی ہیں پری ابھی سوئی ہے جاگ جائے گی، اب تھوڑی دیر کے لئے بیٹی سے ہٹ کر اپنے شوہر پر بھی توجہ ڈال لیں"

معظم نے بولتے ہوئے سندیلا کو اپنے حصار میں لینا چاہا۔۔۔ لیکن وہ معظم کی اچانک اس حرکت پر کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹی اور دیوار سے اس کی پیٹھ پر جا لگی


سندیلا کے یوں ایک دم پیچھے ہٹنے پر معظم نے اپنی شرٹ کے کالر کی طرف منہ کر کے گہرا سانس لیا،، جہاں سے پرفیوم کی مہک اٹھ رہی تھی پھر بھی اسے اپنی استانی جی کے یوں پیچھے یٹنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی


سندیلا تیز رفتار سے چلتی ہوئی سانسوں کے ساتھ معظم کو دیکھنے لگی اور ساتھ آنے والے وقت کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے لگی۔۔۔ معظم چلتا ہوا اس کے قریب آیا


"ایسے تو آج بالکل کام نہیں چلے گا استانی جی"

معظم اس کے مزید قریب آتا ہوا بولا،، اپنا ایک ہاتھ دیوار پر رکھ کر، دوسرا ہاتھ کی انگلیاں سے سندیلا کے گال کو چھوتا ہوا، وہ سندیلا کی تھوڑی پکڑ کر اس کا چہرہ چہرہ اونچا کرکے غور سے دیکھنے لگا


"ہمیشہ اسکول میں بچوں کی کلاس لیتی آئی ہیں آپ لیکن آج آپ کی خود کی کلاس لگنے والی ہے تیار ہوجائیں"

ابھی وہ معظم کی بات کا مطلب اخذ کرتی معظم اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر چکا تھا۔۔۔ سندیلا اپنی پوری جان سے لرز گئی اور ضبط کے مارے اپنی دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں سختی سے بند کرلی


جبکہ دوسری طرف مدہوشی ایسی تھی کہ سر چڑھ کر بولنے لگی، دیوار پر رکھا ہوا اپنا ہاتھ سوئچ بورڈ کی طرف لے جا کر وہ لائٹ بند کر چکا تھا۔۔۔ معظم نائٹ بلب کی مدھم روشنی میں ایک بار پھر اس کا چہرہ دیکھنے لگا،، وہ آنکھیں بند کیے اپنا سر دیوار سے ٹیک کر کھڑی اس کے ضبط کا امتحان لے رہی تھی۔۔۔ معظم نے سندیلا کا بازو پکڑ کر اسے بیڈ کی طرف لے جانا چاہا۔۔۔ تو سندیلا کے قدم جیسے وہی جم گئے تب معظم نے اسے اپنے بازوؤں میں اٹھایا


بیڈ پر لٹتے ہوئے اس کے احساسات عجیب سے ہونے لگے۔۔ اسے یہ بستر کسی جلتے ہوئے انگاروں کی مانند لگا۔۔۔ مگر شاید مقابل اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھا جبھی وہ اپنی شرٹ اتار کر اس پر ایک بار پھر جھکتا ہوا اپنی اور اس کی سانسیں ایک کر چکا تھا


چند سیکنڈ گزرنے کے بعد سندیلا اپنے چہرے کا زاویہ تکیہ کی جانب کر کے اپنی سانسیں بحال کرنے لگی،، تب اسے معظم کے ہونٹوں کا لمس اپنے گال پر محسوس ہوا۔۔۔ ایک ہاتھ کی انگلیاں سندیلا کے بالوں میں پھنسائے، وہ اپنے ہونٹ سندیلا کے گالوں سے مس کرتا ہوا اپنے دوسرے ہاتھ سے وہ سندیلا کا دوپٹہ اتار کر بیڈ پر کر چکا تھا


"اپنے دل کو مضبوطی سے تھام لیجئے استانی جی،، یہ بند لاکر آج اس موالی کو بری طرح اپنی طرف کھینچ رہا ہے"

سندیلا کو اپنے کان میں معظم کی سرگوشی نما آواز سنائی تھی،، جس سے وہ اندر تک سہم گئی


معظم اس کے کان کی لو کو چومتا ہوا اب سندیلا کی گردن پر جھک گیا۔۔۔ ضبط کرنے کے باوجود سندیلا کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے،، معظم کی مدہوشی کا عالم تب ٹوٹا جب رونے کی وجہ سے سندیلا کا وجود سسکنے لگا۔۔۔ معظم اس کی گردن سے سر اٹھا کر مدھم روشنی میں سندیلا کا آنسوؤں سے تر چہرہ دیکھ کر فوراً اٹھ گیا


"کیا ہوا آپ کو، ایسے کیوں رو رہی ہیں"

معظم اٹھنے کے بعد سندیلا کو خود ہی بیڈ پر بٹھاتا ہوا پوچھنے لگا


معظم کے ایسا پوچھنے پر سندیلا کے رونے میں مزید روانی آگئی۔۔۔ وہ خاموشی سے اس کو روتا ہوا سسکتا ہوا دیکھنے لگا


"یہ جو ہم مردوں کی زات ہوتی ہے ناں، اس معاملے میں بہت ہی خود غرض اور مطلب پرست ہوتی ہے۔۔۔ بس عورت سے جائز رشتہ بنایا اور آگئے فوراً اپنے مطلب پر یہ سوچے بغیر کے اگلے کے دل کا کیا حال ہے، وہ بھی انسان ہے نہ جانے کیسا محسوس کر رہی ہوگی،، ایم سوری، مجھے پہلے آپ سے اجازت لینا چاہیے تھی"

معظم نرم لہجے میں بولتا ہوا۔۔۔ سندیلا کے آنسو صاف کرکے بیڈ پر رکھا اس کا دوپٹہ اٹھا کر اس کے کندھوں پر ڈالنے لگا


"نہیں، میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ اب سب ٹھیک ہے۔۔۔ ویسے ہی آنسو نکل آئے تھے"

سندیلا نے واپس دوپٹہ اتار کر بیڈ پر رکھا اور اپنے لہجے کو مضبوط بناتی ہوئی بولی۔۔۔ معظم خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگا


"یہاں آرام سے لیٹیں"

وہ سندیلا کو کندھوں سے تھام کر بیڈ پر لٹانے کے بعد اپنی شرٹ اٹھا کر کمرے سے باہر نکل گیا


آدھے گھنٹہ گزرنے کے بعد سندیلا جب نارمل ہوئی تو بے خیالی میں معظم کا انتظار کرنے لگی،، جب معظم دوبارہ کمرے میں نہیں آیا تو سندیلا کمرے سے باہر نکل آئی وہاں ایک اور کمرہ موجود پر جس کو عبور کرنے کے بعد۔۔ وہ صحن میں تخت پر بیٹھا ہوا اسے نظر آیاا


سندیلا کی طرف اس کی پشت تھی، مگر سندیلا کو محسوس ہوا جیسے وہ اسموکنگ کر رہا تھا،، سندیلا واپس آ کر بیڈ پر لیٹ گئی۔۔۔ وہ جو بھی کر رہا تھا وہ سب تو طے شدہ تھا پھر اسے رونے کی کیا ضرورت تھی،، سندیلا خود سے بولتی ہوئی معظم کہ واپس آنے کا انتظار کرنے لگی، مگر انتظار کرتے کرتے اس کی آنکھ لگ گئی


****

زینش کو آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد تھا جب صبح کے اجالے میں "وہ" اسے کو اس کے گھر کے دروازے پر چھوڑ کر اپنی گاڑی آگے بڑھا لے گیا تھا۔۔۔ پوری رات "اس" نے زینش کو اپنے پاس رکھا تھا مگر اس کے ساتھ کسی طرح کی بدسلوکی نہیں کی تھی،، اس کے باوجود زینش کی وہ پوری رات خوف کے عالم میں گزری تھی


زینش اپنے دوپٹے کو اپنے گرد اچھی طرح لپیٹتی ہوئی گھر کے اندر داخل ہوئی جہاں قیامت خیز منظر دیکھ کر وہ روتی ہوئی شہنیلا کے بازوؤں میں جھول گئی


رضوان اپنی بیٹی کا صدمہ لیے دنیا سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو چکا تھا مگر اس کا دل بند ہونے کی وجہ بعد میں شہنیلہ نے زینش کو بتائی،، زینش کی بنائی گئی ویڈیو دیکھ کر صدمے سے رضوان کا دل بند ہوا تھا۔۔۔ رضوان کی موت کے دوسرے دن ہی احمد نے فون کرکے شہنیلا کے بھائی فیض کو نیو یارک سے بلوا لیا تھا بقول اس کے کہ وہ ایک داغدار لڑکی کو اب اس گھر میں نہیں رکھ سکتا


لاکھ رونے پیٹنے اور قسمیں کھانے کے باوجود شہنیلا کے علاوہ کسی نے زینش کا یقین نہیں کیا کہ وہ بے داغ اور پاک دامن ہے۔۔ شہنیلا نے بھی نیویارک جانے سے پہلے فلزا (احمد کی بیٹی) کے سسرال فون کرکے نہ جانے کون کون سے احمد اور ثمرہ کے ظلم کی داستانیں سنائی اور ساتھ ہی فلزا کے پرانے کالج کے افیئر کو بھی مرچ مصالحہ لگا کر بتایا جس کا بھکتان آج اسے زینش کی برات والے دن بھکدنا پڑا تھا


شہنیلا سارا کچھ جویریہ کو سچ بتا چکی تھی۔۔۔ جویریہ نے اسے تسلی دی تھی کہ وہ حسان کو سمجھائے گی۔۔۔ شہنیلا کا بی پی لو ہونے کی وجہ سے جویریہ نے اسے واپس ہوٹل جانے کا مشورہ دیا تھا جہاں اس کا قیام تھا۔۔۔ اس وقت وہ خود ٹیبل پر سر پکڑے بیٹھی ہوئی تھی جب بلال اس کے پاس آیا


"چلیں امی میں آپ کو گھر چھوڑ آؤ"

بلال کی آواز پر جویریہ سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی زیادہ تر مہمان اب جا چکے تھے


"ہاں چلو چلتے ہیں میں زینش کو لے کر آتی ہوں"

جویریہ تھکے ہوئے انداز میں بلال سے بولی۔۔۔۔ کتنی مشکلوں سے اس نے سارے رشتے داروں کو مطمئن کیا تھا جو یوں اچانک حسان کے جانے کی وجہ پوچھ رہے تھے


"آپ جا کر کار میں بیٹھیں زینش کو میں لے کر آتا ہوں"

بلال کی بات سن کر جویریہ بغیر کوئی دوسری بات کیے باہر کی طرف چل دی بلال اسٹیج کی طرف بنے ہوئے روم کی طرف دیکھنے لگا جہاں زینش موجود تھی


*****


"یہ کوئی چھوٹی بات نہیں تھی زینش جو آنٹی نے تمہیں بتانے سے منع کیا اور تم نے ان کی بات مانتے ہوئے یہ بات چھپالی کم ازکم تمہیں حسان کو تو سب حقیقت بتانا چاہیے تھی۔۔۔ اب تم پریشان مت ہو،، حسان سمجھدار ہے مجھے امید ہے وہ تمہاری ساری بات کو انڈرسٹینڈ کرلے گا"

خوشی زینش کو تسلی دینے والے انداز میں بولی اور روم سے باہر نکل گئی زینش پریشان ہی کھڑی تھی کہ بلال روم کے اندر داخل ہوا


"چلو گھر،، امی کار میں تمہارا ویٹ کر رہی ہیں"

کل اس نے زینش کو جس طرح ڈرایا تھا اور غصے میں جو اس کا حشر کیا تھا اس کی بانسبت آج وہ زینش کے حسین روپ سے نظریں چراتا ہوا نرم لہجے میں بولا


"آپ کے ساتھ کیو گھر جاؤ،، مجھے آپ کے ساتھ نہیں حسان کے ساتھ رخصت ہونا ہے"

زینش اچھی طرح جانتی تھی حسان یہاں سے جا چکا ہے مگر بلال کو اپنے سامنے دیکھ کر نہ جانے کیوں اس کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا جس پر بلال طنزیہ انداز میں مسکراتا ہوا،، زینش کو دیکھ کر چلتا ہوا اس کے قریب آیا


"تم دنیا کی پہلی دلہن ہو جس کا دلہا بھرے مجمعے کے بیچ اپنی بیوی کو اکیلا چھوڑ کر خود اکیلا ہی رخصت ہو چکا ہے،، اسلیے آسمانوں پر اڑنا بند کرو اور واپس زمین پر آ جاؤ، نخرے دکھانا بند کرو خاموشی سے چل کر کار میں بیٹھو"

صرف دو سیکنڈ لگے تھے بلال کو ساری نرمی بھلا کر اس کی عزت افزائی کرنے میں،، زینش بلال کی باتیں سن کر شرمندہ تو ہوئی مگر پھر غصے میں اسے دیکھتی ہوئی بولی


"ماما نے مجھے بتایا تھا آپ لے کر آئے تھے ناں احمد چچا اور ثمرہ چچی کو یہاں پر، جانتی ہوں میں جان بوجھ کر یہ سب کیا ہے آپ نے"

اسے ناجانے کیو بلال پر شک ہو رہا تھا جیسے بلال کو اس کے بارے میں بھنک لگی ہے اور اس نے جان بوجھ کر یہ سب کیا ہے۔۔۔ زینش کے الزام لگانے پر اسے شدید غصہ آیا،، اپنے جبڑے بھینچ کر بلال نے سختی سے زینش کا بازو پکڑا


"ابھی تم آگے آگے دیکھو میں تمہارے ساتھ کیا کرتا ہوں۔۔۔ تم ماں بیٹی ایک جیسی فطرت کی ہو،، تمہاری ماں دھوکے سے حسان کو بے وقوف بنا کر اس سے تمہاری شادی تو کر سکتی ہے۔۔۔ لیکن اب تم ساری زندگی حسان کو بے وقوف بنا کر خوشی خوشی اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی سمجھ میں آیا تمہیں"

بلال نے غصے میں بولتے ہوئے زینش کا بازو زور سے جھٹکا، وہ چاہتا تو زینش کی بد گمانی بھی دور کر سکتا تھا۔۔ یہ محض اتفاق تھا کہ اس کے چچا اور چچی کا بلال سے ٹکڑاؤ ہوا تھا اور وہ خود انہیں حسان کے پاس لے آیا تھا۔۔ مگر وہ یہ غلط فہمی دور کرنے کی بجائے زینش کے غصے کو ہوا دیتا ہوا بولا


"آپ کو جو کرنا ہے کر لیں مجھے جتنا حسان کی نظروں میں گرانا ہے، گرالیں مگر میں حسان کو اپنا یقین دلا کر رہو گی اور وہ میرا یقین کریں گے کیو کہ وہ ایک اچھے انسان ہیں۔۔۔ آپ کی طرح نہیں ہیں وہ"

زینش بلال کو چیلنج کرتی ہوئی بولی جس پر بلال ایک بار پھر طنزیہ ہنسا


"میں تمہیں اس اچھے انسان کے پاس لے جانے کے لیے آیا ہوں۔۔۔ آج اس اچھے انسان کا تم پر یقین بلکہ تمہارا خود پر کتنا کانفیڈینس ہے یہ بھی دیکھ لیتے ہیں"

بلال زینش سے بولتا ہوا اس کا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر لے جانے لگا زینش اس سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر خود اس کے ساتھ چلنے لگی


****


کار ڈرائیونگ کے دوران خاموش رہی تھی گھر پہنچ کر بلال اپنا کوٹ اتار کر ریلکس انداز میں صوفے پر بیٹھا جبکہ جویریہ زینش کو دیکھنے لگی


"آؤ تمہیں میں حسان کے بیڈ روم میں چھوڑ آؤ"

جویریہ کا لفظ بلال کو جھلسا دینے کے لئے کافی تھے مگر وہ اپنے آپ کو لاپروا ظاہر کر کے صوفے سے سر ٹیک کر آنکھیں بند کئے ہوئے بیٹھا رہا


"آپ تھک گئی ہوگیں اپنے روم میں جا کر ریسٹ کرلیں میں خود چلی جاتی ہو"

زینش بہت آہستہ آواز میں جویریہ سے بولی


وہ جانتی تھی جویریہ اس کو رسم کے مطابق حسان کے کمرے میں چھوڑنے نہیں جا رہی ہے بلکہ وہ حسان کے دل میں آئی بدگمانی مٹانے کے لیے زینش کے ساتھ جانا چا رہی ہے


زینش کی بات سن کر جویریہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگی جیسے پوچھنا چاہ رہی ہو کہ کیا وہ آگے سب سنبھال لے گی۔۔۔ زینش نے جویریہ کو مطمئن کرنے کے لئے اس کی طرف مسکرا کر دیکھا تو جویریہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی


زینش نے ایک نظر بلال کے پرسکون چہرے پر ڈالی جو اپنی آنکھیں بند کئے صوفے سے ٹیک لگائے بہت ریلکس انداز میں بیٹھا ہوا تھا


زینش نے حسان کے کمرے کی طرف اپنے قدم بڑھائے تو بلال نے بے چینی سے اپنی آنکھیں کھول کر زینش کی پشت کو دیکھا۔۔ اسے حسان کے کمرے میں جاتا دیکھ کر بلال کو عجیب گھبراہٹ ہونے لگی اس کے چہرے پر اذیت سی چھانے لگی


*****


ڈور ناپ گھماتے ہی حسان کے کمرے کا دروازہ کھلا۔۔۔ زینش نے کمرے کے اندر قدم رکھا ہی تھا کہ حسان نے جھکا ہوا سر اٹھایا


"تم یہاں میرے کمرے کے اندر کیسے آئی"

حسان صوفے سے اٹھ کر کھڑا ہوتا ہوا ہے زینش کو دیکھ کر سخت لہجے میں پوچھنے لگا۔۔۔ حسان کی آنکھوں سے چھلکتی ہوئی اجنبیت پر پل بھر کے لئے وہ پریشان ہوئی


"حسان پلیز آپ ایک بار میری پوری بات سنیں"

زینش بولتی ہوئی مزید حسان کے قریب آئی


"تمہارے پاس بتانے کے لئے اب کچھ باقی بچا ہے۔۔۔ تمہارے چچا چاچی سارے راز و نیاز سے پردہ اٹھا چکے ہیں، جو تم نے اور آنٹی نے ہم سے چھپایا نکل جاؤ زینش میرے کمرے سے اس سے پہلے کہ میں غصے میں آ کر تمہارے ساتھ کوئی بدسلوکی کر جاؤ"

حسان زینش کے سامنے کھڑا ہو کر اس کو غصے میں بولا وہ اسے سیدھی سادی لڑکی سمجھتا تھا نہ جانے وہ کیا کچھ چھپائے بیٹھی تھی


"آپ کے کمرے سے نکل کر کہاں جاؤں گی حسان،، آپ نے شادی کی ہے مجھ سے بیوی ہو میں آپ کی۔۔ ماما یا پھر میرے اس بات کو چھپانے کا مقصد یہ ہرگز نہیں تھا کہ آپ کو دھوکا دیا جائے۔۔۔ حسان میرے ساتھ اس رات کو کچھ بھی نہیں ہوا تھا میرا دامن آج بھی پاک بے داغ ہے۔۔۔ آپ پلیز میرا یقین کر لیں"

اپنا یقین دلاتے ہوئے زینش کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑیں


"ایک لڑکی جسے اغوا کار نے اغوا کرنے کے بعد پوری رات اپنے پاس رکھا،، وہ بنا اسے چھوئے واپس گھر چھوڑ جائے گا یا تو ایسا مرد بے وقوف ہوگا یا تم نے مجھے حد سے زیادہ بیوقوف سمجھ لیا ہے۔۔۔ میں اس بات کو جتنا سوچو گا یا پھر تمہارا چہرہ دیکھو گا میرا اتنا ہی دماغ خراب ہوگا نکل جاؤ میرے کمرے سے ابھی اور اسی وقت"

حسان نے بولنے کے ساتھ خود ہی اپنی بات پر عمل کرتے ہوئے زینش کی کلائی پکڑ کر اسے اپنے کمرے سے باہر لے جانے لگا


"حسان پلیز میرا یقین کریں میں سچ کہہ رہی ہوں میرے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا جیسا آپ سمجھ رہے ہیں"

زینش نے اسے اپنے کردار کی وضاحت دینی چاہیے جس پر حسان کو کوئی اثر نہیں ہوا اس نے ہال میں لا کر زینش کا ہاتھ چھوڑا


بلال ایک دم صوفے سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا جویریہ بھی واپس اپنے کمرے سے باہر نکل آئی۔۔۔ جویریہ اور بلال کے سامنے زینش کو اپنا وجود زمین میں گڑھتا ہوا محسوس ہوا


"یہ کیا حماقت ہے حسان کوئی پہلے دن کی بیوی کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرتا ہے"

جویریہ حسان کو دیکھتی ہوئی بولی شاید پوری زندگی میں پہلی بار اس نے حسان کو کسی بات پر ٹوکا تھا


"شہنیلا آنٹی اور اس نے جو بھی کچھ کیا ہے وہ آپ کو نہیں دکھ رہا،، جو بات ان دونوں ماں بیٹیوں نے چھپائی ہے وہ اتنی چھوٹی بات نہیں ہے جسے میں یونہی نظر انداز کردو میں اتنا اعلی ظرف نہیں ہوں جو ایک ایسی لڑکی کو اپنی بیوی کے روپ میں قبول کروں جس کے ماضی پر اس کے اپنے ہی انگلیاں اٹھا رہے ہو"

حسان جویریہ کو دیکھ کر غصے میں بولا جویریہ نے افسوس بھری نظروں سے حسان کو دیکھا،، بلال وہی خاموش کھڑا حسان کی باتیں سن رہا تھا مگر جتانے والی نظروں سے دیکھو وہ زینش کو رہا تھا۔۔۔ جو اب اپنے آنسو روکے کھڑی تھی


"حسان شہنیلا مجھے سب کچھ بتا چکی ہے میں تمہیں بتاتی ہو،، رکو حسان میری بات سنو"

حسان جویریہ کی بات سنے بغیر اپنے کمرے میں چلا گیا جویریہ بھی اس کے پیچھے اس کے کمرے میں چلی گئی


جویریہ کے وہاں سے جانے کے بعد بلال نے زینش کے جھکے ہوئے سر کو دیکھا وہ وہی نیچے سر کیے فرش کو دیکھ رہی تھی


"تو پھر کہاں گیا مسز حسان رفیق آپ کا یقین جو آپ اپنے شوہر کے کمرے میں جا کر اس کو دلوانے والی تھیں"

بلال چلتا ہوا زینش کے پاس آیا اور اس کے جھکے ہوئے سر کو دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔۔ زینش اپنا سر اٹھا کر بلال کو دیکھنے لگی جو خاموش سوالیہ نظروں سے زینش کو دیکھ رہا تھا


"وہ تمہارا شوہر کل بنا ہے میرا بھائی وہ بچپن سے ہے میں اس کو اچھی طرح جانتا ہوں وہ جتنا بھی اچھا انسان سہی مگر اس بات کو لے کر سمجھوتہ ہرگز نہیں کرے گا کہ اس کی بیوی کا ماضی داغدار رہا ہے"

بلال کی بات سن کر زینش کو تکلیف ہوئی جس کے آثار اس کے چہرے پر عیاں ہونے لگے


"ارے نہیں تمہارا ماضی داغدار ہے ایسا حسان سمجھتا ہے میں بالکل بھی نہیں سمجھتا مجھے تم پر مکمل یقین ہے کہ اس رات تمہارے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہوگا تم جو بھی بول رہی ہوں بالکل سچ بول رہی ہو لیکن اگر حسان کی جگہ آج تم میری بیوی ہوتی تو میں تمہاری بات پر آنکھیں بند کرکے یقین کر لیتا"

بلال زینش کو دیکھتا ہوا باظاہر افسوس سے بولا مگر اس کے انداز سے مصنوعی پن صاف چھلک لگ رہا تھا کہ وہ واقعی اس بات پر افسوس کر رہا ہوں


"اپنی اعلیٰ ظرفی میرے سامنے شو مت کریں آپ جتنے اعلیٰ ظرف ہیں میں آپ کو بھی اچھی طرح جانتی ہوں اور اب آپ کے بھائی کو بھی اچھی طرح جان گئی ہوں۔۔۔ نہ میں اب اپنے کردار کا کسی کو یقین دلانے والی ہوں اور نہ ہی سمجھوتہ کرکے ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزارنے والی ہو جسے میری بات کا ذرہ برابر بھی یقین نہ ہو۔۔۔ میری اپنی نظر میں ایسے رشتے کی کوئی اہمیت نہیں ہے جس میں شوہر کو اپنی ذات کا یقین دلاتے ہوئے میری ساری زندگی گزر جائے"

زینش بلال کو جتاتی ہوئی بولی جس پر بلال عجیب سے انداز میں ہنسا


"ویری گڈ پھر کب لے رہی ہوں خلع"

وہ اب زینش کو دیکھ کر سنجیدگی سے پوچھنے لگا


"بہت جلد"

زینش کہتی ہوئی وہاں سے جانے کے لیے مڑی


"حسان کے تمہاری زندگی سے نکلنے کے بعد پھر میں اپنا راستہ صاف سمجھو ناں ڈیئر زینش"

بلال کی بات پر زینش نے پلٹ کر بلال کو دیکھا جو اس کے جواب کا منتظر زینش کو دیکھ رہا تھا۔۔ مگر زینش اس کو اپنا جواب طماچے کی صورت دینا چاہتی تھی،،، اپنے گال کی طرف بڑھتے ہوئے زینش کے ہاتھ کو بلال نے فوراً پکڑلیا


"تم جانتی ہو تمہیں یہ جرت کتنی مہنگی پڑ سکتی تھی،، تمہارے اس تھپڑ کے بدلے میں تمہارا حشر بگاڑنے میں وقت نہیں لگاتا۔۔۔ آئندہ ایسی حماقت کرنے سے پہلے اچھی طرح اپنے انجام کو سوچ لینا"

بلال نے شدید غصے کے عالم میں بولتے ہوئے زینش کا پکڑا ہوا ہاتھ زور سے جھٹکا


"آئندہ ایسی نوبت ہی نہیں آئے گی،، نہیں رہوں گی میں اب اس گھر میں چلی جاؤنگی ہمیشہ کے لئے آپ لوگوں کی زندگیوں سے دور"

زینش کا ضبط جواب دے گیا تھا بولتے ہوئے آنسوؤں کا گولا اس کے حلق میں اٹک گیا آنسو تھے کہ اب آنکھوں سے نکلنے کے لیے بے تاب تھے


"زندگیوں سے دور بعد میں جانا پہلے اپنے پرانے والے کمرے میں جاؤ"

بلال نے درشی سے بولتے ہوئے سختی سے زینش کا بازو پکڑ کر اس کو اس کے کمرے کی طرف دھکا دیا


وہ واقعی بلال کے سامنے مزید کھڑا نہیں رہنا چاہتی تھی،، اس وقت اسے کسی جائے پناہ کی تلاش تھی اس لئے دروازہ کھول کر اپنے کمرے میں چلی آئی،، کمرے کا دروازہ بند کر کے وہ بری طرح رو پڑی


*****

فجر کی اذان کا وقت جب وہ کمرے میں آیا ایک نظر اس نے بےبی کارٹ میں سوتی ہوئی پری پر ڈالی اور پھر بیڈ کی جانب بڑھا جہاں سندیلا سو رہی تھی معظم اس کے برابر میں لیٹتا ہوا سندیلا کو دیکھنے لگا۔۔۔ اُس وقت سندیلا کی دلی کیفیت اس کے آنسو بیان کر رہے تھے انہیں دیکھ کر ہی وہ پیچھے ہٹا تھا۔۔۔ سندیلا کا چہرہ دیکھتے ہوئے ایک بار پھر وہ ماضی میں چلا گیا جہاں وہ "اس" کے ساتھ کچھ برا نہ کرتے ہوئے بھی برا کر چکا تھا۔۔۔ اِس وقت معظم کے برابر میں سوئی ہوئی لڑکی "وہ" نہیں تھی مگر اس کی بیوی کا چہرہ کافی حد تک "اس" سے مشابہت رکھتا تھا۔۔۔ قدرت کی ستم ظرفی تھی یا حالات کا تقاضہ کہ وہ "اسے" زندگی میں شامل نہیں کر سکا تھا مگر معظم نے کبھی بھی اس بات کو اپنی زندگی کا روگ نہیں بنایا لیکن وہ یہ سوچ چکا تھا جسے وہ اب اپنی زندگی میں شامل کر چکا ہے اس کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہونے دے گا۔۔۔ معظم ابھی اپنی سوچوں میں گم تھا کہ سندیلا کے موبائل کی رینگ ٹون نے اس کی توجہ اپنی طرف کھینچی،، سائیڈ ٹیبل پر موجود سندیلا کا موبائل اٹھا کر وہ موبائل پر آیا ہوا میسج دیکھنے لگا جسے پڑھ کر معظم کے ماتھے پر شکنیں نمایاں ہوئی،، میسج میں احتشام نے سندیلا کو دوپہر تک تیار رہنے کا کہا تھا وہ سندیلا کو یہاں سے لے جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔ میسج میں ہی احتشام نے سندیلا کو آگاہ کیا تھا کہ اس نے ڈائیورس پیپرز بھی تیار کروا لیے ہیں معظم نے سندیلا کے موبائل سے میسج ڈیلیٹ کیا اور موبائل آف کرکے لیٹ گیا۔۔۔ احتشام کے بارے میں کچھ بھی سوچنا اس کے نزدیک فضول کام کے سوا کچھ نہیں تھا اس لئے سونے کی کوشش کرنے لگا


****


رات میں روتے ہوئے نہ جانے کب اس کی آنکھ لگی تھی،، زینش نے رات میں روتے ہوئے "اس" کو نہ جانے کتنی بد دعائیں دی تھی جس کی وجہ سے آج اسے یہ دن دیکھنا پڑ رہا تھا۔۔۔ بے بسی کی انتہا یہ بھی کم نہیں تھی کہ اس مشکل وقت میں شہنیلہ کی بھی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور وہ اس وقت اس کے پاس موجود نہیں تھی۔۔۔ زینش سوچ چکی تھی وہ اب حسان کے ساتھ اپنا رشتہ برقرار نہیں رکھے گی،، اس گھر سے دور چلی جائے گی۔۔۔ وہ یہی ساری باتیں سوچ رہی تھی کہ کمرے کا دروازہ بجا


"یہ آپ کے لئے ناشتہ لے کر آئی ہو"

زینش نے کمرے کا دروازہ کھولا تو تہمینہ کمرے میں ٹرالی لاتی ہوئی اس سے بولی


"کس نے بھیجا ہے یہ ناشتہ"

زینش نے ٹرالی میں موجود ناشتے کے لوازمات دیکھ کر تہمینہ سے سوال کیا


"جویریہ میڈم کے کہنے پر لائی ہو"

تہمینہ نے زینش کو وہی جواب دیا جو تہمینہ کو بولنے کے لیے کہا گیا تھا


زینش ٹرالی میں موجود ناشتہ دیکھنے لگی تب اسے احساس ہوا کہ اس نے کل دوپہر کا کھانا کھایا ہوا تھا وہ ناشتہ کر کے ابھی فارغ ہوئی تھی تب کمرے کا دروازہ دوبارہ ناک ہوا


"تم جاگ گئی ہو بیٹا تو کیا میں اندر آ جاؤ"

زینش کے دروازہ کھولنے پر جویریہ اس کو دیکھ کر مسکراتی ہوئی پوچھنے لگی


"یہ آپ ہی کا گھر ہے آنٹی، یہاں کمرے میں آنے کی اجازت مانگ کر آپ مجھے شرمندہ مت کریں"

زینش جویریہ کو راستہ دیتی ہوئی بولی۔۔۔ حقیقت کھلنے کے باوجود ایک وہی تو تھی جس کا رویہ یا لب ولہجہ نہیں بدلا تھا


"یہ جتنا میرا گھر ہے اب تمہارا بھی اتنا ہی گھر ہے بہو بنا کر لائی ہو میں تمہیں یہاں اس گھر کی۔۔ کل جو بھی کچھ ہوا ہے اسے صحیح ہونے میں تھوڑا ٹائم لگے گا مگر تم اپنے آپ کو ہم سے اور اس کے گھر سے جدا مت سمجھو اب تم بھی اسی گھر کا حصہ ہوں"

جویریہ کمرے میں آکر صوفے پر بیٹھتی ہوئی زینش سے بولی


"مجھے نہیں لگتا آنٹی کے جو بھی کچھ ہو چکا ہے اب وہ ٹھیک ہو سکتا ہے، میرا کچھ بھی سمجھنے یا نہ سمجھنے سے کچھ نہیں ہوتا حسان نہ تو کوئی بھی بات سننا چاہتے ہیں اور نہ ہی سمجھنا چاہتے ہیں۔۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ مجھے بیوی کے طور پر اب قبول کریں گے اور میں خود بھی حسان کی آنکھوں میں اپنے لیے حقارت برداشت کرکے ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔۔۔ میں نے سوچ لیا ہے ہم دونوں کا الگ ہو جانا بہتر ہے"

زینش آئستہ آواز میں جویریہ کو اپنے فیصلے سے آگاہ کرتی ہوئی بولی


"کیسی باتیں کر رہی ہو زینش اتنی جلدی ہمت ہار گئی تم، میں ابھی حسان کو سمجھا کر آئی ہو اس نے تھوڑا بہت سمجھنے کی کوشش کی ہے اور تم یہاں بیٹھ کر رشتہ ختم کرنے کی باتیں کر رہی ہو افسوس ہو رہا ہے مجھے تمہاری سوچ پر"

جویریہ واقعی کل سے اس صورت حال پر پریشان ہو چکی تھی اور تھوڑی دیر پہلے وہ حسان سے بات کرکے آئی تھی مگر یہاں آ کر معلوم ہوا کہ زینش بھی وہی الگ ہونے کی باتیں کر رہی ہے تبھی وہ افسوس کرتی ہوئی بولی


"تو کیا حسان کا غصہ اتر چکا ہے اب وہ میری بات پر یقین کریں گے۔۔۔ آنٹی پلیز آپ ان کو سمجھائیں میں ایک ایک بات سچ کہہ رہی ہوں اور یہ ساری باتیں میں نے صرف ماما کے کہنے پر ان سے چھپائی"

زینشن کو جویریہ کی باتوں سے تھوڑا حوصلہ ملا تو اسے تھوڑے اچھے کی امید نظر آئی


"میں نے حسان کو کافی حد تک سمجھایا ہے تھوڑا بہت اس کا غصہ اتر گیا ہے اب وہ پرسکون ہو کر ساری باتوں کو سوچے گا تو اسے تمہاری باتوں پر بھی یقین آ جائے گا اور ویسے بھی اتنی بڑی حقیقت کو فوری طور پر قبول کرلینا مرد کے لئے تھوڑا مشکل ہوتا ہے تم اچھے کی امید رکھو حسان سے۔۔۔ آج کے فنکشن کے لئے گھر سے جلدی نکلنا ہے تمہارا ڈریس اور جیولری تہمینہ سے کہہ کر یہی تمہارے روم میں بھجوا دیتی ہوں۔۔۔ اچھا ہوا کہ تم نے خود ہی ناشتہ کر لیا میں تہمینہ سے کہنے والی تھی،، ابھی دوسرے سارے ارینجمنٹ دیکھنے ہیں میں چلتی ہوں تھوڑی دیر تم بھی ریسٹ کرلو"

جویریہ زینش سے بولتی ہوئی اس کے کمرے سے چلی گئی


جویریہ کی باتوں سے زینش کو تھوڑا بہت سکون ہوا تھا ورنہ کل رات کے حسان کے رویہ سے تو وہ کافی دلبرداشتہ ہوئی تھی


اگر یہ ناشتہ آنٹی نہیں بھجوایا تو پھر کس نے بھیجویا ہے

زینش ناشتے کے ٹرالی کو دیکھ کر سوچنے لگی۔۔ اتنے میں اس کے موبائل پر شہنیلا کی کال آنے لگی


*****


پوری رات جاگنے کی وجہ سے اس کی دن میں بارہ بجے کے قریب آنکھ کھلی۔۔۔ بیڈ پر برابر میں سندیلا موجود نہیں تھی،، معظم کی نظریں کاٹ پر گئی جہاں پری سو رہی تھی۔۔۔ وہ اٹھ کر کمرے کے دروازے تک گیا جہاں سے پپو کی آواز سنائی دے رہی تھی وہ ناشتہ کرنے کے ساتھ بلند آواز میں سندیلا کے ہاتھ کے بنے ہوئے ناشتے کی تعریف کر رہا تھا اور رات میں سندیلا سے کسی ڈش کی فرمائش بھی کر رہا تھا۔۔ معظم سر جھٹک کر واپس پلٹا تو اس کی نظریں دوبارہ پری پر پڑی،، جو پیروں کی مدد سے لاتیں چلا کر اپنے اوپر سے چادر اتار رہی تھی معظم کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آئی


"لگتا ہے میری پری اور اس کے بابا کی صبح ابھی ہوئی ہے"

معظم بےبی کاٹ کے پاس آکر پری کو دیکھتا ہوا بولا تو پری اس کو دیکھ کر منہ سے آوازیں نکالتی ہوئی زور زور سے ہاتھ پاؤں چلانے لگی


وہ کل رات میں معظم کو حیرت سے دیکھ رہی تھی مگر آج معظم کو پہچان گئی تھی اس لیے اس کو دیکھ کر ایکسائیٹڈ ہونے لگی


"کیا آپ کو اپنے بابا کے پاس آنا ہے۔۔۔۔ اوکے مائی لٹل انجل ہولڈ مائی فنگرز"

معظم اپنی دونوں انگلیاں پری کی جانب بڑھاتا ہوا بولا۔۔۔ جسے پری پکڑ کر اٹھنے کی کوشش کرنے لگی


معظم نے جھک کر پری کو گود میں اٹھالیا۔۔۔ اور اسے بیڈ پر لٹا کر خود اس کے سامنے بیٹھ کر باتیں کرنے لگا۔۔ تھوڑی دیر گزری تو پری کے چہرے کے تاثرات رونے والے ہوگئے


"بھوک لگ رہی ہے پری کو۔۔۔ ویٹ ڈارلنگ بابا ابھی فیڈر تیار کرتے ہیں پری کا"

اس سے پہلے معظم اٹھ کر اس کا فیڈر تیار کرتا پری نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔۔ پری کی رونے کی آواز سن کر سندیلا دوڑتی ہوئی کمرے میں آئی


"ٹاپ فیڈ یہ صرف رات میں لیتی ہے،، دن میں، میں اسے اپنا۔۔۔"

معظم کو فیڈر میں پانی بھرتا دیکھ کر سندیلا جلدی سے بولی مگر آگے کے جملے پر اس نے اپنی زبان پر بریک لگائی۔۔۔ بے ساختہ معظم کی نظریں بند لاکر پر گئی وہ فوراً اپنی نظریں ہٹا کر جلدی سے بولا


"یہ آپ اچھا کرتی ہیں"

جتنی جلدی اس نے بے تکا جملہ بولا سندیلا کے تاثرات دیکھ کر اسے وضاحت دینے لگا


"میرا مطلب ہے ایسا ہی کرنا چاہیے میں نے ایسا سنا تھا"

سندیلا معظم کی بات سن کر ابھی بھی خاموشی سے اس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ معظم بیڈ سے روتی ہوئی پری کو اٹھا کر اس کے پاس لایا


"اب کیا ایسے ہی مجھے دیکھتی رہے گیں کروائے پری کو فیڈ"

معظم پری کو سندیلا کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔۔۔ پری خود بھی سندیلا کو دیکھ کر اس کے پاس آنے کے لیے بے چین تھی۔۔ سندیلا پری کو گود میں لیتی ہوئی جھجھک کر معظم کو دیکھنے لگی


"میں دوسرے کمرے میں ہوں آپ یہاں بیڈ پر آرام سے بیٹھ جائے"

معظم اس کی جھجھک سمجھتا ہوا بولا اور کمرے سے جانے لگا


"سنو میں نے تمہارے لئے ناشتہ بنا دیا ہے کچن میں رکھا ہے"

معظم نے سندیلا کو پلٹ کر دیکھا تو سندیلا پری کو لے کر بیڈ پر بیٹھتی ہوئی بولی


"آپ نے خود کر لیا ناشتہ"

معظم کے سوال کرنے پر سندیلا نے نفی میں سر ہلا کر اسے جواب دیا


"ٹھیک ہے آپ پری کو فیڈ کروا کر آ جائے پھر ہم دونوں ساتھ ہی کر لیتے ہیں ناشتہ۔۔۔ میں آپ کا باہر انتظار کر رہا ہوں"

معظم سندیلا سے بولتا ہوا کمرے کا دروازہ بند کرکے باہر چلا گیا۔۔۔ سندیلا کو نہیں یاد پڑتا تھا آج تک کبھی احتشام نے اس کا ناشتے یا کھانے پر انتظار کیا ہو۔۔۔۔ وہ زیادہ تر نزہت بیگم یا اپنے بہن بھائی کے ساتھ کھا لیا کرتا تھا


*****


"شادی کرکے نیند سے جاگنے کے بعد بھی مجھے تیری شکل دیکھنی پڑ رہی ہے پپو۔۔۔ یار کوئی ایسا بھی کرتا ہے کہ صبح صبح ہی کسی کے گھر آ جائے"

معظم صحن میں آتا ہوا پپو سے بولا جو تخت پر بیٹھا ہوا چائے کی چسکیاں بھر رہا تھا


"خدا کو مانیں بھیا جی صبح کب کی ختم ہو چکی ہے پورا دن نکلا پڑا ہے۔۔۔ وہ الگ بات ہے آپ اس وقت بھی بستر پر پڑے اپنے ہی گھر میں نحوست پھیلا رہے تھے۔۔۔ ویسے کیا قسمت پائی ہے بھئیا جی آپ نے، سمجھیں آپ کی تو لاٹری لگ گئی بھابھی جی کے ہاتھ کا ذائقہ۔۔۔ کیا بتاؤں میں آپ کو"

پپو تھوڑی دیر پہلے کیے ہوئے ناشتے کو یاد کرکے لطف اندوز ہوتا ہوا بولا تو معظم اس کو گھور کر دیکھنے لگا


"کیا فرمائشیں چل رہی تھی تھوڑی دیر پہلے استانی جی سے، نرگسی کوفتے کھانے ہیں تجھے رات میں۔۔۔ شرم کر پپو تو کوفتوں میں بھی نرگس کو ڈھونڈ رہا ہے خبردار تو نے میری بیوی سے الٹی سیدھی فرمائشیں کی،، جو کھانے کو مل رہا ہے شرافت سے اسے پیٹ میں اتار"

معظم پپو کو گھرکنے کے انداز میں بولا تو پپو مسکین سی شکل بناتا ہوا بچی ہوئی چائے پینے لگا


اتنے میں سندیلا پری کو گود میرے اٹھائے صحن میں آگئی۔۔۔ اس سے پہلے معظم سندیلا کی گود سے پری کو لیتا،، جلدی سے پپو نے پری کو گود میں لے لیا۔۔۔ پری اب غور سے پپو نامی مخلوق کو دیکھ رہی تھی


"میں نے ابھی اپنے لئے ناشتہ نہیں بنایا تم ناشتہ کرلوں میں اپنا ناشتہ بنا رہی ہوں"

سندیلا ٹرے میں معظم کے لئے ناشتہ لے کر آئی اور تخت پر رکھتی ہوئی معظم سے بولی


کل سے ہی وہ سندیلا اور اس کی بیٹی کے لیے اپنائیت دکھا رہا تھا یہاں تک کہ پپو بھی اس سے ایسے بات کر رہا تھا جیسے کہ وہ یہاں پر ہمیشہ کے لئے بسنے آئی ہو۔۔ سندیلا کو یہ سب ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔۔۔ سندیلا وہاں سے جانے لگی تب معظم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔ سندیلا نے فوراً پپو کی طرف دیکھا جو تخت پر بیٹھا پری سے باتیں کر رہا تھا پھر سندیلا کی نظریں معظم پر گئی وہ خاموشی سے اسی کو دیکھ رہا تھا


"میں اس پپو کی طرح تھوڑی ہو جو دو پراٹھے اکیلا ہی کھا جاؤں۔۔۔ یہی میرے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کریں آپ"

معظم اس کا ہاتھ پکڑے بولنے کے ساتھ ہی سائیڈ پر ہوتا ہوا سندیلا کو تخت پر بٹھا چکا تھا


سندیلا خاموشی سے بیٹھ گئی، معظم نے ٹرے اپنے اور سندیلا کے درمیان رکھ کر سندیلا کی طرف اپنا رخ کیا۔۔۔ پپو کی طرف معظم کی پیٹھ تھی


"یہ لیجئے استانی جی، پہلی صبح کے ناشتے کا پہلا نیوالہ اپنے شوہر کے ہاتھوں سے"

معظم نے پہلا نیوالہ بنا کر سندیلا کی طرف بڑھایا۔۔۔ سندیلا معظم یا معظم کے بڑھے ہوئے ہاتھ میں موجود نیوالے کی بجائے پپو کو دیکھنے لگی جو اس وقت اس کو دیکھ کر شرارت سے مسکرا رہا تھا


معظم نے پلٹ کر سندیلا کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے پپو کو دیکھا اور اس کی گدی پر تپھڑ رسید کیا


"یہاں کوئی فلم چل رہی ہے جو تو بنا ٹکٹ کی انجوائے کرے گا۔۔۔ چل پری کو لے کر اندر کمرے میں جا اور اس کی رونے کی آواز بالکل نہیں آنا چاہیے مجھے"

معظم کی پھٹکار سن کر پپو دل ہی دل میں اپنے بھئیا جی کو چند القابات سے نوازتا ہوا پری کو لے کر شرافت سے کمرے میں چلا گیا


جبکہ سندیلا معظم کی حرکت پر اسے گھور کر دیکھنے لگی۔۔۔ وہ شاید اسی سے آپ جناب یا ادب و لحاظ سے بات کرتا تھا مگر بچارے پپو کی کوئی عزت نہیں تھی


پپو کے وہاں سے جانے کے بعد معظم نے سندیلا کو دیکھتے ہوئے اپنے چہرے کے تاثرات دوبارہ نرم کرلیے اور اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا نیوالہ ایک بار پھر سندیلا کی طرف بڑھایا۔۔۔ جسے سندیلا نے بغیر کچھ بولے اس کے ہاتھ سے لے کر اپنے منہ میں ڈال لیا


دوسرا نیوالہ نے خود کھانے کے بعد معظم نے دوبارہ نیوالہ بنا کر سندیلا کی طرف بڑھایا۔۔۔۔ سندیلا اس کے فری ہونے پر معظم کو گھور کر دیکھنے لگی


"بات بات پر مجھے اس طرح گھور کر مت دیکھا کریں استانی جی،، آج کل بہت مشکلوں سے دستیاب ہوتے ہیں ایسے شوہر، جو اپنی بیوی کو اپنے ہاتھ سے بنا بنا کر نوالے کھلائے"

معظم سندیلا کے گھورنے پر اس کو دیکھتا ہوا بولا اور اس کے ہونٹوں کے قریب نیوالا لے جانے لگا تبھی سندیلا نے معظم کا ارادہ بھانپ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس کے ہاتھ سے پراٹھے کا نیوالا لے کر دوبارہ اپنے منہ میں رکھا۔۔۔۔ بھلا وہ کہاں نخرے دکھانے کی عادی تھی احتشام نے تو کبھی مشکل سے ہی اس کے ناز نخرے برداشت کیے ہو


"میرا ہاتھ موجود ہے،، میں ناشتہ کر لیتی ہوں تم اپنا ناشتہ کرو"

سندیلا اسکی بات

ماننے کے بعد معظم کو ٹوکتی ہوئی بولی اور خود اپنے ہاتھ سے ناشتہ کرنے لگی جیسے ہی اس نے اپنے منہ میں پراٹھے کا نیوالہ ڈالنا چاہا معظم نے جھٹ سے اس کی کلائی پکڑ کر اس کے ہاتھ سے نیوالہ اپنے منہ میں ڈال لیا۔۔۔ معظم کی اس حرکت پر سندیلا ایک بار پھر اسے گھور کر دیکھنے لگی


"آپ کے ہاتھ سے کھانے میں اس پراٹھے کا ذائقہ اور بھی زیادہ زبردست لگ رہا ہے مگر اب آپ آرام سے کھالیں استانی جی،، میں خود بھی شرافت سے کھا لیتا ہوں"

معظم سندیلا کے تیور دیکھ کر جلدی سے بولا کہیں وہ اٹھ کر چلی ہی نہ جائے


*****


"کیا تم کہیں جا رہے ہو"

پپو گھر سے باہر نکل چکا تھا معظم بھی پری کو پیار کرتا ہوا،، باہر کی راہ لینے والا تھا تب سندیلا ایک دم اس سے پوچھنے لگی


"ہاں ایک ضروری کام تھا شام تک واپس آ جاؤں گا آپ بتائیں آپ کو کوئی کام ہے کیا مجھ سے"


معظم غور سے سندیلا کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر اس سے پوچھنے لگا اب بھلا وہ اسے کیا بتاتی وہ یہاں ایک دن کے لیے آئی تھی۔۔ اب احتشام کی کال آ جاتی تو وہ اسے کیا جواب دیتی،، نہ جانے اس کا موبائل کب سے بند پڑا ہوا تھا جسے تھوڑی دیر پہلے ہی اس نے کھولا تھا


"میں یہاں پر اپنا محدود سامان لے کر آئی تھی لیکن اب محسوس ہو رہا ہے جیسے پری کی کچھ چیزوں کی ضرورت پڑے گی،، اپنا سامان لینے کے لئے مجھے ہوٹل جانا پڑے گا جہاں میرا قیام ہے"

سندیلا پریشان ہوکر معظم کو اپنا مسئلہ بتانے لگی انجانے میں اس نے اپنی بیٹی کو پری کہہ کر پکارا۔۔۔ وہ نام جو کل رات معظم نے اس کے لیے تجویز کیا تھا۔۔۔ اس بات پر معظم کے چہرے پر مسکراہٹ آئی لیکن وہ فوراً اسے چھپا گیا


"اس میں پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے استانی جی،، شام کو واپسی پر میں آپ کا اور پری کا سب سامان لے کر آ جاؤں گا بس آپ اپنا اور پری کا خیال رکھیے گا ویسے تو گھر میں کوئی نہیں آئے گا لیکن اگر کوئی آئے تو دروازہ مت کھولیے گا میرے پاس گھر کی چابی ہے اور رات کے کھانے کی فکر بھی مت کریئے گا میں لیتا آؤ گا"

معظم سیکنڈ میں اس کے مسئلہ حل کرتا ہوا بولا


"مگر سارا سامان تم کیسے اور کیوں لے کر آؤ گے اور رات کے کھانے کے لئے تو شرافت بھائی نے نرگسی کوفتے کھانے کا کہا ہے ناں"

نہ جانے وہ سندیلا اور اس کی بیٹی کا سامان کہاں سے لے کر آتا۔۔ خرید کر لے کر آتا ہے یا پھر کہاں سے سندیلا کو سمجھ میں نہیں آیا۔۔۔۔ صبح ناشتے کے وقت اس کو پپو نے اپنا اصلی نام شرافت بتایا تھا تبھی سندیلا کنفیوز ہو کر معظم سے رات کے کھانے کا پوچھنے لگی


"آپ کو اپنے اور پری کے سامان سے مطلب ہونا چاہیے وہ کہاں سے لے کر آؤں گا اس بات سے نہیں،، جب سامان لے کر آؤں گا تو دیکھ لیے گا اور کیوں لے کر آؤں گا اس کا جواب آپ مجھ سے آج رات کو طلب کرلیے۔۔۔ رہی نرگسی کوفتوں کی بات تو اپنے شرافت بھائی کی باتوں کو اتنا سیریس مت لیا کریں گولی مار دیں انہیں"

معظم سندیلا کو بولنے کے ساتھ اس کا گال پیار سے تھپتھپا کر سندیلا کو کنفیوز چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا

کیسا عجیب شخص ہے یہ انسان، جو ایک معصوم انسان کو بلاوجہ میں گولی مارنے کی بات کر رہا تھا۔۔۔ وہ بھی اتنے پیار سے

سندیلا سوچتی ہوئی کمرے میں چلی گئی

****

"امی بتا رہی تھیں کہ زینش پر تمہارا غصہ ٹھنڈا ہوگیا ہے اور تمہارے دل میں اس کے لئے موجود بد گمانی بھی وہ کافی حد تک صاف ہو چکی ہے"

شام کے وقت بلال حسان کے کمرے میں آ کر اس سے پوچھنے لگا


بلال نے دیکھا اس وقت حسان سیف سے کوئی یو ایس بی نکال کر دراز میں رکھ رہا تھا، تھوڑی دیر پہلے ہی جویریہ نے بلال کو یہ خوشی کی خبر سنائی تھی جو جویریہ کے لیے تو خوشی کی تھی مگر بلال یہ خبر سن کر کچھ خاص خوش نہیں ہوا تھا بلکہ اسے عجیب سی وحشت ہونا شروع ہوگئی تھی تبھی وہ حسان کے پاس اس سے پوچھنے چلا آیا


"تمہیں معلوم تو ہے میں امی کی کوئی بھی بات ٹال نہیں سکتا اب امی اتنی منت سماجت کرکے مجھے زینش کے کردار کی اتنی وضاحتیں دے رہی تھیں تو پھر مجھے امی کو تو مطمئن کرنا ہی تھا"

حسان اپنا پریس ہوا ڈریس وارڈروب سے نکالتا ہوا بلال سے بولا۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد اسے تیار ہو کر میرج ہال میں جانا تھا جہاں اس کا ریسپشن تھا


"یعنی تم صرف امی کی وجہ سے زینش کو اپنی زندگی میں اور اپنے دل میں جگہ دو گے"

بلال ضبط کرتا ہوا حسان سے پوچھنے لگا


"صرف اس بیڈروم میں جگہ دو گا، وہ بھی مہینے دو مہینے کے لیے۔۔۔ اس کے بعد اگر مجھے لگا کہ آگے اس کے ساتھ زندگی گزاری جاسکتی تو دیکھ لو گا آگے کیا کرنا ہے نہیں تو ڈائیورس دے کر حق مہر کے ساتھ ہی اس کے اکاؤنٹ میں ایک اچھی اماؤنٹ بھی ڈلوا دوں گا تاکہ اس کی باقی کی لائف ڈسٹرائے نہ ہو"

حسان بلال کو اپنے آگے کی پلاننگ بتاتا ہوا کوٹ پہن کر اسکی فٹنگ چیک کرنے لگا


"یعنی تم ایک یا دو مہینے کے لیے اسے بیوی بنا کر یوز کرو گے،، اگر تمہارا اس سے دل نہ بہلا تو اسے اچھی رقم دے کر اپنی زندگی سے چلتا کروگے۔۔۔ تف ہے تمہاری گھٹیا سوچ پر حسان اس سے تو بہتر یہی ہے تم آج ہی اسے ڈائیورس دے دو"

حسان کی گری ہوئی سوچ پر بلال غصہ کرتا ہوا بولا۔۔ بے بس یہ تھی کہ وہ غصے کے علاوہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا


"دیکھو بلال تم مجھے شروع سے اچھی طرح جانتے ہو،، میں ایک فیئر پرسن رہا ہو میرا مطلب ہے، لڑکیوں کے معاملے میں نے ٹین ایج میں، نہ دوسری لڑکوں کی طرح لڑکیوں سے کوئی افیئر چلایا اور نہ ہی کبھی عشق و عاشقی کے چکر میں پڑا۔۔۔ تو کیا میں ایک ایسی بیوی ڈیزرو کرتا ہوں جس کا ماضی داغدار ہو۔۔۔ زینش کو اگر میں آج بیوی کا شرعی حق دو گا تو وہ صرف اور صرف امی کے اصرار پر،، ورنہ میں نے تو اس کو ڈائیورس دینے کا ہی سوچا تھا"

حسان صوفے پر بیٹھتا ہوا بلال سے بولا تو بلال چلتا ہوں حسان کے پاس آیا


"شی از انوسینٹ، وہ اٙن چھوئی ہے۔۔ اس کے ساتھ اس رات کچھ غلط نہیں ہوا تھا"

بلال یہ سب حسان سے صرف اس وجہ سے کہہ رہا تھا کیونکہ اسے حسان کی باتیں سن کر غصے کے ساتھ تکلیف بھی ہوئی تھی، وہ نہیں چاہتا تھا حسان زینش کے ساتھ کچھ غلط کرے یا اسے تکلیف پہچائے


"یہ تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو۔۔ کیا اس رات تم وہاں پر موجود تھے"

حسان ٹانگ پر ٹانگ رکھے صوفے پر بیٹھتا ہوا بلال سے پوچھنے لگا


"میں اتنے یقین سے اس لئے کہہ رہا ہوں، کیونکہ مجھے انسان کی اچھی طرح پہچان ہے حسان، زینش بالکل بھی جھوٹ نہیں بول رہی ہے اور اگر بالفرض اس کے ساتھ اس رات کچھ غلط بھی ہوا ہوتا تو اس میں زینش کا قصور تم کیسے ثابت کر سکتے ہو۔۔۔میرے خیال میں اس طرح تو وہ اور زیادہ ہمدردی اور محبت کی مستحق ٹہرے گی"

بلال نے حسان کو اپنی طرف سے سمجھانے کی کوشش کی کیونکہ حسان کے ارادوں کو جاننے کے بعد اسے اب زینش کی فکر ہونے لگی تھی


"یار سیدھی سی بات ہے اپنے اپنے منٹالیٹی کی بات ہوتی ہے شاید تمہارے لیے ایک ایسی لڑکی کو قبول کرنا نارمل بات ہوگی جس پر اغوا شدہ ہونے کا ٹیک لگا ہو مگر میں ایسی لڑکی کو ساری زندگی کے لیے بیوی بنا کر نہیں رکھ سکتا"

حسان اب بلال کے سامنے کھڑا ہو کر اپنے لہجے میں سنجیدگی لاتا ہوا بولا


"اگر ساری زندگی اسے بیوی بنا کر نہیں رکھ سکتے تو عارضی طور پر اسے بیوی بنا کر اپنے بیڈ روم میں لانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ اسطرح تمہیں زینش کی زندگی برباد کرنے کا کوئی حق نہیں ہے حسان،، اس سے بہتر یہی ہے کہ تم اسے ابھی کے ابھی طلاق دو"

بلال غصے میں آکر اب کی بار تیز لہجے میں حسان کے سامنے بولا


"ایک منٹ یہ تم اتنا ہائپر کیوں ہو رہے ہو اور یہ زینش سے اس قدر ہمدردی،، اس کے پیچھے کیا خاص وجہ ہے۔۔۔ مجھے تو یہ ماجرہ بھی سمجھ میں نہیں آرہا ہے"

حسان انجان بننے کی ایکٹنگ کرتا ہوا بلال سے پوچھنے لگا


"بات ساری یہ ہے حسان تم نے کبھی بھی باتوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہے یا پھر ہمیشہ سے سب کچھ جان کر بھی انجان بنے رہے ہو۔۔۔ لیکن آج میں تمہیں واضح لفظوں میں ساری بات سمجھا دیتا ہوں۔۔۔ اگر تمہاری وجہ سے زینش ہرٹ ہوئی یا پھر اسے کوئی بھی تکلیف پہنچی تو یاد رکھنا میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا"

بلال اسے دھمکی دیتا ہوا کمرے سے چلا گیا


****


"کیا ہوا بلال حسان تمہارے ساتھ نہیں آیا"

میرج ہال میں اس وقت سارے ہی گیسٹ پہنچ چکے تھے جویریہ نے دور سے بلال کو آتا ہوا دیکھا تو اس کے پاس پہنچ کر حسان کا اس سے پوچھنے لگی۔۔۔ بلال کا شدت سے دل چاہا وہ اپنی ماں سے پوچھے آخر اسے ہر جگہ حسان ہی کیو دکھتا ہے، کیا وہ اپنی زندگی میں کبھی اپنی سگی اولاد پر توجہ دی گی بھی یا نہیں


"اس نے میرے ساتھ آنا ہے ایسا مجھے نہیں معلوم تھا۔۔ نہ اس نے مجھ سے ایسا کوئی ذکر کیا۔۔۔ اس لیے میں اکیلا ہی چلا آیا"

ہمیشہ کی طرح ساری باتوں کو اپنے دل میں رکھتا ہوا بلال جویریہ کو جواب دینے لگا


"سارے گیسٹ تو آ چکے ہیں اب تک تو اسے آجانا چاہیے تھا چلو تم سب سے مل لو میں اسے کال کر لیتی ہوں"

جویریہ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے موبائل پر حسان کا نمبر ملا کر مصروف انداز میں بولی تو بلال اس کی بات سن کر اسٹیج کی طرف بڑھ گیا جہاں پر زینش موجود تھی


****


"زینش بھابھی بلال بھائی آپ کو وہ سامنے ڈریسنگ روم میں بلا رہے ہیں، شاید انہیں کوئی ضروری بات کرنا ہے آپ سے"

شہنیلا اسٹیج پر بیٹھی ہوئی زینش سے کل رات کے بارے میں پوچھ رہی تھی تب حسان اور بلال کی ایک کزن آ کر زینش سے بولی جس پر چونک زینش نے اسے دیکھا مگر وہ شہنیلہ یا پھر اس پر کچھ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے اسمائل دیتی ہوئی اٹھ کر ڈریسنگ روم کی طرف جانے لگی


"آپ نے بلایا تھا مجھے بلال خیریت ہے"

زینش ڈریسنگ روم میں موجود بلال سے پوچھنے لگی جس پر بلال غور سے اس کا دل کش روپ دیکھنے لگا


"کیسی ہو"

بلال زینش سے پوچھنے لگا۔۔۔ زینش اس کا کتنا ہی دل دکھا لے یا اسے نظر انداز کر دے شاید وہ کبھی بھی اسے بری نہیں لگ سکتی تھی،،، وہ اس پر غصہ تو کر سکتا تھا مگر نفرت نہیں۔۔۔ معلام نہیں وہ اس لڑکی کو کبھی اپنے دل سے نکال بھی پائے گا یا پھر ساری عمر ایک بے نام سی آگ میں اسے اپنی بھابھی کے روپ میں دیکھ کر جلتا رہے گا


"آج تو کافی حد تک مطمئن ہو ورنہ تو مجھے ڈر ہی لگ رہا تھا کہ آپ کی دعائیں رنگ ہی نہ لے آئے"

حسان تھوڑی دیر میں یہاں پر پہنچنے والا تھا اب زیشن کی زندگی میں سب کچھ ہی نارمل ہونے جا رہا تھا اس لئے وہ پرسکون تھی۔۔۔ اس نے شہنیلا کو بھی اطمینان دلایا تھا مگر اپنے سامنے کھڑے بلال کی بات پر طنز کرتی ہوئی بولی۔۔۔ کیوکہ کل رات حسان کا رویہ دیکھ کر وہ بہت مطمئن تھا


"میری دعاؤں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ کبھی بھی قبول نہیں ہوتیں۔۔۔ اس کا اندازہ تم آج اس بات سے ہی لگا لو اگر میری دعاؤں میں اثر ہوتا تو تم آج حسان کی جگہ میری ہوتیں"

بلال زینش کو دیکھتا ہوا بولا اور تلخی سے ہنسا۔۔۔ زینش خاموشی سے اسے دیکھنے لگی جو اب حسرت سے اس کے سجے سنورے روپ کو دیکھ رہا تھا


"آپ نے مجھے یہاں پر کسی ضروری کام سے بلایا تھا"

بلال کی نظروں سے گھبراتی ہوئی زینش اس سے پوچھنے لگی۔۔۔ بلال چلتا ہوا زینش کے نزدیک آیا اور اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھاما


"حسان تمہیں وقتی خوشیاں تو دے سکتا ہے زینش مگر عمر بھر کے لئے نہیں،، زیادہ ٹائم کے لیے وہ تمہیں اپنے ساتھ جوڑے نہیں رکھ سکتا۔۔۔ ایسا ابھی اس نے مجھ سے خود کہا ہے،، وہ تمہیں صرف اور صرف امی کی وجہ سے ایکسپٹ کرنے پر مجبور ہے"

بلال زینش کے دونوں ہاتھ تھام کر اسے حسان کی سچائی بتانے لگا تاکہ زینش کو حقیقت کا اندازہ ہوجائےاور بعد میں اسے تکلیف نہ پہنچے۔۔۔ مگر زینش بلال کی بات سن کر اس سے اپنے ہاتھ چھڑواتی ہوئی بولی


"تو پھر مجھے کیا کرنا چاہیے،، خلع لے کر آپ کے پاس چلی آؤں یہی چاہتے ہیں آپ۔۔۔۔ اور اسی وجہ سے اسپیشلی میرے پاس آ کر حسان کے خلاف یہ سب کچھ بول رہے ہیں آپ۔۔۔۔ ہضم نہیں ہو رہا آپ سے کہ سب کچھ اتنی جلدی سیٹ کیسے ہو گیا آخر۔۔۔ پیار کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ناں آپ، تو پھر کیوں رحم نہیں کھا رہے ہیں مجھ پر"

زینش بے بسی سے آہستہ آواز میں چلاتی ہوئی بولی بلال خاموش کھڑا ضبط سے سرخ چہرے کے ساتھ اسے دیکھنے لگا


"ماما"

زینش حیرت زدہ ہو کر بولی بلال نے پلٹ کر دیکھا وہاں شہنیلا کھڑی تھی


لازمی وہ زینش اور بلال کی ساری گفتگو سن چکی تھی بلال نے شہنیلا کی نظروں میں ناگواری دیکھی جس پر بلال نظریں چرا گیا


"زینش فوراً باہر آجاؤ میرے علاوہ یہاں کوئی اور یہاں آتا تو اب تک تماشا لگ چکا ہوتا"

شہنیلا عجیب سی نظروں سے بلال کو دیکھ کر زینش سے سے بولی اور باہر نکل گئی اس کے پیچھے ہی زینش بھی باہر چلی گئی


*****


"یہ تمہاری آنکھیں اتنی سرخ کیوں ہو رہی ہیں"

تقریب میں چہل پہل اور گہماگہمی دیکھ کر بلال نے واپس گھر جانے کا ارادہ کیا وہ اس وقت تنہائی چاہتا تھا تبھی جویریہ اس کے پاس آکر بلال سے پوچھنے لگی


"ایسے ہی سرخ ہو رہی ہیں، آپ بتائیں کوئی کام تو نہیں ہے آپ کو"

بلال جویریہ کو ٹالتا ہوا بولا اور اس سے کام کا پوچھنے لگا کیونکہ وہ بلال کو پریشان دکھ رہی تھی


"اس لڑکے نے مجھے اتنا پریشان زندگی میں کبھی نہیں کیا جتنا اپنی شادی پر کر رہا ہے۔۔۔ اسے ذرا بھی اندازہ نہیں ہے سب لوگ اس کے بارے میں پوچھ رہے ہیں اور یہ ہے کہ ابھی تک یہاں پر نہیں پہنچا"

جویریہ بلال سے پریشان ہوتی ہوئی بولی کیوکہ ٹائم کافی گزر چکا تھا بلال نے اپنی کلائی میں موجود ریسٹ واچ پر نظر ڈالی


"واقعی اب تک تو آ جانا چاہیے تھا اس سے میں گھر جا کر پوچھتا ہوں۔۔۔ آپ پریشان مت ہوں"

اپنے وجود میں ہوتی توڑ پھوڑ کو نظر انداز کرتا ہوا وہ جویریہ سے بولا تب بلال کے موبائل پر گھر کے لینڈ لائن سے کال آنے لگی


"ہاں تہمینہ بولو خیریت"

بلال کال ریسیو کرنے کے بعد تہمینہ کی گھبرائی ہوئی آواز سن کر اس سے بولا


"بلال سر آپ پلیز جلدی سے گھر آ جائیں یہاں پر بہت کچھ غلط ہو چکا ہے"

وہ ابھی ابھی حسان کے کمرے سے آئی تھی اس وقت خوف سے بری طرح لرز رہی تھی مگر اپنے حواس قائم رکھتے ہوئے اس نے گھر کے لینڈ لائن سے بلال کو کال ملائی تھی


"کیا ہوا ہے تہمینہ مجھے پوری بات بتاؤ میں گھر پہنچ رہا ہوں"

بلال کو اس کی آواز میں گھبراہٹ کے ساتھ لڑکھڑاہٹ بھی محسوس ہوئی تھی بلال باہر کی طرف تیز قدم اٹھاتا ہوا تہمینہ سے پوچھنے لگا۔۔۔ کچھ غیر معمولی پن محسوس کرکے جویریہ بھی بلال کے ساتھ ساتھ تیزی سے قدم بڑھانے لگی


"سر مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا حسان سر کو کیا ہوا ہے ان کا۔۔۔ خو۔۔۔ خون بہت تیزی سے بہہ رہا ہے"

تہمینہ نے بولنے کے ساتھ گھبراہٹ کے مارے رونا شروع کردیا جس سے بلال کے اوسان مزید خطا ہوئے وہ موبائل کو پاکٹ میں ڈال کر بھاگتا ہوا باہر نکلنے لگا


"بلال رکو مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے گھر میں،، تہمینہ کیا بول رہی تھی حسان حسان ٹھیک ہے نا"

جویریہ کی گھبرائی ہوئی آواز پر بلال رکتا ہوا جویریہ کو دیکھنے لگا


"میں گھر پہنچ کر آپ کو کال کرتا ہوں"

بلال جویریہ کو بس اتنا ہی کہہ سکا اور وہاں سے گھر کے لیے نکل گیا


*****


"تم اب آرہے ہو گھر اتنی رات میں"

پری کو سلانے کے بعد سندیلا کی بھی آنکھ لگ گئی تھی مگر دوسرے کمرے میں کھٹکے کی آواز پر سندیلا کی آنکھ کھلی وہ بیڈ سے اتر کر کمرے سے باہر نکلی تو ڈھیر سارے شاپرز کو ہاتھ میں لئے معظم کو کمرے میں موجود پایا


"سوری استانی جی آپ کو میری وجہ سے بھوکا رہنا پڑا ہوگا،، اچانک ایک بہت ضروری کام آ گیا تھا جس کی وجہ سے واپسی پر کافی دیر ہوگئی"

معظم نے بولتے ہوئے پوری کوشش کی تھی کہ سندیلا کی نظر اس کی آستین پر نہ پڑے،، اسی وجہ سے وہ سندیلا کی طرف پشت کیے صوفے پر رکھے شاپرز میں کچھ ڈھونڈتا ہوا اپنے آپ کو مصروف ظاہر کرنے لگا


"کھانا تو میں بنا کر کھا چکی تھی مگر یہ تمہارے ہاتھ پر کیا ہوا ہے یہاں دیکھو ذرا"

سندیلا بولتی ہوئی معظم کے پاس آئی جیسے ہی اس نے معظم کا رخ اپنی طرف کیا ویسے ہی دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ دبایا


"کیا کر رہی ہیں استانی جی حد ہوگئی ہے یار، ابھی شاپرز سے ساری چیزیں نکل کر باہر گرتی"

اس کی پریشانی کا نوٹس لینے کے باوجود معظم انجان بنتا ہوا سندیلا سے بولا


"یہ تمہارے بازو پر اتنا سارا خون یا میرے اللہ،، تمہیں تو بہت گہری چوٹ آئی ہے معظم دکھاؤ مجھے اتنا بازو"

سندیلا اس کی خون سے رنگی ہوئی شرٹ دیکھ کر وہ سچ میں پریشان ہوگئی تھی، جبھی جلدی سے معظم کی شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے آستین سے اس کا بازو باہر نکالنے لگی تاکہ زخم کا جائزہ لے سکے


"یہ اتنی بھی گہری چوٹ نہیں ہے جتنا زیادہ آپ پریشان ہوگئی ہیں، یہ بتائیں پری سو ہوگئی ہے،، وہ کمرے میں آپکو موجود نہ پاکر پریشان تو نہیں ہوگی"

معظم نے سندیلا کا پریشان چہرا دیکھ کر اس کی توجہ اپنی طرف سے ہٹانے کے لیے پری کی طرف دلائی جو اب اس کے بازو پر بڑا اور گہرا سا کٹ دیکھ کر ڈر گئی تھی


"وہ سو رہی ہے ابھی نہیں اٹھے گی، مگر تم یہ بتاؤ تمہارے ہاتھ پر اتنا گہرا زخم کیسے آیا"

سندیلا کو ابھی بھی اس کے بازو پر موجود زخم کی پرواہ تھی بولنے کے ساتھ ہی وہ ڈیوائڈر میں سے فرسٹ ایڈ باکس نکال کر لے آئی۔۔۔ وقت گزرنے کے لیے گھر کی صفائی کرتے ہوئے اسے آدھی سے زیادہ چیزوں کا علم ہوگیا تھا کہ کونسی چیز کہاں پر موجود ہے


"یو سمجھ لیں آج ایک چھوٹا موٹا سا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا اور بس"

اب وہ سندیلا کو اصل وجہ کیا بتاتا اس کا تو پیشہ ہی ایسا تھا آئے دن، لڑائی جھگڑے مارکٹائی۔۔۔ کوئی نہ کوئی زخم اس کے جسم کی زینت ہی بنا رہتا تھا


"یعنی یہ بھی میں سمجھ لو مگر تمہیں اصل بات نہیں بتانی ہے مجھے۔۔۔۔ آف تمہیں تو ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے معظم اس پر تو اسٹیچس لگیں گے"

پہلا جملہ سندیلا نے استانی بن کر روعب جماتے ہوئے بولا تھا۔۔۔ مگر کاٹن سے زخم صاف کرنے کے بعد وہ دوبارہ معظم سے پریشان ہوتی ہوئی بولی۔۔۔ معظم کو اپنی استانی جی کا یہ نرم گرم سا مزاج بہت بھایا وہ گہری نگاہوں سے سندیلا کو دیکھنے لگا


"اوہو اب میری شکل کیا دیکھ رہے ہو،، چلو ہم کسی ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں رکو میں پری کو لے کر آتی ہوں"

سندیلا یوں اچانک آئی پریشانی سے گھبرا گئی تھی اس لیے صوفے سے اٹھ کر پری کو لانے لگی،، تبھی معظم نے سندیلا کو اس کی کلائی پکڑ کر واپس اپنے پاس صوفے پر بٹھایا


"کیوں پری کی نیند خراب کر رہی ہیں آپ اور اتنی رات کو کونسا ڈاکٹر ملے گا استانی جی، میں خود ہی کچھ کر لیتا۔۔۔ آپ نے جاگ کر سارا کام خراب کر دیا اور اب اس طرح پریشان ہو رہی ہیں"

معظم بولتا ہوا خود صوفے سے اٹھا اور ڈیوائیڈر کی دراز سے سوئی اور دھاگہ نکلنے لگا سندیلا حیرت سے منہ اور آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگی


"مطلب تم خود اپنے اسٹیچس لگاؤ گے"

سندیلا پوری آنکھیں کھول کر معظم کی شکل دیکھتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی


"سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ پر اسٹیچس لگانے میں مسلئہ نہیں ہوتا استانی جی،، مگر آپ سے میری یہ گزارش ہے آپ پلیز چند منٹ کے لئے اپنی آنکھیں بند کرلیے گا"

معظم صوفے پر دوبارہ بیٹھ کر سندیلا سے گزارش کرتا ہوا بولا


"میں اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتی میں کمرے سے جا رہی ہوں"

سندیلا بولتی ہوئی واقعی کمرے سے باہر نکل گئی


کیونکہ وہ خود اب جو اپنے ساتھ کرتا سندیلا وہ ہرگز نہیں دیکھ سکتی تھی،، تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس کمرے میں آئی تو معظم اپنا سر صوفے سے ٹیک کر نڈھال سے انداز میں نیم دراز تھا۔۔ سندیلا اس کے چہرے پر موجود تاثرات سے اس کی تکلیف کا اندازہ لگا سکتی تھی۔۔ جبھی چہرے پر فکرمندی لائے معظم کا احساس کرتی ہوئی دوبارہ اس کے پاس صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔ سندیلا کا پریشان چہرا دیکھ کر تکلیف کے باوجود معظم مسکرا کر اسے دیکھنے لگا تاکہ سندیلا زیادہ پریشان نہ ہو


"زیادہ مسکرانے کی ضروت نہیں ہے میں جانتی ہوں کہ تمہیں اس وقت بہت درد ہو رہا ہے"

معظم کے مسکرانے پر سندیلا اس کو دیکھتی ہوئی بولنے لگی


"درد اب بالکل بھی محسوس نہیں ہو رہا ہے استانی جی میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں"

معظم اپنا ہاتھ سندیلا کے ہاتھ پر رکھتا ہوا بولا اسے اپنی بات کا یقین دلانے لگا


سندیلا نے دیکھا خود اسٹیچس لگانے کی وجہ سے اس کے ہاتھ کی انگلیوں پر خون لگا ہوا تھا۔۔۔ معظم سندیلا کا چہرہ دیکھتا ہوا اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا سندیلا کا ہاتھ اپنے ہونٹوں کی طرف لے جانے لگا۔۔۔ تو سندیلا کی نظریں خود بخود معظم کے چہرے پر گئیں۔ ۔۔ معظم سندیلا کا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگاتا ہوا اُسی کو دیکھ رہا تھا


سندیلا کا ہاتھ اپنے ہونٹوں ہٹانے کے بعد اب وہ غور سے سندیلا کا چہرہ دیکھتا ہوا اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے اس کا گال چھونے لگا۔۔۔ معظم کے اس عمل پر سندیلا کے پاس بولنے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں تھا وہ خاموشی سے معظم کو دیکھنے لگی۔۔۔


سندیلا نے اس کی آنکھوں میں اکثر اپنے لیے شرارت دیکھی تھی مگر غلاظت کبھی نہیں۔۔۔۔ اور اس وقت تو اس کی آنکھوں میں صرف اور صرف محبت تھی احترام تھا۔۔۔ مگر ایسا کیو تھا یہ سندیلا کو سمجھ نہیں آیا


"میں یہ کچھ سامان آپ کے اور پری کے لئے لایا ہوں اسے چیک کر لئے گا"

معظم سندیلا کی خاموشی کو نوٹ کر کے اس کی توجہ صوفے پر موجود شاپرز پر دلاتا ہوا بولا


"تمہیں اتنا کچھ لانے کی کیا ضرورت تھی میں نے یا پری نے کون سا یہاں ہمیشہ کے لئے رہنا ہے"

سندیلا نے ڈھیر سارے شاپرز پر نظر ڈال کر معظم سے زیادہ اپنے آپ کو یہ بات یاد دلائی تھی۔۔


ویسے بھی شام کے وقت احتشام کی کال اس کے پاس آئی تھی جس پر اس نے سندیلا کو موبائل بند کرنے پر اور اپنا قیمتی سامان ہوٹل میں چھوڑ کر آنے پر،، کافی باتیں سنائی تھی۔۔۔ جب احتشام کو یہ معلوم ہوا کہ سندیلا کو ایک رات اور مزید رکنا پڑے گا تب وہ سندیلا پر مزید غصہ ہوا تھا


"جب تک آپ میرے پاس موجود ہیں تب تک آپ اور پری میری ذمہ داری ہیں،، آپ اور پری یہ سارا سامان استعمال کرے گیں تو مجھے بہت خوشی ہوگی"

معظم کی بات سن کر سندیلا ایک بار پھر اسے دیکھنے لگی معظم مسکراتا ہوا صوفے سے اٹھا اپنی شرٹ پہننے لگا


سندیلا اسکی مدد کے لیے اٹھی اور معظم کو خود سے شرٹ پہنانے لگی۔۔۔ سندیلا اسکی شرٹ کے بٹن بند کر رہی تھی تبھی معظم کی نظر بھٹک کر اس کے ہونٹوں پر آ ٹھہری گلابی سے نرم گداز ہونٹ جنہیں آج پھر چھونے کی خواہش سر چڑھ کر بولنے لگی اور پھر صراحی دار گردن کے بعد آتا آیریا۔۔۔ یہ بند لاکر


"آفففف نہیں یار"

بےساختہ معظم کے منہ سے نکلا تو سندیلا حیرت سے اسے دیکھنے لگی


"کیا ہوا"

سندیلا کے دیکھنے سے پہلے وہ جلدی سے اپنی حسرت بھری نگاہوں کا زاویہ دوسری سمت کر چکا تھا


"کنٹرول نہیں ہو رہا یار، میرا مطلب ہے کچھ نہیں۔۔۔۔ پری اکیلی سو رہی ہے آجائے ہم بھی بیڈ روم میں چلتے ہیں"

وہ سندیلا کو بولتا ہوا خود بیڈ روم میں چلا گیا تو سندیلا سارے شاپرز اٹھا کر معظم کے پیچھے کمرے میں چلی آئی


"او ہو تم نے پری کو کیوں گود میں اٹھا لیا واپس لٹاؤ اسے کاٹ میں"

سندیلا سارے شاپرز اٹھا کر کمرے میں آئی تو معظم کو دیکھتی ہوئی بولی جو سوتی ہوئی پری کو گود میں اٹھا کر اسے پیار کر رہا تھا


"وہ جاگے گی نہیں یا نیند نہیں خراب ہو گی آپ بے فکر ہو جائیں"

معظم احتیاط سے پری کو کاٹ کی بجائے بیڈ پر لٹانے کے بعد خود بھی اس کے برابر میں لیٹتا ہوا بولا


"میں اس کی نیند کی وجہ سے نہیں، تمہارے بازو پر موجود زخم کی وجہ سے بول رہی ہو"

سندیلا نے بولتے ہوئے آہستہ سے الماری کھول کر سارے شاپرز ایک جگہ پر رکھ دیے جہاں اس کا بیگ موجود تھا۔۔ اب ان شاپرز میں معظم اس کے اور اس کی بیٹی کے لئے کیا لے کر آیا تھا یہ وہ کل صبح ہی دیکھنے کا سوچ رہی تھی کیونکہ رات کافی ہوچکی تھی


"زخم کو تو آپ نے ہّوا ہی بنا لیا ہے آستانی جی۔۔۔ پورا دن گزر گیا تھا اپنی اس ننھی سی پری کا چہرہ دیکھے ہوئے۔۔۔ کیا اسے پیار کیے بنا سو سکتا ہوں میں"

معظم کی بات سن کر سندیلا پلٹ کر معظم کو دیکھنے لگی جو کہ چوٹ والی کروٹ کے بل لیٹا ہوا،، پری کے ہاتھ کی بند مٹھی پر پیار کر رہا تھا۔۔۔ اس وقت اس کے انداز میں بالکل باپ جیسی شفقت موجود تھی جس طرح وہ پری کو دیکھ رہا تھا سندیلا کو اپنے پاپا کی یاد آنے لگی


"ایسے دور سے کھڑی ہو کر کیا دیکھ رہی ہیں،، آپ بھی یہاں آ جائیں"

معظم اب سندیلا کی طرف متوجہ ہو کر آنکھوں میں شرارت لیے اسے آفر کرنے لگا۔۔۔۔ سندیلا خاموشی سے چلتی ہوئی اس کے پاس آنے لگی تو معظم کی شرارتی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی


"سیدھے ہو کر لیٹو"

وہ معظم کے پاس آ کر اس کے ہاتھ کی پوزیشن کو ٹھیک کرتی ہوئی بولی۔۔۔ اور پری کو واپس کاٹ میں لٹانے کے بعد دوبارہ معظم کے پاس آئی


"رات کا کھانا کھایا تم نے"

معظم بیڈ پر سیدھا ہو کر لیٹا ہوا اسے دیکھ رہا تھا تب سندیلا اس سے پوچھنے لگی


"حاجت نہیں ہے کھانے کی"

وہ کل رات اور آج صبح کی بانسبت اِس وقت اُس کا احساس کر رہی تھی شاید اُس کے بازو پر موجود زخم کی وجہ سے۔۔۔۔ مگر وجہ کوئی بھی ہو معظم کو اُس کا احساس کرنا اچھا لگ رہا تھا


"ٹھیک ہے پھر میں دودھ لے کر آ رہی ہوں وہ پی لینا"

کھانا کا منع کرنے پر سندیلا اس کو بولتی ہوئی کچن میں چلی گئی واپس آئی تو اُس کے ہاتھ میں دودھ کے گلاس کے ساتھ پین کلر بھی موجود تھی جو کہ معظم نے خاموشی سے کھا کر دودھ سے بھرا گلاس خالی کر دیا


سندیلا بیڈ پر اُس کے برابر میں لیٹی تو اُسے احتشام کے خراب موڈ کا خیال آیا مگر فی الحال اُس نے احتشام کے خیال کو جھٹک دیا۔۔۔ تبھی معظم کے ہاتھ کا لمس اُس کے ہاتھ پر آ ٹھہرا


"کھانے کے علاوہ آپ کسی دوسری چیز کا بھی پوچھ سکتی ہیں شاید کسی دوسری چیز کی ضرورت محسوس ہو رہی ہو اس موالی کو"

معظم کی آواز سن کر سندیلا نے اپنے چہرے کا رُخ اس کی طرف کیا، ایک بار پھر اس کو معظم کی آنکھوں میں شرارت ناچتی ہوئی دکھائی دی


"کافی خون بہہ چکا ہے ناں تمہارے بازو سے آج، مگر تمہارا چھچھورا پن وہی کا وہی برقرار ہے خاموشی سے لیٹے رہو"

سندیلا اپنی طرف سے اُس کی اچھی خاصی عزت افزائی کرتی ہوئی بولی


"اف چھچھور پن کا الزام تو واپس لے لیں استانی جی، میں نے آج تک کب آپ کے ساتھ چھچھورا پن کیا۔۔۔ ہاں خون بہنے سے میری انرجی میں کوئی فرق نہیں پڑا وہ ابھی تک برقرار ہے پھر کیا بولتی ہیں آپ اور ویسے بھی لاکر جو اب تک سیو ہے۔۔۔۔"

معظم معنی خیزی سے سندیلا کو دیکھتا ہوا چھچھوری گفتگو اسٹارٹ کرچکا تھا لاکر کی بات پر سندیلا نے اپنے سر کے نیچے سے تکیہ نکال کر کھینچ کر معظم کے بازو پر مارا


"استانی جی"

بازو پر شدید تکلیف محسوس ہونے کے باوجود پری کی نیند خراب نہ ہو،، معظم نے اپنے آپ کو چیخنے سے روکا تھا


"استانی جی کو اپنے بدتمیز اسٹوڈنٹس کو سیدھا کرنا بہت اچھے طریقے سے آتا ہے،، تمہیں نیند نہیں آرہی تو خاموشی سے لیٹے رہو اور مجھے سونے دو اب"

سندیلا اسے تنبہیہ کرکے دوسری طرف کروٹ لے کر لیٹ گئی۔۔۔ جبکہ معظم مسکراتا ہوا خاموش ہوگیا


*****

اس کی زندگی میں خوشیوں کا ٹائم پیریڈ اتنا مختصر کیوں تھا یہ بات وہ اپنے سامنے حسان کی ڈیڈ باڈی کو دیکھ کر سوچ رہی تھی، خوشی وقفے وقفے سے زینش کے بہتے ہوئے آنسو پوچھ کر اس کو چپ کروا رہی تھی جبکہ شہنیلہ کبھی زینش کو دلاسہ دیتی تو کبھی سکتے میں آئی ہوئی جویریہ کو گلے لگاتی۔۔۔


بلال تھوڑی دیر پہلے ہی ہسپتل سے حسان کی ڈیڈ باڈی گھر لے کر آیا تھا وہ جویریہ کے گلے لگ کر رویا تھا مگر بلال کے آنسو جویریہ کا سکتہ نہیں توڑ سکے تھے


کل رات جو مہمان حسان کے ولیمے کی تقریب میں شامل تھے وہی آج صبح اس کی جوان موت پر افسوس کر رہے تھے۔۔۔ کل رات جب بلال گھر پہنچا تو خون میں لت پت حسان کو اس کے کمرے میں دیکھ کر وہ خود حواس باختہ ہو گیا تھا بہت مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالتا ہوا وہ حسان کو ہسپتال لے کر گیا تھا جہاں ڈاکٹر نے اس کو گولیاں لگنے کی وجہ سے اس کی موت کی تصدیق کردی


اتنی بھیانک خبر وہ بھی حسان کے بارے میں، بلال جویریہ کو خود کیسے بتاتا اس لیے اس نے رات میں شہنہلا کو فون کیا شہنیلا جویریہ اور زینش کو گھر لے کر آئی تھی لیکن حسان کے کمرے میں جو ایک بات اس نے عجیب دیکھی تھی،، وہ تھا حسان کی لاش کے پاس پڑا ہوا اس کا ریولور۔ ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے اس نے تہمینہ کو سختی سے حسان کے کمرے میں کسی کو بھی جانے سے منع کر دیا تھا۔۔۔ وہ حسان کی موت پر غمزدہ ہونے کے ساتھ ساتھ حیرت ذدہ بھی تھا کہ اس کے بھائی کو اسی کے ریوالور سے آخر کون مار سکتا ہے


"جاؤ خوشی زینش کو حسان کے کمرے میں چھوڑ آؤ۔۔۔ اب اس بیچاری کو عدت میں اپنا وقت گزارنا ہے"

حسان کی ڈیڈ باڈی کو قبرستان لے جایا گیا تو ایک رشتہ دار خاتون خوشی کو دیکھتی ہوئی بولی جس پر شہنیلا جھٹ سے بول پڑی


"زینش عدت میں نہیں بیٹھے گی اس کا حسان سے کوئی ایسا تعلق ہی نہیں بنا تھا جس کی وجہ سے وہ اس کے نام پر عدت میں اپنا وقت گزارے"

شہنیلا کی بات سن کر جہاں زینش نے شہنیلا کو ٹوکنا چاہا مگر اس سے پہلے دوسری خاتون بھی شہنیلا کی طرف متوجہ ہوئی جبکہ جویریہ کو تو اس وقت اپنے حال کی بھی خبر نہیں تھی


"کیوں بہن آپ کی بیٹی حسان کے لیے عدت کیو نہیں کر سکتی بیوی تھی وہ اس کی،، جب حسان کی میراث میں آپ کی بیٹی کا حصہ بنتا ہے تو آپ کی بیٹی اس کے نام پر عدت میں کیوں نہیں اپنا وقت گزار سکتی"

دوسری رشتےدار خاتون بھی شہنیلا سے بولی۔۔۔ شہنیلا جائیداد کا نام سن کر ٹھٹکی یہ بات ابھی تک اس کے ذہن میں نہیں آئی تھی


"دیکھیے بہن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زینش حسان کی بیوی تھی عدت کے مسئلے پر ذرا میں اس لیے پریشان ہو فی الحال میں یہ طے نہیں کر پارہی ہو زینش کو یہی رہنا ہے یا پھر چند دن بعد اس نے میرے ساتھ جانا ہے۔ ۔۔ جو بھی بات ہے وہ تو بعد کی بات ہے خوشی بیٹا زینش کو اس کے اپنے کمرے میں لے جاؤ تم"

شہنیلا نے فوراً پینترا بدل کر بات کو ختم کر دیا


*****


"کیسے ہیں ضیاء صاحب آپ۔۔۔ حسان نے مہندی والے دن میرا اور آپ کا تعارف کروایا تھا میں زینش کی مدر ہو"

شہنیلا کو جیسے ہی موقع ملا وہ حسان کے دوست جوکہ وکیل بھی تھا اس سے مخاطب ہوئی


"جی بالکل میں آپ کو پہچان گیا ہوں کیسی ہیں آپ"

گھر کے ملازم کے کہنے پر ضیاء ایک کمرے میں آیا تھا جہاں وہ حسان کی ساس کو دیکھ کر چونکا


"میں ٹھیک کیسے ہو سکتی ہوں حسان کی اچانک ڈیتھ پر اب اپنی بیٹی کے مستقبل کے لیے اور بھی زیادہ فکرمند ہوں"

شہنیلا آنکھوں میں لائے ہوئے آنسوؤں کو صاف کرتی ہوئی حسان کے دوست ضیاء سے بولی


"جی بس قدرت کے کاموں میں ہم انسانوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اللہ آپ کی بیٹی کے لئے کوئی بہتر راہ نکالے گا میری دعا ہے"

ضیاء شہنیلا کے آنسو دیکھتا ہوا بولا۔ ۔۔۔ کل صبح ہی حسان کی اور اس کی موبائل پر بات ہوئی تھی،۔۔۔ اور حسان نے اس سے اپنی نئی وصیت تیار کروائی تھی


"شکریہ بہت بہت آپ کا اگر میں آپ سے ایک بات پوچھوں تو آپ برا تو نہیں مانیں گے۔۔۔ حسان نے آپ کا تعارف کرواتے وقت بتایا تھا کہ آپ ایک لائیر ہیں کیا میں جان سکتی ہوں حسان اپنی زندگی میں کوئی وصیت،،، میرا مطلب ہے حسان کی پراپرٹی میں زینش کا کتنا شیئر بنے گا پلیز میری بات کا غلط مفہوم مت لیے گا بس میں اپنی بیٹی کے مستقبل کے لئے تھوڑا پریشان ہوں اس لئے جاننا چاہ رہی تھی"

شہنیلا جلدی سے اپنی بات کی وضاحت دیتی ہوئی بولی


"دیکھئے حسان نے اتفاق سے کل ہی اپنی وصیت نوٹ کروائی تھی اس کی وصیت ایک طرح سے میرے پاس امانت ہے جو میں ایک دو دن میں سب گھر والوں کے سامنے خود یہاں آ کر بتاؤں گا۔۔۔ ابھی تھوڑا بہت پیپرورک ہے جو مجھے کروانا ہوگا"

ضیاء شہنیلا کو تفصیل سے بتاتا ہوا بولا


"بے شک حسان کی وصیت آپ کے پاس امانت ہے لیکن میں بھی اس میں کسی بھی قسم کی خیانت کرنے کا یا پیپر ورک میں کوئی بھی چینجنگ کرنے کا نہیں کہہ رہی ہو صرف اپنی کلوتی بیٹی کیلئے پریشان ہوں اس لئے آپ سے پوچھ رہی ہو کہ حسان نے وصیت میں زینش کے نام کیا ہے اگر آپ مجھے بتا دیں تو یہ بات آپ کے اور میرے درمیان راز رہے گی آپ مجھ پر بھروسہ کر سکتے ہیں"

شہنیلا میٹھے لہجے میں ضیاء کو یقین دلاتی ہوئی بولی تو ضیاء خاموش ہو کر سوچنے لگا پھر اس نے شہنیلا کو حسان کی آخری وقت میں کی گئی وصیت کے بارے میں بتانے کا فیصلہ کیا


"اصولاً تو یہ ٹھیک نہیں ہوگا لیکن آپ کے بے حد اصرار پر میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ اتفاق سے حسان نے کل ہی مجھے اپنی وصیت لکھوائی تھی جس کے مطابق اگر جویریہ رفیق یعنی حسان کی اسٹیپ مدر کی زندگی میں اگر حسان کی موت واقع ہو جاتی ہے تو حسان کی ساری کی ساری پراپرٹی کی مالک جویریہ رفیق یعنیٰ حسان کی اسٹیپ مدر ہوگیں۔۔۔ اور اگر بالفرض جویریہ رفیق کی ڈیتھ واقع ہو جائے تو پھر حسان نے اپنی ساری پراپرٹی کا وارث اپنے بھائی یعنیٰ بلال رفیق کو بنایا ہے۔۔۔۔ مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ حسان نے اپنی زوجہ مطلب آپ کی بیٹی کا نام اپنی وصیت میں شامل نہیں کیا"

ضیاء شہنیلا کو بتاتا ہوا کمرے سے چلا گیا اور شہنیلا حسان کی وصیت جاننے کے بعد دانت پیس کر ضبط کرنے لگی۔۔۔۔۔ حسان کی وصیت کے بارے میں سوچتے شہنیلا کا خون کھول اٹھا


****


سندیلا کی آنکھ کھلی تو اس کی نظر اپنے برابر میں لیٹے ہوئے معظم پر پڑی جو کہ اس وقت گہری نیند میں سو رہا تھا۔۔۔ بیچ رات میں اس کی پری کے رونے پر بھی آنکھ کھلی تھی،، پری ہمیشہ رات میں بھوک کی وجہ سے دودھ کے لئے روتی تھی مگر کل رات سندیلا کے اٹھنے سے پہلے معظم بیڈ سے اٹھ کر پری کے لیے فیڈر میں دودھ بنانے لگا۔۔۔ وہ اتنی زیادہ نیند میں مدہوش تھی کہ معظم کو فیڈر بناتا ہوا دیکھ کر مطمئن ہو کر دوبارہ سو گئی


وہ معظم کو سوتا ہوا دیکھ کر بیڈ سے اٹھی اور الماری میں رکھے شاپرز میں موجود سامان دیکھنے لگی کیونکہ پری کے اٹھنے میں ابھی وقت تھا۔۔۔ اسے اپنا اور پری کا سارا سامان دیکھ کر افسوس ہوا،، معظم اس کے اور پری کے لیے تقریبا استعمال کی ساری چیزیں ہی لے کر آیا تھا،، ایک نظر دوبارہ اس نے سوئے ہوئے معظم پر ڈالی۔۔۔۔ ڈھونڈنے سے بھی سندیلا کو اس کے انداز میں کوئی بناوٹ یا کوئی غرض نظر نہیں آئی دو دن میں ہی وہ معظم میں کسی ذمہ دار باپ اور خیال رکھنے والے شوہر کی جھلک دیکھ چکی تھی۔۔۔ اپنی سوچوں سے خود گھبراتی ہوئی وہ جلدی سے کچن میں چلی گئی تاکہ پری کے اٹھنے سے پہلے ناشتہ بنا لے


"گرمی میں چہولے کے آگے کھڑے رہنا کہیں آپ کا پسندیدہ مشغلہ تو نہیں ہے"

وہ بڑے انہماک سے ناشتہ بنا رہی تھی کہ معظم کی آواز پر چونکی۔۔۔ مڑ کر دیکھا تو معظم کچن کے دروازے سے ٹیک لگا کر کھڑا غور سے سندیلا کو دیکھ رہا تھا


"اٹھ گئے ہو تو ہاتھ منہ دھولو ناشتہ تیار ہے"

سندیلا کے پلٹ کر دیکھنے پر وہ جن نگاہوں سے سندیلا کو نظر بھر کر دیکھ رہا تھا سندیلا ریک میں اٹکایا ہوا اپنا دوپٹہ اٹھا کر اوڑھتی ہوئی معظم کو کہنے لگی ساتھ ہی اس نے واپس مڑ کر چولہے کی آنچ ہلکی کی کیونکہ چائے میں ابال آ چکا تھا


"منہ ہاتھ بھی دھولو گا استانی جی لیکن پہلے میں ذرا اپنی صبح کے آغاز کو تو خوبصورت بنالو"

معظم بولتا ہوا سندیلا کے پاس آیا اسکی پشت پر کھڑے ہوکر معظم نے سندیلا کو اپنے حصار میں لیا۔۔۔ معظم کی حرکت پر سندیلا گھبرا کر مزید پیچھے ہوئی تو سندیلا کی پشت معظم کی چوڑے سینے سے جا ٹکرائی


"اتنا زیادہ بھی مت گھبرایا کریں استانی جی مجھ سے، حلال رشتہ قائم ہے اب ہم دونوں کے درمیان"

وہ مزید سندیلا کو اپنے حصار میں جکڑ کر اس کے کان میں سرگوشی کرتا ہوا بولا، وہ خود اپنے دل کو بھلا کیسے سمجھاتا جو صبح صبح اپنی استانی جی کو دیکھ کر بےایمان ہو رہا تھا


"میں گھبرا نہیں رہی ہوں پری کو دیکھنے جا رہی ہو وہ جاگ گئی ہوگی"

سندیلا نے اپنی گھبراہٹ چھپانے کے ساتھ معظم کے دونوں ہاتھ اپنے پیٹ سے ہٹانے چاہے۔۔۔ بے شک اس سے جائز رشتہ جڑا تھا مگر سندیلا کی جھجھک بھی فطری تھی۔۔۔ وہ تو خود پریشان تھی کے کیسے وہ اپنی جھجھک کو ختم کرکے معظم کو دوبارہ خود کے قریب آنے دے


"میں ابھی کمرے سے ہی آ رہا ہوں پری کافی گہری نیند میں سو رہی ہے۔۔۔ اگر آپ واقعی نہیں گھبراتی تو ذرا یہاں پلٹ جائیں میری طرف"

معظم سندیلا کا رخ اپنی طرف کرتا ہوا بولا اور اسکے نازک سراپے کو دوبارہ اپنے بازوؤں میں بھرلیا


"کیا کر رہے ہو معظم مجھے پسینے آرہے ہیں پلیز پیچھے ہٹو"

معظم کی دسترس میں وہ بوکھلاتی ہوئی بولی۔۔۔ احتشام کو تو سخت چڑ تھی کہ اس کے پاس سے لہسن، پیاز،، یا پسینے کی اسمیل آئے وہ سختی سے سندیلا کو ٹوک دیا کرتا تھا اور یہ تو اس سے بری طریقے سے چپکا جارہا تھا


"مجھے تو آپ اس حلیے میں اور بھی زیادہ حسین لگ رہی ہیں۔۔۔۔ اس وقت اپنے دل کو سمجھانا مشکل ہو رہا ہے تھوڑا سا آپ ہی میرے دل کو سمجھ جائیں ناں"

معظم کا دل تھا کہ اسے کوئی گستاخی کرنے پر اُکسائے جا رہا تھا۔۔۔ وہ سندیلا کے ہونٹوں کو دیکھتا ہوں اس سے منت بھرے لہجے میں بولا۔۔۔ معظم اس کے ہونٹوں پر جھکنے لگا تو سندیلا نے اس کے سینے پر اپنے دونوں ہاتھوں کو رکھ کر اسے پیچھے کیا اور ساتھ ہی معظم سے نظریں چرانے لگی۔۔۔


کل رات وہ صرف شرارتی جملے بولنے پر گزارا کر رہا تھا مگر اس وقت وہ کچھ کر دیکھانے کا سوچے بیٹھا تھا


"یہاں دیکھیں استانی جی میری طرف۔۔۔ تھوڑی دیر کے لیے اپنے ذہن سے ساری باتوں کو نکال کر صرف میرے اور اپنے خوبصورت رشتے کا سوچیں۔۔ جو کہ خوبصورت رشتہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت قریبی رشتہ بھی ہے"

معظم سندیلا کے گریز کو سمجھتا ہوا اس سے بولا


ساتھ ہی اس نے سندیلا کے دونوں بازو اپنے گلے میں ڈال دیے،، جس سے سندیلا کا چہرہ معظم کے نزدیک ہوا۔۔۔ وہ سانسیں روکے معظم کا چہرہ غور سے دیکھنے لگی،، معظم اسکی کمر میں بازو ڈال کر سندیلا کو دوبارہ اپنے قریب کر چکا تھا


"کیا آپ میرے اور اپنے اس خوبصورت رشتے کو محسوس کرنا چاہے گیں"

معظم اپنے ہونٹوں سندیلا کے ہونٹوں کے نزدیک لا کر اس سے پوچھنے لگا۔۔۔ سندیلا نے اپنی آنکھیں بند کردی،،، جیسے اس نے معظم کو اپنی آمادگی دی تھی لیکن معظم نے اپنے سر سے زور سے سندیلا کا سر ٹکرایا جس پر سندیلا دوبارہ حیرت سے آنکھیں کھول کر معظم کو دیکھنے لگی۔۔۔ جبکہ اس کے دونوں ہاتھ ابھی بھی معظم کے گلے کا ہار بنے ہوئے تھے اور معظم نے اس کی کمر کو اپنے دونوں بازوؤں سے جکڑا ہوا تھا


"ایسی منظوری نہیں چاہیے۔۔۔ صحیح سے بتائیں کہ آپ اپنے اور میرے خوبصورت رشتے کو محسوس کرنا چاہتی ہیں"

معظم کی بات سن کر سندیلا نے اب کی بار بے ترتیب دھڑکنوں کے ساتھ اپنا سر اقرار میں ہلایا


تب معظم نے بے حد نرمی سے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹوں کو رکھ دیا


"اب بتائیں کیسا محسوس کر رہی ہیں"

جب اس نے اپنے ہونٹوں کو سندیلا کے ہونٹوں سے جدا کیا تو سندیلا کی آنکھیں بند تھی معظم اس کا چہرہ غور سے دیکھتا ہوا پوچھنے لگا


"تم اسموکینگ کر کے آئے ہو پہلے تمہیں برش کرنا چاہیے تھا۔۔۔ تمہاری اس حرکت نے میری ہارٹ بیٹ کو فاسٹ کردیا ہے شاید اب مجھے کمرے میں جانا چاہیے"

سندیلا نے آہستہ سے آنکھیں کھولتے ہوئے جو جو محسوس کیا وہ معظم کو بتایا ساتھ ہی معظم کے گلے سے اپنے بازو ہٹائے


"آئندہ خیال رکھوں گا ان ہونٹوں کو چھونے سے پہلے مجھے اچھی طرح سے برش کرنا ہے۔۔۔ مگر استانی جی ابھی مجھے چیک کرنے دیں میری اس حرکت نے آپ کی ہارٹ بیٹ کو کتنا فاسٹ کیا ہے ذرا دوبارہ سے قریب آئیے پلیز"

معظم اب کی بار اس کے دونوں بازؤوں کو اپنی کمر کے گرد لپیٹ کر سندیلا کو خود سے نزدیک کرتا ہوا بولا۔۔۔ سندیلا گھور کر اس کی بات پر معظم کو دیکھنے لگی جس کی نظریں سندیلا کے ہونٹوں سے ہٹنے کے بعد اب بند لاکر پر مرکوز تھی


"تم نے کل رات میں کہا تھا کہ تم نے ابھی تک میرے ساتھ کچھ چھچھورپن نہیں کیا"

سندیلا اس کو کل رات والی بات یاد دلانے کے ساتھ ہی اپنے بازو اس کی کمر سے ہٹانے لگی۔۔۔ مگر معظم نے اس کو ایسا نہیں کرنے دیا


"یہ تو نہیں کہا تھا کہ آگے بھی چھچھور پن نہیں کروں گا۔۔۔ یقین جانیے استانی جی میں صرف دیکھنے میں موالی لگتا ہوں مگر اندر سے ایک ڈیسنٹ بندہ ہوں۔۔۔ صرف ہارٹ بیٹ کی رفتار چیک کرو گا اور بس"

معظم اپنی کمر پر باندھے سندیلا کے دونوں ہاتھوں کو پکڑتا ہوا بولا اور اس کی گردن کو چوم کر مزید نیچے جھکا۔۔۔ سندیلا شاید چکرا گر پڑتی اگر اسے معظم نے تھاما نہ ہوتا مگر فوراً ہی ایک آواز نے معظم کے کام میں خلل پیدا کیا


"بھئیا جی بھابھی جی کہاں ہیں آپ دونوں، آج پھر معصوم سا پپو آپ دونوں کے گھر آگیا"

پپو کی کچن میں آتی ہوئی آواز پر جہاں معظم بدمزہ ہو کر پیچھے ہٹا وہی سندیلا ہڑبڑا کر ایک دم ٹرے میں جلدی جلدی ناشتہ سیٹ کرنے لگی


"ناشتے کی خوشبو سے اندازہ ہو گیا تھا کہ بھابھی جی تو کچن میں ہوگیں لیکن آپ کچن میں کیا کر رہی ہیں صبح صبح بھیا جی"

سندیلا سے حال چال پوچھنے کے بعد،، پپو معظم کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا لیکن معظم اس کو ایسی خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا جیسے اسے ابھی کچا چبا جائے گا۔۔۔ یہ معصوم سا پپو معظم کو آج کتنا بڑا منحوس لگ رہا تھا معظم دل میں ہی سوچتا رہ گیا


"کیا ہوا بھیئا جی آپ مجھے اتنے پیار سے کیو دیکھ رہے ہیں"

پپو معصومیت سے معظم کو دیکھتا ہوا سوال کرنے لگا


"آج سے پہلے تو مجھے اتنا زہر کبھی بھی نہیں لگا پپو، معلوم نہیں یار تو پیدا کیوں ہوگیا"

معظم اس کی پیدائش پر افسوس کرتا ہوا پپو سے پوچھنے لگا۔۔۔ سندیلا جو کہ اب قدرے سنبھل گئی تھی معظم کو گھورنے لگی


"بھیا جی آپ کی کچن میں موجودگی اور میری آمد پر، آپ کا یوں بری طرح تپنا صاف ظاہر کر رہا ہے کہ آپ یقیناً کچن میں بھابھی جی کی ناشتہ بنانے میں مدد کروا رہے تھے"

پپو اپنے دانتوں کی نمائش کرنے کے بعد آنکھیں مٹکاتا ہوا معظم سے بولا


معظم اس کی بات کا جواب دیے بغیر اپنے ہاتھوں کی پانچوں انگلیاں کھول کر اپنا ہاتھ پپو کے منہ پر جماتا ہوا پپو کو منہ سے پکڑ کر صحن میں لے آیا ہوا


"تجھے میں نے اپنے گھر کی چابی اس لئے نہیں دی ہے کہ تو وقت بے وقت یہاں آکر میرے موڈ کا ستیاناس مار۔ ۔۔ اگر اب تو نے استانی جی کے سامنے کوئی الٹی سیدھی بات کی تو میں تیرے آگے کے یہ سارے دانت توڑ دوں گا۔۔۔ پھر تو کرتے رہنا یہاں بیٹھ کر ناشتہ"

معظم پپو کو دھمکی دیتا ہوا پیچھے ہٹا کیونکہ سندیلا ناشتے کی ٹرے لے کر صحن میں آ چکی تھی، پپو مسکینوں جیسی شکل بنا کر سندیلا سے ٹرے لے کر تخت پر ایک طرف ہوکر بیٹھ گیا


"ہم دونوں کا ناشتہ کہاں ہے"

معظم سندیلا کی گلابی رنگت کو دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا،، سندیلا کا چہرہ دیکھ کر ایک بار پھر اس کا موڈ بحال ہونے لگا


"پہلے اپنے بازو کی ڈرینگ کروا لو پھر ناشتہ لے کر آتی ہوں"

سندیلا معظم سے بولی اور فرسٹ ایڈ باکس لینے کے لیے کمرے میں چلی گئی کیونکہ بیڈروم میں ہی وہ معظم کے بازو پر بندھی ہوئی پٹی دیکھ چکی تھی جو کہ اب لوز ہو چکی تھی


"میں تو کہتا ہوں بھیا جی شادی کے بعد آپ کے نصیب ہی کھل گئے قسم سے"

پپو ناشتہ کرتا ہوا معظم سے بولا تو معظم گھور کر اسے دیکھنے لگا


"یہ ناشتہ اب تو آنکھیں بند کر کے کرے گا پپو، اگر کل کی طرح تیری نظریں ہماری طرف اٹھی تو میں تجھے آج ہی جنت کے حوروں کے پاس پہنچا دو گا"

معظم کی دھمکی پر پپو نے شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا سر پلیٹ میں گھسا لیا


تب ہی سندیلا کمرے سے نکل کر آئی اور تخت پر معظم کے قریب بیٹھتی ہوئی اس کے بازو پر بندھی ہوئی پٹی اتار کر اس کا زخم دیکھ ریکھنے لگی اور معظم غور سے سندیلا کا چہرہ دیکھنے لگا


"کیا ہوا"

سندیلا اپنی چہرے پر پڑتی ہوئی نظریں محسوس کر کے معظم کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی


"اگر آپ اتنے پیار سے میرے زخموں پر مرہم رکھیں گیں تو میں روز روز اپنے آپ کو زخم دینے کے لئے تیار ہوں"

معظم سندیلا کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولا تو سندیلا معظم کو آنکھیں دکھانے لگی


"مجھے لگ رہا ہے تم فلمیں کافی شوق سے دیکھتے ہو"

سندیلا اس کے ڈائیلاگ سن کر اپنی مسکراہٹ چھپاتی ہوئی معظم سے بولی۔ ۔۔ ساتھ ہی وہ اس کے بازو پر بینڈچ کرنے لگی


"شوق سے بھی اور غور سے بھی۔۔۔ صرف رومینٹک فلمیں، اندازہ ہوگیا ہوگا آپکو"

معظم نے آخری الفاظ سندیلا کے کان کے نزدیک منہ کر کے بولے تو وہ کچن والا سین یاد کر کے بلش کر گئی معظم اسکے چہرے پر آئی لٹوں کو پیچھے کرکے اس کا چہرا دیکھنے لگا


"آنکھیں بند کرکے ناشتہ کرنا ویسے ہی مشکل ہے اب بندہ اپنی آنکھوں کے ساتھ ساتھ کان کیسے بند کرے۔۔۔ نہیں ہو سکتا یار ایسا نہیں ہو سکتا"

پپو منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا ہوا ناشتے کی ٹرے لے کر اندر کمرے میں چلا گیا


پپو کی بڑبڑاہٹ سن کر جہاں معظم مسکرایا وہی سندیلا بھی نہ چاہنے کے باوجود مسکرائی۔ ۔۔ وہ اپنا چہرہ نیچے جھکا کر بینڈیج کرتی ہوئی اپنی مسکراہٹ چھپانے میں کامیاب ہوئی تھی ویسے ہی گھر کا دروازہ کھلا اور اندر آنے والے شخص کو دیکھ کر ان دونوں کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی


*****


وہ راکنگ چیئر پر بیٹھا ہوا ایک ہاتھ چیئر کے ہینڈل پر رکھے دوسرے ہاتھ سے مسلسل اپنی کنپٹی دبا رہا تھا۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے ہی پولیس انوسٹی گیشن کرکے گئی تھی کیوکہ حسان کی موت کوئی حادثات یا قدرتی موت نہیں تھی بلکہ سیدھا سیدھا مرڈر کیس تھا


وہ خود اتنا پریشان تھا کہ اس وقت اس کا دماغ بھی کام نہیں کر رہا تھا نہ ہی اسے فوراً حسان کے ماڈر کی وجہ سمجھ میں آئی تھی لیکن پولیس پر وجہ ظاہر حل کرنے کے لیے اس نے اپنے بیان میں حسان کے کمرے سے کچھ نقدی رقم غائب ہونے کا دعوی کیا تھا تاکہ پولیس مزید آگے تفشیش بند کر دے اور پولیس کو قتل کی وجہ مقتول کا رقم چرانا لگے


اس نے گھر میں لگے کیمرے بھی ملازم سے کہہ کر فوری طور پر اتروا لیے تھے۔۔۔ جب تک اسے اصل وجہ خود معلوم نہیں ہو جاتی وہ اس سارے معاملے کو پولیس کی انولومینٹ نہیں چاہتا تھا۔۔۔ سب سے زیادہ جو بات بلال کو کھٹک رہی تھی وہ تھا حسان کی ڈیڈ باڈی کے پاس سے اس کے ریولور کا ملنا تھا۔۔۔ صرف اس نے یہ بات ضیاء شیئر کی تھی وہ حسان کے ساتھ بلال کا بھی اچھا دوست تھا


بلال گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا تب اس کے کمرے کا دروازہ کھلا


"کھانے کے لیے بلانے آئی تھی، آؤ چل کر تھوڑا بہت کھانا کھالو"

شہنیلا نے بلال کے کمرے میں آتے ہوئے کہا اس کے لہجے میں بلال کے لیے شفقت صاف جھلک رہی تھی


"مجھے بالکل بھی بھوک کا احساس نہیں ہے آنٹی"

کل سے اب تک حسان کی موت کو چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے جویریہ کل سے کسی بت کی مانند اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی۔۔ نہ وہ کچھ بات کر رہی تھی نہ ہی وہ کچھ کھا رہی تھی۔۔ بلال بھی اپنے کمرے میں تنہا وقت گزارنا چاہتا تھا اس لیے شہنیلا کو دیکھ کر کھانے سے انکار کرتا بولا


"کل سے سب کی ہی بھوک مر چکی ہے، اب بھوک کا احساس کسی ہے بیٹا لیکن اگر تم کھانے کی میز پر آؤ گے تو اسی بہانے زینش اور جویریہ بھی تھوڑا بہت کچھ کھا لیں گیں"

شہنیلا بلال کو دیکھ کر ابھی بھی اپنائیت بھرے لہجے میں بولی


"زینش"

بلال نے زیر لب اس کا نام لیا۔۔۔ جس کو وہ کل سے بالکل بھولا ہوا تھا


"ہاں زینش، بی پی لو ہونے کی وجہ سے تھوڑی دیر پہلے بےہوش ہوگئی تھی میری بچی۔۔ سمجھ میں نہیں آرہا کیسے اب اسے زندگی کی طرف لاؤ گی،، بند کمرے میں رہ رہ کر تو وہ مر ہی جائے گی۔۔۔ جویریہ کو دیکھتی ہوں تو دل مزید روتا ہے بلال بیٹا پلیز اب آگے تمہیں ہی ان دونوں کو سنبھالنا ہے اور خیال رکھنا ہے مگر اس کے لیے تمہیں بہت زیادہ ہمت سے کام لینا ہوگا"

شہنیلا اپنی آنکھوں کی نمی صاف کرتی ہوئی بلال کے کمرے سے چلی گئی


*****

"میں نے کہا تھا آپ سے کہ مجھے نہیں نکلنا اس کمرے سے باہر اور نہ ہی مجھے بھوک لگ رہی ہے تو پھر کیو ضد کر رہی ہیں آپ"

شہنیلا کے بار بار بولنے پر زینش چڑتی ہوئی اس سے بولی


"کس کا سوگ منا رہی ہو تم یوں کمرے میں تنہا بیٹھ کر اور بھوکا رہ کر۔۔۔ اس کا جس کی اصلیت ولیمے والے دن اسی کے بھائی نے تمہیں خود اپنے منہ سے بتائی تھی،، اپنی ملکیت میں سے ایک ٹکا تک تمہارے نام نہیں کر کے گیا ہے وہ جس کے غم میں تم تھوڑی دیر پہلے بے ہوش پڑی تھی"

شہنیلا اس کی اداسی اور بیزاریت صحیح سے دور کرتی ہوئی اپنی بیٹی کو آئینہ دکھانے لگی۔۔۔ جس پر زینش نے دکھ بھری نظر شہنیلا پر ڈالی


"کسی کے غم میں بے ہوش نہیں ہوئی ہوئی تھی میں، نہ ہی اس بات کا غم ہے کہ جانے والے نے میرے نام کچھ بھی نہیں چھوڑا اور نہ ہی اس کا سوگ منا رہی ہوں میں۔۔۔ صرف اور صرف اپنی بدنصیبی پر غمزدہ ہوں میں۔۔۔ کاش اس دن کالج سے آتے ہوئے گڈنیپ نہیں کیا ہوتا اس نے مجھے۔۔۔ تو آج یوں میرے ماتھے پر اغوا شدہ لڑکی کا لیبل نہ لگا ہوتا۔۔۔ جس شخص نے میرے ساتھ یہ سب کچھ کیا ہے نہ اس کی وجہ سے رل رہی ہو میں۔۔۔ کبھی معاف نہیں کروں گی میں اسے"

کل سارا دن بھوکے رہنے کی وجہ سے آج اسے نقاہت محسوس ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئی تھی اسی وجہ سے شہنیلا کو ڈاکٹر گھر پر بلانا پڑا۔۔ اور زینش کو روتا ہوا دیکھ کر شہنیلا اب اس کے بلاوجہ کے غم سے پریشان ہو چکی تھی


"کون سی بدنصیبی کا رونا رو رہی ہوں تم، ارے بدنصیبی تو جب ہوتی کہ جب حسان تمہیں ایک مہینہ اپنے پاس رکھ کر چند پیسے تمہیں ہاتھ میں پکڑاتا اور ہمیشہ کے لیے تم سے اپنا رشتہ ختم کرلیتا اور جس شخص کو تم معاف نہ کرنے کا دعویٰ کر رہی ہو ناں تو آج سن لو۔۔۔ اس نے جو کچھ تمہارے ساتھ کیا وہ صرف اور صرف تمہارے باپ کو اذیت پہچانے کے لیے کیا تھا کیوکہ رضوان نے اس کی معذور بہن سے جانوروں سے بدتر سلوک کیا تھا،، نشے کی حالت میں اس لڑکے کی بوڑھی ماں کے سامنے اسکی بیٹی کی عزت کو پامال کیا تمہارے باپ نے، تبھی اس لڑکے تمہارا کڈنیپ کیا۔۔۔ مگر وہ خوف خدا رکھتا تھا اپنے دل میں جبھی وہ سب اس نے تمہارے ساتھ نہیں کیا۔۔۔ جو اسکی معزور بہن کے تمہارے باپ نے کیا۔۔۔ رضوان نے مرنے سے پہلے خود میرے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا لیکن یہ بات میں نے تمہیں اس لیے نہیں بتائی تاکہ تمہارے دل میں اپنے مرے ہوئے باپ کی عزت قائم رہے"

شہنیلا کے انکشاف سے زینش کو سانپ سونگھ گیا وہ بے یقینی سے شہنیلا کو دیکھ رہی تھی۔ ۔۔۔ شہنیلا چلتی ہوئی زینش کے پاس آئی اسے اپنی بیٹی کی حالت پر ترس بھی آیا جبھی وہ اس کا چہرا تھام کر بولی


"جو برا کام رضوان اپنی زندگی میں کر کے اس دنیا سے چلا گیا، میرے دل میں اس کی عزت مرنے کے باوجود ختم ہوگئی میں نے دو دن اس پر آنسو بہائے پھر اپنے خود کے لیے سوچا۔۔۔ میں تمہیں حسان کی موت پر زیادہ سوگ نہیں منانے دوگی۔ ۔۔ مانا کی حسان اور رضوان میں زمین آسمان کا فرق تھا مگر وہ بھی تمہیں چھوڑ دیتا اس میں بھی اتنا ظرف نہیں تھا جو تمہیں ساری زندگی بیوی بنا کر عزت دیتا۔ ۔۔۔ مجھے معلام ہے تم کبھی بھی خود سے اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں سوچو گی اس لیے جیسا میں کہہ رہی ہو اب تم میری بات مانو گی کیوکہ مجھے چند دنوں بعد یہاں سے واپس عبداللہ کے پاس جانا ہے۔ ۔۔ اٹھو اور کھانے کی ٹیبل پر آؤ بلال ویٹ کر رہا ہے"

شہنیلا زینش کو بولتی ہوئی باہر چلی گئی


****


"اچھا ہوا بلال تم آگئے، زینش بھی آتی ہوگی کھانا نکالنا اسٹارٹ کرو"

ڈائننگ ہال میں بلال کو موجود دیکھ کر شہنیلا خوش ہوتی ہوئی بولی تبھی زینش بھی اپنے کمرے سے باہر نکل آئی۔۔۔ شہنیلا کے ساتھ ساتھ بلال بھی اسے دیکھنے لگا


"آجاؤ میری جان یہاں آ کر بیٹھو شاباش"

شہنیلا زینش کو پیار کے بولتی ہوئی اس کے لیے چیئر کھسکانے لگی جو کہ بالکل بلال کے سامنے والی چیئر تھی زینش اس پر خاموشی سے بیٹھ گئی


"نکلا کرو میری جان اپنے کمرے سے باہر،، ذرا دیکھو کیسے تمہارا چہرا مرجھا سا گیا ہے"

شہنیلا زینش کو پیار کرتی ہوئی بولی۔۔۔ بلال گلاس میں پانی پیتا ہوا زینش کو دیکھنے لگا۔۔۔ بلال کے زینش کو دیکھنے پر شہنیلا دل ہی دل میں خوش ہوئی تھی


"ارے بیٹا بلال کھانا تو شروع کرو زینش چاول اٹھا کر دو بلال کو"

شہنیلا نے سر جھکائے بیٹھی زینش کو مخاطب کیا کیونکہ چاولوں کی ٹرے اسی کے پاس رکھی تھی۔۔ زینش شہنیلا کو دیکھنے لگی پھر بلال کو چاولوں سے بھری ٹرے اٹھا کر دی جسے تھام کر بلال اپنی پلیٹ میں چاول نکالنے لگا


"کھانے سے فارغ ہو کر تم دونوں لانگ ڈرائیو کے لئے نکل جانا۔۔۔ کھلے ماحول میں تازہ ہوا لگے گی تو ذہن بھی فریش ہوگا"

شہنیلا کے اگلے جملے پر زینش سمیت بلال بھی شہنیلا کو دیکھنے لگا۔۔۔ تو وہ کھسیانی سی ہنسی ہنس دی


"ہاں ابھی لونگ ڈرائیو کا تو موقع نہیں ہے ایسا کرنا واک کرلینا باہر نکل کر تم دونوں ایک ساتھ"

شہنیلا کی بات سن کر ابھی بھی بلال خاموشی سے اس کو دیکھ رہا تھا تبھی شہنیلا پلیٹ میں چاول بھرتے ہوئے جلدی سے بولی


"چلو تم دونوں کھانا کھاؤ ایک ساتھ بیٹھ کر میں جویریہ کے ساتھ اس کے کمرے میں ہی کھانا کھا لیتی ہو"

شہنیلا اپنے ساتھ ساتھ جویریہ کا بھی کھانا نکالنے لگی۔۔۔ کھانا ٹرالی میں رکھ کر وہاں سے چلی گئی


بلال نے دیکھا زینش نے اپنی پلیٹ میں تھوڑا سا سیلڈ نکالا ہوا تھا اس وقت وہ غائب دماغی کے ساتھ ہاتھ میں پکڑا ہوا فارک مسلسل پلیٹ میں گھما رہی تھی


حسان کی موت کا دکھ اسے بھی تھا وہ اس کا بھائی تھا لیکن شاید زینش نے حسان کی موت کا اثر کچھ زیادہ ہی لے لیا تھا لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس وقت میں زینش حسان کے بارے میں نہیں بلکہ اپنے باپ کی گئی زیادتی کے بارے میں سوچ رہی تھی


"اب طبیعت کیسی ہے تمہاری"

بلال کی آواز پر سوچوں میں گم زینش نے چونک کر اسے دیکھا


"کچھ کہا آپ نے مجھ سے"

وہ اپنی سوچوں سے باہر نکل کر بلال کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی


"کچھ زیادہ ہی دکھ ہوا ہے تمہیں حسان کی موت پر شاید"

زینش کو غائب دماغ دیکھ کر بلال نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر طنز کر گیا۔۔۔ تھوڑا بہت جلن کا بھی اثر تھا وہ بھلا کہاں برداشت کر سکتا تھا کہ اب بھی اس کی محبت اس کے علاوہ کسی دوسرے کی سوچو میں گم ہو


"کیوں آپ کی دلی خواہش پوری ہوئی ہے کیا حسان کی موت سے"

وہ اپنے ماضی اور باپ کے بارے میں سوچ رہی تھی، نہ تو وہ اس کی طرف دیکھ رہی تھی نہ ہی بات کر رہی تھی۔۔۔ پر بھی وہ بلاوجہ نے جان بوجھ کر اس سے الجھ رہا تھا۔۔۔ اسی وجہ سے زینش بھی اس کے طنز کے جواب میں طنز کرتی ہوئی بولی


مگر زینش کے طنز کرنے کی دیر تھی بلال نے ہاتھ میں پکڑا ہوا چمچا زور سے میز پر پٹخا،، کرسی کو تیزی سے کھسکاتا ہوا وہ اٹھا،، جس کی وجہ سے کرسی پیچھے گر پڑی۔۔۔ وہ غصے میں تیزی سے زینش کی طرف بڑھتا ہوا آیا اور اس کی کرسی کو کھسکا کر زینش کا بازو سے پکڑتا ہوا اس کو اپنے سامنے کھڑا کیا


"کیا بکواس کی ہے تم نے ابھی۔۔۔ حسان میرا بھائی تھا یہ سوچ بھی کیسے لیا تم نے اس کی موت کی میں خواہش بھی کر سکتا ہوں۔۔ میرے سامنے یو غم کی تصویر بن کر یہ ظاہر مت کرو کہ صرف تمہارا شوہر ہی مرا ہے اور اگر اس کے مرنے کا اتنا ہی دکھ ہے تو اپنی اس روتی شکل کو اپنے کمرے میں رکھو میرے سامنے آنے کی ضرورت نہیں ہے"

بلال نے غصے میں اس کا بازو پکڑ کر بولنے کے ساتھ ہی زینش کو اس کے کمرے کے سامنے دھکا دیا۔۔۔ بلال کو اس پر شدید غصہ تھا وہ اس کے بارے میں اتنا غلط سوچ بھی کیسے سکتے تھی


"مجھے آپ کے سامنے آنے کا یا پھر اپنا غم ظاہر کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے، نہ ہی میں اب آپ کے اس گھر میں اس چھت کے نیچے رہنا چاہتی ہوں کیونکہ اب یہاں رہنے کا جواز ہی ختم ہو چکا ہے۔۔۔ لیکن یہاں سے جانے سے پہلے میں آپ کو یہ ضرور بتانا چاہوں گی کہ آپ ایک بہت برے انسان ہیں نفرت کرتی ہوں میں آپ سے"

زینش بلال کو بولتی ہوئی اپنے کمرے میں جانے کی بجائے گھر سے باہر نکلنے لگی۔۔۔ تبھی بلال کے ماتھے پر شکنوں کا جال ابھر کر نمایاں ہوا اور اس نے باہر جاتی ہوئی زینش کا ہاتھ پکڑا


"شرافت سے اپنے کمرے میں جاؤ زینش، اگر تم نے گھر سے ایک قدم بھی باہر نکالا تو واقعی آج تمہیں اندازہ ہو جائے گا کہ میں کتنا برا انسان ہوں"

وہ سختی سے زینش کا ہاتھ پکڑتا ہؤا بولا تبھی شہنیلا بھاگتی ہوئی جویریہ کے کمرے سے باہر نکلی


"بلال جلدی سے حویریہ کے کمرے میں آؤ، نہ جانے جویریہ کو کیا ہوگیا وہ بیٹھے بیٹھے اچانک بیڈ پر گر گئی ہے۔۔۔ نہ ہی کچھ بول رہی ہے نہ ہی اپنی آنکھیں کھول رہی ہے"

شہنیلہ اتنی زیادہ گھبرائی ہوئی تھی کہ اس نے یہ بھی نوٹ نہیں کیا تھا کہ بلال نے زینش کا ہاتھ پکڑ رکھا ہے


بلال نے شہنیلا کی بات سن کر فوراً زینش کا ہاتھ چھوڑا اور وقت ضائع کئے بغیر جویریہ کے کمرے کی طرف بھاگا۔۔۔ زینش خود بھی بھول چکی تھی کہ وہ اس گھر سے جانے والی ہے،، وہ بھی تیزی سے قدم اٹھاتی ہوئی جویریہ کے کمرے کی طرف جانے لگی


****


"یہاں آنے سے پہلے میں کچھ اور ہی توقع کر رہا تھا کہ تم میرے انتظار میں بیٹھی ہوگی۔۔۔ لیکن یہاں پر تو نئے نویلے شوہر کے زخموں پر بہت پیار سے مرہم رکھا جا رہا ہے"

احتشام گھر میں داخل ہوا تو سامنے تخت پر بیٹھی سندیلا پر طنز کرتا بولا جس پر وہ ایک پل کے لیے کچھ بھی نہیں بول سکی مگر اس کے پاس بیٹھا معظم ناپسندیدہ نظروں سے احتشام کو دیکھ کر کھڑا ہوا اور چلتا ہوا اس کے پاس آیا


"تمہیں میرے گھر کے اندر داخل ہونے سے پہلے دروازے بجانا چاہیے تھا،، میں وہ انسان ہو جیسے چھوٹی چھوٹی باتیں بہت جلدی بری لگ جاتی ہیں تو پھر میں سامنے والے کا لحاظ کئے بنا اس سے بہت برے طریقے سے پیش آتا ہوں اور دوسری بات اپنے دماغ میں یہ بھٹالو اگر تم سمجھ رہے ہو کہ اب سندیلا تمہارے زخموں پر مرہم رکھے گی تو اس بات کو بھول جاؤ کیونکہ اب وہ میری بیوی ہے میری بیوی کے بارے میں کوئی غیر شخص بات کرے یا اسے دیکھے یہ میں بالکل برداشت نہیں کروں گا"

معظم نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے نہ صرف احتشام کو اس کی غلطی کا احساس دلایا تھا بلکہ احتشام پر بہت کچھ جتا بھی دیا تھا جس پر احتشام کے ساتھ ساتھ سندیلا بھی حیرت سے معظم کو دیکھنے لگی


"تمہارے بدلے ہوئے تیوروں کو دیکھ کر مجھے اسی دن سمجھ جانا چاہیے تھا جب تم نے کانٹریکٹ پیپرز پر سائن کرنے سے انکار کیا تھا۔۔۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ تم دونوں ہی ملے ہوئے ہو اور تم دونوں نے ہی مجھے استعمال کیا ہے"

معظم کی باتیں سننے کے بعد احتشام غصے میں حیران و پریشان کھڑی ہوئی سندیلا کو دیکھ کر بولا


"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں احتشام الزام لگا رہے ہیں آپ مجھ پر"

سندیلا چلتی ہوئی احتشام کے پاس آئی اور افسوس کرتی ہوئی اس سے بولی


"کیوں تم اس کو پہلے سے نہیں جانتی یہ وہی ہے نا جو تم سے پہلے سے ملتا رہا ہے جب تم میری بیوی ہوا کرتی تھی"

احتشام کاٹ دار نگاہوں سے سندیلا کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا اور پھر اس نے اپنا رخ معظم کی طرف کیا


"تم ہی ہو نا وہ جس نے میرے گھر سے یو ایس بی چرائی تھی۔۔۔ اور پھر میرے سامنے اپنے مالک مکان کا گھر خالی کروانے کا جھوٹا ڈرامہ رچایا تھا تاکہ تم اس سے شادی کر سکوں"

کل رات ہی فائقہ احتشام کے موبائل پر معظم کی تصویر دیکھ کر اس کو پہچان چکی تھی۔۔۔ احتشام نے معظم کی تصویر نکاح والے دن نامحسوس طریقے سے لی تھی


"اسکول کے دور میں تمہارا دماغ ذرا کم چلتا تھا مگر اب تم کافی عقلمند ہو چکے ہوں، چلو دیر آئے درست آئے"

معظم کا انداز صاف مذاق اڑانے والا تھا جس پر احتشام نے اپنے جبڑے بھینچے۔۔۔ تبھی سندیلا نے معظم کا بازو پکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف کیا


"یہ سب کیا ھو رہا ہے معظم، احتشام کیا بول رہے ہیں۔۔۔ کون سے گھر کا ذکر ہو رہا ہے۔۔۔ جو بھی بات ہے اسے کلئیر کرکے احتشام کی غلط فہمی کو دور کرو"

سندیلا الجھتی ہوئی معظم سے بولی


"ٹھیک ہے میں اس سے ساری باتیں کلیئر کر دیتا ہوں آپ پہلے یہاں سے جائیں پلیز"

معظم اپنے بازو سے سندیلا کا ہاتھ ہٹاکر اسے کمرے میں جانے کا اشارہ کرتا ہوا بولا۔۔۔


ان دونوں کو اس طرح بات کرتا ہوا دیکھ کر احتشام کا غصے کے مارے برا حال ہو رہا تھا سندیلا معظم کو کچھ بولے بغیر کمرے میں جانے لگی تو پپو کمرے سے باہر نکلا جس نے پری کو گود میں اٹھایا ہوا تھا جو اس وقت بھوک لگنے کی وجہ سے رو رہی تھی سندیلا پری کو لے کر کمرے میں چلی آئی جبکہ پپو احتشام کو دیکھ کر وہاں سے باہر نکل گیا


"وہ یو ایس بی کہاں ہے"

سندیلا کے وہاں سے جاتے ہی احتشام نے سب سے پہلا سوال معظم سے یو ایس بی کا کیا


"اپنے اصل مالک کے پاس،، بھول جاؤ کہ وہ یو ایس بی اب تمہیں دوبارہ ملے گی۔۔۔ نہ یو ایس بی، نہ سندیلا اور نہ ہی بیٹی"

معظم نے بہت آرام سے احتشام کو جواب دیتا ہوا بولا


"میں یو ایس بی کو بھول سکتا ہوں مگر سندیلا مجھے واپس چاہیے معظم"

معظم کے بدلے ہوئے تیور دیکھ کر احتشام کو ایک بار پھر غصہ آیا لیکن وہ اپنا غصہ ضبط کرتا ہوا معظم سے بولا


"دیکھو احتشام بات سیدھی سی ہے سندیلا سے میں نے حلالے کی نیت سے نکاح نہیں کیا تھا میں اسے تمہارے لئے یا پھر کسی دوسرے کے لئے نہیں چھوڑوں گا،، نہ ابھی، نہ اپنی زندگی میں پھر کبھی۔۔۔ تم اسے اپنی حماقت کہہ لو یا پھر بیوقوفی جس میں آکر تم سندیلا سے اپنا ایک خوبصورت رشتہ ختم کر چکے ہو۔۔۔ اس لیے اب سندیلا کا خیال اپنے دل و دماغ سے نکال دو یقین جانو اسی میں تمہاری بہتری ہے"

معظم احتشام کو دوستانہ لہجے میں سمجھاتا ہوا بولا جس پر احتشام نے اس کی بات کو ہنسی میں اڑا دیا


"بیوی اگر خوبصورت مل جائے تو اتنی جلدی دل بھرتا بھی نہیں ہے،، میں سمجھ سکتا ہوں،، چلو ٹھیک ہے ایک ڈیل کر لیتے ہیں چند دنوں کے لئے تم سندیلا کو مزید اپنے پاس رکھ لوں جب اس سے تمہارا دل بہل جائے تو اس کے بعد"

احتشام کا ابھی جملہ مکمل بھی نہیں ہوتا کہ معظم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کا گریبان پکڑا


"تم جس قدر بے غیرت اور گھٹیا ذہنیت کے مالک ہو۔۔۔ اپنی اوقات مجھ پر ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ایک بات میری اچھی طریقے سے کان کھول کر سن لو اگر اب تمہاری زبان پر میری بیوی کا نام آیا یا تم نے میرے گھر کے اندر قدم رکھنے کی کوشش کی تو اگلی بار میں تمہیں زبان سے نہیں سمجھوں گا بلکہ تمہارے ہاتھ اور پاؤں دونوں توڑ ڈالوں گا اب دفع ہو جاؤ میرے گھر سے"

معظم نے احتشام کو گریبان پکڑ کر بولنے کے بعد اسے زور سے دروازے پر دھکا دیا


شور کی آواز سن کر سندیلا پری کو گود میں اٹھائے باہر آئی۔۔۔ احتشام معظم کے بعد سندیلا کو غصے میں دیکھتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا


"یہ کون سا طریقہ ہوتا ہے معظم کسی سے بات کرنے کا۔۔۔ حد ہوتی ہے کتنی زیادہ بدتمیزی کی ہے تم نے احتشام کے ساتھ"

سندیلا نے احتشام کے الفاظ تو نہیں سنے تھے مگر معظم کو اسے دھکا دیتے ہوئے ضرور دیکھا تھا۔۔۔ جبھی وہ ناراض لہجے میں معظم سے بولی


"اور وہ جو بکواس کر رہا تھا آپ کے بارے میں وہ نہیں سنا آپ نے۔۔۔۔ جو کچھ میں نے اس کے ساتھ کیا ہے وہ اس سے زیادہ کا مستحق تھا لیکن اس وقت وہ میرے گھر کی چھت کے نیچے کھڑا تھا اس لئے میں اس کے ساتھ رعایت کرگیا"

معظم کو احتشام کے بولے گئے لفظوں پر ابھی تک غصہ تھا جبھی وہ غصے میں سندیلا کو دیکھتا ہوا بولا


"کیوں کر رہے ہو تم یہ سب آخر کیا حاصل ہوگا اس سے"

سندیلا معظم کو دیکھتی ہوئی تحمل سے پوچھنے لگی،، سندیلا کو اس کا یہ رویہ بالکل بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا اس نے احتشام کے سامنے اپنی باتوں سے ظاہر کیا تھا کہ وہ سندیلا کو چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتا جس پر سندیلا بھی الجھ چکی تھی۔ ۔۔۔۔ معظم سندیلا کو بنا کوئی جواب دیے، پری کو اس کی گود سے لے کر کمرے میں چلا گیا کیونکہ دھوپ کی تمازت بڑھ رہی تھی جس سے پری بے چین ہو رہی تھی


"یہ سب کچھ تو پہلے سے طے تھا، اسی وجہ سے احتشام نے میرا اور تمہارا نکاح کروایا تو پھر تم کیوں احتشام کے سامنے اس بات کو لے کر بحث کررہے۔۔ اب خاموش کیو ہو میری بات کا جواب دو"

معظم نے کمرے میں آنے کے بعد پری کو پیار کر کے بیڈ کر لٹایا تبھی سندیلا بھی اس کے پیچھے کمرے میں آتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی


"پڑھی لکھی ہیں آپ اتنا نہیں جانتی حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔۔۔ احتشام تو لعنتی انسان بن سکتا ہے مگر میں ایسا قدم اٹھا کر لعنتی انسان نہیں بن سکتا"

معظم پری کو لٹانے کے بعد پلٹتا ہوا سندیلا سے بولا تو ایک پل کے لیے سندیلا خاموش ہو کر حیرت سے معظم کو دیکھنے لگی


"اگر تمہیں اس بات کا علم ہے تو تم نے حامی کیوں بھری نکاح کے لئے احتشام کے سامنے۔۔۔۔ کیوں کیا تم نے احتشام کے کہنے پر مجھ سے نکاح"

سندیلہ کنفیوز ہوکر معظم سے دوبارہ پوچھنے لگی


"اگر میں آپ سے نکاح حلالے کی نیت سے کرتا تو کانٹریکٹ پیپرز پر بھی سائن کرتا لیکن آپ سے نکاح کرتے وقت میری ایسی کوئی نیت نہیں تھی کہ میں بعد میں آپ کو چھوڑ دوں"

معظم نے سندیلا کے قریب آکر اس پر انکشاف کیا جس پر سندیلا ایک بار پھر کچھ بول نہیں پائی وہ خاموشی سے معظم کو دیکھ رہی تھی اور معظم اس وقت بے حد سنجیدہ تھا


"کیوں۔۔۔۔ کیوں نہیں چھوڑنا چاہتے ہو تم مجھے جواب دو"

وہ سندیلا پر انکشاف کر کے کمرے سے باہر جانے لگا تبھی سندیلا اس کا راستہ روکتی ہوئی معظم سے پوچھنے لگی


"کیا آپ واپس جانا چاہتی ہیں اس انسان کے پاس اور اگر واپس جانا چاہتی ہیں تو کیوں جانا چاہتی ہیں پہلے آپ اس بات کا جواب دیں"

معظم اس کے سوال پر چڑتا ہوا الٹا اس سے جواب طلب کرنے لگا۔۔۔ تو سندیلا سوچ میں پڑ گئی کہ وہ واپس احتشام کے پاس جانا چاہتی ہے یا پھر اسے احتشام کے پاس جانا چاہیے،، پھر کچھ سوچ کر وہ بولی


"باپ ہے وہ میری بیٹی کا"

سندیلا کو احتشام کے پاس جانے کا ایک یہی ٹھونس وجہ سمجھ میں آئی


"میں بھی پری کے لیے ایک اچھا باپ ثابت ہو سکتا ہوں استانی جی، آپ مجھ پر بھروسہ کرکے دیکھ لیں"

معظم نے سندیلا کو دونوں بازوؤں سے تھام کر یقین دلانا چاہا


"بھروسے کو بنیاد بنا کر میں ساری زندگی گزار دو تمہارے ساتھ؟؟؟ احتشام کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے گیں،، میں ان کی طبیعت سے اچھی طرح واقف ہوں تم بلاوجہ میں ضد کرکے صرف اور صرف بات بڑھا رہے ہوں"

سندیلا کی بات سن کر معظم کے پیشانی پر بل پڑ گئے اس نے سندیلا کے دونوں بازوؤں سے اپنے ہاتھ اٹھائے


"آپ اور احتشام ابھی میری طبیعت سے واقف نہیں ہیں،، احتشام کو تو میں بعد میں سمجھا دوں گا لیکن آپ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں میں نے آپ کو چھوڑنے کے لئے نہیں اپنایا اور نہ ہی میں یہ رشتہ ختم کروں گا۔۔۔ یاد رکھیے گا استانی جی بھروسہ ہی ہر کامیاب رشتے کی اہم سیڑھی ہوتا ہے اور وہ آپ کو مجھ پر کرنا ہی پڑے گا"

معظم سندیلا کو سمجھاتا ہوا ایک بار پھر کمرے سے باہر نکلنے لگا


"اگر میں تم سے رشتہ ختم کرکے واپس احتشام کے پاس جانا چاہو تو"

سندیلا کی بات سن کر معظم نے ایک بار پھر سندیلا کے دونوں بازو پکڑے۔۔۔ اب کی بار اس کی گرفت میں سختی تھی اور چہرے پر گرختگی


"میں تب بھی ایسا نہیں چاہوں گا اور نہ ہی ایسا کرنے دوں گا آپ کو، سنا آپ نے۔۔ بیوی بنایا میں نے آپکو،، آپ سے محبت کرنا، اپنے اور آپکے رشتے کا احترام کرنا میرا فرض ہے لیکن آگے بھی زندگی میں شوہر اپنی بیوی سے محبت کرے اور اس کا احترام کرے یہ خود بیوی پر منحصر کرتا تھا۔۔۔ میری بات کا مطلب اچھی طرح سمجھ گئی ہوگیں اب اپنے دل سے احتشام کا خیال نکال دیں"

معظم سندیلا کو اچھی طرح سمجھاتا ہوا بولا۔۔۔ وہ کیا چاہتی تھی اپنی بات سے معظم کا ری ایکشن دیکھنا چاہتی تھی جو وہ دیکھ چکی تھی تبھی بیڈ پر لیٹی ہوئی پری نے روتے ہوئے ان دونوں کی توجہ اپنی طرف کھینچی


"بھوک لگ رہی ہے پری کو، جائیں فیڈ کروائے اسے"

معظم سندیلا کو دیکھتا ہوا بولا جو کہ اس کی بات سننے کے باوجود خاموشی سے معظم کا چہرہ دیکھ رہی تھی، تب معظم سندیلا کا ہاتھ پکڑ کر اسے بیڈ تک لایا، سندیلا کو بیڈ پر بٹھانے کے بعد پری کو اس کی گود میں دیتا ہوا خود کمرے سے باہر نکل گیا


ہفتہ بھر گزر چکا تھا اس واقعے کو ہوئے کہ جب احتشام معظم کے گھر آیا تھا، اس کی وجہ سے معظم اور سندیلا کے بیچ بحث ہوئی تھی۔۔۔ اس دن کے بعد سے سندیلا نے اپنا موبائل آف کر دیا تھا وہ صرف اپنی سہیلی سحرش سے بات کرنے کی غرض سے تھوڑی دیر کے لئے موبائل آن کرتی اور واپس بند کر دیتی۔۔۔


معظم اور اس کے بیچ بات چیت کا سلسلہ ختم ہوچکا تھا لیکن وہ ویسے ہی پہلے دن کی طرح روز صبح پپو اور معظم کے لئے ناشتہ بناتی، خود معظم کے کہے بنا اسکے ساتھ ہی ناشتہ کرتی،، سارے گھر کا کام کرتی۔۔۔ معظم اگر اسے خود سے بات کرتا تو نارمل انداز میں اس کی بات کا جواب دے دیتی،، سندیلا نے نوٹ کیا تھا کہ اگر وہ معظم سے بات نہیں کر رہی تھی تو معظم خود بھی اس کو ضرورت کے تحت مخاطب کرتا لیکن اس ایک ہفتے میں یہ ہوا تھا کہ پری معظم سے کافی مانوس ہوچکی تھی


وہ معظم کے اشارہ کر کے بلانے پر آرام سے سندیلا کی گود معظم کے پاس چلی جاتی اور گھنٹوں معظم کے ساتھ چپکی رہتی بلکہ ہفتہ بھر سے یہی روٹین ہوگیا تھا کہ معظم جس ٹائم گھر پر ہوتا پری معظم کی گود میں رہتی۔۔۔ سندیلا کے پاس وہ صرف بھوک کی غرض سے جاتی


لیکن آج اتفاق سے معظم صبح سے ہی گھر سے باہر نکلا ہوا تھا اور پری رو رو کر سندیلا کو پریشان کر رہی تھی۔۔ شاید وہ معظم کی کمی محسوس کر رہی تھی۔۔۔ اس نے بہت مشکل سے سندیلا کو گھر کا کام کرنے دیا تھا۔۔۔ سندیلا کے خود بھی سر میں درد تھا اس وجہ سے اسے پری کے ساتھ معظم پر بھی غصہ آ رہا تھا جو پری کا زبردستی کا باپ بننے کے بعد صبح سے نا جانے کہاں غائب تھا


"پری کیوں روئے جا رہی ہو خاموش ہو ناں"

سندیلا جب اسے گود میں ٹہلاتے ٹہلاتے تھک گئی تو پری کو کاٹ میں لٹاتی ہوئی جھنجھنلا کر بولی۔۔ اب اسے پری کے روتا دیکھ کر شدید غصہ آنے لگا تھا


"ایسے خاموش کروایا جاتا ہے چھوٹے بچے کو"

معظم شاید ابھی ابھی گھر میں داخل ہوا تھا


ہاتھ میں موجود شاپرز جن میں پری کے دودھ کے ڈبے اور ڈائپرز موجود تھے کارنر ٹیبل پر رکھتا ہوا خود پری کو کوٹ سے اٹھاتا ہوا سندیلا سے بولا جو اپنی کنپٹی کو انگلیوں سے دباتی ہوئی بیزار سی شکل بنا کر بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی


*****

"ایسے خاموش کروایا جاتا ہے چھوٹے بچے کو"

معظم شاید گھر ابھی آیا تھا


ہاتھ میں موجود شاپرز جن میں پری کے دودھ کے ڈبے اور ڈائپرز موجود تھے کارنر ٹیبل پر رکھتا ہوا خود پری کو کاٹ سے اٹھاتا ہوا سندیلا سے بولا، جو اپپنی کنپٹی دباتی ہوئی بےزار سی شکل بنا کر بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی


"تمہیں زیادہ اس کا ابا بننے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ چیزیں لانے کی کیا ضرورت تھی تمہیں۔۔۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ یہ سب لے کر آؤ تم، اگر مجھے اس کی کسی بھی چیز کی ضرورت ہو گی تو میں خود کہیں سے ارینج کر لوں گی"

معظم کے بولنے کی دیر تھی سندیلا بیڈ سے اٹھتی ہوئی معظم کو دیکھ کر غصے میں بولی جبکہ وہ خود بھی جانتی تھی کہ پری کا استعمال شدہ دودھ کا ٹن پیک اب ختم ہوچکا ہے اور ڈائپرز بھی پیکٹ میں دو یا تین بچے ہیں


"تیار بیٹھی ہوئی تھی کیا،، کہ میں آپ سے کچھ بولو اور آپ فوراً ہی لڑنا شروع ہو جائیں گیں۔۔۔ فائٹنگ کرنے کا موڈ ہو رہا ہے تو بے شک کر لیں، غصہ بھی اتار دیں مگر اب آئندہ غلط بات منہ سے مت نکالیے گا۔۔۔ مجھے اس کا ابا بننے کی ضرورت نہیں ہے کیوکہ میں اس کا ابا ہی ہوں اور ایک باپ کو اپنی اولاد کی ضرورتوں کا خیال خود ہی ہونا چاہیے،، پری کی کوئی بھی چیز ختم ہوگی تو میں آپ کے بولنے کا انتظار تھوڑی کروں گا"

وہ گود میں اٹھائے پری کا چہرا بےبی وائپ سے صاف کرتا ہوا سندیلا کو بولا۔۔۔ معظم کی گود میں آنے کی دیر تھی پری بالکل خاموش ہوچکی تھی


"اگر اتنا ہی باپ بننے کا شوق چڑھا ہے تو جلدی گھر لوٹا کرو نہ تاکہ سنبھالو اپنی بیٹی کو۔۔۔ ایک تو میں پورے گھر کا کام کرو، کھانا بناؤ اس کو سنبھالو مجھے تو لگتا ہی نہیں میں کوئی انسان ہوں"

سندیلا خود بھی چاہ رہی تھی کہ معظم جلدی سے گھر آئے اور پری کو روز کی طرح گود میں لےکر اس سے باتیں کرے اور جب وہ آ چکا تھا اور پری کو گود میں لے چکا تھا۔۔۔ تب بھی سندیلا سر درد کی وجہ سے غصے میں تیز آواز میں بولنے لگی۔۔۔ یا پھر نہ جانے اسے کس بات پر جھنجھلاہٹ ہورہی تھی


"تو آپ کو کون کہہ رہا ہے گھر کے کام کیا کریں آپ صرف میری پری کا خیال رکھا کریں،، پپو سے کہہ کر کل ہی کوئی کام والی لگوا دیتا ہوں اور یار میں کونسا سارا دن گھر سے باہر رہتا ہوں۔۔۔ لیکن سارا وقت تو گھر میں بیٹھا نہیں رہ سکتا دس طرح کے کام ہوتے ہیں جن کو کرنے کے لیے مجھے گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے"

معظم سندیلا کو دیکھ کر سمجھ گیا تھا وہ سر درد کی وجہ سے چڑچڑی ہو رہی ہے اس لیے نرمی سے اس کو سمجھاتا ہوا بولا


"کون سے کام ہوتے ہیں تمہیں گھر سے باہر، لوگوں کو مارنا پیٹنا لڑنا جھگڑنا ڈرانا دھمکانہ کوئی عزت والا ڈھنگ کا کام کرنے کے لیے باہر نہیں نکلتے ہو تم اور تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے موت نہیں پڑ رہی ہے مجھے تمہارے گھر کا کام کرتے ہوئے،، کام چور ہرگز نہیں ہوں میں، جو تمہیں میرے لئے شرافت بھائی سے کہہ کر کام والی رکھوانا پڑے"

سندیلا اب باقاعدہ اپنے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر مخصوص بیویوں والے اسٹائل میں معظم پر برس رہی تھی معظم کے ساتھ پری بھی سندیلا کو دیکھ رہی تھی


"آپ جو بھی بول رہے ہیں بالکل ٹھیک بول رہی ہیں استانی جی، مجھے لگ رہا ہے آپ کے سر کا درد مزید بڑھ رہا ہے میں اور پری دوسرے کمرے میں چلے جاتے ہیں آپ یہاں بیڈ پر لیٹ کر تھوڑی دیر آرام کریں"

معظم کو سندیلا کے غصے پر اور اس کے باتیں سنانے کے انداز پر ہنسی آ رہی تھی مگر وہ ہنس کر اس کے غصے کو ہوا نہیں دینا چاہتا تھا اس لیے پری کو لے کر کمرے سے جانے لگا مگر تب ہی سندیلا کی آواز پر اس کے قدم رکے


"مجھے غصہ اپنے سر درد کی وجہ سے نہیں آرہا ہے بلکے تمہارے ان کپڑوں کو دیکھ کر آرہا ہے جو تم نے پچھلے چار دنوں سے اپنے اوپر چڑھائے ہوئے ہیں۔۔۔ چار دن پہلے نہائے تھے ناں تم،، خبردار جو آج رات کو تم بغیر شاور لیے یا ان کپڑوں میں میرے برابر میں آکر لیٹے"

اب کی بار سندیلا کی بات سن کر معظم کو اپنی ہنسی ضبط کرنا اور بھی مشکل لگا۔۔ مگر وہ ضبط کر گیا


"تھوڑی دیر بعد شاور لے کر ان کپڑوں کو تبدیل کر لیتا ہوں،، اب آپ بے فکر ہو جائیں استانی جی"

معظم اب کی بار بھی آرام سے سندیلا کو بولا جبکہ پری معظم کے کندھے پر سر رکھ کر اپنا چہرہ دوسری طرف کر چکی تھی شاید وہ اب مزید سندیلا کا غصہ برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں تھی


"اب تم شاور لینے کے بعد پورا واش روم گیلا کر کے آؤ گے۔۔ اففف میں کہاں پھنس گئی ہو"

سندیلا دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام بیڈ پر بیٹھ گئی جس پر پری معظم کے کندھے سے سر اٹھا کر سندیلا کو دیکھنے کے بعد معظم کو دیکھنے لگی،، معظم پری کے گال پر پیار کرتا ہوا دوبارہ اس کا سر اپنے کندھے پر رکھ کر سندیلا سے بولا


"یار کیا ہوگیا استانی جی آپ کو، شاور لینے کے بعد اچھی طرح سے واشروم کو وائپر کردو گا اب پلیز یہاں لیٹ کر تھوڑی دیر کے لئے اپنے دماغ کو سکون دے دیں"

معظم سندیلا کو پریشان دیکھ کر بولا اور پری کو لے کر کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔ وہ جب تک کمرے میں موجود رہتا سندیلا اس کو دیکھ کر یونہی کسی نہ کسی بات پر غصہ کرتی

****


"میری پری اپنے بابا کو یاد کر رہی تھی۔۔ اب بابا اپنی پری کے پاس رہے گے"

معظم پری کو گود میں لے کر صوفے پر بیٹھتا ہوا اس سے باتیں کرنے لگا تبھی اسے باہر سے پپو آتا ہوا دکھائی دیا


"صبح میں کہاں غائب تھے تم اور یہ ہاتھ میں کیا ہے تمہارے"

پپو کو کمرے میں آتا ہوا دیکھ کر معظم اس کی غیر حاضری کا سبب پوچھنے لگا،، آج معظم ایک ضروری کام کی وجہ سے سارا دن گھر سے باہر تھا،، پپو گھر کے ایک دو چکر لگا لیتا تو اسے سندیلا اور پری کی طرف سے اطمینان رہتا


"صبح قاسم سیٹھ نے بلوایا تھا وہی موجود تھا وہ آپ کو بھی یاد کر رہے ہیں۔۔۔ کوکین سے بھرے ہوئے چھ بیگز۔۔۔

پپو کی آدھی بات پر ہی معظم نے اس کو آنکھیں دکھائی


"بھابھی جی کہا ہیں نظر نہیں آرہی ہیں، یہ رس ملائی میں ان کے لے کر آیا ہوں ان کو پسند ہے"

پپو فوراً بات بدل کر معظم سے سندیلا کا پوچھنے لگا۔ ۔۔ اور ہاتھ میں موجود شاپر فریج میں رکھنے لگا۔۔۔ اپنی پسند کے کھانے وہ سندیلا کو بتانے کے بعد، سندیلا سے اس کی پسند کی ڈشز کا بھی پوچھ چکا تھا


"سر میں درد ہے استانی جی کے اس لیے آرام کر رہی ہیں"

معظم سندیلا کے بارے میں بتاتا ہوا یہی سوچ رہا تھا کہ اسے قاسم سیٹھ سے کل ہی رابطہ کر لینا چاہیے


"لو جی کر لو بات پھر رات کے کھانے کا کیا ہوگا آج تو بھابھی جی نے اپنے ہاتھ کی بنی ہوئی نہاری کھلانا تھی ناں"

پپو نے معظم کی گود سے پری کو لیتے ہوئے افسوس سے کہا۔۔۔ پپو کی گود میں آنے کے ساتھ ہی پری نے رونا شروع کردیا تو معظم نے جھٹ سے پری ہو واپس اپنی گود میں بٹھا لیا اور خار بھری نظروں سے پپو کو دیکھتا ہوا گھرکتا ہوا بولا


"شرم آنی چاہیے پپو تجھے روز روز استانی جی سے فرمائشیں کر کے کھانا ٹھونستے ہوئے۔۔۔ جس طرح صبح شام تیرا یہ فرمائشی پروگرام چل رہا ہوتا ہے نہ کھانے بنوانے کا۔۔۔ مجھے لگتا ہے بہت جلد تو میرا گھر برباد کروائے گا"

معظم نے پری کو بہلانے کے ساتھ ساتھ پپو کو کوسا جس پر پپو کا منہ بن گیا


"اچھا اب زیادہ ذلیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے معصوم سے پپو کو،، آج نہاری نہ سہی پنیر والی روٹی ہی سہی، بھابھی جی نے مجھے بتایا تھا انہیں وہ بھی بہت پسند ہے۔۔۔ ویسے معلوم نہیں لوگ کیسے روٹی کے اوپر پنیر رکھ کر کھا لیتے ہیں"

ُپپو واپس باہر جانے کے لئے سے صوفے سے اٹھا


"او جاہل عوام اسے پزا کہتے ہیں۔۔۔ اس سے پہلے کے تیری باتوں سے میرا بھی سر درد کرنے لگے پپو پلیز یہاں سے دفع ہوجا"

معظم گھورتا ہوا پپو بولا مگر پپو اپنی بےعزتی کا کوئی اثر لیے بغیر دانت نکالتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا


"حد ہے یعنیٰ یہ سالا پپو اپنے آپ کو معصوم کہتا ہے، ارے معصوم تو میں بیچارہ ہوں،،، جو شادی کر کے بھی ابھی تک کنوراہ ہوں"

معظم منہ ہی منہ میں بڑبڑایا،، اس کی نظر اپنی گود میں بیٹھی ہوئی پری پر پڑی جو اب منہ بسور کر معظم کو دیکھ رہی تھی


"کیا ہوگیا میرے شونے بےبی، آج اتنا رونا کیوں آرہا ہے میری گڑیا کو، مما آج پھر نظر اتارنا بھول گئی پری کی،، ابھی بابا نظر اتارتے اپنی بیٹی کی جب تک یہ دیکھو"

اس سے پہلے پری رونا شروع کرتی معظم اپنا موبائل نکال کر پری کا من پسند سونگ پلے کرتا ہوا،، پری کو پرام میں بٹھا کر کچن میں چلا آیا تاکہ اس کا فیڈر تیار کر سکے



****


"پری کو گود میں اٹھائے اس نے بہت آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا۔۔۔ سوئی ہوئی پری کو بےبی کاٹ میں لٹانے کے بعد آئستگی سے معظم نے الماری کھول کر اپنے کپڑے نکالے اور واش روم میں چلا گیا۔۔۔ اتنی احتیاط کے باوجود سندیلا کی آنکھ کھل چکی تھی، اس نے سوئی ہوئی پری پر نظر ڈالی اور واش روم کا بند دروازہ دیکھنے لگی جہاں سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔۔ یعنی اس کے غصہ کرنے پر معظم اب شاور لے رہا تھا۔۔۔ کبھی کبھی طبیعت خراب ہونے یا چڑچڑے پن میں وہ احتشام پر بھی غُصہ کر جاتی تھی مگر احتشام اس کی طبعیت کی پرواہ کیے بنا سندیلا کو اچھی خاصی سنا دیا کرتا تھا اور بعض دفعہ تو سندیلا اپنا غصہ ختم کرکے خود اسی کو منا رہی ہوتی تھی جس پر احتشام اور بھی زیادہ مغرور ہو جاتا تھا


لیکن آج دو گھنٹے پہلے وہ معظم کو کس قدر بلاوجہ میں باتیں سنا رہی تھی اور وہ بغیر قصور کے اس کی باتیں سن رہا تھا۔۔ سندیلا بیڈ پر لیٹی سوچ رہی تھی تبھی واش روم کا دروازہ کھلا اور معظم باہر آیا۔۔۔ سندیلا کو جاگتا ہوا دیکھ کر وہ مسکرایا تو سندیلا اس کی مسکراہٹ کے جواب میں خاموشی سے اسے دیکھنے لگی


"سر کا درد کچھ بہتر ہوا استانی جی"

وہ بیڈ پر بیٹھتا ہوا ہلکا سا سندیلا پر جھکا اس کے سر پر اپنا ہاتھ رکھتا ہوا پوچھنے لگا


"وہ تو تمہیں اچھی خاصی باتیں سنا کر ہی ختم ہو گیا تھا"

سندیلا اپنے سر پر سے معظم کا ہاتھ ہٹاتی ہوئی بولی جس پر وہ ہلکا سا مسکرایا۔۔۔ اب وہ ہاف آستین کی ٹی شرٹ میں سے چھلکتے ہوئے اسکے مضبوط بازو دیکھنے لگی


"اف ساری بینڈیچ گیلی ہو چکی ہے تمہاری،، پانی اندر جانے کی وجہ سے زخم خراب ہی نہ ہو جائے۔۔۔ کس قدر لاپرواہ ہو تم معظم"

وہ معظم کے بازو پر بندھی ہوئی بینڈیج پر ہاتھ پھیرتی ہوئی پریشان ہو کر بولی شاید وہ بھول چکی تھی کہ معظم اسی کے کہنے پر شاور لے کر آیا تھا


"چھوٹی چھوٹی باتوں پر اتنا پریشان مت ہوا کریں استانی جی، اب یہ زخم بالکل ٹھیک ہو چکا ہے"

وہ سندیلا کا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹا کر ہونٹوں پر لگاتا ہوا بولا پھر مزید سندیلا کے اوپر جھک کر اس کا چہرہ دیکھنے لگا وہ اس کی پرواہ کر رہی تھی تبھی ایسا بول رہی تھی۔۔۔ یہ بات معظم کو خوشی دینے لگی


"کیا تم واقعی غنڈے ہو اور سارے لوگ تم سے ڈرتے ہیں"

سندیلا بے حد قریب سے اپنے اوپر معظم کا جھگا ہوا چہرہ دیکھ کر اس سے پوچھنے لگی


"آپ کو کیو شک ہو رہا ہے کہ جیسا میں نظر آتا ہوں ویسا ہو نہیں"

وہ آئستہ سے سندیلا کے بالوں میں انگلیاں پھیرتا ہوا الٹا اسی سے سوال کرنے لگا


"اس لیے شک ہو رہا ہے مجھ پر تو تمہارا کوئی خاص روعب چل نہیں رہا، معلوم نہیں کہاں کے غنڈے ہو تم"

سندیلا غور سے معظم کا چہرہ دیکھتی ہوئی بولی جو اب ایک ابرو اچکا کر اسے دیکھنے لگا


"پہلے بتا دیتی ناں کہ آپ کو روعب جمانے والا شوہر پسند ہے،، آج آپ اپنے شوہر کے روعب کی ایک جھلک دیکھ ہی لیں استانی جی"

معظم اپنے ہاتھوں کی انگلیاں جو کہ وہ نرمی سے اب تک سندیلا کے بالوں میں پھیر رہا تھا،، سختی سے اس کے بالوں کو اپنی مٹھی میں بھر کر اس کا چہرہ اونچا کرتا ہوا سندیلا کی گردن پر جھکا


"معظم یہ اچانک کیا ہو گیا ہے تمہیں، کیا کر رہے ہو۔۔۔ چھوڑو مجھے"

اس کی بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ ساتھ اسکے دانتوں کی چبھن اپنی گردن اور پھر کندھے پر محسوس کرتی ہوئی سندیلا گھبرا کر بولی۔۔۔ مگر سندیلا کے بولنے سے کوئی خاص فرق نہیں آیا تھا جب وہ اس کی گردن سے مزید تھوڑا نیچے جھکا تو وہ معظم کے کندھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھتی ہوئی اسے پیچھے ہٹانے لگی


"ابھی سے ڈر گئی ہیں استانی جی، پورا جلوہ تو دیکھ لیں اپنے اس موالی شوہر کا"

سندیلا کے احتجاج کو خاطر میں لائے بغیر اس کی ٹانگوں پر اپنی ٹانگ رکھتا ہوا، وہ اب سندیلا کے ہونٹوں پر جھک چکا تھا


جنونی انداز میں اس کے ہونٹوں پر جھکا ہوا وہ اپنی پوری شدتیں سندیلا پر ظاہر کرنے لگا۔۔۔ سندیلا تو جیسے روعب والی بات بول کر پچھتائی تھی وہ اس وقت بالکل بھی اسکی نہیں مان رہا تھا نہ ہی اسے ہاتھ پاؤں چلانے دے رہا تھا۔۔۔ جب اسے خود ہی سندیلا کے ہونٹوں پر رحم آیا تو معظم نے خود ہی اپنے ہونٹوں سے اسکے ہونٹوں سے جدا کیا


"تم نہایت ہی بدتمیز اور بےشرم انسان ہو۔۔۔ ایک تو میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اوپر سے تم"

سندیلا اب معظم کے بھاری وجود کو اپنے اوپر سے ہٹانے کے لیے اسے دھگا دینے لگی جس پر معظم ٹس سے مس نہیں ہوا


"کون سی والی طبعیت خراب ہے آپ کی، شٹ یار وہ والی"

معظم سندیلا کو ڈائٹ فل نظروں سے دیکھتا ہوا افسوس کر کے بولا، جس پر سندیلا پورا زور لگا کر اسے اپنے اوپر سے ہٹانے لگی


"تم غنڈے اور موالی ہونے کے ساتھ اچھے خاصے بے ہودہ اور چھچھورے انسان ہو خبردار جو تم نے مجھ سے کوئی بھی فضول قسم کی بات کی"

سندیلا کے پیچھے ہٹانے پر اب وہ آرام سے پیچھے ہٹ گیا۔۔۔ معظم کے ہٹتے ہی سندیلا اٹھنے لگی مگر معظم نے اسے دوبارہ اپنے برابر میں بیڈ پر لٹا دیا


"ارے یار لیٹ جائیں کون سا میں چیک کر رہا ہوں۔۔۔ سوری سوری اب کوئی فضول بات نہیں۔۔۔ چلیں یہ بتائیں شام میں اتنا غصہ کس بات پر آ رہا تھا آپ کو"

اب وہ واقعی سنجیدگی سے سندیلا کو دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا


"بہت بری طرح کنفیوز ہو چکی ہوں اپنے خود کے مستقبل کو لے کر"

سندیلا اٹھ کر بیٹھ گئی اب وہ معظم سے زیادہ سیریس تھی تبھی سچائی بیان کرتی ہوئی بولی


"دل کیا کہہ رہا ہے آپ کا"

معظم سمجھ چکا تھا وہ ابھی تک خود کو احتشام کے اور اس کے بیچ پھنسا ہوا محسوس کر رہی ہے۔۔۔ وہ سندیلا کی بات کا برا مانے بغیر یا غصے کیے بغیر سندیلا سے اس کے دل کی بات جاننے لگا


"دل ہی تو کنفیوز ہو چکا ہے بہت بری طرح سمجھ میں نہیں آ رہا کیا کروں۔۔۔ احتشام کے حق میں فیصلہ نہ دینا اس سے بھی تو بےایمانی ہو گی ناں"

سندیلا کو اس وقت اپنے شوہر کی نہیں ایک دوست کی ضرورت تھی وہ معظم میں ہی اپنا دوست تلاش کرتی ہوئی اس سے اپنے دل کی بات شیئر کرنے لگی۔۔۔ سندیلا کی بات سن کر معظم بھی اٹھ کر بیٹھ گیا


"اس نے کونسا آپ کے اور اپنے رشتے میں ایمانداری نبھائی ہے، اگر وہ آپ کے اور اپنے رشتے سے اتنا ہی مخلص ہوتا تو برے سے برے وقت میں بھی آپ سے کبھی اپنا تعلق ختم نہیں کرتا۔۔۔ اس نے آپ سے اپنا تعلق اس وقت ختم کیا، جس وقت آپ اسی کی اولاد پیدا کرنے جا رہی تھیں،، جس وقت آپ کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی"

معظم کی باتیں سن کر سندیلا خاموشی سے اسے دیکھنے لگی


"تو تم یہ چا رہے ہو کہ اب بات کو،، پورے طریقے سے صرف تمہارے فیور میں ہی جانا چاہیے"

سندیلا جانچتی ہوئی نظروں سے معظم کو دیکھ کر پوچھنے لگی


"ہاں میں یہی چاہ رہا ہوں کہ اب آپ کی طرف سے بات پوری پوری میری فیور میں ہی جائے۔۔۔ اس معاملے میں آپ مجھے خود غرض سمجھ لیں۔۔۔ احتشام کے لیے بےایمانی ہوگی یہ سوچ کر کنفیوز ہیں آپ اور میرے پاس سے اس کے پاس جاکر دل نہیں دکھے گا آپ کا، سچ سچ بتائے مجھے سندیلا آپکو ذرا بھی افسوس نہیں ہوگا مجھ سے رشتہ ختم کر کے اس کے پاس جاتے ہوئے"

معظم کی بات سن کر سندیلا کا دل بری طرح تڑپ اٹھا،، وہ کنفیوز ہی معظم سے اپنے اور پری کے ساتھ رویہ کو دیکھ کر ہوئی تھی۔۔۔ پہلی بار معظم نے اسے استانی جی کی بجائے سندیلا کہہ کر پکارا تھا پہلی بار وہ سندیلا کو کتنا پیارا لگا تھا سندیلا اسے بتا نہیں سکی،، الٹا بے بسی سے اس نے معظم کا گریبان پکڑ لیا


"کیوں عادی بنا رہے ہو تم مجھے اور میری بیٹی کو اپنا،، کیوں اتنا پیار دے کر ہم دونوں ماں بیٹی کی عادتیں بگاڑ رہے ہو تم۔۔۔ کیوں کر رہے ہو تم ہم دونوں کے ساتھ ایسا سلوک بتاؤ معظم"

سندیلا معظم کا گریبان پکڑ کر آنسو بہاتی ہوئی بے بسی سے اس سے پوچھنے لگی تو معظم نے اسے اپنے مضبوط بازو کے گھیرے میں لے لیا


"جن سے محبت کی جاتی ہے ان کی عادتیں بگڑنے پر،، محبت کرنے والے کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا استانی جی۔۔۔ آپ کو معلوم نہیں شاید آپ میرے لئے شروع دن سے کبھی بھی اجنبی نہیں رہی ہیں آپ کا یہ چہرہ پہلی ملاقات سے ہی مجھے کسی کی یاد دلاتا رہا ہے،، میرے دل نے کبھی اس چہرے کو بہت زیادہ چاہا تھا۔۔۔ لیکن آپکے اور میرے نکاح کے بعد میرے دل نے بناء کسی شرط کے یا غرض کے صرف اور صرف آپ سے محبت کی ہے پرخلوص اور سچی محبت"

معظم سندیلا کا سسکتا ہوا نازک وجود اپنے بازوؤں میں بھر کر اسے بولنے لگا۔۔۔ سندیلا کو اس کی مکمل بات سمجھ میں نہیں آئی تھی بس اتنا سمجھ میں آیا تھا کہ اس نے اپنی محبت کا اعتراف کیا ہے


"مجھے آپ سے ایسا رشتہ نہیں بنانا کہ ایک دو رات آپ کو استعمال کرکے زندگی بھر کے لئے خود سے آپ کو جدا کر دو۔۔۔ دوبارہ احتشام کا خیال اپنے دل میں لانے سے پہلے میری موت کی دعا کریئے گا اپنی زندگی میں، میں آپ کو اپنے آپ سے ہرگز جدا نہیں کرنے والا،، نہ آپ کو اور نہ ہی پری کو"

معظم سندیلا کو بولتا ہوا بیڈ پر لٹا کر اس پر جھکا تو سندیلا نے اس کا گریبان چھوڑا اس کی آنکھیں آنسوؤں سے اب بھی بھری ہوئی تھی


"تم پری کو اتنا پیار کیسے دے سکتے ہو وہ تمہاری نہیں احتشام کی بیٹی ہے"

سندیلا معظم کا چہرہ دیکھتی ہوئی بولی اس کی آنکھوں میں مزید آنسوؤں کی روانی آگئی


"پری سے محبت کرنے کا سب سے بڑا جواز یہی ہے کہ وہ آپ کے وجود کا حصہ ہے۔۔۔ آج آپ دوسری بار ایسی بات کہہ میرا دل دکھا چکی ہیں۔۔ آئندہ کبھی ایسا مت کہئے گا کے پری میری اولاد نہیں"

معظم سندیلا کے آنسوؤں کو صاف کرتا ہوا بولا


"پری کو میں اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھوں گا،، پری سے اور آپ سے ساری زندگی محبت کروں گا بدلے میں مجھے صرف آپ سے وفاداری چاہیے اپنے لئے"

معظم نے بولتے ہوئے سندیلا کی پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔۔۔۔ اس محبت بھرے لمس سے سندیلا کی پیشانی جگمگا اٹھی سندیلا نے بھی دل میں عہد کیا تھا کہ وہ مرتے دم تک اس سے وفاداری نبھائے گی


****

تھوڑی دیر پہلے سارے جمع ہوئے لوگ اپنے گھر لوٹ گئے تھے۔۔۔ یوں اچانک حسان کی موت کے بعد جویریہ کا دنیا سے چلے جانا کسی افسوس ناک ثانیہ سے کم نہ تھا۔۔۔ ڈاکٹرز کے مطابق جویریہ کے انتقال کی وجہ حرکتِ قلب کا کسی بڑے صدمے کی وجہ سے بند ہونا بنا۔۔۔ بلال جو کہ پہلے ہی حسان کی موت کے صدمے سے نہیں سنبھالا تھا اب جویریہ کے چلے جانے کے بعد بالکل بکھر گیا تھا۔۔۔ ہفتہ بھر گزر چکا تھا مگر اسے اپنا ہوش نہیں تھا بس وہ اپنے کمرے میں موجود خالی خالی نظروں سے شہنیلا یا خوشی کو دیکھتا جو اس کے کمرے میں آکر اسے تھوڑا بہت کھانا کھلا دیتی یا باتیں کرلیتی


اس وقت بھی وہ اپنے کمرے میں اندھیرا کیے ہوئے راکنگ چیئر پر بیٹھا ہوا تھا تب اس کے کمرے کا دروازہ کھلا۔۔۔ بلال نے سر اٹھا اپنے کمرے میں شہنیلا کو آتے دیکھا شہنیلا نے کمرے کی لائٹ کھولی تو بلال کی گود میں جویریہ کی تصویر دیکھ کر وہ خود بھی افسردہ ہو گئی


تھوڑی دیر پہلے خوشی یہاں موجود تھی خالی رکھے ہوئے برتنوں سے شہنیلا کو اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ جانے سے پہلے رات کو کھانا بلال کو کھلا چکی ہے۔۔۔ شہنیلا بلال کے پاس آکر دائیں جانب صوفے پر بیٹھی تو بلال اپنے ہاتھ میں موجود فریم میں جویریہ کی تصویر دیکھتا ہوا بولا


"انہوں نے ہمیشہ مجھ سے زیادہ حسان کو پیار کیا میں بچپن سے ہی ان کے پیار اور توجہ کو ترستا رہا۔۔۔ لیکن جاتے جاتے بھی یہ مجھ پر ظاہر کر گئی کہ میں ان کی سگی اولاد ہونے کے باوجود،، یہ حسان کو مجھ سے زیادہ چاہتی ہیں جبھی ان سے اس کی دوری برداشت نہیں ہوئی اور فوراً اس کے پاس چلی گئیں ہمیشہ کی طرح انہوں نے اب کی بار بھی میرے لئے نہیں سوچا کہ میں دنیا میں اکیلا رہ جاؤں گا"

بلال افسردہ لہجے میں آج اپنے دل کی حالت اس انسان کے سامنے بیان کرنے لگا جس سے نہ تو اس کا قریبی تعلق ہے نہ ہی کوئی خاص انسیت


"یہ دنیا والے بہت بے حس اور باتیں بنانے والے ہوتے ہیں بلال جب جویریہ کی رفیق بھائی سے شادی ہوئی تھی سب کی زبانوں پر حسان کے لیے اظہار افسوس تھا سب کو لگتا تھا کہ جویریہ کی اپنی اولاد ہونے کے بعد وہ حسان کو وہ پیار اور توجہ نہیں دے گی شاید ان باتوں کا جویریہ نے شروع دن سے ہی اثر لیا تھا اور پھر اس نے لوگوں کی باتوں کو غلط ثابت کرنے کے لیے حسان کو اتنا پیار دیا کہ وہ اپنی سگی اولاد کے ساتھ انصاف نہیں کر سکی مگر ماں کبھی بھی اپنی سگی اولاد کی ذات کو نظر انداز نہیں کرتی وہ بے شک حسان کو پیار کرتی تھی مگر اس کی باتوں میں تمہارے لئے بھی فکر اور محبت دکھائی دیتی تھی۔۔۔ اپنی ماں کے لیے دل میں کوئی شکوہ مت رکھنا بیٹا۔۔۔۔ اس کو اس دنیا سے، ہم لوگوں کو چھوڑ کر شاید ایسے ہی جانا تھا۔۔۔ کسی کے جانے سے دنیا کا نظام نہیں روکتا اور نہ ہی کسی کی زندگی رک جاتی ہے اب تمہیں اپنے خود کے لیے بہت ہمت سے کام لینا ہوگا تمہارے آگے ساری زندگی پڑی ہے۔۔۔۔ ہماری زندگی اللہ کی دی ہوئی امانت کے ساتھ ساتھ ایک نعمت بھی ہے اب تم اپنے کل کے لیے سوچو اس طرح کمرے میں اندھیرا کر بند رہو گے تو اپنی زندگی بھی تمیہں اندھیر محسوس ہوگی۔۔۔ ابھی تمہارا غم تازہ ہے تو سارے رشتے دار تمہارے غم میں شریک ہوکر یہاں تمہارے پاس آ رہے ہیں چند دنوں بہت سب اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہو کر تمہیں بھول جائیں گے۔۔ بیٹا دنیا اسی کا نام ہے آپ تمہیں خود اپنے آگے کے لئے سوچنا ہوگا جس سے تمہیں زندگی میں خوشی ملے اور اطمینان حاصل ہو"

شہنیلا اسے دلاسہ دینے کے ساتھ ساتھ اصل موقف پر آنا چاہ رہی تھی۔۔۔۔ ایسا نہیں تھا کہ اپنی دوست کے جانے کا اسے غم نہیں تھا لیکن اب اسے کل یہاں سے چلے جانا تھا اور وہ یہاں سے جانے سے پہلے اپنی بیٹی زینش کے بارے میں کوئی حتمیٰ فیصلہ کرنا چاہتی تھی


"آپ دبے لفظوں میں مجھ سے بات مت کریں جو بھی کہنا چاہتی ہیں کھل کر بیان کریں"

ایسا نہیں تھا کہ بلال اس کی باتوں کا مطلب سمجھ نہیں رہا تھا۔۔ لیکن جو شہنیلا کہنا چاہ رہی تھی بلال اسے صاف اور واضح لفظوں میں سننا چاہتا تھا


"دیکھو بلال میں واقعی تم سے گھما پھرا کر بات نہیں کروں گی کل رات کے 2 بجے میری فلائٹ ہے مجھے واپس نہیں جانا ہے۔۔۔ زینش میرے ساتھ واپس نہیں جانا چاہتی لیکن اب وہ یہاں اکیلی تمہارے ساتھ بھی نہیں رہ سکتی تو ایک ماں ہونے کے ناطے میں اپنی بیٹی کے لیے بہت فکرمند ہوں۔۔۔ وہ یہاں ہوسٹل میں رہ کر کوئی جاب کرنے کی بات کر رہی تھی لیکن ایسا میں نہیں چاہتی ہو۔۔۔ حسان اور زینش کے ریسپشن پر میں تمہاری اور زینش کی باتیں سن چکی ہو۔۔۔ مجھے یہ پوچھتے ہوئے اچھا تو نہیں لگ رہا ہے لیکن جاننا بھی ضروری ہے۔۔۔ کیا تم ابھی زینش کو اپنانا چاہتے ہو"

شہنیلا کے ایک دم پوچھنے سے بلال خاموش ہوگیا اسے ہفتے بھر پہلے والا منظر یاد آیا جب زینش یہاں سے جانا چاہتی تھی وہ تب بھی نہیں چاہتا تھا کہ زینش اس گھر سے جائے اور اب جبکہ اس کی ماں اور اس کا بھائی دونوں ہی اس دنیا سے اسے تنہا چھوڑ کر چلے گئے،، زینش بھی پاس نہیں ہوگی تو یقیناً وہ تنہا رہ کر خود بھی مر جائے گا


"صرف میرے اکیلے کے چاہنے سے کیا ہوتا ہے آپ کی بیٹی ایسا نہیں چاہتی ہے"

بلال کو یہ بات بولتے ہوئے تھوڑا عجیب سا لگا تھا اس لیے اس نے بولتے ہو شہنیلا سے نظریں نہیں ملائی مگر شہنیلا جو کہ بلال کی تھوڑی دیر خاموش رہنے سے ٹینشن میں آ گئی تھی،، اب بلال کی بات سن کر وہ پرسکون ہوئی


"زینش کی تم فکر نہیں کرو اسے راضی کرنا میرا کام ہے میں چاہتی ہوں،، میرے جانے سے پہلے تم دونوں ایک رشتے میں باندہ جاؤ تاکہ میں وہاں پہنچ کر پرسکون ہو جاؤ"

شہنیلا صوفے سے اٹھتی ہوئی بلال سے بولی۔۔۔ جس مقصد کے لئے وہ بلال کے پاس آئی تھی اس میں کامیاب ہو چکی تھی اب اسے اپنی بیٹی کو راضی کرنا تھا


"یہ بہت جلدی ہے آنٹی میرا مطلب ہے میں ایسا چاہتا ہو مگر اتنی جلدی۔۔۔۔ ابھی تو"

اگر شہنیلہ کی کل رات کو فلائٹ تھی تو اسے کل صبح سے ہی سارے انتظامات کرنے پڑتے اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ ابھی اتنے بڑے سانخے سے نہیں نکلا تھا کہ فوری طور پر کوئی بڑا اسٹیپ لیتا


"دیکھو بلال میری بات سمجھنے کی کوشش کرو،، یہ یورپ نہیں ہے بیٹا۔۔ اگر زینش اور تمہارے رشتے کا اعلان بھی کردیا جائے تو تمہارے خاندان والے ہی زینش کے یہاں رہنے پر اعتراضات اٹھائیں گے جو کہ ایک طرح سے بالکل ٹھیک بھی ہوگا اور اگر میں یہاں سے چلی گئی پھر میرا جلدی واپس آنا ممکن نہیں ہے۔۔۔ یوں سمجھ لو کہ پھر یہ معاملہ چند سالوں تک کے لیے ٹل جائے گا۔۔۔ میں تمہاری فیلنگز سمجھ سکتی ہوں،، یو بھائی کے اور ماں کے چلے جانے پر اس طرح جان شادی کر لینا بےشک تمہیں مناسب نہیں لگ رہا ہوں مگر تم میری بھی مجبوری سمجھو۔۔ میں اگر یہاں پر مزید بھی رکو تو کتنے دنوں کے لیے رک سکتی ہوں۔۔۔ ہاں اگر تم بھی سوچ رہے ہو کہ تمہارے خاندان والے یہ باتیں بنائیں گے کہ اتنی جلدی شادی کرلی وہ بھی اپنی بھابی سے یا شاید بھائی کے مرنے کا انتظار تھا۔۔۔

شہنیلا مزید بلال کو سمجھا دیتی ہوئی بولی تو بلال نے ایک دم اس کی بات کاٹ دی


"مجھے خاندان والوں کی باتیں بنانے کی پروا نہیں ہے آنٹی جس کو باتیں بنانی ہوگی وہ تب بھی بنائے گا جب میں چند سالوں بعد زینش کو اپناؤ گا۔۔۔ زینش کی اسٹڈی مکمل ہوجاتی تو بہتر تھا مگر آپ کی بات بھی صحیح ہے۔۔۔ میں صبح ہی اپنے اور زینش کہ نکاح کے لیے خاندان کے چند خاص لوگوں کو اور قریبی ایک دو دوستوں کو آگاہ کر دیتا ہوں"

بلال آستہ آواز میں شہنیلا سے بولا یہ حقیقت بھی تھی اسے آج نہیں تو کل زینش سے ہی شادی کرنا تھی۔۔ شہنیلا بلال کی بات سن کر خوشی خوشی اس کے کمرے سے باہر نکل گئی


****


"کیا کہا آپ نے۔۔۔ آپ بلال سے بات کرچکی ہیں اور مجھ سے آپ نے پوچھنا بھی ضروری نہیں سمجھا کہ میں ان سے شادی کرنا چاہتی ہو کہ نہیں۔۔۔ آپ ابھی اور اسی وقت جائیں اور بلال کو انکار کرکے آئے بلکہ آپ کیوں میں خود جا کر ان کو انکار کر دیتی ہو"

صبح بیدار ہوتے ہی جو بم شہینلا نے (چند گھنٹوں بعد اس کا نکاح ہے) کی صورت اس کے سر پر پھوڑا زینش صحیح معنوں میں شہنیلا کو دیکھ کر حیرت زدہ ہو چکی تھی وہ اپنے کمرے سے نکلنے لگی تبھی شہنیلا نے اس کا ہاتھ پکڑا


"میں تمہارے یہاں سیٹل ہونے کے لیے نہ جانے کیا کیا کر رہی ہو اور تم میرے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر رہی ہو،، احمق لڑکی یہاں بیٹھو اور بتاؤ تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے میں پوچھتی ہو کیا برائی ہے بلال میں۔۔۔ وہ تو پرسنیلٹی وائس دیکھا جائے حسان سے زیادہ اچھا ہے۔۔۔ اور اب تو ساری پراپرٹی کا اکیلا مالک ہے،، یہ اتنے بڑے گھر اس کا ہے۔۔۔ اور سب سے بڑی بات جو اہمیت رکھتی ہے وہ یہ کہ وہ خود تم سے شادی کا خواہشمند ہے، تمہیں تو خوش ہونا چاہیے شکر ادا کرنا چاہیے"

شہنیلا کو اپنی اس بے وقوف بیٹی کو سمجھاتے ہوئے کافی غصہ آیا تھا مگر وہ زینش سے کچھ ایسے ہی ری ایکشن کی توقع بھی کر رہی تھی تبھی اس کو مزید سمجھاتی ہوئی بولی


"آپ شاید بھول رہی ہیں ماما کے چند دنوں پہلے اس اچھی پرسنلٹی کے مالک اور پیسے والے لڑکے کے بھائی سے میری شادی ہوئی تھی اور اب میں اس کے چھوٹے بھائی سے شادی کر لو۔۔ کیوں تماشا بنا رہی ہیں آپ سب لوگوں کے سامنے میرا۔۔۔۔ لوگ پیٹھ پیچھے ہنسے گیں مذاق اڑائے گیں باتیں بنائیں گے"

زینش کو اپنی ماں کے اقدام پر کافی شرمندگی ہوئی تھی بقول شہنیلا کے کہ وہ خود بلال کے پاس جا کر اس سے اسٹریٹ فارورڈ شادی کی بات کرکے آئی تھی


"لوگوں کے ہنسنے باتیں کرنے اور مذاق اڑانے کی پرواہ کرنا چھوڑ دو زینش۔۔۔ جس کا بھائی مرا ہر ماں دنیا سے چلی گئی ہے جب وہ لوگوں کی نہیں سوچ رہا ہے تو تم کیوں پریشان ہو رہی ہے۔۔۔ بلال سے شادی کے انکار کرنے کے بعد جب تم چند ہزاروں کی نوکری کرو گی ناں تو لوگ تب بھی باتیں بنائیں گے۔۔ میں یہاں سے جانے سے پہلے تمہارا مستقبل سکیور کرنا چاہتی ہوں اور وہ بلال سے شادی کی صورت ہی ممکن ہے۔۔ اور رہی بات تمہاری حسان سے شادی تو حسان کی موت کے بعد تمہارا اس سے تعلق ٹوٹ گیا ہے۔۔۔ اس لئے اوور دی ایکٹ کرنا بند کرو۔۔۔ آج شام 4 بجے خاص خاص لوگ آئیں گے جن کے سامنے سادگی سے تمہارا اور بلال کا نکاح ہوگا"

شہنیلا نے سختی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ساری باتیں بولنے کے بعد آج کا طے شدی پروگرام بھی زینش کو بتانے لگی جو کہ صبح بلال نے شہنیلا کو بتایا تھا


"اوور ری ایکٹ میں نہیں کر رہی ہو اوور ری ایکٹ آپ نے کیا ہے اس شخص سے ایسی بات کرکے۔۔۔۔ اوور ری ایکٹ وہ شخص کر رہا ہے آج مجھ سے نکاح کر کے جس کی ماں اور بھائی کو مرے ہوئے مشکل سے چند دن گزرے ہیں شرم آنی چاہیے آپ کو اور بلال کو اس طرح کی حرکتیں کرتے ہوئے"

زینش غصے میں چیختی ہوئی بولی اور ساتھ ہی پیچھے مڑ کے دیکھا تو کمرے کے دروازے پر بلال کھڑا ہوا تھا


جو ہاتھ میں بڑا سا پیکٹ پکڑے، ماتھے پر لاتعداد شکنیں سجائے زینش کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ اب زینش جو سمجھ میں آیا تھا کہ اس کی ماں اس کی باتوں پر اس قدر شرمندہ کیوں کھڑی ہے یقینا جب وہ بلال اور شہنیلا کے بارے میں بات کر رہی تھی تب بلال ساری باتیں سن چکا تھا۔۔۔ تبھی شہنیلا کے چہرے پر شرمندگی کے تاثرات چھائے ہوئے تھے


"ایمرجنسی میں آن لائن تمہارے لیے یہ ڈریس منگوایا تھا۔۔ آج اسے پہن لینا"

بلال نے بنا کسی تاثر کے زینش کی طرف پیکٹ بڑھاتے ہوئے کہا۔ ۔۔۔ زینش نے ایک نظر بلال پر ڈال کر اپنی طرف بڑھایا ہوا پیکٹ دور اچھالا


"زینش"

شہنیلا ایک دم زینش کی حرکت پر غصے سے چیخی مگر زینش شہنیلا کے غصے کی پروا کیے بغیر بلال سے بولی


"زیادہ ہی ارمان جاگ رہے ہیں اپنی شادی کے، تو کہیں اور جاکر اپنے ارمان نکالے مجھ سے کوئی بھی ڈیمانڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہے"

زینش بدتمیزی سے بلال سے بولی جس پر شہنیلا غصے میں زینش کے پاس آئی، اس سے پہلے وہ زینش کے گال پر اپنا ہاتھ جڑتی اس سے پہلے ہی بلال نے شہنیلا کا ہاتھ پکڑ لیا


"آنٹی پلیز کول ڈاؤن۔۔۔ وہ اس وقت غصے میں ہے آپ تھوڑا پیشنس رکھیں،، بس کوشش کیجیئے گا اگر زینش میرا منگوایا ہوا ڈریس پہن لے تو مجھے خوشی ہوگی لیکن اگر اس کی مرضی نہیں تو پھر کوئی بات نہیں"

بلال شہنیلا کا ہاتھ چھوڑتا ہوا رسانیت سے بولا


"تم بے فکر رہو زینش یہی ڈریس پہنے گی۔۔ تہمینہ سے کہہ کر میں نے رات کی ڈنر پر تھوڑا بہت اہتمام کروا لیا ہے۔۔۔ تمہارے ریلیٹیو بغیر کچھ کھائے ایسے ہی چلے جائیں گے تو اچھا نہیں لگے گا"

شہنیلا مسکرا کر بلال سے بولی ورنہ تو اس وقت اس کا اپنی بےوقوف بیٹی کی حماقت پر خون کھول رہا تھا


"آپ نے اچھا کیا"

بلال ہلکی سی اسمائل دے کر شہنیلا سے بولا اور زینش پر جتاتی ہوئی نظر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گیا


"تمہاری عقل گھاس چرنے تو نہیں گئی ہے بے وقوف لڑکی۔۔۔ اگر میرا بنا بنایا پروگرام تم نے مٹی کرنے کی کوشش، یہاں دیکھو میری طرف اور کان کھول کر سن لو۔۔ بلال کے سامنے کوئی بدتمیزی کی یا نکاح سے انکار کیا تو آج اس گھر سے تیسرا جنازہ بھی اٹھے گا میں خود کو شوٹ کر لو گی سمجھ میں آیا تمہیں"

شہنیلا غصے میں زینش کو دیکھتی ہوئی تیز آواز میں بولی اور نیچے گرا بلال کا لایا ہوا پیکٹ اٹھا کر بیڈ پر رکھتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی


****


انگوری کلر کی قمیض جس پر ہلکا پھلکا سا ریڈ کلر سے ‏امرائڈری ورک ہوا تھا،، یہ زیادہ بھاری بھرکم ڈریس نہیں تھا۔۔۔ بلکہ زیب تن کرنے کے بعد بہت ڈیسنٹ لگ رہا تھا۔۔۔ اس کے ساتھ ریڈ کلر کا دوپٹہ خوشی نے زینش کے سر پر رکھا تو وہ سرخ آنکھوں کے ساتھ خوشی کو دیکھنے لگی


"کیوں اتنا زیادہ رو رو کر خون جلا رہی ہو اپنا،، آج نہیں تو کل یہ ہونا ہی تھا بس بلال نے زیادہ ہی جلدی کر دی"

خوشی نے تو خوشدلی سے تبصرے کیا تھا مگر وہ زینش نے مشکل سے برداشت کیا۔۔ ابھی تو نہ جانے اسے کتنے لوگوں تبصرے اور طنزیہ گفتگو برداشت کرنا ہوگی۔۔۔ خوشی اسے سرخ رنگ کی کانچ کی چوڑیاں پہنانے لگی تب زینش نے اپنے ہاتھ پیچھے کیے


"زینش اس طرح تو تو مت کرو یار، تمہارے انکار کرنے پر میں نے تمہارا میک اپ بھی نہیں کیا کم ازکم یہ چوڑیاں ہی پہن لو"

خوشی اس کا بے داغ، صاف شفاف چہرہ دیکھ کر بولی


"تم کیا چاہ رہی ہو خوشی،، یہ جو کپڑے اس وقت میرے جسم پر موجود ہیں نوچ کر پھینک دوں انہیں"

شہنیلا کے دھمکانے پر ہی اس نے اس وقت بلال کا لایا ہوا ڈریس پہنا تھا لیکن تھوڑی پہلے ہی خوشی اس کے پاس آئی تھی اور اسے تنگ کر رہی تھی اسی وجہ سے وہ غصے میں آکر خوشی سے بولی۔۔۔ تبھی کمرے میں بلال آیا


زینش کو اپنا منتخب کیا ہوا ڈریس پہنے دیکھ کر صرف ایک پل کے لئے فاتحانہ مسکراہٹ اس کے لبوں پر آئی


"تمہیں آنٹی کچن میں بلا رہی ہیں شاید تمہاری ہیلپ کی ضرورت ہے انہیں"

اب وہ سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے خوشی سے مخاطب تھا


بلال کی بات سن کر خوشی ہاتھ میں پکڑی ہوئی سرخ چوڑیاں ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔۔۔ بلال ڈریسنگ ٹیبل پر موجود چوڑیوں کو اٹھا کر چلتا ہوا زینش کے پاس آیا۔۔ زینش سرخ آنکھوں سے بلال کو دیکھ رہی تھی


"پہنو اسے"

بلال زینش کی طرف چوڑیاں بڑھاتا ہوا اس کے چہرے کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولا


زینش نے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو ایک بار پھر جھٹکنا چاہا تاکہ اس کے لائے ہوئے کپڑوں کی طرح یہ چوڑیاں بھی دور جا گرے۔ ۔۔ مگر اس سے پہلے ہی بلال مضبوطی سے اس کی کلائی پکڑ چکا تھا


"اب نہیں، تھوڑی دیر پہلے میں تمہاری بدتمیزی پر صرف اور صرف شہنیلا آنٹی کی وجہ سے خاموش رہا تھا دوبارہ وہی بےوقوفی کرنے کی غلطی مت کرنا میرے سامنے"

ایک ہاتھ میں چوڑیاں پکڑے ہوئے دوسرے ہاتھ سے زینش کی کلائی کو مضبوطی سے پکڑتا ہوا وہ لہجے میں سختی لاتا ہوا بولا


"میں آپ سے پہلے بھی کہہ چکی ہوں اپنے ارمان کہیں اور جا کر نکالیں،، مجھ سے کچھ بھی ڈیمانڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہے"

زینش نے بلال سے اپنی کلائی چھڑوانے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب نہیں ہوئی تو غصے میں بلال کو دیکھنے لگی جو چہرے پر سنجیدہ تاثرات کے ساتھ خاموشی سے اس کو دیکھ رہا تھا


"اوکے یہ چوڑیاں پہن لو اس کے بعد میں تم سے کچھ بھی ڈیمانڈ نہیں کروں گا"

بلال اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر بولا نہ جانے کیوں وہ آج ضد پر اتری ہوئی تھی۔۔ مگر بلال نے بھی سوچ لیا تھا وہ بھی اسے چوڑیاں پہنا کر ہی اب اس کے کمرے سے جائے گا


"میں نکاح نامے پر سائن کر رہی ہو یہی کافی ہے چلے جائیں یہاں سے"

زینش کی بات سن کر بلال اس کی پکڑی ہوئی کلائی میں خود ہی چوڑیاں پہنانے لگا جس پر زینش کا بس نہیں چلا تو اس نے رونا شروع کر دیا


"یہ جو تمہاری بلاوجہ کی ضد ہے نا آگے جا کر تمہیں بہت نقصان پہنچانے والی ہے اپنے مزاج میں نرمی لاؤ ورنہ آگے بھی میرا بولا ہوا ہر کام تمہیں ہی کرنا ہوگا مگر رونے دھونے کے بعد"

بلال اس کے رونے کی پرواہ کئے بغیر اس کو چوڑیاں پہناتا ہوا بولا۔۔۔


آخری چوڑی ٹوٹ کر زینش کے ہاتھ میں چبھی تو اس کے منہ سے سسکی نکلی بلال نے اس کی کلائی پر ننھا سا خون کا قطرہ دیکھا تو اپنے ہونٹ اس پر رکھنے چاہے


"چلی جائے بلال یہاں سے نہیں تو میں خود کو زخمی کر لوں گی"

اس سے پہلے بلال کے ہونٹ زینش کی کلائی کو چھوتے زینش اسے پیچھے کی طرف دھکیلتی ہوئے بولی تو بلال خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گیا


آج کے دن وہ نہیں چاہتا تھا کہ زینش کوئی اپنا پرانا ڈریس پہنے یا پھر اپنی شادی کپڑوں میں سے کسی ڈریس کا انتخاب کرے


****


نکاح نامہ پر سائن کرنے کے بعد مبارک باد کا سلسلہ جاری ہوا اس لمحے جویریہ اور حسان کو یاد کر کے بلال کا دل افسردہ ہوا میرے ساتھ ہی اندر اسے یہ اطمینان ضرور تھا کیا وہ اکیلا ہرگز نہیں ہے زینش ہمیشہ اس کے پاس رہے گی۔۔۔ اس موقع پر سب سے زیادہ خوش اور مطمئن شہنیلا نظر آ رہی تھی۔۔۔ بلال کے رشتہ داروں نے نکاح میں شرکت ضرور کی تھی مگر زینش کے کان میں ایک دو باتیں ضرور ایسی تھی جس سے وہ دل برداشتہ ہوئی البتہ جب اسے نکاح کے بعد بلال کے پہلو میں لا کر بٹھایا گیا تب سب لوگوں نے مل کر ان دونوں کو مبارکباد دی


*****

وہ معظم کی آئرن کی ہوئیں شرٹس الماری میں ہینک کر رہی تھی تب اس کی نظر الماری میں رکھے ہوئے اس فریم پر گئی سندیلا فریم کو ہاتھ میں پکڑ کر اس لڑکی کی تصویر دیکھنے لگی۔۔۔ ایسا نہیں تھا کہ سندیلا اس لڑکی کی تصویر آج پہلی بار دیکھ رہی تھی مگر آج بھی اس تصویر کو دیکھ کر اس کے اندر یہ جاننے کا تجسس ابھرا کہ یہ لڑکی کون ہے


"کیا دیکھ رہی ہیں اتنے غور سے استانی جی"

معظم کی طرف سندیلا کی پشت تھی وہ چلتا ہوا سندیلا کے پاس آیا اسے اپنے حصار میں لے لیتا ہوا خود بھی فریم کو دیکھتا ہوا سندیلا سے پوچھنے لگا


"یہ لڑکی کون ہے معظم"

سندیلا کے سوال پر معظم اس کے گرد اپنے بازو ہٹا کر فریم اس کو ہاتھ سے لیتا ہوا خود اس تصویر کو دیکھنے لگا


"سومی میری بہن"

بولتے ہوئے معظم کے لہجے میں ہی نہیں بلکہ آنکھوں میں بھی اداسی چھلکنے لگی سندیلا نے اپنا رخ معظم کی طرف کیا


"تو یہ کہاں پر ہے"

سندیلا معظم کو دیکھ کر دوسرا سوال کرنے لگی۔۔۔ جو ابھی تک اپنے ہاتھ میں موجود تصویر کو دیکھ رہا تھا


"اس دنیا میں نہیں ہے دو سال پہلے ڈیتھ ہوچکی ہے اس کی"

معظم کی بات سن کر سندیلا افوس کے معظم کو دیکھنے لگی


"کیسے"

اتنی معصوم اور ینگ لڑکی کی ڈیتھ پر وہ افسوس کرتی ہوئی معظم سے موت کی وجہ پوچھنے لگی۔۔۔ تو معظم تصویر سے اپنی نظریں ہٹا کر سندیلا کو دیکھنے لگا


"پھر کبھی بتاؤں گا"

معظم نے بولنے کے ساتھ ہی اس تصویر کو دوبارہ الماری میں رکھ دیا


وہ فلا الحال سندیلا کو سومی کی موت کی وجہ نہیں بتا سکتا تھا،، نہیں تو اسے نہ جانے پھر کیا کچھ بتانا پڑ جاتا جو ابھی بتانا مناسب نہیں تھا۔۔۔ تصویر کو الماری میں رکھ کر وہ سندیلا کا ہاتھ تھام کر اسے بیڈ پر لے کر آیا اور سندیلا کو بٹھاتا ہوا خود بھی اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔۔۔۔ سندیلا نے بھی اس سے زیادہ اصرار نہیں کیا وہ اس ٹاپک پر بات کرکے معظم کو مزید اداس نہیں کر سکتی تھی تبھی سندیلا نے اپنے ذہن میں آیا ہوا دوسرا سوال معظم سے پوچھنے کا ارادہ کیا


"معظم تمہاری کوالیفیکیشن کیا ہے"

اس کے ساتھ رہتے ہوئے سندیلا اتنا تو جان گئی تھی وہ کوئی بالکل ہی جاہل اٙن پڑھ یا گوار نہیں ہے۔ ۔۔۔ اکثر وہ اپنے کاموں میں مشغول ہوتی تو معظم کے منہ سے انگریزی جملے سنتی جب وہ پری سے بات کر رہا ہوتا تھا۔۔۔۔ سندیلا کے سوال پر معظم نے چونک کر اسے دیکھا اور سندیلا کا تھاما ہوا ہاتھ اپنے ہونٹوں پر رکھنے کے بعد بولا


"اتنا تعلیم یافتہ ہو استانی جی کہ آپ سے انگریزی میں آسانی سے بات کر سکتا ہوں"

معظم کے گول مول جواب پر سندیلا اسے گھور کر دیکھنے لگی سندیلا کو لگا جیسے جواب دیتے وقت معظم اپنی مسکراہٹ چھپا گیا تھا


"تو کوئی عزت دار طریقے سے ڈھنگ کی جاب کیوں نہیں کرتے"

سندیلا معظم کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر اس سے پوچھنے لگی


"آج کل کے دور میں کوئی ڈھنگ کی اور عزت والی جاب کہاں ملتی ہے استانی جی۔۔۔ آپ کو میرے پیشے کی وجہ سے اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، میرے ہوتے ہوئے آپ کو یا پری کو کبھی بھی کچھ نہیں ہوگا آپ دونوں کی حفاظت میں اپنی جان سے بڑھ کر کروں گا۔۔۔۔ اچھا میری ایک بات غور سے سنیں۔۔۔ تھوڑی دیر بعد مجھے ایک ضروری کام سے نکلنا ہے ممکن ہے صبح تک واپسی ہو۔۔۔ آپ بالکل پریشان مت ہویے گا احتیاط کے طور پر میں باہر سے دروازہ لاک کر کے جاؤ گا"

آج ایک آدمی کا ٹرک اسے ہائی وے کے راستے سے بلوچستان کی حدود میں پہنچانا تھا اور یہ کام قاسم سیٹھ نے معظم کو سونپا تھا،،، کیو کہ جگہ جگہ چیک پوسٹ پر پولیس تلاشی لے رہی تھی


"کیا تمہارا دماغ درست ہے اس وقت رات کے دس بج رہے ہیں۔۔۔ تم مجھے اور پری کو چھوڑ کر جانے کی بات کر رہے ہو وہ بھی پوری رات کے لیے،، تم کہیں نہیں جا رہے ہو معظم اس وقت میں بتا رہی ہوں تمہیں"

معظم کی بات سن کر وہ بیڈ سے اٹھتی ہوئی صاف صاف معظم کو انکار کرتی ہوئی بولی تو معظم سوچ میں پڑ گیا پھر ریلکس ہو کر بیڈ پر لیٹتا ہوا بولا


"چلیں ٹھیک ہے اگر آپ اتنا ڈرتی ہیں تو میں کہیں نہیں جاتا اسی بہانے آج مجھے یہ بھی پتہ چل گیا کہ میری استانی جی اچھی خاصی ڈرپوک ہیں۔۔۔ میں ویسے ہی آپ کو بہادر سمجھ رہا تھا آپ تو چند گھنٹے بھی اکیلی نہیں رہ سکتی"

معظم سندیلا کو دیکھتا ہوا مزے سے بولا وہ آرام سے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا جیسے سچ مچ وہ اپنے باہر جانے کا پروگرام کینسل کر چکا ہو


"کیا کہا میں اور ڈرپوک؟ مسٹر شادی سے پہلے میں اپنے خاندان کی ساری کزنز میں سے سب سے زیادہ بہادر لڑکی مانی جاتی تھی،، جس کو اندھیرے میں بند کمرے میں رات کو فل ہارر مووی دکھا دو مجال ہے کہ میں بے وقوفوں کی طرح چیخیں مار مار کر رونے لگ جاؤ یا بے ہوش ہو جاؤ"

سندیلا گردن اکڑا کر فخریہ انداز میں اپنے کالج کے وقت کی بات بتانے لگی جسے سن کر معظم ہنسا


"استانی جی آج کل کی ہارر موویز تو چھوٹے چھوٹے بچے کارٹون فلم کی طرح انجوائے کرتے ہیں۔۔۔ اس سے آپ اپنی بہادری ظاہر نہیں کر سکتیں یار آپ مان لیں ناں کہ تھوڑی بہت تو بزدلی ہے آپ میں"

معظم جیسے سندیلا کی بہادری کے قّصے سے کوئی خاص امپریس نہیں ہوا تھا جبھی اس کا مذاق اڑاتا ہوا۔۔۔ جس پر سندیلا کو غصہ آنے لگا وہ اپنے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے بیڈ پر لیٹے ہوئے معظم کو گھورنے لگی


"خبردار جو اب تم نے مجھے بزدل اور ڈرپوک جیسے القابات سے نوازنا۔۔۔ میں اتنی بہادر ہو تم ایک رات تو کیا دس راتیں بھی باہر گزار دو تو میں آرام سے تنہا رہ لو گی۔ ۔۔۔ میں تو صرف تمہاری فکر کر کے بول رہی تھی کہ رات بھر باہر آوارہ گردی کرو گے تو کوئی پولیس ہی تمہیں اندر نہ کردے چلو پولیس کو تم تم بتا سکتے ہو کے تم بہت بڑے بدمعاش ہو لیکن سوچو اگر رات میں کوئی گلی کا آوارہ کتا تمہارے پیچھے لگ گیا تو کیا تم اس کتے کو سمجھا سکتے ہو کہ تم کتنے بڑے بدمعاش ہو اور اگر تمہیں اس کتے نے کاٹ لیا تو تصور کرو باقی کے تمہارے بدمعاش ساتھی تمہارا کتنا ریکارڈ لگائے گیں کتے کے کاٹنے پر"

سندیلا جب بولنے پر آئی تو نان اسٹاپ بولتی چلی گئی یہ دیکھے بغیر بیڈ پر لیٹا ہوا معظم مسلسل اس کی باتوں پر مسکرا رہا تھا بات کے اختتام پر معظم نے سندیلا کی کلائی پکڑ کر اسے اپنی جانب کھنچا تو وہ معظم کے اوپر گر پڑی


"معلوم ہے آپ کو کے آپ اس طرح پٹر پٹر زبان چلاتی ہوئی مجھ کو کتنی پیاری لگ رہی ہیں"

معظم اپنے اوپر جھکا ہوا سندیلا کا چہرا دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا تب سندیلا کو اندازہ ہوا وہ واقعی کافی دیر سے معظم کے سامنے پٹر پٹر زبان چلا رہی ہے جبھی وہ اپنی جھینپ مٹاتی ہوئی بولی


"کبھی کبھی تم بھی کوشش کر لیا کرو کہ مجھے پیارے لگ جاؤ، ہر وقت اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے رہتے ہو۔۔۔ اب چھوڑو ناں مجھے کیا جانا نہیں ہے تمہیں"

سندیلا نے معظم کے اوپر سے اٹھنے کی کوشش کی تو معظم اسے اپنی گرفت میں لے چکا تھا تبھی سندیلا آنکھیں دکھاتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی


"چھوڑ دیتا ہو مگر پہلے آپ مجھے یہ بات سچ سچ بتائیں کہ آپ کو اپنا یہ بدمعاش پیارا لگتا ہے کہ نہیں"

معظم اس پر اپنا گھیرا مزید سخت کرتا ہوا سیریس ہوکر پوچھنے لگا جس پر سندیلا اپنی مسکراہٹ چھپاتی ہوئی بولی


"بدمعاش تو اچھا ہے مگر اس کی بدمعاشی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے"

سندیلا اپنی انگلی معظم کی پیشانی پر رکھتے ہوئے ان دیکھی لکیر بناتی ہوئی اپنی انگلی اس کے ہونٹو تک لائی تو معظم نے اسکی انگلی کو اپنے ہونٹو سے آئستہ سے چھوا


"ایسے تو مت بولیں استانی جی ابھی تک تو یہ بدمعاش صرف چھوٹی موٹی بدمعاشیوں سے کام چلا رہا ہے۔۔۔ کافی ٹائم لے چکی ہیں آپ، اب بڑی والی بدمعاشی کے لئے تیار ہو جائیں"

معظم کی بات پر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بلش کر گئی۔۔۔ معظم سندیلا کو گرفت میں لیے کروٹ لیتا ہوا اس پر جُھکا


"جب صبح میں واپس گھر آؤ گا تو اب کی بار آپ کی بدمعاشی نہیں چلے گی،، بہت صبر سے کام لے لیا میں نے"

معظم کی بات سن کر سندیلا کے ہونٹ مسکرائے۔۔۔ مسکراتے ہونٹوں پھر معظم نے اپنے ہونٹ رکھ دیئے۔۔۔ وہ گھر سے باہر نکلنے سے پہلے سندیلا پر اپنی شدتیں ظاہر کر رہا تھا تبھی کاٹ میں لیٹی ہوئی پری جاگ گئی تو معظم کا دھیان پری پر چلا گیا وہ بیڈ سے اٹھ کر کاٹ کے پاس آیا


"میری جان جاگ گئی اور بابا مما اپنے ہی کاموں میں لگے ہوئے ہیں"

معظم پری کو پیار کرتا ہوا بولا تو سندیلا بیڈ سے اٹھ کر معظم کو گھورنے لگی


"جلدی سے اس کا ڈائپر چینج کروا دیں استانی جی،،، فل پیکیج دیا ہوا ہے ہماری بیٹی نے"

معظم پری کو سندیلا کی گود میں دیتا ہوا سیریس ہوکر بولا جس پر سندیلا نے ایک بار پھر اسے گھورا کیوکہ سندیلا نے نوٹ کیا تھا اس کے پاس فضول باتوں کا اسٹاک کم نہیں تھا۔۔ معظم ایک بار پھر سندیلا کی گود میں پری کو پیار کرنے لگا کیو کہ وہ جاگنے کے بعد ابھی بھی معظم کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ ممکن تھا کہ معظم کے باہر جانے پر وہ روتی


"میری اور اپنی جان کی حفاظت،، چند گھنٹوں کے لیے آپ کی ذمہ داری ہے یار۔۔۔ اسکا اور اپنا بہت خیال رکھیے گا"

معظم سندیلا کی پیشانی پر محبت بھری مہر ثبت کرتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا


*****


شاید کسی نے باہر کا دروازہ کھولا تھا اور اسی وجہ سے اس کی نیند میں خلل پڑا تھا سندیلا نے پاس رکھے ہوئے موبائل میں ٹائم دیکھا تو اس وقت رات کے دو بج رہے تھے معظم نے تین دن پہلے نیا سم کارڈ اسے دیا تھا تاکہ وہ اپنا موبائل ان رکھ سکے


"معظم اتنی جلدی واپس آ گیا"

سندیلا دل میں سوچتی ہوئی بیڈ سے اٹھی مگر بیڈ روم کا دروازہ جیسے ہی کھلا اور کمرے کی لائٹ آن ہوئی تو اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر سندیلا کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا


"احتشام"

اپنے سامنے احتشام کو دیکھ کر اس نے جلدی سے بیڈ پر رکھا ہوا دوپٹہ اوڑھا


"کیوں خوشی نہیں ہو رہی مجھے دیکھ کر آخر کو تمہارا پہلا شوہر رہا ہوں میں جانِ من"

احتشام نے سندیلا سے بولتے ہوئے بیڈ روم کا دروازہ بند کر دیا


وہ بہت دنوں سے ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھا کہ جب اس کے اور سندیلا کے بیچ میں معظم نامی کانٹا موجود نہ ہو اور وہ سندیلا کے پاس آسکے


"آپ یہاں پر اس وقت اتنی رات کو کیوں آئے ہیں"

احتشام کے دروازہ بند کرنے پر سندیلا کا دل ڈرا تھا معظم بھی گھر پر نہیں تھا اور کافی رات ہو چکی تھی مگر وہ اپنا ڈر احتشام پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے سوتی ہوئی پری پر نظر ڈال کر وہ احتشام سے پوچھنے لگی


"تمہیں یاد دلانے آیا ہو کہ معظم سے پہلے تم میری بیوی ہوا کرتی تھی شاید تم اپنے اور میرے بیچ ان حسین دنوں کو بھول گئیں ہو جو تم نے میری قربت میں گزارے تھے"

احتشام سندیلا سے بولتا ہوا قدم اٹھاتا ہوا اس کے پاس آنے لگا تبھی سندیلا تیزی سے بیڈ سے اٹھ کر اس سے دور ہوئی اور اسپیس کم ہونے کی وجہ سے پیچھے دیوار سے جا لگی


"احتشام پلیز آپ شاید بھول چکے ہیں کہ میں کسی اور کی بیوی ہے چلے جائیں یہاں سے"

احتشام کی باتیں سن کر اور اس کے تیور دیکھ کر سندیلا کو گھبراہٹ ہونے لگی تھی مگر وہ اس پر اپنی گھبراہٹ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی تبھی تھوڑا سختی سے بولی۔۔۔ احتشام اس کے قریب کھڑا ہو کر سندیلا کو غور سے دیکھنے لگا


"تم شاید بھول چکی ہو تمہیں کسی اور کی بیوی میں نے خود بنایا تھا تاکہ تمہیں دوبارہ حاصل کر سکو لیکن تمہارا تو بہت زیادہ دل لگ کیا ہے اس سڑک چھاپ دو ٹکے کے موالی سے۔ ۔۔۔ بہت مزے لے لیے تم نے دوسرے شوہر کے اب تمہیں واپس میرے پاس آنا ہوگا سنا تم نے"

احتشام نے بولنے کے ساتھ ہی سندیلا کے گال کو چھونے کی کوشش کی۔۔ سندیلا نے حقارت سے اس کا ہاتھ دور جھٹکا


"بند کریں اپنی یہ بےہودہ باتیں شرم آنی چاہیے آپکو ایسی گھٹیا زبان استعمال کر تے ہوئے"

سندیلا کو احتشام کے منہ سے ایسی باتیں سن کر شرمندگی ہونے لگی اور اسے اپنے اتنے قریب کھڑا دیکھ کر عجیب سی وحشت ہونے لگی جبھی وہ سائیڈ سے نکلنے لگی تھبی احتشام نے سندیلا کا بازو پکڑ کر اس کو بیڈ پر دھکا دیا


"یہاں سے جاؤں گا ضرور لیکن تمہیں اپنا اور تمہارا پرانا تعلق یاد کروا تا کہ جب تم مزید اس غنڈے کے ساتھ رہو تو تمہیں اپنے آپ سے شرم آئے"

احتشام بولتا ہوا بیڈ کی طرف بڑھا اور سندیلا کا دوپٹہ کھینچ کر بیڈ سے نیچے پھنکا


"احتشام نہیں یہ گناہ ہے"

سندیلا چیختی ہوئی بولی۔۔۔ اگر وہ اس پر جھک زیادہ تو مکمل حاوی ہو جاتا سندیلا نے پوری طاقت سے اسے پیچھے کی طرف دکھیلا۔۔۔


احتشام سندیلا سے یہ توقع نہیں کر رہا تھا اس لئے اس کی پیٹھ پری کے بےبی کاٹ پر جا لگی۔۔۔ اسی بات کا فائدہ اٹھاتی ہوئی سندیلا بیڈ سے نیچے گرا ہوا اپنا دوپٹہ اٹھا کر بیڈ روم کا دروازہ کھول کر دیوانہ وار باہر کی طرف بھاگی مگر اگلے ہی پل پری کی روتی ہوئی آواز نے اس کے قدم جکڑ لئے۔۔۔ سندیلا نے مڑ کر دیکھا تو پری احتشام کی گود میں بری طرح رو رہی تھی۔۔۔ اور احتشام پری کو گود میں اٹھائے فاتحانہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے سندیلا کو دیکھ رہا تھا


"احتشام نہیں پلیز اتنے ظالم مت بنیں۔۔۔ یہ آپ کی بیٹی ہے پلیز اسے مجھے دے دیں"

پری کے ساتھ ساتھ سندیلا نے احتشام سے بولتے ہوئے خود بھی رونا شروع کردیا


"تو اسے یہاں میرے پاس آ کر لے لو مجھ سے۔۔۔ اتنا ڈر کیوں رہی ہو"

احتشام کمینگی سے مسکراتا ہوا سندیلا کو دیکھ کر بولا تو سندیلا روتی ہوئی واپس کمرے کی طرف اپنے قدم بڑھانے لگی


"احتشام لائیے پلیز اسے مجھے دے دیں"

پری کو روتا ہوا دیکھ کر وہ احتشام سے دوبارہ بولی مگر ڈر کے مارے وہ کمرے کے اندر نہیں آرہی تھی بلکہ دہلیز پر ہی کھڑی ہوئی تھی


"کمرے کے اندر آؤ"

احتشام اسے آنکھیں دکھاتا ہوا حکیمانہ لہجے میں بولا جس پر روتی ہوئی سندیلا کمرے کے اندر آگئی اور احتشام کی طرف اپنے دونوں ہاتھ بڑھانے لگی تاکہ پری کو لے سکے پری خود بھی روتی ہوئی سندیلا کی طرف اپنے ہاتھ بڑھا رہی تھی


"کمرے کا دروازہ بند کرو اور یہاں قریب آؤ"

احتشام اب کی بار دانت پیستا ہوا سندیلا سے بولا


"احتشام اپنے آپ کو گناہگار مت کریں۔۔۔۔میں اب آپ کے لیے نا محرم ہو،، مجھ پر ترس کھائیں میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں"

وہ اپنی بیٹی کی وجہ سے روتی ہوئی بے بسی کی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی سندیلا نے واقعی احتشام کے آگے اپنے ہاتھ جوڑ دیے تاکہ اسے سندیلا پر ترس آجائے


"مجھے گناہ کرنے پر تم نے مجبور کیا ہے سندیلا جو میں کہہ رہا ہوں ویسے ہی کرو ورنہ تم سوچ بھی نہیں سکتی میں اس کے ساتھ کیا کروں گا"

احتشام کی دھمکی پر سندیلا نے روتے ہوئے کمرے کا دروازہ بند کیا۔۔۔ کانپتے ہوئے قدم وہ احتشام کی طرف اٹھانے لگی تب اسے معظم سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا۔۔۔ وفاداری نبھانے کا وعدہ۔۔۔


لیکن آج اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ یہ وعدہ اپنی بیٹی کی جان بچانے کی خاطر نہیں نبھا پائیں گی۔۔۔ سندیلا نے سلیا تھا آج اگر احتشام اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا تو اسے اپنے ساتھ پھر کیا کرنا ہے


"اسے میں نے تمہاری گود میں اس لیے ہرگز نہیں دیا تھا کہ اس کے ساتھ تم بھی رونے بیٹھ جاؤ۔۔۔ چپ کرواؤ اسے سندیلا"

پری کو احتشام کی گود سے لینے کے بعد سندیلا نے اسے اپنے سینے سے لگا کر زور زور سے رونا شروع کردیا شاید اولاد ہوتی ہی ایسی چیز ہے جس کی خاطر عورت ہر قدم اٹھالے چاہے وہ قدم اسے جہنم میں ہی کیوں نہ دھکیل دے۔۔۔۔


احتشام کے بےزار ہوکر بولنے پر سندیلا سائیڈ ٹیبل پر پری کا دودھ کا ڈبہ اٹھا کر فیڈر تیار کرنے لگی۔۔۔ مگر پری اس سے پہلے ہی خاموش ہو چکی تھی کیونکہ وہ ایک انجان شخص سے اپنی ماں کی آغوش میں آ چکی تھی۔۔۔ سندیلا بیڈ پر بیٹھی ہوئی پری کو فیڈر سے دودھ پلانے لگی تبھی احتشام اس کے قریب آ کر بیٹھا۔۔ سندیلا ضبط کر گئی مگر اس کے قریب بیٹھنے پر وہ دور نہیں ہٹی ورنہ وہ سندیلا کے دور ہٹنے پر مزید کوئی گھٹیا حرکت کرسکتا تھا سندیلا اب اس سے کوئی بھی توقع کرسکتی تھی


"تمہیں معلوم ہے باسط کو ڈرگز کے جرم میں سزا ہو چکی ہے۔۔۔ ابھی دو دن پہلے ہی فائقہ نے ہمارے پڑوس میں جو ملک صاحب رہتے تھے ان کے بھانجے سے اپنی مرضی سے نکاح کرلیا ہے اور امی۔۔۔۔ اب ان کی طبیعت اتنی خراب رہتی ہے کہ انہیں ہاسپٹل میں ایڈمٹ کروا چکا ہوں میں۔۔۔۔ خود کو بالکل اکیلا محسوس کرنے لگا ہوں میں"

احتشام نے اپنے سارے حالات بتانے کے ساتھ اچانک سے سندیلا کا ہاتھ پکڑا تو سندیلا ایک دم سہم گئی مگر کوئی حرکت کیے بنا خاموش بیٹھی رہی


"میں اگر چاہوں تو اپنا اکیلا پن دور کرنے کے لیے کسی دوسری لڑکی سے شادی کر سکتا ہوں۔۔۔ بلکے دو سے تین بار میں اپنے دوست کے ساتھ ان بد نام گلیوں میں بھی گیا ہوں۔۔۔ جہاں عزت دار مرد دن کے اجالے میں نہیں جایا کرتے۔۔۔ مجھے صرف تمہاری قربت ریلکس کرتی ہے سندیلا۔۔۔ یہ وقتی سہارے بالکل بے معنیٰ سے ہیں۔۔۔ اس کا اندازہ مجھے تین مختلف عورتوں کے ساتھ رات گزار کر ہوگیا ہے۔۔۔۔ دیکھو سندیلا میرے اور تمہارے درمیان جھگڑا صرف اور صرف میری فیملی کی وجہ سے رہتا تھا۔۔۔ وہ وجہ اب تقریباً ختم ہو چکی ہے، دوسرا میری جاب پہلے سے اچھی جگہ پر لگ چکی ہے۔۔۔ اب ہم دونوں اپنی بیٹی کے ساتھ خوشحال زندگی گزار سکتے ہیں۔۔۔ مجھے نہیں سمجھ میں آرہا کہ تمہارا لیول اتنا کیسے گر گیا کہ تم خود ایک ایجوکیٹڈ لڑکی ہونے کے باوجود مجھ پر ایک جاھل گوار غنڈے کو فوقیت دے رہی ہو جس کا کوئی خاص مستقبل بھی نہیں۔۔۔ تمہیں میرے پاس واپسی کرنی ہوگی سندیلا"

احتشام نے دو ٹوک لہجے میں سندیلا سے بولا سندیلا کو لگا جیسے احتشام کو جلن بھی اسی بات کی ہے کہ سندیلس نے اس کی بجائے معظم کو اس پر فوقیت دی


"احتشام اب آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کریں پلیز۔۔۔ دیکھیں آپ اور میں"

سندیلا نے آرام سے اسے سمجھانا چاہا مگر احتشام نے اس کے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھ دی


"احتشام نہیں شام کہہ کر پکارو مجھے جیسے پہلے میرا نام پیار سے لے کر پکارتی تھی"

احتشام پری کو اس کی گود سے لے کر بیڈ پر لٹاتا ہوا۔۔۔ سندیلا کو دونوں بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کرتا ہوا بولا


"ٹٹ۔ ۔۔ ٹھیک ہے مم۔۔۔ مجھے تھوڑا وقت دیں۔۔ سس سوچنے کے لیے۔۔۔ میں وہی کروں گی جیسا آآ آپ بول رہی ہیں"

سندیلا احتشام کی اپنے سراپے پر پڑتی ہوئی نظریں دیکھ کر اس کو بولی


"ٹائم کیسے دے سکتا ہوں میری جان تمہیں۔۔۔ تم تو جانتی ہو کتنا وقت گزر چکا ہے ہم دونوں کو ایک دوسرے کے قریب آئے۔۔۔ تمہارے پریگنینٹ ہونے سے پہلے، یاد ہے ناں وہ رات جب میں نے۔ ۔۔"

احتشام سندیلا کو کمر سے پکڑتا ہوا بولا رہا تھا تب سندیلا نے اپنے ہاتھ کو پیچھے کرکے کارنر ٹیبل سے دودھ کا ڈبہ اٹھایا اور پوری قوت سے احتشام کے سر پر مارا


احتشام اپنا سر پکڑ کر چیختا ہوا دور ہٹا۔۔۔۔ اب کی بار سندیلا نے جلدی سے پری کو گود میں اٹھایا اور بیڈروم کا دروازہ کھولتے ہوئے تیزی سے وہ باہر کی طرف بھاگی


"کمینی عورت،، زندہ نہیں چھوڑوں گا آج میں تجھے بھی اور اس کو بھی رک جا ذرا"

گھر سے باہر نکلتے ہوئے اسے اپنے پیچھے احتشام کی غصے میں بھری ہوئی آواز سنائی دی


اس کے بعد سندیلا نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔۔۔ بس وہ پری کو گود میں اٹھائے ننگے پاؤں آندھا دھند بھاگے جا رہی تھی۔۔۔ پری کو گود میں اٹھا کر تیز تیز بھاگنے سے اس کا سانس پھولنے لگا۔۔۔ سنسان سڑک پر آدھی رات کو یوں اندھیرے میں بھاگتے ہوئے سندیلا کو شدید خوف آ رہا تھا


آآآآآ

اچانک سے کوئی نوکیلی چیز اس کے پاؤں میں چبھی۔۔۔ سڑک کے بیچوں بیچ کھڑی ہوئی وہ اپنے روتی ہوئی اپنے زخمی پاؤں کو دیکھنے لگی کوئی کانچ کا ٹکڑا اسکے پاؤں کے اندر گھس گیا تھا۔۔۔ سندیلا کو سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کانچ کے ٹکڑے کو اپنے پاؤں سے نکالے یا پھر ایسے ہی بھاگے


اس سے پہلے کہ اس کا دماغ کوئی فیصلہ کرتا ہے اچانک سے اسے اپنے سامنے سے ایک گاڑی آتی ہوئی دکھائی دیں جسے دیکھ کر وہ مزید حواس باختہ ہوئی اور زور سے اپنی آنکھیں بند کرلی


****


نہ جانے آج کا دن خراب تھا یا پھر اس کے ساتھ کیا بیٹ لک ہوئی تھی جو پولیس کے ہاتھوں اس سے ٹرک پکڑا گیا۔۔۔ بہت مشکلوں سے وہ اپنی جان بچا کر وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوا تھا مگر پولیس وین مسلسل اس کا پیچھا کر رہی تھی اس لیے اپنی جان بچانے کی خاطر،، ایک بنگلے کی دیوار کو پھلانگ کر معظم نے اس بنگلے میں چند گھنٹے کے لئے پناہ لینے کا سوچا


*****


آج اپنے نکاح کے بعد وہ بلال کے ساتھ ایک مضبوط بندھن میں بندھ چکی تھی۔۔۔ کافی دیر پہلے سارے مہمان گھر سے جا چکے تھے بلال بھی نہ جانے اپنی کار لیے کہاں نکلا ہوا تھا اور بلال کا سیل مسلسل آف جارہا تھا۔ ۔۔۔ آج رات شہنیلا کی فلائٹ تھی وہ بلال کا انتیظار کر کے تھوڑی دیر پہلے ائیرپورٹ کے لیے روانہ ہو چکی تھی۔۔۔ مگر جانے سے پہلے اس نے زینش کو کافی کچھ سمجھایا تھا کہ بلال اس کا شوہر ہے اور اسے بلال کے ساتھ اپنا رویہ درست کرنا چاہیے۔ ۔۔۔ خوشی نے بھی جانے سے پہلے اس سے تقریباً یہی ساری باتیں کی تھی


شہنیلا کے ایئرپورٹ نکلنے کے بعد وہ گھر کے تمام کھڑکیاں اور دروازے چیک کرنے کے بعد اپنے کمرے میں جانے کا ارادہ کر رہی تھی تب اچانک اسے مین ہال کے پاس قدموں کی آہٹ محسوس ہوئی


"کون ہے پردے کے پیچھے"

زینش نے بولنے کے ساتھ ہی ٹیبل پر رکھا ہوا کرسٹل کا ڈیکوریشن پیس اپنی حفاظت کے لیے ہاتھ اٹھا لیا


وہ صاف محسوس کر سکتی تھی کہ مین ہال میں پردے کے پیچھے کوئی چھپا ہوا ہے جبکہ اس وقت پورے گھر میں اس کے علاوہ کوئی دوسرا فرد موجود نہیں تھا۔۔۔ ماتھے پر آیا ہوا پسینہ صاف کر کے ہاتھ میں موجود ڈیکوریشن پیس کو مضبوطی سے پکڑتی ہوئی وہ پردے کی طرف اپنے قدم بڑھانے لگی


"میں کہتی ہوں سامنے آؤ میرے"

زینش نے سوچ رکھا تھا جیسے ہی پردہ ہٹے گا وہ ہاتھ میں موجود ڈیکوریشن پیس سے اس پر حملہ کرے گی مگر جیسے ہی پردہ ہٹا اور پردے کے پیچھے موجود شخص اس کے سامنے آیا۔۔۔۔


اس شخص کو دیکھ کر زینش کے ہاتھ میں موجودہ ڈیکوریشن پیس چھوٹ کر نیچے گرا اور کئی ٹکڑوں میں بکھر گیا۔۔۔ ڈیکوریشن پیس اس کے ہاتھ سے گرنے کی وجہ اس شخص کے ہاتھ میں موجود پستول نہیں بلکہ وجہ وہ شخص بذات خود تھا۔۔۔ جو آج دو سال کے بعد اس کو دکھا تھا


جبکہ دوسری طرف معظم اپنے ہاتھ میں پستول پکڑے، اس کو دیکھ رہا تھا جسے روز دیکھنے کی خواہش میں وہ یونہی بے مقصد اس کے کالج،، چھٹی کے ٹائم پر چلا آتا تھا۔۔۔


لیکن آج دو سال بعد اسے اپنے سامنے دیکھ کر نہ معظم کا دل پہلے کی طرح دھڑکا،، نہ ہی اس کی آنکھیں میں کوئی شناسائی کی رمک دکھی،، وہ پستول کا رخ زینش کے سامنے کیے حیران کھڑا تھا جہاں تک اسے معلوم تھا وہ نیویارک میں اپنی ماں کے ساتھ ہوتی تھی۔۔۔ وہ یہاں کب سے موجود تھی معظم کو اس بات کا علم نہیں تھا۔۔۔


ان دونوں کے درمیان طویل خاموشی کو ہال میں موجود انٹرکام کی آواز نے ختم کیا


"چلو انٹرکام کے پاس ریسیور اٹھاؤ باہر پولیس ہے،، انہیں یہاں پر میری موجودگی کا علم نہیں ہونا چاہیے۔۔۔ اگر وہ کوئی سوال کرے تو بغیر گھبرائے جواب دینا بلکہ صاف بول دینا کہ یہاں پر کوئی موجود نہیں ہے اس لیے دوبارہ ڈسٹرب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ اس علاوہ کوئی غیر ضروری بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی ہوشیاری دکھانے کی ضرورت ہے"

وہ بے تاثر لہجے میں زینش کو دیکھتا ہوا بولا ایسا تو ہرگز نہیں تھا کہ معظم اس کو پہچانا نہ ہو زینش کو مکمل یقین تھا کہ وہ جان بوجھ کے انجان بن رہا ہے


"کون"

معظم کی بات پر عمل کرتی ہوئی وہ انٹر کام اٹھاتی ہوئی بولی،، معظم زینش کے سامنے ہی کھڑا تھا، پستول کا رخ اب بھی زینش کی طرف تھا


"میں اس علاقے کا ایس ایچ او بات کر رہا ہوں میڈم ہمیں شک ہے کہ آپ کے گھر میں ایک مجرم موجود ہے،، آپ برائے مہربانی ہمیں اندر آنے دیں تاکہ ہم آپ کو اور آپ کی فیملی کو تحفظ فراہم کر سکے ساتھ ہی مجرم کو پکڑ سکیں"

ماؤتھ پیس سے ایک مردانہ آواز ابھری


"مجرم"

زینش نے زیر لب کہا تو اس نے پستول زینش کی پیشانی پر رکھ دی یہ وارننگ تھی کہ وہ کوئی بھی چالاکی نہ کر سکے۔۔۔ زینش اسے دیکھنے لگی جو ان 2 سالوں میں کیا بن چکا تھا


"آپ کا آگاہ کرنے کے لیے بہت بہت شکریہ ایس ایچ او صاحب مگر اس وقت میرے گھر پر میرے شوہر کے علاوہ اور کوئی دوسرا موجود نہیں ہے،، جس سے ہم دونوں میاں بیوی کو خطرہ ہو برائے مہربانی دوبارہ ڈور بیل بجا کر ڈسٹرب مت کرئیے گا"

پستول کی ٹھنڈی نال کو اپنی پیشانی پر محسوس کر کے زینش جلدی سے بولی اور رابطہ منتعقہ کر دیا۔۔۔ بڑے سے گھر کو دیکھ کر ایس ایچ او دوبارہ ڈسٹرب نہیں کرتا اس لئے وہ دونوں ریلکس ہو چکے تھے


"گھر میں اس وقت کون کون موجود ہے"

معظم زینش کو دیکھنے کی بجائے ہال میں چاروں طرف نظریں دوڑاتا ہوا اس سے پوچھنے لگا


"اس وقت گھر میں میں اکیلی ہو میرے ہسبینڈ گھر میں موجود نہیں"

زینش معظم کو دیکھتی ہوئی بولی جس پر معظم پل بھر کے لیے صرف اس لئے چونکا کہ اس نے ایس ایچ او سے ہسبنڈ والی بات سچ کہی تھی یعنی وہ واقعی شادی شدہ تھی


"پولیس ابھی اسی ایریے میں موجود ہے اس لیے مجھے چند گھنٹے یہاں پر رکنا پڑے گا،، خطرہ ٹلتے ہی میں خود یہاں سے چلا جاؤں گا۔۔۔ امید ہے تم کسی بھی قسم کی ہوشیاری سے گریز کروں گی"

معظم اب زینش کو دیکھتا ہوا بولا


"وہ سب کر کے مطمئن ہوں تم اپنی زندگی میں"

زینش کے اچانک سوال کرنے پر معظم کے چہرے کے تاثرات خطرناک حد تک سخت ہوئے


"مطمئن تو میں اسی دن ہو گیا تھا جب تمہارے باپ کی موت کی خبر میں نے سنی تھی۔۔۔۔ اپنی زندگی سے مطمئن ہی نہیں بہت خوش بھی ہوں۔۔۔ اب کوئی بھی فضول بات کرنے کی بجائے تمہارے لیے بہتر یہی ہوگا کہ خاموشی سے سامنے صوفے پر بیٹھ جاؤ"

معظم سخت لہجے میں زینش کو دیکھتا ہوا بولا


"نہیں تو آج کیا کرو گے میرے ساتھ۔۔۔ کپڑے پھاڑوں گے میرے"

زینش غصے میں معظم کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی معظم نے اس کی بات سن کر دوبارہ اپنے ہاتھ میں وجود پستول زینش کی پیشانی پر رکھی


"اب اگر تم نے میرے سامنے کوئی بھی فضول بکواس کی تو اس میں موجود میں ساری گولیاں میں تمہارے بھیجے کے اندر اتار دو گا۔۔۔ یقین جانو ایسا کرتے ہوئے مجھے کوئی بھی افسوس نہیں ہوگا اس لیے جیسا کہہ رہا ہوں ویسا ہی کرو، جاؤ جا کر صوفے پر بیٹھو"

معظم غصے میں زینش کو آنکھیں دکھاتا ہوا دبی ہوئی آواز میں چیخ کر بولا تو ایک لمحے کیلئے زینش اس سے ڈر گئی اور خاموشی سے جا کر صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔ معظم سامنے چیئر پر اس کے سامنے بیٹھ کر،، پولیس کے وہاں سے جانے کا انتظار کرنے لگا


زینش صوفے پر بیٹھی ہوئی مسلسل اس کو غصے سے دیکھ رہی تھی۔۔۔ مگر معظم کا دھیان زینش کی بجائے اپنی بیوی اور بیٹی کی طرف تھا جو اس وقت گھر میں اکیلی موجود تھی۔۔۔ وہ موبائل پر سندیلا کو کال کر کے اس کی نیند خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔ اسلیے اس کے پاس جانے کا انتظار کرنے لگا


*****

آج اس نے زینش سے نکاح کر کے اسے ہمیشہ کے لیے اپنا بنا لیا تھا،، جہاں اسے اپنے اندر اطمینان تھا وہی زینش کی بے رخی اسے کبھی کبھی غصہ دلا دیتی جیسے آج صبح وہ اس کے ساتھ کتنی بدتمیزی سے پیش آئی تھی اور کبھی اس نے کب اپنے سامنے کسی دوسرے کی بدتمیزی برداشت کی تھی۔۔۔ آج سارے رشتے داروں کے جانے کے بعد وہ بھی اپنی کار لے کر اپنے فلیٹ کی طرف نکل گیا تھا


یہ فلیٹ رفیق نے تب خریدا تھا جب وہ اور حسان کالج میں اسٹوڈنٹ تھے اکثر یہ فلیٹ اس کے یا حسان کے تبھی استعمال میں آتا تھا جب انہیں اپنے دوستوں کے ساتھ کمبائن اسٹڈی کرنا ہوتی تھی۔۔۔ اسٹڈیز ختم ہونے کے بعد حسان کا اس فلیٹ میں آنا نہ آنا برابر ہو گیا تھا البتہ وہ کبھی کبھی اس فلیٹ میں آکر اپنا وقت گزار تھا۔۔۔ اب جبکہ جویریہ اور حسان اس کو چھوڑ کر دنیا سے جا چکے تھے تب اس نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ وہ زینش کو لے کر اس فلیٹ میں شفٹ ہو جائے گا


ایسا نہیں تھا کہ وہ جویریہ اور حسان کی یادوں سے پیچھا چھڑانے کے چکر میں یہاں آنا چاہتا تھا لیکن اس کے نزدیک یہی سوچ اہم تھی کے گھر انسانوں سے آباد ہوتا ہے جب گھر میں بسنے والے انسان ہی موجود نہ ہو تو اتنے بڑے گھر کا فائدہ۔۔۔ وقتی طور پر وہ زینش کے ساتھ اس فلیٹ میں شفٹ ہوکر اپنی زندگی کی نئی شروعات کرنا چاہتا تھا


اس لئے آج نکاح کے بعد سب مہمانوں سے فارغ ہوکر وہ اپنے اس فلیٹ میں چلا آیا تھا جہاں فرنیچر سے لے کر تمام تر ضروریات کی چیزیں پہلے سے ہی موجود تھی۔۔۔ تھوڑا بہت چھوٹا موٹا سامان گھر کا سودا سلف جس کی ضرورت پڑ سکتی تھی وہ بلال مارکیٹ سے لے آیا تھا تاکہ زینش کو کوئی مسلئہ نہ ہو


وہ کل ہی اس فلیٹ میں زینش کے ساتھ شفٹ ہونے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔ اس وقت رات کا ایک بج رہا تھا تب وہ فلیٹ سے گھر جانے کے لئے اٹھا کیونکہ تھوڑی دیر بعد شہنیلا کی فلائٹ تھی اسے واپس نیویارک جانا تھا مگر بدقسمتی سے بیچ راستے میں اس کی کار پنچر ہوگئی جس کی وجہ سے اسے کافی ٹائم لگ گیا۔۔۔ دوسرا یہ کہ اس کے موبائل کی بیٹری بھی ڈیڈ ہو چکی تھی جس کی وجہ سے وہ شہنیلا سے کونٹیکٹ کر کے اسے اپنے نہ آنے کی وجہ بتا سکا


اس وقت روڈ مکمل سنسان تھا وہ ہاتھ پر باندھی ہوئی گھڑی میں ٹائم دیکھتا ہوا کار ڈرائیو کر رہا تھا تب اچانک سنسان سڑک کے بیچ و بیچ ایک لڑکی بھاگتی ہوئی نظر آئی جسے دیکھ کر بلال اپنی کار کی اسپیڈ کم کر چکا تھا مگر وہ اتنی زیادہ گھبرائی ہوئی تھی کے سامنے آتی ہوئی کار کو دیکھنے کے باوجود۔۔۔ سائیڈ میں ہونے کے بجائے اپنی آنکھیں بند کر چکی تھی


****


"زینش"

ایک لمحے کے لیے وہ اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھ کر شاکڈ ہوا ہوا تھا جو کہ اس وقت ایک بچی کو گود میں لیے اسے بہت زیادہ گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی۔۔۔ پہلے تو بلال اس لڑکی کو دیکھ کر بری طرح چونکا تھا کیونکہ یہ لڑکی ہوبہو اس کی بیوی سے ملتی تھی،، وہ اتنا دیوانہ ہرگز نہیں ہوا تھا کہ ہر لڑکی میں اسے اپنی بیوی نظر آتی لیکن کوئی بھی اگر پہلی بار اس لڑکی کو دیکھتا تو آرام سے دھوکا کھا سکتا تھا


اس لڑکی کو اپنی کار کی طرف بڑھتا دیکھ کر بلال کار کا دروازہ کھول کر نیچے اتر آیا


"پلیز میری ہیلپ کریں وہ وہاں پر۔۔۔"

بھاگنے کی وجہ سے سندیلا کا سانس بری طرح پھولا ہوا تھا،، گھر سے بھاگتے ہوئے اس نے خدا سے دعا کی تھی کہ اپنا کوئی نیک بندہ اس کی مدد کے لیے بھیج دے،، اتنی رات گئے سنسان سڑک پر پری کو گود میں اٹھا کر بھاگتی ہوئی وہ کافی زیادہ خوفزدہ تھی اس لئے گاڑی میں بیٹھے ہوئے شخص کو دیکھ کر اس سے مدد مانگنے لگی


"کیا ہے وہاں پر، آپ اتنا پریشان کیوں ہیں"

سندیلا خالی سڑک کی طرف اشارہ کرتی ہوئی بولی گھبراہٹ کے مارے اس سے کچھ بولا نہیں جا رہا تھا تب بلال اس سے سوال کرنے لگا


"وہاں پر وہ میرا پیچھا کر رہا ہے۔ ۔۔ آپ پلیز مجھے اور میری بچی کو بچا لیں"

سندیلا کو سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اجنبی شخص کو کیا بتائیں اس لئے بولنے کے ساتھ اس نے رونا شروع کردیا


"پر وہاں تو کوئی بھی موجود نہیں ہے۔۔۔ اچھا آپ اس طرح پریشان مت ہو، آئیے کار میں بیٹھیں میں آپ کو آپ کے گھر ڈراپ کر دیتا ہوں"

وہ اپنے حلیے اور لب و لہجے سے بلال کو کوئی پڑھی لکھی اور شریف گھرانے کی لڑکی لگ رہی تھی مگر اس وقت وہ ننگے پاؤں اور کافی گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی شاید اس وقت وہ کسی مشکل کا شکار تھی اس لیے بلال نے اس کو روتا ہوا دیکھ کر اپنی کار میں بیٹھ جانے کو کہا۔۔۔


سندیلا پری کو گود میں اٹھائے بلال کی کار میں بیٹھ گئی اور زیر لب آیت الکرسی پڑھنے لگی تب بلال نے بھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے ایک نظر اس کی گود میں نیند سے اونگتی ہوئی بچی کو دیکھا پھر سندیلا سے اس کے گھر کا ایڈریس پوچھنے لگا


"میں اس وقت اپنے گھر پر نہیں جاسکتی میرا گھر سیو نہیں ہے اور میرے ہسبنڈ بھی ضروری کام کے سلسلے میں گھر سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔۔۔ میرے گھر میں کوئی زبردستی گھس آیا ہے میں بہت مشکل سے اپنی اور اپنی بچی کی جان بچا کر وہاں سے بھاگی ہو"

سندیلا کو جو سمجھ میں آیا وہ تھوڑا بہت چھپا کر اس اجنبی سے اپنا مسئلہ بیان کرنے لگی جسے سن کر بلال کار اسٹارٹ کرنے لگا


"آئی تھنک پھر ہمیں پولیس سے ہیلپ لینا چاہیے"

بلال کی بات سن کر سندیلا مزید گھبرا گئی اور جھٹ سے بولی


"نہیں پلیز پولیس کو اس معاملے میں انوالو مت کریں"


وہ واقعی پولیس کی مداخلت اس معاملے میں بالکل نہیں چاہتی تھی،، اس کے شوہر کا پیشہ ایسا تھا کہ پولیس والے سے کہا معظم کی بنتی۔۔۔ نہ جانے پھر بات کہاں سے کہاں تک پہنچتی اس لئے اس نے بلال کو فوراً منع کردیا تو بلال خاموشی سے سندیلا کو دیکھنے لگا جس پر سندیلا اچھی خاصی شرمندہ ہوئی


"میں جانتی ہوں آپ مجھے کوئی مشکوک لڑکی سمجھ رہے ہوں گے کیونکہ سچویشن ہی کچھ ایسی ہے اتنی رات کو کوئی لڑکی اسطرح اکیلے باہر نہیں نکل سکتی مگر آپ میرا یقین کریں میں واقعی سچ بول رہی ہوں۔۔۔ کیا آپ مجھے اپنا موبائل دے سکتے ہیں تاکہ میں اپنے ہسبنڈ سے بات کر لو"

سندیلا کو یہی حل سمجھ آیا کہ وہ معظم کو اس وقت کال ملائے۔۔۔ شکر تھا کہ معظم کے کہنے پر اس نے معظم کا نمبر زبانی یاد کیا ہوا تھا مگر سندیلا کی بات سن کر بلال نے لمبا سانس کھینچا اور اپنا موبائل سندیلا کی طرف بڑھایا


"اگر میں آپ کو مشکوک سمجھتا تو کبھی بھی آپ کو اپنی کار میں بیٹھنے کے لیے نہیں کہتا۔ ۔۔۔ اتفاق سے بیٹری ڈاؤن ہونے کے سبب موبائل آف ہے میرا، اب آپ اس بات سے مجھے مشکوک مت سمجھئے گا محترمہ"

بلال کی بات سن کر سندیلا پریشان نظروں سے بلال کو دیکھنے لگی تو بلال نے اپنی گاڑی دوبارہ کار اسٹارٹ کر دی


"آدھی رات کو سنسان جگہ پر یوں کار میں بیٹھنا بھی مناسب نہیں ہے اور آپ کو یوں مصیبت میں تنہا چھوڑ کر جانا بھی مجھے اخلاقی طور پر مناسب نہیں لگ رہا جب کہ آپ کے پاس ایک بچی بھی موجود ہے"

بلال ڈرائیونگ کے دوران سندیلا سے مخاطب ہوا تو سندیلا خاموش ہی رہی،، وہ خود پریشان ہوچکی تھی ایک پل کے لیے اس کے دل میں آیا وہ انیس کے گھر چلی جائے لیکن اسے وردہ سے کوئی اچھی امید نہیں تھی،، اسلیے دل ہی دل میں دوبارہ آیت الکرسی کا ورد کرنے لگی


دوسری طرف بلال یہ سوچ کر سندیلا کو اپنے گھر کی بجائے فلیٹ میں لے آیا تھا کہ زینش اس سے پہلے ہی خفا تھی، وہ ایک انجان اور اپنی ہم شکل لڑکی کو اس کے ساتھ رات میں دیکھ کر نہ جانے بلال کی بات سنتی یا کیا ری ایکٹ کرتی۔۔۔ بلال نے اپنے اپارٹمینٹ کے بیسمنٹ میں کار روکی تو سندیلا سوالیہ نظروں سے بلال کو دیکھنے لگی


"اس آپارٹمینٹ میں میرا فلیٹ ہے اگر آپ مجھ پر بھروسہ کر کے میری کار میں بیٹھ سکتی ہیں تو اپنے ہسبنڈ کے واپس آنے کا انتیظار یہاں میرے فلیٹ میں کرلیں۔۔۔ میں آپ کو فورس ہرگز نہیں کرو گا میرے فلیٹ میں آنا نہ آنا آپکی چوائس ہے۔۔ ہاں تھوڑی دیر بعد میں آپ کو آپکے گھر ڈراپ کر دو گا جب تک اپکے ہسبنڈ گھر پر آجائے گے اس سے زیادہ میں آپکی کیا ہیلپ کر سکتا ہو"

بلال کندھے اچکاتا ہوا سندیلا سے بولا اور اپنی کار سے اتر گیا۔۔۔۔ اس نے فلیٹ میں آنے کا فیصلہ سندیلا کے اوپر چھوڑا تھا۔۔۔ سندیلا کنفیوس ہوتی ہوئی وہاں موجودہ واچ مین کو دیکھنے لگی جو مسلسل اس کو اور بلال کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ سندیلا اللہ کا نام لے کر پری کو سینے سے لگائے کار سے نیچے اتر گئی


بلال اپنے فلیٹ کے دروازہ کا لاک کھول رہا تھا تب سندیلا اس کی پشت پر کھڑی ہوئی تھی اس نے پیچھے پلٹ کر دیکھا۔۔۔ بلال کے سامنے والے فلیٹ میں ایک عورت کھڑکی میں کھڑی ہوئی غور سے سندیلا کو دیکھ رہی تھی،، سندیلا کو اس وقت اس عورت کے یوں دیکھنے پر عجیب سا محسوس ہونے لگا تبھی اس نے واپس اپنا چہرہ موڑ لیا۔۔۔ بلال نے اپنے فلیٹ کے اندر قدم رکھا تو سندیلا کی طرف دیکھا وہ تھوڑا جھجھکتی ہوئی اندر آ گئی


"وہ سامنے بیڈ روم ہے اگر آپ چاہیں تو تھوڑی دیر وہاں ریسٹ کر لیں میں یہاں اسی روم میں موجود ہو۔۔۔ تھوڑی دیر میں اجالا ہو جائے گا تو میں آپ کو آپ کے گھر چھوڑ آؤ گا"

بلال نے سندیلا کو اشارے سے بیڈروم کا بتایا اور خود دوسرے روم میں جا کر دروازہ بند کر لیا تاکہ سندیلا بھی ریلیکس ہو جائے


*****


پوری رات جاگ کر وقفے وقفے سے وہ پولیس کے وہاں سے جانے کا انتظار کرتا رہا مگر پولیس وین اسی کالونی میں موجود تھی جس سے معظم اندازہ لگا چکا تھا کہ پولیس وہی کہیں آس پاس کے علاقوں میں اس کو تلاش کر رہی ہے


زینش ساری رات اس کے سامنے صوفے پر بیٹھی رہی معظم کے غصہ کرنے کے بعد اس نے پھر دوبارہ معظم سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی معظم نے اس سے کوئی بھی بات کرنے کی ضرورت سمجھی یوں ہی کرسی پر بیٹھے تھوڑی دیر کے لئے اس کی آنکھ بھی لگ گئی تھی جب اس کی آنکھ کھلی تو پوری طرح اجالا پھیل چکا تھا اس کے سامنے صوفے پر زینش گہری نیند میں سو رہی تھی وہ بنا آہٹ کے ایک بار پھر گھر سے باہر نکلا تب اسے وہاں سے نکلنے کا راستہ کلیئر دکھائی دیا وہ دوبارہ گھر میں آئے بناء یا پھر زینش کو جگائے بغیر گیٹ بند کرکے وہاں سے چلا گیا


*****


"سندیلا۔۔۔۔۔ سندیلا"

معظم جب گھر پہنچا تو گھر کا دروازہ کھلا دیکھ کر وہ پریشان ہو گیا جب اسے گھر کے اندر سندیلا یا پری نہیں دکھائی دی تو وہ مزید پریشان ہونے لگا۔۔۔ وہ دروازہ باہر سے لاک کرکے گیا تھا پھر اس کے پیچھے کون آیا۔۔۔ سندیلا اور پری آخرکار کہاں موجود تھی


پری کا استعمال شدہ دودھ کا ڈبہ کھلا ہوا فرش پر پڑا تھا سندیلا کا موبائل گھر پر ہی موجود تھا مگر یہ وقت سوچنے یا پریشان ہونے کا نہیں تھا اسے اپنی بیوی اور بچی کا پتہ لگانا تھا۔۔۔ اس لئے پسٹل لے کر وہ گھر سے نکلنے لگا تھا تب اسے اپنے گھر کے پاس ایک کار کے روکنے کی آواز آئی


جب سندیلا پری کو گود میں لے کر گھر کے اندر داخل ہوئی تب معظم کی جان میں جان آئی۔۔۔ ورنہ تو اس سے محسوس ہو رہا تھا کہ اس اسے اگلا سانس تک نہیں آئے گا


"سندیلا"

اس سے پہلے وہ سندیلا کو اپنے گلے لگاتا سنریلا معظم کو دیکھ کر بھاگ کر اس کے پاس آئی اور گلے لگ گئی


"سندیلا آپ ٹھیک ہیں اور پری،،، یہاں دیں اس کو مجھے۔۔۔۔ کہاں تھی آپ، پلیز مجھے بتائیں"

وہ سندیلا کو خود سے الگ کرتا ہوا پری کو گود میں لینے کے بعد سندیلا کو پریشان نظروں سے دیکھتا ہوا پوچھنے لگا تب اسے اپنے گھر کے دروازے پر ایک شخص کھڑا ہوا نظر آیا جو معظم کو دیکھ رہا تھا


"کون ہو تم"

معظم مکمل طور پر بلال کی طرف متوجہ ہو کر اس سے پوچھنے لگا


"معظم انہوں نے کل رات میری اور پری جان بچائی ہے اگر ہم دونوں ابھی تمہارے سامنے سلامت کھڑے ہیں تو انہی کی وجہ سے"

بلال کے کچھ بولنے سے پہلے سندیلا معظم سے بولی جس پر معظم حیرت سے پہلے سندیلا کو پھر بلال کو دیکھنے لگا


"کل رات شاید تمہارے گھر میں کوئی زبردستی آ گیا تھا جس کی وجہ سے تمہاری وائف تمہاری بیٹی کو لے کر گھر سے نکل گئیں۔ ۔۔ اتفاق سے ان کا مجھ سے ٹکڑاؤ ہوا تو میں ان کو اپنے گھر لے گیا کیونکہ آدھی رات کو اور کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا اب تمہاری وائف اور بیٹی باحفاظت تمہارے سامنے موجود ہیں"

جہاں سندیلا اور پری کو اپنے سامنے دیکھ وہ ریلکس ہوا تھا وہی بلال کی بات سن کر پریشان بھی ہوا تھا آخر کون تھا جو اس کے پیچھے اس کے گھر میں آنے کی ہمت کر سکتا ہے


"تمہارا بہت بہت شکریہ تم نے میری بیوی اور بیٹی کی مشکل وقت میں مدد کرکے مجھے اپنا قرض دار بنا لیا ہے زندگی میں اگر کبھی کسی مقام پر میری ضرورت پڑے تو بلا جھجھک مجھے یاد کرلینا"

معظم کی بات سن کر بلال نے اجازت طلب نظروں سے اسے دیکھا ایک نظر سندیلا اور سوئی ہوئی پری پر ڈال کر وہاں سے چلا گیا۔۔بلال کے جانے کے بعد معظم نے گھر کا دروازہ لاک کیا اور اگے بڑھ کر سندیلا کو گلے سے لگالیا


"اگر مجھے ذرا بھی انداز ہوتا میرے پیچھے اتنا کچھ ہو جائے گا تو میں آپ کو اور پری کو چھوڑ کر کبھی بھی نہیں جاتا بلکے مجھے آپ دونوں کو اسطرح چھوڑ کر جانا ہی نہیں چاہیے تھا۔۔ خدا نہ خاستہ آپ کو یا پری کو کچھ ہو جاتا میں تاعمر خود سے نظریں نہیں ملا پاتا"

پری کو گود میں لیے سندیلا کو سینے سے لگائے وہ اپنی بیوی اور بیٹی کو صحیح سلامت دیکھ کر خدا کا شکر ادا کرنے لگا


"میں بہت زیادہ ڈر گئی تھی معظم کل رات کو، تمہیں اندازہ نہیں ہے کل رات میں نے کیسے خوفزدہ ہو کر گزاری"

سندیلا معظم کے سینے سے سر ٹکائے اس کے حصار میں خود کو محفوظ تصور کرتی ہوئی اسے بتانے لگی


"میرے پاس ہوتے ہوئے آپ پر یا پری پر کبھی آنچ نہیں آنے دوں گا یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔۔۔ سندیلا یہاں دیکھ کر مجھے بتائیں کہ کون آیا تھا کل رات میرے پیچھے یہاں پر"

وہ سندیلا کو خود سے الگ کرتا ہوا اس سے پوچھنے لگا تو سندیلا نے معظم کی گود سے پری کو لے لیا


"میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا اس شخص کو، میں نہیں جانتی اسے"

سندیلا معظم سے بولتی ہوئی پری کو اس کی گود سے لے کر کمرے میں چلی گئی اور سوئی ہوئی پری کو کاٹ میں لٹایا۔۔ کیونکہ بلال کے فلیٹ میں وہ مسلسل جاگ رہی تھی۔۔۔ سندیلا واپس پلٹی تو معظم اس کے سامنے کھڑا سندیلا کو دیکھ رہا تھا


"مجھے اچھی طرح اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ مجھ سے کیا چھپا رہی ہیں۔۔۔۔ آپ مجھ کو نہ بھی بتائے میں سمجھ گیا ہو کہ کل رات یہاں احتشام آیا تھا"

معظم کی بات سن کر سندیلا حیرت سے اسے دیکھنے لگی


"اتنا حیران ہو کر مجھے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ اس کے علاوہ یہ حرکت میرا کوئی دوسرا دشمن کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ میرے گھر میں گھسنے کی جرت کرنے کے بعد ان کا کیا انجام ہو سکتا ہے۔۔۔ احتشام کا ابھی صحیح طریقے سے مجھ سے پالا نہیں پڑا لیکن آج کے بعد احتشام بھی مجھے اچھی طرح جان جائے گا"

معظم سندیلا کو بولتا ہوا کمرے سے نکلنے لگا تبھی سندیلا نے جلدی سے اس کا بازو پکڑا


"معظم پلیز تم مجھے اکیلا چھوڑ کر کہیں مت جاؤ۔۔۔ کل رات احتشام کو بھی اچھی طرح علم ہوگیا ہوگا کہ میں واپس اس کے پاس نہیں جانا چاہتی اب وہ دوبارہ کبھی کوئی ایسی حرکت نہیں کرے گا"

سندیلا معظم کے سینے سے لگتی ہوئی اسے بولی وہ معظم کو روکنا چاہتی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ ابھی معظم پری یا اسے چھوڑ کر کہیں بھی جائے تبھی معظم سندیلا کا چہرے اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالوں میں بھر کر اسے دیکھنے لگا پھر اسکو اپنے بازوؤں میں اٹھا لیا


ایسا نہیں تھا کہ وہ سندیلا کی بات کو سچ سمجھ بیٹھا تھا کہ واقعی احتشام ایسی کوئی حرکت دوبارہ نہیں کرے گا۔۔۔۔ بلکہ معظم نے سوچ رکھا تھا کہ وہ احتشام کو دوبارہ کوئی بھی ایسی حرکت کرنے کے قابل ہی نہیں چھوڑے گا لیکن یہ کام اس نے بعد کے لئے اٹھا کر رکھا تھا ابھی وہ خود بھی سندیلا کے پاس رہنا چاہتا تھا

جبھی وہ اسے اٹھا کر بیڈ پر لے آیا


"سوچ لیں استانی جی مجھے خود اپنے پاس روک رہی ہیں تو پھر پچھتانے کے لئے تیار ہو جائیں"

معظم سندیلا کو بیڈ پر لٹاتا ہوا معنیٰ خیری سے بولا


اس کی بات کا مفہوم سمجھ کر سندیلا خاموش رہی ہے تب معظم کی نظر سندیلا کے پاؤں پر پڑی جہاں خون جما ہوا تھا وہ فرسٹ ایڈ باکس لے کر آیا زخم کا معائنہ کرتا ہوا پایوڈین سے سندیلا کے پاؤں پر موجود جما ہوا خون صاف کرنے لگا


وہ صاف اندازہ لگا سکتا تھا کہ کل رات اس کی بیوی کس حالت میں پری کو لے کر گھر سے نکلی ہو گی صرف اور صرف احتشام کی کمینگی کی وجہ سے،، وہ سندیلا سے اس کے زخم لگنے کی وجہ یا پھر کل رات کیا ہوا کچھ بھی پوچھ کر اس کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا تبھی فرسٹ ایڈ باکس سائیڈ پر کرتا ہوا وہ اپنے ہونٹ سندیلا کے اجلے پاؤں پر رکھتا ہوا اسکی پنڈی تک لایا۔۔۔ معظم کی اس حرکت پر سندیلا اپنے آپ میں سمٹنے لگی۔۔۔ معظم نے نظر اٹھا کر سندیلا کی طرف دیکھا جیسے وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے اجازت طلب کر رہا ہوں


"میں پچھتانے کے لیے تیار ہو"

سندیلا نے بولنے کے ساتھ اپنی نظروں کا زاویہ دوسری سمت کرلیا تو معظم کے لبوں پر مسکراہٹ آئی


معظم کا جھکاؤ اپنے مکمل وجود پر محسوس کر کے سندیلا خود میں سمٹنے لگی۔۔۔ وہ سندیلا کے چہرے کے ایک ایک نقش کو چوم کر، مدہوشی کے عالم میں اسکی گردن پر جھگ گیا۔۔۔۔ سندیلا بند ہوتی آنکھیں کھول کر اسکی قربت کو محسوس کرنے لگی،، معظم کی پل پل بڑھتی دیوانگی اسے پتہ دے رہی تھی وہ اسے کافی انتظار کروا چکی ہے۔۔۔ جب ایک ایک کرکے شرم کے تمام تر پردے ہٹتے گئے تب سندیلا نے بیڈ پر رکھے اپنے دوپٹے کے سرے سے اپنا چہرہ چھپالیا


کل رات نہ صرف اس نے اپنے شوہر کے عہد کا پاس رکھا تھا بلکے دل سے اسے اپنا آپ بھی سونپا تھا


معظم ایک کے بعد ایک اپنے اور سندیلا درمیان حائل تمام تر فاصلے مٹاتا چلا گیا۔۔۔ تو پلکوں کی بھاڑ توڑ کر آنسو سندیلا کی آنکھوں سے نکل کر اس کے بالوں میں جذب ہونے لگے۔۔۔۔ چہرے سے دوپٹہ ہٹا کر جنہیں معظم اپنے ہونٹوں سے چننے لگا


****

صبح کے وقت بلال گھر میں داخل ہوا تو ہال میں ہی اس کے قدم رک گئے دائیں جانب اس نے زینش کو سامنے صوفے پر سوتا پایا تو وہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا کل شام کے بعد بلال اب اسے دیکھ رہا تھا


بلال اسی کے قریب بچی ہوئی اسپیس پر صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔ شاید رات میں اس کا انتظار کرتے ہوئے زینش کی آنکھ لگ گئی تھی،، یہی وجہ تھی کہ وہ یہاں صوفے پر سو رہی تھی بلال نے زینش کے سینے پر رکھا ہوا اس کا ہاتھ آئستہ سے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اپنے ہونٹوں سے لگایا یہ زینش کو جگانے کی کوشش تھی جو کہ ناکام ثابت ہوئی وہ ابھی بھی گہری نیند میں سو رہی تھی شاید وہ رات میں کافی دیر تک جاگتی رہی تھی


"زینش"

بلال نے اس کو پکارا تاکہ وہ اٹھ کر اپنے روم میں چلی جائے تھوڑی دیر بعد تہمینہ اور دوسرے سرونٹس ایک ایک کر کے گھر میں آ جاتے


مگر بلال کے پکارنے سے بھی زینش نہیں اٹھی تب بلال کو اسے جگانے کے لئے دوسرا حربہ استعمال کرنا پڑا۔۔۔ زینش کی شہہ رگ پر اپنے ہونٹ رکھنے کے بعد اس کے اپنے سوئے احساسات جاگ اٹھے۔۔۔ وہ نرمی سے زینش کی گردن کو چومنے لگا تب اسے احساس ہوا کہ زینش جاگ چکی ہے۔۔۔ اس سے پہلے وہ بلال کو کچھ بولتی بلال اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر زینش کا منہ بند کر چکا تھا


کل کی ساری رات اس نے معظم کو دیکھتے ہوئے گزاری تھی معظم نے اسے اپنے رویے سے کوئی خوش فہمی نہیں دلائی تھی کہ وہ اب بھی اس سے محبت کرتا ہے یا پھر اس کی زندگی میں زینش کے لیے کوئی خاص جگہ ہے لیکن وہ اس وقت اپنی گردن پر ہونٹوں کا لمس محسوس کرکے تڑپ اٹھی تھی یہ وہ اس کے ساتھ کیا کر رہا تھا۔۔۔ زینش نے چیخنا چاہا تو وہ اس کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر اس کی چیخیں بند کرچکا تھا۔۔۔ تب زینش نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے ہٹانا چاہا۔۔۔ بلال کے پیچھے ہٹنے پر زینش جلدی سے اٹھ کر بیٹھی۔۔۔ اپنے سامنے بلال کو موجود پاکر وہ حیرت سے منہ کھولے خالی کرسی کو دیکھنے لگی


"وہ۔ ۔۔۔۔ وہ کہاں پر ہے"

شاید وہ ابھی بھی پوری طرح اپنے حواسوں میں نہیں آئی تھی جبھی خالی کرسی کو دیکھ کر بلال سے پوچھنے لگی


"کون؟ کس کی بات کر رہی ہوں"

بلال اپنی آنکھیں سکھیڑ کر زینش سے پوچھنے لگا تو زینش غائب دماغی کے ساتھ بلال کو دیکھنے لگے


"کیا ہوا،، کیا کوئی خواب دیکھ لیا تھا"

زینش کو دماغی طور پر غائب دیکھ کر بلال اس کا ہاتھ تھام کر پوچھنے لگا


"ہاں شاید خواب ہی تھا وہ"

زینش بلال سے اپنا ہاتھ چھڑاتی ہوئی آئستہ سے بولی


"تم کافی گہری نیند میں سوئی ہوئی تھی"

بلال زینش کا چہرہ دیکھتا ہوا اس سے بولا


"تو آپ کیا کر رہے تھے میرے ساتھ"

زینش کو اب بلال کی حرکت یاد آئی تو وہ بلال کو گھورتی ہوئی پوچھنے لگی جس پر بلال کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی


"دل میں آئی ہوئی خواہش کہیں حسرت نہ بن جائے۔۔۔ اس خواہش پوری کر رہا تھا"

بلال زینش کو گہری نظروں سے دیکھتا ہوا بولا


"کل آپ مجھ سے نکاح کرکے اپنی خواہش پوری کر چکے ہیں۔۔۔ اب کوئی بھی فضول خواہش دل میں پالنے کی ضرورت نہیں ہے آپ کو"

زینش بے مروتی سے کہتی ہوئی صوفے سے اٹھنے لگی جبکہ شہنیلا اس کو کافی سمجھا بجھا کر گئی تھی مگر کل رات معظم کو دیکھ کر اس کا مائینڈ اچھا خاصا ڈسٹرب ہو گیا تھا


"جب تمہیں اچھی طرح یہ بات یاد ہے کہ ہم دونوں کا نکاح ہوچکا ہے تو اب تم اپنا بی ہیویر ٹھیک کرو اسے زینش۔۔۔ تمہیں محبت کرنے کا یہ مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ تمہاری بدتمیزی کو برداشت کرکے میں تمہیں ہر بار تمہیں پیار سے سمجھاؤ گا"

بلال زینش کے لہجے پر اسے جتاتا ہوا بولا


"میرا بی ہیویر ٹھیک رہے گا اگر آپ مجھے تھوڑا ٹائم دیں گے مطلب میرے اور اپنے رشتے کے لیے۔۔۔ اور واقعی ہم دونوں کا صرف ابھی نکاح ہوا ہے میں آپ کی منکوحہ ہوں بیوی نہیں ہو، یہ بات آپ خود بھی یاد رکھیں"

زینش کی بات سن کر بلال اسے تھوڑی دیر خاموشی سے دیکھتا رہا پھر بولا


"ایک گھنٹہ ہے تمہارے پاس اپنا سامان پیک کرلو"

بلال کی بات سن کر زینش اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی


"آج ہی ہم دونوں میرے اپارٹمینٹ میں شفٹ ہو رہے ہیں۔۔۔۔ وہاں پر رہنے کے لئے میں سارے ارینجمنٹ کر چکا ہوں تاکہ تمہیں کسی چیز کی پریشانی نہ ہو۔۔۔ ابھی افس نکلنے سے پہلے میں تمہیں وہاں ڈراپ کردو گا"

بلال زینش کو بولتا ہوا اس کا کوئی جواب سنے بغیر اپنے کمرے میں چلا گیا


وہ جو اپنے کمرے میں جا کر سونے کا ارادہ رکھتی تھی منہ بناتی ہوئی اپنے کمرے میں آئی اور وارڈروب سے اپنے کپڑے نکال کر بیگ میں رکھنے لگی۔۔۔ تبھی اس کے موبائل پر خوشی کی کال آنے لگی جو کہ اس نے کافی بے دلی سے ریسیو کی


"ہوگئی تمہاری اپنے شوہر سے دوستی،، تم تو بڑی عقلمند نکلی یار نکاح ہوتے ہی تعلقات ٹھیک کر لئے بہت ہی اچھی بات ہے مگر کل تم دونوں کہاں نکلے ہوئے تھے وہ بھی اتنی رات کو"

خوشی کی چہکتی ہوئی آواز اس کے کانوں میں پڑی تو زینش ناسمجھی سے ہاتھ میں پکڑے اپنے موبائل کو دیکھنے لگی


"یہ صبح صبح کیا بکے جارہی ہو تم۔۔۔ بلال کے ساتھ میں کل رات کو کہیں نہیں نکلی تھی، بلکہ میں تو کتنے ہی دن گزر گئے گھر پر ہی موجود ہوں"

خوشی کی بات اس کو سرے سے ہی سمجھ میں نہیں آئی تھی اس لیے وہ خوشی کی بات پر دھیان دینے کے بجائے ایک ہاتھ سے موبائل پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے اپنے کپڑے بیگ میں ڈالنے لگی


"اچھا اچھا زیادہ بننے کی ضرورت نہیں ہے میرے سامنے کل رات میرے منگیتر صاحب جب اپنی نائٹ ڈیوٹی انجام دے کر گھر واپس لوٹ رہے تھے تب انہوں نے تمہیں اور بلال کو ایک ساتھ بلال کی کار میں بیٹھے ہوئے دیکھا تھا،، پہلے تو میں نے ریحان سے کہا کہ میری سہیلی اتنی جلدی بلال سے پٹنے والی نہیں ہے ضرور آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔۔۔ مگر پھر وہ مجھ سے بولے کہ وہ بلال کو اور تمہیں اچھی طرح پہچاتے ہیں۔۔۔ لیکن ہم دونوں کو صرف ایک ہی بات کنفیوز کر رہی ہے،، پوچھو کیا"

خوشی نان اسٹاپ موبائل پر بول رہی تھی زینش تحمل سے کام لیتے ہوئے اس کی ساری باتیں برداشت کررہی تھی


"کیا"

خوشی کے بولنے پر زینش برا سا منہ بنا کر اس سے پوچھنے لگی


"یہ تم دونوں کا نکاح تو کل ہی ہوا ہے ناں۔۔۔ پھر چند گھنٹوں میں تم دونوں نے بچہ کہاں سے ایجاد کرلیا مطلب اتنی جلدی پیدا تو ہو نہیں سکتا"

خوشی حیرت اور تجسس سے زینش سے پوچھنے لگی


"بچہ،، کون سا بچہ کیا بکواس کر رہی ہو تم"

زینش کو اس کی کوئی بھی بات سمجھ میں نہیں آئی تھی اور اب خوشی اس سے بچے کو پوچھ رہی تھی تو وہ مزید کنفیوز ہوکر خوشی سے پوچھنے لگی


"ارے وہی بچہ جو کل رات میں تمہاری گود میں تھا جب تم کل بلال کے ساتھ اس کی کار میں موجود تھی"

خوشی زینش سے پوچھنے لگی جس پر زینش کا دل چاہے وہ موبائل میں گھس کر خوشی کا گلہ دبا ڈالے، جو نہ جانے صبح صبح اس کے ساتھ کون سی تفریحوں میں لگی ہوئی تھی


"دیکھو خوشی ایک تو میں ساری رات کی جاگی ہوئی ہوں اوپر سے وہ تمہارے خراٹ قسم کے کزن نے مجھے آرڈر دے دیا ہے کہ ان کے ساتھ اب مجھے انکے فلیٹ میں شفٹ ہونا ہے وہ بھی آج ہی کی ڈیٹ میں۔۔۔ جس کی وجہ سے میں اس وقت پیکنگ کر رہی ہو پلیز اپنی بکواس کسی اور وقت کے لئے اٹھا کر رکھو میں بعد میں تمہیں خود سے کال کرتی ہو اوکے"

زینش نے خوشی کی دوسری باتوں سنے بغیر کال ڈسکنیکٹ کر دی خوشی کی باتوں پر بغیر دھیا دئیے پیکینگ کرنے لگی


****


بلال نے تمام گھر کے ملازمین کا حساب کلیئر کرنے کے بعد گھر کو تالا لگا دیا تھا۔ ۔۔۔ اس وقت وہ زینش کو لے کر اپنے فلیٹ کے دروازے پر کھڑا ہوا اس کا لاک کھول رہا تھا تب زینش نے مڑ کر پیچھے دیکھا سامنے فلیٹ کی کھڑکی میں اسے ایک عورت نظر آئی جو کہ زینش کو بہت زیادہ غور سے دیکھ رہی تھی زینش نے اس کو اسمائل دی مگر وہ مسکرانے کی بجائے غور سے زینش کے پاؤں کی طرف دیکھنے لگی۔ ۔۔۔ زینش خود بھی کنفیوز ہوکر اپنے پیروں میں موجود شوز دیکھنے لگی اسے سمجھ نہیں آیا وہ عورت کیا دیکھ رہی تھی


"اندر آ جاؤ"

بلال فلیٹ میں زینش کے بیگز اٹھاتا ہوا داخل ہوا، ساتھ میں اسے بھی اندر آنے کو کہا تو زینش بھی فلیٹ کے اندر آ گئی۔۔۔ جب وہ فلیٹ کا دروازہ بند کرنے لگی تو اس عورت کے ساتھ آٹھ یا نو سالہ بچہ بھی کھڑا ہوا تھا جو کہ اس عورت کی بانسبت چہرے پر پیاری سی مسکراہٹ لیے زینش کو دیکھ رہا تھا،، شکل سے وہ اس عورت کا بیٹا ہی لگ رہا تھا۔۔۔ زینش ان عجیب ماں بیٹوں کو دیکھ کر دروازہ بند کرتی ہوئی فلیٹ کے اندر آگئی


"وہ سامنے بیڈ روم ہے اپنا سامان وارڈروب میں رکھ دینا۔۔۔ بھوک لگے تو وہ کچن میں چلی جانا فریج میں سارا کھانے پینے کا سامان موجود ہے۔۔۔ میرا افس سے شام تک ہی واپس لوٹنا ہوگا، یہ بتاؤ تمہیں ڈر تو نہیں لگے گا اکیلے"

بلال اس کو ساری باتوں کی معلومات دینے کے بعد اپنائیت بھرے لہجے میں پوچھنے لگا


"ڈر کس بات کا، کل رات آپ کون سا گھر پر موجود تھے۔۔۔ ماما کے جانے کے بعد میں اکیلی ہی تو تھی"

زینش معظم کو یاد کرتی ہوئی بلال سے بولی۔۔۔ اس نے سوچ رکھا تھا کہ وہ بلال کو اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتائے گی،، زینش کی بات سن کر بلال نے اس کے قریب آ کر زینش کے دونوں ہاتھوں کو تھام لیا


"ایم سوری یار کل رات جب میں واپس آ رہا تھا تب ایک بڑا عجیب سین کری ایڈ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے میں شہنیلا آنٹی کو بھی سی آف نہیں کرسکا۔۔۔۔ کل کیا ہوا تھا یہ میں تمہیں آفس سے آ کر بتاؤں گا ابھی افس کے لیے لیٹ ہو رہا ہوں تم تھوڑی دیر آرام کر لو پھر رات میں ڈنر کے لئے کہیں باہر چلیں گے"

بلال نے پلان کیا تھا کہ آفس سے آنے کے بعد وہ زینش کو باہر لے جائے گا شاید اس طرح زینش کے موڈ میں کوئی تبدیلی آجائے


جویریہ اور حسان کے بعد وہ خود کو تنہا محسوس کر رہا تھا اسے زینش کی ضرورت تھی مگر الٹا وہ بلال سے خفا ہو کر بیٹھی ہوئی تھی اور بلال اس کو منانے کے جتن کر رہا تھا شاید اب بلال کے پاس کوئی محبت کے لیے بچا ہی نہیں تھا تبھی اسکے سارے نخرے بھی اٹھا رہا تھا


"اوکے"

زینش نے بلال کے جواب میں کہا اور اس سے اپنے ہاتھ چھڑوا کر بیڈ روم میں جانے لگی


"زینش"

بلال کے پکارنے پر زینش کو دوبارہ پلٹنا پڑا۔،۔۔۔ بلال کی نظریں اس کے چہرے کا طواف کرتی ہوئی اس کے ہونٹوں پر ٹک گئی وہ زینش کے قریب آیا


"بلال پلیز میں نے آپ کو تھوڑی دیر پہلے کہا تھا میں آپکی بیوی نہیں منکوحہ ہو، نکاح میں یہ سب بالکل غیر اخلاقی عمل لگتا ہے"

زینش بلال کی نظروں سے اس کی طلب کا اندازہ لگا چکی تھی بلال کو اپنے قریب آتا ہوا دیکھ کر وہ جلدی سے بولی


"نکاح ہمارا کل ہوا تھا آج میں تمہیں رخصت کرکے اپنے ساتھ اپنے اس گھر میں لایا ہو، اب تم منکوحہ نہیں بلکہ میری بیوی ہو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو"

بلال اس کو باور کرواتا ہوں اپنے حصار میں لے چکا تھا،، جس پر زینش کی زبان تالو سے چپک گئی اور سر خود بہ خود نیچے جھک گیا


بلال نے زینش کی تھوڑی کے نیچے اپنی انگلی رکھ کر اس کا چہرہ اونچا کیا تو زینش نے فوراً اپنی آنکھیں بند کر لی۔۔۔ زینش کا نروس ہوتا ہوا یہ روپ بلال غور سے دیکھنے لگا جس کے بعد بلال نے اپنے ہونٹ زینش کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔۔۔۔ زینش نے کوئی مزاحمت نہیں کی سہارے کے لیے بلال کی شرٹ ضرورت پکڑی تو بلال نے اس کی کمر کے گرد اپنے دونوں بازو حائل کر کے زینش کو مزید خود سے قریب کر لیا۔۔۔ اپنے آپکو سراب کرنے کے بعد وہ زینش سے دور ہوا تو زینش ابھی آنکھیں بند کئے کھڑی تھی،، بلال اپنی آنکھوں میں اس کا حسین چہرہ سماتا ہوا فلیٹ سے باہر نکل گیا


زینش نے جب اپنی آنکھیں کھولی تو اسے سامنے ٹیبل پر بلال کی کار کی کیز نظر آئی جنہیں شاید جلدی میں وہ یہی رکھ کر بھول گیا تھا زینش کیز اٹھا کر جلدی سے فلیٹ سے باہر نکلی


"بلال آپ یہ کیز بھول گئے تھے"

بلال لفٹ کی طرف بڑھ رہا تھا تب زینش بھاگتی ہوئی بلال کی طرف آئی اور بلال کی کیز اس کی طرف بڑھائی جنھیں تھام کر وہ مسکراتا ہوا بائے کہہ کر چلا گیا


تھوڑی دیر پہلے کی جانے والی بلال کی حرکت پر زینش کا دل ابھی تک زور سے دھڑک رہا تھا اب اسے یہ بھی یاد رکھنا تھا وہ اس فلیٹ میں آکر بلال کی منکوحہ سے بیوی بن چکی تھی


بلال کی آنکھوں میں لہجے میں اپنے لیے پیار اور اتنی اپنائیت دیکھ کر اس کا دل خوش تھا اور اسے خوشی ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ بلال اب شوہر کے روپ میں اس کی زندگی میں شامل ہو چکا تھا


مجبت کرنے والا وفادار شوہر،، جو کم ازکم اس کے باپ جیسا ہرگز نہیں تھا۔۔۔ زینش کے دل میں اطمینان اترا وہ سوچتی ہوئی واپس فلیٹ کے اندر جانے لگی


"تم بیوی ہوں نا بلال کی"

کھڑکی سے جھانکتی ہوئی اس عورت کی آواز پر زینش کے قدم رکے


"جی صحیح پہچانا آپ نے آپ کی تعریف"

زینش وہی رک کر اس عورت سے اس کے بارے میں پوچھتی ہوئی اخلاق نبھانے لگی


"میرا نام آمنہ ہے ہمہیں اس فلیٹ میں رہتے ہوئے کافی عرصہ ہوگیا ہے۔ ۔۔۔ بلال یہاں کافی مہینوں بعد وقفے وقفے سے اکثر چکر لگاتا ہے۔۔۔ میں تو صرف بلال کو نام سے جانتی ہو۔ ۔۔۔ میرے شوہر مجیب سے بلال کی اچھی سلام دعا ہے۔۔۔ بلال کل انہیں بتا رہا تھا کہ اس کی شادی ہو چکی ہے اور اب وہ اپنی بیوی کے ساتھ یہی شفٹ ہو رہا ہے۔۔۔ کل رات جب تم بلال کے ساتھ یہاں آئی تھی تب میں نے تم سے بات کرنا چاہی مگر اس وقت تم کافی گھبرائی ہوئی لگ رہی اور تمہارا پاؤں بھی زخمی تھا اب کیسا ہے تمہارا پاؤں"

آمنہ اسے ساری باتیں تفصیل سے بتاتی ہوئی آخر میں اس کے پاؤں کے بارے میں پوچھنے لگی


""جج۔ ۔۔۔ جی اب بہتر ہے میرا پاؤں"

زینش بولتی ہوئی بہت مشکل سے اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ لانے میں کامیاب ہوئی تھی


"اور تمہاری بچی ہو کیسی ہے۔۔۔ معلوم ہے مجھے چھوٹے بچے بہت کیوٹ لگتے ہیں مگر اس وقت جب تک وہ چھوٹے رہتے ہیں۔۔۔ تم اپنی بیٹی کے ساتھ آؤ نہ ہمارے گھر"

آمنہ کی اگلی بات پر زینش کو لگا اسکو سانس بھی نہیں آئے گی وہ آمنہ کی بات سن کر وہ مسکرا بھی نہیں سکی۔۔۔ بغیر کچھ بولے جلدی سے فلیٹ کے اندر داخل ہوئی اور دروازہ بند کرلیا


*****


وہ آفس سے واپس آیا تو اس کے سر میں کافی درد ہو رہا تھا کیونکہ پچھلی پوری رات وہ سویا نہیں تھا وقفے وقفے سے ڈرائیونگ کرتے گزری ہوئی رات کی بدولت وہ اس وقت کافی زیادہ تھکن محسوس کر رہا تھا مگر وہ زینش سے باہر ڈنر کی کمٹمنٹ کر چکا تھا اس لیے اپنے سر درد اور تھکن کو نظرانداز کرتا ہوا فلیٹ کا دروازہ کھولنے لگا جبھی اسے اپنی پشت سے آواز آئی


"وہ لڑکی کون ہے جو یہاں صبح تمہارے ساتھ آئی تھی"

بلال نے مڑ کر دیکھا تو مجیب صاحب کا بیٹا اپنے فلیٹ کے دروازے پر کھڑا اسی سے مخاطب تھا


"میری بیوی، تم کیوں پوچھ رہے ہو"

بلال نے اسے جواب دینے کے ساتھ ہی اس بچے سے وجہ جاننی چاہی جو آج اسپیشلی پہلی بار اس سے مخاطب کرتا ہوا اس سے زینش کے بارے میں پوچھ رہا تھا


"کافی ٹائٹ ہے یار،، میرا مطلب ہے دکھنے میں کافی کیوٹ لگ رہی تھی"

مجیب صاحب کے آٹھ نو سالہ بیٹے کے تبصرے پر بلال ناگوار نظروں سے اوپر سے نیچے تک اس بچے کا جائزہ لینے لگا۔۔۔ شکل سے معصوم دکھنے والا یہ بچہ اسے بچہ نہیں بلکہ کوئی مصیبت لگا، بلال بغیر اس کی بات کا کوئی جواب دئیے اسے گھورتا ہوا اپنے فلیٹ کے اندر داخل ہوا


"زینش"

بلال زینش کو پکارتا ہوا بیڈ روم میں آیا تو وہ بلال کو گھٹنوں میں سر دیئے بیڈ پر بیٹھی ہوئی دکھائی دی


"سوری یار واپس آنے میں لیٹ ہو گیا کافی دنوں بعد آفس گیا تھا نہ اس لیے کام کا کچھ زیادہ ہی لوڈ تھا۔۔۔ یہ بتاؤ تم تیار کیوں نہیں ہوئی میں نے کہا تھا آج ہم ڈنر باہر کریں گے"

بلال ڈریسنگ ٹیبل پر کار کی کیز اور موبائل رکھتا ہوا ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرکے زینش کے پاس آکر اس سے پوچھنے لگا جو ابھی تک اسے صبح والے کپڑوں میں بیڈ پر بیٹھی ہوئی دکھائی دے رہی تھی


"زینش کیا ہوا"

جب بلال کی آواز پر بھی اس نے گھٹنوں سے اپنا سر نہیں اٹھایا تو بلال اس کے قریب بیڈ پر بیٹھتا ہوا فکر مند لہجے میں اس سے پوچھنے لگا۔۔۔


جس پر زینش نے سر اٹھا کر بلال کو دیکھا،، بلال اس کی سوجھی ہوئی سرخ آنکھیں اور آنسوؤں سے تر چہرہ دیکھ کر مزید پریشان ہوا۔۔۔ وہ بلال کو دیکھ کر بیڈ سے نیچے اتر کر کھڑی ہو گئی


"کیوں لے کر جانا چاہتے ہیں آپ مجھے ڈنر پر اپنے ساتھ۔۔۔ کیا آپ کو معلوم نہیں ہے گھٹیا مرد گھر میں اپنی بیوی کو چھپا کر رکھتے ہیں تاکہ ان کی بیوی پر کوئی بھی بری نظر نہ ڈالے۔۔۔ ڈنر پر تو وہ ان عورتوں کے ساتھ جایا کرتے ہیں جن عورتوں کے ساتھ رات دن عیاشی کرتے ہیں"

زینش سرخ آنکھوں سے بلال کو دیکھ کر زور سے چیختی ہوئی بولی۔۔۔ بلال پہلے تو حیرت زدہ ہو کر اس کی بات پر غور کرنے لگا پھر زینش کی بات کا مفہوم سمجھ کر بلال کے چہرے کے تاثرات غضب ناک ہوئے


"کیا مطلب ہے تمہاری اس بکواس کا، کیا سمجھا ہوا ہے تم نے مجھے،، میں آفس سے واپس تھکا ہارا آرہا ہو اور تم یہ سمجھ رہی ہو کہ میں آفس کا کہہ کر عیاشی کرنے نکلا تھا،، تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے بارے میں اتنے غلط سوچنے کی اور مجھے گھٹیا کہنے کی"

بلال غصے میں زینش سے بھی زیادہ زور سے چیخ کر بولا


"یہ دنیا اتنی بڑی نہیں ہے بلال رفیق کہ یہاں آپ اہنچی حرکتیں کریں اور دوسرے کو آپ کی حرکتوں کی خبر نہ ہو اور نہ ہی میں کوئی بے وقوف لڑکی ہوں جو اپنے شوہر کی گھٹیا حرکتوں پر پردہ ڈال کر اس کے ساتھ زندگی گزارو۔۔۔ کاش مجھے نکاح سے پانچ منٹ پہلے آپ کے بارے میں معلوم ہو جاتا"

زینش کی بکواس سن کر بلال کا دل چاہا وہ کسی چیز سے اپنا سر پھاڑ لیں۔۔۔ اسے حیرت ہو رہی تھی زینش پر جو شادی کے دوسرے دن ایک شکی ٹائپ کی عورت کی طرح اس پر شک کرکے بلاوجہ میں لڑ رہی تھی


"نکاح سے پانچ منٹ پہلے تمہیں میرے بارے میں معلوم ہوتا تو تم کیا کرتی"

بلال ساری باتوں کو ایک طرف رکھ کر یہی جاننے کے لیے چلتا ہوا زینش کے پاس آیا،، جیسے یہی بات جاننا اس کے لئے بہت ضروری تھی


"اگر مجھے نکاح سے پہلے آپ کی ان گھٹیا حرکتوں کا علم ہوتا تو میں اسی وقت آپکا گھر چھوڑ کر کہیں دور چلی جاتی"

زینش بلال کو غصے میں دیکھتی ہوئی بولی ابھی بھی اس کی آواز کا ساؤنڈ کافی زیادہ تھا


وہ شکل سے بالکل ایسا نہیں لگتا تھا جیسا آج اسے معلوم ہوا تھا۔۔ آج صبح خوشی کی باتوں کو اس نے بکواس سمجھ کر اگنور کیا تھا مگر آمنہ کی باتیں سن کر اسے یقین ہوگیا تھا کہ اس کا شوہر کوئی بہت ہی زیادہ ٹھرکی اور بیہودہ انسان ہے۔۔۔ وہ یہ تک بھول چکی تھی کہ خوشی اور آمنہ دونوں ہی کل رات یہی سمجھ رہی تھی کہ وہ بلال کے ساتھ تھی بس اسے یہ یاد رہا کل رات بلال کے ساتھ کوئی لڑکی تھی جو اس فلیٹ میں آئی تھی


"یہ کام تم اب بھی کر سکتی ہوں گھر چھوڑ کر نہیں بلکہ دوسرے کمرے میں جاکر کیوکہ میرے سر میں پہلے ہی بہت درد ہو رہا تھا جو کہ تمہاری اس جاہلانہ گفتگو سے مزید بڑھ گیا ہے۔۔۔ نہ ہی مجھے تمہاری کوئی بات سمجھ میں آرہی ہے اور نہ ہی میں اس وقت مزید کوئی فضول بات سننے کے موڈ میں ہو۔۔۔ پلیز زینش اس وقت مزید میرے منہ لگنے کی بجائے اس کمرے سے چلی جاؤ"

زینش کی بد تمیزی برداشت کرتے کرتے بلال کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔۔ اس لیے اس نے زینش سے اپنے کمرے سے نکل جانے کے لیے کہا


دوسری طرف زینش کو جیسے بلال کی بات سے صدمہ ہی لگ گیا۔۔۔ کل ہی اس کا نکاح ہوا تھا اور آج ہی اسکے شوہر کو اس کی باتیں جاہلانہ محسوس ہورہی تھیں۔۔۔ وہ کتنے آرام سے اس کی انسلٹ کرتا ہوا اسے کمرے سے نکل جانے کے لیے کہہ رہا تھا۔ ۔۔۔۔ اور وہ خود کل ساری رات کیا کرتا رہا کسی دوسری لڑکی کے ساتھ۔۔۔ یقیناً ابھی بھی وہ یہی کچھ کر کے آ رہا تھا جبھی اسے اپنی نئی نویلی بیوی کا احساس تک نہیں تھا


"آپ بعد میں ذرا مجھے اپنے منہ لگانے آئیے گا ناں پھر میں آپ کو اچھی طرح بتاؤ گی کہ بد تمیزی ہوتی کیا ہے"

وہ بلال کو بولتی ہوئی زور سے کمرے کا دروازہ بند کرتی ہوئی باہر نکل گئی


جب بلال نے ولیمے والے دن اسے حسان کے ارادوں کے بارے میں بتایا تھا تب اس کا کہیں نہ کیہں حسان کے بارے میں بھی جان کر بری طرح دل ٹوٹا تھا۔۔۔ اور آج وہ خود اس کا شوہر بن کر کیا رہا تھا اس کے ساتھ۔۔۔ یہ دونوں بھائی اس لائق نہیں تھے کہ کوئی بھی لڑکی ان کی زندگی میں آتی


زینش اپنی آنکھوں میں آئے آنسو صاف کرتی ہوئی اپنی قسمت کے بارے میں سوچنے لگی مگر بھوک کے احساس نے اسے زیادہ دیر تک ایسا سوچنے نہیں دیا،، نصیب تو اس کا پھوٹ ہی چکا تھا اس لیے وہ فریج سے اپنے کھانے کے لئے کوئی چیز ڈھونڈنے لگی۔۔۔ یہاں پر بھلا کون تھا خوشی یا پھر شہنیلا جو اس کو بہلا کر خود سے نوالے بنا کر اس کے منہ میں ڈالتی۔۔۔ اس لیے فریزر سے اپنے لئے فرنچ فرائس کا پیکٹ نکال کر فرائس بنانے لگی کیونکہ اب اسے ڈنر کا تو دور دور تک کوئی پروگرام نہیں لگ رہا تھا


جبکہ دوسرے کمرے میں موجود بلال غصے میں ٹہلنے کے باوجود یہی سوچے جا رہا تھا کہ اسے زینش کو یوں اپنے بیڈروم سے نہیں نکالنا چاہیے تھا۔۔۔ اسے پورا یقین تھا کہ وہ دوسرے کمرے میں بیٹھی ہوئی اس وقت رو رہی ہوگی،، یہ سوچ بلال کو بے چین کرنے لگی اس لیے وہ زینش کو چپ کروانے اور منانے کی غرض سے بیڈروم سے باہر نکلا تو لاؤنچ میں ہی زینش کو دیکھ کر بلال کے قدم رک گئے۔۔۔ وہ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی ہوئی اپنے سامنے پلیٹ میں رکھے ہوئے فرنچ فرائس سے پورا پورا انصاف کر رہی تھی


زینش بلال کو دیکھ کر برا سا منہ بنا کر اگنور کرتی ہوئی، فرائس کو کیچپ میں ڈبو ڈبو کر کھانے لگی،، انداز اس کا ایسا کہ تم اب بھاڑ میں جاؤ۔۔۔ بلال اس کو گھورتا ہوا واپس کمرے میں جانے کی بجائے فلیٹ سے باہر نکلنے لگا۔۔ وہ واقعی آج کل کی لڑکی تھی بلاوجہ میں روگ پالنے کی بجائے اپنی بھوک کو پہلے ترجیح دینے والی


بلال نے سوچتے ہوئے باہر کا دروازہ کھولا تو آمنہ ایک دم گھبرا کر پیچھے ہوئی اور گھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے شرمندگی سے بلال کو دیکھنے لگی۔ ۔۔۔


اس کے شرمندہ ہونے سے بلال اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ دروازے سے کان لگا کر کافی دیر سے زینش اور اس کے بیچ لڑائی سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔۔۔ بلال اس عجیب سے خاتون کو گھورتا ہوا باہر نکل گیا


*****

تھوڑی دیر پہلے ہی وہ شاور لے کر نکلی تھی تو اس نے دیکھا معظم ابھی بھی گہری نیند میں سو رہا تھا۔۔۔ بیڈ پر بیڈ کر پری کو فیڈ کروانے کے بعد اسے واپس بےبی کاٹ میں لٹا کر وہ کچن میں آ گئی۔۔۔ تبھی اسے اپنے پیچھے آہٹ محسوس ہوئی پلٹ کر دیکھنے پر اسے معظم دکھائی دیا جو کہ اسے چاہت لٹاتی نظروں سے دیکھ رہا تھا معظم کے اس طرح دیکھنے سندیلا کے چہرے پر کہی خوبصورت رنگ بکھر گئے،، کل صبح وہ اپنے اور اسکے رشتے کو اصل مقام دے کر مزید مضبوط بنا چکا تھا۔۔۔ سندیلا کی قربت کا نشہ کل صبح سے ہی اس قدر سر چڑھ کر بول رہا تھا کہ وہ اس نشے میں ڈوبا ہوا کل سے اب تک گھر پر ہی موجود تھا۔۔۔ اس نے اپنے موبائل پر آتی ہوئی قاسم کی کال بھی ریسیو نہیں کی تھی،، ٹرک ابھی تک پولیس کے زیر حراست تھا۔۔۔۔ جس آدمی نے قاسم کو یہ کام سونپا تھا اسے کافی بڑا نقصان پہنچ چکا تھا


"جاگ گئے ہو تو شاور لے لو جا کر"

سندیلا معظم کے چہرے سے نظریں ہٹاتی ہوئی بولی،، کل صبح سے لے کر اب تک وہ معظم کے دیکھنے کے انداز پر اس سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی


معظم کی نیچر احتشام کے مقابلے میں بالکل مختلف تھی،، احتشام اپنے مطلب کا کام مکمل ہونے کے بعد دوسرے ہی منٹ سندیلا کو حقیقت کی دنیا سے روشناس کروانے کا عادی تھا۔۔۔ وہ خوبصورت لمحات گزرنے کے بعد،، سندیلا کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھنا تو دور بلکے کبھی کبھار سندیلا کے چاہت بھرے انداز پر اُسے بری طرح جھڑک دیتا


جبکہ معظم اسے کل صبح مان بخشنے کے بعد سے اب تک یہی احساس دلا رہا کہ سندیلا صرف اس کے لئے چند منٹ سکون پہچانے کا ذریعہ نہیں تھی اسکے لہجے، اسکے انداز،، اسکے ہر عمل سے سندیلا کے لیے مجبت چھلک رہی تھی


"میرے خیال میں آپ کو بھی اتنی جلدی شاور لینے کی ضروت نہیں تھی استانی جی، کیوں چلی آئیں آپ کچن میں،، پری کو تو اٹھنے میں ابھی ٹائم ہے ناں"

معظم سندیلا کے قریب آ کر اس کے گیلے بالوں میں انگلیاں پھیرتا ہوا بولا تو سندیلا اپنا رخ معظم کی طرف کرتی گھور کر اسے دیکھنے لگی مگر معظم کی نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ دوبارہ سے رخ پھیر کر چولہے کی آنچ ہلکی کرتی ہوئی معظم سے بولی


"میں کل سے تمہیں دیکھ رہی ہو تم کافی زیادہ بدتمیز ہو چکے ہو، اب شرافت سے کچن سے نکل کر خود بھی جاکر شاور لو"

وہ چولہے پر رکھی ہوئی پیاز میں چمچہ چلاتی ہوئی بولی۔۔۔۔ معظم نے چولہا بند کر کے سندیلا کا رخ اپنی طرف کیا


"کل سے آپ دیکھ ہی تو نہیں رہی ہیں میری طرف استانی جی اور آپ کا یہ مجھ سے نظریں چرانا مجھے بار بار بدتمیزی کرنے پر اکسا رہا ہے"

معظم سندیلا کو اپنے حصار میں لیتا ہوا اس سے بولا ایک بار پھر وہ سندیلا کے قریب آکر مدہوش ہونے لگا


"کیا کر رہے ہو،، یہ کچن ہے معظم"

اپنی گردن پر اس کو جھکتا ہوا دیکھ کر سندیلا اسے یاد دلانے لگی


"جو کررہا ہو اپنی خود کی بیوی کے ساتھ کر رہا ہو،،، کسی نوکرانی کے ساتھ نہیں۔۔۔ چلیں اچھا یہ بتائیں تھوڑی دیر پہلے پری کو فیڈ کرواتے وقت آپ دوسری طرف منہ کر کے کیوں بیٹھ گئی تھیں،، میں کون سا آپ کو دیکھ رہا تھا میں تو سو رہا تھا"

معظم سندیلا کی کمر پر گرفت سخت کرتا ہوا معصومیت سے بولا جس پر سندیلا افسوس سے اسے دیکھنے لگی


"بہت ہی کوئی پہنچی ہوئی چیز ہو تم،، سدھر جاؤ"

سندیلا اسے آنکھیں دکھاتی ہوئی بولی مگر وہ دوبارہ سندیلا کی گردن پر اپنے ہونٹ رکھتا ہوا کافی جزباتی ہوچکا تھا نشکل سے چند سیکنڈ ہی گزرے،، باہر کا دروازہ کھلنے کی آواز پر معظم کا سارا جوش مٹی ہوگیا


"بھابھی جی کہاں ہیں آپ،، آج پھر آگئے آپ کے شرافت بھائی"

پپو کی آواز سن کر معظم نے بہت برا سا منہ بنایا جبکہ سندیلا کو معظم کی شکل دیکھ کر ہنسی آگئی۔۔۔۔ وہ واپس چولہا جلاتی ہوئی اپنے کام میں مشغول ہو گئی


"ارے کیا بھیا جی آج آپ پھر کچن میں دکھ رہے ہیں امید ہے آپ نے ان دو دنوں میں تو مجھے یاد نہیں کیا ہوگا"

ہمیشہ کی طرح سندیلا سے سلام اور حال چال پوچھنے کے بعد پپو معظم سے پوچھنے لگا


"تجھے معلوم ہے پپو دن بہ دن تیری صورت کتنی بدصورت ہوتی جارہی ہے۔۔۔۔ اب تو نفرت کی محسوس ہو رہی ہے یار تجھ سے،، قسم سے بہت پچھتا رہا ہوں تجھے اپنے گھر کی چابی دے کر"

معظم پپو کی بات کو نظرانداز کر کے اس کی اچھی خاصی عزت افزائی کرکے بولا جس پر سندیلا معظم کو گھور کر دیکھنے لگی


"میں نوٹ کر رہا ہوں بھیا جی آپ اپنی شادی کے بعد اچھے خاصے بدلحاظ ہو چکے ہو مگر یہ معصوم پپو بھی آپ کے لئے ایک ڈھیٹ ہڈی ثابت ہوگا جسے نہ تو آپ اُگل سکتے ہو اور نہ ہی نگل سکتے ہو"

پپو معظم کے طنز کو نظرانداز کرتا ہوا فریج کھول کر، کل کا سالن نکالنے لگا کیونکہ اس وقت سندیلا کھانا تیار کر رہی تھی اس لحاظ سے ابھی کھانا تیار ہونے میں کافی وقت تھا


"شرافت بھائی آپ ان کی باتوں کو سیریس مت لیا کریں،، لائیے یہ سالن میں گرم کر دیتی ہوں"

سندیلا پپو سے بولتی ہوئی فریج سے آٹا نکالنے لگی۔۔۔ وہ پپو کو دیکھ کر اب اکثر معظم کو عزت سے آپ کہہ کر مخاطب کرنے لگی تھی


"استانی جی اسے تھوڑا بہت میری باتوں کو سیریس لینے دیا کریں۔۔۔ تاکہ اس کا خون جلتا رہے ورنہ جس حساب سے اس کی کھانے کی اسپیڈ ہوچکی ہے،، ممکن ہے کہ اس کا نام پپو سے تبدیل کر کے گپو رکھنا پڑے"

معظم ایک پلیٹ میں پپو سے کھانے کا ڈونگا لے کر اپنے کھانے کے لئے بھی سالن نکالنے لگا سندیلا نے دوسری بار معظم کو گھورا


"ارے رہنے دیں بھابھی جی، بھیا جی کی باتوں کا میں برا نہیں مانتا بلکہ ان کی ایسی باتوں سے میں دو کی بجائے چار روٹیاں کھالوں گا اور یہ آپ کو روٹیاں بنانے کی ضرورت نہیں ہے بس رات کے لیے مزیدار سا کھانا بنائے۔۔۔ روٹیاں میں باہر سے لے کر آتا ہوں"

پپو سندیلا کے ہاتھ سے آٹا لے کر واپس فریج میں رکھتا ہوا بولا


"گھوریں مت بھیا جی صرف اپنے لیے نہیں آپ کے لئے بھی روٹیاں لے آؤں گا"

پپو معظم کو بولتا ہوا باہر نکل گیا


"کتنی بری بات ہے معظم گھر آئے مہمان کو اس طرح بولا جاتا ہے حد ہے ویسے، تمہیں تو کوئی ساس ٹائپ کی ظالم خاتون ہونا چاہیے جو طعنے دے دے کر ہی اگلے کو شہید کردے"

پپو کے جاتے ہی سندیلا معظم سے بولی،، وہ جو شاور لینے کے ارادے سے جا رہا تھا سندیلا کی بات سن کر الٹا سندیلا کو گھور کر دیکھنے لگا


"خدا کا خوف کریں استانی جی کس صنف سے ملا رہی ہیں اپنے شوہر کو، کیا آپکو میں شوہر کے روپ میں اچھا نہیں لگ رہا اور ویسے بھی وہ دن تاریخ کے پنوں میں لکھا جائے گا جب پپو میری باتوں کو دل پر لینے لگ جائے گا اس کی پرواہ مت کیا کریں آپ جلدی سے کام ختم کریں مجھے لگ رہا ہے شاید پری جاگ گئی ہے"

معظم اس کو کھانا بنانے میں مگن دیکھ کر بولا ویسے ہی دروازے پر دستک ہونے لگی


"اب یہ کون آگیا یار"

معظم دروازہ کھولنے چلا گیا کیوکہ پپو دروازہ بجا کر نہیں آتا تھا


"آپ یہاں"

معظم نے دروازہ کھولتے ہی سامنے کھڑے شخص سے بولا جو آج سے پہلے کبھی اس کے گھر نہیں آیا تھا


"اتنے حیران کیوں ہو رہے ہو کیا مجھے اپنے گھر میں اندر آنے کی دعوت نہیں دو گے"

قاسم معظم کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا۔۔۔ قاسم کی بات سن کر معظم نے پلٹ کر کچن کے دروازے پر نظر ڈالی پھر بنا کچھ بولے قاسم کو اندر آنے کے غرض سے راستہ دیتا ہوا سامنے سے ہٹا تو قاسم اس کے گھر کے اندر آ گیا


"کہیے کیسے آنا ہوا آپ کا"

معظم قاسم کو ڈرائنیگ روم میں لے کر آیا،، قاسم کو صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہوا اس سے پوچھنے لگا


"تم شاید مجھے بھول گئے تھے تو سوچا میں تمہیں تمہارے گھر آکر یاد دلا دو کہ تمھارا ایک سیٹھ بھی ہوا کرتا ہے"

قاسم صوفے پر بیٹھتا ہوا معظم سے مخاطب ہوا


"ایسی بات نہیں ہے کہ میں آپ کو بھول گیا ہو یا نظر انداز کر رہا ہوں،، کال میں نے آپ کی اسی وجہ سے ریسیو نہیں کی کہ مکمل تفصیل سے میں خود آپ کے پاس آکر۔۔۔ آمنے سامنے بات کرنے کا ارادہ رکھتا تھا"

معظم قاسم کو بول رہا تھا مگر اس کا دھیان کچن میں کام کرتی ہوئی سندیلا کے ساتھ ساتھ پری پر بھی تھا وہ بیڈ روم میں اکیلی تھی اور جاگ چکی تھی سندیلا اگر بیڈروم میں نہیں جاتی تو تھوڑی دیر بعد پری کے رونے کی آواز آنے لگ جاتی


"تم اس قدر لاپروائی کا ثبوت دو گے یہ توقع نہیں کی تھی میں نے تم سے۔۔۔ کیا تمہاری اس لاپرواہی کے پیچھے تمہاری کوئی نئی دلچسپی تو نہیں،، ارے ہاں یاد آیا سننے میں آیا تھا کہ پچھلے دنوں تم نے شادی کرلی ہے فیملی والے ہوگئے ہو اب تم"

قاسم یاد کرتا ہوا معظم سے پوچھنے لگا اس کی بات سن کر معظم کی پیشانی پر بل ابھرا۔۔۔ اس کی شادی کی بات چھپی رہے یہ ناممکن تھا مگر وہ کسی بھی غیر مرد کے منہ سے ایسا کوئی بھی ذکر سننا پسند نہیں کرتا تھا جس میں سندیلا کا ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ ذکر شامل ہو


"ان سب باتوں سے میری فیملی کا کوئی لینا دینا نہیں ہے شادی کوئی انوکھا کام نہیں ہوتا ہے یہ سبھی کرتے ہیں آپ بھی شادی شدہ ہیں۔۔۔ اگر دو سالوں میں مجھ سے پہلی بار کوئی غلطی ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اس غلطی میں میری فیملی کو بھی انوالو کرلیا جائے"

معظم سمجھ چکا تھا کہ منشیات سے بھرا ہوا ٹرک اپنی منزل پر نہیں پہنچا جس کی وجہ سے ان لوگوں کو خاصا نقصان ہوا ہے اس لیے قاسم کا خاموش بیٹھنا ممکن نہیں تھا، قاسم کے یہاں آنے کا مقصد بھی یہی تھا۔۔۔ ابھی معظم کچھ اور بھی بولتا مگر قاسم کو غور سے دروازے کی طرف دیکھ کر معظم نے خود بھی مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا جہاں سندیلا ہاتھ میں ٹرے لیے کھڑی تھی


"جائیے یہاں سے"

معظم کو یوں سندیلا کا قاسم کے سامنے آنے پر سخت غصہ آیا وہ سندیلا کے ہاتھ سے ٹرے لے کر باقاعدہ اسے آنکھیں دکھاتا ہوا سخت لہجے میں بولا۔۔۔ آج ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اس نے سندیلا سے اس طرح بات کی تھی سندیلا اس کا لہجہ محسوس کرتی ہوئی وہاں سے بیڈروم میں چلی گئی


"فیملی کے نام پر تم کافی بھڑک گئے ہو معظم،، میری بھی فیملی ہے بیوی ہے بچے ہیں،، اپنی فیملی سے مجھے بھی پیار ہے بالکل ایسے ہی جیسے تمہیں اپنی فیملی سے پیار ہے مگر تم شاید یہ نہیں جانتے ہو جس کا وہ ٹرک تھا۔۔۔ اس کی فیملی نہیں ہے نہ ہی وہ کسی دوسری کی فیملی کی پرواہ کرے گا کیونکہ اس کا کڑوڑوں کا نقصان جو ہوا ہے"

قاسم ٹرے میں رکھا ہوا چائے کا کپ اٹھاتا ہوا معظم سے بولا تو معظم قاسم کو خاموشی سے دیکھنے لگا


"جانتے ہو منشیات سے بھرا ہوا ٹرک کس کا تھا۔۔۔ ندیم سومرو کا،، بالکل وہی ندیم سومرو جس نے اپنی بیوی کا بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔۔۔ اب اس کو خبر لگ چکی ہے کہ اس کا ٹرک پکڑا جا چکا ہے اس نے اپنے ٹرک کو آگے پہنچانے کا کام مجھے دیا تھا اور میں نے وہ ٹرک تم پر بھروسہ کر کے تمہیں سونپ دیا تھا۔۔۔۔ یوں سمجھ لو اس وقت میری اور تمہاری دونوں کی فیملی کی جان خطرے میں ہے،، ندیم سومرو مجھ سے غصے میں اس اناڑی ٹرک ڈرائیور کا نام اور پتہ پوچھ چکا ہے تو مجھے مجبوراً اپنی فیملی کو بچانے کے لیے تمہارا نام ایڈرس اسے بتانا پڑا"

قاسم چائے کے سپ بھرتا ہوا خود بھی افسوس کرتا ہوا معظم کو بتانے لگا


"صاف صاف بات کریں اب آگے کیا کرنا ہے"

معظم اس کے سامنے صوفے پر بیٹھ کر سگریٹ پیتا ہوا دو ٹوک لہجے میں قاسم سے پوچھنے لگا


"کیا کر سکتے ہو اب تم اپنی فیملی کو بچانے کے لئے،، سیدھی سی بات ہے بھئی اب تمہیں ندیم سومرو کا مرڈر کرنا پڑے گا"

قاسم چائے کا خالی کپ ٹیبل پر رکھتا ہوا اطمینان سے بولا۔۔۔ قاسم کی بات پر معظم کی نگاہیں ساتھ والے بیڈ روم کے دروازے پر گئی جہاں اسے سندیلا کا سایا دِکھا معظم نے اٹھ کر روم کا دروازہ بند کیا اور واپس آ کر بیٹھا تبھی قاسم نے دوبارہ اپنی بات کا سلسلہ جاری کیا۔۔۔


"اپنی اور میری فیملی کی جان بچانے کے لیے تمہیں ندیم سومرو کو اوپر پہچانا ہی ہوگا ورنہ اپنا اتنا بڑا نقصان وہ صرف ہم دونوں کی جان لے کر تو پورا نہیں کرے گا"

قاسم سنجیدگی سے معظم کو دیکھتا ہوا بولا۔۔۔۔ معظم کو اچھی طرح اندازہ تھا ندیم سومرو کے مرنے کی صورت قاسم سیٹھ کے اور بھی مفادات پورے ہونے تھے لیکن بات اب اس کی فیملی کی بھی تھی


"خاموش کیوں ہو،، پھر کیا سوچا ہے تم نے"

قاسم معظم کو خاموش دیکھ کر اس سے پوچھنے لگا


"اپنی فیملی کے لئے انسان بڑے سے بڑا خطرہ مول لیتا ہے،، اب کیا کیا جا سکتا ہے،، کام جلدی ہو جائے گا اطمینان رکھیے"

معظم گہری سوچ میں اسموکنگ کرتا ہوا بولا جس پر قاسم پرسکون ہوکر مسکرانے لگا


****


"کیا ضرورت تھی آپ کو وہاں کمرے میں آنے کی"

سندیلا پری کو ڈریس چینج کروا رہی تھی تب معظم کمرے میں آتا ہوا سندیلا سے بولا


تھوڑی دیر پہلے قاسم جا چکا تھا اور پپو بھی کھانا کھا کر ضروری کام سے نکل گیا تھا


"ایسے ہی منہ اٹھا کر تھوڑی آئی تھی تمہارا دوست آیا تھا اسے چائے دینے آئی تھی"

ایک تو سندیلا کو پہلے معظم کا لہجہ ہضم نہیں ہوا تھا اور وہ ابھی بھی کمرے میں آ کر لاتعداد بل ماتھے پر سجائے سندیلا سے سوال کر رہا تھا تبھی سندیلا اس کو دیکھتی ہوئی بولی


"میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ اس کے لئے چائے بنا کر لائے"

معظم مزید بگڑے موڈ سے بولتا ہوا پری کو سندیلا کی گود سے لے چکا تھا کیونکہ وہ معظم کے پاس آنے کے لئے اپنے ہاتھ اسکے آگے بڑھا رہی تھی


"شرافت بھائی بھی تو آتے ہیں ہمارے گھر، پھر اس میں منہ بگاڑنے والی کونسی بات ہے،، معظم اگر اب تم نے مجھ پر غصہ کیا ناں تو پھر میں سارا دن تم سے بات نہیں کروں گی بتا رہی ہو"

اب بھلا سندیلا کو کیا پتہ تھا کہ وہ اس کے چائے لانے پر اتنا برا مانے گا جبھی سندیلا اس کو دھمکی دیتی ہوئی بولی


"سندیلا آپ پپو کو اس سے ملا رہی ہیں، پپو کی الگ بات ہے یار۔۔۔ آئندہ گھر پر کوئی بھی آئے آپ کو کسی کے سامنے آنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ معلوم نہیں ہے آپ کو میرا کیسے لوگوں سے پالا پڑتا ہے"

سندیلا کا منہ بنا دیکھ کر اب کی بار معظم تھوڑا آرام سے اسے سمجھاتا ہوا بولا


"تو اس میں میری کیا غلطی ہے، تمہیں اپنی گیدرینگ ٹھیک رکھنا چاہیے۔۔۔ بلکہ الٹا تم مجھ پر غصہ ہو رہے ہو اب یہ مت بولنا کہ تمہیں غصہ نہیں آرہا مجھ پر"

وہ پری کے میلے کپڑے اٹھانے کے ساتھ، باقی کی چیزیں سمیٹنے لگی۔۔۔ اسے لگا اب اگر معظم نے اسے کچھ بھی بولا تو وہ رو دے گی۔۔۔ دوسرے کے برے سے برے رویہ وہ آرام سے برداشت کرتی آئی تھی مگر وہ اس شخص کی اپنی طرف اٹھتی سخت نگاہ بھی گنورا نہیں کر سکتی تھی


"اچھا یہاں آئیے میرے پاس"

معظم پری کو گود میں اٹھائے سندیلا کا چہرہ غور سے دیکھتا ہوا اب کی بار نرم لہجے میں اسے اپنے پاس بلانے لگا


"نہیں آرہی ابھی کام ہیں مجھے کافی"

سندیلا معظم کو کہتی ہوئی کمرے سے نکلنے لگی۔۔۔ تبھی معظم نے سندیلا کا راستہ روک کر بےحد نرمی سے اسے اپنے حصار میں لے لیا


"یار کسی غیر مرد کے سامنے آپ کو آنے سے منع کروں گا تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ میں آپ پر غصہ ہوں۔۔۔ غصہ نہیں کر رہا میں، بس یہی سمجھانا چاہ رہا ہوں آئندہ احتیاط کیجئے گا"

معظم کو لگا کہ وہ اپنے سخت رویہ سے اس کا دل دکھا چکا ہے تبھی نرمی سے سندیلا کو سمجھانے لگا


"پیار کرتے ہو مجھ سے"

سندیلا معظم کو نرم پڑتا دیکھ کر اس کے سینے سے سر ہٹاتی ہوئی پوچھنے لگی۔۔۔ پری معظم کی گود میں اپنی ماں اور باپ دونوں کو باتیں کرتا غور سے دیکھ رہی تھی


"یہ پوچھنے والی بات ہے آپ کو نہیں معلوم"

معظم اپنا ایک ہاتھ سندیلا کے گال پر رکھ کر گہری نگاہوں سے اس کا چہرا دیکھتا ہوا بولا تبھی سندیلا نے اس کی گود سے پری کو لے کر کارٹ میں بیھٹا دیا اور کارنر ٹیبل پر رکھا ہوا سوفٹ ٹوائے پری کے ہاتھ میں پکڑا دیا


"کیا کر رہی ہیں استاد جی ابھی مجھے اپنی گڑیا کے ساتھ وقت گزارنے دیں، آپ کو اپنے پیار کا ثبوت آج رات میں بھی دو گا ناں"

معظم کی بات سن کر سندیلا گھور کر اسے دیکھنے لگی


"فضول مت بولو، پری کو اس لیے بٹھایا ہے تاکہ تم میری بات غور سے سنو"

سندیلا نے معظم سے بولتے ہوئے اس کے دونوں ہاتھ تھام لئے جس پر معظم سنجیدہ ہو کر اس کے بولنے کا انتظار کرنے لگا


"معظم چھوڑ دو یہ کام، میری اور پری کی خاطر پلیز"

وہ معظم کی آنکھوں میں دیکھ کر فکرمند لہجے میں بولی جس پر معظم خاموشی سے سندیلا کو دیکھنے لگا پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھ سندیلا کے ہاتھوں سے نکال کر اس کا چہرہ تھاما


"ایسا ممکن نہیں ہے استانی جی، اگر میں نے یہ کام چھوڑنے کی کوشش کی تو یہ لوگ مجھے نہیں چھوڑیں گے۔۔۔ جو باتیں آپ کی سننے کی نہیں تھی آپ کو وہ نہیں سننا چاہیے تھی۔۔۔ اب بلاوجہ میں پریشان رہیں گی،، آپ اور پری دونوں میری فیملی ہی نہیں بلکہ میری زندگی بھی ہیں۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں، آپ پر یا پری پر کبھی بھی کوئی آنچ نہیں آنے دوں گا"

وہ جانتا تھا سندیلا قاسم اور اس کے درمیان ہونے والی گفتگو سن کر پریشان ہو گئی ہے اسی وجہ سے وہ اسے اطمینان دلانے لگا


"بات صرف میری یا پری کی نہیں ہے معظم، اگر خدانخواستہ کبھی تمہیں کچھ ہوگیا تو ہم دونوں کیا کریں گے یہ بھی تو سوچو"

وہ معظم کے دونوں ہاتھوں پر اپنے ہاتھوں کو رکھتی ہوئی دوبارہ فکرمند لہجے میں بولی۔۔۔ معظم نے سندیلا کو اپنے لیے فکرمند دیکھ کر اسکی پیشانی کو اپنے ہونٹوں سے چھوا


"مجھے آپ کی دعاؤں پر مکمل یقین ہے،،کچھ نہیں ہو گا مجھے۔۔۔ آپ بھی اپنی دعاؤں پر یقین رکھیں استانی جی"

معظم سندیلا کو دیکھتا ہوا اسے یقین دلا کر بولا


"تمہیں معلوم ہے معظم قتل گناہ کبیرہ کے زمرے میں آتا ہے"

سندیلا کی بات سن کر معظم خاموشی سے دیکھتا ہوا لمبا سانس منہ سے خارج کرتا ہوا بولا


"میں شاور لے لیتا ہوں اس کے بعد ہم دونوں کھانا کھائیں گے،، پھر میرا ٹائم میری بیٹی کے ساتھ گزرے گا تو آپ اپنے بکھرے ہوئے سب کام نمٹا لیے گا"

معظم سرے سے ہی اس کی بات کو نظر انداز کرتا ہوا سمٹے ہوئے کمرے کو دیکھ کر بولا


"تم کوئی بھی ایسا خطرناک کام نہیں کروں گے جس سے تمھاری جان کو خطرہ ہو یا پھر بعد میں تمہیں تمہارا ضمیر ملامت کرے اور کسی کا مرڈر کرنا جانتے ہو ناں"

سندیلا کی بات مکمل ہونے سے پہلے معظم نے اس کے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھ دی


"ششش۔۔۔۔ کسی کا مرڈر نہیں کر رہا ہوں میں،، اب مرڈر کا لفظ آپکی زبان پر دوبارہ نہیں آنا چاہیے۔۔۔ ٹھیک ہے"

معظم نے بہت طریقے اور پیار سے سندیلا کو سمجھایا تھا مگر سندیلا معظم کی آنکھیں دیکھ رہی تھی جو کہ اس وقت اسے وارننگ دے رہی تھی کہ وہ اب اس بات کا ذکر دوبارہ سندیلا کے منہ سے نہیں سننا چاہتا


"سندیلا کیا بول رہا ہوں میں،، ٹھیک ہے"

سندیلا کے خاموش رہنے پر معظم ایک بار بولا اب کی بار اس کا لہجہ سنجیدہ تھا تو اب کی بار سندیلا اثبات میں سر ہلانے لگی


"یہاں آئیں"

معظم اپنے بازو کھولتا ہوا اسے اپنے پاس بلانے لگا سندیلا کے قریب آنے پر وہ اسے حصار میں لے کر اپنے محبت بھرے لمس سے روشناس کراوتا ہوا شاور لینے چلا گیا


*****


"سمجھتی کیا ہو تم خود کو۔۔۔ اگر میں وہاں سے خاموشی سے چلا گیا تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ میں تمہیں چھوڑ دو گا۔۔۔ تمہیں دوبارہ میرے پاس آنا ہوگا،، صرف ایک بار تمہیں واپس اپنا بنالو پھر دیکھنا تمہارا کیا حشر کروں گا میں،، اب کی بار تو تمہیں صحیح اوقات میں رکھو گا"

احتشام کچن میں کھڑا کیٹل میں اپنے لئے چائے کا پانی رکھتا ہوا مسلسل بڑبڑا رہا تھا


اب اکیلے رہنے کی وجہ سے وہ اکثر خود سے ہی باتیں کرتا تھا۔۔۔ آج وہ آفس سے جلدی آگیا تھا کیونکہ نزہت بیگم کے ڈاکٹر نے اس سے نزہت کی طبیعت کے بارے میں ڈسکس کرنا تھا


کل ہی اس کے پاس فائقہ کی کال آئی تھی۔۔۔۔ وہ خود سے نکاح کرکے کافی زیادہ شرمندہ تھی اور احتشام سے معافی مانگ رہی تھی۔۔۔ فائقہ اس کی چھوٹی بہن تھی اور اسے عزیز تھی،، اس لئے وہ کب تک اپنی بہن سے ناراض رہتا،، احتشام اسے معاف کر چکا تھا۔۔۔ اسے غصہ صرف اسی وجہ سے تھا فائقہ نے ذیشان نامی جس لڑکے سے شادی کی تھی وہ کچھ فراڈ ٹائپ کا تھا ایسا احتشام نے ایک دو بندوں سے اس کے بارے میں سنا تھا


چائے میں ابال آچکا تھا اس سے پہلے وہ آنچ دھیمی کرتا دروازے پر ڈور بیل بجی تو احتشام دروازہ کھولنے چلا گیا


دروازے کا لاک کھولنے کی دیر تھی ایک دم دروازہ کھل کر احتشام کے منہ پر لگا معظم تیزی سے دروازے سے اندر آیا اور اندر سے دروازہ لاک کردیا۔۔۔۔ معظم کو دیکھ کر اس سے پہلے احتشام اندر کمرے کی طرف بھاگتا معظم نے اس پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش شروع کردی


"کیا سوچ کر میرے گھر کے اندر گھنسے کی ہمت کی تم نے جبکہ میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا تھا کہ ایسا کرنے پر میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں توڑ دوں گا"

5۔۔۔6 کرارے گھونسے،، دو سے تین زوردار لاتیں لگنے پر ہی احتشام ڈھیر ہو چکا تھا معظم اس کا گریبان پکڑا ہوا اسے اپنے سامنے کھڑا کر کے پوچھنے لگا


"چیٹنگ کی ہے تم نے میرے ساتھ۔۔۔ دھوکے سے میری بیوی کو اپنا بنا لیا تم نے،، سندیلا میری۔۔۔"

جملہ مکمل کرنے سے پہلے ہی معظم نے زوردار گھونسا احتشام کے منہ پر مارا۔ ۔۔۔ جس سے نہ صرف احتشام کا جبڑا ہل گیا بلکہ وہ دور جا گرا


"سندیلا کو دوبارہ اپنا کہنے کی غلطی اب بھولے سے بھی مت کرنا احتشام،، وہ میری عزت ہے۔۔۔ اگر تم نے اس کی طرف یا پھر پری کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو میں تمہاری آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند کردوں گا۔۔۔ میں نے سندیلا سے یہ نہیں پوچھا کہ تم نے میرے گھر پر آکر اسے کس طرح ڈرایا یا دھمکایا جو وہ پری کو لے کر آدھی رات کو اپنے ہی گھر سے بھاگی۔۔۔ یہ سب اگر میں ابھی تمہارے منہ سنو تو شاید جانے سے پہلے تمہاری موت کا سامان پیدا کرکے جاؤ لیکن تمہیں تمہاری اس کمینی حرکت کی سزا دیے بغیر میں یہاں سے نہیں جاؤں گا تاکہ تم دوبارہ ایسا کرنا تو دور سوچنے کی بھی ہمت نہ کرو"

معظم بولتا ہوا فرش پر گرے ہوئے احتشام کے پاس آیا جو منہ اور دانتوں سے نکلتا ہوا خون صاف کر رہا تھا


معظم کو اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھ کر احتشام ڈر کے مارے کچن کی طرف بھاگا جہاں اسے یاد آیا کہ ایک بڑی سے چھری شلف پر ہی رکھی ہوئی ہے،،، جسے وہ اپنی حفاظت کے لیے استعمال کر سکتا تھا۔۔۔ اسے کچن کی طرف بھاگتا ہوا دیکھ کر معظم بھی تیز قدم اٹھاتا ہوا کچن میں احتشام کے پیچھے آیا


"رک جا کمینے انسان ورنہ یہ چھری میں تیرے پیٹ میں گھسیڑ ڈالوں گا۔۔۔ تو اپنے آپ کو کوئی بہت بڑا بدمعاش سمجھتا ہے ناں۔۔۔ آ آگے اب اور کر کے دکھا مجھ پر حملہ اگر واقعی مرد ہے تو۔۔۔ سن لے تو یہ بات کان کھول کر،، سندیلا اور اپنی بیٹی کو میں واپس اس گھر میں لاؤں گا۔۔۔ بھاگ جا یہاں سے واپس ورنہ ابھی پولیس کو یہاں پر بلاتا ہوں"

چھری ہاتھ میں پکڑتے ہی احتشام میں انرجی آچکی تھی وہ اپنی طرف سے مکمل بہادری کا مظاہرہ کرتا ہوا بولا ساتھ ہی اس نے معظم کو ڈرانے کے لئے سے دھمکیاں بھی دے ڈالی۔۔۔ معظم احتشام کی باتیں سن کر آہستہ آہستہ احتشام کی طرف قدم بڑھانے لگا


"سمجھ میں نہیں آ رہا تجھے،، دیکھ معظم بھاک جا یہاں سے،، ورنہ تو جانتا نہیں ہے مجھے"

معظم کو اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھ کر احتشام چھری کا رخ اسکی طرف کیے اپنے قدم پیچھے کی طرف اٹھاتا ہوا بولا


"بچوں کی طرح روتے ہوئے مجھے پولیس کی دھمکی مت دو احتشام، اگر تم میں ہمت ہے تو یہ چھری میرے پیٹ کے اندر گھسیڑ کر دکھا میں آج واقعی تمہیں مرد تسلیم کر لوں گا"

معظم بولتا ہوا تیزی سے اس کے قریب آیا اس سے پہلے احتشام چھری سے اس کے اوپر وار کرتا معظم نے چولہے پر سے چائے کا بھرا ہوا کیٹل اٹھا کر،، کھینچ کر احتشام کے منہ پر دے مارا


"آآآآ"

گرما گرم چائے کے قہوے سے احتشام کا منہ بری طرح جل چکا تھا اور چھری بھی اس کے ہاتھ سے نیچے کر چکی تھی


وہ اپنے منہ پر دونوں ہاتھوں کو رکھتا ہوا بری طرح چیخ رہا تھا تب معظم نے ایک بار پھر مُکوں اور گھونسوں سے احتشام کی درکت بنانا شروع کردی


"بچاو کوئی تو مجھے بچاؤ۔۔۔۔ اس سالے نے میرا ہاتھ توڑ دیا"

احتشام فرش پر گرا ہوا اپنا ہاتھ پکڑ کر بری طرح درد سے کراہتا ہوا بولا جبکہ معظم کھڑکی پر ٹنگے ہوئے پردے میں موجود روڈ کو کھیچ کر اسکی ٹانگوں پر مارنے لگا۔۔۔۔ تکلیف کے مارے جب احتشام اٹھنے کی کوشش کرتا تو معظم روڈ کے ساتھ ساتھ اپنی لاتوں کا استعمال کرتا


"تمہیں پری قسم ہے مجھے چھوڑ دو خدا کے لیے"

احتشام کے منہ سے بے ساختہ یہ جملہ نکلا وہ تو اپنی بیٹی کا نام بھی نہیں جانتا تھا یہ بھی اس نے ابھی تھوڑی دیر پہلے معظم کے منہ سے سنا تھا مگر اس کے بولنے سے یہ اچھا ہوا کہ معظم کی چلتی ہوئی لاتوں سے وہ بچ گیا


"آج میں نے تمہارے اس گندے منہ سے اپنی بیوی اور بیٹی کا نام لیا ہے اور برداشت بھی کر لیا ہے لیکن آئندہ اگر تم نے ان دونوں کے بارے میں سوچا بھی تو میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں نہیں توڑوں گا بلکہ تمہاری یہ گردن توڑ ڈالوں گا"

معظم احتشام کا جھلسا ہوا چہرا دیکھ کر بولا اور ہاتھ میں موجود روڈ احتشام پر پھینکتا ہوا وہ اس کے گھر سے نکل گیا


ٹانگوں پر مسلسل پڑنے کی وجہ سے روڈ مُڑ کر اصل شیپ کھوچکی تھی جسے دیکھ کر احتشام کو اندازہ ہوا معظم اس کی کتنی بری طرح دھلائی کرچکا ہے۔۔۔۔ درد کے مارے احتشام دوبارہ کراہ نے لگا


*****

وہ ڈرائیونگ کرتا ہوا آفس سے گھر کے جانب آ رہا تھا تب اسے اپنی خفا خفا سی بیوی کا خیال آیا۔۔۔ جب کل وہ گھر سے باہر نکلا تو رات کا ڈنر اس نے باہر ہی کر لیا تھا۔۔۔ اسے زینش سے ہرگز بھی توقع نہیں تھی کہ وہ اس سے جھوٹے منہ کھانے کا بھی پوچھتی۔ ۔۔۔ ناراض ناراض سی فرائیز کھاتی ہوئی زینش کو یاد کر کے بلال کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی


وہ کل زینش کے لئے بھی کھانا پیک کروا کر لایا تھا مگر مزید اس کے نخرے اٹھانے کے موڈ میں نہیں تھا کہ خود اسے کھانا کھانے کے لئے بولتا،، کھانے کا پیکٹ ٹیبل پر رکھتا ہوا ہے وہ بیڈروم میں آ کر بیڈ پر لیٹ گیا تھا


سر درد اور تھکن کی وجہ سے تھوڑی دیر میں ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔۔۔ صبح آفس میں زیشن کی بات یاد آئی تو فوراً اس کا دماغ پرسوں رات والے واقع پر چلا گیا جب اس نے زینش کی ہم شکل لڑکی اور اس کی بیٹی کی جان بچائی تھی۔۔۔۔ مجبوری کے تحت وہ اسے اپنے فلیٹ لے کر آیا ہے


زینش کل غصے میں ایسی باتیں کر رہی تھی جسے کسی سے اس کا آفئیر ہوں جو زینش کو پتہ چل گیا ہو،، یقینا زینش کو پرسوں رات والے قصے کی کہیں سے سن گن مل گئی ہوگی جبھی اسکا بلال کے ساتھ ایسا ری ایکشن ہوا ہوگا، پھر جب اسے مجیب صاحب کی بیوی کی عجیب و غریب حرکت یاد آئی تب بلال کا ماتھا ٹھنکا


"بے وقوف لڑکی"

وہ زیر لب زینش کو بولتا ہوا سوچنے لگا کہ گھر جا کر وہ زینش کو ساری بات کلیئر کرے گا


*****


"ارے واہ تم تو کافی انٹرسٹنگ باتیں کرتے ہو"

بلال آفس سے واپس آیا تو اسے زینش کی چہکتی ہوئی آواز سنائی دی وہ سوچ میں پڑ گیا کہ اس کے گھر اس وقت کون آ سکتا ہے


"میرے پاس اپنے اسکول کے ایسے بہت سے انٹرسٹنگ اور فنی واقعات کا بنڈل ہے جن کو سن کر تم لازمی انجوائے کرو گی"

بلال اپنے بیڈ روم میں داخل ہوا تو اس نے مجیب صاحب کے بیٹے کو اپنے بیڈ روم میں بیٹھا ہوا دیکھا،، وہی بچہ جو کل اس کے سامنے اس کی بیوی کو ٹائیٹ کہہ رہا تھا،، آج وہی بچہ اسی کے بیڈ روم کے صوفے پر اسی کی بیوی کے ساتھ بیٹھا ہوا بے تکلفی سے باتیں کر رہا تھا


"تم یہاں کیا کر رہے ہو"

بلال کے کمرے میں آتے ہی وہ دونوں بلال کو دیکھنے لگے


جبھی بلال ماتھے پر بل لاتا ہوا اس بچے سے پوچھنے لگا جو اسے بچہ کم اور چھوٹے سائز کی بڑی مصیبت زیادہ لگا


"بلال یہ شیری ہے ہمارے سامنے والے فلیٹ میں ہی رہتا ہے"

اس کے بولنے سے پہلے زینش بلال کو دیکھتی ہوئی بتانے لگی


"اوہو زینش شیری تو میرا نک نیم ہے۔۔۔ یہ میں نے تمہیں اسلیے بتایا تھا کہ تم مجھے شیری کہو گی تو مجھے اچھا لگے گا"

وہ بچہ زینش سے بولتا ہوا اب بلال کو دیکھنے لگا


"میرا نام شہیر ہے،، اور مجھے اچھا لگے گا کہ تم مجھے میرے نام سے ہی پکارو۔۔۔ میں نے آج اسکول سے واپس آتے ہوئے اندازہ لگایا کہ تم آفس میں ہوگے اور زینش اکیلی بور ہو رہی ہوگی،،، اس لئے میں اس کو کمپنی دینے آگیا امید ہے کہ تم نے یہاں میرا آنا مائنڈ نہیں کیا ہوگا"

شہیر بلال سے مخاطب تھا جبکہ زینش نے ایک نظر شہیر کو دوسری نظر بلال کے تنے ہوئے نقوش پر ڈالی جس سے وہ اندازہ لگا سکتی کہ بلال کو شہیر کا بے تکلف انداز کچھ زیادہ پسند نہیں آیا


"یہ زینش زینش کیا لگا رکھا ہے تم نے،، یہ تم سے کافی بڑی ہے، اسے آپی یا باجی کہہ کر پکارو۔۔۔ لگتا ہے تمہاری اسکول میں بڑوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں سکھائی جاتی"

بلال کو شہیر کا فری ہونے والا انداز ایک آنکھ نہیں بھایا تھا تبھی اس نے شہیر کو بولنے کے ساتھ ساتھ زینش کو صوفے سے اٹھنے کا اشارہ کیا جو کہ شہیر کے برابر میں بیٹھی تھی۔۔۔ بلال زینش کی جگہ پر بیٹھ کر اپنے شوز اترنے لگا


"واٹ، آپی یا باجی۔۔۔ مگر یہ تو میری فرینڈ ہے اسے میں آپی یا باجی نہیں بول سکتا۔۔۔ ہاں اگر تمہیں میرا بڑوں کا نام لینا پسند نہیں ہے تو میں تمہیں بھائی انکل کہہ لوں گا۔۔۔ بھائی نہیں،، میرے خیال میں تم پر انکل زیادہ سوٹ کرے گا"

شہیر کی بات سن کر جہاں زینش نے اپنی ہنسی کنٹرول کی جو کہ بلال کی شکل دیکھتے ہوئے ایک مشکل کام تھا وہی بلال نے کھا جانے والی نظروں سے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے اس چھوٹے سائز کی بڑی مصیبت کو دیکھا


"تمہیں مجھے بھائی انکل کہہ کر پکارنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ مجھے بلاوجہ کے رشتے بنانے میں نہ ہی کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی مجھے کسی کا بلاوجہ فری ہونا پسند ہے۔۔۔ ویسے تمہیں نہیں لگ رہا کے تمہارے پیرنٹس اب تمہیں یاد کر رہے ہوں گے اور تمہیں فوراً اپنے گھر جانا چاہیئے کیونکہ دوسروں کے گھر آکر اتنے ہی وقت کے لیے بیٹھا جاتا ہے"

بلال زینش کے گھورنے کی پرواہ کیے بنا شہیر کو بولتا ہوا صوفے سے اٹھ کر وارڈروب سے اپنے کپڑے نکالنے لگا


"اوہو مسٹر بلال تمہیں یہ کیوں فیل ہو رہا ہے کہ میں یہاں پر تم سے کوئی رشتہ بنانے آیا ہوں میں یہاں پر صرف زینش کے لئے آیا ہوں اور رہی بات میرے پیرنٹس کی،، تو وہ مجھے کبھی یاد نہیں کر سکتے انفیکٹ جب میں اپنے گھر پر موجود نہیں ہوتا تو وہ دونوں میری غیر موجوگی پر شکر ادا کرتے ہوں گے"

شہیر بلال سے بولتا ہوا مزید ریلیکس انداز میں صوفے پر بیٹھ گیا جیسے اس کا یہاں سے ٹلنے کا کوئی خاص پروگرام نہیں تھا،، اس کے اسٹائل پر زینش کو ہنسی آنے لگی جبکہ بلال ہاتھ میں پکڑے ہوئے کپڑے بیڈ پر رکھتا ہوا شہیر کے پاس آیا


"میرے خیال میں اب تمہیں ہمہیں بھی موقع دینا چاہیے کہ ہم دونوں بھی خدا کا شکر ادا کریں"

بلال ساری شرافت ایک طرف رکھتا ہوا بےمروتی سے شہیر کو دیکھ کر بولا


"بلال"

زینش کے ٹوکنے والے انداز پر بلال نے اسے اشارے سے خاموش رہنے کو کہا پھر دوبارہ شہر کو دیکھنے لگا


"تو پھر کیا میں یہ سمجھوں کہ تم مجھے اپنے فلیٹ سے نکل جانے کے لئے کہہ رہے ہو"

شہیر صوفے سے اٹھ کر بلال کے سامنے کھڑا ہوتا ہوا اس سے پوچھنے لگا


"تم اپنی عمر کے حساب سے کافی سمجھدار ہو بچے"

بلال ذرا سا جھک کر اس چھوٹے سائز کی بڑی مصیبت کو دیکھ کر بولا۔۔۔ انداز بلال کا ابھی بھی سنجیدہ تھا جس پر شہیر نے مصنوعی آہ بھری


"ٹھیک ہے اگر تم ایسا ہی چاہتے ہو تو میں چلا جاتا ہوں لیکن میں کل پھر آؤں گا زینش سے ملنے،، اوکے زیبش اب مجھے اجازت دو"

شہیر بولتا ہوا اس کے فلیٹ سے چلا گیا جبکہ زینش ابھی بھی مسکراتی ہوئی اس چھوٹے سے بچے کو سوچ رہی تھی


"تم یہاں کھڑی ہو کر مسکراتی رہو گی یا مجھ سے پانی کا بھی پوچھوں گی"

بلال زینش کو ٹوکتا ہوا بولا


"اگر آپ کو پیاس لگی ہے تو مجھے الہام نہیں ہوگا"

زینش اپنے لب سکھیڑتی ہوئی سیریس ہو کر بولی اسے یاد آیا کل اسے بلال نے اس کمرے سے جانے کے لیے کہا تھا زینش کمرے سے نکلنے لگی


"میرے خیال میں جب شوہر باہر سے آئے تو اخلاقاً بیویاں اپنے شوہر سے ایسا پوچھتی ہیں"

بلال اپنی شرٹ اتارتا ہوا زینش کو جتانے والے انداز میں بولا۔۔۔ بلال کو پہلی دفعہ ایسے بغیر شرٹ کے دیکھ کر زینش ایک دم جھجھکی پھر اپنی جھجھک مٹاتی ہوئی بلال کے پاس آئی


"کیوں اس دس بچوں کی اماں نے آپ کو پانی پلا کر نہیں رخصت کیا اپنے گھر سے"

زینش گہرا طنز کرتی ہوئی واپس جانے لگی تبھی بلال نے اس کا ہاتھ پکڑا اور زینش کا رخ اپنی طرف کیا


"وہ دس بچوں کی اماں نہیں صرف ایک ہی بیٹی تھی اس کی"

بلال نے بہت سنجیدگی سے اس کی معلومات میں اضافہ کیا جس پر زینش بلال کا ہاتھ زور سے جھٹک کر اس کو گھورتی ہوئی کمرے سے نکل گئی بلال اپنی مسکراہٹ ضبط کرتا ہوا کپڑے لے کر واش روم میں چلا گیا


*****


"یہاں کیوں لیٹ گئی ہو،، آ کر بیڈ روم میں لیٹو"

بلال ڈنر سے فارغ ہوکر کافی دیر سے اسپورٹس چینل دیکھ رہا تھا،، سونے کے غرض سے بیڈ روم میں آیا تو زینش کو وہاں موجود نہ پا کر دوسرے بیڈروم میں چلا آیا جہاں وہ سنگل بیڈ پر مزے سے لیٹی ہوئی تھی


"یہ بھی بیڈ روم ہی ہے"

وہ تھوڑی دیر پہلے شہنیلا سے بات کرنے کے بعد سونے کی غرض سے لیٹی تھی، تبھی بلال سے کہتی ہوئی بیڈ سے اٹھ کر بیٹھ گئی


"مجھے معلوم ہے یہ بھی بیڈروم ہے مگر ہم دونوں کو بیڈروم یہ والا نہیں ہے۔۔شاباش جلدی سے اپنے بیڈ روم میں آ جاؤ"

بلال اس کو بیڈروم میں آنے کا کہہ کر خود بھی بیڈروم میں جانے لگا


"شاید آپ بھول چکے ہیں میں کل بھی یہاں اسی روم میں سوئی تھی"

زینش کی آواز پر بلال کے قدم رکے وہ مڑ کر زینش کو دیکھنے لگا جو کہ ابھی بھی بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی شاید اس کا آج بھی اسی بیڈ روم میں سونے کا موڈ تھا،، جبھی بلال اس کے پاس آیا


"کل تم اس روم میں اس لیے سو گئی تھی کیونکہ کل میری جلدی آنکھ لگ گئی تھی لیکن آج ایسا ہرگز نہیں ہوگا"

بلال نے پاس آکر جتانے والے انداز میں اسے بولا


"مگر میں یہاں زیادہ کمفرٹیبل ہو"

زینش کا کوئی ارادہ نہیں تھا اس چیٹر بندے کے ساتھ ایک بیڈ پر سونے کا اس لیے وہ بولتی ہوئی بیڈ پر لیٹنے لگی،،، بلال نے اس کو لیٹتا ہوا دیکھ کر اپنے بازوؤں میں اٹھا لیا


"یہ کیا کر رہے ہیں آپ،، ہوش میں تو ہیں۔۔۔ مجھے نیچے اتاریں پلیز"

وہ بلال کی شرٹ کو سختی سے پکڑ کر اپنے دونوں پیر چلاتی ہوئی بولی۔۔۔ مگر بلال اس کی بات سنے بغیر اسے بیڈ روم میں لے کر آ گیا اور اسے بیڈ پر لٹانے کے بعد بیڈروم کا دروازہ بند کرکے دوبارہ اس کے پاس آکر بولا


"لیکن اگر تم وہاں سو گئیں تو میں یہاں اکیلا ہرگز کمفرٹیبل نہیں سو پاؤں گا"

وہ جذبے لٹاتی ہوئی نظروں سے زینش کو دیکھتا ہوا بولا جسے اگنور کر کے زینش فوراً بولی


"صرف ایک شرط پر میں یہاں پر سوؤں گی بلال،، کہ آپ مجھے بالکل بھی ڈسٹرب نہیں کریں گے"

زینش نے ایک نظر کمرے کے بند دروازے پر ڈالی اور بلال کو تنبہیہ کرتی ہوئی بولی جس پر بلال اپنے ہونٹوں پر آئی مسکراہٹ چھپا گیا


"تم کیا ایکسپیکٹ کر رہی ہو مجھ سے، یعنیٰ میں تمہیں کس طریقے سے ڈسٹرب کرسکتا ہو۔۔۔ مطلب کیا چل رہا ہے تمہارے دماغ میں شیئر تو کرو مجھ سے تاکہ مجھے بھی اندازہ ہو"

بلال بولتا ہوں اپنی ٹی شرٹ اتار کر اس کے قریب بیڈ پر آ کر بیٹھا تو زینش ایک دم بدک کر بیڈ سے پیچھے ہوئی


"آپ جیسے دکھتے ہیں ویسے بالکل بھی نہیں ہیں بہت گھُنے، میسنے اور شاطر ٹائپ کے انسان ہیں۔۔۔ آآآ مجھے چھوڑیں بلال"

زینش جو اسے بول رہی تھی اسی دوران بلال نے زینش کو اپنی طرف کھینچا جس پر وہ بلال کی گرفت میں مچلتی ہوئی بولی


"شش چپ رہو،، ابھی کچھ نہیں کر رہا بالکل خاموشی سے میری بات سن لو"

بلال کی بات سن کر اس نے اپنے ہاتھ چلانا بند کیے اور ساتھی ہی شور مچانا بھی بند کر دیا۔۔۔ زینش کو خاموش دیکھ کر بلال اس کو اپنی گرفت سے آزاد کرتا ہوا پرسوں رات کی مکمل اسٹوری سنانے لگا


"ایسے کیسے ہو سکتا ہے بھلا کہ کوئی لڑکی مجھ سے اتنی زیادہ ملتی ہو،، کہ سب اسے زینش سمجھنے لگ جائیں۔۔۔ جبکہ میری تو کوئی جڑواں بہن بھی بچپن میں نہیں کھوئی تھی"

ساری بات کلیئر ہو چکی تھی۔۔۔ زینش آمنہ اور خوشی کی باتوں کو سوچتی ہوئی بولی تو بلال اس کے چہرے پر خفگی کے اثرات زائل ہوتا دیکھ کر شکر ادا کرنے لگا


"ہم شکل ہونے کے لئے بہن یا بھائی ہونا لازمی نہیں ہوتا"

بلال اپنائیت سے اس کا ہاتھ تھامتا ہوا بولا


"یہ بات مانی جا سکتی ہے آپ کی۔۔۔ کیا آپ میرے کل کے رویے کی وجہ نہیں پوچھیں گے مطلب کس کے کہنے پر مجھے آپ پر شک ہوا"

زینش بلال کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی


"نہیں،، میں تم سے صرف یہ پوچھوں گا تمھیں اب تو مجھ پر شک نہیں ہے"

بلال اس کا ہاتھ پکڑے جبکہ اپنا دوسرا ہاتھ اس کے گال پر رکھتا ہوا پوچھنے لگا


"شک تو نہیں ہے البتہ شکایت ابھی بھی آپ سے اپنی جگہ برقرار ہے۔۔۔ اچھا نہیں کیا آپ نے یوں ماما کے ساتھ مل کر،، زبردستی کی ہے آپ دونوں نے مجھ سے"

یقینا وہ بلال سے نکاح والی بات پر شکوہ کر رہی تھی تبھی اس نے بلال سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر بلال کا ہاتھ اپنے گال سے بھی ہٹا دیا


"تمہیں اپنا بنانا تھا ہر قیمت پر، اسی لیے زبردستی کی۔۔۔ ویسے تم کبھی نہیں مانتی۔۔۔ لیکن آج رات میں تمہاری ساری شکایتں دور کر دوں گا"

بلال نے بولتے ہوئے زینش کو دونوں شانوں سے تھام کر بیڈ پر لٹایا اور اس پر جھک گیا


"یہ اچانک سے آپ کو کیا ہو گیا ہے بلال۔۔۔ کیا کر رہے ہیں آپ پیچھے ہٹیں"


اپنی گردن پر بلال کی گرم سانسوں کا لمس محسوس کرتی ہوئی زینش اس سے بولی مگر وہ اس کی بات سننے کی بجائے زینش کی شرٹ کی زپ کھولنے لگا۔ ۔۔۔۔ زینش اس کی حرکت پر مزید بوکھلا گئی،،، مگر بلال کو شاید اس کی آواز نہیں آرہی تھی یا پھر وہ زینش کی سننے کے موڈ میں نہیں تھا تبھی زینش کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر اس کا منہ بند کر چکا تھا۔۔۔ وہ زینش کی گردن اور شانوں کو اپنے محبت بھرے لمس سے مہکا رہا تھا تب زینش نے اسے پیچھے دھکیلا


"کیا مسئلہ ہوگیا اب زینش تمہارے ساتھ"

بلال کو اس طرح زینش کے پیچھے ہٹانا پسند نہیں آیا تھا تبھی وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور بگڑے ہوئے موڈ کے ساتھ اس سے پوچھنے لگا


"آپ کے ساتھ کیا مسئلہ ہوگیا جو آپ اس طرح کر رہے ہیں"

وہ خود ہی اٹھ کر بیٹھ چکی تھی اور اپنی شرٹ شولڈر کے اوپر کرنے لگی


"میرا اس وقت کوئی فضول گوئی کرنے کا موڈ نہیں ہے زینش"

بلال اسے تنبہیہ کرتا ہوا بولا تو زینش بیڈ سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی


"فضول گوئی کرنے کا موڈ نہیں ہے تو پھر فضول حرکتیں بھی مت کریں۔۔۔ میں اسی شرط پر اس روم میں سوؤں گی جب آپ مجھے سکون سے سونے دیں گے،، آپ مجھے ڈسٹرب کر رہے ہیں بلال"

زینش کی بات سن کر بلال کا خراب موڈ اب غصے میں تبدیل ہو چکا تھا وہ خود بھی بیڈ سے اٹھ کھڑا ہو گیا


"کیا وجہ ہے تمہارے اس طرح کے ری ایکٹ کرنے کی۔۔۔ آخر کس وجہ سے یوں ایوائڈ کر رہی ہوں اب جب سب کچھ کلیئر ہو چکا ہے جواب دو مجھے"

بلال زینش کی دونوں کلائیوں کو سختی سے پکڑ کر اسے پوچھنے لگا۔۔۔ زینش نے بلال سے اپنی کلائیاں چھڑوانے کی کوشش کی،، مگر بلال نے مضبوطی سے اسکی دونوں کلائیوں پکڑا ہوا تھا وہ غصے میں زینش کو دیکھ رہا تھا


"نکاح والے دن مجھے زبردستی چوڑیاں پہناتے ہوئے آپ نے خود مجھ سے کہا تھا اس کے بعد آپ مجھ سے کوئی ڈیمانڈ نہیں کریں گے"

زینش اسے نکاح والے دن کی بات یاد کرواتی ہوئی بولی جس پر بلال کا مزید پارہ ہائی ہوا


"کچھ لوگ ہوتے ہیں جو محبت کرنے کے قابل نہیں ہوتے تم بھی اس قابل نہیں ہو کہ تم سے محبت کی جائے"

وہ غصے میں بولتا ہوا زینش کو بیڈ پر دھکا دے کر اپنی شرٹ بیڈ سے اٹھاتا ہوا بیڈ روم سے باہر نکل گیا


*****


"خدا غارت کرے ایسے کمینے انسان کو جس نے میرے معصوم بھائی کا ہاتھ توڑ دیا۔۔۔۔ اللہ اس کے دونوں ہاتھ توڑ دے،، زندگی بھر کے لئے وہ معذور ہو جائے منحوس آدمی"

ہاتھ کی ہڈی پر بال پڑنے کی وجہ سے احتشام کے ہاتھ پر کچا پلسٹر چڑھا ہوا تھا،، ٹانگیں پر پڑے ہوئے نیل اور سوجھا ہوا منہ دیکھ کر فائقہ مسلسل اپنے بھائی کا حشر بگاڑنے والے کو دوائیاں دے رہی تھی اور گالیوں سے نواز رہی تھی۔۔۔ فائقہ کا شوہر ذیشان اسے چند دنوں کے لیے ضروری کام کا کہہ کر،، احتشام کے پاس چھوڑ کر چلا گیا تھا


"ایسے لوگوں کو بد دعائیں اثر نہیں کرتی ہیں فائقہ،، اب مجھے کوئی بہت بڑا قدم اٹھانا پڑے گا۔۔۔ وہ سالا میری بیوی اور بچی کو،، اپنی بیوی اور بچی سمجھ بیٹھا ہے۔۔۔ تباہ و برباد کر دوں گا اسے۔۔۔ چھین لونگا میں اس سے واپس اپنی بیوی اور بچی کو"

احتشام شدید تکلیف کے عالم میں انتقام کی آگ میں جلتا ہوا بولا


"بڑی بڑی ناقدری عورتیں دیکھی ہیں میں نے لیکن سندیلا بھابھی جیسی ناشکری بندی آج تک نہیں دیکھی۔ ۔۔ یہاں پہلا شوہر انہیں حاصل کرنے کے لیے تڑپ رہا ہے،، مرے جارہا ہے اور ان مہارانی کے مزاج ہی نہیں مل رہے ہیں۔۔۔ بھائی میں تو کہتی ہوں آپ اپنی بچی کو اٹھا کر لے آئے،، یہ عورت خود اس غنڈے کو چھوڑ کر آپ کے پاس واپس آنے پر مجبور ہو جائے گی دیکھ لینا آپ"

فائقہ سے احتشام کی ٹوٹی پھوٹی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی وہ احتشام کو اپنی طرف سے بہترین مشورہ دیتی ہوئی بولی


"کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا یونہی ہاتھ پر ہاتھ رکھے تھوڑی بیٹھو گا۔۔۔ اس کمینے انسان نے دھوکے دے کر چھینا ہے مجھ سے سندیلا کو۔۔۔ اب ایسی چال چلو گا کہ ہاتھ ملتا رہ جائے گا۔۔۔ اتنے آرام سے تو میں ہار بالکل نہیں مانو گا"

احتشام نفرت اور غصے سے بولا

*****

شام ڈھلتے ہی جب وہ گھر میں داخل ہوا تو اسے سامنے صحن میں محلے کی خاتون اپنی 12 سالہ بیٹی کے ساتھ دکھائی دیں، دونوں ماں بیٹی صحن میں رکھی ہوئی کرسیوں پر براجمان تھیں۔۔ سندیلا پری کو گود میں لیے تخت پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ معظم سندیلا پر سنجیدہ نظر ڈال کر اندر کمرے میں چلا گیا


"سندیلا"

اپنے نام کی پکار پر سندیلا کو اٹھ کر کمرے میں جانا پڑا۔۔۔ سندیلا معظم کے دیکھنے کے انداز سے اندازہ لگا چکی تھی کہ اس کا موڈ خوشگوار نہیں ہے


"کیا تماشا لگا رکھا ہے یار گھر میں۔۔۔ کیو آنے دیا آپ نے ان لوگوں کو گھر کے اندر"

سندیلا پری کو گود میں اٹھائے کمرے میں داخل ہوئی تو معظم اس کو دیکھتا ہوا سنجیدہ انداز میں بولا جبکہ اس کے ہاتھ میں وہ شاپر ابھی تک موجود تھا جو وہ باہر سے لے کر آیا تھا


"توبہ ہے معظم آئستہ تو بولو،، باہر آواز گئی ہوگی تمہاری۔۔۔ یہ خاتون ہمارے محلے میں ہی رہتی ہیں اگر وہ گھر میں آنا چاہے گا، تو کیا میں منہ سے منع کرو گی ان کو، حد کرتے ہو تم بھی اور یہ ہاتھ میں کیا ہے تمہارے"

سندیلا آئستہ آواز میں اس کی طبیعت صاف کرتی ہوئی بولی


"منہ سے نہیں تو اور کہاں سے منع کیا جاتا ہے۔۔۔۔ ہاتھ میں کچھ نہیں ہے،،، یار یہ لوگ آئی کیوں ہیں یہاں ہمارے گھر"

معظم ہاتھ میں پکڑا ہوا شاپر الماری کھول کر اپنے تہہ شدہ کپڑوں کے نیچے دباتا ہوا بولا اور جھنجھلا کر ایک بار پھر سندیلا سے ان دونوں کے آنے کی وجہ پوچھنے لگا جبکہ پری سندیلا کی گود میں، معظم کو دیکھ کر اس کے پاس آنے کے لیے ہمکنے لگی


"وہ خاتون چاہ رہی ہیں کہ میں ان کی بیٹی کو تھوڑا بہت پڑھا دیا کرو،، حساب تھوڑا ویک ہے اس بچی کا۔۔۔ تو میں نے سوچا شام میں تو میں ویسے بھی فری ہوتی ہو کیوں نہ۔۔۔۔

ابھی سندیلا اپنے ارادہ معظم پر ظاہر کرنے لگی تھی کہ معظم بیچ میں بول پڑا


"کوئی ضرورت نہیں ہے گھر کو سکول بنانے کی،، صاف منع کردیں پرائیویسی بھی کوئی چیز ہوتی ہے یار۔۔۔ یہ کیا بندہ گھر میں آئے تو کوئی نہ کوئی گھر میں پہلے سے حاضر ہو"

وہ سندیلا کو بولتا ہوا واش روم چلا گیا اور بیسن میں ہاتھ منہ دھونے لگا۔۔۔ پری ابھی بھی اس کے پاس آنے کے لیے بےچین تھی اس سے پہلے وہ روتی معظم نے کمرے میں آکر اسے سندیلا کی گود سے لے لیا۔۔۔ سندیلا خاموشی سے معظم کی بدتمیزی پر اس کو گھور رہی تھی کیونکہ وہ جان بوجھ کر تیز آواز میں بول رہا تھا تاکہ کمرے سے باہر آواز جائے


"علم و ادب سے تم دور رہے ہو جبھی اتنے بدتہذیب ہوگئے ہو گھر میں پرائیویسی رکھ کر کیا پورے گھر میں ڈسکو کرنا ہے تمہیں"

سندیلا نے غصے کے باوجود آئستہ آواز میں اس کو گھرکا مگر وہ سندیلا کی بات پر توجہ دیے بغیر پری کے دونوں گالوں پر پیار کرنے لگا۔۔۔۔ کیونکہ پری کے چہرے کے تاثرات سے معظم جان چکا تھا وہ اس کو دیر سے گود لینے پر معظم پر غصہ ہے


"یعنی آپ ان لوگوں کو یہاں سے جانے کا نہیں بولے گیں، ٹھیک ہے یہ نیک کام میں خود ہی کر دیتا ہوں"

سندیلا کو غصے میں کھڑا دیکھ کر معظم بھی سنجیدگی سے اس سے بولا سندیلا پیر پر پٹختی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی


"My darling is still angry"


سندیلا کو کمرے سے معظم کی آواز آئی یقیناً وہ پری سے مخاطب تھا


"یہ نہیں بندہ عزت والے کام ہی کرلے پڑھے لکھ کر بھی موالی بننے کا شوق چڑھا ہوا ہے"

سندیلا بڑبڑاتی ہوئی صحن میں آئی۔۔۔۔ جہاں خالی کرسیاں موجود تھی،، اس کو معظم کی بدتمیزی پر مزید غصہ آیا


پہلی بار اس کے پاس یہاں گھر میں کوئی خاتون آئی تھی کتنی عزت سے وہ بیچاری بات کر رہی تھیں اور معظم نے بداخلاقی دکھاتے ہوئے انہیں کس طرح چلتا کیا تھا


"کیا ہوا چلی گئیں دونوں ماں بیٹی"

معظم پری کو گود میں اٹھائے ڈرائنگ روم میں آیا اور صوفے پر بیٹھ کر پری کو اپنی گود میں بٹھاتا ہوا سندیلا سے پوچھنے لگا جو منہ پھلائے صوفے پر ہی بیٹھی تھی


"تو کیا وہ ماں بیٹی تمہیں پاگل نظر آرہی تھی، جو مفت کی بےعزتی برداشت کر کے یہاں بیٹھی رہتی"

معظم کے بولنے پر سندیلا اس کو گھورتی ہوئی بولی


"تو آپ یہاں پر کس خوشی میں بیٹھ گئی ہیں جائیں کچھ کام وغیرہ کر لیں"

معظم پری کا ننھا سا ہاتھ اپنی داڑھی سے ہٹاتا ہوا بولا جو کہ اس کی گود میں بیٹھی ہوئی داڑھی کے بال کھینچنے میں مصروف تھی


"میں تمہیں یہاں بیٹھی ہوئی بری لگ رہی ہو کیا،، جو چلی جاؤ یہاں سے"

معظم کی بات سن کر سندیلا تپ کر اس سے پوچھنے لگی


"ہاں اس وقت فارغ بیٹھی ہوئی بری لگ رہی ہیں،، جائیں میرے لیے کھانا لے کر آئیں"

معظم اب کی بار پری کا تھوک والا ہاتھ اپنے گال سے ہٹاتا ہوا سندیلا سے بولا کیونکہ اب اس کی بیٹی اس کی توجہ چاہتی تھی


سندیلا معظم سے کچھ بولے بغیر ہی کچن میں جانے کے لیے اٹھ گئی کیونکہ وہ صبح سے گھر سے نکلا ہوا تھا ناشتہ بھی اس نے برائے نام کیا تھا،، واقعی اس وقت اسکو بھوک لگی ہوگی


"پری اب بالکل بدتمیزی نہیں ہونی چاہیے۔۔۔ معلوم نہیں تمہارے بابا نے کونسی عجیب عادتیں ڈال دی ہیں ٹکریں مارنے کی"

سندیلا کچن میں جانے لگی تو اس نے پری کو معظم کے سینے پر سر سے ٹکر مارتے دیکھا جبھی وہ اسے ٹوکنے لگی اور یہ عادت اسے معظم نے سکھائی تھی اور اب پری روز سندیلا کے منہ پیشانی پر اپنے سر سے ٹکر مارتی تھی


"مجھے اسے آپ کی طرح ڈرپوک نہیں بنانا ہے استانی جی، اپنی بیٹی کو میں اپنی طرح بہادر بناؤ گا"

معظم سندیلا کو فخریہ انداز میں دیکھتا ہوا بتانے لگا


"یعنی تم باہر جاکر سب کو ٹکریں مارتے ہو اور چاہتے ہو یہ بھی بڑی ہو کر سب کو ایسے ہی ٹکریں مارے"

سندیلا بالکل سیریس ہوکر معظم سے پوچھنے لگی۔۔۔ پری اب سندیلا کو غصے میں دیکھ رہی تھی جو کہ وہاں سے جانے کا نام نہیں لے رہی تھی


"جوک فنی تھا میں نے انجوائے کیا پلیز اب آپ کھانا دیں گیں مجھے"

معظم کے بولنے پر سندیلا اسے گھور کر دیکھنے لگی


"وہی جارہی ہو، لاؤ اسے مجھے دے دو اب یہ تمہیں پریشان کرے گی"

سندیلا پری کی حرکتیں دیکھ کر بولی جو کہ اب معظم کی شرٹ کی فرنٹ پاکٹ کینچتی ہوئی رونا اسٹارٹ کرنے والی تھی


"وہ مجھے پریشان نہیں کر رہی مجھ سے اپنے لیے ٹائم مانگ رہی ہے اور اگر یہ اس وقت آپ کی گود میں آنا چاہتی ہے تو ذرا اس کو مجھ سے لے کر دکھا دیں"

معظم سندیلا کو چیلنج کرتا ہوا بولا کیونکہ وہ جانتا تھا پری کبھی بھی سندیلا کے پاس نہیں جائے گی اور یہ بات خود سندیلا بھی اچھی طرح جانتی تھی اسلیے خاموش کر کے کچن میں چلی گئی


"کیا چاہیے میری گڑیا کو بابا کا موبائل"

پری کو فرنٹ پاکٹ میں جھانکتا ہوا دیکھ کر معظم اس کو اپنا موبائل نکال کر دینے لگا۔۔۔ یہ بات سندیلا کو سمجھ نہیں آتی تھی کے پری کو اس کا موبائل کیوں نہیں اٹریکٹ کرتا تھا اور معظم کے موبائل میں ایسی کیا بات ہے


پری معظم سے موبائل لینے کے بعد ریلکس ہوگئی،، پری کو موبائل میں مشغول دیکھ کر،، معظم نے وہی بیٹھے ایک نظر کچن کی طرف ڈالی جہاں سندیلا اس کے لئے روٹی بنا رہی تھی۔۔۔۔ ریموٹ کنٹرول اٹھا کر اس نے ٹی وی آن کیا، نیوز کا چینل لگانے سے پہلے وہ ٹی وی کی والیوم سلو کر چکا تھا


جہاں اینکر آج دوپہر میں رونما ہوئے واقعے کے بارے میں بنا رہی تھی کہ کیسے دن دھاڑے مخالف پارٹی کے سیاسی کارکن ندیم سومرو کو اسی کی گاڑی سے کیڈنیپ کرلیا گیا۔۔۔ گارڈ اور ڈرائیور زخمی حالت میں گاڑی میں ہی پائے گئے۔۔۔ جبکہ ندیم سومرو کا یوں اچانک ایک دم غائب ہوجانا ایک تشویش ناک بات تھی جس نے ایک دم ہلچل مچ گئی تھی،،،


اسکرین پر بار بار ندیم سومرو کی کار کے ساتھ اس کی دو گھنٹے قبل کھینچی گئی تصویر کو بار بار دکھایا جارہا تھا جسے دیکھ کر معظم نے ٹی وی بند کردیا


یہ کام یقیناً اتنا آسان ہرگز نہیں تھا، جتنا پپو اور ندیم سومرو کے گارڈ کے تعاون سے اسکے لیے ہوگیا تھا۔۔۔۔ ندیم سومرو کو اس کے اصل ٹھکانے پر پہچانے کے بعد وہ ندیم سومرو کے خون میں لتھڑے ہوئے کپڑے قاسم کو اسکی تسلی کے لیے دکھا چکا تھا۔ ۔۔۔ اور قاسم کے چند پوچھے گئے سوالات کا اس کو تسلی بخش جواب بھی دے کر معظم وہ کپڑے گھر لے کر آگیا تھا تاکہ اس ثبوت کو جلا کر ختم کر ڈالے،، تبھی اس نے گھر میں آئی محلے کی خاتون کو دیکھ کر سندیلا پر چڑھائی کی تھی


*****


"کیا دیکھ رہی ہیں آپ الماری میں"

معظم کی آواز پر گھبراہٹ کے مارے شاپر اس کے ہاتھ سے نیچے گرا وہ پلٹ کر معظم کو دیکھنے لگی جس کے چہرے پر چھائے خطرناک تاثرات سے صاف اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ اس وقت شدید غصے میں ہے۔۔۔۔ معظم پری کو بیڈ پر تکیے کے سہارے بٹھا کر سندیلا کے پاس آیا


"وہی دیکھ رہی ہوں جو آج شام تم گھر پر لے کر آئے تھے"

سندیلا اس کے تاثراے کو دیکھ کر اپنا ڈر چھپائے،، خود کو بے خوف ظاہر کرتی ہوئی بولی


معظم سندیلا کو غصے میں گھورتا ہوا نیچے جھک کر سندیلا کے قدموں کے پاس پڑا شاپر اٹھا کر سندیلا کو سائیڈ میں کرتا ہوا شاپر واپس الماری میں رکھنے لگا،، تو سندیلا کو وہاں سے چلے جانے میں اپنی عافیت نظر آئی،، اس نے جانے کے لیے قدم اٹھائے ہی تھے ویسے ہی معظم نے الماری کا دروازہ بند کر کے سندیلا کو بازو سے پکڑتا ہوا الماری کے ساتھ لگایا


"مجھے بالکل اچھا نہیں لگے گا سندیلا آپ پر غصہ کرتے ہوئے لیکن اگر آپ نے آئندہ اس طرح میری جاسوسی کی، تو میں بہت سختی سے آپ کے ساتھ پیش آؤں گا۔۔۔ اس میں کوئی آپ کی سوتن کے لیے تحفہ موجود نہیں ہے جسے دیکھنے کے لیے آپ نے اتنا تجسس بھرا ہوا ہے۔۔۔ خبردار جو آئندہ آپ نے میری اجازت کے بغیر میری ان چیزوں کے ساتھ چھیڑ خانی کی جس سے آپ کا کوئی سروکار نہیں"

معظم سندیلا سے سخت لہجے میں مخاطب ہوا تو سندیلا سے اپنی نیچے کی ہوئی نظریں اٹھائی نہیں گئی۔۔۔ تبھی معظم نے اپنا ہاتھ اس کی تھوڑی کے نیچے رکھ کر سندیلا کا چہرہ اونچا کیا


"کیا بول رہا ہوں میں سمجھ میں آگئی آپ کو میری بات"

تھوڑی دیر پہلے تک اس کا موڈ کتنا خوشگوار تھا وہ اس قدر بھی سختی برت سکتا تھا سندیلا نے ایسا نہیں سوچا تھا۔۔۔ اس وقت معظم کا لہجہ اور تاثرات دونوں سخت تھے


"آگئی"

سندیلا نے اس کی بات کا آہستہ سے جواب دیا تو اس معظم اس کو دیکھتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا


*****


رات میں جب وہ پری کو سلانے کے لیے بیڈ پر بیٹھی ہوئی فیڈ کروا رہی تھی، تب معظم کمرے میں داخل ہوا سندیلا جانتی تھی وہ اسموکنگ کرنے کے بعد کمرے میں آیا تھا۔۔۔ پری کی موجودگی کی وجہ سے وہ کمرے میں بہت کم اسموکینگ کرتا تھا


پری فیڈ کرتے کرتے سو چکی تھی، اس سے پہلے سندیلا اس کو کاٹ میں لٹانے کے لیے گود میں اٹھاتی،، معظم بیڈ کے پاس آکر سوتی ہوئی پری کو گود میں اٹھاتا ہوا اس کو پیار کرکے کاٹ میں لٹانے لگا۔۔۔ سندیلا دوپٹہ اوڑھتی ہوئی بیڈ سے اٹھ کر لائٹ بند کرنے لگی تاکہ خود بھی سو سکے تبھی معظم نے اسے کھینچ کر اپنے حصار میں لے لیا۔۔۔ سندیلا کو تھوڑی دیر پہلے اس کے سلوک پر رونا آنے لگا لیکن وہ اس کے سامنے خود کو کمزور ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی


"چھوڑو مجھے معظم پیچھے ہٹو"

معظم کو خود بھی احساس تھا کہ وہ تھوڑی دیر پہلے اس سے کافی سختی برت چکا تھا لیکن ایسا کرنا بھی ضروری تھا ورنہ سندیلا ہر اس چیز کی طرف متوجہ ہوتی جس سے معظم اس کو دور رکھنا چاہتا تھا


"پہلے مجھے سونے سے پہلے رات والی ڈوس لینے دیں پھر میں پیچھے ہٹ جاؤں گا"

وہ سندیلا کو اپنے حصار میں لیتا ہوا بیڈ پر لٹا چکا تھا


"فضول کی باتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے میرے ساتھ، نیند آرہی ہے مجھے"

سندیلا اس کی طرف پشت کرکے لیٹ گئی تھی تھوڑی دیر پہلے کی گئی اپنے ساتھ سختی کو وہ اتنی جلدی فراموش نہیں کر سکتی تھی


"جب نیچے زمین پر بیوی اپنے شوہر سے بے رخی برتی ہے تو اوپر آسمان پر موجود حوریں اس سے ناراض ہوتی ہیں۔۔۔ سوچ لیں استانی جی اگر آپ مجھ سے اسطرح خفا ہو کر سو گئی تو میں آپ کی شکایت ان حوروں سے کروں گا"

معظم کمرے کی لائٹ بند کرکے بیڈ پر لیٹتا ہوا سندیلا کو دھمکی دے کر بولا


"بدتمیز آدمیوں کو تو جنت کی حوریں بھی منہ نہیں لگاتی،، بڑے آئے تم حوروں سے میری شکایت کرنے والے اور تمہیں تو میں آج شام ویسے بھی بری لگ رہی تھی نا تو پھر یہ رات میں اچانک کیا ہوگیا"

سندیلا ابھی بھی معظم کی طرف کمر کیے ہوئے لیٹی تھی مگر وہ صاف محسوس کر سکتی تھی جیسے معظم اس کے برابر میں لیٹا ہوا اس کی بات پر ہنسا تھا


"وہ تو شام میں آپ مجھ سے دور بیٹھی ہوئی تھی اس لیے بری لگ رہی تھیں۔۔۔ قریب رہا کریں میرے،، بالکل ایسے"

معظم اس کو اپنی طرف کھینچتا ہوا بولا


"کیا بیہودہ حرکت ہے معظم، میرے اوپر سے ہٹاؤ اپنی یہ بھاری ٹانگ"

سندیلا نے بولنے کے ساتھ ہی اس کی ٹانگ اپنے اوپر سے ہٹانی چاہی جس میں اسے کامیابی نہیں ہوئی۔۔۔ معظم اپنا بازو بھی اس کے گرد حائل کرچکا تھا


"یہ ہاتھ اور پاؤں اب جبھی ہٹیں گے جب آپ میری طرف کروٹ لے گیں ورنہ ایسے ہی سوتی رہے"

سندیلا کی پشت ابھی بھی معظم کی طرف تھی وہ پوری معظم کے سینے سے چپکی ہوئی تھی۔۔۔۔ معظم اس کے کان کے قریب ہونٹ لاکر بولا اور کان کی لو کو چومنے لگا مگر سندیلا میں کوئی فرق نہیں پڑا وہ ایسے ہی لیٹی رہی


"کیا یار استانی جی ایسا بھی کوئی غصہ نہیں کیا تھا میں نے۔۔۔ آپ تو بالکل ہی ناراض ہو چکی ہیں"

تھوڑی دیر بعد معظم اس پر سے ہاتھ پاؤں ہٹاتا ہوا سندیلا سے بولا مگر سندیلا اب بھی کچھ نہیں بولی


"سندیلا"

معظم نے اس کا کندھا ہلاتے ہوئے نام پکارا تو معظم کو محسوس ہوا ہے وہ سوچکی ہے۔۔۔ اس کے کندھے سے اپنا ہاتھ ہٹا کر اپنے ہونٹ رکھتا ہوا وہ سیدھا ہو کر لیٹ گیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا


****


اس وقت اس کی پری کے رونے سے آنکھ کھلی جسے معظم گود میں ٹہلاتا ہوا سلانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔ فیڈر کی خالی بوتل پر سے اسے اندازہ ہو رہا تھا پری دودھ پینے کے باوجود بھی جاگی ہوئی تھی رات میں نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی تھی اسے معلوم ہی نہیں ہوا وہ خاموشی سے لیٹی ہوئی یونہی معظم کو دیکھنے لگی


معظم کو لگا کے پری سو چکی ہے تو وہ اسے آہستہ سے دوبارہ بےبی کاٹ میں لٹانے لگا جس کی وجہ سے پری ایک بار پھر ہونے لگی


"شش"

معظم پری کو جلدی سے گود میں لے کر دوبارہ ٹہلنے لگ گیا۔۔۔۔ سندیلا خاموشی سے معظم کو دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی تھی کہ اگر اس کی جگہ احتشام ہوتا تو کیا اسے اپنی بیٹی سے اسی طرح لگاؤ ہوتا، وہ رات میں اپنی نیند خراب کر کے کیا اسی طرح اپنی اولاد کو بہلاتا یہ سوچ آنے کے بعد اسے پری کی خوش نصیبی پر ناز ہونے لگا کہ اس کی بیٹی کو معظم کی صورت پیار کرنے والا باپ ملا ہے


ایک بار دوبارہ جب کاٹ میں لٹانے پر وہ رونے لگی تب معظم نے پری کو بیڈ پر لٹا دیا،، پری خاموشی سے لیٹی رہی تو معظم نے اپنا تکیہ پری کے سر کے نیچے رکھ دیا اور خود بھی بیڈ پر لیٹ گیا۔۔۔ تب معظم کو محسوس ہوا جیسے سندیلا جاگ رہی ہے معظم نے اپنا رخ سندیلا کی طرف گیا تو سندیلا اسی کی جانب کروٹ لئے معظم کو دیکھ رہی تھی


"شش آواز مت نکالیے گا بہت مشکل سے سوئی ہے،، اسے کاٹ میں نہیں آج اپنے بابا کے پاس سونا ہے"

سندیلا کے کچھ بولنے سے پہلے معظم آہستہ آواز میں سندیلا کو بتانے لگا


"اس چھوٹی سی اماں دادی کے بہت زیادہ نخرے ہو گئے ہیں روکو ذرا میں دیکھتی ہوں اسے"

سندیلا بھی آئستہ آواز میں بولتی ہوئی اٹھنے لگی تو معظم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا


"کیا کر رہی ہیں یار اس کی نیند خراب ہو جائے گی،، لیٹا رہنے دیں اسے تھوڑی دیر میرے پاس"

معظم ابھی بھی احتیاط سے کام لیتا ہوا آہستہ آواز میں بولا تو سندیلا معظم سے اپنا ہاتھ چھڑواتی ہوئی پوچھنے لگی


"اگر یہ تمہارے پاس سوئے گی تو پھر میں کہاں سوؤں گی"

سندیلا غصہ کرتی ہوئی اس سے پوچھ رہی تھی تو معظم پوری آنکھیں کھول کر حیرت سے اسے دیکھنے لگا کیوکہ سندیلا بھی اسی کے برابر میں لیٹی ہوئی تھی بیچ میں سینڈ وچ تو وہ بنا ہوا تھا


"تو آپ یہاں آ جائیں آپ کو کس نے منع کیا ہے"

معظم اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر سندیلا کو اپنے قریب بلاتا ہوا بولا،، تو سندیلا نے اپنا تکیہ اٹھا کر معظم کے سر کے نیچے لگایا اور خود اس کے سینے پر سر رکھ کر لیٹ گئی،، اپنا حلیہ وہ جس قدر بگاڑ کر رکھا تھا،، لمبے بال، بےترتیب بڑھی شیو۔۔۔ لیکن اب سندیلا کو اس کے حلیے سے کوئی غرض نہیں تھا کیونکہ وہ ایک بہت اچھے دل کا مالک تھا


"میں تم سے ناراض ہو کر نہیں سونا چاہتی تھی مگر مجھے معلوم نہیں ہوا کب میری آنکھ لگ گئی"

سندیلا نے بولتے ہوئے اپنا ہاتھ معظم کے ہاتھ پر رکھا معظم کا ہاتھ پری کے اوپر رکھا ہوا تھا،، سندیلا کی بات سن کر معظم نے جھک کر اس کے بالوں پر اپنے ہونٹ رکھے۔۔۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسلئہ بنانے والا مرد نہیں تھا


"تم جنت کی حوروں سے میری شکایت تو نہیں لگانے والے نا"

سندیلا معظم کے سینے پر تھوڑی ٹکا کر اس کو دیکھتی ہوئی مسکرا کر پوچھنے لگی،، مطلب اس کا سیدھا سا تھا کہ معظم اس کے اس طرح سونے پر خفا تو نہیں ہوا


"یہ تو جب مرنے کے بعد اوپر جاؤں گا تب کی تب دیکھی جائے گی"

معظم اس کے گال پر انگلیاں پھیرتا ہوا مذاقاً بولا مگر معظم کی بات سے اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی،، سندیلا اپنے گال سے اس کا ہاتھ جھٹک کر اٹھ کر بیٹھ گئی


"کیا ہوگیا یار استانی جی کیا برا لگ گیا آپ کو"

سندیلا کے تاثرات دیکھ کر معظم اس سے پوچھتا ہوا خود بھی اٹھ کر بیٹھ گیا تو سندیلا نے فوراً اس کا گریبان پکڑ لیا


"خبردار جو آئندہ تم نے مرنے کی بات کبھی منہ سے نکالی تو۔۔۔۔ پھر دیکھنا میں تم سے کس طرح ناراض ہوتی ہو کبھی بھی بات نہیں کروں گی میں تم سے"

بولتے میں سندیلا کی آواز بھرا گئی تو معظم نے فوراً اسے بانہوں میں بھر لیا


"مذاق کر رہا تھا میری جان"

وہ سندیلا کو اپنی بازوؤں میں قید کرتا ہوا بولا۔۔۔ معظم کو خبر نہیں تھی کہ وہ اس کی مذاق میں کی ہوئی بات کو اتنا سیریس لے گی


"آئندہ ایسا کبھی مذاق میں بھی مت کہنا، میرے پاس اب پری کے اور تمہارے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے"

معظم کے دور جانے کا احساس سے ہی وہ کانپ اٹھی تھی جبھی وہ معظم کے بازوؤں میں اسے بتانے لگی


"اچھا بابا نہیں کہو گا کبھی بھی ایسا مذاق میں، لیکن میری اس ڈوز کا کیا ہوگا جو آپ نے مجھے رات میں نہیں دی"

معظم اس کے کان میں سرگوشی کرتا ہوا پوچھنے لگا تو سندیلا معظم کے بازوؤں سے نکل کر اس کو گھورنے لگی معظم کے لہجے میں شرارت تھی مگر چہرے کے ایکسپریشن سیریس تھے


"دن بدن تم بےہودہ ہوتے جا رہے ہو سدھر جاؤ"

سندیلا معظم کے سینے پر ہاتھ رکھ کے اسے پیچھے کی طرف دھکا دیتی ہوئی بولی۔۔۔ معظم جان بوجھ کر بیڈ پر گرنے والے انداز میں لیٹا


وہ خمار بھری نظروں سے سندیلا کو دیکھ رہا تھا تو سندیلا بیڈ سے اٹھ کر پری کاٹ میں لٹانے کے بعد چلتی ہوئی معظم کے قریب آکر بیڈ پر بیٹھی،، معظم منتظر نگاہوں سے بیڈ پر لیٹا ہوا سندیلا کو دیکھ رہا تھا، وہ مسکراہٹ چھپا کر نفی میں سر ہلا کر معظم کے اوپر جھکی، جسے ہی وہ معظم کے چہرے کے قریب اپنا چہرہ لائی تو معظم خود سے اس کے ہونٹ قید کرتا ہوا سندیلا کو اپنی گرفت میں لیتا ہوا بیڈ پر لٹا چکا تھا


****


معظم کو جب یقین ہو گیا سندیلا سو چکی ہے تو وہ بیڈ سے اٹھ کر اپنی شرٹ پہنتا ہوا الماری سے وہ شاپر نکالنے لگا جو وہ شام میں اپنے ساتھ لایا تھا


سائیڈ ٹیبل سے وہ اپنا لائٹر اٹھاتا ہوا شاپر لے کر واشروم میں چلا گیا،، جب وہ ثبوت کو مٹاتا ہوا واپس آیا تو سندیلا بیڈ پر بیٹھی ہوئی اس کو دیکھ رہی تھی، سندیلا کی خاموشی بتارہی تھی کہ وہ کچھ نہ کچھ سمجھ چکی ہے۔۔۔معظم دوبارہ اس پر کیا غصہ کرتا ہے یا پھر اس کو ڈانٹتا وہ خاموشی سے بیڈ پر لیٹنے لگا


"مار ڈالا ناں تم نے اس کو،، قتل کر دیا تم نے اس کا۔۔۔ ایک انسانی جان لے لی اپنے ہاتھوں سے"

وہ معظم کے پاس آتی ہوئی آنکھوں میں نمی لے کر معظم سے پوچھنے لگی۔۔۔۔ دکھ اسے مرنے والے سے زیادہ اس بات کا تھا کہ اس کے شوہر نے یہ قتل کیا ہے


"سندریلا بس خاموش ہو جائیں اب، میں نے آپ کو رات میں بھی منع کیا تھا جن باتوں سے آپ کا لینا دینا نہیں ہے آپ ان چیزوں میں مداخلت نہیں کریں گیں"

معظم کی آواز میں سختی نہیں تھی البتہ اس کا انداز سخت تھا،، سندیلا نم آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھنے لگی۔۔۔ معظم نے اس کو شانوں سے پکڑ کر بیڈ پر لٹایا اور بیڈ کی دوسری سائیڈ پر جا کر خود بھی لیٹ گیا


****

شام میں جب وہ آفس سے گھر آیا تو

تو شہیر یعنی چھوٹے سائز کی بڑی مصیبت آج بھی اس کے گھر پر موجود تھا جو کہ زینش کے ساتھ لیونگ روم میں بیٹھا ہوا اس کا اسکیچ بنا کر زینش کو امپریس کرنے کے چکر میں لگا ہوا تھا


"بلال آگئے آپ"

زینش بلال کو دیکھ کر بولی، پرسوں رات میں جو بھی کچھ ہوا شاید وہ اب اس بات کے لئے بلال سے شرمندہ تھی تبھی کل سے بلال کو خود ہی سے مخاطب کئے جا رہی تھی


"کیوں تمہیں یہاں پر اتنا بڑا انسان کھڑا ہوا دکھائی نہیں دے رہا"

بلال کی طرف چبھتے ہوئے لہجے میں جواب آیا جسے سن کر زینش شرمندہ ہوئی جبکہ شہیر بلال کو دیکھنے لگا بلال ان دونوں کو گھورتا ہوا بیڈ روم میں چلا گیا۔۔۔ زینش کے نرم پڑنے پر بھی بلال نے کل سے ہی اس کے ساتھ ایسا رویہ رکھا ہوا تھا


"آخر کوئی اتنا سڑا ہوا انسان کیسے ہو سکتا ہے میری سمجھ سے تو یہ بات بالکل باہر ہے"

شہیر نے بلال کے وہاں سے جانے پر تبصرہ کیا تو زینش شہیر جو گھور کر دیکھنے لگی


"خبردار جو تم نے میرے ہسبینڈ کے بارے میں کچھ بھی کہا انھیں سڑا ہوا کہنے کا حق صرف میرا ہے اور یہ حق میں اپنے علاوہ کسی اور دوسرے کو نہیں دے سکتی تم یہاں خاموشی سے بیٹھو میں ابھی آتی ہوں"

زینش شہیر سے بولتی ہوئی لیونگ روم سے اٹھ کر باہر نکل گئی


"یہ پانی لائی ہوں آپ کے لئے"

بلال صوفے پر بیٹھا ہوا شوز اتار رہا تھا تب زینش بیڈ روم میں آکر ہاتھ میں پانی کا گلاس پکڑے اس سے مخاطب ہوئی


"میں نے تم سے بولا پانی کا"

وہ سنجیدہ تیور سے زینش کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا


"ایسا میں نے سنا تھا کہ شوہر جب باہر سے گھر آئے تو اخلاقاً بیوی کو اپنے شوہر سے پانی کا پوچھنا چاہیے"

وہ بلال کو اسی کی بات یاد دلاتی ہوئی بولی


"غلط سنا تھا ایسا دنیا کی کسی کتاب میں نہیں لکھا تم یہ پانی لے کر یہاں سے جا سکتی ہو"

بلال روکھے لہجے میں بولتا ہوا وارڈروب سے اپنے کپڑے نکالنے لگا


"بلال پرسوں والی بات کے لئے میں شرمندہ ہوں،، پلیز آپ مجھ سے خفا مت ہو"

زینش پانی کا گلاس وہی ٹیبل پر رکھ کر بلال کے پاس آکر اس کا بازو پکڑتی ہوئی ندامت بھرے لہجے میں بولی


"کیا چاہ رہی ہو تم،، تمہیں یہاں سے دھکا دے کر نکالو، دماغ خراب مت کرو میرا نکل جاؤ فوراً کمرے سے"

بلال زینش کا ہاتھ اپنے بازو سے بری طریقے سے جھٹکتا ہوا بولا تو زینش خاموشی سے کمرے سے نکل گئی


بلال کپڑے بیڈ پر پھینک کر صوفے پر بیٹھ گیا بلال نے سوچ لیا تھا کہ اس نے زینش کے بہت نخرے اٹھا لیے اب وہ اس کو اسی کے انداز میں بتائے گا کہ ہرٹ کرنے پر سامنے والے کو کیسی تکلیف ہوتی ہے۔۔۔ بلال ایسا سوچ ہی رہا تھا کہ تب کمرے کے دروازے پر اس کی نظر پڑی جہاں شہیر کھڑا ہوا بلال کو دیکھ رہا تھا،، بلال کے ماتھے پر بل واضح ہوئے


"کسی کے گھر روز روز جانا بھی اپنی عزت کم کروا دیتا ہے۔۔۔ کیا تم نے یہ جملہ پہلے کبھی نہیں سنا"

بلال سنجیدہ لہجے میں شہیر کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا جس پر شہیر خاموشی سے چلتا ہوا کمرے میں آیا اور اس کے برابر صوفے پر بیٹھ گیا


"مجھے نہیں لگتا ہے کہ ایسا ٹھیک ہے، تم ڈیلی روٹین میں آفس جاتے ہوں گے اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تمہارا باس تمہاری بہت بےعزتی کرے گا تمہارا ڈیلی روٹین میں آفس جانا ہیں تمہاری عزت کی وجہ بنتا ہے۔۔۔ جیسا میرا ڈیلی روٹین میں اسکول جانا مجھے ٹیچرز کی نظر میں اچھا بنا دیتا ہے"

شہیر بلال کے پاس صوفے پر بیٹھا ہوا اسے پتے کی بات بتانے لگا پھر بلال کی شکل دیکھ کر دابت نکالنے لگا


"ویری فنی"

بلال صوفے سے اٹھتا ہوا بولا


"کیا تم نے ابھی زینش کو ہرٹ کیا" شہیر کے پوچھنے پر بلال پلٹ کر اسے دیکھنے لگا


"کیوں تمہیں تکلیف ہو رہی ہے"

بلال تنے ہوئے نقوش کے ساتھ اس سے پوچھنے لگا انداز سے صاف ظاہر تھا کہ وہ ایسا کر سکتا ہے کیونکہ وہ اس کی ملکیت تھی


"مجھ سے زیادہ تمہیں تکلیف ہونی چاہیے میں تو فرینڈ ہو تم ہسبینڈ ہو اس کے"

شہیر بلال کو دیکھتا ہوا بتانے لگا جس پر بلال کے تنے ہوئے نقوش ڈھیلے پڑ گئے


"ہرٹ میں نہیں ہمیشہ وہ کرتی آئی ہے مجھے، ابھی سے نہیں ہماری شادی کے پہلے سے"

بلال بےساختہ اپنی صفائی میں بول اٹھا


"اگر اتنا ہرٹ کرتی ہے تو شادی کیو کرلی اس سے۔۔۔ کیا کوئی دوسری نہیں پٹی تم سے"

شہیر ہمدردانہ لہجے میں اس سے پوچھنے لگا


"اچھی لگتی ہے یہ مجھے،، دل ہی نہیں کیا کہ کسی اور کو پٹاتا"

بلال سر جھٹک کر بولا پھر ایک دم اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا وہ کس سے کیا بات کر رہا ہے جبکہ بلال کی بات سن کر شہیر کے ایک بار پھر دانت نکلنے لگے


"اچھی لگتی ہے تو تم نے اس سے شادی کرلی،، اب اگر شادی کر ہی لی ہے تو اینگری مین بننے کی ضرورت نہیں ہے جاؤ جاکر۔۔۔ پیار سے ہگ (hug) کرو اسے وہ روتی ہوئی دوسرے کمرے میں گئی ہے"

بلال حیرت سے پوری آنکھیں کھولے شہیر کو دیکھنے لگا۔۔۔ جو اسے مزے سے مشورہ دیتا ہوا اپنے گھر چلا گیا


*****


بلال کو ہرٹ کرنے کے بعد وہ خود بھی اس قدر بےچینی تھی، سب کچھ اس کی زندگی میں اچانک ہی تو ہوا تھا۔۔۔ پہلے بلال کا اس سے محبت کا اظہار کرنا پھر حسان سے اس کی شادی طے ہوجانا، شادی کے حسان کو اس کے ماضی کا معلوم ہوجانا۔۔۔ حسان سے اس کا رویہ پھر اچانک حسان کا دنیا سے چلے جانے کے بعد اس کا بلال سے نکاح ہوجانا۔۔۔ بلال سے نکاح والے دن ہی معظم سے اس کا اچانک ٹکراؤ


پے در پے اپنی زندگی میں آنے والے واقعات پر وہ سنبھل بھی نہیں پائی تھی تو بلال کا اس سے پرسوں رات والا برتاؤ، وہ سچ مچ بوکھلا کر رہ گئی تھی اس لیے تھوڑا سنبھلنے کے لیے وقت چاہتی تھی مگر یوں بلال کو ہرٹ کر کے نہیں اور کہیں نہ کہیں اس کے دماغ میں اپنے ماضی والے واقعہ کو لے کر بھی سوالات ابھر رہے تھے آخر بلال کو تجسس کیوں نہیں تھا اپنی بیوی کے بارے میں سب کچھ جاننے کا،، اس نے شہنیلا سے بھی کوئی بات نہیں پوچھی تھی

یہ بات بھی زینش کو مزید الجھا رہی تھی کہ وہ اس کے ماضی کو لے کر کیا سوچتا ہے


اس نے بلال کی ناراضگی کے بارے میں خوشی کو بتایا جس پر خوشی نے الٹا اسی کو صلواتیں سنائی اور اسے یہی مشورہ دیا کہ وہ اپنے اور بلال کے رشتے کو مزید خراب نہیں کرے کیوکہ جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے


اس لیے زینش کل سے اپنے لہجے میں نرمی لائے بلال کو منانے کی کوشش کر رہی تھی مگر بلال اب اس کی ایک بھی نہیں سن رہا تھا، آج اس نے بلال کی پسند کا کھانا بنایا تھا، وہ اس کو کھانے کا کہنے کے لیے بیڈ روم میں آئی تو واش روم سے پانی کے گرنے کی آواز پر اس نے اندازہ لگایا کہ بلال شاور لے رہا تھا تب زینش کی نظر بیڈ پر رکھے ہوئے موبائل پر پڑی جس پر نتاشہ کی کال آ رہی تھی، وہ موبائل اٹھا کر اس سے پہلے کال رسیو کرتی۔۔۔ زینش کی پشت پر کھڑے ہوئے بلال نے اس کا بازو پکڑا اور اپنا موبائل اس کے ہاتھ سے لیتا ہوا کال ریسیو کرنے لگا


"ہاں نتاشا بولو"

زینش حیرت سے بلال کو دیکھ رہی تھی جو ناجانے کب سے واش روم سے نکل کر اس کی پشت پر کھڑا تھا


"نہیں یار پہنچنے والا ہوں، آدھا گھنٹہ لگے گا۔۔ اتنا ویٹ تو میرا کر سکتی ہو تم"

بلال کا یہ دوستانہ لہجہ وہ بھی کسی لڑکی سے زینش کو اندر تک جلا گیا


"آئندہ کبھی میرا موبائل اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے یہ بات اپنے دماغ میں اچھی طرح بٹھا لو"

جتنا مسکرا کر وہ نتاشہ سے بات کر رہا تھا کال کے ختم ہوتے ہی اتنے سخت لہجے میں زینش سے بولا اور وارڈب سے نکالی ہوئی شرٹ پہننے لگا


"کون ہے یہ نتاشہ"

زینش نے جیسے بلال کی بات سنی ان سنی کردی کیونکہ اس کا دماغ تو نتاشہ پر اٹک گیا تھا۔۔۔ جس سے اس وقت اُس کا شوہر ملنے جا رہا تھا


"تم نہیں جانتی"

بلال مختصر سا جواب دیتا ہوا شرٹ کے بٹن لگانے لگا


"آپ بتائیں گے تو جان جاؤ گی بتائیں مجھے کون ہے نتاشہ"

زینش جوکہ ایک سائیڈ میں کھڑی تھی ایک دم بلال کے سامنے آتی ہوئی اس سے سوال کرنے لگی


"پہلے یونیورسٹی میں میرے ساتھ پڑھتی تھی اب ایک ماہ پہلے آفس میں ساتھ ہی کام کرتی ہے"

بلال مصروف انداز میں زینش پر احسان کرنے والے انداز میں اس کو بتانے لگا


"یہ تو آپ کا آفس ٹائم نہیں ہے جو آپ اس سے ملنے جا رہے ہیں"

بلال کی باتیں سن کر زینش کا دل ڈوبنے لگا بلال کا یوں کسی لڑکی سے ملنے جانا اسے پریشانی میں مبتلا کر رہا تھا


"یہ کس نے کہا ہے کہ میں نتاشہ سے آفس ٹائم میں ہی مل سکتا ہوں۔۔۔ ہم دونوں کا آج باہر ڈنر کا پروگرام ہے"

بلال نے اپنے اوپر پرفیوم چھڑکتے ہوئے زنیش کو اطلاع دی۔۔۔ زینش خاموشی سے بلال کی تیاری دیکھنے لگی


"اور جو میں نے آپ کا من پسند کھانا بنایا ہے اس کا کیا ہوگا۔۔۔ آپ کہیں نہیں جا رہے ہیں بلال اس نتاشہ کو ابھی کال کریں اور کینسل کریں اپنا پروگرام"

زینش بلال کے روئیے اور اس کی باتوں سے اتنا کمزور پڑتا ہوا لہجہ مضبوط بناتی ہوئی بولی تو بلال نے آئینے سے اپنا رخ زینش کی طرف کیا


"تم مجھے آرڈر دینے والی کون ہوتی ہو، کیو کینسل کروں میں تمہارے کہنے پر اپنا پروگرام۔۔۔ اگر تم نے میری پسند کا کھانا بنایا ہے تم مجھ سے پوچھ کر نہیں بنایا اپنے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا تم خود ہی کھا لینا اور میرا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے رات کو واپس آتے ہوئے لیٹ ہو جاؤں گا میں"

بلال سنجیدگی کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرتا ہوا بولا اور کمرے سے نکل گیا جبکہ زینش سن ہوتے دماغ کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی


*****


"اتنی خاموشی سے بیٹھی ہیں کیا سوچ رہی ہیں استانی جی"

معظم آج صبح سے ہی گھر پر موجود تھا،، سندیلا گھر کے سارے کام نمٹا کر کافی دیر سے کمرے میں خاموش بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ پپو کے جانے کے بعد پری نے معظم کو کافی دیر تک اپنے ساتھ مشغول رکھا، تھوڑی دیر پہلے وہ سوئی تھی تب معظم اسے بیڈ پر لٹاتا ہوا سندیلا کے پاس آ کر اس سے پوچھنے لگا


"سوچ رہی ہو آج کھانے میں کیا بناؤ تم ہی بتا دو"

معظم کے اچانک سے پوچھنے پر سندیلا بات بناتی ہوئی اس سے بولی


"اصل بات شیئر کریں مجھ سے سندیلا،، کھانے میں کیا بنانا ہے یہ کوئی اتنا سیریس ایشو نہیں ہے جسے آپ کافی دیر سے سوچے جارہی ہیں"

معظم کی بات سن کر وہ خاموشی سے معظم کو دیکھتی رہی۔۔۔ سندیلا کو محسوس ہوا جیسے کہ وہ اسے اندر تک جاننے لگا تھا


"تمہارے بارے میں سوچ رہی تھی، تمہاری فیملی کے بارے میں۔۔۔ تمہاری بہن کے علاوہ اور کون ہے تمہاری فیملی میں۔۔۔ تم نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا اپنے بارے میں۔۔۔ ایسی کیا وجہ تھی جو تم پڑھ لکھ کر ان غلط کاموں میں ملوث ہو گئے۔۔۔ تمہارا ماضی کیا ہے یہ سب سوچ رہی ہوں میں"

پرسوں رات میں جب سے سندیلا کو یہ معلوم ہوا تھا کہ معظم کے ہاتھوں اس شخص کا قتل ہوچکا ہے تب سے اسے نہ صرف معظم کی فکر لاحق ہوگئی تھی بلکہ وہ اپنے اور پری کے مستقبل کے لیے بھی پریشان ہوگئی تھی۔۔۔ سندیلا کی بات سن کر معظم نے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا


"میں آپ کی باتوں سے جان گیا ہوں آپ میرے ماضی کے بارے میں سوچ کر ہم تینوں کے مستقبل کے لیے پریشان ہو رہی ہیں،، یہی بات ہے ناں"

معظم اس کا ہاتھ تھاما ہوا سندیلا کی آنکھوں میں دیکھ کر اسے پوچھنے لگا۔۔ سندیلا سے کچھ نہیں بولا گیا وہ خاموشی سے معظم کو دیکھنے لگی معظم ویسے ہی اس کا تھامے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر بولنے لگا


"میں آپ کو کبھی بھی کوئی بات جھوٹ نہیں بول سکتا سندیلا اور فوری طور پر سچ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔۔۔ پلیز مجھے تھوڑا سا ٹائم دیں صحیح وقت آنے پر میں آپ کو ہر بات بتادو گا بس آپ یہ جان لیں کہ آپ کی اور پری کی حفاظت میں اپنی جان سے بڑھ کر کروں گا۔۔۔ صرف اتنا بتائے آپ بھروسہ کرتی ہیں مجھ پر"

معظم نے ایک بار پھر سندیلا سے سوال کیا آپ کی بار سندیلا نے اقرار میں سر ہلایا۔۔۔ تو معظم نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے حصار میں لیا


"یوں پریشان مت ہوا کریں استانی جی۔۔۔ آپ کا یہ موالی آپ کو پریشان دیکھ کر آپ کے لیے فکر مند ہو جاتا ہے۔۔۔ معلوم ہے اگر باہر لوگوں کو پتہ لگ جائے کہ جس کی بدمعاشی نے سب کی ناک میں دم کر رکھا ہے،، وہ شخص ایک دن اپنی بیوی کو مسکراتا ہوا نہ دیکھے تو اسے پریشانی لاحق ہو جاتی ہے۔۔۔۔ یقین جانیے لعنت بھیجیں گیں سب ایسے زن مرید موالی پر"

معظم نے اسے اپنے حصار میں لے کر یہ بات اتنی سنجیدگی سے کہی کہ سندیلا اس کی بات سن کر معظم کے سینے سے چہرہ اٹھاکر اسے دیکھتی ہوئی مسکرا دی۔۔۔ سندیلا کو مسکراتا ہوا دیکھ کر وہ بھی مسکرا دیا


"ایسے ہی مسکراتی رہا کریں میرے سامنے استانی جی،، دل کو اطمینان رہتا ہے آپ کی مسکراہٹ دیکھ کر،، کہ زندگی میں آپ میرے ساتھ پر خوش ہیں"

معظم سندیلا کی پیشانی پر محبت کی مہر ثبت کرتا ہوا بولا


"چلو آج قیمہ کریلے بنا لیتی ہو شرافت بھائی نے دو دن پہلے فرمائش کی تھی"

سندیلا معظم کے حصار سے نکلتی ہوئی بولی اور کچن کا رخ کرنے لگی۔۔ معظم کی باتوں سے دل کی تھوڑی بہت اداسی بھی کم ہوئی تھی


"لعنت بھیج دیں یار اپنے شرافت بھائی پر، اس کی فرمائش تو قیامت تک ختم نہیں ہوگیں۔۔۔ کوئی ضرورت نہیں ہے کچن میں جانے کی۔۔۔ آج میں اور آپ، ہم دونوں اپنی بیٹی کے ساتھ مل کر خوب گھومیں گے پھریں گے اور رات کا کھانا باہر ہی کھائیں گے"

معظم نے سندیلا کی طبعیت میں اداسی دیکھ کر باہر نکلنے کا پروگرام بنا لیا کیوکہ سندیلا کافی دنوں سے باہر نہیں نکلی تھی جبکہ باہر نکلنا خود معظم کے لیے رسکی تھا مگر سندیلا کے لیے بھی ضروری تھا


"آب کھانا نہیں بناؤں تو پھر کیا کرو اس وقت"

سندیلا معظم سے پوچھنے لگی


"باہر جانے سے پہلے کیا کرتے ہیں خوب اچھی طرح سجے سنوریں جیسے پہلے ٹپ ٹاپ پٹاخہ بن کر اسکول اور شاپنگ مالز میں جایا کرتی تھیں"

معظم کے مشورے پر اور اسکے پٹاخہ کہنے پر سندیلا کو ہنسی آگئی


یہ سچ بھی تھا احتشام سے طلاق کے بعد وہ بہت سادہ رہنے لگی تھی مگر معظم کے بولنے پر آج اس کا دل چاہا کہ وہ معظم کے لئے تیار ہو۔ ۔۔ اس لیے اپنا منتخب کردہ جوڑا الماری سے نکالنے کے بعد میک اپ کا سامان بھی الماری سے نکالنے لگی جو معظم ہی اس کے لئے لے کر آیا تھا جبکہ معظم اپنے موبائل پر آتی کال کو دیکھ کر،، سندیلا کو مصروف دیکھتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا


*****

"تم بالکل پاگل ہو زینش کل سے تم اس بات پر پریشان ہوں بلال کسی نتاشہ نام کی لڑکی کے چکر میں پڑ کر تمہیں اگنور کر رہا ہے۔۔۔ عقل مند لڑکی وہ تمہیں صرف جیلس فیل کروانے کے لیے ایسا کر رہا ہوگا"

اس کے پاس خوشی کی کال آئی تو زینش نے رونی صورت بنا کر خوشی کو بلال کی کل والی حرکت کے بارے میں بتایا جس پر خوشی کا اپنا ہی سر پیٹنے کا دل چاہا


"اگر صرف جیلس فیل کروا رہے ہوتے تو میرا بنایا ہوا اپنے پسندیدہ کھانا چھوڑ کر کبھی اس نتاشہ نامی لڑکی کے ساتھ ڈنر پر نہیں جاتے۔۔۔ تمہیں نہیں معلوم خوشی کل مجھے تمہارے بدتمیز کزن نے کتنا ہرٹ کیا ہے لیکن میں نے سوچ لیا تم دیکھنا کیا کرتی ہوں میں اس نتاشہ کے ساتھ"

ایک تو وہ بلال کے اجنبی انداز پر ویسے ہی پریشان تھی اوپر سے کل بلال کو وہ ڈنر پر جاتا دیکھ کر خاصی ہرٹ ہوئی تھی لیکن اس وقت اسے غصہ آ رہا تھا


"او بہن میرا بدتمیز کزن تمہارا شوہر بھی لگتا ہے اسلیے تھوڑی عزت کرلو اس کی اور جو بات تم بلال کے لیے کہہ رہی ہوں نہ وہ دس بندے اور بھی آ کر مجھ سے بولیں کے بلال کا کسی اور لڑکی سے چکر ہے میں تب بھی یقین نہیں کرو گی مجھے اچھی طرح اندازہ ہے وہ یہ سب کچھ اسی وجہ سے کر رہا ہے تاکہ تم اپنی غلطی محسوس کرو،، پاگل بہت چاہتا ہے وہ تمہیں۔۔۔ کبھی کسی دوسری لڑکی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تمہاری حرکتوں کی وجہ سے ہرٹ ہوا ہوگا، اس لیے عقلمندی سے کام لو اور اسے سوری کر کے پیار سے منالو"

خوشی سے بات کرکے وہ کچھ نارمل محسوس کر رہی تھی بلال کے آفس سے آنے کا ٹائم تھا اس لیے اپنا حلیہ درست کرنے لگ گئی


****


"ابھی تک تیار نہیں ہوئی تم"

بلال زینش کو بیڈ پر ریلکس بیٹھا دیکھ کر پوچھنے لگا


"کس خوشی میں تیار ہونا ہے"

زینش ہاتھ میں پکڑے ہوئے موبائل کو بیڈ پر رکھتی ہوئی بلال سے پوچھنے لگی


"تمہیں بتایا تو تھا شمس ماموں نے آج ہم دونوں کو اپنے گھر ڈنر پر انوائٹ کیا ہے جلدی سے چینج کرکے اور فٹافٹ تیار ہو جاؤ"

بلال ایک بار پھر اسے یاد دلاتا ہوا بولا اور ساتھ ہی وارڈروب سے اپنے کپڑے نکالنے لگا


"وہ تو آپ نے دوپہر میں میسج کرکے بتایا تھا اس لیے میرا دھیان ہی نہیں گیا کہ آج ہمیں کہیں جانا ہے"


زینش بلال سے بولتی ہوئی بیڈ سے اٹھ کر صوفے پر بیٹھ گئی بلال اس کی لاپرواہی کے ساتھ ساتھ اس کی سستی پر بھی زینش کو گھورنے لگا


"تو تمہارا دھیان رہتا کہاں ہے اس دس سالہ چھوٹے سائز کی بڑی مصیبت میں۔۔۔ تم بیڈ سے اٹھ کر چینج کرنے کی بجائے یہاں پر بیٹھ گئی ہو میں نے تمہیں تیار ہونے کا بولا ہے زینش،، اٹھو صوفے اور جلدی سے چینج کرو جاکر"

بلال زینش کے کاہلی انداز پر اسے ٹوکتا ہوا بولا


"اب آپ میرے دوست کو بیچ میں مت لے کر آئیں بلال بلاوجہ میں،، وہ کیوٹ سا بچہ آپ کو پتہ نہیں کیوں ایک آنکھ نہیں بھاتا اور میرا بالکل بھی کہیں جانے کا موڈ نہیں ہے ایسا کریں آپ نتاشہ کو ہی اپنے ساتھ لے جائے"

زینش شہیر کا نام سن کر تپ کر بولی اور نتاشہ کا نام اس نے بلال کو تپانے کے لئے تھا، جیسے اسے بلال کا نتاشہ کے ساتھ جانے پر کوئی خاص افسوس نہیں ہوا ہو۔۔۔۔ بلال اپنے کپڑے بیڈ پر رکھ کر چلتا ہوا زینش کے پاس آیا اور اسے صوفے سے آرام سے اٹھا کر اپنے سامنے کھڑا کیا


"تمہارا وہ دوست بچہ بالکل نہیں ہے اندر سے پورا ہے اور نتاشہ میری بیوی نہیں ہے جسے میں اپنے ماموں کے گھر لے کر جاؤ گا، اب مجھے دوبارہ نخرے دکھا کر انکار مت کرنا ورنہ بہت برے طریقے سے پیش آؤں گا میں،، سیدھی شرافت سے تیار ہو جاؤ ٹوٹل بیس منٹ ہیں تمہارے پاس"

بلال زینش کو اپنے سامنے کھڑا کرکے بالکل سیریس انداز میں بولتا ہوا پلٹنے لگا تب زینش نے اس کا بازو پکڑا۔۔۔ بلال پہلے اپنے بازو کو پھر زینش کو دیکھنے لگا


"کیوں لگتا ہے آپ کو کہ آپ اسطرح ماتھے پر آنکھیں رکھ کر بات کرتے ہوئے اچھے لگتے ہیں،، ایک دم سڑے ہوئے لگتے ہیں اس طرح غصہ کرتے ہوئے۔۔۔ تیار ہونے کی بات آپ مجھے پیار سے بولیں تاکہ میرا خود اچھا سا تیار ہونے کا دل چاہے"

زینش بہت پیارے سے انداز میں بلال سے بولنے لگی تو بالکل خاموشی سے زینش کو دیکھنے لگا پھر اس کا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹا کر،، اپنے دونوں ہاتھوں سے زینش کا چہرہ تھامتا ہوا بولا


"ویسے تو ابھی تک وہ وقت نہیں آیا جب تم مجھے بری لگی ہو تم ابھی بھی بہت پیاری لگ رہی ہو مگر میں چاہتا ہوں تم اور بھی حسین لگو پلیز میری جان۔۔۔۔ میری جان پر مزید احسان کرتے ہوئے،، میرے ماموں کے گھر جانے کے لیے تیار ہو جاؤ۔۔۔۔ یہ ٹھیک ہے یا پھر اس سے بھی زیادہ پیار سے بولنا تھا"

بلال زینش کا چہرہ تھام کر خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ جس طرح اس کی تعریف کرتا ہوا بول رہا تھا لیکن آخری جملہ بالکل طنزیہ انداز میں زینش سے پوچھنے لگا


"کیا اس سے زیادہ پیارے انداز سے آپ کو بولنا آتا ہے جو کہ تھوڑا بہت رومانٹک بھی لگے"

زینش بلال کے طنز کو نظر انداز کرتی ہوئی بالکل سیریس ہوکر بلال سے پوچھنے لگی تو بلال کے نارمل فیس ایکسپریشن ایک بار پھر رومانٹک ہوگئے وہ زینش کی کمر میں اپنے دونوں بازو حائل کرتا ہوا زینش کو خود سے قریب کر چکا تھا اتنا کے زینش اس کے سینے سے چپک گئی


"میں چاہتا ہوں آج تم وہی ڈریس پہنوں جو تم نے نکاح والے دن پہنا تھا وہ ڈریس میں نے تمہارے لیے خود پسند کیا تھا لیکن ہمارے نکاح والے دن میں تمہیں سے اس ڈریس میں دیکھ ہی نہیں پایا۔۔۔ آج میں تمہیں اسی ڈریس میں دوبارہ دیکھنا چاہتا ہوں کیا تم میری یہ خواہش پوری کرسکتی ہو"

بلال نے اپنا ایک ہاتھ زینش کی کمر سے ہٹا کر اس کی تھوڑی کو تھام کر چہرے کو مزید اونچا کیا۔ ۔۔۔ اس کے ہونٹوں پر جھک کر اپنے ہونٹ رکھ کر اپنے دل میں آئی دوسری خواہش پوری کرنے لگا۔۔۔ زینش نے اپنے دونوں بازوؤں کا ہار بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا۔۔۔ تو بلال کے انداز میں مزید شدت آگئی جو وہ زینش کو مزید خود میں بھیج کر پوری کرنے لگا، اس کے انداز پر زینش بوکھلا بلال کو پیچھے کرنے لگی


"بس بھی کردیں بلال کیا ہوگیا آپ کو"

زینش بلال کو پیچھے ہٹاتی ہوئی اپنی سانسیں درست کرتی ہوئی بولی


"ایسا تم چاہتی تھی میں نہیں"

بلال بولتا ہوا پیچھے ہٹا اور بیڈ سے اپنے کپڑے اٹھانے لگا


"کیا"

زینش بلال کو صدمے سے دیکھتی ہوئی دوبارہ اس کے سامنے آئی


"ایسا صرف میں چاہتی تھی بلال"

وہ بلال کے سامنے کھڑی ہو کر اس سے پوچھنے لگی بلال دوبارہ اس کے قریب آیا


"اچھے انداز میں پیار سے تم ہی اپنی تعریف سننا چاہتی تھی جو میں نے کر دی،، اب تو ہمارے بیچ میں جو بھی کچھ ہوگا وہ صرف تمہاری ڈیمانڈ پر ہی ہوگا سمجھ میں آیا کچھ۔۔۔ صرف 10 منٹ بچے ہیں تمہارے پاس،، دس منٹ تم اپنی فضول قسم کی تعریفوں میں گنوا چکی ہوں"

بلال زینش کو بولتا ہوا چینج کرنے چلا گیا


"ہاں تڑپ رہی نہ میں جو خود اپنے منہ سے ڈیمانڈ کرو اور دس منٹ کیسے بچے ہیں، کون سے دس منٹ تک کس کیا ہے آپ نے،، میں پورا گھنٹہ لوں گی تیار ہونے میں سنا آپ نے"

زینش جان بوجھ کے تیز آواز میں بولی تاکہ بلال کے کانوں تک ساری باتیں پہنچ جائیں اور خود اپنے پہننے کے لیے نکاح والے دن کا ڈریس نکلنے لگی


*****


"مشکل ہی لگ رہا ہے کے آج آپ کے شمس ماموں کے گھر ڈنر جا پائے"

گھر سے نکلتے ہی وہ دونوں کافی لیٹ ہو چکے تھے اوپر سے بیچ راستے میں بلال کی گاڑی خراب ہوگئی جس پر زینش اکتاتی ہوئی بلال سے بولی


"تمہارا تو پہلے ہی میرے ماموں کے گھر جانے کا موڈ نہیں تھا اوپر سے جان بوجھ کر تم نے تیاری میں دو گھنٹے لگائے،، وہاں جانا تو آپ واقعی ناممکن سا لگ رہا ہے بس دعا کرو کہ کار اسٹارٹ ہو جائے اور ہم لوگ عزت سے گھر پہنچ جائیں"

بلال پانی کی خالی بوتل دائیں طرف جھاڑیوں میں اچھال کر گاڑی کا بونٹ بند کرتا ہوا زینش سے بولا تو بلال کی بات سن کر زینش کار سے اترتی ہوئی بولی


"یہ جو آپ دو دن سے مسلسل طنز کے تیر چلا رہے ہیں نہ بلال اب بس کر دیں۔ ۔۔ آپ کے ماموں کے گھر اگر ہم لوگ نہیں جا سکتے تو اس کی وجہ آپ کی یہ گاڑی ہے، نہ کہ میرا دو گھنٹے تیار ہونا۔۔۔۔ اگر میں دس منٹ کے اندر بھی تیار ہو جاتی تو اس ناکارا کار کو چلتے چلتے یونہی مر جانا تھا"


وہ گاڑی سے نیچے اتر کر بلال کے طنز کے جواب میں بولی ایک تو بلال کی فرمائش پر اسے نکاح والا ڈریس پہنا وہی لال رنگ کی چوڑیاں پہنی اور بلال اس پر سرسری نگاہ ڈال کر "اب جلدی چلو" کہہ کر فلیٹ سے باہر نکل گیا زینش کو تو کب سے غصہ چڑھا ہوا تھا اسی بات کو لے کر


"زینش میرا موڈ اور دماغ دونوں ہی پہلے سے خراب ہیں اب تم مزید خراب مت کرو،، جاؤ جا کر گاڑی میں بیٹھو"

بلال اسے جھڑکتا ہوا بولا اور خود کار اسٹارٹ کرنے لگا


"موڈ اور دماغ درست رہتا ہی کب ہے"

زینش بڑبڑاتی ہوئی اپنے موبائل پر آتی ہوئی شہنیلہ کی کال ریسیو کرنے لگی۔۔۔ وہ سڑک پر ایک سائڈ ہو کر آہستہ آہستہ چلتی ہوئی موبائل پر بات کر رہی تھی کیونکہ اس وقت روڈ سنسان تھا اور بلال اپنی گاڑی کے ساتھ سر کھپا رہا تھا تب دور سے بلال کو سامنے سے ایک گاڑی آتی دکھائی دی جسے بلال نے ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کیا


"ارے معظم یہ تو وہی ہیں جنھوں نے اس دن میری ہیلپ کی تھی"

معظم اور سندیلا گھوم پھر کر ڈنر سے فارغ ہوکر واپس آ رہے تھے تب سندیلا کو راستے میں بلال دکھائی دیا،، سندیلا اسے پہچان کر معظم سے بولی


"ہاں وہی ہے میں پہچان چکا ہوں، شاید گاڑی خراب ہوگئی ہے اس کی"

معظم نے اس کی رکی ہوئی گاڑی اور بلال کے اشارہ کرنے سے اندازہ لگایا،، دور ہی اس کی نظر ایک لڑکی پر پڑی جس کی پشت ان لوگوں کے سامنے تھی معظم نے بلال کی گاڑی کے سامنے اپنی گاڑی روک دی


"ارے آپ دونوں"

بلال ان دونوں کو دیکھ کر پہچان چکا تھا


"کیا ہوا کوئی مسئلہ ہو گیا گاڑی میں"

خیریت پوچھنے کے بعد معظم خود بلال سے پوچھنے لگا اور بلال کے بتانے پر وہ خود سے اس کی کار کا بونٹ کھول کر دیکھنے لگا جبکہ بلال گاڑی میں بیٹھی ہوئی سندیلا کی گود میں اس کی بیٹی کو دیکھ کر اس کا نام جاننے کے بعد سندیلا سے خیریت پوچھنے لگا تبھی سندیلا اس سے بولی


"اس دن میں اتنی گھبرائی ہوئی اور پریشان تھی کہ بعد میں آپ کو شکریہ بھی نہیں بھول پائی، اس رات آپ نے میری ہیلپ کر کے مجھے بہت بڑی پریشانی سے نکالا تھا ورنہ معلوم نہیں پوری رات گھر سے باہر میں کیا کرتی"

سندیلا مشکوک نگاہوں سے بلال کو دیکھتی ہوئی بول رہی تھی تب زینش نے شہنیلا کی کال ختم ہونے کے بعد مڑ کر دیکھا


ایک اور گاڑی ان لوگوں کی گاڑی کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔ گاڑی کا بونٹ اوپر ہونے کی وجہ سے وہ معظم کو دیکھ نہیں پائی مگر بلال کو اس گاڑی میں بیٹھی لڑکی سے باتیں کرتا دیکھ کر زینش ان دونوں کے پاس آنے لگی


"آپ کو شکریہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے اخلاقی طور پر کسی کو مشکل میں دیکھ کر اس کی مدد کرنا ہے ہر انسان کا فرض ہوتا ہے۔۔ اس وقت میں اپنی وائف کے ساتھ ہوں آپ اس سے مل کر نہ صرف خوشی ہوگی مجھے پوری امید ہے آپ حیران بھی ہوگیں"

بلال نے سندیلا سے کہا تو اسے بلال کی بات سمجھ میں نہیں آئی مگر بلال اپنی طرف آتی زینش کو دیکھ چکا تھا تبھی سندیلا سے بولا


معظم نے پلٹ کر اپنے پاس سے گزرتی ہوئی لڑکی کو دیکھا وہ ابھی بھی اس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا، زینش کی پشت دیکھ کر وہ اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ لڑکی سندیلا اور بلال کے پاس کی جارہی ہے


سندیلا پری کو گود میں لیے حیرت سے اپنی ہم شکل لڑکی کو دیکھ کر گاڑی سے نیچے اتری،، وہی زینش بھی پوری آنکھیں کھول کر حیرت سے سندیلا کو دیکھ رہی تھی


"زینش یہ ہیں وہ جن کا ذکر میں تم سے کر رہا تھا"

بلال ان دونوں کو شاکڈ دیکھ کر مسکرا کر زینش کے پاس آ کر بولا


"مسز معظم یہ میری وائف ہیں زینش"

بلال اپنی بیوی کا تعارف کرواتا ہوا شاگڈ کھڑی سندیلا سے بولا۔۔۔ وہ دونوں ابھی بھی حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھیں بلال ان دونوں سے ایسے ہی ری ایکشن کی توقع کر رہا تھا


"شاید تمہاری گاڑی ٹھیک ہوگئی ہے بلال اسٹارٹ کر کے دیکھنا ذرا"

معظم کی آواز پر بلال کے ساتھ ساتھ زینش نے بھی پلٹ کر دیکھا اب وہ اپنے سامنے کھڑے معظم کو حیرت سے دیکھ رہی تھی اور اتنی حیرت سے معظم زینش کو دیکھنے لگا۔۔۔ اسے حیرت زینش کو دیکھ کر نہیں بلکہ بلال کے ساتھ زینش کو دیکھ کر ہوئی تھی


"کیا ہوا کیا تم دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہو"

بلال معظم اور زینش کو حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتا ہوا دیکھ کر پوچھنے لگا


"نہیں،، چلیں سندیلا دیر ہو رہی ہے ہمیں"

معظم نے فوراً اس کو پہچاننے سے انکار کر کے سندیلا کو چلنے کا کہا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔ پہلے سندیلا اپنی ہم شکل کو دیکھ کر حیرت ذدہ تھی اور اب معظم کو اتنا سیریس ہوکر زینش کو دیکھ کر وہ کنفیوز ہونے لگی


"میری ہم شکل لڑکی سے تم نے شادی کی ہوئی ہے اور اس کو میرے بارے میں بتایا بھی نہیں یہ بات غلط ہے معظم"

زینش کی آواز پر معظم نے پلٹ کر زینش کو دیکھا


"منہ بند رکھو اپنا"

وہ انگلی اٹھا کر زینش کو وارننگ دیتا ہوا بولا جس پر بلال کی پیشانی پر بل پڑے


"تمیز سے بات کرو میری بیوی سے معظم۔۔۔ زینش کون ہے یہ"

بلال کو معظم کا ناگوار لہجہ ایک آنکھ نہیں بھایا جبھی وہ ساری انسانیت ایک طرف رکھ کر معظم کو ٹوکنے کے بعد زینش سے پوچھنے لگا اور اس ساری سچویشن میں سندیلا ابھی تک کنفیوز پری کو گود میں اٹھائے کھڑی تھی


"سندیلا کار میں بیٹھیں آپ"

زینش کے کچھ بولنے سے پہلے معظم سندیلا سے مخاطب ہوا وہ بےشک بلال کو کچھ بھی بتاتی اسے پرواہ نہیں تھی لیکن معظم سندیلا کو لے کر یہاں سے جانا چاہتا تھا


"یہی تھا وہ جس نے مجھے کالج سے کڈنیپ کیا تھا"

زینش کی آواز پر سندیلا کے گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے قدم رکے، وہ آنکھوں میں بےیقینی لیے غصے میں کھڑے معظم کو دیکھ رہی تھی جو کہ اس وقت غصے میں بھرا ہوا ہونٹ بھینچ کر زینش کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ زینش کی بات سن کر بلال حیرت سے معظم کو دیکھنے لگا،، تب زینش بلال کی طرف سے اپنا رخ سندیلا کی طرف کرتی ہوئی بولی


"جانتی ہوں اس نے مجھے نہ صرف کالج سے کڈنیپ کیا تھا بلکہ مجھے ساری رات کے لئے ایک سنسان جگہ پر بھی رکھا، یہ خود بھی ساری رات وہی موجود تھا"

زینش حیران پریشان کھڑی سندیلا کو دیکھ کر بولی بلال غصے کی کیفیت میں اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں کو ضبط کے مارے بند کیے کھڑا تھا


"گڈ اب ذرا آگے کی کہانی بتاؤ"

معظم طنزیہ لہجے میں زینش کو دیکھ کر بولا کیونکہ اس رات اس نے زینش کے ساتھ وہ نیچ کام ہرگز نہیں کیا تھا جو زینش کا گھٹیا باپ اس کی بہن کے ساتھ کر چکا تھا


"کونسی والی کہانی،، وہ والی کہانی جب تم نے میرے کپڑے پھاڑے تھے یا پھر وہ کہانی جب تم اپنے موبائل سے میری ویڈیو بنا رہے تھے"

زینش چلتی ہوئی معظم کے پاس آئی اور اسی کی طرح طنزیہ انداز میں معظم سے پوچھنے لگی۔۔۔ جس پر معظم کا دل چاہا وہ زینش کا منہ توڑ دے شاید وہ ایسا کرتا بھی اگر بلال ایک دم جھپٹ کر اس کا گریبان نہ پکڑتا


"تم جیسے مردوں کو زندہ زمین میں گاڑ دینا چاہیے"

بلال معظم کا گریبان پکڑ کر غصے میں بولا تو بلال کے لیے ری ایکشن پر جہاں زینش تھوڑا پریشان ہوئی وہی سندیلا بھی ایک دم ہوش میں آئی۔۔۔ معظم نے اپنے گریبان پر موجود بلال کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر اسے اسکی گاڑی کی طرف دھکا دیا


"عزت پامال نہیں کی تھی میں نے اس رات تمہاری بیوی کی، اگر میں ایسا کرتا تو یہ یہاں کھڑی میرا کارنامہ بتانے کی بجائے اب تک شرم سے خود مر چکی ہوتی جیسے میری بہن مر چکی ہے اس کے نیچ باپ کی گھٹیا حرکت کی وجہ سے"

معظم بلال کو دھکا دیتا ہوا چیخ کر بلال سے بولا تو بلال اور سندیلا دونوں ہی اس انکشاف پر شاکڈ رہ گئے وہی زینش کا دل چاہا کے وہ اپنا منہ چھپا کر کہیں بھاگ جائے۔۔۔ اتنے میں دور سے پولیس کی گاڑی وہاں آکر کی


"اوئے کیا کر رہے ہو تم لوگ یہاں اتنی سنسان جگہ پر"

پولیس والا وین سے اتر کر معظم اور بلال کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا


"کچھ نہیں انسپکٹر صاحب ہم آپس میں بات کر رہے تھے"

معظم انسپکٹر کو دیکھ کر بات سنبھالتا ہوا بولا جو اب ہونقوں کی طرح سندیلا اور زینش کو باری باری دیکھ رہا تھا


"او جانتا ہوں میں اچھی طرح تم لوگ کیا باتیں کر رہے تھے میں نے خود تمہیں دور سے اسے دھکا دیتے ہوئے دیکھا ہے، بناؤ مت مجھے زیادہ۔۔۔۔ خاندان کے پھڈے سڑکوں پر کرنے نکل آتے ہو تم لوگ،، چلو اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھو اور سڑک خالی کرو۔۔۔ اپنے پیو کا روڈ سمجھا ہوا ہے ابھی کوئی واردات ہوجائے گی تو عاتیں ہوئے تھانے آجانا ہے چلو راستہ ناپو اپنے گھروں کا"

پولیس انسپکٹر سندیلا اور زینش کی شکلیں دیکھ کر ان لوگوں کو بہنیں یا رشتے دار سمجھ بیٹھا تھا تبھی اونچی آواز میں بولا


"چلیں سندیلا"

معظم سندیلا کے پاس آ کر غور سے اس کو دیکھتا ہوا بولا جو معظم کو دیکھتی ہوئی خاموشی سے گاڑی میں بیٹھنے لگی تو فوراً معظم نے اسکے لیے دروازہ کھولا۔۔۔۔ جبکہ بلال کچھ بولے بنا زینش کا ہاتھ پکڑ کر خود اسے گاڑی میں بٹھانے لگا


*****

گھر کے پاس گاڑی آکر رکھی تو سندیلا ابھی تک غائب دماغ گاڑی میں بیٹھی تھی۔۔ معظم سندیلا کو دیکھنے لگا سارے راستے وہ یونہی خاموش بیٹھی رہی تھی، پری اس کی گود میں سوچکی تھی۔۔۔ معظم اپنے سائڈ کا دروازہ کھول کر نیچے اترا


"سندیلا گھر آ چکا ہے"

سندیلا کی طرف کا دروازہ کھول کر اس کی گود سے پری کو لیتا ہوا معظم سندیلا سے بولا تو سندیلا گاڑی سے اتر کر گھر کے دروازے کی طرف چل دی


معظم پری کو گود میں اٹھائے کمرے میں چلا گیا سندیلا وہی تخت پر بیٹھ کر کھلے آسمان کو دیکھنے لگی،، آج اپنی بیٹی اور اپنے شوہر کے ساتھ خوشگوار شام گزار کر وہ خوش تھی باہر کی دنیا دیکھ کر پری بھی خوشی اور ان دونوں کو خوش دیکھ کر معظم بھی خوش تھا مگر شاید اوپر والا اس سے خفا تھا جبھی واپسی پر اس پر حیرت انگیز اور افسوسناک انکشاف ہوئے۔ ۔۔۔


معظم میں دس برائیاں سہی، بےشک وہ برا کام کرتا ہو مگر سندیلا اس کے بارے میں کبھی بھی نہیں سوچ سکتی تھی کہ وہ کسی لڑکی کو اغواء کر سکتا تھا، اتنی گھٹیا حرکت کی توقع وہ معظم سے کبھی بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ جبھی اس کی بہن کے ساتھ وہ سب کچھ زینش کے باپ نے "اف" سندیلا کو اچانک اپنا سر چکراتا ہوا محسوس ہوا


کیا تھا اس کا شوہر وہ نہیں جانتی تھی وہ معظم کو بالکل بھی نہیں جانتی تھی،، وہ معظم سے بد گمان نہیں ہونا چاہتی تھی مگر ہو رہی تھی قدموں کی آہٹ پر چونک کر سندیلا نے کمرے سے باہر آتے ہوئے معظم کو دیکھا وہ پری کو لٹا کر سندیلا کے پاس آیا تھا


****


"جی ماموں میں اور زینش واپس گھر آ چکے ہیں، آپ کے گھر زینش کے ساتھ پھر کسی روز چکر لگاؤں گا، ممانی کو بھی بولیے گا پلیز وہ مائنڈ نہیں کریں"

بلال گھر پہنچنے کے بعد اپنے ماموں کو موبائل پر ان کے گھر نہ آنے کی کچھ سچی کچھ جھوٹی وجہ بتا رہا تھا جبکہ زینش فلیٹ کی بالکنی میں دونوں ہاتھوں سے گرل کو پکڑے کھڑی باہر جلتی بجھتی بتیوں کو دیکھ رہی تھی


"اندر آجاؤ زینش کافی رات ہو چکی ہے"

بلال اس کی خاموشی کا نوٹس لیتا ہوا بالکنی میں آ کر زینش سے بولا


"سکون دے رہا ہے یہاں کھڑے ہوکر رات کی تاریکی کو دیکھنا۔۔۔ آپ سو جائیں، ورکنگ ڈے ہے کل آپ آفس جانا ہوگا۔۔۔ جب کھڑے کھڑے تھک جاؤ گی تو خود ہی اندر آ جاؤں گی"

زینش بلال کی طرف بغیر دیکھے بغیر یونہی گرل کو پکڑے بولی۔ ۔۔۔ تو بلال نے اس کو دونوں شانوں سے تھام کر اس کا رخ اپنی طرف کیا


"خود کو بلاوجہ تھکانہ کہاں کی عقلمندی ہے۔۔۔ تم رات کی تاریکی میں سکون تلاش کر رہی ہوں یہاں دیکھو میری طرف، اجالے تمہارے منتظر ہیں"

بلال نے بولتے ہوئے زینش کا چہرہ تھاما تو زینش بلال کو دیکھنے لگی اسکے چہرے پر کوئی غصہ یا ناراضگی کے تاثرات نہیں تھے


"وہ سہی بول رہا تھا اس رات اس نے میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے"

زینش کی بات مکمل ہونے سے پہلے بلال نے اس کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھا


"محبت کی ہے میں نے تم سے، جانتی ہو محبت کسے کہتے ہیں،، جس کو چاہا جائے اس کو اس کی ساری خامیوں کمزوریوں اور برائیوں کے ساتھ قبول کیا جائے۔۔۔ میں جانتا ہوں اس رات تہمارے ساتھ کچھ بھی غلط نہیں ہوا اور یہ بات مجھے بےہوشی کی حالت میں تم نے خود بتائی جب تم میرے کمرے میں مجھ سے سوری کرنے کے لئے آئی تھی اور میں نے غصے میں تمہیں ہرٹ کرنے کی کوشش کی،، اس رات تم نے بے ہوشی میں وہ سب باتیں بولی جو تمہارے دل میں تھی لیکن اگر خدانخواستہ تمہارے ساتھ کچھ بھی برا ہوا ہوتا تب بھی میں تمہیں قبول کرتا اور ویسے ہی محبت کرتا"

بلال زینش کا چہرا تھام کر اس سے بولنے لگا تو زینش کی آنکھیں نم ہو گئیں


"بلال وہ صحیح کہہ رہا تھا بابا نے اس کی بہن کے ساتھ بہت ناجائز کیا وہ بےچاری تو معذور تھی بابا کے اس عمل پر میں ساری زندگی شرمندہ رہو گی لیکن اس بات کو لے کر آپ کبھی بھی مجھ سے اپنے دل برا مت کریئے گا"

زینش کے بولنے پر بلال نے اسے بازوؤں میں بھر لیا


"ہر انسان اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہوتا ہے زینش تمہارے بابا نے جو بھی کچھ کیا اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں،، یہ ان کا اور خدا کا معاملہ ہے۔۔۔ اس میں تمہیں کچھ بولنے والا کون ہوتا ہوں لیکن تمہیں معظم کی وائف کے سامنے وہ سب کچھ نہیں بولنا چاہیے تھا، تم نے غصے اور جذبات میں آکر غلط کیا۔۔۔ آئی ہوپ کہ اس کی وائف معظم کو غلط نہیں سمجھے"

بلال اسے حصار میں لے لیتا ہوا بولا تو زینش کو اپنے جذباتی پن پر شرمندگی ہونے لگی


"اب اندر چلیں اپنے بیڈروم میں"

بلال اس کے بالوں کو ہونٹوں سے چھونے کے بعد زینش سے پوچھنے لگا


"پہلے نتاشہ والی بات کلیر کریں" زینش اس سے الگ ہوتی ہوئی بولی تو بلال ایک دم ہنسا


"یار بتایا تو تھا تمہیں پہلے میرے ساتھ پڑھتی تھی اور آپ آفس میں جاب کرتی ہے"

بلال دوبارہ سیریس ہوکر زینش کو بولتا ہوا اس کا جیلس روپ دیکھنے لگا جسے دیکھ کر سیریس ہونے کے باوجود اسے ہنسی آ رہی تھی


"یاد ہے آپ نے مجھے بتایا تھا مگر اس کے ساتھ ڈنر کس خوشی میں کیا تھا یہ بتانا بھول گئے تھے آپ"

زینش جتاتی ہوئی بلال سے پوچھنے لگی


"نتاشہ کا منگیتر فخر وہ بھی میرا یونیورسٹی فیلو اور دوست رہا ہے ڈنر پر وہ بھی ہمارے ساتھ وہی موجود تھا۔۔۔ ان دونوں کے بیچ کوئی ناراضگی چل رہی تھی، تو میں صلح صفائی کروانے گیا تھا۔۔۔ اگر ابھی بھی تمہیں شک ہے تو نیکسٹ ویک اینڈ پر وہ دونوں ہمارے گھر ڈنر پر انوائٹ ہیں بے شک تم فخر سے پوچھ لینا"

بلال نے بولتے ہوئے دوبارہ زینش کے نازک وجود کو بازوؤں میں بھرا۔۔۔ اس کے کہنے پر زینش نے یہ ڈریس پہنا تھا۔۔۔ آج وہ اسے اس ڈریس میں نکاح والے دن سے بھی زیادہ پیاری لگ رہی تھی


"مجھے کوئی شک وک نہیں ہے آپ پر وہ تو میں ویسے ہی پوچھ رہی تھی"

زینش اس باہوں میں تھوڑا کھسیا کر بلال سے بولی جس پر بلال مسکرانے لگا


"جتنا تمہیں اپنے شوہر پر اعتبار ہے، وہ تم مجھے دس بچوں والی اماں کا طعنہ دے کر بتا چکی ہوں"

بلال کی بات سن کر زینش مسکراہٹ چھپاتی بلال کو گھورنے لگی


"کیا انجوائے کر رہی ہو یہاں بالکونی میں کھڑے ہوکر۔۔۔ چلو ناں اب اپنے بیڈ روم میں چلتے ہیں"

بلال ایک بار پھر زینش سے بولا جو بالکنی میں کھڑے ہوکر اس سے باتیں بنائے جا رہی تھی


"کیا کرنا ہے آپ کو بیڈ روم میں جاکر پہلے آپ یہ بتائیں مجھے"

وہ بلال کی باہوں میں انجان بنی اس دیکھ کر اس سے پوچھنے لگی بلال غور سے زینش کا چہرا دیکھتا ہوا بولا


"تمہاری بہت ساری تعریفیں کرنی ہیں وہ بھی بہت زیادہ رومانٹک انداز میں،، تمہیں آج بتانا ہے کہ تم کب کب اور کس جگہ مجھے بہت زیادہ پیاری لگی"

لو دیتی نظروں سے دیکھتا ہوا وہ زینش سے بولا زینش اسکی نظروں کا مفہوم خوب سمجھتی تھی لیکن اپنی مسکراہٹ چھپا کر بلال کو تنگ کرنے لگی


"تعریف آپ میری یہی کھڑے کھڑے کرلیں کیو کہ اب تو جو کچھ ہوگا وہ میری ڈیمانڈ پر ہوگا ایسا شمس ماموں کے گھر جانے سے پہلے آپ ہی مجھ سے کہہ چکے ہیں"

زینش کی بات سن کر بلال گھور کر اسے دیکھنے لگا


"شمس ماموں کے گھر جانے سے پہلے بکواس کی تھی میں نے، آج تم ذرا مجھے روک کر دکھاؤ پھر میں تمہیں اچھی طرح بتاؤں گا"

بلال اس کو اپنے بازوؤں میں اٹھا کر بولتا ہوا بیڈروم کی طرف جانے لگا۔۔۔ بھلا زینش اب کہاں بلال کو روک سکتی تھی کیونکہ وہ خود اپنے اور بلال کے رشتے کے لئے دل سے راضی تھی


*****


"کیا ہوا اب کیا سوچ رہی ہیں آپ میرے بارے میں"

معظم چلتا ہوا سندیلا کے قریب آیا اس کے سامنے صحن کی دیوار سے ٹیک لگا کر تخت پر بیٹھی ہوئی سندیلا کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا


"سوچنے کے لئے کچھ چھوڑا ہے تم نے، مجھے تم سے اس قدر گری ہوئی حرکت کی توقع نہیں تھی معظم، میرے شوہر کوئی بھی برا کام کر سکتا ہے مگر وہ کسی لڑکی پر غلط نگاہ نہیں ڈال سکتا۔۔۔ اس کے ساتھ اس قدر غلط کیسے کر سکتے ہو تم"

سندیلا کا بولتے ہوئے نہ صرف دل دکھا تھا بلکہ اس کی آنکھیں نم ہوئی تھی۔۔۔ جبکہ معظم کا سندیلا کے جملے پر یہ دل تڑپ گیا


"میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ بات آپکو جتاؤ آپ سے نکاح کے بعد پری کو ہمیشہ اپنی سگی اولاد سمجھا ہے۔۔۔ کوئی بھی باپ اپنی اولاد کی جھوٹی قسم نہیں کھا سکتا اگر میں ایسا کرو تو اگلی صبح کا سورج مجھے دیکھنا نصیب نہ ہو۔۔۔ میں نے اس رات زینش کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی تھی،، صرف اور صرف اس کے باپ کو اذیت سے دوچار کرنا چاہتا تھا میں نے۔۔۔ میں چاہتا تھا اس کا باپ بھی وہی تکلیف برداشت کرے جو اپنی بہن کیا لٹی پٹی حالت دیکھ کر میں نے برداشت کی میری ماں نے کی"

معظم نے اس دن ہونے والی پوری کہانی سندیلا کو سنائی کہ کس طرح زینش کے باپ نے اس کی 18 سالہ معذور بہن کے ساتھ زیادتی کی، جس کے صدمے میں اس کی ماں اور بہن دونوں اس دنیا سے چلی گئیں۔۔۔ بدلے کی آگ میں اس نے زینش کو کالج سے اٹھایا مگر پھر بھی وہ زیبش کے ساتھ وہ گھلونا عمل نہیں کر سکا جو رضوان نے اس کی بہن کے ساتھ کیا


صحن میں مکمل خاموشی تھی معظم نیچے فرش کو دیکھ رہا تھا جبکہ سندیلا معظم کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ ساری باتیں واضح ہوچکی تھی شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے زیر اثر معظم جرائم کی دنیا سے متعارف ہوا ہے ایسا سندیلا کا خیال تھا۔۔۔ ساری باتیں واضح ہونے کے باوجود ایک بات کو لے کر سندیلا کے دل میں پھانس سی چھبھ گئی جبھی وہ معظم سے پوچھنے لگی


"چاہتے تھے ناں تم زینش کو"

معلوم نہیں وہ یہ سوال کیوں معظم سے پوچھ رہی تھی۔۔۔ اگر احتشام اس کا نکاح معظم سے نہیں کرواتا تو معظم اس وقت اس کی زندگی میں نہیں ہوتا پھر وہ بھلا کون ہوتی ہے معظم سے یہ سوال کرنے والی


معظم سندیلا کی بات سن کر چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور خود بھی تخت پر بیٹھ کر سندیلا کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامتا ہوا بولا


"اچھی لگتی تھی وہ مجھے، شادی کرنے کا بھی سوچا تھا اس سے"

معظم سندیلا کا صاف شفاف ہاتھ کو دیکھتا ہوا اس سے بول رہا تھا معظم کی بات سن کر سندیلا کے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا


"تو پھر کیوں نہیں کی اس سے شادی، دیکھا جائے تو تمہیں اسی سے شادی کرنا چاہیے تھی"

سندیلا کو بولتے ہوئے تکلیف ہوئی، آنسوؤں کا گولا بھی اس کی حلق میں اٹھ گیا اس لیے بولتے ہوئے اس کا لہجہ بھی بھرا سا گیا


"کیوں کرنی چاہیے تھی مجھ اس سے شادی،،، میں کیسے کر سکتا تھا اس لڑکی سے شادی جس کے باپ نے میری کم عمر بہن کی عزت کو پامال کر دیا، اسے رسوائی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔۔۔ کیسے کر سکتا تھا میں اس کی بیٹی سے شادی،، صرف اس وجہ سے کہ وہ میری پسند رہی ہے، میں اس سے شادی کر کے آخرت میں اپنی ماں اور بہن کو کیا منہ دکھاتا میرا خود کا اپنا ضمیر زینش کو بیوی کے روپ میں دیکھ کر مجھے تاعمر کوڑے لگاتا رہتا وہ کیسے برداشت کرتا میں۔۔۔۔ دنیا کی اگر وہ آخری لڑکی میرے لیے بچتی میں تب بھی اس سے شادی نہیں کرسکتا تھا سندیلا"

معظم سندیلا کو دیکھتا ہوا بولا وہ ابھی بھی معظم کو دیکھ رہی تھی اس کا ہاتھ ابھی بھی معظم کے ہاتھ میں تھا


"تو پھر اسی شکل کی دوسری لڑکی سے تمہارا شادی کرنے کو کیسے دل مانا"

سندیلا کی بات سن کر معظم کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی اس نے سندیلا کا تھاما ہوا ہاتھ اپنے ہونٹوں پر رکھ دیا پھر سندیلا سے بولا


"شکل کے ایک جیسا ہونے سے کیا ہوتا ہے، آپ کو الگ مٹی سے بنایا گیا ہے، دوسری روح آپکے جسم میں ڈالی گئی ہے آپ اس سے بالکل مختلف ہیں،، بےشک آپ اس کی ہم شکل ہیں لیکن میرے لیے قدرت کی طرف سے انمول تحفہ ہیں جو اوپر والے نے مجھے بیوی کی صورت عطا کیا، میری زندگی میں دو ہستیاں بہت اہمیت رکھتی تھی جو اس وقت دنیا میں موجود نہیں ہیں، آپ اور پری مجھے ان کے بدلے میں ملی ہیں۔۔۔ زینش کو میں نے چاہا تھا مگر آپ سے میں نے محبت کی ہے، وجہ آپ کا اور اس کا ایک شکل کا ہونا ہرگز نہیں ہے میری محبت پر کبھی بھی شک مت کریئے گا۔۔۔ نہ ایسا خیال اپنے دل میں لائیے گا کہ میں آپ میں اس کو ڈھونڈتا ہوں، وہ اب کہیں بھی موجود نہیں ہے سندیلا۔۔۔ آپ اپنے آپ کو اس معاملے میں خوش نصیب تصور کریں کہ آپ کا یہ موالی شوہر اپنی آستانی جی سے بےغرض اور سچی محبت کرتا ہے"

معظم کے اعتراف پر سندیلا کے دل میں اندر تک ٹھنڈک اترتی چلی گئی اس نے معظم کے سینے پر اپنا سر رکھ دیا معظم سندیلا کو بازوؤں کے حلقے میں لیتا ہوا خود بھی پرسکون ہو گیا


تھوڑی دیر بعد معظم اپنی پاکٹ سے ایک پینڈینٹ نکال کر سندیلا کو گلے میں پہناتا ہوا بولا


"زیادہ مہنگا نہیں ہے، اچھا لگا تو آپ کے لئے خرید لیا اسے ہمیشہ پہنے رئیے گا"

معظم سندیلا کو دیکھتا ہوا بولنے لگا


"یہ میرے لئے ساری چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے"

سندیلا نے بولتے ہوئے ایک بار پھر معظم کی سینے پر اپنا سر رکھا چند منٹ پہلے دل میں آئے بدگمانی کے بادل جیسے کہیں چھٹ سے گئے


*****

زینش صبح کے وقت اپنے اور بلال کے لیے ناشتہ بنا رہی تھی، ناشتہ بناتے وقت مسلسل ایک خوبصورت سی مسکان اس کے لبوں پر سجی ہوئی تھی یہ مسکان کل رات بلال کی قربتوں کا بخشا ہوا ہے اعجاز تھی۔۔۔ کل رات زینش نے بلال کو اپنے اور اس کے نکاح والے دن، معظم کی بھی آمد کا بتا دیا تھا کیوکہ وہ بلال سے اپنے رشتے کا آغاز کسی بھی بات کو چھپا کر نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔ بلال جوکہ ابھی شاور لے کر نکلا تھا عام دنوں کی بانسبت وہ کافی فریش اور خوش نظر آ رہا تھا۔۔۔ زینش کے لئے اس کے جذبوں میں سچائی تھی وہ آج بیوی بن کر ایک خوبصورت رشتے کی صورت اس کے پاس تھی،، وہ بلاوجہ کی آنا یا ناراضگی میں پڑ کر اپنا اور زینش کا یہ خوبصورت رشتہ خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔ آفس جانے کے لئے تیار ہوتا ہوا وہ بیڈروم سے نکل کر کچن کا رخ کرنے لگا۔۔۔ جہاں زینش اس کے لئے ناشتہ تیار کر رہی تھی،، زینش کو کچن میں مصروف دیکھ کر بلال نے اس کی پشت پر کھڑے ہو کر ایک جاندار کے قسم کا اسے ہگ(hug) کیا


"اُفف بلال کیا کر رہے ہیں کیا میری پسلیاں توڑیں گے"

بلال کی کچن میں آمد پر وہ بالکل بےخبر تھی اس لئے بلال کے جذباتی انداز پر وہ اس سے بولی جو اس کے وجود دونوں بازوؤں میں مضبوطی سے جکڑے ہوئے کھڑا تھا


"بس اتنے میں تمہاری پسلیاں ٹوٹ جائیں گی۔،۔۔۔ کل رات کو کون سی توڑ پھوڑ کی ہے تمہاری،، ذرا مجھے بتانا"

بلال نے اسے مزید بازوؤں میں جگڑتا ہوا پوچھنے لگا تو زینش اس کی باتوں پر بلش کرنے لگی وہ ابھی بھی گہری نظروں سے زینش کو دیکھ رہا تھا


"شرم کریں اب رات مکمل ہوچکی ہے اور دن کا آغاز ہوچکا ہے"

اس کی معنیٰ خیز نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ بلال سے بولی، دوسروں کے سامنے اتنا ریزرو دکھنے والا انسان اندر سے اتنا رومینٹک بھی ہوسکتا تھا یہ زینش نے نہیں سوچا تھا


"میں کل رات کی طرح، آفس جانے سے پہلے اپنی صبح بھی رومینٹک بنانا چاہتا ہوں اور اس کے لیے مجھے تمہاری اجازت کی ضرورت نہیں ہے"

چائے میں ابال آنے پر بلال چولہا بند کرتا ہوا، زینش سے بولا۔۔۔ ساتھ ہی زینش کے ہاتھ سے بٹر نائف لے کر پلیٹ میں رکھتا ہوا وہ اس کے ہونٹوں پر جھک گیا


کہی پل خاموشی کی نظر ہوئے تو زینش نے اس کے سینے پر دباؤ ڈال کر بلال کو پیچھے کیا،، تب بلال نے اس کے ہونٹوں کی جان بخشی۔۔۔ اب وہ دونوں ایک دوسرے سے اپنی پیشانی جوڑے ہوئے ہونٹوں کو ایک دوسرے کے نزدیک کیے گہری سانس لے رہے تھے


"میں آپ کو کل رات کو اجازات دے کر پچھتائی۔۔۔ اب آپ دو دن تک دوسرے روم میں سوئیں گے"

وہ بلال کی بڑھتی ہوئی نزدیکیوں اور وارفتگی سے گھبراتی ہوئی بولی اس پوزیشن میں بات کرتے ہوئے زینش کے ہونٹ بلال کے ہونٹوں کو چھو رہے تھے


"رئیلی تمہیں لگتا ہے میں ایسا ہونے دو گا۔۔۔ میں تو ابھی بھی سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ آج مجھے آفس جانا چاہیے کہ نہیں"

بلال نے جتنے اطمینان سے زینش کو بولا ویسے ہی بلال کی بات سن کر زینش کو کرنٹ لگا۔۔۔ اس سے پہلے وہ اس سے دور ہوتی بلال ایک بار پھر اس کے ہونٹوں کو قید کر چکا تھا


"آپ مجھے آج ناشتہ بنانے دیں گے یا نہیں"

زینش اس کی قربتوں کی تاب نہ لاتے ہوئے بلال سے پوچھنے لگی


"پھر سے دور جانے کی بات کروں گی"

بلال اسے اپنے بازوؤں میں بھر کر دھمکاتا ہوا پوچھنے لگا کل رات زینش کی قربت کا چڑھا ہوا نشہ اب بھی سر چڑھ کر بول رہا تھا


"میری توبہ ہے بلال میں اس بیڈروم کو لاک کر دوں گی مگر پلیز آپ کو ابھی تو آفس جانا ہوگا تاکہ میں تھوڑا ریسٹ کر سکوں"

زینش اس کی دھمکی پر گھبراتی ہوئی بولی تو بلال مسکراتا ہوا کہ کچن سے نکل کر ڈائننگ ہال میں آ گیا جہاں زینش ٹرے میں خود بھی ناشتہ لے آئی۔۔۔


بلال کو ناشتہ سرو کرکے وہ اس کی برابر والی کرسی پر بیٹھنے لگی تبھی بلال نے اسے کھینچ کر اپنی تھائی پر بٹھا لیا


"کیا ایسے ہی ساری عمر مجھ سے ڈرتی اور میری محبت سے گھبراتی رہوں گی"

بلال زینش کا چہرہ آنکھوں میں بسائے اس سے سیریس ہو کر پوچھنے لگا


"اگر آپ وقفے وقفے سے مجھ پر ایسے ہی مہربانیاں کرتے رہے تو شاید ہاں"

زینش کے معصومانہ انداز پر بلال ہنس دیا


"یہ اتنی صبح صبح کون آگیا"

فلیٹ کی ڈور بیل بجنے پر زینش اٹھ کر دوسری کرسی پر بیٹھی جبکہ بلال دروازہ کھولنے چلا گیا


"او نو،، تم صبح صبح اپنے اسکول جانے کی بجائے یہاں آگئے"

بلال صبح ہی صبح اپنے سامنے کھڑی چھوٹے سائز کی بڑی مصیبت کو دیکھ کر اچھا خاصا بدمزا ہوا اور منہ بناتا ہوا شہیر کو اندر آنے کا راستہ دینے لگا


"دیکھو صبح صبح مجھے بھی کوئی خاص شوق نہیں ہے کہ میں تمہارا دیدار کرو، میں یہاں اپنی فرینڈ کے پاس آیا ہوں"

شہیر بلال سے بولتا ہوا اندر آیا تو زینش نے مسکرا کر اسے اپنے برابر والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔ زینش بلال کے فیس ایکسپریشن دیکھ کر اپنی ہنسی چھپانے لگی


"امید ہے تم ناشتہ اپنے گھر سے کر کے آئے ہو گے"

بلال نے شہیر کو زینش کے برابر والی کرسی پر بیٹھتا ہوا دیکھ کر طنزیہ پوچھنے لگا اور خود بھی اپنی کرسی پر بیٹھ گیا یہ چھوٹے سائز کی بڑی مصیبت یقیناً اس کا رومینٹک بریک فاسٹ خراب کر چکی تھی


"تم مجھ سے امیدیں کم ہی وابستہ رکھا کرو برو۔۔۔ آج میرا زینش کے ہاتھوں سے ناشتہ کرنے کا موڈ ہو رہا ہے تبھی میں یہاں صبح صبح آ گیا۔۔۔ کیا زینش تم مجھے اپنے ان پیارے پیارے ہاتھوں سے ناشتہ کروانا پسند کروں گی"

شہیر نے بلال کو تپانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی،، اب وہ زینش کی جانب دیکھ کر معصومانہ انداز میں بولا تو زینش زور سے ہنس دی


"کیوں تمہارے ان چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں مہندی لگی ہے جو تمہیں میری بیوی کے پیارے پیارے ہاتھوں سے ناشتہ کرنا ہے"

شہیر کی فرمائش سن کر بلال ناشتہ کرتا ہوا شہیر سے پوچھنے لگا


"بلال وہ بچہ ہے"

زینش بلال کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اس طرح بولنے سے منع کرتی ہوئی بولی کہیں شہیر بلال کی باتیں دل پہ نہ لے لے


"مجھے کہیں سے نہیں لگتا"

بلال کندھے اچکا کر طنزیہ انداز میں مسکراتا ہوا بولا اور چائے کے سپ لینے لگا


"کہیں تم مجھ سے جیلس تو نہیں ہو رہے ہو مسٹر بلال"

بلال کے اس طرح بولنے پر شہیر بلال سے پوچھنے لگا


"میں اور تم سے جیلس۔۔۔ سامنے دیوار پر لگا ہوا آئینہ دیکھو بچے"

بلال نے باقاعدہ دیوار پر نصب شیشے کی طرف اشارہ کیا، زینش بلال کو گھورنے لگی شاید وہ واقعی چھوٹے سے بچے سے سچ میں جیلس ہو رہا تھا


"بلال آپ کو آفس نکلنا ہے آپ لیٹ ہو رہے ہیں"

زینش نے بلال کی پلیٹ میں موجود بریڈ کا پیس اپنے ہاتھ سے اس کے منہ میں ڈالتے بولا تو بلال نے نامحسوس طریقے سے زینش کی انگلیوں کو چوما


"اگر یہ بریڈ تم مجھے نہیں کھلاتی تو میں کبھی بھی آفس نہیں جاتا"

بلال آنکھ دباتا ہوا زینش سے بولا اور شہیر کو بڑی بڑی آنکھوں سے گھورتا ہوا کرسی سے اٹھا


"چلو باقی کا کارن فیلکس تم اپنے ہاتھ سے کھاؤ۔۔۔ میں بلال کو دروازے تک چھوڑ کر آتی ہوں"

زینش بلال کی نظروں کا مفہوم سمجھ کر خود بھی کرسی سے اٹھتی ہوئی شہیر سے بولنے لگی


"کیو کیا بلال کے پیروں پر مہندی لگی ہوئی ہے جو تم اس کو دروازے تک چھوڑنے جاؤں گی"

شہیر بھی بلال والے اسٹائل میں زینش سے بولا اس نے بلال کی ہی بات اسی پر لوٹائی تھی


"خاموشی سے ناشتہ کرو اپنا، امید ہے جب میں آفس سے واپس آؤ، تو تمہارا چہرہ نہ دیکھو"

بلال ہر بار کی طرح بنا لحاظ کیے بولا مگر شہیر ایسے ظاہر کرتا ہوا کارن فیلکس کھانے لگا جیسے بلال نے اپنے لفظ منہ سے نکال کر ضائع کیے ہو


جب زینش بلال کو باہر دروازے تک چھوڑنے آئی تو بلال زینش کے گال تک اپنے ہونٹ لایا، زینش فوراً پیچے ہوئی اور پلٹ کر شہیر کو دیکھنے لگی جس کی پشت ان دونوں کی طرف تھی اور وہ نیچے سر جھکائے کارن فیلکس کھا رہا تھا


"اسے جلدی الوداع کہہ دو زینش ورنہ وہ آفس جانے میں مزید دیر لگائے گا۔۔۔ میں تم لوگوں کو دیکھ کر تم لوگوں کی پرائیویسی ڈسٹرب کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا"

شہیر ان دونوں کو دیکھے بغیر بولا جس پر زینش کا حیرت سے منہ کھلا کا کھلا رہ گیا


"میں نے کہا تھا ناں وہ کہیں بھی بچہ نہیں ہے"

بلال اپنی انگلیوں سے زینش کا گال چھوتا ہوا بولا اور آفس کے لیے روانہ ہوگیا


*****


معظم اور پپو کو گھنٹہ بھر گزر چکا تھا گھر سے باہر نکلے ہوئے۔۔۔ سندیلا پری کو فیڈ کروانے کے بعد ابھی شاور لے کر نکلی تھی ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا ہوا اپنا پینڈینٹ پہننے لگی جبھی زور سے باہر کا دروازہ بجنے لگا پری کی نیند نہ خراب ہو یہ سوچ کر وہ جلدی سے باہر کا دروازہ کھولنے چلی گئی


"معظم بھائی کو گولی لگی ہے سینے میں۔۔۔ محلے کے لڑکے انہیں ابھی اسپتال لے کر گئے ہیں"

سندیلا نہیں جانتی تھی وہ سامنے کھڑا ہوا لڑکا کون تھا مگر جو وہ معظم کے لیے بول رہا تھا اسے سن کر سندیلا کو اپنے جسم سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی


"کک۔ ۔۔۔ کون سے ہسپتال پلیز جلدی بتاؤ"

سندیلا لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں اس لڑکے سے پوچھنے لگی۔۔ معظم جن کاموں میں ملوث تھا سندیلا کو یہی خدشات تو ستاتے تھے جن سے وہ ڈرتی تھی


"باہر ٹیکسی کھڑی ہے آئیے میں آپ کو لے کر چلتا ہوں،، جلدی چلیں بھابھی بہت زیادہ خون بہہ چکا ہے معظم بھائی کا"

وہ لڑکا کافی جلدی میں تو بہت عجلت میں سندیلا سے بولا


سندیلا اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرکے اندر کمرے میں جاکر پری کو گود میں اٹھا کر لے آئی۔۔۔۔ گھر کا دروازہ بند کرتی ہوئی لڑکے کے ساتھ دروازے سے باہر کھڑی ٹیکسی میں بیٹھ گئی۔۔۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار معظم کا چہرہ گھوم رہا تھا وہ راستے بھر روتی ہوئی معظم کی سلامتی کی دعائیں کرنے لگی


"یہ کوئی ہسپتال تو نہیں ہے کس کا گھر ہے یہ،، بولتے کیوں نہیں ہو معظم کہاں ہے"

سندیلا معظم کی وجہ سے اس قدر پریشان تھی کہ اس نے اپنا موبائل بھی ساتھ نہیں رکھا تھا


وہ ٹیکسی اسپتال کی بجائے کسی گھر کے اندر کار پورچ میں داخل ہوئی تھی۔۔۔ جبھی وہ مزید پریشان ہو کر اس لڑکے سے پوچھنے لگی مگر اس لڑکے کو بولنے سے پہلے اسے گھر کے اندر سے احتشام باہر آتا دکھائی دیا تو خوفزدہ ہوکر احتشام کو دیکھنے لگی


"ٹیکسی سے تم خود باہر نکلو گی پھر میں تمہیں باہر نکال کر، کھینچتا ہوا گھر کے اندر لے جاؤ"

احتشام ٹیکسی کا دروازہ کھول کر سندیلا سے پوچھنے لگا سندیلا کو اس سے خوف آنے لگا وہ ایک بار پھر پھنس چکی تھی۔۔۔ ٹیکسی سے اترنے کے سوائے وہ اور کیا کر سکتی تھی اس لئے پری کو گود میں اٹھائے وہ خاموشی سے ٹیکسی سے باہر نکل گئی


"تم لوگوں کا کام ختم ہوگیا ہے یہ لو انعام اور فوراً یہاں سے نکلو"

احتشام ٹیکسی ڈرائیور اور اس لڑکے سے مخاطب تھا بطور انعام وہ انہیں کچھ رقم دیتا ہوا بولا جسے لے کر وہ دونوں اس گھر سے رخصت ہو چکے تھے


"پلیز احتشام رحم کریں مجھ پر مجھے یہاں سے واپس جانے دیں"

سندیلا سمجھ چکی تھی کہ وہ پری پلان کے مطابق یہاں لائی گئی ہے معظم کو اس کے بارے میں کچھ خبر نہیں ہوگی وہ احتشام سے التجا کرتی ہوئی بولی


"یہاں سے واپس جانے کا خیال اپنے دماغ سے نکال دو اگر اب دوبارہ تم نے یہاں سے جانے کا بولا یا پچھلی بار کی طرح بھاگنے کی کوشش کی تو میں تم پر رحم کرنے کی بجائے تمہاری حالت قابل رحم بنا دوں گا، اندر چلو خاموشی سے"

احتشام سختی سے سندیلا کا بازو پکڑ کر اسے کھینچتا ہوا گھر کے اندر لے جانے لگا احتشام کی آواز اس کے لہجے میں سختی دیکھ کر وہ زبردستی اس کے ساتھ اندر جانے پر مجبور تھی،، پری کو سندیلا نے مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا


"خوش آمدید بھابھی صاحبہ خوش آمدید۔۔ میں اپنے گھر میں آپ کا استقبال کرتی ہوں"

فائقہ ایک کمرے سے نکل کر سندیلا کے سامنے آتی ہوئی طنزیہ لہجے میں بولی تب سندیلا کو اندازہ ہوا کہ یہ گھر یقیناً فائقہ کے شوہر کا ہوگا


"فائقہ پلیز تم احتشام کو سمجھاؤ، اب تم خود بھی شادی شدہ ہو سمجھ سکتی ہو۔۔ میں اب ان کے لیے غیر ہو، نامحرم ہوں کسی اور کی بیوی ہوں اب۔۔۔ تو پھر یہ کیوں میرے ساتھ اس طرح کر رہے ہیں"

سندیلا بےبسی سے فائقہ کو دیکھتی ہوئی بولی۔۔۔ جبکہ احتشام اپنے موبائل پر کسی کو کال ملانے لگا


"محبت میں کر رہے ہیں بھابھی،، صرف محبت میں۔۔۔ سمجھنے کی ان کو نہیں بلکہ آپ کو ضرورت ہے اور بھائی آپ کو خود آج اچھی طرح سمجھا دیں گے جب تک میں اپنی بھتیجی سے مل لیتی ہو"

فائقہ نہیں بولتے ہوئے اچانک جھپٹ کر چھیننے والے انداز میں پری کو سندیلا کی گود سے لے لیا


"فائقہ پلیز اسے مجھے دے دو، وہ رو جائے گی"

سندیلا نے واپس فائقہ کی گود سے پری کو لینا چاہا تبھی احتشام نے اسے روکنے کے لیے سندیلا کا ہاتھ پکڑا اور اسے کھینچتا ہوا دوسرے کمرے میں لے گیا۔۔۔ جبکہ پری نے وہاں سے سندیلا کو نظروں سے اوجھل دیکھ کر فائقہ کی گود میں رونا شروع کردیا


"احتشام چھوڑے میرا ہاتھ خدا کا واسطہ ہے آپ کو۔۔۔ فائقہ کو کہیے کہ وہ پری کو مجھے دے دے اس طرح ظلم مت کریں آپ دونوں مل کر مجھ پر"

احتشام نے سندیلا کو کمرے میں لانے کے بعد کمرے کا دروازہ اندر سے بند کر دیا تب سندیلا رو کر اس کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوئی بولی


"کسی غیر کے پاس نہیں ہے ہماری بیٹی میری جان،، اپنی پھپھو کے پاس موجود ہے۔۔۔۔ کیا ہوگا زیادہ سے زیادہ تھوڑی دیر روئے گی فائقہ کے پاس پھر جب اسے ماں نظر نہیں آئے گی تو پھر خود ہی تھک کر خاموش ہو جائے گی۔۔۔ اب تم پری کے لیے زیادہ پریشان مت ہوں صرف وہی کرو جیسا میں کہہ رہا ہوں۔،۔۔ اگر تم نے میرا کہنا مان لیا تو بہت جلد پری تمہاری گود میں ہوگی اور اگر تم نے میرا کہنا ماننے سے انکار کیا تو پھر تم زندگی بھر اسے دیکھنے کے لیے ترستی رہو گی"

احتشام بہت نرمی سے سندیلا کو سمجھاتا ہوا اس کے پاس آیا جس پر سندیلا رونا بند کرکے احتشام کو دیکھنے لگی۔۔۔ وہ کیسا باپ تھا جسے اپنی اولاد کے رونے کی کوئی پروا ہی نہیں تھی اور معظم،، وہ پری کے رونے پر کس قدر اس کے لئے پریشان اور فکرمند ہو جاتا تھا


"دیکھو سندیلا میری بات غور سے سنو اور سمجھنے کی کوشش کرو میں تمہیں پیار کرتا ہوں تمہیں حاصل کرنے کے لیے حلالہ جیسا کڑوا گونٹ پیا ہے میں نے،، تم سے دور رہ کر مجھے تمہاری قدر ہو گئی ہے اور پری ہماری بیٹی کے بارے میں سوچو کوئی غیر آدمی جو پری کا سگا باپ نہیں ہے وہ پری کو اس طرح محبت دے سکتا ہے یا اس کی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے جس طرح ایک سگا باپ اپنی اولاد کا خیال رکھتا ہے۔۔۔ تم اب یہاں میرے پاس رہ کر معظم سے طلاق مانگو گی،، اس پر یہ ظاہر کرو گی کہ تم خود اب اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اگر وہ تمہیں آسانی سے طلاق دے دے تو ٹھیک ہے ورنہ ہم خلع کا راستہ اپنائے گے۔۔۔ تبھی اب تم پری کو دیکھ سکتی ہوں ورنہ تو پھر آگے تم خود ہی سمجھ دار ہو۔۔۔ معظم کو نہیں معلوم کہ تم کہاں ہو، نہ ہی معظم یہاں آ سکتا ہے اور نہ ہی وہ مجھ پر کبھی ہاتھ ڈال سکتا ہے۔۔۔ فیصلہ اب تمہیں کرنا ہے جتنی جلدی تمہاری اور معظم کی علیحدگی ہوگی اتنی جلدی تم پری کو دوبارہ دیکھ سکتی ہو،، نہیں تو تمہیں اس کمرے میں ہی رہنا ہوگا"

احتشام سندیلا کو یہاں لانے کا مقصد کے ساتھ سارے نتائج بتاتا ہوا بولا جس پر سندیلا کو احتشام سے نفرت محسوس ہونے لگی


"تم اپنے آپ کو پری کا باپ سمجھتے ہو صرف پیدا کرنے سے کوئی باپ نہیں بن جاتا،، تم پری کی ضرورتوں کا خیال رکھو گے یا پھر اس سے محبت کرو گے۔۔۔ اپنی اولاد سے تمہیں محبت تو کیا اتنی بھی انسیت نہیں ہے کے ایک بار تم اس کی طرف مسکرا کر بھی دیکھ لو،، کبھی تم نے مجھ سے اپنی بیٹی کا پوچھا، کبھی اس سے ملنے کی، اسے دیکھنے کی خواہش ظاہر کی کبھی نہیں، مجھے تو حیرت ہورہی ہے کہ تمہیں اپنی بیٹی کا نام معلوم ہے۔۔۔ باپ جانتے ہوں کیسا ہونا چاہیے معظم جیسا ہونا چاہیے باپ کو جو آدھی رات کو اپنی بیٹی کی رونے کی آواز سن کر پریشان ہو جائے، اس کی آنکھوں میں پری کے لیے محبت ڈھونڈنے نہیں پڑتی بلکہ صاف نظر آتی ہے اور اپنی اس خوش فہمی کو دور کرلو کہ معظم مجھے کبھی طلاق دے گا۔۔۔ نہ وہ مجھے چھوڑ سکتا ہے نہ میں اس سے کبھی خلع کا مطالبہ کرو گی۔۔۔ بےشک تم چاہو تو پری کو ہمیشہ کے لیے اپنے پاس رکھ لو یا پھر مجھے ساری زندگی کے لیے اس چار دیواری میں قید کرلو"

سندیلا کے بولنے کی دیر تھی احتشام نے غصے میں اسے صوفے پر دھکا دیا اس سے پہلے اس کے اندر کا جانور باہر آتا زور زور سے کمرے کا دروازہ بجنے لگا


"بھائی دروازہ کھولیں جلدی سے باہر آئے"

فائقہ کی گھبرائی ہوئی آواز پر احتشام کو کمرے کا دروازہ کھولنا پڑا مگر کمرے میں فائقہ کے ساتھ دو اجنبی آدمی بھی داخل ہوئے جنھیں احتشام بالکل نہیں جانتا تھا


"کون ہو تم لوگ اندر کیسے آئے"

احتشام ان دونوں کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا جبکہ فائقہ نے اپنی گود میں روتی ہوئی پری کو فوراً سندیلا کے حوالے کیا اور ڈر کے مارے احتشام سے جڑ کر کھڑی ہو گئی


****

"سوال تو نہیں کرو گے سوال ہم کریں گے تم صرف سوال کا جواب دو گے۔۔۔ یہ ذیشان کے دوست کا بنگلہ ہے جہاں ذیشان رہتا تھا لیکن اس وقت تم یہاں موجود ہو تو کیا رشتہ ہے تمہارا ذیشان سے"

ان میں سے ایک آدمی جس کے ہاتھ میں پستول تھی احتشام سے پوچھنے لگا احتشام نے گھبرائی ہوئی فائقہ کو دیکھا پھر اس آدمی کو بولا


"وہ میرا بہنوئی ہے۔۔۔ کیا کیا ہے اس نے"

احتشام کا جواب سن کر دوسرے آدمی نے ایک زور دار مُکا احتشام کے منہ پر دے مارا جس سے احتشام پیچھے صوفے پر جا گرا


"بھائی"

احتشام کہ گرنے پر فائقہ چیختی ہوئی احتشام کے جانب لپکی جبکہ پری کو گود میں لیے ہوئی سندیلا پریشان ہوگئی اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہاں کیا ہورہا تھا


"کیا کیا ہے اس نے، وہ سالا الو کا پٹھا ہم دونوں کو بیوقوف بنا کر بیس بیس لاکھ روپے لے کر اس شہر سے فرار ہو چکا ہے، بزنس کرنے کا کہہ کر چونا لگا دیا ہے اس نے ہم دونوں کو۔۔۔ جلدی سے بتاؤ وہ کس شہر میں موجود ہے اس وقت ورنہ ہم تجھے یہی ٹھوک کر چلے جائیں گے"

وہ آدمی احتشام کو فائقہ کے شوہر کا کارنامہ بتانے کے بعد احتشام کی کنپٹی پر اسلحٰہ رکھتا ہوا احتشام سے ذیشان کا پتہ پوچھنے لگا


"وہ چند دنوں پہلے میری بہن کو میرے پاس چھوڑ کر ضروری کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جانے کا بول کر گیا تھا مگر وہ کس شہر جارہا ہے یہ اس نے نہیں بتایا تھانہ مجھے نہ یری بہن کو۔۔۔ نہ ہی اس نے ابھی تک میری بہن سے کوئی کانٹیکٹ نہیں کیا ہے میں بالکل سچ بول رہا ہوں"

اپنی کنپٹی پر پستول دیکھ کر احتشام کی سٹی بالکل گم ہو چکی تھی وہی فائقہ نے رونے ہوئے آیتوں کا ورد شروع کردیا جبکہ اس صورتحال سے سندیلا بھی خوفزدہ ہوچکی تھی


"یعنی وہ یہاں سے ہمارے پیسے لے کر رفوچکر ہو چکا ہے، ہمارے پیسے تو اب گئے تو بھی کلمہ پڑھ لے"

دوسرا آدمی احتشام کے منہ پر زوردار تپھڑ رسید کرتا ہوا بولا۔۔۔ تو جلدی سے فائقہ نے اس آدمی کے آگے اپنے ہاتھ جوڑ دیے


"میرے بھائی بالکل صحیح بول رہے ہیں ہم دونوں کو واقعی علم نہیں ہے کہ ذیشان کہاں ہے، آپ دونوں کا جو بھی نقصان ہوا ہے وہ میں اپنے زیورات پیسوں سے ادا کر دیتی ہوں مگر خدا کا واسطہ ہے میرے بھائی کی جان بخش دیں"

وہ دونوں شکل سے ہی کوئی خطرناک آدمی لگ رہے تھے اور دونوں کے ہاتھ میں ہتھیار بھی موجود تھے جبھی احتشام کی جان بچانے کی خاطر فائقہ کو اپنے پاس موجود رقم اور زیور کی قربانی دینا پڑی جو اس نے ذیشان نے بھی چھپائے ہوئے تھے


ایک آدمی فائقہ کے ساتھ جیولری اور اماؤنٹ لینے کے لئے دوسرے کمرے میں گیا جبکہ دوسرا آدمی ویسے ہی احتشام کی کنپٹی پر پستول رکھ کر کھڑا تھا۔۔۔ سندیلا بھی وہی اس آدمی کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر بالکل خاموش پری کو خود میں لیے گھڑی تھی تھوڑی دیر میں فائقہ اور وہ آدمی واپس کمرے میں آئے


"او بی بی یہ زیور اور پیسہ کُل ملا کر آدھی رقم بھی نہیں بن رہہی۔۔۔ کیا بیوقوف سمجھ رکھا ہے تم نے ہمیں"

ان میں سے ایک آدمی فائقہ کو غصے میں دیکھتا ہوا بولا جبکہ دوسرے آدمی نے احتشام کو بری طریقے سے مارنا شروع کر دیا


"پلیز میرے بھائی کو چھوڑ دیں۔۔۔ جتنی رقم اور جیولری میرے پاس موجود تھی وہ میں آپ لوگوں کو دے دیں چکی ہو پلیز ہمیں یہاں سے جانے دیں"

فائقہ روتی ہوئی باقاعدہ ان دونوں کے آگے ہاتھ جوڑ کر بولی تو وہ دونوں آدمی آنکھوں ہی آنکھوں میں سندیلا اور فائقہ کو دیکھ کر کچھ اشارہ کرنے لگے پھر نیچے گرے ہوئے احتشام کو گریبان سے پکڑ کر اٹھایا


"دیکھ بھائی ہم بھی جانتے ہیں اس سارے قصّے میں تیرا کوئی قصور نہیں مگر نقصان ہمارا بھی ہوا ہے جو ان زیور اور پیسوں سے پورا نہیں ہو سکتا۔۔۔ اب اگر تو اپنی جان بچا کر یہاں سے جانا چاہتا ہے تو ان دونوں میں سے کسی ایک لڑکی کو یہی چھوڑ کر تجھے جانا ہوگا، بس ہم تجھے اتنی ہی رعایت دے سکتے ہیں"

اس آدمی کی بات سن کر احتشام سمیٹ فائقہ اور سندیلا کو بھی ایک پل کے لئے سانپ سونگھ گیا


"بب۔۔۔ بھائی یہاں مجھے دیکھیں میں آپ کی چھوٹی بہن، آپ کی فائقہ"

احتشام حیرت سے کھڑی سندیلا کو دیکھ رہا تھا تب فائقہ روتی ہوئی احتشام کو اپنی طرف متوجہ کر کے بولی۔۔۔ احتشام خاموشی سے فائقہ کا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے نکلنے لگا


"احتشام نہیں۔۔۔۔ احتشام"

سندیلا صدمے سے زور سے چیخ کر اسے پکارنے لگی مگر وہ فائقہ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں سے جا چکا تھا


"ہاں تو بی بی اب تم بتاؤ، پہلے ہم دونوں میں سے کس کا دل خوش کرو گی"

وہ دونوں آدمی سندیلا کے قریب آرہے تھے ان میں سے ایک آدمی سندیلا سے پوچھنے لگا جو پری کو مضبوطی سے خود میں بھینچ کر پیچھے ہٹنے لگی۔۔۔


آچانک فائر چلنے کی آواز پر جہاں سندیلا کا دل دہل گیا اور پری رونے لگی وہی وہ دونوں آدمی آنے والے شخص کو دیکھنے لگے جو کہ ہاتھ میں پستول لئے ہوا میں فائر کرنے کے بعد پستول کا رخ اب ان دونوں کی طرف کئے ہوئے تھا


"معظم"

سندیلا وہاں معظم کو دیکھ کر اس کا نام پکارتی ہوئی اس کی جانب بھاگی


"معظم بھائی آپ یہاں"

وہ دونوں بھی معظم کو وہاں دیکھ کر حیرت زدہ ہو کر بولے۔۔۔ معظم نے اپنی طرف آتی ہوئی سندیلا کو غُصے سے گھور کر دیکھا تو سندیلا معظم سے چند قدم فاصلے پر ہی رہ گئی اور پری وہاں معظم کو دیکھ کر ایک دم خوش سی اس کی طرف اپنے ہاتھ بڑھانے لگی وہ کافی دیر سے نچلا ہونٹ منہ سے باہر نکالے رونے والی شکل بنا کر سندیلا سے چپکی ہوئی تھی


"ہمت کیسے ہوئی تم دونوں کی میری بیوی پر بری نظر ڈالنے کی"

معظم سندیلا اور پری کو نظر انداز کرکے ان دونوں آدمیوں کی طرف بڑھتا ہوا ان دونوں سے بولا


"بیوی۔۔۔ یہ آپ کی بیوی ہے بھائی قسم لے لیں، جو ہم دونوں میں سے کسی کو یہ بات معلوم ہو کہ یہ آپ کی بیوی ہے۔۔۔ ہم دونوں تو یہاں پر ذیشان کو ڈھونڈتے ہوئے آئے تھے لیکن اس کا بہنوئی سالا اپنی بہن کو لے کر انہیں یہاں چھوڑ کر چلا گیا۔۔۔ آپ بھابھی سے خود پوچھ سکتے ہیں ہم دونوں میں سے کسی نے ان کے ساتھ کوئی بد سلوکی نہیں کی"

وہ دونوں ہی معظم کو اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھ کر باری باری اپنی صفائیاں دے رہے تھے


"بدسلوکی نہیں کی مگر ایسا کرنے کا سوچا تھا"

معظم نے بولتے ہوئے غصے میں ان دونوں کو بری طرح پیٹنا شروع کر دیا۔۔۔ سندیلا معظم کو اس قدر غصے میں دیکھ کر ڈر گئی وہی پری نے بھی رونا شروع کردیا


وہ دو ہٹے کٹے آدمی ہونے کے باوجود، ہاتھ میں ہتھیار ہوتے ہوئے بھی معظم کے تپھڑ اور مُکّے برداشت کر رہے تھے ساتھ ہی معظم سے معافیاں بھی مانگ رہے تھے، مگر معظم ان کی سنے بغیر ایک ایک کر کے ان دونوں کو بری طرح پیٹے جا رہا تھا یہاں تک کہ وہ معظم کے پیر پکڑتے ہوئے اس سے معافی مانگنے لگے تب معظم نے ان دونوں کو گریبان سے پکڑ کر باہر دھکا دیتے اپنی نظروں سے دور کیا


"معظم"

ان دونوں آدمیوں کے وہاں سے جانے کے بعد سندیلا ایک بار پھر اس کا نام پکارتی ہوئی معظم کی طرف بڑھی۔۔۔۔ معظم اسے کچھ بولے بناء آنکھیں دکھاتا ہوا روتی ہوئی پری کو اس کی گود سے لینے لگا


"میری جان،، بابا۔۔۔ یہاں دیکھو، میں پری کا بابا"

پری شاید معظم کے غصے والے روپ کو دیکھ کر ڈر گئی تھی تو معظم اسے پیار کرتا ہوا بہلانے لگا وہ خاموش نییں ہوئی تو معظم نے اسے سینے سے لگا لیا لیکن سندیلا کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر معظم کو مزید غصہ آنے لگا


"گھر چلیں"

وہ سندیلا کو بولتا ہوا پری کو گود اٹھائے وہاں سے نکل گیا۔۔۔ تو سندیلا بھی خاموشی سے اس کے پیچھے چل دی


اسے معظم کا اپنے لیے غصہ سمجھ نہیں آرہا تھا مگر اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ معظم وہاں پر بروقت پہنچ گیا تھا ورنہ نہ جانے آج کیا ہوتا ساتھ ہی اسے احتشام سے نفرت محسوس ہوئی مگر وہ اس گھٹیا آدمی کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ اسے ٹینشن تھی تو معظم کے غصے کی جو اس وقت تو خاموش تھا اب نہ جانے وہ گھر پہنچ کر اس پر کتنا غصہ کرتا


*****


گھنٹہ بھر گزر گیا تھا اسے سندیلا اور پری کو گھر لائے ہوئے مگر تب سے ہی وہ سندیلا سے بات نہیں کر رہا تھا پری مسلسل معظم کے پاس موجود تھی اور سندیلا اکیلی بیڈ روم میں بیٹھی ہوئی تھی


سندیلا نے بیڈ روم سے نکل کر دوسرے کمرے میں ذرا سا جھانکا تو معظم، پری کو پیالی میں موجود سریلیک کھلاتا ہوا دکھا جو پری معظم سے کھانے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ میں موجود سوفٹ ٹوائے سے کھیل رہی تھی۔۔۔ سندیلا دونوں باپ بیٹی کو مگن انداز میں دیکھنے لگی


"وہاں کھڑے ہو کر چھپ چھپ کر مت دیکھیں یہاں آ کر پری کا ڈریس چینج کروائیں"

معظم کی آواز سن کر سندیلا کے قدم ایک دم چونکی، وہ اس کو چوری چھپے دیکھنا محسوس کر چکا تھا تبھی سندیلا کمرے میں آئی اور اس کی گود سے پری کو لیتی ہوئی بولی


"مجھے وہاں پر احتشام نے دھوکے سے بلوایا تھا معظم"

سندیلا کے بولنے کی دیر تھی معظم ایک دم صوفے سے اٹھ کر کھڑا ہوا سندیلا جلدی سے پیچھے ہٹی،، آج وہ صرف اور صرف اس کو ڈرائے جا رہا تھا


"میں نے کچھ پوچھا آپ سے جو آپ بول رہی ہیں، واپس جائیے کمرے میں اور جو کہا ہے وہ کریں"

وہ ابھی بھی سندیلا کو غُصّے میں دیکھ کر بولا تو سندیلا پری کو لے کر کمرے سے چلی گئی لیکن اب اسے معظم کے اوپر غصہ آ رہا تھا کیونکہ وہ اس کی بات نہیں سن رہا تھا صرف اس پر غصہ کیے جا رہا تھا


سندیلا نے پری کا منہ واش کروانے کے بعد اس کا ڈریس چینج کروایا ساتھ ساتھ اس کا ڈائپر بھی چینج کرنے لگی تب اسے باہر سے پپو کی آواز سنائی دی۔۔۔ وہ معظم کو ٹیکسی کا نمبر اور لڑکے کا حلیہ بتا رہا تھا جو دوپہر میں اس کے گھر آکر سندیلا کو غلط بیانی کرتا ہوا اسے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔۔۔ سندیلا پری کو گود میں اٹھا کر کمرے سے باہر نکلی


"آج تم میری بات سنو گے یا پھر مجھ پر غصہ ہی کرتے رہو گے"

پپو کو اشارے سے سلام کرنے کے بعد سندیلا اب نڈر لہجے میں معظم کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی۔۔۔۔ اس نے نہ اب پپو کی موجودگی کی پرواہ کی تھی اور نہ ہی معظم کا غُصّے میں گھورنے کا نوٹس لیا تھا۔۔۔ بلکہ وہ بھی معظم کو اسی طرح گھور کر دیکھ رہی تھی


"آ جاؤ میرا بیٹا، ہم دونوں معصوم سے چچا بھتیجی باہر چلتے ہیں۔۔۔۔ یہاں تو کچھ گرج اور چمک کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔۔۔ یہ نہ ہو طوفان کی زد میں ہم دو معصوم آجائے"

پپو پری کو سندیلا کی گود سے لیتا ہوا بولا اور گھر سے باہر نکل گیا


"کون سی بات سنانا چاہتی ہیں آپ"

ُپپو کے جانے کے بعد معظم یونہی صوفے پر بیٹھا ہوا سندیلا سے پوچھنے لگا جو کہ اس کے سامنے کھڑی ہوئی اسے گھور رہی تھی


"دوپہر میں جب اس لڑکے نے مجھے بولا کہ تمہیں گولی لگی ہے اور محلے کے دوسرے لڑکے تمہیں ہوسپٹل لے کر گئے ہیں تو میں بہت زیادہ ڈر گئی تھی معظم، جبھی اس لڑکے کے کہنے پر بناء کچھ سوچے ہوسپٹل چلی گئی"

سندیلا کو اندازہ ہو چکا تھا معظم اس پر کسی غیر انجان لڑکے کے ساتھ اس طرح جانے پر ہی غصہ میں تھا


"مجھے اپنے منہ سے اپنی بے وقوفی کا قصّہ سنا کر مزید غصہ مت دلائے سندیلا۔۔ کوئی آپ سے آ کر کچھ بھی کہے گا،، آپ اسکی بات مان کر اس کے ساتھ یونہی چل پڑے گیں۔۔ موبائل پر کال نہیں کرسکتی تھی آپ مجھے یا پھر پپو کو۔۔۔ جس دن پپو آ کر آپ سے یہ کہیں کہ معظم کو گولی لگی ہے تب یقین کرلیے گا مگر خدارا آئندہ آج والی بےوقوفی اب دوبارہ مت کریے گا"

معظم کی بات سن کر سندیلا نے تڑپ کر اس کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھا


"میں صرف وہاں پر تمہارے لیے گئی تھی معظم، اللہ نہ کرے تمہیں کبھی بھی کچھ ہو۔۔۔ تم اُس وقت میری دلی کیفیت نہیں سمجھ سکتے تھے، جب اس لڑکا نے آکر مجھے یہ بولا کے تمہیں گولی لگ گئی ہے مجھے آگے سے اور کچھ سنجھ نہیں آیا"

سندیلا جو کہ معظم کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھے آدھی اس پر جھکی ہوئی تھی۔۔۔ معظم نے پورا اسے اپنی طرف کھینچا جس پر وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائی اور معظم پر گر گئی


"آپ کو وہاں پر موجود دیکھ کر میرے دل کی کیفیت کیا ہوئی تھی یہ آپ کو اندازہ ہے۔۔۔ اللہ نہ کرے اگر آپ کو یا پری کو کچھ ہو جاتا تو میں کیا کرتا"

معظم صوفے پر ریلکس بیٹھا ہوا اپنے اوپر جھکی ہوئی سندیلا کا چہرہ غور سے دیکھ کر پوچھنے لگا


"اتنا پیار کرتے ہو اگر تو پھر اتنی دیر سے ناراض کیوں ہو اپنی استانی جی سے"

آج احتشام کی حرکت پر سندیلا کے دل میں معظم کی قدر و قیمت اور زیادہ بڑھ گئی تھی وہ اپنے دونوں ہاتھ اس کے گال پر رکھے اس کا چہرہ تھامتی ہوئی معظم سے پوچھنے لگی


"ناراض ہونے کی پوزیشن میں اب کہا چھوڑا ہے آپ نے مجھے استانی جی، تھوڑا سا اور نزدیک آ کر اپنے موالی کی بچی کُچی ناراضگی کو بالکل ختم کردیں"

معظم سندیلا کے ہونٹوں پر اپنی نظریں مرکوز کرتا ہوا بولا


"بہت زیادہ مزے لگے ہوئے ہیں تمہیں چھوڑو مجھے فوراً،، ابھی شرافت بھائی پری کو لے کر آتے ہوں گے"

سندیلا نے معظم سے بولتے ہوئے اس کے اوپر سے اٹھنا چاہا تو سندیلا کے وجود کو معظم نے اپنی گرفت میں لیا اسے صوفے پر لٹاتا ہوا اس پر جھکا


"آپ کے شرافت بھائی کو اندازہ ہے کہ بادلوں کے گرجتے بجلی کے چمکنے کے بعد طوفان آئے نہ آئے آگے کیا ہونا ہے۔۔۔ وہ پاگل نے ہے جو جلدی واپس آکر مجھ سے جوتے کھائے"

معظم نے بولتے ہوئے سندیلا کی تھوڑی پر اپنے ہونٹ رکھے تبھی سندیلا کو کچھ یاد آیا


"معظم تمہیں میرے اس گھر میں موجودگی کا کیسے معلوم ہوا"

سندیلا کی بات سن کر معظم کی نظریں بےساختہ اس پینڈینٹ پر گئی جو کہ اس وقت سندیلا کے گلے میں موجود تھا


"میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ اور پری میری ذمہ داری ہیں میں آپ دونوں پر کبھی کوئی آنچ نہیں آنے دوں گا اور ویسے بھی جن سے محبت کی جاتی ہے ان کی پل پل کی خبر رکھی جاتی ہے"

معظم اپنی انگلیوں سے سندیلا کے گردن میں موجودہ چین کو چھوتا ہوا اس سے بولا ساتھ ہی اس نے اپنے ہونٹ بھی سندیلا کی گردن پر رکھ دیے


******


آج اسے رہ رہ کر اپنی بزدلی اور کم عقلی پر افسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔ اس نے اپنی بہن کی عزت اور اپنی جان بچانے کے لیے کیسے ان دو خطرناک آدمیوں میں سندیلا اور اپنی اولاد کو چھوڑ کر خود بزدلوں کی طرح وہاں سے نکل گیا تھا


نہ جانے ان دونوں آدمیوں نے سندیلا کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوگا اور اس کی اپنی معصوم چار ماہ کی بیٹی اس کا کیا کیا ہوگا۔۔۔ کل سے اب تک یہ ساری باتیں سوچ کر احتشام کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ خودکشی کرلے مگر وہ خود کو مار بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ واقعی ایک بزدل مرد تھا


جب وہ سندیلا کو وہاں چھوڑ کر جارہا تھا تب سندیلا اس کو پکار رہی تھی، وہ منظر یاد کرکے ایک بار پھر احتشام کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے آج اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ واقعی سندیلا کے قابل نہیں تھا بلکہ وہ سندیلا تو کیا، کسی بھی عورت کے قابل نہیں تھا، وہ ایک ڈرپوک آدمی تھا۔۔۔ جو اپنی جان بچا کر ایک عورت کی عزت کو خطرے میں ڈال کر وہاں سے دم دبا کر بھاگ گیا تھا


"بھائی کچھ کھالیں آپ نے کل سے کچھ بھی نہیں کھایا" فائقہ احتشام کے لیے کھانا لے کر اس کے کمرے میں آئی تھی، کل والے واقعے پر وہ بھی بہت زیادہ شرمندہ تھی مگر احتشام کی حالت دیکھ کر اسے ہمت سے کام لینا پڑ رہا تھا


"معلوم نہیں فائقہ سندیلا اس وقت کس حال میں ہوگی اور میری بیٹی،، کل سے اس کے حلق میں کچھ اترا بھی ہو گا کہ نہیں۔۔۔ دعا کرو فائقہ کہ ان دونوں آدمیوں کو سندیلا اور میری بچی پر رحم آ گیا ہوں اور وہ دونوں صحیح سلامت ہوں"

فائقہ سے بولتا ہوا احتشام ایک بار پھر رو پڑا کل سے وہ اسی طرح روئے جا رہا تھا۔۔۔ اتنا پچھتاوا تو اسے سندیلا کو اس وقت چھوڑنے پر نہیں ہوا تھا جب وہ اس کی اولاد پیدا کرنے والی تھی لیکن کل اس کو دو مردوں کے بیچ بے سہارا چھوڑ کر وہ کافی غم زدہ تھا


"آپ اس طرح پریشان مت ہوں اللہ بہتر کرے گا۔۔۔ بھابھی اور آپ کی بیٹی اللہ نے چاہا تو وہ دونوں خیریت سے ہو گیں، آپ اوپر والے سے اچھی امید رکھیں"

فائقہ احتشام کو دلاسہ دیتے ہوئے خود بھی شرمندہ ہوگئی۔۔۔ وہ دونوں آدمی اس کے شوہر کی وجہ سے اس کے گھر میں گُھسے تھے اور جو کچھ سندیلا کے ساتھ ہوا تھا ایک طرح سے وہ خود اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھ رہی تھی


"کاش میں اس کو وہاں دھوکے سے نہیں بلواتا، وہ معظم کے ہی گھر میں رہتی تو اس کی عزت اور جان کو خطرہ نہیں ہوتا۔۔۔ میری بزدلی اور کم عقلی کی وجہ سے نہ جانے وہ اور میری بیٹی کس حال میں ہو گی۔۔۔ میں بہت بزدل اور ڈرپوک آدمی ہو"

احتشام روتا ہوا فائقہ سے بولنے لگا


"تم بزدل اور ڈرپوک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بے غیرت اور کم ظرف آدمی بھی ہو احتشام، دل تو کر رہا ہے آج میں تمہارے اس ناپاک وجود کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے غائب کردو"

معظم احتشام کے کمرے میں آتا ہوا بولا۔۔۔ وہ دونوں بہن بھائی معظم کو دیکھ کر کُھل کر حیرت کا اظہار بھی نہیں کر پائے کے معظم نے احتشام کو گریبان سے کھینچ کر اٹھایا اور اسے بری طرح پیٹنا شروع کر دیا


"یہ۔۔۔ یہ کیا کر رہے ہو کیو مار رہو ہو میرے بھائی کو چھوڑ دو۔۔۔ میں کہتی ہو چھوڑ دو انہیں"

معظم فائقہ کے چیخنے پکارنے کی پروا کیے بغیر احتشام کو بری طرح پیٹے جا رہا تھا جبکہ احتشام آج اپنے بچاؤ کی بجائے،، خاموشی سے معظم سے مار کھا رہا تھا


"شرم نہیں آئی تمہیں ایک کمزور عورت کو یوں بےآسرا غیر مردوں کے بیچ چھوڑ کر وہاں سے بھاگتے ہوئے،، اپنی اولاد تک کا خیال نہیں آیا تمہیں ذلیل انسان، کل اگر ان دونوں کو کچھ ہوجاتا تو میں تم سمیت تمہارے گھر والوں کے ٹکڑے کر دیتا۔۔۔ ہمت کیسے کی تم نے دوبارہ میرے گھر کی طرف آنکھ اٹھانے کی بولو"

معظم کے مارنے والے گھونسوں اور لاتوں سے احتشام کو محسوس ہوا معظم اس کی دو پسایاں توڑ چکا ہے وہ اپنے پیٹ کو دبائے فرش پر پڑا ہوا بری طرح درد سے کراہ رہا تھا فائقہ ایک کونے میں کھڑی ہو کر بری طرح روئے جا رہی تھی


"وہ دو۔۔ دونوں ٹھیک ہے مم مجھے سندیلا سے معاف۔۔۔ معافی مانگنی ہے"

معظم کی بات سن کر اتنا پٹنے کے باوجود احتشام درد سے کراہتا ہوا بولا تو معظم نے اس کا گریبان پکڑ کر فرش سے اٹھا کر اپنے سامنے کھڑا کیا


"خبردار جو اب تم نے اپنی گندی زبان سے میری بیوی یا بیٹی کا نام بھی لیا تو، یاد رکھنا احتشام میں آج تمہیں یہاں زندہ چھوڑ کر صرف اس لئے جا رہا ہوں کیوکہ تمہیں مارنے کے بعد تمہاری بوڑھی بیمار ماں اور جوان بہن دونوں رل جائیں گی۔۔۔ لیکن اگر دوبارہ تم نے سندیلا یا پری کی طرف آنکھ بھی اٹھا کر دیکھا تو میں تمہیں اگلی سانس لینے کی مہلت نہیں دوں گا"

معظم احتشام کو غصے میں تنبیہہ کرنے کے ساتھ اس کو پیچھے دھکا دیتا ہوا اس کے گھر سے نکل گیا


"بھائی"

معظم کے وہاں سے جانے کے بعد فائقہ بھاگتی ہوئی احتشام کی طرف آئی جو آدھموا سا فرش پر گرا ہوا تھا


****

"یار زینش کہاں پر ہو تم آدھا گھنٹہ گزر چکا ہے مجھے آفس سے گھر آئے ہوئے، تمہیں کال کر رہا تھا ریسیو کیوں نہیں کر رہی میری کال"

بلال آفس سے واپس آنے کے بعد پریشان تھا کیونکہ زینش گھر پر موجود نہیں تھی اور اس کی کال بھی ریسیو نہیں کر رہی تھی اس لیے زینش کے کال ریسیو کرتے ہی بلال نے اس سے سوالات کرنا شروع کر دیے


"یہی قریبی مارکیٹ آئی ہوئی ہو بلال، کچھ چیزیں لینا تھی ہاتھ میں اتنا سارا سامان موجود تھا کیسے کال ویسیو کر لیتی۔۔۔ آپ دس منٹ رکیں میں پہنچ رہی ہو گھر"

زینش سارا سامان ٹیکسی میں رکھتی ہوئی موبائل کان سے لگائے بلال کو بولنے لگی تب زینش کی نظر اس کے پاس آتی ہوئی تہمینہ پر پڑی


"کیسے آؤ گی سب سامان لے کر، وہی رکو میں لینے آ رہا ہوں تمہیں۔۔۔ ہیلو زینش۔ ۔۔ ہیلو"

بلال کو محسوس ہوا زینش لائن ڈسکنیکٹ کیے بغیر کسی اور سے بات کر رہی تھی


"کیا وائف ملی ہے مجھے، یہاں شوہر لائن پر موجود ہے اور یہ محترمہ نہ جانے کس سے باتوں میں لگ گئی ہے"

بلال افسوسں سے نفی میں سر ہلاتا ہوا موبائل کان سے لگائے سے لگائے زینش سے بات کرنے کا انتظار کرنے لگا


****


"میں تمہاری بات بالکل بھی نہیں سمجھ پا رہی ہوں تہمینہ تم کہنا کیا چاہ رہی ہو پلیز بناء گھبرائے صاف لفظوں میں بولو"

زینش کے بولنے پر تہمینہ خاموش ہوگئی پھر تھوڑی دیر بعد بولی


"آپ یہ مت سمجھئے گا کہ میں آپ کو ورغلا رہی ہو یا پھر بلال سر سے بد گمان کرنے کے لیے ایسا بول رہی ہو۔۔۔ چھوٹا منہ اور بڑی بات کہتے ہو کچھ مناسب نہیں لگ رہا،، میں پہلے سے جانتی تھی کہ بلال سر آپ کو پسند کرتے تھے مگر آپ کی شادی حسان سر سے ہوگئی۔۔ جس دن حسان سر کی ڈیتھ ہوئی تھی دراصل اس دن چند گھنٹے پہلے بلال سر ہی ان کے کمرے میں گئے تھے۔۔۔ وہ دونوں ہی بہت زیادہ غصے میں تھے موضوعِ گفتگو آپ کی ذات تھی۔۔۔۔ ان دونوں کی باتیں کرنے کی آواز کمرے سے باہر آ رہی تھی بلال سر نے حسان سر کو جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی تھی اور پھر وہ حسان سر کے کمرے سے نکل کر چلے گئے۔۔۔۔ جب گھر کا ماحول تھوڑا ڈسٹرب ہو تو ہم سرونٹس کو اجازت نہیں ہوتی کہ فوراً ان کے کمرے میں جایا جائے،، اس دن گھر میں اکیلی ہی موجود تھی تقریباً ایک گھنٹہ گزر گیا حسان سر اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلے۔۔۔ مجھے اس دن اپنے گھر پہنچنا تھا جانے سے پہلے حسان سر کو انفارم کرنے کے لیے میں ان کے کمرے میں گئی پر وہاں پر۔۔۔۔ ان کی باڈی خون میں لت پت نیچے فرش پر پڑی ہوئی تھی خوف کے مارے میں بری طرح چیخنے لگی میں نے وہاں پر کمرے میں بلال سر کی ریوالور دیکھی"

تہمینہ بولتے وہ خاموش ہوئی تو زینش ایک دم بول پڑی


"تمہیں کیسے معلوم کہ وہ ریوالور بلال کا تھا"

سچ بات تو یہ تھی زینش کو تہمینہ کی باتیں بے معنٰی سی لگ رہی تھی اس لیے ریوالور کے ذکر پر فوراً بولی


"ہم سرونٹس جس گھر میں کام کرتے ہیں تو ہمیں اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ کون سی چیز کی ہے اور کہاں پر موجود ہوتی ہے۔۔۔ آپ کو یہ سب باتیں بتانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ میں آپ کو بلال سر سے بد گمان کر رہی ہو، میں خود اس وقت اتنی زیادہ گھبراہٹ ہوئی تھی کہ میں نے بلال سر کو ہی کال کر کے سب سے پہلے حسان سر کے بارے میں بتایا تھا لیکن پھر پولیس انویسٹیگیشن سے پہلے ہی بلال سر نے گھر میں موجود کیمرے دوسرے ملازم سے کہہ کر اتروا دیے۔۔ پولیس کو سارے معاملے میں انویسٹیگیشن کرنے سے پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ حسان سر کے مرڈر کی وجہ چوری ہے۔۔۔ تین گولیاں حسان سر باڈی میں لگی تھی جو ان کی ڈیتھ کے سبب بنی، معذرت کے ساتھ بلال سر کی روالور سے تین گولیاں ہی یوز ہوئی تھی میں نے بعد میں بلال سر کی ریوالور چیک کی تھی"

تہمینہ کی بات سن کر زینش ایک دم چونکی


"ایک منٹ تہمینہ مجھے سچ سچ بتانا۔۔۔۔ کیا تم یہ ساری باتیں مجھ سے پہلے جویرہ آنٹی کو بھی بتا چکی ہو۔۔ بالکل سچ بولنا جھوٹ نہیں"

زینش کی بات سن کر تہمینہ نے اثبات میں سر ہلایا


"جس دن جویریہ میڈم کی ڈیتھ ہوئی تھی اس سے دو گھنٹے پہلے میں نے انہیں یہ باتیں بتائی تھی"

تہمینہ کے بولنے پر زینش اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی پھر تہمینہ کو دیکھتی ہوئی بولی


"تم کتنی بڑی بیوقوف ہو تہمینہ اس کا تمہیں اندازہ ہے۔۔۔ تم نے ایک ماں کو یہ سب بتایا ہے کہ اس کے ایک بیٹے نے قتل کر کے دوسرے بیٹے کی جان لے لی۔۔ اسی صدمے نے ان کی جان لے لی ہوگی"

زینش افسوس سے سر ہلاتے ہوئے بولنے لگی۔۔۔ آج اسے ایک بار پھر جویریہ کی موت پر افسوس ہوا مگر یوں اچانک موت کی وجہ سامنے آگئی۔۔۔ زینش کی بات سن کر تہمینہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے


"مجھے بھی ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جویریہ میڈم شاید میرے سب کچھ بتانے کی وجہ سے۔۔۔ مگر میں ان کو اور آپ کو صرف یہی بتانا چاہتی ہوں کہ حسان سر کی ڈیتھ کی جو بھی وجہ ہو کہیں نہ کہیں بلال سر کو اندازہ ضرور ہے"

تہمینہ کے بولنے پر زینش خاموش ہوگئی


*****


"یہ پورے گھر میں اتنا اندھیرا کیوں ہو رہا ہے بلال کہاں ہے آپ"

زینش واپس گھر لوٹ کر آئی سارا سامان ٹیبل پر رکھتی ہوئی لاؤنچ کی لائٹ کھول کر بلال کو پکارنے لگی۔۔۔ بیڈ روم کی لائٹ آن کر کے دیکھا تو بلال ہے وہاں پر بھی موجود نہیں تھا جبھی وہ دوسرے روم کی طرف بڑھی


"اس روم میں کیا کر رہے ہیں آپ اور پورے گھر کی لائٹز کیوں بند کی ہیں آپ نے،، اس طرح اندھیرے میں کیوں بیٹھے ہیں بلال"

زینش روم کی لائٹ کھول کر راکنگ چیئر پر خاموش بیٹھے بلال سے بولی تو بلال عجیب نظروں سے اس کی صرف دیکھنے لگا


"مل آئی تم تہمینہ سے، معلوم ہوگیا تمہیں کہ کس نے کیا ہے حسان کا مرڈر اور کیسے مری میری ماں"

بلال زینش کو دیکھتا ہوا پراسرار سے انداز میں بولا اس کی آنکھیں حددرجہ سرخ ہو رہی تھی شاید بہت زیادہ ضبط کرنے کی وجہ سے یا پھر تھوڑی دیر پہلے وہ بہت زیادہ رویا تھا زینش کو سمجھ نہیں آیا۔۔۔ بس زینش کو اتنا معلوم ہو گیا کہ تہمینہ اور اس کے بیچ ہونے والی تمام گفتگو سن چکا تھا


"بلال آپ میری بات کو غور سے سنیں"

بلال چیئر سے اٹھ کر زینش کی طرف قدم بڑھانے لگا تو زینش کی نظر اس کے ہاتھ میں موجود ریوالور پڑی۔۔۔ بلال کے اپنی طرف قدم بڑھتے دیکھ کر زینس پیچھے دیوار سے جا لگی ہے


"کیا ہوگیا ہے آپ کو آپ اس طرح کا بی ہیو کیوں کر رہے ہیں"

زینش بلال کے تاثرات لب و لہجہ اور ہاتھ میں موجود ریوالور دیکھ کر بلال سے گھبراتی ہوئی پوچھنے لگی


"وہ تہمینہ اس کا مطلب تھا کہ میں نے اپنے بھائی کی جان لے لی جبکہ وہ خود اپنی بیوقوفی کی وجہ سے میری ماں کی جان لے چکی ہے۔۔۔ تمہارے دل میں ضرور یہی خیال آیا ہوگا کہ میں نے اپنی محبت حاصل کرنے کے لیے اپنے بھائی کو راستے سے ہٹا دیا، سچ بولو ایسے ہی سوچ رہی ہو ناں تم"

بلال اذیت سے بولتا ہوا زینش کے مزید قریب آیا تو زینش نے جلدی سے نفی میں سر ہلا کر اپنے دونوں ہاتھوں سے بلال کا چہرہ تھاما


"آپ نے ایسا کیسے سوچ لیا کہ میں آپ کے بارے میں ایسا سوچ سکتی ہوں، میں بیوی ہوں بلال آپ کی۔۔۔ آپ کے خلاف ہوکر میرا دل کبھی بھی نہیں سوچ سکتا اور آپ اتنی پستی میں جاکر ایسا گھٹیا قدم کبھی بھی نہیں اٹھا سکتے کہ اپنی محبت حاصل کرنے کے لیے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے ہی بھائی کی جان لے لیں ایسا خیال مجھےچھو کر بھی نہیں گزرا"

زینش کی بات سن کر بلال کے ہاتھ سے ریوالور چھوٹ کر فرش پر گرا


"تم سچ کہہ رہی ہوں"

زینش کو سمجھ میں نہیں آیا کہ بلال اس کو بتا رہا تھا یا پھر اس سے پوچھ رہا تھا مگر وہ زینش کو ذہنی طور پر کافی زیادہ ڈسٹرب لگا شاید جویرہ کی موت کی وجہ جاننے کی وجہ سے۔۔۔ زینش نے اپنے ہاتھ بلال کے چہرے سے ہٹا کر اپنے دونوں بازو بلال کے گرد حائل کردیے


****


"کافی"

ڈنر کے بعد بلال خاموش بیٹھا ہوا تھا زینش کافی کا مگ اس کے سامنے میز پر رکھتی ہوئی بلال کے برابر میں صوفے پر بیٹھ گئی بلال خاموشی سے زینش کو دیکھنے لگا تب اس نے مسکرا کر بلال کا ہاتھ تھاما


"اس دن واقعی مجھے حسان پر کافی زیادہ غصے تھا اور میں نے اسے جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی تھی مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ اس دن حقیقت میں حسان کی موت واقع ہو جائے گی اور وہ بھی میری ہی ریوالور سے، اس شخص نے میرے بھائی کی جان لے زینش"

بلال کی بات سن کر زینش نے چونک کر اسے دیکھا


"کس نے"

زینش حیرت سے بلال کو دیکھتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی


"وہی شخص جو اس رات کمرے میں میں وہ یو ایس بی لینے کے لئے آیا تھا جو حسان کے پاس موجود تھی"

بلال نے جو فوٹیج کیمرے میں دیکھی تھی وہ یاد کرتا ہوا زینش کو بتانے لگا


"کون سی یو ایس بی۔۔۔ آپ کیا بول رہے ہیں مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا"

زینش کنفیوز ہو کر بلال سے پوچھنے لگی


"شروع میں مکمل بات سے میں بھی لاعلم ہی تھا۔۔۔ اپنا ریوالور حسان کے پاس اس کے کمرے میں دیکھ کر میں نے اپنے بیان میں پولیس کو یہی ظاہر کیا کہ حسان کے مرڈر کی وجہ چوری ہے مگر بعد میں ضیاء (حسان کا وکیل دوست) کے تعاون سے جو اصل محرکات سامنے آئے اس سے یہی اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ جس وقت میں غصے میں حسان کے کمرے سے باہر نکلا اس وقت میرے اور حسان کے علاوہ کوئی تیسرا شخص بھی کمرے میں موجود تھا،، وہ وہی تھا جو حسان کے کمرے میں یو ایس بی لینے کی غرض سے آیا تھا۔۔۔ کیمرے میں حسان کی باڈی لینگویج دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا حسان کو اپنے کمرے میں چھپے ہوئے اس شخص کی موجودگی کا علم ہو چکا تھا تبھی حسان اس شخص پر کچھ بھی ظاہر کیے بناء اپنے کمرے سے نکل کر میرے کمرے میں گیا۔۔۔ لازمی حسان میرے کمرے میں میرا ریوالور لینے کی نیت سے گیا تھا لیکن واپس اپنے کمرے میں آنے پر اس شخص نے حسان پر اچانک حملہ کر دیا اور ہاتھا پائی کے دوران اس شخص نے میرے ریوالور سے حسان کے اوپر فائر کیے جس کی وجہ سے حسان کی ڈیتھ ہو گئی۔۔۔ اس کے بعد وہ حسان کے کمرے سے مطلوبہ چیز مطلب یو ایس بی لے کر چلا گیا۔۔۔ یہ بات میں اور ضیاء کیمرے میں موجود ویڈیو کو دیکھ کر سمجھ گئے تھے مگر اس یو ایس بی میں ایسا کیا تھا اس کا ہم دونوں کو اندازہ نہیں ہو سکا تب ضیاء نے اس شخص کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کر کے مجھے دی۔۔۔ جس سے مجھے علم ہوا وہ شخص ندیم سومرو کا آدمی تھا" بلال پوری بات تفصیل سے زینش کو بتانے لگا۔۔۔ فائر کی آواز تہمینہ کو کان میں لگے ہینڈ فری کی وجہ سے نہیں آسکی تھی ایسا بلال کو آج معلوم ہوا جب وہ زینش کو بتا رہی تھی ورنہ اس دن تو وہ اتنا گھبرائی ہوئی تھی کہ اس سے کچھ بولا نہیں جا رہا تھا


"ندیم سرور وہی جس کے بارے میں پچھلے دنوں نیوز چائنل پر لاپتہ ہونے کی خبر چلی تھی"

زینش حیرت سے بلال سے پوچھنے لگی جس پر بلال نے اقرار میں سر ہلایا


"ندیم سومرو سے حسان کے اچھے تعلقات تھے جس کے بارے میں مجھے علم تھا۔۔۔ لیکن اسی ندیم سومرو نے وہ یو ایس بی حاصل کرنے کے لئے میرے بھائی کا قتل کروایا۔۔۔ سب کچھ کلئیر ہونے کے بعد حسان کے قاتل کو تو اریسٹ کرلیا گیا۔۔۔ مگر میں ندیم سومرو پر بھی حسان کے مرڈر کا کیس کرنا چاہتا تھا پھر اچانک نیوز چینل پر اس کے اچانک لاپتہ ہونے کی نیوز آگئی"

بلال زینش کو بتانے کے بعد اب بالکل خاموش ہوگیا۔۔ زینش جانتی کہ اس وقت بلال جویریہ اور حسان دونوں کو یاد کرکے اداس تھا


"بلال اس طرح مت اداس ہو، میں ہوں ناں آپ کے پاس اور ہمیشہ آپ کے پاس رہو گی"

زینش نے بلال کو اداس دیکھ کر بولتے ہوئے اس کے کندھے پر اپنا سر رکھ دیا بلال نے جھک کر اپنے کندھے پر زینش کے سر کو دیکھا وہ صحیح کہہ رہی تھی ایک وہی واحد رشتہ اس کے پاس بچا تھا۔۔۔ جس میں وہ اپنی زندگی اور خوش رہنے کی وجہ تلاش سے کرتا تھا


*****

"سوچ لیں بھیا جی یہ سب بہت زیادہ رسکی ہو جائے گا آپ کے لیے، وہ دونوں قیدی بہت زیادہ خطرناک ہیں آپ نے ان دونوں کو باہر نکلوا کر ان کی مدد تو کر دی ہے مگر شاید یہ بھول چکے ہیں کہ وہ دونوں آپ کے بھی دشمن رہے ہیں"

ہاتھ میں چائے کی ٹرے لیے سندیلا کمرے میں آئی تو اس کے کانوں میں پپو کے یہ الفاظ پڑے وہ معظم سے مخاطب تھا مگر سندیلا کو دیکھ کر خاموش ہو گیا۔۔۔ سندیلا بنا کچھ بولے چائے کے کپ میز پر رکھتی ہوئی وہاں سے چلی گئی


"زندگی میں رسک لینا ہی پڑتا ہے پپو جیسا میں نے کہا ہے تمہیں ویسے ہی کرنا ہوگا پلان میں کسی بھی طرح کی ردوبدل نہیں ہونا چاہیے،، ویسے بھی جب تک داؤد اور زبیر جیل سے باہر نہیں آئے گیں۔۔۔ اصل پلان بھی سامنے نہیں آئے گا"

معظم کو یقین ہوگیا کے سندیلا وہاں سے چلی گئی تب معظم بات کا سلسلہ دوبارہ جوڑتا ہوا پپو سے بولا اور چائے کا کپ اٹھا کر کمرے سے باہر جانے لگا


"کہاں چل دیئے ابھی، پلان مکمل ہونے کے بعد کا سیٹ اپ۔۔۔ اس کا تو بتایا نہیں آپ نے"

معظم کو کمرے سے باہر نکلتا دیکھ کر پپو معظم سے پوچھنے لگا


"بعد کا سیٹ اپ بعد میں ہی وقت آنے پر طے کر لیں گے۔۔۔ استانی جی کو دیکھ کر آتا ہوں یقیناً کمرے میں جاکر کچھ الٹا سیدھا ہی سوچ رہی ہو گیں"

معظم پپو کو بولتا ہوا وہاں سے چلا گیا جبکہ پپو اپنی پاکٹ سے موبائل نکال کر پولیس کانسٹیبل سے ان دونوں خطرناک قیدیوں کے بارے میں پوچھنے لگا۔۔۔ جنہیں تھوڑی دیر پہلے معظم کے کہنے پر پری پلان جیل سے فرار کیا گیا تھا


*****


کمرے کا دروازہ بند کرنے کے بعد، چائے کا آخری گھونٹ منہ میں بھر کر، کپ کو کارنر ٹیبل پر رکھتا ہوا ہے وہ سندیلا کے پاس آکر بیڈ پر بیٹھا۔۔۔ سندیلا خاموشی سے معظم کو دیکھنے لگی


"کتنی بار منع کیا ہے آپ کو یار، مت دھیان دیا کریں ادھر ادھر کی باتوں پر۔۔۔ مجھے اچھا لگتا ہے کہ آپ کا سارا دھیان صرف پری پر اور میرے محبت پر ہو۔۔۔ اس سے زیادہ اور آگے کچھ مت سوچا کریں استانی جی"

وہ سندیلا کو اپنی جانب کھینچ کر باہوں میں لیتا ہوا بیڈ پر لیٹا اور اس کے ماتھے پر آئے بالوں کو چہرہ سے ہٹا کر پیچھے کرتا ہوا اسے دیکھ کر بولنے لگا


"تم الٹے سیدھے کاموں میں لگے رہو اور میں کچھ بھی نہ سوچو"

سندیلا مکمل طور پر اس کے اوپر جھکی ہوئی معظم سے شکوہ کرنے لگی۔۔۔ نہ جانے اب وہ کونسا کام کرنے لگا تھا پپو کی بات سن کر وہ اندر ہی اندر پریشان ہو رہی تھی کیونکہ سندیلا کو یہ سمجھ میں آیا تھا جو وہ کرنے لگا ہے وہ رسکی ہے


"الزام مت لگائیں پورا ہفتہ ہو چکا ہے آپ کے ساتھ الٹا سیدھا کیے ہوئے۔۔۔ اِس وقت تھوڑی سی نظِر کرم اپنے اس بدمعاش پر بھی ڈال لیں، اب تو ایک دم سے موڈ بن گیا ہے"

معظم اپنے بازوؤں میں سندیلا کے نازک وجود کو لیے بیڈ پر لیٹا ہوا شرارت میں ایک آنکھ دباتا ہوا بولا اس کی انگلیاں سندیلا کی کمر کو آہستہ آہستہ چھو رہی تھی۔۔۔ اور معنیٰ خیز نظریں سندیلا کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھی۔۔۔ سندیلا کے آنکھیں دکھانے کے باوجود وہ اس کے گلے سے دوپٹہ اتار کر بیڈ پر رکھ چکا تھا


"شرافت بھائی کی باتیں سن کر میری جان ہلکان ہو رہی ہے معظم اور تمہیں صرف اپنی پڑی ہوئی ہے ذرا ترس نہیں آتا تمھیں مجھ پر"

سندیلا پریشان ہو کر جھنجھنملاتی ہوئی معظم سے بولی۔۔۔ وہ سندیلا کی پریشانی کا نوٹس لیے بغیر اسے بیڈ پر لٹا کر اس پر جھک گیا


"اور آپ کی قربت کے لئے اس وقت میری جان ہلکان ہو رہی ہے۔۔۔ ابھی تو واقعی مجھے اپنی پڑی ہوئی ہے۔۔۔ اس وقت ساری سوچو کو دماغ سے نکال کر اپنے اور بارے میں سوچیں بس"

معظم اپنا چہرہ سندیلا کے چہرے کے قریب لا کر خمار آلود لہجے میں بولا اور اپنی سانسیں سندیلا کی سانسوں میں شامل کرنے لگا۔۔۔ وہ ہر بار کی طرح معظم کی دسترس میں آکر اس وقت بھی اپنی آنکھیں بند کئے اس کی سانسوں کو اپنے اندر تک اترتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔۔۔ تب معظم آئستہ سے سندیلا کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹانے کے بعد اسکی بند آنکھیں دیکھتا ہوا، تھوڑی کو چوم کر گردن پر جھک گیا


"یہ کون سا وقت ہے معظم، پری جاگ جائے گی پیچھے ہٹو"

معظم کی سانسوں کی گرمائش اور ہونٹوں کے لمس کو اب وہ اپنی گردن اور کندھے پر محسوس کرتی ہوئی سوئی ہوئی پری کے کاٹ کی طرف دیکھکر معظم سے بولی


"آپ مسلسل بولتی رہیں گیں تو وہ واقعی اُٹھ جائے گی۔۔۔ منہ پر ٹیپ لگا دو آپ کے یا پھر یہ دوپٹہ باندھ دو"

وہ سندیلا کو گھور کر دیکھنے کے بعد نرمی سے اس سے پوچھتا ہوا اپنی شرٹ اتارنے لگا۔۔۔ کیونکہ اس وقت وہ تھوڑی دیر کے لیے سندیلا سے صرف اپنا لیے وقت چاہتا تھا


"شرم نہیں آرہی تمہیں بالکل بھی، شرافت بھائی ابھی گھر پر ہی موجود ہیں اور تم اس وقت ان کی موجودگی میں، یہاں دروازہ بند کرکے اُف"

سندیلا کے دوبارہ اعتراض کرنے پر معظم اپنی شرٹ بیڈ پر پھینکتا ہوا ایک بار پھر سندیلا کے اوپر جھکا۔۔۔ ماتھے پر سے سندیلا کے بال پیچھے کرتا ہوا وہ سندیلا کی پیشانی کو اپنے ہونٹوں سے چھوتا ہوا بولا


"شرافت بھائی اس وقت گھر پر اسی لیے موجود ہے کہ انہیں اور مجھے تھوڑی دیر بعد ایک ضروری کام سے نکلنا ہے۔۔۔ اور اب یہ دوپٹہ میں واقعی آپ کے منہ پر باندھنے لگا ہوں کیونکہ آپ اب میری بات شرافت سے نہیں سمجھے گیں"

معظم کی وارننگ پر سندیلا خاموش ہوئی معظم دوبارہ اس کی گردن پر ہونٹ رکھ کر اپنی انگلیاں سندیلا کی گردن پر پھیرتا ہوا اس کے وجود کی نرماہٹ محسوس کرنے لگا تب سندیلا نے اسے ایک دم پیچھے ہٹایا اور ناراض نظروں سے معظم کو دیکھنے لگی۔۔۔ معظم جانتا تھا کہ سندیلا اس کے باہر جانے کا سن کر اپنا موڈ خراب کر چکی ہے مگر معظم کو اس وقت اسے اپنے گھر سے باہر جانے کا بتانا بھی ضروری تھا اور آج رات جانا بھی ضروری تھا


"اب تم ساری رات باہر گزارو گے اور صبح کے اجالے میں گھر لوٹوں گے،، تم جانتے ہو ناں معظم یہ والی بات مجھے تمہاری ذرا اچھی نہیں لگتی"

سندیلا بیڈ سے اٹھ کر اپنی شرٹ کا گلا ٹھیک کرکے بالوں کا جوڑھا باندھتی ہوئی معظم سے ناراض ہوکر بولی


"اور آپ جو اس طرح اٹھ گئیں ہیں مجھے یہ بات ذرا اچھی نہیں لگی۔۔۔ واپس آ جائیں یہاں، اگر آپ مجھ سے پیار کرتی ہیں ورنہ میں آپ سے ناراض ہو جاؤں گا"

معظم سنجیدہ انداز میں اس کو دھمکی دیتا ہوا بولا۔۔۔ ایسا نہیں تھا کے اس نے سندیلا اور پری کی طرف سے غفلت برتی ہوئی تھی بلکہ ان کی حفاظت کا مکمل انتظام کرنے کے بعد ہی وہ گھر سے جانے والا تھا


"تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے کہ میں تم سے پیار کرتی ہوں، اگر تم آج کی رات باہر گئے تو تم مجھ سے کیا، الٹا میں تم سے ناراض ہو جاؤں گی اب جا کر دکھاؤ"

سندیلا معظم کو الٹا دھمکی دیتی ہوئی بولی اس نے سوچ رکھا تھا کہ آہستہ آہستہ وہ اپنے شوہر کی بری عادتوں کو ٹھیک کر کے اسے راہ راست پر لائے گی جس کے لیے اب اسے سخت اقدامات اٹھانے تھے


معظم سندیلا کی بات سن کر خاموشی سے تھوڑی دیر تک اس کو دیکھتا رہا اور پھر خود بھی بیڈ سے اٹھ کر الماری کے پاس گیا،، استری شدہ دوسری شرٹ پہننے لگا، یعنی وہ باہر جانے کی تیاری کر رہا تھا۔۔۔ سندیلا خاموش مگر ناراض نظروں سے اس کو گھور رہی تھی تبھی معظم چلتا ہوا اس کے پاس سے گزر کر کاٹ کے پاس آیا اور سوئی ہوئی پری کو گود میں اٹھا کر پیار کرنے لگا


"پری کے بابا اپنی پری سے اور اس کی مما سے بہت پیار کرتے ہیں مگر پری کی مما اس کے بابا سے پیار نہیں کرتی ہیں، یہ بات اب پری کے بابا ہمیشہ یاد رکھیں گے"

معظم پری سے باتیں کرنے کے بعد اسے دوبارہ کاٹ میں لٹا کر خاموش نظر سندیلا پر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گیا


"بہت ہی کوئی بد تمیز انسان ہو تم، مجال ہے جو تم نے میری ناراضگی کا اثر لیا ہو الٹا باہر چلے گئے۔ ۔۔۔ واپس آؤ گے تو پھر اچھی طرح بتاؤں گی تمہیں"

سندیلا غصے میں بڑبڑاتی ہوئی بولی اور واپس آکر بیڈ پر لیٹ گئی، وہی معظم کی شرٹ پڑی ہوئی تھی جو تھوڑی دیر پہلے وہ اتار کر گیا تھا


"میں پیار نہیں کرتی تم سے یہ جو تمہارے پاس سگریٹ کی سڑی ہوئی اسمیل ہر وقت آتی ہے۔۔۔ جسے تم روز میری سانسوں میں انڈلتے ہو، اسے برداشت کرنا ہی میرے پیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔۔ بڑے آئے میں تم سے پیار نہیں کرتی"

سندیلا معظم کی شرٹ کو اٹھا کر بولی اس کی شرٹ اپنے سینے پر رکھ کر آنکھیں بند کر کے لیٹ گئی۔۔۔ اب سندیلا کو افسوس ہو رہا تھا کہ اسے معظم کے باہر جانے سے پہلے اسے منا لینا چاہیے تھا مگر وہ صبح تو اس کے پاس موجود ہوگا۔۔۔ یہ سوچ کر سندیلا مطمئن ہوگئی اور سونے کی کوشش کرنے لگی


****


"کیا ہو گیا زینش اب تم اتنی چھوٹی سی بات پر منہ پھلا کر بیھٹی ہو۔۔۔ یہاں ہم ڈنر کرنے آئے ہیں بحث نہیں،، موڈ ٹھیک کرو اپنا"

بلال جو کہ تھوڑی دیر پہلے رات کے ڈنر پر زینش کو ہوٹل لے کر آیا تھا اس کے پھولے ہوئے منہ کو دیکھ کر کہنے لگا


"ففٹی لیگ اماؤنٹ کم نہیں ہوتی بلال، جو آپ نے ماما کے ایک بار کہنے پر فٹ سے ان کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا دی وہ بھی میرے علم میں لائے بغیر۔۔ اگر میں آپ کی اور ماما کی موبائل پر ہونے والی گفتگو نہیں سنتی تو شاید آپ مجھے بتاتے بھی نہیں اور ماما ان سے تو مجھے اب کسی اچھے کی امید ہی نہیں ہے"

زینش شکوہ کرتی ہوئی بلال سے بولی اسے شہنیلا کا یوں بلال سے پیسے مانگنا ذرا اچھا نہیں لگا


"آنٹی کو پیسوں کی ضرورت تھی اگر انہوں نے اپنی پروبلم سے شیئر کر کے مجھے اپنا سنجھتے ہوئے کچھ مانگ لیا تو اس میں برا ماننے والی بات نہیں ہے۔۔۔ بے شک وہ تمہاری مدر ہیں لیکن ان سے میرا بھی رشتہ ہے ان چوٹی چھوٹی باتوں کو اپنے اور میرے درمیان لے کر آؤ زینش"

بلال زینش کو دیکھتا ہوا آرام سے بولا


"چھوٹی چھوٹی باتیں بڑی بڑی لڑائیوں کا سبب بنتی ہے بلال، آئندہ آپ مجھے بتائے بغیر اکچھ ایسا کام نہیں کریں گے"

معلوم نہیں شہنیلا نے کونسے دکھڑے بلال کے سامنے رو کر اس سے پیسے مانگے تھے جس پر زینش نے کال کر کے شہنیلا کو بھی اچھی خاصی سنائی تھی اور اب وہ بلال کو بھی بولنے لگی


"اوکے بابا آئندہ تمہارے علم میں لائے بغیر ایسا کچھ نہیں کروں گا لیکن تمہیں مجھ سے بھی کچھ نہیں چھپانا چاہیے، چاہے وہ کوئی چھوٹی بات ہی کیوں نہ ہو"

بلال اپنی بات بولنے کے بعد اب خاموشی سے زینش کو دیکھ رہا تھا تب زینش ناسمجھنے والے انداز میں بلال کو دیکھنے لگی


"میں نے کیا چھپایا ہے آپ سے۔۔۔۔ اوہو شہری کے ساتھ جو میں اسکے اسکول گئی تھی۔۔۔۔ وہ تو میں آپ کو بتانے والی تھی مگر ماما والا مسئلہ پہلے نکل آیا ناں"

زینش کے بولنے پر بلال سر جھٹک کر مسکرایا اتنے میں ویٹر کھانا سرو کرنے لگا تبھی اچانک سے گولیاں چلنے کی آواز آئی ساتھ میں ہی بھگدڑ مچ گئی


"یہ کیا ہو رہا ہے بلال"

زینش گھبرا کر بلال سے پوچھنے لگی بلال کو خود بھی فوری طور پر سمجھ میں نہیں آیا جبھی ہوٹل کے اندر اسلٰہ سمیت دو آدمی داخل ہوئے


"کوئی بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا سب کے سب ایسے ہی بیٹھے رہو۔۔۔ کسی نے بھی کوئی چالاکی دکھانے کی کوشش کی تو وہ سیدھا اوپر جائے گا"

ان میں سے ایک آدمی زور دار آواز میں بولا ساتھ ہی اس نے ہوائی فائرنگ کی، جس سے وہاں پر موجود لوگوں میں اچانک خوف پھیل گیا،، ڈر کے مارے سب اپنی اپنی کرسیوں پر جمے رہے


"بلال مجھے ڈر لگ رہا ہے مجھے آپ کے پاس آنا ہے"

ان میں سے ایک آدمی زینش سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑا تھا جسے دیکھ کر زینش ڈرتی ہوئی بلال سے بولی


"خاموشی سے وہی بیٹھی رہو زینش ریلیکس رہو، میں تمہارے سامنے ہی بیٹھا ہوں"

بلال زینش کے سامنے بیٹھا ہوا اسے آہستہ سے بولا کیوکہ وہ دونوں ہی اپنے حلیے سے کوئی خطرناک انسان لگ رہے تھے اور ان دونوں کے ہاتھ میں ہتھیار بھی موجود تھے ایسے لوگوں سے کوئی بعید بھی نہیں وہ کیا کر گزرے جبھی بلال نے زینش کو سمجھایا


ابھی مشکل سے چند منٹ ہی گزرے تھے کہ داخلی دروازے سے،، یونیفارم میں موجود مبلوس دو پولیس کے اہلکار داخل ہوئے۔۔۔ زینش سے چند قدم فاصلے پر کھڑے آدمی نے پولیس کو دیکھ کر فوراً زینش کو بازو سے پکڑ کر کرسی سے کھڑا کیا اور اس کی کنپٹی پر پستول رکھی


"بلال"

زینش کے منہ سے چیخ نکلی وہی بلال ایک دم کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا


"اے چھوڑو اسے فوراً"

بلال نے غصے میں بولتے ہوئے اس آدمی کی طرف آنے کی کوشش کی مگر اس آدمی کے دوسرے ساتھی نے بلال کے پاؤں کے پاس فرش پر فائر کیا۔۔۔ جس سے بلال کے قدم وہی رکے وہاں موجود افراد کی دبی دبی چیخیں نکل گئی۔۔۔ پولیس جو حرکت میں آنا چاہ رہی تھی وہی تھم گئی جبکہ ڈر کے مارے زینش نے سے رونا شروع کر دیا


"زیادہ ہیرو مت بن واپس جا کر بیٹھ اپنی جگہ پر ورنہ اڑا ڈالوں گا تیری کھوپڑی"

فائر کرنے والا آدمی بلال کو دھمکاتا ہوا بولا۔۔۔ بلال واپس بیٹھا نہیں، وہی کھڑا رہا۔۔۔ وہ خاموشی سے اس آدمی کے شکنجے میں زینش کو روتا ہوا دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہاں ٹیبلز پر موجود ہر شخص کے چہرے پر خوف دکھائی دے رہا تھا


"دیکھو تم دونوں یہاں سے باہر نہیں نکل سکتے عقل مندی اسی میں ہے کہ اس لڑکی کو چھوڑ دو"

پولیس انسپکٹر نے اس آدمی کو مخاطب کیا جس نے زینش کی کنپٹی پر پستول رکھی ہوئی تھی۔۔۔ وہ دونوں جیل سے بھاگے ہوئے قیدی تھے اور پولیس کافی دیر سے ان کو پکڑنے کے لیے ان کا پیچھا کر رہی تھی


"بکواس بند کر اپنی بڑا آیا لڑکی کو چھوڑ دو، اگر ذرا بھی ہوشیاری دکھائی ناں یا اب تم لوگوں نے ہم دونوں کا پیچھا کرنے کی کوشش کی تو اس لڑکی کے ساتھ تجھے بھی اڑا دوں گا۔۔ چل اُوئے نیچے زمین پر رکھو تم دونوں اپنے ہتھیار"

داؤد نامی جیل سے فرار قیدی پولیس انسپکٹر سے بولا۔۔۔ پولیس کے دونوں اہلکار نے اس کے حکم کے تابع اپنے ہاتھ میں موجود روالور نیچے فرش پر رکھ دی تو وہ دونوں قیدی زینش کو ڈھال بنا کر وہاں ہوٹل سے باہر نکلنے لگے


"بلال"

زینش نے روتے ہوئے ایک بار پھر بلال کو دیکھ کر اس کو پکارا۔۔۔ بلال کی نظریں نیچے فرش پر رکھی ہوئی ریوالور پر تھی


"چپ کر جا، ورنہ یہی گردن مڑوڑ ڈالو گا تیری۔۔۔ خاموشی سے باہر چل"

داؤد نامی قیدی روتی ہوئی زینش سے بولا جبکہ زبیر اپنی پسٹل کا رخ سامنے پولیس والوں اور ہوٹل میں موجود دوسرے افراد پر کیے الٹے قدموں باہر نکل رہا تھا۔۔۔ داؤد زینش کی کنپٹی پر پسٹل رکھے اس کا بازو پکڑ کر داخلی گیٹ عبور کرنے ہی والا تھا کہ بلال نے اچانک زینش کو باہر جاتا دیکھ کر پھرتی سے آگے بڑھ کر فرش پر موجود پولیس انسپیکٹر کا ریوالور اٹھانا چاہا مگر بلال کی یہ حرکت زبیر کی آنکھ سے پوشیدہ نہیں رہ سکی جبھی اس نے بلال پر فائر کیا


"بلال"

زینش روتی ہوئی زور سے چیخی۔۔۔۔ گولی لگنے کی وجہ سے بلال فرش پر گر گیا وہاں موجود لیڈیز اور بچے ٹینشن سے رونے لگے۔۔۔ مگر خوف کی وجہ سے اور اپنی جان بچانے کی خاطر پولیس سمیت سب اپنی جگہ پر جمے رہے۔۔۔ جبکہ وہ دونوں خطرناک قیدی روتی ہوئی زینش کو اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر وہاں سے فرار ہو گئے


****

داؤد اور زبیر دونوں جیل سے فرار ہوئے قیدی زینش کو تین مختلف گاڑیاں تبدیل کرتے ہوئے بالآخر اپنی منزل پر پہنچے جو کہ ایک فارم ہاؤس تھا


"نخرے مت دکھا خاموشی سے نکل گاڑی سے باہر"

داؤد زینش کا بازو کھینچتا ہوا زبردستی اسے گاڑی سے باہر نکلنے لگا


وہ دونوں زینش کو لے کر ایک بڑے سے ہال نما کمرے میں داخل ہوئے جہاں بہت سارے مرد موجود تھے۔۔۔ داؤد اور زبیر کے ساتھ زینش کو دیکھ کر سارے آدمی ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوگئے مگر روتی ہوئی زینش ان سارے آدمیوں کے بیچ معظم کو دیکھ کر رونا بھول چکی تھی، معظم خود بھی حیرت سے داؤد کے پاس کھڑی ہوئی زینش کو دیکھنے لگا


"یہ کس کو یہاں پر اٹھا کر لے آئے ہو تم دونوں"

معظم داؤد کے قریب آ کر ان دونوں کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا


"جیل سے فرار ہونے کے بعد پولیس ہمارے پیچھے پڑ گئی تھی اور اسی بلبل کو ڈھال بنا کر ہم دونوں یہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں"

معظم کی بات کا زبیر اس کو جواب دینے لگا زینش ابھی بھی اپنے سامنے کھڑے معظم کو امید سے بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی


"ٹھیک ہے اب اسے میرے حوالے کر دو" معظم نے بولنے کے ساتھ ہی داؤد کا ہاتھ زینش کے بازو سے ہٹایا


"اے تو نے کیا پاگل سمجھا ہوا ہے ہم دونوں کو جو اسے تیرے حوالے کردیں"

زبیر معظم کو دیکھتا ہوا بولا اس سے پہلے معظم اسے کوئی سخت جواب دیتا ساجد صوفے سے اٹھ کر ان دونوں کے پاس آتا ہوا بولا


"اس کے ساتھ یہی مسئلہ ہے یار، میں تو خود پریشان ہوں اس سے۔۔۔ نہ یہ خود مزے لیتا ہے نہ دوسرے کو لینے دیتا ہے۔۔۔ زاہد غور سے دیکھ یہ وہی لڑکی ہے جو ماں بننے والی تھی جب ہم یو ایس بی لینے کے گئے تھے اس سالے معظم کے ساتھ اس گھر میں"

ساجد بولتا ہوا ان لوگوں کے پاس آیا اور زینش کو حوس بھری نظروں سے دیکھنے لگا


"اچھی طرح پہچان چکا ہوں یار اسے، اب یہ لڑکی یہاں آگئی ہے تو قاسم سیٹھ خود بھی اسے واپس نہیں جانے دے گا۔۔۔ ظاہری سی بات ہے یہ اس جگہ کو دیکھ چکی ہے، ہم سب کے چہرے دیکھ چکی ہے اب یہ مولوی بھی اگر چاہے تو اس لڑکی کو نہیں بچا سکتا"

زاہد معظم پر طنز کرتا ہوا بولا تبھی معظم زاہد کی طرف مڑکر اسے جھڑک کر بولا


"بکواس بند کرو اپنی، ابھی قاسم سیٹھ یہاں پر نہیں پہنچے ہیں اور جب تک وہ یہاں نہیں پہنچ جاتے تب تک تم سب کو ہمیشہ کی طرح میرے حکم کے تابع چلنا ہوگا۔۔۔ زاہد تم تھوڑی دیر بعد ساجد کے ساتھ اُس ہوٹل میں جاؤ گے جہاں قاسم سیٹھ کے گیسٹ ٹہرے ہیں اور انہیں باعزت طریقے سے یہاں لے کر آؤ گے اور تم دونوں تھوڑی دیر پہلے جیل سے فرار ہوئے ہو تو جا کر اپنا حلیہ درست کرو۔۔۔ تم سب لوگ کان کھول کر میری بات سن لو اس لڑکی کو مجھ سے پہلے کوئی بھی ہاتھ نہیں لگائے گا، اگر کسی نے بھی اس لڑکی کو چھونے کی کوشش کی تو میں اس کا اتنا برا حشر کروں گا کہ آئینے میں خود کا چہرہ دیکھنے سے بھی خوف آنے لگے گا"

معظم وہاں پر موجود ایک ایک آدمی پر نظر ڈالتا ہوا اسے وارن کرتا ہوا بولا


"ٹینشن نہ لے، مل جائے گی پہلے اس کو خوش ہو لینے دے"

زبیر داؤد کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر بولا معظم اس کی بات کو اگنور کرتا ہوا زینش کا ہاتھ پکڑ کر اسے سیڑھیاں چڑھاتا ہوا اوپر کے فلور پر لے گیا


****


"چھوڑ دو مجھے پلیز"

سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ مسلسل رو رہی تھی معظم نے اسے کمرے میں لاکر کمرے کا دروازہ لاک کیا


زینش معظم کے تھوڑی دیر پہلے بولے گئے جملے پر اور اسکے دروازہ بند کرنے پر معظم کو خوفزدہ نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔ اس کا دوپٹہ معظم کے قدموں میں گر چکا تھا زینش ڈر کر دیوار سے چپک کر کھڑی ہو گئی


"کیسے ہاتھ لگ گئی تم ان دونوں خبیثوں کے، تمہارا شوہر بلال کہاں ہے اس وقت"

معظم زینش کا دوپٹہ اٹھا کر اس کی جانب بڑھتا ہوا آہستہ آواز میں زینش سے پوچھنے لگا تب زینش کو تھوڑی سی ڈھارس ہوئی وہ کانپتا ہوا ہاتھ آگے بڑھا کر معظم سے اپنا دوپٹہ لے کر دوبارہ رونے لگی


"بلال کو گولی مار دی ان لوگوں نے"

زینش روتی ہوئی معظم کو بتانے لگی اس کی آنکھوں میں ابھی تک بلال کا چہرہ گھوم رہا تھا۔۔۔ معظم اس کی بات سن کر تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گیا پھر آہستہ آواز میں زینش سے پوچھنے لگا


"یہاں سے واپس جانا چاہتی ہوں"

معظم کی بات سن کر زینش رونا بند کر کے خاموشی سے معظم کو دیکھنے لگی۔۔۔ معظم نے چھوٹے سائز کا چاقو پاکٹ سے نکال کر زینش کی طرف بڑھایا


"اسے اپنے پاس کہیں چھپا لو ویسے تو تمہیں اس کے استعمال کی ضرورت نہیں پڑے گی لیکن اگر میرے علاوہ کوئی دوسرا اس کمرے میں آ جاتا ہے تو تم اپنی عزت بچانے کے لئے اسکا استعمال کر لینا۔۔ اب غور سے میری بات سنو چند گھنٹے تمہیں اس کمرے میں خاموشی سے گزارنے ہوگیں۔۔ بار بار تمہارا رونا دھونا چیخنا چلانا باہر موجود تمام آدمیوں کو اس کمرے کی طرف اور تمہاری طرف متوجہ کرسکتا ہے۔۔۔ باہر سے میں اس کمرے میں تالا لگا دو گا اس کی چابی میرے پاس محفوظ رہے گی۔۔۔ یہاں کوئی دوسرا نہیں آ سکتا،، چند گھنٹوں بعد میں تمہیں یہاں سے نکال لوں گا اور بلال کے لیے پریشان مت ہوں میں اس کے بارے میں معلوم کروا لیتا ہوں"

معظم زینش کو ڈرا ہوا دیکھ کر اطمینان دلاتا ہوا بولا اور کمرے سے باہر جانے لگا وہ اپنے اوپر قرض رکھنے کا عادی نہیں تھا ایک بار بلال اسکی بیوی اور بیٹی کی مشکل وقت میں مدد کر چکا تھا آج اس کی باری تھی


"معظم ایم سوری۔۔۔ میں نے اس دن تمہاری وائف کے سامنے جو بھی کچھ کہا،، وہ دو سال پہلے میرے اندر کا دبا ہوا غصہ تھا اس کے لئے مجھے معاف کر دو"

زینش کی بات سن کر معظم اسے کچھ کہے بنا کمرے سے باہر نکل گیا۔۔ اس نے واقعی کمرے کے دروازے پر تالا لگایا اور چابی اپنی پاکٹ میں رکھ لی اور پپو کو کال ملانے لگا


*****


قاسم اور قاسم کے گیسٹ آچکے تھے جن کی موجودگی میں میٹنگ کے دوران چار مختلف جگہ پر بلاسٹ کرنا تہہ پایا گیا،، میپس کی مدد سے اور پہلے سے مونیٹرنگ کی ہوئی ساری لوکیشن داؤد اور زبیر کو سمجھا دی گئی تھی


ڈنر کے بعد قاسم اپنے گیسٹ کو اس فیکٹری میں لے جانے کا ارادہ رکھتا تھا جہاں بم میں شامل خطرناک کیمیکل اور زہریلا مواد تیار کیا جاتا تھا یہ فیکٹری وہی واقع تھی جہاں معظم پرانے محلے میں پپو کے ساتھ رہتا تھا ایک چھوٹی سی جگہ پر عام سی گارمنٹس فیکٹری میں کسی عام بندے کو یہ نہیں معلوم تھا کہ یہاں پر کیا کام ہوتا ہے


یہ ٹائم بمز جنھیں مختلف جگہوں پر فکس کرنے کا پروگرام تشکیل دیا گیا تھا یہ کوئی عام بمز نہیں تھے بلکہ ان میں موجود مختلف قسم کے وائرس موجود تھے جو بلاسٹ کے بعد بہت بڑی بربادی کا سبب بنتے۔۔۔ ان بمز کی تکمیل ہفتے بھر پہلے ہو چکی تھی،، انہیں دوسرے ممالک میں دریافت کروانے سے پہلے اپنے ہی ملک میں چار مختلف جگہوں پر ٹیسٹ کرنے کا پلان بنایا گیا تھا۔۔۔ کیوکہ زبیر اور داؤد ٹرینڈ آدمی تھے اسلیے اس کام کے لیے ان دونوں کو جیل سے باہر نکلوایا گیا تھا


****


"جلدی چلو ٹائم کم ہے میرے پاس، دس منٹ ہیں ٹوٹل تمہیں یہاں سے باہر نکالنا ہے پھر دوسرا کام بھی نبھٹانا ہے"

زینش نیچے فرش پر بیٹھی ہوئی تھی تب معظم جلدی سے کمرے میں آ کر دروازہ بند کرتا ہوا اس سے بولا


"لیکن تم دروازے بند کر چکے ہو ہم باہر کہاں سے جائیں گے"

زینش فرش سے اٹھ کر کھڑی ہوتی ہوئی معظم سے پوچھنے لگی۔۔۔ اس نے معظم کی بیوقوفی جتا کر اپنے طور پر اس سے عقلمندانہ سوال کیا تھا


"شکر ہے میری بیوی تمہاری جتنی عقلمند نہیں ہے۔۔۔ تمہیں اس دروازے سے باہر نکل کر سب کو ٹاٹا بائے بائے کرکے یہاں سے جانا ہے۔۔۔ یہاں آؤ میرے پیچھے"

معظم زینش پر طنز کرتا ہوا بولا اور کمرے میں موجود ایک اور دروازہ کھولنے لگا جہاں بالکنی موجود تھی


یہ بالکنی فارم ہاؤس کے پچھلے حصے پر کھلتی تھی، معظم بالکنی میں آیا تو زینش بھی اس کے پیچھے وہی آ گئی


معظم نے بالکنی میں موجود گرل کی دوسری سمت پر کھڑے ہو کر دیوار میں لگے پائپ کا سہارا لیا اور نیچے چھچجے پر گودا


"میری شکل مت دیکھو زینش میری طرح اس پائپ کو پکڑ کر یہاں جمپ کرو"

معظم چھچھجے پر کھڑا ہوا آہستہ آواز میں زینش سے بولا


"لیکن اگر میں نیچے گر گئی تو"

زینش اپنا خدشہ ظاہر کرتی ہوئی معظم کی طرح خود بھی آہستہ آواز میں بولی


"اگر تم یہاں سے گری تو زیادہ سے زیادہ تمہاری کوئی ہڈی ٹوٹے گی، اتنی کم ہائیٹ سے کوئی مر نہیں سکتا،، تم میرا وقت ضائع کر رہی ہو زینش"

زینش کی بات سن کر معظم چڑتا ہوا بولا۔۔۔ اس نے سندیلا سے شادی کا ایک اچھا فیصلہ کیا تھا اس کی آستانی جی آرام سے اس کی ہر بات سمجھ جایا کرتی تھی۔۔۔۔ آج معظم کو اپنی قسمت پر رشک اور بلال کی قسمت پر افسوس ہونے لگا تھا۔۔۔ بیچارہ بلال


"نہیں میں اس طرح کا کرتب نہیں کر سکتی مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے"

زینش نے گرل کی دوسری سائیڈ پر کھڑی ہو کر پائپ کو پکڑنا چاہا تو وہ لوز ہوکر حل رہا تھا زینش روہنسا ہوکر معظم سے بولی


"تم خود تو پھنسو گی مجھے بھی مروا دو گی آج۔۔۔زینش تم ٹائم ویسٹ کر رہی ہو یہاں دیکھو میری طرف، میں تمہیں گرنے نہیں دوں گا مجھ پر بھروسہ کر کے جمپ کرو پلیز"

معظم ہمیشہ کی طرح نرم لہجے میں بولا ویسے بھی روعب اور غصہ صرف مقابل کو اس کی آنکھوں میں دکھتا تھا جسے اس وقت زینش نے دیکھ کر اقرار میں سر ہلایا


اللہ کا نام لے کر اس نے چھلانگ لگائی اور ساتھ ہی اپنی آنکھیں بھی بند کر لیں۔۔۔ زینش کی اٹکی ہوئی سانس بحال ہوئی کیونکہ معظم اسے گرنے سے پہلے گرپ کر چکا تھا وہ آنکھیں کھول کر پرسکون ہو کر سانس لینے لگی۔۔۔ معظم باآسانی وہاں سے نیچے زمین پر گودا اور زینش کو بھی کھودنے کا اشارہ کیا۔۔۔ پہلے کے مقابلے میں اب کی بار ہائیٹ کم تھی اس لئے معظم کے ایک دفعہ بولنے پر زینش نے جمپ لگائی۔۔۔ معظم ایک بار پھر اس کے جمپ لگانے پر زینش کو تھام چکا تھا تاکہ اس کو چوٹ نہ لگے۔۔۔ معظم زینش کو لے کر وہاں سے دوسری طرف سے باہر کے راستے پر لے جانے لگا


"یہاں تو دیوار ہے اب ہم باہر کیسے نکلیں گے"

زینش وہاں موجود بڑی سی دیوار کو دیکھتی ہوئی معظم سے پوچھنے لگی


"اس دیوار کو پھلانگ کر اور ہم نہیں صرف تم۔۔۔ دیوار کی دوسری سائیڈ میرا دوست تمہارا انتظار کر رہا ہے۔۔۔ وہ تمہیں باحفاظت یہاں سے لے جائے گا اور ہاں بلال کی ٹانگ پر گولی لگی تھی لیکن وہ اب بالکل ٹھیک ہے۔۔۔ وہاں پر موجود پولیس اور لوگوں کی مدد سے وہ ہسپتال پہنچا دیا گیا تھا۔۔۔ چلو جلدی کرو مجھے واپس وہاں جانا ہے میری غیر موجودگی ان لوگوں کو شک میں مبتلا کر سکتی ہے"

معظم چاروں طرف اپنی نظر دوڑاتا ہوا جلدی جلدی بول رہا تھا شکر تھا کہ وہاں پر کوئی کیمرہ فکس نہیں تھا۔۔۔


معظم نے وہاں پر موجود ایک لکڑی کا اسٹول دیوار کے پاس رکھا تاکہ زینش اس پر چڑھ کر دیوار کو پھلانگ سکے، مگر زینش کے اس بوسیدہ اسٹول پر چڑھتے ہی اسٹول ٹوٹ گیا۔۔۔۔ زینش زمین پر گری ہوئی شرمندہ نگاہوں سے معظم کو دیکھنے لگی۔۔۔ جو ضبط کرکے اس وقت زینش کو گھور رہا تھا


"تم مجھے واقعی مرواؤ گی یہاں تھوڑی دیر میں پولیس آنے والی ہے جلدی کرو"

معظم نیچے جھک زینش کا بازو پکڑ کر اسے اٹھاتا ہوا نرمی کی بجائے غصے میں بولا۔۔۔ زینش کا رخ دیوار کی جانب کرکے اس کو کمر سے پکڑتا ہوا اونچا کرنے لگا تب بہت مشکلوں سے زینش نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر کرکے دیوار کو بمشکل تھاما۔ ۔۔ دیوار کی دوسری جانب واقعی ایک شخص کھڑا تھا جو کہ زینش کو دیکھ کر چوکنا ہوا۔۔۔ اس نے زینش کی طرف اپنے دونوں ہاتھ بڑھائے تب زینش نے دیوار کی دوسری جانب چھلانگ لگا دی


*****


"بلال"

زینش دوڑ کر ہاسپٹل کے بیڈ پر لیٹے ہوئے بلال کے پاس پہنچی اور اس کے سینے سے لگ کر رونے لگی۔۔۔ زینش وہاں سے نکلتے ہوئے پپو کو پہلے ہی کہہ چکی تھی وہ اپنے گھر کی بجائے اپنے شوہر کے پاس ہاسپٹل جانا چاہتی ہے جہاں وہ ایڈمٹ تھا


"زینش تم یہاں اللہ کا شکر ہے۔۔ تم یہاں کیسے پہنچی کون لایا تمہیں،، تم ٹھیک ہو نہ پلیز مجھے سچ بتاؤ"

بلال زینش کو یوں اچانک اپنے سامنے دیکھ کر بے قراری سے پوچھنے لگا


بلال کو 3 گھنٹے پہلے ہوش آ چکا تھا۔۔۔۔ ہوش میں آنے کے بعد اس نے ہسپتال میں چیخنا چلانا اور ہنگامہ شروع کر دیا وہ ڈاکٹرز اور پولیس کی ایک نہیں سن رہا تھا۔۔ وہاں پر موجود پولیس نے اسے یقین دلایا تھا کہ وہ اس کی بیوی کو ان مجرموں سے بازیاب کروا لیں گے لیکن وہ اپنی بیوی کو خود ان مجرموں سے چھڑوانا چاہتا جو اس کی بیوی کو اس کی آنکھوں کے سامنے لے کر چلے گئے تھے۔۔۔ جب بلال نے غصے میں ڈرپ کا اسٹینڈ دور پھینکا تب ڈاکٹر کو اس کو انجکشن دینا پڑا جس سے وہ غنودگی میں چلا گیا تھا۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی وہ ہوش میں آیا تھا، اس نے خود کو ہسپتال کے پرائیویٹ روم میں پایا وہ اسپتال سے نکلنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ زینش اس کے پاس آ گئی


"معظم۔۔۔ معظم نے وہاں تمہیں بچایا"

زینش نے بلال کو پورا قصہ سنایا تو بلال حیرت سے اس سے پوچھنے لگا، جس پر زینش اس نے اقرار میں سر ہلایا


"اس کی وجہ سے آج میری عزت اور جان بچی ہے بلال،، میں جو یہاں آپ کے سامنے موجود ہوں صرف اسی کی وجہ سے آپ مجھے صحیح سلامت دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ لیکن آپ کو اس حالت میں دیکھ کر مجھے بہت تکلیف ہو رہی ہے"

گھٹنے سے اوپر اس کے ڈریسنگ ہوئی تھی دائیں ہاتھ پر ڈرپ لگی دیکھ کر زینش روتی ہوئی بولی


"میں بالکل ٹھیک ہوں زینش،، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے معظم کو ذریعہ بنا کر باحفاظت تمہیں میرے پاس بھیج دیا۔۔۔ ورنہ اگر تمہیں کچھ ہوجاتا یا تم واپس نہیں آتی تو نہ جانے میں کیا کر گزرتا"

بلال زینش کو چہرہ تھام کر اس کے آنسو صاف کرنے لگا ایک بار اس نے معظم کی بیوی اور بچی کی جان بچائی تھی آج معظم نے اس کی بیوی کو بچایا۔۔۔ وہ بلال پر ادھار اپنا قرض اتار چکا تھا


زینش بلال کا تکیہ سیٹ کر کے اس کو ریلکس انداز میں لٹاتی ہوئی روم میں موجود ایل ای ڈی آن کرنے لگی


"کیا دیکھنا چاہ رہی ہو تمہاری کوئی ویڈیو فوٹیج یا کلپ اسکرین پر نہیں آئی۔۔۔ دو خطرناک مجرم جیل سے فرار ہو کر بھاگ گئے ہیں اس طرح کی نیوز چلی تھی چند گھنٹے پہلے"

بلال اس کو چینل سرچ کرتا ہوا دیکھ کر وہی بات بتانے لگا جو اسے ہوش میں آنے کے بعد پولیس انسپکٹر سے معلوم ہوئی تھی


"نہیں مجھے اور بھی کچھ کنفیوز کر رہا ہے رکیں آپ کو بتاتی ہوں"

زینش نے بلال سے بولتے ہوئے نیوز چینل لگایا۔۔۔ کیونکہ اس نے معظم کے منہ سے یہ جملہ سنا تھا تھوڑی دیر میں یہاں پولیس آنے والی ہے اور معظم کے دوست نے اسے وہاں سے نکالتے وقت، یہاں اسپتال پہنچانے سے پہلے۔۔۔ زینش کو یہی سمجھایا تھا کہ وہ پولیس سے اپنے بیان میں یہی بولے کہ وہ اس جگہ سے خود اپنے مدد آپ فرار ہوئی ہے


"سب سے بڑی اور اہم خبر آپ کو بتاتے چلیں۔۔۔ تو ناظرین یہ جو منظر آپ اپنی ٹی وی اسکرین پر دیکھ رہے ہیں یہ ٹھٹھہ کے قریب ایک فارم ہاؤس کے اندر کے مناظر ہیں۔۔۔ جہاں پر تھوڑی دیر پہلے پولیس نے ایک کامیاب آپریشن کیا اور کئی ملزم اور جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کرلیا گیا،،، کئی فرار ہونے والے مجرم اور جرائم پیشہ افراد پولیس کی گولیوں کا نشانہ بھی بنے۔۔۔ یہ جو فوٹیج آپ کو دکھائی دے رہی ہے ان فوٹیج سے آپ ان بے ضمیر لوگوں کے خطرناک عزائم کا خوب اندازہ لگا سکتے ہیں۔۔۔ اس فارم ہاؤس سے برآمد ہونے والے بارود سوسائڈ بم جیکٹ اور مختلف ایسے نقشے اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اس شہر کے امن و سکون کو تباہ و برباد کرنے کے لیے کتنا بڑا لاحہ عمل تیار کیا گیا تھا جو کہ پولیس کے بروقت کیے جانے والے آپریشن سے ناکام بنا دیا گیا۔۔۔ اس منصوبے میں ملوث بہت سے بڑی بڑی شخصیت کے نام منظر عام پر آئے ہیں، وہی جانی مانی ہستیوں کے چہرے بھی بے نقاب ہوئے ہیں۔۔۔ مختلف غیر ملکی شخصیات بھی اس برے عزائم میں اپنا کردار ادا کر رہی تھی۔۔۔ گرفتار ہونے والے افراد کی لسٹ تھوڑی دیر میں منظر عام پر آ جاتی ہے جبکہ اس آپریشن میں جاں بحق ہونے والے جرائم پیشہ افراد کے نام درج ذیل یہ ہیں"


"معظم۔۔۔ او گاڈ یہ کیا"

ہلاک ہونے والوں میں جہاں معظم کے نام اور تصویر دیکھ کر زینش نے ایک دم صدمے سے منہ پر ہاتھ رکھا۔۔ وہی بلال بھی حیرت اور یقینی سے اسکرین پر اس کی تصویر اور نام دیکھ کر اٹھ کر بیٹھ گیا


****


کل رات معظم کے گھر سے جانے کے بعد وہ اتنی گہری نیند سوتی رہی اور اسے خبر تک نہیں ہوئی کہ کل رات اس کی دنیا اجڑ چکی تھی۔۔۔ صبح جب پپو نے اسے معظم کے موت کی خبر سنائی تو سندیلا کو اپنی سماعت پر یقین کرنا مشکل ہوگیا ٹی وی پر بار بار وقفے سے نیوز کو دیکھ کر اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا مگر وہ بے یقینی کی سی کیفیت میں تھی بھلا معظم اسے کیسے چھوڑ کر جا سکتا تھا


شام میں جا کر کہیں پپو اسے معظم کی ڈیڈ باڈی کی شناخت کے لیے سرد خانے لے کر گیا تھا جہاں دوسرے لواحقین بھی موجود تھے۔۔۔ اس کی سماعتیں دھوکا کھا سکتی تھی مگر آنکھیں۔۔۔۔ سندیلا معظم کی ڈیڈ باڈی کو دیکھ کر وہی اپنے حواس کھو چکی تھی، نہ اسے اپنا ہوش تھا، نہ ہی پری کا، نہ اسے یہ معلوم تھا کہ پپو اس کے بے ہوش وجود کو کس طرح گھر لے کر آیا تھا وہ اس وقت ویران سی اجڑی ہوئی حالت میں بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ محلے کی 4 ...5 خاتون اس کے پاس سے تھوڑی دیر پہلے گئی تھی،، سندیلا کی دوست سحرش بھی اس کے پاس بمشکل ایک گھنٹہ بیٹھ کر جا چکی تھی۔۔۔ جب پپو نے اسے آکر بتایا کہ معظم کی ڈیڈ باڈی فوری طور پر نہیں مل سکتی کچھ فارملیٹیز پوری کرنے کے بعد ہی تمام گھر والوں کو ان کے پیاروں کی ڈیڈ باڈی حوالے کی جائیں گی تو وہ پپو کو خالی نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔ اب بولنے کے لئے سندیلا کے پاس کچھ نہیں بچا تھا


بار بار بس اسے یہی بات یاد آ رہی تھی اس نے معظم کو آخری بار گھر سے ناراض کرکے بھیجا تھا کاش کہ وہ اس کو زبردستی روک لیتی کہیں نہیں جانے دیتی،، کاش اس کو اسی وقت بتا دیتی کہ وہ اس سے کتنی محبت کرتی ہے۔۔۔۔ وہ جب سے معظم کی ڈیڈ باڈی دیکھ کر آئی تھی تب سے اس کے رونے کا سلسلہ جاری تھا،، آنسو تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔۔ جانی پہچانی آواز سندیلا کو دوسرے کمرے سے آتی ہوئی سنائی دی کوئی شاید پپو کسی سے مخاطب تھا سندیلا اٹھ کر بیڈ روم سے باہر نکلی


"انیس بھائی"

اپنے بھائی کو دیکھ کر سندیلا بھاگتی ہوئی اس کے گلے سے لگ گئی اور بے تحاشا ہونے لگی۔۔۔ وہ بالکل توقع نہیں کر رہی تھی کہ اس کا بھائی اس کے پاس آیا تھا


"بس اتنا زیادہ مت رؤ، مت پریشان ہو اس طرح۔۔۔ مجھے شام کو ہی تمہارے شوہر کے بارے میں پتہ چلا تو میں اس وقت تمہارے پاس چلا آیا"

انیس سندیلا کو دلاسہ دیتا ہوا بولا سندیلا کو آج معلوم ہوا اس کا بھائی اس سے اتنا بھی بےخبر یا لا تعلق نہیں تھا


"میں تمہارا دکھ سمجھ سکتا ہوں سندیلا مگر ساری بات وہی آجاتی ہے ہونی کو آخر کون ٹال سکتا ہے۔۔۔ تم برا مت ماننا میری باتوں کا لیکن یہ بھی سچ ہے ایسے لوگ جو جرائم میں ملوث ہوتے ہیں ان کی زندگی موت کا کوئی بھروسا نہیں ہوتا بیشک تمہارا شوہر تمہارے لئے محفوظ سائبان ہوگا مگر یہ دیکھو حقیقت کیا تھی لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔ کتنے لوگوں کی زندگیاں اور گھر اجڑتے اگر ایسے لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے"

انیس کی باتیں سن کر سندیلا نے ایک نگاہ خاموش کھڑے پپو پر ڈالی وہ پری کو گود میں لیے انیس کو خاموشی سے دیکھ رہا تھا


"آپ کو میرے شوہر کے بارے میں اور گھر کے ایڈریس کے بارے میں کیسے معلوم ہوا"

سندیلا ان سب باتوں کے جواب میں انیس سے پوچھنے لگی


"احتشام آیا تھا میرے پاس آج ہی اس سے تمہارے شوہر کے بارے میں معلوم ہوا ہے اور بھی بہت کچھ اس نے بتایا ہے۔۔۔ خیر یہ ان باتوں کا وقت تو نہیں ہے مگر احتشام واقعی شرمندہ ہے اور تم سے معافی مانگنا چاہتا ہے۔۔۔ فکرمند ہے تمہارے لیے کہ اس وقت تم اکیلی ہو گی"

سندیلا انیس کی باتوں کے جواب میں صوفے پر انیس کے برابر میں بیٹھی ہوئی بس خاموشی سے انیس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ انیس تھوڑے وقفے کے بعد ایک بار پھر بولا


"دیکھو سندیلا تم سمجھدار ہو اچھے برے کی خود مالک ہوں میں نے جب تمہاری شادی احتشام سے کی تھی تو اس میں میری رضا شامل تھی جو کچھ بھی ہوا بے شک احتشام کی طرف سے غلط ہوا مگر اب وہ اپنے کیے پر پچھتا رہا ہے تمہیں دوبارہ اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہے۔۔۔ میرا مشورہ تو یہی ہے کہ تمہیں اس کو ایک بار دوبارہ موقع دینا چاہیے"

انیس سندیلا کو دیکھتا ہوا اسے سمجھانے والے انداز میں بولا


"کہاں ہے وہ اس وقت"

سندیلا انیس سے احتشام کا پوچھنے لگی اب اسے اپنے بھائی کی یہاں آنے کا مقصد بھی سمجھ میں آ رہا تھا


"باہر کار میں بیٹھا ہے بہت زیادہ شرمندہ ہے میں اسے یہ اپنے ساتھ لے کر آنا چاہ رہا تھا مگر وہ یہی بول رہا ہے سندیلا جب مجھے معاف کردے گی میں تبھی اس کے سامنے آؤں گا"

انیس سندیلا کو احتشام کی بولی ہوئی بات بتانے لگا


"آپ اسے یہاں بلایا کچھ بات کرنی ہے مجھے اس سے"

سندیلا کی بات سن کر انیںس خوش ہو گیا اور اپنی پاکٹ سے موبائل نکال کر احتشام کو کال ملانے لگا۔۔۔ پپو کو وہاں پر اپنا کھڑا رہنا مناسب نہیں لگا تبھی کمرے سے پری کو لے کر جانے لگا


"آپ کہاں جا رہے ہیں شرافت بھائی یہی رہے"

سندیلا پپو کو دیکھ کر بولی احتشام بھی کمرے میں داخل ہو چکا تھا پپو سندیلا کی بات سن کر وہی رک گیا


"کیسی ہو سندیلا"

احتشام وہاں صوفے پر نہیں بیٹھا تھا وہ کھڑے کھڑے سندیلا سے پوچھنے لگا سندیلا صوفے سے اٹھ کر چلتی ہوئی اس کے سامنے آئی


"ایک بیوی جس کے شوہر کو مرے ہوئے 24 گھنٹے بھی نہیں گزرے وہ کیسی ہو سکتی ہے،، ایسا شوہر جس نے چند دنوں میں ہی اپنی بیوی کے دل میں زندگی بھر کے لیے گھر کر لیا ہو اسے اپنا گرویدہ بنا لیا ہو،، وہ عورت اپنے شوہر کے دنیا سے جانے کے بعد کیسی ہو سکتی ہے۔۔۔ ایسا شوہر جس نے ہر لمحہ ہر پل اپنی باتوں سے، اپنے انداز سے،، اپنے ہر عمل سے صرف یہی ثابت کیا ہو کہ اس کی بیوی کی حیثیت، مقام،، اس کا مرتبہ اس کے شوہر کے دل میں کتنا بلند ہے،، وہ عورت اپنے اس شوہر کے مرنے کے بعد کیسی ہو سکتی ہے۔۔۔ مانتی ہوں میرا شوہر اچھے کاموں میں ملوث نہیں تھا باقی ساری دنیا کے لئے وہ کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے مگر میرے لئے وہ کل کائنات تھا میری زندگی تھا۔۔۔ اگر آج وہ اس دنیا میں نہیں ہے تو مرنے کے بعد بھی میرے دل میں وہ مقام پا گیا ہے جو شاید زندہ ہوتے ہوئے بھی بہت سے شوہر اپنی بیوی کے دل میں نہیں پا سکتے۔۔۔ اپنی باقی تمام زندگی میں اس کے نام پر گزار دوں گی۔۔۔ معظم کی زندگی میں ہی نہیں اس کے جانے کے بعد بھی اس سے وفا نبھا ؤ گی سنا تم نے اور تمہیں تو شرم سے ڈوب مرنا چاہئے دوبارہ ایسی بات سوچتے ہوئے بھی کہ میں تمہاری زندگی میں دوبارہ شامل ہونا چاہوں گی اس سے تو بہتر یہ ہے کہ میں خودکشی کرکے حرام موت کو گلے لگا لو۔۔۔ جو آدمی اپنی سگی بیٹی کو، اپنی بیٹی کی ماں کو دو آدمیوں کے بیچ چھوڑ کر آنکھیں پھیر کر وہاں سے جا سکتا ہے تو کوئی بہت ہی زیادہ گری ہوئی عورت ہو گی جو ایسے مرد کو دوبارہ منہ لگانا پسند کرے گی۔۔۔ آئندہ زندگی میں کبھی بھی میرے سامنے آنے کی یا پھر مجھ سے مخاطب ہونے کی ضرورت نہیں ہے گھن آتی ہے مجھے تمہاری اس ناپاک وجود سے اور انیس بھائی آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ یہاں تشریف لائے اور تعزیت کے دو بول آپ نے میرے شوہر کے لیے بولے"

سندیلا انیس اور احتشام کو دیکھ کر بولی پپو کی گود سے پری کو لے کر وہ اپنے بیڈروم میں چلی گئی


*****


"جی ضرار صاحب میں آپ کی بات بالکل سمجھ گیا ہوں۔۔۔ یہاں کوئی مسئلے والی بات نہیں ہے حالات بالکل ٹھیک ہیں آپ مکمل اطمینان رکھیے"

پپو نے کال ڈسکنکٹ کر کے موبائل کو میز پر رکھا اور صوفے پر سوئی ہوئی پری پر نظر ڈالی


وہ صبح سے یہی معظم کے گھر پر موجود تھا پری کو مسلسل اُسی نے سنبھالا ہوا تھا مگر وہ جانتا تھا اس معصوم بچی کی نظریں دروازے پر ہر آنے والے شخص میں صرف ایک ہی شخص کا چہرہ تلاش کر رہی تھی،، جو آج سارا دن اسے دیکھنے کو نہیں ملا تھا اپنے باپ کا چہرہ


پپو نے پری کو جلد سلا دیا تھا اور اب وہ چاہتا تھا کہ سندیلا بھی جلدی سو جائے اس لئے اٹھ کر کچن میں چلا آیا فرج سے جوس کا پیکٹ نکال کر اُسے گلاس میں انڈیلنے لگا۔۔۔ پپو نے جوس کے گلاس میں سکون کی دو گولیوں سے زائد ڈالی تھی تاکہ سندیلا بالکل گہری نیند میں چلی جائے


"بھابھی جی آپ کے لیے جوس لایا ہوں، آپ کھانے سے انکار کر چکی ہیں۔۔۔ اس کے پینے سے انکار مت کرئیے گا،، یہ درخواست ہے آپ کے شرافت بھائی کی"

پپو نے کمرے کی دہلیز میں کھڑے ہوکر سندیلا کو مخاطب کیا تھا وہ خود سے ہی معظم اور سندیلا کے بیڈروم میں کوئی بہت ہی ضروری کام ہوتا تو اندر آتا


"پری کہاں پر ہے"

وہ اس وقت عشاء کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی پپو کو دیکھ کر پری کا پوچھنے لگی آج اس نے سارا دن اپنی بیٹی پر دھیان نہیں دیا تھا


"سلا دیا ہے میں نے اس کو، آپ یہ گلاس پکڑیں میں پری کو بیڈ پر لٹا دیتا ہوں۔۔۔ اور بھابھی جی ایک بات اور۔۔۔ آپ خود کو بالکل اکیلا مت سمجھیے گا۔۔۔ شرافت کو آپ نے بھائی بولا ہے تو میں آپ کا بھائی ہی ہوں"

پپو سندیلا کی سرخ اور سوجھی ہوئی آنکھیں دیکھ کر بولا سندیلا کے ہاتھ میں گلاس پکڑا کر وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔ نہ چاہنے کے باوجود وہ جوس پینے لگی کیونکہ پپو نے اس سے درخواست کی تھی


"پری سو رہی ہے آپ بھی تھوڑی دیر آرام کر لیں۔۔۔ میں باہر صحن میں موجود ہو،، کوئی پریشانی ہو تو آواز دے لیے گا"

پپو سندیلا کو کہتا ہوا کمرے کا دروازہ بند کرکے باہر چلا گیا سندیلا نے ایک نظر سوئی ہوئی پری پر ڈالی جو کہ کاٹ کی بجائے بیڈ پر سو رہی تھی۔۔۔ سندیلا خود بھی پری کے برابر میں بیڈ پر آ کر لیٹ گئی


ابھی ایک بھی رات نہیں گزری تھی اور اس سے معظم کے بناء نہیں رہا جا رہا تھا نجانے اب اس کی ساری زندگی کیسے گزرتی۔۔۔ سندیلا کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو رواں ہونے لگے


لیکن سارا دن رونے سے اس کا سر اب بری طرح دکھ رہا تھا وہ خود کو ذہنی طور پر تھکا ہوا محسوس کر رہی تھی۔۔۔ آہستہ آہستہ اس پر نیند کا غلبہ سوار ہونے لگا سندیلا میں ہمت نہیں تھی کہ وہ کمرے کی لائٹ بند کرتی یا پھر اپنے سر پر نماز کا باندھا ہوا دوپٹہ اتارتی اس کی آنکھیں بند ہوتی چلی گئی


*****


اسے نہیں معلوم تھا یہ رات کا کون سا پہر ہے جب اسے پری کے ہنسنے کی آواز سنائی دینے لگی وہ اس وقت مکمل جاگی ہوئی تھی اور منہ سے آوازیں نکال رہی تھی جیسے وہ معظم سے باتیں کیا کرتی تھی۔۔۔ مکمل نیند میں ہونے کے باوجود اس کا دماغ پری کی آواز پر بیدار ہوچکا تھا۔۔ وہ آنکھیں بند کیے اپنے ہاتھ سے پری کو بیڈ پر ٹٹولنے لگی مگر بیڈ خالی تھا۔۔۔ اس وقت اس کی بچی کہاں تھی یہ سوچ آتے ہی وہ اپنی بند آنکھیں کھولنے پر مجبور ہوگئی تھی۔۔۔ مگر یہ کیا کمرے یں مکمل اندھیرا تھا، اندھیرا دیکھ کر ایک بار پھر اس کا دماغ سن ہونے لگا


بیڈروم کا دروازہ بہت آہستہ سے کھولا گیا تھا لیکن اس کا دماغ ایک بار پھر جاگ اٹھا،، دوبارہ اس کا دھیان پری کی جانب گیا وہ ایک بار پھر آنکھیں کھولنے پر مجبور ہوئی جوکہ اس سے بالکل بھی نہیں کھولی جارہی تھی۔۔۔ زیرو کے بلب کی روشنی میں وہ یہ کہ یہ منظر دیکھ رہی تھی اس کے سامنے سفید قمیض شلوار میں ملوث وہ کوئی دوسرا نہیں بلکہ معظم تھا اس کا شوہر۔۔۔ جس کی گود میں پری سو رہی تھی یا پھر وہ اسے سلانے کی کوشش رہا تھا مگر اس کے پاس سفید قمیض شلوار کہاں تھا۔۔۔ سندیلا کا دماغ بالکل کام نہیں کر رہا تھا وہ زیادہ دیر تک اپنی آنکھیں کھلی نہیں رکھ سکتی کیوکہ اس پر نیند کا غلبہ بری طرح سوار تھا۔۔۔ اس کا دماغ سے بار بار سونے کے لئے اکسا رہا تھا وہ دوبارہ اپنی آنکھیں بند کر چکی تھی


ایک بار پھر اس کا دماغ جاگا یا پھر اسے جگانے کی کوشش کی گئی تھی وہ نہیں جانتی تھی۔۔۔ وہ بس محسوس کر سکتی تھی معظم کے ہونٹوں کے لمس کو،، وہ باری باری اس کی دونوں آنکھوں کو چوم رہا تھا جو کے رونے کی وجہ سے اچھی خاصی سوجھ چکی تھی، ایک بار پھر وہ بہت مشکل سے اپنی آنکھوں کو کھولنے پر مجبور ہوئی تھی


"معظم"

معظم کا چہرہ اپنے اتنے قریب دیکھ کر وہ بند ہوتی آنکھوں کو بہت مشکل سے کھول پائی تھی ساتھ ہی اس نے معظم کا نام پکارا۔۔۔ سندیلا بالکل نہیں سمجھ پا رہی تھی یہ اس کا وہم ہے خواب ہے یا پھر حقیقت۔۔۔۔


معظم اس کے نماز کے اسٹائل میں سر پر باندھے دوپٹے کو کھول کر، اس کے پسینے سے نم بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا تو سندیلا کی آنکھیں پھر سے بند ہونے لگی۔۔۔ ٹھنڈک کے احساس سے وہ اندازہ لگا سکتی تھی کہ کمرے میں موجود اسپلیٹ آن کر دیا گیا تھا


"مجھ سے ناراض مت ہونا معظم، پلیز مجھ سے بالکل ناراض مت ہونا"

سندیلا اپنی آنکھیں بند کی ہوئی بول رہی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی معظم اس وقت اس کے بے حد قریب ہے،، وہ اپنے وجود پر اس کا جھکاؤ غنودگی میں بھی محسوس کر سکتی تھی


"جان ہیں آپ میری آپ سے بھلا کیسے ناراض ہو سکتا ہے آپ کا یہ موالی۔۔۔ اسطرح مت روئے استانی جی مجھے تکلیف ہورہی ہے"

سندیلا کو اپنے کان کے قریب معظم کی سرگوشی نما آواز سنائی دی جس نے ایک بار پھر اسے آنکھیں کھولنے پر مجبور کیا


معظم کا چہرہ اس کے چہرے کے بالکل قریب تھا سندیلا کے آنکھیں کھولنے پر وہ سندیلا کو مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔۔۔ بہت مشکل ہے اسے وہ اپنے لاغر ہوتے ہاتھوں میں طاقت لائی تھی تاکہ معظم کا چہرہ تھام سکے۔۔۔ وہ معظم کے چہرے کے ایک ایک نقش کو چھونے لگی،، معظم ویسے ہی اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتا ہوا سندیلا کو خاموشی سے دیکھ رہا تھا


"اب مجھ سے دور مت جانا معظم میں تمہارے بغیر تنہا نہیں رہ سکتی، یہ دوری میں بالکل برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔۔ نہ ہی میں اکیلی پری کو سنبھال سکتی ہوں"

وہ معظم کا چہرہ تھام کر بولی


اس کا دماغ ایک بار پھر سکون میں جانے لگا اس کے ہاتھ معظم کے چہرے سے سرک کر آہستہ سے بیڈ پر گر گئے مگر اس کے باوجود معظم کی گرم سانسوں کو وہ اپنی سانسوں میں کُھلتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔۔۔ اس کے منہ سے آتی ہوئی سگریٹ کی اسمیل سندیلا کے حواسوں پر چھا رہی تھی۔۔۔ وہ چاہ کر بھی اپنی آنکھیں نہیں کھول پا رہی تھی بے بسی کے مارے اس کی آنکھوں سے اشک رواں ہونے لگے۔۔۔۔ وہ صاف محسوس کر سکتی کے معظم اس کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے آنسو صاف کر رہا تھا اس کے بعد سندیلا کا ذہن مکمل طور پر تاریکی میں جا چکا تھا


****

جب سندیلا کی آنکھ کھلی اور گھڑی میں اس نے ٹائم دیکھا تو اسے حیرت ہوئی کہ وہ دن کے ایک بجے تک سوتی رہی،، اس سے بھی زیادہ اس کے پری کہ بے خبر سونے پر حیرت ہو رہی تھی کیونکہ وہ رات میں بھی جلدی سو گئی تھی اسے تو صبح ہی اٹھ جانا چاہیے تھا۔۔۔۔ کچھ یاد آنے پر سندیلا کی بے ساختہ نظریں کاٹ میں سوئی ہوئی پری پر دوبارہ گئی۔۔۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ کل رات پری بیڈ پر اس کے پاس سوئی تھی تو پھر اسے کاٹ میں کس نے لٹایا۔۔۔ ایک اور منظر اس کے دماغ میں ابھرا،، جب معظم پری کو گود میں اٹھائے سلا رہا تھا،، تو کیا وہ اس کا خواب نہیں تھا ایسا کیسے ممکن ہو سکتا تھا بھلا


اس وقت کمرا کافی زیادہ ٹھنڈا ہو چکا تھا اس نے ریموٹ اٹھا کر اسپلٹ بند کیا مگر اس نے رات کو کس وقت اسپلٹ آن کیا وہ نہیں جانتی تھی۔۔۔ بیڈ پر رکھا ہوا اپنا دوپٹہ دیکھ کر سندیلا مزید الجھ گئی


"معظم"

ہاں اس کا یہ دوپٹہ معظم نے ہی اس کے سر سے اتار کر بیڈ پر رکھا تھا۔۔۔ وہ نہیں مان سکتی تھی کہ کل معظم کو خواب میں دیکھ رہی تھی،، وہ یہی موجود تھا اس کے کمرے میں۔۔۔۔ وہ اس سے باتیں کر رہا تھا،، اسکے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا،، اسکے آنسو صاف کر رہا تھا اور اسے۔۔۔۔

سندیلا اپنے ہونٹوں کو چھو کر اور بھی کچھ یاد کرنے لگی۔۔۔ یہ سب اس کا وہم یا خواب ہرگز نہیں تھا وہ اپنی سانسوں میں بسی سیگرٹ کی اسمیل نہیں بھول سکتی تھی…۔ سندیلا اپنا دوپٹہ اٹھا کر اوڑھتی ہوئی کمرے کے باہر نکلی


"معظم کہاں پر ہے شرافت بھائی"

پپو جو موبائل پر کسی سے بات کر رہا تھا سندیلا کو اچانک کمرے میں آتا ہوا دیکھ کر، کال کاٹتا ہوا خاموشی سے اسے دیکھنے لگا


"میں صبح معلوم کرکے آیا تھا بھابھی جی۔۔۔ دو دن بعد ڈیڈ باڈی ہینڈ اوور کر دیں گے"

پپو کی بات دن کر سندیلا خاموش ہوگئی، کل رات وہ مکمل حواسوں میں نہیں تھی، کھلی بند آنکھوں کے ساتھ وہ معظم کو اپنے سامنے دیکھ رہی تھی،، اسے محسوس کر رہی تھی مگر وہ کھلی آنکھوں سے اپنے ہوش و حواس میں معظم کی ڈیڈ باڈی دیکھ چکی تھی تبھی دل میں آئی خوش گمانی کو تھپک کر سلانے لگی مگر پھر کاٹ میں پری کو کس نے لٹایا تھا اور باقی ساری چیزیں۔۔۔۔۔ دروازے پر ہونے والی دستک سندیلا کی ساری توجہ اپنی طرف کھینچ چکی تھی


"مجھے معظم کی وائف سے ملنا ہے کیا میں اندر آ سکتی ہوں"

دروازہ کھلتے پر جہاں زینش پپو کو دیکھ کر ایک دم چونکی وہی پپو بھی حیرت سے زینش کو دیکھنے لگا۔۔۔۔ تب زینش سنبھلتی ہوئی پپو سے بولی۔۔۔۔ تو پپو نے زینش کو اندر آنے کا راستہ دیا


****


"نہیں مجھے تمہاری کوئی بھی بات سمجھ میں نہیں آرہی۔۔۔ تم کہنا کیا چاہ رہی ہو"

سندیلا جو کہ پہلے ہی کنفیوز تھی زینش کی ساری باتیں سن کر مزید کمزور ہو چکی تھی


"دیکھو میں تمہیں یہاں پریشان کرنے نہیں آئی ہو سندیلا۔۔۔ تم خود سوچو پرسوں رات پولیس نے جہاں آپریشن کیا تھا معظم یہ بات پہلے سے ہی جانتا تھا کہ وہاں پر پولیس آنے والی ہے تو پھر ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ خود پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن گیا ہو۔۔۔ اچھا تم اسطرح پریشان مت ہو،، بلال نے مجھ سے اپنا ایک خیال ظاہر کیا تو میں نے سوچا میں خود یہاں آکر تم سے مل لو۔۔۔۔ بلال بھی میرے ساتھ ضرور آتے مگر وہ ابھی پوری طرح اسٹیبل نہیں ہیں۔۔۔ بہت جلد یا تھوڑے دنوں بعد حقیقت خود تمہارے سامنے آجائے گی بس تمہیں اس وقت تھوڑا ہمت سے کام لینا ہوگا۔۔۔ اگر تمہیں کبھی بھی کسی بھی طرح کی کوئی پرابلم ہو یا پھر ہماری ضرورت محسوس ہو تو پلیز یہ میرا کونٹیکٹ نمبر ہے تم مجھ سے یا بلال سے بلا جھجک رابطہ کر سکتی ہو"

بلال کے منع کرنے کے باوجود زینش سندیلا کے پاس آئی تھی مگر سندیلا کو الجھا ہوا دیکھ کر وہ کچھ بھی کھل کر نہیں بھول پائی جو بلال نے اس سے کہا تھا جو خود اس نے محسوس کیا تھا۔۔۔۔ اس لئے سندیلا کے پاس سے اٹھ کر جانے لگی مگر جاتے جاتے وہ ایک دم پلٹی


"اس دن جب ہم دونوں کی پہلی دفعہ ملاقات ہوئی تھی، اور میں نے معظم کے بارے میں بتایا تھا کہ اس نے مجھے کڈنیپ کیا تھا مگر اس رات اس نے میرے ساتھ کوئی غلط حرکت نہیں کی تھی۔۔۔ تمہارا شوہر عورتوں کی عزت کرنے والا مرد ہے، اس نے پرسوں رات بھی میری عزت بچا کر یہ بات دوسری بار مجھ پر ثابت کردی۔۔۔ وہ برا انسان ہرگز نہیں ہے اس لیے اس کے ساتھ کچھ بھی برا نہیں ہو سکتا"

زینش صوفے پر بیٹھی ہوئی سندیلا کو دیکھ کر بولتی ہوئی وہاں سے چلی گئی


"آپ ٹینشن نہیں لیں ضرار صاحب یہاں نکلنے سے پہلے میں پوری اسٹوری کو کور اپ کر دوں گا آپ مجھ پر مکمل بھروسہ رکھیں"

سندیلا صحن میں آئی تو وہ پپو کی بات پر چونکی جو کہ موبائل پر بات کر رہا تھا مگر چوکنے کی وجہ وہ نام تھا جوکہ ابھی پپو کے منہ سے ادا ہوا تھا۔۔۔سندیلا پپو کے پاس پہنچی تو وہ کال ڈس کنیکٹ کر چکا تھا


"کہاں ہے معظم"

سندیلا غور سے پپو کا چہرہ دیکھ کر اس سے سوال کرنے لگی جس پر پپو ایک پل کہ لیے خاموش ہوا پھر بولا


"بھابھی جی آپکو تھوڑی دیر پہلے بتایا تو تھا کہ پرسوں ڈیڈ باڈی۔۔۔۔"

پپو کے بولنے پر سندیلا نے اسے ہاتھ کے اشارے سے مزید کچھ بھی کہنے سے روکا


"میں نے بھائی کہا نہیں ہے سمجھا بھی ہے آپ کو، کل سے ترس نہیں آرہا آپ کو میری حالت پر، تو میری بچی پر ترس کھالیں وہ جاگے گی تو اس کی نظریں اپنے باپ کو تلاش کرے گیں پلیز شرافت بھائی مجھے سچ سچ بتا دیں معظم کہاں ہے"

سندیلا بولتی ہوئی بے بسی سے رونے لگی


"آپ کے شوہر جو ہیں ناں ان کو ترس نہیں آتا مجھ معصوم کی جان پر۔۔۔۔ اچھا پھنسایا ہے مجھے۔۔۔۔ اب آپ تو رونا تو بند کریں"

پپو سندیلا کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ کر اسے چپ کرواتا ہوا بولا تو سندیلا اپنے آنسو پونچھ کر پپو کو کو دیکھنے لگی


"اپنا اور پری کا وہ سامان پیک کرلیں جو بہت زیادہ ضروری ہو اور مزیدار سا کھانا بنالیے گا جو کہ سفر میں خراب نہ ہو، آج رات ہماری سفر میں گزرنے والی ہے"

پپو سندیلا کو بولتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا سندیلا کو ابھی کچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا مگر اسے اندر سے اطمینان ہوا چلا تھا تبھی اسے پری کی روتی ہوئی آواز آئی وہ جاگ گئی تھی سندیلا بیڈ روم میں جانے لگی


****


بلال کی آنکھ کھلی تو شام کے پانچ بج رہے تھے، زینش جو دوپہر اپنے کمرے کی بجائے فلیٹ سے ہی غائب تھی اس وقت مزے سے بلال کے سینے پر اپنا ہاتھ رکھے بےخبر اس کے برابر میں سو رہی تھی۔۔۔ بلال نے اس کا ہاتھ اپنے سینے سے ہٹا کر بیڈ پر رکھا اور بیڈ سے اٹھ کر خود سے واش روم جانے کی کوشش کرنے لگا


اس نے کل رات کو زینش کی ایک نہ سنتے ہوئے ہاسپیٹل سے چھٹی لے لی تھی کیونکہ وہ خود کو ہاسپیٹل میں ریلکس فیل نہیں کر رہا تھا۔۔۔ گولی لگنے کی وجہ سے ٹانگ پر اس سے وزن نہیں دیا جا رہا تھا اس لئے چلنے میں اسے درد محسوس ہو رہا تھا


"بلال"

زینش کی کی آنکھ کھلی تو بلال بیڈ پر موجود نہیں تھا وہ بلال کو پکارتی ہوئی بیڈ سے اٹھی ویسے ہی واش روم کا دروازہ کھلا


"میں نے آپ سے کہا بھی تھا کوئی بھی کام ہو تو مجھ سے بول دیا کریں خود سے کیوں اٹھ رہے ہیں آپ بار بار"

زینش بلال کے پاس آکر اس کا بازو اپنے شولڈر پر رکھتی ہوئی اسے سہارا دے کر بیڈ پر بٹھاتی ہوئی بولی


"برش کر کے منہ دھو رہا تھا، اب اس کام کے لیے تمہیں اٹھاتا۔۔۔ ٹانگ پر گولی لگی ہے پر ایسا بھی نہیں ہے کہ میں بالکل ہی تمہارا محتاج ہو کر رہ جاؤ"

بلال بےزار سے انداز میں بیڈ پر بیٹھتا ہوا بولا


"کیسی باتیں کر رہے ہیں بلال میرا وہ مطلب نہیں تھا،، آپ کی فکر کرکے بول رہی تھی میں۔۔۔ اگر آپ کی جگہ میں بیڈ ریسٹ پر ہوتی تو کیا آپ میرا خیال نہیں رکھتے"

زینش اس کا بےزار سا لب و لہجہ اگنور کر کے ٹاول سے اس کا چہرا خشک کرتی ہوئی کہنے لگی تو بلال نے اس کی دونوں کلایاں پکڑ لی


"اگر میری جگہ تم بیڈ ریسٹ پر ہوتی تو میں ایک سیکنڈ کے لئے بھی تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاتا"

بلال کا لب و لہجہ طنزیہ ہرگز نہیں تھا مگر وہ جتانے والے انداز میں زینش کو دیکھ کر بولا تبھی زینش کو اس کے خراب موڈ کی وجہ سمجھ میں آئی زینش کی نظر بےساختہ روم میں موجود ڈسٹ بن پر پڑی جہاں نیند کی گولیاں پڑی ہوئی تھی جو اس نے معظم کے گھر جانے سے پہلے بلال کو دی تھی


"تو یعنی نیند کی گولیاں آپ نے نہیں لی تھی قسم سے بلال آپ اس طرح اپنی بیوی کی نگرانی اور جاسوسی کریں گے اُف"

زینش بلال کے سامنے کھڑی ہوئی اس کے بگڑے ہوئے موڈ کی پرواہ کیے بغیر مسکرا کر بولی اور ڈریسنگ ٹیبل سے ہیئر برش اٹھا کر بلال کے نم بالوں کو پیچھے کرنے لگی


"فضول مت بولو نہ میں تمہاری جاسوسی کر رہا تھا اور نہ ہی نگرانی کر رہا ہوں۔۔۔ یہ میڈیسن رات کی تھی میں سمجھا تم نے غلطی سے دے دی ہوگی اس لئے ڈسٹ بن میں ڈال دی مگر مجھے نہیں معلوم تھا میری بیوی اپنے شوہر کو سکون کی نیند دے کر مجھ سے دور جانے کا ارادہ رکھتی ہے"

اب کی بار زینش کی بات پر بلال اسے طنزیہ انداز میں وضاحت دینے لگا۔۔۔ زینش ہیئر برش کو ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کر بیڈ پر بیٹھے بلال کے پاس آئی اور اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر اونچا کر کے بلال سے پوچھنے لگی


"آپ سے دور ہو کر کہاں جاؤں گی،، آپ کے علاوہ اور کوئی ہے میرے پاس دنیا میں،، مجھے بتائیں"

وہ بالکل سیریس ہوکر بلال سے پوچھ رہی تھی۔۔۔ زینش نے خود سے ہی بلال کو شہنیلا کی شادی کے بارے میں بتا دیا تھا مگر بلال نہ تو اس کی بات سن کر چونکا،، نہ حیرت کا اظہار کیا۔۔۔اس کے کوئی بھی ری ایکٹ نہ کرنے پر زینش سمجھ گئی کہ یہ سب بھی شہنیلا اس کو پہلے ہی بتا چکی ہے


"میں نہیں چاہتا کہ تم ایک پل کے لئے بھی مجھے چھوڑ کر مجھ سے دور جاؤ۔۔۔ جب وہ دونوں آدمی تمہیں اپنے ساتھ لے کر جا رہے تھے تب مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ تمہیں نہیں بلکہ میرے جینے کی وجہ بھی مجھ سے چھین کر لے جا رہے ہیں۔۔۔۔ جب اس آدمی نے مجھے گولی ماری تھی تب مجھے زیادہ تکلیف نہیں ہوئی تھی۔۔۔ جب تمہارا چہرہ میری نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا اس وقت مجھے ایسا لگا کے شاید اب میں جی نہیں پاؤں گا"

بلال کی مکمل بات سن کر زینش نے جھک کر اس کی پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھے۔۔۔ بلال اس کی کمر کے گرد اپنے بازو حائل کرتا ہوا احتیاط سے زینش کو لے کر بیڈ پر لیٹ گیا


"اتنی محبت آپ کیسے کر سکتے ہیں بلال"

زینش بلال کے چہرے پر جھکی ہوئی دوبارہ اس کا چہرہ تھام کر بلال سے پوچھنے لگی


"تم سے اتنی محبت کرنے کی وجہ شاید میرا اکیلا پن ہے، کوئی اور دوسرا نہیں ہے میرے پاس۔۔۔ اس لئے مجھے اچھا نہیں لگتا کہ تم تھوڑی دیر کے لئے بھی مجھ سے دور جاؤ"

بلال زینش کے گال پر انگلیاں پھیرنے کے بعد اس کے لبوں پر اپنا انگوٹھا پھیرتا ہوا زینش سے بولا۔۔۔ زینش اس کے ہونٹوں کے قریب اپنے ہونٹ لے کر آئی تو بلال اس کے ہونٹوں سے خود کو سیراب کرنے لگا


"معظم کی وائف کے پاس گئی تھی۔۔۔ لیکن آپ سے پرامس کرتی ہوں کہ آپ کو بتائے بغیر آپ سے دور کہیں بھی نہیں جاؤں گی"

بلال نے جب اپنے ہونٹوں کو اس کے ہونٹوں سے جدا کیا تب زینش اسے بتانے لگی۔۔۔ بلال زینش کی بات سن کر اسے گھورتا رہ گیا۔۔۔ وہ اس کے منع کرنے کے باوجود سندیلا سے مل کر آئی تھی۔ ۔۔ زینش بلال کے گھورنے کو اگنور کرتی ہوئی مسکرا کر بلال کے سینے پر اپنا سر رکھ چکی تھی


"بلال ایک بات پوچھوں آپ سے جب ہمارے پاس ہمارا بےبی آئے گا آپ تب بھی مجھ سے اتنی ہی محبت کریں گے"

زینش بلال کی سینے پر اپنے ہونٹ رکھنے کے بعد بلال سے پوچھنے لگی


"پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم مجھے بےبی کب دو گی ہمارا"

بلال اپنے شولڈر پر رکھا زینش کا ہاتھ پکڑ کر اس کے ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنسا کر الٹا زینش سے سوال کرنے لگا جس پر زینش گھور کر بلال کو دیکھنے لگی


"ابھی کہاں سے بلال، جب تک میرا اس ائیر کا سمسٹر نہیں ہو جاتا تب تک بالکل بھی نہیں پلیز"

زینش ایک پل میں ہی اس کی بہکتی نظروں سے گھبرا کر جلدی سے بولی


"تو سیمسٹر کمپلیٹ ہونے سے پہلے تمہیں ایسا شوشا چھوڑنا ہی نہیں چاہیے تھا۔۔۔ اب تو مجھے واقعی خود بھی تجسس ہو رہا ہے کہ مجھے اپنے بچے سے زیادہ محبت ہوگی یا پھر اس کی ماں سے اور یہ جاننے کے لیے اب مجھے جلدی اپنا بےبی لانے کا انتظام کرنا پڑے گا"

بلال نے زینش کو کمر سے پکڑ کر اونچا کیا تو زینش کے ہونٹ بلال کے ہونٹوں سے ٹکرائے جنھیں بلال ایک بار پھر اپنے ہونٹوں میں قید کر چکا تھا۔۔۔ چند پل گزرے تو ڈور بیل بجنے کی آواز سنائی دی جو کہ بلال کا سارا رومینٹک موڈ تباہ کر چکی تھی


"زینش کیا کر رہی ہو یار اتنی دیر سے۔۔۔ دروازہ کھول بھی دو اب"

شہیر کی باہر سے آتی ہوئی آواز پر زینش مسکرا کر بیڈ سے اٹھی تو بلال تپ کر بولا


"یہ جو تمہارا فرینڈ ہے ناں یہ ہمیں کبھی بھی کچھ نہیں کرنے دے گا، جبکہ اسے معلوم سب ہے پھر بھی پوچھ رہا ہے زینش کیا کر رہی ہو یار۔۔۔۔ جب تک ہم اس فلیٹ میں رہے گیں تو ہمارا بےبی کبھی بھی نہیں آ سکے گا۔۔۔ جب دیکھو یہ چھوٹے سائز کی بڑی مصیبت زینش زینش کرتا ہوا ہمارے ہاں ٹپکا رہتا ہے۔۔۔ ایک ہفتے بعد ہم دوبارہ اپنے بینگلو میں شفٹ ہو رہے ہیں بس"

بلال زینش کو دیکھ کر غصے میں بولا زینش اس کے تپے ہوئے انداز پر ہنستی ہوئی باہر دروازہ کھولنے چلی گئی


*****


"دیکھو میں ساری ضروری انفارمیشن تمہیں دے چکا ہوں کہ اس پلان میں کون کون لوگ شامل تھے ان لوگوں کے کیا مقاصد تھے۔۔۔ اور بقول تمہارے خود کے پولیس وہاں پر ایک کامیاب آپریشن کر چکی ہے اور سب لوگ پولیس کی حراست میں ہے تو اب مجھے اس قید سے آزاد کردو"

ندیم سومرو کو بیس دن گزر چکے تھے اس ویران جگہ پر کال کوٹھری میں قید ہوئے۔۔۔ ندیم سومرو عام سے کپڑوں میں مبلوس اس شخص کے سامنے گڑگڑا رہا تھا جو کبھی قاسم سیٹھ کا خاص بندہ اور وفادار ہوا کرتا تھا مگر اس وقت وہ ندیم سومرو کے سامنے کسی اور ہی حلیہ میں کھڑا تھا یقیناً وہ کوئی بہت بڑا بہروپیہ تھا۔۔۔ اسی نے ندیم سومرو کا منشیات سے بھرا ٹرک پولیس کے ہاتھوں پکڑوایا تھا، انجانے میں نہیں بلکے جان بوجھ کر


"اس آپریشن کا اصل مقصد تم اب تک نہیں سمجھیں ندیم سومرو، اس آپریشن کا مقصد تھا کہ تم جیسے ملک کے غدار اور کرپٹ لوگوں کا خاتمہ کرنا جو نہ صرف اپنے ہی ملک کو بدنام کرتے ہیں بلکہ اندر ہی اندر اپنے ہی ملک کے جڑیں کمزور کرتے ہیں۔۔۔ تمہارے جیسے دوسرے لوگ اور تمہارے پارٹنرز سب اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں اب تمہاری باری ہے۔۔۔ میں تمہارے کہنے پر تمہیں اس بیس دنوں کی قید سے آزادی دینے آیا ہوں"

اس نے بولتے ہوئے اپنے ہاتھ میں موجود پسٹل سے ندیم سومرو کی ماتھے کا نشانہ لیا۔۔ فائر کی آواز پر جہاں خون کی چھینٹے اڑتی ہوئی دیوار پر جا لگی وہی ندیم سومرو کا جسم بے جان ہو کر زمین پر گر پڑا


وہ پسٹل کو ہولسٹر میں رکھنے کے بعد سن گلاسزز پہنتا ہوا وہاں سے باہر نکلا تو اس کا موبائل بیپ کرنے لگا۔۔۔ وہ اپنی پاکٹ سے موبائل نکال کر لوکیشن چیک کرنے لگا جوکہ پتہ دے رہی تھی کہ اسکی بیوی اور بیٹی چند گھنٹے میں اس کے پاس پہنچنے والی تھی۔۔۔ ہونٹوں پر جاندار مسکراہٹ لیے وہ اپنی کار کی طرف بڑھ گیا


*****


وہ پپو کے منہ سے اگر ضرار کا نام نہیں سنتی تو شاید عجیب سی کشمکش میں مبتلا رہتی۔۔۔


معظم ضرار شفیق۔۔۔ نکاح نامہ پر یہی نام درج ذیل تھا جسے دیکھ کر اس نے نکاح نامے پر سائن کئے تھے لیکن اسے حیرت اس بات پر ہوئی کہ معظم نے اس کے بھائی انیس کے ہاں بھی اپنا رشتہ سندیلا کے لیے بھیجا تھا جسے انیس نے ریجیکٹ کر کے اس کی شادی انوار صاحب سے کرنا چاہی تھی۔۔۔ وہ نکاح نامے پر پورا نام دیکھ کر اس وقت نہیں چونکی تھی مگر اب سندیلا کو اس شخص کا نام یاد آیا جو اس سے شادی کر کے اسکی بچی کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار تھا اور کل پپو کے منہ سے ضرار نام سن کر ایک دم اس کے دماغ میں کام کرنا شروع کر دیا


اس کا شوہر ایک انڈر کور پولیس آفیسر تھا جس نے مشن کے لیے اپنا بھیس بدلا ہوا تھا۔۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ کے خاص خاص آفسر، معظم کی اصل پہچان سے واقف تھے۔۔۔ اس سے زیادہ پپو نے اسے اور کچھ بھی نہیں بتایا تھا یا پھر اسے بتانے سے منع کیا گیا تھا۔۔۔ وہ اس وقت پری کو گود میں لیے پپو کے ساتھ پنڈی کے ایک پورش ایریے میں موجود تھی جہاں اس کے شوہر معظم ضرار شفیق کی رہائش گاہ تھی،، چیک پوسٹ پر آئیڈنٹیٹی کے بعد ان دونوں کو اندر جانے دیا گیا


"یہ ہے آپ کی اصل منزل بھابھی جی، میرا مطلب ہے آپ کے شوہر کا گھر"

پپو اسے اور پری کو لے کر ایک بینگلو کے اندر داخل ہوا اور سندیلا کو دیکھتا ہوا بولا۔۔۔ وہ کنفیوز ہو کر پپو دیکھنے لگی


"گھبرایئے نہیں بھابھی جی اندر جائیے اپکے شوہر نامداد آپ کا انتظار کر رہے ہوگیں"

پپو سندیلا کی گود سے سوئی پری کو لے کر صوفے پر لٹانے کے بعد سندیلا کو بولا اور ہاتھ کے اشارے سے کمرے میں جانے کو کہا


سندیلا آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی اس کمرے تک پہنچی اور دروازے کا ڈور ناپ گھمایا تو دروازہ کھل گیا۔۔۔

وہ کمرے کے اندر داخل ہوئی،، یہ ایک خوبصورت بیڈ روم تھا جس پر سرسری نظر ڈال کر سندیلا نے کھڑکی کے پاس کھڑے ہوئے اس شخص کو دیکھا جو سندیلا کو دیکھتا ہوا مسکرا رہا تھا سندیلا کی نظریں بھی اس پر ٹکی رہ گئی۔۔۔ صاف ستھرا لباس، ترتیب سے بنی ہوئی شیو فوجی کٹ بال۔۔۔ اس وقت اپنے حلیے سے بالکل مختلف لگ رہا تھا سندیلا خواب کی سی کیفیت میں چلتی ہوئی اس کے پاس آ کر رکی غور سے معظم کا چہرہ دیکھنے لگی


"کیسی ہیں استانی جی پریشان ہوگئیں ہیں کیا،، ارے میں وہی ہوں آپ کا موالی"

مخصوص لہجے میں بولنے کی دیر تھی سندیلا کا ہاتھ اٹھا اور معظم کے گال پر نشان چھوڑ گیا


"سندیلا"

سندیلا کی اس حرکت پر اور اس کی آنکھوں میں غم و غصہ دیکھ کر معظم نے شاکڈ ہوکر اسے پکارا۔۔۔ وہ تو انتظار میں تھا کہ سندیلا اسے اپنے سامنے سے صحیح سلامت دیکھ کر خوش ہوتی ہوئی اسے گلے لگائے گی ڈھیر سارا پیار کرے گی مگر یہاں الٹا ہی سین ہو گیا تھا


"ہمت کیسے ہوئی تمہاری میرے ساتھ ایسا بےہودہ مذاق کرنے کی، جانتے ہو تمہاری ڈیڈ باڈی کو دیکھ کر کتنی بار میں نے خود بھی اپنے مرنے کی دعا کی تھی۔۔۔ کیو کیا تم نے ایسا گھٹیا مذاق میرے ساتھ جواب دو"

وہ روتی ہوئی اب معظم کا گریبان پکڑ کر پوچھنے لگی


"دنیا کی نظروں میں اس غنڈے کا مرنا ضروری تھا سندیلا مگر آپ کو یہاں آنے سے پہلے اشاروں میں سمجھا کر تو آ یا تھا۔۔۔ اور ایک دو دنوں بعد میں آپ کو اپنے پاس بلوانے والا تھا"

سندیلا نے غصے میں اس کا گریبان پکڑا ہوا تھا مگر معظم نرمی سے اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام کر اس کو بتانے لگا کیونکہ وہ سمجھ سکتا کہ سندیلا اس وقت کیسا محسوس کر رہی ہے


"کب بلواتے مجھے میرے مرنے کے بعد اور تمہارے اشاروں کی زبان سمجھو گی میں؟؟"

وہ ابھی بھی غصے کی کیفیت میں معظم کو دیکھتی ہوئی بولی معظم خاموشی سے اسکی آنکھوں سے آنسو صاف کرنے لگا تو سندیلا نے آئستہ سے اس کا گریبان چھوڑ دیا


"مرنے کی بات مت کریں یار آپ ورنہ میں سچی والا خفا ہوجاؤ گا اور آپ اشاروں کی زبان کیسے نہیں سمجھیں،، آپ کو کیا لگ رہا تھا رات میں پری کے ساتھ کیا میرا بھوت کھیل رہا تھا اور وہ روم کا اسپلٹ کیا میری روح نے آن کیا تھا اور آپ کا جو دوپٹہ اتار کر بیڈ پر رکھا تھا یہ کام میرے علاوہ کوئی دوسرا کر سکتا ہے بھلا۔ ۔۔۔ اور آخر میں وہ کِس آپکو یاد نہیں،، ہاں شاید وہ آپ کو یاد نہیں ہوگی پاس آئے دوبارہ کر کے دکھاتا ہو"

معظم بولتا ہوا سندیلا کے دونوں بازوؤں کو پکڑ کر اس کے ہونٹوں پر جھکنے لگا تو سندیلا نے اسے پیچھے کی طرف دکھیلا۔۔۔ معظم حیرت سے ناراض گھڑی ہوئی سندیلا کو دیکھنے لگا


"یہ میری خام خیالی تھی کہ آپ مجھے اپنے سامنے صحیح سلامت دیکھ کر خوش ہوگیں اس سے تو اچھا ہوتا کہ وہ سچ میں"

معظم کے جملا مکمل کرنے سے پہلے سندیلا نے جلدی سے آگے بڑھ کر اپنا ہاتھ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیا اور تڑپ کر معظم کو دیکھنے لگی


معظم کا چہرہ تھام کر اسکی پیشانی اور گالوں کو پر ہونٹ رکھنے بعد وہ اس کے سینے کو چوم رہی تھی۔۔۔ اس کی انکھوں سے اشک رواں تھے، وہ ناشکری نہیں تھی۔۔۔ اللہ پاک نے اس کو معظم کی صورت دوبارہ زندگی لوٹا دی تھی اور سب سے بڑی بات اس کا شوہر کوئی غنڈہ موالی نہیں بلکہ ملک و قوم کی حفاظت کرنے والا محافظ تھا۔۔۔ وہ یہ بات اپنے بھائی کے سامنے کیا پوری دنیا کے سامنے فخر سے سر بلند کرکے بول سکتی تھی


"بس کریں دیں یار استانی جی جب سے ہی روئے جارہی ہیں"

وہ معظم کے سینے سے لگی ہوئی اس کی شرٹ اپنے آنسوؤں سے نم کر چکی تھی تب معظم اس کا چہرہ تھام کر اس کے آنسو صاف کرتا ہوا بولا


"تم ہو ناں بدتمیز، اتنا رلایا مجھے۔۔۔ معظم آئندہ کبھی ایسا کچھ۔ ۔۔"

سندیلا کے کچھ بولنے سے پہلے معظم اب کی بار اس کے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھ کر اسے خاموش کروا چکا تھا


"آئندہ آپ کا موالی کوئی ایسا کام نہیں کرے گا جو آپ کی آنکھوں میں آنسو لانے کی وجہ بنے۔۔۔ بس اب مت روئیے گا"

وہ سندیلا کو بازوؤں میں بھر کر اسے یقین دلاتا ہوا بولا تو سندیلا اس کی بانہوں میں مسکراتی ہوئی بولی


"تم موالی کہاں ہو،، ہیرو ہو تم میرے"

سندیلا اب مسکراتی ہوئی معظم کا چہرہ دیکھ کر بولی جس کا معظم بھی ہلکا سا ہنسا


"تو پھر مجھے ہیرو والے کام کرنے کی بھی اجازت دیں"

معظم اس کے ہونٹوں کو دیکھتا ہوا بولا سندیلا کے مسکرانے سے پہلے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر چکا تھا۔۔۔ ہمیشہ کی طرح وہ اس وقت بھی اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے قید کیے مدہوش ہو رہا تھا تب سندیلا کے پیچھے ہٹنے پر وہ ہوش میں آیا


"تم مجھے ہماری شادی کے بعد بھی اپنی جاب کے بارے میں بتا سکتے تھے"

سندیلا سنجیدگی سے معظم کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگے


"اس وقت میں اپنے مشن پر تھا 24 گھنٹے ایک غنڈے کے گیٹ اپ میں رہ کر اسی طرح کا ایکٹ کرنا پڑتا تھا۔۔۔ ورنہ میں نے پہلے کبھی شرافت علی (پپو) کو اتنا بے عزت نہیں کیا"

معظم کی بات سن کر سندیلا اور معظم دونوں ہنس دیئے


"میں تم سے بہت زیادہ پیار کرتی ہو معظم اس دن میں نے وہ سب ایسے ہی بول دیا تھا"

سندیلا معظم کا چہرہ دیکھ کر اسے بتانے لگی


"جانتا ہوں یہ بات،، آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ ہر لڑکی تھوڑی ایسا شوہر برداشت کر سکتی ہے جو چار چار دن نہیں نہاتا ہو"

معظم کی بات پر سندیلا ایک بار پھر ہنس دی


"میری پری کہاں ہے یار، اب آپ اس بات کو لے کر مجھ سے ناراض مت ہوئیے گا کہ میں نے اِن دو دنوں میں اسے آپ سے بھی زیادہ مسِ کیا ہے"

معظم کی بات سن کر سندیلا مسکرا دی اس سے پہلے کچھ بولتی ویسے ہی کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی


"شرافت صاحب جا چکے ہیں کہہ رہے تھے رات میں چکر لگاؤں گا۔۔۔۔ بےبی جاگ گئی ہے اکیلی رو جاتی اس لئے میں اسے آپ کے پاس لے آئی"

دروازہ کھولنے پر ایک عمر دراز خاتون جوکہ میڈ لگ رہی تھی۔۔۔ پری کو معظم کی گود میں دیتی ہوئی بولی اور کمرے سے چلی گئی


"میرا بچہ"

پری حیرت ذدہ ہوکر معظم کا چہرہ دیکھ رہی تھی تب معظم نے باری باری اس کے گالوں پر پیار کیا سندیلا بھی قریب آکر دونوں باپ بیٹی کو دیکھنے لگی۔۔۔ سندیلا کو قریب آتا دیکھ کر پری فوراً اس کی طرف ہاتھ بڑھاتی ہوئی رونے لگی تو سندیلا نے پری کو گود میں لے لیا


"یار استانی جی یہ مجھے اپنے بابا کو دو دن میں بھول گئی"

معظم دکھی انداز میں سندیلا کو دیکھ کر کہنے لگا تو پری غور سے معظم کی آواز سن کر اسے دیکھنے لگی


"بھولی نہیں ہے وہ کنفیوز ہے اپنے بابا کا چینج حلیہ دیکھ کر"

سندیلا معظم کی دکھی شکل دیکھ کر مسکراتی ہوئی اس سے بولی

"ڈارلنگ لک ایڈ ہیئر۔ ۔۔ بابا۔۔۔ پری کے بابا"

معظم پری کو دیکھتا بولا اور اس کے آگے اپنے دونوں ہاتھ بڑھائے۔۔۔ پری معظم کو دیکھ کر ابھی بھی کنفیوز تھی مگر اس کی آواز اور لب و لہجے پر فوراً سندیلا کی گود سے دوبارہ معظم کی گود میں آگئی جس پر سندیلا اور معظم دونوں مسکرا دیئے

****

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes.She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Wo Huye Meharban  Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Wo Huye Meharban   written by Zeenia Sharjeel Wo Huye Meharban   by Zeenia Sharjeel is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages