Dil Haara By Zeenia Sharjeel New Romantic Complete Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday 27 June 2024

Dil Haara By Zeenia Sharjeel New Romantic Complete Novel

Dil Haara By Zeenia Sharjeel  New Romantic Complete Novel

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Dil Haara By Zeenia Sharjeel Complete Romantic Novel 

Novel Name:Dil Haara   

Writer Name: Zeenia Sharjeel 

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔


"جتنی تو شکل سے معصوم لگتی ہے نا، اندر سے اُتنی ہی مّکار ہے یوں سب کے سامنے جھوٹ بول کر ہمیں گمراہ مت کر،، کیا پہلی بار تُو نے اس کو یہاں پر بلایا ہے یا تیرا عاشق پہلی بار تجھ سے یہاں ملنے آیا ہے"

کشمالا غُصّے اور حقارت سے اسے دیکھتی ہوئی بولی جبکہ ہاتھ کا اشارہ اس کے عاشق کی طرف تھا جو کہ اس وقت حویلی کے ملازموں میں گھیرے میں جکڑا کھڑا تھا۔۔۔ کشمالا چلتی ہوئی اُس کے شوہر کی طرف آئی جو کہ سرخ آنکھوں سے سارا منظر دیکھ رہا تھا۔۔۔ کشمالا نے اپنے ہاتھ میں موجود موبائل اُس کے شوہر کی طرف بڑھایا 

"یہ تصویر شانو کی بیٹی نے تھوڑی دیر پہلے لی ہے جب یہ بدذات اپنے اس عاشق کو اپنے ماں بننے کی خبر سنا رہی تھی" 

کشمالا کی بات سن کر حیرت اور بے یقینی سے اُس نے اپنی بیوی کو دیکھا۔۔۔ اُس کی بیوی ماں بننے والی تھی اور ایسی کوئی  بات کی اسے خبر تک نہیں تھی۔۔۔ دوسری طرف وہ افسوس بھری نظروں سے کشمالا کو دیکھ رہی تھی جو ایک کے بعد ایک اس پر بہتان لگا رہی تھی مگر احتجاجاً بھی وہ اپنے لئے کچھ نہیں بولی یونہی خاموش کھڑی رہی

"میں ایک بار پھر تیرے سامنے قسم نہیں اٹھاؤں گی، تجھے یقین کرنا ہے یا نہیں کرنا یہ تیرے اوپر ہے۔۔۔ لیکن میں اس گُناہ کی پوٹ کو اب اس حویلی میں نہیں رکھو گی۔۔۔ اس کی کوکھ میں پلنے والا گند،، وہ اس حویلی کا خون نہیں ہے اگر اپنی بیوی پر تُو آج بھی یقین رکھتا ہے تو بےشک اِسے اس حویلی سے لے کر چلا جا"

کشمالا اُس کی طرف دیکھتی ہوئی بول رہی تھی اور وہ موبائل کی اسکرین پر خاموشی سے اپنی بیوی اور اُس انسان کی تصویر دیکھ رہا تھا جس سے وہ نفرت کرتا تھا۔۔۔ اس بات سے خود اس کی بیوی اچھی طرح باخبر تھی۔۔۔ کشمالا کی بات سُن کر وہ چلتا ہوا اپنی بیوی کے پاس آیا جو آنکھوں میں بے شمار آنسو لئے اب اُسی کو دیکھ رہی تھی

"مجھ سے اپنے بچے کا ثبوت مت مانگیے گا سائیں، ورنہ میں مر جاؤں گی"

وہ تڑپ کر اپنے شوہر کو دیکھتی ہوئی بولی تھی جو کہ پہلے ہی اُس سے خفا ہوکر اُسے اکیلا حویلی میں چھوڑ کر چلا گیا تھا

"تم نے اِسے میسج کرکے یہاں بلایا تھا یا نہیں"

وہ اپنی بیوی کو دیکھ کر سوال اٹھانے لگا تو اُس کی بیوی نے اپنا لرزتا ہوا ہاتھ اپنے شوہر کے سر پر رکھا

"آپ کی قسم کھا کر کہتی ہوں میں نے اِسے کوئی میسج نہیں کیا تھا"

اُس کے قسم کھانے پر اس کا ہاتھ بری طرح اپنے سر سے جھٹک دیا گیا 

"دو دن پہلے بھی تم نے میرے سر کی قسم کھائی تھی،، وہ قسم سچی تھی یا جھوٹی تھی،، سچ سچ بتانا مجھے"

بے انتہا سنجیدگی سے اُس نے اپنی بیوی سے پوچھا جو اپنے شوہر کی بات سن کر ایک پل کے لیے خاموش ہوگئی حویلی میں موجود تمام نفوس کی نظریں اس وقت ان دونوں پر ٹکی تھی

"اگر میں آپ کو اس وقت پورا سچ بتا دیتی تو آپ مجھ سے خفا ہوجاتے مگر وہ بھی پورا سچ نہیں تھا سائیں۔۔۔ میں آپ کو اصل حقیقت۔۔۔"

اُس نے بولنا چاہا تب اُس کے شوہر نے ہاتھ کے اشارے سے اسے مزید کچھ کہنے سے روکا 

"تم نے میری ناراضگی کے ڈر سے میری جھوٹی قسم کھائی یعنی اُس دن بھی یہ تم سے ملنے آیا تھا جو کچھ تمہارے بارے میں بولا گیا وہ سچ تھا۔۔ تو میں آج تمہاری قسم پر کیسے یقین کر لوں"

وہ غضب ناک نظروں سے اپنی بیوی کو دیکھتا ہوا بولا اس کی آنکھوں میں اپنے لیے بے اعتباری دیکھ کر وہ تڑپ اٹھی تھی

"جب تمہیں اس انسان کے ساتھ زندگی نہیں گزارنی تو کیوں اسے وضاحت دے رہی ہو آج اس کو ہم دونوں کے رشتے کی حقیقت سچ بتا دو"

ملازموں کے بیچ جگڑا ہوا وہ بے خوف ہو کر بولا اپنے دشمن کی بات سُن کر وہ مشتعل انداز میں اپنے دشمن کی جانب اسکو مارنے کے لیے اس کی طرف بڑھا

"رک جاؤ، اس کے گندے خون سے اپنے ہاتھ خراب مت کرو،، اچھا ہے جو اس وقت فیروز یہاں موجود نہیں ہے۔۔۔ میں اب کوئی خون خرابہ نہیں چاہتا۔۔۔ بے شک ہماری عزت کا جنازہ نکل چکا ہے۔۔۔ اپنی بیوی کو طلاق دے کر ابھی اسے، اس کے ساتھ رخصت کرو یہ میرا حکم ہے"

شمشیر جتوئی جو سارے عرصے خاموش، چپ کا لبادہ اوڑھے صوفے پر بیٹھا تھا کھڑا ہوتا ہوا بولا۔۔۔ اپنے چھوٹے بیٹے کی موت کے بعد سے اس کی طبیعت میں وہ روعب اور طنطنعہ نہیں بچا تھا مگر حویلی میں آج بھی اس کے حکم کو بجا لایا جاتا

"یہ اس حویلی سے اسی کے ساتھ جائے گی مگر میں اسے طلاق دے کر نہ تو آزادی بخشو گا نہ کسی کی دلی مراد پوری کرو گا۔۔۔ بیشک یہ میرے نکاح میں رہ کر ساری زندگی میرے اس دشمن کے ساتھ گزارے مگر میں اسے آزاد نہیں کروں گا"

وہ اپنی بیوی کو غصے میں دیکھتا ہوا شمشیر جتوئی سے بولا اور قہر آلود نظروں سے اپنے دشمن کو دیکھتا ہوا وہاں سے جانے لگا کشمالا خاموش کھڑی سارا تماشہ دیکھ رہی تھی

"سائیں۔۔۔ سائیں میری بات سنیں،، آپ بے شک مجھ سے خفا رہے یا مجھ سے بات نہیں کریں مگر میں یہاں سے نہیں جاؤں گی"

وہ روتی ہوئی اپنے شوہر کے سامنے آ کر بولی اسے لگا اگر آج وہ اس حویلی سے نکل گئی تو اس کی زندگی سے بھی ہمیشہ کے لیے نکل جائے گی جسے وہ اپنی زندگی سمجھنے لگی تھی

"چلی جاؤ اس وقت،، میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔۔ کہیں یہ نہ ہو کہ تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرائے اور اس حویلی میں ایک بار پھر قتل ہو"

وہ غضب ناک نظروں سے اس کے روتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر بولا جس کی آنکھ میں آنسو اسے بے چین کر دیتے تھے۔۔۔ وہ سیڑھیاں چڑھتا ہوا اپنے کمرے میں جا چکا تھا اس کی بیوی ڈبڈبائی نظروں سے ابھی تک سیڑھیاں تک رہی تھی 

"چھوڑ دو اس بدبخت کو اور حویلی سے دور کرو ان دونوں بے شرموں کو"

شمشیر جتوئی اپنے ملازموں سے بولتا ہوا وہاں سے چلا جبکہ کشمالا مسکراتی ہوئی اسے دیکھنے لگی جو اب تک سیڑھیاں دیکھتی ہوئی آنسو بہا رہی تھی

 *****

کھٹکے کی آواز پر رباب کی آنکھ کُھلی،، کمرے میں مُکمل اندھیرا ہونے کی وجہ سے اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا بالکونی سے کمرے میں آتی چاند کی روشنی میں اس نے ایک ہیولے کو اپنے کمرے کے اندر آتا دیکھا تو رباب اُٹھ کر بیٹھ گئی 

"زریاب آپ یہاں اس وقت"

رباب ذریاب خان کو اپنے کمرے میں دیکھ کر فوراً اس کے سینے سے جا لگی 

"کیسی ہو تم" 

زریاب خان اسے اپنے حصار میں چھپائے بیقراری سے پوچھنے لگا

"آپ کو یہاں اس طرح نہیں آنا چاہیے تھا،، اگر کوئی آپ کو یہاں پر دیکھ لے۔۔۔ بابا سائیں یا فیروز لالا کو خبر ہو جائے تو غضب ہو جائے گا"

رباب ذریاب خان سے الگ ہوتی ہوئی بولی،، فکرمندی کے ساتھ خوف کے آثار بھی اس کے چہرے پر نمایاں تھے

"تمہاری ایک جھلک دیکھنے کے لئے اپنی جان کا رِسک لیا ہے،، پورا ڈیڑھ ماہ گُزر گیا ہے تمہیں دیکھے ہوئے اگر آج یہ قدم نہ اٹھا تو اپنی جان سے جاتا" 

زریاب خان اس کا حسین چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیتا ہوا بولا بےساختہ رباب نے اپنا ہاتھ ذریاب خان کے ہونٹوں پر رکھا 

"خدا نہ کریں آپ کو کچھ ہو،، آپ کو تو خبر بھی نہیں ہے اس ڈیڑھ ماہ میں کیا کچھ ہو چکا ہے۔۔۔ مجھے اب آنے والے وقت سے بہت ڈر لگ رہا ہے ذریاب" 

رباب نے پریشان ہوتے ہوئے زریاب خان سے کہا وہ کس مشکل میں گھِر چُکی تھی زریاب خان کو کیسے بتا سکتی تھی 

"رباب جو بھی بات ہے وہ صاف صاف مجھے بتاؤ خدارا" اُس کے چہرے پر پریشانی کا جال دیکھ کر زریاب خان بھی پریشان ہوگیا اور رباب سے پریشانی کا سبب  پوچھنے لگا 

"میں کیسے بتاؤں،، آپ باپ یعنی میں۔۔۔ میں اُمید سے ہوں زریاب" 

رباب پریشان ہوتی ہوئی بولی کیونکہ یہ وقت شرما کر،، یہ خبر دینے کا ہرگز نہیں تھا۔۔۔ زریاب خان یہ خبر سن کر ایک پل کے لیے خاموش ہو گیا پھر اس نے رباب کو دوبارہ اپنے حصار میں لیا 

"اگر میں بابا اور اسماعیل لالا کو منا بھی لو،، کہ وہ ہم دونوں کے خاندان کے بیچ دشمنی کو ختم کرنے میں پہل کرتے ہوئے دوستی کا آغاز کریں تو کیا تمہارے بابا سائیں اور فیروز لالا اس دوستی کی طرف ہاتھ بڑھائیں گے۔۔۔ اس بات کا جواب تم اچھی طرح جانتی ہو،، تمہارے بابا سائیں یا فیروز لالا ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔۔۔ اب اس مسئلہ کا صرف ایک ہی حل ہے رباب،، ہم دونوں کو یہاں سے کہیں دور جا کر اپنی زندگی کی شروعات کرنی چاہیے میں تمہیں یا پھر اپنے بچے کو اس دشمنی کی بھینٹ نہیں چڑھنے دے سکتا تم سمجھ رہی ہو نا میری بات"

زریاب خان رباب کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا تو رباب نے آنکھوں میں آنسوں کے ساتھ اقرار میں سر ہلایا۔۔۔ اس کے بابا سائیں،، فیروز لالا اور شمروز لالا بے شک اس پر اپنی جان نچھاور کرتے تھے لیکن وہ کتنا ہی بابا سائیں یا فیروز لالا کے آگے گِڑگِڑا لیتی،، ان کے آگے اپنے ہاتھ جوڑ لیتی مگر وہ اپنی آن اور شان کے لئے کبھی سردار اکبر خان کے خاندان سے دشمنی ختم نہیں کرسکتے تھے 

"میری بات غور سے سنو رباب،، میں کل رات دو بجے تک یہاں آؤں گا تمہیں لینے کے لیے۔۔۔ رات کے اندھیرے میں ہم بسوں کے اڈے تک پہنچیں گے اور پھر وہاں سے شہر کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔۔۔ میں نے تم سے ہمیشہ ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا ہے میں یہ وعدہ مرتے دم تک نبھاؤں گا کل رات میرا انتظار کرنا"

بولنے کے ساتھ ہی زریاب خان رباب کی پیشانی پر محبت کی مہر ثبت کرتا ہوا اس سے الگ ہوا مگر دروازے پر کھٹکے کی آواز پر وہ دونوں چونکے۔۔۔ 

رباب نے پریشان ہو کر اپنے کمرے کے بند دروازے کی طرف دیکھا اور پھر زریاب خان کو دیکھنے لگی۔۔۔ زریاب خان نے اُسے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور کالی چادر میں خود کو چھپاتا ہوا وہ دوبارہ بالکنی کے راستے سے نیچے اتر کر حویلی کی دیوار پھیلانگتا ہوا رات کے اندھیرے میں غائب ہوگیا 

زریاب خان کے جاتے ہی رباب نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تو وہاں پر کوئی بھی موجود نہیں تھا وہ اطمینان کا سانس لیتی ہوئی دوبارہ دروازہ بند کرکے اپنے بیڈ پر آکر لیٹ گئی 

****

ڈیرہ رعیسانی کے قریب میں دو قبیلے آباد ہیں جن میں برسوں سے دشمنی چلی آرہی تھی۔۔۔ شمشیر جتوئی طبیعت کے لحاظ سے سخت گیر انسان ہے سب ہی اس کے غصے اور جلال سے ڈرتے ہیں ساری نرمی اس نے صرف اپنی لاڈلی بیٹی رباب کے لئے ہی برتی ہوئی ہے۔۔۔ رباب فیروز جتوئی اور شمروز جتوئی سے چھوٹی ہے اور اپنے بابا سائیں کی طرح وہ اپنے دونوں بھائیوں کی بھی لاڈلی ہے۔۔۔ فیروز جتوئی کی اپنی خالہ زاد کشمالا سے شادی ہوئی ہے کشمالا تھوڑا تیز مزاج رکھنے والی عورت ہے،، اس کے ہاں دل آویز، پلورشہ اور آرزو کے بعد ضیغم جتوئی یعنی تین بیٹیوں کے بعد بیٹا پیدا ہوا اور تب سے ہی اس کا مزاج ہر کسی سے کم ہی ملتا ہے خاص کر اپنی نند رباب سے وہ ہر وقت خائف رہتی ہے کیونکہ شمشیر جتوئی (سسر) فیروز اور شمروز کے ساتھ اس کا دس سالہ بیٹا ضیغم بھی اپنی پھوپھو کے گُن گاتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ منہ سے کچھ نہیں بولتی مگر اس کی آنکھوں میں ہر وقت رباب کو وجود بری طرح کھٹکتا رہتا ہے 

فیروز جتوئی اور شمروز جتوئی بھائی ہونے کے باوجود، انکی طبیعت ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے فیروز جتوئی اپنے باپ کا ہم مزاج ہے مگر وہ بہت جلد باتوں نے آجانے والا جلد باز مرد ہے جو سوچے سمجھے بغیر فیصلہ کر لیتا ہے، اپنی روایات اور رسم و رواج کا پابند جبکہ شمروز جتوئی ایک ٹھنڈے مزاج رکھنے والا انسان ہے۔۔۔ شمروز جتوئی کے مزاج پر کچھ تعلیم کے بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں وہ بھی اپنی روایات کا پابند ہے مگر بہت سی باتوں میں وہ اپنے باپ اور بھائی سے اختلافات رکھتا ہے اسی وجہ سے وہ شہر میں رہتا ہے۔۔۔ مہینے بعد تین چار دن کے لئے حویلی میں سب سے ملنے کے لیے آتا ہے

شمروز جتوئی کے کہنے پر ہی شمشیر جتوئی نے رباب کو آگے پڑھنے کی اجازت دی میٹرک تک تعلیم اپنے علاقے میں موجود گرلز اسکول سے مکمل کرنے کے بعد وہ شمروز جتوئی کے پاس شہر آگئی ایسے ہی ایک دن اچانک اس کا سردار ذریاب خان سے اتفاقیہ ٹکراؤ ہوا اور دونوں کو ہی پہلی نظر کی محبت ہوگئی،،، یہ جاننے کے باوجود کے ان دونوں کے خاندان میں برسوں سے دشمنی چلی آرہی ہے وہ دونوں ہی اپنے اپنے دل سے ایک دوسرے کی محبت فراموش نہیں کر پائے اور یونہی ایک دن سردار زریاب خان نے رباب سے اپنا رشتہ مضبوط کرتے ہوئے اس سے نکاح کرلیا

جب تک رباب شہر میں موجود رہی تب تک رباب اور زریاب خان کی ملاقاتیں ہوتی رہی مگر امتحانات سے فارغ ہونے کے بعد اور پڑھائی مکمل ہونے کے بعد شمشیر جتوئی نے اسے واپس آنے کا حکم دے دیا۔۔۔ رباب افسردہ دل کے ساتھ اپنے قبیلے واپس لوٹ گئی

سردار اکبر خان اپنے قبیلے کا انصاف پسند اور صلح جُو انسان ہے اپنے باپ  دادا کے مزاج سے بالکل مختلف۔۔۔ اس کے دو بیٹے سردار اسماعیل خان اور سردار ذریاب خان ہیں۔۔۔ اسماعیل خان کی بیوی زرین ایک نرم طبعیت رکھنے والی مخلص عورت ہے جس کا دس سالا بیٹا تیمور ہے

زریاب خان اپنی بھابھی زرین سے شروع سے ہی قریب ہے۔ ۔۔ عزت اور احترام والے رشتے کے ساتھ وہ ذریاب خان کی رباب سے پسندیدگی اور اس کے نکاح والے راز سے بھی واقف ہے 

سردار اکبر خان کی بیوی کبریٰ ایک سخت گیر اور کرخت عورت ہے اپنے شوہر کے علاوہ سب پر ہی اس کا روعب اور دب دبا چلتا ہے۔۔۔ بیٹے بھی اس کے آگے بولنے کی جرات نہیں کرتے البّتہ پوتے کو ساری چھوٹ حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ دس سال کی عمر سے ہی سردار تیمور خان کافی گُستاخ طبیعت کا مالک ہے

*****

"توبہ خدا کا جو زرا آج کل کی لڑکیوں کو شرم اور لحاظ رہا ہوں،۔۔ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے، بے حیائی کا یُوں عام ہو جانا"

کشمالا کمرے کے اندر آنے کے ساتھ ہی بلند آواز میں بڑبڑاتی ہوئی کمرے کا دروازہ بند کرکے چابیوں کا گُچھا میز پر رکھتی ہوئی بیڈ پر بیٹھی

"کیا منہ ہی منہ میں بڑبڑائے جا رہی ہو۔۔۔ اب رات کے وقت کس کی شامت آگئی تمہارے ہاتھوں"

فیروز جتوئی جوکہ کے پہلے سے ہی کمرے میں موجود بیڈ پر بیٹھا ہوا تھا کشمالا کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا

"میری کیا مجال ہے سائیں جو میں اس گھر کی مہرانی کی شامت لاسکو۔۔۔ جو میرے یہ گناہگار کان سن چکے ہیں ان کو سن کر تو میں صرف کانوں پر ہاتھ رکھ کے استغفار ہی پڑھ سکتی ہوں" 

کشمالا چادر نما دوپٹہ اتار کر بیڈ پر ایک طرف رکھتی ہوئی فیروز جتوئی سے بولی

"تمہیں پھر تکلیف ہوگئی میری بہن سے، کتنی بار کہا ہے رباب کے لئے میں تمہاری زبان سے ایک لفظ نہ سنو۔۔۔ ارے دلآویز پلورشہ آرزو سے پہلے وہ میرے لئے اہمیت رکھتی ہے،، بہن نہیں بیٹی ہے وہ میری" 

فیروز جتوئی اپنی بیوی کی عادت جانتا تھا وہ ضرور رباب کے بارے میں اب کوئی بات کریں گی اس لیے فیروز جتوئی پہلے ہی سخت تیور لیے کشمالا سے بولا

"واہ سائیں واہ ابھی تو میں نے کچھ بولا ہی نہیں ہے آپ پہلے ہی بھڑک رہے ہو کل کو جب آپ کی یہی بیٹی آپ کی پگڑی پر لات مار کر آپ کے دشمن کے ساتھ بھاگے گی ناں" 

اس سے پہلے کشمالا کا جملہ مکمل ہوتا فیروز جتوئی کا بھاری ہاتھ کشمالا کے منہ پر نشان چھوڑ گیا 

"سردار اکبر خان کا چھوٹا بیٹا تھوڑی دیر پہلے آپکی دلاری کے کمرے میں چوری چھپے اس سے ملنے آیا تھا۔۔۔ کل رات کو بھگاکر شہر لے جانے والا ہے وہ آپ کی رباب کو۔۔۔ اپنے اِن گناہگار کانوں سے سن کر آئی ہو اگر ایک بھی بات جھوٹ بولوں تو سرعام کوڑھے مار لینا مجھ غریب کو سائیں"

کشمالا کی بات سن کر فیروز جتوئی کو جلال آیا وہ طیش میں بیڈ سے اٹھتا ہوا کمرے سے باہر نکلنے لگا تب بھی کشمالا اس کے سامنے آگئی

"جوش سے نہیں سائیں اب ہوش سے کام لینے کا وقت آگیا ہے۔۔۔ اگر آپ ابھی رباب سے پوچھ گچھ کا ارادہ رکھتے ہو تو وہ کبھی بھی نہیں قبولے گی تھوڑا سا انتظار سے کام لو۔۔۔ کل رات تک خود دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا شاید آپ کی لاڈلی کے کچھ اور لچھن آپ کے سامنے آجائیں"

کشمالا فیروز جتوئی کو طنزیہ بولتی ہوئی آخری بات پر ہنس کر فیروز جتوئی کے سامنے سے جانے لگی تبھی فیروز جتوئی نے کشمالا کی چُٹیا کو مٹھی میں پکڑا

"مالا جو کچھ جانتی ہوں سچ بول دو ورنہ آج ہی قیامت برپا ہو جائے گی"

فیروز جتوئی کشمالا کی معنی خیز بات سے مزید برہم ہوا تھا۔۔۔ اگر اس کی بیوی سچ بول رہی تھی تو وہ پوری حقیقت جاننا چاہتا تھا 

"گستاخی معاف سائیں،، اُمید سے ہے آپ کی لاڈلی،،، سرداروں کا ناجائز بچہ پل رہا ہے اس کے پیٹ میں" 

کشمالا فیروز جتوئی سے اپنی چٹیا چھڑواتی ہوئی بولی تو فیروز جتوئی نے کشمالا کی گردن کو دبوچ لیا 

"اگر تمہاری ایک بھی بات جھوٹ نکلی مالا تو میں تمہارا مقبرہ کل کی رات اِسی حویلی میں تیار کروا دوں گا،، یاد رکھنا"  

فیروز جتوئی بولتا ہوا کشمالا کو فرش پر دھکیل کر اپنی پگڑی سر پر رکھتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا کشمالا کے ہونٹوں پر زہریلی مسکان نمایاں ہوئی 

اسے معلوم تھا ابھی اس وقت اس کا شوہر غصے میں ڈیرے پر گیا ہوگا کیوں کہ خبر ہی کچھ ایسی تھی لیکن اب اسے کل کا انتظار کرنا تھا۔۔۔ مگر اس سے پہلے وہ صبح ہوتے ہی ملازمہ سے کہہ کر رباب کے کمرے کی تلاشی لینا چاہتی تھی کیا معلوم کوئی اور ہی راز فشاں ہو جائے

"کیا مسئلہ ہوگیا ہے، یہ کمرے میں اتنا شور کیوں مچا رکھا ہے"

کمرے کا دروازہ کھولتے ہی وہ عدیل سے پوچھنے لگی مگر اُس کی نظریں بیڈ پر لیٹے ہوئے اُس وجود پر تھی جو اپنے ہاتھ پاؤں ہلانے سے قاصر تھا اور منہ سے عجیب عجیب سی آوازیں نکال کر شور برپا کر رہا تھا


"میم میں سر کا ڈریس چینج کرنا چاہ رہا ہوں مگر یہ مجھ پر غصہ کر رہے ہیں"

عدیل اپنے ہاتھ میں بیڈ پر لیٹے ہوئے شخص کا کپڑے تھامے،، کمرے میں داخل ہوتی ہوئی لڑکی کو بتانے لگا۔۔۔ وہ ایک بار پھر بیڈ پر لیٹے ہوئے شخص کو دیکھنے لگی، جو اپنے ہاتھ کو حرکت دینے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔ مگر اپنے ہاتھ کو حرکت نہیں دے پا رہا تھا، ایک بار پھر وہ اس لڑکی کو دیکھ کر منہ سے آوازیں نکالنے لگا۔۔۔ وہ سمجھ گئی تھی بیڈ پر لیٹا ہوا شخص اُس کو بلا رہا تھا۔۔۔ کل ہی وہ ہوش و حواس کی دنیا میں آیا تھا تب سے نہ وہ اپنے ہاتھ پاؤں کو حرکت دے پارہا تھا نہ ہی اسکے منہ سے لفظ ادا ہو پا رہے تھے


"کیا ہوا، کیا یہ کپڑے پسند نہیں تمہیں؟؟ دوسرے کپڑے پہنا چاہ رہے ہو"

وہ لڑکی بیڈ پر لیٹے ہوئے شخص کے پاس آکر اس سے پوچھنے لگی۔۔ بیڈ پر لیٹا ہوا شخص نفی میں اپنا سر ہلاتے ہوئے ایک بار پھر اپنے ہاتھ کو حرکت دینے کی کوشش کرنے لگا


"کیا تم یہ کپڑے مجھ سے تبدیل کروانا چاہ رہے ہو"

لڑکی بیڈ پر لیٹے ہوئے شخص کی بات سمجھتے ہوئے اس سے بولی اور اس کے کانپتے ہوئے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا جس سے بیڈ پر لیٹے ہوئے شخص کے چہرے کے تاثرات نرم پڑے


"لائیں عدیل یہ کپڑے مجھے دے دیں اور جاتے ہوئے کمرے کا دروازہ بند کردیئے گا"

وہ عدیل سے کپڑے لیتی ہوئی فولڈنگ بیڈ کو اوپر کرنے لگی تاکہ اس کو کپڑے آسانی سے تبدیل کروا سکے


"مم۔ ۔۔۔۔ ما۔۔ما"

وہ بہت احتیاط سے شرٹ تبدیل کروا رہی تھی تب وہ شخص اس لڑکی سے کچھ پوچھنے لگا


"وہ روشانے کے پاس حویلی میں موجود ہیں، روشانے کو بھی اس وقت اُنکی ضرورت ہے، آنٹی صرف تمہاری ماں تو نہیں ہیں، ویسے تمہارے بارے میں اطلاع کردی گئی ہے۔۔۔ تب سے کافی بےچین ہیں آنٹی،، ڈرائیور بھیج کر انکو یہاں بلوالیا ہے رات تک یہاں پہنچ جائے گیں وہ"

وہ جانتی تھی کہ وہ شخص اُس سے اپنی ماں کے بارے میں پوچھ رہا ہے اسلیے وہ اُسے تفصیل سے بتانے لگی۔۔۔ شرٹ تبدیل ہوچکی تھی، اب اس لڑکی کی نظریں صاف ستھرے تہہ شدہ ٹراوزر پر جمی تھیں۔۔۔ اسکی نظروں کو دیکھتے ہوئے بیڈ پر لیٹا شخص نظریں چرا گیا


"لیٹو یہ ٹراوذر چینج کروا لو"

وہ بولتی ہوئی فولڈنگ بیڈ کو اسٹریٹ کرنے کے غرض سے مڑنے لگی۔۔۔ تب وہ شخص مُنہ سے آوازیں نکالتا ہوا نفی میں سر ہلانے لگا


"عدیل کو بلاؤ پھر"

انکار کرنے پر وہ اُس شخص سے پوچھنے لگی جس پر وہ مزید نفی میں سر ہلانے لگا ساتھ ہی اسکی آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے۔ ۔۔۔ وہ لڑکی تھوڑی دیر خاموشی سے اپنے سامنے بیٹھے شخص کو روتا ہوا دیکھنے لگی پھر اُس کی پُشت سے تکیہ نکال کر (جو تھوڑی دیر پہلے اس نے سہارے کے غرض سے لگایا تھا) فولڈنگ بیڈ کو اسٹریٹ کرنے کے بعد اس کا ٹراوذر تبدیل کرنے لگی۔ ۔۔ وہ جانتی تھی بیڈ پر لیٹا ہوا شخص اس وقت بےبسی کی تصویر بنا ہوا آنسو بہا رہا تھا جو کل تک دنیا کو اپنی ٹھوکر پر رکھتا تھا آج خود دوسروں کو محتاج ہوچکا تھا


"تمہاری دوا کا ٹائم ہوگیا ہے مگر اس سے پہلے ڈاکٹر کے دیے گئے چارٹ کے مطابق تمہیں ڈائیٹ لینی ہے اپنی"

میلے کپڑے باسکٹ میں رکھنے کے بعد وہ سامنے ٹیبل پر رکھئے فوڈ کمپلیمنٹ کا ڈبہ کھولنے لگی جو کہ کمرے میں ہی موجود تھا۔۔۔ اُس میں حلق سے کچھ نگلنے کی طاقت نہیں تھی اِس لیے اُسے کل سے اوورل ڈائیٹ دی جارہی تھی۔۔۔ بیڈ پر لیٹا ہوا شخص ایک بار پھر اس لڑکی کی طرف اپنا ہاتھ بڑھانے لگا۔۔۔ مگر ناکامی کی صورت میں ایک بار پھر اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے


"تم یہ غذا عدیل کی بجائے میرے ہاتھ سے لینا چاہ رہے ہو ایسا ہی ہے ناں"

پیالے میں موجود غذا، وہ چمچے کی مدد سے اس شخص کے منہ میں ڈالنے لگی۔ ۔۔ وہ شخص اپنا پیٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ اس لڑکی کا چہرہ غور سے دیکھ رہا تھا جو وقفے وقفے سے چمچا اس کے منہ میں ڈال کر ہر تھوڑی دیر بعد رومال سے اس کا منہ صاف کرتی اور مسکرا کر اُس کو دیکھتی


"اب بیس منٹ کے وقفے کے بعد عدیل تمہیں دوا دے گا۔۔۔ پلیز خاموشی سے کھا لینا میں تھوڑی دیر آرام کرنا چاہ رہی ہو"

خالی برتن وہ ٹرے میں رکھتی ہوئی بولی۔۔۔ تو اُس شخص کی آنکھوں میں بےچینی اُترنے لگی


"اب کیا ہوا۔۔۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ میں تھوڑی دیر آرام کرو"

وہ لڑکی اُس شخص سے پوچھنے لگی۔۔۔ جس کے چہرے پر اُس لڑکی کے جانے کا سن کر بےچینی کے تاثرات نمایاں ہونے لگے۔۔۔ بے بسی کے احساس سے ایک بار پھر اُس شخص کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے شاید وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ لڑکی اُس سے دور جائے


"اچھا بار بار یوں پریشان مت ہو، اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے پاس رہو کوئی دوسرا تمہارے کام نہیں کرے۔۔۔ تو ایسا ہی ہوگا میں ہر وقت تمہارے پاس رہو گی اور تمہارے سارے کام خود اپنے ہاتھ سے کیا کروں گی ایسا ہی ہے نا"

وہ اُس شخص کے آنسو صاف کرتی ہوئی۔۔۔۔ نرمی سے اُسی کے دل کی ساری باتیں بول رہی تھی۔۔۔ اب اُس شخص کے لبوں پر اطمینانیت بھری مسکراہٹ رینگی


"ابھی تم جیسا چاہتے ہو میں بالکل ویسا ہی کروں گی لیکن جب تم مکمل صحت یاب ہو جاؤ گے تب تم وہ کرو گے جو میں چاہوں گی"

وہ آہستگی سے اس کا ہاتھ تھامتی ہوئی بولی۔۔۔ تو وہ شخص تجسُس سے اس لڑکی کو دیکھنے لگا جیسے جاننا چاہ رہا ہوں کہ وہ کیا چاہتی ہے


"آزادی۔۔۔۔ تمہیں مجھے اس رشتے سے آزادی دینی ہوگی"

اس لڑکی نے جتنے نارمل انداز میں کہا اس شخص کے چہرے کے تاثرات یکلخت تبدیل ہوئے۔۔۔ خوف سے اس شخص نے اپنا ہاتھ جھٹکا تھا ایسا کرتے ہو اُسے کافی تکلیف ہوئی۔۔۔ ایک بار پھر وہ آنکھوں میں آنسو بھر کر اُس ظالم لڑکی کو دیکھنے لگا جو ٹیبل پر رکھی میڈیسن اٹھا رہی تھی تاکہ اُسے دوا دے سکے


****


رات کا پہر تھا ہال میں موجود گھڑیال میں گھنٹی کی آواز آئی تو اپنے کمرے میں بیٹھی رباب نے گھڑی میں ٹائم دیکھا رات کے دو بج چکے تھے رات کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد رباب نے اپنے کمرے میں آکر چند کپڑے اپنے سرٹیفکٹ وغیرہ ایسی تمام ضروری اشیاء کو ایک بیگ میں رکھ دیا تھا مگر سب سے اہم چیز اُسے کمرے میں نہیں مل رہی تھی یعنی اس کا نکاح نامہ


زریاب خان نے نکاح نامہ کی ایک کاپی اس کو بھی دی تھی جو رباب نے بڑی حفاظت سے سنبھال کر اپنے پاس رکھی تھی مگر وہ شام سے اپنے نکاح نامہ کی کاپی کو ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔۔ گھڑی میں ٹائم دیکھنے کے بعد رباب نے بڑی سی چادر سے خود کو اچھی طرح ڈھکا اور بیگ چادر کے اندر چھپا کر کمرے سے باہر نکلنے لگی کتنا ہی اچھا ہوتا وہ فیروز لالا کو بھی دیکھ لیتی شمروز جتوئی تو تھا ہی شہر میں، مگر فیروز جتوئی بھی صبح سے ہی ڈیرے پر موجود تھا۔۔۔۔ یہ بات شمشیر جتوئی کے پوچھنے پر کشمالا نے سُسر کو بتائی تھی تو رباب کو بھی خبر ہوئی،


دروازہ کھول کر بغیر آہٹ کے وہ سیڑھیوں سے اُترنے لگی احتیاط کے طور پر وہ اپنا منہ چادر سے ڈھک چکی تھی۔۔۔ گیٹ پر بیٹھا پہرے دار آج گیارہ بجے ہی اپنے گھر کو رخصت ہو گیا تھا۔۔۔ زریاب خان باہر کھڑا اس کا انتظار کر رہا ہوگا اسے معلوم تھا کہ وہ غلط قدم اُٹھا رہی ہے مگر وہ مجبور تھی۔۔۔ سال گزرنے کے بعد وہ شمروز جتوئی سے کانٹیکٹ کرلے گی۔۔۔ رباب آگے کے بارے میں سوچتی ہوئی باہر نکلنے لگی تبھی پورے ہال میں روشنی ہوئی اپنے سامنے شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی کو دیکھ کر اس کا دل سُوکھے پتے کی طرح لرزنے لگا


"اپنے باپ بھائی کی عزت کا جنازہ نکالنے بھاگ رہی تھی تُو"

فیروز جتوئی غُصّے میں بولتا ہوا رباب کی طرف بڑھا اور اس کے منہ پر لگاتار چار سے پانچ تھپڑ مارے جس سے وہ فرش پر جا گری


شور کی آواز سن کر کشمالا بھی اپنے کمرے سے باہر نکل آئی مگر وہ آگے بڑھ کر رباب کو بچانے کی بجائے خاموش کھڑی تماشہ دیکھنے لگی، فیروز جتوئی رباب کو بالوں سے کھینچ کر اٹھاتا ہوا ایک بار پھر اُس کے منہ پر تھپڑ مارنے لگا


"کیوں مل دی تُو نے ہمارے منہ پر کالک، یہ صِلہ دیا ہے تُو نے ہماری محبتوں کا۔۔۔ ہمارے ہی دشمن سے ناجائز تعلق رکھ کر اس کے ساتھ بھاگ رہی تھی، رباب میں آج تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا"

فیروز جتوئی غُصّے میں چیختا ہوا بولا اور ساتھ ہی رباب کا گلا دبانے لگا تب کشمالا آگے بڑھی


"کیا کر رہے ہو سائیں، جان سے مار دوں گے بہن ہے تمہاری چھوڑ دو اِسے"

کشمالا بہت مشکل سے رباب کو چھڑواتی ہوئی فیروز جتوئی کو پیچھے ہٹا کر بولی جبکہ خاموش کھڑے شمشیر جتوئی کو آج جیسے سانپ سونگ چکا تھا وہ غُصّے میں کھڑا سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ اس کا غرور اور تکبر جیسے آج مٹی میں مِل چکا تھا


"میرا گلا دبا کر مجھے مار ڈالیں لالا مگر اتنی بڑی گالی دے کر مجھے شرمسار نہ کریں۔۔۔ میرا زریاب خان سے ناجائز تعلق نہیں ہے نکاح کیا ہے انہوں نے مجھ سے"

رباب جب بولنے کے قابل ہوئی تو اپنے نکاح کا اعتراف کرتی ہوئی بولی


"اپنے گناہ کو چھپانے کے لیے جھوٹ کا سہارا مت لے رباب، میں آج واقعی تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا" فیروز جتوئی ایک بار پھر غُصے سے میں چیختا ہوا بولا اور لفظ گناہ بولتے ہوئے اس نے رباب کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا


"اس کُتے کو بھی یہی بلواؤ فیروز وہی سچ اُگلے گا"

فیروز جتوئی کشمالا سے اپنا آپ چھڑا کر رباب کو مارنے کے لئے آگے بڑھا تو شمشیر جتوئی اپنے بیٹے سے بولا


تھوڑی دیر بعد چار آدمی زریاب خان کو پکڑتے ہوئے حویلی کے اندر لائے۔۔۔ ذریاب خان کی حالت دیکھ کر رباب کا دل بری طرح کانپ اٹھا۔۔۔ اُس کے سر، چہرے اور ہاتھوں سے خون بہہ رہا تھا وہ چلنے کے قابل بھی نہیں تھا اُسے پکڑ کر سہارا دیتے ہوئے فیروز جتوئی کے آدمی ہال میں لا رہے تھے


ہال کے بیچ و بیچ اُس کے وجود کو لا کر پھینکا گیا۔۔۔۔رباب زریاب خان کی حالت دیکھ کر بری طرح رونے لگی مگر وہ آگے بڑھ کر زریاب کے پاس جا کر اپنے باپ بھائی کے سامنے دیدہ دلیری نہیں دکھا سکتی تھی کیونکہ اُس کا مزید بھیانک انجام ذریاب خان کو ہی بھگدنا پڑتا جو رباب کو گوارا نہیں تھا


"غلام، تُو یہی رک، تم لوگ باہر جاؤ"

غلام رسول ان کے گھر کا خاص ملازم تھا جس کو گھر کے اندر آنے کی اجازت دی جبکہ کشمالا اور رباب کی موجودگی میں فیروز جتوئی نے باقی تینوں آدمیوں کو گھر سے باہر جانے کا حکم دیا


"میرے گھر کی عزت کو آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی تیری ہمت کیسے ہوئی جواب دے مجھے"

فیروز جتوئی نے بولتے ہوئے ذریاب خان کے وجود کو سیدھا کرتے ہوئے اس کے سینے پر اپنے بھاری بھرکم جوتوں سے لاتے مارنا شروع کر دی۔۔۔ دس سالہ ضیغم شور کی آواز سن کر اپنے کمرے سے باہر نکلا اور ہال کا منظر دیکھنے لگا اُس کا باپ کسی آدمی کو بری طرح پیٹ رہا تھا، دادا اور ماں خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے جبکہ اسکی اپھو بری طرح چیخ چیخ کر رو رہی تھی۔۔۔ دل آویز اور پلورشہ بھی جاگ چکی تھی مگر وہ اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی


"تمہاری بہن میری بیوی ہے فیروز"

زریاب خان مشکلوں سے مار کے درمیان فیروز جتوئی سے بولا


"رکو فیروز یہ اتنی بڑی بات بغیر کسی ثبوت کے نہیں بول سکتا۔۔۔۔ ثبوت دے کہ یہ تیری بیوی ہے آج ہی اِس سے سب تعلق ختم کرکے اسے تیرے ساتھ چلتا کرو گا"

شمشیر جتوئی گرجدار آواز میں بولا تو زریاب خان سر اٹھا کر روتی ہوئی رباب کو دیکھنے لگا کیونکہ اس کے پاس موجود نکاح نامہ یہاں نہیں بلکہ شہر والے گھر میں موجود تھا


"نکاح نامہ نہ جانے کہاں کھو گیا ہے بابا سائیں مجھ سے، میں آپ کے سر کی قسم کھا کر کہتی ہوں میں سچ بول رہی ہوں۔۔۔ خدا کا واسطہ ہے ِان کو بخش دیں"

رباب زریاب خان کے دیکھنے پر شمشیر جتوئی کے پاس آکر اس کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوئی اپنے شوہر کی زندگی کی بھیگ مانگنے لگی


"دشمن کو بخشنے کا مطلب اپنی روایات سے بغاوت کرنا ہے۔۔۔ لوگ ہنسے گے ہم پر مذاق اڑائیں گے ہمارا، اگر آج اسے یہاں سے زندہ جانے دیا تو"

فیروز جتوئی نے کہتے ہوئے غلام رسول سے بندوق لے کر ذریاب خان کے سینے پر گولی چلائی


"لالا"

گولی کی آواز کے بعد رباب کی بھیانک چیخ پوری حویلی میں گونجی، وہ خود بھی اپنا دل پکڑ کر وہی بیٹھتی چلی گئی۔۔۔ رباب کی آنکھوں کے سامنے اس کے بھائی نے اس کی شوہر کی جان لی


"غلام اس کُتے کی لاش کو اِس کے محل کے پاس پھینکوا دے تاکہ اس کے باپ اور بھائی کو بھی اس کے انجام سے عبرت حاصل ہو"

فیروز جتوئی غلام رسول سے بولتا ہوا بندوق وہی پھینک کر اپنے کمرے میں چلا گیا


رباب وہی گر کر بے ہوش ہو چکی تھی جب کہ شمشیر جتوئی بیٹی پر نظر ڈال کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔ غلام رسول زریاب خان کی لاش کو کھینچتا ہوا باہر لے جانے لگا


"چل اپنے کمرے میں جا"

کشمالا ضیغم کو بولتی ہوئی خود فیروز جتوئی کے پاس چلی گئی


ضیغم پہلے غلام رسول اور پھر اُس لاش کو دیکھنے لگا اس کے بعد اپنی اپھو کے پاس آیا جو کہ اس وقت فرش پر بے ہوش پڑی ہوئی تھی


وہ گولی چلتا ہوا دیکھ کر نہ تو ڈرا تھا اور نہ ہی گھبرایا تھا کیونکہ جرگے میں ہونے والے فیصلوں میں اکثر کشمالا کے منع کرنے کے باوجود فیروز جتوئی "یہ مرد ہے" کہہ کر اسے اپنے ساتھ لے کر جایا کرتا وہ اپنی آنکھوں کے سامنے سزا اور جزا کے فیصلے دیکھا کرتا تھا


****


تین دن سے آنسو بہا کر اس کی آنکھیں اب بالکل خشک ہو چکی تھی۔۔۔ نہ جانے زریاب خان کی خون میں لت پت لاش دیکھ کر اُس کے گھر والوں پر کیا قیامت گزری ہوگی رباب کو ابھی تک یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ تین دن سے کیسے سانس لے رہی ہے، اُس کی اپنی سانس رُک کیوں نہیں گئی شاید اپنے اندر پروان چڑھتے وجود کی وجہ سے۔۔۔ ہاں یہی وجہ ہوسکتی ہے جو وہ زندہ تھی زریاب خان کے مرنے کے بعد بھی


تین دن سے اس کے کمرے میں کوئی نہیں آیا تھا شانو(ملازمہ) اور ضیغم کے علاوہ۔۔۔۔ شانو کمرے آکر اسکو کھانا اور ناشتہ دے جاتی جبکہ ضیغم رباب کے پاس بیٹھ کر اپنی اپھو کا دل بہلانے کے لیے اس سے باتیں کرلیتا اس کی اپھو اس کی باتوں پر مسکراتی نہیں تھی نہ جانے وہ اچانک سے اتنی خاموش کیوں ہو گئی تھی


ضیغم سے بڑی آرزو نے بھی رباب کے کمرے میں آنے کی کوشش کی تھی لیکن کشمالا آرزو کو مارتی ہوئی وہاں سے لے گئی مگر ضیغم کو کشمالا نہیں روک سکتی تھی کیونکہ وہ چھوٹی عمر سے ہی کشمالا کی بانسبت رباب کے پاس رہا تھا وہ ہفتے ہفتے بھر شہر میں شمروز اور رباب کے پاس رہ لیتا تھا


"بی بی سائیں آپ کا سامان باندھ دیا ہے جرگے سے فیصلہ آیا ہے سردار اکبر خان نے زریاب خان کے خون کے بدلے فیروز لالا کی بجائے آپ کو مانگا ہے"

شانو کی بات سن کر رباب خالی نظروں سے شانو کو دیکھنے لگی


آج فیصلے کے لیے جرگہ بیٹھا تھا جہاں اس کی قسمت کا فیصلہ ہوا تھا۔۔۔ وہاں پر ذریاب خان کے خون کے بدلے،، نکاح نامہ دکھاتے ہوئے،، رباب کو ذریاب خان کی بیوہ قبول کرتے ہوئے مانگا گیا تھا۔۔۔ شانو اس کے کپڑے بیگ نے رکھ چکی تھی کیونکہ سردار اکبر خان کا ڈرائیور باہر گاڑی میں رباب کے انتظار میں کھڑا تھا


"اپھو میں آپ کو کہیں نہیں جانے دوں گا، کیو کیا آپ نے یہ گناہ جس کی وجہ سے یہ لوگ آپ کو لے کر جا رہے ہیں"

ضیغم کو جب سے معلوم ہوا تھا کہ اس کی اپھو ہمیشہ کے لئے جانے والی ہے تب سے وہ رباب کے کمرے میں ہی موجود تھا اب وہ روتا ہوا رباب سے پوچھنے لگا


"میں نے گناہ نہیں کیا ضیغم، ،، غلطی سرزد ہوگئی تھی مجھ سے جس کی سزا دی جا رہی ہے مجھے۔۔۔ مجھ سے وعدہ کرو کہ تم آگے بہت سارا پڑھو گے اور اپنی اپھو کو کبھی غلط نہیں سمجھو گے میں سب کی آنکھوں میں نفرت دیکھ لو مگر تمہارے آنکھوں میں اپنے لیے نفرت نہیں دیکھ سکتی"

رباب کو معلوم تھا وہ اب اِس حویلی سے جارہی ہے مشکل ہی تھا کہ وہ واپس آتی


اس کے پیچھے سب لوگ ہی حقارت سے اسے اس کو پکاریں گے نفرت کیا کریں گے اس لیے وہ ضیغم سے وعدہ لیتی ہوئی اسے اپنے گلے لگاکر رو پڑی


"میں آپ کو نہیں جانے دوں گا آپ کو کوئی بھی نہیں لے جاسکتا"

ضیغم اور رباب دونوں گلے لگ کر رو رہے تھے جبکہ شانو رباب کا بیگ تیار کرکے وہی کھڑی تھی


"اے بی بی جلدی دفعان ہو یہاں سے باہر جو ڈرائیور تیرا انتظار کر رہا ہے وہ تیرے باپ کا نوکر نہیں ہے۔۔۔۔ اپنا گندا وجود لے کر نکل جا اس حویلی سے"

کشمالا رباب کے کمرے میں آ کر تحقیر امیز لہجے میں بولی اور ضیغم کو اس سے الگ کیا


کشمالا کے اس طرح بولنے پر رباب اسے افسوس سے دیکھنے لگی وہ جانتی تھی کشمالا اسے شروع سے ہی ناپسند کرتی تھی مگر اس قدر نفرت اس کے دل میں موجود تھی یہ آج اس کو معلوم ہوا تھا


"توبہ ہے بھئی گندے عمل کرکے ناجائز بچہ پیٹ میں رکھ کر کس قدر ڈھٹائی سے دیکھ رہی ہے اور تُو کیو رو رہا ہے اپنی اپھو کے لیے، اچھے کردار کی عورت نہیں ہے تیری اپھو چل اپنے کمرے میں"

کشمالا قہر برساتی نظروں سے رباب کو دیکھ کر روتے ہوئے ضیغم پر چیخنے لگی اور اسے کھینچتی ہوئی کمرے سے باہر لے گئی


اپنے سفید دوپٹے کو اچھی طرح سر پر جما کر وہ کمرے سے باہر نکلی شانو اس کا بیگ پکڑے رباب کے پیچھے چل رہی تھی پہلے رباب کے دل میں آیا کہ وہ اپنے بابا سائیں کو دیکھ لے مگر یہ سوچ کر وہ باہر نکل گئی، رخصت ہوتے وقت شمشیر جتوئی کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت شاید وہ برداشت نہ کر سکے گی


اتنا بڑا حادثہ اس کی زندگی میں پیش آ گیا تھا مگر اس کا بھائی شمروز جتوئی ابھی تک شہر سے یہاں نہیں آیا تھا بقول کشمالا کے کہ شمروز اب اس کی شکل دیکھنے کو تیار نہیں تھا رباب خاموشی سے باہر کھڑی گاڑی میں بیٹھ گئی


****

"کیا میں کوئی شوگر کی مریضہ دکھ رہی ہوں تیرے کو جو یہ پھیکی چائے لے کر آئی ہے میرے لیے"

رباب اپنا بیگ سمیت سرداروں کی حویلی میں داخل ہوئی تو اس کے کانوں میں پہلے تھپڑ کی آواز گونجی اور بعد میں نسوانی آواز مگر کرخت لہجے میں جملہ ادا کیا گیا۔۔۔۔ رباب کے قدم وہی تھم گئے سامنے ہال میں بڑے سے جھولے پر ایک ضعیف خاتون اپنی ملازمہ پر غُصّہ اتار رہی تھی


"اے لڑکی وہاں کیوں رک گئی ہے یہاں آ"

کبریٰ خاتون کی نظر رباب پر پڑی تو وہ کرخت لہجے میں اس سے گویا ہوئی،، اُن کو دیکھ کر رباب کی جان خشک ہونے لگی یقیناً وہ خاتون زریاب خان کی اماں حضور تھیں، جن کی طبیعت میں سختی کے بارے میں وہ زریاب خان نے اسے باتوں باتوں میں کئی بار بتایا تھا۔۔۔ رباب چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی ہوئی کبریٰ خاتون کے پاس پہنچی


"نام کیا ہے تیرا"

کبریٰ خاتون نے ایک نظر رباب کے جُھکے سر پر ڈالی اور پھر اس کے ہاتھ میں موجود بیگ پر


"رباب"

خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر تر کرتی ہوئی رباب مشکل بول پائی کبریٰ خاتون جھولے سے اُٹھ کر اُس کے سامنے آئی


"تیری وجہ سے میرے ذریاب نے اپنے سینے پر گولی کھائی ہے،، مار ڈالوں گی میں تجھے"

کبریٰ خاتون نے بولنے کے ساتھ ہی زوردار طماچہ رباب کے گال پر مارا جس سے اس کو اپنا دماغ سُن ہوتا ہوا لگا مگر وہ رباب کے منہ پر پڑنے والا ایک طماچہ نہیں تھا کبریٰ خاتون نے رباب کے بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر پے در پے اس کے منہ پر طمانچے مارنے شروع کر دیے


شور کی آواز سن کر زرین اپنے کمرے سے باہر نکلی سامنے کا منظر دیکھ کر وہ صورتحال فوراً سمجھ چکی تھی۔۔۔ کبریٰ خاتون کا ہاتھ روکنے کی گستاخی وہ ہرگز نہیں کرسکتی تھی اس لیے دوڑتی ہوئی سردار اکبر خان کے کمرے میں جا کر اُسے ساری صورتحال سے آگاہ کرنے لگی


شوہر کی آواز سن کر کبریٰ خاتون کا ہاتھ رکا تو رباب فرش پر بیٹھتی ہوئی رونے لگی۔۔۔۔ اس کے پورے بال بکھر چکے تھے دوپٹہ فرش پر پڑا تھا اور دونوں گال سرخ ہو رہے تھے۔۔۔ زرین اس کی حالت کے پیش نظر پانی کا بھرا گلاس اُس کے پاس لے کر آئی اور فرش پر اس کے پاس بیٹھ کر اُسے پانی پلانے لگی


"میرا زریاب اس لڑکی کی وجہ سے اپنی جان سے گیا ہے میں اس کو زندہ نہیں چھوڑوں گی"

کبریٰ خاتون سردار اکبر خان کے سامنے آ کر غُصّے میں بولی


"اِس نے جان نہیں لی تمہارے بیٹے کی نادان عورت، یہ بیوی ہے زریاب خان کی، اس حویلی کی عزت،، اس کے پاس نشانی موجود ہے ہمارے زریاب کی۔۔۔ خبردار جو آج کے بعد کسی نے اس کی طرف آنکھ اُٹھا کے دیکھا ہاتھ لگانا تو دور کی بات۔۔۔ زری بچے اِسے کمرے میں لے جاؤ"

سردار اکبر خان نے اپنی بیوی کو تنبہیہ کرنے کے بعد زرین کو مخاطب کیا۔۔۔ زریاب خان کو دفنانے کے بعد زرین اسماعیل خان کو زریاب خان اور رباب کے تعلق کی حقیقت سے آگاہ کر چکی تھی


****


"کیا کردیا آپ نے بابا سائیں، میرا انتظار تو کیا ہوتا آپ نے۔۔۔ ایسے کیسے رباب کو اُن لوگوں کے کہنے پر اُن کے حوالے کر دیا۔۔۔ نہ جانے وہ کیا سلوک کریں گے اب اس کے ساتھ"

شمروز جتوئی آج ہی حویلی پہنچا تھا اُسے طبیعت خرابی کی وجہ سے رباب کے بارے میں اطلاع نہیں دی گئی تھی اور جب آج اسے حقیقت معلوم ہوئی تو وہ شمشیر جتوئی کے سامنے اعتراض کرتا ہوا بولا


"وہ جو بھی سلوک کریں اس کے ساتھ وہ اسی سلوک کی مستحق ہوگی۔۔۔ تم نے یہ نہیں دیکھا اس نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔۔۔ کس طرح ہماری عزت مٹی میں ملا دی، پگڑی اچھالنے چلی تھی ہمارے ہی دشمن کے ساتھ بھاگ کر"

فیروز جتوئی کمرے میں داخل ہوکر شمروز جتوئی کو دیکھ کر بولا


"وہ خطاوار تھی میں مانتا ہوں مگر کیا ضروری تھا کہ فوری طور پر اس کو اور خاص کر زریاب خان کو اتنی سخت سزا دی جاتی۔۔۔ آرام سے بیٹھ کر سارے حقائق جاننے کے بعد ٹھنڈے دماغ سے بھی کوئی فیصلہ کیا جا سکتا تھا"

شمروز جتوئی فیروز جتوئی کو سمجھانے کے غرض سے بولا جو مشکل کام تھا۔۔۔ کیوکہ اس کا بھائی انسانی جان لے چکا تھا یقیناً ایسا کرتے وقت اس کے ہاتھ نہیں کانپے ہوگیں


"بد چلنی کے فیصلے ٹھنڈے دماغ سے نہیں کیے جاتے شمروز اور خطاکار سزا کا ہی مستحق ہوتا ہے۔۔۔ تم اپنی سوچ ہم پر مت تھوپو"

اب کی بار شمشیر جتوئی اپنے چھوٹے بیٹے کو دیکھتا ہوا بولا


"بد چلن مت کہیے اسے بابا سائیں نکاح کیا تھا اس نے زریاب خان سے، وہ دونوں اپنے نکاح کا ثبوت نہیں دے پائے بروقت بدقسمتی سے، ویسے بھی میں یہاں کسی پر اپنی سوچ تھوپنے والا کون ہوتا ہوں، ہونا تو وہی ہوگا اس حویلی میں جو آپ چاہتے ہیں۔۔۔ کیا میں جان سکتا ہوں دل آویز اور پلورشہ کی شادیاں اتنی جلدی کیوں کی جارہی ہیں ابھی تو وہ دونوں نویں جماعت کی طلبہ ہیں"

شمروز جتوئی کو کشمالہ سے یہ بات معلوم ہوئی تھی تو اُسے بڑی حیرت ہوئی


"دیکھ تو لیا ایک کو پڑھانے کا انجام مجھ میں اب اور ذلّت سہنے کی ہمت نہیں ہے۔۔۔ بالغ ہیں دونوں بچیاں اچھا ہے کہ اپنے اپنے گھر کی ہو جائیں۔۔۔ اس طرح ان کی بھی عزتیں محفوظ رہیں گی اور ہماری بھی"

شمشیر جتوئی ایک بار پھر گویا ہوا فیروز جتوئی کے انداز سے لگ رہا تھا وہ باپ کا ہی ہم خیال ہے۔۔ شمروز جتوئی خاموش کر کے شمشیر جتوئی کے کمرے سے نکل کر ضیغم کے کمرے میں چلا آیا رباب کے حویلی سے جانے کے بعد وہ کافی بیمار پڑ چکا تھا


****


"دادی حضور اب میں اسکول نہیں جاونگا۔۔۔ کلاس میں شفیق مجھے تنگ کرتا ہے اور آج اس نے مجھے مارا بھی تھا"

تیمور خان شام میں کبریٰ خاتون کے پاس آیا اور جھولے میں بیٹھی اخبار پڑتی کبریٰ خاتون کو بولنے لگا


"کیا سردار اکبر خان کا پوتا کسی لڑکے کے ڈر سے اسکول نہیں جائے گا۔۔۔ تو سرداروں کی اولاد ہے نڈر بن، یوں بزدلوں کی طرح گھر بیٹھ کر اس لڑکے کی شکایت لگانے کی بجائے کل اسکول جا اور اسکا سر پھاڑ کر آ، کوئی کچھ بھی بولے تو میں تیرے ساتھ چلو گی اسکول"

کبریٰ خاتون اپنے پوتے کو بولتی ہوئی اخباع تہہ کرنے لگی


وہ اکثر تیمور خان کو اِسی طرح نڈر اور طاقت ور بننے کا سبق پڑھاتی جو زرین کو سخت ناگوار گزرتا مگر وہ کبریٰ خاتون کے آگے کچھ بھی بولنے کی گستاخی نہیں کرسکتی تھی


"اے لڑکی کدھر جا رہی ہے یہاں آ"

سات مہینے ہوچکے تھے رباب کو یہاں آئے ہوئے مگر کبریٰ خاتون اُس کو ابھی تک اے لڑکی کہہ کر مخاطب کیا کرتی تھی


"جی اماں حضور"

رباب کبریٰ خاتون کے پاس آتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی۔۔۔ آج صبح سے ہی اُسے اپنی طبیعت میں کچھ خرابی لگ رہی تھی مگر وہ کسی سے کچھ کہے بغیر روزمرہ کے کام انجام دے رہی تھی


"رات کی روٹی بنائی تُو نے"

کبریٰ خاتون اس کی زرد رنگت کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی


"وہی بنانے جا رہی تھی"

رباب آہستہ سے انہیں بتانے لگی


"بعد میں بنالے پہلے ذرا تیل کی شیشی لے کر آ، مالش کر میرے سر میں"

کبریٰ خاتون اس پر حکم صادر کرتی ہوئی بولی تو رباب آئستہ قدم اٹھاتی ہوئی تیل کی شیشی لینے چلی گئی


اس دن کے بعد سے کبریٰ خاتون نے رباب پر ہاتھ تو نہیں اٹھایا تھا مگر اسکی حالت کو نظر انداز کر کے وہ اس سے سخت اور محنت کش کام لیتی، جس پر زیادہ تر نظر بچا کر زرین اس کے حصّے کا کام کر دیتی


کبریٰ خاتون کے برعکس گھر کے دوسرے افراد رباب سے اچھے طریقے سے پیش آتے،، زرین کی رباب سے کافی دوستی ہوچکی تھی، کھبی کھبی وہ دونوں ہی گھنٹوں زریاب خان کی باتیں کیا کرتیں۔ ۔ رباب کو اکثر اپنا بھتیجے ضیغم یاد آتا، وہ تیمور خان میں اُس کو ڈھونڈتی، تیمور خان کو اپنے پاس بلاتی مگر وہ بدتمیزی سے رباب کو جھڑک دیتا شاید اس پر کبریٰ خاتون کی تربیت کا اثر تھا یا وہ بھی کبریٰ خاتون کی طرح اسے سخت ناپسند کرتا تھا


****


آج اتفاق سے سردار اکبر خان اور سردار اسماعیل خان دونوں ہی شہر گئے ہوئے تھے، صبح 6 بجے جب زرین کی آنکھ کھلی تو اُسے رباب کے کمرے سے کرہانے کی آوازیں آنے لگی جب وہ رباب کے کمرے میں گئی تو رباب بیڈ پر لیٹی ہوئی درد سے بری طرح کراہ رہی تھی


"رباب۔۔۔ رباب کیا ہوا"

زرین رباب کے کمرے میں اس کے پاس آتی ہوئی پوچھنے لگی


"بھابی میں نہیں بچو گی مجھے لگ رہا ہے میں مر جاؤں گی"

رباب تکلیف میں روتی ہوئی زرین سے بولی


"پاگل ہو گئی ہو کیا، کچھ نہیں ہوگا سب ٹھیک ہو جائے گا میں ابھی اماں حضور کو بتا کر، ڈرائیور سے کہہ کر تمہیں اسپتال لے کر چلتی ہوں"

زرین اس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے تسلی دیتی ہوئی کبریٰ خاتون کے کمرے میں جانے لگی


"اماں حضور۔۔۔ اماں حضور رباب کی طبیعت بگڑتی ہوئی محسوس ہورہی ہے میں ڈرائیور کے ساتھ اسے ہسپتال لے جاتی ہو"

زرین گھبراتی ہوئی کبریٰ خاتون کے کمرے میں آکر بولی تو وہ آنکھیں کھول کر نیند سے بیدار ہوئی


"کوئی ضرورت نہیں ہے اسپتال جانے کی، کوئی مرد گھر پر موجود نہیں ہے۔۔۔ مختاراں کو بول دو وہ نوری (دائی) کو بلا لے گی"

کبریٰ خاتون کی بات سن کر زرین حیرت سے انہیں دیکھنے لگی


"اماں حضور رباب کی واقعی حالت بگڑ ہے خدارا اسے ہسپتال لے جانے دیں وقت بہت کم رہ گیا ہے"

زرین کبریٰ خاتون کو دیکھ کر ان کے آگے منت کرتی ہوئی بولی


"زری تُو میری نیند خراب کر چکی ہے، اب میرا دماغ مت خراب کر۔۔۔ وہ کوئی انوکھا بچہ نہیں پیدا کر رہی ہے، جا جا کر مختاراں کو بول وہ نوری کو لے آئے گی"

اب کی بار کبریٰ خاتون سخت لہجے میں بولی تو زرین اس پتھر دل عورت کو دیکھ کر کمرے سے باہر نکل گئی


****


"بھابھی ایک آخری بات مانیں گی میری"

آدھے گھنٹے پہلے ہی رباب نے ایک صحت مند بچی کو جنم دیا تھا مگر اس کی حالت سنبلھنے میں نہیں آرہی تھی نوری بھی ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا مشورہ دے کر خود جا چکی تھی تبھی رباب زرین سے بولی


"آخری بات کیوں ہزار باتیں مانو گی تم بولو تو سہی"

بچی کی پیدائش کے بعد زرین نے جب کبریٰ خاتون کو دوبارہ اس کی حالت بتائی تو اب کی بار اس نے رباب کو اسپتال لے جانے کی اجازت دے دی تھی مگر اب رباب اسپتال نہیں جانا چاہتی تھی


"ہزار باتوں کے لیے تو لمبی زندگی چاہیے ہوتی ہے میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے"

رباب اپنے برابر میں بیڈ پر لیٹی ہوئی ننھی منی سی اپنی بیٹی کو دیکھ کر بولی


"تم فضول باتیں مت کرو، ورنہ مار کھاؤ گے مجھ سے،، میں نے بیگ تیار کرلیا ہے ڈرائیور آنے والا ہوگا ہم دونوں تھوڑی دیر میں اسپتال چلیں گے"

زرین اسے ڈانٹتی ہوئی بولی اور اس کی سرخ وسفید بیٹی جو کہ کمبل میں لپٹی ہوئی کوئی نرم و نازک گڑیا لگ رہی تھی اسے گود میں اُٹھا کر پیار کرنے لگی


"ہسپتال جانے کا وقت نہیں رہا ہے، ذریاب انتظار کر رہے ہیں میرا۔۔۔ مگر میں ان کے پاس جانے سے پہلے ایک بار اپنے بابا سائیں اور فیروز لالا سے ملنا چاہتی ہوں۔ ۔۔غلطی تو کی تھی ناں میں نے ان کا بھروسہ توڑ کر انہیں دیکھ کر ان سے ایک بار معافی مانگ لوں پھر بیشک۔۔۔۔ پلیز میرے گھر فون کرکے بابا سائیں اور لالا کو یہاں بلوا لیں"

بولنے کے ساتھ ہی رباب رونے لگی تو زرین کو بھی رونا آگیا


****


لوگوں کی بے حسی دیکھ کر زرین کو رونا ہی آنے لگا تھا سردار اکبر خان سے اجازت ملنے کے بعد، رباب کے بتائے ہوئے نمبر پر زرین نے کال ملائی تو فون رباب کی بھابھی کشمالا نے اٹھایا اور رباب کی حالت سننے کے باوجود اس نے زرین کو جھڑک کر فون رکھ دیا۔۔۔ رباب کے بارے میں اس نے ایسی زبان استعمال کی کہ زرین رباب کو کچھ بھی بتا کر اس کا دل نہیں دکھانا چاہتی تھی۔۔۔ وہ کافی دیر سے رباب کے کمرے میں نہیں جا رہی تھی کہ رباب کی منتظر نظروں کو دیکھ کر وہ اُسے کیا جواب دیتی


تب اسکول یونیفارم میں مبلوس دس سالہ بچہ حویلی کے اندر داخل ہوا


"بیٹا کون ہو آپ؟ کس سے ملنا ہے"

زرین اس بچے کو دیکھ کر پوچھنے لگی


وہ تیمور خان کا دوست ہرگز نہیں تھا اور تیمور خان تو خود اس وقت اسکول میں موجود تھا


"ضیغم جتوئی نام ہے میرا، کیا میں اپنی اپھو سے مل سکتا ہوں"

وہ بچہ زرین سے پوچھنے لگا تو زرین مسکرا کر ضیغم کو رباب کے کمرے میں لے گئی اور شکر ادا کیا کہ اِس وقت کبریٰ خاتون اپنے کمرے میں سو رہی تھی


****


"مجھے معلوم ہے بابا سائیں یا لالا میں سے کوئی آئے نہ آئے مگر میرا بیٹا میرے پاس ضرور آئے گا اپنی اپھو کے پاس"

رباب ضیغم کا ہاتھ چوم کر مسکراتی ہوئی اُس سے بولی


اسے ہرگز یقین نہیں تھا اس کا بھتیجا اسے ملنے آسکتا ہے وہ خوش تھی


"اپھو آپ کو کیا ہوگیا ہے آپ میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلیں، غلام (ڈرائیور) باہر ہی کھڑا ہے"

ضیغم رباب کو دیکھ کر پریشان ہو گیا تھا اس کی اپھو تو بلکل پہلے جیسی نہیں رہی تھی وہ بار بار اس ننھی منی سی گڑیا کو بھی دیکھ رہا تھا جو کمبل میں لپٹی ہوئی سو رہی تھی


"ڈاکٹر کے پاس جانے کا وقت ختم ہوگیا ہے بس میری ایک بات ماننا گھر جاکر بابا سائیں فیروز لالا اور شمروز لالا کو بتانا کے رباب آپ لوگوں کو بہت پیار کرتی ہے اور وہ سب مجھے معاف کر دیں، بتاؤ کہو گے نا"

رباب ضیغم کا ہاتھ پکڑ کر اس سے پوچھنے لگی وہ اپنی اپھو کو یہ نہیں بتا سکا کہ حویلی میں رباب کا نام تک نہیں لیا جاتا بلکہ وہ خود صبح اپنی ماں کو فون پر باتیں سناتا دیکھ کر اسکول جانے سے پہلے ہمت کرتا ہوا دشمنوں کے گھر چلا آیا تھا۔۔۔ اگر یہ بات گھر میں کسی کو معلوم ہو جاتی تو اسے سخت سزا دی جاتی


"اپھو یہ آپ کی گڑیا ہے میں اسے چھو کر دیکھ لو"

ضیغم رباب کی بات کا جواب دیئے بغیر رباب کی توجہ دوسری طرف مندمل کرتا ہوا بولا جس پر رباب نے مسکرا کر سر ہلایا،، ضیغم سرخ سفید گول مٹول سی بچی کو غور سے دیکھنے لگا


"اپھو اُس کا نام کیا ہے"

ضیغم ننھی منھی سی گڑیا کو دیکھ کر رباب سے پوچھنے لگا۔۔۔ تب ہی کمرے میں زرین بھی چلی آئی


"تم بتاؤ کیا رکھو اس کا نام"

رباب بیڈ پر لیٹی ہوئی اپنے بھتیجے سے پوچھنے لگی جو اسکی ننھی منی بیٹی کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہا تھا


"روشانے۔۔۔ آپ اس کا نام روشانے رکھنا اور میں اسے پیار سے روشی کہہ کر بلاؤں گا"

ضیغم کی بات سن کر رباب افسردگی سے مسکرا دی پھر اس نے زرین کو دیکھا جو مسکراتی ہوئی اس کے پاس آئی تھی


"اور روشی آج سے میری بیٹی ہوگی"

زرین ننھی منی روشانے کو گود میں اٹھا کر رباب سے بولی


****

18 سال بعد


جنگل بیاباں میں وہ کافی دیر سے پیدل چلتا ہوا اب تھکنے لگا تھا بڑے بڑے قد آدم درخت بھی سورج کی تپش کو روکنے، اور چھاؤں پیدا کرنے کے لیے ناکافی تھے پسینے سے شرابور ہوتا ہوا وہ اپنا وجود کھسیٹتا ہوا آگے بڑھے جا رہا تھا۔۔۔ دھوپ کی تپش اس کے پورے جسم کو جھلسا رہی تھی


تب اچانک وہ سامنے سے چلتی ہوئی اس کے پاس آنے لگی، وہ اس لڑکی کو دیکھ کر چونکا تھا جو اس ویران جنگل میں سبز رنگ کے آنچل سے اپنا چہرہ چھپائے اس کے قریب آرہی تھی۔ ۔۔ وہ اُس لڑکی کو دیکھ کر وہی رک گیا تھا،، جیسے جیسے وہ اس کے قریب آرہی تھی سورج اپنی تپش کا اثر کم کرتا جارہا تھا یا پھر وہ خود اپنے آپ کسی ٹھنڈی چھاوں میں کھڑا محسوس کررہا تھا۔۔۔۔ اس کا سارا دھیان وہ لڑکی اپنی طرف مندمل کر چکی تھی جس نے آنچل سے اپنا چہرا چھپایا ہوا تھا،، وہ طرف اس کی خوبصورت کالی گہری آنکھیں دیکھ سکتا تھا


وہ لڑکی چند قدم کے فاصلے پر آکر رک گئی اور اُسے دیکھنے لگی۔ ۔۔۔۔ شاید باقی کا فاصلہ اسے طے کرنا تھا وہ کسی ٹرانس کی کیفیت میں قدم بڑھاتا ہوا اُس لڑکی کے پاس پہنچا جو مقناطیس کی طاقت رکھے اُسے اپنے طرف کھینچ رہی تھی۔۔۔ اس لڑکی کا سحر اُس پر طاری ہوا جا رہا تھا،، وہ بے خود سا اس لڑکی کو دیکھے گیا۔۔۔ وہ لڑکی مکمل طور پر اسکے حواسوں پر سوار ہوچکی تھی


تب اس کے دل میں شدت سے یہ خواہش ابھری کہ وہ اس لڑکی کے چہرے سے آنچل ہٹا کر اس کا چہرے دیکھے۔۔۔ اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اس لڑکی کے چہرے سے نقاب ہٹانا چاہا تبھی اُس جنگل میں ایک بھیانگ آواز نے شور برپا کیا۔۔۔۔ اُس نے بےاختیار مڑ کر جنگل میں چاروں طرف اپنی نظریں دوڑائی مگر دور دور تک اسے بڑے بڑے درختوں کے سوا کچھ نظر نہیں آیا


اُس نے دوبارہ اُس لڑکی کی طرف مڑ کر دیکھا مگر وہ لڑکی اب اس کے قریب نہیں بلکہ چند قدم کے فاصلے پر کھڑی تھی۔ ۔۔۔ اُس نے دوبارہ اس لڑکی کے پاس جانا چاہا تب وہ لڑکی انکار میں سر ہلاتی اُس سے مزید دور جانے لگی،، انچل سے جھانگتی اسکی گہری سیاہ آنکھوں میں وہ اداسی کو صاف محسوس کرسکتا تھا


"رکو پلیز"

اسکو ایک بڑے سے درخت کی اڑھ میں جاتا دیکھ کر وہ بےساختہ بولا اور بھاگتا ہوا اس درخت کے پاس پہنچا مگر اب وہاں وہ لڑکی موجود نہیں تھی


اُس لڑکی کے جاتے ہی ایک بار پر سورج کی تپش اس کے وجود کو جُھلسانے لگی۔۔۔ ایک بار پھر وہ تھکنے لگا۔ ۔۔۔ اس کے دل نے شدت سے دعا کی کہ وہ لڑکی ایک بار پھر اس کے سامنے آجائے دور کہیں سے آذان کی آوز اس کے کانوں میں گونجی


آنکھ کھلنے پر اُس کا خواب ٹوٹا تو دور کہیں سے فجر کی اذان کی آواز اس کے کانوں میں آرہی تھی وہ کل ہی حویلی پہنچا تھا کیونکہ آج آرزو کی سالگرہ تھی بے شک اس کی شادی ہو چکی تھی مگر اُسے معلوم تھا آرزو اس کا انتظار کر رہی ہوں گی، رات میں وفا سے موبائل پر بات کرتے کرتے اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔۔۔ وہ بیڈ پر لیٹا ہوا ہے ابھی بھی اپنے خواب کے بارے میں سوچ رہا تھا


*****


طبلے کی تھاپ پر ناچتے تھرکتے وجود کو نشیلی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد وہ اُٹھ کر باہر بیٹھے ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ کرتا ہوا اپنی گاڑی میں بیٹھا۔۔۔ چند دنوں پہلے ہی اُسے اس کے دوستوں نے یہاں کا راستہ دکھایا تھا اور شراب کی عادت تو نہ جانے کتنی پرانی تھی یہ اسے خود بھی یاد نہیں تھا


البتہ مینا بائی کہ ہاں اپنا شرف بخشنے کے باوجود اس نے فل الحال اپنا رجحان ناچنے گانے والیوں تک رکھا تھا اس سے آگے وہ خود نہیں بڑھا تھا


"خان گھر آگیا ہے" ڈرائیور کے بولنے پر تیمور خان نے اپنی بند آنکھیں کھولیں اور ڈرائیور کو دیکھتا ہوا گاڑی سے اُتر کر حویلی کے اندر داخل ہوا اس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے، عموماً 10 بجے تک سب اپنے اپنے کمروں میں سو چکے ہوتے


تیمور خان اپنے کمرے میں جانے سے پہلے روشانے کے کمرے کا بند دروازہ دیکھنے لگا دروازے کے نیچے سے آتی ہوئی روشنی پتہ دے رہی تھی کہ وہ ابھی تک جاگ رہی ہے، تیمور خان کے قدم خود بخود روشانے کے کمرے کی طرف اُٹھے


****


بند رجسٹر پر قلم رکھتی ہوئی وہ کوفت بھری نظروں سے دودھ سے بھرا گلاس دیکھنے لگی۔۔۔ دودھ پینے سے اُسے جتنی چڑ تھی زرین اسے بلاناغہ روز سونے سے پہلے دودھ کا بھرا گلاس پینے کے لیے دیتی۔ ۔۔۔ یہ سلسلہ اس کے شہر جانے پر ترک ہو چکا تھا مگر جب وہ چھٹی پر حویلی آتی زرین اُسے دودھ سے بھرا گلاس دینا نہیں بھولتی۔۔۔ دودھ کے گلاس سے اس کی نظر دیوار پر ٹنگی گھڑی پر گئی،، اس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے وہ اتنی دیر تک جاگنے کی عادی نہیں تھی مگر آج ہی اسے اسائنمنٹ مکمل کرنا تھا کیونکہ کل صبح اُسے ڈرائیور کے ساتھ شہر نکلنا تھا بائی روڈ آرام سے چار سے پانچ گھنٹے لگ جاتے،، اس کے بعد اُسے کالج جا کر اپنا اسائمنٹ جمع کروانا تھا


کبھی کبھی وہ اپنی ذات کے بارے میں سوچتی تو اُسے شدید حیرت ہوتی اتنا صبر اور اتنی برداشت کا مادہ آخر اُس میں کہاں سے آیا تھا شاید اپنی ماما سے۔۔۔ (تائی ماں) زرین اُسے رباب کے بارے میں یہی بتاتی کہ اس کی ماما بہت صابر عورت تھی جو اس کو پیدا کرنے کے چند گھنٹے بعد دنیا سے چلی گئی تھی۔۔۔ روشانے نے کبھی اتنی ماما کو نہیں دیکھا تھا بقول زرین کے کہ وہ خود ہو بہو بنی بنائی اپنی ماما جیسی تھی


بے شک ماں کی کمی کوئی نہیں پوری نہیں سکتا تھا لیکن زرین نے اسے ماں بن کر پالا تھا اور جوان کیا تھا۔۔۔ سردار اسماعیل خان بھی اس سے محبت کرتا مگر برملا محبت جتاتا نہیں تھا جبکہ اس کی دادی حضور (کبریٰ خاتون) بچپن سے ہی اُس کو آنکھوں میں رکھتی اور ڈانٹ پھٹکار کرتی۔۔۔ اُن کا سارا پیار اپنے پوتے تیمور خان کے لئے تھا۔۔۔ سردار اکبر خان اُس سے محبت کرتے تھے مگر جب وہ آٹھ برس کی تھی تو وہ انتقال کر چکے تھے البتہ ژالے سے اس کی خوب دوستی تھی مگر پھر بھی وہ اسکی جیسی دلیر نہیں تھی


اپنی ماں کے رشتہ داروں سے وہ کبھی نہیں ملی تھی نہ ہی اُس نے کسی کو دیکھا تھا۔۔۔ روشانے کو بچپن سے ہی معلوم تھا اس کا ننھیال اس کے خاندان کا دشمن قبیلہ ہے۔۔۔ کبریٰ خاتون کے بعد ایک تیمور خان تھا جس سے وہ ڈرتی تھی یا جو بچپن سے ہی اُسے خوفزدہ رکھتا تھا


بلکہ سال بھر پہلے سے تو وہ اُسے اور بھی زیادہ اپنی باتوں سے ڈرانے لگا تھا۔۔۔ اس کی عجیب عجیب سی باتیں اور بہکی ہوئی نظریں روشانے کو خوف میں مبتلا رکھتی۔۔۔ وہ چاہ کر بھی یہ بات زرین یا ژالے سے شیئر نہیں کر سکی تھی۔۔۔۔ اسی وجہ سے اُس نے ایک دن سردار اسماعیل خان سے ہمت کرکے شہر جا کر پڑھنے کی اجازت مانگی۔۔۔ کبریٰ خاتون کی مخالفت کے باوجود، سردار اسماعیل خان نے اس کے حق میں فیصلہ دیا اور اس کا شہر جاکر کالج میں ایڈمیشن کروایا اور رہائش کے لیے ہوسٹل اسکے لیے منتخب کیا گیا۔۔۔


جس دن اُسے کالج کے لیے شھر جانا تھا روشانے بہت خوش تھی اُس رات تیمور خان اس کے کمرے میں آیا تھا اور اسے اچھی طرح باور کروایا تھا وہ کالج میں کوئی دوست نہیں بنائے گئی نہ ہی کسی سے زیادہ باتیں کرے گی۔۔۔ دروازے کی دستک پر روشانے کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا


"اس وقت کون ہو سکتا ہے"

روشانے سوچتی ہوئی بیڈ سے اٹھی اور دوپٹہ اوڑھتی ہوئی دروازہ کھولنے لگی۔۔۔ مگر سامنے تیمور خان کو کھڑا دیکھ کر وہ چونک گئی۔۔۔ تیمور خان پورا دروازہ کھول کر کمرے کے اندر داخل ہوا روشانے نے جلدی سے اپنا دوپٹہ سر پر اوڑھا


"دروازہ بند کر دو"

تیمور خان بیڈ پر لیٹتا ہوا روشنانے کو دیکھ کر بولا وہ تیمور خان کو دیکھنے لگی مگر تیمور خان کے غصے میں آنکھیں دکھانے پر وہ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے دروازہ بند کرنے لگی


"یہاں آؤ"

تیمور خان نے دوسرا حکم صادر کیا بھلے روشانے اس کا حکم کیسے ٹال سکتی تھی کبریٰ خاتون نے بچپن سے ہی اسے تیمور خان کی ہر بات ماننے کو کہا تھا۔۔۔ روشانے چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی ہوئی بیڈ کے قریب آئی


"جوتے اتارو میرے"

بیڈ پر رکھے ہوئے نوٹس کو دیکھتا ہوا وہ روشانے سے بولا


تیمور خان کی آواز پر روشانے خاموشی سے اُس کے پیر سے جوتے اتارنے لگی یہ کام اُسے عجیب نہیں لگا تھا کیوکہ یہ کام اس نے پہلی بار نہیں کیا تھا وہ بچپن سے ہی روشانے سے اپنے جوتے اترویا کرتا،، روشانے نے جوتے اتار کر فرش پر رکھے جب تیمور خان نے ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنے پاس آنے کے لیے کہا


روشانے خوفزدہ ہوکر تیمور خان کو دیکھنے لگی اس کے چہرے پر خوف دیکھ کر تیمور خان کے لبوں پر مسکراہٹ آئی یہی وہ خوف تھا جو بچپن سے وہ روشانے کی آنکھوں میں دیکھتا آیا تھا اور ہمیشہ دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔۔ وہ چاہتا تھا روشانے اس سے ساری زندگی اسی طرح خوفزدہ رہے


"سمجھ میں نہیں آیا تمہیں پاس بلا رہا ہوں میں یہاں آؤ"

اب کی بار تیمور خان نے آنکھیں دیکھا کر غُراتے ہوئے کہا روشان مرے قدموں سے چلتی ہوئی اس کے پاس آئی تیمور خان نے روشانے کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس بٹھایا تو روشانے مزید سہم گئی


"کل رات جب میں نے تمہیں سب کے سونے کے بعد اپنے کمرے میں آنے کا حکم دیا تھا تو کیوں نہیں آئی تھی میرے کمرے میں"

وہ بیڈ پر لیٹا ہوا دوپٹے سمیت روشانے کے بال مٹھی میں جگڑ کر روشانے کا چہرہ اپنے قریب لا کر اس سے پوچھنے لگا


"خان پلیز"

تیمور کے منہ سے آتی شراب کی بدبو سے روشانے کو قہہ کا احساس ہونے لگا وہ اپنے بالوں کو تیمورخان کہ ہاتھ کی مٹھی سے آزاد کرواتی ہوئی پیچھے ہٹ کر بولی


"خان کی بچی، بہت پر نکل آئے ہیں تیرے۔۔۔ کیا لگ رہا ہے تجھے،، پڑھنے لکھنے کے بہانے شہر جاکر تُو مجھ سے بچ جائے گی۔۔۔ چھوڑ دوں گا میں تجھے،، بول لے جاؤ تجھے اسی وقت اپنے کمرے میں اٹھا کر۔۔۔ کوئی کیا بیگار لے گا میرا۔۔۔ بول"

تیمور خان شراب کے نشے میں غصے میں بولتا ہوا بیڈ سے اٹھ کر بیٹھا روشانے کے بالوں کو دوبارہ مٹھی میں جکڑ کر وہ اس پر جھکنے لگا تو روشانے پیچھے سرکتے ہوئے بیڈ کر گر گئی


"میں کچھ نہیں بگاڑ سکتی آپ کا خان، میری کیا اوقات ہے بھلا۔۔۔ خدارہ میرے پر رحم کریں"

وہ روتی ہوئی اُس کے آگے ہاتھ جوڑ کر بولی پہلے وہ روشنانے کو صرف اپنی باتوں سے ڈراتا تھا مگر آج تو شراب کے نشے نے حد ہی کر چکا تھا


"اپنا اور میرا نام کیوں مٹایا اس کتاب سے"

شاید اسے روشانے پر ترس آگیا تھا تبھی اسے بٹھا کر اس کے نوٹس سامنے رکھتا ہوا پوچھنے لگا


پہلی بار جب وہ چھٹیوں پر حویلی آئی تھی تب تیمور خان نے اس کے نوٹس پر اپنا اور روشانے کا نام لکھا جو کہ بعد میں روشانے مٹا دیا تھا۔۔۔ وہ کبھی آگے زندگی میں اپنے نام کے ساتھ تیمور خان کے نام کو دیکھنا نہیں چاہتی تھی


"میں دوبارہ لکھ دیتی ہو"

روشانے اُس کے غُصب سے بچنے کے لیے خوفزدہ ہوکر بولی۔۔۔ جلدی سے قلم اُٹھا کر روتی ہوئی اپنا اور تیمور خان کا نام لکھنے لگی۔۔۔ جب اس نے اپنا اور تیمور خان کا نام لکھا۔ ۔۔ تو تیمور خان نے اس کے ہاتھ سے قلم لے کر سختی سے دوسرے ہاتھ سے روشانے کا منہ دبوچا


"خان کے علاوہ کسی دوسرے کا خیال تک اپنے دماغ میں مت لانا روشانے۔ ۔۔ تیمور خان کا ہی نام تمہارے مقدر میں لکھا جاچکا ہے اب تمہیں اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی گزارنی ہے"

تیمور خان ایک بار پھر اسے باور کرواتا ہوا اس کے کمرے سے باہر نکل گیا ‏روشانے نے جلدی سے اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے لاک لگایا اور شکر ادا کرنے لگی کہ تیمور خان وہاں سے چلا گیا


اب اُسے نیند کیا ہی آنی تھی وہ بیڈ پر بیٹھ کر صبح ہونے کا انتظار کرنے لگی تاکہ شہر کے لیے نکل سکے


****


"واپس جانے کی تیاری کر رہا ہے"

ضیغم بیگ میں اپنے کپڑے رکھ رہا تھا کشمالا کی آواز پر پلٹ کر اسے دیکھنے لگا جو اس کے کمرے میں آتی ہوئی اُس سے پوچھ رہی تھی


"جی ماں، کل صبح چھ بجے شہر کے لیے نکلوں گا،،، 9 بجے تک آفس پہنچ جاؤ گا۔۔۔ شام تک ہی گھر پہنچنا ہوگا" ضیغم اپنے کپڑے بیگ میں رکھتا ہوا کشمالا کو اپنا پروگرام بتانے لگا


"پورے چار ماہ بعد چکر لگایا ہے تُو نے، وہ بھی صرف دو دن کے لیے۔۔۔ ابھی تو تجھے دیکھ کر میرا دل بھی نہیں بھرا تھا اور تجھے جانے کی لگ گئی"

کشمالا اُس کے پاس بیڈ پر بیٹھی ہوئی اداسی سے بولی ضیغم اپنا آخری ڈریس بیگ نے رکھ کر بیگ کی زپ بند کرتا ہوا بولا


"آرزو کی سالگرہ تھی تبھی یہاں آنے کا پروگرام بنا لیا مہینے بعد دوبارہ چکر لگاؤں گا تو پورا ہفتہ روکو گا آپ کے پاس"

بیگ کو ایک سائیڈ پر رکھ کر ضیغم کشمالا کا اداس چہرہ دیکھتا ہوا بولا


سہی تو یہ تھا کہ شمروز جتوئی اور اُسے اپنا آفس دوسری جگہ شفٹ کرنا پڑا تھا اور کچھ اسٹاف بھی چینج کیا تھا اُس لئے وہ دونوں ہی چند مہینوں سے کافی مصروف ہوگئے تھے، رمشا کو بھی شمروز سے مصروف ہونے کی شکایت رہنے لگی تھی


"یہ گولی کسی اور کو دے، میں ماں ہوں تیری خوب جانتی ہوں تجھے۔۔۔ اب تُو دو مہینے سے پہلے اپنا چہرہ نہیں دکھائے گا"

کشمالا ناراض نظروں سے ضیغم کو دیکھتی ہوئی بولی اُس کی بات سن کر ضیغم نے بے ساختہ قہقہہ لگایا


"نہیں گولی تو میں پچھلی بار دے کر گیا تھا، اب کی بار بالکل سچ بول رہا ہوں بلکہ چاچو بھی اس بار آنے کا کہہ رہے تھے میرے ساتھ"

ضیغم کی بات پر کشمالہ نے اپنا سر جھٹکا


"وہ تیری چچی آنے دی گی اسے، ڈیڑھ سال ہوگیا اُسے یہاں آئے ہوئے۔۔۔۔ نہ جانے کیسی عورت ملی ہے اپنے شوہر کو تو قابو میں کیا ہی تھا، میرا بیٹا بھی اسی کا ہو کر رہ گیا۔۔۔ اپنی ماں سے تو تجھے پیار ہی نہیں ہے ضیغم"

شاید وہ بہت مہینوں بعد اُسے دیکھ رہی تھی اور نہیں چاہتی تھی کہ ضیغم اتنی جلدی واپس جائے اس لیے اس سے شکوے پر شکوے کیے جا رہی تھی


شمروز جتوئی نے بارہ سال پہلے رمشا نامی لڑکی سے شادی کی تھی جو کہ سُلجھی ہوئی طبعیت کی مالک تھی شمروز کے دو بچے اسد اور وفا تھے۔۔۔ ضیغم بھی دس سال سے اب انہی کے ساتھ رہائش پذیر تھا۔۔۔ مہینے بعد ئی اس کا چکر لگتا۔۔۔ اس کی اپنی چچی سے کافی اچھی دوستی تھی ساتھ ہی اسد اور وفا بھی اُس سے کافی اٹیچ تھے


"کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ ماں،، چاچو اور میں بھلا کسی عورت کے قابو میں آنے والی شے لگتے ہیں آپ کو، چچی بیچاری چاچو کو کیا قابو کریں گی ان سے زیادہ تو نرم مزاج خاتون شاید ہی میں نے اپنی لائف میں دیکھی ہو۔۔۔۔ آپ ماں ہے میری، مجھے پیدا کیا ہے آپ نے، میں آپ سے زیادہ بھلا کسی اور سے محبت کر سکتا ہوں"

ضیغم کشمالا کی آنکھوں میں اداسی دیکھتا ہوا اس کے کندھے کے گرد بازو حائل کرتا ہوا کشمالا سے پوچھنے لگا


"اپنی آپھو سے تو تجھے مجھ سے زیادہ محبت تھی، اس کے لیے یو چھوٹی سی عمر میں دشمنوں کی حویلی پہنچ گیا تھا اُس سے ملنے کے لیے۔۔۔ وہ ابھی بھی زندہ ہوتی تو مجھ کو پورا یقین تھا تُو مجھ سے زیادہ اسی سے محبت کرتا"

کشمالا کی بات سن کر ضیغم ایک دم خاموش ہوگیا


"آپ آرام کریں مجھے کام ہے تھوڑا سا آفس کا"

کشمالا کے پاس سے اٹھ کر وہ اپنا لیپ ٹاپ لیتا ہوا وہ صوفے پر جا کر بیٹھ گیا


"ہاں معلوم ہے مجھے اس کا نام لوں گی تو تیرا منہ ہی بنے گا اور دل اداس ہو جائے گا،، نہ جانے مرنے سے پہلے کیا بول گئی،، لازمی کان بھرے ہوں گے اُس نے میرے خلاف"

کشمالا ضیغم کو دیکھتی ہوئی بولی


"ماں پلیز آپ یہاں سے جا رہی ہیں یا پھر میں چلا جاؤں"

ضیغم ایک دم غصے میں بلند آواز سے بولا


کشمالا اس کی آنکھوں میں غصہ اور لہجے میں سختی دیکھ کر خاموشی سے کمرے سے نکل گئی۔۔۔ یہی وجہ تھی وہ رباب کی موت بھی اس کے اندر سے کڑواہٹ کم نہیں کر پائی تھی دوسری طرف ضیغم لیپ ٹاپ صوفے پر رکھ کر سگریٹ کا پیکٹ اور لائیٹر اٹھاتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا


****

موبائل میں بچنے والے الارم کو بند کرکے وہ جلدی سے اٹھی اور اپنے کمرے سے باہر نکلی تاکہ روشانے کے حویلی سے نکلنے سے پہلے اُس سے جاکر مل لے۔۔۔ نیند کے مارے اس کی آنکھیں ابھی بھی بوجھل تھی،، جبھی اُسے سامنے سے آتا ہوا تیمور خان نہیں دکھائی دیا اور ژالے اس کے سینے سے جا ٹکرائی


"اپنی آنکھیں کیا کمرے میں رکھ کر باہر نکلی ہو تم"

تیمور خان جو کہ اپنے کمرے سے نکل کر اپنی ہی دھن میں چلا جارہا تھا بری طرح ژالے سے ٹکرایا،، ساتھ ہی ناگواری سے اُس کو دیکھتا ہوا بولا


"میں اپنی آنکھیں کمرے میں رکھو یا پھر بند کرکے چلو مگر تمہارا اپنے آپ کے بارے میں کیا خیال ہے چھوٹے خان صاحب۔۔۔ کبھی اپنی آنکھوں کو بھی سر سے نیچے اتار لیا کرو تاکہ سامنے سے آتا ہوا بندہ تمہیں بھی دکھائی دے"

ژالے اپنی ناک سہلاتی ہوئی تیمور خان کو دیکھ کر بولی، وہ روشانے سے صرف دو سال ہی بڑی تھی مگر پھر بھی تیمور خان کو تم کرکے مخاطب کیا کرتی تھی


"میں صبح صبح تمہارے منہ لگنا ضروری نہیں سمجھتا چلو اپنا راستہ ناپو"

تیمور خان بگڑے ہوئے تیوروں کے ساتھ ژالے کو دیکھتا ہوا بولا۔۔۔ کیونکہ وہ اُس سے بناء ڈرے الٹی سیدھی باتیں کیا کرتی تھی،، اور اسماعیل خان کی وجہ سے وہ ژالے کو کافی برداشت کرتا تھا


"بات تو تم ایسے کر رہے ہو جیسے لوگوں کو منہ لگانے کے اوقات مقرر کئے ہیں تم نے۔۔۔ منہ لگنا ضروری نہیں سمجھتے مگر جان بوجھ کر ٹکرانا ضروری سمجھتے ہو"

ژالے آخری جملہ منہ میں بڑبڑاتی ہوئی جانے لگی تبھی غُصّے میں تیمور خان نے اس کی کلائی پکڑی


"کیا بکواس کی ہے تم نے ابھی"

تیمور خان غضیلے لہجے میں ژالے سے پوچھنے لگا، وہ اکثر اُسے غُصہ دلایا کرتی تھی


"میں نے کیا بکواس کردی ابھی تم ہی نے تو بکواس کی ہے میرا مطلب ہے بولا ہے کہ اپنا راستہ ناپو میں تو اپنے راستے جا رہی ہو"

ژالے اس کے غُصے کی پرواہ کیے بغیر اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتی ہوئی بولی


"تم نے بولا میں تم سے جان بوجھ کر ٹکرایا ہو، اتنے بھی برے دن نہیں آئے ہیں تیمور خان کے ابھی"

تیمور خان اس کا ہاتھ چھوڑ کر استزائیہ ہنستا ہوا بولا


"انشاءاللہ وہ بھی بہت جلد آجائیں گا۔۔۔ بلکہ میری تو دعا ہے آج کی کوئی تمہیں چھٹی کا دودھ یاد کروا دے"

ژالے تیمور خان کو کہتی ہوئی فوراً وہاں سے بھاگ گئی جب کے تیمور خان ناگواری سے اُسے بھاگتا ہوا دیکھ کر سر جھٹک کر خود چلا گیا


ژالے سردار اسماعیل خان کے دوست کی اکلوتی بیٹی تھی جسے سردار اسماعیل خان اپنے دوست اور اسکی بیوی کے انتقال کے بعد حویلی لے کر آگیا۔۔۔ آٹھ سالہ ژالے بہت جلد سب سے مانوس ہو گئی تھی کبریٰ خاتون اور تیمور خان کے علاوہ۔۔۔


ژالے کی خالہ بھی موجود تھی، کبریٰ خاتون یا سردار اسماعیل خان کی اجازت سے مہینے دو مہینے بعد وہ اپنی خالہ سے ملنے جایا کرتی۔۔۔ بلوغت کی منزل طے کرنے کے ساتھ نہ جانے کب ژالے کا دل اس سے باغی ہوا جس کی ژالے کو خبر نہیں ہوئی۔۔۔ وہ دل ہی دل میں تیمور خان کو چاہنے لگی۔۔۔۔ مگر دل کی یہ بات وہ کسی کو بھی بتانے سے ڈرتی تھی


****


"امتحان کب شروع ہو رہے ہیں تمہارے" تیمور خان کار ڈرائیور کرتا ہوا روشانے سے پوچھنے لگا،، ڈرائیور کی بجائے وہ خود صبح ہی صبح روشانے کو ہاسٹل تک چھوڑنے نکل آیا تھا۔۔۔ روشانے پہلے بھی اس سے کبھی خود سے مخاطب نہیں کرتی تھی مگر وہ کل رات والے تیمور خان کے رویے سے خوفزدہ ہوگئی تھی


"دو ماہ بعد"

روشانے نے سرجھکائے اُسے مختصر سا جواب دیا


"اُس کے بعد خاموشی سے گھر بیٹھ جانا کوئی ضرورت نہیں ہے آگے بڑھنے کی"

تیمور خان ڈرائیونگ کرتا ہوا بولا تو روشانے سر اٹھا کر تیمور خان کو دیکھنے لگی


"ایسے کیا دیکھ رہی ہو مجھے، صحیح تو کہہ رہا ہوں مزید پڑھ لکھ کر کرنا کیا ہے تمہیں،، زیادہ پڑھائی ویسے بھی لڑکیوں کا دماغ خراب کرتی ہے اور میرے ساتھ آگے زندگی گزارنے کے لئے تمہیں اپنا دماغ درست رکھنا پڑے گا ورنہ تو تم مجھے اچھی طرح جانتی ہی ہو"

اب کی بار تیمور خان روشانے کو دیکھ کر بولا روشانے نے دوبارہ سر جھکا لیا وہ پلکیں جھپک کر آنکھوں کی نمی اپنے اندر اتارنے لگی


"اب ایسی تو کوئی بات نہیں کی تمہارے خان نے جو تم آنسو بہانے بیٹھ گئی۔۔۔۔ کہیں میری کل رات والی حرکت سے تو نہیں ڈر گئی"

تیمور خان اس کا جھکا ہوا سر دیکھ کر بولا اور گود میں رکھا ہوا روشانے کا نازک ہاتھ پکڑ کر پوچھنے لگا جبکہ اپنے دوسرے ہاتھ سے وہ اسٹیئرنگ وئیل گھما رہا تھا


"کل رات میں مینا بائی کے کوٹھے پر تھا وہاں دوستوں نے کچھ زیادہ ہی پلا دی اس لئے نشے میں تمہارے ساتھ بدسلوکی کر بیٹھا"

تیمور خان بالکل نارمل لہجے میں روشانے کو بتانے لگا جبکہ اس کی بات سن کر روشانے حیرت اور افسوس سے تیمور خان کو دیکھنے لگی


"اب تم سے تھوڑی نہ کچھ چھپاؤں گا، شادی تمہی سے کرنی ہے تو پھر تم سے کیسا پردا"

تیمور خان نے ابھی بھی اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا وہ اسے آنکھ مارتا ہوا بولا۔۔۔


وہ اپنا کارنامہ بنا کسی خوف یا شرمندگی کی خود اپنے منہ سے اُسے بتا رہا تھا۔۔۔ جس شخص کے ساتھ وہ چند لمحے نہیں گزار سکتی تھی پوری زندگی بھلا کیسے گزارتی روشانے کا دل چاہا وہ کار سے اتر جائے مگر وہ ایسا بھی نہیں کر سکتی تھی اس لئے تیمور خان سے اپنا ہاتھ چھڑوانے لگی مگر ایسا کرنے پر تیمور خان نے اس کا ہاتھ مزید سختی سے پکڑے رکھا


"خان پلیز میرا ہاتھ چھوڑیں"

روشانے ہمت جمع کرتی ہوئی اُس سے بولی


"خان نے تو تمہارا پیچھا قیامت تک نہیں چھوڑنا ہے تم اس ہاتھ کی بات کرتی ہو، ایک بار خان کے کمرے میں آجاؤ۔۔۔ پھر دیکھنا یہ خان تمہارے پر پُرزے کیسے کاٹتا ہے"

تیمور خان روشانے کی آنکھوں میں اپنے لیے ناپسندیدگی دیکھتا ہوا بولا جو اس کی مردانگی کو بری طرح ٹھیس پہنچا رہی تھی


وہ جانتا تھا روشانے اس سے بچنے کی خاطر پڑھائی کے بہانے شہر میں جائے پناہ تلاش کرتی ہے۔۔۔ تیمور خان اسے مزید زچ کرنے کے لیے ڈرائیونگ کے دوران روشانے کا ہاتھ اپنے ہونٹوں تک لے جانے لگا


"خان پلیز"

اس کی گھٹیا حرکت پر روشانے تقریباً چیختی ہوئی بولی۔۔۔ تب اچانک سامنے سے آتی ہوئی گاڑی تیمور خان کی گاڑی سے ٹکرا گئی


****


ضیغم شمروز جتوئی کی کال اٹینڈ کرتا ہوا ڈرائیونگ کے دوران اس سے بات کر رہا تھا۔۔ تب اچانک سامنے سے آتی ہوئی گاڑی کو دیکھ کر اس نے بریک لگائی مگر سامنے سے آتی ہوئی گاڑی اس کی گاڑی سے ٹکرا گئی


"اے کون ہے سالے تو آندھے کی اولاد"

تیمور خان گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلتا ہوا سامنے گاڑی والے پر چیخا


"کس کو اندھا بولا تم نے"

ضیغم اس فضول انسان کے چیخنے میں پر خود بھی گاڑی کا دروازہ کھول کر غُصے میں گاڑی سے باہر نکلا۔۔۔ اس نے تو بروقت بریک لگا بھی دی تھی جبکہ وہ شخص خود رونگ سائیڈ سے نہ صرف اپنی گاڑی لا رہا تھا بلکہ اس کی گاڑی کا بونٹ بھی ڈیمج کر چکا تھا


تیمور خان نے غور سے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا۔۔۔ سال بھر پہلے ہی تو اس نے اس شخص کو شہر میں دیکھا تھا تب نوشاد (ملازم) نے تیمور خان کو اس کے بارے میں بتایا تھا


"ضیغم جتوئی شمشیر جتوئی کا پوتا۔۔۔ یعنی میرے چچا زریاب خان کے قاتل کا بیٹا"

تیمور خان ضیغم کو دیکھتا ہوا بولا تو ضیغم کے غصے میں تنے ہوئی نقوش ڈھیلے ہوئے


وہ سمجھ گیا سامنے کھڑا شخص سردار اکبر خان کا پوتا ہے جس کے بارے میں صرف اس نے سنا ہی تھا کہ وہ کافی غضیلا اور بدتمیز طبیعت کا مالک ہے وہ آج اُسے پہلی بار دیکھ رہا تھا جب کہ گاڑی میں بیٹھی ہوئی روشانے گھبرا کر اس اجنبی شخص کو دیکھ رہی تھی جس کی گاڑی سے ٹکر ہونے سے کم از کم تیمور خان اپنی گھٹیا حرکت میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا اس نے سر پر اوڑھی ہوئی چادر سے اپنا منہ چھپایا۔۔۔ باہر آنے جانے میں یا کسی غیر مرد کی گھر میں موجودگی پر اکثر کبریٰ خاتون اسے چہرہ چھپانے کا حکم دیتی تھی


"یو پیٹھ دکھا کر کہا جارہا ہے، صرف دھوکے بازی اور پیٹھ پیچھے وار کرنے کی عادت ہے تم سالو کی۔۔۔ اس وقت بندوق میرے ہاتھ میں ہوتی تو ساری کی ساری گولیاں تیرے سینے میں اتار دیتا *** کی اولاد"


ضیغم تیمور خان کو دیکھ کر کچھ بولے بنا اپنی گاڑی کی طرف مڑا ہی تھا تو اسے تیمور خان کی آواز سنائی دی۔۔۔


ضیغم نے واپس آکر، اسکے گالی دینے پر زوردار مُکّا تیمور خان کے جبڑے پر جڑا،، اس کے منہ پر مُّکا مارنے کے بعد ضیغم کا ہاتھ نہیں رکھا تھا اس نے ایک کے بعد ایک مُکّا تیمور خان کے منہ پر مارنا شروع کر دیئے،، خود بھی اس کو دو تین بار تیمور خان کے مُکے پڑے مگر وہ اس پر بری طرح پِل پڑا تھا۔۔۔


صبح کی وجہ سے سڑک پر لوگ نہ ہونے کے برابر تھے اور جو لوگ موجود تھے وہ دور سے ہی تماشہ دیکھ رہے تھے کیونکہ وہ لوگ یہاں کے رہائشی تھے اور دونوں کو جانتے تھے اس لئے بیچ بچاؤ کروائے بغیر خاموشی سے تماشہ دیکھتے رہے


روشانے اپنا سانس روکے ہوئے سامنے تیمور خان اور اس اجنبی کو جانوروں کی طرح لڑتے ہوئے دیکھ رہی تھی مگر تھوڑی دیر بعد ہی وہ اجنبی تیمور خان کو مار مار کر اُس کے منہ سے خون نکال چکا تھا


"ہاتھ میں ہتھیار پکڑ کر اپنے آپ کو طاقتور سمجھنا دلیری نہیں ہوتی، سنا تھا کے سرداروں نے بہت خطرناک کُتے پالے ہیں مگر آج اندازہ ہوا۔۔۔ وہ کتے کاٹتے کم اور بھونکتے زیادہ ہیں"

گاڑی کے بونٹ پر بےسود پڑے تیمور خان پر ضیغم نے مُکّا مارتے ہوئے کہا تبھی اُس گاڑی میں سے ایک لڑکی باہر نکلی


"پلیز اُن کو چھوڑ دیں میں آپ سے معافی مانگتی ہوں غلطی ہماری تھی۔۔۔ ہماری کار کے ٹکرانے سے آپ کی کار کو نقصان پہنچا ہے"

روشانے نے جب دیکھا کہ تیمور خان بالکل ڈھیر ہو گیا ہے کوئی بھی آگے بڑھ کر اس شخص کو روک نہیں رہا تب وہ کھبرا کر گاڑی سے اُترتی ہوئی بولی


ضیغم تیمور خان کا گریبان چھوڑ کر بہت غور سے روشانے کو دیکھنے لگا یقیناً وہ اسکی اپھو کی بیٹی تھی وہی چہرہ وہی رنگ روپ وہی نین نقش وہ بالکل اپھو جیسی دکھتی تھی۔۔۔۔ اس کی پیدائش کے وقت ضیغم نے اسے دیکھا تھا اور اب 18 سال بعد دیکھ رہا تھا


روشانے نے دیکھا وہ اجنبی شخص اُسے کچھ بولے بنا بس گھورے چلے جا رہا تھا تو روشانے نے جلدی سے اپنی چادر سے چہرہ چھپایا جو گاڑی سے اترنے کے بعد جلدی میں بوکھلاہٹ کی وجہ سے چھپانا بھول گئی تھی


"جا کر گاڑی میں بیٹھو فوراً"

تیمور خان نے بھی ضیغم کا روشانے کو گھورنا محسوس کیا جبھی روشانے کو جھڑکتا ہوا بولا۔۔۔ روشانے جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئی ضیغم ایک نظر روشانے پر ڈال کر تیمور خان کو گھورتا ہوا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا


****


"کیا ضرورت ہے تمہیں بلاوجہ اس سے جھگڑنے کی،، فیروز لالا نے سال بھر پہلے بتایا تھا مجھے سردار اکبر خان کا پوتا کافی جھگڑالو اور بدتمیز ٹائپ کا ہے، ایسے لوگوں سے بلاوجہ الجنھا نہیں چاہیے"

شہر پہنچنے کے بعد ضیغم نے شمروز جتوئی کو رات میں سرسری انداز میں آج صبح والا قصّہ بتایا تو شمروز جتوئی اُسے سمجھاتا ہوا بولا


رباب کے جانے کے بعد ضیغم شمروز جتوئی سے کافی اٹیچ ہو گیا تھا اور یہ وابستگی شمروز جتوئی کی بیوی یا بچوں کو بالکل بری نہیں لگتی تھی وہ اسے بھی اپنی فیملی سمجھتے تھے


"چاچو میں اس سے بلاوجہ نہیں جھگڑا غلطی اسی کی تھی اور پھر وہ خود ہی مجھ سے الجھنے لگا تب میں اس کی دادا گیری نکلتا ہوا یہاں پہنچا مگر اہم بات یہ نہیں ہے جس کی وجہ سے میں نے آپ کو یہ سارا قصہ سنایا ہے اہم بات تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ اس کی گاڑی میں، میں نے اپھو کی بیٹی کو دیکھا"

ضیغم کو صبح سے ہی بار بار روشانے کا چہرہ یاد آرہا تھا تب ہی وہ شمروز جتوئی کو سارا قصّہ بتانے لگا، شمروز جتوئی کے ساتھ ساتھ وہاں بیٹھی ہوئی رمشا بھی چونکی جو کہ کافی دیر سے خاموشی سے اُن دونوں چچا بھتیجے کی باتیں سن رہی تھی


"تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو کہ وہ رباب کی بیٹی تھی، ہوسکتا ہے وہ کوئی دوسری لڑکی ہو"

ضیغم کے اتنے وثوق سے کہنے پر شمروز جتوئی اس سے پوچھنے لگا


ماضی میں جو بھی کچھ ہوا شمروز جتوئی آج تک رباب سے اپنا دل برا نہیں کر سکا،، وہ رباب کی باتیں اکثر رمشا اور ضیغم سے نارمل انداز میں کیا کرتا البتہ حویلی میں رباب کا ذکر نہیں کیا جاتا۔۔۔ رباب کی موت کی خبر سن کر وہ کافی دنوں غم زدہ رہا تھا۔۔۔ رباب کی بیٹی کو دیکھنے کے لیے اکثر شمروز جتوئی کا دل مچل جاتا۔۔۔ مگر وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی بھی بات کو لے کر دونوں خاندانوں میں دوبارہ کوئی تضاد اٹھے


"چاچو ہنڈریڈ پرسنٹ وہ اپھو کی بیٹی تھی بالکل بنی بنائی اپھو، اگر آپ خود اس کو دیکھتے تو آپ کو یقین آجاتا"

ضیغم دوبارہ شمروز جتوئی کو اپنی بات کا یقین دلاتا ہوا بولا تو شمروز جتوئی خاموش ہوگیا اسے اپنی بہن کی یاد آنے لگی


"ویسے کتنی حیرت کی بات ہو شمروز،، جس بہن سے آپ آج تک اتنی محبت کرتے ہیں،، آپ نے پلٹ کر اس کی بیٹی کی خبر تک نہیں لی"

رمشا شمروز جتوئی کو خاموش دیکھ کر بولی تو شمروز جتوئی سمیت ضیضم بھی رمشا کو دیکھنے لگا


"اگر میں پلٹ کر اس کی خبر لیتا اور یہ خبر اکبر خان یا بابا سائیں کو لگ جاتی تو بہت برا ہوتا رمشا، ایسا ہرگز نہیں ہے کہ میں ایک ڈرپوک انسان ہوں مگر میں نہیں چاہتا کہ ہمارا سردار قبیلے سے دوبارہ کسی بات کو لے کر جھگڑا شروع ہو، تمہیں نہیں معلوم ان لڑائی اور جھگڑوں میں صرف اور صرف نقصان ہوتا ہے کسی ایک طرف کا نہیں بلکہ دونوں طرف کا اور ضیغم جو آج تم نے کیا ہے وہ کوئی اچھی حرکت نہیں تھی آئندہ میں نہ سنو پھر تم اس لڑکے سے یا سردار قبیلے کے کسی دوسرے فرد سے لڑے ہو"

شمروز جتوئی رمشا کو بول کر ساتھ ہی ضیغم کو بھی تنبہی کر کے صوفے سے اٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔ شاید وہ ضیغم کے منہ سے رباب کی بیٹی کا ذکر سن کر کافی ڈسٹرب ہو گیا تھا


"ویسے ضیغم اگر رباب کی بیٹی بالکل اُسی کے جیسی لگتی ہے پھر تو وہ بھی بہت خوبصورت ہوگی، رباب کی میں نے تصویریں دیکھی ہیں وہ تو کافی خوبصورت تھی"

رمشا ضیغم کو دیکھتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی۔ ۔۔ ضیغم کو ایک بار پھر روشانے کا چہرا یاد آیا


"اس میں کوئی شک نہیں وہ بہت خوبصورت تھی اس کا چہرا اس کی آنکھیں۔۔۔ اسکی آواز، بات کرنے کا لب و لہجہ اس کا پریشان ہونا گھبرایا سا ڈرا سہما روپ اور خاص کر اس کا اچانک اپنے آنچل سے چہرہ چھپا لینا"

ضیغم رمشا کو بتاتے بتاتے خود کہیں کھو سا گیا تھا جبکہ رمشا اس کی کیفیت کو دیکھ کر مسکرانے لگی


"یعنی میں یہ سمجھوں کہ وہ تمہیں تمہاری اپھو سے زیادہ اچھی لگی اور ہمیں سرداروں سے دوستی میں پہل کر لینی چاہیے"

رمشا شرارتاً بولی۔۔۔

پہلے تو ضیغم رمشا کو بے خیالی میں دیکھنے لگا


"کیا ہوگیا آپ کو،، مجھے کیا پٹوانے کا ارادہ ہے اپنے شوہر سے"

رمشا کی بات کا مفہوم سمجھ کر اور اس کے معنی خیز مسکراہٹ دیکھ کر ضیغم اُسے گھورتا ہوا بولا اور اٹھ کر کمرے سے باہر جانے لگا


"میری دل سے دعا ہے جلدی کوئی نہ کوئی وسیلہ بنے اور رباب کی بیٹی واپس ہمارے پاس آجائے تمہاری دلہن کے روپ میں"

آخری بات رمشا نے مزاق میں بولی جس پر ضیغم اپنی بے خیالی میں بولے ہوئے لفظوں پر شرمندہ ہوتا ہوا اسے آنکھیں دکھا کر کمرے سے باہر نکل گیا

****

"ہمت کیسے کی اُس بدبخت نے سردار اکبر خان کے پوتے پر ہاتھ اٹھانے کی،، نوشاد کو بولو چار آدمی لے کر جائے اور ہمارے دشمنوں کو اُن کی اوقات یاد دلا کر آئے"

تیمور خان روشانے کو لے کر شہر نہیں گیا تھا بلکہ واپس حویلی لے آیا تھا،، کبریٰ خاتون نے اپنے پوتے کی حالت دیکھی تو جلال میں آتی ہوئی سردار اسماعیل خان سے بولی


"اماں حضور پہلے پوری بات تو معلوم ہو، شمشیر جتوئی کے پوتے نے ایسا کیوں کیا، جبھی کوئی قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔۔۔ ایسے کیسے چار آدمیوں کو اُن کی طرف بھیج دو، پہلے مجھے تیمور سے پورا قصّہ معلوم کر لینے دیں"

سردار اسماعیل خان کبریٰ خاتون کا غصہ ٹھنڈا کرتا ہوا بولا،، اسماعیل خان اپنے باپ کی طرح صلح جو اور نرم طبیعت رکھنے والا آدمی تھا ہر بات کو سمجھنے بوجھنے کے بعد فیصلہ کرنے والا جبکہ اس کا بیٹا تیمور خان بالکل کبریٰ خاتون کا پرتو تھا


"اسماعیل خان شیر اگر بوڑھا ہو جائے تو اُسے دبک کر نہیں بیٹھنا چاہیے،، جنگل میں اسی کا قانون چلنا چاہیے تم سمجھ رہے ہو ناں میری بات"

کبریٰ خاتون اپنے بیٹے کو آنکھیں دکھاتی ہوئی بولی


"دادی حضور یہ بات بابا حضور کو سمجھ میں آنے والی نہیں ہے۔۔۔ ویسے بھی اُس ضیغم جتوئی نے سردار تیمور خان سے ٹکر لی ہے اور تیمور خان معاف کرنے والوں میں سے یا درگزر کرنے والوں میں سے بالکل نہیں ہے،، میں نے معلوم کروا لیا ہے وہ شہر میں کس جگہ رہتا ہے اس کا آفس کہاں ہے۔۔۔ ایسے نہیں چھوڑوں گا میں اُسے"

تیمور خان کبریٰ خاتون کے کمرے میں آتا ہوا اس سے بولا جس پر کبریٰ خاتون خوش ہوکر اُسے دیکھنے لگی جبکہ سردار اسماعیل خان خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔ کیوں کہ وہ کبریٰ خاتون کے سامنے تیمور خان کو سمجھانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا مگر اس نے سوچا تھا بعد میں وہ اپنے بیٹے کو سمجھائے گا کہ بات کو بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں


کمرے میں اس وقت کبریٰ خاتون اور تیمور خان موجود تھے تب روشانے بات کرنے کے غرض سے کبریٰ خاتون کے کمرے میں آئی مگر وہاں تیمور خان کو دیکھ کر سوچ میں پڑ گئی کہ بات کرے یا نہیں کرے


"اے لڑکی، اپنے منہ سے کچھ بولے گی بھی یا یونہی مٹی کے بُت کی طرح کھڑی رہے گی"

کبریٰ خاتون جو کہ روشانے کے بولنے کے انتظار میں تھی اُسے خاموش دیکھ کر سخت لہجے میں گویا ہوئی


"دادی حضور میں شہر جانا چاہتی ہو،، ورنہ پڑھائی کا کافی حرج ہو جائے گا آپ اگر اجازت دیں تو آج شام ڈرائیور کے ساتھ نکل جاؤ"

روشانے سرجھکا کر آہستہ آواز میں کبریٰ خاتون سے بولی اس وقت اُس نے تیمور خان کو دیکھنے سے مکمل گریز کیا تھا جو اُس کے جھکے ہوئے سر کو غُصے میں دیکھ رہا تھا


"دشمن چوکُنا ہو چکا ہے، گھر میں ایک طوفان آیا پڑا ہے اور تجھے اپنے سیر سپاٹوں سے فرصت نہیں مل رہی، شام تو ہو چکی ہے، اب کیا آوارہ عورتوں کی طرح رات گئے نکلنا ہے خوبصورت جوان جہاں لڑکی کو ایسے ہی بھیج دو۔۔۔ کوئی ضرورت نہیں ہے اب ہفتہ بھر گھر سے باہر جانے کی"

کبریٰ خاتون روشانے کو اچھی طرح گُھرکتی ہوئی بولی روشانے اپنا سا منہ لے کر کمرے سے باہر جانے لگی


"چائے بنا کر میرے کمرے میں لے کر آؤ"

روشانے نے سر اٹھا کر دیکھا تیمور خان حکم دینے والے انداز میں اسی سے مخاطب تھا وہ جی کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکل کر کچن میں چلی آئی


اسے معلوم تھا اب اسے شہر نہیں جانے دیا جائے گا اس کی پڑھائی تک روک دی جائے گی اسے کیا معلوم تھا تیمور خان کی پٹائی کرنے والا اس کے خاندان کا کوئی دشمن تھا اور اب وہ اس کی پڑھائی کا بھی دشمن بن جائے گا۔۔۔ وہ تیمور خان کے لئے چائے بناتی ہوئی آنسو بہانے لگی


"روشی بچے یہاں کیا کر رہی ہو،، پورے گھر سے تمہیں ڈھونڈ رہی ہوں تمہارے موبائل پر حمنہ کی کال آئی تھی پوچھ رہی تھی کہ آج کالج کیوں نہیں پہنچی،، بتایا نہیں تم نے اُسے۔۔۔۔ یہاں دیکھو میری طرف رو کیو رہی ہو ایسے"

زرین جو روشانے کو کچن میں دیکھ کر بات کرتی ہوئی اس کے پاس آئی مگر روشانے کو روتا ہوا دیکھ کر حیرت سے اس سے پوچھنے لگی


"بتا دیں آپ کال کر کے حمنہ کو کہ اب روشانے کبھی بھی کالج نہیں آئے گی"

رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں ایک دم سے سرخ ہو چکی تھی روشانے زرین کو دیکھتی ہوئی بولی


"ارے میری بچی کیا ہوا ہے تمہیں بتاؤں تو مجھے"

زرین اپنے دوپٹے سے اُس کے آنسو صاف کرتی ہوئی پوچھنے لگی


"دادی حضور نے منع کر دیا ہے کالج جانے کے لیے،، کہہ رہی ہیں ایک ہفتے کے بعد جانا۔۔۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ ہفتے بعد بھی مجھے کالج جانے دیں گی"

زرین کو بتاتے ہوئے روشانے کو مزید رونا آنے لگا


"اور تمہیں لگتا ہے میں تمہاری تعلیم ایسے ہی ادھوری چھڑوانے دوگی۔۔۔ صبح تک صبر کر لو بڑے خان کو کہتی ہوں کل وہ تمہیں خود شہر چھوڑ کر آئیں گے،، اب رونے کی ضرورت نہیں ہے جاو اپنے کمرے میں جاکر چائے پیو"

زرین اُسے پیار سے بہلاتی ہوئی بولی


"یہ تو میں نے خان کے لیے بنائی ہے انہیں پینی تھی چائے"

روشانے چائے سے بھرا ہوا کب پکڑتی ہوئی اسے بتانے لگی، ساتھ ہی اسے تھوڑا سا اطمینان بھی ہوا تھا کہ اسماعیل خان کبریٰ خاتون سے بات کرکے خود اُسے کل شہر لے جائے گا


"ارے تو فوراً لے کر جاؤ ناں، معلوم نہیں ہے پانچ منٹ دیر ہوئی تو غصہ آ جانا ہے اُسے"

زرین روشانے سے کہہ کر خود کچن سے باہر نکل گئی


*****


"سنا ہے ٹھکائی ہوگئی ہے"

وہ غُصے میں اپنے کمرے میں ٹہلتا ہوا روشانے کا انتظار کر رہا تھا تب ژالے اس کے کمرے میں آتی ہوئی بولی اس کی دل جلانے والی مسکراہٹ پر تیمور خان نے غُصے میں گھورتے ہوئے اسکی طرف قدم بڑھائے


"میرا مطلب تھا تمہاری گاڑی ٹھوک دی کسی نے، ویسے کون تھا وہ جی دار آدمی جس نے دن دہاڑے چھوٹے خان سے پنگا لے لیا"

ژالے اس کے تیور دیکھ کر ایک دم تمیز کے دائرے میں آتی ہوئی سنجیدگی سے اُس سے پوچھنے لگی


"تم میرے کمرے سے خود جاؤ گی یا میں تمہیں دھکے دے کر اپنے کمرے سے نکالو"

ژالے کا مذاق اڑاتا ہوا ہے لہجہ تیمور خان کا خون کھولنے لگا تبھی تیمور خان دانت پیستا ہوا ژالے سے پوچھنے لگا


"اففف یہ پھٹا ہوا ہونٹ، یہ سُوجھا ہوا گال۔۔ اس پر یہ بلا وجہ کا روعب یونہی تھوڑی نہ پاگل بناتے ہو تم مجھے"

ژالے کے بولنے کی دیر تھی کہ تیمور خان ژالے کو بازو سے پکڑ کر کمرے کے دروازے کے قریب لایا


"عزت شاید تمہیں راس نہیں، دھکے دے کر ہی اپنے کمرے سے نکالنا پڑے گا۔۔۔ ہر وقت میرے سامنے یہ اپنا شوخا پن مت دکھایا کرو"

تیمور خان نے غصے میں بولتے ہوئے دروازہ کا ہنڈل گھمایا


"ارے چھوڑو میرا بازو نہیں دکھا رہی تمہیں کوئی شوکا پن،، اچھا سوری بابا اب غصہ تو تھوک دو"

تیمور خان کو غصے میں دیکھ کر ژالے اُسے مناتی ہوئی بولی،، مگر سچ تو یہ تھا کہ وہ اسے غصے میں ہی پیارا لگتا تھا جبھی وہ اسے ہر بات پر غصہ دلاتی تھی


"وہ کام کی بات بولوں جس کے لئے تم میرے کمرے میں آئی ہو"

تیمور خان ژالے کا بازو چھوڑتا ہوا ابھی بھی سنجیدگی سے ژالے سے پوچھنے لگا


"بڑے خان کا میسج دینے آئی ہو انہوں نے اپنے کمرے میں فوراً بلایا ہے تمہیں"

ژالے اُسے سردار اسماعیل خان کا میسج دینے لگی


"بابا حضور سے جاکر بول دو دس منٹ میں آ رہا ہوں"

تیمور خان کی بات سن کر ژالے اس کو مسکرا کر دیکھنے لگی


"اب کیا ہوا کس بات پر دانت نکل رہے ہیں اب تمہارے"

تیمور خان ژالے کو مسکراتا ہوا دیکھ کر پوچھنے لگا


"تصور میں تمہیں پٹتا ہوا دیکھ کر سوچ رہی ہوں، کیا مزے دار سین ہوگا جو میں نے مِس کر دیا،، مجھ سے لکّی تو اپنی روشانے رہی جس نے پورا سین انجوئے کیا ہوگا"

ژالے تیمور خان کا مذاق اڑاتی ہوئی بولی تھی کمرے کا دروازہ وہ پہلے ہی کھول چکی تھی اپنی بات مکمل کرکے،، بغیر تیمور خان کے تاثرات دیکھے وہ پُھرتی سے کمرے سے نکل گئی


****


"خان یہ کیا کر رہے ہیں دوپٹہ چھوڑیں میرا"

روشانے تیمور خان کے کمرے میں چائے رکھتی ہوئی پلٹنے لگی تبھی اپنے پیچھے کھڑے تیمور خان کو دیکھ کر سائیڈ سے نکلنے لگی، تمیور خان نے اس کے سر سے دوپٹہ کھینچا تو روشانے بےساختہ بولی


"دل نہیں لگتا تمہارا حویلی میں، کون انتظار کر رہا ہے شہر میں، جواب دو"

تیمور نے روشانے کا دوپٹہ چھوڑ کر اُسے دیوار کی طرف دھکا دیا، وہ دیوار سے جا لگی۔۔۔ تیمور خان لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کے پاس آیا اور اس سے پوچھنے لگا


"خان کیسی باتیں کر رہے ہیں،، میں تو شہر کالج کے لیے۔۔۔۔"

روشانے نے اپنے دفاع میں بولنا چاہا تو تیمور نے اس کے بالوں کو مٹھی میں جکڑا


"اس کمینہ کے سامنے گاڑی سے باہر کیوں نکلی تم"

تیمور خان کڑے تیوروں سے روشانے گھورتا ہوا پوچھنے لگا


"آپ کو بچانے کے لیے خان،، قسم لے لیں"

وہ اپنے بالوں کو تیمور خان کی مٹھی سے آزاد کرواتی ہوئی ہمت کر کے اپنے دفاع میں بول پائی


"مجھے بچانے کے لئے یا اس کے ہاتھوں مار کھاتا دیکھنے کے لئے"

تیمور خان اس کے بالوں کو زور سے جھٹکا دیتا ہوا بولا۔۔۔ وہ آج صبح اپنی ہونے والی دھلائی اور تھوڑی دیر پہلے ژالے کی باتوں کا غصہ اس معصوم پر اتارنے لگا۔۔۔ روشانے نے روتے ہوئے نفی میں سر ہلایا،، اسے نہیں معلوم تھا کہ تیمور خان اسے اپنے کمرے میں بلا کر اس پر اسطرح غُصہ کرے گا


"چہرہ کیوں نہیں چھپایا اس سے اپنا،، کیسے دیکھ رہا تھا وہ کمینہ"

تیمور خان غُصے میں اس کے چہرے کے قریب اپنا چہرہ لاتا ہوا پوچھنے لگا


"آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی خان، پلیز مجھے جانے دیں"

اُسے اب تیمور خان سے ڈر لگنے لگا تھا، نہ جانے وہ غصے میں اُس کے ساتھ کیا کردے۔۔۔ روشانے ڈرتی ہوئی تیمور خان سے بولی


"اگلی بار اگر ایسی غلطی کی تو یہ خوبصورت چہرا کسی دوسرے کے تو کیا،، تمہارے خود کے دیکھنے کے قابل بھی نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ وہ کمینہ اگر زندگی میں دوبارہ سامنے آیا تو غلطی سے بھی اُسے اپنا چہرہ مت دکھانا۔۔۔ اس چہرے کو دیکھنے کا حق صرف اور صرف تیمور خان کا ہے کسی دوسرے کا نہیں"

تیمور خان نے بولتے ہوئے اس کے بالوں کو جھٹکے سے چھوڑا وہ دیوار سے جڑ کر روتی ہوئی نیچے بیٹھتی چلی گئی جبکہ تیمور خان اس کے سامنے صوفے پر بیٹھتا ہوا چائے پینے لگا


"ہاں ہاں آج کا پروگرام ڈن ہے۔۔۔ سنا ہے مینا بائی نے کچھ نیا مال منگوایا ہے چیک کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔ ہاہاہا نہیں فل الحال دور سے ہی چیک کرنے کا ارادہ ہے،، بس رات میں دو تین گھنٹے کے لیے آ رہا ہوں"

صوفے پر بیٹھا وہ چائے پیتا ہوا اپنے دوست سے موبائل پر بات کر رہا تھا جبکہ روشانے اُس کی ایسی گفتگو پر ملامت بھری نظروں سے اُسے دیکھنے لگی اتنے میں کمرے کا دروازہ کُھلا اور اسماعیل خان کمرے میں آیا


"تم یہاں ایسے کیوں بیٹھی ہو، کیا ہوا ہے تیمور تم نے کچھ کہا ہے اسے"

سردار اسماعیل خان جو کہ تیمور خان سے بات کرنے کے لیے آیا تھا وہاں روشانے کو سامنے دیوار سے چپک کر نیچے بیٹھے دیکھ کر حیرت سے بولا پھر اپنے بیٹے سے پوچھنے لگا


"سبق سکھایا ہے اسے بابا حضور،، بہت شوق چڑھ رہا تھا اسے شہر جا کر رنگ رلیاں منانے کا"

تیمور خان اپنا موبائل ایک طرف رکھ کر آرام سے سردار اسماعیل خان کو بولنے لگا


"بکواس بند کرو اپنی تیمور، آج کل رنگ رلیاں کون منا رہا ہے اس بات کو میں اچھی طرح جانتا ہوں، یہ الٹی سیدھی دوستاں ترک کرکے اپنے راستے درست کرلو اور خبردار جو تم نے شمشیر جتوئی کے پوتے کو کوئی نقصان پہنچایا۔۔۔ روشانے کمرے میں جاکر اپنا سامان پیک کر لو کل صبح مجھے ضروری کام سے شہر جانا ہے تمہیں خود چھوڑ کر آؤں گا اماں حضور سے بات کرلی ہے میں نے"

سردار اسماعیل خان کی بات پر تیمور خان کے ماتھے پر شکنیں واضح ہوئی جبکہ روشانے سعادت مندی سے سر ہلا کر تیمور خان کے کمرے سے نکل گئی


****


ایک ضروری میٹنگ کے سلسلے میں وہ اور شمروز جتوئی آفس سے کافی لیٹ اٹھے تھے شمروز جتوئی ضیغم کو تھوڑی دیر میں آنے کا کہہ کر خود فائل دیکھنے لگ گیا جبکہ ضیغم بیسمینٹ میں آکر گاڑی میں بیٹھنے ہی لگا تب وہ آہٹ کی آواز پر مڑا۔۔۔


اس کے پیچھے چار آدمی کھڑے تھے اور چاروں کے ہاتھوں میں ڈنڈے موجود تھے۔۔۔ آفس کے سارے ورکرز اور کلائنٹس تقریباً سب جاچکے تھے اس لئے بیسمینٹ خالی تھا


"ایک اکیلے کو مار کر ہیرو سمجھنے لگ گیا ہے خود کو، ذرا ہم سے مقابلہ کر کے دکھا"

ان میں سے ایک آدمی ضیغم کو بولا تب وہ سمجھ گیا وہ کس کی بات کر رہے ہیں اور یہ سب آدمی کس نے بھیجے ہیں۔۔۔ وہ چاروں آدمی ایک ساتھ اس کی طرف بڑھے


ضیغم نے ایک آدمی کو لات مار کر اپنا بچاؤ کرتے ہوئے،، ساتھ ہی اس کے ہاتھ سے ڈنڈا چھینا وہ باقی تینوں آدمیوں سے اکیلا مقابلہ کرنے لگا۔۔ وہ تعداد میں زیادہ تھے ضیغم زیادہ دیر تک ان کا مقابلہ نہیں کر سکا ایک آدمی نے کافی زور سے، اس کو ڈنڈا مارا جو کہ اس کے سر پر لگا اور اس کی آنکھوں کے آگے ایک دم اندھیرا چھا گیا۔۔۔ دوسرا ڈنڈا اس کے کندھے پر لگا جس سے اس کے ہاتھ میں موجود ڈنڈا نیچے زمین پر گر پڑا


اب دو آدمی اس کے بازووں کو پکڑ کر اسے قابو کر چکے تھے ضیغم کے سر سے خون بہہ رہا تھا اور وہ بہت مشکلوں سے اپنی آنکھیں کھول پایا تھا


تیسرے آدمی نے اپنی جیب سے ایک تیز دھار کا چاقو نکالا تبھی کسی گاڑی کے تیز بجنے والے ہارن نے پورے بیسمنٹ میں شور برپا کیا جسے سن کر وہ چاروں وہاں سے بھاگ نکلے ان کے وہاں سے جانے کے بعد شمروز جتوئی گاڑی کے ہارن سے ہاتھ ہٹاکر بھاگتا ہوا ضیغم کے پاس آیا جو کہ اس وقت نیچے گرا ہوا تھا وہ ضیغم کو سہارا دے کر گاڑی میں بٹھانے لگا


****

"ارے واہ بھئی ساسو جی آپ نے دن بدن جوان ہوتی جا رہی ہو"

شفیق کمرے کے اندر آتا ہوا کشمالا کو دیکھ کر بولا جو کہ تازہ تازہ اپنے بالوں کو رنگ کیے بیٹھی تھی


"لو جی تم بھی چلے آئے ہو آج یہاں۔۔۔ چلو آ ہی گئے ہو تو یہی بیٹھ جاؤ"

کشمالا کو دلآویز کا شوہر اور اپنا یہ چھچھورا دماد سب سے زیادہ زہر لگتا تھا۔۔۔ آج کشمالا اپنی بڑی بیٹی دلآویز کے آنے پر جتنا خوش تھی اس کے شوہر کو دیکھ کر بدمزا سی ہوگئی


"اور سناؤ شفیق میاں اپنے گھر کی، تمہاری ماں اور بہنیں تو بہت خوش ہوگیں آج کل"

کشمالا شفیق کو ریکھ کر کوئی طنز کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی، مگر شفیق بھی اسی کا داماد تھا اس لئے پان چباتا ہوا کشمالا کی بات سن کر ہنسنے لگا


"آپ حویلی والے بڑے لوگ ہم غریبوں کا ایسے ہی خیال رکھتے رہے گے۔۔۔ پھر ہمارا خوش ہونا تو بنتا ہی ہے"

خاموش بیٹھی ہوئی دلآویز اپنے شوہر کو دیکھنے لگی


چند دنوں پہلے ایک بہت بڑی زمین کا فیصلہ شمشیر جتوئی کے حق میں ہوا، اس زمین کا پیسہ شمشیر جتوئی نے فیروز جتوئی اور شمروز جتوئی کے بچوں میں برابر کا تقسیم کردیا تھا یوں دل آویز کو ملنے والے پیسوں سے اس کے سسرال والے اور شوہر بہت خوش تھاا


"دادا سائیں اور سسُر جی نظر نہیں آرہے،،، کہیں دونوں باپ بیٹے سیر سپاٹوں میں موجیں کرنے تو نہیں نکلے ہوئے"

شفیق پورے ہال میں نظریں گھماتا ہوا کشمالا سے معنی خیزی سے پوچھنے لگا،،، سیر سپاٹے اور موجوں سے اُس کی کیا مراد تھی یہ کشمالہ خوب سمجھتی تھی جبکہ دلاویز خاموش بیٹھی ہوئی اپنے شوہر کی باتوں سے شرمندہ ہونے لگی


"وہ دونوں مردانے میں مردوں کے درمیان موجود ہیں اور بھلا مردوں میں تمہارا کیا کام،، اس لیے میں نے تمہیں یہی بیٹھنے کی دعوت دی، سیر سپاٹوں کی عمر تو اب تمہاری بھی نہیں رہی شفیق میاں۔۔ میرا مشورہ مانو تو اب مسخرہ پن چھوڑ کر زرا بردباری سے کام لینا شروع کردو"

جتنی سنجیدگی سے کشمالا اسے بھگو بھگو کہ لگا رہی تھی۔۔۔۔ وہ اتنا ہی زیادہ ہنس ہنس کر کشمالا کا خون جلائے جا رہا یہاں تک کہ پان کی لالی اس کے ہونٹوں سے چھلکنے لگی


"ارے میری پیاری سی ساسو جی سیر سپاٹوں سے عمر کا کیا تعلق،، دل جوان ہونا چاہیے مرد کا۔۔۔ کیوں بھئی دل صحیح کہہ رہا ہے نہ تیرا شوہر"

شفیق اب دلآویز کو مخاطب کرتا ہوا بولا جو ملول نظروں سے شفیق کو دیکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کر رہی تھی


"شانو شفیق میاں کے لیے اگالدان لے کر آ۔۔۔۔ تاکہ وہ منہ سے پیک تھوک سکیں

کشمالا اپنا غصہ ضبط کرتی ہوئی شانوں سے بولی


"ارے یہ تو شانو کی بیٹی مانو ہے ناں۔۔۔۔ کتنی جلدی جوان ہوگئی ہے" شفیق 17 سالہ مانو کو للچائ ہوئی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا جو کہ بلاوجہ میں شرماتی ہوئی اگالدان شفیق کے سامنے رکھ رہی تھی


"اے مانو چل باورچی خانے میں اپنی ماں کے پاس جا"

شفیق کی نظروں میں چھپی ہوئی غلاظت سے حویلی کے تمام فرد ہی واقف تھے۔۔۔ یہی وجہ تھی کشمالا شفیق کو دل ہی دل میں دل بھر کر کوسنے دیتی اور دلآویز سب کے سامنے شرمندہ ہوتی


"شفیق میاں دو جوان لڑکیوں کے باپ ہو تم، یہاں وہاں نظریں دوڑانے کی بجائے اب ان کے مستقبل کی فکر کرو،، میرے مخلصانہ مشورے پر ذرا سنجیدگی سے سوچنا۔۔۔۔ دلاویز میرے کمرے میں آ جا،، شفیق میاں جب تک اپنا دل ٹی وی دیکھ کر بہلا لیں گے"

کشمالا دلاویز کو بولتی ہوئی خود وہاں سے اٹھ کر چلی گئی اور شفیق برا مانے بغیر اگالدان میں پان کی پیک تھوکتا ہوا ریموٹ کنٹرول ہاتھ میں لے کر ٹی وی دیکھنے لگا


*****


"تم پھر میرا دماغ کھانے میرے کمرے میں چلی آئی"

صبح ہی صبح ژالے کو اپنے کمرے میں دیکھ کر تیمور خان اپنے منہ کے زاوئیے بگاڑتا ہوا بولا


"معاف کرنا خان، مگر میں زنگ لگی چیزیں نہیں کھاتی اور تمہارے کمرے میں، میں صرف اپنے کام سے آئی ہو"

ژالے بولتی ہوئی مزے سے صوفے پر بیٹھی


"یہ بھی شکر ہے صرف زنگ لگا ہے میرے دماغ کو، ورنہ جب سے تم اس گھر میں آئی ہو کھوپڑی میں دماغ بچا ہے یہی بہت بڑی بات ہے، ویسے تم یہاں پر بیٹھی کیو ہو جو بھی بولنا ہے کھڑے کھڑے بولو اور فوراً نو دو گیارہ ہوجاو"

تیمور خان ہمیشہ کی طرف بنا لحاظ کے بولا اور ٹاول ہاتھ میں پکڑے واش روم جانے لگا


"کیا خان تم بھی ہر وقت مرچیں چبائے رہتے ہو، کبھی کبھی پیار سے مسکرا لیا کرو، یقین کرو مسکراتے ہوئے تم زیادہ اچھے لگو گے"

ژالے اُس کو مشورہ دیتی ہوئی صوفے سے اٹھی وارڈروب کھول کر تیمور خان کے لیے کپڑے نکالنے لگی


"میں پیار سے مسکرا لیا کرو اور وہ بھی تمہیں دیکھ کر، اچھا مزاق ہے،، اور یہ سفید کلف لگا ہوا قمیض شلوار میں نہیں پہنو گا، اگر نکالنا ہے تو ڈھنگ کے کپڑے نکالو"

تیمور خان اس کے منتخب کیے سوٹ کو دیکھ کر بولا تو ژالے کے مسکراتے لب ایک پل کے لیے سکھڑے


"اگر تم یہ کپڑے پہنتے تو مجھے خوشی ہوتی خیر ژالے اپنے خان کی خوشی میں بھی خوش ہے"

وہ تیمور خان کو بولتی ہوئی قمیض شلوار دوبارہ وارڈروب میں رکھنے لگی۔۔۔ تیمور خان نے دیکھا اس کے ہونٹ اب مسکرا نہیں رہے تھے اور تیمور خان اس کے ہونٹوں سے مسکراہٹ نہیں چھین سکتا تھا۔۔۔


"رہنے دو اگر یہ قمیض شلوار نکال ہی دیا ہے تو آج یہی پہن لو گا، اب جلدی بولو کس کام سے آئی تھی"

تیمور خان اس کے ہاتھ سے اپنے کپڑے لیتا ہوا پوچھنے لگا تو ژالے بے ساختہ مسکرا دی


"یونہی تھوڑی نہ خان پر دل ہارا ہے"

ژالے بہت آئستہ سے بڑبڑائی


"کیا"

تیمور خان کو واقعی سنائی نہیں دیا ژالے نے اس کو کیا بولا


"میں کہہ رہی تھی وہ جو میری سہیلی ہے ناں زرمینے"

ژالے ایک دم سے تیمور خان کو بولنے لگی


"اب یہ نہ کہنا کہ تمہیں اس کے گھر چھوڑ کر آؤ،، اس کا بھائی سالا ایک نمبر کا کمین۔ ۔۔۔

تیمور خان غصے میں بولنے لگا


"اوئے خان، گالی نکال کر زبان گندی کرنے کی ضروت نہیں ہے،، مانا اُس کا بھائی لفنگا ہے مگر میری سہیلی بری نہیں۔۔۔ اُس کے باوجود اگر تم چاہتے ہو کہ میں زرمینے کے گھر نہیں جاؤ تو پھر میں نہیں جاؤ گی"

ژالے تیمور خان کو ٹوکتی ہوئی بولی۔۔۔ وہ اکثر تیمور خان کو اس کی بری باتوں پر ایسے ہی ٹوک دیتی۔۔۔ تیمور خان اس کی باتوں پر کم ہی اپنے کان دھرتا


"نوازش ہے آپ کی خالہ جی، اب ذرا میرے کمرے سے باہر جاؤ تاکہ میں شاور لے لو"

تیمور خان گھڑی میں ٹائم دیکھتا ہوا ژالے سے بولا


"میں نے تمہاری بات مانی ہے اور میں زرمینے کے گھر نہیں جا رہی ہوں،، اب تمہیں آج کے دن میری بات ماننی ہوگی"

ژالے اپنے دونوں ہاتھ سینے پہ باندھتی ہوئی تیمور خان کو دیکھ کر بولی


"بول بھی دو اب" تیمور خان بیزار ہو کر بولا وہ جانتا تھا جب تک ژالے کی بات نہیں سنے گا وہ اس کے کمرے سے ٹلنے والی نہیں


تیمور خان کی بیزار شکل دیکھ کر ژالے کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔ ۔۔ ژالے چلتی ہوئی تیمور خان کے قریب آئی اس نے جیسے ہی اپنے ہاتھ تیمور خان کے چہرے کے آگے بڑھائے۔۔۔ تیمور خان ویسے ہی اپنا چہرہ پیچھے کرتا ہوا ژالے کو گھور کر دیکھنے لگا


تیمور خان کے گھورنے پر ژالے نے اس سے بھی زیادہ بڑی بڑی آنکھوں سے تیمور خان کو گھورا۔۔۔ اب تیمور خان خاموش کھڑا ہوں ژالے کی کاروائی دیکھ رہا تھا۔۔۔ اور وہ مزے سے اس کی مونچھوں کو تاؤ دے کر اوپر کر رہی تھی


"کلف کپڑوں میں اچھا لگتا ہے انسان میں نہیں،، اپنے اندر کا کلف نکال پھینکو خان۔۔۔ آنٹی سے آکڑ کر بات مت کیا کرو،، کل کھانے کی میز پر تمہارے رویے سے اُن کا کافی دن دکھا ہوگا۔۔۔۔ میں کلف زدہ کپڑوں میں آج ایک نرم انسان کو دیکھنا چاہوں گی، جو اپنی ماں سے اپنے کل کے روئیے کی معافی مانگے"

ژالے بہت نرم لہجے میں تیمور خان کو دیکھتی ہوئی سمجھانے لگی جیسے وہ کوئی چھوٹے بچے کو سمجھ آ رہی ہو


"میری امی کی چمچی ہو تم پوری" تیمور خان اپنی مونچھوں سے اس کے ہاتھ جھٹک کر بولا


"جیسے تم دادی حضور کے چمچے ہو"

وہ تیمور خان کے بال بگاڑتی ہوئی بولی


"میں کسی کا چمچا ومچا نہیں ہوں میں دادی حضور سے پیار کرتا ہوں"

وہ ژالے کا ہاتھ پکڑ کر سنجیدگی سے بولا


"تو پھر دوسرے کے پیار کو بھی چمچا گری کا نام مت دو۔۔۔ میں بھی آنٹی سے پیار کرتی ہو"

ژالے تیمور خان سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر اس کے کمرے سے باہر نکل گئی


وہ کچن میں موجود رات کے لئے کھانا بنا رہی تھی تب اسے خوشگوار حیرت کا احساس ہوا۔۔۔ اس نے تیمور خان کو کمرے سے نکلتا ہوا دیکھا وہ کلف لگے سفید قمیض شلوار میں زرین کے گرد اپنا بازو حائل کیے آستگی سے اسے کچھ کہہ رہا تھا۔۔۔ ژالے کچن کی کھڑی سے یہ منظر دیکھ کر مسکرانے لگی


"بہت بہت شکریہ تمہارا"

تیمور خان کے گھر سے باہر جانے کے بعد زرین کچن میں آکر ژالے سے بولی


"کس بات کا آنٹی" ژالے ناسمجھنے والے انداز میں زرین کو دیکھ کر پوچھنے لگی


"یہ تو تیمور خان والا کمال کیا ہے تم نے اس کی بات کر رہی ہوں"

زرین مسکرا کر ژالے کو دیکھتی ہوئی بولنے لگی


"میں نے کوئی کمال نہیں کیا آنٹی،، آج خان کا اچھا موڈ تھا"

ژالے انجان بنتی ہوئی بولنے لگی تو زرین نے اس کے پاس آ کر اس کے دونوں ہاتھ تھامے


"تم اچھی لڑکی تو ہی، بہت اچھی بہو بھی ثابت ہوگی اس حویلی کی"

زرین کی بات سن کر ژالے کا دل بہت زور سے دھڑکا تھا


"آنٹی"

وہ بےیقینی سے پوری آنکھیں کھولے زرین کو دیکھنے لگی


"خان تمہاری آنکھوں میں پنپتے ہوئے جذبے کو پہچان سکے یا نہ پہچان سکے مگر خان کی ماں پہچان سکتی ہے"

زرین بولتی ہوئی ژالے کے ہاتھ پر نرمی سے دباؤ ڈال کر وہاں سے چلی گئی


****


"ہماری ٹکٹ کینسل کیوں نہیں کروائی آپ نے شمروز،، اب میں اِس حالت میں ضیغم کو چھوڑ کر اعجاز بھائی کے پاس تو جانے سے رہی"

رمشا سوپ کا پیالا بیڈ پر بیٹھے ہوۓ ضیغم کو دیتی ہوئی شمروز سے بولی۔۔۔ جو کہ ضیغم کے بیڈ روم میں آکر رمشا سے،، اُس کے اور بچوں کی پیکنگ کے بارے میں پوچھ رہا تھا


"اِس بات کا شکوہ تم مجھ سے نہیں اِسی سے کرو،، اِس کے کہنے پر میں نے ٹکٹ کینسل نہیں کروائے تھے۔۔۔ اب تم جانو اور یہ"

شمروز جتوئی کے جواب دینے پر رمشا ضیضم کو گھورنے لگی


اسد اور وفا کے اسکول کی چھٹیاں تھی،، رمشا کا چھوٹا بھائی اسے اور بچوں کو اپنے پاس اسلام آباد بلوا رہا تھا مگر تین دن پہلے، جب شمروز جتوئی ضیغم کو زخمی حالت میں گھر لے کر آیا تھا تب رمشا نے اپنے اسلام آباد جانے کا پروگرام کینسل کردیا تھا


"چچی تین دن گزر گئے ہیں اب تو سر کی پٹی بھی کُھل چکی ہے میں بالکل ٹھیک ہوں،، چاچو کے کہنے پر ہی گھر میں ریسٹ کر رہا تھا اور اب تو اس بیڈ پر لیٹے لیٹے اُکتا چکا ہوں،، میں خود کل سے آفس جاؤ گا۔۔۔ اس لئے آپ اپنا اور بچوں کا پروگرام خراب نہیں کریں پلیز"

ضیغم نہیں چاہتا تھا کہ اس کی وجہ سے رمشا اور بچوں کا پروگرام خراب ہو ویسے بھی اب اس کو اپنا آپ بالکل فٹ محسوس ہو رہا تھا


سر کی چوٹ بالکل ٹھیک ہو چکی تھی مگر جب اُس نے شمروز جتوئی کو بتایا کہ یہ سردار اکبر خان کے پوتے تیمور خان کی کارستانی ہے تب شمروز جتوئی نے اسے خاموشی اختیار کرنے کو کہا جو کہ ایسے بالکل ٹھیک نہیں لگا مگر وہ شمروز جتوئی کی بات نہیں ٹالتا تھا اس لئے خاموش ہوگیا۔۔۔ شمروز جتوئی نے ہی اس واقعہ کا ذکر خاص طور پر ہوئی حویلی میں کرنے سے بھی منع کر دیا تھا


****


"اوہو اب کیا ہوگیا ہے اس کار کو"

روشانے بیزار ہو کر بولی۔۔۔ ایک ہفتے پہلے وہ سردار اسماعیل خان کے ساتھ شہر آ گئی تھی پہلے تو وہ کالج وین میں جایا کرتی تھی مگر اِس بار سردار اسماعیل خان نے نہ جانے کیا سوچ کر اس کے لیے ڈرائیور ارینج کردیا تھا جو اسے ہاسٹل سے لے کر کالج چھوڑتا اور کالج سے ہاسٹل


"گاڑی کا ٹائر پنچر ہو گیا ہے میم"

ڈرائیور کی بات سن کر روشانے میں کوفت کے عالم میں اس کو دیکھا آج اُسے کالج جلدی پہنچنا تھا اور وہ ویسے بھی لیٹ ہوگئی تھی اوپر سے گاڑی کی خرابی کا سن کر اُس کا موڈ ہی خراب ہونے لگا


"کالج کا راستہ یہاں سے دس قدم کے فاصلے پر رہ گیا ہے میں پیدل چلی جاتی ہو آپ ایسا کرو دو بجے تک مجھے کالج سے پک کر لینا"

اُسے کہیں آس پاس شاپ نہیں دکھ رہی تھی جو وہ گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی کے ٹھیک ہونے کا انتظار کرتا کرتی اس لیے ڈرائیور کو ہدایت دے دی ہوئی گاڑی سے اتر گئی


سر پر اوڑھے ہوئے دوپٹے کو مزید درست کرتی ہوئی وہ فٹ پاتھ پر چلنے لگی۔۔۔ وہ تو شکر تھا کہ ہفتے پہلے اسماعیل خان کے ساتھ شہر آنے پر دادی حضور اور تیمور خان نے خاص اعتراض نہیں کیا مگر اب تیمور خان کی دن بدن بڑھتی ہوئی بد تمیزی اور غصّے سے اسے خوف آنے لگا تھا روشانے تیمور خان کو سوچتے ہوئے روڈ کراس کر رہی تھی تب سامنے سے آتی ہوئی گاڑی کا ہارن نہیں سن پائی۔۔۔۔ شمروز جتوئی کے چیخنے اور ضیغم کے بریک لگانے پر روشانے نے جلدی سے روڈ کراس کرنا چاہا تبھی تیز رفتار سے آتی ہوئی بائیک سے وہ بری طرح ٹکرائی۔۔۔ بائیک والا خود بھی بائیک سمیت سڑک پر گرا ہوا تھا،، ضیغم نے سڑک پر بیہوش گری ہوئی لڑکی کو دیکھا جس کے گرد لوگوں کا ہجوم لگنا شروع ہونا گیا تھا۔۔۔ بائیک والا تو ہوش و حواس میں تھا مگر وہ لڑکی بے ہوش ہو چکی تھی شمروز جتوئی کے کہنے پر ہی ضیغم نے کار سائڈ پر کھڑی کی


"چاچو یہ تو وہی ہے اپھو کی بیٹی"

ضیغم نے جتنی حیرت سے شمروز جتوئی کو کہا وہ روشانے کو غور سے دیکھنے لگا


ایک لڑکی آگے بڑھ کر اپنے ہاتھ میں موجود بوتل سے روشانے کے منہ میں پانی ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی


"یہ میری بھانجی ہے۔۔۔ بیٹا اٹھو"

شمروز جتوئی آگے بڑھ کر بولا اُس لڑکی کو بتاتا ہوا ساتھ ہی روشانے کو بھی اٹھانے لگا


"سر، ان کے سر پر چوٹ آئی ہے اِن کو تو فوری ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے"

وہ لڑکی شمروز جتوئی سے بولی۔۔۔ ضیغم اُن کے پاس آکر روشانے کو اٹھا کر کار کی طرف لے جانے لگا


****


"پیشنٹ کا نام کیا ہے"

ڈاکٹر نے شمروز جتوئی کو دیکھ کر سوال کیا


"روشانے"

جواب ضیغم نے دیا جس پر شمروز جتوئی ضیغم کو دیکھنے لگا۔۔۔ ضیغم نے کندھے اچکا کر شمروز کو لاعلمی کا اظہار کیا مگر ڈاکٹر کو تو کوئی نہ کوئی نام بتانا تھا اب نہ جانے اپھو نے اس کا کیا نام رکھا تھا


"جی تو مسٹر شمروز گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے روشانے کا پاوں مُڑنے کی وجہ سے ہلکی سی موچ آئی ہے جو اس آئینٹمینٹ کے مساج سے کل تک ٹھیک ہو جائے گی اور سر پر دو اسٹیچس آئے ہیں مگر یہ شکر ہے کہ سر کے اندرونی حصے پر کوئی چوٹ نہیں آئی۔۔۔ آپ چاہیں تو روشانے کو گھر لے جاسکتے ہیں"

ڈاکٹر شمروز جتوئی کو دیکھتا ہوا بولا شمروز جتوئی اور ضیغم ایک دوسرے کو دیکھنے لگے


روشانے کے کالج کے ڈریس سے ان دونوں کو یہ تو اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ یہی قریب کالج میں پڑھتی ہے مگر وہ یہاں پر کہاں رہتی ہے یہ ان دونوں کو علم نہیں تھا


بقول ڈاکٹر کے وہ اسٹیٹیچس لگنے کے دوران خوف سے وہ دوبارہ بے ہوش ہو گئی تھی مگر وہ بھی کوئی خاص فکر کی بات نہیں تھی


شمروز جتوئی اور ضیغم اسے اپنے گھر پر لے کر آگئے اگر رمشا اور بچے گھر پر موجود ہوتے تو روشانے کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے مگر کل ہی ضیغم اور شمروز جتوئی ان تینوں کو اسلام آباد کی روانگی کے لیے ائیرپورٹ چھوڑ کر آئے تھے


*****


"احتیاط سے لٹاؤ" ضیغم روشانے کے بے ہوش وجود گھر لا کر بیڈ پر لٹانے لگا تب شمروز جتوئی ضیغم سے بولا


ضیغم نے ایک نظر روشانے کے چہرے پر ڈالی اور شمروز جتوئی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔۔۔ شمروز جتوئی ابھی تک روشانے کو دیکھ رہا تھا


"یہ تو واقعی ہو بہو رباب سے ملتی ہے ضیغم"

شمروز جتوئی روشانے کا چہرہ دیکھ کر ضیغم سے مخاطب ہوا


"اور خوبصورت بھی کتنی ہے"

بےخودی کے عالم میں وہ کیا کہہ گیا اس کو احساس تب ہوا جب شمروز جتوئی اُسے گھور کر دیکھنے لگا


"میرا مطلب ہے کہ چہرے پر کس قدر معصومیت ہے، کسی معصوم بچے کے جیسی کیوٹنیس"

ضیغم کھسیا کر شمروز جتوئی کو اپنی بات کی وضاحت دینے لگا


"یہ چھوٹی بچی ہی ہے ابھی"

شمروز جتوئی آبرو اچکا کر اپنے بھتیجے کو جتانے لگا


"جی معلوم ہے بچی ہے اور آپ کی بھانجی بھی"

ضیغم گھور کر شمروز جتوئی کو دیکھتا ہوا بولا


"ویسے تمہیں اس کا نام کیسے معلوم ہوا"

شمروز جتوئی ضیغم کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا جس پر ضیغم ہنسا


"وہ تو ڈاکٹر کے سامنے میں نے ایسے ہی بول دیا تھا،، جب اپھو سے ملنے گیا تھا تب ان سے ایسے ہی کہہ دیا تھا کہ اس کا نام روشانے رکھیے گا، اب معلوم نہیں انہوں نے اس کا نام کیا رکھا ہے"

ضیغم روشانے کو دیکھتا ہوا شمروز جتوئی کو بتانے لگا


"یار سمجھ میں نہیں آرہا یہ بچی ہوش میں کیسے آئے گی،، ہم اسے یہاں پر لے تو آئے ہیں۔۔۔ مگر کالج ٹائم ختم ہونے کے بعد جب یہ واپس گھر نہیں پہنچے گی تو سب پریشان ہوں گے،، کہیں اس بچی کیلئے کوئی مسئلہ نہ پیدا ہو جائے"

شمروز جتوئی فکرمند ہوتا ہوا ضیغم سے بولا


"اس کا بیگ کہاں رکھا ہے آپ نے،، اس میں اس کا سیل فون موجود ہوگا ہم اس کے گھر کال کرکے انفارم کردیتے ہیں اور ساتھ ہی صبح والی ٹریجیڈی کے بارے میں بھی بتا دیتے ہیں"

ضیغم اس کا بیگ اور فائل دیکھ کر بولا جو کہ شمروز جتوئی نے روم میں آکر ٹیبل پر رکھا تھا


"نہیں پہلے اِسے ہوش میں لانا چاہیے پھر جو یہ کہے گی وہی کریں گے۔۔۔ میں نہیں چاہتا یہ بچی کسی بھی مسئلہ کا شکار ہو"

شمروز جتوئی ضیغم سے بولتا ہوا روشانے کے پاس آیا


"بیٹا کے کھولیے" شمروز جتوئی روشانے کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہؤا شفقت سے بولا مگر وہ ویسے ہی لیٹی رہی تب ضیغم بھی اس کے پاس آیا


"روشانے،،، فوراً آنکھیں کھولو"

ضیغم روعب دار آواز میں روشانے کو دیکھ کر بولا تو ایک دم روشانے نے اپنی آنکھیں کھولی


آآآآآآ

روشانے نے آنکھیں کھولنے کے ساتھ ہی اپنے سامنے کھڑے دو آدمیوں کو دیکھا۔۔۔ جن میں سے ایک وہی تھا جس نے تیمور خان کی بری طرح پٹائی کی تھی۔۔۔ دادی حضور نے بتایا تھا کہ وہ اسکی فیملی کے دشمن ہیں،،، تبھی وہ بیڈ سے اُٹھ بیٹھی اور زوردار آواز میں چیخنے لگی


"بیٹا آپ اتنی زور سے چیخ کیوں رہی ہو، خاموش ہو جائیں پلیز"

اُس کے چیخنے پر شمروز جتوئی روشانے کو سمجھاتا ہوا بولا مگر روشانے کی چیخوں کے آگے اُس کی آواز کہیں دب سی گئی تھی۔۔۔ وہ شمروز جتوئی کے قریب آنے پر مزید زور لگا کر چیخنے لگی


"اے خاموش بالکل، دماغ ٹھیک ہے تمہارا،، یا تمہیں ہمارے کانوں کے پردے پھاڑ کر ہمہیں بہرہ کرنا ہے"

ضیغم اُس سے بھی زیادہ زور سے دھاڑ کر بولا تو روشانے ایک دم خاموش ہو گئی اور ضیغم کو دیکھ کر جلدی سے دوپٹے سے اپنا چہرہ چھپانے لگی جیسے کہیں سے تیمور خان نکل آئے گا اور اُسے بے پردہ دیکھ کر مار ڈالے گا


"دیکھیں پلیز،، میں آپ دونوں کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں مجھے گڈنیپ کرکے آپ دونوں کو کیا ملے گا۔۔۔ آپ لوگ پلیز مجھے چھوڑ دیں مجھ پر رحم کریں"

یہ لوگ اس کے گھرانے کے دشمن تھے اور اس کی بےہوشی کا فائدہ اٹھا کر اُسے یہاں اپنے ساتھ لے آئے تھے۔۔۔ روشانے کو ضیغم کو دیکھ کر ایسا ہی کچھ سمجھ میں آیا تھا۔۔۔ جبکہ شمروز جتوئی اور ضیغم اس کی بات سن کر منہ کھولے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے


"تم اپنے آپ کو سمجھ کیا رہی ہو،، تم کسی ریاست کی شہزادی ہو یا پھر آسمان سے اتنی کوئی حور،، جو ہم تمہیں اغوا کریں گے۔۔۔ یا پھر تمہیں ہم دونوں شکل سے یا حُلیہ سے غنڈے موالی لگ رہے ہیں،، حد ہوتی ہے چاچو واپس پھینک کر آئیں اس ٹینشن کو یار"

ضیغم روشانے کی سوچ پر اُس کو ڈانٹتا ہوا بولا تو روشانے اُس کے ڈانٹنے میں سے مزید سہم کر رونے لگی اس کا چہرہ ابھی بھی دوپٹے میں چھپا ہوا تھا مگر آنکھوں سے نکلتے آنسو نمایاں ہو رہے تھے


"کیا کر رہے ہو ضیغم ڈراؤ تو نہیں بچی کو،، وہ رو رہی ہے"

شمروز جتوئی روشانے کی حالت دے کر ضیغم سے بولا۔۔۔۔ پھر روشانے کے پاس آکر اسے نرمی سے بولا


"بیٹا آپ روڈ کراس کر رہی تھی تب ایک بائیک آپ سے ٹکرا گئی تھی جس کی وجہ سے آپ بیہوش ہوگئیں۔۔۔ زخمی تھی تو میں اور ضیغم آپ کو اسپتال لے گئے آپ کا ایڈریس معلوم نہیں تھا اس لئے یہاں اپنے گھر لے آئے۔۔۔ ویسے بھی آپ غیر نہیں ہوں، آپ کو شاید علم نہ ہو میں آپ کی ماما کا سگا بھائی ہو یعنی آپ کا ماموں"

شمروز جتوئی نے اسے سارے حالات تفصیل سے بتانے کے ساتھ اپنا اور اس کا رشتہ بھی بتایا تاکہ کم سے کم وہ اُن دونوں سے خوف زدہ نہ ہو اور اپنے آپ کو محفوظ سمجھے۔۔ جبکہ روشانے اب خوفزہ نہیں بلکہ پریشان ہو کر باری باری اُن دونوں کو دیکھ رہی تھی


"میں اپنی تائی ماں سے بات کرنا چاہتی ہوں"

روشانے نے پریشان ہو کر اتنا ہی بولا تو ضیغم نے ٹیبل پر رکھا ہوا اس کا بیگ اٹھا کر روشانے کو تھمایا جس میں سے روشانے نے اپنا موبائل نکالا اور زرین کو کال ملانے لگی


"ہیلو،، تائی ماں میں روشانے"

موبائل پر زرین کی آواز سن کر روشانے کو ایک بار پھر رونا ّآنے لگا جبکہ روشانے کے منہ سے اُسی کا نام سُن کر شمروز جتوئی اور ضیغم چونک کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے


"روشی بچے مجھ کو بتاؤ تو کیا ہوا ہے،، تم ٹھیک تو ہو ناں"

زرین جوکہ نیوز چئینل دیکھ کر ویسے ہی پریشان بیٹھی تھی اور روشانے کو کال کرنے کا سوچ رہی تھی روشانے کے رونے پر وہ مزید پریشان ہوگئی


"تائی ماں میرے سر پر اور پاؤں پر چوٹ لگی ہے مجھے بہت درد بھی ہو رہا ہے"

شمروز جتوئی اور ضیغم کو دیکھ کر وہ اپنے ایکسیڈنٹ کا تو بھول ہی گئی تھی جب شمروز جتوئی نے اسے بتایا کہ اس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا تب اسے یاد آیا کہ وہ اچھی خاصی زخمی ہے،، ابھی وہ روتی ہوئی یہ بات زرین کو بتا رہی تھی


شمروز جتوئی پریشان کھڑا روشانے کی گفتگو سن کر ضیغم کو دیکھنے لگا۔۔۔ ضیغم نے ضبط کرتے ہوئے روشانے کے ہاتھ سے اس کا موبائل لیا اور سلام کرنے کے بعد پوری تفصیل سے زرین کو آج صبح والا واقعہ بتایا


اس کے بعد اس نے اپنا اور اپنے خاندان کا تعارف بھی کروایا ساتھ ہی وہ زرین کو تسلی دینے لگا کہ وہ بے فکر ہو جائے۔۔۔ اور اپنا شہر والا ایڈریس بتا دے تاکہ وہ روشانے کو باحفاظت گھر پہنچا دے


"بیٹا آپ نے شاید نیوز نہیں دیکھی تھوڑی دیر پہلے کسی بڑے سیاسی رہنما کو مار دیا ہے،، جس کی وجہ سے پورا شہر بند کروایا جا رہا ہے جگہ جگہ حالات خراب ہیں اور ٹریفک بری طرح جام۔۔۔ روشی وہاں آپ لوگوں کے پاس محفوظ رہے گی،، میں خود ڈرائیور کو کال کر کے سمجھا دوں گی وہ صبح روشی کو آپ کے ایڈریس لے کر یہاں حویلی آجائے گا"

زرین کو ضیغم سے بات کرکے تھوڑی تسلی ہوئی تھی مگر کال رکھنے کے بعد اب گھبراہٹ بھی ہو رہی تھی کیونکہ یہ بات اگر گھر کے کسی دوسرے فرد کو معلوم ہوگئی تو روشانے اور اس کی شامت لازمی آنی تھی۔۔۔ وہ ضیغم کا ایڈریس کو نوٹ کر چکی تھی،، اب اسے بانو (ملازمہ)کے شوہر اعتماد میں لینا تھا وہ بھروسے مند آدمی تھا جو روشانے کو باحفاظت حویلی لے آتا


****


رات کا آخری پہر چل رہا تھا تب روشانے کو اپنے چہرے پر مردانہ انگلیوں کا لمس محسوس ہوا کوئی اس کی آنکھوں کو چھوتا ہوا اس کے گالوں پر انگلیاں پھیر رہا تھا، ، اس کے ہونٹوں پر انگلیاں پھیرتا ہوا جب اس نے روشانے کے گلے ڈوپٹہ کھینچا تو روشانے کی آنکھ کھل گئی


****

اس وقت اپنے سامنے تیمور خان کو دیکھ کر روشانے کی خوف سے رُوح فنا ہونے لگی


"کیا لگ رہا تھا تجھے، یہاں ہمارے دشمنوں کے گھر چھپ کر رات گزارے گی اور تیمور خان کو کچھ معلوم نہیں ہوگا، تیری اس حرکت پر آج میں تیری جان لے لو گا"

تیمور خان نے غُصے سے بولتے ہوئے روشانے کی گردن پکڑ کر زور سے دبوچنا شروع کر دیا


"خان مجھے معاف۔۔۔۔ معاف کر دو"

روشانے مشکل سے تیمور خان کے ہاتھ اپنی گردن سے ہٹا کر بول پائی تھی مگر وہ ہاتھوں میں مزید سختی لائے روشانے کی گردن دبوچے جا رہا تھا


روشانے نے کے چیخنے کے ساتھ ہاتھ پاؤں بھی بیڈ پر مارنا شروع کر دیے۔۔۔ اپنے بچاؤ کے لئے وہ بیڈ سے نیچے جا گری اور خوف کے مارے زور سے چیخنے لگی


"روشی۔۔۔۔ روشی کیا ہوا"

ضیغم اُس کی چیخوں کی آواز سن کر روشانے کے کمرے میں آیا تو وہ بیڈ کے نیچے گری ہوئی خوف کے مارے چیخنے کے ساتھ رو رہی تھی


"وہ۔۔۔ خان کہا ہے"

کھڑکی سے چھلکتی ہوئی ہلکی ہلکی سورج کی کرنیں صبح کا پتہ دے رہی تھی۔۔۔ روشانے اپنے سامنے بیٹھے ضیغم کو دیکھ کر پریشان ہوتی ہوئی تیمور خان کو کمرے میں تلاش کرنے لگی


"کون خان۔۔۔ کس کی بات کر رہی ہو تم"

ضیغم اتنا تو سمجھ لیا کہ وہ خواب میں بری طرح ڈر گئی تھی مگر کس سے۔۔۔ اُس لیے وہ روشانے سے پوچھنے لگا


"تیمور خان۔۔۔ وہ ابھی یہاں پر موجود تھا۔۔۔ مار ڈالے گا وہ مجھے"

روشانے خوفزدہ ہوکر ضیغم سے بولنے لگی اس وقت اُسے وہ ضیغم سے چہرہ کیا چھپاتی خوف کے مارے اسے اپنے دوپٹے کا بھی ہوش نہیں تھا۔۔۔ ضیغم نے بیڈ پڑا ہوا اس کا دوپٹہ روشانے کو تھمایا تو روشانے دوپٹے سے اپنا چہرہ چھپانے لگی


"تیمور خان نہ ہی یہاں آ سکتا ہے اور نہ ہی تمہیں کچھ کہہ سکتا ہے،، اٹھو شاباش نیچے سے"

ضیغم نے اُس کی آنکھوں میں جابجا خوف کی پرچھائیاں دیکھی تو وہ روشانے کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہوا بولا


مگر روشانے نے اس کے ہاتھ کو نظرانداز کرتے ہوئے خود اٹھنا چاہا،، جس کے نتیجے میں اُس کے منہ سے سِسکی نکلی۔۔۔ بے ساختہ اس نے ضیغم کا ہاتھ تھاما ضیغم نے جتانے والے انداز میں اُسے دیکھا اور سہارا دے کر بیڈ پر بٹھانے لگا


"پاؤں میں زیادہ درد تو نہیں ہے" ضیغم اس کے پاؤں کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا تو روشانے نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔ اب وہ ذرا سا دوپٹہ ہٹا کر اس کی پیشانی کا زخم دیکھ رہا تھا


"شام کو ڈریسنگ کروا لینا"

دوپٹے سے اپنا چہرہ چھپائے وہ اسے خواب والی لڑکی لگی تو ضیغم اپنے دل میں آئے خیال کی خود نفی کرنے لگا


"مگر ڈرائیور تو تھوڑی دیر میں آنے والا ہوگا مجھے لینے کے لیے"

روشانے اُلجھتے ہوئے ضیغم کو دیکھ کر بولی تو وہ غور سے روشانے کو دیکھنے لگا


"راستے سارے بلاک ہیں،، مشکل ہی ہے تمہارا ڈرائیور آ سکے۔۔۔ سکون سے یہی بیٹھو جب تک حالات نارمل نہیں ہو جاتے"

ضیغم اس کی آنکھوں میں پریشانی دیکھتا ہوا بولا۔۔۔ جو اب دوپٹے میں سے چھلکتی ہوئی اُسے ڈسٹرب کر رہی تھیں


"ایسے کیسے سکون سے بیٹھ سکتی ہوں میں یہاں پر،، پلیز آپ مجھے کسی طرح حویلی چھوڑ آئے"

روشانے کو اس کی بات سن کر گھبراہٹ ہونے لگی تھی اسی لیے وہ بے ساختہ ضیغم سے بولی


"کیوں،، بہت یاد آرہی ہے اپنے ددھیال کی، یا پھر یہ گھر تمہیں جنگل لگ رہا ہے جہاں تم سکون سے نہیں رہ سکتی"

ضیغم اُس کی بات پر اچھا خاصا برا مان کر اُسے آنکھیں دکھاتا ہوا بولا۔۔۔ خواب میں بھی وہ لڑکی دور چلی گئی تھی اور اب وہ بھی جانے کی ہی بات کر رہی تھی


روشانے اُسے غُّصے میں دیکھ کر خاموش ہو گئی۔۔۔ غُصّہ تو اس کا بھی تیز تھا جو وہ پہلی ملاقات میں دیکھ چکی تھی اس لیے خاموش رہنا ہی بہتر تھا


"بھوک تو نہیں لگ رہی تمہیں"

روشانے کی خاموشی محسوس کرکے ضیغم اُس سے پوچھنے لگا کیونکہ کل رات کو بھی اُس نے تکلف سے برائے نام ہی کھانا کھایا تھا جوکہ شمروز جتوئی کے ساتھ وہ بھی نوٹ کر چکا تھا


"اگر میں بولوں گی ہاں، تو آپ کو غُصہ آئے گا۔۔۔ آپ پلیز جا کر سوجائیں"

روشانے کے بولنے پر وہ بنا کوئی جواب دئیے کمرے سے نکل گیا


"اُفف یہ تو سچی میں چلے گئے،، کتنے بدتمیز انسان ہیں، مجھے تو واقعی بھوک لگ رہی تھی"

روشانے بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگاتی ہوئی سوچنے لگی تھوڑی دیر میں وہ ناشتے کی ٹرے لے کر کمرے کے اندر داخل ہوا


روشانے دوبارہ اپنا چہرہ چھپاتی ہوئی حیرت سے اُسے دیکھنے لگی۔۔۔ اُس کے گھر کے مرد تو اس طرح خود سے کام کرنا توہین سمجھتے تھے


"یہ دودھ کا گلاس پورا پینا ہے تمہیں"

جس طرح وہ دودھ سے بھرے ہوئے گلاس کو دیکھ رہی تھی ضیغم اُس کی نظروں کو دیکھتا ہوا بولا


"دودھ مجھے بالکل پسند نہیں"

روشانے بہت آہستہ آواز میں منمنائی


"کوئی فرمائشی پروگرام چل رہا ہے یہاں پر۔۔۔ فوراً اٹھاو گلاس"

ضیغم اب کی بار روعب دار لہجے میں بولا تو روشانے کو ناچار دودھ سے بھرا گلاس اٹھانے پڑا۔ ۔۔ ضیغم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگی جسے وہ چھپاتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا


****


"کیا بنایا ہے جارہا ہے اتنی محنت سے"

ژالے اس وقت کچن میں موجود، چوکلیٹ کوکیز بیک کر رہی تھی کیونکہ وہ تیمور خان کو پسند تھی اور آج تیمور خان گھر پر ہی موجود تھا اور اس کا موڈ بھی خوشگوار تھا اس لئے دوستانہ لہجے میں کچن میں آکر ژالے سے پوچھنے لگا


"محنت کے ساتھ ساتھ محبت سے بھی، چاکلیٹ کوکیز بیک کی ہیں تمہارے لیے تمہیں پسند ہے ناں"

ژالے دھیمے انداز میں بولی اور تیمور خان کو دیکھ کر مسکرانے لگی۔۔۔ اس کی آنکھیں بہت کچھ بول رہی تھی جنہیں دیکھ کر ایک پل کے لئے تیمور خان خاموش ہو گیا۔۔۔ یہ انکھوں کی زبان سمجھنا اتنا بھی مشکل کام نہیں تھا


"دشوار راستے کا انتخاب کیا ہے تم نے،، کچھ حاصل نہیں ہوگا اس راہ پہ چل کر، وقت ابھی بھی ہاتھوں میں ہے، راستہ بدل لو"

تیمور خان ژالے کو سمجھاتا ہوا بولا وہ نہیں چاہتا تھا ژالے کو اس کی طرف سے کوئی بھی خوش فہمی رہے


"راستہ بیشک دشوار ہے مگر غلط تو نہیں ہے نا،، محبت حاصل اور حصول کو سوچ سمجھ کر نہیں کی جاتی خان،، وقت تو ژالے کے ہاتھوں سے کب کا نکل چکا ہے،، اُس نے تمہیں تب سے اپنے دل میں بسایا ہے جب وہ خود اِس جذبے سے واقف نہیں تھی"

ژالے تیمور خان کے سامنے آ کر بولی۔۔۔ آج اس نے پہلی بار تیمور خان کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا تھا شاید زرین پر اُس کا راز اشکارہ ہوچکا تھا تبھی وہ تیمور خان کے سامنے اپنی محبت کا اعتراف کر گئی تھی


"تم اچھی لڑکی ہو ژالے، مگر مجھے روشانے پسند ہے،، ابھی سے نہیں بچپن سے اور میں اُسی سے شادی کروں گا"

تیمور خان نے اُس کے جذبات کا خیال کئے بنا اسے اپنی پسند کا بتادیا جس سے ژالے کا دل کرچی کرچی ہوگیا۔۔۔ وہ زخمی نظروں سے تیمور خان کو دیکھنے لگی


وہ ژالے کو ایک نظر دیکھ کر کچن سے جا چکا تھا۔۔۔ ژالے آنکھوں میں آئے آنسو صاف کرتی ہوئی بیک کیے ہوئے کوکیز نکالنے لگی۔۔۔ اپنے کمرے میں آکر وہ اپنی خالہ سے موبائل پر بات کرنے لگی۔ ۔۔۔ کبریٰ خاتون سے اجازت لے کر وہ چند دن خالہ کے پاس رکنا چاہتی تھی۔۔۔ زخم نیا تھا اور تازہ بھی بھرتے بھرتے وقت تو لگتا ہی


****


دوبارہ ضیغم کی آنکھ کُھلی تو صبح کے دس بج رہے تھے وہ اپنے کمرے سے نکل کر لیونگ روم میں آنے لگا مگر وہاں ایک جذباتی منظر اُس کا منتظر تھا۔۔۔ دائیں طرف صوفے پر شمروز جتوئی اور اُس کے برابر میں روشانے بیٹھی تھی دونوں کی آنکھیں اشکبار تھیں اور سامنے ٹیبل پر پرانا فیملی البم کُھلا ہوا رکھا تھا یقیناً اِس وقت شمروز جتوئی اور روشانے، رباب کا ذکر کر کے اور تصویریں دیکھ کر افسردہ ہو گئے تھے


روشانے اس وقت کالج یونیفارم کی بجائے رمشا کے ڈریس میں موجود تھی، ہلکے سبز رنگ کے کپڑوں میں وہ ضیغم کو اپنے دل کے بہت قریب لگی ضیغم گلا کھنگارتا ہوا لیونگ روم کے اندر داخل ہوا تو دونوں ہی اُس کی طرف متوجہ ہوئے روشانے نے فوراً دوپٹے سے اپنا چہرہ چھپالیا


"کیا تم نے یہاں آتے ہی رونے والی بیماری چاچو کو بھی لگا دی ہے"

ضیغم روعب دار لہجے میں روشانے کو گھورتا ہوا بولا اور ان دونوں کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا


"کیا تم بچی کو آنکھیں دکھا کر بلاوجہ کا روعب ڈال رہے ہو،، ہم دونوں تو رباب کا ذکر کر رہے تھے باتوں میں وقت گزرنے کا معلوم ہی نہیں ہوا"

شمروز جتوئی اپنی آنکھیں خشک کرتا ہوا ضیغم کو بتانے لگا تب شمروز کا موبائل بجنے لگا تو وہ اٹھ کر روم سے باہر نکل گیا۔۔۔


روشانے ابھی بھی سر جھکائے اُداس بیٹھی تھی،، ضیغم دوپٹے میں چھپا ہوا اس کا چہرہ غور سے دیکھنے لگا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر شمروز جتوئی والی جگہ پر بیٹھا ساتھ ہی البم اٹھا کر رباب کی تصویر دیکھنے لگا


"کتنی عجیب بات ہے ناں، آج میں نے پہلی بار اپنی ماما کو دیکھا ہے ورنہ اس سے پہلے تو صرف تائی ماں سے اُن کے بارے میں سنا ہی تھا"

روشانے کے بولنے پر ضیغم اُسے دیکھنے لگا اس پل ضیغم کا دل شدت سے چاہا کہ وہ اس لڑکی کی آنکھوں سے آنسو پوچھ ڈالے جو کہ اب سیدھا اس کے دل پر گر رہے تھے


"میں نے اپھو کو دیکھا ہی نہیں ان سے ڈھیر سارا پیار اپنا حق سمجھ کر وصولتا رہا ہو، خوب لاڈ اٹھاتا، فرمائشیں پوری کرواتا تھا اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں اگر وہ ہمارے درمیان ہوتی تب بھی وہ تم سے زیادہ مجھے پیار کرتی"

ضیغم روشانے کو بہلانے کے غرض سے بولنے لگا


"وہ کیسے ہمارے درمیان ہو سکتی تھی بھلا، اُن سے تو ان کی زندگی ہی چھین لی تھی بڑے ماموں نے، کیوں اتنی بے رحمی سے مار ڈالا اُنہوں نے میرے بابا کو"

روشانے کے انداز میں شکوہ یا غُصہ نہیں تھا بلکہ اس کی آواز میں محرومی تھی اپنے ماں باپ سے بچھڑنے کا درد،، اُس کی بات پر جیسے ضیغم کا دل کسی نے مٹھی میں لے لیا۔۔۔ اسکے اپنے باپ نے کتنی بےرحمی سے مار ڈالا تھا اس لڑکی کے باپ کو۔ ۔۔۔ ضیغم کو اپنے سامنے بیٹھی لڑکی پر ترس آنے لگا


"تم اپنے بڑے ماموں کے بیٹے سے اس کی زندگی چھین کر اپنا بدلہ پورا کر لو، قسم کھا کر کہتا ہو اُف تک نہیں کروں گا"

ضیغم ٹیبل پر موجود فروٹ باسکٹ سے چھری اٹھا کر روشانے کی طرف بڑھاتا ہوا بولا


"میں اتنی بے رحم اور ظالم ہرگز نہیں ہو سکتی کہ اپنی محرومیوں کا بدلہ کسی کی جان لے کر پورا کرو"

روشانے ضیغم کے ہاتھ سے چھری لے کر واپس رکھنے لگی تبھی بےاختیاری میں ضیغم، اُس کے چہرے سے دوپٹہ ہٹانے لگا


ایک بار پھر وہ دور کہیں اپنے خواب میں پہنچ چُکا تھا۔۔۔ اُسے بس اتنا یاد تھا کہ اگر کوئی بھیانک آواز آئے تو وہ مڑ کر نہیں دیکھے گا،،

وہ روشانے کو اپنے سے دور جاتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا


خواب میں تو وہ اُس لڑکی کا چہرہ نہیں دیکھ سکا تھا مگر اِس وقت روشانے کا چہرہ دیکھتے ہوئے ضیغم کا دل گواہی دینے لگا اگر وہ خواب میں بھی اُس پوشیدہ چہرے سے آنچل سرکا دیتا تو لازمی، وہ یہی چہرہ ہوتا جو اس وقت اس کے سامنے موجود تھا۔۔۔ اب وہ با آسانی اُس کے آنسو اپنی انگلیوں کے پوروں سے چُن رہا تھا


جبکہ دوسری طرف ضیغم کی حرکت پر روشانے چونک کر اُسے دیکھنے لگی۔۔۔ اُسے آنسو صاف کرتا دیکھ کر روشانے کا دل بے اختیار زور سے دھڑکا تھا۔۔۔


"ساری زندگی اپھو کی طرح نہ صرف تمہارے لاڈ اٹھا سکتا ہوں بلکہ تمہاری ساری فرمائشیں بھی پوری کر سکتا ہوں۔۔۔ تم چاہو تو مجھ سے ڈھیر سارا پیار بھی وصول سکتی ہو"

ضیغم دھیمے لہجے میں روشانے سے کہہ رہا تھا اور وہ حیرت سے پوری آنکھیں کھولے ضیغم کو دیکھ رہی تھی


وہ اس بات کو بڑھاوا نہیں دے سکتی تھی کیونکہ اس میں اپنی ماما کی طرح ہمت نہیں تھی اس لیے دوبارہ اپنا چہرہ دوپٹے سے چھپاتی ہوئی،، وہ صوفے پر تھوڑے فاصلے سے بیٹھ گئی


"طبیعت کیسی ہے تمہاری،، میرا مطلب ہے، پاؤں میں درد تو نہیں ہے اب"

ضیغم اس کی حرکت پر بنا کسی ردعمل کا اظہار کرے اب خود بھی نارمل لہجے میں اُس کی طبیعت پوچھنے لگا ۔ ۔ ۔ وہ اپنےخواب والے سحر سے آزاد ہوچکا تھا


"کافی بہتر محسوس کر رہی ہوں، اب تو چلنے میں بھی درد نہیں ہو رہا"

روشانے اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی کہنے لگی مگر اُسکی آنکھیں بے تاثر تھی


"ریئلی ذرا چل کر تو دکھاؤ"

ضیغم کی بات سن کر وہ کنفیوز ہو کر اُسے دیکھنے لگی مگر وہ منتظر تھا اسی لیے روشانے صوفے سے اٹھ کر چلنے لگی


"گڈ، اب یہاں سے باہر نکل کر سیدھا جا کر الٹے ہاتھ پر مڑو وہاں پر کچن موجود ہے، جلدی سے جا کر میرے لئے ناشتہ بنا کر لاؤ"

وہ صوفے پر مزید ریلیکس ہوکر بیٹھتا ہوا روشانے کو حکم دینے لگا جبکہ روشانے منہ کھولے ضیغم کو دیکھنے لگی


"کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہی ہو کیا ابھی بھی کوئی ایسی ویسی بات کہہ دی میں نے"

ضیغم سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا تو وہ نفی میں سر ہلا کر کمرے سے باہر نکل گئی


روشانے کے کمرے سے جانے کے بعد کے ضیغم کے چہرے کے تاثرات ایک دم سنجیدہ ہو گئے۔۔۔ اُسے اپنی بات کے نظر انداز کیے جانے پر برا نہیں لگا تھا،، وہ جان گیا تھا روشانے کم ہمت لڑکی ہے۔۔۔ اور جو اس کا اپنا دل خواہش کر بیٹھا تھا،، اس خواہش کی تکمیل ایک ناممکن سی بات تھی


****


"روشی تمہیں معلوم نہیں ہے اگر بڑے خان، اماں حضور یا تیمور خان میں سے کسی کو بھی معلوم ہوگیا کہ تم شمروز جتوئی کہ شہر والے گھر میں وجود ہوں تو تمہارے ساتھ ساتھ میں بھی بری طرح پھنسو گی"

شام میں جب زرین کی کال آئی تو وہ روشانے کو بولنے لگی


"تائی ماں آپ تو ایسی باتیں کرکے مجھے ڈرا رہی ہیں"

روشانے واقعی ڈر گئی تھی مگر اسے معلوم تھا زرین جو کچھ کہہ رہی ہے وہ سچ ہے


"ڈرا نہیں رہی ہوں بچے سمجھ آ رہی ہو تجھے، میں نے اور ژالے نے یہاں پر سب سنبھال لیا ہے کسی کو شک بھی نہیں گزرا ہے۔۔۔ راستے بند ہونے کی وجہ سے آج ڈرائیور نہیں آ سکا وہ کل صبح تمہیں لینے کے لیے آئے گا اور یہاں حویلی چھوڑ دے گا۔۔۔ اگر کوئی سر کی چوٹ کے بارے میں پوچھے تو رونے یا گھبرانے مت بیٹھ جانا،، کہہ دینا کالج میں گر گئی تھی۔۔۔ کل صبح تک جلدی جلدی حویلی پہنچو، تین چار یہاں گزار لو پھر واپس چلی جانا "

زرین اسے ڈھیر ساری نصیحتیں کرکے فون رکھ چکی تھی تب ضیغم کمرے کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہوا اندر آیا


روشانے زرین کی کال سن کر پریشان ہو گئی تھی، اس لیے بے خیالی میں ضیغم کو دیکھے گئی،، ضیغم اُس کے چہرے پر پریشانی دیکھ کر فرسٹ ایڈ باکس ہاتھ میں تھامے چلتا ہوا اُس کے پاس آیا اور اس کے دوپٹے کا سرا روشانے کے چہرے تک لا کر اس کا چہرہ کور کرنے لگا،، تو روشانے پوری طرح ہوش میں آئی


"کوئی پریشانی ہے" ضیغم فرسٹ ایڈ باکس کو ٹیبل پر رکھتا ہوا اُس کی آنکھوں میں جھانک کر پوچھنے لگا تو روشانے نے نفی میں سر ہلایا


"یہ نقاب کس عمر میں کرنا شروع کیا تم نے"

ضیغم روشانے سے پوچھتا ہوا اسکی پیشانی سے ہلکا سا دوپٹہ سرکا کر اُس کا زخم دیکھنے لگا


"باقاعدگی سے نقاب نہیں کرتی، بس دادی حضور کا حکم ہے کہ کسی غیر کے سامنے اپنا چہرہ نہ دکھایا کرو"

روشانے کی بات سن کر ضیغم اُسے گھور کر دیکھنے لگا


"کیا تیمور خان سے بھی چہرہ چھپاتی ہو"

ضیغم نے سوالیہ نظروں سے روشانے کو دیکھتے ہوئے پوچھا جس پر اُس نے نفی میں سر ہلایا


"اُن سے چہرہ کیوں چھپاؤں گی وہ غیر تو نہیں ہیں،، گھر کے ہی فرد ہیں ناں" روشانے اُسے سمجھاتی ہوئی بولی تو ضیغم کے ماتھے پر شکنیں نمایاں ہوئی


"وہ غیر کیوں نہیں ہے وہ بھی تو کزن ہے، جیسے میں کزن ہوں، ایک گھر میں رہنے سے کیا ہوتا ہے جب اسے چہرہ نہیں چھپاتی تو پھر مجھ سے بھی چھپانے کی ضرورت نہیں ہے،، ہٹاؤ اس دوپٹے کو اپنے چہرے سے"

آخری جملہ ضیغم نے اُسے حاکمانہ لہجے میں کہا تو روشانے نے اپنے چہرے سے دوپٹہ ہٹا لیا


"یہ کام چاچو سے نہیں ہوا جاتا،، اس لیے انہوں نے مجھے کہا کہ تمہاری ڈریسنگ کردو اب سیدھی ہو کر بیٹھ جاؤ بلکل"

ضیغم اس کی پیشانی پر لگی ہوئی بینڈچ اتارنے لگا تو روشانے زور سے اپنی آنکھیں بند کر لی


ضیغم اس کا چہرہ غور سے دیکھنے لگا روشانے کے چہرے کی معصومیت نے اور حسین نقش نے لمحہ بھر میں پھر سے ضیغم کو اپنے سحر میں جکڑ لیا،، وہ ایک بار پھر کہیں کھو سا گیا۔۔۔

اُس کے چہرے سے نظریں ہٹانا ضیغم کو ایک مشکل کام لگا


وہ یہاں اُس کی بینڈیج کرنے آیا تھا لیکن اب خود کو بے بس محسوس کرتا، وہ کسی سحر میں جکڑا ہوا وہ روشانے کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔۔۔ روشانے جو کافی دیر سے آنکھیں بند کئے ہوئے تھی،، اپنے چہرے کو ضیغم کی نظروں کے حصار میں محسوس کر کے آنکھیں کھولے اُسے دیکھنے لگی


"کک۔ ۔۔۔ کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رہے ہیں"

روشانے ہچکچاتی ہوئی ضیغم سے پوچھنے لگی،، تو اُسی پل ضیغم کسی سحر سے آزاد ہوا


"چہرہ ڈھک لو اپنا"

ضیغم کی بات سن کر روشانے حیرت سے اُس کی طرف دیکھنے لگی کیونکہ تھوڑی دیر پہلے اُسی نے چہرے سے دوپٹہ ہٹانے کا حکم دیا تھا اور اب وہ خود ہی چہرے ڈھکنے کو کہہ رہا تھا۔۔۔ ضیغم کی بات مانتے ہوئے اس نے دوبارہ اپنا چہرہ دوپٹے میں چھپا لیا


اُس کے چہرے کو ڈھکنے میں ہی ضیغم کو اپنی عافیت لگی ورنہ وہ اس کا چہرہ دیکھ کر بے اختیار ہو جاتا تھا اور اتنی بے اختیاری خطرناک ثابت ہوسکتی تھی،، پائیوڈین کی مدد سے وہ روشانے کی پیشانی کا زخم صاف کرنے کے بعد ڈریسنگ کرتا ہوا سوچنے لگا


"گڈ تم تو کافی بہادر ہو، میں سمجھ رہا تھا بینڈیج کرتے ہوئے کافی ڈانٹ ڈپٹ کرنی پڑے گی تمہارے ساتھ"

ضیغم روشانے کے بینڈیج کرنے کے بعد اُسے دیکھتا ہوا بولا


"نہیں میں بالکل بہادر نہیں ہوں مگر ایک بات مجھے سمجھ میں نہیں آتی۔۔ یوں ڈانٹ ڈپٹ کرکے،، کسی کمزور پر اپنا روعب جما کر طاقتوار انسان کو آخر کونسی تسکین ملتی ہے"

روشانے آہستہ آواز میں ضیغم سے پوچھنے لگی وہ اس طرح پہلی بار اپنی زندگی میں کسی مرد سے بات کر رہی تھی بنا ڈرے


"جیسے پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتی ایسے ہی سارے انسان ایک جیسے نہیں ہوتے روشی"

ضیغم اُس کو دیکھتا ہوا بولا


"روشی مجھے پیار سے تائی ماں کہتی ہیں"

روشانے اُسے جتانے والے انداز میں بولی کیونکہ وہ دوپہر میں بھی اُسے روشی روشی کہہ کر مخاطب کر رہا تھا


"میرے منہ سے ہی سن کر اُنہوں نے بولنا شروع کیا ہوگا۔۔۔ اپھو کو پہلے ہی بتا چکا تھا کہ میں پیار سے روشانے کو روشی کہوں گا"

اب کی بار ضیغم اُس کو جتاتا ہوا بولا جس پر روشانے اُسے کنفیوز ہوکر دیکھنے لگی


"تمہیں معلوم ہے تمہاری پیدائش کے تمہارا نام، یعنی روشانے کس نے رکھا تھا"

ضیغم کو محسوس ہوا جیسے وہ اُس سارے واقعے سے لاعلم ہے، تبھی وہ روشانے سے پوچھنے لگا


"تائی ماں نے ہی تو رکھا تھا"

روشانے فوراً بولی


تب ضیغم نے روشانے کو اس کی پیدائش والے دن کا واقعہ بتایا جب وہ اسکول جانے کی بجائے رباب سے ملنے چلا آیا تھا


روشانے کو یہ بات سن کر کافی حیرت ہوئی،، اگر یہ بات سچ تھی تو تائی ماں نے اُسے لاعلم اس لیے رکھا ہوگا کیوکہ یہ بات دادی حضور کے علم میں ہرگز نہیں ہوگی


"روشی"

ضیغم کی بات سن کر روشانے کمرے سے جانے لگے تب ایک دم اسے ضیغم نے پکارا۔۔۔ روشانے پلٹ کر کے ضیغم کو دیکھنے لگی


"کل تمہارے یہاں سے جانے کے بعد،، میرا مطلب ہے تم دوبارہ یہاں ہم سے ملنے آؤں گی ناں،، چاچو تمہیں بہت مس کریں گے۔۔۔ چچی اسد اور وفا بھی تم سے مل کر بہت خوش ہوں گے"

ضیغم روشانے کو اپنے دل کی حالت سے بے خبر رکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا۔۔۔وہ چاہتا تھا کہ روشانے دوبارہ یہاں آئے،، شاید وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ روشانے اسے بھولے نہ


"ماموں کہہ رہے تھے کہ وہ شام میں میری، مامی اور بچوں سے بات کروائیں گے۔۔۔ ماموں کو دیکھ کر آتی ہوں شاید وہ ابھی فری ہوں گے"

ضیغم کی بات کو یکسر نظر انداز کر کے وہ کمرے سے جانے کے لیے دوبارہ مڑی۔۔۔ روشانے جانتی تھی کہ اس کی حویلی کا کوئی فرد نہیں چاہے گا کہ روشانے ان لوگوں سے کوئی تعلق رکھے۔۔۔ اور وہ اتنی دلیر نہیں تھی کہ چوری چھپے اُن لوگوں سے ملتی


"روشی"

ضیغم نے اُسے دوبارہ پکارا۔۔۔۔ اب کی بار اُس کی آواز میں کافی بےبسی تھی روشانے دوبارہ پلٹ کر اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی


ضیغم کا دل چاہا وہ اُسے ایک بار پھر چہرے سے دوپٹہ ہٹانے کا کہہ دے، ایک دفعہ پھر ضیغم کے دل میں اُس کا چہرہ دیکھنے کی خواہش جاگی تھی۔۔۔ معلوم نہیں وہ یہ چہرہ پھر کبھی دیکھ سکے گا کہ نہیں۔۔۔۔ روشانے جو اُس کے بولنے کا انتظار کر رہی تھی وہ بنا کچھ بولے خود ہی کمرے سے باہر چلا گیا


****

"ہاں راشد جو ایڈریس میں نے آپ کو سمجھایا ہے وہی سے چھوٹی بی بی کو باحفاظت سیدھا حویلی لے کر آ جاؤ۔۔۔ بڑے خان سے یا کسی سے بھی کچھ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ سب آپ پر غُصہ کریں گے،، بس آپ روشی کو حویلی لے کر پہنچو، باقی سب میں خود سنبھال لوں گی"

زرین ڈرائیور سے اپنے کمرے میں چوری چھپے موبائل سے رازدارانہ انداز میں بولی


"اوہو کل بتایا تو تھا آپ کو ایڈریس، رکو میں ابھی دوبارہ دیکھ کر بتاتی ہوں"

ڈرائیور کے پوچھنے پر ایک بار پھر زرین اپنے پاس ڈائری میں لکھا ہوا شمروز جتوئی کے گھر کا ایڈریس اُسے بتانے لگی اور فون رکھ کر اطمینان کا سانس لے کر مڑی مگر دروازے پر کھڑے تیمور خان کو دیکھ کر وہ ایک دم ساکت ہوگئی


"کہاں ہے اِس وقت روشانے"

تیمور خان تیوری پر بل لیے زرین سے پوچھتا ہوا اُس کے پاس آیا


"شہر کے حالات ٹھیک نہیں تھے تو میری اجازت پر وہ اپنی دوست کے گھر رکی ہوئی ہے، واپس حویلی بلوا لیا ہے میں نے اُسے"

تیمور خان کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر زرین کو اندازہ ہو گیا کہ وہ راشد سے اس کی موبائل پر گفتگو سن چکا ہے اس لئے زرین بغیر گھبرائے تیمور خان کو بتانے لگی


"پتہ بتاؤ آپ مجھے اُس کی سہیلی کا"

بولنے کے ساتھ ہی تیمور خان نے زرین کے ہاتھ سے اُس کی ڈائری چھینی


"یہ کیا بدتمیزی ہے تیمور واپس کرو ڈائیری"

زرین نے بولتے ہوئے تیمور کے ہاتھ سے ڈائری لینی چاہی مگر تیمور خان ڈائیری میں شمروز جتوئی کا ایڈریس دیکھ کر غُصّے میں آگ بگولہ ہو گیا


"کیا کھیل کھیل رہی ہو آپ اور روشانے اس خاندان کی عزت کے ساتھ،، کب سے رکی ہوئی ہے روشانے شمروز جتوئی کے گھر جواب دو مجھے"

تیمور خان ڈائری دور پھینک کر زرین کو دونوں بازووں سے پکڑتا ہوا کافی بدتمیزی سے چیختا


"تیمور خدا کا واسطہ ہے آہستہ بولو میں سب سچ بتاتی ہوں"

زرین کو ڈر تھا یہ بات کسی طرح کبریٰ خاتون تک نہ پہنچے اس لئے وہ اپنے بیٹے کے سامنے منت کرتی ہوئی بولی


"سچ تو میں اب وہاں جا کر میں خود معلوم کر لوں گا"

تیمور خان غُصّے میں پاگل ہوتا ہوا بولا اور زرین کا بازو کھینچ کر اسے کبریٰ خاتون کے کمرے میں لے جانے لگا۔۔۔ زرین تیمور خان کے سامنے گڑگڑا کر اُسے خدا کا واسطہ دینے لگی


"شہر میں دشمنوں کے گھر بیٹھی ہوئی ہے آپ کی پوتی دادی حضور، امی کو اس کے بارے میں سب خبر ہے۔۔۔ اب یہ بات آپ ان سے اپنے طریقے سے پوچھو، میں روشانے کو لے کر آتا ہوں"

تیمور خان نے شہر کے لیے روانگی سے پہلے کبریٰ خاتون کو حقیقت سے آگاہ کیا۔۔۔ کبریٰ خاتون سخت اور کاٹ دار نظروں سے زرین کو دیکھنے لگی۔۔۔ جو مجرموں کی طرح سر جھکائے ان کے سامنے کھڑی تھی


****


اچھا لگا تو اسے اپنا یہ کزن خوش مزاج سا۔۔۔ تھوڑا تھوڑا غصہ دکھانے والا مگر غُصّہ بھی وہ تمیز کے دائرے میں رہ کر کرتا۔ ۔۔۔ روشانے کو اُس سے باتیں کرتے ہوئے خوف محسوس نہیں ہوتا،،، جیسے وہ تیمور خان سے خوف کھاتی


تیمور خان اور ضیغم جتوئی میں زمین آسمان کا فرق تھا کل رات جب ضیغم اس سے دوبارہ ملنے کا پوچھ رہا تھا تب اس کی آنکھوں میں ایک امید سی تھی مگر روشانے اُسے کوئی جھوٹی امید نہیں دلانا چاہتی تھی۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد ڈرائیور آنے والا تھا پھر اُسے یہاں سے چلے جانا تھا،، اُس کے صبح بیدار ہونے سے پہلے ہی ضیغم آفس جا چکا تھا،، یہ بات جب اُسے شمروز جتوئی سے پتہ چلی تو روشانے کا دل بُجھ سا گیا۔۔۔ ابھی وہ ضیغم کے بیڈروم میں کھڑی ہوئی،، دیوار پر نسب اُس کی تصویر دیکھ رہی تھی۔۔۔ جس میں وہ شمروز جتوئی کے ساتھ کھڑا ہوا تھا


ژالے کی بات یاد کرکے روشانے کے چہرے پر ایک دم مسکراہٹ آئی جو اُس کے حویلی آنے پر ہمیشہ اُس سے کسی ہینڈسم لڑکے سے ٹکراؤ کا پوچھتی۔۔۔ اب یہاں سے جانے کے بعد اُس کے پاس ژالے سے شیئر کرنے کے لیے ڈھیر ساری باتیں تھی مگر یہاں سے جانے پر اندر کہیں دل بھی اداس تھا اس بے نام سی اداسی کی وجہ سے اسے معلوم نہیں تھی


"کون زیادہ ہینڈسم لگ رہا ہے تصویر میں"

شمروز جتوئی روشانے کے پاس آکر اُسے دیکھتا ہوا پوچھنے لگا


"آف کورس ماموں آپ"

روشانے ایک دم سٹپٹاتی ہوئی بولی اور ساتھ ہی شرمندہ ہونے لگی وہ ناشتہ کرنے کے بعد یوں ضیغم کی غیر موجودگی میں بنا اجازت اس کے کمرے میں آگئی تھی


"اگر کوئی دوسری لڑکی تمہاری جگہ ہوتی تو وہ یقیناً سچ بولتی"

شمروز جتوئی اس کے گھبرائے ہوئے چہرے کو دیکھتا ہوا بولا تو روشانے مزید گھبرا گئی


"میں بھی بالکل سچ بول رہی ہو ماموں،، ویسے بھی تصویر میں،، میں نے اِن جناب پر تو غور ہی نہیں کیا۔۔۔ غور کرنے والی بات بھی بھلہ کیا ہو بلاوجہ غصہ ہی کرتے رہتے ہیں"

روشانے شمروز جتوئی کو مزید صفائی دیتی ہوئی بولی مگر حقیقت تو یہی تھی کہ ضیغم کی پرسنیلٹی کافی شاندار تھی


"اگر تم نے واقعی ضیغم کی تصویر پر غور نہیں کیا پھر تو تمہاری بات مان لیتا ہو۔۔۔ مگر اُس کے غُصہ کرنے والی بات تو درست نہیں ہے بلا جواز تو وہ کبھی بھی غُصہ نہیں کرتا"

شمروز جتوئی مسکرا کر روشانے سے بولتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا کیونکہ ڈور بیل بجی تھی روشانے بھی شمروز جتوئی کے پیچھے چل دی


"کون ہو تم لوگ،، اندر کیوں آ رہے ہو۔۔۔ یہ کون سا طریقہ ہے"

شمروز جتوئی اس آدمی کو بولا جو ہاتھ میں گن لیے زبردستی گھر میں گھسا اور اس کے پیچھے دوسرا شخص، جو کہ ضیغم کا ہم عمر تھا اور کافی غُصے میں دکھ رہا تھا


"خان"

شمروز جتوئی کے زور سے بولنے پر روشانے باہر نکلی مگر سامنے تیمور خان کو دیکھ کر اُس کی رُوح فنا ہونے لگی وہ کانپتے ہوۓ لہجے میں "خان" بولی تو شمروز جتوئی چونک کر روشانے کی اڑی ہوئی رنگت دیکھنے لگا۔۔۔ اس کے منہ سے خان لفظ سن کر وہ سمجھ گیا کہ وہ تیمور خان تھا


تیمور خان چلتا ہوا روشانے کے پاس پہنچا اور زور دار تھپڑ روشانے کے گال پر رسید کیا جس سے وہ اوندھے منہ فرش پر جا گری


"خبردار جو تم نے اس پر ہاتھ اٹھایا" شمروز جتوئی بلند آواز سے تیمور خان سے بولا جبکہ روشانے گال ہر ہاتھ رکھے خوف کے مارے کانپنے لگی۔۔۔ تیمور خان نے گن مین کو اشارہ کیا اس نے اپنی گٙن شمروز جتوئی کے سینے پر رکھ دی


"اگر اب اسکی آواز نکلے تو اُڑا دینا اسے"

تیمور خان گن مین کو بولتا ہوا دوبارہ روشانے کی طرف بڑھا


ڈر کے مارے روشانے نے زمین سے اٹھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔۔۔ تیمور خان مٹھی میں اُس کے بالوں کو پکڑ کر اُسے اٹھانے لگا


"خان پلیز نہیں" روشانے تیمور کی کلائی پکڑ کر ڈرتی ہوئی اُس سے بولی


"یہاں نہیں تُجھے تو میں گھر جاکر بتاؤ گا، چل"

تیمور خان غُصے میں سرخ آنکھوں سے روشانے کو دیکھ کر کہتا ہوا اُس کے بالوں کو مٹھی سے آزاد کر کے،، اس کا بازو کھینچتا ہوا گھر سے باہر نکلنے لگا


روشانے آنکھوں میں آنسو بھرے بے بسی سے روتی ہوئی شمروز جتوئی کو دیکھنے لگی،، مگر وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ اُس کی پرورش اُن لوگوں نے کی تھی وہ کس حق سے اسے روک سکتا۔۔۔ گن میں بھی تیمور خان کے پیچھے چل دیا


****


"چٹاخ۔ ۔۔۔ چٹاخ۔ ۔۔۔ چٹاخ۔ ۔۔۔ دو راتوں سے موجیں کر رہی تھی شمروز جتوئی کے بھتیجے کے ساتھ،، بول کیا کیا اُس کمینے نے تیرے ساتھ۔۔۔ چھوئے بغیر تو تجھے نہیں چھوڑوں گا اُس نے"

کمرہ بند کر کے منہ پر تھپڑ مارنے کے بعد فرش پر گری ہوئی روشانے کو وہ لاتوں سے مارتا ہوا اپنے ذہن میں بھرا ہوا گند اس پر انڈیل رہا تھا۔۔۔ روشانے اپنی بےگناہ ہونے کی قسم کھاتی ہوئی اُس سے معافی مانگ رہی تھی


"تیمور چھوڑ دے اسکو، وہ بےقصور ہے میرے کہنے پر وہ بدنصیب وہاں رک گئی تھی، مت کر اُس پر ظلم، میں معاف نہیں کرو گی تجھے"

دوسری طرف کھڑکی سے کمرے میں جھانکتی ہوئی زرین اپنے بیٹے کی درندگی دیکھ کر چیخ چیخ کر اسے کوس رہی تھی


"آ لینے دے آج اسماعیل خان کو تیری چٹیا میں بھی بل ڈلواتی ہوں،۔۔۔ تو نے ہمارے دشمنوں کے گھر بھیج دیا زریاب کی لڑکی کو، اچھا نہیں کیا زری، بالکل اچھا نہیں کیا تو نے"

کبریٰ خاتون کو روشانے کی چیخنے یا رونے کی رتی برابر بھی پرواہ نہیں تھی وہ زرین کو دیکھتی ہوئی بولی


"کل ہی اس بےشرم کا تیمور خان سے نکاح کرواؤں گی، تاکہ ہمارے منہ پر کالک نہ مل دے۔۔۔ جیسے بھری جوانی میں اُس کی ماں نے اپنے گھر والوں پر ملی تھی"

تیمور خان کمرے سے باہر نکلا تو اسے دیکھ کر کبریٰ خاتون زرین سے بولی


"اور اب یہ کالج تو کیا اِس کمرے سے باہر نہیں نکلے گی،، کل ہی میری بیوی بن کر یہ میرے کمرے میں آئے گی اور ضیغم جتوئی اس کو تو میں اچھی طرح دیکھ لوں گا"

تیمور خان بولتا ہوا حویلی سے باہر نکل گیا جبکہ زرین روتی ہوئی کمرے کے بند دروازے کو دیکھنے لگی اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ روشانے کے پاس جا کر اس کے وجود کو گلے لگاتی


****


ضیغم شام میں آفس سے گھر آیا تو اُسے شمروز جتوئی سے روشانے کے جانے کا علم ہوا۔۔۔ ایک عجیب اُداسی کی کیفیت اسے اپنے اندر اترتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ شمروز جتوئی بھی بالکل خاموش تھا اور شام سے ہی اپنے کمرے میں موجود تھا


جبکہ ضیغم ٹیرس میں کھڑا، سگریٹ کے دھوئیں سے مرغولے بنا رہا تھا وہ اپنی دلی کیفیت کو خوب سمجھتا تھا مگر اب اُسے اپنے دل کو سمجھانا تھا دل میں برپا شور کو دبانا تھا۔۔۔ وہ اپنا دل ہار بیٹھا تھا، ایسی چیز پر،، جس کے حصول کی خواہش ناممکن تھی۔۔۔ سگریٹ کا ٹکڑا فرش پر پھینک کر اُسے جوتے سے مسلتا ہوا وہ شمروز جتوئی کے کمرے میں اُس سے بات کرنے کے غرض سے آیا


"چاچو۔۔۔ چاچو کیا ہوا۔۔۔ پلیز بتائیں مجھے سب ٹھیک ہے نا"

ضیغم نے شمروز جتوئی کے کمرے میں آکر اُسے روتا ہوا دیکھا تو وہ ایک دم پریشان ہوا۔۔۔ اس کا دھیان رمشا اور بچوں کی طرف گیا


"وہ رو رہی تھی ضیغم، بہت اُمید بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی جیسے کہنا چاہ رہی ہوں کہ مجھے بچا لو مگر میں بےبس تھا، اُسے تیمور خان زبردستی اپنے ساتھ لے گیا اور میں چاہ کر بھی اسے روک نہیں سکا"

شمروز جتوئی آنسووں سے تر چہرہ صاف کرتا ہوا ضیغم کو بتانے لگا


"مطلب روشی کو ڈرائیور نہیں لے کر گیا، یہاں تیمور خان آیا تھا صبح"

ضیغم آنکھوں میں حیرت لیے شمروز جتوئی سے پوچھنے لگا


"وہ بہت خوفزہ تھی ضیغم، تیمور خان کا رویہ اس کے ساتھ بالکل اچھا نہیں تھا، اُس نے روشانے پر ہاتھ بھی اٹھایا، روشانے بہت معصوم ہے ضیغم، نہ جانے اب اُس بچی کے ساتھ وہاں کیا سلوک کیا جائے"

شمروز جتوئی نے جیسے ضیغم کی بات سنی ہی نہیں تھی وہ بس اپنی ہی بات بولے چلا جا رہا تھا جبکہ شمروز جتوئی کی باتیں سن کر ضیغم کے اندر کی بےچینی مزید بڑھنے لگی، تیمور خان نے روشانے پر ہاتھ اٹھایا یہ سوچ ضیغم کا خون کھولانے لگی


****


کافی دیر رونے کے بعد اب اُس کی آنکھیں خشک ہو چکی تھی مگر اپنے بیڈ پر لیٹی ہوئی وہ مسلسل سِسک رہی تھی، تیمور خان نے اُسے حویلی میں لا کر بہت بری طرح مارا تھا۔۔۔ اس کے چہرے پر مارے گئے تھپڑوں سے روشانے کے گال ابھی تک جل رہے تھے۔۔۔ بازو اور پیٹ پر ماری گئی لاتوں سے، اس کے پورا جسم میں اٹھتا ہوا درد کا احساس ابھی بھی تازہ تھا


اس کے برابر میں بیڈ پر بیٹھی ہوئی زرین مسلسل اپنی آنکھوں سے نمی صاف کرتی ہوئی روشی کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی،، گالوں پر تو انگلیوں کے نشانات زرین کے بھی واضح نظر آرہے تھے۔۔۔ لیکن کمرے میں موجود روشانے یا ژالے، کسی میں بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ زرین سے کچھ پوچھتی، مگر وہ دونوں ہی جانتی تھیں یہ کام کبریٰ خاتون کے علاوہ اور کسی کا نہیں ہوسکتا تھا


زرین کے سامنے بیٹھی ہوئی ژالے ابھی بھی شاک کی کیفیت میں روشانے کو سِسکتا ہوا دیکھ رہی۔۔۔ اُسے تھوڑی دیر پہلے ہی کبریٰ خاتون کے حکم سے اُس کی خالہ کے گھر سے واپس حویلی میں بلایا تھا مگر یہاں پہنچ کر اسے اندازہ ہوا تھا کہ حویلی میں کیا طوفان آچکا ہے


ژالے کو رہ رہ کر تیمور خان پر اتنا غصہ آ رہا تھا کہ اگر وہ اس وقت حویلی میں موجود ہوتا تو ژالے اس کا کا دماغ درست کر دیتی۔۔۔۔ اُس نے کل ژالے سے جھوٹ کہا تھا کہ وہ روشانے کو پسند کرتا ہے، کیوکہ چاہے جانے والوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے وہ مان ہی نہیں سکتی تھی


"کب تک یونہی سسکتی رہو گی روشی، آنکھیں بند کرلو تاکہ گولی اثر کرسکے"

زرین روشانے کی کُھلی ہوئی آنکھیں دیکھ کر بولی۔۔۔۔ زرین کے کہنے پر ہی تھوڑی دیر پہلے ژالے نے اُس کو زبردستی کھانا کھلا کر نیند کی گولی دے تھی تاکہ نیند اسکے حواسوں پر حاوی ہوجائے اور جسم میں اٹھتا ہوا درد زیادہ محسوس نہ ہو


"نیند کی گولی کیوں دی آپ نے مجھے، جو خبر آپ نے مجھے سنائی ہے اِس سے بہتر تو یہ ہے آپ مجھے سیدھا سیدھا زہر دے دیتی۔ ۔۔۔ تائی ماں مجھے خان سے شادی نہیں کرنی ہے،، وہ مجھے مار ڈالے گیں۔۔۔ خوف آتا ہے مجھے ان کو دیکھ کر، خدا کا واسطہ ہے مجھے اُن سے بچا لیں"

روشانے اٹھ کر بیٹھی تھی زرین کے دونوں ہاتھ پکڑ کر بولتی ہوئی وہ ایک بار پھر رونے لگی


روشانے کو روتا ہوا دیکھ کر زرین نہ صرف اس سے نظریں چرانے پر مجبور تھی بلکہ وہ ژالے سے بھی نظریں نہیں ملا پا رہی تھی


ژالے خاموشی سے روشانے کو روتا ہوا دیکھ رہی تھی،، وہ روشانے کے رونے سے اس کی بے بسی کا اندازہ لگا سکتی تھی۔۔۔ شاید اِس حویلی میں بسنے والی ہر عورت ہی بےبس تھی سوائے کبریٰ خاتون کے۔ ۔۔ ژالے خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔ جبکہ زرین روشانے کو بیڈ پر دوبارہ لٹاکر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی

صبح پانچ بجے کا وقت ہے جب زرین کی آنکھ کھلی شاید کوئی باہر کا دروازہ بجا رہا تھا سارے ملازم تو چھ بجے تک آتے تھے یہ کون تھا جو اس وقت آیا تھا شاید تیمور خان۔ ۔۔۔ وہ اپنے برابر میں سوئے ہوئے اسماعیل خان پر نظر ڈال کر چادر اپنے گرد لپیٹتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی۔ ۔۔ سب ہی اپنے کمروں میں سو رہے تھے ہال کو عبور کرکے وہ باہر کا دروازہ کھولنے کے لیے نکلی


"کون"

سامنے کھڑے انجان چہرے کو دیکھ کر زرین اُس کو پہچان نہیں پائی تبھی اُس سے پوچھنے لگی


"ضیغم جتوئی"

ضیغم اور شمروز جتوئی دونوں رات ہی میں حویلی پہنچے تھے۔۔۔ ان دونوں نے حویلی میں اپنے آنے کا مقصد نہیں بتایا تھا۔۔۔ شمشیر جتوئی فیروز جتوئی اور کشمالا،، ان دونوں کو دیکھ کر بہت خوش تھے مگر ساری رات ضیغم کی بے چینی میں گزری۔۔۔ روشانے کا چہرہ بار بار اس کی نظروں میں گھوم رہا تھا اس لیے وہ انجام سوچے بناء صبح کا انتظار کیے بناء یہاں چلا آیا


"کیا کرنے آئے ہو یہاں، تمہیں معلوم ہے تمہارا یہاں آنا تمہارے ساتھ ساتھ روشی کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے، خدا کا واسطہ ہے یہاں سے چلے جاؤ"

زرین اُس کو پہچان گئی تھی شمشیر جتوئی کا پوتا جو رباب کے مرنے سے پہلے یہاں آیا تھا،، وہی جس نے موبائل پر اِس سے بات کی تھی۔۔۔ زرین ضیغم کو یہاں دیکھ کر گھبراتی ہوئی بولی


"میرا یہاں آنا روشی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے یا پھر وہ ابھی بھی خطرے میں ہے۔۔۔۔ چاچو نے مجھے بتایا تھا تیمور خان نے اس کے ساتھ برا برتاؤ کیا ہے، مجھے روشی سے ملنا ہے۔۔۔ اُسے دیکھ کر اُس سے بات کر کے ہی میں یہاں سے واپس جاؤں گا"

ضیغم خود بھی زرین کو پہچان گیا تھا وہ فیصلہ کُن انداز میں بولا اور اس کی بات سن کر زرین پریشان ہوگئی


"تم ہوش کے ناخن لو خدارا،،، جانتے بھی ہو کیا کہہ رہے ہو۔۔۔ آج شام نکاح ہے تیمور اور روشی کا۔۔۔ بچپن سے پسند کرتے ہیں وہ دونوں ایک دوسرے کو۔۔۔ تیمور نے اگر اس پر غُصہ کیا ہے تو اپنا حق سمجھ کر،،، بات کو زیادہ مت بڑھاؤ تمہیں اللہ کا واسطہ ہے۔۔۔ یہاں سے چلے جاؤ۔۔۔ اگر کسی نے تمہیں یہاں دیکھ لیا تو پھر کچھ بھی اچھا نہیں ہوگا۔۔۔ یہ تم خود بھی جانتے ہو چلے جاؤ یہاں سے خدارا"


زرین ڈرتی ہوئی جلدی جلدی بول رہی تھی اسے ڈر تھا یہاں کوئی آ نہ جائے اگر تیمور خان کو ضیغم کی یہاں موجودگی کا علم ہوجاتا تو غضب ہی ہو جاتا۔۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ دونوں خاندانوں میں ایک بار پھر لڑائی کا آغاز شروع ہو۔۔۔ اِس لیے اُس نے ساری باتیں سچ بولنے کے ساتھ ساتھ تیمور اور روشنی کی بچپن کی پسندیدگی کا جھوٹ بولا


یہ اس لیے بھی ضروری تھا کیونکہ ضیغم کا یہاں روشانے کے لئے چلے آنا کوئی معمولی بات ہرگز نہیں تھی


جبکہ زرین کے منہ سے تیمور اور روشانے کے نکاح کی خبر سن کر ضیغم ایک پل کے لئے خاموش ہو گیا تھا۔ ۔۔ وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو بچپن سے چاہتے تھے، اِس بات کے سنتے ہی ضیغم کو اپنے اندر کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا وہ بنا کوئی دوسری بات کیے وہاں سے چلا گیا


جبکہ وہ یہاں پر سوچ کر آیا تھا اگر روشانے نے اس کے ساتھ چلنے کی ایک بار بھی حامی بھری تو وہ اسماعیل خان اور تیمور خان سے تو کیا اپنے گھر والوں سے بھی اس کے لیے لڑ جائے گا۔۔۔ اپنی گاڑی میں واپسی کا سفر وہ بہت تیزی سے کر رہا تھا یہی سوچتے ہوئے کہ شام تک وہ شمروز جتوئی کے ساتھ شہر کے لئے روانہ ہو جائے گا۔۔۔ جس کے لیے وہ یہاں پہنچا تھا وہ آج کسی اور کی ہو جائے گی، تو اب روشانے سے بات کرنے کا کیا جواز بنتا تھا


****


"معلوم نہیں خان،، بس صبح کے وقت میری اِن گنہاہگار آنکھوں نے شمشیر جتوئی کے پوتے کی گاڑی، آپ کی حویلی کے پاس دیکھی،، چادر میں لپٹی ہوئی بی بی جی کو اس سے بات کرکے واپس حویلی کے اندر جاتے دیکھا۔۔۔ معلوم نہیں چھوٹی بی بی تھیں یا بڑی بی بی میں اندازہ نہیں لگایا اگر میں جھوٹ بولوں تو خدا کی مار مجھ پر پڑے"

دوپہر میں جب تیمور خان حویلی آیا تو اُس کے وفادار نے تیمور خان کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے اپنی آنکھوں دیکھا حال تیمور خان کو بتایا جسے سن کر تیمور خان نے جبڑے بھینچے اور قہر برساتی نظروں سے روشانے کے کمرے کا بند دروازہ دیکھا مگر روشانے سے وہ ساری معلومات رات میں اپنے کمرے میں لے گا جب وہ اس کی بیوی بن چکی ہوگی۔۔ لیکن اس وقت اسے ضیغم جتوئی سے حویلی آنے کا مقصد پوچھنا تھا۔۔۔ تیمور خان اپنی پسٹل لے کر گھر سے نکل گیا


****


"آج شام نکاح ہے تیمور اور روشی کا بچپن سے پسند کرتے ہیں وہ دونوں ایک دوسرے کو"


بار بار انہی لفظوں کی تکرار اس کے دماغ پر ہتھوڑے برسا رہی تھی۔۔۔ وہ اپنے کمرے کی بالکونی میں کھڑا سگریٹ سُلگاتا ہوا اندر ہی اندر خود بھی سُلگ رہا تھا زرین کے یہ دو جملے صبح سے ہی اس کے کانوں میں باز گشت کر رہے تھے جو سے اندر ہی اندر جلا کر راکھ کیے دے رہے تھے۔۔۔ آہٹ کی آواز پر اُس نے مڑ کر دیکھا


"تیار نہیں ہوئے تم،، میں نے بتایا تو تھا شام میں ہمیں سردار اسماعیل خان سے ملنے جانا ہے ویسے تو میں نے اس سے موبائل پر بات کر لی ہے۔۔۔ اُس نے ٹھنڈے دماغ سے نہ صرف میری بات کو سنا بلکہ سمجھا بھی ہے کہ روشانے بے قصور ہے۔۔۔ وقت اور حالات کو دیکھتے ہوئے اُسے ہمارے پاس رُکنا پڑا۔ ۔۔۔ وہ بھلا آدمی ہے اپنے باپ سردار اکبر خان کی طرح،، اس لئے آرام سے میری بات سمجھ گیا"

شمروز جتوئی ضیغم کے کمرے میں آتا ہوں اُسے بتانے لگا۔۔۔ اور ساتھ ہی اُس کا دھواں دھواں سا چہرہ دیکھنے لگا


"اب جب سردار اسماعیل خان ساری بات سمجھ ہی گیا ہے تو اسے ملنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ کیا واپس شہر جانے کا ارادہ نہیں ہے آج آپ کا"

ضیغم ہاتھ میں موجود سگریٹ کا ٹکڑا ایش ٹرے میں مسلتا ہوا شمروز جتوئی سے پوچھنے لگا


شمروز جتوئی نے ایک نظر سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھرا ہوا ایش ٹرے دیکھا پھر اپنے سامنے کھڑے اجاڑ، ویران سے حالت میں اپنے بھتیجے کو


"موبائل پر تو صرف اسماعیل خان کی غلط فہمی دور کی ہے جبکہ اسماعیل خان کے پاس میں کسی خاص مقصد کے لئے جانا چاہتا ہوں،، بات تمہارے ہی فائدے کی ہوگی اگر تم ساتھ چلو گے تو اچھا ہوگا"

شمروز جتوئی ذو معنیٰ انداز میں بولا۔۔۔ وہ کل رات سے ہی ضیغم کی کیفیت دیکھ رہا تھا جو اسے پوری کہانی باآسانی سمجھا رہی تھی۔۔۔


اپنی بات مکمل کرکے وہ ضیغم کے چہرے پر آنے والی مسکراہٹ کا انتظار کرنے لگا۔۔۔ مگر ضیغم ابھی بھی خاموش کھڑا اسے ویسے ہی شمروز جتوئی کو دیکھ رہا تھا


"چند گھنٹوں بعد روشی کا اسماعیل خان کے بیٹے تیمور خان سے نکاح ہے چاچو۔۔۔ آپ کا وہاں پر کسی خاص مقصد کے لیے جانا اب صرف بے مقصد ثابت ہوگا۔۔۔ تھوڑی دیر ماں کے پاس بیٹھ کر آتا ہوں ورنہ جاتے وقت ہو شکوہ کرتیں ہیں کی میں انہیں ٹائم نہیں دیتا۔۔۔ اس کے بعد ہمیں واپسی کے لیے نکلنا چاہیے"

شاید اس کی دلی کیفیت سے شمروز جتوئی آگاہ ہوگیا تھا، اسلیے ضیغم روشانے اور تیمور خان کے نکاح کے بارے میں شمروز جتوئی کو آگاہ کرتا ہوا کشمالا کے کمرے میں چلا گیا۔۔۔ جبکہ روشانے کے نکاح کی خبر سن کر شمروز جتوئی ہکابکا رہ گیا


****


"شمروز نے بتایا کہ رباب کی بیٹی دو دن شہر میں تم لوگوں کے پاس رہی"

ضیغم کے کمرے میں آتے ہی کشمالا اس سے پوچھنے لگی شمروز جتوئی یہ بات فیروز جتوئی کو بتا رہا تھا تب کشمالا نے سنا


"جی"

ضیغم نے پہلے چونک کشمالا کو دیکھا پھر مختصر سا جواب دے کر صوفے پر کشمالا کے سامنے بیٹھ گیا


"کیا ضرورت تھی بھلا جوان جہاں لڑکی کو گھر میں رکھنے کی جبکہ رمشا اور بچے بھی گھر میں موجود نہیں تھے"

کشمالا منہ بنا کر بڑبڑائی


"ماں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جوان جہاں لڑکی کوئی غیر نہیں تھی دوسری بات یہ کہ چاچو نے اُس کو شوقیہ نہیں روکا تھا نہیں ہی وہ خوشی خوشی خود رُکی تھی۔۔۔۔ میرے خیال سے آپ کو سارے واقعے کی معلومات ہوگئی ہوگی اس لیے دوبارہ ساری بات کو دہرانا بالکل بے کار ہے"

جب اسکی ماں کو معلوم ہو سکتا ہے کہ روشانے وہاں رکی تو ایسا ممکن نہیں تھا کہ اُسکی ماں نے پوری بات معلوم نہ کی ہو تبھی ضیغم چڑتا ہوا بولا


"خوبصورت ہوگی اپنی ماں کے جیسی"

کشمالا ضیغم کو دیکھتی ہوئی تجّسس بھرے انداز میں اُس سے پوچھنے لگی ضیغم کشمالا کو دیکھنے لگا۔۔۔نہ جانے وہ کیا جاننا چاہ رہی تھی


"بالکل اپھو کی جیسی ہے، یہ شاید اُن سے بھی زیادہ خوبصورت"

روشانے کا چہرے ذہن میں لا کر وہ اعتراف کرتا ہوا بولا


"لچھن بھی پھر اپنی ماں کے جیسے ہوگے، ضیغم میں تجھے بتا رہی ہو۔ ۔۔۔

کشمالا بولنے ہی لگی تھی تب ایک دم ضیغم غصّے میں صوفے سے اُٹھا


"کیا چاہ رہی ہیں آپ، میں یہاں آپ کے پاس بیٹھو کہ نہیں۔۔۔ کسی کا کردار کیا ہے کسی کے لچھن کیا ہیں۔۔ آپ خود سے اندازے لگانا بند کردیں ماں۔۔۔ وہ کسی دوسرے کی عزت بننے والی ہے،، بخش دیں اُس کو"

ضیغم غُصّے میں کشمالا کو بولتا ہوا اُس کے کمرے سے نکل گیا


نہ جانے اُسے کیوں اتنا غُصہ آ گیا تھا یا پھر اُسے ڈر تھا اس کے دل کا چور شمروز جتوئی کے علاوہ کوئی اور بھی نہ پکڑ لے


جبکہ کشمالا کو اپنے بیٹے کو رباب کی بیٹی کی دفاع میں بولتا دیکھ کر خوف محسوس ہوا مگر جب اُس نے سنا کہ وہ لڑکی کسی اور کی عزت بننے جارہی ہے تب کشمالا کے اندر اطمینان اُتر گیا۔۔۔ اُس اندیکھی لڑکی سے کشمالا کو خوف اِس لیے لاحق ہو گیا تھا کیونکہ وہ رباب کی بیٹی تھی


****


آج اُسے ضیغم 18 سال پہلے والا ضیغم لگا۔۔۔۔ جیسے بچپن میں وہ رباب کے جانے پر اُفسردہ ہوگیا تھا اور کئی دنوں تک بیمار رہا تھا۔۔۔ بالکل آج ویسے ہی ضیغم کا چہرہ چیخ چیخ کر اُس کے بچپن والی حالت کی نشاندہی کر رہا تھا وہ ایک بار پھر ٹوٹ جاتا جیسے رباب کے جانے پر ٹوٹا تھا۔۔۔۔تب تو وہ بچہ تھا شمروز جتوئی نے اسے سنبھال لیا تھا مگر اب وہ ضیغم کو کیسے سنبھالتا۔۔۔ وہ ضیغم کی آنکھوں میں رباب کی بیٹی کے لیے پسندیدگی واضح طور پر دیکھ چکا تھا۔۔۔ جس طرح وہ رمشا اور اُسے رباب کی بیٹی کے بارے میں اپنی پہلی ملاقات بتا رہا تھا شمروز جتوئی ضیغم کے انداز پر تبھی چونک گیا تھا


شمروز جتوئی اُس کی پسند سے کیوں نہیں آگاہ ہوتا رباب کے بعد ضیغم اُسی سے اٹیچ ہو گیا تھا۔۔۔ اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر رباب کی بیٹی ضیغم کی بیوی کے روپ میں حویلی میں آ جاتی۔۔۔ اس نے روشانے کو بھی تو ضیغم کے کمرے میں اُس کی تصویر کو دیکھتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔ شمروز جتوئی ڈرائیونگ کرتا ہوا ساری باتیں سوچنے لگا


وہ اس وقت سردار اسماعیل خان کی حویلی اس سے ملنے جا رہا تھا۔۔۔ سردار اسماعیل خان معقول انسان تھا وہ اس کی بات کو سمجھ جاتا۔۔۔ اگر نہ بھی سنجھتا تو وہ اس کے آگے منتیں کر لیتا۔۔۔ ضیغم اسکی اولاد کے جیسا تھا وہ اتنا تو ضیغم کے لیے کر سکتا تھا،،، اس طرح رشتے سے دونوں خاندان کے دشمنی ختم ہو جاتی جو کہ برسوں سے چلی آ رہی تھی۔۔۔ شمروز جتوئی کار ڈرائیو کر رہا تھا تب اُس کی گاڑی کے آگے تیمور خان کی گاڑی آ کر رکی اور تیمور خان اپنی گاڑی سے باہر نکل کر آیا


"یہ ہمارا علاقہ ہے یہاں کیا کر رہے ہو تم"

تیمور خان شمروز جتوئی سے پوچھتا ہوا اپنے ہاتھ میں موجود پسٹل کو دیکھنے لگا جو کہ اس نے اپنا روعب جھاڑنے کے لیے پکڑ رکھی تھی


"تمہارا باپ تمہارے ہی علاقے میں پایا جاتا ہے، اُسی سے ملنے جا رہا ہوں۔۔۔ سامنے سے اپنی گاڑی ہٹاؤ اور راستہ دو"

شمروز جتوئی تیمور خان کو دیکھتا ہوا بولا اس نے سچ ہی سنا تھا سردار اسمٰعیل خان کا بیٹا کافی بد تمیز طبیعت کا مالک تھا اور فی الحال وہ اس کے منہ لگنا نہیں چاہتا تھا اس لیے اُسے گاڑی ہٹانے کا بولا


"میرے باپ سے ملنے جا رہا ہے یا پھر اپنی بھانجی سے۔۔۔ اپنے بھتیجے کا کوئی پیغام تو نہیں پہنچانا اسے،،، صبح ہی تو ملاقات کر کے گیا ہے وہ کُتا۔۔۔ دل نہیں بھرا اس کا میری ہونے والی بیوی سے۔۔۔۔ جبکہ دو راتیں تو وہ اس کے ساتھ گزار بھی چکا ہے"

تیمور خان غُصے میں شمروز جتوئی کو دیکھتا ہوا بولا


اس کے الفاظ سن کر شمروز جتوئی کو شدید غُصہ آیا جس پر اُس نے تیمور خان کے منہ پر زور دار طمانچہ مارا۔۔۔ وہ کہیں سے بھی روشانے کے لائق نہیں تھا۔۔۔ شمروز جتوئی جبڑے بھینچ کر تیمور خان دیکھتا ہوا سوچنے لگا

لوگوں کے ہجوم میں اپنے منہ پر پڑنے والے طماچے پر، تیمور خان غُصے میں بنا سوچے سمجھے شمروز جتوئی کے اوپر فائر کرچکا تھا

*****

وہ اپنے مہندی لگے ہاتھوں کو غور سے دیکھ رہی تھی، جو صبح ناشتے کے بعد کبریٰ خاتون کے حکم سے اُسے ژالے نے لگائی تھی،، اُس کے بعد ژالے نے اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیا تھا۔۔۔ جبکہ روشانے کل سے ہی اپنے کمرے میں موجود تھی شام کا وقت ہوا چلا تھا تھوڑی دیر بعد اُس کا نکاح ہوجانا تھا۔۔ جس کے بعد اُسے اپنا آپ اُس ہستی کو سونپنا پڑتا جسے وہ ناپسند کرتی تھی۔۔۔ بیڈ پر بیٹھی ہوئی وہ اپنے متعلق سوچ ہی رہی تھی تو اُسے باہر سے شور کی آواز آنے لگی


روشانے تجسس کے مارے کمرے میں موجود کھڑکی کی طرف بڑھی تاکہ معلوم کرسکے کہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔ وہاں اُسے مین گیٹ سے اندر آتا ہوا ضیغم دکھائی دیا جو کہ اس وقت سخت اشتعال میں لگ رہا تھا گیٹ پر موجود پہرے دار اور اسماعیل خان کے آدمی اُسے اندر آنے سے روک رہے تھے۔۔۔ تب اس نے ہاتھ میں موجود پسٹل سے ہوا میں فائر کیا،، جس سے سارے آدمی پیچھے ہو گئے یہاں تک کہ روشانے بھی ڈر گئی


اب وہ غُصے میں حویلی کے اندر داخل ہو رہا تھا اُسی کو دیکھ کر روشانے بھی اپنے کمرے سے باہر نکلنے پر مجبور ہوئی


"تیمور۔۔۔ تیمور خان باہر نکل"

ضیغم ہال میں آنے کے بعد غصے میں زور سے دھاڑا،، اُس کی آواز سُنکر روشانے سمیت سبھی ایک ایک کرکے اپنے کمرے سے باہر نکل گئے


ضیغم سردار اسماعیل خان کو دیکھ کر اُس کی طرف بڑھا۔۔۔۔ سردار اسماعیل خان کو چند منٹ پہلے ہی اطلاع مل گئی تھی کہ تیمور خان کی چلنے والی گولی سے شمروز جتوئی ہلاک ہو چکا ہے


"کہاں چھپا کے رکھا ہے اپنے بیٹے کو باہر نکالو اُسے"

غُصے میں سرخ آنکھوں سے ضیغم، سردار اسماعیل خان کو دیکھتا ہوا بولا۔۔۔ وہ ابھی ابھی خون میں لتھڑی ہوئی شمروز جتوئی کی لاش دیکھ کر آ رہا تھا۔۔۔ وہاں حویلی میں ایک قیامت خیز منظر برپا تھا۔۔۔ یہ خبر تھوڑی ہی دیر میں پورے قبیلے میں پھیل چکی تھی کہ سردار تیمور خان نے شمروز جتوئی کی جان لے لی۔۔۔


"تیمور خان اس وقت گھر پر موجود نہیں ہے، تم چاہو تو شمروز جتوئی کی موت کا بدلہ مجھ سے لے سکتے ہو"

سردار اسماعیل خان کی بات پر جہاں کبریٰ خاتون، زرین اور ژالے بے یقینی سے پوری آنکھیں کھولے سردار اسماعیل خان کی طرف دیکھ رہی تھیں، وہی روشانے کا وجود زلزلوں کی زد میں آچکا تھا۔۔۔ برابر میں کھڑی ژالے اس کو نہ تھامتی تو وہ فرش پر گر پڑتی


"میں چاچو کی موت کا بدلہ اُس کے سینے میں گولی اتار کر ہی لوں گا۔۔۔ جہاں بھی چھپایا ہے اُسے باہر نکالو"

ضیغم سردار اسماعیل خان پر غُصّے میں چیختا ہوا بولا اور ساتھ ہی پسٹل کی نال سردار اسماعیل خان کے سینے پر رکھ دی


سردار اسماعیل خان کے سینے پر تنی ہوئی پسٹل دیکھ کر کبریٰ خاتون چیخ کر ملازموں کو بلانے لگی جبکہ زرین جلدی سے سردار اسماعیل خان کے آگے آ کر کھڑی ہو گئی


"بڑے خان سچ کہہ رہے ہیں تیمور خان اس وقت گھر پر موجود نہیں ہے، میں تمہارے آگے اپنے بیٹے اور شوہر کی زندگی کی بھیگ مانگتی ہوں،، اللہ انصاف کرنے والا ہے تم اِن دونوں کو بخش دو"

زرین سردار اسماعیل خان کے ہٹانے پر بھی اُس کے آگے سے نہیں ہٹی بلکہ وہ ضیغم کے آگے ہاتھ جوڑ کر فریاد کرنے لگی


"بے شک اللہ انصاف کرنے والا ہے مگر اُس حویلی میں صفِ ماتم بِچھا ہے تو یہاں پر بھی خوشی کے شادیانے نہیں بج سکتے۔۔۔ اگر تیمور خان سچ میں یہاں موجود نہیں ہے مگر اپنے باپ کی موت کی خبر سن کر وہ یہاں ضرور آئے گا"

ضیغم غُصے میں پاگل ہو رہا تھا جبھی اُس نے زرین کا بازو پکڑ کر اُسے اسماعیل خان کے آگے سے دھکا دے کر دور ہٹایا،، اس سے پہلے وہ دوبارہ اسماعیل خان کے سینے پر بندوق کی نال رکھتا۔۔۔ روشانے اسماعیل خان کے آگے دیوار بن کر کھڑی ہوگئی


"ہٹو سامنے سے"

روشانے کے مہندی لگے ہاتھوں کو دیکھ کر وہ مزید طیش میں آکر چیخا،، جس پر روشانے نے نفی میں سر ہلایا

سردار اسماعیل خان روشانے کو بھی ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ اپنی جگہ سے ایک انچ نہیں ہلی نہیں ہلی


"ان پر گولی چلانے سے پہلے آپ کو مجھے جان سے مارنا ہوگا"

روشانے آنکھوں میں آنسو بھرے ضیغم کو دیکھتی ہوئی بولی،، وہ غضبناک تیوروں سے روشانے کو گھورنے لگا۔۔۔


یہی اس کی حویلی تھی یہی کے لوگوں کی محبت اس کے دل میں بستی تھی،، شمروز جتوئی کی موت کا تو شاید اُسے دکھ بھی نہیں ہوا ہوگا۔۔۔ اگر اسماعیل خان کی جگہ وہ آج تیمور خان کا بچاؤ کرتی تو شاید وہ تیمور خان سے پہلے اُس کے سینے میں گولی اتار دیتا۔۔۔ اُس کے سینے کی آگ ابھی تک نہیں بجھی تھی وہ ہاتھ میں موجود پسٹل نیچے کرتا ہوا وہاں سے جانے کے لیے مڑا


"شکل کیا دیکھ رہے ہو تم لوگ، سب مل کر قابو کرلو اسے"

سردار اسماعیل خان نے اپنے ملازم کو ہاتھ سے وہی کھڑا رہنے کا اشارہ کیا تھا مگر ضیغم کے وہاں سے جاتا دیکھ کر کبریٰ خاتون ایک دم بولیں


وہ لوگ ضیغم کی طرف بڑھے ہی تھے تب ضیغم نے چھت پر ٹنگے فانوس پر فائر کیا جو کہ زمین بوس ہوا وہ سب وہی رک گئے


روشانے اور ژالے دونوں اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی۔۔۔ جبکہ سردار اسماعیل خان افسوس سے کبریٰ خاتون کو دیکھ رہا تھا


"میں تیمور خان کو چھوڑو گا نہیں"

ضیغم غُصّے میں کبریٰ خاتون کو دیکھتا ہوا بولا اور باہر نکل گیا۔۔ جبکہ زرین وہی فرش پر بیٹھ کے زور زور سے رونے لگی


"مجھے مار لیں۔ ۔۔ پیٹ لیں لیکن میں خاموش نہیں رہوں گی اماں حضور،، آپ کی تربیت کی وجہ سے میرا تیمور خان قاتل بنا ہے"

زرین روتی ہوئی کبریٰ خاتون کو دیکھ کر بولی۔۔۔ جبکہ روشانے اور ژالے ملامت بھری نظروں سے کبریٰ خاتون کو دیکھنے لگی۔۔۔ سردار اسماعیل خان وہی خاموش کھڑا تھا


"یوں آنکھیں پھاڑ کر مجھے مت دیکھو،، لے کر جاؤ اِسے کمرے میں"

کبریٰ خاتون کرخت لہجے میں روشانے اور ژالے کو دیکھتی ہوئی بولیں تو وہ دونوں ہی فرش پر بیٹھ کر روتی ہوئی زرین کو اُٹھا کر کمرے میں لے جانے لگی


"راشد۔۔۔ نوشاد فوراً تیمور خان کا پتہ لگاؤ کہ وہ اس وقت کہاں موجود ہے اور اس سے خبردار کر دو، جب تک معاملہ ٹھنڈا نہ ہو جائے وہ حویلی میں قدم نہ رکھے۔۔۔ کلیجہ ٹھنڈا کیا ہے آج میرے شیر نے میرا،، زریاب خان کا بدلہ آج پورا ہوا"

کبریٰ خاتون اپنے خاص ملازموں کو حکم دیتی ہوئی تفکر سے بولی تو سردار اسماعیل خان اپنی ماں کو دیکھنے لگا


"یہ وقت شکل دیکھنے کا نہیں ہے اسماعیل خان۔۔۔ میرے کمرے میں آؤ تاکہ کچھ صلح مشورا کیا جائے"

کبریٰ خاتون سردار اسماعیل خان کو بولتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئیں


****


آپ شمروز جتوئی کی موت کو پورا ایک ہفتہ گزر چکا تھا ضیغم کے علاوہ رمشا اور دونوں بچے بھی حویلی میں موجود بلکہ دلآویز، پلورشہ اور آرزو بھی ہفتے بھر سے وہی پر تھیں۔ ۔۔


فیروز جتوئی نے اپنے آدمیوں کو چاروں طرف پھیلا دیا تھا، مگر تیمور خان کہاں پوشیدہ تھا اس کے آدمی ابھی تک معلوم نہیں کرسکے تھے۔۔۔ شمشیر جتوئی اپنے بیٹے کی موت کے غم میں آدھ موا سا ہو گیا تھا


لیکن آج جرگہ بٹھایا گیا تھا بہت ہمت کرکے شمشیر جتوئی فیروز جتوئی کے ساتھ وہاں پہنچا تھا۔۔۔ اُنہوں نے شمروز جتوئی کے خون کے بدلے تیمور خان کا سر مانگا تھا مگر چونکہ تیمور خان منظر سے ہی غائب تھا تو سردار اسماعیل خان نے اُن لوگوں کو پیسوں کی پیشکش کی تھی،، جسے رد کرتے ہوئے فیروز جتوئی نے اُن سے خون بہا میں روشانے کو مانگا


واپس حویلی آکر جب یہ خبر فیروز جتوئی نے حویلی میں موجود سب لوگوں کو سنائی تو رمشا نہ صرف بری طرح چونکی بلکہ ضیغم سانس لینا بھول گیا،، اُسے اپنے جسم کا خون خشک ہوتا محسوس ہوا۔،۔۔۔ بہت مشکلوں سے وہ بولنے کے قابل ہوا تھا


"یہ کیا بول رہے ہیں آپ بابا سائیں،، آپ لوگوں نے اُن کی پیشکش قبول کیسے کر لی۔۔۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا،، چاچو کا یوں اس طرح رائیگاں نہیں جائے گا۔۔۔ خون کا بدلہ صرف خون ہوگا"

ضیغم اِس فیصلے سے اختلاف کر کے فیروز جتوئی کو مخاطب کرتا ہوا بولا


"تمہیں یہ کیوں لگ رہا ہے کہ میں اپنے چھوٹے بھائی کا خون معاف کردوں گا،، میں تو اُن سرداروں کی نسل کو ہی جڑ سے ختم کردوں گا۔۔۔ سردار اسماعیل خان نے پیشکش پیسوں کی تھی تب میں نے رقم کے بدلے خون بہا میں رباب کی بیٹی کو مانگا۔۔۔ ایک بار رباب کی بیٹی اس گھر میں اسد کی بیوی کے طور پر آ جائے تو پھر اس تیمور خان کو بھی بعد میں دیکھ لوں گا"

فیروز جتوئی ضیغم کو سمجھاتا ہوا بولا


"گستاخی معاف فیروز بھائی مگر میں ایسا نہیں چاہتی۔۔۔ میرا بیٹا اسد، رباب کی بیٹی سے چھوٹا ہے نہ میں اس بےجوڑ شادی کے حق میں ہو اور نہ ہی خون بہا کے اس فیصلے کے حق میں،، جانے والا تو اس دنیا سے چلا گیا۔۔۔ اب آپ لوگ اُس کے بدلے میں اپنی ہی بیٹی کی بیٹی کو اس گھر میں لائیں گے وہ بھی بدلے کے لیے۔۔۔۔ ویسے بھی اعجاز بھائی مجھے لینے کے لیے آرہے ہیں۔۔۔ کل شام تک میری اور بچوں کی شہر کے لئے روانگی ہے"

رمشا جو کہ خاموشی سے ساری بات سن رہی تھی فیروز جتوئی کی بات سن کر اُس کے فیصلے سے انکار کرکے حویلی سے اپنے جانے کا فیصلہ سناتی ہوئی بولی


"تو تمہیں کون کہہ رہا ہے رباب کی بیٹی کو تم بہو کی روپ میں قبول کرو۔۔۔ کل اسد کا اُس سے نکاح کر دیا جائے گا اس کے بعد بے شک تم لوگ چلے جانا رباب کی بیٹی یہی رہے گی حویلی میں۔۔۔۔ چار لوگوں میں بیٹھ کر فیصلہ کیا جا چکا ہے اس میں اب رد و عمل کیسے ممکن ہوسکتی ہے"

شمشیر جتوئی اپنی چھوٹی بہو کو دیکھ کر اُسے سمجھاتا ہوا بولا۔۔۔ رمشا ضیغم کے سفید پڑتے چہرے کو دیکھنے لگی جو کہ اب بالکل خاموش کھڑا تھا


"یعنی میں اپنے بیٹے کا نکاح رباب کی بیٹی سے کروا کر، اُس بےقصور لڑکی کو یہاں اِس حویلی میں چھوڑ کر چلی جاؤ۔۔۔۔ اور وہ ساری زندگی یہاں پر اسد کے نام پر بیٹھی رہے۔۔۔ بابا سائیں ذرا سوچ سمجھ کر جواب دیں یہ دشمنی آپ کس کے ساتھ نکال رہے ہیں ان سرداروں کے ساتھ یا پھر اپنی بیٹی کے ساتھ"

رمشا شمشیر جتوئی کو دیکھتی ہوئی افسوس سے پوچھنے لگی


"توبہ کرو بی بی کیسے بزرگ کے آگے گز بھر کی زبان چلا رہی ہو، شوہر مرا ہے تمہارا اور یہ اُسی کے باپ ہیں جن کا حکم ماننے سے تم انکار کر رہی ہو۔۔۔ شوہر کے مرنے کے بعد رشتے ختم نہیں کیے جاتے اور جرگے میں جو فیصلہ ایک بار ہوجائے اُس سے پیچھے ہٹنا اپنی بےعزتی کروانے کے متعارف ہے"

رمشا کو بولتے دیکھ کر کشمالا بھی میدان میں اتر کر اپنے نمبر بڑھانے لگی


"بھابھی شمروز کے والد میرے لئے قابل احترام ہے لیکن میں حق بات کہنے سے پیچھے نہیں ہٹو گی۔۔۔ لیکن اگر آپکو ایسا لگ رہا ہے مجھے میرے شوہر کے مرنے کے بعد اُن سے جڑے رشتوں کی قدر نہیں ہے یا میرے اِس فیصلے کی نا منظوری پر اس خاندان کی ناک کٹ سکتی ہے تو پھر آپ ضیغم کا نکاح رباب کی بیٹی سے کروا دیں۔۔۔ یہ تو بےجوڑ رشتہ بھی نہیں کہلائے گا۔۔۔ بابا سائیں آپ میری بات پر غور ضرور کیجئے گا"

رمشا کشمالا سے کہتی ہوئی۔۔۔ آخر میں شمشیر جتوئی کو دیکھ کر بولی۔ ۔۔ ضیغم رمشا کی بات پر چونک کر اُسے دیکھنے لگا جیسے رمشا کی بات نے ضیغم کے بےجان وجود میں جان پھونکی ہو۔۔۔ مگر وہ ابھی بھی خاموش کھڑا تھا


"ارے واہ بی بی تم تو اپنا بچاؤ کرکے اپنا سارا ملبہ میرے سر پر ڈال رہی ہو"

کشمالا چمک کر بولی اور ساتھ ہی خونخوار نظروں سے رمشا کو گھورنے لگی


"آپ کو میری بات اتنی بری کیو لگ گئی بھابھی،، اگر اسد اور روشانے کی شادی میں کوئی مضائقہ نہیں ہے تو پھر ضیغم کے ساتھ روشانے کی شادی میں کیسا مسئلہ۔۔۔ آپ اس خاندان کی بڑی بہو ہے چار لوگوں کے بیچ میں کیے گئے فیصلے اور اپنے خاندان کی عزت و وقار کا اچھی طرح سمجھ سکتی ہو گی پلیز بھابھی بڑے پن کا ثبوت دیں روشانے اور ضیغم کا نکاح ہونے دیں اور اپنی نند کی بیٹی کو سچے دل سے اس گھر کی بہو تسلیم کرلیں"

رمشا کے مزید بولنے پر کشمالا کا دل چاہا کہ وہ اس کا منہ نوچ لے مگر ضبط کر کے خاموش رہی


"ضیغم کے لئے فیصلہ کرنے والی اس کی ماں کون ہوتی ہے۔۔ یہ میرا پوتا ہے۔۔۔ ابھی میں زندہ ہوں اس کا فیصلہ کرنے کے لئے۔۔۔ شمروز نے تو ہمیشہ سے ہی اپنی چلائی ہے تو پھر میں اُس کی بیوی بچوں سے بھلا کیا توقع رکھو گا۔۔۔ ضیغم اور رباب کی بیٹی کا نکاح ہوگا اور وہ ضیغم کی بیوی کی حیثیت سے اس حویلی میں آئے گی"

شمشیر جتوئی کے فیصلے پر سب اس کی طرف دیکھنے لگے فیروز جتوئی بالکل خاموش تھا جبکہ کشمالا نے ناگوار نہ گزرے رمشا کو دیکھا اور غصے میں اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ رمشا کے چہرے پر سکون تھا وہ مطمئن انداز میں حیران اور پریشان کھڑے ضیغم کو دیکھنے لگی پھر خود بھی اپنے کمرے میں چلی گئی


*****

"چچی آپ نے ایسا سب کے سامنے کیوں کہا،، مطلب۔۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ۔۔۔"

ضیغم رمشا کے کمرے میں آتے ہی اُس سے پوچھنے لگا۔۔ کیا وہ بھی شمروز جتوئی کی طرح اُس کے دل کی بات جانتی تھی


"کیا سمجھ میں نہیں آ رہا تمہیں ضیغم۔۔۔ بابا سائیں اسد سے روشانے کا نکاح پڑھوا رہے تھے یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تمہیں یا پھر روشانے کو اِس حویلی میں ساری زندگی اسد کے نام پر زندگی گزارتے دیکھنا سمجھ میں آرہا تمہیں"

رمشا ضیغم کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی تو ضیغم نے بے ساختہ اُس سے نظر چرائی یعنٰی وہ بھی روشانے سے اُس کی پسندیدگی کے بارے میں جانتی تھی


"تمہیں معلوم ہے ناں ضیغم،،، اُس دن شمروز، اسماعیل خان کے پاس تمہاری اور روشانے کی شادی کی بات کرنے کے لیے جا رہے تھے۔۔۔ یوں مجھے حیرت سے مت دیکھو،، شمروز شوہر تھے میرے۔۔ وہ مجھ سے ہر بات شیئر کرتے تھے انہیں اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا کہ تم روشانے کو پسند کرنے لگے ہو،، وہاں جانے سے پہلے انہوں نے مجھے خود موبائل پر کال کر کے اپنے جانے کا بتایا تھا۔ ۔۔ شمروز بھی یہی چاہتے تھے کہ رباب کی بیٹی اِس حویلی میں تمہاری بیوی کی حیثیت سے واپس آجائے۔۔۔ مگر روشانے کو یہاں لانے کا جواز وہ خود بن جائیں گے اِس کا تو انہیں خود بھی اندازہ نہیں تھا"

آخری بات پر رمشا کی آواز روندھ گئی اور ضیغم کا دل افسُردہ ہو گیا


"مجھے معلوم ہے کشمالا بھابھی اِس وقت مجھ سے سخت خفا ہوگیں،،، بابا سائیں بھی خفا ہوں گے لیکن اِس وقت جو ہو رہا ہے جیسے ہو رہا ہے،، اُسے ہونے دو ضیغم۔۔۔ بعد میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا"

تھوڑے وقفے کے بعد رمشا ضیغم سے دوبارہ بولی تو وہ خاموشی سے رمشا کو دیکھنے لگا


اُس وقت ضیغم کے اپنے دل کی کیفیت عجیب ہو رہی تھی۔۔۔ وہ خود بھی اپنی اس کیفیت کو سمجھنے سے بالاتر تھا۔۔۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اپنی زندگی میں روشانے کے آنے پر خوشی سے جھوم اٹھتا۔۔۔۔ کیوکہ روشانے اُس کی بن مانگی دعا تھی۔۔۔ اُس نے روشانے کو دل سے خواہش کی مگر خدا سے مانگا نہیں تھا۔۔۔ اب وہ اُسے بن مانگے مل رہی تھی مگر پھر بھی اُس کا دل اندر سے اداس تھا شاید شمروز جتوئی کی جدائی پر یا پھر زرین کی بات پر کہ وہ بچپن سے تیمور خان کو پسند کرتی ہے


****


وہ غور سے اپنے ہاتھ میں موجود مہندی کو دیکھ رہی تھی جس کا رنگ اب پھیکا پڑ چکا تھا۔۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے ہی اُس کا ضیغم جتوئی سے نکاح ہوچکا تھا۔۔۔ کبریٰ خاتون نے اپنے پوتے کی زندگی بچانے کے لیے، اُس کو قربان ہونے کے لیے پیش کیا تھا۔۔۔ ابھی چند منٹ پہلے کبریٰ خاتون اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اُسے سلامتی کی دعائیں دے کر اپنے کمرے میں جا چکی تھیں جبکہ زرین اور ژالے روشانے کے پاس اُس کے کمرے میں موجود تھیں


"کیا ہوا روشانے تم پریشان ہو"

ژالے کی بات سن کر روشانے اُسے دیکھنے لگی


"پریشان نہیں ہو خوفزدہ ہو"

روشانے ژالے کو دیکھتی ہوئی بولنے لگی کیا اُسے معلوم نہیں تھا کہ خون بہا میں جانے والی لڑکیاں کس سلوک کی مستحق ہوتی ہیں


"خوف ذدہ تو تمہیں جب ہونا چاہیے تھا بچے، جب تم میری بہو بنتی"

زرین پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی تو روشانے خاموشی سے زرین کو دیکھنے لگی جبکہ ژالے بیڈ سے اُٹھ کر بڑے سے بیگ میں روشانے کے کپڑے، کتابیں اور ضرورت کی دوسری اشیاء رکھنے لگی


"رباب تمہیں پیدا کر کے چند گھنٹے بعد ہی گزر گئی تھی۔۔۔ تو اس سے میں نے تمہیں اپنی بیٹی سمجھ کر پالا۔ ۔۔۔ اجب تم نے کہا کہ تمہیں خان سے ڈر لگتا ہے تم اُس سے شادی نہیں کرنا چاہتی،، تب میں نے دل سے تمہارے حق میں دعا مانگی تھی اور یہ بھی کہ کوئی معجزہ ہوجائے میری پھول جیسی بیٹی کو کوئی شہزادہ آ کر لے جائے"

زرین روشانے کو دیکھتی ہی بتانے لگی تو روشانے نے زرین کے کاندھے پر اپنا سر رکھ دیا


"مجھے ضیغم سے ڈر لگ رہا ہے تائی ماں، وہ شمروز ماموں سے بہت پیار کرتے تھے۔۔۔ آپ نے اُس دن دیکھا تھا ناں ان کی آنکھوں میں غُصہ"

روشانے اپنے محسوسات زرین سے شیئر کرتی ہوئی بولی


"اُس کے غُصے پر مت جاؤ بچے۔۔۔ میں نے اُس کی آنکھوں میں ابھرتا ہوا ایک اور جزبہ بھی دیکھا ہے"

زرین کی بات سن کر روشانے نے اُس کے کندھے سے سر اٹھایا ژالے بھی چونک کر زرین کو دیکھنے لگی


"بالکل سچ کہہ رہی ہوں میں،، جو جذبہ اُس کی آنکھوں میں اس وقت امنڈ رہا تھا اور مجھے پورا یقین ہے وہ جذبہ اُس کے غصے پر کبھی بھی حاوی نہیں رہے گا"

زرین کو وہ دن یاد آیا جب ضیغم روشانے کے لیے حویلی آیا تھا۔۔۔۔ اُس کی آنکھوں میں بے چینی اور بے قراری صرف اور صرف روشانے کے لئے تھی۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ آج ضیغم سے روشانے کے نکاح پر زرین اندر سے مطمئن تھی


روشانے زرین کو مزید کنفیوز ہو کر دیکھنے لگی اُسے سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کی تائی ماں نے ضیغم کو کب اتنے قریب سے دیکھ لیا کہ وہ اُس کے اندر کا حال جان گئی


"آنٹی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں، تم فضول کی سوچیں پال کر کیوں اپنے آپ کو پریشان کر رہی ہو"

ژالے اُس کا بیگ ایک سائیڈ میں رکھ کر روشانے کے پاس آتی ہوئی اُس سے بولی


"اگر میں فضول سوچ رہی ہو تو وہ دو بول پڑھوا کر فوراً نہ چلے جاتے"

ژالے کی بات سن کر روشانے کے دل میں موجود شکوہ زبان پر آیا


کیونکہ ملازمہ کے مطابق نکاح کے بعد شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی اپنی گاڑی میں واپس حویلی جا چکے تھے جبکہ ضیغم اُن دونوں سے الگ دوسری گاڑی میں جاچکا تھا۔ ۔۔۔ اب اِس وقت صرف ڈرائیور موجود تھا جو کہ روشانے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔ اِس طرح کا برتاؤ اسے آنے والے وقت کا پتہ دے رہا تھا تبھی روشانے اندر سے ڈری ہوئی تھی


"چھوٹی چھوٹی باتیں محسوس کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اِس قبیلے کی عورتوں کو،، تم بھی زیادہ محسوس نہیں کرو۔۔۔ اے روشی اپنی تائی ماں کو تو یاد کرے گی ناں یہاں سے جانے کے بعد"

زرین کے یوں اچانک پوچھنے پر روشانے اُس کے گلے لگ گئی۔ ۔۔۔ بے اختیار ہی اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے


"میں نے تمہارے بیگ میں کپڑے اور کتابوں کے ساتھ تمہارا موبائل بھی چھپا کر رکھ دیا ہے۔۔۔ زیادہ نہیں ہفتے میں ایک بار جب بھی موقع ملے، صرف پانچ منٹ کے لیے مجھے یا آنٹی کو اپنی آواز سنا دیا کرنا۔۔۔ ہمیں اطمینان رہے گا کہ تم وہاں خیریت سے ہو"

ژالے اپنی آنکھوں سے آئی ہوئی نمی صاف کرتی ہوئی روشانے کو بولی تو روشانے اب ژالے کے گلے لگ گئی۔ ۔۔۔ اسکے جانے وقت سردار اسماعیل خان کافی چپ تھا، اُس نے اور زرین نے روشانے کو ڈھیر ساری دعاؤں کے حصار میں اپنی حویلی سے رخصت کیا۔۔۔۔


وہ ایک حویلی سے رخصت ہو کر ڈرائیور کے ہمراہ دوسری حویلی جانے لگی جو کہ اس کا ننھیال ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا سُسرال بھی تھا


****


"اتنے دنوں بعد کیوں چکر لگایا ہے نوشاد"

تیمور خان دس دنوں سے شہر میں اپنے دوست کے فارم ہاؤس پر قیام پذیر تھا۔۔۔ نوشاد کو وہاں آتا دیکھ کر اُس سے پوچھنے لگا


"فیروز جتوئی نے اپنے بندے چاروں طرف چھوڑ رکھے ہیں خان۔۔۔ ابھی بھی بہت احتیاط کے ساتھ، ہر طرف نظر رکھتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں"

نوشاد اس کے سامنے مودبانہ انداز میں ہاتھ باندھنا ہوا بولا


"جلدی سے خبر دو فیصلہ کیا سنایا گیا ہے جرگے میں"

تیمور خان صوفے پر بیٹھا ہوا بے چینی سے نوشاد سے پوچھنے لگا


اس دن شمروز جتوئی پر اُس نے ارادہ باندھ کر گولی نہیں چلائی تھی،، بلکہ اپنے منہ پر پڑنے والے تھپڑ کی تاب نہ لاتے ہوئے اُس سے غُصّے میں گولی چل گئی تھی۔۔۔ چونکہ وہ دشمن تھا اس لئے تیمور خان پشیماں ہرگز نہیں تھا۔۔۔ تب سے اُس کا اپنی حویلی اور وہاں کے ہر فرد سے رابطہ منقطعہ ہوچکا تھا


"چھوٹے خان وہ انہوں نے۔۔۔۔ آپ کے بدلے چھوٹی بی بی کو خون بہا میں مانگا تھا۔۔۔ کل ہی روشانے بی بی کا نکاح ضیغم جتوئی ہوا ہے"

نوشاد ہچکچاتا ہوا بولا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ چھوٹی بی بی سے اُس کے خان کی شادی ہونے والی تھی۔۔۔ جبکہ یہ خبر سن کر تیمور خان ایک دم طیش میں آگیا صوفے سے اُٹھ کر اُس نے نوشاد کا گریبان پکڑا


"کیا بکواس کر رہے ہو،، ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ دادی حضور میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتیں"

تیمور خان غصّے میں زور سے دہاڑا یہ خبر سن کر اُس سے ضبط کرنا مشکل گیا تھا


"بڑے خان نے ان لوگوں کو پیسوں کی پیشکش کی تھی اور اُس زمین کی بھی پیشکش کی تھی جس کو لے کر آپ لوگوں کا برسوں سے تنازعہ چل رہا تھا مگر وہ لوگ روشانے بی بی کی ہی شرط پر راضی ہوئے"

نوشاد تیمور خان کے غُصے کو دیکھ کر ہاتھ جوڑتا ہوا اُسے بتانے لگا۔۔۔ تیمور خان نے نوشاد کا گریبان چھوڑ کر اسے پیچھے دھکا دیا


"چھوڑوں گا نہیں میں اِن باپ بیٹوں کو"

تیمور خان کی برداشت جواب دے گئی وہ غصّے میں کمرے سے باہر نکلنے لگا


"خان۔۔۔ خان میری بات سنیں بی بی سائیں (کبریٰ خاتون) نے خاص آپ کے لیے پیغام بھیجا ہے آپ کو چند دنوں تک مزید یہی رہنا ہے۔۔۔ کیوکہ ابھی بھی خطرہ ختم نہیں ہوا ہے اُن لوگوں کی زبانوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا"

نوشاد ہانپتا ہوا تیمور خان کے پیچھے آیا اور ہاتھ جوڑ کر تیمور خان سے التجا کرنے لگا


"بہت بڑا وار کیا ہے اس ضیغم جتوئی نے میرے اوپر،، چھوڑوں گا نہیں میں اسے"

تیمور خان ضبط کرتا ہوا اپنے آپ سے بولا


****


وہ کمرے میں موجود لکڑی کے تخت پر لیٹی ہوئی اِس وقت بخار میں جل رہی تھی،، اُس کے دونوں پاؤں بری طرح سوجھے ہوئے تھے۔۔۔ پورا ایک ہفتہ گزر گیا تھا اُسے حویلی میں آئے ہوئے


روشانے کو وہ دن یاد آیا جب اُس نے حویلی میں قدم رکھا تھا، اُس حویلی میں اُسے اپنی حیثیت کا اُسی دن اندازہ ہو گیا تھا۔۔۔ شانو نے اُسے ضیغم کے کمرے میں پہنچا دیا تھا مگر تھوڑی دیر بعد کشمالا غُصے میں ضیغم کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آئی اور غضب ناک نظروں سے روشانے کو دیکھنے لگی اسکی نظروں میں ایسا کچھ تھا کہ روشانے سہم کر بیڈ سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی


روشانے اُسے دیکھ کر پہچان گئی تھی کہ وہ اس کی بڑی مامی ہیں کیوکہ شمروز جتوئی کے پاس البم میں کشمالا کی بھی تصویر موجود تھی


روشانے کے سلام کے جواب میں کشمالا اُسے بالوں سے کھینچ کر نہ صرف ضیغم کے کمرے سے باہر لے کر آئی تھی،، بلکے اُس کو بالوں سے پکڑ کر سیڑھیاں اُترتی ہوئی روشانے کو نیچے لا کر آئی، اور ایک چھوٹے سے کمرے میں اسے لا پھینکا تھا


کشمالا روشانے پر صاف لفظوں میں واضح کر چکی تھی۔۔۔ کہ وہ خون کے بدلے میں یہاں آنے والی لڑکی ہے اُسے ضیغم کے کمرے میں رہنے کے خواب ہرگز نہیں دیکھنے چاہیے۔۔۔ کشمالا نے اُسے بتایا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی دوسری شادی اپنی مرضی کی لڑکی سے کروائے گی


کشمالا روشانے کا حسن دیکھ کر اندر سے بری طرح جل گئی تھی اسے ڈر تھا کہ ضیغم جیسے بچپن میں رباب کا دیوانہ تھا ویسے ہی اب وہ اُس کی بیٹی کا بھی دیوانہ ہوجائے گا اِس لیے اس نے روشانے کو کڑے لفظوں میں تنبیہہ کی تھی کہ وہ ضیغم سے اپنا چہرہ چھپائے


روشانے کو دیکھ دیکھ کر اس کا خون کھول رہا تھا اس لیے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے اس نے روشانے کے سامنے رباب کو گالیاں دینا اور برا بھلا کہنا شروع کردیا تھا


روشانے ساری رات کشمالا کے الفاظ یاد کر کے روتی رہی تھی جو الفاظ کشمالا نے اس کی مری ہوئی ماں کے بارے میں استعمال کیے تھے


روشانے کا بیگ کشمالا کے کہنے پر اُسی کمرے میں رکھوا دیا گیا جو کمرہ روشانے کو استعمال کرنے کے لیے دیا گیا تھا۔۔۔ وہ کمرہ کہیں سے بھی اس عالیشان حویلی کا حصہ معلوم نہیں ہوتا تھا۔۔۔ جہاں ایک لکڑی کا تخت ایک پلنگ اور لکڑی کی بوسیدہ الماری کے سوا کچھ بھی نہیں تھا


دوسرے دن صبح ناشتے کی ٹیبل پر اسکی شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی یعنیٰ اپنے نانا اور ماموں سے ملاقات ہوئی تھی۔ ۔۔۔ شمشیر جتوئی کے کہنے پر ہی اُسے ناشتے کی ٹیبل پر بلایا گیا تھا


اسے حویلی کے کچھ اصول اور چند ہدایت دی گئی تھیں۔۔۔ وہ اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکتی تھی،، اُسے کہیں اکیلے آنے جانے کی اجازت نہیں تھی، خاص کر سرداروں کی طرف سے قطع تعلق کا حکم دیا گیا تھا۔۔۔


ہاں حویلی کے اندر وہ جیسے چاہے اپنی مرضی سے رہ سکتی ہے۔۔۔ کوئی بھی پریشانی ہو یا کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو وہ بلاجھجھک اُن لوگوں سے کہہ سکتی ہے۔۔۔۔ یہ سب کچھ اُسے فیروز جتوئی نے کہا تھا


شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی کا رویہ اگر بہت زیادہ اپنائیت بھرا نہیں تو اتنا برا بھی نہیں تھا۔۔۔ روشانے وہاں ٹیبل پر موجود کشمالا کو دیکھتی ہوئی سوچنے لگی مگر کشمالا کو کاٹ دار نظروں سے اپنی طرف دیکھنے پر اُس نے ناشتے کے دوران دوبارہ کشمالا کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا


دوسرا دن تو یونہی ہی گزر گیا، تیسرے دن بھی جب اُسے ضیغم نظر نہیں آیا تو روشانے نے ڈرتے ڈرتے بہت ہمت کرتے ہوئے کچن میں کام کرتی ہوں شانو سے ضیغم کے بارے میں پوچھا مگر اس کی قسمت خراب تھی کیونکہ اس وقت کچن میں آتی ہوئی کشمالا، اس کے منہ سے ضیغم کا نام سن چکی تھی


ضیغم کا نام منہ سے لینے پر کشمالا نے اس کا چہرہ تپھڑ سے سرخ کر دیا تھا۔،۔۔ اُسے ضیغم کا نام لینے پر کشمالا نے بے شرمی اور بے حیائی کے طعنے بھی دیے تھے۔۔۔۔ روشانے کشمالا کا مزاج دیکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ لگا چکی تھی کہ اس کی ساس کافی دقیانوسی غصے والی اور سخت گیر خاتون ہے۔ ۔۔۔


بعد میں شانو نے اسے کمرے میں آکر بتایا تھا کہ ضیغم سائیں نکاح کے فوراً بعد اپنی چچی اور شمروز سائیں کے بچوں کے ساتھ شہر چلے گئے تھے اور وہ شہر میں ہی ہوتے ہیں۔۔۔۔ شانو کی بات سن کر روشانے خاموش ہوگئی تھی


اسے کشمالا سے کچھ اچھے کی اُمید نہیں تھی۔۔۔ اور واقعی دو دن گزرنے کے بعد کشمالا نے اس کا جینا حرام کردیا تھا۔ ۔۔۔ وہ شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی کے سامنے روشانے کو کچھ بھی نہیں کہتی شاید ان دونوں کو تو علم بھی نہیں تھا کہ وہ کہ اُسے کس کمرے میں رکھا گیا ہے۔۔۔ ان دونوں کی غیر موجودگی میں کشمالا اسے ملازمہ کے ساتھ گھر کا سارا کام کرنے کو کہتی۔ ۔۔۔ دوپہر میں آرام کرتے وقت اپنے ہاتھ پاؤں دبواتی۔۔۔۔ وقت بے وقت اُس کے سامنے رباب کو برا بھلا کہتی


آج پورا ایک ہفتہ ہو گیا تھا اُسے اس حویلی میں آئے ہوئے۔۔۔ اور اسے اپنی زندگی پہلے سے بھی زیادہ مشکل لگنے لگی تھی۔۔۔ شانو سے اُسے معلوم ہوا تھا کہ آج اس کی نند کو آنا ہے۔۔۔ اس وجہ سے وہ سارا دن کچن کے کاموں میں مصروف رہی جب سے وہ یہاں آئی تھی،، اس کی زرین یا ژالے سے بات نہیں ہوتی


شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی کا لچکدار رویہ دیکھتے ہوئے رویہ شاید وہ اُن کے بتائے ہوئے اصول بھول بیٹھی تھی۔۔۔ اس لیے اپنا موبائل نکال کر زرین کو کال ملانے لگی


کافی دیر تک بیل جاتی رہی،، تو اُس نے ژالے کے نمبر پر کال کی اتنے دنوں بعد ژالے سے بات کرتے ہوئے اُسے وقت کا احساس نہیں ہوا


جب اُس کے کمرے کا دروازہ زور سے بجا تب اس نے جلدی سے موبائل بند کرکے تکیہ کے نیچے رکھ دیا۔ ۔۔ کمرے کا دروازہ کھولتے ہی کشمالا نے اسے مارنا شروع کر دیا بقول کشمالا کے کمرے میں کوئی موجود تھا جس سے وہ باتیں کر رہی تھی


جب وہ کشمالا کی مار برداشت نہیں کر پائی تب اُس نے تکیے کے نیچے سے اپنا موبائل نکال کر کشمالا کو دیا اور اُس سے معافی مانگنے لگی۔۔۔ مگر موبائل دیکھ کر کشمالا نے شانو سے ڈنڈا منگوایا۔ ۔۔۔


موٹے سے ڈنڈے کو دیکھ کر روشانے کی روح فنا ہونے لگی۔۔۔ اُس کے بار بار معافی مانگنے کے باوجود گھر کے تمام ملازموں کے سامنے کشمالا نے اُسے بری طرح مارا


شام میں جب آرزو میکے آئی اور شانو سے اُسے دوپہر والا واقعہ معلوم ہوا تو اسے صرف ماں کی حرکت پر ہی دکھ نہیں ہوا بلکہ ضیغم کی لاپرواہی پر بھی غصہ آیا۔۔۔ وہ افسوس بھری نگاہوں سے روشانے کو روتا سسکتا ہوا دیکھ کر اپنے گھر چلی گئی


****


وہ تھوڑی دیر پہلے ہی آفس سے اپنے فلیٹ میں آیا تھا ہفتہ بھر ہوا چلا تھا اُسے حویلی سے واپس شہر آئے ہوئے۔۔۔ اب کی بار حویلی سے واپسی پر ضیغم کا دل کافی اداس تھا کیونکہ شمروز اس کے ساتھ نہیں تھا


رمشا اور بچوں کو شہر والے گھر میں چھوڑ کر وہ خود اپنے فلیٹ میں آ گیا تھا،، اسد اور وفا کے ساتھ رمشا نے بھی اسے کافی روکا مگر وہ وقتی طور پر اپنے فلیٹ کی شفٹ ہونے کا کہہ کر انہیں ٹال گیا تھا


وہ رمشا، اسد اور وفا کی طرف سے اس لیے بھی مطمئن تھا کیوکہ رمشا کے بھائی اور بھابھی چند ماہ کے لئے اُسی کے گھر میں موجود تھے


یہاں اپنے فلیٹ میں آ کر اُس نے ضرورت کے سامان کے ساتھ رومز کے حساب سے فرنیچر تو خرید لیا تھا مگر آفس میں مصروفیت کے باعث اسے ٹائم نہیں مل رہا تھا کہ سارے فرنیچر کو طریقے اور سلیقے سے رکھ سکے


آفس سے آنے کے بعد اس نے ابھی شوز بھی نہیں اتارے تھے وہ ریلکیس انداز میں صوفے پر بیٹھا ہوا اسموکنگ کرتا روشانے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔۔۔ ہفتے بھر سے فراغت کے اوقات میں اب شاید اُس کا ایک یہی کام رہ گیا تھا


نکاح کے بعد شہر آتے وقت وہ روشانے سے مل کر نہیں آیا تھا۔۔۔۔ ایسا نہیں تھا کے وہ اپنے دل میں روشانے کے لیے کوئی بات رکھے ہوئے تھا یا پھر اس سے خفا تھا۔۔۔ اس طرح یوں اچانک ان دونوں کا نکاح ہوجانا،، معلوم نہیں روشانے کا ذہن اس نکاح کو قبول کر چکا تھا یا نہیں۔۔۔ وہ روشانے کو تھوڑا ٹائم دینا چاہتا تھا اور یہ وقت وہ اسے دور رہ کر ہی دے سکتا تھا


زرین کی بات کو وہ پہلے جذباتی ہوکر سوچ رہا تھا لیکن اب وہ زرین کی بات پر ٹوٹلی کنفیوز تھا اگر واقعی روشانے تیمور خان کو پسند کرتی تھی تو وہ تیمور خان نے اسطرح خوفزدہ ہرگز نہیں ہوتی، جس طرح وہ شمروز کے گھر اُس رات خواب میں اُس سے ڈر گئی تھی۔۔۔ پھر جسطرح شمروز جتوئی نے تیمور خان کا رویہ روشانے کو اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے بتایا تھا۔۔۔ یہ سب سوچ کر ضیغم کا دماغ الجھ جاتا۔۔۔ بہرحال جو بھی تھا لیکن اب تو روشانے اس کی بیوی تھی


اسموکنگ کرتا ہوا وہ اپنی سوچوں میں گم تھا کہ اس کا موبائل بجنے لگا


"ہاں آرزو سناؤ کیسی ہو،، سب خیریت ہے"

آرزو کی کال ریسیو کرتا ہوا وہ صوفے سے ٹیک لگا کر مزید ریلیکس ہوکر بیٹھا اپنی بہن سے خیر خیریت پوچھنے لگا


"آرزو کی تو آرزو ہی رہ جائے گی کبھی اس کا بھائی خود بھی کال کرکے اپنی بہن کی خبر گیری کر لے"

آرزو ضیغم سے شکوہ کرتی ہوئی بولی جس پر وہ مسکرایا


"آج کل تو تمہارے بھائی کو اپنی خبر نہیں ہے یہ بتاؤ بچے کیسے ہیں دونوں"

ضیغم بےپروائی سے کہتا ہوا ہاتھ میں موجود سگریٹ کو ایش ٹرے میں مسلنے لگا


"دونوں ٹھیک ہیں اپنے بابا کے ساتھ باہر گئے ہیں، جب تم کو اپنی خبر نہیں ہے تو اپنے سے جڑے لوگوں کی کیسے خبر ہوسکتی ہے میں بھی کیا پوچھ بیٹھی ہو خیر یہ یہ بتاؤ رمشا چچی اور بچے کیسے ہیں"

آرزو نے جس بات کے لیے فون کیا تھا اس کو کرنے کا ارادہ ترک کرتی ہوئی رمشا کی خیریت پوچھنے لگی


"پرسوں گیا تھا میں چچی کی طرف اسد اور وفا سے بھی ملاقات ہوئی تھی وہ لوگ ٹھیک ہیں اور ایسا بالکل نہیں ہے کہ اپنے سے جڑے لوگوں کی خبر نہیں ہے مجھے،، دادا سائیں اور ماں سے بات ہوئی تھی میری"

ضیغم اپنی آنکھیں بند کرتا ہوا تھکے ہوئے انداز میں آرزو کو بتانے لگا


"حویلی سے رخصت ہوتے ہوئے ایک اور بھی تعلق جوڑ کر آئے تم،، اگر فرصت ملے تو اُس کی بھی خبر لے لینا کہ کس حال میں ہے وہ"

نہ چاہتے ہوئے بھی آرزو کے منہ سے شکوہ نکل گیا۔۔۔ روشانے کا چہرہ اس کی بند آنکھوں کے سامنے آیا اور ضیغم نے اپنی آنکھیں کھولیں


"کس حال میں ہے، کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔ کیا ہوا ہے روشی کو،، ٹھیک تو ہے ناں وہ"

ضیغم آرذو سے پوچھتا ہوا ایک دم سیدھا ہو کر بیٹھا


"بیوی وہ تمہاری ہے اُس کے بارے میں پوچھ تم مجھ سے رہے ہو"

وہ طنزیہ انداز میں مسکراتی ہوئی ضیغم سے بولی


"آرزو پلیز سیدھی طرح مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے روشی کو"

ضیغم اب آرزو سے تھوڑا سختی سے پوچھنے لگا اور ساتھ ہی اٹھ کر کھڑا ہوگیا


"ایسے منہ زبانی بتانے میں تھوڑی مزہ آئے گا۔۔۔ جاؤ جا کر خود دیکھ لو کہ کس حال میں ہے تمہاری بیوی"

آرزو نے بولتے ہوئے لائن ڈسکنیکٹ کردی


ضیغم کو آرزو کے کال کاٹنے پر غصہ آیا مگر وہ جانتا تھا اب وہ اسے کچھ نہیں بتائے گی،،، ضیغم کو روشانے کی فکر ہونے لگی۔۔۔ اس لیے اپنی تھکاوٹ کو نظر انداز کرتا ہوا گاڑی کی کیز اٹھا کر فلیٹ لاک کرتا ہوا باہر نکل گیا


****

رات کے ایک بجے کا وقت جب وہ حویلی پہنچا۔۔۔ اس وقت تقریباً سب اپنے کمرے میں سو چکے تھے۔۔۔ ضیغم سیڑھیاں چڑھتا ہوا اپنے کمرے تک پہنچا اور آئستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا تاکہ روشانے کی نیند ڈسٹرب نہ ہو مگر خالی کمرہ دیکھ کر ضیغم کو حیرت ہوئی،، وہ اپنے کمرے سے باہر آیا تو اس کی نظر نیچے پورشن پر کمرے پر پڑی جس کا دروازہ تو بند تھا مگر اندر لائٹ آن تھی کچھ سوچ کر ضیغم سیڑھیاں اترتا ہوا اُس کمرے تک آیا اور بناء دستک کے دروازہ کھول دیا


اُسے سامنے تخت پر ہی روشانے لیٹی ہوئی نظر آئی۔۔۔ کمرے کا دروازہ بند کرکے وہ روشانے کے پاس آنے لگا۔۔۔


قدموں کی آہٹ پر روشانے نے آنکھیں کھلیں تو وہاں ضیغم کو دیکھ کر اُسے ایک پل کے لیے حیرت ہوئی مگر دوسرے ہی پل وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی اور فوراً دوپٹے سے اپنا چہرہ چھپالیا۔۔۔۔ ضیغم کی نظریں روشانے کے سُوجھے ہوئے پاوؤں پر گئیں جنہیں دیکھ کر اُس کا دل بری طرح تڑپا۔،۔۔ روشانے کے سامنے تخت پر بیٹھ کر ضیغم نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے اس کے پاؤں کو چھونا چاہا۔۔۔ روشانے نے فوراً اپنے پاؤں پیچھے کرلیے۔۔۔


کمرے میں داخل ہوتے وقت وہ روشانے کے گال پر بھی سرخی دیکھ چکا تھا۔۔۔ روشانے کے اسطرح چہرہ چھپانے پر ضیغم کو بہت تکلیف ہوئی تھی


"کس نے کیا ہے یہ سب"

اپنی لاتعلقی پر خود کو ملامت کرتے ہوئے وہ روشانے کے چہرے سے دوپٹہ ہٹا کر آہستہ سے اُس سے پوچھنے لگا


"کیا فرق پڑتا ہے اس سے"

روشانے سر جھکا کر آہستہ آواز میں بولی۔۔ ضیغم کا دل بری طرح دکھنے لگا۔۔۔ شہر روانگی سے پہلے فیروز جتوئی اسے باور کروا چکا تھا کہ روشانے حویلی میں اُس کی بیوی کی حیثیت سے رہے گی اور شمشیر جتوئی نے موبائل پر اُسے کوئی ایسی انہونی بات نہیں بتائی تھی


"ماں نے کیا ہے یہ سب تمہارے ساتھ"

ضیغم روشانے کے چہرے کو تھام کر اونچا کرتا ہوا اپنی بات کی تصدیق کرنے لگا،، تو روشانے کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے


وہ آنسو نہ صرف اس کا درد کی بیان کر رہے تھے بلکہ چیخ چیخ کر کشمالا کو قصور وار ٹہرا رہے تھے۔۔۔ ضیغم نے روشانے کے آنسو صاف کر کے اسے اپنے بازوؤں میں اٹھانا چاہا


"کیا کر رہے ہیں سائیں"

روشانے ایک دم پیچھے ہوئی۔۔۔ کشمالا کی غیر موجودگی میں بھی وہ کشمالا سے خوفزدہ تھی


"اپنے کمرے میں لے جا رہا ہوں"

اُس کے پیر چلنے کے قابل نہیں تھے اِس لیے ضیغم روشانے کو دیکھتا ہوا بولا


"مامی بہت ناراض ہو گیں"

روشانے نفی میں سر ہلا کر اُسے منع کرنے لگی


"میری بات سے انکار کرو گی تو میں ناراض ہو جاؤں گا"

ضیغم نے اسے جتنے پیار سے دھمکایا، اتنی ہی نرمی سے اُسے اپنے بازوؤں میں اٹھا لیا


اب بھلا روشانے اُسے کیسے ناراض کر سکتی وہ کزن ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کا شوہر بھی تھا۔۔۔۔ ضیغم اسے بازوؤں میں اٹھائے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کشمالا کے بے رحمانہ رویہ کے بارے میں سوچ رہا تھا،، جبکہ روشانے اتنے نزدیک سے بہت غور سے ضیغم کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ جیسے ہی ضیغم کو اپنے اوپر روشانے کی نظریں محسوس ہوئی تو اُس نے فوراً روشانے کو دیکھا،، روشانے جلدی سے اپنی نظریں جُھکا گئی


اپنے بیڈ روم میں لا کر اُس نے روشانے کو بیڈ پر بٹھایا خود کمرے سے باہر چلا گیا۔ ۔۔۔ چند منٹ بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں دودھ سے بھرا گلاس تھا


"یہ پینا ضروری ہے"

وہ بے چارگی سے ضیغم کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی


"بہت ضروری ہے جلدی سے پیو"

دودھ کا گلاس روشانے کو تھمانے سے پہلے وہ اُسے میڈیسن پکڑا چکا تھا۔۔۔ کیوکہ روشانے کے جسم میں حرارت کو وہ محسوس کرچکا تھا


کڑوی گولی منہ میں رکھنے کے بعد وہ جس طرح منہ بناتے ہوئے دودھ پی رہی تھی،، کوئی اور وقت ہوتا تو ضیغم کو ہنسی آجاتی۔۔۔۔ ابھی وہ خاموشی سے روشانے کو دودھ پیتا ہوا دیکھ رہا تھا


دودھ کا خالی گلاس جب روشانے نے بیڈ کے قریب سائیڈ ٹیبل پر رکھا تو ضیغم نے اُس کے بالوں سے کیچر نکالا۔۔۔ روشانے کے گھنے بال اُس کی کمر پر بکھر گئے۔۔۔ وہ پہلی بار روشانے کے بالوں کی لمبائی دیکھ رہا تھا، ضیغم کی نظریں خود پر محسوس کرکے روشانے نے اپنی پلکیں جھکالیں۔۔۔ ضیغم چند سیکنڈ بناء پلکیں جھپکائے اُسے دیکھتا رہا


"لیٹ جاؤ"

روشانے کی طبیعت کے احساس کرتا ہوا وہ اُسے بولا


"اور آپ"

روشانے جھجھکتی ہوئی ضیغم سے پوچھنے لگی۔۔۔ ضیغم اس کی بات پر چونک کر روشانے کا نروس چہرہ دیکھنے لگا


"نیند نہیں آ رہی مجھے، تم ریلیکس ہوکر سو جاؤ"

روشانے کی گھبراہٹ اور طبعیت کے پیش نظر ضیغم اُس کو دیکھتا ہوا بولا


پاکٹ سے اپنے سگریٹ کا پیکٹ اور لائٹر نکالتا ہوا وہ کمرے میں موجود بلکونی میں چلا گیا۔۔۔ آدھے گھنٹے بعد جب وہ کمرے میں واپس آیا تب تک روشانے گہری نیند سو چکی تھی


زیرو بلب کی روشنی میں وہ روشانے پر ایک نظر ڈال کر آہستہ سے الماری کھول کر وہ اپنا آرام دہ سوٹ نکالنے لگا۔۔۔۔ جب وہ بیڈ پر روشانے کے برابر میں لیٹا تب اس کی نظر روشانے کے گال پر پڑی


اُس کی ماں نے تو بے حسی کی انتہا کر دی تھی۔۔۔ ضیغم کو کشمالا کے رویہ پر بے انتہا دکھ ہوا تھا۔۔۔ کشمالا غصّہ میں تھی اِس بات کا ضیغم کو اندازہ تھا مگر وہ روشانے کے ساتھ اس حد تک بدترین سلوک کرے گی۔۔۔ اگر یہ اُسے معلوم ہوتا تو وہ کبھی بھی روشانے کو یہاں چھوڑ کر نہیں جاتا


ضیغم نے آگے ہاتھ بڑھا کر روشانے کے گال کو چھونا چاہا مگر پھر یہ سوچ کر اس نے اپنا ارادہ ترک کر دیا کہ روشانے کی نیند ڈسٹرب ہو گی۔۔۔ وہ خود بھی سونے کی کوشش کرنے لگا


****


صبح ضیغم کی آنکھ کھلی اپنے برابر میں بے خبر سوتی ہوئی روشانے کو دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھا، کل رات اس نے کھانا نہیں کھایا تھا اس لیے اِس وقت اُسے کافی بھوک محسوس ہو رہی تھی،، فریش ہو کر وہ اپنے کمرے سے باہر نکلا


سیڑھیاں اترتا ہوا وہ ہال میں آیا تو ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے سب لوگ اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔۔۔ کشمالا ہفتے بعد اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھ کر خوشی سے مسکرا اُٹھی


"کب آئے شہر سے" ضیغم شمشیر جتوئی کے گلے لگا تو وہ خوش ہو کر اپنے پوتے سے پوچھنے لگا


"کل رات کو ہی ارادہ بن گیا تھا۔۔۔ کافی لیٹ آنا ہوا ہے اِس لیے آپ سب کو جگانا مناسب نہیں لگا"

ضیغم شمشیر جتوئی کو بتاتا ہوا اب فیروز جتوئی سے مل رہا تھا


"آؤ ناشتہ کرو" ضیغم فیروز جتوئی سے ملتا ہوا،، کشمالا سے ملے بغیر فیروز جتوئی کے برابر میں کرسی پر ہی بیٹھ گیا۔۔۔


کشمالا کے چہرے سے ایک دم مسکراہٹ غائب ہوئی، وہ اُس سے ملا تک نہیں تھا نہ اسکے پاس بیٹھا تھا۔۔۔ وہ جب شہر سے آتا۔۔۔ ہمیشہ کشمالا کے برابر والی کرسی پر بیٹھتا اور کشمالا خود اسے ساری چیزیں نکال کر دیتی


ضیغم ٹیبل پر موجود ایک ایک چیز پلیٹ میں رکھنے لگا، کشمالا اسے دیکھ کر سُسر اور شوہر کو ناشتہ دینے لگی


"روشانے نہیں دکھ رہی بلاؤ اُسے اور سمجھاؤ کہ ناشتہ وہ صبح سب کے ساتھ ہی کیا کرے"

شمشیر جتوئی کشمالا کو دیکھ کر بولا تو ضیغم خاموشی سے کیٹل سے کپ میں چائے بھرنے لگا


"شانو جا روشانے کو بُلاکر لا"

کشمالا نے کہتے ہوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں شانو کو پیچھے کے راستے سے روشانے کے کمرے میں جانے کو کہا


"روشی اُس کمرے میں نہیں ہے جہاں آپ نے شانو کو بھیجا ہے، وہ میرے کمرے میں موجود ہے"

ضیغم کشمالا کو دیکھ کر بلند آواز میں بولا


"شانو یہ ناشتہ میرے کمرے میں لے کر جاؤ اور چھوٹی بی بی کو صحیح سے ناشتہ کرواؤ"

ضیغم ناشتے کی پلیٹ شانو کو دیتا ہوا بولا


"کیا کر رہی ہے وہ تیرے کمرے میں" کشمالا غُصے میں دانت پیستی ہوئی ضیغم سے پوچھنے لگی جبکہ شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی کشمالا کو دیکھنے لگے


"اصولاً تو اُسے میرے کمرے میں ہی ہونا چاہیے،، بیوی ہے وہ میری۔ ۔۔۔ آپ کو اتنا غُصہ کیوں آ رہا ہے"

ضیغم اب دوسری پلیٹ میں اپنے لئے ناشتہ نکالتا ہوا کشمالا سے پوچھنے لگا


"یہ کس طرح کی بات کر رہے ہو اپنی ماں کے سامنے، شرم نہیں آرہی تمہیں اور یہ الگ کمرے کا کیا چکر ہے"

شمشیر جتوئی ضیغم کو ٹوکتا ہوا ساتھ ہی کشمالا سے پوچھنے لگا


"اوہ تو آپ کے علم میں نہیں ہے یہ بات،، روشی میرے کمرے کی بجائے ہفتے بھر سے اُس کمرے میں رہ رہی تھی جہاں پر اکثر رات کو دیر ہوجانے کی وجہ سے گھر کے ملازموں کو ٹھہرایا جاتا ہے"

ضیغم شمشیر جتوئی کو بتانے لگا جس پر شمشیر جتوئی کے ساتھ ساتھ فیروز جتوئی بھی حیرت سے کشمالا کو دیکھنے لگا


"شمروز کے قتل کے بدلے اُسے یہاں لایا گیا ہے"

اپنی طرف فیروز جتوئی کی خونخوار نظر اٹھتی دیکھ کر کشمالا ضیغم کو آنکھیں دکھاتی ہوئی بولی


"چاچو کے قتل کا روشی سے کوئی تعلق نہیں ہے ماں،، چاچو اُس کی بھی ماموں تھے۔۔۔۔ یوں قتل کو بنیاد بناکر آپ یا پھر کوئی بھی اُس کے ساتھ بدترین سلوک کرے گا تو یہ میں ہرگز برداشت نہیں کروں گا"

ضیغم ناراض لہجے میں کشمالا کو دیکھ کر بولنے لگا


"کیا کیا ہے تم نے روشانے کے ساتھ" شمشیر جتوئی ضیغم کی بات سن کر خاموش ہو گیا جبکہ فیروز جتوئی غُراتا ہوا کشمالا سے پوچھنے


"موبائل چھپا کر اپنے ساتھ لائی تھی آپ لوگوں کے دشمن سے باتیں کر رہی تھی، جس کی ذرا سی سزا دی ہے میں نے"

کشمالا مجرم بنی ہوئی فیروز جتوئی کو بتانے لگی اب اُسے ضیغم کے حویلی آنے پر خوشی ہونے کی وجہ سے غُصہ آ رہا تھا


"ماں کسی کو مار مار کر اُس کے ہاتھ پاوں سُجھا دینا زرا سی سزا نہیں ہوتی"

ضیغم کشمالا کی بات پر اسے ملامت کرتا ہوا بولا


"تُو خاموش کر، خوب نظر آرہا ہے مجھے،، کیسے ایک ہی رات میں اُس نے شیشے میں اتارا ہے تجھے"

کشمالا ضیغم کو جھڑکتی ہوئی بولی


"خاموش تم رہو مالا اور یہ بات یاد رکھو کہ وہ رباب کی بیٹی بھی ہے۔۔۔ آئندہ اس کے ساتھ اس حویلی میں کوئی بھی برا سلوک نہیں ہونا چاہیے اور ضیغم تم روشانے کو اچھی طرح سمجھا دو،، سرداروں سے اب اس کا ہر تعلق ختم ہو چکا ہے۔۔۔ آئندہ وہ ان لوگوں سے کسی بھی قسم کا رابطہ کرنے سے پرہیز کرے"

شمشیر جتوئی اپنی بہو کو دیکھتا ہوا بولا اور ساتھ ہی اس نے ضیغم کو بھی خبردار کردیا


شمشیر جتوئی کی بات سن کر کشمالا کا منہ بن گیا وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں جانے لگی۔۔۔۔ فیروز جتوئی بھی غُصہ میں کشمالا کے پیچھے کمرے میں جانے لگا


"بابا سائیں پلیز یہاں پر بیٹھیں، مجھے آپ سے اور دادا سائیں سے ضروری بات کرنا ہے"

ضیغم اُسے واپس کرسی پر بٹھاتا ہوا بولا۔۔۔ وہ جانتا تھا فیروز جتوئی اس عمر میں آکر بھی ہاتھ اٹھانے میں دیر نہیں لگاتا تھا۔۔۔ جو بھی تھا وہ اپنی ماں کے ساتھ اتنا برا نہیں کرنا چاہتا تھا جتنا وہ اُس کی بیوی کے ساتھ کرچکی تھی


"چاچو کے نہ ہونے سے آفس کا کافی لوڈ مجھ پر پڑ گیا ہے۔۔۔ آپ دونوں تو یہ جانتے ہی ہیں، شہر میں اب میں اپنے فلیٹ میں رہتا ہو۔ ۔۔ اس لیے وہاں پر کھانے اور دوسرے کاموں کے لیے مجھے کافی پرابلم ہورہی ہے۔۔۔ تو میں سوچ رہا ہوں کہ اب روشی کو اپنے ساتھ لے جاؤ"

ضیغم باری باری اُن دونوں کو دیکھتا ہوا بولنے لگا


"کوئی ضرورت نہیں ہے اُسے اپنے ساتھ لے کر جانے کی،، کام کا زیادہ ہی مسئلہ آرہا ہے تو کوئی کام والی رکھ لو۔۔۔ بیوی یہاں پر ہے تو ہفتے بعد یہاں کا چکر بھی لگالیا ہے تم نے، ورنہ تو مہینے مہینے ہم تمہاری شکل دیکھنے کو ترس جاتے ہیں"

شمشیر جتوئی باروعب انداز میں بولا تو ضیغم خاموش ہوگیا


"بابا سائیں لیں جانے دیں اسے اپنی بیوی کو اپنے ساتھ۔۔ اِس طرح سے ذمہ داری کا بھی احساس ہو گا اور اپنی سے جڑے رشتوں کی قدر بھی آئے گی"

فیروز جتوئی ضیغم کا لٹکا ہوا منہ دیکھ کر شمشیر جتوئی سے بولا


تب شمشیر جتوئی نے ضیغم کو روشانے کو ساتھ لے کر جانے کی اجازت دے دی جس پر ضیغم نے سکھ کا سانس لیا


"تھینکس دادا سائیں میں کوشش کروں گا ہر ہفتے چکر لگایا کرو اور بابا سائیں آپ یہ بات دل سے نکال دیں کہ میں اپنے سے جڑے رشتوں کی قدر نہیں کرتا"

ضیغم فیروز جتوئی کو دیکھتا ہوا بولا اور ناشتہ کرنے لگا آج رات میں ہی اسے روشانے کو اپنے ساتھ لے کر نکلنا تھا


****


شانو اسے تھوڑی دیر پہلے ہی ناشتہ کروا کر کمرے سے باہر نکلی تو ضیغم کمرے کے اندر داخل ہوا۔۔۔ بے ساختہ روشانے کا ہاتھ اپنے دوپٹے پر گیا


"خدا کا خوف کرو، میری بیوی بننے کے بعد بھی تم مجھ سے چہرہ چھپاؤ گی"

ضیغم روشانے کی حرکت نوٹ کرتا ہوا بولا اور اُس کے سامنے آ کر بیڈ پر بیٹھا۔۔۔ کل رات کی بانسبت اب وہ کافی بہتر لگ رہی تھی


"پرانی عادتیں فوراً نہیں چلی جاتیں تھوڑا وقت تو لگتا ہے"

روشانے ضیغم سے یہ نہیں بول سکی کہ اُسے چہرہ چھپانے کا حکم، خود اُسی کی ماں نے دیا ہے


"پھر تو مجھے کچھ ایسا کرنا چاہیے،، کہ شرم اور پردے والی عادت جلدی ختم ہوجائے"

ضیغم اس کا ہاتھ تھام کر بولا تو روشانے کا دل زور سے دھڑکا وہ فوراً پلکیں جھکا گئی ضیغم روشانے کا نروس سا چہرہ دیکھنے لگا۔۔۔


ضیغم کی بات سن کر روشانے کے چہرے پر نہ ہی کوئی ناگوار تاثُر ابھرا تھا،، نہ ہی اس نے بےزار ہوکر یا بہانے سے ضیغم سے اپنا ہاتھ چھڑوایا تھا۔۔۔ ضیغم اس کا ایک ایک انداز نوٹ کر رہا تھا۔۔۔ جس سے وہ اندازہ لگا سکے کہ روشانے اس کے ساتھ خوش ہے کہ نہیں


"کچھ سوچ رہی ہو یا پھر کچھ پوچھنا چاہتی ہو"

اُس کی خاموشی محسوس کر کے چند سیکنڈ بعد ضیغم روشانے سے پوچھنے لگا


"کیا آپ کل رات سو گئے تھے"

جو وہ پوچھنا چاہ رہی تھی اس کو سمجھ نہیں آیا کیسے پوچھے اور اس چکر میں وہ الٹا ہی سوال پوچھ بیٹھی


"میرے خیال میں رات تو سونے کے لیے ہی ہوتی ہے۔۔۔ تم کیا سوچ رہی ہوں کل رات جاگ کر مجھے کیا کرنا چاہیے تھا"

ضیغم روشانے کو دیکھتا ہوا سنجیدگی سے اُس سے پوچھنے لگا۔۔۔ ضیغم کی بات سن کر روشانے ایک دم سٹپٹا گئی


"نہیں وہ میرے پوچھنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا۔۔۔۔ مطلب کہ آپ کل رات کو کہاں پر سوئے تھے"

روشانے ضیغم کی بات سے مزید کنفیوز ہو کر دل میں آیا سوال اس سے پوچھنے لگی۔۔۔


"یہی اِس بیڈ پر تمہارے پاس"

ضیغم یونہی اس کا ہاتھ تھامے غور سے روشانے کو دیکھتا ہوا بولا


"یہی بیڈ پر میرے پاس"

روشانے آہستہ آواز میں بڑبڑائی، اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئی۔۔۔ اسکے ہاتھ کا لرزنا ضیغم محسوس کرچکا تھا


"کیوں کیا نہیں سو سکتا۔۔۔ یا تم نے مائنڈ کیا میرے یہاں سونے پر"

ضیغم اُس سے سوال کرتا ہوا اب بھی اسکے چہرے کی تاثرات دیکھ رہا تھا


"ہرگز نہیں، میرا مطلب ہے میرا وہ مطلب بھی نہیں تھا میں کیو مائنڈ کرو گی"

روشانے اس کی بات پر مزید نروس ہونے لگی تھی۔۔۔۔ اسے ڈر تھا وہ کسی بات کا مائنڈ نہ کر جائے۔۔۔ ضیغم چند سیکنڈ خاموشی سے اُسے دیکھتا رہا


"شہر چلنا ہے میرے ساتھ"

اچانک سے پوچھتے ہوئے ضیغم نے اس کا دوسرا ہاتھ بھی تھام لیا۔۔۔ جس پر روشانے حیرت سے پوری آنکھیں کھول کر اُسے دیکھنے لگی


"واقعی آپ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جائیں گے"

وہ اس کے اتنے قریب اُس کے دونوں ہاتھ تھام کر بیٹھا ہوا تھا روشانے یہ بات بھول گئی اور بے یقینی سے ضیغم سے پوچھنے لگی جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہو


"اگر تم میرے ساتھ جانا چاہو گی تو ضرور لے کر جاؤں گا"

ضیغم کی نظریں روشانے کی آنکھوں گالوں کے بعد ہونٹوں کا طواف کر نے لگی۔۔۔ ساتھ ہی وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے انگوٹھے سے نرمی سے سہلانے لگا مگر روشانے اس کا انداز اسکی نظروں کا نوٹس لیے بغیر شہر جانے والی بات پر حیرت ذدہ تھی


"سب سے اجازت مل جائے گی ناں"

روشانے اُس سے اپنا خدشہ ظاہر کرتی ہوئی بہت آس سے پوچھنے لگی تو ضیغم اس کے انداز پر مُسکرایا


"میں سب سے اجازت لے چکا ہوں تم پیکنگ کر لو ہمیں رات تک نکلنا ہوگا"

ضیغم نے بولتے ہوئے نرمی سے روشانے کا ہاتھ دبایا۔۔۔ ضیغم کا موبائل بجنے لگا تو وہ بیڈ سے اٹھ کر موبائل پر کال رسیو کرتا ہوا باہر نکل گیا


ضیغم کے کمرے سے جانے کے بعد روشانے کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی اور یہ مسکراہٹ کافی دنوں کے بعد اس کے لبوں پر آئی تھی جیسے اُسے آزادی کا پروانہ ملا ہو، ویسے ہی کشمالا کمرے کے اندر داخل ہوئی


"تو ایک رات میں ہی پھسا لیا تُو نے میرے بیٹے کو اپنے حسن کے جال میں۔۔۔ زیادہ مسکرانے کی ضرورت نہیں ہے یہ خوشی میں زیادہ دیر تک قائم ہونے نہیں دوں گی۔۔۔ بہت جلد تجھے یہاں سے دفع کرو گی،، پھر اپنے بیٹے کی دوسری شادی کرواؤ گی تجھ سے بھی زیادہ خوبصورت لڑکی سے۔۔۔ ابھی تو شہر جا اور چند دن خوش ہو لے"

کشمالا روشانے کو دیکھ کر زہر خواندہ لہجے میں بولی اور روشانے کی خوشیاں ملیامیٹ کرتی ہوئی کمرے سے چلی گئی


****

"تم یہاں آگئے وہ بھی اکیلے،، تمہیں معلوم نہیں ہے تمہارا یہاں پر آنا خطرے سے خالی نہیں ہے"

رات کے وقت کھانے کی میز پر جب کبریٰ خاتون، سردار اسماعیل خان، زرین اور ژالے موجود تھی۔۔۔ تب حویلی میں تیمور خان داخل ہوا اُس کو دیکھ کر سب لوگ حیرت ذدہ تھے تب سردار اسماعیل خان تیمور خان سے بولا


"تو پھر کیا کرو، کب تک چھپا بیٹھا رہو۔۔۔ اور آپ لوگوں نے کیا کیا ہے روشانے کو اُن بےغیرتوں کے حوالے کردیا"

تیمور خان کو جب سے ضیغم اور روشانے کے نکاح کی خبر ہوئی تھی وہ تب سے جلتے ہوئے انگاروں پر لوٹ رہا تھا۔۔ ابھی بھی وہ غُصے میں ان سب کو دیکھ کر چیخ کر بولا


"روشانے کو اگر اُن لوگوں کے حوالے نہیں کرتے تو پھر فیروز جتوئی اپنے بھائی کے خون کا بدلہ تمہارے باپ کے خون سے لیتا،، گوارا کرلیتے تم۔ ۔۔۔ خون کا پیاسا ہو رہا ہے اِس وقت فیروز جتوئی"

کبریٰ خاتون کرسی سے اٹھ کر تیمور خان کے پاس آتی ہوئی روعب دار آواز میں بولیں


"پیاسے تو وہ لوگ اب بھی ہو رہی ہے میرے خون کے۔۔۔ اِسی وجہ سے تو چھپا بیٹھا تھا مگر آپ لوگوں نے بہت غلط کیا ہے روشانے کو اُن کے حوالے کرکے میں چھوڑوں گا نہیں اب کسی کو بھی"

تیمور خان مزید غُصے میں بولا


"تم ایک قتل کر چکے ہو تیمور، اگر اب تم نے کوئی دوسرا گناہ کیا تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا،، روشانے کے نصیب میں تم نہیں شمشیر جتوئی کا پوتا لکھا تھا، اس بات کو قبول کرو اور اپنی طبیعت میں سدھار لاؤ"

سردار اسماعیل خان تیمور خان کے غصے کو نظر انداز کرتا ہوا اسے وارن کرنے لگا


مگر سردار اسماعیل خان کی بات سے تو جیسے تیمور خان کو کوئی فرق نہیں پڑا وہ بناء سردار اسماعیل خان کی بات کا اثر لیے اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔ زرین افسوس سے سردار اسماعیل خان کو دیکھنے لگی


****


"میں اس وقت تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتا،، نہ ہی کوئی بات سننا چاہتا ہو۔۔۔ واپس چلی جاؤ میرے کمرے سے"

رات کے وقت جب سب لوگ اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے تب ژالے تیمور خان کے کمرے میں آئی۔۔۔۔ تیمور خان جو کہ صوفے پر بیٹھا ہوا شراب سے بھرا ہوا گلاس ایک کے بعد ایک اپنے اندر انڈیل رہا تھا ژالے کو دیکھتا ہوا اُس پر چیخا


"چلی جاؤ گی خان مگر ایک ہارے ہوئے انسان کی شکل دیکھ کر، اُسے اُس کی اوقات یاد دلا کر۔ ۔۔۔ سمجھتے کیا ہو تم خود کو،، جو دولت اور طاقت کے نشے میں مغرور ہو چلے ہو،، خوفِ خدا شاید تمہارے اندر بچا ہی نہیں۔۔۔ ایک مظلوم اور بے قصور انسان کو قتل کرتے ہوئے تمہارے ہاتھ ذرا بھی نہیں کانپے، روشانے کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرکے تمہارا دل زرا نہیں لرزا، تم روشانے سے پیار کا دعویٰ کرتے ہو ناں خان۔۔۔ سچ تو یہ ہے تمہیں اُس سے پیار بالکل نہیں تھا تم بس اُسے ساری زندگی اپنا غلام بنا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔۔۔ بہت اچھا وہ تمہاری غلامی سے آزاد ہو گئی۔۔۔ بہت اچھا ہوا جو اُس کا نکاح ضیغم جتوئی کے ساتھ ہوگیا۔۔۔ کیونکہ روشانے جیسی معصوم لڑکی تم ڈیزرو ہی نہیں کرتے تھے۔۔۔ اِس وقت ایک تھکے ہوئے اور ہارے ہوئے انسان کی طرح اپنے کمرے میں بیٹھ کر تم اپنی ہار کا سوگ منا رہے ہو،، آج مجھے تمہاری اس حالت پر ذرا ترس نہیں آرہا بلکہ پر افسوس ہو رہا ہے کہ میں نے"

ژالے ابھی مزید تیمور خان کو کچھ کہتی،، مگر تیمور خان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا وہ گلاس کو دور پھینک کر صوفے سے اٹھتا ہوا ژالے کے پاس آیا


"بہت کرلی تم نے میرے سامنے بک بک، اور بہت برداشت کرلیا میں نے تمہیں۔۔۔ تم مجھے یہاں میرے کمرے میں میری اوقات یاد کروانے آئی ہو، اب میں تمہیں بتاتا ہو اپنی اوقات اور یہ بھی کہ تم کیا ڈیزرو کرتی ہو"

تیمور خان نے بولنے کے ساتھ ژالے کے اوپر سے دوپٹہ کھینچ کر دور فرش پر پھینکا۔۔۔ اِسی طریقے سے ژالے کی بولتی بند ہوسکتی تھی روشانے کو بھی وہ اِسی طرح ڈراتا تھا


"خان"

ژالے سے تیمور خان کی حرکت پر حیرت اور صدمے سے کچھ بولا نہیں گیا۔۔۔ فرش پر اپنے گرے ہوئے دوپٹے کو دیکھنے کے بعد وہ بے یقینی سے تیمور خان کو دیکھنے لگی۔۔۔ کیا وہ اسکی نظر میں اتنی کمتر تھی کہ محبت کے بدلے اس سے یہ زلّت برداشت کرتی کہ وہ اس کا ڈوپٹہ اتار ڈالے


"چلی جاو میرے کمرے سے اِس سے پہلے کہ میرے اندر کا وحشی جانور تمہیں بری طرح نوچ ڈالے"

تیمور خان تحقیر سے ژالے کو دیکھتا ہوا بولا بےاختیار ژالے کی آنکھوں میں نمی اتری۔۔۔ ایک دم ژالے کا ہاتھ اٹھا جو تیمور خان کے گال پر انگلیوں کا نشان چھوڑ گیا۔۔۔ وہ واقعی ایک جانور تھا جس سے وہ دل لگا بیٹھی تھی وہ اس کا تپھڑ ہی ڈیزرو کرتا تھا محبت نہیں


"تم میری محبت کے لائق نہیں ہو خان"

ژالے سے تپھڑ کھا کر وہ قہر آلود آنکھوں سے ژالے کو دیکھنے لگا۔۔۔ ژالے اپنی آنکھوں سے نمی صاف کرتی ہوئی تیمور خان کو دیکھ کر بولی اور فرش پر گرا ہوا ڈوپٹہ اٹھانے لگی


"خان تمہاری محبت کے لائق نہیں ہے۔۔۔ آج یہ خان خود تمہیں کسی دوسرے کے لائق نہیں چھوڑے گا"

اس سے پہلے کہ ژالے تیمور خان کے کمرے سے باہر نکلتی۔۔۔ تیمور خان تیزی سے اُس کی طرف بڑھتا ہوا آیا ژالے کے بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر بیڈ پر دھکا دیتے ہوئے بولا


"خان نہیں، پیچھے ہٹو جانے دو مجھے"

ژالے نے بولتے ہوئے بیڈ سے اٹھنے کی کوشش کی مگر اس سے پہلے ہی تیمور خان ژالے پر جُھکتا ہوا اس کو اپنی گرفت میں لے چکا تھا۔۔۔ وہ روشانے نہیں تھی جو ڈر سہم جاتی مگر آج تیمور خان بھی اُس کا غرور توڑ دے گا۔۔۔ تیمور خان کے دماغ میں سوچیں آنے لگی


ژالے تیمور خان کی قید میں بری طرح پھڑپھڑا رہی تھی۔۔۔ وہ اپنا ہاتھ ژالے کے ہونٹوں پر رکھ کر اِس کی چیخوں کا گلا گھونٹ چکا تھا


جب اُس نے ژالے کی قمیض کو پھاڑا تو ژالے روتی ہوئی، اپنے بچاؤ کے لئے تیمور خان کا منہ اور بال نوچنے لگی


ژالے کے ناخنوں سے تیمور خان کے دایاں گال زخمی ہو چکا تھا۔۔۔ جس پر غُصے میں تیمور خان نے اُس کے منہ پر سے اپنا ہاتھ ہٹا کر،، اپنے دونوں ہاتھوں سے ژالے کے دونوں ہاتھ کی گرفت میں لیے اب وہ ژالے کی گردن پر جُھکتا ہوا درندگی دکھا رہا تھا


"خان نہیں"

اسکے دانت اپنی گردن میں گڑھتے ہوئے محسوس کر کے ژالے روتی ہوئی بری طرح چیخی تھی۔۔۔ مگر اب تیمور خان کے اندر کا حیوان جاگ چکا تھا، اوپر سے شراب کے نشے میں چور شیطان اس پر غالب ہوچکا تھا۔۔ اُس نے ژالے کی قمیض کو گریبان چاک کردیا۔۔۔ جس پر صدمے سے روتی ہوئی دوبارہ چیخی مگر تیمور خان کو اُس کی چیخیں سنائی نہیں دے رہی تھی وہ مزید حیوانیت پر اتر آتا


مگر جبھی کمرے کا دروازہ کُھلا جس پر تیمور خان کی نگاہ فوراً دروازے پر گئی۔۔۔


"امی"

دروازے پر زرین کو دیکھ کر وہ جلدی سے بیڈ سے اٹھا


"یا اللہ"

زرین کمرے کے اندر کا منظر دیکھ کر کانپ اٹھی،، بے ساختہ اپنے دل پر ہاتھ رکھتی ہوئی وہ دروازے سے چپک گئی


جبکہ روتی ہوئی ژالے تیمور خان کے پیچھے ہٹنے پر خود بھی بیڈ سے اٹھی اور چیخیں مار کر روتی ہوئی وہ زرین کی طرف لپکی۔۔۔ اُسکی بازووں اور گلے سے پھٹی ہوئی قمیض دیکھ کر زرین کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنی چادر ژالے کے گرد لپیٹنے لگی


اب ژالے زرین کے گلے لگ کر بری طرح رو رہی تھی اور تیمور خان،، جس کا سارا نشہ زرین کو دیکھ جر اتر چکا تھا اب وہ شرمندہ سا کھڑا تھا


"امی یہ میرے کمرے میں خود آئی تھی مگر میں اِسے ڈرا رہا تھا"

تیمور خان ہمت کرتا ہوا زرین کے پاس آیا اور اُس کے سامنے بولنے لگا۔۔۔ جبھی زرین ژالے کو خود سے الگ کرتی ہوئی تیمور خان کے پاس آئی اور زور دار طماچہ اُس کے منہ پر رسید کیا


"اپنے ہی گھر پر نقب لگانے کی کوشش کی ہے تُو نے تیمور، شرم نہیں آئی تجھے اتنی گری ہوئی حرکت کرتے ہوئے اور کتنے گناہ کمائے گا تُو، بلکہ کون سا گناہ بچ گئے جو تیرے حساب میں نہیں لکھا گیا ہو شرابی، قاتل، زانی"

زرین تیمور خان کے منہ اور سینے پر زور زور سے تھپڑ مارتی ہوئی بری طرح رو رہی تھی جبکہ تیمور خان شرمندگی اور خجالت سے سرخ چہرہ لیے سر جھکائے کھڑا تھا۔۔ زرین کی چیخ و پکار سے سردار اسماعیل خان اور کبریٰ خاتون بھی اس کے کمرے میں آ گئے تھے


"یا اللہ یا میرے مالک مجھے بتادے، مجھ سے ایسا کون سا گناہ سر زد ہوا ہے جو ایسی بدکار اولاد تُو نے میرے نصیب میں لکھ دی ہے"

اب ذرین نیچے فرش پر بیٹھ کر روتی ہوئی ماتھے پر ہاتھ مار کر بول رہی تھی جبکہ تیمور خان ابھی بھی سر جھکائے مجرموں کی طرح کھڑا تھا۔۔۔ ژالے زرین کی چادر لپٹی ہوئی وہی دیوار سے چپکی سسک رہی تھی


"یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔۔ زرین کیا ہوا ہے تمہیں"

سردار اسماعیل خان کمرے کے اندر داخل ہوتا ہوا زرین سے پوچھنے لگا مگر وہ زرین کی چادر میں لپٹی ہوئی ژالے کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔۔۔ کبریٰ خاتون بھی روتی ہوئی زرین کے بعد، کونے میں دیورا سے لگی ژالے کو دیکھ رہی تھی اور معاملہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی


جبکہ دھاڑے مار کر روتی روتی ہوئی زرین، زرین کی چادر میں لپٹی ہوئی ژالے۔۔۔ ژالے کا فرش پر گرا ہوا دوپٹہ، میز پر موجود شراب کی بوتل، سر جھکائے نادم کھڑا تیمور خان اور تیمور خان چہرے،، گردن پر ناخنوں کے نشانات۔۔۔ سردار اسماعیل خان کو پورا معاملہ سمجھ آ گیا


"بے غیرت، بے شرم، زلیل انسان کیا کیا ہے تُو نے اِس بچی کے ساتھ،، بول نہیں تو میں تجھے جان سے مار ڈالوں گا"

سردار اسماعیل خان غُصے میں تیمور خان کی طرف بڑھ کر اُس کو بری طرح مارتا ہوا پوچھ رہا تھا۔۔۔ تیمور خان ابھی بھی خاموش سردار اسماعیل خان سے مار کھائے جا رہا تھا


"یہ کیا کر رہے ہو اسماعیل خان۔۔۔ میں کہتی ہو چھوڑ دو تیمور کو"

کبریٰ خاتون سردار اسماعیل خان کو دیکھتی ہوئی زور سے بولیں


"آج آپ بیچ میں مت بولیں اماں حضور، یہ جو آج ہمیں دیکھنا پڑ رہا ہے۔۔۔ وہ سب کچھ آپ کی تربیت کا نتیجہ ہے"

سردار اسماعیل خان تیز آواز میں کبریٰ خاتون کو بولا۔۔۔ اور زندگی میں ایسا پہلی بار ہوا تھا جب اس نے اُس انداز میں کبریٰ خاتون سے بات کی ہو


"میں تم جیسی زلیل اور بدکردار اولاد کو اس چھت کے نیچے برداشت نہیں کر سکتا نکل جاو اس گھر سے"

سردار اسماعیل خان دوبارہ تیمور خان کی طرف مڑتا ہوا اس سے بولا


"آنٹی"

سردار اسماعیل خان ژالے کی آواز پر مڑا جو کہ بھاگتی ہوئی فرش پر بے ہوش پڑی زرین کی طرف بڑھ رہی تھی


****


صبح روشانے کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے قریب سے ضیغم کو سوتا ہوا پایا۔۔۔ وہ روشانے کے بے حد قریب لیٹا ہوا تھا اتنا قریب سے روشانے کہ دل کی دھڑکنیں تھمنے لگی۔۔۔۔ کل رات میں ضیغم اسے حویلی سے اپنے فلیٹ میں لے آیا تھا۔۔۔ سفر میں وقفے وقفے سے وہ روشانے سے باتیں کرتا رہا اسی دوران وہ اُسے بتا چکا تھا کہ اب وہ شمروز جتوئی کے گھر میں نہیں بلکہ اپنے فلیٹ میں شفٹ ہو چکا ہے جو ابھی پوری طرح ڈیکوریٹ نہیں، ساتھ ہی وہ روشانے سے اس کی اسٹیڈیز کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔۔۔ روشانے نے ڈرتے ڈرتے اس سے آپ نے اسٹیڈیز کنٹینیو رکھنے کی اجازت مانگی جو ضیغم نے اسے آرام سے دے دی۔۔۔ روشانے اِس بات پر خوش تھی۔۔۔ رات میں ان دونوں کا اپنے فلیٹ میں کافی لیٹ پہنچنا ہوا۔۔۔ جب سونے کا وقت آیا روشانے بیڈروم میں آ کر بیڈ کو دیکھنے کے بعد ضیغم کو دیکھنے لگی


"تم ریلیکس ہو کر سو جاؤ مجھے تھوڑا سا آفس کا کام ہے"

ضیغم اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر بولتا ہوا دوسرے کمرے میں چلا گیا


رات میں روشانے نے سونے سے پہلے کافی دیر تک ضیغم کا کمرے میں آنے کا انتیظار کیا پھر نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی، اُسے خبر ہی نہیں ہوئی کب ضیغم بیڈ روم میں آیا۔۔۔۔ اس وقت وہ پلکیں جھپکائے بنا سوئے ہوئے ضیغم کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔۔۔ جیسے چند روز پہلے وہ شمروز جتوئی کے گھر میں اُس کی تصویر دیکھ رہی تھی،،


اس کے چہرے کے ایک نقش کو ازبر کرنے کے بعد روشانے اٹھ کر بیٹھنے لگی،، تبھی ضیغم نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا روشانے ایک دم اس کے سینے سے جا ٹکرائی اور بے ساختہ اُس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی، ساتھ ہی اُس کے بالوں میں بندھا ہوا جوڑا کُھل گیا


"اچھی طرح کر لیا میرے چہرے کا معائنہ"

ضیغم کی آواز میں نیند کا خمار ابھی تک موجود تھا۔۔۔ شاید اپنے چہرے پر نظروں کی تپش سے وہ جاگ گیا تھا۔۔۔ وہ روشانے کے بال اس کے چہرے سے ہٹاتا ہوا قریب سے روشانے کا چہرہ دیکھ کر پوچھنے لگا


"نہیں تو میں کیوں کرنے لگی بھلا آپ کے چہرے کو معائنہ"

اپنی چوری پکڑے جانے کے ڈر سے وہ شرمندہ ہوتی ہوئی بولی اور ضیغم کے اوپر سے اٹھنے لگی تو ضیغم نے ایک بار پھر اسے اپنی طرف کھینچا


"اور اگر میں اِس وقت تمہارا مکمل معائنہ کرنا چاہو تو" ضیغم کی بات سن کر اس کا رنگ حیا سے لال پڑنے لگا


"آپ رات میں سونے کے لیے کمرے میں اتنی دیر سے کیوں آئے"

روشانے اب اُس کی معنٰی خیز بات کا کیا جواب دیتی،، اس لیے ضیغم کی بات کو گھما کر الٹا اُس سے سوال کرنے لگی


"اگر مجھے ذرا بھی اندازہ ہوتا تم میرا انتظار کرو گی تو کمرے سے جاتا ہی نہیں"

ضیغم اپنے دونوں ہاتھوں سے روشانے کا چہرہ تھامے اس کو بولنے لگا، روشانے ضیغم کی بات پر پلکیں جھکا گئی


روشانے کے پلکیں جھکانے پر بےساختہ ضیغم کو اس پر پیار آیا۔۔۔ وہ روشانے کے چہرے پر جُھکتا ہوا اپنے ہونٹ روشانے کے ہونٹ پر رکھ چکا تھا۔۔۔ اپنے تشنہ لبوں کو سیراب کرتے ہوئے وہ واپس بیڈ پر لیٹ کر بے خود سا روشانے کو دیکھ رہا تھا جس کا چہرہ شرم سے سرخ پر چکا تھا وہ فوراً اٹھ کر واشروم کی طرف بڑھ گئی


"نہیں یار یہی موجود ہو،، کل رات کو ہی واپسی کر لی تھی۔۔۔ میٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی پہنچ جاؤں گا"

روشانے جب واش روم سے باہر آئی تو ضیغم کو موبائل پر محو گفتگو پایا وہ خاموشی سے ضیغم پر نگاہ ڈالے بناء بیڈ سے اپنا دوپٹہ اٹھاتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی


"کچن میں کسی بھی سامان کی کمی بیشی ہو تو لسٹ بنالینا۔۔ کل سے اپنا کالج جانا اسٹارٹ کردینا، صبح میں تمہیں کالج چھوڑ دیا کروں گا، واپسی کے لیے ڈرائیور کو بھیج دیا کروں گا۔۔۔ آفس سے واپس آتے ہوئے مجھے شام ہو جائے گی"

ڈائننگ ہال میں ناشتے کے دوران ضیغم روشانے کو دیکھتا ہوا بولا


"میں انتظار کروں گی آپ کا"

روشانے کی بات سن کر ضیغم کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔ ۔۔ اسے کہیں سے بھی شائبہ نہیں گزرا تھا کہ روشانے اس کے ساتھ یا پھر اِس رشتے پر خوش نہیں ہے


ضیغم آفس جانے کے لیے فلیٹ سے باہر نکلا تھا تو روشانے دروازے تک آئی۔۔۔ ضیغم اُسے الوداع کہتا ہوا روشانے کے چہرے پر جُھکنے لگا تب روشانے ایک دم پیچھے ہوئی اور جلدی جلدی آیت پڑتی ہوئی ضیغم کے چہرے اور سینے پر پھوکنے لگی تب وہ مسکرا کر اس کی پیشانی پر ہونٹ رکھتا ہوا فلیٹ سے باہر نکل گیا


****

تھوڑی دیر پہلے اُس کی نیند سے آنکھ کھلی تھی وہ اپنی کل رات والی حرکت پر نادم، صوفے پر دونوں ہاتھوں سے سر تھامے بیٹھا تھا۔۔۔ مگر ژالے نے بھی تو اُس کو باتیں سنا کر غُصہ دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی


وہ خواب میں بھی ژالے کے ساتھ ایسی حرکت کرنے کا نہیں سوچ سکتا تھا۔۔۔ کل غصّے اور شراب کے نشے میں وہ ژالے کو منہ دکھانے لائق نہیں چھوڑتا،، مگر آج وہ خود اپنے گھر والوں سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا


تھوڑی دیر پہلے ہی اُس نے گھر کی ملازمہ سے زرین کی طبعیت پوچھی تھی۔۔۔ زرین کو رات میں سردار اسماعیل خان اسپتال لے گیا تھا۔ ۔۔۔ سخت ذہنی تناو کی وجہ سے اس کو آرام کا انجیکشن دیا گیا تھا جس کے باعث وہ ابھی تک گہری نیند میں تھی


تیمور خان اپنی حرکت پر شرمندہ، زرین سے معافی مانگنے کا ارادہ رکھتا تھا اور ژالے سے بھی جس کا دل دکھانے کا وہ سبب بنا تھا۔۔۔۔ تیمور خان صوفے سے اُٹھ کر اپنے کمرے سے باہر نکل گیا


"کیوں آئے ہو میرے کمرے میں، یہ دیکھنے آئے ہو کہ میں زّلت کا بوجھ اُٹھا کر میں اب تک مر چکی ہو یا زندہ ہوں یا کل رات جو کسر رہ گئی تھی وہ پوری کرنے آئے ہو"

ژالے تیمور خان کو اپنے کمرے میں آتا ہوا دیکھ کر ایک دم بیڈ سے اٹھ کر اُس کے سامنے آتی ہوئی بولی


"کل رات جو گناہ مجھ سے سرزد ہونے والا تھا۔۔۔ باخدا میرا ایسا کوئی ارادہ تھا نہیں تھا نہ وہ سب کرنے کی نیت۔۔۔ میں بہت شرمندہ ہو ژالے، تم سے اپنی کل والی حرکت کی معافی مانگنے آیا ہوں"

تیمور خان اُس کے سامنے کھڑا اپنی نظریں جُھکا کر بولا۔۔۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ ژالے کے سامنے اپنی نظریں نہیں اٹھا رہا تھا۔۔۔ وہ واقعی شرمندہ تھا


"تمہیں معاف کرنے سے میری عزت واپس آجائے گی۔۔۔ اپنے سامنے، اپنے گھر والوں کے سامنے بےلباس کر کے رکھ دیا تم نے مجھے۔۔۔ پاک دامن ہو کر بھی میں اپنے آپ کو داغدار محسوس کر رہی ہو میں۔۔۔ تمہاری گھٹیا حرکت کی وجہ سے نظریں نہیں ملا پا رہے ہو۔۔۔۔ کچھ نہ کر بھی برباد کردیا ہے تم نے مجھے خان،، تماشا لگا دیا سب کے سامنے میری ذات کا"

ژالے بلند آواز میں کہتی ہوئی رونے لگی۔۔۔ کسی کے بھی رونے یا تڑپنے پر تیمور خان کا ایسے دل نہیں دکھا تھا جیسے آج اپنے سامنے کھڑی اِس لڑکی کے رونے پر دکھ رہا تھا


"ژالے اس طرح مت رو پلیز، میں واقعی بہت زیادہ شرمندہ ہو مجھے معاف کردو وہ سب کچھ نشے کی وجہ سے"

تیمور خان نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اُس کے آنسو صاف کرنے چاہے ویسے ہی ژالے نے اُس کا ہاتھ جھٹکا


"آئندہ مجھے چھونے کی یا ہاتھ لگانے کی کوشش مت کرنا ورنہ میں تمہاری جان لے لوگی خان"

ژالے اپنی گال سے آنسو صاف کرنے کے بعد اُسے وارن کرتی ہوئی بولی۔۔۔ ژالے کے کمرے کا دروازہ کھلا تو اُن دونوں کی نگاہ دروازے کی طرف گئی


"کیا کر رہے ہو تیمور تم ژالے کے کمرے میں"

کبریٰ خاتون ژالے کے کمرے کے اندر داخل ہوتی ہوئی سخت لہجے میں تیمور خان سے پوچھنے لگیں


"دادی حضور میں اپنے کل والے عمل پر سخت شرمندہ ہوں۔۔۔۔ ژالے سے اور آپ سب سے اپنی غلطی کی معافی چاہتا ہوں"

تیمور خان نادم ہوتا ہوا اب کبریٰ خاتون سے بولنے لگا


"تم نے کل کی اپنی غلط حرکت سے مجھے کافی مایوس کیا ہے تیمور۔۔۔۔ اپنے ہی گھر کی عزت پر بری نگاہ رکھنے والا معافی کا مستحق نہیں ہوتا۔ ۔۔ تمہیں بھی اس کا ہرجانہ ادا کرنا پڑے گا،،، ژالے سے نکاح کی صورت"

کبریٰ خاتون تیمور خان کو اپنا فیصلہ ساور اس کی سزا سناتی ہوئی بولیں۔۔۔ کبریٰ خاتون کی بات سن کر وہ دونوں ہی حیرت زدہ ہوکر کبریٰ خاتون کو دیکھنے لگے


"معاف کیجئے گا دادی حضور لیکن میں خان سے نکاح نکاح ہرگز نہیں کر سکتی"

جہاں کبریٰ خاتون کی بات سے تیمور خان شاکڈ ہوا تھا وہی ژالے کی بات سن کر وہ مزید شاکڈ کی کیفیت میں ژالے کو دیکھنے لگا


"پوچھ سکتی ہوں لڑکی، میرے فیصلے سے انکار کرنے کی کوئی خاص وجہ"

کبریٰ خاتون ناگواری سے ژالے کو دیکھ کر انکار کی وجہ پوچھنے لگی کیونکہ آج تک ان کے فیصلے سے انکار کسی نے بھی نہیں کیا تھا


"جس کے ساتھ نکاح کا بندھن باندھا جائے۔۔۔ لڑکی کے دل میں اُس کی محبت ہو نہ ہو مگر عزت ضرور ہونی چاہیے۔۔۔ مگر میرے دل میں خان کیلئے نہ محبت پیدا ہو سکتی ہے اور نہ ہی عزت"

ژالے کے لفظ تیمور خان کو بری طرح چبھے تھے۔۔۔ ژالے کے آنکھوں میں اپنے لیے غصہ اور نفرت وہ ہرگز برداشت نہیں کر پایا اس لیے کمرے سے باہر نکل گیا


"لڑکی تم شاید بھول رہی ہو میرے حکم کی مخالفت آج تک اس حویلی کے کسی فرد نے نہیں کی، اور شاید تم اپنا آپ بھی بھول رہی ہو کہ تم ہو کیا، تمہیں میرا بیٹا آٹھ سال کی عمر میں اِس حویلی میں تب لے کر آیا تھا۔۔۔ جب تمہارے ماں باپ کے مرنے کے بعد، تمہارے اپنے ہی قریبی رشتے داروں نے تمہیں پالنے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔ یہاں تمہیں پڑھایا لکھایا گیا، تمہاری ہر ضرورت کا خیال رکھا گیا، پیار دیا گیا، عزت دی گئی، کبھی روشانے اور تم میں فرق نہیں کیا گیا۔۔۔ اور آج تم اِس بات کا صلہ میرے سامنے انکار کر کے دے رہی ہو، تمہیں تو اپنی خوش قسمتی پر ناز کرنا چاہیے، احسان ماننا چاہیے کہ تمہیں اِس حویلی کی بہو بننے کا شرف حاصل ہوا ہے۔۔۔ میرے پوتے سے اگر بھول چوک میں اگر کوئی گستاخی ہو بھی گئی ہے تو وہ تمہیں اپنے نکاح میں لے کر اُس کا حرجانہ پورا کر دے گا۔۔۔ اگے سے اب میں تمہارے منہ سے انکار نہ سنو ورنہ کبریٰ خاتون کو تم بہت اچھی طرح جانتی ہو"

کبریٰ خاتون سن کھڑی ژالے کو نہ صرف اس کو احسانات یاد لا کر بولیں بلکہ اس کو دھمکاتی ہوئی کمرے سے چلی گئں۔ ۔۔۔ جس پر ژالے کو بے تحاشہ رونا آیا وہ اپنے ماں باپ کو یاد کرنے لگی


****


ضیغم کے آفس جانے کے بعد روشانے نے دوبارہ سونا چاہا مگر کوشش کے باوجود اس کو نیند نہیں آ رہی تھی ضیغم کے ہونٹوں کا محبت بھرا لمس اپنے ہونٹوں اور پیشانی پر بار بار یاد کرکے اس کا دل جو زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔ جب اُسے نیند نہیں آئی تو لیٹ کر کروٹیں لینا اُسے بیکار لگا اس لئے اٹھ کر وہ پورے فلیٹ کا جائزہ لینے لگی


فلیٹ کے انٹرنینس پر دائیں طرف کمرہ ڈرائنگ روم تھا جہاں صرف صوفے موجود تھے۔۔۔ روشانے کو سامنے خالی دیوار دیکھ کر وہاں پینٹنگ کی کمی محسوس ہوئی جبکہ دوسری طرف اگر ایک بڑا سا واس رکھا جاتا درمیان میں خوبصورت سا رگ اور صفوں کی سیٹنگ مزید ترتیب سے کی جاتی تو کمرا مزید اچھا لگتا


روشانے سوچتی ہوئی ڈرائنگ روم کے سامنے دوسرے کمرے میں چلی گئی۔۔۔ یہ کمرہ ڈرائینگ روم کی بانسبت تھوڑا چھوٹا تھا جہاں ٹیبل اور چیئر موجود تھی۔۔ ٹیبل پر ضیغم کا لیپ ٹاپ موجود تھا اور سامنے دیوار پر ساتھ شلیف موجود تھا جس میں مختلف کتابیں رکھی ہوئی تھی۔۔۔ روشانے نے اندازہ لگایا یہاں ضیغم آفس کا ورک کرتا تھا، ،، روشانے کی نظر کمرے میں موجود کھڑکی پر پڑی، تو وہ ٹھٹھک گئی۔۔۔ کھڑکی کافی بڑے سائز کی تھی جس میں سے کوئی بھی اندر آ سکتا تھا کیونکہ اس میں گریل یا جالی موجود نہیں تھی۔۔۔ روشانے نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کھڑکی کا سلائیڈنگ ڈور بند کیا،، لازمی کل رات ضیغم اُسی کمرے میں آفس کا کام کر رہا ہوگا وہ کھڑکی بند کے بغیر اٹھ گیا تھا،، روشانے کھڑکی بند کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی


کاریڈور کو عبور کر سامنے ڈائننگ ہال تھا اور ہال کے سامنے ہی بیڈروم اور بیڈروم کے برابر میں ایک چھوٹا سا گیسٹ روم تھا


کچن میں آکر ایک ایک کیبنٹ کھولنے کے بعد اس نے ساری چیزوں کا جائزہ لیا۔۔۔ اور دماغ میں ترتیب دینے لگی کہ کیا کیا چیزیں اُسے منگوانی ہیں۔۔۔ رات کا کھانا تیار کرکے پورے فلیٹ کی صفائی کرنے کے بعد وہ ضیغم کا انتیظار کرنے کے ساتھ زرین کو یاد کرنے لگی ہفتے بھر سے اوپر ہو چکا تھا اُس نے زرین کی ابھی تک آواز نہیں سنی تھی


****


"ایسے کیسے میں ژالے سے نکاح کر سکتا ہوں۔۔۔ جبکہ وہ خود بھی نکاح کے لئے ہرگز تیار نہیں ہے"

رات میں جب سردار اسماعیل خان تیمور خان کے کمرے میں آیا تب تیمور خان اُسے دیکھ کر بولا


"تمہاری کل والی اُس زلیل حرکت کے بعد میں خود بھی اس حق میں نہیں ہوں کہ ژالے کا نکاح تم جیسے آوارہ انسان سے کیا جائے۔۔۔ یہ صرف اور صرف اماں حضور کا فیصلہ ہے، میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود ژالے تم سے نکاح کے لیے ہامی بھر چکی ہے،، اور مجھے اچھی طرح اندازہ ہے ایسا اُس نے صرف اماں حضور کے حکم کی وجہ سے کیا ہوگا۔ ۔۔۔ لیکن یہ بہت ہی اچھا ہوگا کہ تم اماں حضور کے سامنے جاکر اس نکاح سے انکار کر دو۔۔۔ شاید اماں حضور مان بھی جائیں،۔۔۔ بیٹی سمجھ کر ہی پالا ہے میں نے ژالے کو، میں خود بھی ژالے کی زندگی اندھیر ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا"

سردار اسماعیل خان تیمور خان کو بولتا ہوا اس کے کمرے سے باہر نکل گیا


جبکہ تیمور خان لب بھینچتا ہوا کبریٰ خاتون کے کمرے میں جانے لگا تاکہ انہیں اپنی مرضی بتا سکے


****


"ایک بار میں نے انکار کردیا ہے تو آگے سے ضد مت کرو روشی"

ضیغم اب کی بار سختی سے بولا تو روشانے کمرے سے باہر نکل گئی


شام میں جب ضیغم آفس سے گھر آیا تو اس کا موڈ اچھا تھا روشانے نے اس کا موڈ دیکھ کر، ذرین سے موبائل ہر بات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جس پر ضیغم نے اُسے صاف انکار کردیا۔۔۔ روشانے کو لگا تھا ضیغم اس کی یہ بات بھی مان جائے گا جیسے وہ اس کی پڑھائی کے لئے راضی ہو گیا ہے۔۔۔ اس لیے روشانے دوبارہ اس سے ضد کرنے والے انداز میں فرمائش کرنے لگی جس کے نتیجے میں اُس نے روشانے کو سختی سے جھڑک دیا


روشانے خاموشی سے کچن میں چلی آئی تھی،، رات کا کھانا ان دونوں نے خاموشی سے کھایا۔۔۔ صبح ناشتے کے وقت بھی وہ خاموش تھی مگر صبح کی الگ بات تھی وہ ضیغم کو شرمائی شرمائی لگ رہی تھی، جبکہ اِس وقت وہ ضیغم کو خفا خفا لگ رہی تھی


"بتاؤ اپنی تائی ماں کا نمبر"

کھانے سے فارغ ہونے کے بعد جب روشانے برتن دھو رہی تھی تب سے ضیغم کچن میں آیا اور اس سے زرین کا نمبر پوچھنے لگا۔۔۔ جس پر روشانے ضیغم کو حیرت سے دیکھنے لگی


"اب شکل دیکھنے کے لئے نہیں کہا ہے نمبر بولو جلدی"

ضیغم روشانے کا حیرت زدہ چہرہ دیکھ کر بولا تو روشانے کے چہرے پر مسکراہٹ آئی جسے چھپاتے ہوئے وہ ضیغم کو زرین کا نمبر بتانے لگی۔۔۔ بیل جانے پر ضیغم اپنا موبائل روشانے کو پکڑا کر کچن سے باہر چلا گیا


"ہیلو تائی ماں میں آپ کی روشی"

روشانے کی چہکتی آواز سن کر زرین نے حیرت زدہ ہو کر موبائل کی اسکرین پر نمبر دیکھا


"روشی، بچے یہ کس کا نمبر ہے تم خیریت سے ہو نا"

زرین روشانے سے پوچھتی ہوئی بیڈ سے اٹھ بیٹھی


"سائیں کا نمبر ہے وہ کل مجھے اپنے ساتھ شہر لے کر آ گئے ہیں،، آپ کی روشی بالکل ٹھیک ہے۔۔۔ آپ نے بالکل ٹھیک کہا تھا سائیں بہت اچھے ہیں تائی ماں"

روشانے خوشی خوشی زرین کو بتانے لگی اُس کی آواز سے چھلکتی خوشی کو دیکھ کر زرین نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا


"اللہ تمہیں ہمیشہ خوش اور آباد رکھے،، اطمینان ہو گیا ہے مجھے تمہاری آواز سن کر"

زرین کا سارا دن بیڈ پر لیٹے ہوئے خاموش گزرا تھا۔ ۔۔ آپ روشانے کی آواز سن کر زرین اس کی طرف سے مطمئن ہو چکی تھی


"آپ کو کیا ہوگیا ہے تائی ماں،، آپکی آواز کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے ناں"

روشانے زرین کی آواز میں اداسی محسوس کرتی ہوئی فکرمندی سے پوچھنے لگی


"ارے کچھ نہیں ہوا مجھے، صبح سے طبیعت اداس تھی اب تمہاری آواز سن لی ہے ناں ٹھیک ہو جاؤ گی ،، یہ بتاؤ تمہارے سائیں کہاں ہیں، اس سے بات کرواؤ میری اگر وہ بات کرنا پسند کرے تو"

زرین روشانے کو تیمور خان کی حرکت کا کیا بتاتی، اس لیے اس کو مطمئن کرتی ہوئی الٹا ضیغم سے بات کرنے کا کہنے لگی


"وہ تو بیڈ روم میں ہیں رکیں کرواتی ہوں بات"

زرین کی بات پر روشانے گڑبڑا گئی تھی معلوم نہیں کہ ضیغم زرین سے بات کرنا پسند کرے کہ نہیں۔۔۔ وہ کچھ سوچ کر ضیغم کے پاس بیڈ روم میں چلی آئی


"یہ لیں تائی ماں آپ سے بات کرنا چاہ رہی ہیں"

روشانے ضیغم کے آگے موبائل بڑھاتی ہوئی بولی۔ ۔۔۔ وہ جو بیڈ پر نیم دراز لیٹا ہوا اسموکنگ کر رہا تھا روشانے کی بات سن کر آنکھیں دکھاتا ہوں اسے گھورنے لگا۔۔۔ روشانے معصومانہ انداز میں بغیر آواز کے "پلیز" کہتی ہوئی ضیغم کو دیکھنے لگی موبائل ابھی بھی اس نے ضیغم کے اگے کیا ہوا تھا جسے وہ روشانے کو گھورتا ہوا تھامنے لگا اور بیڈ سے اٹھ گیا


"جی فرمائیے"

سلام کرنے کے بعد زرین سے بولا


"بیٹا میں روشی کی سگی ماں نہیں ہو پر اسکی پرورش ماں بن کر ہی کی ہے، تم نے شادی کے بعد روشی کو عزت دی اس کا مان رکھا، میں بہت خوش ہوں۔۔ تم سے میں نے جو اس دن بات کی تھی۔۔۔ روشی اور تیمور خان کی پسندیدگی کے حوالے سے۔ ۔۔ خدا گواہ ہے وہ بات میں نے صرف اسی لئے بولی تھی تاکہ تم روشی سے دوبارہ کبھی نہ ملنے آؤ، ورنہ کوئی بھی روشی کے کردار پر انگلی اٹھا سکتا تھا۔۔۔ کیوکہ تیمور خان سے اُس کا نکاح ہونے والا تھا اس لیے تمہارا روشی سے ملنا مناسب نہیں تھا مگر اب جبکہ حالات مختلف ہیں اور تم روشی شوہر ہو،۔۔۔ میرے دل پر ایک بوجھ سا تھا کہ تمہیں سب کچھ سچ بتا دو۔۔۔ میری روشی بہت معصوم ہے اس کے لئے اپنے دل میں کبھی بھی کوئی برا خیال مت لانا، اس کے دل میں صرف اس کا سائیں بستا ہے"

زرین ضیغم سے اور بھی باتیں بول رہی جنہیں سن کر ضیغم نے فون بند کر دیا اور موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھنے لگا


"کیا کہہ رہی تھی تائی ماں آپ سے" روشانے ضیغم کو دیکھتی ہوئی تجسس بھرے انداز میں پوچھنے لگی تو ضیغم چونک کر روشانے کو دیکھنے لگا پھر چلتا ہوا روشانے کے پاس آیا


"وہ بول رہی تھیں کہ تمہاری بیوی تھوڑی سی بگڑی ہوئی ہے۔۔۔ بات بات نخرے دکھانے والی اور تنگ کرنے والی۔۔۔ اگر وہ روز روز تمہیں تنگ کیا کرے تو تم اُس کی اچھی طرح کلاس لے لیا کرو"

ضیغم روشانے کو غور سے دیکھتا ہوا بالکل سنجیدگی سے بولا


"میں مان ہی نہیں سکتی کہ تائی ماں میرے لیے ایسا بول رہی ہو"

روشانے انکار کرتی ہوئی بولی ضیغم نے اُس کی کمر کے گرد اپنے بازو حائل کرکے اُسے اپنے حصار میں لیا


"تو کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں"

ضیغم روشانے سے پوچھتا ہوا اُس کی کمر سے اپنا ہاتھ بالوں میں لے جاتا ہوا، بالوں سے کلپ نکالنے لگا


"میرا وہ مطلب بھی نہیں تھا۔۔ مجھے صبح کالج جانے کے لیے کپڑے پریس کرنے ہیں"

روشانے ضیغم کی حرکت پر اور اس کی بہکی بہکی نگاہوں سے ایک دم گھبرا گئی تھی تبھی وہ ضیغم کے حصار سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی


"تو پھر کیا مطلب تھا، واضح کرو، پھر کوئی دوسرا کام کرنا"

وہ روشانے کا دوپٹہ ایک طرف رکھنے کے بعد اس کے ہونٹوں کو دیکھ کر پوچھنے لگا جو اس کی پیاس بڑھا رہے تھے۔۔۔ ساتھ ہی اس نے باہوں کا حصار روشانے کے گرد مزید تنگ کر دیا۔۔۔ اس لیے روشانے اب خاموشی سے ضیغم کی نظروں کو دیکھنے لگی جو اس کے ہونٹوں پر تھی۔۔۔


ضیغم اُس کے ہونٹوں کو دیکھتا ہوا اپنے ہاتھ روشانے کی کمر سے ہٹا کر اس کا چہرہ تھام چکا تھا۔۔۔ ضیغم کو اپنے ہونٹوں پر جھگتا دیکھ کر روشانے اپنی آنکھیں بند کر چکی تھی۔ ۔۔ پیاس بجھانے کے چکر میں ضیغم کی طلب مزید بڑھتی چلی گئی


"سائیں پلیز"

روشانے اسکا حصار توڑتی ہوئی بوجھل سانسوں کے ساتھ بولی اور کمرے سے جانے کے لیے مڑنے لگی مگر سامنے دیوار تھی


ضیغم اسکو دونوں کندھوں سے تھام کر اسکے بالوں کو چومنے لگا۔۔ روشانے دیوار پر اپنا ہاتھ رکھتی ہوئی اپنی سانس بحال کرنے لگی۔،۔ ضیغم اُس کے بالوں کو کمر سے ہٹا کر دائیں کندھے سے آگے کرتا ہوا اس کے بائیں کندھے پر اپنے ہونٹ رکھ چکا تھا، روشانے ایک بار پھر ضیغم کے حصار میں تھی مگر اس کا رخ ابھی بھی دیوار کی طرف تھا۔۔۔ روشانے ضیغم کے انداز پر بے ہوش ہونے کے قریب تھی،، تب اُس نے سے ضیغم کے ہاتھوں کا بندھا ہوا حصار ایک بار پھر توڑنا چاہا


"یہ تو غلط بات ہے اپنی باتیں تو خوب منتیں کر کے منوا لیتی ہو اور اب جب میری باری ہے تو ایسے کررہی ہو"

روشانے کو ہلکی پھلکی مزاحمت کرتے دیکھ کر ضیغم شکایتی انداز میں بولا،


روشانے پلٹ کر ضیغم کو دیکھنے لگی اسے ڈر تھا کہیں ضیغم اس سے خفا نہ ہو جائے اس لیے روشانے خود سے، ضیغم کے سینے میں اپنا چہرہ چھپاتی ہوئی بغیر کچھ بولے اپنی آمادگی کا اظہار کرنے لگی۔۔۔ روشانے کے انداز پر ضیغم اُسے ایک بار پھر اپنے حصار میں لیتا ہوا مسکرایا


****

"بیوی کو کیا اپنے ساتھ لے کر گیا ہے اسی کا ہو کر رہ گیا ہے پورے بیس دن گزر چکے ہیں اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھے ہوئے"

کشمالا کمرے میں آکر فیروز جتوئی کو دیکھتی ہوئی بولی


"فون پر بات تو ہو جاتی ہے بتا رہا تھا اپنی مصروفیت کا۔۔۔ ویسے بھی پہلے کونسا وہ ہفتے بعد چکر لگاتا تھا، آ جائے گا تم اپنا وزن مت گھٹاؤ بیٹے کی یاد میں"

فیروز جتوئی کشمالا کو دیکھ کر لاپروا انداز میں بولا


"بیٹے کی یاد میں نہیں،، اس کی فکر میں وزن گھٹ رہا ہے میرا۔۔۔ وہ تو میری باتوں کو سنجیدہ نہیں لیتا سائیں،، آپ ہی ضیغم کو راضی کرو کہ وہ پلورشہ کی چھوٹی نند سے شادی کرلے،، پلورشہ کے سسرال والوں کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہے ضیغم کی پہلی شادی پر،، میں ضیغم کے بچے اپنی گود میں کھلانا چاہتی ہوں"

کشمالا فیروز جتوئی کا اچھا موڈ دیکھ کر لجاہت بھرے انداز میں بولی


"مالا اگر تم نے کوئی سنجیدہ بات کی ہوتی تو تمہارا بیٹا سنجیدہ بھی لیتا تمہاری بات کو،، تمہیں اگر پوتے پوتیوں کی چاہ ہے تو وہ تمہیں روشانے بھی دے سکتی ہے اس کے لئے دوسری شادی ضروری نہیں ہے"

فیروز جتوئی کشمالا کی عقل پر ماتم کرتا ہوا اُسے سمجھانے لگا


"شمروز کے خون کے بدلے میں آئی ہے وہ لڑکی اور میں اس کو اپنی بہو نہیں مانتی نہ ہی اُس سے پیدا ہوئے بچوں کی مجھے چاہ،، پلورشہ کی نند سے اگر شادی نہیں کرنی ضیغم کو، تو بھی میں اس کی دوسری شادی اپنی مرضی سے ہی کرواؤں گی۔۔۔ یہ بات آپ بھی میری سن لو اور ضیغم کو بھی میرا حکم ماننا پڑے گا میں ماں ہو اس کی"

کشمالا فیروز جتوئی کو بولتی ہوئی دوبارہ کمرے سے باہر نکل گئی جبکہ فیروز جتوئی کشمالا کی بات کو سنجیدہ لیے بغیر اپنا موبائل دیکھنے لگا


****


"یار روشی میری بلو شرٹ نہیں مل رہی، زرا جلدی سے کمرے میں آکر دو مجھے"

روشانے صبح کے وقت کچن میں ناشتہ بنا رہی تھی تبھی ضیغم کچن میں جھانکتا ہوا اس سے بولا


"سائیں آپ کی بلو شرٹ پریس کر کے الماری میں کل ہی رکھی تھی میں نے، آپ ذرا ایک دفعہ پھر دیکھیں"

روشانے ناشتہ تیار کرتی ہوئی مصروف انداز میں بولی کیونکہ روز کی طرح ضیغم کے ساتھ اُسے بھی کالج کے لیے نکلنا تھا۔۔۔ اور آج وہ دونوں ہی لیٹ ہو چکے تھے، صرف اور صرف صبح ہی صبح ضیغم کے رومینٹک موڈ میں آنے سے


ان بیس دنوں میں روشانے نے پورے گھر کی سیٹنگ اپنی مرضی سے کی تھی وہ باقاعدگی سے کالج جانے لگی تھی۔ ۔۔۔ ضیغم اس کی ہر بات آسانی سے مان جاتا بلکہ وہ اپنے کاموں میں اب وہ روشانے پر ہی مکمل انحصار کرتا


"نہیں مل رہی ناں یار مجھے، تم نکال کر دو مجھے میری شرٹ، ویسے بھی آج تم نے اچھا خاصا لیٹ کروا دیا"

ضیغم بغیر شرٹ کے شرارتی انداز میں روشانے کو دیکھ کر بولا جو ابھی ابھی باتھ لے کر نکلا تھا۔۔ روشانے حیرت سے اسے دیکھتی ہوئی ضیغم کے پاس آئی


"میں نے لیٹ کروایا ہے آپ کو سائیں۔۔۔ کس نے کہا تھا آپ صبح جاگنے کے ساتھ ہی"

روشانے جو اپنے اوپر لگے الزام پر اس کے پاس آئی تھی مگر اپنی بات ادھوری چھوڑ کر خود ہی بلش کر گئی جس پر ضیغم ہنسا


"صبح ہی صبح تم نے مجھے اپنے ان خوبصورت زلفوں کے جال میں بری طرح پھنسا کر رکھ دیا۔۔۔ اب اتنے قریب میرے ساتھ بالکل چپک کر سو گی تو پھر ایسے ہی حادثات ہوگے"

ضیغم اُس کے گلے میں موجود چین جو کہ پچھلے ہفتے ہی اس نے روشانے کو گفٹ کی تھی اپنی انگلی میں اٹکا کر اس کی گردن پر جھکتا ہوا بولا


"آپ آفس کے لیے اور میں کالج کے لیے، ہم دونوں پہلے ہی لیٹ ہو چکے ہیں"

روشانے ضیغم کو پیچھے کرتی ہوئی اپنے گیلے بالوں کا جوڑھا باندھ کر بیڈ روم میں پہنچی تاکہ ضیغم کو اُس کی شرٹ نکال کر دے سکے


"ویسے سائیں رمشا مامی مجھے بہت اچھی لگی،، بالکل یہ احساس نہیں ہوا کہ میں اُن سے پہلی بار مل رہی ہو۔۔۔ ہمیں ان کو بھی اپنے گھر بلانا چاہیے"

ضیغم کی مطلوبہ شرٹ اس کو دیتی ہوئی روشانے ضیغم کو دیکھ کر بولی۔۔ وہ دونوں کل رات کو رمشا کی طرف ڈنر پر موجود تھے


"نیکسٹ ویک اینڈ پر بلا لیں گے، یار ناشتہ لاؤ ہم لوگ واقعی لیٹ ہو چکے ہیں"

ضیغم شرٹ پہنتا ہوں روشانے کو بولا جو کہ دوسرے کاموں میں لگ گئی تھی


"اوہو آپ کا موبائل چارجر سے نکال کر رکھ رہی ہو"

وہ موبائل کو والٹ اور کیز اور سیفریٹ کے پیکٹ کے ساتھ رکھتی ہوئی بولی،،

ضیغم کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورتوں کا وہ ایسے ہی خیال رکھتی تھی


"دوسرے کمرے سے میری بلیک کلر کی فائل بھی لے فائل لے آؤ یار وہ بھی آفس لے کر جانی ہے"

ضیغم کمرے سے جاتی ہوئی روشانے کو دیکھ کر بولا


"بلکہ رہنے دو میں خود لے لو گا تم ناشتہ ریڈی کرو"

ضیغم کو یاد آیا کہ روشانے اُس روم کی کھڑکی کُھلی دیکھ کر پھر ضیغم کو ٹوکے گی، اس لئے اپنی فائل لینے سے خود کمرے میں چلا گیا جبکہ روشانے کچن سے ناشتہ لا کر ٹیبل پر رکھنے لگی


ضیغم نے کمرے میں آکر سب سے پہلے کمرے میں موجود کھڑکی کو بند کیا اور مطلوبہ فائل اٹھانے لگا تبھی روشانے کے رکھے ہوئے نوٹس فرش پر گر گئے، جنھیں ضیغم جُھک کر اٹھانے لگا مگر اُن نوٹس میں روشانے کے نام کے ساتھ تیمور خان کا نام دیکھ کر اُس کے ماتھے پر لاتعداد شکن پڑی


تیمور خان اور روشانے کا نام صرف ایک صفحے پر ہی نہیں لکھا تھا بلکہ مختلف صفحات پر لکھا ہوا تھا جسے دیکھ کر ضیغم کو غصّہ آنے لگا۔،۔۔ وہ شخص اس کے چاچو کا قاتل تھا اور اس شخص کا نام ضیغم اپنے گھر میں برداشت کر سکتا تھا، اپنی بیوی کے نام کے ساتھ اس کا نام دیکھ کر ضیغم کا خون کھول اٹھا


"آپ یہاں کھڑے ہیں ناشتہ کب کا ریڈی ہے"

روشانے کمرے میں آتی ہوئی ہے ضیغم سے بولی


"کیا ہے یہ"

ضیغم روشانے کی بات کو نظر انداز کرتا ہوا، غُصے میں نوٹس روشانے پر اچھالتا ہوا بولا وہ نوٹس روشانے کے منہ پر لگ کر نیچے فرش پر بکھر گئے مگر روشانے نوٹس کی بجائے حیرت سے ضیغم کو دیکھ رہی تھی جو اُسے ایسے غُصے میں دیکھ رہا تھا جیسے روشانے کو مار ڈالے گا


"سائیں کوئی کچھ بھی کرلے مگر آپ میرے ساتھ ایسا رویہ اختیار مت کریں پلیز"

روشانے ضیغم کو غصّے میں دیکھ کر آئستگی سے بولی، ضیغم کا یہ رویہ روشانے کے لیے بالکل نیا تھا جو روشانے کو حیرت میں مبتلا کر گیا تھا


"اور تم میرے ساتھ کچھ بھی کرو، میں خاموشی سے برداشت کرلو،، اتنا بےغیرت سمجھا ہوا ہے مجھے"

ضیغم سختی سے روشانے کا بازو پکڑتا ہوا غُصے میں روشانے سے بولا


"کیا کیا ہے میں نے"

روشانے اپنے بازو پر اُس کی انگلیوں کی سختی محسوس کرتی ضیغم سے پوچھنے لگی اس سے پہلے وہ فرش پر بکھرے اپنے نوٹس دیکھتی ضیغم اُس کا بازو کھینچ کر خود اُسے نیچے بٹھا چکا تھا


"کیا سوچ کر تم نے اپنے نام کے ساتھ یہ نام لکھا ہے جس سے نفرت ہے مجھے"

ضیغم خود بھی فرش پر پنجوں تلے بیٹھتا ہوا ایک پیپر اٹھا کر روشانے کے چہرے کے آگے لہراتا ہوا چیخا


"یہ۔۔۔ یہ تو"

روشانے نے پیپر دیکھ کر ضیغم کو دیکھا جو ماتھے پر لاتعداد شکنیں لیے اُسی کو دیکھ رہا تھا


ضیغم اپنا غُصہ مشکل سے ضبط کرتا ہوا اٹھا اور کمرے سے باہر جانے لگا


"سائیں۔۔۔ سائیں پلیز میری بات سن لیں۔۔۔ آپ کو بتاتی ہوں یہ نام میں نے"

وہ ضیغم کے پیچھے کمرے سے نکل کر اس کا بازو پکڑتی ہوئی بولی۔۔۔ ضیغم نے جھٹک کر روشانے کا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹایا


"مجھے صرف ہاں یا نہیں میں جواب دو روشی، یہ نام تمہی نے لکھا ہے یا نہیں"

اس نے غُصے میں روشانے سے تصدیق چاہی


"ہمارے نکاح سے پہلے کے جب خان میرے کمرے میں آئے تھے"

روشانے ضیغم کو غُصے میں دیکھ کر جلدی جلدی بولنا شروع ہوگئی


"ہاں یا نہیں"

ضیغم اُس کی بات کاٹ کر زور سے چیخا


"جی،، میں نے لکھا ہے مگر آپ میری پوری بات سنیں"

روشانے کے جی بولتے ہی وہ بیڈروم میں آ کر اپنی گاڑی کی چابی اور دوسری چیزیں اٹھانے لگا تب روشانے اس کے سامنے آئی


"سائیں آپ اِس طرح کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ، میری پوری بات تو سن لیں"

وہ غُصے میں روشانے کی کوئی بھی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔۔ ۔ روشانے اس کے سامنے آکر بے بسی میں بولی


"اب میرے راستے میں مت آنا ہٹو یہاں سے"

ضیغم اس کا بازو پکڑ کر اسے سائیڈ پر کرتا ہوا بولا اور خود فلیٹ سے باہر نکل گیا


****


20 دن پہلے کبریٰ خاتون کے کہنے پر تیمور خان نے ژالے سے نکاح کے لیے حامی بھری تھی اور یوں ان دونوں کا نکاح ہو چکا تھا۔۔۔ تیمور خان اچھی طرح جانتا تھا ژالے اس سے نکاح پر راضی نہیں تھی یہ نکاح اُس نے کبریٰ خاتون کے حکم پر کیا تھا


تب سے ہی سردار اسماعیل خان اور زرین اس سے بات چیت کرنا ترک کر چکے تھے۔۔۔ ژالے اور اس کا جب بھی سامنا ہوتا وہ اُسے غصے یا حقارت بھری نظر سے دیکھ کر گزر جاتی اور تیمور خان پیچ و تاب کھا کر رہ جاتا


اتنے دنوں سے ژالے اسے جس برے طریقے سے نظر انداز کر رہی تھی تیمور خان اتنا ہی اُس کے بارے میں سوچنے لگا تھا یہاں تک کہ وہ اس کے آنے جانے پر بھی نظر رکھنے لگا تھا


وہ روز صبح ڈرائیور کے ساتھ نہ جانے کہاں جاتی تھی اور شام ہونے سے پہلے ڈرائیور اُسے واپس حویلی لے آتا۔۔۔ اِس سے پہلے تیمور خان نے کبھی اُس کی ذات پر دھیان ہی نہیں دیا تھا مگر اب وہ روز اُسے شام کے وقت اپنے کمرے کی کھڑکی سے حویلی میں واپس آتا دیکھتا۔۔۔ اس وقت بھی وہ گاڑی سے اُتر کر حویلی کے اندر آ رہی تھی تب تیمور خان اپنے کمرے سے باہر نکلا


"کہاں سے آ رہی ہو اس وقت"

وہ رہداری عبور کرتی ہوئی حویلی کے اندر آ رہی تھی تب تیمور خان نے ژالے کا راستہ روکتے ہوئے اُس سے پوچھا


"تم سے مطلب، راستہ چھوڑو میرا خان"

ژالے اُسے ٹکا سا جواب دیتی ہوئی سائیڈ سے نکلنے لگی مگر تیمور خان دوبارہ اُس کے راستے کی دیوار بن کر کھڑا ہو گیا


"تمہارے اب سارے مطلب مجھ سے جڑ چکے ہیں۔۔۔۔ مطلب بھی اور راستے بھی۔۔۔ کہاں سے واپس آتی ہوں روزانہ اِس ٹائم پر اور یہ دوپٹہ سر پر کیوں نہیں لیا ہوا"

تیمور خان اُس سے تفتیشی انداز میں پوچھ گچھ کرتا ہوا، اس کا دوپٹہ تھام کر سر پر ڈالنے لگاتا ژالے نے اُس کا ہاتھ بری طرح جھٹکا اور گھور کر دیکھنے لگی


"جو سر سے دوپٹہ کھینچنے کی کوشش کریں اُن کے منہ سے ایسی باتیں اچھی نہیں لگتی خان،، نہ تم سے میرا کوئی مطلب جڑا ہے نہ ہی ہمارے راستے ایک ہو سکتے ہیں۔۔۔ دادی حضُور کے حکم پر نکاح کیا ہے میں نے،، انہوں نے صرف مجھے تم سے نکاح کرنے کا حکم دیا تھا اس نکاح کو آگے قائم رکھنا نہ رکھنا یہ میرے اوپر ہے۔۔۔اس لئے میں کہیں پر بھی آؤں یا پھر جاؤ،، کسی سے ملو یا کچھ بھی کرو۔۔۔ تمہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونا چاہیے"

ژالے تیمور خان کے آگے بے خوفی سے بولی ایک بار پھر وہ دوسری سائیڈ سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی اب کی بار تیمور خان نے اُس کی کلائی پکڑی لی


"اگر سر سے دوپٹہ کھینچنے کی کوشش کی تھی تو واپس سر پر دوپٹہ ڈال بھی دیا ہے۔۔۔ دے دی ناں نکاح کر کے عزت۔۔۔ تمہارا اور میرا نکاح آگے قائم رہتا ہے یا پھر نہیں یہ بات کی بات ہے۔۔۔ فی الحال اُس وقت تم میرے نکاح میں ہوں اس لئے مجھے جواب دیے بغیر یہاں سے نہیں جا سکتی۔۔۔ بتاؤ کیو نکلنا ہوتا ہے تمہیں روز روز حویلی سے"

اپنی کلائی چھڑوانے کے چکر میں تیمور خان اس کی کلائی پر اپنے ہاتھ کی گرفت مزید سخت کر چکا تھا وہ اب بھی ژالے کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا اس سے سوال کر رہا تھا، ژالے جان چکی تھی وہ اب ضد پر آچکا ہے پوچھ کر ہی اسکو چین آئے گا


"لعنت بھیجتی ہو میں تمہاری دی ہوئی عزت پر، عزت کے لٹیرے نہ کبھی عزت دے سکتے ہیں اور نہ ہی خود عزت کے مستحق ہوتے ہیں۔۔۔ روز روز حویلی سے میں اِس لئے نکلتی ہوں تاکہ مجھے سارا دن تمہاری شکل نہ دیکھنی پڑے،، جسے دیکھ کر میرا خون کھول اٹھتا ہے مل گیا جواب،، اب راستہ چھوڑ دو میرا"

ژالے کی بات سن کر اس کی سخت گرفت میں نرمی آئی جس کا فائدہ اٹھاتی ہوئی ژالے اپنا ہاتھ چھڑوا کر جانے لگی


"چند دن پہلے تو تمہیں اس شکل سے بہت محبت تھی، ایسا تمہی نے دعویٰ کیا تھا میرے سامنے"

تیمور خان کی بات سن کر ژالے قدم رکے وہ پلٹ کر زخمی نظروں سے تیمور خان کو دیکھنے لگی


"میرے دل سے تمہاری محبت اسی دن ختم ہو گئی تھی خان، جس دن تم نے رات کی سیاہی میں میرے منہ پر کالک تھوپنے کی کوشش کی تھی اور یہ جو اب میرے اور تمہارے بیچ میں رشتہ قائم ہوا ہے ناں صرف تین بولوں کا محتاج ہے بہت جلدی یہ نازک رشتہ بھی ختم ہو جائے گا"

ژالے تیمور خان کو دیکھتی ہوئی بولی اور پھر دوبارہ وہاں سے جانے لگی


"تم دو بار میرے اور اپنے رشتے کو ختم کرنے کی بات کر چکی ہو تو جاتے جاتے ایک بات سنتی جاؤ۔۔۔ تیمور خان کی ملکیت میں جو بھی چیز ایک بار شامل ہو جائے،، پھر تیمور خان اُسے کسی دوسرے کے لئے نہیں چھوڑتا۔۔۔ یہ بات اب اپنے دماغ میں اچھی طرح بٹھا کر رکھنا"

تیمور خان کا انداز خاصا جتانے والا تھا جس پر ژالے اس کو طنزیہ مسکرا کر دیکھنے لگی


"اپنی ملکیت تو تم روشانے کو بھی سمجھتے تھے ناں خان، پھر کیا ہوا"

ژالے اس کو پتنگے لگا کر جا چکی تھی جبکہ تیمور خان اپنا غُصہ ضبط کرنے لگا


"اگر وہ میری ملکیت نہیں رہی تو اُس پر میں کسی دوسرے کا بھی حق نہیں رہنے دوں گا"

تیمور خان خود اپنے آپ سے بولا تو سامنے سے نوشاد چلتا ہوا آیا


"چھوٹے خان آپ نے یاد کیا"

نوشاد تیمور خان کے سامنے آکر اُس سے پوچھنے لگا


"معلوم کر کے بتاؤ یہ ژالے بی بی روز کہاں جاتی ہیں" تیمور خان نوشاد سے بولا


"وہ تو اپنی خالہ کے گھر جاتی ہیں بڑے خان کی اجازت پر۔۔۔ خالہ بیمار ہیں ان کی کافی اور ان کی خالہ کا بیٹا یعنی خرم،، اس کی بیوی روٹھ کر اپنے ایک سالہ بیٹے کو خرم کے پاس چھوڑ کر میکے چلی گئی ہے۔۔۔ یہ بھی وجہ ہے ژالے بی بی کے وہاں جانے کی۔۔۔ یہ سب مجھے راشد (ڈرائیور) سے معلوم ہوا ہے"

نوشاد تفصیل سے تیمور خان کو بتانے لگا


تیمور خان ژالے کے کزن خرم کو جانتا تھا جو زیادہ بڑا نہیں تھا ژالے کا ہی ہم عمر تھا اور دو سال پہلے ہی اس کی ماں نے اُس کی شادی کروائی تھی


"اور وہ جو اصل کام میں نے تم سے کہا تھا۔۔۔ اس کا کیا بنا"

تیمور خان یاد کرتا ہوا اپنے دوسرے کام کا نوشاد سے پوچھنے لگا


"روشانے بی بی ضیغم جتوئی کے ساتھ شہر میں موجود ہیں، پرانا والا گھر نہیں بلکہ کوئی فلیٹ ہے۔۔۔ ابھی آدھے گھنٹے پہلے میں نے آپ کو میسج پر ایڈریس اور چند تفصیلات بتائی تھی شاید آپ نے میسج دیکھا نہیں ابھی تک میرا"

تیمور خان نوشاد کی بات سن کر جیب میں اپنا موبائل کے ٹٹولتا ہوا نکالنے لگا جس پر ضیغم جتوئی کے فلیٹ کا ایڈریس تھا


"گاڑی تیار کرو نوشاد آج رات ہی ہمیں شہر کے لئے روانہ ہونا ہے"

تیمور خان موبائل اسکرین پر ضیغم کا ایڈریس دیکھتے ہوئے نوشاد سے بولا


****

"کھانا دو آکر مجھے"

ضیغم کی آواز پر روشانے نے سر اٹھا کر اُسے دیکھا وہ بیڈ روم کے دروازے پر کھڑا اُسی کو دیکھ کر مخاطب تھا۔۔۔ اس کے دیکھنے پر ضیغم کمرے سے باہر نکل گیا تو روشانے اپنی کتابیں بند کرتی ہوئی کچن میں آئی تاکہ ضیغم کو کھانا دے سکے


تین دن گزر چکے تھے مگر ضیغم کا غُصہ کم نہیں ہوا تھا بلکہ وہ اب ناراضگی میں ڈھل چکا تھا۔۔۔ دو دن تو روشانے اس کو ساری بات کلیئر کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر وہ روشانے کو بات کرنے کا موقع دیئے بغیر اسے اتنی بری طریقے سے آنکھیں دکھاتا کہ روشانے خود ہی سہم کر خاموش ہوجاتی اور جب روشانے نے اُس سے کل صبح بات کرنا چاہی تب ضیغم نے اسے بری طرح ڈانٹ دیا۔۔۔ اس کے بعد روشانے بھی بالکل خاموش ہو گئی اور ضیغم کو اُس کے حال پر چھوڑ دیا۔۔


وہ آج شام میں آفس سے گھر آنے کے بعد دوسرے کمرے میں مسلسل لیپ ٹاپ میں بزی تھا جبکہ روشانے بیڈ روم میں موجود تھی


"ہاتھ پر کیا ہوا ہے"

کھانا سرو کرتے ہوئے ضیغم کی نظر روشانے کی کلائی پر پڑی جو کہ اچھی خاصی جلی ہوئی تھی جس کو دیکھ کر ضیغم اُس سے پوچھے بنا نہیں رہ سکا


"کچھ نہیں ہوا کھانا کھائے آپ"

روشانے اُس کے آگے میز پر پانی کا بھرا ہوا گلاس رکھ کر وہاں سے جانے لگی تبھی ضیغم نے اُس کا دوسرا ہاتھ پکڑا اور کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا


"کیا پوچھ رہا ہوں میں تم سے،، کیسے جلا یہ ہاتھ"

اب وہ کھانا بھول کر روشانے کے سامنے کھڑا اس کا ہاتھ دیکھ کر فکر مندی لہجے میں پوچھ رہا تھا


"آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے سائیں، ٹھیک ہوجائے گا آپ کھانا کھائیں"

روشانے ناراضگی سے بولتی ہوئی جانے لگی تبھی ضیغم نے روشانے کا رُخ اپنی طرف کیا


"کیا کھانا کھانے کی رٹ لگا رکھی ہے،، جو پوچھ رہا ہوں اس کا جواب نہیں دینا تمہیں۔۔ کیسے جلا یہ ہاتھ"

اب کی بار ضیغم نے لہجے میں سختی لا کر غُصے سے پوچھا


"اب اِس بات کو بھی لے کر آپ مجھ پر غُصہ کریں گے یا پھر بات نہ کر کے سزا دیں گے مجھے"

روشانے بھرائے ہوئے لہجے میں ضیغم کو دیکھ کر پوچھنے لگی ہے تو ضیغم خاموشی سے روشانے کو دیکھنے لگا۔۔۔ اس نے ابھی بھی روشانے کا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ ۔۔۔روشانے نے اُس کے سینے پر سر ٹکا دیا


"دوپہر میں کھانا بنا رہی تھی تب گرم آئل گر گیا تھا"

وہ ضیغم کو کلائی کے جلنے کا سبب بتانے لگی تب ضیغم نے اُس کے گرد اپنے دونوں بازو باندھے


"دھیان کہا تھا تمہارا"

وہ روشانے کو اپنے حصار میں لیے شکوہ کرتا ہوا پوچھنے لگا جبکہ اس کا لہجہ نرم تھا


"آپ کی طرف،، ناراض جو ہیں آپ مجھ سے"

روشانے ضیغم کے سینے سے سر اٹھا کر اُسے دیکھتی ہوئی بولی


"تو کیا نہیں ہونا چاہیے"

وہ روشانے کا چہرہ دیکھ کر سوال کرنے لگا۔۔۔ وہ کہاں اپنے علاوہ کسی اور کے ساتھ روشانے کا نام برداشت کر سکتا تھا۔۔۔ اور تیمور خان کا نام تو ویسے بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔۔ روشانے اس بات سے انکار بھی نہیں کر سکتی تھی کہ یہ نام اس نے نہیں لکھا ہے وہ اس کی ہینڈ رائٹنگ کو پہچانتا تھا


"ہونا چاہیے، مگر میری غلطی ہو تب،، میرا جرم ثابت ہو تب۔۔۔ آپ تو مجھے وضاحت کا موقع ہی نہیں دے رہے سائیں"

روشانے اب بے بسی سے ضیغم کو دیکھ کر بولی


"اچھا یہاں پر بیٹھو"

ضیغم اُسے دونوں شانوں سے تھام پر چیئر پر بٹھاتا ہوا دوسرے روم میں چلا گیا،، واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں آئینٹمینٹ موجود تھا


"فوراً لگا لیتی تو جلد اثر کرتا۔۔ اب اسکن پر کتنے دنوں تک نشان رہے گا، تکلیف الگ سہی، بہت لاپرواہ ہو تم خود سے"

ضیغم روشانے کی کلائی پر آئینٹمینٹ لگاتا ہوا بول رہا تھا۔۔۔ روشانے خاموشی سے ضیغم کو دیکھنے لگی اس کی ناراضگی اب فکرمندی میں ڈھل چکی تھی


"آگر آج میرا ہاتھ نہیں جلتا تو مزید کتنے دن خفا رہتے مجھ سے"

روشانے ضیغم کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی جس پر ضیغم نے اُسے انکھیں دکھائی


"فضول نہیں بولا کرو، کھانا کھا لیا تم نے"

ضیغم روشانے کو دیکھ کر پوچھنے لگا جس پر روشانے نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔

اس کے بعد ضیغم نے اپنے ساتھ اُس کو بھی کھانا کھلایا


"وہ نام میں نے چھوٹے خان کے غُصہ کرنے پر لکھا تھا، یہ ہماری شادی سے پہلے کی بات ہے"

کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ضیغم کمرے میں آ کر بیڈ پر لیٹا ہوا تھا تو روشانے بیڈ پر اُس کے سامنے بیٹھ کر ضیغم کو بتانے لگی


"روشی ختم کرو اس بات کو، میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے کیا۔۔۔ نہیں سننا چاہتا ہوں میں کچھ بھی پلیز"

ضیغم روشانے کو دیکھتا ہوا بولا اس کے لہجے میں غصّے یا ناراضگی کا شائبہ تک نہیں تھا نہ وہ اپنی پر شک کر رہا تھا بس وہ تیمور خان کا نام، اس کا ذکر اپنی بیوی کے منہ سے نہیں سننا چاہتا تھا


"میں نہیں چاہتی سائیں، آپ اپنے دل میں کسی بھی بات یا غلط فہمی کو لے کر ساری زندگی اس پر کڑھتے رہے،، پلیز مجھے ایک بار سب کچھ کلیئر کرنے دیں"

روشانے ضیغم کے سینے پر اپنا ہاتھ رکھتی ہوئی بولی


اس نے اپنا اور تیمور خان کا اُس رات والا قصّہ بتایا جب رات کو تیمور خان اُس کے کمرے میں آیا تھا اور خوف سے روشانے نے اپنا نام اس کے نام کے ساتھ لکھا تھا


جیسے جیسے روشانے بتا رہی تھی ویسے ویسے ضیغم کے چہرے کے تاثرات سخت ہو رہے تھے۔۔ اُسے مزید تیمور خان سے نفرت ہونے لگی،، اس کا بس نہیں چلتا تیمور خان کو جان سے مار دیتا اگر وہ اِس وقت اُس کے سامنے موجود ہوتا


"اُس نکاح میں خان کی مرضی شامل تھی، مجھ سے میری مرضی کا پوچھا نہیں گیا تھا صرف یہ بتایا گیا تھا کہ میرا خان سے نکاح ہے مگر میں خدا کو حاظر ناظر جان کر کہتی ہو، اس دن اگر میرا نکاح خان سے ہوجاتا تو میں ان سے کبھی وہ محبت نہیں کر پاتی جو محبت میں شادی کے بعد اب آپ سے کرتی ہو"

روشانے نے بولتے ہوئے آخر میں بیڈ پر لیٹے ہوئے ضیغم کے سینے پر اپنا سر رکھا۔ ۔۔۔


جہاں ضیغم کو روشانے سے متعلق تیمور خان کی باتیں جھلسائے دے رہی تھی وہی روشانے کی محبت کا اعتراف سے اُس کو اپنے اندر تک سرشار کر گیا


"اچھا ذرا آج معلوم ہو جائے میری بیوی اپنے سائیں سے کتنی محبت کرتی ہے"

ضیغم نے اپنے سینے پر رکھا ہوا روشانے کا ہاتھ ہونٹوں سے لگانے کے بعد اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے پوچھا جس پر روشانے مسکرا دی


ضیغم روشانے کو بیڈ پر لٹاتا ہوا غور سے اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو اپنے دل میں اتار رہا تھا، اس کی نظروں کی تپش سے روشانے کی پلکیں خود بخود جھگ گئی جس پر ضیغم ہلکا سا مسکرایا


"اس طرح شرمانے سے کام نہیں چلے گا محبت کا ثبوت محبت سے ہی دینا پڑے گا آج"

ضیغم اس کے شرمائے ہوئے روپ کو دیکھ کر بولا۔۔۔ تین دن سے اُس نے اپنے اور روشانے کے درمیان دوریاں پیدا کی ہوئی تھی مگر آج وہ اِن دوریوں کو نزدیکیوں میں ڈھالنا چاہتا تھا


"سائیں جو محبت کا ثبوت آپ مجھ سے مانگ رہے ہیں، اس کا مظاہرہ آپ ہی اچھے طریقے سے کر سکتے ہیں یہ آپ خود جانتے ہیں"

بات مکمل کر کے روشانے اپنی آنکھیں بند کر چکی تھی ضیغم ایک بار پھر مسکرایا


روشانے کے گلے میں موجود چین کو دیکھ کر ضیغم اس کی گردن پر جھکا تو روشانے نے بے اختیار اس کا کندھا پکڑا۔۔۔ ضیغم روشانے کا ہاتھ احتیاط سے تکیے پر رکھتا ہوا، اپنا ہاتھ اس کے گال پر رکھ کر اُس کے ہونٹوں پر محبت کی مہر ثبت کرنے لگا۔۔۔ چند سیکنڈ یونہی معنیٰ خیز خاموشی گزرے اس سے پہلے جذبات کا طوفان شور مچاتا کمرے میں مکمل اندھیرا چھا گیا


"یار اس لائٹ کو بھی ابھی جانا تھا" ضیغم بدمزہ ہو کر اٹھا تو روشانے کو ہنسی آگئی


"بہت ہنسی آرہی ہے ذرا جنریٹر آن کرنے دو پھر بہت اچھے سے ثبوت دوں گا تمہیں آج اپنی محبت کا"

ضیغم موبائل کی مدد سے ٹارچ لائٹ آن کرتا ہوا روشانے کو دھمکی دے کر بیڈ سے اٹھا اور بیڈ روم میں موجود بالکونی میں چلا گیا روشانے اپنے لب سکھیڑ کر خود بھی بیڈ سے اٹھی


اُسے ہنسی نہ بھی آتی تب بھی اُسے معلوم تھا اُس کے شوہر نے اُسے اچھی طرح محبت کا ثبوت دینا ہے۔۔۔۔ اسلیئے وہ بالوں کا جوڑھے کی شکل دیتی ہوئی باہر کے دروازے کا لاک چیک کرنے چلی گئی


اس کے پاس کوئی ٹارچ لائٹ نہیں تھی وہ اندازے سے قدم اٹھاتی ہوئی بغیر دوپٹہ لیے کمرے سے باہر نکلی


"اب اس کو کیا مصیبت آگئی"

روشانے کو ضیغم کی آواز بالکونی سے آئی یقینناً وہ جنریٹر کے بارے میں بول رہا تھا


روشانے اندازے سے مین ڈور تک پہنچی، مین ڈور ضیغم لاک کر چکا تھا وہ مطمئن ہو کر پلٹی تب اسے دائیں جانب کمرے کی کھڑکی کھلی ہوئی دکھی جہاں سے ہلکی ہلکی روشنی کمرے میں چھلک رہی تھی اسی کمرے میں تھوڑی دیر پہلے ضیغم موجود تھا


روشانے کمرے میں داخل ہوئی اس نے جیسے ہی کھڑکی بند کرنے کے لیے آگے ہاتھ بڑھایا۔ ۔۔۔ کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا،، اُس سے پہلے روشانے کے منہ سے چیخ نکلتی کوئی اس کا منہ بند کرچکا تھا


"شادی رچالی اُس کمینے جتوئی سے، تمہیں کیا لگا میں اتی آسانی سے یہ سب قبول کرلو گا، اگر میں اپنے دل سے شادی شدہ لڑکی کا خیال نکال بھی دو، تب بھی یہ کبھی نہیں چاہو گا کہ میرا خوف تمہارے دل سے نکلے،، ساری زندگی میں ان آنکھوں میں اپنے لیے خوف دیکھنا چاہتا ہوں"

تیمور خان اپنا ایک ہاتھ روشانے کے منہ پر رکھے جبکہ اپنے دوسرے ہاتھ سے روشانے کا جلا ہوا ہاتھ سختی سے پکڑ کر،، اسے دیوار کے ساتھ لگائے روشانے کے کان میں بول رہا تھا


روشانے بری طرح خوف سے کانپ رہی تھی، وہ اپنا تعارف نہ بھی کرواتا تو روشانے تیمور خان کو پہچان چکی تھی


"روشی،، کہاں ہو جان"

لائٹ ابھی تک بند تھی کمرے میں مکمل اندھیرا تھا ضیغم اسے پکارتا ہوا بیڈروم سے باہر آچکا تھا


"اپنے قریب مت آنے دینا اس کمینے کو،، ورنہ جیسے اس کے چچا کو مارا تھا ایسے ہی اِس کے سینے میں بھی گولیاں بھر دو گا"

تیمور خان ضیغم کی آواز سن کر روشانے سے بولا


روشانے کے منہ سے اپنا ہاتھ ہٹاتا اُس کے گلے میں چمکتی ہوئی نازک چین کو توڑ کر وہ کھڑکی کے راستے باہر جا چکا تھا۔۔۔ ویسے ہی کمرہ روشنی سے روشن ہوا۔۔۔ روشانے خوف کے مارے چیخ مار کر کمرے سے باہر نکل کر ضیغم کے پاس آئی


"روشی کیا ہوا، یہاں دیکھو پلیز مجھے بتاو"

وہ ضیغم کے سینے سے لگی ہوئی بری طرح رو رہی تھی۔۔۔ ضیغم پریشان ہوکر اس سے پوچھنے لگا


"وہ۔ ۔۔۔ وہاں"

خوف کے مارے روشانے کچھ بول نہیں پائی تھی، وہ کمرے کی طرف انگلی سے اشارہ کرتی ہوئی اتنا ہی بولی۔۔۔ ضیغم کمرے کی طرف دیکھتا ہوا آگے بڑھنے لگا


"سائیں پلیز نہیں"

روشانے ضیغم کا ہاتھ پکڑ کر اس روکتی ہوئی بولی۔ ۔۔ تیمور خان بےشک جا چکا تھا مگر وہ ابھی بھی خوف کے زیرِ اثر تھی


"روشی کیا ہے کمرے میں مجھے دیکھنے تو دو، تم رو کیو رہی ہو اسطرح"

ضیغم اس کی حالت دیکھ کر حقیقت میں پریشان ہوگیا تھا چند منٹ پہلے وہ بالکل نارمل تھی


"وہاں اس کمرے میں چھپکلی تھی" ضیغم کے تجُسس بھرے انداز پر روشانے بات بناتی ہوئی بولی۔۔۔ ضیغم روشانے کی بات سن کر مزید حیرت سے اُس کو دیکھنے لگا


"چھپکلی سے اس طرح کون ڈرتا ہے اور اتنے اندھیرے میں تمہیں کون سی چھپکلی نظر آگئی"

وہ مزید مشکوک نظروں سے روشانے کو دیکھتا ہوا بولا اور اپنا ہاتھ چھڑاتا ہوا کمرے میں جانے لگا تو روشانے بھی اس کے پیچھے چل پڑی


"میں بہت زیادہ ڈرتی ہوں چھپکلی سے۔۔ باہر سے کمرے میں اچھی خاصی لائٹ آ رہی تھی تب میں نے چپکلی کو دیکھا،، لائٹ صرف ہمارے فلیٹ کی گئی تھی شاید"

روشانے ضیغم کو اپنی بات کا یقین دلانے لگی۔۔۔ وہ لائٹ کے بارے میں صحیح کہہ رہی تھی کیونکہ ضیغم اُسے یہی بتانے کے لئے کمرے سے باہر آیا تھا کہ باہر تمام فلیٹس کی لائٹ آ رہی تھی مگر لاؤنچ میں آکر اُس نے مین سوئچ طرف دیکھا تو آن کر دیا۔۔۔ تب ہی روشانے چیختی ہوئی اس کی طرف آئی


"یہ چین کیسے ٹوٹ گئی تمہاری"

ضیغم کی فرش پر نظر پڑی تو وہ چین سمیت پنڈینٹ اٹھاتا ہوا روشانے سے پوچھنے لگا


"یہ تو مجھے خبر نہیں ہوئی کہ کیسے ٹوٹ گئی،، میں نے آپ کو کتنی بار بولا ہے کہ رات میں کھڑکی بند کر کے کمرے سے آیا کریں مگر مجال ہے جو آپ میری بات مانیں،، نہ جانے کون کون سے حشرات کھڑکی سے اندر آ جاتے ہیں"

روشانے اس کا دماغ چین کی طرف سے ہٹانے کے لیے کھڑکی کا بولنے لگی وہ نہیں چاہتی کہ ضیغم کو کہیں سے بھی کوئی شک گزرے یا تیمور خان کا نام سن کر دوبارہ اس کا موڈ خراب ہو


"شکر ہے کھڑکی سے چھپکلی ہی آئی تھی کوئی بھوت نہیں،، چلو اپنے روم میں چلتے ہیں"

ضیغم کھڑکی بند کرکے روم کی لائٹ آف کرتا ہوا روشانے کو اپنے ساتھ بیڈروم میں لے آیا


"کیا ہوا یار اب موڈ تو ٹھیک کرو اپنا"

ضیغم روشانے کو دیکھتا ہوا بولا پینڈینٹ کو دراز میں رکھتا ہوا وہ روشانے کے قریب آکر بیڈ پر بیٹھا


"میں بالکل ٹھیک ہوں سائیں"

روشانے اپنے دماغ سے سوچو وہ جھٹک کر نارمل ہوتی ہوئی ضیغم سے بولی


"تو پھر وہی سے کینٹینو کریں"

ضیغم نے جس انداز میں پوچھا روشانے اپنا سیدھا ہاتھ ماتھے پر رکھتی ہوئی سر جھکا کر مسکرائی


ضیغم اس حصار میں لیتا ہوا بیڈ پر لٹا چکا تھا۔۔۔ وہ روشانے کی گردن پر جھکا روشانے کی نظریں تبھی کمرے کے کھلے دروازے پر گئی اسے معلوم تھا تیمور خان اب وہاں موجود نہیں ہے مگر اس کی دی ہوئی دھمکی کو یاد کر کے روشانے کو گھبراہٹ ہونے لگی۔۔۔ خان نے اس کے ماموں کی جان لے لی تھی،، وہ ظالم شخص کتنے آرام سے اُس کے سامنے اُس کے شوہر کو مارنے کی بات کر رہا تھا


"کیا ہوا"

ضیغم سر اٹھاتا ہوا روشانے کو دیکھ کر پوچھنے لگا


"کیا ہوا کچھ بھی تو نہیں"

روشانے غائب دماغی میں کمرے کے دروازے کو دیکھ کر بولی پھر ضیغم کو دیکھنے لگی


ضیغم نے اٹھ کر بیڈ روم کا دروازہ بند کیا۔۔ سائیڈ ٹیبل سے اپنا لائٹر اور سگریٹ کا پیکٹ اٹھاتا ہوا وہ بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگا کر اپنے پاؤں پھیلا ہوا بیٹھ گیا۔۔۔ ضیغم نے محسوس کیا تھا روشانے اُس کے قربت میں بھی اُس کے قریب نہیں تھی جیسے اُس کا دماغ کہیں اور ہو


"سائیں آپ خفا ہو گئے مجھ سے"

روشانے اُس کو اسموکنگ کرتا ہوا دیکھ کر شرمندگی سے پوچھنے لگی۔۔۔ وہ یہاں تیمور خان کی موجودگی کے بارے میں ضیغم کو ہرگز نہیں بتا سکتی تھی۔۔۔ اُس کے نام پر ہی وہ اپنے شوہر کا ردعمل دیکھ چکی تھی اگر ضیغم کو یہ معلوم ہوجاتا کہ تیمور خان اُس کے فلیٹ میں آیا تھا تو نہ جانے ضیغم کیا کرتا


"کیوں خفا ہو گا، یہاں آؤ"

ضیغم نے ہاتھ کے اشارے سے اس اپنے قریب آنے کو کہا۔۔۔ روشانے سرک کر ضیغم کے قریب آئی ضیغم نے اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا


"کیا بات ہے روشی، جس کے بارے میں اتنا سوچ رہی ہو جو تمہارے دل میں ہے تم مجھ سے شیئر کر لو"

ضیغم اسموکنگ کرتا ہوا روشانے سے پوچھنے لگا۔۔۔ ضیغم نے روشانے سے پوچھتے ہوئے اپنا لہجہ نارمل رکھا تھا


"کوئی بات نہیں ہے، آج کالج سے واپس آ کر سوئی نہیں تھی اس لیے نیند آرہی ہے"

روشانے ضیغم کی گود میں سر رکھے اُسے بتانے لگی اس کی نظریں اب بھی بند دروازے پر ہی ٹکی ہوئی تھیں


"سو جاؤ"

ضیغم نے آہستگی سے بولا اس کی نظریں روشانے کی کلائی پر تھی جس پر آئینٹمینٹ چُھٹ چکا تھا اور کلائی سرخ ہورہی تھی


روشانے کا خوف کے مارے بری طرح رونا، چین کا ٹوٹ جانا، لائٹ کو یوں اچانک بند ہو جانا،، اس کے اتنے نزدیک آنے پر اُس کی بیوی کا دماغی طور اس کے قریب نہ ہونا۔۔ کیا ان سب کے پیچھے چھپکلی وجہ تھی، یا واقعی روشانے کو نیند آ رہی تھی۔۔۔


وہ کچھ بھی پوچھ کر روشانے کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا شاید اسے کھڑکی میں گرل لگوا لینا چاہیے تھا ضیغم اسموکنگ کرتا ہوا سوچنے لگا


****

صبح 9 بجے کا وقت تھا جب تیمور خان شہر سے واپس لوٹ کر حویلی کی طرف آ رہا تھا، دو دن پہلے وہ ضیغم جتوئی کے فلیٹ میں گیا تھا روشانے کو اچھی طرح باور کروانے کہ وہ روشانے کی زندگی سے کبھی نہیں نکلنے والا نہ ہی روشانے اسے بھولنے کی غلط کرے۔۔۔ اندھیرے میں بھی وہ روشانے کی آنکھوں میں خوف محسوس کر سکتا تھا جو اُسے تسکین بخش رہا تھا وہ ساری زندگی روشانے کو یونہی ڈرا ہوا سہما ہوا دیکھنا چاہتا تھا۔۔


بےشک اب وہ تیمور خان کی نہیں رہی تھی، نہ اُسے حاصل کرنا تیمور خان کا مقصد تھا مگر وہ اُس حویلی میں ضیغم جتوئی کی بیوی کی حیثیت سے رہے تیمور خان ایسا بھی نہیں چاہتا تھا۔۔ نہ ہی وہ اپنے دشمن ضیغم جتوئی کو خوش اور آباد دیکھ سکتا تھا اس نے سوچ رکھا تھا کہ روشانے کو واپس اپنی حویلی لے کر آئے گا جہاں وہ پلی بڑھی ہے، روشانے کو واپس حویلی لا نا ہی اُس کا مقصد تھا


تیمور خان ڈرائیونگ کرتا ہوا یہی باتیں سوچ رہا تھا۔۔۔ وہ اپنے علاقے کی حدود میں داخل ہو چکا تھا تھوڑے فاصلے پر ہی ژالے کی خالہ کا گھر موجود تھا اب تیمور خان کا دھیان روشانے سے ژالے کی طرف چلا گیا تھا


کئی دنوں سے وہ ژالے کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت اور غصہ دیکھ رہا تھا جو اب اُسے بری طرح چُبھ رہا تھا۔۔۔ جیسے وہ روشانے کی آنکھوں میں اپنے نام پر خوف دیکھنا پسند کرتا تھا۔۔ ویسے ہی وہ ژالے کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت دیکھنا پسند کرتا تھا جو کہ شروع سے دیکھتا آ رہا تھا اور وہ اسی کا عادی تھا


ژالے سے نکاح کرکے وہ اگر بہت زیادہ خوش نہیں تو، اسے کچھ خاص برا بھی نہیں لگ رہا تھا،، کیونکہ ژالے ایک اچھی لڑکی تھی بس روشانے کی طرح اُس سے ڈرتی نہیں تھی مگر وہ رخصتی کے بعد ژالے کو سیدھا کر لے گا تیمور خان سوچتا ہوا ڈرائیونگ کر رہا تھا تب اس کی نظر سامنے سے آتی ہوئی گاڑی پر پڑی جو اُسی کا ڈرائیور ڈرائیو کر رہا تھا۔۔۔ پیچھے بڑی سی چادر سر پر اوڑھے ژالے موجود تھی تیمور خان نے اپنی گاڑی کو ژالے کی گاڑی کے آگے روک دیا جس کی وجہ سے ڈرائیور کو بھی گاڑی روکنا پڑی ڈرائیور کے گاڑی روکنے پر تیمور خان اپنی گاڑی کا دروازہ کھول کر تیزی سے نکلا


"یہ کیا حرکت ہے خان، ہاتھ چھوڑو میرا"

تیمور خان ژالے کی طرف کا دروازہ کھول کر ژالے کی کلائی کو پکڑتا ہوا اسے گاڑی سے باہر نکال چکا تھا جس پر ژالے اپنی کلائی چھڑواتی ہوئی تیمور خان سے بولی


"یہ گاڑی واپس حویلی کر جاؤ"

تیمور خان ڈرائیور کو حکم دیتا ہوا ژالے کی کوئی بھی بات سنے بغیر اُسے اپنی گاڑی میں بٹھا چکا تھا


"کس نے مشورہ دیا ہے تمہیں کہ ہر روز صبح صبح اپنی خالہ کے گھر جا کر حاضری لگاؤ"

وہ ژالے کے غُصے کی پرواہ کیے بغیر گاڑی اسٹارٹ کرتا ہوا ژالے سے بولا


"اس بات سے تمہیں کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے خان"

ژالے تیمور خان کی بات سن کر کافی بدتمیزی سے بولی جس پر تیمور خان اسے آنکھیں دکھانے لگا


"مجھے غرض ہے تبھی بول رہا ہوں اور یہ زبان کیسے چلا رہی ہوں تم مجھ سے، قابو میں کرو اسے ورنہ دو منٹ لگیں گدی سے کھینچنے میں"

تیمور خان ڈرائیونگ کرنے کے ساتھ ساتھ غصے میں اُس کی طبیعت صاف کرتا ہوا بولا


"کیا غرض ہے تمہیں مجھ سے ذرا مجھے بھی تو معلوم ہو، تم مجھے میری خالہ کے گھر جانے پر نہ مجھ پر اعتراض کر سکتے ہو، نہ مجھ پر پابندی لگا سکتے ہو، بھلے میری زبان کو گدی سے کھینچ ڈالو مگر مجھے کبھی بھی اپنی تابع نہیں کر سکتے تم"

ژالے اس کے غُصّے کی پرواہ کیے بغیر دو بدو جواب دیتی ہوئی بولی جس پر تیمور خان نے بریک لگا کر گاڑی کو روکا تیمور خان کے غصے کی پروا کیے بغیر وہ اسے بے خوفی سے دیکھنے لگی


"اس گاڑی کے اندر بتا دو کہ تم سے کیا غرض ہے مجھے، اب تو نکاح بھی ہو چکا ہے تمہارے ساتھ میرا، غرض اور مفاد جب چاہے نکال سکتا ہوں بلکہ تم پر اعتراضات بھی اٹھا سکتا ہوں اور پابندی لگا سکتا ہوں۔۔۔ ویسے روز روز اپنی خالہ کے گھر کس لئے جاتی ہو اُس خرم کا دل بہلانے،، اسے گدھے کو بولو اپنی بیوی کو جاکر میکے سے لے آئے اور اُسی سے اپنا دل بہلائے"

ژالے کی آنکھوں میں اُس کے لیے نہ عزت تھی نہ محبت۔۔ اس لئے تیمور خان اپنے لفظوں کے تیر و نشتر چلاتا ہوا اُسے زخمی کرنے لگا


"مجھے تمہاری گھٹیا باتوں پر رتی برابر بھی افسوس نہیں ہے خان کیونکہ اب مجھے اچھی طرح اندازہ ہو چکا ہے تم کچھ بھی کر سکتے ہو کچھ بھی بول سکتے ہو۔۔۔ مگر میری ایک بات یاد رکھنا میں ژالے ہو،، روشانے نہیں۔۔۔ تم یہ آقا اور غلام والا کھیل میرے ساتھ مت کھیلنا اور ایک بات اور بھی اپنے دماغ میں بٹھالو ہم دونوں کا صرف نکاح ہوا ہے رخصتی نہیں،، اس لیے اپنے تمام تر غرض اور اپنی مفادات اپنے تک محدود رکھو"

اس نے روشانے کے ساتھ بھی یہی کیا تھا،، شمروز جتوئی کے گھر سے لاکر روشانے کی کردار پر سوال اٹھایا تھا۔۔۔ اب وہ خرم کو لے کر اُس کے کردار پر بات کر رہا تھا۔۔۔ اسی لئے ژالے نے اس کو منہ توڑ جواب دیا۔۔۔ روشانے کے نام پر وہ بری طرح تلملا گیا تھا اس لیے ژالے کی کالائی کو سختی سے پکڑتا ہوا بولا


"صرف نکاح ہوا ہے، رخصتی نہیں۔۔۔ رخصتی میں کتنی دیر لگتی ہے،، یہاں سے سیدھا حویلی پہنچ کر تمہارا ہاتھ پکڑتا ہوا،، اگر اپنے کمرے میں لے کر چلا جاؤ تو پھر کون روکے گا مجھے، تم یا پھر گھر والے۔۔۔ اگلی بار اگر تم مجھے اِس گھر کے قریب دکھی ناں تو ایسا ہی کروں گا میں، اُس رات میرا جانوروں والا روپ تمہیں ذرا پسند نہیں آیا ہوگا اس لئے اب تمہیں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔۔۔ اچھی بیویوں کی طرح برتاؤ کرو یہی آگے جا کر تمہارے حق میں بہتر ہوگا"

وہ تیمور خان کو گھور رہی تھی تب تیمور خان آخری بات بولتا ہوا ژالے کا گال چھونے لگا۔۔۔ جس پر ژالے نے غُصے میں اُس کا ہاتھ دور جھٹکا۔۔۔ ہاتھ جھٹکنے کی دیر تھی تیمور خان چادر سمیت ژالے کے بالوں کو اپنے ہاتھ کی مٹھی میں بھر چکا تھا


"یہ آنکھیں نیچے کرو اپنی،، ورنہ ابھی یہی گاڑی میں تمہارا حشر بگاڑ دوں گا میں"

وہ اپنے بالوں کو آزاد کروائے بغیر، تیمور خان کی دھمکی کی پرواہ بنا ابھی بھی بےخوفی سے اُسے دیکھ رہی تھی


"یعنی کہ خان کا حکم نہیں ماننا ہے تمہیں"

تیمور خان ژالے کے بالوں پر مزید گرفت سخت کرتا ہوا اس کا چہرہ اپنے چہرے کے قریب لاکر ژالے سے پوچھنے لگا۔۔۔


مگر وہ ابھی بھی اپنی نظریں نیچے کیے بنا ڈھیٹ بنی تیمور خان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اُسی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ اپنے سامنے ژالے کی نظریں جھکانا چاہتا تھا تبھی اس کے ہونٹوں پر جُھکنے لگا۔۔ جس پر ژالے نے اُسے پوری طاقت سے پیچھے دھکا دیا اور خود گاڑی کے شیشے سے جا لگی


اُسی وقت گاڑی کی فرنٹ شیشے پر فائر آکر لگا جس سے گاڑی کا شیشہ چکنا چور ہوا۔۔۔ ژالے کے منہ سے زور دار چیخ نکلی مگر تیمور خان کی نظر سامنے درخت پر تھی جس پر سے کوئی نیچے کودا اور بھاگنے لگا۔۔۔


تیمور خان ہاتھ میں ہتھیار لے کر برق رفتاری سے گاڑی سے باہر نکلا اور بھاگتے ہوئے اس آدمی کے پیچھے لپکا جو کہ چادر میں لپٹا ہوا تھا۔۔۔ تیمور خان نے بڑی سی گالی دیتے ہوئے اس آدمی پر فائر کھولا، جس نے اس کی گاڑی کو نشانہ بنایا تھا۔۔۔۔ وہ فائر اُس آدمی کی ٹانگ پر لگا اور وہ نیچے گر گیا


"خان"

اِس سے پہلے تیمور خان اُس آدمی تک پہنچتا ژالے کی آواز جس میں تکلیف کا عنصر شامل تھا،، تیمور خان پلٹنے پر مجبور ہوا


ژالے کا خیال آتے ہی وہ اُس آدمی کو چھوڑ کر اپنی گاڑی کی طرف بھاگا


"ژالے یہاں دیکھو میری طرف"

ژالے کی پیشانی پر خون دیکھ کر وہ بدحواس ہو چکا تھا وہ اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھے بری طرح رو رہی تھی اس کی پیشانی سے نکلتا ہوا خون اس کے چہرے کو سرخ کر چکا تھا۔۔۔ اُس کا خون سے تر چہرا تیمور خان کو اندر تک ڈرا چکا تھا


"ژالے یہاں دیکھو میری طرف،، بالکل مت پریشان ہونا ہم ڈاکٹر کے پاس جارہے ہیں، تم آنکھیں مت بند کرنا پلیز"

شیشے کا ایک بڑا ٹکڑا ٹوٹ کر ژالے اس کے ماتھے پر لگا تھا۔۔۔ جو اسے بری طرح زخمی کر گیا تھا۔۔۔ ڈرائیونگ کرتے ہوئے تیمور خان بار بار ژالے کو دیکھ رہا تھا جہاں ژالے اپنی آنکھیں بند کرنے لگتی۔۔ تیمور خان اس کا ہاتھ زور ہلاتا ہوا یا اُسے آواز دے کر واپس ہوش کی دنیا میں لے آتا


ڈاکٹر کے پاس پہنچنے سے لے کر ٹانکے لگانے تک ژالے وقفے وقفے سے روتی رہی تھی اس سارے عرصے تیمور خان نے اُس کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے رکھا تھا۔۔۔ تاکہ ژالے کو احساس رہے کہ وہ اُس کے پاس موجود ہے۔۔۔ ژالے کو تکلیف میں دیکھ کر وہ خود بھی بے چین ہوگیا تھا۔۔۔ وہ اتنا خود غرض ہرگز نہیں تھا کہ اُسے کسی خاص غرض کے لیے بے چینی ہوتی۔۔۔ وہ اب اس کی بیوی تھی اُس سے رشتہ جڑ چکا تھا۔۔۔ اُس لیے اُس کا پریشان ہونا بنتا تھا۔۔


تیمور خان ڈاکٹر کے پاس سے ژالے کو واپس حویلی لے جاتے ہوئے ڈرائیونگ کے دوران بار بار ژالے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ نیم غنودگی میں گاڑی کی سیٹ سے ٹیک لگائی ہوئی تھی۔۔۔ اُس کے ماتھے پر زخم دیکھتے ہوئے اب تیمور خان کو غُصہ آنے لگا تھا۔۔۔ یہ زلیل حرکت یقیناً فیروز جتوئی کی تھی جو اُس نے اپنے کسی آدمی سے کروائی تھی۔۔۔ اب وہ فیروز جتوئی کو چھوڑنے والا نہیں تھا اور نہ ہی اس کے بیٹے ضیغم جتوئی کو


****


"کیا سوچ رہی ہو اترو گاڑی سے"

ضیغم روشانے کو دیکھتا ہوا بولا تو وہ پریشان نظروں سے اسے دیکھنے لگی


آج وہ پورے ایک ماہ بعد اس حویلی میں قدم رکھ رہی تھی کل رات کال پر کشمالا کی طبیعت خرابی کا سن کر ضیغم کا دوپہر تک یہاں آنے کا پروگرام بن گیا تھا وہ روشانے کو اکیلا چھوڑ کر نہیں آ سکتا اِس لئے اپنے ساتھ لا آیا


"سائیں مامی مجھے دیکھ کر بہت خفا ہوگیں ان کی طبیعت پہلے ہی ٹھیک نہیں ہے"

روشانے افسوس کرتی ہوئی ضیغم کو کہنے لگی وہ سارے راستے یونہی خاموش سفر کرتی ہوئی آئی تھی


"معلوم ہے، تمہیں دیکھ کر ماں کا بخار دُگنا ہو جائے گا لیکن تمہیں چھوڑ کر بھی تو نہیں آسکتا تھا ورنہ تمہیں دیکھے بنا مجھے بخار چڑھ جانا تھا"

ضیغم شرارتی انداز میں روشانے کو دیکھ کر بولا تو وہ خفا ہو کر ضیغم کو دیکھنے لگی۔۔۔ ضیغم نے مسکرا کر اس کا ہاتھ تھاما


"یار ساس بہو کا رشتہ تو ایسا ہی ہوتا ہے، اتنا مت سوچو،، ہفتے بھر کی تو بات ہے پھر میں ہوں تو تمہارے ساتھ"

ضیغم اُس کا ہاتھ تھامے اُسے حوصلہ دینے والے انداز میں بولا تو روشانے اثبات میں سر ہلا کر گاڑی سے باہر نکلی۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ اُسے کشمالا سے بہت ڈر لگتا تھا کشمالا اُسے دادی حضور کی طرح سخت گیر خاتون لگتی


"یوں اچانک چلے آئے ہو تم بیوی کو لے کر، آنے سے پہلے اطلاع تو دینی چاہیے تھی میں ڈرائیور کو بھیج دیتا۔۔۔ یوں اکیلے آنا خطرناک ہے"

حویلی کے داخلی راستے سے اندر آتے ہی فیروز جتوئی روشانے کو سلام کا جواب دیتا ہوا ضیغم سے بغلگیر ہو کر بولا


ہفتے بھر پہلے ہی اس نے تیمور خان پر جان لیوا حملہ کروایا تھا مگر اس کی قسمت اچھی تھی کہ وہ بچ گیا۔۔۔ لیکن کل ہی اُسے اپنے آدمی کی لاش نالے سے ملی جس سے اُس نے تیمور خان پر حملہ کروایا تھا


"آپ ہی نے تو کہا تھا کہ تمہاری ماں یاد کر رہی ہے تمہیں کافی دنوں سے، تو آج دوپہر ہی میں پروگرام بن گیا۔۔۔ ویسے اب خطرے والی کیا بات ہے،، سب ٹھیک ہے ناں"

ضیغم فیروز جتوئی کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا فیروز جتوئی نے ایک نظر روشانے کو دیکھا پھر ضیغم کو دیکھ کر بولا


"ہاں ہاں سب ٹھیک ہے،، بعد میں بات کرتے ہیں،، بابا سائیں اس وقت آرام کر رہے ہیں،، جاؤ جاکر اپنی ماں سے مل لو خوش ہو جائے گی وہ تمہیں دیکھ کر"

فیروز جتوئی ضیغم کو بولتا ہوا حویلی سے باہر نکل گیا


"آؤ"

ضیغم اپنے ہاتھ میں تھاما ہوا بیگ ملازم کو پکڑا کر، روشانے کو دیکھتا ہوا بولا


روشانے اپنی چادر کو مزید اچھی طرح سر پر جماتی ہوئی ضیغم کے پیچھے کشمالا کے کمرے میں جانے لگی۔۔۔ اپنے فلیٹ میں تو وہ صرف دوپٹہ ہی لیتی تھی چادر کا استعمال وہ کالج جاتے وقت کرتی تھی لیکن اُسے یہاں جب تک رہنا تھا اُس بات کا خیال رکھنا تھا کہ دوپٹہ اُس کے سر پر ٹکا رہے۔۔۔ یہ سب باتیں اسے ضیغم نے نہیں بتائی تھی اُسے خود معلوم تھی


ضیغم روشانے کو کشمالا کے کمرے میں سلام کروانے کے غرض سے لے کر جا رہا تاکہ کسی بات کو موضوع بنا کر کوئی مسئلہ نہ اٹھے


"آ گیا تو،، مجھے لگا اپنی ماں کی موت کی خبر سن کر ہی آئے گا اب کی بار تو"

کشمالا بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی، اپنے کمرے میں ضیغم کو آتا دیکھ کر خوشی کے مارے اٹھ بیٹھی ضیغم نے اسے سلام کر کے گلے لگایا تو کشمالا کی نظریں دروازے پر کھڑی روشانے پر پڑی روشانے نے جلدی سے اُسے سلام کیا، اُس کے سلام کو نظرانداز کرتی ہوئی وہ ضیغم سے شکوہ کرنے لگی


"ماں بہت غلط بات کر رہی ہیں آپ،، اپنے لئے اپنی زبان سے ایسے الفاظ مت استعمال کیا کریں مجھے تکلیف ہوتی ہے اور اب خوش ہو جائیں آپ، میں تین چار دن کے لیے نہیں پورے ہفتے بھر کے لئے آیا ہوں آپ کے پاس"

ضیغم کشمالا کو بہلاتا ہوا بولا


"اب دو ہفتوں سے پہلے تھوڑی نہ جانے دوں گی تجھے، اپنی بات منوا کر کی تجھے رخصت کرو گی"

وہ کشمالا کی بات کو خوب جانتا تھا اکثر موبائل پر وہ اس سے پلورشہ کی نند کا ذکر کرتی تھی اور یہ بھی کہ وہ اب دوسری شادی صرف اور صرف اس کی پسند سے کرے گا۔۔۔۔ ضیغم کشمالا کی بات کو نظرانداز کرتا ہوا دروازے پر کھڑی روشانے کو دیکھنے لگا


"وہاں کیوں کھڑی ہو ادھر آؤ ناں ماں سے نہیں ملی تم"

ضیغم روشانے کو دیکھتا ہوا بولا تو روشانے کمرے کے اندر آئی اور کشمالا کو دوبارہ سلام کرنے لگی


"اس کو ساتھ لانا ضروری تھا کیا"

نحوست سے اس کے سلام کا جواب دیتی ہوئی کشمالا ضیغم کو دیکھ کر پوچھنے لگی


"اب اِس کے بغیر آپ کے بیٹے کا گزارا جو نہیں ہے"

ضیغم نے سنجیدگی سے کشمالا کو جواب دیا روشانے ایک نظر کشمالا کو دیکھ کر گھبرا کر جلدی سے سُر جھکا لیا


"بے شرم کہیں کا اپنی ماں کے سامنے اس طرح بات کرتے ہیں"

کشمالا ضیغم کے گال پر چپت رسید کرتی ہوئی بولی مگر اندر ہی اندر اسے اپنے بیٹے کی پسند پر آگ لگ گئی تھی


"اِس طرح سے اس لیے بات کر رہا ہوں تاکہ آپ بھی جان لیں، آپ کے بیٹے کی زندگی میں اِس کی اہمیت"

ضیغم نرم لہجے میں کشمالا کو جتاتا ہوا بولا جس پر کشمالا منہ بنا کر خاموش ہو گئی


"کھڑی کیو ہو،، کیا بیٹھنے کے لئے کہنا پڑے گا تمہیں"

ضیغم روشانے کو دوبارہ مخاطب کرتا ہوا بولا تو وہ صوفے پر بیٹھنے لگی


"کوئی ضرورت نہیں ہے یہاں بیٹھنے کی، یہاں سے سیدھا باورچی خانے میں جا اور رات کے کھانے کی تیاری کر"

روشانے جو کہ صوفے پر بیٹھنے لگی تھی کشمالا کی کرخت آواز سن کر دوبارہ کھڑی ہوگئی


"ماں وہ سیدھا کالج سے ہوتی ہوئی یہاں چار گھنٹے کا سفر کرکے پہنچی ہے"

ضیغم نے کشمالا کو دیکھتے ہوئے بتایا کیونکہ وہ صبح آفس سے ضروری کام نمٹانے کے بعد روشانے کو موبائل پر کال کرکے اپنا پروگرام اسے بتا چکا تھا


روشانے نے گھر آکر یونیفارم چینج کیا تھا اور حویلی آنے کے لیے بیگ تیار کیا تھا۔۔۔ دوپہر کا کھانا بھی انہوں نے راستے میں کھایا تھا


"تُو زیادہ میرے سامنے اِس کی وکالت مت کیا کر ضیغم، وہ اپنے سسرال آئی ہے برات میں نہیں اور کھانا بنا کر اس کی ہڈیاں نہیں گِھس جائے گیں"

کشمالا اب غُصے میں ضیغم کو دیکھتی ہوئی بولی


اسے یوں بات بات پر بیوی کی وکالت کرتا دیکھ کر کشمالا کو غصہ آئے جا رہا تھا


"میں بنا لیتی ہوں کھانا کوئی مسئلہ نہیں ہے"

روشانے آہستہ آواز میں بولی۔۔۔ ضیغم نے افسوس بھری نظر کشمالا پر ڈالی


"مسلہ ہونا بھی نہیں چاہیے تجھے، تین چار طرح کے کھانے بنا لینا اور ساتھ میں میٹھا بھی، بابا سائیں کا پرہیزی کھانا بنے گا الگ سے۔۔۔ شانو سے صرف مدد لینا ہے سارا کام خود ہی کرنا تاکہ تیرے دادا سُسر اور سُسر کو تیرے آنے کی خوشی ہو کہ اُن کی بہو آئی ہے"

کشمالا کڑے تیوروں کے ساتھ روشانے کو ہدایت دیتی ہوئی بولی جس پر روشانے جی کہہ کر کمرے سے نکل گئی


اب اسے چادر اتار کر منہ ہاتھ دھو کر سیدھا کچن کا رخ کرنا تھا شاید اُس کی ساس اُس سے اِسی طرح خوش ہو جاتی


"میں تھوڑی دیر آرام کروں گا آپ بھی ریسٹ کریں اب"

ضیغم کشمالا کے رویے پر اچھا خاصہ بد دل ہوا تھا وہ بیڈ سے اٹھنے لگا تبھی کشمالا نے اس کا ہاتھ پکڑ کر واپس اپنے پاس بٹھا لیا


"آرام ہی کرنا ہے تجھے تو یہی میری نظروں کے سامنے کرلے اس طرح تجھے دیکھ کر میری طبیعت بحال ہوتی رہے گی"

کشمالا اب ضیغم کو دیکھتی ہوئے محبت سے بولی تو وہ وہی بیڈ پر لیٹ گیا


*****

رات کی تاریخی میں وہ کمرے میں موجود بالکونی میں کھڑی ہوئی وہ دور سے نظر آتے اونچے اونچے پہاڑوں کو دیکھ رہی تھی،، تیز رفتار میں ٹھنڈی چلتی ہوئی ہوا جب اُس کے بدن سے ٹکراتی تو پورے دن کی تھکاوٹ کا احساس کہیں ختم ہو جاتا۔۔۔ اس حویلی میں بسنے والے لوگ بھی روشانے کو ان پہاڑوں کی مانند لگتے،، سخت دل۔۔۔


کہنے کو تو شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی اس کے سگے نانا اور ماموں تھے مگر اُن دونوں نے ایک بار بھی اُسے رباب کی بیٹی سمجھ کر پیار سے گلے نہیں لگایا تھا


اس کو یہاں پر ضیغم کی بیوی کی حیثیت سے عزت دی جارہی تھی۔۔۔ نہ جانے وہ کبھی بھی اس کو رباب کی بیٹی کی حیثیت سے پیار کریں گے بھی کہ نہیں۔۔ یہ خلاہ روشانے کے دل میں موجود تھا۔۔۔ وہ اُداسی سے سوچتی ہوئی اپنے خالی کمرے کو دیکھ کر بالکونی سے کمرے میں آ کر بیڈ پر لیٹ گئی


آج رات کھانے کی ٹیبل پر کشمالا سب کے سامنے فیروز جتوئی سے کہہ چکی تھی کہ جب تک اُس کا بیٹا حویلی میں چند دن موجود ہے وہ کوئی اور کمرے میں اپنا ٹھکانہ ڈھونڈ لے۔۔روشانے نے جُھکا ہوا پلیٹ سے سر اٹھا کر سب کی طرف دیکھا تو کسی نے بھی کشمالا کی بات پر اعتراض نہیں کیا شاید وجہ یہ تھی کہ کشمالا کی طبیعت ناساز تھی اور وہ کافی حساس ہو رہی تھی۔۔ کھانے کے بعد سب کو قہوہ دے کر وہ ضیغم کے بیڈروم میں آ گئی تھی


بیگ سے اپنا موبائل نکالا تو اس پر زرین کی مسڈ کال شو ہو رہی تھی۔ ۔۔زرین سے بات کرکے اُسے ژالے کی طبعیت خرابی کا معلوم ہوا۔ ۔۔ بات کرنے کے بعد وہ اپنا موبائل واپس آف کرکے بیگ میں رکھ چکی تھی


روشانے نہیں چاہتی تھی اِس کے موبائل کو دیکھ کر دوبارہ کوئی فساد اٹھے۔۔۔ اُس کے کالج جانے پر بھی شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی نے کافی اعتراضات اٹھائے تھے


وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی کروٹیں بدل رہی تھی مگر اس کو نیند نہیں آرہی تھی،، اُسے بیڈ پر لیٹ کر ضیغم کی کمی کا احساس شدت سے ہوا۔۔۔ ایک ماہ میں ہی وہ اُس کی عادی ہو چکی تھی۔۔۔ ضیغم اِس وقت کمرے میں موجود نہیں تھا تو یہ احساس ہی اسے افسردہ کرنے لگا۔۔۔ روشانے دوبارہ جا کر بالکونی میں کھڑی ہوگئی۔۔۔ ابھی چند سیکنڈ ہی گزرے تھے تب اُس کی پشت پر کھڑے ہوئے وجود نے روشانے کو اپنے مضبوط بازوؤں میں گھیر لیا


"آپ یہاں کیوں آگئے ہیں"

وہ دیکھے بغیر ہی ضیغم کے لمس کو، اسکی خوشبو کو محسوس کر سکتی تھی۔۔۔ اپنی آنکھیں بند کرتی ہوئی ضیغم کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر بولی جو اُس کے پیٹ پر بندھے ہوئے تھے


"کیونکہ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی مجھے بری طرح یاد کر رہا ہے"

ضیغم اپنے ہونٹ روشانے کے کان کے قریب لا کر سرگوشی کے انداز میں بولا۔۔۔ روشانے نے ضیغم کے بازو میں قید اُس کو مڑ کر دیکھا تو ضیغم نے آہستگی سے اُس کے گال پر اپنے ہونٹ رکھے


"خیر ایسی تو کوئی بات نہیں تھی، آپ کون سے دور ہیں جو میں آپ کو یاد کروں گی،، دو کمرے کو چھوڑ تیسرے کمرے میں ہی تو آپ موجود تھے"

روشانے اپنی مسکراہٹ چھپاتی ہوئی ضیغم سے بولی تو ضیغم اُس کے گرد سے اپنے بازوؤں کو ہٹا کر گھورتا ہوا روشانے کو دیکھنے لگا


"اگر ایسی بات ہے تو میں واپس چلا جاتا ہوں"

ضیغم روشانے کو بولتا ہوا واپس جانے کے لیے مڑا


"سائیں پلیز میری بات تو سنیں مذاق کر رہی تھی میں۔۔ آپ کو اندازہ بھی نہیں کہ کتنا زیادہ مِس کر رہی تھی میں آپ کو"

وہ خفا ہو کر واپس جانے کے لیے مڑا تو روشانے جلدی سے اُس کے سامنے آتی ہوئی بولی اور جھٹ سے ضیغم کے سینے میں اپنا منہ چھپا لیا تاکہ وہ ناراضگی بھی برقرار نہ رکھ سکے


"اب تو میں بھی یہاں تب رکو گا،، جب تم مجھے اچھی طرح احساس دلاؤ گی کہ تم مجھے واقعی مِس کر رہی تھی"

ضیغم اپنے ہونٹوں پر آنے والی مسکراہٹ کو چھپاکر روشانے کو دیکھ کر بولا


وہ خود بھلا کونسا یہاں سے جانے والا تھا۔۔۔ شہر میں تو وہ آفس سے آنے کے بعد ہر وقت روشانے کے آس پاس موجود رہتا، آج تو اس نے صحیح سے اُس کا چہرہ تک نہیں دیکھا تھا۔۔۔ ضیغم کی بات سن کر روشانے اُس کے سینے سے سر اٹھا کر ضیغم کو گھورنے لگی


"آپ کو خود احساس ہونا چاہیے اپنی بیوی کی فیلنگز کا۔،۔۔۔ اب کیا بیوی خود احساس کرواتی ہوئی اچھی لگے گی"

روشانے نے بولتے ہوئے نازک سے ہاتھ کا مُکّا بنا کر ضیغم کے سینے پر مارا۔ ۔۔ اس کی ادا پر ضیغم دل کھول کر مسکرایا


وہ روشانے کو اپنے بازوؤں میں بھرتا ہوا بیڈ تک لایا۔ ۔۔۔ ہفتے بھر سے روشانے کے مڈ ٹرم چل رہے تھے جس کی وجہ سے وہ شرافت کا مظاہرہ کرتا ہوا، اُسے بالکل ڈسٹرب نہیں کر رہا تھا


"مامی کو کیا کہا آپ نے"

اس نے روشانے کو بیڈ پر بٹھایا تبھی روشانے بےساختہ ضیغم سے پوچھنے لگی


"وہ سو چکی ہیں ان کی فکر نہیں کرو"

ضیغم روشانے کو بتانے کے بعد اس پر جھُکتا ہوا اُس کے بال کھولنے لگا


"اگر وہ صبح جاگ گئی تو بہت ناراض ہو گیں"

ضیغم روشانے کے گلے میں پڑی ہوئی چین اتارنے لگا تو روشانے اپنا خدشہ ظاہر کرتی ہوئی بولی


"مجھ سے ناراض ہو گیں وہ میرا مسئلہ ہے،، تم پریشان مت ہو۔۔۔ میں نے پورے ہفتے تمہیں ڈسٹرب نہیں کیا اب تم مجھے ڈسٹرب مت کرنا"

ضیغم روشانے کے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھتا ہوا اسے ریلیکس کرتا بولا۔۔۔ وہ جانتا تھا اور روشانے اُس کی ماں سے ڈرتی ہے لیکن اِس وقت وہ کوئی دوسری بات نہیں سوچنا چاہتا تھا۔۔۔


اپنی بات مکمل کر کے وہ روشانے کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر چکا تھا،، جس پر روشانے نے اپنی آنکھیں بند کی، وہ ضیغم کی سانسوں کو اپنی سانسوں میں اترتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔۔۔ ضیغم اُس کے بالوں میں اپنی انگلیاں پھنسا کر روشانے کی سانسوں کی خوشبو سے اپنی سانسوں کو مہکا رہا تھا،


اب وہ روشانے کے ہونٹوں کو آزاد کرتا ہوا بے حد قریب سے روشانے کا چہرہ دیکھ رہا تھا، جو اس وقت اپنی آنکھیں بند کئے لیٹی تھی۔۔۔ ایک ماہ کے اندر وہ اس حد تک روشانے کا عادی ہو چکا تھا کہ اُس کی قُربت ضیغم کو اپنے اندر تک سکون کا احساس بخشتی تھی۔۔۔


اپنے چہرے پر ضیغم کی نظروں کی تپش سے روشانے نے آئستہ سے اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔ وہ اس پر جُھکا ہوا غور سے روشانے کو دیکھ رہا تھا، روشانے اپنا ہاتھ ضیغم کے گال پر رکھا جسے تھام کر وہ روشانے کی ہتھیلی کو چومنے لگا


"ماں بہت زیادہ زیادتی کر جاتی ہیں تمہارے ساتھ، تم پلیز محسوس مت کیا کرو اُن کی باتوں کو،، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کا رویہ ٹھیک ہو جائے گا"

ضیغم روشابے کا ہاتھ تھام کر، اپنا دوسرا ہاتھ اُس کے گال پر رکھتا ہوا بولا


"میں آپ کے خاطر برداشت کر سکتی ہوں سائیں آپ ہمیشہ میرے ساتھ رہیے گا"

روشانے کے بولنے پر ضیغم نے پیار بھری مہر اس کے ماتھے پر سجائی۔ ۔۔۔


روشانے کا تھاما ہوا ہاتھ اپنے گرد ہائل کرتا ہوا وہ اس کی گردن پر جُھک چکا تھا۔۔۔ اب وہ اپنی سانسوں کو روشانے کے جسم کی خوشبو سے مہکا رہا تھا۔۔۔ ہفتے بھر کی دوری کا احساس وہ اپنے اور اُس کے ملاپ سے زائل کرنے کے موڈ میں تھا


کبھی کبھی وہ اُس کی دیوانگی اور وارفتگی پر بوکھلا سی جاتی تھی جیسے اِس وقت وہ اُس کی گردن پر جُھکا ہوا اُس کے ہوش اُڑا رہا تھا۔۔۔ روشانے نے آہستہ سے اپنی نیم وا آنکھیں کھولیں اور کمرے کی چھت کو دیکھنے لگی۔۔۔ وہ اپنا دوسرا ہاتھ بھی ضیغم کے گرد حائل کر چکی تھی

بے ساختہ روشانے کی نظر سامنے بالکونی میں موجود کھڑکی پر پڑی حیرت اور خوف کے مارے اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی۔۔۔ وہ تیمور خان ہی تھا جو کہ اس وقت بالکونی میں کھڑا ہوا کھڑکی سے اندر کا منظر غضب ناک نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔


وہ چند دن پہلے اُس کے فلیٹ میں بھی آیا تھا روشانے اس کو کیسے بھول گئی تھی اُس نے جلدی سے ضیغم کے گرد سے اپنے دونوں ہاتھ ہٹائے۔ ۔۔۔ روشانے کو لگا اس کا دل ابھی بند ہوجائے گا


"سائیں پلیز پیچھے ہٹیئے"

روشانے لرزتی ہوئی آواز میں کھڑکی کی طرف دیکھ کر ضیغم سے بولی


ضیغم روشانے کی بات کا نوٹس لیے بغیر اُس کے بالوں میں پھنسائے ہوئے اپنے ہاتھ سے روشانے کا منہ آئستگی سے بند کر چکا تھا۔۔۔ تیمور خان خونخواہ نظروں سے روشانے کو دیکھ رہا تھا جبکہ روشانے آہستہ آہستہ نفی میں سر ہلانے لگی


"سائیں پلیز"

روشانے ضیغم کا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے ہٹا کر ایک بار پھر بولی۔۔۔


شرمندگی کے مارے وہ اپنے دونوں ہاتھ ضیغم کے سینے پر رکھ کر اُسے پیچھے ہٹانے لگی مگر ضیغم اس وقت کسی اور ہی موڈ میں تھا وہ روشانے کے دونوں ہاتھ اپنے سینے سے تکیے پر رکھتا ہوا اس کی دونوں کلائیاں تھام چکا تھا


روشانے کی بے بسی انتہا کو چھونے لگی۔۔۔ اُس کا دل چاہا کے وہ ضیغم کو تیمور خان کی یہاں موجودگی کے بارے میں اگاہ کردے، اگر وہ ایسا کرتی تو تیمور خان کا اِس حویلی سے آج رات زندہ بچ کر جانا نا ممکن ہوتا۔۔۔ اگر اُسے سردار اسماعیل خان اور زرین کا خیال نہ ہوتا تو وہ ایسا ہی کرتی


"سائیں"

جب ضیغم اس کی گردن سے تھوڑا نیچے جھکا تب روشانے کو رونا آنے لگا۔ ۔۔ اس نے اپنے ہاتھ آزاد کروانے کی کوشش کی تو تیمور خان کھڑکی کے شیشے پر اپنی انگلی سے کراس کا نشان بنانے لگا


"سنائی نہیں دے رہا ہے آپ کو، کب سے بول رہی ہوں کہ دور ہو جائیں"

روشانے اُسے پیچھے دھکیلتی ہوئی خود بھی بیڈ سے اُٹھ کر بیٹھ گئی۔۔ ۔


اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا تبھی وہ غصے میں چیخی تھی۔۔۔ ضیغم پہلے اُسے حیرت ذدہ ہوکر دیکھنے لگا پھر دوسرے ہی پل اُس کے چہرے کے تاثرات غُصے میں تبدیل ہوئے۔۔۔ وہ بیڈ سے اٹھتا ہوا کمرے سے باہر نکلنے لگا۔۔ ۔ روشانے کو معلوم تھا کہ تیمور بھی یہاں سے جا چکا ہے۔۔۔ وہ خود بھی بیڈ سے اُٹھ کر ضیغم کے پاس آئی


"سائیں میری بات سنیں پلیز،، میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو اس لیے میں نے ایسا کہا"

روشانے نہیں چاہتی تھی کہ ضیغم اُس سے ناراض ہو کر کمرے سے جائے اِس لیے وہ بات بناتی ہوئی ضیغم سے بولی


ابھی وہ کچھ اور بھی بولتی ضیغم نے اس کا بازو پکڑ کر اسے پیچھے دھکا دیا جس سے روشانے دو قدم پیچھے ہوئی


"اب نہ میرے پیچھے آنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی مجھ سے بات کرنے کی ضرورت ہے"

وہ سخت لہجے میں روشانے سے بولتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا


****


رات والا منظر بار بار یاد اس کی آنکھوں کے سامنے آکر اُسے پاگل کئے دے رہا تھا جب اُسے خبر ملی کہ ضیغم جتوئی روشانے کو لے کر آج ہی اپنی حویلی پہنچا ہے،، تو وہ رات کے پہر روشانے سے ملنے کے غرض سے دشمنوں کی حویلی پہنچا۔۔۔ بہت احتیاط کے ساتھ ضیغم جتوئی کے کمرے کی بالکونی تک پہنچا تو اُسے اندر کی صورتحال کا ہرگز اندازہ نہیں تھا مگر وہ منظر دیکھ کر اُس کی آنکھوں سے شرارے نکلنے لگے


جب تیمور خان وہاں سے واپس جانے کا ارادہ کیا تب تک روشانے اُسے دیکھ چکی تھی،، روشانے کے چہرے پر شرمندگی کے ساتھ خوف بھی موجود تھا۔۔۔ تیمور خان چاہتا تھا روشانے خود ضیغم کو اپنے آپ سے دور کرے اس لیے نہ چاہتے ہوئے،، خود پر ضبط کرتے ہوئے وہ وہی کھڑا رہا۔۔۔ وہ شرمندہ تھی بے بس تھی اور اُسے دور ہٹا رہی تھی مگر وہ ضیغم جتوئی۔۔۔


تیمور خان کا خون کھولنے لگا اُس کے خاندان کی لڑکی جس کی پرورش اُس کے ماں باپ نے کی، جس کے ساتھ اس کا نکاح ہونے والا تھا اُس لڑکی کے ساتھ اُس کا دشمن۔۔۔ بے شک اب وہ روشانے کا شوہر تھا مگر تیمور خان کا دل چاہا وہ کمرے میں جاکر ضیغم جتوئی کے ٹکڑے کر دے۔۔۔ اُس سے پہلے کہ بات حد سے زیادہ آگے بڑھتی اور شرم کی دیوار قائم نہیں رہتی تیمور خان وہاں سے چلا آیا


رات بھر وہ شراب پیتا رہا تھا مگر اس کا غصہ کم نہیں ہو رہا تھا اب جبکہ وہ صبح بیدار ہوچکا تھا دماغ کو کئی طرح کی سوچ منتشر کئے دے رہی تھی،، شاید اُسے سب کچھ بھول جانا چاہیے۔۔۔ مطلب اپنے دشمنوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔۔۔ روشانے کو وہ یہاں لا کر کیا کرے گا،، بے شک وہ اِس خاندان کی لڑکی تھی لیکن اب روشانے کا مقدر اُس کے دشمنوں کا ٹھکانا بن چکا تھا۔۔۔ اب اُسے ساری باتیں فراموش کرکے اپنی ذات کے بارے میں سوچنا چاہیے۔۔۔ تیمور خان کے اندر مثبت سوچو نے جنم لیا تو اپنے کمرے میں گھٹن کا احساس بڑھنے لگا، وہ کمرے سے باہر نکل آیا


"کیا کر رہی ہیں ژالے بی بی"

ملازمہ کو ژالے کے کمرے سے باہر نکلتا ہوا دیکھ کر تیمور خان اُس سے پوچھنے لگا


"ابھی کھانا دے کر آئی ہوں مگر وہ لیٹی ہوئی آرام کر رہی ہیں"

ملازمہ نے تیمور خان کو بتایا تو تیمور خان نے ژالے کے کمرے کا رخ کیا


****


وہ ژالے کمرے میں آیا تو ژالے آنکھیں بند کئے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی


"محبت حاصل وصول کو سوچ سمجھ کر نہیں کی جاتی خان، وقت تو ژالے کے ہاتھ سے کب کا نکل گیا ہے۔۔۔ اس نے تمہیں تب سے اپنے دل میں بسایا ہے جب وہ خود اس جذبے سے واقف نہیں تھی"

ژالے کے الفاظ،، محبت کے اظہار کی صورت یاد کرکے تیمور خان کا دل بے اختیار دھڑکا


اور پھر میں نے روشانے کا نام لے کر، یہ تک نہیں سوچا کہ اس لڑکی کا دل کیسے ٹوٹا ہوگا۔۔۔ اگر میں اُس دن شراب کے نشے میں، میں اِس لڑکی کے ساتھ زیادتی کر بیٹھتا تو کھبی بھی سر اُٹھانے کے لائق نہیں رہتا۔۔۔ تیمور خان دل ہی دل میں اپنے اوپر ملامت کرتا ہوا بیڈ پر ژالے کے قریب آکر بیٹھا


روشانے پر نہ ہی وہ کوئی حق رکھتا تھا اور نہ ہی اُس کا اختیار تھا مگر اپنے سامنے لیٹے اِس وجود کے سارے حقوق اور اختیارات وہ اپنے نام کر چکا تھا جو کہ اس کی محبت کی دعویدار بھی تھی۔۔۔ تیمور خان گہری نظروں سے ژالے کا چہرہ دیکھنے لگا۔۔۔ اُسے لگا اگر آج ژالے اسے محبت سے اپنالے گی تو وہ ہمیشہ کے لئے ہر برے کام چھوڑ سکتا ہے۔۔۔ آج وہ نہ جانے خود کو کیوں بکھرا ہوا اور ٹوٹا ہوا محسوس کر رہا تھا


وہ ژالے کے چہرے کے قریب جھک کر اس کے ماتھے پر موجود زخم پر انگلی پھیرنے لگا۔۔۔ جب تیمور خان نے اپنے ہونٹ ژالے کے ماتھے پر رکھے، تو ایک سکوت سا سارے ماحول پر طاری ہوگیا۔۔۔ یہی عمل اُس نے دوبارہ دہرایا مگر اب کی بار اُس نے ژالے کے ماتھے کی بجائے اپنے ہونٹ اُس کے ہونٹوں پر رکھے تھے


بخار کی تیزی کافی حد تک کم ہونے کے باوجود وہ کافی نقاہت محسوس کر رہی تھی اِس لیے اپنے ماتھے پر ہونٹوں کے لمس کے احساس سے کوشش کرنے کے باوجود آنکھیں نہیں کھول پائی لیکن جب یہی عمل اس کے ہونٹوں پر دہرایا گیا تو ژالے نے فوراً اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔ تیمور خان کو اپنے ہونٹوں پر جھکا ہوا دیکھ کر اُسے شدید جھٹکا لگا تھا۔۔۔ اپنے دونوں ہاتھ تیمور خان کے سینے پر رکھ کر اُسے پیچھے دھکیلتی ہوئی ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گئی


"کیا کرنے لگے تھے خان تم میرے ساتھ۔۔۔ اُس دن مجھے لوٹنے کی کوشش تکمیل تک نہیں پہنچی تو اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے یوں دن دہاڑے میرے کمرے کے اندر چلے آئے ہو۔۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی اس کمرے میں آنے کی نکل جاؤ، میں کہتی ہوں نکل جاؤ یہاں سے"

ژالے غصّے میں بری طرح ہانپتی ہوئی بولی


"جو اپنی چیز ہو اُن کو لوٹا نہیں جاتا۔۔۔ بس سارے اختیارات حاصل ہونے چاہیے، جو کہ نکاح کے بعد مجھے حاصل ہو چکے ہیں، اس کمرے میں آنے کی یا تمہیں چھونے کی کسی سے اجازت درکار نہیں ہے مجھے"

تیمور خان نے بولتے ہوئے ژالے کو اپنی باہوں میں بھرنا چاہا تو وہ بدک کر پیچھے ہوئی اور فوراً بیڈ سے نیچے اتر گئی


"اپنی حد میں رہو خان،، میں تمہیں اپنے آپ کو چھونے کی اجازت ہرگز نہیں دوں گی۔۔۔ اگر تمہیں ایسی کوئی ضرورت درکار ہے تو بے شک تم اپنی خواہش کے حصول کے لیے کسی دوسری عورت کے پاس جا سکتے ہو"

ژالے تیمور خان کو دیکھ کر غُراتی ہوئی بولی


"سوچ لو اگر آج میں کہیں اور چلا گیا،، تو تم اپنے ساتھ ساتھ اُس کی زندگی بھی برباد کرو گی،، جس کے پاس میں تمہاری ٹھوکر کھا کر جاؤنگا۔۔۔ آج خان خود تمہارے پاس آیا ہے۔۔۔ میرے اِس بکھرے وجود کو سمیٹ لو،، آج مجھے اپنا بنا لو ژالے۔۔۔ خان تاعمر پھر تمہارا ہی رہے گا"

وہ تھکے ہوئے انداز میں بولا تو ژالے اسکو دیکھ کر طنزیہ مسکرائی


"اوو تو تم روشانے کی یادوں کو بھلانے کے لئے میرے وجود کا سہارا لے رہے ہو،، ایک بات میری یاد رکھنا،، تم روشانے کو کبھی بھی حاصل نہیں کر سکتے۔۔۔ نہ اس کو حاصل کر سکتے ہو اور نہ اب مجھے پا سکتے ہو نکل جاؤ میرے کمرے سے"

ژالے تڑخ کر بولی تو تیمور خان سے اپنا غصہ روکنا محال ہوگیا وہ ایک دم بیڈ سے اُٹھ کر ژالے کے پاس آیا اور سختی سے اُس کے دونوں بازو پکڑے


"جس سے محبت کا دعوا کیا جائے اُس کے ساتھ ایسا سلوک جائز نہیں ہے۔۔۔ کہاں گئی اب وہ تمہاری محبت، جس کا تم نے مجھ سے میرے سامنے اعتراف کیا تھا"

تیمور خان ژالے کے دونوں بازوؤں کو جھنجھوڑتا ہوا پوچھنے لگا تو ژالے ہونٹوں پر زخمی مسکراہٹ سجاتی ہوئی اُسے دیکھنے لگی


"کس محبت کی بات کر رہے ہو تم مجھ سے خان۔۔۔ اُس محبت کی جس کا گلا تم نے خود اپنے ہاتھوں سے گھونٹ کر مجھ سے میری ذات کا غرور چھیننا چاہا۔۔۔ وہ محبت تو اُسی دن مر چکی تھی جس دن تم نے مجھے طاقت کے نشے میں بری طرح روندھ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔۔۔ اب میرے پاس تمہیں دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے"

ژالے اپنے بازوؤں سے اس کے دونوں ہاتھوں جھٹکتی ہوئی بولی تو وہ شرمندہ ہونے کی بجائے مزید مشتعل ہوا


"میری محبت اپنے دل سے نکال کر اب کسے اپنے دل میں بسانے کا ارادہ رکھتی ہوں تم، اُس خرم کو۔۔۔ جبھی دوڑ دوڑ کر اُس کے پاس جاتی ہو۔۔۔ میں تمہیں کبھی بھی آزاد نہیں کروں گا چاہے تم کتنے ہی ہاتھ کر مار لو،، اُس خرم کو بھی دیکھ لوں گا اور اب روشانے کو بھی واپس اِس حویلی میں نہ لایا تو میرا نام تیمور خان نہیں"

اپنے آپ کو ٹھکرائے جانے پر وہ غُصے میں پاگل ہونے لگا جبھی وہ ژالے کو دھمکی دیتا ہوا اُس کے کمرے سے باہر نکل گیا


****

"یہ تیرے باپ کا گھر ہے جو اتنی دیر تک پلنگ توڑ رہی ہے، ناشتہ کون بنائے گا تیرا تایا۔۔۔ چل اٹھ اور سیدھا باورچی خانے میں جا"

رات میں ضیغم روشانے سے ناراض ہو کر کمرے سے گیا تھا تو اِس فکر میں روشانے کو کافی دیر بعد میں نیند آئی۔۔۔ اُسے معلوم ہی نہیں ہوا کب صبح ہوئی اور کشمالا اُس کے سر پر آکر کھڑی اُس کے ساتھ ساتھ اُس کے خاندان کو کوسنے لگی


"سوری مامی میں بس دو منٹ میں کچن میں جاتی ہوں"

روشانے بدحواسی میں کہتی ہوئی بیڈ سے اٹھی اُس کی آنکھیں ابھی بھی صحیح طرح نہیں کھلی تھی،، وہ بالوں کا جوڑھا بنا کر اپنے پاؤں میں سلیپرز پر پہنتی ہوئی واش روم کا رخ کرنے لگی تبھی کشمالا نے اُس کا ہاتھ زور سے پکڑا


"تو مہارانی ہے جو اپنے کام پہلے کرے گی، اپنے جو بھی کام ہو وہ بعد میں کر، جا پہلے سب کے لئے ناشتہ بنا"

کشمالا نے بولنے کے ساتھ ہی اُسے کمرے کے دروازے کی طرف زور سے دھکا دیا،


اُس کا سر کمرے کے اندر داخل ہونے والے کے سینے سے زور سے ٹکرایا۔۔۔ ضیغم نے روشانے کے دونوں بازو پکڑ کر اُس کو تھاما۔۔۔ اگر وہ اِس وقت اتفاق سے کمرے میں داخل نہیں ہوتا تو روشانے کو بہت زور سے کمرے کا دروازہ لگتا


ضیغم سے ٹکر ہونے کے باعث اب روشانے کی پوری آنکھیں کُھل چکی تھی اور ذہن بھی اچھی طرح بیدار ہوچکا تھا۔۔۔ اُس نے ضیغم کے سینے سے سر اٹھا کر اُسے دیکھا جو افسوس اور غصّے کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ سامنے کھڑی کشمالا کو دیکھ رہا تھا


"کیا سمجھ رکھا ہے آپ نے اِس کو، یہ کسی کمی کمین کی اولاد نہیں ہے جو آپ نے اِس کے ساتھ ایسا رویہ رکھا ہوا ہے۔۔ کیا بگاڑا ہے اِس نے آپکا،، کیوں رحم نہیں آتا آپ کو اُس پر،، خدا کا واسطہ ہے ماں تھوڑا ترس کھا لیں اِس پر"

کشمالا کا روشانے کے ساتھ سلوک دیکھ کر وہ نہ صرف کشمالا سے ناراض ہوا تھا بلکہ کشمالا پر بگڑتا ہوا بولا۔۔۔ جس پر کشمالا کو بھی ضیغم پر غُصہ آیا


"اس بد ذات کے پیچھے تُو مجھ زبان چلا رہا ہے۔۔۔ ارے ایسا کیا بول دیا میں نے اِس کو،، یہی تو بولا ہے جا کر سب کے لیے ناشتہ بنا۔۔۔ رات سے تو بستر پر پڑی ہے اور کتنا ارام کرے گی"

عام طور پر ضیغم کو غُصے میں دیکھ کر کشمالا خاموش ہو جایا کرتی تھی مگر اِس وقت وہ ضیغم سے زیادہ تیز آواز میں بولی کیونکہ اِس کا بیٹا رباب کی بیٹی کے سامنے اُس کو باتیں سنا رہا تھا


"اگر آپ نے اِس کے ساتھ یہی سلوک کرنا ہے تو ٹھیک ہے میں آج ہی اِس کو اپنے ساتھ لے کر یہاں سے چلا جاتا ہوں۔۔۔ یہ بیوی ہے میری، آپ اِس کے ساتھ نوکروں سے بھی زیادہ بدتر سلوک کریں گیں تو یہ مجھے برداشت نہیں ہوگا"

ضیغم روشانے کے بازو چھوڑ کر کشمالا سے بولا


ویسے ہی ضیغم اور کشمالا کی آوازیں سن کر فیروز جتوئی ضیغم کے کمرے کے اندر داخل ہوا


"چار دن سے تم بخار میں پڑی رہی تو تمہیں اپنی آخرت یاد آ رہی تھی،، ابھی تھوڑا بہت بخار کیا کم ہوا تمہارا،، واپس تم اپنی اوقات میں آگئی۔۔۔ صبح ہوتے ہی لڑائی جھگڑے چیخ و پکار۔۔۔۔ میں پوچھتا ہوں آخر ایسی کون سی آفت آ پڑی ہے"

فیروز جتوئی کمرے میں آنے کے ساتھ ہیں ڈائریکٹ کشمالا پر بری طرح چیخا جس پر ضیغم خاموش کھڑا تھا جب کے روشانے بالکل سہم گئی


"مجھ پر پھٹکار مت برساؤ صبح صبح سائیں، اِس جورو کے غلام کو بھی سمجھاؤ،، جس کی بیوی کو ناشتہ بنانے کے لیے کیا بول دیا، مجھے یہاں سے جانے کی دھمکی دے رہا ہے"

کشمالا فیروز جتوئی سے کہتی ہوئی ضیغم کی طرف اشارہ کرنے لگی


"اِس کی بیوی کیوں ناشتہ بنائے گی، مہینے بعد سسرال میں کام کرنے آئی ہے یہاں، آج ناشتہ سب کے لیے تم بناؤ گی،، کافی دن اپنی ہڈیوں کو آرام دے لیا ہے اب سیدھا یہاں سے باورچی خانے میں جاؤ اور سب کے لیے ناشتہ بناؤ۔۔۔ خبردار جو تم نے شانو کی زرا بھی مدد لی"

ضیغم کی غیر موجودگی اور کشمالا کی طبیعت خرابی کی وجہ سے فیروز جتوئی نے چند دنوں سے اُس سے کافی نرم رویہ رکھا تھا مگر اُس وقت وہ کشمالا کو سخت لہجے میں حکم دیتا ہوا بولا۔۔۔ کشمالا غصّے میں ضیغم اور روشانے کو دیکھتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی


"میرا یہ مطلب نہیں تھا کہ روشی یہاں آئے تو کسی کام کو ہاتھ نہیں لگائے، مگر ماں جو لہجہ اختیار کرتی ہیں اور جو اِس کے ساتھ سلوک کرتی ہیں مجھے وہ بالکل پسند نہیں ہے بابا سائیں۔۔۔ جاؤ روشی ماں کے ساتھ ناشتہ بناؤ جاکر"

ضیغم فیروز جتوئی کو بولتا ہوا ساتھ ہی روشانے کو کچن میں جانے کا اشارہ کرتا ہوا بولا۔۔۔ اب کی بار اُسے یہاں آکر خود اچھا نہیں لگ رہا تھا


"اسی لئے ہفتے میں دو بار اُس کی مرمت کرتا ہوں تبھی ٹھیک رہتی ہے، کوئی ضرورت نہیں ہے اِسے باورچی خانے میں بھیجنے کی، آج اپنی ماں کو ناشتہ بنانے دو، اُس کا جو ہلکا پھلکا بخار رہ گیا ہے خود ہی اتر جائے گا"

فیروز جتوئی ضیغم کو کہتا ہوا اُس کے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔ جس پر ضیغم افسوس سے سر ہلانے لگا جبکہ روشانے نے جلدی سے اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا


"سائیں"

ضیغم واش روم کا رُخ کرنے لگا تبھی روشانے نے اُس کو پکارا،، وہ مسکرا کر ضیغم کے پاس آئی اور اُس کے سینے سے لگ گئی، روشانے کو لگا وہ رات والی ناراضگی ختم کر چکا تھا جبھی اُس کے ساتھ ایسی بدسلوکی برداشت نہیں کر پایا


"تمہیں کس نے کہا مجھ سے فری ہونے کو،، کل رات میری بولی ہوئی بات سمجھ میں نہیں آئی تمہیں"

ضیغم نے اپنی کمر پر باندھے ہوئے روشانے کے ہاتھ ہٹا کر اُسے خود سے الگ کرتا ہوا بولا


روشانے حیرت سے اُسے دیکھنے لگی وہ روشانے پر نظر ڈال کر واش روم چلا گیا


****


"امی کیا ہوا ژالے کو"

تیمور خان ابھی ابھی ہاہر سے آیا تھا تو اُسے ملازم سے معلوم ہوا کہ ژالے کے لیے ڈاکٹر کو بلوایا گیا ہے تبھی وہ ہال میں موجود زرین سے پوچھنے لگا۔۔۔ کبریٰ خاتون سردار اسماعیل خان اور زرین سے وہ معافی مانگ چکا تھا اور وہ تینوں ہی اُسے اکلوتا ہونے کی وجہ سے معاف کرچکے تھے


"بخار کی وجہ سے کافی کمزور محسوس کر رہی تھی، اماں حضور کے حکم سے ڈاکٹر کو یہی بلوا لیا ہے"

زرین تیمور خان کو جواب دیتی ہو کچن کا رخ کرنے لگی


"ڈاکٹر کے علاوہ اور کمرے میں کون موجود ہے"

تیمور خان پیشانی پر بل لیے زرین سے دوسرا سوال کرنے لگا


"میں ہی موجود تھی وہاں ابھی ابھی ڈاکٹر کے کہنے پر آئی ہوں تاکہ ژالے کو دوا دے سکو"

زرین کے بتانے پر وہ ماتھے پر بل لئے ژالے کے کمرے میں داخل ہوا


"اے ہاتھ چھوڑ اُس کا"

ڈاکٹر بیڈ پر بیٹھی ہوئی ژالے کی نبض چیک کر رہا تھا تیمور خان کمرے کے اندر داخل ہوتا ہوا ڈاکٹر سے بولا ڈاکٹر نے فوراً ژالے کی کلائی چھوڑی اور بیڈ کے پاس رکھی ہوئی کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا


"خان میں چھوٹی بی بی کی نبض چیک کر رہا تھا۔۔۔ بی بی حضور کے حکم پر ہی یہاں بلوایا گیا ہے مجھے"

ڈاکٹر تیمور خان کو اپنی صفائی دیتا ہوا بتانے لگا


"ایسی کیا بیماری ہوگئی بی بی کو جو اتنے قریب بیٹھ کر اُس کا علاج ہورہا ہے"

تیمور خان کی بات سن کر ڈاکٹر شرمندہ ہوگیا وہی ژالے تیمور خان کو گھور کر دیکھنے لگی۔۔۔ جب ژالے کو اسٹیچس لگے تھے تب بھی وہ ژالے کے بالکل قریب کھڑا تھا اور تب بھی ڈاکٹر کی وقفے وقفے سے شامت آرہی تھی


"جی وہ کمزوری کی وجہ سے بی پی لو ہو گیا ہے بی بی جی کا۔۔۔ میں بی بی جی کے لیے چند دوائیں اِس پرچے پر لکھ چکا ہوں"

ڈاکٹر ایک بار پھر شرمندہ ہوتا ہوا تیمور خان کو پرچہ دکھانے لگا


"پرچہ جاکر باہر نوشاد کو دے دو اور کمرے سے جاتے ہوئے دروازہ بند کر دینا"

تیمور خان کے حکم پر ڈاکٹر کمرے کا دروازہ بند کر کے کمرے سے باہر نکل گیا


"یہ کون سا طریقہ ڈاکٹر سے بات کرنے کا۔۔۔ تمہیں کیا لگ رہا تھا کیا کر رہا تھا وہ ڈاکٹر میرے ساتھ"

ڈاکٹر کے نکلنے کے ساتھ ہی ژالے تیمور خان کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی۔۔۔ اُسے نقاہت اتنی زیادہ محسوس ہو رہی کہ وہ اپنے آپ کو اٹھنے کے قابل بھی نہیں سمجھ رہی تھی


"میری چیزوں کو کوئی دیکھے، چھوئے یا پھر ہاتھ لگائے یہ مجھے کچھ خاص پسند نہیں، سیدھی سی بات ہے تمہیں اب اِن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے"

تیمور خان کمرے کا دروازہ لاک کرتا ہوا ژالے کے پاس آ کر اُس کے زرد چہرے کو دیکھتا ہوا نرم لہجے میں کہنے لگا


"تمہاری چیز۔۔۔ اپنا جملہ ٹھیک کرو خان میں کوئی چیز نہیں ہوں"

ژالے اُسے اپنے قریب آتا دیکھ کر بولی


"چیز نہ سہی مگر میری تو ہو ناں"

تیمور خان بولتا ہوا اس کے اوپر جھگ چکا تھا جس کی وجہ سے ژالے پیچھے ہو کر بیڈ پر لیٹ چکی


"کیا کر رہے ہو خان"

تیمور خان کو اپنے اوپر جھکا دیکھ کر وہ مزاحمت بھی نہیں کر پائی تھی کیونکہ اس میں بالکل طاقت نہیں تھی


"خان آج تمہارا بی پی نارمل کرنے والا ہے، اپنے انداز میں"

تیمور خان بولتا ہوا ژالے کے ہونٹوں پر جھک چکا تھا۔۔۔ صبح کا غُصہ اور ناراضگی بھولتا ہوا وہ ژالے کے ہونٹوں پر اپنی محبت کی مہر لگاتا ہوا کرسی پر جا بیٹھا


ژالے اُس کے کارنامے پر ابھی بھی بیڈ پر لیٹی ہوئی خاموشی سے اُسے دیکھ رہی تھی جبکہ تیمور خان بیڈ کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھ کر اُس کے اس طرح دیکھنے پر مسکرانے لگا


"شرمانہ ورمانہ نہیں آتا تمہیں دوسری لڑکیوں کی طرح"

ژالے کے دیکھنے پر تیمور خان اُس کا چہرہ دیکھتا ہوا نارمل انداز میں ژالے سے پوچھنے لگا


"شرم تو تمہیں آنی چاہیے خان، کسی بیمار کو دیکھ کر اس کی بیماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے۔ ۔۔۔ ویسے اب تک کتنی لڑکیوں کے ساتھ یہ چھچھوری حرکت کر کے انہیں شرمانے پر مجبور کر چکے ہو تم"

ژالے کے شرمندہ کرنے پر وہ قہقہہ لگا کر زور سے ہنسا


"یہ اسپیشل ٹریٹمنٹ ہے جو پہلی بار خان نے کیا ہے تاکہ تمہاری طبیعت درست ہو سکے"

تیمور خان آنکھ مار کر معنیٰ خیز لہجہ میں بولا


"بد نام گلیوں میں جانے والے انسان کے منہ سے یہ بات کچھ سچی نہیں لگتی کہ اُس نے پہلی بار ایسا کیا ہوگا"

ژالے ابھی تک بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی وہ تیمور خان پر بھرپور طنزیہ انداز میں بولی۔۔۔ کوٹھے پر جانے والا انکشاف کا بھی اُسے روشانے کی زبانی معلوم ہوا تھا۔۔۔ ژالے کی بات سن کر تیمور خان کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی وہ کرسی سے اُٹھ کر ژالے کے پاس آکر بیڈ کر بیٹھا اور اس کا ہاتھ تھامتا ہوا بولا


"میں اللہ اور اس کے حضور کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں نے وہاں پر کبھی کسی لڑکی کے ساتھ نہ کچھ ناجائز کیا ہے اور نہ ہی کسی کو چھوا ہے"

تیمور خان ژالے کا ہاتھ تھام کر اُسے اپنا یقین دلاتا ہوا بولا۔۔۔ ژالے کو تیمور خان سے لاکھ اختلافات سہی مگر اُسے یقین تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی کبھی جھوٹی قسم نہیں کھا سکتا


"لڑکیوں کو ناچتا ہوا دیکھ کر کون سا ثواب ملتا ہے،، مت جایا کرو ایسی بد نام جگہ پر"

اُن دونوں کے نکاح کے بعد سے آج پہلی بار ژالے اُس سے یوں نارمل انداز میں بات کر رہی تھی شاید اپنی طبیعت خرابی کی وجہ سے اُس میں انرجی ختم ہوچکی تھی کہ وہ تیمور خان سے لڑ سکے یا اُس پر غُصہ کر سکے


"نہیں جاؤں گا، اب کبھی بھی نہیں جاؤں گا بس تم اچھا سا ناچنا سیکھ لو،، جب دل چاہے گا تم سے ہی کبھی کبھی فرمائش کر لیا کروں گا"

تیمور خان اتنا سیریس ہو کر بول رہا تھا ژالے کو سمجھ میں نہیں آیا وہ مزاقاً کہہ رہا ہے یا پھر واقعی سنجیدہ ہے۔۔۔ مگر اُس کا دل کہہ رہا تھا کہ وہ سچ بول رہا ہے


"شراب جیسی گھٹیا چیز کو بھی منہ لگانا چھوڑ دو خان"

ژالے تیمور خان کو دیکھ کر دوبارہ بولی جس پر وہ ژالے کو خاموشی سے دیکھنے لگا


"تم اپنی ساری شرطیں منوا سکتی ہوں اپنے خان سے خدا کی قسم ہر برا کام چھوڑ دوں گا جو کہو گی مان لوں گا،، بس اپنے مرضی سے اپنے خان کی دسترس میں آ جاؤں"

تیمور خان بولتا ہوا ایک بار پھر ژالے پر جھگ چکا تھا۔۔ اُس کے ہونٹوں کا لمس اپنی گردن پر محسوس کر کے ژالے کی آنکھوں سے آنسو رواں ہونے لگے


وہ بغیر ہِل جُل کے کسی بے جان وجود کی طرح بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی تیمور خان اُس کی گردن پر جُھک کر اس کے قُرب سے مدہوش ہوتا ہوا اُس کا دوپٹہ اتار کر ژالے کی قمیض اُس کے کندھوں سے نیچے سرکاتا ہوا اسکے شولڈر پر ہونٹ رکھ چکا تھا


"خان پیچھے ہٹ جاؤ پلیز"

ژالے بغیر کسی مزاحمت کے لرزتی ہوئی آواز میں بولی تو تیمور خان اٹھ کر بیٹھ گیا اور اُس کا آنسوؤں سے تر چہرہ حیرت سے دیکھنے لگا

"تم مجھ سے محبت نہیں کرتے اِس کے باوجود میری قربت کے لئے ہر شرط ماننے کے لئے تیار ہو،، میں تم سے محبت کرنے کے باوجود تمہاری یہ شرط نہیں مان سکتی۔۔۔ کیونکہ تم نے میری محبت کی تزلیل جس انداز میں کی ہے میں چاہ کر بھی اُس کو بھول نہیں پا رہی ہو، چلے جاؤ میرے کمرے سے خان پلیز"

ژالے روتی ہوئی بولی تو تیمور خان بغیر کوئی دوسری بات کیے اُس کے کمرے سے باہر نکل گیا

****

دوپہر تک حویلی میں ایک رونق کا سما تھا، ضیغم کی تینوں بہنیں اپنے شوہر اور بچوں کے سمیت حویلی میں موجود تھی۔۔۔ اور وہ تینوں ہی روشانے سے بہت اچھی طرح ملیں،، توقع کے برخلاف کشمالا کافی خاموش تھی،، یقیناً فیروز جتوئی نے اُسے سختی سے وارننگ دی ہوگی۔ ۔۔ روشانے اُن سب کے درمیان اپنے آپ کو بالکل تنہا محسوس نہیں کر رہی تھی اسے صرف الجھن دلاویز کے شوہر جاوید کی نظروں سے ہو رہی تھی جو بہت عجیب طریقے سے اُسے دیکھ رہا تھا مگر تھوڑی دیر بعد ہی ضیغم نے اُسے کمرے میں جاکر آرام کرنے کو کہا۔۔۔ شاید ضیغم اُس کی الجھن بھانپ گیا تھا یا پھر جاوید کی نظروں کو،، ضیغم اُس سے کل رات والی بات پر ابھی تک ناراض تھا جبھی وہ اپنی بہنوں سے ہنس کر بات کر رہا تھا مگر روشانے کی ایک دو باتوں کا جواب اُسے نارمل انداز میں دیا تھا وہ الگ بات تھی وہ اپنی اور روشانے کی ناراضگی کا کسی دوسرے کو محسوس نہیں ہونے دے رہا تھا


رات میں کھانے کے بعد سب واپس جا چکے تھے اب ڈرائنگ روم میں صرف شمشیر جتوئی فیروز جتوئی کشمالا اور ضیغم موجود تھے تو روشانے سب کے لیے قہوہ بنا کر ڈرائنگ روم کے اندر داخل ہوئی تب کشمالا کی آواز اُس کے کانوں میں پڑی


"تو پھر کیا سوچا ہے تُو نے پلورشہ کی نند کے بارے میں۔۔۔ اپنی رضامندی دے تاکہ میں پلورشہ کے سُسرال جا کر باقاعدہ رشتے کی بات کر سکوں،، واپس شہر جانے سے پہلے یہ معاملہ حل کر کے جانا ہے تجھے"

کشمالا یقیناً ضیغم سے مخاطب اُس کی بات کا مفہوم سمجھ کر روشانے کے ہاتھ میں لرزرش ہوئی، وہ جو کشمالا کی طرف قہوہ دینا چاہ رہی تھی گرم قہوہ کشمالا کے پاؤں پر چھلک پڑا


"ہائے جلا دیا اِس بدبخت نے میرا پاؤں، اب تو میں تجھے بالکل نہیں چھوڑوں گی"

کشمالا روشانے کو کوسنے لگی اِس سے پہلے وہ اٹھ کر روشانے کی درگت بناتی، ایک دم ضیغم صوفے سے اُٹھ کر غُصے میں روشانے کے پاس آیا


"کوئی کام تمہیں سیدھا کرنا آتا ہے کہ نہیں، فوراً جاؤ اپنے کمرے میں"

ضیغم روشانے کے ہاتھ میں موجود قہوے کی ٹرے کو ٹیبل پر رکھتا ہوا روشانے کا بازو پکڑ کر اُسے کمرے کے دروازے تک لایا اور کمرے سے نکلنے کے لیے کہا۔۔۔ روشانے تیز قدموں سے سیڑھیاں چڑھتی ہوئی بیڈ روم میں جا پہنچی


روشانے کو اندازہ تھا ضیغم اُس پر غصّہ نہیں کرتا یا کمرے سے نہیں نکالتا تو کشمالا کو اُسے مارنے کا جواز مل جاتا۔۔۔ روشانے ضیغم کا بیڈ روم میں پہنچ کر اس کے آنے کا انتظار کرنے لگی


****


آج کا دن اُس کا کافی مصروف گزرا تھا اپنی بہنوں کے ساتھ وقت گزار کر اُسے کافی اچھا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ وہ روشانے سے ابھی تک کل والی بات پر ناراض تھا اِس کے باوجود اُسے کشمالا کا روشانے کو حراساں کرنا بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا۔۔ ضیغم جانتا تھا پلورشہ کی نند سے رشتے والی بات سن کر روشانے ایک دم پریشان ہو گئی تھی۔۔۔ اُس سے پہلے کشمالا کسی سخت رد عمل کا اظہار کرتی ہے ضیغم نے غصّے کا اظہار کر کے خود اُسے کمرے سے نکال دیا۔۔۔ روشانے کے وہاں سے جانے کے بعد اُس نے صاف لفظوں میں سب کے سامنے کشمالا کو کہہ دیا تھا کہ وہ دوسری شادی میں دلچسپی نہیں رکھتا وہ روشانے کے ساتھ مطمئن اور خوش ہے


اِس وقت ضیغم کشمالا کے اسرار پر اپنے کمرے میں جانے کی بجائے اُسی کے کمرے میں موجود لیپ ٹاپ پر مصروف تھا تب اُس کے موبائل پر روشانے کا میسج آیا۔۔۔ ایک نظر اُس نے سوتی ہوئی کشمالا پر ڈال کر اپنا موبائل اٹھایا


"سائیں پلیز اپنے کمرے میں آئے ضروری بات کرنی ہے آپ سے"

ضیغم میسج پڑھتے ہی لیپ ٹاپ سے توجہ ہٹا کر روشانے کو رپلائی کرنے لگا


"خاموشی سے چپ کر کے سو جاؤ میں بزی ہوں اِس وقت"

روشانے کو میسج سینڈ کر کے اُس کا دھیان روشانے کی طرف جا چکا تھا، اب اُس کام میں دل نہیں لگتا اِس لیے وہ لیپ ٹاپ بند کر کے کمرے میں موجود بالکونی میں کھڑا ہو کر اسموکنگ کرنے لگا۔۔۔ نہ چاہتے ہوئے بھی روشانے کے میسج کا انتیظار کرنے لگا جیسے ہی میسج ٹون بجی تو وہ میسج چیک کرنے لگا


"سائیں اگر آپ کمرے میں نہیں آئے تو میں ساری رات روتی رہو گی" روشانے کا میسج پڑھنے کے بعد ضیغم کی بھنویں تنی


"مجھے تمہارے رونے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا روتی رہو ساری رات"

میسج سینڈ کرنے کے بعد پندرہ منٹ گزر چکے تھے مگر روشانے کا دوبارہ میسج نہیں آیا تو ضیغم کو بےچینی ہونے لگی


"بے وقوف لڑکی شاید رونے ہی بیٹھ گئی ہے سچ میں"

وہ بڑبڑا کر سگریٹ کا ٹکڑا پھینکتا ہوا سوتی ہوئی کشمالا پر نظر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گیا


****


"جب میرے رونے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا تو کیوں آئے پھر یہاں پر"

بیڈ روم میں ضیغم کو داخل ہوتا دیکھ کر روشانے کمرے کا دروازہ بند کرتی ہوئی اُس سے شکوہ کرنے لگی مگر وہ خوش تھی اُس کا یقین رائیگاں نہیں گیا اُس کا سائیں اُس کے بلانے پر آگیا تھا


"کام کی بات کرو جس کے لئے تم نے مجھے یہاں بلایا ہے"

ضیغم اس بات کو نظر انداز کرتا ہوا سنجیدہ لہجے میں بولا تو روشانے چلتی ہوئی اُس کے پاس آئی


"مامی کے سامنے اسموکنگ کر رہے تھے آپ۔۔۔ یہ کوئی اچھی بات تو نہیں ہے"

اپنا چہرہ ضیغم کے چہرے کے نزدیک لاتی ہوئی،، وہ اُس کی سانسوں سے اٹھتی سگریٹ کی خوشبو کو محسوس کرتی بولی


"کام کی بات کرو کیوں بلایا ہے مجھے"

ضیغم دوبارہ اپنی بات دہراتا ہوا بولا شال میں لپٹی ہوئی اپنی بیوی کو دیکھنے لگا جس نے اپنے بالوں کو چٹیاں کے انداز میں بل ڈال کر ایک طرف کاندھے سے آگے کیا ہوا تھا


"کام کی بات یہ ہے کہ میں کافی دیر سے آپ کا انتظار کر رہی تھی کمرے میں کیوں نہیں آرہے تھے آپ"

وہ خفا خفا سی خاص بیویوں والے انداز میں ضیغم سے پوچھنے لگی


"عادت ڈال لو کبھی کبھی اکیلے رہنے کی، کیونکہ جب دوسری آجائے گی تو اکثر ایسا ہوا کرے گا"

ضیغم نے جتنی سنجیدگی سے یہ جملہ ادا کیا روشانے اُس کو گھور کر دیکھنے لگی


"ایک بیوی پر گزارا نہیں ہو رہا آپ کا"

وہ اب برا مانتی ہوئی ضیغم سے پوچھنے لگی


"میں تو سادہ سا بندہ ہوں ایک بیوی سے ساری زندگی کام چلا سکتا ہوں۔۔ لیکن اگر بیوی ہی شوہر کی چاہت کی طلبگار نہ ہو اور اُسے بلاوجہ کے نخرے دکھائے۔۔۔

ضیغم کا جملہ ابھی مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ اچانک روشانے نے ضیغم کے دونوں گالوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر اُس کے ہونٹوں پر بے حد آہستگی سے اپنے گلابی ہونٹ رکھ دیے۔۔۔ وہ ایسا کر کے ضیغم کو اپنی چاہت کا بتانا چاہتی تھی اور ساتھ ہی اس کی ناراضگی بھی دور کرنا چاہتی تھی


جبکہ دوسری طرف ضیغم روشانے کے اِس اقدام پر اچھا خاصا حیرت ذدہ ہوا تھا شادی کے ایک ماہ گزرنے کے باوجود اُس نے یہ بے باک مظاہرہ آج سے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔۔۔ روشانے اپنے اِس عمل پر اب خود بھی جھجھک کر پیچھے ہٹنے لگی تبھی ضیغم نے اُس کی کمر کے گرد اپنے بازو حائل کرتے ہوئے دوبارہ اُسے خود سے نزدیک کیا۔۔۔ اب کی بار وہ روشانے کے ہونٹوں کو قید کر چکا تھا،، جب ضیغم کی گرفت میں نرمی آئی تو روشانے اُس سے دور ہوئی


"پھر آگے کیا ارادہ ہے اب"

ضیغم اُس سے خوشگوار موڈ میں پوچھنے لگا جبکہ روشانے جُھکی ہوئی پلکوں کو اٹھا کر اُسے دیکھنے لگی


"اب آپ مامی کے کمرے میں واپس چلے جائیں"

روشانے اُس کی ناراضگی ختم کر چکی تھی اِس لیے مسکراہٹ چھپاتی ہوئی بولی


"سچ میں چلا جاؤں واپس"

ضیغم سنجیدہ ہو کر روشانے سے پوچھنے لگا۔۔۔ تو روشانے بیڈ کی طرف قدم بڑھاتی ہوئی بیڈ پر جا کر بیٹھ گئی


"جا کر دکھائیں"

روشانے نے بولتے ہوئے اپنے گرد لپٹی ہوئی شال اُتار کر ایک طرف رکھی۔۔۔ اُسے نائٹی میں دیکھ کر ضیغم نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے بھنویں اچکائی،، یہ نائٹی ضیغم ہی اُس کے لئے لے کر آیا تھا لیکن اُس کا استعمال روشانے آج پہلی بار کر رہی تھی۔۔۔ روشانے ضیغم کو دیکھ کر بالوں میں ڈلے چٹیا کے بل کھولنے لگی جس پر ضیغم زور سے ہنستا ہوا اُس کے پاس آیا


"سارے طریقے آتے ہیں تمہیں ناراض شوہر کو منانے کے"

وہ اپنی ٹی شرٹ اتار کر روشانے پر جُھکتا ہوا اُس سے پوچھنے لگا


"مامی کی شادی والی شرط پر آپ انہیں منع کر دیئے گا سائیں"

وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی، ضیغم کو اپنے اوپر جھکتا ہوا دیکھ کر سنجیدگی سے بولی۔۔ کشمالا کی طرف سے اسے عجیب ڈرکا لگا رہتا تھا


"یار وہ ماں ہیں میری، اُن کا حکم تو نہیں ٹال سکتا۔۔۔ دوسری والی یہی رہے گی حویلی میں تمہیں ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے"

ضیغم اُسے چھیڑنے والے انداز میں بولا مگر روشانے بالکل سیریس ہو کر اُسے دور ہٹاتی ہوئی خود اُٹھنے کی کوشش کرنے لگی


"یار پندرہ دن تمہارے پاس گزار کر،، صرف دو دن کے لیے اُس بے چاری کے پاس آیا کروں گا اب تو ٹھیک ہے نا"

روشانے کو واپس لٹاتا ہوا وہ روشانے کا سیجیدہ چہرہ دیکھ کر اُس سے بولا۔۔۔ تو روشانے کی آنکھوں میں نمی بھرنے لگی،، جسے چھپانے کے لئے روشانے نے اپنے چہرے کا رخ تکیہ کی طرف کر لیا


"آوئے میں مذاق کر رہا تھا۔۔۔ روشی یہاں دیکھو میری طرف۔۔۔ تمہیں لگتا ہے تمہارا سائیں ایسا کر سکتا ہے"

وہ روشانے کا چہرہ تھام کر اُس کا رخ اپنی طرف کرتا ہوا پوچھنے لگا


"تو ایسے مذاق میں بھی مت بولیے گا۔۔۔ میں کبھی بھی برداشت نہیں کرسکتی آپ کو کسی اور کے ساتھ دیکھ کر۔۔۔ بھلے ہی زندگی میں مجھ سے کتنا ہی خفا ہو جائیں مگر یہ ظلم مجھ پر کبھی مت کیجئے گا سائیں"

روشانے بالکل سنجیدہ ہوگئی تھی۔۔۔ ضیغم نے باری باری اُس کی آنکھوں کو چومتے ہوئے روشانے کو اپنے حصار میں قید کیا


"میں ایسا کبھی بھی نہیں کر سکتا تم ہمیشہ میرے پاس رہنا۔۔۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے کبھی بھی مجھے سے دور مت جانا"

ضیغم اُس کے کانوں میں سرگوشی کرتا ہوا اُس کی گردن پر جُھک چکا تھا۔۔۔


روشانے نے اطمینان سے اپنی آنکھیں بند کرلی۔۔۔ وہ خود بھلا کہاں اس سے دور رہ سکتی تھی،، کسی خیال کے تحت روشانے نے آنکھیں کھولی سامنے بالکنی کے بند دروازے اور کھڑکی پر ڈھکے پردے پر اپنی نظر ڈالی۔۔۔ اُس نے کمرے میں آنے کے بعد پہلا کام ہی یہ کیا تھا


ضیغم کی بڑھتی ہوئی شدتوں پر اُس کا دھیان دوبارہ اپنے شوہر کی طرف چلا گیا۔۔۔ وہ روشانے کو اپنے حصار میں لے کر مکمل طور پر اُس پر قابض ہو چکا تھا۔۔۔ روشانے بھی ان لمحات میں اپنا آپ، اپنی سوچیں صرف اپنے سائیں کے نام کرنا چاہتی تھی۔۔۔ ضیغم کے گرد اپنے بازوؤں کا حصار بنا کر اُس نے سکون سے آنکھیں موند لی


****


رات کا آخری پہر تھا جب روشانے کی آنکھ کُھلی اُس کے پہلو میں ضیغم بے خبر سو رہا تھا۔۔۔ ماحول میں خنکی کو محسوس کر کے روشانے نے کمفرٹر ضیغم کے اوپر ڈالا کیونکہ اُس کی شرٹ روشانے کی شال کے پاس پڑی ہوئی تھی۔۔۔ روشانے بیڈ سے اٹھ کر کپڑے چینج کرنے واشروم چلی گئی۔۔۔ واپس آکر بالوں کا جوڑا بناتی ہوئی وہ دوبارہ لیٹنے لگی تب اُسے بالکونی میں کسی کے کودنے کی آواز آئی۔۔۔ بالکونی کا بند دروازہ دیکھ کر خوف سے اُس کی آنکھیں پھیلنے لگیں۔۔ اُس نے فوراً مڑ کر ضیغم کی طرف دیکھا جو کہ بے خبر سو رہا تھا۔۔۔ دروازے کا ہینڈل ہلکا سا گھوما تو اُس کے پورے جسم میں سنسنی سی پھیل گئی۔۔۔ اِس سے پہلے دوبارہ ہینڈل گھما کر دروازہ کھولنے کی کوشش کی جاتی وہ ہمت کرتی ہوئی خود دروازے کا لاک کھولنے لگی۔۔ جیسے ہی روشانے نے بالکونی کا دروازہ کھولا ویسے ہی کسی نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بالکونی میں کھینچا


****


رات کا آخری پہر تھا تب کشمالا کی آنکھ کھلی ضیغم کو کمرے میں موجود نہ پا کر وہ بیڈ سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکلی چاروں طرف اندھیرا ہونے کی وجہ سے اسے کچھ دکھائی نہیں۔۔۔ ضیغم کے کمرے پر نظر ڈال کر وہ واپس اپنے کمرے میں آگئی۔۔۔ رات میں سناٹے کے باعث سرگوشی کی آواز پر وہ چوکنا ہوئی،، خیال آنے پر کشمالا نے اپنی بالکنی کا رخ کیا۔۔۔ ایک قدم ہی اس نے بالکنی میں رکھا تھا وہ دوبارہ پیچھے ہوئی اور پردے کی آڑھ سے ضیغم کی بالکنی میں دیکھنے لگی۔۔۔ وہ روشانے کو تو پہچان چکی تھی مگر اُس سے باتیں کرتا ہوا وجود ضیغم ہرگز نہیں تھا۔۔۔ کشمالا حیرت اور بے یقینی سے اُن دونوں کو دیکھنے لگی۔۔۔ سخت پہرا ہونے کے باوجود یہ آخر کون تھا جو حویلی کے اندر آنے کی جرات کر سکتا تھا۔۔۔ روشانے اب واپس کمرے میں جا چکی تھی جبکہ وہ شخص جنگلے پر چڑھنے کے بعد پائپ پر چڑھتا ہوا حویلی کی چھت کے اوپر چڑھنے لگا۔۔۔ کشمالا تیزی سے اپنے کمرے سے نکلتی ہوئی۔۔۔ حویلی کے پچھلے حصے میں موجود برآمدے میں پہنچی۔۔۔ جہاں سے وہ اپنی چھت کا تھوڑا بہت حصہ دیکھ سکتی تھی۔۔۔ وہ جو کوئی بھی تھا چھت پر سے چھلانگ لگاتا ہوا دوسرے گھر کی چھت پر کودا۔۔۔ یقیناً وہ شخص حویلی میں آیا بھی اِسی راستے سے ہوگا۔۔۔ کشمالا کا ارادہ ضیغم کے کمرے میں جاکر روشانے سے بات کرنے کا تھا مگر کچھ سوچ کر وہ اپنے کمرے میں واپس چلی آئی


****


"رات میں کون موجودہ تھا تیرے ساتھ کمرے کی بالکنی میں"

صبح ناشتے کے دوران جب سب ٹیبل پر موجود تھے تب کشمالا روشانے کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی۔۔۔ ضیغم سمیت سب نے ہی کشمالا کی طرف دیکھا جبکہ روشانے کے ہاتھ میں موجود بریڈ کا پیس پلیٹ میں گر گیا


"ماں یہ آپ کس طرح کا سوال کر رہی ہے اس سے"

روشانے کے کچھ بولنے سے پہلے ضیغم کشمالا کو دیکھتا ہوا بولا جبکہ فیروز جتوئی اور شمشیر جتوئی ناشتہ چھوڑ کر انہی کو دیکھ رہے تھے


"تُو حمایت مت لے ضیغم، مجھے تیری بیوی سے پوچھنے دے،، آدھی رات میں یہ تیرے کمرے کی بالکونی میں کھڑی کس سے باتیں کر رہی تھی"

کشمالا ضیغم سے بولتی ہوئی گھور کر روشانے کو دیکھنے لگی۔۔۔ روشانے کو اپنا سانس رُکتا ہوا محسوس ہوا


"صبح صبح تمہیں کچھ نہیں ملا تو تم نے پھر ڈرامہ شروع کردیا،، بند کرو اپنا ڈرامہ اور ناشتہ کرنے دو سب کو"

فیروز جتوئی کشمالا کو جھڑکتا ہوا بولا


"سائیں اگر یہ اتنی ہی سیدھی ہے تو یوں خاموش ہرگز نہیں ہوتی،، چہرہ دیکھو اِس کا،، کیسے ہوائیاں اُڑ رہی ہیں۔۔۔ میں نے اِسے خود رات میں دیکھا تھا کسی مرد کے ساتھ"

کشمالا فیروز جتوئی کو دیکھتی ہوئی بتانے لگی جبکہ روشانے کے ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمایاں ہونے لگی


"خدا کے لئے ماں بس کر دیں اب، میں گیا تھا رات میں اپنے کمرے میں۔۔۔ ساری رات میں تھا اس کے ساتھ اور کچھ جاننا ہے آپ کو۔۔۔ مجھے ساری زندگی اِس بات کا بےحد افسوس رہے گا آپ نے اِس پر اِس حد تک گھٹیا الزام لگایا ہے"

ضیغم کشمالا کی بات سُن کر غُصے میں کرسی سے اٹھتا ہوا بولا


وہ کشمالا کے خیال سے صبح ہوتے ہی روشانے کو سوتا ہوا چھوڑ کر اپنے کمرے سے واپس کشمالا کے کمرے میں آ گیا تھا۔۔۔ مگر یہاں پر الٹا اُس کی بیوی پر الزام لگایا جا رہا تھا یہ بات ضیغم کو ہرگز برداشت نہیں ہوئی


"کیوں پڑ گئی ہو تم اس کی بیوی کے پیچھے،، کر دیا تم نے صبح کا ناشتہ برباد۔۔۔ مل گیا اب سکون تمہیں۔۔۔ آج کے بعد میں تمہیں اس حویلی کا ماحول خراب کرتے ہوئے نہیں دیکھو کشمالا"

شمشیر جتوئی جو کافی دیر سے خاموش تھا کشمالا پر اچھی طرح گرجتا ہوا بولا


"دادا سائیں یہاں کا ماحول جب تک خراب رہے گا جب تک میں اور روشی یہاں پر موجود رہیں گے، یہ بدلے میں آئی ہے یا دشمنوں کا خون اس کے اندر بستا ہے،، بیوی ہے یہ میری۔۔۔ میں اِس پر لگا کوئی بھی الزام برداشت نہیں کرو گا۔۔۔ ہمیں آج شام یہاں سے نکلنا ہے پیکنگ کر لینا"

ضیغم شمشیر جتوئی کو بولنے کے ساتھ ہی آخری جملہ روشانے کو دیکھتا ہوا بولا اور وہاں سے چلا گیا


روشانے نم آنکھوں کے ساتھ حویلی سے باہر جاتے ہوئے ضیغم کو دیکھنے لگی پھر اُس کی نگاہ کشمالا پر پڑی جو خونخوار نظروں سے اُسی کو دیکھ رہی تھی روشانے نظریں چرا گئی


****

"کیوں۔۔۔ کیوں آ جاتے ہیں آپ یہاں پر بار بار،، آخر چاہتے کیا ہیں آپ"

رات کے پہر روشانے نے بالکنی میں موجود تیمور خان کو دیکھ کر غُصے میں پوچھنا چاہا۔۔۔ تیمور خان چونکا، اس کے نڈر انداز اور لہجہ پر


"منع کیا تھا میں نے کہ اس کمینے کو اپنے قریب مت آنے دینا،، سمجھ میں نہیں آیا تمہیں"

تیمور خان کل رات والا منظر یاد کرکے اُس کی بات کو نظرانداز کرتا ہوا آنکھیں دکھا کر بولا


"تمیز سے بات کریں خان وہ شوہر ہیں میرے اور کیوں مانو میں آپ کی بات،، آپ ہوتے کون ہے مجھے یہ مشورہ دینے والے"

تیمور خان کے آنکھیں دکھانے پر ڈرنے کی بجائے روشانے الٹا اُسے سنانے لگی۔۔۔ خاموش رہنے سے ڈرنے سے وہ روشانے کو مزید پریشان کرتا اِس طرح بولنے سے کم ازکم وہ یہاں آنے کا دوبارہ تکلف نہ کرتا اور روشانے ایسا ہی چاہتی تھی


"بہت زیادہ بولنا نہیں آ گیا ہے، تمہیں اِس ایک ماہ میں، پر بھی نکل آئے ہیں شاید تم بھول گئی ہوں کہ میں کون ہوں"

تیمور خان نے آہستہ آواز میں غُراتے ہوئے اس کا بازو دبوچا


"خان آپ شاید بھول رہے ہیں کہ میں کون ہوں۔۔۔ ضیغم جتوئی کی بیوی ہوں میں،، اگر چاہو تو ابھی اِسی وقت اپنے شوہر کو یہاں بلا سکتی ہو۔۔۔ اِس کے بعد میرا شوہر اور اِس حویلی کے ملازم جو آپ کے ساتھ کریں گے اُس کا آپ کو بھی اچھی طرح اندازہ ہوگا۔۔۔۔ اگر میں خاموش ہوں تو صرف بڑے خان اور تائی ماں کی وجہ سے،، خدا کے لیے خان مجھے مجبور مت کریں کہ اپنی زندگی کے سکون کے لیے آپ کی موت کی دعائیں مانگو۔۔۔۔ آپ کے حق میں یہی بہتر ہے کہ آپ یہاں سے چلے جائیں اور دوبارہ یہاں آنے کی زحمت کرئیے گا"

روشانے تیمور خان کا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹاتے ہوئے اس سے بولی تھی تیمور خاموشی سے روشانے کو دیکھنے لگا


ڈرائیونگ کے دوران کل رات والی روشانے کی باتیں یاد کرکے اُسے ڈھیر سارا غصّے آ رہا تھا۔۔۔ رات میں وہ وہاں سے وہ اپنے دوست کے پاس چلا گیا تھا۔۔۔ شام کے سائے گہرے ہوکر رات کی تاریخی میں ڈھل رہے تھے تب تیمور خان نے حویلی کا رخ کیا


"یہ تو اب طے شدہ بات ہے کہ تم دوبارہ اِس حویلی میں واپس آؤں گی،، پھر دیکھتا ہوں کیسے چلتی ہے تمہاری زبان میرے آگے"

تیمور خان ڈرائیونگ کرتا ہوا سوچوں میں روشانے سے مخاطب ہو کر بولا


مین گیٹ سے گاڑی اندر لے جاکر اس کی نظر حویلی کی طرف تھا خرم کی گاڑی پر پڑی۔۔۔ خرم کی گاڑی کو حویلی میں دیکھ کر اُس کا میٹر مزید گھوم گیا


گاڑی روک کر جبڑے بھینچتا ہوا وہ لمبے لمبے ڈگ بھر کر حویلی کے اندر داخل ہوا


اُسے سامنے ہی مسکراتی ہوئی ژالے نظر آئی جو خرم کی بات پر ہنس رہی تھی اور خرم کا بیٹا ژالے کی گود میں موجود تھا۔۔۔ یہ منظر تیمور خان کا مزید دماغ خراب کرنے لگا،، وہ دانت پیستا ہوا ان لوگوں کے پاس پہنچا


"ارے خان کیسے ہیں آپ،، میں ابھی ابھی ژالے سے آپ ہی کا پوچھ رہا تھا"

تیمور خان کو دیکھ کر خرم خوشدلی سے اُس سے مصافہ کرنے کو آگے بڑھا


"ہاں ہاں ٹھیک ہے وہی بیٹھو اور یہ بتاؤ کیوں آنا ہوا تمہارا یہاں"

تیمور خان نے ہاتھ کے اشارے سے خرم کو اپنے پاس آنے سے روکا اور ڈائیریکٹ اس سے آنے کی وجہ پوچھی۔۔۔ تیمور خان کے رویہ پر جہاں خرم نے لب سکھیڑ کر اپنے قدم روکے۔۔۔ وہی ژالے حیرت سے اپنے کزن کے ساتھ تیمور خان کا رویہ دیکھنے لگی


"وہ یہاں میرے بلانے پر آیا ہے خان"

خرم کی بجائے ژالے تیمور خان کو جواب دینے لگی


"میں نے تم سے پوچھا، جب تم سے بات کرو تم تب بولنا۔۔۔ کیا نام ہے تمہارا؟؟ ہاں خرم تو کس لیے آنا ہوا تمہارا یہاں"

تیمور خان ژالے کو درشی سے بولتا ہوا دوبارہ خرم سے مخاطب ہوا


"فون پر ژالے نے بتایا تھا کہ اُس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور دانیال بھی ژالے کو یاد کر رہا تھا تو میں نے سوچا آ کر مل لیا جائے"

خرم اپنے چھوٹے سے بیٹے کو دیکھ کر تیمور خان کو اپنے حویلی میں آنے کا جواز بتانے لگا


"طبیعت اس کی بالکل ٹھیک ہے۔۔۔ طبیعت خرابی کا تو اِس نے بہانہ بنایا ہوگا تاکہ تم اِس سے ملنے آسکو اور تمہیں بھی اپنے بیٹے کی آڑھ میں یوں اِس سے ملنا زیب نہیں دیتا"

تیمور خان کی بات پر خرم شاکڈ انداز میں اس کو دیکھنے لگا جبکہ ژالے ملامت بھری نظروں سے تیمور خان کو دیکھنے لگی


"یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں خان، میں کچھ سمجھا نہیں"

خرم نے حیرت سے پہلے ژالے کو دیکھا اور پھر تیمور خان کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا


"ابھی بھی نہیں سمجھے، کافی چھوٹی عقل کے مالک ہو تم۔۔۔ خیر میرا مطلب کہنے کا یہ ہے کہ مجھے تمہارا اور تمہارے اِس بیٹے کا ژالے سے ملنا بالکل پسند نہیں ہے آئندہ خیال رکھنا"

تیمور خان واضح لفظوں میں خرم کو سمجھاتا ہوا بولا تو کمرے میں ایک دم خاموشی پھیل گئی


"چلو بیٹا گھر چلتے ہیں"

چند سیکنڈ بعد خرم اپنے بیٹے دانیال سے مخاطب ہوا اور اُسے لیتا ہوا وہاں سے چلا گیا


"کیوں آپنی اوقات دکھائی تم نے خرم کے آگے۔۔۔ کیوں ایسی بکواس کی تم نے اُس سے جواب دے کر جاؤ مجھے"

خرم کے جانے کے بعد تیمور خان بھی اپنے کمرے میں جانے لگا تب ژالے اُس کے سامنے آئی۔۔غُصے کے مارے اس کی آنکھوں کے ڈورے سرخ ہونے لگے تھے وہ تیمور خان سے پوچھنے لگی


"تم بھی اپنی اوقات میں رہو ژالے،، اب کی بار اگر میں نے تمہیں اپنی اوقات دکھائی ناں تو تڑپ کر رہ جاؤ گی تم"

وہ پہلے ہی بہت زیادہ غُصے میں بھرا ہوا تھا انگلی اٹھا کر ژالے کو وارننگ دینے لگا


"تم میرے اپنوں کے ساتھ اِس طرح کا سلوک نہیں کر سکتے خان"

ژالے اس کی وارننگ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس کو گریبان پکڑ کر غُصے میں بولی۔۔۔


تیمور خان نے ایک نظر ژالے کے ہاتھ پر ڈالی جو اُس کے گریبان پر تھا دوسری نظر وہاں سے گزرتی ہوئی ملازمہ کو دیکھا جو تیمور خان کے اپنی طرف دیکھنے پر سر جھکاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔۔۔ تیمور خان نے اپنے گریبان پر موجود ژالے کے دونوں کلائیاں پکڑی


"اپنے"۔۔۔۔۔ ویسے ابھی تک کتنا اپنا بنا لیا ہے تم نے اور خرم نے ایک دوسرے کو۔۔۔۔ ذرا یہ بات آج اپنے شوہر کو بھی بتا دو"

تیمور خان طنزیہ انداز میں ژالے سے پوچھنے لگا جس پر ژالے نے اُس سے اپنی دونوں کلائیاں چھڑوانی چاہی


"تم ایک پست ذہنیت رکھنے والے گھٹیا شخص ہو خان،، تمہارے منہ لگنا یا تمہیں اپنے منہ لگانا ہی بیکار ہے۔۔ ہاتھ چھوڑ دو میرے اپنے کمرے میں جانا ہے مجھے"

آج صبح ہی اُس نے سوچا تھا کہ وہ سب کچھ بھولنے کی کوشش کرتے ہوئے تیمور خان کے ساتھ ایک نئی شروعات کرے گی۔۔۔۔ لیکن اس وقت اُسے تیمور خان کے ساتھ ساتھ اپنی سوچ پر بھی غُصہ آنے لگا


"تم صرف اُس دو ٹکے کے خرم کو منہ لگانا پسند کرتی ہوں۔۔۔ لیکن آج تمہارا خان تمہیں خود اپنی منہ لگائے گا مگر یہاں نہیں بلکہ اپنے کمرے میں لے جا کر"

تیمور خان بولتا ہوا ژالے کو کھینچ کر اپنے کمرے میں لے جانے لگا۔ ۔۔ گھر کے ملازم تماشہ دیکھ رہے تھے مگر کسی میں کچھ بولنے کی ہمت نہیں تھی۔ ۔۔۔ اس وقت کبریٰ خاتون اپنے کمرے میں جبکہ سردار اسماعیل خان اور زرین باہر کسی کام سے نکلے ہوئے تھے


ژالے نے جان توڑ کوشش کی تھی کہ وہ اپنا آپ تیمور خان سے چھڑوا سکے،،، لیکن اگر اس وقت ژالے غصے میں تھی تو تیمور خان بھی اپنی ضد پر اڑا ہوا تھا۔۔۔ کمرے میں لانے کے بعد وہ ژالے کو بیڈ پر پھینک چکا تھا


"تم ہوش و حواس میں تو ہو اپنے"

وہ بیڈروم کا دروازہ لاک کرنے لگا تب ژالے اُس کے خطرناک تیور دیکھ کر زور سے چیخی


"اس دن اپنے حواسوں میں نہیں تھی مگر آج پورے ہوش و حواس میں ہوں"

تیمور خان بولتے ہوئے ژالے کی طرف قدم بڑھائے تو ژالے تیری واش روم کا رُخ کرنے لگی تاکہ اندر جا کر اپنے آپ کو لاک کر سکے۔۔۔ تیمور خان اُس کا ارادہ بھانپنے کے ساتھ ہی اُسے اپنے حصار میں جکڑ چکا تھا


"کیا ہوگیا ہے میری جان،، لگتا ہے تم تو ڈر گئی ہو اپنے خان سے"

تیمور خان ژالے کو بیڈ پر لٹا کر اُس کے اوپر جھکتے ہوئے پوچھنے لگا کیوکہ خوف کی پرچھائیاں ژالے کے چہرے پر رقصاں تھی


"خان مجھے یہاں سے جانے دو نہیں تو تمہیں مار ڈالوں گی"

ژالے کو اندازہ ہو گیا تھا اب وہ مزاحمت کرنے کے باوجود اُس کی گرفت سے نہیں نکل سکتی،، اس لیے تیمور خان کو دھمکاتی ہوئی بولی


"اپنوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتے میری جان،، غور کرو ذرا میں بھی تمھارا اپنا ہو۔۔۔ بلکہ اُس خرم سے زیادہ اپنا ہوں۔۔۔ جب تک میں تمہیں اپنے پن کا احساس نہیں دلاو گا تب تک تم اپنی من مانیاں کر کے اپنے خان کا خون جلاو گی"

تیمور خان نے بولنے کے ساتھ ہی اُس کا دوپٹہ اتار کر دور پھینکا


"اگر تم نے میرے ساتھ کچھ بھی کیا تو میں اپنی جان لے لوں گی خان"

تیمور خان کی سانسوں کی گرمائش اپنے چہرے پر محسوس کرتی ہوئی وہ بے بسی سے بولی


"جان تو تمہاری میں لے لوں گا اگر تم دوبارہ اُس خرم سے یا اُس کے بیٹے سے ملی تو۔۔۔ خان تمہیں یہاں اپنے کمرے میں لے کر آ گیا ہے،، اب تم واپس اپنے کمرے میں نہیں جاسکتی۔۔۔ اگر آج تم نے اپنا آپ اپنے خان کو نہیں سونپا تو تمہارا یہ خان حیوان بننے میں صرف دو منٹ لگائے گا"

وہ ژالے کے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنساتا ہوا اس پر جھک چکا تھا


*****


"برا مان گیا تُو میری بات کا، ناراض ہو کر جائے گا مجھ سے"

وہ صبح کا حویلی سے نکلا شام میں واپس پہنچا تو روشانے کمرے میں موجود نہیں تھی،، کشمالا ضیغم کے پاس آتی ہوئی اُس سے بولی


"ماں پلیز میں ابھی ایسی کوئی بات نہیں کرنا چاہتا جس کی وجہ سے بات بڑھے۔۔۔ صحیح ہے روشی آپ کو پسند نہیں ہے،، میں آئندہ خیال کرو گا کہ وہ حویلی میں آج کے بعد نہیں آئے"

ضیغم بات بڑھانا نہیں چاہتا تھا اِس لئے کشمالا کو دیکھ کر سنجیدہ انداز میں گویا ہوا


"تو شروع سے ایسا ہی ہے،، بچپن میں اُس رباب کے پیچھے مجھے اکثر نظر انداز کر دیا کرتا تھا،، اب اُس کی بیٹی کے آگے تجھے کچھ نہیں نظر آتا۔۔۔ اپنی ماں سے تو تجھے پیار ہی نہیں ہے ضیغم"

کشمالا افسوس کرتی ہوئی ضیغم سے بولی تو ضیغم لب بھینچ کر اُسے دیکھنے لگا


"مجھ سے پیار کا ثبوت چاہیے آپکو۔۔۔۔ ماں کیا یہ ثبوت کم ہے کہ چند سال بعد ہی یہ حقیقت جاننے کے باوجود کہ آپ نے اپھو کا نکاح چھپایا تھا۔۔۔۔ میں نے اِس راز سے پردہ نہیں ہٹایا،، صرف اِس وجہ سے کہ اگر بابا سائیں کو یہ بات معلوم ہو جاتی تو وہ آپ کو کھڑے کھڑے اِس حویلی سے نکال دیتے۔۔۔ جانتی ہیں آپ،، آپکے اِس عمل سے زریاب خان کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔۔۔ کم از کم اُس دن اگر اپھو کے پاس نکاح نامہ موجود ہوتا تو انکی زندگی یوں نہ اُجڑتی۔۔۔۔ پلیز اب آپ بے بنیاد الزام لگا کر میرے اور روشی کے رشتے میں نااتفاقی مت پیدا کریں"

ضیغم کشمالا کا شرمندہ چہرہ دیکھتا ہوا بولا


"میں مانتی ہو آج سے اٹھارہ سال پہلے جو مجھ سے ہوا وہ غلط تھا،، لیکن آج صبح جو میں نے بولا وہ غلط نہیں تھا ضیغم، تیری بیوی اِسی کمرے کی بالکونی میں اپنے تایا زار کے ساتھ کھڑی باتیں کر رہی تھی، وہ برابر والے گھر کی چھت کے ذریعہ یہاں آیا تھا روشی سے ملنے، یہ سب میں تیرے سر کی قسم کھا کر بولتی ہو"

کشمالا ضیغم کے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتی ہوئی بولی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔ ضیغم کمرے میں کھڑا کشمالا کے لفظوں پر غور کرنے لگا


*****


آج شام اُن دونوں کو شہر کے لیے روانہ ہونا تھا مگر ضیغم نے باہر سے آنے کے بعد واپسی کی کوئی بات نہیں کی۔۔۔ روشانے کے پروگرام پوچھنے پر ضیغم نے اُسے فی الحال شہر واپس جانے سے منع کردیا تھا


روشانے نے محسوس کیا جب سے وہ باہر سے واپس حویلی آیا تھا تب سے ہی خاموش تھا رات کو کھانا کھانے کے بعد وہ کشمالا کمرے میں جانے کے بجائے اپنے کمرے میں موجود تھا اور مسلسل صوفے پر بیٹھا ہوا لیپ ٹاپ میں بزی تھا


"سائیں آج رات سونا نہیں ہے کیا آپ نے"

اُسے مسلسل مصروف دیکھ کر بلآخر روشانے ضیغم سے بولی


"تم انتظار مت کرو میرا،، نیند آرہی ہے تو سو جاؤ"

ضیغم نے ایک نظر روشانے پر ڈالی،، وہ جواب دیتا ہوا دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا روشانے بیڈ سے اٹھ کر ضیغم کے پاس آکر صوفے پر بیٹھی


"کیسے سو سکتی ہوں،، آپ کو معلوم تو ہے ایسے نیند نہیں آتی مجھے"

وہ ضیغم کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔۔ ضیغم نے اُس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں اصرار تھا کہ وہ بیٹھ پر چلے


سونے سے پہلے ضیغم اُس کا سر اپنے سینے پر رکھ کر اُس سے تھوڑی دیر باتیں کرتا تھا۔۔۔ اُس کے بعد ہی وہ دونوں سوتے تھے،، روشانے کی بات سن کر ضیغم لیپ ٹاپ بند کر کے ایک سائیڈ پر رکھتا ہوا بیڈ پر آ کر لیٹ گیا۔۔۔ روشانے نے مسکرا کر اُس کے سینے پر سر رکھا۔۔۔ وہ آنکھیں بند کر کے ضیغم کی شرٹ سے اٹھتی سگریٹ اور پرفیوم کی مکس خوشبو محسوس کرتی اس کے سینے پر اپنا مرمریں ہارتھ پھیرنے لگی۔۔۔ روشانے نے محسوس کیا وہ روز کی طرح اُس کے بالوں میں انگلیاں پھرتا ہوا روشانے سے باتیں نہیں کر رہا تھا


"اتنے خاموش کیوں ہیں سائیں، کیا کوئی بات ہوئی ہے"

روشانے ضیغم کی خاموشی محسوس کرکے یونہی اُسکے سینے پر اپنا سر ٹکائے ضیغم سے پوچھنے لگی


"کچھ خاص نہیں ویسے ہی سر میں درد ہو رہا تھا"

ضیغم اُسے ٹالتا ہوا بولا مگر یہ سچ بھی تھا کشمالا کی باتیں سوچ کر اب اس کا سر درد کر رہا تھا


"سر میں درد ہو رہا ہے تو پہلے کیوں نہیں بتایا مجھے"

روشانے نے بولتے ہوئے اُس کے سینے سے سر اٹھایا


اب وہ ضیغم کی پیشانی پر اپنا نازک ہاتھ رکھ کر اُس کا سر دبانے لگی۔۔۔ ضیغم غور سے روشانے کا چہرہ دیکھنے لگا


"کیا سوچ رہے ہیں"

سر دباتی ہوئی ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ وہ ضیغم سے پوچھنے لگی جو خاموش نظروں سے بہت غور سے اُسے دیکھ رہا تھا


"صبح ماں نے جو بات کہی تھی اُس میں کتنی حقیقت ہے روشی"

ضیغم کے سوال پر نہ صرف روشانے کا ہاتھ تھما بلکہ مسکراہٹ بھی اُس کے ہونٹوں سے غائب ہوچکی تھی ضیغم اُس کے چہرے کا ایک ایک تاثر خاموشی سے دیکھ کر رہا تھا


"آپ کو ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ صبح والی بات حقیقت پر مبنی ہو سکتی ہے"

روشانے دھڑکتے دل کے ساتھ ضیغم سے نظریں چراتی ہوئی پوچھنے لگی تبھی ضیغم نے اپنی پیشانی سے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر رکھا


"ماں کی بات میں واقع حقیقت نہیں تھی"

ضیغم لیٹا ہوا یونہی اُس کا چہرہ دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔۔ روشانے کو گھبراہٹ ہونے لگی مگر وہ ضیغم پر ایسا کچھ بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی


"نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے،، مامی کو غلط فہمی ہوئی ہوگی"

جھوٹ بولتے ہوئے روشانے کا دل پر بوجھ سا پڑ گیا تھا


اُس نے جلدی سے ضیغم کے سر سے اپنا ہاتھ ہٹایا اور واپس اُس کے سینے پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔۔۔ ضیغم کے سر کی جھوٹی قسم کھاتے ہوئے اس نے اپنے آپ پر ڈھیر ساری ملامت کی تھی مگر وہ ضیغم کو سچ بتا کر یہاں حویلی میں،، اس سے ناراضگی بھی نہیں مول سکتی تھی


روشانے نے تیمور خان کو اچھی خاصی باتیں سنائی تھی اُسے پوری امید تیمور خان اب دوبارہ کبھی یہاں کا رُخ نہیں کرے گا۔۔۔ دوسرا وہ ضیغم کا ردعمل،، اپنی نوٹ بک پر لکھے تیمور خان کے نام پر بھی دیکھ چکی تھی۔۔۔ وہ کوئی بھی بات ضیغم کو بتا کر دونوں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہرگز نہیں کرنا چاہتی تھی،،، وہ جب سے حویلی میں آئی تھی تب سے اُس کا اور ضیغم کا رشتہ خراب ہوا جا رہا تھا۔۔۔ اُسے انتظار تھا ضیغم کے ساتھ واپس جانے کا۔۔۔ شہر جا کر یقیناً سب کچھ ٹھیک ہوجاتا۔۔۔ روشانے ضیغم کے سینے پر سر رکھے ہوئے سوچ رہی تھی تب ضیغم اُس کا سر اپنے سینے سے ہٹاتا ہوا بیڈ سے اٹھ گیا


"کیا ہوا سائیں"

ضیغم کے اس طرح اٹھنے پر روشانے بےساختہ اُس سے پوچھنے لگی


"کچھ نہیں تم سو جاؤ"

ضیغم روشانے سے بولتا ہوا سگریٹ کا پیکٹ اور لائٹر لے کر بالکونی میں چلا گیا


روشانے کے قسم کھانے کے بعد وہ مزید اُلجھ چکا تھا۔۔ ضیغم کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ تھا کچھ بھی ہو جائے کشمالا اُس کے سر کی کبھی بھی جھوٹی قسم نہیں کھائے گی


****


"خیریت صبح کہاں جا رہے ہیں آپ"

کل رات سے ہی ضیغم کا انداز کچھ کھنچا کھنچا سا تھا اور اب وہ صبح صبح اُسے کچھ بتائے بغیر تیار ہو رہا تھا جیسے آفس جانے کی تیاری کرتا تھا روشانے کے پوچھنے پر وہ اُسے دیکھنے لگا


"ہاں آفس جانا ہے مجھے ضروری کام سے"

الماری میں سے کوئی چیز ڈھونڈتا ہوا ضیغم، روشانے کو جواب دینے لگا۔۔۔ روشانے حیرت سے اُسے دیکھنے لگی


"کیا مجھے چھوڑ کر جا رہے ہیں سائیں"

روشانے پریشان ہوتی ہوئی ضیغم سے پوچھنے لگی۔۔۔وہ الماری کا دروازہ بند کرتا ہوا روشانے کے پاس آیا


"پہلے کبھی تمہیں آفس لے کر گیا ہوں اپنے ساتھ"

وہ سنجیدہ لہجے میں روشانے کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا۔۔۔ اُس کی آواز، اُس کے لہجہ میں مذاق کی رمق تک نہ تھی


"میرا مطلب وہ نہیں تھا۔۔۔ یہاں میں اکیلی کیسے رہ سکتی ہوں آپ کے بغیر"

روشانے اسے اپنی بات کا مفہوم سمجھاتی ہوئی بولی


"دوسری لڑکیاں کیسے رہتی ہیں اپنے سُسرال میں شوہروں کے بغیر"

ضیغم اب بگڑے تیورں کے ساتھ اُلٹا روشانے سے سوال کرنے لگا۔۔۔ چند سیکنڈ روشانے خاموشی سے ضیغم کو دیکھنے لگی پھر بولی


"سائیں میرا کالج، میرا مطلب ہے آپ دس منٹ مجھے دیں میں بھی آپ کے ساتھ۔۔۔۔

روشانے بولتی ہوئی بیڈ سے اٹھی تو ضیغم اُس کی بات کاٹتا ہوا بولا


"بچوں کی طرح ری ایکٹ مت کیا کرو روشی،، تم میری بیوی ہو کوئی چھوٹی بچی نہیں، جو میں تمہیں اپنے ساتھ ساتھ لٹکائے پھرو۔۔۔۔ ویسے بھی کالج تو تمہارا بند ہونے والا ہے پیپرز کی وجہ سے،، خاموشی سے دو دن یہی رہو آفس میں ضروری کام ہے پرسوں تک نبھٹا کر آ جاؤں گا"

ضیغم روشانے کو ٹوکتا ہوا بولا تو وہ بالکل خاموش ہوگئی


کہیں کچھ غلط ضرور ہوا تھا مگر کہاں۔۔۔ وہ روشانے کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔۔۔ وہ سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی کہ ناشتے کی ٹیبل پر اُسے معلوم ہوا کہ ضیغم کے ساتھ فیروز جتوئی بھی اپنے چیک اپ کے لیے ضیغم کے ساتھ شہر جا رہا ہے


*****

صبح تیمور خان کی آنکھ کھلی تو اُس کی نظر اپنے برابر میں لیٹی ہوئی ژالے پر گئی۔۔۔ وہ کندھے تک چادر اوڑھے سیدھی لیٹی ہوئی،، مسلسل کمرے کی چھت کو گھور رہی تھی۔۔۔ تیمور خان نے دوسری نظر اپنی شرٹ کے ساتھ پڑے اُس کے کپڑوں پر ڈالی،، کل رات اُس نے تھوڑی بہت مزاحمت کے بعد تیمور خان کے آگے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔۔۔ وہ بیڈ سے اُٹھ کر اپنی شرٹ پہننے لگا،، شرٹ پہننے ہوئے اُس کی نظر مسلسل ژالے پر تھی جو ابھی تک اُسی پوزیشن میں لیٹی ہوئی چھت کو دیکھ رہی تھی


"کیا ہوا یہ کپڑے پسند نہیں ہے تمھیں یا پھر تم دوسرے کپڑے پہنا چاہ رہی ہو"

تیمور خان کی بات سننے کے بعد بھی ژالے نے کوئی ری ایکٹ نہیں کیا تھا وہ ابھی بھی کمرے کی چھت کو دیکھ رہی تھی


"اب سمجھا،، تم یہ کپڑے مجھ سے پہننا پسند کروں گی"

تیمور خان اس کے کپڑے ہاتھ میں لیتا ہوا بیڈ پر ژالے کے پاس آکر بیٹھا،، تیمور خان نے پاؤں کی طرف سے چادر سرکائی تو ژالے کے وجود میں ہلکی سی جنبش ہوئی ژالے نے اپنے پاؤں سمیٹنا چاہے تو تیمور خان نے اُس کے دونوں پاؤں پکڑ کر اُس کی کوشش ناکام بنادی،،، اب ژالے کی بجائے اپنے ہاتھ میں موجود ٹراوزر کو دیکھنے لگا


"تمہیں کتنے پیار سے بولا تھا کہ مجھے سمیٹ لو،، اپنا بنا لو،، پھر خان صرف تمہارا رہے گا مرتے دم تک صرف تمہارا۔۔۔ مگر تم ٹھہری ایک الٹی کھوپڑی کی ضدی لڑکی۔۔۔ جو میں نے پہلے تمہارے ساتھ کیا تھا اس کے لئے میں شرمسار تھا،، مگر کل رات اپنے کیے عمل پر مجھے کوئی شرمندگی نہیں۔۔۔ تمھارے جملہ حقوق میرے نام ہیں مکمل اختیار رکھتا ہوں میں تم پر،، اس طرح اپنے آپ کو ہلکان کرو گی تو اپنا ہی نقصان کرو گی"

اب تیمور خان ژالے کی آنکھوں سے آنسو صاف کر کے اُسے بٹھاتے کے بعد شرٹ پہنانے لگا


"میں تمہاری محبت کو تب سمجھ نہیں پایا تھا۔۔۔ جب تم نے اُس محبت کا اظہار کیا تھا۔۔۔ مگر اب تمہاری آنکھوں میں یہ بے اعتباری اور غُصہ مجھے بے چین کرتا ہے،، پلیز ژالے میں تمہاری آنکھوں میں دوبارہ اپنے لیے وہی محبت دیکھنا چاہتا ہوں،، میں نہیں مان سکتا کہ تم نے مجھ سے جو محبت کی تھی اس کی مُدت اتنی کم تھی کہ وہ فوراً ہی مر گئی،، وہ محبت تمہارے دل میں ابھی بھی زندہ ہے بس روٹھ گئی ہے"

تیمور خان اُسے شرٹ پہنانے کے بعد واپس بیڈ پر لٹاتا ہوا اب کی بار اپنے ہونٹوں سے اُسکے آنسوں چننے لگا


"میں صرف تمہارے جسم کا طلب گار نہیں ہو،، مجھے تمہاری محبت بھی واپس چاہیے۔۔۔ جو پہلے کی طرح تمہاری آنکھوں میں نظر آئے، تمہارے عمل سے ظاہر ہو،، جس دن ایسا ہوجائے گا اس دن تم اپنے خان کا ایک نیا روپ دیکھو گی اُجلا صاف شفاف سا اپنا من پسند"

تیمور خان ژالے سے بولتا ہوا بیڈ سے اٹھا اپنے کپڑے الماری سے لے کر واش روم چلا گیا


*****


"کل رات ژالے کو تم اپنے کمرے میں لے کر گئے تھے"

تیمور خان ناشتے کی ٹیبل پر پہنچا تو سردار اسماعیل خان اور زرین پہلے سے وہاں پر موجود تھے یقیناً اُن دونوں کو ملازموں سے اطلاع مل چکی تھی


"وہ ابھی بھی میرے کمرے میں موجود ہے، اب اُسے وہی رہنا ہے"

تیمور خان کو کرسی کھسکا کر بیٹھتا ہوا سردار اسماعیل خان کو بتانے لگا


"کیا ژالے کی رضامندی شامل تھی تمہارے کمرے میں جاتے وقت"

اب زرین تیمور خان کو دیکھتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی


"کیا آپ لوگوں نے نکاح کے وقت اُسکی دلی رضامندی جاننی چاہی تھی۔۔۔ جو اب یہ سوال اٹھایا جارہا ہے۔۔۔۔ اُسے ایک نہ ایک دن تو اپنے کمرے سے رخصت ہوکر میرے کمرے میں آنا ہی تھا تو اب کیا مسلہ ہے"

تیمور خان چڑتا ہوا بولا


"اماں حضور کو اِس بات کا علم نہیں ہے ابھی تک،، زری تم انہیں مناسب لفظوں میں بتا دینا اور اب جبکہ ژالے اپنے کمرے سے رخصت ہو چکی ہے تو ولیمے کی تقریب بھی رکھ لیتے ہیں"

سردار اسماعیل خان بات بڑھانے کی بجائے ختم کرتا ہوا بولا


"ولیمے کی تقریب بھی ہوجائے گی۔۔۔۔ مگر اس تقریب میں ایک فردِ خاض کا ہونا ضروری ہے اور اس کے لیے آپ کو تھوڑے دن انتظار کرنا پڑے گا"

تیمور خان بات مکمل کر کے ناشتے میں مگن ہوچکا تھا۔۔۔ ناشتے کے دوران ہی اُس کے موبائل پر میسج آیا جس میں اُس کے آدمی نے اُسے اطلاع دی تھی کہ ضیغم جتوئی اور فیروز جتوئی دو دن کے لئے آج شہر روانہ ہوئے ہیں۔۔۔ تیمور خان چائے کے گھونٹ بھرتا ہوا کچھ سوچنے لگا


****


"ارے پاگل اِس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے خوشی کی بات ہے،، لگ رہا ہے تمہارے گھر میں ضرور کوئی خوشخبری آنے والی ہے، اپنے سائیں کو بتایا تم نے اپنی طبیعت کے بارے میں"

وہ جو کل پرسوں سے محسوس کر رہی تھی آج زرین سے موبائل پر شیئر کرنے لگی


"نہیں سائیں کو تو ابھی کچھ نہیں بتایا،، بس جو بات محسوس کی آپ کو بتا دی۔۔۔ ویسے بھی سائیں شہر میں ہیں اور میں اِس وقت یہاں پر حویلی میں موجود ہو"

خوشخبری کا سننے کے باوجود روشانے بُجھے دل سے بولی کیونکہ ضیغم اُس سے خفا تھا


"ہاں تو اچھی بات ہے اس حالت میں سفر کرنا مناسب بھی نہیں ہے،، روشی بچے اب تمہیں اپنا بہت خیال رکھنا ہوگا اپنے بچے کے لئے،، ویسے ایک خوشخبری میرے پاس بھی ہے"

زرین اُسے خاص خاص ہدایت دینے کے ساتھ ساتھ بولی


"کونسی خوشخبری"

روشانے کے پوچھنے پر زرین نے اُسے ژالے اور تیمور خان کے نکاح کے بارے میں بتانے لگی یہ بات اُس نے روشانے کو ابھی تک نہیں بتائی تھی۔۔۔ اُس خبر کے سنتے ہی روشانے کو تیمور خان پر مزید غصہ آیا۔۔۔۔ اتنی اچھی لڑکی ملنے کے باوجود وہ اُسے تنگ کر رہا تھا شاید اُس کی فطرت ہی ایسی تھی۔۔۔ روشانے کا دل چاہا وہ زرین کو تیمور خان کی ساری حرکتیں بتا دے مگر پھر زرین کی خوشی ملیامیٹ ہونے کے خیال سے ایسا نہیں کر سکی


"تائی ماں شاید کوئی آیا ہے میں بعد میں بات کرتی ہوں آپ سے"

دروازے پر کھٹکے کی آواز پر روشانے کا سارا دھیان کمرے کے بند دروازے پر گیا،، ساتھ ہی اُس نے زرین کی کال کاٹ کر دروازہ کھولا


"موبائل دے اپنا"

کشمالا کمرے میں آتے ہی بغیر کسی دوسری بات کے روشانے کے آگے ہاتھ بڑھاتی ہوئی بولی۔۔۔ روشانے نے بھی بغیر کچھ کہے اُسے اپنا موبائل فوراً دے دیا۔۔۔ وہ اِس پوزیشن میں نہیں تھی جو کشمالا کو منع کرتی پھر ضیغم بھی اُس کے پاس موجود نہیں تھا


"کتنے دن چڑھے ہیں"

موبائل لینے کے بعد کشمالا روشانے کو دیکھ کر سنجیدگی سے پوچھنے لگی جس پر روشانے کو اندازہ ہو گیا کہ وہ زرین اور اُس کی ساری باتیں سن چکی ہے


"کچھ اندازہ نہیں ہے مجھے، ضروری نہیں ہے جیسا تائی ماں سمجھ رہی ہیں ویسا ہی ہو"

روشانے نظریں جھکا کر آہستہ آواز میں بولی


"اس کا تو پتہ چل جائے گا۔۔۔ تُو یہ بتا پرسوں رات تُو نے اپنے تایا زاد تیمور خان کو یہاں کیوں بلایا تھا"

کشمالا کے سوال پر روشانے کا سانس بند ہونے لگا۔۔۔ اگر وہ کشمالا کے سامنے مُکر جاتی تو یقیناً کشمالا بغیر اُس کی حالت کا لحاظ کیے اُسے مارنا شروع کر دیتی


"مامی میں قسم کھا کر کہہ رہی ہو میں نے یہاں پر کسی کو نہیں بلایا تھا،، وہ خود یہاں پر آئے تھے۔۔۔ میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتی ہوں پلیز سائیں کو کچھ مت بھولیے گا۔۔۔ مجھ پر رحم کریں میں آپ کی بیٹیوں کی جیسی ہو۔۔۔ اپنے دل میں موجود میرے لئے سارا غُصہ اور بدگمانی نکال دیں"

روشانے کشمالا کے آگے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر روتی ہوئی بولی تو کشمالا خاموش ہو کر اُسے دیکھنے لگی


"اگر خوشخبری ہے پھر تو تُجھے اپنا دھیان رکھنا پڑے گا۔۔۔ کمرے سے بلاوجہ میں نکلنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ نہ ہی سیڑھیاں چڑھنے اترنے کی ضرورت ہے اگر کسی کام کے لئے ضرورت پڑے تو شانو کو آواز دے لینا"

کشمالا بے تاثُر اُس کو دیکھ کر بولی اور اُس کا موبائل لے کر کمرے سے چلی گئی


****


اسموکنگ کرنا اُس کی بری عادت تھی۔۔۔ مگر یہ کام وہ لمٹ میں رہ کر کرتا تھا لیکن پچھلے دو گھنٹوں سے وہ مسلسل سگریٹ پھونکے جا رہا تھا،، آج صبح وہ روشانے کو حویلی میں چھوڑ کر خود یہاں چلا آیا تھا۔۔۔ غُصے میں وہ روشانے کے ساتھ ایسا ہی کرتا تھا اُسے اپنے آپ سے دور کر دیتا تھا۔۔۔ پچھلی بار وہ روشانے سے ناراض ہوکر غُصّے میں کشمالا کے کمرے میں چلا گیا تھا۔۔۔ تیمور خان کے ساتھ روشانے کا نام دیکھ کر،، اُس دن وہ کافی دیر بعد آفس سے گھر لوٹا تھا۔۔۔ معلوم نہیں ایسا کر کے وہ روشانے کو سزا دیتا تھا یا پھر خود کو


آج شام آفس سے آنے کے بعد اس نے اپارٹمنٹ کے انتظامیہ سے کہہ اُس نے اپنے فلور پر لگے کیمرے سے اُس دن کی ویڈیو دیکھی جب اُس کے فلیٹ کی اچانک لائٹ بند ہوئی تھی اور روشانے بری طرح ڈری تھی۔۔ کیوکہ دوسرے دن روشانے کو نارمل دیکھ کر اس وقت ضیغم نے بھی اِس بات کو سر پر سوار نہیں کیا تھا


لیکن اس وقت کیمرے میں تیمور خان کو دیکھ کر ضیغم کا خون کھول اٹھا تھا،، وہ اس کے فلیٹ میں کیا کرنے آیا تھا۔۔۔ کیا وہ روشانے سے ملتا رہتا تھا۔۔۔۔ روشانے اُس سے کتنی باتیں چھپاتی تھی،، ایسی بھلا کون کون سی باتیں ہوگیں جو اُس کے علم میں نہ تھی۔۔۔ ضیغم مسلسل سگریٹ پیتا ہوا سوچ رہا تھا


وہ تیمور خان کو لے کر روشانے پر شک نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا اُس کی بیوی معصوم ہے مگر تیمور خان۔۔۔ اُس گھٹیا انسان پر ضیغم کو بالکل بھی اعتبار نہیں تھا۔۔۔ اُس نے تھوڑی دیر پہلے روشانے کے موبائل پر کال ملائی تھی مگر اُس کا نمبر مسلسل بزی جا رہا تھا روشانے آخر اتنی دیر تک کس سے بات کر رہی تھی زرین سے یا پھر تیمور خان سے۔۔۔


شک نہ کرنے کے باوجود کئی سوالات اُس کے دماغ میں اٹھ کر مسلسل شور مچا رہے تھے۔۔۔ اب وہ اِن کے جوابات پر ہی سکون سے بیٹھ سکتا تھا۔۔۔۔ وہ واپس جا کر روشانے سے سارے جوابات پوچھنے کا ارادہ رکھتا تھا


****


تھوڑی دیر پہلے ملازمہ تیمور خان کے کمرے میں ژالے کے سارے کپڑے رکھ کر گئی تھی جسے ژالے الماری میں جگہ بنا کر سیٹ کر رہی تھی۔۔ اُس کا سارا سامان بیڈ کر بکھرا پڑا تھا۔۔۔ تیمور خان نے جس طرح کی بات خرم کے سامنے کہی تھی ژالے خرم کے سامنے بےحد شرمندہ ہوئی تھی۔۔۔ اُس نے تیمور خان کا اپنی خالہ اور خرم کے سامنے کافی اچھا امیج بنایا تھا جو پرسوں تیمور خان نہ صرف خرم کے سامنے ڈاؤن کر چکا تھا بلکہ ژالے کو بھی شرمسار کر چکا تھا


تیمور خان کے ساتھ بنے اِس رشتے کو وہ ابھی تک قبول نہیں کر پائی تھی وہ خود تو ژالے سے محبت کا طلب گار تھا مگر بدلے میں وہ اُسے عزت تک نہیں دے سکا تھا،، کیسے اُس نے خرم کے سامنے اُن دونوں پر الزام لگا کر اُن کے رشتے کو شرمسار کیا تھا۔۔ بے شک یہ حرکت تیمور خان نے پہلی بار نہیں کی تھی مگر وہ خرم کے سامنے اتنی گھٹیا بات کر سکتا تھا یہ ژالے تصور میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی


بکھرا ہوا سامان سمیٹ کر وہ ابھی فارغ ہوئی تھی تب کمرے کا دروازہ کُھلا اور تیمور خان کمرے کے اندر داخل ہوا۔۔۔ وہ ژالے کو دیکھ کر چلتا ہوا اُس کے پاس آیا


"کیا میرا کمرہ بہت زیادہ پسند آ گیا ہے،، جو کل سے تمہیں اِس کمرے سے باہر نکلنے کا دل نہیں چاہ رہا ہے"

تیمور خان خوشگوار موڈ میں ژالے کو چھیڑتا ہوا بولا


وہ کل سے اب تک اس کے کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی۔۔ زرین اُس کے پاس اُس کی طبعیت پوچھنے کے لیے آئی تھی اور چند منٹ باتیں کر کے واپس چلی گئی تھی۔۔۔ رات کے وقت کھانے کی میز پر ژالے کی غیر موجودگی دیکھ کر تیمور خان نے اپنا کھانا بھی ملازمہ سے کہہ کر اپنے کمرے میں ہی منگوا لیا تھا


"قید خانہ کسی بھی قیدی کو پسند نہیں ہوتا خان، صرف قیدی اُس قید خانے میں اپنے آپ کو رہنے کا عادی بنا رہا ہوتا ہے"

ژالے کی بات پر تیمور خان نے اُسے کھینچ کر اپنے سے قریب کر لیا


"اور جس ظالم دیو نے تمہیں قید کیا ہے اس کے بارے میں کیا خیال ہے۔۔۔ اُس ظالم دیو کی بھی عادت ڈال لو،،، یہ تمہیں بالکل اِسی طرح ساری زندگی قید رکھنا چاہتا ہے۔۔۔ اِس دیو سے بلاوجہ کی تکرار ختم کر ڈالو"

وہ ژالے کو اپنی گرفت میں لیتا ہوا بہکے بہکے انداز میں بولا۔۔ اب وہ ژالے کے ہونٹوں پر اپنا انگوٹھا پھرتا ہوا مدہوشی سے اُسے دیکھ رہا تھا تیمور خان کے کسی بھی عمل وہ اُس نے مزاحمت نہیں کی تھی،، پرسوں رات سے ہی اُس نے ساری مزاحمت ترک کر دی تھی


"کوئی بھی لڑکی کسی ظالم دیو کی خواہش نہیں کرتی،، ہر لڑکی کو ایک شہزادے کا انتظار ہوتا ہے۔۔۔ کوئی بھی لڑکی کسی ظالم دیو کا انتظار نہیں کرتی ہوتی ہے کچھ لڑکیاں میری طرح بے وقوف ہوتی ہیں جو ظالم دیو کو اپنا شہزادہ تصور کر بیٹھتی ہیں۔۔۔ لیکن جب حقیقت اُن پر آشکار ہوتی ہے تو اُن کا یہی حال ہوتا ہے جو میرا ہوا ہے۔۔۔ کسی شہزادے کے ساتھ تو لڑکی ساری زندگی خوشی خوشی گزار سکتی ہے مگر کسی ظالم دیو کی قید میں وہ صرف ساری زندگی سِسکتی رہتی ہے اور یونہی سِسک سسِک کر ایک دن مر جاتی ہے"


ژالے تیمور خان کی گرفت میں اُسے دیکھتی ہوئی بولی جس پر تیمور خان کے چہرے کے تاثرات ایکدم تکلیف زدہ ہوئے مگر دوسرے ہی پل اُس نے غصے میں ژالے پر اپنی گرفت مزید سخت کردی۔۔ اتنی سخت کے ژالے کے منہ سے بے ساختہ سسِکی نکلی۔۔۔ اب تیمور خان کا دوسرا ہاتھ اُس کے ہونٹوں کے بجائے اُس کے بالوں میں تھا وہ ژالے کے بالوں کو مٹھی میں جکڑتا ہوا اُس کا چہرہ اوپر کرکے مزید اپنے چہرے کے قریب کر چکا تھا


"تو میں ظالم دیو ہوں تمہارے لیے پھر ایسا ہی سہی،، مگر اپنے دماغ سے یہ خوش فہمی نکال دو کہ کوئی شہزادہ تمہیں مجھ سے چھین کر لے جائے گا۔۔۔ شاید اُس خرم کو تم اپنا شہزادہ ہی تصور کر کے بیٹھی ہو،، میں اُس خبیث کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالوں گا"

تیمور خان غُصے میں اُس کے وجود کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا بولا


"خاموش ہو جاؤ خان،، خبردار جو تم نے اپنی زبان سے خرم کا نام لیا۔۔۔ مت گراؤ خود کو میری نظروں میں اتنا،، کہ تمہارا اٹھنا، مجھ سے نظر ملانا تمہارے لیے مشکل ہو جائے۔۔۔ مت گالی دو میرے اور خرم کے پاک تعلق کو،، دودھ شریک بھائی ہے وہ میرا"

ژالے تیمور خان کی گرفت میں چیخ کر بولی تو ایک دم سے ژالے کی بات سن کر تیمور خان کی گرفت ڈھلی ہوئی


یہ ایک عجیب انکشاف تھا جو آج ژالے نے اُس پر کیا تھا۔۔ وہ حیرت سے ژالے کو دیکھ رہا تھا جب کہ ژالے حقارت بھری نظر اُس پر ڈال کر کمرے سے باہر چلی گئی


تیمور خان کو اچانک سے شرمندگی نے آ گھیرا تھا۔۔۔ وہ کیا کچھ بول چکا تھا ژالے اور خرم کے بارے میں۔۔۔ صرف اپنے اندر کی جلن کے باعث،، وہ ژالے کے سامنے خرم کا نام لے کر اُس کو نشتر چھبوتا تھا۔۔ یہ جانے بغیر کہ آپس میں اُن کا رشتہ کیا ہے


وہ شرمندہ ہوتا ہوا بیڈ پر جا بیٹھا ویسے ہی موبائل کی رینگ ٹون نے اُس کی توجہ اپنی طرف کھینچی۔۔۔ بیڈ پر ژالے کا موبائل پڑا ہوا تھا جس پر روشانے کا میسج آیا تھا اور روشانے نے ژالے سے تیمور خان کا موبائل نمبر مانگا تھا تیمور خان کو یہ میسج پڑھ کر حیرت ہوئی،، یہ روشانے کا نیا نمبر تھا جو اس کے پاس موجود نہیں تھا۔۔۔


بھلا اب روشانے کو اُس سے کیا کام پڑ گیا تھا یہ بات تیمور خان کو جاننے کے لیے ژالے کے موبائل سے روشانے کو اپنا نمبر سینڈ کرنا پڑا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد ہی اُس کے موبائل پر روشانے کا میسج آیا جس میں اُس نے فیروز جتوئی اور ضیغم جتوئی کے شہر میں ہونے سے اگاہ کیا اور اسے حویلی میں پیچھے کے دروازے سے بلایا


تیمور خان روشانے کا میسج دیکھ کر سوچ میں پڑ گیا۔۔۔ اُسے کل ہی اپنے بندے سے اطلاع مل چکی تھی کہ فیروز جتوئی اور ضیغم جتوئی شہر میں موجود ہیں اور یہی بات روشانے کا اسے بتا کر حویلی بلانا۔۔۔۔ یہ میسج واقعی اُسے روشانے نے کیا تھا یا دشمن کی کوئی چال تھی جو بھی تھا یہ جاننے کے لیے اُسے آج رات دشمنوں کی حویلی جانا ہی تھا تیمور خان بیڈ سے اٹھ کر الماری کی ڈراز میں رکھی اپنی پسٹل دیکھنے لگا


*****

دستک کی آواز کر کمرے میں ٹہلتی ہوئی روشانے نے دروازہ کھولا


"بی بی سائیں نے آپ کو نیچے کمرے میں آنے کو کہا ہے" دروازے پر کھڑی شانو کی بیٹی نے روشانے کو کشمالا کا حکم سنایا۔۔۔ روشانے اقرار میں سر ہلا کر اس کے ساتھ نیچے چل دی


ضیغم کل سے ہی اُسے حویلی میں چھوڑ کر خود شہر میں موجود تھا۔۔۔ وہ کل سے ہی کشمالا کے کہنے پر اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی۔۔۔ اُس کا موبائل بھی کشمالا کے پاس تھا اور کھانا اُس کا اُسی کے کمرے میں پہنچا دیا جاتا اب رات ہونے کو آئی تھی تو ملازمہ کے کہنے پر وہ سیڑھیوں سے اُترتی ہوئی نیچے چلی آئی


ملازمہ کے اشارہ کرنے پر وہ کمرے کے اندر داخل ہوئی کمرے میں اُس نے دائیں جانب صوفے پر تیمور خان کو بیٹھا دیکھا تو روشابے کی حیرت سے پوری آنکھیں کھل گئی۔۔۔ وہ بے خوف و خطر آرام سے صوفے پر بیٹھا ہوا تھا


"میرے منع کرنے کے باوجود آپ یہاں پھر دوبارہ چلے آئے آخر کیوں کر رہے ہیں خان آپ میرے ساتھ ایسا"

روشانے غُصے میں تیمور خان کو دیکھ کر بولی تو وہ صوفے سے اٹھ کر چلتا ہوا اُس کے پاس آیا


"میں یہاں پر تمہارے بلانے پر ہی آیا ہوں۔۔۔ تم ہی نے مجھے یہاں میسج کرکے بلایا ہے"

تیمور خان کی بات پر روشانے ابھی حیرت کا اظہار بھی نہیں کرتی کہ اچانک کمرے کا دروازہ بند ہو گیا


"یہ کمرے کا دروازہ کس نے بند کیا ہے کھولو اِس دروازہ کو"

روشانے دروازہ بجاتی ہوئی بلند آواز میں بولی جبکہ تیمور خان بنا ٹینشن لیے چلتا ہوا روشانے کے پاس آیا


"روشانے میری بات سنو"

تیمور خان اُس کے قریب آتا ہوا بولا تو روشانے ایک دم پیچھے ہٹی


"آپ دور رہے مجھ سے خان۔ ۔۔۔ آپکو شرم آنی چاہیے، ژالے جیسی لڑکی سے شادی کے باوجود آپ۔۔۔۔۔

روشانے نے اُسے غُصے میں شرمندہ کرنا چاہا


"وہ میری بیوی ہے اور تم میری پہلی چاہت"

تیمور خان روشانے کو دونوں کندھوں سے تھامتا ہوا بولا،، اِس سے پہلے روشانے تیمور خان کے ہاتھوں دور جھٹکتی، کھڑکی سے آتی فلیش لائٹ نے یہ منظر موبائل میں قید کرلیا گیا تھا


"میں ضیغم جتوئی کی بیوی ہو، کسی دوسرے کی بیوی پر نظر رکھتے شرم آنی چاہیے آپکو۔ ۔۔۔ شرم سے ڈوب مرے آپ"

روشانے غُصے میں تیمور خان کو دیکھتی ہوئی بولی،، وہ ایک بار پھر پریشانی سے دروازہ بجانے لگی


"شرم تو تمہیں آنی چاہیے جتنے فخر سے تم ضیغم جتوئی کو شوہر کہہ رہی ہو،، اُسی کے باپ نے تمہارے باپ کا قتل کیا تھا اِسی حویلی میں، روشانے میرا مقصد تمہیں حاصل کرنا نہیں ہے لیکن اب تم اُس حویلی میں نہیں رہ سکتی سمجھو میری بات کو دشمن ہیں یہ لوگ ہمارے۔۔۔ میں تمہیں واپس لینے آیا ہوں ویسے بھی آج نہیں تو کل یہ لوگ تمہیں دھکے دے کر یہاں سے نکال دیں گے جیسے تمہاری ماں کو نکالا تھا۔۔۔ آج تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا"

تیمور خان روشنانے کا رُخ اپنی طرف کرتا اُسے سمجھانے لگا تبھی کمرے سے باہر قدموں کی آوازیں آنے لگی جیسے کوئی کمرے کی طرف آ رہا ہو


"ہوش میں تو ہیں آپ،، میں آپ کے ساتھ کہیں نہیں جانے والی۔۔۔ آپ یہاں سے چلے جائیں ورنہ آج آپ کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے گے"

سوچنے سمجھنے کی صلاحیتں جیسے اُس کی مفلوج ہو چکی تھی روشانے بدحواسی میں بولی


"بےشک مجھے آج اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑیں مگر میں آج یہاں سے تمہارے بغیر ہرگز نہیں جاؤں گا"

تیمور خان اٹل لہجے میں بولا اُس سے پہلے روشانے اُس کا دماغ درست کرتی ایک دم کمرے کا دروازہ کھلا۔۔۔


تیمور خان اور روشانے دروازے کی طرف دیکھنے لگے سامنے ضیغم کے ساتھ شمشیر جتوئی اور کشمالا موجود تھے


"بہت فکر ہو رہی ہے تیری بیوی کو اپنے عاشق کی،، جبھی اُسے یہاں سے بھگا رہی ہے"


کشمالا طنزیہ لہجے میں اپنے برابر میں کھڑے ضیغم سے بولی تو روشانے بے یقینی سے کشمالا کو دیکھنے لگی جبکہ غُصے میں بھرا ہوا ضیغم چار قدم کا فاصلہ عبور کرتا ہوا تیمور خان پر جھپٹا


"ہمت کیسے ہوئی تیری یہاں قدم رکھنے کی"

ضیغم نے بولنے کے ساتھ ہی تیمور خان کے منہ پر دو مُکے جڑے اِس سے پہلے وہ تیمور خان کو مزید مارتا،، کشمالا بیچ میں آکر ضیغم کو پکڑ چکی تھی جبکہ حویلی کے دوسرے ملازموں نے وہاں آکر فوراً تیمور خان کے دونوں بازو پکڑے اور اُسے گھیرے میں لیا


"یہ خود یہاں پر نہیں آیا ہے اِسے تیری بیوی نے بلایا ہے اپنی بیوی کا موبائل چیک کر تجھے خود میسج دیکھ کر اندازہ ہوجائے گا۔۔۔ آج صبح ہی مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کے پاس موبائل ہے تبھی میں نے اِس کا موبائل قابو میں کیا اور تجھے یہاں آنے کو کہا"

کشمالا ضیغم کو پیچھے ہٹاتی ہوئی بولی روشانے ابھی بھی بے یقینی سے کشمالا کو دیکھ رہی تھی


"یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ مامی۔۔۔ میرا موبائل تو کل سے آپ کے پاس موجود ہے"

روشانے کو اب سب سمجھ میں آ رہا تھا کشمالا کا اُس سے موبائل لینا۔۔۔ تیمور خان کا اتنی بے خوفی سے حویلی کے اندر قدم رکھنا۔۔ روشانے کے بولنے پر کشمالا چلتی ہوئی اس کے پاس آئی


"جتنی تو شکل سے معصوم لگتی ہے نا، اندر سے اُتنی ہی مّکار ہے یوں سب کے سامنے جھوٹ بول کر ہمیں گمراہ مت کر،، کیا پہلی بار تُو نے اِس کو یہاں پر بلایا ہے یا تیرا عاشق پہلی بار تجھ سے یہاں ملنے آیا ہے"

کشمالا غُصّے اور حقارت سے روشانے دیکھتی ہوئی بولی جبکہ ہاتھ کا اشارہ اُس کا تیمور خان کی طرف تھا جو کہ اس وقت حویلی کے ملازموں میں گھیرے میں جکڑا کھڑا تھا۔۔۔ کشمالا چلتی ہوئی ضیغم کی طرف آئی جو کہ سرخ آنکھوں سے سارا منظر دیکھ رہا تھا۔۔۔ کشمالا نے اپنے ہاتھ میں موجود موبائل اُس کی طرف بڑھایا


"یہ تصویر شانو کی بیٹی نے تھوڑی دیر پہلے لی ہے، جب یہ بد ذات اپنے اِس عاشق کو اپنے ماں بننے کی خبر سنا رہی تھی"

کشمالا کی بات سن کر حیرت اور بے یقینی سے ضیغم نے روشانے کو دیکھا۔۔۔ اُس کی بیوی ماں بننے والی تھی اور ایسی کوئی بات کی اُسے خبر تک نہیں تھی۔۔۔ دوسری طرف روشانے افسوس بھری نظروں سے کشمالا کو دیکھ رہی تھی جو ایک کے بعد ایک اُس پر بہتان لگا رہی تھی مگر احتجاجاً بھی وہ اپنے لئے کچھ نہیں بولی یونہی خاموش کھڑی رہی


"میں ایک بار پھر تیرے سامنے قسم نہیں اٹھاؤں گی، تجھے یقین کرنا ہے یا نہیں کرنا یہ تیرے اوپر ہے۔۔۔ لیکن میں اِس گُناہ کی پوٹ کو اب اِس حویلی میں نہیں رکھو گی۔۔۔ اِس کی کوکھ میں پلنے والا گند،، وہ اِس حویلی کا خون نہیں ہے اگر اپنی بیوی پر تُو آج بھی یقین رکھتا ہے تو بےشک اِسے اِس حویلی سے لے کر چلا جا"


کشمالا ضیغم کی طرف دیکھتی ہوئی بول رہی تھی اور وہ موبائل کی اسکرین پر خاموشی سے روشانے اور اُس انسان کی تصویر دیکھ رہا تھا جس سے وہ نفرت کرتا تھا، اِس بات سے خود روشانے اچھی طرح باخبر تھی۔۔۔ کشمالا کی بات سُن کر ضیغم چلتا ہوا روشانے کے پاس آیا جو آنکھوں میں بے شمار آنسو لئے اب ضیغم کو دیکھ رہی تھی


"مجھ سے اپنے بچے کا ثبوت مت مانگیے گا سائیں، ورنہ میں مر جاؤں گی"

وہ تڑپ کر ضیغم کو دیکھتی ہوئی بولی تھی جو کہ پہلے ہی اُس سے خفا ہوکر اُسے اکیلا حویلی میں چھوڑ کر چلا گیا تھا


"تم نے اِسے میسج کرکے یہاں بلایا تھا یا نہیں"

ضیغم روشانے کو دیکھ کر سوال اٹھانے لگا تو روشانے نے اپنا لرزتا ہوا ہاتھ ضیغم کے سر پر رکھا


"آپ کی قسم کھا کر کہتی ہوں سائیں میں نے اِسے کوئی میسج نہیں کیا تھا"

روشانے کے قسم اُٹھانے پر ضیغم نے اُس کا ہاتھ بری طرح اپنے سر سے جھٹک دیا


"دو دن پہلے بھی تم نے میرے سر کی قسم کھائی تھی،، وہ قسم سچی تھی یا جھوٹی تھی،، سچ سچ بتانا مجھے"


بے انتہا سنجیدگی سے ضیغم نے روشانے سے پوچھا روشانے ضیغم کی بات سُن کر ایک پل کے لیے خاموش ہوگئی۔۔۔ حویلی میں موجود تمام نفوس کی نظریں اُس وقت اُن دونوں پر ٹکی ہوئی تھی


"اگر میں آپ کو اُس وقت پورا سچ بتا دیتی تو آپ مجھ سے خفا ہوجاتے مگر وہ بھی پورا سچ نہیں تھا سائیں۔۔۔ میں آپ کو اصل حقیقت۔۔۔"

روشانے نے بولنا چاہا تب ضیغم نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے مزید کچھ کہنے سے روکا


"تم نے میری ناراضگی کے ڈر سے میری جھوٹی قسم کھائی یعنٰی اُس دن بھی یہ تم سے ملنے آیا تھا،، جو کچھ ماں نے تمہارے بارے میں بولا وہ سچ تھا۔۔ تو میں آج تمہاری قسم پر کیسے یقین کر لوں"

ضیغم غضب ناک نظروں سے روشانے کو دیکھتا ہوا بولا اُس کی آنکھوں میں اپنے لیے بے اعتباری دیکھ کر روشانے تڑپ اٹھی


"جب تمہیں اِس انسان کے ساتھ زندگی نہیں گزارنی تو کیوں اُسے وضاحت دے رہی ہو،، آج اِس کو ہم دونوں کے رشتے کی حقیقت سچ بتا دو"

ملازموں کے بیچ جگڑا ہوا تیمور خان بے خوف ہو کر بولا ضیغم اُس کی بات سُن کر مشتعل انداز میں تیمور خان کی جانب اُس کو مارنے کے لیے بڑھا


"رک جاؤ، اِس کے گندے خون سے اپنے ہاتھ خراب مت کرو،، اچھا ہے جو اِس وقت فیروز یہاں موجود نہیں ہے۔۔۔ میں اب کوئی خون خرابہ نہیں چاہتا۔۔۔ بے شک ہماری عزت کا جنازہ نکل چکا ہے۔۔۔ اپنی بیوی کو طلاق دے کر ابھی اِسے، اس کے ساتھ رخصت کرو یہ میرا حکم ہے"

شمشیر جتوئی جو سارے عرصے خاموش، چپ کا لبادہ اوڑھے صوفے پر بیٹھا تھا کھڑا ہوکر بولا۔۔۔ اپنے چھوٹے بیٹے کی موت کے بعد سے اُس کی طبیعت میں وہ روعب اور طنطنعہ نہیں بچا تھا مگر حویلی میں آج بھی اُس کے حکم کو بجا لایا جاتا


"یہ اِس حویلی سے اِسی کے ساتھ جائے گی مگر میں اِسے طلاق دے کر نہ تو آزادی بخشو گا،، نہ کسی کی دلی مراد پوری کرو گا۔۔۔ بیشک یہ میرے نکاح میں رہ کر ساری زندگی میرے اِس دشمن کے ساتھ گزارے مگر میں اسے آزاد نہیں کروں گا"

ضیغم روشانے کو غُصے میں دیکھتا ہوا شمشیر جتوئی سے بولا اور قہر آلود نظروں سے وہ تیمور خان کو دیکھتا ہوا وہاں سے جانے لگا۔۔۔ کشمالا خاموش کھڑی سارا تماشہ دیکھ رہی تھی


"سائیں۔۔۔ سائیں میری بات سنیں،، آپ بے شک مجھ سے خفا رہے یا مجھ سے بات نہیں کریں مگر میں یہاں سے نہیں جاؤں گی"

وہ روتی ہوئی ضیغم کے سامنے آ کر بولی اُسے لگا اگر آج وہ اِس حویلی سے نکل گئی تو ضیغم کی زندگی سے بھی ہمیشہ کے لیے نکل جائے گی جسے اب وہ اپنی زندگی سمجھنے لگی تھی


"چلی جاؤ اِس وقت،، میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔۔ کہیں یہ نہ ہو کہ تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرائے اور اِس حویلی میں ایک بار پھر قتل ہو"

ضیغم غضب ناک نظروں سے روشانے کا روتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر بولا جس کی آنکھ میں آنسو اُسے بے چین کر دیتے تھے۔۔۔


ضیغم سیڑھیاں چڑھتا ہوا اپنے کمرے میں جا چکا تھا روشانے ڈبڈبائی نظروں سے ابھی تک سیڑھیاں تک رہی تھی


"چھوڑ دو اِس بدبخت کو اور حویلی سے دور کرو اِن دونوں بے شرموں کو"

شمشیر جتوئی اپنے ملازموں سے بولتا ہوا وہاں سے چلا جبکہ کشمالا مسکراتی ہوئی روشانے کو دیکھنے لگی جو اب تک سیڑھیاں دیکھتی ہوئی آنسو بہا رہی تھی


"تیری ماں اور تیرے نصیب میں اِس حویلی کا سُکھ نہیں لکھا ہے،، جا چلی جا یہاں سے اور آج کے بعد آئندہ اپنی شکل مت دکھانا"

کشمالا تفکر سے گردن اکڑا کر بولی


جو اُس نے سوچا تھا وہ کر لیا،، جیسے آج سے 18 سال پہلے وہ اپنا سوچا ہوا پایا تکمیل تک پہنچ چکی تھی


"میں آپ کو کبھی معاف نہیں کرو گی نہ ہی آپ کو کبھی اوپر والے سے معافی ملے گی،، یہ بات آپ یاد رکھیے گا"

روشانے اُس عورت کو دیکھ کر بولی جس نے اُس کی ماں کو بھی حویلی سے نکالا تھا۔ ۔۔ آج اُس نے اِس کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا تھا جیسے اٹھارہ سال پہلے اُس کی ماں کے ساتھ ہوا تھا


اچانک اُس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا جس کی وجہ سے وہ اپنا وجود سنبمال نہیں پائی اِس سے پہلے چکرا کر وہ زمین بوس ہوتی تیمور خان اُسے تھام چکا تھا


"اگر آج میں اپنے بیٹے کو بُلانے کی بجائے یہاں پر میں اپنے شوہر کو شہر سے بلوا لیتی،، تو تیری جان نہیں بچ پاتی۔۔۔ اب اپنے وعدے کے مطابق اِسے یہاں سے لے کر چلے جاؤ"

کشمالا تیمور خان کو بولتی ہوئی ایک نظر روشانے کے بے ہوش وجود پر ڈال کر وہاں سے چلی گئی


****


"تو اپنا کہا تم نے پورا کر ہی لیا آخر۔۔۔ لے آئے تم روشانے کو واپس حویلی میں"

صبح سویرے جب تیمور خان بیدار ہوا تو ژالے اُس کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی


کل رات وہ جلدی سو گئی تھی،، اِس لیے حویلی میں روشانے کو دیکھ کر کیا طوفان برپا ہوا اُسے اندازہ ہی نہیں تھا۔۔۔ تیمور خان بے ہوش روشانے کا وجود کو اپنے ساتھ حویلی میں لے کر آیا تھا۔۔۔ کبریٰ خاتون سمیت سردار اسماعیل خان اور زرین کے پوچھنے پر اُس نے صرف اتنا ہی بتایا کہ ضیغم جتوئی اور اُس کے گھر والوں نے روشانے کو حویلی سے نکال دیا۔۔۔ بہت سارے سوالوں کے جواب وہ اُن سب کے ذہن میں چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلا آیا تھا جہاں پر ژالے پہلے ہی سو رہی تھی


"خان اپنی زبان کا پّکا ہے جو کہتا ہے وہ کر دکھاتا ہے"

بیڈ پر بیٹھا ہوا وہ تھوڑا اکڑ کر ژالے کو دیکھتا ہوا کہنے لگا


روشانے کی رات سے ہی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ڈپریشن کے سبب وہ وقفے وقفے ہوش میں آتی پھر ہوش و خروش سے بیگانہ ہو جاتی۔۔۔ ڈاکٹر نے اُس کی کنڈیشن کے سبب اُس کے مائنڈ کو ریلیکس رکھنے کے لیے اینٹی ڈپریشن دیا تھا۔۔۔ زرین کل رات سے ہی روشانے کے کمرے میں اُس کے پاس موجود تھی۔۔۔ صبح ژالے کو جب ساری صورت حال معلوم ہوئی تو اُسے روشانے پر ترس آنے لگا


"تو اب تم اُس کا گھر توڑنے کے بعد، ضیغم جتوئی سے اُس کا رشتہ ختم کروا کر خود روشانے سے شادی کرو گے"

ژالے نے بولتے ہوئے اپنے اندر کچھ ٹوٹتا ہوا سا محسوس کیا


"ایسا میں نے کب کہا کہ میں اُس سے شادی کروں گا"

تیمور خان بیڈ سے اٹھ کر ژالے کے پاس آتا ہوا ژالے سے پوچھنے لگا


"اُس سے شادی نہیں کرو گے؟؟ اگر اُس سے شادی نہیں کرنی تو اُسے یہاں کیوں لے کر آئے ہو۔۔ آخر کیوں رکھنا چاہتے ہو اُسے اپنے سامنے حویلی میں"

ژالے اب اُلجھ کر تیمور خان سے پوچھنے لگی


"میرے چچا کی بیٹی ہے وہ، اُس کی رگوں میں سرداروں کا خون دوڑتا ہے تو اِس حساب سے اُس کا ہمارے دشمنوں کی حویلی میں کیا کام۔۔۔ اب میں اُسے اپنے دشمن کا جی بہلاتے کے لیے تو وہاں نہیں چھوڑو گا ناں۔ ۔۔ بے شک روشانے میری پسند رہی مگر اب اُس کا شوہر اُس پر اپنی مکمل چھاپ چھوڑ چکا ہے۔۔۔ میں اُس کو اپنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن وہ کمینہ جتوئی خوش اور آباد رہے میں یہ بھی نہیں دیکھ سکتا۔۔ اِس لیے اب روشانے کو ہمیشہ کے لیے یہی رہنا ہوگا،، تمہاری ذات کو اُس سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہونا چاہیے تم اُس طرف سے بالکل بے فکر رہو اور اپنے خان پر دھیان دو"

تیمور خان نے بولتے ہوئے ژالے کو اپنے حصار میں لینا چاہا،، ژالے فوراً اُسکے ہاتھ جھٹک کر دور ہوئی


"تم کتنے خود غرض انسان ہو خان،، اگر تمہیں تمہاری پسند نہیں مل سکی تو تم نے روشانے سے بھی اُس کی خوشیاں چھین لی،، اُس کا گھر برباد کر دیا تم نے۔۔۔ صرف اس وجہ سے کہ تمہارا دشمن آباد نہ رہ سکے۔۔۔ تم واقعی ظالم بے حس اور سفاک انسان ہو،، اپنے علاوہ تمہیں کسی دوسرے کی پروا نہیں۔۔۔ تم کسی دوسرے کو خوش اور آباد نہیں دیکھ سکتے،، تمہاری فطرت میں بے حسی اور خود غرضی کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔۔۔ اب اصل حقیقت جاننے کے بعد میں تمہاری سوچ دادی حضور اور بڑے خان کے سامنے رکھو گی بے شک تم میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دو"

ژالے تیمور خان کو آئینہ دکھاتی ہوئی کمرے سے باہر نکلنے لگی تبھی تیمور خان نے ژالے کا بازو پکڑا اور اپنے دوسرے ہاتھ سے اُس کا منہ دبوچا


"اگر میں تمہارے ساتھ نرمی برت رہا ہوں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ تم اپنی حد بھول جاؤ،، اگر تم نے کسی کے سامنے زبان کھولی یا کچھ بھی الٹا سیدھا کسی کے سامنے بولا تو میں تمہاری یہ زبان کاٹ ڈالوں گا ژالے"

تیمور خان اُس کا منہ دبوچے غُصّے میں ژالے وارن کرنے لگا تبھی دروازے پر دستک ہوئی تو تیمور خان نے جا کر دروازہ کھولا


"چھوٹے خان۔۔۔ وہ روشانے بی بی"

ملازمہ گھبراتی ہوئی تیمور خان کو دیکھ کر بولی


"کیا ہوا روشانے کو"

ملازمہ کا گھبرایا ہوا چہرہ دیکھ کر تیمور خان ماتھے پر بل ڈالے اُس سے پوچھنے لگا


"جی تھوڑی دیر پہلے ہی بڑے خان اور زرین بی بی آرام کرنے کے غرض سے روشانے بی بی کے کمرے سے اپنے کمرے میں گئے تھے اُن دونوں کے کمرے سے جاتے ہی روشانے بی بی حویلی سے باہر نکل گئی"

ملازمہ گھبراتی ہوئی تیمور خان کو بتانے لگی


"ایسے کیسے حویلی سے باہر نکل گئی،، کس نے جانے دیا اُسے حویلی سے باہر"

تیمور خان چیختا ہوا بولا اور خود بھی حویلی سے باہر نکل گیا جبکہ ژالے کمرے سے نکل کر سردار اسماعیل خان کے پاس جانے لگی


"روشانے کیونکہ پیدل تھی اِس لیے اُسے حویلی سے دور جاتے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی تیمور خان خود بھی پیدل بھاگتا ہوا اُس کے پاس پہنچ گیا


"روشانے یہ کیا فضول حرکت کی ہے تم نے،، کیوں نکلی ہو تم حویلی سے باہر"

بڑی سی چادر پہنے وہ تیز قدم اٹھائے جا رہی تھی تیمور خان بھاگتا ہوا اُس کے پیچھے آیا اور پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان بولا


"اچھا نہیں کیا آپ نے میرے ساتھ خان، میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی اور نہ ہی یہاں رہو گیں، اپنے شوہر کے پاس جا رہی ہوں میں"

روشانے نڈر ہو کر تیمور خان کے سامنے بولی

وہ جلدی جلدی سڑک کراس کرنے لگی اُسے ضیغم کے پاس پہنچنا تھا


"روشانے"

سامنے سے آتا بڑا سا ٹرالر دیکھ کر تیمور خان چیخا۔۔ ۔ نہ صرف چیخا بلکے روشانے کو بچانے کی خاطر اُس نے روشانے تک پہنچ کر اسے زور سے دھکا بھی دیا جس سے روشانے دور جا گری مگر وہ ٹرالر تیمور خان کو کُچلتا ہوا چلا گیا


****

شاید یہ کوئی مچھر تھا جو کافی دیر سے اُس کے کان اور چہرے کے پاس مسلسل بھنبھنا رہا تھا۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ کافی دیر سے الجھن میں مبتلا تھا... جب وہ مچھر کہیں غائب ہو گیا تو اُس نے خدا کا شکر ادا کیا۔۔۔ مگر اب اُسے اپنے سیدھے ہاتھ پر چبھن محسوس ہو رہی تھی یقیناً وہ مچھر اُس کے سیدھے ہاتھ پر بیٹھا ہوا اُس کو کاٹ رہا تھا،، بے بسی کی انتہا یہ تھی کہ پچھلے آٹھ ماہ سے وہ اپنے ہاتھ پاؤں چلانا تو دور کی بات اپنے وجود میں ہلکی سی جنبش دینے کے بھی قابل نہیں رہا تھا


اُس کا دماغ اُسے بات سمجھنے کی آگاہی دیتا تھا، اُس کا جسم سارے محسوسات سے واقف تھا مگر ہلنے سے قاصر تھا۔۔۔ کوئی ایسا درد یا تکلیف نہیں تھی جو اُس نے 8 ماہ میں برداشت نہ کی ہو مگر بے بسی کا یہ عالم تھا کہ وہ درد سے چیخ نہیں سکتا تھا، نہ ہی اپنے ہاتھ پاؤں کو حرکت دے سکتا تھا جب اُس کی برداشت ختم ہو جاتی تو اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۔۔۔ آٹھ ماہ سے وہ ہسپتال کے ایک بیڈ پر کسی زندہ لاش کی طرح پڑا ہوا تھا


دروازہ کُھلنے کی آواز پر اُس کا دماغ،، ہاتھ پر بیٹھے مچھر سے،، ہسپتال کے کمرے کے اندر آنے والے فرد پر چلا گیا۔۔۔ یہ اُس کا اٹینڈیٹ عدیل ہرگز نہیں تھا کیونکہ اُس کے کپڑوں سے اٹھتی سستے پرفیوم کی خوشبو اور منہ سے آتی پان کی اسمیل اُسے کمرے میں عدیل کی موجودگی کا پتہ دیتی تھی


اپنے ماتھے پر دیے گئے بوسے سے وہ زرین کو پہچان چکا تھا۔۔۔ شاید وہ ابھی حویلی سے سیدھا اسپتال میں آئی تھی تبھی اُسے مختلف شاپرز اور بیگ رکھنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔۔۔ تیمور خان کو معلوم تھا اب تھوڑی دیر بعد وہ کرسی پر بیٹھ کر اپنا سانس بحال کرتی اور پانی پینے کے بعد اُس سے باتیں کرتی،، اُسے حویلی کا حال احوال بتاتی۔۔۔ دنیا میں کیا چل رہا ہے یہ سب خبر دیتی


پوری دنیا سے تعلق ختم کیے اُسے آٹھ ماہ گزر چکے تھے مگر اُس کی ماں نے اُس کا تعلق کسی بھی چیز سے ختم نہیں ہونے دیا تھا


"کیسے ہو خان،، ابھی میں اور ژالے شہر پہنچے ہیں، کل رات اماں حضور کافی پریشان تھی تمہیں خواب میں روتا ہوا دیکھ کر،، ضد پکڑ کر بیٹھ گئی کہ مجھے میرے خان کے پاس لے چلو مگر چار گھنٹے کا طویل سفر کرنا اُن کے لیے مشکل ہے،، اِس لیے بڑے خانے نے ڈرائیور کے ساتھ مجھے اور ژالے کو بھیج دیا۔۔۔ ژالے کے بارے میں سوچ رہے ہو،، وہ ڈاکٹر کے پاس گئی ہے تمہاری کل کے ٹیسٹ کی رپورٹ لینے تھوڑی دیر میں آتی ہوگی۔۔۔ تم بتاؤ میرے بچے کوئی پریشانی تو نہیں،، حویلی میں سب خیریت ہے چند دن پہلے روشی کے پیپر ختم ہوگئے تھے تو وہ واپس حویلی پہنچ گئی ہے،، ورنہ ایک ماہ سے وہ شہر میں ہی موجود تھی میں نے بتایا تھا ناں تمہیں۔۔۔۔ اماں حضور ٹھیک ہیں بس اب اپنے کمرے میں ہی رہتی ہیں،، سارا دن اُن کا مُصّلے پر بیٹھے تمہاری صحت کے لیے دعا کرتے گزر جاتا ہے اور بڑے خان وہ بھی ٹھیک ہیں پہلے کبھی بڑھتی ہوئی عمر میں بوڑھے نہیں لگتے تھے مگر اب لگتا ہے اُن پر بڑھاپا آ ہی گیا ہے"

زرین حویلی میں موجود سب کا احوال بتانے لگی۔۔ ان آٹھ ماہ میں بہت کچھ بدل گیا تھا


اُس کے کومے میں جانے کے بعد اور مستقل اسپتال میں قیام کرنے کی وجہ سے سردار اسماعیل خان، زرین اور ژالے تینوں کا ہی شہر میں آنا جانا لگا رہتا کبریٰ خاتون چار سے پانچ بار ہی اُس کے پاس ہسپتال آئی تھی مگر تیمور خان کو اِس حالت میں دیکھ کر اُنکی اپنی طبیعت کافی بگڑ گئی تھی۔۔۔ اب انہوں نے حویلی کے تمام تر معاملات اور فیصلے سردار اسماعیل خان پر چھوڑ دیے تھے اور خود خدا سے لو لگا لی تھی۔۔۔ بڑھاپے کی سبب اب کبریٰ خاتون کی طبیعت میں کافی نرمی آ چکی تھی


روشانے اسپتال میں ایک بار ہی نہیں آئی تھی اگر آجاتی تو شاید تیمور خان کو اِس حال میں دیکھ کر اُسے سکون ملتا کیونکہ تیمور خان کی وجہ سے اس کی مشکلات میں اضافہ ہو چکا تھا


اب تیمور خان کو احساس ہونے لگا کہ وہ روشانے کے ساتھ بہت برا کر چکا ہے۔۔ وہ بھی اپنی سوچوں میں گم تھا کہ دروازہ ایک بار پھر کُھلا۔۔ تیمور خان آنے والی ہستی کے بارے میں ایک پل میں بتا سکتا تھا وہ ژالے تھی، جو ہسپتال میں زیادہ تر اُسی کے پاس موجود رہتی تھی


"او میرے خدا اِس عدیل کے بچے کو کتنی بار کہا ہے یہ کھڑکی مت کھولا کریں سارے مچھر کمرے میں آ جاتے ہیں۔۔۔ عجیب موٹی عقل ہے اِس لڑکے کی،، دوسرا ہر وقت اُس کے منہ میں پان بھر رہتا ہے اتنی زہر لگتی ہے اُس کے منہ سے آتی بو"

ژالے نے کمرے میں آنے کے ساتھ ہی سب سے پہلے کمرے میں موجود کھڑکی بند کی اور پھر ائیرفریشنر کرتی ہوئی وہ تیمور خان کے پاس آئی اور اُسے دیکھنے لگی


"چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے ژالے،، شریف بچہ ہے،، اچھے سے میرے خان کی دیکھ بھال کر لیتا ہے"


زرین ژالے کو سمجھاتی ہوئی بولی جبکہ ژالے تیمور خان کے سیدھے ہاتھ کے اُس حصے پر آہستگی سے اپنی انگلیاں پھیرنے لگی جو کہ مچھر کے کاٹنے کی وجہ سے سرخ نشان چھوڑ چکا تھا۔۔۔

تیمور خان کو اُس کی انگلیوں کی نرمائٹ سے سکون مل رہا تھا۔۔۔ وہ زرین کی طرح اُس سے باتیں نہیں کرتی تھی صرف اُس کا اچھی طرح خیال رکھتی تھی


"صرف شریف بچہ ہے آنٹی، مگر خان کی دیکھ بھال وہ بالکل ٹھیک طریقے سے نہیں کرتا،، یہ ہفتے بھر پہلے جب میں یہاں سے گئی تھی تب کی شیو بنی ہوئی ہے خان کی۔۔۔ اگر میں جاکر ابھی اُس کی خبر لو تو دس طرح کے بہانے بنائے گا"


ژالے اب تیمور خان کی بڑھی ہی شیو کی طرف اشارہ کرتی ہوئی بولی۔۔ تیمور خان کو اندازہ تھا ابھی چند گھنٹے گزرنے کے بعد ژالے خود ہی اُس کی شیو بنانے لگ جائے گی


"بس اللہ پاک میرے بچے کے کے جسم میں جان ڈال دے، وہ خود اپنے کام کرنے کی اِس قابل ہو جائے،، کسی دوسرے کا محتاج ہی نہ رہے"

زرین افسردہ لہجے میں بولنے لگی تبھی تیمور خان کا بھی دل بھر آیا


وہ اِن آٹھ ماہ میں کون کون سی تکلیف اور اذیت اٹھا چکا تھا اُس کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا تھا۔۔۔ زرین کی بات پر تیمور خان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہونے لگے


کمرے میں پھیلی خاموشی سے وہ سمجھ گیا ژالے اب زرین کو خاموش کروا رہی ہوگی اور اشاروں اشاروں میں اُسے سمجھ آرہی ہوگی۔۔۔ ایک بار پھر وہ ژالے کی انگلیوں کی نرماہٹ محسوس کرنے لگا وہ اُس کی آنکھوں سے نکلے ہوئے آنسو پوچھ رہی تھی


****


"یار کمال کرتی ہو تم بھی گھر کا سارا سودا سلف تمہیں آج ہی خریدنا تھا"

فلیٹ کے گیٹ سے اندر گاڑی پارک کرتے ہوئے وہ بارہ تیرا شاپرز تھامے روشانے کو دیکھتا ہوا بولا


"سائیں آپ بھول رہے ہیں یہ شاپنگ کا پروگرام آپ نے بنایا تھا"

روشانے دو شاپرز ہاتھ میں لئے،، اپنی چادر سنبھالتی ہوئی ضیغم کے ہم قدم چلتی ہوئی اُسے یاد دلانے لگی


"میں نے تمہاری شاپنگ کا پروگرام بنایا تھا یہ نہیں کہا تھا کہ پورے گھر کا راشن آج ہی لے لو خوار کروا دیا یار قسم سے"


ضیغم آج جلدی گھر پہنچا تھا۔۔۔ اور اتفاق سے روشانے نے کالج سے آف کیا تھا تو ضیغم نے اُسے گرم کپڑے لینے کے لیے کہا کیونکہ موسم اب تبدیل ہو رہا تھا مگر روشانے کسی اور ہی موڈ میں تھی جبھی اُس نے اپنی شاپنگ کرنے کے بعد،، قریبی مارٹ سے گروسری کا بھی پروگرام بنا لیا


"دو دن بعد تو خواری اُٹھانی پڑتی سائیں آپ کو،، لائِیں ایک دو شاپرز مجھے پکڑوا دیں"

روشانے اُس کے ہاتھ میں ڈھیر سارے شاپرز دیکھ کر ضیغم کے ساتھ چلتی ہوئی اُسے آفر کرنے لگی جس پر ضیغم نے اُسے گھور کر دیکھا


"یہ جو دو شاپرز تمہارے ہاتھ میں موجود ہیں،، بس تم انہیں مضبوطی پکڑ کر چلو"

ضیغم کے طنز کرنے پر روشانے کو ہنسی آنے لگی


تھوڑی دیر پہلے اُس سے ایک شاپر نیچے گر گیا تھا جس میں فروٹ موجود تھا۔ ۔۔ وہ تو اللہ بھلا کرے واچ مین کا جس نے ضیغم کے غُصّہ کرنے سے پہلے سارے سیب اور کیلے اٹھا کر واپس شاپر میں ڈال کر روشانے کو پکڑا دیے تھے


ابھی وہ دونوں باتیں کرتے کرتے لفٹ کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کسی خرابی کی وجہ سے لفٹ بند تھی۔۔ ضیغم نے بیزار سی شکل بنا کر روشانے کو دیکھا۔۔ روشانے سے اپنی ہنسی چھپانا محال ہوگیا۔۔۔۔ اُن کا فلیٹ پانچویں منزل پر تھا اور اب سیڑھیوں سے اُن دونوں کو اوپر جانا تھا


"بہت ہنسی آرہی ہے تمہیں"

ضیغم سارے شاپرز ہاتھ میں تھامے سیڑھیاں چڑھتا ہوا سنجیدگی سے روشانے کو دیکھ کر پوچھنے لگا جو کہ اُس سے دو سیڑھیاں پیچھے تھی


"یہ بتائیں کہ آپ کو اتنا غصہ کس بات پر آرہا ہے"

روشانے اب مسکراتی ہوئی ضیغم سے پوچھنے لگی شادی کے چند دنوں بعد ہی اُن دونوں میں اجنبیت کی دیوار گر چکی تھی اور اس میں سارہ کمال سے ضیغم کا تھا


"غصہ نہیں آرہا یار الجھن ہو رہی ہے،، اِس لفٹ کو بھی ابھی خراب ہونا تھا"

ضیغم بیزار کیفیت میں بولتا ہوا سیڑھیاں چڑھنے لگا کیونکہ ابھی اُسے چند ایک جو کام اور بھی نبھٹانے تھے


"چلے میں آپ کی الجھن دور کر دیتی ہوں۔۔ ایسا کرتے ہیں ہم دونوں سیڑھیوں پر ریس لگاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ پہلے کون سیڑھیاں چڑھتا ہوا اپنے فلیٹ کے دروازے تک پہنچتا ہے۔۔۔ ایسے وقت کا بھی پتہ نہیں چلے گا اور سیڑھیاں بھی جلد سے جلد ختم ہو جائیں گی"

روشانے خوشی خوشی اسے آئیڈیا دیتی ہوئی بولی۔۔۔ سیڑھیاں چڑھتا ہوا ضیغم روشانے کے آئیڈیا دینے پر اُسے گھورنے لگا


"ایسی فضول سوچ کیسے دماغ میں آئی تمہارے"

وہ روشانے کی بات کو سیریس نہیں لیتے ہوئے بولا


"کبھی کبھی فضول کاموں کو انجوائے کرنا چاہیے سائیں مزا آتا ہے، چلیں نہ ریس لگاتے ہیں"


وہ ضیغم کے ساتھ چلتی ہوئی بچوں کی طرح ضد کرنے لگی جس پر اب ضیغم کو ہنسی آئی ساتھ ہی وہ تیزی سے دو دو سیڑھیاں پھلانگتے ہوا اوپر چڑھنے لگا۔۔ جب سیکنڈ فلور پر پہنچا تب روشانے کو سمجھ میں آیا کہ وہ اِس سے آگے نکل کر پہلے فلیٹ تک پہنچ جائے گا۔۔ روشانے بھی تیزی سے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔۔ اس طرح ریس لگاتے ہوئے اُن دونوں کو ہی اپنی بچکانہ حرکت پر ہنسی آرہی تھی


ضیغم اپنی ساری بے زاریت بھول چکا تھا وہ روشانے کو پیچھے چھوڑتا ہوا کافی آگے بھی نکل چکا تھا


"آہ سائیں"

اچانک روشانے کی آواز پر ضیغم نے پیچھے مڑ کر دیکھا وہ دونوں شاپرز نیچے زمین پر رکھ کر اپنا پاؤں پکڑے بیٹھ چکی تھی


"اوپر کھڑے ہو کر کیا دیکھ رہے ہیں نیچے آئے چوٹ لگی ہے مجھے"

روشانے ضیغم کو دیکھ کر منہ بسورتی ہوئی بولی


"اچھا،، مجھے لگا کہ تم ریس جیتنے کے لیے چوٹ لگنے کی ایکٹنگ کر رہی ہو"

ضیغم اُس کی چالاکی سمجھ چکا تھا تبھی وہی کھڑے کھڑے بولا


"آپ کو ریس جیتنے کی پڑی ہے،، اب کیا میں رو کر دکھاؤ گی تب آپ کو یقین آئے گا، کتنا درد ہو رہا ہے میرے پاؤں میں"

روشانے درد سے کرہاتی ہوئی بولی تو ضیغم کو اُس کا ڈرامہ سمجھنے کے باوجود سیڑھیاں اتر کر نیچے آنا پڑا


"لاؤ یہ شاپرز اور بیگ مجھے دے دو"

ضیغم اُس کے پاس پہنچ کر بولا۔۔۔ تو روشانے نے جھٹ سے اپنی شاپر اُس کے ہاتھ میں پکڑوانے کے بعد اپنا ہینڈ بیگ ضیغم کے گلے میں لٹکا کر شرارتی مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائے سیڑھیوں پر تیزی سے چڑھنے لگی۔۔۔


ضیغم اُس کی شرارت سمجھنے کے باوجود مسکراتا ہوا اُس کے پیچھے پیچھے تمام شاپرز اٹھائے سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اور اُسے کِھلکِھلا کر ہستا ہوا دیکھ کر خود بھی ہنس رہا تھا۔۔۔ ویسے بھی وہ یہ ریس جان بوجھ کر ہارنے کا ارادہ رکھتا تھا


"سائیں یہ ریس تو آپ اپنی روشی سے ہار گئے"

فلیٹ کے دروازے کے پاس پہنچ کر روشانے پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان ضیغم سے بولی


"میں یہ ریس نہیں ہارا ہو بلکہ اپنے دل ہارا ہو، یہ ریس تم چیٹنگ سے جیتی ہو اپنے سائیں سے"

ضیغم بولتا ہوا اچانک سے اُس کے ہونٹوں پر جُھکا


"یہ کیا فضول حرکت ہے کوئی دیکھ لیتا تو"

روشانے نے ایک دم ضیغم کی حرکت پر اِدھر اُدھر دیکھا اور ناراض ہوتی ہوئی ضیغم سے بولی


"ابھی تم ہی نے تو کہا تھا کہ فضول حرکتوں کو کبھی کبھی انجوائے کر لینا چاہیے۔۔۔ اب یہ شرمانا چھوڑو میری پاکٹ سے چابی نکال کر دروازے کا لاک کھولو"


سرمئی شام آہستہ آہستہ رات کی تاریخی میں ڈھل رہی تھی حویلی کے لان میں وہ اپنے گرد چادر لپیٹے ہوئے کرسی پر بیٹھی،، ضیغم اور اپنی پرانی باتیں سوچ رہی تھی۔۔۔ موسم ایک بار پھر تبدیل ہو رہا تھا،، سردیاں شروع ہو چکی تھی مگر نو ماہ سے اُس کے دل کے اندر کا موسم ایک ہی جیسا تھا بے حد اداس۔۔۔


"روشی بچے یہاں کیوں بیٹھی ہو،، رات ہوتے ہی سردی بڑھ جاتی ہے اور میں نے کل بھی تمہیں کہا تھا کہ پاؤں لٹکا کر مت بیٹھا کرو دیکھو کتنی سُوجن آگئی ہے دونوں پیروں پر۔۔۔ تم ذرا بھی اپنی فکر نہیں کرتی"

زرین باہر لان میں آ کر روشانے سے ناراض ہوتے ہوئے بولی


ڈاکٹر نے اُسے ایک ہفتے کے بعد کی ڈیٹ دی تھی مگر وہ اپنے آپ سے بالکل بے پرواہ رہتی تھی۔۔۔ زرین ہی اُس کا خیال رکھتی تھی،،


زرین خود اِس عمر میں آکر روشانے اور تیمور خان کی اُجڑی حالت دیکھ کر کافی کمزور ہو گئی تھی،، سردار اسماعیل خان کا بھی حال اس سے مختلف نہ تھا


"اتنا زیادہ پریشان مت ہوا کریں میرے لئے تائی ماں۔۔۔ جسے فکر ہونی چاہیے اُسے تو شاید میرے حال کی خبر تک نہیں ہے۔۔۔ وہ تو شاید اپنی اولاد کو اپنا بھی نہیں مانتے ہیں"

گزرتے دنوں کے ساتھ وہ چڑچڑی ہونے کے ساتھ ساتھ کافی تلخ بھی ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ ابھی وہ تلخی سے زرین سے کہہ رہی تھی


"پھر الٹی بات کر دی تم نے۔۔۔ کتنی بار کہا ہے غلط مت سوچا کرو اپنے سائیں کے بارے میں۔۔۔۔ اُس دن اُس نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی تھی،،، یہ گھٹیا الزام اُس کی ماں نے لگایا تھا"

زرین کافی دنوں سے محسوس کر رہی تھی گزرتے دنوں کے ساتھ وہ ضیغم سے بدگُمان ہونے لگی تھی اِسی لیے روشانے کو سمجھاتی ہوئی بولی


"اُن کی ماں نے مجھ پر گھٹیا الزام لگایا اور انہوں نے ایک بار بھی اپنی ماں کو آگے سے برا بولنے سے نہیں روکا بلکہ الٹا مجھے یہاں بھیجوا دیا۔،۔۔ ایک بار پلٹ کر نہیں پوچھا کہ میں کس حال میں ہو،، اگر میرے وجود میں پلنے والی اولاد کو وہ اپنا خون سمجھتے تو کیا وہ مجھ سے لاپروائی برتتے،، یہ مرد زات بہت سفاک ہوتی ہے تائی ماں،، اب نفرت سی ہونے لگی ہے ان سب سے"

روشانے کے لہجے میں گُلی نمی محسوس کر کے زرین کا دل بھی افسردہ ہونے لگا


"اپنے شوہر کی طرف سے دل میں میل مت لاؤ بچے ورنہ زندگی اور بھی مشکل ہو جائے گی۔۔۔ تیمور خان نے تمہارے ساتھ برا کیا اوپر والے نے اُس کو اِسی وقت سزا دے دی۔۔۔۔ تیمور خان کے لیے بےشک دل صاف مت کرو مگر اپنے سائیں کے لیے اپنا دل خراب مت کرو۔۔ اللہ سب بہتر کرے گا چلو کمرے میں آجاؤ ورنہ بڑے خان ناراض ہو گے"

زرین نہیں چاہتی تھی کہ وہ اپنے شوہر کے لیے دل میں کوئی بات رکھے اِس لیے روشانے سے بولتی ہوئی خود بھی کرسی سے اٹھی اور روشانے کو لے کر کمرے میں جانے لگی


شروع شروع میں تو وہ ضیغم کو بہت یاد کرتی۔۔۔ ابتداہ کے مسلسل تین ماہ تک وہ ڈیلی اُسے کال کرتی۔۔۔ مگر ضیغم اُس کی کال ریسیو نہیں کرتا۔۔۔ روشانے نے اپنی جھوٹی قسم کھانے پر بھی ضیغم سے معافی مانگی تھی۔۔۔ تمام حالات اور واقعات بتائے تھے معلوم نہیں ضیغم نے اُس کے میسج پڑھے بھی تھے کہ نہیں


سردار اسماعیل خان اور زرین نے بھی بیچ میں پڑ کر معاملے کو سلجھانا چاہا۔۔۔ مگر ضیغم شہر میں موجود ہوتا جبکہ کشمالا ان دونوں میاں بیوی سے کافی بداخلاقی سے پیش آئی تھی،، وہی فیروز جتوئی نے بھی سردار اسماعیل خان کو دوبارہ حویلی میں قدم رکھنے سے منع کردیا کشمالا نے ان لوگوں کو یہ بھی بولا کہ وہ اپنے بیٹے کی جلد دوسری شادی کروائے گی


شہر میں جاکر ضیغم سے ملاقات کرنے پر سردار اسماعیل خان کو اُس کی طرف سے کافی کولڈ رسپانس ملا تھا۔۔۔ اُس کے بعد سے ہی روشانے نے بھی ضیغم کی ضد چھوڑ دی تھی


*****

"بات کرتے ہوئے اتنا غُصہ کیوں ہو رہے ہو تم،، لگتا ہے اپنے باپ بننے کی خبر تم تک پہنچ گئی ہے"

ویسے تو چند ماہ سے وہ اب غُصّے میں رہنے لگا تھا مگر کل سے وہ کچھ زیادہ ہی چڑچڑا ہو رہا تھا بات کرنے پر کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا تبھی فیروز جتوئی موبائل پر اپنے بیٹے سے پوچھنے لگا


"بابا سائیں پلیز وہ بات کریں جس کے لئے آپ نے کال کی ہے اِن فضول باتوں کے لئے میرے پاس ٹائم نہیں ہے"

بات تو فیروز جتوئی کی سولہ آنے درست تھی کل ہی روشانے نے ایک صحت مند بچے کو جنم دیا تھا۔۔۔ یہ بات ضیغم کو کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی


وہ شہر میں کس ہسپتال میں ایڈمٹ ہے،، کس ڈاکٹر کے پاس اُس کا آنا جانا ہوتا ہے، اُس کے تمام اپوائنٹمنٹ سے لے کر اُس کے کالج جانے تک کی وہ سب خبر رکھا ہوا تھا۔۔۔ روشانے کب حویلی میں موجود ہوتی ہے،، اپنے چیک اپ اور پیپرز دینے کے لیے کب شہر آئی اُسے سب علم تھا


"تمہاری ماں تمہیں بلا رہی ہے وہ تمہیں یوں اجڑا ہوا نہیں دیکھ سکتی پہلے تو میں اِس حق میں نہیں تھا لیکن اب میں بھی یہ چاہتا ہوں کہ تم اپنی ماں کی بات مان لو پلورشہ کی نند ایک اچھی لڑکی ہے"

ضیغم کے کہنے کے مطابق فیروز جتوئی واقعی کام کی بات کرنے لگا


"یار آپ اور ماں تھکتے نہیں ہے بار بار ایک ہی ٹاپک پر بات کرکے،، خدا کا واسطہ ہے آپ دونوں کو یہ بلاوجہ کی دوسری شادی کی ضد چھوڑ دیں،، ورنہ میں حویلی آنا چھوڑ دوں گا۔۔۔ فون رکھ رہا ہوں اُس وقت آفس میں ہوں اور کافی بزی ہوں میں"

ضیغم بے زار آتا ہوا بولا اور کال کاٹ کر موبائل سامنے میز پر پٹخ دیا


"یس"

دروازے پر کھڑا سیکرٹری کمرے کے اندر ہاتھ میں فائل لے کر آیا


"اس وقت میں بزی ہوں احمر،، یہ فائل تھوڑی دیر بعد لے کر آنا اور اب میرے روم میں کسی کو بھی مت بھیجنا"

سیکٹری کے کچھ بولنے سے پہلے ہی ضیغم اُس سے بولا اور پیکٹ سے سگریٹ نکالتا ہوا اُسے لائٹر کی مدد سے جلانے لگا


"تو ایسے مذاق میں بھی مت بولیے گا۔۔۔ میں کبھی بھی برداشت نہیں کرسکتی آپ کو کسی اور کے ساتھ دیکھ کر۔۔۔ بھلے ہی زندگی میں مجھ سے کتنا ہی خفا ہو جائیں مگر یہ دوسری شادی والا ظلم مجھ پر کبھی مت کیجئے گا سائیں"

اسموکنگ کرتے وقت ضیغم کے کانوں میں روشانے کی آواز گونجی


"اور تم سوچتی ہو میں برداشت کر لوں گا کہ کوئی بھی تمہارا نام میرے دشمن کے ساتھ جوڑے۔۔۔ تمہیں ایسا موقع ہی نہیں دینا چاہیے تھا کسی کو بیوقوف لڑکی۔۔۔ شرم آنی چاہئے تمہیں اپنے سائیں کی جھوٹی قسم کھاتے ہوئے۔۔۔ بہت ہی اچھا ہوتا جو میں لے آتا تمہارے اوپر سوتن،، اگر میرا خود کا دل گوارا کرتا"

ضیغم اپنے موبائل میں موجود روشانے کی تصویر دیکھ کر اُس سے مخاطب ہوا اُس پر کتنا ہی غصہ کیوں نہ ہو۔۔۔ اُسے اپنی نظروں سے دور کرنے کے باوجود وہ موبائل سے اُس کی تصویریں مٹا نہیں سکا تھا۔۔۔ وہ روشانے پر شک مر کر بھی نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ لیکن اُسے غُصہ روشانے کے جھوٹ بولنے پر آیا، موبائل میں اُن دونوں کی ایک ساتھ تصویر دیکھ کر آیا،، اُس کے موبائل میں موجود میسج دیکھ کر آیا۔۔۔


غُصے کے باوجود وہ شمشیر جتوئی کے کہنے پر یا کسی کے بھی بدکردار بولنے پر روشانے سے اپنا تعلق یا رشتہ ختم نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ لیکن روشانے کو سزا دینے کے لیے اُسے اپنی نظروں سے دور کر دیا تھا۔۔۔ وہ الگ بات تھی روشانے کو خود سے دور کر کے وہ خود بھی سزا کاٹ رہا تھا۔۔۔۔ مگر وہ کل سے اپنے آپ کو بہت زیادہ بے چین اور بے بس محسوس کر رہا تھا۔۔۔ اپنی اولاد کو دیکھنے کے لئے تڑپ رہا تھا جو سزا اُس نے روشانے کو خود سے دور کر کے دی تھی وہ خود بھی مُسلسل دوری کا غذاب سہہ رہا تھا لیکن اب وہ اپنی اولاد کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا نہ اُس سے دور رہ سکتا تھا۔۔۔۔ اِس لیے ہسپتال جانے کا ارادہ کرنے لگا


*****


وہ ہسپتال کے پرائیویٹ کمرے میں پہنچا تو کمرہ خالی تھا مگر دائیں طرف رکھے جھولے میں موجود،، اُس ننھے سے وجود کو دیکھ کر۔۔۔ اُس کا دل بےساختہ دھڑکا،، وہ قدم اٹھاتا ہوا جھولے تک پہنچا نرم و نازک سے اپنے سوئے ہوئے بیٹے کو غور سے دیکھنے لگا۔۔ چند مہینوں میں جلا ہوا خون جیسے اس کا سیروں بڑھنے لگا۔۔۔ اُس کے نین نقش ابھی تک صحیح سے واضح نہیں ہو رہے تھے کہ وہ اپنی ماں پر گیا ہے یا اُس پر،،،


"میرا چھوٹا سائیں"

ضیغم مسکرا دل ہی دل میں بولتا ہوا،، بے حد آہستگی سے جھولے میں سے اپنے بیٹے کو گود میں اٹھانے لگا


اپنی آغوش میں بیٹے کو لینے کے بعد ضیغم کے احساسات عجیب سے ہونے لگے،، اُسے اپنے اندر ٹھنڈک سی اُترتی محسوس ہوئی،، وہ اُس کا بیٹا اُس کا خون تھا،، جو اپنے باپ کی گود میں آنے کے بعد معصوم سی مسکراہٹ سے مسکرانے لگا،،، اُس کو مسکراتا دیکھ کر ضیغم کو لگا ایک دفعہ پھر اُس کا ڈھیروں خون بڑھ چکا ہے،، وہ خود بھی نرم مسکراہٹ کے ساتھ اُس ننھے وجود کی پیشانی چومنے لگا


"آرام سے پیر رکھ کر نیچے اترو"

زرین نے واش روم کے باہر بنے ہوئے اسٹیپ کو دیکھ کر روشانے کو تلقین کی تو ضیغم زرین کی آواز پر چونکا


"تائی ماں مجھے گھر لے چلیں، اِس ہسپتال کے کمرے میں مجھے وحشت سی ہو رہی ہے"

روشانے کی آواز، جس میں بیزاری کا عنصر نمایاں تھا۔۔۔ ضیغم نظر اُٹھا کر واش روم کے دروازے کی طرف دیکھنے لگا


"تم"

زرین کی ضیغم پر نظر پڑی بے ساختہ اُس کے منہ سے نکلا


اِس سے پہلے ضیغم کچھ بولتا روشانے کی نظر ضیغم کے ہاتھوں میں اپنے بیٹے پڑی وہ زرین سے ہاتھ چھڑوا کر، ہانپتی ہوئی ضیغم کی طرف بڑھی


"ہمت کیسے ہوئی آپ کی میرے بیٹے کو چھونے کی،، اِسے فوراً چھوڑ دیں سائیں،، ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا"

ضیغم اُس کے دھلے ہوئے چہرے کو حیرت سے دیکھنے لگا جس پر پانی کی بوندیں ابھی تک موجود تھی،، ضیغم کے پاس آ کر روشانے نے جھپٹنے والے انداز میں اپنے بیٹے کو ضیغم سے لیا۔۔۔ ضیغم نے اُس کی کنڈیشن کے مدنظر آرام سے روشانے کو اپنا بیٹا دے دیا مگر اُسے جتانا نہیں بھولا


"تم سے برا کوئی اور دوسرا ہے بھی نہیں میری نظر میں کوئی نئی بات بتاؤ یہ تو مجھے پہلے سے معلوم ہے اور تم خود اتنا جان لو کہ اِس کو پیدا کرنے سے اگر تم اُس کی ماں بن گئی ہو تو اِس میں میرا خون بھی شامل ہے باپ ہوں میں اِس کا۔۔۔ اِس پر جتنا حق تمہارا ہے اتنا میرا بھی ہے"

ضیغم روشانے کو دیکھتا ہوا بولا جو اِس کے بیٹے کو اپنے سینے سے لگائے بری طرح ہانپ رہی تھی جبکہ زرین بالکل خاموش کھڑی تھی


"کس حق کی بات کر رہے ہیں آپ سائیں،، کیسے کنفرم ہوا آپ کو کہ یہ آپ کا خون ہے"

روشانے ضیغم کو دیکھ کر طنزیہ بولی تو وہ جبڑے زور سے بھینچ کر غُصے میں روشانے کو دیکھنے لگا


"اب میرے آگے کوئی الٹی بات مت کرنا روشی ورنہ تم میرے غُصے کو اچھی طرح جانتی ہو"

ضیغم انگلی اٹھا کر روشانے کو وارننگ دینے والے انداز میں بولا وہ ہرگز توقع نہیں کر رہا تھا کہ روشانے اُس سے اِس قدر بدتمیزی سے پیش آئے گی۔۔۔ ضیغم کو غُصے میں دیکھ کر زرین چلتی ہوئی روشانے کے پاس آئی


"اب اور کیا کریں گے آپ میرے ساتھ غُصّے میں آکر،، یہ تو آپ کی حویلی بھی نہیں ہے جہاں سے آپ مجھے نکل جانے کا حکم دیں"

روشانے کو نہ اب اُس کے غُصّے کی پرواہ تھی، نہ کوئی خوف،، اِس لیے نڈر پر ہوکر بولی


"روشی زبان مت چلاؤ خاموشی سے جا کر بیڈ پر لیٹو اور لاؤ اِسے مجھے دو"

اب بیچ میں زرین کو مداخلت کرنا ضروری ہو گیا تھا وہ نہیں چاہتی تھی بات مزید خراب ہو اِس لیے بچہ روشانے سے لے کر اُسے دوبارہ جھولے میں لٹانے کے بعد وہ روشانے کو سہارا دے کر بیڈ پر لٹانے لگی جبکہ ضیغم ابھی تک کھڑا ہوا اُسے گھور رہا تھا ایسا گستاخانہ روپ تو اُس نے اپنی بیوی کا دیکھا ہی نہیں تھا


"ِیہ یہاں کیوں کھڑے ہیں تائی ماں، اِن سے کہیں چلے جائیں یہاں سے"

وہ بیڈ پر لیٹی نہیں تھی پیچھے تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی تھی مگر ضیغم کو اپنی طرف گھورتا ہوا دیکھ کر چڑ کر بولی


"کافی زبان نہیں چلنے لگ گئی ہے تمہاری یا پھر اِسے پیدا کرکے ساری تمیز بھول گئی ہو،، یہی ہسپتال میں رہ کر اپنا دماغ درست کر لو، ورنہ یہاں سے گھر لے جا کر یہ کام میں خود کر دوں گا"

اب ضیغم بھی زرین کی موجودگی کی پرواہ کیے بغیر روشانے کو آنکھیں دکھاتا ہوا بولا


"کون سے گھر کی بات کر رہے ہیں سائیں،، جہاں سے آپ نے مجھے نکالا تھا۔۔۔ آپ کو لگ رہا ہے کہ میں دوبارہ وہاں پر جاؤ گی آپ کے ساتھ۔۔۔ اب میں آپکے ساتھ ہرگز نہیں جاؤ گی،، اگر کوئی خوش فہمی آپ اپنے دل میں پال کر بیٹھے ہیں تو اُسے دور کر کے یہاں سے جائیے گا"

ضیغم کے گھر لے جانے والی بات پر جہاں زرین خوش ہوئی تھی وہی روشانے کے تڑخ کر بولنے پر،، وہ روشانے کو ٹوکتی ہوئی اُسے چپ کروانے لگی مگر روشانے اپنی بات مکمل کر کے خاموش ہوئی۔۔۔۔ جبکہ ضیغم خاموش کھڑا اب اُسے فراٹے بھر کر زبان چلاتے ہوئے دیکھ رہا تھا


"ٹھیک ہے تمہارا جانا یا نہ جانا تمہاری خود کی چوائس ہے مگر میرا بیٹا تو اب میرے ساتھ ہی جائے گا یہ بات تو کنفرم ہے"

جھولے میں لیٹے ہوئے اپنے بیٹے کو دیکھ کر ضیغم جتنے آرام سے بولا روشانے حیرت اور خوفزدہ ہوکر ضیغم کو دیکھنے لگی


"اُٹھ کیوں رہی ہو روشی بیٹھی رہو"

روشانے کے بیڈ سے اٹھنے پر زرین اُس کا بازو پکڑ کر بولی


"میرا بیٹا مجھے لاکر دے دیں تائی ماں۔۔۔ خدا کے لئے میرا بیٹا مجھ کو دے دیں"

وہ اب باقاعدہ روتی ہوئی زرین کو دیکھ کر بولی اور ساتھ ہی بیڈ سے اترنے لگی


"خاموشی سے بیٹھی رہو روشی۔۔ بیڈ سے اتری تو اچھا نہیں ہو گا بند کرو یہ فضول کا رونا"

ضیغم اُس کو غُصے میں دیکھتا ہوا بولا تو زرین ضیغم کے پاس آئی


"وہ کل سے بہت کافی تکلیف اٹھا چکی ہے،، ابھی بھی اُسے کافی درد ہے۔۔ اُس لیے اپنے بچے کے لیے حساس ہو رہی ہے۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں کرو ورنہ اُس کی طبیعت اور خراب ہوگی۔۔۔ ہم سارے معاملات بیٹھ کر بعد میں تہہ کر لیں گے"

زرین ضیغم کو دیکھتی ہوئی بولی


"تو پھر آپ اِس کے دماغ میں بٹھا دیں کہ بلاوجہ کی ضد چھوڑ دیں میری اولاد کسی اور کے در پر پلے یہ مجھے گوارا نہیں ہے"

ضیغم زرین کو بولتا ہوا ایک نظر روتی ہوئی روشانے پر ڈال کر اپنے بیٹے کو پیار کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا کیونکہ وہ جب تک وہاں موجود رہتا روشانے اُسے دیکھ کر ٹینشن میں رہتی


****


ژالے اس وقت شہر والے بنگلے میں موجود تھی۔۔۔۔ پہلے تو یہ بنگلہ سالوں سال بند پڑا رہتا تیمور خان کا ہی اپنے دوستوں کے ساتھ یہاں آنا ہوتا،، مگر تیمور خان کے ایکسیڈنٹ کے بعد سے اب یہ بنگلہ مستقل رہائش کے لئے استعمال ہو رہا تھا۔۔۔ کل نو ماہ گزرنے کے بعد تیمور خان کہ بے ہوش موجود میں جان پڑی تھی اُس کے ہوش میں آنے کے بعد ڈاکٹر سے مشورہ لے کر اُسے اُسی بنگلے میں شفٹ کردیا تھا ژالے اور سردار اسماعیل خان یہی اُس کے پاس موجود تھے


"کیا مسئلہ ہوگیا ہے، یہ کمرے میں اتنا شور کیوں مچا رکھا ہے"

کمرے کا دروازہ کھولتے ہی وہ عدیل سے پوچھنے لگی مگر اُس کی نظریں بیڈ پر لیٹے ہوئے تیمور خان پر تھی جو اب بھی اپنے ہاتھ پاؤں ہلانے سے قاصر تھا اور منہ سے عجیب عجیب سی آوازیں نکال کر شور برپا کر رہا تھا


"میم میں سر کا ڈریس چینج کرنا چاہ رہا ہوں مگر یہ مجھ پر غُصّہ کر رہے ہیں"

عدیل اپنے ہاتھ میں تیمور خان کے کپڑے تھامے،، کمرے میں داخل ہوتی ژالے کو دیکھ کر بتانے لگا۔۔۔ ژالے ایک بار پھر تیمور خان کو دیکھنے لگی، جو اپنے ہاتھ کو حرکت دینے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔ مگر اپنے ہاتھ کو حرکت نہیں دے پا رہا تھا، ایک بار پھر وہ ژالے کو دیکھ کر منہ سے آوازیں نکالنے لگا۔۔۔ ژالے سمجھ گئی تھی تیمور خان اُس کو بلا رہا تھا۔۔۔ کل ہی وہ ہوش و حواس کی دنیا میں آیا تھا تب سے نہ وہ اپنے ہاتھ پاؤں کو حرکت دے پارہا تھا نہ ہی اسکے منہ سے لفظ ادا ہو پا رہے تھے


"کیا ہوا، کیا یہ کپڑے پسند نہیں تمہیں؟؟ دوسرے کپڑے پہنا چاہ رہے ہو"

ژالے تیمور خان کے پاس آکر اُس سے پوچھنے لگی۔۔ تیمور خان نفی میں اپنا سر ہلاتے ہوئے ایک بار پھر اپنے ہاتھ کو حرکت دینے کی کوشش کرنے لگا


"کیا تم یہ کپڑے مجھ سے تبدیل کروانا چاہ رہے ہو"

ژالے تیمور خان کی بات سمجھتے ہوئے اُس سے بولی اور اُس کے کانپتے ہوئے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا جس سے تیمور خان کے چہرے کے تاثرات نرم پڑے


"لائیں عدیل یہ کپڑے مجھے دے دیں اور جاتے ہوئے کمرے کا دروازہ بند کردیئے گا"

وہ عدیل سے کپڑے لیتی ہوئی فولڈنگ بیڈ کو اوپر کرنے لگی تاکہ تیمور خان کو کپڑے آسانی سے تبدیل کروا سکے


"مم۔ ۔۔۔۔ ما۔۔ما"

ژالے اسے بہت احتیاط سے شرٹ تبدیل کروا رہی تھی تب وہ ژالے سے کچھ پوچھنے لگا


"وہ روشانے کے پاس حویلی میں موجود ہیں، روشانے کو بھی اِس وقت اُنکی ضرورت ہے، آنٹی صرف تمہاری ماں تو نہیں ہیں، ویسے تمہارے بارے میں اطلاع کردی گئی ہے۔۔۔ تب سے کافی بےچین ہیں آنٹی،، ڈرائیور بھیج کر اُنکو یہاں بلوالیا ہے رات تک یہاں پہنچ جائے گیں وہ"

ژالے جانتی تھی تیمور خان اُس سے اپنی ماں کے بارے میں پوچھ رہا ہے اسلیے وہ تیمور خان کو تفصیل سے بتانے لگی۔۔۔ شرٹ تبدیل ہوچکی تھی، اب ژالے کی نظریں صاف ستھرے تہہ شدہ ٹراوزر پر جمی تھیں۔۔۔ اُسکی نظروں کو دیکھتے ہوئے تیمور خان نظریں چرا گیا


"لیٹو یہ ٹراوذر چینج کروا لو"

ژالے بولتی ہوئی فولڈنگ بیڈ کو اسٹریٹ کرنے کے غرض سے مڑنے لگی۔۔۔ تب تیمور خان مُنہ سے آوازیں نکالتا ہوا نفی میں سر ہلانے لگا


"عدیل کو بلاؤ پھر"

انکار کرنے پر ژالے تیمور خان سے پوچھنے لگی جس پر وہ مزید نفی میں سر ہلانے لگا ساتھ ہی اُسکی آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے۔ ۔۔۔ ژالے تھوڑی دیر خاموشی سے تیمور خان کو روتا ہوا دیکھنے لگی پھر اُس کی پُشت سے تکیہ نکال کر (جو تھوڑی دیر پہلے اُس نے سہارے کے غرض سے لگایا تھا) فولڈنگ بیڈ کو اسٹریٹ کرنے کے بعد اُس کا ٹراوذر تبدیل کرنے لگی۔ ۔۔ وہ جانتی تھی تیمور خان اِس وقت بےبسی کی تصویر بنا ہوا آنسو بہا رہا تھا جو کل تک دنیا کو اپنی ٹھوکر پر رکھتا تھا آج وہ خود دوسروں کو محتاج ہوچکا تھا


"تمہاری دوا کا ٹائم ہوگیا ہے مگر اِس سے پہلے ڈاکٹر کے دیے گئے چارٹ کے مطابق تمہیں ڈائیٹ لینی ہے اپنی"

میلے کپڑے باسکٹ میں رکھنے کے بعد وہ سامنے ٹیبل پر رکھئے فوڈ کمپلیمنٹ کا ڈبہ کھولنے لگی جو کہ کمرے میں ہی موجود تھا۔۔۔ ابھی تیمور خان میں،، حلق سے کچھ نگلنے کی طاقت نہیں تھی اِس لیے اُسے کل سے اوورل ڈائیٹ دی جارہی تھی۔۔۔ تیمور خان ایک بار پھر ژالے کی طرف اپنا ہاتھ بڑھانے لگا۔۔۔ مگر ناکامی کی صورت میں ایک بار پھر اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے


"تم یہ غذا عدیل کی بجائے میرے ہاتھ سے لینا چاہ رہے ہو ایسا ہی ہے ناں"

پیالے میں موجود غذا، وہ چمچے کی مدد سے تیمور خان کے منہ میں ڈالنے لگی۔۔۔ تیمور خان اپنا پیٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ ژالے کا چہرہ غور سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ جو وقفے وقفے سے چمچا اُس کے منہ میں ڈال کر ہر تھوڑی دیر بعد رومال سے تیمور خان کا منہ صاف کرتی اور مسکرا کر اُس کو دیکھتی


"اب بیس منٹ کے وقفے کے بعد عدیل تمہیں دوا دے گا۔۔۔ پلیز خاموشی سے کھا لینا میں تھوڑی دیر آرام کرنا چاہ رہی ہو"

خالی برتن ژالے ٹرے میں رکھتی ہوئی بولی۔۔۔ تو تیمور خان کی آنکھوں میں بےچینی اُترنے لگی


"اب کیا ہوا خان۔۔۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ میں تھوڑی دیر آرام کرو"

ژالے تیمور خان سے پوچھنے لگی۔۔۔ تیمور خان کے چہرے پر ژالے کے جانے کا سن کر بےچینی کے تاثرات نمایاں ہونے لگے۔۔۔ بے بسی کے احساس سے ایک بار پھر اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے شاید وہ نہیں چاہتا تھا کہ ژالے اُس سے دور جائے


"اچھا بار بار یوں پریشان مت ہو، اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے پاس رہو کوئی دوسرا تمہارے کام نہیں کرے۔۔۔ تو ایسا ہی ہوگا میں ہر وقت تمہارے پاس رہو گی اور تمہارے سارے کام خود اپنے ہاتھ سے کیا کروں گی ایسا ہی ہے نا"

ژالے تیمور خان کے آنسو صاف کرتی ہوئی۔۔۔۔ نرمی سے اُسی کے دل کی ساری باتیں بول رہی تھی۔۔۔ اب تیمور خان کے لبوں پر اطمینانیت بھری مسکراہٹ رینگی


"ابھی تم جیسا چاہتے ہو میں بالکل ویسا ہی کروں گی لیکن جب تم مکمل صحت یاب ہو جاؤ گے تب تم وہ کرو گے جو میں چاہوں گی"

ژالے آہستگی سے تیمور خان کا ہاتھ تھامتی ہوئی بولی۔۔۔ تو تیمور خان تجسُس سے ژالے کو دیکھنے لگا جیسے جاننا چاہ رہا ہو کہ ژالے کیا چاہتی ہے


"آزادی۔۔۔۔ تمہیں مجھے اِس رشتے سے آزادی دینی ہوگی"

ژالے نے جتنے نارمل انداز میں کہا تیمور خان کے چہرے کے تاثرات یکلخت تبدیل ہوئے۔۔۔ خوف سے تیمور خان نے اپنا ہاتھ جھٹکا تھا ایسا کرتے ہو اُسے کافی تکلیف ہوئی۔۔۔ ایک بار پھر وہ آنکھوں میں آنسو بھر کر ژالے کو دیکھنے لگا جو ٹیبل پر رکھی میڈیسن اٹھا رہی تھی تاکہ اُسے دوا دے سکے


****

"بڑے بڑے کمینے دیکھے ہیں میں نے مگر اپنے دامادوں سے بڑھ کر کمینہ کسی کو بھی نہیں پایا۔۔۔ پلورشہ کا شوہر دیکھو شکل سے کیسا معصوم نظر آتا تھا، زلیل اس عمر میں میری بچی پر سوتن لے آیا اور وہ جاوید، اُس کو اور اُس کے خاندان کو تو کیڑے پڑے منحوس کہیں کا۔۔۔ خود گھر کی نوکرانی کے ساتھ شرم ناک حرکتیں کرتا پکڑا گیا۔۔۔ بدچلنی کا الزام میری پاکباز بچی پر لگا کر اُسے گھر سے نکال دیا"

دلآویز اور پلورشہ کو اجڑی ہوئی حالت میں اپنے سامنے دیکھ کر کشمالا کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔۔۔ وہ کل سے ہی دلآویز اور پلورشہ کے شوہر اور اُن کے گھر والوں کو منہ بھر کر کوس رہی تھی


"مکافات عمل بھی کوئی چیز ہوتا ہے ماں، دوسروں پر ظلم کرتے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔۔۔ ظلم کی عمر زیادہ طویل نہیں ہوتی دوسروں پر ڈھائے ستم تو انسان بھول جاتا ہے مگر جب اُس کی خود کی رسی کھینچی جائے تو وہ بلبلا اٹھتا ہے"

آرزو کشمالا کو دیکھتی ہوئی بولی


آرزو چند گھنٹے پہلے پلورشہ اور دلآویز کا شوہروں کے کارنامہ سن کر،، حویلی میں اپنی دونوں بہنوں سے ملنے آئی تھی، اِس وقت کمرے میں تینوں بہنوں کے علاوہ کشمالا بھی موجود تھی


"تو کہنا کیا چاہ رہی ہے آرزو ذرا کُھل کر بول"

کشمالا بھڑکتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگی


"میرا اشارہ تو آپ ویسے بھی اچھی طرح سمجھ چکی ہیں ماں،، پھر بھی آپ واضح طور پر سننا چاہ رہی ہیں تو سنیں۔۔۔ جو آپ نے اپھو اور روشانے کے ساتھ کیا تھا آج وہی کچھ آپ کی اپنی بیٹیوں کے آگے بھی آگیا۔۔۔ آپ بھی تو ضیغم کی دوسری شادی کروانا چاہ رہی تھیں ناں پلورشہ آپی کی نند سے،، اب آپ کا اپنا داماد ہی آپ کی بیٹی پر سوتن لے آیا ہے تو آپ کو اتنا برا لگ رہا ہے۔۔۔۔ اپھو اور روشانے کو جس طرح اس حویلی سے ذلیل کر کے نکالا گیا تھا اب وہی کچھ جاوید بھائی دل آویز آپی کے ساتھ کرچکے ہیں تو آپ انہیں کوسنے پر اتر آئی ہو"

آرزو کے سچ بولنے پر کشمالا غُصے میں صوفے سے اُٹھ کر اس کے سامنے آئی


"تجھے کیا لگتا ہے رباب اور اس کی بیٹی کو میں نے اس حویلی سے نکلوایا آیا ہے، ارے ان ماں بیٹیوں کے تو خود لچھن ٹھیک نہیں تھے اپنے یاروں کو اس حویلی میں ان دونوں نے خود بلوایا تھا"

کشمالا غصے میں چیختی ہوئی بولی


دلآویز اور پلورشہ خاموش بیٹھی ہوئی تھی جبکہ آرزو کشمالا کی بات سن کر کمرے سے باہر نکلی اور تھوڑی دیر میں شانو کی بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر اُسے کمرے میں لائی


"چل سچ سچ بول ضیغم کی بیوی کو کیسے اس حویلی سے باہر نکالا اپنا کارنامہ بتا،"

آرزو مانو کے منہ پر تھپڑ جڑنے کے بعد اُس سے پوچھنے لگی


"باجی میں نے تو بی بی سائیں کے کہنے پر روشی بی بی کے فون سے میسج ٹائپ کیا۔۔۔۔ بی بی سائیں نے ہی مجھے اُس آدمی کے ساتھ روشی بی بی کی فوٹو اتارنے کو کہا تھا"

مانو اپنے گال پر ہاتھ رکھتی ڈر کر بولی۔ ۔۔۔ اُس کے انکشاف پر دلآویز اور پلورشہ حیرت سے کشمالا کو دیکھنے لگی۔ ۔۔ کشمالا نے آگے بڑھ کر غُُصے میں مانو کے منہ پر تھپڑ جڑا


"کم نسل نمک حرام دفعان کار اپنی منحوس شکل یہاں سے۔۔۔ خبردار جو تُو نے ضیغم کے سامنے اپنی زبان کھولی ورنہ اُسی وقت تیری یہ زبان کاٹ کر تیرے ہاتھ پر رکھ دونگی"

کشمالا نے بولنے کے ساتھ ہی مانو کو دھکا دے کر کمرے سے باہر نکالا


"آپ کو احساس ہے میں آپ نے ضیغم کے ساتھ کیا کیا ہے۔۔۔ اپھو سے بلاوجہ کی نفرت کے چکر میں آپ نے نہ صرف اُن کی معصوم بیٹی کو رسوا کر کے یہاں سے نکلوایا بلکہ خود اپنے بیٹے کا بھی گھر اجاڑ دیا۔۔۔ ایک پل کے لیے آپ کا دل نہیں دکھا، نہ آپ کو ذرا پچھتاوا ہوا"

دلاویز افسوس کرتی ہوئی کشمالا سے بولی تو کشمالا اس کی بات سن کر پھٹ پڑی


"چپ کر،، اپنے چھچھورے شوہر کے سامنے تو تیری زبان چلتی نہیں ہے۔۔۔ آئی بڑی مجھے شرم دلانے والی۔۔۔۔ تم تینوں کان کھول کر سن لو اگر تم میں سے کسی نے بھی ضیغم کے سامنے کچھ بھی بولا تو میرا مرا ہوا منہ دیکھو گی تم تینوں"

کشمالا غُصے میں اُن تینوں کو بولتی ہوئی کمرے سے جا چکی تھی


"جب جب ماں نے میری نند سے ضیغم کی دوسری شادی کی بات کرنی چاہی تب تب میں نے اُن کو سمجھایا کہ روشانے میں کوئی کمی نہیں ہے اور ضیغم۔ ۔۔ اس کی آنکھوں میں روشانے کے لیے کتنا پیار تھا کتنا خوش تھا وہ اُس کے ساتھ،، میرے منع کرنے کے باوجود ماں اپنی ضد پر اڑی رہی اور میرے سسرال میں جاکر بقائدہ کرن کا رشتہ مانگا۔۔۔ ماں نے جو بھی کچھ کیا اُس کا بھگتان ہم دونوں کو بھگتنا پڑے گا اب شاید"

پلورشہ آنکھیں خشک کرتی ہوئی بولی تو دلآویز اور آرزو بھی افسردہ ہونے لگیں


****


طے شدہ وقت یعنٰی پورے سوا مہینے بعد آج وہ روشانے اور حازم کو اپنے ساتھ لے کر جانے کے لئے سردار اسماعیل خان کی حویلی میں آیا تھا۔۔۔ ویسے تو وہ روشانے اور حازم کو اسپتال سے ہی اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتا تھا مگر تب سردار اسماعیل خان کی شرط پر کہ وہ روشانے کے سوا مہینے کے بعد لے کر چلا جائے۔۔۔ تو آج وہ یہاں آیا تھا ضیغم یہ بھی جانتا تھا یہ شرط سردار اسماعیل خان نے ضرور روشانے کے ضد پر رکھی ہوگی


اُسی کے کہنے پر سردار اسماعیل خان نے اُس کے بیٹے کا نام حازم رکھا تھا،، وہ اپنے بیٹے کو دیکھنے کے لئے بے تاب تھا اور شاید اپنی غصے میں بھری بیوی کو دیکھنے کے لئے بھی،، جس کے مزاج ابھی تک نہیں مل رہے تھے۔۔۔ دو دن پہلے ہی وہ شہر سے حویلی آگیا تھا اور اپنے اس اقدام کے بارے میں شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی کو آگاہ کردیا تھا۔۔۔ جس پر اُن دونوں نے کوئی خاص اعتراض نہیں اٹھایا تھا


گاڑی پارک کرنے کے بعد وہ حویلی میں داخل ہو رہا تھا تب اسے وہیل چیئر پر تیمور خان بیٹھا ہوا نظر آیا۔۔۔ جِسے دیکھ کر ضیغم کے ماتھے پر شکنیں واضح ہوئی،، تیمور خان کو اِس حالت میں دیکھ کر بھی اسے بالکل ترس نہیں آیا تھا کیونکہ اس نے شمروز جتوئی اس کے چچا کی جان لی تھی


"میں۔ ۔۔۔ معاف، ، معافی۔۔۔ وہ روشانے اس نے کچھ نہیں کیا اُس نے نہیں"

تیمور خان میں ہاتھ جوڑنے کی سکت نہیں تھی مگر وہ ٹوٹے ہوئے لفظوں سے ضیغم کو بتانے لگا


"نام نہیں لینا میری بیوی کا اپنی زبان سے اور تم اس لائق نہیں ہو کہ تمہیں معاف کیا جائے"

ضیغم تیمور خان کو بولتا ہوا آگے بڑھ گیا


****


"آؤ ضیغم جتوئی میں آج سوچ ہی رہا تھا کہ تمہارا آنا ہوگا"

سردار اسماعیل خان اُسے مہمان خانے میں آتا ہوا دیکھ کر صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کرنے لگا


"بیٹھو گا نہیں آپ روشی اور حازم کو بلوا دیں،، شہر پہنچتے پہنچتے شام ہو جائے گی"

ضیغم کے بولنے پر سردار اسماعیل خان نے ملازمہ سے کہہ کر روشانے کو بلایا مگر تھوڑی دیر گزرنے کے بعد ملازمہ سردار اسماعیل خان کے پاس آتی ہوئی سرگوشانہ انداز میں اسے کچھ بتانے لگی تو ضیغم سردار اسماعیل خان کے تاثرات دیکھنے لگا


"تھوڑی دیر بیٹھو میں خود لے کر آتا ہوں روشانے کو"

سردار اسماعیل خان نے ضیغم کو دیکھ کر ایک بار پھر بیٹھنے کو بولا


"میں بھی آپ کے ساتھ ہی چلتا ہوں" وہ اب بھی بیٹھنے کے لئے تیار نہیں تھا اس لیے سردار اسماعیل خان بنا کوئی جواب دیئے روشانے کے کمرے میں جانے لگا ضیغم بھی اُس کے پیچھے چل دیا


****


"روشی اب کیو ضد کر رہی ہو جب یہ طے ہو گیا تھا کہ سوا مہینے کے بعد تمہیں جانا ہے پھر کیو بات بگاڑ رہی ہو بچے تمہارا شوہر تمہیں خود لینے کے لیے یہاں آیا ہے"

زرین روشانے کو ایک دفعہ پھر سمجھانے لگی وہ اسے سمجھانے کا کام آج صبح سے ہی کر رہی تھی


"بات میں نے نہیں بگاڑی کی تائی ماں بات وہاں سے بگڑی تھی، اب میں وہاں نہیں جاؤں گی"

روشانے حازم کے دھلے ہوئے کپڑے تہہ کرتی ہوئی زرین سے بولی وہ حازم کے سب کام اپنے ہاتھ سے ہی کرنے کی عادی تھی۔۔۔ جبکہ حازم بیڈ پر لیٹا ہوا ابھی ابھی نیند سے جاگا تھا


"روشانے اپنا اور حازم کا سامان جلدی سے پیک کرو"

سردار اسماعیل خان روشانے کے کمرے میں آتا ہوا اس سے بولا


اس کے پیچھے ہی ضیغم کو کمرے میں آتا دیکھ کر روشانے ایک دم خاموش ہو گئی مگر وہ اسے دیکھے بنا بیڈ پر لیٹے ہوئے حازم کی طرف بڑھا،، روشانے کا دل ایک دم رکا مگر وہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔۔۔ اُس نے حازم کا گال اپنی انگلی کے پوروں سے چھوا تو حازم مسکرانے لگا۔۔۔ ضیغم نے بھی مسکرا کر اپنے بیٹے کو احتیاط سے گود میں لیا اور اس کا گال چوما۔ ۔۔ ضیغم خوش تھا اس کے بیٹے نے دوسری بار مسکرا کر اسے خوشامدید کیا تھا


"روشانے میں کیا کہہ رہا ہوں سن رہی ہو تم"

سردار اسماعیل خان نے دوبارہ بول کر روشانے کی توجہ اپنی طرف دلائی جو باپ بیٹے کو دیکھ رہی تھی


"گستاخی معاف بڑے خان میں نے آپ کی بات سنی لیکن اس پر عمل نہیں کروں گی میں واپس نہیں جانا چاہتی تو پھر سامان پیک کرنے کا کیا فائدہ"

روشانے نظر جھکا کر سردار اسماعیل خان کو جواب دینے لگی۔۔۔ زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا تھا جب اس نے سردار اسماعیل خان کی کسی بات سے انکار کیا تھا شاید اب وہ واقعی گستاخ ہو گئی تھی


"بڑے خان روشی اگر چند دن اور یہاں ہمارے پاس رک جاتی ہے تو"

زرین نے سردار اسماعیل خان کو بھولنا چاہا تو سردار اسماعیل خان نے اسے ٹوکا


"زرین تم بیچ میں مت بولو اور روشانے فوراً اپنا اور حازم کا سامان پیک کرو"

سردار اسماعیل خان نے زرین کو ٹوکنے کے ساتھ ہی روشانے کو بھی حکم دیا جبکہ ضیغم ان تینوں سے لاتعلق اپنے بیٹے کو گود میں اٹھائے اس کے ننھے ننھے ہاتھ چوم رہا تھا


"بڑے خان اگر میری جگہ آپ کی سگی بیٹی ہوتی، آپ تب بھی اس کے لئے یہی فیصلہ کرتے"

روشانے کے بولنے پر صرف ایک نظر ضیغم نے اُسے دیکھا اور دوبارہ اپنے بیٹے کی طرف متوجہ ہو گیا


"تم میری بیٹی ہی ہو، میں نے تمہیں ہمیشہ اپنی سگی اولاد جانا ہے اور اب دوبارہ کوئی فضول بات میں تمہارے منہ سے نہیں سنو گا۔۔۔ بیٹیاں اپنے گھر میں آباد ہو تو ماں باپ ان کو دیکھ کر خوش رہتے ہیں، تمہارا شوہر سب کچھ بھول کر تمہیں لینے آیا ہے اب تمہیں اس کے ساتھ جانا چاہیے"

سردار اسماعیل خان روشانے کو بولنے لگا جبکہ ضیغم نے اپنی پاکٹ سے موبائل نکال کر دیکھا جس طرح پھر فیروز جتوئی کی کال آ رہی تھی وہ کال کاٹنے کے بعد دوبارہ اپنے بیٹے کی طرف متوجہ ہو گیا


"ایسے آباد ہونے کا کیا فائدہ ہے بڑے خان، جب آپ کی اپنی بیٹی اندر سے ناخوش ہو،، میں ان کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی۔۔۔ ان کا دل چاہا تو انہوں نے مجھے حویلی سے نکال دیا،، ان کا دل چاہا تو یہ مجھے لینے کے لیے آ گئے۔۔۔ میری اپنی کوئی حیثیت کوئی اوقات نہیں ہے۔۔۔ اُن کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا تو یہ سب کچھ بھول گئے ہیں مگر میرا غصہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا ہے اور نہ ہی میں سب بھولی سکتی ہو"

روشانے کی بات سن کر سردار اسماعیل خان بالکل خاموش ہوگیا ہے،، ضیغم حازم کو بیڈ پر لٹا کر چلتا ہوا روشانے کے پاس آیا


"ختم کرو یہ بلاوجہ کے ڈرامے،، فضول کی بحث چھوڑ کر، خاموشی سے جاکر گاڑی میں بیٹھو

ضیغم روشانے کو آنکھیں دیکھاتا ہوا بولا۔۔۔۔ حازم بیڈ پر لیٹا ہوا رونے لگا تو زرین نے آگے بڑھ کر حازم کو گود میں اٹھا لیا جبکہ سردار اسماعیل خان ضیغم کی بات سن کر بیچ میں بولا


"ایک منٹ جو بھی بات کرنی ہے زرا تحمل سے کرو،، اگر یوں غصہ دکھاو گے یا زبردستی کرو گے تو میں خود بھی اُسے یہاں سے جانے نہیں دوں گا۔۔۔ اِس سے وجہ پوچھو وہ کیوں خفا ہے تم سے،، بیویاں کوئی باندھی یا غلام نہیں ہوتی ہیں۔۔۔ زرین حازم کو لے کر کمرے سے باہر آجاؤ"

سردار اسماعیل خان بیچ میں مداخلت کرتا ہوا بولا اور کمرے سے باہر نکل گیا اس کے پیچھے زرین بھی حازم کو گود میں اٹھائے کمرے سے چلی گئی


"کیا ثابت کرنا چاہتی ہو اپنے گھر والوں کے سامنے یوں تماشا کر کے، میں نے تمہیں خوش نہیں رکھا،، بے وقوفی تم نے کی، بے ایمانی تم نے کی،، جھوٹ تم نے مجھ سے بولا۔۔۔ ان سب باتوں کے باوجود، سب چیزوں کو بھول کر میں تمہیں لینے آیا ہوں اور تم بات کر رہی ہوں کہ تم بھول نہیں سکتی آخر ایسا کیا ہے جو تم بھول نہیں سکتی"

ضیغم غُصے میں روشانے کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا


"میں نے جھوٹ بولا تاکہ ہمارے رشتے میں دراڑ نہ پڑے۔۔۔ مگر میں نے بےایمانی کوئی نہیں کی"

روشانے دکھ سے ضیغم کو دیکھتی ہوئی بولی


"میرے پیچھے تم نے تیمور خان کو میسج کیا جبکہ تمہیں اندازہ ہے کہ میں تیمور خان کو پسند نہیں کرتا"

ضیغم دانت پیستا ہوا اسے یاد دہانی کروانے لگا


"وہ میسج میں نے نہیں کیا تھا میرا موبائل مامی کے پاس موجود تھا" روشانے کو دوبارہ بتاتے ہوئے اذیت محسوس ہوئی وہ ساری باتیں دل میں رکھا ہوا پھر آخر کیوں اسے لینے آیا تھا


"میرے اور اپنے بیچ میں ماں کو مت لے کر آؤ روشی۔۔۔۔ میں نے پہلے بھی حقائق جانے بغیر ماں کو غلط بول کر تمہارا دفع کیا اور بدلے میں مجھے کیا دیکھنے کو ملتا ہے۔۔۔۔۔"

ضیغم طنزیہ انداز میں ہنس کر بات ادھوری چھوڑ گیا


"میرے اور آپ کے رشتے میں آپ کی ماں خود بیچ میں آئیں ہیں سائیں۔۔۔ آپ کو یہ لگتا ہے وہ میسج میں نے خان کو کیا تھا۔۔۔ کیا سوچ رہے ہیں آپ،، کیو بلایا ہوگا میں نے خان کو آپ کے پیچھے،، وضاحت دیں مجھے"

روشانے ہاتھ باندھ کر ضیغم سے پوچھنے لگی تو ضیغم سنجیدہ تاثرات چہرے پر لیے اسکے قریب آیا


"جب پہلی بار تیمور خان میرے فلیٹ میں آیا،، تو یہ بات تم نے مجھ سے کیوں چھپائی،، کیا وجہ تھی اِس کے پیچھے وضاحت دوں گی مجھے،، میرے ارام سے سب پوچھنے کے باوجود تم نے جھوٹی قسم کھائی اس کے پیچھے کیا وجہ تھی وضاحت دوگی مجھے"

ضیغم اپنا چہرہ اُس کے چہرے کے قریب کرکے سوال پوچھنے لگا روشانے اپنے چہرے کا رخ دوسری سمت کیا پھر ضیغم کو دیکھنے لگی


"میں آپ کو ساری وضاحت دے چکے ہیں اب کوئی وضاحت نہیں دو گی لیکن اب بات ساری یہ ہے کہ، جب تک مامی یہاں آکر خود ساری بات کلیر نہیں کرتی۔۔۔ میں آپ کے ساتھ جانے والی نہیں ہوں،، انگلی میرے کردار پر اٹھی ہے یہ بات میں نہیں بھول سکتی ہوں"

روشانے ضیغم کو بولتی ہوئی کمرے سے نکلنے لگی کیونکہ باہر حازم کے رونے کی آواز آرہی تھی روشانے کو معلوم تھا اُسے بھوک لگ رہی ہے مگر ضیغم اس کا بازو پکڑ کر چکا تھا


"وہ یہاں پر کبھی نہیں آئے گیں یہ بات تم اچھی طرح جانتی ہو۔۔۔ میں تمہیں حویلی لے کر نہیں جا رہا ہم لوگ شہر جا رہے ہیں اس لیے بات کو یہی ختم کرو اور نخرے دکھانا بند کرو"

ضیغم اب اپنا غُصہ دباتا ہوا بولا


"آپ بھی تو یہی سمجھتے ہیں نہ کہ خان کو میں نے میسج کرکے بلایا ہے پھر مجھے اپنے ساتھ لے کر جانے پر بضد کیوں ہیں صرف اپنے بیٹے کی وجہ سے،،، سائیں میری ذات اتنی ارزاں نہیں ہے۔ ۔۔۔ اب میں آپ کے ساتھ تبھی جاؤگی جب ساری باتیں کلیر ہوگی"

روشانے کی بات سن کر ضیغم نے اس کے بازو پر اپنی گرفت مزید سخت کردی وہ اُسے غصے میں دیکھ رہا تھا


"حازم کو بھوک لگ رہی ہے سائیں بازو چھوڑ دیں میرا"

روشانے اپنے بازو پر ضیغم کے ہاتھ کی سختی محسوس کرتی تھی بولی تو ضیغم نے اس کا بازو چھوڑ دیا، ایک بار پھر فیروز جتوئی کی کال ضیغم کے موبائل پر آنے لگی


"کب، کیسے"

ضیغم پریشان ہو کر موبائل پر کہہ رہا تھا تو روشانے نے پلٹ کر اسے دیکھا


"میں دس منٹ میں پہنچتا ہوں"

ضیغم موبائل پر بولتا ہوا روشانے کو دیکھے بنا کمرے سے باہر نکل گیا


*****


مہینہ بھر ہو چکا تھا اسے تیمور خان کے ساتھ واپس حویلی میں آئے ہوئے۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے ژالے اُسے دوا دے کر اپنے سونے کا کہتی ہوئی کمرے سے نکلی تھی مگر اب وہ ڈاکٹر کی ساری گفتگو سن کر، اپنا موبائل ٹیبل پر رکھتی ہوئی واپس تیمور خان کے کمرے میں آئی


وہ بیڈ پر آنکھیں بند کئے ہوئے لیٹا تھا،، آنکھوں میں پڑتی روشنی کی وجہ سے تیمور خان نے آنکھیں کھول کر ماتھے پر بل لیے کمرے میں آنے والے کو دیکھا مگر اپنے سامنے دوبارہ ژالے کو دیکھ کر اُس کے ماتھے کے بل خود ہی جاتے رہے


"فوراً اٹھو خان"

ژالے کمرے میں موجود وہیل چیئر کو بیڈ کے قریب لائی اور تیمور خان کو سہارا دے کر اٹھانے لگی۔۔۔ اس کام میں ژالے کی کافی محنت صرف ہوتی تھی کیوکہ اتنے دن گزر جانے کے باوجود تیمور خان کی طبیعت میں کوئی خاص بہتری نہیں دکھائی دے رہی تھی ژالے جب سے ہی اُس کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی رہی تھی


"ہم کہاں جا رہے ہیں"

ژالے اسے حویلی سے باہر لان میں لائی تو تیمور خان اس سے پوچھنے لگا ابتدا میں اس سے بولا نہیں جاتا تھا مگر اب وہ کافی حد تک صحیح بولنے لگ گیا تھا


"تم نے کیا بیوقوف سمجھا ہوا ہے مجھے یا پھر گھر والوں کو"

ژالے لان میں وہیل چیئر روک کر تیمور خان کے سامنے آ کر اس سے پوچھنے لگی تو تیمور خان اسے کنفیوز ہو کر دیکھنے لگا


"میری ابھی ڈاکٹر سے بات ہوئی ہے، ایک ماہ سے زائد گزر چکا ہے تمہیں کو وہاں سے واپس آئے،، ڈاکٹرز کے مطابق اب تمہاری کنڈیشن بہتری کی طرف آنی چاہیے کیونکہ تمہارے ٹریٹمنٹ میں کوئی کمی بیشی نہیں آرہی ہے لیکن اگر تمہاری کنڈیشن بہتری کی طرف نہیں آرہی ہے تو اس میں تمہارا ہی قصور ہے یا تو تم خود ہی ٹھیک نہیں ہونا چاہتے ہو یا ٹھیک ہونے کی کوشش نہیں کرتے مجھے اصل بات بتاؤ خان تم ایسا کیوں کر رہے ہو، کیا تمہیں ترس نہیں آتا اپنے ماں باپ پر دادی حضور پر"

ژالے اس کے سامنے کھڑی غُصے میں اس سے پوچھنے لگی


"ڈاکٹر بکواس کر رہا ہے ایسا کچھ نہیں ہے"

تیمور خان اس کی بات سن کر اپنا منہ پھیر کر دوسری طرف کرتا ہوا اس سے بولا تبھی ژالے نے ہاتھ بڑھا کر اس کے منہ کا رخ دوبارہ اپنی طرف کیا


"ڈاکٹر بکواس نہیں کر رہا ہے، بکواس تم کر رہے ہو، میں نے پہلے بھی بہت بار نوٹ کیا ہے، دوا لیتے ٹائم تم مجھے کسی نہ کسی کام میں لگا دیتے ہو یا پھر کمرے سے باہر بھیج دیتے ہو۔۔۔ مجھے پورا یقین ہے تم اپنی دوا ٹھیک سے نہیں لے رہے ہو اور عرفان مجھے بتا رہا تھا تم فزیوتھراپی کرتے وقت تم اس پر غصہ کرتے ہو، اپنی فیزیوتراپی بھی ٹھیک سے نہیں کرتے"

وہ کسی سخت استانی کی طرح تیمور خان کو ٹریٹ کر رہی تھی تیمور خان کو اپنا آپ کوئی نالائق اسٹوڈنٹ جیسا محسوس ہوا


"تمھیں مجھ سے ایسے سختی سے بات نہیں کرنا چاہئے میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے"

تیمور خان ژالے کی بات گول کرتا ہوا، اس کی توجہ اپنی طبیعت پر مندمل کرتا ہوا معصومیت سے بولا


"یوں سارا دن بیڈ پر لیٹے رہنے سے یا وہیل چیئر پر بیٹھے رہنے سے تمہاری طبعیت کبھی ٹھیک ہو بھی نہیں ہو سکتی خان۔۔۔۔ آج تمہیں خود سے کھڑے ہونے کی کوشش کرنا ہوگی، وہ بھی بغیر کسی سہارے کے"

ژالے تیموں خان کو دیکھتی ہوئی بولی تو وہ حیرت سے ژالے کو دیکھنے لگا


"تمہیں معلوم ہے میں ایسا نہیں کر سکتا، درد ہوتا ہے مجھے ہاتھ پاؤں ہلانے میں۔۔۔ اندر لے کر چلو،، اپنے کمرے میں جانا ہے مجھے"

تیمور خان ژالے کو دیکھتا ہوا جلدی سے بولا اب اسے ژالے سے ڈر لگ رہا تھا


"اچھی بات ہے دوسروں کو درد دینے والے کو خود بھی، تکلیف کا اندازہ ہونا چاہیے۔۔۔ جب تک تم اپنے پیروں پر خود سے کھڑے ہو کر نہیں دکھا دیتے اندر نہیں جاؤ گے اور خبردار جو تم نے وہیل چیئر پر کوئی بٹن دبا کر خود اندر جانے کی کوشش کی"

ژالے اس طرح بولتی ہوئی تیمور خان کو بہت ظالم لگی


"ژالے تم سمجھنے کی کوشش کرو پلیز، میں اب اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکتا،، میری طبیعت بگڑ رہی ہے پلیز مجھے کمرے میں لے چلو"

وہ پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ بے بسی سے بولا ژالے خاموشی سے اسے دیکھنے لگی


"خان مجھے لگتا ہے ڈاکٹر ٹھیک کہہ رہا تھا تم خود ٹھیک نہیں ہونا چاہتے،، تم واپس زندگی کی طرف نہیں آنا چاہتے تم اپنے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہو بتاؤ مجھے"

ژالے کو اب تشویش لاحق ہونے لگی وہ جھک کر تیمور خان کو دونوں شانوں سے پکڑتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی


"میں اگر ٹھیک ہوگیا تو تم مجھے چھوڑ کر چلی جاؤں گی،، ایسا کچھ بولا تھا ناں تم نے مجھ سے"

وہ اتنا بڑا مرد اس کے سامنے بولتے ہوئے ایک دم بچوں کی طرح رونے لگا۔۔۔


ژالے خاموشی سے اسے روتا ہوا دیکھنے لگی وہ جو دوسروں کو اپنے سامنے چاروں خانے چت کر دیتا تھا آج وہ ایک کمزور سی لڑکی کے سامنے آنسو بہا رہا تھا


"اگر آج تم نے بغیر کسی سہارے کے، خود سے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش نہیں کی تو میں تمہیں اسی وقت چھوڑ کر چلی جاؤنگی خان"

ژالے تیمور خان کو دھمکی دیتی ہوئی بولی


وہ بے چارگی سے اسے دیکھنے لگا ژالے اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ باندھ کر اس کے کھڑے ہونے کا انتظار کرنے لگی


تیمور خان بے بس نظروں سے ژالے کو دیکھ رہا تھا ژالے نے باہر گیٹ کی طرف اپنا رخ کیا اور آگے قدم اٹھایا


"ژالے"

تیمور خان نے ڈر کر اسے پکارا جیسے وہ واقعی چلی ہی نہ جائے ژالے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی


تیمور خان نے بہت مشکلوں سے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ وہیل چیئر کے دونوں ہینڈل تھامنے چاہے، اسے اپنے ہاتھ کی ہڈیاں جام اور زنگ آلود محسوس ہونے لگی۔۔۔ وہیل چیئر کے ہینڈل پکڑتے ہوئے اس کا چہرا پسینے سے تر ہو چکا تھا،، تکلیف کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کو حرکت دینے میں اس کی بہت محنت صرف ہو رہی تھی۔۔۔ اس نے اپنے پیروں پر وزن ڈال کر اٹھنے کی کوشش کی۔۔۔ جس کے نتیجے میں وہ بری طرح ہانپ گیا


"نہیں، نہیں کھڑا ہو سکتا میں، بالکل بھی نہیں کھڑا ہو سکتا"

وہ درد سے کراہتا ہوا پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ نفی میں گردن ہلاتا ہوا بولا تو ژالے اس کی بات سن کر گیٹ کی طرف بڑھنے لگی


"ژالے نہیں۔۔۔۔ ژالے رکو، ،، مت کرو میرے ساتھ ایسا سلوک، میں نہیں رہ سکوں گا تمہارے بغیر"

وہ بے بسی سے کہتا ہوا رونے لگا اور ژالے سے فریاد کرنے لگا مگر ژالے اس کی طرف دیکھے بغیر جیسے گیٹ کی طرف بڑھے جارہی تھی


"ژالے"

وہ گیٹ کی طرف پہنچی تبھی اسے تیمور خان کی چیختی ہوئی آواز ائی۔۔۔۔ ژالے نے مڑ کر تیمور خان کو دیکھا جوکہ وہیل چیئر سے اٹھ کر کھڑا ہو چکا تھا،، اس نے اپنا ہاتھ ژالے کی طرف آگے کو بڑھایا اور جیسے ہی قدم بڑھانا چاہا تو وہ گھاس پر گر گیا


ژالے بھاگ کر اس کے پاس آئی تیمور خان کو سہارا دینے کے لیے وہ خود بھی نیچے بیٹھ گئی تیمور خان کے چہرے پر اب بھی خوف کے آثار نمایاں تھے کہ ژالے اسے چھوڑ کر نہ چلی جائے جبکہ ژالے کے چہرے پر اطمینان تھا


"کہیں نہیں جا رہی خان، میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جا رہی"

ژالے اس کا چہرہ تھامتی ہوئی بولی اور تیمور خان کو سہارا دیتی ہوئی دوبارہ وہیل چیئر پر بیٹھانے لگی


****

"بہت ضدی ہوتی جا رہی ہو تم روشی کتنی بری بات ہے، آج تم نے ڈرائیور کو پھر یونہی خالی ہاتھ بھیج دیا۔۔۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا تمہیں"

روشانے بیڈ پر تین ماہ کے حازم کو لیے بیٹھی، اُس سے باتوں میں مشغول تھی، حازم ہاتھ پاؤں چلاتا ہوا روشانے کو اِس کی باتوں کا رسپانس دے رہا تھا۔۔۔ زرین روشانے کے پاس اُس کے کمرے میں آتی ہوئی بولی


"تو آپ کیا چاہ رہی ہیں تائی ماں، میں ڈرائیور کا پیغام سن اُس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر حویلی چلی جاتی"

روشانے الٹا زرین سے پوچھنے لگی حازم اپنی طرف توجہ ہٹتی دیکھ کر مزید زور زور سے ہاتھ پاؤں چلانے لگا


"ہاں تمہیں وہاں پر جانا چاہیے تھا کشمالا کی بات سننے، نہ جانے وہ تم سے کیا کہنا چاہتی ہو"

زرین روشانے کے پاس بیٹھتی ہوئی اُسے سمجھانے لگی


"انہیں کیا کہنا ہوگا بھلا مجھ سے، ہو سکتا ہے میرے پہنچنے پھر کوئی نیا ڈرامہ کری ایڈ کر کے دوبارہ الزام لگا دیں مجھ پر، کچھ بعید نہیں ہے اُن سے"

روشانے نے زرین کی بات کا جواب دیتے ہوئے بیڈ پر لیٹے ہوئے حازم کو گود میں اٹھا لیا۔۔۔ اُس کا پیٹ بھرا ہوا تھا روشانے اُسے تھوڑی دیر گود میں لے کر ٹہلتی تو وہ سو جاتا


"توبہ کرو روشی بچے، آدھا دھڑ اُس کا مفلوج ہو چکا ہے، اِس حالت میں اُس کے بارے میں ایسا سوچ رہی ہو، کیوں اتنی تلخ ہوتی جا رہی ہو، ایسی تربیت کی تھی میں نے تمہاری۔۔۔ میری جگہ اگر رباب زندہ ہوتی تو وہ بھی یہی بولتی، ایک دفعہ جاکر کشمالا کی بات سن آؤ۔۔۔ ساس ہی نہیں مامی بھی ہے وہ تمہاری"

زرین اُسے مزید سمجھاتی ہوئی بولی ساتھ ہی اُس کی گود سے حازم کو لے کر کاٹ میں لٹا دیا کیوکہ وہ اب سو چکا تھا


"بچے بہت مشکل ہوتا ہے کسی کو معاف کرنا جس نے آپ کے ساتھ ناجائز کیا ہو یا دل دکھایا ہو میں مانتی ہو، سب باتوں کو بھول جانا آسان نہیں ہوتا۔۔۔ لیکن اچھا انسان وہی ہوتا ہے جو اپنے فیصلے خدا پر چھوڑ دے۔۔۔ اب تھوڑی دیر خود بھی آرام کر لو فجر کی جاگی ہوئی ہو"

زرین روشانے کو بولتی ہوئی کمرے سے جانے لگی تو روشانے افسردہ سی ہونے لگی


دو دن پہلے ہی تیمور خان نے اُس سے اپنے کیے گئے عمل کی معافی مانگی تھی اور روشانے نے اُسے بری طرح جھڑک دیا تھا اور صاف کہہ دیا تھا کہ وہ اُس سے کلام تک نہ کرے اور نہ ہی اُس کے بچے کو گود میں لیا کرے


"آپ کہاں پر جارہی ہیں"

زرین کو اپنے کمرے سے جاتا ہوا دیکھ کر روشانے اُس سے پوچھنے لگی


"خان کے پاس جا رہی ہوں کیوں تمہیں کوئی کام ہے"

زرین رک کر روشانے سے پوچھنے لگی جس پر روشانے نفی میں سر ہلا کر بیڈ پر لیٹ گئی


دو ماہ پہلے کشمالا کا سیڑھیوں سے پاؤں پھسلا جس کی وجہ سے اُس کی بیک بون متاثر ہوگئی تھی۔۔۔ اُسی دوران اُس کی شوگر بھی کافی ہائی رہنے لگی تھی۔۔ وہ دو ماہ سے اب مسلسل بستر پر لگ چکی تھی۔۔۔ ضیغم جو اُس دن روشانے کو لینے آیا تھا اُس کے بعد وہ دوبارہ نہیں آیا، نہ ہی اُن دونوں کا کوئی کانٹیکٹ ہوا۔۔۔ البتہ حویلی سے آج ڈرائیور کو تیسری بار بھیجا گیا تھا کیونکہ کشمالا روشانے سے ملنا چاہتی تھی مگر ہر بار کی طرح روشانے نے آج بھی اُسے خالی ہاتھ بھیج دیا تھا


****


حازم کو گود میں اٹھائے اُس نے حویلی میں قدم رکھا جہاں سے اُسے نکالا گیا تھا


"ارے روشانے تم آگئی"

آرزو پہلے اُسے دیکھ کر حیران ہوئی پھر مسکراتی ہوئی اُس کی طرف بڑھی روشانے نے اشارے سے اُسے سلام کیا دل آویز بھی روشانے کو دیکھ کر اُس کے پاس چلی آئی، وہ تینوں بہنیں اٍس وقت حویلی میں موجود تھیں


"یہ حازم ہے ناں، میرا بھتیجا میرا گڈا،، دو جلدی سے اسے مجھے"

آرزو ایکسائٹڈ ہوتی ہوئی بولی اور روشانے کی گود سے حازم کو لے لیا


"اچھا ہوا تم آ گئی ماں کافی یاد کر رہی تھی تمہیں، اُن کی حالت اب بالکل ٹھیک نہیں ہے روشانے"

دل آویز روشانے کو بول رہی تھی مگر روشانے کی نظر سیڑھیوں سے اترتے ہوئے ضیغم پر ٹکی ہوئی تھی، جو اُسی پر اپنی نظریں جمائے سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا۔۔۔


آرزو حازم کو لے کر ضیغم کے پاس آئی۔۔۔ وہ مسکراتی ہوئی حازم کو دیکھ کر ضیغم سے کچھ کہہ رہی تھی، جس پر ضیغم بھی مسکرا کر حازم کو دیکھ رہا تھا


"سن رہی ہو ناں روشانے میری بات"

دل آویز کی آواز پر روشانے چونکی


"جی آپی کچھ کہہ رہی ہیں آپ"

روشانے دونوں بہن بھائی کی طرف سے نظریں ہٹاتی ہوئی دلآویز سے پوچھنے لگی


"میں کہہ رہی تھی ماں سے ایک بار مل لو، وہ بہت زیادہ اذیت میں ہیں اِس وقت"

دل آویز روشانے کو دیکھ کر افسردگی سے بولی تو روشانے دلآویز کے ساتھ کشمالا کے کمرے میں چل دی۔۔۔ اُس نے ایک بار دوبارہ حازم کی طرف دیکھا جو کہ اب فیروز جتوئی کی گود میں تھا


****


سیڑھیوں سے گرنے کے سبب کشمالا کی بیک بون متاثر ہوئی تھی۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ اٹھ بیٹھ نہیں سکتی تھی، اوپر سے کشمالا کی بدقسمتی یہ ہوئی اُس کی ٹانگ پر عجیب سا زخم بنتا چلا گیا،، شوگر ہائی ہونے کی وجہ سے وہ زخم پھیلنے لگا جس کی وجہ سے اُس آدھی ٹانگ گل چکی تھی، اسکی آدھی ٹانگ کاٹنا پڑی۔۔۔۔ چند دن گزرنے کے بعد پھر ویسے ہی زخم اُس کی دوسری ٹانگ پر بھی پھیلتا چلا گیا جس میں سے ہر وقت پس نکلتا اور خون رستا رہتا۔۔۔ اب اُس میں اتنی طاقت نہیں بچی تھی کہ وہ اپنی دوسری ٹانگ بھی کٹوا دیتی


وہ اپنی پر حالت پر خود چیخیں مار مار کر روتی،، اللہ سے توبہ کرتی اور سب سے معافیاں مانگتی


"میں نے تیرے ساتھ بہت برا کیا، تُو نے یہاں سے جاتے وقت کہا تھا نا کہ مجھے اوپر والا معاف نہیں کرے گا، تُو دیکھ میری حالت، اوپر والے نے میرے سارے گناہوں کی، مجھے میری زندگی میں ہی کیسی سزا دے دی۔۔۔ جو گناہ میں نے رباب کا نکاح نامہ چھپا کر کیا اور جو برا سلوک میں نے تیرے ساتھ کیا۔۔۔ اے ضیغم وہاں کیوں کھڑا ہے یہاں آ میرے پاس"

کشمالا روتی ہوئی روشانے سے بول رہی تھی اُسے معلوم ہی نہیں ہوا کب ضیغم کمرے میں آگیا۔۔۔ روشانے نے پلٹ کر دیکھا وہاں پر ضیغم ہی نہیں فیروز جتوئی، شمشیر جتوئی کے علاوہ پلورشہ اور آرزو بھی کمرے میں موجود تھی۔۔۔ کشمالا کے بلانے پر ضیغم چلتا ہوا اُس کے پاس آیا


"اِس نے تیمور خان کو نہیں بلوایا تھا وہ میسج میں نے مانو سے کروایا تھا تاکہ تیرے دل میں اپنی بیوی کے لیے بدگمانی آجائے اور بچے کی خبر مجھے تب معلوم ہوئی جب یہ موبائل پر اپنی تائی ماں کو بتا رہی تھی"

کشمالا روتی ہوئی اب ضیغم کی غلط فہمی دور کر رہی تھی وہ ضبط کرتا ہوا کشمالا کی بات سننے لگا یہ سب اُس کو آرزو پہلے ہی بتا چکی تھی


کشمالا روتی ہوئی اپنے تمام تر پوشیدہ گناہ اور زیادتیوں کی معافی مانگ رہی تھی، کمرے میں موجود سب نفوس خاموش کھڑے تھے


دلآویز پلورشہ اور آرزو کی آنکھیں اشکبار تھیں جبکہ ضیغم کی آنکھیں ضبط کے مارے سرخ ہو چکی تھی۔۔۔۔ روشانے اپنے سامنے بستر پر لیٹی ہوئی اُس عورت کو دیکھ رہی تھی جس کا کروفر اور غرور آج خاک میں مل چکا تھا


اب وہ باری باری ہاتھ جوڑ کر شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی سے معافی مانگ رہی تھی، وہ رباب کے ساتھ بہت کچھ غلط کر چکی تھی، ذریاب خان کی جان اُس کی وجہ سے گئی تھی


"روشانے تُو مجھے معاف کردے،، دیکھ میں بہت اذیت سے گزر رہی ہو بہت تکلیف میں ہوں، اللہ سے روز اپنے گناہوں کی معافی مانگتی ہوں،، روز اپنے لیے موت کی دعا کرتی ہوں مگر مجھے موت بھی نہیں آتی۔۔۔ اللہ مجھ سے بالکل ناراض ہو چکا ہے تُو معاف کرے گی تو وہ بھی مجھے معاف کر دے گا۔۔۔ میری مشکل آسان ہو جائے گی میں اِن دو ماہ میں بہت اذیت سہہ چکی ہوں"

کشمالا زارو قطار روتی ہوئی روشانے کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بولی


"میں نے آپ کو معاف کیا مامی، اللہ آپ کے لیے آسانی پیدا کرے"

روشانے نے یہاں آنے سے پہلے بالکل نہیں سوچا تھا وہ ایسا بولے گی مگر کشمالا کی حالت دیکھ کر روشانے بولتی ہوئی اُس کے کمرے سے باہر نکل گئی،، اب وہ حازم کو لے کر جلدی سے یہاں سے نکلنا چاہتی تھی


"روشانے"

شمشیر جتوئی کی آواز پر اُس نے مڑ کر دیکھا ڈیڑھ سال میں وہ خود کافی کمزور ہو چکا تھا۔۔۔۔ شمشیر جتوئی کے اشارے سے پاس بلانے پر روشانے اُس کے قریب آئی


"میری رباب کی بیٹی"

شمشیر جتوئی روشانے کو گلے لگا کر زاروقطار رو رہا تھا ایک ایک کر کے سب ہی کشمالا کے کمرے سے نکل چکے تھے اور وہاں خاموش کھڑے تھے


شمشیر جتوئی کے بعد فیروز جتوئی ہے روشانے کو گلے لگایا وہ اُس سے معافی مانگنے لگا جبکہ دلآویز پلورشہ اور آرزو کے ساتھ ضیغم خاموش کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا


آج پہلی بار اُسے ضیغم کی بیوی کی حیثیت کی بجائے رباب کی بیٹی سمجھ کر مان دیا گیا تھا

****


"آپی حازم کہا ہے۔۔۔ اب مجھے نکلنا ہوگا بڑے خان اور تائی ماں انتظار کر رہے ہوگے میرا"

آرزو اُسے دوسرے کمرے میں لے کر آ گئی تھی دلآویز اور پلورشہ بھی وہی پر موجود تھی۔۔۔ اُسے یہاں آئے ہوئے دو گھنٹے گزر چکے تھے اور آدھے گھنٹے پہلے دلاویز حازم کو شمشیر جتوئی کے بلوانے پر روشانے کے پاس سے لے گئی تھی


"حازم کو اُس کے بابا اپنے کمرے میں لے گئے ہیں،، اب تمہیں حازم کو لینے اُس کے بابا کے پاس جانا پڑے گا"

دل آویز کی بات سن کر اور اُس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر روشانے بالکل خاموش ہو گئی جبکہ پلورشہ اور آرزو بھی اُس کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی


"آپی پلیز آپ سمجھنے کی کوشش کریں ناں سیریلی کافی دیر ہوگئی ہے"

روشانے نے اب آرزو کی مدد لینی چاہیے کیونکہ وہ ضیغم کے کمرے میں جانے سے گریز کر رہی تھی


"تم تو ایسے ڈر رہی ہو جیسے حازم کے بابا سائیں تمہیں بھی پکڑ کر اپنے کمرے میں رکھ لیں گے"

آرزو کی بات پر دلاویز پلورشہ ہنسنے لگیں


"میں کیوں بلاوجہ ڈرنے لگی حازم کے بابا سائیں سے، ابھی لے کر آتی ہو حازم کو"

دلآویز اور پلورشہ کو ہنستا ہوا دیکھ کر روشانے آرزو سے بولی


****


ہاتھ میں ہلکی سی لرزش کے بعد اُس نے بیڈ روم کا ذرا سا دروازہ کھولا سامنے بیٹھ کر اُسے حازم لیٹا ہوا نظر آیا، یہ اُس کے سونے کا ٹائم تھا اور وہ بیڈ پر لیٹا ہوا سو رہا تھا۔۔۔ وہی دروازے سے باہر کھڑے کھڑے اُس نے کمرے کے چاروں طرف نظر دوڑائی جب کوئی نظر نہیں آیا تو روشانے آئستہ سے کمرے کے اندر داخل ہوئی مگر دروازہ بند ہونے کی آواز پر وہ پلٹنے پر مجبور ہوئی


"اپنے کمرے میں کون اس طرح چوری چھپے آتا ہے"

ضیغم کمرے کا دروازہ بند کرتا ہوا روشانے کے پاس آیا اپنے بازو کھولتا وہ اُسے حصار میں لینے لگا


"سائیں پلیز میں یہاں حازم کو لینے آئی ہو"

روشانے جلدی سے پیچھے ہوتی ہوئی ضیغم سے بولی


"اور حازم کا باپ۔۔۔ اُس کی کوئی ویلیو نہیں رہی تمہاری نظر میں"

ضیغم اب اُس کے یوں پیچھے ہٹنے پر برا مانتا ہوا بولا


"ویلیو کی بات مت کریں سائیں ورنہ بات بہت آگے تک جائے گی"

روشانے بول کر پلٹنے لگی تاکہ حازم کو اٹھا سکے مگر اُس سے پہلے ضیغم اُس کا بازو پکڑ کر، اس کا رخ اپنی طرف کر چکا تھا


"ساری اُن باتوں کو ختم کر دو روشی جس سے صرف بات بڑھے اب جبکہ آج تم میرے کمرے میں آگئی ہو تو ہم دونوں کی بات بہت آگے تک جانے دو"

ضیغم بولتا ہوا اُسے مزید خود سے قریب کرنے لگا


"میں یہاں پر مامی کی بلانے پر آئی تھی سائیں، اب مجھے جانا ہے پلیز"

روشانے آہستہ سے اُس سے اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کرتی ہوئی بولی مگر اپنے بازو پر سختی دیکھ کر روشانے ضیغم کو دیکھنے لگی جو اُسے خاموشی سے دیکھ رہا تھا


"ماں کو معاف کر دیا تم نے، اپنے نانا اور ماموں سے شکوے دور کرلیے میری بہنوں سے ہنس کر بات کر رہی ہوں تو پھر مجھے کس جرم کی سزا دے رہی ہو"

ضیغم خود اُس کا بازو چھوڑ کر روشانے سے پوچھنے لگا


"اتنا دنیا کے بدلنے پر دکھ نہیں ہوتا لیکن وہ شخص جسے آپ اپنی دنیا سمجھ بیٹھے وہ بدل جائے تو بہت دکھ ہوتا ہے سائیں۔۔۔ سمجھ لیں کہ مجھے سب سے زیادہ دکھ آپ کی بے اعتباری نے دیا ہے"

روشانے کے بولنے پر ضیغم اُسے خاموشی سے دیکھنے لگا


"غلط بات مت کرو روشی بے اعتباری میں نے نہیں تم نے بھی میرے ساتھ برتی ہے۔۔۔ جب ہمارے فلیٹ میں تیمور خان آیا تھا تم نے مجھے کچھ نہیں بتایا، وہ حویلی میں رات کے پہر آیا ماں نے تم پر سوال اٹھایا، کیا میں نے اُس وقت تم پر اعتبار نہیں کیا یا پھر اپنی ماں کا ساتھ دیا، نہیں بلکہ اُن کے تمہارے خلاف بولنے پر الٹا اُن سے ناراض ہوا تھا۔۔۔ جب میں نے تم سے پوچھا کہ ماں کی بات میں کتنی سچائی ہے،، کیا تم نے میرا اعتبار کیا۔ ۔۔ نہیں،، مجھے ہر بات سے لاعلم رکھا، صحیح ہے مجھے تیمور خان کا نام لینے سے غصہ آ جاتا تھا لیکن میں خود اُس وقت تم سے پوچھ رہا تھا تو کیا تمہارے سچ بولنے پر غُصہ کرتا۔۔۔ اُس دن جب ماں نے مجھے کال کرکے حویلی میں آنے کو کہا تو غُصہ مجھے تمہارے کچھ نہ بتانے پر اور بیوقوف بننے پر آیا۔۔ میں نے بے اعتباری کو جواز بنا کر نہ تم سے اپنا تعلق ختم کیا نہ دوسری شادی کی۔۔۔ اس لیے تم مجھے بے اعتبار کہہ کر کٹھہرے میں نہیں کھڑا کر سکتی اور رہی تمہیں سزا دینے کی بات، تو وہ میں خود بھی تم سے دور رہ کر سہہ چکا"

ضیغم کے وضاحت دینے پر سوتا ہوا حازم اٹھ چکا تھا تبھی روشانے نے اُسے جلدی سے گود میں لیا ورنہ وہ رونا شروع کر دیتا


"میں دوبارہ کوئی وضاحت نہیں دوں گی سائیں"

روشانے حازم کو گود میں لیے ضیغم سے بولی


"میں تم سے کوئی وضاحت مانگ ہی کب رہا ہو، جو گزر گیا ہے اُسے فراموش کر کے ہمیں ایک دوسرے کو دیکھنا چاہیے، اپنے بیٹے کا سوچنا چاہیے"

ضیغم روشانے کی گود میں حازم کو دیکھتا ہوا بولا جو کہ نیند میں خلل پیدا ہونے کے باعث ابھی بھی اپنی آنکھیں مسلسل رہا تھا


"مجھے واپس جانا ہے سائیں تائی ماں میرا انتظار کر رہی ہوگیں"

روشانے کے بولنے پر ضیغم اسے دیکھنے لگا


"اب تم میرے اور اپنے علاوہ حازم کے ساتھ بھی بہت غلط کر رہی ہو"

ضیغم کی بات سن کر روشانے حازم کو لے کر اُس کے کمرے سے باہر نکل گئی


******


پیاس کی وجہ سے اُس کی آنکھ کھلی تو تیمور خان نے سائیڈ ٹیبل پر خالی جگ کو دیکھا وہ اٹھ کر بیٹھ گیا، اُس کی نظر سوتی ہوئی ژالے پر پڑی کمرے میں ہیٹر ان ہونے کے باوجود کمرے کا درجہ حرارت کم تھا۔۔۔ وہ صوفے پر اپنی گرم شال پاؤں تک ڈالے سمٹی ہوئی لیٹی تھی تیمور خان اپنا کمفرٹر اتارتا ہوا بیڈ سے اٹھ کر کھڑا ہوا۔۔ وہ اپنی پیاس کو فراموش کرکے کمفرٹر ہاتھ میں لیتا ہوا سوتی ہوئی ژالے کے پاس آیا


فزیوتھراپسٹ سے زیادہ ژالے کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ وہ آہستہ

آہستہ اب چلنے کے قابل ہونے لگا تھا فیزیوتراپسٹ کے علاوہ ژالے اُسے خود بھی ہلکی پھلکی ایکسرسائز کرواتی۔۔۔ وہ تھکنے لگ جاتا تو اُس کی ہمت بڑھانے کے لیے خود اُس کے ساتھ اسٹیپ کرتی،، ڈاکٹر کی تجویز کردہ ٹیوب سے اُس کے ہاتھ پاوں پر مساج کرتی، اُس کے ساتھ خود آہستہ آہستہ لان میں چہل قدمی کرتی۔۔۔ وہ اوپر کمزور دکھنے والی لڑکی اندر سے اتنی با ہمت تھی یہ تیمور خان کو اب اندازہ ہو رہا تھا


گرمائش کا احساس فراہم ہوتے ہی ژالے نے آنکھیں کھول کر اپنے اوپر کمفرٹر کو دیکھا، صوفے پر اُس کے سامنے تیمور خان بیٹھا اُسی کو دیکھ رہا تھا


"تمہیں اٹھنے کی کیا ضرورت تھی خان میری تو بس تھوڑی دیر کے لئے آنکھ لگ گئی تھی"

ژالے تیمور خان کو بولتی ہوئی اٹھنے لگی، تیمور خان نے اُسے شانوں سے تھام کر دوبارہ لٹا دیا


"لیٹی رہو مجھے بیڈ پر سکون نہیں مل رہا ہے، یہاں تمہارے پاس سکون ملے گا"

تیمور خان بولتا ہوا اُس کے سینے پر اپنا سر رکھ چکا تھا جس پر ژالے ایک پل کے لئے سٹپٹائی پھر خاموشی سے تیمور خان کے شانوں کے گرد اپنا بازو حائل کرتی ہوئی کمرے کی چھت کو دیکھنے لگی


"کیا سوچ رہی ہو"

تھوڑی دیر تک تیمورخان یونہی لیٹا رہا پھر ژالے سے پوچھنے لگا


"تمہارے اندر جو تبدیلی رونما ہوئی ہے اس کے بارے میں سوچ رہی ہوں آخر تم کیوں چاہتے کہ میں اپنے فیصلے میں ثابت قدم نہ رہو، مت اتنے اچھے بنو خان، میرے اتنے قریب مت آؤ میرے جانے کے بعد تمہیں بہت تکلیف ہوگی"

ژالے کی بات سن کر تیمور خان نے سر اٹھا کر ژالے کو دیکھا وہ بھی اسی کو دیکھ رہی تھی


"یہ جانتے ہوئے بھی کہ تمہاری ایسی باتیں مجھے تکلیف دیتی ہیں، کیوں کرتی ہو تم دور جانے کی بات۔۔۔۔ نو ماہ میں نے کتنی اذیت، کتنے تکلیف میں گزارے ہیں کیا میرے لیے یہ سزا کافی نہیں،، ژالے مجھ سے محبت کرنے کے باوجود تم مجھ سے دور جانا چاہتی ہوں آخر کیوں"

تیمور خان اُس کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا


"تمہارے ایکسیڈنٹ کے بعد تمہارے وجود میں جان باقی نہیں رہی تھی، تم اوپر سے اندر سے پوری طرح ٹوٹ گئے تھے، بکھر گئے تھے تب تمہیں میں نے سمیٹا۔۔۔ اب جو تمہارا نیا روپ سامنے آیا ہے مجھے اِس سے دوبارہ محبت ہونے لگی ہے خان، لیکن ٹھیک ہونے کے بعد اگر تم دوبارہ پرانی ڈگر پر چل پڑے تو میں بری طرح ٹوٹ جاؤں گی۔۔۔ بالکل تمہاری طرح اوپر سے بھی اور اندر سے بھی۔ ۔۔۔ میں نے تمہیں سمیٹ لیا تھا مگر مجھے سمیٹنے والا پھر کوئی نہیں ہوگا۔۔۔ اپنے ٹوٹنے سے بکھرنے سے ڈر لگتا ہے مجھے خان"

ژالے کی بات سن کر تیمور خان اٹھ کر صوفے پر بیٹھا اور ژالے کو بھی اپنے سامنے بٹھا دیا


"پرانا والا خان اس ایکسیڈنٹ میں ہی مر چکا ہے ژالے، یہ جو اِس وقت تمہارے سامنے بیٹھا ہے یہ بالکل مختلف انسان ہے۔۔۔ میری بات یاد رکھنا یہ تیمور خان بے شک خود ٹوٹ جائے گا مگر تمہیں کبھی نہیں ٹوٹنے دے گا اور نہ ہی تمہیں خود سے کبھی دور ہونے دے گا"

تیمور خان نے بولنے کے ساتھ ہی ژالے کو اپنے سینے میں چھپا لیا


"اچھی بیوی کا ملنا کسی بڑی نعمت سے کم نہیں ہوتا،، میں حیران ہو کہ خدا نے تمہیں نہ جانے میرے کونسے عمل کے بدلے مجھے عطا کر دیا۔۔ میں خدا کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ آج یہ وعدہ کرتا ہوں،، کہ آگے زندگی میں تمہیں اچھا شوہر اچھا ہم سفر بن کر دکھاؤں گا"

تیمور خان ہلکی آواز میں ژالے کے کان میں سرگوشی کر رہا تھا ژالے سر اٹھا کر اُسے دیکھنے لگی تو تیمور خان مسکرانے لگا


"اوکسجن کی اہمیت رکھتی ہو تم میرے لیے میری زندگی میں۔۔۔ اگر تم مجھ سے دور گئی تو میں کبھی بھی سانس نہیں لے پاؤ گا"

تیمور خان کے بولنے پر ژالے اپنا ہاتھ تیمور خان کے ہونٹوں پر رکھ دیا،، جسے تیمور خان نے چومنے کے بعد ژالے کو ایک بار پھر اپنے سینے سے لگا لیا


*****

ان تین ماہ میں وہ نہ صرف مکمل طور پر صحت یاب ہو چکا تھا بلکہ اس کی شخصیت میں بھی کافی بدلاو آچکا تھا،، اُس کے بیمار رہنے سے لے کر اب تک, ژالے اُس کے کمرے میں شفٹ نہیں ہوئی۔۔۔۔ یہ دوری اب تیمور خان کو کھلنے لگی تھی، اُن دونوں کے درمیان سب کچھ ٹھیک ہونے کے باوجود ژالے نہ جانے کیا سوچ کر اپنے الگ کمرے میں رہتی تھی۔۔۔ تیمور خان اُسے کسی نہ کسی اپنے کام سے کمرے میں بلاتا وہ بغیر نخرے دکھائے اُس کے بولے سارے کام کر دیتی


تیمور خان نے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی بڑھی ہوئی شیو دیکھی،، کل ہی اُس کے کمرے کی بیڈ کور چینج کرتے ہوئے ژالے نے اُسے شیو بنانے کو کہا تھا،،


تیمور خان ژالے کو یاد کرتا ہوا اپنے کمرے سے باہر نکلا تو اُسے ہال میں حازم کے رونے کی آواز آئی،، تیمور خان ہال میں موجود حازم کے باؤنسر کے پاس آیا، تو روتا ہوا حازم تیمور خان کے آگے اپنے ہاتھ بڑھانے لگا تیمور خان سمجھ گیا وہ اُس کے پاس آنا چاہ رہا تھا مگر چند ہفتوں پہلے ہی روشانے نے اُسے سختی سے منع کیا تھا کہ وہ حازم کو گود میں نہیں اٹھایا کرے


"کسی کو سنائی نہیں دے رہا حازم ہو رہا ہے"

تیمور خان بلند آواز میں بولا تاکہ وہاں موجود کوئی ملازم حازم کو اٹھا کر روشانے کو دے دے


"آپ کو سنائی دے رہی ہے حازم کی روتی ہوئی آواز تو آپ ہی اٹھا لیں"

روشانے کچن سے باہر آکر تیمور خان کو دیکھتی ہوئی بولی تو تیمور خان حیرت سے روشانے کو دیکھنے لگا


"اب کھڑے ہوکر مجھے کیا گھور رہے ہیں میرا بیٹا ابھی تک آپ کا منتظر ہے"

روشانے کے دوبارہ بولنے پر تیمور خان نے جھک کر جلدی سے حاذم کو گود میں اٹھایا حازم اُسکی گود میں آ کر خاموش ہو گیا تھا روشانے دوبارہ کچن میں جانے لگی


"شکل میں تو پورا ہی اپنے باپ پر چلا گیا ہے"

تیمور خان کی بات سن کر روشانے پلٹ کر اُسے دیکھنے لگی


"میرا مطلب ہے ماشاءاللہ بہت پیارا اور معصوم بیٹا ہے تمہارا"

روشانے کے دیکھنے پر تیمور خان جلدی سے بولنے لگا تیمور خان کی کوئی بات کا جواب دیے بغیر ایک بار پھر وہ کچن میں جانے کے لیے مڑی


"ویسے اگر دیکھا جائے تو باپ بھی اتنا برا نہیں ہے حازم کا"

روشانے ایک بار پھر پلٹی اور تیمور خان کے پاس آنے لگی


"آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں خان"

روشانے تیمور خان کے پاس آتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگی


"کہنا نہیں پوچھنا چاہ رہا تھا حازم کو دیکھ کر اِس کے بابا کی تو یاد آتی ہوگی تمہیں"

تیمور خان حازم کو گود میں اٹھایا سنجیدگی سے روشانے سے پوچھنے لگا


"اچھا اگر یاد آتی ہے تو پھر کیا کریں گے آپ"

روشانے اپنے دونوں ہاتھ باندھ کر تیمور خان سے پوچھنے لگی جبکہ روشانے کو دیکھ کر حازم اپنی ماں کے پاس جانے کے لیے ہمکنے نے لگا


"چلو آج میں تمہیں اور حازم کو چھوڑ آتا ہوں، حازم کے بابا کے پاس ویسے بھی یہ کام میں نے ہی بگاڑا تھا تو اب مجھے ہی سنوارنا چاہیے"

تیمور خان سنجیدگی سے اپنا ارادہ بتانے لگا تو روشانے نے آگے بڑھ کر حازم کو اُس کی گود سے لیا


"زیادہ ہیرو بننے کی ضرورت نہیں ہے آپ کو جو بگڑے کام سنوارنے نکل جائیں۔ ۔۔ میں کوئی گری پڑی نہیں ہوں کہ کوئی بھی مجھے اپنے گھر سے نکل جانے کہہ دے اور میں خود ہی منہ اٹھا کر اُس کے پاس چلی جاؤ"

روشانے تیمور خان کو بولتی ہوئی حازم کو لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی


"ویسے بات تو ٹھیک ہے"

تیمور خان منہ میں بڑبڑایا


"ژالے بی بی کو زرا میرے کمرے میں بھیجو"

وہاں سے گزرتی ہوئی ملازمہ کو دیکھ کر تیمور خان بولا اور اپنے کمرے میں جانے لگا،، تیمور خان نے سوچ لیا تھا کہ آج وہ ژالے کو اپنے کمرے میں اسکے تمام سامان کے ساتھ شفٹ ہونے کا کہے گا۔۔۔ یقینا وہ اُسی کے بولنے کی منتظر ہو جیسے روشانے دوبارہ اپنے شوہر کی آمد کی منتظر تھی


"پر چھوٹے خان وہ تو اس وقت حویلی میں موجود نہیں ہیں بلکہ آج صبح ہی اپنی خالہ کی طرف چلی گئی تھی"

ملازمہ کے بتانے پر تیمور خان ایک دم خاموش ہوا اور سامنے ڈائننگ ٹیبل پر رکھے کٹلری سیٹ میں سے سب سے بڑی چھری نکالنے لگا


"فون کرو اُسے اور کہو خان نے فورا بلایا ہے"

تیمور خان ملازمہ کو حکم دیتا ہوا چھری لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا


****


"کہاں ہے خان"

ژالے گاڑی سے اتر کر تیز قدم اٹھاتی ہوئی حویلی کے اندر آئی اور راستے میں آتی ہوئی ملازمہ کو مخاطب کرتی ہوئی پوچھنے لگی


"وہ جی بڑی چھری لے کر اپنے کمرے میں چلے گئے ہیں اور اندر سے کمرے کا دروازہ بند کر لیا ہے،، میرے دروازہ کھٹکھٹانے پر کھول بھی نہیں رہے ہیں آپ چل کر دیکھیں میں زرین بی بی کو بلا لیتی ہو"

ملازمہ حواس باختہ سی ژالے کو بتانے لگے، اُسی کے فون کرنے پر ژالے دس منٹ کے اندر حویلی پہنچ چکی تھی


"نہیں رہنے دو آنٹی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے میں خود دیکھ لیتی ہوں، ضرورت پڑے گی تو بول دو گی،، جاؤ تم اپنا کام کرو"

ژالے بولتی ہوئی تیمور خان کے کمرے کے پاس آئی اور دروازہ بجانے لگی


"خان دروازہ کھولو" ژالے کے ایک بار کہنے پر دروازہ کھل چکا تھا،، ژالے کمرے کے اندر داخل ہوئی سامنے میز پر چھری اور فروٹ باسکٹ میں سے ‏فروٹ کٹا ہوا دیکھ تو تیمور خان کو گھورنے لگی


"یہ کیا بچوں والی حرکت ہے خان میں کتنے دنوں بعد اپنی خالہ سے ملنے گئی تھی یہ کون سا طریقہ ہے مجھے وہاں سے بلوانے کا"

ژالے تیمور خان پر بگڑتی ہوئی پوچھنے لگی


"میں بچوں والی حرکتیں تب تک کرتا رہوں گا جب تک تم اماؤں والی حرکتوں سے باز نہیں آؤ گی،، مجھے بتا کر نہیں جا سکتی تھی میں کونسا روک لیتا"

تیمور خان اُس کے غصے کی پرواہ کیے بغیر اطمینان سے بولا


"تمہارا مطلب ہے میں تم سے پوچھ کر تمہیں بتا کر تمہاری اجازت لے کر جاتی"

ژالے اپنے دونوں ہاتھ باندھ کر ابرو اچکاتی ہوئی تیمور خان کے قریب آ کر پوچھنے لگی


"ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے بیوی ہو تم میری تو پھر مجھ سے اجازت لیتے ہوئے جھجھک کیسی"

تیمور خان اُس کا شفاف چہرہ دیکھتا ہوا بولا جس کے بناء اب اُس کا گزارا نہیں تھا


"میں کیو جھجھکنے، لگی تمہاری باتوں اور حرکتوں سے۔۔۔ فضول میں مجھے پریشان کرکے رکھ دیا"

ژالے اُس سے شکوہ کرتی ہوئی بولی اور کمرے سے جانے لگی تب تیمور خان نے اُس کی پشت سے ژالے کو اپنے حصار میں لیا


"ابھی میں نے وہ باتیں اور حرکتیں کی ہی کہاں ہیں جس سے تم مجھ سے شرماؤ"

تیمور خان نے بولتے ہوئے اپنے ہونٹ اُس کے گال پر نرمی سے رکھے


"مجھے شرماتا ہوا دیکھ کر تمہاری کون سی حسرت پوری ہونے والی ہے خان،، پیچھے ہٹو مجھے بے وقوفوں کی طرح شرمانا ورمانہ بالکل نہیں آتا"

ژالے اُس کا حصار توڑتی ہوئی بولی مگر دوسرے ہی پل تیمور خان اُسے کھینچ کر اپنی گرفت میں لے چکا تھا وہ اُس کی گردن پر جھکتا ہوا اپنی دیوانگی دکھانے لگا


"کیا ہو گیا ہے خان تمہیں اچانک۔۔۔ چھوڑو مجھے"

ژالے اُس کے اِس قدر جذباتی اقدام پر اچھی خاصی بوکھلاتی ہوئی بولی،، زمین پر اپنے گرے ہوئے دوپٹے کو دیکھ کر وہ تیمور خان کے پیچھے ہٹنے کا انتظار کیے بنا اُسے پیچھے دھکیلنے لگی


"تو آہی گئی تھوڑی بہت شرم"

تیمور خان اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے ژالے کا سرخ چہرہ دیکھ کر پوچھنے لگا


"جی نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے،، یہ جو تم نے اپنے چہرے پر جنگل اگایا ہوا ہے نہ،، یہ چبھ رہا تھا مجھے۔۔۔ میں نے کل بھی کہا تھا تم سے شیو بنا لینا مگر میری تو کوئی بات ماننی ہی نہیں ہے تم نے۔۔۔ اچھا ہی ہوگا جو میں تمہیں چھوڑ کر دور چلی جاؤ"

ژالے اپنی شرم ظاہر کئے بنا تیمور خان پر سارا ملبہ گراتی ہوئی اُسے دھمکی دینے لگی


"دور جانے کی دھمکی مت دیا کرو میری جان،، تمہارے خان کا مضبوط دل اِس معاملے میں بالکل کمزور ہے وہ تمہاری دوری بالکل برداشت نہیں کر پائے گا،، ایک بار پھر بستر سے لگانا چاہتی ہوں اپنے خان کو"

تیمور خان اُسے دوبارہ اپنے حصار میں لے کر پوچھنے لگا


"زیادہ ڈرامے کرنے کی ضرورت نہیں ہے،، آپنے اِس کمزور دل کو تھوڑا مضبوط بناؤ۔۔۔ جاؤ جا کر شیو بناؤ"

ژالے ایک بار پھر اس کا حصار توڑتی ہوئی تیمور خان سے بولی


"بڑھی ہوئی شیو سے تمہیں پرابلم ہے، شیو تمہیں چھبتی ہے اس لیے تم ہی بنا دو۔۔۔ ورنہ مجھے تو یونہی مجنوں بنے رہنا پسند ہے"

تیمور خان بولتا ہوا جا کر صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔ ژالے تیمور خان کو گھورنے لگی


"جس کے لیے تم مجنوں بنے ہوئے ہو وہ تمہیں اپنے بیٹے کا ماموں بنا چکی ہے"

ژالے تیمور خان کے پاس آکر اُس سے مذاقا بولی یقینا اُس کا اشارہ روشانے کی طرف تھا


"خان کیا کر رہے ہو چھوڑو مجھے"

ژالے واش روم میں شیونگ کٹ لینے جانے لگی اُس سے پہلے تیمور خان اُس کی کلائی پکڑ چکا تھا


"پہلے بتاؤ کس کے لئے مجنوں بنا ہوا میں"

سختی سے کلائی پکڑے ہوئے وہ بہت نرمی سے ژالے سے پوچھنے لگا۔۔۔ جس پر ژالے کو ہنسی آگئی


"میرے سر کے تاج آپ مجھ ناچیز کے لیے ہی مجنوں بنے ہوئے ہیں۔۔۔ اگر اپنی کنیز کو اجازت دیں تو وہ آپ کی شیو بنا دے، تا کہ آپ کا چاند چہرہ صاف دکھنے میں نظر آئے"

ژالے کی بات سن کر تیمور خان اُس کی کلائی چھوڑ چکا تھا۔۔ مگر ایک بار پھر وہ اُس کی گرفت میں موجود تھی


"روشانے مجھے اپنے بیٹے کا ماموں بنا چکی ہے اور تم جلدی سے مجھے اپنے بچوں کا باپ بنانے کا سوچو۔۔۔ اس لئے شرافت سے اپنے سارے سامان کے ساتھ آج رات ہی میرے کمرے میں شفٹ ہو جاؤ"

تیمور خان اب سنجیدگی سے اُسے دیکھتا ہوا بولا


"آپ کا حکم سر آنکھوں پر میرے پیارے خان۔۔۔ اور کچھ کہنا چاہے گیں یا پھر میں شیونگ کٹ لے کر آ جاؤ"

ژالے جس اندز میں بولی تیمور خان کو ہنسی آنے لگی


"نہیں،، اب جو بھی کہنا یا حکم دینا ہوگا وہ رات میں،، جب تم میرے کمرے میں ہمیشہ کے لئے آ جاؤں گی"

تیمور خان نے کہتے ہوئے ژالے کو اپنی گرفت سے آزاد کیا۔۔وہ مسکراتی ہوئی پیچھے ہٹی تیمور خان بھی مسکرانے لگا


****


اس دن وہ حویلی سے کشمالا کو معاف کرکے واپس آ گئی تھی مگر دو دن بعد ہی کشمالا کی فوتگی کی خبر سن کر اُسے واپس جانا پڑا۔۔۔۔ حازم کی طبیعت خرابی کی وجہ سے وہ زیادہ دیر تک ٹھہر نہیں پائی تھی۔۔۔۔ دل آویز، پلورشہ، آرزو اور شمشیر جتوئی سے مل کر واپس آ چکی تھی۔۔۔ اُس کی نظروں نے ضیغم کو تلاش کرنا چاہتا تھا مگر ضیغم اُسے کہیں دکھائی نہیں دیا۔۔۔ آج اِس بات کو پورے دو ہفتے گزر چکے تھے


جب اُس نے کشمالا کو معاف کر دیا تھا تو پھر تیمور خان سے وہ کیا گلہ رکھتی۔۔۔۔ آج صبح تیمور خان ژالے کے ساتھ چند دن چھٹیاں گزارنے شہر کے لیے روانہ ہوا تھا جبکہ سردار اسماعیل خان اور زرین اپنے کسی جاننے والے کی طرف گئے تھے تھوڑی دیر تک وہ کبری خاتون کے پاس بیٹھ کر،، حازم کو لے کر واپس اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔۔۔ حازم کا پیٹ بھر کر اُس کو سلانے کے بعد وہ شاور لینے چلی گئی۔۔۔ تب اُسے محسوس ہوا جیسے کمرے میں کوئی آیا ہے


"کمرے میں کون موجود ہے ذرا میرے کپڑے تو دو"

کمرے میں موجود ملازمہ کے خیال سے روشانے اُس سے اپنے کپڑے مانگنے لگی،،


تھوڑی دیر بعد اُسے کپڑے پکڑا دیے گئے،، مگر یہ اُس کے منتخب کردہ کپڑے ہرگز نہیں تھے، جو اُس نے بیڈ پر شاور لینے سے پہلے رکھے تھے۔۔۔ یہ لائٹ پرپل کلر کا ڈریس تھا یعنی وہ کلر جو ضیغم کو اُس کے اوپر اچھا لگتا،، جس سے شہر میں اس کا وارڈروب بھرا ہو تھا، ، بےخیالی میں سوچتی ہوئی وہ کپڑے پہن کر واش روم سے باہر نکلی

بیڈ پر سوتے ہوئے حازم کے قریب وہ ضیغم کو بیٹھا دیکھ کر ایک دم ڈر گئی، ساتھ ہی ٹاول اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گیا


"کک کیوں آئی ہیں آپ یہاں پر"

روشانی کے پوچھنے پر ضیغم چلتا ہوا اُس کے پاس آیا جو بغیر دوپٹے کے گیلے بالوں میں حیرت زدہ سی اُس کے سامنے کھڑی تھی


"یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ کیوں آیا ہوں میں یہاں پر پہلے آپ نے دوپٹہ تو لو"

وہ روشانے کے قریب آکر جس طرح اُس کے سراپے کو نظر بھر کر دیکھتا ہوا بولا تو روشانے فورا بیٹھ کر موجود اپنا دوپٹہ پھیلا کر اڑھنے لگی


"فیڈ کروایا ہے حازم کو"

وہ روشانے کو دیکھے بغیر بیڈ پر سوئے حازم کی طرف بڑھتا ہوا روشانے سے پوچھنے لگا


"جی تھوڑی دیر پہلے ہی۔۔۔ یہ، یہ کیا کر رہے ہیں آپ سائیں۔۔۔ حازم کو چھوڑیں"

وہ دوپٹہ اوڑھتے ہوئے ضیغم کو جواب دے رہی تھی اچانک ضیغم حازم کو گود میں اٹھاتا ہوا کمرے سے باہر نکلنے لگا تو روشانے دوڑ کر ضیغم کے پیچھے آئی۔۔۔ اب روشانی کو سمجھ میں آیا تھا وہ اس کے بیٹے کو لے جانے آیا تھا


"سائیں ایسا نہیں کریں پلیز میں اس کے بغیر کیسے رہو گی مر جاؤں گی میں"

روشانے روتی ہوئی التجائی انداز میں ضیغم کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی بولی مگر ضیغم اسے دیکھے بغیر حازم کو گود میں اٹھائے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا حویلی سے باہر نکل چکا تھا


"آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے میں آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کروں گی"

ضیغم گاڑی کے پاس پہنچ کر گاڑی کا دروازہ کھولنے لگا تو روشانے بولتے ہوئے حازم کو اُس کی گود سے لینا چاہا


"خاموشی سے گاڑی میں بیٹھو"

وہ روشانے کے ہاتھ جھٹک کر حازم کو دیے بغیر روشانے کو حکم دیتا ہوا بولا۔۔۔ روشانے نے اُس کی بات کا کوئی رسپانس نہیں دیا تو ضیغم نے گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کردی۔۔۔ ضیغم کو گاڑی اسٹارٹ کرتے دیکھ کر روشانے روتی ہوئی دوڑ کر گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر آئی اور جلدی سے بیٹھ گئی


روشانے نے روتے ہوئے ایک بار پھر حازم کو ضیغم سے لینا چاہا جس پر ضیغم نے حازم کو اُس کے حوالے کر دیا،،، وہ روتی ہوئی حازم کا چہرا چومنے لگی اُسے لگ رہا تھا جیسے آج اُس کا سینے سے کسی نے دل ہی نکال لیا ہو۔۔۔۔۔ ضیغم گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا


"یہ کیا کر رہے ہیں آپ سائیں گاڑی کا دروازہ کھولیں پلیز"

روشانے نے بولنے کے ساتھ ہی اپنی طرف کا دروازہ کھولنا چاہا مگر وہ لاک تھا


"سر ڈھکو اپنا"

ضیغم اُس کی بات کو نظرانداز کرتا ہوا روشانے کو اُس کے دوپٹے کا ہوش دلانے لگا کیونکہ اُس کی گاڑی حویلی کے مین گیٹ سے باہر نکل چکی تھی اور روشانے کو اُس نے گھر سے باہر نکلتے ہوئے کبھی کھلے سر نہیں دیکھا تھا


"آپ سمجھنے کی کوشش کریں سائیں بڑے خان پریشان ہوں گے"

روشانے ضیغم کو دیکھ کر پریشان ہوکر بولی


"بڑے خان کو میں دو گھنٹے پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ آج میں اُن کی بیٹی کو اٹھا کر اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاؤں گا"

ضیغم اُسے دیکھے بغیر ڈرائیونگ کرتا ہوا بولا


"بڑے خان کی بیٹی کو نہیں آپ اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ لے کر جانے کے لیے آئے تھے یہاں پر"

روشانے حازم کو خود سے بھینچتی ہوئی ضیغم کو جتا کر بولی، حازم کو خود سے جدا کرنے کا تصور سے ہی وہ بری طرح تڑپ گئی تھی


"کیا کر رہی ہو یار اتنی زور سے اُسے سینے سے چپکا کر جگا دیا۔۔۔ اتنی محبت کا مظاہرہ تو تم نے آج تک حازم کے بابا کے ساتھ بھی نہیں کیا"

جتنا سیریز ہوکر وہ ڈرائیونگ کرتا ہوا بول رہا تھا اتنی ہی شوخیاں اُس کی آنکھوں میں امڈ رہی تھی،، روشانے گھور کر ضیغم کو دیکھنے لگی


"ویسے میں تمہیں یہی کلیئر کر دیتا ہوں آج میں یہاں سے اپنے بیٹے کو لے جانے کے لئے نہیں آیا تھا مجھے اپنے بیٹے کے ساتھ ساتھ اُس کی ماں کی بھی ضرورت ہے۔۔۔ اپنے دل سے خیال نکال دو کہ میرا بیٹا ہی میرے لئے اہم ہے اگر صرف اِسے لے جانا ہوتا تو واش روم سے تمہارے باہر آنے کا انتظار نہیں کرتا"

روشانے کے گھورنے پر ضیغم اُس کو دیکھتا ہوا بولا تو وہ خاموش ہو گئی


"کچھ بات تو کرو ناں یار ایسے خاموش بیٹھی رہوں گی تو میں بور ہو جاؤں گا"

تھوڑی دیر گزرنے کے بعد ضیغم روشانے کو خاموش دیکھ کر بولا جبکہ حازم روشانے کے کندھے پر سر رکھا ہوا ضیغم کو ڈرائیونگ کرتا ہوا دیکھ رہا تھا


"نانا سائیں اور ماموں سائیں کیسے ہیں"

ضیغم کے بولنے پر وہ شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی کے بارے میں پوچھنے لگی


"دونوں ہی ٹھیک ہیں، دونوں ہی بضد تھے کے تمہیں اپنے ساتھ حویلی لے کر آؤں لیکن میں نے اُن دونوں کو سمجھا دیا کہ پہلے میں اپنی بیوی کو شہر میں جا کر مناؤں گا،، اُس کے تھوڑے ناز نخرے اٹھاو گا جب وہ مجھ سے سیٹ ہو جائے گی تب اسے آپ لوگوں سے ملواؤں گا"

ضیغم ڈرائیونگ کرتا بتا روشانے کو رہا تھا جبکہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد مسکرا کر حازم کو دیکھ رہا تھا


"دل آویز آپی اور پلورشہ آپی وہ دونوں کہاں پر ہیں حویلی میں،، میرا مطلب ہے ٹھیک ہیں وہ دونوں"

روشانے جو ضیغم سے پوچھنا چاہ رہی تھی وہ صحیح سے نہیں پوچھ پائی۔۔۔ مگر ضیغم اُس کی بات سمجھ چکا تھا اس لئے روشانے کو بتانے لگا


"جاوید بھائی کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا،، اس لیے ماں کے سوئم والے دن وہ دل آویز آپی اور بچیوں کو واپس اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے تھے۔۔۔ جبکہ پلورشہ آپا کے شوہر مبین بھائی سے اُن کی دوسری بیوی کی زیادہ دن تک نہیں بن سکی،، جس کی وجہ سے وہ خود مبین بھائی کو چھوڑ کر چلی گئی،، مبین بھائی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ پلورشہ آپا کو منا کر اپنے ساتھ گھر لے گئے تھے،، یہ بات غالبا ماں کے انتقال سے ایک دن پہلے کی ہے"

ضیغم روشانے کو تفصیل سے بتانے لگا۔۔۔ ضیغم کی بات سن کر روشانے کو خوشی ہوئی تھی کہ اُس کی دونوں نندیں اپنے اپنے گھر واپس چلی گئی تھیں


"نانا سائیں اور ماموں سائیں اکیلے کیسے رہ رہے ہوں گے"

اب اُسے شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی کی فکر لاحق ہونے لگی اس لئے وہ ضیغم سے پوچھنے لگی


"ماں کے انتقال کے بعد سے رمشا چچی کا قیام چند ماہ کے لیے حویلی میں ہی ہے،، اسد اور وفا کی وجہ سے دادا سائیں اور بابا سائیں کا دل دل کافی حد تک بہلا رہتا ہے"

ضیغم ڈرائیونگ کے دوران روشانے کو بتانے لگا جس پر اُسے کچھ تسلی ہوئی ساتھ ہی وہ خاموش ہوگئی


"سب کے بارے میں جان چکی ہو تو اب اپنے سائیں کا بھی حالِ دل پوچھ لو"

ضیغم نے کہتے ہوئے روشانے کا ہاتھ تھام کر اپنے ہونٹوں سے لگایا


"اففف کیا کر رہے ہیں سائیں، یہ بیڈ روم نہیں ہے آپ کا"

روشانے فورا اپنا ہاتھ پیچھے کرکے ضیغم کو ٹوکتی ہوئی بولی


"تمہیں کیا لگ رہا ہے اپنے بیڈ روم میں جا کر یہ چھوٹی موٹی کروائیوں پر گزارا کرو گا"

ضیغم معنی خیز نظروں سے اُسے دیکھتا ہوا پوچھنے لگا جس پر روشانے بغیر کوئی جواب دیئے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی ضیغم اب ڈرائیونگ کرنے کے ساتھ ساتھ حازم سے باتیں کر رہا تھا


****


"اففف اس لفٹ کو بھی آج ہی خراب ہونا تھا"

چار گھنٹے کا سفر کر کے مسلسل گاڑی میں بیٹھے بیٹھے وہ تھک چکی تھی، لفٹ کو خراب دیکھا تو روشانے اچھا خاصہ چِڑ کر بولی


"تو اتنا چڑ کیوں رہی ہو آجاو اپنے بیٹے کے ساتھ ساتھ تمہیں بھی گود میں اٹھا لیتا ہوں"

ضیغم جو کہ حازم کو گود میں اٹھائے ہوئے سیڑھیوں کی طرف بڑھ رہا تھا روشانے کے پاس آتا ہوا بولا


"کیا کر رہے ہیں سائیں میں بالکل ہی مذاق کے موڈ میں نہیں ہو"

ضیغم کو اپنے قریب آتا دیکھ کر روشانے ایک دم پیچھے ہوئی اور سنجیدگی سے ضیغم کو بولی


"اور میری سنجیدگی کا عالم تو تم اب ہمارے بیڈ روم میں جا کے دیکھ لوں گی"

ضیغم حازم کو گود میں اٹھائے سیڑھیاں چڑھتا ہوا بولا تو روشانے بلش کرنے کے باوجود اُسے گھورنے لگی


"فری مت ہو آپ زیادہ میں ناراض ہوں آپ سے ابھی تک"

سیڑھیاں چڑھنے کے ساتھ ساتھ روشانے اُس کی شوخ طبیعت کو صاف کرتی ہوئی بولی


"ساری رات اپنے آپ سے تھوڑی ناراض رہنے دوں گا منالوں گا،، چلو ایسا کرتے ہیں آج پھر ریس لگاتے ہیں"

ضیغم سیڑھیاں چڑھنے کے ساتھ ساتھ روشانے کو مشورہ دیتا ہوا بولا جس پر روشانے ضیغم کو دیکھ کر تیزی سے سیڑھیاں چڑھنے لگ گئی۔۔۔ مگر تھکن کے باعث اس کا سانس پھولنے لگا اور آج جیت باپ اور بیٹے کے نام ہوئی


****


"دیکھ لو تمہارے جانے کے بعد ذرا بھی گھر میں بے ترتیبی نہیں پھیلنے دی، نہ کوئی سیٹنگ چینج کی سب کچھ ویسے کا ویسا ہی ہے"

روشانے رات کے کھانے کے برتن دھو پر روم میں آئی تو حازم بیڈ پر لیٹا ہوا تھا اور ضیغم اپنے بیٹے سے کھیل رہا تھا۔۔۔ روشانے کو کمرے میں آتا دیکھ کر وہ بیڈ سے اٹھ کر آیا اور روشانے کو اپنے حصار میں لیتا ہوا بولا


"پیچھے ہٹیں سائیں کیا کر رہے ہیں حازم دیکھ رہا ہے"

روشانے اُس کے حصار سے نکلتی ہوئی حازم کو دیکھ کر بولی جو روشانے کو کمرے میں آتا دیکھکر خوشی سے گلکاریاں مار رہا تھا


"اچھا ہے نا اُسے بھی معلوم ہونے دو اس کے بابا کتنے رومینٹک ہیں"

ضیغم دوبارہ روشانے کی کمر کے گرد اپنے بازو حائل کرتا ہوا بولا جبکہ بیڈ پر لیٹا ہوا حازم اپنے ننھے ننھے ہاتھ پاؤں چلانے لگا


"لیکن مجھے آپ کے رومینس کے مظاہرے نہیں دیکھنے، میں کافی تھکی ہوئی ہوں اور اب ریسٹ کروگی"

وہ اپنی کمر سے ضیغم کے ہاتھ ہٹاتی ہوئی بولی اور بیڈ کے قریب آ کر حازم کو گود میں اٹھانے لگی


"تم ریسٹ کرو گی تو پھر میں کیا کروں گا"

ضیغم برا مانتے ہوئے روشانے سے پوچھنے لگا تو روشانے نے حازم کو ضیغم کی گود میں دے دیا


"آپ اپنے بیٹے کو دوسرے کمرے میں جاکر سلا دیں"

روشانے کے بولنے پر ضیغم اُسے گھورتا ہوا حازم کو واقعی دوسرے کمرے میں لے کر چلا گیا جبکہ روشانے اپنی مسکراہٹ رکتی ہوئی بیڈ پر لیٹ گئی


"سو جا میرے چھوٹے سائیں اب تو تیرے سونے کے بعد ہی تیرے بابا سائیں کی کوئی بات بن سکتی ہے"

ضیغم حازم کو گود میں اٹھائے مسلسل ٹہلے جا رہا تھا مگر حازم سونے کی بجائے منہ بسور بسور ضیغمم کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ ضیغم کو لگا وہ تھوڑا بے چین ہے اور ابھی رو دے گا۔۔۔ حازم کے پاس سے آنے والی اسمیل سے ضیغم اُس کی بے چینی کی وجہ سمجھ گیا، اِس لیے اُسے واپس روشانے کے پاس جانا پڑا


"یار روشی حازم کا ذرا ڈائپر تو چیک کرو لگ رہا ہے کوئی بڑا کام کر کے بیٹھا ہے ہمارا شہزادہ"

ضیغم بیڈروم میں آ کر بیڈ پر لیٹی ہوئی روشانے کو دیکھ کر بولا


"بیس منٹ بھی نہیں سنبھال سکے آپ اپنی اولاد کو سائیں"

روشانے منہ بنا کر بولتی ہوئی ضیغم سے حازم کو لینے لگی


"یار ابھی کچھ کام تو اِس کے ایسے ہیں جو تم ہی کر سکتی ہو، اس کو فیڈ بھی کروا دینا تاکہ آرام سے سو جائے"

ضیغم کی بات سن کر روشانے اُس کو گھورنے لگی جبکہ ضیغم نے الماری کھولی جس کے ایک پورشن نے حازم کے استعمال کا سارا سامان رکھا ہوا تھا۔۔۔ روشانے ڈائپر کا پیکٹ نکال کر اُسے چینج کروانے کے بعد روتے ہوئے حازم کو دیکھنے لگی


"میرا بیٹا کیا ہوگیا جانو"

ضیغم اُسے پیار سے بہلاتا ہوا پوچھ رہا تھا


"بھوک لگ رہی ہے اسے فیڈ کرکے سوئے گا آپ دوسرے کمرے میں جائے"

روشانے حازم کو گود میں لے کر بیڈ پر بیٹھتی ہوئی ضیغم سے بولی


"مجھ سے کونسا پردہ ہے تمہارا جو میں دوسرے کمرے میں چلا جاؤ"

ضیغم وہی روشانے کے سامنے بیڈ پر پھیلتا ہوا لیٹ کر بولا۔۔۔ روشانے لمبا سانس کھینچ کر حازم کی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔


حازم کو پیٹ بھرتا دیکھ کر، روشانے کے گھورنے کی پرواہ کیے بغیر۔۔ ضیغم حازم کے ننھے ہاتھ پاؤں چومنے لگا۔۔۔ روشانے کے مزید بڑی بڑی آنکھیں دکھانے پر اب وہ روشانے کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں پر لگا چکا تھا۔۔۔ آج وہ روشانے اور اپنے بیٹے کو اپنے گھر میں دیکھ کر بہت خوش تھا


"آپ اسے گود میں اٹھا کر ٹہلتے رہے گے تو یہ خود ہی تھوڑی دیر میں سو جائے گا"

روشانے اونگتے ہوئے حازم کو دوبارہ سے ضیغم کو تھماتی ہوئی بولی


"اسے تو میں سلا دوں گا لیکن ابھی تمہیں سونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے"

ضیغم حازم کو گود میں اٹھائے، بیڈ پر لیٹتی ہوئی روشانے سے بولا


حازم اپنی ننھی ننھی سے ہاتھ کی مٹھیاں بنا کر آنکھیں مسلنے لگا تو ضیغم نے کمرے کی لائٹ بند کر دی


اب وہ حازم کو آغوش میں لئے کمرے میں ہی ٹہل رہا تھا جبکہ نائٹ بلب کی روشنی میں بیڈ پر لیٹی ہوئی روشانے کے لبوں پر یہ منظر دیکھ کر مسکراہٹ آئی، وہ آنکھوں پر اپنا بازو رکھ کر سوتی ہوئی بن گئی تھی تھوڑی دیر بعد روشانے اپنا ہلکا سا ہاتھ ہٹا کر دیکھا تو ضیغم سوئے ہوئے حازم کو کاٹ میں لٹا کر اُسے پیار کر رہا تھا


روشانے جلدی سے آنکھوں پر دوبارہ بازو رکھ لیا


تھوڑی دیر بعد روشانے کو محسوس ہوا کہ ضیغم بیڈ پر اس کے برابر میں آ کر لیٹا ہے۔۔۔۔ ابھی روشانے ضیغم کی طرف پشت کر کے کروٹ لینے کا سوچ ہی رہی تھی مگر عمل کرنے سے پہلے ضیغم اس کا نازک وجود اپنی طرف کھینچ چکا تھا روشانے نے اُس کے اقدام پر اپنی آنکھوں سے بازو ہٹایا تو ضیغم نے فوراً اُس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے گرفت میں لیا۔۔۔۔ اس سے پہلے روشانے اُسے پیچھے کرتی وہ روشانے کی دونوں کلائیاں قابو کر چکا تھا


کتنے ہی پل یونہی گزر گئے مگر اُس کے تشنہ لب ابھی بھی پیاسے تھے۔۔۔۔ وہ روشانے کا ایک ایک نقش چومتا ہوا اب روشانے کی گردن پر جھک چکا تھا۔۔۔۔ اُس کے والہانہ پن کو دیکھتے ہوئے روشانے بوکھلا چکی تھی۔۔۔ اب ضیغم نائٹ بلب کی روشنی میں روشانے کا چہرا دیکھ رہا تھا


"سوتی ہوئی بیوی پر اِس طرح حملہ آور ہوتے ہیں"

روشانے ضیغم کو دیکھ کر سنجیدگی سے پوچھنے لگی جس پر وہ ہلکا سا مسکرایا


"ہاں، اگر بیوی سونے کا ڈرامہ کر رہی ہو تو ایسے ہی حملہ کرتے ہیں۔۔۔ اب بڑے والے حملے کے لئے تیار ہو جاؤ"

وہ روشانے کے بالوں میں اپنے ہاتھوں کی انگلیاں پھنسا کر اُس کا چہرہ اوپر کرتا ہوا بولا


"آئندہ زندگی میں، کبھی بھی مجھے اپنے آپ سے دور مت کرئیے گا"

روشانے کی بات سن کر ضیغم اپنے ہونٹ روشانے کی پیشانی پر رکھتا ہوا بولا


"ایسا اب کبھی بھی نہیں کر سکتا، چاہو تو کتنی ہی بڑی قسم لے لو"

روشانے کو محسوس ہوا جیسے ضیغم اُس کو سزا دے کر خود بھی پچھتا رہا تھا


"میری ایک بات مانیں گے"

روشانے اُس کے گال پر ہاتھ رکھتی ہوئی پوچھنے لگی۔۔۔۔ ضیغم اس کا ہاتھ چوم کر روشانے کا نازک سراپا اپنے حصار میں لے لیتا ہوا بیڈ پر لیٹ گیا


"کچھ بھی کہہ دو مان لوں گا مگر یہ مت کہنا کہ ابھی نیند آ رہی ہے"

ضیغم اُسے آنکھیں دکھاتا ہوا بولا تو روشانے ہنسنے لگی


"کیا آپ خان کو معاف کر سکتے ہیں"

روشانے بولنے کے بعد ضیغم کے تاثرات دیکھنے لگی جو کہ بالکل خاموش ہو گیا تھا، وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ اُن دونوں کے بیچ دوستی ہو جائے۔۔۔ بس اُن دونوں خاندانوں کے بیچ کی دشمنی ختم ہو جائے یہی اُس کے لیے بہت تھا

"جب تم ماں کو معاف کر سکتی ہو تو میں بھی تیمور خان کو معاف کر سکتا ہوں"

ضیغم کے بولنے پر روشانے مسکرا کر اُس کے سینے پر سر رکھ دیا۔۔۔ ضیغم اُس کو اپنے حصار میں لے لیتا ہوا اپنے اور روشانے کے درمیان دوریاں مٹانے لگا

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes.She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Dil Haara Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dil Haara  written by Zeenia Sharjeel  Dil Haara  by Zeenia Sharjeel is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages