Abr E Gurezaan Novel By Kanwal Akram Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 24 June 2024

Abr E Gurezaan Novel By Kanwal Akram Complete Romantic Novel

Abr E Gurezaan Novel By Kanwal Akram Complete Romantic  Novel

 Read ONLINE Free Famous Urdu Novel 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading

Abr E Guraizan By Kanwal Akram Complee Romantic Novel 


Novel Name: Abr E Guraizan  

Writer Name: Kanwal Akram  

Category: Complete Novel

تپتا سورج، زمین کو گرما رہا تھا جِس سے زمین کی تپش نا صِرف بڑھ گئی تھی بلکہ ہر ذی روح کو جُھلسائے دے رہی تھی۔ ہوائیں تو چل رہیں تھیں مگر اِتنی گرم کہ نا ہی چلتیں تو بہتر تھا۔ جِسم کو چھونے والی ہوا بھی اِس وقت ناگوار گُزر رہی تھی۔ گرمی کا ایک الگ ہی عالم تھا جو ٹوٹ کر برس رہی تھی۔ پرندے بھی گرمی سے ڈرتے جانے کہاں کہاں چُھپے بیٹھے تھے ایسے میں جہاں ہر کوئی باہِر نِکلنے سے گُریزاں تھا وہاں وہ تیز تیز قدم اُٹھاتی آگے بڑھ رہی تھی۔ پانچ فُٹ ، ایک اِنچ قد کی حامل وہ لڑکی جلدی میں لگتی تھی۔ اِس وقت وہ بلیک جینز اور گُھٹنوں سے تھوڑا سا اوپر آتی چیک کی کُھلی سی شرٹ میں ملبوس تھی۔ سر پر کیپ پہن رکھی تھی، گلے میں سکارف لپیٹ رکھا تھا اور بال شاید جوڑے میں مُقید تھے کیونکہ کیپ کے نیچے سے چہرے پر ایک دو لٹ ہی نظر آ رہی تھی باقی تو کیپ کے اندر ہی کہیں چُھپے ہوئے تھے۔ معصومیت چہرے پر سجائے وہ، ہلکی گندمی سُنہری رنگت لیے، ہونٹوں کو آپس میں بھینچے وہ آگے بڑھ رہی تھی۔ اُس کے تیز چلتے قدم ایک سستے سے ہوٹل کے سامنے رُکے تھے۔ 

"ایک انڈے والا برگر اور ایک کوک کا کین لا دو کاکے۔" وہ وہاں موجود دس سالہ ویٹر کو دیکھ کر بولی اور خُود ٹیبل کے گِرد رکھی کُرسی پر بیٹھی۔ اپنے کف فولڈ کیے اور ایک طائرانہ نِگاہ ہوٹل میں موجود ہر فرد پر ڈالی۔ زیادہ تر وہاں آدمی ہی موجود تھے۔ اِکّا دُکّا کہیں کہیں ایک دو ہی خواتین نظر آئیں تھیں اُسے۔ اُسے اپنا شِکار نظر نہیں آیا تھا۔ اِس سستے سے ہوٹل میں کھانے آئے تھے تو یقیناً اُن کے پاس مال نہیں ہو گا۔ ورنہ پیسہ ہو تو کون اِس سستے ہوٹل میں کھانے آئے؟ گہری مُسکراہٹ ہونٹوں پہ سجا کے اُس نے رُخ پلٹا جہاں وہ بچہ اُس کا برگر اور کوک کا کین رکھ رہا تھا۔

"یہ کیا پہلے سے بنا کر رکھے ہوتے ہیں جو اِتنی جلدی لے آتے ہو؟ بتا رہی ہوں میں۔ باسی ہوا تو پیسے نہیں دوں گی۔" لڑاکا انداز میں کہتی وہ اُنگلی اُس کی طرف تان گئی۔ 

"نہہں باجی! بالکُل تازہ ہے ابھی بنوا کر لایا ہوں بے شک اُستاد سے پوچھ لو۔" بچّہ رونے والی شکل بنا کر بولا تو وہ رحم کرنے والے انداز میں سر جھٹک کر برگر نوش کرنے لگی۔ ساتھ ساتھ وہ اِردگِرد بھی نظر دوڑا دیتی۔ 

پندرہ مِنٹ میں اُس نے برگر اور کوک ختم کی اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اُس نے اُس دس سالہ بچّے کی طرف دیکھا جو ٹرے سے چیزیں اُٹھا اُٹھا کر کِسی گاہک کی ٹیبل پر رکھ رہا تھا۔  تسلّی کر کے ابھی اُس نے قدم باہِر کی جانِب بڑھائے ہی تھے جب اُسی بچّے کی آواز نے اُس کے قدم روکے۔ 

"آج کا دِن ہی خراب ہے میرا۔" وہ منہ بناتی پلٹی تو وہ سامنے سے چلا آ رہا تھا۔ 

"باجی پیسے تو دیتی جاو؟" اُس نے بچّے کے ماتھے پہ آیا پسینہ صاف کر کے کہا تو وہ دِل ہی دِل میں اُسے کوستی جیب میں ہاتھ ڈال کر پیسے نِکالنے لگی۔

" یہ لے پیسے۔ چور سمجھا  ہے کیا؟ بھاگی نہیں جا رہی تھی جو سر پر ٹپک پڑے۔" وہ پیسے ٹیبل پر پھینکتی بڑبڑا کر باہِر کی جانِب چل دی۔ پیچھے وہ نفی میں سر ہلاتا پیسے گِنتا کاونٹر کی جانِب بڑھنے لگا جب ٹھٹھک کر رُکا۔ دس روپے کم تھے مطلب وہ چونا لگا گئی تھی۔ روہانسی شکل بنا کے اُس نے آسمان کی طرف دیکھا جیسے خُدا سے اُس کی شِکایت کر رہا ہو۔ پھر اپنے مالک کو پیسے دینے چل دیا۔ باقی کے دس اُسی کی تنخواہ سے کٹنے والے تھے۔

وہ اُس بچّے کو چونا لگا کر باہِر آ گئی تھی۔ آج اُس کی جیب خالی تھی کوئی شِکار جو نہیں مِلا تھا۔ گرمی تھی تو بازاروں میں رش بھی کم تھا ایسے میں اگر وہ اپنے ہاتھ کی صفائی دِکھاتی تو شاید پکڑی جاتی جو وہ نہیں چاہتی تھی۔ ابھی وہ جا ہی رہی تھی جب اُس کی نظر ایک شاپ کے باہِر بنی عورتوں کی قِطار پر پڑی۔ ایک سے بڑھ کر ایک برانڈڈ کپڑوں میں ملبوس خواتین وہاں موجود تھیں۔ جو نجانے کیا لے رہیں تھیں وہاں سے۔ پاس ہی پولیس سٹیشن تھا ایک پل کو اُس کا اِرادہ ڈگمگایا مگر پھر جی کڑا کر اپنے فیصلے پر ڈٹ گئی۔ 

اُس کی آنکھیں کِسی خیال کے تحت چمک اُٹھیں تھیں۔ وہ تیزی سے اُس قِطار میں جا کھڑی ہوئی۔اُس کے آگے جو لڑکی کھڑی تھی وہ بھی کافی کھاتے پیتے گھرانے سے لگ رہی تھی۔ ہاتھ میں ہینڈ بیگ تھا جبکہ دوپٹہ گلے میں پٹے کی طرف جھول رہا تھا۔  اُس نے اِردگِرد نظریں گُھمائیں مگر کوئی بھی اُس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ ہر طرف سے تسلّی ہوتے ہی اُس نے اپنی کاروائی شروع کی تھی۔ ہونٹوں پر شرارتی مُسکان تھی جبکہ آنکھیں چمک رہیں تھیں کِسی کالّی بِلی کی کالی گھنگھور آنکھوں کی طرح۔

*******************

کاٹن کے سفید لباس میں ملبوس وہ گھڑی پہ وقت دیکھتا جلدی ہی تھانے سے نِکل آیا تھا۔ وہ بس تھوڑی ہی دیر کے لیے تھانے آیا تھا اِس لیے یُونیوفارم میں ملبوس نہیں تھا۔ آنکھوں پہ گاگلز ٹِکائے، وہ ابھی تھانے سے نِکل کر دائیں جانِب اپنی جیپ کی طرف بڑھا ہی تھا جب اُس کی نظر خواتین کی بنی لمبی سی قِطار پر پڑی۔ وہ آگے بڑھ جاتا اگر اُس کی نظر سب سے آخر میں کھڑی لڑکی کے ہاتھ پہ نا پڑتی جو سِرکتا ہوا اپنے آگے والی لڑکی کے ہینڈ بیگ میں گھُسنے کی کوشش میں تھا۔ وہ حیران ہوا تھا۔ ایک پل کو غُصّہ بھی آیا مگر بغیر تصدیق کیے وہ کوئی قدم نہیں اُٹھا سکتا تھا۔ وہ اپنی ہی جگہ پہ کھڑا رہا تھا۔ گاگلز اُتار کر قمیض کی اوپر جیب میں اٹکائے۔  

اُس کی نظریں اب بھی اُسی منظر پر جمیں ہوئیں تھیں۔ وہ حیرت زدہ سا اُس اٹھارہ اُنیس سالہ لڑکی کی حرکت دیکھ رہا تھا جو نڈر اور بے خوف ہو کر اپنے آگے کھڑی لڑکی کے پرس میں ہاتھ ڈالے کُچھ ٹٹول رہی تھی جبکہ اِس سے بھی حیرت کی بات یہ تھی آگے والی لڑکی کو اِس بات کا احساس تک نہیں تھا کہ پیچھے کھڑی لڑکی اُس کے پرس میں ہاتھ ڈالے کُچھ چُرانے کی کوشش میں ہے۔ وہ اُس لڑکی کا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا مگر دِکھنے میں وہ اُسے کم عُمر ہی لگی تھی۔ 

پھر وہ اُس چور لڑکی کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکا جب اُس نے اگلے دو مِنٹ میں پرس سے ہاتھ باہِر نِکالا اور اُسے اُس لڑکی کے ہاتھ میں ہزار ہزار کے تین سے چار نوٹ نظر آئے۔ وہ اپنی جگہ پہ کھڑا اُس لڑکی کو داد دیتا یہ بھی بھول گیا تھا کہ وہ ایسے چوروں کو پکڑنے والا اِنسپکٹر ہے جِسے آگے بڑھ کر اُس لڑکی کو پکڑنا چاہیے۔ 

اچانک وہ لڑکی پلٹی تھی جِسے دیکھ کر وہ کُچھ چونکا تھا اُسے وہ لڑکی دیکھی دیکھی لگ رہی تھی مگر چاہ کر بھی وہ یاد نا کر پایا کہ اُس نے اُسے کہاں دیکھا ہے۔ سر پر کیپ پہنے، جینز کے اوپر چیک کی گُھٹنوں سے تھوڑا اوپر آتی شڑٹ پہنے، گلے میں سکارف اور چہرے پر حد درجہ معصومیت لیے وہ لڑکی ایک چور تو بالکُل نہیں لگتی تھی۔ کُچھ آوارہ لِٹیں اُس کی کیپ سے نِکلتی چہرے پہ جھول رہیں تھیں۔ جِن سے بے نیاز وہ اب اِدھر اُدھر دیکھتی چوکنا انداز میں آگے بڑھنے لگی۔ 

آگے بڑھتی وہ اُس کے پاس سے گُزرنے لگی جب ایک دم ہی اُس لڑکی کی کلائی اُس کے ہاتھ کی گرفت میں آئی تھی۔ وہ لڑکی چونک کر پلٹی۔ 

"ہاتھ چھوڑو میرا۔" وہ سخت لہجے میں بولی۔

"وہ پیسے نِکالو جو تُم نے اُس لڑکی کے پرس سے چُرائے ہیں۔" اُس کی سیاہ گھنگھور آنکھوں میں جھانکتا وہ سکون سے بولا تو ایک دم ہنسی۔

"نِکالتے ہوئے دیکھ لیا؟ اُس نے ہنس کر پوچھا تھا جِس پر وہ سر ہلا گیا۔ 

"اچھا آدھے تُم رکھ لو آدھے میں۔ بولے تو فِفٹی فِفٹی۔" وہ ڈیل کرنے والے انداز میں بولی۔

"نہیں سارے پیسے نِکالو۔" وہ برہم ہوا تھا۔

"کیوں؟ محنت میری اور عیاشی تیری؟ دیکھنے میں تو امیر شمیر لگ رہے ہو اور پیسے مانگ مُجھ سے رہے ہو وہ بھی چوری کے۔" وہ کینہ توز نظروں سے اُسے گھورنے لگی۔ جِس پر وہ اُس کا ہاتھ مروڑ گیا جو ابھی بھی اُس کے ہاتھ میں تھا۔ 

"آہہ۔ اللّٰہ بیڑہ غرق کرے تیرا ! ہاتھ توڑ دیا میرا! لے سارے ہڑپ لے ہاتھ چھوڑ کمینے۔" دہائیاں دیتی وہ اُسے کوسنے لگی۔ 

"چوری کیوں کی؟ شرم نہیں آتی؟" وہ شرمندہ کرنے کے سے انداز میں بولا تو وہ اُسے گھور کر رہ گئی۔ 

"شرم مُجھے نہیں پتہ کیا ہوتی ہے اور چوری کیوں کی یہ تم بتاو میرے ابّا لگے ہو جو پوچھ رہے ہو؟ ہننہ چوری کیوں کی۔" سر جھلاّتی وہ بیزاری سے بولی تو وہ اُس منہ پھٹ سی لڑکی کو دیکھ کر رہ گیا۔ 

"اب ہاتھ چھوڑو گے تو پیسے دوں گی نا۔" وہ ایک بار پھر ہاتھ جھٹک کر بولی تھی جِس پر وہ ہاتھ چھوڑ گیا۔ 

"آہ کِدھر گئے ہاں یہ لے لال لال پیسے۔" ایک دم سے ہاتھ جیب میں ڈال کر، کُچھ ٹٹول کر وہ مُٹھی باہِر نِکالتی اُس کی آنکھوں پہ جھٹکتی جلدی سے پیچھے ہوئی جبکہ وہ ایک چیخ کے ساتھ اپنی آنکھیں مسلنے لگا۔ جلن تھی کہ آنکھوں کو انگارہ کر گئی تھی۔ پانی بھی لگاتار آنکھوں سے بہنے لگا۔ 

"مِل گیا حِصّہ؟ اب یاد کرنا ہمیشہ اِس حِصّے کو اور کبھی اپنی یہ منحوس شکل نا دِکھانا ورنہ اِس دفعہ تو مرچی ڈالی ہے اگلی دفعہ تیزاب ڈال دوں گی بے وقوف۔" اُس سے دور قدم لیتی چیخ کر کہتی وہ قہقہہ لگا کر ہنستی پیچھے کو بھاگ گئی تھی جبکہ وہ مسلسل آنکھیں مسلتا ہوا میں ہاتھ مارتا مدد کے لیے پُکار رہا تھا جو جانے کب نصیب ہوتی۔ 

مگر خُدا کو اپنی مخلوق پہ رحم آ گیا تھا۔ اُس کا چیخنا چِلّانا سُن کر کئی لوگ اُس کے گِرد جمع ہو چُکے تھے۔اُس کی آنکھوں پہ مِرچیں دیکھ کر اُس کو پانی کی بوتل تھمائی گئی جِس سے وہ اپنے منہ پہ پانی کے چھینٹے مارنے لگا۔ کُچھ افاقہ ہوا تو لوگ اُس کو ٹھیک دیکھ کر اپنے اپنے راستے چل دئیے جبکہ وہ دانت پیس کرر ہ گیا۔ وہ چھٹانک بھر، اٹھارہ اُنیس سالہ لڑکی، ستائیس سالہ قابِل پولیس آفیسر کو چکمہ دے گئی تھی۔ 

اپنے چہرے پر پانی کے قطروں کو صاف کرتے وہ سُرخ آنکھوں سے اِردگرد دیکھنے لگا جہاں اُس لڑکی کا نام و نِشان نا تھا۔ اُس کی آنکھیں اب بھی جل رہیں تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے آگ لگا دی ہو کِسی نے۔

"چھوڑوں گا نہیں میں تُمہیں۔ جہاں مرضی چُھپ جاو ایک بار ہاتھ آ گئی تو ساری زِندگی میری گرفت سے نِکل نہیں پاو گی۔" دِل ہی دِل میں اُس سے بدلہ لینے کا مصمّم اِرادہ کرتا وہ اپنی جیپ کی جانِب بڑھ گیا تا کہ گھر جا کر برف کے ٹکڑوں سے اپنی سُلگتی آنکھوں پر ٹکور کر سکے۔ 

********************

"اے دُرّے کہاں ہے باہِر آ۔ دیکھ ناشتہ تیار ہو گیا؟ تیرے سر کا سائیں اِنتظار کر رہا ہے اور تُجھے کُچھ ہوش ہی نہیں۔" حلیمہ بیگم نے رانا جعفر کو ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھے دیکھا تو وہ وہیں سے اونچی صدا لگاتی کِچن کی جانِب بڑھی جبکہ جعفر نے ماتھے پر شِکنیں ڈالے اُن کی بُلند صدا سُنی۔ پھر کُچھ ہی دیر بعد دُرّے بی بی سیڑھیاں اُترتی نیچے تشریف لائی۔ ایک نظر جعفر پر ڈال کر وہ جلدی سے کِچن میں چلی گئی۔ اگلے دس مِنٹ میں وہ ناشتہ ٹرے میں سجائے ڈائینگ ٹیبل پر ہآ گئی۔ 

"سائیں ناشتہ!" دُرّے نے ٹرے اُس کے سامنے کی اور خُود پاس ہی کھڑی ہو گئی۔

"اب سر پر کھڑی رہو گی یا کھانا بھی سکون سے نہیں کھا سکتا میں؟" وہ تلخی سے بولا تو وہ لب بھینچ گئی۔ 

"آپ کک کو کِسی چیز کی ضرورت ہو گی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ ابھی بول ہی رہی تھی جب جعفر نے اُس کی بات کاٹی۔

"ضرورت ہو گی تو میں نوری (مُلازمہ) سے کہہ دوں گا۔ تُم جاو یہاں سے۔" وہ دوٹوک بولا تو وہ صبر لے کڑوے گھونٹ پیتی وہاں سے نِکلتی چلی گئی۔ 

کھانا کھانے کے بعد وہ نیپکن سے ہاتھ صاف کرتا حویلی سے باہِر نِکل گیا جبکہ اپنے کمرے کی کھڑکی پر کھڑی دُرّے نے اُداس نظروں سے اپنے مجازی خُدا کو دور جاتے، نظروں سے اوجھل ہوتے دیکھا۔ اُس کی جیپ کے غائب ہوتے ہی وہ بھی کھڑکی پر سے ہٹ گئی۔

*******************

یہ منظر تھا ایک گاوں کا جہاں رہنے والے کُچھ لوگ اگر مُحبّت کا سمندر تھے تو کُچھ لوگ کونین کی کڑوی گولیاں۔ جی بالکُل صحیح سمجھے۔ اب ہر کوئی تو اچھا نہیں ہوتا نا کہیں نا کہیں بُرے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ 

دور تک نظر دوڑاو تو ہر طرف صِرف اور صِرف ہریالی ہی ہریالی نظر آتی تھی۔ اِس ہریالی کے بیچ و بیچ واقع تھا راج نگر گاوں۔ سر سبز و شاداب یہ گاوں خُوبصورتی میں اپنی مِثال آپ تھا۔ کچْے پکّے مکان ایک ترتیب سے اور کُچھ گول دائروں کی صورت بنے ہوئے تھے جِن کے درمیان کچّی گلیاں بنی ہوئیں تھیں۔ گاوں کے وسط میں پنڈال تھا جہاں بوڑھ کا بڑا سا درخت تھا جِس کے اِردگِرز مٹی کا سٹیج دائرے کی صورت میں موجود تھا۔ پنچایت اِسی پنڈال میں لگائی جاتی تھی۔  

گاوں کے کرتا دھرتا تھے رانا ہاشِم محمود، جن کا حُکم اِس گاوں پہ چلتا تھا۔ پانچ سرپنچوں میں سب سے زیادہ اہمیت اُنہی کے فیصلے کو دی جاتی تھی۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ اُن کے فیصلے سے اِنحراف کرتا۔ راجپوتوں کا ڈر و رُعب پورے گاوں پر چھایا تھا۔ جِس میں زیادہ ہاتھ رانا ہاشِم کا تھا۔ 

گاوں کا سب سے امیر اور رُعب دبدبے والا گھرانہ رانا ہاشِم محمود کا ہی تھا۔ اُن کی حویلی گاوں سے باہِر والے کِنارے پر اپنی پوری شان سے کھڑی تھی۔ حویلی تھی تو پُرانی مگر رینیویشن کروانے سے وہ پہلے سے بھی شاندار لگتی تھی۔ رانا ہاشِم محمود کی چودھراہٹ پورے گاوں پہ قائم تھی اور اُن کا رُعب بھی۔

رانا محمود ہاشِم کے والدین حیات نہیں تھے۔ رانا ہاشِم محمود دو ہی بھائی تھے رانا ہاشِم محمود اور رانا قاسِم محمود۔ بہن کوئی تھی نہیں۔ رانا ہاشِم محمود ایک سخت گیر اور غُصّیل طبعیت کے مالِک تھے۔ نرمی اُن کی ذات میں مفقود تھی۔ اپنی انا اور ذات کے زعم میں وہ باقیوں کو حقیر ہی گردانتے تھے۔ اپنی ذات اور رُتبے پہ اُنہیں بہت غرور تھا اور شِملہ بلند رکھنے کی خاطِر وہ کُچھ بھی کر سکتے تھے۔ کُچھ بھی سے مُراد کُچھ بھی۔ 

اُن کی زوجہ تھیں سعدیہ بیگم، رانا ہاشِم محمود سے بالکُل اُلٹ، مِزاج کی نرم اور خُوش اِخلاق، ہر وقت ایک نرم سی مُسکراہٹ ہونٹوں پر سجا کر رکھنے والیں۔ کبھی کِسی وجہ سے اُن کے ماتھے پر ناگواری کے بل نہیں پڑے تھے۔ ہر ایک سے خُوش اِخلاقی سے مِلتیں جو اُن کی شخصیت کا خاصہ تھی۔ اُن کے تین بیٹے تھے رانا جعفر، رانا عباّس اور رانا کبیر۔ رانا جعفر اور رانا عبّاس بالترتیب ستائیس اور چھیبیس سال کے تھے جبکہ رانا کبیر بائیس سال کا تھا۔۔ رانا جعفر بی اے کرنے کے بعد اپنے گاوں میں ہی زمینوں وغیرہ کا کام دیکھتا تھا جبکہ رانا عبّاس نے قانون کی ڈِگری لی تھی اور وہ شہر میں پریکٹس کے بعد اپنا ٹرانسفر گاوں کروا رہا تھا۔ اِن دِنوں وہ چُھٹیاں لے کر گاوں آیا ہوا تھا۔ اُس کا مزاج اپنے باپ، چچا اور بھائی سے بالکُل مُختلف تھا۔ نرم خوئی اور دھیما پن اُس کے مِزاج کا حِصّہ تھا۔ ظُلم کے خِلاف آواز اُٹھانے والا،  حق پر ڈٹ جانے والا رانا اور ہر اِنسان کو برابر سمجھ کر اُس کا حق دِلوانے والا رانا عبّاس اِس گاوں کے لیے واقعی خُدا کا تحفہ تھا۔ رانا کبیر کا شمار چُلبلے ، نٹ کھٹ اور شرارتی اِنسانوں میں ہوتا تھا جِتنا وہ خُوبصورت تھا ُاتنا ہی اُس کا باطن بھی پیارا تھا۔ اگر کہا جائے کہ وہ رانا عبّاس کا پرتو تھا تو غلط نہیں ہو گا۔ اِن دِنوں وہ اپنی پڑھائی کے سِلسلے میں لندن گیا ہوا تھا۔ اُن تینوں بھائیوں کی ایک ہی بہن تھی دُر شہوار وہ سولہ سال کی تھی اور میٹرک کے اِمتحان دینے کے بعد اب فارِغ ہی تھی۔ وہ آگے پڑھنا چاہتی تھی مگر رانا ہاشِم نے منع کر دیا۔ تب وہ اپنی درخواست کے کر رانا عبّاس کے پاس گئی تھی جہاں سے اُسے نا اُمیدی نہیں کوئی تھی۔ رانا عبّاس نے اُسے کِتابیں لا کر دے دیں تھیں اور اُس کا پرائیویٹ کالج سے داخلہ بھی بھجوا دیا تھا۔ سائنس نا سہی مگر وہ آرٹس ہی پڑھ لیتی تو بھی اچھا تھا اِسی لیے اُس کا داخلہ ایف اے میں کروایا گیا تھا۔ رانا عبّاس نے رانا ہاشِم کو کیسے راضی کیا وہ نہیں جانتی تھی۔ اُس کے لیے یہی بہت تھا کہ وہ مان گئے تھے۔ رانا عبّاس نے دُرِ فشاں سے بھی پوچھا تھا مگر اُس نے منع کر دیا کہ شادی کے بعد اِس گھر میں رہنا ہے آگے پڑھنے کا بھی کیا فائدہ؟

دُر شہوار نٹ کھٹ سی لڑکی تھی ہر کِسی سے گُھل مِل جانے والی اور شوخ و چنچل۔ اپنے بھائیوں کی لاڈلی اِکلوتی بہن۔ رانا عبّاس کی تو جان بستی تھی اُس میں۔ 

رانا قاسِم محمود اپنے بھائی رانا ہاشِم جیسے تو نہیں تھے مگر سختی کا عنصر اُن میں بھی پایا جاتا تھا۔ وہ اپنے بھائی کی ہاں میں ہاں مِلانے والے اور اُن کی ہر بات کو حُکم کا درجہ دینے والے اِنسان تھے۔ باپ کے بعد اِسی بھائی کو وہ باپ کی جگہ سمجھتے تھے اور باپ جیسی ہی عِزّت اُنہیں دیتے تھے۔ اپنے بھائی کو نا کرنا اُنہوں نے شاید سیکھا ہی نہیں تھا۔

اُن کی زوجہ حلیمہ بیگم تھیں۔ اپنے نام کے بالکُل اُلٹ وہ ایک خُود پسند اور کافی حد تک خُود غرض عورت تھیں۔ اُن کی سوچ "اپنا کام بنتا بھاڑ میں جائے جنتا" والی تھی۔ اپنی غرض کے لیے وہ کِسی بھی حد تک جا سکتی تھیں۔ نرمی مزاجی، خُوش اِخلاقی سے اُن کا دور دور تک کا واسطہ نا تھا۔ جو دِل میں ہوتا وہی منہ پر۔ پر بات کو منہ پر کہنے کی عادی حلیمہ بیگم کو اگر منہ پھٹ کہا جائے تو بے جا نا ہو گا۔ 

اُن کے دو ہی بچّے تھے۔ رانا باقِر اور دُرّ فشاں جو بالترتیب چوبیس اور اکیس سال کے تھے۔ باقِر ایم بی اے کر چُکا تھا اور آج کل شہر میں جاب کے لیے اپلائی کر رہا تھا۔ اِن دِنوں وہ گاوں میں ہی تھا۔ اُس کے باپ رانا قاسِم نے تو اُسے رانا جعفر کے ساتھ زمینیں سنبھالنے کے لیے کہا تھا مگر وہ دوٹوک اِنکار کر گیا تھا۔ وہ ایک نیوٹرل اِنسان تھا۔ ہر بات کو جانچ کر پھر کوئی فیصلہ کرنے والا۔ نرمی مزاجی اور سختی دونوں کا برابر عنصر اُس میں موجود تھا۔ اپنے باپ اور چچا سے مُختلِف وہ کم گو اور اِنسانیت دوست شخص تھا۔

دُرّ فشاں اچھی لڑکی تھی اپنے کام سے کام رکھنے والی لیکن بات جہاں اُس کی ناگواری پہ آئے تو ہر حِساب برابر کرنے والی۔ وہ میٹرک پاس تھی۔ میٹرک بھی اُس نے گاوں کے سکول سے کیا تھا جو گاوں کے آخری کِنارے پر تھا۔ آگے پڑھنے کی اجازت اُسے نہیں مِلی تھی ورنہ اگر شہر جانے کی اِجازت مِلتی تو شاید وہ پڑھ لیتی مگر رانا ہاشِم کو لڑکیوں کا زیادہ پڑھنا پسند نہیں تھا۔ گاوں میں سکول بھی گاوں والوں کی نظر میں اپنی اہمیت جگانے کے لیے بنوایا تھا۔ کیونکہ گاوں میں کوئی اور شخص اِس قابِل نہیں تھا کہ اِتنا پیسہ لگا کر سکول بنوا پاتا۔ 

رانا جعفر اور دُرّ فشاں کا نِکاح آج سے چار سال پہلے ہو چُکا تھا۔ تب رانا جعفر چوبیس سال کا اور دُرّ فشاں سترہ سال کی تھی۔ رانا جعفر کے حوالے سے اُس نے کئی خُواب بُنے تھے مگر اُن خوابوں کی تعبیر خُوبصورت نہیں تھی۔ رانا جعفر نے یہ نِکاح صِرف اور صِرف رانا ہاشِم کی وجہ سے کیا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ دُرفشاں خُوبصورت نہیں تھی۔ وہ خُوبصورت تھی لیکن رانا جعفر ایک خُشک اور سرد مزاج شخص تھا جِسے کم ہی کوئی چیز پسند آتی تھی۔  دُر فشاں سے بھی اُس کی بے نیازی عروج پہ رہتی تھی۔ جو اکثر دُرّ فشاں کو اُداسی میں دھکیل دیتی مگر یہ اُداسی کُچھ ہی دیر تک رہتی۔ 

"ابّا یہ لے اپنی روٹی۔ میں نے نا تازہ مکھن بھی لگایا ہے یاد سے کھا لینا یہ نا ہو کہ کام کرتے وقت بھول ہی جاو۔" وہ اُنیس سالہ لڑکی باپ کی فِکر میں ہلکان ہوتی بولی تو وہ جلدی سے سر ہلاتے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنا صافہ ایک کندھے پر رکھتے باہِر نِکل گئے۔

اُن کے نِکلتے ہی وہ جلدی سے اندر کی جانِب بڑھی۔ ایک طرف بنی لکڑی کی اٹاری میں داخِل ہو کر بِکھرے برتن جلدی جلدی سمیٹے اور پھر ایک ٹرے میں مکھن والی روٹی اور جگ میں ٹھنڈی لسّی نِکال کر وہ اندر کی جانِب بڑھی۔

"یہ لے حامی! روٹی کھا اور جلدی سے تیار ہو جا۔ تُجھے دیر نا ہو جائے۔" خالص دیہاتی لہجے میں کہہ کر اُس نے اُس کے سامنے ٹرے اور جگ رکھتے ہوئے جلدی سے کہا اور خُود پاس پڑی چارپائی بِچھانے لگی۔

"نہیں ہوتی دیر آپا! ابھی بڑا ٹائم پڑا ہے۔" وہ بے فِکری سے کہتی کھانے سے اِنصاف کرنے لگی۔ حامی کا لہجہ زرا صاف تھا۔

"اچھا جیسے تیری مرضی۔" اتنا کہہ کر وہ اپنے کام میں مصوف ہو گئی۔

"تھوڑا اچار بھی لے آتی تو مزہ آ جاتا۔" اُس نے خالی برتن پرے رکھ کر کہا تو وہ نظر انداز کرتی اپنے کام میں ہی مصروف ہو گئی۔

" میں نے کِتنی دفعہ کہا ہے کہ یہ رٹّے نا لگایا کر۔ مگر تُجھے اثر ہی نہیں ہوتا۔ ایسے تو جو تُجھے آتا ہے وہ بھی بھول جاتا ہو گا۔ " وہ اُسے زور زور سے پڑھتا دیکھ کر تیکھے چتونوں سے بولی۔

"مُجھے نہیں بھولتا۔ نین گُل نہیں ہوں میں۔" وہ کندھے اُچکا کر اُسے سلگا ہی تو گئی تھی۔

"تو تیرے کہنے کا مطلب ہے مُجھے بھول جاتا تھا؟ اپنے زمانے کی بڑی لائق کُڑی تھی میں۔" نین گُل نے آخر میں فخریہ کالر اُچکائے۔

"اِس لیے بس آٹھ پاس کی ہیں۔ آگے پڑھ لینا تھا پھر۔" حامی نے کہا وہ گہرا سانس بھر کر رہ گئی۔ اُس کی بہن آج خِلافِ توقّع زیادہ بول رہی تھی ایسا پہلے تو نہیں ہوتا تھا وہ بہت کم بولتی تھی۔

"تُمہاری طبیعت ٹھیک ہے حمود؟ کُچھ ہوا ہے؟" نین گُل نے نرمی سے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلاتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

اِس سے پہلے کہ نین گُل کُچھ اور پوچھتی وہ کپڑے لے کر ساتھ والے کمرے میں چل دی تا کہ کپڑے بدل سکے۔ کُچھ دیر بعد وہ سکول کا یُونیفارم پہنے، سر پہ چھوٹا دوپٹہ حِجاب کی طرح اوڑھے اُس کے سامنے کھڑی تھی۔ اُس نے حمود کے جوتوں کے تسمے باندھے اور آیتہ الکُرسی اُس پر پڑھ کر پھونکی۔

نین گُل نے اُس کا بیگ اُسے تھمایا تو وہ سلام کرتی گھر سے نِکل گئی۔ پیچھے وہ گھر کی صفائی میں مشغول ہو گئی۔


*******************


یہ منظر تھا راج نگر گاوں میں رہنے والے نواز علی کے گھرانے کا جہاں وہ اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ رہتے تھے۔ نواز علی کا سارا بچپن اِسی گاوں میں گُزرا تھا۔ ماں باپ کے اِنتقال کے بعد وہ اپنے آبائی گاوں کو چھوڑ نہیں پائے تھے۔ اُن کی شادی حمیدہ بیگم سے ہوئی تھی۔ اُن کی صِرف دو ہی بیٹیاں تھیں نین گُل اور حمود، جِن کی عمریں بالترتیب اُنیس سال اور پندرہ سال تھیں۔ حمود دس برس کی تھی جب حمیدہ بیگم کی موت ہو گئی۔ اُن کو گُردوں کا عارضہ لاحق ہو گیا تھا جِس کے بروقت عِلاج نا ہونے پر وہ زندگی کی بازی ہار گئیں تھیں۔ نین گُل نے گاوں کے ہی سکول سے آٹھویں کلاس پاس کی تھی مگر ماں کی موت کے بعد سارے گھر کی ذِمہ داری یکدم اُس پر آن پڑی تھی۔ اب وہ گھر کے کام کرتی یا پڑھتی؟ یہی سوچ کر اُس نے گھر کو چُنا اور پڑھائی کو خیر باد کہہ دیا۔ گھر میں کھانا پکانا، صفائی کرنا، کپڑے دھونا غرض ہر کام وہ خُود کرتی تھی۔ شام کو اکثر وہ بکریاں چرانے بھی نِکل جایا کرتی تھی حمود کبھی ساتھ ہوتی کبھی نہیں۔ حمود بھی اکثر اُس کے ساتھ چھوٹے موٹے کام کروا دیتی تھی جبکہ نین گُل اُسے منع کرتی صِرف پڑھنے کی تاکید کرتی تھی۔ وہ چاہتی تھی حمود ڈاکٹر بنے۔ حمود کی کوشش تھی کہ وہ خُوب پڑھے لِکھے آگے جو ہوتا خُدا کی مرضی۔

نواز علی راجپوتوں کے کھیتوں میں کام کرتے تھے وہاں سے جو مزدوری مِلتی اُسی سے گھر کا خرچہ وغیرہ چلتا تھا۔ چھوٹا سا گھر اُن کی جنّت تھا جہاں وہ اپنی شہزادیوں کے ساتھ رہتے تھے۔

گھر زیادہ بڑا نہیں تھا۔ سامنے دو کمرے اور اُن کے آگے برآمدہ تھا۔ برآمدے میں ایک طرف لکڑی کا تخت رکھا ہوا تھا، برآمدے سے آگے کچّا صحن تھا جِس میں ایک طرف مٹّی ہی کی اٹاری اور دوسری طرف غُسل خانہ بنا ہوا تھا۔ غُسل خانے کے ساتھ ہی باہِر کی جانِب نلکا لگا ہوا تھا۔ ایک طرف گُلاب کے کُچھ پھول بھی کیاری میں لگے ہوئے تھے۔ نواز علی کی دِن رات محنت کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ یہ گھر بنا پائے تھے۔ گھر کی چار دیواری مٹی سے کی گئی تھی۔ چھتوں پر لکڑی کے بالے ڈالے ہوئے تھے جِس کی وجہ سے بارِش کے موسم میں اُنہیں اکثر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ پانی ٹپکنے سے اکثر کمروں کی حالت خراب ہو جاتی مگر وہ صبر و شُکر کا دامن ہاتھ سے نا جانے دیتے۔ چار مرلے کا یہ مکان ایک غریب کے لیے جنّت سے کم نہیں تھا۔ سر چُھپانے کو چھت میسر تھی اِس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے۔


*******************


گرمیوں کے دِن تھے اُنہیں چُھٹی ڈیڑھ بجے ہو جاتی تھی۔ چُھٹی کی بیل بجتے ہی وہ بستہ اُٹھائے دھیمے قدم اُٹھاتی دوپٹے کو اپنے چھوٹے نرم روئی سے ہاتھوں سے درست کرتی باہِر کی جانِب بڑھی۔

اُس کی کوئی خاص دوست نہیں تھی۔ کلاس میں وہ سب سے ایک جِتنا ہی بات کرتی تھی وہ بھی بس کام کی۔ پہلے اُس کی جو سہیلیاں تھیں وہ بھی اُس کے کھیل کود میں شِرکت نا کرنے کی وجہ سے اُس سے ناطہ توڑ چُکیں تھیں۔ وہ بہت کم گو تھی۔ عام الہڑ لڑکیوں کی طرح شرارتیں اُس میں مفقود تھیں۔

پندرہ سالہ حمود اِس وقت دسویں کلاس کی طالِب عِلم تھی۔ اُس کے نویں کے پیپر ہو چُکے تھے اور اب نئی نئی دسوِیں کی جماعتیں شروع ہوئیں تھیں۔ رِزلٹ آنا ابھی باقی تھا۔ وہ بہت لائق تھی اُسے اُمید تھی کہ اچھے نمبر آئیں گے ویسے بھی اُس نے بہت محنّت کی تھی۔

وہ دور تک پھیلے کچّے راستے کو دیکھنے لگی جو گرمیوں کے باعث کُچھ اور سُنسان ہو گیا تھا۔ اُس نے ایک نظر ٹولیوں کی شکل میں جاتی لڑکیوں کو دیکھا پھر خُود بھی اُسی راستے پر چلنے لگی جو گھر کی طرف جاتا تھا۔ پندرہ مِنٹ بعد وہ کھیتوں کی طرف جارہی تھی۔ جِس میں سے گُزر کر ہی اُسے اپنے گھر پہنچنا تھا۔

وہ باغ میں سے گُزرتی آگے بڑھ رہی تھی جب اُس کی نظر بکری کے بچّے پر پڑی۔ وہ خُوشی سے بستہ زمین پر پھینکتی اُس کے پیچھے بھاگی۔ میمنہ اُسے دیکھ کر آگے آگے بھاگ رہا تھا جبکہ وہ اپنی طبیعت سے بے نیاز بس اُسے پکڑنے کی کوشش میں تھی۔ اچانک ہی اُس کا سانس پھولنے لگا۔ میمنہ باغ سے نِکل کر جانے کہاں چلا گیا۔

وہ زمین پر گُھٹنوں کے بل بیٹھتی گہرے گہرے سانس بھرنے لگی۔ ماتھے پر پسینہ بہتا جا رہا تھا۔ گرمی کی شِدّت اور پھولے سانس نے اُسے بے جان کر دیا تھا۔ اُس نے بے اِختیار خُود کو کوسا کیا ضرورت تھی بھاگنے کی؟

ہمّت کرتی وہ اُٹھی اور اپنے بیگ کی جانِب آئی۔ کانپتے ہاتھوں سے اُس نے زِپ کھولی اور پانی والی بوتل نِکالی مگر اُس کا پہلے سے اٹکا سانس مزید اٹکا جب پانی کی بوتل خالی نظر آئی۔ حمود کو لگا وہ ایسے ہی دم گُھٹنے سے مر جائے گی۔ گلا پکڑتی وہ دُہری ہوتی زمین پر لیٹ گئی۔ دوپٹہ جو حِجاب کی طرح لپیٹ رکھا تھا، کُھلتا ڈھیلا ہو گیا۔ اب تو حلق سے آواز بھی نہیں نِکل رہی تھی کہ کِسی کو مدد کے لیے بُلا لیتی۔ آنکھوں سے آنسو نِکلتے اُس کی کنپٹی لیں جذب ہوتے جا رہے تھے۔

اِس سے پہلے کہ وہ سچ مُچ جان ہار دیتی خُدا نے اُس کی مدد کے لیے فرِشتہ بھیج دیا تھا۔

"اے لڑکی کیا ہوا؟ تُم ٹھیک ہو؟" وہ لڑکا اُس پہ جُھکتا اُس سے پوچھ رہا تھا۔

"پپ پا پانی پا پانی۔" وہ بس بڑبڑاتے ہوئے یہی بول پائی تو وہ جو اُس پر پریشانی سے جُھکا اُسے سیدھا کر رہا تھا سمجھتا باغ سے باہِر بھاگا۔ اگلے دو مِنٹ میں وہ پانی کی بوتل لیے اُس کے سامنے بیٹھا اُسے پانی پِلا رہا تھا۔

"تُم ٹھیک ہو؟" اُس نے حمود کو گہرے سانس لیتے دیکھ کر پوچھا تو اُس نے گردن اُٹھا کر نظریں سامنے بیٹھے شخص پر گاڑھیں۔ مقابل بیٹھے شخص کو لگا وہ اُس کی حسین گہری آنکھوں میں ڈوب رہا ہے۔ اُس کے نقوش بہت خُوبصورت تھے، بہت معصوم اور پُرکشش۔

چھوٹی سی پتلی ناک، گہری بڑی بڑی آنکھیں، بھرے بھرے گرمی کی شِدّت سے سُرخ سنہری مائل ہوتے رُخسار، چھوٹی سی تھوڑی اور تھوڑی پہ تکون کی شکل میں بنے مصنوعی تین تِل، وہ سراپا حُسن تھی جِس کی رنگت سُورج کی مانِند سُنہری تھی۔ اُس کی نظریں پھسل کر اُس کی گردن پر جا پڑی جو دوپٹہ ڈھیلا ہونے سے واضح ہو رہی تھی۔ اُس کی صراحی دار گردن پر موجود بیوٹی بونز پر بھی تین مصنوعی تِل بنائے گئے تھے جو تھوڑی سے بھی زیادہ پیارے لگ رہے تھے۔

اُس نے پہلے کبھی اِس لڑکی کو گاوں میں نہیں دیکھا تھا۔ وہ پہلی ہی نظر میں اُس لڑکی کا اسیر ہوا۔ اُسے اپنا دِل سینے سے نِکل کر سامنے بیٹھی لڑکی کے پاس جا کر قید ہوتا محسوس ہوا۔ پندرہ سولہ سالہ وہ لڑکی اُس کا دِل چُرا لے گئی تھی۔ بے ساختہ ہی اُس نے خُود کو کوسا۔ پندرہ سالہ لڑکی؟ وہ ایک بچّی سے عِشق لڑائے گا؟ تف ہے تُم پہ رانا۔ خُود کو کوس کر اُس کی طرف متوجّہ ہوا جو

"جج جی میں ٹھیک ہوں۔" وہ کانپتے لہجے میں بولتی جلدی سے اپنا دوپٹہ ٹھیک کرنے لگی۔

"کون ہو تُم؟ پہلے کبھی یہاں دیکھا نہیں تُمہیں؟" اُس نے دِل میں مچلتا سوال پوچھ ہی لیا۔

"مم میں حمود ہوں۔ حمود نواز! نواز علی کی بیٹی! آپ کا شُکریہ چھوٹے سائیں!" جلدی سے اپنا تعارُف کروا کر وہ کھڑی ہوئی اور اپنا بستہ اُٹھایا۔

"نواز علی کی بیٹی؟ جو ہماری زمینوں پہ کام کرتا ہے؟" وہ حیرانی سے پوچھنے لگا۔

"جی چھوٹے سائیں! اِجازت؟" سر ہلا کر وہ واپس مُڑی اور اپنے راستے پر چلنے لگی جبکہ وہ بے چین ہوتا اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ حمود گڑبڑا کر اُس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔

"تُمہیں ہوا کیا تھا؟" اُس نے سوال کیا تو وہ نظریں چُرا کر رہ گئی۔

"سس سانس پھول جاتا ہے زیادہ بھاگنے دوڑنے سے۔ اب بھی یہی ہوا تھا بس۔" وہ بات کو گول مول کرتی بولی اور اِجازت طلب نظروں سے ایک بار پھر اُسے دیکھا۔

"اچھا! ویسے تُم بہت پیاری ہو۔" اب کی بار حمود نے ٹھٹھک کر اُس کی جانِب رُخ کیا۔

اُس کے لہجے میں کُچھ تھا جو حمود کو ٹھٹھکنے پر مجبور کر گیا تھا۔ اُس کی نظروں میں ایک الگ ہی تپش نظر آئی حمود کو جو اُس کی ناگواری کا سبب بنی تھی۔ تھی تو وہ پندرہ سال کی مگر اِتنی چھوٹی بھی نہیں کہ ایک مرد کی نظریں نا پہچان پاتی۔ اُس نے بغیر جواب دئیے اپنے قدموں کی رفتار تیز کی جبکہ وہ وہیں کھڑا اُسے جاتا دیکھتا رہا۔ پھر اُس کے اوجھل ہونے پر اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا، دِلنشین مُسکان ہونٹوں پر سجاتا، سیٹی کی دُھن بجاتا واپسی کو ہو لیا۔


***********************


رانا ہاشِم کے کہنے پر وہ کھیتوں کا چکّر لگانے جا رہا تھا۔ ویسے تو سارا کام رانا جعفر ہی دیکھتا تھا لیکن وہ گھر میں فارِغ ہی تھا تو رانا ہاشِم محمود نے اُسے بھی جعفر کی مدد کے لیے بھیج دیا۔ گہرے بھورے رنگ کی شلوار قمیض زیب تن کیے، دائیں ہاتھ پہ مرادانہ گھڑی، پاوں میں کھیڑی پہپنے، اجرک کو کندھوں پہ اوڑھے وہ اُس وقت کوئی وڈیرہ ہی لگ رہا تھا۔

سورج غروب ہونے والا تھا مگر ابھی بھی دھوپ کا زور کافی تھا۔ جیپ کو درختوں کے جُھنڈ میں کھڑا کر کے وہ جیپ سے اُترا اور پگڈنڈی پہ چلتا ڈیرے کی جانِب جانے لگا۔ ابھی وہ جا ہی رہا تھا جب اچانک تین چار بکریاں کھیتوں میں گُھستیں گندم کھانے لگیں۔

اُس نے پگڈنڈی سے ایک شاخ پکڑی اور ہُش ہُش کرتا اُنہیں کھیتوں سے باہِر نِکالنے لگا مگر ناکام رہا۔ وہ اُنہیں مار کر بے زُبان جانور کی آہ نہیں لینا چاہتا تھا مگر پیار سے بھی تو وہ نہیں مان رہیں تھیں۔ ابھی وہ اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے تھا جب اُسے کسی کی ہنسی کی آواز سُنائی دی۔ اُس نے چونک کر آواز کے تعاقُب میں دیکھا ےو کوئی لڑکی منہ پہ ہاتھ رکھے زور زور سے قہقہے لگا رہی تھی اُس نے تعجب سے اُسے دیکھا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔

"رہنے دیں رانا جی! آپ سے نا ہو پائے گا۔" وہ لڑکی اب ہنسی روک کر اُس کے قریب آتی اپنی بکریوں کو دھکیلتی کھیتوں سے باہِر لے جانے لگی۔ اُس نے نجانے کیسے چند ہی مِنٹوں میں بکریوں کو کھیتوں سے نِکال باہِر کیا اور بکریاں دوسری طرف چرنے چلیں گئیں۔ اُس کا لہجہ دیہاتی تھا مگر کُچھ کُچھ آمیزش تہذیب کی بھی تھی جو مِکس ہو کر اچھا تاثر پیدا کر رہی تھی۔

"یہ تُمہاری بکریاں تھیں؟" اُس نے سنجیدگی سے پوچھا تو وہ اُس کی طرف مُڑی۔

کُچھ پل وہ اُسے دیکھتا رہ گیا تھا جانے کیوں مگر اُسے اُس لڑکی میں ایک انجانی سی کشش محسوس ہوئی تھی۔ سفید لُنگی شلوار اور اوپر گھیردار کالی فراک پہنے، دوپٹے کا ایک پلو منہ میں دبائے، کالی آنکھیں اور اُن میں ڈھیر سارا سیاہ سُرمہ لگائے، اپنی بڑی بڑی آنکھیں اُس پر ٹِکائے وہ مُکّمل طور پر اُس کی طرف متوجّہ تھی۔ اُس نے غور کیا تو اُس کی تھوڑی پر تین تکونی تِل بنے ہوئے تھے۔ اُس کا لال رنگ کا پراندہ آگے پڑا تھا جو دوپٹے کے نیچے سے نظر آ رہا تھا۔ اُس نے اُس کے پاوں کی طرف دیکھا جِس میں اُس نے پلاسٹک کی چپل پہن رکھی تھی۔

"جی رانا جی! معاف کرئیے گا۔ مُجھے پتہ نہیں چلا اُن کے اِدھر آنے کا۔"

اُس نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا تو چونک کر ہوش میں آتا سر ہلا گیا۔

"تُم جانتی ہو مُجھے؟" اُس کے سوال پر سامنے کھڑی لڑکی کو حیرانی ہوئی تھی۔

"مالکوں کو کون نہیں جانتا جی؟ آپ تو گاوں کے مالِک ہیں نین گُل تو کیا سب ہی جانتے ہیں۔" اُس نے مُسکرا کر بتایا تو وہ اچھنبے سے اُسے دیکھنے لگا۔ نظریں اُس کے گورے مُکھڑے پر پِھسل پِھسل جاتیں تھیں۔

"نین گُل کون؟" وہ پوچھنے لگا تو وہ کُچھ دیر اُسے دیکھتی رہی۔ پھر ہنس دی۔ اُسے تو نین گُل کی ہنسی بھی اُسی کی طرح لگی تھی۔ پیاری اور کھنکتی ہوئی۔

"نین گُل میرا نام ہے جی! اپنی بات کر رہی ہوں میں۔" اُس نے ہاتھ ہوا میں جھلاّ کر بتایا تو وہ خجل ہوتا سر ہلا گیا۔

"بہت پیارا نام ہے ویسے کیا تُم روز بکریاں چراتی ہو؟" اُس نے سوال کیا تو وہ سر ہلا گئی۔

"تُمہارے والد کیا کرتے ہیں؟" اُس نے ایک اور سوال کیا۔ جانے کیوں مگر اُسے بات کو طول دینا اچھا لگ رہا تھا۔ وہ اُس سے باتیں کرنا چاہ رہا تھا۔

"وہ آپ کے ہی کھیتوں پر کام کرتے ہیں جی! نواز علی نام ہے میرے ابّا کا۔" اُس نے پُرجوش سے اندذ میں بتایا تو وہ اُس کے چہرے کی چمک دیکھتا رہ گیا اچانک اُس کی نظر اُس کی گردن پر پڑی جِس میں کالے رنگ کا تعویذ جھول رہا تھا۔ تعویذ گردن میں شہ رگ کے بالکُل پاس لٹکا ہوا تھا جو اُس کی شہ رگ کے ساتھ ساتھ حرکت کر رہا تھا۔

"اچھا۔ یہ تعویذ کس چیز کا ہے؟" اُس نے اب کی بار اُس کے مُکھڑے پر نظریں جمائے پوچھا تو وہ جلدی سے اپنا دوپٹہ ٹھیک کرنے لگی۔

"یہ جی میری امّاں کا ہے۔ امّاں نے مرتے وقت مُجھے پہنایا تھا اور آج تک نہیں اُتارا۔" ماں کی بات کرتے وقت وہ افسردہ ہوئی تھی۔ اُسے افسوس ہوا کہ کیوں پوچھ کر اُسے اُداس کیا۔ اُس کی سیاہ آنکھوں میں چھائی اُداسی اُسے اچھی نہیں لگی تھی۔

"چلتی ہوں رانا جی! ابا اِنتظار کر رہا ہو گا اور بکریوں نے آپ کے کھیتوں کا نُقصان کر دیا اِس کے لیے معافی رانا جی!" وہ شرمِندہ سی کہہ کر اپنی بکریوں کی طرف بڑھی اور اُنہیں ہانکتی اپنے گھر کی راہ لے گئی۔

وہ وہیں کھڑا اُسے دور جاتے دیکھتا رہا۔ اُس کی سیاہ آنکھیں اور اُس کی گردن میں جھولتا وہ سیاہ تعویذ چاہ کر بھی اؐس کی نظروں سے اوجھل نا ہو پا رہا تھا۔ اُس کا دِل چاہا کہ اُس کی صراحی دار گردن پہ جھولتے اُس سیاہ تعویذ کو چھو کر دیکھے مگر پِھر اپنی ہی سوچ پر وہ سر جھٹکتا وہ خُود کو ڈپٹ کر ڈیرے کی جانِب بڑھ گیا۔


*******************


اِس وقت وہ اپنے کمرے میں تیار ہو رہا تھا۔ پولیس کی فُل یُونیفارم میں ملبوس وہ اپنے بال بنا رہا تھا۔ بال بنانے کے بعد اپنے اوپر پرفیوم چھڑکی۔ ایک بھرپور نظر آئینے میں نظر آتے اپنے عکس پر ڈالی اور مُطمئن ہوتا ٹوپی اور سٹِک اُٹھا کر باہِر کی جانِب چل دیا۔ فلیٹ کو لاک کر کے چابی جیب میں ڈالی اور پارکنگ میں چلا آیا جہاں اُس کا دوست ثاقِب رندھاوا کار میں بیٹھا اُس کا اِنتظار کر رہا تھا۔ اُس کے بیٹھتے ہی ثاقِب نے گاڑی سٹارٹ کی اور تھانے کے راستے پر ڈال لی۔

"یہ تیری آنکھیں اِتنی سُرخ کیوں ہو رہی ہیں؟" ثاقِب نے اُس کی سُرخ آنکھوں کو دیکھ کر پوچھا تو وہ کل کا دِن یاد کرتے لب بھینچ کر رہ گیا۔

"نا پوچھ یار کل تیرے بھائی کے ساتھ کیا ہو گیا۔" وہ نفی میں سر ہلاتا دانت پیس کر بولا جیسے دانتوں کے نیچے وہ پٹاخا ہی تو ہو۔

"تو نا پوچھنے کو کہے گا تب بھی میں لازمی پوچھوں گا آخر وکیلوں کا کام ہی ہوتا ہے بال کی کھال اُتارنا۔" ثاقِب نے اُس کے کندھے پر پنچ رسید کیا تو وہ بُلبُلا کر رہ گیا۔ ثاقِب پیشے سے وکیل تھا۔ دونوں کی عجیب ہی جوڑی تھی ایک پولیس والا اور ایک وکیل۔۔

"اپنا ہتھوڑے جیسا ہاتھ پرے رکھ۔ بتاتا ہوں کیا ہوا۔" وہ اُسے کل کی اپنے ساتھ ہوئی ظُلم کی داستان سُنانے لگا جِسے سُن کر ثاقِب کا قہقہہ کار میں گونجا تھا اور پھر وہ رُکا نہیں تھا بس ہنستا ہی چلا گیا تھا۔

"اِس میں ایسا کیا ہے جو تُو ہنس رہا ہے؟ افسوس کرنے کی بجائے بتسیی دِکھا رہا ہے۔" اُس نے کوفت سے ثاقِب کو دیکھ کر شرم دِلائی مگر وہ ڈھیٹوں کی طرح کندھے اُچکا گیا۔

"سیر کو سوا سیر مِل گئی۔ کوئی تو ہے جو تیرے قابو سے باہِر ہے اور تُجھے تِگنی کا ناچ نچا سکتی ہے پھر چاہے وہ چھٹانک بھر چھوکری ہی سہی۔" ثاقِب کی فضول گوئی پر اُس کا دِل کیا اُس کا منہ توڑ دے مگر ضبط کے کڑے پہرے خُود پر بِٹھاتا وہ اُسے اِگنور کر گیا۔

"تُو فِکر نا کر بچوّ! ایک بار ہاتھ آ جائے میرے! اِس کے بعد دیکھنا ساری زِندگی کی قید سونپ دوں گا اُسے۔ پھڑپھڑاتی رہ جائے گی مگر آزاد نہیں ہو پائے گی۔" اُس نے مضبوط لہجے میں کہا تو ثاقِب کی شرارتی رگ پھر سے پھڑکی۔

"کیوں نِکاح کرے گا یا گود لے لے گا؟" اُس کی بات پر وہ ہاتھ کا مُکّہ بناتا اُس کے کندھے پر رسید کر چُکا تھا۔ اب کے بلبلانے کی باری ثاقِب کی تھی۔

"اب کر بکواس۔" مزے سے کہتا وہ سامنے دیکھنے لگا۔

"ویسے شرم آنی چاہیے اِنسپکٹر حیدر کو۔ اُن کے سامنے چوری ہو گئی، چورنی پیسے لے کر نِکل گئی اور وہ بس آنکھوں میں لال پاوڈر ہی وصول کر پائے۔" ثاقِب نے ایک بار پھر اُسے سُلگایا۔ اب کی بار وہ بے بس سا اُس کے آگے ہاتھ جوڑ گیا تو ثاقب پھر سے قہقہہ لگا اُٹھا۔

"چل معاف کیا۔ کیا یاد کرے گا کِس حاتم طائی سے پالا پڑا تھا۔" وہ فخریہ بولا اور گاڑی تھانے میں رُکی۔ حیدر جلدی سے نیچے اُترا۔

"ابے او اِنسپکٹر! کل مِرچیں تھیں آج کہیں تیزاب لے کر نا کھڑی ہو وہ راستے میں؟ اِس لیے زرا دھیان سے جانا میری جان!" مزے سے کہتا وہ زن سے گاڑی بھگا لے گیا جب کہ حیدر ثاقِب اور اُس چھٹانک بھر چُڑیل کو کوستا تھانے میں داخِل ہوا جہاں سب اُسے دیکھتے ہی الرٹ ہوتے اپنے اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔


********************

رات کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ دور آسمان پر چاند کہیں چُھپ رہا تھا تو کہیں اپنی دید کروا رہا تھا۔ آسمان پہ چھائے بادِل گواہ تھے کہ جلد ہی رِم جِھم ہونے والی ہے۔ آسمان کا دامن کو ہمیشہ سِتاروں سے بھرا رہتا تھا آج خالی خالی اور سیاہ لگ رہا تھا۔ ہماری زِندگی بھی تو ایسے ہی ہوتی ہے۔ کبھی خُوشیوں کے سِتاروں سے بھری اور کبھی اندھیروں بھرے دُکھوں میں ڈوبی۔ ضروری تو نہیں کہ غموں کے بادِل ہمیشہ ہی ہماری زِندگی پہ قائم رہیں۔ کبھی کبھی ایسے دُکھ بھرے بادِلوں کی بارِش ہم پہ ہوتی ہے لیکن جلد ہی پہلے کی طرح خُوشیاں نئے سِرے سے ہماری زِندگی کے دروازے پہ دستک دیتی ہیں۔

غموں کے بادِل اِن خُوشیوں پہ ہاوی نہیں ہو پاتے اور وہ ہماری زِندگی سے کہیں غائب ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم خُدا پہ یقین رکھیں اور صبر سے کام لیں تو شاید ہماری زِندگی بھی سہل ہو جائے۔ وہ دور چاند کی لُکّا چُھپی جیسے کھیل پر نظریں جمائے سوچ رہی گھی۔ ابھی وہ اپنی اِنہی سوچوں میں گُم تھی جب اُسے رونے کی آواز سُنائی دی۔ وہ اپنی آنکھوں میں آئی نمی پیچھے ہی کہیں دھکیلتی وہ کِھڑکی بند کر کے واپس پلٹی اور بیڈ کی جانِب بڑھی۔ وہ کِسی کے سامنے تو کیا تنہائی میں بھی خُود کو رونے کی اِجازت نہیں دیتی تھی مگر کبھی کبھی چاند پہ نظریں جمائے اکثر ہی نمی اُس کی آنکھوں کا راستہ ڈھونڈ لیتی تھی۔

"ماما مم ماما۔" بیڈ پر بیٹھا وہ ایک سالہ بچّہ اپنی ماں کو نا پا کر زاروقطار رونے لگا تھا۔

"ماما کی جان! کیا ہوا ماما کے پیارے بیٹے کو؟ ماما کو مِس کر رہے تھے؟" وہ اُس کے پاس بیڈ پر بیٹھتی اُسے گود میں لیے تھپکنے لگی تو اُس کے رونے میں کمی آنے لگی۔

"ماما پاش۔ مم ما ما نن نینی۔" وہ اب اُس کی گردن میں منہ دیتا لاڈ سے بولا۔

"حامی! میری جان ابھی نینی آ جائے گی۔ چلو آو میں لوری سُناتی ہوں۔" وہ اُسے اپنے ساتھ لٹاتی بیڈ پر دراز ہوئی اور دائیں کروٹ پر کہنی کے بل اُس کی طرف رُخ کرتی تھپکنے لگی۔

"نن نی نینی نہیں ماما! نینی نہیں۔" وہ روہانسے لہجے میں کہتا اُٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔

"میری جان نینی نہیں کرنی تو کیا کرنا ہے؟ حمین سوئے گا تو ماما بھی سوئے گی۔ پھر صُبح ماما کام پر جائے گی اور حمین نانو پاس رہے گا۔" اُس نے حمین کو گُدگُداتے کہا تو وہ قِلقاریاں مارنے لگا جِس سے کمرے میں ایک الگ ہی رونق جاگ گئی۔

"ماما ہاہا مم ماماا ہ ہا ہا گگ گُدی مم گُدی۔" وہ ہنستے ہوئے کہنے کی کوشش میں تھا مگر ابھی اُس سے فِقرہ پورے طریقے سے ادا نہیں ہوتا تھا۔

"بس بس میری جان بس۔ آپ کو پتہ ہے؟ آپ ماما کی جان ہو۔ ماما کا ایک پل نہیں گُزرتا آپ کے بغیر۔ ماما سے کبھی دور مت ہونا میری جان! ورنہ ماما مر جائیں گی۔" وہ اُسے تھپکتے ہوئے دھیرے دھیرے سرگوشی کرنے لگی تو وہ نیند کی وادی میں اُترنے لگا۔ وہ چھوٹا سا نادان سا بچّہ تھا جِس سے وہ ڈھیروں باتیں کرتی نا تھکتی تھی۔ وہ سمجھتا تو کُچھ نہیں تھا لیکن اُس کی کِھلکھلاہٹیں اور اُس کی قِلقاریاں سُن کر ہی وہ خُوش ہو جاتی تھی۔

"آپ کی قِسمت بالکُل میرے جیسی ہے حمین! مُجھے ماں کا پیار نہیں مِلا تو آپ کو باپ کا۔ مگر ایک بات ہمیشہ یاد رکھیے گا آپ کی ماما آپ سے بہت مُحبّت کرتیں ہیں۔ آپ کو ماما اور بابا دونوں کا پیار دینا چاہتی ہیں۔ بس خُدا سے دُعا ہے کہ میں اپنی کوشش میں کامیاب رہوں۔" وہ حمین کے من موہنے، گول مٹول گورے چہرے کو دیکھتے ہوئے دِل میں بولی پھر جُھک کر اُس کی چھوٹی ننھی سی پیشانی کو چوما جِس پہ کُچھ بل پڑے مگر پھر مِٹ گئے۔

"اپنے بابا پہ گئے ہیں آپ! وہ بھی ایسے ہی تھے اکڑو، سڑو اور کھڑوس۔ مگر آپ کی ماما کی جان تھے وہ۔" حمین کی حرکت پر وہ ماضی میں کھوئی تھی۔ یادوں کے پردے پہ دُھند میں لِپٹی وہ یادیں ہی تو اُس کا انمول خزانہ تھیں۔ کُچھ دیر وہ اِنہیں یادوں میں کھوئی رہی پھر سر جھٹکتی سیدھی ہوتی سونے کے لیے لیٹ گئی۔


*******************


روز کی طرح یہ بھی اگلی صُبح کا آغاز تھا۔ نیا سورج نیا سویرا لایا تھا۔ شہر کی سڑک رواں دواں تھی۔ لوگ محوِ حرکت تھے جِن میں سے کُچھ سکول، کالجز کے لیے تو کُچھ اپنے اپنے کاموں کے لیے نِکل رہے تھے۔ وہ بھی اِس وقت جیبز اور ہمیشہ کی طرح گُھٹنوں سے تھوڑا اوپر تک آتی کُھلی بلیک شرٹ پہنے، گلے میں بلیک سکارف ڈالے، اور سر پہ بلیک ہی کیپ اور پاؤں میں جوگرز پہنے، اپنے ازلی حُلیے میں ملبوس شاطرانہ نظروں سے یہاں وہاں دیکھتی آگے بڑھ رہی تھی۔ وہ ناشتہ کر کے نِکلی تھی اِس لیے اِتنی مُطمئن تھی۔

وہ ابھی ایک گلی سے نِکل کر سڑک پر آئی ہی تھی جب اُس کی نظر اپنے سے آگے چلتے آدمی پر پڑی۔ اُس کی پہنٹ کی پہچھے والی جیب کافی بھاری لگ رہی تھی اور اُس کا بٹوہ بھی تھوڑا باہِر کو نِکلا ہوا تھا۔ وہ اگر بغیر آواز کیے وہ نِکال لیتی تو اُس کے وارے نیارے ہی ہو جاتے۔ تیزی سے آگے بڑھتی وہ اُس آدمی کے پیچھے چلنے لگی۔ نظریں اِردگِرد کے عِلاوہ اُس آدمی کا بھی جائزہ لے رہیں تھیں۔ اچانک اُس آدمی نے دائیں طرف کا رُخ کیا اور روڈ کراس کرنے لگا۔ وہ اُسے کوستی تھوڑا پیچھے ہوئی اور پھر سے اُس کے پیچھے چلنے لگی۔ وہ آدمی موٹا تھا اگر وہ پرس نِکال بھی لیتی تو وہ اُس کے ہیچھے بھاگ نا پاتا۔

اچانک وہ اُس کے اور قریب ہوئی۔ چلتے چلتے ہی ہاتھ اُس کی جیب کی طرف بڑھایا۔ اُس آدمی کی سپیڈ سے اپنی سپیڈ برابر کرتی وہ بالکُل اپنے منزل کے قریب تھی۔

پھر اُس کا ہاتھ پرس کے کِنارے سے ٹکرایا۔ دو اُنگلیوں سے اوپر والا کِنارہ پکڑ کر پرس اوپر کو کھینچا ایسے کہ اُسے پتہ تک نا چلے. پھر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو بھی گئی۔ پرس جیب سے نِکل کر اُس کے ہاتھ میں آگیا۔ اِس سے پہلے کہ وہ پرس اپنی جیب میں رکھتی وہ آدمی اُس کی طرف پلٹ چُکا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں اپنا پرس دیکھ کر وہ چونک کر اپنی جیب ٹٹولنے لگا۔ مگر پرس کو وہاں وجود نا پا کر اُس نے گھور کر اُس شیطانی بلا کو دیکھا۔ اُس آدمی کے گھورنے پر وہ اپنی بتیسی کی نُمائش کر گئی۔ اِس سے پہلے کہ وہ آدمی اُس سے اپنا پرس جھپٹتا وہ اُسے ٹا ٹا کرتی ایک طرف کو بھاگی۔ اپنے پیچھے اُسے اُس آدمی کی چیخ واضح سُنائی دی تھی جو اِتنی اونچی تھی جیسے سپیکر فِٹ کیا ہو۔ آخر اپنی قیمتی چیز چِھن جانے پہ آواز اونچی ہو ہی جاتی ہے۔

"چور، چور پکڑو۔" وہ آدمی مسلسل چیخ رہا تھا جبکہ وہ جل تُو جلا تُو، آئی بلا کو ٹال تُو کا وِرد کرتی آگے بھاگ رہی تھی۔ وہ آدمی پیچھے رہ گیا تھا مگر اُسے اپنے پیچھے کِسی کے قدموں کی آواز واضح سُنائی دے رہی تھی۔ وہ رُکی، جُھک کر گُھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر وہ گہرے سانس بھرنے لگی۔ اُس کا سانس حد سے زیادہ پھول گیا تھا۔ مگر پھر پیچھے قدموں کی تیز ہوتی آواز پر وہ پلٹی مگر لگا غلطی کر دی۔ پیچھے وہی آدمی تھا جِس کے منہ پر اُس نے اُس دِن مِرچیں پھینکیں تھیں لیکن آج وہ سادے سوٹ میں نہیں خطرے والے سوٹ میں ملبوس تھا۔ وہ پولیس کی یُونیفارم پہنے ہوئے تھا جِسے دہکھ کر اُسے شُبہ نہیں رہا تھا کہ وہ پولیس والا ہے۔ اپنی قِسمت کی سِتم ظریفی پر وہ آسمان کی طرف منہ کیے بے بسی سے نیلے آسمان کو دیکھا اور ایک بار پھر بھاگ کھڑی ہوئی۔ اُس کے بلیک جوگرز شوز ہی تھے جو ہر وقت بھاگنے اور اُسے بھگانے کو تیار رہتے تھے۔


******************


وہ حسبِ معمول ناشتے کے بعد تیار ہوتا تھانے کے لیے نِکلا تھا۔ اِس وقت وہ پولیس یُونیفارم میں ملبوس اپنی مسحور کن شخصیت کے ساتھ ماحول پہ چھایا محسوس ہو رہا تھا۔ جیپ نِکال کر وہ تھانے کے راستے پر ڈال گیا تھا۔ سنجیدگی سے گاڑی ڈرائیو کرتا وہ سڑک پر ہر لمحہ بڑھتے ٹریفک کو دیکھ رہا تھا۔ ابھی وہ آدھا راستہ ہی طے کر پایا تھا جب اُس کی نظر سڑک کِنارے کھڑے چیختے ہوئے شخص پر پڑی۔ لوگ اُس کے گِرد جمع ہو رہے تھے کُچھ لوگ اُس سے کُچھ پوچھ بھی رہے تھے۔ وہ تیزی سے اپنی جیپ سڑک کِنارے روک کر لاک لگاتا وہ جلدی سے باہِر نِکلا ہی تھا کہ وہ آدمی ایک پولیس والے کو دیکھتا جلدی سے اُس کی طرف لپکا تھا۔

"میرے پیسے لے کر بھاگ گئی۔ پورے دس ہزار تھے اندر، میرے پیسے۔ اِدھر گئی ہے وہ لڑکی اِدھر۔ کوئی تو لا دو۔" اِس سے پہلے کہ وہ کُچھ پوچھتا اُس آدمی نے جلدی سے بتایا تھا۔ اُس کے ہاتھ کے اِشارے پر وہ بغیر کوئی اور سوال کیے تیزی سے اُس جانِب بھاگا تھا۔ اُس کی سپیڈ دیکھنے لائق تھی۔ وہ تیز تیز بھاگتا گلی میں کافی آگے تک چلا گیا تھا۔ گلی سیدھی تھی۔ دائیں بائیں کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ چورنی کِسی اور سِمّت بھاگ سکتی۔ وہ گلی کے درمیان میں پہنچا تھا جب کافی آگے اُسے کوئی وجود رکوع کے بل جُھکا نظر آیا۔ ٹھیک اِسی وقت اُس لڑکی نے پیچھے دیکھا جِسے دیکھ کر اُس کا غُصّہ اُنڈ آیا تھا۔ اُس دِن کی مِرچوں کی جلن وہ بھول نہیں پایا تھا۔ حِساب کِتاب تو بنتا تھا اور وہ بھی اچھے سے۔

وہ لڑکی اُسے دیکھ کر پھر بھاگنا شروع کر چُکی تھی لیکن کب تک۔ اُس کی سپیڈ لڑکی سے زیادہ تھی جلد ہی وہ اُس کے سر پر پہنچ چُکا تھا۔ اُس کا سانس پھول رہا تھا لیکن اِس لڑکی کو پکڑنا بھی ضروری تھا۔ وہ خُود کو سنبھالتا خُود سے ایک فٹ دور بھاگ رہی لڑکی سر پر پہنچتا اُسے بازو سے دبوچ گیا تھا۔ وہ لڑکی اُس کے جھٹکے پر اُس کی طرف پلٹی تھی مگر توازن برقرار نا رکھ پانے کی وجہ سے گِر جاتی اگر وہ اُسے ایک اور جھٹکا نا دیتا۔ اگلے جھٹکے سے وہ اُس کے قریب ہوتی بے ساختہ ہی اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ گئی ورنہ وہ اُس کے وجود کا حِصّہ بنی ہوتی۔ ایک جھٹکے سے اُسے دور دھکیلتی وہ پیچھے ہو ہی جاتی اگر وہ اُس کا بازو نا تھامے ہوتا۔ وہ دوسرا ہاتھ دِل کے مُقام پر رکھتی گہرے سانس بھرتی خُود کو پُرسکون کر رہی تھی۔

"آ ہی گئی پکڑ میں۔ اب کیسے بچو گی ڈیول کوئین؟" اُس نے تمسخرانہ انداز میں اُس کے چہرے کو دیکھ کر کہا جِس کے معصوم نقوش میں طیش کی سُرخیاں گُھلتیں اُس کے سُنہری رنگ کو چمکا تہیں تھیں۔

"ہاتھ چھوڑو میرا۔" وہ اپنی سانس ہموار کرتی سرد آواز میں بولی تو وہ قہقہہ لگا گیا۔

"ہمّت ہے تو چُھڑوا لو۔" اُس نے جیسے چیلنج کیا تو وہ زور شور جھٹکے دیتی اپنی کلائی آزاد کروانے کی کوشش کرنے لگی مگر ناکام۔

"بس؟ اِتنی ہی ہمّت تھی؟" وہ طنزیہ بولا تو وہ گھور کر رہ گئی۔

"درد ہو رہا ہے منحوس اِنسان۔" وہ چٹخ کر بولی تو وہ ماتھے پر بل لیے اُس کو گھورنے لگا۔

"اپنی زبان کو لگام دے کر تمیز سے بات کرو لڑکی! کِسی نے تمیز نہیں سِکھائی کیا؟" وہ غُصّے سے بولا تو اُس نے سر جھٹکا۔

"نہیں سِکھائی کِسی نے سُن لیا۔ اب ہاتھ چھوڑو وحشی! درد ہو رہا ہے مُجھے۔" وہ پھر سے چیخی تو وہ غُصّے سے کُھولتا ساتھ میں موجود دیوار سے ٹکاتا خُود دونوں ہاتھ اُس کے دونوں اطراف میں رکھتا جیسے اُس قید کر گیا۔

"تمیز تو تُمہیں چُھو کر بھی نہیں گُزری۔ پتہ نہیں بڑوں سے کیسے بات کرتے ہیں؟" وہ اُس کے سُرخ، بے بس سے چلرے پر نظریں ٹکائے گویا ہوا۔

"نہیں چھو کر گُزری مُجھے تمیز۔ جانے دو مُجھے ورنہ شور مچا دوں گی۔" اُس نے دھمکی دی تھی۔

"مچاؤ! میں بھی دیکھوں کون آتا ہے یہاں۔" وہ مزے سے بولا تھا مگر اُس کا مضبوط لہجہ سُن کر وہ متاثر ہوا تھا جو گھبرائی تو بالکُل نہیں تھی۔

"کوئی ہے بچاؤ مُجھے۔ کوئی بچاؤ اِس وحشی، درِندے، کمینے اِنسان سے۔" وہ بدتمیزی سے اُسے مُختلف القاب سے نوازتی چیخی تو وہ جبڑے بھینچتا اُس کا جبڑا دبوچ گیا۔

"ماں باپ نے صِرف چوری کرنا سِکھائی ہے؟ لوگوں کا حق کھانا سِکھایا ہے؟ غریب لوگوں کی حق کی کمائی چھین کر کھانا سِکھایا ہے؟ یہ نہیں سِکھایا کہ خود کما کر کھاؤ؟ بڑوں سے تمیز سے بات کرو یہ نہیں سِکھایا؟" اُس کے مچلتے وجود کو نظر انداز کیے وہ سختی سے اُس کا جبڑا دبوچے اُس کے سُرخ چہرے پہ اپنی سرد جمائے کھڑا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ اُنیس سالہ لڑکی کو لفظوں کے گھاؤ لگاتا کِس اذیّت میں دھکیل گیا ہے۔ وہ مزاحمت کرتی مچل رہی تھی ٹوپی سر سے کِھسکی تو ٹوپی میں مُقید اُس کے سیاہ، لمبے، ریشمی بال لہرا کر دائیں جانبے کندھے پہ گِرے تھے۔ اُس کی بات سُن کر سامنے کھڑی لڑکی کا مزاحمت کرتا وجود تھما تھا۔ آنکھیں نم ہوئیں تھیں۔ ہزاروں کوششوں کے باوجود اُس کے آنسو آنکھوں کی دہلیز پار کرتے گالوں پہ بِکھرنے لگے۔ بغیر کُچھ کہے وہ اُس کی سخت گرفت میں تھی۔ حیدر یکدم ہی ٹھٹھکا تھا۔ اُس کی کالی سیاہ گہری بڑی بڑی آنکھوں میں جھانکتا وہ ایک ان کہے درد کو پڑھنے لگا تھا، اُن آنکھوں کی کُچھ دیر پہلے کی چمک اب معدوم ہونے لگی تھی، آنکھوں میں موجود آنسوؤں کے سمندر میں ایک عجیب سا درد ہلکورے لے رہا تھا۔ ایک ُپراِسرار سا قِصّہ تھا یا راز جو اُس کے سیاہ نینوں سے چھلکنے لگا تھا۔ وہ ڈوبنے لگا تھا اِن تپش دیتی آنکھوں میں۔ وہ کھونے لگا تھا آنسوؤں سے بھرے نینوں میں۔ سامنے کھڑی لڑکی کے کندھے پر موجود اُس کے ہاتھ پر اُس کی کالی زُلفیں کِسی سانپ کی مانِند پڑیں تھیں۔ وہ بھول گیا تھا کہ سامنے کھڑی لڑکی کون ہے. یاد تھا تو بس یہ سامنے کھڑی مُخالف صنف، اپنے نین کٹوروں میں درد کا پانی لیے اُس کے دِل پہ دستک دے رہی ہے۔

اُس کی گرفت ڈھیلی پا کر وہ اُس کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر اُسے پیچھے دھکیل چُکی تھی۔ وہ حواس میں نا ہونے کے باعث لڑکھڑاتا پیچھے کو ہوا تھا۔

"سِکھایا تھا۔ سب کُچھ سِکھایا تھا جِسے سیکھ کر میں اُس پر عمل بھی کرتی تھی۔ لیکن پتہ ہے یہ سب کِسی کام نہیں آیا۔ کوئی نہیں ہے اب میرے پاس۔ جو مُجھے سمجھائے کہ یہ غلط ہے یا صحیح۔ اپنا پیٹ پالنے کے لیے اگر مُجھے چوری کرنی پڑے گی تو کروں گی کیونکہ جِسم فروشی کرنا نہیں چاہتی۔ یہاں اِس معاشرے میں کم پڑھے لِکھے لوگوں کے لیے کوئی کام نہیں ہوتا وہ بھی تب جب وہ ان پڑھ کوئی عورت ذات ہو۔ کام دینے کی بجائے جِسم فروشی کی دعوت دیتے ہیں کہ اپنا جِسم پیش کرو اور مانگ لو جِتنے پیسے مانگنے ہیں۔ مُجھے نہیں چاہیے ایسے پیسے جو عِزّت بیچ کر حاصِل ہوں۔ حرام ہی کھانا ہے نا تو جِسم فروشی سے بہتر چوری ہے روز روز روح کو مارنا تو نہیں پڑے گا نا۔" وہ زور زور سے چیختی ایک بار پھر اُسے دھکا دے چُکی تھی۔ اب کی بار وہ بس ایک قدم پیچھے ہوا تھا۔ اُس کی باتیں سُنتا جیسے وہ مفلوج ہو گیا تھا۔ اُس کے پُراذیّت لہجے پر وہ ساکت ہی تو رہ گیا تھا۔ کُچھ کہنے کی ہمّت نہیں تھی اُس میں۔ اُس کی بھوری آنکھیں اُس بپھری شیرنی پر جمیں تھیں جِس کے لمبے، ریشمی سیاہ بال ہوا کے دوش پہ لہراتے کِسی بل کھاتی ناگن کا سا منظر پیش کر رہے تھے۔

"کوئی اپنی خُوشی سے حرام نہیں کھاتا اِنسپکٹر! یہ جو پیٹ کا دوزخ ہے نا؟ یہ مجبور کر دیتا ہے۔ صِرف میری بات ہوتی تو شاید اب تک مر کھپ گئی ہوتی لیکن صِرف میری بات نہیں ہے۔ پڑھی لِکھی ہوتی تو آج میں یہاں اِس حال میں نہیں ہوتی لیکن مجبوری تھی جو مُجھے پڑھنے کا بھی موقع نہیں دے سکی۔ ہاں چوری کرتی ہوں میں لیکن غریبوں کا حق نہیں کھاتی۔ غریبوں کی جیبیں نہیں کاٹتی میں۔ تُم جیسے امیر ہوتے ہیں جِن سے اپنے لیے تھوڑا سا مال چُرا لیتی ہوں۔ صِرف تھوڑا سا اِتنا نہیں کہ محلات کھڑے کر لوں۔ آخری بات! میرے ماں باپ نے مُجھے چوری کرنا نہیں سِکھایا نا ہی دوسروں کا حق چھیننا۔ یہ حالات ہیں جِنہوں نے مُجھے یہ سب سِکھایا ہے اِس لیے میرے ماں باپ کی تربیت پر اُنگلی مت اُٹھانا ورنہ رحم نہیں کھاؤں گی۔" وہ بے بسی سے بولتی آخر میں وارنِنگ دیتی ہوئی بولی اور ایک نظر اُس کی طرف دیکھا جو اب بھی اُس کے گالوں پہ بہتے آنسوؤں کی طرف متوجّہ تھا۔

اپنا سر جھٹکتی اور آنسو پونچھ کر وہ واپس مُڑنے لگی جب اُس کا ہاتھ حیدر کی گرفت میں آیا۔ وہ چونک کر پیچھے مُڑی جہاں وہ چہرے پر سنجیدگی لیے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اُس نے اپنی کلائی چُھڑانی چاہی جب حیدر نے ایک جھٹکے سے اُسے قریب کیا۔

"اپنے غم مُجھے دے دو اور بدلے میں یہ سب چھوڑ دو۔" اُس نے جانے کِس جذبے کے تحت کہا کہ وہ پہلے آنکھیں پھاڑے اُسے دیکھنے لگی پھر اپنی کلائی چُھڑواتی ہنسی اور ہنستی ہی چلی گئی۔

حیدر نے اچھنبے سے اُس کی حرکت دیکھی۔ اُس کی آنکھوں میں ڈھیر سارا پانی اُمڈ آیا تھا ہنسنے کی وجہ سے۔ وہ پیٹ پکڑے بس ہنستی جا رہی تھی۔ حیدر پہلے تو خاموشی سے اُس دیکھتا رہا مگر اُس کی ہنسی نا رُکنے پر وہ جھنجھلا گیا۔

"مذاق نہیں کیا میں نے۔" وہ کوفت سے بولا تھا ورنہ سچ تو یہ تھا کہ اُس لڑکی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اُس کے دِل کی دُنیا زیر و زبر ہوئی تھی۔ جانے کیوں مگر وہ اُس کے لیے بُرا محسوس کرنے لگا تھا۔

"صاحب جی! اِتنا مت سوچیں یہ ہمدردی کا زمانہ نہیں ہے۔ ایک جذباتی سیشن تھا ختم ہو گیا۔ اُس کے اثر سے باہِر نِکل آؤ اور آئیندہ بھول کر بھی یہ مت سوچنا۔ اگر پھر بھی ہمدردی کرنی ہے تو ابھی چوری کیے ہوئے پیسے مت مانگنا۔ چلتی ہوں بد دُعاؤں میں یاد رکھنا۔" آنکھوں میں آئے آنسو صاف کرتی، وہ ہنس کر کہتی دو اُنگلیاں سر تک لے جا کر اُسے گُڈ بائے کہتی واپسی کو مُڑ گئی جبکہ پیچھے وہ اُس کی بات سُن کر مُسکرا دیا تھا۔

یہ لڑکی جی دار تھی اور اُسے اچھی لگی تھی۔ اُس نے گہرا سانس بھرتے آنکھیں بند کیں تو چھم سے، آنسووں سے لبا لب کالے نین کٹورے اُس کے سامنے چھپاک سے ظاہِر ہوئے۔ اُس نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں اور سامنے دیکھا جہاں اب کِسی کا نام و نِشان تک نہیں تھا۔ اُس لڑکی کی درد بھری باتیں یاد کر کے وہ بے چین ہوا تھا۔

کیا ہوا تھا ایسا جو وہ یُوں کہہ رہی تھی؟ وہ نہیں جانتا تھا اُس کے جو کالے نین اُس کے دِل کو بھائے تھے اب اُس کے دِل کو لگنے والے تھے۔ حیدر کے دِل میں جو ننھا سا ہمدردی کا بیج پھوٹا تھا وہ جلد ہی اُس لڑکی کی پائیدار مُحبّت کا گھنا درخت بننے والا تھا لیکن اگر حیدر کے دِل میں مُحبّت ہوتی تو ضروری تو نہیں کہ وہ لڑکی بھی اُس سے مُحبّت کرتی۔ قِسمت نے جو کھیل حیدر کے دِل کے ساتھ کھیلا تھا اُس کھیل کے انجام کے لیے وہ خُود بھی دُعا گو تھی کہ جیت حیدر کے حِصّے میں ہی آئے۔


*******************

شام کے سائے پھیل چُکے تھے اور اب تو شام، شام سے رات تک کا سفر طے کر رہی تھی۔ تارے آسمان پر اُبھرتے چاند کے گِرد جمع ہو رہے تھے۔ مٹی کی خُوشبو ہر سو چھائی ہوئی تھی۔ کُھلے آسمان تلے وہ بیٹھی بلب جلائے اُس کی روشنی میں پڑھ رہی تھی جب کہ نواز علی ایک طرف چارپائی پر بیٹھے حُقّہ پی رہے تھے۔ نین گُل شام کے گندے برتن دھونے کے بعد اُن کے پاس ہی اپنی بِچھی ہوئی چارپائی پر آن بیٹھی تھی۔ گرمیاں تھیں تو وہ تنیوں باپ بیٹیاں باہِر صحن میں کُھلے آسمان تلے سوتیں تھیں۔ نواز علی تو حُقّہ پی کر سونے لیٹ گئے ویسے بھی وہ کھیتوں ہر کام کرتے بہت تھک جاتے تھے جبکہ نین گُل اپنی جگہ سے اُٹھ کر حمود کے پاس جا بیٹھی۔

"پڑھ لیا تُو نے؟" نین گُل نے سرگوشی میں پوچھا۔

"نہیں پڑھ رہی ہوں۔" اُس نے نفی میں سر ہلاتے دوبارہ کِتاب پر نظریں جمائیں۔

"حامی! اِسے چھوڑ اور میری بات سُن۔ دِن میں پڑھا کر اِس وقت پڑھے گی تو نظر خراب ہو جائے گی اور ڈاکٹر تُجھے عینک ٹھوک دے گی پھر تو تُو دادی امّاں ہی لگے گی۔" اُس نے تیزی سے اُس کی کِتابیں سمیٹتے بیگ میں ڈال کر کہا تو حمود تاسف سے سر ہلا گئی کیونکہ وہ جانتی تھی وہ صِرف اُس سے باتیں کرنا چاہ رہی ہے۔ جب بھی نین گُل کو کوئی بات کرنا ہوتی وہ ایسے ہی اُس کا دھیان کِتابوں سے ہٹا دیتی تھی۔ اُس کی کوئی سہیلی نہیں تھی۔ حمود ہی اُس کا سب کُچھ تھی اور جب سے اُس کی بیماری کا پتہ چلا تھا وہ حمود سے پہلے سے بھی زیادہ مُحبّت کرنے لگی تھی۔ اپنی ہر بات وہ حمود سے ہی شئیر کرتی تھی۔

"بولو آپا!" اُس نے بادل نخواستہ بیگ ایک طرف رکھ کر اُس کی طرف توجّہ کی جو بہت پُرجوش سی لگ رہی تھی۔

"تُجھے پتہ ہے آج کیا ہوا؟" نین گُل نے سسپینس پھیلایا۔

"نہیں مُجھے نہیں پتہ کیا ہوا؟" حمود کے دوٹوک کہنے پر وہ منہ پُھلا گئی۔

"میں بتا رہی ہوں نا۔ آج مُجھے رانا جی مِلے، تُجھے پتہ ہے وہ کِتنے اچھے ہیں؟ یار بڑے سائیں سے لکھ گُنا اچھے۔ اِتنا نرم بولتے ہیں قسم سے دِل کیا سُنتی جاواں۔" نین گُل نے کہا تو حمود کی ہیشانی پر بل پڑے۔ رانا جی تو اُسے بھی مِلے تھے تو کیا اُنہوں نے گُل کو بتایا کہ اُنہیں حمود مِلی تھی۔

"کون سے رانا جی؟ کیا کہہ رہے تھے؟" اُس نے پوچھا۔

"چھوٹے رانا جی! رانا عبّاس ہاشِم۔ میری ساری بکریاں اُن کے کھیتوں میں گُھس گئیں مگر وہ نِکال ہی نا پائے۔" آہستہ آواز میں ہنستی ہوئی وہ اُسے سارا قِصّہ سُنانے لگی جب کہ وہ مُطمئن ہوئی۔ اُسے چھوٹے رانا جی نہیں مِلے تھے۔ اگر وہ نین گُل کو مِلتے اور وہ اُسے بتا دیتے حمود کی طبیعت کے بارے میں تو وہ بہت پرہشان ہو جاتی۔

"حامی! یہ بڑے لوگ کِتنے خُوش نصیب ہوتے ہیں نا؟ سب کُچھ ہوتا اِن کے پاس۔" نین گُل نے حسرت بھرے لہجے میں کہا تھا۔

"آپا! کیا تُمہیں اِس گھر میں کِسی چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے؟ کیا تُمہیں اپنی زِندگی پسند نہیں؟" حمود نے ماتھے پر بل ڈالے کہا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی۔

"میں نے ایسا تو نہیں کہا۔ بس ایسے ہی آج رانا صاحب کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھے تو سوچا۔" نین گُل نے رانا عبّاس کی وجاہت، مہنگے کپڑے اور برانڈڈ گھڑی، قیمتی جوتے یاد کرتے کہا۔

"ہر کوئی چیز ہر کِسی کے لیے نہیں ہوتی۔ سب کو سب کُچھ نہیں مِل جاتا۔ ہر کِسی کی زِندگی میں اگر، اور کاش رہ ہی جاتا ہے۔ اِنسان کا پیٹ نہیں خندق ہے جو دُنیاوی مال سے بھرتا ہی نہیں۔ یہ سب شان و شوکت یہیں رہ جائے گا۔ ساتھ جائیں گے تو نامہ اعمال۔ اِنسان کے پاس اچھے اور نیک اعمال ہونے چاہیے نا کہ دولت۔" حمود نے سنجیدگی سے کہا تو وہ فخر سے اپنی بہن کو دیکھنے لگی۔

"مُجھے پتہ ہے یہ سب۔ میں لالچی نہیں ہوں بس ایسے ہی خیال آ گیا تھا۔ اور تُم بھی ہمیشہ ایسی ہی رہنا۔ ڈاکٹر بن کے لوگوں کی خِدمت کرنا اور اپنا اِخلاق اچھا رکھنا۔ اب سو جا۔ صُبح تُجھے سکول بھی جانا ہے۔" نین گُل نے مُحبّت سے اُس کا گال تھپتھپا کر کہا تو وہ سر ہلاتی سونے کے لیے لیٹ گئی جبکہ نین گُل اپنی چارپائی پر لیٹتی آسمان پر چھائے تاروں کو دیکھتی نیند کی وادیوں میں اُتر گئی۔


*******************


رات کا وقت تھا۔ گہرے ہوتے سائے رات گُزرنے کا اِشارہ کر رہے تھے۔ ایسے میں رانا حویلی کی طرف آؤ تو نوکر چاکر یہاں وہاں گھومتے اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ نوری تیز تیز قدم اُٹھاتی ڈائیننگ ٹیبل سجا رہی تھی اُس کے ساتھ ہی دُرّے بھی ڈائیننگ ٹیبل پر بتن سیٹ کر رہی تھی۔ کھانا لگتے ہی نوری درّے کے اِشارے پر سب کو بُلانے چل دی۔

"بیٹیا! آپ بیٹھ جائیں اور کھانا کھائیں۔ باقی سب نوری دیکھ لے گی۔" بی گُل جو کہ نوری کی والدہ تھیں اور پِچھلے کئی سالوں سے یہاں کام کرتی تھیں، دُرّے سے بولیں تو وہ سر ہلاتی اپنی کُرسی سنبھال کر بیٹھ گئی۔ آہستہ آہستہ سب ہی ڈائیننگ ٹیبل پر آتے اپنی اپنی نشِستوں پر بیٹھ گئے تھے۔ سب کے آنے پر نوری نے بی گُل کے ساتھ مِل کر کھانا لگایا۔ کھانے کے دوران کِسی کی آپس میں بات نہیں ہوئی تھی۔ رانا ہاشِم کو پسند نہیں تھا کہ کھانے کے دوران کوئی بات کرے۔

"میں نے ایک فیصلہ کیا ہے اُمید ہے کِسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا کیونکہ اعتراض کرنا بنتا نہیں ہے۔" رانا ہاشِم اپنے ازلی اکھڑ لہجے میں گویا ہوئے تو سب اُن یی طرف متوجّہ ہوئے۔ سبھی کھانا کھا چُکے تھے۔ اِسی لیے رانا ہاشِم نے بات کا آغاز کیا تھا۔

"میں چاہتا ہوں کہ اب دُرّے کی رُخصتی کر دی جائے۔ نِکاح تو پہلے سے ہی ہو چُکا ہے اب اور دیری کرنی ٹھیک نہیں ہے۔" رانا ہاشِم نے مزید کہا تھا۔

"جی بھائی صاحب! آپ کا فیصلہ بالکُل ٹھیک ہے۔ اب بات نِکل ہی گئی ہے تو دِن بھی آپ ہی مُقرّر کر دیں۔" باقی سب چُپ بیٹھے ہوئے تھے جب قاسِم صاحب نے خاموشی کو توڑا۔

"آنے والے جُمعہ کو بارات کا دِن ہو گا۔" رانا ہاشِم نے کہا تو سب سر ہلا گئے۔ راناجعفر نے ایک نظر دُرّے کو دیکھا جو اپنا شرمیلا سا سُرخ ہوتا چہرہ چُھپائے پلیٹ پر جُھکی ہوئی تھی۔ بڑوں کا لحاظ تھا ورنہ وہ اُٹھ کر کمرے میں بھاگ چُکی ہوتی۔ اُسے دیکھ کر رانا جعفر نے اپنی بے تاثر نِگاہیں دوبارہ اپنی پلیٹ پر جمائیں۔

"اِتنی جلدی؟ تیاریاں کیسے ہوں گی؟" حلیمہ بیگم نے اپنی ناگواری چُھپائی نہیں تھی۔

"اِتنا پیسہ آخر کِس کام کا اگر ہم اِسے خرچ نہیں کریں گے تو؟ پیسہ ہو تو ایک ہفتے میں کیا دو دِن میں ساری تیاریاں ہو جاتیں ہیں۔ آپ سب تیاری شروع کریں۔ جو سامان شہر سے منگوانا ہو بہادر سے کہہ کر منگوا لو۔ اور جعفر! دُرّے کی شادی کا سارا سامان دُرّے کی پسند سے آئے گا۔ اِسی لیے کل اُسے شہر لے جانا۔" رانا ہاشِم نے دوٹوک کہا۔ لہجے میں غرور بول رہا تھا جو وہاں بیٹھے کُچھ لوگوں کو نہیں بھایا تھا۔

مگر وہ بولے کُچھ نہیں تھے کہ بولنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔

"جی بابا سائِیں۔" جعفر نے اثبات نیں سر ہلاتے اپنی رضا مندی کا عندیہ دیا تو اُس کے اِتنی آسانی سے مان جانے پر دُرّے نے حیرت سے سر اُٹھا کر اُس دیکھا۔ ٹھیک اُسی وقت جعفر نے بھی اُسے دیکھا تھا۔ دونوں کی نظریں چار ہوئیں تھیں۔ جہاں دُرّے کی آنکھوں میں جعفر کے لیے مُحبّت اور ان گنت رنگ تھے وہیں جفعر کی آنکھوں میں دُرّے کا عکس تو کیا وہاں اُس کی چاہت کا ایک بھی رنگ نا تھا۔ دُرّے نے صبر کے گھونٹ پیتے اپنا سر جُھکایا تھا۔

"نوری! سب کے لیے چائے بنواؤ۔" سعدیہ بیگم نے نوری سے کہا جو برتن سمیٹ رہی تھی۔ وہ سر ہلاتی برتن لیتی کِچن میں چلی گئی جبکہ باقی سب بھی اُٹھ کر لاونج میں چلے گئے۔

"میری چائے کمرے میں بھجوا دیں ماں سائیں۔" جعفر کہہ کر سیڑھیاں چڑھتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔

"دُرّے! بچّے آپ جاؤ اور خُود جعفر کے لیے چائے لے جاؤ۔" سعدیہ بیگم بیگن نے دُرّے کو ہدایت کی تو وہ دوپٹہ سنبھالتی کِچن کی جانِب بڑھ گئی۔ رانا عباّس چائے سے اِنکار کرتا کمرے میں چلا گیا تھا جبکہ باقِر بھی اُسی کے پیچھے جا چُکا تھا۔

نوری سے ٹرے پکڑ کر وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔ اُس کے کمرے کے پاس پہنچ کر ٹرے ٹیبل پر رکھی۔ دوپٹے کو کھول کر درست کر کے سر پر اوڑھا اور پھر ٹرے اُٹھاتی دروازے پر دستک دینے لگی۔ اِجازت کی آواز پر وہ اندر داخِل ہوئی تو نظر جعفر پر پڑج جو کِھڑکی میں کھڑا باہِر نجانے کیا دیکھ رہا تھا۔

"سائیں! آپ کی چائے۔" اُس نے جعفر کو متوجّہ کرتے ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور واپس مُڑنے لگی جب جعفر کے "رُکو" کہنے پر اُس کی طرف مُڑی۔

"یہاں آؤ!" اُس نے قریب آنے کا اِشارہ کیا تو وہ نظریں جُھکاتی اُس کی طرف بڑھی۔

"میں نے تُم سے کہا تھا چائے لانے کے لیے؟" اُس نے سرد لہجے میں پوچھا تو وہ سر اُٹھا کر اُسے دیکھنے لگی۔

"نہیں! تائی سا نے کہا تھا کہ آپ کے کام میں خُود کیا کروں۔" اُس نے نفی میں سر ہلاتے وجہ بتائی۔

"آج کے بعد میرا کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے سمجھی۔ کِسی کے بھی کہنے پر نہیں۔" جعفر کے سخت لہجے پر اُس کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں۔

"کک کیوں؟ مم میں بیوی ہوں آآ آپ کک کی۔ مم میرا حح حق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ ابھی اٹک اٹک کر بول ہی رہی تھی جب غُصّے کی شِدّت سے پاگل ہوتا وہ اُسے دیوار سے لگاتا اُس کے بازو دبوچ گیا۔

"بیوی نہیں منکوحہ ہو وہ بھی ان چاہی۔ من چاہی عورت ہوتی تو سر آنکھوں پر بِٹھاتا مگر تُم من چاہی نہیں ہو۔ بابا سائیں کے حُکم کے آگے مجبور تھا ورنہ کبھی تُم سے نِکاح نا کرتا۔ میری بیوی ہونے کا جو زُعم ہے وہ ختم کر دو کیونکہ میں اپنی من چاہی بیوی بھی اِسی حویلی میں لے کر آؤں گا۔" زہر خند لہجے میں بولتا وہ اُس کی ذات کے چیتھڑے اُڑا گیا تھا۔

ایک دھماکہ تھا جو اُس کے سر پر ہوا تھا۔ وہ من چاہی نہیں تھی؟ وہ تو جعفر کے گُریز کو اُس کی طبیعت کا خاصہ سمجھتی خُود کو تسلّی دیتی رہی تھی۔ اِس کا مطلب اِسی لیے وہ کبھی اُس سے کام کے عِلاوہ کوئی بات نہیں کرتا تھا، شوہروں سی عنایتیں نہیں کرتا تھا، وہ جو اُس کی طرف سے کِسی شوخ جُملے یا اپنی تعریف کی مُنتظر رہتی تھی تو یہ وجہ تھی اُس کے گُریز کی؟ اُس کی باتیں دُرّے کو کِسی تازیانے کی طرح لگی تھی جو اُس کی روح کو چھلنی کر گئیں تھیں۔ وہ تو ہر وقت اُس کی پسند میں خُود کو ڈھالنے کی کوشش کرتی رہتی تھی۔ اُس کے آگے پیچھے ہوتی ہر کام اہنے ہاتھوں سے کرتی اور یہ وہ کیا کر کہہ رہا تھا؟

"بب بہت خخ خُوبصورت ہہ ہے وو وہ؟" نجانے کیسے اُس کے منہ سے یہ الفاظ ادا ہوئے تھے وہ خُود نہیں جانتی تھی۔ اذیّت ہی اذیّت تھی جو رگ و پے میں سرایت کر رہی تھی۔ وہی تکلیف آنکھوں کے راستے آنسوؤں کی صورت گالوں پہ بہہ رہی تھی مگر مقابل اُس کی تکلیف سے بے نیاز تھا۔

"بہت۔ اِتنی کہ اُس کی طرف دیکھتے ہی دِل خُوش ہوتا ہے۔ تُمہاری طرح نہیں جو خُود پر سو گز کا پلّو لپیٹ کر رکھنے والی ایک دبّو سی لڑکی ہے۔ جِس میں اعتماد ہی نہیں ہے اُس کی شخصیت کیا خاک ہو گی؟ اُس کی برابری کرنے کا سوچنا بھی مت کیونکہ چاہ کر بھی نہیں کر پاؤ گی۔ یہ شادی صِرف بابا سائیں کے لیے کر رہا ہوں۔ مُجھ سے کوئی توقّع مت رکھنا سمجھی۔" اُس کی آنسوؤں سے بھری آنکھوں میں جھانکتا وہ ظالِم ذرا بھر شرمِندہ نہیں تھا۔

"اب جاؤ یہاں سے اور اپنی روتی دھوتی شکل لے کے میرے سامنے مت آنا۔" اُسے ایک دم چھوڑتے وہ پیچھے ہوئے تو وہ لڑکھڑا سی گئی۔ ایک نظر اُسے دیکھتی وہ تیزی سے باہِر کو بھاگی جب کہ وہ بے نیاز بنا اب چائے کا مگ تھام رہا تھا۔


*******************


وہ کھانے کے بعد اپنے کمرے میں آ گیا تھا۔ نہیں جانتا تھا کہ کل سے جو بے چینی اُسے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اُس کی وجہ کیا ہے لیکن جب بھی وہ آنکھیں بند کرتا تو ذہن کے پردے پر صِرف دو کالی آنکھیں اور صراحی دار گردن میں جھولتا وہ تعویز ہی در آتا تھا۔ جِس سے وہ مزید بے چین ہو جاتا تھا۔ اُن کالی آنکھوں کے سحر میں ڈوبنے سے وہ خُود کو نہیں بچا پا رہا تھا۔ کل جب وہ گُل نین سے مِل کر آیا تھا تو اُسے اپنے ذہن سے جھٹک چُکا تھا لیکن آنکھیں بند کرنے پر وہی من موہنا چہرہ اُس کے سامنے آتا اُس کے دِل کا قرار لوٹ لے جاتا تھا۔ جہاں دِل اُس سے مِلنے کو چاہتا تھا وہیں اُس کا عکس اُسے سکون پہنچا رہا تھا۔ کِھلکِھلا کر ہنستی وہ اُس کے دِل پر ہاوی ہو رہی تھی۔

اب بھی وہ آنکھیں موندے لیٹا ہوا تھا اور سوچوں میں نین گُل کا بسیرا تھا جب دروازہ ناک ہوا اور کُچھ دیر بعد باقِر اندر داخِل ہوا۔

وہ ویسے ہی لیٹا ہوا تھا۔

"بھائی سا؟" باقِر نے پُکارا۔

ہمم!" اُس نے ہنکارا بھرا۔

"اِتنی جلدی سونے لیٹ گئے؟ خیریت تھی؟" اُس نے حیرت سے پوچھا۔

"ہاں خیریت ہی تھی تُم بتاؤ کیسے آنا ہوا؟" اُس نے اُٹھ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

"کُچھ نہیں ایسے ہی آیا تھا۔ آج کل آپ کُچھ بے چین لگ رہے ہیں کوئی پریشانی ہے کیا"؟ باقر نے پوچھا تو وہ مُسکرایا۔

"نہیں کوئی خاص پریشانی نہیں ہے۔" اُس نے ٹالا تھا۔

"آہاں خاص نہیں ہے مگر عام تو ہے نا؟" وہ ابرو اُچکاتے گویا ہوا تھا۔ انداز شرارت لیے ہوئے تھا۔

"ایسا کُچھ نہیں ہے باقِر! رات ہو گئی ہے جا کر سو جاؤ۔" اُس نے اب بھی اُسے گھورتے ہوئے ٹالا تھا۔

"ایسا کُچھ نہیں ہے تو ویسا کُچھ ہی بتا دیں۔" باقِر نے پھر ٹُکڑا لگایا تھا۔

"باقِر! مار کھاؤ گے اب۔ چلو جاؤ اب مُجھے بھی نیند آ رہی ہے۔" عبّاس نے اُسے بازو سے پکڑے کمرے سے باہِر نِکالا۔

"معصوم بچّے پہ ظُلم وہ بھی قانون کے مُحافِظ کے ہاتھوں۔ اللّٰہ پوچھے گا آپ سے۔ نام تو بتا دیں۔" مظلومانہ انداز میں کہتا وہ آخر میں پھر شرارت سے پوچھنے لگا تھا۔

"جِس دِن اُسے تُمہاری بھابھی سا بنا کر لے آؤں گا اُس دِن نام بھی پتہ چل جائے گا باقی یہ جان لو کہ اِسی گاؤں کی مُٹیارن ہے وہ۔" مسحور کن مُسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائے اُس نے باقِر کو ہِنٹ دیا تھا جِس پہ وہ مُنہ کھولے کھڑا رہ گیا تھا۔ عبّاس دروازہ بند کرتے واپس پلٹا اور نین گُل کے بارے میں سوچتا سونے کی کوشش کرنے لگا۔


*******************


اگلا دِن پِچھلے دِن کی نِسبت کُچھ بوجھل سا تھا۔ وہ ساری رات روتے رہنے کی وجہ سے اپنی طبیعت میں بھی بوجھل پن محسوس کر رہی رہی تھی۔ وہ ایک ایسے شخص کے نِکاح میں تھی جو اُسے ایک من چاہی عورت سمجھتا تھا۔ جِس سے وہ مُحبّت نہیں کرتا تھا۔ ساری رات وہ ایک گہری اذیّت میں رہی خُود کو جلاتی رہی تھی۔ من چاہے شخص کے منہ سے یہ سُننا کہ وہ کِسی اور کو چاہتا ہے اور وہ بھی اُس شخص کے منہ سے جو اُس کا محرم تھا، اذیّت نا ہوتی تو کیا ہوتا؟ اُس کا بس نا چلتا تھا کہ رانا جعفر کا گریبان پکڑ کر پوچھے کہ اگر نہیں چاہتے تو زِندگی میں شامِل کیوں کیا۔ کیوں نِکاح کر کے اُسے سُہانے سپنے دیکھنے پر مجبور کیا کہ وہ اُسے سوچتی اُس کی مُحبّت میں گِرفتار ہو گئی تھی۔ اب کیسے سہتی یہ تکلیف؟

دُر شہوار کے لاکھ پوچھنے پر بھی اُس نے کُچھ نا بتایا تھا بس سر درد کا بہانہ کر کے ٹال دیا تھا۔ دُرِ شہوار بھی اُن کے ساتھ شہر جانا چاہتی تھی لیکن رانا ہاشِم نے اُسے منع کر دیا تھا۔

دُرِ فشاں کا رانا ہاشِم کے سامنے بولنے کا کوئی فائدہ نا تھا۔ جب رانا جعفر اپنے باپ کے سامنے کُچھ نہیں بول پایا تھا تو وہ کیسے بولتی؟ جب رانا جعفر کی نہیں سُنی گئی تو اُس کی بات کو کون اہمیت دیتا؟ وہ اچھے سے جانتی تھی کہ رانا ہاشِم کا ہر فیصلہ پتھر پر لکیر کی مانِند ہوتا ہے جو کبھی نہیں بدلتا۔ اُسے بھی سمجھوتہ کرتے ایک ایسے شخص کے ساتھ اپنی زِندگی گُزارنی تھی جو اُس کے پہلو میں رہ کر کِسی اور عورت سے مُحبّت کا دم بھرتا۔ بلکہ دم ہی کیوں بھرتا وہ تو اُس کے اوپر سوتن لانے والا تھا وہ بھی جلد ہی۔ کِس کو بتاتی وہ اپنی تکلیف؟ جعفر کے غُصّے سے وہ اچھی طرح واقِف تھی یہ شادی تو ہو کر رہتی کہ وہ اُس کے نِکاح میں تھی اور اگر ایسے میں وہ سب کو بتا دیتی تو شادی کے بعد نجانے جعفر اُس کے ساتھ کیا سلوک کرتا۔ ساری رات روتے رہنے کے بعد فجر میں اپنے خُدا سے اپنا غم بانٹنے کے بعد وہ کُچھ پُرسکون ہوئی تھی۔ سب کُچھ اپنے خُدا کے سپرد کرتی وہ فجر کے وقت سوئی تھی۔ اب جو بھی ہوتا دیکھا جاتا۔

اگلے دِن ناشتے کے بعد جعفر کے ساتھ وہ شہر جانے کے لیے تیار ہو گئی تھی۔ کالے رنگ کی گھیر دار شلوار پہ گُھٹنوں سے اوپر آتی کُرتی کے ساتھ سیاہ ہی دوپٹہ اُس نے گلے میں ڈالا ہوا تھا۔ جبکہ خُود کو بڑی سی چادر میں کور کر رکھا تھا۔ آنکھوں میں کاجل کی لکیر آنکھوں کو قاتِل بنا رہی تھی۔ ہاتھ سُونے تھے کوئی ایک بھی انگوٹھی نہیں تھی اُس کے ہاتھ میں۔ پاؤں میں کالے ہی رنگ کا کُھسّہ پہنا ہوا تھا۔ لمبے بالوں کو پراندے میں قید کر کے پراندہ آگے ڈال رکھا تھا جو چادر کی وجہ سے چُھپ سا گیا تھا۔

سب سے اِجازت لیتے وہ گاڑی میں بیٹھے تھے جو جعفر ہی ڈرائیو کر رہا تھا۔ اِتفاق ہی تھا کہ جعفر نے بھی سیاہ شلوار سوٹ پہنا ہوا تھا۔

براؤن کلر کی ویسٹ کوٹ اور پاؤں میں سیاہ رنگ کی کھیڑی پہن رکھی تھی۔ سنجیدہ سا چہرہ لیے وہ گاڑی ڈرائیو کرتا شہر کی طرف موڑ گیا تھا۔ دُرّے نے بھی کوئی بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی نا ہی جعفر نے اُسے مُخاطب کیا تھا۔

ایک گھنٹہ ہو گیا تھا اُنہیں سفر کرتے۔ یہ سفر خاموشی سے کٹا تھا دونوں جانب چُپ کا جامد پہرا تھا۔ جہاں رانا جعفر سامنے دیکھتا گاڑی چلاتا رہا تھا وہیں دُرّے بھی کِھڑکی کی جانِب رُخ کیے ہر چیز سے لاتعلُق باہِر گُزرتے مناظر دیکھتی رہی تھی۔

دو گھنٹے گُزرنے کے بعد جعفر نے سُستانے کو گاڑی روکی تھی۔ یہ کوئی گاؤں تھا جہاں وہ رُکے تھے۔

" یہاں ایک ہوٹل ہے فریش ہونا ہے تو ہو جاؤ۔" گاڑی سے اُتر کر وہ اُس کی طرف کا دروازہ کھولتا وہ اُس کی طرف دیکھ کر بولا۔ اُس کی آواز سُن کر دُرّے نے نظریں اُٹھا کر اُسے دیکھا تو نظریں جعفر کی نظروں سے جا ٹکرائیں۔ دُرّے کی سُنہری آنکھیں اِس وقت سُرخ ہو رہیں تھیں اور کافی سوجھی ہوئیں بھی تھیں نمی اب بھی سُنہری آنکھوں میں تیر رہی تھی۔ گھنی خمدار پلکیں ابھی تک بھیگی ہوئیں تھیں۔ جیسے کِسی بھی وقت برسات شروع ہونا چاہتی ہو۔ جعفر نے ایک نظر اُسے دیکھ کر نظریں ہٹا لیں۔ دُرّے کو اُس پر کِسی پتھر کا سا گُمان ہوا۔


********************

"میں یہیں ٹھیک ہوں۔ مُجھے کہیں نہیں جانا۔" وہ بھراّئے لہجے میں کہتی اپنی جگہ جمی رہی تو وہ کندھے اُچکاتا دھڑام سے دروازہ بند کر ہوٹل میں چلا گیا جبکہ وہ زور دار آواز پر اُچھل کر رہ گئی۔

ہندرہ مِنٹ بعد وہ واپس آیا تو ہاتھ میں جوس تھا۔ اُس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ جوس زبردستی دُرّے کے ہاتھ میں تھمایا۔

"رونے کے لیے بھی انرجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جوس پیو، انرجی بناؤ اور پھر روتی جاؤ۔" اِطمینان سے کہتے اُس نے گاڑی سٹارٹ کی۔ جبکہ دُرّے نے کُچھ بھی کہنا مُناسب نا سمجھا تھا۔

اگلے آدھے گھنٹے میں وہ شہر پہنچ چُکے تھے۔

دِن کے گیارہ بج گئے تھے۔ وہ اُسے لیے پہلے شاپنگ مال گیا۔ وہاں سے بغیر اُس سے پوچھے اپنی پسند سے اُس کے لیے ہر کیٹگری کے دس بارہ جوڑے لیے۔ جِس میں سادہ اور فینسی ، کامدار کپڑے بھی شامِل تھے۔ جعفر نے ہی اُس کے لیے شادی کا جوڑا اور ولیمے کا جوڑا خریدا تھا۔ شادی کا جوڑا سُرخ رنگ کا ایک خُوبصورت ترین لہنگا تھا جبکہ ولیمے کی گھیردار کُھلی فراک تھی جِس کا رنگ پِستہ تھا۔ رانا جعفر نے ہی اُس کے لیے نائٹ ڈریسز خریدے تھے دُرّے کے منع کرنے کے باوجود، جِن میں ٹراوزر شرٹس شامِل تھے۔ پھر وہاں سے وہ جوتوں کی شاپ پر گئے۔ اپنی پسند سے جوتے سیلیکٹ کرنے کے بعد وہ اُسے سائز چیک کرنے کو بولتا اور وہ پہن کر دکھا دیتی۔ جوتے خرید کر وہ لوگ جیولری خریدنے لگے بلکہ وہ کیا خریدنے لگے رانا جعفر ہی خریدنے لگا۔ وہ تو بس چادر کا پلّو تھامے خُود کو ڈھانپے ہوئے تھی۔ اُس نے چادر کا ایک پلو منہ ہہ ڈال رکھا تھا۔ اُس کی حرکتوں سے دُرّے کو لگا کہ وہ کوئی کٹھ پُتلی ہے جِسے وہ جیسے چلانا چاہ رہا ہے چلا رہا ہے۔

وہ جہاں جہاں جاتا گیا وہ اُس سے کوئی سوال پوچھے بغیر اُس کے ساتھ چلتی گئی۔ پِھر ڈیڑھ بجے کے قریب رانا جعفر کو ترس آیا تو وہ اُسے کیفے لے گیا تھا۔

وہ ایک ٹیبل کی جانِب بڑھے وہاں پہلے سے ہی ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ جعفر نے اُسے بیٹھنے کا اِشارہ کیا اور خُود اُس لڑکی سے ہاتھ مِلانے لگا۔ دُرّے نے حیرت سے اُس کی یہ کاروائی دیکھی تھی۔ وہ ایک نا محرم کو ہاتھ لگا رہا تھا اور اُسے احساس تک نہیں تھا۔ دُرّے نے اُس لڑکی کا جائزہ لیا۔

بلیو جینز پہ ریڈ کلر کی شرٹ پہنے، کُھلے کندھوں سے تھوڑا نیچے آتے بال، ہاتھ میں فون تھامے، چہرے پہ ڈھیر سارا میک اپ اور ہونٹوں پہ ڈارک ریڈ لِپسٹِک لگائے وہ دعوتِ نِظارہ دے رہی تھی۔ دوپٹے نام کی کوئی چیز اُس کے پاس نا دیکھ کر دُرّے کا دِل کیا کانوں کو ہاتھ لگائے۔ اُنہوں نے تو کبھی تنہائی میں دوپٹے کو خُود سے جُدا نا کہا تھا اور یہ لڑکی بغیر دوپٹے کے سرِمحفل بیٹھی تھی۔ نزاکت سے ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے بیٹھی وہ لڑکی دُرّے کو زہر سے بھی زیادہ بُری لگی تھی۔ آس پاس بیٹھے کئی غیر مرد اُسی کی جانِب متوجّہ تھے۔

"کیسے ہو ڈارلنگ؟ اِتنی دیر کر دی آنے میں؟ کب سے ویٹ کر رہی تھی میں اور یہ بہن جی کون ہے؟" اُس نے نزاکت سے کہا۔

"تُم کھڑی کیوں ہو؟ بیٹھو۔ یہ دُرّے فشاں ہے میری پہلی بیوی۔ بس جلدی آنے کی کوشش کی تھی پھر لیٹ ہو گیا معاف کر دیں جناب۔" اپنی بیوی کو سختی سے حُکم دیتا وہ ایک انجان لڑکی سے نرمی سے معذرت کرنے لگا جِس پر درّے کو اپنی ذات کے بے مول ہونے کا احساس شِدّت سے ہوا۔

"اوہ تو یہ ہے وہ بہن جی؟ ایسا کیا دیکھ لیا اِس میں جو تُمہیں میں بھول گئی؟" ایک حقارت بھری نِگاہ دُرّے پر ڈالتے وہ بولی جو اب کُرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ ایک ہاتھ ہنوز چادر کے پلّو پہ تھا جِس سے وہ اب بھی اپنا چہرہ ڈھانپے ہوئے تھی۔

"بس تُم تو جانتی ہو اپنے بابا سے بہت مُحبّت کرتا ہوں۔ یہ اُنہی کی عنایت کردہ مجبوری ہے۔ خیر تُم کیوں اپنا موڈ خراب کر رہی ہو؟ میری آخری بیوی تُم ہی ہو۔ اپنا موڈ ٹھیک کرو میں کھانے کو کُچھ منگواتا ہوں۔" اُس نے دُرّے کی طرف دیکھ کر پہلے طنزیہ اور پھر مُحبّت سے اُس لڑکی سے کہا اور اُٹھ کر کاونٹر کی طرف چلا گیا۔ دُرّے کو اپنا آپ کِسی فالتو شے کا سا لگا جِس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔

"نتاشہ نام ہے میرا۔ جعفر کا رویہ میرے اور اپنے ساتھ دیکھ کر اندازہ تو تُمہیں ہو گیا ہو گا کہ کِس کی اہمیت زیادہ ہے؟ اِس لیے اُس سے زیادہ توقعات مت باندھنا کیونکہ جعفر صِرف نتاشہ کا ہے۔ پِچھلے دو سال سے تعلُق ہے ہمارا۔ اِسی کیفے میں مِلے تھے ہم۔ پھر دوستی اور مُحبت ہو گئی۔ اب مُجھ جیسی حسین لڑکی کے سامنے وہ تُمہیں کیوں گھاس ڈالتا؟ تُم جیسی دبّو لڑکی سے نِکاح کر کے بھی وہ میرے ساتھ ہے مطلب سمجھتی ہو نا اِس بات کا کہ اُس کا تم سے رشتہ صِرف مجبوری کا ہے۔ ویسے اپنا مُکھڑا تو دِکھاؤ دِکھنے میں کیسی ہے یہ بہن جی؟" مغرورانہ انداز مہں کہتی آخر میں وہ اُس کا پلّو پکڑ کر سرکا گئی تو اُس کا چہرہ نتاشہ کے سامنے واضح ہوا۔ جِسے دیکھ کر نینا کا پیچھے ہٹتا ہاتھ ہو میں ہی مُعلّق رہ گیا تھا۔ وہ جِسے بہن جی سمجھ رہی تھی وہ تو اپسرا تھی جیسے حُسن کی دیوی۔

سُرخ و سپید رنگت، بڑی بڑی بھوری مور کے جیسی نوک والی آنکھیں، گھنی خمدار سیاہ لمبی پلکیں، چھوٹی سی پتلی ناک اور ناک میں چمکتی لونگ، بھرے بھرے سُرخ سیبی گال، چھوٹی سی تھوڑ اور تھوڑی کے بیچ و بیچ تین تکونی مصنوعی تِل، دائیں گال پہ پڑتا گہرا بھنور اور اُس کے چہرے کی معصومیت واللّٰہ اُس کے حُسن پر تو غزلیں لِکھی جا سکتی تھی جو کِسی بھی آرائش و زیبائش سے پاک تھا۔ اُس نے بے اِختیار اپنا اور دُرّے کا موازنہ کیا اور دُرّے کو ہر لحاظ سے اپنے سے حسین پایا۔ حسد کی ایک لہر تھی جو اُس کے اندر اُٹھی تھی۔

"چہرہ چُھپاؤ اپنا! کِسی نے دیکھ لیا تو منہ پر ہی بد صورت کہہ کر نا چلا جائے اِتنی ہی بُری لگ رہی ہو اِس وقت۔" نینا نے دانت پیستے اُس کے حُسن کے شراروں سے خائف ہوتے کہا تو وہ سُرعت سے پلّو سے اپنا چہرہ ڈھانپ گئی۔ اُس نے ایک بھی لفظ اپنے منہ سے نہیں نِکالا تھا نا ہی نتاشہ کی کِسی بات کا جواب دیا تھا۔ اِس سے پہلے کہ نتاشہ اُس کے دِل پر اور وار کرتی جعفر وہاں آ گیا۔ اُس کے ہاتھ میں ٹرے تھی جِس میں پیزا اور زِنگر برگر رکھے ہوئے تھے۔

" اچھا ہوا کہ تُم یہ فاسٹ فوڈ لے آئے۔ اِسی بہانے یہ بیچاری بھی کھا لے گی ورنہ اِسے کہاں کھانا نصیب ہوتا ہو گا یہ سب۔" جعفر کو دیکھ کر نتاشہ نے ایک حقارت بھری نِگاہ دُرّے پر ڈالی جو نفاست سے پیزر کے ہیس کو کاٹتی کانٹے سے کھانا شروع کر چُکی تھی۔ چادر کا کونہ تھام کر ماتھے سے بھی نیچے تک کر لیا تھا جِس میں سے اُس کے صِرف مرمریں لب جھانک ریے تھے جو پیزا کھانے میں مشغول تھے۔ نتاشہ کی بات کا اُس نے اب بھی کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

"ہمارے گاؤں میں برگرز اور پیزا والی دُکان ہے جہاں سے فاسٹ فوڈ مِلتا ہے اور وہاں سے نا بھی کھائیں تو ہم شہر سے لے جاتے ہیں۔ ہمارے گھر میں کِسی چیز کی کمی نہیں ہے اِس لیے آئندہ ایسی بات مت کرنا۔" جعفر نے ناگواری سے نتاشہ کو ٹوکا تو وہ کھسیا کر رہ گئی تھی۔ دُرّے کے لب ہلکے سے پھیلے تھے جِنہیں وہ جلد ہی بھینچ گئی تھی۔ اُسے اِس لیپا پوتی والی لڑکی کی اپنے شوہر سے بے تکلفی اور تعلُق سے تکلیف پہنچی تھی مگر وہ اِتنی کمزور نہیں تھی کہ اِس لڑکی کو جواب بھی نا دے پاتی وہ بس چُپ تھی کہ وہ رانا جعفر کو خفا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ ایسی ناتیں وہ بھی اپنے خاندان کے بارے میں_ رانا جعفر کو قطعی پسند نہیں تھیں نا ہی وہ اپنے خاندان پر کوئی بات برداشت کر سکتے تھے۔ وہ خُود بول اُٹھیں گے اور ایسا ہی ہوا تھا۔ وہ اُس لڑکی سے زیادہ اپنے شوہر کو جانتی تھی وہ اپنی ہی سوچ پر مُسکرا اُٹھی تھی۔

"جعفر! تُم جانتے ہو نا میں تُم سے کِتنا پیار کرتی ہوں؟ نہیں برداشت کر سکتی میں کِسی اور کو تُمہارے ساتھ۔ تُمہاری شادی ہو رہی ہے نا؟ مگر تُم اِس لڑکی کے قریب نہیں جاؤ گے۔ اِسے اپنی بیوی ہونے کا کوئی حق نہیں دو گے اگر تُم مُجھ سے پیار کرتے ہو۔" وہ ابھی صحیح طریقے سے خُوش بھی نا ہو پائی تھی کہ نتاشہ نے جعفر کو اموشنل بلیک میل کیا تھا۔

"یہ باتیں میں تُم سے بہتر سمجھتا ہوں۔ مجبوری بھرے تعلُقات میں کوئی مُحبت بھرا رِشتہ نہیں ہوتا۔ فِکر مت کرو رانا جعفر اپنی بات سے نہیں مُکرتا۔" جعفر کی بات پر وہ اپنی آنکھوں میں آئی نمی اپنے اندر ہی کہیں اُتارنے لگی تھی۔ جبکہ نتاشہ جعفر کے کندھے سے لگی تھی۔

"تُمہارے بابا مان تو جائیں گے نا؟" نتاشہ نے پوچھا تو جعفر نے اُس کا ہاتھ سہلایا۔

"ہاں مان جائیں گے۔ بہت پیار کرتے ہیں مُجھ سے۔ میں نے اُن کی بات مانی وہ بھی میری ضرور مانیں گے۔" جعفر کی تسلّی پر جہاں نتاشہ خُوش ہوئی تھی وہیں دُرّے کا دِل لرزا تھا۔

پندرہ مِنٹ بعد وہ کھانا کھا چُکے تو جعفر نے نتاشہ کو اُٹھنے کا اِشارہ کیا تھا۔

"مُجھے ایسی ہی لڑکیاں پسند ہیں جو میرے ساتھ زبان چلائے بغیر بس میری بات مانتی جاتی ہیں۔ گُڈ گرل!" وہ ساکن بیٹھی دُرّے کا گال تھپتھپا کر بولا تو وہ پھیکا سا مُسکرائی۔

"کٹھ پُتلی بھی بھلا زُبان چلاتی ہے؟ وہ تو بس حُکم مانتی ہے اور میں ایک کٹھ پُتلی ہی ہوں۔ "دُرّے کے جواب نے اُسے لاجواب کر دیا تھا۔

"جو مرضی سمجھو مُجھے فرق نہیں پڑتا۔ میں نتاشہ کو چھوڑ کر آتا ہوں اور ساتھ میں یہ سارا سامان گاڑی میں رکھ آؤں گا۔ تب تک یہاں بیٹھ کر شہر کی سیر کرو اور کہیں جانا مت۔" اُسے ہدایت کرتا وہ سارے بیگز اُٹھا کر کھڑا ہوا اور باہِر کی جانِب چل دیا وہ وہیں بیٹھی اُنگلیاں مڑوڑتی نروس سی یہاں وہاں دیکھنے لگی۔ آج اُس لڑکی کو جعفر کے ساتھ لے کر دِل میں طوفان برپا ہوا تھا جو باہِر آنے کا راستہ ڈھونڈ رہا تھا لیکن نا جگہ مُناسب تھی نا وقت۔ وہ یہاں وہاں نظریں دوڑانے لگی ۔

ہر طرف رنگ و بو کا سیلاب تھا ہر طرح کے لوگ تھے جو وہاں موجود تھے۔ کہیں کوئی لڑکا لڑکی ساتھ بیٹھے ہوئے تھے تو کہیں کوئی فیملی۔ دُرّے نے نوٹ کیا کہ وہاں موجود زیادہ لڑکیاں بغیر دوپٹے کے پینٹ شرٹ میں ملبوس تھیں جِنہیں دیکھ کر وہ بے ساختہ نظریں چُرا گئی۔ ابھی وہ وہاں موجود لوگوں کو اعتماد سے یہاں وہاں چلتے دیکھ رہی تھی کہ اچانک اُس کی سماعتوں سے سیٹیوں کی آوازیں گونجیں۔ حیران نظروں سے اُس نے آواز کے تعاقب میں دائیں طرف گردن گُھمائی جب نظریں ساتھ والی ٹیبل پہ بیٹھے دو تین لڑکوں پر پڑیں جو شکل سے ہی لوفر ٹائپ لگ رہے تھے۔ اُس نے جلدی سے گردن موڑی اور جعفر کے جلدی آنے کی دُعا کی۔

"اجی ہم نے کہا سوہنیو! زرا اِدھر تو دیکھو۔ لگتی تو گاؤں کی مُٹیارن ہو اب اپنے خُوبصورت ہونٹوں سے بھی بتا دو۔" اُن میں سے ایک لڑکا اُسے غلاظت بھری نظروں سے دیکھتا گویا ہوا۔

"ارے لگنے کی کیا بات کرتے ہو۔ پکّا مُٹیارن ہے۔ ویسے یہ دیہاتوں کی لڑکیاں ہوتی کمّال ہیں وہ کہتے ہیں نا نیچرل بیوٹی!" دوسرے لڑکے نے ٹُکڑا لگایا تھا۔ اُس کی بات پر باقی دونوں ہنسنے لگے تھے۔

"ابے اِس نیچرل بیوٹی کو خراجِ تحسین بھی تو پیش کرنا چاہیے نا۔" پہلے والا لڑکا کہہ کر خبیثانہ قہقہے لگا اُٹھا تھا۔

"اجّی ایک دفعہ مُڑ کے ویکھ تا سہی سوہنیے! دِل لوٹ لیا ہے تو ایک بار عاشِق کو دیکھ تو سہی۔ ارے گھونگھٹ تو ہٹاؤ۔" اُن میں سے دوسرا لڑکا بولا تھا۔ دُرّے ساکن بیٹھی اُنگلیاں مڑوڑ رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ سب اُسے کہا جا رہا ہے۔ پریشانی سے وہ لب کچلنے لگی تھی۔ ایسے حالات کا کبھی سامنا نہیں ہوا تھا اِس لیے وہ نہیں جانتی تھی کہ کیا کرنا چاہیے؟ وجود خوف سے لرزنے لگا تھا۔ دِل دُعا گو تھا کہ کہیں سے اُس کے سر کا سائیں آ جائے۔

جعفر جو نتاشہ سے مِلنے اور سامان کو چھوڑنے میں تاخیر کا شِکار ہوا تھا اب تیز تیز قدم اُٹھاتا کیفے پہنچا تھا مگر سامنے کا نظارہ اُس کا خون کھولا گیا تھا۔ سامنے ہی ٹیبل پر سر جُھکائے دُرّے بیٹھی ہوئی تھی جبکہ دوسرے ٹیبل پر موجود لڑکے اُس کی طرف رُخ کیے قہقہے اور سیٹیاں بجا رہے تھے ساتھ میں کُچھ شوخ جُملے بھی اُس کی طرف اُچھال رہے تھے جو رانا جعفر کی سماعتوں سے گُزرے تھے۔ رانا جعفر کی غیرت جاگی تھی۔ وہ اِس وقت بھول گیا تھا کہ وہ سامنے کھڑی لڑکی کو اپنی مجبوری کہتا تھا۔ اپنی عِزّت کے بارے میں ایسی باتیں سُن کر وہ چراغ پا ہوتا اُن کی جانِب بڑھا تھا اور اُن میں سے ایک کی کُرسی کو زور دار ٹھوکر رسید کی تھی کی وہ کُرسی سمیت اُلٹ گیا تھا۔

پھر یہیں پہ وہ رُکا نہیں تھا۔کف فولڈ کرتا وہ اُن کی دُھلائی کرنا شروع ہو گیا تھا۔ وہ تین لڑکے گاؤں کے پلے بڑے، کسرتی جِسم کے مالِک رانا جعفر کے آگے ٹِک نہیں سکے تھے۔ دو تین مُکّوں اور لاتوں کے بعد ہی وہ زمین بوس ہو گِئے تھے اور اب زمین پر پڑے کراہ رہے تھے۔ کیفے کا مالِک بھی وہیں آ گیا تھا اور ٹوٹی ہوئی دو میزیں اور کُرسیاں وغیرہ دیکھ رہا تھا۔

"آج کے بعد کِسی کی عِزّت پر فِقرے کسنے سے پہلے اپنی عِزّت کا دھیان رکھنا۔" وہ بول کر اپنی جیب سے بٹوہ نِکالتا اندر سے پانچ ہزار کے پانچ چھ نوٹ نِکال کر ٹیبل رکھتا دُرّے کا ہاتھ پکڑ کر جانے لگا جب پیچھے سے آتی آواز پر اُس کے قدم وہیں ساکت ہو گئے۔

"اِس کے ساتھ ہی پہلے ایک الٹرا ماڈرن لڑکی آئی تھی کہ کیفے کے سب مردوں کی نِگاہ اُس پر تھی تب تو کُچھ نا بولا اور اب اِس گنوار کی خاطِر اتنا مارا اِن لوگوں کو۔ ویسے وہ لڑکی تھی بہت ہاٹ!" وہ جو کوئی بھی تھے اُنہیں نہیں پتہ تھا کہ اُن کی بات وہ سُن چُکا تھا۔

"ہاں اور شاید یہ لڑکے اُس دوسری لڑکی کو چھیڑتے بھی نا اگر وہ ماڈرن لڑکی اُن کے ساتھ نا ہوتی تو۔ اُس نے تو لوگوں کی توجّہ کھینچی تھی۔ شاید اِس کی گرل فرینڈ تھی وہ اور یہ لڑکی شاید بہن ہو۔" دوسرا آدمی بولا تھا۔ جعفر کا دِل کیا رکھ کے دو لگائے اُن کو بھی مگر وہ اور تماشہ نہیں چاہتا تھا۔ جو بھی کہا کہہ تو وہ سچ ہی رہے تھے پہلے تو اُس نے ایسا کُچھ نہیں کیا تھا حالانکہ وہ بھی جانتا تھا کہ نتاشہ کا لباس اور انداز سب کو متوجہ کر رہا تھا۔ جعفر اُس کا ہاتھ تھامے باہِر نِکل گیا تھا اُس نے پیچھے مُڑ کر ایک دفعہ بھی اُن لوگوں کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ لب بھینچے وہ اُس کا ہاتھ تھام کر پارکنگ تک لایا۔ وہ محسوس کر سکتا تھا کہ وہ خوف سے کانپ رہی ہے۔ اُسے فرنٹ سیٹ ہر بِٹھا کر وہ خُود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا۔ پھر رُخ اُس کی طرف پلٹا۔ ڈیشنگ بورڈ سے پانی کی چھوٹی بوتل اُٹھائی، ڈھکن کھولا اور اُس کی طرف جُھک کر اُس کا گھونگھٹ اُٹھایا۔ اِس سب میں وہ اُس کے بے حد قریب آ گیا تھا۔

گھونگھٹ اُٹھاتے ہی اُس کی نظریں دُرّے کی نظروں سے ٹکرائیں تھیں جو رونے کے باعث سُرخ ہو رہیں تھیں، ناک بھی لال گُلابی ہو ریی تھی، جبکہ گُلابی لب سختی سے بھینچ رکھے تھے۔ گھنی خم دار پلکیں آنسوؤں کے باعث گیلی ہو کر نِکھر سی گئیں تھیں، دائیں گال پہ پڑتا گہرا بھنور کُچھ اور گہرا ہوا تھا متضاد اُس کی معصومیت بھری نِگاہیں جعفر کو شِکوہ کرتی محسوس ہوئیں تھیں۔ وہ کبھی اُس کے سامنے اِس حالت میں نہیں آئی تھی نا ہی اُس نے کبھی دُرّے اور اُس کے حُسن پہ غور کیا تھا۔ سرسری سی مُلاقات میں بھی وہ اُس کی طرف نہیں دیکھتا تھا جو دوپٹے کے ہالے میں اپنا چہرہ چُھپائے ہوتی تھی۔ اُس نے کبھی دُرّے کو دوپٹے کے بغیر نہیں دیکھا تھا۔

اُس کی آنکھوں میں کھو کر وہ بے خُودی سے جُھکا تھا۔ انگوٹھے سے اُس کے لب سہلاتے وہ اُس کی سُرخ سوجھی ہوئی آنکھوں پہ اپنے لمس سے مرہم رکھنے لگا۔ دُرّے کے رونے میں فراوانی آئی تھی جِسے محسوس کر کے وہ اُس کے آنسو بھی چُننے لگا تھا۔ پِھر نجانے کیا ہوا تھا کہ وہ اُس کی پیشانی پہ بوسہ دیتا اُسے خوُد میں بھینچ گیا تھا اور دُرّے اب پھوٹ پھوٹ کر روتی اُس کے سینے میں چُھپی ہوئی تھی۔

"آپ آپ اا اُس لڑکی سے شادی مت کرئیے گا سائیں! مم میں مر جاؤں گی۔" جعفر کی اِتنی سی عنایت پہ ہی وہ سب کُچھ بھولتی بولی۔ اُس کا دِل پل میں خُوش فہم ہوا تھا وہ تو جانتی بھی نہیں تھی کہ یہ دو پل کی فسوں خیز بے خُودی تھی جو جعفر کو اپنی لپیٹ میں لے گئی تھی۔ اُس کی بھرّائی آواز سُن کر جعفر اچانک سے ہوش میں آیا۔ اُسے خُود سے دور کرتے وہ سیدھا ہوا اور پانی کی بوتل اُس کی طرف بڑھائی۔

اُس کے پھر سے اجنبی رویّے پر دُرّے کو اپنی حیثیت کا اندازہ ہوا تھا۔

"مُحبّت کرتا ہوں اُس سے اور شادی بھی کروں گا۔ اب مُجھے تُمہاری آواز نا آئے۔" جعفر کے کہنے پر وہ آنکھیں میچ گئی تھی مگر پھر لہجہ مضبوط کرتی بولی تو جعفر اُس کی بات سُن کر چونک گیا تھا۔

"آپ نتاشہ جی سے بہت مُحبّت کرتے ہیں نا؟ تو اُن کی بات بھی مانیں گے؟" اُس نے پوچھا تو جعفر نے گاڑی سٹارٹ کرتے ایک نظر اُسے دیکھا جِس کا چہرہ بے تاثر تھا۔

"جِن سے مُحبّت ہوتی ہے اُن کی ہر بات مانی جاتی ہے اور میں بھی مانوں گا ہر بات مانوں گا۔" اُس نے دُرّے کی تردید نہیں کی تھی۔

وہ پھیکا سا مُسکرائی۔ اُسے یہی اُمید تھی رانا جعفر سے۔ وہ گاڑی سٹارٹ کرتا گاؤں کے راستے پر ڈال گیا تھا۔

"اُس نے آپ سے کہا تھا کہ آپ اُس سے مُحبّت کرتے ہیں تو آپ مُجھے بیوی کا کوئی حق نہیں دیں گے۔" دُرّے کی بات پر جعفر نے یُوں سر ہلایا جیسے اُس کی بات سمجھ گیا ہو۔

"فِکر مت کرو تُمہیں تُمہارے سارے حقوق مِلیں گے تُم میری بیوی ہو اور بابا کی خُوشی بھی۔ میں نتاشہ کو بہلا رہا تھا تُم بے فِکر رہو۔ میں جانتا ہوں کہ اُنہیں وارث تُم سے چاہیے جو کہ ہمارا ہی خون ہے۔ نتاشہ غیربرادری سے تعلُق رکھتی ہے اِس لیے بابا سائیں شادی کرنے بھی دیں تو اُس کی اولاد کو وہ حق نہیں مِلے گا۔ ظاہِر سی بات ہے تُمہیں تُمہارے حق دوں گا تو بابا سائیں کو وارث مِلے گا۔ " جعفر نے کہا تو وہ کان کی لووں تک سُرخ پڑ گئی مگر پھر خُود کو سنبھالتی نفی میں سر ہلا گئی۔

"آپ مُجھ سے وعدہ کریں کہ شادی کے بعد آپ میرے قریب نہیں آئیں گے۔ مُجھے بیوی ہونے کا کوئی حق نہیں چاہیے۔ آپ مُجھ پر کوئی حق نہیں جتائیں گے جب تک میں اِجازت نا دوں۔" مضبوط لہجے اور دوٹوک انداز میں بولتی وہ رانا جعفر کو حیران کر گئی تھی مگر اگلے ہی پل انا اور غیرت نے سر اُٹھایا تھا۔

"تُمہیں کیا لگتا ہے مرا جا رہا ہوں میں تُمہارے لیے؟ مجبوری ہو تُم میری اور کُچھ نہیں۔" ایک لمحے میں اُسے بازو سے دبوچتا وہ سرد لہجے میں بولا تھا۔

"میں جانتی ہوں آپ میرے لیے نہیں نتاشہ کے لیے مرے جا رہے ہیں اِسی لیے اُس پر ہزار مردوں کی نظروں کے باوجود آپ نے اُن نظروں کو روکنے کی بجائے مُجھ پر پڑی چار لوگوں کی نظروں کو فنا کرنا چاہا۔" اُس کے لہجے کے اِطمینان اور بات پر وہ کافی دیر کُچھ بول نہیں سکا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اُس سے ایسا کیوں ہوا تھا۔

"چڑیا کے منہ میں بھی زُبان آ گئی ہے؟ مگر میرے سامنے اپنی چونچ بند رکھا کرو قطعی پسند نہیں مُجھے منہ زوری کرتی لڑکیاں۔" حُکمیہ لہجے میں کہتا وہ ڈرائیونگ کی طرف دھیان دینے لگا۔

"ٹھیک ہے تو وعدہ کر لیں پھر اِس میں کیا حرج ہے؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ رانا جعفر اپنی زبان پہ قائم نہیں رہ پائے گا؟ امّاں سائیں تو کہتیں ہیں کہ راجپوت اپنی زبان کے پکّے ہوتے ہیں مرتے مر جائیں گے مگر مان نہیں توڑیں گے۔" دُرّے نے چوٹ کی تھی جِس پر وہ تلملایا تھا۔

"وعدہ کرتا ہوں دُرّے جعفر! جب تک تُم اِجازت نہیں دو گی تُمہیں ہاتھ تک نہیں لگاؤں گا۔" پہلی بار اُس کے نام کے ساتھ اپنا نام جوڑ کر اُس نے دُرّے کو وہ خُوشی دی تھی کہ وہ خُود بھی نہیں جانتا تھا۔ ہواؤں کے سنگ محوِ پرواز وہ جعفر کے سنگ اپنی خُوبصورت زِندگی کے خواب بُنتی، کُچھ دیر کے لیے نتاشہ نامی چُڑیل کو بھولتی دُرّے اپنی مُسکراہٹ دباتی کِھڑکی کی جانِب رُخ موڑ گئی۔ وہ بھی راناؤں کا خون تھی کیسے اپنا حق کِسی اور عورت کو دے دیتی۔ وہ راناؤں کی فِطرت سے بخوبی واقف تھی۔ اپنی ملکیت میں آئی چیز کو وہ کبھی نہیں چھوڑتے تھے نا ہی کِسی اور کی نظر اپنی ملکیت پہ برداشت کر سکتے تھے۔ نتاشہ سے اُس کی وقتی کشش تھی۔ وہ اُس کی ظاہری چکا چوند سے مُتاثر ہو کر اُس کی جانِب بڑھا تھا۔ اُس کی ماڈرنزم پرسنالٹی کی وجہ سے وہ اُس سے مُتاثر ہوا تھا۔ نتاشہ کا خُود کو دیکھ کر ٹھٹھکنا وہ محسوس کر چُکی تھی۔

یقیناً نتاشہ کو اُس سے اِن سکیورٹی ہوئی ہو گی اِسی لیے وہ رانا جعفر سے وعدہ لے رہی تھی کہ وہ دُرّے کو وکئی حق نہیں دے گا۔ دُرّے اپنے دو آتشہ حُسن سے اچھی طرح واقف تھی جِس کا احساس حلیمہ بیگم اُسے اکثر و بیشتر دِلاتی رہتیں تھیں ہاں مگر یہ الگ بات ہے کہ اُس نے نتاشہ کی طرح کبھی اپنے حُسن کی نمائش نہیں کی تھی اور نا ہی نبھی غرور کیا تھا۔ اگر نُمائش کی ہوتی تو اُس کا شوہر اُس کے عِلاوہ کِسی اور کی طرف نِگاہ اُٹھتا ایسا ممکن ہی نہیں تھا۔

افسوس تو اُسے یہ تھا کہ نِکاح کے دو بول بھی جعفر کے دِل میں اُس کی مُحبّت نہیں جگا پائے تھے جو وہ چار سالہ نِکاح کو بھول کر دو سال سے کِسی اور کے ساتھ مُحبّت کی پینگیں بڑھا رہا تھا۔ لیکن اب اُس نے سوچ لیا تھا کہ وہ رانا جعفر کے دِل میں اپنی مُحبّت پیدا کر کے رہے گی مگر اِس کے لیے اُسے رانا جعفر کی آنکھوں سے نتاشہ کے مصنوعی حُسن کی پٹی اُتارنی ہو گی۔ دوسروں کے سامنے اپنے حُسن کی نُمائش کرنا گُناہ تھا مگر اپنے شوہر کے سامنے تو نہیں نا؟ وہ اپنے عزم کی پکّی تھی اور جو ڈٹ جائیں تو ایسا کیسے ممکن ہے کہ خُدا اُن کی مدد نا کرے۔


**********************

حمود روز کی طرح سکول جا چُکی تھی۔ نواز علی بھی کھیتوں کی طرف نِکل گئے تھے۔ ایسے میں وہ گھر کیں اکیلی رہ گئی تھی۔ جدلی جلدی وہ سارے کام نِپٹا رہی تھی۔ آج موسم زرا سا شوخ ہوا تھا۔ اِنتہا کی گرمی میں بادلوں نے آسمان کا بسیرا کیا ہوا تھا۔ ٹھنڈی مہکتی ہوائیں بھی چل رہیں تھیں۔ موسم ابر آلود ہو رہا تھا جیسے بارِش ہونے والی ہو۔ اچانک یاد آنے پر وہ تیز تیز ہاتھ چلانے لگی۔ جلدی جلدی کام نِپٹانے کے بعد وہ درانتی اور ایک چادر تھامتی گھر سے نِکلی۔ رات کو جو چارا نواز علی لائے تھے وہ ختم ہو چُکا تھا۔ ایسے میں اگر بارِش ہو جاتی تو بکریاں بھوک سے ہی مر جاتیں۔

کام نِپٹا کر وہ باہِر نِکل آئی تھی۔

گھر کے دائیں جانِب چلتی وہ کھیتوں کی طرف نِکل آئی تھی۔ اُن کے اپنے ذاتی کھیت تو تھے نہیں جہاں سے وہ چارا کاٹ کر لے جاتی۔ پگڈنڈی پر اور راستے میں اُگی ہوئی بڑی بڑی گھاس پھونس کاٹتی وہ چادر میں بھرتی جا رہی تھی۔ وہ کافی آگے نِکل آئی تھی۔ سفید رنگ کے بادلوں کے گولے آسمان پر تیر رہے تھے۔ چادر کافی بھر گئی تو وہ واپسی کی راہ ہو لی۔ دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر چھائے سفید بادلوں میں اب کالے بادل گھر کرنے لگے تھے۔ اُسے بارِش ہونے سے پہلے گھر پہنچنا تھا۔ بارِش ہوو جاتی تو کِیچڑ میں چلنا مُشکِل ہو جاتا۔

ابھی اُس نے چار پانچ قدم ہی اُٹھائے تھے جب دھڑا دھڑ بارِش برسنے لگی وہ چلنے کی بجائے دوڑنے لگی تھی۔ سر پہ لدی چارے والی گُٹھری اب بھیگنے لگی تھی جِس کا مطلب تھا کہ چارا بھی بھیگ رہا تھا۔ اچانک اُس کی نظر ٹیوب ویل کے پاس بنے مٹی کے برآمدے پر پڑی۔ وہاں کُچھ بھینسیں بھی بندھیں ہوئیں تھیں۔ بغیر کُچھ اور سوچے وہ اُس جانِب بڑھی اور وہاں پہنچ کر دم لیا۔ سر پر سے گُٹھری اُتار کر زمین پر رکھی اور وہاں پہ موجود لکڑی کے ایک تختے پر بیٹھ گئی اور بارِش تھمنے کا اِنتظار رکنے لگی جب کِسی مرد کی آواز پر چونکی۔ اُس نے مُڑ کر پیچھے دیکھا تو سامنے ہی وہ شخص اپنی مسحور کن شخصیت کے ساتھ کھڑا تھا۔ وہ اُسے دیکھتی جلدی سے کھڑی ہوتی سلام کر گئی۔ ایک طرف بندھی بھینسیں اب آوازیں نِکالتی سکوت میں اِرتعاش پیدا کرنے لگیں تھیں۔

"یہاں کیا کر رہی ہو؟" سلام کا جواب دیتے اُس نے سپاٹ لہجے میں پوچھا تھا۔

وہ کھیتوں کا جائزہ لینے آیا تھا جب بارِش شروع ہو گئی۔ وہ بارِش سے بچنے کو یہیں رُک گیا۔ کوئی دس پندرہ مِنٹ بعد اُسے وہاں کِسی کی مووجدگی کا احساس ہوا تھا وہ وہاں پہنچا تو سامنے ہی وہ لڑکی بیٹھی تھی جِس نے اُس کی کُچھ دِنوں سے نیندیں چُرائی ہوئیں تھیں۔ مگر اُسے بھجگے کپڑوں اور دعوت دیتے سراپت میں دیکھ کر اُسے ناگوار گُزرا تھا۔

نظریں اُس کے سراپے کا جائزہ لے رہیں تھیں جو مُکمّل بھیگ گئی تھی اور اُس کے کپڑے اُس کے جِسم کے ساتھ چِپکے ہوئے تھے۔ اُس کا دوپٹہ بھی گیلا ہو چُکا تھا جِس میں سے پانی نچڑ رہا تھا۔ چہرے پر کُچھ گیلے بال بھی چِپکے ہوئے تھے جِنہیں وہ اپنے چہرے سے پیچھے ہٹا رہی تھی۔ یہ لڑکی ہر بار ایک نئے انداز میں اُس سے مِلتی تھی۔ پہلی مُلاقات میں وہ اُسے پسندیدگی کی سند بخش چُکا تھا جب کہ دوسری مُلاوات میں اُس نے اعتراف کیا کہ یہ لڑکی اُس کے دِل پر قابض ہو گئی ہے۔

"وہ رانا جی! میں بکریوں کے لیے چارا لینے آئی تھی مگر تیز بارِش شروع ہو گئی تو یہاں آ گئی۔ بارِش میں گھر جاتی تو چارا بھیگ جاتا۔ اب بارِش رُکے گی تو جلدی سے یہاں سے چلی جاؤں گی۔" اُس نے اُس کے لہجے کی سختی محسوس کرتے جلدی سے کہا مبادا وہ اُسے ابھی وہاں سے نا نِکال دے۔

"تو اِس موسم میں گھر سے ہی کیوں نِکلنا تھا؟ بعد میں بھی چارا لے جا سکتی تھی تُم!" اُس نے اپنے کندھے سے اپنی اجرک اُتارتے ہوئے اُس کی طرف قدم بڑھائے جبکہ وہ اُسے اپنی طرف آتا حیرانی سے دیکھنے لگی۔

"جی وہ بکریاں بھوکی تھیں۔ ابّا بھی گھر پہ نہیں تھا۔ کھیتوں پر گیا تھا نا جی! اِس لیے میں آ گئی۔" اُس نے جلدی سے بتایا تو وہ سر ہلا کر اُس کے قریب دو قدم کے فاصلے پر رُکا۔ اپنی اجرک کے دونوں کونوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر، اُس کے سر کے اوپر سے گُزار کر، اُسے اچھی طرح اوڑھا کر دوسرا کونہ اُس کی پُشت پر ڈال دیا۔ وہ پانچ فٹ دو اِنچ کی لڑکی اُس کی بڑی سی اجرک میں چُھپ سی گئی تھی۔ نین گُل نے حیرت زدہ نظریں اُٹھا کر بے ساختہ سامنے کھڑے شخص کو دیکھا تھا جو خُود بھی اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔

"آپ کک کی چادر رانا جی!" اُس نے ہکلا کر کہا تھا۔ اُس کی نظریں نین گُل کو نروس کر رہیں تھیں۔ دِل میں میٹھی میٹھی کسک پیدا ہو رہی تھی جو اُسے بھلی تو لگ رہی تھی مگر گھبراہٹ بھی ہو رہی تھی۔

"آئندہ بڑی چادر کے بغیر ایسے موسم میں گھر سے باہِر مت نِکلنا۔ میری چادر کی خیر ہے تُم اِسے اُتارو مت۔" اُس نے نین گُل کو چادر اُتارتے دیکھ کر روکا اور ساتھ میں ہدایت کی تو وہ جلدی سے سر ہلا گئی۔ رانا جی کی نظروں سے اُسے پریشانی ہو رہی تھی جو نجانے اُس کے چہرے سے کون سے خزانے ڈھنوڈنے کی کوشش میں تھا۔

"گھر سے زیادہ باہِر نہیں نِکلا کرو۔ جو کام ہوتا ہے ابّا سے کہا کرو۔" اچانک اُس نے دوٹوک کہا تو وہ چونک کر اُسے دیکھنے لگی مگر پھر اُس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتی ہی رہ گئی جہاں نجانے کونسی چمک تھی جو اُسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔

"کیوں؟" وہ بے ساختہ پوچھ بیٹھی۔

"مُجھے پسند نہیں تُمہارا گھر سے نِکلنا۔" اُس نے نین گُل کی کالی آنکھوں میں اپنی کالی آنکھیں گاڑھ کر کہا۔

"کیوں؟" اُس کا سوال پھر وہی تھا۔

"کیونکہ تُم گھر سے نِکلو گی تو بہت سے غیر مرد تُمہیں دیکھیں گے۔" اُس نے جواب دیا۔

" تو کیا ہو گا؟" نین گُل ابھی بھی اُس کے عمل ہر کھوئی سی تھی۔ اِسی لیے بغیر سوچے سمجھے سوال کر رہی تھی۔

"مُجھے اچھا نہیں لگے گا۔" اُس نے بھی اُسی کے انداز میں جواب دیا تھا۔

"آپ کو اچھا کیوں نہیں لگے گا؟" نین گُل نے پوچھا تھا۔ دونوں ابھی بھی ایک دوسرے کو ہی دیکھ رہے تھے جیسے اِس کے عِلاوہ کوئی اور کام نا ہو۔

"کیونکہ میں تُم سے مُحبّت کرتا ہوں اور اپنی مُحبّت کو اپنی عِزّت سمجھتا ہوں۔ اِس لیے میری غیرت کو گوارا نہیں کہ میری پسند کو کوئی اور پسندیدگی کی نِگاہ سے دیکھے۔" اُس کے جواب پر بھی وہ ہوش میں نہیں آئی تھی۔

"مُجھ سے کیوں مُحبّت کرتے ہیں؟" اُس نے پوچھا تو اُس کا دِل کیا اُسی کا سر پیٹ ڈالے جو کومہ میں چلی گئی تھی اور ہوش میں آنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔

"کیونکہ میرا دماغ خراب ہو گیا ہے اِس لیے۔" اُس نے نین گُل کو کندھے سے جھنجھوڑ کر کہا تو وہ ہڑبڑا کر ہوش میں آئی پھر اُس کے ہاتھ اپنے کندھوں پہ دیکھتی جلدی سے اُسی کی اجرک سے سر ڈھکتی پیچھے ہوئی۔

"مم معاف کرنا رانا جی! میں خخ خواب دیکھ رہی تھی شاید!" وہ نروس سی ہو کر بولی تو وہ بے ساختہ قہقہہ لگا گیا جبکہ نین گُل اُس کو دیکھتی رہ گئی جو سر پیچھے گِرائے ہنسی ضبط کرنے کی کوشش میں تھا۔ وہ شخص ہنستا ہوا بہت پیارا لگتا تھا نین گُل کے دِل نے اِس وقت اعتراف کیا تھا۔

"کک کیا ہوا رانا جی؟ ہنسے کیوں؟ میرے منہ پہ کُچھ لگا ہے کیا؟" اُس نے پریشانی سے اِستفسار کیا تو وہ اُس کی معصومیت کا قائل ہوتا نفی میں سر ہلاتا اپنے سفید کپڑوں کی پرواہ کیے بغیر ایک گُھٹنا زمین پر ٹکائے اور دوسرے کو پیچھے کیے نیچا بیٹھا اور اپنا خالی ہاتھ اُس کے سامنے کیا۔ مگر پھر کُچھ سوچ کر اپنی دائیں ہاتھ کی اُنگلی سے اپنی سُرخ نگینے والی انگوٹھی نِکالی اور اُس کے سامنے کی۔

"تُمہاری اُنگلی کے حِساب سے کافی بڑی ہو گی تُمہیں مگر تُم اِسے انگوٹھے پر پہن لینا۔ پھر جب میرے پاس آؤ گی تو تُمہاری اُنگلی کے حِساب سے تُمہیں نئی انگوٹھی بنوا دوں گا۔ کیا تُم ہمیشہ کے لیے میری زِندگی میں داخِل ہونا چاہو گی؟" اُس نے تبسم لبوں پر سجاتے ہوئے آنکھیں پھاڑے کھڑی نین گُل سے پوچھا۔ وہ شاید پہلا شخص تھا جو بھینسوں کے باڑے میں کھڑا ایک لڑکی کو پرپوز کر رہا تھا۔ اپنی سوچ پہ اُسے خُود ہی ہنسی آئی تھی جِسے وہ دبا گیا تھا۔

"رانا جی! آپ مُجھے پپروز کر رہے ہیں؟" نین گُل کے سوال پر وہ ہنسی دباتا اُٹھ کھڑا ہوا اور اُس لڑکی سامنے جا کھڑا ہوا جو اُس کی اجرک پہنے اُس کے رنگ میں رنگی نظر آ رہی تھی۔

"نہیں میں تُمہیں "پرپوز" کر رہا ہوں۔ شادی کرو گی مُجھ سے؟" اُس نے "پرپوز" پر زور دیتے کہا تو وہ بے اِختیار سر ہلا گئی۔ مگر پھر جلدی سے نفی میں سر ہلایا۔

"پہلے ہاں پھر ناں؟ ایسا کیوں؟" اُس نے اچھنبے سے پوچھا تو وہ سر جُھکا گئی۔

"ہم غریب ہیں جی! ہماری اور آپ کی کوئی برابری نہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ابّا نہیں مانے گا دوسری بات بڑے رانا جی ہمیں گاؤں سے نِکال دیں گے۔" نین گُل کے کہنے پر وہ سر ہلا گیا۔

"اگر دونوں مان گئے پھر تو کوئی اعتراض نہیں نا؟" اُس نے پوچھ مگر وہ چُپ ہی رہی۔ جِس پہ وہ بے ساختہ مُسکرایا۔

"چلو پھر ہاتھ آگے کرو۔" اُس نے کہا تو وہ اپنا ہاتھ پیچھے چُھپا گئی۔ "یہ انگوٹھی اب ہمیشہ مُجھے تُمہارے ہاتھ پر نظر آنی چاہیے۔ اِسے اُتارا تو سزا دوں گا۔" اُس کا بایاں ہاتھ زبردستی پکڑ کر اُس کے انگوٹھے میں وہ رِنگ پہنائی جو تھوڑی سی کُھلی تھی۔ نین گُل اب بھی خاموش کھڑی تھی اور منہ لٹکائے اپنے ہاتھ میں اُس انگوٹھی کو گھور رہی تھی۔

"پسند کرتی ہو مُجھے۔" اُس نے آنچ دیتے لہجے میں پوچھا تو وہ سر جُھکاتی نفی میں سر ہلا گئی اُس نے اُس کی تھوڑی تلے دو اُنگلیاں رکھیں اور اُس کا چہرہ اوپر اُٹھایا۔ نین گُل نے ہونٹ بھینچ رکھے تھے۔

"پہلی ہی نظر میں میرے دِل کو بھا گئی تھی یہ مُٹیارن! اپنی زِندگی مییں شامِل نا کیا تو شاید ایک خالی پن رہے گا۔ اِس لیے آج تُم سے کہہ دیا کہ کہیں دیر نا ہو جائے۔" اؐس نے کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہا تو وہ نا سمجھی سے اُسے دیکھنے لگی.

"مُجھے آپ کی باتیں سمجھ نہیں آتیں رانا جی! میں جاؤں" وہ معصومیت سے گویا ہوئی۔

"رانا جی رانا جی کر کے دِل لے گئی اور اب بھی میری باتیں سمجھ نہیں آتیں محترمہ کو۔" وہ بڑبڑا کر رہ گیا تھا۔

"کیا کہا رانا جی؟" وہ پوچھنے لگی۔

"کُچھ نہیں آؤ یہاں بیٹھو اور بتاؤ گھر میں کون کون ہے؟" وہ نفی میں سر ہلاتا اُسے لیے لکڑی کے تختے پر بیٹھا۔ وہ بھی اُس سے کُچھ فاصلے پر بیٹھ گئی۔

"مُجھے دیر ہو رہی ہے مُجھے جانا ہے۔" نین گُل نے کہا تو وہ لب بھینچ گیا۔ اُس کے لہجے میں خوف تھا۔

"پہلے میرے سوال کا جواب دو پھر جانا۔" اُس نے ہامی بھری۔

"میں ہوں، ابّا ہے اور چھوٹی بہن ہے رانا جی! دسویں کلاس میں پڑھتی ہے۔ اب میں جاؤں؟" اُس کی تان وہیں آ کر ٹوٹی تو وہ لب بھینچتا کھڑا ہوا۔

"کل ٹھیک اِسی وقت ڈیرے کے پاس والے ٹیوب ویل کے قریب آنا۔ مُجھے مِلنا یے تُم سے اگر نہیں آئی تو تُمہارے گھر آجاؤں گا رات کو۔" اُس نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا تو وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے اُسے دیکھنے لگی۔

اُس کی نظر نین گُل کی گردن پہ ہلکورے لیتے تعویذ پر پڑی وہ اُسے چھونے لگا کہ وہ بدک کر پیچھے ہوئی۔ وہ اپنی بے اِختیاری پہ شرمِندہ ہوتا خُود کو کوس کر رہ گیا۔

"مم میں نہیں آؤں گی رانا جی! غریب کے پاس ایک عِزّت ہی ہوتی ہے اور میں اپنے باپ کی عِزّت خراب نہیں کر سکتی۔" وہ تیزی سے کہہ کر اپنی گٹھری اُٹھاتی اُس کی اجرک سنبھالتی بھاگ کھڑی ہوئی۔ بارِش رُک گئی تھی اُسے یہاں سے اپنے گھر جانا تھا۔ پیچھے وہ اُس کی گھبراہٹ اور خوف کی وجہ سمجھتا لب بھینچ گیا۔ رانا ہاشِم سے وہ بھی واقف تھا۔ اپنے مرتبے اور ذات پات کے غرور میں ڈوبے وہ اُس کی شادی نین گُل سے کر دیتے ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ مگر وہ بھی اُنہی کا خون تھا۔ راناؤں کے خون سے تعلق رکھنے والا وہ شخص اپنی ضِد سے پیچھے ہٹ جاتا ناممکن تھا اور یہاں تو بات ہی اُس کی مُحبّت کی تھی۔

اُس کی غیرت گوارا ہی نہیں کرتی تھی کہ جِس لڑکی کو اُس نے چاہا اُسے کوئی نظر بھر کر دیکھے کُجا کہ وہ کِسی اور کی دسترس میں ہو۔

مرد مُحبّت بہت کم کرتے ہیں مگر جب کرتے ہیں تو اپنی مُحبّت کو اپنی عِزّت سمجھنے والے کبھی اُسے کِسی اور کی دسترس میں برداشت نہیں کرتے۔


*********************


شام کا وقت تھا۔ پرِندے سارے دِن کی بھاگ دوڑ اور اُڑان کے بعد اب اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ وہ بھی اِس وقت گھر میں داخِل ہوتی بُوا کو سلام کرتی کمرے کی جانِب بڑھی جب بُوا نے روک دیا۔

"کیا ہوا؟" اُس نے پوچھا تھا۔

"ابھی کُچھ دیر پہلے سویا ہے اور تُمہیں پتہ ہی ہے کہ اپنے وقت پہ ہی جاگے گا۔ اور اگر کچّی نیند سے جاگ گیا تو تنگ کرے گا اور روئے گا الگ۔" بُوا نے کہا تو وہ سر ہلاتی دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ فریش ہونے کے بعد وہ وہیں بُوا کے پاس آن بیٹھی۔

"آج تُمہاری پسند کی تہوں والی بریانی بنائی ہے میں نے۔ آ جاؤ کھا لو۔"

بُوا نے کہا تو وہ بے دِلی سے سر ہلاتی اُن کے پاس ٹیبل پر بیٹھی۔

"کیا ہوا؟ تھک گئی ہو؟" بُوا نے پوچھا۔

"ہاں تھک گئی ہوں۔ میں ابھی سے تھک گئی ہوں بُوا! بس سکون چاہتی ہوں۔ اللّٰہ سے دعاؤں میں بس سکون مانگتی ہوں۔" وہ ہاتھوں پر سر ٹکائے بولی تو بُوا نے اُس کے بال سہلائے۔

"رب اپنے بندے کو اُس کی سکت سے زیادہ نہہں آزماتا۔ تُمہاری آزمائش بھی جلد ہی ختم ہو جائے گی۔" بُوا نے تسلّی دی تھی۔

"میں حمین کو اکیلے کیسے سنبھال پاؤں گی؟ وہ بڑا ہو گا اپنے بابا کا پوچھے گا اُسے کیا جواب دوں گی؟ کہاں ہیں اُس کے بابا؟ کِتنے جھوٹ بولوں گی اُس سے؟" اُس نے آزردگی سے کہا تو بُوا نے تاسف سے اُسے دیکھا۔

"تب کی تب دیکھی جائے گی۔ ابھی کھانا کھاؤ اور جا کر سو جاؤ پھر صُبح کام پر بھی جانا ہے تُمہیں۔" بُوا نے کہا تو وہ پھیکا سا مُسکرائی۔

"آپ کھانا کھا کر میڈیسن لے لیجیے گا۔" کھانا کھا کر اپنے کمرے میں جاتے جاتے وہ ہدایت دینا نہیں بھولی تھی جب کہ اُس کی فِکر پر بُوا مُسکرا کر رہ گئیں تھیں۔

وہ کمرے میں داخِل ہوئی تو سامنے ہی بیڈ پر حمین صاحب اپنی پوری شان سے براجمان سونے میں مصروف تھے۔ وہ آہستہ سے الماری کھولتی اپنے آرام دہ کپڑے لیتی باتھ روم میں گُھس گئی۔ چینج کرنے کے بعد وہ کمرے کی اِکلوتی کِھڑکی میں جا کھڑی ہوئی۔ دور آسمان کے دامن میں کھڑا چاند دیکھتی وہ جانے کہاں کھو گئی تھی۔ وہ روز چاند میں کوئی ہمدرد چہرہ تلاش کرتی تھی جو چہرہ بہت دور تھا اِتنی دور کہ وہاں جانے کے لیے اُسے اپنی سانسوں کی قُربانی دینی پڑتی۔

کُچھ دیر چاند کو دیکھنے کے بعد وہ واپس بیڈ کی جانِب آئی اور حمین کے برابر میں لیٹ کر اُس کے نقوش دیکھنے لگی۔ معصوم بھولے بھالے، پھولے پھولے گالوں والے حمین کے ماتھے پر بل پڑے ہوئے تھے۔ اُس نے جُھک کر اُس کی ننھی سی پیشانی کو چوما تو وہ بل پل میں غائب ہو گئے۔ وہ مُسکراتی اُس کے سر میں اُنگلیاں چلانے لگی۔ حمین جو پُشت کے بل بالکُل سیدھا لیٹا ہوا تھا، پلٹا اور اُس کی کمر پہ ہاتھ اور دائیں ٹانگ رکھتا اُس کے نزدیک ہو گیا۔ وہ آنکھوں میں آئی نمی کو حلق میں اُتارتی اُس خُود سے لگائے آنکھیں موند گئی۔


********************


وہ لوگ سرِ شام ہی حویلی پہنچ چُکے تھے۔ فریش ہونے کے بعد اُنہوں نے سب کے ساتھ ہی کھانا کھایا تھا۔ جہاں رانا جعفر کے چہرے پر پہلے جیسا اِطمینان تھا وہیں دُرِ فشاں بھی اب مُطمئن تھی۔ وہ اپنے شوہر کو کِسی اور عورت کو پلیٹ میں سجا کر پیش نہیں کر سکتی تھی۔ ایک بار کوشش تو کرنی تھی تا کہ دِل میں ساری زِندگی کے لیے خلش نا رہتی کہ اُس نے اپنا حق جان بوجھ کر کِسی اور کو دے دیا۔ باقی قِسمت کا جو فیصلی ہوتا وہ اُسے منظور تھا۔

کھانے کے بعد کُچھ دیر باتوں کا دور چلا تھا۔ وہ بہت تھک گئی تھی اِسی لیے کمرے میں چلی گئی اُس کے پیچھے پیچھے ہی دُرشہوار بھی اُٹھ کر بھاگی تھی۔ وہ ابھی لیٹی ہی تھی کہ دُرشہوار اُس کے کمرے میں داخِل ہوئی۔ اُسے دیکھ کر وہ اُٹھ کر سیھی ہو کر بیٹھی۔

"میں آپ کی خریداری دیکھنے آئی ہوں آپا! آپ نے کیا کیا خریدا؟" اُس نے بیڈ پر اُس کے سامنے بیٹھتے اِشتیاق سے پوچھا۔

"وہ سامنے رکھے ہیں خُود ہی دیکھ لو۔" وہ بہت تھک گئی تھی اور بس آرام کرنا چاہتی تھی۔ ذہنی اور جِسمانی تھکاوٹ نے اُسے بے حال کر کے رکھ دیا تھا۔

وہ خُوشی سے سر ہلاتی سارے شاپنگ بیگز ایک ایک کر کے کھولتی گئی۔ ہر ڈریس کو دیکھ کر اُس کی آنکھیں حیرت سے پھٹتی گئیں جو ایک سے بڑھ کر ایک اور کافی مہنگے بھی تھے۔ باری باری جوتے، جیولری، میک اپ، کپڑے دیکھنے کے بعد وہ اُنہیں واپس پیک کرتے اُس تک آئی اور اُس کے سامنے بیڈ پر بیٹھی۔

"سب کُچھ بہت بہت بہت پیارا ہے۔ آپ کی پسند تو لاجواب ہے۔" اُس نے چہک کر کہا تو وہ پھیکا سا مُسکرائی۔

"یہ سب تُمہارے ویر سائیں نے اپنی پسند سے خریدا ہے۔" اُس نے دُرِ شہوار کو آگاہ کیا تو اُس نے آنکھیں سکوڑ کر دُرِفشاں کو دیکھا۔

"تو کیا آپ کو نہیں پسند یہ سب آپا؟ اگر اپنی ہی پسند سے لینا تھا تو آپ کو ایویں ساتھ لے گئے ویر سائیں؟" وہ خفگی سے بولی تو وہ نفی میں سر ہلا گئی۔

"سب کُچھ پسند ہے مُجھے۔ بہت اچھی خریداری کی تھی مُجھ سے بھی پوچھتے تھے اور جِس چیز سے میں منع کرتی تھی وہ اُس کی طرف دیکھتے بھی نہیں تھے۔ بعد میں مُجھے اِتنا اچھا برگر اور پیزا بھی کِھلایا۔ بہت مزہ آیا تھا مُجھے۔" اُس نے مُبالغہ آرائی سے کام لیا جِسے سمجھے بغیر وہ خُوش ہوتی دُرِفشاں سے لِپٹ گئی۔

"آپ بہت اچھی ہیں آپا! میری آپا بھی اور بھابھی بھی۔" وہ اُس کا گال چوم کر تیزی سے اُٹھی اور جیسے طوفان بنی آئی تھی ویسے چلی بھی گئی۔

"کاش میری زِندگی بھی اِتنی ہی سہل اور بے فِکر ہوتی جیسے تُمہاری ہے شہوار!" وہ اُسے جاتا دیکھ کر یاسیت سے بولی پھر اُٹھ کر سارے شاپنگ بیگز الماری میں رکھے اور خُود سونے کے لیے لیٹ گئی۔


*********************

وہ دُرفشاں کے کمرے سے نِکل بغیر سامنے دیکھے تیزی سے آگے بڑھنے لگی جب کِسی سے ٹکرا گئی وہ گِر جاتی اگر سامنے والا شُخص اُسے بازو سے تھام کر سیدھا نا کرتا۔ اُس کے بازو ابھی بھی سامنے والے کی پکڑ میں تھے۔ وہ تو بس اپنے قریب اُس کا سنجیدہ چہرہ دیکھنے میں مصروف تھی، بھینچے ہوئے لب، کُشادہ پیشانی پہ پڑے تین بل، تیکھی کھڑی ناک، گہری بھوری آنکھیں، گندمی رنگت اور ماتھے پہ بِکھرے بالوں کا حامِل وہ شخص اُسے مسمرائز کر گیا تھا۔ پہلی دفعہ اُسے اِتنے قریب سے اور غور سے دیکھا تھا کہ دِل میں گھنٹی بج گئی تھی۔ یہ گھنٹی تو پہلے بھی بجی تھی لیکن وہ بڑی سختی سے اُسے خاموش کروا گئی تھی مگر آج پھر وہ بے بس ہوئی تھی۔

"دیکھ کر چلا کرو شاہی!" مقابل نے سنجیدہ لہجے میں نرمی سے کہا تو وہ سر اُٹھا کر اُسے دیکھنے لگی۔

"ارے ویر سائیں! میں دیکھ کر ہی چل رہی تھی مگر آپ جانے کہاں سے ٹپکے۔" اُس کہ آواز پہ چونک کے ہوش میں آتی وہ ایک دم خُود کو کمپوز کرتی جلدی سے اپنی ٹون میں واپس آئی تھی۔ اپنی سوچوں پہ خُود کو کوسا۔ وہ اُس کے ویر سائیں تھے اور وہ کیا سوچ رہی تھی؟ سر جھٹک کر اُس کی طرف متوجّہ ہوئی۔

"کہیں سے نہیں ٹپکا میں۔ تُم ہی آنکھیں بند کر کے چل رہی تھی۔ ویسے کہاں سے آ رہی ہو؟" اُس نے نظریں شہوار کے چہرے پر گاڑھ کے سوال کیا جو معصومیت کا پیکر بنا ہوا تھا بلکہ نہیں وہ چہرہ واقعی معصوم تھا۔

"آپا کے کمرے سے اُن کی خریداری دیکھ کر آ رہی ہوں۔ واللّٰہ کیا کمّال کی چیزیں خریدیں ہیں۔ مُجھے بھی ویسے ہی کپڑے لینے ہیں مگر بابا سائیں جانے ہی نہیں دیتے شہر۔" اُس نے پہلے خُوشی سے چہکتے آخر میں افسردگی سے کہا۔

"کوئی بات نہیں اپنی گُڑیا کو میں خُود اُس کی پسند کے کپڑے شہر سے لا دوں گا بس تُم مُجھے اپنی پسند بتا دینا۔" اُس نے کہا تو وہ چہکتی اُس سے جا لِپٹی۔ جب کہ وہ دم بخود رہ گیا ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ وہ ایسے اُس کے قریب آئی ہو۔

"بہت شُکریہ باقِر لالہ! آپ بہت اچھے ہیں۔" وہ اپنی خُوشی میں بھول گئی تھی کہ وہ اُس کا سگا بھائی نہیں بلکہ کزن ہے۔

" ٹھیک ہے گُڑیا! میں لا دوں گا چلو رات ہو گئی ہے بہت۔ جا کر سو جاؤ۔" اُس نے شہوار کو بازو سے تھام کر اپنے سامنے کیا تو وہ سر ہلانے لگی۔ نظریں اُسی کے چہرے پر جمی ہوئیں تھیں۔ وہ سولہ سالہ لڑکی آج پہلی بار اُسے کِسی اور ہی نظر سے دیکھ رہی تھی۔ ابھی جو کُچھ دیر پہلے اُس کے خُود کو یاد کروایا تھا کہ وہ لالہ ہیں اب پھر سے اُس سبق کو بھول گئی تھی۔

"جاؤ شاہی!" وہ چوبیس سالہ لڑکا اُس کی نظروں سے جھنجھلا گیا تھا۔

"جا رہی ہوں میں۔ ویسے مُجھے اپنا نام بہت پسند ہے آپ ہمیشہ مُجھے شاہی ہی کہیے گا۔" ہاتھ جھلّا کر کہتی وہ آخر میں دِلکشی سے بولی تھی۔ اُس کے رنگ ڈھنگ آج کل باقر کو ویسے ہی عجیب لگ رہے تھے۔ وہ بغیر جواب دیئے آگے بڑھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا جبکہ وہ وہیں کھڑی اُسے جاتا دیکھتی رہی۔ کچّی عُمر کی وہ لڑکی ایک الگ ہی راہ پر چل پڑی تھی۔

وہ ہمیشہ سے باقِر سے بہت اٹیچ رہی تھی۔ گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے وہ اکثر سب کو اپنی شرارت میں شریک کر لیتی جِس کا شِکار رانا باقِر ہی ہوتا تھا۔ حویلی میں صِرف رانا باقِر ہی تھا جو اُسے شاہی کہتا تھا باقی سب اُسے شہوار ہی کہتے تھے ہاں مگر رانا عبّاس کے لیے وہ اُس کی گُڑیا تھی، ننھی پری تھی۔ باقِر بھی گھر کی اِس چِڑیا پر لاڈ لُٹاتا تھا لیکن اُس کے لاڈ، اُس کی توجّہ اور اُس کے پیار کو وہ کِسی اور سِمت لے گئی تھی۔ وہ بھائی جیسا کزن تھا بھائی نہیں تھا اور عُمر کے جِس حِصّے سے وہ گُز رہی تھی اِس حِصّے میں اکثر لڑکیوں کے جذبات بدل جاتے ہیں اُن کی عُمر کا تقاضا ہوتا ہے چاہے جانا۔

دُرشہوار کے جذبات بھی بدل گئے تھے۔ وہ جو اپنے دِل کو مار کر خُود کو بآور کروا رہی تھی کہ وہ لالہ ہیں اب خُود کے ہی دِل کے آگے ہار گئی تھی۔ وہ صِرف باقِر سائیں تھے لالہ نہیں۔ وہ اُس شخص کو چاہنے لگی تھی جو کِسی اور کو چاہنے لگا تھا۔


******************


زِندگی بھی کِتنی ان پریڈِکٹیبل ہوتی ہے نا؟ اگلے ہی لمحے کیا ہو جائے پتہ ہی نہیں چلتا۔ کبھی کبھی ہونے والے واقعات اِنسان کے لیے خُوش آئیند ہوتے ہیں اور کبھی کبھی کُچھ واقعات اِنسان کے لیے زِندگی بھر کا خسارہ بن جاتے ہیں۔ اگر اِنسان کو پتہ چل جائے کہ آنے والے لمحے میں اُس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے تو قِسمت ہی بدل جائے۔ لیکن وقت کا دوسرا نام تو راز ہے جِس میں کیا ہونے والا ہے کوئی نہیں جانتا اور اِنسپکٹر حیدر کو بھی نہیں پتا تھا کہ وہ کِس بلا کے ہتھّے چڑھنے والا ہے۔

حیدر کی نِگاہوں کے سامنے ہمہ وقت وہ نمی بھری کالی آنکھیں چھائی رہتی تھیں جِن میں ہلکورے لیتا درد اُسے جکڑ لیتا تھا۔ وہ جاننے کو بے چین تھا کہ کیا اذیّت ہے اُس لڑکی کو جو اپنی معصومیت کو شاطرانہ چہرے کے پیچھے چُھپائے ہوئے تھی۔ نجانے کیوں مگر اُسے لگتا تھا وہ لڑکی ویسی نہیں تھی جیسی نظر آتی تھی۔ وہ کئی بار اُس چورنی کے خیالات کو جھٹک چُکا تھا مگر پِچھلے دو دِن سے جب بھی آنکھیں بند کرتا اُس کی نظروں کے سامنے ریشمی سیاہ بالوں کے ہالے میں چُھپا اُس کا چاند چہرہ اور کالی گہری آنکھیں آ جاتیں جِس سے وہ اپنے کام پر توجّہ بھی نہیں دے پا رہا تھا۔ وہ اُس دِن اُس آدمی کو اپنی جیب سے اُس کی رقم ادا کر چُکا تھا۔ اب بھی وہ اُس کے چہرے کو یادوں کے پردے سے جھٹکتا اپنے کیبن میں بیٹھا کِسی کیس کو سٹڈی کر رہا تھا۔

سارے کانسٹیبلز اور سپاہی اُس کے ہوتے آرام نہیں کر سکتے تھے اِسی لیے کِسی نا کِسی کام میں مصروف تھے۔ ابھی وہ بیٹھا کام ہی کر رہا تھا جب اُس کا کیبن ناک ہوا۔ اُس نے بغیر دھیان دئیے آنے کی اِجازت دی۔

"ویلا ہے یا فارِغ؟" آنے والے نے بے تکلفی سے اُس کے سامنے براجمان ہوتے پوچھا تو اُس نے چونک کر فائل سے سر اُٹھایا۔

"نا ویلا نا ہی فارِغ۔ اِنتہا کا مصروف ہوں میں۔" اُس نے سامنے بیٹھے ثاقِب کو گھور کر دوبارہ نظریں فائل پر ٹِکائیں۔

"چل نہیں ہے تو ہو جا۔ مُجھے کُچھ شاپنگ کرنی ہے بیلا کے لیے۔" اُس نے اپنی بیوی کا نام لیتے کہا تو اُس نے سر اُٹھا کر اُسے دیکھا۔

"کیوں؟ بھابھی کو ساتھ لے کر جانا تھا نا؟" اُس نے ابرو اُچکائے۔

"اُس کی سالگِرہ ہے تو میں اُسے گِفٹ دینا چاہ رہا تھا۔ اب اکیلا جانے کا دِل نہیں کیا اِس لیے یہاں آ گیا۔" ثاقِب نے آنکھیں گُھماتے ہوئے کہا تو وہ گہرا سانس بھرتا کھڑا ہو گیا۔

"صِرف ایک گھنٹہ بس۔" اُس نے ہاتھ کے اِشارے سے وارن کیا تو وہ ہنستا ہوا سر ہلا گیا۔ وہ دونوں وہاں سے نِکلے اور حیدر کی جیپ کی جانِب بڑھے۔ اگلے آدھے گھنٹے میں وہ ایک مشہور شاپنگ مال میں کھڑے تھے۔

"ویسے اُس چورنی کا پتہ چلا جِس نے تُمیں جلن بھرا گِفٹ دیا تھا؟" ثاقِب نے ہنس کر پوچھا تو اُس کا چہرہ ایک بار پھر حیدر کے سامنے لہرایا۔

"کہاں کھو گئے؟" ثاقب نے اُسے خاموش دیکھ کر پوچھا۔

"آ ہاں؟ نہیں کہیں نہیں۔ تُو اُسے چھوڑ اور جو کرنے آیا ہے وہ کر۔" حیدر نے اُسے ٹالا تو وہ کندھے اُچکاتا رِنگز پسند کرنے لگا۔ وہ اِس وقت ایک جیولری شاپ میں کھڑے تھے۔

حیدر کو کوفت نے آن گھیرا کیونکہ ثاقِب کو کُچھ پسند ہی نہیں آ رہا تھا۔ حیدر جو بھی ڈیزائن اُسے پکڑاتا وہ ریجیکٹ کر دیتا۔ اُکتا کر حیدر اُسے چھوڑتا باہِر نِکلا۔

"تُو جب خرید لے مُجھے کال کر دینا۔ میں یہیں باہِر کیفے میں ہوں۔" حیدر یہ بولتا بغیر اُس کا جواب سُنے باہِر نِکل گیا تھا۔ شاپنگ مال سے باہِر آ کر وہ اِردگِرد دیکھنے لگا۔ پاس ہی ایک کیفے تھا وہ اُس جانِب بڑھا۔ ابھی وہ اُس جانِب بڑھ ہی رہا تھا جب اُس کی نظر کیفے کے ساتھ والی شاپ پر پڑی جو شاید بےبی گارمنٹس کی تھی۔ اُس کی توجّہ کی وجہ وہ شاپ نہیں بلکہ وہ لڑکی تھی جو وہاں کھڑی تھی۔ اُس کے پیچھے ہی شاپ کے باہِر لگے ڈیسک پر ایک بڑی عُمر کی بزرگ عورت ایک بچّے کو لے کر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ لڑکی فون پر کِسی سے بات کر رہی تھی۔

حیدر تو اُسے اِس روپ میں دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔ گُلابی رنگ کی پرِنٹڈ قمیض اور وائٹ کلر کا کیپری پہنے، سر پر حِجاب لپیٹے اور دوپٹے کو ایک کندھے پر ڈالے وہ بہت گریس فُل لگ رہی تھی۔ حیدر تو کیا بھی اُسے پہچان نا پاتا جِس نے اُسے جب بھی دیکھا ہو جینز شرٹ اور کیپ میں دیکھا ہو۔ وہ یک ٹک رُک کر اُسے دیکھی جا رہا تھا۔ اِسی اثناء میں پیچھے بیٹھی عورت بچّے کو ڈیسک پر بِٹھا کر اندر چلی گئی تھی۔ اُس لڑکی نے فون بند کیا اور اِردگِرد دیکھا۔ پھر شاپ کی طرف دیکھتے ہوئے احتیاط سے بچّے کو اُٹھایا۔ حیدر اُس کی طرف دیکھتا چونک اُٹھا تھا۔ مطلب وہ چھوٹی موٹی چورنی نہیں تھی وہ بچّے بھی چُراتی تھی؟ اور پھر اِن بچّوں کا کیا کرتی تھی؟ اِس سے آگے کا سوچ کر ہی اُس کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔ وہ پولیس والا تھا اُس کا کام جِس نوعیت کا تھا اُس کا پہلا کام ہی شک کرنا ہوتا تھا اور اب بھی اُس نے وہی کیا تھا۔

وہ جو اُس لڑکی کے بارے میں سوچنے لگا تھا، اُس کے لیے اپنے دِل میں ہمدردی کے ساتھ نجانے کون سا جذبہ محسوس کرنے لگا تھا، اُس کے اُس دِن کی اذیّت کو کم کرنے کے لیے اُس سے مشفقانہ رویہ رکھنے کا سوچنے لگا تھا تا کہ وہ اِس کام کو چھوڑ دے تو وہ ساری ہمدردانہ سوچیں ایک پل میں فرض کے آڑے آئیں تھیں۔ وہ چورنی اِس قابِل ہی نہیں تھی کہ اُس سے ہمدردی کی جائے۔ اِن سب سوچوں کی یلغار میں وہ اُس لڑکی کی طرف قدم بڑھانے لگا تھا۔

اُس لڑکی نے یُونہی اُس بچّے کو اُٹھائے سامنے دیکھا تھا جہاں سے وہ ہی اِنسپکٹر چہرے پر غضب ناک تاثرات سجائے اُسی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اِس کا مطلب کہ وہ اُسی کی طرف آ رہا تھا۔ اُسے خطرے کی گھنٹی سمجھ کر اُس نے اُلٹے قدم پیچھے اُٹھائے تھے۔ اُس کے قدموں کو پیچھے کی طرف بڑھتے دیکھ کر حیدر کی سپیڈ تیز ہوئی تھی۔

حیدر کی سپیڈ کیا بڑھی تھی۔ وہ اُس بچّے کو تھامے تیزی سے پیچھے کو بھاگی تھی اور اُس کی تیزی دیکھتے ایک پل کو تو حیدر بھی حیران رہ گیا تھا۔ اُس دِن بھی وہ اِتنی تیز نہیں بھاگ پائی تھی جِتنا آج۔

حیدر آج اُسے نہیں چھوڑنے والا تھا۔ ہمدردی گئی بھاڑ میں۔ ایک اغواہ کار لڑکی کبھی کِسی کی ہمدردی کی مُستحِق نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ اُس لڑکی کے پیچھے بھاگا تھا جو کِسی کے بچّے کو اُٹھائے اغواہ کرنے کی کوششوں میں تھی۔ پولیس یُونیفارم میں ملبوس ایک اِنسپکٹر کو لڑکی کے پیچھے بھاگتے دیکھ کر لوگ خُودبخود اُس کے لیے جگہ چھوڑتے جا رہے تھے۔ لوگوں کی نظریں حیدر اور اُس لڑکی پر جمیں تھیں جو آگے پیچھے بھاگ رہے تھے۔


****************


دِن کا دوسرا پہر شروع ہو چکا تھا۔ گرمی اپنے عروج پر تھی جو جِسم کو جُھلسائے دے رہی تھی۔ اِس گرمی میں وہ تن تنہا اپنے دھیان میں مگن سکول سے واپس جا رہی تھی جب اُس نے کِسی کو اپنے ساتھ چلتے محسوس کیا۔ بے تاثر نِگاہوں سے اُس نے ساتھ چلنے والے شخص کو دیکھا تو دھک سے رہ گئی۔ بدک کر وہ اُس سے دو فٹ دور ہوئی جو صِرف دو قدموں کا فاصلہ رکھے اُس کے ساتھ ساتھ یُوں چل رہا تھا جیسے اُس کا قریب دوست ہو۔

"آپ یہاں کیا رہے ہیں چھوٹے سائیں؟" اُس نے سنجیدگی سے پوچھا تھا۔ دوپٹے کو کھینچ کر ماتھے پہ کیا جو کِھسک کر اوپر جا رہا تھا۔

"حویلی جا رہا ہوں۔" سامنے والے نے فُرصت سے اُسے دیکھ کر کہا جو چہرے پر ناگواری سجائے اُس کے سامنے کھڑی تھی۔

"آپ کی حویلی کا راستہ میرے راستے میں نہیں پڑتا باقِر سائیں! مہربانی کر کے اپنا راستا لیں۔" دو ٹوک انداز میں کہتی وہ ناقِر کو مُسکرانے پر مجبور کر گئی تھی۔

"میرے سارے راستے تُمہی تک آتے ہیں اور بہت جلد تُمہارے سبھی راتسے بھی مُجھ تک ہی آئیں گے۔ اپنے اِس چھوٹے سے عقل مند دماغ کو مت تھکاؤ۔" باقِر نے کہا تو وہ اُلجھ کر رہ گئ۔

آپ کی باتیں میری سمجھ سے باہِر ہیں اور میں سمجھنا بھی نہیں چاہتی۔ مہربانی کر کے میرا پیچھا کرنا چھوڑ دیں۔ آپ کے احسان کا شُکریہ ادا کر چُکی ہوں میں۔ اب کہا چاہیے آپ کو؟" اُس نے رانا باقِر کی بھوری آنکھوں میں پورے اعتماد سے جھانکتے سوال کیا تھا۔

"تُمہیں چاہتا ہوں میں۔ پیار کرتا ہوں تُم سے۔ پیار کا مطلب سمجھتی ہو نا؟" اُس کی سیاہ آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے اُس نے سکون سے کہا جب کہ حمود کی ذات سنّاٹوں کی زد میں آئی تھی۔

"ہم غریب کمّی کمین لوگ ہیں چھوٹے سائیں! ہمارے پاس سب سے قیمتی چیز صِرف عِزّت ہی ہوتی ہے۔ ہماری اور آپ کی کوئی برابری نہیں۔ آپ بڑے لوگ ہیں آپ کے لیے یہ عِشق معشوقی آسان بات ہوتی ہو گی مگر ہمارے لیے یہ بہت بُری چیز ہے جو نسلوں تک کو برباد کر دیتی ہے۔ اِس چیز سے بہت دور ہیں ہم غریب لوگ۔ اپنی اوقات کو اچھے سے سمجھتے ہیں اِس لیے اوقات میں رہتے ہیں۔ دو وقت کی روٹی کھانے کے لیے میرا ابّا سارا دِن بیلوں کی طرح آپ کے کھیتوں پر کام کرتا ہے پھر جا کر اُسے چند روپے مزدوری مِلتی ہے۔ کِس لیے؟ صِرف اہنی بیٹیوں کے لیے جو اُس کی عِزّت کی حِفاظت بھی نا کر سکیں تو تف ہے اُن بیٹیوں پر۔ آج آپ نے یہ بات کہہ دی مگر آئندہ ایسا بھول کے بھی مت کہیے گا۔ شاید میری بات آپ کی انا پر گِراں گُزرے لیکن سچ یہی ہے کہ ایک مرد عورت کے مُنہ سے اپنے لیے دھتکار برداشت نہیں کر سکتا۔ شاید آپ دُشمنی پر اُتر آئیں یہی دستور ہے مردوں کا۔ لیکن ایک بات کہوں گی عِزّت سے بڑھ کر کُچھ نہیں موت کی بھی پرواہ نہیں۔" وہ جو اُس کے اِنکار پر آتش فشاں ہوا تھا اُس کی آنکھوں میں نرمی اور مضبوطی دیکھ کر اپنی جگہ پر جما رہ گیا تھا۔ ہاں اُس کی انا پہ کڑی چوٹ پڑی تھی اُس کے اِنکار سے لیکن اُس کی باتوں میں دم تو تھا۔ وہ صحیح ہی تو کہہ رہی تھی۔ رانا ہاشِم اور رانا قاسِم کبھی بھی اُس کی اِس مُحبّت کو نا سمجھتے۔

"میں تُم سے وعدہ کرتا ہوں تُم پر یا تُمہارے گھر والوں پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ میں تُم سے دِل لگی نہیں کر رہا مُحبّت کرتا ہوں۔ شادی کروں گا۔" باقِر نے سنجیدگی سے کہا۔ وہ اُس کے خدشات سمجھ رہا تھا۔

"آپ نے شاید غور نہیں کیا چھوٹے سائیں! میں نے کہا اِن چکروں سے بہت دور ہوں میں۔ اِس پیار مُحبّت کو نہیں مانتی۔ نہیں یقین مُجھے اِن وقتی مُحبّتوں پر۔ مُجھے آپ سے تو کیا کِسی سے مُحبت نہیں ہے اور نا ہی ہو گی۔ راستہ چھوڑیں۔" ناگواری سے کہہ کر وہ آگے بڑھنے لگی جب اُس کا بازو رانا باقِر کی گرفت میں آیا۔ حمود اپنی جگہ پر ساکت ہی رہ گئی تھی۔ وہ تو اُسے نرم مزاج سمجھ بیٹھی تھی جو اُس کی بات کو سمجھ کر چلا جائے گا مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ راناؤں کے خون میں ضِد کا عنصر کُچھ زیادہ ہی پایا جاتا تھا۔

"ایک بات یاد رکھنا حمود نواز! ہونا تو تُمہیں میرا ہے چاہے خُوشی سے چاہے زبردستی۔ کوئی مُجھے روک نہیں سکتا۔ مُحبّت نہیں ہے تو ہو جائے گی لیکن مُجھے تُمہارے دِل پر کِسی اور کا نام ہرگِز نہیں چاہیے۔ جو میرا ہے وہ بس میرا ہی رہتا ہے چاہ کر بھی مُجھ سے دور نہیں جا پاؤ گی۔" باقِر کی گرفت سخت تھی۔ اُسے تکلیف ہو رہی تھی مگر اُس پر ظاہِر کیے بغیر وہ نفرت بھری نِگاہوں سے اُسے دیکھ رہی تھی۔

"کوئی کِھلونا نہیں ہوں میں جِسے جیسے چاہیں اِستعمال کریں گے آپ! اُن لڑکیوں میں سے تو ہرگِز نہیں جو آپ جیسے امیروں کے سامنے بِچھ جاتی ہیں اور آپ جیسوں کے غرور کو ہوا دیتی ہیں۔ آئیندہ مُجھے چھونے سے پہلے سو بار سوچیے گا۔" اُس کے سینے پر ہاتھ رکھتے اُسے زور سے دھکاّ دیتی وہ چِلائی۔

اِتنے میں ہی اُس کا سانس پھولنے لگا تھا۔ تیزی سے بیگ سے بوتل نِکال کر غُٹا غُٹ پانی پینے لگی۔ باقِر جو پیچھے کو لڑکھڑایا تھا سیدھا ہوتا غُصّے سے اُسے دیکھنے لگا جو اب گہرے سانس لیتی خُو دکو پُرسکون کر رہی تھی۔

"نفرت ہے مُجھے آپ جسیے مردوں سے جو اپنے مرد ہونے کا ناجائز فائدہ اُٹھا کر ایک عورت کو اپنی جاگیر سمجھ لیتے ہیں۔" نفرت سے رُخ موڑتی وہ وہاں سے جا چُکی تھی پیچھے وہ مُٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔

وہ غلط نہیں تھی اپنی جگہ وہ صحیح تھی مگر اُس کی تازہ تازہ مُحبّت میں ڈوبے، اپنی توہین محسوس کرتے رانا باقِر کو حمود نواز بالکُل غلط لگ رہی تھی۔

وہ اُس کی مُحبّت کو کیا رنگ دے رہی تھی؟ اُس نے سچ میں اُس سے مُحبّت کی تھی لیکن دھونس بھری مُحبّت جِس کا ابھی باقِر کو احساس نہیں تھا۔ اُس کے اِنکار پر مُشتعل ہوتا وہ غلط طریقے سے اُسے اپنی مُحبّت کا احساس کروا رہا تھا جِسے سمجھنے کی بجائے اُلٹا وہ مشتعل ہو گئی تھی۔ لیکن جو بھی تھا وہ صِرف اور صِرف رانا باقِر کی ہے اور کِسی کی نہیں چاہے اُسے رانا ہاشِم سے ٹکّر ہی کیوں نا لینی پڑے۔ وہاں وہ اپنے پلانز بنا رہا تھا اور وہاں دور قِسمت اُس کی پلاننگ پہ ہنس رہی تھی جو بے خبر تھا کہ اُس کی قِسمت میں کیا لِکھا جا چُکا ہے۔


******************

وہ آج شاپنگ کے لیے آئی تھی اُسی حُلیے میں جِس حُلیے میں گھر میں رہتی تھی۔ شاپنگ تقریباً ہو گئی تھی اور وہ بے بی کو اُٹھائے واپس جانے والی تھی اگر وہ اِنسپکٹر کینہ توز نظروں سے اُسے دیکھتے اُس کی طرف نا بڑھتا۔ جانے کیوں؟ مگر اُسے اِنسپکٹر سے کِسی خطرے کی بُو آئی تھی۔ وہ کیوں ایسے اُسے گھورتا اُس کی طرف غُصّے سے آ رہا تھا؟

بے اِختیار وہ ڈر کر پیچھے کی طرف قدم اُٹھانے لگی تھی۔ اُس کی سپیڈ تیز ہوتے ہی اُس اِنسپکٹر کی سپیڈ بھی تیز ہوئی تھی۔ اُس نے بے ساختہ نفی میں سر ہلاتے گود میں موجود اُس انمول وجود کو دیکھا تھا جو اُس کی سانسوں میں بستا تھا۔ جو اُس کے دِل میں دھڑکن کی طرح دھڑکتا تھا۔ اُسے کُچھ ہو جاتا تو وہ مر جاتی۔ ایک یہی تو آخری اپنا واحد سچا رِشتہ بچا تھا اُس کے پاس۔

تیز تیز قدم اُٹھاتی وہ بس اُس سے چُھپ جانا چاہتی تھی جو اُس کے پیچھے ہی پڑ گیا تھا۔ اُس ننھے سوئے ہوئے وجود کو خُود میں بھینچے وہ اِردگِرد سے بے نیاز بس بھاگی جا رہی تھی۔ پہلے وہ چوری کرتے ہوئے بھاگتی تھی مگر آج جان بچانے کے لیے بھاگ رہی تھی۔

بھاگتے بھاگتے ایک گلی آئی تھی وہ اُس گلی میں مُڑتی وہ آگے ہی آگے بڑھ رہی تھی۔ اُس نے ایک دفعہ بھی مُڑ کر پیچھے نہیں دیکھا تھا نا ہی اُس کی ہمّت تھی۔

آگے جا کر پھر دو گلیاں آئیں تھیں۔ وہ شش و پنج میں مُبتلا پیچھے دیکھنے لگی تھی مگر پیچھے کوئی نہیں تھا۔ وہ اُس میں سے ایک گلی میں مُڑی ابھی چند قدم ہی آگے بڑھی کہ سامنے ہی وہ پِسٹل کا رُخ اُس کی طرف کیے کھڑا تھا۔ قِسمت اِس ہی شخص کو کیوں اُس کی راہ کی رُکاوٹ بنا کر بھیجتی تھی؟ یہ بات وہ بار ہا سوچ چُکی تھی۔

"اب بھاگنا بے کار ہے ڈیول کوئین! بہتر ہے بچّہ میرے حوالے کر دو۔" حیدر نے اُس کی طرف قدم بڑھاتے کہا تو اُس نے ڈر کر اُس بچّے کو مزید خُود میں بھینچا تھا۔

"کک کیا چاہیے تُمہیں؟ کک کیوں میرے پیچھے پڑ گئے ہو؟ میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟ کیا بِگاڑا ہے میں نے تُمہارا جو ہر بار میرے راستے میں آ جاتے ہو؟" اُس کے اپنی طرف بڑھتے قدم دیکھ کر وہ ہراساں ہوتی بولی تھی۔

"میں نے تُمہارا کُچھ نہیں بِگاڑا بلکہ تُم نے اِن لوگوں کا بِگاڑا ہے جِن کے کبھی پیسے تو کبھی بچّے چھین کر بھاگ جاتی ہو۔ شرم تو ہے نہیں تُم میں۔ تھوڑی اِنسانیت ہی دِکھا دو۔ کیا مِلے گا ایک ماں سے ایک بچّے کو جُدا کر کے؟" حیدر کے ایک ایک لفظ نے اُس کے اندر تیز کی طرح گڑھ کر ایک نیا زخم دیا تھا۔ اُس کے دِل سے اُس لڑکی کی ہمدردی کا بُخار ایک پل میں اُترا تھا یاد تھا تو بس اپنا فرض کہ سامنے کھڑی لڑکی مُجرم ہے.

"ی یہ میرا بچّہ ہے۔ مم میں نہیں دوں گی۔ ہرگِز نہیں۔" وہ اٹک اٹک کر نفی میں سر ہلاتی بولی تھی۔ چہرہ پیلا ہو رہا تھا جبکہ سیاہ آنکھیں سُرخی مائل اور رونے کو بے چین۔

"مذاق اچھا کر لیتی ہو تُم! میں نے خُود تُمہیں یہ بچّہ اُس عورت سے چھنیتے ہوئے دیکھا تھا۔ جانے کِس حال میں ہو گی اِس کی ماں یا شاید دادی! چھوڑو اِسے میرے حوالے کرو۔" اُس نے گن اُس لڑکی کے سر پر رکھتے دوسرے ہاتھ سے بچّے کو تھامنا چاہا تھا۔

"یی یہ ی یہ میرا بچّہ ہے۔ مم میںسچ بول رہی ہوں اِنسپکٹر! مم میں نے کک کِسی سے نہیں چُرایا۔" وہ اب زاروقطار رونے لگی جبکہ حیدر اُس کے رونے پر ٹھٹھکا تھا۔ وہ جو اُس کے لیے دِل میں سافٹ کارنر رکھتا تھا یک دم بے یقین ہوا تھا۔ مگر جب بولا تو لہجہ سپاٹ تھا۔

"میں نے تُمہیں پِچھلی دفعہ بھی چھوڑ دیا تھا مگر اِس دفعہ نہیں۔" ایک جھٹکے سے اُس سے بچّہ چھین کر وہ مُڑا تھا جب بچّہ بے اِختیار رونے لگا تھا۔ اُس کے رونے کی آواز سُنتے ہی وہ اُس کے قدموں میں جُھکی تھی۔ کوئی اور وقت یوتا تو وہ اُسے ناکوں چنے چبوا دیتی مگر بات یہاں اُس کے بچّے کی تھی۔ حِجاب ڈھیلا ہو گیا تھا جب کہ دوپٹہ تو نجانے کہاں گِر گیا تھا۔

"خُدا کا واسطہ ہے مُجھے میرا بچّہ دے دو۔ وہ رو رہا ہے پلیز! حح حمین بچّے چچ چُپ کک کُچھ نہیں ہوا۔ مم مما پاس ہیں آپ کے۔ رونا نہیں بالکُل۔ مم مما کا بہادر بیٹا ہے نا حمین؟" حیدر کی مِنتیں کرتی وہ حمین کو چُپ کروانے لگی جو حیدر کی گود میں مچل رہا تھا۔ حیدر نے چونک کر بچّے کو دیکھا تھا۔ اُس کے نقوش، معصوم چہرہ اُسے اپنی طرف کھینچنے لگا تھا۔ نجانے کِس جذبے کے تحت وہ جُھکا اور اپنے ہونٹ اُس کے ماتھے پر رکھے۔ حمین ایک دم چُپ ہوا تھا۔ حیدر بے ساختہ مُسکرایا مگر ہوش میں تب آیا جب اپنے پیروں پر کِسی کے ہاتھ محسوس کیے۔

"میں تُمہارے پیر پکڑتی ہوں یہ میرا بچّہ ہے مُجھے دے دو۔" وہ اِس وقت وہ لڑکی بالکُل نہیں لگ رہی تھی جو پہلی مُلاقات میں اُسے مِلی تھی۔ یہ تو کوئی اور ہی روتی گِڑگِڑاتی عورت لگ رہی تھی جو ممتا سے مجبور ہو کر کِسی کے قدموں میں جُھک چُکی تھی۔

"میں کیسے مان لوں کہ تُمہارا ہی بیٹا ہے یہ؟ دِکھنے میں تو کم عُمر لگ رہی ہو؟" حیدر نے اپنے قدم پیچھے لیتے پوچھا تو وہ بے ساختہ کھڑی ہوئی۔

"کک کم عُمری میں بھی تو شادیاں ہو جاتی ہیں نا؟ مم میری بھی ہو گئی تتت تھی۔ جج جھوٹ نہیں بول رہی۔ اا ایک مم مِنٹ!" وہ ہِچکیوں سے روتی رُکی۔

کندھے سے لٹک رہے چھوٹے سے بیگ میں سے فون نِکالا اور کُچھ بٹن دبائے۔ پھر سکرین حیدر کی طرف کی۔ حیدر نے فون پکڑا۔ یہ ایک سستا سا لوکل ٹچ موبائل تھا جِس کی سکرین کافی ٹوٹی ہوئی تھی۔ موبائل کی حالت خستہ تھی۔

سکرین پہ سامنے کھڑی لڑکی گود میں ایک سالہ بچّے کو اُٹھائے ہوئے تھی۔ دونوں مُسکرا رہے تھے حیدر نے ایک دفعہ تصویر کو اور ایک دفعہ گود میں موجود بچّے کو دیکھا۔ وہ دونوں ایک ہی تھے۔ پھر اُس نے آگے بھی کئی تصویریں دیکھیں۔ سب تصویروں میں وہ ماں بیٹا ایک دوسرے کے ساتھ ہنستے مُسکراتے نظر آئے۔ اُس نے ایک نظر سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا جو آنسوؤں بھرا چہرہ لیے اُس کی طرف آس سے دیکھ رہی تھی. اُس نے گہرا سانس بھرتے اُس کا فون اُسے واپس لوٹایا۔ اُس کے دِل کو کُچھ چُھبا تھا۔ اِتنی تکلیف تو اُسے ایک بچّے کو چُراتے دیکھ کر نہیں ہوئی تھی جِتنا یہ جان کر کہ وہ شادی شُدہ اور ایک بچّے کی ماں ہے۔

"اِس کے باپ نے کہا ہے کہ چوری کر کے حرام کماؤ اور اپنے ساتھ اِس معصوم کو بھی کِھلاؤ۔" نا چاہتے ہوئے بھی وہ گہرا طنز کر گیا تھا۔ ہاتھوں میں موجود بچّے کو اُس نے سامنے کھڑی لڑکی کو سونپا تو وہ اُسے بے تابی سے چومنے لگی۔ حیدر کی بات سُن کر سامنے کھڑی لڑکی نے شِکوہ کناں نِگاہیں اُس کی طرف اُٹھائیں حیدر کو لگا پہلے جو کسر رہ گئی تھی اِس دفعہ پوری ہو جائے گی۔ سیاہ روشن آنکھوں میں یاسیت، اور دُکھ کے ساتھ شِکوے کے سِتارے جگمگا رہے تھے۔

"جِس طرح سِکّے کے ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں وہیں اِنسان کی ذات کے بھی دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک پہلو اچھائی کا اور ایک پہلو بُرائی کا ہوتا ہے۔ ہر پہلو ایک برابر نہیں ہوتا کبھی اچھائی کا پہلو غالب آ جاتا ہے تو کبھی بُرائی کا۔ دونوں کی وجہ ہی حالات ہوتے ہیں جو اِنسان کو کوئی ایک پہلو اپنانے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایسا میرا ماننا ہے ضروری نہیں کہ آپ بھی میری بات سے اِتفاق کریں۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو صِرف اچھائی پر قائم رہیں۔ میں بھی قائم تھی مگر حالات کے مجبور کرنے پر میں بھی بُرائی کے پہلو کو تھام گئی۔" اُس لڑکی کی باتیں سُن کر کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ وہ کوئی اٹھارہ یا اُنیس سالہ لڑکی ہے۔

"باپ کیا کرتا ہے اِس کا؟" اُس نے ایک نظر حمین کے چہرے کو دیکھ کر پوچھا جو اب اپنی ماں کی گود میں آ کر پُرسکون ہو چُکا تھا۔

"اِس کے بابا نہیں ہیں۔" اُس کا لہجہ پل بھر میں پھر سے بھرّایا تھا۔

"اوہ تو ناجائز ہے یہ!" بے ساختہ حیدر کے منہ سے نِکلا تھا جِس پر وہ جی بھر کر پچھتایا تھا۔ اُس کا ایسا کہنے کا کوئی اِرادہ نہیں تھا۔

"میں تُمہارا منہ نوچ لوں گی۔ جائز ہے یہ۔ خبردار جو آئندہ میرے بچّے کو گالی دی تو۔ مر گیا ہے اِس کا باپ سُنا تُم نے۔" وہ بپھری شیرنی بنی ایک بازو میں حمین کو تھامے دوسرے ہاتھ سے اُس کا منہ نوچنے کے درپے تھی۔ حیدر نے بے ساختہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے روکا مگر وہ تو جیسے مرنے مارنے پر اُتر آئی تھی۔ حیدر کا اِس کم سن لڑکی پر قِسمت کی اِس ستم ظریفی کا سُن کر بے ساختہ نفی میں ہِلا تھا۔ جانے انجانے میں اپنی زُبان کی بے لگامی سے اُسے ہرٹ کر گیا تھا۔

"ایم سوری! میرا یہ کہنے کوِئی اِرادہ نہیں تھا بس اچانک منہ سے نِکل گیا۔ معاف کر دو۔ " حیدر نے معذرت کی۔

"آئیندہ ایسا کہنے کی جُرّات بھی مت کرنا ورنہ مُجھ سے بُرا کوئی نہِیں ہو گا۔ جانے بوا کہاں ہوں گی۔" اُس نے اُنگلی اُٹھا کر اُسے وارن کرتے حمین کا پُرسکون چہرہ دیکھ کر آخری فِقرہ بڑبڑاتے ہوئے کہا اور واپسی کو مُڑنے لگی۔

"بُوا؟ وہ جِس عورت کے پاس یہ بچّہ تھا؟ کیا لگتی ہیں وہ تُمہاری؟" حیدر نے چونک کر پوچھا تھا۔ مطلب وہ عورت اِس کی بُوا تھی اور وہ سمجھا کہ وہ اُس عورت کا بچّہ چُرا رہی ہے۔ آنکھوں دیکھا کبھی کبھی سچ نہیں بھی ہوتا۔ حیدر نے بے ساختہ خُود کو کوسا تھا۔

"میری ماں جیسی ہیں وہ یعنی خالہ! میں اُنہیں بُوا کہتی ہوں اور اب میرے پیچھے آنے کی ضرورت نہیں ہے۔" اُس نے جواب دے کر اپنے قدم اُٹھانے جاری رکھے تھے۔ حیدر اب آہستہ آہستہ اُس کے ساتھ چل رہا تھا۔

"اچھا! ویسے یہ چوری چکاری سے بہتر ہے تُم کوئی کام کر لو۔ کِسی دِن بُری پھنسی تو چھوٹ نہیں پاؤ گی جیل سے۔" حیدر نے کہا تو وہ اِستہزائیہ انداز میں ہنسی۔

"کوئی اور کام کیسے کر لوں؟ صِرف میٹرک کیا ہے میں نے۔ کوئی مُجھے چپڑاسن بھی نا رکھے اور کام کر لوں۔ گئی تھی میں کئی جگہوں پر مگر کِسی نے مُجھے مُلازمہ تک رکھنا بھی پسند نہیں کیا کہ مُجھے کِسی کام کا تجربہ نہیں ہے ہاں مگر میرے جِسم کی مانگ ہر کمپنی کے مالِک نے کی تھی۔" وہ جیسے خُود پر ہی طنزیہ ہنسی۔ حیدر نے بے ساختہ لب بھینچے تھے۔

"ایک کام ہے میرے پاس اگر تُم مان جاؤ تو؟ پھر اِس فرِشتے کو بھی حرام نہیں کھانا پڑے گا۔" حیدر نے نرمی سے حمین کے بالوں پہ ہاتھ پھیرا تو وہ قِلقاریاں مارتا خُوشی کا اِظہار کرنے لگا۔ حیدر کی آنکھیں بے ساختہ ہی مُسکرائیں تھیں۔

"کیسا کام؟" اُس نے جلدی سے پوچھا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ بھی اب گھر سے باہِر نِکلنے سے ڈرنے لگی تھی۔ وہ اپنے بچّے کی حِفاظت کرنا چاہتی تھی اور اگر وہ یُوں ہی گھر سے نِکلتی اور کِسی کی نظروں میں آ جاتی تو اُس کا جِگر گوشہ اُس سے چِھن جاتا اور یہ وہ ہرگِز نہیں چاہتی تھی۔

"کام یہ ہے کہ تُم کِسی کے گھر کام کر لو۔ مطلب کھانا بنانا، صفائی سُتھرائی وغیرہ۔" حیدر نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے کہا۔

"مگر میں یہاں کسی کو نہیں جانتی پھر کِس کے گھر کام کروں؟" وہ اب سڑک پر آ گئے تھے اور اُس جانِب بڑھے تھے جہاں سے وہ بھاگی تھی۔

"ایک گھر ہے میری نظر میں لیکن مسلہ یہ ہے کہ لڑکا گھر میں اکیلا رہتا ہے اور کوئی نہیں اُس کے ساتھ۔ لیکن تُم فِکر مت کرو۔ لڑکے کے کِردار کی گارنٹی میں دیتا ہوں۔ کبھی بھی کُچھ غلط نہیں کرے گا۔" حیدر نے کام بتاتے ساتھ ہی صفائی بھی دی تھی کہ وہ منع نا کر پاتی۔

"کون ہے وہ؟" اُس نے کُچھ سوچ کر پوچھا تھا۔

"حیدر نام ہے اُس کا۔ میں تُمہیں اُس کا پتہ دے دیتا ہوں تُم کل وہاں چلی جانا اور اگر پھر بھی تُمہیں کوئی اِنسکیورٹی ہو تو بے شک اپنی بُوا کو ساتھ لے جانا اور یہ ننھا چیمپئین بھی تُمہارے ساتھ آ سکتا ہے۔" حیدر نے مُسکراہٹ دباتے اُسے کہا تو وہ مشکوک نظروں سے اُسے دیکھنے لگی۔

"ابھی کُچھ دیر پہلے تک میرے دُشمن بنے ہوئے تھے اور اب اچانک سے اِتنی ہمدردی؟ دال میں کُچھ کالا تو نہیں؟" اچانک رُک کر اُس نے مشکوک انداز میں اُس کی طرف دیکھا۔

"تُم بھی تو کُچھ دیر پہلے بھیگی بِلّی بنی ہوئی تھی اور اب واپس سے شیرنی بن گئی ہو میں نے کُچھ پوچھا؟" سوال کے بدلے سوال کیے اب وہ فُرصت سے اُسے دیکھ رہا تھا۔

"مُجھ میں اور تُم میں فرق ہے۔" وہ تڑخ کر بولی تھی۔

"میں یہ صِرف چھوٹے چیمپئین کے لیے کر رہا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ یہ ننھا اور معصوم فرِشتہ چوری کے مال پر پرورش پائے۔ اگر تُم نہیں کرنا چاہتی تو کوئی بات نہیں۔" ایک نظر اُس کے چہرے پر ڈال کر وہ اُس کے قریب ہوا۔ اِس سے پہلے کہ وہ ڈر کر پیچھے ہوتی وہ حمین کے دونوں گالوں پہ پیار کرتا سیدھا ہوا۔ پھر اُس کے سمجھنے سے پہلے اُس کا فون پکڑا جو انلاک تھا۔ اُس کے فون میں اپنا نمبر سیو کر کے اُس نے فون واپس اُسے تھمایا۔

"میں نے اِس میں اپنا نمبر اِنسپکٹر کے نام سے سیو کر دیا ہے اگر کام کرنے کا موڈ بنے تو میسج کر دینا میں تُمہیں اڈریس سینڈ کر دوں گا۔ چلتا ہوں لٹل چیمپ کا خیال رکھنا۔" اُس کا نرم روئی سا گال تھپتھپا کر وہ ایک سِمت کو چل دیا جب کہ وہ کِتنی ہی دیر وہ نرم اور مُحبّت بھرا لمس اپنے گال پہ محسوس کرتی رہ گئی۔ وہ تھوڑی دیر پہلے کا سارا غُصّہ بھول گئی تھی۔ یہ پہلی بار تھا کہ یہاں پر کوئی پہلی بار اُس کی پریشانی کو سمجھ رہا تھا، اُس کے لیے نرم رویہ رکھ رہا تھا۔ وہ دِل ہی دِل میں اُس کی مشکور ہوتی شاپ کی طرف بڑھی۔ دور سے ہی اُسے بُوا بیٹھیں نظر آ گئیں جو پریشان لگ رہی تھیں۔

اُن کے پاس جا کر وہ اصل بات گول کرتی اُنہیں مُطمئن کر کے گھر کے لیے چل دی۔


*********************


جہاں باقی سب کی زِندگیوں میں سکون تھا وہیں نین گُل ہر پل ڈر و خوف میں رہنے لگی تھی۔ ہر پل یہی دھڑکا لگا رہتا کہ کہیں وہ اُس کے گھر نا آ جائے اور اگر اُسے یہاں کوئی دیکھ لیتا تو لوگ کیا کیا باتیں بناتے؟ اعلٰی رُتنے کے حامِل راجپوتوں کے لڑکے کو اگر کئی اُس کے ساتھ دیکھ لیتا تو اُس کا تو کُچھ نہیں جانا تھا مگر نین گُل کی زِندگی خطرے میں پڑ جانی تھی۔ رانا ہاشِم کے قہر سے وہ اچھے سے واقف تھی جو مُلازموں اور کمّی کمین لوگوں کو جوتے کی نوک پر رکھتا تھا۔

رانا عباّس کی آنکھوں میں اُس نے جو دیوانگی اور محبت دیکھی تھی وہ اُسے ہولائے دے رہی تھی۔ اُس کے لہجے کی مضبوطی اُسے ابھی بھی یاد تھی۔ اُس کے الفاظ تو اُسے بھولے ہی نہیں تھے۔ وہ تو حیران تھی کہ پڑھے لِکھے بے اِنتہا ہینڈسم سے رانا عبّاس کو اُس میں کیا نظر آیا جو وہ اُس پر نظرِ کرم کر رہا تھا۔

اُس دِن سے وہ اُس کی دی ہوئی سُرخ نگینے والی انگوٹھی کو چُھپائے پِھر رہی تھی۔ حمود اور نواز علی کے سامنے خُود کو پُرسکون کرنے کی کوشش میں وہ کئی بار گڑبڑاتی کام بِگاڑ چُکی تھی۔ حمود کی گھورتی نظریں اُسے ندامت کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک دیتی تھیں جو سوال کرتی تھیں کہ کیا ہوا ہے؟ مگر وہ چاہ کر بھی اُسے بتا نہیں پائی تھی۔ وہ اُس دِن سے گھر سے باہِر نہیں گئی تھی۔ بکریاں بھی گھر پر ہی ہوتیں اور نواز علی شام کو کھیتوں سے واپسی پر اُن کے لیے ڈھیر سارا چارہ لے آتے۔

اُن کے پوچھنے پر کہ وہ اب خُود بکریوں کو باہِر کیوں نہیں لے جاتی، اُس نے اپنی طبیعت خرابی کا بہانہ کرتے ٹال دیا تھا جِس پر وہ خاموش ہو گئے تھے۔ وہ کیا بتاتی اُنہیں کہ وہ اپنے مالکوں کے لڑکے سے ڈر گئی تھی جو اُسے مُحبّت کے پاٹ پڑھانے کے اِرادے رکھتا تھا۔

اب بھی وہ اپنی چارپائی پر لیٹی گہری سوچوں میں گُم تھی۔ رانا عبّاس کے بارے میں سوچتے سوچتے جانے وہ کہاں نِکل گئی تھی۔ اُس دِن جو اُس نے کہا تھا کہ وہ اُس کے گھر آ جائے گا تو وہ نہیں آیا تھا جہاں ایک طرف نین گُل خُوش تھی کہ وہ نہیں آیا وہیں ایک طرف افسردہ کہ وہ بس دِل لگی کر رہا تھا۔ اُس کی باتوں میں کوئی سچائی نہیں تھی۔ تھی تو وہ ایک کم عُمر لڑکی ہی جو چاہے جانے کے خُواب بُنتی ہے۔ اُنیس سالہ وہ لڑکی کہیں نا کہیں رانا عبّاس کی مُحبّت پر یقین لے آئی تھی۔ مگر دِل میں ڈر تھا جو اِس بات کو زبان پر آنے سے روکتا تھا۔

اُس کے بارے میں سوچتے سوچتے سارے دِن کی تھکی وہ کب نیند کی پُرسکون وادیوں میں اُتری اُسے خبر بھی نا ہوئی۔

نیند بھی ایک انمول نعمت ہے جِس میں گُم ہو کر اِنسان کُچھ پل کے لیے ہی سہی اپنی ہر پریشانی اور غم بھول کر خُوابوں کی دُنیا میں نِکل جاتا ہے جہاں وہ کُچھ بھی کر سکتا ہے جو وہ حقیقی دُنیا میں کرنے کی بس خُواہش ہی کر سکتا ہے۔ نین گُل بھی سُہانے سپنوں میں کھو گئی تھی جہاں رانا عبّاس کوئی راجپوتوں کا ہونہار سپوت نہیں بلکہ اُسی کی طرح ایک کمّی کمین خاندان کا سپوت تھا جو اپنی ہی برادری کی لڑکی نین گُل سے مُحبّت کرتا تھا۔ ہاں نین گُل رانا عبّاس کے سپنے بُننے لگی تھی۔ اگر جو رانا عبّاس جان جائے تو خُوشی سے مر ہی جائے۔


*******************

رات کے سائے گہرے ہو گئے تھے۔ کھانا کھانے کے بعد سب حویلی والے اپنے اپنے کمروں میں گوشہ نشین ہو گئے تھے۔ سارے مُلازم بھی اپنے اپنے کوارٹروں میں جا چُکے تھے۔ ایسے میں ایک وہ تھا جو بے چینی سے اپنے کمرے میں یہاں سے وہاں ٹہل رہا تھا۔ گاؤں کی ایک مُٹیارن کی مُحبّت نے بڑے زور سے اُس کے دِل میں اپنے پنجے گاڑھے تھے کہ وہ اپنا بچاؤ نہیں کر پایا تھا اور اپنا جلتا دِل لیے بے چین سا ہو اٹھا تھا۔

اُس دِن کے بعد دو دِن اُس نے نین گُل کا ڈیرے کے پاس والے ٹیوب ویل کے قریب اُس کا گھنٹوں اِنتظار کیا تھا مگر وہ نہیں آئی تھی۔ وہ اُسی رات اُس کے گھر جا کر اُسے ڈرانا نہیں چاہتا تھا کہ وہ اُس سے خوف کھانے لگتی۔ وہ اُس کا مُنتظِر تھا کہ وہ خُود چل کر اُس سے مِلنے کے لیے آئے۔

وہ اُس کے ڈر و خوف کی وجہ سمجھتا تھا اِسی لیے اب تک صبر سے اُس کا مُنتظِر تھا کہ وہ خُود اپنے قدم اُس کی طرف اُٹھائے مگر اُس کا اِنتظار اور صبر رائیگاں گیا تھا۔ وہ نہیں آئی تھی اور آج صبر کا دامن چھوٹ گیا تھا۔ اُس نے نین گُل کے گھر کا پتہ تو پہلے ہی دِن چلا لیا تھا جو اُس کے لیے کوئی خاص مُشکِل نہیں تھا۔ اُس کا خاص مُلازم کرمو اُس کا رازداں تھا جو اُس کے لیے کُچھ بھی کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتا تھا۔

یکدم ایک فیصلہ کر کے اُس نے چادر کندھوں پر اوڑھی اور کرمو کو فون لگا کر اُسے گیٹ پر رہنے کا حُکم دیا۔ پھر فون کو سائلینٹ کر کے جیب میں رکھتا وہ اِحتیاط سے باہِر نِکلا۔ اِس وقت وہ براؤن کلر کی شلوار قمیض میں ملبوس تھا اور کندھوں پہ سیاہ چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ سیاہ کپڑوں میں وہ رات کا کوئی ساتھی ہی معلوم ہو رہا تھا۔

دبے قدموں سیڑھیاں اُتر کر وہ دبے قدموں حویلی کے وسیع ہال سے گُزرتا اندرونی دروازے تک پہنچا۔ سارا ہال اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا مگر دیوار گیر کِھڑکیوں سے آتی روشنی ہال کو روشنی بخش رہی تھی۔

ایک مُطمئن نظر ہال پر ڈالی اور آہستہ سے دروازہ کھولا۔ باہِر نِکل کر دروازہ بند کیا اور باہِر کی جانِب بڑھا مگر کوئی تھا جو اُسے رات کے اِس پہر چوروں کی طرح نِکلتے دیکھ چُکا تھا۔

حویلی کے بیرونی دروازے پر ہی کرمو کھڑا تھا۔ اُس نے رانا عبّاس کو دہکھ کر جلدی سے گیٹ کھولا۔ رانا عبّاس نے اُسے کُچھ ہدایات میں اور پھر باہِر نِکل گیا۔ حویلی سے نِکل کر وہ پیدل ہی گاؤں میں موجود اُس لڑکی کے گھر کی طرف بڑھا جِس سے وہ مُحبّت کرتا تھا۔

پندرہ مِنٹ بعد وہ ایک کچّی گلی سے گُزرتا ایک گھر کے سامنے جا کھڑا ہوا جو مٹی کا بنا ہوا تھا۔ لکڑی کا دروازہ دیکھ کر وہ کُچھ لمحے سوچتا رہا پھر حتمی فیصلہ کرتا وہ چادر کو اچھے سے کندھوں پر جماتا دیوار کی جانِب بڑھا جو زیادہ اونچی بھی نہیں تھی۔

تھوڑی پیچھے ہو کر وہ تیزی سے بھاگتا دیوار کے پاس پہنچتا تھوڑا اُچھل کے دیوار کے کِناروں پر ہاتھ جما گیا۔ ہاتھ جمتے ہی وہ اُچھل کر اوپر ہوا اور دیوار پر چڑھ گیا۔ سارا گاؤں اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اُس اندھیرے میں کون دیکھ پاتا کہ وہاں کون آیا ہے۔ وہ اوپر بیٹھا اِردگِرد کا جائزہ لینے کے بعد دیوار کی سِمت رُخ کرتا دیوار سے چِپک کر نیچے اُترنے لگا۔ اُس نے چھلانگ نہیں لگائی تھی کہ آواز پیدا ہو گی۔

آرام سے بغیر آواز کیے وہ نیچے اُتر کر سیدھا ہوا اور اپنے کپڑے جھاڑے۔

"سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک پولیس والا ہو کر چوروں جیسی حرکتیں کروں گا۔" منہ ہی منہ میں بڑبڑا کر وہ دھیمے، نپے تلے قدم اُٹھاتا آگے بڑھا جہاں صحن تھا۔ چھوٹے سے صحن کے وسط میں تین چارپائیاں ترتیب سے لگی ہوئیں تھیں. جِن کے آخر میں فرشی پنکھا چل رہا تھا جِس کی کھڑکھڑاہٹ کی آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی اور حیرانی کی بات یہ تھی کہ نیند میں مست سوئے وجودوں میں کوئی ہلچل یا بے چینی نہیں تھی۔ شاید وہ عادی ہو گئے تھے اِس کھڑکھڑاہٹ کی۔ نفی میں سر ہلاتا وہ آگے بڑھا اور پنکھے کے آگے پڑی چارپائی ہر دیکھنے لگا۔ وہ نواز علی تھا نین گُل کا باپ، اُس کی چادر پیٹ تک اوڑھی ہوئی تھی جِس کی وجہ سے چاند کی روشنی میں اُس کا چہرہ دیکھ پایا تھا۔ وہ دبے قدموں آگے بڑھا مگر یہ کیا! آگے پڑی دونوں چارپائیوں پر موجود وجودوں نے چادر کو پیر سے لے کر سر تک اوڑھ رکھا تھا کہ چہرہ دیکھ پانا مُشکِل تھا۔ وہ شش و پنج میں پڑ گیا تھا۔

اُس نے خُدا کا نام لے کر قدم آگے والی چارپائی کی طرف موڑے۔ سرہانے کی طرف جا کر وہ پنجوں کے بل زمین پر بیٹھا یُوں کہ وہ اب بالکُل پاس ہی چارپائی پر سوئے وجود کو دیکھ سکتا تھا۔ اللّٰہ کا نام لے کر اُس نے آہستہ سے چادر اُس وجود کے چہرے سے نیچے کِھسکائی اور تھوڑا جُھک کر مقابل کا چہرہ دیکھا۔ چہرہ دیکھ کر یکدم مُسکرایا تھا. وہ نین گُل تھی جو مزے سے اُس کی نیندیں حرام کر کے خُود سو رہی تھی۔ چاند کی روشنی میں چمکتا اُس کا چہرہ رانا عبّاس کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ کالے نینوں پہ گھنی خمدار پلکیں سایہ فگن تھیں۔

گُلابی لب نیم وا تھے۔ تھوڑی پر تین تِل ابھی بھی موجود تھے۔ اُس نے بے اِختیار اُس کے چہرے سے نظریں چُرائیں۔ اِس لڑکی کے سامنے آتے ہی دِل سرکش گھوڑے کی مانِند دوڑنے لگتا تھا جو ہمک ہمک کر اِس لڑکی قُربت مانگتا تھا۔

اُس نے کھڑے ہوتے جُھک کر نین گُل کو نرمی سے بازوؤں میں اُٹھایا اور سامنے موجود کمرے کی جانِب چل دیا جِس کا دروازہ اُسے کُھلا نظر آیا تھا۔ اُس کمرے کی بتی روشن تھی جِس کی روشنی باہِر صحن کو بھی روشنی دے رہی تھی جو شاید گھر کا اندھیرا کم کرنے کے لیے جلائی گئی تھی۔ نین گُل گہری نیند میں تھی شاید تبھی جاگی نہیں تھی۔ وہ سکون بھرا سانس فضا میں خارِج کرتے کمرے میں داخِل ہوا۔ سامنے ایک سِنگل بیڈ پڑا ہوا تھا جِس کا کراؤن بہت اونچا نہیں تھا۔ دیکھنے سے وہ کافی پُرانے ڈیزائن کا لگتا تھا۔ عموماً ایسے بیڈ کے دو حِصّے ہوتے ہیں جِنہیں جوڑ کر ساتھ رکھنے سے وہ ڈبل بیڈ کی طرح بڑے لگتے ییں مگر ایک بیڈ شاید یہاں نہیں تھا۔ وہ بیڈ بھی شاید نین گُل کی ماں کے جہیز کا تھا۔

اُس نے نرمی سے نین گُل کو سِنگل بیڈ کے درمیان میں لٹایا اور خُود اُٹھ کر آہستہ سے دروازہ بند کیا۔ بیڈ کے قریب پہنچ کر وہ نین گُل کے پہلو میں بیڈ پر سامنے کی طرف بیٹھا کہ نین گُل کا چہرہ اُسے سامنے نظر آئے۔ وہ ابھی بھی ہر چیز سے بے نیاز سونے میں مصروف تھی۔ وہ اُس کی بے خبری پر مُسکرایا اور انگوٹھے سے اُس کا گال سہلانے لگا۔ گہری نِگاہیں اُس کے سراپے کا جائزہ لے رہیں تھیں۔ اُس کا ہوش رُبا حُسن کِسی بھی ذی ہوش کے ہوش ٹھکانے لگانے کی طاقت رکھتا تھا۔ گہری بے باک نِگاہوں کا ہی اثر تھا کہ وہ کُچھ کسمسائی اور چادر کو اوپر کھینچنے کی کوشش کی جو اُس پر سے غائب تھی۔ اُسے اندر لاتے وقت چادر وہیں کہیں گِر گئی تھی۔ نیند کی حالت میں ہی وہ ٹٹولنے لگی مگر چادر کہیں نہیں تھی۔ ماتھے پر بل نمودار ہوئے اور ہاتھ گال پر گیا جہاں کوئی لمس محسوس ہو رہا تھا۔ رانا عبّاس کا ہاتھ ہنوز اُس کے گال پر محوِ حرکت اُس کا گال سہلا رہا تھا۔

نین گُل کا ہاتھ گال تک پہنچا تو رانا عبّاس کے ہاتھ سے جا ٹکرایا۔ اُس کا ہاتھ رانا عباّس کے ہاتھ کی پُشت پر تھا۔ وہ ہاتھ کو ٹٹولنے لگی تھی۔ کُچھ عجیب ہونے کے خیال سے اُس نے نیند میں ہی دوسرا ہاتھ اِستعمال کیا اور دونوں ہاتھوں سے رانا عبّاس کے ہاتھ کو تھام لیا۔ رانا عبّاس کے ہونٹوں پہ شرارتی مُسکراہٹ مچل رہی تھی۔ ہر خوف سے بے نیاز وہ وہاں اپنی ہی سرمستی میں تھا۔ محبوب کی دید ہوتی ہی ایسی شے ہے کہ ہر چیز سے بے نیاز کر دیتی ہے۔

"اور کِتنا اِنتظار کروانے کا اِرادہ ہے اپنے رانا جی کو؟" اُس کے اور قریب ہوتے وہ جُھک کر اُس کے کان میں سرگوشی کی مانِند بولا۔ آواز جذبات کے بوجھ سے بوجھل تھی۔ اُس کی گرم سانسیں نین گُل کے کان سے ٹکرائیں تھیں۔

اپنے کانوں پر کِسی چیز کی چُھبن محسوس کرتے وہ اپنا کان کُھجانے لگی تھی۔ رانا عبّاس کو لگا وہ اپنا قہقہہ ضبط نہیں کر پائے گا۔ وہ ایک بار پھر جُھکا اور اُس کی گُندھی ہوئی چُٹیا کو پکڑ کے آخری سِرا ہاتھوں میں لیا اور اُس کے کان میں گُھسا دیا۔ اب کی بار نین گُل نے زور سے چپت اپنے کان پر رسید کی مگر جاگی نہیں۔ اُس نے ایک اور کوشش کی تو اب کی بار وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی اور وہ جو اُس پر جُھکا ہوا تھا اُس سے ٹکرا گیا۔ نین گُل کا سر اُس کے سر سے ٹکرایا تھا جِس پر اُس کا تو کُچھ نہیں بِگڑا لیکن نین گُل کا سر گھوم گیا تھا۔ اپنا سر تھامتی وہ مُندی آنکھوں سے مقابِل کو دیکھتی حالات سمجھنے کی کوشش میں تھی جب اپنے سامنے بیٹھے شخص کو خُواب سمجھ کر مُخاطِب ہوئی تھی۔

" خُواب میں تو جھیل کِنارے کھڑے تھے اب بیڈ پر بیٹھ گئے؟" وہ بڑبڑا کر کہتی اُس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ گئی جِس پر وہ مُسکرا کر اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں قید کر گیا اور اُس کے سامنے چُٹکی بجائی۔

"خُواب میں نہیں حقیقت میں ہوں میں میری مُٹیارن!" وہ دِلکشی سے مُسکراتا اُسے یقین دِلانے کی خاطِر اُس کی چُٹیا کو اپنے ہاتھ پر لپیٹ کر زرا سا کھینچ گیا۔ وہ سی کر کے اُس کے قریب ہوئی پھر ہوش میں آتی اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں دیکھ کر جھٹکے سے چُھڑانا چاہا جب اُس کی آواز کانوں میں گونجی۔

"کوشش فضول ہے نینا جان! رانا عبّاس ہاشِم نے تھاما ہے یہ ہاتھ۔ اِتنی آسانی سے نہیں چھوٹنے والا۔" وہ اُس کے بے بسی چہرے پر نظریں جمائے گویا ہوا تو وہ اُسے اِتنے قریب دیکھ کر اپنی جگہ جمی رہ گئی۔ تھوک نِگل کر رانا عبّاس کو دیکھا جِس کی نظریں اُس کی گردن میں لٹکے تعویذ پر جمیں تھیں۔

"رر رانا جی! آپ یی یہاں سس سے جج جائیں۔ کک کِسی نے دیکھ لل لیا تت تو کک کیا سوچے گا؟" نین گُل نے خوف سے کانپتی آواز میں کہا۔ اُسے تو اب محسوس ہوا تھا کہ وہ باہِر چارپائی پر بلکہ کمرے میں تھی۔

"میرا دِل تُمہارے اِن تین تِلوں کے بعد اِس تعویذ میں آن اٹکا ہے۔ کیا یہ وہی تعویذ ہے جِس کے ذریعے میرا دِل چُرایا ہے؟" اُس کی بات کو نظر انداز کرتے عباّس نے اپنی کہی تھی۔

"رر رانا جی! مُجھے معاف کک کر دیں مم مگر یہاں سے جائیں۔ ابّا اُٹھ گیا تو مم میں کیا کہوں گی؟" اُس نے ایک بار پھر اِلتجا کی تھی۔ بس رونے کی کسر رہ گئی تھی۔

"تُمہیں پتہ ہے تُم سوتے ہوئے زیادہ معصوم لگتی ہو. مگر جب بولتی ہو تو دِل میں گھنٹیاں بجا دیتی ہو۔" رانا عبّاس نے اُس کی چُٹیا کو چھوڑا اور ایک بار پھر اُس کی بات کو نظر انداز کیا۔ نین گُل کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ ایک پچیس چھبیس سالہ مرد رات کے اِس پہر اُس کے کمرے میں تھا کوئی بھی دیکھتا تو کیا سوچتا؟ یہ سوچ ہی اُس کی جان نِکال رہی تھی۔ وہ تو آج ُپرسکون ہو کر سوئی تھی کہ رانا عبّاس اُسے بھول گیا۔ مگر اُس کی ساری خُوش گُمانی غلط ثابت ہوئی تھی۔

"رانا جج جی! مم میری عزّت میرے باپ کی عِزّت ہے۔ میں رُسوا نن نہیں ہونا چاہتی۔ اللّٰہ کا واسطہ ہے چچ چلے جج جائیں۔" اب کی بار وہ روتی ہوئی اُس کے آگے ہاتھ جوڑ گئی تو وہ سیدھا ہوتا اُس کے ہاتھ تھام گیا

"مُجھے تُمہاری عِزّت خُود سے زیادہ عزیز ہے۔ میں نے تُم سے کہا تھا کہ مُجھ سے مِلنے آنا۔ تُم نہیں آئی اِس لیے میں آ گیا۔" اُس نے نین گُل کے ہاتھ کھولے تو وہ اُس کی طرف دیکھنے لگی۔

"دد دیکھیں رانا جی! ہہ ہم مم میں کک کوئی برابری نن نہیں اا اور نا ہی کوئی رِشتہ۔ مم میں کیسے آپ سس سے مِلنے آ جاتی؟" نین گُل نے روتے ہوئے پوچھا تو وہ اُس کے آنسوؤں کو بے بسی سے دیکھنے لگا۔

"میں مُحبّت کرتا ہوں تُم سے۔ شادی کرنا چاہتا ہوں۔ تُم ہاں تو کرو میں رِشتہ لاؤں گا تُمہارے لیے۔" وہ جلدی سے بولا تو نین گُل نے اُسے یُوں دیکھا جیسے وہ پاگل ہو گیا ہو۔

" مُحبّت نہیں ہے آپ کو۔ آپ جیسے امیر زادوں کو کبھی کِسی سے مُحبّت نہیں ہو سکتی۔ لڑکی ہوں نا اِس لیے میرے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں۔ اپنی ہوس کو مُحبّت کا نام دے کر مُحبّت کی توہین نا کریں۔" وہ ایک دم پھٹ پڑی تھی۔ وہ شہزادوں جیسا شخص کِسی بھی لڑکی کا خُواب ہو سکتا تھا۔ وہ بھی خُواب بُن لیتی اگر وہ اُس کے ہم پلّہ ہوتی۔

اچھی طرح اپنے اور اُس کے فرق کو جانتی تھی پھر کیسے اُس کی بات مانتی۔ خُوف سے اُس کی جان نِکل رہی تھی اور وہ مُحبّت کا راگ الاپ رہا تھا۔ مُحبّت عِزّت سے زیادہ اہم تو نہیں ہوتی۔

وہ تو بول کر چُپ ہو گئی تھی جب کہ رانا عبّاس کی آنکھوں نے خُون

چھلکایا تھا۔ انا نے جوش مارا تھا تو مُحبّت کے دِل پہ ہاتھ جا پڑا تھا اور وہ سکون سے اُس کی مُحبّت کو ہوس کا نام دے رہی تھی۔

"مُجھے جو مرضی کہہ لو اُف بھی نہیں کروں گا لیکن اگر میری مُحبّت پر ہوس نام کا دھبہ لگانے کی کوشش کی تو اپنی اور تُمہاری جان ایک کر دوں گا۔" اُسے بالوں سے دبوچے وہ اُس کے چہرے پر جُھکتا غُرایا تھا۔ نین گُل کے حلق سے کراہ نِکلی تھی۔ سر میں تکلیف ہو رہی تھی رانا عبّاس کی گرفت اِتنی ہی سخت تھی۔ چہرے پہ پڑتی تپتی سانسیں اُس کا سانس خُشک کر گئیں تھیں۔

"ہوس ہوتی تو اُس دِن برستی بارِش میں جو مرضی کر لیتا تُمہارے ساتھ۔ کون تھا جو مُجھے روک پاتا؟ ہوس ہوتی تو تُم سے مُحبّت کا اِظہار نہیں کرتا بلکہ اُٹھا کر لے جاتا اور کِسی کو نام و نِشان بھی نا مِلتا کِسی نین گُل کا۔ میری نرمی کا ناجائز فائدہ مت اُٹھاؤ نین گُل! اگر میں سختی کرنے پر آیا تو پناہ مانگو گی مگر پناہ بھی صِرف رانا عبّاس میں ہی مِلے گی۔" اُس کے چہرے پر جُھکا وہ دبا دبا سا دھاڑ رہا تھا اور وہ بے بسی سے اُس کو دیکھ رہی تھی۔

"سچ کہہ رہا ہوں۔ بہت مُحبّت کرتا ہوں تُم سے۔ اِتنی کہ تُمہاری اِتنی بدتمیزی پر بھی تُمہیں دو چماٹیں نہیں ماری ورنہ اب تک بے ہوش ہوئی ہوتی۔ ویسے کیا پیارا نہیں ہوں میں؟" اُس کی روئی روئی آنکھوں میں دیکھتا وہ نرم پڑتا نرمی سے پوچھنے لگا۔ آنکھوں میں شرارت کا عنصر واضح تھا۔

"پیارے ہیں۔" سہم کر جواب دیا۔

"کیا ہینڈسم نہیں ہوں؟" تھوڑی تلے دو اُنگلیاں رکھے اُس کی سیاہ نم آنکھوں میں جھانکا۔

"بہت ہہ ہینڈسم ہیں۔" پلکیں جھپک کر جواب دیا۔

"موٹا ہوں؟ توند ہے میری؟" ایک بار پھر سوال کیا۔

"نہیں۔" بے چارگی بھرا انداز تھا۔

"کِس چیز کی کمی ہے مُجھ میں؟" بے بسی سے پوچھا تھا۔

"کمی مُجھ میں ہے میں آپ کے لائق نہیں۔" بھراّئے لہجے میں جواب دیا تو وہ اُسے سنجیدگی سے دیکھنے لگا۔

"میری ذات کو مُکمّل کرنے والی تُم پہلی اور آخری لڑکی ہو گی۔ تُم میری ہی زوجہ بنو گی کیونکہ تُمہیں میری ہی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔ تُم مُجھ سے مِلنے نہیں آئی نا؟ اب مُستقِل تُم سے مُلاقاتوں کا اِنتظام کر لیا ہے میں نے۔ اب روز بغیر تُمہارے گھر آئے تُمہارا چہرہ دیکھوں گا۔" رانا عبّاس اُٹھ کھڑا ہوا جب کہ اُس کے طِلسم بھرے لفظوں میں کھوئی آخر میں وہ سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھنے لگی۔

"یہ کل پتہ چل جائے گا تُمہیں۔ رو رو کر خُود کو ہلکان مت کرنا اور ہاں آج تو کوئی سزا نہیں دی مگر جب مُکمّل طور پر میری ہو جاؤ گی نا تو سزا دوں گا۔ ایسے مت دیکھو ورنہ پیار ہو جائے گا۔" اُس کی طرف ہلکا سا جُھک کر اُس کے تعویذ کو اُنگلی سے چھوتا وہ برق رفتاری سے سیدھا ہوا اور کمرے سے نِکل گیا۔

پیچھے وہ سانس روکے اُس کی حرکت پر ساکن بیٹھی رہ گئی۔ وہ جانتی تھی وہ سچ کہہ رہا تھا اُس کے ایک ایک حرف پر اُسے یقین تھا لیکن وہ کیسے اُس کی مُحبّت قبول کر لیتی یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اُن کے ہم پلہ ہے نا ہی اُس کے جیسی شاندار۔

وہ چاہ کر بھی اُس کی مُحبّت کا جواب مُحبّت سے نہیں دے سکتی تھی۔ اِقرار کر کے وہ اپنی اور اپنے گھر والوں کو مُشکِل میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ اِس لیے اُس نے اپنے دِل پر پتھر رکھ کر اُسے سخت سُست سُنائیں تھیں۔ آنسو پونچھ کر وہ اُٹھی اور تعویذ کو تھامتی باہِر نِکل گئی۔


********************


جِس دِن سے وہ رانا جعفر کے ساتھ شہر سے ہو کر واپس آئی تھی اُس دِن سے وہ رانا حعفر کے سامنے جانے سے گُریزاں تھی۔ جہاں وہ رانا جعفر کو لائن پر لانے کے مُختلف منصوبے بنانے لگی تھی وہیں اُس کا دِل بے چین ہو اُٹھتا تھا یہ سوچ سوچ کر کہ اُس کا منکوح اپنی منکوحہ کے عِلاوہ کِسی اور کی سوچوں سے دِل کو مُعطّر رکھتا ہے۔ وہ اِس وقت حویلی کے وسیع و عریض ہال میں بیٹھی اپنے ہاتھ میں فریم پکڑے کڑھائی کر رہی تھی۔

پاس ہی سب حویلی والے بیٹھے باتیں کر رہے تھے اور ساتھ میں دُرّے کے لیے زیور نِکال کر دیھ رہے تھے۔ ایک طرف دُرِ شہوار بیٹھی پڑھ رہی تھی۔ دُرّ فشاں بھی دِل میں سوچوں کے جال بُنتی بظاہر پُرسکون بیٹھی تھی جب اُس کے سر کا سائیں تھکا تھکا سا اندرونی دروازے سے اندر آتا دِکھائی دیا۔ اُس نے زرا کی زرا نِگاہ اُٹھا کر اُسے دیکھا اور واپس اپنے کام میں مصروف ہو گئی مگر ایک ہی نِگاہ میں وہ اُس کا جائزہ لے چُکی تھی۔

ہلکے سُرمئی رنگ کا کاٹن کا سوٹ جِس پر اب کُچھ سِلوٹیں نُمایاں تھیں، زیب تن کیے وہ اپنی پُر کشش شخصیت کے ساتھ ایک بار پھر دُرّفشاں کے دِل کے تار چھیڑ گیا تھا لیکن اُس نے دِل کے ساتھ ساتھ رانا جعفر کو بھی نظر انداز کیا تھا۔ جِسے وہ اچھے سے محسوس کر گیا تھا مگر اُسے زرا سا بھی فرق نہیں پڑتا تھا۔


*******************

"نوری! ایک کپ چائے میرے کمرے میں پہنچاؤ۔" رانا جعفر نے وہیں کھڑے کھڑے نوری کو آواز لگائی اور کمرے کی طرف بڑھنے لگا جب سعدیہ بیگم کی آواز پر رُکا۔

"جعفر! یہاں آؤ بیٹا! اور بتاؤ تُُمہارے دُلہن کے لیے کون سے زیور رکھوائیں؟" سعدیہ بیگم نے کپچھ ڈِبّے اپنے پاس کِھسکاتے کہا تو جعفر جاتے جاتے رُکا۔

"امّاں سائیں! یہ زیور میں نے نہیں آپ کی بہو نے پہننے ہیں اور وہ آپ کے پاس ہی بیٹھی ہے اُسی سے پوچھ لیں۔ میں بہت تھک گیا ہوں۔" دوٹوک مگر نرم انداز میں سعدیہ بیگم کو جواب دے کر وہ ایک سخت نِگاہ بے نیاز بنی بیٹھی، اپنے کام میں مصروف دُرّفشاں پر ڈالتا سیڑھیوں کی جانِب بڑھ گیا۔

"یہ لڑکا بھی نا پتہ نہیں کب سُدھرے گا۔ خیر دُرّے! تُم بھی ایک بار سارے زیور دیکھ لو۔" سعدیہ بیگم نے تاسف سے سر ہلاتے ہوئے دُرفشاں سے کہا۔

"آپ نے جو میرے لیے پسند کیے ہیں وہیں میں پہن لوں گی تائی سا!" اُس نے نرمی سے نِگاہیں اُن کی طرف کر کے جواب دیا تو وہ اُسے ڈھیروں دُعائیں دیتیں پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گئیں۔

"ویسے اماں سائیں! یہ ویر سائیں اِتنے کڑوے کیوں ہیں؟ ہمارے گھر بابا سائیں کے بعد وہی اِتنے سخت مزاج ہیں۔" دُرّ شہوار نے منہ بسورا تو وہ مُسکرا دیں۔

"اپنے بابا پر چلا گیا اِس لیے۔" حلیمہ بیگم نے ناک چڑھا کر کہا تھا جِس پر باقی کِسی نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ تبھی نوری چائے لے کر آ گئی اور سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگی۔

"رُکو نوری! دُرّے چلو جاؤ اپنے سائیں کو چائے دے کر آؤ۔" حلیمہ بیگم نے کہا تو اُس نے بے چارگی سے اُنہیں دیکھا وہ ہرگِز بھی رانا جعفر کے سامنے جانا نہیں چاہتی تھی۔ مگر پھر حلیمہ بیگم کی گھوریوں پہ اُٹھی اور نوری سے ٹرے پکڑ کر سیڑھیوں کی جانِب چل دیں۔ پیچھے حلیمہ بیگم بی گُل کو کھانے کی تیاری کرنے کا کہنے لگیں۔

وہ سیڑھیاں چڑھ کر اُس کے کمرے تک پہنچی۔ دروازہ ہلکا سے کُھلا ہوا تھا۔ وہ تھوڑا اور کھول کر اندر داخِل ہوئی تو وہ سامنے ہی کِھڑکی کے قریب کھڑا فون پر محوِ گُفتگو تھا۔

"یار تاشی! کُچھ دِنوں کی بات ہے جانِ من! پھر تُم اِس حویلی میں ہو گی۔ میری خاطِر یہ کڑوا گھونٹ نہیں بھر سکتی؟" وہ فون پہ موجود نتاشہ سے بات کر رہا تھا۔ دُرّے شہوار کا حلق تک کڑوا ہوا۔

"وعدہ کرتا ہوں اُسے چھوؤں گا بھی نہیں۔ تُمہارا حق کِسی اور کو نہیں دوں گا۔ تُمہی میرا سب کُچھ ہو۔ اچھا اب رونا تو بند کرو۔" وہ دوسری طرف موجود نتاشہ کو تسلیاں دیتا پُچکار رہا تھا۔ اِس سے زیادہ وہ رانا جعفر کو اُس کے سامنے جُھکتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اپنی بیوی کو تو نرمی سے مُخاطِب نہیں کرتا تھا یہ شخص اور کِسی غیر لڑکی کے آگے کیسے بِچھا جا رہا تھا۔ بس پاؤں پکڑنے کی کسر رہ گئی تھی۔ دُرّے کو اپنا آپ گھر کی مُرغی دال برابر جیسا لگ رہا تھا۔

اُس نے جلدی سے دروازہ ناک کرتے رانا جعفر کو متوجّہ کیا۔ تو وہ چونک کر پلٹا۔ دروازے میں کھڑی دُرّفشاں کو دیکھ کر جلدی سے نتاشہ کو اللّٰہ حافِظ کہتا اُس تک آیا۔ اُسے اندر کھینچ کر دروازہ بند کیا۔ دُرّے کے ہاتھ میں موجود ٹرے میں رکھے کپ سے چائے تھوڑی سی چُھلکی تھی جو دُرّے کے ہاتھ پہ گِرتی اُسے جلا گئی تھی۔ وہ دبی دبی آواز میں چیخی تھی اس سے پہلے کے ٹرے ہاتھ سے چھوٹ جاتی اُس نے پاس پڑی ٹیبل پر ٹرے کو رکھا اور تیزی سے بغیر رانا جعفر کی اِجازت لیے باتھ روم میں گُھس گئی۔ بھوری آنکھوں سے آنسو گِرتے اُس کے چہرے کو بھگو ریے تھے۔ لب بھینچے ہوئے تھے اور دائیں گال پہ موجود گہرا گڑھا کُچھ اُداس نظر آتا تھا۔ ٹھنڈے پانی کے نیچے ہاتھ رکھے وہ جلن کو کم کر رہی تھی۔ پانچ مِنٹ بعد وہ ہاتھ اور منہ صاف کر کے واپس آئی تو رانا جعفر سکون سے بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ اُس کے ہاتھ کے ساتھ ساتھ دِل میں بھی جلن ہونے لگی تھی۔

"دوسروں کی باتیں چُھپ کر سُننے کی سزا مِلی ہے تُمہیں۔" رانا جعفر کی آواز پر اُس کے دروازے کی طرف بڑھتے قدم تھمے تھے اور وہ اُس کی طرف پلٹی۔

"وہ دوسرا میرا شوہر ہے۔" اُس نے جتایا تو وہ تمسخرانہ ہنسی ہنسا۔

"اور اُس شوہر کی تُم ان چاہی بیوی ہو۔" رانا جعفر کے الفاظ تیر کی طرح اُس کے دِل میں جا گڑے تھے۔

"بار بار یہ جتا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟" اُس نے اذیّت بھرے دِل سے پوچھ ہی لیا تھا۔

"یہی کہ تُم مُجھ سے دور رہا کرو۔" وہ اُس کے بڑی سی سیاہ چادر میں چُھپے وجود کو دیکھ کر بولا تھا۔ وہ ہمہ وقت چادر اوڑھے رکھتی تھی جِس کی وجہ سے اُس کے وجود کی ہیئت جاننا کافی مُشکِل تھا۔ رانا جعفر کبھی اُسے ننگے سر نہیں دیکھا تھا نا ہی کبھی اُس کے بال دیکھے تھے۔ وہ اُس کے لیے بند کلی کی طرح تھی ان دیکھی ان چھوئی۔

"میں آپ کے قریب آئی ہی کب ہوں؟ وعدہ کر چُکی ہوں کہ کبھی آپ سے اپنا حق نہیں مانگوں گی۔ مُجھے صِرف ایک چیز سے نفرت ہے اور وہ ہے شراکت اور میں شراکت بالکُل برداشت نہیں کر سکتی۔ آپ نے میرے شوہر ہوتے ہوئے کِسی اور سے تعلُقات رکھ کر ہمارے رِشتے میں شرک کیا ہے۔ آپ سے اب کُچھ نہیں چاہتی میں نا ہی آپ سے مُحبّت ہے مُجھے۔ ایک بٹے ہوئے شخص سے میں ہرگِز بھی مُحبّت نہیں کر سکتی۔ رانا جعفر نتاشہ کو مُبارِک ہو۔" سپاٹ چہرے سے اُس کی طرف دیکھتی وہ بغیر اُس کے جواب کا اِنتظار کیے ہاتھ سہلاتی باہِر نِکل گئی اور وہ پیچھے اُس کے لفظوں پر غور کرتا رہ گیا۔

پہلے کی نِسبت آج دُرّفشاں کا انداز اور لہجہ دونوں ہی تلخ تھے۔ وہ جو رانا جعفر کی ایک نظر کو ترستی تھی اب مُڑ کر بھی نہیں دیکھتی تھی۔ کُچھ تھا جو رانا جعفر کو بُرا لگا تھا مگر وہ سمجھ نہیں پایا تھا اور ابھی اُس کے سمجھنے کا وقت بھی نہیں آیا تھا۔


*********************


بُوا کو خُدا حافِظ کہتی وہ جلدی جلدی تیار ہوتی گھر سے نِکل گئی تھی۔ اُس نے حمین کو بُوا کے پاس ہی چھوڑ دیا تھا کہ آج کون سا وہاں رہنا تھا۔ کندھے پہ کلچ لٹکائے سر کو حِجاب سے ڈھانپے اور چہرے کو نقاب میں چُھپائے وہ گھر سے باہر نِکلی تھی۔ ٹیکسی رُکوا کے وہ اُسے مطلوبہ پتہ بتاتے سکون سے بیٹھی گُزرے نظارے دیکھنے لگی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ زِندگی اُسے کہاں لیے جا رہی یے بس جِس طرف کو قِسمت کا موڑ مُڑتا وہ بغیر سوال کیے اُسی طرف کو مُڑ جاتی۔

اُسے اپنی نہیں اپنے بچّے کی پرواہ تھی جِس کی پرورش اُسے اکیلے ہی کرنی تھی اور اگر اُس کا مُستقِل کام لگ جاتا تو سارے مسائل ہی حل ہو جاتے۔ وہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ اپنے بچّے کو حرام کِھلائے لیکن کام نا مِلنے کی وجہ سے وہ چوری جیسے غلط کام میں ملوّث ہو گئی تھی لیکن اُس کی معصوم شکل کو دیکھ کر کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ وہ ایک چورنی ہے۔

اپنی سوچوں میں گُم اُسے راستہ گُزرنے کا پتہ بھی نہیں چلا۔ ٹیکسی رُکی تو وہ اپنی سوچوں سے باہِر آئی۔ وہ ایک بڑی سی بِلڈنگ کے سامنے کھڑی تھی۔ وہ ٹیکسی والے کو کرایہ دے کر باہِر نِکلی اور بِلڈنگ کے اندر داخِل ہوئی۔ اندر جا کر وہ موبائل نِکال کر دیکھنے لگی۔ اُس نے اُس اِنسپکٹر کو نہیں بتایا تھا کہ وہ آج وہاں کام کے لیے جائے گی جہاں کا اڈریس اُسے نے دیا تھا۔ موبائل پر فلور نمبر اور فلیٹ نمبر دیکھ کر وہ لِفٹ میں داخِل ہوئی۔ تیسرے فلور پر جا کر وہ رُکی اور ایک جانِب بنے دروازے کی طرف آئی۔ سامنے ہی فلیٹ نمبر 13 لِکھا ہوا تھا۔ وہ کُچھ دیر اُس نمبر کو گھورتی رہی پھر گہرا سانس بھر کر وہ بیل بجانے لگی۔ پانچ مِنٹ دس مِنٹ پھر پندرہ مِنٹ گُزر گئے مگر دروازہ نہیں کُھلا۔ کوفت سے اُس کا بُرا حال تھا۔ جھنجھلا کر اُس نے بیل پر ہاتھ رکھا اور ہٹانا بھول گئی۔ نقاب ہٹا کر وہ مسلسل بیل بجائے جا رہی تھی

اگلے دو مِنٹوں میں دروازہ کُھلا مگر مقابل کو دیکھتے وہ بھونچکی رہ گئی۔ کُچھ ایسا ہی حال سامنے والے کا بھی تھا۔

"تُم! دونوں کے منہ سے بیک وقت یہی نِکلا تھا۔ اُس نے حیرت سے باہِر نِکلتے سامنے والے کا بغور جائزہ لیا۔ بِکھرے گھونسلے جیسے بال، جِسے اُس نے ہمیشہ نفاست سے سُلجھے ہوئے ہی دیکھا تھا، کاٹن کے ٹراوزر پر بنیان پہنے، ٹراؤزر کا ایک پائینچا گُھٹنے تک مُڑا ہوا تھا، مُندھی مُندھی آنکھیں، سویا سویا چہرہ، اور کُھلے منہ کے ساتھ وہ اُسے پہلے والا اِنسپکٹر تو کہیں سے نہیں لگا۔

بے ساختہ ہی اُس کی ہنسی چھوٹی تھی۔ حیدر کا کُھلا منہ ابھی تک بند نہیں ہوا تھا۔ ہنستے ہنستے اُس کی آنکھوں میں پانی آنے لگا تھا۔ ایک ہاتھ پیٹ پر اور دوسرا دیوار پر ٹکائے وہ ہر فِکر سے آزاد آج کِتنے عرصے بعد کُھل کر ہنس ریی تھی۔

حیدر جو پہلے حیرت سے منہ کھولے ہوئے تھا اب مبہوت سا اپنے سامنے کھڑی اُس ڈیول کوئین کو کِھلکِھلاتے ہوئے دیکھ رہا تھا جِس کی ہنسی اِتنی پیاری تھی کہ وہ اُسے یُوں ہی ہنستے دیکھنا چاہتا تھا۔ اُس کی محویت نوٹ کر کے اُس نے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھتے ہنسی روکنے کی کوشش کی تھی ِجِس میں وہ کامیاب بھی ہوئی تھی۔ اب وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ اُس کے سامنے یُوں کھڑی تھی جیسے کبھی ہنسی ہی نا ہو۔

"ہنستی رہا کرو۔ اچھی لگتی ہو۔" ایک ہاتھ سے بال سُلجھاتے وہ گویا ہوا تھا۔

"ٹھرک کم جھاڑا کرو اور یہ بتاؤ تُم یہاں کیا کر رہے ہو؟" لاپرواہی سے سر جھٹکتے اُس نے سوال گاڑھا۔

"میری چھوڑو تُم یہاں کیا کر رہی ہو؟" حیدر نے تیکھے چتونوں سے پوچھا۔

"پہلے میں نے پوچھا ہے اِس لیے پہلے تُم بتاؤ۔" اُس نے بھی شانِ بے نیازی سے کہا تھا۔

"میں پولیس والا ہوں پہلے میرا حق ہے۔ تُم بتاؤ۔" حیدر نے دانت پیسے تھے۔

"پولیس والے کا حق گیا بھاڑ میں۔ ویسے بھی لیڈیز فرسٹ اِس لیے پہلے تُم بتاؤ۔" لڑاکا عورتوں کی طرح کمر پر ہاتھ ٹکائے وہ خُونخوار تاثرات لیے اُنگلی اُٹھا کر بولی۔

"ایک پولیس والے کے گھر میں کھڑی ہو کر، ایک پولیس والے کو حقوق سمجھا رہی ہو۔ شرم کرو زرا۔" وہ سر جھلّا کر بولا تھا جب کہ وہ اب غُصّے سے اُسے گھور رہی تھی۔

"تُم نے ہی مُجھے اڈریس دیا تھا یہاں کا کہ یہاں کام ہے کرنے کو۔ اِسی لیے میں چلی آئی۔ پتہ ہوتا کہ یہ تُمہارے جیسے سڑے ہوئے بندے کا فلیٹ ہے تو کبھی نا آتی۔" وہ تیکھے پن سے کہتی چھوٹی سی ناک چڑھا کر کہتی واپس مُڑی جب بے ساختہ حیدر نے اُسے بازو سے تھام کر روکا جِس پر وہ واپس مُڑی ایک جھٹکے سے اُس سے اپنا نازو چُھڑوا گئی۔

"ہمّت بھی مت کرنا آئیندہ۔" وہ وارننگ دینے والے انداز میں بولی۔ اِشارہ بازو پکڑنے کی طرف تھا۔

"اچھا سوری! اندر تو آؤ۔" حیدر نے دونوں ہاتھ اُٹھا کر مُفاہمانہ انداز میں کہا تو وہ مشکوک انداز میں یہاں وہاں دیکھتی اندر آئی۔ فلیٹ بہت بڑا تھا نا چھوٹا۔ نفاست سے سیٹ کیا گیا یہ فلیٹ اُسے پسند آیا تھا۔ سامنے دو کمرے تھے جِن کے ایک طرف اوپن کِچن تھا تو دوسری طرف الگ سے ایل ای ڈی ایریا بنایا ہوا تھا۔ ایل ای ڈی کے سامنے صوفے سیٹ کیے گِے تھے۔ چھوٹے سے ہال کے بیچ میں بھی صوفے رکھے ہوئے تھے جِن کے درمیان میں شیشے کا ٹیبل پڑا ہوا تھا۔ جگہ جگہ شوپیس سجے ہوئے تھے جِس سے فلیٹ کی خُوبصورتی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ بے ساختہ ہی وہ حیدر کے ذوق کی قائل ہوئی تھی.

"کیسا لگا؟" اُسے اِشتیاق سے فلیٹ کا جائزہ لیتا دیکھ کر وہ پوچھ بیٹھا۔

"میں یہاں کون سا رہنے آئی ہوں جو میرے پسند نا پسند کرنے کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ تُم بتاؤ یہ سب کیا تھا۔" اُس نے بے نیازی سے کہتے حیدر کو دیکھا تو وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا. واقعی ڈیول کوئین تھی یہ لڑکی۔

" دیکھو تُمہیں کام چاہیے اور مُجھے کام والی! تُم یہاں میرے فلیٹ کا کام کر دیا کرو وہی جو ہوتا ہے، کھانا بنانا، برتن دھونا، صفائی سُتھرائی، کپڑے دھونا وغیرہ۔ بدلے میں میں تُمہیں تنخواہ دیا کروں گا۔ تُمہارا بھی فائدہ اور میرا بھی۔" حیدر نے کہا تو وہ اُسے گھورنے لگی۔

"تُم نے جھوٹ کیوں بولا تھا کہ یہ کِسی کا گھر ہے؟" اُس نے ابرو اُچکا کر کہا تو وہ مُسکرایا۔

"میں نے کب کہا کہ کِسی کا گھر ہے؟ میں نے کہا تھا کہ ایک گھر ہے وہاں کام کرنا ہو تو آجانا۔" حیدر نے کندھے اُچکائے تو وہ گہرا سانس بھر کر رہ گئی۔

"اچھا بتاؤ منظور؟" حیدر نے پوچھا تو وہ سوچ میں پڑ گئی۔ کام تو وہ سارے ہی کر لیتی تھی لیکن یُوں ایک انجان مرد کے گھر میں وہ بھی تب جب وہ اکیلا رہتا ہو؟ اُسے کُچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

"سوچنا بھی مت۔" حیدر کی آواز پر وہ چونک کر اُسے دیکھنے لگی۔

"کیا؟" نا سمجھی سے پوچھا۔

"اِتنی دیر سے میرے اِتنے قیمتی واز کو دیکھ رہی ہو سوچنا بھی مت اِسے چُرانے کا۔ بلکہ میں آج ہی سی سی ٹی وی کیمرے لگواتا ہوں گھر میں۔" حیدر کی بات پہ اُس کا دِل کیا کہ اُس کا سر دیوار میں دے مارے۔ ارے بھئی اپنا کیوں؟ مُفت کا تو نہیں تھا۔

"اِتنی ہی بے اعتباری ہے تو رکھ لو کوئی اور کام والی! میں کوئی عادی چورنی تھوڑی ہوں۔ رہو اکیلے کام کرتے مُجھے بخشو۔" وہ ناک چڑھا کر گویا ہوتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

"اچھا سوری! پولیس والا ہوں شک کرنا عادت ہے۔" وہ جلدی سے بولا تو وہ اُسے گھور کر رہ گئی۔

"تو بتاؤ کام کرو گی یہاں؟" حیدر نے پھر پوچھا۔

"تُم اکیلے رہتے ہو یہاں۔ مم میں کیسے؟" وہ اُس کی اُلجھن سمجھ کر مُسکرایا۔

"مُحافظ ہوں لُٹیرا نہیں۔ اگر تُمہیں پھر بھی اِنسکیورٹی ہے تو اپنی بُوا اور ننھے سپاہی کو لے آیا کرنا ساتھ۔" اُس نے کہا تو وہ سکون محسوس کرتی مُسکرائی۔

"ٹھیک ہے اِس کے عِلاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔" اُس نے کہا تو حیدر نے آنکھیں گُھمائیں۔

"یہ کیا تُم نے تُم تُم لگائی ہوئی ہے ؟ سات آٹھ سال بڑا ہوں میں تُم سے۔ آپ کہا کرو مُجھے۔" حیدر نے اُسے آنکھیں دِکھائیں تو اُس نے سیاہ آنکھیں سکوڑ کر اُسے دیکھا۔

"مُجھ سے یہ آپ آپ کا ٹنٹا نہیں سنبھالا جاتا۔ اپنا نام بتا دو وہی لے لیا کروں گی۔" اُس نے لاپرواہی سے کہا تو وہ کڑھ کر رہ گیا۔ کہاں وہ اُسے سیدھا کرنے چلا تھا اور کہاں وہ اُسے ہی ٹیڑھا کر رہی تھی۔

"حیدر نام ہے میرا! ویسے تُمہارا نام کیا ہے؟" حیدر کو یاد آیا اُس نے اُس کا نام تو پوچھا ہی نہیں تھا۔

"وہ جاننا تُمہارے لیے ضروری نہیں ہے۔ لیکن اگر تُمہیں مُجھے مُخاطب کرنا ہو تو بہن جی کہہ لیا کرو۔" اُس کی بات پہ حیدر کو بے ساختہ کھانسی آئی۔ جِسے منہ پر ہاتھ رکھ کر روکتا وہ اُسے دیکھنے لگا جو اُس کے فلیٹ کو دیکھ رہی تھی۔

"کبھی کسی کو بہن جی نہیں کہا کیا؟ یا ہر کِسی پر ٹھرک ہی جھاڑتے ہو؟" اُس نے ابرو اُچکائے پوچھا تھا۔

"تُم پوری ڈیول کوئین ہو اور میں تُمہیں یہی کہا کروں گا۔ اب بیٹھی کیا ہو؟ صفائی کرنا شروع ہو جاؤ۔" حیدر نے اُس کی دوسری بات نظرانداز کر کے منہ بسور کر کہا تو وہ نفی میں سر ہلا کر رہ گئی۔ کہاں سے یہ اِنسپکٹر لگتا تھا۔ ایک دم بچّوں والا رویہ اور حرکتیں تھیں اِس کی۔

"کل سے آیا کروں گی کام پر اور تخواہ مُجھے پورے تیس ہزار چاہیے۔" اُس نے کہا تو حیدر کی آنکھیں اُبل آئیں۔

"دماغ سیٹ ہے تُمہارا؟ تیس ہزار میری سیلری نا ہو اور مُحترمہ کو چاہیے تیس ہزار تخواہ؟ کام والیاں اِتنا نہیِں لیتیں کوئی پانچ سات ہزار میں ڈن کرو۔" وہ کاروباری انداز میں بولا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی۔

"پولیسیے ہو تُم! رِشوت بھی لیتے ہو گے اور بھتہ بھی۔ سب مِل مِلا کر بہت ہوتا ہو گا تُمہارے پاس۔ تیس ہزار تو کُچھ بھی نہیں۔" اُس نے کہا تو حیدر کو غش پڑتے پڑتے رہ گیا۔

"نہیں لیتا میں رِشوت اور بھتّہ۔ ایماندار پولیسیا ہوں میں۔" وہ اُسی کے انداز میں بولا۔

"دیکھو حیدر! نا کم نا زیادہ پورے پچیس ہزار! میرا چھوٹا بچہ ہے، بُوا ہیں۔ اِن کے بہت اخراجات ہیں اگر منظور تو بولو ورنہ میں اور کام کر لوں گی۔" وہ دوٹوک بولی تو وہ ہنسا۔

"دے ہی نا دے کوئی تُمہیں کام۔ کام کے نام پہ چوری ہی کرنی ہے تُم نے۔ چلو منظور ہے مُجھے۔ لیکن آج صفائی کر کے جاؤ یا صِرف کمرے کی کر دو۔" وہ مان کر بولا تو وہ سر ہلاتی

اُس سے کمرے کا پوچھ کر کمرے کی طرف بڑھی۔

مگر کمرے میں پہنچ کر اُسے لگا یہاں اِنسان نہیں جانور بستے ہیں۔ ہر طرف عجب ہی گندگی مچی ہوئی تھی۔ جگہ جگہ کپڑے پڑے ہوئے تھے، بیڈ شیٹ اور کُشن زمین کو سلامی دے رہے تھے، کارپٹ بھی ٹیڑھا میڑھا ہو گیا تھا۔ ایک طرف ٹیبل پر گندے برتنوں کے ساتھ کھانے کا ڈِبوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا، کُچھ اخبار کے ٹُکڑے بھی یہاں وہاں پڑے ہوئے تھے۔ کمرے کا حال دیکھ کر اُس کا سر چکرا گیا تھا۔

"یہ کمرہ ہے؟" اُس کی آواز پر وہ مُسکرایا۔

"یہ کباڑ خانہ ہے شروع ہو جاؤ۔" مُسکرا کر کہتا وہ صوفہ خالی کر کے بیٹھ گیا اور سکون سے اُسے تکنے لگا۔

"یہ آخری بار تھا آئندہ ایسا حال کیا کمرے کا تو میں نوکری چھوڑ دوں گی۔" وہ اُنگلی اُٹھا کر بولی تو وہ اُس کے مالکانہ انداز پر عش عش کر اُٹھا۔

"رُعب تو ایسے جما رہی ہو جیسے میں نے مِنتیں کر کے رکھا ہو تُمہیں یہاں؟ اچھا ٹھیک ہے آئندہ نہیں کروں گا ایسے۔" وہ تیکھے چتونوں سے بولتا اُس کی گھوریوں سے یکدم پٹڑی پر آیا۔

"اچھی بات ہے۔" وہ کہہ کر الماری کی طرف بڑھی اور اُس کھولا مگر الماری میں موجود گُھٹڑی کی شکل میں موجود سارے کپڑے گِر کر اُس کے قدموں میں نِچھاور ہو گئے۔ اُس نے خُونخوار نظروں سے حیدر کو دیکھا جو گڑبڑا کر کھڑا ہوا۔

"یہ آخری بار تھا نا۔" جلدی سے کہہ کر وہ چھپاک سے کمرے سے نِکل گیا پیچھے وہ تاسف سے سر ہلاتی کمرے کی صفائی میں جُت گئی۔ جو بھی تھا وہ اِنسان اِتنا بُرا بھی نہیں تھا جِتنا اُس نے سوچ لیا تھا۔ اچھی خاصی رقم کا تقاضا کرنے پر اُسے لگا تھا کہ وہ کُچھ بھی اور کہے بغیر اُسے نِکال باہِر کرے گا مگر اُس نے ایسا نہیں کیا تھا۔ وہ واقعی اچھا اِنسان تھا۔ وہ اُس کے اچھے اِخلاق کی قائل ہوئی تھی۔

اِس سب سے بے خبر کہ وہ اچھا اِنسان اُس کے لیے اپنے دِل میں انوکھے جذبات رکھنے لگا تھا جِن کو لگام دینے کی اِنسپکٹر حیدر نے کوشش نہیں کی تھی۔ وہ اُسے اچھی لگتی تھی اور مزید اچھی لگنے لگی تھی۔ تو کیا ہوا وہ کم عُمری میں بیوہ ہو گئی تو، ایک بچّے کی ماں تھی تو؟ پیار یہ سب تھوڑی دیکھتا ہے۔ وہ اُسے اچھی لگتی تھی تو بس لگتی تھی۔

******************

صُبح کا وقت تھا۔ آج اِتوار تھا تو اُسے سکول نہیں جانا تھا۔ باہِر نواز علی کے ساتھ بیٹھی وہ روٹی اور سالن کھانے میں مشغول تھی۔ ساتھ ہی نوالہ کھانے کے بعد ایک گلاس لسّی کا بھی غُٹک لیتی۔ نواش عکی کبھی کبھی خُود اُسے نوالہ بنا کے کِھلاتے جو وہ بغیر کُچھ کہے خاموشی سے کھا لیتی۔ نین گُل بھی کام ختم کر کے اُن کے پاس ہی اپنی روٹی اور سالن لے کر آ گئی اور دوسری چارپائی پر بیٹھ کر کھانے لگی۔

سب کے کھانے سے فارِغ ہونے کے بعد وہ برتن لے اٹاری میں رکھ آئی۔ اِرادہ صفائی کرنے کے بعد برتن دھونے کا تھا۔

"ابّا آج کام پر نہیں جانا کیا؟" نین گُل نے حیرت سے پوچھا۔

"جانا ہے مگر زرا وقت سے جاؤں گا۔ تُم دونوں میری بات زرا دھیان سے سُنو۔ کل چھوٹے سائیں میرے پاس آئے تھے۔ وہ چھوٹے مالِک ہیں نا؟ اُن کی دھی کا ویاہ ہے بڑے مالِک کے پُتر رانا جعفر سے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ حویلی کے زنان خانے میں لڑکیوں کی ضرورت ہے۔ جو زنانے کام کر سکیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر اپنی دھی کو لے آؤں تو بہتر ہے۔ مُجھ پر بڑا اعتبار کرتے ہیں وہ اِس لیے میں نے بھی ہامی بھر لی۔ گُل پُتر! تُو میرے ساتھ چلِیں۔" نواز علی نے دونوں کو مُکمّل بات بتاتے آخر میں میں گُل سے کہا تو اُس نے بے ساختہ حمود کی طرف دیکھا۔ حمود نے بھی اُسی پل اُسے دیکھا۔ حمود کی آنکھوں میں نجانے کیا تھا کہ وہ نظریں چُرا گئی۔

"عبّاس سائیں آئے تھے ابّا؟" حمود نے پوچھا تو نین گُل کی سانس اٹکی۔

"ہاں اوہی میرے پاس آئے تھے کھیت میں۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ فِکر کی کوئی بات نہیں حویلی میں کوئی تنگی نہیں ہو گی۔" نواز علی نے کہا تو وہ تیکھی نظروں سے نین گُل کو دیکھنے لگی۔

"جا پُتر! کھڑی کیوں ہے اب اِدھر؟" نواز علی نے کہا تو وہ سر ہلاتی اندر بھاگی۔ چادر اوڑھ کر وہ جلدی سے باہِر آئی۔

"دروازہ بند کر لی پُتر! میں جلدی آ جاواں گا۔" نواز علی نے کہا اور اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے باہِر نِکل گئے۔

نین گُل باہِر نِکلنے لگی جب اُس کی کلائی حمود کی گرفت میں آئی۔ اُس نے پلٹ کر حمود کو دیکھا۔

"ایک مرد کے میٹھے بولوں کے جال میں جکڑنے سے پہلے اپنے ابّا کی پگڑی کا ضرور سوچ لینا آپا! باپ کی مُجبّت پر دو دِن کا پیار ہاوی مت ہونے دینا ورنہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے ابّا کی عِزّت کو بھی کھو دے گی۔" حمود کی باتوں کو اُس نے سانس روک کر سُنا تھا مطلب وہ جانتی تھی سب۔

"تُم رات کک کو۔۔۔۔۔۔" نین گُل سے بولا نا گیا۔

"جاگ گئی تھی میں۔" اِتنا کہہ کر اُس نے نین گُل کا ہاتھ چھوڑا اور دروازے کی کُنڈی لگا لی۔

نین گُل آگے بڑھتے نواز علی کے پیچھے بھاگی۔ حمود کی باتیں سچ ہی تو تھیں۔ مگر کمبخت دِل تھا جو رانا عبّاس کی باتوں پر یقین لانے کو چاہتا تھا۔ خُود کو قِسمت کی دھارا پر چھوڑتی وہ نواز علی کے ساتھ حویلی کی طرف گامزن تھی۔


******************


حویلی میں ہر طرف شادی کی تیاریاں چل رہیں تھیں۔ شادی میں صِرف دو دِن ہی رہتے تھے اِس لیے سارے کام بہے تیزی سے ہو رہے تھے۔ رانا عبّاس کا ٹرانسفر راج نگر میں ہو چُکا تھا جبکہ باقِر کی بھی جاب لگ گئی تھی وہ اگلے مہینے ہی شہر جا کر جوائن کرنے والا تھا۔

حویلی کے سبھی مُلازمین کاموں میں مصروف تھے۔ حویلی کے اندر صِرف عورتوں کو ہی آنے کی اِجازت تھی۔ مرد مُلازم حویلی کے آگے موجود بڑے سے لان کے عِلاوہ حویلی میں نہیں آ سکتے تھے۔ رانا عبّاس

اور رانا باقِر حویلی کے لاؤنج میں موجود کُچھ ڈِسکس کر رہے تھے۔ ایک طرف حلیمہ بیگم بیٹھیں دُرِ شہوار کے ساتھ کپڑے دیکھ رہیں تھیں جبکہ دُرّفشاں اپنے کمرے میں تھی۔ سعدیہ بیگم دوپہر کے کھانے کی تیاری کروا رہیں تھیں۔

"کون ہو تُم؟ اور کہاں گُھسی جا رہی ہو؟" سب سے پہلے حلیمہ بیگم کی نظر چادر میں لِپٹی اُس لڑکی پر پڑی تھی۔

اُن کی آواز پر سب کی نِگاہیں ہال کے دروازے کی طرف اُٹھیں تھیں۔ جہاں سب کو حیرانی ہوئی تھی وہیں رانا عبّاس اُس لڑکی کو پہچان کر گہرا مُسکرایا تھا۔

"آرام سے چچی سا! وہ پہلے ہی بہت گھبرا رہی ہے۔" دُرّ شہوار نے چادر میں لِپٹی نین گُل کے چہرے پر گھبراہٹ کے تاثرات دیکھ کر کہا تو حلیمہ بیگم ناک بھوں چڑھا کر رہ گئیں جبکہ نین گُل ہال کے بیچ و بیچ آ کر اب رُک گئی تھی اور سہمی ہوئی نِگاہوں سے یہاں وہاں دیکھ رہی تھی۔ حویلی کی شان و شوکت دیکھ کر تو اُس کی آنکھیں ہی کُھلیں رہ گئیں تھیں۔

رانا حویلی کی قد آدم دیواروں پہ جگہ جگہ شو پیس سجے ہوئے تھے۔ وسیع و عریض ہال کے درمیان میں نفاست سے صوفے سجے ہوئے تھے جِن کے بیچ و بیچ بڑا سا شیشے کا گول ٹیبل تھا جب کہ اوپر بڑا سا فانوس لٹک رہا تھا۔ ایک طرف ایل ای ڈی ایریا بنا ہوا تھا جب کہ دائیں جانِب بڑا سا کِچن تھا جِس کے ساتھ والے کمرے میں ڈائیننگ ٹیبل رکھا ہوا تھا۔ ایل ای ڈی ایریا کے ساتھ ہی بائیں طرف بڑا سا ایکویریم رکھا ہوا تھا جِس میں خُوبصورت رنگ برنگی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں تیر رہیں تھیں۔ ہال کے وسط میں موجود صوفوں کے پیچھے دو طرفہ سیڑھیاں اوپر دوسری منزل کو جا رہیں تھیں جِن کی راہداری میں کئی کنرے بنے ہوئے تھے جبکہ ایک کمرہ الگ تھلگ نظر آیا۔ بائیں جانِب نیچے ہی ایک بڑا سا کمرہ تھا جو شاید ڈرائینگ روم تھا۔

اُس نے رانا حویلی کو صِرف باہِر سے ہی دیکھا تھا اندر سے دیکھنے کا اِتفاق پہلی بار ہوا تھا۔

"کون ہو تُم؟ یہاں کیسے آئی؟" دُرّ شہوار نے اُس کی طرف دیکھ کر نرمی سے پوچھا تھا۔

"بڑی ہیں وہ تُم سے شہوار! آپی بولو اِنہیں۔" رانا عبّاس نے اُن کے پاس پہنچ کر اُسے نرمی سے ٹوکا تو وہ ایک ہاتھ سے دایاں کان پکڑ گئی جِسے دیکھ کر وہ نفی میں سر ہلاتا مُسکرا کر نین گُل کی طرف متوجّہ ہوا۔ جب کہ اُس کی مُسکراہٹ پر حلیمہ بیگم نے عجیب نظروں سے دیکھنے لگیں۔ رانا باقِر بھی وہیں آن موجود ہوا تھا۔ نین گُل کے چہرے پر نظر پڑتے ہی چونکا لیکن پھر سر جھٹک گیا۔

"تُم نے بتایا نہیں لڑکی! کون ہو؟ کہاں سے آئی ہو؟" حلیمہ بیگم نے نین گُل کی طرف رُخ کر کے پوچھا۔ اُنہیں رانا عبّاس کے چہرے پر چھائی مُطمئن مُسکراہٹ اور خُوشی صاف نظر آ رہی تھی جو چُھپائے نہیں چُھپ رہی تھی۔

"مم میں اِسی گاؤں میں رہتی ہوں۔ اا ابّا چچ چھوڑ کر گیا ہے۔ رانا جی نے بُلوایا تھا کام کاج کے لیے۔" وہ سر جُھکاتی رانا عبّاس کی مخمور نِگاہوں سے گھبراتی ہکلا کر بتانے لگی۔ رانا عبّاس کا بس چلتا تو اُسے اپنے سامنے بِٹھا کر گھنٹوں تکتا رہتا۔ اِس وقت بھی اُس کی والہانہ نِگاہیں نین گُل کا طواف کر رہیں تھیں۔ جِن سے وہ گھبرا کر بول بھی نہیں پا رہی تھی۔

"نین گُل کو میں نے ہی بُلوایا ہے زنان خانے کے کاموں کے لیے۔ نین گُل بہت اچھے سے سارے کام کر لیتی ہے ویسے بھی بی گُل اور نوری اکیلے کسیے سارا کام نِپٹائیں گی؟" رانا عبّاس نے کہا تو رانا باقِر نے سنجیدگی سے اُس کی طرف دیکھا پھر اُس کی نِگاہوں کے تعاقب میں نین گُل کو دیکھا۔ جِس کا خُوبصورت چہرہ جُھکا جا رہا تھا اور اب تو وجود بھی کانپنے لگا تھا۔

وہ اثبات میں سر ہلاتا باہِر کی جانِب بڑھ گیا جیسے سمجھ گیا ہو وہ کون ہے۔ اُسے باہِر کی جانِب بڑھتا دیکھ کر دُرّشہوار اُس کے پیچھے لپکی۔

"اِس کی کیا ضرورت تھی تُم مُجھے کہتے میں کِسی اچھی لڑکی کو بُلوا لیتی۔" حلیمہ بیگم نے تلخی سے نین گُل کو دیکھا۔ رانا عبّاس کی نین گُل پر کرم نوازی حلیمہ بیگم کو ایک آنکھ نہیں بھائی تھی۔ وہ ایک کمّی کمین کی بیٹی کو کیسے اِس حویلی میں برادشت کر لیتی جِس پر اِس حویلی کا سپوت مُحبّت بھری نظریں نِچھاور کر رہا تھا۔

میں نے کُچھ سوچ سمجھ کر ہی نین گُل کو یہاں بُلوایا ہے۔ ابھی تو یہ صِرف دُرّے کے پاس رہے گی۔ نین گل! آؤ میرے ساتھ میں تُمہیں اپنی بہن کے پاس چھوڑ دوں۔" حلیمہ بیگم کو جواب دیتا وہ نین گُل کو پُکارتا سیڑھیاں چڑھنے لگا تو اُس کے ساکت وجود میں جنبش ہوئی۔ وہ تیزی سے اُس کے پیچھے بھاگی۔ پیچھے حلیمہ بیگم نے کینہ توز نِگاہوں سے نین گُل کی پُشت کو گھورا تھا۔

وہ سیڑھیاں چڑھ کر ایک طرف بڑھنے لگا تو وہ بھی کُچھ فاصلے پر اُس کے پیچھے چلنے لگی۔

ایک کمرے کے پاس پہنچ کر وہ رُکا اور دروازے میں کھڑے ہو کر اُسے دیکھا۔ وہ اُس کے پیچھے ہی آ رہی تھی۔ زیرِ لب مُسکرا کر وہ کمرے میں داخِل ہوا اور دروازے کے ساتھ موجود دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا۔

وہ کمرے میں داخِل ہوئی اور اِردگِرد نظریں دوڑائیں مگر کوئی نظر نہیں آیا۔ دیوار کے ساتھ موجود وہ مُسکرایا۔ نین گُل نے دو قدم آگے بڑھائے۔ عبّاس نے اچانک اُسے بازو سے تھام کر دیوار کے ساتھ لگایا اور ٹانگ سے دروازہ بند کیا۔ اِس اچانک افتاد پر وہ گھبراتی چیخ بھی نا سکی جب سامنے رانا عبّاس کو مُسکراتے ہوئے دیکھا۔

"کہا تھا نا کہ اب روز تُمہیں دیکھا کروں گا۔" اُس کی ایک جانِب دیوار پر ہاتھ رکھ کر وہ اُسے نرم گرم نِگاہوں کے حِصار میں لیتا دِلکشی سے بولا تو وہ اپنے دِل پر ہاتھ رکھتی پھولی سانسوں کو اعتدال میں لا رہی تھی اُس کی طرف دیکھنے لگی۔

"میں صِرف کام کے لیے آئی ہوں رانا جی! جِس کا مُجھے معاوضہ مِلے گا اور کوئی غرض نہیں میری۔" نین گُل نے حمود کی باتوں کو یاد کرتے جواب دیا۔

"تُمہاری جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو اب تک میری مُحبّت میں گِرفتار ہو چُکی ہوتی۔" رانا عبّاس نے اُس کی تھوڑی پہ موجود تین تِلوں کو دیکھتے اُس کی چادر ہٹانی چاہی جِس پر وہ اُس کا ہاتھ جھٹک گئی۔

"ڈھونڈ لیں کوئی اور۔" اُس نے عبّاس کو گھور کر کہا۔ دِل کو بُرا لگا تھا شاید۔

"ڈھونڈ لیتا اگر تُم سے مُحبّت نا ہوتی۔ تُم سے مُحبت ہے اِس لیے تو کوئی اور نہیں ڈھونڈ سکتا۔" رانا عبّاس کے کہنے پر اُس کے عارض سُرخ ہوئے۔ رانا عبّاس حیرانی سے ہنسا۔

"میری نظروں سے ہی اِتنا شرما جاتی ہو جب مُکمّل پناہوں میں آؤ گی تو کہاں جاؤ گی؟" وہ مُسکراتے ہوئے پوچھنے لگا تو وہ اُس کی دِلکش مُسکراہٹ دیکھنے لگی۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ اپنے دِل سے ہارنے لگی تھی۔ اُسے رانا عبّاس کی مُحبّت بھری نِگاہیں اچھی لگنے لگیں تھیں مگر ڈرتی تھی کہ کہیں یہ وقت گُزاری تو نہیں۔

"تُم بھی چاہتی ہو نا مُجھے؟" اُس کی محویت نوٹ کرتا وہ پوچھنے لگا تو اُس نے اپنی شہادت کی اُنگلی اُٹھا کر دو قدم کے فاصلے پر موجود رانا عبّاس کے دِل کے مُقام پر رکھی۔

"یہ مُجھے حاصِل کرنے کے بعد بھر گیا تو؟" سوال کے بدلے سوال کیا تھا۔ رانا عبّاس اُس کے خدشات سمجھ گیا تھا۔ نین گُل کی سیاہ آنکھوں میں موجود کشمکش اور بے بسی دیکھتا وہ مُسکرایا تھا۔ نین گُل کا ہاتھ ہٹا کر وہ بیڈ کی جانِب بڑھا جب کہ نین گُل ہاتھ ہوا میں ہی مُعلّق رہ گیا تھا یعنی وہ سچ میں دِل لگی ہی کر رہا تھا۔ مگر اُس کا خیال غلط ثابت ہوا جب وہ پلٹا تو اُس کے ہاتھ میں پِسٹل تھا۔ نین گُل کا سانس حلق میں آن اٹکا۔ وہ خراماں خراماں چلتا اُس کے قریب آیا۔ پِسٹل اُس کے ہاتھ میں زبردستی تھمائی اور پِسٹل اپنے ہی دِل کے مُقام پر رکھا۔ نین گُل کے ہاتھ لرزنے لگے۔

"ہماری شادی کے بعد ہماری ہونے والی پہلی اولاد کی قسم! اگر یہ دِل نین گُل سے بھر گیا تو اِس پِسٹل کی گولی اِس دِل میں مار کر اِس کا کام تمام کر دینا۔ کوئی بھی شخص اپنی ہونے والی اولاد کی جھوٹی قسم نہیں کھا سکتا۔ میں نے بھی جھوٹی قسم نہیں کھائی۔ رانا عبّاس کو نین گُل سے مُحبّت تھی، ہے اور ہمیشہ نین گُل سے ہی رہے گی۔ تُم نہیں تو کوئی نہیں۔ تُمہارے ساتھ زِندہ رہوں گا اور تُمہارے ساتھ مرنا چاہوں گا۔" رانا عبّاس کی والہانہ نظروں اور مُحبّت بھرے الفاظ پر وہ اُس کے ہاتھوں پر ماتھا ٹِکا کر پھوٹ پھوٹ کر روئی۔

"اب کیوں رو رہی ہو؟ کوئی پوچھے گا تو کیا کہے گا کہ رانا عبّاس نے مارا ہے؟" اُس نے نرمی سے کہا اُس کے لہجے میں شرارت تھی جِسے محسوس کر کے وہ ہنسی تھی۔

"آپ بدل تو نہیں جائیں گے نا؟" اُس نے معصومیت سے پوچھا تو رانا عبّاس کا دِل کیا اُسے سات پردوں میں چُھپا دے۔

"تُم ایک دفعہ ہاں کر دو ہمیشہ ایسے ہی رہوں گا۔" اُس نے جذب سے وعدہ کیا تھا۔ لہجہ اور آنکھیں سچائی کی چُغلی کھا رہیں تھیں۔

"مم مُجھے بب بھی رانا جی اچھے لگتے ہیں!!!" اٹک اٹک کر کہتی وہ اپنے ہاتھوں میں چہرہ چُھپا گئی تھی۔

اِس وقت وہ آنے والے وقت کو بھول گئی تھی۔ رانا عبّاس کی آنکھوں اور لہجے میں اپنے لیے مُحبّت دیکھ کر وہ اپنا اور اُس کے درمیان کا فرق بھولی تھی یاد رہا تھا تو بس یہ رانا جی اُس سے مُحبّت کرتے ہیں اور وہ رانا جی سے۔

اُس کے ہاتھوں کو پیچھے ہٹاتے رانا عبّاس نے اُس کی چادر ہلکے سے کِھسکائی تو اُس کی صراحی دار گردن واضح ہوئی۔ نین گُل نے چونک کر سر اُٹھایا اور اُسے دیکھا جو اُس کی طرف متوجّہ نہیں تھا۔ بلکہ سارا دھیان اُس کی گردن پر تھا۔ وہ کیا کرنے والا تھا؟ نین گُل نے سانس تک روک لی تھی۔

"میری جان اٹکی ہے اِس تعویذ میں۔ جانے کیوں مُجھے لگتا ہے میرا دِل اِس میں قید ہو گیا ہے۔" اُس کے تعویذ کو ہلکا سا چھو کر وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولا تو نین گُل نے رُکا ہوا سانس خارِج کیا۔

"میرے بارے میں غلط سوچنا چھوڑ دو۔ اپنی مُحبّت کو رُسوا نہیں کروں گا۔" رانا عبّاس نے اُس سے دو قدم دور ہوتے کہا۔ جبکہ نین گُل شرمِندہ سی ہو گئی۔

"جاؤ تیسرا کمرہ دُرّفشاں کا ہے۔ اُسے بتانا کہ میں نے بھیجا ہے۔ زیادہ کام نہیں ہو گا۔ تُم سے کام کروانا تو نہیں چاہتا تھا لیکن تُمہیں اپنے سامنے رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ مت سوچنا کہ میں سب کے سامنے تُمہیں حق سے نہیں دیکھ سکتا۔ صحیح وقت کا اِنتظار ہے پھر اِس حویلی میں بہو کی حیثیت سے قدم رکھو گی تُم!" رانا عبّاس نے اُس کا چہرہ دیکھ کر کہا اور جانے کا اِشارہ کیا۔ وہ اپنی چادر درست کر کے سر پر جماتی باہِر کی جانِب بڑھی۔

"وو وہ لڑکی کون تھی نیچے؟" جاتے جاتے وہ پلٹی اور رانا عبّاس سے پوچھا۔ اُس کے لہجے کی کپکپاہٹ رانا عبّاس پہ بہت کُچھ واضح کر گئی تھی۔

"وہ میرے دِل کی دھڑکن ہے۔" رانا عبّاس کے لہجے میں مُحبّت تھی جو اُس لڑکی کے لیے تھی جو نیچے اُسے مِلی تھی۔

"وہ تو مُجھے ہونا چاہیے نا؟" اُس کا لہجہ نم تھا اور آنکھیں شِکوہ کناں۔ رانا عبّاس کا دِل ڈوب کر اُبھرا تھا۔

"تُم تو رانا عبّاس کا دِل ہو۔" اُس کا ایک جُملہ نین گُل کی حیثیت واضح کر گیا تھا مگر وہ تو رانا عباس کی "دھڑکن" میں اٹکی ہوئی تھی جو نیچے ہال میں بیٹھی تھی۔ وہ تیزی سے آنکھیں صاف کرتی باہِر کی جانِب بڑھی تو وہ بھی اُس کے پیچھے لپکا۔

"جِس کے پاس جا رہی ہو اُس سے پوچھنا کہ دُرِ شہوار رانا عباس کی کیا ہے؟" رانا عبّاس نے کہا تو وہ ڈبڈبائی آنکھیں لیے دو کمرے چھوڑ کر تیسری میں داخِل ہو گئی۔ وہ اُس کے اوجھل ہونے تک اُسے اُس کمرے میں جاتا دیکھتا رہا۔


********************


وہ رانا عبّاس کے بتائے ہوئے کمرے میں داخِل ہوئی تو سامنے ہی آئینے کے سامنے کوئی لڑکی بیٹھی تھی جِس کے بال اُس کی پُشت پر بِکھرے ہوئے تھے جو کمر سے کافی نیچے تک جاتے زمین کو چھو رہے تھے۔ وہ دروازے میں کھڑی ہو کر تذبذب کی حالت میں اُسے دیکھنے لگی پھر گہرا سانس بھر کر دروازے پر ناک کیا۔ آئینے کے سامبے بیٹھی لڑکی نے پلٹ کر اُسے دیکھا تو اُس کی نظروں میں حیرانی واضح طور پر نظر آئی۔

"آ جاؤ۔" اِجازت دے کر وہ اُٹھی اور آگے بڑھتی اُس تک آئی۔ نین گُل نے اِجازت مِلنے پر نظریں اُٹھا کر اُس حسین مورت کو دیکھا۔ بھوری کانچ سی آنکھوں میں ایک الگ سی اُداسی کا بسیرا تھا۔ چاند سا روشن چہرہ، ملائی جیسی گوری دمکتی سُرخ و سپید رنگت، پنکھڑی سے ہونٹ، اور دائیں گال پہ پڑتا گہرا بھنور، اور لمبے سیاہ گیسو، وہ لڑکی ہو کر اُس کے حُسن کی قائل ہوئی تھی تو مردوں کا کیا بنتا ہو گا؟ خیر وہ کیا جانے کہ کِسی غیر مرد کے سامنے تو کیا سامنے کھڑی لڑکی کے محرم تک نے اُس کے حُسن سے آشنائی نا کی تھی۔

"کون ہو؟ یہاں کیوں آئی؟" وہ سامنے کھڑی لڑکی کی آواز پر چونک کر ہوش میں آئی۔

" جی رانا جی نے بب بھیجا ہے آپ کے کاموں کے لیے۔" اُس نے گھبرا کر جواب دیا مُبادا وہ غُصّہ ہی نا کر جائے۔

"کون رانا جی؟ کِس کی بات کر رہی ہو؟" اُس نے ماتھے پر بل ڈال کر ناک چڑھا کر پوچھا۔

"جج جی رر رانا عع عع عباس کک کی۔" جانے کیوں مگر اُس کو رانا عبّاس کا نام لینا دُشوار ہوا تھا۔

"اوہ اچھا ویر سائیں نے بھیجا ہے تُمہیں۔ آ جاؤ اور دروازہ بند کر دو۔" وہ گہرا سانس بھرتی پھر جا کر آئینے کے سامنے بیٹھی اور اپنے بال آگے کرتی سُلجھانے لگی۔ جبکہ نین گُل سر ہلاتی دروازہ نند کر کے اُس کے پا س کھڑی ہو گئی۔

"یہ میرے بال بنا دو۔ ویسے نام کیا ہے تُمہارا؟" اُس نے نین گُل کی جانِب کنگا بڑھائے پوچھا تو وہ تھامتی نرمی سے اُسے کے بال سُلجھانے لگی۔

"نین گُل نام ہے جی!" اُس نے دھیرے سے بتایا۔ اُس کے ذہن میں رانا عبّاس کی آخری بات گونج رہی تھی کہ جِس کے پاس جا رہی ہو اُس سے پوچھنا دُرّشہوار رانا عبّاس کی کیا ہے۔

"بہت پیارا نام ہے بالکُل تُمہاری طرح۔ ویسے میرا نام دُرِفشاں ہے لیکن پیار سے سب مُجھے دُرّے کہتے ہیں۔" دُرِفشاں نے اُس کی جِھجھک دیکھ کر دوستانہ انداز میں بتایا۔

"اا اور دُرِشہوار کون ہے۔" نین گُل نے دِل میں کلبلاتا سوال آخر کار پوچھ ہی لیا تھا۔ دِل دھک دھک کر رہا تھا مانو باہِر کل ہی نِکل آئے گا۔

"وہ تو رانا عبّاس کی دھڑکن ہے۔" دُرِفشاں کی بات پر نین گُل کا اُس کے بالوں میں چلتا ہاتھ رُکا۔ آنکھیں نم ہوئیں تو وہ پلکیں جھپک جھپک کر نمی حلق میں اُتارنے لگی مُبادا دُرِفشاں دیکھ کر اُس کے دِل کا راز نا پا لے۔

"اور حویلی کی رونق ہے دُرِ شہوار! رانا عبّاس کی جان بستی ہے اُس میں۔ رانا ہاشِم محمود یعنی تاؤ سائیں کی سب سے چھوٹی اِکلوتی بیٹی اور تین بھائیوں کی بہن ہے وہ۔ رانا عبّاس کو سب سے زیادہ پیاری ہے اپنی بہن۔" دُرِفشاں کے اِبتدائیہ فِقرے عدم توجہگی سے سُنتی آخری فِقرے پر چونکی۔ دُرِشہوار رانا عبّاس کی بہن ہے یہ جان کر ایک سکون اُترا تھا اُس کے دِل میں۔ نے اِختیار رانا عبّاس کی مُسکراتی آواز کانوں میں گونجی۔ "تُم تو رانا عبّاس کا دِل ہو۔" یہ فِقرہ یاد آتے ہی دِل پہ ٹھنڈی پھوار پڑی تھی۔ لب خُودبخود مُسکرائے تھے۔

"اب چُٹیا باندھ دو۔" دُرِفشاں کی آواز پر وہ ہوش میں آئی اور سر ہلاتی اُس کے بالوں میں بل ڈالنے لگی۔

"آج سے تُم صِرف میرے ہی کام کرو گی حویلی میں کام کے لیے نوری اور بی گُل ہیں۔ سمجھ گئی؟" دُرِفشاں نے نرمی سی کہا تو سر ہلا گئی۔

"اچھا اب جاؤ اور میرے لیے دودھ گرم کر کے لاؤ۔" دُرفشاں کے کہنے پر وہ کمرے سے نِکل گئی اور نوری سے پوچھ کر وہ کِچن کی جانِب بڑھی۔

کِچن میں کوئی نہیں تھا۔ وہ فریج سے دودھ نِکال کر گرم کرنے لگی۔ وہ دودھ پر نظریں جمائے کھڑی تھی جب آہٹ پر چونکی۔ پیچھے مُڑ کر دیکھا تو سامنے ہی حلیمہ بیگم کھڑی تھیں۔

"سُنو لڑکی! اپنی اوقات سے باہِر نِکلنے کی کوشش مت کرنا ورنہ انجام کی ذِمہ دار خُود ہو گی اور ہاں یہ جو اوڑھنی ہے نا؟ یہ مُجھے تُمہارے سر پر ہی نظر آنی چاہیے۔ تُم جیسی کمّی کمین لڑکیوں کی فِطرت اچھے سے جانتی ہوں میں۔ مردوں کو لُبھانے کے سو طریقے ہیں تُم "جیسیوں" کے پاس۔" حلیمہ بیگم کی زہر میں ڈوبی آواز اُس کی سماعتوں میں ہتھوڑے برسا گئی تھی۔ اُس کا ذہن تو "تُم جیسیوں" پر ہی اٹک گیا تھا۔ کیا وہ ایسی تھی؟ نہیں وہ ایسی تو نہیں تھی۔

"حلیمہ تُم جاؤ میں سمجھا لوں گی۔" سعدیہ بیگم جانے کب وہاں آئیں تھیں اور اُن کی بات سُن چُکیں تھیں۔ حلیمہ بیگم بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے نِکل گئیں تھیں۔

"اُس کی بات کا بُرا مت ماننا۔ زبان ذرا کڑوی ہے مگر دِل کی اچھی ہے وہ۔ تُم میرے لیے دُرِشہوار کی طرح ہی ہو اِسی لیے کِسی بھی قِسم کی کوئی پریشانی ہو تو مُجھے بتانے میں گُریز مت برتنا۔" اُنہوں نے نرمی سے اُس کے سیاہ چادر میں چُھپے کم سن سراپے کو دیکھتے اُس کے سر پر ہاتھ رکھا تو وہ جلدی سے سر ہلا گئی۔ سعدیہ بیگم کو وہ معصوم سی لڑکی اچھی لگی تھی اور بہت پیاری بھی۔

"شاباش۔ دیکھو دودھ اُبل رہا ہے۔" نرمی سے اُسے بتا کر وہ باہِر نِکل گئیں تھیں اور وہ چولہا بند کرتے دودھ کو مگ میں ڈالنے لگی۔ گاؤں میں گیس تو تھی نہیں اِس لیے حویلی میں بڑے بڑے سلنڈر موجود تھے جو کِچن میں کھانا بنانے کے لیے اِستعمال کیے جاتے تھے۔

مگ ٹرے میں رکھ کر وہ جلدی سے سیڑھیوں کی جانِب بڑھ گئی تا کی دودھ ٹھنڈا نا ہو جائے۔


*******************

وہ نین گُل کے جاتے ہی سٹڈی روم کی جانِب بڑھ گیا تھا۔ سارا پیپر ورک کملیٹ ہو چُکا تھا۔ شادی کے فوراً بعد وہ گاؤں میں ہی اپنی ڈیوٹی سنبھالنے والا تھا۔ وہ صوفے پر بیٹھا ٹیبل پر کُچھ پیپر پھیلائے اپنے کام میں مصروف تھا جب سٹڈی روم کا دروازہ کُھلا اور رانا باقِر اندر داخِل ہوا۔ اُسے دیکھ کر وہ پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ کوئی کِتاب لے کر پڑھنے کی بجائے وہ جلدی سے اُس کے سامنے کُرسی رکھ کر بیٹھا اور ٹیبل پر ناک کر کے اُسے اپنی طرف متوجّہ کیا۔

رانا عبّاس نے سر اُٹھا کر اُسے دیکھا جو مُسکرا رہا تھا۔

"آج میں نے بھاوج سائیں کو دیکھا۔" اُس نے آنکھیں رانا عبّاس پر گاڑھے کہا۔

"کِس کی بھاوج کو؟" رانا عبّاس نے الجھ کر پوچھا۔

"اپنی بھاوج کو ویر جی!" اُس نے خفگی سے کہا تھا۔

"جہاں تک مُجھے یاد ہے تُمہارے بھائی میں اور جعفر ویر ہیں۔ ویر جی کی شادی تُمہاری بہن سے ہو رہی ہے اِس کا مطلب وہ تُمہاری بھابھی نہیں ہے۔ باقی بچا میں تو میری شادی ابھی نہیں ہوئی تو یہ بھابھی کہاں سے آ گئی۔" ابرو اُچکا کر اُس نے رانا باقِر کو دیکھا تو وہ آنکھیں گُھماتا ہنسا۔

"آپ شادی سے پہلے ہی کِسی لڑکی کو پسند کر چُکے ہیں اور شادی بھی اُس سے ہی کریں گے ایسا مُجھے یقین ہے تو اِس لحاظ سے وہ میری بھابھی ہی ہوئیں۔" رانا باقِر کی بات سُن کر وہ چونکا تھا۔

"تو کہاں ہے تُمہاری بھاوج؟" رانا عبّاس کا لہجہ مُضطرِب تھا جِسے محسوس کر کے وہ ہنسا۔

"اِس وقت تو شاید دُرّے کے کمرے میں ہو گی آخر کو اُسی کے لیے بُلایا ہے نا آپ نے گاؤں کی مُٹیارن کو؟" رانا باقِر نے معنی خیزی سے کہا تو وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔

"مطلب تُمہیں پتہ چل گیا؟"رانا عبّاس نے پوچھا۔

"جِس طرح آپ "بھاوج" کو دیکھ رہے تھے مُجھے کیا سب کو ہی پتہ لگ گیا ہو گا۔ ویسے بھی میں اُس دِن آپ کو رات کے اندھیرے میں گھر سے نِکلتا بھی دیکھ چُکا تھا۔" رانا باقِر نے کہا تو وہ دِلکشی سے ہنسا۔

"اُسے دیکھے بغیر گُزارا بھی نہیں ہے اور اچھا ہے کہ سب کو پتہ لگ گیا

"اب میرا کام آسان ہو جائے گا۔" رانا عبّاس کا لہجہ مُطمئن تھا۔

"یہ سب اِتنا آسان نہیں ہے جِتنا آپ سمجھ رہے ہیں۔ تاؤ سائیں کے مِزاج سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ وہ کبھی بھی آپ کی بات نہیں مانیں گے۔" رانا باقِر کی بات پر وہ سر ہلا گیا۔

"جانتا ہوں مگر میں بھی اُنہی کا خون ہوں اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔" رانا عبّاس کا لہجہ مضبوط تھا۔

"مگر اِس سب میں بھاوج سائیں کا کیا؟" رانا باقِر کی بات پر اُس نے اُلجھ کر اُسے دیکھا۔

"میرے کہنے کا مطلب ہے کہ تاؤ سائیں آپ کو کُچھ نہیں کہیں گے۔ اُن کی نظر میں دِل لگی کرنا کوئی خاص بات نہیں ہے۔ لڑکے رنگین مزاج ہوں تو بھی کوئی بات نہیں لیکن آپ تو بھاوج سائیں سے شادی کرنا چاہتے ہیں اِس پر وہ طوفان کھڑا کر دیں گے اور شاید وہ بھاوج سائیں کو نُقصان بھی پہنچائیں۔ وہ برادری کے باہِر شادی کرنے کے کِتنے خِلاف ہیں آپ بھی جانتے ہیں۔" رانا باقِر کی ہر بات سچ تھی۔ وہ خُود بھی تو مُحبّت نامی بلا میں مُبتلا ہو گیا تھا وہ بھی اِسی گاؤں کی ایک لڑکی کی مُحبّت میں جو اُسے دوٹوک اِنکار بھی کر چُکی تھی مگر وہ پیچھے نہیں ہٹا تھا اب تو وہ اُس کی ضِد بن چُکی تھی۔ اُسے اپنی زِندگی میں شامِل کرنا ناگزیر ہو چُکا تھا۔ اگر رانا عبّاس برداری سے باہِر شادی کر لیتا تو اُس کے لیے بھی برادری سے باہِر شادی کرنا ممکن ہو جاتا۔

"پہلے تو میں اُنہیں ہر حال میں مناؤں گا اگر پھر بھی وہ نہیں مانیں تو میں نین گُل کو لے کر یہاں سے چلا جاؤں گا۔" رانا عبّاس نے حتمی فیصلہ کرتے ہوئے کہا تو وہ گہرا سانس بھر کر رانا عبّاس کی پُشت تھپتھپاتے وہاں سے نِکل گیا تھا۔


*******************


وقت کا کام ہے گُزرنا اور وہ گُزر ہی گیا تھا اور شادی کا دِن بھی آن پہنچا تھا۔ نین گُل سارا سارا دِن حویلی میں گُزارتی جہاں رانا عبّاس کی پیام دیتی مُحبّت بھری نظریں اُس کا ہر وقت پیچھا کرتی رہتیں۔ جہاں وہ گھبرائی سی رہتی وہیں ایک سرشاری بھی اُس کے رگ و پے میں دوڑتی محسوس ہوتی۔ ہر گُزرتے دِن کے ساتھ وہ رانا عبّاس کی مُحبّت میں ڈوبتی چلی گئی تھی۔ کبھی پانی کے بہانے کِچن میں اُس کے پاس آنا، کبھی سٹڈی روم کی صفائی کے لیے بُلا کر ڈھیروں باتیں کرنا، کبھی دُرّفشاں کی غیر موجودگی میں اُس کے کمرے میں آ کر اپنی نظروں کی پیاس بُجھانا۔ رانا عبّاس کا بس چلتا تو اُسے اپنے کمرے میں قید کر کے خُود اُس کے سامنے بیٹھا اُسے گھنٹوں تکتا رہتا۔ شام کو وہ نواز علی کے ساتھ واپس چلی جاتی تھی اور پھر گئے رات تک وہ رانا عبّاس کے بارے میں سوچتی رہتی۔ اُس نے یہ بات حمود سے نہیں چُھپائی تھی۔ اُسے ہر بات بتاتی وہ گھنٹوں اُس کے ساتھ رانا عبّاس کی باتیں کرتی ریتی تھی اور حمود بس خاموشی سے اُس کے چہرے پر بِکھرتے رنگوں کو دیکھتی رہتی۔ اُس نے نین گُل سے کوئی باز پرس نہیں کی تھی۔ نین گُل اُس سے بڑی تھی اپنا اچھا بُرا خُود سمجھتی تھی۔ وہ اُس کی مُخالفت کر کے اُسے خُود سے بدظن نہیں کرنا چاہتی تھی۔ عُمر کے جِس حِصّے میں نین گُل تھی وہاں یہ مُخالفت مہنگی بھی پڑ سکتی تھی۔ حمود تھی چھوٹی مگر وہ حد سے زیادہ سمجھدار تھی۔

دوسری طرف حمود کے اِنکار کے بعد سے رانا باقِر کا اُس سے سامنا نہیں ہوا تھا۔ جِس پر حمود نے خُدا کا شُکر ادا کیا تھا۔ نین گُل شام کو گھر واپسی پر اُسے حویلی والوں کے قِصّے سُناتی رہتی اور وہ چُپ چاپ سُنتی رہتی۔ اُس نے نین گُل کو رانا باقِر کی بابت نہیں بتایا تھا اور نا بتانا چاہتی تھی کہ یہ کوئی اِتنا اہم معاملہ نہیں تھا۔ اُس کے معمولات ویسے ہی تھے۔ گھر سے سکول اور سکول سے گھر۔ کِسی اور چیز کی طرف سوچنے کا اُس کے پاس وقت ہی کہاں تھا۔

حویلی میں ایک الگ ہی چہل پہل تھی۔ جہاں حویلی کے مکینوں کی خُوشی کا سماں ہی الگ تھا وہیں دُلہا دُلہن ایک دوسرے سے بیزار ہوئے پِھرتے تھے اور یہ بیزاری فقط اُن دونوں تک محدود تھی۔ باقی سب کی نظروں میں وہ خُوش تھے اور اُن کی خُوشی حویلی والوں کو بھی خُوش رکھتی تھی۔ حویلی کا چپّہ چپّہ گیندے کے پھولوں اور بتیوں سے سجایا گیا تھا۔ ہر طرف برقی قمقمے ٹمٹما رہے تھے۔ آج رات مہندی کا فنکشن تھا اِس لیے نین گُل کو سعدیہ بیگم نے حویلی ہی روک لیا تھا اور اِس بابت وہ نواز علی کو بھی حویلی رُکنے کا کرمو کے ہاتھوں کہلوا چُکیں تھیں۔ مگر نین گُل سے گھر میں حمود کے اکیلے ہونے کا سُن کر اُنہوں نے نوری کو نین گُل کے ساتھ بھیجا تھا تا کہ حمود بھی حویلی میں ہی آ جائے۔

برادری کے سبھی مہمان آنا شروع ہو چُکے تھے۔ مرد حضرات کے لیے باہِر لان میں بیٹھنے کا اِنتظام کیا گیا تھا جہاں رانا جعفر کی مہندی کی جا رہی تھی جب کہ دُرِفشاں کی مہندی اندر ہال میں رکھی گئی تھی جہاں جھولے کو گُلاب اور موتیے کے پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ ہال کے وسط میں گاؤ تکیے لگا کر لڑکیوں کے بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی گئی تھی۔ کُچھ لڑکیاں ڈھولکی لے کر بیٹھیں ٹپّے اور ماہیے گا رہیں تھیں جبکہ کُچھ لڑکیاں ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کِکلی ڈالتی ڈانس کر رہیں تھیں۔ نین گُل نوری کے ہمراہ جب حمود کو لے کر حویلی پہنچیں تب تک سبھی مہمان آ چُکے تھے۔ بی گُل کے ساتھ صفائی کے لیے مُقرر مُلازمہ منیراں مہمانوں کی تواضع کر رہی تھی۔ نوری کے آتے ہی وہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی جبکہ نوری نین گُل کو دُرِ فشاں کے کمرے میں بھیجتی حمود کو ہمراہ لیے کِچن میں آ گئی۔ مہمانوں کے لیے ٹھنڈے شبت کا اِنتظام کر کے وہ حمود کو بڑی سی ٹرے پکڑاتی خُود بھی ایک ٹرے میں کئی گلاس رکھے باہِر کی جانِب بڑھی۔

حمود نے سیاہ رنگ کی گھیر دار شلوار پہنی ہوئی تھی جبکہ سیاہ ہی قمیض گُھٹنوں سے تھوڑی سی اوپر تک تھی۔ سر پر کالی ہی چادر اوڑھے، چادر کے کونے کو ماتھے تک لائے، اُس کا صِرف آدھا چہرہ ہی نظر آ رہا تھا۔ یہاں سے وہاں چلتی وہ سبھی مہمانوں کو شربت کے گلاس پیش کر رہی تھی جب ایک کونے میں موجود دو خواتین کی جانِب بڑھی جو جانے کون سے راز و نیاز کر رہیں تھیں۔ اُنہیں گلاس تھما کر وہ مُڑنے لگیں کہ اچانک کِسی کی سخت آواز پر رُکی۔

"ارے چچی سائیں آپ یہاں کیا کر رہیں ہیں؟ وہاں جا کر ٹپّے گائیں اور ماحول بنائیں۔ اور تُم سُنو ایک گلاس مُجھے دو۔" اُن خواتین سے نرمی سے کہتا وہ اُس سے سختی سے بولا تو وہ نظریں جُھکائے اُس کی طرف پلٹی۔

"یہ لیں سائیں!" یہ آواز؟ یہ آواز تو لاکھوں میں بھی پہچان سکتا تھا مگر اُس کا یہاں ہونا نا مُمکن تھا۔

" حمود نواز؟" اُس نے سرگوشی کی مانِند پُکارا تو حمود نے سر اُٹھا کر سامنے دیکھا جہاں رانا باقِر حیرانی سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ حمود بھی اُسے دیکھ کر چونکی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ سامنے وہ ہو گا۔

"تُم یہاں کیا کر رہی ہو؟ کِس کے ساتھ آئی؟" رانا باقِر نے اچھنبے سے پوچھتے دو قدم اُس کی طرف بڑھائے تو وہ دو قدم پیچھے ہوئی۔

"آپا کے ساتھ آئی ہوں کام کرنے کے لیے۔" اُس کا لہجہ کُچھ جتاتا ہوا تھا جِسے وہ سمجھ بھی گیا تھا۔ وہ اُسے اپنے اور اُس کے درمیان موجود فرق جتا رہی تھی اور اپنی حیثیت بھی۔

"کون سی آپا؟" اُس کی بات نظر انداز کرتے اُس نے اگلا سوال داغا۔

"نین گُل۔" اُس کے جواب پر رانا باقِر نے گہرا سانس بھرا تھا۔ نین گُل کے نقش دیکھ کر اُسے حمود کا سا گُماں ہوا تھا۔ مگر وہ اپنا خیال ہی جھٹک گیا تھا۔

"آج کام کر لو ایک دِن اِسی حویلی میں مُلازموں سے بہو کی حیثیت سے کام کروانا۔" رانا باقِر نے کہا تو وہ ایک تلخ نِگاہ اُس پر ڈال گئی۔

"میں شیخ چِلی نہیں ہوں۔" جتا کر وہ رُکی نہیں تھی بلکہ چلی گئی تھی۔ وہ مُنفرِد تھی رانا باقِر کو اِسی لیے تو پسند تھی۔ وہ نفی میں سر ہلاتا باہِر نِکل گیا۔

جلد ہی دُرِفشاں کو جھولے پر بِٹھاتے اُس کی رسم شروع کی گئی۔ پِنک اور اورنج کلر کے گھیردار لہنگے میں ملبوس وہ خُود بھی گُلابی گُابی ہو رہی تھی۔ گُلاب کے پھولوں کا زیور وہ ایک کِھلتا مہکتا گُکاب ہی لگ رہی تھی۔ کِس بھی قِسم کے مصنوعی میک اپ کے بغیر بھی وہ چاند کی طرح دمک رہی تھی۔ بالوں کا جوڑا بنایا ہوا تھا اور دوپٹہ سرچہر اوڑھا ہوا تھا جِس کا ایک سِرا پیچھے جبکہ ایک سِرا اُس کے داہنے بازو سے گُزار کر اُس کے ہاتھ میں تھمایا ہوا تھا۔ اُس کے سپاٹ بے تاثر چہرے پر کِسی قِسم کا کوئی رنگ نہیں تھا نا اُداسی کا نا ہی مُحبّت کا۔ اُس کے ساتھ ہی دُرِشہوار بیٹھی تھی جِس نے پیلے اور ہرے رنگ کا لہنگا پہنا ہوا تھا۔ اپنی معصومیت اور چنچل پن سے وہ محفِل کی رونق بڑھا گئی تھی۔ جلد ہی رسم شروع کر دی گئی تھی سب برادری والی خواتین باری باری اُس کی رسم کرتیں اور اُٹھتی چلی جاتیں۔

کافی دیر یہی رسم چلتی رہی پھر جب یہ سِلسلہ ختم ہوا تو دُرِفشاں کو اندر لے جانے کا کہا گیا۔ اِس سے پہلے کہ وہ اندر جاتی، رانا جعفر کِسی کام سے اندر آیا تھا۔

دُرِفشاں کی نظر بے اِختیار ہی اُس پر پڑی تھی۔ سفید رنگ کے قمیض شلوار میں ملبوس گلے میں لال رنگ کی چُنری ڈالے وہ بہت وجیہہ لگ رہا تھا متضاد اُس کے چہرے کی سنجیدگی اُس کی شخصیت کو رُعب دار بنا رہی تھی۔ وہ کان سے فون لگائے ایک طرف کھڑا ہوا تھا جب غہر اِرادی طور پر نظر اُٹھی اور خُود کی طرف متوجّہ دُرِفشاں پر جا پڑی۔ رانا جعفر کو اُس پہ کِسی حسین مورت کا گُمان ہوا تھا۔ وہ لگ ہی اِتنی حسین رہی تھی کہ وہ ٹکٹکی باندھے اُسے دیکھے گیا۔ دُرِفشاں کی بھوری کانچ سی آنکھوں میں ایک چُھبن اور عجب سا شکوہ تھا۔ وہ اُسی میں کھویا فون ہی موجود نتاشہ کو فراموش کر گیا جو اُس سے شِکوے کر ریی تھی اُس کی شادی کے۔ ہوش تو تب آیا جب دُرِفشاں نے رُخ موڑتے قدم سیڑھیوں کی طرف بڑھائے۔ نین گُل اور دُرِشہوار اُسے لیے اُس کے کمرے کی جانِب بڑھ گئے۔ وہ بھی ہوش میں آتا سر جھٹک کر فون کان سے لگائے نتاشہ کو تسلّیاں دیتا باہِر نِکل گیا۔


********************


نین گُل اور حمود کو سرونٹ کوارٹر میں رہنے کے لیے کمرہ دیا گیا تھا۔ سرونٹ کوارٹر حویلی کے پیچھے موجود خالی جگہ پر بنے ہوئے تھے۔ جہاں نوری اور بی گُل کے سامنے والے کمرے میں منیراں رہتی تھی۔ جب کہ منیراں کے ساتھ والا کمرہ نین گُل اور حمود کو دیا گیا تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جِس میں دو چارپائیوں کے ساتھ دو چادریں اور دو سرہانے بھی رکھے ہوئے تھے۔ ایک طرف کولر میں پانی اور گلاس بھی رکھا ہوا تھا۔ اُن دونوں کو وہ کمرہ کوئی سرائے خانہ لگا تھا مگر اُنہیں یہیں سونا تھا۔

حمود تو جلد ہی سو گئی تھی مگر نین گُل گھبراہٹ کا شِکار تھی۔ رانا عبّاس نے اُسے مِلنے کو کہا تھا مگر رات کے اِس پہر جب بارہ بج رہے تھے وہ اِتنے مہمانوں کی موجودگی میں کیسے اُس سے مِلنے کا رِسک لیتی؟ پندرہ مِنٹ اور گُزر گئے تھے جب دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔

اُس کا سانس حلق میں آن اٹکا تھا۔ جلدی سے حمود کو دیکھا مگر وہ بے خبر سو رہی تھی۔ جلدی سے چادر اوڑھتی وہ دروازے کی جانِب بڑھی۔ ہلکا سا دروازہ وا کر کے دیکھا تو سامنے ہی رانا عبّاس کا مُضطرِب چہرہ نظر آیا۔ اُس نے درواز ہورا کھول دیا تو رانا عبّاس نے بغیر اُس سے کُچھ کہے اُس کا بازو تھاما اور اپنے پیچھے دروازہ بند کرتا اُسے اپنے ساتھ کھینچتا لے گیا۔ وہ اِس قدر ڈری ہوئی تھی کہ کوئی آوز بھی نہیں نِکال پا رہی تھی۔ کوارٹر سے دور ہوتے وہ اُسے ذرا تنہا گوشے میں لے آیا جہاں قدرے اندھیرا تھا مگر چاند کی روشنی اور دور کوارٹر کے برآمدے میں جل رہے بلب کی روشنی میں مناظر قدرے صاف نظر آ رہے تھے۔

"رانا جی! کوئی آ جائے گا۔ چھوڑیں مُجھے۔" نین گُل نے سرگوشی کی مانِند کہا تو اُس کے لہجے میں خوف محسوس کرتے وہ اُسے سامنے زمین پر بِٹھا کر خُود بھی نیچے بیٹھا۔

"سب سو رہے ہیں۔ میں نے کہا تھا کہ آ جانا مگر تُم نہیں آئی۔" رانا عبّاس کے لہجے میں خفگی تھی۔

"مُجھے مار نہیں کھانی تھی اگر چھوٹی مالِکن دیکھ لیتیں تو اُنہوں نے مُجھے کچا ہی کھا جانا تھا۔" نین گُل نے حلیمہ بیگم کو سوچتے خوف سے کہا تو وہ مُسکرایا۔

"ایویں کھا جانا تھا میں ہوں نا تُمہارے ساتھ۔" اُس نے کہا تو وہ اُس کی طرف دیکھنے لگی۔

"رانا جی! حمود کہتی ہے ایسے ہم دونوں کو مِلنا نہیں چاہیے گُناہ ہوتا ہے۔" اُس نے مظریں جُھکا کر کہا۔

"سچ کہتی ہے تُمہاری حمود! گُناہ تو ہوتا ہے مگر تُمہیں دیکھے بغیر رہ نہیں سکتا۔ فِکر مت کرو بس کُچھ دِن پھر میری تُم سے شادی ہو جائے گی تو گُناہ نہیں ہو گا۔" رانا عبّاس نے کہا تو اُس نے حیرانی سے اُسے دیکھا۔

"کل میں بابا سائیں سے ہماری شادی کی بات کرنے والا ہوں۔" اُس نے کہا تو وہ خُوشی سے اُچھلی۔

"سچ؟ وہ مان جائیں گے؟" نین گُل نے پوچھا تو وہ ہاں میں سر ہلا گیا۔

"آپ بہت اچھے ہیں۔" اُس نے سینے پہ دِل کے مُقام پر اُنگلی سے اُردو میں نین گُل لِکھتے وہ ہولے سے ہنسی پھر کپڑے جھاڑتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

"کہاں۔" اُسے جاتے دیکھ کر وہ پوچھنے لگا۔ پیلے رنگ کے لِباس میں وہ اِس وقت گیندے کا پھول لگ رہی تھی جبکہ سیاہ آنکھوں کی چمک تاروں کو مات دے رہی تھی۔

"محرم بن کر مِلیں گے تو اللّٰہ بھی ناراض نہیں ہو گا۔ جِتنا مِل چُکے کافی ہے میں نہیں چاہتی کہ ابّا میری وجہ سے اِس عُمر میں ذِلّت اُٹھائے" نین گُل نے اِجازت چاہتی نظروں سے اُسے دیکھا تو وہ گہرا سانس بھرتا مُسکرا کر اثبات میں سر ہلاتا گویا اُسے جانے کی اِجازت دے گیا۔ وہ خُوشی سے مُڑتی کوارٹر میں غائب ہو گئی۔

وہ بھی سر پر ہاتھ پھیرتا حویلی کے اندرونی دروازے کی جانِب بڑھا۔

ابھی وہ دروازہ بند کے سیڑھیوں کی جانِب بڑھا ہی تھا جب سرد اور بے تاثر آواز پر رُک کر پلٹا۔

"کہاں سے آ رہے ہو؟" وہ رانا ہاشِم محمود کی آواز تھی۔ وہ ابھی تک جاگ رہے تھے حیرانی کی بات تھی۔

"باہِر گیا تھا کُچھ دیر۔" اُس نے نرمی سے ہی جواب دیا۔ اہنے باپ کے سامنے وہ بے ادبی کا مُظاہرہ نہیں کر سکتا تھا۔

"باہِر گئے تھے یا اپنی معشوقہ سے مِلنے سرونٹ کوارٹر گئے تھے۔" وہ نہیں جانتا تھا کہ اُنہیں کیسے پتہ چلا مگر اُن کی بات سُن کر اُس کا دماغ بھک سے اُڑا گیا تھا۔

"آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ مُجھے سمجھ نہیں آ رہی۔" اُس نے نا سمجھی کا مُظاہرہ کیا تو وہ کُچھ پل اُسے دیکھتے رکے پھر اُسے اپنے ہیچھے آنے کا اِشارہ کر کے سیڑھیوں کی جانِب بڑھے۔ وہ اُن کے پیچھے چلتا سٹڈی روم میں داخل ہو گیا تھا۔ وہ سامنے راکنگ چئیر پر بیٹھتے اُس کی طرف متوجّہ ہوئے جو اُن کے سامنے ادب سے کھڑا تھا۔ اُن کے تینوں سپوت اُن کا غرور تھے۔

"میں نے ہانیہ سے تُمہارے رِشتے کا سوچا ہے۔ تُم تو جانتے ہی ہو گے اُسے؟ ساتھ والے گاؤں کے سرپنچ فراز راجپوت کی بیٹی ہے وہ۔ ہماری برادری کے اچھے کھاتے ہیتے لوگ ہیں۔ شِملہ بہت اونچا ہے اُن کا۔ ایک بار جعفر کی شادی نِپٹ جائے تو تُمہارا رِشتہ لے کر جانا ہے وہاں۔" رانا ہاشِم نے کوئی بم تھا جو اُس پر پھوڑا تھا۔

"میں ہرگِز بھی کِسی ہانیہ سے شادی نہیں کروں گا۔ میں کِسی اور کو چاہتا ہوں اور اُسی سے شادی بھی کروں گا۔" رانا عبّاس نے دوٹوک انداز میں کہا تو رانا ہاشِم ٹھٹھکے تھے مگر جب بولے تو لہجہ پُرسکون تھا مگر رانا عبّاس کا سکون برباد کر گیا تھا۔

"جو کوئی بھی ہے بہلا لو دِل جِتنے دِن بہلانا ہے۔ مُجھے کوئی اعتراض نہیں ہے چاہے ایک ہو یا دس۔ سمجھ سکتا ہوں جوان خُون ہے کبھی کبھی جوش مار دیتا ہے تُمہارے اُس سے تعلُقات ایک طرف مگر شادی ہانیہ سے ہی ہو گی۔" رانا ہاشِم کا انداز اُسے آگ لگا گیا تھا۔

"کیا مطلب ہے آپ کی بات کا؟ میں اُسے اِستعمال کر کے چھوڑ دوں کہ وہ کِسی اور کے قابِل بھی نا رہے؟ معاف کیجیے گا مگر میری ماں نے میری تربیت ایسی نہیں کی، ویسے بھی میں اپنی دسترس میں آئی چیز پر بھی کِسی کی نِگاہ برداشت نا کروں وہ تو پھر میرے دِل میں بسنے والی ایک جیتی جاگتی اِنسان ہے۔ نا آج نا کل، اُس کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔" اُس کے دوٹوک انداز پر اِشتعال کا ایک لاوا رانا ہاشِم کے اندر اُبلا تھا۔

"بکواس بند کرو اپنی عبّاس! ایک کمّی کمین کی بیٹی کو تُم اِس حویلی کی بہو بنانا چاہتے ہو جو اِس لائق ہی نہیں؟ اُس کا خیال دِل سے نِکال دو رانا عبّاس! ورنہ تُمہاری اُس دو کوڑی کی مُحبّت کو وہاں پھینکواؤں گا کہ چاہ کر بھی پا نہیں سکو گے اُسے۔" رانا ہاشِم کا لہجہ سُلگتا ہوا تھا۔

"کِسی کی اِتنی ہمّت نہیں کہ وہ اُس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھ سکے۔ رانا عبّاس میں اِتنا دم خم ہے کہ وہ اپنی مُحبّت کی حِفاظت کر سکے۔ وہ نہیں تو کوئی نہیں۔" رانا عبّاس کی آنکھوں میں ہلکورے لیتا جنون اور شِدّت دیکھ کر رانا ہاشِم اپنی جگہ پر ساکن سے رہ گئے تھے۔

"صِرف ایک بار بابا سائیں! ایک دفعہ اُسے دیکھیں تو سہی! وہ اِتنی معصوم اور پیاری ہے کہ کوئی بھی اُس کو ڈانٹ بھی نہیں سکے۔ وہ آپ کو پسند آئے گی بابا سائیں!" اُس کی مِنّت سماجت پر اُنہوں نے پینترا بدلا تھا۔ وہ اپنا بیٹا نہیں کھو سکتے تھے اِس کے لیے اُنہیں ایسی چال چلنی تھی کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نا ٹوٹے۔


********************

"ٹھیک ہے مگر میں اُس سے پہلے مِلنا چاہوں گا۔ ہے کون وہ؟" بظاہر چہرے پر نرمی سجائے وہ اُس سے مُخاطب ہوئے تھے مگر دِل میں کُچھ اور ہی چل رہا تھا کہ اگر رانا عبّاس جان لیتا تو اُنہیں نین گُل کے بارے میں بتانے سے پہلے لاکھ مرتبہ ضرور سوچتا۔ وہ جان تو گئے تھے کہ وہ نئی آئی مُلازمہ ہی ہے جِسے رانا عبّاس نے ہی بُلوایا ہے مگر ایک بار کنفرم کرنا چاہتے تھے۔

"سچ؟ آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا؟" رانا عبّاس نے حیرانی سے پوچھا تھا۔ لہجہ خُوشی سے بھرپور تھا۔ اُس کے انداز پر رانا ہاشِم نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ تیزی سے چلتا اُن کے قدموں میں بیٹھا۔

"وہ نواز علی ہے نا؟ جو ہمارے کھیتوں میں کام کرتا ہے اُسی کی بڑی بیٹی ہے نین گُل! ہے تو ابھی مُجھ سے بہت چھوٹی صِرف اُنیس سال کی مگر مُجھے وہ بہت ہسند ہے بابا سائیں! میں نے اُس سے مُحبّت کی ہے دِل لگی نہیں بابا سائیں! مُحبّت میں واحد کا صیغہ ہوتا ہے تو میں کیسے کِسی اور کے بارے میں سوچ سکتا ہوں؟ مُجھے صِرف ایک لڑکی چاہیے وہ بھی نین گُل اور کوئی نہیں۔" عبّاس کا چہکتا لہجہ بھی اُن کے فیصلے کو مسترد نہیں کر پایا تھا۔ اُس لڑکی کو عبّاس کی زِندگی سے نِکالنے کے لیے وہ کُچھ بھی کر سکتے تھے۔ اُنہیں اپنا رُتبہ، اپنی ذات اور اپنا غرور اپنے بیٹے سے بھی پیارا تھا۔ وہ گاؤں کی بھلائی کے لیے کام کرتے تھے تا کہ گاؤں کے لوگ اُن سے دبے رہیں۔ اپنی انا وہ کبھی ختم نہیں کر سکتے تھے کُجا کہ ایک کمّی کمین کی بیٹی کو اپنے گھر کی بہو بنانا۔

"ٹھیک ہے ایک بار یہ شادی نِپٹ جائے پھر کُچھ سوچتے ہیں اِس بارے میں بھی۔" اُنہوں نے نرمی سے کہا تو وہ خُوشی سے اُن کے ہاتھوں ہی بوسہ دیتا اُٹھا کھڑا ہوا۔

"شُکریہ بابا سائیں! آپ نے مُجھے زِندگی کی سب سے بڑی خُوشی دی ہے۔" وہ سرشار سے لہجے میں کہہ کر دروازے کی جانِب بڑھا جبکہ پیچھے وہ کُچھ سوچ کر مُسکرائے۔ وہ کبھی ہار نا ماننے والوں میں سے تھے جِنہیں اُن کا رُتبہ اور حسب نسب سب سے زیادہ عزیز ہوتا ہے اور اُنہیں بھی عزیز تھا۔


********************


حمود کی آنکھ صُبح فجر کے وقت ہی کُھل گئی تھی۔ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ لیٹی نہیں بلکہ چادر سنبھالتی کوارٹرز کے ایک طرف بنے باغ میں نِکل آئی۔ وہاں موجود پودوں اور پھولوں کو دیکھتے وہ اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہی تھی جب کسی کی کھنکارنے کی آواز پر چونک کر مُڑی۔ سامنے ہی رانا عبّاس کھڑا اُس کی طرف متوجّہ تھا۔

"تُم غالبا نین گُل کی بہن حمود ہو؟" اُس کے پوچھنے پر وہ ہاں میں سر ہلا گئی۔

"میں رانا عبّاس ہاشِم ہوں۔" اُس نے اپنا تعارُف کروایا۔

"میں جانتی ہوں۔" اُس نے جواب دے کر اندر کی طرف قدم بڑھائے مگر عبّاس کی آواز پر رُکنا پڑا۔

"میں جانتا ہوں کہ تُمہیں میرا اور نین گُل کا مِلنا پسند نہیں مگر میں نے اِس کا حل تلاش لیا ہے۔" رانا عبّاس کی بات پر اُس نے چونک کر اُسے دیکھا۔

"مطلب؟" اچھنبے سے سوال کیا۔

"مطلب کہ ویر سائیں کی شادی کے بعد بہت جلد میں نین گُل کا رِشتہ لاؤں گا اور نِکاح کروں گا اُس کے ساتھ۔" رانا عبّاس نے کہا تو وہ سر ہلا گئی۔

"بڑے سائیں مان گئے؟" اُس نے پوچھا۔

"ہاں وہ مان گئے ہیں۔ " اُس کے لہجے میں مان تھا۔

"کیا باتیں ہو رہیں ییں؟" رانا باقِر اچانک ہی وہاں آیا تھا۔

"بابا سائیں مان گئے ہیں اور اب ویر سائیں کی شادی کے بعد وہ میرا رِشتہ بھی لے کے جائیں گے نین گُل کے گھر۔" رانا عبّاس نے بتایا تو حیرت سی رانا باقِر کے چہرے پر چھلکی۔

" مطلب اب اپنی نیّا بھی پار لگ ہی جائے گی۔" اُس نے بڑبڑا کر کہا۔

"کیا کہا؟" رانا عبّاس نے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا گیا۔

"میں چلتا ہوں دیر ہو رہی ہے۔" آج اُسے اپنے سارے کاغذات تھانے میں جمع کروانے تھے۔ شادی کے دِنوں میں تو جوائن نہیں کر سکتا تھا اِس لیے وہ دو دِن بعد جوائن کرنے والا تھا۔

"اب تو خُوش ہو نا؟ نین گُل میری بھاوج بن جائے تو تُم بھی اِس حویلی میں بہو بن کر آ جاؤ گی۔ اب تو اِنکار نہیں ہے نا تُمہیں؟" رانا باقِر نے آنکھوں میں آس لیے پوچھا تھا۔

"میں آپ سے شادی نہیں کروں گی چھوٹے سائیں! میں آپ سے مُحبّت نہیں کرتی کِتنی بار سمجھاؤں آپ کو؟ آج نہیں، کل نہیں، کبھی نہیں ہرگِز آپ سے مُحبّت نہیں ہو گی مُجھے۔" وہ حلیمہ بیگم کا رویہ مُلازموں اور خاص کر نین گُل کے ساتھ دیکھ چُکی تھی پھر وہ کیسے اپنے بیٹے کی شادی ایک کمّی کمین کے ساتھ کر دیتیں؟ اور ضروری تو نہیں کہ رانا عبّاس کی طرح رانا باقِر بھی اپنے گھر والوں کے سامنے ڈٹ جائے۔ وہ اپنی وجہ سے اِس حویلی میں فساس کے ساتھ ساتھ اپنی زِندگی میں اِنتشار نہیں چاہتی تھی۔ ابھی وہ محض پندرہ برس کی تھی اور یہ شخص اُس سے نو دس سال بڑا تھا۔

اُس کو دوٹوک جواب دے کر وہ اندر جا چُکی تھی۔ پیچھے وہ پیچ و تاب کھا کر رہ گیا تھا۔ وہ جِتنی نرمی سے پیش آتا وہ اُتنا ہی اکڑ جاتی تھی۔ اب اُس کے صبر کا مادہ لبریز ہو گیا تھا۔ وہ بھی چاہتا تھا کہ اُسے اُس کی مُحبّت کا جواب مُحبّت سے مِلے لیکن یہ چھٹانک بھر لڑکی تو اُسے کاٹ کھانے کو دوڑتی تھی۔ ایسے نہیں تو ویسے سہی۔ حمود اپنی نادانی میں اُسے ضِد دِلا چُکی تھی۔ وہ ہر حال میں اُسے پانا چاہتا تھا۔ مُحبّت اب ضِد میں بدل گئی تھی۔ بار بار اُس کی طرف سے دھتکار نے رانا باقِر کی انا پر وار کیا تھا اور اب وہ زبردستی ہی سہی مگر اُسے اہنی زِندگی میں داخِل کرنے والا تھا پھر انجام چاہے جو مرضی ہوتا۔

ابھی وہ یہی سب سوچ رہا تھا جب کِسی نے اُس کا بازو ہلایا۔

"کِس سوچ میں گُم ہیں جناب؟" یہ دُرِشہوار تھی۔

"ہاں ؟ کہیں نہیں۔ تُم یہاں؟" اُس نے خُود کو کمپوز کرتے پوچھا۔

"آپ کو یہاں پہ کھڑے دیکھا تو چلی آئی۔" اُس نے رانا باقِر کے چہرے کو نرمی سے دیکھ کر کہا۔

"واپس اندر جاؤ شاہی! مرد مُلازم آتے ہوں گے۔" رانا باقِر نے نرمی سے کیا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی۔

"آپ بھی ساتھ چلیں مُجھے بتائیں میں آج شادی میں کیا پہنوں؟" اُس نے لاڈ سے رانا باقِر کا بازو تھاما۔

"پہلے کون سا مُجھ سے ہوچھ کے پہنتی ہو۔ کوئی بھی پہن لو۔" اُس نے بے زارگی سے کہا تو وہ منہ بسور گئی۔

"میں آپ سے بات ہی نہیں کرتی۔ اِتنا اُکتا گئے ہیں مُجھ سے کہ زرا سا ٹائم بھی نہیں اپنی شاہی کے لیے؟" اُس نے خفگی سے کہتے قدم اندر کی جانِب بڑھائے تو وہ بے ساختہ اُس کا ہاتھ تھام گیا۔ وہ اُسے ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا جبکہ ہال کی کِھڑکی سے جھانکتی حمود تلخی سے مُسکرائی۔ اُس کا فیصلہ درست تھا یہ مرد اُس کے لیے نہیں تھا۔

"اچھا ناراض مت ہو۔ جانتی ہو نا تُمہیں ناراض نہیں دیکھ سکتا۔ چلو آج تُمہارے ویر سائیں خُود تُمہارے لیے کپڑے سیلیکٹ کریں گے۔" اُس کے ویر سائیں کہنے پر دُرِشہوار نے دانت پیسے مگر پھر اُس کا ہاتھ تھامتی اندر کی جانِب بڑھ گئی۔ اُس کے لیے یہی بہت تھا کہ وہ شخص اُس کے ساتھ تھا اور اُس کی ناراضگی کی پرواہ کرتا تھا۔


***************


وہ اِس وقت ناشتہ کر رہی تھی۔ صُبح کے سات بج رہے تھے۔ ڈھیلا ڈھالا سُرخ کُرتا اور سفید رنگ کی گھیر دار شلوار پہنے وہ دوپٹے کو حِجاب کی مانِند لپیٹے بہت پیاری لگ رہی تھی۔ تیز تیز ناشتہ کرتی کو بُوا نے ٹوکا تو وہ تھوڑی دیر کے لیے طریقے سے کھاتی پھر تیزی سے شروع ہو گئی جِس پر بُوا نفی میں سر ہلا گئیں۔

"حامی کا دھیان رکھیے گا۔ اگر زیادہ تنگ کرے تو مُجھے فون کریے گا میں آ جاؤں گی۔" بُوا سے کہہ کر وہ اُٹھی۔ بے بی کاٹ میں لیٹے حمین کو پیار کرتی وہ اپنا چھوٹا سا پاؤچ اُٹھاتی باہِر کی جانِب بڑھی۔ رِکشے پر بیٹھ کر وہ پتہ بتاتی باہِر دیکھنے لگی۔ اپنی ہی سوچوں میں گُم اُسے پتہ بھی نا چلا اور وہ مطلوبہ پتے پر پہنچ گئی۔ جانے کیوں مگر جب بھی وہ سفر کرتی تھی تو ان گنت سوچیں اُس کے دماغ پر ہاوی ہونے لگتی تھیں۔

رِکشے والے کو کرایہ دے کر اُس نے مطلوبہ فلیٹ کی جانِب قدم بڑھائے۔ فلیٹ نمبر 13 پر پہنچ کر اُس نے بیل بجائی اور اِنتظار کرنے لگی۔ تقریباً پانچ مِنٹ بعد دروازہ کُھلا اور اِنسپکٹر حیدر کی شکل دِکھائی دی۔

"تُم لیٹ ہو۔" حیدر نے گھڑی کی طرف دیکھتے جتایا۔ سات بج کر پینتالیس مِنٹ ہو رہے تھے۔ وہ اِس وقت ٹریک سوٹ میں ملبوس تھا۔ بال ماتھے پر بِکھرے ہوئے تھے جو اُسے پُرکشش بنا رہے تھے۔ چہرے پر خفگی کے آثار نمایاں تھے۔ اُس نے بے ساختہ ہی حیدر سے نظریں چُرائیں۔

"حامی جاگ گیا تھا تو اُسے سُلاتے دیر ہو گئی۔" اُس نے دیری کی وجہ بتائی۔

"حامی؟ تُمہارا بیٹا؟" حیدر نے پوچھا تو وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔

"اوکے مگر آئندہ لیٹ مت ہونا۔ اندر آؤ۔" اُسے اندر آنے کا اِشارہ کرتا وہ خُود آگے بڑھ گیا۔ اُس کے تعاقُب میں چلتی وہ چھوٹے سے ہال میں آ گئی۔

"سب سے پہلی بات تو یہ کہ تُمہیں صُبح سات بجے آنا ہے۔ آنے کے بعد میرے لیے جوس کا گلاس ٹیبل پر رکھنا ہے۔ میری واپس پر میرے لیے ناشتہ بنانا ہے۔ ویسے تو میں بٹر سلائس بھی کھا لیتا ہوں لیکن تُم آ گئی ہو تو انڈہ پراٹھا بنا دیا کرنا اور اُس کے بعد چائے۔ پھر میں تو ڈیوٹی پر چلا جایا کروں گا تُم گھر کی صفائی سُتھرائی اور باقی ماندہ جو بھی کام ہیں وہ کر دیا کرنا۔ لنچ میں تھانے میں ہی کرتا ہوں۔ تو اُس کی کوئی فِکر نہیں۔ اُس وقت میں تُم میرے کپڑے دھو دیا کرنا۔ ہاں رات کا کھانا بنانے کے بعد تُمہاری چُھٹی۔ بس اِتنا سا کام ہے۔" حیدر نے تفصیل سے بتاتے آخر میں بس کہا اور اُس کی طرف دیکھا جو سنجیدگی سے اُسے دیکھ رہی تھی۔

"میں کُل وقتی مُلازمہ نہیں ہوں۔" اُس نے جتایا تو حیدر کے بھنویں سُکیڑیں۔

"پچِیس ہزار دے رہا ہوں اِتنا تو بنتا ہے کام۔" حیدر نے اچھنبے سے کہا۔

"میرا بیٹا چھوٹا ہے نہیں رہ سکتا میرے بغیر۔ بُوا کی بھی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی اور رات کو کھانا بناتے وقت کافی وقت ہو جایا کرے گا میں کیسے گھر جایا کروں گی؟" اُس کی پریشانی سُنتے حیدر پیشانی مسلنے لگا۔

"چوری کرنے کے لیے بھی تو سارا وقت ہی باہِر گُزارتی تھی نا؟" اُس نے طنزاً کہا۔

"نہیں تو مال مِلتے ہی گھر آ جاتی تھی میں۔" اُس نے ڈھٹائی سے دانت نِکالتے کہا تو وہ لب بھینچ کر رہ گیا۔

"تُم اپنی بُوا اور بچّے سمیت یہاں میرے فلیٹ میں شِفٹ ہو جاؤ۔" اُس نے چُٹکی بجا کر مسلے کا حل نِکالا تو اُس نے مشکوک نظروں سے حیدر کو دیکھا۔

"تُم ایک مُلازمہ پر اِتنے مہربان کیوں ہو؟" اُس کے سوال پر وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔ یہ تو وہ بھی نہیں جانتا تھا بس وہ دِل کو اچھی لگنے لگی تھی۔

"پتہ نہیں۔ لیکن اگر تُم نہیں رہنا چاہتی تو اپنے بیٹے کو یہاں لے آیا کرنا میں شام کو تُمہیں ڈراپ کر دیا کروں گا۔" حیدر نے نظریں چُراتے جواب دیا۔

"اپنی مُلازمہ کو اِتنی سہولیات کون پاگل دیتا ہے؟" اُس کی نظریں ابھی بھی حیدر پر گھڑی تھیں۔

"حیدر پاگل دیتا ہے۔ کیا ہو گیا ہے؟ میں یہ صِرف تُمہارے بچّے کے لیے کر رہا ہوں اور خُود کو بار بار مُلازمہ کہنا بند کر دو۔" اُس نے اُس کی نظروں سے جھنجھلا کر جواب دیا تو وہ گہرا سانس بھر گئی۔ جِس طرح کی اُس کی زِندگی ہو گئی تھی وہ ہر کِسی پر ہی شک کرتی تھی۔

"مُلازمہ ہوں تو خُود کو مُلازمہ ہی کہوں گی۔" وہ پھر بھی باز نہیں آئی تھی جِس پر وہ دانت پیس کر رہ گی۔ یہ لڑکی اُس کے صبر کا اِمتحان لیتی تھی۔

"اب کھڑی کیوں ہو نہیں منظور تو بھاڑ میں جاؤ اور جا کر میرے لیے ناشتہ بناؤ۔" وہ غُصّے سے بولتا جانے لگا جب اُس کی آواز پر مُڑتا خُونخوار نظروں سے اُسے دیکھنے لگا۔

"بھاڑ میں ناشتہ نہیں بنتا۔" وہ بول تو اُٹھی لیکن اُس کی کھا جانے والی نظروں سے گھبراتی کِچن میں چلی گئی۔ جو بھی تھا اِتنا بُرا بھی نہیں تھا یہ شخص۔

کُچھ دیر بعد وہ وہ ٹیبل پر ناشتل رکھ رہی تھی جب وہ نک سک سا تیار پولیس یُونیفارم میں ملبوس خُوشبوئیں بکھیرتا اُس تک آیا۔ ایک نظر ٹیبل پر لگے ناشتے کو دیکھا اور سکون سے بیٹھا ناشتہ نوش کرنے لگا۔

"تُم کیوں کھڑی ہو؟ بیٹھ جاؤ۔" اُس نے کہا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی۔

"وہ تُم تو چلے جاؤ گے مگر فلیٹ میں کون رہے گا؟ میں بھی گھر چلی گئی تو؟ اُس نے لب چباتے پوچھا تھا۔

"یہ لو چابی! جاتے وقت فلیٹ کو لاک کر دینا اور ہاں کل سے اپنے بیٹے کو بھی لے آیا کرنا میں شام میں ڈراپ کر دیا کروں گا۔" حیدر نے سنجیدگی سے ناشتہ کرتے ہوئے کہا تو وہ ہقّا بقّا سی رہ گئی۔

"ایک چور پر بھروسہ کر رہے ہو؟" اُس نے پوچھا تو وہ مُسکرایا۔

"تُم پر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے۔" حیدر کے لہجے میں نجانے کیا تھا کہ اُس کی پیشانی پسینہ پسینہ ہوئی۔

"مُجھے یقین یے کہ کُچھ نہیں چُراؤ گی تُم۔" اپنی ذومعنی بات کا اثر زائل کرنے کی خاطِر وہ بات بدل گیا۔

"اچھا چلو میں چلتا ہوں۔ تُم دھیان سے فلیٹ کا کونہ کونہ چمکا دینا۔" اُس نے شرارت سے کہا تو وہ نا سمجھی سے سر ہلا گئی جب کہ وہ مُسکرا کر اُس کے سر پر چپت لگاتا باہِر نِکل گیا۔ اُس کے جانے کے بعد جیسے فلیٹ سے رونق ایک دم ختم ہو گئی تھی۔ وہ دروازہ بند کرنے کِچن میں آئی تا کہ گندے برتن دھو سکے۔


******************


اگلے دِن کا سورج حویلی کے در و دیوار کو چمکا گیا تھا۔ آج تو عجب ہی چہل پہل تھی رانا حویلی میں۔ جہاں ہر سو رنگ و بُو کا سیلاب تھا۔ دِن میں ہی ساری تیاریاں مُکمّل کی جا رہی تھیں۔ لان کو نئے سِرے سے سجایا جا رہا تھا جہاں پر مردوں اور عورتوں کے بیٹھنے کا اِنتظام کیا گیا تھا اور درمیان میں پردہ لگا دیا گیا تھا۔ سٹیج پر صوفے رکھے جا رہے تھے جِن کے پیچھے دیواروں کو گُلاب کے پھولوں سے سجایا جا رہا تھا۔ صوفوں کے آگے شیشے کا ٹیبل رکھا ہوا تھا۔

حویلی کے اندر آؤ تو ہر کوئی اِدھر اُدھر بھاگتا اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھا۔ نین گُل تو دُرِفشاں کے کمرے میں تھی جبکہ حمود کی آج سکول سے چُھٹی ہو گئی تھی اور وہ اب نوری کے ساتھ کِچن میں ہاتھ بٹا رہی تھی جو مہمانوں کے لیے ناشتہ بنا رہی تھی۔ باہِر کے سارے کام رانا عبّاس اور رانا باقِر ہی دیکھ رہے تھے۔ رانا کبیر اپنے ویر سائیں کی شادی میں نہیں آ پایا تھا کیونکہ اُس کے سمیسٹر کے فائنل ہیپر ہو رہے تھے۔

صُبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام ہو گئی تھی۔ دُرِفشاں کی تیاری کے لیے شہر سے ماہِر بیوٹیشن کو بُلوایا گیا تھا۔ نین گُل اُس کے کمرے میں اُسی کے پاس تھی تا کہ کِسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ بر وقت دے سکے۔ بالآخر سات بجے فنکشن شروع کر دیا گیا تھا۔ نِکاح تو پہلے ہی ہو چُکا تھا اِس لیے دُرِفشاں کو سٹیج پر لے جایا گیا۔ وہ ڈیپ ریڈ کلر کے لہنگے میں ملبوس تھی۔ کلائیوں میں بھر بھر کے سُرخ چوڑیاں پہنی ہوئیں تھیں۔ اُس کا مُکھڑا گھونگھٹ میں چُھپا ہوا تھا جِس کی وجہ سے کوئی اُسے دیکھ نہیں پایا تھا کہ وہ کیسی لگ رہی ہے۔ سہج سہج کر قدم اُٹھاتی وہ رانا جعفر کے پہلو میں براجمان ہوئی تھی۔ رانا جعفر نے گولڈن کلر کی شیروانی زیب تن کی تھی، سر پہ کُلّہ پہنے گلے میں گُلاب کے پھولوں کا ہار اور چہرے پر سنجیدگی سجائے وہ کافی مغرور اور اکھڑ لگ رہا تھا۔ اُس کے چہرے کی بیزاریت سے لگ رہا تھا

جیسے اُسے زبردستی بِٹھایا گیا ہو۔ تبھی رانا کبیر کی ویڈیو کال آئی تھی باری باری سب سے بات کرتا وہ بھی فنکشن اٹینڈ کر رہا تھا۔ اُس کی کمی سب کو ہی محسوس ہو رہی تھی لیکن مجبور تھے۔ سعدیہ بیگم تو اُسے دیکھتے رو پڑی تھیں۔ جِنہیں رانا عبّاس نے بڑی مُشکِل سے چُپ کروایا تھا۔

رانا عبّاس کی نظریں تو صِرف اُسی طرف کو اُٹھ رہیں تھیں جِس طرف اُس کی نین گُل جا رہی تھی۔ سُنہرے رنگ کی پٹیالہ شلوار پہ سُرخ رنگ کی سِندھی کڑھائی والی قمیض پہنے، سر کو سُنہرے آنچل سے ڈھکے وہ اُس کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ سُرخ رنگ میں اُس کی گوری رنگت اور دمک رہی تھی۔ رانا عبّاس اِس وقت براون کلر کا رائل کوٹ پہنے بہت وجیہہ لگ رہا تھا۔ نین گُل تو دِل ہی دِل میں اُس کی نظر بھی اُتار چُکی تھی۔ جبکہ اُن دونوں کا یہ نین مٹکّا دیکھتے رانا ہاشِم کا بس نا چلتا تھا کہ مِنٹ سے پہلے نین گُل کو یہاں سے غائب کروا دیں۔ کرنے کو وہ بہت کُچھ کر سکتے تھے لیکن وہ اپنے بیٹے کی شادی خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔


حمود نوری کے ساتھ آخر میں ایک ٹیبل کے پاس کھڑی سامنے سٹیج پر دیکھ رہی تھی جہاں دُلہا دُلہن شان سے براجمان تھے۔ اُن کی رسم شروع ہو چُکی تھی۔ خواتین آتیں اور دُرفشاں کا گھونگٹ اُٹھا کر اُسے دیکھ کر ماشااللّٰہ کہتیں، سلامی دے کر نیچے اُتر جاتیں۔ کافی بڑا پڑا خاندان تھا۔ برادری کے سبھی لوگ آئے تھے جو رسم کر رہے تھے۔ حمود نے سادہ لان کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔ دوپٹے کو سختی سے سر پر جمائے وہ سنجیدگی سے سامنے دیکھ رہی تھی جبکہ تھوڑی ہی دور رانا باقِر کھڑا اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ یہ چھوٹی سی لڑکی اُس کے لیے ناگزیر ہوتی جا رہی تھی۔ وہ اُس سے سختی برتنا بھی چاہتا تو برت نہیں پاتا تھا۔ نجانے اُس سادی سی سُنہری گندمی رنگت والی لڑکی میں کیا تھا جو اُسے اُس کی طرف کھینچتا تھا۔ ابھی وہ اُسے دیکھ ہی رہا تھا جب دُرِشہوار اُس کی طرف آئی اور اُس کا ہاتھ تھامتی زبردستی سٹیج پر لے گئی کہ وہ اُسی کے ساتھ یہ رسم کرنا چاہتی ہے اور اگر وہ سمجھتا تو جان جاتا کہ یہی اُس کی قِسمت ہے جِس کو وہ پہچان نہیں پا رہا تھا اور بہت جلد پہچاننے والا تھا۔ حمود نے اُن دونوں کو دیکھ کر لبوں پہ مُسکراہٹ سجائی تھی۔ دُرِشہوار کی آنکھوں میں وہ رانا باقِر کے لیے مُحبّت صاف دیکھ چُکی تھی اور دُعا گو بھی تھی کہ اُن کی منزل ایک ہو جائے.


*********************

رات کے گیارہ بج ریے تھے جِس وقت فنکشن ختم ہوا۔ رُخصتی کا دور دورہ اُٹھا تو ہر طرف شور مچ گیا۔ بے شک ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانا تھا مگر ہر رِشتہ بدل گیا تھا اور جِس کی بدولت بدلا تھا وہ تو ویسے بھی بدلا ہوا تھا۔ دُرِفشاں رُخصت ہوتے وقت پھوٹ ہھوٹ کر روئی تھی۔ نجانے اپنی ذات کی کم مائیگی کا غم تھا یا رانا جعفر کے دِل میں کِسی اور کی مُحبّت ہونے کا۔ مگر آنسو تھے کہ بس گالوں کو اپنا مسکن بنا گئے تھے۔ سب ہی آبدیدہ تھے مگر صبر تو کرنا ہی تھا۔ سعدیہ بیگم نے اُسے خُود سے لگاتے تسلی دی کہ وہ کونسا دور جا رہی ہے ایک ہی گھر میں تو ہیں سب۔ اب وہ اُنہیں کیا بتاتی کہ یہ آنسو آپ کے بیٹے کی بے وفائی پر بہا رہی ہے۔ قُرآن پاک کے سائے میں دُرِفشاں کو لان سے حویلی کے ہال میں لایا گیا۔ وہ کافی تھک چُکی تھی اِس لیے سعدیہ بیگم کے کہنے پر نین گُل اور دُرِشہوار دُرِفشاں کو رانا جعفر کے کمرے میں لے گئے جبکہ باقی مہمان جو قریب سے ہی تھے واپسی کی تیاریاں کرنے لگے۔ جو لوگ رُکنے والے تھے وہ گیسٹ رومز کا رُخ کرنے لگے۔ حمود اور نین گُل بھی کوارٹر میں چلے گئے۔

رانا جعفر سب دوستوں کے ساتھ کافی دیر بیٹھا رہا۔ اُسے اپنے کمرے میں جانے سے کوئی غرض نہیں تھی نا ہی دُرفشاں کے ٹوٹے دِل کی پرواہ۔ دو گھنٹے وہ اُن کے ساتھ بیٹھا رہا۔ ایک بجے کے قریب رانا ہاشِم نے اُسے ڈپٹا تو وہ دوستوں کو الوِداع کہتا اپنے کمرے کی جانِب بڑھ گیا۔ چہرے پر ابھی بھی بیزاریت کے تاثرات تھے۔

وہ کمرے میں داخِل ہوا تو سامنے ہی بیڈ پر دُرِفشاں لہنگا پھیلائے، گھونگھٹ گِرائے بیٹھی تھی۔ کمرہ بہت بڑا تھا۔ ایک سائیڈ پر بیڈ ایریا جب کہ دوسری طرف سِٹنگ ایریا بنایا گیا تھا۔ ایک طرف ڈریسنگ روم جبکہ اُس کے ساتھ ہی دروازے سے تھوڑا دور باتھ روم تھا۔ پورے کمرے کو برقی قمقموں اور گُلاب کے پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ گُلاب کی مہک سے کمرہ بھی مہک رہا تھا۔ فسوں خیز ماحول تھا جو اِس عروسی کمرے میں چھایا ہوا تھا لیکن کمرے کے مکینوں کے دِل جیسے مر سے گئے تھے۔

رانا جعفر اُسے اپنا اِنتظار کرتے دیکھ کر طنزیہ مُسکرایا اور ڈرسینگ روم کی جانِب بڑھ گیا۔ کُچھ دیر بعد وہ چینج کر کے نِکلا تو ٹراؤزر اور سلیو لیس شرٹ میں ملبوس تھا۔ وہ اُس کے سامنے بیڈ پر بیٹھا اور اُسے دیکھنے لگا۔

"تُم نے تو بڑے غرور سے کہا تھا کہ مُجھے کوئی حق نہیں چاہیے تو اب یہ اِنتظار کِس لیے؟" اُس کا لہجہ طنزیہ تھا۔

"بِھیک میں مِلے قُربت کے چند لمحات مُجھے واقعی نہیں چاہیے۔ میں تو اِس لیے بیٹھی محوِ اِنتظار تھی کہ آپ کے دِل میں حسرت نا رہ جائے کہ اپنی پہلی بیوی کی منہ دِکھائی کر لیتے تو اچھا تھا۔" دُرّے کی بات پر اُس نے لب کچکچائے تھے۔

"مُجھے کوئی حسرت نہیں ہے منہ دِکھائی کرنے کی۔ حق کی بات بھی میں نے اِس لیے کی تھی تا کہ بابا سائیں کو مُجھ سے کوئی شِکوہ نا ہو۔ ورنہ مجبوری میں گلے پڑی عورت کو میں خیرات میں بھی اپنی قُربت مہیا نا کروں اور یہ لو پہن لینا اور کوئی پوچھے منہ دِکھائی کا تو دِکھا بھی دینا۔" اُس کے لہجے کا غرور دُرِفشاں کے دِل کو پاش پاش کر گیا تھا۔ مگر اُس ظالِم کو تو پرواہ بھی نہیں تھی۔ اُس کی گود میں ایک مخملی ڈِبیہ پھینکے، رُخ موڑے بیٹھا وہ اپنے ہاتھ میں موجود فون پر نتاشہ کا میسج دیکھ رہا تھا۔

"آپ کی مرضی ہے سائیں۔" ڈِبیہ سائیڈ پر کھ کر اُس نے اِتنا کہہ کر اُس نے گھونگھٹ ہٹایا تھا۔

رانا جعفر نے اُس کی آواز پر غُصّے بھری نِگاہیں اُس پر ٹِکائی تھیں مگر پھر پل بھر میں وہ نظریں حیرت اور ستائش سے بھر گئیں تھیں۔ وہ اُسے کے دو آتشہ روپ کو دیکھتا اپنی جگہ پہ جما سا رہ گیا تھا۔ اِتنی حسین تو نتاشہ بھی نہیں تھی جِس کے مُحبّت میں وہ گوڈے گوڈے ڈوبا ہوا تھا۔

برائیڈل میک اپ، گولڈ کی جیولری، سولہ سِنگھار نے اُس کی حُسن کو مزید نِکھار دیا تھا۔ بھوری کانچ سی آنکھیں آئی میک اپ کی وجہ سے تھوڑی اور نمایاں ہو گئیں تھیں، چھوٹی سی پتلی ناک میں گولڈ کی باریک سی بڑی تین نگوں والی نتھلی پہنی تھی، گالوں پہ سُرخی چھائی ہوئی تھی، ہونٹ سُرخ رنگ سے مُزیّن تھے، دائیں گال پہ پڑا وہ گہرا گھڑا اُس کے چہرے کی معصومیت کے ساتھ سج کر اُسے کُچھ اور بھی حسین بنا گیا تھا۔ لمبے سیاہ بالوں کو سامنے سے بڑا بن بنا کر پیچھے کو رول کیا گیا تھا۔ بالوں کو نیچے سے کرل کر کے آگے کی طرف ڈالا ہوا تھا۔ ہاتھوں میں بھر بھر کر سُرخ رنگ کی چوڑیاں پہنی تھیں۔ وہ اُس کی نظروں سے بے نیاز بنی دونوں ہاتھ سے اپنے دوپٹے پہ لگی پِنز اُتار رہی تھی۔ ہاتھوں کی حرکت کی وجہ سے کمرے میں چوڑیوں کی کھنکار پیدا ہو رہی تھی۔ وہ جو اُس کے قریب بیٹھا نتاشہ کو میسج پر تسلّی دِلاسے دے رہا تھا ایک دم سے سب کُچھ بھول گیا تھا۔ دُرِفشاں کا یہ روپ اُس نے پہلی بار یکھا تھا اور پہلا ہی وار اُسے گھائل کر گیا تھا۔ نتاشہ اور اُس کی مُحبّت تو جیسے سِرے سے تھی ہی نہیں۔

وہ اپنے دِل کی حالت میں اُلجھا بے چین اور بے خُود سا اُس کی طرف جُھکتے، اُس کا چہرہ تھامے دُرّفشاں کی سانسیں روک گیا تھا۔ اچانک پڑی افتاد پر دُرّفشاں مچل کر رہ گئی تھی۔ دونوں ہاتھ اُس کے سینے پر رکھے، اپنی پوری طاقت لگا کر دھکا دیا تو وہ بس ہلکا سا پیچھے کِھسکا۔ پیچھے ہوتی گہرے سانس بھرتی وہ خُود کو پُرسکون کرنے لگی۔ رانا جعفر جیسے نیند سے جاگا تھا اور اب اپنی جگہ پر بیٹھا اُسے غُصّے سے دیکھ رہا تھا۔

"کیا بدتمیزی ہے یہ؟ شوہر ہوں تُمہارا!" وہ غُصّے سے دھاڑا۔

"بدتمیزی میں نے نہیں آپ نے کی ہے سائیں! زُبان دی تھی آپ نے کہ میری اِجازت کے بغیر ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے مُجھے۔ اور ابھی کُچھ پل پہلے کیا کہا تھا آپ نے؟ کہ آپ اِس "گلے پڑی" کو "خیرات" میں بھی اپنی قُربت نا دیں تو اب کیا ہوا؟" وہ اُس کی بات اُسی پر پلٹاتی سرد لہجے میں بولی تو وہ کُچھ دیر کو چُپ رہ گیا۔

"اگر مرد ہیں تو زُبان پر بھی قائم رہیں۔ آپ کو آپ کی نتاشہ مُبارک ہو آخر کو آپ کی پہلی "مُحبّت" اور آخری "بیوی" ہے وہ۔ میں تو مجبوری ہوں جِس کی کوئی اہمیت نہیں تو بہتر ہے کہ مُجھے سے کیے وعدے پر قائم رہیں۔" دوٹوک انداز میں کہتی وہ بیڈ پر سے اُٹھی اور کھنکتی چوڑیاں لیے ڈریسنگ ٹیبل کی جانِب بڑھی گئی۔ پیچھے وہ بیڈ کی قریب کھڑا اُسے دیکھتا رہ گیا۔

جیولری وغیرہ سے فارِغ ہو کر وہ دوپٹہ تہہ کرتی ڈریسنگ روم کی جانِب بڑھی۔ اِس سب میں ایک دفعہ بھی رانا جعفر کی طرف نہیں دیکھا تھا جو اپنی جگہ پہ ساکت کھڑا حُسن کی بے رحم دیوی کو دیکھ رہا تھا مگر اپنی بے رحمی بھول گیا تھا۔ دُرِفشاں کا یہ روپ اُس کے دِل میں گھڑ گیا تھا۔ اُس کی خُوبصورتی کو اُس نے کبھی نظر بھر کر سراہا ہی نا تھا یا شاید کبھی دیکھا بھی نا تھا۔ ہمیشہ ڈھکی چُھپی رہنے والی وہ لڑکی آج اپنے حُسن کے جلوے بکھیرتی اُسے چاروں شانے چُت کر گئی تھی۔ آج جب اُسے دیکھا تھا تو جانے کیوں دِل ہی دِل میں نتاشہ اور دُرّے کا موازنہ کیا تھا دِل نے کہا تھا کہ دُرّے کا پلڑا بھاری ہے لیکن صدا کے انا باز مرد نے دِل کو ڈپٹ کر سُلا دیا اور ایک تلخ نِگاہ کمرے کے درودیوار پر ڈالتا سونے کے لیے لیٹ گیا۔

کپڑے چینج کرنے کے بعد وہ باتھ روم چلی گئی تھی۔ پندرہ مِنٹ بعد وہ فریش ہو کر باہِر آئی تو چہرے پر پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ ڈرسینگ کے سامنے کھڑے ہو کر اُس نے بال سُلجھائے اور کنگے کو ٹیبل پر رکھا۔ کھٹ پٹ کی آواز پر رانا جعفر نے ناگواری سے آنکھیں کھول کر دُرفشاں کو دیکھا مگر دیکھنے پر خُود کو کوسا۔ سلیو لیس شرٹ اور ٹراؤزر پہنے بغیر کِسی قِسم کی اوڑھنی کے اب بیڈ کی جانِب بڑھ رہی تھی۔ پہلے وہ کم اُس کا دِل جلا گئی تھی جو اب یہ کسر نِکال رہی تھی۔ لمبے بال اب پُشت پر بِکھرے ہوئے تھے۔

دُرّے نے ایک تلخ نِگاہ اُس پر ڈال کر اپنی جگہ سنبھالی اور چادر اوڑھتی سونے کی کوشش کرنے لگی۔

"میرے بیڈ سے۔۔۔۔۔۔۔۔" ابھی وہ بولنا شروع ہوا تھا جب دُرّے نے اُسے ٹوکا۔

"اگر آپ نے صوفہ صوفہ کھیلنا ہے تو بتا دیں تا کہ میں تاؤ سائیں سے کہہ کر اپنے لیے بیڈ کا اِنتظام کر لوں۔" سپاٹ سے انداز میں کہہ کر وہ اُس کی بات کاٹ چُکی تھی۔ رانا ہاشِم، رانا جعفر کی دُکھتی رگ تھا۔ وہ ہرگِز بھی نہیں چاہے گا کہ اُنہیں یہ سب پتہ چلے جبکہ دُرّے کی بات پر وہ دانت پیس کر رہ گیا تھا۔ وہ اُسے ٹارچر کرنے کا کوئی راستہ نہیں چھوڑ رہی تھی۔

"سمجھتی کیا ہو خُود کو؟ میں چُپ ہوں تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ تُمہیں کُچھ کہہ نہیں سکتا۔ زیادہ میرے سامنے اکڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔" اُس کے سرد لہجے پر دُرّے نے رانا جعفر کی آنکھوں میں جھانکا تھا۔ اُس کا ہاتھ دُرّے کے بازو میں پیوست ہو گیا تھا جِس پر اُسے تکلیف ہو رہی تھی۔

"میں خُود کو کیا سمجھوں گی جِس کا شوہر ہی اُسے کُچھ نہیں سمجھتا۔ بہت کُچھ کہہ چُکے ہیں آپ اور کُچھ سُننے کی چاہ نہیں۔" گہری اداسی بھری آنکھیں ہلکی سی نم ہوئیں تو وہ پلکیں جھپکنے لگی تا کہ وہ نمی اُس کی بے بسی کو ظاہِر نا کر دے۔ لڑکی تھی وہ اور نازُک سا دِل رکھتی تھی جِس میں سامنے والے کی بے اعتنائی سے درد ہوتا تھا۔ برداشت کرنے کی چاہ میں آنسو پھر بھی پلکوں کی دہلیز پر آن ٹھہرتے تھے.

اِس سے پہلے کہ رانا جعفر اُسے کُچھ سخت سُست سُناتا اُس کا فون گُنگُنایا تھا۔ بغیر دیکھے بھی دُرّے جانتی تھی کہ فون کِس کا ہے جبکہ رانا جعفر نے ایک طنزیہ نِگاہ دُرّے کے چہرے پر ڈالی تھی جِس کی بھوری آنکھوں کی جوت بُجھ چُکی تھی۔ رانا جعفر کی انا کو سکون آیا تھا۔ وہ اُس کے حُسن کے آگے کیوں جُھکتا؟ مرد تھا وہ اور انا کا پُجاری بھی۔ اُس کا بازو آزاد کرتا وہ فون رسیو کر کے بالکونی کی جانِب بڑھا۔

"ہاں بے بی! ہاں نا صِرف تُمہارا ہی ہوں۔ بتاؤ کیا کر رہی تھی؟" اُس کی باتوں کی آواز ہلکی ہلکی مدھم ہوتی گئی تھی۔ وہ صِرف نتاشہ سے مُحبّت کرتا تھا اُسی کا تھا۔ وہ کبھی بھی دُرّے کا نہیں ہو سکتا تھا۔ اُس کی آج کی بے خُودی بس چند پل کی بے اِختیاری تھی وہی بے اِختیاری جو ہر مرد حسین مورت کو دیکھ کر محسوس کرتا ہے۔ جِس میں ہوس تو ہو سکتی ہے مُحبّت نہیں۔ ان گنت سوچوں میں اُلجھتی وہ اپنی سِسکیوں کو روکنے کی کوشش میں ہلکان ہوتی دبی آواز میں رونے لگی تھی۔ جِتنا بھی خُود کو مضبوط ظاہِر کرتی تھی تو وہ ایک لڑکی ہی جِس کے دِل میں اپنے شوہر کے لیے صِرف مُحبّت تھی۔ نارسائی کا دُکھ تھا کہ ختم ہونے میں نہیں آتا تھا اور آج کی ساری رات تو شاید یہ دُکھ مناتے گُزرنے والی تھی۔


********************


جہاں پِچھلی رات کِسی کی خُوشی اور کِسی کی غم میں گُزر گئی تھی وہیں نیا دِن ایک بار پھر نئے سِرے روشنیاں بکھیرتا طلوع ہوا تھا اب یہ اُن پر تھا کہ وہ اِس نئے دِن سے خُوشیاں سمیٹتے ہیں یا غم۔

آج اُن کا ولیمہ تھا اور صُبح ہی سے ولیمے کی تیاریاں شروع ہو چُکیں تھیں۔ ولیمے میں شِرکت تو برادری اور قریبی مہمان ہی کرنے والے تھے لیکن گاؤں میں بھی کھانا تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوا تھا جِس کی وجہ سے کام بہت بڑھ گیا تھا۔ دُرّشہوار تو دُرِ فشاں کے ہی کمرے میں موجود تھی جب کہ نین گُل اُس کے لیے کپڑے اور جیولری وغیرہ نِکال کر رکھ رہی تھی۔ دُرِشہوار کی باتیں تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں تھیں جو اپنی من پسند بھاوج پا کر بہت خُوش تھی۔ جبکہ دُرّے اُس کی باتوں سے بے نیاز اپنی ہی سوچوں میں گُم تھی۔ چہرے پر عجب سی افسردگی کا بسیرا تھا۔

"کہاں کھوئی ہیں آپا؟" اُس نے دُرّفشاں کا کندھا ہلایا تو وہ چونک کر ہوش میں آئی۔

"کُچھ نہیں تُم کیا کہہ رہی تھی؟" اُس نے خُود کو کمپوز کرتے پوچھا۔

"لگتا ہے ویر سا کے خیالوں میں کھوئی ہوئیں ہیں۔" شہوار نے پھلجڑی چھوڑی تو وہ پھیکا سا مُسکرائی۔ وہ اُسے کیا بتاتی کہ وہ اپنی دُلہن کو چھوڑ کر کِسی پرائی لڑکی کے ساتھ ساری رات محوِ گُفتگو رہا اور اُس کا خون جلاتا رہا اور پھِر صُبح ہوتے ہی نجانے کہاں نِکل گیا۔

"تُم یہ سب چھوڑو۔ یہ بتاؤ آج کیا پہننا ہے تُم نے؟" اُس نے شہوار کا دھیان بٹایا۔ نین گُل ہنوز اپنے کاموں میں مگن اُن کی باتیں بھی سہں رہی تھی۔

"آج میں شرارہ پہنوں گی۔ آپ کو پتہ ہے باقِر سائیں میرے لیے شہر سے لائے ہیں۔" اُس نے جوش سے بتایا تو دُرِفشاں کے ماتھے پر بل پڑے۔

"ویر سائیں کہو شہوار! وہ بڑے ہیں تُم سے۔" اُس نے ٹوکا تو شہوار نے منہ بسورا۔

"بڑے ہیں مگر ویر تو نہیں ہیں۔ مُجھے اچھا نہیں لگتا اُنہیں ویر سائیں کہنا۔" شہوار کی باتوں نے اُسے بہت کُچھ سوچنے پر محبور کیا تھا۔ باقِر کے نام پر اُس کے چہرے کے کِھلتے رنگوں نے اُسے بہت کُچھ سمجھا دیا تھا جبکہ نین گُل بھی اُس کی باتوں سے اُس کے دِل کا حال سمجھ گئی تھی۔

"تو کیا اچھا لگتا ہے تُمہیں؟" اُس نے شہوار کو دیکھ کر پوچھا تو وہ سولہ سالہ لڑکی شرماتی سر جُھکا گئی۔ اُس کا یُوں شرمانا دُرِفشاں کی سوچوں پر مہر لگا گیا تھا۔

"مُجھے اُنہیں سائیں کہنا پسند ہے۔" وہ لہجا کر بولی تو دُرِفشاں مُسکرا دی۔ دُرِشہوار تو ویسے بھی اُسے بہت پسند تھی اور یقیناً رانا باقِر کے ساتھ خُوش رہتی۔ حویلی والوں کو کوئی اعتراض نہیں ہونا تھا نا ہی اُن کو عُمروں کے تعلق سے کوئی فرق پڑتا تھا۔

"اچھا جیسی تُمہاری مرضی۔ اب تُم جاؤ میں کُچھ دیر آرام کر لوں۔ نین گُل! تُم بھی جاؤ اور کُچھ دیر آرام کر لو۔ کل بھی سارا دِن لگی رہی تھی۔" دُرِفشاں نے کہا تو وہ اُس کے کپڑے الماری میں ہینگ کرتی باہِر نِکل گئی اُس کے پیچھے ہی دُرِشہوار بھی اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ وہ اپنے جلتے دِل کے ساتھ بیڈ پر دراز ہوتی دُرِشہوار کے بارے میں سوچنے لگی۔


***************


وہ اِس وقت حویلی کے کِچن میں کھڑی تھی۔ پانی کی بوتلیں بھر بھر کر وہ باہِر رکھ رہی تھی جو شاید باہِر کام کرنے والوں کو چاہیے تھیں۔ اندر سے باہِر اور باہِر سے اندر ہوتے وہ کافی تھک گئی تھی۔ ابھی وہ سانس لینے کو بیٹھی ہی تھی جب حلیمہ بیگم وہاں آن وارد ہوئیں۔

"اُٹھو میرے ساتھ آؤ۔" وہ اُسے حُکم دیتیں سیڑھیوں کے نیچے بنے سٹور کی جانِب چل دیں جو ایک کونے میں تھا۔

"یہاں سے سارے بِستر نِکال کر اچھی طرح صفائی کرنی ہے چلو شروع ہو جاؤ۔" وہ اُسے حُکم دیتی جا چُکیں تھیں۔ پہلے اُنہیں رانا عبّاس کی وجہ سے نین گُل پر غُصّہ تھا مگر کل سے وہ رانا باقِر کی نظریں بھی بھٹکتی ہوئی محسوس کر رہیں تھیں جو جا کر حمود نواز پر رُکتی۔ یی بات اُن کو ہرگِز گوارا نا تھی کہ اُن کا بیٹا بھی رانا عبّاس کی طرح اندھا ہو گیا ہے جو اُسے کھوٹے سِکّے اور ہیرے میں فرق نظر نہیں آ رہا۔ اِسی لیے وہ اپنا غُصّہ حمود پر اُتار رہیں تھیں۔

اُن کے جانے کے بعد حمود نے لائٹ آن کر کے دروازہ بند کیا۔ اندر جگہ جگہ پر گِرد کی تہیں جمی ہوئی تھیں سامان پر سفید کپڑا ڈالا ہوا تھا جو مٹی سے اٹا ہوا تھا۔ اُس نے جلدی سے اپنا دوپٹہ اُتار کر ایک سائیڈ پر رکھا اور صفائی کرنا شروع کر دی۔ اِتنے گردوغبار میں اُسے کھانسی ہونے لگی تھی اور سانس بھی بند ہو رہا تھا لیکن وہ ضبط کرتی لگی رہی۔ ساری چادریں جھاڑ کر ایک طرف رکھیں۔ پہلے سارے سامان کو سیٹ کیا اور پھر بِستر نِکال کر ایک طرف رکھتی اُنہیں تہہ کرنے لگی۔ اِس کام سے فارِغ ہونے کے بعد اُس نے جھاڑو اُٹھایا اور پورے کمرے میں لگانا شروع کر دیا۔ جھاڑو کی وجہ سے کمرے میں اُٹھتی گرد اُس کا سانس روکنے لگی تھی۔ بے ساختہ ہی اُسے تیز کھانسی شروع ہوئی۔ اُس نے پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں لیکن ناکام رہی۔ اُس کا سانس پھولنے لگا تھا۔ پسینہ پورے جِسم سے بہنے لگا تھا۔ اُسے لگا جیسے اُس کا آخری وقت آ گیا ہو۔ جب بھی اُس کی ایسی حالت ہوتی تھی اُسے ایسے ہی لگتا تھا۔ دِقّت سے دروازے کی جانِب بڑھتی وہ اُسے کھولنے کی کوشش کرنے لگی لیکن دروازہ بند تھا وہ کُھل کے نہیں دے رہا تھا۔ کھانس کھانس کر دوہری ہوتی وہ مر ہی جاتی اگر کوئی دروازہ کھول کر کوئی اندر نا آتا۔

وہ رانا باقِر تھا جو کِسی کی گھٹی گھٹی آواز سُن کر اِس طرف آیا تھا۔ کمرے کا دروازہ کُھلتے ہی ہر طرف اُٹھتی مٹی نے اُس کا اِستقبال کیا تھا۔ بے ساختہ کھانستا وہ ہاتھ ہوا میں جھلّا کر گرد ہٹانے لگا۔ جب کُچھ سمجھنے اور دیکھنے کے قابِل ہوا تو اُسے سامنے پڑا وجود نظر آیا جو مسلسل کھانس رہا تھا۔ اُس وجود کی طرف بڑھتے وہ نیچے بیٹھا اور اُسے سیدھا کیا مگر سامنے کا منظر زیادہ جان لیوا تھا۔ حال سے بے حال ہوتی وہ لڑکی اُس کی مُحبّت تھی۔ وہ یہاں کیوں تھی اور اِس حال میں؟ دوپٹے سے ندارد وجود، اور زرد چہرہ لیے وہ اُس کی جان نِکال گئی تھی۔ وہ یہاں اِس حالت میں کیوں تھی یہ بات اُس کی سکجھ سے بالاتر تھی۔

"حمود حمود! کک کیا ہوا؟ سانس لو گہرا سانس لو۔" اُسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے سہارے بِٹھاتا وہ اُس کی پُشت سہلانے لگا تو وہ گہرے گہرے سانس لینے لگی۔ جانے کیا تھی یہ لڑکی؟ جب بھی وہ اُس پر سختی کرنے کا سوچتا کُچھ نا کُچھ ایسا ہو جاتا کہ وہ نرم پڑ جاتا تھا۔ وہ جو زبردستی اُسے حاصل کر کے اپنی زِندگی میں شامِل کرنے کا فیصلہ کر چُکا تھا اُس کی حالت دیکھ کر ایک بار پھر مُحبّت جاگی تھی اور وہ اپنا فیصلہ رد کر گیا تھا۔ وہ اُس پر سختی کر کے، زور زبردستی کر کے خُود سے بدظن نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ہاں وہ اُس کی نظروں میں خُود کے لیے نفرت نہیں دیکھ سکتا تھا۔

"تُم ٹھیک ہو؟" اُس نے اُس نازُک سی چھوٹی لڑکی سے پوچھا تھا۔

"پہ پانی پانی۔" وہ بس یہی بول پائی تھی۔ وہ اُسے دیوار کے سہارے بِٹھاتا دروازے تک گیا مگر پھر کُچھ یاد آنے پر وہ پلٹا اور اِردگِرد نِگاہ دوڑائی۔ جلد ہی اُسے ایک طرف لٹکی اُس کی چادر نظر آ گئی۔ جلدی سے چادر اُتار کر وہ اُس کے قریب بیٹھا اور اُس کے کم سن بدن سے نظریں چُراتا چادر کو اُس کے گِرد لپیٹا۔ حمود نے اکھڑتی سانسوں سے اُس کی حرکت کو دیکھا تھا جو اُس کی بے پردگی کو ڈھک رہا تھا۔

ایک نظر اُسے دیکھ کر وہ جلدی سے باہِر بھاگا اور پھر دو مِنٹ میں واپس آیا تو اُس کے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی۔ جلدی سے ڈھکن کھولتے اُس نے بوتل حمود کے منہ سے لگائی تو وہ غُٹا غُٹ پانی پینے لگی۔ پانی کی بوتل اُس کے منہ سے ہٹاتے وہ اُسے پریشانی سے دیکھنے لگا۔

***************

"ٹٹ ٹھیک ہوں اب۔ شش شُکریہ!" اُس کی سوالیہ نظروں کا جواب دیتی وہ دیوار سے سر ٹِکائے گہرے سانس لیتی اب پُرسکون تھی۔

"یہاں آئی کیسے؟" وہ آنکھوں میں نرمی سموئے نظریں اُس کے چہرے ہر ٹِکائے ہوئے تھا۔ حمود نے غور سے اُسے دیکھا جِس کے چہرے پر اُسی کے لیے فِکرمندی کے آثار نظر آ رہے تھے۔ تیکھے نقوش، کھڑی مغرور ناک، ہلکی ہلکی بئیرڈ، بھینچے عنابی لب، بھوری آنکھیں لیے وہ شخص کِسی کا بھی خُواب ہو سکتا تھا۔ اُس کی خُود پر جمی نظریں وہ اچھے سے خُود پر محسوس کر گیا تھا مگر بولا کُچھ بھی نہیں۔

"چھوٹی مالکِن نے صفائی کرنے کو کہا تھا گرد و غبار بہت تھا تو طبیعت خراب ہونے لگی اور سانس اکھڑ گیا۔" اُس نے بتایا تو وہ بے ساختہ لب بھینچ گیا۔

"جان نِکل گئی تھی میری! اگر میں کُچھ دیر اور نا آتا تو کیا ہوتا؟ سوچا ہے تُم نے؟" وہ ہلکے لہجے میں اُسے ڈپٹتے سہارا دے کر کھڑا کرنے لگا۔ اُس کے لہجے میں اپنے لیے حد درجہ فِکر و مُحبّت محسوس کرتے وہ اُس سے فاصلہ قائم کر گئی۔

"یہ گُریز کِس لیے؟ مُحبّت کرتا ہوں تُم سے۔ اِتنا مت آزماؤ مُجھے کہ مر ہی جاؤں۔" رانا باقِر کی بات پر اُس نے نظریں اُٹھا کر اُسے دیکھا۔

"کوئی کِسی کے لیے نہیں مرتا چھوٹے سائیں! یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ آپ رانا حویلی کے چِراغ ہیں اور میں اِس راج نگر کی باسی! آپ کو یہ سب زیب نہیں دیتا۔ آپ مُجھ سے بڑے ہیں اور میں آپ کی عِزّت کرتی ہوں اِس لیے آپ سے سخت لہجہ اِختیار کرتے مُجھے بھی بُرا لگتا ہے۔ اِس لیے ہاتھ جوڑ کے درخواست کرتی ہوں مُجھ سے ایسی باتیں مت کیا کریں۔" اُس نے آخر میں ہاتھ جوڑے تو وہ تڑپ کر اُس کے ہاتھ تھام گیا۔

"تُمہارا اِنکار میری انا پر اِتنی ضربیں لگاتا ہے کہ وہ چیخ چیخ کہ مُجھے کہتی ہے نہیں مِل رہی تو چھین لو مُحبّت۔ مگر دِل کمبخت روک لیتا ہے ورنہ اب تک تُم میری دسترس میں ہوتی۔ ضِد بن گئی ہو میری اگر میری نہیں ہوئی تو کِسی کی بھی ہونے نہیں دوں گا۔" بے بسی سے کہتا وہ آخر میں شِدّت پسند ہوا تھا۔ حمود نے ہاتھ چُھڑاتے اپنا ماتھا مسلا تھا۔

"آپ مُجھ سے مُحبّت کرتے ہیں میں آپ سے نہیں۔ مُحبّت ہوتی تو آپ کو پتہ ہوتا کہ مُحبّت میں زبردستی نہیں ہوتی۔ وہ تو محبوب کی خُوشی میں خُوش ہونے کا نام ہے۔ آپ کی مُحبّت کی قدر کر سکتی ہوں مگر مُحبّت کے بدلے مُحبّت نہیں اور کوئی اور بھی ہے جو آپ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔" حمود ابھی بول ہی رہی تھی جب کُچھ گِرنے کی آواز پر چونک کر دروازے کی سِمّت میں دیکھا جہاں دُرِشہوار کھڑی آنکھوں میں نمی لیے اُن دونوں کے دیکھ رہی تھی۔ پاس ہی ایک لکڑی کا ٹُکڑا سا گِرا تھا۔ حمود کو بے ساختہ یاسیت نے آن گھیرا۔ وہ تو اُس کی آنکھوں میں رانا باقِر کی مُحبّت پہلے سے ہی پڑھ چُکی تھی اور اب ؟ وہ کیا سوچ رہی ہو گی؟

"باقِر سائیں؟ یہ سب کیا ہے؟ یہ کیا کہہ رہی ہے؟" بھرّائے اور ہکلائے لہجے میں پوچھتی وہ اپنی سیاہ آنکھیں رانا باقِر پر گاڑھ گئی تھی۔

"میں تُمہیں بتانا چاہتا تھا گُڑیا! مگر صحیح وقت کا اِنتظار کر رہا تھا۔ سب سے پہلے تُمہیں مِلوانا چاہتا تھا تُمہاری ہونے والی بھاوج سائیں سے۔ مگر اب تُم نے خُود دیکھ لیا ہے تو کوئی بات نہیں۔ آؤ مِلو اِن سے۔" وہ نرمی سے کہتا اُس کا ہاتھ پکڑ کر حمود کے سامنے کھڑا کر گیا۔

"ایسا کُچھ نہیں ہے چھوٹی بی بی! چھوٹے سائیں کو غلط فہمی ہو گئی ہے۔ میرا اِن سے کوئی تعلُق نہیں۔" دُرِشہوار کی آنکھوں میں آنسو دیکھتی وہ اپنی صفائی دے رہی تھی۔ وہ اِس حویلی کی چھوٹی لاڈلی بیٹی تھی اُس کو تکلیف دینے کا مطلب اپنی ذات پہ رانا ہاشِم کا عتاب جھیلنا تھا۔

"میں تُمہارا منہ نوچ لوں گی ڈائن! اپنی اوقات سے باہِر ہو گئی ہو جو میرے باقِر سائیں پر نِگاہ رکھے ہوئے ہو۔" وہ چیخ کر کہتی اُس پر جھپٹی تھی۔ اُس کا منہ نوچ لیتی اگر اُس کے رویّے پر حیران پریشان سا رانا باقِر ہوش میں آتا اُسے قابو نا کرتا۔

"کیا بکواس کر رہی ہو شاہی؟ کیا بدتمیزی ہے یہ۔" اُسے کمرے سے تھامے دونوں ہاتھوں سے اُسے قابو کیے وہ اُسے حمود تک پہنچنے سے روک رہا تھا۔

"بکواس یہ لڑکی ہے میں نہیں۔ آپ صِرف میرے ہیں باقِر سائیں! میں آپ کو کِسی کا ہونے نہیں دوں گی صِرف میرے ہیں آپ سمجھے۔" وہ خُود کو اُس سے چُھڑوا کر باقِر کے سامنے چیخی تھی جب باقِر کا ہاتھ یکدم اُٹھا اور دُرّشہوار کے گال پر اپنا نِشان چھوڑ گیا۔ حمود کا ہاتھ بے ساختہ اُس کے منہ پہ جا ٹِکا تھا۔ اُس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ رانا باقِر ایسے کر گُزرے گا۔

"بھائی ہوں میں تُمہارا! ویر کہتے نہیں تھکتی تُم مُجھے اور اب کیا بکواس کر رہی ہو؟" وہ اپنے داہنے گال پر ہاتھ رکھتے رانا باقِر کو خُود پر چیختے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ گال سے زیادہ اُس کے دِل میں جلن ہو رہی تھی۔ سامنے کھڑے شخص کو کِسی اور کے ساتھ دیکھنا ہی سوہانِ روح تھا۔ کچّی عُمر کی پکّی مُحبّت اُس کے دِل میں کب گڑھ گئی وہ جانتی بھی نہیں تھی اور یہی مُحبّت اُسے نڈّر بنا گئی تھی۔ اور حمود خاموش کھڑی بے بسی سے دونوں کو جھگڑتا دیکھ رہی تھی۔

"بھائی نہیں ہیں آپ! چچا زاد ہیں آپ میرے! مُحبّت کرتی ہوں آپ سے میں بے اِنتہا۔ نہیں بانٹ سکتی آپ کو کِسی کے ساتھ۔ صِرف میرا حق ہے آپ پر۔" وہ جنونی انداز میں بولتی رانا باقِر کو پاگل لگی تھی اور ایک بار پھر اُس کا ہاتھ اُٹھتا دُرّشہوار کا گال سلگا گیا تھا۔ وہ دوسرا تھپڑ کھا کر تیورا کر نیچے گِری تھی مگر گِرتے وقت اُس کا ماتھا پاس پڑے ٹوٹے ہوئے ٹیبل کی نوک سے ٹکرایا تھا۔ ماتھے سے خُون نِکلتا زمین کو سُرخ کر گیا تھا۔ اُس کے ہونٹ کے کِنارے سے بھی خُون نِکلنے لگا تھا۔ دُھندلی آنکھوں سے رانا باقِر کو دیکھتے وہ اپنے ہوش و حواس کھو گئی تھی۔

حمود تیزی سے اُس کی جانِب بڑھی اور اُسے سنبھالنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ رانا ناقِر بے یقینی سے اپنے ہاتھ دیکھ رہا تھا۔

"تُم جاؤ یہاں سے۔" حمود کو کہہ کر وہ خُود دُرشہوار کی طرف بڑھا۔ افسوس بھری نظر اُس کے چہرے پر ڈالی جہاں ہونٹوں کا کِنارا پھٹ گیا تھا تھپڑوں کی وجہ سے۔ اُس نے شہوار کو بانہوں میں اُٹھایا اور باہِر کی جانِب بڑھا۔ حمود بھی اپنی چادر سنبھالتی باہِر کی جانِب بڑھ گئی۔

باہِر پہنچتے ہی سب رانا باقِر کی بانہوں میں دُرِشہوار کو بے سُدھ دیکھ کر سبھی پریشان ہو گئے تھے۔ سعدیہ بیگم تو اُس کا سُرخ چہرہ دیکھ اور ہونٹوں سے خُون رِستا دیکھ کر ہی رونے لگیں تھیں۔ نازوں پلی بیٹی کو اِس حال میں دیکھنا اُن کی ممتا کے لیے بہت مُشکِل تھا۔ وہ اُسے لیے اُس کے کمرے میں گیا تھا۔ حمود وہیں کہیں پیچھے رہ گئی تھی۔ اُسے اِس وقت صِرف اور صرف اُس جذباتی لڑکی کی فِکر ہو رہی تھی جِس نے اپنی جزباتیت کے ہاتھوں نُقصان اُٹھا لیا تھا۔ غُصّہ ایک طرف لیکن اُس کی شاہی اُسے بہت عزیز تھی۔

سب کو اُس نے یہی بتایا تھا کہ سٹور روم میں گِرنے کی وجہ سے اُس کے چوٹ لگی اور وہ بے ہوش ہو گئی۔ گاؤں کے ڈاکٹر کو بُلوا لیا گیا تھا۔ حویلی میں فنکشن تھا اور ایسے میں دُرشہوار کی طبیعت نے سب کے ہاتھ پاؤں پُھلا دئیے تھے۔ رانا ہاشِم سب کُچھ رانا عبّاس کے سُپرد کرتے خُود اپنی بیٹی کے سرہانے آن ٹِکے تھے۔ جِتنے سخت دِل سہی مگر اپنی بیٹی کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے تھے وہ۔

ڈاکٹر آ گیا تھا۔ دُرِ شہوار کو چیک کرنے کے بعد اُس کے ماتھے پر پٹی کرتے کُچھ دوائیاں لِکھ کر دیتا واپس چلا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے یہی بتایا تھا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی بس چوٹ کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئی تھی۔ اُس کے پاس نین گُل کو چھوڑ کر باقی سب باہِر نِکل گئے تھے تا کہ اُس کے آرام میں خلل نا پڑے اور ویسے بھی باہِر سب کی ضرورت تھی سبھی مہمان بڑوں کا پوچھ رہے تھے۔ رانا ہاشِم نے نین گُل کو دیکھ کر تیوری چڑھائی تھی مگر خاموشی سے صبر کے گھونٹ پی کر رہ گئے تھے۔ رانا باقِر تو اپنی جگہ حیران پریشان سا تھا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دُرِشہوار اُس کے بارے میں یہ سب سوچتی ہے۔ وہ تو اُسے ہمیشہ دُرِفشاں کی طرح ہی ٹریٹ کرتا تھا۔

شام تک سارے اِنتظامات ہو گئے تھے۔ آج کا فنکشن بھی لان میں ہی رکھا گیا تھا۔ پورے لان کو نئے سِرے سے سجایا گیا تھا۔

سب لوگ تیار ہونے چل دئیے تھے جبکہ سعدیہ بیگم ہنوز دُرّشہوار کے پاس موجود تھیں جِس کا رنگ ہلدی کی مانِند زرد پڑ گیا تھا۔ اِس سب کا قصور وار حمود خود کو سمجھ رہی تھی۔ رانا باقِر الگ پریشان تھا اور حیران بھی۔ باقی سب لوگ فنکشن کی طرف متوجّہ ہو گئے تھے۔ دُرِفشاں کو تیار کرنے کے لیے بیوٹیشن آ گئی تھی اور نین گُل بھی اُسی کے ساتھ تھی۔ ایک رانا جعفر ہی تھا جو صُبح کا گیا اب جا کر حویلی واپس لوٹا تھا۔ رانا ہاشِم سے دُرّشہوار کی چوٹ کا سُن کر وہ اُس کے کمرے کی جانِب بھاگا تھا۔ اُس کی جانِ عزیز اس وقت سب چھوڑ چھاڑ بِستر پر پڑی تھی۔ وہ تو تڑپ ہی اُٹھا تھا۔ وہ کمرے میں پہنچا تو سامنے ہی سعدیہ بیگم دُرشہوار کے سرہانے بیٹھیں اُس کا سر سہلا رہیں تھیں۔

"کیسی طبیعت ہے اب؟" اُس نے سعدیہ بیگم سے پوچھا تھا اور آگے بڑھ کر شہوار کا ماتھا چوما۔

"ابھی تک ہوش نہیں آیا۔ سر پر چوٹ لگی ہے۔" سعدیہ بیگم نے نم لہجے میں کہا تو وہ شہوار کے دائیں جانِب اُس کے پاس سامنے کے رُخ بیٹھا۔

"فِکر مت کریں ٹھیک ہو جائے گی. آپ جا کر مہمانوں کو دیکھیں سب پوچھ رہے تھے آپ کا! گُڑیا کے پاس میں ہوں۔" اُس نے اُنہیں تسلّی دی تو وہ نم آنکھیں صاف کرتیں باہِر کی جانِب بڑھ گئیں۔

پیچھے وہ اپنی لاڈلی گُڑیا کے بال سہلانے لگا۔ اُس کا زرد چہرہ دیکھ کر وہ بھی پریشان ہو اُٹھا تھا۔ سر پر پٹّی بندھی ہوئی تھی۔ ابھی وہ اُس کے بال ہی سہلا رہا تھا جب وہ ہوش میں آنے لگی۔ ہوش میں آتے ہوئے بھی وہ کُچھ بڑبڑا رہی تھی۔ رانا جعفر نے غور سے سُننے کی کوشش کی۔

"مم میرے ہیں صِرف مم میرے۔ کک کِسی کک کا نہیں ہونے دد دوں گی۔ سس سائیں بب بس میرے ہہ ہیں۔" وہ اٹک اٹک کر بولتی نفی میں سر ہلاتی اپنا سر تکیے پر پٹک رہی تھی۔ رانا جعفر کو ایک دم تشویش نے آن گھیرا تھا۔ اُس کی نظریں شہوار کے گالوں پر ٹِکیں تھیں جِو حد درجہ سُرخ ہو رہے تھے اور ہونٹ کے کِنارے پر بھی خُون جما ہوا تھا۔ گِرنے کے باعث تو ایسا کُچھ نہیں ہو سکتا تھا۔

"گُڑیا! ہوش میں آؤ۔ دیکھو میں ہوں پاس۔ ویر ہے نا پاس!" اُس نے شہوار کے گال تھپتھپاتے کہا۔ یکدم وہ حواس باختہ سے اُٹھر کر بیٹھی تھی۔ پلّو سر سے ڈھلک گیا تھا اور بال کُچھ بِکھر گئے تھے۔ اچانک اُٹھنے سے ایک دم آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا تھا اور وہ بے اِختیار سر تھام گیا تھا۔ رانا جعفر نے اُس کے بال سنوارتے اُس کے سر پر پلّو اوڑھایا تھا۔ وہ ہر رِشتے کے معاملے میں بہت نرم تھا مگر یہ نرمی وہ دُرّے کے معاملے میں بھول جاتا تھا۔

"ویر سس سائیں و ووہ وہ لڑکی وہ بب باقِر سائیں! وو وہ دد دونوں مم میں میرے بب باقِر سائیں وو وہ میرے ہہ ہیں نا؟ ان اُنہوں نن نے کک کہا ممم میں نہیں کک کُچھ نہیں اا اُن کی۔" وہ لایعنی سے جُملے بولتی رانا جعفر کو اپنی بات نہیں سمجھا پائی تھی اور وہ اُس کی یہ حالت دیکھ کر لب بھینچ گیا تھا۔ ضرور باقِر نے ہی کُچھ کہا ہو گا جو اُس کی بہن ایسے اِس حال میں پڑی تھی۔ اُس نے جلدی سے گلاس میں پانی ڈال کر اُس کے منہ سے لگایا جِسے وہ غٹا غٹ چڑھا گئی پھر پانی پینے کے بعد گہرے گہرے سانس بھرنے لگی۔ رانا جعفر نے گلاس واپس سائیڈ ٹیبل پرر کھا اور اُس کی طرف متوجّہ ہوا۔

"اب بتاؤ کیا ہوا ہے؟ کِسی نے کُچھ کہا ہے؟ باقِر نے؟ جلدی سے بتاؤ شاباش میں ابھی اُس کی خبر لوں گا۔" رانا جعفر نے اُسے نرمی سے بہلایا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی اُس کے سینے سے آن لگی۔

"ویر سائیں! مم میں باقِر سائیں سے بہت مُحبّت کرتی ہہ ہوں مم مُجھے اچھے لگتے ہیں بہت! مم میں اُنہیں کِسی اور کے ساتھ نہیں دد دیکھ سس سکتی۔ وو وہ اااُنہوں نے کک کہا کہ وہ مُجھ سے مم مُحبّت نن نہیں کرتے۔ اپنی شش شاہی کو مارا اُنہوں نے۔ دد دو تت تھپڑ مارےمُجھے۔" وہ جوں جوں بولتی جا رہی تھی وہ حیرت میں ڈوبتی جا رہی تھی مگر اُس کی آخری بات پر اُس کی آنکھیں سُرخ ہوئیں۔ اُن کی لاڈوں پلی بہن کو وہ پھول سے بھی نا مارتے اور رانا باقِر نے اُن کی بہن کو دو تھپڑ مارے۔

"وو وہ کِسی اور کو پپ پسند کک کرتے ہیں ویر سائیں! مم میں نہیں رہ سکتی اا اُن کے بغیر!" شہوار روتی بِلکتی کہہ رہی تھی۔ اُس کی سولہ سالہ بہن اپنے ہی کزن کی مُحبّت میں گِرفتارتھی جو چوبیس سال کا تھا۔ عُمر کے جِس حِصّے میں وہ تھی اِس عُمر میں اکثر مُحبّت جیسے جذبے پروان چڑھ ہی جاتے ہیں اور جذباتیت میں اپنی خُواہش پوری نا ہوتے دیکھ کر اپنے ساتھ کُچھ غلط بھی کر سکتی تھی۔

"باقِر صِرف تُمہارا ہے اور کِسی کا نہیں۔ بس جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ ہھر مِل کر اُس کی خبر لیں گے۔" اُس نے شہوار کے آنسو پونچھتے اُسے بہلایا تو وہ شور سے نفی میں سر ہلا گئی۔

"وہ مُجھے پپ پسند نہیں کرتے۔ وہ مُجھ سے شادی نہیں کریں گے۔ مم میں مر جاؤں گی۔ ہاں مم میں مر جاؤں گی۔" جنونی انداز میں کہتے وہ بیڈ سے اُتری اور ڈرسینگ کی جانِب بھاگی۔ وہ بوکھلا کر اُس کے پیچھے گیا تھا۔ وہ جب تک پہنچی وہ ڈریسنگ پر رکھا کٹر پکڑ کر کھول چُکی تھی جو پیپر کاٹنے کے لیے رکھا ہوا تھا۔ اُسے کٹر اپنی کلائی پر رکھے دیکھ کر جعفر کی آنکھیں پھلیں تھیں۔ تھی تو وہ بھی اُنہی کا خُون ضِد اور غُصہ وراثت میں مِلا تھا اُسے۔ جو چیز اُس کی تھی اُس پر کِسی اور کا سایہ بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی اور یہاں تو بات رانا جعفر کی تھی۔

"وہ کرے گا تُم سے شادی! یہ کٹر چھوڑو! میں وعدہ کرتا ہوں کہ وہ تُم سے شادی کرے گا کِسی اور سے نہیں۔ یہ کٹر نیچے رکھو گُڑیا۔" اُس نے قدم اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔

"جھوٹ صِرف جھوٹ! مُجھے بہلا رہے ہیں نا ویر سائیں؟ وہ اُس نوکرانی سے کہہ رہے تھے کک کہ وہ اُس سے ششش شادی کک کریں گے۔" اُس نے چیخ کر کہا تو وہ بے بسی سے اُس کا دھیان کٹر کی جانِب دیکھتا اُس کے ہاتھ پر جھپٹا اور کٹر پکڑ کر دور اُچھالا۔

"چھوڑیں مُجھے! نہیں رہنا مُجھے زِندہ! مر جاؤں گی۔" وہ اُس کی گرفت میں مچلتی چیخ رہی تھی۔

"شاہی! بات سُنو! وہ صِرف تُمہارا ہے۔ تُم چاہتی ہو نا کہ تُمہاری اُس سے شادی ہو تو بس آج ہی تُمہارا نِکاح ہو گا اُس سے۔ تُم فِکر مت کرو وہ صِرف تُمہارا ہے۔ ویر سائیں پہ یقین ہے نا؟ بس چُپ رونا نہیں بالکُل رونا نہیں۔" وہ اُسے قابو کرتے بیڈ پر بِٹھانے لگا۔

وہ اپنی بہن کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا اگر اُس کی خُوشی رانا باقِر میں تھی تو رانا باقِر آج ہی اُس کی خُوشی کی وجہ بنے گا اور اِس کے لیے اُس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اُسے کیا کرنا ہے مگر اِس سب میں وہ ایک وجود کو نظرانداز کر گیا تھا کہ اُس پر کیا اثر پڑے گا اور وہ وجود تھا دُرّفشاں کا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اُس کی بہن کی جان کو اُسی سے کوئی خطرہ ہو۔ اگر رانا باقِر ہی اُس کی پسند تھا تو اِس میں حرج بھی کیا تھا؟ اپنی بہن کا دُکھ تو نظر آ گیا تھا مگر اپنی زوجیت میں موجود باقِر کی بہن کا دُکھ بھول گیا تھا۔

چھوٹی عُمر کی محبّبتیں ذہن پر بہت بُرا اثر ڈالتی ہیں وہ بھی تب جب سامنے والا آپ سے مُحبّت نا کرتا ہو اور آپ یکطرفہ مُحبّت کا شِکار ہوں۔ دُرّشہوار کی عُمر ابھی ایسی نہیں تھی کہ وہ مُحبّت جیسے روگ میں پڑتی مگر وہ پڑ گئی تھی۔ اپنی جذباتیت میں وہ اِتنی آگے نِکل گئی تھی کہ صحیح اور غلط کا فرق بھی نا سمجھ سکی تھی۔ تھا وہ کزن مگر تھا تو نا محرم ہی جِس کے لیے وہ پاگل ہو گئی تھی۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر کچّی عُمر کی لڑکیاں مُحبّت میں جنونی ہو جائیں۔ جیسے پانچوں اُنگلیاں برابر نہیں ہوتیں ویسے ہی ہر لڑکی بھی جذباتی نہیں ہوتی کُچھ سمجھدار بھی ہوتیں ہیں جو اپنے ماں باپ کی عِزّت کو مدّنظر رکھتے اپنے دِل اور جذبات پر قابو رکھتیں ہیں جِن میں سے ایک حمود نواز بھی ہے۔ کِسی ایک لڑکی کی غلطی کی وجہ سے ہر لڑکی کو غلط سمجھنا بھی مُناسب نہیں ہے لیکن ہمارا معاشرہ ہر لڑکی کو ایک ہی کسوٹّی پر تولتا ہے۔

کہتے ہیں اِنسان اپنی اور اپنے دِل میں بسنے والوں کی خُوشی کی خاطِر دوسروں کی زِندگی کی خُوشیاں بھی برباد کر دیتے ہیں جِن کا اُنہیں احساس تک نہیں ہوتا۔ ہر شخص خُود غرض اور مطلب پرست ہے جِس صِرف اپنی خُوشیوں کی پرواہ ہے۔ ایک جذبہ ہوتا ہے جِسے ہم "احساس" کہتے ہیں جو ہر کِسی میں نہیں ہوتا اور جِن میں نہیں ہوتا وہ اپنی خُوشیوں کو دوسروں کی خُوشیوں پر ترجیح دیتے ہیں اور اُنہی لوگوں میں سے ایک رانا جعفر تھا۔ جِسے اپنی بہن کے آنسو تو نظر آ گئے تھے لیکن ایک دفعہ بھی اُس نے نہیں سوچا تھا کہ رانا باقِر راضی بھی ہو گا یا نہیں۔


****************

فنکشن شروع ہو گیا تھا۔ سبھی مہمان اور قریبی رِشتے دار تیار سے اِدھر اُدھر ٹہل رہے تھے۔ رنگ برنگے آنچل، حسین چہرے لیے الہڑ دوشیزائیں، رنگ برنگی روشنیاں اور چہل پہل نے ماحول کو خُوشگوار بنا دیا تھا۔ لان کی سیٹنگ کل سے ذرا سی مُختلف تھی لیکن آج بھی مردوں اور عورتوں کے درمیان پردہ حائل کیا گیا تھا۔

رانا جعفر سِلور رنگ کے تھری پیس سوٹ میں دِلوں کو دھڑکاتا سٹیج پر کھڑا تھا۔ وہ فیصلہ کر چُکا تھا اور اپنے فیصلے پر اٹل بھی تھا لیکن کِسی کو اپنا فیصلہ بتانے کی زحمت اُس نے گوارا نا کی تھی۔ رانا باقِر اور رانا عبّاس سارے اِنتظامات اپنی نگرانی میں کروا رہے تھے۔ رانا ہاشِم اور رانا قاسِم مردوں والی سائیڈ پر موجود تھے۔ حلیمہ بیگم اور سعدیہ بیگم بھی مہمان خواتین کے ساتھ بیٹھی ہوئیں تھیں۔ نوری اور بُوا کے ساتھ ساتھ حمود بھی سب کو ریفریشمنٹ کا سامان مہیا کر رہی تھی مگر وہ اب بھی اپنی سیاہ چادر میں ملبوس تھی۔ ہلکے بھورے رنگ کا سوٹ پہنے وہ اپنا چہرہ ممکنہ حد تک چُھپائے ہوئے تھی۔

سب کا ایک نظر جائزہ لے کر وہ اُس طرف متوجّہ ہوا جہاں سے وہ سِلور کلر کی میکسی میں ملبوس اُس کی طرف چلی آ رہی تھی۔ وائٹ گولڈ کی جیولری پہنے، اکھیاں جُھکائے، خُوبصورتی کا پیکر بنے وہ سب کی نظروں سے بے نیاز نظر آئی تھی۔ وہ کل زیادہ پیاری لگ رہی تھی یا آج؟ وہ اندازہ نا کر پایا۔ نظریں اُس کے دائیں گال پہ بنے بھنور میں ہی اٹک گئیں تھیں۔ بالوں کو جوڑے میں قید کیا گیا تھا ہاں مگر گالوں پہ دو آوازہ لٹیں حُسن کی پہرے دار بنی ہوئیں تھیں۔ یہاں صِرف خواتین ہی موجود تھیں اِسی لیے آج گھونگھٹ نہیں کیا تھا۔ اُس کے حُسن کو بیوٹیشن کی محنت نے دو آتشہ بنا دیا تھا۔ بے خُودی میں چلتا وہ سٹیج کے پاس بنی دو سیڑھیوں تک آیا۔ نین گُل دُرِفشاں کے دائیں طرف چلتی اُسے سہارا دئیے ہوئے تھی۔

سٹیج کے پاس پہنچتے اپنے سامنے موجود ہاتھ کو دیکھتے وہ نظریں اُٹھائے بے تاثر انداز میں اُسے دیکھنے لگی۔ رانا جعفر کو اُس کی بھوری کانچ سی آنکھوں میں کوئی جذبہ نظر نہیں آیا تھا۔ اُسے رُخصتی سے پہلے کی وہ آنکھیں یاد آئیں جو ہمہ وقت رانا جعفر کی مُحبّت میں سرشار نظر آتی تھیں، جہاں ہر وقت رانا جعفر کا عکس رہتا تھا۔ رانا جعفر کا دِل بے اِختیار ہی دھڑکا تھا۔ اِس وقت وہ بھول گیا تھا کہ کُچھ پل بعد وہ ہمیشہ کے لیے اُس کے دِل سے اپنی مُحبّت مِٹانے والا ہے۔

اُس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھے وہ سٹیج پر چڑھی تھی۔ یہ سارے مناظر رانا جعفر کے دوست کی بیوی اپنے ڈی ایس ایل آر میں قید کر رہی تھی۔ وہ فوٹو گرافر تھی اور اپنے شوہر کے ساتھ ہی آئی تھی۔ سب ہی اُن کہ شاندار جوڑی کو سراہ رہے تھے مگر اُس مُکمّل جوڑے کے "ادھورے" رِشتے سے سے خبر ہی تھے اور کبھی کبھی بے خبری نعمت ہوتی ہے۔

اُس کے پہلو میں براجمان ہونے تک وہ رانا جعفر کی نظروں کے حِصار میں رہی تھی لیکن پھر رانا باقِر پر نظریں پڑتے ہی وہ ہوش میں آیا تھا۔ ایک پل کو اُس نے دُرِفشاں کا چہرہ دیکھا تھا مگر پھر بہن کی مُحبّت غالب آ گئی تھی۔ دُرّے سے زیادہ عزیز اُسے اپنی بہن تھی۔ دُرّے تو شاید اُسے عزیز بھی نہیں تھی جو وہ اُس کے دِل کی پرواہ کرتا۔

رانا باقِر کو شہوار نظر نہیں آئی تھی شاید وہ اب تک ہوش میں نہہں آئی تھی۔ ایک طرح سے اچھا ہی تھا ورنہ نجانے کیا فساد کھڑا کرتی وہ تو پہلے ہی یقین نہیں کر پا رہا تھا جو وہ کر چُکی تھی۔ اُس کی نظریں حمود کے سراپے سے پلٹی واپس جا رہیں تھیں اِس بات سے بے نیاز کہ قِسمت ایک نیا رنگ دِکھانے والی ہے۔

نین گُل اُسے سٹیج کے پاس چھوڑ کر حمود کے پاس چلی گئی تھی۔ سب لوگ خُوشیوں میں مگن تھے۔ جب رانا جعفر سٹیج پر کھڑا ہوا تھا۔ اونچی آواز میں بولتا وہ سب کو اپنی طرف متوجّہ کر گیا تھا۔

"میں رانا جعفر اِس اہم موقعے پر آپ سب کو ایک اور خُوشی کی خبر دینا چاہتا ہوں جِسے سُن کر سب کو ایک سرپرائز مِلے گا۔" رانا جعفر نے کہا تو دُرّے کا دِل نا خُوشگوار انداز میں دھڑکا۔ کیا کہنے والا تھا وہ؟ کہیں نتاشہ؟ نہیں ایسا ہرگِز نہیں ہو سکتا تھا۔ رانا ہاشِم محمود کی موجودگی میں تو ہرگِز نہیں۔ باقی سب کی نظریں بھی اُسی پر ٹِکیں ہوئیں تھیں جو بھاری گھمبیر آواز میں بولتا سب کو اپنی طرف متوجّہ کیے ہوئے تھا۔

"آج میری بہن دُرِشہوار اور رانا باقِر کا نِکاح ہو گا۔" رانا جعفر کی آواز کِسی صور کی مانِند رانا باقِر کے کانوں میں گونجی تھی۔ وہ آنکھیں پھاڑے رانا جعفر کو دیکھ رہا تھا جو بے نیاز سا کھڑا تھا۔ بے ساختہ اُس کی نظریں حمود کی طرف اُٹھیں جو نین گُل کے ساتھ کھڑی اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔ رانا باقِر کو اُن آنکھوں میں کوئی شِکوہ نہیں بلکہ طنز نظر آیا تھا۔ کُچھ جتاتی ہوئی نظریں تھیں اُس کی۔ وہ راناؤں کا خُون تھا اپنی بات سے ہرگِز نا پلٹنے والا۔

ٹھیک اُسی وقت دُرِشہوار ٹی پِنک کلر کی کامدار، گھیردار فراک پہنے لان میں داخِل ہوئی تھی۔ خُوبصورت سی کالی آنکھوں والی وہ لڑکی بے حد حسین لگ رہی تھی مگر رانا باقِر کو اُس کے حُسن سے کوئیطلب نہیں تھا۔ اُسے تو وہ گندمی، سُنہری رنگت والی لڑکی پسند تھی جِس کی خُودداری، انا اور اُس کی معصومیت پہلی ہی نظر میں رانا باقِر کے دِل میں گڑھی تھی۔ دُرِشہوار کے ایک جانِب حلیمہ بیگم تھیں تو دوسری طرف سعدیہ بیگم! رانا جعفر پہلے ہی گھر والوں کو راضی کر چُکا تھا اور کِسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں تھا۔ رانا ہاشِم کی اِکلوتی بیٹی اُن کے سامنے اِسی گھر میں رہتے اِس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے تھا۔ وہ بھی یہی چاہتے تھے مگر دُرِشہوار کے تھوڑا بڑے ہونے پر۔ دُرِشہوار چلتی ہوئی سٹیج پر پہنچ چُکی تھی جہاں رانا جعفر اُسے اپنے پاس کھڑا کیے رانا باقِر کا مُنتظِر تھا۔

"مُجھے یہ رِشتہ منظور نہیں!" جہاں رانا باقِر کی بات نے دُرِشہوار کی آنکھوں کو نم کیا تھا وہیں رانا جعفر اور رانا عبّاس کی آنکھوں میں غُصّے کی چنگاریاں اُتریں تھیں۔ رانا جعفر تو رانا باقِر کے اِنکار کی وجہ سے واقِف تھا مگر رانا عبّاس نہیں اِس لیے اُسے زیادہ غُصّہ آیا تھا۔

"کیا بکواس کر رہے ہو؟ میری بہن کا تماشا مت لگاؤ چھوٹے!" رانا عبّاس نے اُسے وارن کیا تھا۔

"میں کِسی اور سے مُحبّت کرتا ہوں ویر جی! آپ تو جانتے ہیں نا؟ مُحبّت میں ایک کا ہی صیغہ ہوتا ہے کِسی دوسرے کا تو خیال بھی نہیں ہوتا۔ پھر کیسے میں جانتے بوجھتے آپ کی بہن کی زندگی تباہ کر دوں؟" وہ بڑے ضبط سے بولا تھا رانا عبّاس لاجواب ہوا تھا۔ وہ جانتا تھا مُحبّت سے دستبرداری کرنا ہرگِز بھی کِسی مُحبّت کرنے والے کے لیے ممکن نہیں۔

"سوچ لو رانا باقِر! اگر میری بہن کی خُوشی پوری نہیں ہو سکتی تو میں تُمہاری بہن کی خُوشی کیوں پوری کروں؟" رانا جعفر کی بات کا پسِ منظر جان کر اُس کی آنکھیں پھٹی تھیں جبکہ دُرّے کی آنکھ سے نا چاہتے ہوئے بھی آنسو بہنے لگے تھے۔ وہ بچّی تو نا تھی جو رانا جعفر کی بات کا مطلب نا سمجھتی۔

"کیا بکواس کر رہے ہو جعفر! اِس سب کا دُرّے سے کیا تعلُق ہے؟ اور رانا باقِر شہوار سے ہی نِکاح کرے گا۔" رانا قاسِم نے رانا جعفر کو ٹوکتے اپنا فیصلہ سُنایا تھا۔

"نہیں بابا سائیں! مُجھے شاہی سے نِکاح نہیں کرنا! نا آج نا کل کبھی بھی نہیں۔" اُس نے دوٹوک اِنکار کیا تھا۔

شہوار کی گرفت رانا جعفر کے بازو پر سخت ہوئی تو اُس نے رُخ موڑتے اُس کی سیاہ آنکھوں میں اُبھرتے سمندر کو دیکھا۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر رانا جعفر کا خُون کھولا تھا۔

"یہ فیصلہ ہو چُکا ہے رانا باقِر! اب اِس فیصلے میں کوئی ردوبدل نہیں ہو سکتا۔ تُمہارا اور شہوار کا نِکاح آج ہی ہو گا تُم اِنکار نہیں کر سکتے۔" رانا ہاشِم نے سختی سے اُسے بآور کروایا تھا۔ سعدیہ بیگم اور حلیمہ بیگم پریشانی سے سب کے چہرے دیکھ رہیں تھیں برادری والے بھی اب چہ مگوئیاں کرنے لگے تھے جِس پر رانا ہاشِم کے چہرے پر ناگواریت چھانے لگی تھی۔ اُنہیں نہیں پتہ تھا کہ رانا باقِر یُوں بھری محفِل میں نِکاح اسے اِنکار کر دے گا، نِکاح بھی اُن کی بیٹی سے۔ رانا عبّاس تو کشمکش کی حالت میں کھڑا تھا کیا کرتا کیا نہیں کُچھ سوجھ ہی نہیں رہا تھا۔ نین گُل اور حمود نوری کے ساتھ کھڑی پریشانی سے سارا معاملہ ازبر کر رہیں تھیں جہاں نین گُل پریشان سانس روکے کھڑی تھی وہیں حمود کی آنکھوں میں کوئی رنگ نہیں تھا۔ وہ جانتی تھی اِس سب کا انجام کیا ہونے والا ہے۔ ایسا ہی تو ہوتا تھا ہمیشہ جیسا اب ہو رہا تھا۔ یہ دُنیا ایسی ہے مطلبی اور خُودغرض! جِسے صِرف اپنی پرواہ ہوتی ہے۔ دوسرا کیا چاہتا ہے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس اپنی منشاء پوری ہونی چاہیے تا کہ اپنی خُوشی تو حاصِل ہو۔

"ٹھیک ہے جب میری بہن کو خُوشی نہیں دے سکتے تو میں کیوں تُمہاری بہن کا خیال کروں؟ آج تُم میری بہن سے نِکاح نہیں کر سکتے تو میں بھی تُمہاری بہن کو طلاق دے دوں گا۔" رانا جعفر کی بات سب کے حواسوں پر بم بن کر گِری تھی۔ حلیمہ بیگم کے منہ سے چیخ نِکلتے نِکلتے رہ گئی تھی۔ بیٹی کی شادی کے دوسرے دِن اُس کا شوہر اُسے طلاق دینے کی بات کر رہا تھا وہ بھی وہ جو اُنہیں بہت عزیز تھا۔

سعدیہ بیگم تیزی سے اُس کی جانِب بڑھی تھیں کہ شاید وہ اپنی ضِد چھوڑ دے جِس میں وہ اپنا ہی گھر برباد کرنے پہ تُلا تھا۔ رانا باقِر اور رانا عبّاس بھی اپنی جگہ پر جم گئے تھے جبکہ رانا ہاشِم اور رانا قاسِم نے رانا جعفر کو قہر آلود نظروں سے گھورا تھا۔ اُنہیں دُرِفشاں شہوار کے جِتنی ہی عزیز تھی۔ وہ اپنی کِسی بیٹی کو دُکھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ رانا جعفر کے فیصلے پر شہورا کو خوف محسوس ہوا تھا۔ اپنی خُود غرضی میں وہ اپنی آپا کا گھر نہیں توڑ سکتی تھی۔

"ویر سائیں! یہ کیا کہہ رہے ہیں؟؟ ایسے نہیں کریں۔" وہ رانا جعفر کے کان میں مِنمنائی تھی مگر مقابل ہر خسارے سے بے نیاز تھا۔

اب کی بار حمود کو جھٹکا لگا تھا۔ دُرِفشاں کا کیا قصور تھا؟ اُسے کیوں سزا مِلتی؟ یہ سب غلط ہو رہا تھا۔ اب تو اُس کے چہرے پر بھی پریشانی کے تاثرات تھے۔

اِن سب میں دُرِفشاں جو سجی سنوری سٹیج پہ صوفے پہ ساکت سی بیٹھی تھی اُس کے وجود میں حرکت ہوئی تھی۔ آنسو جو گالوں کی زینت بنے ہوئے تھے بے دردی سے پونچھ ڈالے تھے۔ اُس کی عزّتِ نفس ک بہت بُری ٹھیس پہنچائی تھی رانا جعفر نے! اب تو اُسے اپنی مُحبّت سے بھی نفرت ہونے لگی تھی۔ بھری پری محفِل میں وہ تماشا بنا چُکا تھا اپنی ہی عِزّت کا تو وہ کیوں خیال کرتی۔ آج رانا جعفر نے اُس کے دِل میں موجود اپنا آخری نِشان بھی ختم کر دیا تھا۔ بند کمرے میں تو وہ سہہ سکتی تھی مگر اُس کی انا ہر کِسی کے سامنے اپنی بے عِزّتی برداشت کرنے کی اِجازت نہیں دیتی تھی۔

"میری بہن کو بیچ میں مت لائیں ویر سائیں! میں آپ کی بہن سے نہیں کِسی اور سے مُحبّت کرتا ہوں۔ کبھی بھی آپ کی بہن کو خُوش نہیں رکھ سکوں گا۔ میری بہن کو کیوں سزا دے رہے ہیں؟" رانا باقِر تو چیخ ہی اُٹھا تھا۔ وہ کیسے برداشت کرتا کہ اُس کی وجہ سے اُس کی بہن کا گھر ٹوٹتا۔ شہوار نے نم نظروں سے اُسے دیکھا تھا آج وہ شاہی سے زیادہ رانا جعفر کی بہن ہو گئی تھی۔ رانا ہاشِم نے رانا باقِر کی بات پر اُسے قہر آلود نظروں سے گھورا تھا۔

"کون ہے وہ لڑکی؟ بتاؤ مُجھے تا کہ اُس کا کام ہی تمام کر دوں جو میرے بچوں کی خُوشیوں میں رُکاوٹ بنی ہے۔" حلیمہ بیگم کی سرد اور چِلاّتی آواز پر حمود کے ساتھ نین گُل کا سانس بھی خُشک ہوا تھا۔

نین گُل تو ویسے ہی اُن سے خوف کھاتی تھی مگر حمود تو جانتی تھی کہ رانا باقِر کِس کی مُحبّت میں مُبتلا ہے۔

"مُجھے منظور ہے۔ اگر رانا جعفر کو مُجھے طلاق دینی ہے تو دے دیں مگر میں اپنے ویر کو ایک ان چاہے رِشتے میں بندھنے نہیں دوں گی۔" دُرِفشاں کی آواز سب کو خاموش کروا گئی تھی۔ سب اپنی اپنی جگہ دنگ رہ گئے تھے اُس کا فیصلہ سُن کر۔ وہ ایسے بولی تھی جیسے اپنی بربادی کی نہیں خُوشحالی کی بات کر رہی ہو۔

ان چاہی بیوی ہونے کی تکلیف کیا ہوتی ہے وہ اچھے سے جانتی تھی اور شہوار تو ابھی بہت چھوٹی تھی وہ تو شاید یہ سب برداشت بھی نہیں کر پاتی۔ جہاں شہوار کو اِس سب اذیّت سے بچانا مقصود تھا وہیں وہ اپنے بھائی سے اُس کی خُوشیاں بھی نہیں چھیننا چاہتی تھی۔ اگر اُسی کی وجہ سے رانا جعفر یہ سب کر رہا تھا تو جیسا وہ چاہتا کرنے دیتی۔ اِس سب سے جو اذیّت اُسے پہنچی تھی وہ شاید ہی بیان کر پاتی۔

"کیا بکواس کر رہی ہو دُرّے! ابھی تُمہارے بڑے موجود ہیں اِن سب فیصلوں کے لیے۔" رانا قاسِم کو بیٹی کی بات پسند نہیں آئی تھی۔

وہ رانا جعفر کے مقابِل تن کر کھڑی ہو گئی تھی۔ اُس کے فیصلے سے تو رانا جعفر کو بھی جھٹکا لگا تھا۔ اُسے خُوش ہونا چاہیے تھا مگر وہ خوش ہو نہیں پایا تھا جانے کیوں مگر ایک بے چینی سی ہوئی تھی۔

"باقِر تُمہیں شہوار سے نِکاح کرنا ہو گا۔ کیوں اپنی بہن کا گھر اُجاڑنے پر تُلے ہو؟ کیا کمی ہے شہوار میں؟" حلیمہ بیگم نے رانا باقِر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا تھا جو ساکن کھڑا شہوار کو گھور رہا تھا۔

"نہیں اماّں سائیں! اگر رانا جعفر کو میں نہیں چاہیے ہوں تو مُجھے بھی اُن کے ساتھ نہیں رہنا! مُجھے طلاق چاہیے۔" دُرّے کی آواز ایک بار پھر گونجی تھی۔ کِسی قِسم کی کوئی لڑکھڑاہٹ نہیں تھی اُس کے لہجے میں۔ اگر رانا جعفر ضِدّی تھا تو وہ بھی تو راناؤں کا ہی خُون تھی وہ کیسے اُس کی ضِد پوری ہونے دیتی۔

"تُم چُپ کرو دُرّے! اپنی حماقت میں تُم کُچھ سمجھ نہیں رہیں۔ ہمارے یہاں طلاقیں نہیں ہوتیں یہ تُم بھی جانتی ہو اِس لیے اب کوئی دوسری بات نہیں۔" رانا ہاشِم نے دُرِفشاں کے چہرے کو دیکھ کر کہا جو لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔

"جانتی ہوں چاہے پھر شوہر دو شادیاں کر لے یا چار! طلاقیں نہیں ہوتیں مگر بیویوں کو ذہنی اذیّت دے کر مارا جاتا ہے۔" دُرِفشاں پھٹ پڑی تھی۔ رانا جعفر نے ناگواری سے اُسے دیکھا تھا اُس کی بات کا مطلب وہ اچھے سے سمجھ گیا تھا جِس پر وہ طیش میں آیا تھا۔

"میں تیار ہوں نِکاح کے لیے۔" رانا باقِر نے حمود کی طرف دیکھ کر جلتی آنکھوں سے اِقرار کیا تھا۔ جانتا تھا کہ اگر نِکاح نا کیا تو شاید رانا جعفر اپنی بے عِزّتی کا بدلہ اُس کی بہن سے لے۔ طلاق نا بھی ہوتی تو وہ دُرّے کو سکون سے جینے نا دیتا۔ حمود کے بے تاثر چہرے پر نظریں جمائے وہ ہارے ہوئے قدموں سے سٹیج کی جانِب بڑھا تھا۔ یہ وٹے سٹے کا کھیل اُن کے رِشتوں میں بھی چلے گا یہ بات اگر اُسے پتہ ہوتی تو شاید وہ کوئی حل ڈھونڈ لیتا۔ حلیمہ بیگم نے دُرّفشاں اور دُرِشہوار کو صوفوں پر بِٹھا دیا تھا۔ دُرّے تو کِسی ساکت بُت جی طرح وہاں براجمان تھی۔ پھر اگلے دس مِنٹ میں مولوی رانا باقِر کا نِکاح دُرشہوار سے پڑھا رہا تھا۔ دُرِشہوار اب خُوش تھی بے حد۔ جِسے اُس نے چاہا تھا وہ اُس کا ہونے جا رہا تھا مگر اُس کی مُحبّت رانا باقِر اور دُرِشہوار کے دِل ویران کر گئی تھی۔

"دُرشہوار ولد رانا ہاشِم محمود آپ کو سِکّہ رائج الوقت، بمعہ حق مہر پچاس لاکھ روپے، رانا باقِر قاسِم محمود کے نِکاح میں دیا جاتا ہے کیا آپ کو قبول ہے؟" مولوی نے دُرشہوار سے پوچھا تھا جو سر پر ٹی پِنک کلر کا دوپٹہ اوڑھے سر جُھکائے بیٹھی تھی۔

"آج میں نے آپ کو پا لیا رانا سائیں! آپ صِرف میرے ہیں۔" دُرشہوار نے قبول ہے کہتے سر ہلایا تھا۔

"کیا آپ کو قبول ہے؟" مولوی نے دوبارہ پوچھا تھا۔

"آج سے میری ساری وفائیں آپ کی ہوئیں۔ آپ جو ابرِ گُریزاں بنے ہوئے تھے اب ابرِ مُحبّت بن جائیں گے۔" وہ دِلکشی سے مُسکراتی سرشاری سے قبول ہے کہہ گئی تھی۔

"کیا آپ کو قبول ہے؟" مولوی صاحب نے تیسری دفعہ پوچھا تھا۔

"اپنی مُحبّت سے آپ کا دِل بدل دوں گی رانا سائیں! آپ کے دِل پر صِرف آپ کی شاہی کی حکومت ہو گی۔" روح تک اُترتی خُوشی کے سنگ دھڑکتے دِل کے ساتھ وہ قبول ہے کہتی اپنی سارے حقوق رانا باقِر کے نام کر گئی تھی۔ اُس کے اندر مچلتی خُوشی کا پتہ اُس کے ہونٹوں کی مُسکراہٹ سے چل رہا تھا۔ اُس سے ایجاب و قبول کے بعد مولوی صاحب رانا باقِر کی طرف متوجّہ ہوئے تھے۔

"رانا باقِر ولد رانا قاسِم محمود سِکّہ رائج الوقت بمعہ حق مہر پچاس لاکھ آپ کا نِکاح دُرِشہوار ولد رانا ہاشِم محمود سے طے پایا جاتا ہے کیا آپ کو قبول ہے؟" مولوی صاحب نے نِکاح کے کلمات ادا کرتے رانا باقِر سے پوچھا تھا۔

"قبول ہے۔" مُجھے پا تو لیا ہے مگر کبھی حاصِل نہیں کر سکو گی ہمیشہ تشنہ رہ جاؤ گی مگر رانا باقِر سے کبھی کُچھ نہیں مِلے گا تُمہیں۔ وہ تلخی سے اُس کے چہرے کی مُسکراہٹ دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا۔ اُس کے لہجے کی سختی چاہ کر بھی نہیں بدلی تھی۔

"کیا آپ کو قبول ہے؟" مولوی نے ایک بار پھر پوچھا تھا۔

"قبول ہے۔" ابرِ رحمت تو کبھی نہیں بنوں گا تُمہارے لیے۔ ترس جاؤ گی میری وفاؤں کے لیے۔ وہ اُس لڑکی کو دیکھنے لگا تھا جِس سے پہلی ہی نظر میں مُحبّت ہو گئی تھی اُسے اور اب وہ ایک کونے میں کھڑی تھی۔ پُر سکون سی، سمندر کے گہرے پانیوں جیسی۔

"کیا آپ کو قبول ہے؟" مولوی صاحب نے آخری بار پوچھا تو وہ آنکھیں میچ گیا۔

"قبول ہے۔" اِس دِل نے صِرف ایک ہی لڑکی کو چاہا ہے اور وہ حمود نواز ہے۔ جِس رِشتے سے ہمیشہ تُمہیں چاہا اُس رِشتے کو رُسوا کر دیا ہے تُم نے ۔ کبھی میرے دِل میں تُمہاری مُحبّت نہیں جاگے گی۔ جلتے دِل کے ساتھ وہ خُود پہ قابو پانے لگا تھا مگر ناکام ہونے لگا۔ بھوری آنکھیں ایک دم جلنے لگیں تھیں۔ ضبط جیسے چھلکنے لگا تھا۔

نِکاح کی رسم ہوتے ہی اُس نے وہاں دیکھا جہاں کُچھ دیر پہلے "وہ" کھڑی تھی مگر اب وہ کونہ خالی تھا۔ جانے کہاں چلی گئی تو وہ لڑکی جِس کے لیے رانا باقِر کا دِل دھڑکتا تھا۔ ہر طرف مُبارک سلامت کا شور اُٹھا تھا۔کون اُسے گلے لگا کر مُبارکباد دے رہا تھا، کون اُس کا ماتھا چوم رہا تھا اُسے کُچھ ہوش نہیں تھا۔ اُس کی بھوری آنکھیں بس "حمود نواز" کو تلاش رہیں تھیں جو کھو گئی تھی ہاں وہ سچ میں کھو گئی تھی۔ دُرِشہوار سرشار سی سب سے دُعائیں وصول رہی تھی۔ وہ مُحبّت پا گئی تھی تو جیسے دِل سکون میں آیا تھا ورنہ آج جِتنی تکلیف اُس نے سہی تھی اُسے لگتا تھا کہ رانا باقِر اُس کا نا ہوا تو شاید وہ اگلی سانس نا لے سکے۔

رانا باقِر کو جنون کی حد تک چاہتی تھی وہ مگر اپنے جنون میں وہ اپنی مُحبّت کی مُحبّت بھول گئی تھی۔ مُحبّت تو محبوب کی خُوشی میں خُوش ہونے کا نام ہے مگر وہ اُس سے اُس کی خُوش چھین کر اپنی خُوشی کو منزل دے گئی تھی۔ شاید مُحبّت ایسے ہی سب کو خُود غرض بنا دیتی ہے۔

سٹیج پہ موجود دونوں جوڑوں سے مِلتے مِلاتے لوگ اپنی اپنی جگہیں سنبھالنے لگے تھے۔ رانا باقِر سب کے ہٹتے ہی وہاں سے نِکلتا چلا گیا تھا کہاں ؟ یہ پوچھنے کا اُس نے کِسی کو موقع ہی نہیں دیا تھا۔ رانا عبّاس نے تاسف سے اُس کی بِکھری حالت کو دیکھا تھا۔ وہ مرد تھا سب کے سامنے رو نہیں سکتا تھا ورنہ سب اُسے کمزور کہتے۔ رانا عبّاس کے ساتھ ساتھ، ایک تنہا تاریک گوشے میں کھڑی حمود نواز نے بھی اُسے حویلی کی حدود سے باہِر جاتے دیکھا تھا مگر جانتی تھی یہ وقتی تکلیف ہے وہ ٹھیک ہو جائے گا۔ اُسے ٹھیک ہونا ہی تھا کوئی کِسی کے لیے نہیں مرتا نا ہی زیادہ دیر کِسی کو یاد رکھتا ہے ایسا حمود نواز کا ماننا تھا اور اُس کا ماننا کافی حد تک دُرست بھی تھا۔ یہاں تو لوگ مرنے والوں کو دو دِن بعد بھول جاتے ہیں پھر وہ کِس کھیت کی مولی تھی؟

معاملہ ٹھنڈا ہو گیا تھا اب تو سب لوگ کھانے میں یُوں مشغول تھے جیسے کُچھ دیر پہلے یہاں کُچھ ہوا ہی نا ہو۔ دُرِشہوار نے خُوشی سے طعام کا لُطف اُٹھایا تھا۔ ہاں اُسے شِکوہ تھا کہ اُس کی آپا نے ایسا کیوں کہا مگر پھر یہ سوچ کر وہ مُطمئن ہو گئی تھی کہ اُس کے ویر سائیں نے بھی دُرّے کے لیے طلاق کا سوچ کر غلط بات کہی تھی۔ اِس بات پر وہ بھی رانا جعفر سے خفا ہوئی تھی۔ لاکھ وہ اپنی مُحبّت کو پانے کو کوشاں سہی مگر وہ اپنی آپا اور ویر سائیں کا گھر تو ہرگِز نہیں توڑنا چاہتی تھی۔ اب ویسے بھی سب کُچھ ٹھیک ہو گیا تھا تو وہ مُطمئن اور ُپرسکون تھی۔

دُرّے نے کُچھ نہیں کھایا تھا نا ہی اُس کا دِل تھا۔ اپنی کم مائیگی اور نارسائی کا احساس اُس کے دِل میں گڑھ کر رہ گیا تھا۔ وہ تو پہلے ہی رانا جعفر کے لیے کُچھ نہیں تھی اور اب تو وہ اُس کی اپنی زِندگی میں حیثیت بھی بتا گیا تھا۔ اپنی ماں سے کہہ کر وہ جلدی ہی وہاں سے چلی گئی تھی۔ نین گُل اور حمود دونوں ہی اُس کے ساتھ تھیں۔

کھانا کھانے کے بعد قریبی مہمان گیسٹ رومز کی طرف چلے گئے جبکہ گاؤں کے مُعزّز لوگ واپسی کو چل دئیے۔ گاؤں کے باقی لوگوں کے کھانے کا اِنتظام پنڈال میں کیا گیا تھا جہاں رانا ہاشِم محمود کے مُلازِم ہی سارا کام سنبھال رہے تھے۔ رانا عبّاس مُلازموں کو لان کی صفائی کرنے کا حُکم دے کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔ آج جو ہوا تھا اُس سے سب وہ شکِستہ سا ہو گیا تھا۔ اُسے ایک عجیب سا خوف لاحق ہوا تھا اگر جو نین اُس کی نا ہوئی تو؟ یہ سب وہ سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ اب بس جلد سے جلد اُسے نین گُل کو اپنی زِندگی میں شامِل کرنا تھا تا کہ اُسے کھونے کے خوف سے جو بے چینی اُس کے رگ و پے میں سرایت کر گئی تھی وہ ختم ہو جاتی۔

جص وقت سارا فنکشن ختم ہوا رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ سعدیہ بیگم، حلیمہ بیگم اور رانا ہاشِم محمود اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے جبکہ رانا قاسِم محمود بیٹھک میں گاؤں کے کُچھ مردوں سے محوِ گُفتگو تھے۔


**************


وہ اِس وقت ڈیرے پر موجود تھا۔رات کی تاریکی میں وہ تنہا اِس وقت ڈیرے پہ بیٹھا اپنا غم غلط کر رہا تھا۔ مُحبّت کھو دینے کا غم، ایک ایسی لڑکی سے رِشتہ قائم ہونے کا غم جِسے وہ بہن سمجھتا تھا، دِل ٹوٹنے کا غم، کِس کِس غم کا سوگ مناتا وہ؟ یہ جو سب ہوا تھا اِس میں اُس کی رضا نہیں تھی۔ وہ مجبور تھا۔ ایک طرف بہن تھی جِس کی ایک دِن پہلے ہی شادی ہوئی تھی جبکہ دوسری طرف مُحبّت! اگر وہ اِس نِکاح کے لیے ہامی نا بھرتا تو اُس کی بہن کو طلاق ہو جاتی اور طلاق ہونے کے بعد اُس کی زِندگی میں خُوشہوں کے بجائے دُکھوں کا ڈیرا ہوتا یہ بات وہ اچھے سے جانتا تھا۔ اِسی معاشرے میں رہتا تھا وہ جِس معاشرے میں ایک طلاق یافتہ عورت کو اچھی نِگاہوں سے نہیں دیکھا جاتا۔ غلطی بے شک مرد کی ہو قصوروار ہمیشہ عورت کو ہی سمجھا جاتا ہے۔

اور اُس کی آنکھیں؟ اُس کی سیاہ آنکھیں جیسے اُس کا تمسخر اُڑا رہیں تھیں۔ اُس نے تو بہت دعوے کیے تھے کہ وہ اُس سے شادی کرے گا، اُسے رانا حویلی کی بہو بنائے گا۔ اُس کے ہر گُمان کو غلط ثابت کرے گا کہ اُس نے دِل لگی نہیں کی تھی بلکہ وہ اپنی بات کا پکّا مرد تھا۔ مگر ہوا کیا تھا؟ اُس کے سارے دعوے بھربھری ریت کی دیوار ثابت ہوئے تھے۔ اپنا ایک بھی دعوی پورا نہیں کر پایا تھا وہ۔ تو کیا سمجھے گی وہ اُسے؟ ایک ایسا مرد جِسے اپنی زُبان کا پاس نہیں یا ایسا مرد جو لڑکیوں کو سبز باغ دِکھا کر دِل لگی کرتا پھرتا ہے۔ وہ جِتنا سوچتا جا رہا تھا اُس کے اندر وحشت بڑھتی جا رہی تھی۔

"حمود نواز" کی تمسخر اُڑاتی نظریں اور پُرسکون چہرہ اُسے چین نہیں لینے دے رہا تھا۔ اگر وہ اُس کی نہیں ہو پائی تھی تو اِس سب کا ذِمہ دار کون تھا؟ صِرف اور صِرف اُس کی منکوحہ جِس نے اپنی خُوشیوں کے لیے اُس کی بہن کی خُوشیوں سے بھی کھیلنا چاہا تھا۔

"میں تُمیں کبھی معاف نہیں کروں گا دُرِشہوار! میرا دِل ویران کر کے تُم نے اپنا دِل آباد کیا ہے۔ میری مُحبّت کی قبر پر اپنی خُوشیوں کا محل کھڑا کیا ہے۔ میری مجبوری کا فائدہ اُٹھا کر میری زِندگی میں شامِل ہوئی ہو نا؟ مگر اب بھی تُم اِس رِشتے کو ادھورا ہی پاؤ گی! رانا باقِر سے تُمہیں کبھی کُچھ حاصِل نہیں ہو گا۔ نا عِزّت، نا مان، نا بھروسہ اور نا ہی اِس رِشتے کی مِٹھاس۔ ہمیشہ ترسو گی تُم! مگر رانا باقِر کبھی تُمہیں خُوشی نہیں دے گا۔ جیسے میری بہن کی ذات کو تُن دونوں بہن بھائیوں نے بے مول کیا ہے نا ویسے ہی تُم بھی خُود کو انمول نہیں بے مول پاؤ گی۔ رانا باقِر تُمہارے لیے ابرِ گُریزاں تھا اور ہمیشہ ابرِ گُریزاں ہی رہے گا۔" رانا باقِر نے اونچی اونچی چیختے کہا تھا۔ آج ڈیرے کی دیواریں اُس کی وحشت و نفرت کی گواہ بنیں تھیں۔

بھوری سُرخ آنکھیں اُس کے اندرونی اِنتشار کی غمازی تھیں۔ آج کی رات اُس کی وحشت اور تکلیف میں تنہا اِسی جگہ پر گُزرنے والی تھی جہاں خُدا کے سِوا کِسی کو اُس کے حال کی خبر نا تھی۔


********************


وہ کُچھ دیر پہلے ہی دُرفشاں کے کمرے سے ہو کر آئی تھی۔ رانا جعفر کمرے میں نہیں تھا جبکہ دُرّے کپڑے تبدیل کرنے کے بعد بیڈ پر براجمان تھی۔ وہ ندامت سے سر جُھکائے اُس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے لگی تھی۔ درّے تو اُس کے دِل میں پنپتے جذبات سے واقفیت رکھتی تھی اُسے احساس تھا شہوار کی حالت کا مگر وہ اپنے بھائی کے لیے بھی دُکھی تھی جو شاید اپنی بہن کی خاطِر یہ کڑوا گھونٹ پی گیا تھا۔ اُسے شہوار سے کوئی شِکوہ نہیں تھا اِس لیے اُس نے شہوار کو معاف بھی کر دیا تھا جِس پر وہ اب پُرسکون ہوتی اپنے کمرے میں آگئی تھی۔

کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وہ بیڈ پر لیٹی سُہانے خُواب بُننے لگی تھی۔ اُس نے رانا باقِر کو پا لیا تھا یہ احساس ہی اُسے سرشار کرنے کو کافی تھا۔ اُسے یقین تھا کہ رانا جعفر وقت کے ساتھ اُس کی مُحبّت میں گِرفتار ہو جائے گا۔ اُسے اُس حمود نامی مُلازمہ کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ ایک مُلازمہ سے مُحبّت وہ بھی رانا باقِر کے دِل میں؟ یہ بات کافی مُشکِل سے ہی ہضم ہوئی تھی اُسے مگر اب جب کہ وہ اُس کا تھا تو وہ کِسی کو اِجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ اُس کے رانا باقِر کے بارے می ایسا کُچھ سوچے بھی۔ وہ کل اُس مُلازمہ کو مزہ چکھانے کا اِرادہ رکھتی تھی جِس نے اُس کے رانا باقِر کے بارے میں سوچنے کی گُستاخی کی تھی اِس بات سے بے خبر کی اُس مُلازمہ کے دِل میں تو ایسا کُچھ ہے ہی نہیں۔


********************


وہ آج حمین کو ساتھ لے آئی تھی۔ وجہ صِرف یہ کہ وہ پورا دِن اُس کے بِناء نہیں گُزار سکتی تھی۔ اُس نے بُوا سے بھی کہا تھا مگر بُوا نے یہ کہہ کر اِنکار کر دیا کہ وہ گھر پر ہی رہیں گی۔ بُوا نہیں جانتی تھیں کہ وہ آج تک جِتنے بھی پیسے کما کر لاتی ہے وہ چوری کے ہوتے ہیں۔ ورنہ اُس کی پٹائی لازمی تھی مگر وہ بھی کیا کرتی مجبوری نام کی چِڑیا اُس کی زِندگی کے آسمان پر ہمہ وقت منڈلاتی رہتی تھی۔ جِس وقت وہ لاک کھول کر اندر داخِل ہوئی ساڑھے سات بج رہے تھے۔ ناشتہ وہ کر کے آئی تھی اور حمین کا فیڈر بھی بنا لائی تھی تا کہ جب بھی اُسے بھوک لگے وہ اُسے پِلا سکے۔

حیدر نے اپنے فلیٹ کی ایک اور چابی بنوا لی تھی جو کہ اپنے پاس رکھ لی تھی دوسی چابی اُسے دے دی تھی۔ کبھی کبھی وہ حیران ہوتی کہ حیدر نے آخر کیا سوچ کر اُس پر اندھا اعتماد کر لیا ہے۔

اُس نے حمین کو ایل ای ڈی ایریا میں رکھے صوفے پر لٹاتے ایک نظر حیدر کے کمرے کو دیکھا جِس کا دروازہ بند تھا مطلب وہ ابھی جاگا نہیں تھا۔

اپنا بیگ اُس نے ایک سائیڈ پر رکھا جِس میں حمین کا کُچھ سامان موجود تھا۔ فیڈر بیگ دے نِکال کر باہِر رکھا تا کہ دودھ خراب نا ہو جائے۔ اُس نے حمین کے اِردگِرد تکیے رکھے تا کہ وہ گِرے نا اور اپنا رُخ کِچن کی جانِب کیا۔ ایپرن باندھ کر وہ اپنا کام کرنے لگی۔ وہ تیز تیز ہاتھ چلاتی حیدر کے لیے پراٹھے اور آملیٹ بنانے لگی۔ ایک نظر باہر جھانکا کہ حمین رو تو نہیں رہا۔ یہاں سے صاف طور پر وہ نظر نہیں آ رہا تھا مگر اُس کے رونے کی آواز نہیں آ رہا تھی مطلب وہ پُرسکون سا سویا ہوا تھا۔ پھر یہ سب کر کے اُس نے حیدر کے لیے چائے بنائی اور ناشتہ ٹرے میں سجایا۔ یہ سب کر کے اُس نے ٹرے اُٹھائی اور باہِر کی جانِب بڑھی۔ ابھی وہ کِچن سے باہِر نِکل کے ٹیبل پر کھانا رکھ کر مُڑی ہی تھی جب اُس کی نگاہ صوفے پر بیٹھے حیدر پر پڑی۔ پولیس یُونیفارم میں ملبوس وہ نک سک سے تیار ہینڈسم لگ رہا تھا۔ کیپ اور سٹِک سامنے ٹیبل پر پڑی ہوئی تھی۔ حمین کو اُس نے اپنی گود میں لیا ہوا تھا اور اُس کے ہونٹوں پہ اُنگلی رکھتا نجانے کون سے رازو نیاز کر رہا تھا کہ حمین صاحب قِلقاریاں مار رہے تھے۔ تبھی بے ساختہ حیدر جُھکا اور حمین کی پیشانی پہ بوسہ دیا۔ کِتنا مُکمّل منظر تھا آج حمین کا باپ ہوتا تو شاید اِس سے بھی زیادہ اپنے بیٹے سے پیار کرتا۔ بے ساختہ ہی اُس کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں جِنہیں وہ جلدی سے صاف کرتی اُن کی جانِب بڑھی۔ ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا تھا۔

"وہ ناشتہ تیار ہو گیا ہے کھا لو!" اُس نے حیدر کو متوجّہ کیا تو وہ حمین کو اپنی گود میں اُٹھائے اُس کی طرف متوجّہ ہوا۔

"یہ لِٹل چیمپ کو پکڑو! میں باہِر آیا تو جاگ گیا تھا اور تُم شاید مصروف تھی۔" اُس نے حمین کو اُس کی طرف بڑھایا تو وہ احتیاط سے اُسے تھام کر اُس کے چہرے کو مُسکرا کر دیکھنے لگی۔ وہ حیدر کی طرف متوجّہ نہیں تھی جو اُس کے پاس ہی کھڑا اب موبائل نِکال چُکا تھا۔

"ڈیول کوِئین!" حیدر نے اچانک کہا تو اُس نے بے اِختیار اُس کی طرف دیکھا تب ہی حیدر نے فون سے پِکچر کلِک کی تو وہ چونکی۔

"یہ کیا حرکت ہے؟" اُس نے ناگواری سے پوچھا تھا۔ اُسے حیدر کی یہ حرکت پسند نہیں آئی تھی۔ تصویر میں وہ ایک مُکمّل منظر تھا۔ حیدر اور حیدر کے پاس کھڑی اُس کی ڈیول کوئین کے ہاتھ میں پیارا سا بے بی! وہ اپنی ہی سوچ پر مُسکرایا۔

"بہت اچھی حرکت ہے۔ دِل کر رہا تھا اِس لیے لی۔" کہہ کر وہ اُس کا جائزہ لینے لگا۔ سیاہ رنگ کی گُھٹنوں تک آتی فراک کے نیچے سیاہ جینز پہنے ہوئے تھی۔ سر پہ بلیک ہی حِجاب کر رکھا تھا جبکہ دوپٹہ لاپرواہی سے کندھے پر جھول رہا تھا۔ وہ پوری کی پوری بلیک ڈیول کوئین ہی لگ رہی تھی۔

"میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ ٹھرک مُجھ پر مت جھاڑا کرو۔" ناگواری سے کہہ کر وہ حمین کو کارپٹ پر بِٹھانے لگی جو اُچھل اُچھل کے نیچے اُترنے کی کوششوں میں تھا۔ حیدر نفی میں سر ہلاتا کُرسی پر بیٹھا اور ناشتہ کرنے لگا۔ دس مِنٹ میں ناشتہ کر کے وہ اُٹھا اپنی سٹِک اور کیپ اُٹھائی پھر ایک نظر اُسے دیکھا جو حمین کے پاس نیچے ہی بیٹھی ہوئی تھی۔

"فریج میں کِتنا دودھ تھا؟" اُس نے اچانک پوچھا تو اُس نے اپنا سر اُٹھایا۔

"اڑھائی یا تین کِلو ہو گا۔" اُس نے اُلجھے لہجے میں جواب دیا۔

"اُس دودھ سے میں نے ہیرے نہیں نِکالنے اِس لیے آئیندہ لِٹل چیمپ کے لیے دودھ گھر سے لانے کی ضرورت نہیں۔ یہاں پر ضرورت کی ہر چیز موجود ہے تو تُمہیں فِکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔" اُس نے جتاتے انداز میں کہا تو وہ نا چاہتے ہوئے بھی سر ہلا گئی۔

"گُڈ گرل! اپنا خیال رکھنا اور گھبرانا مت اِسے اپنا ہی گھر سمجھ لو۔ آؤ دروازہ بند کر لو۔" اُس نے کہہ کر باہِر کی طرف قدم بڑھائے تو وی تیزی سے اُٹھتی اُس کے پیچھے گئی۔ وہ آگے چل رہا تھا اور وہ اُس کے پیچھے کہ دروازے کے پاس پہنچ کر اچانک وہ پلٹا تو وہ اُس سے ٹکرا گئی۔ بے اِختیار اُسے گِرنے سے بچانے کو وہ اُسے تھام گیا تو اُس کے ہاتھ بھی حیدر کے کندھوں پر جا ٹِکے۔ ایک فسوں تھا جو حیدر کو خُود میں باندھ گیا۔ وہ یک ٹِک سا اُس کے معصوم چہرے کو دیکھ رہا تھا جو مزاحمت کرتی خُود کو چھڑوانا چاہ رہی تھی مگر اُس کی گرفت مضبوط ہو گئی تھی۔ اچانک حمین کے کِھلکِھلانے کی آواز پر وہ ہوش میں آیا تو ایک دم سے اُسے پیچھے کیا اور بغیر اُسے دیکھے باہِر نِکل گیا پیچھے وہ اپنے دِل پہ ہاتھ رکھتی خُود کو پُرسکون کرنے لگی۔

جانے کیا تھا یہ شخص کہ جب بھی قریب آتا تھا یُونہی دھڑکنوں میں طُغیانی پیدا ہو جاتی تھی۔

وہ سر جھٹک کر ایک نظر حمین کو دیکھتی کِچن میں چلی گئی اور صفائی کرنے لگی۔ کِچن سے فارِغ ہونے کے بعد اُس نے ابھی حیدر کے کمرے کی طرف قدم بڑھائے ہی تھے جب ڈور بیل بجی۔ وہ حیران ہوئی ایس وقت کون آ سکتا تھا؟ کہیں حیدر واپس تو نہیں آ گیا؟ وہ کُچھ سوچ کر دروازے کی جانِب بڑھی اور دروازہ کھولا۔ سامنے ہی کوئی مرد کھڑا تھا جو دِکھنے میں حیدر ہی کی عُمر کا تھا۔ بلیک پینٹ کوٹ میں ملبوس وہ ہاتھ میں کُچھ فائلز پکڑے ہوئے تھا۔ اُسے سامنے دیکھ کر اُس کی نظروں میں حیرت کے تاثرات اُترے تھے مگر پھر وہ آگے بڑھا تو وہ بے اِختیار پیچھے ہو گئی کہ وہ گھر میں داخِل ہو گیا۔

"کون ہو تُم اور یہاں کیا کر رہی ہو؟" اُس آدمی نے ابرو اُچکا کر پوچھا تھا۔

"پہلے یہ بتاؤ تُم کون ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو؟ جہاں تک رہی میری بات تو یہ میرا گھر ہے۔" اُس نے بغیر ڈرے دوبدو جواب دیا تو وہ غُصّے سے اُسے گھورنے لگا جب اُسے کِسی بچّے کی آواز سُنائی دی۔ وہ چونک کر اُس طرف دیکھنے لگا جہاں حمین صوفے کے سہارے کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔

"یہ سچ میں تُمہارا گھر ہے؟" اُس نے مشکوک انداز میں پوچھا تو اُس نے زوروشور سے سر ہلایا۔

"بیوی ہے بچّہ بھی ہے اور مُجھے بتایا تک نہیں۔ اِسی لیے کبھی فلیٹ پر آنے کی دعوت نہیں دی مگر اِتنی بڑی بات چُھپائی کیسے؟ حد ہو گئی۔" خُود سے بڑبڑا کر وہ فون نمبر ڈائل کرنے لگا۔ دوسری طرف سے جلد ہی فون اُٹھا لیا گیا تھا۔

"اِس وقت تیرے فلیٹ میں بیٹھا ہوں اور بھابھی کے ہاتھ کی چائے پی رہا ہوں۔ تُم نے تو بتایا نہیں مگر تُمہارے بیٹے سے بھی مِل لیا میں۔" اُس نے تیکھے لہجے میں کہہ کر بغیر اُس کی بات سُنے فون کاٹ دیا۔

"یہ کیا کہہ رہے ہو؟ بیٹا؟ بیوی چائے؟" اُس نے اُلجھن سے پوچھا۔

"آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ حیدر کی بیوی ہیں نا آپ؟ مگر اُس کمینے نے بتایا ہی نہیں مُجھے اِتنے عرصے کی دوستی ہے مگر مجال ہے جو کُچھ پھوٹا ہو منہ سے۔ خیر آج آ ہی گیا ہوں تو اپنی بھابھی کے ہاتھ کی چائے ہی پی لیتا ہوں۔" وہ مزے سے کہہ کر صوفے پر بیٹھا اور حمین کو گود میں اُٹھا لیا۔ اُس کے منہ سے بیوی والی بات سُن کر وہ سُرخ ہوتی کُچھ بولنے لگی جب اُس نے روک دیا۔


"پہلے چائے پھر کوئی اور بات۔" اُس نے دوٹوک کہا تو وہ سر ہلاتی کِچن کی جانِب چل دی۔ پیچھے وہ حمین کے ساتھ اب حیدر کو اُس کا باپ سمجھ کر حیدر کی شکایتیں لگا رہا تھا۔

ابھی وہ ٹرے لے کر باہِر آئی ہی تھی کہ فلیٹ کا دروازہ کُھلا اور حیدر عجلت بھرے انداز میں اندر داخِل ہوا۔ وہ جو صوفے پر بیٹھا تھا اُسے دیکھ کر حمین کو کارپٹ پر بِٹھاتا اُٹھا اور اپنے کف فولڈ کرتا اُس کی طرف بڑھا۔ کوٹ وہ پہلے ہی اُتار چُکا تھا۔ اُس کے اِرادے جان کر حیدر نے نفی میں سر ہلاتے قدم پیچھے کو لیے مگر وہ اُس تک پہنچتا اُسے کالر سے پکڑتا نیچے کارپٹ پر پھینک چُکا تھا خُود وہ اُس کے اوپر بیٹھا اب اُس کی تواضع کرنے لگا اپنے مُکّوں سے۔ اُس کی ٹوپی اور سٹِک زمین پر گِر چُکیں تھیں۔ وہ خُود پر سوار ثاقِب کے مُکّے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر وہ تو بِپھرا شیر بنا ہوا تھا۔ اور وہ جِس کی وجہ سے یہ دھینگا مشتی ہو رہی تھی وہ خاموشی سے ایک پولیسیے کو ایک وکیل سے مار کھاتا دیکھ رہی تھی۔

"ثاقب یار چھوڑ! بات تو سُن میری!" وہ اُس دور دھکیلنے کی کوشش کرنے لگا جب ثاقب نے اُس کے گِرد قنیچی کی طرح اپنی ٹانگیں لپیٹیں

جبکہ حمین صاحب اب بار بار کھڑے ہوتے تالیاں بجا رہے تھے ساتھ میں کِھلکِھلا رہے تھے اور اِس کوشش میں اُٹھ رہے تھے اور پھر سے گِر رہے تھے۔

"کیا سُنوں؟ یہ کہ تیری ایک بیوی ہے، ایک عدد بچّہ ہے اور تیرے اِس یار کو معلوم ہی نہیں کہ وہ چاچا بھی بن گیا ہے۔" ثاقب نے غُصّے سے کہا تو کِچن کے دروازے پہ کھڑی اُس ڈیول کوئین کا چہرہ سُرخ پڑا تھا۔

"ایسا کُچھ نہیں ہے۔ میری بات سُنے گا تو بتاؤں گا نا!" اب کہ وہ چِڑا تھا مگر ثاقب نے ایک گھونسہ اُس کے پیٹ میں رسید کرتے حمین کو تھمبز اپ کیا تھا جو اب زمین پر رینگتا اُس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ حیدر نے بے چارگی سے سر اوپر کیا تو اُسے کِچن کے دروازے میں وہ ڈیول کوئین اُلٹی کھڑی نظر آئی ظاہِر ہے وہ الٹی ہی نظر آنی تھی۔

بے بسی سے اُس نے ثاقِب کو جھٹکا دیا تھا وہ پیچھے جا گِرا تھا مگر اُسی پل حمین صاحب اُس کے پیٹ پر چڑھتے سکون سے بیٹھ گئے تھے اور اپنے ننھے مُنھّے ہاتھوں کی مُٹھیاں بنا کر اُس کے سینے پہ مارنے لگے تھے۔ کِچن میں کھڑی وہ حمین کی حرکت پر مُسکرائی تھی جبکہ ثاقِب اُس ننھے پٹاخّے کو حیرت سے دیکھنے لگا تھا جو کاپی کیٹ لگ رہا تھا۔ حیدر بھی اب سکون سے لیٹا ہوا تھا اور نرمی سے اُسے دیکھ رہا تھا جِس کے گُلابی لب کُچھ کہنا چاہ رہے تھے مگر وہ بول نہیں پا رہا تھا۔

"جی او میرے شیر! اور مار اور زور سے! زور لگا کے ہیّا۔" وہ حیدر کے پاس بیٹھتے حمین کو بوسٹ اپ کرنے لگا تھا جِس پر وہ اُچھل اُچھل کر حیدر کے پیٹ پہ گِر رہا تھا مگر وہ لبوں پی مُسکراہٹ سجائے اب بازو سر کے نیچے ٹِکا گیا تھا۔

"بب ببا بب ببا!" وہ جو سکون سے لیٹا تھا اُس کے منہ یہ لفظ سُنتے ساکت ہوا تھا اور ساکت تو وہ بھی ہو گئی تھی۔ وہ مما بولتا تھا آدھی ادھوری باتیں بھی کر لیتا تھا مگر بابا لفظ کبھی نہیں بولا تھا مگر جِس شخص کو دیکھ کر وہ ببا بولا تھا وہ اُس کا باپ نہیں تھا۔ بے اِختیار اُس کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں اور وہ تیزی سے اُس کی جانِب بڑھی جو اب اُٹھ کر بیٹھتا حمین کو ہاتھوں میں لیا دیوانہ وار چوم رہا تھا۔ حیدر کی حمین سے چاہ دیکھنے سے تعلُق رکھتی تھی۔ ثاقِب تو حیدر کی جذباتیت پر حیران رہ گیا تھا۔ اِسی وقت وہ آئی تھی اور ایک جھٹکّے سے حیدر سے حمین کو چھین کر ساتھ والے کمرے میں جا گُھسی تھی اور ٹھاہ سے دروازہ بند کر گئی تھی۔ جہاں حیدر یاسیت سے اُسے دیکھتا رہ گیا تھا وہیں ثاقِب نے بھی اچھنبے سے اُسے کمرے میں بند ہوتے دیکھا تھا ہھر حیدر کی طرف متوجّہ ہوا تھا جو لب بھینچے کمرے کے بند دروازے کو دیکھ رہا تھا۔

"چلی گئیں وہ!" ثاقِب نے اُس کے سامنے چُٹکی بجائی تو وہ دانت پیس کر اُسے دیکھنے لگا۔

"جب کِسی بات کا پتہ نہیں ہوتا نا تو اپنا یہ پانچ کِلو کا منہ بند رکھا کرو۔" وہ چِڑتا ہوا ثاقِب کو قہقہہ لگانے پر مجبور کر گیا تھا۔

"کہیں یہ تیری پانچ سال پہلے کی بیوی تو نہیں جِن سے گھر والوں نے تیرا نِکاح کیا تھا اور تُو شادی کے تین دِن بعد وہاں سے یہاں بھاگ آیا تھا اور اب تُجھے اُن سے مُحبّت ہو گئی اور ایک بیٹا بھی ہے تو تُو اُنہیں اہنے پاس لے آیا۔ ویسے کب پتہ چلا کیا تیرا بیٹا بھی ہے؟" وہ سکون سے صوفے پر بیٹھتا حیدر کو صحیح معنوں میں تپا گیا تھا۔

"ابھی بیس مِنٹ پہلے جب مُجھے ثاقِب دا منحوس کا فون آیا تھا کہ میرا بیٹا بھی ہے اور ایک عدد بیوی بھی۔" وہ دانت کچکچاتے ہوئے ثاقِب کو گھور کر بولا تو وہ جیسے سمجھ کر سر ہلا گیا۔

"مطلب بھابھی نے تُجھے بھی اپنے آنے کا نہیں بتایا تھا؟" ثاقِب کی نئی بات سُن کر اُس کا دِل کیا اُس کا سر پھاڑ دے۔

"کِس بے وقوف سے پالا پڑ گیا ہے میرا! جانے وکیل کیسے بن گیا تُو! اب مُجھے سُن لے تا کہ اپنی یہ گوہر افشانیاں بند کر سکے تُو!" حیدر نے اُسے تیکھے لہجے میں کہا تو وہ اچھے بچّوں کی طرح اپنے منہ پر اُنگلی رکھ گیا۔ پھر حیدر نے شروع سے لے کر اپنی ڈیول کوئین سے ہوئی ہر مُلاقات کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ اُس کا اُسے کام کی آفر کرنا اور اُس کا یہاں کام کرنا وغیرہ بھی بتایا جبکہ وہ حیرانی سے سب سُنتا رہا۔

"مطلب تُو اُس چور کو گھر لے آیا؟ یار مت ماری گئی ہے تیری؟ چور ہے وہ۔ کبھی بھی بہت کُچھ چُرا کر غائب ہو سکتی ہے۔ چوروں کی فِطرت نہیں بدلتی کبھی بھی۔" ثاقِب نے کہا تو وہ مُسکرا دیا۔

"بہت کُچھ تو چُرا چُکی ہے اب اور کیا چُرائے گی؟" حیدر کی بات پر اُس کا ماتھا ٹھنکا۔

"کیا مطلب ہے؟ کیا چُرایا؟" ثاقِب نے ماتھے پہ تیوری ڈالے اُس کے تیور دیکھے جو اب مدھم سا مُسکرا رہا تھا۔

"دِل! چُرایا ہے وہ بھی تیرے یار حیدر کا! اچھی لگنے لگی ہے مجھے بہت۔" حیدر کی بات پر وہ یُوں اُچھلا جیسے بِچھّو نے کاٹ لیا ہو۔

"کیا کہہ رہا ہے تُو؟ ایک پولیس والے کو ایک چورنی سے مُحبّت ہو گئی واہ کیا بات ہے۔ پہلی دفعہ سُن رہا ہوں۔" اُس نے ہوا میں ہاتھ نچاتے ہوئے کہا۔

"مُحبّت نہیں کرتا بس اچھی لگتی ہے مُجھے۔" حیدر نے نفی میں سر ہلایا۔

"تُو پاگل ہے؟ وہ ایک بچّے کی ماں ہے۔ شادی شُدہ ہے وہ۔" ثاقِب کو سمجھ نا آیا اُسے کیسے سمجھائے۔

"بیوہ ہے وہ! شوہر نہہں ہے اُس کا۔ اور ایک بچّہ ہے تو کیا ہوا؟ ہزاروں لوگ بیوہ یا مُطلقہ عورت سے شادی کرتے ہیں۔" حیدر نے اُس کا اعتراض رد کیا۔

"وہ لوگ خُود بھی رنڈوے یا طلاق یافتہ ہوتے ہیں۔ تُُجھ میں کیا خرابی ہے جو تُجھے ایک چور سے ہی شادی کرنی ہے؟" اُس نے تیکھے چتونوں سے پوچھا۔ ایسا نہیں تھا کہ اُسے اِس لڑکی سے کوئی ذاتی دُشمنی تھی مگر حیدر کے لیے اُسے وہ ٹھیک نہیں لگی تھی۔

"خرابی مُجھ میں نہیں میرے دِل میں ہے جو اُس کی چاہ کرنے لگا ہے۔ میری بات ہوتی تو کبھی ایسا نا سوچتا مگر اب بات دِل کے سکون ہے کی ہے جو اُس ڈیول کوئین میں مِلتا ہے مُجھے اور آج تو میں ببا بن گیا۔ تُو نے دیکھا اُس نے مُجھے ببا کہا۔" حیدر نے پُرسکون انداز میں صوفے کی پُشت سے ٹیک لگاتے کہا تھا۔ چہرے پر خُوشی کے انوکھے رنگ تھے جو آج سے پہلے کبھی اُس نے حیدر کے چہرے پر نا دیکھے تھے۔

"تُو سیریس ہے؟" اُس نے ایک بار پھر یقین دُہانی چاہی تو وہ سر کو اوپر نیچے ہلاتا اُسے بہت پیارا لگا تھا۔

"جِس میں تُو خُوش اُس میں میری خُوشی ہے مگر کیا تُمہارے گھر والے مان جائیں گے؟" ثاقِب نے پُرسوچ نظروں سے اُسے دیکھتے اِستفسار کیا۔

"مان جائیں گے۔ لاڈلا بیٹا ہوں میں کیسے ٹالیں گے مُجھے؟" حیدر نے لاپرواہی سے شانے جھٹکے مگر اُس کی بے نیازی دیکھ کر ثاقِب کُچھ نہیں بول پایا تھا مگر جانے کیوں اُسے لگا تھا کہ یہ سب اِتنا بھی آسان نہیں تھا۔

"چل اِسے چھوڑ! تُو بتا کِس لیے آیا تھا؟ میں تھانے سے یہاں بھاگتا ہوا آیا ہوں۔" حیدر نے یاد آنے پر ابرو اُچکائے پوچھا۔

"بس یار سوچا تُجھے ساتھ لیتا ہوا جاؤں مگر یہاں آنے پر نیا ہی دنگل شروع ہو گیا۔ جانے وہ اندر کیا کر رہی ہوں گی؟" ثاقِب نے کہا تو وہ ایک گہرا سانس بھرتا ہوا کمرے کے بند دروازے کو دیکھنے لگا جہاں وہ نجانے کونسا شُغل فرما رہی تھی۔

"اچھا تُو نِکل پھر میں بھی اب کُچھ دیر تک جاؤں گا۔" اُس نےدروازے پر نظریں ٹکائے ہی کہا تو ثاقِب نے اُسے گھوری سے نوازا۔

"پہلی دفعہ تو مُجھے گھر سے نِکال رہا ہے۔ وہ بھی ایک لڑکی کے لیے۔" اُس نے مصنوعی خفگی سے کہا تھا۔

"زیادہ ڈرامے نا کر ورنہ بیلا بھابھی کو بتا دوں گا کہ تیرا ایک وکیلنی کے ساتھ افئیر چل رہا ہے۔" حیدر نے اُسے تپانے والے انداز میں کہا تھا۔

"بکواس کیوں کر رہا ہے؟ میرا کِسی سے کوئی چکّر نہیں۔ میں صِرف بیلا کا ہوں۔ کیوں مُجھے اُس کے ہاتھوں گنجا کروانے پر تُلے ہو؟" ثاقِب نے بِگڑ کر کہا تھا جِس پر وہ ہنسا تھا۔ بیلا کی پُوزیسِونیس سے وہ اچھی طرح واقِف تھا۔ وہ اُس کی کزن تھی۔ ابھی چھ ماہ پہلے ہی اُن کی پسند سے شادی ہوئی تھی اور وہ ایک ساتھ بہت خُوش تھے۔ جہاں ثاقِب کی بیلا میں جان بستی تھی وہیں بیلا بھی ایک پل اُس کے بغیر رہنا گوارا نہیں کرتی تھی۔

"اگر نہیں چاہتا کہ میں اُس سے تیری شِکایتیں لگاؤں تو نو دو گیارہ ہو جاؤ یہاں سے۔ جِتنا فساد تُم نے ڈالنا تھا ڈال لیا اب پھوٹو یہاں سے۔" اُس نے ثاقِب کی طرف دیکھتے دانت پیستے کہا تھا۔

"یاد رکھنا اب یہ بات۔" وہ وارنِنگ دینے والے انداز میں کہتا اُٹھا اور اپنا کوٹ اُٹھا کر دروازے کی جانِب بڑھ گیا۔ اُس کے جانے کے بعد حیدر اُٹھا اور اُس کمرے کے دروازے کے سامنے کھڑا ہوا جِس کے اُس پار وہ ڈیول کوئین اپنے شہزادے کے ساتھ موجود تھی۔


***********************

"ڈیول گرل!  دروازہ کھولو وہ چلا گیا ہے۔ اُس کی طرف سے میں معافی مانگتا ہوں اُسے کوئی غلط فہمی ہو گئی تھی۔" اُس نے دروازہ کھٹکھٹاتے بے بسی سے کہا تھا۔ ثاقِب کے سامنے تو وہ پُرسکون تھا مگر ایک بے چینی تھی جو اُس کے رگ و پے میں سرایت کر رہی تھی۔ جانے وہ اندر کِس حال میں ہو گی؟ کوِئی آواز بھی تو نہیں آ رہی تھی۔

"سُنو دروازہ تو کھولو کیوں میرا دِل ہولا رہی ہو؟ کہیں کُچھ چوری کر کے کِھڑکی کے راستے بھاگ تو نہیں گئی؟" حیدر نے اب کی بار طرزِ گفگتو تبدیل کی تھی۔ ابھی وہ کُچھ اور کہتا کہ اچانک دروازہ کُھلا تھا اور سامنے ہی وہ سُرخ چہرہ اور سُرخ ہی آنکھیں لیے اُسے گھور رہی تھی۔  

"چوری نہیں کرتی اب میں۔ کیا سٹام پیپر پر لِکھ کر دوں؟" وہ چیخی تھی جبکہ اُس کی چیخ سُنتے حیدر نے دو ہاتھ اپنے کانوں پر رکھے اور گردن اندر کر کے بیڈ پر دیکھنے لگا جہاں حمین صاحب محوِ نیند تھے۔ 

وہ جاگا نہیں تھا شاید گہری نیند میں چلا گیا تھا۔ 

"اِتنے پاس کھڑی ہو کر چیخنے کی کیا ضرورت ہے تُمہیں؟ سُنائی دیتا ہے مُجھے۔" وہ خفا ہوا تھا جب کہ مقابِل نے اُس کی خفگی کو ابرو اُچکائے دیکھا تھا جیسے کہ رہی ہو "میری بلا سے۔"

اُس کی طنزیہ نظروں سے وہ خجل سا ہوا مگر پھر جلدی ہی خود کو کمپوز کر گیا۔ 

"ایم سوری یار! دراصل وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ ابھی بول ہی رہا تھا جب اُس نے حیدر کی بات کو کاٹا۔

"یار نہیں ہوں میں!" وہ ناگواری سے بولی تھی۔ حیدر نے اُس کے ڈھیلے ہوتے حِجاب میں قید اُس کے چہرے کو دیکھا پھر مُسکرایا تھا۔ 

"تیرا یار ہوں میں!" وہ گُنگُناتا اُسے تپانے میں کامیاب ہوا تھا۔ اِس سے پہلے کہ وہ غُصّے سے دروازہ بند کرتی حیدر نے دروازے کے بیچ اپنا پاؤں اٹکا کے اُسے دروازہ بند کرنے سے روکا تھا۔ 

"اچھا سوری! میری بات تو سُنو! مُلازمہ ہو کر اِتنے نخرے ہیں بھئی قسم سے!  یہ سودا تو مہنگا ہی پڑ گیا مُجھے!" وہ مصنوعی غم سے بولا تھا۔

"کام کرتی ہوں میں خریدا نہیں ہے تُم نے مُجھے!" وہ غُرّائی تو حیدر نے نرمی سے اُس کی طرف دیکھتے اُس کی شیرنی جیسی دھاڑ سُنی۔ 

"خریدنا چاپتا بھی نہیں ہوں۔ تُم تو پکّی کوئی عادی چورنی ہو میری اِتنی قیمتی چیز چُرا لی ہے مگر تُمہیں خبر تک نہیں۔" وہ اُس کے من موہنے چہرے کو دیکھتے معنی خیزی سے بولا تو اُس نے کُچھ چونک کر حیدر کو دیکھا جِس کا چہرہ اور آنکھیں الگ ہی کہانی سُنا رہیں تھیں۔ اُسے اُن آنکھوں سے خوف آیا تھا جِن میں مُحبّت بھری ہوئی نظر آ رہی تھی۔ وہ کُچھ سال پیچھے چلی گئی تھی ایسی ہی مُحبّت وہ پہلے بھی دیکھ چُکی تھی مگر۔۔۔۔۔۔۔ اُس نے سر جھٹکا اور اندر کی جانِب بڑھ گئی۔ اِرادہ گھر واپس جانے کا تھا۔ اُسے حیدر کی آنکھوں سے خوف آنے لگا تھا۔ پولیس یُونیفارم میں ملبوس وہ اِس وقت بہت دِلکش لگ رہا تھا مگر اُس کی نظروں سے یہ دِلکشی پوشیدہ تھی یا شاید وہ محسوس نہیں کرنا چاہتی تھی۔ 

مُجھے لگتا ہے مُجھے مُحبّت ہو گئی ہے۔" اپنی بڑھی ہوئی بئیرڈ کُھجاتے وہ نروس سے انداز میں بولا تو وہ ایک جھٹکے سے اُس کی طرف بڑھی۔ اُس کا چونکنا وہ محسوس کر گیا تھا۔ 

"تو جا کر اُس سے مُحبّت کا اِظہار کر دو۔" وہ لاپرواہ انداز میں کہتی حمین کو اُٹھانے لگی تھی جو کمبل میں لِپٹا سو رہا تھا۔ سردیوں کی آمد آمد تھی۔ اِسی لیے وہ حمین کے معاملے میں کافی احتیاط برتتی تھی۔ اِس سے پہلے کہ وہ جُھک کر حمین کو اپنی بانہوں میں اُٹھاتی اُس کا بازو حیدر کی قید میں آیا اور ایک جھٹکے سے وہ اُس کا رُخ اپنی طرف پلٹ گیا۔ اُسے تو جھٹکا ہی لگ گیا تھا غُصّے سے بُرا حال تھا۔ 

"ہاتھ چھوڑو میرا!" وہ دھاڑ اُٹھی تھی۔ وہ ڈری یا گھبرائی نہیں تھی بلکہ تن کر اُس کے سامنے کھڑی ہو گئی تھی۔ ایسی ہی تو لائف پارٹنر چاہتا تھا وہ جو دبو سی یا کمزور نا ہوتی نا ہی اور لڑکیوں کی طرح چھوئی موئی! 

"میں سچ میں تُم سے مُحبّت کرنے لگا ہوں۔ بہت اچھی لگتی ہو مُجھے!" وہ اب اُس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا کہہ رہا تھا۔ 

"پہلے کہہ رہے تھے کہ شاید مُحبّت ہو گئی ہے اور اب کہہ رہے ہو کہ سچ میں ہو گئی ہے۔ اپنی زُبان پر تو قائم رہو۔" وہ طنزیہ انداز میں ایک جھٹکے سے بازو چُھڑواتے ہوئے بولی تھی۔ 

"زبان تو وہی ہے بس دِل بدل گیا ہے۔ مُجھے لگتا ہے کہ تُم بھی مُجھ سے مُحبّت کرتی ہو مگر ڈر رہی ہو۔" حیدر نے اُس کے پُرسکون چہرے کو دیکھتے اندازہ لگانا چاہا تو وہ تمسخرانہ مُسکرائی۔ اُس کی مُسکراہٹ میں بھی درد پِنہاں تھا۔ اُس کی آنکھوں کی چمک بھی ماند پڑی تھی۔ 

وہ بغیر سانس لیے بس یک ٹِک اُسے دیکھ رہا تھا جو اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے خُود ساکن کھڑی تھی۔ اُس کی کالی سیاہ آنکھوں کی گہرائی سامنے کھڑے شخص کو کِسی اندھیر بھنور میں اپنے اندر گُم کر رہی تھی جبکہ وہ پُرسکون سی اپنی قاتِل نِگاہیں اُسی پہ ٹِکائے ہوئے تھی۔ 

"تُمہیں میرے ماتھے پہ پسینہ نظر آ رہا ہے؟" اُس نے معنی خیز خاموشی کو توڑتے سوال کیا۔

"نہیں۔" لہجہ تعجّب بھرا تھا۔ بھلا اِس وقت، اِس موقعے پر اِس سوال کی کیا تُک؟

"کیا میری دھڑکن کی آواز تُمہارے کانوں میں گونج رہی ہے؟" ایک بار پھر سوال کیا۔ لہجہ بے حد پُرسکون تھا۔ 

"دِل ہے کوئی ڈھول نہیں جو آواز میرے کانوں تک آئے۔" وہ جھنجھلا کر بولا تھا۔ وہ کُچھ اور سُننے کی چاہ رکھتا تھا مگر وہ کُچھ اور ہی راگ الاپ رہی تھی۔ 

"کیا میرہ چہرہ سُرخ ہو رہا ہے؟" اُس نے پھر سوال کرتے اُسے آگ لگائی تھی۔ کم از کم اُسے تو یہی لگا تھا۔ 

"نہیں یار نہیں ہو رہا۔" وہ اُکتا کر بولا تھا۔ جو وہ سُننا چاہ رہا تھا وہ بول نہیں رہی تھی مُحترمہ۔

"جب ایسا کُچھ نہیں ہو رہا تو تُم سے کِس نے کہا کہ مُجھے تُم سے مُحبّت ہے؟" اُس نے ابرو اُچکا کر پوچھا تھا۔

"اِن سب سوالوں کا مُحبّت سے کیا تعلُق؟" وہ اُلجھ کر پوچھ بیٹھا۔

"ایک لڑکی کو جب کِسی سے مُحبّت ہوتی ہے تو اُس کے قریب آنے سے لڑکی کے ماتھے پہ پسینہ آتا ہے، چہرہ حیا سے سُرخ ہو جاتا ہے، دِل دھک دھک کرتا اپنی دھڑکنوں کی آواز دو فِٹ دور شخص تک بھی پہنچا دیتا ہے لیکن تُمہارے میرے قریب آنے سے میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ کیونکہ مُجھے تُم سے مُحبّت نہیں ہے۔ اب پرے مرو۔" سکون سے مُحبّت ہونے کی عِلامات تفصیل سے بتاتی وہ اُسے آخر میں دھکا دے کر پیچھے مُڑی جب کہ اُس کا دِل کیا اپنا سر پیٹ لے۔ کِس بلا سے پالا پڑ گیا تھا اُس کا؟

"اور ایسا تُم سے کِس نے کہا بے وقوف؟" اُس نے پیچھے سے ہانک لگاتے پوچھا تھا۔

"ہر ناول میں لِکھا ہوتا ہے کھڑوس اِنسان۔" تیز تیز قدم اُٹھاتی وہ حمین کو اُٹھاتی ہوا میں ہاتھ جھلّا کر بغیر پلٹے جواب دیتی آگے بڑھ گئی تھی اور وہ بس اُسے دیکھتا رہ گیا تھا جو اب کمرے سے باہِر جا رہی تھی۔ 

"کہاں جا رہی ہو؟" اُس نے اُس کے پیچھے جاتے ہوئے پوچھا۔ 

گھر!" 

یک لفظی جواب دے کر وہ منہ چُھپائے اُس کے اپارٹمنٹ سے باہِر نِکلی تھی۔ حیدر نے جیب میں چابی کی موجودگی کو یقینی بناتے اُس کے پیچھے قدم اُٹھائے تھے۔

میں چھوڑ آتا ہوں۔" پارکنگ ایریا میں پہنچ کر اُس نے زبردستی حمین کو اُس سے چھینا تھا مگر گرفت نرم ہی رکھی تھی کہ وہ جاگ نا جائے۔ اُس کی حرکت پر اُس نے دانت پیسے تھے۔ 

"چلی جاؤں گی میں! کوئی ضرورت نہیں اپنی مُلازمہ پہ احسان کرنے کی۔" وہ چٹخ کر بولی مگر اُس کا بولنا حیدر کو مزا دے گیا۔ 

"مُلازمہ ہی سہی "اپنی" تو ہے نا؟" حیدر نے اُس کی طرف زرا سا جُھک کر کہا تو وہ بدک کر پیچھے کو ہوئی جبکہ حیدر اُس کے ڈر پر قہقہہ لگا گیا۔ وہ حمین کو لیے جیپ میں بیٹھ گیا تو چاروناچار اُسے بھی گاڑی کیں بیٹھنا پڑا۔ 

"میرا بچّہ واپس کرو مُجھے!" اُس نے حیدر کی گود میں سوئے حمین کو دیکھ کر کہا تھا۔

"میں کون سا اغواہ کر کے لے جا رہا ہوں؟ میرا پالا بے بی ماما پاس جاؤ!" حیدر نے سوئے ہوئے حمین کو مُحبّت سے تکتے اُس کی پیشانی  چومی۔ وہ اُس کی حمین کے ساتھ مُحبّت کو دیکھ کر جُز بُز ہوئی تھی۔ اُسے خبر بھی نا ہوئی کہ وہ یک ٹِک حیدر کو تکے جا رہی ہے۔

"تُمہیں بھی چاہیے کیا؟" اُس کی نِگاہیں خُود پہ مجسوس کرتے حیدر نے ابرو اُچکائے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔ آنکھوں میں شرارت کا عکس واضح تھا جِسے وہ دیکھ نہیں پائی تھی۔

"کیا؟" اُس نے اُسی بے خُودی میں گِھرے ہوئے پوچھا۔ 

"وہی پاری جو میں نے لِٹل چیمپ کو دی؟" اُس کا سوال سُن کر وہ اُسے نا سمجھی سے دیکھنے لگی مگر جب سوال کا ادراک ہوا تو خفت سے جنجھلاتی اُسی پر اُلٹ گئی۔

"بکواس مت کرو میرے ساتھ! گاڑی چلاؤ دھیان سے۔" اُس نے لب بھینچے سختی سے کہا تو وہ مدھم سا مُسکراتا ایک ہاتھ سے حمین کو تھامے دوسرے سے ڈرائیو کرنے لگا۔ اُس نے حیدر کو غیر آرام دہ حالت میں دیکھ کر حمین کو اُس کے ہاتھ سے لیا تھا۔ مگر اِس سب میں وہ یکدم جاگ گیا تھا اور جاگتے ہی ماں کے ساتھ لگتا اٹھکلیاں کرنے لگا تھا۔ کبھی اُس کی گردن میں منہ چُھپاتا تو تو کبھی اُس کا ہاتھ تھام کر گال پر رکھ لیتا۔ وہ اُسے اپنی طرف کرتی تو وہ اُس کے ہاتھ تھامے اُس کی گود میں کھڑا ہوتا بلیوں اُچھلنے لگتا۔ ساتھ بیٹھا حیدر اُن کو بغیر ڈِسٹرب کیے بس اُن کی حرکتوں سے لُطف اندوز ہو رہا تھا۔ جانے کیوں مگر اُسے یہ سب سکون دے رہا تھا۔ اگلے دس مِنٹ بعد جیپ سِگنل پر رُکی تھی۔ جیپ رُکتے ہی حمین بازو حیدر کی طرف کرتا اُس کے پاس جانے کو مچلنے لگا۔

"ببا ببا!!! وہ ببا کی گردان کرتا مسلسل اُس کے پاس جانے کی کوششوں میں تھا۔ حیدر نے اُسے تھاما تو وہ کُچھ کہے بغیر اُسے حیدر کے حوالے کر گئی۔ حیدر نے حمین کی سیاہ چمکتی آنکھوں کو دیکھا تو بے اِختیار اُسے کُچھ یاد آیا تھا۔ اُس کی آنکھیں ایک دم نم ہوئیں تھیں مگر پھر پلکیں جھپک جھپک کر اُس نے اُس نمی کو باہِر آنے سے روکا تھا۔ وہ اُس کے سامنے رونا نہیں چاہتا تھا۔

حمین کو کِھکِھلاتا دیکھ کر نجانے کیوں اُسے سکون محسوس ہوتا تھا۔ ایک انجانہ سا سکون۔

"مولا جوڑی سلامت رکھے، اللّٰہ اور بھاگ لگائے، صدا سُہاگن رکھے بی بی کو!" باہِر کوئی مانگنے والی آئی تھی۔ 

ہاتھ میں کشکول تھامے وہ دُعائیں دینے میں مصروف تھی۔ اُس کی دُعا پہ دونوں کی نظریں مِلیں تھیں۔ حیدر نے تو نہیں مگر مقابل نے سُرعت سے نظریں چُرائیں تھیں۔

"دُعا کرئیے گا کہ میری دُعائیں قبول ہو جائیں!" حیدر نے والٹ سے ایک ہزار کا نوٹ نِکال کر اُس کے کشکول میں رکھا تو وہ مزید خُوشحالی کی دُعائیں دیتی واپس چلی گئی۔ 

وہ اپنا والٹ جیب میں رکھنے لگا جب حمین نے اُسے تھام لیا اور اُس کے اندر سے کارڈ اور پیسے نِکال کر بکھیرنے لگا۔ جہاں حیدر نے حمین کو کُھلی چھوٹ دی تھی وہیں وہ حمین کی حیدر سے اِتنی "بے تُکلّفی" پر کڑھ کر رہ گئی تھی۔ حیدر کی نِگاہیں، اُس کے انداز، اُس کی باتیں اُسے بہت کُچھ سمجھا گئیں تھیں۔ وہ لاپرواہی برت رہی تھی تو اِس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ انجان تھی۔ جانتی تو تھی مگر یہ آگہی جانلیوا تھی۔ اُس کے خیال سے ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا۔

اُس نے اُس فقیرنی کی دُعاؤں اور حیدر کی معنی خیز بات کو نظر انداز کیا تھا۔ حمین مسلسل اُس کے والٹ کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ سِگنل کُھلا تو حیدر نے گُنگُناتے ہوئے گاڑی آگے بڑھائی تھی۔ اِس بات سے بے خبر کہ وہ کِسی کی نظروں میں آ چُکی ہے۔ 

حیدر نے جیپ اُس کے گھر کے سامنے والی گلی میں روکی۔ یہ ایک چھوٹی سی بستی تھی جِس میں وہ رہتی تھی۔ اِتنی بُری جگہ بھی نہیں تھی۔ صاف سُتھرا ماحول تھا۔

گاڑی سے اُتر کر وہ بغیر کُچھ کہے جانے لگی جب وہ حیدر کی آواز سُن کر رُک گئی۔ وہ اپنی سیٹ سے اُتر کر گھوم کر اُس کے پاس آیا۔ حمین کو دیکھا جِسے اُس نے اپنے کندھے سے لگا رکھا تھا اور اُس کا رُخ پیچھے کی طرف تھا۔ وہ گھوم کر اُس کے پیچھے آیا تو حمین کا رُخ اُس پر واضح ہوا۔ اُسے سامنے پا کر وہ کِھلکِھلاتا ببا ببا بولنے لگا تھا۔ حیدر اُس کی قِلقاریوں اور ببا کے نعرے پہ نِثار ہوتے جُھکا اور اُس کے چہرے پر پیار دینے لگا۔ اپنے پیچھے حیدر کو اِتنے قریب پا کر تو وہ ساکن ہو گئی تھی۔ حرکت کرنے کی بھی جُرّات نہیں تھی۔ 

"جو میں نے کہا اُس پر ایک بار سوچنا ضرور! اپنے لیے نہیں تو اِس ننھے فرِشتے کے لیے جِسے ماں کے ساتھ باپ کی بھی اشد ضرورت ہے" حیدر نے ذرا جُھک کر اُس کے کان میں سرگوشی کی تو وہ بدک کر بغیر پیچھے دیکھے آگے بڑھ گئی۔ وہ وہیں کھڑا اُسے دیکھتا رہا۔ گلی کے آخر میں پہنچ کر وہ رُکی، پلٹ کر اُسے دیکھا اور دائیں طرف موجود گھر میں داخِل ہو گئی۔ 

اُس کے گھر میں داخِل ہوتے ہی وہ گاڑی میں بیٹھا اور پولیس سٹیشن کی طرف روانہ ہو گیا۔ 

****************

رات کے ایک بجے کا وقت تھا جب وہ اپنے کمرے میں داخِل ہوا۔ کل کی نِسبت آج کمرے کی سجاوٹ میں کمی آ گئی تھی۔ آج جو ہوا تھا وہ ممکن ہو جائے گا اُسے یقین تو تھا مگر اُسے اندازہ نہیں تھا کہ دُرِفشاں بغیر اپنے دُلہناپے کا خیال کیے سب کے بیچ اِس طرح بول اُٹھے گی۔ ایک پل کو اُسے غُصّہ آیا تھا مگر پھر سب کچھ صحیح ہوتا دیکھ کر وہ مُطمئن ہو گیا تھا۔  دُرے کے کندھے پر رکھ کر چلائی گئی بندوق سے نِکلنے والی گولی سیدھا نِشانے پہ جا بیٹھی تھی۔ اُسے اپنی بہن کی خُوشی سے مطلب تھا جو پورا ہو گیا تھا اور اُسے کِسی کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اُس نے شہوار سے باقِر کے دِل میں بسنے والی لڑکی کے بارے میں جاننا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔ اُس کی بہن خُوش تھی تو وہ بھی پُرسکون تھا۔ 

ایک بوجھل سانس خارِج کر کے اُس نے سامنے دیکھا جہاں وہ رُخ موڑے لیٹی ہوئی تھی۔ شاید سو رہی تھی؟ وہ پُریقین نہیں تھا۔ آج اُس کا دو آتشہ روہ دہکھ کر وہ پھر سے اُس کے حُسن کا قائل ہوا تھا اُس کے نام سے جُڑنے والی لڑکی اپسراؤں کا سا حُسن رکھتی تھی۔ آج اُسے دیکھ کر ایک بار پھر لوگ رانا جعفر کی قِسمت پہ رشک کرنے لگے تھے۔ اُس کے معصوم حُسن کو دیکھ کر ایک پل کو وہ اپنے فیصلے سے ڈگمگایا تھا مگر بہن کی مُحبّت اُس کے رِشتے کے آڑے آ گئی تھی۔ مُحبّت تو تھی نہہں اُسے اپنی بیوی سے جو اُس کی مُحبّت بہن کی مُحبّت پر غالِب آ جاتی۔ دبے قدموں بیڈ کی جانِب بڑھتا وہ مسلسل دُرّے کو سوچ رہا تھا۔ اُسے دُرّے کا وجود لرزتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ 

بیڈ پر اُس کے پہلو میں بیٹھ کر اُس نے اُس کے چہرے سے چادر ہٹائی تو اُس کا رُخِ روشن واضح ہوا۔ دُھلے دُھلائے چہرے کے ساتھ، بغیر کِسی مصنوعی آرائش کے، قُدرتی حُسن لیے، گُلابی لب کُچھ بڑبڑاتے معلوم ہوئے تھے۔  دائیں گال پہ گہرا بھنور لیے وہ نیند میں گُم تھی۔ غور سے دیکھنے پر اُسے محسوس ہوا جیسے وہ روئی ہو۔ وہ ذرا سا جُھکا اور اُس کے گُلابی گال دیکھنے لگا جہاں آنسوؤں کے مِٹے مِٹے نِشان تھے۔ شاید نہیں یقیناً وہ روتی رہی تھی۔ اُس کا وجود ہلکا ہلکا لرز رہا تھا۔ جعفر نے اُس کی سرگوشیاں سُننی چاہی تھیں مگر سُن کر کُچھ پل ہِل نہیں سکا تھا۔

"نفرت۔۔۔۔۔۔ بہت نفرت ہے۔ بُرے ہیں۔ معاف نہیں۔۔۔۔کروں گی۔ کبھی نہیں۔۔۔" اٹک اٹک کر بے ربط سے جُملے کہتی وہ رانا جعفر کو لب بھینچنے پر مجبور کر گئی تھی۔ 

اُس کے آنسو اُس کی گھنی خمدار پلکوں کی نوک پر ٹھہر سے گئے تھے۔ رانا جعفر کا ہاتھ اُٹھا تھا اور اُس کی دائیں ہاتھ کی شہادت کی اُنگلی نے اُس کی گیلی پلکوں پہ اٹکا وہ آنسو چُنا تھا۔ بے ساختہ عمل تھا مگر رانا جعفر سے ہو گیا تھا۔ کُچھ پل وہ اُس آنسو کو دیکھتا رہا پھر دُرّے کو دیکھنے لگا جو ہنوز بڑبڑا رہی تھی۔ وہ اعصابی تھکن کا شِکار تھی تبھی نیند میں گُم اپنا دِل ہلکا کر رہی تھی۔ اُس کے لمبے سیاہ بال آدھے تکیے اور آدھے اُس کے کندھے پر گِرے ہوئے تھے۔ دوپٹے سے بے نیاز وجود لیے وہ رانا جعفر کے سامنے بے خبر پڑی تھی۔ وہ اُس لڑکی پر تمام حق رکھتے ہوئے بھی کوئی حق نہیں رکھتا تھا۔ 

 یہ وہ لڑکی تھی جِسے نِکاح کے بعد اُس نے ہمیشہ اپنی نازبرداریاں اُٹھاتے دیکھا تھا۔ جِس کے ڈپٹنے کا اثر لیے بغیر وہ اُس کی فِکر میں گُھلا کرتی تھی۔ اکثر وہ راتوں کو گھر دیر سے آتا تو اُس کے اِنتظار میں جاگا کرتی.  بغیر اُس کے کہے گرم گرم کھانا دینا جیسے دُرّے کا شوق تھا یا شاید مُحبّت! 

*********************

مگر اب یہی لڑکی تھی جِس کی نظر میں رانا جعفر کی کوئی حیثیت نہیں رہی تھی۔ وہ بے مول ہو گیا تھا اپنے ایک عمل کی وجہ سے۔ دُرّے کی آنکھوں میں اُس نے ہمیشہ اپنے لیے مُحبّت دیکھی تھی، فِکر دیکھی تھی اور اب اِن ہی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت وہ برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔ اُس کے اپنے دِل میں نتاشہ تھی وہ دُرّے سے مُحبّت نہیں کرتا تھا مگر دُرّے کی بے نیاز، بے رُخی اُسے کِھل رہی تھی۔ کیوں؟ یہ وہ جان نہیں پا رہا تھا۔ بے ساختہ ہی اُس کا دھیان نتاشہ کی طرف ہوا تھا۔ 

وہ دونوں ایک ریسٹورینٹ میں مِلے تھے اور پھر اُن کی دوستی ہو گئی تھی۔ رانا جعفر کو وہ پُراعتماد اور نڈر سی بولڈ لڑکی بہت پسند آئی تھی جیسے زمانے کے ساتھ چلنا آتا تھا.  دُرّے سے نِکاح کے دو سال بعد وہ نتاشہ کو پرپوز کر چُکا تھا اور نتاشہ نے اِنکار نہیں کیا تھا۔ مردانہ وجاہت کا حامِل، رانا جعفر کِسی بھی لڑکی کا خُواب ہو سکتا تھا اور نتاشہ تو رانا جعفر سے پہلی ہی مُلاقات میں اُس کی گرویدہ ہو گئی تھی۔ دُرّے میں اُسے کبھی وہ بات نظر نہیں آئی تھی جو نتاشہ میں تھی۔ آنکھوں سے آنکھیں مِلا کر بے خوف ہو کر بات کرنا نتاشہ کا خاصہ تھا جبکہ دُرّے اُس سے گھبرائی سی رہتی تھی جو اُس کی طرف دیکھنا بھی افورڈ نہیں کر سکتی تھی۔ اُس نے دُرّے کو ہمیشہ سادہ سے کپڑوں میں گھریلو حُلیے میں دیکھا تھا جبکہ اُسے نتاشہ پسند تھی جو ہر وقت ٹِپ ٹاپ رہتی تھی۔ 

وہ نا چاہتے ہوئے بھی دُرّے اور نتاشہ کا مُقابلہ کرنے لگا تھا اور آج اُس پہ بہت سی باتیں عیاں ہوئیں تھیں۔ نتاشہ بولڈ تھی جِس کا جِسم ہع کِسی کے لیے دعوتِ نظارہ بنا رہتا تھا۔ دُرّے خُود کو چُھپا کر رکھنے والی لڑکی تھی جِس کے جِسم کی رعنائیاں اُس کے محرم نے بھی محسوس نہیں کی تھیں۔ نتاشہ نڈر تھی جِس میں حیا نہیں تھی جبکہ دُرّے کی گھبراہٹ میں حیا کا عنصر ہوتا تھا کہ وہ اُس سے نظریں چُرائے ہوئے ہی بات کرتی تھی۔ دُرّے کو گھر سنبھالنا اور گھر بنانا آتا تھا مگر نتاشہ کو صِرف آزادی چاہیے تھی۔ دُرّے ہر لِحاظ سے نتاشہ سے بہتر تھی مگر وہ یہ بہتری دیکھ نہیں پایا تھا کیونکہ دُرّے کی مُحبّت پا کر وہ مغرور ہوا تھا۔ وہ اِبنِ آدم تھا بِنتِ حوا کی بے بسی اُسے مزا دیتی تھی۔ دُرّے کا خُود کے سامنے جُھکنا اُس کی انا کو تسکین پہنچاتا تھا۔ مگر اب یہی دُرّے اُس کے سامنے ڈٹ گئی تھی اپنے لیے، اپنے اور اپنے بھائی کے حق کے لیے۔ 

آج اُس کی آنکھوں کی بے یقینی دیکھ کر رانا جعفر کو احساس ہوا تھا کہ ہزار بے رُخی کے  باوجود دُرّے کو اُس پہ مان تھا، بھروسہ تھا.  مگر اُس نے یہ مان اور بھروسہ بھی توڑ دیا تھا۔ آج وہ فیصلہ کرتے وقت اُسے احساس ہوا تھا کہ اُس نے غلط کیا ہے مگر یہ احساس کُچھ پل ہی کا تھا۔ وہ وہاں بیٹھا اِردگِرد سے بے نیاز سوچوں میں گُم تھا۔ کیا وہ غلط تھا؟ اُس کی سوچیں دُرّے اور اپنی بہن سے شروع ہوتیں نتاشہ سے ہو کر پھر دُرِفشاں پہ جا کر ختم ہو گئیں تھیں اور یہی اُس کا اصل تھا اُس کی حقیقت دُرّے تھی نا کہ نتاشہ اِس بات کا یقین اُسے جلد ہی ہونے والا تھا۔ 

وہ بے خُودی میں اُس کے معصوم چہرے کی جانِب جُھکا تھا جب اُس کا فون گُنگُنایا تھا۔ ناگواری کا احساس اُسے شِدّت سے ہوا تھا۔ فون جیب سے نِکالتا وہ سائیلنٹ موڈ پہ کرتا کال کرنے والے کو دیکھنے لگا۔ نتاشہ کا فون تھا۔ اُس نے کال کاٹ کر فون ہاتھ میں پکڑا اور بے خبر سوئی دُرّے کی جانِب جُھکا جِس کی معصومیت اُسے اپنی جانِب کھینچ رہی تھی۔ وہ بیوی تھی اُس کی وہ حق رکھتا تھا یہی بات سوچ کر وہ خُود کو روک نہیں پا رہا تھا۔ اُس سے پہلے کہ وہ دُرّے سے کیے وعدے کو بھولکر ایک اور خطا کرتا فون پھر سے رِنگ ہوا تھا۔ وائبریشن کی آواز پر وہ غُصّے سے اُٹھتا کِھڑکی میں آیا اور فون کان سے لگایا۔ 

"کیا مُصِیبت آن پڑی ہے جو سکون نہیں؟" وہ دھاڑا تھا اور اُس کی تیز آواز سے دُرّے کی آنکھ کُھلی تھی۔ اُس نے سُرخ بھوری، مُندھی مُندھی خُوابیدہ آنکھوں سے آواز کے ماخذ کی طرف دیکھا تو نظر رانا جعفر پر پڑی جو فون پر مصروف تھا۔ ایک تلخ مُسکراہٹ اُس کے لبوں پہ رینگی اور ایک آنسو ٹوٹ کر پلکوں کی دہلیز سے گُلابی گال کو تر کر گیا۔ وہ رُخ موڑتی اُس منظر کو آنکھوں سے اوجھل کر گئی جو اُسے اذیّت دیتا تھا۔ 

رانا جعفر نے پلٹ کر اُسے دیکھا تھا مگر اب بہت دیر ہو گئی تھی۔ رانا جعفر کو واقعی احساس ہونے میں بہت دیر ہو گئی تھی۔ آج کی اُس کی حرکت کی وجہ سے وہ دُرّے کی ذات میں اپنے بچّے کُھچے نِشان بھی کھو چُکا تھا۔ 

******************

اگلی صُبح سب ہی  اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے مگر دُرفشاں اور باِقر ہر منظر سے نظریں چُرائے ہوئے تھے۔ رانا جعفر صُبح ہی صُبح شہر چلا گیا تھا اور دُرّے کے مُطابِق وہ نتاشہ کے لیے ہی شہر گیا تھا۔ رانا عبّاس پولیس سٹیشن چلا گیا تھا۔ ابھی اُس کو جوائن کرنے میں دِن تھے مگر وہ پہلے گاؤں کے حالات کا جائزہ لینا چاہتا تھا۔ رانا باقِر بھی شہر جانے کی تیاریاں کر رہا تھا.  اُس نے جِس کمپنی میں اپنے ڈاکیومینٹس جمع کروائے تھے اُن کی طرف سے صُبح ہی صُبح کال آئی تھی اور اُسے اپائنٹ کر لیا گیا تھا۔ وہ شام کو شہر جانے والا تھا مگر ایک بار حمود سے مِلنا چاہتا تھا۔ 

حمود اور نین گُل کل رات کو ہی نواز علی کے ساتھ اپنے گھر جا چُکیں تھیں۔ باقِر حمود سے بات نہیں کر پایا تھا۔  باقِر کی طرح رانا عبّاس بھی نین گُل سے بات کرنے سے محرم رہ گیا تھا مگر وہ آج نین گُل سے لازمی مِلنے والا تھا۔ جہاں باقی سب کی ذات افسردگیوں میں ڈوبی ہوئی تھی وہیں ایک دُرِشہورا تھی جو خُوش تھی بے اِنتہا خُوش۔ حویلی کے کام معمول پہ آ گئے تھے۔ پوری حویلی کی صفائی کی گئی تھی جِس سے شادی کی باقیات کا نام و نِشان بھی نہیں رہا تھا۔ 

سعدیہ بیگم اور حلیمہ بیگم اپنے اپنے کمروں میں آرام کر رہیں تھیں۔ رانا ہاشِم اور رانا قاسِم کھیتوں کی طرف نِکلے ہوئے تھے اور دُرّے اپنے کمرے میں تھی۔ 

اِس وقت وہ اپنے کمرے میں کھڑا اپنا بیگ پیک کر رہا تھا۔ الماری سے سارے کپڑے نِکال کر وہ سُرخ بھوری آنکھیں لیے بیگ میں ٹھونستا جا رہا تھا۔ اپنی ضرورت کی ہر شے بیگ میں رکھنے کے بعد اُس نے بیگ کی زِپ بند کی اور بیڈ کے ساتھ نیچے کھڑا کر دیا۔ ایک سفری چھوٹ سے شولڈر بیگ میں اُس نے اپنے ضروری ڈاکیومینٹس رکھے۔ ایک مُطمئن نظر اپنے سامان پر ڈال کر اُس نے قدم باہِر کی جانِب بڑھائے مگر پھر دروازے میں کھڑی دُرِشہوار کو دیکھ کر رُک گیا۔ 

وہ سولہ سالہ لڑکی ہونٹوں پہ مُسکراہٹ سجائے، نرم نِگاہوں سے اُسے دیکھتی دروازے کے بیچ و بیچ کھڑی تھی۔ پیچ کلر کا پیارا سا سوٹ پہنے، دوپٹہ سر پہ جمائے وہ اپنی تمام تر دِلکشی اور معصومیت کے ساتھ اُس کے سامنے کھڑی تھی نہہں وہ معصوم تو نہیں تھی جو دو دِلوں سے کھیل کر اپنا دِل آباد کر گئی وہ معصوم کیسے ہو سکتی ہے؟ رانا باقِر نے اپنی ہی سوچ کو جھٹکا تھا۔ 

"کہیں جا رہے ہیں آپ؟"  رانا باقِر کی نظر اندازی اور رُخ موڑ لینے پر وہ دِل مسوس کر اُس کے قریب آتی پوچھنے لگی مگر جواباً اُسے خاموشی ہی مِلی تھی۔ 

"میں آپس ے پوچھ رہی ہوں باقِر سائیں!" وہ دوبارہ پوچھنے لگی تو رانا باقِر نے ایک کٹیلی نِگاہ اُس پر ڈالی۔ 

"تُم کون ہوتی ہو مُجھ سے کُچھ بھی پوچھنے والی؟ میں تُمہیں جواب دینے کا پابند نہیں ہوں سمجھی تُم؟" وہ ایک دم پلٹتا دھاڑ اُٹھا تھا۔ شہوار اُس کا انداز دیکھ کر ہی دنگ رہ گئی تھی۔ 

"آپ ایسے کیوں بات کر رہے ہیں؟؟ بیوی ہوں میں آپ کی۔" اُس نے نم آنکھیں لیے باقِر کو یاد دِلایا تھا جِس پر وہ تلخی سے ہنسا تھا۔ 

"زبردستی کی بیوی؟ جان بوجھ کر، سب کُچھ جانتے ہوئے بھی کہ میں کِسی اور کو چاہتا ہوں، مُجھ سے شادی کی ہے تُم نے! وہ بھی میری ہی بہن کو مُہرہ بنا کر؟" رانا باقِر کے لہجے میں اذیّت پنہاں تھی۔ اُس کے منہ سے کِسی اور کے لیے مُحبّت سُن کر تو اُسے بُرا لگا ہی تھا مگر اُس کا طعنہ بھی چابک کی طرح دِل پہ جا لگا تھا۔ 

"مُجھے نہیں پتا تھا کہ ویر سائیں دُرّے آپا کو اِس سب میں گھسیٹ لیں گے۔ میں سچ کہہ رہی ہوں! میں نے تو صِرف آپ سے شادی کی خُواہش کی تھی۔" وہ آنسو بہاتے اُسے صفائی دے رہی تھی۔

"یہ مگر مچھ جیسے آنسو بہانے بند کر دو تُم! شرم و حیا بیچ کھائی ہے جو خُود اپنی شادی کی باتیں کرنے لگی؟ ابھی سولہ یا سترہ سال کی ہو تُم اور کارنامے دیکھو اپنے! تُمہارے بھائی کو بھی پتہ تھا دُرِشہوار کہ میں کبھی بھی تُم سے شادی نہیں کروں گا اِس لیے اُس نے میری بہن کی ذات کو بے مول کر دیا، اُس کی عِزّتِ نفس کو ٹھیس پہنچائی! میری بہن کی اُس کی زِندگی میں کیا حیثیت ہے وہ تو میں جان ہی گیا ہوں اور اب اُسے پتہ چلا گا کہ کِسی کی بہن بیٹی کو تکلیف دینا کیسا ہوتا ہے جب اپنی بہن پہ وہ سب بیتے گی۔" زہر خند لہجے میں کہتا وہ دُرِشہوار کو پستیوں میں گِرا گیا تھا۔ 

"آپ ایک مُلازمہ سے مُحبّت کیسے کر سکتے ہیں؟ میری مُحبّت نظر نہیں آتی آپ کو؟ نہیں جانتے کِتنا چاہتی ہوں میں آپ کو؟" وہ ڈبڈبائی نظریں اُس کی بھوری آنکھوں میں گاڑھے تیزی سے بولی تھی۔ 

"مُحبٹو کی نہہں جاتی ہو جاتی ہے اور وہ یہ نہیں دیکھتی کہ سامنے والے کا حسب نسب اور رُتبہ کیا ہے۔ جانتی ہو؟ اُس لڑکی سے جب بھی میں نے مُحبّت کا اِظہار کیا وہ ہمیشہ مُجھے اِنکار کر دیتی کہ وہ میرے ہم پلّہ نہیں، یہ افسانوی باتیں ہیں، وہ ایک غریب ہو کر مُجھ سے مُحبّت کی ہامی نہیں بھر سکتی، یہ س.  اُس کی حیا تھی یا حقیقت پسندی مگر مُجھے اچھی لگتی تھی۔ تُمہاری طرح منہ اُٹھا کر شادی کا نہیں کہتی تھی دُرِشہوار!" رانا باقِر کا ایک ایک لفظ اُسے ذلیل کرنے کو کافی تھا۔  

"میں اب شاہی سے دُرِ شہوار ہو گئی؟ میں تو آپ کی شاہی ہوں ناں؟ جِسے آپ اِتنا چاہتے تھے؟" وہ جانے کیا سُننا چاہتی تھی۔

"میں شاہی کو بہن کی طرح چاہتا تھا دُرّے کی طرح مگر تُم وہ شاہی ہی نہیں ہو۔ مُجھ سے سات آٹھ سال چھوٹی ہو مگر آج میری بیوی بن کر کھڑی ہو صِرف اپنی نام نہاد ضِد کی وجہ سے۔" وہ چٹخ ہی تو اُٹھا تھا۔ 

"ضِد نہیں مُحبّت ہے آپ سے! دِل لگی نہیں ہے مُحبّت ہے۔ آپ کی روح سے مُحبّت کی ہے میں نے!" وہ اب بھی اپنی صفائی دے رہی تھی۔ 

"اچھا؟ میری لُک پہ نہیں مری تُم؟ روح سے مُحبّت کی ہے؟" اُس نے معنی خیزی سے اِستفسار کیا تو وہ جھٹ پٹ سر ہلا گئی۔ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے سیاہ آنکھیں رگڑیں تھیں۔ 

"تو پھر تُمہیں میری روح سے ہی مُحبّت کرنی ہو گی۔ تُمہیں رانا باقِر کے جِسم سے تو کوئی مطلب نہیں نا آخر کو اُس کی روح سے مُحبّت کی ہے تُم نے؟ پھر رانا باقِر یہاں رہے یا نا رہے کیا فرق پڑتا ہے؟ آج سے میری روح سے مُحبّت کے دعوے کرتی رہنا اور اِس لاحاصل اِنتظار میں جلنا کہ رانا باقِر کبھی تُمہیں اپنی زِندگی میں نہیں مِلے گا۔ میرے سے شادی کرنی تھی نا تو ہو گئی شادی! میرا نام خُود سے جوڑ کر تُمہیں لگتا ہے کہ رانا باقِر بھی تُمہارا ہو گیا تو یہ غلط فہمی ہے تُمہاری! اِس کچّی عُمر کی جذباتی مُحبّت بہت جلد ختم ہو جائے گی تُمہارے دِل سے! مُجھ پہ میری زِندگی پہ کوئی حق نہیں رکھتی تُم! یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا!" تلخی سے ایک ایک لفظ بولتے وہ نفرت بھری نِگاہوں سے اُسے دیکھتا ایک بیگ تھامے، دودرے کو کندھے پہ لٹکائے وہ باہِر نِکل گیا تھا جبکہ دُرِشہوار تہی داماں وہیں کھڑی رہ گئی تھی۔  وہ جو شام کو جانے والا تھا اب اُس کی وجہ سے اپنا اِرداہ بدلتا ابھی ہی نِکل گیا تھا اور اب جانے کب واپس آتا؟ آتا بھی یا نہیں؟ 

دُرِ شہوار کو آج صحیح معنوں میں اپنے زیاں کا احساس ہوا تھا۔ اُسے سب کُچھ بہت آسان لگا تھا کہ اگر رانا باقِر سے اُس کی شادی ہو گئی تو وہ اُس مُلازمہ کو بھول جائے گا جبکہ ایسا کُچھ بھی نہیں ہوا تھا تو کیا اُس کا فیصلہ غلط تھا؟ اُس نے رانا باقِر کی مُحبّت میں یہ سب کُچھ کیا تھا۔ وہ سچ میں اُس سے مُحبّت کرتی تھی نا کہ صِرف وقت اٹریکشن! پھر کیوں وہ یہ سب کہہ گیا تھا؟ وہ اُس کا منکوح تھا مگر اُسے چھوڑ گیا تھا۔  اُس کے سامنے کِسی اور کے لیے محبّت کا پرچار کر رہا تھا اور وہ بے بس تھی۔ وہ وہیں بیٹھی اپنے خسارے پر رونے لگی تھی جو اُسی کا کمایا ہوا تھا۔ 

*****************

نین گُل اور حمود اپنے گھر آ چُکیں تھیں۔ نین گُل نے گھر آتے ہی اپنے چھوٹے سے آشیانے کی صفائی کی تھی۔ حمود نے سکول سے چُھٹی نہیں کی تھی بلکہ وہ سکول چلی گئی تھی۔ نواز علی کو رانا ہاشِم نے اپنے ڈیرے پر بُلایا تھا تو وہ بھی وہاں چلے گِئے تھے۔ اب گھر پر صِرف نین گُل ہی تھی جو ساری صفائی سُتھرائی کرنے کے بعد اب کُچھ پل سُستانے کو لیٹی تھی۔ رات کو وہ کافی دیر حمود سے باتیں کرتی رہی تھی۔ رات کو جو کُچھ حویلی میں ہوا اُس سے وہ کافی گھبرا گئی تھی جبکہ اُس کی نِسبت حمود کا انداز نارمل ہی تھا۔ کبھی کبھی نین گُل کو حیرت ہوتی تھی کہ حمود اُس سے زیادہ سمجھ دار اور عقل مند تھی اور کبھی کبھی بے ساختہ ہی اُسے اپنی بہن پر پیار آتا تھا۔ 

اُس نے حمود سے اِس بات کا تذکِرہ بھی کیا تھا کہ کون ہو گی وہ لڑکی جِس کے لیے رانا باقِر اپنی ہی تایا زاد کو ٹُھکرا رہا تھا جِس پر حمود نے یہ کہہ کر اُسے ٹوک دیا تھا کہ کِیس کی ذاتیات میں گُھسنا اچھی بات نہیں جِس پر وہ اپنا سا منہ لے رہ گئی تھی۔ وہ صاف گو تھی یا منہ پھٹ نین گُل اندازہ نہیں لگا پاتی تھی۔

لیٹے لیٹے اُس کی آنکھ لگنے لگی تھی۔ ابھی وہ نیند کی وادیوں میں گُم ہوتی جب بیرونی دروازہ کھٹکنے کی آواز سُنائی دی۔ وہ جلدی سے دوپٹہ سر پر اوڑھتی چپل پہن کر باہِر کو بھاگی تھی۔ 

"جی کون؟" اُس نے مُحتاط انداز میں پوچھا تھا۔

"میں ہوں دروازہ کھولو!" دوسری طرف نواز علی تھے جو اُسے دروازہ کھولنے کا کہہ رہے تھے۔ اُس نے تیزی سے دروازہ کھولا تو وہ اندر داخِل ہوئے۔ اُن کے چہرے پر نظر پڑتے ہی وہ چونک گئی تھی جو حد درجہ سُرخ اور گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔ 

"کیا ہوا ابّا؟ پرہشان کیوں ہو؟ش اُس نے فِکر مندی سے پوچھا تو نواز علی نے جِن نظروں سے اُسے دیکھا تھا وہ سہم کر کانپ کر رہ گئی تھی۔ وہ دونوں چلتے چلتے اب برآمدے میں پہنچ گئے تھے۔ نواز علی نے اُسے کُرسی پر بیٹھنے کا اِشارہ کیا اور خُود لکڑی کے تخت پر بیٹھ گئے۔

"جو میں پوچھوں اُس کا سچ سچ جواب دینا نین گُل! تیرے باپ میں اور ہمّت نہیں ہے جگ ہنسائی کی!" نواز علی کے جُھکے کندھے اور سخت انداز اُسے کُچھ بآور کروا رہے تھے مگر وہ دِل ہی دِل میں ایسا کُچھ نا ہونے کی اِلتجائیں کرنے لگی تھی۔ 

"کُچھ ہوا ہے کیا ابّا؟ تُو ایسے کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ ابھی بول رہی تھی جب نواز علی نے اُس کی آواز کاٹی۔

"ایک سوال نہیں بس جواب چاہیے مُجھے! کیا رانا عبّاس سائیں تُجھ سے مِلتے ہیں؟" باپ کے منہ سے ایسا سوال سُن کر نین گُل کا سر جُھک سا گیا تھا شرم سے ڈوب مرنے کا دِل کیا تھ۔

"سر جُھکانے سے کُچھ نہیں ہونے والا!  جو پوچھا ہے وہ بتاؤ؟" نواز علی نے ایک بار پھر پوچھا تو وہ بے ساختہ ڈرتی سر ہلا گئی.  

"کیوں مِلتے ہیں وہ تُجھ سے؟" اب کی بار نواز علی کی آواز تھکی ہوئی سی تھی۔ 

"شادی کرنا چاہتے ہیں مُجھ سے!" اُس کی آواز لڑکھڑا سی گئی تھی۔ باپ کے سامنے یہ سب کہنا بہت مُشکِل تھا۔ سر ابھی بھی جُھکا ہوا تھا۔ 

"تُجھے پتہ ہے تیرے باپ کے پاس اِس غُربت کے عِلاوہ ایک عِزّت ہی ہے جِسے سینچ سینچ کر رکھا ہے۔ کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا جِس کی وجہ سے اِس عزّت پر حرف آئے۔ مگر آج تو نے میرا سر جُھکا دیا ہے۔ ڈیرے پر رانا سائیں مُجھ سے کہہ رہے تھے کہ تیری بیٹی نے میرے بیٹے کو اپنی اداؤں کے جال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اُن سے بات پوری نا ہو پائی تھی اور وہ رو پڑے تھے۔ نین گُل تڑپ کر اُن کے قدموں کیں بیٹھی تھی۔ 

"نہیں ابّا! میں نے کُچھ نہیں کیا۔ رانا سائیں نے خُود ہی کیا سب کُچھ! وہ ہی مہرے پیچھے آتے تھے۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ وہ مُجھ سے شادی کریں گے میرا یقین کر ابّا! تیری بیٹی نے کبھی کوئی حد پار نہیں کی۔ رانا سائیں نے کہا تھا کہ وہ مُجھے پسند کرتے ہیں۔" وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی باپ کو صفائیاں دے رہی تھی۔ 

"یہ جو بڑے لوگ ہوتے ہیں اُن کی طرح اِن کے وعدے بھی جھوٹے ہوتے ہیں۔ رانا عبّاس نے شادی کرنی ہوتی تو کِسی اپنے جیسی امیر ترین لڑکی سے کرتا تُجھ سے نہیں۔ کیوں کرگ وہ ایک کمّی کمین کی بیٹی سے شادی؟ جھوٹ بولا ہو گا تُجھ سے! اگر سچّا ہوتا تو آج بڑے سائیں مُجھے سب کے سامنے بے عِزّت کرنے کو ڈیرے پر نہیں بُلاتے۔ وہاں سب مُجھ پر ہنس رہے تھے کہ ایک کمّی کمین کی بیٹی حویلی کی بہو بننے کے خُواب دیکھنے چلی ہے۔" نواز علی کو وہ اذیّت بھرے پل یاد آئے جب رانا ہاشِم کے کارندے اُس پر ہنس رہے تھے۔ 

"معاف کر دے ابّا! اب کبھی ایسا نہیں ہو گا۔ جیسا تُو کہے گا ویسا ہی کروں گی۔ ایک بار معاف کر دے۔" نین گُل ہِچکیوں سے روتی ہاتھ جوڑے معافی مانگنے لگی۔

"نا رو میریدھی! یہ دُنیا ہم جیسوں کے لیے کبھی نرم نہیں ہو سکتی! ہم غریب لوگ بس حسرتیں لیے ہی اِس دُنیا سے رُخصت ہو جائیں گے۔ ہاشِم سائیں نے آج رات تک کا وقت دیا ہے ہمیں آج ہی یہ گاؤں چھوڑ کر جانا ہے ورنہ اُنہوں نے جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔" نواز علی کی بات سُن کر اُس کے اوسان خطا ہوئے تھے۔ وہ شخص ظالِم تھا یہ تو سُنا تھا مگر بے حِس تھا یہ اُسے آج پتہ چلا تھا۔ جِس مُحبّت کی وجہ سے اُس کے باپ اور بہن کی زِندگی کو خطرہ ہوتا اُس مُحبّت سے وہ دور ہی بھلی تھی۔ یک دم ہی اُس نے فیصلہ کیا تھا اگر رانا عبّاس اُس کی ڈھال نہیں بن سکتا تھا تو اُسے ایسی مُحبّت نہیں چاہیے تھی۔ 

"ہم یہاں سے کہیں اور چلے جائیں گے ابّا! میں تُم دونوں کو نہیں کھونا چاہتی!" اُس نے آنکھیں پونچھتے کہا تو وہ سر ہلاتے نلکے کی جانِب بڑھ گئے جبکہ وہ تیزی سے اندر کی جانِب بھاگی۔ اُسے ضروری سامان باندھنا تھا تا کہ وہ یہاں سے جا سکیں۔ اِس سارے معاملے سے رانا عبّاس بے خبر ہی تھا اگر پتہ ہوتا تو شاید اُنہیں روک لیتا۔ 

*******************

رانا باقِر جا چُکا تھا۔ دُرّشہوار اپنے کمرے سے باہِر نہیں نِکلی تھی۔ وہ رانا باقِر کے کہے گئے الفاظ چاہ کر بھی نہیں بُھلا پا رہی تھی اور اب وہ یُوں اُسے چھوڑ بھی گیا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اُس نے غلط کیا یا صحیح۔ اپنی مُحبّت پانے کے چکّر میں وہ جذباتی سی کم عُمر لڑکی صحیح غلط بھی بھول گئی تھی اور اب تنہا اپنے کمرے میں بیٹھی گُھٹ رہی تھی۔

دوسری طرف دُرّفشاں جو رانا جعفر کے شہر جانے کی "وجہ" کو بخوبی سمجھتی تھی اب اُس کی طرف سے سوچنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ جِتنی بے مول ہو چُکی تھی اُتنا کافی تھا۔ اب وہ رانا جعفر کو ایک بھی موقع نہیں دینا چاہتی تھی جِس سے وہ اُس کی سیلف ریسپیکٹ کو ہرٹ کرتا۔ دُرّشہوار کی طرح وہ بھی اپنے کمرے کی ہو کر رہ گئی تھی۔ حلیمہ بیگم تو دُرّے کی حالت دیکھ کر ہی دنگ رہ گئیں تھیں۔ کہاں وہ ہر وقت چہچہاتی پِھرتی تھی اور کہا اب وہ کُھل کر مُسکراتی بھی نہیں تھی۔ یہی حال کُچھ سعدیہ بیگم کا تھا جو دُرِشہوار کےرانا باقِر سے نِکاح پر خُوش تو تھہں مگر اب یُوں اُس کے شہر چلے جانے کی وجہ سے وہ بھی اپنی بیٹی کے نصیب سے ڈرنے لگیں تھیں۔ وہ مائیں تھیں جِن کو اپنی بیٹیوں کی فِکر تھی۔ کون سی ماں ہو گی جو اپنی بیٹی کو پریشان دیکھ کر تڑپ نا اُٹھے اور آج کل یہ تڑپ سعدیہ بیگم اور حلیمہ بیگم کا نصیب بن گئی تھی۔

رانا عبّاس پوری ذمہ داری سے گاؤں کا مُحاصرہ کر چُکا تھا اور اب وہ اپنا چارج بھی سنبھال چُکا تھا۔ اِس وقت وہ اپنی جیپ میں بیٹھا مُکمّل یُونیفارم میں ملبوس نین گُل کے گھر کی طرف رواں دواں تھا۔ اُس کا اِرادہ نواز علی سے بات کرنے کا تھا کہ وہ نین گُل سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ وہ پہلے نواز علی سے بات کر لیتا پھر ہی حویلی والوں کو رِشتے لینے کے لیے بھیجنا چاہتا تھا۔ اپنی ٹوپی اور چھڑی اُس نے ساتھ والی سیٹ پر رکھی ہوئی تھی۔ نین گُل کے گھر کے باہِر پہنچ کر وہ گاڑی ایک سائیڈ پر کھڑی کرتا اُن کے گھر کی طرف بڑھا۔ جیپ کی آواز سُن کر ساتھ والے کچّے گھروں کے دروازے آپ ہی آپ کُھلنے لگے تھے۔ ہر گھر کے دروازے سے عورتیں اور بچّے جھانکتے حیرانی سے چھوٹے رانا سائیں کو ایک کمّی کمین نواز علی کے گھر کے سامنے دیکھ رہے تھے۔ مرد حضرات تو کاموں کو گئے ہوئے تھے جو اِس نظارے سے محروم رہ گئے تھے۔

ابھی وہ دروازہ کھٹکھٹانے ہی لگا تھا جب اُس کی نظر نیچے لکڑی کے دروازے پر لگے لوہے کے کُنڈے پر پڑی۔ وہاں بڑا سا تالا لگا ہوا تھا۔ وہ نا سمجھی سے تالے کو دیکھتا اِردگِرد جھانکنے لگا اور اُس کی نظر سب گھروں سے جھانکتے عورتوں اور بچّوں کے سروں پر پڑی جو اُس کے دیکھتے ہی واپس غائب ہو گئے تھے۔ وہ نفی میں سر ہلاتا پیچھے کو ہوا اور ایک دم آگے کو دوڑتا دیوار پہ چڑھا۔ دیوار اِتنی اونچی بھی نا تھی کہ اُسے مُشکِل پیش آتی ایک دفعہ پہلے بھی وہ اِس گھر میں آ چُکا تھا۔

وہ دوسری طرف اُترا اور گھر کا جائزہ لینے لگا۔ اندر دونوں کمروں کو تالے لگے ہوئے تھے۔ باہِر کِسی قِسم کا سامان اُسے نظر نہیں آیا تھا جیسے سارا سامان سمیٹ دیا گیا ہو۔ نین گُل کی وہ بکریاں بھی نہیں تھی جو وہ باہِر چرانے جاتی تھی۔ وہ حیرانی اور کُچھ پریشانی سے خالی گھر کو دیکھتا دیوار پھلانگ کر باہِر آیا۔ لوگ اب بھی وہیں کھڑے تانکا جھانکی کر رہے تھے۔ وہ اُلجھا سا نین گُل کے گھر کے پاس والے گھر کی جانِب بڑھا جب وہ عورتیں اُسے دیکھ کر اندر جانے لگیں مگر اُس کے روکنے پر رُکیں۔ اُن دونوں عورتوں نے دوپٹے کا ایک ایک پلّو اپنے منہ میں ڈالا ہوا تھا۔

"یہاں جو نواز علی رہتے تھے وہ کِدھر گئے؟" رانا عبّاس نے بمشکِل اپنے حواسوں پر قابو پاتے ہوئے کہا تھا۔

"وہ تو جی صُبح سویرے ہی شہر کو چلے گئے!" ایک عورت نے بتایا تو رانا عبّاس کا دِل جلنے لگا۔ اندیکھے سے خدشے تھے جو دِل کو گھیر رہے تھے۔

"شہر کیوں؟ وہ وہاں کِسی رِشتے دار کے پاس گئے ہیں؟" رانا عبّاس نے خُود پہ ضبط کرتے کہا تھا۔

"گئے تو اپنی بہن کے پاس ہیں جی! مگر اب یہاں نہیں آنا اُنہوں نے! نواز پاجی کہ رہے تھے کہ اب پکّے پکّے چلے جانا ہے اور اب وہیں رہنا اُنہوں نے جی!" اُسی عورت نے بتایا تو رانا عبّاس کُچھ پل بے یقینی سے اُسے دیکھتا رہا۔

"کیا سامان بھی لے گئے؟ کیا اب کبھی واپس نہیں آئیں گے؟" رانا عبّاس نے بے یقینی کے علام میں ہی پوچھا تھا۔ نین گُل اُسے چھوڑ کر چلی گئی؟ ایسے کیسے کر سکتی تھی وہ؟ وہ تو اُس سے مُحبّت کرتی تھی پھر یُوں اچانک؟ کیا وہ جھوٹ بولتی تھی؟ مگر کیوں؟ وہ جھوٹ کیوں بولے گی؟

"جی سامان تو یہیں ہے بس جی جو جمع پونجی تھی وہ لے گِے ہیں اور جی اپنی بکریاں بھی ہمیں بیچ گئے ہیں۔ رات کو نواز پا حی آئے تھے ہمارے گھر!" اُس عورت نے اُس کے چہرے کے اُڑے اُڑٙ رنگ کو دیکھ کر کُچھ تاسف سے کہا تھا مگر لہجے میں تجسس کی آمیزش تھی جو رانا عبّاس کی اُن کے بارے میں تفتیش پر بڑھ رہی تھی۔

"وہاں وہ کِس کے پاس گئے ہیں؟ آپ کو پتہ ہے کُچھ؟" اگر تو نین گةل نے رانا عبّاس کو دھوکا دیا تھا تو وہ اُسے ہرگِز معاف نہیں کرنے والا تھا۔ وہ دُنیا کے کِسی کونے میں بھی چلی جاتی رانا عبّاس اُسے کہیں سے بھی ڈھونڈ نِکالتا۔

"وہ جی! نواز پاجی کی وڈّی آپا شہر وِچ رہتی ہیں۔ اُوناں کے پاس ہی گئیں ہونی!" اب کی بار دوسری عورت نے گُفتگو میں حِصّہ لیا تھا۔ راجپوتوں کا وارِث ایک نوکر کے بارے میں پوچھ تاچھ کر رہا تھا تو ضرور کُچھ بات تو ہو گی؟

"نام پتہ جانتی ہیں آپ؟ کُچھ بھی جانتی ہوں آپ اُن کے بارے میں؟" رانا عبّاس نے آس سے پوچھا تو دونوں عورتوں کی نظریں چار ہوئیں۔

"نواز پا جی کی وڈّی آپا کا نام جی نیسم ہے جی اور اُن کا ایک ہی پُتر ہے عدیل! میاں تو اُن کا فوت ہو گیا ہے اور خُود وہ اپنے پُتر کے ساتھ شہر میں ہی رہتی ہے۔" دوسری والی عورت نے جواب دیا تو وہ گہرا سانس بھرتا وہ اُن کا شُکریہ ادا کرتا واپسی کو مُڑ گیا۔

وہ لوگ یہاں سے کیوں چلے گئے تھے؟ اگر گئے بھی تھے تو نین گُل نے اُسے بتایا کیوں نہیں؟ کیا وہ جان بوجھ کر اُس سے چُھپ گئی تھی؟ مگر پھر حمود اور نواز علی کے بھی اِتنی جلدی یہ گاؤں چھوڑنے پر مان جانے پر وہ حیران تھا۔ کُچھ تو تھا جو مِسنگ تھا مگر کیا یہ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اُس کے لیے شہر میں اُن کو ڈھونڈنا مُشکِل نہیں تھا۔ نسیم بیگم اور عدیل کے آئی ڈی کارڈ کی کھوج سے وہ اُن تک پہنچ سکتا تھا اور اِس کام کے لیے اُس نے شہر میں موجود اپنے ایک دوست کو فون بھی کر دیا تھا۔ اُس نے نا صِرف عدیل اور نیسم بیگم کے آئی ڈی کارڈ نمبر پتہ کرنے کو کہا تھا بلکہ نواز علی کو بھی ڈھونڈنے کا کہا تھا۔ نواز علی کا حُلیہ اور اُس کے ساتھ اُس کی دو بیٹیوں کی موجودگی کا بھی وہ بتا چُکا تھا۔ اُسے اپنے دوست پر یقین تھا کہ وہ اُنہیں ڈھونڈ لے گا۔ اُن کے مِلنے کی دُعا کرتا وہ واپس حویلی جا رہا تھا۔ اُس کے دِل و دماغ یہ بات ماننے کو تیار ہی نا تھی کہ اُس کی نین گُل اُس سے دور چلی گئی ہے اور وہ اُس کے دور جانے کی وجہ کے ماخذ سے بے خبر تھا۔


******************


وہ لوگ صُبح سویرے ہی گاؤں سے نِکل آئے تھے تب جب ابھی سورج پوری طرح طلوع بھی نہیں ہوا تھا۔ رات کو ہی نواز علی نے بکریاں بیچ کر کافی رقم حاصِل کر لی تھی اور کُچھ وہ پیسے جو دُرّے کی شادی پر رانا ہاشِم کی جانِب سے اُنہیں مِلے تھے۔ رانا ہاشِم نے ہی اُنہیں گاؤں چھوڑنے کا کہا تھا اور وہ اُن کا حُکم ٹال نہیں سکتے تھے۔ وہ اپنی بہن نسیم کے پاس جانے کے لیے نِکلے تھے.

حمود تو اِس اچانک فیصلے سے ہقّا بقّا ہی ہو گئی تھی باپ سے وہ پوچھ نہیں سکی تھی مگر نین گُل کی زُبانی اُسے ساری بات پتہ چل چُکی تھی۔ جانے کیوں مگر اُسے رانا عبّاس کے لیے دُکھ ہوا تھا۔ اُس نے عبّاس کی آنکھوں میں نین گُل کے لیے مُحبّت دیکھی تھی سچّی مُحبّت! اور وہ دِل سے چاہتی تھی کہ اُس کی بہن کو ایسا ہی مُحبّت کرنے والا شوہر مِلے۔ حمود کو یقین تھا کہ رانا عبّاس اِس ارے معاملے سے بے خبر ہے ورنہ وہ کبھی بھی نین گُل کو خُود سے دور نا جانے دیتا۔ حمود اپنی پھوپھو کے ہاں جانے پر خُوش نہیں تھی۔ وہ اجنبیوں سے گُھلنا مِلنا پسند نہیں کرتی تھی اور اُن کا بیٹا عدیل اُنہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا جو عُمر میں اُن سے کافی بڑا تقریباً پچیس سال کا تھا۔ نسیم بیگم اور عدیل کبھی کبھار ہی اُن کے ہاں آتے تھے یہی کوئی دو سال میں ایک مرتبہ وجہ یہ کہ اُن کو گاؤں میں رہنا پسند نہیں تھا۔

صُبح چار بجے کے چلے وہ قریباً بارہ بجے شہر پہنچے تھے۔ گاؤں سے تانگے پر اور آگے سے ایک ویگن پر سوار اُنہیں شہر پہنچتے کافی وقت لگ گیا تھا۔ نواز علی کے پاس اُن کے گھر کا پتہ موجود تھا۔ اِس لیے اُنہیں وہاں پہنچنے میں مُشکِل نہیں ہوئی۔

جِس وقت وہ گھر پہنچے ایک بج چُکا تھا۔ گھر پر صِرف نسیم خاتون ہی تھی جو اُن کو سامان سمیت دیکھ کر حیران ہوئیں تھیں۔ مگر پھر بھائی کو بیٹیوں کےس اتھ اپنے گھر دیکھ کر خُوشی سے اُن کے لیے ٹھنڈے شربت کا اِنتظام کرنے چلی گئیں تھیں۔ یہ ساڑھے چار مرلے کا چھوٹا اور سادہ سا گھر تھا جِس میں تین کمرے اور کِچن تھا۔ ایک طرف باتھ روم بنا ہوا تھا جبکہ کمروں کے آگے چھوٹا سا ہال تھا۔

حمود اور نین گُل تو کمرے میں چلی گئیں تا کہ کُچھ دیر سُستا لیں جبکہ نواز علی نیسم بیگم سے باتیں کرنے لگے اور اُنہیں بتانے لگے کہ وہ اب اِسی شہر میں رہیں گے اور جلد ہی کرائے پر کوئی مکان لے لیں گے۔ اُن کے یہاں شِفٹ ہونے کی خبر سُن کر وہ حیران ہوئیں تھیں کہ کہاں وہ اپنا گاؤں چھوڑنے ہر راضی نہیں تھے اور اب وہ ہمیشہ کے لیے وہ جگہ چھوڑ آئے تھے۔ اُن کے کُریدنے پر بھی نواز علی نے اُنہیں کُچھ نہیں بتایا تھا۔


*****************


رانا جعفر شہر آیا تھا مقصد کُچھ خاص نہیں تھا۔ حویلی میں رچی بسی ایک عجیب سی اُداسی سے گھبرا کر وہ یہاں کا رُخ کر گیا تھا۔ یہاں وہاں گھومتا کُچھ پُرانے دوستوں سے مِلتا وہ وقت گُزار رہا تھا جب اُسے نتاشہ کا فون آیا تھا۔ وہ اُس سے مِلنا چاہتی تھی اور اُسے اپنے فلیٹ میں بُلا رہی تھی۔ وہ نا چاہتے ہوئے بھی اُس کی مان کر اُس کے فلیٹ کی جانِب روانہ ہوا تھا۔ جانے کیوں مگر ایک بے نام سی گُھٹن گُھلنے لگی تھی اُس کے وجود میں۔ ہمہ وقت گہری بھوری نم آنکھیں اُس کے ذہن کے پردے پر لہرانے لگیں تھیں۔

وہ جِتنا اُن خمدار پلکوں والی کانچ سی آنکھوں کو جھٹکنے کی کوشش کرتا اُتنا ہی وہ سامنے آتیں۔ اگر کامیاب ہو بھی جاتا اُن آنکھوں کو بھولنے میں تو دائیں گال پہ پڑتا بھنور اُسے بے چین کرنے لگتا۔ کبھی گالوں پہ خُشک ہوئے آنسو اور کبھی بھوری آنکھوں کا سرد پن! وہ اپنی ہی کیفیت سے جھنجھلا گیا تھا کہ آخر اُس کے ساتھ یہ کیوں ہو رہا تھا؟

اِسی شش وپنج میں گِرفتار وہ نتاشہ کے فلیٹ پہنچا تھا۔ دروازہ کُھلتے ہی نتاشہ اُس کے گلے کا ہار بنی تھی۔ پیٹ کو بمشکِل ڈھانپتا ٹاپ، اور تنگ سی جینز پہنے وہ اُس کے ساتھ چِپکی کھڑی تھی۔ جعفر کو آج ایک عجیب سی گُھٹن ہو رہی تھی تبھی اُسے نتاشہ کی یہ حرکت پسند نہیں آئی تھی۔ اُسے خُود سے الگ کرتا وہ اندر کی جانِب بڑھا اور ہال میں جا کر صوفے پر بیٹھ گیا۔ نتاشہ منہ بسورتی اُس لے پاس پہنچی اور صوفے پر اُس کے قریب، اُس کے کندھے پر سر رکھے بیٹھ گئی۔

"سیدھی ہو کر بیٹھو نتاشہ! تُمہیں پتہ ہے مُجھے یہ سب پسند نہیں۔" اُس کے دعوت دیتے سراپے کو ناگواری سے دیکھتا وہ سرد سے لہجے میں بولا۔

"کیا ہو گیا ہے؟ آج میں بہت خُوش ہوں اور اِس لیے مُجھے میری خُوشی سے مت روکو۔ اِتنے دِنوں بعد تُمہیں دیکھا ہے مُجھے دید کی پیاس تو بُجھانے دو۔" وہ خمار آلود لہجے میں کہتی اُس کے چہرے پر جُھکی تھی۔ رانا جعفر کو اُس کی سیاہ آنکھوں میں نم بھوری آنکھیں نظر آئیں تھی ایک دم ہی نتاشہ کے چہرے میں دُرّے کا بے یقین اور رویا رویا چہرہ نظر آیا تو وہ ایک جھٹکے سے اُسے دور جھٹکتا کھڑا ہو گیا۔

"کیا بے ہودگی ہے یہ؟ بیوی نہیں ہو تُم میری! جو یُوں قریب آ رہی ہو میرے! اپنی نسوانیت کا ہی کُچھ خیال کر لو۔" رانا جعفر نے اُس سے یُوں دور ہوتے کہا جیسے وی کوئی اچھوت ہو۔

"شادی ہونے والی ہے ہماری! اِتنا تو چلتا ہے لوگ تو پتہ نہیں کیا کیا کر گُزرتے ہیں۔" اُس کی گردن میں ہاتھ ڈالے وہ ایک بار اؐس کے قریب جانے لگی تھی مگر ایک بار پھر رانا جعفر کو دُرفشاں کا عکس نظر آیا تھا اور ایک بار پھر وہ بے قابو ہوا تھا۔

"دور رہو مُجھ سے! سمجھ نہیں آتی؟ نفرت ہے مُجھے تُم سے!" وہ اُس کی طرف دیکھتے چیخا اور اُسے دھکا دیا تو وہ صوفے پر جا گِری۔ اُس کی بات سُن کر نتاشہ صوفے کے کونے پر پڑی اُسے حیرت سے دیکھنے لگی۔

"یہ کیا کہہ رہے ہو تُم؟ مُجھے سے نفرت کرتے ہو تُم؟ تو مُحبّت کِس سے ہے اُسے بہن جی سے؟ یہ تُم سب مرد ایک جیسے ہوتے ہو پہلے جِس سے نفرت کا اِظہار کرتے نہیں تھکتے پھر اُسی کے حُسن کے آگے ٹِک نہیں پاتے۔ اب وہ بہن جی پیاری لگنے لگی تُمہیں جو مُجھے بھول گِے اور اپنی زُبان کو بھی کہ مُجھ سے شاید کرو گے تُم!" غُصّے سے کہتے آخر میں اُس نے رانا جعفر کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا۔ وہ جانتی تھی انا کے زعم میں ڈوبا یہ شخص اپنی زبان پہ قائم نا رہنے کے طعنے نہیں سُن سکتا۔ رانا جعفر اُس کی جلی کٹی باتیں سُنتا اپنے منہ پہ ہاتھ پھیرتے خپقد کو کمپوز کرنے لگا۔

"سوری! بس کسی وجہ سے پریشان تھا اور غُصّہ تُم پر نِکال دیا۔ چلو میں تُمہیں شاپنگ کرواتا ہوں۔" وہ جلد از جلد یہاں سے نِکلنا چاہتا تھا جانے کیوں ایک گُھٹن کا سا احساس تھا جو بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ حرام رِشتے میں پڑا تھا تو سکون کیسے مِلتا۔ اپنی حلال بیوی کو نفرت سے نوازتا تھا تو بے چینی کیسے ختم ہوتی؟ نا چاہتے ہوئے بھی وہ دِل ہی دِل میں دُرّے کی حیا اور نتاشہ کی بولڈنیس کا موازنہ کرنے لگا تھا اور ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دُرّے کی حیا کا پلڑا بھاری رہا تھا مگر انا میں ڈوبا وہ شخص کِسی طور دُرّے کے سامنے جُھکنا نہیں چاہتا تھا۔

شاپنگ کا نام سُن کر وہ سب باتیں بُھلائے اُس کے ساتھ اِسی حُلیے میں

رانا جعفر کے ساتھ چل پڑی تھی جِس پر وہ تاؤ کھا کر رہ گیا تھا مگر کُچھ کہنے کی بجائے وہ اُسے شاپنگ مال لے آیا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اُس نے کیا کیا خریدا وہ تو اُلجھا سا بس بِل ادا کرتا رہا تھا۔ اُسے روپے پیسوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی وہ تو اپنی ہی ذات کی کشمکش میں اُلجھا ہوا تھا۔ تین سے چار گھنٹوں کی شاپنگ کے بعد وہ دونوں ایک ریسٹورینٹ آ گئے تھے۔

کھانا آرڈر کرنے کے بعد وہ نتاشہ کی کبھی ختم نا ہونے والی مُستقبِل کی پلاننگ سُننے لگا تھا۔ ایک یہ عورت تھی جِسے اُس کی پہلی شادی سے کوئی فرق ہی نا پڑتا تھا اور ایک وہ تھی جو اپنی رِشتے میں شراکت کو برداشت نا کرتے ہوئے اُسے یہ عندیہ سُنا چُکی تھی کہ وہ اُس کے دِل میں وہ مُقام کھو چُکا ہے جو اُس کا تھا۔ ایک یہ تھی جِس کو صِرف رانا جعفر کے کریڈٹ کارڈ سے مطلب تھا اور ایک وہ تھی جو بغیر کِسی غرض کے اُسے چاہتی آئی تھی اور پلٹ کر کبھی اپنی وفاؤں کا صِلہ بھی نہیں مانگا تھا۔ سامنے بیٹھی نتاشہ کے چہرے کو بغور دیکھتا وہ اپنی ہی سوچوں میں گُم تھا اِس بات سے انجان کہ اُس کی چال اُسی پہ اُلٹنے والی ہے۔ اُن سے کُچھ فاصلے پر موجود اُس وجود کی بھوری آنکھیں اُن دونوں پر ہی ٹِکی ہوئیں تھیں جِن میں ناگواریت کا عنصر واضح دیکھا جا سکتا تھا۔ اچانک اُس وجود میں حرکت ہوئی تھی۔ اُن کی زِندگیوں کو تلاطم کی نظر کیے وہ خُود یہاں عیش کر رہ تھا۔

اُن کے قریب پہنچتے اُس نے ٹیبل پر ہاتھ مارا تھا۔ جہاں نتاشہ چونک کر اُس مردانہ وجاہت سے بھرپور مرد کو دیکھنے لگی تھی وہیں رانا جعفر نے چونک کر مُقابل کی جانِب نِگاہ کی تھی مگر وہ نِگاہ مقابل کے سرد تاثرات پر اٹک گئی تھی۔ وہ مُطمئن تھا کہ کوئی اُس کا کیا بِگاڑ سکتا ہے مگر وہ بھول گیا تھا کہ بساط اُلٹی جا چُکی ہے۔ پہلے سامنے والا کمزور تھا مگر اب اُسی کمزور شخص کے ہاتھوں وہ اپنی کمزوری تھما چُکا تھا اور مقابِل کوئی بے وقوف شخص تو تھا نہیں جو سود سمیت بدلہ نا چُکاتا آخر کو ول بھی راناوں کا خون تھا جِس میں ضِد اور انا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔


********************


وہ اِس وقت اپنے گھر میں کھڑا تیار ہو رہا تھا۔ آٹھ بج چُکے تھے مگر وہ نہیں آئی تھی۔ اُس کے ہاتھ کا ناشتہ کھانے کے چکّر میں اُس نے اب تک ماشتہ بھی نہیں کیا تھا۔ وہ تیار ہو کر ایک نظر آئینے میں اپنا جائزہ لیتا سٹِک اور ٹوپی اُٹھا کر باہِر کی جانِب بڑھا۔ مُکمْل یُونیافرم میں ملبوس وہ بہت وجیہہ لگ رہا تھا۔ جیپ میں بیٹھ کر اُس نے جیپ سٹارٹ کرتے اُس جانِب بڑھائی جِس جانِب کل وہ اُسے چھوڑنے گیا تھا۔ پندرہ مِنٹ بعد وہ جیپ ایک سائیڈ پر کھڑی کر کے نیچے اُترا اور گلی میں داخِل ہوا۔ ابھی وہ گلی میں داخِل ہوا ہی تھا جب اُسے گلے کے وسط میں کُچھ لڑکے کھڑے نظر آئے۔ وہ تھوڑی اور آگے بڑھا تو اُس جے دیکھا کہ وہ ایک دائرے کی صورت میں کھڑے تھے۔ پھر اُس کی نظر اُن کے گھیرے میں کھڑی ایک لڑکی پر پڑی جو سہمی سی تھی شاید وہ اُسے چھیڑ رہے تھے۔ وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا تقریباً بھاگ کر اُن کے قریب پہنچا۔ کُچھ لڑکے تو ایک پولیس والی کو دیکھ کر بھاگ چُکے تھے جبکہ کُچھ انجان سے اب بھی لڑکی کو ہراساں کرر ہے تھے۔

اُن کے سروں پہ پہنچتے اُس نے ایک لڑکے کا کالر پکڑا اور اُسے زور سے پیچھے کو دھکّا دیا۔ وہ زمین پر جاگِرا تھا جبکہ دوسرے کو پکڑے زور دار گھونسے اُس کے چہرے پر برسائے۔ کوئی عام آدمی ہوتا تو وہ لڑکے اُس سے ہاتھا پائی پر اُتر آتے مگر وہ ایک پولیس والا تھا جِس سے بِھڑنے کی غلطی وہ نہیں کر سکتے تھے۔ پانچ مِنٹ میں اُس نے اُن لڑکوں کی حالت بِگاڑ دی تھی جبکہ وہ لڑکی ایک طرف سہمی سی کھڑی تھیں وہ اُس کے لیے گرِشتہ ہی بن کر آیا تھا جِس نے شیطانوں سے اُس کی رہائی کروا دی تھی۔

"معاف کر دو صاب! آئندہ ایسی غلطی نہیں ہو گی۔ " ایک لڑکے نے زمین ہر پڑے اپنے ساتھی کی حالت یکھتے گِڑگِڑاتے ہوئے کہا تھا۔

"تُم لوگوں کی جب تک سپیشل خاطِر تواضع نا ہو تب تک تُم لوگ سُدھرتے نہیں ہو۔" وہ ایک اور مُکا اُس کے پیٹ میں مارتا غُصّے سے بولا جبکہ اُس لڑکے کی جان حلق میں ان اٹکی تھی۔

"نہیں ماں قسم! آج کے بعد سب کو بہن سمجھیں گے! ایک بار معافی دے دو صاب!" وہ لڑکا اُس کے پیر پڑنے لگا تو وہ اُسے جھٹک کر پیچھے ہوا۔

"آج کے بعد نہیں آج سے ہی سب کو بہن سمجھو گے۔ چلو معافی مانگو اپنی بہن سے۔" اُس نے اُسے کالر سے تھام کر اُس لڑکی کے سامنے کھڑا کیا تو وہ جلدی سے اُس لڑکی سے معافی مانگنے لگا۔ خُون آلود چہرہ، ہونٹوں سے رِستا خون لیے وہ اُس لڑکی کو قالِ رحم حالت میں لگا تھا۔

سر ہلا کر اُس نے معافی کا عندیہ دیا تو حیدر نے اُنہیں وارن کر کے چھوڑ دیا۔

"آپ کا بہت شُکریہ بھائی صاحب! یہ اِس مُحلے کی ہر آتی جاتی لڑکی کو چھیڑنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ آج کے بعد اِن کی ہمّت نہیں ہو گی کِسی راہ چلتی لڑکی کی طرف دیکھنے کی!" اُس لڑکی نے مشکور نظروں سے اُسے دیکھا تو وہ اُس کے سر پر ہاتھ رکھ گیا۔ مگر دِل اُس کی بات سُن کر پریشان ہو اُٹھا تھا مطلب اُس کی ڈیول کوئین کو بھی یہ لڑکے چھیڑتے ہوں گے؟ رہتی تو وہ بھی اِسی مُحلّے میں تھی۔ اُس کا بس نا چلا کہ وہ واپس سے اُن لڑکوں کو بُلا کر اُن کی نئے سِرے دُھلائی کرے۔

"جانے لوگ بیٹیوں کو عِزّت کا پاٹ پڑھاتے بیٹوں کی تربیت کرنا کیوں بھول جاتے ہیں؟" وہ زیرِ لب بڑبڑآیا تو وہ لڑکی لڑکی ایک تلخ مُسکان چہرے پہ سجائے وہاں سے چلی گئی۔ یہی تو ہمارے معاشرے کا المیہ ہے لڑکیوں سے کہا جاتا ہے وہ اپنی عِزّت کی حِفاظت کریں۔ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھے لیکن لڑکوں سے نہیں کہا جاتا کہ وہ بھی اپنے قدم پھونک پھونک کر اور نظروں کی حِفاظت کر کے چلیں تا کہ کوئی لڑکی اپنی عِزّت کے ڈر سے اُن سے خوفزدہ نا ہو۔

وہ سر جھٹکتا ڈیول کوئین کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ مطلوبہ گھر پر پہنچ کر اُس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ تقریباً دس مِنٹ بعد دروازہ کُھلا تو سامنے ایک بُزرگ عورت کا چہرہ دِکھائی دیا۔ وہ اچھنبے سے ایک پولیس والے کو اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا دیکھنے لگیں۔ حیدر اُن کو پہچان گیا تھا یہ وہی تھیں جِن کی گود میں بچّہ دیکھ اُسے لگا تھا کہ یہ اِن کا ہے اور بعد میں وہی بچّی ڈیول کوئین کے ہاتھوں میں دیکھ کر وہ اُسے چور سمجھ بیٹھا تھا۔ اپنی اُس دِن والی حرکت پر وہ ایک بار پھر شرمِندہ ہوا تھا۔ وہ بُزرگ خاتون اب سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھ رہیں تھیں جو منہ میں دہی جمائے چُپ چاپ کھڑا تھا۔

"وہ مُجھے ڈیول آآ میرا مطلب ہے کہ حمین کی ماما سے مِلنا ہے کیا وہ گھر پر ہیں؟" اُس نے ڈیول کوئین کہتے کہتے دانتوں تلے زبان دباتے بات بدلی۔

"مگر آپ کو اُس سے کیا کام ہے بیٹا؟ کُچھ ہوا ہے کیا؟" ایک پولیس والے کو دیکھ کر وہ پریشان ہی ہو سکتیں تھیں سو ہو رہیں تھیں۔

"نہیں کُچھ نہیں ہوا دراصل وہ میرے گھر پر کام کرتی ہیں۔ آج آئی نہیں تو سوچا دیکھ آؤں حمین تو ٹھیک ہے نا۔" وہ خُوبصورتی سے بہانہ بناتا ہوا بولا تو اُن کے چہرے پر مُطمئن مُسکراہٹ دوڑ گئی۔

"آؤ آؤ!! باہِر کیوں کھڑے ہو؟ اپنا ہی گھر سمجھو اِسے۔" وہ خُوشدِلی سے بولتیں اُسے اندر لے گئی۔ چھوٹے سے ڈرائینگ روم نما کمرے میں بِٹھا کر وہ جانے کہاں چلی گئیں۔ دس مِنٹ بعد اُن کی واپسی ہوئی تو اُن کے ہاتھوں میں ٹرے تھی جِس میں چائے کے ساتھ بِسکٹس اور سنیکس وغیرہ رکھے ہوئے تھے۔

"یہ لو چائے پیو!" اُنہوں نے کپ اُسے تھمایا تو وہ چائے تھامتا گھر کا جائزہ لینے لگا۔ گھر زیادہ بڑا تھا نا چھوٹا بلکہ سادہ سا تھا جو اُن کے رہنے کے لیے کافی تھا۔ نفیس سا اور صاف سُتھرا گھر دیکھ کر اِس گھر کو سنبھالنے والی کو دیکھنے کی شِدّت سے خُواہش ہوئی اُسے۔

"ویسے ہیں کہاں وہ؟" اُس نے سرسری سا لہجہ اپناتے پوچھا تھا۔

"کل سے اُس کی طبیعت تھوڑی خراب تھی تو میں نے اُسے ڈاکٹر کے پاس بھیجا ہے۔ آج آپ کی طرف بھی اِسی لیے نہیں گئی۔" بُوا کے کہنے پر وہ بے چین سا ہوا۔ وہ کل سے بیمار تھی اور وہ بے خبر تھا۔

"حمین کہاں ہے؟ وہ بھی ساتھ ہی گیا؟" اُس نے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا گئیں۔

"وہ اِس وقت سو رہا ہے موسم بدل رہا ہے تو میں نے ہی کہا تھا کہ بدلتی ہوا نا لگ جائے اُسے۔ اکیلی ہی گئی ہے وہ۔" بُوا کے بتانے پر وہ گہرا سانس بھرتے آگے کو ہوا پھر کُچھ سوچا اور بُوا کی جانِب دیکھا۔

"حمین کافی اچھا بچّہ ہے زیادہ تمگ نہیں کرتا ورنہ اب تک تو اُنہیں آآ کیا نام تھا اُن کا؟؟ ایک تو عجیب سا نام ہے مُجھے بار بار بھول جاتا ہے دیکھیں اب بھی بھول گیا۔" وہ نرلی سے کہتا کہتا اُلجھن ظاہِر کرتا بُوا سے گویا ہوا۔

"ارے مُشکِل کہاں اِتنا تو پیارا نام ہے اُس کا! نین گُل! اُس کی ماں نے بڑا ہی کوئی سوچ کے رکھا یے۔ مُجھے تو بڑا پسند ہے اُس کا نام!" بُوا جلدی سے اُس کی بات کی نفی کرتی ہوئی بولیں تو وہ زیرِ لب اُس کا نام دُہراتا مُسکرایا۔ اُس کا نام اُسی کی طرح خُوبصورت تھا۔

"ہاں جی اچھا تو ہے ویسے۔۔۔۔۔۔۔" وہ کُچھ دیر بُوا سے باتیں کرتا رہا ساتھ چاِے پیتا رہا۔ بُوا کو وہ بہت پسند آیا تھا دھیمی طبیعت کا خُوش مزاج شخص!

کُچھ دیر اُن سے باتیں کر کے وہ اُن سے اِجازت لیتا حمین سے مِلنے اُس کے کمرے میں گیا۔ یہ وہ کمرہ تھا جہاں وہ ڈیول کوئین رہتی تھی نہیں ڈیول کوئین نہیں بلکہ نین گُل! وہ سر جھٹکتا نرمی سے اُس کا نام دُہرانے لگا۔ کمرے میں اُسے جیسے نین گُل کی خُوشبو سی محسوس ہو رہی تھی۔ سامنے ہی بے بی کاٹ میں حمین صاحب محوِ اِستراحت تھے۔ وہ اُس کی جانِب بڑھا۔ جُھک کر اُس کا چہرہ دیکھا جو سوتے میں ہمیشہ کی طرح معصوم لگ رہا تھا۔ نِچلے ہونٹ کو بھینچ رکھا تھا جبکہ دونوں ہاتھ دائیں بائیں سر کے قریب کر رکھے تھے۔ حمین کی ایک مُٹھّی بند تھی۔ وہ نرمی س جُھکا۔ اُس کے ہاتھوں، اُس کے چھوٹے چھوٹے پیروں اور اُس کے ماتھے پہ لب رکھتے وہ پیچھے ہوا اور ایک نظر اُس کے سوئے وجود پر ڈال کر باہِر نِکلنے لگا مگر چونک کر رُکا۔ بُوا بیگم نم آنکھیں لیے اُس کا ایک ایک عمل دیکھ رہیں تھیں۔

"کیا ہوا؟" اُس نے نرمی سے اُن کے آنسو پونچھتے کہا تو وہ اُس کے سر کو جُھکا کر اُس کی پیشانی پر شفقت بھرا بوسہ دے گئیں۔

"اِتنا پیار حمین کو نین گُل کے عِلاوہ کوئی نہیں کرتا جِتنا تُم نے اپنے اِس عمل سے ظاہِر کیا۔ باپ کی شفقت سے محروم ہے یہ! مگر چاہتی ہوں کہ کوئی ہو جو نین گُل پہ سایہ کر دے خُوشیوں کا کہ وہ غموں کی طرف کبھی پلٹ ہی نا پائے!" بُوا کی بات سمجھ کر وہ بھرپور انداز میں مُسکرایا۔

"نین گُل کو گھنہا سایہ بھی مِلے گا اور لِٹل چیمہ کو باپ بھی! بس آپ کی نک چڑی بیٹی مان جائے۔ میرے لیے دُعا کیجیے گا کہ وہ نک چڑی میرے عِشق میں گوڈے گوڈے ڈوب جائے!" اُس نے شرارتی انداز میں کہا تو وہ کُھل کر ہنسیں۔

"اللّٰہ تُمہاری ہر مُراد پوری کرے آمین!" وہ مُحبّت سے اُسے دیکھتیں دُوائیں دینے لگیں۔ کُچھ دیر وہاں ٹھہر کر وہ اُن سے اِجازت لیتا تھامے کے لیے نِکل گیا کیونکہ نین گُل صاحِبہ آ کے نہیں دے رہیں تھیں۔


********************

وہ اِس وقت اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔ اُس کے دوست احد کا فون آ چُکا تھا اُس نے کُچھ اور وقت مانگا تھا کہ اِتنی جلدی اُن کو ڈھونڈ پانا نا مُمکن تھا۔ جِس پر وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا تھا۔ جوں جوں وقت گُزرتا جا رہا تھا تُوں تُوں اُس کی بے چینی میں اِضافہ ہو رہا تھا۔ آج وہ جلدی تھانے سے گھر آ گیا تھا اور اب بے چینی کی اِنتہاؤں پر تھا۔ وہ اب خُود شہر جا کر سارا معاملہ دیکھنا چاہ رہا تھا۔ ایسا کیا ہو گیا تھا جو وہ یُوں گاؤں ہی چھوڑ گئی تھی۔ اپنے فیصلے پر مہر ثبت کرتا وہ باہِر آیا تھا جہاں چوکیدار کے کمرے میں اِس وقت کرمو بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ رانا عبّاس کو وہاں دیکھ کر وہ جلدی سے اُٹھتا ہوا اُس کے پاس آیا تھا جو چہرے سے ہی پریشان لگ رہا تھا۔

"جی چھوٹے سائیں! خیریت؟ آپ کُچھ پریشان سے لگ رہے؟" کرمو نے اچھنبے سے پوچھا تھا۔ وہ پریشان ہونے نہیں کرنے والوں میں سے تھا۔

"خیریت نہیں ہے کرمو! نواز علی اپنی بیٹیوں کے ساتھ یہ گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے اور کیوں گیا ہے یہ مُجھے نہیں پتہ! مگر مُجھے پتہ کروانا ہے۔ گاؤں کے لوگوں سے پوچھ تاچھ کرو ایسے کہ اُنہیں خبر نا ہو کہ یہ سب میں کروا رہا ہوں۔" رانا عبّاس کے لہجے کی بے چینی کرمو سے ڈھکی چُھپی نہیں تھی اور اب وہ پُرسوچ نظروں سے کُچھ سوچ رہا تھا۔

"سرکار سائیں! پرسوں میں ڈیرے پر ہی تھا اور اُس دِن نواز علی ڈیرے پر آیا تھا۔ جِس وقت وہ ڈیرے پر آیا اُس وقت صِرف بڑے رانا ہاشِم سائیں ہی ڈیرے پر موجود تھے اور جب وہ اُن کے پاس پہنچا تب بڑے سائیں نے ہم سب کو باہِر بھیج دیا تھا یہ کہہ کر کہ وہ نواز علی سے کوئی بات کرنا چاہتے ہیں۔ اب بات کیا ہوئی میں نہیں جانتا کیونکہ ہم سب ہی وہاں سے باہِر آ گئے تھے۔" کرمو کے بتانے پر اُس کی آنکھیں پھیلی تھیں۔ اُسے بے ساختہ وہ رات یاد آئی جب وہ اُس کی نین گُل سے شاید پر مان گئے تھے وہ بھی اِتنی آسانی سے؟ وہ کیسے بھول گیا کہ وہ اُسے نین گُل سے دور کرنے کی چال بھی چل سکتے ہیں؟ اور اب کرمو کی باتیں سُن کر اُسے اپنی عقل پر پردہ پڑا محسوس ہو رہا تھا۔

وہ اُسے واپس اپنی جگہ پہ جانے کا کہتا اندر کی جانِب بڑھا تھا۔ رانا ہاشِم اِس وقت حویلی میں ہی موجود تھے اور اپنے کمرے میں آرام کر رہے تھے۔

وہ اُن سے دوٹوک بات کرنے والا تھا کہ اُنہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اُسے یقین تھا کہ اُنہوں نے ہی نواز علی کو کُچھ کہا ہو گا تبھی وہ یہاں سے چلا گیا تھا۔

وہ اندر کمرے میں داخِل ہوتا اِس سے پہلے ہی اندر سے اُبھرنے والی آواز سُن کر رُک گیا۔ رانا ہاشِم فون ہر کِسی سے مُخاطِب تھے مگر دورانِ گُفتگو رانا عبّاس کا نام بھی بیچ میں لیا گیا تھا۔

"ہاں بس عبّاس پر نظر رکھنا کہ وہ کب گاؤں سے باہِر جا رہا ہے کب آ رہا ہے اگر شہر جا رہا ہے تو کِس سے مِل رہا ہے۔ اگر مُجھے پتہ چلا کہ وہ اُس نواز علی تک پہنچ گیا ہے اور تُم لوگوں کو پتہ نہیں چلا تو یاد رکھنا دفن کو زمین بھی نصیب نہیں کو گی تُمہیں!" رانا ہاشِم سخت لہجے میں مقابل سے مُخاطِب تھے۔

"بس کِسی طرح اُس نین گُل کا قِِصّہ ختم ہو تو میں اُس کی شادی اپنی مرضی سے کرواؤں۔ اپنے خُون کا پتہ ہے مُجھے ضِد اور انا گھٹی میں لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ بس مُجھے خبر دیتے رہنا!" اُنہوں نے کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔

عبّاس کا دِل کیا جا کے اُن سے پوچھے کہ ایسا کیا گُناہ ہو گیا تھا اُس سے جو وہ اُس سے اُس کی جینے کی وجہ کو دور کر گئے تھے مگر پھر خُود کو کمپوز کرتے وہ اپنے کمرے کی جانِب بڑھ گیا تھا۔ اُن کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو جاتا تو شاید وہ ضِد میں آ کر نین گُل کو نُقصان پہنچا دیتے جو وہ ہرگِز نہیں چاہتا تھا۔ اُسے جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا تھا تا کہ وہ کِسی بڑے خسارے سے بچ سکے۔ کمرے میں آ کر اُس نے بیگ پیک کیا تھا وہ آج رات ہی شہر کو نِکلنے والا تھا وہ بھی کِسی کی نظروں میں آئے بغیر!!


****************


سامنے کھڑا وجود کوئی اور نہیں رانا باقِر کا تھا جو کینہ توز نِگاہوں سے اُسے گھور رہا تھا۔ اُسے دیکھ کر وہ ایک پل کو گڑبڑایا تھا مگر پھر خُود کو سنبھالتا وہ کھڑا ہو گیا تھا۔ رانا باقِر نے ایک سِلگتی نِگاہ سامنے بیٹھی اُس لڑکی پر ڈالی تھی جو اب پُرشوق نظروں سے اُسی کو دیکھ ری تھی۔ اُسے ایک دم رانا جعفر سے نفرت سی محسوس ہوئی تھی بس نا چلتا تھا کہ جلا کر راکھ کر دے سامنے کھڑے شخص کو جو اُس کی بہن کے ساتھ ساتھ اُس کے بھی جذبات سے کھیل گیا تھا۔

"یہ ہینڈسم کون ہے جعفر؟" نتاشہ نے منہ کھولا تھا اُس کی بات سُن کر رانا جعفر نے ناگواری سے اُسے دیکھا تھا۔

"میں اِن کا سالا ہوں۔ اگر میرا اندازہ ٹھیک ہے تو آپ ویر سائیں کی گرل فرینڈ ہیں؟" رانا باقِر نے ایک تلخ نظر سے رانا جعفر کو نوازتے نتاشہ سے پوچھا تھا۔

"گرل فرینڈ نہیں مُحبّت کہیں جناب! رانا جعفر کی پہلی اور آخری مُحبّت!" وہ دِلبرانہ لہجے میں بولی تو رانا باقِر نے جتاتی نظروں سے رانا جعفر کو دیکھا جو نتاشہ کے اُس سے پہلے بولنے پر غُصّے سے اُسے گھور رہا تھا۔ وہ باقِر کو ٹالنا چاہتا تھا کہ وہ بس اُس کی دوست ہے۔

"تُم جاؤ یہاں سے!" رانا جعفر نے نتاشہ کو سخت لہجے میں کہا تو وہ خفگی سے اُسے دیکھنے لگی۔

"مُجھے تُمہارے کزن کے ساتھ لنچ کرنا ہے۔ جلد ہی شادی کے بعد میں حویلی آ جاؤں گی تو اچھا ہے کہ میں ابھی سے سب کُچھ جان جاؤں۔" نتاشہ نے خوبرو سے رانا ناقِر کو دیکھ کر کہا تو رانا باقِر کی رگیں تن گئیں۔ مطلب بات اِس حد تک بڑھ گئی تھی کہ اب اُس کی بہن پر سوتن لائی جائے گی۔

"یہ خیال دِل سے نِکال دو تُم کہ رانا جعفر کبھی تُم سے شادی کرے گا کیونکہ اگر ایسا ہوا اور میری بہن پر سوتن آئی تو ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ میں برابری نا کروں؟ ہمارا رِشتہ برابری کا ہے اور اِس لحاظ سے پھر رانا جعفر کی بہن ہر بھی سوتن آئے گی!" رانا باقِر نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں رانا جعفر اور نتاشہ کو سُلگانے میں کوئی کسر نا چھوڑی تھی۔

"یُو۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!! نتاشہ غُصّے سے چیخ اُٹھی مگر رانا جعفر اُس کی بات کاٹ گیا تھا۔

"دفعہ ہو جاؤ یہاں سے!!!" رانا جعفر کا لہجہ سرد تھا۔ اہانت کے احساس سے نتاشہ کا چہرہ تمتما اُٹھا تھا۔

"دیکھ لوں گی میں تُمہیں!!" وہ غُصّے سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ سارے شاپنگ بیگز اُٹھاتے وہ باہِر کی جانِب بڑھ گئی تھی۔ اب غُصّے میں شاپنگ بیگز یہاں چھوڑ کر وہ اپنا نُقصان تو نہیں کر سکتی تھی نا؟

"کیا بکواس کی ہے تُم نے؟" وہ اب رانا باقِر کی طرف متوجّہ ہوا جو اب نتاشہ کی سیٹ پر بیٹھ چُکا تھا۔

"بکواس نہیں یہ حقیقت ہے ویر سائیں! اگر آپ کی بہن کی خُوشیاں میری بہن کی خُوشیوں سے مشروط ہے تو آپ کی بہن بھی تب ہی خُوش رہے گی جب میری بہن خُوش رہے گی۔ ویسے ابھی جو آپ نے سُنا اُس کے بارے میں کُچھ سوچا؟" رانا باقِر نے معنی خیزی سے پوچھا تو وہ جو غُصّے سے اُسے دیکھ رہا تھا اُلجھ سا گیا۔

"مطلب؟" رانا جعفر کا سوال سُن کر وہ ہنسا۔

"مطلب کہ شاید ادلے کا بدلہ اِسے ہی کہتے ہیں۔ آپ نے میری بہن سے شادی کی مگر مُحبّت کِسی اور سے اور میں نے آپ کی بہن سے نِکاح کیا اور مُحبّت کِسی اور سے!!! ہے نا مزے کی بات؟ خیر اِس سے بھی زیادہ مزے کی بات ہے اور وہ یہ کہ میری اور آپ کی مُحبّت میں بہت فرق ہے۔ میں جِس سے مُحبّت کرتا ہوں اُس کی آنکھوں میں صِرف شرم و حیا ہی موجود ہوتی ہے اور آپ کی مُحبّت کی آنکھوں میں شرم و حیا کے عِلاوہ ہر جذبہ ہے اور جانتے ہیں ابھی میں نے کیا دیکھا اُس لڑکی کی آنکھوں میں؟ ہوس!!! وہ مُجھے کِسی پکّے ہوئے پھل کی طرح دیکھ رہی تھی للچائی ہوئی نظروں ویسے ہی جیسے لومڑی انگوروں کو دیکھتی ہے۔ ویسے کافی گھٹیا ہے آپ کی مُحبّت!!!!" رانا باقِر کا لفظ لفظ رانا جعفر کو تلملانے پر مجبور کر گیا تھا۔ اُس کا ہر جُملہ کِسی تازیانے کی طرح رانا جعفر کو لگا تھا۔ نتاشہ کی نظریں رانا باقِر پر گڑھی دیکھ کر وہ بھی اُس کی آنکھوں کی بے باکی محسوس کر گیا تھا۔ تبھی وہ اُسے وہاں سے دفعان کر چُکا تھا۔

" اِتنا اِتراؤ مت تُم باقِر! بہن دے کر کمزور نہیں پڑا ہوں جو یُوں تُم دھمکیوں پر اُتر آئے ہو!" اُس کی ہر بات پہ ضبط کرتے وہ بولا بھی تو کیا؟ رانا باقِر پہ ہنسی کا دورا پڑا تھا مگر یکلخت وہ سنجیدہ ہوتا اُس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑ گیا تھا۔

"بہن دے کر میں بھی کمزور نہیں پڑا تھا مگر اُس کی آنکھوں کی نمی، اُس کی بے مول ہوتی ذات اور اُس کے نصیب کے آگے کمزور پڑا تھا۔ میری بہن اِتنی ارزاں نہیں تھی کہ میں ایک ایسے شخص کو اُسے سونپ دیتا جو اُسے ایک ان چاہا وجود سمجھتا ہو۔ لیکن یہ جو معاشرہ ہے نا یہ طلاق یافتہ عورتوں کو جینے نہیں دیتا. قصور بے شک مرد کا ہی کیوں نا ہو طلاق کے نام پر غلطی ہمیشہ عورت کی مانی جاتی ہے اور جِس طرح کی ہماری روایات ہیں طلاق تو ہوتی نہیں اگر ہو جائے تو پھر ساری زِندگی وہ ماں باپ کی دہلیز پر گُزار دیتی ہے۔ وہ آپ کی زِندگی میں شاید اذیّت بھری زِندگی سے بچ بھی جاتی مگر لوگوں کے طعنے اُسے مار دیتے اور اپنی بہن کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا میں! آپ کو لگتا ہے صِرف آپ ہی کی بہن ہے باقی اِنسانوں کی کوئی اہمیت نہیں! اپنی بہن کے آنسو نظر آ گئے مگر میری بہن کے نظر نہیں آئے جو آپ کی کزن ہی نہیں آپ کی بیوی بھی تھی۔ آپ کی بہن انمول اور میری بہن بے مول؟" رانا باقِر کی باتیں اُسے گنگ کر گئیں تھیں۔ کُچھ دِنوں سے جو احساس اُسے کچوکے لگا رہا تھا اب رانا باقِر کے وار اُسے توڑ پھوڑ گئے تھے۔

"ایک بات بتائیے؟ کیا ایسی بے حیائی پسند تھی آپ کو؟ جو آپ کو اپنی بیوی کی حیا اور پاکیزگی نظر نہیں آئی تھی؟ کیا بولڈنیس پسند تھی آپ کو؟" اُس کے لفظوں کے گھاؤ جہاں رانا جعفر کو شرمِندگی میں ڈبو رہے تھے وہیں رانا باقِر نے اُسے اچھے سے ٹھنڈا کیا تھا۔ اُس کی بات پر اُس کی نظروں میں دُرّے کا شرمایا لہجایا، جِھجھکتا ہوا چہرہ گھوما تھا وہ جو اُسے نظر بھر کر بھی نہیں دیکھتی تھی اور بدلے میں وہ اُسے کیا دیتا تھا؟ ذِلّت، نفرت؟ حقارت؟ اور وہ نتاشہ؟ جِسے وہ پسند کرتا تھا وہ کیا تھی ایک بولڈ لڑکی جِس کی نظروں کی ہوس وہ آج اچھے سے دیکھ گیا تھا ہوتی ہیں نا کُچھ لڑکیاں جو نفس کے آگے گُھٹنے ٹیک دیتی ہیں نتاشہ بھی اُن ہی میں سے ایک تھی جو رانا جعفر کی بہت بڑی غلطی تھی جِس کے باعث وہ اپنے سب سے قریب اور پاک رِشتے کو بھی خطرے میں ڈال گیا تھا۔

"خیر کافی وقت ضائع ہو گیا نا آپ کا؟ آپ کی "مُحبّت" آپ کا اِنتظار کر رہی ہو گ. اور فِکر مت کریں جِب تک آپ دوسری شادی نہیں کریں گے آپ کہ بہن بھی سوتن کی مُصیبت سے دور رہے گی۔ اگر کوئی بات بُری بھی لگی ہوئی تو کوئی بات نہیں آپ کی ذات کو کونسا فرق پڑتا ہے؟" بغیر لگی لِپٹی کہے وہ ایک آخری تلخ نظر اُس پر ڈال کر وہاں سے اُٹھ گیا تھا جبکہ وہ جہاں تھا وہیں بیٹھا اپنے سودوزیاں کا حِساب کرتا رہ گیا تھا۔ دُرّے کے ساتھ کیا ہر عمل اُسے شئرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل رہا تھا مگر اب کیا ہو سکتا تھا نا وہ وقت کو پلٹ سکتا تھا نا اب کُچھ ٹھیک کر سکتا تھا۔


***************


یہ دوپہر دو بجے کا وقت تھا۔ لنچ کے بعد سب ہی لوگ آرام کرنے اپنے اپنے کمروں میں جا چُکے تھے۔ جہاں رانا باقِر وہاں جا کے بھول گیا تھا کہ گھر پر فون ہی کر لے وہیں دُرِشہوار بھی اپنی جگہ گُن صُم سی ہو گئی تھی۔ وہ ابھی تک رانا باقِر کے الفاظ کی تلخیوں میں ڈوب کر ُبھر نہیں پائی تھی۔ وہ نوری کق بھیج کر پتہ کروا چُکی تھی اور یہ اِطلاع مِلی تھی کہ حمود اپنے گھروالوں کے ساتھ یہ گاؤں چھوڑ کر شہر جا چُکی ہے اور یہ جان کر دُرِّفشاں ڈھے سی گئی تھی۔ رانا باقِر بھی تو شہر جا چُکا تھا تو کیا وہ وہاں جا کر ایک ہو جائیں گے اور وہ خُود تہی داماں رہ جائے گی؟ اِنہیں سوچوں میں ڈوب کر وہ خُود کو بیمار کر چُکی تھی اِس وقت وہ اپنے کمرے میں بِستر پر دراز تھی اور سو رہی تھی۔ دُرّفشاں اُسے دوائی وغیرہ کِھلانے کے بعد اِس وقت اپنے کمرے میں بیٹھی جانے کِن سوچوں میں گُم تھی۔ کل کا گیا رانا جعفر ابھی تک نہیں لوٹا تھا اور ایسے میں وہ نا چاہتے ہوئے بھی صِرف اُسی کے بارے میں سوچتی رہی تھی جو شاید اپنی شہری گرل فرینڈ کے ساتھ مصروف تھا۔ وہ وقت جو اُس کی بیوی کا ہونا چاہیے تھا وہ کِسی نا محرم کو دے رہا تھا۔

وہ لاکھ اِنکار کرتی مگر دِل جب بغاوت پر اُترتا تھا تو ساری طنابیں توڑ کر رانا جعفر کے قدموں میں ڈھیر ہو جاتا تھا۔ جانے کیا تھا اُس شخص میں کہ وہ اُس سے نفرت کا اِظہار کرنے کے باوجود نفرت نہیں کر پاتی تھی۔ اِس وقت بھی وہ اُس بے مہر کو سوچے جا رہی تھی جِس کے قبضے میں اُس کا دِل تھا مگر افسوس اُسے اِس انمول رتن کی قدر نہیں تھی۔ ابھی وہ اپنے بیڈ پر بیٹھی سامنے کِسی غیر مرئی نُقطے کو تکے جا رہی تھی جب درواز کُھلا اور اُس اِنسان نے کمرے میں قدم رکھا جو اِس وقت اُس کی سوچوں کا محور تھا۔ اُس نے نظروں کا زاویہ موڑا تو سامنے دِلکشی سے مُسکراتے رانا جعفر کو پا کر وی بھی بے ساختہ مُسکرائی۔ وہ خیال اُس کے سامنے آن کھڑا ہوا تھا اور اُس خیال کی مُسکراہٹ اُس کا دِل جگمگا گئی تھی۔ حقیقت میں ہوتا تو یہ مُسکراہٹ دُرّے کی موجودگی میں رو ہرگِز اُس کے ہونٹوں پر قائم نا رہتی۔ رانا جعفر کا عکس دھیرے دھیرے اُس کی طرف بڑھتا ہوا اُس کے بالکُل سامنے اُس کے سِمٹے ہوئے پیروں کے پاس بیٹھ گیا۔

وہ جو سوچ رہی تھی کہ وہ اُس کا عکس ہے تو یہ اُس کا گُمان ہی تھا کیونکہ رانا جعفر اِس وقت حقیقت میں اپنے مادی وجود کے ساتھ اُس کے سامنے بیٹھا اُس کی طرف متوجّہ تھا۔

جِس وقت وہ حویلی میں داخِل ہوا اُس وقت اُسے باہِر مُلازموں کے عِلاوہ کوئی نظر نا آیا تو وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلا آیا۔ کمرے کا دروازہ کُھلتے ہی اُس کی نظر سامنے بیٹھی اُس لڑکی پر پڑی تھی جو اُس کا لِباس تھی، اُس کی بیوی تھی مگر وہ اپنے رِشتے کی کوئی قدر نہیں کر پایا تھا۔ وہ سامنے نجانے کیا دیکھ رہی تھی جب اُس کی نظر رانا جعفر کے چہرے پر آ کر رُک گئی۔ ٹھیک اِسی وقت رانا جعفر کے ہونٹوں کو مُسکراہٹ نے چُھوا تھا۔ وہ اِس وقت نیوی بلیو کلر کے پرِنٹڈ سوٹ میں ملبوس بہت حسین لگ رہی تھی۔ نم سیاہ لمبے بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بنایا ہوا تھا جِن میں سے کُچھ لٹیں اُس کے چہرے کے دائیں بائیں جھول رہیں تھیں۔ بغیر کِسی قِسم کے میک اپ کے، گھریلو حُلیے اور اپنی تمام تر سادگی کے ساتھ وہ اُس کے چہرے پر آنے والی مُسکراہٹ کی وجہ بن گئی تھی۔ پاؤں سمیٹ کر گُھٹنوں پر بازو ٹکائے وہ اُسی کو دیکھ رہی تھی۔ وہ اب چلتا ہوا اُس کے سامنے، اُس کے قدموں کے قریب جا بیٹھا تھا مگر دُرّے پلکیں جھپکائے بغیر مُسکراتے ہوئے اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔ جانے کیوں مگر رانا جعفر کو اُس کی توجّہ اپنی طرف کھینچنے لگی تھی۔

"کاش میں آپ کو بتا پاتی کہ آپ کے چہرے کی مُسکراہٹ دُرّے کو کِتنی پسند ہے کہ وہ ہر روز اپنے نام سے یہ مُسکراہٹ آپ کے ہونٹوں پہ دیکھنا چاہتی تھی۔" اُس کی آنکھوں میں اپنی بھوری آنکھیں گاڑھے وہ گویا ہوئی۔

"یہ مُسکراہٹ خاص تُمہارے لیے ہے دُرِفشاں جعفر!" وہ اُس کی تھوڑی تلے ہاتھ رکھتا اُس کا چہر اوپر کرتا بے خودی میں جُھکا اور نرمی سے اُس کی تھوڑی کو چھو کر الگ ہوا۔ وہ آنکھیں بند کیے زیرِ لب مُسکرا رہی تھی۔ اُس کے چہرے پہ شرم و حیا کے رنگوں کو مبہوت ہو کر دیکھتا وہ اپنے دِل سے ایک سوال پوچھ رہا تھا جِس کا جواب اُس کے پاس نہیں تھا اگر تو صِرف پچھتاوا اور وہ سوال یہ تھا کہ حقیقی گُلاب کے پھول کو چھوڑ کر مصنوعی کاغذ کے پھول میں کیوں سکون تلاش کرنے چلا تھا وہ؟ کیوں اپنی محرم کو چھوڑ کر کِسی غیر محرم سے مُحبّت کے دعے کرتا تھا وہ؟ مگر جواب نہیں تھا اگر کُچھ تھا تو بس پچھتاوا!

"تُم مُجھ سے اب بھی مُحبّت کرتی ہو؟" رانا جعفر نے اُس کے ہاتھ تھامے پوچھا تو دُرّے نے کُچھ غیر معمولی سا محسوس کر کے آنکھیں کھولیں اور سامنے دیکھا جہاں رانا جعفر بیٹھا اُس سے کُچھ پوچھ رپا تھا۔

یک دم ہی اُسے جھٹکا لگا تھا اب تک جِس کو وہ عکس اور اپنا گُمان سمجھ رہی تھی وہ حقیقت میں اُس کے قریب تھا۔ تیزی سے اُس کے ہاتھ جھٹک کر وہ اپنا دوپٹہ درست کرتی بیڈ سے اُتری جبکہ رانا جعفر حیران سا اُس کے بدلتے رویے کو دیکھ رہا تھا۔

"کیا ہوا؟ ایسے کیوں کر رہی ہو؟" رانا جعفر نے اپنی اُلجھن کو زُبان دی۔

"میں نے کیا کیا؟ کیا تو سب کُچھ آپ نے ہے بغیر میرے پوچھے مُجھے چھوا!" وہ تلخی سے بولی تو رانا جعفر کو اُس کا وعدہ یاد آیا۔

"میری بیوی ہو تُم!" وہ کمزور سے لہجے میں بولا تھا۔

"میں آپ کے "گلے پڑی" عورت اور آپ کی بہن کی "خُوشیوں" کی "ضمانت" ہوں۔ اِس کے عِلاوہ میں آپ کی کُچھ نہیں لگتی۔" دُرّے نے رکھ کے وار کیا تھا جِس سے وہ بِلبِلا اُٹھا تھا۔

"دُرشہوار کے لیے کیا جو سب کیا۔ میرا مقصد غلط نہیں تھا!" وہ اپنی صفائی دینے لگا۔ کیسے بتاتا کہ اُسے اِن بھوری کانچ سی آنکھوں میں اپنے لیے مُحبّت دیکھنے کی عادت ہے نا کہ نفرت اور بے نیازی!

"ایک دِن کی بناوٹی دُلہن کو سارے گھر والوں اور گاؤں کے سامنے طلاق دینے کا کہنا اور بدلے میں اپنی بہن کی خُوشیاں چاہنا شاید آپ کو معمولی سی بات لگے۔ آپ کی کیا لگتی ہوں میں جو آپ یہ سوچیں کہ اِس سب میں میری کِتی بے عِزّتی ہوئی یا میری ذات کِتنی بے مول ہوئی؟ آپ کے دِل میں تو پہلے ہی میرے لیے عِزّت نہیں تھی دوسروں کے سامنے بھی اگر میری عِزّت کا جنازہ نِکل گیا تو کیا ہو گیا؟ اور آپ مُجھے صفائی کیوں دے رہے ہیں؟ میں اِتنی اہم نہیں ہوں کہ مُجھے صفائی دے کر آپ اپنی انا کا پیمانہ نیچے گِرائیں!" دو ٹوک تلخ انداز میں بولتی وہ باہِر کی جانِب بڑھنے لگی جب رانا جعفر نے اُس کی کلائی تھامی۔

"مُجھے ضرورت ہے تُمہاری!" وہ نہیں جانتا تھا اُس نے یہ جُملہ کیوں کہا مگر دُرّے کا چہرہ دیکھ کر وہ اپنی جگہ جما رہ گیا تھا۔ وہ ہنس رہی تھی بے تحاشا کہ اب اُس کی آنکھوں میں پانی آنے لگا تھا۔

"کیوں؟ نتاشہ سے دِل بھر گیا کیا یا اُس نے کل منہ نہیں لگایا جو آپ کو دوسری عورت کی ضرورت محسوس ہونے لگی؟ خیر معاف کیجیے گا اب ایک "گلے پڑی" عورت کو منہ لگا کر کیوں اپنی معیار گِرا رہے ہیں۔ میری طرف سے اِجازت ہے آپ دوسری شادی کر لیں جِو آپ کی ضرورتیں پوری کر سکے!" سرد، بے تاثر اور اذیّت سے پُر لہجے میں کہتی وہ اپنا بازو چُھڑوا کر جھٹکے سے مُڑی اور کمرے سے باہِر نِکل گئی۔

وہ بڑی خُوبصورتی سے اُس کا لفظوں کا تماچہ اُسی کے منہ پر رسید کر گئی تھی جِس کی تکلیف کی شِدّت سے وہ کراہ اُٹھا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیوں بے بس ہو رہا تھا مگر اُسے اِس بے بسی کو توڑ چاہیے تھا جو دُرِفشاں تھی۔


****************


اِس وقت وہ لوگ دوپہر کا کھانا کھا کر کمرے میں بیٹھے تھے۔ حمود اور نیسم بیگم باتیں کر رہیں تھیں جبکہ نین گُل کِچن سمیٹ کر آنے کا کہہ کر اب برتن دھو رہی تھی۔ نواز علی کام ڈھونڈنے کی غرض سے صُبح دس بجے کے قریب کے نِکلے اب تک نہیں لوٹے تھے۔ رہی بات عدیل کی تو باہِر سے آنے کے بعد اب تک اپنے کمرے میں تھا شاید سو گیا تھا۔جب سے وہ لوگ آئے تھے تب سے دونوں بہنوں کا عدیل سے سامنا نہیں ہوا تھا جِس پر اُن دونوں بہنوں نے شُکر ادا کیا تھا جانے کیوں مگر عدیل کے بارے میں دونوں کے خیالات ایک جیسے تھے کہ وہ ایک اوچھا اِنسان ہے۔

نین گُل رانا عبّاس کے بارے میں سوچتی دھیرے دھیرے برتن دھو رہی تھی۔ پتہ نہیں اُن کی گُمشُدگی پر رانا عبّاس کا کیا ردِعمل ہوا ہو گا؟ کیا وہ اُسے بے وفا سمجھے گا جو اُسے چھوڑ کر بھاگ گئی؟ یا اُس کی مجبوری سمجھے گا اور اُسے ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا؟ یا شاید اُسے بھول کر اپنی زِندگی میں آگے بڑھ جائے آخر اُس کو کِس چیز کی کمی تھی جو وہ اُس کے اِنتظار میں بیٹھا رہتا؟ یا اُسے ڈھونڈنے کی کوشش کرتا؟

ان گِنت سوچیں تھیں جو اُس کے دماغ میں پنپ رہیں تھیں مگر تسلّی بخش ایک بھی نہیں تھی۔ ابھی وہ برتن دھو ہی رہی تھی جب اُسے دروازے پر آہٹ محسوس ہوئی۔ پلٹ کر دیکھا تو عدیل دروازے کے وسط میں کھڑا اُسے ہی گھور رہا تھا۔ اُس کی نظروں سے حواس باختہ ہوتی وہ دوپٹہ سر پر اوڑھنے لگی جو سر سے ڈھلک گیا تھا۔ اُسے عدیل کی نظروں سے کوفت ہوئی تھی۔

"جی! کُچھ چاہیے عدیل بھائی؟" اُس نے حواس قابو میں رکھتے سوالیہ نظرں سے اُسے دیکھا۔ لہجہ سپاٹ ہی تھا۔

"ہاں چاہیے تو ہے اور وہ بھی بہت خاص! تُم دے سکتی ہو مُجھے؟" عدیل کی بات اُس کی سمجھ سے پرے کی بات تھی تبھی وہ اُلجھن بھری نظروں سے اُسے دیکھنے لگی۔

"مطلب؟ میں سمجھی نہیں عدیل بھائی؟" اُس نے پوچھ ہی لیا تھا جواباً وہ ہنسا تھا مگر نین گُل کو ناگوار گُزرا تھا یہ بھلا ہنسنے کی بات تھی؟

"بہت بھولی ہو تُم! مُجھے تُم سے تُم چاہیے ہو! مِلو گی مُجھے؟" عدیل کی باتیں نین گُل جیسی سادہ لڑکی کی سمجھ سے پرے تھیں اور اِس بار بھی وہ خاموشی سے اُسے دیکھتی رہی تھی۔ یہ الگ بات تھی کہ اُس کی باتوں سے نین گُل کو خطرے کی بُو آ رہی تھی۔

"ویسے امّاں صحیح کہتی ہیں کہ تُم پہلے سے زیادہ خُوبصورت ہو گئی ہو اور ہو بھی میرے مامے کی بیٹی! میرے خیال سے سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا اِس بارے میں!" عدیل اپنی داڑھی کُھجاتا ہوا کہنے لگی جبکہ اُسی کی باتیں سُن کر نین گُل اُسے نا سمجھی سے دیکھنے لگی۔

"ارے میری بھولی چِڑیا؟ شادی کی بات کر رہا ہوں میں! تیری اور میری شادی کی! امّاں نے مُجھ سے تیرے بارے میں پوچھا تھا تو میں نے کہا غور کر کے بتاؤں گا۔ آج غور کیا ہے تو جانا ہے کہ تُم تو کوہِ نور ہو!" وہ اُس کے قریب آتا بازو سے پکڑ کر قریب کرتے کہنے لگا تو نین گُل کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

"یہ کیا کہہ رہے۔۔۔۔۔ ہیں آپ؟؟ مُجھے چھوڑیں۔ نہیں۔۔۔۔ کرنی آپ سے شادی مُجھے!!" وہ حواس باختہ سی چیختی خُود کو چُھڑوانے لگی مگر ناکام رہی۔ رانا عبّاس کے عِلاوہ تو وہ کِسی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی مگر اب یہ کیا؟ جانے کیوں وقت اُس پر کڑا چل رہا تھا؟

"امّاں کو ہاں بولنے والا ہوں میں! اب اگر تُو نے مامے کے سامنے اِنکار کیا تو جان لے لوں گا تُمہاری اور پھر تیری چھوٹی بہن سے شاید کر لوں گا۔ تیرے جِتنی حسین نا سہی مگر دِلکش تو وہ بھی بہت ہے۔" وہ اُسے بے باکی سے دیکھتا دھمکی دینے والے لہجے میں بولا۔ اُس کا ہاتھ جھٹک کر وہ معنی خیز نظروں سے اُس کا گال تھپتھپا کر کِچن سے باہِر نِکل پیچھے وہ روتی ہوئی زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔ اگر نسیم بیگم نواز علی سے اُس کا ہاتھ مانگتیں تو وہ جانتی تھی کہ اِن حالات میں نواز علی کبھی بھی اُس کی شادی عدیل سے کرنے سے منع نہیں کریں گے۔

جانے کیوں اُسے اِس وقت رانا عبّاس یاد آیا تھا۔ وہ دِل ہی دِل میں اُس سے مِلنے کی دُعائیں کرنے لگی تھی۔ اگر وہ ہوتا تو کِس کی جُراّت تھی کہ نین گُل کے وجود پر نظریں بھی ٹِکا سکتا؟ جانے آئے گا بھی یا نہیں؟ وہ آس و یاس کی کیفیت میں ڈولنے لگی تھی۔

ﺍﺑﮭﯽ ﻭﻗﺖ ﮨﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺳﺎﻧﺲ ﮨﮯ،

ﺍﺑﮭﯽ ﻟﻮﭦ ﺁ ﻣﯿﺮﮮﮔﻤﺸﺪﮦ۔۔۔۔۔

ﻣﺠﮭﮯﻧﺎﺯ ﮨﮯﻣﯿﺮﮮ ﺿﺒﻂ ﭘﺮ،

ﻣﺠﮭﮯ ﭘﮭﺮ ﺭﻻ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻤﺸﺪﮦ۔۔۔۔۔۔۔

ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ّّ___ ﺗﯿﺮﮮ ﻓﺮﺍﻕ ﻣﯿﮟ ،

ﻣﯿﮟ ﺍﺟﮍﮔﯿﺎ ﯾﺎ ﺑﮑﮭﺮ ﮔﯿﺎ!!

ﮨﺎﮞ ﻣﺤﺒﺘﻮﮞ ﭘﮧ ﺟﻮ ﻣﺎﻥ ﺗﮭﺎ

ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻤﺸﺪﮦ۔۔۔۔۔۔

ﻣﺠﮭﮯ ﻋﻠﻢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻮ ﭼﺎﻧﺪ ﮨﮯ

ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺎ، ﻣﮕﺮ ﺍﯾﮏ ﭘﻞ!!

ﻣﯿﺮﮮ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺣﯿﺎﺕ ﭘﮧ

ﺫﺭﺍ ﺟﮕﻤﮕﺎ ___ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻤﺸﺪﮦ۔۔۔۔۔۔

ﺗﯿﺮﮮ ﺍﻟﺘﻔﺎﺕ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﺷﯿﮟ

ﺟﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﺘﺎ ﻣﺠﮭﮯ!!

ﺗﯿﺮﮮ ﺩﺷﺖ ﭼﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮐﺲ ﻟﯿﮯ

ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﺟﻼ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻤﺸﺪﮦ !!

ﮔﮭﻨﮯ ﺟﻨﮕﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮﺍ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﺑﮍﺍ ﮔﮭﭗ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮ ﺍﮨﮯﭼﺎﺭ ﺳﻮ!!

ﮐﻮﺉ ﺍﮎ ﭼﺮﺍﻍ ﺗﻮ ﺟﻞ ﺍﭨﮭﮯ،

ﺫﺭﺍ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻤﺸﺪﮦ۔!!!!!

منقول


******************

اُنہیں یہاں آئے دو دِن ہو چُکے تھے۔ نواز علی کا سارا دِن جہاں کام کی تلاش میں گُزر جاتا وہیں نین گُل اور حمود اپنی پھوپھو کے گھر ڈری سہمی سی رہتیں۔ عدیل کی موجودگی میں اُن دونوں کا خوف حد سے بڑھ جاتا تھا وجہ اُس کی بے باک نظریں اور حرکتیں تھیں۔ یُوں لگتا تھا جیسے وہ دونوں پر نظریں رکھے بیٹھا ہو یہ نہیں تو وہ سہی۔

نسیم بیگم لگے ہاتھوں نواش علی سے نین گُل کا رِشتہ مانگ چُکیں تھیں اور توقع کے عین مُطابِق نواز علی نے ہاں کی تھی۔ عدیل اِس بات پر بے تحاشا خُوش تھا۔ اِس بات کی خبر نین گُل کے ساتھ ساتھ حمود کو بھی ہو چُکی تھی جِس پر وہ دونوں چاہ کر بھی کُچھ نہیں کر پائیں تھیں۔ حمود نین گُل کو جِتنے تسلّی دِلاسے دے سکتی تھی دے چُکی تھی مگر نین گُل کی چُپ نہیں ٹوٹی تھی۔

وہ اپنے باپ کا فیصلہ قبول کر چُکی تھی کہ قِسمت نے اُس کا ساتھ راجا عبّاس کے ساتھ نہیں لِکھا مگر دِل کو ایک جامد چُپ لگ گئی تھی۔ وہ اُس کی زِندگی میں آنے والا پہلا مرد تھا جِس کے بارے میں اُس نے اِس انداز میں سوچا تھا اور شاید آخری بھی کیونکہ اُس کے بعد تو دِل کو کوئی بھانے والا ہی نہیں تھا۔

نسیم بیگم کو اب عدیل کی شادی کی جلدی تھی وہ اگلے ہی مہینے سادگی سے دونوں کی شادی کر دینا چاہتیں تھیں جِس پر نواز علی کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا کہ جب رِشتہ تہہ ہو ہی چُکا تھا تو شادی میں دیری کیسی؟ نسیم بیگم اُن کے گاوں سے یہاں شہر میں آنے کی وجہ سے انجان تھیں اور نواز علی نے بھی اصل وجہ نہیں بتائی تھی۔ نسیم بیگم دونوں بہنوں کو ساتھ لیے آج بازار آئیں تھیں تا کہ شادی کے لیے خریداری کی جا سکے۔ عدیل بھی اُن کے ساتھ ہی آیا تھا مگر پھر کِسی دوست کا فون آنے پر وہ وہاں سے چلا گیا تھا۔ وہ دونوں بہنیں چادر میں لِپٹیں، مُکمّل خُود کو چُھپائے نسیم بیگم کے ساتھ ایک لوکل مارکیٹ آئیں تھیں۔

اُن دونوں کو اپنی پسند کے کپڑے خریدنے کا کہہ کر وہ خُود ایک دُکان میں گُھس گئیں تھیں جہاں سے وہ نین گُل کی بری کے لیے کپڑے دیکھ سکیں۔ حمود اور نین گُل دونوں ہی بُجھے دِل سے ایک دُکان میں داخِل ہوئیں تھیں اور پھر خریداری کرنے لگیں تھیں۔


*******************


وہ اگلے دو دِن تک اُس کا اِنتظار کرتا رہا تھا لیکن وہ نہیں آئی تھی۔ وہ اُسے رقم ایڈوانس میں دے چُکا تھا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ وہ کام چھوڑ دیتی یا پھر سے چوری چکاری میں پڑتی۔ اِس وقت شام ہو رہی تھی اور شام کے چھ بج رہے تھے۔ وہ بالکونی میں کھڑا ہاتھ میں کافی کا مگ تھامے پُرسوچ نظروں سے سامنے نظر آتے چاند کو دیکھ رہا تھا جو تنہا کھڑا جگمگا رہا تھا کہیں کہیں تارے بھی نظر آ رہے تھے۔

بُوا سے دو دِن پہلے ہوئی مُلاقات میں اُسے پتہ چلا تھا کہ وہ بیمار ہے مگر کیا اب تک اُس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوئی کہ وہ آ ہی نہیں پائی؟ اُس کے پاس اُس کا فون نمبر موجود تھا مگر پھر یہ سوچ کر کہ وہ کل آ ہی جائے گی فون نہیں کر پایا تھا وہ اُسے۔

مگر اب یہ اِنتظار حد سے سوا ہو گیا تھا۔ وہ کافی کا مگ سائیڈ پہ رکھے اب جیب سے فون نِکالتا اُس کا نمبر ڈائل کرنے لگا تھا۔ فون بج رہا تھا مگر کوئی اُٹھا نہیں رہا تھا۔ وہ بھی ڈھیٹوں کا سردار بنا لگا رہا تھا۔ تقریباً دس مِنٹ بعد جب وہ کوئی پچاسویں کال کر رہا تھا تو فون اُٹھا لیا گیا۔

"جب کوئی فون نا اُٹھائے تو اِس کا یہی مطلب ہے کہ وہ آپ سے بات نہیں کرنا چاپتا!" اگلی طرف سے زُکام زدہ سی نیند میں ڈوبی آواز سُن کر وہ پریشان ہوا۔

"تُمہارا بُخار ٹھیک نہیں ہوا؟" اُس نے فِکر مندی سے پوچھا تھا۔

"تُمہیں اِس سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے۔" سختی سے تنبیہہ کی گئی تو وہ لب بھینچ کر رہ گیا۔

"تُم اِتنی مُشکِل کیوں ہو؟" وہ تاسف سے پوچھ رہا تھا۔

"کیونکہ میں میں ہوں جو آسانی سے کِسی کی سمجھ میں نہیں آتی!" وہ اب کی بار مُسکراتی آواز میں بولی ایسا حیدر کو محسوس ہوا۔

"میں تُمہیں خُود کے لیے آسان کر لوں گا۔" اُس کے مضبوط لہجے پر وہ پھیکا سا ہنسی تھی۔

"جو چیز جِتنی آسان دِکھائی دیتی ہے اُتنی ہوتی نہیں۔ اِتنے بڑے بڑے دعوے مت کرو کہ جب پورے کرنے کی باری آئے تو ٹھس ہو جاؤ!" وہ اُسے تپانا چاہ رہی تھی مگر وہ زیرِ لب مُسکرا دیا۔

"اُس کی تُم فِکر مت کرو۔ اپنے دعووں پر پورا اُترنا حیدر کو اچھے سے آتا ہے۔ کل تک ٹھیک ہو جاؤ میرا گھر تُمہارا ویٹ کر رہا ہے۔" وہ ایک نظر اپنے سُنسان کمرے کو دیکھ کر جذب سے بولا تو وہ اپنی جگہ بیٹھی سوئے ہوئے حمین کو دیکھتی آنکھیں گُھما گئی۔

"اگر گھر کو کِسی لڑکی کی ضرورت ہے تو شادی کر لو!" اُس نے مُفت کا مشورہ دیا تو وہ دِل کھول کر ہنسا۔

"شادی ہی کے لیے تو لڑکی کو راضی کر رہا ہوں مگر وہ مان کے ہی نہیں دے رہی!" اُس کی بات پر وہ کُچھ لمحے چُپ ہو رہی۔

"تُم ایک بہت اچھی لڑکی ڈیزرو کرتے ہو حیدر! میں اچھی نہیں ہوں اور نا ہی تُمہارے لائق! تُم میرے بارے میں کُچھ بھی نہیں جانتے اِس لیے مُجھ سے دور رہو! ایک بہتر زِندگی تُمہاری مُنتظِر ہے میرے لیے وقت ضائع مت کرو!" دوٹوک اور تلخ انداز میں کہتی وہ بغیر اُس کی سُنے فون کاٹ چُکی تھی۔ وہ کُچھ پل فون کو تھامے بس دیکھتا رہ گیا پھر بے اِختیار مُسکرایا۔

"تُم نہیں تو کوئی نہیں مِس نین گُل!" وہ دھیمے سے اُس کا نام لیتا آنکھیں بند کرتا مُسکرایا اور پھر پلٹ کر کمرے کی جانِب بڑھ گیا۔


******************


اُسے شہر آئے دو ہفتے ہو چُکے تھے۔ ہر بات سے انجان وہ صِرف اِس وقت نین گُل کو ڈھونڈنے پر لگا ہوا تھا۔ اُس کے دوست احد نے بہت کوششیں کیں تھیں مگر وہ اُن کو نہیں ڈھونڈ پایا تھا مگر ہنوز تلاش جاری رکھے ہوئے تھا۔ رانا عبّاس کا بس چلتا تو وہ ایک پل میں اُسے ڈھونڈ نِکالتا مگر یہ بس ہی تو نہیں چل رہا تھا۔ رانا ہاشِم سے اُس نے کوئی سوال جواب نہیں کیا تھا نا ہی اُس کا اِرادہ تھا کیونکہ وہ اُن کی ضِد کو اچھے سے جانتا تھا وہ ٹوٹ تو سکتے تھے مگر جُھک نہیں سکتے تھے۔ اُن سے الگ ہی لڑائی لے کر وہ اپنے معاملات بِگاڑنا نہیں چاہتا تھا۔

بے بسی سی بے بسی تھی جو وہ محسوس کر رہا تھا۔ آج بھی وہ احد سے مِل کر گھر جا رہا تھا۔ شام ہونے والی تھی ایسے میں سبھی لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ وہ اپنی جیپ ڈرائیو کرتا اُس فلیٹ کی جانِب جا رہا تھا جو آج کل اُس نے کرائے پر رہنے کے لیے لے رکھا تھا۔ رانا ہاشِم نے اُس کی شہر میں موجودگی کے بارے میں سوالات کیے تھے جِس پر وہ اُنہیں کیس کا کہہ کر مُطمئن کر گیا تھا۔

ابھی وہ تھوڑی سی ہی ڈرائیو کر پایا تھا جب اُسے سڑک کِنارے ایک جھمگٹا سا نظر آیا۔ کئی لوگ سڑک کِنارے جمع ہو چُکے تھے شاید کوئی حادثہ ہو گیا تھا۔ وہ اپنی جیپ ایک سائیڈ پر کھڑی کرتا جلدی سے اُترا تھا۔ جانتا تھا کہ ایسے حالات میں لوگ صِرف تماشا دیکھنے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں بجائے کِسی کی مدد کرنے کے۔ وہ لوگوں کی بھیڑ کو چیرتا ہوا اُس زخمی شخص کی جانِب بڑھا جو خُون میں لت پت تھا۔ جلدی سے اُس کا رُخ پلٹا تو دِل دھک سے رہ گیا۔ وہ نواز علی تھا جو سڑک کے کِنارے بے یارومددگار پڑا ہوا تھا اور نجانے کب سے ایسے ہی پڑا تھا؟ اِردگِرد ڈھیر سارا خُون بِکھرا ہوا تھا جِس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ کافی خُون بہہ چُکا ہے۔ نواز علی ہوش میں نہیں تھا اُس کا سر کِسی بے جان شے کی طرح ایک جانِب ڈھلکا ہوا تھا۔ اُس نے جلدی سے نبض چیک کی جو مدھم سی چل رہی تھی۔ وہ یہاں کیسے تھا؟ اور کیا کر رہا تھا؟ یہ سوچنے کا وقت نہیں تھا۔ تیزی سے نواز علی کو اُٹھا کر اُس نے جیپ میں ڈالا تھا۔ لوگ بس حیرت سے اُسے جاتا دیکھتے رہ گئے تھے۔ اگلے بیس مِنٹ میں وہ شہر کے سب سے بڑے ہسپتال میں موجود تھا۔ اُس کا عہدہ کام آیا تھا کہ جلد ہی اُسے ایڈمِٹ کر لیا گیا تھا۔ آپریشن سے پہلے نواز علی کا آئی ڈی کارڈ، موبائل اور پرس وغیرہ رانا عبّاس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

اُس نے فون دیکھا اور انلاک کیا۔ یہ ایک چھوٹا سا بٹنوں والا موبائل تھا جِس کو کھول کر وہ کال لاگ چیک کرنے لگا۔ اِس فون سے بس دو تین نمبرز کو ہی کال کی گئی تھی جِن میں آپا اور عدنان کا نمبر سر فہرست تھا۔ کیا نین گُل جانتی ہو گی کہ اُس کا باپ کِس حال میں ہے؟ یا وہ باخبر ہو گی؟ اُسے پتہ چلے گا تو کیا ہو گا؟ وہ آپا کے نام سے سیو نمبر ڈائل کرتا سوچ رہا تھا۔ اِتنے دِنوں بعد وہ اُسے دیکھے گا اور دیکھے گا بھی کِس حال میں؟ وہ اُسے دیکھ کر کیسا ردِعمل دے گی؟ کیا وہ خُوش ہو گی؟ یا وہ اُسے بھول چُکی ہو گی؟ ساری سوچوں کو جھٹک کر وہ فون کان سے لگا گیا۔

فون کِسی عورت نے اُٹھایا تھا جو یقیناً نواز علی کی بہن تھی۔ اُنہیں نواز علی کے ایکسیڈنٹ کی خبر اور ہسپتال کا پتہ دے کر وہ موبائل فون بند کر گیا تھا۔ وہ وہیں کاریڈور میں کھڑا یہاں سے وہاں ٹہلتا آپریشن ختم ہونے کا اِنتظار کر رہا تھا۔

اچانک ہی ڈاکٹرز کی ٹیم باہِر آئی تھی۔ وہ جلدی سے اُن کی جانِب بڑھا تھا۔ ڈاکٹرز کے افسردہ چہرے اُسے کُچھ خاص اُمید نہیں دے رہے تھے۔

"ایم سوری سر! ہی اِس نو مور!" ایک بم تھا جو رانا عبّاس کے سر پر گِرا تھا۔ نواز علی نہیں رہا تھا۔ وہ ساکت سا اپنی ہی جگہ پر کھڑا رہ گیا تھا۔

"خُون بہت بہہ گیا تھا جِس کی وجہ سے وہ سُروائیو نہیں کر پائے!" ڈاکٹر اُسے وجہ بتا کر اُس کا کندھا تھپتھپاتا آگے بڑھ گیا جبکہ وہ بے جان ہوتے قدموں سے پاس پڑی چئیر پر بیٹھ گیا۔ سر دونوں ہاتھوں میں گِرا رکھا تھا۔ اُسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ نین گُل کا باپ اب اِس دُنیا میں نہیں رہا تھا۔

ابھی وہ اپنے ہاتھوں میں سر گِرائے بیٹھا ہی تھا جب اُس کی سماعتوں سے کِسی کے قدموں کی آوازیں ٹکرائیں تھیں۔ اُس نے بے ساختہ سر اُٹھائے دائیں جانِب سر موڑا تھا جہاں سے دو تین لوگ چلے آ رہے تھے اور اُن میں نمایاں تھا اُس کا وہ سراپا جِسے دیکھ کر وہ اپنی جگہ تھم سا گیا تھا۔ بے ساختہ ہی پتھرائی نظروں سے اُس کے سجے سنورے وجود کو دیکھتے وہ اُٹھ کھڑا ہوا تھا اور تھم تو وہ بھی گئی تھی اپنے سامنے اُس شخص کو دیکھ کر جِسے وہ ایک خُواب سمجھ کر بُھلانے کی کوششوں میں تھی۔

وہ شخص یُوں یہاں اُسے مِلے گا یہ تو اُس کے وہم و گُمان میں بھی نہیں تھا۔ رانا عبّاس اُس کے وجود پر نظریں گاڑھے کھڑا تھا۔ سُرخ رنگ کی میکسی، سُنہری رنگ کا دوپٹہ اوڑھے، مُکمّل برائیڈل میک اپ اور جیولری پہنے، دُلہن بنی وہ لڑکی رانا عبّاس کے دِل پہ بُرچھیاں چلا گئی تھی۔ اُس کے وجود سے ہوتی رانا عبّاس کی نظریں اُس کے پہلو میں کھڑے مرد پر جا ٹھہریں تھیں جو سکِن کلر کی شیروانی پہنے روایتی دُلہا ہی لگ رہا تھا۔ رانا عبّاس کی بے یقین نظریں نین گُل کے دِل پر بُرچھیاں چلا گئیں تھیں۔ اُس کے ساتھ کھڑے عدیل کو دیکھ کر اُسے لگا تھا کہ وہ جیت کر بھی ہار گیا ہے۔ وہ اُس کے سامنے تو تھی مگر اُس کی نہیں تھی۔ شاید بہت دیر ہو گئی تھی کہ اُس کی قِسمت ہی کھوٹی ہو گئی تھی۔

اُن کے پیچھے ہی نسیم بیگم اور حمود کھڑی تھیں جِن کے دمکتے لِباس اِس وقت ملگجے ہو رہے تھے۔

"کہاں ہے میرا بھائی؟ وہ ٹھیک تو ہے نا؟ ڈاکٹر نے کیا کہا؟" نسیم بیگم اُس کے ساکت وجود کو جھنجھوڑ کر پریشانی سے پوچھ رہیں تھیں۔

"وہ نہیں رہے! اُن کا اِنتقال ہو گیا ہے۔" بے ساختہ ہی اُس کے ہونٹوں سے یہ الفاظ نِکلے تھے جِنہیں سُن کر نین گُل اور حمود کی چیخیں ہسپتال میں گونجیں تھیں۔ اُن کا تھا ہی کون؟ ایک باپ وہ بھی اِس زِندگی کے کھٹن راستے پر تنہا چھوڑ گیا تھا۔

رانا عبّاس اُسی پوزیشن میں کھڑا نین گُل کو زمین پر بیٹھا روتا بِلکتا دیکھ رہا تھا۔ نسیم بیگم اُن دونوں بہنوں کو سنبھالنے کی کوشش میں نڈھال ہو رہیں تھیں۔ عدیل اُس سے پوچھ کر ڈاکٹر کی جانِب گیا تھا۔ رانا عبّاس نے ایک نظر نین گُل پر ڈالی جو اپنے ہوش و حواس کھو رہی تھی پھر وہ بھی عدیل کے پیچھے چل دیا۔


********************


وہ اِس وقت اپنے کمرے میں کِھڑکی کے پاس کھڑی دور چاند کو دیکھ رہی تھی جِس کے گِرد سِتاروں کا جُھرمٹ تھا اور وہ خُود تنہا اپنی چاندنی ہر سو بکھیر رہا تھا۔ آج کل وہ بھی تنہا ہو گئی تھی سب کی موجودگی کے باوجود ایک شخص کی غیر موجودگی اُسے بے چین کر گئی تھی۔ وہ شخص جِسے وہ اپنی سانسوں کی روانی کی وجہ مانتی تھی جو حاصِل ہو کر بھی لاحاصِل ہی تھا وہ شخص اُس کا چین و سکون بھی اپنے ساتھ لے گیا تھا۔

رانا باقِر کو گئے دو ہفتے ہونے کو آئے تھے اور اِن دو ہفتوں میں وہ ایک بار بھی اُس سے بات نہیں کر پائی تھی۔ وہ حویلی فون کر کے سب سے بات کرتا تھا سِوائے اپنی منکوحہ کے۔ جِس پر وہ اپنی جگہ پر چور سی بن جاتی تھی۔

وہ ابھی اپنی نم آنکھیں صاف کرتی مُڑی ہی تھی جب دروازے میں کھڑی دُرّے پر نظر پڑی۔ وہ نظریں چُراتی بیڈ کی جانِب بڑھی تو دُرے اُس کے قریب چلی آئی۔

"کیا کر رہی تھی؟" اُس کے قریب بیڈ پر بیٹھ کر وہ نرمی سے اِستفسار کرنے لگی تو دُرشہوار کی آنکھیں پھر سے بھر آئیں۔ وہ یکدم اُس کے گلے لگتی رونے لگی تھی۔ دُرّے اُس کی حالت سمجھتی اُس کی کمر سہلانے لگی۔ چھوئی موئی سی وہ لڑکی مُحبّت میں ٹوٹ کر بِکھری تھی۔ محبوب کی بے رُخی کا دُکھ وہ اچھے سے جانتی تھی وہ تو سمجھدار تھی سنبھل گئی تھی مگر دُرِشہوار ایک جذباتی سی لڑکی تھی جو جذبات میں بہہ کر پہلے ہی اپنے ساتھ بہت غلط کر گئی تھی۔

"کیا مُحبّت کرنا غلط ہے آپا؟" دُرِشہوار نے سِسکتے ہوئے پوچھا تھا۔

"مُحبّت کرنا کیسے غلط ہو سکتا ہے؟ مُحبّت تو خُوش نصیبوں کو عطا ہوتی ہے ہاں مگر مُحبّت کو غلط طریقے سے حاصِل کرنا غلط ہے۔" دُرّے کی بات سُن کر وہ شرمِندگی سے نظریں چُرا گئی تھی۔ خُود احتسابی کا عمل تو اُسی دِن شروع ہو گیا تھا جِس دِن رانا باقِر اُسے چھوڑ کر گیا تھا اور اِس بات کا تعین بھی نہیں کر کے گیا تھا کہ وہ کب واپس آئے گا؟ آئے گا یا نہیں؟ اُن کے رِشتے کا کیا ہو گا؟ یہ سارے سوال وہ یُوں ہی چھوڑ گیا تھا۔

"مُجھے کُچھ سمجھ نہیں آیا تھا کہ کیا کروں؟ وہ مُجھے بہن سمجھتے تھے تو اِس میں میرا کیا قصور؟ اُنہیں میری آنکھوں میں مُحبّت نظر کیوں نہیں آئی؟ وہ تو بڑے تھے سمجھدار تھے پھر کیوں نہیں سمجھ پائے میری مُحبّت کو؟ جانتی ہیں نا کہ اپنی مُحبّت کو کِسی اور کا دم بھرتے دیکھ کر کیسا محسوس ہوتا ہے؟ آپ بھی تو ویر سائیں سے بے حد مُحبّت کرتیں ہیں اگر وہ آپ کے عِلاوہ کِسی اور کو چاہیں تو کیا آپ کو بُرا نہیں لگے گا؟ کیا آپ اُنہیں واپس پانے کے لیے کُچھ نہیں کریں گی؟" بِلک بِلک کر سوال کرتی وہ دُرّے کو کانٹوں پر دھکیل گئی تھی۔ وہ اُسے کیا بتاتی کہ وہ مارسائی کا یہ دُکھ جھیل چُکی ہے۔ اُس کا بھائی اُسے یہ دُکھ دے چُکا ہے کہ اب تو یہ زخم پُرانا ہو کر ناسور بننے لگا ہے۔

"ہم کِسی کو کِسی سے حاصِل نہیں کر سکتے اور زبردستی تو باِلکُل نہیں! جو چیز ہماری قِسمت میں ہو وہ ہمیں لازمی مِلتی ہے اگر نا مِلے تو سمجھ جانا چاہیے کہ شاید اِسی میں خُدا کی کوئی بہتری ہو۔ لیکن اگر ہم کِسی کی منشاء کے بغیر اُسے اپنی زِندگی میں شامِل کریں تو وہ شخص ہم سے پہلے سے زیادہ دور ہو جاتا ہے۔ اگر ویر سائیں تُمہیں نہیں چاہتے تھے تو تُمہیں صبر کرنا چاہیے تھا۔ اپنی مُحبّت پر اِتنا تو یقین رکھتی کہ آج نہیں تو وہ کل تُم تک لوٹ آئیں گے۔" دُرّے کی نرمی سے کہی گئی باتوں کا اُس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ شرمِندگی گہری ہوتی جا رہی تھی جب کہ نارسائی و جُدائی کا دُکھ دِل کو کھا رہا تھا۔

"میں اب صبر کر لوں گی۔ بدل لوں گی خُود کو مگر اُن سے کہہ دیں کہ واپس آ جائیں! وہ سامنے ہوں تو چین رہتا ہے۔ بے شک نفرت کریں مگر یُوں بے رُخی کی مار تو مت ماریں کہ میں جیتے جی کر ہی جاوں!" وہ اُس کے گلے سے الگ ہوتی اُس کے ہاتھ تھام کر بولی تو وہ اپنی آنکھوں میں آئی نمی صاف کر مُسکرائی۔

"فِکر مت کرو وہ لوٹ آئیں گے۔ وہ تُمہارے ہیں اور تُمہارے ہی رہیں گے۔ قِسمت نے زبردستی ہی سہی مگر تُمہارے ساتھ جوڑا ہے تو اب وقت اِتنا بھی بے رحم نہیں کہ تُمہارا ضبط اور آزمائے! یقین رکھو سب صحیح ہو گا۔" دُرّے نے اُس کا گال تھپتھپایا تو وہ سر ہلا گئی۔

"اب سو جاو! رات کافی ہو گئی ہے اور رونا مت!" دُرّے نے ہدایت کی تو وہ لیٹ گئی۔ دُرّے اُس کے کمرے کی لائٹ اور دروازہ بند کرتی اپنے کمرے کی جانِب بڑھ گئی۔


********************

نواز علی کی تجہیز و تکفین کا اِنتظام رانا عبّاس نے ہی کروایا تھا۔ عدیل اُس کے ساتھ ساتھ ہی تھا مگر اُس کا انداز رانا عبّاس کو بہت لاپرواہ سا لگا تھا۔ نواز علی کی لاش کو ایمبولینس کے ذریعے گھر لایا گیا تھا۔ گھر کی سجاوٹ بتا رہی تھی کہ کل اِس گھر میں شادی کے شادیانے بجائے گئے تھے اور آج اُسی گھر میں مرگ کی سی کیفیت طاری تھی۔ رانا عبّاس بند ہوتے دِل کے ساتھ اُس گھر میں داخِل ہوا تھا۔

نواز علی کے جنازے کے بعد رانا عبّاس واپس اُسی گھر میں آیا تھا کیوں؟ وجہ سے وہ خُود انجان تھا یا شاید قِسمت ابھی اُسے کُچھ اور بھی دِکھانا چاہتی تھی۔ وہاں موجود بھانت بھانت کے لوگ نواز علی کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ کُچھ لوگ افسردہ تھے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کے دِن موت کی وادی میں اُتر گیا تو کئی لوگ نین گُل کو منحوس گردان رہے تھے جِس کی خُوشی اُس کے باپ کی موت کی وجہ بن گئی تھی۔ رانا عبّاس کچے صحن میں کھڑا تھا پاس ہی کُچھ خواتین گھر سے نِکلتیں باتیں کرتیں جا رہیں تھیں جِن کی باتوں کے کُچھ الفاظ رانا عبّاس کے کانوں میں پڑتے اُسے اپنی جگہ جامد کر گئے تھے۔

"گاوں سے شہر آئے کہ چلو بیٹی بیاہ لے گا بہن کے بیٹے سے مگر نِکاح سے پہلے ہی چل بسا۔ جانے کیا قِسمت لِکھوا کے لائی ہے یہ لڑکی؟" ایک عورت دوسری سے کہہ رہی تھی۔ لہجے میں غم سے زیادہ حقارت تھی جو نین گُل کے لیے ظاہِر ہو رہی تھی۔ اُن کے جُملوں پر غور کرتا رانا عبّاس یکدم نیند سے جاگا تھا مطلب ابھی دیر نہیں ہوئی تھی وہ آزاد تھی۔ وہ اپنی مُحبّت کو پا سکتا تھا۔ بے ساختہ ہی اُس کے قدم گھر کے اندرونی حِصّے کی جانِب بڑھے تھے۔

اندر سامنے ہی ایک کونے میں نین گُل شادی کے جوڑے میں نڈھال سی بیٹھی تھی جبکہ حمود اُس کے پاس کھڑی تھی۔ نین گُل نے اپنا سر حمود کے ساتھ ٹِکا رکھا تھا جبکہ حمود کے چہرے کے تاثرات کُچھ اچھے نہیں تھے۔ ایک جانِب نسیم بیگم اور عدیل دونوں براجمان تھے جہاں نسیم بیگم کے چہرے کے تاثرات پریشانی کی غمازی کر رہے تھے وہیں عدیل کے چہرے کی ہٹ دھرمی رانا عبّاس کو لب بھینچنے پر مجبور کر گئی تھی کیونکہ وہ بہت بے باک نِگاہوں سے نین گُل کے وجود پر نظریں گاڑھے بیٹھا تھا جِس سے نین گُل لاپرواہ سی آنکھیں موندے بیٹھی تھی۔

"ابھی کل ہی میرا باپ مرا ہے پھوپھو جو آپ کا بھائی بھی تھا۔ ابھی میرے باپ کی قبر کی مٹی بھی خُشک نہیں ہوئی ہو گی اور عدیل بھائی کو ایک نیا تماشا کرنا ہے۔" حمود کی سپاٹ و سرد آواز رانا عبّاس کے کانوں میں پڑی تھی۔ جانے وہ کیا بات کر رہی تھی۔

"ہم اِس بارے میں بعد میں بات کریں گے تُم نین گُل کو اندر لے جاؤ!" نسیم بیگم نے رانا عبّاس کی نظریں نین گةل پر محسوس کر کے کہا تو حمود نے ایک نظر اُن کی نظروں کے تعاقُب میں دیکھا۔ رانا عبّاس کو اُس کی نظروں میں ایک عجیب سی اُلجھن اور اِلتجا نظر آئی۔ وہ نین گُل کو لیے دوسرے کمرے میں چلی گئی تو نسیم بیگم اُس کی طرف متوجّہ ہوئیں۔

"تُمہارا بہت شُکریہ! تُمہاری مدد نا ہوتی تو شاید ہم یہ سب اکیلے نِپٹا نا پاتے! کھانا کھا کر جانا!" نسیم بیگم نے اُس کی یہاں پر ہنوز موجودگی پر غور کرتے اُسے اِن ڈائریکٹلی جانے کا عندیہ دیا تو وہ اُن کی جانِب دیکھنے لگا۔

"جو میں نے کیا وہ میرا فرض تھا اِس کے لیے شُکریہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ کیا کوئی اور مسلہ ہے؟" رانا عبّاس نے نارمل سے انداز میں اِستفسار کیا تو نسیم بیگم کے بولنے سے پہلے ہی عدیل بول اُٹھا۔

"یار کل میرا نِکاح تھا مگر اُس سے پہلے ہی مامے کی موت ہو گئی تو اِس میں میرا کیا قصور ہے؟ آج جب سب کُچھ نِپٹ گیا ہے تو میں نے سوچا کہ نِکاح ہو جائے تو کوئی بُرائی نہیں ہے اب مرنے والا تو مر گیا اب کیا اُس کے ساتھ ہی مر جائیں؟ مگر یہ لوگ ہیں کہ کاٹ کھانے کو دوڑ رہے ہیں۔" عدیل نے دوستانہ لہجے میں اُسے ساری بات بتائی جہاں نسیم بیگم شرمِندہ ہوئیں وہیں رانا عبّاس کا دِل کیا دو لگا کر اُس کے ہوش ٹھِکانے لگا دے مگر یہ وقت ہوش سے کام لینے کا تھا نا کہ جوش سے۔

"تُم اِس کی باتوں پر دھیان مت دو یہ تو پاگل ہے جِسے صِرف اپنی پڑی ہے۔ نین گُل کہیں بھاگی نہیں جا رہی یہیں ہے وہ اور تیری ہی دُلہن ہے۔ کُچھ دِن ٹھہر جا پھر تیرا سادگی سے نِکاح کر دوں گی۔" نیسم بیگم نے رانا عبّاس کی طرف دیکھتے آخر میں عدیل سے کہا تو وہ چارپائی کو ٹھوکر مارتا کمرے سے نِکل گیا۔ رانا عبّاس کی نظروں نے دور تک اُس کا پیچھا کیا تھا یہ شخص اُسے پہلی ہی نظر میں پسند نہیں آیا تھا اور وہ نین گُل کو کِسی خطرے میں نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔

"آپ بڑی ہیں۔ ایسے موقعے پر نِکاح کی نات کُچھ عجیب لگتی ہے۔ وہ دُلہن کا باپ تھا ایسے میں دُلہن بھی نِکاح کے لیے راضی نہیں ہو گی۔ آپ عدیل کو سمجھائیے گا وہ سمجھ جائے گا۔" رانا عبّاس نے نرمی سے کہا تو وہ سر ہلا گئیں۔

"میں چلتا ہوں کِسی بھی مدد کی ضرورت ہو تو ضرور بتائیے گا۔ یہ میرا کارڈ ہے ضرورت پڑے تو کال کر لیجیے گا۔" رانا عبٰاس نے اپنی جیب سے کارڈ نِکال کر اُن کے حوالے کیا اور اُن کے کمرے سے باہِر نِکل گیا۔

وہ ابھی باہِر کی جانِب بڑھ ہی رہا تھا جب اُس کی نظر حمود پر پڑی جو اُلجھی نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔ شاید وہ کُچھ کہنا چاہتی تھی مگر یہ وقت مُناسب نہیں تھا۔ وہ سر کو خم کرتا باہِر نِکل گیا جِسے سمجھتی وہ بھی واپس کمرے میں چلی گئی۔


***********************


حویلی میں اِس وقت سنّاٹا سا چھایا ہوا تھا۔ رات کا پہر تھا اور تاریکی بڑھتی جا رہی تھی۔ گہری ہوتی تنہائی اور کمرے کے سکوت کو دروازے کی آواز نے توڑا تھا۔ وہ کِھڑکی میں کھڑی چاند کو تک رہی تھی جب وہ کمرے میں داخِل ہوا۔ اُسے تنہا چاند کو دیکھتے پا کر وہ دبے قدموں اُس کے پیچھے پہنچا۔ اُس کی پُشت پر کھڑا وہ دونوں ہاتھ کِھڑکی کے کواڑوں پر رکھ گیا یُوں کہ اب وہ اُس کے حِصار میں قید ہو گئی تھی۔ اپنے اِردگِرد رانا جعفر کا حِصار پا کر بھی وہ اپنی جگہ سے ہِلی تھی نا چونکی تھی بس خاموشی سے کھڑی اپنے کام میں مصروف رہی تھی۔

رانا جعفر نے اُس کے گِرد اپنے بازووں کے گھیرے کو تنگ کیا تھا مگر دوسری طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی تھی جِس پر وہ حیران ہوا تھا۔ ذرا سا جُھک کر اُس نے دھیمے سے اُس کے دائیں گال کو چُھوا تھا مگر اب بھی وہ ویسے ہی ساکن کھڑی رہی تھی۔ رانا جعفر اُس کے دِل کی دھڑکنوں کی آواز سُن سکتا تھا جو پُرسکون تھیں جِن میں کوئی ہلچل نہیں تھی۔ وہ اُس کی قُربت میں سکون محسوس کر رہا تھا وہ سکون جو وہ پِچھلے دو ہفتوں سے پانے کی کوشش میں تھا مگر میسر نہیں تھا۔ اِن دو ہفتوں میں وہ جِتنا پچھتا سکتا تھا پچھتا چُکا تھا۔ شہر میں ہوئی رانا باقِر کی باتوں کا اثر تھا یا خُدا نے اُسے عقل عطا کر دی تھی مگر وہ نتاشہ سے قِطع تعلُقی کر چُکا تھا نا صِرف یہ بلکہ اُس کو اُس کی حدود یاد دِلانے کے ساتھ اُس کا نمبر بھی بلاک کر دیا تھا۔ یہ سب کر کے وہ زیادہ نا سہی مگر کُچھ حد تک اپنی غلطی کا ازالہ کر چُکا تھا ایسا رانا جعفر کا ماننا تھا۔

نتاشہ نے اُسے بے حد کھری کھوٹی سُنائیں تھیں اپنی مُحبّت کا رونا رویا تھا مگر رانا جعفر کان اور آنکھیں بند کر گیا تھا۔ پہلے وہ اُسی کی سُنتا تھا کہ اپنی منکوحہ کو سُننے کا وقت نہیں ہوتا تھا مگر اب اُسے چھوڑ کر اپنی بیوی کی سُننا چاہتا تھا جو اب کُچھ بولنا نہیں چاہتی تھی۔

اُس کی چادر کو شانوں سے نیچے کرتا وہ اُس کے بالوں میں اپنا چہرہ چُھپا رہا تھا۔ دُرّے کی خاموشی اُسے شہہ دے رہی تھی کہ شاید وہ مان گئی ہے تبھی کوئی مزاحمت نہیں کر رہی۔

"کیا معاف کر دیا ہے مُجھے؟" رانا جعفر نے کُچھ پل اُسے محسوس کرنے کے بعد آس بھرے لہجے میں پوچھا تھا۔

"ایک کُٹھ پُتلی سے سوال نہیں کیا کرتے! اُسے تو بس اپنی مرضی سے نچایا کرتے ہیں۔ اُنہیں بولنے کا کوئی حق نہیں ہوتا۔" دُرّے کا بے تاثر لہجہ اُسے اُسی آس و یاس کی کیفیت میں دھکیل گیا تھا جِس میں وہ آج کل ڈوبا ہوا تھا۔

"رانا جعفر کی جان بن گئی ہو تُم! خُود کو کُٹھ پتلی کہہ کر مُجھے میری ہی نظروں میں اور مت گِراؤ!" رانا جعفر نے دھیمے سے اُس کا رُخ اپنی طرف پلٹا اور اُس کا چہرہ دیکھا جہاں اِستزائیہ مُسکراہٹ کا بسیرا تھا۔

"گلے پڑی عورتیں کبھی کِسی کی جان نہیں ہوتیں۔ جان تو صِرف مُحبّت ہوتی ہے اور میرے خیال سے آپ کی ایک عدد جان اِس وقت شہر میں آپ کی اور اپنی شادی کی تیاریاں کر رہی ہو گی۔ ویسے تاریخ طے کر لی کیا شادی کی؟" طنزیہ انداز میں بولتی وہ اپنا ہاتھ اُس لے ہاتھ سے چُھڑوانے لگی جو وہ تھام چُکا تھا۔

"سراب کے پیچھے بھاگ رہا تھا جو اب سمجھ آ گیا ہے مُجھے اِسی لیے اُس سراب کا پیچھا چھوڑ دیا ہے۔ شادی جو ہونی تھی ہو گئی ہے اب کِسی اور کی گُنجائش نہیں ہے۔ میرے لیے دُرِّفشاں ہی کافی ہے۔" رانا جعفر نے اُسے خُود سے قریب کرتے ہوئے بوجھل انداز میں کہا تو وہ اُس کے لہجے میں موجود جذبوں کی شِدّت سے پِگھلنے لگی۔ کِتنی خُواہش تھی اُسے رانا جعفر کے منہ سے اپنے لیے مُحبت بھرے الفاظ سُننے کی اور آج وہ خُواہش پوری ہو رہی تھی مگر دِل بنجر بنجر سا تھا۔ وہ چاہ کر بھی اُسے خُود سے قریب ہونے سے روک نہیں پائی تھی مگر اُس کے آنسووں نے رانا جعفر کے جذبات پر پُل باندھا تھا۔

"تُمہارے آنسو مُجھے میری بیوقوفیوں کا شِدّت سے احساس دِلاتے ہیں کہ رانا جعفر نے ایک انمول رتن کی مُحبّت کو بے مول کر کے اپنے لیے خسارہ خرید لیا۔ گُزرے وقت کو میں واپس نہیں لا سکتا نا ہی سب ٹھیک کر سکتا ہوں مگر آنے والے وقت کو بہتر بنا سکتا ہوں۔ ایک موقع دے سکتی ہو اپنے شوہر کو؟" اُس کی پلکوں سے ہوتے گالوں کو بھگوتے آنسووں کو صاف کر کے وہ نرمی سے پوچھنے لگا تو وہ سُرعت سے رُخ موڑ گئی۔

"اعتبار نام کی کوئی ڈور کبھی مُجھے میرے شوہر نے تھمائی ہی نہیں جو میں اِس ڈور کو تھام کر آنکھیں بند کر کے آپ پر یقین کر لوں!" رانا جعفر کو اُس کا جواب مِل گیا تھا۔ وہ اُس پر یقین کرنا نہیں چاہتی تھی اگر کرتی تو ایک دفعہ پھر خُود کو رِسک کے تراوزو پر رکھنا پڑتا جو وہ نہیں چاہتی تھی۔ بار بار ٹوٹنے کا حوصلہ تو واقعی کِسی میں نہیں ہوتا۔

"قِسمت کے لِکھے کے خِلاف جا کر اپنی قِسمت خُود لِکھنے کی غلطی کی میں نے! ہمارے رِشتے میں کِسی تیسرے کو شامِل کیا اور شِرک جیسا گُناہ کیا میں نے! معافی تو واقعی نہیں بنتی! سزا تو مِلنی چاہیے نا اور اِس سے بڑھ کر کیا سزا ہو گی کہ اپنی ہی بیوی سے مُحبّت کرنے لگا ہوں اور اُسے پا کر بھی پا نہیں سکا ہوں۔" سر ہلاتے جیسے اُس کی بات سمجھ کر وہ اپنے گُناہوں کا اعتراف کر کے اُس کی کنپٹی کو ہونٹوں سے چھو کر پیچھے کو ہوا اور اُسے یُوں ہی وہیں چھوڑ کر بیڈ کی جانِب بڑھ گیا۔ پیچھے وہ وہیں کھڑی آنسو بہاتی اپنی اذیّت کو کم کرنے کا سدباب کرنے لگی۔

وہ اپنے لیے دُرے کی معین کردہ سزا کو قبول کر چُکا تھا۔ دیر سے ہی سہی مگر اُسے سمجھ آ چُکا تھا کہ اُس نے غلط کیا تھا اور اِسی غلطی کی سزا اُسے مِل رہی تھی۔ پنے دِل میں دُرّے کے لیے پنپنے والے جذبات سے وہ غافِل نہیں تھا مگر اُن کی شئدّت سے ڈرنے لگا تھا جو دُرّے کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پہلے سے زیادہ شِدّت اختیار کرنے لگتے تھے۔ دُرّے حق پر تھی کوئی بھی لڑکی اپنے شوہر کے منہ سے کِسی اور کی مُحبّت کا اقرار اور اپنی کم مائیگی سُن کر خُوش نہیں ہوتی۔ دُرّے بھی یہی کر رہی تھی اور اُس کی سزا کو قبول کرتے وہ کبھی بھی اُس پر اپنا آپ مُسلّط نہیں کرنے والا تھا۔


*********************


یہ رات کے گیارہ بجے کا وقت تھا۔ حمود ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی سوئی تھی۔ اُس کا سر بھی بھاری ہو رہا تھا مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ کل سے رو رو کر اُس کا بُرا حال ہو رہا تھا۔ پہلے ماں اور اب باپ بھی اُنہیں چھوڑ گیا تھا۔ اِس دُنیا میں وہ دونوں بہنیں تنہا رہ گئیں تھیں۔ کل کا دِن اُسے اچھے سے یاد تھا۔ نسیم بیگم نے مہینہ ہونے کا اِنتظار نہیں کیا تھا بلکہ عدیل کی ضِد پر دو ہفتوں بعد ہی شادی رکھ دی تھی۔ نواز علی نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے کافی خرچہ کر دیا تھا پیسے کہاں سے آئے وہ نہیں جانتی تھی مگر نواز علی اپنی بیٹی کو اچھے سے رُخصت کرنا چاہتے تھے۔ شام کو نِکاح کی تقریب رکھی گئی تھی جِس میں مُحلے کے کُچھ لوگ اور کُچھ عدیل کی طرف سے لوگ شامِل تھے۔

نِکاح سے دو گھنٹے پہلے نواز علی ضروری کام کا کہہ کر گھر سے باہِر نِکلے تھے۔ نین گُل کو گھر پر ہی تیار کیا جانا تھا اور اِس کام کے لیے مُحلّے کی ایک لڑکی نے اپنی خِدمات پیش کیں تھیں۔ حمود اور نین گُل دونوں ہی اِس شادی سے خُوش نہیں تھیں مگر اپنے باپ کی رضا کے لیے دونوں نے چُپ سادھ لی تھی۔

نِکاح میں صِرف آدھا گھنٹہ رہتا تھا مگر نواز علی گھر نہیں آئے تھے۔ کافی دیر اُن کا اِنتظار کرتے رہنے کے بعد عدیل کے کُچھ دوست اُن کی تلاش میں نِکلے تھے مگر ناکام ہی واپس لوٹے تھے اور پھر اُن کے ایکسیڈنٹ کی اِطلاع آئی تھی جِسے سُن کر وہ دونوں بہنیں جیسے زِندہ لاشیں ہو گئیں تھیں۔ اُن کا کُل اثاثہ اِس وقت تکلیف میں تھا تو وہ کیسے پُرسکون رہ سکتیں تھیں۔ لیکن اب یہ تکلیف ہمیشہ رہنے والی تھی کیونکہ اُن کا باپ زِندگی سے کِنارا کر گیا تھا۔ کل نِکاح سے کُچھ دیر پہلے تک اور بعد میں لوگوں کی کی جانے والی باتیں سُن کر اُسے اپنا آپ سچ میں منحوس لگنے لگا تھا جِس کی خُوشی اُس کے باپ کی جان لے گئی تھی۔

ابھی وہ اپنی کالی آنکھوں میں آئے آنسو صاف کر ہی رہی تھی جب اچانک سے دروازہ کُھلا اور عدیل اندر داخِل ہوا۔ وہ شام سے گھر سے باہِر تھا۔ رات کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا اور شاید ابھی ہی باہِر سے آیا تھا۔ نین گُل اُسے رات کے اِس وقت اپنے کمرے میں دیکھ کر حیران ہوئی تھی۔ اپنی پریشانی میں وہ کمرے کا دروازہ کُھلا ہی چھوڑ بیٹھی تھی۔

"آپ کو کُچھ چاہیے؟" نین گُل نے دوپٹہ سر پر جماتے ہوئے ڈرے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

"ہاں تُو چاہیے جو مِل کے نہیں دے رہی!" مکروہ انداز میں ہنستا وہ اُس پر جھپٹا تھا جِس پر وہ ایک پل کو سنبھل نا پائی اور اُس کی گرفت میں پھڑپھڑا کر رہ گئی۔ ایک زور دار چیخ اُس کے حلق سے برآمد ہوئی تھی جِس کا اثر نا لیتے عدیل مسلسل کھینچا تانی میں لگا ہوا تھان نین گُل کا دوپٹہ کھینچ کر وہ زمین پر پھینکتا اُسے قابو کرنے کی کوشش میں تھا مگر وہ مسلسل مزاحمت کر رہی تھی۔ عدیل کے منہ سے نشے کی بدبو آ رہی تھی یقیناً وہ نشہ کر کے آیا تھا تبھی صحیح اور غلط کی پہچان بھول گیا تھا۔ نین گُل اُسے دھکّا دے کر باہِر کی جانِب بڑھی تھی جِس پر وہ تیزی سے اُس کے بال دبوچتا اُسے زمین پر پٹخ گیا تھا اور اُس کے ہاتھ قابو کیے تھے۔

مسلسل چیخوں اور رونے کی آواز پر حمود کی آنکھ کُھلی تھی۔ مُندھی مُندھی آنکھوں سے کمرے کا جائزہ لیتی وہ اُٹھ بیٹھی تھی مگر پھر سامنے کا منظر دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے اُچھل کر کھڑی ہوئی تھی۔ سامنے ہی نین گُل روتی ہوئی عدیل کو پیچھے ہٹانے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی مگر اُس مرد کے سامنے وہ نازُک سی جان ٹِک بھی نہیں پا رہی تھی۔ حمود نے پریشانی سے اِدھر اُدھر دیکھتے کُچھ تلاش کرنے کی کوشش کی تھی جِس میں وہ کامیاب بھی ہوئی تھی۔ پاس پڑا شیشے کا خالی جگ اُٹھا کر وہ تیزی سے عدیل کے پیچھے پہنچی تھی اِس سے پہلے کہ وہ پلٹتا حمود نے تیزی سے جگ اُس کے سر پر رسید کیا تھا۔ پہلے ہی حملے پر اُس کی گرفت نین گُل پر ڈھیلی پڑی تھی مگر حمود نے بس نہیں کیا تھا دوسرے کے بعد تیسرا وار کرتے حمود یکدم پیچھے ہوئی تھی کیونکہ عدیل اُس کی طرف پلٹ کر کھڑا ہو رہا تھا مگر وہ کھڑا ہو نہیں پایا تھا اور لڑکھڑا کر نیچے جا گِرا تھا۔ اُس کے سر سے خُون بہہ رہا تھا جو حمود کے حملوں کی وجہ سے بہہ رہا تھا۔ اُس کے نیچے گِرتے ہی حمود نے ایک اور وار اُس کے سر پر کرتے اپنا غُصّہ نِکالا تھا پھر وہ نین گُل کی جانِب بڑھی تھی جو کمرے کے کونے میں گُھٹنوں میں منہ دئیے پڑی تھی۔ حمود نے جلدی سے اُس کو دوپٹہ اوڑھایا تھا جِس سے اُس کے برہنہ بازو چُھپ گئے تھے۔

نظریں اُٹھا کر دیکھتی وہ بِلک بِلک کر رو دی تھی۔ اپنی ماں جائی کو اِس حالت میں دیکھتے حمود کی آبکھیں بھی نم ہوئیں تھیں۔ بے بسی کا احساس شِدّت سے ہو رہا تھا جانے آگے کیا کیا لِکھا تھا قِسمت میں؟ وہ نین گُل کو سہارا دے کر کھڑا کرتی دروازے کی جانِب بڑھی تھی اور ٹھیک اِسی وقت کوئی اندر داخِل ہوا تھا اور وہ دونوں اُس کو اپنے سامنے پا کر حیرت کی مورت بنیں ساکت رہ گئیں تھیں۔

سامنے رانا عبّاس کھڑا تھا جِس کے چہرے کی بے چینی واضح تھی۔ اُن دونوں کو حیران پیرشان دیکھتا وہ کمرے میں پڑے عدیل کو دیکھ رہا تھا۔ جہاں عدیل پڑا تھا وہاں کی ساری جگہ خُون سے بھری ہوئی تھی شاید بہت کُچھ غلط ہو چُکا تھا۔ رانا عبّاس نے نین گُل کا رویا رویا چہرہ اور بِکھرا ہوا حُلیہ دیکھا تھا جِس پر نین گُل اُس سے نظریں چُرا گئی تھی۔ اُس کے نظریں چُرانے پر وہ بے ساختہ سر پہ ہاتھ پھیرتا نظروں کا زاویہ گُھما گیا تھا۔

"میرے پیچھے آو!" دوٹوک انداز میں اُن کو کہہ کر وہ باہِر نِکل گیا تھا۔ نین گُل کو اِس حال میں دیکھنا اُس کے لیے کِس قدر کھٹن تھا یی رانا عبّاس کا دِل ہی جانتا تھا مگر وہ محفوظ تھی اِس سے بڑھ کر رانا عبّاس کے لیے کُچھ اہم نہیں تھا۔

"اِس کے عِلاوہ کوئی چارا نہیں ہے آپا! عدیل سے زیادہ بھروسہ تو ہم رانا سائیں پہ کر ہی سکتے ہیں۔" نین گُل کی آنکھوں میں سوال دیکھتے حمود نے دھیمے لہجے میں کہا تو وہ سر ہلا گئی جِس پر وہ اُسے تھامے رانا عباّس کی پیروی میں باہِر نِکل گئی۔

رات کا ایک بج رہا تھا جِس وقت وہ اُنہیں لیے فلیٹ میں پہنچا۔ وہ اپنے دِل کی بے چینی سے گھبراتا آدھی رات کے وقت اُن کے گھر کی طرف روانہ ہوا تھا۔ گھر کی دیوار پھلانگ کر وہ اندر داخِل ہوا تھا اِردہ نین گُل کو ایک نظر دیکھنے کا تھا مگر وہاں پہنچ کر عدیل کا بے ہوش خُون سے بھرا وجود دیکھ کر اُسے کُچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اُسے خُود پہ غُصّہ تھا کہ وہ کل ہی اُنہیں کیوں نا لے آیا؟ نسیم بیگم اِس سارے قِصّے سے انجان اپنے کمرے میں سوئی پڑیں تھیں رات کو سوتے وقت وہ نیند کی گولی کھا چُکیں تھیں جِس کی وجہ سے گھر میں ہونے والے شور شرابے سے بھی وہ جاگ نہیں پائیں تھیں۔

حمود اور نین گُل کو ایک کمرے میں چھوڑ کر وہ بغیر کوئی بات کیے دوسرے کمرے میں چلا آیا تھا۔ اِس وقت وہ اُن سے کوئی بھی بات کر کے ڈرانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ کُچھ پُرسکون ہو جائیں۔ کل کے لیے وہ ایک فیصلہ لے چُکا تھا اور اُسے یقین تھا کہ یہ فیصلہ ہی اُن کے لیے اور اُس کے خُود کے لیے بہتر ہے۔ رات کے ڈیڑھ بجے وہ احد کو فون کر کے ساری صورتحال سمجھاتا اُسے کوئی کام سمجھا رہا تھا۔


***********************


اگلی صُبح کا سورج اپنے وقت پر ہی طلوع ہوا تھا مگر رانا عبّاس کے لیے یہ وقت صدیوں کی طرح گُزرا تھا۔ جِتنی شِدّت سے وہ صُبح کا اِنتظار کر رہا تھا اُسے نہہں یاد پڑتا تھا کہ کبھی کِسی چیز کے لیے اُس نے اِتنا اِنتظار کیا ہو۔ صُبح ہوتے ہی وہ اپنے کمرے سے باہِر آیا تھا۔ کِچن کا رُخ کرتے اُس نے حمود اور نین گُل کے لیے ناشتہ بنایا تھا۔

ناشتہ بنانے کے بعد وہ ٹرے میں ناشتہ سجائے اُن کے کمرے کی طرف بڑھا تھا۔ دروازے پر دستک دے کر وہ اِنتظار کرنے لگا۔ تقریباً دو مِنٹ بعد ہی دروازہ کھول دیا گیا تھا جو کہ حمود نے کھولا تھا۔ وہ ٹرے ہاتھ میں لیے اندر کی جانِب بڑھا تو نظر چادر میں لِپٹی بیڈ کراون سے ٹیک لگائے نین گُل پر جا پڑی جو اُسے دیکھتی چہرے کا رُخ پھیر گئی تھی۔

رانا عبّاس تاسف سے نفی میں سر ہلاتے بیڈ کی جانِب بڑھا مگر پھر رُکا۔

"حمود بچّے! کیا میں تُمہاری آپا سے اکیلے میں بات کر لوں؟ تُم یہ ناشتہ کرو جا کر تُمہاری آپا بھی باہِر ہی آ جائیں گی!" وہ حمود سے اجازت طخب انداز میں پوچھنے لگا پھر خُود ہی ٹرے اُس کیا جانِب بڑھائی تو حمود نے ایک نظر نین گُل کو دیکھا جو نفی میں سر ہلا رہی تھی۔ نین گُل کی تنبیہی نظروں کے باوجود وہ ٹرے تھامے باہر کی جانِب بڑھ گئی تو رانا عبّاس دروازہ بند کرتا نین گُل کی جانِب بڑھا۔ اُسے اپنی جانِب بڑھتے دیکھ کر نین گُل تیزی سے بیڈ سے اُتری جِس سے اُس کی چادر ذرا سی کِھسک گئی۔ اُس کی آستین کہنی سے اوپر کندھے تک پھٹی ہوئی تھی اور نیچے جھول رہی تھی۔ رانا عبّاس نے اُسے نظر انداز کرتے اپنے قدم نین گُل کی طرف بڑھائے اور اُس کے بھاگنے سے پہلے اُس کا ہاتھ تھام کر بیڈ پر بِٹھایا اور خُود اُس کے سامنے بیٹھا۔

"اِتنی جلدی بے اعتبار کر گئی مُجھے؟ کیا اب دوسروں کے ساتھ مُجھ پر بھی اعتبار نہیں رہا؟" رانا عبّاس نے کھوجتی نِگاہیں اُس کے چہرے پر گاڑھیں جہاں اُس کی تھوڑی پر مدھم ہوتے تین تکونی تِل آج بھی اُس کی توجّہ کھینچ گئے تھے۔ کُچھ یاد کرتے اُس نے اُس کے گلے سے چادر کِھسکائی تو نین گُل نے خُوف سے آنکھیں میچیں جبکہ رانا عبّاس اُس کے گلے میں لٹکتے تعویذ کو دیکھ کر جی جان سے مُسکرایا۔

"جواب دو مُجھے! کیا اپنے رانا سائیں پر بھروسہ نہیں رہا؟" رانا عبّاس نے اپنا سوال دُہرایا تو نین گُل نے نم آنکھیں اُٹھا کر اُسے دیکھا۔

"ہمیں یہاں کیوں لائے ؟ واپس چھوڑ آئیں!" وہ بولی بھی تو کیا؟ رانا عبّاس نے لب بھینچ کر اُسے دیکھا پھر اُس کے تعویذ کو پکڑ کر کھینچا کہ اُسے لگا دم گُھٹ سا گیا ہے۔ ایک کراہ اُس کے حلق سے برآمد ہوئی تھی جِسے وہ نظر انداز کر گیا تھا۔

"واپس چھوڑنے کے لیے نہیں لایا یہاں! تُم بھول گئی ہو گی مگر میں نہیں بھولا اپنی مُحبّت کو! یہ جو اِس تعویذ میں میرا دِل قید کر رکھا ہے نا؟ یہ مُجھے تُمہیں بُھولنے نہیں دیتا۔ تُم کل بھی میری تھی اور آج بھی میری ہو۔ تُمہارے ابّا کی موت کا افسوس ہے مُجھے جِس پر میں چاہ کر بھی کُچھ نہیں کر سکتا۔ نواز علی کو واپس نہہں لا سکتا اور اِن دِنوں یہ بات کرنی تو نہیں چاہیے مگر میں تُمہیں ایسے اپنے پاس نہیں رکھ سکتا!" رانا عبّاس کی سخت باتیں سُنتے وہ آخر میں بے یقینی سے اُسے دیکھنے لگی۔ اگر رکھ نہیں سکتا تھا تو لایا کیوں تھا؟ بے بسی کا مذاق اُڑانے؟ یا بغیر کِسی رِشتے کے رکھنے کے لیے؟

"ایسے مت دیکھو نیناں جان! تُمہاری یہ بدگُمانیاں کِسی دِن میری جان لے لیں گی اور پھر آخر میں تُم بس افسوس ہی کرتی رہ جاو گی۔ ایسے نہیں رکھ سکتا بغیر کِسی رِشتے کے اِس لیے آج دوپہر کو نِکاح ہے ہمارا! کُچھ غلط سوچنے سے پہلے یاد رکھا کرو کہ رانا عبّاس اپنی زُبان سے مُکرنے والوں میں سے نہیں ہے۔ مُجھے یقین ہے کہ تُمہیں میری ہونے پر کوئی اعتراض نہیں یو گا اگر ہے بھی تو مُجھے کوئی فرق نہیں پڑتا! مہری اہمیت تُم مُجھے گاوں چھوڑ کر یہاں شہر میں آ کر اور کِسی اور سے شادی کے لیے مان کر بتا ہی چُکی ہو!" وہ نرمی سے بولتے بولتے آخر میں نا چاہتے ہوئے بھی شِکوہ کر ہی گیا جِس پر وہ آنکھیں چُرا گئی۔

"مُجھ جیسی لڑکی سے شادی کر کے کیا مِلے گا آپ کو؟ چھوڑ دیں مُجھے میرے حال پر!" وہ اُس کے سامنے ہاتھ جوڑ گئی تھی۔

"تُم جیسی سے کیا مُراد ہے تُمہاری؟ اگر تُمہارا مطلب عدیل کا تُم سے بدتمیزی کر کے تُمہیں ناپاک کرنا ہے تو اُس کی فِکر مت کرو زِندہ نہیں بچے گا وہ! تُم کل بھی پاک تھی اور آج بھی ہو۔ اور تُمہارے سوال کا جواب کہ مُجھے کیا مِلے گا تو وہ آج رات کو فُرصت سے بتاوں گا۔ تُم بس خُود کو تیار رکھو اور چلو فریش ہو کر باہِر آو ناشتہ کرتے ہیں۔" وہ اُس کے گال سہلا کر ذومعنی انداز میں بولا تو وہ سر جُھکاتی اُٹھی۔ چادر کو اچھے سے خُود پر اوڑھا اور باتھ روم کی جانِب بڑھ گئی۔

کُچھ دیر بعد وہ فریش ہو کر آئی تو رانا عبّاس اُس کا ہاتھ تھامے باہِر آیا جہاں حمود ناشتہ ٹیبل پر سجائے اُنہیں کا اِنتظار کر رہی تھی۔

"اہمم! لگتا ہے مطلع صاف ہو گیا ہے۔" حمود گلا کھنکار کر بولی تو وہ مُسکرایا۔

"ہاں صاف ہو گیا ہے اور تُم بھی تیار ہو جاو! آج میرا اور نیناں کا نِکاح ہے تو کھانے پینے کی ساری تیاری تُمہیں ہی کرنی ہے۔ سارا سامان میں لا دوں گا اور میری دُلہن کو بھی تُمہیں ہی سجانا ہے۔" رانا عبّاس نے سارا پلان ترتیب دیتے کہا تو وہ آنکھیں گُھما گئی جبکہ نین گُل بس خاموشی سے اُن کی باتیں سُن رہی تھی۔

"چلو اب ناشتہ کرو دونوں! پھر مُجھے کُچھ کام سے باہِر جانا ہے۔" رانا عبّاس نے کہا تو وہ دونوں ناشتے کی طرف متوجّہ ہوئیں۔

اُنہیں اپنی نگرانی میں ناشتہ کروا کر وہ فلیٹ لاک کرتا گھر سے نِکل گیا تھا۔ اُس کا اِرادہ اُن دونوں کے لیے شاپنگ کرنے کا تھا وہ اُن دونوں کو باہِر لے جانے کا رِسک نہیں لینا چاہتا تھا۔ شاپنگ کے دوران ہی وہ احد سے فون پر بات کر چُکا تھا۔ اُس نے اُسے عدیل پر نظر رکھنے کا کہا تھا۔ اُس کی بابت ہی اُسے عدیل کے ہسپتال ایڈمِٹ ہونے پتہ چلا تھا اور مُحلّے میں نسیم بیگم کی بھتیجیوں کے بھاگنے کی خبر پھیل چُکی تھی۔ عدیل کے ٹھیک ہوتے ہی اُس کا اِرادہ اُسے اُٹھوانے کا تھا۔ اُس نے رانا عبّاس کی عِزّت پہ بُری نظر ڈالنے کی غلطی کی تھی وہ کیسے اُسے بخش سکتا تھا۔ آج وہ بس اپنے نِکاح پر فوکس کرنا چاہتا تھا اور اِسی لیے عدیل کا معاملہ بعد پر ٹال گیا تھا۔


*********************

یہ شام کا وقت تھا۔ سورج غروب ہو رہا تھا اور رات کے سائے پھیلنا شروع ہو چُکے تھے۔ سردیاں شروع ہو چُکیں تھیں تو دِن جلدی ختم ہو کر اندھیرا پھیلنا شروع ہو جاتا تھا۔ موسم بدلنے کی وجہ سے اُس کی طبیعت پِچھلے دو دِن سے خراب تھی جِس کی وہ باقاعدہ دوائی کھا رہی تھی۔ موسم بدل رہا تھا تو بارشیں بھی شروع ہو چُکیں تھیں۔ آج بھی مطلع ابر آلود تھا جِس کے باعث وہ سارا دِن بارِش کے ڈر سے گھر سے نہیں نِکلی مگر پھر جب شام تک بارِش نا رُکی تو وہ جھنجھلا کر دوائی لینے کے لیے نِکل پڑی تھی۔ بُوا اور حمین بھی اُس کے ساتھ ہی تھے۔

اِن دو دِنوں میں حیدر کی طرف وہ جا نہیں پائی تھی۔ وہ نوکری نہیں چھوڑ سکتی تھی کہ اُس سے اُسے ایک معقول رقم مِل رہی تھی مگر حیدر کی باتوں سے وہ پریشان ہو چُکی تھی۔ وہ اُس کے جذبات کو بڑھاوا نہیں دینا چاہتی تھی۔ اُس کی فون کال پر ناتیں سُن کر وہ اب اِس مسلے کا حل تلاشنے لگی تھی جو ہنوز اُسے نہیں مِلا تھا مگر جلد ہی وہ کُچھ کرنے والی تھی کہ حیدر اُس کے بارے میں بھول کر اپنے بارے میں سنجیدگی سے سوچتا۔

وہ ڈاکٹر سے چیک اپ کروا کر چادر کندھو پر درست کرتی کلینک سے باہِر نِکلی تھی۔ حمین کو بُوا نے تھام رکھا تھا وہاں سے وہ بے بی گارمنٹس کی شاپ پہ گئے تھے۔ موسم کی مُناسبت سے حمین کے لیے کُچھ کپڑے خرید کر وہ اب ٹیکسی کے اِنتظار میں سڑک کِنارے کھڑی تھیں۔ شام ہونے کی وجہ سے سڑک پر اِکّا دُکّا ہی گاڑیاں بھاگتی دوڑتی نظر آ رہیں تھیں۔ کِسی رِکشے اور ٹیکسی کو رُکتے نا دیکھ کر وہ پیدل ہی چلنا شروع ہو گئیں تھیں کہ رات کے بڑھتے سائے اُن کی پریشانی میں اضافہ کر رہے تھے۔ اچانک اُسے لگا جیسے کوئی اُن کے پیچھے چل رہا ہو۔ اُس نے پلٹ کر دیکھا تو کوئی گاڑی آہستہ آہستہ اُن کے پیچھے ہی رینگ رہی تھی۔ وہ بلیک کلر کی جیپ تھی جِس میں بیٹھے کُچھ دیوہیکل سیاہ فام آدمی اُسے پریشان کر گئے تھے۔ اُن کے چہرے کے تاثرات دیکھتے اُسے کِسی انہونی کا احساس ہوا تھا۔

"بُوا کوئی سوال کیے بغیر دائیں طرف مُڑیں!" بُوا کے نزدیک جُھک کر اُس نے حمین کو اپنی گود میں لیتے کہا اور ساتھ دائیں جانِب مُڑتی

گلی کی طرف اِشارہ کیا۔ بُوا نے نا سمجھی سے اُسے دیکھا جو اب اپنا حِجاب کا کِنارا تھامے سر سے پِن اُتار کر نقاب کرتی تیزی سے دائیں جانِب مُڑی۔ اُس کی دیکھا دیکھی بُوا بھی تیزی سے اُس تنگ و تاریک گلی میں داخِل ہوئیں.

"بُوا جِتنا تیز بھاگ سکتی ہیں بھاگیں ہمیں خطرہ ہے۔" اُس کی بات سُن کر بُوا بد حواسی سے تیز تیز قدم اُٹھاتی بھاگنے لگیں تھیں۔ وہ بوڑھی تھیں اُتنا تیز نہیں بھاگ سکتی تھیں جِتنا وہ بھاگ رہی تھی یہی وجہ تھی کہ اُن کا سانس بے حد پھولنے لگا تھا۔ اُنہیں اپنے پیچھے کئی بھاگتے قدموں کی آوازیں آنے لگیں تھیں۔ وہ بائیں جانِب مُڑتی گلی میں داخِل ہوئیں۔ اُس نے حمین کو بُوا کو تھمایا۔ جلدی سے اپنا حِجاب اور دُوپٹہ اُتارا اور بُوا سے اُن کی چادر تھامی۔ بُوا حیران پریشان اُس کی کاروائی دیکھ رہیں تھیں۔

"آپ حمین کو لے کر گھر جائیں میں اُن کا دھیان بھٹکاتی ہوں۔ یہ آپ کے پاس امانت ہے میری! اِسے کُچھ نہیں ہونا چاہیے۔" وہ چادر اوڑھتی تیز تیز لہجے میں بولی تھی۔

"مگر تُم کیسے؟ تُمہاری جان کو خطرہ ہے!" بُوا نے پریشانی سے اُس کا دوپٹہ کھول کر اوڑھا۔

"مُجھے نہیں حمین کو خطرہ ہے۔ آپ پلیز کوئی سوال مت کریں بس اِسے لے جائیں یہاں سے۔ میں اُس طرف جاتی ہوں جِس سے اُنہیں لگے گا کہ ہم اُدھر سے بھاگ رہے ہیں۔ جیسے ہی وہ آگے گُزریں آپ حمین کو لے کر گھر پہنچیے گا میں جلدی آ جاوں گی۔" وہ حمین کو شِدّت سے خُود میں بھینچتے اُس کے ماتھے کا بوسہ لیتی ہوئی بولی اور پھر اُس گلی سے نِکل سامنے جی طرف بھاگنے لگی اور اُن کا دھیان اپنی جانِب کرنے کو گلی میں پڑا درنیانے سائز کی ٹوٹی اینٹ اُٹھا کر دیوار پر دے ماری جو دیوار سے ٹکرا کر نیچے نالی میں گِر کر شور برپا کر گئی۔

"اِدھر گئی ہے پکڑو اُسے!" ایک آدمی کی بُلند آواز اُسے سُنائی دی تو وہ تیزی سے بھاگنے لگی۔ اُسے یقین تھا کہ بُوا حمین کو لے جائیں گی اور وہ محفوظ رہے گا۔

بھاگتے بھاگتے وہ کافی آگے نِکل آئی تھی۔ یہ کوئی سُنںسان سا عِلاقہ تھا جِس کے دائیں بائیں جنگل شروع ہو رہا تھا۔ رُک کر وہ پھولا سانس متوازن کرنے لگی جب اُسے اپنے پیچھے اُسی جیپ کی آواز سُنائی دی۔ سڑک کِنارے کھڑی وہ جیپ کی تیز لائٹ میں نہا گئی تھی۔ ہلٹ کر دیکھتے وہ جلدی سے ڈھلوان اُترنے لگی مگر اِس سے پہلے ہی ایک آدنی آہستہ سپیڈ میں چلتی جیپ سے چھلانگ لگاتا اُسے دبوچ چُکا تھا۔

"مال بھی مست ہے باس! آج یک نا شُد دو شُد مزے بھی ہوں گے اور پیسے بھی مِلیں گے لیکن بچّہ نہیں ہے اِس کے پاس!" اُس کا جبڑا دبوچے وہ آدمی ہوس بھرے انداز میں اُس کے سراپے کو گھورتے بولا تھا۔

"لگتا ہے بُڑھیا کو دے آئی ہے۔ خیر ہے آج تُجھ سے کام چلائیں گے بچّہ پھر ڈھونڈ لیں گے۔" وہ آدمی حریصانہ انداز میں بولا تو وہ کانپ کر رہ گئی۔

اِس سے پہلے کہ باقی لوگ جیپ سے اُتر کر اُس تک پہنچتے اُس نے اپنا گُھٹنا موڑ کر اُس آدمی کے پیٹ میں مارا تھا جِس سے اُس کی گرِفت اُس پر ڈھیلی پڑی تھی۔ زور سے اُس کے ہاتھ پر کاٹتے وہ تیزی سے اُس کی گرفت سے آزاد ہوتی ڈھلوان سے نیچے بھاگی تھی مگر پاوں پھسلنے پر وہ نیچے کو لُڑھکتی چلی گئی۔ وہ لوگ سنبھل کر ڈھلوان اُترے اُس کے پیچھے ہی جا رہے تھے اور ٹھیک اِسی وقت بارِش شروع ہوئی تھی جِس سے ڈھلوان پر پھسلن بڑھی تھی۔

وہ نیچے جا کر پیٹ کے بل گِری تھی۔ ہاتھوں کے بل زمین سے اُٹھتے اُس نے پیچھے دیکھا جہاں وہ ہنوز اُس کے تعاقب میں تھے وہ تیزی سے جنگل کے اندر جا گُھسی تھی۔ تیز تیز بھاگتے بغیر پیچھے دیکھے وہ اپنے آپ کو بچانے کی کوششوں میں تھی۔ اُس آدمی کی آنکھوں میں ہوس دیکھ کر اُس کی جان لرزی تھی اگر جو وہ اُسے پکڑنے میں کامیاب ہو گئے تو کیا کریں گے اُس کے ساتھ؟ یہ سوچ ہی اُسے مارے دے رہی تھی۔ وہ تقریباً پانچ لوگ تھے اور تھے بھی غُنڈے ٹائپ کے۔

اُس کا سانس پھول رہا تھا اور دِل کمزور پڑ رہا تھا۔ ایسی صورتحال سے وہ پہلے بھی گُزر چُکی تھی مگر پہلے عِزّت کا خوف نہیں تھا اور اب یہ خوف ہی سر چڑھ کر بول رہا تھا۔

برستی بارِش، گرجتی آسمانی بِجلی، ویران سا جنگل، کہیں کہیں جنگلی جانوروں کے بولنے کی آواز، رات کا گہرا اندھیرا اور ایسے میں بادلوں کے گڑگڑ کی آواز اُس کا دِل ہولائے دے رہیں تھیں۔ رات کا وحشت انگیز ماحول اُس کے کمزور اور ڈرپوک سے دِل کو اور کمزور کر رہا تھا۔ پیر کہیں رکھنا چاہتی تھی مگر پیر رکھا کہیں اور جا رہا تھا۔ بدحواسی میں اُسے یہ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اُسے جانا کِدھر کو ہے۔ اِس وقت پروا تھی تو بس اپنی عِزّت کی جو خطرے میں تھی۔ اپنی عِزّت کو بچانے کی خاطِر وہ بھاگی تھی تو اب حوصلہ ہارنا مطلب ایک بار پِھر بھیڑیوں کے منہ میں واپس جانا تھا۔

اُس کا حُلیہ اِس وقت بہت خراب ہو رہا تھا۔ سارے کپڑے مٹی سے اٹے ہوئے تھے، لمبے بالوں کی چوٹی پُشت پر جھول رہی تھی جِس میں سے آدھے بال نِکل کر بِکھرے ہوئے تھے، چادر جو بھاگتے وقت اوڑھی تھی وہ اِس وقت آدھی سر پہ اور آدھی کندھوں پر جھول رہی تھی، چادر اور لِباس گیلا ہو چُکا تھا جو اُس کے جِسم کے ساتھ چِپک کر اُسے کپکپانے پر مجبور کر گیا تھا۔ آتی سردیوں کی بارش تھی جِس سے اُس کا یُوں کپکپانا بجا تھا۔ گرم سوتی سوٹ ہونے کی وجہ سے اُس کا جِسم ابھی بھی پردے میں ہی تھا۔ پاوں میں پہنی ہلکی سی چپل بھی اب ٹوٹنے کو تھی جو کافی دیر سے اُس کا ساتھ دے رہی تھی بھاگنے میں۔ مگر اب تو جیسے وہ بھی ساتھ چھوڑنے کو تھی، پانی پہ پاوں پڑبے سے چھپاک چھپاک کی آواز پیدا ہو رہی تھی جو بارِش کے شور میں کہیں دبی جا رہی تھی۔ جوتا مٹی میں لتھڑا ہوا تھا۔ اُس کے پاوں کی اُنگلیاں جیسے ٹھنڈ سے جم سی گئیں تھیں، اُسے لگ رہا تھا جیسے اُس کے جِسم سے جان ختم ہو گئی ہو مگر اُسے حوصلے سے کام لینا تھا تب تک جب تک وہ کِسی محفوظ جگہ پر نا پہنچ جاتی۔

ایک جگہ رُک کر اُس نے پیچھے دیکھا جہاں صِرف درخت ہی درخت نظر آ رہے تھے۔ اُس کے پیچھے آتی آوازیں اب بھی اُس کے تعاقب میں تھیں۔ بے بسی سے اُس نے آسمان کی طرف دیکھا تھا جیسے خُدا سے مدد مانگ رہی ہو۔ اُس کی کانچ سی گہری کالی بڑی بڑی آنکھوں سے آنسو بہتے اُس کے چہرے پہ گِرنے والے بارِش کے پانی میں مدغم ہو رہے تھے جِس سے اُس کے آنسووں اور بارِش کے پانی میں فرق کر پانا مُشکِل تھا۔ آوازیں قریب تر ہوتی جا رہی تھیں۔ وہ جلدی سے جھاڑیوں کی اوٹ میں ہوئی تھی۔ کپکپاتے ہاتھوں سے سر سے چادر اُتاری تھی جو پانی سے تر تھی۔

آہستہ سے چادر کو نچوڑا اور پِھر اُسی گیلی چادر کو واپس اوڑھ لیا۔ وہ آوازیں اُس کے قریب سے ہوتیں آگے بڑھ گئیں تھیں۔ ایک گہرا سکون بھرا سانس لیتی وہ وہاں سے اُٹھی اور دبے قدموں بائیں جانِب کو مُڑی۔ اُس کے قدموں کی رفتار تیز تھی۔ وہ پِچھلے دو گھنٹوں سے مسلسل بھاگ رہی تھی۔ آبادی سے نِکل کر وہ شہر سے باہِر جانے والے راستے کو مُڑ گئی تھی مگر وہ اُس کی عِزّت کے دُشمن مسلسل اُس کے پیچھے تھے۔ خُود کو بچانے کے لیے وہ جنگل میں داخِل ہو گئی تھی مگر یہاں بھی اُنہوں نے اُس کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ اب قِسمت سے وہ جنگل سے باہِر نِکلنے والے راستے پر چل رہی تھی۔

"رُکو وہ رہی لڑکی اُس طرف۔" اُن جاتی آوازوں میں سے ایک آدمی کی آواز اُبھری تھی جو اُس کی ریڑھ کی ہڈّی میں سُنسُناہٹ پیدا کر گئی تھی۔ وہ ایک بار پِھر سے سر پٹ بھاگی تھی۔ بھاگتے بھاگتے وہ سڑک پر نِکل آئی تھی مُخالف سِمت سے اُسے ایک گاڑی اپنی طرف آتی نظر آئی تھی۔ اُس کی ہیڈ لائٹس روشن تھیں۔ سڑک کے بیچ و بیچ کھڑی وہ گیلی چادر اوڑھے ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر گاڑی کو رُکنے کا اِشارہ رکر ہی تھی جِس کی رفتار تیز ترین تھی۔ اُس نے جنگل کی طرف نِگاہ دوڑائی جہاں سے ابھی تک وہ آدمی برآمد نہیں ہوئے تھے مگر اُن کی آمد جلد ہی متوقع تھی۔

اُس کے جِسم سے ساری توانائی ختم ہونے کو تھی۔ آنکھیں مسلسل رونے اور نقاہت سے بند ہو رہیں تھیں۔ سر چکرا رہا تھا مگر بمشکِل حواس قابو میں رکھتی وہ مدد کی مُنتظِر تھی۔ وہ پہلے ہی بیمار تھی اوپر سے دوپہر سے کُچھ کھایا پیا بھی نہیں تھا جِس کے باعث کمزوری کا حملہ ہو رہا تھا۔

وہ جو اب گِرنے کو تھی ایک دم چونکی جب گاڑی اُس کے قدموں میں آ کر رُکی۔ اُس نے گاڑی کی طرف دیکھنا چاہا مگر ہیڈ لائٹس کی تیز روشنی میں اُس کی آنکھیں تو چندھیائیں ہی مگر سر میں درد کی ایک ٹیس اُٹھی تھی۔ ایک ہاتھ سے سر کو تھامے اُس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کرتے سامنے دیکھا جہاں سے کوئی وجود نِکل کر اُس کی طرف بڑھ رہا تھا۔

"اا اللّٰہ!! مم میری عِزّت کک کا تت تُو ہہ ہی نن نگہبان۔" وہ کب تک حواس برقرار رکھتی؟ آخری بار جب احساس ہوا کہ برداشت جواب دے گئی ہے تو خود کو خُدا کے حوالے کرتی وہ اپنا جِسم ڈھیلا چھوڑتی ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی تھی۔

گاڑی سے نِکلتا وجود جو کِسی اِنسان کو سڑک کے بیچ و بیچ کھڑا دیکھ کر باہِر نِکل کر اُس کی طرف بڑھا تھا اب اُس اِنسان کو گِرتے دیکھ کر تیزی سے اُسے گِرنے سے بچاتے ہوئے تھام گیا تھا۔ اُس کے بارِش کے پانی سے تر کپڑوں کو محسوس کر کے وہ چونکا تھا اور ہاتھ بے ساختہ ہی اُس کی چادر پہ گیا تھا۔

"نین گُل؟؟؟؟" حیرت اور غم کے مارے اُس کے منہ سے بس ایک ہی لفظ نِکلا تھا۔ بے یقینی سی بے یقینی تھی جو اُس کے رگ و پے میں سرایت کر گئی تھی۔ ایک تکلیف اور اذیّت تھی جو اُسے اپنی روح میں محسوس ہوئی تھی۔ وہ یہاں، اِس حال میں اپنے سامنے موجود ہوش و حواس سے بیگانہ لڑکی کی موجودگی کا گُمان بھی نہیں کر سکتا تھا۔

ایک سرد سی نِگاہ سُنسنان سی سڑک اور جنگل پر ڈال کر وہ اُس وجود کو اُٹھائے جلدی سے گاڑی کی جانِب بڑھا تھا۔ اُسے جلد سے جلد اِس سرد ماحول سے نِکالنا ضروری تھا ورنہ وہ بُری طرح بیمار ہو سکتی تھی۔


********************


وہ گیارہ بجے تک لوٹ آیا تھا۔ حمود اور نین گُل کی شاپنگ اُس نے اندازً خُود ہی کی تھی۔ کھانے پینے کا آدھا سامان وہ باہِر سے لے آیا تھا جبکہ حمود نے کہا تھا کہ کُچھ ڈِشز وہ گھر میں بنائے گی۔ حمود تو کھانے ہینے کا سامان لیتی کِچن میں جا گُھسی تھی جبکہ رانا عبّاس نے نین گُل کو تیار ہونے کو کہتے سارا سامان اُس کے حوالے کر دیا تھا۔ نین گُل نے چُپ چاپ وہ سامان تھامتے اپنے کمرے کا رُخ کیا تھا جب آدھا سامان رانا عبّاس کے پاس تھا جِسے لے کر وہ اپنے کمرے میں گُھس گیا تھا۔

ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ اپنے کمرے سے نِکلا تھا اور کِچن کا رُخ کیا جہاں سے کھانے کی اِشتہا انگیز خُوشبوئیں آ رہیں تھیں۔ حمود نے قورمہ، مٹن کڑاہی، اور بریانی بنائی تھی جبکہ سویٹ میں فیرنی اور فروٹ ٹرائفل رانا عبّاس باہِر سے لے آیا تھا۔ کھانا تیار ہو چُکا تو رانا عبّاس نے اُسے بھی تیار ہونے کا کہا تھا جِس پر وہ سر ہلاتی نین گُل والے کمرے میں ہی چلی گئی تھی۔

ٹھیک اِسی وقت بیل بجی تھی۔ رانا عبّاس نے دروازہ کھولا تو سامنے ہی احد ، اُس کی بیوی اور رانا عبّاس اور احد کے مُشترکہ دوست نوید اور حمزہ بھی تھے۔ وہ اُنہیں لیے اندر چلا آیا تھا۔ وہ اُن کے لیے ریفریشمنٹ کا اِنتظام کرنے چلا گیا۔ کُچھ دیر بعد وہ کولڈ ڈرِنکس، سنیکس اور بِسکٹ وغیرہ ٹرالی میں سجائے اُن کے سامنے تھا۔ احد کی بیوی نازنین نے اُسے تیار ہونے کا کہا اور خُود سب کو کولڈ ڈرِنکس سرو کرنے لگی۔ پندرہ بیس مِنٹ بعد وہ خُوشبوؤں میں رچا بسا سفید شلوار قمیض میں نِکھرا نِکھرا سا باہِر آیا تھا۔ نفاست سے جمے بال اور مردانہ وجاہت سمیت وہ ماحول پر چھایا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ نازنین نے اُس کے آنے تک احد، حمشہ اور نوید کی مدد سے لاونج کا حُلیہ یکسر بدل دیا تھا۔ اب جہاں لاونج کے وسط میں ٹیبل پڑا تھا وہاں سفید گدّے بِچھے ہوئے تھے جِن کے درمیان میں سٹینڈ لگا کر موتیے کے پھولوں کا بنا پردہ لگایا گیا تھا۔ گدّے پر چاروں طرف میرون کلر کے گاؤ تکیے سیٹ کیے گئے تھے جِس سے کلاسک سا نظارہ لگ رہا تھا۔

رانا عبّاس نے لبوں پہ مُسکراہٹ سجائے اُن کی محنّت کو سراہا تھا۔ اُسے یہ اِنتظام واقعی بہت پسند آیا تھا۔ نازنین یہ سب دیکھ کر اندر نین گُل کے پاس چلی گئی تھی تا کہ اُس سے مُلاقات کر سکے۔ ایک بار پِھر بیل بجی تھی۔ اب کی بار حمزہ دروازہ کھولنے گیا تھا کُچھ دیر بعد وہ واپس آیا تو اُس کے ساتھ رانا باقِر اور مولوی صاحب تھے۔ رانا باقِر کو رانا عبّاس ساری بات سے آگاہ کر چُکا تھا جِس کی بدولت وہ بھی آج اُس کے نِکاح میں شریک ہو رہا تھا۔ اِس بات سے بے خبر کہ رانا باقِر کے دِل میں کُچھ اور ہی چل رہا ہے۔

ٹھیک اُسی وقت نازنین اور حمود نین گُل کو لیے باہِر آئیں تھیں۔ حمود رانا باقِر کو دیکھ کر چونک اُٹھی تھی مگر پھر اپنے چہرے کو نارمل ہی رکھا تھا وہ رانا باقِر کو کِسی بھی قِسم کا کوئی نرم تاثر نہیں دینا چاہتی تھی۔ اُس کے لیے وہ بس رانا عبّاس کا چچا زاد بھائی تھا اور اُس کی بہن کا ہونے والا دیور اِس کے عِلاوہ کُچھ بھی نہیں۔

نین گُل ڈیپ ریڈ کلر کی گھیر دار فراک میں ملبوس تھی جِس کے اوپر موتیوں اور تِلّے کا کام کیا گیا تھا۔ ڈارک گولڈن کلر کا دوپٹہ تھا جِس کو گھونگھٹ بنا کر نین گُل کو اوڑھا گیا تھا۔ گھونگھٹ ہونے کی وجہ سے اُس کا چہرہ دیکھنے سے فی الحال وہ قاصِر تھا۔ اُس کے مُتناسب نرم و نازُک سراپے پر وہ فراک بہت جچ رہی تھی جیسے اُسی کے لیے بنی ہو۔ ہاتھوں میں بھر بھر کر سُرخ اور سُنہری چوڑیاں پہنی ہوئیں تھیں جِن کی کھنک سے سکوت میں اِرتعاش برپا ہو رہا تھا۔ نازنین اور حمود اُسے لیے پردے کی ایک جانِب بیٹھ گئیں تھیں جبکہ باقی سب بھی دوسری جانِب بیٹھ گئے تھے۔ مولوی صاحب نے نِکاح پڑھانا شروع کیا تھا۔

پہلے نین گُل سے اور پھر رانا عبّاس سے قبول و ایجاب کرواتے وہ اب اُن سے نِکاح نامے پر سائن کروا رہے تھے۔ نِکاح کے بعد اُنہوں نے دُعائے خیر کے لیے ہاتھ اُٹھائے تھے۔ اِس ارے عرصے میں رانا باقِر کی خُود پر جمی نظریں حمود نے کیسے برداشت کیں تھیں صِرف وہی جانتی تھی۔ رانا باقِر نا چاہتے ہوئے بھی اِس سارے منظر کی وڈیو بناتے ہوئے اپنی نظریں حمود پر سے ہٹا نہیں پایا تھا جو سر پر پِستہ کلر کا دوپٹہ نماز سٹائل میں لپیٹے پیچ اور پِستہ کلر کا ڈریس پہنے اُس کا دِل دھڑکا رہی تھی۔ وہ اُس کی نہیں تھی مگر دِل تھا کہ بے ایمان ہوا جا رہا تھا۔

نِکاح مُکمّل ہوتے ہی ہر طرف مُبارک سلامت کا شور اُٹھا تھا۔ رانا عبّاس سب کے گلے مِلتا اُن سے مُبارکباد وصول کر رہا تھا۔ سب نے نین گُل کو بھی مُبارکباد دی تھی جو گھونگھٹ میں چہرہ چُھپائے خاموشی سے آنسو بہا رہی تھی۔ اِس لمحے جب ماں باپ کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے وہ اُن دونوں سے محروم تھی۔ اِس وقت اُسے شِدّت سے اپنے ماں اور باپ کی یاد آئی تھی۔ اُس کی کیفیت سمجھتی نم آنکھیں لیے حمود اُسے کمرے میں لے گئی تھی۔ رانا باقِر کے کہنے پر رانا عبّاس نین گُل کے پاس کمرے میں گیا تھا تا کہ فوٹو شوٹ کروا سکے۔ نین گُل نے باہِر سب کے سامنے گھونگھٹ ہٹانے سے اِنکار کر دیا تھا جِس پر رانا عبّاس کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اُنہیں کمرے میں آتا دیکھ جر حمود اور نازنین باہِر کِچن میں آ گئی تھیں تا کہ کھانا لگا سکیں۔

نین گُل نے گھونگھٹ ہٹایا تو رانا عبّاس اُسے دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔ پہلی بار وہ اُسے اِتنا سجا سنورا دیکھ رہا تھا کہ دِل بہک گیا تھا۔ جیولری پہنے، بڑی سی باریک نتھ ناک میں اٹکائے، بالوں کا سائیڈ رول بنائے، سُرخ رنگ کی لِپسٹِک اور نفاست سے کیے میک اپ میں وہ کوئی نازُک سی گُڑیا لگ رہی تھی۔ ایک چیز جو ہمیشہ کی طرح اب بھی موجود تھی وہ اِس بار بھی رانا عبّاس کے چہرے پر مُسکراہٹ بکھیر گئی تھی اور وہ تھا نین گُل کا سیاہ تعویذ اور تھوڑی پہ بنے تین تکونی مصنوعی تِل!

رانا باقِر نے گلا کھنکار کر اُسے ہوش دِلایا تھا جِس پر وہ سر کُھجاتا خجل سے انداز میں نین گُل کا ہاتھ تھام گیا تھا۔ رانا باقِر نے اُن کی مختلف پوزز میں تصویریں بنائیں تھیں۔ نین گُل تو شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی مگر رانا عبّاس اپنی ساری حسرتیں پوری کر رہا تھا۔ اُس کا بس چلتا تو ہواؤں میں اُڑتا آج وہ اِتنا ہی خُوش تھا۔

تقریباً پونے ایک گھنٹے تک تصویریں بنانے کے بعد وہ بس کر گیا تھا۔ رانا باقِر باہِر نِکل گیا تو وہ چلتا ہوا نین گُل کے پاس آیا۔ اُس کا ہاتھ تھام کر اُسے صوفے پر بِٹھایا اور خُود ایک گُھٹنا موڑ کر صوفے پر رکھتا، دوسرا پاؤں زمین پر ٹِکاتے، وہ صوفے کی بیک پر کہنی ٹِکا کر ہاتھ کی ہتھیلی گال تلے رکھتا یک ٹِک بغیر پلکیں جھپکائے اُسے دیکھنے لگا جیسے اُسے کوئی اور کام ہی نا ہو۔ اُس کی نظروں سے پزل ہوتی وہ بھیگی ہتھیلیاں آپس میں رگڑنے لگی مگر اُس کی نظروں میں کوئی فرق نا آیا۔ نین گُل کے دِل کی دھڑکن ڈھول کی تھاپ کو مات دے رہی تھی جِسے محسوس کرتے رانا عبّاس کا دِل مچل رہا تھا۔

"کیا۔۔۔ ہے؟" نین گُل نے جھنجھلا کر پوچھ ہی لیا تھا مگر اُس کی جذبے لُٹاتی نِگاہوں میں دیکھنے کی جُرات نہیں کی تھی۔

"مُحبّت ہے۔" وہ دو لفظی جواب دیتا پھر سے اپنے کام میں مشغول ہو گیا تھا جب کہ نین گُل کو چُپ لگ گئی تھی۔

"کُچھ کہو گی نہیں؟" اُس کی خاموشی محسوس کرتے رانا عبّاس نے سوال کیا تو وہ پلکیں اُٹھائے اُسے دیکھنے لگی مگر اُس کی آنکھوں کی تپش اور روشنیوں سے گھبرا کر جلدی ہی دوبارہ نِگاہیں جُھکا گئی۔

"کیا۔۔۔۔ کہوں؟" وہ اٹک اٹک کر پوچھنے لگی۔ جانے کیوں اُس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی؟

"یہی کہ تُمہیں بھی مُجھ سے مُحبّت ہے!" وہ اُس کے قریب ہوتا اُس کی کلائی میں پڑی چوڑیوں کو چھو کر بولا تو وہ سِمٹ کر رہ گئی۔

"کہنا ضروری ہے؟" وہ سراپا سوال بنی اُسے مُسکرانے پر مجبور کر گئی۔

"کہنا تو ضروری نہیں مگر عمل کرنا زیادہ ضروری ہے۔ لفظوں سے نہیں رمل سے بتا دینا آج!" وہ معنی خیزی سے گویا ہوا تو نین گُل کا خُون اُس کے گالوں پر چھلکنے لگا۔ رانا عبّاس مبہوت سا اُس کی اُتھتی گِرتی پلکوں کا رقص دیکھنے لگا جو اُس کی ذرا سی بات پر ہی لرز کر رہ گئیں تھیں۔

"تُم رب کی طرف سے عطا ہو میرے لیے! جِس کا میں جِتنا شُکر ادا کروں کم ہے۔ تُمہیں تب پایا ہے جب تُمہیں پانے کی ساری اُمیدیں کھو چُکا تھا میں! اب تُمہیں سیپ کے موتی کی طرح سب سے چُھپا کر رکھوں گا تا کہ کوئی تُمہیں مُجھ سے چھین نا سکے۔" اُس کو ایک پہلو سے خُود سے لگائے وہ اُس کی کنپٹی پر لب رکھتا دھیمے دھیمے لہجے میں سرگوشی کر رہا تھا۔ اُس کی باتیں سُںتی نین گُل کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر نِکلا تھا۔ اُس نے بھی تو رانا عبّاس کو تب پایا تھا جب وہ اُسے پانے کی ہر اُمید کھو چُکی تھی۔ پہلے یہ آنسو غم کے آنسو تھے اور اب خُوشی کے!

"مُجھے کبھی چھوڑیں گے تو نہیں نا؟" اُس کے سینے سے لگی وہ جانے کیا سُننا چاہتی تھی؟ جانے اب کیا خدشات لاحق تھے اُسے؟

"رانا عبّاس کو اگر سانسوں اور نیناں میں سے کِیس ایک کو چُپنے کا بھی کہا جائے تو وہ اپنی سانسوں کو چھوڑ کر نیناں کو چُنے گا کیونکہ رانا عبّاس کی سانسیں نیناں کی سانسوں سے جُڑی ہیں۔ جب تک یہ چلتی رہیں گی رانا عبّاس کی سانسوں میں بھی روانی ہو گی۔ اگر یہ تھم گئیں تو رانا عبّاس کو بھی سانسیں لینے کا کوئی حق نہیں۔ نین گُل سے رانا عبّاس ہے اُس کے بغیر کُچھ بھی نہیں!" رانا عبّاس نے مضبوط لہجے میں اُسے اپنی زِندگی میں اُس کی اہمیت بتائی تھی جِسے سُن کر ایک سرشاری کی سی کیفیت نین گُل کے وجود میں اُتری تھی۔

اُس نے ہلکے سے اوپر چہرہ کرتے رانا عبّاس کی داڑھی سے بھری تھوڑی پر اپنا مہکتا لمس چھوڑا تھا جو اُس کی مُحبّت کا خراج تھا۔ رانا عبّاس اُس کی حرکت پہ بھونچکا ہوتا جُھک کر اُس کا اپنے سینے میں چُھپا سر دیکھنے لگا کہ چہرہ تو اوجھل کر رکھا تھا۔

"ہر عمل کا ردّعمل ہوتا ہے اور تُمہارے اِس عمل کا ردّعمل میں جلدی ہی دوں گا۔ ابھی باہِر جا رہا ہوں اور کھانا بھیجتا ہوں دھیان سے کھانا!" اُس کا گال تھپتھپا کر وہ مُحبّت سے کہتا باہِر نِکل گیا جبکہ وہ اپنی ابھی کُچھ دیر پہلے کی گئی حرکت کو سوچتی خُود ہی شرما کر اپنا چہرہ ہاتھوں میں چُھپا گئی۔


********************


وہ رانا عبّاس اور نین گُل کی تصویریں بنا کر باہِر آیا تو حمود اور نازنین کھانا ٹیبل پر لگا چُکیں تھیں۔ کھانا لگا کر حمود کِچن میں چلی گئی جبکہ نازنین اب خُود سب کو سرو کر رہی تھی۔ وہ خاموشی سے چختا کِچن کی جانِب بڑھا جہاں وہ کھڑی اپنے دھیان میں کِچن میں پھیلا سامان سمیٹ رہی تھی۔ وہ کِچن کے دروازے میں کھڑا خاموشی سے اُسے کام کرتا دیکھتا رہا۔ خُود پر نظروں کی تپش محسوس کر کے وہ پلٹی تو اُس پر نظر پڑتے ہی حمود کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے جِسے رانا باقِر نے غور سے دیکھا تھا۔

وہ سُرعت سے رُخ موڑتی اُسے نظر انداز کر گئی تھی۔ رانا باقِر اُس چھوٹی سی لڑکی کی حرکتوں پر جِتنا حیران ہوتا کم تھا۔ اپنی عُمر سے بٹی باتیں کرنے والی یہ سمجھدار لڑکی رانا باقِر کو کیوں پسند تھی وہ خُود بھی نہیں جانتا تھا۔ نین گُل کے مُقابلے میں وہ اِتنی خُوبصورت نہیں تھی۔ سُنہری گندمی رنگت کی حامِل وہ لڑکی اپنے اندر دِلکشی بہت رکھتی تھی جِس کی جانِب وہ نا چاہتے ہوئے بھی کھینچا چلا جاتا تھا۔

"ویر سائیں کو اُن کی مُحبّت مِل گئی!" رانا باقِر نے کِچن میں داخِل ہوتے ہوئے کہا۔

"اُنہیں اُن کا نصیب مِلا ہے جو پہلے سے اُن کی قِسمت میں لِکھ دیا گیا تھا۔" حمود نے سپاٹ لہجے میں جتایا۔

"میرے نصیب میں بھی میری مُحبّت لِکھ دی گئی ہے اِسی لیے آج میں یہاں اپنی مُحبّت کے سامنے کھڑا ہوں۔" رانا باقِر نے معنی خیزی سے کہا تو وہ پلٹ کر تلخی سے اُسے دیکھنے لگی۔

"آپ کے نصیب میں وہ لِکھی گئی ہے جو آپ سے مُحبّت کرتی ہے اور اُس کی مُحبّت کی شِدّت آپ کی مُحبّت کی شِدّت سے کہیں زیادہ ہے اِسی لیے اُس کی مُحبّت اُس کا نصیب بنا دی گئی اور آپ کو آپ کی مُحبّت نہیں مِلی۔ اُس کی مُحبّت میں صداقت تھی آپ کی مُحبّت میں نہیں!" اُس کا لفظ لفظ زہر بن کر رانا باقِر کے دِل میں اُترا تھا۔

"میری مُحبّت میں صداقت کے ساتھ ساتھ ایمان داری بھی شامِل تھی جو کہ اُس کی مُحبٹو میں نہیں تھی پھر اُس کی مُحبّت اُسے حاصِل ہو گئی میری مُجھے کیوں نہیں؟" وہ دبا دبا سا غُرّایا تو وہ تمسخرانہ انداز میں اُسے دیکھنے لگی۔

"اگر اُس کی مُحبّت میں ایمان داری نا ہوتی تو وہ کبھی بھی آپ کے عقد میں کا ہوتی۔ اُن کی ایمانداری ہی یہ ہے کہ اُس نے جِسے چاہا اُسی کے ساتھ باوفا رہی، اُسی کو اپنانے کی راہ دیکھی نا کہ بے وفائی کر کے کِسی اور کا دامن تھاما۔ مُحبّت میں گُنہگار ہونے کی بجائے اپنی مُحبّت کو جائز بنا لیا۔ آپ کی مُحبّت آپ کو نظر آتی ہے مگر اُس کی مُحبّت نظر نہیں آتی جِس نے اپنی مُحبّت میں اپنی انا، اپنی خُودداری اور اپنی نسوانیت کے غرور کو روند دیا۔" حمود نے گویا قسم کھائی تھی اُس پر طنز کے نشتر برسانے کی اور وہ بخوبی یہ کام کر بھی رہی تھی۔

"غلط طریقے سے بلیک میل کر کے پایا ہے اُس نے مُجھے! جھوٹ بول کر حاصِل کیا ہے اُس نے مُجھے! میری بہن کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی اُس نے مُجھے پانے کے لیے!" وہ اُس کی ہر بات کی نفی کر رہا تھا۔

"اُس نے سچ بول کر آپ کو پایا! اُس نے اپنے بھائی سے کہا کہ وہ آپ سے مُحبّت کرتی ہے اِس میں جھوٹ کیا تھا؟ اُس نے کہا کہ آپ اُس سے نہیں کِسی اور سے مُحبّت کرتے ہیں اِس میں جھوٹ کیا تھا؟ اُس نے جو کیا آپ کے لیے آپ کی مُحبّت میں کیا مگر افسوس آپ کو اُس محبّت کی قدر نہیں ہے اور اگر مُحبّت کی بے قدری کی جائے نا تو وہ ہاتھوں سے ریت کی مانِند پھِسل جاتی ہے اور کبھی ہاتھ نہیں آتی! جانتے ہیں مُحبّت میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے "انا" انا کو روند کر مُحبّت پا بھی لی نا تو پایا بہت کم اور کھویا بہت زیادہ! "انا" کو روند کر مُحبّت رینگ تو سکتی ہے مگر چل نہیں سکتی اور دُرِشہوار نے آپ کے لیے اُس انا کو بھی روند دیا صِرف اِس لیے کہ وہ آپ کو چاہتی ہے۔ اپنی انا کو مار کر جو لڑکی آپ کو پانے کی چاہ کرے وہ لڑکی بے مول کیسے ہو گئی؟ اُس کے لیے تو آپ کی مُحبّت ہی سب کُچھ ہو گی نا؟ آپ اُس کے لیے تڑپ رہے ہیں جِسے آپ کی چاہ ہی نہیں اور جو آپ کے لیے چاہ رکھتی ہے اُس کا کیا؟ میرا آپ سے کوئی رِشتہ نہیں نا ہی کبھی ہو گا مگر وہ آپ کی منکوحہ ہے آپ کی محرم! جِس کی ہر خُوشی و غم کی ذِمہ داری آپ پر ہے جِس کے بارے میں روزِ قیامت آپ سے سوال کیا جائے گا! آپ کی بھی تو بہن ہے نا؟ سوچیں اگر اُس کا شوہر اُس کے ساتھ بھی وہی سب کرے جو آپ دُرِشہوار کے ساتھ کر رہے ہیں تو کیا وہ برداشت کر پائے گی؟ کیا آپ اپنی بہن کا غم برداشت کر پائیں گے؟ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ آپ کا کیا اُس کے سامنے آئے گا ایسا نہیں ہوتا۔ جِس نے جیسا کیا ہوتا ہے اُسے ویسا ہی بدلہ مِلتا ہے اُس کے حِصّے کا بوجھ خُدا کِسی بے قصور پر نہیں ڈالتا۔ مکافاتِ عمل اٹل ہے مگر اُس کے لیے جِس نے کِسی کے ساتھ بُرا کیا ہو۔ سورہ النجم میں ہے کہ کوئی بوجھ اُٹھانے والی جان کِسی دوسری کا بوجھ نہیں اُٹھائے گی۔ آپ کا کیا دُرفشاں کے سامنے نہیں آئے گا وہ اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہے اور آپ اپنے اعمال کے جوابدہ۔ زیادہ نہیں بس تھوڑا سا سوچیے گا کہ ایک زِندگی جو خُدا نے آپ کے ساتھ جوڑی ہے وہ اُس کا حِساب بھی لے گا۔ آپ مُجھ سے بڑے ہیں اور سمجھدار بھی! جو کریں گے اچھا ہی کریں گے مُجھے اُمید ہے۔" پُرسکون انداز میں حقیقت کا تجزیہ کرتی وہ لڑکی کہیں سے بھی چودہ پندرہ سال کی نہیں لگ رہی تھی۔

رانا باقِر کو وہ اپنے آپ سے کہیں بڑی اور سمجھدار معلوم ہوئی تھی جو اُسے اپنی نظروں میں پانی پانی کر گئی تھی۔ اُس کی ہر بات پر وہ خُود احتسابی کا شِکار ہوا تھا اور پھر اُس سے نظریں مِلائے بغیر کِچن سے نِکل گیا تھا۔ پیچھے وہ گہرے سانس بھرتی خُود کو پُرسکون کرتی شیلف سے ٹیک لگا گئی تھی پھر کُچھ پل بعد وہ ٹرے میں نین گُل کے لیے کھانا سجاتی اُس کے اور اپنے مُشترکہ کمرے کی جانِب بڑھ گئی۔


********************

وہ جِس وقت اپنے فلیٹ کے دروازے پر پہنچا رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ رات کے سائے ہر سو پھیلے ہوئے تاریکی میں اضافہ کر رہے تھے۔ ہر طرف ایک سکوت کا سا عالم تھا ایک جامد خاموشی تھی جو ہر طرف چھائی ہوئی تھی۔ اِس جامد خاموشی میں اُس کے چہرے کے تاثرات بھی جامد اور سپاٹ سے تھے۔ اپنی بانہوں میں سموئے وجود کو ایک نظر دیکھتے اُس نے اُس کے بے ہوش وجود کو اپنے سہارے کھڑا کیا اور دوسرے ہاتھ سے چابی نِکال کر اُس نے دروازہ کھولا۔ اُس کے بے حِس و حرکت وجود کو اُٹھائے وہ اب اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اپنے کمرے میں داخِل ہو کر اُس نے اُس کے وجود کو بیڈ پر مُنتقِل کیا اور خُود باہِر کی جانِب بڑھا۔ فلیٹ کا دروازہ لاک کر کے وہ دوبارہ اندر کی جانِب بڑھا اور اُس کے قریب پہنچ کر رُکا۔

اُس کا سارا وجود بھیگا ہوا تھا۔ سوتی کپڑے جِسم کے ساتھ چِپکے ہوئے تھے۔ اُس کی چادر بھی گیلی تھی جِس نے اُس کے جِسم کو ڈھانپا ہوا تھا۔ اُس کے لمبے سیاہ بالوں کی لمبی سی چوٹی بھی گیلی ہوئی پڑی تھی جو چادر سے آدھی باہِر جھانک رہی تھی جِس میں سے کُچھ بال چھوٹی سے باہِر نِکلے ہوئے تھے۔ اُس نے پہلی بار اُس کے بال دیکھے تھے اُسے اندازہ نہیں تھا کہ اُس کے بال اِتنے لمبے ہوں گے۔

سُنہری رنگت اِس وقت زرد سی لگ رہی تھی۔ بے ہوشی میں بھی اُس کے چہرے پر بے چینی کے تاثرات تھے جبکہ صبیح پیشانی پر بل پڑے ہوئے تھے۔ بے ساختہ اُس کی نظر اُس کے بازو پر پڑی تھی جو پھٹا ہوا تھا اور اُس کے بازو پر خراش بھی نظر آ رہی تھی۔ وہ اُس کے قریب بیڈ پر بیٹھا اور اُس کے بازو کا جائزہ لینے لگا۔ شاید گِرنے کی وجہ سے اُسے رگڑ آئی تھی۔ اُس نے اُس کا ماتھا چھو کر دیکھا جو تپ رہا تھا۔ تپش اِتنی زیادہ نہیں تھی مگر لگ رہا تھا کہ اگر وہ کُچھ دیر ایسے رہی تو بڑھ جائے گی۔

وہ کُچھ دیر یُوں ہی اُس کا چہرہ دیکھتا رہا جو بے ہوشی میں حد سے زیادہ معصوم لگ رہا تھا۔

لگتا تو ہوش میں بھی معصوم ہی تھا مگر اُس کی زُبان یہ معصومیت برقرار نہیں رہنے دیتی تھی۔ وہاں اُس سڑک پر سامنے موجود لڑکی کو بے یارومددگار دیکھ کر حیدر کے دِل پر کیا بیتی تھی وہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا تھا مگر یہ لڑکی سمجھتی بھی تو نہیں تھی کہ وہ اب حیدر کو سانسوں جیسی ضروری ہو گئی تھی جِس کی زرا سی تکلیف پر وہ تڑپ اُٹھتا تھا۔ اب بھی وہ خاموشی سے اُس کا بازو سہلاتا اُس کی جلن کم کرنے کا خُواہاں تھا۔ پھر جیسے یاد آنے پر اُٹھا اور کِچن سے پانی لے کر آیا۔ پانی کا چِھڑکاو اُس کے چہرے پر کرتا وہ اُس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ پانی چہرے پر پڑتے ہی وہ کسمساتی ہوش میں آنے لگی تھی۔

"نہیں!!!! چھوڑو! بچاو!" وہ دھیمے لہجے میں بڑبڑا رہی تھی مگر حیدر کو اُس کے الفاظ واضح سمجھ آئے تھے جِنہیں سُن کر اُس کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔ اُس نے جلدی سے اُس کا گال تھپتھپایا تھا۔

"نین گُل؟ اُٹھو! کُچھ نہیں ہوا تُم ٹھیک ہو دیکھو!" وہ نرمی سے اُس کا گال تھپتھپاتا کہہ رہا تھا۔ اُس کی مسلسل کوششوں سے وہ نیم وا آنکھیں کھولے اُسے تکنے لگی تھی شاید ماحول کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی پھر وہ یکدم جھٹکے سے اُٹھی تھی۔

"حیدر! حیدر!! حمین وہ ٹھیک ہے نا؟ کہاں ہے وہ؟ اُسے خطرہ ہے وہ مار دیں گے اُسے! اُسے بچا لو حیدر! اُسے بچا لو پلیز!" وہ اُس کا کالر تھامے یذیانی انداز میں چیخنے لگی تھی۔ اپنے حُلیے کی پرواہ کیے بغیر وہ اُس کے قریب سے قریب تر ہو گئی تھی جِس پر حیدر کو سانسیں لینا دِشوار لگنے لگا تھا۔

"وہ ٹھیک ہے کُچھ نہیں ہوا اُسے! ہوش کرو کیا کر رہی ہو؟" وہ اُس کی قُربت سے گڑبڑاتا اُسے پیچھے کرنے لگا تھا۔ اُس کی چادر بیڈ پر پڑی تھی اور خُود وہ بِکھری حالت میں اُس کے سامنے بیٹھی اِلتجائیں کر رہی تھی۔

"وہ اُسے مار دیں گے۔ تُمہیں کُچھ نہیں پتہ! مُجھے مُجھے گھر جانا ہے۔ مُجھے میرے بیٹے کے پاس جانا ہے۔" وہ اُس کو بات نا سُنتا دیکھ کر غُصّے سے چیختی بیڈ سے نیچے اُتری اور باہِر جانے لگی جب حیدر تیزی سے اُس کے پیچھے گیا تھا۔ اُس کا بازو پکڑنے کی کوشش میں اُس کی لہراتی گیلی چوٹی اُس کے ہاتھ میں آئی تھی جِس کی کِھنچاو کے وجہ سے وہ پیچھے کو کِھسکی تھی اور حیدر کے قریب آن رُکی تھی۔

"پاگل ہو گئی ہو؟ حُلیہ دیکھا ہے اپنا؟ حمین ٹھیک ہو گا۔ تُمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ وہ ٹھیک نہیں ہو گا؟ پہلے اپنا حُلیہ دُرست کرو پھر مُجھے بتاو کیا ہوا ہے پھر تُمہیں گھر لے کر جاوں گا میں! اِس طرح تُم یہاں سے ایک قدم بھی ہِل کر دِکھاو ٹانگیں توڑ دوں گا تُمہاری!" اُس کی چوٹی کو ہاتھ میں لپیٹتے وہ اُس کے کان کے قریب کھڑا غصّے سے غُرّا رہا تھا جبکہ پہلی بار اُس کو اِتنے غُصّے میں دیکھ کر وہ ڈر کر اپنی جگہ پر ساکن کھڑی رہ گئی تھی۔ پھر جب اپنے حُلیے کا احساس ہوا تو وہ خُود میں ہی سِمٹ گئی تھی جِسے محسوس کر کے وہ اُس کی چوٹی چھوڑتا رُخ موڑ کر کھڑا ہو گیا تھا۔

"میں باہِر جا رہا ہوں! الماری میں میرے کپڑے ہوں گے دیکھ لو اگر کُچھ مُناسب مِلتا ہے تو! میں تُمہارے لیے کُچھ کھانے کو لاتا ہوں۔" وہ غُصّہ دبا کر نرمی سے کہتا بغیر اُسے دیکھے باہِر کی جانِب بڑھ گیا پیچھے وہ اُسے جاتے دیکھ کر کب سے روکے آنسو بہانے لگی۔

روتے ہوئے وہ الماری کی جانِب گئی تھی۔ گیلے کپڑوں میں اب اُسے بھی سردی لگنے لگی تھی۔ الماری میں حیدر کے ترتیب سے کئی کپڑے ٹنگے ہوئے تھے جِن میں زیادہ پینٹ شرٹس ہی تھی مگر ایک طرف اُسے دو تین جوڑے شلوار قمیض کے نظر آئے۔ وہاں سے براون کلر کا ایک جوڑا نِکال کر وہ باتھ روم میں گُھس گئی۔ اُسے جلدی سے جلدی بُوا سے رانطہ کرنا تھا۔ اُسے یقین تھا کہ بُوا حِفاظت سے گھر پہنچ گئی ہوں گی مگر پھر بھی جانے کیوں دِل کو اندیشوں نے گھیرا ہوا تھا۔

پندرہ مِنٹ بعد وہ چینج کر کے باہِر آئی۔ حیدر کا سوٹ اُسے کافی کُھلا اور بڑا تھا مگر اُس نے آستین اور پائینچے فولڈ کر رکھے تھے۔ اِتنے کُھلے سوٹ میں وہ چھوٹی سی بچّی ہی لگ رہی تھی۔ اُس نے جلدی سے گیلی چوٹی کھولی اور بال بنانے لگی بال بنا کر اُس نے پُشت پر کُھلے چھوڑے۔ ایک نظر اپنا جائزہ لیا۔ اُس کے پاس دوپٹہ نہیں تھا اور جو

چادر تھی وہ گیلی تھی۔ اُس نے ایک بار پھر الماری کی طرف قدم بڑھائے اور اُس کے خانے کھنگالنے شروع کر دئیے اُس کی تلاش ناکام نہیں ہوئی تھی۔ ایک خانے میں اُسے تہہ کی ہوئی اجرک مِلی تھی جِس کے ساتھ دو گرم چادریں بھی رکھیں ہوئیں تھیں۔ اُس نے اجرک کھول کر کندھے پر اوڑھی اور حیدر کا انتظار کرنے لگی جِسے گئے اب آدھا گھنٹہ ہونے کو آیا تھا۔

اگلے کُچھ ہی پلوں میں حیدر ہاتھ میں ٹرے تھامے اندر داخِل ہوا مگر اُس پر نظر پڑتے ہی دروازے کی دہلیز پر ہی رُک گیا۔ براون کلر کے کُھلے سے مردانہ سوٹ میں ملبوس، کُھلے بِکھرے لمبے بال لیے، چہرے پر معصومیت اور. پریشانی کے تاثرات لیے، ایک کبدھے پر اجرک اوڑھے، بیڈ سے نیچے پاوں لٹکائے بیٹھی وہ اُسے اپنی زِندگی کا حِصّہ لگی تھی جو حق سے اُسی کے کمرے میں اُسی کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ کاش وہ مُکمّل اُس کی ہوتی! اُسے دیکھتے حیدر کے دِل نے شِدّت سے خُواہش کی تھی۔

"حیدر!" اُس کی نظر حیدر پر پڑی تو وہ بے ساختہ اُسے پُکارتی اُس تک آئی۔ حیدر چونک کر ہوش میں آیا اور دروازہ بند کرتا اُسے بیڈ پر بیٹھنے کا اِشارہ کرتا ٹرے بھی بیڈ پر رکھ گیا۔ ٹرے میں نوڈلز اور گرم گرم سوپ رکھا ہوا تھا۔

"حیدر مُجھے گھر بُوا سے بات کرنی ہے پلیز! مُجھے اپنا فون دے دو؟" اُس کے آنسو ایک بار پھر بہنے لگے تھے۔ حیدر نے پہلی بار اُسے اِتنا روتے ہوئے دیکھا تھا ورنہ جِس طرح کی وہ نظر آتی تھی حیدر کو نہیں لگتا تھا کہ وہ کبھی روئی بھی ہو گی۔

"پہلے رونا بند کرو! اگر رو کر مانگو گی تو نہیں دوں گا!" حیدر نے دو ٹوک کہا تو وہ جلدی سے اپنے آنسو صاف کر گئی یہ الگ بات تھی کہ آنسو پھر سے گالوں پر پِھسلنے لگے تھے مگر رونے کی آواز بند ہو گئی تھی۔

حیدر نے بے بسی سے اُسے دیکھا تھا۔ وہ اُسے کہنا چاہتا تھا کہ اُس کے آنسو اُسے تکلیف دے رہے ہیں مگر کہہ نہیں پا رہا تھا۔ یکدم وہ اُس کے سامنے بیٹھا تھا اپنی جیب سے فون نِکال کر پاسورڈ ہٹا کر اُسے دیا تو وہ جلدی سے نمبر ڈائل کر فون کان سے لگا گئی تھی۔ ایک اُنگلی دانتوں تلے چباتی وہ بے چین نظر آ رہی تھی۔ دوسری طرف سے فون نہیں اُٹھایا جا رہا تھا۔ اُس کا دِل سوکھے پتّے کی مانِند لرز رہا تھا اگر بُوا اگر گھر نا پہنچیں ہوئیں تو؟ اِس کے آگے وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔

"کوئی فون نہیں اُٹھا رہا حیدر!" وہ بھرّائے لہجے میں معصومیت سے جیسے اُس سے شِکایت کر رہی تھی۔

حیدر نے اُس کے گالوں پر بہتے آنسو دیکھے کر اپنے ہاتھوں کے پیالے میں اُس کا چہرہ بھرا تھا۔ وہ فون کان سے لگائے حیرانی سے اُسے دیکھنے لگی تھی جِس کا چہرہ آنسووں کے پار سے دُھندلا سا نظر آ رہا تھا۔

"تُم روتی ہو تو لگتا ہے جیسے اِس دِل پر اُداسی کی برسات ہو رہی ہے۔ مُجھے تُمہارا رونا اچھا نہیں لگتا تُم رویا مت کرو!" حیدر نے انگوٹھے سے اُس کے آنسو صاف کرتے کہا تو وہ اپنے آنسو پونچھتی اپنا چہرہ پیچھے کرتی پھر سے نمبر ڈائل کرنے لگی۔ حیدر نے پھیکی مُسکراہٹ چہرے پر سجائے اُس کا خُود کو نظر انداز کرنا دیکھا تھا۔

"بُوا! مُجھے سُن رہیں ہیں؟ آپ کو آواز آ رہی ہے میری؟" اچانک ہی دوسری طرف سے فون اُٹھا لیا گیا تھا جِس پر اُس کی جان میں جان آئی تھی جبکہ اُس کی خُوشی سے بھرپور آواز سُن کر حیدر نے مہکتے دِل سے اُسے دیکھ کر گہرا سانس بھرا تھا۔

"میری بچّی تُم ٹھیک ہو نا؟ کہاں ہو تُم؟ گھر کب آو گی؟" دوسری طرف سے بُوا نے بھی پریشانی سے پوچھا تھا۔

"میں ٹھیک ہوں! حمین کہاں ہے؟ آپ گھر پہنچ گئیں تھیں نا؟ سب ٹھیک ہے نا؟" اُس نے بے چینی سے پوچھا تھا۔

"ہاں ہاں حمین ٹھیک ہے اِس وقت وہ سو رہا ہے۔ میں گھر پہنچ گئی تھی تُم کہاں ہو؟" بُوا نے اُسے تسلّی دی تھی۔

"میں ٹھیک ہوں اور اِس وقت حیدر کے گھر پر ہوں۔ ابھی تو موسم بہت خراب ہے جیسے ہی ٹھیک ہوتا ہے میں گھر کے لیے نِکلتی ہوں!" اُس نے ایک نظر کِھڑکی پار ڈال کر کہا تھا جہاں سے ابھی بھی بارِش برسنے کی آواز سُنائی دے رہی تھی۔

"نہیں اِس وقت گھر مت آنا! رات بہت ہو گئی ہے۔ تُم وہیں رہو حیدر پر مُجھے پورا یقین ہے تُمہیں کوئی تکلیف نہیں ہونے دے گا۔" بُوا نے اُسے منع کیا تو اُس نے کن انکھیوں سے حیدر کا چہیر دیکھا جو نظریں جُھکائے بیڈ کی شیٹ پر نجانے کے تلاش رہا تھا۔

"جی بُوا! آپ اپنا اور حمین کا بہت خیال رکھیے گا۔ اللّٰہ حافِظ!" وہ بھیگے لہجے میں کہتی فون رکھ گئی۔ اُس نے فون حیدر کی جانِب بڑھایا جِسے اُس نے خاموشی سے تھام لیا۔

"تُم یہ سوپ پی لو بہتر محسوس کرو گی!" حیدر نے فون تھاما اور نرمی سے کہہ کر اپنے قدم باہِر کی جانِب بڑھائے۔

"شُکریہ؟" اُس نے یکدم حیدر کا ہاتھ تھاما تو وہ اپنی جگہ پر ساکت ہوا۔ حیرانی اور خُوشی کے مِلے جُلے تاثرات لیے وہ دھپ سے واپس اپنی جگہ بیٹھا تھا۔

"کِس لیے؟" اُس نے دبے دبے جوش سے پوچھا تھا۔

"ہر اُس چیز کے لیے جو تُم نے میرے لیے کی! مُجھے کام دیا، چوری جیسا کام کرنے سے بچایا، میری عِزّت کے ساتھ ساتھ جان بچائی!" اُس نے دھیمے لہجے میں کہا تو حیدر نے اُس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیکھا۔

"تُمہیں یہ سب کہنے کی ضرورت نہیں! مُحبّت کرتا ہوں تُم سے! تُمہارے لیے تو کُچھ بھی!" حیدر نے بغیر ہِچکچائے نرمی سے کہا تو وہ بغور اُس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ ہاتھ چھوڑ کر اب وہ سوپ پی رہی تھی۔

"کیوں؟" وہ سوالیہ ہوئی۔

"اِس کیوں کا جواب تو میرے پاس بھی نہیں ہے بس اچھی لگتی ہو مُجھے! بہت سے بھی بہت زیادہ!" حیدر نے سنجیدگی سے بتایا تو وہ اُسے دیکھتی رہ گئی۔

"مُجھ جیسی لڑکی سے مُحبّت؟ کیا ہے مُجھ میں ایسا؟" وہ ہنوز سوال کر رہی تھی۔ گھونٹ گھونٹ سوپ پیتی وہ اُس سے باتیں کر رہی تھی۔

"تُمہاری یہ کالی بڑی بڑی آنکھیں، تُمہاری سُنہری سُورج جیسی رنگت، تُمہارا اعتماد، تُمہاری مضبوطی، تُمہاری ہمّت اور پوری کی پوری تُم! میرے دِل پر ٹھا کر کے لگتی ہو! اِس سے زیادہ کیا وجہ بتاوں؟" وہ دِلکشی سے اپنے دِل کے مُقام پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا تو وہ اُس کے انداز پر بے ساختہ مُسکرائی۔

"ایک بات سچ سچ بتانا؟ ٹیکس لگتا ہے کیا؟" وہ کُچھ جُھک کر رازداری سے پوچھنے لگا تو وہ اُلجھن سے اُسے تکنے لگی۔

"تُم مُسکراتی بہت کم ہو نا تبھی پوچھا کہ ٹیکس لگتا ہے؟" حیدر نے شرارت سے کہا تو وہ نا چاہتے ہوئے بھی ہنس پڑی۔

حیدر کو لگا اُس کے کمرے میں یکدم ہی رونق چھائی ہو۔ وہ سر پیچھے پھینک کر ہر فِکر سے آزاد ہنستی ہوئی اُسے بہت اچھی لگ رہی تھی۔ اُس کے سر سے اجرک ڈھلک کر کندھوں پر آ چُکی تھی۔ اُس کے لمبے سیاہ گھنے بال حیدر کو اپنی طرف مائل کر رہے تھے۔

"ہنستی رہا کرو اچھی لگتی ہو!" حیدر نے کھوئے سے لہجے میں کہا تو اُس کی ہنسی کو بریک لگا۔

"کِس کے لیے ہنسوں؟" وہ کندھے اُچکا کر پوچھنے لگی جانے کیوں حیدر کو اُس کے لہجے میں یاسیت سی محسوس ہوئی۔

"میرے لیے!" حیدر نے جذب سے کہا تو وہ نظریں چُرا گئی۔

"اعتبار ہے مُجھ پر؟" حیدر نے بات کا رُخ بدلا۔

"اعتبار ہے تو رات کے اِس پہر بھی یہاں بیٹھی ہوں ورنہ ہوش آتے ہی یہاں سے جا چُکی ہوتی۔" اُس نے صاف گوئی سے کہا تو وہ سمجھتا سر ہلا گیا۔

"تو پھر یہ بھی بتا دو کہ تُم وہاں اِتنی بُری حالت میں کیوں تھی؟" حیدر کے سوال پر وہ نظریں جُھکائے سوچ میں پڑ گئی تھی۔

"اعتبار ہے نا مُجھ پر؟" حیدر نے ہوچھا تو وہ جُھکی نظروں سے سر ہلا گئی۔

"تو بتاو وہاں کیوں تھی؟ کیسے پہنچی وہاں اور حمین کو کِس سے خطرہ ہے؟" حیدر نے پھر سے پوچھا تو وہ نظریں اُٹھائے اُسے دیکھنے لگی۔

آنکھوں کے سامنے ماضی گھوم رہا تھا جِس میں خُوشیاں کم اور غم کے بادل زیادہ تھے۔ اُسے کھوئے دیکھ کر حیدر نے اُس کے سامنے چُٹکی بجائی تو وہ چونک کر اُسے دیکھنے لگی۔ پھر وہ اپنے ماضی کی کِتاب کا ورق ورق پلٹتی حیدر کو پڑھ کر سُنانے لگی جو اُس کی طرف مُکمّل طور پر متوجّہ تھا۔


******************


سبھی مہمان جا چُکے تھے۔ رانا باقِر بھی کھانا کھا کر رانا عبّاس سے مِل کر جا چُکا تھا۔ حمود نے اپنی نگرانی میں نین گُل کو کھانا کِھلایا تھا۔ وہ چینج کرنا چاہ رہی تھی مگر حمود نے منع کر دیا کہ رانا عبّاس کو بُرا نا لگ جائے۔ ابھی وہ اپنے ہی کمرے میں تھے۔ اِس سب میں رات کے سات بج چُکے تھے۔ پھر کُچھ دیر بعد وہ اُس کو رانا عبّاس کے کمرے میں لے آئی تھی اور اُس کمرے میں داخِل ہو کر اُس کی آنکھیں اندرونی منظر دیکھ کر خُوشی سے چمک اُٹھیں تھیں۔ سادگی سے ہوئے نِکاح پہ بھی رانا عبّاس نے اپنی دُلہن کے دِل میں کوئی حسرت ادھوری نہیں چھوڑنی چاہی تھی۔

کمرہ کافی بڑا تھا جِس کے وسط میں ایک جہازی سائز بیڈ تھا۔ دائیں طرف ڈریسنگ اور بائیں طرف ڈرسینگ روم تھا۔ کُچھ فاصلے پر اٹیچ باتھ روم تھا۔ کمرے کی واحد کِھڑکی اِس وقت بند تھی۔ بیڈ کراون اور پیرہانے کی طرف گُلاب اور موتیے کے ساتھ ساتھ مُلتخف رنگ برنگے پھولوں کے بُکے لگائے گئے تھے۔ بیڈ کے اوپر گُلاب کی پتیاں بِکھری ہوئیں تھیں جبکہ زمین پر بھی گُلاب کی پتیوں سے دِل بنے ہوئے تھے جِس میں اے اور این لِکھا ہوا تھا۔ جگہ جگہ کینڈلز جل رہیں تھیں کمرے کی لائٹ روشن تھی جِس میں یر چیز جگمگاتی لگ رہی تھی۔ نین گُل تو یہ سب دیکھ کر دھڑکتے دِل سے وہیں ساکن کھڑی رہ گئی تھی۔

اُس کا دِل آنے والے لمحات کا سوچ کر بے ساختہ ہی اُچھل کود کرنے لگا تھا۔ حمود نے اُسے بیڈ پر لا بِٹھایا تھا۔ اُس کی فراک کو بیڈ پر پھیلاتی وہ اُس کا گھونگٹ نِکال گئی تھی۔ اُس کے ساتھ کُچھ وقت گُزار کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی تھی جبکہ پیچھے نین گُل سر جُھکائے بیڈ ہر بیٹھی ہوئی اپنے رانا سائیں کا اِنتظار کر رہی تھی۔

تقریباً دس مِنٹ کے بعد ہی کمرے کا درازہ کُھل کر بند ہونے کی آواز سُنائی دی تھی۔ جِسے سُن کر وہ خُود میں سِمٹ کر رہ گئی تھی۔ رانا عبّاس ایک نظر اُس پر ڈال کر ڈریسنگ روم میں گُھس گیا تھا۔ دس مِنٹ بعد جب وہ باہِر آیا تو کاٹن کے ٹراوزر اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھا۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بال سنوارتے خُود پر پرفیوم چھڑکتے اب وہ نین گُل کی طرف بڑھا تھا۔ اُس کے سامنے بیٹھ کر اُس نے نرمی سے اُس کا گھونگھٹ اُٹھایا تھا اور نظر اُس کے چہرے پر پڑی تھی جِسے دیکھتے ہی بے ساختہ اُس کے چہرے پر مُسکراہٹ چھائی تھی۔ نین گُل نے یُوں آنکھیں میچ رکھیں تھیں جیسے کبوتر بِلّی کو دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کر کے خُود کو چُھپا ہوا تصور کر لیتا ہے۔

"نا میں بِلّی ہوں نا تُم کبوتر! آنکھیں کھول کر دیکھو بالکُل بھی ڈریکولا نہیں لگا رہا تُمہارا شوہر!" اُس کی تھوڑی تلے دو اُنگلیاں ٹِکاتے وہ شرارت سے بولا تو اُس نے دھیرے سے آنکھیں کھول کر اُسے دیکھا مگر پھر جلدی سے نظریں جُھکا گئی۔

"شرم۔۔۔۔ شرم آتی ہے رانا جی!" وہ اٹک اٹک کر بولی تو وہ دِلکشی سے ہنستا اُس کا کندھا چھو گیا۔ نین گُل جِھجھک کر پیچھے کو ہوئی تھی۔

"مُجھ سے کیسی شرم؟ شوہر ہوں تُمہارا! ویسے اچھا لگا کہ تُم میرا اِنتظار کر رہی تھی!" وہ مُحبّت سے بولا تو وہ آنکھیں اُس کی کالی آنکھوں میں گاڑھے خفگی سے اُسے دیکھنے لگی۔

"اور آپ اِتنی دیر سے مُجھے اِنتظار کروائے جا رہے ہیں۔ پہلے دُلہن کی منہ دِکھائی کرتے ہیں مگر آپ کو اپنی پڑی تھی!" اُس کے شِکوے پر رانا عبّاس کا قہقہہ کمرے میں گونجا تھا۔

"معاف کر دو اپنے رانا جی کو! آئیندہ کبھی آپ کو اِنتظار کی زحمت سے نہیں گُزرنا پڑے گا۔" اُس نے نرمی سے کہا تو وہ ایک بار پھر نظریں جُھکا گئی۔

"اچھا یہ دیکھو یہ میں تُمہارے لیے لایا تھا۔" اُسے چُپ دیکھ کر اُس نے سائیڈ ٹیبل کی دراز سے ایک ڈِبیہ نِکالی اور اُس کے طرف بڑھائی۔ نین گُل نے اُس کے ہاتھ سے وہ لمبی سی مخملی سُرخ رنگ کی ڈبیا پکڑی اور اُسے کھولا۔ اندر دو نفیس سی گولڈ کی پائلیں تھیں۔ نین گُل نے اُنہیں ہاتھ میں تھاما تو چھن چھن کی آواز کمرے میں گونجنے لگی۔

"یہ بہت پیاری ہے اور مہنگی بھی ہو گی نا؟" نین گُل نے خُوشی و پریشانی سے کہا تو وہ نفی میں سر ہلا گیا۔

"تُمہارا شوہر اِتنا امیر تو ہے کہ اپنی بیوی کے لیے کُچھ بھی خرید سکے اِس لیے آئیندہ تُم یہ سستے اور مہنگے کا حِساب رہنے دینا۔" رانا عبّاس نے نرمی سے اُسے ٹوکا تو وہ آنکھیں میچتی سر ہلا گئی۔ ابھی وہ آنکھیں کھولتی کہ اُسے اپنی پنڈلی پی رانا عباس کے ہاتھ محسوس ہوئے وہ ہڑبڑا کر آنکھیں کھولتی اُسے دیکھنے لگی جو دونوں پائلیں تھامے اُس کے پیروں کی زینت بنا رہا تھا۔

"میں پہن لوں گی رانا جی! آپ میرے پیروں کو تو مت چھوئیں!" وہ کُچھ خجل سی ہو کر بولی تھی۔

"تُم بیوی کِس کی ہو؟" اُس نے سنجیدگی سے سوال کیا۔

"آپ کی!" وہ نا سمجھی سے بولی۔

"جب تُم بیوی میری ہو تو تُمہارے پیر بھی میرے ہوئے۔ اب مُجھے اپنے پیروں کو چھونے سے کوئی روک نہیں سکتا تُم بھی نہیں!" رانا عبّاس پائل کا ہُک بند کر کے اُسے جتایا تو وہ سرشاری سے مُسکرا دی۔

"تُم پوری کی پوری رانا عبّاس کی ہو اِس لیے یہ شرمانا ورمانا، جِھجھک وِجھک چھوڑ دو اور ہاں ہر قِسم کی پریشانی بھی چھوڑ دو اب سے بس خُوش رہنا ہے۔" رانا عبّاس نے اُسے بانہوں میں بھرتے بیڈ سے اُٹھایا اور آئینے کے سامنے لا بِٹھایا۔

نین گُل تو اِس اچانک افتاد پر کوئی مزاحمت بھی نہیں کر پائی تھی۔

"مُجھے تُمہاری گردن پر اِس تعویذ کے عِلاوہ کُچھ اور نظر نا آئے۔ چینج کر کے فریش ہو جاو تُمہارے کپڑے باتھ روم میں ہینگ کر دئیے ہیں۔" اُسے تنبیہہ کر کے وہ بیڈ کی جانِب بڑھ گیا تو جیولری وغیرہ اُتارنے لگی۔ جیولری سے فارِغ ہو کر وہ دوپٹہ صوفے پر رکھتی باتھ روم کی جانِب بڑھ گئی۔ تقریباً پندرہ مِنٹ بعد وہ باہِر آئی تو اُس کا چہرہ کِسی بھی قِسم کی آرائش سے پاک تھا۔ لمبے گھنے سیاہ بال پُشت پر بِکھرے ہوئے تھے جبکہ چہرے پر پانی قطرے جِھلملا رہے تھے۔ بے بی پِنک کلر کے ٹراوزر اور ہاف سلیو شرٹ میں وہ کوئی ناُزک سی گُڑیا لگ رہی تھی۔ وہ باتھ روم کے دروازے میں کھڑی تھی جیسے جِھجھک رہی ہو۔ وہ اُس کی مُشکِل سمجھتا بیڈ سے اُٹھتا اُس تک آیا۔ اُس نے پہلی دفعہ ایسے کپڑے پہنے تھے جِس کی اُسے عادت نہیں تھی تبھی وہ کُچھ غیر آرام دہ محسوس کر رہی تھی۔

"بہت پیاری لگ رہی ہے میری نیناں! یہ کپڑے تُم پر ذیادہ سوٹ کر رہے ہیں مگر یہ تُم صِرف رات کے وقت میرے سامنے پہن سکتی ہو اوکے؟" اُس کا گال تھپتھپا کر وہ اُسے کِسی ننھی بچّی کی طرح پُچکار کر بولا تو وہ بھی معصومیت سے سر ہلا گئی۔

"اِتنی فرمانبرداری دِکھاو گی تو تُمہاری جان مُشکِل میں پڑ جائے گی۔ کبھی اِنکار بھی کر دیا کرو اپنے رانا جی کو!" رانا عبّاس نے یکدم اُسے زمین سے اوپر اُٹھاتے بیڈ کی طرف قدم بڑھاتے کہا۔

"شوہر کی بات نا ماننے سے گُناہ ہوتا ہے اِس لیے مانتی ہوں!" وہ سادگی سے بولی تھی جِس پر وہ سر ہلا گیا تھا۔

"تُم میرے خُوابوں کی تعبیر ہو نیناں جان! وہ تعبیر جو مُجھے تب مِلی جب میں نے وہ خُواب دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔ بہت مُشکِلوں سے پایا ہے تُمہیں اِس لیے اب کھونے کا حوصلہ نہیں ہے مُجھ میں! کبھی مُجھ سے دور مت جانا! ہمیشہ اپنے رانا جی کے پاس رہنا اور پِچھلے سارے غم بھول کر بس اپنے رانا جی کو یاد رکھنا!" اُسے بیڈ پر مُنتقِل کرتے وہ اُس کے گِرد مُحبّت بھرا حِصار قائم کرتا گھمبیر بوجھل آواز میں سرگوشیاں کرنے لگا تو وہ اُس کی ہر بات پر یقین کرتی لبیک کہہ گئی۔


********************


حویلی میں اِس وقت دِن کے سائے پھیلنا شروع ہوئے تھے۔ ایک نئی صُبح رات کا سفر طے کر کے دُنیا کے آنگن میں اُتری تھی۔ حویلی اِس وقت سنّاٹوں میں ڈوبی ہوئی تھی کیونکہ ابھی صُبح کے صِرف چار ہی بجے تھے۔ جہاں حویلی میں ہر سو ایک پُرسکون سا سکوت چھایا ہوا تھا وہیں حویلی کے ایک کمرے میں سوئے وجود کی آواز کمرے میں ہونے والی کھٹ پٹ سے کُھلی تھی۔ مُندی مُندی آنکھیں کھولے اُس نے کمرے کیں ہونے والے شور کا ماخذ جاننا چاہا تھا اور ماخذ جان کر اُس کی آنکھیں پوری کُھل گئیں تھیں۔

وہ دُرّے تھی جو ڈریسنگ کے سامنے کھڑی بال لپیٹ رہی تھی۔ اِردگِرد سے بے نیاز اپنے لمبے گھنے بال سمیٹ کر ڈھیلے سے جوڑے میں قید کر کے وہ مُڑی۔ صوفے پر رکھا دوپٹہ اُٹھایا اور باتھ روم میں گُھس گئی جبکہ وہ جو اُس کے وجود میں گُم تھا اُس کے غائب ہوتے ہی ہوش میں آیا۔ وہ شاید نماز کے لیے اُٹھی تھی۔ وہ بھی کُچھ سوچ کر اُٹھ بیٹھا اور جلدی سے جا کر الماری کے اوپری خانے میں موجود جائے نماز کو سب سے آخری خانے میں رکھ دیا۔ پھر دوبارہ بیڈ پر بیٹھ کر باتھ روم کے دروازے کو دیکھنے لگا۔ دُرّفشاں اُس کے لیے ایک سمندر بن گئی تھی ایسا سمندر جِس کے اِردگِرد خاردار جھاڑیاں اُگی ہوئیں تھیں۔

اُس سمندر کے قریب رہ کر بھی وہ پیاسا ہی تھا کیونکہ اُس پانی کو پینے کے لیے اُسے اُن کانٹے دار جھاڑیوں سے گُزرنا پڑتا جو دُرّے نے اپنے اِردگِرد قائم کر رکھیں تھیں اور اُن سے گُزرتے گُزرتے رانا جعفر کو زخموں کو سہنا پڑتا زخم وہ سہہ بھی لیتا اگر اُس کی پیاس بُجھ جاتی تو! دُرّے کی بے رُخی اُسے اذیّت ہی دیتی تھی جِس کو یہ سوچ کر وہ محسوس کرتا کہ وہ اِسی لائق تھا۔

وہ اِنہی سوچوں میں گُم تھا جب دُرّے باتھ روم سے باہِر آئی۔ رانا جعفر کو جاگا دیکھ کر وہ چونکی تھی جِسے وہ محسوس کر گیا تھا۔ اُس کے باہِر آتے ہی وہ جلدی سے باتھ روم میں جا گُھسا تھا جبکہ اُس کی پھرتی کو دُرّے نے کُچھ اچھنبے سے دیکھا تھا۔ پھر سر جھٹک کر وہ الماری سے جائے نماز نِکالنے لگی تھی جو اُسے مِل کے نہیں دے رہا تھا ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ آخری خانے پہ پہنچی تھی جہاں اُسے جائے نماز نظر آیا تھا۔ وہ جائے نماز نِکال کر مُڑی ہی تھی جب رانا جعفر باتھ روم سے نِکلتا نظر آیا۔ اُس کے چہرے سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے اور شرٹ کے بازووں کو کہنیوں تک فولڈ کر رکھا تھا۔

ماتھے پہ پڑے بال بھی بھیگے بھیگے سے لگ رہے تھے۔ اُسے خُود کو تکتا پا کر اور اُس کے ہاتھوں میں جائے نماز دیکھ کر وہ چالاکی سے مُسکرایا تھا۔

جائے نماز چُھپانے کا مقصد صِرف یہ تھا کہ وہ اُس سے پہلے نماز نا شروع کر لے اور وہ اپنی کوشش میں کامیاب ٹھہرا تھا۔

دُرّے نے اُس سے نظریں ہٹا کر دوپٹے کو حِجاب کی طرح باندھتے وہ کمرے کے ایک خالی اور صاف سُتھرے کونے میں جائے نماز بِچھانے لگی۔ اُسے نماز شروع کرتے دیکھ کر رانا جعفر نے جلدی سے الماری کے سب سے نِچلے خانے سے ایک اور جائے نماز نِکالا تھا اور دُرّے کے آگے بِچھایا تھا۔

دُرّے نے کُچھ حیرت سے اُسے دیکھا تھا۔ وہ نماز کبھی کبھار ہی پڑھتا تھا مگر جب بھی پڑھتا مسجِد میں جا کر پڑھتا تھا جو حویلی سے زیادہ دور بھی نہیں تھی اِسی لیے اُسے حیرت ہوئی تھی۔ اب وہ اُسے کیا بتاتا کہ وہ اپنی بیوی کو اپنی اِمامت میں نماز پڑھانا چاہتا ہے۔ دُرّے نے کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا بس نماز ادا کرنا شروع کی تھی۔ رانا جعفر نے بھی خاموشی سے نماز ادا کی تھی۔ ایک سکون سا تھا جو رانا جعفر کو اپنے رگ و پے میں اُترتا محسوس ہوا تھا۔

جانے کیسی ٹھنڈک تھی جو دِل کو بھائی تھی۔ نماز ادا کر کے اُس نے دُعا مانگی تھی جِس میں اُس نے اپنے حق میں دُرّے کے دِل کی نرمی مانگی تھی، اُس کے دِل میں اپنے لیے پہلی جیسی مُحبّت مانگی تھی جبکہ دُرّے نے اپنے عِلاوہ سب کی خُوشیوں کی دُعا مانگ کر جائے نماز سمیٹا تھا۔

رانا جعفر کے اُٹھنے سے پہلے وہ قُرآن پاک لے کر بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔ رانا جعفر کو یہ خاموشی بُری طرح کِھلی تھی۔ اُس کی توجّہ خُود پر نا دیکھ کر وہ چِڑا تھا تبھی بغیر کُچھ سوچے سمجھے آگے بڑھا تھا۔ اُس کے اُٹھے ہوئے ہاتھوں میں قُرآن پاک تھا اور رانا جعفر آگے بڑھتا اُسے سمجھنے کا موقع دئیے بغیر اُس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا تھا یُوں کہ اُس کے چہرے کا رُخ دُرّے کی طرف تھا اور اُس نے اپنے دونوں بازو اُس کی کمر کے گِرد حائل کر لیے تھے۔ دُرّے تو اُس کی حرکت اور جُراّت پر انگشتِ بدنداں رہ گئی تھی۔

اپنے گِرد رانا جعفر کا حِصار محسوس کر کے اُس کے دِل کی دھڑکن بڑھی تھی۔ وہ خاموشی سے اُس کو گھیرے ہوئے تھا اور دُرّے میں اِتنی ہمّت نہیں ہو رہی تھی کہ اُسے ٹوک دیتی۔ اِس شخص کی قُربت کے کئی خُواب اُس نے اپنی پلکوں پہ سجائے تھے۔ اُس کی مُحبّت و چاہت کا اِکلوتا وارِث تھا یہ شخص! خُود کو صِرف ایک شخص کے لیے محفوظ کر رکھا تھا اُس نے جِس کے وہ نِکاح میں تھی۔ جِس سے اُسے مُحبّت تھی بے حد بے اِنتہا مگر یہ قِسمت کی سِتم ظریفی تھی کہ اُسے اُس کی مُحبّت کا جواب مُحبّت سے نہیں مِلا تھا بلکہ مُحبّت تو کیا اُس کے حِصّے میں تو رانا جعفر کی ہمدردی بھی نہیں آئی تھی۔ وہ بے مول تھی جِس کو سب کے سامنے طلاق کا عندیہ سُنایا گیا تھا۔ یہ سب سوچتے اُس کا دِل کُرلایا تھا ۔ جو دھڑکنیں حد سے سِوا ہو رہیں تھیں اب اپنے معمول پر آ رُکی تھیں۔

کُچھ دیر اُسے یُوں ہی محسوس کر کے اُس کی طرف سے خاموشی محسوس کر کے رانا جعفر نے چہرہ اُٹھا کر اُسے دیکھا تھا جو اب پہلے کی طرح قُرآن پاک کی تِلاوت میں مصروف تھی۔ سُرخ و سپید چہرہ سپاٹ تھا جِس سے اُس کے دِل کے حالات کا پتہ نہیں چل پا رہا تھا۔ رانا جعفر نے گہرا سانس بھرتے اُس کی گود سے سر اُٹھایا اور اُٹھ کر اُس کے سامنے بیٹھا۔ دُرّے اب بھی بے نیاز سی بیٹھی تھی۔ اُس نے خاموشی سے اُس کے ہاتھ سے قُرآن پاک تھاما اور اُسے غلاف میں لپیٹ کر الماری میں جا رکھا۔ دُرّے اب بھی خاموش تھی اور اُس کی یہ خاموشی رانا جعفر کو بُری طرح چُبھ رہی تھی۔ وہ اُس کے سامنے بیٹھا اور اُس کا بازو تھاما جو لیٹنے کی تیاری کر رہی تھی۔

"مُجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے کمرے میں صِرف تُم ہی ہو میں نہیں! " رانا جعفر کا لہجہ شِکایت بھرا تھا۔

"جیسے دُرِفشاں کے ہونے نا ہونے سے رانا جعفر کو فرق نہیں پڑتا ویسے ہی رانا جعفر کے ہونے نا ہونے سے دُرِفشاں کو بھی فرق نہیں پڑتا! " سرد، بے تاثر لہجہ ہر قِسم کے جذبے سے عاری تھا۔

"تُم سے کِس نے کہا کہ مُجھے تُمہارے ہونے یا نا ہونے سے فرق نہیں پڑتا؟" اُس کا ہاتھ تھام کر اُس کا چہرہ اپنی طرف گُھمایا جو دُوسری طرف موڑ رکھا تھا۔

"کہنے نا کہنے سے ہی نہیں کبھی کبھی اِنسان کے عمل سے ابھی اُس کے دِل کے حالات کا پتہ چل جاتا ہے اور آپ تو اپنے دِل کے خیالات بہت اچھے طریقے سے مُجھ پر واضح کر چُکے ہیں۔" دُرّے کا لہجہ طنزیہ ہوا تھا۔

"اگر پتہ چل جاتا ہے تو تُمہیں میرے دِل کے جذبات کیوں محسوس نہیں ہو رہے جو چیخ چیخ کر صِرف تُمہیں پُکارتے ہیں؟ جو ہر لمحے، ہر پل تُمہیں اپنے پاس محسوس کرنا چاہتے ہیں؟ " رانا جعفر کا آنچ دیتا لہجہ جذبوں سے بوجھل تھا۔ دُرّے کے طنز کو یکسر نظر انداز کیا تھا۔

"رانا جعفر اِتنے رنگ بدلتا ہے کہ پتہ نہیں چلتا کِس رنگ پر یقین کروں! " دُرّے کی بات پر وہ پھیکا سا مُسکرایا تھا۔

"جانتا ہوں کہ مُجھ پر یقین کرنا تُمہارے لیے مُشکِل ہے مگر ایک بار موقع تو دو تُمہیں یقین کی اِتنی مضبوط ڈور تھماوں گا کہ ساری زِندگی وہ ڈور ٹوٹ نہیں پائے گی۔" رانا جعفر کا بے بس لہجہ سُن کر وہ پھیکا سا مُسکرائی۔

"ایک وعدہ تو وفا کر نہیں پائے یقین کی ڈور کیا تھمائیں گے؟" دُرّے کا اِشارہ اُس کی کُچھ دیر پہلے کی حرکت پر تھا جب وہ اُس کے قریب، اُسے اپنے حِصار میں لیے ہوئے تھا۔

"جو وعدہ لے چُکی ہو وہ میری جان کو آ گیا ہے۔ تُمہارے قریب ہو کر بھی تُم سے دور کیسے رہ رہا ہوں یہ بس میرا خُدا جانتا ہے۔ بہت مُشکِل ہے حاصِل سے دور رہنا!" رانا جعفر کا انداز، اُس کا لہجہ جانے کیوں دُرّے کو چُھبنے لگے تھے یہ مُحبّت بھرا انداز، یہ چاہت کا اِظہار تب تو نہیں تھی جب وہ اُس کے ایک اِشارے پر مر مِٹنے کو تیار تھی۔

"مطلب کہ اپنی بیوی سے دور نہیں رہ پا رہے؟" اُس کے دِل میں جانے کیا سمائی تھی کہ وہ ایک دم سے اُس کے قریب ہوتی اُس کے کان میں سرگوشی کی مانِند پوچھنے لگی۔ ہاتھ اُس کی کالر پر جمے تھے جِس کی وجہ سے وہ اُس کے کافی قریب آ چُکا تھا اِتنا کہ دُرّے کی سانسوں کی تپش وہ اپنے چہرے پر بخوبی محسوس کر سکتا تھا۔

"ہاں نہیں رہ پا رہا دور! اب تو یہ سزا ختم کر دو؟ اپنی غلطیوں پر پشیمان ہوں میں! اور کِتنی سزا دو گی اپنے آپ سے دور رکھ کر؟" رانا جعفر پل میں بہکا تھا تبھی اُس کی گردن کے گِرد ہاتھ رکھ کر وہ اُسے خُود سے قریب تر کر گیا تھا۔ دُرّے کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی تھی جِس پر وہ خُوش فہم ہوا تھا۔

"مطلب اپنی بیوی کے جِسم کی طلب جاگ گئی ہے؟ نتاشہ سے دِل بھر گیا تو اب ایک نیا وجود چاہیے آپ کو؟ کل کو پھر کِسی اور کی تلاش میں نِکل کھڑے ہوں گے ہے نا؟ اِجازت دے تو چُکی ہوں کہ جِس سے چاہے تعلُق رکھیں پھر کیوں یہاں پر ہیں؟" دُرّے اُس کے کان میں سرگوشی کرتی بولی تھی اور وہ جو اُس کے وجود کی خُوشبو میں مدہوش سا تھا پل بھر میں اُس کا نشہ ہوا ہُوا تھا۔ جھٹکے سے اُس سے الگ ہوتے وہ اُس کا چہرہ دیکھنے لگا تھا جہاں تمسخرانہ سے تاثرات تھے۔

"مُحبّت کرنے لگا ہوں تُم سے! نا نتاشہ نا کوئی اور اب صِرف دُرّفشاں ہے۔ اِتنی توہین مت کرو کہ میرا دِل مر ہی جائے!" وہ کرب زدہ سے لہجے میں بولا تو وہ بے رونق آنکھوں سے اُسے تکنے لگی۔

"مُحبّت میں تو بس مُحبّت ہوتی ہے وجود کی طلب نہیں پھر چاہے وہ وجود بیوی کا ہی کیوں نا ہو۔ یہ کیسی مُحبّت ہے جِس میں آپ کو ایک وجود سے دور رہنا مُشکِل محسوس ہو رہا ہے؟" دُرّے کا لہجہ اِستفسار کرتا ہوا تھا

"مُحبّت میں وصل بھی لازم ہوتا ہے جو دِل کو بہاروں سے بھرتا ہے۔ کون مُحبّت کرنے والا ہو گا جو وصل کی خُواہش نہیں رکھتا؟" رانا جفعر نے بے بسی سے جیسے اُسے سمجھانا چاہا تھا کیا وہ اُسے ہوس پرست مرد سمجھ رہی تھی؟

"اگر میں کہوں کہ کوئی ہے جو وصل کی خُواہش رکھے بغیر دُرّفشاں کو چاہتا ہے تو؟ اگر میں کہوں کہ کوئی ہے جِس کے لیے دُرّے کی خُوشی اور دُرّے کی ذات ہی اہمیت کی حامِل ہے تو؟ اگر میں کہوں کوئی ہے جِس کے لیے دُرّے کی عِزّت اُس کی اپنی عِزّت ہے اور وہ دُرّے سے اِتنی مُحبّت کرتا ہے کہ بغیر وصل کی خُواہش کیے بس دُرّے سے مُحبّت کرتا ہے تو؟ ایسی مُحبّت جِسے محسوس کر کے دُرّفشاں بھی اُس کی مُحبّت میں ڈوبنے لگی ہے۔" اُس کی آنکھوں میں اپنی بھوری آنکھیں ڈالے گال پہ گہرا بھنور لیے دِلکشی سے مُسکراتی وہ اُس کی دُنیا ہلا گئی تھی۔ کیا مطلب تھا اُس کی باتوں کا؟ جو جواب مِل رہا تھا وہ سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا۔

"کہنا کیا چاہتی ہو تُم؟" نا چاہتے ہوئے بھی اُس کا لہجہ سخت ہوا تھا جِسے محسوس کر کے وہ گہرا مُسکرائی تھی جِس سے اُس کے بھنور مزید واضح ہوئے تھے۔ رانا جعفر کا دِل اُس کی مُسکراہٹ میں ڈوب کر اُبھرا تھا۔

"مطلب اب دُرے کی زِندگی میں بھی وہ مرد ہے جو اُسے بے پناہ چاہتا ہے اور جِس کی مُحبّت کا جواب مُحبّت سے دیتے اب دُرّے بھی اُس سے مُحبّت کرنے لگی ہے۔ اِتنا حسین اور اِتنا دِلکش ہے وہ کہ دُرّے رانا جعفر کو بھولنے لگتی ہے۔ اُس کی ایک مُسکراہٹ کے بدلے دُرّے اُس کے لیے اب جان بھی۔۔۔۔۔ آہ۔" رانا جعفر کی ذات کو زلزلوں کی زد میں چھوڑے وہ مسلسل کِسی غیر شخص کی تعریفوں کے پُل باندھ رہی تھی جب ضبط کی حد ٹوٹتی پا کر رانا جعفر نے اُس کی زبان کو لگام لگائی تھی کہ وہ بات بھی مُکمّل نہیں کر پائی تھی۔ ایک وحشت ناک لمحہ دونوں کے درمیان آن ٹھہرا تھا جِس سے دُرّے کو اپنی سانسیں رُکتی محسوس ہوئیں تھیں۔

"اپنے شوہر کو اِتنا مت آزماو کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ تُمہاری بھی جان لے لے۔ تُمہاری بے رُخی، نفرت، لاپرواہی، بے نیازی، غُصّہ، شِکوے شِکایات سب برداشت کر سکتا ہوں مگر ابھی اِتنا بے غیرت نہیں ہوا کہ تُمہاری مُحبّت میں، تُمہارے منہ سے کِسی غیر کی تعریفوں کے نغمے سُنوں!" اُس کو آزادی بخشتا وہ سرد لہجے میں بآور کروانے لگا تھا جبکہ وہ بہتے آنسووں کے ساتھ ہونٹوں پر لگا خُون صاف کرنے لگی۔ وہ تو اِمتحان لے رہی تھی اُس مُحبّت کے دعویدار کا کہ وہ اُس پر اعتبار بھی کرتا ہے یا صِرف جھوٹی مُحبّت کا دم بھرتا ہے اور اُس کے الفاظ اور ردّعمل نے دُرّے کو بتا دیا تھا کہ مُحبّت بھی جھوٹی اور اُسے اپنی بیوی پر اعتبار بھی نہیں۔

"تو کیا میں بے غیرت ہوں جِس کا شوہر دھڑلے سے کِسی غیر کی مُحبّت کے دم بھرتا پھرے اور میں اُسے سزا بھی دینے کا حق نہیں رکھتی؟ کروں گی بات میں اُس کے بارے میں! مُحبّت کرتی ہوں اُس سے اور آپ سے الگ ہو کر اُسی سے شادی کروں گی نہیں رہنا آپ کے ساتھ مُجھے!" غُصّے سے اُس کا کالر دبوچ کر وہ روتے ہوئے اُس کے سینے پر مُکّہ مارتی ہوئی بولی تو وہ اُس کا مُٹھی بنا ہاتھ اپنی گرفت میں قید کرتا لبوں سے لگا گیا۔

"وہ جِس کا وجود بھی نہیں ہے اُس سے مُحبّت کی دعویدار ہو تُم! وہ جو کوئی ہے ہی نہیں اُس کی تعریفوں کے پُل باندھ رہی ہو۔ اُس کے ساتھ شادی کرنی ہے جِس کی کوئی حقییقت نہیں! اور میرا کیا؟ میں اِتنا بڑا مرد تُمہیں نظر نہیں آتا؟ یا نظر خراب ہو گئی ہے؟" سنجیدگی سے کہتے وہ اُس کی کمر کے گِرد بازو حائل کرتا اُسے بے بس کر گیا تو وہ خُود کو چُھڑوانے کی کوشش کرنے لگی۔

"وہ ہے! مِلوا دوں گی اُس سے؟ کروں گی اُس کی تعریف! اُسی سے شادی بھی کروں گی!" وہ ضِدّی لہجے میں بولی تو وہ ہنستا چلا گیا۔

"پہلے تُم سے مُحبّت نہیں کرتا تھا مگر اعتماد تب بھی تھا تُم پر! راناوں کا خون ہو تُم! کبھی ایسا کوئی کام نہیں کر سکتی جِس سے ہماری عِزّت پر حرف آئے اِتنا یقین ہے مُجھے تُم پر! اور اب جب مُحبّت کرنے لگا ہوں تو تُمہیں لگتا ہے کہ تُم مُجھے یُوں ستاو گی اور مُجھے پتہ نہیں چلے گا؟ رہی بات سزا کی تو دے تو رہی ہو تُم! اب کیا جان لو گی بچّے کی؟" رانا جعفر نے اُس کا ہونٹ سہلاتے نرمی سے کہا تھا۔ وہ اُس پہ اعتبار کرتا تھا اور اُسے لگا تھا کہ وہ اِس اِمتحان میں بھی فیل ہو گیا مگر وہ اپنی باتوں سے اُس کے دِل کے گِرد حائل ایک دیوار گِرا گیا تھا۔ وہ بغیر مزاحمت کیے اب اُس کے حِصار میں پڑی تھی۔

"ہننہہ سزا! یہ سزا ہے؟ جب دِل چاہتا ہے زبردستی پاس آ جاتے ہیں جب دِل چاہتا ہے مُجھے تکلیف دیتے ہیں جب جو دِل چاہتا ہے کرتے ہیں یہ سزا ہے؟ آپ کی مرضی سے ہوتا ہے سب کُچھ! میری کوئی اہمیت نہیں تو میری دی سزا کی کیا ہو گی؟" دُرّے کا اِشارہ اُس کی کُچھ پل پہلے کی حرکت کی طرف تھا۔

"تُمہاری ہی اہمیت ہے اب! تُم جو دِل چاہے کرو کوئی تُمہیں نہیں روکے گا۔ سزا بھی دے لو مگر پھر اِس سزا کے بعد مُجھے معافی بھی چاہیے؟" رانا جعفر نے نرمی سے کہا تھا۔ بازو ہنوز اُس کی کمر کے گِرد حائل تھے۔

"وہی سزا قائم ہے جِس کا وعدہ کیا تھا کہ آپ میری اِجازت کے بغیر مُجھے ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے۔" دُرّے نے یاددُہانی کروائی تو وہ معنی خیزی سے مُسکرایا۔ اُس شخص کی قُربت میں اُس کا دِل ڈانواں ڈول ہونے لگا تھا۔ اپنے دِل کی بے بسی اور بغاوت پر شدید طیش آیا تھا اُسے!

"پکّا وعدہ! ہاتھ نہیں لگاوں گا جب تک تُم نہیں کہو گی!" اُس کے گِرد گرفت سخت کرتے وہ اُسے مزید خُود سے قریب کر گیا تھا مگر ہاتھ اُس کے وجود سے ٹچ بھی نہیں ہو رہے تھے۔ دُرّے کی دھڑکنیں الگ ہی ہلچل مچا رہیں تھیں جِب کہ اِن آوازوں سے تنگ آتی وہ چیخی تھی۔

"یہ کیا ہے پھر؟ مت چھوئیں مُجھے!" وہ اُس کی گرفت میں مچلی تھی۔ صُبح صُبح وہ دونوں اپنی ضِد اور بحث میں یہ بھول گئے تھے اُنہیں باہِر بھی جانا ہے۔

"تُم نے کہا کہ بس ہاتھ نہیں لگانا! اب مُکرو مت اپنی بات سے! ہاتھ نہیں لگا سکتا گلے تو لگا سکتا ہوں نا!" معنی خیزی سے کہتا وہ ایک بار پھر اُس کو قابو کر گیا تو بے ساختہ دُرّے کی آنکھوں سے آنسو پھوٹ نِکلے۔ جِنہیں اپنی گردن پر محسوس کر کے وہ حواس باختہ ہوا۔

"میری طرح میری سزا بھی بے مول ہے۔ اگر اِتنی اہمیت ہوتی تو میری سزا قبول کرتے نا کہ یُوں چھچھوری حرکتیں کرتے۔ کوئی مُحبّت نہیں آپ کو جھوٹ بولتے ہیں کل کو پھر بھرے مجمعے میں مُجھے طلاق کا پروانہ سُنا کر کہیں گے یہ کرو ورنہ طلاق دے دوں گا۔" آنسو بہاتی خُود اذیّتی سے بولتی وہ رانا جعفر کی ساری شرارت ختم کر گئی تھی۔ وہ جو تب سے زرارتی سا اُس کے غُصّے، اُس کی کڑوی باتوں کو ہلکا لے رہا تھا اب سنجیدہ سا ہوتا اُسے خُود سے الگ کر کے خُود اُس کے سامنے بیٹھا۔

"کیا چاہتی ہو؟ الگ ہونے کے عِلاوہ جو بھی سزا دو گی قبول ہو گی۔ رانا جعفر زُبان دیتا ہے تُمہیں! مگر اِس سزا کے بُھگتنے کے بعد معافی شرط ہے؟" بے دِلی سے اُس کے سامنے ہاتھ کرتے وہ گویا ہوا تو وہ سر ہلاتی اُس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ گئی۔

"اپنا وعدہ نِبھائیں گے میری اِجازت کے بغیر میرے قریب تک نہیں آئیں گے!" اُس نے کہا تو وہ آنکھیں میچے اُس کے نرم و نازُک ہاتھ کی نرماہٹیں محسوس کرنے لگا۔

"رانا جعفر کا وعدہ ہے وہ تُمہاری اِجازت کے بغیر کبھی تُمہیں ہاتھ نہیں لگائے گا! مُدّت کا تعین بھی کر دو؟" آخر میں لہجہ سوالیہ ہوا تھا۔

"زِندگی بھر کی مُدّت بھی ہو سکتی ہے۔" دُرّے کے لہجے پر وہ سر ہلاتا پھیکا سا ہنسا۔

"عُمر بھر اِنتظار ریے گا معافی کا۔" مضبوط لہجے میں کہہ کر وہ اُس کا ہاتھ چھوڑتا اُٹھا اور کمرے سے باہِر نِکل گیا۔

پیچھے وہ اپنے ہاتھ کو دیکھتی دروازے کو دیکھنے لگی۔ رانا جعفر کے لہجے کی سچّائی، اُس کی کالی آنکھوں کی اُداسی اور یاسیت اچھی طرح سے اُس پر واضح تھی۔ وہ چاہتی تو معاف کر دیتی اُسے مگر اُس کی خُودداری اور انا اُسے اِس بات کی اِجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ اپنے آپ کو اُس کے سامنے مزید بے مول کرے۔ وہ کہتا تھا کہ اُسے اُس پر یقین یے مگر خُود اُس نے کبھی دُرّے کو یقین نہیں دیا تھا تو وہ کیسے بھروسہ کر لیتی کہ وہ ایک بار پھر وہی سب نہیں رکے گا جو پہلے کر چُکا تھا۔ مُحبّت ایک طرف مگر اُس کی عِزّت نفس ہر چیز سے پہلے تھی۔ وہ اُسے آزمانا چاہتی تھی اگر وہ اپنی آزمائش پر ہورا اُترتا تو وہ اُسے معافی کا عندیہ دے دیتی لیکن اُس نے فیصلہ کر لیا تھا اگر رانا جعفر ناکام ٹھہرا تو اُن دونوں کے راستے جُدا ہوں گے۔


**********************


اِس وقت حویلی کے ہال میں،کِھڑکی میں کھڑی وہ باہِر جانے کیا دیکھ رہی تھی جب ہال میں رکھا لینڈ لائن بجنے لگا۔ وہ بے دھیانی سے وہیں کھڑی رہی کہ کوئی مُلازمہ اُٹھا لے گی۔ لیکن جب ہانچ مِنٹ بعد بھی کِسی نے فون نہیں اُٹھایا تو وہ بوجھل قدموں سے فون کی جانِب بڑھی۔ ایک افسردگی سی تھی جو اُس کی طبیعت پر چھائی ہوئی تھی اور یہ تب سے تھی جب سے رانا باقِر حویلی سے شہر جا کر بس گیا تھا۔ اُس کی یہ خاموشی سب گھر والوں کو پریشان کر گئی تھی۔ سب کے پوچھنے پر بھی اُس نے کُچھ نہیں بتایا تھا۔ اُس کی اِس چُپی سے صِرف دُرفشاں ہی واقِف تھی جو اُس کو اُداس دیکھتے دو سے تین دفعہ رانا باقِر سے اُس کے بارے میں بات کر چُکی تھی اور رانا باقِر دُرشہوار کا ذِکر آتے ہی یا تو فون کاٹ دیتا یا دُرّے کو سختی سے اُس کے متعلق بات کرنے سے ٹوک دیتا جِس پر وہ دِل مسوس کر رہ جاتی۔

نارسائی کے دُکھ سے وہ اچھے سے واقف تھی اور جانتی تھی کہ دُرّشہورا پر کیا بیت رہی ہو گی مگر وہ چاہ کر بھی اُسے اِس اُداسی سے نِکال نہیں پا رہی تھی۔

رانا جعفر بھی اپنی بہن کی اُداس شکل دیکھ کر سمجھ رہا تھا وہ دُکھ جو وہ انجانے میں دُرّفشاں کو دے چُکا تھا۔ دُرشہوار کا چہرہ دیکھتے اُسے رانا باقِر کی بے بسی محسوس ہوتی تھی کیسے وہ اپنی بہن کی خاطِر اُس کی بات ماننے پر راضی ہوا تھا۔ جہاں وہ اپنے کیے پر پشیمانی محسوس کرتا وہیں ندامت کے اتھاہ سمندر میں گھِرتا چلا جاتا اُس میں اب اِتنا حوصلہ بھی نہیں تھا کہ وہ دُرشہوار کو تسلّی کے دو بول بول پاتا۔ اُس کے حِصّے کا یہ کام بھی دُرّے ہی کرتی تھی۔

وہ لینڈ لائن تک آئی تو فون بج بج کر بند ہو چُکا تھا۔ وہ اُکتا کر واپس پلٹنے لگی جب فون دوبارہ بج اُٹھا۔ اُس نے آگے بڑھ کر فون اُٹھایا اور کان سے لگایا۔

"اسلامُ علیکُم!" اپنے لہجے کی بے زاریت کو چُھپائے وہ نارمل لہجے میں بولی تھی مگر اگلی جانِب سے خاموشی کے سِوا کُچھ محسوس نا ہوا۔

"کون؟ آپ کو آواز آ رہی ہے؟ کون ہے؟" دُرشہوار نے دوبارہ ہوچھا تھا مگر جواب ندارد!

"میں ہوچھ رہی کون ہے؟ بات نہیں کرنی تھی تو فون کیوں کیا؟ اپنی طرح فارِغ سمجھا ہے کیا؟" وہ چٹخ ہی اُٹھی تھی۔

"اب فون مت کرنا ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔" دھمکی دے کر وہ فون بند کر گئی تھی۔ اپنے غُصّے اور جھنجھلاہٹ پر قابو پاتی وہ اپنے کمرے کی جانِب بڑھنے لگی جب فون ایک بار پھر بج اُٹھا۔

"کیا تکلیف ہے؟ جب بات نہیں کرنی تو فون کیوں کر رہے ہیں آپ؟" وہ دبے دبے سے انداز میں چیخی تھی۔

"یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا؟ تمیز ساری بھول گئی ہو کیا؟" اچانک دوسری طرف سے سرد آواز سُن کر اُس کے ہاتھوں سے فون چھوٹتے چھوٹتے بچا تھا۔

"باقِر سائیں؟ معاف۔۔۔۔۔ کیجیے گا مُجھے لگا کوئی۔۔۔۔ جان بوجھ کر تنگ۔۔۔۔۔۔۔ کر رہا ہے۔" ایک تو وہ پہلے ہی ناراض تھا اوپر سے اُس کی بدتمیزی پر تو شاید اُس کا قتل کرنے کے درپے آ جاتا تبھی اُس کا غُصّیلہ لہجہ سُن کر وہ سٹپٹاتی معذرت کر گئی تھی۔

"یہ اچھا ہے پہلے غلطی کرو پھر معافی مانگ کر خُود کو اچھا ثابت کر لو!" رانا باقِر کا طعنہ سُن کر وہ چُپ رہی تھی۔ کہتی بھی تو کیا اُس نے اور اُس کی ضِد نے اُسے کُچھ کہنے کے لیے چھوڑا ہی نہیں تھا۔

"خیر میں نے تُم سے یہ فالتو کی بحث کرنے کے لیے فون نہیں کیا ہے۔ ضروری بات کرنی ہے۔" رانا باقِر کی بات سُن کر اُس کا دِل ناخُوشگوار انداز میں دھڑکا تھا۔

"کِس سے؟" اُس نے بے ساختہ پوچھا تھا۔

"جِس سے میں اِس وقت بات کر رہا ہوں اُسی سے!" رانا باقِر نے کہا تو وہ حلق تر کرتی اُس کے آگے بولنے کا اِنتظار کرنے لگی۔

"میں نے سُنا ہے کہ تُمہیں اپنے شوہر سے بہت مُحبّت ہے جِس کے لیے تُم نے اُس کی بہن کے ولیمے پر اُس کی عِزّت کا تماشہ بنا دیا؟" رانا باقِر نے سوالیہ انداز اپنایا تھا مگر لہجہ حد درجہ تلخ تھا۔

"مُحبّت تو جان سے زیادہ ہے مگر میں نے ایسا کُچھ نہیں کیا!" وہ تڑپ اُٹھی اِس اِلزام پر!

"جو پوچھا ہے صِرف اُسی کا جواب دو کوئی صفائی نہیں مانگی میں نے تُم سے!" رانا باقِر نے سرد لہجے میں بآور کروایا تو وہ اپنی سِسکی دبا گئی۔

"جی!" وہ یک لفظی جواب دے کر اُس کی سُننے لگی۔

"سُنا ہے جِس سے مُحبّت ہو اُس کی خوشی کو ملحوظِ خاطِر رکھا جاتا ہے؟ اُس کی خُوشی کا خُود سے بڑھ کر خیال رکھا جاتا ہے؟ اپنے محبوب کو اُس کی ہر خامی و خوبی سمیت اپنایا جاتا ہے؟ وہ جو کہے اُسی پر سر خم کیا جاتا ہے؟ محبوب کو پانے نہیں بلکہ اُس کی چاہ میں رنگنے اور صِرف چاہنے کا ناک مُحبّت ہے؟" رانا باقِر نے ایک ہی سانس میں اُس سے کئی سارے سوال کیے تھے مگر سب سوالوں کا معنی ایک ہی تھا جِن کا جواب بھی ایک ہی بنتا تھا۔

"جی یہی سچ ہے محبوب کی خُوشی میں خوش ہونے اور اُس کی چاہ میں رنگنے کا نام مُحبّت ہے۔" دُرشہوار نے اُس کی کہی ہر بات کی تائید کی تھی۔

"تو اگر میں کُچھ چاہوں گا تو تُمہیں بُرا تو نہیں لگے گا؟ ظاہِر ہے تُم مُجھ سے مُحبّت کرتی ہو تو میری خُوشی میں ہی تُمہاری خُوشی ہو گی؟" رانا باقِر نے اِستفسار کیا تو وہ ڈوبے دِل سے سر ہلا گئی مگر وہ کہاں دیکھ رہا تھا؟

"ہاں آپ کی خُوشی میں ہی میری خُوشی ہے۔" اُس نے خُود کو کہتے سُنا تھا۔ اُس کا دِل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ یہ مت کہو ورنہ کُچھ بُرا ہو جائے گا مگر اپنے محبوب شوہر کے ہر سوال پر وہ ہاں کی مُہر لگا گئی تھی۔

"میری خُوشی میری مُحبّت میں ہے جِسے میں کھو چُکا تھا مگر اب پا لیا ہے۔ تُم مُجھ سے مُحبّت کرتی ہو مگر میں کِسی اور سے! ابھی تُم نے ہی کہا کہ جِس سے مُحبّت کی جائے اُس کی خُوشی میں خُوش ہونا ہی عاشِق کا کام ہوتا ہے اور میری خُوشی میری مُحبّت میں ہے جِسے میں اپنا محرم بنانے والا ہوں۔ میں اُس کے بغیر نہیں رہ سکتا جیسے تُم میرے بغیر نہیں رہ سکتی! میں تُم سے اِجازت نہیں لے رہا صِرف بتا رہا ہوں تا کہ تُمہیں کوئی شِکوہ نا رہے کہ میں نے تُم سے یہ بات چُھپائی۔ بہت جلد میں اُس سے شادی کر لوں گا مگر فِکر مت کرو میں اُسے گاوں میں نہیں رکھوں گا بلکہ شہر والے گھر میں رکھوں گا۔" دُرشہوار کی ذات پر دھماکے کر کے وہ ُپرسکون سا بول رہا تھا جبکہ دُرشہوار کو لگا کہ وہ سنّاٹوں کی زد میں ہے۔

"مُجھے تُمہاری خُوشیوں کا بھی احساس ہے جب تُم رُخصتی کے قابِل ہو جاو گی تو میں رُخصتی کروا لوں گا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ ہمارے رِشتے کی وجہ سے میری بہن کو مزید کِسی اِمتحان سے گُزرنا پڑے۔ اگر میں نے تُم سے رِشتہ توڑا تو تُمہارا بھائی میری بہن کو چھوڑ دے گا اور میں اپنی بہن کی زِندگی برباد نہیں کرنا چاہتا۔ مُجھے اُمید ہے کہ میری خُوشی کی خاطِر تُم میری دوسری شادی کی بات کِسی کو نہیں بتاو گی۔ دُرّے تُمہاری بھی بہن ہے یقیناً تُم اُس کی زندگی برباد نہیں کرنا چاہو گی؟" رانا باقِر کی اگلی بات اُس کے کانوں میں صور پھونک گئی تھی۔ وہ تو پتھر کا مُجسمہ بنی کھڑی رہ گئی تھی جِس میں جان ہی باقی نا ہو۔

"اب بولو کیا تُمہیں میرے کِسی فیصلے ہر اعتراض ہے؟ اگر ہے تو بتا دو تا کہ میں تُماہرے اور اپنت رِشتے کے متعلق کوئی آخری فیصلہ کر سکوں کیونکہ میں تُم سے دستبردار ہو سکتا ہوں مگر اپنی مُحبّت سے نہیں! تُم تو سمجھ سکتی ہو نا مُحبّت کو کھونے کا درد؟" رانا باقِر کی تلخی بات نے اُس کے دِل پر آخری ضرب لگائی تھی اور وہ ٹوٹ کر کِرچی کِرچی ہو گیا تھا۔

"مُجھے آپ کے کِسی فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ آپ کو آپ کی مُحبّت مُبارک ہو۔ آپ کی خُوشی میں ہی میری خُوشی ہے میں اِنتظار کروں گی آپ کا! ہمیشہ آپ کے نام سے منسوب رہنا چاہتی ہوں۔ بہت مُحبّت کرتی ہوں آپ سے اور نہیں چاہتی کہ میرے نام سے آپ کا نام الگ ہو!" دُرشہوار کے لبوں سے یہ بات سُنتے اُس نے پُرسکون سانس بھرا تھا۔

"بہت شُکریہ! میں کوشش کروں گا کہ تُمہاری حرکت کو بھول کر تُمہیں تُمہارا حق دے سکوں۔ میرے فیصلے اور میری خُوشی کو قبول کرنے کا شُکریہ! ایک بات یاد رکھنا کہ حویلی میں کِسی کو بھی میری دوسری شاید کی خبر نا ہو!" رانا باقِر نے آخر میں تنبیہہ کی تھی۔

"آپ فِکر مت کریں میں کِسی کو خبر نہیں ہونے دوں گی! اللّٰہ حافِظ!" بے دِلی اور بھرّائے لہجے میں کہہ کر اُس نے فون رکھا تھا پھر اپنے گالوں کو چُھوا جو نم ہو چُکے تھے۔

اپنے آنسو پونچھتے وہ تیزی سے اپنے کمرے میں جا گُھسی تھی۔ وہ حویلی میں کِسی کو اپنے آنسو نہیں دِکھانا چاہتی تھی۔ رانا باقِر کی دوسری شادی کی بات سُن کر اُس نے کِس طرح خُود پر قابو کیا تھا یہ بس وہی جانتی تھی۔ وہ اُس سے نہیں کِسی اور سے مُحبّت کرتا تھا۔ اُس نے ضِد کر کے اُسے اپنا بنا بھی لیا تھا مگر وہ اُس کا نہیں ہو سکا تھا۔ اپنی پہلی غلطی کی سزا وہ رانا باقِر کی نظروں میں گِر کر بُھگت رہی تھی اور اب کوئی ایسی غلطی نہیں کرنا چاہتی تھی جِس کے نتیجے میں وہ رانا. باقِر کی زِندگی سے نِکل جاتی۔ رانا باقِر نے کہا تھا مُحبّت وہ ہوتی ہے جِس میں محبوب کی خُوشی معنی رکھتی ہے اور وہ بھی تو رانا باقِر سے مُحبّت کرتی تھی پھر وہ کیسے خُود غرض ہو گئی تھی؟ رانا باقِر کی خُوشی حمود میں تھی جِس سے وہ شادی کرنے والا تھا اور دُرشہوار نے اُسے کہہ دیا تھا کہ وہ اُس کی خُوشی میں خُوش ہے۔ وہ اب حمود سے شاید کرنے والا تھا تا کہ اپنی مُحبّت کو پا سکے اور دُرشہوار وہ سب کُچھ پا کر سب کُچھ کھو چُکی تھی۔

وہ تہی داماں رہ گئی تھی۔ کچّی عُمر کی پکّی مُحبّت اُس کے لیے اذیّت بن گئی تھی اور اِس اذیت میں شاید اب اُسے ساری زِندگی تڑپنا تھا۔

محبت ذات ہوتی ہے

محبت ذات کی تکمیل ہوتی ہے

کوئی جنگل میں جا ٹھہرے،

کسی بستی میں بس جائے

محبت ساتھ ہوتی ہے

محبت خوشبوؤں کی لَے

محبت موسموں کا دَھن

محبت آبشاروں کے نکھرتے پانیوں کا مَن

محبت جنگلوں میں رقص کرتی مورنی کا تَن

محبت برف پڑتی سردیوں میں دھوپ بنتی ہے

محبت چلچلاتے گرم صحراؤں میں

ٹھنڈی چھاؤں کی مانند

محبت اجنبی دنیا میں اپنے گاؤں کی مانند

محبت دل محبت جاں

محبت روح کا درماں

محبت مورتی ہے

اور کبھی جو دل کے مندر میں

کہیں پر ٹوٹ جائے تو

محبت کانچ کی گڑیا

فضاؤں میں کسی کے ہاتھ سے

گر چھُوٹ جائے تو

محبت آبلہ ہے کرب کا

اور پھُوٹ جائے تو

محبت روگ ہوتی ہے

محبت سوگ ہوتی ہے

محبت شام ہوتی ہے

محبت رات ہوتی ہے

محبت جھلملاتی آنکھ میں

برسات ہوتی ہے

محبت نیند کی رُت میں

حسیں خوابوں کے رستوں پر

سُلگتے، جاں کو آتے

رتجگوں کی گھات ہوتی ہے

محبت جیت ہوتی ہے

محبت مات ہوتی ہے

محبت ذات ہوتی ہے

(منقول)

*****************


رانا ہاشِم کو رانا عبّاس کی حرکتیں کُچھ مشکوک لگنے لگیں تھیں۔ جِس دِن سے وہ نواز علی کو دھمکا کر اُس گاوں سے بھیج چُکے تھے اُس دِن سے ہی رانا عبّاس کا شہر میں قیام کافی بڑھ گیا تھا۔ اُنہوں نے اہنے خاص آدمیوں کو رانا عبّاس کی نگرانی پر معمور کیا تھا مگر کُچھ بھی پتہ نہیں چل سکا تھا اور رانا عبّاس اب تک شہر میں ہی موجود تھا۔ رانا ہاشِم نے اُس سے شہر میں رُکنے کی وجہ پوچھی تھی مگر اُس نے یہی بتایا تھا کہ وہ وہاں کِسی کیس کے سِلسلے میں گیا ہے مگر رانا ہاشِم کو نجانے کیوں یقین نہیں آیا تھا۔ اُن کا کوئی بیٹا اُن سے جھوٹ بولنے کی گُستاخی نہیں کر سکتا تھا مگر اب اُنہیں رانا عبّاس سے بغاوت کی بُو آ رہی تھی۔

رانا عبّاس اِس عِلاقے کا اِنسپکٹر تھا مگر وہ اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر شہر چلا گیا تھا اور اپنے پیچھے سب اِسپکٹر کے حوالے سارے معاملات کر گیا تھا جِس کی اِطلاع اُنہیں اُن کا خاص آدمی دے چُکا تھا۔ اُنہوں نے راکا عبّاس کے ذاتی مُلازم کرمو سے بھی ہوچھ تاچھ کی تھی جو کہ گاوں میں ہی موجود تھا مگر اُس نے بھی وہی بتایا تھا جو اُنہیں عبّاس بتا چُکا تھا۔ کہیں نا کہیں اُنہیں یقین تھا کہ رانا عبّاس ضرور نین گُل کی تلاش میں شہر گیا تھا مگر اُن کو مُکمّل عِلم نہیں تھا آیا سچ میں ایسا ہے یا صِرف اُن کا وہم ہے؟ جِس کی وجہ سے اُنہوں نے اپنے آدمی کو ہنوز رانا عبّاس کا پیچھا کر کے اُس کے ہر جگہ آنے جانے کی خبر معلوم کرنے کو کہا تھا۔

اُن کی ساری کاروائیوں سے رانا عبّاس واقِف تھا اور اُسے یہ ساری خبریں کرمو ہی دیتا تھا جِسے اُس نے خُود گاوں میں چھوڑا تھا۔ اُس کے اور نین گُل کے نِکاح کو دو دِن ہو چُکے تھے اور اِن دو دِنوں میں وہ اپنے کام سے ہی باہِر گیا تھا نین گُل اور حمود کو باہِر نہیں لے گیا تھا۔

اُس نے نین گُل اور حمود کو اپنی ہڑھائی جاری رکھنے کا کہا تھا جِس پر حمود تو بہت خُوش ہوئی تھی مگر نین گُل نے منہ بسور کر اِنکار کیا تھا جِس کا رانا عبّاس پر کوئی خاطِر خواہ اثر نہیں ہوا تھا۔ وہ ایک سکول میں بات کر آیا تھا جہاں حمود کا دسویں میں اور نین گُل کا نویں میں ایڈمیشن ہونا تھا۔

اِسی بات پر نین گُل رانا عبّاس سے ناراض تھی اور مزید ناراضگی تب بڑھی جب اُس نے بتایا کہ وہ کل صُبح گاوں جا رہا ہے۔ حمود اِس وقت کِچن میں شام کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی جب کہ نین گُل کمرے میں بیٹھی رانا عبّاس کو دیکھ رہی تھی جو اپنے کُچھ کپڑے بیگ میں ڈال رہا تھا۔ اپنے کپڑے اور کُچھ ضروری کاغذات بیگ میں ڈال کر وہ نین گُل کی جانِب بڑھا جو اُسے اپنی طرف آتے دیکھ کر رُخ موڑ گئی تھی۔

"ناراض ہو؟" اُس کا رُخ اپنی طرف کرتے نرمی سے پوچھا۔

"نہیں میں تو بہت خُوش ہوں کہ آپ جا رہے ہیں جائیں اور جا کر بھول جائیے گا کوئی بیوی بھی ہے جِسے شہر میں اکیلا چھوڑ آئے ہیں!" اُس کے پوچھنے کی دیر تھی اور وہ مُکمّل بیویوں والے انداز میں اپنے دِل کے پھپھولے پھوڑے۔

"اکیلی کہاں؟ حمود ہو گی تُمہارے ساتھ اور میں احد کو کہہ چُکا ہوں کہ نازنین بھابھی کو لے کر آتا جاتا رہے! دو دِن کی بات ہے پھر میں یہاں تُمہارے ساتھ تُمہارے پاس ہوں گا!" رانا عبّاس نے اُسے خُود سے لگاتے ہوئے تسلّی دی تھی۔

"آپ وہاں جا کیوں رہے ہیں؟ مت جائیں نا! یا مُجھے بھی ساتھ لے جائیں!" وہ کُچھ زیادہ یی جذباتی ہو رہی تھی۔

"وہاں میرے ماں باپ ریتے ہیں نیناں ڈئیر! جِن سے مِلنے جا رہا ہوں اور کُچھ ضروری کام بھی ہے۔" رانا عبّاس نے سادہ سے انداز میں کہا تھا مگر وہ شرمِندہ ہو گئی تھی۔

"میری وجہ سے آپ اپنے گھر والوں سے دور ہو گئے ہیں۔ میں اچھی نہیں ہوں نا!" اُس نے اُس کے سینے سے سر اُٹھاتے اُداسی سے کہا تو وہ اُسے مصنوعی خفگی سے گھورنے لگا۔

"تُم کِتنی اچھی ہو یہ میرے دِل سے پوچھو! اور گھر والوں سے دور تُمہاری وجہ سے نہیں بلکہ قِسمت کی وجہ سے ہوں اور ہمیشہ کے لیے دور تھوڑی ہوں جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے میں تُمہیں بہو کی حیثیت سے وہاں لے کر جاوں گا پھر ہم وہیں رہیں گے۔" رانا عبّاس نے اُس کے ہاتھ تھام کر کہا تو وہ مُسکرا دی اِس بات سے انجان کہ ضروری نہیں جو ہم سوچیں ویسا ہی ہو۔

"ہر چھوٹی بات پر اُداسی کی مورت مت بن جایا کرو مُجھے میری نین ہنستی مُسکراتی اچھی لگتی ہے۔" رانا عبّاس نے اُسے اپنے حِصار میں لیتے ہوئے شرارت بھرے انداز میں اُس پر جُھکتے ہوئے کہا تھا۔ پُرفسوں لمحے اُن کے درمیان سے دبے پاوں گُزرنے لگے تھے جِن کی چھاوں میں نین گُل اور رانا عبّاس کی قُربت بڑھنے لگی تھی۔ کُچھ لمحے سِرکے تھے جب دروازے پر دستک ہوئی۔

"آپا! کھانا بن گیا ہے جلدی سے آ جائیں!" حمود آواز دے کر واپس جا چُکی تھی۔

"کہا بھی تھا کہ میں مدد کروا دوں مگر نہیں مُجھے نئی نویلی دُلہن کہہ کر خُود ہی باورچی خانے میں کھپ رہی ہے۔" اُس کی بے باک مظروں سے پزل ہوتی وہ سُرخ چہرے سے بات بدلنے لگی جِس پر وہ ہنستا ہوا کھڑا ہوا اور ہاتھ اُس کی طرف بڑھایا۔

"تُمہاری سب سے اچھی عادت پتہ ہے کیا لگتی ہے مُجھے؟" رانا عبّاس نے اُس کا ہاتھ تھامتے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا تھا۔

"کیا؟" وہ بے ساختہ پوچھ بیٹھی تھی مگر اُس کے جواب پر وہ ہاتھ چُھڑوا کر باہِر بھاگی تھی۔

"جب میں تُم سے پیار کرتا ہوں تو تُم آگے سے مزاحمت نہیں کرتی بس شرماتی رہتی ہو جِس سے میرا کام بن جاتا ہے۔" رانا عبّاس اُس کے یُوں بھاگنے پر ہنستا ہوا خُود بھی اُس کے پیچھے چل دیا تھا۔


*******************


اگلے دِن رانا عبّاس نین گُل اور حمود کو اپنا خیال رکھنے کا کہہ کر گاوں کی طرف روانہ ہوا تھا۔ احد نے اُسے بتایا تھا کہ عدیل اب ٹھیک ہو کر گھر آ چُکا تھا رانا عبّاس نے اُسے دو دِن بعد اُس کے گھر سے اُٹھا کر کِسی خُفیہ ٹھِکانے پر رکھنے کا کہا تھا جِس پر احد بغیر چوں چرا کیے ہامی بھر گیا تھا۔ رانا عبّاس جِس وقت حویلی پہنچا دِن کے دو بج ریے تھے۔ سب سے پہلے وی حویلی کے باہِر کرمو سے مِلا تھا جِس نے اُسے حویلی کے حالات اور ہونے والے سارے معالات کے بارے میں بتایا تھا جِن میں سے خاص بات یہ ہی تھی کہ رانا ہاشِم نے اپنے کارِندوں کو رانا عبّاس پر نظر رکھنے کا کہا تھا۔

اُس سے مِل کر وہ حویلی میں پہنچا تھا۔ سب اُسے دیکھ کر بہت خُوش ہوئے تھے۔ حلیمہ بیگم اور سعدیہ بیگم تو اُس کی آو بھگت میں لگ گئیں تھیں جبکہ دُرّے اور شہوار سے مِل کر وہ فریش ہونے چل دیا تھا۔ جانے کیوں مگر رانا عبّاس کو دُرشہوار کا چہرہ کُچھ کملایا ہوا سا لگا تھا جبکہ اُس کی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے دیکھ کر اُس کی پریشانی میں اضافہ ہوا تھا اور کہیں نا کہیں اُسے یقین تھا کہ اِس پریشانی کا تعلُق رانا باقِر سے ہے اور وہ اُس سے بات کرنے کا اِرادہ رکھتا تھا۔ شام کو اُس کی مُلاقات رانا جعفر، رانا ہاشِم او رانا قاِسم سے ہوئی تھی۔ رانا ہاشِم نے اُس سے کوئی باز پرس نہیں کی تھی جِس پر رانا عبّاس کو حیرت تو ہوئی تھی مگر اُس نے اپنے چہرے سے کُچھ بھی واضح نہیں ہونے دیا تھا۔

رات کے کھانے کے بعد وہ رانا ہاشِم کے کمرے کی جانِب گیا تھا جہاں وہ ابھی صوفے پر بیٹھے کوئی حِساب کِتاب دیکھ رہے تھے۔ سعدیہ بیگم کمرے میں نہیں تھیں۔ وہ اُنہیں بغور دیکھتا اُن کی جانِب بڑھا تھا۔

"مُجھے کُچھ ضروری بات کرنی تھی بابا سائیں!" رانا عبّاس نے ادب سے اُنہیں مُخاطِب کیا تھا۔

"کہو سُن رہا ہوں۔ اِس کے بعد مُجھے بھی تُم سے ضروری بات کرنی ہے۔" اُنہوں نے مصروف سے انداز میں کہا تھا۔

"مُجھے نین گُل کے بارے میں بات کرنی ہے بابا سائیں!" اب کی بار وہ چونکے تھے۔

"نین گُل کا یہاں کیا ذِکر؟" اُنہوں نے اچھنبے سے پوچھا تھا۔

"نین گُل کا ہی ہر جگہ ذِکر ہے بابا سائیں! میں اُسے اِس گھر کی بہو بنانا چاہتا ہوں۔ نواز علی کا اِنتقال ہو گیا ہے اور میں ایسے اُسے بے سہارا نہیں چھوڑنا چاہتا۔" رانا عبّاس نے بغیر لگی لِپٹی رکھے کہا تھا۔

"یرگِز بھی نہیں! میں تُمہارا رِشتہ ہانیہ سے پکّا کر چُکا ہوں۔ نین گُل اور اُس جیسی بے سہارا لڑکیوں کا ٹھیکہ نہیں اُٹھا رکھا تُم نے جو تُم اُسے کمّی کمین کو اِس حویلی کی بہو بنا کر لے آو۔" رانا ہاشِم نے دوٹوک اِنکار کیا تھا۔ اُن کے لہجے میں نین گُل کے لیے حقارت تھی۔

"نین گُل نہیں تو کوئی نہیں! ہانیہ سے تو ہرگِز بھی میں شادی نہیں کروں گا۔ باقی لڑکیوں کا پتہ نہیں مگر نین گل کی حِفاظت کا ٹھیکہ میں نے ہی اُٹھا رکھا ہے۔" رانا عبّاس کا لہجہ بھی بغاوت لیے ہوئے تھا جبکہ اُس کی بات پر رانا ہاشِم کا خُون کھول اُٹھا تھا۔

"پھر تیار رہنا دُنیا کے جِس کونے میں بھی وہ ہوئی وہاں سے ڈھونڈ کر اُس کی جان لوں گا پھر کرتے رہنا اُس کی لاش کی حِفاظت! اُس کا قتل کروانا میرے لیے کوئی مُشکِل کام نہیں ہے۔" رانا ہاشِم کا جتاتا مشتعل انداز اُسے آگ لگا گیا تھا مگر یہ وقت جوش سے نہیں ہوش سے کام لینے کا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اُنہیں بھنک بھی پڑے کہ اِس وقت نین گُل اُس کے پاس، اُس کے نِکاح میں ہے۔

"اِتنا غرور اچھا نہیں ہوتا بابا سائیں! جب آپ پُرسکون ہو جائیں گے تب بات کریں گے چلتا ہوں۔" طنزیہ لہجے میں کہہ کر وہ وہاں رُکا نہیں تھا بلکہ وہاں سے نِکلتا چلا گیا تھا۔ اُس نے پل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ اُسے کیا کرنا ہے اور جو اُس نے سوچا تھا وہی اُسے ٹھیک لگا تھا۔


*******************

اڑھائی سال بعد:

یہ اڑھائی سال پلک جھپکتے گُزرے تھے۔ رانا عبّاس نین گُل اور حمود کو اُس شہر سے اِسلام آباد لے آیا تھا تا کہ رانا ہاشِم اُن تک پہنچ نا سکیں کیونکہ اُنہیں رانا عبّاس کے نِکاح کی خبر ہو چُکی تھی۔ اُس نے خُفیہ طور پر اپنا ٹراانسفر بھی اِسلام آباد کروا لیا تھا اور سختی سے ہدایت کی تھی کہ کِسی کو بھی اُس کے ٹرانسفر کی معلومات نا دی جائے۔ نین گُل کی سنگت میں اُس کا یہ وقت اِتنہائی سُہانا گُزرا تھا۔ اِس سب کے دوران وہ رانا باقِر سے رابطے میں رہا تھا اور اُس سے حویلی کے حالات کے بارے میں بھی معلوم کرتا رہتا تھا۔

رانا ہاشِم آج تک اپنی ضِد سے نہیں ہٹے تھے وہ اب بھی نین گُل کو اپنی بہو ماننے کو تیار نا تھے جِس کے باعث رانا عبّاس لوٹ کر حویلی واپس نہیں گیا تھا۔ اپنی ماں سے وی باقِر کے فون پر بات کرتا رہتا تھا اور نین گُل کی بھی بات کرواتا تھا اِس تاکید کے ساتھ کہ بابا سائیں کو کُچھ نا بتایا جائے۔ وہ چاہتا تو رانا ہاشِم سے ٹکّر لے سکتا تھا مگر جانتا تھا کی ضِد میں وہ خُون خرابے سے بھی پرہیز نہیں کریں گے اِس لیے اُن کی نظروں سے اپنی بیوی کو لے کر ہی اوجھل ہو گیا تھا مگر اِس سب سے اُس نے رانا ہاشِم کو مزید ضِد دِلائی تھی جِس سے وہ انجان تھا۔

جہاں نین گُل اور حمود کا میٹرک کلئیر ہو گیا تھا وہیں نین گُل نے دو مہینے پہلے ہی ایک خُوبصورت سے بچّے کو جنم دیا تھا جِس کا نام حمود نے اپنے نام سے مِلتا جُلتا رانا حمین عبّاس رکھا تھا۔ نین گُل کے ساتھ حمود نے دسویں کی بجائے دوبارہ نویں میں داخلہ لیا تھا کہ اُسے ابھی تک گاوں سے سرٹیفییٹ وغیرہ نہیں مِلا تھا اور وہ گاوں واپس جانا نہیں چاہتی تھی جِس پر رانا عبّاس کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا کہ دونوں ایک ساتھ ہی میٹرک کر لیں گی۔ اِس سب میں رانا عبّاس نے اُن کا بہت ساتھ دیا تھا کہ اُنہیں پڑھائی میں کوئی مُشکِل پیش نا آئے۔

رانا باقِر اُن سے مِلنے اُن کے گھر آتا رہتا تھا اور حمود سے بھی وہ نارملی ہی مِلتا تھا۔ حمود کی اُس سے زیادہ بات نہیں ہوتی تھی مگر جِتنی ہوتی اُس میں وہ ایک دوسرے سے کافی تمیز کا مظاہرہ کرتے تھے۔

آج اُن کا پلان باہِر جا کر ڈِنر کرنے کا تھا اِسی لیے وہ آج تھانے سے جلدی گھر آ گیا تھا۔ جِس وقت وہ گھر آیا نین گُل اور حمود بالکُل تیار کھڑی تھیں۔ رانا حمین عبّاس بھی نیکر شرٹ پہنے بالکل تیار نین گُل کی گود میں تھے۔

ابھی وہ لوگ گھر سے باہِر نِکلنے ہی لگے تھے جب رانا باقِر کی گاڑی اندر داخِل ہوئی۔ وہ اُسے دیکھ کر خُوش ہوئے تھے۔ سب سے مِل کر وہ اپنے آنے پر افسوس کرنے لگا کہ رنگ میں بھنگ ڈال دیا جِس پر رانا عبّاس نے اُسے بھی ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ پہلے اُس نے اِنکار کیا مگر پھر نین گُل کے کہنے پر مان گیا مگر وہ اپنی گاڑی میں جانے والا تھا۔

آگے پیچھے وہ اِسلام آباد کے ایک مشہور ریسٹورانٹ پہنچے تھے۔ رانا عبّاس نے پہلے سے ہی ایک ٹیبل بُک کروا رکھا تھا تا کہ اُنہیں کوئی پریشانی نا ہو۔ یہ کافی بڑا ریسٹورانٹ تھا جِسے کئی حِصوں میں اوپر اور نیچے پارٹیشن کی گئی تھی۔ وہ سیکنڈ فلور پر کِھڑکی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ کھانا آرڈر کر کے وہ لوگ اب آپس میں گپیں ہانکنے لگے تھے جِس میں زیادہ باتیں حویلی والوں کی تھیں جو رانا باقِر تفصیل سے رانا عبآس کے گوش گُزار رہا تھا۔ جلد ہی ویٹر نے کھانا سرو کر دیا تھا۔

کھانا خاموشی سے کھایا گیا تھا۔ حمین کو نین گُل نے چھوٹے سے بے بی کاٹ میں ڈال رکھا تھا جو اُس کے ساتھ والی سیٹ پر پڑا تھا اور ہر تھوڑی دیر بعد وہ اُس کو دیکھ لیتی تھی۔ جو پُرسکون سا سویا ہوا تھا۔ اِسی بے دھیانی میں اُس کے ہاتھ سے کولڈ ڈرِنک گِری تھی جِس کی وجہ سے وہ یکدم بوکھلا کر کھڑی ہوئی تھی۔ اُس کی قمیض ساری خراب ہو گئی تھی۔ رانا عبّاس نے تاسف سے نفی میں سر ہلاتے اُس کی روہانسی ہوتی شکل دیکھی تھی۔ وہ آج بھی ہر چھوٹی بات پر گھبرا جاتی تھی۔

"یہ تو خراب ہو گیا!" اُس نے سیاہ بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو بھرے رانا عبّاس کو دیکھا تھا جبکہ حمود نے ہنسی دبائی تھی۔

"آہ! یہ تو خراب ہو گیا اور میں تو اِتنا غریب ہوں کہ اپنی بیوی کو نیا سوٹ بھی نہیں لے کر دے سکتا نا ہی یہاں پہ پانی مِلے گا کہ یہ قیمض صاف ہو سکے کیونکہ اِسلام آباد میں پانی کا قحط ہو گیا ہے نا!" رانا نے ہنسی دباتے مصنوعی تاسف سے نین گُل کا ہاتھ تھامتے کہا تھا جو عبّاس کا طنز سمجھتی گالوں پہ آنسو بہانے لگی تھی۔

"ارے مذاق کر رہے ہیں وہ! اِتنا سیریس کیوں ہو رہیں ہیں؟ ویر سائیں! اب آپ میری معصوم سی بھاوج کو تنگ مت کریں!" رانا باقِر نے رانا عبّاس کو ٹوکا تو وہ آنکھیں گُھما گیا۔

"اور جو تُم نے میری بہن کو تنگ کر رکھا ہے اُس کا کیا؟ شُکر کرو میں کُچھ کہتا نہیں ورنہ تُمہاری گردن ہوتی اور میرے ہاتھ!" رانا عبّاس نے مصنوعی غُصّے سے کہا تو وہ بے ساختہ ہنس دیا جبکہ حمود سر جُھکائے کھانا کھانے لگی۔

اڑھائی سال پہلے رانا عنّاس نے سختی سے اُس سے باز پرس کی تھی جِس پر وہ رانا عبّاس کو اپنی طرف سے مُطمئن کر گیا تھا کہ اُسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں وہ بس کُچھ وقت لے رہا ہے جب تک اُس کا دِل دُرشہوار کی طرف سے صاف نہیں ہو جاتا۔ رانا عبّاس مُطمئن ہوا تھا یا نہیں مگر رانا باقِر پر اُسے بھروسہ تھا اِس لیے اُس نے پھر کبھی اُس سے باز پرس نہیں کی تھی۔ رانا باقِر حویلی بھی جاتا رہتا تھا مگر اِس بیچ اُس نے کبھی بھی دُرشہوار کو حویلی میں نہیں دیکھا تھا۔ جانے وہ جان بوجھ کر سامنے نہیں آتی تھی یا پھر رانا باقِر کو دیکھنا نہیں چاہتی تھی جو بھی تھا رانا باقِر نے خُود بھی کبھی اُس سے مِلنے کی خُوہاش نہیں کی تھی۔

"رانا جی! یہ چِپ چِپ کر رہا ہے!" نین گُل نے اُن کو آپس میں باتیں کرتے دیکھ کر دُہائی دی تھی۔

"چلیں نیناں جان! خادِم آپ کی خِدمت میں حاضِر ہے!" بے باک انداز میں وہ اُس کے گِرد بازو حمائل کرتا اُسے لیے باتھ روم کی جانِب بڑھ گیا جبکہ نین گُل نے شرم کے مارے چہرہ ہی اُس کے سینے میں گُھسا لیا تھا جِس پر وہ زیرِ لب مُسکراتا رہ گیا تھا۔

اُن کے جانے کے بعد یک بیک حمود اور رانا باقِر اپنی جگہ سے اُٹھتے حمین کے اِردگِرد رکھی کُرسیوں پر بیٹھے تھے۔ دونوں کا مقصد صِرف حمین کی حِفاظت تھا کہ کہیں بے بی کاٹ کُرسی سے کِھسک نا جائے۔ دونوں کی نظریں بیک وقت مِلیں تھیں مگر جلد ہی نظروں کا زاویہ بدل لیا گیا تھا۔

"پڑھائی کیسی جا رہی ہے!" رانا باقِر نے نرمی سے پوچھا تھا۔

"پڑھائی تو ختم ہو گئی۔ ویر جی نے کہا لے کہ اب آگے پری میڈیکل ایف ایس سی میں ایڈمیشن لینا ہے لیکن ابھی میٹرک کا رِزلٹ نہیں آیا ہے تو ایڈمیشن بھی نہیں لیا!" حمود نے تفصیلی جواب دیا جِس پر وہ سر ہلا گیا۔

"شہوار کی سزا کب تک ختم کرنے کا ارادہ ہے؟" حمود کے سوال پر چونکا تھا۔ اُس کا نہیں خیال تھا کہ کبھی وہ اُس سے اِس بابت بات کرے گی۔

"جب مُجھے لگے گا کہ میرے دِل سے ایک سخت دِل لڑکی کا ہر احساس مِٹ گیا ہے تب!" رانا باقِر کا جواب حمود کو اُسے تکنے پر مجبور کر گیا تھا۔

"اِس سب میں اُس نرم دِل لڑکی کا کیا قصور ہے جِس کی چاہت کا واحد مالِک رانا باقِر ہے؟" حمود نے ابرو اُچکائے پوچھا تھا۔ رانا باقِر نے نرم گرم سا تاثر لیے سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھا تھا جو گُزرتے وقت کے ساتھ پہلے سے زیادہ خُوبصورت اور میچور ہو گئی تھی۔ حِجاب میں لِپٹا چہرہ، تھوڑی پر ہمیشہ کی طرح تین تکونی مصنوعی تِل، میک اپ سے پاک بے ریا چہرہ لیے وہ ہمیشہ سے بڑھ کر اُسے دِلکش لگی تھی جِس کی دِلکشی سے اُس نے اپنی نظریں چُرائیں تھیں۔ اُس کا کوئی حق نہیں تھا اُسے نظر بھر کر دیکھنے کا تبھی اب وہ اُسے بھرپور نظروں سے دیکھنے سے گُریز کرتا تھا۔

"اُس نرم دِل لڑکی کا کیا قصور ہے یہ تُم بھی اچھے سے جانتی ہو اور اب پلیز اِس ٹاپِک پر مُجھے بات نہیں کرنی! یہ دیکھو ننھا چیمپ جاگ رہا ہے!" اُس نے موضوع تبدیل کیا تو وہ جُھک کر حمین کو دیکھنے لگی جو اب اپنی موٹی موٹی آنکھیں کھول کر ٹُکر ٹُکر کبھی اُسے تو کبھی رانا باقِر کو دیکھ رہا تھا۔ حمود گہرا مُسکرائی تھی۔

"اِسے نِکال کر مُجھے دو!" رانا باقِر نے حمین کو دیکھ کر مُسکراتے ہوئے کہا تھا۔

حمود نے مُسکرا کر حمین کو بے بی کاٹ سے باہِر نِکالا اور ایک بار اُس کے ماتھے پر پیار کر کے اُسے رانا باقِر کی طرف بڑھایا۔ رانا باقِر نے چہرے پر وہی مُسکراہٹ سجائے اُس ننھے فرِشتے کو تھاما تھا جبکہ اُن سے کُچھ فاصلے کی دوری پر ایک نازُک سا وجود اِس منظر کو دیکھ کر اپنی بھوری آنکھوں میں آنسووں کا سمندر لیے ساکت کھڑا تھا۔ ایک کسک سی تھی جو اُسے اپنے دِل میں محسوس ہوئی تھی۔ وہ جیت کر بہت بُری طرح ہاری تھی اور یہ مات اُس کی روح پہ گہرے زخم چھوڑ گئی تھی۔

اِس منظر کو دیکھ کر روتے دِل کے ساتھ وہ وجود آنسو صاف کرتا واپس پلٹ گیا تھا کہ یہ تو بہت پہلے سے اُسے پتہ تھا پھر آج یہ سب دیکھ کر نئے سِرے سے تکلیف کیوں ہوئی تھی؟ شاید اِس لیے کہ جِس مُحبّت کی چاہ اُس نے اپنے لیے کی تھی وہ ہی چاہ وہ اپنے شوہر کی آنکھوں میں کِسی اور عورت کے لیے دیکھ رہی تھی۔ سُننے سے زیاہد وہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنا اُس کے سالوں سے تڑپتے دِل کو کُچھ اور تڑپاتا ادھ مُوا کر گیا تھا۔

اِسی وقت رانا عبّاس اور نین گُل واپس آئے تھے۔ اُن دونوں نے اپنی نشئستیں سنبھالیں تھیں۔ ہنستے مُسکراتے اُنہوں نے ڈِنر کیا تھا اور پھر بِل ادا کرتے وہ لوگ گھر جانے کے خیال سے باہِر نِکلے تھے۔

"میرے خیال سے آپ کو کُچھ تنہا لمحات چاہیے ہیں جو آپ کو اپنی سالی صاحبہ کے ہوتے تو میسر نہیں آنے والے!" رانا باقِر نے راجا عبّاس کی بار بار نین گُل کی طرف اُٹھتی نظریں دیکھ کر شرارتی انداز میں کہا تھا۔

"ہاں چاہیے تو ہیں مگر اپنی ایسی قِسمت کہاں؟" وہ حسرت بھرے لہجے میں بولتا نین گُل کو دیکھنے لگا جو کُچھ فاصلے پر کھڑی حمود سے باتیں کر رہی تھی۔

"قِسمت تو بہت اچھی ہے آپ کی! چلیں کیا یاد کریں گے حمود اور لِٹل چیمپ کو میں گھر لے جاتا ہوں آپ لوگ سکون سے لانگ ڈرائیو اِنجوائے کرئیے!" رانا باقِر نے احسان کرتے انداز میں کہا تھا جِس پر رانا عبّاس نے آنکھیں گُھماتے اُس کے کندھے پر پنچ مارا تھا۔ رانا باقِر ایک لمحے کو بُلبُلایا تھا پھر رانا عبّاس کو گھورا جو اب ہنس رہا تھا۔

"چلو پھر ہم نِکلتے ہیں ہمارے اِتنے انمول لمحات ضائع ہو رہے ہیں!" رانا عبّاس نے کہتے نین گُل کی طرف قدم بڑھائے اور اُس کے ہاتھوں سے حمین کو تھاما۔ نرمی سے اپنے شہزادے کے ماتھے پر لب رکھے اور اُسے رانا باقِر کے حوالے کیا۔

"میری جان کا خیال رکھنا اور اِن دونوں کو حِفاظت سے گھر لے جانا۔" رانا عبّاس نے حمین کو رانا باقِر کو تھمایا جبکہ نین گُل نے نا سمجھی سے اُسے دیکھا جِس پر وہ اُسے اپنے پلان سے آگاہ کرنے لگا۔ نین گُل نے اِنکار کرنا چاہا تھا مگر پھر رانا عبّاس کی گھوری پر چُپ رہ گئی۔

حمود نے نین گُل کو گلے لگایا اور پھر رانا باقِر سے حمین کو تھام کر گاڑج میں بیٹھی۔ رانا باقِر رانا عبّاس سے مِلتا خُود بھی گاڑی میں بیٹھا

اور گاڑی سٹارٹ کر کے رانا عبّاس کے گھر کے راستے پر ڈال گیا۔

رانا عبّاس نے اپنا رُخ نین گُل کی طرف کیا جو رُل موڑے خفا سی کھڑی تھی۔

"کیا ہوا؟ نیناں جان اپنے جانو سے خفا ہے؟" رانا عبّاس کے اُس کا رُخ اپنی طرف پلٹا تو وہ شرم سے سُرخ ہوتی اُسے گھور بھی نا سکی۔

"میرے جانو نہیں ہیں آپ! شوہر ہیں۔ ایسے لفظ مت اِستعمال کیا کریں رانا جی!" وہ اُسے فوراً سے پیشتر ٹوک گئی تھی۔ ایسے الفاظ سُنتے ہی جانے کیوں اُسے شرم گھیرنے لگتی تھی گاوں کی وہ سادہ لوح لڑکی اِن سب چونچلوں سے کوسوں دور تھی۔

"تو شوہر جانو ہی ہوتا ہے دِلبر سائیں؟ مُجھے تو حسرت ہی رہے گی کہ میری زوجہ مُجھے بھی جانو، شونا، ڈارلِنگ، بے بی کہہ کر پُکارے۔ یہاں تو تُمہاری شرم ہی ختم نہیں ہوتی!" اُس کے ہاتھ پر مُحبّت بھرا لمس چھوڑتا وہ مصنوعی خفگی سے کہتے اُسے کار میں بِٹھانے لگا۔

""میں آپ کی طرح بے۔۔۔۔۔۔ بے۔۔۔۔۔۔۔" وہ اُسے بے شرم کہتے کہتے رُک گئی۔ ایک جِھجھک سی تھی وہ کبھی بھی اُس سے بدتمیزی نہیں کر سکتی تھی چاہے وہ کِتنی ہی خفا کیوں نا ہوتی۔

"کہہ دو مُجھے بے شرم! میں بالکُل بُرا نہیں مانوں گا۔ پتہ نہیں کونسی نیکی کی تھی میں نے جو اِتنی فرمانبردار بیوی مِلی ہے کہ شوہر نے ہر قِسم کی چھوٹ دے رکھی ہے مگر شوہر کی بے شرمی پر بھی شوہر کو بے شرم نہیں کہتی!" وہ قہقہہ لگا کر ہنستا گاڑی سٹارٹ کر گیا تھا مگر ایک گہری مُحبّت بھری نِگاہ اُس کے سراپے پر ڈالنا نہیں بھولا تھا جو اُس کی ایک نظر سے نروس ہوتی اُنگلیاں مروڑنے لگی تھی۔

"میری اُنگلیوں پر کیوں ظُلم کر رہی ہو؟ خبردار جو اِنہیں توڑا۔" رانا عبّاس نے تنبیہہ کرتے انداز میں اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں قید کیا جبکہ دوسرا ہاتھ سٹئیرنگ پر تھا۔

"مُجھے آپ سے بہت مُحبّت ہے رانا جی! آپ کبھی مُجھ سے دور تو نہیں جائیں گے نا؟" جانے کون سا اندیشہ تھا اُس کے دِل میں کہ وہ آج ایک بار پھر اُس سے سوال کر گئی تھی۔

"تُمہاری مُحبّت سے زیادہ مُحبّت ہے مُجھے تُم سے! جِس کا جیتا جاگتا ثبوت حمین ہے!" وہ شرارتی انداز میں بولا تو اُس نے خفگی سے اپنے شوہر کو دیکھا۔

"تُم دِل ہو میرا! تُم سے سانسیں جُڑی ہیں جب تک تُم ہو تب تک میں ہوں۔ یہ سوچنا بھی مت کہ میں تُم سے دور جاوں گا۔ موت کے عِلاوہ کوئی چیز مُجھے تُم سے الگ نہیں کر سکتی! تُمہارے ساتھ جیوں گا اور تُمہارے ساتھ ہی مروں گا کیونکہ تُمہارے بغیر اِس زِندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا میں! تُمہارے لیے ہر چیز سے بغاوت کی ہے تُم سے دور رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب تک تُمہاری سانسیں ہیں تب تک رانا عبّاس زِندہ رہے گا۔ اپنے دِل سے ہر بُرا خیال نِکال دو اور اِن لمحوں کو جیو جو میرے لیے تُمہاری سنگت میں ہر چیز سے بڑھ کر ہیں!" رانا عبّاس نے گھمبیر لہجے میں کہا تو وہ اُس کا ہاتھ لبوں سے لگاتی اُس کے کندھے سے ٹیک لگا گئی۔ اُس کے کندھے سے سر ٹِکائے وہ وِنڈ سکرین کے پار دیکھنے لگی۔ ایک ہاتھ نین گُل کے گِرد حائل کیے وہ دوسرے ہاتھ سے سٹیئیرنگ تھامے توجّہ سے گاڑی چلا رہا تھا۔


*****************


حویلی کا نظام ویسا ہی چل رہا تھا جیسا ہمیشہ سے چلتا آیا تھا۔ رانا عبّاس رانا ہاشِم سے بغاوت کر کے کہیں غائب ہو گیا تھا اور لاکھ کوششوں کے بعد بھی اُس کی کوئی خبر نہیں آئی تھی۔ رانا ہاشِم کو ہانیہ کے والد کے سامنے اپنی زبان سے واپس ہٹتے بہت شرمِندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا جِس کے باعث اُن کے دِل میں بدلے کی ایک آگ بھڑک اُٹھی تھی۔ رانا عبّاس کے گھر چھوڑنے پر سب بہت دِلبرداشتہ تھے خاص طور پر سعدیہ بیگم! اُن کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی جِس کے باعث رانا باقِر اُن کی کبھی کبھار رانا عبّاس سے بات چیت کروا دیتا تھا۔ اُس نے سختی سے سعدیہ بیگم کو منع کیا تھا کہ وہ یہ بات کِسی کو بھی مت بتائیں جِس پر وہ مان گئیں تھیں کہ اُن کی ممتا کو سکون آ گیا تھا جِس سے بڑھ کر اُن کے لیے کُچھ نہیں تھا۔

دُرّے اور جعفر کا رِشتہ ویسا ہی تھا جیسا اڑھائی سال پہلے تھا۔ رانا جعفر اب اپنی حد میں رہتا تھا یہ اڑھائی سال اُس نے بہت ضبط اور شرافت کا مظاہرہ کرتے گُزارے تھے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ذرا سی چوک سے دُرّے پھر سے اُس سے دور ہو جائے۔ وہ پہلے سے بڑھ کر اُس کا خیال رکھتا اُسے اپنے رِشتے کا احساس دِلانے لگا تھا مگر ابھی تک دُرّے سے اُسے معافی نہیں مِلی تھی اور دُرّے بھی شاید اُسے زِندگی بھی تڑپانے کا اِرادہ رکھتی تھی بالکُل ویسے ہی جیسے رانا جعفر نے نِکاح کے بعد چار سال تک اُس سے بے رُخی و بے زاری کا اِظہار کرتے تڑپایا تھا۔ اپنے رِشتے میں شراکت کر کے تڑپایا تھا اب وہ سود سمیت حِساب برابر کر رہی تھی۔

اِن گُزرے برسوں میں اگر وقت کِسی کے لیے رُک سا گیا تھا تو وہ دُرِشہوار تھی۔ اِن گُزرے سالوں میں وہ ایک پل کے لیے بھی اُس سِتم گر کو بھول نہیں پائی تھی جِسے اُس نے اپنی ضِد سے حاصِل تو کر لیا تھا مگر حاصِل کر کے بھی کھو دیا تھا۔ وہ آج بھی اُس کی آخری گُفتگو بھول نہیں پائی تھی جِس میں اُس نے واضح کہا تھا کہ وہ دوسری شادی کر لے گا اور دُرشہوار کو یقین تھا کہ آج وہ ایک دوسرے کے ساتھ خُوش و خرم زِندگی جی رہے ہوں گے۔

اُس نے اپنی مُحبّت کو پا کر بھی کھو دیا تھا جِس کا احساس اُسے جلد ہی ہو گیا تھا اور تب سے ہی وہ نارسائی کے دُکھ میں گُھلتی جا رہی تھی۔ اُس کا بس چلتا تو وہ اپنے دِل سے رانا باقِر کی مُحبّت کو کُھرچ کر پھینک دیتی مگر کم بخت بس ہی تو نہیں چلتا تھا۔ وہ زبردستی اُس کے دِل میں اپنے لیے مُحبّت پیدا نہیں کر سکتی تھی اگر کر سکتی تو یہ بھی کر گُزرتی۔ رانا باقِر کی مُحبّت اُس کے وجود میں خُون کی مانِند گِردِش کرتی تھی۔

وہ سولہ سالہ لڑکی اب ساڑھے اٹھارہ سال کی تھی اور پہلے سے بڑھ کر خُوبصورت اور حسین ہو گئی تھی۔ وقت نے اُسے بہت سمجھدار اور میچور کر دیا تھا۔ پہلے وہ جو کم سن سی جذباتی لڑکی تھی اب ایک بھرہور دوشیزہ بن کر اُبھری تھی۔ اُس کی ذات میں ایک ٹہراو آ گیا تھا وہ پہلے کی طرح جوش سے نہیں اب ہوش سے کام لیتی تھی۔ اُسے عقل آ گئی تھی کہ کِسی کو زنردستی اپنی زِندگی میں شامِل کرنے سے وہ آپ کا نہیں ہو جاتا جب تک اُس کی اپنی مرضی نا ہو۔ اِس ارے عرصے کے دوران اُس کی رانا باقِر سے آخری مرتبہ بات اڑھائی سال پہلے ہوئی تھی جب اُس نے رانا باقِر کو اپنی زِندگی میں اپنی مُحبّت کو شامِل کرنے کی اِجازت دی تھی یہ الگ بات ہے کہ اِس اجازت کی رانا باقِر کو قطعی ضرورت نا تھی۔

رانا باقِر اکثر حویلی آتا رہتا تھا مگر دُرشہوار کبھی اُس کے سامنے نہیں گئی تھی نا ہی اُس سے بات کرنی چاہی تھی جہاں اُس کی موجودگی کا گُمان ہوتا وہاں اُس کے موجود ہونے سے پہلے وہ وہاں سے غائب یو جاتی۔ جب تک وہ وہاں رہتا اُس کا زیادہ وقت اپنے کمرے میں بند ہو کر گُزرتا۔ نا ہی رانا باقِر اُس سے مِلنے کا خُواہشمند تھا نا ہی دُرشہوار نے ایسی کوئی خُوش فہمی پالی تھی۔

وہ اپنے محبوب کی آنکھوں میں کِسی اور کے لیے چاہت کے سمندر نہیں دیکھ سکتی تھی تبھی اُس کا سامنا کرنے سے کتراتی تھی۔ کِس چیز کی کمی تھی رانا باقِر کو؟ سب گھر والے تھے، اچھی جاب تھی، بیوی تھی اور شاید بچّے بھی ہوں پھر اُس کی ذات کی کیا اہمیت تھی اُس کی زِندگی میں ؟ نہیں تھی تبھی تو کبھی پلٹ کر پوچھا تک نہیں تھا کہ وہ کِسی حال میں ہے؟ اور شاید کبھی پوچھتا بھی نہیں کہ اُس کی مُکمّل زِندگی میں دُرشہوار کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ وہ تو اُسے اپنے نِکاح میں لے کر بھول گیا تھا مگر دُرشہوار کے لیے اِتنا ہی کافی تھا کہ اُس کے نام کے آگے اُس کی مُحبّت کا نام جُڑا تھا اور وہ کبھی اِس نام کو الگ نہیں کرنا چاہتی تھی چاہے وہ اُس کو اپنے سنگ رُخصت کرواتا یا نہیں۔

اُس کی زِندگی ایسے ہی بے رنگ سی گُزر رہی تھی۔ اپنی ہی سوچوں میں سلگتے اور تلخیاں پیتے!

اِس دوران اُس کا ایف اے کلیر ہو چُکا تھا اور سند بھی آ چُکی تھی جو لینے کے لیے اُسے شہر جانا تھا۔ آگے پڑھنے کا اُس کا دِل نہیں چاہا تھا کہ اب سب کُچھ نے رونق سا لگتا تھا۔

اُس دِن وہ رانا جعفر کے ساتھ شہر گئی تھی تا کہ وہاں سے اپنی سند لے سکے۔ رانا جعفر اُسے سند دِلانے کے بعد لنچ کے لیے لے گیا تھا اور وہاں سے وہ اِسلام آباد کے لیے نِکلے تھے۔ وہاں رانا جعفر کو کوئی کام تھا جِس کے لیے وہ آج شہر میں آ ہی گیا تھا تو اپنا کام بھی نِپٹا لینا چاہتا تھا۔ اِسلام آباد اُسے اپنے دوست کی بیوی کے ساتھ شاپنگ مال چھوڑتے وہ خُود اپنے دوست کے ساتھ چلا گیا تھا۔ اُس کے دوست شاویز کی بیوی شانزے کافی اچھی اور ہنس مُکھ سی تھی اور کافی ماڈرن بھی!

اُس نے دُرشہوار کو اپنے حِساب سے شاپنگ کروائی تھی جِس میں کُچھ نفیس سے لِباس تھے جو گاوں میں بھی پہنے جا سکتے تھے جیسے کیپری اور شارٹ فراکس، کُھلے سے ٹراوزرز کے ساتھ لمبی لمبی شرٹس! گاوں میں وہ صِرف شلوار قمیض ہی پہنتی تھی یا پھر کُھلی سی گھیر دار فراک! اُسے بھی سب کُچھ پسند آیا تھا۔ شانزے نے اُسے میک اپ وغیرہ بھی دِلایا تھا اور ڈھیر ساری چوڑیاں تا کہ وہ اپنی رُخصتی کے بعد پہن سکے۔ اُس کی بات سُن کر وہ پھیکا سا مُسکرائی تھی کہ شاید ایسی نوبت ہی نا آئے مگر اُس کے سامنے وہ چُپ ہی رہی تھی۔

شام تک وہ لوگ شاپنگ کرتے رہے تھے اور پھر رانا جعفر اور شاویز کے آنے پر وہ گھومنے کے لیے نِکل گئے تھے۔ یہ پہلی بار تھا کہ وہ کہیں گھومنے آئی تھی اِس سے پہلے وہ کبھی بھی حویلی سے باہِر نہیں نِکلی تھی رانا جعفر جان بوجھ کر اُسے یہاں لایا تھا تا کہ وہ اپنی اُداسی کے خول سے باہِر نئکلے مگر انجان تھا کہ وہ اُسے نئی وحشتوں میں دھکیلنے والا ہے۔ اگر اُسے پتہ ہوتا تو شاید کبھی بھی اُسے یہاں نا لاتا۔

سیر سے فارِغ ہو کر وہ لوگ رات کو ڈِنر کے لیے قریبی ریسٹورانٹ آئے تھے۔ رانا جعفر اور شاویز نیچے والے پورشن میں رُک گئے تھے جب کہ شانزے اُسے باتھ روم کا کہہ کر سیکنڈ فلور ہر لے آئی تھی۔ وہ ایک طرف کونے میں کھڑی وہاں کے ماحول کا جائزہ لے رہی تھی جب اُس کی نظریں ایک منظر پر آ کر ساکت ہوئیں تھیں۔ سامنے ہی شیشے کی کھڑکی کے پاس بیٹھا وہ وہی سِتم گر تھا جِس کے نام کی مالا اُس کا دِل جپتا تھا۔ وہ اُسے وہاں دیکھ کر ساکت ہوئی تھی مگر دِل کی دھڑکن تو اُس کے سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھ کر رُکی تھی۔ وہ وہی لڑکی تھی، اُسی کے گاوں کی حمود نواز جِس سے رانا باقِر مُحبّت کرتا تھا۔ جِس کے لیے اُس نے دُرشہوار کو ٹُھکرایا تھا۔ حِجاب کے ہالے میں چمکتا چہرہ لیے وہ مُسکراتی ہوئی اپنے اور رانا باقِر کے درمیان والی کُرسی پر جُھکی تھی اور کُچھ پل بعد اُس نے ہاتھوں میں ایک نوزائیدہ بچّے کو اُٹھایا تھا۔ دُرشہوار کے قدم ڈگمگائے تھے مطلب وہ ایک بچّے کا باپ بھی بن چُکا تھا؟ حمود نے اُس بچّے کو چوم کر رانا باقِر کی جانِب بڑھایا تھا جِسے تھام کر وہ پیار سے اُس سے باتیں کرنے لگا تھا۔

کِتنا مُکمّل منظر تھا وہ! ایک خُوشگوار ہنستی کھیلتی مُکمّل فیملی اور وہ؟ وہ اُن میں کہیں بھی نہیں تھی۔ ایک ان چاہا وجود، ایک ان چاہی منکوحہ، ایک اضافی وجود جِس کی کِسی کو ضرورت نہیں تھی۔ اُس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اُس خُوش باش جوڑ کو دیکھا تھا اور بغیر شانزے کا اِنتظار کیے لڑکھڑاتے قدموں سے واپس نیچے جانے کو پلٹی تھی۔ اُس کا سر چکرا رہا تھا آنکھوں کے سامنے یکدم اندھیرا چھا رہا تھا۔ لڑکھڑاتے قدموں سے وہ سیڑھیاں اُتر رہی تھی۔

ابھی وہ آدھی ہی سیڑھیاں اُتر پائی تھی کہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوتے وہ سیڑھیوں سے لڑھکتی نیچے جا گِری تھی۔ شانزے جو اُسے اوپر نا پا کر نیچے آ رہی تھی اُسے نیچے گِرتے دیکھ کر حواس باختہ سی اُس تک پہنچی تھی۔ شور بُلند ہوتے رانا جعفر اور شاویز بھی اُس طرف متوجّہ ہوئے تھے اور رانا جفعر اپنی بہن جو یُوں بے حِس و حرکت پڑے دیکھ کر تیزی سے اُس جانِب بھاگا تھا۔

نیچے ہونے والا شور اوپر ہوتے میوزِک میں دب سا گیا تھا۔ رانا جعفر اُسے بانہوں میں اُٹھائے باہِر کی جانِب بھاگا تھا۔ اُس کا دِل بہن کو اس حال میں دیکھ کر جیسے رُک سا گیا تھا۔ شاویز اور شانزے بھی اُس کے ساتھ تھے۔


**********************

رات کا تنہا پہر، فسوں خیز تنہائی، بھاگتے دوڑتے مناظِر، ہر طرف چھائی طِلسمی سی تاریکی اور پہلو میں ہم سفر کا ساتھ!

رانا عبّاس اِس وقت اپنے پہلو میں بیٹھی نین گُل کا ہاتھ تھامے دوسرے سے ڈرائیونگ کرتا سرشار سا تھا۔ پِچھلا اڑھائی سال کا عرصہ نین گُل کی ہمراہی میں بہت شاندار گُزرا تھا۔ اپنوں سے بِچھڑنے کا ملال تو تھا مگر وہ اپنی مُحبّت سے دستبردار نہیں ہوسکتا تھا تبھی اُس نے نین گُل کو چُنا تھا۔ اُس کی زِندگی کا ہر پل نین گُل کے ساتھ حسین تر گُزرا تھا کہ وہ وقت یاد کرتے اُس کے ہونٹ آپ ہی آپ مُسکرا اُٹھتے تھے۔ اپنی مُحبّت پا کر وہ مکمّل ہو گیا تھا اور اِس کی زِندگی کے خُوشیوں کا دوبالا اُس کے بیٹے رانا حمین عبّاس کی پیدائش نے کیا تھا۔ جِس کی پیدائش پر اُسے لگا تھا کہ اُن کی زِندگی اب مُکمّل ہوئی ہے۔

اِس وقت بھی وہ مُسکراتے ہوئی ڈرائیونگ کر رہا تھا جبکہ نین گُل منہ بسورتی سامنے دیکھ رہی تھی۔

"گھر کب پہنچیں گے؟ حمین رو رہا ہو گا!" نین گُلنے یہ کوئی بیسیوں مرتبہ کہا تھا۔

"وہ رونے نہیں رُلانے والوں میں سے ہے شیر ہے میرا بیٹا اب تک تو سو بھی گیا ہو گا آخر کو اُس کی ماسی ماں جو اُس کے پاس ہے۔" رانا عبّاس نے مُسکراتے ہوئے کہا تھا۔

"پھر بھی میرا دِل نہیں لگ رہا اُس کے بغیر! بس جلدی سے گھر پہنچیں! مُجھے میرے بیٹے کو دیکھنا ہے۔" نین گُل نے اُداسی سے کہا۔

"اپنے بیٹے کے باپ کو دیکھ لو یار! ہمارا بیٹا اُسی کی ڈٹو کاپی ہے۔" اُس کا ہاتھ لبوں سے لگاتے وہ شرارت سے بولا تو وہ شرمیلا سا مُسکرا دی۔ یہ بات تو سچ تھی رانا حمین نے ہر نقش باپ سے چُرایا تھا۔

"سامنے دیکھ کر گاڑی چلائیں رانا جی!" وہ دھیمے سے بولی تو وہ اُس کی حیا دیکھتا ہنستا ہوا سامنے دیکھنے لگا جب ہیڈلائٹس کی روشنی میں نظر سامنے روڈ پر گِرے وجود پر نظر پڑی۔ اُس نے جلدی سے بریک لگائی ورنہ کار اُس وجود کو کچل دیتی۔

"کیا ہوا؟" نین گُل نے دہل کر پوچھا تھا۔ اچانک بریک کی وجہ سے اُس کا سر ڈیش بورڈ پر لگتے لگتے بچا تھا۔

"تُم گاڑی میں ہی رہنا میں دیکھتا ہوں۔" وہ اُس کا گال تھپتھپا کر باہِر نِکلا اور اُس وجود کی طرف بڑھنے لگا۔ اُس کے قریب پہنچ کر وہ اُس پر جُھک کر اُسے سیدھا کرنے لگا جب وہ وجود اچانک اُچھلا اور ایک پنچ رانا عبّاس کے منہ پر مارا۔ اچانک ہوئے حملے کی وجہ سے وہ سنبھل نا پایا اور پیچھے کو جُھکا مگر پھر سنبھلتے اُس نے اپنے سامنے کھڑے وجود کے پیٹ میں لات ماری اور اُسے نیچے گِراتا اُس کے پیٹ میں پے در ہے گھونسے رسید کرنے لگا۔ نیچے پڑا آدمی اپنے آپ کو بچانے کی کوشش میں ہلکان ہونے لگا مگر رانا عبّاس نے جلدی سے پِسٹل نِکالتے اُس پر تانی۔ یہ سیفٹی پِسٹل وہ ہمیشہ اپنے پاس رکھتا تھا۔

"کون ہو تُم؟" رانا عبّاس نے غُصّے سے پوچھا تھا۔

"میں بتاتا ہوں!" اپنے پیچھے سے آتی آواز پر وہ ٹھٹھک کر مُڑا تھا اور پیچھے مُڑتے اُسے لگا جیسے جِسم سے جان نِکلی ہو۔ اُس نے کار سے نِکلتے وقت دروازہ لاک نہیں کیا تھا۔ اُس کے وہم و گُمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا کُچھ ہو سکتا ہے۔

وہ پھٹی آنکھوں سے سامنے دیکھ رہا تھا جہاں اُس کی زِندگی کو، اُس کی نِصف بہتر کو ایک غُنڈہ اپنی تحویل میں لیے ہوئے تھا۔ اُس کا ایک بازو سختی سے تھامے اُس غُنڈے نے دوسرے ہاتھ میں پکڑا چاقو اُس کی گردن پر رکھا ہوا تھا۔ ایک بے بس سی نظر اُس نے اپنی شریکِ حیات پر ڈالی تھی جِس کی آنکھوں میں موجود نمی اُسے کوئی اِنتہائی قدم اُٹھانے سے باز رکھے ہوئے تھی۔ اُس آدمی کے دائیں جانِب ایک آدمی کھڑا تھا جِو وہی تھا جو سڑک کے بیچ و بیچ لیٹا ہوا تھا جبکہ دوسرا آدمی جانے کہاں سے نِکل کر آیا تھا۔

سڑک پر گِرے آدمی سے لڑتے وقت وہ نین گُل کو فراموش کر گیا تھا جِس کا خُمیازہ اُسے بُھگتنا پڑ رہا تھا۔

رات کی تنہائی، بے اِنتہا اندھیرا، دور کہیں جھینگروں کے بولنے کی آواز، آسمان کے دامن میں اپنی پوری آب و تاب سے چمکتا چاند اور اُس کے گِرد جھمگٹوں کی صورت میں بِکھرے تارے گواہ تھے کہ وہ اِس وقت خُود کو کِتنا بے بس محسوس کر رہا تھا۔ وہ اکیلا ہوتا تو شاید اب تک اُن غُنڈوں کی ہڈّی پسلی ایک کر چُکا ہوتا مگر اُس کی سب سے بڑی کمزوری اُس کے ساتھ تھی جِس کی جان اُس غنڈے کے ہاتھ میں موجود چاقو کی نوک تلے تھی۔ اُس نے اپنے. ہاتھ میں تھامی پِسٹل کا رُخ اُس آدمی کی جانِب کیا تھا جِس نے نین گُل کی گردن پر چاقو رکھا ہوا تھا۔

"اُسے چھوڑ دو ورنہ گولی چلا دوں گا۔" اُس نے دھمکی دی تھی مگر سامنے والے پر کُچھ اثر نہیں ہوا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں پِسٹل موجود تھا جِس کا رُخ اُس غُنڈے کی طرف تھا جو اُس کی بیوی کی جان لینے کے درپے تھا۔

"یہ حماقت مت کرنا اِنسپکٹر! ورنہ تیری بُلبل ہم سے پہلے اوپر جائے گی۔" پاس کھڑا دوسرا غنڈہ غلیظ نظروں سے اُس کی بیوی کو دیکھتا ہوا بولا تھا جِس پر اُس کا خون کھولنے لگا تھا۔ اُس کے لفظوں پر وہ چونکا تھا۔ وہ آدمی جانتا تھا کہ وہ پولیس والا ہے پھر بھی اُسے دھمکا رہا تھا مطلب یہ جو کُچھ ہو رہا تھا وہ پری پلانڈ تھا۔

"میری فِکر۔۔۔۔۔۔۔۔ مت کریں رانا جی! مُجھے آپ۔۔۔۔۔۔۔۔ پر پورا۔۔۔۔۔۔ بھروسہ ہے آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مُجھے کُچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہونے دیں گے۔ اِن کو مار دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانا جی! مُجھے کُچھ نہیں۔۔۔۔۔۔ ہو گا اللّٰہ ہے نا۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے ساتھ رانا جی!" نین گُل نے سہمے اور ڈرے لہجے میں اٹک اٹک کر اپنی بات پوری کی تھی۔ آنسووں کی لڑی موتیوں کی طرح گالوں پہ بہہ رہی تھی مگر ہونٹوں پہ مُسکراہٹ تھی جو بتا رہی تھی کہ اُسے اپنے رانا جی پر پورا بھروسہ ہے۔

"میں تُمہیں کُچھ نہیں ہونے دوں گا نین گُل!" ایک عزم سے کہتے اُس نے پِسٹل پر گرفت مضبوط کی تھی۔

اُس نے سامنے کھڑے غُنڈے کی جانِب نِشانہ باندھا تھا جو اُس کی بیوی کی گردن پہ چاقو رکھے کھڑا تھا۔ ایک پل کو اُس نے کُچھ سوچا تھا مگر پِھر فیصلہ کن انداز میں اُس نے فائر کیا تھا۔ اُس کی گن سے گولی نِکلنے سے بھی پہلے اُس غُنڈے نے چاقو کو نین گُل کی گردن پہ پھیرا تھا۔ چاقو کی تیز دھار سے گردن سے خُون کی پھوار نِکلتی چلی گئی تھی۔ جبکہ دوسری طرف گن سے نِکلنے والی گولی اُس غُنڈے کے عین ماتھے میں جا سمائی تھی۔ فضا میں بیک وقت تین چیخیں بُلند ہوئیں تھیں جو فضا میں گونج کر رہ گئیں تھیں۔ نین گُل اُس غُنڈے کی گرفت سے چھوٹ کر نیچے جا گِری تھی۔ دوسرا غُنڈہ بھاگ چکا تھا۔ اُس کا کام ہو چُکا تھا اب اُسے اپنے ساتھی سے بھی کوئی غرض نہیں تھی۔

"نین میں کُچھ نہیں ہونے دوں گا۔ آنکھیں کھولو پلیز!" وہ گن پھینکتا بھاگ کر اُس کے پاس آیا تھا۔ نین گُل کا سر اپنی گود میں رکھ کر اُس نے نین گُل کی شہ رگ پر ہاتھ رکھ کر خون روکنے کی کوشش کی تھی جو پل پل بہتا جا رہا تھا۔ اُس نے تیزی سے اپنی جیب سے رومال نِکال کر اُس کی گردن کے گِرد باندھا تھا۔

"میں۔۔۔۔۔ بچ نہیں پاؤں گی۔ میرے۔۔۔۔۔۔۔ پاس آئیں۔" نین گُل نے اٹک اٹک کر کہا تھا۔ اُسے سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔

"کُچھ نہیں ہو گا۔ تُم ٹھیک ہو جاؤ گی۔ میں کُچھ نہیں ہونے دوں گا تُمہیں۔ تُمہاری ہر بات مانوں گا۔" وہ اُس کی ٹانگوں کے نیچے سے بازو گُزرا کر اُسے اُٹھانے لگا جب نین گُل نے اُسے روکا اور اپنی پوری طاقت سے اُس کا سر نیچے جُھکایا کہ اُس کا کان نین گُل کے ہونٹوں کے قریب ہو گیا۔

"میری بات۔۔۔۔۔سُنیں؟ میرے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" مدھم ہوتی سانسوں اور آواز کے ساتھ وہ جوں جوں بولتی گئی تھی رانا جی کا چہرہ زرد پڑتا گیا تھا۔ سر بے اِختیار نفی میں ہِلنے لگا تھا۔

"نو میں تُمہاری بات نہیں مانوں گا۔ تُمہیں کُچھ نہیں ہو گا۔ ہم ہسپتال جائیں گے۔ تُم بالکُل ٹھیک ہو جاؤ گی۔" وہ پاگلوں کی طرح بولتا ہوا اُسے اُٹھائے گاڑی کی طرف بڑھنے لگا تھا۔ اِس بات سے بے نیاز کہ وہ وجود اب ساکن ہو چُکا تھا۔ سانسوں کا ناطہ روح سے ٹوٹ چُکا تھا جِس کو وہ دیوانہ اپنے پاگل پن میں محسوس ہی نہیں کر سکا تھا۔ نین گُل کو بانہوں میں سموئے وہ تیزی سے اپنی کار کی جانِب بڑھا تھا۔ وقت کم تھا اگر دیر ہو جاتی تو رانا عبّاس کی جان جاتی۔ وہ ہر بات سے بے نیاز اُس کا ساکن وجود خُود میں بھینچے ہوئے تھا۔ رات کے سیاہ اندھیرے کے ساتھ ساتھ آسمان کے دامن میں چمکتے چاند نے بھی اُس کی حالت دیکھتے اُداسی سے نظریں چُرائیں تھیں۔


********************


وہ اِس وقت حمود اور حمین کو کمرے میں چھوڑ کر دوسرے کمرے میں آیا تھا۔ وہ آج رات یہیں رُکنے والا تھا۔ اپنے کمرے میں آ کر وہ بیڈ پر لیٹا دُرشہوار کے بارے میں سوچنے لگا تھا جِسے اُس نے پِچھلے اڑھائی سالوں سے نہیں دیکھا تھا نا دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ اُس سے ہوئی آخری گُفتگو اُسے اچھے سے یاد تھی۔ اُس نے جو تلخ الفاظ اِستعمال کیے تھے جانتا تھا کہ وہ زہر میں بُجھے ہوئے تھے اور اُن کی تلخی کِسی بھی بیوی کی جان نِکالنے کو کافی تھی بیوی بھی وہ جو آپ سے مُحبت کی دعویدار ہو اور زمانے سے لڑ کر آپ کو پایا ہو۔ اِن اڑھائی سالوں میں اُس نے دُرشہوار کو بہت سوچا تھا۔ اُس نے جو حرکت کی تھی اُس کا تجزیہ کیا تھا اور یہ بات ماننے میں اُسے کوئی عار نا تھی کہ وہ سبھی بہن بھائی مُحبّت میں اِنتہا تک کو جاننے سے نہں گھبراتے تھے جِس کی اعلٰی مِثال اُس کے سامنے تھہ رانا عبّاس اور دُرشہوار کی شکل میں! رانا عبّاس مُحبّت کی خاطِر خاندان سے کٹ گیا تھا جب کہ دُرشہوار مُحبّت میں صحیح غلط سب بھول گئی تھی۔

ابھی وہ دُرشہوار کو مزید سوچتا جب اُس کا فون گُنگُنایا تھا۔ پہلی فُرصت میں اُس نے کال رسیو کی تھی کہ کال کرنے والے کا نام اُس کے لیے باعثِ حیرت تھا جو کہ رانا جعفر کا تھا۔ اِن اڑھائی سالوں میں پہلی دفعہ رانا جعفر کی اُسے کال آئی تھی کہ اُن کے درمیان بول چال نا ہونے کے برابر تھا۔

"اسلامُ علیکُم!" دوسری طرف خاموشی ہی چھائی رہی تھی۔

"وعلیکُم اسلام! معاف کرنا اِس وقت ڈِسٹرب کیا۔ غلطی سے تُمہیں کال مِل گئی بابا سائیں کو کر رہا تھا!" دوسری طرف سے کُچھ پل بعد رانا جعفر کی بوجھل، درد سے ڈوبی آواز سُنائی۔

"خیریت؟ کیا ہوا ہے؟" وہ یکدم پریشان ہوتا اُٹھا تھا۔ اُس کی آواز میں موجود لرزش رانا باقِر کو کِسی انہونی کا احساس دِلا گئی تھی۔

"دُرشہوار ہسپتال میں ہے سیڑھیوں سے گر گئی ہے اُس کی کنڈیشن ٹھیک نہیں ہے۔ رکھتا ہوں بابا سائیں کو بتانا ہے۔" رانا جعفر نے کرب سے کہتے کال کاٹی تھی جبکہ رانا باقِر اپنی جگہ سن سا رہ گیا تھا۔ وہ ٹھیک نہیں تھی اور تکلیف میں تھی یہی ایک آواز اُس کے کانوں میں گونجی تھی۔ ایک عجیب سا احساس اُس کے دِل کو ہوا تھا جِسے وہ کوئی نام دینے سے قاصِر تھا۔ اُس نے جلدی سے راما جعفر کو ٹیکسٹ کیا تھا تا کہ ہسپتال کا پوچھ سکے۔ وہ تیزی سے باہِر کی جانِب بھاگا۔

"حمود! شاہی ٹھیک نہیں ہے میں ہسپتال جا رہا ہوں دروازہ بند کر لو!" حمود کے دروازہ کھولتے ہی اُس نے ہڑبڑی میں کہا تھا۔ اُس کے انداز اُس کی بے چینی کو واضح ظاہِر کر رہے تھے جِسے دیکھتے وہ بس اُسے دیکھ کر رہ گئی تھی جِس کا حال دیوانوں جیسا تھا۔

"اللّٰہ پاک خیر کریں گے۔ آپ دھیان سے جائیں!" اُس نے پریشانی سے کہتے اُس کے پیچھے قدم بڑھائے۔ اُس کے گھر سے نِکلتے ہی دروازہ بند کر کے وہ اندر آئی۔

"آپ کو ہمیشہ سے مُجھ سے نہیں شاہی سے مُحبّت تھی باقِر سائیں! وہ مُحبّّت جو شفقت میں لِپٹی ہوئی تھی جِسے آپ محسوس ہی نہیں کر پائے بس شہوار کے جذبات جان کر کُچھ اُلجھ گئے تھے تبھی اُس کیُ مُحبّت قبول نہیں کر پائے مگر اب لگتا ہے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔" گہرا سانس بھر کر کہتی وہ دُرِشہوار کی خیریت کی دُعا کرتی اپنے کمرے میں چلی گئی اِس بات سے انجان کہ اُس پر بھی ایک قیامت ٹوٹنے والی ہے۔


*********************


رانا جعفر دُرشہوار کو ہسپتال لے آیا تھا۔ ڈاکٹر اُسے ایمرجنسی میں لے گئے تھے جبکہ شانزے، شاہ ویز اور رانا جعفر کوریڈور میں ہی کھڑے رہ گئے تھے۔ شاہ ویز اور شانزے اُسے تسلّیاں دیتے تھک گئے تھے مگر اُس کے دِل کو چین نہیں آیا تھا۔ بدحواسی میں وہ رانا ہاشِم کو فون مِلانے کے چکّر میں رانا باقِر کو فون مِلا گیا تھا اور اُس کے پوچھنے پر وہ درشہوار کے بارے میں بتاتے پھر سے رانا ہاشِم کو کال کر کے ساری صورتحال بتا گیا تھا جو اِسی بات پر اُس پر برہم ہونے لگے تھے کہ وہ اُسے اِسلام آباد لے کر ہی کیوں گیا تھا جِس پر وہ نادم سا ہو گیا تھا کہ اگر وہ نا لے کر جاتا تو ایسا ہوتا ہی نہیں۔ رانا باقِر کا میسج دیکھتے وہ اُسے ہسپتال اڈریس دے گیا تھا۔

اب بھی وہ بے دم سا چئیر پر بیٹھا ہوا تھا۔ شانزے اور شاہ ویز کو وہ گھر بھیج چُکا تھا کہ باقی سب آنے والے تھے تو وہ اکیلا نا ہوتا اور گھر پر شاہ ویز کی بوڑھی والدہ بھی تھیں جِو کہ ٹھیک نہیں تھیں ایسے میں رات کے وقت اُن کا اکیلا رہنا بھی ٹھیک نہیں تھا۔ وہ اُسے اُن سے رابطہ رکھنے کا کہہ کر حوصلہ دیتے چلے گئے تھے اور وہ آئی سی یُو کے باہِر دروازے پر نظریں ٹِکائے بیٹھا تھا۔ ابھی وہ ساکت سا بیٹھا ہی تھا جب اُسے کِسی کے قدموں کی آہٹ سُنائی دی او رسر اُٹھا کر دیکھنے پر رانا باقِر کو دیکھ کر وہ حیرت زدہ سا اپنی جگہ سے اُٹھا۔

وہ اتنی جلدی کیسے پہنچ گیا! وہ تو دوسرے شہر میں تھا۔ اپنی اِس اُلجھن کو سوال کی شکل دیتا باقِر سے پوچھ گیا تھا جِس پر اُس نے کام کا بہانہ بنایا تھا کہ رانا عبّاس کے بارے میں بتا نہیں سکتا تھا۔

"کیسے ہوا یہ سب؟ کیسی ہے وہ اب؟" بِکھرے بال اور نیند کے خُمار میں ڈوبی آنکھیں دیکھ کر رانا جعفر کو اُس کی حالت کا احساس ہوا تھا کہ وہ بھی پریشان تھا اور اُس کی شہوار کے لیے یہ پریشانی رانا جعفر کو اچھی بھی لگی تھی۔

"ریسٹورانٹ گئے تھے وہاں میں اور میرا دوست نیچے ہی بیٹھے تھے جبکہ شہوار میرے دوست کی بیوی شانزے کے ساتھ سیکنڈ فلور پر گئی تھی۔ کافی دیر بعد وہ سیڑھیاں اُترتی نیچے آ رہی تھی جب آدھی سیڑھیوں کے درمیان سے ہی وہ نیچے آن گِری!" رانا جعفر نے ضبط سے بتایا تو رانا باقِر سیکنڈ فلور کے ذِکر پر چونکا۔

"کون سے ریسٹورانٹ گئے تھے اور کِس وقت؟" عجیب سے لہجے میں پوچھتا وہ خُود کو تسلّی دے رہا تھا کہ جیسا وہ سوچ رہا ہے ویسا کُچھ نہیں ہو سکتا لیکن ہمیشہ وہی نہیں ہوتا جو ہم سوچتے ہیں۔

"ایک گھنٹہ پہلے ہی کی بات ہے تقریباً نو بجے۔" رانا جعفر نے ریسٹورانٹ کا نام بتاتے ہوئے کہا تو رانا باقِر کے دماغ میں دھماکے ہونے لگے۔ یہ وہی وقت تھا جب رانا عبّاس نین گُل کو واش روم لے گیا تھا اور پیچھے وہ حمود کے ساتھ اکیلا تھا اور حمود کے ساتھ حمین بھی تھا تو کیا تبھی؟ اڑھائی سال پہلے کی اُسے وہ گُفتگو یاد آئی تو خُود کو کوس کر رہ گیا۔ اُسے آزمانے کے چکّر میں وہ بہت کُچھ غلط کر گیا تھا۔ یقیناً وہ اُسے حمود کے ساتھ دیکھ کر بہت کُچھ غلط سمجھ چُکی تھی۔

اِس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتا تبھی دروازہ کُھلا تھا اور ڈاکٹرز کے ساتھ کُچھ نرسز باہِر آئیں۔ وہ دونوں تیزی سے اُن کی جانِب بڑھے۔

"کیسی ہے میری بہن؟" رانا جعفر نے تیزی سے پوچھا تھا۔

"اُن کا نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے جِس کی وجہ سے اُن کی کنڈیشن ٹھیک نہیں ہے اور متضاد یہ کہ اُنہیں بہت بُری طرح سے چوٹ لگی ہے وہ بھی سر میں! پیٹ کے بل گِرنے کی وجہ سے اُن کی ریڑھ کی ہڈّی محفوظ رہی ورنہ ریڑھ کی ہڈّی ٹوٹ سکتی تھی۔ اِس وقت وہ انڈر آبزرویشن ہے جیسے ہی اُن کی کنڈیشن کُچھ بہتر ہو گی ہم اُنہیں روم میں شِفٹ کر دیں گے۔" ڈاکٹر نے تفصیل سے بتایا تو کہاں رانا جعفر بے چین ہو اُٹھا تھا وہیں رانا باقِر کے سر پر کوئی بم پھوٹا تھا۔

اُس نے اِتنا صدمہ لے لیا تھا کہ اِس حال کو پہنچ گئی تھی؟ بے دم سا ہو کر وہ چئیر پر بیٹھا تھا اور سر ہاتھوں میں گِرایا تھا۔ ڈاکٹر نے رانا جعفر کو اپنے کیبن میں آنے کا کہہ کر اپنے قدم آگے بڑھائے تھے۔ رانا جعفر نے رانا باقِر کے کندھے پر ہاتھ رکھے تو وہ سُرخ ہوتی بھوری آنکھیں اُٹھائے اُسے دیکھنے لگا پھر بے ساختہ اُس کے گلے لگ گیا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ یہ کیسی تکلیف ہے جو اُس کا دِل محسوس کر رہا ہے؟ نِکاح کے بولوں کا اثر تھا یا کُچھ مگر بس اِتنا محسوس ہو رہا تھا کہ اگر وہ تکلیف میں ہے تو سکون میں رانا باقِر بھی نہیں ہے۔ رانا جعفر نے نے اُسے وہیں رہنے کا کہا اور جانے لگا جب رانا باقِر نے اُسے روکتے خُود بھی اُس کج جانِب قدم بڑھائے۔

وہ دونوں ڈاکٹر کے کیبن میں پہنچے جو ہاتھ میں کوئی رپورٹ پکڑے اُنہی کا مُنتظِر تھا۔ اُنہیں بیٹھنے کا اِشارہ کر کے وہ اُن کی جانِب متوجّہ ہوا۔

"مریضہ کی یہ حالت کب سے ہے؟" ڈاکٹر نے پوچھا تو وہ چونک کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

"کیسی حالت؟" رانا جعفر نے حیرت و بے چینی کے مِلے جُلے تاثر سے پوچھا۔

"ڈِپریشن کی حالت؟ اُن کی دماغی حالت بہت اچھے سے بتا رہی ہے کہ وہ کافی عرصے سے ڈِپریشن کا شِکار ہیں اور کوئی عِلاج بھی نہیں کروایا گیا۔" ڈاکٹر کی بات سُن کر دونوں سن رہ گئے تھے۔

"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟" رانا جعفر کی مدہم سی آواز اُبھری تھی جبکہ رانا باقِر کے پاس سے تو الفاظ ہی ختم ہو گئے تھے۔

"لگتا ہے آپ کو اِس بارے میں کُچھ خبر ہی نہیں؟ اِتنے لاپرواہ کیسے ہو سکتے ہیں آپ!" ڈاکٹر کو اُن کی لاپرواہی پر حیرت ہوئی تھی۔

"ہوش کب تک آ جائے گا؟" رانا باقِر نے اُس کے سوال کو نظر انداز کرتے پوچھا کہ پریشانی سے بُرا حال تھا۔

"دیکھیں اِن کی دماغی حالت بتا رہی ہے کہ یہ کافی سٹریسڈ ہیں۔ کوئی پریشانی یا کوئی مسلہ ہے جِس کے متعلق یہ ہر وقت سوچتی رہتی ہیں۔ جب ہمیں کوئی پریشانی ہوتی ہے تو ہمارے ذہن پر دباو پڑتا ہے۔ ان پریشانیوں کے ہمارے جسم پر آثرات مرتب ہوتے ہیں اور سب سے پہلے ہمارے جسم کا جو حصہ متاثر ہوتا ہے وہ ہے دماغ! اس پریشانی کے بارے میں فوراً ہمارا دماغ سیکرونائزڈ فائرنگ شروع کردیتا ہے اور ہم سوچتے ہیں۔ جب تک وہ پریشانی رہتی ہے ہمارا زہن اس کے بارے میں مستقل سوچتا رہتا ہے۔ خیالات ہمارے دماغ کو اپنی آماجگاہ بنا لیتے ہیں اور اُٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے اور کوئ بھی کام کرتے وقت ہم مستقل اس مسئلے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ جب پریشانیاں زہن پر مسلط ہوں تو انسان اپنے روزمرہ امور پر پوری توجہ نہیں دے پاتا۔ اکثر دیکھا ہوگا کہ جب آپ کا زہن کسی ایک طرف سوچ رہا ہو اور کوئ شخص آپ سے کوئ بات کرے تو آپ اس کی بات سن ہی نہیں پاتے اور پھر اس جملے پر چونکتے ہیں" کہاں کھوگئے بھئ" یہی وجہ ہے کہ جب کسی شخص کا زہن مسائل میں گھرا ہوتا ہے تو پھر وہ اپنے روزمرہ کے کام نارمل طریقے سے کیسے انجام دے سکتا ہے۔ یہی ڈپریشن کی ابتدائ علامات ہوتی ہیں۔ اِس موقع پر بعض لوگ ٹوٹنا شروع ہوجاتے ہیں اور وہ مسائل سے مقابلہ کرنے کے بجائے ان سے فرار کے حربے تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ لوگ چڑچڑے اور بدمزاج ہوجاتے ہیں اور بات بات پر لوگوں سے لڑنے اور الجھنے لگتے ہیں۔سیدھے منہ بات نہیں کرتے اور لوگ انہیں بدتمیز اور ان سے دو بھاگنے لگتے ہیں اور کُچھ خوگ خاموش ہو جاتے ہیں اپنی پریشانیوں اپنے ہی دِل میں دبا لیتے ہیں اور کِسی پر کُچھ ظاہِر نہیں کرتے۔ ڈپریشن سے نظام ہاضمہ بھی بُری طرح متاثر ہوتا ہے اور دن بدن بگڑتا چلاجاتا ہے۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے۔ قوتِ فیصلہ انتہائی کمزور یا بلکہ تقریباً ختم ہو جاتی ہے۔ اس میں نسیان یعنی بھول کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے اور بعض اوقات تو وہ اپنوں کو پہچاننے سے بھی انکار کردیتا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ وہ بستر سے لگ جاتا ہے اور اُٹھنے بیٹھنے کے قابل نہیں رہتا۔ اس انتہائ کیفیت کو نروس بریک ڈاؤن (Nervous Break Down) کہا جاتا ہے۔ یہ ذہنی دباؤ اور انتشار کی انتہائ کیفیت کا نام ہے۔ نروس بریک ڈاون کا مریض نہ صرف رات بلکہ دن میں بھی نہیں سو سکتا۔ نیند غائب ہونے سے سب سے پہلے سر کے اندرونی اعضاء متاثر ہوتے ہیں۔ آنکھوں پر بوجھ محسوس ہوتا ہے اور بھاری رہتی ہے۔ مریضہ کی جِسمانی حالت بھی یہی بتا رہی ہے کہ وہ کِس قدر کمزور ہیں۔ اُن کا ویٹ تقریباً چالیس کِلو گرام کی رینج میں ہو گا اور یہ اِسی وجہ سے ہے کہ اُن کی خُوارک ٹھیک نہیں ہے اور خُوراک ٹھیک اِسی لیے نہیں ہے کہ اُنہیں بھوک محسوس نہیں ہوتی۔ اُن کی آنکھوں کے نیچے گہرح حلقے ہیں جو اُن کی شب بیداری کا واضح ثبوت ہیں۔ شُکر کریں کہ وہ ابھی کُچھ حد تک ٹھیک ہیں ورنہ شاید اُن کی جان بھی چلی جاتی۔ حیرت ہے کہ آپ لوگ اِتنے لاپرواہ رہے کہ آج وہ نروس بریک ڈاؤن کا شِکار ہو گئیں ہیں اور آپ سکون سے پوچھ رہے ہیں کہ ہوش کب آئے گا؟ " ڈاکٹر نے تفصیل سے بتاتے آخر میں طنزیہ انداز اپنایا تو دونوں کے جُھکے سر جُھکے رہ گئے۔ جہاں رانا باقِر اپنا احتساب کر رہا تھا وہیں رانا جعفر اپنی بہن سے ازحد لاپرواہی پر پشیماں تھا۔

" آپ لوگ دُعا کریں کہ وہ ٹھیک ہو جائیں باقی دوا کرنا تو ہمارا کام ہے۔ اب آگے جو خُدا پاک کی مرضی!" ڈاکٹر نے دونوں کے پریشان سے چہرے دیکھ کر کہا تو وہ دونوں اُس سے ہاتھ مِلاتے باہِر نِکل گئے۔ دونوں ایک دوسرے سے نظریں چُرا رہے تھے کہ نظریں مِلانے کے قابِل اُن کے پاس کُچھ بھی نہیں تھا۔


******************


وہ ریش ڈرائیو کرتا نین گُل کو ہسپتال لے آیا تھا۔ اُسے ایمرجنسی میں لے جایا گیا تھا جب کہ وہ دوائیوں کی بُو میں رچے بسے کوریڈور میں ٹہلنے لگا تھا۔ اِس وقت وہ سیکنڈ فلور کے کوریڈور میں کھڑا تھا اور نظریں آپریشن تھیٹر کے سُرخ بلب پر جمیں تھیں۔ نین گُل کے ساکت وجود کو دیکھتے وہ کِن اذیّت بھرے لمحوں سے گُزرا تھا یہ اُس کا دِل ہی جانتا تھا جِس میں نین گُل کی مُحبّت دھڑکن بن کر دھڑکتی تھی۔ زِندگی اُسے اپنے ہاتھوں سے ریت کی مانِند پھسلتی محسوس ہوئی تھی ایسے جیسے کوئی رگ رگ سے جان کھینچ رہا ہو۔ بے بسی کا وہ عالم تھا کہ اُس کا دِل کر رہا تھا کیسے بھی کر کے نین گُل کو بالکُل صحیح سلامت اپنے سامنے کر کے سینے میں چُھپا لے۔ اُس نے نین گُل کی نبض چیک کی تھی جو بالکُل مدھم سی تھی جیسے کبھی بھی رُک جائے گی جِسے محسوس کرتے رانا عبّاس خُود کو بھی ختم ہوتا محسوس کر رہا تھا۔

ہر گُزرتا لمحہ اُس کے دِل کی دھڑکن مدھم کرتا جا رہا تھا۔ کپکپی سی اُس کے وجود پر طاری ہوئی تھی۔ اپنے خُون آلود ہاتھوں کو دیکھتے وہ نین گُل کی تکلیف کا اندازہ کرتا آنکھیں میچے رو دیا تھا۔ اُس کا بمُشکِل سانسیں بھرتا وجود اُس کی نِگاہوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔ وہ اونچا لمبا جوان مرد جو بڑے سے بڑا زخم کھا کر بھی نہیں رویا تھا اپنی محبوب بیوی کو تکلیف اور زِندگی اور موت کے بیچ جھولتے دیکھ کر رو رہا تھا۔ اپنے رب سے دُعا مانگتا وہ اپنے لیے اُس کی زِندگی مانگ رہا تھا جِس کی سانسوں سے اُس کی سانسیں جُڑی تھیں۔

وہ اپنے رب سے مُخاطِب تھا کہ ایک وہی تو تھا جو اُس کی زِندگی اُسے واپس لوٹا سکتا تھا۔ وہی تو تھا جِس کے قبضہ قُدرت میں ہر ایک کی جان ہے جو چاہے تو ہر نا مُمکن کو مُمکن بنا دے۔ اُسے اپنے رب پر یقین تھا کہ وہ اُسے کبھی بھی نا مُراد نہیں لوٹائے گا۔ کُچھ سوچ کر وہ خُود کو سنبھالتا باہِر کی جانِب بڑھا تھا۔ نین گُل کے نام کا صدقہ باہِر بیٹھے فقیروں کو دیتے وہ واپس اندر آیا تھا۔

اُسے یہاں آئے ایک گھنٹہ ہونے والا تھا۔ نرسیں اندر سے باہِر جا رہیں تھیں مگر اُس کے روک کے پوچھنے پر کُچھ بھی نہیں بتا رہیں تھیں۔ یاد آنے پر اُس نے فون نِکالا تھا اور رانا باقِر کا نمبر مِلایا تھا۔ چوتھی بیل پر جا کر فون رسیو ہوا تھا۔

"باقِر گھر پر ہی رہنا۔ حمود اور حمین کو اکیلے مت چھوڑنا!" اگر نین گُل پر حملہ ہو سکتا تھا تو اِس کا مطلب کہ حمود کی جان بھی خطرے میں تھی جِس پر وہ رانا باقِر کو تاکید کرنے لگا تھا۔

"کیا ہوا ویر سائیں؟ آپ گھبرائے ہوئے کیوں ہیں؟" رانا باقِر نے پریشانی سر پوچھا تھا۔ ایک طرف دُرشہوار اور دوسری طرف رانا عبّاس! جانے اب کیا ہو گیا تھا؟

"نین گُل پر حملہ ہوا ہے اور میں اِس وقت ہسپتال میں ہوں۔" رانا عبّاس نے اُسے پوری روداد سُناتے ایک بار ہھر سے گھر پر رہنے کی تاکید کی تھی جبکہ رانا باقِر چاہ کر بھی اُسے نہیں بتا سکا کہ اِس وقت اُس کی بیوی ہی نہیں بہن کی جان بھی خطرے میں تھی۔ وہ پہلے ہی ہریشان تھا یہ اُس کے لہجے سے صاف ظاہِر تھا پھر وہ کیسے اُسے دُرشہوار کے بارے میں بتا دیتا۔

"ویر سائیں! آپ مُجھے ہسپتال کا پتہ بتائیں! میں حمود اور حمین کو وہاں چھوڑ دیتا ہوں کیونکہ مُجھے اِس وقت بہت ضروری کام ہے جِس کی وجہ سے میں گھر سے باہِر نِکلا تھا۔ میں اب گھر جاتا ہوں اور اُنہیں لے آتا ہوں۔" رانا باقِر نے کہا تو وہ پریشان سا گیا۔

"جلدی گھر جاو اور اُنہیں یہاں لے آو میں تُمہیں اڈریس سینڈ کرتا ہوں۔" رانا عبّاس نے کہہ کر کال کاٹی اور اُسے ہسپتال کا اڈریس سینڈ کرتے ایک بار پھر یہاں سے وہاں ٹہلنے لگا۔

دوسری طرف رانا باقِر نے جیسے ہی اڈریس پڑھا وہ چونک اُٹھا تھا۔ رانا عبّاس اِسی ہسپتال میں تھا جہاں وہ لوگ موجود تھے فرق صِرف یہ تھا کہ وہ لوگ فرسٹ فلور پہ تھے جبکہ رانا عبّاس سیکنڈ فلور پر تھا۔ وہ رانا جعفر کو ضروری کام کا کہہ کر رانا عبّاس کے گھر کی طرف نِکلا تھا اور رانا جعفر اُس کو دُرشہوار پر ضروری کام کو ترجیح دیتے دیکھ کر بس دیکھ کر رہ گیا تھا۔ اب رانا باقِر اُسے کیا بتاتا کہ اُس کے لیے رانا عبّاس کا حُکم بھی ضروری تھا اور ابھی دُرشہوار سے مِلنے کی اِجازت نہیں مِلی تھی۔

وہ تیزی سے ڈرائیو کرتا گھر پہنچا تھا۔ آدھی رات کا وقت ہو رہا تھا۔ بیل بجانے کے تقریباً پندرہ مِنٹ بعد دروازہ کُھلا تھا۔ حمود اُسے دیکھ کر حیران ہوںے کی بجائے اُسے اندر آنے کا راستہ دے گئی تھی۔ رانا باقِر نے اُسے حمین کو لے کر ساتھ آنے کا کہا تھا جِس پر وہ حیرت کا شِکار ہوئی تھی۔ اِتنی رات کو وہ ہرگِز بھی رانا باقِر کے ساتھ جانا نہیں چاہتی تھی جبکہ ابھی تک رانا عبّاس اور نین گُل بھی نہیں آئے تھے اور اِس بات کا اِظہار اُس نے بِلا جِھجھک رانا باقِر سے بھی کیا تھا جِس پر وہ اُس کی احتیاط پر سر جھٹکتا رانا عبّاس کو کال مِلا گیا تھا کہ جانتا تھا کہ یہ ضِدّی لڑکی اُس کی نہیں مانے گی چاہے وہ کُچھ بھی کرے۔ رانا عبّاس نے حمود سے بات کی تھی اور اُسے کُچھ بھی بتائے بغیر بس یہ کہا تھا کہ وہ رانا باقِر کے ساتھ چلی آئے وہ اُسی کا اِنتظار کر رہا ہے۔ رانا عبّاس کے بھاری لہجے پر وہ کُچھ چونکی تھی مگر رانا عبّاس سے کُچھ پوچھے بغیر کال کاٹ کر باقِر کو پکڑایا تھا اور خُود حمین کو لینے چل دی۔

اُس کے دِل کو کِسی انہونی کا احساس شِدّت سے ستانے لگا تھا مگر خُود کو سنبھالے وہ حمین کے ساتھ رانا باقِر کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی رانا عبّاس کی طرف روانہ ہوئی تھی اِس بات سے بے خبر کہ آگے نجانے کونسی قیامت اُس پر ٹوٹنے والی ہے۔


*********************

وہ حمود کو کِسی کی نظروں میں لائے بغیر سیکنڈ فلور پر آیا تھا حمود جو ہسپتال آ کر بُری طرح گھبرائی تھی اب رانا عبّاس کو تنہا دیکھ کر رونے لگی تھی۔ وہ لڑکی جو بہت کم روتی تھی اُس کے دِل نے کُچھ بُرا ہونے کی اِطلاع دی تھی۔ رانا عبّاس تنہا تھا تو نین گُل کہاں تھی یہی سوال اُس نے رانا عبّاس سے کیا تھا جِس کے جواب میں وہ اُسے ساری بات بتا گیا تھا سوائے اُس بات کے جو نین گُل نے آخر میں اُس سے کہی تھی کہ وہ ایسا سوچنا بھی گُناہ سمجھتا تھا۔ وہ حمین کو گود میں لیے وہ بے دم سی وہاں بیٹھی رہ گئی تھی۔ ایسا بھی موڑ آنا تھا اُس نے تو سوچا بھی نہیں تھا۔

اُسے تو لگا تھا کہ اب دُکھوں کے بادل ختم ہو گئے اور خُوشیاں ہی خُوشیاں ہو گی مگر یہ اُس کی غلط فہمی تھی۔ زِندگی کبھی بھی آسان نہیں ہوتی اُسے آسان بنانا پڑتا ہے۔ قدم قدم پر اِمتحانوں سے گُزرنا پڑتا ہے آگ کی بھٹی میں جل کر کُندن ہونا پڑتا ہے۔ ابھی تک کوئی ڈاکٹر باہِر نہیں آیا تھا وہ بس خُدا سے اپنی بہن کی صحت یابی کی دُعا کرر ہی تھی۔ اُسی وقت رانا باقِر کو رانا جعفر کا فون آیا تھا جانے کیا کہا گیا تھا کہ وہ کُچھ جِھجھکتا رانا عبّاس کے پاس آیا تھا۔ اِس وقت دو دو رِشتے موت کے منہ میں تھے۔ ایک منکوحہ تھی جبکہ دوسری بہن جیسی بھابھی! رانا عبّاس کے پاس جا کر اُس نے ضروری کام کا کہہ کر رُخصت چاہی تھی جِس پر اُس نے بغیر کُچھ کہے سر ہلا دیا تھا۔ اُسے تسلّی دے کر وہ نِچلے فلور پر آیا تو رانا جعفر نے بتایا کہ شہوار کو ہوش آ چُکا ہے مگر وہ ابھی آئی سی یُو میں ہی ہے۔ کنڈیشن سٹیبل ہو گی تو ہی روم میں شِفٹ کریں گے۔

رانا جعفر اُس سے مِل آیا تھا اور اُس نے بتایا کہ وہ سو رہی ہے۔ رانا باقِر ڈاکٹر سے اِجازت لے کر دھڑکتے دِل سے آئی سی یُو کا دروازہ کھول کر اندر داخِل ہوا تو نظر بیڈ پر لیٹی زرد رنگ چہرہ لیے دُرشہوار پر جا پڑیں۔ اُسے دیکھ کر ایک پل کو اُس کا دِل رُک کر دھڑکا تھا۔ بیڈ کے اِردگِرد مشینیں پڑی ہوئیں تھیں۔ ایک مشین اُس کی ہارٹ بیٹ شو کر رہی تھی۔ وہ تھکے تھکے سے قدم اُٹھاتا اُس کے قریب رکھے سٹول پر بیٹھا اور غور سے اُسے دیکھنے لگا۔ اِن اڑھائی سالوں میں کافی بدل گئی تھی۔ آنکھیں بند تھیں مگر سوتے ہوئے بھی وہ سنجیدہ سی لگ رہی تھی۔ آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے نمایاں ہو رہے تھے۔ چہرہ ہمیشہ کی طرح پُرکشش اور حسین تھا مگر اِس چہرے کا رنگ سُرخ کی بجائے زرد تھا۔

بھرے بھرے ہونٹ خُشک ہو چلے تھے۔ بال کیپ میں قید تھے۔ اُس کا جائزہ لیتا وہ دِل ہی دِل میں ڈاکٹر کی بتائی تفصیل سے تائید کر گیا تھا اُس کا وجود بیڈ پر چادر کے نیچے محسوس بھی نہیں ہو رہا تھا۔ اُس نے بے ساختہ اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما جہاں کینولا لگا ہوا تھا اور قطرہ قطرہ کوئی لِکوئیڈ اُس کی رگوں میں اُترتا جا رہا تھا۔ ہاتھ جو کبھی روئی کا گالہ ہوتا تھا اب ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا ہوا تھا کہ گورے ہاتھ کی پُشت پہ اُس کی ہری رگیں واضح ہو رییں تھیں۔ ہاتھ سے ہوتی اُس کی نظریں اُس کی کلائی پہ جا ٹھہریں۔ اُس نے دوسرے ہاتھ سے اُس کی کلائی کو نرمی سے پکڑا مگر وہ اُس کے بھاری مردانہ ہاتھ میں آکر بھی باقِر کے ہاتھ میں کافی خلاء چھوڑ گئی تھی۔

اُس کے قریب ہوتے وہ بوجھل دِل سے بے ساختہ اُس کی ہیشانی پہ جُھکا جو ٹھنڈی پڑی ہوئی تھی۔ نرم گرم سا لمس اُس کی پیشانی پر چھوڑ کر وہ کُچھ پل اُسے محسوس کرنے کے بعد سیدھا ہوا۔ کُچھ پل وہ اُسے دیکھتا رہا۔

بِلا شُبہ وہ پہلے سے بڑی ہو گئی تھی اِن اڑھائی سالوں میں آج وہ اُسے دیکھ رہا تھا۔ اُسے تو معصوم سی شاہی کہیں نظر ہی نہیں آ رہی تھی وہ شاہی جو صحت مند، تھوڑی چنچل اور بہت پیاری تھی۔ پیاری تو یہ بھی تھی مگر صحت مند نہیں اور اُس کی اِس حالت کا ذِمہ دار وہ خُود تھا۔ شاہی کی نادانی کی بہت بڑی سزا دے چُکا تھا وہ اُسے کہ وہ اپنی غلطی کے احتساب میں گُھل کر رہ گئی تھی۔ چاہنا غلط تو نہیں؟ اُس نے بھی تو چاہا تھا حمود کو! فرق صِرف یہ تھا کہ شاہی نے ہر ممکن کوشش سے اُسے پا لیا اور اُس کوشش کی سزا بھی بُھگتی۔ رانا باقِر نے قِسمت کے لِکھے کو جُھٹلاتے، اُسے اپنا نصیب نا مانتے اُسے سزا دینی چاہی تھی مگر آج اُس کی یہ حالت دیکھ کر وہ خُود تکلیف میں مُبتلا ہو گیا تھا۔

وہ تو شاہی تھی اُس کی شاہی! پھر وہ کیسے اُسے سزا دے سکتا تھا؟ کیوں اُس کا غُصّہ اُس پر حاوی ہو گیا تھا؟ اپنی شاہی کے ساتھ گُزارا ایک ایک پل اُس کی آنکھوں کے سامنے گُزر رہا تھا۔

آج وہ دُرشہوار کی غلطی کو بھول کر اُسے صِرف شاہی سمجھ کر اُس کی جگہ اپنے آپ کو رکھ کر دیکھ رہا تھا اور یہ ماننے میں اُسے کوئی عار نا تھی کہ وہ کم ظرف نِکلا تھا۔ اپنے نُقصان پر وہ اُسے سزا دے چُکا تھا جِس کی غلطی شاید زیادہ بڑی نا تھی۔ اُسے سمجھنے کی بجائے وہ اپنا غُصّہ اُس پر انڈیل کر اُسے بغیر کِسی اُمید کا سِرا تھمائے تنہا چھوڑ آیا تھا اور پھر اُسے آزمانے کے چکّر میں اُسے ذہنی اِذیّت بھی دے دی تھی جِس میں گُھلتے وہ ختم ہو رہی تھی اور کِسی کو پتہ بھی نہیں چلا تھا۔

"جو ہو گیا اُسے بدل نہیں سکتا! نہیں پتہ کہ کیوں تُمہیں اِس حال میں دیکھ کر تکلیف ہو رہی ہے مُجھے؟ مگر ٹھیک ہو جاو پلیز؟ جانتا ہوں بہت غلط کر گیا ہوں صبر کرنے کی بجائے تُمہیں اذیّت کی بھٹّی میں دھکیل دیا نہیں جانتا تھا کہ تُم اِس سب کا اِتنا اثر لو گی۔ مُجھے تو لگا تھا کہ جذباتی ہو کر وقت کشش کو تُم مُحبّت کا نام دے کر شاید کر رہی ہو اور یہ وقت کشش مُجھ سے دور رہ کر ختم ہو جائے مگر آج یقین آگیا ہے کہ وہ وقت کشش نہیں تھی۔ وہ تُمہاری میرے لیے مُحبّت تھی جِس کی خاطِر تُم نے مُجھے پانے کی کوشش کی۔ مُحبّت تو دو کا صیغہ ہے تیسرے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا! شراکت داری تو کِسی کو بھی اپنی مُحبّت میں نہیں چاہیے ہوتی۔ تُمہیں بھی شراکت داری نہیں چاہیے تھی تبھی تُم نے یہ سب کیا مگر بہت دیر سے سمجھ آئی مُجھے! آنے والے وقتوں میں کوشش کروں گا کہ تُمہیں اِتنی خُوشیاں دوں کہ تُم اِن اڑھائی سالوں کی تکلیف بھول جاو۔" اُس کا ہاتھ تھامے نرمی سے وہ کہہ رہا تھا جبکہ وہ اُس کی آمد سے انجان نیند میں گُم تھی۔

اسے کہنا

محبت کو انا کے

ناگ ڈس جائیں

تو آنکھیں

خُون روتی ہیں

اُسے کہنا کہ لُوٹ آئے

محبت منتظر

چاہت کے پھولوں سے

سجے رستے پہ

گھٹنے ٹیک بیٹھی ہے

اسے کہنا

آئے مرے چاند

تمہارے بِن

میری دُنیا اندھیری ہے

ستاروں کے چمکنے سے

اندھیرے کم نہیں ہوتے

میرے چندا

چمکنے کو چلے آو

اندھیرے کُچھ تو کم ہونگے

ائے میرے چاند

اسے کہنا

مُحبت کے ہزاروں رنگ

میرے اطراف رہتے ہیں

گُلابی حدّتوں کے

سب احساس

میری ہم آغوش رہتے ہیں

بُھلائے تم نہیں جاتے

بُھلاتا کون کافر ہے

اسے کہنا

مُحبت کے شجر کو

پروان چڑھنے دے

خُدارا نہ اُسے کاٹے

اسے سیراب ہونے دے

جڑیں مضبوط ہونے دے

محبت کے ہوا پانی

روشنی اور چاہت سے اسے

آباد ہونے دے

اُسے تناآور اور

مضبوط ہونے دے

اسے پروان چڑھنے دے

(نقل شُدہ)

"ہو سکے تو معاف کر دینا!" اُس کے ماتھے پر ایک بار پھر اپنا لمس چھوڑتے وہ کھڑا ہوا اور ایک افسردہ سی نظر اُس کے وجود پہ ڈال کر وہ باہِر کی جانِب بڑھ گیا۔ اگر وہ جاگ رہی ہوتی تو شاید خُوشی سے قلانچیں بھرتی مگر وہ اُس سِتم گر کی اِس عنایت سے انجان غُفلت میں گُم تھی۔


****************


رانا ہاشِم آدھی رات کے وقت ہسپتال پہنچ چُکے تھے۔ اپنی بیٹی کی تکلیف پر تڑپتے وہ رانا قاسِم کو گھر چھوڑ کر خُود اپنے مُلازم کے ساتھ حویلی سے اِسلام آباد چلے آئے تھے۔ مگر اُنہیں پتہ نہیں تھا کہ اُس وقت وہ کہاں ہیں۔ اپنے مُلازم کو باہِر چھوڑ کر وہ اندر آئے تھے اور سیکنڈ فلور پر چلے گئے تھے جب کہ وہ لوگ فرسٹ فلور پر تھے۔ وہ سیکنڈ فلور پر موجود آئی سی یُو کے باہِر کھڑے تھے۔ آج جہاں اُنہیں خُوشی کی خبر مِلی تھی وہیں بیٹی کی طرف سے یہ خبر دِل چیر گئی تھی۔ اُن کے بھیجے گِے غُنڈوں نے رانا عبّاس کو ڈھونڈ لیا تھا اور لوکیشن اِسلام آباد کی بتائی تھی۔ رانا ہاشِم نے اُن کو رانا عبّاس پر نظر رکھنے اور موقع مِلتے ہی نین گُل کو ختم کرنے کو کہا تھا جبکہ رانا عبّاس کو کِسی قِسم کی چوٹ نا پہنچنے کی خاص ہدایت تھی۔ اور آج ہی اُنہیں خبر مِلی تھی کہ نین گُل کی موت ہو چُکی ہے۔

وہ انجان تھے کہ اُن کا ایک پوتا بھی ہے۔

ایسی بے حِسی شاید ہی کہیں دیکھنے کو مِلی ہو جیسی رانا ہاشِم دِکھا رہے تھے۔ اپنی اولاد وہ کانٹوں سے بھی دور رکھنا چاہتے تھے اور بھول گئے تھے کہ نین گُل بھی کِسی کی بیٹی ہے اور کُچھ نہیں تو وہ یہ بھی بھول گئے تھے کہ یہ وہ لڑکی ہے جِس میں اُن کے بیٹے کی جان بستی ہے اور جِس کا اُس لڑکی سے وعدہ ہے کہ اُس کی سانسیں جب تک چلیں گی تب تک ہی وہ بھی سانسیں لے گا ورنہ اُسے کُچھ ہونے ہر وہ بھی زِندہ نہیں ریے گا۔

اچانک ہی ڈاکٹر باہِر آیا تھا۔

"مِسز رانا عبّاس کے ساتھ آپ ہیں؟" ڈاکٹر نے وہاں کِسی اور کو نا پا کر اُن سے پوچھا تھا جو پریشانی سے وہیں کھڑے ٹہل رہے تھے۔ ڈاکٹر کی بات سُن کر وہ چونکے تھے۔ رانا عبّاس؟

"نین گُل؟" اُنہوں نے پُرسوچ انداز میں پوچھا تھا۔

"جی وہی! یہاں اُن کے ہزبینڈ کھڑے تھے مگر ابھی شاید وہ یہاں نہیں ہیں۔" ڈاکٹر نے اِردگِرد دیکھ کہا تھا۔

"میں رانا عبّاس کا باپ ہوں میری بہو ہے نین گُل! کیا ہوا وہ ٹھیک ہے نا؟" رانا ہاشِم نے چہرے پر پریشانی کے تاثرات سجائے پوچھا تھا۔

"جی اب وہ ٹھیک ہیں! اُن کی شہ رگ کو بُری طرح سے کاٹا گیا تھا مگر اُن کی جِلد کی آخری دو تہیں بچ گئی ہیں شاید نِشانہ چوک گیا تھا۔ اب وہ خطرے سے باہِر ہیں۔ خُون کافی بہہ چُکا ہے جِس کی وجہ سے اُن کو کمزوری ہو سکتی ہے۔ جلد ہی اُنہیں روم میں شِفٹ کیا جائے گا تب آپ اُن سے مِل سکتے ہیں!" ڈاکٹر پیشہ ورانہ انداز میں کہہ کر جا چُکا تھا جبکہ رانا ہاشِم نے کینہ توز نِگاہوں سے آئی سی یُو کے دروازے کو دیکھا تھا۔ اُنہیں جلد ہی کُچھ کرنا تھا۔

نین گُل یہاں تھی تو دُرشہوار کہاں تھی؟ اُنہوں نے نیچے کی جانِب بڑھتے پریشانی سے رانا جعفر کا نمبر مِلایا تھا اور اُس سے لوکیشن پوچھی تھی۔ رانا جعفر نے اُنہیں اپنی لوکیشن بتائی تو وہ تیز قدموں سے وہاں پہنچے۔ ساری صورتحال سے آگاہ ہونے کے بعد اپنی بیٹی کی خیریت کی دُعا کرتے وہ باہِر کی جانِب بڑھے تھے۔ اپنے مُلازم کو کوئی ہدایت کرتے وہ واپس اندر چلے آئے تھے۔ ایک نئی چال نین گُل کے خِلاف چل کر وہ پُرسکون تھے اُنہیں یقین تھا کہ جو اُنہوں نے سوچا ہے وہ اگر ہو جائے تو رانا عبّاس واپس اُن کے پاس لوٹ آئے گا۔

رانا عبّاس اُن کے پاس لوٹنے تو والا تھا مگر کِس حالت میں؟ اگر وہ یہ جان جاتے تو کبھی بھی وہ سب نا کرتے جو اُن کے دماغ میں چل رہا تھان اپنی انا اور نام نہاد شِملے کی خاطِر وہ کئی زِندگیاں داو پر لگا چُکے تھے۔


*******************


ڈاکٹر آئی سی یُو سے باہِر آئے تھے۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ وہ اب ٹھیک ہے اور اُسے خُون دیا جا رہا ہے لیکن ابھی وہ ہوش میں نہیں آئی۔ ڈاکٹر کی بات سُن کر وہ خُوشی سے سجدے میں گِر گیا تھا۔ اُس پاک ذات کا کرم تھا کہ وہ ٹھیک تھی۔ حمود بھی خُوشی سے نم آنکھیں لیے اُسے دیکھنے لگی تھی۔

رانا عبّاس حمود کو وہیں ٹھہرا کر خُود صدقہ خیرات کرنے باہِر کی جانِب بڑھ گیا تھا۔ حمود کُچھ دیر بیٹھی ہی تھی کہ حمین نے پیمپر گندہ کر دیا تھا۔ وہ حمین کو اُٹھا کر واش روم کی جانِب چل دی تھی اور یہی وہ وقت تھا جب ایک ڈاکٹر چیک اپ کے لیے آیا تھا اور باہِر کھڑے رانا ہاشِم کو نین گُل کی حالت بتا کر چلا گیا تھا۔ رانا ہاشِم کے جانے کے کُچھ یی دیر بعد حمود اور نین گُل کُچھ وقفے سے وہاں آن موجود ہوئے تھے۔

ابھی نین گُل سے مِل نہیں سکتے تھے تبھی وہ باہِر بیٹھے ویٹ کر رہے تھے۔ ایک گھنٹے بعد نین گُل کو روم میں شِفٹ کر دیا گیا تھا۔ حمود اور رانا عبّاس نین گُل سے مِلنے گئے تھے۔ ساری رات اُنہوں نے سوتے جاگتے گُزاری تھی۔ نین گُل تو دوائیوں کے زیرِ اثر سو رہی تھی جبکہ رانا عبّاس اُس کا ہاتھ تھامے بیٹھا اُسے یک ٹِک تک رہا تھا۔ آج جیسے اُس کی جان نِکل گئی تھی اگر اُسے کُچھ ہو جاتا تو وہ کیسے جی پاتا؟ شاید مر جاتا؟ مگر حقیقی معنوں میں جان تو ابھی نِکلنے والی تھی۔ جِس سے انجان وہ آخری بار اپنی مُحبّت کو آنکھوں میں سمو رہا تھا۔

حمود صوفے پر ہی سو گئی تھی کہ رونے کے باعث اُس کی آنکھوں کے پپوٹے بوجھل ہو گئے تھے جو اُسے جاگتے رہنے کی اِجازت نہیں دے رہے تھے۔ جبکہ حمین اپنے بے بی کاٹ میں لیٹا نیند میں گُم ہر غم سے آزاد تھا۔

صُبح عباّس کی آنکھی کُھلی تو نین گُل آنکھیں کھولے چہرے پر تکلیف کے آثار لیے اُسے ہی تک رہی تھی جو بے آرام سا اُس کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور سر کو بیڈ پر ٹِکا رکھا تھا۔ اُسے جاگتے دیکھ کر وہ بے اِختیار مُسکرایا۔ اُس نے نظریں گُھما کر دیکھا تو حمود ابھی بھی سو رہی تھی۔

"کیسی ہو؟" اُس نے نرمی سے اُس کے ماتھے پر لب رکھتے پوچھا۔

نین گُل سر ہلانے کی کوشش کرنے لگی کہ بولا تو جا نہیں رہا تھا۔

"بس ٹھیک ہے۔ سر مت ہلاو اور چُپ رہو۔ بھوک تو نہیں لگی؟ لگی ہو گی ابھی تو یہ لیکوئیڈ کے ذریعے ہی خُوراک دیں گے تُمہیں! مگر فِکر مت کرو جیسے ہی ٹھیک ہو جاو گی ہم روز باہِر کا کھانا کھائیں گے۔ یمی اور چٹ پٹا سا!" وہ آخر میں شرارت سے بولا تو اُس کے لب ہلکی سی مُسکراہٹ میں ڈھلے۔

"ایسے ہی خُوش رہنا ہے! کِسی قِسم کی ٹینشن نہیں لینی میری نیناں نے! میں ڈاکٹر سے کہتا ہوں کہ تُمہارا چیک اپ کر لے پھر تُمہیں خُوارک بھی دے دیں تا کہ تُمہاری بھوک تو ختم ہو!" وہ کہتا ہوا ایک بار پھر اُس کا ماتھا چومتا باہِر نِکلا۔

ابھی وہ باہِر آیا تھا جب ایک ڈاکٹر اُس کے سامنے آیا۔

"پیشنٹ کو چیک کرنا ہے!" اُس ڈاکٹر نے کہا جِس نے چہرے پر ماسک لگا رکھا تھا۔ اوورآل پہنے، گلے میں سٹیتھو سکوپ لٹکائے وہ پیشہ ورانہ انداز میں بولتا اُسے راستہ دینے کا کہہ کر اندر داخِل ہوا۔ رانا عبّاس بھی اُس کے ساتھ ہی اندر آیا تھا۔ حمود بھی جاگ چُکی تھی جو روتے ہوِے حمین کو چُپ کروا رہی تھی جو ماں کی کم محسوس کرتا اُس کی گود ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ اُسے فیڈر بنا کر پِلا چُکی تھی مگر اُس کا رونا ختم نہیں ہو رہا تھا۔

ڈاکٹر نے نین گُل کا چیک اپ کر کے اُس کی ڈرِپ جو آدھی تھی اُس میں ایک اِنجکشن ڈالا اور پھر اُسے آرام کا کہہ کر باہِر نِکل گیا۔ رانا عبّاس حمود کو نین کا خیال رکھنے کا کہہ کر باہِر کی جانِب بڑھا تا کہ حمود اور اپنے لیے ناشتہ لے آئے۔

پندرہ مِنٹ بعد وہ واپس آیا تو کمرے کا حال یکسر مُختلِف تھا۔ پہلے جہاں حمود حمین کو چُپ کراتی نین گُل کو مُسکراتی نظروں سے دیکھ رہی تھی وہیں اب روتے ہوئے نین گُل کو دیکھ رہی تھی جبکہ ڈاکٹرز کی ایک ٹیم نین گُل کے اِردگِرد کھڑی اُس کا چیک اپ کر رہی تھی۔ ایک نرس مسلسل حمود کو باہِر جانے کا کہہ رہی تھی مگر وہ روتی ہوئی باہِر جانے کو تیار ہی نہیں تھی۔ ایک دم یہ کایا پلٹ کیسے ہوئی تھی وہ نہیں جانتا تھا۔ ناشتے کا شاپر اُس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گِرا تھا اور وہ تیزی سے ڈاکٹر کی جانِب بڑھا۔

"کیا ہوا؟ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟" وہ دیوانوں سی کیفیت لیے ڈاکٹر کو جھنجھوڑ گیا تھا۔

"آپ پلیز باہِر جائیں پیشنٹ کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔" ایک نرس نے سختی سے کہا تو وہ سُرخ سیاہ آنکھوں سے اُسے گھورنے لگا۔

"میں نے پوچھا کیا ہوا ہے؟" وہ چیخا تھا جِس پر سب رُک کر اُسے دیکھنے لگے مگر پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔ یہ سب اُن کے لیے نیا نہہں تھا ہزاروں لوگ اپنے پیاروں کی بِگڑی حالت پر یُوں ہی چیختے چِلّاتے تھے۔

"آپ کی بیوی کو زہر دیا گیا ہے اب ہمیں اپنا کام کرنے دیں۔" ایک میل ڈاکٹر نے سنجیدگی سے کہتے اُسے باہِر دھکیلا تھا۔

حمود کو نرس پہلے ہی باہِر نِکال چُکی تھی۔ دروازہ بند کر دیا گیا تھا۔

وہ لڑکھڑاتے قدموں سے باہِر نِکلا تھا۔ اُسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایسا ہو گیا۔ کُچھ دیر پہلے تک وہ ٹھیک تھی اور اب اچانک؟ اُس کا کونسا دُشمن تھا جو اُس کے پیچھے پڑ گیا تھا۔ پہلے جان لیوا حملہ اور اب زہر؟ کیا یہ بھی رانا ہاشِم نے کروایا تھا؟ کیا وہ یہاں تک پہنچ گئے تھے؟ یا یہ اُس کے کِسی اور دُشمن کی کارستانی تھی۔ دونوں حملے نین گُل پر ہوئے تھے اِس کا مطلب کوئی نین گُل کو مارنا چاہتا تھا اور نین گُل کا ایک ہی دُشمن تھا رانا عبّاس کا اپنا باپ! اُس کا خُون کھول اُٹھا تھا اگر اِس سب میں اُن کا ہاتھ ہوا تو وہ ہرگِز بھی اُنہیں معاف کرنے والا نہیں تھا۔ اُس نے حمود سے پوچھا تھا کہ کیا ہوا تو وہ روتے ہوئے اُسے بتانے لگی کہ اُس کے جانے کے بعد اچانک سے نین گُل اکھڑے سانس لینے لگی تھی پھر اُس کا جِسم بیڈ پر بُری طرح تڑپنے لگا جیسے اُسے سانس لینے میں مسلہ ہو۔

حمود حمین کو وہیں چھوڑے ڈاکٹر کو بُلا لائی تھی اور ڈاکٹر نے نین گُل کی نیلی ہوتی باڈی اور ڈرِپ میں موجود لیکوئیڈ کو دیکھتے اندازہ لگایا تھا کہ اُسے زہر دیا گیا ہے۔ اُس لیکوئیڈ کو ٹیسٹ کے لیے بھیجا گیا تھا۔ ڈاکٹر کے پوچھنے پر اُس نے بتایا تھا کہ ابھی کُچھ دیر پہلے ایک ڈاکٹر آیا تھا جِس نے نین گُل کو چیک کر اُس ڈرِپ میں لیکوئیڈ اِنجیکٹ کیا تھا۔ جِس پر ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ ابھی تو اُس کے چیک اپ کا ٹائم ہی نہیں ہوا تھا۔ اُس کا چیک اپ ساڑھے آٹھ بجے تھا اور ابھی تو سات بجے تھے۔ اُس کی بات سُن کر حمود کے اوسان خطا ہوئے تھے۔ ڈاکٹر نے اُسے باہِر جانے کا کہا تھا مگر وہ جا نہیں رہی تھی تبھی رانا عبّاس وہاں آیا تھا۔

تقریباً آدھے گھنٹے بعد ڈاکٹرز کی ٹیم باہِر آئی۔ رانا عبّاس تیزی سے اُس جانِب بڑھا تھا۔

"دیکھیے ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے۔ اُنہیں زہر کا اینٹی ڈوٹ دے دیا گیا ہے لیکن جب تک رپورٹ نہیں آ جاتی کہ اُنہیں کونسا زہر دیا گیا ہے تب تک ہم کُچھ نہیں کر سکتے۔ آپ دُعا کیجیے۔" ڈاکٹر کی بات پر وہ بے دم سا ہو گیا تھا۔ اپنے لڑکھڑاتے قدموں کو سنبھالتے وہ پاس پڑی چئیر پر بیٹھا تھا۔ اُس نے تو نین گُل سے وعدہ کیا تھا کہ اُس کی ہر تکلیف میں وہ اُس کا ساتھ دے گا تو اب جب وہ تکلیف میں تھی تو وہ تکلیف میں کیوں نہیں تھا؟ بے ساختہ اُس کی ںاکھوں سے آنسو پھِسلے تھے۔ حمین کو حمود سے تھام کر وہ اُسے خُود میں بھینچتا خاموش آنسو بہانے لگا تھا جب کہ حمود پہلے ہی رو رو کر نڈھال ہو گئی تھی۔

********************


صُبح جب وہ جاگی تو سامنے کا منظر دُھندلا سا تھا۔ آنکھیں جھپکنے پر جب سامنے کا منظر واضح ہوا تو یہ کوئی کمرہ تھا جِس کی دیواروں کا رنگ سفید تھا۔ دوائیوں کی بُو اُس کے نتھنوں سے ٹکرائی تو اُس کے ماتھے پر بل پڑے۔ بے ساختہ نظر گُھما کر اِدھر اُدھر دیکھا تو یہ ہسپتال کا ایک کمرہ تھا۔ اِس کا مطلب وہ ہسپتال میں تھی؟ ذہن بیدار ہوا تو آہستہ آہستہ کل کا واقعہ ذہن میں تازہ ہوا۔ بے اِختیار ہی اُس کی آنکھوں سے آنسو نِکلے تھے۔ اِس کا مطلب وہ نئی اذیّت سہنے کو بچ گئی تھی۔ گہرا سانس بھر کر آنسو روکنے چاہے تو ایک خُوشگوار سی خُوشبو اُس کے ناک سے ٹکرائی۔ یہ مانوس سی خُوشبو تو ایک ہی شخص اِستعمال کرتا تھا۔ اِس کا مطلب وہ آیا تھا؟ مگر وہ کیوں آئے گا؟ اُسے تو شاید پتہ بھی نا ہو کہ اُس کی پہلی بیوی زِندگی اور موت کے بیچ جھول رہی ہے۔ وہ تو اِس وقت اپنی بیوی اور بچّے کے پاس ہو گا۔ اُس کو تو شاید یاد بھی نا ہو کہ اُس کے نام پہ کوئی ہے جو محوِ اِنتظار ہے۔ اِس وقت وہ بدگُمانی کی اِتنہا پر تھی۔

بے ساختہ اُس نے اُٹھنے کی کوشش کی مگر پھر سر میں اُٹھنے والی ٹھیس اور جِسم میں ہوتی کمزوری کے باعث وہ پھر سے تکیے پر سر گِرا گئی۔ نم آنکھوں سے وہ اُسی کو سوچے جا رہی تھی۔ اُسے اپنے سر میں تکلیف کا احساس ہو رہا تھا مگر سوچوں کا محور وہی شخص تھا۔ یہ اُس کی اذیّت دیتی سوچوں کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ آج اِس حال میں تھی۔


آجا کہ ابھی ضبط کا موسم

نہیں گزرا

آجا کہ پہاڑوں پہ ابھی برف

جمی ہے

خوشبو کے جزیروں سے

ستاروں کی حدوں تک

اس شہر میں سب کچھ ہے

بس اک تیری کمی ہے!!

(نقل شُدہ)


اِسی وقت رانا جعفر اور رانا ہاشِم کمرے میں داخِل ہوئے تھے۔ اُس سے اُس کی خیریت پوچھتے اُس کے پاس بیٹھے وہ اُس سے ڈھیر ساری باتیں کر رہے تھے۔ اُس سے اُس کی پریشانی کی وجہ پوچھ رہے تھے اور پھر خُود ہی اندازہ لگاتے رانا باقِر کے کان کھینچنے کا کہہ رہے تھے کہ جلد ہی وہ حویلی لوٹ آئے گا۔ اُسے بتا رہے تھے کہ اُس کی ماں اور چچی بہت پریشان ہیں اِس لیے جلدی سے ٹھیک ہو جائے تا کہ وہ اُن کے ساتھ گھر چلے مگر وہاں موجود تینوں وجود ہی انجان تھے کہ وہ اُن کے ساتھ گھر نہیں کہیں او رہی جانے والی تھی۔

کُچھ دیر تک وہ سو گئی تھی۔ ڈاکٹر اُس کا چیک اپ کر گیا تھا اور اُس کی اچھی ڈائیٹ کا خیال رکھنے اور اُس ٹینشن فری رکھنے کا کہہ گیا تھا۔ رانا ہاشِم روم سے باہِر جا کر حویلی کال کر کے اُنہیں اُس کی خیریت کی اِطلاع دے رہے تھے جب کِسی نے اُن کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اُنہوں نے چونک کر مُڑ کر دیکھا تو سامنے سُرخ ہوتی آنکھیں لیے رانا عبّاس کھڑا تھا۔

"عبّاس!" اُن کے منہ سے بے ساختہ نِکلا۔

"ہاں میں! جِس کی سانسوں کو آپ نے موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے۔" وہ اذیّت سے بولا تھا۔ وہ نیچے فارمیسی سے ڈاکٹر کے بتائے اِنجکیشن لینے آیا تھا جب اُسے وہ نظر آئے۔

"کیا کہہ رہے ہو مُجھے کُچھ سمجھ نہیں آ رہا؟" رانا ہاشِم انجان بنے تھے حالانکہ وہ زہر کرائے کے آدمی سے اُنہوں نے ہی نین گُل کو دیا تھا۔

"مُجھے سب کُچھ پتہ چل گیا ہے بابا سائیں! انجان بننے کا دِکھاوا مت کریں!" وہ غُرّا اُٹھا تھا۔ ڈاکٹر نے اُسے بات کرنے کے لیے بُلایا تھا اور بتایا تھا کہ نین گُل کو زہر دیا گیا ہے جِس کی وجہ سے اُس کی طبیعت بِگڑی ہے اور اِس بات کا پتہ چلتے ہی اُس کا معدہ واش کیا جا رہا ہے تا کہ ٹھیک رہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اُنہوں نے عبّاس کے والد کو بتایا تھا کہ نین گُل کی کنڈیشن اب سٹیبل ہے مگر اب اچانک سے نجانے کِس نے اُس کی جان لینے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر کی بات پر عبّاس چونکا تھا اور اُس نے داکٹر سے تفصیل پوچھی جِس پر ڈاکٹر نے اپنی رانا ہاشِم سے ہوئی بات دُہرا دی۔ ڈاکٹر کی بات سُن کر اُس کا شک یقین میں بدل گیا تھا کہ یہ سب اُس کے باپ نے کیا تھا۔

نین گُل کا معدہ واش کر دیا گیا تھا مگر لمحہ بہ لمحہ اُس کی طبیعت بِگڑتی جا رہی تھی۔ رانا عبّاس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ وقت کو موڑ دے۔

"اچھی بات ہے لگ گیا پتہ تو! کہا تھا میں نے کہ چھوڑ دو اُسے مگر تُم نہیں مانے! تُمہیں سمجھایا تھا کہ کہیں بھی چلے جاو مگر اُسے چھوڑوں گا نہیں!" وہ چہرے پر نین کے لیے نفرت سجائے بولے تو وہ تلخی سے ہنسا۔

"اگر آپ کو لگتا ہے کہ اُسے مار کر آپ اپنا بیٹا واپس پا لیں گے تو غلط لگتا ہے۔ جب تک اُس کی سانسیں چلیں گی تب تک رانا عبّاس کا دِل دھڑکے گا۔ اگر اُس کی سانسیں رُکیں تو میں اپنی سانسیں اپنے ہاتھوں سے لوں گا اور آپ کو پتہ ہے رانا عبّاس اپنی باتوں سے مُکرتا نہیں!" وہ سرد لہجے میں کہہ کر لِفٹ کی جانِب بڑھ گیا تھا پیچھے وہ ساکت کھڑے اُس کے لہجے پر غور کرتے رہے مگر پھر انا آڑے آئی تو سر جھٹک کر واپس مُڑ گئے۔

***********************

دوپہر ہونے تک نین گُل کے جِسم میں پھیلنے والے والے زہر کا توڑ کر لیا گیا تھا مگر تب تک نین گُل کی حالت بہت بِگڑ چُکی تھی۔ اُس کا جِسم ریسپونڈ نہیں کر رہا تھا جِس کی وجہ سے ڈاکٹرز کو عِلاج کرنے میں پریشانی ہو رہی تھی۔ اُسے اُس زہر کا اینٹی ڈوٹ دے دیا گیا تھا مگر اُس کی حالت سنبھلنے میں نہیں آ رہی تھی۔ ڈاکٹرز نے جواب دے دیا تھا کیوں اُس کی حالت خراب تھی اور سارا جِسم مفلوج ہو گیا تھا۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ اُس کی باڈی بے بی کی برتھ کے بعد بہت ویک ہے دوسرا اُس کے گلے کی چوٹ کی وجہ سے بھی اُس کی حالت زیادہ سنبھلی نہیں تھی جو پھر زہر دے دیا گیا جِس سے اُس کی جان اور زیادہ خطرے میں پڑ گئی تھی۔ وہ زِندہ تھی مگر زِندہ لاش جیسی تھی جو نا حرکت کر سکتی تھی نا بول سکتی تھی شاید کُچھ سُن بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ وہ مسلسل بے ہوشی کے عالم میں تھیں بس سانسیں چل رہیں تھیں جو اُس کے وجود میں زِندگی کا احساس دِلاتیں رانا عبّاس کو ہمّت دے رہیں تھی۔

ڈاکٹرز کے جواب دینے پر اُس نے نین گُل کو کِسی اور ہسپتال شِفٹ کرنے کا سوچا تھا مگر ڈاکٹرز نے کہا تھا کہ یہ دُنیا کا ایک بہترین ہسپتال مانا جاتا ہے اگر یہاں عِلاج نہیں ہو سکا تو کہیں اور جانے کا رِسک نہیں لیا جا سکتا۔ ضروری تھا کہ اُسے باہِر شِفٹ کر دیا جائے وہاں اُس کا عِلاج بہتر طور پر ہو سکتا ہے جِس پر رانا عبّاس نے فوراً ہامی بھری تھی اور اپنے دوست احد کو فون کر کے اُس کی ٹِکٹ کروانے کا کہا تھا۔ نین گُل کا پاسپورٹ وہ اپنی شادی کے کُچھ دِنوں بعد ہی بنوا چُکا تھا کیونکہ وہ اُسے گھُمانے کے لیے پیرس لے جانا چاہتا تھا۔ اُس نے حمود سے بھی کہا تھا کہ وہ بھی چلے مگر اُس کا کہنا تھا کہ وہ کباب میں ہڈّی نہیں بننا چاہتی۔ نین گُل کا پاسپورٹ تو وہ بنوا چُکا تھا مگر حمود کا پاسپورٹ نہیں بنا تھا۔ شادی کے بعد وہ ایک ماہ پیرس گُزار کر آئے تھے جبکہ اِن دِنوں حمود ہاسٹل رہی تھی۔

اُس نے فوری طور پر باقِر کو بُلوایا تھا۔ اُسے ایمرجنسی بیس پر حمود اور حمین کا پاسپورٹ بنوانے کا کہہ کر وہ نین گُل اور اپنے باہِر جانے کا اِنتظام کرنے لگا تھا. نین گُل کے پاس حمود موجود تھی جبکہ وہ خُود گھر کی جانِب روانہ ہوا تھا۔ اپنی اور نین گُل کی ضروری اشیاء پیک کر کے وہ واپس ہسپتال پہنچا تھا۔ اِس سب میں شام کے پانچ بج گئے تھے۔ حمین اور حمود کی ذِمہ داری رانا باقِر کے سپرد کرتے وہ اُن کی حِفاظت کی خاص تاکید کرتے وہ ایمبولینس میں نین گُل کے ساکت وجود کو لیے ائیرپورٹ کی جانِب روانہ ہوا تھا۔ اُن کی فلائٹ رات کو آٹھ بجے تھی۔

پہچھے رانا باقِر حمود اور حمین کو لے کر ہسپتال کے سارے بِلز کلئیر کروا کے اُنہیں اپنی گاڑی مہں بِٹھا کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا تھا۔ وہ اُنہیں اُن کے گھر میں اکیلا چھوڑنے کا رِسک نہیں لے سکتا تھا کیونکہ رانا عبّاس اُسے ساری بات بتا چُکا تھا کہ یہ سب کِس نے کروایا تھا۔ اُنہیں گھر چھوڑ کر وہ حمود کے لیے ڈِنر پیک کروا لایا تھا جب کہ حمین کے لیے دودھ گھر میں ہی موجود تھا۔ حمود کی حالت بھی رونے کی وجہ سے خراب ہو رہی تھی مگر اُسے خُود کو حمین کے لیے سنبھالنا تھا۔ رانا باقِر کو اُس کی حالت پہ افسوس ہوا تھا مگر وہ قِسمت میں لِکھے کو نہیں ٹال سکتا تھا۔ اُسے اپنا اور حمین کا خیال رکھنے کا کہہ کر وہ واپس ہسپتال کی جانِب روانہ ہوا تھا اُسے اپنا ایک ضروری کام پورا کرنا تھا۔


********************


رانا جعفر اور رانا ہاشِم سارا دِن اُس کے پاس ہی رہے تھے۔ دوائیوں کے زرِ اثر وہ وقفے وقفے سے سوتی رہی تھی۔ رانا جعفر حویلی فون کر کے اُس کی خیریت کی اِطلاع دے چُکا تھا۔ دُرّے آنا چاہ رہی تھی مگر رانا ہاشِم نے منع کر دیا تھا۔ ڈاکٹرز نے کہا تھا کہ کل شام کو شہوار کو ڈِسچارج کر دیا جائے گا۔ رانا ہاشِم کِسی کام کا کہہ کر باہِر نِکلے تھے۔ ڈاکٹر ابھی ہی چیک اپ کر کے اُسے دوائیاں دے کر گیا تھا جِس میں موجود نشے کے باعث اب وہ پُرسکون سی سو رہی تھی۔ رانا جعفر کِتنی ہی دیر اپنی بہن کے بے رونق اور زرد چہرے کو دیکھتا رہا تھا۔ اُن دونوں کے حِصّے میں خسارے آئے تھے مگر نہیں یہ خسارے اُن کی غلطیوں کی وجہ سے اُن کے حِصّے میں آئے تھے۔ اگر اپنی ضِد اور انا کے ہاتھوں وہ بھٹکے نا ہوتے تو شاید آج وہ ایک نارمل لائف جی رہے ہوتے۔ کہیں نا کہیں رانا جعفر کو لگتا تھا کہ شاید اُس کا کیا اُس کی بہن کے سامنے آیا ہے۔ انھی وہ یہ ہی سب سوچ رہا تھا جب رانا باقِر کمرے میں داخِل ہوا۔ رانا جعفر اُسے دیکھ کر چونکا اُٹھا۔

"اِتنی دیر سے کہاں تھے تُم؟" جعفر کا لہجہ دھیما تھا۔

"گھر گیا تھا کُچھ ضرور کام تھا۔" رانا باقِر نے ایک نظر شہوار کے چہرے کو دیکھ کر جواب دیا۔

"کبھی ہمیں بھی دعوت دے دو اپنے گھر آنے کی؟" رانا جعفر نے ہلکے پھُلکے لہجے میں کہا تھا۔

"اچھا ہے نہیں بتایا گھر کا ! اب آسانی ہو گی!" رانا باقِر بڑبڑایا تو جعفر نے اچھنبے دے اُسے دیکھا۔

"وہ میں کہہ رہا تھا کہ ہاں کیوں نہیں جلد ہی بُلاوں گا تب دیکھ لیجیے گا۔" اُس نے گڑبڑا کر کہا۔ اِن اڑھائی سالوں میں اُس سے مِلنے کوئی بھی شہر نہیں آیا تھا۔ وہ خُود ہی کبھی کبھار حویلی جا کر مِل آتا تھا۔ اُس کی جاب بہت اچھی جا رہی تھی اور وہ مُطمئن تھا۔ رانا قاسِم اکثر آتے تو تھے مگر جب بھی اُن سے مُلاقات ہوتی یا تو ریسٹورانٹ میں یا پھر کِسی ہوٹل میں! رانا جعفر سمیت کِسی نے بھی اُس کا گھر نہیں دیکھا تھا جو کہ اُس کا ذاتی فلیٹ تھا۔

"ہمم!" رانا جعفر نے جواباً بس ہنکارا بھرا تھا۔

"اب کیسی طبیعت ہے شاہی کی؟" رانا باقِر نے پوچھا تو رانا جعفر نے چونک کر اُسے دیکھا۔ بہت عرصے بعد اُس نے رانا باقِر کے منہ سے یہ نام سُنا تھا جِسے سُن کر اُسے اچھا بھی لگا تھا۔

"ٹھیک ہے ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں کہ کل شام تک ڈِسچارج کر دیا جائے گا۔" رانا جعفر نے بتایا تع وہ سر ہلا گیا۔

"آہ!!! وہ میں ابھی ایک ضروری کام نِپٹا کر آرہا ہوں۔ اِتنی پریشانی میں کھانا کھانے کا موقع نہیں مِلا اور اب بہت بھوک لگ رہی ہے کیا آپ کُچھ کھانے کو لا دیں گے؟" وہ کُچھ جِھجھک کر اور کُچھ بے چارگی سے بولا تو رانا جعفر نے سر ہاں میں ہلایا اور اُسے شہوار کا دھیان رکھنے کا کہہ کر روم سے باہِر نِکل گیا۔ اُس کے جاتے ہی وہ تیزی سے آگے بڑھا اور ڈرِپ بند کر کے اُس کے ہاتھ سے نرمی سے کینولا نِکالا۔ اُس کا دوپٹہ اچھے سے اُس کے سر پر لپیٹا اور اُسے بانہوں میں اُٹھائے باہِر نِکلا۔ وہ گہری نیند میں تھی تبھی جاگی نہیں تھی۔ ابھی وہ دو قدم ہی چلا تھا کہ اُسے رُکنا پڑا۔

"آپ اِنہیں کہاں لے جا رہے ہیں؟" سامنے ڈاکٹر کھڑا تھا جو دُرشہوار کو اٹینڈ کر رہا تھا۔

"میری بیوی کو اندر گُھٹن کا احساس ہو رہا تھا تو سوچا کہ باہِر کُھلی فضا میں لے جاوں اِس سے اُس کی طبیعت پر اچھا اثر پڑے گا۔ آئی ہوپ کہ آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا؟" رانا باقِر نے متانت سے کہتے آخر میں اِستفسار کیا۔

"نہیں یہ تو بہت اچھی بات ہے کُھلی فضا صحت کے لیے اچھی ہے۔ آپ جائیں مگر ذرا احتیاط کیجیے گا۔" ڈاکٹر نے ہدایت کی تو وہ سر ہلاتا آگے بڑھ گیا۔ ڈاکٹر جانتا تھا کہ وہ شہوار کا شوہر ہے تبھی کوئی مسلہ نہیں ہوا تھا۔

اُسے بانہوں میں اُٹھائے وہ پارکنگ تک آیا تھا۔ اُسے اپنے سہارے کھڑا کرتے وہ جلدی سے گاڑی انلاک کرنے لگا۔ رانا جعفر ابھی نہیں آیا تھا اور یہ اُس کے لہے اچھا تھا۔ ایک نظر شہوار کو دیکھا مگر وہ ہنوز نیند میں گُم تھی جِس پر اُس نے شُکر ادا کیا۔ اُسے گاڑی کی فرنٹ سیٹ پہ بِٹھا کر اُس نے اپنی سیٹ سنبھالی۔ اُس کا سیٹ بیلٹ لگایا اور پھر آہستہ سے گاڑی سٹارٹ کرتے اپنے فلیٹ کی طرف روانہ ہو گیا۔

ابھی وہ آدھے راستے میں تھا جب اُس کا فون گُنگُنایا۔ دیکھا تو رانا جعفر تھا۔ اُس نے فون سائیلنٹ پر کرتے جیب میں ڈال دیا۔ فلیٹ پہنچ کر وہ اپنے پاس موجود چابی سے دروازہ کھولا اور شہوار کو اُٹھائے

اندر داخِل ہوا۔ اپنے کمرے کی طرف بڑھتے ایک نظر حمود کے کمرے پر ڈالی جو لاک تھا اور لائٹ بھی آف تھی۔

وہ مُطمئن ہوتا سر ہلا کر اپنے کمرے میں داخِل ہوا۔ اُسے بیڈ پر لٹا کر وہ مین لائٹ آن کرنے لگا۔ اِس کام سے فارِغ ہو کر وہ اپنے کپڑے لیتا باتھ روم میں گُھس گیا۔ دس مِنٹ بعد فریش ہو کر آیا تو وہ ٹراوز اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھا۔ شہوار پر چادر اوڑھا کر وہ باہِر کی جانِب بڑھا۔ لاونج میں آ کر رانا جعفر کو اپنی کارستانی کا بتایا اور فِکر نا کرنے کی تلقین کر کے بغیر اگلی بات سُنے فون بند کر دی۔ فون جیب میں رکھ کر وہ کِچن میں آیا۔ کُچھ سوچ کر اُس نے شہوار کے لیے سبزیوں کا سوپ بنایا ساتھ میں پانی کا جگ بھر کر وہ اپنے کمرے کی جانِب بڑھا۔ وہ کمرے میں داخِل ہوا تو وہ ہنوز سو رہی تھی۔ رانا باقِر کو اُس کی نین پہ تاو آیا تھا جو بھاگنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ سوپ پی لے مگر اُس کے جاگنے کے کوئی آثار نہیں لگ رہے تھے۔

کُچھ دیر وہ یُونہی یاسیت سے اُس کا زرد چہرہ دیکھتا رہا پھر گہرا سانس بھر کر لائٹ آف کرتا خُود بھی سونے لیٹ گیا کہ وہ بہت تھکن محسوس کر رہا تھا۔ سوپ وہیں پڑے پڑے ٹھنڈا ہو گیا تھا۔


********************


رانا ہاشِم شہوار کے روم سے نِکل کر سیکنڈ فلور کی جانِب گئے تھے۔ وہاں جا کر پتہ چلا کہ نین گُل نامی پیشنٹ کو ڈِسچارج کر دیا گیا ہے۔ وہ اپنا تعُارف اُس کے سسُر کی حیثیت سے کرواتے اُن سے ساری تفصیل معلوم کر گئے تھے۔ جہاں اُنہیں رانا عبّاس پر غُصّہ آیا تھا کہ وہ اُس کا عِلاج کروا رہا تھا وہیں اِس بات کی خُوشی ہوئی کہ وہ نا زِندوں میں تھی نا مُردوں میں! اُن کے لیے اُن کا حسب نسب، اُنکا اونچا شِملہ، اُن کا خاندان اہمیت رکھتا تھا اور وہ کِسی کمّی کمین کی بیٹی کو ہرگِز بھی مخمل میں ٹاٹ کے پیوند کی طرح قبول نہیں کر سکتے تھے جِس کے لیے اُنہیں جِس حد تک بھی جانا پڑتا وہ جا رہے تھے۔

وہاں سے وہ جب لوٹے تو سامنے ہی رانا جعفر پریشان سی صورت لیے کھڑا تھا۔ شہوار غائب تھی اور رانا باقِر بھی! اُنہیں ڈھونڈتے آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا مگر اُن کا نام و ِنشان بھی نہیں تھا۔ وہ رانا باقِر کو فون کر رہا تھا مگر اُس نے فون نہیں اُٹھایا تھا۔ تبھی وہی ڈاکٹر چیک اپ کے لیے آیا تھا جو رانا باقِر کو راستے میں مِلا تھا۔ کمرے میں جب پیشنٹ کو غائب پایا تو اُنہوں نے رانا جعفر سے پوچھا کہ اُن کا ہزبینڈ ابھی تک لے کر کیوں نہیں آیا واپس؟ تب رانا جعفر کے کُھل کر پوچھنے پر ڈاکٹر نے اُنہیں تفصیل سے اپنی اور رانا باقِر کی گُفتگو بتا دی۔ رانا جعفر باہِر کی جانِب بھاگا تھا مگر وہ کہیں بھی نہیں تھے۔ ٹھیک اُسی وقت رانا باقِر کا فون آیا تھا اور اُس کی بات سُن کر وہ ٹھیک ٹھاک تپ گیا تھا۔

اُس نے اُسے ڈانٹا تھا اور گھر کا پوچھا تھا جِس پر اُس نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ وہ اپنی بیوی کا بہتر طریقے سے خیال رکھ سکتا ہے اور وہ یہی سمجھیں کہ رُخصتی ہو گئی ہے۔ اِس سے پہلے کہ وہ کوئی سخت سُست سُناتا وہ فون ہی بند کر گیا تھا۔ اُس نے واپس جا کر یہ ساری بات رانا ہاشِم کو بتائی تھی جِس پر وہ کھول کر رہ گئے تھے۔ اُنہوں نے رانا جعفر کو اُس کی لوکیشن معلوم کرنے کا کہا تھا جِس پر وہ سر ہلاتا باہِر نِکل گیا جبکہ رانا ہاشِم واپس ہوٹل کی جانِب روانہ ہو گئے تھے تا کہ رات گُزارنے کا اِنتظام کیا جا سکے۔


********************


اگلی صُبح کا سورج طلوع ہو چُکا تھا۔ یہ دِن ایک نیا اِمتحان لے کر آیا تھا اور یہ اِمتحان کِس کے لیے تھا یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا تھا۔

اُسے اپنے جسم پر کوئی بوجھ سا محسوس ہو رہا تھا جِس کی وجہ سے اُس کا سانس بھی گُھٹ رہا تھا اور اِسی گُھٹن کی وجہ سے اُس کی آنکھ کُھلی تھی۔ ذہن ابھی مُکمّل بیدار نہیں ہوا تھا تبھی وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ یہ کیسا بوجھ ہے؟ کمرے میں نیم اندھیرا تھا مگر پھر بھی اِتنا نہیں کہ کُچھ دِکھائی نا دیتا۔

دماغ شعور کی دُنیا میں داخِل ہوا تو وہ اپنی نیند کے خُمار میں ڈوبی اسامنے دیکھتی اپنے کمزور سے وجود سے وہ بوجھ ہٹانے کو اُسے چھو کر دیکھنے لگی۔ اپنی کمر کے پاس موجود ہاتھ سے کلائی اور کلائی سے بازو تک گیا۔ تھوڑا اور آگے بڑھا تو کندھے کو چھو گیا جِس پر اُسے احساس ہوا کہ یہ کِسی اِنسان کا بازو تھا اور یہ احساس ہوتے ہی وہ رُخ پلٹ گئی۔ وہ شاید خُواب دیکھ رہی ہے؟ حقیقت میں تو کوئی اُس کے اِتنے قریب آنے سے رہا۔ اپنی سوچوں سے اُلجھتے اُس کی نظر اپنے قریب لیٹی رانا باقِر سے ٹکرائی!

بے ساختہ وہ مُسکرائی! یہ خُواب ہی تو تھا سچ میں ایسا ہونا تو نا مُمکن ہی تھا۔ اُس کے یہ اڑھائی سال ایسے ہی تو خُواب دیکھتے گُزرے تھے جِس میں رانا باقِر کے ساتھ وہ یُوں ہی اُس کے کندھے پر سر رکھے باتیں کرتی گُزارتی تھی۔ یہ اُسی کا عکس تو تھا جِو اُس کی تہائی کا ساتھی تھا۔ وہ خُود تو میسر نہیں تھا مگر اُس کا عکس ہمیشہ دُرشہوار کے ساتھ رہتا تھا جِس کو دیکھ کر اُس کے دِل میں اپنے زیاں کا احساس مزید بڑھ جاتا تھا۔

مُسکراتی نِگاہوں سے اپنا پتلا سا سفید و زرد ہاتھ اُس کے گال پر رکھا اور غور سے اُسے دیکھنے لگی۔ وہ آج اُسے پہلے کی نِسبت کُچھ مُختلف سا لگا۔ اُس کی بئیرڈ جو پہلے ہلکی ہوتی تھی آج کُچھ بھری بھری تھی، اُس کے گال بھی بھرے بھرے تھے، پیشانی پہ سِلوٹوں کا راج تھا جبکہ ہونٹ کُچھ عنابی سے ہو گئے تھے۔ وہ اُس کو اپنا گُمان خیال کرتی اُس کے ماتھے پر اُنگلی پھیرتی گال تک لائی پھر وہاں سے ہوتے اُس کی اُنگلی ہونٹ کے پاس آ کر رُک گئی۔ یہ وجاہت کا پیکر اُس کا نصیب تھا مگر اُس کے پاس نہیں تھا۔ وہ اپنی سیاہ نیند سی بھری آنکھیں میچ گئی کہ اُس کے عکس کا لمس اُسے محسوس کرنا تھا۔

"آہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اچانک اُس کی چیخ گونجی جو رانا باقِر کے ہاتھ تلے دب سی گئی۔ وہ اپنی کالی آنکھیں پھاڑے حیرانی و پریشانی سے اُسے دیکھنے لگی تھی۔ اُنگلی پہ ہوئی تکلیف سے زیادہ اُس کی حقیقی موجودگی اُس کے لہے شاکِنگ تھی۔ وہ آنکھیں موندے پڑی تھی جبکہ اُنگلی ہنوز اُس کے ہونٹ پہ تھی جِسے وہ منہ میں لیتا کاٹ گیا تھا۔

اُس کے چہرے پر چھائے بے یقینی کے تاثرات دیکھ کر وہ محفوظ ہو رہا تھا جب اچانک وہ پیچھے کو کِھسکنے لگی مگر رانا باقِر مکمّل اُس کی جانِب متوجّہ تھا تبھی اُس کو اپنی گرفت میں لے گیا۔

وہ تبھی جاگ چُکا تھا جب اُس نے رانا باقِر کا بازو کِھسکانا چاہا تھا جو وہ نیند میں اُس کے نحیف وجود پر رکھ چُکا تھا۔ اُس نے کہنی کے بل اُٹھ کر اُس کے اوپر جُھک کر دوسری طرف کا لیمپ آن کیا تو کمرہ روشنی سے نہا گیا۔ اب وہ ایک دوسرے کو واضح طور پر دیکھ سکتے تھے۔ خُود پر جُھکے عکس کی بجائے رانا باقِر کو دیکھ کر اُس کی سیاہ بڑی بڑی گہری آنکھیں پھٹنے کے قریب تھیں جِنہیں اُس نے جُھک کر اپنے لمس سے آشنا کیا۔ وہ شرمانے کی بجائے ابھی بھی بے یقینی سے اُسے دیکھ رہی تھی۔

"یقین نہیں آ رہا؟ اغواہ کر لیا ہے میں نے تُمہیں!" اُس کے کان میں سرگوشی کرتا وہ اُسے خوفزدہ کر گیا تھا۔

"کیوں؟" بے ساختہ اُس کے منہ سے نِکلا۔

"پیار کرنے کے لیے!" اُس کا غیر متوقع جواب سُن کر اُس نے اُس کی قید میں ہی اپنی دونوں آنکھیں مسلیں مگر وہ سامنے ہی تھا۔ پھر بھی یقین نا آیا تو اپنے بازو پر چُٹکی کاٹی مگر تکلیف سے سی کر کے رہ گئی۔ رانا باقِر نے اُس کا وہی ہاتھ تھاما جو چُٹکی کاٹنے سے سُرخ پڑ گیا تھا۔ اُس نے وہاں بھی اپنا نرم گرم سا لمس چھوڑا تو وہ بے اِختیار بازو پیچھے کر گئی۔ بے یقینی سی بے یقینی تھی کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھی۔

"یقین کر لو! اب کہیں نہیں جا سکتی تُم!" اُس نے نرمی سے اُس کے بِکھرے بال سنوارے اور پھر تھوڑا اوپر ہوتا بیڈ کراون سے ٹیک لگا کر نیم دراز ہو گیا۔

شہوار نے نظریں گُھما کر اِردگِرد کا جائزہ لیا۔ وہ وائٹ اور میرون کلر کے تھیم کا سجا کمرہ تھا۔ میرون کارپٹ، میرون پردے، میرون بیڈ شیٹس تھیں۔ کمرے کا پینٹ وائٹ تھا۔ ڈریسنگ ٹیبل، بیڈ، الماری، اعلٰی پائے کا فرنیچر کمرے میں موجود تھا۔ ایک طرف کِھڑکی تھی جِو بند تھی جبکہ بائیں جانِب باتھ روم تھا۔

"کمرے کا جائزہ لے لیا ہو تو شوہر کا بھی لے لو؟" رانا باقِر نے اُس کی توجّہ اپنی طرف مبذول کروانی چاہی تھی۔ وہ نظریں گُھما کر اُسے دیکھنے لگی یکدم ہی پرسوں کا منظر آنکھوں کے سامنے آیا تھا۔ اذیّت سے آنکھیں میچے وہ اُٹھنے کی کوشش کرنے لگی تو رانا باقِر نے جلدی سے اُسے سہارا دیتے اُس کے پیچھے تکیہ سیٹ کیا۔

"تُمہاری طبیعت ٹھیک نہیں بار بار اُٹھنے کی کوشش مت کرو!" رانا باقِر نے ٹوکا تو وہ چہرے پر تمسخر سجائے اُسے دیکھنے لگی۔

"آپ کو تو دُکھ ہوا ہو گا کہ بچ گئی مُصیبت؟" اُس نے تلخی سے پوچھا۔

"فضول بکواس مت کرو میرے ساتھ!" لہجہ نرم مگر وارن کرتا ہوا تھا۔

"مُجھے یہاں کیوں لائے ہیں؟ گھر جانا ہے مُجھے!" اُس نے پھر سے اُٹھنے کی کوشش کی تو وہ اُس کی پتلی کمر میں ہاتھ ڈال کر پھر پیچھے کھینچ گیا یُوں کہ اب اُس کی پُشت باقِر کے سینے سے لگی تھی جبکہ باقِر خُود بیڈ کے وسط میں بیٹھا تھا۔

"یہی تُمہارا گھر ہے فضول ضِد نہیں کرو بیوی ہو میری اب سے اِسی کو اپنا گھر سمجھو!" باقِر نے ٹوکا جبکہ وہ اُس کی حد درجہ قُربت پر سانس روک گئی۔

"چھوڑیں مُجھے! یہ میرا نہیں آپ کی بیوی کا گھر ہے اور میں آپ کی منکوحہ ہوں بیوی نہیں!" وہ چٹخ اُٹھی تھی۔ اُس کا اِطمینان شہوار کو سلگا رہا تھا۔

"تو بیوی بنانے میں کِتنا ٹائم لگتا ہے؟ رُخصتی تو ہو گئی سمجھو!" وہ معنی خیزی سے بولا مگر اُس کا یہ انداز شہوار کو اذیت میں مُبتلا کر رہا تھا وہ ایسے ظاہِر کر رہا تھا جیسے کُچھ ہوا ہی نہیں؟ اُس کے یہ اڑھائی سال اذیتوں کی نظر ہو گئے تھے اور وہ کِتنا پُرسکون نظر آ رہا تھا۔

"نہیں رہنا مُجھے آپ کے ساتھ! چھوڑیں مُجھے! جانا ہے مُجھے!" وہ چیخی تھی اور اِتنی زور سے کہ لازمی آواز دوسرے کمرے تک گئی ہو گی۔

"رہنا ہے سنگ تیرے ہی مُجھے!

جینا ہے سنگ تیرے ہی مُجھے!

وہ گُنگُنایا تھا جب کہ شہوار کا ضبط چھلکنے لگا تھا اور یہی تو وہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے اندر کا غُبار نِکالے، اپنی اندر کی تلخیوں کو نِکال کر دِل ہلکا کر لے۔ پہلے والی شاہی بن جائے جو ہنس مُکھ سی، کُچھ چنچل اور کُچھ ضِدّی سی تھی۔ ایک ندامت تھی جو رانا باقِر کے دِل میں تھی۔

"کیا چاہتے ہیں؟ میری بے بسی کا مذاق اُڑا رہے ہیں نا؟" وہ بے بسی سے بولی تھی جِس محسوس کرتے وہ اُس کا رُخ اپنی طرف پلٹتے اُسے اپنا احساس دِلانے لگا تھا کہ وہ نا چاہ کر بھی اُس کو روک نہیں پائی تھی۔ اِسی وقت دروازے پر دستک ہوئی تھی۔ رانا باقِر جلدی سے پیچھے ہوا تھا جبکہ شہوار اُس کی طرف سے رُخ پلٹتی دوسری طرف کر گئی۔ وہ بیڈ سے اُتر کر دروازے کی جانِب بڑھا اور دروازہ کھولا۔

"سب ٹھیک ہے نا باقِر سائیں؟ کِسی کے چیخنے کی آواز سُنائی دی مُجھے!" حمود تھک جو پریشان چہرہ اور سُرخ سیاہ آنکھیں لیے کھڑی تھی۔ وہ رات لو کافی دیر تک روتی رہی تھی اُسے نین گُل کی فِکر ہو رہی تھی۔

"سب ٹھیک ہے حمود! حمین اُٹھ گیا؟" رانا باقِر نے نرمی پوچھا تھا۔

"نہیں سو رہا ہے۔ چیخ کی آواز آئی تو میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" رانا باقِر کے پیچحے نمودار ہوتے وجود کو دیکھ کر اُس کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔ اُسے نہیں پتہ تھا کہ رانا باقِر اُسے یہاں لے آیا تھا اور اب یُوں اُس کا اُسے سامانا ہو جائے گا۔ جانے وہ اپصے یہاں دیکھ کر کیا سوچے گی؟ کیا اُسے مارنے کو لپکے گی جیسے پہلے کیا تھا؟ یا پھر اُسے بُرا بھلا کہے گی؟ وہ اپنی ہی سوچوں میں گُم تھی جب شہوار کا جُملہ اُسے حیران کر گیا۔

"فِکر مت کرو میں آج ہی چلی جاوں گی! بہت غلطیاں کر لیں میں نے! اب اور نہیں کروں گی! میں تُمہارا گھر برباد نہیں کروں گی بس تُم مُجھے معاف کر دینا اڑھائی سال پہلے میں نے تُم سے بہت بدتمیزی کی تھی!" شہوار کے سنجیدگی سے کہنے پر دونوں نے چونک کر اُسے دیکھا تھا۔ باقِر کی آنکھوں میں حیرانی تھی کہ شاہی تو کبھی کِسی کے سامنے جُھکی نہیں مگر وہ بھول گیا تھا مُحبّت بڑے بڑوں کی اما اور اکڑ ختم کر دیتی ہے جبکہ حمود نا سمجھی سے اُسے دیکھ رہی تھی۔ شاکڈ نظریں اُس کے زرد، نحیف سے چہرے پر جمیں تھیں۔ یہ وہ گُلابی رنگت والی شہوار تو نہیں تھی یہ تو کوئی اُجڑی ویران روح تھی جِس کی ساری شادابی مُحبّت نے نچوڑ لی تھی۔

شہوار نے بغور اُس کے روئے روئے چہرے کو دیکھا تھا یہ شاید اُس کے یہاں آنے کی وجہ سے تھا۔ وہ یقیناً باقِر سے ناراض ہوئی ہو گی کہ وہ اپنی پہلی منکوحہ کو یہاں کیوں لایا؟ تبھی وہ اُسے تسلّی دے گئی تھی۔ اب وہ رانا باقِر کے راستے میں نہیں آنا چاہتی تھی۔

"بی بی جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" حمود نے کہنا چاہا تھا۔

"تُم جاو حمود! حمین اُٹھ گیا ہو گا!" رانا باقِر نے اُس کی بات بیچ میں کاٹی وہ مُڑنے لگی جب شہوار کی بات پر رُکی۔

"بہت مُبارِک ہو بیٹے کی! بہت پیارا ہے۔" شہوار نے بھرّائے لہجے میں کہا تھا۔ وہ رونا نہیں چاہتی تھی مگر ضبط چھلک ہی گیا تھا۔

"شاہی کے لیے کُچھ ہیلدی سا بنا دینا۔" وہ جو دراوازے کے کواڑ کے سہارے کھڑی تھی اُسے دیکھ کر حمود سے کہا تو حمود نے شہوار سے بات کرنا چاہی مگر رانا باقِر کے اِشارے پر واپس مُڑ گئی۔

وہ اُس کے جانے کے بعد شہوار کو سہارا دیتا دروازہ بند کر کے بیڈ کی جانِب بڑھا۔ شہوار کی نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھے سوپ پر پڑی جو شاید رات کو اُس کے لیے ہی لایا گیا تھا۔

"تُمہارے لیے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا مگر تُم جاگی ہی نہیں! شوہر کی تو قدر ہی نہیں پاگل لڑکی کو!" وہ ہلکے پھُلکے لہجے میں بولا مگر وہ چُپ رہی۔

"یہاں بیٹھو!" وہ اُسے بیڈ پر بِٹھا کر خُود بھی اُس کے سامنے بیٹھا۔

"جانتا ہوں ماضی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں۔ غلطی صِرف تُمہاری نہیں میری بھی ہے۔ مُجھے تُمہیں سمجھنا چاہیے تھا مگر تُمہیں سمجھنے کی بجائے میں اپنا غُصّہ تُم پر اُتارتا رہا۔ غم ہمیشہ نہیں رہتے جیسے خُوشیاں ہمیشہ نہیں رہتیں اِسی طرح اب خُوشیاں ہوں گی غم نہیں! اڑھائی سال پہلے میں نے جو تُمہیں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ نرمی سے اُس کے ہاتھ تھامے بول رہا تھا جب وہ بیچ میں بات کاٹ گئی۔

"آپ کو کیا غم؟ آپ کو تو ساری خُوشیاں مِلیں! خُوبّصورت بیوی جِسے ُآپ بے پناہ چاہتے ہیں، ایک پیارا سا بچّہ!آپ تو مُکمّل ہیں! غم تو میرے حِصّے میں آئے اور شاید یہی میری سزا تھی۔" وہ یاسیت سے بولی۔ آنسو اب گالوں پر بہنے لگے تھے۔

"شش! کِتنا بولتی ہو؟ شوہر کی بھی سُن لو یار!" وہ مصنوعی خفگی سے ٹوک گیا تھا۔

"شاید آخری بار! پھر تو کبھی اِس گھر میں میری آواز نہیں گونجے گی۔" وہ پیچھے ہوتی تکیے سے ٹیک لگا گئی کہ سر بھاری ہونے لگا تھا۔

"میری بات سُنو شاہی! اِس گھر میں تُمہاری آواز کے عِلاوہ ہمارے بچّوں کی آوازیں گونجیں گی۔ میری پہلی اور آخری بیوی ہو تُم! تُمہارے عِلاوہ کِسی سے نِکاح نہیں کیا میں نے!" اُس نے شہوار کے آنسو صاف کرتے کہا تو وہ بے اِختیار اُسے دیکھنے لگی۔

"میرا دِل رکھنے کے لیے کہہ رہے ہیں نا؟ آپ کو یہ تکلّف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جِتنی اِذیّت سہنی تھی سہہ لی اب کوئی تکلیف نہیں ہو گی!" وہ نم لہجے میں ہنس کر بولی مگر اُس کی ہنسی بھی اُسی کی طرح بے رونق تھی۔

"دِل رکھنے کے لیے نہیں کہہ رہا سچ کہہ رہا ہوں! تب جو میں نے کہا تھا وہ صِرف تُمہیں آزمانے کے لیے کہا تھا کہ شاید یہ وقتی جذبہ ہے جِسے تُم مُحبّت کا نام دے رہی ہو۔ وقت کے ساتھ یہ کشش ختم ہو جائے گی اگر پتہ ہوتا کہ یہ وقتی کشش نہیں مُحبّت ہے تو شاید وہ سب نا کہتا۔ میں نے صِرف تُم سے نِکاح کیا ہے کِسی اور سے نہیں۔ اِکلوتی بیوی ہو تُم میری! اپنے دِل سے یہ خیال نِکال دو کہ تُمہارے عِلاوہ میری زِندگی میں کوئی اور عورت ہے اور جانتی ہو مُجھے یہ بات کِس نے سمجھائی کہ تُم ہی میرا نصیب ہو؟" رانا باقِر نے اُس کے دِل سے ہر خدشہ نِکالتے ہوئے آخر میں سوالیہ انداز اپنایا۔

"کِس نے؟" روتے ہوئے وہ پوچھنے لگی تھی۔ رانا باقِر نے اُس کے آنسو صاف کیا۔

"حمود نے! اُس نے سمجھایا کہ تُم ہی میری قِسمت ہو اور میں تُمہیں دُھتکار کر مُحبّت کو دھتکار رہا ہوں اور جو مُحبّت کو دھتکارتا ہے مُحبّت اُسے دھتکار دیتی ہے۔ حمود سے میرا کوئی تعلُق نہیں ہے۔" اُس کی سوجھی آنکھیں دیکھ کر وہ تاسف سے بتانے لگا۔ اُس کے چہرے پر بے یقینی چھلک رہی تھی۔ جانے کیوں اُسے اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہ شخص جو سدا بے رحم تھا اب اچانک ایسے عنایتوں پر کیوں اُتر آیا تھا۔

"پھر اب وہ یہاں کیوں ہے؟ آپ کے ساتھ؟ وہ بچّہ؟ اُس کے گھر والے؟" شہوار کے لہجے میں ابھی بھی خدشے تھے۔

"بتا رہا ہوں نا؟ مُجھے لگتا ہے کہ ساری زِندگی اب مُجھے اپنے سامنے بولنے نہیں دو گی۔ پکّا زن مرید کا لقب مِلے گا مُجھے!" وہ مصنوعی بے چارگی سے بولا تو وہ روتے روتے ہنس کر اُس کے کندھے پر سر ٹِکا گئی۔

اُس کے گِرد اپنا حِصار قائم کرتے رانا باقِر اُسے رانا عبّاس کے شہر آنے اور. نین گُل سے شادی سے لے کر نین گُل کی خراب طبیعت تک کی ہر بات بتا گیا۔

اُس کی بات سُن کر شہوار دم بخود رہ گئی۔ اُسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب اُس کے باپ نے کروایا تھا اور حمین اُس کے بھائی کا بیٹا تھا یعنی اُس کا بھتیجا!

"کیا جو میرے ساتھ ہوا وہ میرے باپ کے کیے کی سزا ہے؟" شہوار بڑبڑائی تو وہ فوراً نفی میں سر ہلا گیا۔

"ایسا نہیں ہوتا! اللّٰہ پاک کِسی کے کیے کی سزا کِسی بے قصور کو نہیں دیتا ہر ایک کو اُس کے کیے کا بدلہ مِلے گا۔ یہ سب چھوڑو! تُم بتاو مُجھ پر یقین آیا کہ نہیں؟" باقِر نے سنجیدگی سے پوچھا تو وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔

" آ گیا ہے!" وہ اُس کی اپنے چہرے کے قریب موجود تھوڑی دیکھنے لگی جو بئیرڈ سے بھری تھی۔ اُس نے اُنگلی کی مدد سے چھو لیا تو وہ مُسکرایا۔

"حق ہے تُمہیں!" اُس نے یاد دِلایا تو وہ ہنس دی۔

"میری یاد میں اپنی پرواہ کرنا بھی چھوڑ دی؟ اِتنی کمزور ہو گئی کہ گال بھیا ندر کو دھنس گئے ہیں اور یہ جو کالے کالے نینوں کے نیچے کالے کالے حلقے ہیں نا زہر لگ رہے ہیں۔ مُجھے جلدی سے وہ شاہی واپس کرو جو گُلابی گالوں والی اور چمکتی آنکھوں والی ہوتی تھی۔" رانا باقِر نے اُس کی حالت کو تاسف سے دیکھا تھا جِس پر وہ اُداسی میں گِھر گئی۔

"جِس عورت کا شوہر یہ کہے کہ اُس کی زِندگی میں کوئی اور آنے والی ہے وہ کیسے بہاروں کی مانِند رہ سکتی ہے؟" شہوار کے لہجے میں گُزرے دِنوں کا ملال تھا۔ لہجہ سادہ تھا مگر باقِر کو ایک بار پھر ندامت نے آن گھیرا۔

"آخرہ بار معاف کر دو؟ آئیندہ کبھی دُکھ نہیں دوں گا اِن شا اللّٰہ!" باقِر نے وعدہ کیا تھا۔

"مُجھے بھی معاف کر دیں! اپنی ضِد میں میں نے اپنے لیے خسارے خرید لیے!" وہ بھی معذرت خُواہ ہوئی۔

"گُزرے دِنوں کی تلخیاں بھول جاو۔ ہم اپنی آنے والی زِندگی بہتر بنائیں گے اور کبھی اِن دِنوں کے بارے میں بات نہیں کریں گے جو ہمیں اذیّت میں دھکیل دیں۔" رانا باقِر نے کہا تو وہ سر ہلا کر اُس کی تائید کر گئی۔

"چلو فریش ہو جاو میں تب تک تُمہارے لیے کپڑے لے کر آتا ہوں۔" وہ اُسے باتھ روم کے دروازے پر چھوڑ کر باہِر کی جانِب بڑھا اور حمود کے پاس گیا جو کِچن میں تھی۔ اُس سے اپنا کوئی جوڑا نِکالنے کا کہہ کر وہ اُس کے پیچھے ہی کمرے میں گیا تھا۔ وہ کل ہی اُس کا سامان اُس کے گھر سے لے آیا تھا۔ اُسے شہوار کی حالت اور اُس کی غلط فہمی کے بارے میں بتا کر وہ اُس سے کپڑے لے کر واپس کمرے میں پہنچا۔

باتھ روم کے دروازہ پر کپڑے ہینچ کر کے وہ لاونج میں آیا تو وہ لاونج میں موجود بے بی کاٹ میں لیٹے حمین پر نظر پڑی جو جاگتا اپنی ٹانگیں اور ہاتھ ہِلا رہا تھا۔ وہیں بیٹھ کر وہ اُس پر جُھکتا اُس سے باتیں کرنے لگا۔ کُچھ دیر بعد اُس کا اِرادہ عبّاس سے بات کرنے کا تھا۔ وہ ابھی پہنچا نہیں یو گا یہی سوچ کر وہ اُسے ڈِسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا۔

ابھی وہ اُس سے باتیں کر ہی رہا تھا جب اُس کی نظر کمرے سے نِکلتی شہوار پر پڑی۔ وہ دھیمے قدموں سے چلتی، پِنک کلر کا کُھلا سا لِباس پہنے، دوپٹے کو کندھے پر ڈالے اُسی کی طرف آ رہی تھی۔

وہ جلدی سے اُٹھ کر اُس کی طرف بڑھا اور سہارا دے کر اپنے قریب صوفے پر بِٹھایا۔ وہ لِباس اُسے کُھلا تھا یا کمزور ہونے کی وجہ سے اُس پہ کُھلا تھا۔

"یہ حمود کے کپڑے ہیں! مگر یہ بالکُل نئے ہیں اُس نے ایک بار بھی نہیں پہنے کُچھ دِن پہلے ہی شاپنگ پر گئے تھے تب لیے تھے۔" باقِر نے اُسے صفائی دی تھی تا کہ وہ ایسا نا سمجھے کہ اُس کو کِسی کی اُترن دے دی۔

"میں نے کب کہا کہ مُجھے بُرا لگا۔ اچھا لِباس ہے یہ!" اُس نے بات ختم کرتے حمین کو اُٹھانے کی کوشش کی مگر بازووں میں جان نا ہونے کے برابر تھی۔ اُس نے ہاتھ ہٹا لیے تو باقِر نے نرمی سے حمین کو اُٹھایا اور اُس کے سامنے کیا۔ وہ اُس کی گود میں موجود حمین کو پُچکارتی پیار کرنے لگی۔ ابھی وہ مصروف ہی تھے جب حمود وہاں آئی۔

"چھوٹی بی بی! باقِر سائیں! ناشتہ تیار ہے یہیں لے آوں؟" حمود نے نظریں جُھکائے پوچھا تھا۔

"تُم مُجھے شہوار کہو گی تو اچھا لگے گا۔ اپنے رویے کی معافی مانگ چُکی ہوں کیا تُم نے معاف نہیں کیا؟" شہوار نے نرمی سے اُسے دیکھ کر پوچھا تو وہ نظریں اُٹھائے اُسے دیکھنے لگی۔

"مُجھے آپ سے کوئی شِکوہ نہیں! آپ نے جو کیا وہ عمل کا ردِ عمل تھا میں جانتی تھی یہی ہو گا مُجھے بُرا نہیں لگا تھا۔" حمود نے بھی نرم لہجہ اپنائے جواب دیا تھا۔

"تو پھر مُجھے شہوار ہی کہو یا آپا کہہ لو؟ میں تُم سے ایک سال بڑی ہوں نا!" شہوار نے بڑی بہنوں کی طرح کہا تو وہ مُسکراتی سر ہلا گئی۔

"میں آپ کو آپا ہی کہوں گی! میں ناشتہ یہیں لے آتی ہوں!" حمود کہہ کر کِچن کی جانِب بڑھ گئی۔

"کِسی قِسم کا کوئی شِکوہ ہے تو ابھی کر لو۔ میں نہیں چاہتا کہ اب کوئی تلخی ہمارے رِشتے میں آئے۔" باقِر نے سوال کیا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی۔

"اور کُچھ نہیں بس یہ رُخصتی والی بات واپس لیں! مُجھے فنکشن چاہیے!" شہوار نے دھونس جماتے لہجے میں کہا تو قہقہہ لگاتا سر ہلا کر اُسے مان بخش گیا۔ اُس کی رضا مندی پر وہ واپس حمین کی جانِب متوجہ ہو گئی جو اب مُسکرا رہا تھا۔


*******************


وہ نین گُل کو لے کر لندن آیا تھا۔ وہاں کے سب سے اچھے ہاسپِٹل میں اُسے داخِل کروا کر وہ وہاں کی فارمیلیٹیز پوری کرنے لگا تھا۔ فون کر کے وہ کمِشنر صاحب سے اپنی چُھٹی منظور کروا چُکا تھا۔ نین گُل کا عِلاج شروع کر دیا گیا تھا ڈاکٹرز نے اُسے تسلّی دی تھی کہ وہ جلد ہی ٹھیک ہو جائے گی۔ پتہ نہیں وہ سچ کہہ رہے تھے یا صِرف تسلّی دے رہے تھے مگر وہ چاہتا تھا کہ وہ ایک ہی پل میں ٹھیک ہو جائے۔

نین گُل کے مُختلف ٹیسٹ کیے جا رہے تھے۔ مُختلف مشینوں میں جکڑا وجود وہ دروازے پر لگے چھوٹے سے شیشے سے دیکھ سکتا تھا۔ ڈاکٹرز کی ایک پوری ٹیم اُس کو اٹینڈ کر رہی تھی۔ رانا عبّاس کا دِل بس اُس کی صحت یابی کے لیے دُعا گو تھا۔ ابھی تک اُنہوں نے کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں دیا تھا بس اُس کا چیک اپ کیا جا رہا تھا۔ تھک ہار کر وہ چئیر پر بیٹھ گیا تھا۔

دِل بس ایک ہی دُعا مانگ رہا تھا کہ وہ ٹھیک ہو جائے ورنہ شاید وہ خُود بھی زِندہ نا رہ پائے۔ یاد آنے پر اُس نے رانا باقِر کو فون کیا تھا۔

اُن کی طرف اِس وقت شام ہو رہی تھی جب کہ یہاں ابھی دِن تھا۔ ویڈیو کال پر حمود اور حمین سے ڈھیروں باتیں کر کے رانا باقِر کو ضروری ہدایات دے رہا تھا جب اچانک باقِر نے کیمرہ شہوار کی طرف کیا تھا۔ اچانک اِتنے سالوں بعد اپنی ماں جائی کو دیکھ کر وہ خُود کو سنبھال نہیں پایا تھا۔ دِل تو پہلے ہی ٹوٹا ہوا تھا اب آنسو بہتے اُسے نڈھال کر گئے تھے۔ شہوار نے اُسے تسلّید ک تھی کہ نین گُل کو کُچھ نہیں ہو گا۔ وہ ٹھیک ہو جائے گی۔ کُچھ دیر اُن سے باتیں کرنے کے بعد اُس نے فون رکھ دیا تھا۔ ڈاکٹرز باہِر آ رہے تھے۔ اُن میں سے ایک ڈاکٹر نے اُسے اپنے پیچھے اپنے کیبن میں آنے کا اِشارہ کیا تھا۔ اُن کے سنجیدہ تاثرات دیکھتے وہ بے جان ہوتے قدموں سے اُن کے پیچھے چل دیا تھا۔ دو نرسز ہنوز نین گُل کے پاس موجود تھیں۔


********************

شام ہونے والی تھی۔ رانا باقِر دوسرے شہر سے اِس شہر شِفٹ ہو چُکا تھا اور یہ بات صِرف رانا عبّاس جانتا تھا۔ یہاں اُس نے اپنا فلیٹ لے رکھا تھا جہاں اب شہوار لوگ موجود تھے۔ رانا باقِر کُچھ دیر پہلے ہی عبّاس سے بات چیت کر چُکا تھا جِس نے نین گُل کی بابت بتایا تھا کہ عِلاج جاری ہے مگر ابھی تک کوئی سُدھار نہیں ہوا۔ شہوار کمرے میں حمین کے ساتھ موجود تھی جہاں باقِر بھی موجود تھا وہ اُس کا حمین کے ساتھ لگاو دیکھ رہا تھا جو اُس کے ساتھ بالکُل بچّی بنی ہوئی تھی۔

وہ ابھی مصروف ہی تھے جب بیل بجی رانا باقِر کو حیرانی نے آن گھیرا تھا۔ اُس کے گھر کوئی آتا نہیں تھا پھر اب یہ کون آ گیا۔ یہ سوچتے ہوئے وہ باہِر گیا تھا مگر جب دروازہ کھولا تو سامنے رانا ہاشِم اور رانا جعفر کھڑے تھے جو اُسے بُری طرح سے گھور رہے تھے۔ اُنہیں دیکھ کر وہ پریشان ہوا تھا۔ فِکر اُسے اپنی حرکت کی نہیں حمود کی تھی۔ رانا ہاشِم اُسے دیکھ کر کیسا ری ایکٹ کریں گے؟ رانا ہاشِم اُسے ہٹاتے اندر آئے اور شہورا کو آوازیں دینے لگے۔ اُن کی آواز سے شہوار کے ساتھ ساتھ حمود بھی کِچن سے نِکل آئی تھی جِس پر نظر پڑتے ہی جعفر اور رانا پاشِم حیرانی اور شاکڈ تاثرات لیے باقِر کو تکنے لگے تھے۔ جعفر تو سارے قِصّے کے ساتھ اِس بات سے بھی لا عِلم تھا کہ اِسی لڑکی سے رانا باقِر مُحبّت کرتا تھا جبکہ حمود کو یہاں دیکھ کر رانا ہاشِم کو سمجھ آ گیا تھا کہ رانا باقِر عبّاس کے بارے میں سب جانتا تھا۔

اُن کو نہیں معلوم تھا کہ یہاں جعفر کے عِلاوہ موجود ہر شخص اُن کا کیا جانتا تھا اِسی لیے نارمل سے انداز میں باقِر سے حمود کی بابت پوچھنے لگے۔ جِس کے بارے میں رانا باقِر نے کہا کہ رانا عبّاس اُسے یہاں چھوڑ کر اپنی بیوی کے ساتھ لندن گیا ہے جبکہ جعفر تو یہ اِنکشافات سُن کر ہی دنگ رہ گیا تھا۔ اُسے لگا تھا کہ عبّاس ہانیہ سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا تبھی گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے مگر حقیقت آج پتہ چلی تھی۔ باقِر نے بھی کُچھ ظاہِر نہیں کیا کہ وہ جانتا ہے کہ نین گُل پر حملہ اُنہوں نے کروایا ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ حمود بھی اُن کے عتاب کا نِشانہ بنے مگر رانا ہاشِم کی کڑی اور حقارت بھری نظریں وہ خُود پر اچھے سے محسوس کر سکتی تھی۔

ٹھیک اِسی وقت حمین کے رونے کی آواز سُنائی دی تھی جِس پر حمود تیزی سے باقِر کے کمرے کی جانِب بھاگی تھی جہاں شہوار اُسے چھوڑ آئی تھی۔ اُسے لے کر وہ باہِر آئی تھی جبکہ رانا ہاشِم اور جعفر نے حیرانی اور سوالیہ نظروں سے باقِر کی طرف دیکھا تھا جِس پر وہ اُنہیں بتا گیا تھا کہ یہ عبّاس کا بیٹا ہے۔ کہتے ہیں اصل سے پیارا سود ہوتا ہے یہی رانا ہاشِم کے ساتھ ہوا تھا۔ اُنہوں نے اور جعفر نے حمین کو ہاتھوں ہاتھ لیا تھا رانا ہاشِم تو اُسے ایک پل کو خُود سے الگ کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اِس وقت وہ بھول گئے تھے کہ یہ صِرف عبّاس کا ہی نہیں اُسہ کمّی کمین لڑکی کا خُون ہے جِسے وہ اپنے گھر کی بہو ماننے کو تیار نہیں تھے۔ حمود کو لگا کہ شاید اب وہ نین گُل کو بھی قبول کر لیں مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ قِمست ایک بار پھر پلٹا کھانے وہ ہے جِس کی لپیٹ میں وہ خُود بھی آنے والی ہے۔

وہ اُن کی خاطِر مدارت کے لیے کِچن میں اِنتظام کرنے گئی تھی جبکہ وہ باہِر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ جِس وقت وہ ساری تیاری کر کے باہِر آئی تو وہاں پہ صِرف رانا ہاشِم ہی تھے جو دروازے کے پاس کھڑے تھے۔ رانا جعفر تو شاید ناہِر نِکل گیا تھا جبکہ باقِر اور شہوار حمین کے سمگ شاید کمرے میں تھے۔

"ہاں پتہ کرواو کہ وہ مر گئی یا بچ گئی؟ مُجھے اُس کی موت کی خبر سُننی ہے سمجھے تُم؟ میرے بیٹے کو الگ کر دیا مُجھے سے! اب میرا بدلہ پورا ہو گا جب اُس سے اُس کے بیٹے کو الگ کر دوں گا۔" رانا ہاشِم فون پر زہر خند لہجے میں بول رہے تھے۔ حمود دم بخود رہ گئی تھی اُن کے لہجے پر جو کُچھ دیر پہلے سب کے سامنے شہد ٹپکا رہا تھا۔

"یہ صِرف میرے عبّاس کا بیٹا ہے! اُس نوکرانی کی اِتنی حیثیت نہیں کہ میرے پوتے کو پالے! اُس کی بہن کو بھی ٹھِکانے لگانا پڑے گا کہ میرے پوتے سے دور رہے۔ نین گُل تو مر ہی جائے گی مگر یہ لڑکی؟ کہیں عبّاس نین گُل کے بعد اِسی سے شادی نا کر لے۔ کُچھ ایسا کرنے پڑے گا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نا ٹوٹے!" وہ خُود میں مگن بڑبڑا رہے تھے۔ حمود کانپتا وجود لیے واپس کِچن میں گُھس گئی۔ کوئی کِسی غریب سے اِتنی نفرت کیسے کر سکتا ہے؟ کیا غریب کی بیٹی ہونا اِتنا بڑا جُرم تھا کہ اُن پر زِندگی تنگ کی جا رہی تھی۔ اُس کا اِرادہ باقِر سے بات کرنے کا تھا۔ کُچھ دیر بعد خُود کو کمپوز کرتے وہ سب کے لیے کھانا لگانے لگی۔

کھانے کے دوران نارمل بات چیت ہوتی رہی تھی۔ حمود کو ناقِر سے بات کرنے جا موقع نہہں مِلا تھا۔ کھانے کے بعد وہ گندے برتن دھونے کے بعد اپنے کمرے میں گئی تھی۔ حمین کا فیڈر بنا کر رکھا کہ رات کو ساُسے بھوک لگے تو وہ پِلا سکے۔ باقی سب سونے چلے گئے تھے ایسے میں وہ باقِر سے صُبح بات کر نے کا سوچ کر سو گئی تھی۔ یہ رات کے بارہ بجے کا وقت تھا جب اُس کے کمرے کا دروازہ بجا۔ نیند سے کسمسا کر وہ سوئی جاگی کیفیت میں دروازے کی جانِب بڑھی تھی۔ دروازہ کھولنے پر اُس کی سوئی کیفیت بھاگی اور وہ مُکمّل جاگ گئی تھی۔ دروازے پر رانا ہاشِم تھے جو اُسے پیچھے دھکیلتے اندر آئے تھے۔

اندر آتے ہی اُنہوں نے اُسے دھمکی دی تھی کہ وہ یہ گھر چھوڑ کر اور حمین کو اُن کے حوالے کر کے چلی جائے ورنہ وہ اُس کا بھی وہی حال کریں گے جو نین گُل کا کیا تھا۔ اُنہوں نے اُسے صُبح ہوتے ہی یہاں سے چلے جانے کو کہا تھا ورنہ انجام کی ذِمہ دار وہ خود ہو گی۔ اپنی بات مُکمّل کر کے وہ رُکے نہیں تھے بلکہ چلے گئے تھے۔ پیچھے وہ حواس باختہ سی ہو گئی تھی۔ دو ماہ کے بچّے کو جِس کے پاس ماں نہیں تھی وہ کیسے چھوڑ کر چلی جاتی؟ بچّہ بھی وہ جو اُس کی ماں جائی کا تھا۔ رانا ہاشِم حمین کو اُس سے الگ کرنا چاہتے تھے اُس سے ہی نہیں بلکہ نین گُل سے بھی جو اُس کی ماں تھی۔ وہ اُسے کیسے چھوڑ سکتی تھی جِس میں اُس کی بہن کی جان بستی تھی۔

ایک فیصلہ کر کے وہ مُطمئن ہوئی تھی۔ اپنے، حمین کے کپڑے اور ضروری سامان چھوٹے سے بیگ میں پیک کرتے اُس نے باقی کا وقت جاگ کر گُزارا تھا۔ جو پیسے پاس تھے وہ بھی وہ رکھ چُکی تھی۔ نین گُل کا آئی ڈی کارڈ جو نِکاح سے پہلے نین گُل نواز کے نام پہ تھا اُس کی ایک ہارڈ کاپی اُس کے پاس اُسی کے بیگ میں تھی وہ بھی وہ اپنے پاس رکھ چُکی تھی۔ نین گُل آج نہیں تو کل ٹھیک ہو کر واپس آ جاتی پھر وہ اُسے کیا جواب دیتی؟ کہ اُس کا بیٹا کہاں تھا؟

وہ یہاں سے اپنے اُسی گھر جانے والی تھی جہاں وہ عبّاس اور نین کے ساتھ رہتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ رانا ہاشئم اُس گھر کے بارے میں نہیں جانتے تھے اور باقِر اُنہیں بتائے گا نہیں! اُس نے رانا باقِر کے لیے ایک نوٹ لِکھا تھا کہ اُسے ڈھونڈنے کی کوشش نا کی جائے وہ خُود ہی نین گُل کے آتے حمین کو واپس لے آئے گی۔ جب تک نین گُل نہیں آئے وہ کراچی میں رہے گی! یہ نوٹ لِکھ کر اُس نے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا تھا۔ کراچی والی بات اُس نے جان بوجھ کر رانا ہاشِم کو دھیان بھٹکانے کو لِکھی تھی۔

صُبح چار بجے وہ اپنے پاس موجود چابی سے گلیٹ کا دروازہ کھول کر بیگ لیتی، خُود کو چادر میں چُھپائے اور حمین کو دائیں بازو میں اُٹھائے وہ گھر سے نِکلی تھی۔ فلیٹ سے نِکل کر وہ سڑک پر آئی تھی مگر وہاں موجود رانا ہاشِم کے مُلازم نے اُسے دیکھتے ہی پہچان لیا تھا اور یہ اِطلاع رانا ہاشِم کو دی تھی جِس پر رانا ہاشِم نے اُس کا پیچھا کرنے کو کہا تھا۔ وہ جو پیدل تیز تیز چلتی جا رہی تھی اپنے پیچھے آتے آدمی کو دیکھ کر بھاگنا شروع ہوئی تھی۔ مُختلف گلیوں سے ہوتی وہ اُس آدمی سے پیچھا چُھڑانا چاہتی تھی مگر وہ تھا کہ ہنوز اُس کے پیچھے تھا۔

آخر کار وہ اُن گلیوں سے نِکل کر سڑک پر آتی وہاں کھڑے ٹرک میں چُھپ گئی تھی۔ وہ آدمی تھک ہار کر واپس چلا گیا تھا مگر حمود کو لگ رہا تھا وہ یہیں کہیں ہو گا۔ وہ گھر جانے کا رِسک نہیں لے سکتی تھی اگر وہ پیچھا کرتا وہاں پہنچ جاتا تو کیا ہوتا؟ جلدی میں اُس کا فون بھی وہیں رہ گیا تھا جو اُسے عبّاس نے لے کر دیا تھا۔ وہ اپنی خالہ کے گھر بھی نہیں جا سکتی تھی اور وجہ عدیل تھا جِسے بہت اچھے طریقے سے رانا عبّاس نے سبق سِکھایا تھا دو ہفتے جیل میں رکھ کر! اگر وہ سُدھر گیا ہوتا تو شاید چلی بھی جاتی مگر اُس کا ماننا تھا کہ اِنسان کی خصلت کبھی نہیں بدلتی!

صُبح کا اُجالا پھیلنے لگا تو وہ اُسے ٹرک سے نِکل کر پیدل ہی اِدھر اُدھر دیکھتی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئی تھی۔ گھر سے کُچھ دور اُتر کر اُس نے آس پاس کا جائزہ لیا تھا۔ یہ چار منزلہ بِلڈنگ تھی اور یہیں پہ اُن کا فلیٹ تھا۔ وہ ابھی دوسرے فلور پہ تھی جب لِفٹ کے پاس اُسے رانا جعفر نظر آیا اِس کا مطلب کہ وہ لوگ یہاں پہنچ چُکے تھے۔ اُسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ سب جاننے کے باوجود رانا باقِر نے رانا ہاشِم کو اُن کے گھر کا پتہ بتا دیا تھا۔ رانا ہاشِم کی وجہ سے آج اُس کی بہن زِندگی اور موت کے بیچ جھول رہی تھی اور وہ اُسی اِنسان کو اُن کء پناہ گاہ تک لے آیا تھا؟ ایک پل میں وہ رانا باقِر سے بدگُمان ہوئی تھی۔ رانا جعفر کے ساتھ یقیناً رانا ہاشِم بھی ہوں گے یہی سوچ کر وہ وہاں سے واپس آ کر قریبی پارک میں بیٹھ گئی تھی۔ حمین جاگ گیا تھا اور رو رہا تھا۔ حمود نے فیڈر نِکال کر اُسے پِلایا تھا تب وہ چُپ ہوا تھا۔

تن تنہا ایک بچّے کے ساتھ اُس کو یہاں بیٹھنا عجیب لگ رہا تھا مگر مجبوری تھی تبھی بیٹھی رہی۔ تقریباً گیارہ بجے کے قریب وہ واپس بِلڈنگ کی جانِب گئی تھی مگر نیچے ہی رانا ہاشِم کے آدمی کو دیکھ کر وہ ناکام سی واپس لوٹ گئی تھی۔ اِس آدمی کو وہ جانتی تھی اور اکثر گاوں میں بھی دیکھ چُکی تھی۔ اُسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کہاں جائے تبھی اُسے وہاں بُوا مِلیں تھیں جِن کا نام حنیفاں تھا۔ وہ وہیں پارک میں تھیں اور اُسے بے چین دیکھ کر اُس کے قریب چلی آئیں تھیں ماں جیسی شفقت پاتے ہی حمود رونے لگی تھی۔

اُن کے پوچھنے پر اُس نے یہی بتایا کہ اُس کے شوہر اور ساس نے اُسے گھر سے نِکال دیا ہے۔ نام پوچھنے پر اُس نے بے ساختہ نین گُل کہا تھا۔ بعد میں اُس نے بتانا چاہا تھا مگر پھر چُپ کر گئی تھی۔ بُوا نے اُسے اپنے ساتھ چلنے کا کہا تھا اور تسلّی بھی دی تھی کہ اُسے فِکر کرنے کی ضرورت نہیں وہ اکیلی رہتی ہے۔ کوئی مرد نہیں۔ شوہر کا کُچھ دِن پہلے اِنتقال ہو چُکا ہے اور اولاد کوئی تھی نہیں! اُن کے شوہر ہی اُن کے لیے کمائی کا ذریعہ تھے جِن کے ہوتے کبھی بُوا کو پریشانی نہیں ہوئی تھی مگر اب وہ بے روزگار تھیں۔ جو جمع پونجی تھی اُس سے کب تک گُزاتہ ہوتا تبھی آج وہ کام کی تلاش میں نِکلیں تھیں مگر کام نا مِلنے پر وہ یہاں سُستانے کو بیٹھ گئیں تھیں۔ حمود کو گھبراہٹ ہوئی تھی مگر یقین کرنے کے عِلاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ تبھی حمین کو خُود میں سموتے وہ اُن کے ساتھ چل پڑی تھی۔

گھر جا کر اُسے اپنا فیصلہ ٹھیک لگا تھا۔ بُوا نا صِرف اچھی تھیں بلکہ بہت پیار سے اُسے ڈِیل کر رہیں تھیں۔ وہ رات اُس نے بُوا کے گھر گُزاری تھی۔ اگلے دِن وہ حمین کو وہیں بُوا کے واپس چھوڑ کر فلیٹ کی جانِب گئی تھی مگر آج بھی وہاں وہ آدمی موجود تھا۔ وہ پریشانی سے واپس پلٹ گئی تھی۔ پورا ایک ہفتہ وہ وہاں کے چکّر لگاتی رہی مگر اِس ایک ہفتے میں وہ آدمی وہاں ہی نظر آتا تھا۔ دِن میں د وتین چکّر لگا کر دیکھنے پر بھی وہ آدمی اُسے وہیں مِلا تھا۔ بُوا کے گھر رہتے رہتے اُس کے پاس جو پیسے تھے وہ ختم ہونا شروع ہو گئے تھے۔ بُوا کو حمین کا خیال رکھنے کا کہہ کر وہ خُود نوکری کے لیے نِکلی تھی مگر بغیر سند اور تجربے کے کوئی اُسے نوکری دینے کو تیار نہیں تھا۔ اُس کی میٹرک کا ریزلٹ کارڈ بھی اُسی فلیٹ میں تھا۔ پھر کُچھ سوچ کر اُس نے وہاں کی بڑی کالونیز میں جا کر ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا کہ شاید اُن میں سے کوئی اُسے ہاوس کیپر رکھ لے مگر ہر کِسی کے پاس پہلے سے مُلازم موجود تھے اور اضافی مُلازم کی کِسی کو کوئی ضرورت نہیں تھی۔

وہ تھک ہار کر بے بس سی ایک بنگلے کے سامنے سُستانے کو بیٹھی تھی جب تقریباً پانچ مِنٹ بعد ایک ادھِڑ عُمر آدمی باہِر آیا تھا جو خگ بھگ اڑتالیس سال کا ہو گا۔ اُسے سر سے لے کر پاوں تک دیکھنے کے بعد اُس نے حمود کے یہاں بیٹھنے کی وجہ پوچھی تھی۔ اُس کی اندر تک اُترتی آنکھیں دیکھ کر حمود کو گھبراہٹ ہوئی تھی مگر پھر خُود کو سنبھالتے مضبوط لہجے میں اپنے یہاں ہونے کی وجہ بتائی تھی۔ اُس آدمی نے اُسے اندر بُلایا تھا وہ کُچھ جِھجھک کر اندر گئی تھی جہاں لاونج میں ایک ادھیڑ عُمر فیشن ایبل سی عورت بیٹھی ہوئی تھی۔

اُنہوں نے حمود کو نوکری دے دی تھی۔ تنخواہ بہت اچھی تو نہیں مگر کُچھ نا ہونے سے کُچھ ہونا بہتر تھا تبھی وہ خُوشی خُوشی مان گئی تھی۔

اِس دوران وہ فلیٹ گئی تھی تو وہاں اُسے رانا ہاشِم کا کوئی آدمی نہیں مِلا تھا تبھی وہ اندر گئی تھی۔ چابی اُس کے لے پاس تھی مگر فلیٹ کو لگانے پر بھی چابی نہیں لگی تھی۔ نیچے ریسیپشن پر بیٹھے کمیونٹی گارڈ سے پوچھنے پر اُس نے کہا تھا کہ وہ فلیٹ اب بیچ دیا گیا ہے کیونکہ اِس کے مالِک کا بہت بُرا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور شاید وہ مر بھی گیا ہے۔ یہ خبر اُس پہ بم بن کر پھٹی تھی۔ اگر رانا عبّاس مر گیا تھا تو اُس کی بہن کہاں تھی؟ کِس حال میں تھی؟ اُس دِن وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی کہ اُسے غشی کے دورے پڑنے لگے تھے۔

بُوا اُس کی حالت دیکھتی پریشان ہو گئیں تھیں وہ ہسپتال جانے کو بھی تیار نہیں تھی۔ دو دِن وہ گُم صُم سی کمرے میں بند رہی تھی۔ حمین تک کی بھی پرواہ نہیں تھی۔ تیسرے دِن وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ اپنے کمرے سے نِکلی تھی۔ حمین کو اُٹھاتے ڈھیرا سارا پیار کیا تھا۔ اُس کی سوجھی سوجھی آنکھیں دیکھتے بُوا نے اُس سے اِستفسار کیا تھا کہ کیا ہوا تھا جِس پر اُس نے بتایا تھا کہ حمین کے باپ کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔ بُوا افسردہ تو ہوئیں تھیں مگر پھر اُسے تسلّی دینے لگیں تھیں۔ حمود کو خُود کو سنبھالنا تھا حمین کے لیے اور اُس نے سنبھال لیا تھا بس وہ ہنسنا بھول گئی تھی۔

وہ مصروف ہو گئی تھی۔ گھر اور حمین کو بُوا سنبھال لیتی تھیں اور وہ خُود اُس گھر میں کام کرنے چلی جاتی تھی۔ وہ لوگ اچھے تھے پہلے دِن کے بعد سے اُس نے اُس گھر کے مالِک سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا تھا تبھی وہ مُطمئن تھی۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ کِسی ویٹرس کی جاب بھی ڈھونڈ رہی تھی تا کہ یہاں سے فارِغ ہونے کے بعد وہ وہاں کام کر سکے۔ وہ بھی ایسا ہی ایک دِن تھا جب وہ کام کے لیے اُس بنگلے میں گئی تھی۔ معمول کے برعکس وہاں سنّاٹا چھایا ہوا تھا۔ جِسے نظر انداز کرتی وہ صفائی میں مشغول ہو گئی تھی۔ وہ کِچن میں تھی جب اپنے پیچھے گھر کے مالِک کو دیکھ کر وہ سپاٹ لہجے مہں اُس سے اُس کا آمد کا مقصد پوچھنے لگی مگر وہ کُچھ کہنے کی بجائے اُس کے قریب آتا معنی خیز باتیں کرنے لگا تھا۔

اُس کے گالوں کو اُنگلیوں سے چھو رہا تھا۔ وہ بچّی نہیں تھی جو سمجھتی نا! اُسے دھکّا دے کر کِچن سے باہِر نِکلنے لگی تھی جب پیچھے سے اُسے دبوچ کر وہ آدمی اُس پہ جُھکنے لگا تھا۔ اُس کا مقصد جان کر ایک پل کو وہ کانپ اُٹھی تھی مگر یہ وقت خوف زدہ ہونے کا نہیں تھا تبھی اُس کے منہ کو نوچتی وہ پاس سے شیشے کا گلاس اُٹھا کر اُس کے سر پر رسید کر گئی تھی یہی نہیں جب وہ پیچھے کو ہوا تو کاونٹر پر پڑی چُھڑی اُٹھا کر اُس کے بازو میں دھنسا گئی تھی۔ اُس کے لیے یہ سزا کم تھی وہ اُسے اور سزا دیتی مگر ابھی اُس کا یہاں سے جانا ضروری تھا۔ اُس کے بازو سے زور سے چُھری واپس کھینچتی وہ نل کے نیچے کر ٹونٹی کھول گئی تھی تا کہ اُس کی اُنگلیوں کے نِشان مٹ جائیں۔ اُس نے ایک نظر نیچے پڑے اُس آدمی کو حقارت سے دیکھا جو ہنوز چیخ رہا تھا پھر وہاں سے نِکلتی چلی گئی۔

اُس دِن کے بعد سے اُس نے کِسی کے گھر کام کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ کئی ہوٹلز اور ریسٹورانٹس میں وہ جاب ڈھونڈنے گئی تھی مگر کوئی بھی اُسے کام دینے کو تیار نہیں تھا۔ کِسی کو ایف اے تک تعلیم چاہیے تھی تو کِسی کو تجربہ اور جہاں نوکری مِل جاتی وہ اِتنی تنخواہ دینے پر مانےے جِس سے ایک مہینے میں صِرف حمین کا دودھ ہی پورا ہوتا۔ ایسے میں ہر طرف سے مایوس ہو کر وہ روڈ پر پریشانی سی چل رہی تھی جب کوئی اُس کے پاس سے گُزرتا اُس کا کندھے سے لٹکتا بیگ چھین کر لے گیا تھا۔ وہ چُپ چاپ دور بھاگتے اُنسان کو دیکھے گئی تھی۔ اُسے کوئی پرواہ نہیں تھی چوری کی کیونکہ اُس کے بیگ میں ایک پھوٹی کوڑی نہیں تھی۔ تبھی اُس کے دِماغ میں یہ آئیڈیا آیا تھا کہ وہ بھی چوری کرے گی اگر اُسے اُس کا حق نہیں مِلے گا تو وہ چھین لے گی۔ اپنے لیے نہیں مگرحمین کے لیے اُسے کُچھ نا کُچھ تو کرنا ہی تھا۔ گاوں واپس وہ جا نہیں سکتی تھی حالانکہ وہ نین گُل کگ بارے میں جاننا چاہتی تھی کہ وہ کیسی ہے؟

اپنا حُلیہ اُس نے بدل لیا تھا۔ گھر میں وہ شلوار قمیض میں ملبوس ہوتی تھی مگر گھر سے باہِر نِکلتے وقت وہ ہمیشہ ایسے کپڑوں میں ملبوس ہوتی جِن میں اُسے بھاگنے میں مُشکِل نا ہو۔ پہلے پہل اُسے مُشکِل ہوئی تھی مگر پھر وہ عادی ہوتی گئی تھی۔ اِس طرح گُزرتے گُزرتے ایک سال گُزر گیا تھا اور پھر یُوں اُس کی مُلاقات حیدر سے ہوِ تھی۔ وہ حمین کی خُود سے بڑھ کر حِفاظت کرتی تھی اور اِس ایک سال میں رانا ہاشِم کی طرف سے کبھی کوئی یُوں اُس کے پیچھے نہیں آیا تھا۔ مگر اُسے ڈھنوڈتے ڈھونڈتے وہ لوگ اب اُس تک پہنچ چُکے تھے اور کل رات ہی اُس کا پیچھا کیا تھا۔ وہ حمین کو بُوا کے سپرد کرتی اُن کا دھیان بھٹکانے کو بھاگی تھی مگر اُن کی نیت اُس پر خراب ہو چُکی تھی اور وہ اُس کی عِزّت کے دُشمن بن گئے تھے۔ وہ اُن سے بچنے کو جنگل میں گُھسی تھی اور جب مرنے کے قریب ہو گئی تھی تب سڑک پر آتی گاڑی کے سامنے ڈھے گئی تھی اور پھر جو کُچھ حیدر جانتا ہی تھا۔


********************


وہ اپنے ساتھ بیتی تو بتا گئی تھی مگر اُس کے بعد اُسے کوئی خبر نہیں تھی کہ نین گُل کا کیا بنا؟ اُس کے منہ سے ساری حقیقت جان کر وہ اپنی جگہ ساکت سا رہ گیا تھا۔ بظاہر مضبوط نظر آنے والی یہ لڑکی کیا کیا جھیل کر آئی تھی اُس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ وہ جو اُس کی بے خوفی اور نڈر پن کو دیکھتا تھا تو اُسے لگتا تھا جیسے بے فِکری کی زِندگی گُزاری ہے اُس نے!!! مگر حقیقت تو یہ تھی کہ وہ حالات کی بھٹک سے گُزر کر وہ کُند بنی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ معاشرے میں اکیلی عورت کا رہنا کِس قدر دُشوار ہے وہ بھی تب جب خُونخوار بھیڑیے اِنسانی شکل میں منہ کھولے شِکار کی تاک میں بیٹھے ہوں مگر اُس نے نا صِرف اپنے آپ کو بلکہ حمین کے ساتھ بُوا کو بھی سنبھالا تھا۔ اُس نے اپنے سامنے بیٹھی حمود نواز کو دیکھا جو آنسووں سے بھرا چہرہ لیے ہوئی تھی۔

اُس نے آنکھیں بند کر کے کھولیں مگر آنکھوں کا سرد پن اور سُرخ پن نا مِٹا سکا۔

میری طرف دیکھو!" اُس نے نرمی سے اُس کے ہاتھ تھام کر کہا تو وہ چہرہ اُٹھائے اُسے دیکھنے لگی۔

"مُجھ سے شادی کرو گی؟"

نا تسلّی کے دو حرف، نا کوئی سوال، نا دُکھ بس اپنی پڑی تھی اُسے! حمود نے جھٹکے سے ہاتھ اُٹھائے اور کھڑی ہو گئی۔

"مُجھے کُچھ دیر اکیلا چھوڑ دو!" اُس نے تلخ لہجے میں کہا تھا۔

"یہ مت سوچو کہ مُجھے دُکھ نہیں ہے بس اپنی غرض کے لیے کہہ رہا ہوں۔ بلکہ یہ سمجھو کہ میں چاہتا ہوں تُمہاری مضبوطی اور بڑھ جائے تا کہ کوئی کُچھ کر نا پائے!" حیدر نے بغیر اُس کی حرکت کا بُرا منائے اُس کے سامنے کھڑے ہوتے کہا۔

"مطلب میں سمجھی نہیں!" حمود اُلجھی تھی۔

"مطلب یہ کہ جب تُمہارے پاس اپنا ذاتی باڈی گارڈ ہو گا تو کیا ضرورت ہے تُمہیں اُن سے چُھپنے کی؟ باڈی گارڈ مطلب شوہر! تُمہیں اور حمین کو تحفظ بھی مِلے گا اور کِسی سے چُھپنا بھی نہیں پڑے گا۔" حیدر نے اپنی بات واضح کی۔ انداز میں شرارت تھی تا کہ وہ کُچھ دیر اپنے ماضی سے ہٹ کر سوچے۔

"وہ کیسے؟" حمود نے سوال کیا تھا۔

"تُم میری کُچھ نہیں لگتی مگر پھر بھی مُجھے ہر وقت تُمہاری فِکر رہتی ہے۔ جب میری عِزّت بن جاو گی تو تُمہیں لگتا ہے کہ میں کِسی کی بُری آنکھ بھی تُمہاری طرف اُٹھنے دوں گا؟ دوسری بات کیا تُم نین گُل سے نہیں مِلنا چاہتی؟ کیا تُم نہیں چاہتی کہ اُس کا پتہ چلے وہ ٹھیک ہے یا نہیں؟ کیا حمین کو ساری زِندگی اُس کی ماں سے دور رکھو گی؟" حیدر نے سمجھانا چاہا تھا۔

"وہ لندن تھی پھر اُسے کون لایا ہو گا وہاں سے جب کہ ویر سائیں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ بات مُکمّل نہیں کر پائی تھی۔

"یہی میں کہہ رہا ہوں کہ ہمیں سب کُچھ جاننا ہو گا۔ اِس کے لیے ایک ساتھ ہونا ہو گا۔ اپنے لیے نہیں حمین کے لیے سوچو؟ اگر اُس کے ددھیال والوں نے اُسے تُم سے چھین لیا تو؟ کیا رہ پاو گی اُس کے بغیر؟ حیدر نے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی۔

"میں تُمہاری ہر ممکن مدد کروں گا۔ بس تُم پریشان مت ہو۔ مُجھ پر یقین ہے نا؟" حیدر نے نرمی سے پوچھا تو وہ اُس کی آنکھوں میں اپنے لیے والہانہ مُحبّت دیکھتی نظریں چُراتی سر ہلا گئی۔

"یہ یقین ایسے ہی قائم رکھنا مُجھ پر! زِندگی میں کبھی بھی کُچھ بھی ہو جائے مُجھ سے بد گُمان مت ہونا! میری زِندگی میں آنے والی پہلی اور آخری لڑکی ہو تُم! بہت مُحبّت کرتا ہوں تُم سے! بھلے ہی تُم مُجھ سے مُحبّت تو دور پاند بھی نا کرو لیکن میں تُمہاری اِن کالی آنکھوں میں اپنے لیے بے اعتباری نہیں دیکھ سکتا۔" حیدر کے جذبوں سے بھرپور لہجے پر حمود کو لگا جیسے خُون سمٹ کر اُس کے چہرے پر آ گیا ہو۔ زِندگی میں پہلی بار اُس نے کِسی مرد کے لیے کُچھ محسوس کیا تھا۔ رانا باقِر کی مُحبّت اُس کے دِل پر اثرانداز نہیں ہو پائی تھی مگر جانے حیدر کی آنکھوں میں کیا تھا کہ اُس کی مُحبّت اُس کے دِل پر اثرانداز ہونے لگی تھی۔

"آپ اچھے ہیں!" اُس کی بات پہ وہ سمجھ نا پائی کہ کیا کہے تبھی بس یہ بول دیا جِس پر وہ بے ساختہ آنکھ کے کِنارے پر انگوٹھا پھیرتا ہنس دیا۔ حمود نے اُس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھا جو ہلکی سی نم تھیں

"تُم رو رہے ہو؟" حمود نے بے ساختہ پوچھا۔

"نہیں تو! میں کیوں روؤں گا؟ یہ تو بس ہنسنے کی وجہ سے آنکھوں میں پانی آ گیا! خیر مُجھے اچھا سمجھنے کا شُکریہ! اب ایک بات پوچھوں؟" وہ اُس کی وضاحت سے مُطمئن نہیں ہوئی تھی مگر اُس کے سوال پر ہاں میں سر ہلاتی اُسے اِجازت دے گئی۔

"کیا تُمہیں اُس سے۔۔۔۔۔ میرا مطلب باقِر سے مُحبّت تھی؟" اُس نے کُچھ جِھجھک کر پوچھا تھا۔

"میں اِس لیے پوچھ رہا ہوں تا کہ شاید کے بعد تُمہیں ٹائم دے سکوں یُو نو نا؟ کہ اگر بیوی مُحبّت نہیں کرتی تو اُسے ٹائم دینا چاہیے سب۔۔۔۔۔ سب سمجھنے کے لیے؟" حمود کی گھورتی نظروں پر وہ بات کرتے کرتے گڑبڑا گیا۔

"میرے دِل نے کبھی بھی رانا باقِر سے مُحبّت نہیں کی نا کبھی ایسا کوئی احساس دِلایا۔ وہ میری زِندگی میں کہیں بھی نہیں ہیں!" حمود نے کہا تو وہ ایک سکون بھرا سانس خارِج کر گیا۔

"شُکر! اِس کا مطلب کہ تُمہارا دِل کورے کاغذ کی مانِند ہے اور مُجھے تُمہیں شادی کے بعد ٹائم نہیں دینا پڑے گا بلکہ ہماری گولڈن نائٹ ہو گی!" وہ ایک دم چہکا جب کہ وہ اُس کی بات سُن کو کانوں تک سُرخ ہوتی رُخ موڑ گئی۔

"مُجھے ایسی باتیں پسند نہیں ہیں۔ اگر ایسی کوئی بات اب دوباری کی تو مُجھے تُم سے نِکاح نہیں کرنا!" وہ دوٹوک بولی تھی۔ لہجہ کپکپاتا ہوا تھا جبکہ وہ تو اُچھل ہی پڑا تھا۔

"رئیلی؟ ہاہاہاہا!!!!! کل ہی ہمارا نِکاح ہو گا اور حمین میرا شہہ بالا!" وہ چھت پھاڑ قہقہہ لگاتا پلان کرنے لگا۔ اِسی وقت فجر کی اذانوں کی آواز سُنائی دی تو وہ دونوں چونکے۔

"چلو میں نماز کے ساتھ شُکرانے کے نفل پڑھ لوں! لڑکی پٹ گئی ہے بھئی!" اُس کی اُلجھی نِگاہوں کو سمجھتا وہ ایک آنکھ وِنک کرتا باہِر کی جانِب بڑھ گیا جبکہ پیچھے وہ اپنے گالوں پر ہاتھ رکھتی گالوں سے اُٹھتی تپش کم کرنے کی کوشش کرنے لگی۔

"نِکاح کے بعد تو عِزّت دے دو گی نا مُجھے "آپ" کہہ کر؟" اچانک اُس کے قریب سے حیدر کی آواز گونجی تو وہ جو آنکھیں بند کیے گالوں پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی، اُچھل پڑی۔

"حیدر!!!!!!!!" وہ چیخی تھی جِس پر وہ ایک بار پھر اُس کے کان کے پردوں کو اپنے قہقہے سے جھنجھنانے پر مجبور کرتا باہِر بھاگ گیا۔ اُس کی حرکت پر وہ نا چاہتے ہوئے بھی ہنس دی تھی۔ وہ اُس کا موڈ ٹھیک کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔


*********************

اگلے سویرے کا سورج ایک نیا اُجالا لایا تھا۔ قِسمت کے پنّوں پر ایک نئی تحریر رقم ہونے کو تھی۔ سارے باب کُھل کر سامنے آنے کو تھے اور دو دِل مِلنے والے تھے۔ وہ لوگ فجر کی اذان ہوتےہی حمود کے گھر کی جانِب روانہ ہو گئے تھے۔ دروازہ بُوا نے کھولا تھا اور دروازہ کُھلتے ہہ وہ اُن سے لِپٹ کر بے تحاشا روئی تھی۔ بُوا تو حیدر اور حمود کی سُرخ انگارہ ہوتی آنکھیں دیکھ کر ہی پریشان ہو گئیں تھیں اور گاڑی میں بیٹھتے وقت چونکی تو حمود بھی تھی جِسے حیدر کی آنکھیں کُچھ سوجھی اور بے تحاشا سُرخ لگی تھیں مگر اُس نے حیدر سے اِس بابت کوئی سوال نہیں کیا تھا۔

بُوا سے مِل کر حمود کمرے کی طرف بھاگی تھی جہاں حمین بیڈ پر بیٹھا کھلونوں سے کھیلنے میں مصروف تھا۔ وہ اُسے اُٹھا کر دیوانہ وار چومتی حیدر کو ممتا کی مورت لگی تھی۔ سچ کہتے ہیں ماسی واقعی ماں سی ہوتی ہے ممتا سے گوندھی ہوئی! حمین کو اپنے سامنے بالکُل ٹھیک پا کر اُسے سکون آیا تھا۔ بُوا نے حمود کو باہِر بُلایا تو وہ حمین کو حیدر کے حوالے کرتی باہِر چلی گئی تھی جبکہ حمین کو اپنی بانہوں میں سموئے اب حیدر دیوانہ وار اُسے چوم رہا تھا۔ اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ پِچھلے ساڑھے تین سال واپس موڑ دے اور گُزرا وقت واپس لے آئے. نم ہوتیں آنکھیں حمین کی سیاہ آنکھوں کو دیکھ رہیں تھیں۔ پھر بے ساختہ وہ اُس کی اُن گہری سیاہ آنکھوں کو چوم گیا تھا۔ وہ بے تحاشا خُوش تھا اِتنا کہ لفظوں میں بیان کر پانا مُشکِل تھا۔ اُس کے پیار کا جواب حمین ببّا ببّا کی گردان کر کے دے رہا تھا۔ ساتھ ہی اُس کی نقل کرتے اُس کے ہاتھوں سے اُچھل اُچھل کر اوپر ہوتا اُس کے گالوں پہ گیلے بوسے دے رہا تھا جِس پر حیدر کِھلکِھلا کر ہنس رہا تھا۔

حمود جو حیدر کے چھت پھاڑ قہقہوں کی آواز سُن کر حیرت سے اندر آئی تھی، اُس کو یُوں حمین کے ساتھ مگن دیکھ کر آسودگی سے مُسکراتی نم آنکھیں صاف کرتی واپس لوٹ گئی تھی۔ اُس کا فیصلہ غلط نہیں تھا حیدر حمین کے لیے اچھا باپ ثابت ہونے والا تھا۔ حمود کی آمد سے بے خبر وہ کُچھ دیر بعد حمین کو ہاتھوں میں اُٹھائے اب باہِر آ کر حمود اور بُوا کے ساتھ ہی بیٹھ گیا تھا جہاں حمود

اُن غُنڈوں کے حملے کی بابت پوچھنے پر بُوا کو ساری حقیقت بتانے لگی تھی۔ سب کُچھ جان کر بُوا کا منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا تھا اور وہ اُس سے ناراض ہوئیں تھیں کہ اُس نے اپنی حقیقت کیوں چُھپائی؟ جِس پر حمود نے بڑی مُشکِل سے اُن کو منایا تھا۔ حیدر نے اُنہیں حمود سے نِکاح کی بابت بتایا تو وہ بہت خُوش ہوئیں تھیں۔ اُنہیں حیدر پسند تھا۔ اُس کی آنکھوں میں حمود کے لیے مُحبّت اور حمین کے لیے شفقت صاف نظر آتی تھی۔

وہ حمود کو وہیں چھوڑ کر باہِر نِکلا تھا۔ ثاقِب کو فون کر کے اپنے نِکاح کے اِنتظامات کرنے کا حُکم جاری کرتا وہ خُود شاپنگ کرنے نِکلا تھا۔ حمود کے نِکاح کے جوڑے سے لے کر اُس کی ضرورت کی ہر شے کے ساتھ حمین کے لیے ڈھیروں شاپنگ کرتا وہ اپنے فلیٹ کی طرف روانہ ہوا تھا۔ سارے شاپنگز بیگز میں سے حمود کے لیے لائے کپڑے نِکال کر اپنی الماری میں ہینگ کیے۔ اُس کے جوتے نیچے والے خانے میں رکھے۔ حمین کے لیے اُس نے ایک خانہ خالی کیا جِس میں اُس کی آفِس کی فائلز تھیں۔ اُنہیں سٹڈی ٹیبل کی دراز میں رکھا اور حمین کے کپڑے اور اُس کا سارا سامان احتیاط ست سیٹ کیا۔ سب کُچھ رکھ کر اُس نے ایک نظر اپنی الماری کا جائزہ لیا جِسے دیکھ کر وہ بے اِختیار ہنسا۔ بھئی حیدر بیوی بچّے والا ہو گیا تھا۔ سر پر ہاتھ پھیرتے وہ سرشاری سے مُسکراتا حمود کے نِکاح کے جوڑے والا اور دوسرے سامان والا بیگ سائیڈ پر کرتا اپنا ڈریس نِکال کر تیار ہونے چلا گیا۔

کُچھ دیر بعد وہ سفید شلوار قمیض میں ملبوس، تولیے سے بال رگڑتا باہِر نِکلا تھا۔ تولیہ صوقے پر پھینکتے، آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر وہ اپنے بال بنانے لگا۔ بال سیٹ کر کے پرفیوم اُٹھایا اور خُود پر چھڑک کر ایک نظر اپنا جائزہ لیا۔ سفید شلوار قمیض، گھنی بئیرڈ، سنجیدہ سا چہرہ لیے وہ بہت وجیہہ لگ رہا تھا۔ ایک نظر کمرے پر ڈالی جو صاف تو تھاگر کُچھ چیزیں بِکھریں ہوئیں تھیں۔ اُس نے جلدی سے سب کُچھ سمیٹا اور مُطمئن ہوتا وہ صوفے سے بیگز اُٹھاتا فلیٹ لاک کر کے باہِر نِکلا۔

اگلے آدھے گھنٹے بعد وہ حمود کے گھر پر تھا۔ ثاقِب اور اُس کی بیوی آ چُکے تھے جِنہیں اڈریس حیدر نے ہی دیا تھا۔ حمود اور بیلا ایک طرف بیٹھی باتیں کر رہیں تھیں۔ حمود کی بیلا سے پہلی مُلاقات تھی مگر وہ اُسے اچھی لگی تھی۔ حیدر نے سامان بیلا کو تھمایا تو وہ اُس کا اِشارہ سمجھتی حمود کا ہاتھ تھام کر اُسے کمرے میں لے گئی جبکہ حیدر حمود کے چہرے کے اُلجھن بھرے تاثرات دیکھ کر زیرِ لب مُسکرایا تھا۔ اُن کے جانے کے بعد وہ حمین کی جانِب متوجّہ ہوا جو نیچے بیٹھا کھلونوں سے کھیل رہا تھا۔ اُس کے پاس ہی بُوا اور ثاقِب کُرسیوں پر بیٹھے تھے۔ حیدر کُرسی کی ججاِے زمین پر اُس کے پاس بیٹھنے لگا جب بُوا نے ٹوکا کہ کپڑے خراب ہو جائیں گے۔

حیدر حمین کو اُٹھا کر اپنی گود میں بِٹھاتا اُس سے سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگا۔

حیدر نے بُوا کو کُچھ بھی بنانے سے منع کر دیا تھا کیونکہ وہ یہاں آتے ہوئے ایک ریسٹورانٹ میں آرڈر کے ساتھ اڈریس بھی دے آیا تھا کہ یہاں پر کھانا بھجوا دیا جائے۔ حیدر نے اپنے کُچھ کولیگیز کو بھی بُلایا تھا جبکہ ثاقِب باہِر نِکل گیا تھا تا کہ مولوی کا اِنتظام کر سکے۔ کُچھ دیر بعد جب ثاقِب آیا تو اُس کے ساتھ ہی حیدر کے چار کولیگز تھے جِن کے ساتھ اُس کی کافی اچھی دوستی تھی۔ مولوی صاحب بھی آ چُکے تھے۔ بُوا سب کے لیے ریفریشمنٹ کا اِنتظام کرنے گئیں تھیں جب کہ حیدر کے کہنے پر ثاقِب حمین کو بیلا کے حوالے کر آیا تھا کہ اُسے بھی تیار کر دے۔ تقریبا آدھے گھنٹے بعد بیلا نے حمود کے تیار ہونےکی اِطلاع دی تھی۔

بیل بجی تو مولوی صاحب کو نِکاح شروع کرنے کا اِشارہ کیا تو مولوی صاحب کے ساتھ ثاقِب اور حیدر کے دو کولیگز گواہان کی حیثیت سے اندر کی جاِنِب بڑھ گئے۔ بُوا باہِر کی جانِب بڑھ گئیں تھیں۔ باہِر ڈیلیوری بوائے تھا جو کھانے پینے کا سامان دینے آیا تھا۔ وہ سارا سامان لے کر اندر چلی گئیں تا کہ پیسے لا سکیں مگر حیدر نے جلدی سے پیمنٹ کر کے اُسے روانہ کیا تھا۔ بُوا واپس آئیں تو حیدر نے اُنہیں مُطمئن کر کے حمود کے پاس بھیج دیا کہ وہ اکیلا محسوس کرر ہی ہو گی۔

حمود کی طرف سے گواہان کا اِنتظام بھی حیدر نے ہی کیا تھا کہ اُس کے سر پر ولی موجود نہیں تھے۔

وہ گھونگھٹ اوڑھے بیٹھی ہوئی تھی۔ ابھی نِکاح شروع نہیں ہوا تھا اُس کے دائیں طرف بیلا اور بائیں طرف بُوا کھڑیں تھیں۔ اِس وقت اُسے اپنی زِندگی کا ایک ایک پل یاد آ رہا تھا۔ اپنی بہن اور باپ کے ساتھ گُزارا ایک ایک پل جو وہ چاہ کر بھول نہیں سکتی تھی۔ وہ دو وجود جو اُس کی زِندگی کا حاصِل تھے وہ دونوں ہی اب اُس کے ساتھ نہیں تھے۔ یہ وقت اُس کے لیے بہت کڑا تھا۔ وہ وقت جب ایک لڑکی کو سب سے زیادہ اپنوں کی ضرورت ہوتی ہے تب وہ تنہا تھی۔ گھونگھٹ کے پیچھے اُس کی آنکھیں نمی سے بھری ہوئیں تھیں اور کانوں میں نین گُل اور نواز علی کی باتیں گونج رہی تھیں۔ مولوی نِکاح پڑھانا شروع کر چُکا تھا۔

وہ گُم صُم سی بس اِقرار کرتی گئی تھی۔ اپنی سوچوں اور باپ اور بہن کی یادوں میں گُم وہ مولوی صاحب کے کہے گئے نِکاح کے کلمات دھیان سے نہیں سُن پائی تھی۔ ہوش تب آیا جب مولوی صاحب اُسے نِکاح قبول کرنے کا کہہ رہے تھے۔ بُوا نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھا تو وہ نم آنکھوں سے اپنی زِندگی حیدر کے نام کر گئی۔

کُچھ دیر بعد اُس سے دستخط لیے گئے۔ اُس کے نیچے گواہان کے دستخط ہوتے ہی مولوی صاحب اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے باہِر نِکل گئے اور اُن کے ہیچھے ہی گواہان بھی!

بُوا نے اُسے گلے لگا کر تسلّی دی تھی اور خُود کو سنبھالنے کا کہا تھا۔ بیلا بھی اُس چھوٹی سی لڑکی کا غم محسوس کر رہی تھی۔ باہِر مولوی صاحب حیدر سے ایجاب و قبول کروا رہے تھے۔ حمین سفید شلوار قمیض میں ننھا سا شہزادہ بنا حیدر کی گود میں بیٹھا ہوا تھا۔ نِکاح مُکمّل ہوتے ہی مُبارک سلامت کے نعرے بُلند ہوئے۔ حیدر کے دوست اور ثاقِب خُوشی سے اُسے مِٹھائی کِھلاتے اُسے چھیڑ رہے تھے جِس پر وہ اُنہیں مصنوعی گھوریوں سے نواز رہا تھا۔

کُچھ دیر کی باتوں کے بعد کھانے کا دور چلا۔ بیلا حمین ، حمین کا فیڈر اور حمود کے لیے کھانا کمرے میں ہی لے گئی تھی۔

بُوا سب کے لیے کھانا لگا چُکیں تھیں۔ مولوی صاحب تو جانا چاہ رہے تھے مگر حیدر نے روکا کہ کھانا کھائے بغیر نہیں جا سکتے۔ تقریباً ایک گھنٹے تک وہ سبھی لوگ رُخصت ہو چُکے تھے۔ بیلا اور ثاقِب بھیاُنہیں کل کے لیے اپنے گھر ڈِنر کی دعوت دے کر جا چُکے تھے۔ اِن سب میں شام ہو چُکی تھی۔ حیدر بوا سے بات کر چُکا تھا پہلے تو وہ اُس کے گھر جا کر رہنے کو تیار ہی نہیں ہوئیں مگر پھر اُس کے خفا ہونے پر مان گئیں تھیں۔ حمود کے ساتھ وہ اُنہیں بھی اپنے گھر لے جانے والا تھا کہ پیچھے وہ تنہا کیسے رہتیں؟

شام سات بجے کے قریب بُوا حمود کو باہِر لائیں تھیں۔ اُس کا سارا وجود ایک بڑی سی چادر میں چُھپا ہوا تھا۔ حمین کو حیدر نے اُٹھا رکھا تھا۔ حمود اور بُوا پیچھے بیٹھیں تھیں۔ حیدر نے حمین کو بُوا کے سپرد کیا اور خُود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔


*******************


ساڑھے سات بجے کے قریب وہ گھر پہنچے تھے۔ نِکاح کے بعد سے لے کر اب تک وہ حمود کو دیکھ نہیں پایا تھا اور دِل تھا کہ شِدّت سے بے چین ہوا جا رہا تھا۔ گاڑی پارک کر کے وہ نیچے اُترا۔ بُوا سے حمین کو تھاما تو بُوا نے حمود کو بازو سے پکڑا۔ وہ ایک ساتھ فلیٹ کی جانِب بڑھے تھے۔ دروازے پر پہنچ کر حیدر نے دروازہ کھولا اور اُنہیں اندر جانے کا اِشارہ کیا۔ اُن کے پیچھے ہی وہ اپنے کندھے سے لگے حمین کو لیے اندر داخِل ہوا جو سو چُکا تھا۔ بُوا حیدر کے بتانے پر حمود کو حیدر کے کمرے میں لے جا چُکی تھیں۔ اُس نے بھی اپنے قدم اُن کے تعاقب میں بڑھائے۔ حمود بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی مگر گھونگھٹ ہنوز چہرے کو ڈھکے ہوئے تھا۔ حیدر نے حمین کو بے بی کاٹ میں لٹایا اور واپس نیچے گیا۔ گاڑی سے بُوا کا سامان نِکال کر وہ واپس فلیٹ میں پہنچا۔ سامان دوسرے کمرے میں رکھ کر بُوا کو بتایا کہ تبھی اُس کا فون بجا۔

کال ریسیو کر کے وہ باہِر نِکلا۔ آگے سے جانے کیا کہا گیا کہ اُس کی آنکھیں سُرخ پڑ گئیں۔ بات مُکمّل کر کے اُس نے فون بند کیا اور تیزی سے واپس کمرے میں گیا۔ بُوا اپنا سامان لیے دوسرے کمرے میں جا چُکیں تھیں۔

"مُجھے ایک ضروری کام یاد آ گیا ہے۔ میں کُچھ ہی دیر میں آنے کی کوشش کروں گا یا شاید لیٹ ہو جاوں! تُم سو جاو!" وہ اُس کے گھونگھٹ میں چُھپے چہرے کو دیکھ کر ضبط کرتے ہوئے بولا تھا پھر بغیر اُس کی کوئی بات سُنے کمرے سے نِکل گیا۔

پیچھے وہ گھونگھٹ اُلٹ کر بند دروازے کو دیکھنے لگی۔ جانے کیوں مگر اُسے حیدر کی آواز نم سی لگی تھی۔ اُس نے ایک نظرکمرے کا جائزہ لیا جو ہمیشہ کی طرح صاف سُتھرا تھا۔ کِسی قِسم کی سجاوٹ نہیں کی گئی تھی۔ حمود کو بُرا نہیں لگا تھا کہ شاید حیدر کو پسند نا ہو۔ وہ وہیں بیڈ کراون سے ٹیک لگائے حیدر کے بارے میں سوچنے لگی تھی جب نظر بے بی کاٹ پر پڑی۔ وہ بہت خُوبصورت سا لکڑی کا بے بی کاٹ تھا۔ وہ اُٹھ کر اُس تک گئی۔ حمین پُرسکون سا سو رہا تھا۔ اُس کے معصوم سے چہرے کو چھو کر وہ مُسکرائی پھر واپس بیڈ پر جا کر بیٹھ گئی۔

وہ آج پہلی بار اِتنا سجی سنوری تھی وہ بھی صِرف اپنے شوہر کے لیے!

وہ چاہتی تھی کہ حیدر اُسے دیکھے، عام لڑکیوں کی طرح اُس کی بھی خُواہش تھی کہ اُس کا شوہر اُسے سراہے۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ حیدر اُسے کیوں پسند کرتا تھا؟ وہ حیدر کی طرح بہت خُوبصورت تو نہیں تھی نا ہی گوری رنگت کی مالک تھی! اُس کا رنگ ہلکا گندمی تھا سُنہری روشنی جیسا! پھر اِس رنگت میں اُسے کیا دِکھا تھا؟اگر حیدر اُس کے سوال جان پاتا تو اُسے بتاتا کہ اُسے اُس کی رنگت میں نہیں بلکہ اُس کے کِردار میں دِکھا تھا اور جو دِکھا تھا وہ تھی مضبوطی! اُسے مُحبّت ہوئی تھی حمود کے نڈّر پن سے! اُسے کشش محسوس ہوئی تھی حمود کی گہری کالی پُراذیّت آنکھوں سے!

وہ اِنہی سوچوں میں گُم نیند کی وادیوں میں اُترنے لگی تھی۔

جِس وقت وہ کمرے میں داخِل ہوا رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ اِتنی دیر وہ گھر سے باہِر رہا تھا۔ اُس کی سیاہ آنکھوں میں سُرخیاں گُھلیں ہوئیں تھیں آنکھوں کے کِنارے بھی سوجھے سوجھے سے تھے۔ کھڑی ناک بھی کُچھ سُرخ ہو رہی تھی اور ہونٹ بھینچ رکھے تھے۔ اُس کی نِگاہ سامنے بیڈ کراون سے ٹیک لگا کر سوتی حمود پر پڑی۔ اُس کا سر ایک طرف کو ڈھلکا ہوا تھا جو اُس کی بے آرامی کو بیان کر رہا تھا۔ وہ شاید اُس کا اِنتظار کرتے کرتے ہی سو گئی تھی۔ چہرہ گھونگھٹ سے آزاد تھا اور اُس کے خُوبصورت نین نقوش اپنا دیدار کروا رہے تھے۔ وہ اِس وقت گولڈن کلر کے شرارے میں ملبوس تھی جِس پر ریڈ کلر کا دوپٹہ تھا۔ نفاست سے کیے میک اپ اور جیولری میں وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔ اُس کی تھوڑی پر وہی تین تکونی تِل بنے تھے جو حیدر نے بیلا سے بنانے کو کہا تھا۔ اُس کا جائزہ لے کر اُس طرف دیکھا جہاں حمین کا بے بی کاٹ رکھا تھا۔

وہ دھیمے قدم اُٹھاتا، چہرے پر پھیکی سی مُسکراہٹ سجا کر بے بی کاٹ کے پاس پہنچا۔ حمین کے پُرسکون چہرے کو نرمی سے چھوا، اُس کا گال سہلا کر وہ واپس پلٹا اور حمود کے سامنے بیڈ پر بیٹھا اور کئی ثانیے اُس کا چہرہ دیکھتا رہا۔

وہ آج پور پور اُس کی لیے سجی تھی۔ پہلی بار اُس نے حمود کو اِس طرح سِنگھار کیے دیکھا تھا اور یہ سِنگھار صِرف اُس کے لیے تھا۔ یہ سوچ ہی اُس کا دِل گُدگُدانے کو کافی تھی مگر اب دِل خالی خالی سا لگ رہا تھا۔ اعصاب پر ایک بوجھ محسوس ہو رہا تھا اُسے! ایسی تھکن جو اُس کے جِسم سے آہستہ آہستہ جان نِکال رہی تھی۔ وہ سکون چاہتا تھا جو سامنے سوئی لڑکی میں پوشیدہ تھا۔ وہ تھوڑا سا آگے کو جُھکا اور اُس کا ہاتھ تھام کر اپنے دِل پر رکھا۔ حمود نیند میں کسمساتک سیدھی ہوتی آنکھیں کھول گئی تھی اور سامنے حیدر کو پا کر گڑبڑا کر سیدھی ہوئی۔

"تُم کب آئے؟" وہ حیرت سے پوچھنے لگی۔

"جب تُم سو رہی تھی!" حیدر نے آنکھیں اُس کے ہاتھ پر گاڑھے جواب دیا۔

"کُچھ ہوا ہے؟" اُس نے حیدر کا بوجھل، بھاری لہجہ محسوس کر کے پریشانی سے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا گیا۔

"پھر تُمہاری آواز سے ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے تُم روئے ہو؟" وہ اپنا دُلہناپہ بُھلائے، شرم و جِھجھک سے مُبرّا اُس سے اِستفسار کر رہی تھی۔ حیدر کی جُھکی نِگاہیں اُسے اچھنبے میں ڈال رہیں تھیں۔

"مُجھے معاف کر دو!" حیدر کے کہنے پر اُسے نے اُلجھی نِگاہوں سے حیدر کو دیکھا ٹھیک اِسی وقت حیدر نے بھی اُسے دیکھا۔ حیدر کی آنکھوں سے ٹپکتی وحشت حمود کو خوفزدہ کر گئی تھی۔ ایک عجیب سی بے چینی رقم تھی اُن آنکھوں میں اور وہ کِس بات کی معافی مانگ رہا تھا؟

"کِس لیے؟" حمود نے اپنی اُلجھن کو سوال کا پیرہن پہنایا۔

"آج کی رات تُمہیں تنہا چھوڑ کر چلا گیا اِس بات کی معافی!" حیدر نے بات بدلی تھی ایسا حمود کو محسوس ہوا تھا۔

"میں سمجھ سکتی ہوں کوئی کام ہو گا تُمہیں!" حمود نے نرم لہجہ اپنایا تو وہ اُسے دیکھے گیا۔

"بہت اچھی لگ رہی ہو!" وہ کھوئے کھوئے لہجے میں کہتا اُس کے ائیر رِنگ کو چھونے لگا جبکہ وہ اُس کی اُنگلیوں کا لمس اپنے گال پہ محسوس کرتی خُود میں سِمٹی۔

"میں۔۔۔۔ چینج کر لوں؟" اُس کے آنچ دیتے لہجے سے گھبراتی وہ بولی تو وہ مُسکرا کر کھڑا ہوتا اُسے جانے کا راستہ دے گیا۔

"اِنتظار کر رہا ہوں میں!" گہری نِگاہ اُس کے سراپے پر ڈالی تو وہ تیزی سے باتھ روم میں بند ہو گئی جبکہ وہ اُس کی تیزی پہ نا چاہتے ہوئے بھی ہنس دیا۔ باتھ روم کے بند دروازے کے قریب پہنچا اور ماتھا دروازے سے ٹکایا.

"دوبارہ یہی کپڑے پہن کر آنے کا اِرادہ ہے کیا؟ نائٹ ڈریس تو لے جاتی؟" وہ اب اپنے پہلے والے انداز میں لوٹتا کافی حد تک خُود پر قابو پا گیا تھا جبکہ اُس کی بات سُن کر حمود اپنی حماقت پر خُود کو کوسنے لگی تھی۔ وہ بہت نڈر تھی مگر تھی تو لڑکی! باہِر کھڑا شخص حو اُس کا شوہر تھا، کی معنی خیز مُحبّت بھری نظریں، بوجھل گھمبیر لہجہ اُسے گھبراہٹ میں مُبتلا کر گیا تھا۔

"حیدر!!!!!!" وہ دبا دبا سا چیخی تو وہ مدھم سا ہنسا۔

"حیدر کی جان!" وہ پھر سے جذب سے بولا تو اُس کی جان ہوا ہونے لگی۔

"پلیز!" اب کی بار حمود کا لہجہ نم تھا جِس پر وہ ہنسی دباتا الماری کی جانِب بڑھا۔ وہاں سے اُس کے لیے ایک نائٹ ڈریس نِکالا اور باتھ روم کے دروازے کے ہینڈل پہ ہینگ کردیا۔

"ہینڈل پر لگا دیا ہے لے لو!" وہ شرارت سے بولا تھا۔

"تُم جاو یہاں سے!" حمود نے خفگی سے کہا تو وہ قدم قدم چلتا بیڈ پر جا بیٹھا۔ حمود نے دروازہ کھولا اور ہاتھ بڑھا کر جلدی سے ہینگر سمیت ڈریس کھینچا اور جھٹ دروازہ بند کر لیا۔ اُس کی تیز رفتاری پر وہ مُسکرا کر الماری سے ٹراوزر شرٹ نِکالنے لگا۔ دس پندرہ مِنٹ مزید گُزر گئے تو حیدر نے دروازہ بجایا۔

"مُجھے بھی چینج کرنا ہے آ بھی جاو!" حیدر کی دُہائی پر اُس نے دروازہ کھولا اور ہاتھ میں شرارہ تھامے باہِر نِکلی۔ پِنک کلر کی سلیو لیس کُھلی سی شرٹ اور پاجامے میں ملبوس وہ حیدر کو خُود کی طرف متوجّہ کر گئی۔

"اِتنی دیر؟" وہ اُس کے چہرے کے مِٹے مِٹے سے میک اپ کو دیکھتا اِستفسار کرنے لگا۔ ایک ہاتھ میں اپنا ڈریس تھام رکھا تھا۔

"یہ بے ہودہ ڈریس پہنتے ہوئے کوس رہی تھی تُمہیں!" چڑ کر کہتی وہ آئینے کے سامنے جا رُکی اور لمبے بال سُلجھانے لگی۔ وہ گُنگُناتا ہوا باتھ روم میں گُھس گیا۔ کُچھ دیر بعد وہ باہِر نِکلا تو حمود آئینے کے سامنے سے بیڈ کی جانِب بھاگی اور چادر کو سر سے پاوں تک تان لیا مگر وہ اُسے دیکھ چُکا تھا۔ پُرسکون سا وہ آئینے کے سامنے پہنچا اور بال بنانے لگا۔ سلیو لیس شرٹ میں سے اُس کے کسرتی بازو نمایاں ہو رہے تھے۔

بال بنا کر وہ اپنی سائیڈ پر جا کر لیٹا اور رُخ اُس کی طرف کیا۔

"یہ حقیقی زِندگی ہے حمود! کوئی فِلم نہیں!" اُس کے وجود کو دیکھتا ہوا وہ بولا مگر سامنے خاموشی چھائی رہی۔

"میں بہت تھک گیا ہوں حمود! اِتنا کہ یہ تھکاوٹ مُجھے کھانے لگی ہے۔ سکون چاہتا ہوں جو بس تُم میں نظر آتا ہے۔ پہلے حق نہیں تھا مگر اب حق ہے پھر بھی اگر مُجھے سکون نا مِلے تو شاید یہ بوجھ میری جان لے لے! مگر میں تُم پہ دباو نہیں ڈالنا چاہتا! سو جاو تھک گئی ہو گی!" تھکے تھکے لہجے اور پھیکی سی مُسکراہٹ لیے وہ کہتا کروٹ بدل گیا جبکہ اُس کی آواز میں پنہاں درد و اذیّت محسوس کرتے جانے وہ کیوں ساکن ہوئی تھی۔

وہ اُس کا شوہر تھا پھر یہ گُریز کیوں؟ اُسے اعتبار تھا حیدر اور حیدر کی آنکھوں میں نظر آنے والی مُحبّت پر! وہ بھی تو اُسے چاہتی تھی بھلے ہی حیدر نا جانتا ہو مگر وہ اور اُس کا دِل تو جانتا تھا کہ اُسے حیدر کی مُسکراہٹ کِتنی پسند ہے؟ اُسے حیدر کِتنا پسند ہے؟ پھر وہ کیوں ابرِگُریزاں بنی ہوئی تھی؟

"حمود اپنے شوہر سے مُحبّت کرتی ہے حیدر! وہ اپنے شوہر پر بھروسہ بھی کرتی ہے وہ اُسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی کیونکہ اُس کی تکلیف اُسے خُود پر محسوس ہوتی ہے!" نرم، حیا سے بوجھل لہجے میں اُس کی کمر کے گِرد ہاتھ باندھتے وہ بولی تو حیدر کی ساری حِسیں بیدار ہو گئیں۔ اُس نے اپنے گِرد بندھے اُس کے ہاتھ دیکھے پھر اُس کی طرف کروٹ بدلی تو وہ اُسی کی جانِب دیکھ رہی تھی۔

"سچ کہہ رہی ہو؟" اُس نے پوچھا تو وہ حیدر کی سُرخ آنکھوں میں دیکھتی سر ہلا گئی جو اب عجب سی چمک لیے ہوئیں تھیں۔

"مُجھ پر ترس تو نہیں کھا رہی؟" حیدر کا لہجہ مشکوک ہوا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی۔

"ہاہاہاہا لو یُو میری ڈیول کوئین!" وہ قہقہہ لگاتا اُس پہ جُھکنے لگا جب اُس نے حیدر کے منہ پر ہاتھ رکھا تو وہ اُس کا ہاتھ تھامتا لبوں سے لگا گیا۔

"حم۔۔۔۔۔ حمین جاگ۔۔۔۔ جائے گا!" اٹک اٹک کر بولتی وہ حمین کو دیکھنے لگی تھی۔ حیدر نے اُس کا چہرہ گُھما کر اپنی طرف کیا تو وہ اُس کی آنکھوں سے پھوٹتی روشنی کو دیکھنے لگی جو الگ ہی کہانیاں بیان کر رہی تھی۔

"میرے شیر کو پتہ ہے کہ کب ببّا کو تنگ کرنا ہے کب نہیں! وہ سو رہا ہے اور اپنے ببّا کو ڈِسٹرب نہیں کرے گا سمجھی میرے چیمپ کی ماما؟" اُس نے حمود کے کان میں سرگوشی کرتے کہا تو وہ اُس کی پناہوں میں چُھپنے لگی۔

"حیدر مُسکرا کر اُس کے گِرد مُحبّت بھرا حِصار باندھتے پُرسکون سا مُسکرایا تھا۔ وہ لڑکی اُس کی مُحبّت تھی جو کب ہوئی وہ نہیں جانتا تھا مگر اِتنا وہ جانتا تھا کہ وہ اُس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کل کیا ہو گا وہ نہیں جانتا تھا اِس لیے اُسے اپنا پابند کر لینا چاہتا تھا، اپنے رِشتے کو مضبوط کر لینا چاہتا تھا کہ وہ چاہتی بھی تو اُسے چھوڑنے کا خیال بھی دِل میں نا لاتی۔ اُس کی مُحبّت کو محسوس کرتی وہ ہر چیز سے بے نیاز تھی یاد تھا تو یہ کہ اُس کا محرم اُس کا محرم ہی نہیں اُس کی مُحبّت بھی تھا جو اُس سے زیادہ اُس سے مُحبّت کرتا تھا۔

اُن کی مُحبّت کی تکمیل پر چاند نے بھی دونوں کو سدا سنگ رہنے کی دُعا دی تھی۔


*****************


یہاں سے کُچھ دور راج نگر میں راناوں کی حویلی کی طرف آو تو وہ آج بھی ویسے ہی شان سے کھڑی تھی جیسے تین سال پہلے! لیکن سب کُچھ ویسا نہیں تھا جیسا پہلے ہوا کرتا تھا۔ وہ رونق، وہ خُوشیاں مفقود تھیں جو رانا عبّاس کے ہوتے ہوئے ہوتیں تھیں۔ آج اِس حویلی میں سنّاٹے چھائے ہوئے تھے۔ پہلے جیسی چہل پہل ڈھونڈنے سے بھی نہیں مِلتی تھی۔ جہاں پہلے رانا ہاشِم کے رعب و دبدبے کا راج تھا آج وہاں کی دیواروں پہ بھی یاسیت اور افسردگی کے رنگ چڑھ گئے تھے۔ جہاں رانا باقِر اور شہوار کا رِشتہ سُلجھا تھا وہیں رانا جعفر اور دُرّے کا رِشتہ آج بھی وہیں کھڑا تھا جہاں تین سال پہلے تھا۔ بہت کُچھ بدل گیا تھا اِس حویلی میں! جو حویلی کے مکینوں کو ہولائے دیتا تھا۔

حویلی کے اُس کمرے میں آج بھی دو فریقوں میں سے ایک فریق لا تعلقی قائم کیے ہوئے تھا شاید آج بھی اُس کا غُصّہ کم نہیں ہوا تھا۔

وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنے لمبے بال سُلجھا رہی تھی۔ دائیں گال پہ موجود گڑھا مُسکرا رہا تھا۔

وہ اپنے دھیان میں تھی جب دروازہ کُھلا اور رانا جعفر اندر داخِل ہوا۔ اُسے آئینے کے سامنے دیکھ کر تھکے تھکے قدم اُٹھاتا بیڈ کی جانِب بڑھا اور تکیہ سیٹ کر کے نیم دراز ہو گیا۔ دُرّے کو وہ آج پہلے سے زیادہ تھکا ہوا سا لگا تھا۔ اُن کا تعلُق آج بھی ویسا ہی تھا۔ جہاں رانا جعفر روز اُس کی طرف قدم بڑھاتا وہیں وہ اُس سے کنّی کترا جاتی تھی۔ جانے کیوں مگر اُسے یقین ہی نہیں آتا تھا کہ یہ شخص جِس نے اپنی گرل فرینڈ کے سامنے اُس کی ذات دو کوڑی کی کر کے رکھ دی تھی، ایک نا محرم کو محرم پر ترجیح دی تھی، شادی کے دوسرے ہی دِن بھرے مجمعے میں اُسے بے مول کر کے اُس کی اوقات بتا دی تھی، وہ شخص اب اُس سے مُحبّت کا دعویدار تھا؟ پِچھلے تین سال سے وہ اُس کی آنکھوں میں ہر روز بڑھتی اپنے لیے مُحبّت دیکھتی تھی مگر خدشے تھے کہ اُس کی جان ہی نہیں چھوڑتے تھے۔ اُس شخص کا آس بھرا چہرہ دیکھتے وہ موم ہونے لگتی تھی۔ اُس شخص کی دُرّے سے نفرت حد سے سوا تھی تو مُحبّت بے اِنتہا!

وہ اپنے بالوں کا ڈھہل سا جُوڑا بنا کر بیڈ کی جانِب بڑھی۔ سائیڈ ٹیبل سے جگ اُٹھا کر گلاس میں پانی ڈالا اور بیڈ کی دوسری جانِب پہنچی۔

"پانی!" اُس کی آواز پر جعفر نے آنکھیں کھول کر اُسے دیکھا۔ وہ اُس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی تھی، بغیر کہے اُس کا ہر کام کرتی تھی مگر اُس کی مُحبّت قبول کر کے معافی نہیں دیتی تھی۔

"شُکریہ!" بوجھل سے لہجے میں کہتا وہ پانی کا گلاس لبوں سے لگا گیا۔

"کھانا کھائیں گے آپ؟" دُرّے نے سر پر دوپٹہ اوڑھتے ہوئے پوچھا تھا۔

"بھوک نہیں ہے۔" اُس کے گال پہ اُبھرتے بھنور کو دیکھ کر وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولا تو وہ سر ہلا کر اپنی سائیڈ پر جا کر لیٹ گئی۔

وہ خُود بھی لیٹ گیا۔ کُچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔ آج ہر روز کی طرح رانا جعفر نے اُس سے اُس کی مُحبّت نہیں مانگی تھی۔ روز کی طرح اُس کے ساتھ شرارت کرتے اُسے تنگ نہیں کیا تھا ورنہ وہ اُسے تنگ کرنے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتا تھا اور یہ چیز دُرّے کو بہت کِھل رہی تھی۔ خُود وہ اُس کو تلخیوں اور طعنوں سے نوازتی تھی مگر اِن تین سالوں میں اُسے رانا جعفر کو نخرے دِکھانے اور لاڈ اُٹھوانے کی اِتنی عادت ہو چُکی تھی کہ آج اُسے یہ کمی بہت بُری لگ رہی تھی۔ وہ اپنی ہی سوچوں سے اُلجھتی جھنجھلا کر اُس کی طرف پلٹنے لگی جب بے ساختہ اُس کے منہ سے چیخ نِکلتے نِکلتے رہ گئی۔ رانا جعفر اُس پر جُھکا کافی دیر سے اُس کے چہرے کے بدلتے زاویے دیکھ رہا تھا جو کبھی بِگڑ رہے تھے کبھی سُدھر رہے تھے۔ وہ اپنی سوچوں میں اِتنی مگن تھی کہ اُسے جعفر سے نزدیکی کا احساس بھی نہیں تھا۔ تبھی وہ پلٹی تھی اور اچانک سے اُسے دیکھ کر ڈری بھی تھی۔

"ڈرا دیا مُجھے!" وہ گہرے سانس بھرتی خُود کو پُرسکون کرتی غُصّے سے بولی۔

"ڈرتے ہوئے اور پیاری لگتی ہو! اور تُمہارے ماتھے پر چھوٹے چھوٹے بل بھی پڑ جاتے ہیں اور ناک پہ پسینہ بھی آتا ہے دیکھو!" اپنی بات مُکمّل کر کے اُس نے دُرّے کی ناک ہہ چمکتا پسینہ اپنی اُنگلی کی پُور پہ چُنا جب کہ وہ اُس کا ہاتھ جھٹک گئی۔ اُس کا ہاتھ جھٹکنا اُسے بُرا لگا تھا بے چینی بڑھی تھی۔ وہ سمجھتی کیوں نہیں تھی کہ وہ اُس سے سچ میں مُحبّت کرتا تھا۔

"کیا میری ذرا ضرورت نہیں تُمہیں؟" ابرو اُچکا کر بے چینی سے سوال کیا گیا۔

"ضرورت ہوتی تو آج سے تین سال پہلے ہی آپ کو قبول کر لیتی مگر جیسے تین سال پہلے آپ کو میری ضرورت نہیں تھی آج تین سال بعد مُجھے بھی آپ کی ضرورت نہیں ہے۔" وہ سپاٹ لہجے میں بولتی اُسے بے حد ظالِم لگی تھی۔

"تین سال کے دوران بھی تُمہیں میری ضرورت نہیں پڑی نا میری طلب کی۔ مگر اب مُجھے تُمہاری ضرورت ہے۔ نہیں رہ سکتا تُمہارے بغیر۔ یہاں بس گئی ہو۔" اُس کا ہاتھ تھام کر دِل کے مُقام پر رکھتے، اُس کے کان میں سرگوشی کی کہ اُس کے لب اُس کے کان کو چھوتے اُسے ساکت کر گئے۔ عجب میٹھا سا احساس جاگا تھا جِسے وہ محسوس کرنا نہیں چاہتی تھی۔

"حد میں رہیں اپنی! ورنہ مُجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا۔" وہ چٹخ اُٹھی تھی۔ اُس کی قُربت نے حواس سلب کیے تھے اور دھڑکن تیز ۔

"تُم حد میں رہ لو۔ مُجھے بُرا بننے دو جانیہ!" وہ اُس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں قید کرتا اُسے بے بس کرتا خُود کے قریب کر گیا۔

"یہ آپ اچھا نہیں کر رہے۔" وہ بھرّائے لہجے میں بولتی مچلی تھی۔

"میں نے کبھی اچھا بھی کیا ہے بھلا؟" وہ اُس کی سُرخ ہوتی اشکوں سے بھری آنکھوں میں دیکھتا پوچھنے لگا تو وہ نفرت سے رُخ موڑ گئی۔

"بُرا کرنے میں تو ماہِر ہیں آپ!" آنسو اب گالوں پہ بہہ نِکلے تھے۔ پتھر دِل موم ہو رہا تھا اور وہ ساری شرارت بُھلائے سنجیدگی سے اُس کو دیکھتا اُس کی کنپٹی پہ اپنا لمس چھوڑ گیا۔

"کیا تُمہارے دِل سے رانا جعفر کی مُحبّت ختم ہو گئی؟ وہ مُحبّت جو تُمہیں مُجھ سے تھی؟ جِس سے مُحبّت کی جاتی ہے اُس کو تو ساری بُرائیوں سمیت قبول کیا جاتا ہے۔ اُس کی ساری غلطیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ تُمہارے ساتھ کیا وعدہ ہی تھا جِس نے مُجھے آج تک باندھ رکھا ہے ورنہ ایک چھت، ایک کمرہ اور ایک ہی بِستر! کون ہے جو مُجھے تُم تک پہنچنے سے روکے؟ مُحبّت ہے تبھی تو تُمہیں اِتنا مارجن

دے رہا ہوں۔ مُحبّت نا ہوتی اور تُمہیں صِرف بیوی سمجھتا تو اب تک ہمارے چار پانچ بچّے ہوتے جو یہاں بیڈ پر اُچھل کود کر رہے ہوتے!" سنجیدگی سے بولتا بولتا، اُس کی محویت دیکھ کر آخر میں وہ شرارت سے بولا تھا۔

"تین سال میں پانچ بچّے؟" دُرّے کی آواز بے ساختہ تھی جبکہ بھوری آنکھوں میں حیرت کے ساتھ خوف بھی تھا جِسے دیکھ وہ ہنس کر اُس کی ناک کو چوم گیا۔

"جھلّی ہو بالکُل! تین سال میں دو دو جُڑواں اور ایک سِنگل!" رانا جعفر کا بے باک لہجہ اُسے چہرہ چُھپانے پر مجبور کر گیا تھا۔

"تُمہاری آسانی کے لیے کم بھی ہو سکتے ہیں۔ تُمہاری مانوں گا پہلے خُود تو مانو!" وہ بے چارگی سے بولا تھا۔ ماتھا اب دُرّے کے ماتھے سے لگا رکھا تھا کہ وہ اُس کے لہجے اور مُحبّت سے پِگھلتی اُس کے گال پر ہاتھ رکھ گئی۔

"آپ چاہتے ہیں کہ ہمارے درمیان سب ٹھیک ہو جائے؟" دُرّے نے پوچھا تو وہ بوجھل سا سانس خارِج کرتا سر ہلا گیا۔

"میں چاہتی ہوں کہ حویلی میں سب ٹھیک ہو جائے! آپ حمین کو لے آئیں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اُس کے آنے سے حویلی کے درو دیوار میں خُوشیاں ہی خُوشیاں ہوں گی۔ میں چاہتی ہوں کہ اپنی ازدواجی زِندگی کا آغاذ اِس افسردہ ماحول سے نہیں بلکہ خُوشیوں سے کروں۔ میں۔۔۔۔ میں سب کو پریشان دیکھ کر اپنی خُوشی نہیں منا سکتی سائیں!" وہ دھیمے سے بولتی اُسے خُوشی کی نوید سُنا گئی تھی۔

"مطلب۔۔۔۔۔ تُم اپنا وعدہ واپس لے رہی ہو؟" اُس نے سرشاری سے پوچھا تو وہ نم آنکھیں لیے سر ہلا گئی۔

"بہت شُکریہ میری جان! میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئیندہ کبھی تُمہیں دُکھ نہیں دوں گا۔ اپنے سے زیادہ تُمہیں عِزّت دوں گا اور سب سے بڑھ کر مُحبّت بھی!" اُس نے دُرّے کے گِرد بازو حمائل کرتے اُس کے کُھلے لمبے بالوں میں منہ چُھپایا۔

"سا۔۔۔۔۔۔ سائیں!" دُرّے اُس کی قُربت سے بوکھلا سی گئی۔

"تھوڑا سا پیار تو کر سکتا ہوں نا؟ تین سال سے تُمہیں اپنے اِتنے قریب دیکھ کر ترس رہا ہوں اب تو منع مت کرو!" وہ بے چارگی سے بولا تو وہ اُس کے انداز پر کِھلکِھلا کر ہنستی اُس کی گردن کے گِرد بازو حمائل کر گئی۔ جِس پر وہ بھی مُسکراتا اُسے نرمی سے سمیٹ گیا۔


******************

تاریکی کی چادر اُتار کر ایک نئے اُجالے کی دبیز تہہ دُنیا کو روشن کر چُکی تھی۔ باہِر پرِندوں کے چہچہانے کی آوازیں گُونجتی ایک دِلکش سا سُر بکھیر رہیں تھیں۔ ایسے میں اگر اِس کمرے کی طرف آو تو دو وجود ایک دوسرے میں گُم نیند کی وادیوں میں اُترے ہوئے تھے۔ کمرے میں پُرسکون سا سکوت چھایا ہوا تھا جِسے اُس ننھے شہزادے کی قِلقاریوں نے توڑا تھا جو اپنے چھوٹے سے بِستر میں سکون سے لیٹا ہوا میں ہاتھ جھلّا رہا تھا۔ نظریں چھت پر مرکوز تھیں اور اُس کی سیاہ موٹی آنکھیں مُسکراتیں ہوئیں معلوم ہو رہیں تھیں۔

اُن مدُھر سی معصوم قِلقاریوں کو سُن کر نیند میں گُم ایک وجود آنکھیں مسلتا کہنی کے بل اونچا ہو کر اُس جانِب دیکھنے لگا تھا۔ ایک دِلکش مُسکراہٹ لبوں پر سجا کر اُس نے ایک اپنے پہلو میں تکیے پر سر رکھ کر سوئی اپنی کُل کائنات کو دیکھا جو پُرسکون سو رہی تھی، پھر اُس کے کندھے کو نرمی سے چھوتا اُٹھا اور بے بی کاٹ کی جانِب بڑھا۔ وہاں سے اُس ننھّے شہزادے کو اُٹھایا اور اُس کی ننھی پیشانی پر مُحبّت بھرا بوسہ دیا۔

"ببّا کو ڈِسٹرب نا کرنے کا بہت شُکریہ میری جان!" اُس کے پیٹ کو گُدگُداتا وہ مُسکرا کر بولا تو وہ مُسکرا گیا جیسے اُس کا شُکریہ قبول کر لیا ہو۔

"ڈیٹس مائی گُڈ بوائے! اب ببّا فریش ہو کر آتے ہیں اوکے اور آپ نے بالکُل بھی آواز نہیں نِکالنی ورنہ مما اُٹھ جائیں گی!" اُس کے کان میں سرگوشی کی مانِند ہدایت کی تو وہ اُس کی بئیرڈ کھینچنے لگا۔ دبا دبا سا ہنس کر وہ اُسے کاٹ میں لٹاتا پیچھے ہٹا اور خاموشی سے الماری سے کپڑے نِکالتا باتھ روم کی جانِب بڑھ گیا۔

دس مِنٹ بعد وہ فریش فریش سا ٹراوزر شرٹ میں ملبوس باہِر آیا تھا۔ آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر وہ بال بنانے لگا تھا۔ اُس ننھے شہزادے نے سچ میں اپنے باپ کی ہدایت پر عمل کیا تھا۔ بال بنا کر وہ برش رکھنے جب وہ اؐس کے ہاتھ سے چھوٹتا ڈرسینگ ٹیبل پر گِرتا کافی آواز پیدا کر گیا تھا۔ برش کیچ کرنے کی ہر کوشش ناکام گئی تھی۔ ایک آنکھ میچ کر بیڈ کی جانِب دیکھا جہاں وہ اب آنکھیں مسلتی سیدھی ہو رہی تھی۔ وہ تو چاہتا تھا کہ وہ سوئی رہے مگر اب وہ اُسی کی بے احتیاطی کی وجہ سے جاگ گئی تھی۔

وہ جو شور کے آواز سے اُٹھ کر سیدھی ہونے لگی تھی اپنا بِکھرا سا حُلیہ دیکھتے واپس چادر میں چُھپی تھی۔ وہ آئینے کے سامنے سے ہٹتا اُس کے سامنے آن بیٹھا تھا اور اب اُس کے سُرخ ہوتے چہرے کو دیکھتا معنی خیزی سے مُسکرا رہا تھا۔ حمود کی نظریں یہاں وہاں بھٹکتی اُسے دیکھنے سے اِنکاری تھیں۔ اُس کی لو دیتی نظروں سے جھنجھلا کر وہ چادر سر تک تان کر خُود کو چُھپا گئی تھی جبکہ حیدر ہنس دیا تھا۔

"اب کیوں شرما رہی ہو؟ اب یہ شرمانا بنتا نہیں!" وہ چادر اُس کے چہرے سے نیچے کرتا اُس کے قریب ہوا۔ اُس کے بال چہرے سے ہٹا کر مُحبّت بھرا لمس اُس کے ماتھے پر چھوڑا اور پھر اُس کا ہاتھ تھام کر سہلانے لگا۔

"حمین۔۔۔۔ جاگ گیا؟" وہ اب بھی اُس کے سینے پر نظریں جمائے ہوئے تھی اُس کا چہرہ دیکھنے کی ہمّت نہیں کی تھی۔

"ہمم!! جاگ گیا ہے! میری طرف دیکھو!" حیدر کے نرمی سے اُس کی تھوڑی تلے دو اُنگلیاں رکھتے اُس کا چہرہ اپنی سِمت موڑا۔

"حیدر!! وہ اُس کو پُکار اُٹھی تھی۔

"حیدر کی جان! کیا ہوا ہے؟ اِتنا گُریز کیوں؟ کیا خُوش نہیں ہو؟" حیدر نے ماتھے پر بل ڈالے پوچھا تھا جہاں لہجہ مصنوعی سختی لیے ہوئے تھا وہیں آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی۔

"نہیں۔۔۔۔ میں نے ایسا کب کہا؟ بہت خُوش ہوں میں!!" وہ تیزی سے بولتی اُسے قہقہہ لگانے پر مجبور کر گئی تھی جبکہ اب وہ شرمِندہ ہوتی اُسے گھور رہی تھی۔

"تو کیا خیال ہے پھر؟ اور پیار کر لوں؟" وہ اُس کے نزدیک ہوتا ہوا معنی خیزی سے بولا تو وہ اُسے دھکّا دیتی پیچھے کر گئی۔

"زیادہ پھیلو مت اب! پیچھے ہٹو مُجھے فریش ہونا ہے۔" وہ اُسے پیچھے ہونے کا کہنے لگی جو اُس کے دھکّے کے باوجود اُس کے بے حد قریب تھا۔

"مُجھے میری یہی ڈیول کوئین پسند ہے جو میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہے نا کہ وہ جو شرماتے ہوئے مُجھے دیکھتی بھی نہیں؟" اب کی بار اُس کے لہجے میں خفگی تھی۔

"تُم میرے شوہر ہو!!!" وہ مِنمنائی تھی۔

"شوہر ہوں کوئی ڈریکولا تو نہیں۔ شوہر کو دیکھنا نہیں ہاں مگر "تُم" کہہ کر مُخاطِب ضرور کرنا ہے۔" اب کی بار لہجہ طنزیہ تھا۔ وہ خفا سا ہو کر اُٹھنے لگا تھا جب حمود نے اُس کا ہاتھ تھاما۔

"آئیندہ آپ ہی کہوں گی اور شرماوں گی بھی نہیں!" وہ فرمانبرداری سے بولی تو اُسے بے ساختہ اُس پر پیار آیا۔

"بخُدا! تُم ضرور شرماو مگر تب جب میں تُمہارے قریب ہوں کیونکہ مُجھے قریب سے تُمہارے اِس سُنہری رنگت والے چہرے پر سُرخیاں دیکھنا اچھا لگتا ہے۔" وہ اُس لے قریب ہوتا اُس کی آنکھوں پر پھونک مار کر بولا تو وہ مُسکراتی چہرہ جُھکا گئی۔ اِسی وقت حمین رونے لگا تھا۔ حمود نے پریشانی سے اُسے دیکھا تو حیدر اُٹھ کھڑا ہوا۔

"تُم جلدی سے فریش ہو جاو میں اپنے چیمپ کے لیے فیڈر بناکر لاتا ہوں!" وہ نرمی سے کہتا اُٹھا اور حمین کی جانِب بڑھا اور اُسے اپنی بانہوں میں اُٹھا لیا۔ اُس کے پاس آتے ہی وہ چُپ ہو گیا تھا اور اُس کے بالوں کو مُٹھیوں میں بھرتا کھیلنے لگا تھا۔ حیدر نے دیکھا وہ ابھی تک بیڈ پر تھی۔

"جاو بیٹھی کیوں ہو؟" حیدر نے حیرانی سے پوچھا تو وہ سٹپٹا گئی۔

"تُم میرا مطلب آپ باہِر جائیں!" وہ روہانسی سی بولی تو وہ اُس کی اُلجھن سمجھتا ایک گہری نِگاہ اُس کے چہرے پر ڈالتا نفی میں سر ہلا کر باہِر نِکلا۔

وہ باہِر آیا تو سامنے ہی صوفے پر بُوا بیٹھیں ہوئیں تھیں۔

اُنہیں سلام کر کے وہ حمین کو اُنہیں تھما کر کِچن کی جانِب بڑھا۔ وہاں جا کر فریج کھولا تو تازہ دودھ رکھا ہوا تھا جو شاید بُوا نے ہی دودھ والے سے لیا تھا کیونکہ وہ ساڑھے سات بجے آتا تھا اور اب آٹھ بج رہے تھے۔ دودھ کو پین میں ڈال کر وہ گرم کرنے لگا۔ جسبِ ذائقہ چینی ڈالی اور دودھ اُبلنے کا اِنتظار کرنے لگا۔ دودھ کو دو تین آنچ پر پکانے کے بعد اُس نے کُھلے برتن میں نِکالا اور ٹھنڈا کیا۔ اِسی میں تقریباً پندرہ مِنٹ لگ چُکے تھے۔ وہ واپس روم میں گیا۔ وہاں سے حمین کا فیڈر لے کر آیا حمود باتھ روم میں تھی۔

فیڈر میں دودھ ڈال کر وہ لاونج میں پہنچا اور حمین کو لینے لگا مگر بُوا نے اُس سے فیڈر لے کر اُسے تیار ہونے کا کہا کپ اُسے تھانے بھی جانا تھا۔ وہ حمین کو پیار کرتا واپس کمرے میں پہنچا تو وہ آئینے کے سامنے بیٹھی بال خُشک کر رہی تھی۔ وہ الماری سے اپنا یُونیفارم نِکالتا باتھ روم میں گُھس گیا۔ پانچ مِنٹ بعد وہ پولیس یُونیفارم میں ملبوس باتھ روم سے باہِر نِکلا تھا جبکہ حمود گیلے بال سُلجھا کر پُشت پر ڈالے اب چہرے پر کوئی کریم لگا رہی تھی۔ نیوی بلیو اور سکِن کلر کے سوٹ میں ملبوس وہ نِکھری نِکھری سی لگ رہی تھی۔ وہ جا کر اُس کے بِالکُل پیچھے کھڑا ہو گیا۔ حمود کا لرزتا ہاتھ وہ اچھے سے محسوس کر گیا تھا۔

"ابھی کُچھ دیر پہلے کِسی نے مُجھ سے کہا تھا کہ وہ مُجھ سے بالکُل نہیں شرمائے گی؟" حیدر نے اُس کو اپنے حِصار میں لیتے اُس کے کندھے پر تھوڑی ٹکاتے کہا۔

"شر۔۔۔۔۔ شرما نہیں رہی!" وہ دھیمے سے اٹک کر بولی۔

"تو پھر یہ کپکپا کیوں رہی ہو؟ دِل کی دھڑکن تو مُجھے یہاں تک سُنائی دے رہی ہے۔" حیدر نے اُس کا رُخ اپنی طرف پلٹا تو وہ حیدر کو دیکھنے لگی۔ اُس کی آنکھیں بھی حمود کی طرح سیاہ تھیں جِن میں ایک الگ سی کشش تھی۔ اُس کی آنکھیں حمود کو رانا عبّاس کی یاد دِلاتیں تھیں۔ پولیس یُونیفارم میں ملبوس ماتھے پر بِکھرے بال لیے وہ اُسے بہت معصوم لگا تھا۔ کل رات کی وحشت کے برعکس اِس وقت اُس کی آنکھوں میں سکون اور حمود کی مُحبّت کا جہاں آباد تھا۔

"اچھا چلو یہ چھوڑو اِدھر آو۔" وہ حمود کو کندھوں سے تھامتا بیڈ کی جانِب بڑھا۔ اُسے بیڈ پر بِٹھا کر اُس کے سامنے بیٹھا۔

"کوئی بات پریشان کر رہی ہے میری چھوٹی سی بیوی کو؟" اُس نے نرمی سے پوچھا تو وہ جھٹ نفی میں سر ہلا گئی۔

"تو پھر پریشان کیوں ہو؟" اُس نے اُس کی نبض سہلاتے ہوئے پوچھا۔

"آپ تو پولیس والے ہیں نا؟ آپ آپا کے بارے میں پتہ نہیں کروا سکتے؟" حمود نے آس سے پوچھا تھا۔

"کروا سکتا ہوں اور بہت جلد کروانے والا ہوں مگر ایک بات سمجھ نہیں آئی مُجھے! رانا باقِر کو تو پتہ تھا نا کہ عبّاس بھائی نے تُمہاری بہن کو کہاں اور کِسی جگہ رکھا ہے عِلاج کے لیے؟ تو تُم نے اُس سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟" حیدر نے کُچھ سوچ کر پوچھا تھا۔

"بھائی؟" حمود نے حیدر کے منہ سے بھائی لفظ سُن کر حیرت سے کہا۔

"نین گُل تُمہارے ساتھ میری بھی بہن ہے اور وہ تو کافی بڑھے تھے نا تب تقریباً چھبیس ستائیس سال کے تو وہ مُجھ سے بڑے ہی ہوئے نا؟ اِسی لیے بھائی کہا!" حیدر نے سٹپٹا کر اُس کے سوال کا جواب دیا تھا جِسے وہ محسوس نہیں کر پائی تھی۔

"میں نے باقِر سائیں کے فلیٹ جا کر پتہ کیا تھا مگر وہ فلیٹ بھی کِسی اور کو بیچا جا چُکا تھا اور باقِر سائیں وہاں سے جا چُکے تھے اور کہاں گئے تھے یہ پتہ نہیں چلا تھا۔" حمود نے یاسیت بھرے لہجے میں اُسے بتایا تھا۔

"چلو فِکر مت کرو میں تُمہاری بہن کے بارے میں جلد ہی پتہ کروا لوں گا!" حیدر نے تسلّی دی تو وہ مشکور نظروں سے اُسے دیکھنے لگی۔

"اِس بات کا شُکریہ تُم مُجھے حمین کی بہن دے کر بھی کر سکتی ہو!" اچانک جُھک کر بولتا وہ حمود کو بوکھلانے پر مجبور کر گیا تھا۔

"حیدر!" وہ سُرخ ہوتی اُس کے سینے پر مُکّا برسا گئی تو وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا

"شام میں تیار رہنا! ہمیں کہیں جانا ہے!" حیدر نے اُس کا بازو سہلاتے ہوئے کہا تھا۔

"کہاں؟" حمود نے اچھنبے سے پوچھا۔

"بس جانا ہے کہیں! حمین بھی ساتھ جائے گا۔ میں شادی کی پہلی صُبح اپنی نئی نویلی دُلہن کو چھوڑ کر جانا تو نہیں چاہتا تھا مگر مجبوری ہے ایک بہت ضروری کام ہے۔" حیدر نے اُسے بیڈ سے نیچے کھڑا کیا اور ایک طرف پڑا دوپٹہ اُس کے سر پر اوڑھایا۔

"چلو اب ناشتہ بناو میرے لیے! پھر میں جاوں!" حیدر نے باہِر کی جانِب بڑھتے ہوئے کہا تو حمود نے خفگی سے اُسے دیکھا۔

"ایک دِن کی دُلہن سے ناشتہ بنوائیں گے؟" وہ مصنوعی خفگی سے بولی تو وہ مزے سے سر ہلا گیا۔ وہ نفی میں سر ہلاتی باہِر آئی تو حمین نیچے بیٹھا کھیل رہا تھا۔ بُوا شاید کِچن میں تھیں۔ ابھی وی کِچن کی جانِب بڑھتی کہ بُوا ہاتھ میں بڑی سے ٹرے تھامے اُن کی طرف آئیں۔

"بُوا آپ نے کیوں بنایا؟ میں بنانے والی تھی۔" وہ قریب جاتی اُن کے ہاتھ سے ٹرے لیتے بولی تو بُوا نے نرمی سے اُس کا نِکھرا نِکھرا وجود اور مُسکراہٹ دیکھ کر اُس کا ماتھا چومتے سدا سُہاگن رہنے کی دُعا دی۔

"آج میرے ہاتھ سے کر لو آئیندہ تُم ہی بنانا!" اُنہوں نے مُسکرا کر کہا پھر وہ تینوں ناشتہ کرنے لگے۔

ناشتے کے بعد حیدر سب سے اِجازت لیتا حمین کو پیار کرتا اُس کے ساتھ ڈھیروں تصویریں بناتا باہِر نِکل گیا جبکہ بُوا اور حمود حمین کے ساتھ صروف ہو گئیں۔


********************


شام کو تقریباً چھ بجے کے قریب حیدر واپس آ گیا تھا۔ اُس نے رات کے لیے ڈِنر تیار کر لیا تھا۔ حیدر چینج کر کے واپس آیا تو اُس نے سب کو کھانا سرو کیا تھا۔ کھانے کے بعد وہ برتن سمیٹنے لگی تھی جبکہ حیدر حمین کے کپڑے بدل رہا تھا۔ بُوا آرام کرنے جا چُکیں تھیں حیدر نے اُن سے کہہ دیا تھا کہ وہ فلیٹ لاک کر کے جائے گا اور خُود ہی واپسی پر فلیٹ انلاک کر لے گا اِس لیے اُن کے لیے پریشان نا ہوں۔

برتن دھو کر وہ کمرے میں پہنچی تو ساڑھے چھ ہو چُکے تھے۔ حیدر خُود اِس وقت بلیو جینز اور وائٹ شرٹ میں ملبوس تھا جبکہ حمین کو وائٹ اور بلیک ریڈی میڈ ڈریس پہنایا ہوا تھا۔ نک سک سے تیار وہ دونوں خُوشبووں میں گِھرے بیڈ پر ایک دوسرے میں مگن تھے۔ وہ الماری کھول کر کپڑے دیکھنے لگی پھر وائٹ اور بلیک کمبینشین کا ڈریس نِکال کر فریش ہونے چلی گئی۔ فریش ہو کر واپس آئی تو حیدر حمین کو جھلّا رہا تھا جو اب جماہیاں لیتا اونگھ رہا تھا۔ وہ جلدی سے حِجاب کر کے چادر اوڑھتی حیدر کی جانِب بڑھی۔

"اِسے مُجھے دے دیں!" اُس نے ہاتھ اُس کی طرف بڑھائے تو وہ حمین کو دائیں ہاتھ میں اُٹھا کر کندھے سے لگاتا بایاں ہاتھ اُس کے کندھے پر رکھ کر باہِر کی جانِب بڑھا۔

"گاڑی میں بیٹھتے وقت لے لینا!" حیدر نے کہہ کر دروازے پر پہنچتے چابی اُس کی طرف بڑھائی۔ حمود نے فلیٹ کو لاک کیا تو حیدر اُسے لیے نیچے کی جانِب چل دیا۔ پارکنگ میں پہنچ کر اُس نے حمین کو حمود کے حوالے کیا اور اُسے گاڑی میں بِٹھا کر خُود بھی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتا گاڑی کو سڑک پر ڈال دیا۔

"حیدر! ایک بات پوچھوں؟" حمود نے حمین کو دیکھ کر حیدر کو دیکھا جو اُس کی گود میں آتے ہی اُچھلنے لگا تھا۔ نیند جیسے بھاگ ہی گئی تھی۔

"ہاں پوچھو؟ اِس میں اِجازت لینے والی کیا بات ہے؟" اُس نے نرمی سے اُس کا ہاتھ تھام کر کہا تو وہ مُسکرائی۔

"آپ نے کبھی اپنی فیملی کے بارے میں نہیں بتایا کہ آپ کی فیملی میں کون کون ہے؟ کہاں رہتے ہیں وہ سب؟" حمود نے پوچھا۔

،"میں یہاں شہر میں اکیلا رہتا ہوں باقی سب گاؤں میں رہتے ہیں مگر فِکر مت کرو کل ہم گاوں جا رہے ہیں تب سبھی سے مِل لینا!" حیدر نے نرمی سے ہی جواب دیا تھا۔

"کیا اُنہیں پتہ ہے ہماری شادی کے بارے میں؟" اُس نے کُچھ جِھجھک کر پوچھا۔

"نہیں! کِسی کو نہیں معلوم کہ میں تُم سے شادی کر چُکا ہوں!" حیدر نے کندھے اُچکا کر جواب دیا تو وہ پریشانی سے اُسے دیکھنے لگی۔

"کیا وہ قبول کر لیں گے مُجھے؟ اُنہیں بُرا نہیں لگے گا کہ آپ نے بغیر بتائے شادی کر لی؟ اگر آپ کے بابا نح اعتراض کیا تو؟" حمود کی آنکھوں کے سامنے نین گُل کا چہرہ گھوم گیا تھا۔ اُس کے سسُر نے بھی تو اُن کی شادی کو اپنی انا کا مسلہ بنا لیا تھا۔

"تُمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کِسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا اگر ہو گا بھی تو میں دیکھ لوں گا۔ تُم بس ریلیکس رہو اور یہ اِن ہونٹوں پر مُجھے بس بے فِکر سی مُسکراہٹ نظر آئے سمجھی!" حیدر نے اُس کے پریشان چہرے کو دیکھ کر ٹوکا تو لبوں پر مُسکراہٹ سجاتی اُسے دیکھنے لگی مگر اُس کا دِل ڈر رہا تھا۔

"ویسے آپ نے ایک بات نوٹ کی؟" حمود نے حمین کو سیدھا کر گود میں بٹھایا یُوں کہ حمین کے چہرے کا رُخ حیدر کی طرف تھا اور وہ اپنی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں سے حیدر کو دیکھتا ببّا ببّا پُکار رہا تھا۔

"کیا؟" حیدر نے حمین کے گال کو سہلا کر پوچھا تھا۔

"آپ کی اور حمین کی آنکھیں ایک جیسی ہیں۔ آنکھوں کی چمک بھی اور شیپ بھی!" حمود نے کہا تو بے ساختہ اُسے کھانسی سی ہو گئی۔ حمود نے پریشانی سے اُس کی پُشت سہلائی تھی۔

"یہ تو اچھی بات ہے نا کہ باپ بیٹے کی آنکھیں ایک جیسی ہیں!" حیدر نے کُچھ سنبھل کر جواب دیا تو حمود مُسکرائی۔

"ہاں یہ تو ہے!" وہ حمین کی آنکھیں چوم کر دِلکشی سے مُسکرائی۔

"میں تُم سے بہت مُحبّت کرتا ہوں حمود! مُجھے کبھی چھوڑ کر مت جانا! چاہے کُچھ بھی ہو جائے! لڑ لینا، جھگڑ لینا چاہے تو سزا بھی دے دینا مگر مُجھ سے دور مت جانا!" حیدر کے لہجے میں خوف پنہاں تھا جِسے محسوس کر کے حمود نے اچھنبے سے اُسے دیکھا۔

"میں آپ کو چھوڑ کر کیسے جا سکتی ہوں؟ میں بھی آپ سے مُحبّت کرتی ہوں۔ میری روح کے مکین ہیں آپ پھر میں کیوں آپ سے الگ ہونا چاہوں گی؟" حمود نے مُحبّت سے کہتے اِستفسار کیا تو وہ نفی میں سر ہلا گیا۔

"نہیں بس ویسے ہی! تُمہیں مُجھ پر بھروسہ تو ہے نا؟" حیدر نے پھر پوچھا تو وہ اُس کے کندھے پر سر ٹکا گئی جبکہ حمین اب حمود کے ہاتھ کو تھامے گالوں سے لگا رہا تھا۔

"خُود سے زیادہ!" وہ مان سے کہتی آنکھیں موند گئی تھی جبکہ وہ لب بھینچتا سامنے دیکھنے لگا۔

کُچھ دیر بعد حیدر نے گاڑی ایک ہسپتال کے سامنے روکی تھی۔ اپنی سیٹ سے اُتر کر وہ حمود کی جانِب آجا جو حمین کو تھامے حیران و پریشان سی سامنے موجود ہسپتال کو دیکھ ریی تھی۔ یہ اِسلام آباد کا بہت بڑا ہسپتال تھا مگر وہ اُسے یہاں کیوں لایا تھا۔

"اُترو!" حیدر نے سنجیدگی سے کہا تو وہ حمین کو سنبھالے گاڑی سے نیچے اُتری۔

"ہم یہاں کیوں آئے ہیں حیدر؟" حمود نے اپنی پریشانی کو الفاظ دئیے۔ "اندر چلو تُمہیں کِسی سے مِلوانا ہے۔" حیدر نے نرمی سے کہتے اُسے اپنے بازو کے حلقے میں لیا۔ وہ اُلجھی نظروں سے حیدر کو دیکھتی اُس کے ساتھ اندر کی جانِب بڑھی۔ بھانت بھانت کے لوگ اِس وقت یہاں وہاں چلتے نظر آ رہے تھے۔ حیدر کے حِصار میں چلتے جانے کیوں اُس کا دِل پریشان ہو رہا تھا۔

اُسے لیے وہ لِفٹ کی جانِب بڑھا تھا۔ حمین کو اب وہ خُود تھام چُکا تھا جبکہ حمود اب سے کئی مرتبہ اُس سے پوچھ چُکی تھی مگر وہ چُپی کا روزہ رکھے اُسے بس ساتھ چلنے کو کہہ رہا تھا۔ لِفٹ کے ذریعے تھرڈ فلور پر پہنچ کر وہ راہداری میں چلنے لگا۔ کافی کمرے چھوڑ کر وہ کمرہ نمبر ٣٢ کے سامنے رُکا اور دروازہ دھکیل کر اندر داخِل ہوا۔ حیدر نے حمود کی جانِب دیکھا جو اُس کے ساتھ کھڑی یک ٹِک سامنے پڑے وجود کو دیکھ رہی تھی جو نالیوں میں جکڑا ہوا تھا مگر اُس وجود میں ذرا سی بھی حرکت نہیں ہو رہی تھی۔ اُس کی سیاہ آنکھیں اِس وقت حیرانی اور آنسووں سے بھری ہوئیں تھیں۔

"تُم ٹھیک ہو؟" حیدر نے اُس کی طرف جُھک کر پوچھا تو اُس نے ڈبڈبائی نظروں سے حیدر کو دیکھا جو چہرے پر پریشانی لیے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"یہ یہ یہاں؟؟" بیڈ پر پڑے وجود کی طرف اِشارہ کرتی وہ بمُشکِل یہی بول پائی تھی۔ حیدر نے بغیر کُچھ بولے اُس کے ماتھے پر مُحبّت بھرا لمس چھوڑا تو وہ کُچھ پُرسکون ہوئی۔

"رونا بالکُل نہیں ہے ورنہ ناراض ہو جاوں گا!" اُس نے اپنی نم ہوتی آنکھوں کو چھلکنے سے روکتے وارننگ دی تو وہ آنسو پونچھنے لگی۔

"تُم یہاں؟؟" ابھی وہ کُچھ کہتی کہ پیچھے سے آتے وجود نے اُن کی گُفتگو میں خلل ڈالا۔ حیدر اور حمود دروازے کی طرف متوجّہ ہوئے۔ جہاں دروازے پر کھڑے وجود کو دیکھ کر حمود کی آنکھیں حیرت سے پھٹیں تھیں وہیں حیدر خُوشی سے اُسے وہیں چھوڑتا دروازے پر کھڑے وجود کے گلے سے جا لگا تھا جو اب حمود کو دیکھ کر حمین کو اُس سے لیتا پیار کر رہا تھا۔ اُسے کُچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ کیا ہو رہا ہے؟

********************

ختم شدہ


          

 مزید ناولز کے لئے نیچے جائیں ، یہاں مکمل اور قسط وار سبھی ناولز کے لنکس دئیے گئے ہیں۔

آپ مزید ناول کی پکس دیکھنے کے لیے نیچے جائیں ، اور ہماری ویب سائٹ کو وزٹ کریں ، اگر آپ نے ابھی تک مدیحہ شاہ کے مکمل اور قسط وار ناولز نہیں پڑھے ۔ تو جلدی سے مدیحہ شاہ کے سبھی ناولز کو پڑھیں اور اپنا فیٹ بائک دیں ۔

 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about


 

 Abr E Gurezaan Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Abr E Gurezaan written Kanwal Akram . Abr E Gurezaan by  Kanwal Akram is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Forced Marriage Based Novel Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Mahra Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Mahra Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be delete

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages