Koi Na Aisa Ishq Kare Novel By Kanwal Akram Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 24 June 2024

Koi Na Aisa Ishq Kare Novel By Kanwal Akram Complete Romantic Novel

Koi Na Aisa Ishq Kare Novel By Kanwal Akram Complete Romantic Novel

 Read ONLINE Free Famous Urdu Novel 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading

Koi Na Aisa Ishq Kare By Kanwal Akram Complete Romantic Novel


Novel Name: Koi Na Aisa Ishq Kare 

Writer Name: Kanwal Akram 

Category: Complete Novel

نن نہیں نہیں مت جاو پلیز مجھے چھوڑ کے مت جاو ۔۔۔۔۔میں مر جاوں گی مت جاو ۔۔۔۔۔۔رکو رک جاو ۔۔۔۔۔ وہ ہاتھ اُٹھائے اس لڑکے کو پکار رہی تھی جس کی آنکھیں ڈارک بلیو کلر کی تھیں وہ اس کی طرف دیکھتا اس سے دور دور اور دور ہوتا چلا گیا کہ وہ صرف فریاد کرتی روتی رہ گئی۔۔۔۔۔

ایک جھٹکے سے اس کی آنکھ کھلی تھی۔ اس کا جسم پسینے سے شرابور تھا اور بلکل ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔

وہ گہرے گہرے سانس لیتی اُٹھ بیٹھی ایک ہاتھ سے اپنے چہرے پہ آیا پسینہ صاف کیا اور پھر اُٹھ کر جگ سے گلاس بھر کر پانی پیا ۔۔۔

یہ خواب اب اس کی زندگی کا حصہ بن چکے تھے ہر بار مختلف خواب ہوتے کبھی وہ کسی کی منتیں کر رہی ہوتی کبھی وہ کسی سے محبت کا اظہار کر رہی ہوتی مگر ان سب میں ایک بات مشترک تھی اور وہ یہ کہ ہر خواب میں وہ نیلی آنکھوں والا شہزادہ ہوتا تھا۔

ہاں شہزادہ اس کے خوابوں کا شہزادہ جس کی نیلی آنکھوں سے اسے عشق تھا ۔۔۔۔جس دن اسے خواب نہ آتا وہ بے چین رہتی اور جس دن اسے خواب میں اس کا نیلی آنکھوں والا شہزادہ نظر آجاتا وہ دن اس کا سب سے اچھا گُزرتا اُسے اُس کا واضح چہرہ دِکھائی نہ دیتا تھا مگر اُس کی معصومہ پر جمی آنکھیں معصومہ کو نیند سے اُٹھنے کے بعد بھی یاد رہتیں تھیں۔

 زندگی کی تلخ حقیقتوں میں اس شہزادے کے خواب ہی تھے جو اسے سکون دیتے تھے اسے جینے کی آس دیتے تھے ۔۔۔ 

وہ جانتی تھی کہ خواب حقیقت نہیں ہوتے مگر پھر بھی وہ دعائیں مانگتی کہ یہ خواب حقیقت ہو جائیں اور اس کا شہزادہ اسے ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ اپنے محل میں لے جائے۔۔۔

 وہ رب سے اپنا  خواب پورا ہونے کی دعائیں مانگنے والی پگلی یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے خواب حقیقت تو ہوں گے مگر وہ حقیقت اتنی بھیانک ہو گی کہ ایک دن وہ اپنی مانگی گئی دعاوں کو واپس موڑنے کی دعائیں کرے گی ۔۔۔۔

 اس کا کمرہ سادہ سا تھا جس میں ایک بیڈ، ڈریسنگ اور ایک کبرڈ کے علاوہ صرف ایک رائٹینگ ٹیبل تھی جس پہ اس کی بکس وغیرہ رکھی ہوئیں تھیں۔۔۔۔۔

فجر کا وقت ہو چکا تھا اور فجر کے بعد وہ ویسے بھی نہیں سوتی تھی سو اب بھی اُٹھ کر وہ وضو کرنے چلی گئی۔

 دس منٹ بعد واپس آکر نماز پڑھی اور پھر نماز کے بعد دعا مانگی اور اس دعا میں بھی وہ اپنا شہزادہ مانگنا نہ بھولی۔۔۔ 

نماز کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کی۔۔ پانچ بج چکے تھے قرآن پاک کو رحل میں رکھ کر وہ دوپٹہ سر پر لیتی باہر نکل گئی۔۔۔

باہر جا کر سب سے پہلے گھر کی صفائی کی اس کے بعد سب کے لیے ناشتہ بنایا یہ کام کرتے کرتے اسے سات بج گئیے تھے وہ جلدی جلدی کچن کے کاموں سے فارغ ہو کے سب کو بلانے گئی ناشتہ وہ لگا چکی تھی اب بس کھانے والوں کی کمی تھی۔۔۔

 سب ہی اپنے اپنے کمرے سے نکل کر ناشتہ کرنے

 آچکے تھے اور پھر ان سب کو دیکھتے وہ واپس اپنے کمرے میں چلی گئی اور کالج کے لیے تیار ہونے لگی۔۔

کالج یونیفارم پہنے سر پہ حجاب اوڑھے اور ایک بڑی چادر اپنے کندھوں پہ پھیلائے کالج جانے کو تیار تھی۔ وہ کتابیں پکڑ کر باہر آگئی۔۔۔

 معصومہ بیٹا ناشتہ تو کر لو۔۔۔۔۔ اس کے ماموں نے اسے پیچھے سے آواز دی ۔۔

ارے کر چکی ہو گی وہ ناشتہ اتنی اچھی نہیں ہے کہ اب تک بھوکی بیٹھی رہے آپ دھیان سے اپنا ناشتہ کریں۔۔۔ اس کی ممانی نے نخوت سے کہا۔۔ 

جج جی ماموں میں کر چکی ہوں ناشتہ ۔۔۔۔ چلتی ہوں اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔۔ وہ دھیمے لہجے میں کہتی باہر کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔۔

پیچھے اس کے ماموں کفِ افسوس ملتے رہ گئے۔۔۔

وہ ایک پرائیویٹ کالج میں بی ایس سی کر رہی تھی جو کہ ان کے گھر سے پچس منٹ کے فاصلے پر تھا اور وہ روز پیدل ہی آتی جاتی تھی بقول اس کی ممانی کے کہ پچس منٹ پیدل چلنے سے یہ گھس نہیں جائے گی۔۔۔۔ اور اس نے بھی کوئی چوں چرا نہیں کی تھی کہ وہ ان کے سہارے پہ تھی ۔۔۔۔۔

وہ ابھی صرف بیس سال کی تھی اس میں دوسری لڑکیوں کی طرح کی چالاکیاں بھی نہیں تھیں جس وجہ سے اس میں خود اعتمادی کی کافی کمی تھی۔۔ خود کے لیے سٹینڈ لینا اس کے لیے ایسا ہی تھا جیسے اس کے لیے کے ٹو کی پہاڑی کو تسخیر کرنا۔۔۔

وہ فطرتاً معصوم تھی بلکل اپنے نام کی طرح۔۔۔  اس کے ماں باپ بچپن میں ہی مر چکے تھے اور ددھیال والوں نے اسے پاس رکھنے سے انکار کر دیا تھا وہ اس وقت صرف پانچ سال کی تھی۔۔۔ جس وجہ سے اس کے ماموں رفیق صاحب  اسے اپنے ساتھ لے آئے تھے اور اس بات پر ان کی بیگم فرزانہ نے کافی شور شرابا کیا تھا  لیکن رفیق صاحب کے ترلے منتوں پر وہ مان گئیں تھیں ۔ 

مگر اس کا وجود آج بھی ان کی نظروں میں اس طرح ہی کھٹکتا تھا جس طرح آج سے پندرہ سال پہلے۔۔۔ اور اس کا اظہار وہ اس معصوم شہزادی کے سامنے کرتی رہتی تھیں جس پر وہ اکیلی چھپ چھپ کر رو رو کر من ہلکا کر لیتی تھی۔۔۔۔

رفیق صاحب کی اپنی کپڑے کی دوکان تھی جس سے ان کا گزر بسر اچھے سے ہوتا تھا خدا کا دیا سب کُچھ تھا مگر پھر بھی معصومہ کے لیے فرزانہ بیگم  کا دل تنگ پڑ جاتا تھا۔۔۔۔ 

ان کے تین بچے تھے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔۔ بیٹا روحان جو کہ چھبیس سال کا تھا اورائیر فورس میں تھا جبکہ اس سے چھوٹی بیٹی  ماہین تئیس سال کی  تھی جو کہ ایم اے کر چکی تھی اور سب سے چھوٹی بیٹی مشعل  معصومہ کی ہم عمر تھی جسے پڑھنے کا کوئی خاص شوق نہ تھا بس رفیق صاحب کی ضد پر وہ اب بی اے کر رہی تھی۔۔۔۔۔

 ماہین اپنی ماں سے مختلف تھی جسے معصومہ ویسے ہی پیاری تھی جس طرح مشعل ۔۔۔۔اس کی منگنی ہو چکی تھی ارحم سے۔۔  اور جلد ہی شادی بھی ہونے والی تھی۔ جبکہ مشعل کا رویہ معصومہ کے ساتھ نہ اچھا تھا نہ برا ۔۔۔۔۔ اس گھر میں صرف ماہین کے علاوہ روحان اور رفیق صاحب ہی تھے جن کو معصومہ کی فکر تھی اور ان کے دل میں اس کے لیے سچی محبت اور شفقت تھی۔۔۔۔۔

 وہ تیز تیز چلتی کالج پہنچی تھی۔۔۔۔ اگر لیٹ ہوجاتی تو پہلا لیکچر مس ہو جاتا اور وہ اپنی پڑھائی کو لے کر بہت پوزیسو تھی  وہ ایک بریلیئنٹ سٹوڈنٹ تھی اپنی ذہانت اور معصومیت کی وجہ سے وہ ہر ٹیچر کی دلعزیز تھی۔۔۔

 اس کی صرف ایک ہی دوست تھی آن۔۔۔ اس نے کبھی کوئی دوست نہیں بنائی تھی وہ ہمیشہ خود میں مگن رہتی تھی ۔۔۔ آن سے دوستی بھی آن کی باتونی اور فرینکنیس نیچر کا نتیجہ تھی مگر معصومہ کی نیچر کو دیکھتے اس نے بھی اپنی دوستی معصومہ تک ہی محدود کر دی تھی بول چال تو سب کے ساتھ تھی مگر خاص دوستی صرف معصومہ کے ساتھ۔۔۔۔

معصومہ کہاں رہ گئی تھی جلدی چلو لیٹ نہ ہو جائیں۔۔۔۔ آن اس کا ویٹ کررہی تھی اس کے آتے ہی اسے کھینچتے کلاس روم کی طرف بھاگی اور وہاں پہنچ کر شکر ادا کیا وہ لیٹ نہیں تھے کیونکہ ابھی تک ٹیچر نہیں آئی تھی۔۔۔۔

وہ اپنی اپنی چئیر پہ جا کے بیٹھ گئیں تھی پھر جلد ہی ٹیچر آگئی اور ایک گھنٹے میں لیکچر مکمل کیا اور کل کے لیے ٹیسٹ دے کر چلی گئی اور وہ دونوں بیگ سنبھالتے باہر آگئیں۔۔۔۔

آن کینٹین چلیں ؟ اس نے دھیرے سے پوچھا اور اس کی بات سن کے وہ ایک جھٹکے سے اس کی طرف گھومی۔۔۔

مومو تم آج بھی ناشتہ نہیں کر کے آئی؟؟؟ وہ تیکھے چتونوں سے پوچھ رہی تھی۔۔۔

ووہ ٹائم نہیں ملا ۔۔۔۔۔وہ دھیرے سے منمنائی۔۔

مومو تمہیں ٹائم ملتا کب ہے حالت دیکھی ہے اپنی بیس سال کی ہو مگر لگتی نہیں اتنی کمزور سی تو ہو تم۔۔۔۔۔وہ اس کے سراپے کی طرف دیکھتی ہوئی بولی معصومہ سمارٹ تھی ویک نہیں مگر آن کو وہ ویک ہی لگتی تھی۔۔

ٹھیک تو ہوں میں اب چلو بھوک لگ رہی ہے مجھے۔۔۔۔۔۔۔  وہ اسے کھنیچتے ہوئے بولی۔۔

مجھے پتہ تھا کہ تم آج بھی ناشتہ نہیں کر کے آئی ہو گی اس لیے میں سینڈوچ لے کے آئی تھی تمہارے لیے۔۔۔۔۔ وہ اپنے بیگ سے ٹفن نکالتی ہوئی بولی۔۔۔

تھینکیو آن تم بہت اچھی ہو۔۔۔۔۔ وہ نم آنکھوں سمیت بولی۔

اور تم بہت اموشنل اور سینسیٹو ہو۔۔۔۔ وہ اس کے آنسو صاف کرتی ہوئی بولی 

اور اس کی بات سن کے بے ساختہ ہنس پڑی اور آن  دل ہی دل میں اس کی خوشی کی دعا کرنے لگی۔۔۔

ویسے میں سوچ رہی تھی تمہارے نیلی آنکھوں والے شہزادے کا کیا بنے گا وہ تو ساری زندگی تمہارے آنسو ہی صاف کرتا رہے گا ۔۔۔۔۔ وہ اس کو چھیڑتے ہوئے بولی۔

 اب ایسی بھی بات نہیں ۔۔۔۔۔ وہ سینڈوچ کھاتے شرم سے لال ہوتی بولی۔۔۔

ایسی ہی بات ہے جانی۔۔۔ وہ ہنسنے لگی۔۔

آن وہ سچ میں آئے گا نا وہ صرف خواب تو نہیں؟؟؟ وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بول رہی تھی۔۔۔

ہاں میری جان ایک دن وہ شہزادہ آئے گا اور میری معصوم پری کو اپنے بڑے سے محل میں لے جائے گا جہاں پہ وہ راج کرے گی اور وہاں کوئی غم اس کے قریب بھی نہیں آئے گا اتنا پیار کرے گا وہ میری پری سے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ دل ہی دل میں اس کی نظر اتارتے ہوئے بولی۔۔۔۔

اچھا اب چھوڑو یہ سب اور چلو کل والا لیکچر تیار کر لیتے ہیں ۔۔۔۔۔ آن بات بدلتی بولی تو وہ بھی سر ہلا کر بک کھولنے لگی۔۔۔۔۔

***************

وہ کالج سے واپس آئی تو ہال میں کافی مہمان بیٹھے تھے۔ غور کرنے پہ پتہ چلا کہ وہ ماہین کے سسرال والے تھے۔۔۔ وہ سب سے مل کر اندر چلی گئی یونیفارم چینج کرنے ۔۔۔ اور فرزانہ بیگم بھی اس کے پیچھے ہی چلی آئیں۔۔

کپڑے چینج کر کے جلدی باہر آو اور آکے کھانا بناو۔۔۔۔ وہ اسے حکم کرتی واپس چلی گئیں اور وہ یہ بھی نہ کہہ پائی کہ مشعل سے کہہ دیں وہ تو آج گھر پر ہے نا میں تھکی ہوئی آئی ہوں۔۔۔۔۔۔ 

کپڑے چینج کر کے وہ بوجھل دل سے کچن میں چلی آئی اور جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگی مہمان ابھی آدھا گھنٹہ پہلے ہی آئے تھے اور شام کو جاتے تو خاطر تواضع تو ضروری تھی۔۔۔۔

 فرزانہ بیگم باہر مہمانوں کے ساتھ بیٹھیں تھیں ماہین اپنی ساس اور نند کے ساتھ براجمان تھی جبکہ مشعل اپنے کمرے میں۔۔ اسے ان سب سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔

 معصومہ اکیلی کچن میں کھانا بنا رہی تھی۔۔۔ دو گھنٹے میں اس نے کباب، بریانی، چکن  سلاد اور  فیرنی بنا لی تھی۔۔۔ اتنے میں وہ اتنا ہی کر سکتی تھی۔۔۔

اس نے کھانا ٹیبل پر لگا کر سب کو اطلاع دی اور جب سب آگئے تو خود کچن میں چلی آئی اسے فرزانہ نے ہی منع کیا تھا کہ جب ماہین کے سسرال والے آئیں تو وہ ان کے سامنے زیادہ نہ آیا کرے وجہ اس کی خوبصورتی تھی۔۔

بڑی بڑی ڈارک براون آئیز، چھوٹی سی ناک اور اس میں موجود بلکل ننھی سی نوز پن،  دونوں گالوں میں پڑتا گہرا بھنور،  معصوم سے نین نقش ، کالے سُنہری لمبے بال جو کے اس کی کمر سے کافی نیچے جاتے تھے، اور ان سب کے ساتھ اس کی سادگی جس سے کوئی بھی اس کے حسن کی طرف آسانی سے اٹریکٹ ہو جاتا ۔۔۔۔ جب بھی ماہین کا کوئی رشتہ آتا وہ معصومہ کو پسند کر کے چلے جاتے اور اس کی ممانی بعد میں اس پہ غصہ کرتیں اور کبھی کبھی مارنے سے بھی گریز نہ کرتیں۔ اس لیے اس نے خود ہی مہمانوں کے سامنے جانا چھوڑ دیا تھا۔۔

اب بھی وہ کچن میں آگئی تھی جبکہ باقی سب کھانے میں مگن تھے کھانے کے بعد سب لوگ ہال میں چلے گئے اور وہ برتن سمیٹنے لگی دھونے کے لیے۔۔۔۔

آج ہم یہاں شادی کی تاریخ لینے آئے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ اب جلد ہی شادی کر دیں اپنے بیٹے کی۔۔۔۔۔ ماہین کی ساس منیرہ بیگم نے اپنے آنے کا مقصد بتایا ۔

جی جی ضرور جو آپ کو بہتر لگے میرا بیٹا بھی آنے والا ہے تو شادی کی تاریخ جلدی کی رکھ لیتے ہیں اسے چھٹی مشکل سے ہی ملتی ہے اور ہم چاہ رہے تھے کہ وہ اپنی بہن کی شادی میں ضرور شریک ہو۔۔۔ فرزانہ بیگم نے اپنی بات سامنے رکھی۔۔۔

جی ٹھیک ہے پھر آپ ہی بتائیں کون سی تاریخ مناسب رہے گی۔۔۔۔ منیرہ بیگم نے نرمی سے کہا۔۔۔

اگلے ماہ کی ایک تاریخ ٹھیک رہے گی ایک کو مہندی دو کو بارات اور تین کو ولیمہ تب تک روحان بھی آجائے گا ۔۔۔۔ فرزانہ بیگم نے فیصلہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔

جی یہ کُچھ جلدی نہیں ہے؟ منیرہ بیگم حیران ہوئیں کیونکہ ایک تاریخ پندرہ دن بعد تھی۔۔۔۔

نہیں بہن یہی تاریخ مناسب ہے اور تیاریاں تو سب ہی مکمکل ہیں پھر دیر کس بات کی۔۔۔ .  فرزانہ بیگم نے جواب دیا۔

چلیں پھر ٹھیک ہے یہی تاریخ فائینل کرتے ہیں اب اسی بات پہ منہ میٹھا ہو جائے۔۔۔۔۔ منیرہ بیگم نے خوش دلی سے کہا۔۔

جی کیوں نہیں معصومہ مٹھائی لے کے آو۔۔۔فرزانہ بیگم نے وہیں سے آواز لگائی اور وہ مٹھائی لیے وہاں چلی آئی۔۔

معصومہ بیٹا ادھر آو آپ ہمارے ساتھ تو بیٹھتیں ہی نہیں۔۔۔۔ منیرہ بیگم معصومہ سے شکوہ کرتے ہوئے بولیں انہیں یہ بچی بہت پسند تھی ان کا کوئی دوسرا بیٹا ہوتا تو وہ اسے اپنے بیٹے کے لیے مانگ لیتی۔۔۔

 نہیں آنٹی جی ایسی کوئی بات نہیں دراصل میں کچن میں تھی۔۔۔۔وہ اپنے نرم لہجے میں گویا ہوئی۔۔۔

ہمم خوش رہو۔۔۔۔۔ وہ اس کے سر پہ ہاتھ رکھتیں گویا ہوئیں جبکہ فرزانہ بیگم ناگواری سے یہ سارا منظر دیکھ رہیں تھی۔۔۔

منیرہ بیگم جہاندیدہ عورت تھیں فرزانہ بیگم کے چہرے پہ ناگواری کے تاثرات دیکھتیں اس کے سر سے ہاتھ ہٹا گئیں ایک پل کو انہیں معصومہ پہ ترس سا آیا مگر وہ بھی کیا کر سکتیں تھیں۔۔۔۔

شام کے وقت سبھی مہمان رُخصت ہو گئے۔

**************

معصومہ تو خوش تھی کہ گھر میں پہلی شادی ہو گی اسے ایسے فنکشنز دیکھنے کا بہت شوق تھا فرزانہ بیگم اسے کبھی کبھار ہی کسی شادی میں لے کے جاتیں تھیں۔۔۔


اور پھر پندرہ دن کیسے گُزرے پتہ ہی نہیں چلا ان پندرہ دنوں میں گھر کا ہر کام ہی معصومہ کے ذمہ تھا ماہین مشعل اور فرزانہ بیگم کے تو بازار کے چکر ہی ختم نہیں ہوتے تھے اور اب معصومہ نے شکر ادا کیا تھا کہ بازار کے چکر تو ختم ہوئے اس کے لیے کپڑے فرزانہ بیگم اپنی مرضی اوت پسند سے لائیں تھیں معصومہ کو بازار لے جانے کی زحمت نہیں کی تھی ۔


آج مہندی تھی اور روحان ابھی تک نہیں آیا تھا ۔۔۔۔

ماہین تیار ہو کے بیٹھی تھی ہال میں ہی جھولا لگا کے سیٹ اپ کیا گیا تھا جس پہ ماہین بیٹھی تھی جب کہ باقی سب کے لیے نیچے گاو تکیے لگائے گئے تھے ماہین نے اورنج اور پنک کلر کا لہنگا زیب تن کیا تھا اور اوپر پھولوں کی جیولری پہن رکھی تھی فنکشن کی مناسبت سے ہلکا سا میک اپ کیا گیا تھا وہ دونوں بہنیں خوبصورت تھیں مگر معصومہ کے سامنے ان کی خوبصورتی کہیں دب سی جاتی تھی جس کا احساس ان دونوں بہنوں کو تو تھا مگر معصومہ کو نہیں۔


لڑکیاں ڈھولکی بجانے کے ساتھ گانے گا رہی تھیں اور کُچھ لڑکیاں ڈانس کر رہی تھیں یہاں پہ کوئی مرد موجود نہ تھا ان کے سب مرد رشتہ دار باہر موجود تھے کہ یہ صرف عورتوں کا فنکشن ہے۔


رات کے بارہ بجے سب رسم ختم کر کےسو گئے تھے۔۔۔ماہین کو بھی اس کے کمرے میں بھیج دیا گیا تھا معصومہ اپنے کمرے میں سونے جارہی تھی جب ہال کے دروازے پہ کھٹکا سا ہوا وہ چونک کر مُڑی اور احتیاط سے آگے بڑھی۔


کک کون ہے؟؟؟ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا

آواز تو نہ آئی مگر ایک سایہ سا اس کی طرف بڑھا اور اپنے فون کی ٹارچ آن کر کے اس کے چہرے پہ ماری کہ وہ ایک دم آنکھیں میچ گئی۔


"ارے آنکھیں تو کھولو پرنسز۔" شرارتی سی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تو اس نے جھٹ سے آواز پہچان کر آنکھیں کھولیں ۔


حان بھائی۔۔۔۔ وہ چیختے ہوئے دوڑ کر اس کے گلے لگی کہ وہ پیچھے گرتے گرتے بچا ۔۔


"آرام سے گُڑیا کھانا نہیں کھایا میں نے خالی پیٹ ہوں کیوں گرا کر ایک دو ہڈی توڑنا چاہ رہی ہو۔"

وہ اس کا سر سہلاتے شرارت سے گویا ہوا۔۔


"""ہاہاہا کُچھ نہیں ہوتا آپ کو ۔۔ اور آپ اتنی لیٹ کیوں آئے پتہ ہے میں نے کتنا انتظار کیا۔" وہ نم آواز سے شکوہ کرتے بولی۔۔۔


"اب تو آگیا ہوں نا تمہارے پاس۔ اب چلو کھانا نکالو بہت بھوک لگ رہی ہے مجھے۔۔۔۔" وہ اسے خود سے الگ کرتا اس کے سر پہ ہاتھ رکھتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا اور وہ سر ہلاتی کچن میں چلی گئی۔۔۔


دس منٹ بعد وہ فریش ہو کر آیا تو وہ کھانا لگا چکی تھی۔


ابھی کسی کو مت بتانا کہ میں آگیا ہوں صبح ہی ملوں گا سب سے بہت تھک گیا ہوں ریسٹ کروں گا ۔۔۔۔۔۔۔وہ کھانا کھاتے ہوئے بولا ۔

۔

جی ٹھیک ہے مگر آپ کو پتہ ہے ممانی جان بہت غصے میں تھیں کہ آئے کیوں نہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ اسے بتا رہی تھی۔۔


میری پری وہ کب غصے میں نہیں ہوتیں ؟؟ وہ شرارت سے کہتے ہنس پڑا۔


حان بھائی آپ بھی نہ۔۔۔۔۔۔ وہ خفگی سے بولی۔۔


اچھا اب منہ مت بناو سچ ہی کہہ رہا ہوں ۔۔۔ اور تم ابھی تک کیوں جاگ رہی تھی؟؟؟ اس نے پوچھا۔


بسس ایسے ہی وہ۔۔۔۔ اس سے کوئی بات نہ بن پائی اور اس کے لہجے سے ہی روحان کو سب سمجھ آگئی کہ یقیناً امی نے اضافی کام بتائے ہو۔ جس وجہ سے اسے سونا بھی یاد نہ رہا۔۔۔۔۔۔۔۔


اپنے لیے جینا سیکھو پرنسز اپنی زندگی کی ڈور دوسروں کے ہاتھوں میں مت دو۔۔۔۔ وہ اس کی طرف دیکھتا افسوس سے اسے سمجھا رہا تھا اور وہ معصومیت سے سر ہلا گئی۔۔۔


اچھا اب چلو جا کے سو جاو صبح پھر جلدی اُٹھنا ہو گا ۔۔۔۔۔وہ اسے ہدایت کرتا اُٹھ گیا۔۔۔


اور وہ برتن اٹھا کے کچن میں لے آئی اور برتن دھونے کے بعد وہ اپنے روم میں چلی گئی جہاں پہ فرزانہ بیگم کی بھانجیاں بھی ڈیرہ ڈالے بیٹھی تھی۔۔


*************


اگلا دن خوشیوں بھرا تھا ہر طرف رنگ و بو کا سیلاب تھا سب وقت پر ہی تیار ہو کے ہال پہنچ چکے تھے اور روحان بھی بھائی ہونے کے ناطے ہر کام خود دیکھ رہا تھا کہ کسی چیز میں کوئی کمی نہ رہے۔۔۔ اس نے سفید کلر کا شلوار سوٹ پہن رکھا تھا جس کے اوپر اس نے بلیو کلر کی واسکوٹ پہنی ہوئی تھی۔۔۔۔


ماہین نے ریڈ کلر کا لہنگا پہنا ہوا تھا جس پر گولڈن کلر کا کام کیا گیا تھا اور اس کا پرس بھی گولڈن کلر کا تھا جو موتیوں سے لیس تھا وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔


ماہین نے بلیو کلر کا شرارہ پہنا ہوا تھا اور بال سٹریٹ کر کے کھلے چھوڑ دیئے تھے جو کہ بمشکل اس کی قمر تک تھے بالوں میں ٹکا لگایا ہوا تھا اور بیوٹی پالر سے میک اپ کروایا تھا جبکہ معصومہ نے مہندی کلر کی ایمبریلا فراک پہن رکھی تھی جو اس کے پیروں کو چھو رہی تھی اس پہ گولڈن اور ریڈ کلر کا کام کیا گیا تھا جو کہ بہت نفیس تھا دوپٹہ اس نے ایک کندھے پہ ڈالا تھا جبکہ بال کُھلے چھوڑے ہوئے تھے اور بالوں کا سٹائیل بنا کے درمیان میں ٹکا لگایا ہوا تھا۔ پاوں میں اس نے گولڈن کلر کا کھسہ پہنا ہوا تھا۔۔۔۔


فرزانہ بیگم نے بھی نفیس سا سوٹ پہنا تھا جب کہ رفیق صاحب نے روحان کی طرح سفید سوٹ پہنا تھا۔۔۔۔


جلد ہی بارات کا شور اٹھا اور لڑکے والوں کا بھر پور طریقے سے استقبال کیا گیا۔ نکاح کی رسم کے بعد ماہین کو سٹیج پر ارحم کے پہلو میں میں بٹھایا گیا اور مشعل دودھ پلائی کی رسم کرنے لگی جبکہ معصومہ دور کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی ۔


اسے پتہ تھا کہ فرزانہ بیگم کو برا لگے گا اگر وہ مشعل کے ساتھ رسم کرنے گئی تو۔ اسی لیے وہ خود ہی ایک کونے والی میز کے گرد رکھی ایک کرسی پر بیٹھ گئی تھی کہ کسی کا دھیان ہی نہیں گیا اس کی طرف۔


اچانک سے اس کا فون بجنے لگا اس نے دیکھا تو آن کی کال تھی۔


"اسلامُ علیکم" وہ فون اٹھاتے ہو بولی۔۔


"وعلیکم اسلام میری جان کیسی ہو۔" سلام کا جواب دیتے اس کی خیریت پوچھی۔


ٹھیک ہوں میں اس وقت فون کیا خیریت؟؟؟


"ہاں جی میں نے سوچا مومو سے پوچھوں کہ وہ کیسی لگ رہی ہے؟" وہ شرارت سے بولی۔۔


"میں اچھی لگ رہی ہوں۔" وہ ایک نظر اپنے آپ کو دیکھتی بولی۔۔۔


"یہ تو تمہیں پتہ ہے نا مجھے نہیں اب تم مجھے اپنی پک سینڈ کرو تا کہ میں دیکھوں کہ میری پری کیسی لگ رہی ہے۔" وہ اسے ہدایت کرتی بولی۔


"اب میں سب کے سامنے سیلفیاں لوں؟؟؟" وہ آنکھیں پھاڑ کے بولی۔۔


"میری جان سیلفیاں سب کے سامنے ہی لی جاتی ہیں۔" آن نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔


"نہیں میں نہیں لوں گی سب کے سامنے۔" وہ اس کی بات رد کرتی بولی۔۔


"اچھا برائیڈل روم میں جاؤ وہاں جا کے بنا کر سینڈ کرو۔" وہ اسے ہدایت کرتے ہوئے بولی۔۔۔


"اچھا ٹھیک ہےجاتی ہوں میں۔" وہ اسےکہتی کال بند کرتی برائیڈل روم کی طرف بڑھی۔


وہاں پہنچ کے اس نے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا اور مرر سے ہی سیلفیاں لینے لگی۔


دو تین سیلفیاں لینے کے بعد وہ آن کو سینڈ کرنے لگی۔ سینڈ کرنے کے بعد وہ آئینے میں دوپٹہ ٹھیک کرنے لگی کہ اچانک لائٹ چلی گئی ۔۔


وہ آہستہ سے پیچھے کو مُڑی کہ ایکدم سی کسی سے ٹکرا گئی۔ وہ بری طرح گر جاتی اگر مقابل اسے تھام نہ لیتا۔


***************


وہ ارحم کے ساتھ اس وقت تصویریں بنوا رہا تھا وہ کب سے ارحم کو منع کیے جا رہا تھا تصویریں بنوانے سے مگر وہ بھی اپنے نام کا ایک ہی تھا ۔۔


پھر ارحم کی باتوں کو ان سنی کیے وہ سٹیج سے اترا ابھی وہ ایک میز کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کہ سامنے سے آتے ویٹر سے اس کی ٹکر ہوئی اور ویٹر کے ہاتھ میں موجود گلاس اس کا کوٹ داغدار کر گیا۔


"سس سوری سر ۔۔ مم میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔" ویٹر ڈرتے ہوئے معافی مانگنے لگا ۔


"اٹز اوکے آپ جائیں۔" وہ اسے کہتا ہال میں موجود برائیڈل روم کی طرف بڑھ گیا کہ اس وقت وہاں کون سا کوئی ہو گا وہاں۔


وہ اندر داخل ہوا تو روم۔میں مکمل اندھیرا تھا۔

"شٹ" وہ بڑبڑاتا تھوڑی آگے بڑھا کہ ایک دم کسی سے ٹکرا گیا۔ وہ اسے گرنے سے بچانے کے لیے کمر سے تھام گیا کہ ایکدم جھٹکے سے وہ وجود اس کے سینے سے آلگا۔ اس وجود کی رعنائیوں کو محسوس کرتے اسے اندازہ ہوا کہ وہ ایک لڑکی تھی ابھی وہ اسے چھوڑتا کہ ایک دم لائٹ آگئی۔


اس نے اس لڑکی کے چہرے کیطرف نگاہ دوڑائی تو وہیں ساکت رہ گیا اس لڑکی کی آنکھیں بند تھیں اور چہرے پہ خوف چھایا ہوا تھا وہ یک ٹک اسے دیکھے گیا


"وہی چہرہ وہی نین نقش وہی خوبصورتی۔" وہ اسے ایک جھٹکے سے دبوچتا دیوار کے ساتھ لگا گیا اور اس کی گردن دبوچ لی۔۔۔۔


کہ اس لڑکی نے اپنے گلے پہ دباو محسوس کرتے آنکھیں کھولیں اور اس کی آنکھیں دیکھ کر وہ چونک گیا۔


"ڈارک براون آئیز " وہ اسے حیرانی سے دیکھتا بڑبڑایااوراس کی گردن پہ گرفت ڈھیلی کر دی۔ اس نے اس لڑکی کی طرف دیکھا جو یک ٹک آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی۔


*************


معصومہ ڈر اور خوف سے آنکھیں میچے کھڑی اپنی قمر پہ کسی کے سخت ہاتھ محسوس کر رہی تھی وہ آنکھیں بھی کھول نہ پائی۔۔۔


وہ آنکھیں کبھی نہ کھولتی اگر اسے اپنی گردن پہ دباو نہ محسوس ہوتا اس نے آنکھیں کھولیں تو مقابل کی آنکھوں پہ نظر پڑتے ہی وہ دنگ رہ گئی۔ وہ وہی تھا ہاں وہی تھا اس کا شہزادہ نیلی آنکھوں والا شہزادہ۔


جس کے خواب وہ دیکھتی آئی تھی۔۔ جس کی اپنی زندگی میں آنے کی دعائیں مانگتی آئی تھی۔ وہ اس کے سامنے کھڑا تھا مجسم۔


اسے ایسا لگ رہا تھا وہ خواب دیکھ رہی ہے۔ اس کا دل کیا اسے چھو لے لیکن اگر وہ غائب ہو گیا تو۔

اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے تیر رہے تھے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کی نیلی آنکھوں میں ایک اشتعال سا برپا ہو۔


معصومہ نے بے خودی میں اپنا ہاتھ اٹھایا اور اس کے مجسم ہونے کا یقین کرنے کے لیے اس کے گال پہ اپنا ہاتھ رکھا۔۔۔ وہ سچ میں تھا اس کا خواب نہیں تھا۔ وہ دلکشی سے مسکرائی۔


معصومہ کا ہاتھ اپنے چہرے پہ محسوس کر کے وہ ہوش میں آیا تو ایکدم سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے گھورتے باہر نکل گیا۔


معصومہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے گہرے گہرے سانس لیتی خود کو پرسکون کرنے لگی۔ وہ خوش تھی بہت خوش اس کا شہزادہ آگیا تھا۔


اب وہ اسے اپنے ساتھ لے جائے گا ہمیشہ کے لیے اپنے محل میں۔۔ وہ وہاں شہزادیوں کی طرح رہے گی وہاں کوئی غم نہیں ہو گا اس کا شہزادہ اس سے بہت پیار کرے گا۔۔۔۔۔


اس معصوم کی سوچیں یہیں تک تھیں یہ حقیقت جانے بغیر کہ ہر خواب کی تعبیر خوبصورت ہو یہ ضروری تو نہیں۔


***************

وہ خود کو کمپوز کرتی باہر آئی تو رُخصتی کا شور اُٹھ چُکا تھا۔ وہ بھی سٹیج پر چلی آئی جہاں مشعل اور فرزانہ بیگم ماہین کو سہارا دے کر اُٹھا رہیں تھیں۔


وہ دونوں اُسے نیچے لے آئیں۔ وہ سب کے گلے ملتے رونے لگی تھی۔ یہ وقت ہی ایسا ہوتا ہے جب لڑکی کی رُخصتی ہوتی ہے تو بچپن سے لے کر جوانی تک کا سارا گُزرا وقت آنکھوں کے سامنے کسی فِلم کی طرح گھوم جاتا ہے۔ اِس وقت ماہین بھی ایسا ہی محسوس کر رہی تھی۔ ماں باپ بہن بھائی اور معصومہ کے ساتھ گُزرا وقت اُس کی زندگی کا سب سے سُہانا وقت تھا۔ اُس کے آنسو لگاتار بہہ رہے تھے جن پہ اُس کا کوئی کنٹرول نہ تھا۔ مشعل اُسے رونے سے منع کر رہی تھی مگر اُسے کوئی پرواہ نہ تھی کیونکہ میک اپ واٹر پروف تھا۔ اِس لیے وہ اپنوں کی جُدائی پر دِل کھول کے آنسو بہا رہی تھی۔


قُرآن پاک کے سائے میں وہ بھائی اور باپ کے ساتھ چلتی باہر کھڑی گاڑی تک آئی۔ پھر مُڑ کر ایک بار پھر سب کے گلے لگی۔


"میں آپ کو بہت مِس کروں گی آپی۔" معصومہ نے سوں سوں کرتے کہا۔


"میں بھی تُمہیں بہت مِس کروں گی آپی کی جان۔ اپنا بہت سارا خیال رکھنا۔" ماہین نے اُس کے آنسو صاف کرتے کہا۔


ارحم نے اُس کے لیے دروازہ کھولا تو وہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔


"میری بیٹی کا بہت خیال رکھنا بیٹا بہت سادہ سی بچی ہے میری۔ کوئی غلطی ہو جائے تو معاف کردینا۔" رفیق صاحب نے ارحم سے گلے ملتے کہا۔


"آپ فِکر مت کریں انکل اب وہ میری ذمہ داری ہے۔ آپ کو کبھی شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔" ارحم نے اُنہیں تسلی دی پھر روحان سے ملتا وہ بھی ماہین نے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھا اور اُس کے بیٹھتے ہی سب گاڑیاں آگے پیچھے نکلتی گئیں۔


وہ سب بھی واپس ہال میں آگئے۔ پھر سب مہمانوں کو رُخصت کرتے وہ بھی گھر کے لیے نِکل گئے۔

رات کے بارہ بج چُکے تھے سب کا تھکاوٹ سے بُرا حال تھا سب جلدی ہی سونے کے لیے چلے گئے تھے۔ جو مہمان گھر پر رُکے تھے وہ بھی سونے جاچُکے تھے۔


معصومہ بھی اپنے کمرے میں آگئی۔ چینج کرنے کے بعد وہ سادہ سا سوٹ پہنے بستر پر چت لیٹی تھی۔ برائیڈل روم سے باہر آنے کے بعد اُس نے ہر جگہ نظریں دوڑائیں تھیں مگر وہ اُسے کہیں نظر نہ آیا تھا۔ شاید وہ واپس چلا گیا تھا یا شاید وہ اِسکا خواب تھا۔


"نہیں وہ خواب نہیں تھا میں نے اُسے چھوا تھا۔ وہ حقیقت میں تھا۔ اور اُس نے مُجھے دیکھا بھی تھا۔ مگر وہ اِتنے غصے سے کیوں دیکھ رہا تھا؟ وہ وہاں کیوں آیا تھا؟ پھر اِتنی جلدی کہیں غائب بھی ہو گیا۔" مُختلف سوچیں تھیں جو اُس کے دل اور دماغ کو اُلجھا رہیں تھِں۔


" میں آن کو بتاتی ہوں۔" وہ فون نکالتےنکالتے رُک گئی ٹائم دیکھا تو ایک بج رہا تھا۔


"نہیں اتنی رات کو فون کرنا ٹھیک نہیں میں صبح فون کروں گی۔" وہ اپنا چھوٹا سا سمارٹ فون دوبارہ ٹیبل پہ رکھتی بولی۔


یہ فون اُسے روحان نے لے کے دیا تھا۔ جس پر فرزانہ بیگم نے معصومہ کو اکیلے میں کافی باتیں سُنائی تھیں جنہیں وہ چُپ چاپ خاموشی سے سہہ گئی تھی۔ کُچھ بولنے کا اُس میں حوصلہ نہیں تھا۔

وہ دوبارہ لیٹتی اپنے شہزادے کے خوابوں میں کھو گئی۔ اُس کے بارے میں سوچتے سوچتے کب اُس کی آنکھ لگی اُسے پتہ بھی نہ چلا۔ کِھڑکی سے جھانکتا چاند اُس کی دیوانگی پر مُسکراتا ہر سو روشنیاں بکھیرنے لگا۔


***********


اگلے دن کی صبح طلوع ہو چُکی تھی معصومہ اپنے وقت پہ اُٹھ کر نماز ادا کر کے قرآن پاک بھی پڑھ چُکی تھی۔ اپنے آج کے دِن پہنے جانے والے کپڑے پریس کر کے الماری میں ہینگ کیے اور پھر باہر نِکل آئی۔


آہستہ آہستہ سبھی لوگ جاگ رہے تھے۔ معصومہ کام والی کے ساتھ مِل کر ناشتہ تیار کروا رہی تھی۔


گھر والوں کے ناشتے کے بعد اُس نے ماہین کو بھیجا جانے والا ناشتہ تیار کیا۔ جس میں حلوہ پُڑی، نان چنے، میٹھے میں جلفریزی اور ربڑی تھے فرزانہ بیگم نے وہاں بھیجنے کے لیے فروٹ علیحدہ سے سیٹ کروائے تھے۔


پھرآٹھ بجے کے قریب مشعل اور روحان دونوں ماہین کی طرف ناشتہ لے کے چلے گئے تھے۔ جبکہ معصومہ سب کو ناشتہ دینے میں مصروف ہو چُکی تھی۔


دس بجے کے قریب سب لوگ ناشتہ کر کے تیاریاں شروع کر چُکے تھے۔ کام نمٹانے کے بعد معصومہ بھی تیار ہونے چل دی۔


باقی گھر والوں کے کپڑے وہ شادی سے دو دِن پہلے ہی پریس کر کے رکھ چُکی تھی۔ بس اپنے کپڑے پریس کرنے کا ٹائم نہیں مِلا تھا اِس لیے وہ اُن کی طرف سے بے فِکر تھی۔


وہ جلدی جلدی ہاتھ چلا رہی تھی۔ اُسے جلدی سے ماہین کے سُسرال پہنچنے کی جلدی تھی کیونکہ اُس کے خوابوں کا شہزادہ بھی تو وہاں ہو گا۔ اُسے یقین تھا کہ وہ بارات کے ساتھ آیا تھا کیونکہ رفیق صاحب کے رشتے داروں کو وہ اچھی طرح جانتی تھی۔


وہ جب تیار ہو کے باہر آئی تو مشعل اور روحان واپس آکے تیار ہو چُکے تھے۔ بارہ بجے کے قریب سب لوگ ہال کے لیے نِکل گئے کیونکہ ماہین کے سُسرال والوں نے ولیمہ کا انتظام میرج ہال میں کیا تھا۔


معصومہ نے آج نیوی بلیو اور گولڈن کلر کا شرارہ پہنا تھا۔ جس میں اُس کی گوری رنگت کِھل رہی تھی۔ جب کہ مشعل نے بھی شرارہ پہنا تھا مگر اُس کا رنگ پرپل اور گولڈن تھا۔ وہ سب جب ہال پہنچے تو ایک بج چُکا تھا۔


وہ سب لوگ ماہین اور اُس کے سُسرال والوں سے مِلے اور اُن کے لیے لائے ہوئے تحائف اُن کو دئیے۔


معصومہ اور مشعل ماہین کے پاس ہی بیٹھ گئیں تھیں جببکہ روحان ارحم کے ساتھ کھڑا باتیں کر رہا تھا۔ ماہین نے سِلور کلر کی میکسی پہنی ہوئی تھی جِس پہ ایمبرائیڈری کا کافی ہیوی کام کیا گیا تھا۔

سِلور کلر کی ہی جیولری پہنے وہ ہاتھ میں سِلور کلر کا کلچ پکڑے بہت حسین اور پُروقار لگ رہی تھی۔ ارحم نے بھی سِلور کلر کا ہی تھری پیس پہن رکھا تھا۔


معصومہ کی نظریں اُدھر اُدھر کسی کو ڈھونڈ رہیں تھیں مگر ہر بار اُس کی نگاہیں ناکام لوٹ آتیں۔

"کیا بات ہے معصومہ کِسے ڈھونڈ رہی ہو؟" ماہین نے اُس کی بے چینی نوٹ کرتے پوچھا ہی لیا۔


"کک کُچھ نہیں آپ کُچھ بھی تو نہیں میں بس ایسے ہی ہال کی ڈیکوریشن دیکھ رہی تھی۔" ہکلاتے ہوئے اُس نے بروقت بہانہ گھڑا۔


"کیوں اِس سے پہلے کبھی ڈیکوریٹڈ ہال نہیں دیکھے تُم نے؟" مشعل نے طنزیہ پوچھا۔


"مشعل بُری بات ہے۔" ماہین نے معصومہ کے افسردہ چہرے کی طرف دیکھتے مشعل کو ٹوکا تو مشعل ہنہ کرتی منہ پھیر گئی۔


پھر باری باری سب مہمان آکر ماہین اور ارحم سے ملنے لگے ارحم کے رشتہ دار ماہین کو سلامی دے رہے تھے۔ معصومہ اور مشعل وہاں سے ہٹتی نیچے اُتر گئیں۔ مشعل تو فرزانہ بیگم کے پاس جا کے کھڑی ہو گئی اور معصومہ وہیں ایک کُرسی پر بیٹھ گئی۔


وہ اُداس تھی بہت اُداس۔ اُسے لگا تھا کہ آج بھی وہ اُس سے مِل سکے گی وہ آج بھی وہاں آئے گا۔ مگر اُس کی آس ٹوٹ گئی تھی۔ وہ تو اُسے کہیں نظر نہ آیا تھا۔ شاید وہ ولیمہ پہ آیا ہی نہ تھا۔


وہ چُپ چاپ بیٹھی سب پر نظریں دوڑا رہی تھی۔ جب اچانک کوئی کُرسی گھسیٹتا اُس کے پاس آکے بیٹھا اور وہ ایک دم چونک گئی۔


"ہیئے بیوٹیفُل! لگ تو کوہِ قاف سے آئی ہوئی پری رہی ہو۔ پھر اِس زمین پہ کیا کر رہی ہو؟" وہ جو کوئی بھی تھا اُس کی باتیں معصومہ کے سر پہ سے گُزری تھیں۔


"جج جی آپ کک کیا کہہ رہے ہیں اور آپ ہیں کک کون؟" معصومہ نے اٹکتے ہوئے نروس ہوتے پوچھا۔


"ارے میں پوچھ رہا ہوں کہ آپ کون ہیں؟ اور جہاں تک رہی میری بات تو میں وجدان آفندی ہوں ارحم کا کزن۔" اُس نے سوال پوچھنے کے ساتھ معصومہ کے سوال کا جواب بھی دِیا۔


"مم میں معصومہ ہوں مم ماہین آپی کی کزن۔" معصومہ نے گھبرائے ہوئے انداز میں جواب دیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب وہ کِسی انجان مرد سے اکیلی بیٹھی یوں بات کر رہی تھی اُس کی گھبراہٹ فِطری تھی۔


"لٹل پرنسز گھبرا کیوں رہی ہو؟ ریلیکس کُچھ نہیں کہہ رہا میں۔ یہ پانی پیو۔" وجدان نے اُسے تسلی دیتے پانی کا گلاس پکڑایا۔


معصومہ نے سر ہلاتے اُس سے پانی کا گلاس پکڑا اور گھٹا گھٹ پینے لگی۔ پانی پینے کے بعد اُس کی گھبراہٹ کُچھ کم ہوئی تو اُس کے حواس بحال ہوئے۔


"نام کیا ہے تُمہارا؟" وجدان نے پوچھا۔


"معصومہ۔" اُس نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔


"بہت پیارا نام ہے تُم پہ سوٹ کرتا ہے کیونکہ تُم اپنے نام کی طرح ہی معصوم ہو۔" اُس نے اُس کے معصوم چہرے پر نظریں جمائے کہا۔


"شُکریہ۔" وہ ہولے سے مُسکرائی۔


"تُم سے مِل کے بہت اچھا لگا لٹل پرنسز اب تُم انجوائے کرو میں بھی چلتا ہوں۔ " وہ مُسکرا کے کہتا وہاں سے اُٹھ گیا۔ اور معصومہ مُسکراتی اُس کی پُشت کی جانب دیکھنے لگی۔


دور کھڑی فرزانہ بیگم سے یہ منظر ڈھکا چُھپا نہیں تھا۔ وجدان اُنہیں پہلی نظر میں ہی پسند آگیا تھا اور اُن کا ارادہ تھا کہ وہ کُچھ عرصے تک مشعل کی بات چلائیں گی اور وجدان سے ہی اُس کی شادی کرائیں گی مگر اب وجدان کی معصومہ میں دِلچسپی اور یوں اُس کا معصومہ کے پاس جا کر بیٹھ کر باتیں کرنا اُنہیں ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔


اُنہیں وجدان کی بجائے معصومہ پر غصہ آیا تھا۔ اُنہیں ہر بات پہ مصیبت کی جڑ معصومہ لگتی تھی۔


جانے اُنہیں اُس معصوم سی لڑکی سے کیا بیر تھا۔ اور اب اِن کا یہ غصہ معصومہ پہ کِس انداز میں اُترنا تھا یہ تو خدا سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا۔


**************


ولیمہ کے بعد رسم کے طور پر وہ لوگ سب سے مِل کر ماہین کو اپنے ساتھ واپس لے آئے تھے۔ آہستہ آہستہ سبھی مہمان رُخصت ہونے لگے تھے۔ رات کے آٹھ بج رہے تھے ماہین اِس وقت اپنے کمرے میں بیٹھی تھی مشعل اور روحان اپنے اپنے کمرے میں سونے جاچُکے تھے۔ فرزانہ بیگم لاونج مِن موجود تھیں جبکہ رفیق صاحب بھی روم میں جا چُکے تھے۔


کپڑے چینج کرنے کے بعد معصومہ ماہین کے روم میں آگئی تھی۔ جو بیڈ پر بیٹھی سوچوں میں گُم تھی۔


"کیا بات ہے آپی ابھی سے ارحم بھائی کو مِس کرنے لگیں۔" معصومہ نے شرارت سے کہا تو وہ اُس کی طرف دیکھتی مُسکرائی۔


"اب ظاہر ہے اپنے ہزبینڈ کو مِس کرنے پہ کونسا ٹیکس لگتا ہے جب چاہے جِتنا چاہے مِس کرو۔" ماہین نے ہنستے ہوئے جواب دیا تو وہ کھلکھلا اُٹھی۔


" اچھا یہ بتاؤ تُم ابھی تک سوئی نہیں؟ " ماہین نے پوچھا۔


نہیں آپی نیند نہیں آرہی تھی اِسی لیے آپ کے پاس چلی آئی۔" معصومہ نے اُس کے پاس بیٹھتے جواب دِیا تو ماہین نے سر ہلا دِیا۔


"اچھا آپی اِدھر والی تصویریں تو میں نے ساری دیکھی ہیں آپ اُدھر والی تصویریں بھی دِکھائیں ناں اور آپ کے پاس ارحم بھائی کی مہندی کی تصویریں بھی ہوں گی ناں وہ بھی دِکھائیں۔" معصومہ نے پُرجوش لہجے میں کہا تو ماہین نے مُسکراتے ہوئے فون اُس کے ہاتھ پہ رکھا۔


"یہ لو تُم تصویریں دیکھو میں ابھی آتی ہوں یہ ناخن اُتر ہی نہیں رہے کافی کوشش کر لی مگر نتیجہ صِفر۔ اب گرم پانی سے کر کے دیکھتی ہوں۔" ماہین نے اپنے ہاتھوں پہ لگے مصنوعی ناخنوں کی طرف دیکھتے کہا۔


"جی آپی ٹھیک ہے۔" معصومہ فون کھولتی بولی تو ماہین سر ہلاتی باہر نِکل گئی۔


معصومہ ایک ایک کر کے تصویریں دیکھنے لگی۔ پہلے فولڈر میں ولیمہ کی پکچرز تھیں ایک کے بعد دوسری تصویر دیکھتے وہ دوسرا فولڈر کھولنے لگی جس میں بارات کی پِکچرز تھیں۔ زیادہ پکچرز ارحم اور ماہین کی تھیں۔ وہ سکرین کو سکرول

کرتے نیچے جانے لگی جب ایک تصویر پہ اُس کی اُنگلی کی حرکت بے ساختہ رُکی اور وہ یک ٹک تصویر کو دیکھنے لگی۔ وہ اُس کے نیلی آنکھوں والے شہزادے کی تصویر تھی۔ اُس کی نیلی آنکھیں روشنیوں کی چکا چوند میں چمک رہی تھیں۔


چہرے پہ ایک الگ قسم کا وقار، چہرے کے تاثرات میں کھنچاو اور اُس کی دِلکش آنکھیں، ایسا لگ رہا تھا وہ کوئی حسین مجسمہ ہو جِسے کیمرے میں قید کر دیا گیا ہو۔ بلیک کلر کا پینٹ کوٹ پہنے ارحم کے ساتھ سٹیج پہ کھڑا وہ کیمرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ معصومہ کو لگا وہ اپنی نیلی آنکھوں سے اُس کی طرف دیکھ رہا ہو۔ اُس کے ہاتھ بے اختیار کانپے۔ اُس نے اپنے ماتھے پہ آیا پسینہ صاف کیا اور اگلی تصویریں دیکھنے لگی۔ بارات کے دِن کی اُس کی پِکچرز دیکھنے کے بعد وہ مہندی کی تصویریں دیکھنے لگی۔ وہاں بھی اُس کی ارحم کے ساتھ کافی تصویریں تھیں۔ مہندی اور بارات دونوں فنکشنز اٹینڈ کیے پھر ولیمہ کیوں مِس کر دیا۔


معصومہ کو حیرت ہوئی۔ "شاید کوئی ضروری کام ہو۔ یہی سوچ کے اُس نے خود کو مطمئن کیا۔"

اُس نے واٹس اپ آن کیا اور اُسکی بارات اور مہندی کی تین چار تصویریں اپنے نمبر پر سینڈ کیں۔ پھر واٹس اپ سے اپنی چیٹ ڈیلیٹ کی۔


"آن کو دِکھاوں گی کہ میرے خواب سچے تھے۔ خُدا نے میری سُن لی۔ خدا نے میرا پرنس بھیج دیا ہے اب وہ مُجھے لے جائے گا پھر میں ہمشہ خوش رہوں گی۔" سوچتے اُس کی آنکھیں نم ہوئیں۔


"دیکھ لی تُم نے تصویریں؟" ماہین اندر داخل ہوتے بولی۔


"جی آپی۔ آپی وہ یہ کون ہے؟" اُس نے جواب دیتے تصویر پہ ہاتھ رکھتے پوچھا۔


"یہ ارحم کا دوست ہے بارات پہ آیا تھا مگر ولیمہ پہ نہیں آ سکا۔ تُم نے اِس کی آنکھیں دیکھیں؟ کِتنی خوبصورت ہیں ناں؟ بِالکُل نیلے گہرے سمندر کے جیسی۔" ماہین نے اُس کے سوال کا جواب دیتے تصویر دیکھتے کہا۔


"جی آپی بہت پیاری ہیں اِن کا نام کیا ہے؟" معصومہ نے جھجھکتے سوال کیا۔


"نام تو میں نے پوچھا ہی نہیں یاد ہی نہیں رہا۔ " ماہین نے ہونٹ سکوڑتے کہا۔


"کوئی بات نہیں میں تو ایسے ہی پوچھ رہی تھی۔" معصومہ نے خجل ہوتے کہا۔


"ہمم میں پوچھوں گی ارحم سے۔" وہ فون اُٹھاتے بولی جہاں ارحم کی کال آرہی تھی۔


"آپ آرام کریں میں چلتی ہوں۔" اُس نے ماہین سے کہا اور کمرے سے باہر نِکل گئی۔


************

کمرے میں آکے اُس نے اپنا موبائیل آن کیا اور واٹس اپ چیک کرنے لگی۔ اُس کی پِکچرز ڈاون لوڈ ہورہیں تھیں۔ پھر جلد ہی اُس کی پکچرز گیلری میں شو ہو گئیں۔


اُس نے ساری تصویریں غور سے دیکھیں۔ ہر تصویر میں اُس کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ کِسی بھی تصویر میں وہ مُسکرا نہیں رہا تھا۔


ورنہ تصویر لیتے ہوئے تو ہر کوئی مُسکراتا ہے۔ یہ معصومہ کی ذاتی رائے تھی۔ ماہین کے فون میں بھی جو تصویریں اُس نے دیکھیں تھیں اُن میں اُس کے چہرے پر سنجیدگی رُعب اور تلخی تھی۔ معصومہ کو حیرانگی ہوئی۔


پھر وہ اپنی سوچوں کو جھٹک کر لیٹ گئی۔


آنکھوں کے سامنے سے اُس کا چہرہ گُزرنے لگا۔


"کیا وہ میری قِسمت میں سِتارہ بن کے چمکے گا؟ کیا وہ میرے ہاتھوں کی لکیروں میں ہو گا؟ کیا میں اُس کی زندگی میں شامِل ہو پاؤں گی؟


ان گنت سوال تھے جو اُس کے ذہن میں اُبھر رہے تھے مگر اِن کا جواب فی الحال اُس کے پاس نہ تھا۔

اللّٰہ پاک پلیز مُجھے اُس کی قِسمت میں لِکھ دے جہاں میرے خوابوں کو حقیقت بنا دیا ہے وہاں اُسے میرا نصیب بنا دے۔


اب تک وہ اُس کے مِلنے کی دُعائیں کرتی آئی تھی اور جب وہ مِل گیا تھا تو بس ایک ہی سوال تھا کیا وہ اِس کی قِسمت میں تھا؟ اور اِسی سوال کے جواب کے لیے وہ خدا سے اُسے اپنے مقدر میں مانگ رہی تھی۔


بڑبڑاتے ہوئے وہ نیند کی وادیوں میں گُم ہو گئی۔


***************


صُبح اُس کی آنکھ وقت پہ کُھل چُکی تھی۔ وُضو کر کے وہ نماز کے لیے کھڑی ہو گئی۔ نماز کے بعد وہ دُعا مانگ رہی تھی۔


"یااللّٰٰہ آپ جانتے ہیں کہ مُجھے اُس اِنسان سے محبت ہے۔ آپ تو کِسی چیز سے بے خبر نہیں۔ میں نہیں جانتی کیوں وہ میرے خوابوں میں آتا تھا۔ کیوں میرے دِل میں اُس کے لیے چاہت جاگی۔


میں نہیں جانتی وہ میرا نصیب ہو گا کہ نہیں مگر میں آپ سے دُعا مانگتی ہوں میرے دِل میں اُس کے لیے مُحبّت پیدا کر دی ہے تو اُسے میری قِسمت میں بھی لکھ دیں۔ میں جانتی ہوں کہ وہ میرا نا محرم ہے میں آپ سے ایک نامحرم کی مُحبت مانگ رہی ہوں لیکن آپ جانتے ہیں نا کہ میرا اپنے دِل پہ کوئی اختیار نہیں ہے۔ میں بے بس ہوں۔ آپ اُسے میرا محرم بنا دیں۔ اُس کے دِل میں میرے لیے محبت ڈال دیں۔ آمین۔"


دُعا مانگتی خدا کے سامنے فریاد کرتی وہ منہ پہ ہاتھ پھیر کے اُٹھ کھڑی ہوئی۔


وہ کچن میں آئی تو فرزانہ بیگم ناشتہ تیار کر رہیں تھیں۔ وہ بھی اُن کی مدد کروانے لگیں۔ فرزانہ بیگم خلافِ معمول چُپ تھیں۔ جس پہ معصومہ نے خُدا کا شُکر ادا کیا۔


اُن کے ناشتہ تیار کرنے تک سب لوگ اُٹھ چُکے تھے۔ ناشتہ کرتے کرتے آٹھ بج چُکے تھے۔ معصومہ کی بس آج کی چُھٹی تھی۔ کل سے اُسے پھر کالج جانا تھا۔


ناشتے کے بعد ماہین تیار ہونے چلی گئی۔ اور معصومہ کام والی کے ساتھ سارے گھر میں بکھرا سامان اُٹھا کر صفائی کروانے لگی۔


دس بجے وہ صفائی کروا کے فارغ ہوئی تو فریش ہونے چلی گئی۔ وہ فریش ہو کے واپس آئی تو فرزانہ بیگم نے مہمانوں کی آمد کا وقت بتاتے اُسے کام والی سے کھانا بنوانے کا کہا۔


وہ سر ہلاتی کام والی کے ساتھ کچن میں داخل ہوئی اور چھوٹے موٹے کام کروانے لگی۔ کھانا کام والی نے ہی بنانا تھا۔ وہ اُس کی مدد کروانے لگی۔


ساڑھے گیارہ ہو چُکے تھے۔ مہمان آنے والے تھے وہ کام والی کو کچن سنبھالنے کا کہتی ماہین کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔


وہ کمرے میں داخل ہوئی تو ماہین تیار بیٹھی تھی۔ لائٹ پنک کلر کے نفیس سے سوٹ میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ مشعل بھی اُس کے روم میں بیڈ پر بیٹھی تھی۔


"ماشااللّٰہ آپی آپ بہت پیاری لگ رہیں ہیں۔" معصومہ نے اُس کے چمکتے چہرے کی طرف دیکھتے کہا۔


"شُکریہ میری جان تُم بھی بہت اچھی لگ رہی ہو۔" ماہین نے معصومہ کے میک اپ سے پاک دُھلے دھلائے شفاف چہرے کی طرف دیکھتے کہا۔


"شُکریہ آپی۔" وہ اِتنی سی تعریف پہ سُرخ ہوتی سر جُھکا گئی۔


"ہاہاہا شرما تو ایسے رہی ہو جیسے ہزبینڈ نے تعریف کر دی ہو۔" مشعل نے اُس کے چہرے کی طرف دیکھتے کہا جِس پہ معصومہ جھینپ سی گئی۔


"کوئی بات نہیں وہ دِن بھی جلدی آئے گا اور اُس کا شوہر تو اِس کی خوبصورتی اور معصومیت دیکھتے اِس کی ہر پل تعریف کرے گا۔" ماہین نے دل ہی دل میں اُس کی نظر اُتارتے کہا جِس پر معصومہ کی آنکھوں میں نیلی آنکھوں والے شہزادے کا عکس دوڑ گیا اور وہ بے اختیار مُسکرائی۔


"مہمان آچُکے ہیں ماہین بیٹا تُم تیار ہو تو آجاو نیچے۔ معصومہ اور مشعل تُم دونوں بھی آجاؤ ماہین کو ساتھ لے کے۔" فرزانہ بیگم امدر آتی مہمانوں کے آنے کی اطلاع دیتی اُن کو نیچے آنے کا کہہ کر واپس چلی گئیں۔


وہ تینوں بھی اُن کے پیچھے ہی نیچے چلی آئیں۔ نیچے ہال میں ہی مُنیرہ بیگم ارحم اور وجدان کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ اُن کے علاوہ اور کوئی نہیں آیا تھا۔


وہ نیچے آکے سب سے ملتیں وہیں بیٹھ گئیں۔

فرزانہ بیگم نے معصومہ کو آنکھوں سے اُٹھنے کا اِشارہ کیا تو وہ اُٹھ کر کچن میں چلی گئی۔


فرزانہ بیگم بھی اُس کے پیچھے ہی آگئیں۔


"ملازمہ کے ساتھ ریفریشمنٹ کا سامان لے کے آو باہر۔" وہ اُسے کہتی باہر چلی گئیں۔


دس منٹ بعد معصومہ ملازمہ کے ساتھ ٹرالی گھسیٹتی اندر داخل ہوئی۔ اور سب کو چائے کے ساتھ بِسکٹ وغیرہ سرو کرنے لگی۔


"ارے آپ کیوں کر رہی ہیں۔ آپ بھی یہاں آکے سب کے ساتھ بیٹھیں۔ مُلازمہ کر لے گی یہ سب۔" وجدان نے اُسے واپس جاتے دیکھ کر کہا۔


"ہہ ہاں بیٹا تُم کیوں واپس جا رہی ہو آو سب کے ساتھ بیٹھو۔" وجدان کی بات پر فرزانہ بیگم نے کھسیاتے ہوئے کہا ورنہ دِل میں اُن کے بھانبڑ جل رہے تھے۔


معصومہ اُن کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔ پھر وہ سب اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ وجدان مشعل کی طرف دیکھ رہا تھا جو اُکتائی سی وہاں سب کے درمیان بیٹھی باتیں سُن رہی تھی۔


اُس نے ایک نظر معصومہ کو دیکھا جو ماہین کے پاس بیٹھی کِسی بات پر مُسکرا رہی تھی۔ پھر ایک نظر فرزانہ بیگم کو دیکھا۔


"کِتنا فرق ہے اِن سب میں۔ کِسی کے چہرے پہ معصومیت اور نرمی ہے تو کِسی کے چہرے پہ بے زاری۔ مگر اِن سب میں معصوم اور بے ریا چہرہ صرف لٹل پرنسز کا ہے۔" وجدان سوچ کر مُسکرایا۔


"بھائی صاحب اور روحان کہاں ہیں نظر نہیں آرہے؟" منیرہ بیگم نے استفسار کیا۔


"میں تو یہاں ہوں۔ مگر بابا کو کوئی کام تھا تو وہ وہاں گئے ہیں۔" روحان ہال میں داخل ہوتا بولا۔


وجدان اور ارحم روحان سے گلے مِلے اور وہ اُن کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔


وہ تینوں اپنی اپنی باتیں کرنے لگے اور فرزانہ بیگم مُنیرہ بیگم سے محوِ گُفتگو تھیں۔ جبکہ مشعل سب کو ایک نظر دیکھتی کمرے میں چلی گئی۔


"پتہ ہے کل میں نے ارحم کے نیلی آنکھوں والے دوست کا نام پوچھا ارحم سے۔" ماہین نے معصومہ کے کان میں سرگوشی کی۔


"سچی کیا نام ہے اُن کا۔" معصومہ پُرجوش ہوئی۔

"اُس کا نام داؤد ہے" ماہین نے پھر سرگوشی میں کہا.


"داوؤد" معصومہ نے بے آواز اس کا نام دہرایا.


"چلیں۔ لنچ کا وقت ہو گیا ہے۔" فرزانہ بیگم نے کہا تو وہ سب ڈائیننگ روم کی جانب بڑھ گئے۔۔


معصومہ بھی آج سب مہمانوں کے ساتھ بیٹھ کر لنچ کر رہی تھی۔ اور یہ فرزانہ بیگم صرف وجدان کی وجہ سے برداشت کر رہیں تھی۔


لنچ کے بعد چائے کا دور چلا تھا۔ تین بجے کے قریب وہ رُخصت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔


ماہین اپنے کمرے میں اپنا ضروری سامان لینے چلی گئی۔

رفیق صاحب بھی آچُکے تھے اور اب اُن کے ساتھ ہی بیٹھے تھے۔


ماہین ہنڈ بیگ پکڑے اور ہاتھ میں چھوٹا سا بیگ اُٹھائے نیچے آئی۔ ارحم نے اُس کی طرف مسکرا کے دیکھا اور اُس سے بیگ تھام لیا۔


"چلیں اب ہمیں اجازت دیں۔ اب آنا جانا تو لگا رہے گا۔" مُنیرہ بیگم خوشدلی سے گویا ہوئیں۔


"جی جی ضرور بہن آپ کا اپنا گھر ہے۔" رفیق صاحب نے کہا۔


ماہین سب سے ملتی گاڑی میں بیٹھ چُکی تھی۔ ارحم اور مُنیرہ بیگم بھی گاڑی میں بیٹھنے لگے۔ جب وجدان بولا۔


"میرا فون شاید اندر ہی رہ گیا ہے میں لے کے آتا ہوں۔"


معصومہ ماہین سے اندر ہی مِل چُکی تھی۔ وہ باہر نہیں آئی تھی۔


وہ ابھی کچن میں جانے کا سوچ ہی رہی تھی جب وجدان اُس کے قریب آیا۔


"تُم بہت معصوم ہو لٹل پرنسز۔ کُچھ لوگ تُمہارے اپنے ہوتے ہوئے بھی تُمہارے اپنے نہیں ہیں۔ ایک بات کہوں گا۔ کبھی کِسی کو خود پر حاوی مت یونے دینا۔ بے شک وہ تُمہیں کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو۔

اگر کوئی تُمہارے ساتھ غلط کرنے کی کوشش کرے تو اپنے حق کے لیے آواز ضرور اُٹھانا اور ہاں جب کبھی تُمہیں مدد کی ضرورت پڑے تو تُمہارا یہ بھائی ہمیشہ تُمہارے لیے موجود ہے کبھی ہچکچانا مت۔"


وہ اُس کے سر پر ہاتھ رکھتا ٹیبل سے فون اُٹھاتا واپسی کے لیے مُڑ گیا جبکہ معصومہ اُس کی باتوں سے اُلجھن میں گھری کچن کی طرف بڑھ گئی۔


مشعل اوپر سے وجدان اور معصومہ کو ایک ساتھ کھڑا دیکھ چُکی تھی۔ پہلے وہ حیران ہوئی پھر کندھے اُچکاتی اپنے کمرے کی جانب چل دی۔


وہ اپنی دُنیا میں رہنے والی من موجی سی لڑکی تھی۔ کِسی کی زندگی میں کیا ہو رہا ہے اُسے کوئی لینا دینا نہ تھا۔


**************

اگلی صُبح وہ روٹین کے کام کرتی کالج کے لیے نِکل چُکی تھی۔ کل سارا دِن اُسے ٹائم نہیں مِلا تھا آن سے بات کرنے کا۔ اور رات کو وہ تھکاوٹ کی وجہ سے جلدی سو گئی تھی۔


اِس لیے اُس نے سوچا تھا کالج جا کے ہی آن سے بات کرے گی اور اُسے ساری بات بتائے گی۔


وہ کالج پہنچی تو ہمیشہ کی طرح آن اُس کا اِنتظار کر رہی تھی۔ ابھی لیکچر شروع ہونے میں کافی وقت تھا۔ وہ آن کے ہاس پہنچتی اُسے ہاتھ سے کھینچتی ایک درخت کے نیچے رکھے پتھر کے ڈیسک پہ بیٹھ گئی۔


"کیا بات ہے نا سلام نا دُعا سیدھا کھینچا تانی۔" آن نے اُس کے پُرجوش چہرے کی طرف دیکھتے پوچھا۔


"تُمہیں پتہ ہے آج میں بہت خوش ہوں۔" وہ خوشی خوشی کہنے لگی۔


"ہاں وہ تو دِکھ رہا ہے لگتا ہے آج ناشتہ کر کے آئی ہو۔" آن نے اندازہ لگاتے کہا۔


"ہاں ہاں ناشتہ بھی کر کے آئی ہوں مگر میں اِس وجہ سے خوش نہیں ہوں تُمہیں پتہ ہے اِس کی وجہ کُچھ اور ہے۔" اُس نے آن کی بات پہ ہنستے کہا۔


"مومو مُجھے الہام ہوتے ہیں کیا؟" آن نے سنجیدگی سے پوچھا۔


"نہیں تو۔ تُم کیوں پوچھ رہی ہو؟" معصومہ نے اُلجھن سے پوچھا۔


"جب تُمہیں پتہ ہے کہ مُجھے الہام نہیں ہوتے تو پھر مُجھے کیسے پتہ ہو گا کہ تُم کیوں خوش ہو۔" آن نے منہ بسورا۔


"میں بتا رہی ہوں ناں۔" معصومہ نے خفگی سے کہا تو آن نے اُس کے سر پہ چپت لگائی۔


"جب تک تُم بتاؤ گی میں بوڑھی ہو جاؤں گی پھر کوئی مُجھ سے شادی بھی نہیں کرے گا ہائے تُم کیا چاہتی ہو کہ تُمہارا جیجو بُڈھا ہو۔" آن نے مصنوعی غصہ کرتے دُہائی دیتے کہا۔


"ہاہاہا آن میرے جیجو بُڈھے ہوں گے تُم دونوں ایک ساتھ کیسے لگو گے؟" وہ تصور میں آن کے ساتھ بُڈھے کو دیکھتی بولی۔


"استغفار۔ اچھا اچھا بول لڑکی کیوں مُجھ معصوم کو بددُعائیں دیتی ہو۔" آن نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔


"اچھا اپنے بُڈھے کو چھوڑو میری بات تو سُنو۔" معصومہ نے پھر اپنی بات کی طرف توجہ دِلائی۔


"ہاں ہاں کب سے وہی تو پوچھ رہی ہوں۔ تُم ہی میرے بُڈھے تک پہنچ گئی تھی۔" آن نے ساری بات اُس پہ ڈالی۔


"تُمہیں پتہ ہے مُجھے پرنس مِل گیا۔" معصومہ نے پُرجوشی سے کہا۔


"پرنس چارلس؟ کیا وہ تُمہارے گھر آیا تھا بڑی بے مروّت ہو مُجھ سے مِلوایا بھی نہیں۔" آن نے شکوہ کرتے کہا۔


"اللّٰہ اللّٰہ۔ آن میرا پرنس نیلی آنکھوں والا۔ پتہ ہے وہ میرے پاس کھڑا تھا بِلکُل میں نے اُسے چُھوا بھی۔ وہ سچ میں ہے وہ آگیا ہے۔" معصومہ خوشی سے چہکتی بول رہی تھی۔


تُم سچ کہہ رہی ہو؟ کب؟ کہاں؟ کیسے؟ کِتنے بجے مِلا؟ مُجھے بتایا کیوں نہیں؟۔" آن نے ایک ہی سانس میں سارے سوال پوچھ لیے۔


"آن سانس تو لے لو یار۔ سب بتاتی ہوں میں تُمہیں۔" وہ منہ کے ٹیڑھے میڑھے زاویے بناتی بولی۔ پھر شروع سے لے کے اُسے ساری بات بتا دی۔ اُس کے برائیڈل روم میں جانے سے لے کر ماہین سے اُس کا نام پوچھنے اور پھر اُس کے فون سے تصویریں لینے تک۔


"واؤ یار تُو تو بڑی تیز نِکلی میں تو تُجھے بڑا معصوم سمجھتی تھی۔" آن نے زور سے اُس کے کندھے پر ہاتھ مارا۔


میں نے تو بس تُمہیں دِکھانے کے لیے تصویریں لیں تھیں خود تو میں بھی بس ایک دو بار ہی دیکھیں ہیں۔" معصومہ نے اُس کے یوں کہنے پر منہ بسورتے کہا۔


"ہائے میری معصوم سی معصومہ مزاق کر رہی تھی مُجھے پتہ ہے تُو بِلکُل بھی چھچھوری نہیں ہے۔" آن نے شرارت سے آنکھ دباتے کہا۔


"آن تُم نہ ایسی حرکتیں مت کیا کرو۔۔۔۔۔۔" معصومہ نے کُچھ کہنا چاہا۔


"اچھی لڑکیوں کو ایسی حرکتیں زیب نہیں دیتیں۔ مُجھے پتہ ہے آگے تُم یہی بولو گی جو میں نے بول دیا۔ اب جلدی سے فون نِکالو اور مُجھے اپنے خوابوں کا شہزادہ حقیقت میں دِکھاو جِسے آج تک میں صرف تُمہارے منہ سے سُنا ہے۔" آن نے اُس کی بات کاٹتے کہا۔


"اچھا۔" وہ منہ بناتے کہہ کر بیگ سے فون نِکالنے لگی۔پھر بیگ سے فون نِکال کر آن کے ہاتھ میں تھما دیا کہ لو دیکھو۔


"مومو میں گئی آہ۔" آن کہتی معصومہ کے کندھے پہ گِر سی گئی کہ ایک لمحے کو معصومہ گھبرا سی گئی۔


"آن آنو کیا ہوا تُم ٹھیک ہو ناں۔" وہ گھبرائے سے لہجے میں کہتی روہانسی ہوئی۔


"میں ٹھیک نہیں بِالکُل فِٹ ہوں میری جان میری ڈول تُم جانتی نہیں میں کِتنی خوش ہوں۔ یہ یہ اِتنا خوبصورت سا بِالکُل شہزادوں جیسا لڑکا جب تُمہارے ساتھ ہو گا جب تُم اِس کے ساتھ چلو گی تو کِتنی اچھی لگو گی۔ میں بہت خوش ہوں اب تُمہیں اپنی سڑی ہوئی ممانی کے گھر نہیں رہنا پڑے گا۔ تُم اپنے شہزادے کے ساتھ اُس کے محل میں رہو گی۔ تُمہیں کوئی کام بھی نہیں کرنا پڑے گا تُمہارے محل میں نوکرانیاں ہوں گی۔ تُم ہمیشہ خوش رہو گی۔" وہ ایکدم اُس کے کندھے سے سر اُٹھاتی اُس کا چہرہ اہنے ہاتھوں کے پیالے میں تھامتی خوشی سے چہکتی بول رہی تھی۔ خوشی سے اُس کی آنکھیں نم ہو رہیں تھیں۔


"تُم نے مُجھے ڈرا دیا آنو۔" معصومہ کہتے ہی رو پڑی۔

"سوری میری جان بس تُم تو جانتی ہو نا میں ایسی ہی ہوں پاگل سی۔" وہ اُس کے چہرے پہ پھسلتے آنسو صاف کرتی بولی۔


"ہاں تُم خود تو پاگل ہو اور ساتھ میں مُجھے بھی کر دو گی۔" معصومہ نے گہرا سانس لیتے کہا۔


"اچھا یہ سب چھوڑ مُجھے یہ بتاؤ اب کیا اِرادہ ہے؟" آن نے پوچھا۔


"کیسا اِرادہ؟" اُس نے حیرت سے پوچھا۔


"ارے اب مسٹر نیلی آنکھوں والے داؤد صاحب مِل ہی گئے ہیں تو اب آگے بھی تو کُچھ ہو گا ناں۔" آن نے ماتھے پہ ہاتھ مارتے کہا۔


"آگے کیا ہو گا؟" معصومہ نے اُلجھن سے پوچھا۔


"ڈفر شادی ہو گی ناں۔" آن جھنجھلائی۔


"کِس کی؟" وہ ہنوز اُلجھن میں تھی۔


"تیری اور تیرے اُس داؤد کی میری ماں۔" آن نے اُس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔


معصومہ کُچھ پل اُس کی طرف ناسمجھی سے دیکھنے لگی پھر جب بات اُس کی سمجھ میں آئی تو اُس کا چہرہ گُلابی سے سُرخ پڑ گیا۔


"آن۔" وہ منمنائی۔


"آن کی جان۔ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ اب تو میں روز تیری اور مسٹر ہینڈسم کی شادی کی دعائیں کروں گی۔" آن نے آسمان کی طرف دونوں ہاتھ دعائیہ انداز میں اُٹھاتے کہا۔


"مگر آن میں اُنہیں جانتی ہوں وہ تو مُجھے جانتے بھی نہیں ہیں۔ اُس دِن بھی اِتنے غُصے سے دیکھ رہے تھے۔" معصومہ نے پریشانی سے کہا۔


نہیں جانتے تو جان جائیں گے۔ جب خدا پاک اُسے حقیقت میں تیرے سامنے لا کے کھڑا کر سکتے ہیں تو پھر تیری قِسمت میں اُس کا ساتھ لکھنا کونسا خدا پاک کے لیے مُشکِل ہے۔" اُس نے معصومہ کو حوصلہ دیتے کہا۔


"اچھا اب چلو کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے پھر میڈم نے گھُسنے بھی نہیں دینا کلاس میں اگر لیٹ ہو گئے تو۔" آن نے معصومہ کو گُم صُم دیکھ کر جلدی مچائی اور پھر اُس کا ہاتھ کھینچتے کلاس کی جانب چل دی۔


***************


چُھٹی کے بعد آن تو اپنے ڈرائیور کے ساتھ چلی گئی تھی مگر معصومہ کو پیدل ہی جانا تھا اِس لیے وہ پیدل ہی اپنی دُھن میں چلتی جا رہی تھی۔


ایک بج رہا تھا۔ گرمیوں کی تپتی دوپہر میں سر پہ ماتھے تک چادر ٹکائے وہ بے نیاز سی چل رہی تھی جب شور کی آواز پہ متوجہ ہوئی۔


سڑک پہ کِسی کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا مگر کوئی بھی اُس کی مدد کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ وہ چلتی ہوئی وہاں تک پہنچی۔


وہ کوئی بزرگ تھے سُرخ و سفید رنگت، پُرنور چہرہ، اور پُروقار شخصیت کے حامل وہ بزرگ سڑک سے اُٹھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ماتھے سے کافی خون بہہ رہا تھا۔ جِس پہ اُنہوں نے ایک ہاتھ رکھا ہوا تھا۔


معصومہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر اُنہیں سہارا دِیا۔

"انکل چلیں ہاسپٹل چلتے ہیں۔ آپ کے ماتھے سے بہت خون بہہ رہا ہے انفیکشن بھی ہو سکتا ہے۔" وہ اُن کا بازو تھامتے بولی۔


"نہیں بیٹا میں ٹھیک ہوں۔" اُنہوں نے مُسکراتے ہوئے اُس کی طرف دیکھا۔


"نہیں آپ ٹھیک نہیں ہیں یہاں پاس میں ایک کلینک ہے وہاں چلتے ہیں۔" معصومہ نے اصرار کرتے کہا تو وہ اُس کے ساتھ چل دیے۔


پانچ منٹ بعد وہ کلینک میں موجود تھے اور معصومہ ڈاکٹ کو بُلا کر اب اُن کی مرہم پٹی کروا رہی تھی۔


مرہم پٹی کے بعد وہ اُن کے ساتھ ہی باہر نِکلی۔

"آپ اکیلے کیوں گھر سے نِکلے اگر زیادہ چوٹ لگ جاتی تو؟" اُس نے ڈانٹنے والے لہجے میں کہا تو وہ بے اختیار مسکرا دیئے۔


"اکیلا نہیں نِکلا تھا بیٹا ڈرائیور کے ساتھ نِکلا تھا۔ مُجھے ایک دوست سے مِلنا تھا تو میں نے اُسے واپس بھیج دیا۔ سڑک پار کرتے وقت دھیان نہیں رہا اور بائیک سے ٹکرا کے گِر گیا بائیک والا تو بھاگ گیا میں وہیں رہ گیا۔" اُنہوں نے ساری بات تفصیل سے بتائی۔


"تو انکل آپ نے ڈرائیور کو کیوں واہس بھیجا؟" وہ کِسی ٹیچر کی طرح اِستفسار کر رہی تھی۔


کیونکہ میری بیگم کو گھر پہ ڈرائیور کی ضرورت پڑ گئی تھی۔ اور ایک بات تُم مُجھے انکل نہیں بابا کہو مُجھے اچھا لگے گا۔" اُنہوں نے محبت سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے کہا۔ اُنہیں یہ بچی بہت پسند آئی تھی۔ دوسروں کے لیے ہمدردی اور محبت کا احساس لیے وہ لڑکی واقعی انمول تھی۔


"جج جی انکل اوہ سوری بابا۔" وہ کہتے کہتے گڑبڑائی۔


"شاباش میرا بچہ۔" اُنہوں نے کہا تو معصومہ کی آنکھیں بے اختیار چھلک پڑیں۔


"ارے ارے رو کیوں رہا ہے میرا بیٹا؟" اُنہوں نے پریشانی سے اِستفسار کیا۔


"میرے ماما بابا نہیں ہیں اُن کی یاد آگئی۔" اُس نے آنسو پونچھتے جواب دِیا۔


"آئیندہ ایسے مت کہنا کہ تُمہارے بابا نہیں ہیں۔ میں یوں نا تمہارا باپ۔ آج سے تُم مُجھے اپنا باپ ہی سمجھ لو۔" اُنہوں نے کہا تو اُس نے اثبات میں سر ہلا دِیا۔


"اچھا اب تُم گھر جاؤ تُمہیں دیر ہو رہی ہو گی۔" اُنہوں نے گھڑی میں وقت دیکھتے کہا جو دو بجا رہی تھی۔


"جی اللّٰہ حافظ۔" کہتی وہ جانے کو مُڑی۔

"رُکو۔" اُنہوں نے آواز دی۔

"جی؟"


"تُم رہتی کہاں ہو میرا مطلب ہے کِس کے پاس اور میری بیٹی کا نام کیا ہے؟" اُنہوں نے نرمی سے پوچھا۔


"میں ماموں کے پاس رہتی ہوں اور میرا نام معصومہ جہانگیر ہے۔" اُس نے جواب دیا۔


"اچھا اپنا فون دو۔" اُنہوں نے اُس سے فون مانگا جو معصومہ نے بلا جھجک اُنہیں نِکال کے دے دیا۔


اُنہوں نے کُچھ نمبرز ڈائل کیے اور فون اُسے واپس کر دیا۔


"میں نے اپنا نمبر سیو کر دیا ہے۔ جب کبھی ضرورت ہو مُجھے بِلا جھجھک فون کر لینا۔" اُنہوں نے کہا تو اُس نے خاموشی سے سر ہلا دیا۔


"اب جاؤ اور دھیان سے جانا۔" اُن کے کہنے ہر وہ اُن کو لدا حافظ کہتی گھر کے راستے پہ چل دی۔


وہ اُس کو جاتا دیکھ خود بھی اپنے دوست کی طرف چل دیئے۔


*****************


وہ گھر پہنچی تو اڑھائی ہو رہے تھے۔ مشعل اور فرزانہ بیگم لاونج میں ہی موحود تھے۔ روحان اِدھر اُدھر ٹہل رہا تھا۔ اُسے دیکھتے ہی تیر کی طرح اُس کی طرف لپکا۔


"کہاں تھی گُڑیاہم کِتنا ہریشان یو گئے تھے۔" کُچھ نہیں بھائی وہ راستے میں۔۔۔۔۔۔۔۔" اُس نے بتانا چاہا جب فرزانہ بیگم اُس کی بات کاٹ گئیں۔


اِسے کیا فِکر کہ گھر والے کِتنا ہریشان ہو رہے ہوں گے یہ تو آرام سے اپنی ہی موج مستیوں میں ٹہل ٹہل کر آرہی ہو گی۔" اُنہوں نے نخوت سے اُس کی طرف دیکھ کر کہا۔


"میں نے تُمہیں فون بھی کیا تھا مگر تُم نے ایک بھی کال نہیں اُٹھائی۔" روحان نے ماں کی بات اِگنور کر کے پوچھا۔


"سوری بھائی فون سائلنٹ پہ تھا۔ اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " وہ شرمندگی سے کہتی آہستہ آہستہ راستے میں ہوئے واقعہ کے بارے میں بتانے لگی۔


"شاباش میرا بیٹا۔ سب کی مدد کیا کرو مگر گھر والوں کی پریشانی پر بھی دھیان دیا کرو آئیندہ اگر لیٹ ہو جاؤ تو فون کر کے بتا دیا کرو ایسے ہمیں بھی تسلی رہے گی۔" روحان نے اُس کے سر ہر ہاتھ رکھتے اُس کے کام کو سراہتے ہوئے اُسے ھدایت کی۔

"جی بھائی۔" وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔


"اچھا اب جاؤ تُم جا کے فریش ہو جاؤ تھک گئی ہو گی۔" روحان نے نرمی سے کہا تو وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔


*****************


کُھلا کُشادہ سا روم تھا۔ پورے کمرے میں ایکسرسائز کا سامان سیٹ کیا گیا تھا۔ اور کمرے کے وسط میں کھڑا پنچنگ بیگ پہ لگاتار پنچ مار رہا تھا۔ پسینے سے اُس کا پورا جسم شرابور تھا۔


کمرے میں اُس کی تیز تیز سانسوں کی آواز گونج رہی تھی۔ اُس کی سانسیں پھول رہیں تھیں۔ مگر اُس کا جنون تھا کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

پِچھلے دو گھںٹے سے وہ اِسی کام میں مصروف تھا۔

آنکھوں کے سامنے بس وہ دو گہرے بھورے رنگ کی آنکھیں، چہرے پہ حیرانی کے تاثرات اور اُس کے چہرے کی مُسکراہٹ اُبھر رہیں تھیں۔ جو اُسے اور آگ لگا رہا تھا۔ اُس نے ایک زور دار پنچ بیگ کو مارا جو ہوا میں اُچھل کر واپس اُس کے پاس آگیا اور اُس نے اُسے اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔


"آئیندہ کبھی میرے راستے میں مت آنا ورنہ تُمہارے ساتھ میں کیا کر جاؤں گا میں خود بھی نہیں جانتا۔ میرے سامنے آکے مُجھے چھو کے تُم نے میرے جُنون کو ہوا دی ہے تُم سے نفرت کے جنون کو۔ اور اپنے جنون کے آگے تو میں خود کو بھی نہیں دیکھتا تو تُمہاری کیا اوقات ہے۔ تُم سے تُمہارے وجود سے اِتنی نفرت کرتا ہوں کہ تُم شمار کرنا چاہو تو شاید پوری زندگی کم پڑ جائے۔ تُمہاری بھلائی اِسی میں ہو گی کہ تُم اپنی زندگی میں کبھی میرے سامنے نہ آو کبھی نہیں۔" وہ اپنی نیلی سُرخ ہوتی آنکھوں سے اُس کو تصوّر میں دیکھتے بڑبڑا رہا تھا۔


پنچنگ بیگ کو چھوڑتا وہ اپنے کمرے کی جانِب بڑھ گیا وہ کبرڈ سے کپڑے لیتا باتھ روم کی جانب بڑھ گیا۔ فریش ہو کر وہ باہر آیا اور ڈریسنگ کے سامنے کھڑا ہو کے بال بنانے لگا۔ بال بنا کے خود پر پرفیوم کا چھڑکاو کیا۔ اور آئینے میں ایک نظر خود کا جائزہ لیا۔


بلیک تھری پیس پہنے، گہری نیلی آنکھیں، کھڑی مغرور ناک، ہلکے بھورے نفاست سے سیٹ کیے بال، ہلکی بھوری ہی بیئرڈ، گورا سُرخ سفید رنگ، نیلی آنکھوں میں تیرتے سُرخ ڈورے ، اور اپنی شخصیت میں ایک مخصوص قسم کا رُعب اور دبدبہ لیے وہ ایک بھرپور مرد تھا۔ وہ واقعی شہزادہ تھا جو کِسی بھی لڑکی کا خواب ہو سکتا تھا۔ مگر صرف خواب ہی ہو سکتا تھا۔


سائیڈ ٹیبل سے فون والٹ اور گاڑی کی چابیاں اُٹھاتا وہ باہر نِکل گیا۔


***************

چھ بجے وہ ڈنر کی تیاری کر رہی تھی۔ سالن اور سلاد بنانے کے بعد وہ روٹی بنا رہی تھی۔


کام والی جو صرف شادی کے دِنوں کے لیے آئی تھی اب واپس جا چُکی تھی۔ ملازمہ شروع ہی سے اُن کے گھر موجود نہیں تھی۔


فرزانہ بیگم کا کہنا تھا کہ گھر میں فرد ہی کِتنے ہیں جو ملازمہ کی ضرورت پڑے۔


وہ جلدی جلدی ہاتھ چلا رہی تھی اُسے اپنا کل کا ٹیسٹ بھی یاد کرنا تھا۔ آدھے گھنٹے تک روٹی بنا کے وہ ہاٹ پاٹ میں رکھ چُکی تھی وقت دیکھا تو ساڑھے سات ہو رہے تھے۔


وہ ڈایننگ ٹیبل پر برتن سیٹ کرنے کے بعد سب کو ڈنر کا کہنے چلی گئی۔


آدھے گھنٹے تک سب کھانا کھا کر فارغ ہو چُکے تھے۔ مشعل اور فرزانہ بیگم اپنے کمرے میں جا چُکی تھیں۔ جبکہ رفیق صاحب اور روحان ٹی وی کے سامنے بیٹھے نیوز دیکھ رہے تھے۔


وہ سارے برتن دھونے کے بعد اپنے کمرے میں چلی آئی اور کتابیں کھول کر بیٹھ گئی وہ پڑھائی میں بہت اچھی تھی اِس لیے خود پڑھنے پر اُسے اِتنی مُشکِل پیش نہیں آتی تھی۔


اُس نے ایک نظر فون کی طرف دیکھا اور پھر پڑھائی میں مصروف ہو گئی۔ گیارہ بج رہے تھے۔ وہ جمائی لیتی منہ پہ ہاتھ رکھ کے اُٹھی اور ساری کتابیں بیگم میں رکھیں۔ اور بستر پر سونے کے لیے لیٹ گئی۔


پھر آج کا سارا واقعہ اُس کی آنکھوں میں گھوم گیا۔


" وہ بابا جی کِتنے اچھے تھے کِتنے پیار سے بات کر رہے تھے ورنہ آج کل کون اِتنی نرمی سے پیش آتا ہے۔ اب تو میں اُن سے بات بھی کر سکتی ہوں اُنہوں نے کہا تھا کہ میں اُن کی بیٹی ہوں۔ مگر ایسے اچھا لگے گا کیا؟ اِس میں بُرا لگنے کی بھی کوئی بات نہیں ہے وہ میرے بابا ہیں اور اپنے باپ سے بات کرنا کونسا بُری بات ہے۔ مگر اصل باپ تو نہیں ہیں ناں۔ تو کیا ہوا منہ بولے باپ ہی سہی باپ تو باپ ہوتا ہے۔" خود سے سوال کرتی خود ہی جواب دیتی وہ خود کو مطمئن کر رہی تھی۔


"ابھی فون کروں کیا؟ " اُس نے سوچا پھر گھڑی کی طرف دیکھا جو ساڑھے گیارہ بجا رہی تھی۔


"نہیں اِس وقت تو وہ سو رہے ہوں گے کل فون کروں گی۔" وہ بڑبڑائی اور آنکھیں موند لیں۔


آنکھوں کے پار پھر سے نیلی آنکھیں لہرائیں تو اُس نے جھٹ سے آنکھیں کھول دیں۔


"جِس دِن سے داؤد جی سے ملی ہوں اُس دِن سے تو وہ خواب بھی آنا بند ہو گئے ہیں پہلے تو روز خواب آتے تھے اب کیوں نہیں؟" اُس نے سوچا۔


"ہاں اب کیوں خواب آئیں گے اب تو وہ حقیقت میں خود ہی آگئے ہیں" اُس نے اپنے سوال کا خود ہی جواب دیا۔


"سو جا معصومہ جہانگیر ورنہ تُو پاگل ہو جائے گی پھر داؤد جی کیا سوچیں گے کہ اُن کے لیے ایک پاگل لڑکی ہی رہ گئی تھی۔" وہ بڑبڑاتی آنکھیں موندتی سونے کی کوشش کرنے لگی۔


***************


دِن کے بارہ بج رہے تھے وہ اُس وقت آفس میں بیٹھا ضروری فائلز کی سٹڈی کر رہا تھا کل وہ آفس نہیں آیا تھا اور کل والا کام بھی وہ آج نپٹا رہا تھا۔


وہ اپنے کام میں مصروف تھا جب کوئی دروازہ کھول کر بغیر ناک کیے اندر داخل ہوا۔


"تُمہیں کِتنی بار کہا ہے دانی۔ ناک کیے بغیر میرے آفس میں مت آیا کرو۔" اُس نے بغیر سر اُٹھائے آنے والے سے کہا جانتا تھا کہ کون ہے۔


"کیا کروں یار مُجھے تیرے آفس آنے سے پہلے ناک کرنے سے جھجک ہوتی ہے۔" اُس نے کُرسی پر بیٹھتے کہا۔


"اکیلے میں مِلنا کبھی ساری جھجک نکال دوں گا۔" اُس نے فائل بند کرتے دانی کی طرف متوجّہ ہوتے کہا۔


"نہیں تُو رہنے دے مُجھے اپنی جھجک دور نہیں کرنی میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔" دانی نے بازو ٹیبل پہ رکھتے کہا۔


"کیسے آنا ہوا۔" اُس نے سنجیدگی سے پوچھا۔


"کبھی مُسکرا بھی لیا کریں داؤد صاحب۔ مُسکرانے پہ ٹیکس نہیں لگتا۔" دانی نے ٹونٹ کیا۔


"میرے مُسکرانے پہ ٹیکس لگتا ہے اِسی لیے نہیں مُسکراتا۔ اب اپنی تشریف آوری کی وجہ بتاؤ-" اُس نے تیکھی نظروں سے دانی کو گھورا۔


"اچھا ٹھیک ہے بتا رہا ہوں اپنی یہ قاتلانہ نگاہیں ہٹاؤ کِسی نازنین پہ محبت سے اپنی نگاہیں ڈالنا لازمی قتل ہوجائے گی۔ اِن نِگاہوں سے میں تو قتل ہونے سے رہا۔" دانی نے ہاتھ اُٹھائے کہا۔


"وہ وقت پھر کبھی نہیں آئے جب یہ نِگاہیں کِسی لڑکی پہ میری محبت سے نِگاہ پڑ جائے۔" داؤد نے سنجیدگی سے کہتے اُسے جیسے باور کروایا۔


"یہ تو تب پوچھوں گا جب تیری بیوی آئے گی" دانی نے شرارت سے آنکھ دبائی۔


"شٹ اپ دانی۔" اُس نے اُسے گھورا۔


"اچھا پہلے مُجھے لنچ کروا پھر شٹ اپ بھی ہو جاؤں گا ورنہ بھوکے پیٹ میری زبان ایسے ہی قینچی کی طرح چلتی رہے گی۔" دانی نے دُہائی دی۔


"تُمہارا کُچھ نہیں ہو سکتا اُٹھو۔"وہ اُسے پیچھے آنے کا اِشارہ کرتا باہر نِکل گیا جبکہ وہ بھی دانت نِکالتا اُس کے پیچھے چل دیا۔


*****************


آج معصومہ لوگوں کے بس دو ہی لیکچر تھے جو بارہ بجے تک ختم ہو گئے تھے آن کا ڈرائیور پندرہ منٹ لیٹ تھا اِسی لیے وہ پندرہ منٹ اُس کے ساتھ اُسے کمپنی دینے کے لیے کھڑی تھی۔


"اچھا مومو ایک بات تو بتاؤ" آن نے گیٹ پہ نظریں جمائے کہا۔


"ہاں پوچھو۔" معصومہ نے کہا۔


"ماہیںن آپی نے اور کُچھ نہیں بتایا مسٹر داؤد کے بارے میں؟" آن نے پوچھا۔


نہیں اور تو کُچھ نہیں بتایا اُنہوں نے۔ صرف نام ہی بتایا اور یہ کہ وہ ارحم بھائی کے دوست ہیں۔ اُن کے بارے میں اور تو کُچھ نہیں پتہ مُجھے۔" معصومہ نے معصومیت سے جواب دِیا۔


"آہاں اُن کے ۔" آن نے اُسے چھیڑا۔


"تو اور کیا کہوں کافی بڑے ہیں وہ مُجھ سے۔ اِتنی باڈی ہے اُن کی بِلکُل کِسی فٹ فاٹ سے باڈی گارڈ کی طرح۔ سات آٹھ سال بڑے ہی ہوں گے مُجھ سے۔" معصومہ نے سُرخ ہوتے چہرے سمیت پُرسوچ انداز میں کہا۔


"اچھا اِتنے بڑے ہیں وہ تُم سے۔" آن کو حیرت ہوئی۔


"ہاں میں تو اُن کے آگے اِتنی سی لگ رہی تھی بِالکُل چھوٹی سی۔ اُن کا قد بھی کافی لمبا تھا مُجھ سے۔ اُن کے سینے تک آرہی تھی میں اور اُس دِن جب میں نے اُن کو قریب سے دیکھا تو سر اُٹھا کر دیکھنا پڑ رہا تھا۔" معصومہ نے تفصیل سے بتایا۔


"اوئے ہوئے قریب سے۔ ویسے آپس کی بات ہے کِتنے قریب سے دیکھا تھا تُم نے اپنے اُن کو؟" آن نے اُس کے کندھے سے اپنا کندھا ٹکراتے کہا۔


"آن کِتنی چھچھوری ہو تُم۔ اییی میرا وہ مطلب نہیں تھا۔" آن کی بات سُن کے اُس کے گال بے ساختہ گُلابی ہوئے۔


"اب مُجھے کیا پتہ تُمہارا کیا مطلب تھا تُم نے خود ہی کہا قریب سے دیکھا تھا اب قریب کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے۔" آن نے شرارتی لہجے میں کہا۔


"تُم کِتنا فضول سوچتی ہو آنو۔ پتہ نہیں تُمہارے شوہر کا کیا بنے گا؟" معصومہ نے تاسف سے سر ہلایا۔


"وہ تو شُکرانے کے نفل ادا کرے گا کہ اُسے اِتنی رومانٹک وائف مِلی ہے۔" آن نے مزے سے کہا۔ تو معصومہ کا منی حیرت سے کُھل گیا۔


"اپنا منہ بند کر ورنہ مکھی چلی جائے گی۔ اور میں جا رہی ہوں ڈرائیور کا میسج آگیا ہے۔" آن نے ایک ہاتھ اُس کی تھوڑی پر رکھتے اُس کا منہ بند کرتے کہا۔ تو معصومہ بُرے بُرے منہ بناتی گیٹ کی جانب چل دی۔


باہر آکر آن گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی جبکہ وہ پیدل ہی گھر کی طرف روانہ ہوئی۔


******************


وہ دونوں لنچ کے لیے ریسٹورینٹ جا رہے تھے داؤد ڈرائیونگ کر رہا تھا۔ جب کہ دانی اُس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ونڈو کے پار دیکھ رہا تھا۔


"داؤد گاڑی روکو جلدی۔" دانی کے چیخ کر کہنے پہ اُس نے ایکدم گاڑی کو بریک لگایا تھا۔


"کیا ہوا چیخے کیوں؟" داؤد نے پریشانی سے پوچھا جو گاڑی کا دروازہ کھول کے باہر نِکل رہا تھا۔


"آ کے بتاتا ہوں۔" وہ کہتا روڈ کی دوسری جانب بڑھ گیا جہاں ایک لڑکی جا رہی تھی۔چادر کے ہالے میں چُھپا اُس لڑکی کا چہرہ بہت کم نظر آرہا تھا۔


"ہیئے لٹل پرنسز! تُم اِس وقت یہاں کیا کر رہی ہو؟" اُس نے معصومہ کو اِتنی گرمی میں سڑک پر پیدل چلتے دیکھ کر کہا۔


"وجدان بھائی آپ۔" اُس نے حیرت سے ہوچھا۔


"ہاں میں اب بتاؤ کہا جا رہی ہو؟" اُس نے اپنا سوال دُہرایا۔


"وہ میں گھر جا رہی ہوں آج کالج سے چُھٹی جلدی ہو گئی تھی تو اِسی لیے اِس وقت جا رہی ہوں۔" معصومہ نے اُس کے سوال کا جواب دِیا اور چادر کا کونہ ماتھے سے کھینچ کر تھوڑا نیچے کیا کہ اُس کی پیشانی چُھپ سی گئی۔


"تو پیدل کیوں جا رہی ہو وہ بھی اتنی گرمی میں۔" وجدان نے حیرت سے پوچھا۔


"ووو وہ دراصل کالج سے گھر تھوڑے ہی فاصلے پر ہے اِسی لیے میں پیدل ہی آتی جاتی ہوں۔" اُس نے مظریں چُراتے کہا اب وہ یہ تو نہیں بتا سکتی تھی کہ فرزانہ بیگم نے اُس کے لیے گاڑی نہیں لگوائی۔

"ہر روز۔" وجدان نے آنکھیں پھیلائیں۔


"جج جی۔" وہ اُس کے تاثرات پر گڑبڑا گئی۔


"اچھا ابھی تو چلو میرے ساتھ میں تُمہیں گھر چھوڑ دوں گا اِتنی گرمی میں تُم کیسے روز آتی جاتی ہو؟" وجدان نے کہتے اُسے پیچھے آنے کا اِشارہ کیا۔

"نن نہیں مم میں چلی جاؤں گی آپ کو خواہ مخواہ پریشانی ہو گی۔" اُس نے اِنکار کرنا چاہا دِل میں فرزانہ بیگم کا ڈر بھی تھا۔


"کوئی نہیں وہی نہی۔ چلو میرے ساتھ میں نے کہا نا میں گھر ڈراپ کر دوں گا بہن کہا ہے تُمہیں بھروسہ رکھو مُجھ پر۔" وجدان کے یوں کہنے پر وہ شرمندہ ہوئی۔


"نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا" اُس نے صفائی دینی چاہی۔


"مُجھے پتہ ہے تُمہارا وہ مطلب نہیں تھا اب چلو مُجھے تو لگ رہا ہے میں یہیں گرمی میں پِگل جاؤں گا۔" وجدان کے کہنے پر وہ مُسکراتی اُس کے پیچھے چلنے لگی۔


****************


وہ پِچھلے دس منٹ سے گاڑی میں بِٹھا وجدان عرف دانی کا ویٹ کر رہا تھا جو اُسے رُکنے کا کہہ کر اُس لڑکی سے پتہ نہیں کیا رازونیاز کر رہا تھا۔ تنگ آ کر اُس نے گاڑی سٹارٹ کرنا چاہی جب وہ لڑکی وجدان کے ساتھ آتی دِکھائی دی۔


سفید شلوار قمیض میں ملبوس کندھے پر کالج بیگ ڈالے اور کالے رنگ کی چادر لیے وہ کوئی چھوٹی سی کالج گرل لگ رہی تھی جو وجدان کے پیچھے سر جھکائے چل رہی تھی اُس کا چہرہ واضح نہیں تھا۔


وہ گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر معصومہ کو بیٹھنے کا اِشارہ کرتا خود اگلی سیٹ پر داؤد کے ساتھ بیٹھا۔


"چل داؤد ارحم کے سُسرال چلنا ہے۔". اڈریس میں تُمہیں بتاتا ہوں۔" وجدان نے داؤد سے کہا جِس نے ایک نظر بھی پیچھے بیٹھی لڑکی کو نہیں دیکھا تھا۔


جبکہ داؤد کا نام سُن کر معصومہ کو جھٹکا لگا اور اُس نے چونک کر فرنٹ مرر میں دیکھا جہاں پہ نیلے رنگ کی آنکھیں سامنے دیکھتِن نظر آرہیں تھیں۔


اُس کا دِل دھک سے رہ گیا۔ اُسے لگا ابھی اُس کا دِل باہر آجائے گا۔ دِل کے دھڑکنے کی سپیڈ شاید ایک سو بیس پہ پہنچ گئی تھی جو اُس کے دھڑکنے کی آواز معصومہ کو بھی سُنائی دے رہی تھی۔


گھبراہٹ سے اُس کا بُرا حال تھا۔ آج تک جِسے صرف خوابوں میں دیکھتی آئی تھی وہ مجسم اُس سے کُچھ فاصلے پر بیٹھا تھا۔ اُس نے چادر کو ماتھے پر نیچے کی طرف کھسکایا اور کھڑکی سے چمٹتی سمٹ کر بیٹھ گئی۔


"کیوں وہاں کیوں جانا ہے؟ اور یہ کون ہے؟" داؤد نے سرد و سپاٹ لہجے میں پوچھا تو اُس کی آواز کی سختی پر معصومہ آنکھیں میچتی اللّٰہ کے نام کا ورد کرنے لگی۔


اُس کی شخصیت ہی ایسی تھی کوئی بھی اُس کی اِتنی سخت آواز سُنتا تو کانپ جاتا اور وہ تو پھر معصوم سی معصومہ تھی جِس کا دِل چِڑیا جِتنا تھا۔


"یہ ارحم کی بیوی کی کزن سِسٹر اور میری پیاری سی کیوٹ سی چھوٹی سی فرینڈ اور پرنسز ہے۔ اِسے ہی ڈراپ کرنا ہے وہاں۔ اب اور سوال مت کرنا ورنہ میں تُجھے باہر دھکا دے کر خود گاڑی لے کے ڈراپ کرنے چلا جاؤں گا۔" اُس نے معصومہ کا لمبا چوڑا تعارُف کرواتے ساتھ میں داؤد کو دھمکی دیتے کہا۔


داؤد نے وجدان کو گھورتے بغیر کوئی دوسرا سوال پوچھے گاڑی سٹارٹ کی اور وجدان کے بتائے راستے پر دوڑانے لگا۔


اُس نے اب بھی پیچھے بیٹھی لڑکی کی طرف نہیں دیکھا تھا اگر دیکھ لیتا تو جو وعدہ اُس نے کل خود سے کیا تھا اُسے پورا کرنے میں سیکنڈ نہیں لگاتا۔ اور شاید اُس کے غُصّے کی لپیٹ میں وجدان بھی آجاتا۔


معصومہ نے کن انکھیوں سے اگلی سیٹ پر بیٹھے داؤد کو دیکھا جو مصروف سا ڈرائینگ کر رہا تھا۔ وجدان کی طرح ایک بار بھی اُس نے معصومہ سے تعارف لینے کی کوشش نہیں کی تھی۔


اُسے ناجانے کیوں اُس کی لاپرواہی پہ افسوس اور غُصّہ ایک ساتھ آیا۔ کیا تھا وہ ایک نظر ہی سہی اُس دیکھ تو لیتا۔مگر وہ نہیں جانتی تھی اُسے لڑکیوں سے نفرت تھی اِتنی کہ اُس کے آفس میں موجود سیکرٹری بھی میل تھا۔


اگر وہ جان جاتی کہ اُسے لڑکیوں سے نفرت ہے تو کبھی خواہش نہ کرتی کہ وہ ایک نظر ہی اُسے دیکھ لے۔


*****************


دس منٹ بعد وہ معصومہ کے گھر پر موجود تھے۔ سارا سفر خاموشی سے گُزرا تھا وجدان نے بھی کوئی بات نہ کی تھی۔


"آپ اندر آئیں ناں۔ مُجھے اچھا لگے گا۔" معصومہ کو اُنہیں یوں واپس بھیجنا اچھا نہیں لگا تو اُنہیں اندر آنے کی دعوت دینے لگی۔


"ہاں ہاں کیوں نہیں چلو۔" وجدان گاڑی سے باہر نِکلتے بولا۔ داؤد نے اُسے گھورا جِس کی اُس نے کوئی پرواہ نہ کی اور اُسے بھی گھسیٹتا اندر لے گیا معصومہ اُن کے آگے چل رہی تھی اِسی لیے داؤد اُس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا۔


مگر اُس کی نظریں چادر کے نیچے سے جھانکتے اُس کے لمبے بالوں پہ تھی جو نیچے سے تو کُھلے تھے شاید اوپر پونی ڈالی گئی تھی۔ کمر سے بھی نیچے جاتے ریشمی سِلکی سُنہرے بالوں کو دیکھ کر داؤد کا بے اختیار دِل چاہا کہ وہ اُنہیں چھو کر اُن کی نرمی محسوس کرے۔


اپنے دِل کی سوچ پہ بے اختیار اُس نے اپنے دِل کو ڈپٹا مگر ایک نظر اُس لڑکی کو دیکھنے کی خواہش جاگی۔


وہ آگے چلتی جا رہی تھی۔ سامنے ہی روحان بیٹھا تھا اُس کے سامنے والے صوفے پہ فرزانہ بیگم براجمان تھیں۔


وہ چلتی اُن کے پاس پُہنچی اور اُنہیں سلام کیا۔ فرزانہ بیگم اُس کے پیچھے وجدان کے ساتھ ایک اور لڑکے کو دیکھ کے چونکیں اور کینہ توز نِگاہوں سے معصومہ کو دیکھا جو اُن کی اندر تک اُتر جانے والی نِگاہوں سے گھبراتی بول اُٹھی۔


"مم ممانی جان یی یہ وہ۔" وہ خوف سے ہکلا اُٹھی۔

"ارے لٹل پرنسز گھبرا کیوں رہی ہو؟ آنٹی جی مُجھے تو جانتی ہی ہیں اپنے دوست کا تعارُف میں خود کروا لوں گا۔" وجدان نے اُس کے سامنے آتے سر پہ ہاتھ رکھتے کہا۔


جو فرزانہ بیگم کی طرف رُخ کیے کھڑی تھی۔ ممانی کے ڈر سے اُس کا چہرہ زرد پڑ چُکا تھا۔


"آو آو وجدان بیٹھو بیٹا آپ بھی بیٹھ جائیں۔ اور تُم کھڑی میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو جاؤ جا کے کھانے پینے کا بندوبست کرو۔" فرزانہ بیگم نے جِتنیے شیریں لہجے میں وجدان اور داؤد سے کہا اُتنے ہی کڑوے لہجے میں معصومہ کو مخاطب کیا۔


جِس پر روحان پہلو بدل کر رہ گیا جبکہ وجدان کا بس نہ چلا کہ بے نُقط اُن کو سُنا دے۔ ابھی تو وہ بے چاری باہر کی گرمی سینک کر آئی تھی اور اب آتے ہی کچن میں کھڑا کر رہیں ہیں۔


جبکہ داؤد کو فرزانہ بیگم کے لہجے پہ حیرانی ہوئی جِس کی وجہ سے وہ انجان تھا۔


"نہیں اِس کی کوئی ضرورت نہیں ہم ٹھیک ہیں۔" وجدان کے کہنے پر معصومہ کے قدم تھمے اور وہ بے اختیار اُن کی طرف گھومی۔


"نہیں آپ ایسے کیسے جا سکتے ہیں میں ابھی آپ کے لیے ٹھنڈا لے کر آتی ہوں آپ کو بالکل بھی گرمی نہیں لگے گی ٹھنڈا پی کے۔" معصومہ نے وجدان اور داؤد کی طرف دیکھتے معصومیت سےکہا۔


جبکہ معصومہ کو دیکھ کے داؤد کے سر پہ جیسے آسمان آن گِرا ہو۔ جِس لڑکی کو دیکھنے اور اُس کے بالوں کی نرمی محسوس کرنے کی اُس کے دِل نے خواہش کی تھی اگر اُسے پتہ ہوتا کہ یہ لڑکی وہ ہو گی تو وہ مر جاتا مگر کبھی ایسی خواہش نہ کرتا۔


زندگی میں پہلی بار کِسی لڑکی کے حوالے سے اُس

نے ایسا سوچا تھا اور وہ لڑکی وہ نِکلے گی جِس سے وہ اِنتہا کی نفرت کرتا تھا یہ اُس کے وہم و گُمان میں بھی نہیں تھا۔


"دانی میں جا رہا ہوں مُجھے کام ہے۔"داؤد نے معصومہ کی طرف سُرخ ہوتی آنکھوں سے دیکھتے سرد لہجے میں کہا۔


اُس کی آواز پہ معصومہ نے نِگاہیں اُٹھا کے اُس کی طرف دیکھا جو خون چھلکاتی نظروں سے اُسی کی جانِب دیکھ رہا تھا۔ اُس کا ننھا سا دِل سہم کے رہ گیا۔


جِن آنکھوں میں اُس نے ہمیشہ محبت دیکھنے کی خواہش کی تھی اُن آنکھوں میں اُسے نفرت، غُصّہ، حقارت اور انا نظر آئی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں جھانکتی ساکت کھڑی تھی۔


"ساتھ میں چلتے ہیں بس تھوڑی سی بات کرنی ہے آنٹی جی سے اپنی لٹل پرنسز کے بارے میں۔" وجدان نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہا۔


"تُم کرو اپنی پرنسز کے بارے میں بات میں یہاں رہا تو حالات خراب ہو جائیں گے۔" وہ غُصّے سے کہتا اُس کا ہاتھ اپنے کندھے سے جھٹکتا وہاں سے نِکلتا چلا گیا۔


وہ آندھی طوفان کی طرح باہر کی طرف بڑھ رہا تھا جب کوئی اُس سے ٹکرا گیا اِس سے پہلے کہ مقابل نیچے گِرتا وہ اُسے بچانے کی غرض سے کندھوں سے تھام گیا۔ سامنے دیکھا تو کوئی لڑکی کھڑی اُس کی طرف یک ٹک دیکھ رہی تھی۔


اُس لڑکی کی آنکھیں اپنے چہرے پہ مرکوز پا کر وہ ایک جھٹکے سے اُسے چھوڑتا پیچھے ہوا کہ وہ دیوار سے لگتی لگتی بچی۔


وہ اُسے گھورتا گاڑی میں بیٹھ کر زن سے گاڑی بھگا لے گیا۔


جبکہ دیوار کے ساتھ لگی مشعل ابھی تک اُس کے سحر میں کھوئی تھی۔ اُس نے زندگی میں کبھی اِتنا مُکمّل مرد نہیں دیکھا تھا۔ اُس کا دِل بے اختیار دھڑکا تھا وہ اُس کی ظاہری شخصیت سے بے حد مُتاثر ہوئی تھی اوپر سے اُس کا سٹائل اُس کا ایٹیٹیوڈ اُس کے دِل میں آگ لگا گیا تھا۔


پیار محبّت سے اُس کا دور دور تک واسطہ نہیں تھا۔ داؤد کے برینڈڈ کپڑے گاڑی اور اُس کی شخصیت نے اُس کے دِل میں ایک عجیب خواہش جگائی تھی اور وہ اُسے اپنی ملکیت سمجھتے گہری مُسکراہٹ لیے اندر کی طرف بڑھ گئی تھی۔


*****************

وجدان داؤد کے انداز پر ہکّا بکّا رہ گیا تھا وہ خود کو کمپوذ کرتے ہوئے معصومہ کی طرف مُڑا اور اُسے بیٹھنے کا اِشارہ کیا۔


مگر معصومہ بیٹھنے کی بجائے غائب دماغی سے اُس کی طرف دیکھتی اُس کی خاطر مدارت کی غرض سے کچن کی طرف چلی گئی بیگ وہ صوفے پر رکھ چُکی تھی جبکہ یونیفارم ابھی چینج نہیں کیا تھا۔


"معاف کیجیے گا وہ میرا دوست ہے اُسے شاید کوئی ضروری کام تھا۔" وجدان نے معذرت کی۔


"کوئی بات نہیں تُم بیٹھو۔" روحان نے کہا تو وہ صوفے پر بیٹھ گیا


روحان اور فرزانہ بیگم اُس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔ تبھی مشعل لاونج میں داخل ہوئی اور وجدان پر نظر پڑتے ہی اُس نے بُرا سا منہ بنایا۔


فرزانہ بیگم اُسے اپنے اِرادے سے باخبر کر چُکیں تھیں اور اُسے دوٹوک انداز میں یہ بات اپنے دماغ میں بٹھانے کو بھی کہہ دِیا تھا۔ مگر اُسے وجدان اور اُس سے شادی میں کوئی انٹرسٹ نہ تھا۔


ایسا نہیں تھا کہ وہ ہینڈسم نہیں تھا یا غریب تھا وہ پڑھا لِکھا باشعور، سُلجھا ہوا اور کافی امیر تھا۔


مگر پہلے وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی اور اب اگر اُسے شادی کرنی تھی تو ابھی کُچھ دیر اپنے پاس سے گُزر کر جانے والے داؤد سے کرنی تھی۔ اُس نے بے اختیار وجدان اور داؤد کا موازنہ کیا۔


کالی آنکھیں، کالے ہی بال، ہلکی ہلکی نفاست سے تراشی گئی بیئرڈ، ستواں ناک، گندمی رنگت اور ورزشی جِسم کا حامِل وجدان بہت ہینڈسم تھا مگر اُس کی آنکھوں میں داؤد کا سراپہ لہرایا تو اُس نے وجدان کی طرف دیکھتے نخوت سے ناک چڑھائی۔


وہ اُن کے پاس پہنچ کر سلام کرتے لاونج میں ہی بیٹھ گئی۔


"ارے لگتا ہے پیدل چل کر آئیں ہیں آپ چہرہ تو دیکھیں کیسے سُرخ ہو رہا ہے آپکا۔" وجدان نے اُس کے نخوت زدہ چہرے پہ نظریں جمائے کہا۔


"میں کیوں پیدل چل کر آوں گی؟ ماما نے وین لگوا رکھی ہے میرے لیے۔ اب اِتنی گرمی میں کالج سے گھر پیدل کون آتا پِھرے۔ صرف گرمی ہی کیا میں تو سردیوں میں بھی وین پہ ہی جاتی ہوں۔" اُس نے ناک چڑھاتے کہا۔


"ہاں بیٹا اب زمانہ تھوڑی ایسا ہے کہ بیٹیوں کو اکیلے باہر بھیجا جائے۔" اب کی بار فرزانہ بیگم نے کہا۔ جبکہ روحان چُپ بیٹھا تھا۔


"اوہ اچھا مگر معصومہ تو روز ہی پیدل آتی جاتی ہے پِھر اُسے کیوں نہیں وین لگوا کے دی کیا وہ آپکی بیٹی نہیں ہے یا آپ اُسے صرف اپنی نند کی بیٹی سمجھتی ہیں۔" وجدان نے حیرانی ظاہر کی۔


نن نہیں بیٹا اا ایسی تو کوئی بات نہیں ہے دراصل اُس کا کالج تو ساتھ میں ہی ہے اِتنا وقت نہیں لگتا اُسے آنے جانے میں جبکہ مشعل کا کالج تھوڑا دور ہے۔" فرزانہ بیگم وجدان کے سوال پہ گڑبڑا گئیں۔


"اچھا کون سے کالج جاتی ہیں آپ مشعل؟" وجدان کے پوچھنے پر مشعل نے اپنے کالج کا نام بتا دِیا۔


" آپ کا کالج تو معصومہ سے کافی قریب ہے صرف دس منٹ لگتے ہیں جب کہ معصومہ کو جانے میں آدھا گھنٹہ لگتا ہے معاف کیجیے گا مگر معصومہ بھی آپ کی بیٹی جیسی ہے اور مشعل کی ہم عمر بھی آپ نے خود ہی کہا کہ آج کل زمانہ ٹھیک نہیں اور معصومہ تو روز ہی اِس خراب زمانے میں پیدل آتی جاتی ہے۔" وجدان نے فرزانہ بیگم کی طرف تند نظروں سے دیکھتے کہا۔ جبکہ روحان شرمندگی سے سر جُھکا گیا۔


"نن نہیں بیٹا ہم نے تو بہت بار کہا ہے اُسے وین لگوا دیں مگر اُس نے خود ہی منع کر دیا۔ لو آگئی ہے خود ہی پوچھ لو۔" فرزانہ بیگم نے معصومہ کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کرتے وجدان سے کہا.


"جج جی مم میں نے ہی منع کر دیا تھا ویسے بھی مُجھے عادت ہو گئی ہے پیدل آنے جانےکی۔" معصومہ نے وجدان کے سامنے ریفریشمنٹ کا سامان رکھتے کہا۔


"نہیں لٹل پرنسز بات عادت کی نہیں ہے۔ اور ویسے بھی اچھا نہیں لگتا روز پیدل آنا جانا۔ اب تُمہیں بھی وین لگوا دیں گے ہے ناں آنٹی۔" اُس نے معصومہ کی طرف دیکھتے نرمی سے کہا اور تائیدی انداز میں فرزانہ بیگم کی طرف دیکھا۔


"ہہ ہاں بیٹا کیوں نہیں میں نے تو معصومہ کے ہی کہنے پہ نہیں لگوائی تھی۔" فرزانہ بیگم نے معصومہ کو گھورتے ہوئے کہا۔


"میں کل خود وین کا بندوبست کروا دوں گا۔" روحان نے بھی اپنی چُپ توڑتے کہا۔


"ہاں کیوں نہیں ویسے کب جا رہے ہو واپس؟" وجدان نے استفسار کیا۔


"بس دو دِن بعد ہی واپس جانا ہے کم ہی چُھٹی مِلی تھی۔" روحان نے اُس کی بات کا جواب دِیا۔

"چلیں ٹھیک ہے تو پھر میں چلتا ہوں۔" وجدان نے کھڑے ہوتے کہا۔


"ایسے کیسے بیٹا لنچ ہمارے ساتھ کرنا۔" فرزانہ بیگم نے لہجے میں شرینی لہجے میں سموئے کہا۔


"ارے جانے دیں نا امّی شاید ضروری کام ہو۔" مشعل نے مصنوعی مسکراہٹ سے کہا۔ جِس پہ فرزانہ بیگم اُسے گھور کر گئیں۔


"جی آنٹی بہت ضروری کام ہے چلتا ہوں پھر کبھی آوں گا۔" وہ مشعل کے چہرے پہ بیزاری کے تاثرات دیکھتا معصومہ کی طرف مسکراہٹ اچھالتا باہر کی طرف بڑھا۔


"چلو تُمہیں دروازے تک چھوڑ آتا ہوں۔" روحان کہتے ہوئے اُس کے ساتھ باہر نِکل گیا۔


*****************


"یہ تُم کِس کِس کے ساتھ گھومتی پِھرتی ہو کالج کے بہانے ہاں۔" وجدان کے جانے کا یقین ہوتے ہی وہ معصومہ کا بازو سختی سے پکڑتے بولیں۔جبکہ مشعل بیزاری سے اُٹھتے اپنے کمرے کی طرف چل دی۔


"نن نہیں ممانی جان وہ دراصل میں گھر آرہی تھی تو وہ ہی مُجھے دیکھ کے میرے پاس آئے تھے اور کہا کہ گھر چھوڑ دیتا ہوں۔" معصومہ نے اُن کے خطرناک تیور دیکھتے کہا۔


"سب جانتی ہوں میں تُمہاری معصومیت کے پیچھے جو کالا گھناونا چہرہ چھُپا ہے سب جانتی ہوں۔ جیسی ماں تھی ویسی ہی بیٹی ہے آخر خون کا کُچھ تو اثر ہونا ہی تھا۔" فرزانہ بیگم نے جھٹکے سے اُس کا بازو چھوڑتے تلخی سے کہا کہ وہ گِرتے گِرتے بچی۔


"مُجھے جو کہنا ہے کہہ لیں مگر میری مری ہوئی ماں کو بیچ میں مت لائیں۔" معصومہ اُن کی بات سُن کے تڑپ اُٹھی تھی۔ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اُنہوں نے اُسے اُس کی ماں کا حوالہ دِیا تھا ورنہ اِس گھر میں اُن کا ذِکر معصومہ لے دِل کے علاوہ کہیں نہیں ہوتا تھا۔


"اب تُم مُجھے بتاؤ گی کِسے بیچ میں لانا ہے اور کِسے نہیں اوقات ہے تُمہاری۔ مردوں کو اپنے پیچھے لگانے والی بے حیا لڑکی۔" فرزانہ بیگم کے لہجے میں اُس کے لیے نفرت کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔


"بس کر دیں امّی کیا ہو گیا ہے کِس بات کا غُصہ اُتار رہیں ہیں آپ اِس پر۔" روحان جو ابھی اندر آیا تھا اُن کے پاس آتے معصومہ کو اپنے پیچھے چُھپا گیا۔


"پوچھو اِس کم ذات سے کہاں سے آئی ہے اُس کے ساتھ۔ اِسے شرم نہ غیر مردوں کے ساتھ گھر آتے لوگ کِتنی باتیں کریں گے اِس کی فِکر ہے اِسے۔" فرزانہ بیگم نے تندہی سے کہا جِس پہ معصومہ سہم سی گئی۔


"کہیں سے نہیں آئی ہے یہ۔ وجدان نے مُجھے سب بتا دیا ہے کہ راستے میں دھوپ میں پیدل گھر جاتی ملی تھی اُسے۔ اور آپ مشعل کے لیے وین لگوا سکتی ہیں تو معصومہ کے لیے کیوں نہیں؟ اِس کا کالج تو مشعل سے بھی دور ہے۔" اچھی طرح جانتی ہوں میں اِس کی فِطرت کو۔ اور اِس کا باپ کمائی نہیں دیتا جو اِس کے لیے اضافی خرچے کرتی رہوں۔" فرزانہ بیگم کے لہجے میں حقارت تھی۔


" باپ نہیں دیتا تو اِس کا ماموں ہے اور اِس کا بھائی بھی ہے۔ اگر اِتنی کمائی سے کُچھ پیسے اِس پر خرچ کر دیں گی تو کمی نہیں آجائے گی۔" روحان نے اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی۔


"آجائے گی کمی۔ اور تُم اِس کی طرف داری کرنا بند کرو۔ ورنہ مُجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا۔" فرزانہ بیگم نے معصومہ کو گھورتے ہوئے کہا جو رو رہی تھی۔

"تُم کمرے میں جاؤ" روحان نے اُن کی بات کو نظر انداز کرتے معصومہ سے کہا۔


اُس کی بات سُن کے وہ صوفے سے بیگ اُٹھاتی آنکھوں میں آنسو لیے کمرے کی طرف بھاگ گئی۔

کمرے میں آکر وہ بیگ ایک طرف پھینکتی بیڈ کی پائنتی سے ٹیک لگا کے ذمین پر بیٹھ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔


فرزانہ بیگم اُسے ناپسند کرتیں تھیں یہ وہ جانتی تھی مگر اِتنی حقارت اور اِتنی کرواہٹ بھری تھی اُن کے اندر اُس کے لے اِس بات کا اندازہ نہیں تھا اُسے۔

بچپن سے لے کر آج تک وہ اُن کی ہر جائز ناجائز بات مانتی آئی اِس اُمید پر کہ شاید ایک دِن اُنکا رویہ اُس کے ساتھ ٹھیک ہوجائے۔ اُن کی کِسی بات ہر اُف تک نہیں کی تھی۔ مگر آج اُنہوں نے اُس کے کردار پر اُنگلی اُٹھا دی تھی۔


اُس کی مری ہوئی ماں کو نہیں بخشا تھا اُنہوں نے۔ صرف اِس لیے کہ وہ ایک غیر کے ساتھ گھر آئی تھی لیکن اِس میں بھی اُس کا قصور تو نہیں تھا۔ وجدان نے خود اُسے فورس کیا تھا اپنے ساتھ جانے کے لیے۔


کِتنا خوش تھی وہ آج۔ جِس انسان کے اُس نے صرف خواب دیکھے تھے اُس کے ساتھ سفر کر کے آئی تھی وہ۔ دس منٹ ہی سہی مگر اُس کی سنگت میں گُزار کے اُس کا دِل خوش ہوا تھا۔


مگر آج اُس کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت، حقارت اور غُصّہ دیکھ کے اُس کا دِل ڈوب سا گیا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ وہ اُسے اِتنی سرد نگاہوں سے کیوں دیکھ رہا تھا۔


ابھی وہ اِس غم سے باھر بھی نہیں آئی تھی کہ فرزانہ بیگم کے الزاموں نے اُسے نیا دُکھ دے دیا تھا۔


اُس کا دِل ایک بار پھر بھر آیا تھا۔ وہ اُٹھتی الماری کی طرف بڑھی۔ اور اپنے ماں باپ کی تصویر نِکال کر اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر پھر زمین پر بیٹھ گئی۔


" کیا میری زندگی میں کبھی خوشی نہیں آئے گی؟ میں ہمشہ خالی ہاتھ رہوں گی؟ کیا میرا خوشیوں پر کوئی حق نہیں ہے؟ مُجھے کبھی سمجھ ہی نہیں آئی کہ ممانی جان مُجھ سے اِتنی نفرت کیوں کرتی ہیں؟ پہلے وہ صرف مُجھے بُرا بھلا کہتی تھیں اب میری ماں کو بھی کہنا شروع کر دیا ہے۔ آپ کے بارے میں ایسا کیوں کہتے ہیں ماما؟ اور وہ جس کے آج تک خواب بُنتی آئی ہوں اپنی آنکھوں میں۔ اُسی کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت دیکھی ہے۔


کیوں کرتے ہیں وہ مُجھ سے نفرت؟ کیا میں اِتنی حقیر ہوں کہ کوئی لفظوں سے میری ذات کو دو کوڑی کا کر دیتا ہے اور کوئی صرف نظروں سے؟ میرے نصیب میں ہی اِتنی اُداسیاں کیوں ہیں؟ میں ہی کیوں؟" میرے نصیب میں خوشیوں کی بارش کب ہو گی؟" انگنت سوال تھے جو اُس نے اپنے ماں باپ کی تصویر سے کیے تھے۔


مگر جواب کِسی ایک کا بھی نہیں مِلا تھا۔ اور یہ جواب اُسے صرف وقت نے دینے تھے یہ بات صرف خدا جانتا تھا۔


جب وہ رو رو کر ہلکان ہوگئی تو کپڑے نِکال کر باتھ روم میں گُھس گئی۔ پندرہ منٹ بعد ٹھنڈے پانی سے شاور لے کے وہ باہر آئی۔ اور ڈریسنگ کے سامنے کھڑی اپنے لمبے کالے بال سُلجھانے لگی۔


رونے سے اُس کی آنکھیں سوجھ گئیں تھیں۔ بالوں کی چُٹیا بنا کر وہ بیڈ پر لیٹ گئی۔


اور آنکھیں موند لیں رونے کی وجہ سے اُس کا سر بھاری ہو رہا تھا۔ جلد ہی وہ نیند کی وادیوں میں اُتر گئی تھی۔


***************


وہ گاڑی دوڑاتا ہواوں سے باتیں کرتا گھر پہنچا تھا۔ وہ سیدھا اپنے کمرے میں گُھسا تھا۔

کمرے کا دروازہ زور سے بند کرتے وہ ڈریسنگ کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔ اور اپنی سُرل اشتعال سے بھری نیلی آنکھیں دیکھنے لگا تھا۔


"کیسے کیسے کیسے۔ اِتنی بڑی غلطی کیسے کر دی میں نے؟ حِس لڑکی کو میں دیکھنا تک نہیں چاہتا جِس سے نفرت کے دعوے کرتا ہوں جِسے اپنے سامنے آنے پہ مار دینا چاہتا ہوں آج میں خود اُسی کے گھر پہنچ گیا۔ نہ صرف گھر پہنچ گیا۔ اُس کا چہرہ دیکھنے کی خواہش کی۔ اُس کے بالوں کی نرمی محسوس کرنے کی خواہش کی۔ ہاو کُڈ یو ڈو دس داؤد سِکندر؟" آئینے پہ زور سے مُکاّ مارتے جیسے وہ خود پہ غُصہ نِکال رہا تھا۔


خون۔اُس کے ہاتھ سے بہنا شروع ہوا تھا اور ٹپ ٹپ کرتا نیچے گِر رہا تھا مگر اُسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔ یہ خود کو دی جانے والی چھوٹی سی سزا تھی جو اُس نے اپنے ہاتھ سے اُس کے بالوں کو چھونے کی خواہش کی تھی۔


"اِس بار تو تُم بچ گئی کیونکہ تُم میرے نہیں میں تُمہارے سامنے آگیا تھا مگر اگلی بار نہیں۔" اُس نے اپنے ہاتھ پہ نظریں جمائے بڑبڑاتے کہا تھا۔


"میری زندگی کا یہ باب شاید تُمہاری موت سے بند ہو گا جہاں جاتا ہوں آسیب کی طرح پیچھے آجاتی ہو۔" وہ بڑبڑاتا جا رہا تھا۔


کوئی منظر اُس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا تھا اور اُس نے اذیت سے آنکھیں موند لیں تھیں۔


"کبھی معاف نہیں کروں گا تُمہیں کبھی نہیں۔" اُس کے ہاتھ سے خون بہنا بند ہو گیا تھا۔ بغیر ڈریسنگ کیے وہ کپڑے لیتا باتھ روم میں گُھس گیا تھا۔


چینج کر کے وہ باہر آیا تو سادہ سا ٹراوزر اور شرٹ پہن رکھی تھی۔

ابھی وہ بیڈ ہر بیٹھا ہی تھا۔ جب اُس کا فون چنگھاڑ اُٹھا۔


یس؟ اُس کی آواز میں سنجیدگی تھی۔


"تُجھے زرا شرم نہیں آئی تُجھے پتہ تھا میں تیرے ساتھ وہاں گیا ہوں پھر بھی اکیلا چھوڑ کر بھاگ آیا اور لنچ بھی نہیں کروایا۔ ٹیکسی کے ذریعے گھر پہنچا ہوں پاگل آدمی۔". اُس کے فون اُٹھاتے ہی وجدان کے کوسنے شروع ہو چُکے تھے۔


"مُجھے پتہ ہوتا تو کہاں جا رہا ہے تو مر کر بھی نہ جاتا اب میں مصروف ہوں ڈسٹرب مت کرنا۔" کہتے ہی وہ ٹھک سے فون رکھ چُکا تھا۔ اور دوسری طرف وجدان ہیلو ہیلو کرتا رہ گیا تھا۔


****************

وہ سو کر اُٹھی تو شام کے سات بج رہے تھے وہ ہڑبڑاتی منہ ہاتھ دھوتی باہر کی طرف لپکی۔


وہ کِچن میں پہنچی تو فرزانہ بیگم رات کا کھانا بنا رہی تھیں۔ اُسے کِچن میں آتے دیکھ کر وہ نخوت سے ناک چڑھا گئیں۔


"اُٹھ گئی مہارانی۔ ہوش آ ہی گیا ہے تو یہ سلاد بناو اور کھانا تقریباً بن ہی چُکا ہے باہر ٹیبل پر لگاؤ۔" اُنہوں نے تیکھے چتونوں سے اُسے گھورتے کہا۔


"جج جی۔" وہ کہتی سلاد بنانے لگی۔ پندرہ منٹ بعد اُس نے برتن لگانے شروع کر دیئے۔


اُس کے برتن لگانے تک سبھی ڈائیننگ ٹیبل پر آگئے تھے اور کھانا شروع بھی کر چُکے تھے۔


"معصومہ بیٹھ جاؤ اور کھانا کھاو سب خود ہی لے لیں گے جو چاہیے ہو گا۔" روحان نے اُسے سب کو سرو کرتے دیکھ کر کہا۔


"بعد میں بیٹھنا پہلے اندر سے دو پلیٹیں اور چمچ لے کے آو۔" اِس سے پہلے کہ معصومہ بیٹھتی فرزانہ بیگم کا فرمان جارہ ہو چُکا تھا۔ معصومہ دِل مسوس کر رہ گئی اور کچن کی جانِب چل دی۔


فرزانہ بیگم وقفے وقفے سے کِسی نہ کِسی کام کے بہانے اُسے اُٹھاتی رہیں کہ وہ اُن کے ساتھ بیٹھ کر سکون سے کھانا بھی نہیں کھا پائی۔ جبکہ اپنی ماں کے تیور دیکھ کر روحان کُچھ بول ہی نہ سکا اور رہے رفیق صاحب تو وہ اُن کی پہلے بھی نہیں مانتی تھیں۔


سب کھانا کھا کر اُٹھ گئے تو معصومہ نے کچن میں جا کر چند لقمے زہر مار کیے۔ آج ہوئے واقعے کی وجہ سے اُسے بھوک بھی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔

کھانا کھا کے وہ برتن دھونے لگی۔ پھر کچن کی صفائی کی اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگی جب مشعل وہاں آئی۔


"ایک مگ دودھ گرم کر دو سر میں بہت درد ہے۔" وہ اُسے حُکم دیتی واپس جا چُکی تھی جبکہ معصومہ بھیگتی پلکوں اور بھاری ہوتے دِل سے اُس کے لیے دودھ گرم کرنے لگی۔


دودھ گرم کر کے وہ اُس کے کمرے میں جانے لگی۔


جب اندر سے آتی آواز سُن کے رُک گئی۔


"ارے یار کیا بتاؤں کِتنا ہینڈسم تھا وہ۔ اُسے دیکھ کے مُجھے لگا کہ میرا شادی نہ کرنے کا فیصلہ کِتنا غلط تھا اور اب جبکہ مُجھے میرا آئیڈیل مِل ہی گیا ہے تو میں اُسی سے شادی کروں گی۔" مشعل پُرجوش لہجے میں کہہ رہی تھی۔


"اب اُس کے دِل میں اپنی جگہ بنا کے رہوں گی۔ شادی تو اُس کے اچھے بھی کریں گے مُجھ سے۔ مشعل نام ہے میرا کوئی چیز پسند آجائے تو اُسے حاصل کر کے ہی چھوڑتی ہوں پِھر چاہے مُجھے کِسی سے چھیننی بھی پڑے۔" دوسری طرف کی بات سُن کے اُس نے فخریہ انداز میں کہا۔


"ہاں ہاں جانتی ہوں۔ داؤد سِکندر نام ہے اُس کا آپی سے پوچھا تھا ارحم بھائی کا دوست ہے وہ۔ بہت جلد میرے نام کے آگے بھی داؤد سِکندر لگ جائے گا جب میری اُس سے شادی ہوجائے گی۔"


مشعل کی بات سُن کے معصومہ کو لگا جیسے اُس کی کوئی قیمیتی چیز اُس سے چھینی جا رہی ہو۔ اُس کے دِل میں خوف نے ہلچل مچائی تھی۔


آنکھوں میں یکدم آنسو آئے تھے۔ اُس کا دِل کیا دودھ کا مگ پھینکے اور اپنے کمرے میں جا کے دھاڑیں مار مار کر روئے۔


مگر وہ ایسا کر نہیں پائی خود کو سنبھالتی وہ ناک کرنے لگی۔کُچھ دیر بعد مشعل نے دروازہ کھولا اور مگ پکڑ کے ٹھک سے دروازہ اُس کے منہ پہ بند کر دیا۔


وہ بوجھل ہوتے دِل کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔ کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کیا اور الماری سے اپنی سکیچ بُک نِکالنے لگی۔


آنکھوں سے آنسو لگاتا بہہ رہے تھے۔ دِل میں ہلچل مچِ ہوئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے دِل کو کوئی نوچ رہا ہو اور اُس میں سے قطرہ قطرہ خون رِس رہا ہو۔


اُس نے پہلا صفحہ کھولا جِس پہ نیلی آنکھیں بنی ہوئیں تھیں۔ سکیچ میں آنکھوں میں بلیو کلر کیا گیا تھا۔ نیچے معصومہ جہانگیر لِکھا ہوا تھا اور اُس دِن کی ڈیٹ بھی لکھی تھی جِس دِن اُس نے سکیچ بنایا تھا۔ وہ ایک کر کے صفحے پلٹتی گئی ہر صفحے پر سکیچ موجود تھا۔ کِسی سکیچ میں صرف آنکھیں بنائی گئیں تھِں کِسی میں آنکھوں کے ساتھ بُھنویں بھی۔ پوری نوٹ بُک سکیچز سے بھری تھی ہر سکیچ کے نیچے اُس کا نام اور ڈیٹ موجود تھی۔


اُسے بچپن سے سکیچنگ کا شوق تھا اور اُس میں ہُنر بھی تھا وہ بہت اچھے اور زبردست سکیچ بناتی تھی۔


مگر یہ بات آن کے عِلاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ معصومہ کو آرٹ سے کِتنا لگاؤ ہے۔ وہ آرٹسٹ بننا چاہتی تھی مگر وہ کِسی سے کہہ نہیں پائی کہ اُسے آرٹسٹ بننا ہے۔ اور ماموں کے کہنے پہ ہی اُس نے بی ایس سی میں ایڈمیشن لیا تھا اور اب اُس کا آخری سال چل رہا تھا۔


اُس نے پینسل نِکالی اور سکیچنگ کرنا شروع کر دی اُس کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے۔ آنکھوں میں آنسو دِل میں درد لیے وہ دُکھ کی اِنتہا پہ تھی۔


آنکھیں، ناک، ہونٹ، گال، ہر ہر چیز وہ مہارت اور دلجمی سے بنا رہی تھی. ایک گھنٹے سے وہ ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی تھی اِردگِرد سے بے نیاز وہ اپنے سکیچ میں مصروف تھی۔


ڈیڑھ گھنٹے بعد اُس نے سکیچ سے سر اُٹھایا۔ اور سکیچ کو اپنے سامنے کیا۔ سکیچ پورا ہو چکا تھا۔


داؤد کا وجیہہ چہرہ اُس کے سکیچ میں نظر آرہا تھا۔ کلر کی مدد سے اُس نے اُس کی آنکھوں میں نیلا رنگ بھر دیا تھا۔ مگر اِس سکیچ میں اور پہلے سارے سکیچز میں ایک فرق تھا۔


اُس کے پہلے سکیچیز سادہ تھے جِس میں داؤد کی آنکھوں میں سادگی تھی۔ مگر اِس سکیچ میں معصومہ نے داؤد کی آنکھوں میں ہر وہ تاثر بھر دِیا تھا جو اُس نے داؤد کی آنکھوں میں اپنے لیے دیکھا تھا نفرت، حقارت، غُصہ یہ تینوں چیزیں اِس سکیچ میں داؤد کی آنکھوں میں موجود تھیں۔ چہرے کے تاثرات بھی سپاٹ بنائے تھے جیسے وہ بے حِس ہو۔


اُس نے سکیچ کے نیچے اپنا نام لِکھا اور آج کی ڈیٹ ڈال دی۔ ایک نظر اُس نے سکیچ کو دیکھا اور پھر نم آنکھوں سے وہ اپنے دِل میں پنپتے الفاظ سکیچ کے ایک طرف بچی جگہ پہ اُتارنے لگی۔۔۔۔


چل پیر سائیں کوئی آیّت پُھونک

کوئی ایسا اِسمِ اعظم پڑھ

وہ آنکھیں میری ہو جائیں

کوئی صوم صلوٰۃ دُرُود بتا


کہ وجّد وُجُود میں آ جائے

کوئی تسبیح ہو کوئی چِلا ہو

کوئی وِرد بتا وہ آن ملے

مُجھے جینے کا سامان ملے


گر نہیں تو میری عرضی مان

مُجھے مانگنے کا ہی ڈھنگ سِکھا

کہ اشّک بہیں میرے سجّدوں میں

اور ہونٹ تھرا تھر کانپیں بّس

میری خاموشی کو بھّید مِلے


کوئی حرف ادا نہ ہو لیکن

میری ہر اِک آہ کا شور وہاں سرِ عرش مچّے

میرے اشکوں میں کوئی رنگ مِلا

میرے خالی پن میں پُھول کِھلا

مُجھے یار ملا سرکار ملا


اے مالک و مُلک، اے شاہ سائیں

مُجھے اور نہ کوئی چاہ سائیں

مری عرضی مان، نہ خالی موڑ

مُجھے مان بہت مرا مان نہ توڑ

چل پیر سائیں کوئی آیّت پُھونک


کوئی ایسا اِسمِ اعظم پڑھ

وہ آنکھیں میری ہوجائیں ۔

کوئی ایسا جادو ٹونہ کر۔

مرے عشق میں وہ دیوانہ ہو۔

یوں الٹ پلٹ کر گردش کی۔

میں شمع، وہ پروانہ ہو۔


زرا دیکھ کے چال ستاروں کی۔

کوئی زائچہ کھینچ قلندر سا

کوئی ایسا جنتر منتر پڑھ۔

جو کر دے بخت سکندر سا


کوئی چلہ ایسا کاٹ کہ پھر۔

کوئی اسکی کاٹ نہ کر پائے ۔

کوئی ایسا دے تعویز مجھے۔

وہ مجھ پر عاشق ہو جائے۔۔


کوئی فال نکال کرشمہ گر ۔

مری راہ میں پھول گلاب آئیں۔

کوئی پانی پھوک کے دے ایسا۔

وہ پئے تو میرے خواب آئیں۔


کوئی ایسا کالا جادو کر

جو جگمگ کر دے میرے دن۔

وہ کہے مبارک جلدی آ ۔

اب جیا نہ جائے تیرے بن۔


کوئی ایسی رہ پہ ڈال مجھے ۔

جس رہ سے وہ دلدار ملے۔

کوئی تسبیح دم درود بتا ۔

جسے پڑھوں تو میرا یار ملے


کوئی قابو کر بے قابو جن۔

کوئی سانپ نکال پٹاری سے

کوئی دھاگہ کھینچ پراندے کا

کوئی منکا اکشا دھاری سے ۔


کوئی ایسا بول سکھا دے نا۔

وہ سمجھے خوش گفتار ہوں میں۔

کوئی ایسا عمل کرا مجھ سے ۔

وہ جانے ، جان نثار ہوں میں۔


کوئی ڈھونڈھ کے وہ کستوری لا۔

اسے لگے میں چاند کے جیسا ہوں ۔

جو مرضی میرے یار کی ہے۔

اسے لگے میں بالکل ویسا ہوں۔


کوئی ایسا اسم اعظم پڑھ۔

جو اشک بہا دے سجدوں میں۔

اور جیسے تیرا دعوی ہے

محبوب ہو میرے قدموں میں ۔


پر عامل رک، اک بات کہوں۔

یہ قدموں والی بات ہے کیا ؟

محبوب تو ہے سر آنکھوں پر۔

مجھ پتھر کی اوقات ہے کیا۔


اور عامل سن یہ کام بدل۔

یہ کام بہت نقصان کا ہے۔

سب دھاگے اس کے ہاتھ میں ہیں۔

جو مالک کل جہان کا ہے۔۔!!!


پینسل رکھ کر وہ سکیچ ہر نظریں جمائے بے حس و حرکت بیٹھی تھی۔


"میری بھی سُن لے مالِک ۔ سب کُچھ تو آپ کے ہاتھ میں ہے۔ میری عرضی بھی سُن لے۔ آپ تو کِسی کا بھی دِل پلٹ سکتے ہیں۔ پِھر اگر میرا دِل داؤد سِکندر کے لیے بدلا ہے اگر میرے دِل میں داؤد سِکندر کی محبت رگوں میں دوڑتے خون کی مانِند ڈال دی ہے تو پِھر اُن کے دِل میں میرے لیے نفرت کیوں ڈال دی۔ ہم دونوں کے دِلوں میں ایک دوسرے کے لیے ایک دوسرے سے اُلٹ جذبات ڈال دئیے۔ کیوں ہے اُن کی آنکھوں میں میرے لیے نفرت کیوں؟ میں تو اُنہیں اچھی طرح جانتی بھی نہیں۔ پِھر میرے لیے اُن کی آنکھوں میں اِتنا غُصہ اِتنی حقارت کیوں۔ اُن کا دِل نہیں بدل سکتے تو میرا دِل بدل دیں اللّٰہ پاک۔ میرے دِل سے اُن کی محبت ختم کر دیں۔ اگر میرے دِل سے اُن کے لیے محبت ختم نہیں کرنی تو اُن کے دِل میں میرے لیے مُحبّت ڈال دیں۔ مُجھے بے بس نہ بنائیں اللّٰہ پاک۔ میری زندگی کی ڈور تو پہلے ہی دوسروں کے ہاتھ میں ہے۔ میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی میری جھولی میں ڈال دیں اللّٰہ پاک اگر وہ میرا نصیب نہیں ہیں تو مُجھے اِس راستے سے ہٹالے جو اُن تک جاتا ہے۔ شاید وہ مشعل کا نصیب ہوں۔" وہ داؤد سِکندر کے عِشق میں پاگل لڑکی خُدا سے اپنا دِل بدلنے کو کہہ رہی تھی جو کہ خُدا کے لیے ناممکن نہیں تھا۔ مگر شاید خُدا بھی اُس کے دِل میں یہ جذبہ ڈال کے اُسے آزمانا چاہتا تھا۔جب محبت سے آگے عِشق کا جذبہ دِل میں پیدا ہو جائے تو وہ کبھی دِل سے نہیں نِکلتا یہ بات ابھی وہ معصوم لڑکی نہیں جانتی تھی۔


اُس نے سکیچ بُک الماری میں رکھی اور بیڈ پر لیٹ گئی۔ نیند اُس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔


دل میں داؤد سِکندر کی نفرت بھری نِگاہیں اور دماغ میں مشعل کی باتیں گونج رہی تھیں۔ اُس نے آنکھیں موند لیں اور بازو آنکھوں پی رکھ کے سونے کی کوشش کرنے لگی۔


****************


داؤد سِکندر اِس وقت حویلی آیا تھا۔ اُس کا فلیٹ تو شہر میں موجود تھا جہاں وہ زیادہ تر رہتا تھا مگر اُس کا گھر روپ نگر میں تھا جو کہ شہر سے تھوڑی ہی دور تھا۔


اُس کا اپنا بزنس شہر میں تھا جبکہ گاؤں میں اُن کی کافی ذمینیں تھیں جو اُس کے والد اور چچا سنبھالتے تھے۔ گاؤں میں اُن کی شاندار حویلی اپنی پوری آب و تاب سے کھڑی تھی۔ اُس کا شہر سے گاؤں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ گھر بھر کا لاڈلہ تھا وہ۔


سِکندر صاحب کے دو ہی بچے تھے داؤد اور تحریم۔ سِکندر صاحب اور اُن کی بیوی حمدہ بیگم ایک نیک اور ترس دِل خاتون تھیں۔ اور اُن کی یہ خوبیاں اُن کی بیٹی میں بھی موجود تھیں۔


جبکہ داؤد غُصے میں اپنے دادا پر گیا تھا جو کہ حیات نہیں تھے۔ غُصے میں وہ آگے پیچھے کِسی کا لحاظ نہیں کرتا تھا سوائے اپنوں سے بڑوں کے۔


مگر ایسا نہیں تھا کہ وہ بہت غُصیل تھا۔ وہ خود سے جُڑے رِشتوں کے لیے بہت پوزیسو تھا۔ وہ جہاں اپنوں کے لیے نرم دل تھا وہاں اپنے دُشمنوں کے لیے اِنتہا کا سخت دِل یا پتھر دِل کہنا زیادہ مناسب تھا۔


سِکندر صاحب سے چھوٹے اُن کے ایک بھائی فراز اور بہن یاسمین تھیں۔ فراز صاحب کی بیوی زینب بیگم بھی حمدہ بیگم کی طرح نرم دِل خاتون تھیں۔


اُن کا ایک ہی بیٹا تھا حیدر جو کہ حریم کا شوہر بھی تھا۔ اُن کا نِکاح ایک سال پہلے حیدر کی پسند سے ہو گیا تھا تحریم کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا۔


رُخصتی حیدر کی سٹڈی کے بعد رکھی گئی تھی جو کہ ایم بی اے کر رہا تھا جبکہ تحریم نے ایم ایس سی کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی وہ تئیس سال کی تھی داؤد سے چار سال چھوٹی جِس میں داؤد کی جان تھی۔


یاسمین بیگم کے تین بچے تھے۔ احمر، فاطمہ اور سعد۔ احمر شادی شُدہ تھا جس کا ایک دو سال کا بیٹا تھا۔ فاطِمہ تحریم کی ہم عُمر تھی۔ اور اُس نے بھی ایم ایس سی کر رکھی تھی جبکہ سعد بائیس سال کا تھا اور کراچی یونیورسٹی سے بی کام کر رہا تھا اور زیادہ تر ہوسٹل میں ہی رہتا تھا۔


یاسمین بیگم کی شادی اُن کی تائی کے گھر ہوئی تھی جو کہ حویلی کے ساتھ ہی موجود تھا اور اِس طرح یاسمین بیگم اور اُن کے بچوں کا بھی حویلی آنا جانا لگا رہتا تھا۔ حمدہ بیگم اور زینب بیگم کی طرح یاسمین بیگم نرم مزاج بِالکل نہ تھیں۔

دوسروں کو دبا کے رکھنا اور اپنی باتیں منوانا اُن کا پسندیدہ مشغلہ تھا اور اُن کی یہی عادتیں اُن کی بچوں میں بھی مُنتقل ہوئیں تھیں۔


حلیمہ بیگم جو کہ داؤد کی دادی تھیں ابھی حیات تھیں اور آج بھی اُن کا رُعب اور دبدبہ پورے گھر پر قائم تھا۔ گھر میں سبھی اُن کی ایک دوسرے سے بڑھ کر عِزّت کرتے تھے۔ حلیمہ بیگم انصاف پسند اور بُرد بار شخصیت کی حامل خاتون تھیں۔ جِس وجہ سے پورا گاوں اُن کی عِزّت کرتا تھا۔


وہ لاونج کے صوفے پر صوفے کی بیک سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ جب تحریم وہاں آئی۔


"لالہ چائے۔" تحریم نے اُس کے سامنے چائے کا کپ کیا۔


"شُکریہ۔" داؤد نے کہتے چائے کا کپ تھاما۔


"کیسا رہا آپ کا سفر؟" تحریم۔نے اِستفسار کیا۔


"اچھا رہا گُڑیا۔" اُس نے نرمی سے جواب دِیا۔


"آپ کو پتہ ہے دادی سا کیا کہہ رہیں ہیں؟" اُس کا انداز سرگوشی لیے ہوئے تھا۔


"مُجھے کیسے پتہ ہو گا گُڑیا میں کونسا یہاں ہوتا ہوں۔" اُس نے مُسکراتے جواب دیا۔۔


"میں بتا دیتی ہوں۔ دادی سا اور امّو جان کا فیصلہ ہے کہ اب آپ کی شادی کی تیاری کی جائے۔" اُس نے داؤد کے چہرے ہہ نظریں جمائے کہا۔


اُس کی بات سُن کے داؤد کے منہ سے چائے فوارے کی صورت باہر آئی تھی۔


"آرام سے لالہ۔" تحریم گھبرا گئی۔


"میں ٹھیک ہوں۔" داؤد نے اُسے تسلی دی تو اُس نے سر ہلا دِیا۔


"دادی سا اور امّو جان سے میں خود بات کر لوں گا فی الحال تُم اپنی شادی کی تیاری کرو۔" وہ اُس کے سر پہ ہاتھ رکھتا وہاں سے چل دیا۔ جبکہ تحریم بے اختیار جھینپ سی گئی۔۔


**************

اگلے دِن اُس سے اُٹھا ہی نہ گیا بخار کی شدّت سے اُس کا جِسم تپ رہا تھا۔


رفیق صاحب کو معلوم ہوا تو اُنہوں نے ڈاکٹر کو گھر بُلا کر اُس کا چیک اپ کروایا۔


ڈاکٹر نے اُسے مکمل آرام اور ٹینشن فری رہنے کا مشورہ دیا اور کُچھ میڈیسن بھی لکھ دی۔


رفیق صاحب کی ہدایت پر فرزانہ بیگم نے اُسے کوئی کام نہیں کہا تھا مگر دِل میں اُسے کوسنے ضرور دیئے تھے آج شام کو روحان کی واپسی تھی اور فرزانہ بیگم کوئی بدمزگی نہیں چاہتیں تھیں اِس لیے چُپ تھیں۔


بخار کی وجہ سے وہ دو دِن کالج بھی نہیں جا پائی تھی نہ ہی اُس میں ہمّت تھی۔


وہ اب بھی کمرے میں لیٹی تھی اور خالی نظروں سے سامنے دیوار کو گھور رہی تھی۔


اُس کے ذہن میں اِس وقت کوئی سوچ نہیں تھی یوں لگتا تھا جذبات سے عاری ہوچُکی ہے۔ اُس نے اپنا فون بھی آف کر رکھا تھا۔


جانتی تھی کہ آن ضرور فون کرے گی اور اُس کی غیر حاضری کی وجہ پوچھے گی۔


اور اُس میں ہمّت نہیں تھی کہ وہ آن کو ساری بات اپنے منہ سے بتاتی مگر آن اُس سے سب کُچھ اگلوا سکتی تھی یہ بات بھی وہ جانتی تھی۔


******************


آن دو دِن تک اُس کا ویٹ کرتی رہی تھی مگر نہ ہی معصومہ کالج آئی تھی اور نہ ہی اُس کا فون لگ رہا تھا۔ اور اب اُس نے خود اُن کے گھر جانے کا فیصلہ کیا تھا۔


دس بج رہے تھے جب وہ ڈرائیور کے ساتھ اُس کے گھر پہنچی تھی۔ دروازہ ناک کر کے وہ اِنتظار کرنے لگی۔ دروازہ روحان نے کھولا تھا۔


اور اُس کی نظر سامنے کھڑی من موہنی سی صورت لیے آن پہ پڑی تھی۔ وہ اُسے دیکھ کے بس دیکھتا رہ گیا تھا۔


کالی بڑی بڑی گہری آنکھیں، چھوٹی سی ناک، تیکھے نین نقوش، گُلابی ہونٹ، صاف شفاف گوری رنگت پہ وائٹ کلر کا دوپٹہ اوڑھے، ریڈ اور وائٹ کلر کے کمبینیشن کا سوٹ پہنے، وہ سیدھی اُس کے دِل میں بغیر کِسی دستک بغیر کِسی اجازت داخل ہوگئی تھی۔


وہ اُسے پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ اور پہلی نظر میں وہ اُس کی محبت میں ڈوب گیا تھا۔


"اسلامُ علیکُم روحان بھائی!" اُس کے سلام کے بعد بھائی کہنے پر وہ ہوش کی دُنیا میں آیا تھا۔


"وو وعلیکُم سلام! جی آپ کون اور آپ مُجھے کیسے جانتی ہیں؟" اُس نے کڑوے ہوتے حلق کے ساتھ پوچھا تھا۔ اُس کا بھائی کہنا اُسے بُرا لگا تھا۔


"جی میں آن ہمدانی ہوں معصومہ کی دوست۔ اور میں نے معصومہ کے فون میں ہی آپ کی پِکچرز دیکھیں تھیں۔" اُس نے اپنا تعارُف کرواتے اُس کے سوال کا جواب دیا۔


"اوہ اچھا آپ ہیں آن۔ معصومہ سے ذِکر سُنا ہے آپ کا مگر کبھی آپ گھر نہیں آئیں تو اِس لیے آپ کو پہچان نہیں سکا۔" روحان نے حہرانی سے نِکلتے کہ۔ اُس نے معصومہ سے ہی اُس کا ذِکر سُن رکھا تھا کبھی اُسے دیکھا نہیں تھا اِسی لیے وہ اُسے پہچان نہیں پایا تھا۔


"جی دراصل آپ کی ماما کا رویہ جب معصومہ کے ساتھ اِتنا بُرا ہوتا ہے تو اُس کی دوست کے ساتھ کیسے اچھا ہو سکتا ہے اِسی لیے میں نہیں آتی کیونکہ میں اپنی دوست کو شرمندہ ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔" وہ اِنتہا کی صاف گو تھی اِس بات کا اندازہ روحان کو یو گیا تھا۔


"جج جی آپ آئیے اندر۔" روحان شرمندہ ہوتے اُسے اندر آنے کا راستہ دینے لگا۔ آن کی بات کا اُس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کیونکہ اُس کی بات سچ تھی۔


"جی شُکریہ۔" اُس کے شرمدگی سے بھرپور لہجے پہ وہ دِل ہی دِل میں مُسکراتی اندر کی جانِب بڑی تھی چلو ماں نہ سہی بیٹا ہی سہی کُچھ تو مومو کا بدلہ لوں سوری مومو جانتی ہوں تُمہیں اپنا یہ بھائی بہت عزیز ہے۔ اُس نے دِل ہی دِل میں معصومہ سے معافی مانگی۔


"آپ بیٹھیں۔ میں آپ کے لیے کُچھ منگواتا ہوں۔" اُس نے آن کو خاونج میں بیٹھنے کا اِشارہ کرتے کہا۔


"نہیں میں صرف معصومہ سے مِلنے آئی ہوں آپ مُجھے اُس کا کمرہ بتا دیں۔" آن نے کھڑے کھڑے ہی کہا تو وہ اُسے دیکھ کے رہ گیا جو تقریباً معصومہ کی ہم عمر تھی اور اُس سےکئی سال چھوٹی۔ مگر اِنتہا کی منہ پھٹ۔ یہ روحان کا خیال تھا۔


"آئیے میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں۔" روحان نے پیشکش کی اور معصومہ کے روم کی طرف بڑھا۔


"نہیں آپ مُجھے بتادیں معصومہ کا کمرہ کونسا ہے میں خود چلی جاؤں گی۔" اُس نے ایک بار پھر اِنکار کرتے کہا۔


"ٹھیک ہے۔ اوپر جا کر سامنے والا پہلا کمرہ اُسی کا ہے۔" روحان نے گہرا سانس بھرتےجواب دِیا۔


وہ اُس کا شُکریہ ادا کرتی اوپر کی طرف بڑھ گئی جبکہ روحان اُس کی پُشت دیکھ کر رہ گیا۔


"کِس پٹاکے سے دِل لگا لیا ہے روحان؟ یہ تو بینڈ بجا دے گی تیری پہلی نظر کی محبت کی۔" اُس کے جانے کے بعد وہ بڑبڑایا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔


مشعل تو کالج تھی جبکہ فرزانہ بیگم اپنے کمرے میں آرام کر رہیں تھیں۔


**************


اسلامُ علیکُم ! وہ کمرے میں داخل ہوا اور امّو جان اور بابا جان کے ہاتھ چومتا صوفے پر بیٹھ گیا۔


وعلیکُم سلام ! دونوں نے ایک ساتھ جواب دِیا۔

"آپ اِس وقت یہاں؟ خیریت تھی؟" بابا جان نے اِستفسار کیا۔


وہ کل ہی آیا تھا اور بغیر ضرورت وہ اُن کے کمرے میں کم ہی آتا تھا اِسی لیے وہ کُچھ حیران تھے۔


"جی خیریت ہی تھی دراصل آپ سے کُچھ بات کرنا تھی۔" اُس نے نرمی سے اُن کی بات کا جواب دِیا۔


" ہاں کہو ہم سُن رہے ہیں۔" اب کی بار حمدہ بیگم نے جواب دِیا۔


گُڑیا بتا رہی تھی کہ آپ لوگ میری شادی کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔" اُس نے بغیر کِسی تمہید کے پوچھا تو وہ دونوں اُس کی بات پہ مُسکرائے۔


"جی بالکُل ہم آپ کی شادی کے بارے میں ہی سوچ رہے تھے۔ آپ کی عُمر ہو چُکی ہے شادی کی اِسی لیے ہم نے ایسا سوچا۔" بابا جان نے اُس کے سوال کا جواب دِیا تو اُس نے لب بھینچ لیے۔


" معاف کیجیے گا بابا جان مگر ابھی مُجھے شادی نہیں کرنی۔" اُس نے دو ٹوک انداز میں معذرت کی۔


"کیا ہم وجہ جان سکتے ہیں؟" بابا جان نے نرمی سے اِستفسار کیا۔ اپنی اولاد پہ زبردستی اُن کی شخصیت کا خاصہ نہیں تھا۔


"میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا بابا جان ابھی میں اِس کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوں بس یہی وجہ ہے۔" اُس نے شادی نہ کرنے کی وجہ بیان کی۔

"تو ٹھیک ہی شادی نہ سہی ہم آپ کی منگنی کر دیتے ہیں۔ تب تک آپ خود کو تیار کر لیں شادی جب آپ کہیں گے تب کر لیں گے۔" حمدہ بیگم نے آسان سا حل پیش کیا۔


"اِتنی جلدی کیا ہے امّو جان؟ نا منگنی نہ شادی۔ فی الحال کُچھ نہیں۔" اُس نے دو ٹوک انداز میں صاف اِنکار کر دیا۔


"مگر داؤد بیٹا یہ تو کوئی وجہ نہیں ہوئی۔ ہم تو سوچ رہے تھے کہ فراز ویر جی سے آپ کے لیے فاطِمہ کا رِشتہ مانگ لیں۔" حمدہ بیگم نے اُس کا اِنکار سُنتے تاسُف سے کہا۔


"کیا؟ فاطِمہ سے؟ آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں امّو جان؟ وہ میرے لیے بالکُل تحریم کے جیسی ہے بالکل بہنوں جیسی۔ میں اُس سے کبھی شادی نہیں کر سکتا۔ میں نے اُسے ہمشہ بہن کی طرح جانا ہے۔ نہ آج نہ ہی آئیندہ کبھی میں فاطِمہ سے شادی کروں گا۔ بہتر ہو گا کہ آپ یہ خیال اپنے دِل سے نِکال دیں۔" داؤد نے فاطِمہ کا نام سُنتے ہی اُس نے جھٹ اِنکار کیا۔


"آپ کِسی کو پسند کرتے ہیں داؤد ؟ " بابا جان نے مشکوک نظروں سے اُسے گھورا۔


"نہیں بابا جان ایسی کوئی بات نہیں ہے میں کِسی کو پسند نہیں کرتا۔ اگر کِسی کو پسند کرتا تو سب سے پہلے آپ کو بتاتا اور عِزت و احترام سے اُسے نِکاح جیسے پاک رشتے میں باندھ کے سب کے سامنے رُخصت کروا کر یہاں لاتا۔" اُس نے اُن کی نظروں سے خفا ہوتے کہا۔


"تو پِھر کیا وجہ ہے آپ کے اِنکار کی؟" حمدہ بیگم نے خفگی سے پوچھا۔


"وجہ وہی ہے جو میں نے بتائی ہے۔ اور میں وعدہ کرتا ہوں بابا جان آپ جِس بھی لڑکی سے کہیں گے اُسی سے شادی کروں گا۔ مگر فاطِمہ سے نہیں۔" اُس نے بابا جان کے ہاتھ تھامتے کہا۔


"ٹھیک ہے جیسی آپ کی مرضی۔" بابا جان نے اُس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے کہا۔


"شُکریہ بابا جان۔" وہ اُن کا مشکور ہوا۔


"اب آپ نے تو منع کر دیا ہے شادی سے۔ تو اب تحریم کی شادی ہی کریں گے ورنہ ہم نے سوچا تھا کہ دونوں کی اکٹھی ہوجائے۔" حمدہ بیگم نے تبصرہ کیا۔


"کوئی بات نہیں اموجان میری شادی پِھر ہوجائے گی۔" اُس نے مُسکراتے کہا۔


"ٹھیک ہے پِھر تو اب دو ماہ بعد حیدر واپس آرہا ہے اُس کی واپسی پہ ہی شادی کی تاریخ رکھ لیں گے۔" بابا جان نے اُنہیں اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔


"جی بابا جان ٹھیک ہے۔ آپ لوگ آرام کریں میں چلتا ہوں۔" اُس نے باری باری اُن کے ہاتھ چومتے کہا جِس پہ وہ دونوں مُسکراتے اُس کی کامیابی کی دُعا کرنے لگے۔


وہ اُن سے رُخصت لے کے اپنے کمرے کی جانِب چل دیا۔


********************


آن اُس کے کمرے میں داخِل ہوئی تو کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ کھڑکی سے آتی سورج کی روشنی کمرے کو روشنی بخش رہی تھی اُس نے آگے بڑھ کر کمرے کی لائٹ آن کی اور معصومہ کی طرف بڑھی جو کروٹ کے بل لیٹی اِردگِرد سے بے خبر تھی۔


"مومو! میری جان ایسے کیوں لیٹی ہو میری طرف دیکھو۔" اُس نے معصومہ کا رُخ اپنی طرف کرتے پیار سے اُسے مُخاطِب کیا۔


آن کی آواز اپنے قریب سے سُن کر اُس نے حیرانی سے آنکھیں کھولیں اور اُسے اپنے سامنے پا کر وہ آنکھوں میں آنسو لیے اُس سے لپٹ گئی۔


"مومو کیا ہوا ہے تُم اِتنی کمزور کیوں لگ رہی ہو تُمہیں بُخار ہے کیا؟" اُس نے پریشانی سے اِستفسار کیا۔


"ہاں بُخار ہو گیا ہے اِسی لیے کالج نہیں آئی مگر تُم یہاں اچانک؟ " معصومہ نے دِل میں مچلتا سوال پوچھا۔


"ہاں میں اپنی مومو کو مِس کر رہی تھی اِس لیے اُس سے مِلنے آگئی۔ اور تُم نے اپنا فون بھی آف کر رکھا تھا تو میں پریشان ہو گئی تھی۔" آن نے اُس کا ہاتھ تھامتے کہا۔


"ہاں بس ایسے ہی بند کر دیا تھا۔" معصومہ نے نظریں چُراتے کہا۔


"اِدھر دیکھو میری طرف کیا چُھپا رہی ہو؟ بتاؤ کیا ہوا ہے؟" آن ۔ے اُس کو نظریں چُراتے دیکھ کر پوچھا۔ دوست تھی وہ اُس کی۔ اُس کے چہرے کے ہر رنگ ہر انداز کو پہچانتی تھی یہ کیسے ممکن تھا کہ اُس کی آنکھوں سے معصومہ کی اُداسی چُھپ جاتی۔


آن کے سوال پہ اُس کا ضبط چُھوٹا اور وہ آن کے گلے لگتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ آن اُس کی گِریہ وزاری پہ پریشان ہوگئی۔


"مومو کیا ہوا ہے میرا دِل ہول رہا ہے کُچھ تو بتاؤ پیاری لڑکی۔" آن نے اُسے پُچکارتے کہا۔


"آن وہ وہ اُس دِن نا میں وہاں سس سےآ رہی تت تھی تت تورر راست مم میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔" روتی بِلکتی اٹک اٹک کے کہتی وہ اُسے ایک ایک بات بتانے لگی۔


وجدان کا اُس سے ملنا، اُن کا گھر آنا داؤد کا اُسے نفرت بھری نِگاہوں سے دیکھنا، فرزانہ بیگم کا رویہ اور مشعل کی ساری باتیں اُس نے آن کے گوش گُزار دیں۔


"میرے خواب کبھی حقیقت نہیں ہوں گے آن۔ میں ہمیشہ خالی دامن رہ جاؤں گی۔ میرے مقدر میں بس تکلیفیں اور اُداسیاں ہی لکھیں ہیں۔ میرے حصے کی خوشیاں کبھی میری جھولی میں نہیں گِریں گی۔" وہ حد سے زیادہ دِل برداشتہ تھی اِس بات کا اندازہ آن کو اُس کی باتوں سے ہو چُکا تھا۔


"ایسا کُچھ نہیں ہو گا مومی۔ تُمہاری دوست ابھی زندہ ہے۔ کِسی کو تُمہارا حق نہیں مارنے دوں گی۔ تُمہارے حِصے کی خوشیاں تُمہاری جھولی میں گِریں گی۔ تُمہاری زندگی میں بھی خوشی کے دِن آئیں گے۔ ہمیشہ رات کا اندھیرا نہیں رہتا رات کے بعد دِن کی روشنی بھی پھیلتی ہے۔" آن نے اُس کی کمر سہلاتے اُسے حوصلہ دیا۔


معصومہ اُس کے گلے لگی سِسکیاں بھرتی اپنا غم ہلکا کرتی رہی اور آن اُسے حوصلہ دیتی رہی۔


پھر آن کافی دیر وہاں بیٹھی اُس کا دِل بہلاتی رہی۔

دو گھنٹے اُس کے ساتھ گُزار کر وہ اُسے جلد ٹھیک ہو کے کالج آنے کا کہہ کر اپنے گھر کے لیے نِکل گئی۔


******************

وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا رات کے آٹھ بج رہے تھے سب ہی رات کا کھانا کھا کر اپنے اپنے کمروں کی طرف چل دیئے تھے۔


اپنے کمرے میں داخل ہو کر اُس نے دروازہ بند کرنا چاہا جب کِسی نے دروازے کے آگے ہاتھ کر کے اُسے ایسا کرنے سے روک دیا۔


"یہ کیا بدتمیزی ہے؟" اُس نے آنے والے کی طرف دیکھ کے غُصّے سے پوچھا۔


"سوری۔ میں آپ سے کل سے مِل نہیں پائی اِسی لیے یہاں چلی آئی۔" سامنے فاطِمہ کھڑی تھی جو داؤد سے مِلنے آئی تھی۔


"اِس وقت مِلنا ضروری نہیں تھا جو تُم اِس طرح چلی آئی اب جاؤ یہاں سے رات کافی ہوگئی ہے۔" داؤد نے دروازہ بند کرنے کی کوشش کی۔


"جی مگر مُجھے ابھی آپ سے مِلنا تھا۔" فاطِمہ کہہ کر اُسے پیچھے ہٹاتی اندر داخل ہوئی۔


"تُم حد سے بڑھ رہی ہو اب۔ جاو یہاں سے صبح بات کریں گے۔" اُسے فاطمہ کی حرکت بُری لگی تھی۔


"کیا ہے آپ کو اِتنے دِن بعد آئے ہیں اور میں اآپ سے مِل بھی نہیں سکتی اِتنے دنوں سے میں آپ کے آنے کا اِنتظار کر رہی تھی۔" فاطِمہ نے روٹھے لہجے میں کہا۔


"ٹھیک ہے مِل لیا ناں؟ اب جاؤ۔" داؤد نے گہرا سانس بھرتے کہا۔


"نہیں ابھی تو میں آئی ہوں اور مُجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔" وہ پل پل اُس کا ضبط آزما رہی تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ اگر اُس کا ضبط چھلکا تو اُس کا پتا نہیں کیا حال کرے گا۔


"جو بات کرنی ہے جلدی کرو مُجھے نیند آرہی ہے۔" داؤد کے لہجے میں واضح بیزاری تھی۔ پہلے ہی اُس کا دماغ بابا جان اور امو جان کے منہ سے اپنے لیے فاطمہ کا نام سُن کر اُلجھا ہوا تھا اور اب سامنے وہی لڑکی کھڑی ہو کر اُسے غُصہ دِلا رہی تھی۔


"اچھا آپ کو پتہ ہے بڑے بابا اور بڑی امو جان ہماری شادی طے کرنے والے ہیں اور میں بہت خوش ہوں آپ خوش ہیں ناں؟" وہ جوش سے بولتی اپنی سُنائی جا رہی تھی یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اُس کی بات سُن کے داؤد کا پارہ ساتویں آسمان تک جا پہنچا تھا۔


"بکواس بند کرو اپنی۔ جِس سے بھی تُم نے یہ بات سُنی ہے غلط سُنی ہے اور آئیندہ یہ بات میں تُمہارے منہ سے نہ سُنوں۔" اُس نے اشتعال انگیز لہجے میں اُسے باور کروایا تھا۔


"کیا مطلب ہے کہ نہ سُنوں۔ بہت جلد ہماری شادی ہو جائے گی یہ بات آپ سُنیں۔" فاطِمہ نے بھی اُسی کے لہجے میں کہا۔


"بکواس بند کرو فاطِمہ ورنہ مُجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا۔" اب کی بار وہ دھاڑ اُٹھا تھا۔


آپ ایسے کیوں کہہ رہے ہیں میں محبّت کرتی ہوں آپ سے۔ میری شادی صرف آپ سے ہو گی اور کِسی سے نہیں۔" اُس کی بات سُن کے فاطِمہ نے آپے سے باہر ہوتے کہا۔


بے ساختہ ہی داؤد کا ہاتھ اُٹھا تھا اور فاطِمہ کے چہرے پہ اپنا نشان چھوڑ گیا تھا۔


فاطِمہ اپنے منہ پہ ہاتھ رکھے ساکت سی اُسے دیکھنے لگی تھی۔


"میں نے تُمہیں ہمیشہ تحریم کی طرح سمجھا ہےبالکُل چھوٹی بہن کی طرح ٹریٹ کیا ہے۔ میرے لیے تُم اور تحریم ایک جیسی ہو۔ بابا جان کو میں اپنا فیصلہ سُنا چُکا ہوں۔ اور میرا فیصلہ یہ ہے کہ تُم دُنیا کی آخری لڑکی بھی ہو گی تو بھی میں تُم سے شادی نہیں کروں گا۔ چھوٹی ہو مُجھ سے تو چھوٹی بن کے اپنی حد میں رہو ورنہ دوسروں کو اُن کی حد میں رکھنا مُجھے اچھی طرح سے آتا ہے۔ یہ بات اپنے اِس دماغ میں بٹھا لو جِس میں عقل نام کو نہیں ہے اور آخری بات مُجھے بے حیاوں کی طرح لڑکوں سے اپنی مُحبت کا اظہار کرنے والی لڑکیوں سے سخت نفرت ہے اِس لیے آئیندہ ایسی بھول بھول کر بھی مت کرنا۔ اب جاؤ یہاں سے اِس سے پہلے کہ دھکے مار کر نِکالوں۔" اُس نے فاطِمہ کو باہر کا راستہ دِکھاتے اُسے اُس کی حد یاد کروائی تھی۔


"اِس تھپڑ کا حساب تو دینا ہو گا آپ کو فاطِمہ تبریز نام ہے میرا جو چیز میری نہیں ہوتی اُسے کِسی اور کے لیے بھی نہیں چھوڑتی اور یہ بات آپ سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ میں اپنی ضد کی کِتنی پکّی ہوں۔" فاطِمہ نے ایک سُلگتی ہوئی نِگاہ اُس پہ ڈالی اور اُس کے کمرے سے نِکلتی چلی گئی۔


اُس کی بات سُن کر داؤد نے اپنی مُٹھیاں بھینچ لیں اور زور ست دروازہ بند کیا کہ کمرہ ہل کر رہ گیا۔


*****************


وہ بھاگتی ہوئی حویلی سے نِکل کر حویلی کے ساتھ ہی موجود اپنے گھر میں آئی تھی۔


وہ یاسمین بیگم کو بتا کے گئی تھی کہ وہ داؤد سے ملنے جا رہی ہے اِس لیے اُنہوں نے اجازت دے دی تھی۔ ویسے بھی اُنہوں نے ہمیشہ ہی فاطِمہ کے لیے داؤد کو ہی سوچا تھا یہ سوچے بغیر کہ ہر خواہش پوری نہیں ہوتی۔


کمرے میں داخل ہو کے اُس نے زور سے دروازہ بند کیا اور سُرخ ہوتی آنکھوں سے اپنے بیڈ پر جا کے بیٹھ گئی۔ وہ بچپن سے بہت ضدی تھی۔


جِس چیز کے پیچھے پڑ جاتی اُس پہ اپنے نام کی مہر لگانا جیسے اُس پر فرض تھا۔ دو بھائیوں کی اِکلوتی بہن وہ سب کی لاڈلی تھی۔


اِسی لیے اُس کی ہر خواہش پوری کی جاتی چاہے وہ خواہش کتنی ہی ناجائز ہو۔ اُسے بِگاڑنے میں سب سے زیادہ ہاتھ اُسکی ماں یعنی یاسمین بیگم کا تھا جِنہوں نے کبھی اُس پہ روک ٹوک نہیں کی تھی۔


وہ چلتی ہوئی آئینے کے سامنے جا کے کھڑی ہو گئی اور اپنے چہرے کو غور سے دیکھنے لگی۔


"کیا کمی ہے مُجھ میں داؤد سِکندر؟ جو آپ نےمُجھے اِنکار کیا۔" وہ اپنے آپ کو دیکھتی دِل میں داؤد سے مخاطب تھی۔ اور اُس کا سوال کُچھ غلط بھی نہ تھا۔


لال گُلابی چہرے پہ مغرورانہ سے تاثرات، ہلکی بھوری بڑی آنکھیں، مغرور تیکھی سی ناک گوری رنگت اور گھنگریالے کمر تک آتے بالوں سمیت وہ کِسی بھی مرد کی چاہت ہو سکتی تھی۔


"آپ کو مجھے تھپڑ مارنے کی غلطی بہت مہنگی پڑے گی۔ آج تک کِسی نے مُجھ پر یاتھ نہیں اُٹھایا اور آپ نے مُجھ پر ہاتھ اُٹھایا۔ فاطِمہ تبریز کِسی کو معاف نہیں کرتی یاد رکھیے گا۔" اُس نے اپنے گال پہ ہاتھ رکھتے کہا جو سُرخ ہو رہا تھا۔


بچپن سے ہی وہ اور تحریم داؤد کو لالہ کہتے تھے کبھی اُس کے دِل میں داؤد کے لیے ایسی کوئی فیلنگز پیدا نہیں ہوئیں تھیں۔


اُس نےہمیشہ داؤد کو سعد اور اشعر کی طرح بھائی ہی سمجھا تھا۔ مگر پانچ سال پہلے یاسمین بیگم نے اُسے داؤد کو لالہ کہنے پر ٹوکنا شروع کر دیا۔ اور اُس کے دِل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ داؤد کی دُلہن بنے گی۔ اِس لیے وہ اُسے لالہ کہنا چھوڑ دے۔ آہستہ آپستہ وہ داؤد کے بارے میں سوچنے لگی تو اُس کے دِل میں اُس کے لیے محبّت پیدا ہو گئی۔


اُس نے داؤد کو لالہ کہنا چھوڑ دیا۔ جس پر داؤد نے اُسے کئی بار ٹوکا بھی مگر پھر اُس کے سامنے اُس نے آپ کر کے بات کرنا شروع کر دی جِسے

داؤد کبھی سمجھ نہ سکا۔ کچی عمر میں داؤد کے لیے اُس کے دِل میں پکّے جذبات پیدا ہوگئے تھے جِس میں اُس کا کوئی قصور نہیں تھا۔


وہ عُمر ہی ایسی ہوتی ہے جب ایک لڑکی کا دِل نئےنئے سپنے بُنتا ہے تب اُس کی ماں نے اُس کے سپنوں میں داؤد کے نام کے رنگ بھر دئیے تھے اور تب سے ہی وہ داؤد کی محبت میں گرفتار تھی


مگر اُسکا قصور نہیں تھا قصور تو اُس کی ماں کا تھا جنہوں نے بغیر کِسی واضح رِشتے کے اُس کے دِل میں کِسی کے جذبات ڈال دئیے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ضروری نہیں کہ اگر وہ داؤد کو داماد بنانا چاہتی ہیں تو داؤد بھی اُن کی منشاء میں راضی ہو۔ اب فاطِمہ کو داؤد سے محبت تھی یا صرف اُس کی ضد یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا تھا۔


***************


تین دِن بعد آج معصومہ کالج آئی تھی۔ وہ درخت کے نیچے گھاس پر بیٹھی آن سے پچھلے مِس ہو جانے والے لیکچر سمجھتی ساتھ میں نوٹ بھی کر رہی تھی۔


اب وہ پہلے سے کافی بہتر تھی۔مگر اُس کے چہرے کی اُداسی ہنوز قائم تھی۔


"مومو منہ تو سہی کرو اپنا ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی نے مار کر بٹھایا ہو۔" آن نے اُسے ٹوکتے ہوئے کہا۔


"میں ٹھیک ہوں۔" معصومہ کی مدھم سی آواز اُبھری۔


"نظر آرہا ہے کتنی ٹھیک ہو تُم۔" آن نے خفگی سے کہا تو معصومہ نے نظریں چُرائیں۔


"اچھا تُم پریشان مت ہو۔ اللّٰہ پاک اپنے بندے پہ اُس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے اُنہوں نے تُمہارے لیے کُچھ بہتر ہی سوچ رکھا ہو گا۔" آن نے اُسے سمجھایا۔


"صرف خدا پر ہی تو بھروسہ ہے۔" معصومہ نے سامنے دیکھتے کہا۔


"ہونا بھی چاہیے۔ اچھا کل شاپنگ پر چلیں گے۔ کُچھ کِتابیں بھی خرید لیں گے ماموں سے پوچھ آنا۔" آن نے اُس کا موڈ فریش کرنے کی خاطِر کہا۔


"میرا دِل نہیں کہیں جانے کا ویسے بھی سب کُچھ ہے میرے پاس۔" معصومہ نے اِنکار کیا۔


"جانتی ہوں بہت امیر ہو تُم۔ تُمہارے بھائی اور ماموں سب کُچھ ہی لا کردیتے ہیں تُمہیں۔ مگر اپنی فرینڈ سے بھی کُچھ لے لیا کرو۔ کوئی ٹیکس نہیں لگے گا۔" آن نے منہ بسورتے کہا تو معصومہ مُسکرا دی۔


" ٹھیک ہے ماموں سے پوچھ کہ بتاؤں گی روحان بھائی تو ویسے بھی ڈیوٹی پہ واپس چلے گئے ہیں۔" معصومہ نے بتایا۔


"اچھا تو پھر کل کا ڈن رکھو۔" آن نے روحان کے ذِکر پر کوئی خاص توجّہ نہ دی۔


"ماموں سے پوچھ کے ہی ڈن کروں گی ناں۔"

معصومہ نے کہا تو آن نے سر ہلا دیا۔


" چلو کینٹین چل کے کُچھ کھاتے ہیں۔ پھر لیکچر بھی ہے۔" آن نے بیگ اُٹھاتے کہا۔


"چلو۔" معصومہ نے بھی بیگ اُٹھایا۔ آن کے ساتھ اُس کی اُداسی کُچھ کم ہوئی تھی۔


*********************


رات کے کھانے کے بعد وہ رفیق صاحب کے کمرے میں آئی تھی۔ روحان نے جانے سے پہلے معصومہ کو وین لگوا دی تھی اور وین والے کو خود ہی ایڈوانس میں رینٹ پے کر دیا تھا کہ اُسے ماں کا کوئی بھروسہ نہ تھا۔


"میں آجاوں ماموں جان؟" اُس نے دستک دیتے اجازت چاہی۔


" آجاؤ بیٹا۔" رفیق صاحب نے اُسے اندر آنے کی اِجازت دی۔


وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور اُن کے پاس بیڈ کے پاس آکے کھڑی ہو گئی۔


"اِس وقت کیا کام پڑ گیا تُمہیں؟" فرزانہ بیگم نے اُس کی طرف ناگواری سے دیکھتے گھڑی کی طرف نِگاہ کی جو دس بجا رہی تھی۔


"وہ ماموں جان آن کہہ رہی تھی کہ کل شاپنگ کے لیے جانا ہے تھوڑی دیر کے لیے ساتھ میں کُچھ کِتابیں بھی خریدنی ہیں تو میں اُس کے ساتھ چلی جاؤں۔" اُس نے ساری بات بتاتے اِجازت مانگی۔


"کیوں سیر سپاّٹے کا زیادہ ہی شوق چڑھ گیا ہے تُمہیں؟" اِس سے پہلے کہ رفیق صاحب کُچھ بولتے فرزانہ بیگم نے تلخی سے کہا اُنہیں ویسے بھی وہ آن ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔


وہ ایک دو بار مِلی تھیں اُس سے۔ مگر اُنہیں وہ بالکُل اچھی نہیں لگی تھی کیونکہ وہ معصومہ کی دوست تھی۔


"تُم چُپ کرو گی کُچھ دیر کے لیے؟ معصومہ بیٹا تُم چلی جانا۔ بلکہ ایک منٹ ٹھہرو۔" رفیق صاحب نے فرزانہ بیگم کو ٹوکتے معصومہ سے کہا اور اُٹھ کر الماری کی طرف بڑھ گئے۔


اور الماری سے کُچھ پیسے نِکال کر لائے اور معصومہ کی طرف بڑھائے۔


"یہ لو پیسے دس ہزار ہیں جو چاہیے ہو لے لینا اگر پِھر بھی کُچھ رہ جائے تو پھر تُم میرے ساتھ چل کے لے لینا۔" رفیق صاحب کی بات پر فرزانہ بیگم کے چہرے پر غُصے کے تاثرات نمایاں ہوئے۔


"اِتنے پیسوں کا کیا کرے گی وہ۔ دو کِتابیں ہی لینی ہیں اُس نے۔" فرزانہ بیگم نے ناگواری دے کہا۔


"صرف کِتابیں لینی ہیں یا کُچھ اور۔ اب یہ پیسے معصومہ کے ہیں اُنہیں جیسے مرضی خرچ کرے۔ معصومہ بیٹا اب تُم جاؤ۔" رفیق صاحب نے فرزانہ بیگم کو دو ٹوک لہجے میں کہتے معصومہ کو جانے کا اِشارہ کیا۔


"اور تُم۔ اُس معصوم بچی نے کیا بِگاڑا ہے تُمہارا جو ہاتھ دھو کے اُس کے پیچھے پڑ گئی ہو بخش دو اُسے۔ کُچھ نہیں ہو جائے گا اگر تُم اپنے یہ طعنے مارنے کی عادت ختم کردو۔" رفیق صاحب کی آواز اُسے اپنے پیچھے سُنائی دی تھی جو فرزانہ بیگم کو ٹوک رہے تھے جبکہ فرزانہ بیگم ہنہ کر کے رہ گئیں تھیں۔


رفیق صاحب سچ میں معصومہ سے بہت محبت کرتے تھے اُنہیں اُس کی شکل میں اپنی اِکلوتی مرحوم بہن یاد آتی تھی۔


جو اب اِس دُنیا میں نہیں تھی وہ بھی معصومہ کی طرح معصوم اور بے ریا تھی۔ آج بھی جب وہ معصومہ کو دیکھتے تھے تو اُن کی آنکھیں اپنی بہن کی یاد میں نم ہو جاتِیں تھیں۔


******************


اگلے دِن معصومہ وقت پہ کالج پہنچ گئی تھی اُن کے فائنل پیپرز ہونے والے تھے اِس لیے وہ روز ہی کالج جاتی تھی۔


کالج سے اُن کو جلد ہی چُھٹی مِل گئی تھی کیونکہ فائنل پیپرز کی وجہ سے اُن کے صرف ٹیسٹ لیے جا رہے تھے۔


آن اور معصومہ آن کی گاڑی میں شاپنگ کے لیے جا رہے تھے۔


آن نے سفید اور سُرخ رنگ کی شلوار قمیض پہ سکن کلر کی چادر اوڑھ رکھی تھی جبکہ معصومہ نے بلیک اور ریڈ کلر کے شلوار قمیض پہ بلیک ہی چادر اوڑھی تھی۔ ڈرائیور کو آن نے جلدی ہی بُلا لیا تھا تا کہ وقت پہ شاپنگ سے فارغ ہو کے گھر آیا جا سکے۔ معصومہ کو بھی اُسی نے ڈراپ کرنے کی ذمہ داری لی تھی۔


پندرہ منٹ بعد وہ دونوں شاپنگ مال کے باہر کھڑی تھیں۔ معصومہ نے اپنے بیگ پہ گرفت سخت کی۔


اُس کے پاس بس دس ہزار روپے تھے اور آن اُسے لاہور کے اِتنے مہنگے شاپنگ مال لے آئی تھی۔


" وہ زیادہ کُچھ نہیں خریدے گی یہاں سے دس ہزار کی تو بس کتابیں ہی آئیں گی۔" معصومہ نے دِل میں سوچا تھا۔


"چلیں اندر۔" آن نے معصومہ کو اُس کی سوچوں سے باہر نِکالا تو وہ سر ہلاتی اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔


معصومہ پُرشوق نظروں سے وہاں کی روشنیاں دیکھ رہی تھی۔ ہر شاپ کے شیشے سے بنے دروازے کے اندر سے سب کُچھ نظر آرہا تھا۔ لوگ اِدھر سے اُدھر ٹہلتے آرام سے شاپنگ کر رہے تھے۔


معصومہ نے آن کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ آن اُسے لے کے ایک شاپ میں داخل ہوئی اور اُس کے لیے دو تین لان کے ریڈی میڈ اپنی پسند سے لیے ایک ڈریس اُس نے اپنے لیے خریدا۔


پھر وہ وہاں سے جوتوں والی شاپ میں گئیں۔ وہاں بھی آن نے اپنے اور معصومہ کے لیے ایک ایک جوتا خریدا۔


معصومہ اُسے منع کر رہی تھی کہ اُسے کُچھ نہیں لینا مگر آن اُس کی سُن ہی نہیں رہی تھی اور معصومہ کے دِل میں ہول اُٹھ رہے تھے کہ جب بِل دینے کی باری آئے گی تو وہ کہاں منہ چُھپائے گی۔


اب تک ہر شاپ میں آن نے ہی کارڈ سے پے منٹ کی تھی اور معصومہ سے کہا تھا کہ بِل اینڈ پہ پے کرتے ہِیں اور معصومہ نے اُس کے بات پہ یقین بھی کر لیا تھا کیونکہ اُس نے آن کو کارڈ دیتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔


آن نے اُس کے لیے کپڑے جوتے اور پھر کُچھ کتابیں خریدنے خریدنے کے بعد اُس کی جان بخشی تھی۔ معصومہ بہت تھک گئی تھی۔ کِسی کے ساتھ شاپنگ پہ آنے کا یہ اُس کا پہلا تجربہ تھا۔


فرزانہ بیگم یا مشعل کے ساتھ وہ کبھی شاپنگ پہ نہیں گئی تھی یا پھر یہ کہنا درست ہو گا کہ اُنہوں نے اُسے ساتھ لے جانا مُناسِب ہی نہ سمجھا تھا۔


اور رہ گئی ماہین تو وہ بہت کم شاپنگ پر جاتی تھی اور فرزانہ بیگم تب بھی معصومہ کو اُس کے ساتھ جانے نہ دیتی تھیں۔


اب وہ دونوں کیفے میں بیٹھیں برگر اور کولڈ ڈرنک سے لطف اندوز ہو رہیں تھیں۔ جب کِسی نے اُن کے ٹیبل پہ نوک کیا۔


آن اور معصومہ نے چونک کر آنے والے کی طرف دیکھا جِسے دیکھ کے معصومہ کو تو حیرت ہوئی مگر آن کو غُصہ آیا۔

"کیا میں بیٹھ جاؤں ؟" آنے والا اجازت مانگ رہا تھا۔


"جی نہیں آپ کوئی اور ٹیبل دیکھیں آپ کو دِکھائی نہیں دے رہا کہ ہم یہاں بیٹھے ہیں۔" اِس سے پہلے کہ معصومہ اُسے بیٹھنے کی اِجازت دیتی آن نے اُسے صاف اِنکار کیا۔


" ویل میں تو بیٹھوں گا۔" وہ ڈھٹائی سے کہتا بیٹھ چُکا تھا۔


"ہے یو تمیز نہیں ہے کیا؟ جب کہا نا کہ نہیں بیٹھ سکتے تو بغیر اجازت بیٹھے کیسے کھڑے ہو اور کہیں اور جا کے بیٹھو۔ جانتے نہیں ہو مُجھے منٹوں میں تُمہیں جیل کی ہوا کِھلا سکتی ہوں۔" آن نے غُصے سے چُٹکی بجاتے اُسے غُصے سے گھورتے کہا۔


جبکہ معصومہ اُس کے ہاتھ پہ دباو ڈالتی اُسے بدتمیزی کرنے سے منع کر رہی تھی۔ اور سامنے بیٹھا شخص پُرشوق نظروں سے آن کے غُصیلے اور تیکھے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔


"جانتی تو آپ نہیں ہیں مُجھے۔ میں بھی بزنس مین ہوں اور منٹوں میں خود کو جیل سے نکلوا سکتا ہوں۔" اُس نے بھی اُسی کے انداز میں جواب دیا تو آن نے غُصے سے مُٹھیاں بھینچیں۔ جبکہ معصومہ اُسے روکنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی۔


"ٹھیک ہے پھر نکلوا لینا خود کو جیل سے ابھی تو جیل کی ہوا کھاو۔" آن نے کہتے بیگ سے فون نِکالنا چاہا جب معصومہ نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور اُس کے کان میں پُھسپھسائی۔

****************

آن کیا کر رہی ہو یہ وجدان بھائی ہیں۔" معصومہ نے روہانسے لہجے میں کہا تو آن چونک اُٹھی۔

سوری وجدان بھائی میری دوست کو غلط فہمی ہو گئی تھی۔" معصومہ نے سامنے بیٹھے وجدان سے معذرت کی جو یک ٹک آن کے خفت زدہ چہرے کو نہار رہا تھا۔

" کوئی بات نہیں لٹل پرنسز اب ہر کوئی تُمہاری طرح معصوم بھی نہیں ہوتا کہ سامنے والے کو عِزّت ہی دے دے۔" وجدان نے آن کے رویے ہر چوٹ کی۔

"ایم سوری! مُجھے لگا آپ ہم اکیلی لڑکیوں کو دیکھ کر لائن مارنے آئے ییں۔" آن تو تھی صدا کی صاف گو۔ اب بھی آرام سے اپنے دل میں آئی بات بتا دی۔

ہاہاہا لائک سیریسلی میرے حلیے سے لگ رہا ہے کہ میں ٹھرکی ہوں یا لڑکیوں پہ لائن مارتا ہوں؟" وجدان نے اپنے حُلیے کی طرف اِشارہ کرتے کہا۔

"نن نہیں۔" آن نے کنفیوز ہوتے اُس کا جائزہ لیا۔ بلیک تھری پیس سوٹ میں گندمی رنگت لیے وہ شخص اپنی پرسنالٹی کے لحاظ سے بہت سوبر اور ڈیسنٹ لگ رہا تھا۔

"تو پھر؟" وجدان نے اِستفسار کیا تو آن جیسی پُراعتماد لڑکی بھی کنفیوز ہو گئی مگر پھر سنبھل کر جواب دیا۔

"اب کِسی کے برینڈڈ کپڑوں سے تھوڑی پتہ چلتا کہ وہ شریف ہے یا ٹھرکی۔" آن نے ناک سکوڑا تو وجدان اُس کے انداز پہ ہنس دیا۔

" بات تو آپ کی ٹھیک ہے۔ ویل گُڑیا کیسی ہو اور یہاں کیا کر رہی ہو؟" وجدان نے اُسے جواب دیتے معصومہ سے سوال کیا۔

"وہ وجدان بھائی ہم شاپنگ کے لیے آئے تھے" معصومہ نے جواب دیا۔

"اچھا تو ہو گئی شاپنگ؟" وجدان نے پوچھا۔

جی ہو گئی ہے اور اب تو ہم گھر جانے والے ہیں۔" معصومہ نے اُسے جواب دیا۔

"تو چلو پھر میں تُمہیں گھر چھوڑ دوں۔" وجدان نے اُسے کہا تو معصومہ نے نفی میں سر ہلایا۔

نہیں ہم چلے جائیں گے آن نے کہا ہے کہ وہ مُجھے چھوڑ دے گی۔" اُس نے مسکرا کر جواب دیا۔

" آ اچھا ٹھیک ہے یہ بتاؤ کالج کے لیے وین لگوا دی تُمہاری ممانی نے؟" وجدان نے یاد آنے پر پوچھا۔

"جی لگوا دی ہے۔" معصومہ نے سر ہلاتے کہا۔

"گُڈ۔ میری باتیں بھی اثر کرتی ہیں واؤ۔ وجدان نے کالر اکڑائے تو معصومہ ہنس دی جب کہ آن وجدان کی طرف دیکھ رہی تھی جو نرمی سے معصومہ سے بات کر رہا تھا۔

 پہلے وہ اُسے کوئی آوارہ سا لڑکا سمجھی تھی مگر معصومہ کے تعارف کے بعد اُس نے غور سے اُس کا جائزہ لیا تو وہ اُسے ہر لحاظ سے ویل مینرڈ لگا تھا۔

وہ اُس کے اِخلاق کی قائل تو اُسی دِن ہو گئی تھی جِس دِن معصومہ نے اُسےساری بات بتائی تھی جب وجدان نے اُسے سمجھایا تھا اور اُس کے لیے فرزانہ بیگم سے بات بھی کی تھی۔

 وہ ایک اچھا اور ہر لحاظ سے بہترین شخص تھا عورتوں کو عِزت دینے والا دوسروں کی عزت کو اپنی عزت سمجھنے والا۔  وہ مِسٹر پرفیکٹ تھا وہ اپنی ہی سوچ پہ مُسکرا دی۔

"ویسے میں نے جوک تو نہیں سُنایا مِس؟" وجدان نے اُسے مسکراتے دیکھ کر کہا جِس کی مسکراہٹ پہ اُس کا دِل ڈانواں ڈول ہوا تھا مگر دوسرے ہی پل وہ خود کو سنبھال گیا تھا۔

"آن ہمدانی۔ اور آپ نے جوک نہیں سُنایا مُجھے کوئی بات یاد آگئی تھی۔" اُس نے ہنوز ہونٹوں پہ مُسکراہٹ سجائے کہا۔

"اوہ اچھا آپ کے فادر کیا کرتے ہیں مِس ہمدانی؟ وجدان نے کُچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔

"وہ وکیل ہیں۔" آن نے جواب دیا۔

" آپ مِسٹر انجم ہمدانی کی بیٹی ہیں؟" وجدان نے اندازہ لگاتے پوچھا۔

"جی ہاں آپ جانتے ہیں اُن کو ؟" آن نے حیرانی سے پوچھا جب کہ معصومہ چپ چاپ اُن کی باتیں سُن رہی تھی۔

جی ہاں نہ صرف جانتا ہوں بلکہ وہ میرے وکیل ہیں اور میرے سارے معاملات وہ ہی ہینڈل کرتے ہیں۔" وجدان نے خوشدلی سے بتایا۔

اوہ  تو آپ وجدان آفندی ہیں؟ آن نے پُرجوشی سے پوچھا۔

جی ہاں میں وجدان آفندی ہوں۔" وجدان نے جواب دیا تو آن مسکرائی۔

"یہ تو اچھی بات ہو گئی پاپا آپ کی بہت باتیں کرتے ہیں اور میں وجدان نامہ سُن سُن کر تھک جاتی ہوں۔"  آن نے شرارت سے کہا تو وہ ہنس دیا۔ 

" یہ تو اُن کا اخلاق ہے کہ وہ میرا ذکر کرتے ہیں خیر ٹائم بہت ہو گیا میرے خیال سے معصومہ کو جانا چاہیے۔".  وجدان نے گھڑی پہ وقت دیکھتے کہا۔

"جی ہاں ہم بھی چلتے ہیں آپ سے مِل کر اچھا لگا۔" آن نے خوش اخلاقی سے کہا۔

"مُجھے بھی۔" وجدان نے اُس کے روشن چہرے پہ گہری نظر ڈالے کہا اور کوئی خیال آنے پر دلکشی سے مُسکرایا۔

"مگر آن ہم نے شاپنگ کا بِل تو دیا ہی نہیں۔" معصومہ نے کہا تو وجدان نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا۔

"کون سا بِل لٹل پرنسز؟ وجدان نے پوچھا۔

"نن نہی۔ کُچھ نہیں معصومہ کو یاد بھول گیا ہے۔ ہم نے بِل دیا تو تھا معصومہ تُمہیں شاید یاد بھول گیا یے۔" آن نے اُس کا ہاتھ دباتے کہا۔ تو وہ چُپ کر گئی۔

"اوہ اچھا چلیں پھر میں نکلتا ہوں پھر ملاقات ہو گی۔" وجدان اُنہیں خدا حافِظ کہتا وہاں سے نکلتا چلا گیا جبکہ آن کی نگاہوں نے دیر تک اُس کا پیچھا کیا اور پھر سر جھٹک کر وہ معصومہ کو لیے گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔

"مومو کیا ضرورت تھی اُن کے سامنے یہ کہنے کی کہ بِل نہیں دیا۔ کیا سوچا ہو گا اُنہوں نے میرے بارے کہ کہیں چوری تو نہیں کر لی میں نے۔" آن نے گاڑی میں بیٹھتے ہی معصومہ سے کہا ساتھ میں ڈرائیور کو چلنے کا اِشارہ کیا۔

" مگر تُم نے بِل نہیں دیا اِسی لیے میں تُمہیں یاد دلایا تھا اور تُمہیں کب سے فکر ہونے لگی کہ کوئی تُمہارے بارے میں کیا سوچے گا؟" معصومہ نے اُس کے چہرے کی جانب دیکھتے کہا۔

" جب سے وجدان کو دیکھا ہے" وہ بڑبڑائی۔

" کیا کہہ رہی ہو اونچا کہو نا۔" معصومہ نے اُسے ہلایا۔

" ہاں وہ میں کیوں کِسی کی پرواہ کرنے لگی مگر پھر بھی وہ تُمہارے بھائی ہیں تو کیا سوچیں گے کہ اُن کی بہن کی دوست چور ہے۔" آن نے گڑبڑاتے جواب دیا۔

وہ ایسا کُچھ نہیں سوچیں گے وہ بہت اچھے ہیں۔" معصومہ نے مسکراکر کہا۔

"اچھا تُم کہتی ہو تو مان لیتے ہیں۔" آن نے گہرا سانس بھرتے کہا۔

"اچھا اب تو بتاؤ بِل کیوں نہیں دیا؟" معصومہ کی سوئی بِل پہ ہی اٹکی تھی۔

"میں نے سارا بل کارڈ سے پے کر دیا تھا اور یہ سب میری طرف سے تُمہارے لیے گِفٹ ہے تُمہیں اِس لیے نہیں بتایا کہ تُم لینے سے اِنکار کر دیتی۔"  آن نے گہرا سانس بھرتے جواب دیا۔

"مگر آنو میں یہ سب ایسے ہی نہیں لے سکتی پلیز" معصومہ نے انکار کرنا چاہا۔

"تُمہیں میری قسم یہ سب تُمہیں لینا پڑے گا ورنہ تُم میرا مرا ہوا منہ دیکھو گی۔" آن نے ڈرامائی انداز میں کہا تو وہ نم آنکھوں سے مسکرا دی۔

"تُم بہت اچھی ہو آنو۔" معصومہ نے اُس کا ہاتھ تھامتے کہا تو وہ ہنس دی۔

"بابا سب جانتا ہے بچہ۔" آن نے بھاری آواز سے کہا تو معصومہ کِھلکِھلا اٹھی جبکہ اُسے ہنستے دیکھ کر آن بھی اُس کا ساتھ دینے لگی۔

 تھوڑے وقت کے لیے ہی سہی وہ معصومہ کو اُداسی سے نکالنے میں کامیاب یو گئی تھی اُسے اپنی یہ معصوم دوست جان سے زیادہ عزیز تھی۔

پندرہ منٹ بعد وہ معصومہ کو گھر ڈراپ کر کے اپنے گھر چلی گئی تھی معصومہ نے اُس اندر آنے کے لیے کہا تو اُس نے ٹائم زیادہ ہو گیا ہے کہہ کر اندر آنے سے اِنکار کر دیا اور معصومہ شاپنگ بیگز اُٹھائے گھر میں داخل ہوئی لاونج میں کوئی نہیں تھا وہ سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئی اور شاپنگ بیگز الماری میں رکھتے آرام کرنے لیٹ گئی۔

***************

سب ڈائیننگ ٹیبل ہر بیٹھے داؤد کے آنے کا اِنتظار کر رہے تھے اُن کی حویلی میں رواج تھا سب اکٹھے بیٹھ کر ہی کھانا کھاتے اور جب تک سب لوگ آ نہ جاتے تب تک اُن کے آنے کا اِنتظار کیا جاتا۔ 

سربراہی کُرسی پر سکندر صاحب بیٹھے تھے جبکہ اُن کے دائیں طرف حمدہ بیگم بائیں جانِب فراز صاحب اور اُن کے ساتھ زینب بیگم جبکہ حمدہ بیگم کے بائیں طرف تحریم بیٹھی تھی۔

 کبھی کبھی یاسمین بیگم بھی اپنے بچوں اور بہو سمیت یہاں ناشتے کے وقت آجاتیں تھیں مگر آج وہ یہاں نہیں تھیں۔

دس منٹ بعد نک سک سا تیار داؤد وہاں سب کے سامنے کھڑا اُن کو صُبح کا سلام کر رہا تھا۔ سب نے اُس کے سلام کا مُشترکہ جواب دِیا تھا۔

 وہ تحریم کے ساتھ والی کُرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا اور ناشتے کی طرف متوجّہ ہوا۔ باقی سب بھی خاموشی سے ناشتہ کر رہے تھے ناشتے کے دوران کِسی کو بات کرنے کی اجازت نہ تھی۔

ناشتے کے بعد سکندر صاحب نے اپنی بات کا آغاز کیا تھا۔ 

"فراز میں چاہتا ہوں کہ اب تُم اپنی امانت کو لے کر ہمیں ہماری ذمہ داری سے بری کرو۔" سکندر صاحب کی بات کا مطلب سمجھتی تحریم شرماتی ہوئی وہاں سے اُٹھی اور اپنے کمرے کی جانب چلی گئی جِس پر سب  مُسکرا دئیے۔

"جی بھائی صاحب کیوں نہیں یہ تو ہماری بھی خواہش ہے کہ جلد ہی اِس گھر میں شہنائیوں کی آواز گونجے۔" فراز صاحب نے خوش دِلی سے کہا۔

"تو پھر کیوں نہ حیدر کی واپسی پہ شادی کر دی جائے اُس کے آنے میں بس دو ماہ ہی باقی ہیں تو تب تک تیاریاں بھی کر لیں گے۔" حمدہ بیگم نے مشورہ دیا جسے سب نے پسند کیا داؤد خاموشی سے بیٹھا سُن رہا تھا۔

"جی بھابھی یہ تو ٹھیک ہے مگر آپ نے تو کہا تھا کہ تحریم اور  داؤد کی شادی اکٹھی کی جائے گی تو پھر داؤد کے لیے کوئی لڑکی دیکھیں؟" زینب بیگم نے اِستفسار کیا تو داؤد نے لب بھینچ لیے۔

"میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا چھوٹی ماں۔  اور رہی بات تحریم کی تو اُس کا نِکاح ہو چُکا ہے بس رُخصتی کی رسم باقی ہے وہ جلد ہی ہو جائے تو اچھی بات ہے۔ اور آپ میرے لیے کوئی لڑکی مت دیکھیں جب شادی کرنی ہو گی تب دیکھ لیجئے گا میرے لیے لڑکی بھی۔" داؤد نے اُنہیں اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تو وہ اُسے دیکھ کر رہ گئیں۔ 

" چلو ٹھیک ہے جیسی تُمہاری مرضی ورنہ بھابھی بیگم نے کہا تھا کہ دونوں بہن بھائی کی شادی اکٹھی ہو گی اِسی لیے میں نے پوچھا۔" زینب بیگم نے کہا۔

"سوچا تو ہم نے بھی یہی تھا مگر اب داؤد راضی نہیں تو پھر ہم کیا کر سکتے ہیں خیر بعد میں ہی سہی ایک نہ ایک دِن شادی کرنی تو ہے۔" سِکندر صاحب نے کہا تو داؤد سر ہلاتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

" میں چلتا ہوں ایک ضروری کام ہے اگلے ہفتے شاید نہ آ پاؤں۔" وہ باری باری سب سے مِلتا بولا۔

"کئی بار کہا ہے کہ یہاں آجائیں اور اپنی زمینیں سنبھالیں مگر آپ کو تو بزنس کا شوق چڑھا ہے ایک پاؤں گاؤں میں تو دوسرا شہر میں ہوتا ہے آپ کا۔" سکندر صاحب نے اُس سے گلے لگتے تاسُف سے کہا تو وہ مُسکرا دیا۔

"جب آپ کو پتہ ہے کہ میں نے کرنا ہی بزنس ہے تو پھر کہتے ہی کیوں ہیں مُجھے؟" اُس کے شرارتی لہجے پہ سب مُسکرا دیئے۔ پھر وہ سب سے مِلتا کُچھ فائلز اُٹھا کر باہر نِکل گیا۔

پیچھے سب ہی لوگ اُس کی کامیابی کی دُعا کرتے اپنے اہنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔

*****************

معصومہ لوگوں کو کالج سے چُھٹیاں ہو چُکیں تھی اب وہ گھر پر ہی پیپرز کی تیاری کر رہی تھی گھر کے کاموں سے فارِغ ہو کر وہ پڑھنے بیٹھی تھی تا کہ امتحان کی تیاری اچھی ہو سکے۔

ایک پل کو اُس کا دِل کیا سکیچنگ کرے محر پاحر دِل میں خیال آیا کہ پیپر میں داؤد کی تصویریں بنانے پہ تو مارکس ملنے نہیں۔

 یہ سوچتے اُس نے سکیچنگ کا خیال دِل سے نِکالا اور بیگ کھولا ابھی پہلی کِتاب کھولی تھی کہ اُسے ایکدم سے سڑک والے بابا کا خیال آیا۔

"اُف معصومہ کِتنی بُھلکڑ ہو تُم۔ کیا سوچتے ہوں گے وہ کہ ایک تو بیٹی بنایا اپنی اور بیٹی نے مُڑ کر بھی نہ پوچھا۔" اُس نے اپنے سر پر چپت لگاتے کہا۔

پھر اُس نے اپنا فون نِکالا اور نمبر دیکھنے لگی۔

 اُس کے فون میں بس رفیق صاحب، روحان اور آن کے علاوہ صرف گھر کے لینڈلائن کا ہی نمبر تھا۔ اُس کا اور کوئی رِشتے دار تو تھا نہیں جِس کا نمبر وہ اپنے پاس محفوظ رکھتی۔ 

اُس نے کونٹیکٹ لسٹ نکالی اور نمبرز دیکھنے لگی ایک نمبر بابا  کے نام سے سیو تھا وہ دِل سے مُسکرائی۔ 

"اُس کے بابا اُس کے اپنے بابا" یہ سوچ ہی مسرور کن تھی کہ اُس کا بھی اب ایک باپ تھا جِس نے اُسے مان اور شفقت سے نوازا تھا۔

اُس نے نمبر ڈائل کر کے کان سے لگایا۔ بیل جا رہی تھی۔ پھر فون اُٹھا لیا گیا۔

اسلامُ علیکُم! فون سے بابا کی آواز آئی تھی۔

"و وعلیکُم سلام! مم میں معصومہ بب بول رہی ہوں۔ آپ نے مُجھے پہچانا۔ میں وہ سڑک پہ مِلی تھی آپ سے۔" اُس نے سلام کا جواب دیتے اُنہیں اپنا تعارُف کروا کے یاد دِلانے کی وکشش کی۔

"جی بیٹا جی پہچان لیا ہے اور آپ کو سڑک کا حوالہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایک باپ اپنی بیٹی کو کبھی نہیں بھول سکتا۔" بابا جان کی مُسکراتی آواز آئی۔

"جج جی وہ مُجھے لگا شایدآپ کو یاد نہ ہو۔" اُس نے جواب دیا۔

"نہیں میں تو نہیں بھولا میں تو اپنی بیٹی کی کال کا اِنتظار کر رہا تھا کہ کب میری بیٹی مُجھے یاد کرتی ہے۔ لیکن مُجھے لگ رہا تھا کہ میری بیٹی مةجھے بھول گئی ہے۔" بابا جان نے شکوہ کرتے کہا۔

"نن نہیں میں بھولی نہیں ہوں بس وہ پیپیز ہونے والے ہیں ناں تو اُنہی میں مصروف ہوں۔" اُس نے جلدی سے وجہ بتائی۔

"اچھا کیا پڑھتی ہے میری گُڑیا؟" بابا جان نے محبت سے پوچھا۔

" میں بی ایس سی کر رہی ہوں۔ اب فائنلز پیپرز ہونے والے ہیں۔"   معصومہ نے بتایا۔

"ماشاللّٰہ! خوب پڑھو کامیابیاں سمیٹو۔ آمین۔"بابا جان نے دُعائیہ انداز میں کہا۔

"شُکریہ بابا جان۔" معصومہ اُن کی محبت پہ مشکور ہوئی۔

"ارے اِس میں شُکریے والی کیا بات ہے؟ بیٹیاں باپ کو شکریہ نہیں کہتیں اور آئیندہ میں تُمہارے منہ سے یہ لفظ نہ سُنوں۔" اُنہوں نے اُسے پیار سے ٹوکا۔

"جی آئیندہ نہیں کہوں گی۔" معصومہ نے مُسکرا کے کہا۔

"اچھا اور بتاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" پھر وہ بابا جان سے ڈھیروں باتیں کرتی رہی۔ اُن کے بچوں کی اُن کی بیگم، اُن کے رشتے داروں کی۔

 بابا جان بھی اُس سے اُس کے گھر والوں کے متلعق ڈھیر ساری باتیں کیں۔ تقریبا ڈیڑھ گھنٹے بعد اُسے پڑھنے کا خیال آیا تو اُس نے اُنہیں الوداع کہتے فون رکھا۔ 

اُن سے بات کر کے اُس کا دِل بے حد خوش تھا۔ اُن سے بات کر کے لگا ہی نہیں کہ وہ کِسی اجنبی سے بات کر رہی ہے بہت اپنے اپنے لگے وہ اُسے۔

 اُن کی محبت اور شفقت کی قائل ہو گئی تھی معصومہ اور اِس بات پہ یقین اور بھی پُختہ ہو گیا تھا کہ دُنیا میں ابھی اچھے لوگ باقی ہیں۔"

****************

داؤد شہر واپس آ چُکا تھا اُس کی امپورٹنٹ میٹنگ تھی اِس لیے وہ زیادہ دِن حویلی میں رُک نہیں سکا تھا۔ اُس نے یہ کام وجدان کو دِیا تھا مگر اُس نے اپنے ہاتھ کھڑے کر دیئے تھے کہ اُسے یہ میٹنگ اٹینڈ نہیں کرنی اُسے کُچھ کام تھا جِس میں وہ مصروف تھا۔


اور ارحم آج کل ہنی مون پہ گیا ہوا تھا تو اُسے ڈسٹرب کرنا داؤد نے مناسب نہ سمجھا تھا کہ ایک میٹنگ کے لیے وہ اپنا ہنی مون چھوڑ کے آتا۔


داؤد، وجدان اور ارحم تینوں نہ صرف اچھے دوست تھے بلکہ بزنس پارٹنر بھی تھے۔ داؤد پچاس پرسنٹ کا شیئر ہولڈر تھا جبکہ وجدان اور ارحم پچیس پچیس پرسنٹ کے شئیر ہولڈر تھے۔


اُن کا اپنا امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ کا بزنس تھا جِس میں وہ آلاتِ جراحی کو باہر سے منگواتے تھے اور اپنے مُلک میں ہی اُس کو سیل کرتے تھے اور اِس کی ڈیلنگز وہ تینوں ہی کرتے تھے۔


وہ میٹنگ کے لیے ایک ریسٹورینٹ آیا تھا اُس نے وہیں ڈیل فائنل کرنی تھی۔ ایک گھنٹے میں وہ اپنے ڈیلیگیٹرز کو اُس سارے سامان کی ڈیٹیلز دے چُکا تھا جِن کو ایکسپورٹ کرنا تھا اُس نے ایکسپورٹ ٹائم بھی مینشن کر دیا تھا تا کہ بعد میں سامان ریسیو کرتے وقت اُن کو کوئی مسلہ نہ ہو۔


ڈیل ڈن کرنے کے بعد جب ڈیلیگیٹرز جا چُکے تھے وہ بھی اُٹھنے ہی والا تھا جب کوئی لڑکی تیزی سے آکے اُس کے سامنے بیٹھی۔


"آئی ایم ایکسٹریملی سوری۔ لیکن مُجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔" اُس لڑکی نے داؤد کی طرف دیکھتے کہا۔


"کیا میں آپ کو جانتا ہوں؟" داؤد نے سپاٹ لہجے میں ہوچھا۔


"نہیں آپ مُجھے بالکُل نہیں جانتے۔" اُس نے اطمینان سے جواب دیا۔


"تو پھر آپ یہاں بیٹھی ہی کیوں؟ میں اجنبیوں سے بات نہیں کرتا مِس۔" داؤد نے غُصے سے اِسفسار کیا۔


"آن ہمدانی نام ہے میرا۔ اور جہاں تک بات ہے جاننے کی تو میں آپ کو جانتی ہوں یہی کافی ہے۔" آن نے اِطمینان سے جواب دِیا۔


"لیکن میرے لیے کافی نہیں ہے مُجھے اپنا وقت ضائع کرنے کا کوئی شوق نہیں۔" داؤد نے کہتے اُٹھنا چاہا مگر آن نے اُس کا فون اُچک لیا۔


" کیا بدتمیزی ہے مِس ہمدانی؟ میرا فون واپس کریں ورنہ میں چوری کے الزام میں اندر کروا دوں گا۔" داؤد نے دبے لہجے میں کہا۔


"میری بات سُن لیں آپ کو آپ کا فون بھی مِل جائے گا اور مُجھے جیل بِھجوانے کی زحمت بھی نہیں کرنا پڑے گی۔" آن نے اِطمینان سے جواب دیا جبکہ اُس کا یہ اِطمینان مقابل کو آگ لگا رہا تھا۔


"ایسی کون سی بات ہے جو آپ مُجھ سے کرنے کے لیے مری جارہی ہیں جِسے کِسی کی زندگی اور موت کا مسلہ ہو۔" داؤد نے اُسے تیکھے چتونوں سے گھورا۔


"کِسی کی زندگی اور موت کا ہی مسلہ ہے مِسٹر داؤد سِکندر۔" آن کے لہجے میں ایسا کُچھ تھا جو وہ چونک اُٹھا تھا۔


"کہیے میں سُن رہا ہوں آپ کی بات حالانکہ میں آپ کو جانتا تک نہیں۔" داؤد نے اُس کے چہرے پر سنجیدگی دیکھتے کہا۔


آن نے اپنا فون نِکالا اور گیلری میں سے کُچھ کھول کر داؤد کے سامنے کیا۔ داؤد نے ناسمجھی سے اُس کا فون تھاما اور گیلی میں موجود وہ تصویریں دیکھنے لگا جو اُس نے کھول کر اُس کے سامنے کیں تھیں۔


"یی یہ تو میری تصویریں ہیں میری آنکھیں بالکُل یہ تو میری آنکھیں ہیں۔ کِس نے بنائیں یہ ؟ مطلب کوئی فرق نہیں ہے اِن میں اور میری آنکھوں میں۔ آپ کو کہاں سے ملیں کیا یہ آپ نے بنائیں ہیں؟" داؤد نے فون میں موجود اپنی آنکھوں کے سکیچ دیکھتے کہا۔ چار پانچ سکیچ تھے جِن میں صرف آنکھِن بنائیں گئیں تھیں۔


"زوم کر کے دیکھیں نیچے آرٹسٹ کا نام بھی لِکھا ہے اور ڈیٹ بھی۔" آن نے پُرسکون لہجے میں جواب دِیا۔ معصومہ کے سکیچز کی تصویریں اُس نے تب لیں تھِیں۔


جب پہلی بار معصومہ نے اُس سے اپنے خواب شئیر کیے تھے اور آن نے اُس کی بات کو مزاق میں اُڑایا تھا اور اُس سے اگلے ہی دِن معصومہ اپنی بات ثابت کرنے کے لیے وہ سکیچز لے آئی تھی اور اُس کی آنکھوں میں رقم سچائی دیکھ کر اُسے معصومہ کی بات کا یقین کرنا پڑا تھا۔


داؤد نے زوم کر کے دیکھا تو ہر سکیچ کے نیچے معصومہ جہانگیر اور ڈیٹ لِکھی تھی اور یہ ڈیٹ آج سے کوئی چھ سات ماہ پہلے کی تھی اور تب تو وہ پاکستان میں بھی نہیں تھا وہ تو آٹھ ماہ کے لیے لندن گیا تھا۔


جہاں اُسکے ڈیلیگیٹرز کو سامان ریسیو نہیں ہوا تھا اور اُنہوں نے داؤد پر فراڈ کا کیس کر دیا تھا کہ زیادہ شیئرز اُسی کے تھے کمپنی میں۔ اور وجدان اور ارحم کی بجائے اُسے لندن جانا پڑا تھا۔


کُچھ عرصہ اُسے جیل میں بھی گُزارنا پڑا تھا پھر جب سارا کیس کلئیر ہوا تھا تو فراڈ اُن کے اپنے ہی شیئر ہولڈر نے کیا تھا جِس پر اُنہوں نے داؤد سے معافی مانگی تھی اور اِس سارے عرصے میں اُسے لندن میں چھ ماہ لگے تھے۔ اور پھر وہ وقت سے پہلے ہی واپس آگیا تھا۔


"معصومہ جہانگیر۔" وہ بڑبڑایا۔


ذہن کے پردے میں کوئی اور نام جگمگایا تھا۔ جِسے وہ زبان سے دُہرانا بھی نہیں چاہتا تھا۔


"یہ معصومہ جہانگیر کون ہے؟" اُس نے ذہن میں آتا سوال پوچھا۔


"یہ وہ لڑکی ہے جِسے آپ سے عِشق کی حد تک مُحبّت ہے۔ اور اُس نے آپ کو دیکھے بنا آپ سے محبت کی ہے۔" آن نے ٹھنڈا سانس بھرتے کہا۔


"کیا بکواس ہے؟" داؤد کی پیشانی پہ بل پڑے تھے۔


"یہ بکواس نہیں حقیقت ہے۔ اُسے آپ سے بہت محبّت ہے۔ وہ بہت معصوم ہے بالکل کِسی چھوٹے بچّے کی طرح۔ اُس نے جان بوجھ کے تو آپ کو دِل میں نہیں بسایا۔ یہ تو خدا کا دِیا تحفہ ہوتا ہے وہ جِسے چاہے اِس تحفے سے نواز دے۔" آن نے کھوئے لہجے میں کہا۔

"اب آپ مُجھ سے کیا چاہتی ہیں؟" داؤد نے مطلب کا سوال پوچھا۔


"میں چاہتی ہوں کہ آپ ایک بار اُس سے مِل لیں۔" آن نے کہا تو داؤد ہنس دیا۔


"اور میں آپ کی دوست جِسے میں جانتا تک نہیں اُس سے مِل کر کیا کروں گا؟ داؤد نے استہزائیہ پوچھا۔


"وو وہ میں چاہ رہی تھی کہ آپ بس ایک بار اُس سے مِل لیں۔ وہ میری بات نہیں سمجھے گی۔ آپ نے بھی تو شادی کرنی ہے نا تو میری دوست سے کیوں نہیں۔" آن نے گڑبڑاتے کہا تو داؤد نے سپاٹ تاثرات لیے اُسے دیکھا۔


"مُجھے شادی نہیں کرنی نہ آج نہ ہی کل۔" داؤد نے سُرخ نیلی آنکھیں اُس کی آنکھوں میں گاڑیں کہ ایک پل کو وہ ڈر سی گئی۔


"مگر پھر بھی آپ ایک بار اُس سے مل لیں صرف ایک بار۔ پھر جو آپ کا فیصلہ ہو گا آپ اُسے وہیں بتا دیجیے گا۔ اگر میں نے اُسے بتایا کہ میں نے آپ سے مِل کر اُس کے بارے میں بات کی ہے تو وہ مُجھے غلط سمجھے گی پلیز۔" آن نے اُس کی منّت کرتے کہا۔


"ٹھیک ہے مِل لوں گا آپ کی فرینڈ سے مگر پھر یہ مت کہیے گا کہ میں نے آپ کی معصوم دوست کا دِل توڑ دِیا۔" داؤد پُراسرار سا مُسکرایا۔


"نن نہیں کہوں گی اور مُجھے یقین ہے کہ ایک بار اُس سے مِل کر آپ اُس کی معصومیت کے قائل ہوجائیں گے۔" آن نے مضبوط لہجے میں کہا تو وہ مُسکرا دیا۔


"لیٹس سی۔ یہ میری آپ سے پہلی اور آخری مُلاقات ہے اِس کے بعد آپ کبھی میرے راستے میں مت آئیے گا اور آپ کی دوست کو میں نے کیا جواب دِیا یہ آپ اُسی سے پوچھ لیجیے گا۔" اُس نے دو ٹوک لہجے میں کہا تو آن نے سر ہلا دیا۔


"مگر یہ تو بتا دیں کہ آپ ملیں گے کہاں اُس سے؟" آن نے پوچھا۔


"یہ میرا کارڈ ہے کل گیارہ بجے میرے آفس بھیجیے گا اپنی فرینڈ کو وہی مِلوں گا میں اُس سے۔" داؤد نے اُسے اپنا کارڈ تھمایا اور ایک سرسری نظر اُس پہ ڈالتا ریسٹورینٹ سے نِکلتا چلا گیا


جبکہ آن نے اُس کا کارڈ دیکھا جِس پہ ڈی۔اے۔ڈبلیو امپورٹ اینڈ ٹرانسپورٹ کمپنی لِکھا تھا اور نیچے تین چار فون نمبرز دئیے گئے تھے۔ اُس نے کارڈ کو بیگ میں رکھا اور اُٹھ کر باہر نِکل گئی۔


*********************


آن ریسٹورینٹ اپنے پاپا کے ساتھ آئی تھی جب اُنہیں کِسی کا فون آگیا تو وہ اُٹھ کر سائیڈ پہ چلے گئے جبکہ وہ وہیں بیٹھی اِردگِرد نظریں دوڑا رہی تھی۔

ِ جب اُس کی نظر داؤد پر پڑی اور یہ یقین کرتے ہی کہ وہ معصومہ کا نیلی آنکھوں والا شہزادہ ہی ہے وہ تیر کی ریزی سے اُس کی طرف آئی تھی جب وہ وہاں آکے بیٹھی تب داؤد جانے کی تیاری کر رہا تھا۔


اور پھر وہ اُس سے بات کر کے اُسے راضی کرنے میں کامیاب ہو ہی گئی تھی کہ وہ بس ایک بار معصومہ سے مِل لے یہ جانے بغیر کہ اُس کی یہ حرکت معصومہ کو اندیکھی اذیّت میں مُبتلا کرنے والی تھی۔

******************


وہ اِس وقت ہیڈ کوارٹر میں بیٹھا تھا ایک گھنٹے بعد اُس کی فلائنگ ڈیوٹی تھی جہاں اُسے پاک آرمی کی ٹیم اور چیف جنرل کو پوری سکیورٹی کے ساتھ کراچی لے جانا تھا۔


اِس وقت وہ چیئر پہ بیٹھا آن کے خیالوں میں گُم تھا۔ وہ کُچھ بھی تو نہیں جانتا تھا اُس کے بارے میں سوائے اِس کے کہ وہ معصومہ کی دوست تھی۔


"اگلی بار گھر گیا تو معصومہ سے سب کُچھ پوچھوں گا آن کے بارے میں۔" وہ خود سے بڑبڑایا۔


"آہمم! کیا سوچا جا رہا ہےسر؟" اُس کی کو پائلٹ نے اُس کے قریب رکھی چیئر پر بیٹھتے کہا۔


"میں آپ کو کیوں بتاؤں مِس وِشہ؟" روحان نے اُسے گھورا۔


"اور آپ مُجھے کیوں نہیں بتائیں گے خوبصورت اینڈ ہینڈسم اِنسان؟" اُس نے شرارت سے کہا۔

"کیونکہ میں اپنی ہر بات ہر کِسی سے شیئر نہیں کرتا مِس وِشہ۔" روحان نے بے نیازی سے کہا۔


"اب میں ہر کِسی ہو گئی پیارے اِنسان؟" وہ مصنوعی خفگی سے بولی۔


"مِس وشہ کیا ہے؟ دماغ نہ خراب کریں میرا۔ ابھی کُچھ دیر بعد رائڈ ہے ہماری اور میں نہیں چاہتا کہ میں جہاز کو کہیں دے ماروں اِس لیے براہ مہربانی میرے دماغ کا دہی نہ کریں۔" روحان نے زِچ ہو کر کہا۔


"آپ کے ساتھ میں بھی تو ہوں گی ناں۔ فِکر مت کریں دہی نہ سہی لسّی بنا دیتی ہوں پھر آپ سیدھا کراچی جا کے لینڈ کریں گے۔" وِشہ نے ہنسی دباتے کہا۔


"مِس وِشہ؟ چُپ ہونے کا کیا لیں گی آپ؟" روحان نے بے بسی سے پوچھا۔


"آُپ کا عُمر بھر کا ساتھ پیارے اِنسان۔" وہ ہولے سے بڑبڑائی۔


"میں کُچھ پوچھ رہا ہوں۔" روحان نے دوبارہ پوچھا۔


"پیارے اِنسان! وقت آنے پہ آپ سے مانگ لوں گی کہ مُجھے چُپ ہونے کا کیا چاہیے۔ فی الحال تو کُچھ نہیں چاہیے۔" وشہ نے بھی بے نیازی سے کہا۔


"ٹھیک ہے تو پھر کُچھ دیر کے لیے چپ ہو جائیں۔" روحان نے کہتے آنکھیں بند کر لیں۔


"دیکھنا پیارے اِنسان ایک وقت ایسا آئے گا جب آپ مُجھے کہیں گے بولو وِشہ کُچھ تو بولو ترس گیا ہوں میں تُمہاری آواز سُننے کو۔ لیکن تب میں بھی نہیں بولوں گی آپ بے شک جِتنی مرضی مِنتیں کریں۔" وِشہ نے منہ پُھلاتے کہا۔


"ایسا وقت نہیں آئے گا مِس وِشہ۔" روحان نے ہنوز آنکھیں بند رکھے کہا۔

"ایسا وقت آئے گا اور یہ میرا دعویٰ ہے اور میرے دعوے کبھی جھوٹے نہیں ہوتے۔" وشہ نے اعتماد سے کہا۔


"دیکھیں گے۔" روحان اب بھی بے نیاز تھا مگر وہ اِس بات سے انجان تھا بہت جلد وہ وقت آنے والا تھا جب وِشہ کی کہی بات پوری ہونی تھی۔ اور تب روحان نے وہی کرنا تھا جو وِشہ نے ابھی کُچھ دیر پہلے اُسے کہا تھا۔


*************


معصومہ کمرے میں بیٹھی پڑھ رہی تھی۔ تین دِن بعد اُس کا پہلا پیپر تھا تو وہ اچھی طرح تیار کر رہی تھی۔ تین دِن سے اُس نے کوئی سکیچنگ نہیں کی تھی۔

پڑھ پڑھ کر جب اُسے تھکاوٹ محسوس ہونے لگی تو وہ الماری سے سکیچ بُک اُٹھا لائی اور اپنا فون کھولا اور گیلری کھول کے داؤد کی تصویر نِکالی جِس میں وہ سامنے دیکھتا مُسکرا رہا تھا یوں کہ اُس کے چہرے کا ہر تاثر واضح تھا۔


اُس نے کتاب ایک سائیڈ ہر رکھی اور پینسل نِکال کر تصویر دیکھتی اُس سکیچ بُک پر اُتارنے لگی۔


وہ دھیان سے اُس کا ایک ایک تاثر کاغذ پر اُتار رہی تھی۔ وہ وقت کی رفتار سے بے نیاز اہنے کام میں مصروف تھی۔


ایک گھنٹے بعد اُس نے سکیچ کو مُکمل کر کے اپنے سامنے کیا۔ ابھی اُس نے رنگ نہیں بھرے تھے سکیچ میں۔ اُس نے اُسے بے رنگ ہی چھوڑ دیا اور سکیچ کے ایک طرف لِکھنے لگی۔


ازل سے ہے محبت

ماوار لفظوں کی مالا سے


مگر یہ بھی حقیقت ہے

محبت سوچ کے آکاش پر


بادل کی صورت میں

صدا پرواز کرتی ہے۔


کبھی بارش کی بوندوں میں

سمٹ کر دل کی دھرتی پر


اترتی ہے، بکھرتی ہے

ادا کے کر صبا سے یہ،


گلابوں سے مہک لے کر،

ستاروں سے چمک لے کر،


حسیں آنچل بناتی ہے۔۔

اسی آنچل سے پھر خوابوں کے،


کچّے گھر سجاتی ہے

محبت آزماتی ہے


کبھی یہ شعر بن کر،

الفاظ کی حرمت بڑھاتی ہے


کبھی یہ ساز بن کر،

دھیرے دھیرے گنگناتی ہے


سراپا آنکھ بن جاتی ہے

یہ محبوب کو پا کر


انوکھا لمس بن جاتی ہے

کوئے یار میں جا کر


نہ جانے کون سا منتر

یہ پڑھ کر ہولے ہولے سے


کسی کی بند آنکھوں میں

بنا دستک دئے یکدم


اتر کے گھر بناتی ہے

محبت مسکراتی ہے


یہ خوشبو ہے

ہمیشہ پھول کی سانسوں میں ہوتی ہے،


کسک ہے دائمی اس میں

بہت بے نام لذّت ہے


محبت کی یہی تعریف ہے

کہ یہ محبت ہے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!


نظم لِکھ کے اُس نے سکیچ بُک الماری میں رکھی۔ اور بیگ میں کتابیں ڈال کر سونے کے لیے لیٹ گئی۔


اب اُسے داؤ سِکندر کے خواب نہیں آتے تھے اور نہ ہی وہ رات کو نیند سے چونک کر اُٹھتی تھی۔


********************

یاسمین بیگم آج حویلی آئیں تھیں۔ فاطِمہ نے آنے سے اِنکار کر دیا تھا وہ جانتی تھی کہ اُس کی ماں حویلی کیوں جا رہی ہے یاسمین بیگم حیران ہوئیں تھیں۔


وہ تحریم کی بہت اچھی دوست تھی اور تقریباً روز ہی حویلی آتی تھی۔


مگر آج اُس نے خود ہی آنے سے منع کر دیا تھا اور یاسمین بیگم کے وجہ پوچھنے پر وجہ بھی نہیں بتائی تھی کیا بتاتی کہ اُن کے بھتیجے نے کھینچ کے ایک چانٹا مارا تھا۔

جِس کی وجہ سے وہ غُصے میں ہے اور نہیں چاہتی کہ اُس کا غُصّہ کِسی اور پہ نِکلے۔


وہ آج سِنکندر صاحب سے فاطِمہ اور داؤد کے رِشتے کی بات کرنا چاہتیں تھیں۔


دس بج رہے تھے سِکندر صاحب اور فراز صاحب تو گھر پہ نہیں تھے اور حمدہ بیگم اور زینب بیگم لاونج میں ہی بیٹھیں تھیں جبکہ تحریم اپنے کمرے میں تھی۔ شادی کی تیاریاں شروع ہو چُکیں تھیں۔ تحریم کی شادی کے لیے سارا سامان تیار کیا جا رہا تھا۔


یاسمین بیگم بھی سلام کرتیں اپنی دونوں بھابھیوں کے پاس بیٹھ گئیں۔


دونوں نے اُن کے سلام کا جواب دیا اور اُن کو کپڑے دِکھانے لگیں۔

"سِکندر بھائی کِدھر ہیں؟ یاسمین بیگم نے اِدھر اُدھر نظر دوڑاتے پوچھا تھا۔


"وہ تو فراز بھائی کے ساتھ زمینوں کی طرف نِکلے ہیں۔ کیوں خیریت تھی؟" حمدہ بیگم نے جواب دیا تھا۔


"کیوں میں بغیر وجہ کے اُن کے بارے میں نہیں پوچھ سکتی۔" یاسمین بیگم نے تیکھے چتونوں سے پوچھا۔


"نن نہیں میں تو ایسے ہی پوچھ رہی تھی۔" حمدہ بیگم گڑبڑائیں تھیں جبکہ زینب بیگم نے تاسف سے سر ہلایا تھا۔


"مُجھے آپ دونوں سے کُچھ بات کرنی تھی اب بھائی صاحب نہیں ہیں تو میں آپ سے ہی کر لیتی ہوں۔" یاسمین بیگم نے کہا۔


"جی کہیں میں سُن رہی ہوں۔" حمدہ بیگم اةن کی طرف متوجّہ ہوئیں تھیں۔


"میں فاطِمہ کے رِشتے کے بارے میں بات کرنے آئی ہوں۔" یاسمین بیگم نے بات شروع کی جبکہ اُن کی بات سُن کے حمدہ بیگم اور زینب بیگم چونکی تھیں۔


"فاطِمہ کے رِشتے کی بات؟ اُس کا رِشتہ آیا ہے؟" زینب بیگم نے سوال کیا۔


"اُس کا رِشتہ کیوں آنے لگا؟ آپ جانتی ہیں بھابھی کہ میں نے شُروع سے ہی سوچا تھا کہ فاطِمہ اِس گھر میں بہو بن کے آئے گی۔ حیدر کا تو چلو تحریم سے نِکاح ہو گیا تو میں چُپ رہی مگر اب مُجھے فاطِمہ کے لیے داؤد کا رِشتہ چاہیے۔ اور میں نہ نہیں سُنوں گی۔" یاسمین بیگم کی دو ٹوک بات پہ وہ دونوں ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر رہ گئیں تھیں۔


"میں آپ کی بات سمجھ سکتی ہوں لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔" حمدہ بیگم بات ادھوری چھوڑ گئیں تھیں۔


"اگر میری بات ٹھیک ہے تو پھر یہ لیکن بیچ میں کہاں سے آگیا؟" یاسمین بیگم نے تند لہجے میں کہا تو زینب بیگم اُنہیں تاسف سے دیکھ کر رہ گئیں۔

"لیکِن یہ کہ داؤد ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا اور اگر کبھی شادی کرے گا بھی تو ہم جِس سے بھی کہیں گے کر لے گا لیکِن فاطِمہ سے نہیں۔" حمدہ بیگم نے ٹھنڈا سانس بھرتے اپنی بات مُکمّل کی۔


"اِس بات کا کیا مطلب ہوا کہ کِسی سے بھی کر لے گا مگر فاطِمہ سے نہیں۔ میری بیٹی اِتنی گِری پڑی ہے کیا جو وہ اُس کے بارے اِس طرح بات کرے؟" یاسمین بیگم پھٹ پڑیں تھیں۔


"آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کریں وہ ہمارا اِکلوتا بیٹا ہے ہم اُس پہ دباؤ نہیں ڈال سکتے اور نہ ہی زبردستی کرنا ہماری سرشت میں ہے۔ وہ فاطِمہ کو اپنی بہن مانتا ہے بالکُل تحریم کی طرح اور اِسی لیے وہ فاطِمہ سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔" حمدہ بیگم نے اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی تھی۔


"یہ کیا بات ہوئی؟ شادی سے پہلے سب بہن بھائی ہی ہوتے ہی۔ شادی کے بعد خیالات کے ساتھ احساسات بھی بدل جاتے ہیں۔" یاسمین بیگم نے تلخی سے کہا تھا جبکہ زینب بیگم خاموشی سے دونوں کی گُفتگُو سُن رہیں تھیں۔


"مانتی ہوں شادی کے بعد خیالات بدل جاتے ہیں لیکن وہ داؤد سِکندر ہے جِس کے خیالات ہمیشہ ایک سے رہتے ہیں اور یہ بات آپ بھی جانتی ہیں کہ جب وہ کِسی سے کوئی رشتہ جوڑ لیتا ہے تو مرتے دم تک اُسے نِبھاتا ہے۔ اور ہم اپنے بیٹے کی زندگی اپنی ضد میں خراب نہیں کر سکتے۔" حمدہ بیگم نے دو ٹوک کہا ۔


"آپ سے تو بات کرنا ہی فضول ہے میں سِنکدر بھائی سے بات کروں گی۔" یاسمین بیگم نے اُٹھتے ہوئے کہا اور حویلی سے نِکلتی چلی گئیں۔


حمدہ بیگم اور زینب بیگم نے اُنہیں روکنے کی کوشش نہیں کی تھی کہ اِس کا کوِئی فائدہ نہیں تھا۔


"اگر سِکندر بھائی نے بہن کی مُحبّت میں بیٹے کا فیصلہ رد کر دِیا تو؟" زینب بیگم نے خدشہ ظاہر کِیا۔


"ایسا نہیں ہو سکتا۔ اُن کا بیٹا ضد میں اُنہی پر گیا ہے اچھی طرح جانتے ہیں کہ داؤد مر تو سکتا ہے مگر اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔" حمدہ بیگم نے اطمینان سے کیا تو زینب بیگم نے سر ہلا دِیا۔


*******************


وہ جلے پیر کی بلی کی طرح اِدھر سے اُدھر ٹہلتی اپنی ماں کا اِنتظار کر رہی تھی۔ اگر آج جواب اِنکار میں آتا تو ممکن تھا کہ وہ پاگل ہو جاتی۔


بیل ہوئی تو وہ پاگلوں کی طرح دوڑتی ہوئی باہر کی جانب لپکی۔ دروازہ کھولتی وہ جلدی سے اپنی ماں کو اندر آنے کا راستہ دیتی ایک طرف کو ہو گئی۔

اُس کی ماں نے لاونج میں جا کے صوفے پہ نشست سنبھالی۔ اُس نے ملازمہ سے پانی منگوا کے ماں کو دِیا اور اُن کے قدموں میں بیٹھ گئی۔ ملازمہ جا چُکی تھی۔


"کیا بات ہوئی آپ کی ؟ اُس نے بے تابی سے پوچھا تھا۔


"بھائی صاحب گھر پر نہیں تھے اُن سے بات نہیں ہو سکی بھابھی سے بات کی ہے۔" یاسمین بیگم نے پُرسوچ انداز میں کہا۔


"تو اُنہوں نے کیا کہا؟ وہ مان گئیں ناں؟ اُنہوں نے میرے اور داؤد کے رِشتے کے لیے ہاں کی ہے ناں؟ بول کیوں نہیں رہیں بولیں ناں کیا جواب دِیا اُنہوں نے؟" فاطِمہ نے جنونی انداز میں اُن کا گُھٹنا تھامے پوچھا تھا۔


"اُنہوں نے اِنکار کر دیا ہے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" یاسمین بیگم نے آہستہ آہستہ ساری بات بتا دی جِسے سُن کر فاطِمہ ساکت رہ گئی تھی۔


کہیں نا کہیں اُسے یقین تھا کہ بڑی ممانی اور بڑے ماموں مان جائیں گے تو داؤد کُچھ نہیں کر پائے گا مگر اب اُسے لگ رہا تھا کہ وہ ہار گئی ہے مگر نہیں وہ اِتنی جلدی کیسے ہار سکتی ہے کبھی نہیں۔


"میں آپ کو بتا رہی ہوں اگر داؤد نے میرے عِلاوہ کِسی اور سے شادی کی تو پہلے میں اُس کی بیوی کو ماروں گی اور پِھر داؤد کو۔ آپ نے ہی کہا تھا نا کہ وہ میرا ہے؟ ہے نا تو اب آپ ہی اُسے میری زندگی میں شامل کریں گی اور اگر اُس کی زندگی میں میرے عِلاوہ کوئی اور آیا تو پھر مُجھ سے کوئی شِکوہ مت کیجیے گا۔"اُس نے اُن کے گُھٹنے پکڑتے ہزیانی انداز میں چیختے کہا تھا۔


گھر پہ کوئی نہیں تھا تبریز صاحب تو زمینوں کی طرف گئے تھے جبکہ احمر اپنی بیوی رائمہ اور بیٹ احسن کے ساتھ اپنے سُسرال گیا ہوا تھا اور سعد تو رہتا ہی ہوسٹل میں تھا۔


"آہستہ بولو بہری نہیں ہوں میں۔ اور داؤد کی شادی صرف تُم سے ہی ہو گی۔ بیٹے کی خاطِر بہن کو کھونے کی غلطی نہیں کرہں سِکندر بھائی۔" یاسمین بیگم نے پُراسرار سا مُسکراتے کہا تھا۔


اور فاطِمہ اُن کا چہرہ دیکھتی اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی تھی۔


********************


آن معصومہ کے گھر جانے کے لیے تیار یو رہی تھی سر پہ حجاب باندھ کے اُس نے آئینے میں اپنا جائزہ لیا۔


پرپل اور سکن کلر کے ڈریس میں وہ بہت جاذب نظر لگ رہی تھی۔ سکِن کلر کا دوپٹہ اُس نے کندھے پر ڈال رکھا تھا۔


ہنڈ بیگ میں فون ڈالتی وہ کمرے سے نِکلنے لگی جب اُس کے فون کی گھنٹی بجی۔


"اسلامُ علیکُم! آپ بہت غلط وقت پر فون کرتی ہیں اپیا۔ ابھی میں مومو کے گھر جانے کے لیے نِکل رہی تھی۔" اُس نے تیز تیز بولتے کہا تھا۔


"سوری اپیا کی جان! لیکن میں ابھی فری تھی تو سوچا کہ ابھی فون کر لوں بعد میں پتہ نہیں کب وقت مِلے۔" دوسری طرف سے نرم سی آواز اُبھری تھی۔


"اچھا سوری۔ کیسی ہیں آپ؟ "آن نے سوری کہا۔ اور گاڑی کا دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھی اور ڈرائیور کو چلنے کا اِشارہ کیا۔

"کوئی بات نہیں گُڑیا جانتی ہوں نہ تُم ہمیشہ ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتی ہو۔" مقابل نے کہا تھا۔


"میں اگر ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتی ہوں تو آپ ہر وقت ہوا میں اُڑتی رہتی ہیں۔" سامنے بھی آن تھی جواب دینے سے بالکُل نہ چوکی۔


"اچھا یہ بتاؤ پاپا اور موم کیسے ہیں؟ میری اُن سے بات نہیں ہو پائی۔" دوسری طرف سے کہا گیا تھا۔


"وہ بالکُل ٹھیک ہیں پاپا آفس گئے ہیں اور ماما ریسٹ کر رہی ہیں اور اب میں آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں مومو کا گھر آگیا ہے۔" آن نے جیسے اُسے فون رکھنے کا اِشارہ دیا۔


"اوکے پھر بات ہو گی لو یو۔" دوسری طرف سے کہا گیا۔


لو یو ٹو مور دین یو۔" محبت سے کہا گیا تو آن نے شُکریہ کرتے فون رکھ دیا۔


آن نے گاڑی سے اُتر کر بیل بجائی۔ دروازہ مشعل نے کھولا تھا۔


سلام کرتے وہ اندر داخل ہوئی۔ مشعل جانتی تھی اُسے۔ وہ آن کو لاونج میں لے آئی اور بیٹھنے کا اِشارہ کرتی کچن میں جا کر اُس کے لیے جوس بنا لائی۔


"یہ لیں۔" اُس نے جوس کا گلاس اُسے پیش کیا اور اُس کے قریب ہی بیٹھ گئی۔


"معصومہ کِدھر ہے؟" آن نے اِستفسار کیا تھا۔


"کُچھ دِنوں سے کمرہ نشین ہو گئیں ہیں محترمہ جیسے ٹاپ تو اُسی نے کرنا ہے۔" مشعل۔کے طنزیہ لہجے پر آن نے لب بھینچ لیے۔


آن اُس سے ایکسکیوز کرتی معصومہ کے کمرے کی جانب چل دی۔


وہ کمرہ کھول کے اندر داخل ہوئی تو معصومہ کتاب میں منہ دیے بیٹھی تھی۔


"مومو! چلو جلدی سے تیار ہو جاؤ۔ ہمیں جانا ہے۔" آن نے جلدی مچائی تھی۔


"کہاں جانا ہے اور کالج تو بند ہے پھر تُم مُجھے لینے کیوں آئی؟" معصومہ حیران ہوئی تھی۔


"ہمیں کالج نہیں جانا بلکہ کہیں اور جانا ہے تُم جلدی اے یہ کپڑے پہنو جاو شاباش۔" آن نے اُسے پُچکارتے باتھ روم کی جانب دھکیلا۔


معصومی اُلجھن بھرے تاثرات لیے باتھ روم چلی گئی دس منٹ بعد وہ فریش ہو کر آئی تو اُس سادہ کاٹن کا نیوی بلیو کلر کا پرنٹڈ سوٹ زیب تن کر رکھا تھا۔


آن نے جلدی سے اُس کے لمبے بال سُلجھائے پھر اُس کا ہلکا ہلکا سا میک اپ کیا جو زیادہ محسوس نہ ہو رہا تھا کہ اُسے میک اپ کی ضرورت بھی نہ تھی۔ پھر پانچ منٹ میں اُس کے سر پر حجاب سیٹ کیا اور دوپٹہ اُس کے کندھے پر ڈال دیا۔ اور ایک بار اُس کا جائزہ لیا۔ وہ بہت پیاری لگ رہی تھی نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت۔


"ہمیں جانا کہاں ہے آن؟ اور ماموں سے تو پوچھنے دو مُجھے۔ میں اسے کیسے جاؤں اُن سے پوچھے بغیر۔" معصونہ نے آن سے کہا تھا۔


"یار فون کر کے پوچھ لو ناں۔" آن نے اُس کا کلچ اُٹھاتے کہا۔


"وہ آج گھر پہ ہی ہیں۔" معصومہ نے اُسے بتایا تو وہ اُس کا ہاتھ پکڑتی کمرے سے باہر نِکل گئی۔


رفیق صاحب کے کمرے میں جا کر اُس نے معصومہ کا ہاتھ چھوڑا اور دستک دے کے اندر داخل ہوئی۔


رفیق صاحب بیڈ پر بیٹھے تھے جبکہ فرزانہ بیگم کمرے میں نا تھیں البتہ باتھ روم سے پانی گِرنے کی آواز آرہی تھی۔


اُس نے خدا کا شُکر ادا کیا اور رفیق صاحب کو سلام کیا۔


"انکل وہ دو دِن بعد ہمارا پیپر ہے تو ہمیں رول نمبر سلپ لینے کالج جانا ہے تو کیا میں معصومہ کو ساتھ لے جاوں اِس نے بھی اپنی رول نمبر سلپ لینی ہے۔" آن نے سنجیدہ شکل بنائے کہا اور معصومہ وہ تو اُس کے جھوٹ پر اُسے دیکھ کر رہ گئی تھیکیونکہ رول نمبر سلپ اُنہیں مل چُکی تھی۔


"ٹھیک ہے بیٹا لے جاو مگر وقت پہ واپس آجانا۔" رفیق صاحب نے جانے کی اجازت دیتے یدایت کی۔


"جی انکل ہم جلد ہی آجائیں گے۔" آن نے سر ہلاتے معصومہ کا ہاتھ پکڑا اور جلدی سے باہر نکل گئی۔


معصومہ تو اُس کی تیزی دیکھتی رہ گئی تھی۔ جبکہ آن اُسے گھسیٹتی ساتھ لیے جا رہی تھی۔


*************

آن اُسے گاڑی میں بٹھا کر ڈرائیور کو اڈریس بھی سمجھا چُکی تھی معصومہ کے بار بار پوچھنے پر بھی اُس نے نہیں بتایا تھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔


"آنو اگر اب بھی تُم نے نہیں بتایا نا تو میں نے چلتی گاڑی سے چھلانگ لگا دینی ہے۔" معصومہ نے اُسے دھمکی دی تھی۔


"ہاں تُم کہو گی اور میں مان لوں گی کہ دا گریٹ معصومہ جہانگیر میں اِتنا حوصلہ ہے کہ وہ ایسی حرکت کرے۔" آن نے اُس کی دھمکی کی دھچیاں اُڑائیں تھیں۔


"کِتنی بدتمیز ہو تُم" معصومہ نے خفت زدہ لہجے میں کہا۔


"مُجھے پتہ ہے تُم نہ بتاؤ تو بہتر ہے۔" آن نے ہنس کر کہا۔


"میں آپی سے تُمہاری شِکایت کروں گی۔" معصومہ نے اُسے پھر دھمکانا چاہا۔


"بصدِ شوق کرو۔ مگر جب وہ آئیں گی تب ہی کر پاو گی نا" آن نے ہنسی دباتے کہا۔


"میں تُم سے بات ہی نہیں کر رہی۔" معصومہ نے اپنا رُخ موڑ کر کہا اور کھڑکی کے پار چلتے مناظر دیکھنے لگی۔


آن نے بھی اُسے دوبارہ نہ چھیڑا۔ بظاہر تو وہ ہنس رہی تھی مُسکرا رہی تھی مگر دِل ہی دِل میں وہ پریشان تھی داؤد کا کیا ری ایکشن ہو گا اُس کا کیا جواب ہو گا یہی سوچیں اُسے پریشان کر رہیں تھیں۔


وہ اپنی دوست کا دِل ٹوٹتے نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ پہلے اُس کی زندگی میں کونسی خوشیاں تھیں۔


جو ایک اور غم اُس کی زندگی کا حِصّہ بن جاتا۔ اور اگر یہ غم اُسے مِل جاتا تو شاید وہ معصوم سی لڑکی ٹوٹ کر بِکھر جاتی۔


آدھے گھنٹے بعد وہ ایک چار منزلہ بلڈنگ کے سامنے کھڑیں تھیں۔ اور فرنٹ پہ سائن بورڈ لگا تھا جِس پہ بڑا بڑا سا ڈی-اے-ڈبلیو امپورٹ اینڈ ٹرانسپورٹ کمپنی لِکھا تھا۔


"ہم یہاں کیا کرنے آئے ہیں آنو؟" معصومہ نے پوچھا۔


"اندر چلو بتاتی ہوں۔" آن نے گہرا سانس بھرتے کہا۔


تو معصومہ خاموشی سے اُس کے ساتھ چل دی سوال پوچھنے کا فائدہ ہی نہیں تھا جب تک آن کی مرضی نہ ہوتی وہ کُچھ نہیں بتاتی۔


ریسیپشن پہ کھڑی ہو کے آن نے ریسیپشینسٹ سے کُچھ کہا۔ معصومہ زرا فاصلے پر کھڑی تھی اُس نے آن کی کوئی بات نہ سُنی۔


ریسیپشینسٹ نے فون ملایا اور کِسی سے بات کرنے لگی۔ پھر فون بند کر کے اُنہیں جانے کا اِشارہ کیا۔ آن معصومہ لو لے کے سیکنڈ فلور کی طرف بڑھ گئی۔ وہ سیکنڈ فلور پہ پُہنچ کے ایک کمرے میں داخل ہوئیں جِس کے باہر میٹنگ ہال لِکھا ہوا تھا۔


"اب تو بتادو ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟" معصومہ نے چڑ کر پوچھا۔


"میری بات بہت دھیان سے سُننا مومو! میں نے جو کُچھ کیا تُمہاری بھلائی کے لیے کِیا۔ پلیز مُجھے کبھی غلط مت سمجھنا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میری جان سے پیاری دوست ایک سراب کے پیچھے بھاگتی رہے جِس کے پیچھے بھاگنے سے کبھی کُچھ حاصل نہیں ہو گا۔" آن نے تمہید باندھی۔


"مُجھے کُچھ سمجھ نہیں آرہی تُم کیا کہہ رہی ہو؟ صاف صاف کہو نا۔" معصومہ کے لہجے میں اُلجھن تھی۔


"ہم یہاں داؤد سِکندر سے مِلنے آئے ہیں بلکہ نہیں ہم نہیں صرف تُم۔ تُم اُن سے مِلو گی اُن سے اپنی مُحبّت کا اِظہار کرو گی اور وہ تُمہیں جواب دیں گے میری اُن سے ساری بات ہو گئی ہے۔ اُن ہی کے کہنے پہ میں تُمہیں یہاں لائی ہوں۔ اور اب اگر اُنہوں نے اِنکار کر دیا تو تُم کبھی اُن کا نام نہیں لو گی۔ وہ اپنے راستے تُم اپنے راستے۔ اُن کے پیچھے تُم اپنی زندگی برباد نہیں کرو گی۔ بھول جاؤ. گی کوئی داؤد سِکندر بھی تھا جو تُمہارے خوابوں میں آتا تھا۔" آن کی بات سُن کے معصومہ ساکت کھڑی رہ گئی۔


"تُم میرے سس ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہو آن؟ تُمہیں لگتا ہے کہ میں داؤد سِکندر کے لیے مری جا رہی ہوں؟ تُم ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہو کہ میں ایک لڑکی ہو کر کسی سے محبّت کا اِظہار کروں گی۔ مانا کہ میں داؤد سِکندر کو چاہتی ہوں مگر اِس کا مطلب یہ نہیں کہ میں اپنا معیار گِرا دوں۔ مُجھے میری سیلف ریسپیکٹ اپنی محبّت اور اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے۔ بھاڑ میں گیا وہ اِنسان جو مُجھے اپنے سامنے جُھکانا چاہتا ہے۔ مُجھے ایسے اِنسان کا ساتھ بالکل نہیں چاہیے جو ایک لڑکی کو اپنے سامنے جُھکا کر اُس سے اپنے لیے محبّت کا اِظہار سُنے۔ مُجھے تُم سے یہ اُمید نہیں تھی آنو جارہی ہوں میں نہیں مِلنا مُجھے کِسی سے۔" معصومّہ نے پتھریلے لہجے میں کہتے باہر کی طرف قدم بڑھائے۔ آن کو وہ اپنی مومو کہیں سے نہیں لگی جو حد سے زیادہ نرم دِل تھی یہ تو کوئی اور ہی معصومہ تھی۔


"تُمہیں میری قسم تُم یہاں سے نہیں جاؤ گی۔" آن کی بات پہ معصومہ کے قدم تھمے۔


"میں یہ سب صرف تُمہارے لیے کر رہی ہوں مومو! تُمہیں کیا لگتا ہے مُجھے نہیں پتہ تُم کِتنی اذیّت میں ہو۔ صرف ایک بار اُن سے مِل لو بے شک کُچھ مت کہنا۔ وہ اگر تُمہاری قِسمت میں نہیں ہے تو آج پتہ چل جائے گا پھر تُمہیں اُس سراب کے پیچھے بھاگنا نہیں پڑے گا۔ تُم سکون سے آگے بڑھ سکو گی۔ تُمہارے دِل میں خلش تو نہیں رہے گی کہ تُم نے کوشِش نہیں کی۔" آن نے نم آنکھوں سے کہا۔


"آگے بڑھنا اِتنا آسان ہوتا ہے آن؟" معصومہ سراپا سوال تھی جبکہ اُس کے سوال پہ آن نے نظریں چُرائیں۔

"وو وہ آنے والے ہوں گے میں چلتی ہوں اور گھبرانے کی " ضرورت نہیں ہے آن ہمدانی ہمیشہ اپنی مومو کے ساتھ ہے۔" آن نے اُس کے گلے لگتے کہا۔


جب کہ معصومہ خاموش رہی۔ وہ جانتی تھی آن کا اِرادہ غلط نہیں وہ اُس کی خوشی کے لیے یہ سب کر رہی تھی۔ مگر وہ آن کو یہ نہیں بتا پائی کہ اُس کا طریقہ غلط تھا۔


********************


آن باہر آئی تو سامنے سے داؤد سِکندر شاہانہ انداز میں چلتا آرہا تھا اُس کے قریب آکر وہ رُکا چہرے پر استہزائیہ مُسکراہٹ تھی۔


"تو اپنی دوست کے ساتھ آپ بھی آگئیں۔" داؤد نے طنزیہ کہا۔


"آپ کو کیا لگا تھا کہ میں اپنی دوست کو اکیلا بھیج دیتی؟" آن کے لہجے میں تلخی تھی۔ اِس اِنسان کی وجہ سے معصومہ کو ہمیشہ دُکھ ہی مِلے تھے۔


"ویل میں تو بھول بھی گیا تھا کہ میری آپ سے کوئی ڈیل ہوئی تھی یہ تو ریسیپشنسٹ نے بتایا تو مُجھے یاد آیا۔" داؤد نے بے نیازی سے کہا اور آن کڑھ کر رہ گئی۔


"میری دوست اندر ہے اور پلیز اُس سے اِس طرح طنزیہ انداز میں بات مت کیجیے گا۔" آن نے اُسے ہدایت دینے والے انداز میں کہا۔


"ویل اِس بات کا فیصلہ تو اُن کو دیکھ کر ہی ہو گا کہ وہ کِس لہجے کے لائق ہیں۔ ویسے کیا نام تھا آپ کی دوست کا؟ مُجھے یاد نہیں آرہا۔" داؤد نے اُسے تپانے کی کوشش کی۔


"معصومہ جہانگیر۔" آن نے کہا اور آگے بڑھ گئی جبکہ وہ بھی سر جھٹکتا میٹنگ ہال میں داخِل ہوا۔


*********************


آن وہاں سے ویٹنگ ایریا میں آکے بیٹھ گئی تھی۔ وہ بے چینی محسوس کر رہی تھی۔ اُسے اپنا فیصلہ اب غلط لگنے لگا تھا اور اِس بات کا فیصلہ تو وقت نے کرنا تھا کہ اُس کا فیصلہ صیح تھا یا غلط۔


وجدان اپنے کیبن سے نِکلتا ریسیپشن کی طرف گراونڈ فلور پہ جارہا تھا جب اُس کی نظر آن پہ پڑی اُسے خوشگوار سی حیرت ہوئی۔ وہ چلتا ہوا آن کے پاس گیا۔


"مِس ہمدانی! آپ یہاں خیریت؟" اُس نے آن کے قریب صوفے ہر زرا فاصلے پر بیٹھتے کہا۔


"جج جی خیریت تھی آپ یی یہاں؟" آن اُسے یہاں دیکھ کر گڑبڑا گئی۔


"اب یہ تو زیادتی ہے میری کمپنی میں بیٹھ کر آپ میرے ہی بارے میں پوچھ رہیں ہیں کہ میں یہاں کیسے؟" وجدان نے مصنوعی خفگی سے کہا۔


"آاآ آپ کی کمپنی؟" آن ہکلا گئی۔ اگر کو اِنہیں پتہ چل گیا کہ میں اِن کی منہ بولی بہن کو یہاں کِس مقصد سے لائی ہوں تو یہ کیا کریں گے میرے ساتھ؟


"جی ہاں میں اِس کمپنی کا شیئر ہولڈر ہوں۔ یہاں کے تین اونرز ہیں میں داؤد سِکندر اور ارحم ملِک۔ اب آپ بتائیں آپ یہاں کیسے؟" وجدان گھوم پھر کر اُسی سوال پر آگیا۔


اور آن سوچ میں پڑ گئی کہ اُسے کیا جواب دے۔ پِھر اُس نے آہستہ آہستہ اُسے شروع سے لے کے کر آخر تک سب بتانا شروع کِیا۔


*******************


داؤد ہال میں داخل ہو تو نِگاہ سیدھا سامنے دیوار کی طرف رُخ کیے کھڑے وجود سے ٹکرائی۔ اُس نے ایک نظر میں اُس کا جائزہ لیا۔


نیوی بلیو کلر کا سوٹ زیب تن کیے وہ جو کوئی بھی اُس کے سر پہ سفید رنگ کا حجاب نفاست سے بندھا ہوا تھا۔ جبکہ دوپٹہ ایک کندھے پر پڑا ہوا تھا۔ جِسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔


وہ چلتا ہوا اُس کے قریب جا کر دو فِٹ کے فاصلے پر رُک گیا اور اپنا گلا کھنکھارا۔ مگر وہ ہنوز ویسے ہی دوسری طرف رُخ کیے کھڑی رہی۔ اُسے اُلجھن ہوئی۔


"مِس معصومہ جہانگیر میرے خیال سے آپ مُجھ سے مِلنے آئیں ہیں دیواروں سے نہیں۔ اِس لیے میری طرف رُخ کر کے کھڑی ہوں۔" اُس نے طنز کیا۔


اُس کی آواز سُن کے معصومہ نے خوف سے آنکھیں میچیں۔ ذہن کے پردے پر اُس کی سُرخ سرد و سپاٹ نیلی آنکھیں گھوم رہیں تھیں۔


اُس نے آہستہ سے اپنا رُخ موڑا اور اُس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ اُس کی نِگاہیں سیدھا داؤد کی نِگاہوں سے ٹکرائیں۔


داؤد کی نِگاہوں میں حیرت در آئی۔ نظریں معصومہ کی بھوری آنسوؤں سے بھری آنکھوں پر ٹِکی تھیں۔

اُس کے ذہن کے پردے پر اُس کے سُنہری لمبے بال لہرائے۔ پِھر ایک دم اُس کی آنکھوں کے سامنے سیاہ بڑی بڑی آنکھیں اور لیئر کٹ شولڈر بال لہرا گئے۔ اور اِس خیال کے آتے ہی اُس کی آنکھوں میں موجود حیرت غُصے میں بدل گئی۔


"تُم تُمہاری ہمّت کیسے ہوئی میرے آفس میں قدم رکھنے کی؟ کیوں آجاتی ہو بار بار میرے سامنے؟ اُس نے غُصّے سے اُس کی طرف بڑھتے کہا کہ وہ سہم کر بے اِختیار پیچھے ہوئی۔ خوف کے مارے اُس کی زبان بھی تالو سے چِپک چُکی تھی۔


"ہاں کیوں آتی ہو بار بار میرے سامنے؟ مرنے کا بہت شوق ہے تُمہیں؟" داؤد مسلسل آگے بڑھتا بولا۔


"نن نہیں مم میں خخ خود نہیں آئی وہ آن لل لے کے آئی اا اُس نے کہا کک کہ آپ نن نے بب بُلایا ہے۔" ہکلاتے ہوئے اُس نے اپنی صفائی پیش کرنا چاہی تھی۔ اُس کی بات سُن کے داؤد کو آن یاد آئی تھی۔


"تو تُم معصومہ جہانگیر ہو؟ مُجھ سے مُحبّت کی دعویدار؟ ہاہاہاہاہا لائک سیریسلی؟ تُم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ تُم مُجھے اپنے جال میں پھانسنے کا ڈرامہ کرو گی اور میں تُمہارے جال میں پھنس جاؤں گا۔ پاگل سمجھا ہے کیا؟ وہ اِنسان جو تُم سے بے اِنتہا نفرت کرتا ہے وہ تُم سے محبّت کرے گا یہ سوچ بھی کیسے لیا تُم نے؟" داؤد نے استہزائیہ انداز میں ہنستے ہوئے کہا۔


"مم میں نے کک کیا کیا ہے ؟ مم مُجھ سے کیوں نن نفرت کرتے ہیں آپ؟ مم میں تو آپ کے بارے میں کک کُچھ جانتی بب بھی نہیں ہوں۔ مم میں نے تو بب بس آپ کو خخ خوابوں میں ہی دد دیکھا ہے۔" معصومہ نے اٹکتے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے پوچھا۔


"مُجھے نہیں جانتی؟ تُمہیں کیا لگتا ہے کہ تُم جو کہو گی میں مان لوں گا؟ یہ جو معصومیت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے تُم نے یہ اوروں کو تو دھوکا دے کر گُمراہ کر سکتا ہے مگر مُجھے نہیں۔ وہ کہاوت تو سُنی ہو گی نا کہ دودھ کا جلا تو چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔" داؤد نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا۔


"مم میں نے کوئی دھوکا نہیں دیا مم میں جیسی اندر سے ہوں ویسی باہر سے بھی ہوں۔" معصومہ کی آنکھوں سے آنسو بہتے اُس کے گالوں کو بھگونے لگے تھے۔ وہ دیوار کے ساتھ چپکی کھڑی تھی۔


"مُجھ سے زیادہ بہتر تُمہیں اور کون جا سکتا ہے؟ تُمہارے یہ اِتنے لمبے سُنہرے بال، یہ بھوری آنکھیں مُجھے دھوکا نہیں دے سکتیں۔ داؤد سِکندر ہوں میں۔ ایک بار جِس سے منہ موڑ لوں اُسے مُڑ کر بھی نہیں دیکھتا۔" داؤد نے اُس کے دائیں بائیں دیوار پہ ہاتھ جماتے کہا اور وہ اُس کے حصار میں بے حس و حرکت کھڑی رہ گئی۔


"میرا قصور صرف اِتنا ہے کہ میں نے انجانے میں آپ سے محبت کی۔ میں نہیں جانتی آپ کو مُجھ سے اِتنی نفرت کیوں ہے؟ مگر آج کے بعد میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ آپ کے سامنے آنا تو دور کی بات میں آپ کو سوچوں گی بھی نہیں۔" معصومہ نے اپنی آنکھوں میں آئے آنسو صاف کرتے مضبوط لہجے میں کہا۔


"یہی تُمہارے لیے بہتر ہو گا نقلی معصومہ جہانگیر۔" داؤد کے الفاظ پر اُسے جھٹکا لگا تھا۔


" میں جو ہوں جیسی ہوں مُجھے آپ کو بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مُجھے زندگی بھر افسوس رہے گا کہ میرے دِل میں اُس شخص کے لیے محبّت ہے جِس کا صرف ظاہر اِتنا خوبصورت ہے مگر اندر سے وہ بالکُل سیاہ دِل کا مالک ہے۔" معصومہ نے تلخی سے کہتے اُس کے ہاتھ ہٹانے چاہے۔


"میری ذات کے بارے میں تبصرہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے تُمہیں۔ اپنی شکل لے کے یہاں سے دفعہ ہو جاؤ ورنہ میں دھکے مار کر نِکلواوں گا۔" داؤد نے اُس کا گلہ دباتے نفرت سے کہا تھا۔


معصومہ کا دم گُھٹنے لگا تھا اُس کی آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے تھے داؤد نے ایک جھٹکے سے اُسے چھوڑا تھا۔


معصومہ لمبے لمبے سانس لیتی باہر کی جانِب بھاگی تھی اور داؤد دیوار پر مُکّا مار کر رہ گیا تھا ٹیبل پہ رکھا اُس کا سیل فون مسلسل بج رہا تھا جِسے اُٹھا کے اُس نے زور سے زمین پہ مار کے چکنا چور کر دیا تھا۔


****************


معصومہ کو باہر آتے دیکھ کر آن اور وجدان اُس کی طرف متوجّہ ہوئے تھے۔ آن نے وجدان کو ساری حقیقت بتا دی تھی جِسے سُن کر وجدان بے یقینی اور شاک کی کیفیت میں گِھر گیا تھا۔


آن اور وجدان انی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے اور معصومہ کی جانِب بڑھنے لگے مگر معصومہ بغیر اُن کی طرف دیکھے باہر کی جانِب بھاگی تھی۔


اُس کے ذہن میں اِس وقت صرف داؤد سِکندر کی باتیں چل رہیں تھیں۔


اُس کی غُصّے سے بھری سُرخ آنکھیں، اُس کے طنزیہ الفاظ، اُس کے لہجے کی نفرت معصومہ کے دل اور دماغ میں کچوکے لگا رہے تھے اُسے کُچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کہاں جا رہی ہے۔


وہ بس بھاگتی یہاں سے دور چلی جانا چاہتی تھی۔شاید اپنے ماں باپ کے پاس جہاں صرف اور صرف سکون ہی ہوتا کوئی غم کوئی پریشانی نہ ہوتی۔


آن اور وجدان اُسے یوں روتے پاگلوں کی طرح بھاگتے دیکھ کر اُس کے پیچھے بھاگے تھے۔ مگر معصومہ کی تیزی تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی۔


تیز تیز سیڑھیاں اُترتی وہ کئی بار گِرتے گِرتے بچی تھی بلڈنگ سے باہر نِکل کر وہ سڑک کے پار کھڑی ٹیکسی کی جانِب بھاگی تھی اُسے چکر سے آرہے تھے سر بُری طرح گھوم رہا تھا۔


سڑک پار کرتے اُسے دوسری طرف سے آتی کار نہیں دِکھی تھی۔

ابھی وہ سڑک کے درمیان پُہنچی ہی تھی جب وہ کار ایک دم تیزی سے اُسے ٹکر مارتی آگے نِکل گئی تھی کار ڈرائیور نے رُک کر دیکھنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔


آن نے سڑک کے بیچو بیچ پڑی خون میں لت پت اپنی مومو کو دیکھ کر زور سے چیخ ماری تھی جِس پر ساکت کھڑا وجدان ہوش میں آتا اپنی معصوم سی بہن کی طرف بھاگا تھا۔۔


آن بھی جلدی سے اپنی مومو کے ہاس پہنچ کر اُس کا سر گود میں رکھتی رونے لگی تھی اور چیل چیل کر ایمبولنس کو کال کرنے کے لیے کہنے لگی تھی۔


معصومہ کے ذہن میں داؤد کی باتیں گونج رہیں تھیں اُسے اور کُچھ بھی سُنائی نہیں دے رہا تھا۔


اُس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں تھیں اب جان چھوٹ جائے گی آپ کی مُجھ سے داؤد سِکندر۔ اُس نے آنکھیں بند ہونے سے پہلے سوچا تھا۔


وجدان نے اُسے اپنی گود میں اُٹھایا تھا اور پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف بھاگا تھا۔ آن بھی اُس کے ساتھ ساتھ تھی۔


پِچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر اُس نے معصومہ کو اندر لٹایا تھا آن بھی اندر بیٹھتی معصومہ کا سر اپنی گود میں رکھ گئی تھی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔


جبکہ دِل اُس کی خیریت کے لیے دُعا گو تھا۔ وجدان نے فرنٹ سیٹ سنبھالی اور گاڑی ہاسپٹل کی طرف دوڑائی


******************

ہاسپٹل کے باہر گاڑی کھڑی کرتا تیزی سے اپنی طرف کا دروازہ کھول کے وہ گاڑی سے اُترا تھا اور پِچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر معصومہ کو اپنی گود میں اُٹھایا تھا۔


آن اُس کے پیچھے ہی گاڑی سے باہر نِکلی تھی اور وجدان کے قدموں سے قدم مِلانے کی کوشش کرنے لگی تھی جو تقریباً بھاگتا ہوا معصومہ کو اُٹھائے اندر کی طرف بڑھ رہا تھا۔


"ایمرجنسی ہے جلدی ڈاکٹر کو بُلاو۔" اُس نے نرس سے کہا تھا جو اُن کے پاس چلا آیا تھا۔ وجدان کی دھاڑ سُن کر وہ اُلٹے قدموں واپس بھاگی تھی ڈاکٹر کو بُلانے۔


پانچ مِنٹ بعد ہی وہاں ڈاکٹا موجود تھا جو آتے ہی وجدان کے بازووں میں بے ہوش پڑی معصومہ کا جائزہ لینے لگا تھا۔


"سوری پہلے پولیس کو لے کے آئیں یہ پولیس کیس ہے ہم اہدے ٹریٹمنٹ شروع نہیں کر سکتے۔ " ڈاکٹر نے معصومہ کے خون میں لےپت پت وجود کے دیکھ کے کہا۔


"ٹو ہیل وِد دا پولیس۔ اگر میری بہن کو کُچھ ہوا تو میں پہلے تُمہارا قتل کروں گا پِھر تُمہاری پولیس کا۔ دو منٹ کے اندر ٹریٹمنٹ شروع نہیں کیا تو تُمہاری جان لے لوں گا میں۔ " ڈاکٹر کی بات سُن کے اُس کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی اور وہ ڈاکٹر پر چڑھ دوڑا تھا۔


جبکہ اُس کا سرد و سپاٹ لہجہ سُن کے ڈاکٹر نے ماتھے پہ آیا پسینہ صاف کیا تھا ڈاکٹر تھا کِسی فِلم کا ہیرو نہیں جو اُس صحت مند کسرتی جِسم کے مالک جوان کو پل میں مار گِراتا۔


ڈاکٹر نے نرس کو معصومہ کو اندر ایمرجنسی میں لے جانے کو کہا جِسے وجدان اسٹریچر پہ ڈال چُکا تھا۔ آن مسلسل رو رہی تھی۔


معصومہ کا بیگ اُس کے پاس تھا۔ اُسے کِسی چیز کی ہوش نہ تھی یہ خیال بھی نہیں آیا کہ گھر پر ہی اِطلاع دے دے۔


معصومہ کا ٹریٹمنٹ شروع ہو چُکا تھا وجدان نے ریسیپشن پر سارا بِل پے کر دیا تھا اور فارم فِل کرتے وقت رشتے میں خود کو معصومہ کا بھائی لِکھا تھا۔


جبکہ نرس حیران ہوئی تھی۔ اگر بہن بھائی ہیں تو پیشنٹ کے باپ کا نام جہانگیر اور پیشنٹ کے بھائی کے باپ کا نام آفندی تھا۔ اُس نے اپنے کندھے اُچکاتے دوبارہ خود کو کام میں مصروف کر لیا تھا۔


معصومہ کا ٹریٹمنٹ شروع ہو چُکا تھا آن آئی سی یو کے باہر چیئر پہ بیٹھی تھی جبکہ وجدان پریشانی سے اِدھر اُدھر ٹہل رہا تھا۔ آن کے مسلسل رونے کی آواز وجدان کو بے چین کر رہی تھی۔


"رو کیوں رہی ہوآن؟ اپنی دوست کے لیے دُعا کرو کہ وہ جلدی سے ٹھیک ہو جائے۔ تُمہارے رونے کی اُسے تُمہاری دُعاوں کی ضرورت ہے۔"وجدان نے اُسے نرمی سے سمجھایا تھا۔


اپنی پریشانی میں آن نے یہ بھی محسوس نہ کیا کہ وجدان نے اُسے مِس آفندی کی بجائے آن کہہ کر پُکارا تھا۔


"یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے وجدان! نہ میں اُسے وہاں لے کے جاتی نہ یہ سب ہوتا۔ پتہ نہیں داود ِسکندر نے اُس سے ایسا کیا کہا ہے کہ وہ اِتنی پریشان ہو گئی آپ نے دیکھا تھا نا روتے ہوئے باہر نِکلی تھی وہ۔ سب میری غلطی ہے۔ " آن کے آنسو اُس کے گالوں پہ بہتے جا رہے تھے۔


اُس کی بات سے وجدان کو یاد آیا تھا اُس کی بہن کے ساتھ یہ سب اُس کے اپنے دوست کی وجہ سے ہوا تھا اور اِس کا حِساب وہ ضرور لے گا داود سِکندر سے۔ اُس نے دِل میں سوچا تھا۔


"یہ سب قِسمت میں ایسے ہی ہونا لِکھا تھا تُم خود کو اِلزام مت دو۔ بس معصومہ کے لیے دُعا کرو۔ " وجدان نے اُس کے آنسووں سے بھرے چہرے کی

طرف دیکھ کر کہا۔


ایک پل کو اُس کا دِل کیا کہ اُس کے آنسو اپنی پوروں پر چُن لے مگر نہیں اُسے تو اِتنا حق بھی نہیں تھا کہ وہ اُسے رونے کے لیے کندھا فراہم کرتا کہاں وہ اُس کے آنسو اپنی پوروں پہ چُننا چاہ رہا تھا اُس نے بے اِختیار سر جھٹکا اور آئی سی یو کے دروازے کے اوپر جلتے سُرخ رنگ کے بلب کو دیکھنے لگا۔ آن بھی خُدا سے معصومہ کی صحت یابی کی دُعا کرنے لگی۔


******************


رفیق صاحب آج گھر پر ہی موجود تھے اور اِس وقت اپنے کمرے میں بیٹھے آرام کر رہے تھے جب فرزانہ بیگم چائے کا کپ تھامے کمرے میں داخِل ہوئیں۔


"یہ آپ کی چائے۔ " اُنہوں نے کپ رفیق صاحب کو تھمایا اور خود بھی بیڈ پر ایک طرف ہو کے بیٹھ گئیں۔ مشعل کالج گئی ہوئی تھی۔


"آپ نے معصومہ کو جانے کی اجازت کیوں دی؟ اب دوپہر کا کھانا کون بنائے گا؟" فرزانی بیگم نے غُصّے سے کہا۔


"کیا مطلب کہ کھانا کون بنائے گا؟ تُم بناو کھانا۔ اگر معصومہ نہیں ہے تو اِس کا مطلب یہ نہیں گھر میں کھانا ہی نہیں بنے گا کل کو اُس کی شادی ہو جائے گی تب بھی تُم ہی بناو گی نا؟ " رفیق صاحب نے تاسف سے پوچھا تھا۔


"تب کی تب دیکھی جائے گی۔ مگر ایسا کون سا ضروری کام تھا جو آپ نے اُسے جانے دیا۔؟" فرزانہ بیگم نے تیکھے لہجے میں پوچھا۔


"اُس کے پیپرز ہونے والے ہیں آن کے ساتھ کالج گئی ہے رول نمبر سلِپ لینے اب مجھے چائے پینے دو سکون سے۔"رفیق صاحب نے اُکتائے لہجے میں جواب دیا اور چائے پینے لگے۔


"اچھا وہ مُجھے آپ سے کُچھ بات کرنی تھی۔ " فرزانہ بیگم نے نئی بات شروع کی۔


"ہاں کہو سُن رہا ہوں۔ " رفیق صاحب نے چائے کی چُسکی لیتے کہا۔


"وہ آپ کو یاد ہے ماہین کی شادی پہ مِسز نیاز آئیں تھیں ماہین کے سسُرال کی طرف سے؟ " فرزانہ بیگم نے تمہید باندھی۔


"ہاں یاد ہے جِن کا بیٹا انجینیئر ہے۔ ہاشِم نام ہے اُس کا شاید۔۔" رفیق صاحب نے پُرسوچ انداز میں کہا۔

"ہاں وہی وہی۔" فرزانہ بیگم نے جلدی سے کہا۔

"تو؟ تُم مُجھے کیوں بتا رہی ہو؟ اُن کا یہاں کیا ذِکر؟" رفیق صاحب کو اچھنبا ہوا۔


"وہ دراصل اُنہوں نے ماہین کے ولیمے پہ مُجھ سے بات کی تھی کہ وہ ہمارے ساتھ رِشتے داری کرنا چاہتیں ہیں اُنہوں نے معصومہ کا ہاتھ مانگا ہے اپنے بیٹے ہاشِم کے لیے۔ میں نے کہا تھا کہ آپ سے پوچھ کے بتاوں گی۔ " فرزانہ بیگم نے کہا تو رفیق صاحب کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔


"تُمہیں اِتنی جلدی کیا ہے اُس معصوم کو اِس گھر سے نِکالنے کی؟ ابھی اُس کی عُمر ہی کیا ہے کہ اُس کی شادی کر دی جائے؟ مشعل کی ہم عُمر ہے وہ۔" رفیق صاحب نے تلخی سے کہا تو وہ گڑبڑا گئیں۔


"ایسی کوئی بات نہیں ہے میں نے تو اِس لیے کہا تھا کہ بہت اچھے لوگ ہیں اور کھاتے پیتے گھرانے سے ہیں ہاشِم بھی بہت سُلجھا ہوا لڑکا ہے اور اِتنے اچھے رِشتے بار بار نہیں مِلتے۔ معصومہ بیس سال کی ہو گئی ہے آج نہیں تو کل اُس کی شادی کرنی ہی ہے پھر بیس سال کوئی کم عُمر تو نہیں ہے۔ ہم ہی اُس کے اپنے ہیں اُس کا اچھا بُرا ہم ہی دیکھیں گے نا؟" فرزانہ بیگم نے محبّت بھرے لہجے میں کہا۔


سچ تو یہ تھا کہ وہ وجدان کی معصومہ میں دِلچسپی دیکھ کر جلدی سے اُسے اِس گھر سے رُخصت کرنا چاہتیں تھیں۔


تا کہ مشعل اور وجدان کی شادی میں کوئی رُکاوٹ نہ آئے۔ وہ صرف مِسز نیاز اور ہاشِم سے ہی ملیں تھیں اُن کے رہن سہن اور اُن کے حالاتِ زندگی کے بارے میں وہ کُچھ نہیں جانتیں تھیں۔


"بات تو ٹھیک ہے اچھے رِشتے بہت مُشکل سے مِلتے ہیں۔ اگر لڑکا اور اُس کے گھر والے مُجھے اچھے لگے تو پھر بات آگے چلائیں گے۔ پِھر میں معصومہ سے بھی ہوچھ لوں گا اُس کی کیا مرضی ہے۔ " رفیق صاحب نے پُر سوچ انداز میں جواب دیا۔


"اُس سے کیا کرنا ہے پوچھ کر؟ ہم اُس کے لیے کوئی غلط فیصلہ تھوڑی کریں گے؟ " فرزانہ بیگم نے ناک چڑھاتے کہا۔


"بھولو مت کہ میں نے ارحم سے ماہین کا رِشتہ اُس کی رضامندی جان کر ہی طے کیا تھا۔ جِس پہ اُس نے میرا مان رکھا تھا اور مُجھے یقین ہے کہ میری معصومہ بھی میری بات کا مان رکھے گی۔ " اُنہوں نے فرزانہ بیگم کو باور کروایا تھا۔


اِس سے پہلے کہ وہ کُچھ بولتیں رفیق صاحب کا فون بج اُٹھا تھا۔


اسلامُ علیکُم! بولو بیٹا کہا ہو؟ ابھی تک گھر نہیں آئی۔ " فون پہ معصومہ کی کال آئی تھی جِسے پک کرتے اُنہوں نے سلام کے بعد پوچھا تھا۔


"وعلیکُم سلام انکل! میں وجدان بات کر رہا ہوں۔ " معصومہ کے فون سے وجدان کی آواز سُن کر وہ حیرت کا شِکار ہوئے تھے

۔

"وجدان بیٹا! معصومہ کا فون آپ کے پاس کیسے؟ اور معصومہ کہا ہے؟ " اُنہوں نے حیرت سے نِکلتے پوچھا تھا۔ جب کہ اُن کے مُنہ سے یہ بات سُن کے فرزانہ بیگم کے کان کھڑے ہوئے تھے۔


"وہ انکل مم معصومہ کا ایکسی ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ " وجدان سے بولنا مُشکل ہو رہا تھا کُچھ ہی عرصے میں معصومہ اُسے بہت عزیز ہو گئی تھی۔


اُس کی اپنی تو کوئی بہن نہیں تھی وہ معصومہ کو ہی اپنی سگی بہن سمجھنے لگا تھا۔


"یہ کیا کہہ رہے ہو بیٹا؟ میری بچّی کیسی ہے؟ وو وہ ٹھیک تو ہے نا؟ کہاں ہے وہ؟ رفیق صاحب نے کانپتے لہجے میں پوچھا۔


"ہم ہاسپٹل میں ہیں اور آن بھی میرے ساتھ ہی ہے آپ لوگ جلدی سے آجائیں۔ " وجدان نے ہاسپٹل کا اڈریس بتاتے فون کاٹ دیا تھا۔


اُس میں ہمّت نہیں اُنہیں یہ بتانے کی کہ اُن کی بھانجی اِس وقت زندگی اور موت سے لڑ رہی ہے اور اِس وقت آئی سی یو میں ہے۔


"کیا ہوا؟ آپ اِتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہیں؟" فرزانہ بیگم نے پریشانی سے پوچھا۔


"معصومہ کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ ہمیں ہاسپٹل جانا ہو گا۔ " رفیق صاحب نے جوتا پہنتے کہا جب کہ فرزانہ بیگم دھک سے رہ گئیں لاکھ اُس سے نفرت سہی مگر وہ یہ تو نہیں چاہتیں تھیں کہ وہ مر ہی جائے۔


"آپ ہاسپٹل چلے جائیں۔ مشعل گھر پہ تالا لگا دیکھ کے پریشان ہو جائے گی۔ وہ آتی ہے تو ہم دونوں اکٹھے آجائیں گے آپ ہاسپٹل کا اڈریس بتا دیں۔" فرزانہ بیگم نے کہا تو رفیق صاحب اُنہیں ہاسپٹل کا اڈریس بتاتے جلدی سے بایر نِکل گئے جب کہ فرزانہ بیگم وہیں بیٹھیں رہ گئیں۔


وہ ہمیشہ سے چاہتیں تھیں کہ معصومہ اُن کے گھر سے چلی جائے۔ اور اب اگر وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جانے والی تھی۔ سب سے دور شاید اِس دُنیا سے دور تو اُن اک دِل خوش نہیں ہو رہا تھا اُن کو اپنے دِل میں پریشانی محسوس ہو رہی تھی۔


اُنہیں اپنے دِل کی حالت سے گھبراہٹ ہونے لگی تو اُنہوں نے گلاس میں پانیڈال کر پیا اور لمبے لمبے سانس لے کے خود کو پُرسکون کرنے لگیں۔


******************


وہ اِس وقت شٹل کاک میں بیٹھا تھا اُس کی کوئی رائڈ تو نہیں تھی مگر پھر بھی وہ وہاں موجود تھا۔

سر سیٹ پہ ٹکا رکھا تھا آج صُبح سے ہی اُس کا دِل پریشان تھا۔ اُسے ایسا لگ رہا تھا کُچھ ہونے والا ہے مگر کیا؟ یہ اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔


ّخود کو پُرسکون کرنے کے لیے وہ جہاز کا دروازہ کھول کر ۔ ٹل کاک مں بیٹھ گیا تھا۔ اُسے یہاں بیٹھ کر بہت سکون محسوس ہوتا تھا۔


اُسے بچپن سے ائیر فورس میں جانے کا شوق تھا اور اُس کی محنت سےاُس کا یہ شوق پورا ہو گیا تھا۔


وہ آنکھیں موندے بیٹھا سوچوں کی دُنیا میں پرواز بھر رہا تھا جب شٹل کاک کا دروازہ کُھلا اور وِشہ اندر داخل ہوئی۔


"آپ یہاں ہیں ہنیڈسم اور میں آپ کو باہر ڈھونڈ رہی تھی۔ " اُس نے ساتھ والی سیٹ سنبھالتے کہا۔

"کیوں آپ نے میرا اچار ڈالنا تھا جو مُجھے ڈھونڈنے کی ضرورت پیش آگئی؟" روحان نے آنکھیں کھولے بغیر کہا۔


"ارے نہیں پیارے اِنسان میں تو ایسے ہی اکیلی بور ہو رہی تھی تو سوچا آپ سے گپ شپ کر لوں۔" وِشہ نے اُس کے چہرے پر نظریں جمائے کہا۔


"یہ تُم مُجھے پیارے اِنسان، ہینڈسم لا بلا بلا کیوں کہتی ہو؟ " روحان نے اچانک آنکھیں کھول کے اُس کی طرف مُڑتے ہوئے کہا۔


اور وہ جو اُس پہ جُھک کے اُس کی کھڑی مغرور ناک کا معائنہ کرنے کی کوشِش کر رہی تھی سٹپٹا کر رہ گئی کہ پیچھے بھی نہیں ہو پائی۔


روحان اُسے پہلی بار اِتنے قریب سے دیکھ رہا تھا۔ چھوٹی سی ناک جِس میں ننھی سی نوز پِن تھی، ہلکے سُرخی مائل ہونٹ، چھوٹی سی تھوڑی اور تھوڑی کے درمیان میں پڑتا ہلکا سا خم، لال لال تھوڑے سے پھولے نرم گال، کالی گہری بڑی بڑی ذہانت سے چمکتی آنکھیں، تھوڑے تیکھے تھوڑے معصوم سے نین نقش، اور سیدھے سِلکی کمر تک آتے ہلکے بھورے بال جو اِس وقت اُس کے چہرے پہ گِر رہے تھے۔ اُس کے نقوش بالکل آن جیسے تھے۔


بس تھوڑی میں پڑتے خم اور معصومیت کا فرق تھا۔ اِس سوچ کے آتے ہی وہ بوکھلا کر پیچھے ہوا۔ وہ بھی سٹپٹاتی پیچھے ہوئی اور اپنے بال سیدھے کرنے لگی۔


سوری وہ میں بس آپ کی ناک دیکھ رہی تھی۔" اُس کی بات پہ روحان نے بے اختیار اُسے دیکھا اُس کے لہجے میں بچوں کی سی معصومیت تھی جسیے وہ ناک نہیں کینڈی دیکھ رہی ہو۔


"پہلے میرے پہلے سوال کا جواب دیں آپ۔ پھر آپ کی سوری بھی قبول کر لوں گا۔" روحان نے سیدھے ہو کر بیٹھتے کہا۔


"اِس سوال کا جواب میں آپ کو تب دوں گی جب میری سانسیں اکھڑ رہیں ہوں گی میری روح میرے جِسم سے الگ ہو کر آسمان کی طرف پرواز کرنے والی ہوگی جب میں آپ سے بہت دور اُس اگلے جہاں میں جانے والی ہوں گی یعنی میری شہادت کے وقت۔" وِشہ کے لہجے میں روحان کو ڈھونڈنے سے بھی مزاق کی رمق نظر نہیں آئی تھی وہ اِتنی ہی سنجیدگی سے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بول رہی تھی۔


"اِتنی بھاری باتیں صحت کے لیے اچھی نہیں ہوتیں۔ " روحان نے اُس کی کالی گہری آنکھوں میں جھانکتے کہا۔


"میری صحت پہ اِن باتوں سے کوئی اثر نہیں پڑے گا ڈونٹ یو وری۔ " اُس نے بے نیازی سے کہا تھا۔


"اچھا اب یہ بتائیں کہ میری ناک کیوں دیکھ رہیں تھیں آپ؟" روحان نے بات بدلتے پوچھا۔


"کیونکہ مُجھے آپ کی ناک بہت پسند ہے بالکُل سیدھی مغرور سی۔" وِشہ نے مُسکراتے کہا تو اُس نے بے ساختہ اپنی ناک کو چھوا۔


جبکہ اُس کی اِس حرکت پہ وہ کِھلکھلا کر ہنس دی اور وہ اُس کی ہنسی کی کھنک محسوس کرنے لگا۔ آن نامی لڑکی کی سوچیں اُس کے ذہن سے محو ہو چُکیں تھیں۔


******************

آن ایمرجنسی کے باہر ٹہل رہی تھی ابھی تک ڈاکٹر باہر نہیں آیا تھا۔ وجدان نے اُس سے معصومہ کا فون لے کے اُس کے گھر فون کر دیا تھا۔


وجدان باہر گیا تھا۔ وہ تھک ہار کر دوبارہ کُرسی پر بیٹھ گئی۔ اچانک معصومہ کا فون بجنے لگا۔


اُس نے فون اُٹھایا تو کِسی بابا جان کا فون آرہا تھا اُسے حیرت ہوئی۔ یہ کون تھے بھلا؟


معصومہ نے تو کبھی نہیں بتایا تھا اُسے اِن کے بارے میں کُچھ۔

اُس نے فون کان سے لگا کے سلام کیا۔


"آپ کون؟ یہ تو معصومہ کا فون ہے نا؟" سلام کا جواب دے کے اُنہوں نے حیرانی سے اِستفسار کیا۔


"جی یہ معصومہ کا ہی فون ہے مگر آپ کون؟"اُس نے سوال کا جواب دیتے سوال کیا۔


"میں اُس کا بابا ہوں آپ اُسے فون دیجیے مُجھے اُس سے بات کرنی ہے۔" اُنہوں نے نرمی سے جواب دِیا۔


"و وہ دراصل اُس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ اِس وقت ایمرجنسی میں ہے۔" آن نے جھجھکتے اِطلاع دی۔


"کیا؟ کیسے ہوا ایکسیڈنٹ؟ اور مُجھے ہاسپِٹل کا اڈریس دیں آپ۔" بابا جان کی پریشان سی آواز سُنائی دی۔


"سڑک پار کرتے وقت کار نے ہِٹ کر دیا اُسے۔ " آن نے آئی سی یو کے بند دروازے کی طرف دیکھتے افسُردگی سے کہا ساتھ ہی اڈریس بھی بتایا۔


"ٹھیک ہے شُکریہ۔ خُدا حافِظ۔" اُنہوں نے کہتے فون بند کر دیا۔


"معصومہ ٹھیک ہو جائے پھر اُس سے اِن کے بارے میں پوچھوں گی۔۔" آن نے دِل میں سوچتے فون معصومہ کے بیگ میں رکھا۔


اچانک اُسے سامنے سے وجدان کے ساتھ رفیق صاحب آتے دِکھائی دیئے۔ وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔


اُن کے قریب آتے آن نے اُنہیں سلام کیا۔


"ڈاکٹر کیا کہہ رہے ہیں؟ معصومہ ٹھیک تو ہے نا؟" رفیق صاحب نے سلام کا جواب دے کر پریشانی سے پوچھا۔


"ابھی تک ڈاکٹر باہر ہی نہیں آئے اور نہ ہی کُچھ بتایا یے۔" آن نے اُن کے سوال کا جواب دِیا۔


"میری بیٹی کو کُچھ نہ ہو۔ اُسے ٹھیک کر دے میرے مولا۔" رفیق صاحب دُعائیہ انداز میں کہتے کُرسی پر بیٹھے۔


"وہ ٹھیک ہو جائے گی انکل۔ اُسے ٹھیک ہونا پڑے گا ہم سب کے لیے۔ آپ پریشان مت ہوں۔" وجدان نے اُنہیں تسلّی دی۔


وجدان دیوار سے ٹیک لگا کے کھڑا ہو گیا۔ اُس کی شڑٹ پہ معصومہ کا خون لگا ہوا تھا۔ آن کے کپڑے بھی خون آلود تھے۔


اچانک آئی سی یو کا دروازہ کُھلا اور ڈاکٹر باہر آیا وہ سب جلدی سے ڈاکٹر کی جانِب لپکے۔


"میری بچّی کیسی ہے ڈاکٹر صاحب؟ وہ ٹھیک تو ہو جائے گی نا؟" رفیق صاحب نے بے چینی سے پوچھا۔


"دیکھیے خون بہت بہہ گیا ہے سر پہ بھی کافی گہری چوٹ آئی ہے آپ اے پازیٹو بلڈ گروپ کا بندوبست کریں۔ اگر وقت پہ بلڈ نہیں مِلا تو مریض کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔" ڈاکٹر نے اُنہیں اِطلاع دی۔


"میرا بلڈ گروپ اے پازیٹو ہے آپ میرا خون لے لیں۔" وجدان نے جلدی سے کہا۔


"ٹھیک ہے آئیے میرے ساتھ۔" ڈاکٹر وجدان کو لیے دوبارہ آئی سی یو میں چلا گیا۔ جبکہ آن اور رفیق صاحب پریشانی سے اِدھر اُدھر ٹہلنے لگے۔


ایک گھنٹے بعد وجدان خون دے کے باہر آیا تھا معصومہ کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا۔


وہ سب باہر بیٹھے اُس کے ہوش میں آنے کا اِنتظار کر رہے تھے۔ وجدان نے آن کی طرف دیکھا جِس کا چہرہ کملایا ہوا تھا۔ اُس نے وقت دیکھا تو دو بج رہے تھے۔


وہ باہر نِکل گیا اور کُچھ دیر بعد آن اور رفیق صاحب کے لیے سینڈوِچ اور جوس لے آیا۔


" آن یہ کھا لو۔" اُس نے سینڈوِچ اور جوس اُس کی طرف بڑھایا مگر اُس نے کھانے سے اِنکار کر دیا۔

"کھا لو آن! بھوکے رہنے سے تُمہاری طبیعت بھی خراب ہو جائے گی پِھر معصومہ کو کیسے سنبھالو گی؟" وجدان کے سمجھانے پہ اُس نے سینڈوِچ اور جوس تھام لیا اور کھانا شروع کیا۔


رفیق صاحب نے کھانے سے منع کر دیا کہ وہ گھر میں دوپہر کا کھانا کھا چُکے تھے۔


وجدان بھی چیئر پہ بیٹھ گیا اور سینڈوِچ کھانے لگا اُس نے صُبح کا ناشتہ بھی نہیں کیا تھا تو اب اُسے بھوک لگ رہی تھی۔


*******************


ایک گھنٹے بعد مشعل اور فرزانہ بیگم بھی ہاسپٹل آگئیں تھیں اور آئی سی یو کے باہر موجود تھیں۔


ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اُنہوں نے معصومہ کو مُکمّل ٹریٹمنٹ دے دیا ہے بس اُس کے ہوش میں آنے کا اِنتظار ہے۔ جلدی ہوش آجائے تو بہتر ہے ورنہ اُس کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔


ڈاکٹر کی بات سُن کے سب ہی معصومہ کے لیے دُعا کرنے لگے تھے۔ فرزانہ بیگم بھی اُس کے لیے دُعا گو تھیں جبکہ مشعل خاموشی سے وہاں بیٹھی تھی۔


وجدان آن سے واپس آنے کا کہہ کر باہر نِکل گیا تھا اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ وہ اگر معصومہ کو ہوش آجائے تو وہ اُسے فون پہ اِطلاع دے دے۔ جِس پہ آن نے خاموشی سے سر ہلا دِیا تھا۔


وجدان گاڑی ڈرائیو کرتا اپنی کمپنی میں پُہنچا تھا۔ سارے ورکرز اُس کی شرٹ پہ لگے خون کو دیکھ کر حواس باختہ ہوئے تھے سب کو یہی لگا تھا کہ اُس کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔


وہ سب کی نظروں کو نظر انداز کرتا داؤد کے آفس کی طرف بڑھا اور بغیر ناک کیے اندر داخل ہوا۔


*****************


اسلامُ علیکُم! نرم سی مدھم آواز پہ وہاں موجود سب ہی لوگ چونکے تھے۔


"وعلیکُم سلام! جی آپ؟" اُن کے سلام کا جواب دیتے رفیق صاحب نے اِستفسار کیا۔


"آپ غالباً معصومہ جہانگیر کے ماموں ہیں؟" سوال کے بدلے سوال ہوا۔


"جی ہاں مگر آپ کون ہیں؟ میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔" رفیق صاحب حیرت سے پوچھ رہے تھے باقی سب بھی خاموشی سے بیٹھے اُن کو سُن رہے تھے۔


"میں معصومہ کا بابا ہوں اور وہ میری بیٹی ہے میں اُس سے سڑک پر مِلا تھا جب میرا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا تو وہ مُجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اپنا تعارُف کروانے کے بعد اُنہوں نے معصومہ سے ہوئی پہلی مُلاقات اور گُفتگو کے بابت بتایا تھا۔


"بہت اچھی بچّی ہے آپ کی۔ بہت اچھی تربیت کی آپ لوگوں نے اُس کی۔" بابا جان نے لہجے میں معصومہ کے لیے محبت سموئے کہا تھا۔


جب کہ اُن کی بات سُن کے فرزانہ بیگم کو وہ دِن یاد آیا تھا جب اُنہوں نے اُسے گھر لیٹ آنے پہ ڈانٹا تھا اور اُس کو کافی کھری کھوٹی سُنائیں تھیں۔


مگر وہ جواب میں چُپ رہی تھی پلٹ کر جواب تک نہ دیا تھا۔ اُنہیں بے ساختہ شرمندگی نے آن گھیرا۔


"اب کیسی طبیعت ہے اُس کی؟" بابا جان نے پوچھا۔


"ابھی اُسے ہوش نہیں آیا انکل! ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اُس کا ہوش میں آنا بہت ضروری ہے ورنہ اُس کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔" اب کی بار آن نے جواب دیا تھا۔


"اللّٰہ پاک میری بچّی کو صحت عطا فرمائے آمین۔" بابا جان نے بے ساختہ دُعا کی۔ جِس پہ سب نے ہی آمین کہا تھا۔


اُنہیں ہاسپٹل میں موجود چار پانچ گھنٹے گُزر چُکے تھے ابھی وہ لوگ باتیں کر ہی رہے تھے جب ڈاکٹر باہر آیا۔


"پیشنٹ کو ہوش آ گیا ہے۔ ہم اُنہیں روم میں شفٹ کر رہے ہیں۔ لیکن اُن سے مِلنے صرف ایک یا دو لوگ جا سکتے ہیں اِس سے زیادہ نہیں اور اُن کو زیادہ باتیں مت کرنے دیجیے گا۔ اور کوشش کریے گا کہ اُنہیں کوئی سٹریس والی بات نہ بتائی جائے وہ انڈر ڈپریشن ہیں۔" ڈاکٹر پیشہ ورانہ انداز میں کہتا آگے بڑھ گیا۔


کُچھ دیر بعد معصومہ کو روم میں شِفٹ کر دیا گیا۔ آن کے پاپا کا فون آگیا تو وہ فون سُنتی باہر نِکل گئی اور اُن کو ساری بات بتانے لگی۔


سب سے پہلے رفیق صاحب نے بابا جان کو اندر بھیجا تھا کہ وہ معصومہ سے مِلنے آئے تھے۔

اندر داخل ہو کے اُن کی نظر سامنے نالیوں میں جکڑی معصومہ کے زرد رنگ چہرے پہ پڑی۔ خون زیادہ بہنے کی وجہ سے اُس کا رنگ پیلا پڑچُکا تھا۔


وہ جا کر اُس کے قریب بیٹھے۔ اور اُس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ کسی کی موجودگی محسوس کر کے اُس نے آنکھیں کھولیں تو اُس کی نظریں بابا جان سے ٹکرائیں۔ بے ساختہ ہی اُس کی آنکھوں میں نمی اُمڈ آئی۔


"رو کیوں رہا ہے میرا بچّہ؟" بابا جان نے شفقت سے پوچھا۔


"کک کُچھ نہیں بب بس اا ایسے ہہ ہی۔" اُس کا لہجہ کانپ رہا تھا۔


زخموں میں ٹیسیں اُٹھ رہیں تھیں ڈاکٹر نے پین کِلر بھی دی تھی اور پین ریلیف کا انجکشن بھی لگایا تھا مگر پھر بھی اُسے درد ہو رہا تھا۔


"ایسے ہی نہیں روتے اور آپ تو میرا بہت بہادر بچّہ ہیں نا۔ اب آپ جلدی سے ٹھیک ہوجائیں پِھر میں اپنے بچّے کو گھر لے کے جاؤں گا جہاں آپ اپنی ماں اور بہنوں سے ملیں گی۔" اُنہوں نے معصومہ کو بہلاتے کہا۔ تو معصومہ مُسکرا دی۔


"شاباش ایسے ہی مُسکراتی رہا کرو بیٹا بہت پیاری لگتی ہو خُدا نظرِبد سے بچائے۔" اُنہوں نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے کہا۔


"اب میں چلتا ہوں آپ سے مِلنے آتا رہوں گا۔ باہر سب آپ سے مِلنے کے لیے بے چین بیٹھے ہیں۔ اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں آپ بہت جلدی ٹھیک ہو جاؤ گی۔" اُنہوں نے کھڑے ہوتے اةس کے سر پر ہاتھ رکھا اور باہر نِکل گئے۔


پِھر باری باری سب اُس سے مِلنے لگے رفیق صاحب، فرزانہ بیگم اُس کے پاس بیٹھے تھے مگر اُس کی نظریں آن کو ڈھونڈ رہیں تھیں جو اُس سے مِلنے اندر نہیں آئی تھی رفیق صاحب اُسے بتا چُکے تھے کہ اُسے ہاسپٹل آن اور وجدان لے کے آئے تھے۔


********************


وہ ٹھک سے دروازہ کھول کے اندر داخِل ہوا تو نظر سامنے سکون سے آفس چیئر پہ بیٹھے داؤد پہ پڑی۔ وہ اپنے کام میں مصروف تھا جیسے آج کُچھ ہوا ہی نہ ہو۔


شام ہو رہی تھی اور وہ ابھی تک آفس میں ہی موجود تھا۔ دروازہ کُھلنے کی زوردار آواز پہ وہ آنے والے کی جانِب متوجّہ ہوا اور وجدان کو دیکھ کر چونک اُٹھا اُس کی حیران نظریں وجدان کی شرٹ پہ لگے خون پہ جمی تھیں۔


"دانی یہ کیا ہوا ہے؟ تُمہیں چوٹ لگی ہے کیا؟ کیسے ہوا یہ سب؟ اور تُم یہاں پہ کیا کر رہے ہو؟ چلو ہاسپٹل چلتے ہیں۔" داؤد پریشانی سے اُس کی شرٹ پہ ہاتھ رکھتا بولا۔


"دور رہو مُجھ سے۔ ہاتھ مت لگاؤ مُجھے۔ نفرت ہو رہی ہے مُجھے تُم سے۔ تُم تو ایسے نہیں ہو یار۔ کیوں کیا تُم نے ایسا؟ کیا مِلا تُمہیں وہ سب کر کے؟" وجدان نے اُس کے ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا چہرہ غُصّہ ضبط کرنے کی کوشش میں لال ہو رہا تھا۔


"کیا کِیا ہے میں نے؟ کِس بات کا غُصّہ نِکال رہے ہو مُجھ پہ؟ ایسا کیا ہو گیا ہے؟ اور تُم پہلے ہاسپٹل چلو پھر آکے بات کرتے ہیں ۔" وہ حیران لہجے میں پوچھتا اُسے ہاسپٹل چلنے کا کہنے لگا اُسے وجدان کی فِکر ہو رہی تھی۔


"یہ یہ میری شرٹ پہ خون لگا دیکھ کے تُمہیں پریشانی ہو رہی ہے نا؟ کہ یہ تُمہارے دوست کا خون ہے؟ ہے نا ؟ لیکن یہ میرا خون نہیں ہے داؤد سِکندر یہ میرا خون نہیں ہے مُجھے کوئی چوٹ نہیں لگی۔" وجدان نے بھڑکتے ہوئے کہا۔


"پپ پھر یہ کِس کا خون لگا ہے کِس کو چوٹ لگی ہے؟ تُم مُجھے صاف صاف بتاؤ ہوا کیا ہے؟" داؤد نے جھنجھلاتے پوچھا۔


یہ اُس لڑکی کا خون ہے جِسے تُم سے بہت محبّت ہے۔ یہ اُس لڑکی کا خون ہے جِسے تُم نے بُری طرح ذہنی طور پہ ٹارچر کیا ہے۔ یہ اُس لڑکی کا خون ہے جِس نے تُمہارے سپنے اپنی آنکھوں میں بسائے تھے یی یہ میری بہن کا خون ہے داؤد سِکندر۔" وجدان نے دھاڑتے ہوئے کہا۔ جبکہ داؤد ناسمجھی سے اُس کی بات سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔


"مگر تُمہاری تو کوئی بہن نہیں ہے دانی اور میں کیوں کروں گا اُس کے ساتھ ایسا؟ اور اُس کا خون تُماری شرٹ پہ کیسے لگا ہے؟ کیا اُسے چوٹ آئی ہے؟" داؤد نے یکے بعد دیگرے سوال پوچھے تھے۔

"وہی بہن داؤد سِکندر جِسے آج تُم نے پتہ نہیں ایسا کیا کہا ہے کہ وہ اپنے حواس کھو بیٹھی۔


ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اُس کا۔ اور یہ سب صرف تُمہاری وجہ سے ہوا ہے۔ میں معصومہ جہناگیر کی بات کر رہا ہوں داؤد سِکندر۔" وجدان کے لہجے میں اشتعال تھا۔ اُس کی بات پہ داؤد چونکا تھا۔


"تو تُم اُس دو ٹکے کی لڑکی کے لیے مُجھ سے لڑ رہے ہو اپنے دوست سے؟ اُس لڑکی کے لیے جو اِنتہا کی دھوکے باز ہے۔ اُس لڑکی کے لیے تُم مُجھ سے اِس طرح بات کر رہے ہو؟" داؤد کے لہجے میں افسوس تھا۔


"دو ٹکے کی لڑکی نہیں ہے وہ نہ ہی دھوکے باز ہے۔ وہ بہت معصوم ہے داؤد۔ وہ ویسی نہیں ہے جیسا اُسے تُم سمجھتے ہو۔ آج صرف تُمہاری وجہ سے وہ زندگی اور موت کے بیچ جھول رہی ہے۔ تُم سے مِلنے کے لیے وہ خود نہیں آئی تھی اُس کی دوست لائی تھی اُسے۔ اُسے تو پتہ بھی نہیں تھا کہ وہ کہاں جا رہی ہے۔ بہت خوددار ہے وہ۔ پِھر کیوں اُس کے پیچھے پڑ گئے ہو تُم؟ کیا کہا تھا تُم نے اُس سے ایسا کہ وہ اپنے حواسوں میں نہیں رہی ؟" وجدان نے بے بسی سے کہتے سوال کیا تھا۔


"تُمہارے لیے معصوم ہو گی وہ مگر میرے لیے معصوم نہیں ہے جھوٹی اور مکّار لڑکی ہے وہ۔ جھوٹ بول کر پھنسا رہی ہے تُمہیں۔" داؤد نے جیسے اُسے سمجھانا چاہا۔


"بکواس بند کرو اپنی ورنہ زبان کھینچ لوں گا تُمہاری۔ تُم مُجھے اِتنا بتاؤ کہ تُم نے اُسے کیا کہا تھا اگر تُم نے نہیں بتایا تو میں کُچھ کر بیٹھوں گا۔" وجدان اپنے آپے سے باہر ہوتا بولا۔


"ہاں کہا ہے میں نے اُسے۔ میں نے کہا ہے اُسے کہ میں اُس سے نفرت کرتا ہوں بے حد بے اِنتہا۔ کہا ہے میں نے اُسے کہ میری زندگی میں اُس جیسی دھوکے باز جھوٹی لڑکی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اُسے اُس کی اوقات یاد دِلائی ہے میں نے۔ اور کُچھ سُننا ہے تُم نے؟" داؤد نے بھی سرد لہجے میں کہا تھا۔


اُس کے لہجے میں موجود نفرت محسوس کر کے وجدان دنگ رہ گیا تھا۔


"کیوں کرتے ہو اِتنی نفرت وہ تو تُمہیں ٹھیک طرح سے جانتی بھی نہیں ہے۔" وجدان کو اپنی آواز گہری کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔


"کیونکہ اُس نے میری زندگی برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اُس کی وجہ سے میں مرتے مرتے بچا ہوں صرف اُس کی وجہ سے میں نے ذلّت اُٹھائی ہے۔ اِس لیے نفرت ہے مُجھے اُس سے اُس کے چہرے سے اُس کے وجود سے۔ جھوٹ بولتی ہے وہ کہ وہ مُجھے جانتی نہیں اچھی طرح سے جانتی وہ مُجھے ورنہ صرف خوابوں کے سہارے کوئی کِسی کی آنکھیں نہیں بنا ڈالتا صرف خوابوں کی وجہ سے کوئی کِسی سے محبّت نہیں کر پاتا یہ باتیں افسانوی دُنیا میں اچھی لگتیں ہیں حقیقی دُنیا میں نہیں۔" داؤد زہر خند لہجے میں بول رہا تھا۔


"بے اِنتہا نفرت بے اِنتہا محبّت کا دوسرا روپ ہوتی ہے داؤد سِکندر کہیں ایسا نہ ہو کہ تُمہاری اِس بے وجہ نفرت کے پیچھے بے اِنتہا مُحبّت چُھپی ہو اور تُم اِس بات سے لاعِلم ہی رہ جاؤ اور جب تک تُمہیں اِس بات کا احساس ہو تب تک شاید معصومہ جہانگیر تُم سے بہت دور چلی جائے۔


لوگ محبّت کے پیچھے بھاگتے ہیں مگر تُم خوش قِسمت تھے کہ محبّت تُمہارے پیچھے بھاگ رہی تھی مگر اب تُم مُجھے دُنیا کے سب سے بدقِسمت اِنسان لگ رہے ہو۔ ایک ہارے ہوئے اِنسان جِس نے محبّت کو ٹُھکرا دِیا۔ ابھی میں جا رہا ہوں داؤد سِکندر لیکن میں جلد ہی تُمہارے روبرو ہوں گا پِھر تُمہیں مُجھے اپنی اُس سو کالڈ نفرت کی وجہ بتانی ہو گی۔ " وجدان اُس پہ افسوس کرتا دروازہ کھولتا باہر نِکل گیا۔


جب کہ اُس کی بات سُن کے داؤد کے دِل میں ایک بے نام سی ہلچل ہوئی مگر پھر وہ سر جھٹکتا دوبارہ کام میں مصروف ہو گیا۔


****************

آن معصومہ کے روم کے باہر کھڑی تھی وہ معصومہ سے مِلنا چاہتی تھی مگر ایک جھجھک سی آڑے آرہی تھی۔


وہ خود کو اِس سب کی ذمہ دار مان رہی تھی دو دِن بعد پیپر تھا اُن کا اور معصومہ بِستر پر پڑی تھی۔


اُس نے گھر فون کر کے بتا دِیا تھا کہ وہ معصومہ کے ساتھ ہی رُکے گی۔ جِس پر اُس کے بابا نے اِجازت دے دی تھی۔


وہ اِسی کشمکش میں کھڑی تھی جب کِسی نے کھنکھار کر اُسے اپنی طرف متوجّہ کرنا چاہا تو وہ چونک کر مُڑی۔ اُس کے سامنے وجدان کھڑا تھا۔


"یہاں کیوں کھڑی ہیں؟ معصومہ سے نہیں مِلیں گی؟" وجدان اُس سے پوچھ رہا تھا۔ اُسے رفیق صاحب کی زُبانی معصومہ کے ہوش میں آنے کی خبر مِل چُکی تھی۔


اور رفیق صاحب نے اُسے یہ بھی بتایا تھا کہ آن معصومہ سے نہیں مِلی جبکہ معصومہ کئی بار اُس کے بارے میں پوچھ چُکی ہے۔


"وہ ویسے ہی بس۔" آن نے نظریں چُراتے کہا۔


"ویسے ہی کیوں؟ پتہ ہے معصومہ کِتنی بار آپ کا پوچھ چُکی ہے مگر آپ اُس سے مِلنے نہیں گئیں۔ وجہ جان سکتا ہوں؟" وجدان نے سنجیدگی سے پوچھا۔


"مم میں کیسے اُس کے سامنے جاؤں؟ یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے نہ میں اُسے وہاں لے کے جاتی نہ اُس کا یہ حال ہوتا۔" آن نے نم آنکھوں سے کہا۔


"جو جیسے قِسمت میں لِکھا تھا ویسے ہی ہونا تھا اور اب تو معصومہ ٹھیک ہے نا؟ تو خود کو اِلزام مت دیں۔ اور جا کے معصومہ سے مِلیں۔" وجدان کے کہنے پر اُس نے سر ہلایا اور معصومہ کے کمرے کی طرف بڑھی۔


وجدان وہیں رُک گیا کہ دونوں دوستوں کو کُھل کر بات کرنے کی ضرورت تھی۔


*****************


وہ آہستہ سے چلتی معصومہ کے بیڈ کے قریب آئی۔ معصومہ کی آنکھیں بند تھیں۔ وہ اُس کے قریب بیٹھی اور اُس کا ہاتھ تھام لیا۔


معصومہ نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں اور آن کی طرف دیکھ کر مُسکرائی جو اُس کے ہاتھ پہ بوسہ دیتی رو رہی تھی۔


"رو کیوں رہی ہو؟ ابھی مری تھوڑی ہوں؟ زندہ ہوں جب مروں گی تب رو لینا۔" معصومہ نے مدھم سی مُسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائے کہا۔


"ایسا مت کہو مومو پلیز۔ مُجھے تکلیف ہوتی ہے۔" معصومہ کی بات پہ اُس نے تڑپ کر سر اُٹھایا۔


"اچھا نہیں کہتی۔ یہ بتاؤ مُجھ سے مِلنے کیوں نہیں آرہی تھی؟ " معصومہ نے پوچھا۔


"یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے مومو! میں کِس منہ سے تُمہارے سامنے آتی۔ تُمہاری اِس حالت کی ذِمہ دار میں ہوں۔ سب میرا قصور ہے میری وجہ سے آج تُم اِس حال میں ہو۔" آن کے آنسو اُس کے گالوں پہ بہنے لگے تھے۔


"اِس میں تُمہارا کوئی قصور نہیں آنو! یہ سب میری قِسمت میں لِکھا تھا۔ اگر تُم مُجھے وہاں نہیں لے کے جاتی تو مُجھے میری اوقات کیسے پتہ چلتی۔ تُمہارا بہت شُکریہ کہ تُم مُجھے وہاں لے کے گئی۔ میں اپنی حیثیت پہچان گئی ہوں میں جان گئی ہوں کہ ہماری زندگی صرف خوابوں میں خوبصورت ہو سکتی ہے شہزادے صرف خوابوں میں مِلا کرتے ہیں۔ حقیقی دُنیا میں ہم جیسی عام لڑکیوں کے لیے کوئی شہزادہ نہیں آتا۔ ہم جیسی لڑکیوں کو مُحبّت کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ ہمیں صرف اُس چیز کا اِنتظار کرنا چاہیے جو ہماری قِسمت میں لِکھ دی گئی ہوتی ہے ہم اپنی قِسمت کا لِکھا نہیں بدل سکتے اور میری قِسمت میں داؤد سِکندر نہیں لِکھا اور اب نہ ہی مُجھے اُس کی خواہش ہے ۔" معصومہ تلخی سے بول رہی تھی۔


"تُم بہت خاص ہو مومو بہت خاص۔ عام تو وہ داؤد سِکندر تھا جِس نے تُمہاری قدر نہیں کی۔ مگر ایک دِن ایسا آئے جب وہ تُمہاری قدر بھی کرے گا اور تُمہیں پاگلوں کی طرح چاہے گا بھی۔" آن نے معصومہ کے لہجے میں دُکھ بولتا دیکھ کر کہا۔


"اب مُجھے اُس کی کوئی چاہ نہیں۔ اپنی عِزّتِ نفس مُجھے داؤد سِکندر سے زیادہ پیاری ہے۔ انجانے میں ہی سہی مگر میں نے اُس سے فریاد کر دی مگر اب ایسا کبھی نہیں ہو گا معصومہ جہانگیر کی محبّت دیکھی ہے اُس نے اب اُس کے بے نیازی بھی دیکھے گا وہ۔ میرے دِل سے اُتر گیا ہے وہ شخص اور جو ایک بار دِل سے اُتر جائے وہ کبھی ویسا مُقام نہیں پا سکتا جیسا پہلے ہوتا ہے اُسکا۔" معصومہ کے لہجے میں نمی گُھلی تھی۔


کہنے کو تو اُس نے کہہ دیا تھا کہ اب اُسے اُس شخص کی کوئی چاہ نہیں مگر اُس کا دِل جانتا تھا کہ آج بھی اُس کا دِل داؤد سِکندر کے نام پہ دھڑک اُٹھتا تھا مگر وہ آہستہ آہستہ اُس کو بُھلا دے گی ایسا اُس نے سوچ لیا تھا جو اگر ممکِن نہیں تھا تو نا ممکِن بھی نہیں تھا۔


"اُس نے تُمہیں ایسا کیا کہا تھا مومو ؟ جو تُم اِس طرح وہاں سے بھاگی چلی آئی بغیر اِردگِرد کی پرواہ کیے۔" آن نے پوچھا۔


"میں اُن باتوں کو دُہرا کے خود کو نئی اذِیّت سے دوچار نہیں کرنا چاہتی آن۔ میں وہ سب کُچھ بھول جانا چاہتی ہوں۔ بھول جانا چاہتی ہوں کہ کوئی داود سِکندر بھی تھا جِس کے کبھی میں نے سپنے سجائے تھے۔ جانتی ہوں یہ بہت مُشکل ہے مگر ناممکن تو نہیں نا؟ اب میں اُس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔ جِس اِنسان کا ظرف اِتنا چھوٹا ہو وہ کِسی کی محبّت کے لائق نہیں ہو سکتا۔" معصومہ نے دوٹوک انداز میں کہا تو آن نے خاموشی سے سر ہلا دیا۔


"مومو! پرسوں پیپر ہے تو تُم کیسے جاؤ گی دینے مطلب ایسی حالت میں؟" آن نے پریشانی سے پوچھا۔


"کیا ہوا ہے مُجھے؟ ٹھیک تو ہوں میں۔ بس سر پہ اور کمر پی چوٹ آئی ہے زیادہ۔ باقی میں ٹھیک ہوں اور پیپر دینے بھی جا سکتی ہوں تیار تو تقریباً ہو ہی گیا تھا۔" معصومہ نے کہا تو آن اُسے دیکھ کر رہ گئی۔


"ایسے کیسے جاؤ گی تُم؟ حالت دیکھی ہے اپنی تھوڑی سی چوٹ کی بچّی۔میں تو سوچ رہی یوں دونوں اگلے سال پیپر دے لیں گے۔" آن نے دانت پیستے کہا۔


"مُجھے اپنا سال ضائع نہیں کرنا آنو۔ لوگ تو قومہ سے اُٹھ کر پیپر دینے چلے جاتے ہیں اور میں ایک چھوٹے سے ایکسیڈنٹ سے گھبرا کر پیپر چھوڑ دوں۔ کبھی نہیں۔ میں تو جاؤں گی پیپر دینے۔" معصومہ نے اٹل لہجے میں کہا۔


"اچھا ٹھیک ہے تو میں تُمہیں پِک کر لوں گی پِھر تُم میرے ساتھ ہی جاؤ گی اوکے؟" آن نے بے بسی سے سر ہلاتے پوچھا۔


"اوکے ڈن۔" معصومہ نے تائید کی۔


"میں دو عورتوں کی ڈِسکشن میں مداخلت کر سکتا ہوں؟" وجدان نے اندر آتے کہا۔


"آپ اندر آچُکے ہیں اور مداخلت بھی کر چُکے آدمی صاحب۔" آن نے کہا تو معصومہ مُسکرائی۔


"یہ آدمی کِس کو کہا؟ میں تو ابھی لڑکا ہوں۔" وجدان نے اپنے بال سنوارتے پوچھا۔


"آپ ہمیں عورتیں کہہ سکتے ہیں تو میں آپ کو آدمی نہیں کہہ سکتی؟" آن نے اِستفسار کیا تو وجدان قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔


"او مائی اللّٰہ! اِتنا غُصّہ؟ آئیندہ نہیں کہوں گا عورت۔" وجدان نے ہنسی دباتے کہا۔


""آپ یہاں کیسے وجدان بھائی؟" معصومہ نے پوچھا۔


"آپ کی اِطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں ہی آپ کو یہاں لایا تھا۔ اور اب آپ کے پاس رات کو میں اور آن ٹھہریں گے۔" وجدان نے اُسے بتایا تو معصومہ نے سوالیہ نظروں سے آن کو دیکھا۔


"ہاں یہی تُمہیں ہاسپِٹل لائے تھے۔" آن نے جواب دیا۔


"تو ماموں کوگ چلے گئے واپس؟" معصومہ نے پوچھا تو آن نے اثبات میں سر ہلا دیا۔


"اُنہیں میں نے ہی کہا تھا واپس جانے کو۔ یہاں صِرف دو لوگوں کو رُکنے کی اِجازت ہے۔ اور مشعل اور آنٹی گھر پہ اکیلے کیسے رہتے اِس لیے میں نے اُن کے ساتھ انکل کو گھر واپس بھیج دیا۔ میں ہوں نا یہاں اہنی بہن کے پاس۔" وجدان نے نرمی سے اُسے بتایا تو وہ سر ہلا کر رہ گئی۔


"رات ہوچُکی ہے تُم آرام کرو میں کھانے کے لیے کُچھ لے کے آتا ہوں۔" وجدان نے کہا اور باہر نِکل گیا۔


کُچھ دیر بعد وہ کھانا لے آیا تھا جِس میں معصومہ کے لیے پرہیزی کھانا تھا اور اُن دونوں کے لیے برگر اور کوک۔ جِسے دیکھ کر معصومہ نے مُنہ بنایا تھا اور مُنہ بسورتے پرہیزی کھانا کھایا تھا جِس پر وہ بے ساختہ ہنس دئیے تھے۔


کھانے کے بعد معصومہ کو میڈیسن کِھلا کے آن وہاں موجود صوفے ہر سو گئی تھی جبکہ وجدان باہروجود کُرسی پر بیٹھا اُس کی پُشت سے ٹیک لگائے بیٹھ گیا تھا۔


آن نے اُسے کہا تھا کہ وی صوفے پر لیٹٹ جائے مگر اُس نے آن کے خیال سے منع کر دیا۔


******************


وہ اِس وقت اپنے کمرے میں راکنگ چیئر پر بیٹھا جھول رہا تھا۔ ذہن میں وجدان کی باتیں گونج رہیں تھیں۔


"کیا اُس نے غلط کیا؟ کیا اُس کی وجہ سے اُس لڑکی کا ایکسیڈنٹ ہوا؟ نہیں بالکل نہیں اُس نے اُسے روڈ پہ دھکا تھوڑی دیا تھا جو اُس کی وجہ سے اُس کا ایکسیڈنٹ ہوا۔ وہ لڑکی دھوکے باز تھی مکّار تھی وہ یہی سب ڈیزرو کرتی تھی۔


اُسے لگتا ہے وہ سب کو اپنی معصومیت کے جال میں پھنسا لے گی مگر مُجھے ہرگِز نہیں۔" وہ چیئر پہ جھولتا مسلسل اُس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔


"میں اُسے کیوں سوچ رہا ہوں؟ ہننہ وہ اِس لائق ہی نہیں کہ اُس کے بارے میں کُچھ سوچا جائے۔" اُس نے نخوت سے سر جھٹکا۔


"دانی بھی اُس کے جھانسے میں پھنس گیا ہے۔ ہننہ بھائی۔ وہ لڑکی کِسی کو بھائی بنا لے امپاسِبل۔ اُس کی خاطِر وہ مُجھ سے اپنے بھائی جیسے دوست سے لڑ رہا ہے۔ یہ لڑکی ہمیشہ میری زندگی کا ایک تلخ باب ثابت ہوئی ہے اور اب پِھر سے یہ میری زِندگی میں آ گئی ہے۔" وہ اُس کے بارے میں نہ سوچنے کا فیصلہ کرتا پِھر سے اُسی کو بارے میں سوچ رہا تھا۔


"دانی مُجھ سے پوچھے گا تو میں اُسے اُس لڑکی کی ساری اصلیت بتا دوں گا پِھر تو اُسے مُجھ پر یقین آجائے گا اور وہ اُس لڑکی کا پیچھا بھی چھوڑ دے گا۔ ایک بار دانی سے مِل لوں پِھر اُس لڑکی کو دانی کی زندگی سے نِکال باہر کروں گا۔" وہ خود سے بڑبڑایا اور راکنگ چیئر سے اُٹھتا بیڈ پر لیٹ کر سونے کی کوشِش کرنے لگا۔


******************


اگلا پورا دِن معصومہ کو ہسپتال رکھا گیا تھا۔ پِھر شام کو اُسے ڈِسچارج کر دیا گیا تھا۔ وجدان مسلسل وہاں رُکا رہا تھا جبکہ آن گھر چلی گئی تھی۔ ڈسچارج کروانے کے بعد معصومہ کو آن اور وجدان گھر لے آئے تھے۔


اُسے اُس کے کمرے میں چھوڑ کر وجدان باہر آیا تھا۔ اةس نے معصومہ کو اپنا دھیان رکھنے کی ہدایت کی تھی۔


آن کے کہنے پر اُس نے معصومہ سے داؤد کے بارے میں کُچھ نہیں پوچھا تھا آن کا کہنا تھا کہ وہ معصومہ کا بھرم نہیں توڑنا چاہتی۔


جب معصومہ داؤد سِکندر کو اپنی زندگی کا ایک سیاہ باب سمجھ کر بھولنا چاہ رہی تھی تو وہ کیوں اُسے اُس اِنسان کی یاد دِلائیں جِس کے سینے میں دِل نہیں پتھر تھا۔


"ارے بیٹا! آپ جا رہے ہیں کُچھ دیر رُک جاتے تو رات کا کھانا ہمارے ساتھ ہی کھا کے جاتے۔" فرزانہ بیگم نے اُسے روکنا چاہا تھا۔


"نہیں آنٹی جی اِس وقت مُجھے گھر جانا ہے ماما اِنتظار کر رہی ہوں گی۔ پھر کبھی آپ لوگوں کے ساتھ کھاوں گا۔" وجدان نے سادگی سے اِنکار کیا اور خُدا حافِظ کہتا باہر نِکل گیا۔


اُس کے جانے کے کُچھ دیر بعد آن بھی گھر کے لیے نِکل گئی اُس کا ڈرائیور گھر کے باہر ہی موجود تھا۔


معصومہ بیڈ پر نیم دراز تھی۔ کُچھ دیر بعد مشعل رفیق صاحب کی ہدایت پہ اُس کے لیے پرہیزی کھانا لے کے آئی تھی۔ جِسے معصومہ نے چُپ چاپ کھایا تھا یہاں اُس کی دوست اور بھائی نہیں تھا جِن کے سامنے وہ نخرے کرتی۔


میڈیسن کھانے کے بعد اُس نے مشعل سے کہہ الماری سے اپنی کِتاب نِکلوائی تھی اور پھر اپنی کِتاب ہاتھ میں تھام کر پڑھنے لگی تھی۔


بائیں بازو پہ چوٹ لگی تھی اِس لیے وہ کِتاب گود میں رکھ کر دائیں ہاتھ سے ورق گردانی کرتی پڑھ رہی تھی۔


کل اُس کا پیپر تھا جِسے وہ کِسی صورت مِس نہیں کرنا چاہتی تھی۔ تیاری تو اُس کی ہو چُکی تھی اب بس ریوائز ہی کر رہی تھی۔


وہ اپنے دھیان میں پڑھ رہی تھی جب اُس کے فون کی بیل بجی۔


"اسلامُ علیکُم! کیسی ہیں آپی؟" اُس نے ماہین کا نمبر دیکھ کر سلام کیا۔


"میں ٹھیک ہوں لیکن تُم بتاؤ یہ میں کیا سُن رہی ہوں؟ ایکسیڈنٹ ہو گیا تُمہارا؟ تُم ٹھیک تو ہو نا؟ کہیں زیادہ چوٹ تو نہیں آئی؟" سلام کا جواب دے کر ماہین شروع ہو گئی۔


"جی آپی! میں بالکُل ٹھیک ہوں کُچھ نہیں ہوا مُجھے۔ اور نہ ہی زیادہ چوٹ آئی ہے۔ آپ بالکُل فِکر مت کریں۔" معصومہ نے مُسکراتے اُسے تسلّی دی۔


"یہ تو میں آکے ہی دیکھوں گی کہ کِتنی ٹھیک ہو تُم۔ اب تُم ریسٹ کرو میں فون رکھتی ہوں دو دِن بعد میں واپس آرہی ہوں اور آتے ہی تُمہاری خبر لوں گی اپنا خیال بالکُل نہیں رکھتی تُم۔" ماہین نے پیار سے اُسے ڈپٹا۔


"جِتنی خبر لینی ہے لے لیجیے گا۔ ابھی آپ بھی ریسٹ کریں رات کافی ہو گئی ہے۔" معصومہ نے گھڑی پہ وقت دیکھتے کہا جو گیارہ بجا رہی تھی۔


"اچھا ٹھیک ہے میں فون رکھتی ہوں اپنا خیال رکھنا اللّٰہ حافِظ۔" ماہین نے کہتے فون رکھا تو وہ بھی فون رکھ کر پڑھائی میں مصروف ہو گئی مگر پِھر سر کے پِچھلے حِصّے میں درد ہونے لگا تو کِتاب رکھ کر آہستہ سے نیچے کھسکتی ایک کروٹ پر لیٹ کر چادر اوڑھ لی۔


اُس کی کمر پہ کافی خراشیں آئیں تھیں جِس کی وجہ سے اُس سے پُشت کے بل لیٹا بھی نہیں جا رہا تھا اُس نے آنکھیں موندیں اور سونے کی کوشِش کرنے لگی۔


****************


روحان اور وِشہ اِس وقت اپنے ہیڈ کوارٹر میں موجود تھے۔ وہاں اُنہیں کِسی کیس کے بارے میں بریفینگ دی جارہی تھی جِس میں یہ بتایا گیا تھا کہ دہشت گردوں نے شہر میں ایک جگہ دھماکہ کیا تھا اور ساتھ میں دھمکی دی تھی کہ وہ مُلک پہ حملہ کرنے والے ہیں اور کافی جگہ پہ بم لگائے ہیں جِن کا کنٹرول اُن کے پاس تھا اور وہ جب چاہیں دھماکہ کر سکتے ہیں۔


اُن کا مقصد جیل میں موجود اپنے ساتھی کی رہائی تھا۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ اگر وہ اُن کے ساتھی کو رِہا نہیں کرتے تو وہ شہر میں ہر جگہ پہ بلاسٹ کریں گے۔ اِسی سِلسلے میں اُنہیں بُلایا گیا تھا اُن دہشت گردوں کا سُراغ لگا لیا گیا تھا اور اب اُنہیں اپنی آرمی ٹیم کے ساتھ وہاں اٹیک کر کے اُنہیں پکڑنا تھا تا کہ اُن کے عزائم کے بارے میں جان سکیں۔


ایک سپیشل ٹیم کو بم ڈھونڈ کر ڈیفیوز کرنے کی ڈیوٹی لگا دی گئی تھی مگر اِتنے بڑے شہر میں ہر ایک بم کو ڈھونڈنا بہت مُشکِل تھا اور اب جب کہ اُن کو معلوم تھا کہ دہشت گردوں کا اڈا کہاں ہے تو اُن پر اٹیک کر کے اُن سے سب کُچھ اُگلوانا آسان تھا۔


جِس جگہ پہ اُن دہشت گردوں کی لوکیشن ٹریس ہوئی تھی وہ ایک سُنسان جنگل تھا جِس کے اِردگِرد کوئی آبادی نہیں تھی۔ دہشت گردوں نے دو دِن کا وقت دیا تھا۔ اور اُنہیں دو دِن گُزرنے سے پہلے یعنی کل ہی وہاں اٹیک کرنا تھا۔ اب یہ اٹیک کامیاب ہونا تھا یا ناکام یہ تو صِرف خُدا ہی جانتا تھا۔


*******************


معصومہ نے ناشتہ کمرے میں ہی کیا تھا۔ آن اپنے گھر سے جلدی آگئی تھی تا کہ معصومہ کو پِک کر سکے۔ ناشتے کے بعد معصومہ، آن اور مشعل کے سہارے چل کر گاڑی تک آئی تھی۔


رفیق صاحب بھی ساتھ جانا چاپ رہے تھے مگر آن نے کہا تھا کہ وہ اُس کا دھیان رکھے گی. اِس لیے رفیق صاحب بے فِکر ہو گئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آن معصومہ سے بہت محبّت کرتی ہے۔


کالج میں پہنچ کر اُس نے معصومہ کو سہارے سے کلاس روم تک پہنچایا تھا معصومہ اِتنے میں ہی ہانپنے لگی تھی۔


آن نے اُسے پانی پِلا کے ریلیکس کرنا چاہا تھا۔ بارہ بجے تک اُن کا پیپر ختم ہو گیا تھا۔ آن تو پیپر کر چُکی تھی مگر معصومہ نے آہستہ آہستہ پیپر حل کیا تھا اُسے بازو میں درد ہو رہا تھا جِسے برداشت کرتی وہ دھیان سے سوال حل کر رہی تھی۔


پیپر کے بعد آن اُس کے لیے جوس لے آئی تھی۔ کُچھ دیر بعد وہ گھر جانے کے لیے کھڑی ہوئیں۔


آن معصومہ کو لے کر گیٹ پر آئی تو سامنے ہی وجدان کھڑا تھا۔ آن اُسے دیکھ کر حیران ہوئی۔


"آپ یہاں؟" اُس نے حیرت سے اِستفسار کیا۔


"جی ہاں میں یہاں۔ میں آپ لوگوں کو لینے آیا ہوں۔ آپ اپنے ڈرائیور کو منع کر دیں آپ لوگ میرے ساتھ جا رہیں ہیں۔" وجدان نے دو ٹوک انداز میں کہا۔


جبکہ آن اُس کے حُکمیہ انداز کو دیکھ کر رہ گئی۔

"مگر میری گاڑی موجود ہے ہم اُسی میں جائیں گے۔" آن نے بھی دو ٹوک انداز میں کہا۔


"ٹھیک ہے آپ جائے اپنی گاڑی میں۔ میری بہن میرے ساتھ جائے گی۔" وجدان نے خفگی سے کہا اور معصومہ کو سہارا دے کر گاڑی میں بِٹھانا چاہا۔


"ایسے کیسے؟ وہ میرے ساتھ آئی ہے اور میرے ساتھ ہی جائے گی۔" آن نے معصومہ کو بازو سے تھاما۔


"وہ میری بہن ہے اور اپنے بھائی کے ساتھ جائے گی ہے نہ معصومہ؟" وجدان نے اُسے جتاتے معصومہ سے تائید چاہی۔


"وہ میری دوست ہے اور میرے ساتھ جائے گی۔" اِس سے پہلے معصومہ کُچھ بولتی آن بول اُٹھی۔


"میں کہہ رہا ہوں نا کہ معصومہ میرے ساتھ جائے گی۔ آپ معصومہ سے پوچھ لیں وہ کِس کے ساتھ جائے گی۔" وجدان نے مشورہ دیتے معصومہ کی طرف اِشارہ کیا جو ہونقوں کی طرح اُن دونوں کو ٹام اینڈ جیری کی طرح لڑتے دیکھ رہی تھی۔


"ہاں مومو بتاؤ کہ تُم اپنی دوست پلس بہن کے ساتھ جاؤ گی۔" آن نے بھی معصومہ سے پوچھا۔


"میں ماموں کو فون کرتی ہوں آ کے مُجھے لے جائیں۔ مُجھ سے اور کھڑا ہو کے آپ دونوں کی لڑائیاں نہیں دیکھی جاتیں۔" معصومہ نے تھکی تھکی آوز میں کہا تو وہ دونوں تیزی سے اُس کے دائیں بائیں اُسے تھام کر کھڑے ہو گئے۔


"کوئی بات نہیں ہم وجدان کی گاڑی میں چلے جاتے ہیں۔"

"کوئی بات نہیں ہم آن کی گاڑی میں چلے جاتے ہیں۔"


آن اور وجدان نے اُس کو تھامے ایک ساتھ کہا۔


پِھر ایک دوسرے کو دیکھا اور پِھر اپنے درمیان میں کھڑی معصومہ کو۔ وہ کِھلکھلا کر ہنس رہی تھی۔ اُسے یوں ہنستا دیکھ کر وہ دونوں بھی بے ساختہ ہنس پڑے۔


"ہم وجدان کی گاڑی میں ہی چلتے ہیں میں ڈرائیور کو گھر بھیج دیتی ہوں۔"آن نے کہا اور ڈرائیور کے پاس جا کر اُسے واپس جانے کا کہتی واپس اُن کے پاس آئی۔


"چلیں؟" آن نے کہا تو وجدان نے سر ہلاتے اُن کے لیے گاڑی کے پِچھلے دروازے کھولے۔


آن نے معصومہ کو سہارا دے کے پیچھے بِٹھایا اور خود بھی اُس کے ساتھ بیٹھی۔ وجدان نے فرنٹ سیٹ سنبھالی اور گاڑی سٹارٹ کرتے معصومہ کے گھر کے راستے پہ ڈال دی۔


*******************

وہ دونوں اُسے گھر لے آئے تھے۔ گھر آنے کے بعد معصومہ کو اُس کے کمرے میں پُہنچا کے آن وجدان کے ساتھ ہی اُس کی گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔

 وجدان نے کہا تھا کہ وہ ہی اُسے ڈراپ کرے گا۔

آن کے بیٹھتے ہی وجدان نے گاڑی سٹارٹ کی اور آن کے گھر کے راستے پر ڈال دی۔ گاڑی میں خاموشی چھائی تھی جِسے وجدان کی آواز نے توڑا۔

"اِتنی خاموش لگتی تو نہیں جِتنی اِس وقت ہیں آپ؟" وجدان نے اُس کی خاموش پر کہا۔

"نن نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔ دراصل کوئی بات ہی نہیں ہے کرنے کو اِسی لیے۔" آن نے گڑبڑاتے کہا۔

"اچھا؟ آپ کے ساتھ بیٹھا ہوں میں۔ آپ میرے بارے میں ہی بات کر لیں لیکن یہ تو مت کہیں کہ کوئی بات نہیں کرنے کو۔" وجدان کے لہجے میں خفگی تھی۔

"آپ کے بارے میں؟ اچھا تو یہ بتائیں آپ کے گھر میں کون کون ہے؟" آن نے کُچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔

"میرے گھر میں میں ہوں ماما ہیں بابا ہیں اور بس۔" وجدان نے جواب دیا۔

"بس اور کوئی نہیں؟" آن کو حیرت ہوئی۔

"نہیں اور کوئی نہیں ہے۔ میں اِکلوتا ہوں۔ ویسے تو مُجھے کِسی چیز کی کمی نہیں مگر گھر میں کُچھ کمی سی لگتی لے۔" وجدان نے معنی خیز لہجہ اپنایا۔

"کِس چیز کی کمی ہے؟" آن کو اُس کے جواب پہ حیرت ہوئی۔ اگر وہ اِکلوتا تھا تو اُس کے پاس تو سب کُچھ ہونا چاہیے تھا پِھر کِس چیز کی کمی؟ 

"ماما کو لگتا ہے کہ اب مُجھے شادی کر لینی چاہیے۔ گھر میں سب کُچھ ہے صِرف بہو کی کمی ہے۔" وجدان کے لہجے میں سنجیدگی تھی۔

"اا اچھا تت تو اچھی بات ہے۔ آپ کک کی عُمر بھی ہو گئی ہے شادی کی۔کوئی لڑکی پسند ہے کیا؟" آن نے اٹکتے ہوئے سرسری انداز اپنایا۔

"ہاں مُجھے ایک لڑکی پسند تو ہے۔ اب ماما سے بات کروں گا کہ جلدی سے اُسے میری دُلہن بنا کے لے آئیں تا کہ اُن کو بہو کی کمی بھی مجسوس نہ ہو اور میری زندگی میں بھی بہار آجائے۔" وجدان کے لہجے میں شوخیاں بول رہیں تھیں۔

"اچھا کک کیا نام ہے اُس کا؟" آن نے جاننا چاہا۔

"یہ تو ابھی آپ کو نہیں بتا سکتا میں۔ جب وہ مُجھے ہاں کر دے گی تب بتاوں گا۔"وجدان نے اُس کے چہرے کو دیکھ کر کہا۔

"اچھا! سوری میں نے آپ سے پوچھا یہ آپ کا پرسنل میٹر ہے۔" آن نے چہرے کا رُخ پھیرتے کہا وہ اپنے چہرے کی اُداسی وجدان کو نہیں دِکھانا چاہتی تھی۔

"ہاں پرسنل میٹر تو ہے۔ لیکن کوئی بات نہیں اگر آپ نے پوچھ لیا تو۔"وجدان نے سرسری سے لہجے میں کہا تو اُس کا دِل بھر آیا۔

"گاڑی تیز چلائیں مُجھے جلدی گھر جانا ہے اگلے پیپر کی تیاری بھی کرنی ہے۔" آن نے اپنے لہجے کو ہموار کیا۔

"جی ضرور۔" وجدان نے کہتے گاڑی کی سپیڈ بڑھائی۔ اگلے دس منٹ میں وہ اُن کے گھر کے باہر کھڑے تھے۔ آن گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نِکلی اور اندر کی طرف جانے لگی۔

"اندر آنے کو نہیں کہیں گی؟ میں پہلی بار آپ کے گھر آیا ہوں۔" وجدان نے پیچھے سے ہانک لگائی تو وہ رُکی۔

"پاپا اِس وقت گھر نہیں ہوتے جب وہ ہی گھر نہیں تو آپ کو کمپنی کون دے گا؟ اِس لیے معذرت۔" آن نے پلٹے بغیر سپاٹ لہجے میں کہا اور اندر کی طرف بھاگ گئی۔ 

جبکہ وجدان اُس کے لہجے کی نمی کو نوٹ کرتا مُسکرا کر گاڑی میں بیٹھا اور زن سے وہاں سے نِکل گیا۔

*****************

وہ اندر آکے اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھ گئی بیگ اُتار کر ایک طرف پھینکا اور گُھٹنوں میں سر دئیے پِخھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اُسے اِتنا بُرا کیوں لگ رہا ہے؟ وجدان کے مُنہ سے کِسی اور کا ذِکر اُسے اِتنا بُرا کیوں لگا تھا؟ 

"آج نہیں تو کل وجدان نے شادی کرنی ہی تھی پِھر میں اُس کے منہ سے کِسی اور سے شادی کی بات سُن کے افسردہ کیوں ہوں؟ میں تو رونے والوں میں سے نہیں ہوں۔ پِھر کیوں مُجھے اِتنا بُرا لگ رہا ہے؟"

"کیونکہ تُمہیں اُس سے محبّت ہے آن ہمدانی۔" اُسکے سوال کا جواب اُس کے دِل نے دیا تھا جِس پہ وہ گنگ رہ گئی تھی۔

"مُحبّت اور وہ؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ کُچھ مُلاقاتوں میں کوئی کِسی سے محبّت کیسے کر سکتا ہے؟" 

"مُحبّت تو ایک لمحے میں ہو جاتی ہے۔ اِس کے لیے صدیاں گُزرنے کی ضرورت تو نہیں پڑتی۔" ایک بار پِھر وہ اپنے دِل کے جواب پر چُپ کی چُپ رہ گئی۔

وہ کِسی اور کو پسند کرتا ہے آن۔ اور یہی سچ ہے۔ یہ بات اپنے ذہن میں بِٹھا لو آن ہمدانی۔ یہی تُمہارے لیے اچھا ہے۔ معصومہ سہی کہتی ہے محبّت ہم عام سی لڑکیوں کے لیے نہیں ہوتی۔" اُس نے تلخی سے سوچتے آنسو پونچھے اور کپڑے چینج کرنے چلی گئی۔

******************

وہ دروازہ ناک کر کے اندر داخل ہوا۔ اور سیدھا اُس کے سامنے چیئر پر بیٹھ گیا۔ داؤد فائل پہ جُھکا کام کر رہا تھا اُسے اندازہ تھا آنے والا کون ہے۔ 

"مُجھے تُم سے بات کرنی ہے داود سکندر۔" اُس نے تلخی سے کہا تو داؤد نے گہرا سانس بھر کر اُس کی جانِب دیکھا۔

"کیا بات کرنی ہے وجدان آفندی؟" داؤد نے بھی اُسی کے لہجے میں پوچھا۔

میں نے کہا تھا تُم سے کہ میں تُم سے سب کُچھ جاننے آؤں گا اب تُم مُجھے سب کُچھ بتاؤ۔" وجدان کی بات سُن کر اُس نے سیٹ کی پُشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔

"میں تُمہیں سب کُچھ بتا دوں گا مگر یہ بات ہم دونوں کے درمیان میں ہی رہے۔" داؤد نے آنکھیں موندے ہی کہا۔

"ٹھیک ہے یہ بات میرے اور تُمہارے درمیان میں ہی رہے گی۔" وحدان کی بات سُن کے وہ زخمی سا مُسکرایا۔ اور ورق در ورق اپنے زندگی کے دو سال پیچھے جانے لگا جب وہ اِنگلینڈ گیا تھا اپنی میٹنگ کے سِلسلِے میں۔

****************

 وہ ایم بی اے کرنے کے بعد نیا نیا بِزنس سٹارٹ کر رہا تھا اُس نے ہمیشہ سے بِزنس کرنے کے بارے میں شروع سے ہی سوچا تھا ۔ 

اُس  کے بابا چاہتے تھے کہ وہ گاؤں میں ہسپتال کھولے کیونکہ اُن کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنے مگر اُسے اِس شعبے میں کوئی دِلچسپی نہیں تھی اِسی لیے اُس نے بابا جان کو منا کے ایم بی اے میں ایڈمیشن لیا تھا اور ایم بی اے کے بعد اُس نے امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار شروع کیا تھا۔ 

وہ اِس وقت  پچیس سال کا تھا۔ میٹنگز کے لیے اور نئی ڈیلز کے لیے اُسے اکثر مُلک سے باہر جانا پڑتا تھا۔

یہ میٹنگ کمپنی میں ارینج کی گئی تھی۔ میٹنگ کے بعد وہ اُس ہوٹل کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں اُس کا سٹے تھا۔ اُسے دو ہفتے کے لیے وہاں سٹے کرنا تھا۔

 کمپنی سے ہوٹل کافی قریب تھا وہ پیدل ہی واک کرتا جا رہا تھا جب اُس کی نظر ایک اٹھارہ سالہ لڑکی پر پڑی جو چیختے ہوئے ایک لڑکے سے اپنا پرس چُھڑا رہی تھی۔ 

وہ لڑکا شاید چور تھا اور اُس سے پرس چھین رہا تھا۔

وہ جلدی سے آگے بڑھا اور اُس لڑکے کو کمر میں لات مار کر نیچے گِرایا۔ 

وہ کوئی سولہ سترہ سال کا تھا جو اپنا بچاو بھی نہیں کر سکا اور نیچے گِر پڑا۔ اُس نے پرس لے کر لڑکی کو دیا اور لڑکے کو کالر سے پکڑ کر اوپر اُٹھایا۔

"Say sorry to her."

اُس نے لڑکے کو کہا جِس نے اُس کی بات مانتے لڑکی سے معذرت کی تو اُس نے لڑکے کو چھوڑ دیا جو تیزی سے وہاں سے بھاگتا چلا 

گیا۔

Thanks for help Mr?" 

لڑکی نے شُکریہ ادا کیا. 

"Daood Sikandar"

داؤد نے اپنا تعارف کروایا۔

"Am Romaisa"

"Nice to meet you Miss Romaisa".

داؤد نے کہا تو وہ مُسکرائی۔

"آپ شاید پاکِستانی ہیں؟" رومیسہ نے اِس بار اُردو میں ہوچھا تو وہ حیران ہوا۔

"جی ہاں میں پاکِستانی ہوں۔ آپ کو اُردو بولنا آتی ہے؟" داؤد نے حیرانی ظاہر کی۔

"جی ہاں میں اُردو لِکھ بھی سکتی ہوں اور بول بھی سکتی ہوں۔" رومیسہ نے مُسکراتے کہا داؤد مُسکرا دیا۔

"ویل مُجھے لگا کہ شاید آپ اِنگلینڈ سے ہیں اور نان مُسلم ہیں۔" داؤد نے اُس کا جائزہ لیا۔ کالے شولڈر کٹ بال، سیاہ گہری آنکھیں، چھوٹی سی ناک، بھرے بھرے سے گال ، گُلابی قُدرتی ہونٹ وہ دِکھنے میں کافی خوبصورت تھی مگر داؤد کو ایک آنکھ نہیں بھائی وجہ اُس کی ڈریسنگ تھی۔ 

وہ اس وقت پرپل کلر کے سکرٹ میں ملبوس تھی جو اُس کے گُھٹنوں سے تھوڑا.  سا نیچے جا رہا تھا اور پنڈلیوں سے کافی اوپر جِس کی وجہ سے اُس کی پنڈلیاں صاف نظر آرہیں تھیں۔

"ضروری تو نہیں کہ جو اِنگلینڈ میں رہتے ہوں وہ نان مُسلم بھی ہوں۔" رومیسہ نے مُسکراتے کہا۔

"جی یہ بھی ہے۔" داؤد اُسے یہ نہیں بتا سکا کہ وہ اُس کو اِنگلینڈ میں رہنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اُس کے حُلیے کی وجہ سے نان مُسلم سمجھا تھا۔ وہ صِرف اتنا جانتا تھا کہ مسلمان خواتین چاہے جِس کلچر میں بھی رہیں وہ اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت نہیں بھولتیں۔

"میں چلتا ہوں۔مُجھے کُچھ ضروری کام ہے۔" داؤد نے جانے کے لیے قدم بڑھائے تو وہ اُس کی راہ میں حائل ہو گئی۔

"آپ رہتے کہاں ہیں؟ اڈریس تو بتا دیں اب تو مُلاقات ہوتی رہے گی۔" رومیسہ نے کہا تو داؤد لب بھینچ گیا اُسے چِپکو لڑ کیاں زہر لگتیں تھیں۔

"اِس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اللّٰہ حافظ۔" وہ خُشک لہجے میں کہتا ہوٹل کی جانِب چل دیا جبکہ رومیسہ دانت پیس کر رہ گئی۔

****************

اُن کی ٹیم تیار تھی اُن کا طیارہ بھی فِضا میں اُڑان بھرنے کی تیاری میں تھا۔ وہ سب اِس وقت جوش و خروش سے اپنے مِشن پہ جانے کی تیاری کر رہے تھے۔

 آج کے دِن اگر وہ اپنے ٹارگٹ کو حاصِل کر لیتے تو اُنہیں کل دُشمنوں کے آدمی کو رِہا کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی اور اگر وہ ناکام ہو جاتے تو شاید مُلک کو بہت زیادہ نُقصان اُٹھانا پڑتا کیونکہ اِس بات کی بھی گارنٹی نہیں تھی کہ اپنا آدمی رِہا کروانے کے بعد بھی وہ لوگ دھماکے نہیں کریں گے۔

ہیڈ نے اُن کو چلنے کا اِشارہ کیا تو وِشہ اور روحان نے اپنی اپنی پوزیشن سنبھالی اور طیارے کو فِضاوں میں اُڑانے لگے۔ پندرہ مِنٹ بعد وہ انے ٹارگٹ سے تھوڑا پیچھے لینڈ کر چُکے تھے۔

روحان  اور وِشہ بھی ٹیم کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔ وہ کوئی زیرِ تعمیر دو منزلہ فیکٹری تھی جہاں وہ لوگ چُھپ کر بیٹھے تھے۔

سب لوگ عمارت کے اِرد گِرد پھیل گئے تھے۔ وِشہ اور روحان آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔ وِشہ روحان کے پیچھے تھی۔ جبکہ روحان اُس کے آگے تھے۔

 اُن کے کُچھ ساتھی اور لیڈر عمارت کے پیچھے لگے پائپ کے ڈریعے اوپر والی منزل پر جا رہے تھے 

اُن سب نے اپنے چہرے پہ ماسک پہن رکھے تھے۔

 روحان نے وِشہ کو کمرے چیک کرنے کا کہا اور خود بھی کمروں کو چیک کرنے لگا۔ وہ دونوں سارے کمرے چیک کر چُکے تھے مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔

 شاید وہ سب لوگ اوپر تھے ابھی وہ یہ سب سوچ ہی رہے تھے جب اوپر سے دھڑا دھڑ گولیاں چلنے کی آواز آئی وہ دونوں چوکنا انداز میں اوپر کی طرف بڑھے۔

*******************

وہ سارا دِن کام کرتا رہا تھا اپنے کام کو لے کے وہ بہت محتاط تھا ہر کام کو وقت پہ کرنا جیسے اُس نے عادت بنا لی تھی ابھی وہ فائلز کمپلیٹ کر کے بیٹھا تھا جب اُسے کُچھ دیر واک کرنے کی خواہش ہوئی۔

اُس نے ٹائم دیکھا تو رات کے آٹھ بج رہے تھے۔ وہ اُٹھا اور روم لاک کرتا باہر نِکل گیا۔

وہ اکیلا روڈ پہ چہل قدمی کر رہا تھا جب کوئی اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔

اُس نے چونک کر اپنے ساتھ چلنے والے اِنسان کو دیکھا اور حیران رہ گیا۔

"آپ یہاں؟ داؤد کے لہنے میں حیرت تھی۔

"جی ہاں! آپ نے تو بتایا نہیں کہ آپ کہاں رہتے ہیں تو میں نے خود ہی پتہ لگا لیا۔" رومیسہ نے اُس کی حیرت سے لُطف اندوز ہوتے کہا۔

"وہ کیسے؟" داؤد نے جاننا چاہا۔

"آپ کا پیچھا کر کے۔" رومیسہ نے ہنس کر کہا۔

"مطلب کل آپ نے میرا پیچھا کیا؟" داؤد نے تاسف سے سر ہلاتے پوچھا۔

"جی بالکل۔"رومیسہ نے داؤد کی بات کا سر ہلاتے جواب دیا۔

"چلیں کافی پینے چلتے ہیں۔" رومیسہ کے کہنے پر وہ نفی میں سر ہلاتا واپسی کے لیے مُڑنے لگا جب رومیسہ نے اُسے بازو سے پکڑ کر روکا۔

"ڈونٹ ٹچ می یو سِلی گرل۔" داؤد نے درشتی سے اپنا بازو چُھڑایا۔

"واٹ ڈو یو مین؟ بازو ہی پکڑا ہے آپ کا۔  کوئی گُناہ نہیں کر دیا " رومیسہ نے ناگواری سے کہا۔

"مُجھے بالکل پسند نہیں کہ کوئی مُجھ سے خواہمخواہ میں فری ہو۔ میں اپنی ذات میں رہنے والا اِنسان ہوں۔ اِس لیے دور رہیں مُجھ سے۔" داؤد کہہ کر تیز قدم اُٹھاتا اُس سے دور ہونے لگا۔

جبکہ رومیسہ اُس کی پُشت کو گھورتی رہ گئی۔

"اِتنا دخل دوں گی تُمہاری ذات میں کہ کبھی مُجھے بھول نہیں پاو گے۔" اُس نے نخوت سے سوچا اور اپنے گھر کی جانب چل دی۔

*********************

وہ جب اوپر والی سیڑھیوں پہ پہنچے تو اوپر بالکُل دھواں سا چھایا ہوا تھا۔ 

فائرنگ کی آواز ابھی بھی آرہی تھی وہ دونوں اوپر چڑھتے مخالف سمتوں میں مُڑ گئے۔

وِشہ کو سامنے سے کوئی آتا دِکھائی دیا تو وہ پِلر کی اوٹ میں ہوگئی اور اُس نقاب پوش کے سامنے آتے ہی اُس کے سر کا نِشانہ لے کے فائر کیا گولی اُس کے دماغ کے آر پار ہو گئی۔

 وِشہ نے فاتحانہ انداز میں پِسٹل کی دھواں اُڑاتی نوک پر پھونک ماری۔ 

روحان کی نظروں نے اُس کی یہ حرکت ملاحِظہ کرتے مُسکراہٹ دبائی اِس خطرناک سچویشن میں بھی وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتی تھی۔

وِشہ روحان کی نظروں سے بے خبر آگے کی جانِب بڑھتی اُس کی نظروں سے اوجھل ہوئی تو روحان نے بے چینی سے اُس کے پیچھے جانا چاہا مگر پِھر اپنے پیچھے کِسی کی آہٹ پا کر وہ اُسی سمت مُڑتا چلا گیا۔ 

آدھے گھنٹے تک دونوں طرف سے فائرنگ ہوتی رہی۔ دُشمنوں کی تعداد کم تھی جبکہ اُن کی ٹیم زیادہ تعداد میں تھی۔

 دشمن زیر ہو رہے تھے جِس پر اُن کے دِل مسرور تھے کہ مُلک بہت بڑے نقصان سے بچ گیا۔ 

کُچھ دیر بعد سبھی باہر آگئے اُن کی ٹیم کے دو افراد زخمی ہوئے تھے جِن کو ٹریٹمنٹ کے لیے لے جایا جا رہا تھا۔ 

روحان کی نظروں نے وِشہ کو ڈھونڈنا چاہا مگر وہ وہاں نہیں تھی۔

 اُس نے جلدی سے اپنے ہیڈ کو اطلاع دی اور اندر جانے کی اجازت مانگی جِس پر ہیڈ نے ایک اور جوان کو اُس کے ساتھ اندر بھیجا وہ دونوں اندر داخل ہوتے مخالف سمتوں میں مُڑ کر وِشہ کو ڈھونڈنے لگے۔ 

روحان اُس سمت میں بڑھا جِس طرف وہ گئی تھی ہر کمرہ چیک کر لیا مگر وہ کہیں نہیں تھی۔ آخری کمرے کے قریب پُہنچنے پر اُسے کُچھ آوازیں سُنائی دیں تو وہ جلدی سے دروازہ کھولتا اندر داخِل ہوا۔ اندر داخل ہوتے ہی اُس کی نظر لڑتے جھگڑتے دو نفوس پر پڑی۔ 

ایک تو وِشہ تھی جو  آرمی یونیفارم میں ملبوس تھی اور  یونیفارم کے جیسا ہی ماسک لگا رکھا تھا۔

 جبکہ دوسرا وجود مکمّل سیاہ لباس میں ملبوس تھا اور چہرے پہ بلیک کلر کا ماسک پہن رکھا تھا ایک نظر میں ہی وہ جان گیا کہ وہ لڑکی تھی جو وِشہ سے لڑ رہی تھی۔

وہ آگے بڑھتے اُس لڑکی سے وِشہ کو چُھڑانے لگا جب اُس لڑکی نے اُسے دھکا دیتے اُس کے پیٹ میں لات رسید کی۔ 

اُس کی لات مارنے کی مہارت سے ہی وہ جان گیا کہ وہ مارشل آرٹ جانتی تھی۔ وہ اُسے عام لڑکی سمجھا تھا جو اُسے پیٹ کے بل جھکنے پہ مجبور کر چُکی تھی۔

وِشہ نے اُسے پکڑنا چاہا مگر وہ پھرتی سے ایک طرف ہوتی وِشہ کو دھکا دیتی کھڑکی کی جانب بھاگی اور پائپ کے سہارے لٹک کر اندر جھانکتے پِسٹل نِکالا اور روحان کا نِشانہ لے کر فائر کیا۔ 

وِشہ جو سیدھی ہوتی اُس لڑکی کی جانب بھاگنے لگی تھی اُسے نِشانہ لیتے دیکھ کر پِسٹل نِکال کر فائر کرنا چاہا مگر وہ لڑکی فائر کرتی نیچے اُترتی چلی گئی تھی۔

گولی روحان کے کندھے پر لگی تھی تکلیف کی شِدّت سے وہ نیچے بیٹھتا چلا گیا۔ وہ بھاگتی پِسٹل ہولڈر میں لٹکاتی روحان تک پہنچی اور اُس کے کندھے کو پکڑ کر معائینہ کرنے لگی۔

"ڈونٹ وری گولی کھانے والے پیارے اِنسان! گولی گہرائی میں نہیں لگی آپ جلدی ٹھیک ہو جائیں گے۔" وِشہ نے خون روکنے کے لیے زخم کو دباتے کہا تو وہ کراہ کر رہ گیا۔

"جانتا ہوں گہرائی میں نہیں لگی۔ ویسے بھی یہ معمولی سی گولی میرا کیا بِگاڑ سکتی ہے؟" روحان نے کھڑا ہونے کی کوشش کرتے کہا۔

""زیادہ تو کُچھ نہیں لیکن اگر یہ گولی آپ کے ماتھے کے درمیان  میں لگتی تو بہت کُچھ بِگاڑ سکتی تھی۔" وِشہ نے کھڑے ہوتے کہا۔

"ہم تو جان ہتھیلی پہ رکھ کے باہر نِکلتے ہیں اِس لیے فِکر کی کوئی بات نہیں۔" روحان بازو پہ ہاتھ رکھتا لڑکھڑا کر باہر کی جانب بڑھنے لگا۔

""بات تو سولہ آنے سچ کی ہے آپ نے لڑکھڑاتے اِنسان۔" وِشہ نے اُسے نئے نام سے پُکارا تو وہ دانت پیس کر رہ گیا۔

"ویسے اگر آپ میری طرف آنے کی بجائے اُسے پکڑ لیتیں تو اچھا تھا اب اُن کی ایک ساتھی آزاد گھومے گی۔ اور ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گی۔" روحان نے طنزیہ کہا۔

"وہ بہت تیز تھی میرے اُس کے پیچھے جانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا وہ جا چُکی ہوتی۔"  وِشہ نے جواب دیا اِس سے پہلے کہ وہ اور کُچھ بولتا اُن کا ساتھی گولی کی آواز سُنتا اِس طرف آیااور روحان کو زخمی دیکھ کر اُسے سہارا دیتاباہر لے گیا۔ 

روحان کا بازو زخمی تھا اِس لیے اُن کے ساتھ آیا روحان کا کولیگ پائلٹ وِشہ کے ساتھ  طیارہ چلا رہا تھا۔ جبکہ اپنی سیٹ پر وِشہ کے ساتھ اپنے کولیگ اظفر کو بیٹھے دیکھ کر وہ دِل ہی دِل میں جل بُھن کر رہ گیا۔

جلد ہی وہ ہیڈ کوارٹر پہنچ چُکے تھے سب دہشت گردوں کو سپیشل جیل لے کایا چُکا تھا روحان کو ٹریٹمنٹ کے لیے ہسپتال بھیجا جا چُکا تھا جبکہ وِشہ باقی ٹیم کے ساتھ چیف کو رپورٹ دے رہی تھی۔

********************

داؤد لنچ کے لیے باہر آیا تھا اُسے یہاں آئے دو دِن ہو چُکے تھے۔ وہ جب بھی باہر نِکلتا اُسے ایسا لگتا جیسے کوئی اُس کا پیچھا کر رہا ہے مگر جب بھی وہ مُڑ کر دیکھتا تو پیچھے کوئی بھی نہ ہوتا وہ سر جھٹک کر رہ جاتا۔

 وہ یہاں کِسی کو نہیں جانتا تھا نہ ہی اُس کی کِسی سے دُشمنی تھی اِسی لیے اُسے اپنی جان کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔

اب بھی وہ پیدل چلتا ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہوتا اپنی دُھن میں چلا جا رہا تھا۔ جب اُسے لگا اُس کے پیچھے ہے مگر پِھر اپنا وہم جان کر بغیر پیچھے دیکھے آگے بڑھتا گیا۔

مگر پِھر اپنے پیچھے آہٹ محسوس کر کے وہ ایکدم پلٹا اور اپنے پیچھے رومیسہ کو دیکھ کر وہ گہرا سانس لے کر رہ گیا۔

"میں کافی دیر سے آپ کے پیچھے تیز تیز چل رہی تھی کہ آپ تک پہنچ سکوں مگر آپ کی سپیڈ بہت تیز ہے۔" وہ لمبا سانس لیتی خود کو پُرسکون کرنے لگی .  تیز چلنے سے اُس کا سانس پھول چُکا تھا۔

"اور آپ میرا پیچھا کیوں کر رہیں تھیں؟" داؤد نے پوچھا۔

"میرا دِل کر رہا تھا کہ آپ کے ساتھ ڈیٹ پر چلوں۔" رومیسہ نے اطمینان سے کہا۔

"مگر میرا دِل نہیں کر رہا کِسی کے ساتھ ڈیٹ پہ جانے کا۔" وہ کہتے آگے بڑھنے لگا۔

"مگر میں کِسی نہیں ہوں۔ میں رومیسہ ہوں۔" رومیسہ نے جیسے اُسے جتایا۔

"آپ جو بھی ہیں مگر مُجھے نہیں جانا۔" داؤد نے دو ٹوک کہا""آپ اِتنے سڑے ہوئے کیوں ہیں؟" رومیسہ نے پوچھا تو وہ اچھنبے سے اُس کی طرف دیکھنے لگا۔

"اِس میں کھڑوس والی کیا بات ہے؟" داؤد نے حیرت سے پوچھا۔

"ایک خوبصورت سمارٹ کم عُمر لڑکی آپ سے ڈیٹ پہ چلنے کے لیے کہہ رہی ہے اور آپ اِنکار کر رہے ہیں۔ تو یہ کھڑوس لوگوں والی بات ہی ہوئی نا۔" رومیسہ نے ناک چڑھاتے کہا۔

"میں ایک با اُصول سا آدمی ہوں۔ میں خود کو صرف اُس تک محدود رکھنا چاہتا ہوں جو میرے لیے بنی ہے۔ جو میری زندگی میں آئے گی میری شریکِ حیات بن کر۔ اور مُجھے ڈیٹ پر جانے کا بھی شوق نہیں۔ میں گرل فرینڈ جیسے جھنجھٹ میں نہیں پڑتا۔" داؤد نے سنجیدگی سے کہا۔

"تو آپ مُجھے سے کر لیں شادی۔ میں آپ کے لیے پرفیکٹ ہوں۔" رومیسہ نے پُراسرار سے لہجے میں کہا۔

"ناٹ انٹرسٹڈ۔" داؤد نے اُس کے حلیے پہ نظر ڈالتے کہا جِس نے آج ٹی شرٹ پہ جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی جینز پہن رکھی تھی۔

"آپ مُجھے انکار کر رہے ہیں؟ پورا کالج دیوانہ ہے میرا۔ لیکن میں نے سب کو چھوڑ کر آپ کو چُنا کیونکہ مُجھے آپ کا ایٹی ٹیوڈ پسند آگیا ہے۔" رومیسہ نے فخریہ بتایا۔

"مُجھے اُس کی چاہ نہیں جِس کی ہر کوئی چاہ کرے مُجھے اُس کی چاہ ہے ہے جو صِرف میری چاہ کرے اور خود پر کِسی اور کی نظر بھی برداشت نہ کرے۔" داؤد نے اُسے جتایا۔

"میں آپ کو پُرپوز کر رہی ہوں۔ آج سے پہلے میری زندگی میں کِسی مرد کا عمل دخل نہیں ہے اور آج کے بعد بھی میں صِرف آپ کی چاہ کروں گی۔" رومیسہ نے گُھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے کہا۔

"یہ کیا کر رہیں ہیں آپ؟ اُٹھیں پلیز۔" داؤد نے بوکھلا کر اِدھر اُدھر دیکھتے کہا۔

""پہلے آپ میرے سوال کا جواب دیں۔"رومیسہ نے ضدی لہجے میں کہا۔

"اچھا ٹھیک ہے ہم بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔" داؤد نے بے بسی سے کہا تو وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔

"عجیب پاگل سی لڑکی ہے پیچھے ہی پڑ گئی ہے۔ کیا کروں اِس کا؟" داؤد نے دِل میں سوچا اور ریسٹورینٹ میں داخل ہوا رومیسہ بھی اُس کے ساتھ ہی چل رہی تھی۔

وہ دونوں اِس وقت آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ داؤد نے آرڈر پلیس کر دیا تھا۔ جبکہ رومیسہ بے دھیانی سے اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔

"تو بتائیں کیا سوچا آپ نے؟" رومیسہ نے پوچھا تو داؤد چونک کر سیدھا ہوا۔

"کس بارے میں؟" وہ انجان بنا۔

" میں نے پرپوز کیا ہے آپ کو۔ بتائیں کب کر رہے ہیں مُجھ سے شادی؟" رومیسہ نے پوچھا۔

"میں آپ کو کُچھ دِنوں بعد بتاؤں گا مُجھے سوچنے کے لیے وقت چاہیے میری زندگی کا یہ پہلا تجربہ ہے جو مُجھے اِس طرح کِسی لڑکی کے بارے میں فیصلہ کرنا پڑ رہا ہے۔" داؤد نے سوچ سوچ کر جواب دیا۔

"اوکے نو پرابلم۔ آہ بھی یہیں ہیں اور میں بھی۔ آخر کو آپ جا بھی کہاں سکتے ہیں۔" رومیسہ نے معنی خیز لہجے میں کہا جو اُس کو عجیب لگا۔ 

"اوکے اب لنچ کریں۔" داؤد نے اُس کا دھیان بٹانا چاہا۔

جی ضرور آپ بھی کھائیں۔" رومیسہ کہتے ہی لنچ کرنے لگی۔

داؤد نے سوچا تھا کہ وہ یہاں سے جلدی چلا جائے گا۔ جب وہ یہاں ہو گا ہی نہیں تو وہ اُس کے ہیچھے بھی نہیں آئے گی اور اپنی ضد بھی چھوڑ ے گی۔ ابھی وہ بس سترہ یا شاید اٹھارہ سال کی تھی۔

 ایسی ایج میں کِسی بھی خوبصورت مرد سے اٹریکشن ہو سکتی ہے۔ داؤد رومیسہ کے جذبات کو بھی وقتی اٹریکشن سمجھ رہا تھا۔ اُس کا اِرادہ تھا بغیر رومسیہ کو بتائے پاکِستان جانے کا تا کہ وہ رومیسہ سے پیچھا چُھڑا سکے۔ 

اب رومیسہ اُس کا پیچھا چھوڑنے والی تھی یا مستقل اُس کی زندگی میں شامل ہونے والی تھی یہ تو وقت ہی بہتر بتا سکتا تھا۔

********************

وہ اِس وقت اپنے کمرے میں بیڈ کی بیک سے ٹیک لگائے نیم دراز تھی۔ وجدان اور آن اُسے چھوڑ گئے تھے۔ فریش ہو کر اُس نے کپڑے بدلے پِھر اب لنچ کے بعد وہ آرام کر رہی تھی۔

وہ اپنے ہاتھوں کی لکیروں پہ نظریں جمائے بیٹھی تھی۔ بچپن سے لے کر آج تک وہ اپنی خواہشوں کو دباتی آئی تھی اور کبھی بھی خُدا سے کوئی شِکوہ نہیں کیا تھا۔ اپنے ماں باپ کے چہروں اور ناموں کے عِلاوہ اُسے اُن کی اور کوئی پہچان نہیں تھی۔ 

اُس کے ددھیال میں کون کون تھا وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی۔ ننھیال کے نام پر اُس کے پاس صرف رفیق ماموں تھے۔ اُس نے رِشتوں کے نام پر صرف اپنے ماموں کی محبّت پائی تھی۔

 اُس کا بھی دِل کرتا تھا اپنے خون کے رِشتوں سے مِلنے کا۔ مگر رفیق ماموں سے پوچھنے پر اُنہوں نے صِرف یہ جواب دیا تھا کہ اُس کا کوئی رِشتے دار نہیں ہے اُس کے ددھیال میں کوئی نہیں ہے۔ اور معصومہ اُن کے جواب پر خاموش رہ گئی تھی۔

وہ اپنے ہاتھوں کی لکیروں پہ اپنے لیے محبّت ڈھونڈ رہی تھی جو اُس شاید کبھی نہیں مِلنی تھی۔ اُس نے گہرا سانس بھرتے نِگاہ اُٹھائی تو نظر الماری پہ پڑی۔ کُچھ سوچ کے وہ اُٹھی اور آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی الماری کی طرف بڑھی اور الماری میں سے اپنی سکیچ بُک نِکالی۔

 پِھر اُس کے بعد ایک اور سکیچ بُک اور کُچھ چھوٹے چارٹ پیپرز نِکالے۔ وہ ایک نظر اُن پہ ڈال کر الماری سے چھوٹا کارٹن کا باکس لے آئی۔

اُس نے وہ سارے پیپرز اور سکیچ بُکس کارٹن میں ڈال کر اُسے پیک کر دیا۔ اب جب اُس کی زندگی میں اُس شخص کی کوئی جگہ ہی نہیں تھی

 اور ہی اُس شخص کی زندگی میں معصومہ کی جگہ تھی تو وہ اِن تصویروں کو اپنے پاس رکھ کر کیا کرتی۔

اُس نے سوچ لیا تھا کہ کل وہ آن کو یہ سب چیزیں دے دے گی تا کہ وہ انہیں ڈِس کارڈ کر دے۔ سب کُچھ پیک کر کے وہ دھیمے سے چلتی بیڈ تک آئی اور کتاب نکال کے پڑھنے لگی۔

 اُس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تھی جِس اُس نے صاف کرنے کی زحمت نہ کی۔ وہ چاہتی تھی داؤد سِکندر کی محبت اُس کے دِل سے آنسوں کی صورت ہی سہی بس اُس کے دِل سے نکل جائے۔

****************

اِن چار دِنوں میں جہاں داؤد جاتا وہاں رومیسہ پائی جاتی۔ کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں اُس نے رومیسہ کو اپنے ساتھ نہ پایا ہو۔ وہ لڑکی جونک کی طرح اُس کے ساتھ جیسے چپک کر رہ گئی تھی۔ کبھی کبھی وہ جھنجھلا جاتا اور کبھی اُس کے ساتھ انجوائے کرتا۔


انجانے میں ہی سہی اُسے اُس لڑکی کا ساتھ اچھا لگنے لگا تھا وہ جو لڑکیوں کو ایک حد میں رکھنے کا عادی تھا اب اُس لڑکی کے ساتھ وقت گُزارنے لگا تھا۔ اُسے ایسی لڑکیاں پسند تھیں جو شرم و حیا کا پیکر ہوتیں خود کو سب سے چُھپا کر رکھتی ہیں صِرف کسی ایک کے لیے اپنے جذبات سنیت کر رکھتی ہیں۔ مگر اب اُسے اُس لڑکی کا ساتھ اچھا لگنے لگا تھا جِس میں اِن میں سے ایک بھی چیز نہیں تھی اور حیرت کی بات کہ وہ اُس کے نام کے عِلاوہ کُچھ بھی نہیں جانتا تھا اُس کے بارے میں اور نہ ہی اُس نے پوچھنے کی زحمت کی تھی۔


اُس نے یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ یہ تو اُس کی آئیڈیل نہیں تھی وہ اُسے پسند کرنے لگا تھا اُس نے خود سے اعتراف کیا تھا مگر محبّت نامی بلا سے وہ دور تھا۔ وہ مانتا تھا کہ اُسے رومیسہ کی باتیں اُس کی شرارتی حرکتیں اچھی لگنے لگیں تھیں۔


مگر وہ اُس سے پیار نہیں کرتا تھا اور نہ ہی اُس نے ابھی شادی کے بارے میں سوچا تھا۔ اب تک اُس نے رومیسہ کو کوئی جواب بھی نہیں دیا تھا کہ وہ اُس سے شادی کے لیے تیار ہے یا نہیں۔


وہ اِس وقت ائیر پورٹ پر موجود تھا۔ اُس کی پاکستان کے لیے فلائٹ تھی وہ واپس جا رہا تھا۔ رومیسہ مُنہ بنائے کھڑی تھی وہ ایمر جنسی میں پاکِستان جا رہا تھا اُس کے آفس کا کُچھ اِیشو ہو گیا تھا۔

"یہ آپ اچھا نہیں کر رہے۔ آپ نے اب تک مُجھے جواب نہیں دیا ہے اور اب واپس جا رہے ہیں۔" رومیسہ نے خفگی سے کہا تھا۔


"میں ایسے ہی تُمہیں جواب کیسے دے سکتا ہوں؟ مُجھے بابا سائیں سے تُمہارے بارے میں بات کرنی ہے اور اِس سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ تُم خود کو بدلو۔ جیسے ہماری عورتیں رہتی ہیں جیسا لباس وہ پہنتی ہیں ویسے ہی تُم بھی پہنو اُن کی طرح رہو۔ ہمارے گھر میں ایسے کپڑے پہننے کا رواج نہیں ہے جیسے تُم پہنتی ہو۔"داؤد نے سنجیدگی سے کہا۔


"تو میں بدل لوں گی خود کو۔ مگر آپ مُجھے کُچھ بتائیں تو آپ کو مُجھ سے محبّت ہے نا؟" رومیسہ نے آس سے پوچھا۔


"دیکھو میں ایک پریکٹیکل اِنسان ہوں۔ کوئی ٹین ایج لڑکا نہیں۔ میں تُمہیں پسند کرتا ہوں مگر محبّت وغیرہ کے بارے میں میں کُچھ نہیں جانتا۔ محبّت تو شادی کے بعد بھی ہوجاتی ہے اِس لیے میں محبّت کی بجائے شادی پہ یقین رکھتا ہوں۔ اِس لیے میں تُم سے شادی کروں گا یا نہیں اِس کا فیصلہ بابا سائیں اور امّو جان کریں گے کیونکہ میری شادی اُن کی پسند سے ہو گی۔ اِس لیے میں چاہتا ہوں کہ تُم خود کو بدلو تا کہ میرے بابا اور امّو جان تُمہیں دیکھتے ہی پسند کر لیں۔" داؤد نے اُسے سمجھانے والے انداز میں کہا۔


"ٹھیک ہے۔ میں آپ کا اِنتظار کروں گی۔ آپ دوبارہ کب آئیں گے؟" رومیسہ نے پوچھا۔


"جلد ہی آوں گا۔ اور جب میں آوں مُجھے تُم میں پاکِستانی لُک نظر آنی چاہیے۔" داؤد نے کہا تو اُس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔


پِھر داؤد اُسے خُدا حافِظ کہتا پاکِستان واپس چلا گیا۔ رومیسہ اُس کے اوجھل ہونے تک اُس کی پُشت کی جانِب دیکھتی رہی۔ پِھر وہ اپنی پاکٹ سے فون نِکالتی واپسی کے لیے چل دی اپنی چال سے وہ کہیں سے بھی اٹھارہ سال کی ٹین ایج لڑکی نہیں لگ رہی تھی۔


اُس کے چہرے پہ ایک مخصوص قِسم کی سنجیدگی اور سختی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ایک تجربہ کار عورت ہو جِسے دُنیا کی پوری پوری سمجھ ہو ورنہ داؤد کے سامنے وہ صِرف پچکانہ حرکتیں کرتی تھی۔ داؤد اُسے ایک بچّی کی طرح ہی ٹریٹ کرتا تھا۔


********************


داؤد کو ماضی سے واپس وجدان کے فون پہ آنے والی کال نے نِکالا تھا۔ وہ چونک کر اپنی کنپٹی سہلاتا سیدھا ہوا۔


کُچھ دیر بعد وجدان نے فون بند کیا اور داؤد سے مُخاطِب ہوا۔


"بابا کا فون تھا وہ مُجھے گھر بُلا رہے ہیں ماما کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔" وجدان نے پریشانی سے کہا۔


"کیا ہوا آنٹی کو؟" داؤد نے فِکر مندی سے پوچھا۔

"بی پی شوٹ کر گیا ہے مُجھے نِکلنا ہوگا۔ باقی کی کہانی بعد میں سُنوں گا۔" وجدان چیئر سے اُٹھتا ہوا بولا تو داؤد نے گہرا سانس لیتے سر ہلا دیا۔


وجدان چلا گیا تو وہ فائلز کی طرف متوجہ ہوا مگر پِھر وہ بے زار ہوتا وہ فائلز کو دراز میں رکھتا لاک کر کے کھڑا ہوا اور آفس سے نِکلتا چلا گیا۔


******************


وہ گھر میں داخِل ہوا تو خاموشی نے اُس کا اِستقبال کیا وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا ایک روم کی جانب بڑھا۔ اندر داخل ہو کے اُس کی نظر اپنی ماں پہ پڑی وہ سیدھا اُن کی طرف بڑھا اور اُن کے پاس جا کے بیٹھ گیا۔


"کیوں کرتی ہیں آپ ایسا؟ جانتی ہیں کِتنا پریشان ہو گیا تھا میں؟" وجدان نے خفگی سے کہا۔


"تُمہاری ماں کو عادت ہو گئی ہے ہم دونوں کو پریشان کرنے کی۔ اِسی لیے جان بوجھ کر خود کو بیمار کر لیتی ہیں تا کہ ہم دونوں اُس کے پاس بیٹھے رہیں۔" جمال آفندی نے اپنی بیگم کو خفگی سے دیکھتے کہا۔


"تو میں اور کیا کروں؟ اکیلے رہ رہ کر میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔ آپ دونوں تو آفس چلے جاتے ہیں۔ پیچھے میں اکیلی رہ جاتی ہوں اور اکیلے رہ کے طبیعت خراب ہو جاتی ہے میری تو اِس میں میرا قصور؟" آمنہ بیگم نےشِکوہ کیا۔


"ماما اکیلا کہاں چھوڑتے ہیں آپ کو؟ مُلازم ہوتے تو ہیں گھر پہ۔" وجدان نے کہا۔


"اب میں مُلازموں کے ساتھ باتیں کروں؟ اور اُن سے بات کروں بھی تو کیا؟ یہ کہ صفائی کیسے کی جاتی ہے؟ گاڑی کیسے چلائی جاتی ہے؟" آمنہ بیگم نے غُصّے سے کہا۔


"تو آپ کیا چاہتی ہیں؟ آپ ہی بتا دیں ہم وہی کریں گے تا کہ آپ کی تنہائی تو دور ہو سکے۔" جمال صاحب نے پوچھا۔


"میں جو کہوں گی وہ کریں گے آپ لوگ؟" آمنہ بیگم نے وجدان کے چہرے کی جانِب غور سے دیکھتے پوچھا۔


"جی میری پیاری ماما! آپ جو کہیں گی وہی کریں گے آپ حُکم تو کریں۔" وجدان نے لاڈ سے اُن کے کندھے پر سر رکھتے کہا۔


"ٹھیک ہے پِھر میرے لیے ایک چاند سی خوبصورت سلیقہ مند بہو لے آؤ۔" آمنہ بیگم کی بات پہ جہاں جمال آفندی نے مسکراہٹ دبائی وہیں وجدان اُچھل کر سیدھا ہو بیٹھا۔


"بہو؟ اِتنی جلدی کیا ہے ماما؟ کوئی اور مصروفیت بھی ڈھونڈی جا سکتی ہے آپ کے لیے۔ بہو کی کیا ضرورت ہے؟" وجدان نے بوکھلا کر کہا۔


"اب مُجھے صِرف بہو کی ضرورت ہے۔ میں چاہتی ہوں جلد سے جلد تُمہاری شادی ہو اور ہمارے گھر میں تُمہارے بچّوں کی چہکاریں گونجیں۔" آمنہ بیگم نے محبّت سے کہا تو جمال صاحب ہنس دیئے۔


"ویسے خیال تو نیک ہے آپ کا۔ موصوف شادی کے لائق ہو چُکے ہیں بزنس بھی کر رہے ہیں شادی میں کوئی حرج تو نہیں۔" جمال صاحب نے اپنی بیگم کی ہاں میں ہاں مِلائی۔


"پہلے آپ کی بہو تو شادی کے لائق ہو جائے۔" وہ بڑبڑایا۔


"کیا کہا دانی؟" آمنہ بیگم نے اُسے خود سے بڑبڑاتے دیکھ کر پوچھا۔


"کُچھ نہیں ماما! وہ میں کہہ رہا تھا کہ ایک دو سال ٹھہر جائیں پِھر شادی بھی کر لوں گا ابھی میں بزنس میں بہت بزی ہوں۔" اُس نے گڑبڑاتے بہانہ بنایا۔


"تو بیٹا اُس نے کون سا تُمہیں کام کرنے سے روک دینا ہے۔ بس فیصلہ ہو گیا اب تُمہاری شادی ہو کے رہے گی۔" جمال صاحب نے دو ٹوک کہا تو وہ مںُنہ بنا کے رہ گیا۔


"تُمہارے ڈیڈ بالکُل ٹھیک کہہ رہے ہیں دانی! میری بہت خواہش ہے اپنے پوتے پوتیوں کو اپنی گود میں کھِلانے کی۔" آمنہ بیگم نے اُسے ایموشنل بلیک میل کیا تو وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔


"ٹھیک ہے ماما! میں شادی کر لوں گا مگر لڑکی میری پسند سے کی ہو گی۔" وجدان نے کہا تو وہ دونوں اُس کا مُنہ دیکھ کر رہ گئے۔


"کیا کوئی ہسند ہے تُمہیں؟" آمنہ بیگم نے پوچھا۔

"جی ماما۔" وجدان نے سر جُھکاتے کہا۔


"تو پِھر اِتنے نخرے کیوں کر رہے تھے کہ ابھی شادی نہیں کرنی فلاں فلاں فلاں۔" آمنہ بیگم نے اُس کی پُشت پہ تھپڑ مارا۔


"ارے پیاری ماما! ابھی وہ چھوٹی ہے نا۔ صرف اُنیس یا شاید بیس سال کی۔ پڑھ رہی ہے ابھی تو شادی کیسے کر سکتی ہے؟" وجدان نے شادی نہ کرنے کی وجہ بتائی۔


"اچھا اُس کے بارے میں کُچھ بتاؤ تو؟ شادی نہ سہی منگنی وغیرہ تو کر سکتے ہیں نا؟" جمال صاحب نے کہا۔


"جی پاپا! منگنی تو ہو سکتی ہے۔ میں بہت جلد اُسے آپ سے مِلوانے لاوں گا پہلے اُس سے پوچھ تو لوں کہ وہ بھی مُجھے پسند کرتی ہے یا نہیں؟" وجدان نے کان کُھجاتے کہا۔


"تو اُسے یہ بھی نہیں پتہ کہ تُم اُسے پسند کرتے ہو؟" آمنہ بیگم نے حیرت سے پوچھا۔


"کبھی موقع ہی نہیں مِلا۔ میں نے اشِاروں کنایوں میں بتایا تھا مگر وہ سمجھی ہی نہیں۔" وجدان نے خفگی سے کہا۔


"اب ہر کوئی تُمہاری طرح چالاک نہیں ہوتا جو کِسی کے اِشارے بھی سمجھے۔" جمال صاحب نے شرارت سے کہا تو آمنہ بیگم ہنس پڑیں۔


"کہاں چالاک ہوں میں؟ اِتنا معصوم تو ہوں ہے نا ماما؟" وجدان نے ماں سے تصدیق چاہی۔


"ہاں بھئی میرا بیٹا بہت معصوم ہے۔" آمنہ بیگم نے اُس کا ماتھا چومتے کہا۔


"اچھا اب آپ آرام کریں اور وجدان تُم میرے ساتھ آو آفس کی ایک فائل ڈِسکس کرنی ہے۔" جامل صاحب اُس کو کہہ کر سٹڈی روم کی جانب بڑھ گئے تو وہ بھی آمنہ بیگم کو خیال رکھنے کا کہتے اُن کے پیچھے چل دیا۔


جمال صاحب کا اپنا بزنس تھا مگر وجدان نے اپنے دوستوں کے ساتھ بزنس کرنا بہتر سمجھا تھا مگر وہ ساتھ ساتھ جمال صاحب کے آفس کا کام بھی کرتا تھا۔


**********************


معصومہ اگلے دِن وقت پہ تیار ہو گئی تھی اُسے پتہ تھا کہ آج وجدان لینے آنے والا تھا اُسے بھی اور آن کو بھی۔ رفیق صاحب بھی جانتے تھے اور اُنہوں نے اِجازت دے دی تھی اِسی لیے آج وہ جلدی تیار ہو گئی کہ اُنہیں زیادہ اِنتظار نہ کرنا پڑے۔ اُس کے زخم آہستہ آہستہ بھرنے لگے تھے اُسے اب درد بھی کم ہوتا تھا میڈیسن وقت پہ کھانے کی وجہ سے وہ جلدی ریکور کر رہی تھی۔


ناشتہ کرنے کے لیے وہ خود ہی آہستہ آہستہ نیچے آگئی تھی اِن دِنوں فرزانہ بیگم اُسے مکمل آرام فراہم کر رہیں تھیں نہ ہی اُسے کُچھ کہتیں نہ اُسے ٹوکتی وہ چُپ تھیں اور اُسے اُن کی خانوشی کھِلنے لگی تھی۔


وہ ناشتہ کر کے بیٹھی ہی تھی جب آن لینے آگئی۔

"وجدان بھائی نہیں آئے؟" معصومہ نے پوچھا۔


"نہیں وہ شہر سے باہر گئے ہیں کام کے سِلسلے میں۔ اب سے میں ہی تُمہیں لینے آوں گی۔" آن نے کہہ کر اُس کا بیگ اُٹھایا اور اُس کا بازو تھامتی باہر نِکل گئی۔


اُن کی روٹین ایسے ہی جاری تھی اُن کے پیپر بھی ختم ہو چُکے تھے وجدان ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔ وہ جمال صاحب کے کام سے گیا تھا جِس میں اُسے ایک ہفتہ لگ گیا تھا۔


وہ کمرے میں بیٹھی ناول پڑھ رہی تھی اُس نے آخری پیپر والے دِن آن کو وہ کارٹن دے دیا تھا جِس میں سکیچ بُکس اور چارٹ پیپرز تھے تا کہ وہ اُنہیں ضائع کر دے آن نے بھی خاموشی سے اُس باکس کو تھام لیا تھا کہ اب واقعی اِن کی معصومہ کی زندگی میں کوئی ضرورت نہ تھی۔


وہ ناول پڑھنے میں مصروف تھی جب رفیق صاحب دستک دے کر اندر داخل ہوئے اور اُس کے پاس آ کر بیڈ پر بیٹھ گئے۔


"کیا کر رہا ہے میرا بیٹا؟" رفیق صاحب نے شفقت سے پوچھا۔

"کُچھ نہیں ماموں! بس بور ہو رہی تھی تو ناول پڑھنے لگی۔" اُس نے نرمی سے جواب دیا۔


"مُجھے تُم سے کُچھ ضروری بات کرنی تھی بیٹا؟" رفیق صاحب نے تمہید باندھی۔


"جی ماموں کریں میں سُن رہی ہوں۔ آپ کو پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔" معصومہ نے اُن کی طرف متوجّہ ہوتے کہا۔


"دراصل اب ماہین کی شادی ہو چُکی ہے۔ اصولاً تو ہمیں اب روحان کی شادی کرنی چاہیے مگر جیسی اُس کی جاب ہے تُم جانتی ہی ہو۔ وہ ابھی شادی کے لیے راضی نہیں ہو رہا۔ تو ہم نے سوچا کہ اپنی بیٹیوں کے فرض سے سبکدوش ہوا جائے۔"


رفیق صاحب نے آہستہ آہستہ بات شروع کی۔

"جج جی ماموں جان اچھی بات ہے۔" معصومہ کو سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کہے۔


"اِس لیے ہم نے سوچا ہے کہ اب تُمہارے پیپرز تو ہو چُکے ہیں تو تُمہاری منگنی وغیرہ کر دی جائے اور اگر تُمہیں کوئی اعتراض نہ ہو تو پِھر شادی بھی جلد ہی کر دیں گے۔" رفیق صاحب کی بات اُس کے دماغ پہ بم کی طرح پھٹی تھی۔


کیا وہ اُن پہ بوجھ بن گئی تھی؟ کیا وہ اُسے اپنے گھر میں اب مزید برداشت نہیں کر سکتے تھے؟ منفی سوچیں اُس کے دماغ کا احاطہ کرنے لگِیں تھیں۔


"جج جی ماموں جان! جیسا آپ لوگوں کو ٹھیک لل لگے آپ ویسا ہی کریں۔" اُس نے کانپتے لہجے میں جواب دیا۔


"مُجھے یقین تھا کہ میری بیٹی میرا مان رکھے گی۔ مُجھے شِکایت کا کوئی موقع نہیں دے گی۔" رفیق صاحب نے اُس کے دِل کی حالت سے بے خبر اُس کے سر پر محبت سے ہاتھ رکھتے اُسے دُعائیں دیتے باہر جا چُکے تھے۔


اُن کے جانے کے بعد معصومہ بستر کے کنارے بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ ابھی تو وہ اپنی محبّت پہ ماتم بھی نہیں کر پائی تھی اور اب یہ سب؟ اُسے داؤد سِکندر کو بھولنے کو وقت درکار تھا مگر اُسے وقت نہیں مِل رہا تھا۔


کیا وہ داؤد کو بھول پائے گی۔ اُس کی سرد مہری اُس کی نفرت کے باوجود وہ اُسے بھولنے میں ناکام ہو رہی تھی۔


اُس کی شادی ہو جائے گی پِھر اُس پہ کِسی اور کا حق ہو گا تو کیا وہ اُس اِنسان کو اُس کا حق دے پائے گی؟ وہ کُسی اور کو دِل میں بسا کر کِیسے امانت میں خیانت کر سکتی تھی؟


داؤد اُس کی قِسمت میں نہیں تھا یہ اُس نے مان لیا تھا اور اب وہ اُسے بھول کر اپنی زندگی میں آگے بڑھ جائے گی۔ وہ ماموں کی بات مان کر جہاں اور جِس کے ساتھ وہ کہیں گے اُس سے شادی کر لے گی۔ اب وہ کِسی کے لیے آنسو نہیں بہائے گی اُس نے فیصلہ کر لیا تھا۔

****************

وجدان ایک ہفتے بعد واپس آگیا تھا اور آتے ہی اُس نے آن کا نمبر ڈائل کرنا شُروع کیا تھا جو کہ بند جا رہا تھا اُسے پریشانی ہوئی تھی۔


وہ جمال صاحب کے کام سے گیا تھا اور وہ نپٹاتے نپٹاتے اُسے ایک ہفتہ لگ گیا تھا۔ اُسے آن سے بات کرنی تھی پِچھلے کٙی دِنوں سے وہ اُس سے بات نہیں کر پایا تھا تو اُس کا دِل بے چین سا رہنے لگا تھا۔


جیسے کُچھ گُم گیا ہو اُسے لگنے لگا تھا جیسے آن کہیں گُم گئی ہو وہ جلد سے جلد اُس سے مِلنا چاہتا تھا۔ اِسی لیے وہ بغیر دیر کیے اُس کے گھر چلا آیا تھا۔


دروازہ مُلازمہ نے کھولا تھا وجدان کو ڈرائینگ روم میں بِٹھا کر وہ ہمدانی صاحب کو بُلا لائی تھی وہ وجدان کو اپنے گھر دیکھ کر حیران ہوئے تھے۔


"وجدان صاحب آپ یہاں؟" اُنہوں نے اپنی حیرانی چُھپائی نہیں تھی۔


"آآ جی وو وہ میں بس یوں ہی یہاں سے گُزر رہا تھا تو آپ سے مِلنے آگیا۔" وجدان گڑبڑا گیا اُسے لگا تھا کہ شاید وہ آفس ہوں۔


"مگر آپ کو تو میرے گھر کا اڈریس ہی نہیں پتہ تھا۔" انجم صاحب نے اچھنبے سے پوچھا۔


"ارے آپ یہاں؟" اِس سے پہلے کہ وجدان کوئی جواب دیتا آن ڈرائینگ روم میں داخل ہوتی بولی۔ جِس پر وجدان نے کن انکھیوں سے انجم صاحب کی طرف دیکھا۔


"آہ آن آپ یہاں ؟ آئی مین آپ یہاں کیسے؟" وجدان نے گڑبڑا کر کہا"


"یہ میرا ہی گھر ہے تو ظاہر ہے میں یہیں ہوں گی نا؟" آن نے اُس کی بارہ بجاتی شکل دیکھ کر کہا۔


"اوہ اچھا تو آپ انجم صاحب کی بیٹی ہیں۔ مُجھے نہیں پتہ تھا کہ انجم صاحب آپ کے والد محترم ہیں۔ میں اِن سے ہی مِلنے آیا تھا کیا اِتفاق ہے نا؟" وجدان نے کہا تو آن ناسمجھی سے اُسے دیکھنے لگی۔


پہلی مُلاقات میں ہی وہ اُسے بتا چُکی تھی کہ وہ وجدان کے وکیل انجم ہمدانی کی بیٹی ہے پِھر آج ایسی بات کیوں کر رہا تھا وہ؟


اُس نے اچھنبے سے وجدان کو دیکھا جو آنکھوں ہی آنکھوں میں اُسے کُچھ اِشارہ کر رہا تھا جو انجم صاحب سے چُھپے نہیں رہے تھے اور ساری بات اُن کی سمجھ میں آگئی تھی۔


"ہاں واقعی اِتفاق ہی ہے۔ آپ آن کو کیسے جانتے ہیں مِسٹر وجدان؟" انجم صاحب نے مُسکراہٹ دبا کر وجدان سے اِستفسار کیا۔


"وہ یہ میری بہن کی دوست ہیں تو تبھی مُلاقات ہوئی تھی۔" وجدان نے سنبھل کر کہا۔


"مگر جہاں تک مُجھے معلوم ہے آپ کی تو کوئی بہن ہی نہیں ہے؟" انجم صاحب کو حیرانی ہوئی۔


"یہ معصومہ کے مُنہ بولے بھائی ہیں پاپا اور اُسی کی بات کر رہے ہیں۔" آن نے انجم صاحب کے سوال کا جواب دیا اور وجدان کو گھورا جو یہاں چلا آیا تھا۔ اُس نے جان بوجھ کر اُس کی کالز سے بچنے کے لیے سیل آف کر دیا تھا۔


"اوہ اچھا بہت اچھی بچّی ہے وہ۔ ویسے آپ کِسی کام کے سِلسلے میں آئے تھے؟" انجم صاحب نے پوچھا۔


"جج جی نن نہیں میں تو بس ایسے ہی آپ کی طبیعت پوچھنے آ گیا تھا اور تو کوئی بات نہیں۔" وجدان نے بوکھلا کر کہا۔


"پہلے تو آپ کبھی میری طبیعت پوچھنے نہیں آئے؟ خیر کوئی بات نہیں۔ مُجھے کُچھ کام ہے تو میں باہر حا رہا ہوں آن بیٹا وجدان صاحب تُمہارے دوست ہیں تو اِن کو کمپنی دو؟" انجم صاحب نے اُٹھتے ہوئے کہا۔


"جی پاپا!" آن نے کہا تو انجم صاحب نے وجدان سے مُصافحہ کیا اور معذرت کرتے چلے گئے۔


"تُمہاری ماما کہاں ہیں؟" وجدان نے پوچھا۔


"یہ میں آپ سے تُم کب سے ہو گئی۔" آن نے حیرت سے پوچھا۔


"جب سے میرا دِل تُمہارا ہو گیا۔" وہ بڑبڑایا۔


"کیا کہہ رہے ہیں اونچی بولیں۔"


"وہ کُچھ نہیں۔ بس ایسے ہی آپ آپ کہنا ایسے لگتا ہے جیسے اجنبی سے بات کر رہا ہوں آپ بتائیں آنٹی نظر نہیں آرہیں۔" وجدان نے پوچھا۔

"وہ میری خالہ کے پاس گئی ہیں کُچھ دِنوں کے لیے۔" آن نے بتایا۔


"اوہ اچھا۔ ہم لنچ کے لیے باہر چلیں؟" وجدان نے آن سے پوچھا تو وہ حیرت سے اُسے دیکھنے لگی۔


"ہم میں اِتنی بے تکلفی کب سے ہو گئی کہ ہم لنچ ساتھ کرنے لگیں۔" آن نے حیرانی ظاہر کی۔


"لنچ ساتھ کرنے کے لیے ضروری تو نہیں کہ بے تکلفی ہو۔ اور ویسے بھی مُجھے تُمہارےساتھ جیولر کے پاس جانا ہے سو۔۔۔۔۔۔۔۔" وجدان کی بات پر اُس نے اچھنبے سے اُس کی جانب دیکھا۔


"جیولر کے پاس کیوں؟" آن نے پوچھنے پہ وجدان نے گہرا سانس بھرا۔


"کیونکہ مُجھے ایک رنگ خریدنی ہے جِس سے میں اپنی محبّت کو پرپوز کر سکوں۔" وجدان کی بات پہ آن کے چہرے کا رنگ بدلا جِسے وجدان نے بخوبی محسوس کیا اور دِل میں مُسکرایا۔ مُلازمہ ریفریشمنٹ کا سامان لے آئی تو آن نے خود کو سنبھالا۔

"آپ جوس پیئیں۔" آن نے گلاس وجدان کو پیش کیا۔

"پی لوں گا پہلے بتاو چلو گی میرے ساتھ؟" وجدان نے پوچھا۔

"میں کیا کروں گی آپ کے ساتھ جا کر؟ آپ اپنی محبّت کو ہی لے کے جائیں اُس کی پسند سے رنگ خریدیں۔" آن کا لہجہ سپاٹ تھا۔


"وہی تو کر رہا ہوں۔" بے ساختہ وجدان کے مُنہ سے نِکلا۔


"میا مطلب؟" آن نے نا سمجھی سے پوچھا۔


"مم میرا مطلب ہے کہ میں اُس کی محبت اپنے دِل میں ساتھ لے جا رہا ہوں لیکن اُسے ساتھ نہیں لے کے جا سکتا میں اُسے سرپرائز دینا چاہتا ہوں میں اُس کے چہرے پہ خوشی کے ہر رنگ کو محسوس کرنا چاہتا ہوں۔ اور تُم لیڈی ہو تو تُمہیں پتہ ہو گا نا لڑکیوں کی پسند کا اِس لیے پلیز میرے ساتھ چلو۔" وجدان نے محبّت بھرے لہجے میں کہتے آخر میں اُس کی منت کی۔


"اوکے میں دس منٹ میں تیار ہو کے آتی ہوں۔" آن کہتے اپنے روم کی جانب چل دی جبکہ وجدان جوس کا گلاس ہونٹوں سے لگا کر پینے لگا۔


کُچھ دیر بعد آن وائٹ رنگ کا شلوار قمیض جِس پہ سُرخ رنگ کی کڑھائی تھی، پہن کر نیچے آئی اُس نے سر پر چادر اوڑھ رکھی تھی۔


وجدان کے قریب آکر اُس نے ہاتھ ہلایا اور وہ جو لگاتار اُس کی طرف دیکھ رہا تھا ہوش میں آیا اور کان کُھجاتا اُسے چلنے کا اِشارہ کرنے لگا اور وہ خاموشی سے اُس کے پیچھے چل دی۔


********************


رفیق صاحب کے ہاں کرتے ہی فرزانہ بیگم نے چٹ منگنی اور پٹ بیاہ کا معاملہ کیا تھا۔ اُنہوں نے مِسز نیاز کو فون کر کے گھر آنے کی دعوت دے دی تھی۔ اور آج وہ معصومہ کو دیکھنے آرہیں تھیں۔


معصومہ صُبح سے کمرے میں بند تھی سارے کام فرزانہ بیگم ہی دیکھ رہیں تھیں اُنہوں نے معصومہ کو کام میں ہاتھ بٹانے کا نہیں کہا تھا یہ معصومہ نامی بلا جلدی سے اُن کے سر سے ٹلنے والی تھی اُن کے لیے یہی بہت تھا۔


مشعل معصومہ کو تیار کر رہی تھی معصومہ نے سُرخ رنگ کا نفیس سا کاٹن کا سوٹ زیب تن کیا تھا مشعل نے اُس کے بالوں کا ہیئر سٹائل بنا کے سر پر دوپٹہ اچھی طرح سیٹ کر دیا تھا۔


ہلکے ہلکے میک اپ میں وہ موم کی گُڑیا لگ رہی تھی۔ اُس کا ہلکا سا نظر آتا تِل جو تھوڑی پہ تھا مشعل نے کاجل سے واضح کر دیا تھا جو اُس کی گوری رنگت اور گول فیس کٹ چہرے پہ خوب جچ رہا تھا۔


اُسے تیار کرنے کے بعد مشعل نیچے چلی گئی مہمان آچُکے تھے اور فرزانہ بیگم اورشعل نے اُن کی خاطِر تواضع شروع کر دی تھی۔ رفیق صاحب بھی اُن کے پاس ہی بیٹھے تھے۔


کُچھ دیر بعد مِسز نیاز نے لڑکی کو بُلانے کو کہا تو فرزانہ بیگم کے اِشارے پہ مشعل معصومہ کو لینے چل دی۔ کُچھ دیر بعد معصومہ آہستہ سے چلتی وہاں آئی اور سب کو سلام کر کے ایک صوفے پہ بیٹھ گئی۔ مہمانوں میں صِرف مِسز نیاز اُن کے ہزبینڈ اور ایک بیٹی ہی آئے تھے۔ مِسز نیاز اُٹھ کر معصومہ کے ساتھ بیٹھ گئیں۔


"! بہت ہی پیاری بچّی ہے آپ کی۔ میں نے تو ارحم۔کی شادی پر ہی اِس موم کی گُڑیا کو پسند کر لیا تھا اپنے ہاشِم کے لیے۔ ہماری طرف سے تو بات پکّی سمجھیں۔" مِسز نیاز نے معصومہ کی من موہنی صورت دیکھ کر کہا اور اُس کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی پہنا دی۔


"ہمیں کُچھ وقت دیں سوچنے کے لیے اِتنی جلدی یہ سب۔۔۔۔۔۔" رفیق صاحب نے کہنا چاہا۔


"آپ کو میرے بیٹے کے بارے میں جو بھی چھان بین کروانی ہے کروا لیں۔ آپ لڑکی والے ہیں آپ کو پورا حق ہے۔ لیکن مُجھے پورا یقین ہے کہ آپ کو شِکایت کا موقع نہیں مِلے گا اور آپ کا جواب ہاں میں ہی ہو گا۔" مِسٹر نیاز نے پُراعتماد لہجے میں رفیق صاحب کی بات کاٹی۔


"جی مگر پِھر بھی ہمیں سوچنے کے لیے وقت چاہیے ابھی ہمیں اپنے بیٹے اور معصومہ کے بڑے بھائی سے بھی مشورہ کرنا ہے۔" رفیق صاحب نے سبھاو سے کہا۔


"جیسی آپ کی مرضی۔ مگر اب معصومہ ہماری ہی بہو بنے گی۔ اگر آپ کو کوئی اعتراض ہوا رِشتے پر تو تب آپ جو کہیں گے مان لیں گے۔" مِسز نیاز نے کہا۔


"جی ٹھیک ہے۔" فرزانہ بیگم نے جلدی سے کہا۔


"اب ہم چلیں گے۔ کافی وقت ہو گیا آئے ہوئے۔" مِسز نیاز نے کہا۔


"مگر ایسے کیسے ہم نے تو سوچا تھا کہ لنچ آپ لوگ ہمارے ساتھ کریں گے۔" فرزانہ بیگم نے روکنا چاہا۔


"بہت بہت شُکریہ! مگر لنچ ہم آپ کے ساتھ تب کریں گے جب معصومہ کے لیے ہاشم کا رِشتہ قبول کر لیا جائے گا۔" مِسز نیاز نے کہا تو وہ سب چُپ رہ گئے۔


"ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی۔" رفیق صاحب نے کہا۔


پِھر وہ سب، سب سے مِل کر واپس چلے گئے۔


معصومہ نے اپنے کمرے میں جا کر اپنا حُلیہ بدلا اُسے اِن سب سے اُلجھن سی ہو رہی تھی ابھی اُس نے یہ بات آن کو نہیں بتائی تھی۔


رفیق صاحب اب روحان کے آنے کا اِنتظار کر رہے تھے اُس نےکہا تھا کہ وہ کل آجائے گا گھر۔ اب روحان سے مشورہ کر کے وہ جلد ہی مِسز نیاز کو جواب دینا چاہتے تھے۔


******************


"آپ جا رہے ہیں کل؟" اُس نے افسوس سے پوچھا۔

"آپ کو اِتنا افسوس کِس بات کا ہو رہا ہے؟" روحان نے پوچھا۔


"آپ کے جانے کا اور کِس کا؟"وِشہ نے صاف گوئی سے کہا۔


"اور آپ کو یہ افسوس کیوں ہو رہا ہے؟" روحان نے اپنے کپڑے بیگ میں ڈالتے کہا۔


"کیونکہ مُجھے آپ کا سر کھانے کی عادت ہو گئی ہے۔" وِشہ نے دانت نِکالے۔


"اچھا ہے نا میں جا رہا ہوں ورنہ میرا سر گردن سے غائب ہی ہو جاتا۔" روحان نے نفی میں سر ہلاتے کہا۔

"ویری فنی۔ اچھا آپ کب آئیں گے واپس ؟" وِشہ نے پوچھا۔


"آپ کہتیں ہیں تو آپ کو ساتھ ہی لے جاتا ہوں۔" روحان نے طنزیہ کہا۔


"ہیں سچی؟ پِھر میں اپنا بیگ پیک کر لوں؟" وِشہ کا جوش دیکھنے لائق تھا۔

"ویری فنی میں مزاق کر رہا تھا۔" اُس نے بیگ کی زپ بند کر کے بیگ کندھے پہ ڈالا۔


"پر کیوں؟ مُجھے لے جائیں ناں ساتھ۔ میں یہاں بور ہو جاتی ہوں آپ کے بغیر۔" وِشہ کی بات پہ اُس نے بے ساختہ اُس کی طرف دیکھا۔


"کیوں؟ میں جوکر ہوں جو آپ کو انٹرٹین کرتا ہے؟" روحان نے وِشہ کے بالوں کی لٹ پکڑ کر کھینچی کہ وہ سی کر کے رہ گئی۔


"اگلی رائڈ تک آپ اپنا بازو ٹھیک کر کے آئیے گا مُجھے کِسی اور کے ساتھ رائڈ لینے کا مزہ نہیں آتا اور ہاں آپ جوکر سے کُچھ کم بھی نہیں ہیں۔" وِشہ نے منہ بسورا۔


"اپنی عادتیں بدلیں مِس وِشہ! میں ہمیشہ نہیں رہوں گا آپ کے ساتھ رائڈ لینے کے لیے۔ ہو سکتا ہے اگلی رائڈ سے پہلے ہی مر جاؤں۔" روحان نے کہا۔


"اللّٰہ نہ کرے۔ آپ کو میری بھی عُمر لگ جائے۔" وِشہ نے بے ساختہ کہا تو روحان نے اُس کو گھورا۔


"چاہے وہ آپ کی زندگی کا آخری دِن ہو؟" روحان نے خفگی سے کہا۔


"ہاؤ مین؟ میں اپنی عُمر آپ کو دے رہی ہوں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ کیا پتہ وہ میری زندگی کا ہی آخری دِن ہو۔" وِشہ نے منہ بسورا۔


"ہاں نا۔ اب میں ایسی عُمر کا کیا کروں گا جِس میں کوئی دِن ہی نہ بچا ہو۔" روحان نے ہنسی دباتے کہا۔


"آپ نا بالکُل اچھے نہیں ہیں میں اپنی عُمر کا ایک بھی دِن آپ کو نہیں دوں گی آپ مانگیں گے تب بھی نہیں۔" وِشہ نے کہا دروازے سے باہر نِکل گئی۔


وہ بھی مُسکراتا اپنا بازو تھامتا کمرے سے باہر نِکل گیا۔


********************


وہ دونوں اِس وقت جیولری شاپ میں کھڑے تھے آن انگوٹھی پسند کر رہی تھی جبکہ وجدان قریب کھڑا اُسے نہار رہا تھا۔


"وجدان؟ یہ دیکھیں یہ مُجھے بہت پسند آئی ہے آپ ایک دفعہ دیکھ لیں اگر پسند ہے تو یہی ڈن کر دیں۔" آن نے سنجیدگی سے کہا تو وجدان اُس کے ہاتھ سے رِنگ پکڑ کے دیکھنے لگا۔


وہ ایک خوبصورت سی رِنگ تھی جِس کے درمیان میں ایک ننھا سا ہیرا جڑا تھا۔


"یہ پہن کے دیکھیں آپ۔ اگر آپ کو فِٹ ہے تو یہی ڈن کر دیں۔" وجدان کی بات پر آن نے اچھنبے سے اُس کی طرف دیکھا۔


"آپ مُجھے کیوں کہہ رہے ہیں پہننے کو ؟" آن نے اپنی حیرانی کو زبان دی۔


"وہ دراصل اُس کے ہاتھ بالکُل آپ جیسے ہیں اگر آپ کو فِٹ آگئی تو اُسے بھی آجائے گی۔" وجدان نے بات بنائی۔


"اچھا ٹھیک ہے۔" سپاٹ لہجے میں کہہ کر اُس نے اپنے دائیں ہاتھ کی اُنگلی میں انگوٹھی پہنی جو اُسے بالکل فٹ تھی۔


"آپ بائیں ہاتھ کی رِنگ فنگر میں پہن کے دیکھیں نا؟" وجدان نے کہا۔


"میں اُس میں رنگ نہیں پہنتی۔" آن نے سادگی سے کہا۔


"کیوں؟" وجدان نے بے ساختہ پوچھا۔


"کیونکہ میرا ماننا ہے کہ اِس فنگر پہ رِنگ پہنانے کا حق صرف میرے سول میٹ کو ہے اور میں اُس کا حق نہیں چھیننا چاہتی۔ میری فِنگر میں رنگ میں اپنے سول میٹ کے ہاتھ سے پہننا پسند کروں گی۔"آن نے کھوئے سے لہجے میں کہا تو وجدان دِلکش انداز میں مُسکرایا۔


"بہت اچھی سوچ ہے آپ کی۔ اور اب جلد ہی آپ کو آپکا سول میٹ مِل جائے گا جیسے مُجھے میری سول میٹ مِل گئی۔" وجدان نے مُسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائے کہا تو آن بھی سادگی سے مُسکرا دی۔


"اب چلنا چاہیے پاپا ویٹ کر رہے ہوں گے میرا۔" آن نے کہا

"اور لنچ؟"

"وہ پھر کبھی سہی۔" آن نے کہا تو وجدان نے رنگ پیک کروائی اور پیمنٹ کرنے کے بعد وہ آن کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔


****************

اُس نے آن کو فون کر کے اپنی منگنی کی اِطلاع دے دی تھی جِس پہ وہ پہلے شاکڈ ہوئی کہ اِتنی جلدی منگنی بھی ہو گئی مگر پِھر اُس نے معصومہ کا خیال کر کے نارمل انداز میں منگنی کی مُبارکباد دی تھی۔


روحان جب آیا تھا تو رفیق صاحب نے اُس سے معصومہ کے رِشتے کی بات کی تھی پہلے وہ حیران ہوا اور پِھر غُصّہ کہ اِتنی جلدی معصومہ کی شادی کرنے کی کیا ضرورت ہے وہ ابھی صِرف بیس سال کی ہے۔ مگر رفیق صاحب نے سمجھایا تھا کہ رِشتہ بہت اچھا ہے۔


پِھر روحان نے اُن کے سمجھانے پر ہاشم نیاز کے بارے میں تحقیقات کروائیں تھیں تحقیقات کے بعد بھی ہاشم کی کوئی بُرائی ڈھونڈنے سے نہیں مِلی تھی وہ لوگ سچ میں بہت اچھے تھے ہاشم بھی پڑھا لِکھا سُلجھا ہوا اِنسان تھا تو روحان کو اُن سے رِشتہ جوڑنے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا۔


معصومہ سے پوچھنے پر وہ اُس پہ ہی سب چھوڑ چُکی تھی اُس می رضامندی جان کر وہ کُچھ پُرسکون ہوتا ہامی بھر گیا تھا۔ فرزانہ بیگم نے مِسز نیاز کو فون کر کے ہاں میں جواب دیا تھا جِس پر اُنہوں نے کہا تھا کہ اب وہ سیدھا شادی کی تاریخ لینے ہی آئیں گی۔


کیونکہ وہ جلد شادی کرنا چاہتے ہیں فرزانہ بیگم نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اور اُن کی منشاء کے مطابق ہی سب کُچھ طے کر لیا تھا۔


اب کل وہ شادی کی تاریخ لینے آنے والیں تھیں۔ اور معصومہ بیٹھی کل پہنے جانے والے کپڑے نِکال رہی تھی۔ جب اُس کا فون بجا۔


"اسلامُ علیکُم بابا جان!" فون کان سے لگا کر اُس نے نرمی سے سلام کیا۔


"کیسی ہے میری بیٹی؟" بابا جان نے شفقت سے پوچھا۔


"میں اب بالکُل ٹھیک ہوں بابا جان! آپ کیسے ہیں؟" معصومہ نے اپنی خیریت بتاتے اِستفسار کیا۔


"اللّٰہ کا شُکر ہے میں بھی بالکُل ٹھیک ہوں۔ معاف کرنا بیٹا میں آپ کی خیریت پوچھنے نہیں آسکا دراصل میں کُچھ مصروف تھا۔" بابا جان نے معذرت کرتے کہا۔


"کوئی بات نہیں بابا جان! میں سمجھ سکتی ہوں۔" معصومہ نے کہا تو وہ مُسکرا دئیے۔


"اور آج کل کیا چل رہا ہے؟" بابا جان نے پوچھا۔


"آج کل میری شادی کی تیاریاں چل رہیں ہیں۔" معصومہ نے دھیمے لہجے میں بتایا۔


"ارے واہ۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ کب ہے شادی؟" بابا جان نے پُرجوش انداز میں کہا۔


"شادی کی ڈیٹ ابھی فِکس نہیں ہوئی۔ مگر میں آپ کو فون کر کے بتاؤں گی آپ کو لازنی آنا پڑے گا۔" معصومہ نے دھونس بھرے لہجے میں تو وہ ہنس دیئے۔


"ہاں ہاں میں ضرور آؤں گا۔ میری بیٹی کی شادی ہے تو میں کیسے مِس کر سکتا ہوں۔" بابا جان نے مُسکرا کر کہا۔


"بہت شُکریہ! مُجھے بہت اچھا لگے گا۔" معصومہ نے خوشی سے کیا۔


"ٹھیک ہے پِھر آپ تیاریاں کریں میں کُچھ کام کر لوں۔ پِھر بات ہو گی۔" بابا جان نے کہا۔


"جی ضرور۔ خُدا حافِظ۔" معصومہ نے کہا تو وہ بھی خُدا حافِظ کہتے فون بند کر گئے۔ معصومہ بھی کپڑے پریس کر کے الماری میں ہینگ کرنے لگی۔


*******************


وہ اِس وقت آفس میں بیٹھا کام کر رہا تھا۔ وہ کافی دِن وجدان کا اِنتظار کرتا رہا تھا مگر وہ نہیں آیا تھا۔ وہ حیران ہوا تھا وجدان کو تو بہت جلدی تھی اُس سے سب کُچھ جاننے کی اب کیا ہو گیا اُسے؟


وہ یوں ہی چیئر پہ بیٹھا چیئر کی پُشت سے ٹیک لگا کے آنکھیں بند کر گیا۔ اُس کے ذہن کے پردے پر دو سال پہلے کا وقت چل رہا تھا۔


وہ اِنگلینڈ سے واپس آگیا تھا وہ اکثر شہر میں ہوتا تھا کیونکہ اُس کا بزنس شہر میں تھا۔ وجدان اور ارحم اُس کے ساتھ پارٹنر شِپ کر چُکے تھے وہ اُن دونوں کے ساتھ کافی اچھے سے بِزنس کو بڑھا رہا تھا۔


رومیسہ کے ساتھ اُس کا اِتنا رابطہ نہیں تھا جِتنا ریلیشن شِپ میں موجود ایک لڑکے اور لڑکی کا ہوتا ہے۔ وہ اپنے کام میں بہت بِزی رہتا تھا وہ سنجیدہ سا پریکٹیکل قِسم کا اِنسان تھا اُسے پیار محبّت کی باتیں کرنا نہیں آتیں تھیں اور نہ ہی اُسے ایسی باتیں کرنا پسند تھا رومیسہ ہی اُسے زیادہ فون کرتی تھی۔


سلام دُعا کے بعد حال چال پوچھ کے اُس کے پاس اور کوئی بات نہیں ہوتی تھی رومیسہ سے کرنے کو جبکہ رومیسہ اُسے سارے دِن کا حال احوال بتانے بیٹھ جاتی تھی جِس پہ وہ جھنجھلا کر اُسے ٹوک دیتا یا فون بند کر دیتا۔


وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا وہ چاہتا تو ابھی بابا سائیں سے رومیسہ کے بارے میں بات کر لیتا مگر نجانے اُس کا دِل کیوں اُسے روکے ہوئے تھا۔ وہ اُسے پرکھنا چاہتا تھا کہ وہ اُس کی نیچر کے مُطابق خود کو ڈھال پاتی ہے یا نہیں۔ وہ اُسے اپنے گھر کے ماحول کے مُطابِق ڈھالنا چاہتا تھا تا کہ گھر میں کوئی اُس کے مغربی طور طریقوں پر اُنگلی نہ اُٹھائے۔


مگر جانے کیوں اُس کا دِل اُسے رومیسہ سے رِشتہ جوڑنے پر روکے ہوئے تھا مگر پِھر دماغ نے دِل کی ہر بات کی نفی کرتے اُسے واپس اِنگلینڈ جانے پہ مجبور کیا تھا۔ اُس نے رومیسہ کو نہیں بتایا تھا کہ وہ وہاں آرہا ہے۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ اُس کی محبّت میں خود کو بدل رہی ہے یا ویسی ہی ہے۔


رومیسہ نے اُسے اپنے فلیٹ کا پتہ دے دیا تھا کہ وہ جب بھی واپس آئے اُس کے ہاں ٹھہرے۔ وجدان اور ارحم کے پوچھنے پہ اُس نے وہا ں میٹنگ کا بہانہ بنایا تھا حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے وہ اُنہیں کُچھ نہیں بتانا چاہتا تھا۔


وہ اِنگلیڈ آ چُکا تھا ٹیکسی لے کر وہ رومیسہ کے بتائے پتے پہ پُہنچ چُکا تھا اُس نے دروازے پہ بیل نہیں دی تھی۔ دروازہ کُھلا ہوا تھا وہ خاموشی سے اندر داخل ہوا اور اِدھر اُدھر نِگاہ دوڑائی۔


فلیٹ میں شاید کوئی نہیں تھا وہ مُڑنے لگا جب اُسے ایک کمرے سے کِسی کے بولنے کی آواز سُنائی دی۔ وہ اُس کمرے کی جانِب بڑھا مگر پھر رومیسہ کی آواز سُن کے رُک گیا۔


"وہ اِس کام کے لیے بہتر رہے گا۔ اپنے جال میں پھانس چُکی ہوں میں اُسے۔" رومیسہ کی آواز اُبھری۔


""ہاہاہا بِزنس مین ایسے نہیں ہوتے جیسا وہ ہے ایک دم بے وقوف۔ کہتا ہے خود کو بدلو تا کہ میں اپنے گھر ہماری شادی کے لیے بات کر سکوں۔" دوسری طرف سے کُچھ سُن کر وہ مقابل کو بتا رہی تھی۔

"شادی تو کرنی ہی پڑے گی۔ خود کو سیف رکھنے کے لیے مُجھے کِسی جانے مانے بِزنس مین کا نام چاہیے تا کہ کِسی کو مُجھ پر شک نہ ہو۔"رومیسہ نے مقابل کو بتایا۔


"ایک بار اُس سے شادی ہو جائے پِھر ہم بہتر طریقے سے کام کر سکیں گے۔ وہ امپورٹ ایکسپورٹ کا کام کرتا ہے ہمارا کام آسان ہو جائے گا جو چاہیں گے اُس سے کروا سکیں گے۔ بس ایک بار اُس کی کُچھ کمزوریاں ہاتھ آجائیں۔"رومیسہ کی بات سُن کر اُس کے دماغ پر دھماکے ہو رہے تھے وہ اُسی کے بارے میں بات کر رہی تھی مطلب وہ اُسے دھوکا دے رہی تھی لیکن اُس کا مقصد کیا تھا؟


جلد ہی وہ یہاں آئے گا پِھر میں اُسے یقین دِلا دوں گی کہ میں بدل گئی ہوں۔ پِھر شادی کے بعد میں پاکِستان چلی جاؤں گی اور وہاں پہ اپنے قدم جماوں گی اور اِس کے بعد ہم اپنے مقصد کے بہت قریب ہوں گے۔" رومیسہ طنزیہ ہنستے کہہ رہی تھی مگر اُس کی ہنسی میں بھی ایک درد شامِل تھا۔


وہ آگے بھی کُچھ کہہ رہی تھی جب داؤد ایک دھماکے سے دروازہ کھول کر اندر داخِل ہوا۔ رومیسہ ایک دم اُُسے یہاں دیکھ کر چونک گئی اُس کے چہرے کی رنگت زرد پڑی تھی مگر ایک دم وہ خود کو سنبھالتی آگے بڑھی اور اُس کا بازو تھاما۔


"داؤد واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز؟ آپ کب آئے ؟ مُجھے بتایا بھی نہیں؟" وہ خوشگوار لہجے میں اُس سے پوچھ رہی تھی۔


داؤد نے ایک جھٹکے سے اپنا بازو چُھڑوایا اور اُس کا جبڑا دبوچا۔


"کِس سے بات کر رہی تھی تُم؟ اور کیا کہہ رہی تھی تُم؟ مُجھے پھانسنے کے بارے میں کُچھ کہہ رہی تھی نا؟ پاکِستان میں اپنے قدم جمانے کے بارے میں۔ کِسی مقصد کے بارے میں بات کر رہی تھی تُم؟ بتاؤ مُجھے کیا کہہ رہی تھی تُم؟" داؤد اُس کے جبڑے پہ اپنی گرفت کستے پوچھ رہا تھا۔


"چچچ چھوڑو مُجھے جنگلی اِنسان! کک کُچھ نن نہیں کہہ رہی تھی میں۔" اُس نے داؤد کا ہاتھ ہٹانا چاہا مگر کہاں وہ نازُک سی لڑکی اور کہاں وہ پچِس سالہ ایک مضبوط توانا شخص۔ مگر وہ نازُک نہیں تھی اور اِس کا اندازہ داؤد کو تب ہوا تھا جب اُس نے گھما کے لات اُس کے پیٹ میں ماری تھی۔


داؤد اِس حملے کے لیے تیار نہیں تھا درد سے دُہرا ہوتا وہ جُھکا تھا جب رومیسہ نے ایک اور لات اُس کی کمر پہ ماری تھی۔ داؤد نیچے گِرا تھا۔ رومیسہ باہر کی جانب بڑھنے لگی مگر داؤد نے اُس کو ٹانگ سے پکڑ کر کھینچ کر نیچے گِرایا اور خُود اُٹھ کر اُس کے سامنے کھڑا ہوا وہ اُس کی جانب بڑھنے لگا تھا جب رومیسہ عجیب انداز میں مُسکرائی تھی وہ اُس کی مُسکراہٹ پہ اُلجھا۔


وہ اُلجھتے ہوئے رومیسہ کو پکڑنے لگا جب اُس کے سر پہ کِسی نے لوہے کے راڈ سے وار کیا۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے ایکدم اندھیرا چھایا تھا۔ خود کو سنبھالنے کی کوشش میں وہ لڑکھڑایا مگر پِھر وہ ایکدم سے لہرا کے نیچے گِرا تھا وہ بے ہوش ہو چُکا تھا۔


ناک کی آواز پر وہ ماضی سے باہر آیا تھا۔ کنپٹی سہلاتے وہ سیکریٹری کی جانب متوجّہ ہوا جو اُسے کُچھ فائلز دِکھا رہا تھا۔


***********************


آن اِس وقت بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی جب انجم صاحب اُس کے پاس آکے بیٹھے۔


"ٹی وی دیکھا جارہا ہے؟" اُنہوں نے پوچھا تو وہ سر ہلا گئی۔


"وجدان صاحب کو کب سے جانتی ہو آن؟" انجم صاحب نے ہوچھا تو وہ ایک دم سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔


"وہ معصومہ اور میں جِس دِن شاپنگ پہ گئی تھی اُسی دِن وہ مِلے تھے۔ معصومہ نے ہی ہمارا تعارُف کروایا تھا۔ اِس کے بعد ہم اچھے دوست بن گئے۔" آن نے سادگی سے بتایا تھا۔


"صِرف دوست؟" انجم صاحب نے شرارت سے پوچھا۔


"جی پاپا! صِرف دوست۔ اِس کے عِلاوہ اور کُچھ مت سوچیں آپ۔" آن نے خفگی سے کہا۔


"اور کُچھ سوچنے میں مضائقہ تو کوئی نہیں۔ میں نے اُن کے چہرے پہ تُمہارے لیے کُچھ انوکھے رنگ محسوس کیے تھے۔" انجم صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔


وہ آن کے صِرف پاپا ہی نہیں بہت اچھے دوست بھی تھے۔ وہ اپنی دونوں بیٹیوں کو بہت اچھے سے سمجھتے تھے اور اُن کے ساتھ ہمیشہ دوستوں کے جیسے رہتے تھے تا کہ اُن کی بیٹیوں کو کبھی بھی اُن سے کُچھ بھی شیئر کرنے سے ہچکچانا نا پڑے۔


"آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی پاپا! وہ کِسی اور کو پسند کرتے ہیں اور اُس دِن وہ مُجھے لینے آئے تھے تا کہ میں اُن کے ساتھ جا کر ایک رِنگ پسند کروں جِس سے وہ اپنی گرل فرینڈ کو پرپوز کر سکیں۔" آن کے لہجے میں اُداسی کی رمق محسوس کر کے وہ اُس کا سر اپنے کندھے پہ ٹِکا گئے۔


"میرا بیٹا پسند کرتا ہے اُنہیں؟" انجم صاحب نے نرمی سے اِستفسار کیا۔


"جج جی پاپا!" آن کا لہجہ نم ہوا تھا۔


"اُداس نہیں ہوتے۔ اگر وجدان آفندی بہتر ہے تو اللّٰہ پاک نے میرے بیٹے کے لیے شاید اُن سے بھی بہترین چُنا ہو۔ خُدا کے ہر کام میں حِکمت ہوتی ہے بیٹا۔" انجم صاحب نے اُسے سمجھایا۔


"جی پاپا۔" وہ سمجھتی سر ہلا گئی۔


"شاباش میرا بیٹا۔ اب اِس بارے میں سوچ کر اُداس نہیں ہونا اوکے۔" انجم صاحب نے اُس کے بال سہلاتے کہا۔


"جی پاپا۔" اُس نے اثبات میں سر ہلاتے کہا۔


"اب آپ ٹی وی دیکھو میں آپ کی ماما کو لینے جا رہا ہوں شام تک آجاوں گا۔" انجم صاحب نے اُٹھتے کہا۔


"اوکے جلدی آئیے گا۔" آن نے مُسکرا کر کہا تو وہ بھی خُدا حافِظ کہتے گھر سے نِکل گئے۔


**********************


وجدان چاہ کر بھی داؤد سے بات کرنے کے لیے وقت نہیں نِکال پایا تھا۔ اُسے سب کُچھ جاننے کی بہت جلدی تھی مگر جِتنا وہ جلدی جاننے کی کوشش کر رہا تھا اِتنا ہی وہ کام میں اُلجھتا جا رہا تھا آفس جا کے بھی بہت کم اُس کی داؤد سے مُلاقات ہو پاتی تھی۔


کُچھ کام کا بوجھ تھا تو کُچھ آن کی فِکر۔ جانے آن کیا سوچ رہی ہو گی؟ آن کے چہرے پہ اُس کی محبّت کے بارے میں سُن کر جو اُداسی کے تاثرات چھائے تھے وہ اُس سے مخفی نہیں رہے تھے۔


لیکِن کیا پتہ اُس کا اندازہ غلط ہو اگر آن نے اِنکار کر دیا تو؟ خیر جو ہو گا بعد میں دیکھا جائے گا پہلے وہ آن سے بات تو کرے۔ یہی سوچ کے اُس نے کُچھ وقت نِکالا تھا آن کے لیے۔


اِس وقت پانچ بج رہے تھے وہ سمندر کِنارے بیٹھا تھا اُس نے آن کے لیے تھوڑی بہت سجاوٹ کروائی تھی۔ ٹیبل کے گِرد دو چیئرز رکھیں تھیں جبکہ ٹیبل پہ ایک چھوٹا سا گُلدان رکھا تھا جِس میں تازہ گُلاب کے پھول سجے تھے۔


اِس وقت یہاں بہت سکون ہوتا تھا اِسی لیے اُس نے شام کا وقت سوچا تھا آن کو پرپوز کرنے کے لیے مگر اُس کا دِل گھبرا رہا تھا اگر آن نے اِنکار کر دیا تو؟


وہ انجم ہمدانی صاحب سے فون پر بات کر چُکا تھا اُس نے انجم صاحب کو اپنے دِل کی بات بتا دی تھی۔ انجم۔صاحب اُس کی بات پر خوش ہوئے تھے کہ اب اُن کی بیٹی کو اُس کا من چاہا ہم سفر مِل جائے گا۔


مگر اُنہوں نے اپنے چہرے کی خوشی چُھپاتے سنجیدگی سے اپنے والدین کو اُن کے گھر لانے کی دعوت دی تھی کہ یہ باتیں بڑوں کے کرنے کی تھیں جِس پہ وجدان نے اُنہیں آن کے جواب کے بعد گھر آنے کا کہا تھا۔ انجم صاحب دِل میں مُسکرائے تھے اور اُس کو آن کو بھیجنے کا بتا دیا تھا۔


چھ بجے آن وہاں موجود تھی وہ سب کُچھ حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔ ریڈ کلر کے شارٹ ریشمی کامدار فراک میں وہ ایک گُلاب کی طرح کِھل رہی تھی۔ دوپٹہ گلے میں ڈال کر اُس نے چادر سر پہ اوڑھ رکھی تھی۔


وجدان اُسے دیکھ کر مبہوت ہوا۔

چاند کی چاندنی اور اِردگِرد لگی لائٹوں کی روشنی میں آن کا چہرہ چمک رہا تھا۔


"یہ سب کیا ہے؟" آن نے حیرت سے پوچھا۔


"وہ دراصل آج میں اُس کو پرپوز کرنے والا ہوں۔ تو سوچا کہ آپ کو بُلا کے پوچھ لوں کیسی ہے یہ ارینجمینٹ؟" وجدان نے کان کُھجاتے کہا تو آن کے چہرے کی چمک ماند پڑی اُس کا دِل ایک پل کو خوش فہم ہوا تھا۔


"اچھی ہے ہوپ سو کہ اُسے پسند آ جائے۔" اُس نے بُجھے ہوئے لہجے میں کہا۔


"اوکے تو میں پریکٹس کر لیتا ہوں اُسے پرپوز کرنے کی۔" وجدان نے کہہ کر اُس کے ہاتھ تھامے۔ آن اُس کی حرکت پر حیران ہوتی ہاتھ چُھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔


"ہاتھ تو مت چھڑاو کھا نہیں جاؤں گا آپ کو۔" وجدان کے لہجے میں خفگی محسوس کر کے اُس نے مزاحمت ترک کر دی۔


"ویل یو میری می؟" وجدان نے اُس کی آنکھوں میں جھانکتے جزبات سے پُر لہجے میں کہا مگر وہ خاموش رہی۔


"کُچھ تو جواب دو یار؟" وجدان جھنجھلایا آن نے نا سمجھی سے دیکھا وہ کیوں جواب دیتی بھلا ؟ اُس کی وہ ہوتی سوتی دیتی جِس کو پرپوز کرنے والا تھا وہ۔


""آن کیا آپ مُجھ سے شادی کریں گی؟" اب کی بار وجدان نے آن پر زور دیتے کہا۔


"میں کیا کہہ سکتی ہوں؟ آپ اچھا بول رہے ہیں وہ ہاں ہی کہہے گی۔" آن نے خفگی سے کہا۔


"میں کِسی اور سے نہیں "آپ" سے پوچھ رہا ہوں آن ہمدانی! کیا آنی ہمدانی وجدان آفندی کا ساتھ زندگی بھر کے لیے قبول کرے گی۔" وجدان نے "آپ" پر زور دیتے اُس سے پوچھا۔ آن نے اُس کی آنکھوں میں جھانکا جہاں اُسے اپنے عکس کے ساتھ اپنے لیے محبّت بھی نظر آرہی تھی۔


"جب کوئی کِسی لڑکی کو پرپوز کرتا ہے تو وہ گُھٹنوں کے بل جُھک کر بیٹھتا ہے اگر آپ بھی ویسے پرپوز کرتے تو میں سوچ سکتی تھی۔" آن نے بے ساختہ اُسے ٹوکا۔


"میں نے سوچا اگر میں نے آپ کو بیٹھ کر پرپوز کیا اور آپ نے اِنکار کر دیا تو پِھر میں اُٹھ نہیں پاؤں گا۔" وجدان کہہ کر گُھٹنوں کے بل بیٹھا اور ایک ہاتھ اُس کی طرف بڑھایا۔


"آن ہمدانی! کیا آپ مُجھ سے شادی کریں گی؟" وجدان اُس کی طرف ہاتھ بڑھائے بول رہا تھا۔


"اب سوچوں گی پِھر بتاؤں گی۔" آن نے شرارت سے کہا۔


"آن پلیز میں اِتنی دیر ایسے نہیں بیٹھ سکتا یار!" وجدان نے دُہائی دی تو آن نے آنکھوں میں روشنیاں لیے اپنا بایاں ہاتھ اُس کی جانِب بڑھایا تو وجدان نے وہی رِنگ اُس کے بائیں ہاتھ کی رِنگ فِنگر میں پہنائی جو اُس نے آن کے ساتھ جا کر خریدی تھی۔


اُسے رِنگ پہنا کر وہ کھڑا ہوا اور ٹیبل کے گِرد رکھی چیئر گھسیٹ کر اُسے بیٹھنے کا اِشارہ کیا۔


"کُچھ دیر بعد ایک لڑکے نے وہاں کیک اور کولڈ ڈرنکس لا کے رکھیں۔


"یہ کیک کس خوشی میں؟" آن نے پوچھا۔


"ہماری منگنی کی خوشی میں۔" وجدان نے کہا تو وہ چونکی۔

"منگنی بڑوں کی موجودگی میں ہوتی ہے۔" آن نے جتایا۔


"میرے بڑوں کو بھی پتہ ہے اور "تُمہارے" بڑوں کو بھی پتہ ہے اِس لیے یہ منگنی ہی ہوئی اب ڈائریکٹ ہماری شادی ہو گی۔" وجدان نے اُس کے سر پہ دھماکہ کیا۔


"مطلب پاپا کو بھی پتہ تھا مگر اُنہوں نے مُجھے یہ کہہ کر بھیجا تھا کہ وجدان مُجھے کِسی سے مِلوانا چاہتے ہیں۔" آن نے خفگی سے کہا مطلب پاپا نے اُس سے جھوٹ بولا تھا۔


"ہاں مِلوایا تو ہے اپنی محبّت سے۔" وجدان نےمحبّت سے اُس کو نہارتے کہا تو وہ جھینپ کر سر جُھکا گئی۔


"اچھا اب کیک کھاو نا۔" وجدان نے کیک کاٹ کر ایک چھوٹا سا پیس اُس کی طرف بڑھایا جِس کو اُس نے آرام سے کھا لیا۔


"پتہ ہے؟ مُجھے سمجھ ہی نہیں آیا کہ مُجھے تُم سے کب کیسے محبّت ہو گئی۔ میں اِن سب چیزوں سے بہت دور ہوں مگر پہلی بار میں ہی تُم مُجھے پسند آگئی پِھر ہر مُلاقات میں میری پسندیدگی تُمہارے لیے بڑھ کر محبّت کا جذبہ اختیار کر گئی۔"

وجدان اُسے اپنی فیلینگز بتا رہا تھا جِسے وہ سُرخ چہرہ لیے سُن رہی تھی۔


"تُمہیں مُجھ سے محبّت ہے نا آن؟" وجدان نے پوچھا تو وہ سر جُھکا کے اثبات میں ہلا گئی۔


"تو شرما کیوں رہی ہو وائف ٹو بی؟ اب شرمانا چھوڑ دو شادی کے بعد شرمانے کے بہت سے موقعے آئیں گے وجدان نے شرارت سے کہا تو اُسے گھور کر رہ گئی۔


پِھر کیک اُنگلی پہ لگا کے کھڑی ہو کے ٹیبل پہ جُھکتی اُس کی ناک پہ لگا گئی۔ وجدان کی آنکھیں حیرت سے کُھلی رہ گئیں۔ وجدان کی ناک پہ کیک لگا کے اب وہ ہنس رہی تھی۔ وجدان کیک کا پیس ہاتھ میں لیتے اُس کی طرف بڑھا اور اُس لگانے کی کوشش کی مگر آن اُسے چکمہ دیتی بھاگی وجدان اُس کے پیچھے پیچھے ہاتھ میں کیک اُٹھائے بھاگ رہا تھا جبکہ آن کِھلکِھلا کے ہنستی اُسے چِڑا رہی تھی۔ بھاگتے بھاگتے وجدان نے اُسے پکڑ ہی لیا تھا اور اپنے ہاتھ سے کیک کا ٹکڑا پھینک کر اُس کے ناک سے اپنی ناک رگڑ رہا تھا جِس سے آن کی ناک پر بھی کیک لگ چُکا تھا اُس کی اِس حرکت پہ آن کے چہرے پہ گُلال بِِکھرا تھا۔


وہ سر جُھکاتی اُس سے دور ہوئی تو وجدان کو بھی اپنی بے خودی کا احساس ہوا۔ وہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا خجل ہوتا پیچھے ہو کر اُس سے فاصلہ قائم کر گیا۔


"ایم سوری آن! مُجھے خیال نہیں رہا۔" وجدان نے شرمندگی سے کہا۔


"کوئی بات نہیں۔ اب گھر چلیں کافی وقت ہو گیا۔" آن نے سر جُھکائے کہا تو وہ سر ہلاتا اُسے لیے گاڑی کی طرف بڑھ گیا آن کا ڈرائیور اُسے چھوڑ کر واپس جا چُکا تھا۔


**********************

روحان اپنے کمرے میں لیٹا ہوا تھا اُس کی سوچوں کا محور آن تھی اُس نے سوچا تھا کہ وہ آن کو اپنے دِل کا حال بتا دے گا اُسے پرپوز کرے گا۔ اِس لیے وہ آن سے مِلنے کا سوچ رہا تھا۔ اُس کا بازو کُچھ بہتر تھا گھر میں اُس نے کِسی کو نہیں بتایا تھا کہ اُسے گولی لگی ہے۔ وہ کِسی کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔


وہ سامنے وال پہ لگے کلاک کو گھورتا آن کے بارے میں سوچتا جا رہا تھا۔ اُس نے آنکھیں بند کیں تو آنکھوں کے سامنے وِشہ کا چہرہ لہرایا اُس کے ہونٹوں پہ بے اِختیار مُسکراہٹ چھائی۔


کِتنی نٹ کھٹ اور شرارتی ٹائپ کی لڑکی تھی وہ۔ بغیر کِسی جِجھک کے وہ روحان سے ہر بات کہہ جاتی تھی۔ اُس کے ساتھ وقت گُزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ کیسے خوشی سے اُچھل پڑی تھی وہ جب روحان نے اُسے گھر لے جانے کو کہا۔ اُس کا روہانسا چہرہ یاد کر کے وہ ہنس دیا مگر پِھر جھٹ سے اُس نے آنکھیں کھولیں۔


یہ وہ کیا کر رہا تھا؟ وہ تو آن کے بارے میں سوچ رہا تھا پِھر یہ وِشہ کہاں سے اُس کے خیالوں میں آ گئی؟" وہ سر جھٹکتا باہر نِکل گیا یہ لڑکی کُچھ زیادہ ہی اُس کے خیالوں میں آنے لگی تھی۔


********************


آن بہت خوش تھی جِس شخص کو اُس نے چاہا تھا وہ اُس کی قِسمت بننے جا رہا تھا وجدان نے کہا تھا کہ وہ جلد ہی اپنے پیرنٹز کو بھیجے گا اُن کے گھر۔ اور آن کے پاپا اور مما کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا مطلب اُس کی منزل بہت قریب تھی۔


مگر اُسے معصومہ کے لیے دُکھ تھا مگر وہ چاہ کر بھی اُس کے لیے کُچھ نہیں کر سکتی تھی۔


آج وہ معصومہ کے گھر جانے والی تھی اُس سے مِلنے اور اُس سے سب کُچھ شیئر کرنے۔


تیار ہونے کے بعد وہ اپنی ماما کو بتا کر ڈرائیور کے ساتھ معصومہ کے گھر پہنچ چُکی تھی۔


درواز معصومہ نے ہی کھولا تھا۔ آن کو دیکھ کر وہ خوشی سے کِھل اُٹھی تھی۔ وہ اُسے اپنے کمرے میں لے گئی تھی اور پِھر خود کِچن میں اُس کے لیے ریفریشمنٹ کا سامان لے کر واپس اپنے کمرے میں گئی تھی۔ آن بیڈ پہ بیٹھی اُسی کا اِنتظار کر رہی تھی۔


"اِدھر میرے پاس آ کے بیٹھو مُجھے تُمہیں بہت ضروری بات بتانی ہے۔" آن نے اُس کو کھینچ کر اپنے پاس بٹھایا تھا۔


"یہیں ہوں میں۔ تُم بتاؤ کیا بات کرنی ہے میں سُن رہی ہوں۔" معصومہ نے اپنا بازو سہلاتے کہا جِس کو آن نے جوش میں زیادہ ہی جوش سے کھینچ ڈالا تھا۔


"تُمہیں پتہ ہے کل میرے ساتھ کیا ہوا؟" آن نے تجسس پیدا کرنا چاہا۔


"میں تُمہارے ساتھ ہوتی تو ضرور پتہ ہوتا کہ کل دا گریٹ آن ہمدانی کے ساتھ کیا ہوا تھا۔" معصومہ نے منہ بناتے کہا تو وہ بے اختیار ہنس دی۔


"میں بتاتی ہوں۔ کل تُمہارے بھائی نے مُجھے پرپوز کیا۔" آن نے چہرہ ہاتھوں میں چُھپا کے اُسے بتایا۔

"روحان بھائی نے تُمہیں پرپوز کیا؟ مگر وہ تو گھر پر ہی تھے تُم سے کب مِلے؟" معصومہ نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا تو آن نے اُس کے کندھے پہ دھموکا جڑا۔


"روحان بھائی کیوں مُجھے پرپوز کرنے لگے۔ میں تُمہارے وجدان بھائی کی بات کر رہی ہوں۔" آن نے خفگی سے کہا تو وہ اُچھل پڑی۔


"کیا سچ؟ پِھر تُم نے کیا کہا؟" معصومہ نے جوش سے پوچھا تو آن نے اپنا ہاتھ آگے کر دیا جِس میں وجدان کی پہنائی رِنگ چمک رہی تھی۔


"ماشاللّٰہ بہت پیاری ہے۔" معصومہ نے اُس کے تعریف کی۔

"تُمہاری رِنگ بھی بہت پیاری ہے۔ مگر شادی کُچھ جلدی نہیں کر رہے؟" آن نے اُس کے ہاتھ میں رِنگ دیکھ کر کہا۔


"ہاں وہ ہاشم جی کی ماما کو جلدی ہے بہو گھر لانے کی۔ تو بس اِسی لیے۔" معصومہ نے سادگی سے کہا۔


"اہاں! ہاشم جی؟ واہ بھئی اِتنی عِزت؟" آن نے اُسے چھیڑا تو وہ پھیلا سا مُسکرا دی۔


"وہ میرے ہونے والے شوہر ہیں آنو! عِزت تو کروں گی نا؟" معصومہ نے کہا تو وہ بے ساختہ اُسے گلے لگا گئی۔


"مُجھے یقین ہے کہ خُدا تُمہیں بہترین سے نوازے گا۔" آن نے مضبوط لہجے میں کہا۔


"اِنشاللّٰہ۔" معصومہ نے ہولے سے کہا۔


"اچھا بتاو کونسی ڈیٹ رکھ رہے ہیں؟" آن نے پوچھا۔


"شاید اِسی مہینے کے آخر میں کوئی ڈیٹ رکھ لیں ابھی کنفرم نہیں ہے۔" معصومہ نے بتایا تو وہ سر ہلا گئی۔


"چلو اب شادی تو ہونی ہی ہے پہلے کیا بعد میں کیا۔ تُمہیں پتہ ہے وجدان کہہ رہے تھے کہ وہ جلد ہی اپنے پیرنٹس کو لائیں گے رِشتے کے لیے۔" آن نے اُسے بتایا تو وہ مُسکرائی۔


"یہ تو اچھی بات ہے۔ ہر محبّت کی منزل نِکاح ہو تو زندگی کِتنی خوشگوار ہو جاتی ہے نا۔" معصومہ نے کھوئے کھوئے انداز میں کہا۔


"ضروری نہیں کہ شادی سے پہلے ہی محبّت ہو۔ دِل بدلتے دیر نہیں لگتی۔ محبّت تو شادی کے بعد بھی ہو ہی جاتی ہے۔" آن نے اُس کا ہاتھ تھام کے کہا۔

"ہمم" معصومہ بس یہی کہہ سکی۔ کہنا آسان ہوتا ہے کہ ایک محبّت کے بعد دوسری محبّت ہو جاتی ہے۔ دوسری محبّت تو شاید پہلی محبّت کو بُھلانے کے لیے کی جاتی ہے اور وہ بس سمجھوتہ ہوتا ہے۔

آن کُچھ دیر وہاں بیٹھی اُس سے اُس کی شادی کے بارے میں کپڑوں اور شادی کے فنکشنز کے بارے میں بات کرتی رہی۔


ایک ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھ کر وہ اُسے خُدا حافِظ کہتی باہر نِکلی۔


گیٹ سے باہر نِکل کے اُس کا سامنا روحان سے ہوا۔ جو شاید باہر سے آرہا تھا۔


"آن! کیسی ہیں آپ؟" روحان نے خوشگوار لہجے میں ہوچھا۔


"میں ٹھیک ہوں روحان بھائی! آپ کیسے ہیں؟" آن نے ادب سے جواب دیا۔


"میں بھی ٹھیک ہوں۔ کیا آپ کے پاس کُچھ وقت ہے مُجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔" روحان نے اُمید سے پوچھا۔


"جی کہیں میں سُن رہی ہوں۔" آن نے کہا تو اُس نے سر کُھجایا۔


"کیا ہم کہیں بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں دراصل یوں کھڑے ہو کے ایسی بات کرنا مناسب نہیں۔" روحان نے کہا تو آن نے اچھنبے سے اُس کی جانب دیکھا۔


"نہیں مُجھے دیر ہو رہی ہے۔ آپ کو جو بات کرنی ہے آپ کریں ورنہ میں جاتی ہوں۔" آن نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا روحان اُس کی صاف گوئی اور بے تاثر لہجے پہ لب بھینچ گیا۔


"آن! میں آپ کو پسند کرتا ہوں اور آپ سے شادی بھی کرنا چاہتا ہوں اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو میں اپنے گھر والوں کو آپ کے گھر بھیجوں؟" روحان نے آخر کار اُسے بول ہی دیا۔


آن کُچھ دیر حیرانی سے اُس کی طرف دیکھتی رہی پِھر سنجیدگی سے گویا ہوئی۔


"آپ مُجھے پسند کیوں کرتے ہیں؟" آن نے پوچھا۔


"کیونکہ تُم اچھی ہو۔ خوبصورت ہو اور۔" روحان گڑبڑا کر کہنے لگا۔


"کِسی کی خوبصورتی کی بُنیاد پہ آپ کِسی کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ کِسی کو پسند کرتے ہیں۔ اور آپ مُجھے جانتے ہی کِتنا ہیں جو آپ کو لگا کہ میں اچھی ہوں۔ چلیں یہ بھی چھوڑیں آپ اپنی ماما سے صِرف یہ کہیے گا کہ آپ معصومہ کی دوست آن سے شادی کرنا چاہتے ہیں پِھر وہ آگے سے جو بھی کہیں آپ قبول کر لیجیے گا۔ کیونکہ میں جانتی ہوں اُن کا جواب نا میں ہی ہو گا۔" آن نے سنجیدگی سے کہا تو وہ اُسے دیکھ کر رہ گیا۔


"ایسا کُچھ نہیں ہے آن! میں آپ کو سچ میں پسند کرتا ہوں اور میں امی کو منا لوں گا۔" روحان نے بے بسی سے اُسے یقین دِلانا چاہا۔


"بغیر کوئی سوال کیے اپنی آنکھیں بند کریں۔" آن نے کہا تو وہ اُلجھتے ہوئے آنکھیں بند کر گیا۔


"آپ کے پاس کوئی نہیں ہے آپ اکیلے ہیں آپ آن کو پسند کرتے ہیں کیا آن آپ کے پاس ہے؟" آن نے آہستہ آہستہ کہا۔ روحان کی آنکھوں کے سامنے بے اختیار وِشہ کا چہرہ لہرایا تو اُس نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں اُس نے نفی میں سر ہلایا۔


"یی یہ نہیں ہو سکتا۔ مم میں آپ کو پسند کرتا ہوں۔" روحان نے بے یقینی سے کہا۔


"آپ مُجھے یقین دِلا رہے ہیں یا خود کو؟" آن نے آرام سے پوچھا جیسے اُسے یقین ہو کہ روحان کے خیال میں وہ نہیں تھی۔


"آپ جج جائیں یہاں سے آپ کع فیر ہو رہی ہو گی۔" روحان نے اُلجھتے ہوئے کہا۔


"میں جا ہی رہی ہوں لیکن ایک بات کہنا چاہوں گی ہر پسندیدگی محبّت نہیں پر ہاں وقتی کشش ہو سکتی ہے۔ آپ مُجھ سے محبّت نہیں کرتے یہ بات لِکھ کے دے سکتی ہوں آپ کو۔ اور ہاں میں بھی آپ سے محبّت نہیں کرتی میں وجدان سے مُحبّت کرتی ہوں۔ بہت جلد ہمارے بڑے ہمارا رِشتہ طے کرنے والے ہیں۔" آن نے وجدان کا نام محبّت سے لیتے اُسے سمجھایا۔


"آئی ہوپ کہ آپ میری بات سمجھ گئے ہوں گے اور جِس لڑکی کا چہرہ آپ نے دیکھا اُس کبھی کھونے مت دیجیے گا آپ مُجھ سے نہیں اُس سے محبّت کرتے ہیں۔ وقت رہتے اُسے پا لیجیے گا کہ کبھی کبھی بہت دیر بھی ہو جاتی ہے۔" آن نے مُسکرا کر کہتے گاڑی کی طرف قدم بڑھائے اور روحان کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔


روحان دِِل میں اُلجھن لیے اپنے کمرے میں داخِل ہوا۔ اُسے آن کی باتوں نے اُلجھا دیا تھا۔ کیا وہ آن کو نہیں چاہتا تھا وہ صِرف وقتی کشش تھی؟ مگر اُس نے وِشہ کے بارے میں تو کبھی ایسا نہیں سوچا؟


"تو اب سوچ لو۔" دِل کی آواز پہ وہ حیران ہوا اُس کا دِل اُس سے یہ کیا کہہ رہا تھا؟ اگر واقعی اُس کے دِل میں آن کے لیے نہیں وِشہ کے لیے محبّت تھی تو اُسے کبھی محسوس کیوں نہیں ہوا؟ وہ اِنہی سوچوں میں اُلجھا اُلجھا بیڈ پہ ڈھے گیا ذہنی طور پہ بہت تھک گیا تھا وہ اُسے سخت آرام کی ضرورت تھی۔


***********************


اگلے دِن مِسز نیاز اور مِسٹر نیاز شادی کے دِن رکھ گئے تھے اور معصومہ کے مُطابق اِسی مہینے کے آخر میں شادی رکھی گئی تھی اور شادی میں صِرف بیس دِن ہی باقی تھے۔ سب کُچھ اِتنی جلدی میں ہو رہا تھا کہ معصومہ بوکھلا کر رہ گئی تھی۔


اُسے کُچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا نہیں۔ فرزانی بیگم آئے دِن اُسے لیے بازار کے چکر لگا رہیں ہوتیں۔ مشعل بھی کبھی اُن کے ساتھ جاتی کبھی نہ جاتی۔ ماہین اور ارحم بھی ہنی مون سے واپس آچُکے تھے۔ لیکن ابھی وہ لوگ معصومہ لوگوں کے ہاں نہیں آئے تھے۔


معصومہ نے فون کر کے بابا جان اور آن کو شادی کی ڈیٹ بتا دی تھی اور سخت تاکید کی تھی کہ وہ لوگ ضرور آئیں ورنہ وہ اُن سے ناراض ہو جائے گی اور اُن دونوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ لوگ ضرور آئیں گے۔


وہ کمرے میں بیٹھی تھی جب فرزانہ بیگم اُس کے کمرے میں داخل ہوئیں اور اُسے تیار ہونے کا کہنے لگیں۔


"کہیں جانا ہے کیا ممانی جان؟" معصومہ نے اِستفسار کیا۔


"ہاں ہاشم آیا ہے تُمہیں لینے۔ شادی کا جوڑا وہ تُمہاری پسند کا لینا چاہتا ہے اور اِسی لیے تُمہیں لینے آیا ہے۔" فرزانہ بیگم مصروف سی بتا رہیں تھیں۔


"مم مگر ممانی جج جان میں کک کیسے جا سکتی ہوں؟" معصومہ بوکھلا گئی۔


"کیوں نہیں جا سکتی ہونے والا شوہر ہے تُمہارا۔ کُچھ دِنوں میں شادی ہے۔" فرزانہ بیگم نے اُسے تیکھے چتونوں سے گھورا اور اُسے جلدی باہر آنے کا کہہ کر وہ باہر نِکل گئیں۔


معصومہ مرتے کیا نا کرتے کے مصداق دس منٹ میں کپڑے بدل کر وہ چادر اوڑھتی باہر نِکل گئی۔

ہاشم لاونج میں کھڑا اُس کا اِنٹظار کر رہا تھا وہ پہلی بار ہاشم کو دیکھ رہی تھی اُس نے تصویر میں بھی اُسے نہیں دیکھا تھا۔ معصومہ نے سرسری سی نظر میں اُس کا جائزہ لیا۔


ڈریس بلیک پینٹ پہ اُس نے ڈریس نیوی بلیو شرٹ پہن رکھی تھی۔ ہلکی سی بیئرڈ، گندمی رنگت، کُشادہ پیشانی، سنجیدہ اور بُردبار سے نرم تاثرات لیے وہ دِکھنے میں کافی ہینڈسم تھا وہ آہستہ آہستہ چلتی اُس کے قریب پہنچی اور آہستہ سے سلام کیا جِس کا ہاشم نے مُسکرا کر جواب دیا۔ پِھر فرزانہ بیگم کی اِجازت لے کر وہ گھر سے نِکلتے چلے گئے۔


وہ اِس وقت شاپنگ مال میں کھڑے تھے ہاشم ہی زیادہ اُس سے باتیں کرنے کی کوشش کر رہا تھا تا کہ اُس کی پسند اور ناپسند کے بارے میں جان سکے جِن کا معصومہ کبھی مُختصر تو کبھی تفصیل سے جواب دے رہی تھی۔ ہاشم نے اُس کے لیے کافی کُچھ خرید لیا تھا جِس میں کپڑے، جیولری، سینڈل اور میک اپ کا سامان بھی شامل تھا معصومہ نے اُسے اِتنا سب کُچھ لینے سے منع کیا تو وہ یہ کہہ کر ٹال گیا کہ وہ اپنی پسند اور مرضی سے اُس کے لیے یہ سب لے رہا ہے جِس پہ معصومہ خاموش رہ گئی۔

اب وہ اُس کے لیے برائیڈل ڈریس دیکھ رہا تھا۔


ہاشم نے کافی ڈریسز نِکلوائے تھے مگر کوئی بھی اُس کو معصومہ کے لیے پسند نہیں آرہا تھا۔


"ہاشم جی! اب بس کریں میں تھک گئی ہوں۔ آپ کوئی بھی جوڑا پیک کروالیں۔" معصومہ نے التجائیہ انداز میں کہا۔


"شادی ایک ہی بار ہوتی ہے مِسز ٹو بی! اور میں چاہتا ہوں کہ میری مِسز دُنیا کی سب سے حسین دُلہن بنے۔" ہاشم نے اُس کے چہرے پہ سادگی کے ساتھ شرم و حیا کے رنگ دیکھتے کہا تو وہ جھینپ گئی۔


"اچھا یہ والا دیکھو کیسا رہے گا؟" ہاشم نے ایک ڈیپ ریڈ کلر کا ایمبرائیڈری والا دوپٹہ جِس پہ سُنہرے رنگ کا کام کیا گیا تھا، نِکال کر معصومہ کو اوڑھا کر پوچھا۔


"اا اچھا ہے۔" معصومہ اُسکی حرکت پہ بوکھلا کر جلدی سے بولی۔


"ہمم تو پِھر یہی پیک کروا لیتے ہیں۔" ہاشم نے کہہ کر شاپ کیپر کو وہی جوڑا پیک کرنے کو کہا۔


کُچھ دیر بعد بِل پے کر کے وہ اُسے لے کر شاپنگ مال کے کیفے میں آگیا اور اُس کو بیٹھنے کا اِشارہ کرتا خود بھی بیٹھ گیا شاپنگ بیگز وہ گاڑی میں رکھ آیا تھا۔


"تو کیا کھاو گی؟" ہاشم نے ہوچھا۔


"کُچھ بھی منگوا لیں۔" معصومہ نے دھیمے سے کہا۔


ہاشم نے اُس کی جِجھک محسوس کرتے خود ہی رشین سیلیڈ اور پیزا کے ساتھ کولڈ ڈرنک منگوا لی۔


"تُم شروع سے اِتنی شائے ہو یا صِرف مُجھ سے شرما رہی ہو؟" ہاشم نے پیزے کا پیس کاٹ کر اُس کی پلیٹ میں رکھا۔


"نن نہیں میں تو نہیں شرماتی۔" معصومہ جلدی سے اُس کی بات کی نفی کرتی اُلٹا بول گئی۔


"سچ میں نہیں شرماتی؟ سوچ لو پِھر؟" ہاشم نے معنی خیزی سے کہا تو وہ سر جُھکا گئی۔


"میرا وہ مطلب نہیں تھا۔"ّوہ منمنائی۔


"ہاہاہا اچھا ٹھیک ہے۔ میں سمجھ گیا تُمہارا مطلب۔" ہاشم نے ہنس کر کہا۔


پِھر وہ اُس سے ہلکی پُھلکی باتیں کرنے لگا۔ باتوں کے دوران وہ اُسے بھی بولنے کا کہتا۔ معصومہ نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ کافی ہنس مُکھ اور نرم نیچر کا مالک تھا۔ معصومہ کو وہ اچھا لگا تھا نرم دِل سا ہاشم نیاز سچ میں اچھا تھا لیکین اُسے صِرف اچھا لگا تھا۔


لنچ کے بعد وہ اُسے گھر چھوڑ گیا تھا سارے شاپنگ بیگز بھی لاونج میں ہی رکھوا دیے تھے معصومہ نے کہا تھا کہ وہ خود ہی رکھ لے گی۔ فرزانہ بیگم نے اُسے روکنا چاہا تھا مگر وہ کام کا کہہ کر چلا گیا تھا۔


******************

اُسے جب ہوش آیا تو وہ ایک کمرے میں بند تھا یہ کوئی سٹور نما کمرہ تھا جِس پہ جگہ جگہ دھول اور مٹی جمی ہوئی تھی جیسیلے کافی عرصے سے صفائی نہ کی گئی ہو۔ کمرے میں صِرف ایک کُرسی اور ایک کولر موجود تھا جِس کے اوپر ایک گلاس رکھا ہوا تھا۔ وہ اُٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا مگر پِھر چکرا کر نیچے بیٹھ گیا اُس کے سر کے پچھلے حِصے میں درد ہو رہا تھا۔ اُس نے سر کے پیچھے ہاتھ پھیرا تو چپچپاہٹ کا احساس ہوا اُس نے ہاتھ سامنے کر کے دیکھا تو خون لگا ہوا تھا جو ابھی خُشک نہیں ہوا تھا مطلب اُسے بے ہوش ہوئے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا۔


اُس کے سر پر کافی زور سے لوہے کا راڈ مارا گیا تھا جِس کی وجہ سے اُس کے سر کے پِچھلے حِصّے پہ کافی گہرا زخم آیا تھا اور وہ بے ہوش ہو گیا تھا۔ وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ وہ رومیسہ کے بارے میں سوچ رہا تھا اُس نے آخر ایسا کیوں کیا تھا؟ وہ تو اُسے پسند کرتی تھی شادی کرنا چاہتی تھی پِھر یہ سب کیوں؟ اُسے اُس کی حرکت پہ حیرت کے ساتھ غُصّہ بھی آرہا تھا۔


اُسے رومیسہ کا مقصد سمجھ نہیں آرہا تھا آخر وہ اُس سے چاہتی کیا تھی۔ وہ جِتنا سوچتا جا رہا تھا اُتنا ہی اُلجھتا جا رہا تھا۔ ایک اٹھارہ سالہ لڑکی پچیس سالہ بزنس مین کو بے وقوف بنا گئی تھی یہ بات اُس کے دماغ اور انا پہ کاری وار کر رہی تھی اُس کے دِل میں رومیسہ کے لیے نفرت سی جاگی تھی اُس کا بس چلتا تو اُس کا گلا گھونٹ دیتا اگر بس چلتا تو۔


اب وہ اِس کمرے کی دیواروں کو گھور رہا تھا جِس میں بس ایک ہی دروازہ تھا اور وہ بھی شاید لاک تھا۔ وہ کُچھ سوچ کر دروازے کی طرف بڑھا اور زور زور سے دروازہ بجانے لگا۔ ساتھ میں وہ آوازیں بھی دینے لگا مگر جواب ندارد۔ غُصّے میں آکے اُس نے دروازے کو ٹانگیں مارنا شروع کر دیں ہاتھوں سے دروازے کو پیٹتا وہ بلند آواز میں دروازہ کھولنے کو کہہ رہا تھا۔


وہ ابھی اور چیختا جب دروازہ کُھلا اور دو تین دیو ہیکل آدمی کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے۔ وہ داؤد سے کافی لمبے اور موٹے صحت مند انگریز تھے جو شکل سے ہی ریسلر لگ رہے تھے اور اب غُصّے سے داؤد کو گھور رہے تھے۔


داؤد اُن تینوں کو اپنے سر پر کھڑا دیکھ کر پیچھے ہوا۔


"Why were u shouting bloody dog?"


اُن میں سے ایک نے پوچھا۔

ْ

"I want to go from here. Let me go."


داؤد نےغُصّے سے کہہ کر باہر کی جانب قدم بڑھائے۔ وہ آدمی ایک دوسرے کی طرف دیکھ کے مُسکرائے اور پِھر ایک نے داؤد کو کالر سے پکڑ کر پیچھے کھینچا اور ایک زور دار مُکّا داؤد کے پیٹ میں مارا۔ داؤد کو لگا کہ اُس کا پیٹ پھٹ جائے گا اور ساری انتڑیاں باہر آجائیں گی۔ اُس آدمی کا ہاتھ ہتھوڑے جیسا تھا۔


وہ بے اختیار جُھکا تھا مگر پِھر ہمّت کرتے اُس نے اُس آدمی کو مارنے کی کوشش کی مگر اُس نے داؤد کا ہاتھ پکڑ کے مروڑا اور پے در پے اُس کے پیٹ میں گھونسے مارے۔ تینوں آدمیوں نے باری باری داؤد پے وار کیا۔ اُن تینوں کے سامنے داؤد کُچھ بھی نہیں تھا وہ پیشہ ورانہ فائٹر تھے جبکہ داؤد ایک عام سا بزنس مین جو اپنے جیسے عام اِنسانوں کو تو مار سکتا تھا مگر اِتنے دیو ہیکل آدمیوں سے مار کھا کر اُنہیں ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا تھا۔


داؤد کے ناک اور منہ سے خون نِکل رہا تھا وہ بے دم سا زمین پر ڈھے گیا اور وہ آدمی کمرہ بند کر کے باہر نِکل گئے۔


********************


روحان کو دوبارہ ڈیوٹی جوائن کرنی تھی اُس کا بازو اب ٹھیک تھا اِس لیے وہ واپس جا رہا تھا۔ آج اُس کی واپسی تھی۔ آن کی باتوں سے اُسے اِس بات کا احساس ہوا تھا کہ جو اُسے آن کے لیے محسوس ہوا وہ محبّت نہیں تھی وقتی کشش تھی۔

اُسے کبھی آن سے محبّت تھی ہی نہیں۔ اُس کو وہ بس اچھی لگی تھی اور وہ اُسے محبّت سمجھ بیٹھا تھا۔


کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے نا کہ کوئی ہمیں اچانک سے اچھا لگنے لگتا ہے ہمارا اُس سے بات کرنے کو دِل کرتا ہے جب اُس سے بات ہو جائے تو دِل کو سکون مِلتا ہے لیکن اگر کبھی بات نہ بھی ہو اُس سے ملاقات نہ بھی ہو تو اِتنی بے سکونی نہیں ہوتی دِل مطمئن رہتا ہے کیونکہ وہ محبّت نہیں ہوتی صرف وقتی کشش ہوتی ہے جِس کے بل پہ ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں اُس سے محبّت ہے حالانکہ وہ محبّت نہیں ہوتی اور اُس وقتی کشش کو محبّت کا نام دے کر ہم اصلی محبّت کو کھو دیتے ہیں جِس محبّت سے ہمارے دِل جُڑے ہونے کے باوجود انجان ہوتے ہیں۔ اور اُس محبّت کو نظر انداز کر کے ہم بے نام محبّت کو قبول کر لیتے ہیں اور پِھر وقت گُزرنے کے بعد جب احساس ہوتا ہے تو وہ سچی محبّت ہم سے بہت دور جا چُکی ہوتی ہے۔


لیکن روحان اُن خوش قِسمتوں میں سالے تھا جِن کو اصل محبّت کا احساس ہو جاتا ہے اور اِس کے لیے وہ آن کا شُکر گُزار تھا جِس نے اُسے احساس دِلایا تھا کہ جِس وقتی کشش کو وہ محبّت سمجھ رہا ہے وہ تو محبّت تھی ہی نہیں صِرف پسندیدگی تھی۔ اور اب جب اُسے اپنی محبّت کا احساس ہوا تھا تو وہ جلد سے جلد اُس محبّت کو اپنا لینا چاہتا تھا کہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔


*********************


آج وجدان اور اُس کے گھر والے آن کے گھر آنے والے تھے آن تیار ہو کے کمرے میں بیٹھی تھی اُس نے فون کر کے معصومہ کو بھِ بُھلانا چاہا تھا مگر فرزانہ بیگم نے منع کر دیا تھا کہ شادی کو دِن کم رہ گئے ہیں اِس لیے اُس کا یوں جانا مناسب نہیں اور معصومہ فرزانہ بیگم کا اِنکار سُن کر آن سے معذرت کر گئی تھی۔


مہمان آچُکے تھے اور اپنے ساتھ ڈھیر ساری مِٹھائیوں کے ٹوکرے، پھل، آن کے لیے تحفوں کے ساتھ انجم صاحب اور شاہینہ بیگم۔کے لیے بھی تحائف لائے تھے۔ سارا سامان بھی مُلازمہ کو رکھنے کا کہہ چُکے تھے۔ انجم صاحب اپنی بیگم کے ساتھ اُن کو ویلکم کرنے کے بعد ڈرائنگ روم میں بِٹھا چُکے تھے۔


وجدان بھی انجم صاحب اور شاہینہ بیگم سے مِل کر سِنگل صوفے پہ بیٹھ گیا تھا۔

مُلازمہ ریفریشمنٹ کا سامان سیٹ کر رہی تھی۔ اُس کے جانے کے بعدشاہینہ بیگم گویا ہوئیں۔


"آپ بِلا وجہ اِتنا کُچھ لے آئے۔ اِس تکلّف کی کیا ضرورت تھی؟"


"ہم پہلی بار اپنی بہو سے مِلنے آئے ہیں تو خالی ہاتھ کیسے آجاتے؟" جمال صاحب نے خوش دلی سے کہا تو سب مُسکرا دیے۔


"جی بالکُل اور اب تو آنا جان لگا رہے گا۔" آمنہ بیگم نے کہا۔


"جی ضرور ضرور۔" انجم صاحب نے تائید کی۔


"آپ آن بیٹے کو بھی تو بُلائیں۔ ہم بھی اپنی بہو کو دیکھنا شاہتے ہیں۔" آمنہ بیگم نے کہا۔


"جی میں ابھی بُلا کر لاتی ہوں۔" شاہینہ بیگم خوش دِلی سے کہتیں اُٹھ کھڑی ہوئیں اور آن کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔


انجم صاحب وجدان اور جمال صاحب کو تو جانتے ہی تھے تو وہ اُنن سے کاروباری باتیں کرنے لگے۔

کُچھ دیر بعد آن اپنی ماما شاہینہ بیگم کے ساتھ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی۔


پیچ کلر کے نفیس سے ڈریس میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ دوپٹہ نفاست سے سر پہ ٹکا رکھا تھا نظریں جُھکائے ہاتھ مروڑتے سب کو مُشترکہ سلام کر کے وہ شاہینہ بیگم کے ساتھ وہ وہاں کھڑی تھی۔


"یہاں میرے پاس آ کے بیٹھو بیٹا۔ پریشان یا نروس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہم سب اب تُمہارے اپنے ہی ہیں۔" آمنہ بیگم نے اُس کی نروس شکل دیکھ کر نرمی سے کیا تو وہ سر ہلاتی جُھکے سر کے ساتھ اُن کے پاس بیٹھ گئی۔ اُس نے اب تک وجدان کو نظر اُٹھ کے نہیں دیکھا تھا جبکہ وجدان ٹِکٹِکی باندھے اُسی کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔


"آہمم آہمم! دانی بیٹا! احتیاط اچھی چیز ہے۔" جمال صاحب نے ہنسی دباتے اپنے اِکلوتے سپوت کو کُچھ سمجھانے کی کوشش کی جِسے سمجھتا وہ سٹپٹا کر آن سے نظریں ہٹا گیا۔


"ہمیں تو آپ کی بیٹی بہت پسند آئی ہے۔ ہماری طرف سے تو رِشتہ پکّا ہی سمجھیں۔" آمنہ بیگم نے پرس سے سونے کے کنگن نِکال کر آن کو پہناتے ہوئے کہا تو شاہینہ بیگم اور انجم صاحب مُسکرا دیئے۔


آمنہ بیگم کو وہ من موہنی سی صورت والی سادہ سی لڑکی بہت پسند آئی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کی پسند پہ لاجواب ہوئیں تھیں۔ اِس لیے بغیر کِسی دیر کے وہ آن کو اپنی بہو بنا چُکی تھیں کہ وہ اُن کے بیٹے کی بھی پسند تھی۔


""اعتراض تو ہمیں بھی کوئی نہیں ہے۔ وجدان کو میں اچھی طرح سے جانتا ہوں اور وجدان سے بہتر میری بیٹی کے لیے کوئی نہیں ہو سکتا اور مُجھے یقین ہے کہ وجدان میری بیٹی کو بہت خوش رکھیں گے اور ویسے بھی بچّوں کی خوشی میں ہی ہماری بھی خوشی ہے۔" انجم صاحب نے ہاں میں سر ہلاتے کہا تو سب کے دِلوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔


وجدان آن کی طرف محبّت سے دیکھتے مُسکرا رہا تھا۔ آن نے زرا کی زرا نظر اُٹھا کے وجدان کی طرف دیکھا۔ بلیک تھری پیس میں وہ کافی گریس فُل لگ رہا تھا۔ آن کے دیکھنے پہ اُس نے آنکھ کا کونہ دبایا تو وہ جھینپتی سر جُھکا گئی۔ وجدان اُس کا گُلال ہوتا چہرہ دیکھ کر بے ساختہ ہنس دیا۔


"کیا ہوا؟" انجم صاحب اُس کو ہنستا دیکھ کر پوچھنے لگے باقی سب بھی اُس کی طرف متوجّہ ہو چُُکے تھے۔


"کک کةچھ نہیں بس ویسے ہی کک کوئی بات یاد آگئی تھی۔" وجدان گڑبڑا سا گیا جبکہ اُس کی حالت دیکھ کے آن دِل ہی دِل میں ہنسی۔


"اچھا۔" انجم صاحب سر ہلا گئے۔


"اب جب رِشتہ طے ہو ہی گیا ہے تو کیوں نا شادی کی تاریخ رکھ لی جائے۔"آمنہ بیگم نے کہا تو شاہینہ بیگم چونک اُٹھیں آن نے بھی حیرت سے وجدان کو دیکھا۔


"مگر اِتنی جلدی؟ آن ابھی بس بیس سال کی ہے اور اِتنی جلدی ہم اِس کی شادی نہیں کر سکتے۔ ابھی ہماری بڑی بیٹی بھی ہے ہم نے سوچا تھا کہ اُس کی شادی بھی آن کے ساتھ ہی کریں گے۔" شاہینہ بیگم نے کہا تو آمنہ بیگم دِل مسوس کر رہ گئیں۔


"دراصل وجدان ہمارا اِکلوتا بیٹا ہے۔ تو میں جلد سے جلد اِس کی لوشیاں دیکھنا چاہتی ہوں۔ آن بیٹی ہمارے گھر آجاتی تو ہمارے گھر میں بھی رونق ہو جاتی۔" آمنہ بیگم نے افسردگی سے کہا۔


"ہم آپ نے جزبات سمجھ سکتے ہیں مگر ہم کوشش کریں گے جلدی شادی کرنے کی۔" انجم صاحب نے اُنہیں تسلّی دینی چاہی۔


"کوئی بات نہیں انجم صاحب! ہم سمجھ سکتے ہیں اور ویسے بھی اب آن ہماری بیٹی ہے آج نہیں تو کل آن کو ہمارے گھر کی رونق ہی بننا ہے بس کُچھ اِنتظار کی بات ہے وہ ہم کر لیں گے۔" جمال صاحب نے سبھاؤ سے کہا۔


"جی بہت شُکریہ جمال صاحب!" انجم صاحب اُن کے مشکور ہوئے۔


"اب آپ شُکریہ کہہ کے ہمیں شرمِندہ کر رہے ہیں انجم صاحب!" جمال صاحب نے خفگی سے کہا تو وہ ہنس دیئے ۔


"اچھا اب باقی سب باتیں چھوڑیں لنچ کا ٹائم ہو گیا ہے آجائیں لنچ کے لیے۔" مُلازمہ کی اِطلاع پہ شاہینہ بیگم نے سب کو متوجّہ کیا اور خود بھی ساتھ ہی اُٹھ کھڑی ہوئیں۔


لنچ خوشگوار ماحول میں کیا گیا تھا سب بڑے اپنی باتوں میں مصروف تھے جبکہ وجدان آن کو ٹِکٹِکی باندھے نہارنے میں مصروف تھا جو اُس کے سامنے والی کُرسی پہ بیٹھی تھی۔


آن نے کئی بار اُسے گھور کر منع کرنا چاہا مگر وہ شاید آج اُس کی ایک نہیں سُننا چاہ رہا تھا۔ اپنی بات کا اثر نہ ہوتے دیکھ کر آن چہری پلیٹ پہ جُھکا گئی تا کہ اُس کی نظروں کی تپش سے بچ سکے جِس پہ وجدان مُسکرا کے اُس کی جان بخش گیا۔


لنچ کے بعد وجدان اور اُس کے ماں باپ سب سے مِلتے واپس ہو لیے تھے۔ جاتے جاتے وجدان اُس کے کندھے سے کندھا ٹکرا کے اُسے آنکھ مارنا نہیں بھولا تھا جِس پہ وہ اُس کی ٹین لوفروں والی حرکت پہ بس مُسکرا کے رہ گئی تھی۔


**********************


معصومہ مشعل کے ساتھ شاپنگ مال آئی تھی۔ مشعل کی کُچھ خریداری رہتی تھی معصومہ حیران ہوئی تھی کہ فرزانہ بیگم نے آن کے گھر اُسے جانے نہیں دیا تھا جبکہ اب مشعل کے ساتھ بھیجنے پہ اُن کو کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا۔ وہ سر پہ چادر اوڑھے مشعل کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ جبکہ مشعل کبھی کُچھ پسند کرتی تو کبھی کُچھ مگر خریدتی کُچھ بھی نا۔


معصومہ اُس کے ساتھ چلتی چلتی تھک چُکی تھی۔ اب اُس میں حوصلہ نہیں تھا چلنے کا۔ کُچھ ایکسیڈنٹ کے بعد کمر میں ہونے والے درد کا بھی اثر تھا جو زیادہ تھکاوٹ پہ بے اختیار اُٹھنے لگتا تھا۔


"مِشی! اور کیا خریدنا ہے تُم نے؟ میں تھک چکی ہوں۔" معصومہ نے تھکاوٹ زدہ لہجے میں پوچھا۔

"اب تُمہاری شادی پہ پہننے کے لیے کُچھ ڈھنگ کا ہی خریدوں گی ناں۔ کُچھ بھی اول جلول تو نہیں پہنوں گی میں۔" مشعل نے مُنہ بنائے جواب دیا۔


جبکہ اُس کے ہیچھے کھڑا وجود معصومہ کی شادی کا سُن کر طنزیہ مُسکرایا تھا۔ جِس پہ اُن دونوں کی نظر نہیں پڑی تھی۔


"میں نے کب کہا کہ تُم کُچھ اول جلول خریدو میں تو بس پوچھ رہی تھی کہ اور کیا خریدنا باقی رہ گیا ہے؟" معصومہ نے اُس کے لہجے پر دھیمے سے کہا۔


"تُم اپنے لیے کوئی ڈریس دیکھ لو اگر کوئی پسند آئے تو ٹرائی کر کے دیکھ لینا اور خرید بھی لینا ماما نے کہا تھا کہ تُمہارے لیے ایک سوٹ اور لینا ہے۔ میں ذرا آگے سے ہو کے آتی ہوں۔" وہ اُسے کہہ کر خود آگے بڑھ گئی بغیر اُس کی ایک بھی سُنے۔


معصومہ اِدھر اُدھر دیکھتی گارمنٹس شاپ میں داخل ہوئی۔ پِھر وہ ڈریس چیک کرنے لگی۔ کافی ڈریس دیکھنے کے بعد اُس نے ایک ریڈ اور سکِن کلر کا شارٹ فراک جِس کے نیچے سکن ہی کیپری تھی، نِکالا اور ٹرائل روم کی جانب بڑھ گئی۔


اُس نے ابھی چادر اُتار کے رکھی ہی تھی جب اُس کی نظر کُھلے دروازے پہ پڑی اُس نے جلدی سے دروازہ بند کرنا چاہا جب کوئی اُس پیچھے کی طرف دھکیلتا اندر داخل ہوا اور مُڑ کر دروازہ لاک کیا۔ معصومہ حق دق سی آنے والی کی حرکت دیکھتی رہ گئی۔


اُس نے جلدی سے چادر اوڑھنی چاہی جب مقابل پلٹا اور اُسے کھینچ کے دیوار کے ساتھ لگا کے اُس کے بازو جکڑ گیا۔ معصومہ کی نظر مقابل پہ پڑی تو وہ سُن کھڑی رہ گئی۔


*************

"تو شادی کرنے والی ہو تُم؟ اب کِس کو پھنسایا ہے اپنا مقصد پورا کرنے کے لیے؟ اب کِس بزنس مین کو اپنے جال میں پھانسا ہے؟" وہ اُُس کے جوڑے میں قید بال مُٹھی میں جکڑتا بول رہا تھا۔


"ددد داد مم مُجھے درد ہو رہا ہے چچ چھوڑیں مم مُجھے۔" معصومہ کی بھوری کانچ سی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تھے۔


"داد نہیں داؤد سِکندر نام ہے میرا! اور جو پوچھا ہے اُس کا جواب دو۔" داؤد نے غُرّا کر پوچھا۔


"مم میں نے کک کِسی کو نہیں پھانسا۔ مم میرے لیے رر رِشتہ آیا تت تھا۔" معصومہ ہکلاتے ہوئے نم لہجے میں بولنے لگی۔


"آہاں؟ لڑکا بِزنس مین ہے کیا؟" داؤد نے چہرہ اةس کے چہرے کے قریب کر کے کہا اور اُس کی کانچ سی آنکھوں میں جھانکا جہاں تیرتے پانی میں اُسے اپنا عکس نظر آرہا تھا۔


"اا انجینئیر ہیں وو وہ۔ مم میرے بال چھوڑیں دد درد ہو رہا ہے۔" اُس کے آنسو اُس کے گُلابی گالوں پہ بہنے لگے تھے جبکہ لہجے میں بے بسی تھی۔ جانے کیوں داؤد کے سامنے آتے ہی وہ بے بس ہو جاتی تھی اُس سے ڈرنے لگتی تھی اور اُسی ڈر کے سائے میں وہ کُچھ کر بھی نہیں پاتی تھی۔


"انجینیئر ہے؟ تو اب کونسا مقصد پورا کرنا چاہتی ہو تُم اُس سے اپنا؟ پہلے بِزنس مین اور اب انجینیئر؟" داؤد استہزائیہ ہنسا۔


"آپ کک کیا کہہ رہے ہیں مُجھے کُچھ سمجھ نہیں آرہا۔ پلیز مم مُجھے جانے دیں۔" معصومہ نے التجا کی۔


"سب سمجھتی ہو تُم اِتنی نادان نہیں ہو۔ اور کیوں جانے دوں تُمہیں؟ تُم تو مُجھ سے محبّت کرتی تھی ہے نا؟ تو کہاں گئی تُمہاری وہ سو کالڈ محبّت؟" داؤد نے زہر خند لہجے میں پوچھا۔


"میں نے آپ سس سے کک کہا تھا کک کہ میں کبھی آپ کک کے سامنے نہیں آوں گی۔ اور مم میں اپنی بات پہ قائم بب بھی ہہ ہوں۔ پپ پھر آپ کیوں بب بار بار میرے سامنے آ کے مم مُجھے ڈڈ ڈراتے ہیں؟" معصومہ اُس کی نیلی آنکھوں میں اپنی بھوری آنکھیں گاڑے کہہ رہی تھی۔


داؤد جو بار بار اُس کی آنکھوں میں اپنے عکس کو دیکھ رہا تھا جنجھلا کر اُس کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ گیا۔


"مُجھے کوئی شوق نہیں ہے تُمہیں ڈرانے کا یا تُمہارے پیچھے آنے کا۔ میں تو بس یہ جاننا چاہتا تھا کہ اب کِس کو اپنا شِکار بنانا چاہ رہی ہو تُم۔" اُس کے بال چھوڑ کے ایک ہاتھ اُس کی آنکھوں پہ رکھے دوسرے ہاتھ سے اُس کا بازو جکڑے وہ کہہ رہا تھا۔


"ہہ ہاتھ ہٹائیں اپنا۔ مُجھے نہیں پتہ آپ کو کیوں ایسا لگتا ہے کہ میں نے آپ کو پپ پھنسایا ہے اور اب ہہ ہاشم جی کو بھی پھنسا رہی ہوں۔ آپ کک کو غلط فہمی ہوئی ہے۔" ہکلا کے بولتے بھی اُس کا لہجہ مضبوط تھا ساتھ میں وہ اُس کا ہاتھ اپنی آنکھوں سے ہٹانے کی کوشش میں تھی۔


داؤد اُس کے لہجے کی مضبوطی پہ غور سے اُس کا چہرہ دیکھنے لگا آنکھوں پہ اُس کا ہاتھ تھا جبکہ باقی چہرہ وہی تھا بالکُل وہی وہ دھوکا کیسے کھا سکتا تھا؟ اُس کی نظر اُس کے ناک سے ہوتی اُس کے کانپتے ہونٹوں پہ پڑی۔ ہلکے سُرخ گُلابی سے

ہونٹ کُچھ کہنے کی کوشش میں کانپ رہے تھے۔


دوپٹے سے بے نیاز وجود اُس کی توجّہ اپنی طرف کھینچ رہا تھا اُس کی چادر ایک طرف پڑی تھی۔

وہ ایک پل میں سب کُچھ بھولتا اُس پہ جُھکا۔


اُس کی اِس حرکت پہ داؤد کے ہاتھ کے نیچے معصومہ کی آنکھیں پھٹی تھیں اُس نے بے ساختہ اُس کے سینے پہ ہاتھ رکھ کے اُس دھکیلا اور ایک زور دار تھپڑ داؤد سِکندر کے چہرے پہ مارا تھا۔ معصومہ کے چہرے پہ غُصّہ اور اشتعال تھا جبکہ داؤد کا چہرہ اہانت کے احساس سے سُرخ ہو رہا تھا۔


"ایک طرف آپ مُجھ سے نفرت کا دعوٰی کرتے ہیں کہتے ہیں کہ اِس دُنیا میں سب سے زیادہ نفرت مُجھ سے کرتے ہیں اور دوسری طرف آپ میرے ساتھ اِس طرح کی حرکت کرتے ہِیں شرم نام کی کوئی چیز ہے آپ میں کہ نہیں؟ ہوس مٹانی ہے آپ کو اپنی تو کِسی کوٹھے پہ چلے جائیں میں بازارو نہیں ہوں جِسے ایک طرف آپ اپنی نفرت کا شِکار بنائیں تو دوسری طرف اپنی ہوس کا۔" معصومہ سرد لہجے میں بول رہی تھی۔


"یو تُمہاری ہمّت کیسے ہوئی مُجھے ہاتھ لگانے کی۔۔۔۔۔۔۔" داؤد جو اُس کے تھپڑ پر ساکت کھڑا تھا اُس کی بات پہ غُصّے سے اُس کی طرف بڑھا جب معصومہ نے اُس کی بات کاٹی۔


"ویسے ہی جیسے آپ نے ہمّت کی اپنا گھٹیا پن مُجھے دِکھانے کی۔ آج کے بعد مُجھے اپنی شکل بھی مت دِکھائے گا۔ نفرت ہونے لگی ہے آپ کے اِس خوبصورت شکل کے پیچھے چُھپے گھٹیا چہرے سے۔ آپ مُجھ سے نفرت کا اِظہار کریں یا غُصّے کا مگر یہ میں بالکُل گورا نہیں کرتی کہ آپ میری عِزت پہ نظر رکھیں۔۔" معصومہ کہہ کر چادر اوڑھتی بغیر اُس کو بولنے کا موقع دیے باہر نِکل گئی جبکہ داؤد اپنی بے اختیاری اور معصومہ کے تھپڑ پر کڑھ کر رہ گیا۔


"اِس تھپڑ کا حِساب تو تُمہیں دینا پڑے گا معصومہ عُرف رومیسہ! شادی کا بہت شوق ہے نا تُمہیں۔اب دیکھتا ہوں کیسے کرتی ہو تُم شادی۔" داؤد نے زہر خند لہجے میں کہا اُس کے دِل میں کیا چل رہا تھا یہ تو بس خُدا ہی جانتا تھا۔


************************


معصومہ کو مشعل باہر ہی مِل گئی تھی مشعل اُس کے خالی ہاتھ دیکھ کر منہ بنا کر رہ گئی تھی اُس نے اپنے لیے جو خریدنا تھا خرید لیا تھا اور معصومہ نے اُسے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اُسے کُچھ پسند نہیں آیا۔ وہ بس جلدی سے گھر جانا چاہتی تھی۔ مشعل کو سر درد کا بہانہ بنا کر وہ جلدی ہی گھر آگئی تھی۔


مشعل تو فرزانہ بیگم کو اپنی شاپنگ دِکھانے لگی جبکہ وہ اپنے کمرے میں داخل ہوتی لاک کر کے باتھ روم کی جانب بڑھی۔ شاور کھول کے وہ پانی کے نیچے کھڑی ہو گئی وہ رگڑ رگڑ کر اپنے ہونٹ صاف کر رہی تھی۔ جیسے کِسی گندگی کو صاف کرنا چاہتی ہو۔


اُسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اُس کے ساتھ اِتنی گھٹیا حرکت کر سکتا ہے۔ وہ کِسی اور کی امانت تھی کِسی اور سے اُس کی شادی ہونے والی تھی۔ دِل کو نہ سہی مگر وہ اپنے جِسم کو تو اپنے شوہر کے لیے سمیٹ کر رکھ سکتی تھی۔


جبکہ داؤد سِکندر اُس کے دِل کے ساتھ ساتھ اُس کے جِسم پہ بھی اپنی مہر لگانا چاہ رہا تھا اُسے اِس وقت داؤد سے گھٹیا کوئی نہیں لگ رہا تھا۔ اُسے بالکُل سمجھ نہیں آتی تھی کہ آخر وہ اِنسان اُس سے چاہتا کیا ہے؟ ایک طرف نفرت اور غُصّے کا اِظہار اور اگلے ہی پل اُس کی قُربت کا خواہاں۔


وہ جِتنا سوچ رہی تھی اُسے اُتنی ہی وحشت ہو رہی تھی۔ آدھا گھنٹا ٹھنڈے پانی میں بھیگتی رہی پِھر وہ باتھ روم سے باہر آئی اور الماری سے کپڑے لے کر چینج کرنے چلی گئی۔


چینج کرنے کے بعد وہ اپنے لمبے بھورے بال سُلجھانے لگی۔ اُسے یقین تھا کہ اُس سے تھپڑ کھانے کے بعد اب داؤد سِکندر اُس کی راہ میں کبھی نہیں آئے گا۔ مگر دِل ہی دِل میں ایک ڈر سا بھی تھا کہ اگر داؤد نے غُصّے میں آکر کُچھ اُلٹا سیدھا کر دیا تو؟


آخر کو وہ ایک مرد تھا جِسے اُس نے تھپڑ مارا تھا وہ اِتنی آسانی سے چُپ تو نہیں بیٹھے گا۔ مگر پِھر وہ اللّٰہ پہ سب کُچھ چھوڑتی مطمئن ہو گئی تھی۔ اب اُس نے سوچ لیا تھا کہ داؤد سِکندر نامی شخص کو وہ کبھی نہیں سوچے گی کہ اِسی میں اُس کی بھلائی تھی۔


***********************


وہ اِس وقت فلیٹ پہ اپنے کمرے میں موجود توڑ پھوڑ کر کے اپنا غُصّہ کم کر۔ے کی کوشش کر رہا تھا۔ اُس کا بس نہ چل رہا تھا کہ وہ معصومہ کا گلا دبا کر اُسے مار دے جِس نے اُس پہ ہاتھ اُٹھانے کی کوشش کی تھی۔ اُس کا گال ابھی تک جل رہا تھا۔


بظاہر نرم و نازُک سی نظر آنے والی اُس لڑکی نے اپنی پوری طاقت سے اپنے اندر کا غُصّہ تھپڑ کی صورت اُس کے گال پہ نِکالا تھا۔ وہ غُصّے سے پاگل ہو رہا تھا۔ کمرے کی ہر چیز توڑ کر کمرے کی صورت بِگاڑ کر وہ بیڈ سے ٹیک لگا کے زمین پہ بیٹھ گیا۔


وہ شاپنگ مال میں کُچھ خریداری کرنے گیا تھا جب اُس نے معصومہ جہانگیر کو وہاں دیکھا تھا پھر وہ اُس کے اور اُس کے ساتھ موجود لڑکی کے پیچھے کھڑا ہو گیا تھا جب اُس نے اپنے پیچھے ایک لڑکی کی آواز سُنی جو اُس کی شادی کا کہہ رہی تھی۔


وہ طنزیہ مُسکراتا معصومہ کا پیچھا کرنے لگا تھا وہ بس یہ جاننا چاہتا تھا کہ اب وہ کِس کو پھنسا کے اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ لیڈیز ٹرائل روم میں اُسے داخل ہوتے دیکھ چُکا تھا وہ بھی جلدی سے اِدھر اُدھر دیکھتا اندر داخل ہوا تاکہ کوئی اُسے لیڈیز ٹرائل روم میں جاتا نہ دیکھ لے دروازہ کُھلا ہوا ہی تھا۔


اُس کا مقصد معصومہ کو ڈرا کے اُس سے سب کُچھ اگلوانا تھا لیکن وہ روایتی مردوں کی طرح سب کُچھ بھول کر اُس کے حُسن کے آگے جُھک گیا تھا جِس کا احساس اُسے اپنے چہرے پہ پڑنے والے تھپڑ سے ہوا تھا وہ اُس کی ہمّت پہ دنگ تھا۔


کہاں وہ اُس کے سامنے زبان نہیں کھول پاتی تھی اور کہاں وہ اُسے تھپڑ مار چُکی تھی۔ پِھر اُس کی زہر خند باتیں سُن کے اُس کا پارہ ساتویں آسمان تک جا پہنچا تھا۔


اُس نے سوچ لیا تھا کہ اُس کی شادی کے دِن وہ اُس کی شادی تُڑوا دے گا۔ اور اُس کی شادی کے دِن ہی اُس کی بارات لوٹ جائے گی پِھر وہ کِسی کو مُنہ دِکھانے اور شادی کرنے کے قابِل نہ رہے گی۔


اُسے پتہ تھا کہ یہ معاشرہ صِرف لڑکیوں کا ہی قصور نِکالتا ہے لڑکوں سے کُچھ نہیں پوچھا جاتا جب معصومہ کے ہاشم جی کی بارات ہی نہیں آئے گی تو وہ شادی کِس سے کرے گی؟" وہ طنزیہ مُسکرایا تھا۔ اب وہ مُطمئن تھا کہ اب چال چلنے کی باری اُس کی ہے۔


***************

وہ ہیڈ کوارٹر میں موجود تھا جب وِشہ چلتی ہوئی اُس کے پاس آئی۔


"آپ کا بازو کیسا ہے پیارے اِنسان؟" وِشہ نے اُس کے کندھے پہ نظریں جمائے پوچھا۔


"ٹھیک ہے۔ آپ کیسی ہیں؟" روحان نے اُس کو غور سے دیکھا۔ جوڑے میں بندھے بال اور آرمی کی یونیفارم میں ملبوس وہ بہت اچھی لگتی تھی۔


"میں بھی ایک دم فِٹ ہوں۔ ویسے آپ کے تو مزے ہیں بھئی۔" وِشہ نے کہا۔


"کیوں میرے کیوں مزے ہیں؟" روحان چونکا۔


"ارے آئے دِن آپ گھر جاتے رہتے ہیں مُجھے تو گھر گئے بھی کِتنا عرصہ ہو گیا۔" اُس کے لہجےچ میں اُداسی تھی۔


"مُجھے کونسا شوق سے بھیجتے ہیں پِچھلی بار چھ مہینوں بعد بھیجا تھا اور اِس بار زخمی ہونے کی وجہ سے۔" روحان نے منہ بنایا تو وہ ہنس پڑی۔


"جاب بھی تو ایسی ہے پِھر۔" وِشہ نے کندھے اُچکائے۔


"ہاں یہ تو ہے۔ خیر شام کو آپ کیا کر رہی ہیں؟" روحان نے پوچھا۔


"آپ کیوں پوچھ رہے ہیں ڈِنر کرانے کا اِرادہ ہے کیا؟" وِشہ نے شرارت سے پوچھا۔


"سوچا جا سکتا ہے۔" روحان نے بے نیازی سے کہا تو وہ اچھل پڑی۔


سچ آپ مُجھے ڈِنر کرائیں گے۔ ہائے مُجھے کوئی چُٹکی کاٹے۔" وِشہ آنکھیں بند کیے دونوں ہاتھوں کا پیالہ بنائے اپنے چہرے پہ رکھتی چہک رہی تھی۔

"ہاں وہ بھی میس میں۔" روحان نے کہہ کر پاس پڑی پینسل اُس کے بازو میں چھبوئی۔


"کیا؟ میس کا کھانا؟ وہ تو روز کھاتی ہوں مُجھے باہر سے ڈِنر کروائیں نا پِھر رحمدِل اِنسان۔" وِشہ نے آنکھیں کھول کر بازو سہلاتے آنکھیں گھما کر کہا۔ جبکہ روحان اُس کی آنکھوں کی حرکت کو ملاحظہ کرتا رہ گیا۔


"ڈنر کرا رہا ہوں یہ کافی نہیں ہے؟" روحان نے اُسے گھورا۔


"کہہ تو ایسے رہے ہیں جیسے اپنے پیسوں کا کِھلائیں گے آپ۔" وِشہ نے منہ بسورا۔


"اب ہر دِن میرے پیسوں کا ہی کھانا ہے۔" وہ بڑبڑایا۔

"اتنی آہستہ مُجھے سُنائی نہیں دیتا۔" وِشہ نے اُسے خود سے بڑبڑاتے دیکھ کر کہا۔


"کُچھ نہیں میں کہہ رہا تھا کہ ڈِنر کو چھوڑیں یہ بتائیں اُس کیس کا کیا بنا جِس میں ہم نے دہشت گرد پکڑے تھے۔" روحان نے بات بدلی۔


"اُنہوں نے آدھا سچ اُگل دیا ہے مطلب جہاں جہاں بم لگائے ہیں وہاں کی لوکیشنز ٹریس کر لی گئیں تھیں اب کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اپنے باس کے بارے میں کُچھ نہیں بتا رہے کافی ٹارچر کیا جا رہا ہے مگر اپنی زبان اب تک نہیں کھولی۔" وِشہ نے بھی سنجیدگی کا لبادہ اوڑھا۔


"ہمم! چلو باقی سب بھی اُگلوا ہی لیں گے۔" روحان نے پُرسوچ انداز میں کہا۔


"اُن کے باس کے بارے میں تو کُچھ نہیں بتایا مگر اُن کے جِس ساتھی کو ہم پکڑ نہیں پائے اُس کا نام بلیک ڈائمنڈ ہے اور وہ اِن کاموں میں سب سے آگے ہے اگر اُس کو پکڑ لیا جائے تو اُن کے باس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے باس کے کافی قریب ہے۔" وِشہ نے باقی کی بات بھی بتائی تو روحان نے سر ہلا دیا۔


"اب تو اور زیادہ کوشش ہو گی اُس کو پکڑنے کی۔ تا کہ اِس گروہ کا تو خاتمہ ہو سکے۔" روحان کہہ کر اُٹھا تو وِشہ بھی اُس کی تقلید میں باہر کی جانب قدم بڑھانے لگی۔


*****************


وہ دیوار کے ساتھ لگا نیچے لٹا ہوا تھا اُس کے پورے جِسم میں ٹیسیں اُٹھ رہیں تھیں اُس کا بس نہ چل رہا تھا کہ وہ کیسے بھی کر کے یہاں سے نِکل جاتا۔ وہ کل سے بھوکا تھا پانی کے سِوا اُس کے حلق میں کُچھ بھی نہیں گیا تھا۔


ہر طرف بے بسی ہی بے بسی تھی۔ وہ ابھی یہاں سے نِکلنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا جب کوئی دورازہ کھول کے اندر داخل ہوا۔ اُس نے نظر اُٹھا کے آنے والے کو دیکھا۔


وہ رومیسہ تھی۔ شرٹ اور جینز میں ملبوس وہ تفاخر سے اُس کے سامنے کُرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی تھی۔


"بہت افسوس ہو رہا ہے تُمہیں اِس حال میں دیکھ کر۔" رومیسہ نے افسوس بھرے لہجے میں کہا تو وہ آہستہ سے اُٹھ کر سیدھا ہو کر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔


"کیوں کر رہی ہو تُم ایسا؟" اُس نے دماغ میں مچلتا سوال پوچھا۔


"میں ایسا بالکُل نہیں کرتی اگر تُم میری باتیں نہ سُنتے۔" رومیسہ نے کہا۔


"تُم مُجھ سے کِسی مقصد کے لیے شادی کرنا چاہتی تھی کیا تھا وہ مقصد؟" اُس نے اگلا سوال پوچھا۔


"میں تُمہیں بتانے کی پابند نہیں ہوں اور وہ بھی تب جب تُم اِس دُنیا سے جانے والے ہو۔" رومیسہ نے استہزائیہ ہنستے کہا۔


"تُمہیں مُجھے مار کر کیا مِلے گا آخر تُم چاہتی کیا ہو؟" وہ جھنجھلایا تھا۔


"میں تُمہاری موت چاہتی ہوں کیونکہ میں جانتی ہوں تُم پاکستانی مرد بہت چالاک ہوتے ہو۔ اگر میں نے تُمہیں چھوڑ دیا تو تُم میرے لیے خطرہ بن سکتے ہو۔ اِس لیے تُمہیں زندہ چھوڑنے کا رِسک نہیں لے سکتی میں۔" رومسیہ نے کہتے تالی بجائی تو وہی تین دیو ہیکل آدمی اندر آئے۔ رومیسہ نے اُنہیں اِشارہ کیا تو اُن میں سے ایک نے جیب سے اِنجیکشن نِکال کر اُس میں کوئی لیکوئیڈ بھرا۔


داؤد کی آنکھیں پھیل گئیں وہ نشے کا انجیکشن تھا۔ اور اُسے لگانے کا مطلب وہ اچھی طرح جانتا تھا۔


"رومیسہ! یہ تُم کیا کر رہی ہو؟ آخر کیا بِگاڑا ہے میں نے تُمہارا؟ مُجھے چھوڑو۔" وہ چیخ کر کہتا خود کو اُن آدمیوں سے چُھڑانے کی کوشش کر رہا تھا جنہوں نے اُسے سختی سے پکڑ رکھا تھا۔


رومیسہ چہرے پہ سخت تاثرات لیے اُسے چیختا دیکھ رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک آدمی نے اُسے انجیکشن لگا دیا تھا۔ داؤد کی چیخیں مدھم پڑنے لگیں تھیں۔ پِھر وہ مکمل بے ہوش ہو گیا تھا۔ ایک آدمی باہر گیا اور جب وہ واپس آیا تو اُس کے ہاتھ میں شراب کی دو بوتلیں تھیں۔


اُس نے داؤد کے چہرے کو پکڑ کر اُس کا منہ کھولا تو دوسرے آدمی نے اُس کے منہ میں شراب انڈیلنا شروع کی۔ آدھی شراب اُس کے حلق سے اُترتی آدھی باہر گِرنے لگی۔ دونوں بوتلیں خالی ہوتے ہی رومیسہ نے اُن لوگوں کو باہر جانے کا اِشارہ کیا تو وہ باہر جا کے کھڑے ہو گئے۔


"اگر میرے ساتھ وہ سب کُچھ نہیں ہوتا تو میں آج یہ سب نہیں کر رہی ہوتی۔ میں بھی ایک عام لڑکی کی طرح محبّت کرتی، میری بھی شادی ہوتی، میں بھی ہنسی خوشی زندگی گُزارتی لیکن صِرف تُم نام نہاد مردوں کی وجہ سے میں آج ایسی ہوں۔ تُم اور تُمہارے لوگوں کی وجہ سے آج میں یوں در در کی ٹھوکروں کی زد میں ہوں میں تُمہارے ساتھ ایسا کبھی نہ کرتی اگر تُم میرے لیے خطرہ نہ بنتے اور رومیسہ کو اپنے پیچھے خطرے چھوڑنے کی عادت نہیں ہے۔" رومیسہ نے اپنی آنکھوں میں آئی نمی صاف کی اور چہرے پہ سرد و سپاٹ تاثرات سجاتی کھڑی ہو گئی۔


پِھر باہر جا کے اُس نے اُن آدمیوں کو کُچھ ہدایت کی اور وہاں سے نِکلتی چلی گئی۔ اُس کے جانے کے بعد اُنہوں نے داؤد کے بے ہوش وجود کو اُٹھایا اور گاڑی کی فرنٹ سیٹ پہ بِٹھا دیا اور اُن میں سے ایک آدمی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ کے گاڑی سٹارٹ کرتا وہاں سے نِکل گیا۔ جبکہ باقی دو بھی اُس گھر کو لاک کر کے وہاں سے نِکلتے چلے گئے۔


**********************


دِن گُزرنے کا پتہ بھی نہیں چلا تھا اور شادی کا دِن آپہنچا تھا آج معصومہ کی مہندی تھی۔ اُس کی دوبارہ ہاشم سے مُلاقات نہیں ہوئی تھی اور نہ ہاشم نے دوبارہ اُس سے مِلنے کی کوشش کی تھی۔ معصومہ کو اب ویسے بھی باہر نکلنے سے ڈر لگنے لگا تھا کہ کہیں سے داؤد سِکندر سے اُس کا سامنا نہ ہو جائے۔


ہر طرف چہل پہل تھی مشعل کے ننیھال میں سے سارے رِشتے دار وہاں موجود تھے۔


ددھیال میں تو کوئی تھا نہیں جو وہاں موجود ہوتا۔ مشعل کی ساری کزنز لاونج میں ڈھولکی رکھے بیٹھیں تھیں جبکہ لڑکے اور مرد حضرات باہر صحن میں تھے۔ مہندی کی تقریب رات نو بجے رات کے کھانے کے بعد شروع کی گئی تھی۔


معصومہ لڑکیوں کے جُھرمٹ سے تھوڑا ہٹ کر بیٹھی تھی اُس نے پیلے رنگ کا لہنگا زیب تن کر رکھا تھا موتیے کے پھولوں کی بنی جیولری پہنے بغیر میک اپ کے سادگی میں بھی اُس کا معصوم نین نقوش والا چہرہ بہت دِلکش لگ رہا تھا۔ مہندی کا فنکشن علیحدہ رکھا گیا تھا۔ اِس لیے ہاشم لوگوں کی فیملی وہاں موجود نہیں تھی۔


اُس کے ایک طرف آن بیٹھی تھی جِس نے خوبصورت سی پیلے رنگ کی فراک پہن رکھی تھی۔ جبکہ دوسری طرف ایک لڑکی بیٹھی مہندی لگا رہی تھی۔ مشعل لڑکیوں کے ساتھ مِل کر ڈھولکی بجا رہی تھی اُسے ویسے بھی دھوم دھڑکا اور ہلّا گُلاّ بہت پسند تھا۔ معصومہ نے کل ہوئے واقعے کے بارے میں آن کو نہیں بتایا تھا کہ وہ اُس بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔


آن اُٹھ کر اُس کی مختلف زاویوں سے تصویریں بنا رہی تھی۔ جبکہ معصومہ اُس کی طرف دیکھتی سادگی سے مُسکرا رہی تھی آن نے ہاشم کی تصویر دیکھی تھی اُسے بھی وہ معصومہ کے لیے پسند آیا تھا۔ وہ دِل سے معصومہ کی خوشیوں کے لیے دُعا گو تھی۔


اُس کے ساتھ شاہینہ بیگم بھی آئیں تھیں جِس پہ فرزانہ بیگم نے منہ بنایا تھا وہ ابھی اِس بات سے بے خبر تھیں کہ وجدان اور آن کا رِشتہ پکّا ہو چُکا یے۔ ماہین بھی لڑکیوں کے جُھرمٹ میں ساتھ بیٹھی سُر لگا رہی تھی۔


ارحم اور وہ کل ہی ہنی مون سے واپس آئے تھے اور آتے ہی وہ معصومہ کی شادی کے بارے میں سُن کر شاکڈ ہوئی تھی۔ مگر ُِھر فرزانہ بیگم سے ہاشم اور اُس کی فیملی کے بارے میں جان کر وہ مطمئن ہوئی تھی۔ ارحم باہر موجود تھا جبکہ وجدان آج نہیں آیا تھا۔


کُچھ دیر تک معصومہ کو مہندی لگانے کے بعد سجے ہوئے صوفے پہ بٹھا دیا گیا پھر سبھی لڑکیاں اور خواتین باری باری رسم کرنے لگیں۔ شاہینہ بیگم نے بھی رسم کرنے کے بعد اُس پہ پیسے وارے اور اُسے دُعائیں دیتے اُٹھ گئیں۔ رات ایک بجے کے قریب مہندی کی تقریب ختم ہوئی تو معصومہ کو اُس کے کمرے میں بھیج دیا گیا۔


کمرے میں آ کے اُس نے پھولوں کی جیولری اُتاری اور منہ اور مہندی والے ہاتھ دھونے چلی گئی اُس کی مہندی سوکھ چُکی تھی۔ ہاتھ دھونے کے بعد وہ واپس کمرے میں آئی اور بیڈ پر بیٹھی اور اپنے ہاتھوں پہ سجی مہندی سے بنے بیل بوٹوں کو دیکھنے لگی۔


اُس کی مہندی کا رنگ اِتنا گاڑھا نہیں آیا تھا وہ بے تاثر نظروں سے مہندی کے ہلکے رنگ کو دیکھتی رہی ایک طرف ہاشم کا نام لِکھا ہوا تھا۔


"کیا دیکھ رہی ہو؟" وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھنے میں اِتنی مگن تھی کہ اُسے آن کے آنے کا اندازہ بھی نہیں ہوا۔


"کُچھ نہیں دیکھ رہی تھی کہ میری زندگی کی طرح میری مہندی کا رنگ بھی پھیکا پڑ گیا ہے۔" معصومہ نے افسردگی سے کہا۔


"ایسا انہیں ہے مومو! تُمہارے زندگی میں بے شمار رنگ بھریں گے تُم دیکھنا تُم بہت خوش رہو گی۔ اور مہندی کے رنگ کا کیا ہے شاید مہندی ہی خراب ہو۔ تُم اِتنا مت سوچو۔ آرام کرو۔" آن نے اُس کا ہاتھ سہلاتے کہا اور اُسے لٹا دیا۔ پِھر خود بھی باتھ روم جا کر کپڑے چینج کیے اور واپس اُس کے قریب آکر بیڈ کی ایک سائیڈ پہ لیٹ گئی۔ وہ معصومہ کے کمرے میں ہی رُکی تھی جبکہ اُس کی ماما واپس چلیں گئیں تھیں۔


" وجدان بھائی نہیں آئے آج؟" معصومہ نے پوچھا۔


"وہ اُنہیں کُچھ کام تھا تو بس اِسی لیے۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ کل اور پرسوں لازمی آئیں گے۔" آن نے کہا تو وہ مُسکرا دی۔


"اب تو تُمہاری بھی شادی ہو جائے گی نا؟" معصومہ نے اُسے چھیڑنا چاہا۔


"ایویں ہو جائے گی ماما نے کہا ہے کہ آپی کے آنے کے بعد اُن کی اور میری شادی اکٹھی ہو گی۔" آن نے آنکھیں گُھما کر کہا۔۔


"مطلب تُم میرے بھائی کو اِنتظار کی سولی پہ لٹکانے والی ہو؟" معصومہ نے خفگی سے پوچھا۔


"بھئی اب تُمہارے بھائی محبّت کرتے ہیں مُجھ سے۔ اِتنا اِنتظار تو کر ہی سکتے ہیں۔" آن نے شرارت سے کہا تو وہ بے اختیار ہنس دی۔

"بہت چالاک ہو تُم۔" معصومہ نے کہا۔


"ہاں معصوم بس تُم ہی ہو۔" آن نے منہ بسورا۔


"نہیں تُم بھی ہو۔" معصومہ نے محبّت سے کہا تو وہ مسکرا دی۔


"چلو اب سو جاؤ تا کہ کل تُمہارا چہرہ فریش لگے۔" آن نے کہا تو وہ جھینپتی کروٹ بدل کر سونے کی کوشش کرنے لگی۔ مگر آنکھیں بند کرتے ہی اُس ستمگر کی سُلر نیلی آنکھیں ذہن کے پردے پہ لہرائیں مگر پِھر وہ سر جھٹکتی ہر خیال سے آزاد ہوتی سونے کی کوشش رکنے لگی۔


***********************


اگلا دِن اپنے آنگن میں بہت سی روشنیاں لے کے طلوع ہوا تھا۔ موسم دِلکش بھی تھا اور حسین بھی۔ ہوائیں لہراتیں اٹکھلیاں کر رہیں تھیں۔ ہر چیز جیسے خوشی سے جھوم رہی تھی۔ ہلکےطہلکے بادل چھائے تھے موسم بدل رہا تھا جہاں گرمیوں کی شدّت کم ہو رہی تھی وہیں سردیوں کا موسم ابھی شروع ہو رہا تھا۔


صُبح سے ہی گھر میں تیاریاں شروع ہو چُکیں تھیں۔ بارات کا فنکشن تین بجے میرج ہال میں رکھا گیا تھا۔ روحان تو موجود نہِیں آیا تھا مگر وجدان اور ارحم بیٹے ہونے کی ہر ذمہ داری نِبھا رہے تھے آمنہ بیگم اور جمال آفندی بھی صُبح دس بجے کے قریب آگئے تھے۔


وجدان اور ارحم نے ہال کی مینجمینٹ اور سجاوٹ کا ذمہ اپنے سر لیا تھا اور وہ وہاں مصروف تھے جبکہ آمنہ بیگم معصومہ سے مِل کر بہت خوش تھیں معصومہ بھی بہت محبّت سے اُن سے مِلی تھی۔


شاہینہ بیگم اور انجم صاحب سیدھا ہال میں آنے والے تھے۔ جبکہ جمال صاحب معصومہ کے سر پہ شفقت سے ہاتھ رکھ کے رفیق صاحب کے ساتھ باہر بیٹھے تھے۔ بارہ بجے کے قریب سب ہی تیار ہونا شروع ہو گئے تھے جبکہ آن معصومہ کے ساتھ پالر جا چُکی تھی۔


ایک بجے کے قریب سب گھر سے نِکلے تھے اور ارینج کی گئی گاڑیوں میں بیٹھ کے ہال پہنچے تھے۔ ہال کی سجاوٹ بہت خوبصورت انداز میں کی گئی تھی۔ وجدان اور ارحم نے واقعی بہت خوبصورت انداز میں ہال کی سجاوٹ کو مینیج کیا تھا۔


آن معصومہ کو لے کر پالر سے آ چُکی تھی۔ معصومہ نے چادر اوڑھ رکھی تھی اور سر پہ گھونگھٹ ڈالا ہوا تھا۔ آن اُسے سہارا دیتی برائیڈل روم میں لے گئی۔ وہاں جا کر اُس نے معصومہ کا گھونگھٹ اُتارا اور اُسے سکون سے بیٹھنے کا کہا۔


ڈیپ ریڈ کلر کے برائیڈل ڈریس میں معصومہ بہت حسین لگ رہی تھی۔ نفاست سے کیا گیا میک اپ اُس کے چہرے کی خوبصورتی میں اِضافہ کر رہا تھا بالوں کو جوڑے میں قید کیا گیا تھا ناک میں پہنی نتھ جِس کی گولڈن زنجیر اُس کے بالوں تک جا رہی تھی اُس کے ناک کو ہلکا ہلکا سُرخ کر رہی تھی مگر وہ برداشت کیے بیٹھی تھی۔


"مُجھے بہت ڈر لگ رہا ہے آنو! دِل میں گھبراہٹ سی ہو رہی ہے۔" معصومہ نے کانپتے لہجے میں کہا تو آن اُس کے پاس ہی بیٹھ گئی۔


"تُم پریشان مت ہو۔ شادی سے پہلے شاید ایسا ہی ہوتا ہے بی ریلیکس۔" آن نے اُسے تسلی دی۔


"اچھا تُم یہاں بیٹھو میں باہر دیکھ کے آتی ہوں۔" آن نے کہا اور معصومہ کو وہیں چھوڑ کر باہر کی جانِب بڑھ گئی۔ وہ ابھی باہر گئی ہی تھی جب کوئی اندر داخل ہوا۔


"کیسی ہے میری بیٹی؟" آنے والے نے پوچھا تو معصومہ چونک کر متوجّہ ہوئی۔


"بابا جان!" وہ خوشی سے کہتی اُن کے گلے لگی۔

"آج تو میں وقت پہ آ گیا ہوں بیٹا!" بابا جان نے اُس کے سر پہ ہاتھ رکھتے کہا۔


"جی بابا جان! بہت شُکریہ۔" معصومہ نے دھیمے سے کہا تو وہ مُسکرا دئیے۔


"اب آپ یہاں بیٹھو میں باہر چلتا ہوں تا کہ اپنی بیٹی کے سسرال والوں کو خوش آمدید تو کہہ سکوں۔" بابا جان نے کہا تو وہ مُسکراتی صوفے پہ بیٹھ گئی وہ بھی بایر چلے گئے۔ جبکہ معصومہ آنے والے وقت کے بارے میں سوچتی آنکھیں موندتی صوفے کی پُشت سے ٹیک لگا گئی۔


*******************


داؤد اِس وقت اپنے فلیٹ میں موجود تھا وہ آج آفس نہیں گیا تھا اُس کا وجدان اور ارحم سے کل سے کونٹیکٹ نہیں ہوا تھا نہ ہی وہ یہ جانتا تھا کہ وہ آفس آئے یا نہیں۔


اُسے نہیں پتہ تھا کہ آج معصومہ کی شادی ہے۔ پہلے غُصّے میں اُس نے سوچا تھا کہ وہ معصومہ سے اپنا بدلہ لے گا جو اُس نے داؤد کے ساتھ کیا تھا اُس کا حِساب لے مگر پِھر اُس نے یہ سوچ کر اپنا اِرادہ ترک کر دیا کہ معصومہ نے رومیسہ بن کر اُس کے ساتھ جو کیا اب وہ وہی سب کُچھ اُس کے ساتھ کرتا تو دونوں میں کیا فرق رہ جاتا؟


اُس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اُسے ایک بُرا خواب اور بُرا حادثہ سمجھ کر بھول جائے گا۔ اُس کے کیے کی سزا خود خُدا اُسے دے گا۔ اُس کے دِل میں جو پسندیدگی جاگنے لگی تھی وہ تو اُس حادثے کے ساتھ ہی ختم ہو چُکی تھی۔


اور اب جو نفرت کا رِشتہ باقی تھا وہ داؤد شاید چاہ کے بھی ختم نہیں کر سکتا تھا کہ معاف کرنا بہت مُشکِل ہوتا ہے۔ اُس نے دِل میں پکّا اِرادہ کر لیا تھا کہ وہ اُس راہ میں کبھی نہیں جائے گا جہاں سے معصومہ جہانگیر کا سایہ بھی گُزرنے کا خدشہ ہو۔


وہ اِس وقت بھی معصومہ کے بارے میں سوچ رہا تھا اگر وہ تب سب کُچھ نہ کرتی تو شاید آج وہ اُس کی بیوی ہوتی۔ لیکِن آج تک اُسے رومیسہ کا مقصد سمجھ نہیں آیا تھا کہ آخر وہ چاہتی کیا تھی۔ معصومہ تو اُسے پہچاننے سے ہی عاری تھی کُجا کہ وہ کُچھ بتاتی۔ وہ پہ تلخی سے مُسکرایا اور سر جھٹکتا صوفے پہ بیٹھتا ٹی وی لگا کے دیکھنے لگا۔


********************

آن معصومہ کو چھوڑ کر باہر آئی تو نظر سامنے آمنہ بیگم اور شاہینہ بیگم پر پڑی۔ وہ مُسکراتی ہوئی اُن کے پاس پہنچی اور آمنہ بیگم کو سلام کرنے اور اُن دونوں سے مِلنے کے بعد اُن کے پاس ہی بیٹھ گئی۔


آمنہ بیگم اور جمال آفندی کُچھ دیر پہلے ہی پہنچے تھے۔ جبکہ شاہینہ بیگم اور انجم صاحب ابھی ہی آئے تھے۔


"میری بیٹی تو بہت پیاری لگ رہی ہے آج۔" آمنہ بیگم نے آن کا روشن چہرہ دیکھ کے مُسکراتے کہا۔

"شُکریہ آنٹی۔" آن نے جھینپ کر کہا۔


"ارے یہ آنٹی وانٹی کا تکلف چھوڑو۔ جیسے وجدان مُجھے ماما کہتا ہے تُم بھی مُجھے ماما کہا کرو اب تو میں تُمہاری ماں ہی ہوں۔" آمنہ بیگم نے کہا۔


"جی آنٹی میرا مطلب ہے ماما!" آن نے گڑبڑا کر تصیح کرتے اثبات میں سر ہلا دیا۔


شاباش! یہ دانی پتہ نہیں کہاں ہے جب سے آئی ہوں دِکھ ہی نہیں رہا۔" آمنہ بیگم نے اِدھر اُدھر نظریں گُھما کر کہا۔


"یہیں تھے ماما! میں بُلا کر لاتی ہوں۔" آن کہہ کر کُرسی گھسیٹتی اُٹھ کھڑی ہوئی اور وجدان کو ڈھونڈنے لگی جو جلد ہی اُسے نظر آگیا وہ قدم اُٹھاتی اُس کی طرف بڑھنے لگی۔


وجدان ارحم سے کوئی بات کر رہا تھا ارحم بات ختم کر کے چلا گیا تو وہ پلٹا اور نِگاہ سیدھی آن کے وجود سے ٹکرائی جو سہج سہج کر قدم اُٹھاتی شاید اُسی کی طرف آ رہی تھی۔ ٹی پِنک اور گولڈن کلر کے شرارے میں ملبوس سجی سنوری کُھلے بالوں اور خوبصورت مُکھڑے کے ساتھ وہ اُسے اپنے دِل میں اُترتی محسوس ہوئی۔


"وجدان! ماما آپ کو بُلا رہیں ہیں کب سے وہ آپ کو ہی ڈھونڈ رہیں تھیں آپ اُن سے مِل لیں۔" آن کہہ کر پلٹنے لگی جب اُس کی کلائی وجدان کے ہاتھ میں آئی۔


"تُم مُجھے میرے نام میں سے "و"اور "د"ہٹا کر پُکارا کرو تو مُجھے زیادہ اچھا لگے گا۔" وجدان نے آنکھوں میں شرارت لیے کہا تو وہ ناسمجھی سے اُسے دیکھنے لگی مگر جب غور کرنے پر بات سمجھ آئی تو وہ بے اختیار سُرخ ہوئی۔


"وجدان آپ بھی نا! چلیں ماما بُلا رہیں ہیں۔" وہ جھینپ کر اپنی کلائی چُھڑاتی اُس کا بازو پکڑے کھینچ کر لے جانے لگی جب فرزانہ بیگم وہاں آئیں۔


"یہ کیا طریقہ ہے؟ لڑکیوں کو مناسب نہیں لگتا یوں کِسی غیر مرد کے بازو سے یوں پکڑ کے کھینچنا۔" فرزانہ بیگم کی تلخی سے کہی بات پہ جہاں وجدان حیران ہوا وہیں آن شرمندہ ہوئی۔


"آپ کیا کہنا چاہتی ہیں آنٹی؟" وجدان نے سنجیدگی سے پوچھا۔


"ارے بیٹا! یہ کوئی طریقہ ہوا۔ یوں کِسی غیر مرد کو بازو سے پکڑ کر کھینچ رہی ہے جیسے پتہ نہیں کِتنا گہرا رِشتہ ہو۔ اب میری مشعل کو ہی دیکھ لو اِتنی سادہ اور بھولی ہے کہ کبھی کِسی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ آج کل کی لڑکیاں تو پتہ نہیں توبہ توبہ۔۔۔۔۔۔۔" فرزانہ بیگم آن کو گھورتے کہہ رہیں تھیں جِس نے ابھی بھی وجدان کا بازو تھام رکھا تھا۔


"آپ بالکُل ٹھیک کہہ رہیں ہیں آنٹی جی! آج کل کی لڑکیاں واقعی ہی ایسی باتوں کا خیال نہیں رکھتیں مگر آن کو پورا حق ہے مُجھ پہ حق جتانے کا۔ آخر میرے سارے حق اِسی کے پاس ہی تو ہیں۔" وجدان نے اُن کی بات کاٹتے کہا۔


"کیا مطلب؟" فرزانہ یگم نے اچھنبے سے پوچھا۔


"مطلب یہ کہ آن اور میں ایک دوسرے کے لیے غیر نہیں ہیں۔ ہماری منگنی ہو چُکی ہے اور جلد ہی شادی بھی ہونے والی ہے اور آپ فِکر مت کریں میں آپ کو اپنی شادی پہ ضرور بُلاوں گا۔" وجدان نے آن کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیتے فرزانہ بیگم کے حیرت زدہ چہرے پہ نظریں ڈالتے کہا تو وہ آگے سے کُچھ بول نہیں پائیں۔


وہ کل سے ہی آمنہ بیگم اور شاہینہ بیگم کو ساتھ ساتھ دیکھ کر حیران تھیں مگر پِھر اُنہوں نے نظر انداز کر دیا تھا مگر اب وجدان کی زُبانی اُس کی منگنی کی بات سُن کر اُنہیں دھچکا ہی لگا تھا کہاں وہ اپنی مشعل کے لیے وجدان کو پسند کیے بیٹھیں تھیں اور کہاں وہ منگنی بھی کروا چُکا تھا۔


وجدان اُن کو خاموش دیکھ کر آن کا ہاتھ تھامے وہاں سے اپنی ماں اور ساس کے پاس چل دیا۔


********************


ساڑھے تین ہو چُکے تھے سبھی بارات کے ویلکم کے لیے کھڑے تھے۔ لڑکے والوں کو تین بجے کا ٹائم دیا گیا تھا مگر اب ساڑھے تین ہو رہے تھے بارات نہیں آئی تھی۔ رفیق صاحب کو فِکر ہونے لگی تھی مگر پھر جمال آفندی، انجم ہمدانی اور بابا جان کے تسلی دینے پر وہ سنبھل گئے کہ بارات آنے میں دیر سویر ہو ہی جاتی ہے۔ بابا جان رفیق صاحب سے تو پہلے ہی مِل چُکے تھے اِس لیے بے تکلفی سے اُن سے بات کر رہے تھے۔


********************


سبھی لڑکیاں جو ہاتھوں میں تازہ پھولوں کی پلیٹیں اُٹھائے بارات کے ویلکم کے لیے کھڑیں تھیں اب تھک ہار کر ہال میں لگی کُرسیوں پر بیٹھ چُکیں تھیں۔ اب تو اُن کے ہلیز میں قید پاوں بھی دُکھنے لگے تھے۔ پانچ بج چُکے تھے مگر بارات کا کہیں کوئی پتہ نہیں تھا۔


ہر گُزرتے لمحے کے ساتھ رفیق صاحب کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ کئی بار وہ مِسز اور مِسٹر نیاز کا فون ٹرائی کر چُکے تھے مگر کِسی نے فون نہیں اُٹھایا تھا تھک ہار کے وہ ہاشم کا فون ٹرائے کرنے لگے تھے مگر اُس کا فون بھی بند جا رہا تھا۔


سب گھر والے پریشان سے کھڑے تھے ارحم، وجدان، ماہین، مشعل سبھی رفیق صاحب اور فرزانہ بیگم کے گِرد پریشان چہرے لیے کھڑے تھے اُنہوں نے لڑکے والوں سے ہر ممکن حد تک رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر کِسی سے بھی رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔


رفیق صاحب کا دِل بیٹھا جا رہا تھا آج معصومہ کی بارات نہ آنے کا مطلب تھا ہمیشہ کے لیے معصومہ کے دامن پہ داغ کا لگ جانا۔ وہ اُس معاشرے میں رہتے تھے جہاں یہ معاشرہ صِرف لڑکی کا قصور نِکالتا ہے کہ لڑکی کا ہی کوئی قصور ہو گا جو بارات ہی نہیں آئی۔ رفیق صاحب کِس کِس کا منہ بند کرتے۔


بابا جان بھی ایک طرف بیٹھے سب کُچھ پریشانی سے دیکھ رہے تھے۔ آن کو وجدان سب بتا چُکا تھا وہ اندر معصومہ کے پاس تھی۔


"آنو! کیا ہوا؟ دو گھنٹے ہوگئے یہاں آئے ہوئے مگر ابھی تک بارات کیوں نہیں آئی؟" معصومہ نے تھکے تھکے سے لہجے میں اِستفسار کیا۔


"کُچھ نہیں بس آ جاتی ہے بارات۔ شاید کُچھ مسلہ ہو گیا ہے تُم فِکر مت کرو آنے ہی والے ہیں۔" آن نے نظریں چُراتے کہا اور اُس کا دوپٹہ سیدھا کرنے لگی۔


"پِھر تُم اِتنی پریشان کیوں ہو؟" معصومہ نے اُس کے پریشان چہرے پہ نظریں دوڑاتے کہا۔


"نہیں تو میں تو نہیں پریشان۔" آن نے جبراً مسکراتے کہا۔


"میں تُمہارے ہر رنگ کو پہچانتی ہوں۔ بیسٹ فرینڈ ہو تُم میری۔ اب بتاؤ مُجھے کہ کیا چُھپا رہی ہو؟" معصومہ نے کہا۔


"مومو! وو وہ بارات نہیں آئی ابھی تک۔ دو گھنٹے سے زیادہ وقت ہو گیا ہے اب تک آ جانی چاہیے تھی بارات۔ مگر وہ ابھی تک نہیں آئے فون بھی کر کے دیکھ چُکے ہیں مگر اُن میں سے کوئی فون بھی نہیں اُٹھا رہا۔" آن نے کہا اُس کی آنکھوں میں نمی چھانے لگی تھی۔


"اا اب کیا ہو گا؟ اا اگر بارات نہیں آئی تو؟" معصومہ نے کانپتے لہجے میں پوچھا۔ وہ ایک لڑکی تھی اور اِتنی ناسمجھ نہیں تھی کہ بارات نہ آنے کے بعد اُس کو مستقبل میں سُنی جانے والی باتوں کی سمجھ نہ ہوتی۔


"تُم فِکر مت کرو سب ٹھیک ہو جائے گا ہاں۔ رونا نہیں۔ وجدان اور ارحم بھائی جا رہے ہیں پتہ کرنے۔" آن نے اُس کا ہاتھ سہلاتے کہا جو ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا۔ آن کی بات پہ وہ اپنے آنسو روکنے کی کوشش کرنے لگی۔


*****************


وجدان اور ارحم ہاشم والوں کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ رفیق صاحب تو ایک طرف ڈھے سے گئے تھے اُن میں اِتنی ہمّت بھی نہیں تھی کہ معصومہ کو جا کے تسلّی دے پاتے۔ آخر کو یہ اُن کی ہی پسند کا لایا ہوا رِشتہ تھا۔ روحان بھی نہیں تھا جو اُنہیں سنبھال پاتا۔ اُس کی جگہ ارحم اور وجدان ہی سنبھال رہے تھے اور اب بھی وہی ہاشم والوں کی طرف روانہ ہوئے تھے۔


فرزانہ بیگم افسردگی بھرے ماحول کو دیکھتی کڑھ کر برائیڈل روم کی طرف بڑھیں تھیں۔ روم کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئیں اور شرر بار نظروں سے معصومہ کو گھورنے لگیں۔


"پتہ نہیں کِس منحوس گھڑی میں پیدا ہوئی تھی تُم جو آج تُمہاری وجہ سے یہ دِن دیکھنا پڑ رہا ہے ہمیں۔" فرزانہ بیگم نے معصومہ کے چہرے کو گھورتے کہا تو وہ ناسمجھی سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ پہلے ہی پریشان تھی اب فرزانہ بیگم کی بات سُن کے وہ اُلجھ کر رہ گئی تھی۔


"آنٹی یہ آپ کیا کہہ رہیں ہیں؟ اِس میں معصومہ کا کیا قصور ہے؟ اُس نے تو نہیں کہا تھا نا کہ اُس کی بارات نہ آئے۔" آن نے اُنہِیں ٹوکا تھا۔


"اِس کا ہی قصور ہے یہ ہے ہی منحوس۔ اِس کے پیدا ہوتے ہی اِسکے ماں باپ مر گئے ۔ جب سے ہمارے گھر آئی ہے تب سے ہمارے گھر کا سُکھ اور چین لُٹ گیا یے اور اب جب اِس کا فرض ادا کر رہے تھے ہم تو اِس کی منحوسیت کی وجہ سے آج اِس کی بارار بھی نہیں آئی۔" فرزانہ بیگم معصومہ کو جنجھوڑتے ہوئے بولیں کہ اُس کا دوپٹہ کھینچنے سے اُس کے سر میں لگیں پِنیں بھی کھینچی گئیں جِس کی وجہ سے اُس کے بالوں میں کھنچاو کی وجہ سے ایکدم اُس کے سر میں ٹیس سی اُٹھی تھی اور وہ کراہ کر رہ گئی تھی۔


"آنٹی جی اِس میں معصومہ کا نہیں آپ کی سوچ کا قصور ہے جو آپ معصومہ کو یہ سب کہہ رہیں ہیں یہ سب معصومہ کی وجہ سے نہیں ہو رہا بلکہ قِسمت میں ایسے ہی لِکھ دیا گیا تھا اور یہ بات آپ کو سمجھ نہیں آئے گی۔" آن نے معصومہ کو اپنے پیچھے کرتے کہا معصومہ کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔


"ہاں تُم تو یہی کہو گی آخر کو تُمہاری دوست ہے یہ تُم بھی ایسی ہی ہو گی ہننہ۔" فرزانہ بیگم آن کو گھورتے باہر نِکل گئیں تھیں جبکہ آن معصومہ کو کندھے سے لگائے اُسے چُپ کروانے لگی تھی۔


وجدان اور ارحم کے باہر نِکلتے ہی نیاز صاحب کا فون آیا تھا جِس میں اُنہوں نے ہاشم کی گُمشُدگی کی اِطلاع دی تھی جِس پر وہ سب پریشان ہوئے بیٹھے تھے اور رفیق صاحب سے معزرت کر لی تھی کہ وہ بارات نہیں لا سکتے ہاشم کا کُچھ پتہ نہیں ہے کہ وہ کِس حال میں ہے۔


اُن کی بات سُن کے بابا جان نے رفیق صاحب سے بات کر کے ایک حل نِکالا تھا اور رفیق صاحب اُن کے احسان مند ہوتے اُن کی بات مان گئے تھے آخر کو اُن کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔


پِھر آدھے گھنٹے کے اندر اندر بابا صاحب نے معصومہ کی شادی کے لیے دُلہے کا اِنتظام کر دیا تھا رفیق صاحب کو بابا جان پہ پورا یقین تھا کہ اُن جیسا بارُعب اور پُرشفقت اِنسان کبھی کِسی کے ساتھ غلط کر ہی نہیں سکتا۔ خُدا کے بعد اُنہوں نے معصومہ کی زندگی کا فیصلہ بابا جان پہ چھوڑ دیا تھا۔


معصومہ اندر بیٹھی باہر ہونے والی کاروائی سے انجان تھی اور انجان تو آن وجدان اور ارحم بھی تھے کہ معصومہ کی شادی ہاشم کے عِلاوہ کِسی اور سے ہونے جا رہی ہے۔


********************


رفیق صاحب برائیڈل روم میں داخل ہوئے تھے اُن کی نظریں سامنے بیٹھی دُلہن بنی معصومہ پہ پڑی تھیں۔ اُس کے معصوم چہرے پہ معصومیت کے ساتھ پریشانی بھی تھی۔ وہ بے اختیار آگے بڑھتے اُس کے سر پہ ہاتھ رکھ گئے۔


"مُجھے معاف کر دو بیٹا! میری پسند بہت غلط نِکل آئی۔ ہاشم بارات لے کر نہیں آرہا۔" اُن کی بات سُن کے معصومہ اُن کے کندھے سے لگی رونے لگی۔


"لیکن میں نے تُمہاری بہتری کے لیے ایک اور فیصلہ کیا ہے۔ مُجھے یقین ہے کہ تُم میری بات ضرور مانو گی اِس کے عِلاوہ ہمارے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ آج تُمہارا نِکاح ہاشم سے نہیں کِسی اور سے ہو گا اور مُجھے یقین ہے کہ تُم اِنکار نہیں کرو گی۔" رفیق صاحب نے کہا تو معصومہ پھٹی آنکھوں سے اُن کو دیکھنے لگی۔ پہلے داؤد پھر ہاشم اور اب کوئی اور؟ مگر اب یہ کون تھا جِس کے نصیب میں وہ لِکھی جانے والی تھی۔


آن اُس کی حالت سمجھتی اُس کا ہاتھ تھامتی اُسے حوصلہ دینے لگی۔ معصومہ نے ڈبڈبائی آنکھوں سے آن کو دیکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔


رفیق صاحب باہر جا چُکے تھے پِھر کُچھ دیر بعد وہ اندر آئے اور معصومہ کو گھونگھٹ اوڑھنے کا کہا کہ مولوی صاحب نِکاح پڑھانے آ رہے ہیں۔ آن نے اُس کا چہرہ گھونگھٹ کی اوٹ میں چُھپا دیا۔ مولوی صاحب کے ساتھ کُچھ گواہان بھی تھے جِن میں بابا جان بھی شامل تھے۔ مولوی صاحب نے نِکاح پڑھانا شروع کیا۔


معصومہ غائب دماغی سے بیٹھی تھی اُس کے حواس گُم ہو گئے تھے وہ جِتنا سنبھلنے کی کوشش کرتی تھی زندگی اُس سے اُتنے ہی اِمتحان لینے پہ تُل جاتی تھی۔ مولوی صاحب کے پوچھنے ہہ بھی جب معصومہ نے کوئی جواب نہ دیا تو آن نے اُس کا کندھا ہلایا تو معصومہ ہوش میں آئی اور تین بار قبول ہے کہہ کر خود کو ایک اجنبی کے نام کر دیا جِس کے بارے میں کُچھ بھی نہیں جانتی تھی خیر جانتی تو ہاشم کے بارے میں بھی نہ تھی مگر ہاشم کو تو اُس نے دیکھ رکھا تھا جبکہ اب جِس کے ساتھ وہ ساری زندگی کا رِشتہ جوڑ چُکی تھی اُس کو تو وہ دیکھ بھی نہیں سکی تھی۔


نِکاح ہوتے ہی سب اُس کے سر پہ ہاتھ رکھتے باہر چلے گئے جبکہ آن اُس کو خود میں بھینچ گئی اُس کی یہ معصوم سی دوست اُس سے جُدا ہونے والی تھی اُس کے آنسو خود بخود اُس کے گالوں پہ بہنے لگے تھے۔ کُچھ دیر بعد، آمنہ بیگم، شاہینہ بیگم مشعل کے ساتھ اندر داخل ہوئیں اور معصومہ کے گلے لگتیں اُسے دلاسے اور خوش رنگ زندگی کی دُعائیں دینے لگیں۔


باہر مہمانوں کے لیے کھانا کُھل چُکا تھا مگر وہ کھانے کے ساتھ ساتھ چہ مگوئیاں بھی کر رہے تھے بارات نہ آنے پہ کُچھ معصومہ کے لیے افسوس میں ڈوبے تھے تو کُچھ اُسی کے بارے میں غلط بیانی کر رہے تھے خیر جِتنے منہ اُتنی باتیں۔ لوگوں کی زبانوں کو تو روکا نہیں جا سکتا۔


******************


پِھر وہ وقت بھی آیا جب معصومہ کو وہاں سے اپنے پیا دیس سُدھارنا تھا۔ آن اُس کے ساتھ ساتھ ہی تھی۔ ارحم اور وجدان ابھی تک نہیں آئے تھے۔ معصومہ سب سے مِلتی رو رہی تھی مگر پِھر وہ سب کو روتا چھوڑ کر گاڑی میں بیٹھی تھی اُس کا کُچھ دیر کا شوہر نِکاح کے فوراً بعد گاڑی میں بیٹھ چُکا تھا شاید اُسے اپنا افراتفری کا نِکاح پسند نہیں آیا تھا۔


معصومہ سب سے مِلتی گاڑی کی پِچھلی سیٹ پر بیٹھی۔ پِچھلی سیٹ پر ہی اُس کا شوہر موجود تھا وہ اُس کی موجودگی محسوس کرتی ایک پل کو کانپ سی گئی مگر پِھر اپنا حوصلہ مجتمع کرتے سمٹ کر بیٹھ گئی۔


اگلی سیٹ پر بابا جان اور ڈرائیور موجود تھے۔ گھونگھٹ کی اوٹ سے اُسے اپنے ساتھ وجود کا صِرف ہاتھ نظر آ رہا تھا ہلکے ہلکے بالوں والا مردانہ مضبوط گوری رنگت کا حامل ہاتھ جِس کی کلائی پہ ایک نفیس سی رِسٹ واچ تھی۔


اُس کا ہاتھ ٹانگ پہ دھرا تھا جِس کی اُنگلیوں کو وہ بار بار اپنی ٹانگ پر بجا رہا تھا۔ معصومہ اُس کے ہاتھ سے نظر ہٹا کر اپنے آنسو روکنے کی کوشش کرنے لگی جو قِسمت کی ستم ظریفی پہ بہے چلے جا رہے تھے۔


********************

وہ آدمی ایک ویران اور سُنسان سی جگہ پہ گاڑی روک چُکا تھا اِس روڈ پہ صِرف ہیوی لوڈر اور ٹرک وغیرہ ہی زیادہ گُزرتے تھے۔ وہ اپنی سیٹ سے اُتر کر داؤد کی طرف آیا اور اُس کی سیٹ بیلٹ کھوک کر اُسے لڑھکا کر ڈرائیونگ سیٹ پر بِٹھا دیا۔ پِھر وہ اُس کے برابر والی سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کر کے بیٹھ گیا۔ داؤد بے ہوش تھا اُسے کُچھ خبر نہیں تھی کہ اُس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔


وہ آدمی کُچھ دیر ایسے ہی بیٹھا رہا پِھر سامنے سے آتے ہیوی لوڈر کو دیکھ کر اُس نے گاڑی کو گئیر لگایا اور آہستہ سے گاڑی کو سڑک پہ چلانے لگا یہاں پہ بیٹھ کے گاڑی چلانا مُشکل ہو رہا تھا مگر اُسے جو حُکم دیا گیا تھا وہ اُسے پورا کرنا ہی تھا گاڑی آہستہ آہستہ ہیوی لوڈر کے قریب ہوتی جا رہی تھی یا یہ کہنا بہتر ہو گا کہ ہیوی لوڈر اپنی پوری رفتار سے گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھ جوں جوں ہیوی لوڈر قریب آرہا تھا داؤد کے برابر بیٹھے آدمی کے ہاتھ کی گرفت دروازے کے ہینڈل پہ مضبوط ہوتی جا رہی تھی۔ ہیوی لوڈر سے کُچھ فاصلے پر وہ آدمی یکدم گاڑی کا دروازہ کھولتا باہر چھلانگ لگا گیا۔


گاڑی کو سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا گاڑی لڑکھڑائی اور سامنے سے آتا ہیوی لوڈر سے ٹکرا گئی۔ ٹرک ڈرائیور جو اپنی سیدھ میں آرہا تھا ایکدم گاڑی کے سامنے آنے سے سنبھال نہ سکا اور ہیوی لوڈر گاڑی میں ٹھوک دیا۔ داؤد کا بے ہوش وجود گاڑی سے لڑھک کر باہر گِرا تھا اُس کا سر اور چہرہ خون میں بھیگا ہوا تھا ڈرایئور کو تھوڑی بہت چوٹیں لگیں تھیں۔


وہ گاڑی سے اُتر کر داؤد کی گاڑی کی طرف بڑھا۔ رومیسہ کا آدمی داؤد کے لہولہان وجود کو دیکھتا رومیسہ کو کام ہونے کی اِطلاع دے کر فون جیب میں ڈالتا وہاں سے چل دیا۔ داؤد کے مرڈر کو ایکسیڈنٹ کا نام دے کر وہ خود کو بچانا چاہتے تھے تا کہ بعد میں اُن پہ کوئی اِلزام نہ آئے۔


ڈرائیور داؤد کو ٹوٹی ہوئی گاڑی سے نِکالتا اُٹھا کر اپنے ہیوی لوڈر میں لایا تھا اور ہیوی لوڈر سٹارٹ کرتا ہاسپٹل کی طرف نِکل گیا۔ وہ شاید کوئی اچھا اِنسان تھا جو یوں اپنے ہی ہیوی لوڈر سے ٹکرانے والے اِنسان کو ہاسپٹل لے جا رہا تھا۔


داؤد کو ایڈمِٹ کر لیا گیا تھا پولیس بھی آچُکی تھی ڈرائیور کو وہیں روکا گیا تھا۔ داؤد کا خون کافی بہہ چُکا تھا بلڈ بینک سے خون کا اِنتظام کیا گیا تھا اُس کے سارے جِسم پہ کافی چوٹیں آئیں تھیں۔ داؤد کے معائنے کے بعد ڈاکٹرز نے ہولیس کو بتایا تھا کہ وہ نشہ کر کے گاڑی چلا رہا تھا اگر غلطی تھی بھی تو داؤد کی نا کہ ڈرائیور کی۔ ڈاکٹرز کے بیان پر اُس ڈرائیور کو چھوڑ دیا گیا تھا۔


داؤد کو دو دِن بعد ہوش آیا تھا پولیس کے پوچھنے پر اپنے ساتھ ہوئے حادثے کی ساری تفصیل اور وجہ بھی بتا دی تھی۔ اُس نے رومیسہ کے بارے میں بھی بتا دیا تھا اور پولیس سے ریکویسٹ کی تھی کہ رومیسہ کو لازمی گرفتار کیا جائے۔ اُس کی بات سُن کے پولیس نے ایف آئی آر درج کر لی تھی جو کہ داؤد نے ہی کروائی تھی وہ سچ میں رومیسہ کو سزا دِلوانا چاہتا تھا۔


وہ ایک ہفتہ ہاسپٹل میں رہا تھا پِھر اُسے ڈِسچارج کر دیا گیا تھا ڈاکٹر نے اُسے بتایا تھا کہ کوئی ڈرائیور اُسے یہاں چھوڑ گیا تھا اگر کُچھ دیر اور ہو جاتی تو شاید وہ زندہ نہ بچ پاتا۔ اُس کی ٹانگیں بُری طرح مُتاثر ہوئیں تھیں اُس سے چلا نہیں جا رہا تھا ڈاکٹر نے اُسے وہیل چیئر سجیسٹ کی تھی جِس پہ داؤد گھبرایا تھا کہ شاید وہ اب کبھی چل نہیں پائے گا۔ مگر ڈاکٹر نے اُسے تسلی دی تھی کہ کُچھ مہینوں میں ہی وہ ٹھیک ہو جائے گا چلنے میں مُشکل ہو گی مگر وہ کُچھ مہینوں بعد بالکل پہلے کی طرح چل سکتا تھا جِس پہ وہ پُرسکون ہوا تھا۔


اُس نے پاکِستان سے سِکندر صاحب کو بُلا لیا تھا وہ اپنے بیٹے کی حالت دیکھ کر پریشان ہوئے تھے جِس پہ اُس نے اُنہیں تسلی دی تھی کہ وہ ٹھیک ہے۔ سِلندر صاحب اُسے لے کے پاکِستان آ گئے تھے۔ گھر میں سبھی اُس کی یہ حالت دیکھ کے پریشان ہوئے تھے جِس پہ اُس نے اُنہیں بھی سِکندر صاحب کی طرح تسلّی دی تھی۔ آفس کا سارا کام وجدان اور ارحم نے سنبھالا تھا۔ وہ بھی اُس کے پارٹنر بن چُکے تھے تو اُسے کوئی مسلہ نہیں تھا۔


اگلے دو مہینے اُس نے اِنتہائی تکلیف میں گُزارے تھے۔ وہ دوسروں کا محتاج بن کر رہ گیا تھا۔ خود سے چل پِھر نہیں سکتا تھا جِس پر وہ چِڑ کر رہ جاتا کبھی کبھی تو وہ خیالوں میں ہی رومیسہ کی گردن دبانے لگتا تھا۔ اُس کا عورت ذات سے یقین اُٹھنے لگا تھا مگر پِھر وہ اپنی امّو جان اور تحریم کو دیکھتا تو اُسے عورت کا محبّت بھرا روپ نظر آتا۔


وہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہونے لگا تھا۔ دو مہینوں بعد وہ لڑکھڑا کر چلنے لگا تھا۔ وہ فزیوتھراپسٹ سے باقاعدہ چیک اپ کرواتا تھا باقاعدگی سے واک کرتا تھا۔ پہلے پہلے اُسے اُٹھنے میں مُشکل ہوئی تھی مگر پِھر آہستہ آہستہ وہ ٹھیک ہوتا گیا۔ اُس کی لڑکھڑاہٹ آٹھ ماہ بعد ختم ہوئی تھی۔ اور اِن آٹھ ماہ میں جب جب وہ لڑکھڑا کر چلتا اور لوگوں کی تمسخر اور ترحم بھری نظریں خود پہ محسوس کرتا وہ رومیسہ سے نفرت محسوس کرنے لگتا تھا۔


وہ اُسے بھولنا چاہتا تھا اور اِس کوشش میں وہ کامیاب ہونے لگا تھا اگر کو وہ اُس کے سامنے نہ آتی۔ ارحم کی شادی طے ہو گئی تھی وہ اُس کی مہندی پہ نہیں جا پایا تھا۔ لیکن بارات والے دِن وہ گیا تھا اگر نہ جاتا تو ارحم ناراض ہو جاتا اُس کی خاطِر وہ وہاں گیا تھا مگر پِھر اُسے اپنے وہاں جانے پہ پچھتاوا ہوا تھا۔ وہ برائیڈل روم میں گیا تھا جب اُس کا ٹکراو رومیسہ سے ہوا تھا۔


اُس نے رومیسہ کی آنکھوں میں حیرت دیکھی تھی جیسے وہ اُسے وہاں پا کر شاکڈ ہوئی ہو۔ وہ اُس کی شاکڈ شکل پہ کڑھ کر وہاں سے جانا چاہتا تھا جب اُس کی نظر رومیسہ کی آنکھوں پر پڑی تھی۔ اِنگلینڈ میں رومسیہ کی آنکھیں سیاہ تھیں جبکہ یہاں اُس کی آنکھیں گہری بھوری تھی بالکُل کانچ کی مانند۔ وہ ایک پل کو چونکا تھا مگر پِھر سنبھلا تھا


آنکھیں بدلنا کونسا مُشکل کام تھا یقیناً اِنگلینڈ میں اُس نے اپنی آنکھوں میں لینز اِستعمال کیے تھے اور یہ اُس کی آنکھوں کا اصلی رنگ تھا۔ وہ اِس قدر غُصّے میں تھا اُسے دیکھ کر کہ بغیر کُچھ کہے وہاں سے چل دیا تھا جِس پہ ارحم بعد میں ناراض ہوا تھا کہ بغیر بتائے اِتنی جلدی چلے گئے جِس پہ اُس نے ضروری کام کا بہانہ بنایا تھا۔ اُسے اپنے یوں وہاں سے چلے آنے پہ افسوس ہوا تھا کم از کم وہ رومیسہ کو مجبور کر کے پوچھ تو لیتا کہ اُس نے داؤد کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟


مگر پِھر وہ سر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہو گیا تھا اُس کا رومیسہ سے دوسری بار سامنا وجدان کی وجہ سے ہوا تھا وہ وجدان کو گھر لے کے جا رہا تھا جب اُس نے ایک لڑکی کو اپنی بہن بتا کر اُسے گھر چھوڑنے کو کہا۔ اُس لڑکی کے بال دیکھ کر داؤد کا دِل اُنہیں چھونے کا چاہا تھا۔ مگر اُس کی شکل دیکھ کر وہ غُصّے میں وہاں سے چلا گیا تھا۔


بار بار رومیسہ کا اُس کے سامنے آنا اُسے غُصّہ دِلا دیتا تھا وہ چاہتا تو ایک منٹ میں اُسے اُٹھوا کر سب کُچھ اگلوا سکتا تھا مگر پہلے وہ وجدان کو اُس کی حقیقت بتانا چاہتا تھا مگر اِس سے ہہلے ہی وہ لڑکی اُس کے آفس چلی آئی اور وہ غُصّے میں اُسے کافی کُچھ سُنا گیا بعد میں وجدان کے بتانے پہ اُسے بالکُل افسوس نہیں ہوا تھا کہ اُس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ اُس نے بھی تو داؤد کا ایکسیڈنٹ کروایا تھا تو ادلے کا بدلہ تو مِلتا ہی ہے۔


وہ وجدان کے کہنے پہ اُسے سب کُچھ بتا رہا تھا۔ مگر پِھر وجدان کے نہ آنے پر اُس کی بات ادھوری ہی رہ گئی۔ شاپنگ مال میں وہ رومیسہ کو ڈرانا دھمکانا چاہتا تھا مگر وہ اُسے ہی باتیں سُنا کر چلی گئی۔ کبھی کبھی اُسے حیرت ہوتی تھی کہ اُس کی آنکھوں میں آکھیں ڈال کر بات کرنے والی لڑکی اب نظریں جُھکا کر کیوں بولتی ہے؟


مگر پِھر اُس نے اِسے بھی رومیسہ کا کوئی فریب سمجھا تھا فریب دینے میں تو وہ ماہر تھی مگر اِس بار وہ اُس کے فریب میں نہیں آنا چاہتا تھا اُس نے معصومہ جہانگیر کی ساری انفارمیشن اُسی دِن نِکلوا دی تھی جِس دِن اُس نے وجدان کے کہنے پہ اُسے ڈراپ کیا تھا۔ اُس کی ساری اِنفارمیشن کلیر تھی وہ کبھی مُلک تو کیا شہر سے باہر نہیں گئی تھی اُس کا اُس کے ماموں کے سوا کوئی نہیں تھا اُس کی بس ایک ہی دوست تھی جِس سے وہ مِل چُکا تھا۔


وہ حیران ہوا تھا مگر پھر اُس نے یہی سوچا تھا کہ وہ معصومیت کا لِبادہ اوڑھ کر سب کو بے وقوف بنا رہی ہے۔ جب وہ کِسی کو قتل کروا سکتی ہے تو اپنی اِنفارمیشن مِٹانا کونسا اُس کے لیے مُشکل ہو گا؟


اُس نے ہر ممکن طریقے سے اُسے رومیسہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا چاہی تھی مگر اُسے کوئی ثبوت نہیں مِلا تھا۔ اِنگلینڈ میں موجود پولیس نے بھی رومیسہ کے نہ مِلنے کی اطلاع دی تھی کہ اِنگلینڈ میں رومیسہ ہے ہی نہیں۔


وہ بے بس ہو کے رہ گیا تھا اُسے معصومہ کو رومیسہ ثابت کرنے کے لیے کوئی کلیو نہیں مِلا تھا تھک ہار کر وہ چُپ ہو گیا تھا۔


*****************


معصومہ کی رُخصتی کے بعد آن اپنی ماما اور پاپا کے ساتھ واپس گھر چلی گئی تھی اُس کا بالکل دِل نہیں تھا اِس سب کے بعد رفیق صاحب کے گھر جانے کا۔


وجدان اور ارحم بہت لیٹ آئے تھے اُنہوں نے بتایا کہ راستے میں واپسی پر ایک گاڑی سے ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا جِس کی وجہ سے اُنہیں ہسپتال جانا پڑا۔ رفیق صاحب نے اُن کا شُکریہ ادا کیا اور اُنہیں معصومہ کی شادی کا بتایا جِسے سُن کر وہ شاکڈ ہوئے اور مُطمئن بھی۔ رفیق صاحب کا بابا جان نے گھر کا پتہ دے دیا تھا اور اب کل وہ وہاں جانے والے تھے۔


آمنہ بیگم اور جمال صاحب بھی گھر کے لیے نِکل چُکے تھے وجدان آن کو موجود نہ پا کر اُن کے پیچھے ہی نِکل گیا۔ جبکہ ارحم اُن کا داماد تھا تو وہ اُن کے ساتھ گھر جا رہا تھا۔ سب مہمان رُخصت ہو چُکے تھے اور رفیق صاحب بھی گھر والوں کو لیے ارحم کے ساتھ گھر کی طرف روانہ ہو گئے تھے آج اُنکی عِزت بچ گئی تھی وہ خُدا کا جِتنا شُکر ادا کرتے کم تھا۔


*****************


وہ تھک گئی تھی اُس کا دِل کر رہا تھا کہ وہ ٹیک لگائے اور آرام سے سو جائے مگر پِھر ساتھ موجود وجود کا خیال آتا تو وہ سیدھی ہو کر بیٹھنے کی کوشش کرتی مگر کب تک؟ سفر شاید کافی لمبا تھا اُس کے حِساب سے اُنہیں میرج ہال سے نِکلے دو گھنٹے ہو چُکے تھے مگر اب تک گھر نہیں آیا تھا۔ وہ اندر ہی اندر پریشان ہونے لگی تھی۔


اُس کی آنکھیں بند ہو رہیں تھیں کُچھ ذہنی تھکاوٹ اور کُچھ جِسمانی۔ نیند اُس پہ حاوی ہونے لگی تو اُس نے سر سیٹ سے لگا لیا۔ اُس کی حرکت پہ ساتھ میں بیٹھے وجود نے اُس کو دیکھا تو اُس کی تھکاوٹ کا احساس ہوا۔ وہ مُکمّل نیند میں ڈوب گئی تھی پانچ منٹ بعد اُس نے معصومہ کا سر آہستہ سے اپنے کندھے پر ٹِکا لیا تا کہ وہ گِر نہ جائے۔


معصومہ گہری نیند میں تھی اُسے اپنے پاس موجود وجود کی کِسی حرکت کا احساس نہیں تھا۔ تقریباً ایک اور گھنٹہ گُزرا تو گاڑی رُکی۔ آٹھ تو اُنہیں ہال میں ہی بج گئے تھے اور اب رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ گھر میں کِسی کو بھی اِس بارے میں پتہ نہیں تھا۔ بابا جان گاڑی سے اُترے تو اُنہوں نے معصومہ کو اندر لانے کا اِشارہ کیا اور خود اندر چلے گئے۔


وہ وجود گاڑی سے اُترا اور معصومہ کی طرف کا دروازہ کھول کر اُس کی طرف جُھکا۔ معصومہ کا گھونگھٹ اُس کی گردن تک ڈھلکا ہوا تھا اُس نے ایک نظر اُس کے کامدار لہنگے کو دیکھا اور پِھر ہاتھ بڑھا کر اُسے اپنی بانہوں میں اُٹھا لیا۔


اُس ہلکے پُھلکے وجود کو اُٹھا کر وہ حیران ہوا عموماً لڑکیوں کا وزن پچاس کِلو تو ہوتا ہی ہے اور یہ تو شاید پینتالیس کلو کی بھی نہیں تھی وہ اپنی ہی سوچ پہ ہنسا تو پورچ کی دیواروں نے اُس کا مدھم سا قہقہہ بہت دھیان سے سُنا جیسے وہ مُتمنی ہوں اُس کے قہقہے کی آواز سُننے کو۔


وہ قدم اُٹھاتا اندر کی طرف بڑھا تو بابا جان لاونج میں ہی بیٹھے تھے۔ اُنہوں نے اُسے اپنے کمرے میں جانے کا اِشارہ کیا اور خود وہیں بیٹھ کر پانی پینے لگے۔ گھر کے سبھی نفوس نیند کے مزے لے رہے تھے۔ وہ قدم اُٹھاتا اپنے کمرے کی جانب بڑھنے لگا۔


معصومہ کو ایسا لگا جیسے وہ ہواؤں میں اُڑ رہی ہو اُس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں تو آنکھوں کے سامنے سُرخ پردہ سا لہرایا۔ وہ غائب دماغی سے اُس سُرخ پردے کو دیکھتی رہی پِھر کُچھ حواس بحال ہوئے تو گُزرے وقت کا واقعہ پوری جزئیات کے ساتھ اُس کے زہن کے پردے پہ لہرایا۔ اُسے اپنے گِرد کِسی کے بازووں کا احساس ہوا تو اُس کا دِل پھڑپھڑا کر رہ گیا۔


بابا جان کے بعد اور کون تھا اُس کے ساتھ؟ اُس کا شوہر یعنی اُس کے شوہر نے اُسے اُٹھا رکھا تھا۔ اُس کے ماتھے پہ پسینہ پھوٹ پڑا۔ وہ بے بسی سے آنکھیں میچ گئی۔ وہ خود کو اِتنی آکورڈ پوزیشن میں دیکھ کر کوئی حرکت بھی نہیں کر سکی۔


کُچھ قدم چلنے کے بعد وہ ایک کمرے میں داخل ہوا اور آرام سے اُسے بیڈ پہ لٹا دیا۔ بیڈ کو اپنے نیچے محسوس کرتے وہ سیدھی ہو کے بیٹھ گئی۔ اُسے جاگتا دیکھ کر وہ بھی اُس کے قریب بیٹھ گیا۔


*********************


وہ اِس وقت ایک آدمی کے سامنے کھڑے تھے وہ سِنگل صوفے پہ براجمان تھا۔ وہ دو افراد تھے جو اُس کے سامنے سر جُھکائے کھڑے تھے۔ جیسے غلطی کرنے کے بعد کوئی شاگرد اپنے اُستاد کے سامنے کھڑا ہوتا ہے

۔

"میں نے تُم لوگوں سے کیا کہا تھا؟" اُس نے پوچھا۔


"آپ نن نے کہا تھا کہ مم معصومہ کی شادی ہاشم سے نا ہو پائے۔" اُن میں سے ایک نے کہا۔


"اور کیا کہا تھا؟" وہ اِطمینان سے پوچھ رہا تھا۔


"اا اور کک کہا تھا کہ مم معصومہ جہانگیر کی شش شادی اُس سے ہو گی جِس کے ساتھ آپ چاہیں گے۔" دوسرے نے کانپتے لہجے میں کہا تھا۔

"تو پِھر تُم لوگوں نے کیا کیا؟" وہ اب اُن کو گھورنے لگا تھا۔


"معاف کردیں ماسٹر! ہم وہاں پہنچ چُکے تھے مگر جِس کے ساتھ شادی تھی وہی نہیں پہنچ سکا اُس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا اور اب وہ ہاسپٹل میں ہے۔" پہلے والے آدمی نے جواب دیا اُن دونوں کا دِل کانپ رہا تھا کیونکہ وہ دونوں ہی باخبر تھے کہ جو غلطی وہ کر چُکے ہیں اُس کی سزا اُن دونوں کو مِلے گی۔


"اُس کو تو میں بعد میں دیکھوں گا پہلے تُم دونوں سے تو نپٹ لوں۔ یہ بتاؤ ہاشم نیاز کہاں ہے؟" اُس نے پوچھا۔


"وو وہ ماسٹر اُسے تو صُبح سے ہی کمرے میں باندھ کر رکھا گیا ہے اور وہ صُبح سے ہی بے ہوش ہے۔" ایک آدمی نے بتایا تو اُس نے سر ہلا دیا۔


"اُسے اُس کے گھر کے باہر پھینک دو اور یاد رہے وہ ہوش میں نہ آئے اور نہ کوئی تُم دونوں کی شکلیں دیکھ پائے۔" اُس نے کہا تو اُن دونوں نے سر ہلا دیا کُچھ دیر خاموشی رہی تو وہ دونوں مطمئن ہوئے کہ اب کوئی سزا نہیں مِلے گی مگر یہ اُن کی خام خیالی ثابت ہوئی۔ اُس خاموشی کو پِسٹل کے فائر کی آواز نے توڑا تھا۔ یکے بعد دیگرے دو فائر ہوئے تھے اور دونوں اپنے اپنے بازو پکڑتے نیچے بیٹھتے تڑپنے لگے۔


"اب ہاشم نیاز کو اُس کے گھر چھوڑنے کے بعد اپنی مرمت کروانے جانا۔ یہ سزا ہے معصومہ جہانگیر کو کھونے کی غلطی کرنے کی اور کل تک مُجھے ساری اِنفارمیشن چاہیے کہ اُس کی شادی کِس سے ہوئی ہے؟" کہہ کر اُس نے اُنہیں جانے کا اِشارہ کیا تو وہ دونوں درد سے کراہتے اپنے بازو تھامے وہاں سے چلے گئے۔ پیچھے وہ صوفے کی پُشت سے ٹیک لگاتا کِسی گہری سوچمیں گُم ہو گیا ابھی اُسے کِسی اور کو بھی اِس غلطی کے بارے میں اِطلاع دینی تھی اور وہ نہیں جانتا تھا کہ اُس کا ری ایکشن کیا ہو گا۔


*****************


"دیکھو میں جانتا ہوں کہ تُمہارے لیے یہ وقت بہت کٹھن ہے۔ جِس طرح میں تُمہیں نہیں جانتا تُم بھی مُجھ سے انجان ہو۔ لیکن اب ہماری شادی ہو ہی چُکی ہے تو ہمیں اِس رِشتے کو دِل سے نِبھانا چاہیے کیونکہ نِکاح کا بندھن بہت پاک ہوتا ہے دو اجنبی دِلوں کو بھی آپس میں جوڑ دیتا ہے اور شاید ہمارے دِل میں بھی ایک دوسرے کے لیے محبّت پیدا ہو جائے میں کوشش کروں گا کہ تُمہیں مُجھ سے کوئی شِکایت نہ ہو اور وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی تُمہیں کوئی تکلیف نہیں دوں گا۔ تُم میرے بابا کی پسند ہو اور مُجھے اپنے بابا کی پسند پر پورا بھروسہ ہے۔" وہ اُس کے ہاتھوں کو تھامے بول رہا تھا۔ معصومہ جو اُس کے ہاتھ پکڑنے پر جُزبُز ہوئی تھی اُس کی گھمبیر آواز سُن کر اُس کے حواس اُڑے تھے۔


"اب چونکہ تُم میری بیوی ہو تو میں تُمہارا گھونگھٹ تو اُٹھا ہی سکتا ہوں تاکہ دیکھ سکوں کہ میری قِسمت میں کون سا کوہِ نور لِکھا ہے۔ جانتا ہوں کہ ہماری شادی کوئی نارمل طریقے سے نہیں ہوئی مگر پِھر بھی میرا حق ہے تُمہیں دیکھنا۔" اُس نے کہہ کر آہستہ سے اُس کا گھونگھٹ اُلٹا۔


معصومہ نے اپنی آنکھیں میچ لیں۔ کُچھ دیر تک خاموشی چھائی رہی تو اُس نے اپنی آنکھیں کھولیں تو نظریں سیدھا مقابل کی آنکھوں سے جا ٹکرائیں۔


وہ کُچھ دیر اُسے گھورتا رہا پِھر اپنی آنکھیں مسل کر دیکھیں مگر وہ ہنوز وہاں موجود تھی۔ اُس نے ایک جھٹکے میں اُس کا بازو پکڑا اور کھینچ کر بیڈ سے اُتارا وہ گھبرائی سی اُس کے ساتھ کھینچتی چلی گئی۔


"تُم ؟ تُمہاری ہمّت کیسے ہوئی یہاں آنے کی؟" مقابل نے پوچھا تو معصومہ نے اُس کی نیلی سُرخ آنکھوں میں جھانکا مگر پِھر اُس کے سخت تاثرات دیکھتی نظریں جُھکا گئی۔


"آاآپ خخ خود ہی تو لائے۔" وہ منمنائی۔


"میں تُمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔" وہ اپنے ہاتھ اُس کی گردن کی طرف بڑھاتے بولا تو وہ بے ساختہ پیچھے ہوئی.

"آپ نے ابھی مُجھ سے وعدہ کیا ہے کہ آپ کبھی مُجھے تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔" معصومہ نے اپنی گردن پہ ہاتھ رکھتے کہا۔


"وعدے ٹوٹنے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔" داؤد نے ہاتھ اُٹھایا۔


"بابا جان ن ن ن ن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" معصومہ کے حلق سے بے ساختہ چیخ نما انداز میں نِکلا تھا۔ اُس کے منہ سے بابا جان سُنتے داؤد ہوش میں آیا تھا وہ تو بھول ہی چُکا تھا کہ وہ اِس وقت حویلی میں کھڑا ہے۔


وہ ابھی کھڑا ہی تھا جب دروازہ زور زور سے بجنے لگا۔ داؤد بوکھلائے انداز میں دروازے کی جانب دیکھنے لگا۔


*****************

دروازہ اب زور زور سے بجنے لگا تھا وہ چہرے کے تاثرات نارمل کرتا دروازے کی جانب بڑھا چہرے پہ ہاتھ پھیر کر خود کو کمپوز کیا اور دروازہ کھولا۔


"ارے بابا سائیں! آپ سوئے نہیں اب تک؟" اُس نے مصنوعی مُسکراہٹ چہرے پہ سجائے کہا۔


"معصومہ کہاں ہے؟" بابا سائیں نے فِکر مند لہجے میں پوچھا۔


" وہ اندر ہے بابا سائیں آپ آئیں۔" داؤد نے اُنہیں اندر آنے کا راستہ دیا۔


" میں نے اُس کی چیخ سُنی وہ ٹھیک تو ہے نا؟" سِکندر صاحب کہہ کر اُسے پیچھے ہٹاتے اندر داخل ہوئے تو نظر سامنے کھڑی معصومہ پہ پڑی وہ ابھی تک دُلہن کے جوڑے میں سجی سنوری کھڑی تھی۔ چہرے پر خوفزدہ سے تاثرات تھے۔


" بیٹا آپ ٹھیک ہیں؟ اور آپ چیخی کیوں؟" سِکندر صاحب نے اُس کے چہرے کے اُڑتے دنگ دیکھ کر پوچھا۔


"و وہ کُچھ نہیں بابا سائیں! میں اِس سے بات کر رہا تھا تو اِس کی نظر کاکروچ پہ پڑ گئی اور اِس نے آپ کو آواز دے دی۔" داؤد نے دانت کچکچاتے معصومہ کو گھور کر کہا۔


"جج جی بابا جان! یہ مم مُجھ سے وو وعدہ کر رہے تھے کہ یہ ہمیشہ میرا خیال رکھیں گے اا اور کبھی مُجھے تکلیف نہیں دیں گے۔" معصومہ بے اپنے مطلب کی بات کر کے خود کو شیر کے پنجوں سے بچانے کی ضمانت چاہی۔


"نن نہیں بابا سائیں! میں تو اِسے اپنے بارے میں بتا رہا تھا تُم جھوٹ کیوں بول رہی ہو؟" داؤد نے گڑبڑا کر اُسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے لگا۔


"یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ میرا بیٹا میرا مان رکھ رہا ہے مُجھے آپ پر فخر ہے داؤد۔" سِکندر صاحب نے محبت سے کہا۔


"ارے آپ شش شرما کیوں رہے ہیں آپ تو بابا جان کے سر پہ ہاتھ رکھ کے مُجھے یقین دِلانے والے تھے نا کہ آپ کبھی مُجھ پر آنچ نہیں آنے دیں گے اور بابا جان تو یہاں تھے ہی نہیں تو آپ نے کہا کہ آپ صُبح اُن کے سر پہ ہاتھ رکھ کے قسم کھائیں گے اُن کی بیٹی کو ہمیشہ خوش رکھنے کی۔" معصومہ کے منہ میں جو آرہا تھا وہ بولتی جا رہی تھی۔


اُس کے دماغ میں بس ایک ہی بات چل رہی تھی کہ اگر لڑکا لڑکی سے نفرت کرے اور اُن کی آپس میں شادی ہو جائے تو پِھر وہ اُس سے گِن گِن کر بدلے لیتا یے۔ اُسے مارتا ہے ذلیل کرتا ہے اور نوکر کی طرح سلوک کرتا ہے اُس نے ناولز میں بھی پڑھا تھا کہ ایسا ہی ہوتا ہے اور وہ ایسے ظلم خود کی جان پہ نہیں سہہ سکتی تھی وہ تو پہلے ہی اِتنی کمزور سی جان تھی اب اگر اُس پہ اُس کا شوہر ظُلم کرتا وہ تو سوکھ کر کانٹا ہی بن جاتی اور اگر وہ سوکھ کر کانٹا بن جاتی تو اُس کے شوہر کے کام کون کرتا؟ ہاں اُسے پتہ تھا کہ پِھر شوہر بدلہ لینے کے لیے اپنی بیوی سے سارے گھر کے کام کرواتا ہے نوکروں کو چُھتٹی دے دیتا ہے۔ کیا وہ سارے کام سُگھڑ لڑکیوں کی طرح کر پائے گی؟ اُسے گھر کے کام کاج تو آتے تھے مگر کیا پتہ یہ داؤد سِکندر اُس سے کیا کیا کرواتا؟ وہ یہی سب سوچ رہی تھی جب بابا جان کی آواز پر ہوش میں آئی۔


"اچھا اور کیا کیا کہہ رہے تھے آپ میری بیٹی کو؟" سِکندر صاحب نے مُسکراتے پوچھا۔


"مم میں بتاتی ہوں بابا جان! یی یہ کہہ رہے تت تھے کہ یہ اپنی جان سے بڑھ کر میرا خیال رکھیں گے۔ اب میں اِن کی عِزّت ہوں اور یہ اپنی عِزّت پہ آنچ بھی نہیں آنے دیں گے اا اور یی یہ کہہ رہے تھے تو کیا ہوا کہ ہم ایک دوسرے کو نہیں جانتے میرے بابا کی پسند پہ مُجھے پپ پورا یقین ہے اا اور یہ مُجھے کبھی تکلیف نہیں پہنچائیں گے کبھی مم میری آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دیں گے۔" معصومہ بابا جان کے پاس آ کر اٹکتے ہوئے پُرجوش لہجے میں بتا رہی تھی اِس سارے عرصے میں ایک بار بھی اُس نے داؤد سے نظریں نہیں مِلائیں تھیں نہ اُس کی طرف دیکھنا گوارا کیا تھا اور داؤد وہ ہقّا بقّا کھڑا اُس چالاک لومڑی کی گُل فشانیاں اور مُبالغہ آرائیاں سُن رہا تھا۔


"مُجھے بہت خوشی ہوئی داؤد! کہ آپ نے معصومہ سے اُس کا خیال رکھنے کا وعدہ کیا۔ یہ اب آپ کی ذمہ داری ہیں اور مُجھے یقین ہے کہ آپ اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نِبھائیں گے اور مُجھے کبھی میری بیٹی کی آنکھوں میں آنسو نہیں دِکھیں گے۔" بابا جان نے معصومہ کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے کہا تو وہ اُن کے گلے لگ گئی۔


""جج جی بابا سائیں میں کوشش کروں گا کہ آپ کی بیٹی کا بہت "اچھے" سے خیال رکھوں۔" داؤد نے معصومہ کو تیکھی نظروں سے گھورتے سِکندر صاحب سے کہا۔


"مُجھے آپ پہ پورا یقین ہے کہ آپ اپنا کہا نِبھائیں گے۔" سِکندر صاحب نے داؤد سے معانقہ کرتے کہا۔

"جی ضرور بابا سائیں۔" داؤد اُن سے مِل کر پیچھے ہوا۔


"داد آپ تو بابا جان کی قسم کھانے والے تھے نا۔" معصومہ نے داؤد کی طرف معصومیت سے دیکھتے آنکھیں پٹپٹا کر کہا جبکہ وہ اُس کی کالی گھنی پلکوں کی اوپر نیچے حرکت دیکھ کر رہ گیا کِتنی چالاک ہے یہ لومڑی۔ شکل سے اِتنی معصوم لگتی ہے اور کام دیکھو اِس کے۔ داؤد دِل میں سوچ کر رہ گیا۔


"ارے ہماری بیٹی اِتنا کہہ رہی ہے تو ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں۔" سِکندر صاحب نے مُسکرا کر کہا۔

"میں اپنے بابا سائیں کے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتا ہوں کہ کبھی تُمہیں میری ذات سے تکلیف نہیں پہنچے گی میں ہمیشہ تُمہیں خوش رکھوں گا اور اُمید کرتا ہوں کہ تُم بھی مُجھے شِکایت کا کوئی موقع نہیں دو گی اور اپنی بیوی ہونے کی ہر ذمہ داری نِبھاو گی۔" داؤد نے چاروناچار سِکندر صاحب کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تو وہ اُس کی طنزیہ نظریں خود پہ محسوس کرتی اپنی جگہ جُزبُز ہو کے رہ گئی۔ بیوی ہونے کی ہر ذمہ داری نِبھانے کا مطلب وہ اچھی طرح سمجھتی تھی۔


"اچھا اب آپ دونوں آرام کریں میں چلتا ہوں اور بیٹا آپ کا بیگ باہر گاڑی میں پڑا ہے۔ داؤد! آپ جا کر معصومہ کا بیگ لے آئیں۔" سِکندر صاحب نے کہا تو وہ سر ہلاتا خاموشی سے باہر نِکل گیا۔


"میں چاہتا ہوں کہ آپ مُجھے خود سے بتائیں یہ جو ابھی سب کُچھ چل رہا تھا کیا تھا؟" داؤد کے جانے کے بعد سِکندر صاحب نے معصومہ سے پوچھا۔


"کک کیا بابا جان؟" معصومہ گڑبڑا کر نظریں چُرا گئی۔


"میں جانتا ہوں کہ آپ نے ابھی جو بھی کہا کہ داؤد نے آپ سے ایسے وعدے کیے، وہ سب جھوٹ تھا۔ میں اپنے بیٹے کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں وہ اجنبی لوگوں سے اِتنا فرینک نہیں ہوتا اور نہ ہی پہلی مُلاقات میں ایسے وعدے وعید کر سکتا ہے۔ وہ سنجیدہ قِسم کا سب کو اُن کی حد تک رکھنے والا اِنسان ہے۔ بہرحال آپ مُجھے وہ سب بتائیں جِس کی وجہ سے آپ نے مُجھ سے ایسا کہا۔" سِکندر صاحب نے سنجیدگی سے اُس کا جھوٹ پکڑ کر اُسے داؤد کے بارے میں بتایا تو وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے اُنہیں دیکھنے لگی۔


"وہ میں۔۔۔۔۔۔۔" وہ ابھی کُچھ بولتی کہ داؤد اُس کا بیگ تھامے کمرے میں داخِل ہوا اور اُس کی بات اُس کے حلق میں ہی رہ گئی۔


"چلیں ابھی آپ ریسٹ کریں رات کافی ہو گئی ہے ہم صُبح اِس بارے میں بات کریں گے۔ داؤد میری بیٹی اب آپ کی ذمہ داری ہے مُجھے کِسی بھی قِسم کی شِکایت مِلی تو آپ کی خیر نہیں۔" سِکندر صاحب نے داؤد کی موجودگی میں معصومہ کی جِھجھک دیکھ کر بات ختم کی اور داؤد کو تاکید کر کے وہ واپسی کے لیے پلٹ گئے۔


اُن کے جانے کے بعد داؤد نے دروازہ لاک کیا اور معصومہ کی طرف بڑھا۔ وہ بیگ میں سے کپڑے نِکال رہی تھی جب نظر اپنی طرف آتی داؤد پر پڑی وہ جلدی سے لہنگا تھامتی بیگ کے دوسری طرف کھڑی ہو گئی اب اُن دونوں کے درمیان بیگ تھا جبکہ بیگ کے دونوں طرف وہ کھڑے تھے۔


"بہت چالاک ہو نا تُم؟ مُجھ سے بابا سائیں کی قسم اُٹھوائی تا کہ میں تُمہیں کُچھ کہہ نا سکوں۔" داؤد نے اُسے گھور کر لفظ چبا کر پوچھا۔


"تت تو آپ بِلا وجہ مُجھ پپ پر غُصّہ کریں گے تو مم میں اور کک کیا کرتی۔" معصومہ نے خود کو شیر کی کچھار میں اکیلا پا کر ہکلاتے ہوئے کہا۔


"بِلا وجہ؟ تُمہیں لگتا ہے کہ داؤد سِکندر کُچھ بھی بِلا وجہ کر سکتا ہے؟ اِس سب کی وجہ ہی تُم ہو میں اِس وجہ کو ہی ختم کر دیتا ہوں۔" داؤد نے غُصّے سے کہہ کر بیگ پھلانگا اور معصومہ والی سائیڈ پر آیا ہاتھ دونوں یوں اُٹھے ہوئے تھے جیسے معصومہ کا گلا دبا دے گا۔


"آپ نن نے بابا جج جان کی قسم کک کھائی تھی کہ آپ مم مُجھے کُچھ نہیں کک کہیں گے۔" معصومہ نے آنکھیں میچ کر کہا تو اُس کے بڑھے ہوئے ہاتھ پہلووں میں گِرے۔


"چینج کر کے آؤ۔" غیر متوقع بات سُن کر اُس نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں۔


"جج جی؟ وہ حیرانی سے بس یہی کہہ پائی۔

"جی! اب میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو؟ جاؤ۔" داؤد اب کی بار غُصّے سے بولا تو وہ کپڑے نِکالتی ڈریسنگ روم میں گُھس گئی اور وہ بیڈ پہ بیٹھا کنپٹی سہلاتا شام کا واقعہ سوچنے لگا۔


******************


وہ ٹی وی دیکھنے کے بعد اپنے کمرے میں سونے جا رہا تھا جب اُس کے فون کی بیل بجی اُس نے فون اُٹھایا تو بابا سائیں کی کال تھی۔ اُن کو سلام کر کے اُس نے کال کرنے کا مدعا جاننا چاہا مگر اُن کی اگلی بات سُن کے اُس کا دماغ بھک سے اُڑا۔


وہ اُسے تیار ہو کے آنے کا کہہ رہے تھے اور ساتھ یہ بھی کہ اُن موصوف کا نِکاح ہے۔ اِتنی سی بات کہہ کر بابا سائیں نے فون بند کر دیا تھا اور میرج ہال کا اڈریس اُسے ٹیکسٹ کر دیا تھا۔ پانچ منٹ میں وہ کپڑے بدل کر گاڑی میں بیٹھا تھا اور گاڑی کو جہاز کی طرح اُڑاتا بابا سائیں کے دئیے اڈریس پہ پہنچا تھا۔ میرج ہال کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا وہ ابھی باہر ہی کھڑا تھا جب بابا سائیں اُس کی طرف بڑھتے دِکھائی دئیے۔


بابا سائیں اُسے لے کے ایک خاموش گوشے میں آگئے تھے۔ پِھر بابا سائیں نے اُسے ساری صورتحال سے آگاہ کرنے کے بعد اُسے اُس لڑکی سے نِکاح کرنے کا کہا تھا جِس کا وہ نام تک نہیں جانتا تھا اُس نے اِنکار کرنا چاہا جِس پہ بابا سائیں نے اُسے یاد دِلایا تھا کہ وہ اُن سے اُن کی پسند سے شادی کرنے کا قول دے چُکا ہے اور شادی آج نہیں تو کل کرنی ہی ہے پِھر آج کیوں نہی؟ اُن کی بات پر اُسے ہتھیار ڈالنے پڑے تھے وہ ایسی لڑکی سے نِکاح کرنے جا رہا تھا جِس کے بارے میں وہ کُچھ بھی نہیں جانتا تھا اُس کے حواس جھنجھنا اُٹھے تھے اُس کا بس چلتا تو وہ ابھی سب کُچھ نظر انداز کرتے یہاں سے چلا جاتا مگر وہ اپنے باپ کی زبان کو جھوٹا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ اُن سے بے حد محبّت کرتا تھا اور اُن کے لیے جان بھی دے سکتا تھا یہ تو پِھر نِکاح تھا اُسے اپنے بابا سائیں پر پورا یقین تھا اِسی لیے وہ اقرار کرتا اُن کے ساتھ چل دیا تھا۔


نِکاح کی رسم میں مرد حضرات ہی شامِل تھے۔ نِکاح شروع کیا جا رہا تھا جب وجدان کے پاپا جمال آفندی اُس کے سامنے والے صوفے پہ بیٹھے وہ اُن کو دیکھ کر حیران ہوا تھا وہ یہاں کیا کررہے تھے؟ پِھر اُس کے بعد رفیق صاحب کو دیکھ کر بھی وہ اُلجھن میں گِھرا تھا وہ تو ارحم کے سسُر تھے اُنکا یہاں کیا کام؟ وہ اپنی ہی اُلجھنوں میں مولوی صاحب کے کلمات نہیں سُن پایا تھا پِھر جب اُس کا کندھا بابا سائیں نے ہلا کر اُسے قبول ہے کہنے کو کہا تو تین بار قبول ہے کہہ کر وہ نِکاح کے لیے اقرار کر چُکا تھا۔ وہ ہنوز جمال آفندی اور رفیق صاحب کی یہاں موجودگی کا سبب سوچ رہا تھا مگر اُسے کُچھ سمجھ نا آیا تو وہ کندھے اُچکا گیا۔


وہ نِکاح کے بعد سب سے مبارکباد وصول کرتا جمال آفندی سے مِلنے والا تھا جب بابا صاحب نے اُسے دُلہن کا سامان گاڑی میں رکھ کے اِنتظار کرنے کو کہا۔ رُخصتی جلد ہی ہو گئی تھی کیونکہ بابا سائیں چاہتے تھے کہ اُن کی اِکلوتی بہو کا پہلا قدم داؤد کے فلیٹ پر نہیں گاؤں میں موجود حویلی کی دہلیز پر پڑے۔


وہ گاڑی میں ہی بیٹھا تھا جب بابا سائیں اپنی بہو سمیت گاڑی کی طرف بڑھتے دِکھائی دیے۔ جلد ہی وہ گاؤں کے لیے روانہ ہو چُکے تھے۔ راستے میں بھی وہ گھونگھٹ میں چُھپی ہوئی تھی اور اُسے اپنی نئی نویلی دُلہن کی شکل دیکھنے کا موقع بھی نہیں مِلا تھا۔ وہ اُس کی نیند ہر حیران ہوا تھا جو گھر آنے ہر بھی نہیں اُٹھی تھی اور زیادہ حیران اُس کے وزن پہ ہوا۔


پتہ نہیں کِتنی کم عُمر ہے جو وزن بھی اِتنا کم ہے؟ یہ اُس نے سوچا تھا مگر پِھر اُسے اپنے کمرے میں لے گیا تھا۔ وہاں پر اُس کا گھونگھٹ اُٹھانے کے بعد اُسے اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آیا تھا وہ اُس کے سامنے آنکھیں میچے بیٹھی تھی۔ وہ کُچھ دیر غور سے اُس کے نین نقش دیکھتا رہا وہ سچ میں وہی تھی اور جب اُس نے آنکھیں کھولی تو اُسے یقین ہوا تھا کہ ہاں وہ وہی تھی۔


مطلب جِسے وہ تسلیاں دِلاسے دے رہا تھا وہ اُس کی جان کی دُشمن تھی اُس کے خون میں ایک دم اُبال اُٹھا تھا وہ اُس کا گلا دبا دیتا اگر کو وہ چیخ نا مارتی۔


اُس کی زور دار چیخ پر وہ پریشان ہوا تھا کہ کہیں بابا سائیں کو سب پتہ نا چل جائے۔ مگر پِھر وہ معصومہ کی زبان کے جوہر اور اُس کے لفظوں کے ہیر پھیر پر حیران رہ گیا تھا کِتنی صفائی سے وہ خود کو بچانا چاہ رہی تھی اُس کے غُصّے سے۔


اور پِھر مجبوراً اُسے بابا سائیں کی قسم کھانا پڑی تھی کہ اُن کے سامنے اِس کے عِلاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ اور اب وہ بے بسی سے یہ سب سوچ کر رہ گیا تھا وہ اُس کے ساتھ اُس کے کمرے میں رہے گی یہ سوچ ہی اُسے غُصّہ دِلانے کو کافی تھی مگر پِھر کُچھ سوچ کر وہ مطمئن ہوا تھا۔


کھٹر پٹر کی آواز پہ وہ اپنی سوچوں کی دُنیا سے باہر آیا تھا۔ وہ سامنے ہی کھڑی کاٹن کے سادہ پرنٹڈ سُرخ رنگ کے سوٹ میں کِھلا ہوا گُلاب لگ رہی تھی۔ جیولری ساری اُتر چُکی تھی چہرہ بھی میک اپ سے پاک تھا اور اب وہ اپنے بال سُلجھا رہی تھی غور سے دیکھنے پہ اُسے محسوس ہوا جیسے اُس کے ہاتھ کانپ رہے ہوں وہ استہزائیہ مُسکرایا یعنی وہ اُس سے ڈر رہی تھی گُڈ۔


معصومہ کو اُس کی نظریں خود پہ محسوس ہو رہیں تھیں اُس کی نظروں کی تپش جِس میں غُصّے کی آمیزش تھی، اُسے کانپنے پہ مجبور کر رہیں تھیں مگر وہ ضبط کیے بال سُلجھا رہی تھی۔ بال سُلجھا کے اُس نے کمر پر ڈالے تو وہ بل کھاتے اِدھر اُدھر لہرا گئے۔ دوپٹہ سر پہ اوڑھ کے وہ بیڈ کی ایک جانب بیٹھی اور چادر سیدھی کر کے اوڑھ کر لیٹ گئی انداز ایسا تھا جیسے اُس کے عِلاوہ کمرے میں کوئی ہو ہی نہیں جبکہ دِِل سوکھے پتے کی طرح لرز رہا تھا جیسے داؤد سِکندر ابھی اُس پہ جھپٹے گا اور اُس کا گلا دبا کر مار دے گا۔


داؤد جو اُس کی پُشت پہ لہراتے بالوں کی حرکت کو غور سے دیکھ رہا تھا اُس کو بے خوفی سے بِستر پر دراز ہوتے دیکھ کڑھ کر رہ گیا۔


کُچھ سوچ کر وہ خود بھی فریش ہونے چلا گیا۔


فریش ہونے کے بعد وہ کمرے میں آیا اور بال سنوار کر بیڈ پہ دراز ہوا اور معصومہ کی طرف کروٹ لی۔ وہ سر سے پیر تک چادر لپیٹے سو رہی تھی یا شاید سونے کی ایکٹنگ کر رہی تھی۔


وہ کِھسک کر اُس کے قریب ہوا اور اُس کے کان کے قریب جُھکا۔


"اُٹھو و و وو ۔" وہ سرگوشی میں بولا تو معصومہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی۔


"واہ تُم تو بہت تابعدار ہو گُڈ۔" وہ تعریفی انداز میں بولا اور سیدھا ہو کر لیٹ گیا۔ وہ ناسمجھی سے اُسے دیکھنے لگی۔


"میں تُمہیں کیا کہہ کر پُکاروں؟ معصومہ یا رومیسہ؟" اُس نے سنجیدگی سے اُس کی بھوری آنکھوں میں جھانکا۔


"میرا نام معصومہ ہے تو آپ معصومہ ہی پُکاریں رومیسہ کیوں کہیں گے؟" معصومہ نے سادگی سے بتایا تو وہ کُچھ دیر اُس کی آنکھوں میں کُچھ ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہا مگر وہاں صِرف سچائی ہی رقم تھی۔


"مُجھے پسند نہیں کہ تُم میرے بیڈ پر لیٹو اُٹھو یہاں سے اور جہاں مرضی جا کے سو۔" داؤد نے نظروں کا رُخ موڑ کر کہا۔


"مم میں کہاں سوؤں؟ مم مُجھے یہی سونے دیں پلیز مم میں باہر کہاں جاوں گی؟" وہ روہانسی ہوتی کمرے کا جائزہ لینے لگی۔


کمرہ بہت بڑا تھا اعلٰی طرز کا فرنیچر، کارپٹ سمیت کمرے کی ہر چیز کمرے والے کے ذوق کا پتہ دیتی تھی۔ کمرے کے ایک طرف بالکُل الگ جہازی سائز بیڈ رکھا تھا جب کہ بیڈ کے دائیں جانب ڈریسنگ ٹیبل تھا اور سامنے ایل ای ڈی نصب تھی۔ ایک طرف ڈریسنگ روم تھا اور ڈریسنگ روم کے آگے اٹیچ باتھ روم تھا۔ دوسری طرف تین عدد صوفے رکھے گئے تھے جِن کے درمیان ٹیبل رکھا تھا۔


"ٹھیک ہے ایک شرط پہ سونے دوں گا اگر تُم میرے سوالوں کا جواب دو؟" داؤد نے کہا تو وہ اُس کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔


"تُم مُجھے صِرف اِتنا بتا دو کہ تُم نے اِنگلینڈ میں میرے ساتھ وہ سب کیوں کیا تھا؟" داؤد نے سنجیدگی سے پوچھا۔


"کیا کِیا تھا میں نے؟ اور میں تو کبھی اِنگلینڈ گئی ہی نہیں۔ " معصومہ نے حیرت زدہ سے لہجے میں پوچھا۔


"میرا ضبط مت آزماو لڑکی! مُجھے سب کُچھ سچ سچ بتا دو ہو سکتا ہے میں تُمہیں معاف کر دوں تُمہاری ہر ایک غلطی کے لیے۔" داؤد نے اُس کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا۔


"مم میں سچ کہہ رہی ہوں مم میں کبھی اِنگلینڈ نہیں گئی۔ مم مُجھے نہیں پتہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟" معصومہ کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے داؤد نے اُس کے بازو میں اپنے پنجے گاڑھ دئیے تھے درد سے وہ کراہ کر رہ گئی تھی۔


"دیکھو اگر تُم مُجھے بتا دو گی تو زندگی آسان ہو جائے گی ورنہ میں تُمہیں طلاق دے دوں گا۔" داؤد نے اُس کو روتے دیکھ کر اور اُس کی کراہ سُن کر سنجیدگی سے اُسے باور کروایا


۔معصومہ اُس کی بات سُن کر دنگ سی اُسے دیکھتی رہ گئی۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنا بند ہو گئے تھے کیسی قِسمت تھی اُس کی؟ شادی کی پہلی رات ہی اُس کا شوہر اُسے طلاق کی دھمکی دے رہا تھا۔


" مُجھے نہیں پتہ تھا کہ میری شادی آپ سے ہو رہی ہے اگر پتہ ہوتا تو کبھی بھی یہ شادی نہ کرتی میں تو کبھی آپ کے راستے میں نہیں آنا چاہتی تھی مگر قِسمت نے میرا ہر راستہ آپ کی طرف موڑ دیا ہے۔ میں تو خُدا کی رضا میں راضی ہوتی ہاشم جی سے شادی کر رہی تھی مگر شاید میرا نصیب آپ سے ہی جُڑا تھا۔ اور آپ کا جو دِل کرے آپ وہ کریں۔ اگر آپ مُجھے طلاق دینا چاہتے ہیں تو دے دیں مُجھے کوئی اعتراض نہیں۔ مُجھے نہیں پتہ آپ کو مُجھ سے کیوں نفرت ہے اور آپ کِس بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ لیکن اگر آپ کو مُجھے طلاق دینے سے سکون مِلتا ہے تو شوق سے دے دیجیے۔ جہاں اِتنی دیر دوسروں کی نفرت سہتے تنہا زندگی گُزار لی آگے بھی گُزار لوں گی کوئی اور ہو نا ہو میرا خُدا تو میرے ساتھ ہے نا۔" تلخ اور اذیّت بھری مُسکان ہونٹوں پہ سجاتی وہ کہہ کر چادر اُٹھاتی صوفے پہ چلی گئی۔ صوفے پر سمٹ کر لیٹتی وہ اپنا چہرہ چادر میں چُھپا گئی اور بے بسی سے بے آواز رونے لگی۔


داؤد اُس کی بات پہ گنگ بیٹھا رہ گیا تھا وہ اُلجھ کر رہ گیا تھا جہاں اُسے معصومہ کی آنکھوں میں سچّائی نظر آتی تھی وہیں خود کے ساتھ ہوئے حادثے کو یاد کر کے وہ معصومہ کو ہی قصوروار گرداننے لگتا تھا حقیقت کیا تھی یہ خُدا کے عِلاوہ کوئی نہیں جانتا تھا وہ اپنی ہی سوچوں میں اُلجھ کر رہ گیا تھا۔


*******************

آن اپنے کمرے میں بیٹھی تھی۔ معصومہ کے نِکاح کے وقت اُسے اپنے کانوں پہ یقین نہیں آیا تھا جب اُس نے داؤد سِکندر کا نام سُنا۔


جہاں اُسے قِسمت کے اِتفاق پر حیرت ہوئی تھی وہیں وہ معصومہ کے لیے پریشان بھی ہوئی تھی وہ جلد از جلد وجدان وجدان سے بات کرنا چاہتی تھی اُسے بھی تو پتہ ہو گا نا کہ معصومہ کی شادی کِس سے ہوئی ہے؟


وہ وقت کے ہیر پھیر پہ حیران تھی کہاں تو معصومہ کی قِسمت کِسی اور سے جُڑنے جا رہی تھی اور کہاں وہ پِھر سے داؤد سِکندر سے جا ٹکرائی تھی وہ جِتنا حیران ہوتی کم تھی۔


وہ تو ابھی تک اِسی شاک سے نہیں نِکل پا رہی تھی کہ داؤد معصومہ سے شادی پہ راضی کیسے ہوا؟ ابھی وہ یہی سب سوچ رہی تھی جب اُس کے فون پہ بیل ہوئی۔ اُس نے اُٹھا کے دیکھا تو وجدان کی کال تھی اُس نے جلدی سے کال اٹینڈ کی۔


"وجدان مُجھے آپ سے معصومہ کے بارے میں بات کرنی ہے۔" سلام کا جواب دیتے وہ تیزی سے بولی۔


"آرام سے یار! ریلیکس ہو کے بات کرو میں بھاگا تو نہیں جا رہا۔" وہ شرارت سے گویا ہوا۔


"وجدان میں مزاق کے موڈ میں نہیں ہوں۔" آن نے سنجیدگی سے کہا۔


"اچھا بولو کیا بات کرنی ہے؟" اب کی بار وجدان بھی سنجیدہ ہوا۔


"آپ کو پتہ ہے مومو کی شادی کِس سے ہوئی ہے؟" آن نے ہوچھا۔


"ہاں دُلہے سے ہوئی ہے مگر افسوس میں دُلہے کو دیکھ نہیں پایا مگر تُم مُجھے اُس کا نام تو بتاؤ؟" وجدان نے جواباً سوال کیا تو وہ گہرا سانس بھر کر رہ گئی۔


"داؤد سِکندر۔" آن نے دھیمے سے کہا۔


"اُس کا نام مُجھے آتا ہے تُم مُجھے میرے بہنوئی کا نام بتاؤ جاناں۔" وجدان نے خفگی سے کہا۔


"مومو کے دُلہے، میرے جیجو اور آپ کے بہنوئی کا نام داؤد سِکندر ہے وجدان۔" آن نے اونچی آواز میں کہا تو وہ اپنی جگہ سے اُچھل پڑا


"کیا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اِس کا مطلب معصومہ داؤد کے پاس اُس کے گھر میں اکیلی ہے وہ پتہ نہیں کیا سلوک کرے گا اُس کے ساتھ۔" وجدان کے لہجے میں پریشانی واضح تھی۔


"وہ داؤد کے بابا بھی تھے ساتھ وہ اکیلا نہیں تھا۔" آن نے کہا تو وجدان نے سکون کا سانس لیا۔


اگر وہ ساتھ تھے تو پِھر فِکر کی کوئی بات نہیں وہ اُسے کُچھ نہیں کہہ پائے گا۔" وجدان نے پُراعتماد لہجے میں کہا۔


"پکا نا کہ وہ اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا؟" آن نے یقین دُہانی چاہی۔


"میں کہہ رہا ہوں نا تو بس یقین کر لو۔" وجدان نے کہا تو آن مُسکرائی۔


"آپ پہ تو خود سے زیادہ یقین ہے مُجھے۔" آن نے کہا تو وجدان نے گلا کھنکھارا۔


"آہمم تو پِھر اپنے ماما پاپا کو منا لو نا؟ دیکھو میرے دونوں دوست شادی شُدہ ہو گئے ایک میں ہی ہوں جو کنوارا گھوم رہا ہوں۔" وجدان نے بے چارگی سے کہا تو وہ بے اختیار ہنس دی۔


"مُجھ سے محبّت کرتے ہِیں دانی؟" آن نے نظریں جُھکا کے پوچھا جیسے وہ سامنے ہی بیٹھا ہو۔


"ہائے صدقے۔ کِتنا اچھا لگتا ہے تُمہارے منہ سے۔ اب تُم نا مُجھے دانی ہی کہا کرو۔" وجدان نے چہک کر کہا تو وہ جھینپ کر رہ گئی۔


"جو پوچھا ہے وہ تو بتایا ہی نہیں؟" آن نے خفگی سے کہا۔


"جو سوال تُم نے پوچھا ہے وہ پوچھنا بنتا تو نہیں۔ مگر پھر بھی میں اِقرار کرتا ہوں کہ مُجھے تُم سے محبّت ہے محبّت ہے محبّت ہے۔ لو میں نے تُم سے نِکاحِ محبّت کر لیا۔" وجدان نے آنکھیں موندھے وجد کے عالم میں کہا۔


"آپ نے مُجھ سے نِکاحِ محبّت کر لیا ہے تو پِھر نِکاح زندگی کو آنے والے وقت پہ چھوڑ کے تھوڑا صبر کر لیں نا۔" آن نے اُس کی محبّت کی پھوار کو اپنے دِل پہ محسوس کرتے کہا۔


"جو حُکم آپ کا ملکئہ دِل! مگر اِس عاشِق کو زیادہ اِنتظار مت کروایے گا۔"وجدان نے دِل پہ ہاتھ رکھتے کہا تو وہ کِھلکِھلا اُٹھی۔


"اب یہ تو ہماری خواہش پہ ڈیپینڈ کرتا ہے کہ عاشق کو کِتنا اِنتظار کروانا ہے۔" آن نے شرارتی لہجے میں کہا۔


"کروا لو جِتنا اِنتظار کروانا ہے شادی کے بعد گِن گِن کے بدلے لوں گا تب دِکھانا یہ بُہادری۔" وجدان نے کہا تو وہ زیرِلب مسکراتی لیٹ گئی۔


"سو جائیں رات بہت ہو گئی ہے۔" اِتنا کہہ کر وہ بغیر اُس کی سُنے فون بند کر گئی جانتی تھی کہ وہ اپنی سُناتا جائے گا اور رات کا پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کہاں گئی۔


اور اِس وقت وہ بہت تھکی ہوئی تھی بس جی بھر کر سونا چاہتی تھی۔


وجدان فون کو گھورتا دوبارہ کال کرنے لگا مگر پِھر اُس کے آرام کا سوچ کر وہ فون بند کر کے سائیڈ ٹیبل پہ رکھتا خود بھی سونے کے لیے لیٹ گیا۔


****************


اُس کی آنکھ کھڑکی سے چھن کر آتی سورج کی روشنی سے کُھلی تھی جو سیدھے صوفے پر پڑ رہی تھی۔ اُس نے موندھی موندھی آنکھوں سے اِردگِرد کا جائزہ لیا پِھر خوابیدہ زہن کے ساتھ اُٹھ کر بیٹھی اور بالوں کو جوڑے میں باندھا۔


پِھر سیدھی ہو کے گردن جُھکا کر بیٹھ گئی آنکھیں بند تھیں جیسے وہ بیٹھی بیٹھی سو رہی ہو۔ چادر نیچے کارپٹ پہ گِری پڑی تھی جو وہ رات کو اوڑھ کر سوئی تھی دوپٹہ آدھا اُس پہ اور آدھا نیچے جھول رہا تھا۔


اچانک اُسے ایسا لگا کہ جیسے کوئی اُسے گھور رہا ہو پہلے اُس نے نظر انداز کیا مگر جب ہنوز وہ خود پہ گھورتی نظریں محسوس کرتی رہی تو وہ آنکھیں کھول کر ناگواری سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی


مگر نِگاہ سیدھا بیڈ پہ بیٹھے داؤد پہ جا پڑی جو بیڈ کی پائینتی کی جانب بیٹھا اُسی کی طرف دیکھ رہا تھا انداز ایسا تھا جیسے ابھی اُٹھ کر آئے گا اور اُسے ہاتھ سے پکڑ کر کمرے سے نِکال دے گا۔ اُسے دیکھ کے وہ اُچھل پڑی کل کا گُزرا وقت یاد آیا تو اُسے احساس ہوا کہ وہ دُشمن کے عِلاقے میں بیٹھی تھی۔


وہ جلدی سے دوپٹہ درست کرتی اُٹھ کھڑی ہوئی اور بغیر دوبارہ اُس کی جانب دیکھے سلام کرتی ڈریسنگ روم میں گُھس گئی۔ کُچھ دیر بعد وہ کپڑے ہاتھ میں تھامے باتھ روم کی جانب بڑھی۔

کُچھ دیر بعد وہ فریش ہو کر باہر آئی تو اُس نے ٹی پنک کلر کا کاٹن کا کامدار سوٹ پہن رکھا تھا۔


گُلابی سے سوٹ میں وہ خود بھی گُلابی گُلابی گالوں والی گُڑیا لگ رہی تھی وہ ایک نظر داؤد کو دیکھتی ڈریسنگ کے سامنے کھڑی بال سُلجھانے لگی۔ وہ ہنوز اُس کی طرف دیکھ رہا تھا ایک پل کے لیے بھی اُس نے معصومہ پر سے نظریں نہیں ہٹائیں تھیں۔


"اُف یہ کیوں گھوری جا رہے ہیں۔ اب اِن کے سامنے بال بناوں؟ اللّٰہ یہ تو مُجھے نظروں سے ہی کھا جائیں گے۔" وہ بڑبڑانے کے آئینے میں نظر آتے اُس کے عکس کو دیکھنے لگی۔


داؤد نے سفید رنگ کی کاٹن کی شلوار قمیض پہن رکھی تھی ابھی سردیاں پوری طرح نہیں آئی تھیں اِسی لیے وہ کاٹن کے سوٹ میں ملبوس تھا۔


"ویسے شاباش ہے معصومہ جہانگیر! اچھا کیا جو رات کو اِن کو بابا جان کی قسم دے دی اب اِن کے شر سے تو محفوظ رہ سکوں گی میں۔ ویسے میں کِتنی چالاک ہو گئی ہوں شُکریہ اللّٰہ تعالٰی جی! اگر آپ میرے دِماغ میں وہ ترکیب نہیں ڈالتے تو ابھی شاید میں داد جی کے جوتے پالش کر رہی ہوتی یا وہ مُجھ پہ ٹھنڈا پانی ڈال کر جگاتے آج۔" وہ اب بڑبڑانا چھوڑ کر دِل میں سوچ رہی تھی۔ بال بنا کے اُس نے پُشت پہ کُھلے چھوڑ دیے جو ابھی گیلے تھے۔


تیار ہو کے وہ دوبارہ صوفے پہ جا بیٹھی اور کرتی بھی کیا شوہر جب یہاں تھا تو وہ کِس کے ساتھ باہر جاتی جبکہ وہ کِسی کو جانتی بھی نہیں تھی۔ منہ اُٹھا کے باہر چلی جاتی تو سب کیا سوچتے اُس کے بارے میں۔


داؤد نے ایک نظر اُس کی تیاری کو دیکھا بلاوں کو کُھلا چھوڑے دُھلے دُھلائے چہرے کے ساتھ بغیر کِسی قِسم کا میک اپ کیے اور بغیر جیولری کے وہ اپنے سسُرال والوں سے مِلنے کو تیار تھی۔


وہ بغیر اُس کو مخاطب کیے اُسے بازو سے پکڑے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے لایا اور ہلکے گُلابی رنگ کی لپسٹِک اُس کو پکڑائی۔


"یہ لگاؤ۔" وہ جو پہلے ہی اُس کے ساتھ کھنچے جانے پہ حیران تھی اب اُس کی بات پہ ہونقوں کی طرح اُس کی طرف دیکھنے لگی


"میری شکل کیا دیکھ رہی ہو؟ لگاؤ یہ۔ تُم کیا چاہتی ہو بابا کو یہ لگے کہ میں نے اُن کی نئی نویلی بہو کے تیار ہونے پہ پابندی لگائی ہے اُن کی نظر میں بُرا بنانا چاہتی ہو نا مُجھے۔" وہ اُس کو بازو سے تھامے دانت پیستا کہی رہا تھا جیسے اُس کے دانتوں کے نیچے معصومہ ہو۔


"جج جی لل لگا رہی ہوں۔" وہ اُس کے سرد لہجے سے ڈرتی اُس کے ہاتھ سے لِپسٹک پکڑ کر لگانے لگی۔


کانپتے ہاتھوں سے اُس نے لپسٹک لگائی اُس کے قدرتی گُلابی ہونٹ اب اور گُلابی لگنے لگے تھے۔


اُس کے چہرے کا جائزہ لے کر اُس نے کاجل اور مسکارا اُس کی طرف بڑھایا جِسے اُس نے تھاما اور بے دِلی سے گانے لگی اُسے میک اپ کا کوئی خاص شوق نہیں تھا اِسی لیے اُس نے تیار ہوتے وقت میک اپ نہیں کیا تھا مگر اب داؤ کی گھوریوں سے بچنے کے لیے وہ اُس کی ہر بات مان رہی تھی۔


اُس نے کاجل اور مسکارا بھی لگا لیا تو وہ اُس کا رُخ اپنی طرف کرتا اُس کو دیکھنے لگا۔ بھوری کانچ سی آنکھیں کاجل کی ہلکی لکیروں میں واضح ہو رہیں تھیں۔


کُچھ دیر وہ یوں ہی کھڑا اُسے دیکھتا رہا تو وہ جُز بُز ہو کے رہ گئی


" چچ چلیں نن نیچے؟ مم مُجھے بھوک لگ رہی ہے۔" داؤد کو ہلتا نا دیکھ کر اُس نے منمنا کر کہا تو وہ ہوش میں آتا سر ہلا گیا اور دروازے کی جانب بڑھا معصومہ بھی اُس کی تقلید میں دروازے کی طرف بڑھی۔


جب وہ نیچے کی جانب بڑھنے لگے تو آٹھ بج رہے تھے سبھی لوگ ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے تھے۔

فاطِمہ اور یاسمین بیگم بھی وہاں موجود تھیں۔ وہ ابھی کُچھ دیر پہلے ہی آئیں تھیں۔ سِکندر صاحب باقی گھر والوں کو معصومہ کے بارے میں بتا چُکے تھے جبکہ یاسمین بیگم اور فاطِمہ اِس خبر سے انجان تھیں کہ داؤد نِکاح کر چُکا یے۔


وہ دونوں سیڑھیاں اُتر رہے تھے جب یاسمین بیگم کی نِگاہ اُن پہ پڑی وہ دونوں ایک ساتھ مکمل لگ رہے تھے جیسے وہ دونوں صِرف ایک دوسرے کے لیے ہی بنے ہوں۔ پُروقار چال چلتا مغرور تاثرات چہرے پہ سجائے آتا داؤد اور سہج سہج کر سیڑھیاں اُترتی معصوم سے چہرے والی معصومہ۔


یہ کون ہے جو داؤد کے ساتھ آرہی ہے؟" یاسمین بیگم نے حیرت سے پوچھا۔


"یہ ہماری بہو ہے معصومہ داؤد سِکندر۔ داؤد کی بیوی۔" جواب سِکندر صاحب نے دیا تھا اور آواز اِتنی اونچی تھی کہ فاطِمہ کے کانوں تک بخوبی پہنچی تھی۔ اُس کی آنکھیں حیرت اور غُصے سے پھٹتی سُرخ ہوئیں تھیں۔


داؤد اور معصومہ سیڑھیاں اُتر کر نیچے آچُکے تھے ابھی وہ آگے بڑھتے جب فاطِمہ تیر کی تیزی سے معصومہ کی جانب بڑھی تھی۔


"تُم! تُمہاری ہمّت کیسے ہوئی میرے داؤد سے شادی کرنے کی؟ میرے داؤد کو مُجھ سے چھیننے کی؟ وہ میرے ہیں صِرف میرے۔ چلی جاؤ یہاں سے۔ نِکلو ہمارے گھر سے۔" وہ معصومہ پہ جھپٹتی اُس کا گلا دباتے بولی تھی سب ہی اِس سِچویشن پر حیران پریشان رہ گئے تھے کِسی کو بھی فاطِمہ سے ایسی حرکت کی اُمید نہیں تھی وہ سب شاکڈ کھڑے تھے جبکہ معصومہ کی جان پہ بن آئی تھی۔


اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔ گردن پہ دباو پڑنے سے اُس کا سانس گُھٹنے لگا تھا جبکہ داؤد چُپ چاپ کھڑا بس تماشا دیکھ رہا تھا وہ جانتا تھا کہ وہ کراٹے جانتی ہے اِنگلینڈ میں وہ اُس سے پیٹ میں لات کھا چُکا تھا۔


وہ ابھی اِسی اِنتظار میں تھا جب سِکندر صاحب فاطِمہ کی جانب بڑھے اور معصومہ کو چُھڑانے لگے اور داؤد کو سخت گھوری سے نوازا تو وہ جلدی سے معصومہ کو کھینچ کرفاطِمہ سے چُھڑا گیا۔


"تُمہاری ہمّت کیسے ہوئی میری بیوی کے ساتھ اِس طرح کا سلوک کرنے کی؟ داؤد سِکندر کی بیوی ہے یہ کوئی گِری پڑی لڑکی نہیں جِسے جو بھی کُچھ بھی کہہ دے اور داؤد سِکندر خاموش کھڑا دیکھتا رہے اوریہ کیا بکواس کر رہی تھی تُم؟" داؤد نے معصومہ کو پکڑ کر اہنے پیچھے چُھپاتے فاطِمہ کی پہنچ سے دور کرتے کہا۔


اُس کی بات سُن کے جہاں فاطِمہ کے ہاتھ تھمے وہیں معصومہ اپنے لیے داؤد سِکندر کے منہ سے ایسے الفاظ سُن کر دنگ رہ گئی۔ داؤد اُس کے لیے لڑ رہا تھا؟ اُس کو بچا رہا تھا اُس کا دِل ایک دم ہی خوش گُمان ہونے لگا تھا۔


"میں پوچھ سکتا ہوں فاطِمہ کہ یہ کیا حرکت تھی بیٹا؟ آپ اپنی بھابھی کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہیں؟ اور داؤد کے بارے میں کیا کہہ رہیں تھیں آپ؟ وہ تو آپ کے بھائی ہیں پِھر آپ نے ایسا کیوں کہا؟" سِکندرصاحب نے پوچھا باقی سب خاموش کھڑے اُن کی گُفتگو سُن رہے تھے۔


"نہیں ہیں وہ میرے بھائی! محبت کرتی ہوں میں اُن سے۔ اور امی آپ نے کہا تھا کہ میری شادی داؤد سے ہو گی؟ اب یہ کِسے لے آئے ہیں یہ؟ ماموں جان نِکالیں اِسے باہر۔" فاطِمہ روتی چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی۔


"جی بھائی صاحب! میں آپ سے اِس بارے میں بات کرنے ہی والی تھی فاطِمہ اور داؤد کی شادی کے بارے میں۔ اور آپ اِس لڑکی کو نِکالیں یہاں سے۔ پتہ نہیں کِسے اُٹھا کر لے آیا ہے داؤد؟ جانے کیسے داؤد کو پھنسا لیا؟ یہ شہری لڑکیاں ہوتی ہی ایسی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اُن کی زبان کو لگام سِکندر صاحب کی پاٹ دار آواز نے لگائی تھی معصومہ تو نم آنکھوں سے لود کے بارے مِن ایسی باتیں سُنتی داؤد کی قمیض کو دبوچے کھڑی تھی۔


"بسسسس۔ بہت ہو گیا میں چُپ ہوں اِس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ جو چاہیں میری بیٹی کے بارے میں بولتے رہیں۔ یہ صِرف داؤد کی بیوی ہی نہیں میری بیٹی اور میری اِکلوتی بہو بھی ہے۔ داؤد نے میری مرضی اور خوشی سے معصومہ سے شادی کی ہے اور اب مُجھے اِس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی آپ لوگ اگر میری بیٹی کی عِزت نہیں کر سکتے تو آپ لوگ جا سکتے ہیں۔" سِکندر صاحب نے ایک ہی بار میں اُن کو خاموش کروایا تو وہ معصومہ کو گھورتی فاطِمہ کو وہاں سے لے گئیں اُس لڑکی کی وجہ سے پہلی بار اُن سے اِتنے سخت لہجے میں بات کی تھی۔


سِکندر صاحب سہمی ہوئی معصومہ کی جانب بڑھے تو داؤد نے اپنا ہاتھ پیچھے کر کے اُسے بازو سے پکڑتے اپنے سامنے کیا۔ سِکندر صاحب نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے اُسے حوصلہ دیا اور اُن دونوں کو لیے ڈائیننگ ٹیبل کی طرف بڑھے۔


معصومہ سب کو سلام کر کے داؤد کے ساتھ والی کُرسی ہر بیٹھ گئی۔


"آ معصومہ؟ یہ میری چھوٹی بہن ہے تحریم۔ یہ میرے چچا چچی ہیں اور تحریم کے ساس سسُر بھی۔ اِن کا ایک ہی بیٹا ہے حیدر جِس سے تحریم کا نِکاح ہو چُکا ہے اور یہ میری امّو جان ہیں۔" داؤد نے سِکندر صاحب کے اِشارے پہ سب کا تعارُف کرواتے کہا تو وہ سب کی طرف دیکھتی دھیمے سے مُسکرا گئی جبکہ تحریم اپنے اِس تعارف پر جھینپتی سر جُھکا گئی۔


"بیٹا جو کُچھ بھی آج ہوا اُس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔ مُجھے اندازہ نہیں تھا کہ آج آپ کے یہاں پہلے دِن ہی ایسا کُچھ ہو جائے گا۔ داؤد تو فاطِمہ کو اپنی بہن مانتا ہے مگر اُس نے ناجانے کیوں کُچھ اور سمجھا آپ کُچھ بھی غلط مت سمجھیے گا۔ فاطِمہ کو یقیناً کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ہم اُسے سمجھا لیں گے۔" حمدہ بیگم نے نرمی سے معصومہ سے کہا تو وہ اُن کے محبت بھرے لہجے پہ مُسکراتی سر ہلا گئی۔


"آپ بے تکلف ہو کے ناشتہ کریں اب تو یہ آپ ہی کا گھر ہے۔" زینب بیگم نے اُسے کہا۔


"جج جی میں ٹھیک ہوں۔" وہ جھجکھتی بولی تو سب اُس کی جِھجھک پر مُسکرا دیئے۔

وہ سب کو ہی بہت اچھی لگی تھی۔ معصوم سے نین نقوش اور سادہ سی خوبصورت چھوٹی سی لڑکی سب کے دِل میں ایک ہی لمحے میں اپنی جگہ بنا گئی تھی۔ خاص کر تحریم کو اپنی یہ گُڑیا جیسی بھابھی بہت پسند آئی تھی وہ اپنی بھابھی سے پکّی والی دوستی کر لے گی اُس نے ابھی سے سوچ لیا تھا جبکہ داؤد اُن سب سے بے نیاز ناشتہ کرنے میں مصروف تھا۔

*****************

ناشتے کے بعد حمدہ بیگم اور زینب بیگم نے اُس سے ڈھیروں باتیں کیں تھی اُس کی فیملی کے بارے میں اُس کے بارے میں سب کُچھ پوچھا اور معصومہ کے بتانے پہ اُنہوں اُس کے لیے بہت دُکھ ہوا تھا کہ وہ یتیم ہے۔


مگر پِھر اُنہوں نے معصومہ کو محبت سے اپنے ساتھ لگاتے اُسے باور کروایا تھا کہ اب سے اُس کی دو مائیں ہیں جِس پہ وہ نم آنکھوں سے بس سر ہلا کے رہ گئی تھی۔


تحریم کافی دیر سے اُسے اُن کے پاس بیٹھا دیکھ رہی تھی مگر پِھر جب وہ نا اُٹھی تو خود معصومہ کو وہاں سے کھینچ کے اُس کے کمرے میں لے آئی تھی اُسے اپنی بھابھی سے ڈھیر ساری باتیں کرنی تھیں۔ داؤد تو بابا سائیں کے ساتھ ڈیرے پہ چلا گیا تھا جہاں سِکندر صاحب کو زمینوں کا کام اور حِساب کِتاب دیکھنا تھا۔


وہ معصومہ کو لیے داؤد کے کمرے میں داخل ہوئی اور معصومہ کو بیڈ پہ بِٹھا کر خود اُس کے سامنے بیٹھ گئی اور تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتی بازو کو گُھٹنے پہ ٹِکا کے معصومہ کو ٹکر ٹکر دیکھنے لگی۔

معصومہ اُس کے اِس انداز پر تھوڑا اُلجھی پِھر سر جُھکا کر اُس کے بولنے کا اِنتظار کرنے لگی مگر وہ ہنوز چُپ بیٹھی اُسی دیکھ رہی تھی۔


کُچھ پل اور سِرکے تو معصومہ نے سر اُٹھا کر اُسے دیکھا اور اُس کے سامنے ہاتھ لہرایا۔


"آپ اا ایسے کیوں دیکھ رہیں ہیں؟" معصومہ نے جِھجھک کر پوچھا۔


"دیکھ رہی ہوں بھائی کو اِتنی خوبصورت پری کہاں سے مِل گئی؟ آپ بہت بہت بہت خُوبصورت ہیں بالکُل پرِنسسز کی طرح۔ آپ داؤد بھائی کے ساتھ بہت پیاری لگ رہیں تھی دا پرفیکٹ کپل اور آپ کو پتہ ہے آپ کی آنکھیں بھی بہت پیاری ہیں بالکل شہد کی طرح۔ اور آپ کی ناک کِتنی چھوٹی ہے اور آپ کے بال بھی بہت پیارے ہیں پتہ ہے آپ پوری کی پوری بہت پیاری ہیں۔" وہ ایکسائٹڈ سی بولنے پہ آئی تو بغیر رُکے بولتی چلی گئی۔ معصومہ حیرانی سے اُس کی پٹر پٹر چلتی زبان دیکھ رہی تھی۔

اپنی تعریف سُن کے اُس کا چہری گُلال ہوا تھا۔


"آپ بھی سوچ رہیں ہوں گی نا کہ میں کِتنا بولتی ہوں تو بالکُل صحیح سوچ رہی ہیں میں صِرف فاطِمہ کے ساتھ اِتنا بولتی ہوں باقی اور تو کوئی ہوتا نہیں جِس کے ساتھ میں باتیں کروں۔ اور فاطِمہ تو میری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ فاطِمہ کے بارے میں بولتی ایکدم رُکی۔


"سوری بھابھی! دراصل میں خود بھی حیران ہوں کہ اُس نے آج وہ سب کیوں کہا وہ تو داؤد بھائی کو اپنا بھائی سمجھتی ہے مگر آج اُسے ناجانے کیا ہو گیا تھا آپ پلیز کُچھ غلط مت سمحھیے گا۔" تحریم نے اُس کا ہاتھ تھام کر کہا۔


"نہیں میں کیوں اُنہیں غلط سمجھوں گی۔ شاید میں نے اُن سے اُن کا حق چھین لیا شاید داؤد جی بھی اُنہیں پسند کرتے ہوں۔" یہ سوال تو صُبح سے ہی اُس کے ذہن میں گھوم رہا تھا تو اب زبان پر بھی آ گیا۔


"ارے نہیں بھابھی! بھائی تو اُسے میری طرح اپنی بہن کی طرح ہی ٹریٹ کرتے ہیں آپ ایسے گمان مت رکھیں اپنے دِل میں۔ بھائی اپنے سے جُڑے رِشتوں کے ساتھ بہت لائل ہیں۔ وہ آپ سے بھی بہت محبّت کرتے ہوں گے آپ ہیں ہی اِتنی پیاری۔" تحریم نے کہا تو معصومہ پھیکا سا مُسکرا گئی۔ کر ہی نہ لیں وہ اُس سے محبّت۔


"آپ اپنے بھائی سے بہت محبّت کرتی ہیں؟" وہ تحریم کے لہجے میں داؤد کے لیے مان اور محبّت دیکھ کر بولی۔


"ہاں وہ میرے اِکلوتے بھائی ہیں تو مُجھے اُن سے محبّت تو ہو گی نا۔ اور یہ آپ مُجھے آپ آپ مت کہیں۔ عُمر میں نہ سہی رِشتے میں تو آپ بڑی ہیں نا مُجھ سے۔" تحریم نے مُدکرا کر کہا تو وہ سر ہلا گئی۔


تحریم کُچھ دیر اُس کے پاس بیٹھی رہی پِھر اُسے آرام کرنے کا کہہ کر نیچے چلی گئی۔معصومہ فاطِمہ اور داؤد کے بارے میں سوچتی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا گئی۔


*******************


آن اور وجدان انجم صاحب سے اِجازت لے کر داؤد کے گاؤں کی طرف نِکل گئے تھے آج اُن کا اِرادہ تھا معصومہ سے مِلنے جانے کا۔ آن معصومہ کے لیے پریشان تھی اُسے تب تک تسلّی نہیں ہونی تھی جب تک وہ خود اُسے اپنے سامنے صحیح سلامت نہ دیکھ لیتی۔


اِس وقت بھی گاڑی میں بیٹھی میوزک سے چھیڑ چھاڑ کر رہی تھی جبکہ وجدان ڈرائیونگ میں مصروف تھا۔ موسم کافی خوشگوار تھا موسم بدل رہا تھا تو فضا میں بھی خوشگواریت محسوس ہو رہی تھی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلتی دِل کے موسم کو بھی خوشگوار کر رہی تھی۔


"یار یہ میوزک چھوڑو اور مُجھ سے باتیں کرو۔" وجدان نے اُسے ٹیپ سے اُلجھتے دیکھ کر کہا۔


"میں آپ سے کیا بات کروں؟" آن نے سیٹ کی پُشت سے ٹیک لگا کر پوچھا۔


"کُچھ بھی بولو بس چُپ نہ رہو۔ چلو اپنے بارے میں ہی کُچھ بتا دو۔" وجدان نے کہا۔


"میرا نام آن ہے۔ میں نے بی ایس کی ہے۔ میں لاہور میں رہتی ہوں۔ میرے پاپا کا نام انجم ہمدانی ہے اور ماما کا نام شاہینہ انجم ہمدانی ہے۔ میری منگنی ہو چُکی ہے جِس میں صِرف میں اور میرے منگیتر صاحب ہی موجود تھے اور میرے منگیتر کا نام وجدان آفندی ہے۔ وہ امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ کا بزنس کرتے ہیں اور اُنہیں باتیں کرنے کا بہت شوق ہے۔" آن کِسی شاگِرد کی طرح اپنا تعارُف کروانے لگی جبکہ وجدان اُسے خفگی سے گھور کر رہ گیا۔

میں تُمہارا اُستاد تو نہیں ہوں جو ایسے بچوں کی طرح اپنے بارے میں بتا رہی ہو۔" وجدان کی خفگی عروج ہر تھی۔


"ہاہاہا! مزاق کر رہی تھی۔" آن نے ہنس کر کہا تو وہ بھی مُسکرا دیا۔


اچھا میں تُمہیں اپنے بارے میں بتاتا ہوں مُجھے نا آن حمدانی سے بہت محبّت ہے اور مُجھے اُس پہ سُرخ رنگ بہت اچھا لگتا ہے وہ جب مُسکرا کر میری طرف دیکھتی ہے تو میرے دِل کے باغ میں گُلاب کے پھول کِھل اُٹھتے ہیں جب وہ بولتی ہے تو اُس کے منہ سے پھول جھڑتے محسوس ہوتے ہیں۔ پِھر میرا دِل کرتا ہے کہ اُسے سب سے چُھپا کے دُنیا سے چُھپا لوں۔" وجدان کبھی اُس کو اور کبھی وِنڈ سکرین کے پار دیکھتا کہہ رہا تھا جبکہ آن سُرخ چہرہ لیے سر جُھکائے مسکرا رہی تھی۔


"اور کُچھ جاننا ہے میرے بارے میں؟" وجدان نے اُس کا ہاتھ تھام کر پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی اُس کی دھڑکنوں کا شور اُسے کانوں میں اُٹھتا سُنائی دے رہا تھا وہ کُچھ کہہ بھی نہ پا رہی تھی۔


وجدان تو اُس کے چہرے پہ چھائے حیا کے رنگ اور آنکھوں کی چِلمنوں کا اُٹھنا گِرنا دیکھ کر مبہوت رہ گیا تھا۔


"کک کب پہنچیں گے؟" آن نے چہرے پہ وجدان می پُرشوق نظروں کی تپش محسوس کر کے بات بدلنا چاہی۔


"کب تک بھاگو گی مِسز ٹو بی؟ بہت جلد میری پناہوں میں ہی آنا ہے۔" وجدان نے کہہ کر اُس کا ہاتھ اپنے دِل کے مقام پہ رکھا تو وہ اُس کی دھڑکنوں کا شور محسوس کرتی گھبرا اُٹھی اور جھٹ سے ہاتھ کھنچنا چاہا مگر وجدان نے اُس کی یہ کوشش ناکام بنا دی۔


پِھر ہورا راستہ وجدان اُس کا ہاتھ تھامے رہا تھا۔ چھوٹی موٹی نوک جھونک اور محبت بھری باتوں میں اُن کا یہ سفر بہت خوشگوار گُزرا تھا۔


*****************


وِشہ اور روحان اِس وقت ایک ریسٹورنٹ میں آمنے سامنے بیٹھے تھے وہ آج وِشہ کی ضد پر اُسے باہر لنچ کے لیے لے کے آیا تھا۔ روحان کا اِرادہ تھا کہ وہ جلد ہی کُچھ سپیشل سا پلین کر کے وِشہ کو اپنے دِل کی بات بول دے گا لیکن ابھی فی الحال اُس نے ایسا کُچھ پلین نہیں کیا تھا۔


"آرڈر کرو۔" روحان نے کہا تو وہ سر ہلاتی مینیو کارڈ دیکھنے لگی روحان اُس کے جُھکے سر اور کُھلے بالوں کو دیکھنے لگا اُنگلک تھوڑی پہ ٹِکائے وہ لنچ کے لیے کوئی ڈِش ڈیسائیڈ کر رہی تھی۔


وہ اِس وقت سفید ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس تھی جبکہ روحان نے بھی جینز پہ ٹی شرٹ پہن رکھی تھی۔

وہ مینیو دیکھ رہی تھی اور روحان وِشہ کو نہار رہا تھا۔

"مُجھے تو کُچھ سمجھ ہی نہیں آرہا کہ کیا آرڈر کروں آپ ہی دیکھ کے بتائیں اور آرڈر بھی کر دیں۔ " وِشہ نے جھنجھلا کر مینیو اُس کی طرف بڑھایا تو وہ اُس پر سے نظریں ہٹاتا مینیو کارڈ دیکھنے لگا۔

اب روحان ڈِش سیلیکٹ کر رہا تھا اور وہ روحان کو نہار رہی تھی۔ اُس کا ہینڈسم اُس کے سامنے بیٹھا غور سے مینیو دیکھ رہا تھا اور وہ خود اپنے ہینڈسم کو دیکھ رہی تھی جبکہ دور بیٹھی دو آنکھیں اُن کو اِس طرح ایک دوسرے کے ساتھ ریسٹورینٹ میں بیٹھے دیکھ کر غُصّے سے سُرخ ہو رہیں تھیں اُس وجود کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ وہاں جاتا اور اُن دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے الگ الگ دُنیاوں میں بھیج دیتا۔


روحان نے ویٹر کو بُلا کے آرڈر دیا اور خود ٹیبل پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا۔


"ویسے آپ کا بہت شُکریہ میری بات ماننے کے لے۔" وِشہ نے بات برائے بات کہا۔


"اِس میں شُکریہ کی کونسی بات ہے وِشہ؟ تُم میری کولیگ ہو سارھ لنچ کرنے میں کوئی بُرائی تو نہیں۔ " روحان نے کہا تو وِشہ کا منہ حیرت سے کُھل گیا۔


"آپ بدل رہے ہیں۔ " وِشہ نے منہ کھولتے کہا۔


"مُنہ بند کرو وشہ! لوگ دیکھ رہے ہیں۔ " روحان نے انجان بنتے بات بدلنے کی کوشش کی۔


"پہلے آپ مُجھے مِس وِشہ کہتے تھے مُجھے "آپ" کہتے تھے اور اب "وِشہ" اور "تُم" کہہ رہے ہیں۔ گولی بازو پہ ہی لگی تھی نا؟ کہیں دِماغ پہ اثر تو نہیں ہو گیا۔ " وِشہ نے ہنوز حیرانی سے کہا تو روحان آگے کو جُھکا اور اُس کی تھوڑ کے نیچے ہاتھ رکھ کر اُس کا منہ بند کیا جہاں اُس کی حرکت پی وِشہ ساکت ہوئی وہیں دور بیٹھا وہ وجود غُصّے کے مارے تلملا اُٹھا۔


"تُمہیں اِس بدلاو پہ اعتراض ہے؟ کیا تُمہیں پسند نہیں کہ میں بغیر تکلفات کے تُم سے مُخاطب ہوں؟ " روحان نے اُس کی تھوڑی کو دو اُنگلیوں سے تھامے گھمبیر لہجے میں کہا تو وہ اُس کی آواز میں جذبات کی حِدّت محسوس کرتی نظریں جُھکا گئی۔


"نن نہیں۔ مم مُجھے کوئی اا اعتراض نن نہیں۔ " وِشہ کا اعتماد ایک دم ڈانوں ڈول ہوا تھا جواب بھی اٹک اٹک کر دیا تھا جب کہ اُس کے لہجے کی کپکپاہٹ پہ وہ مُسکرا دیا تھا۔


"حیا کے رنگ بہت خوبصورت لگتے ہیں تُمہارے چہرے پہ۔" روحان تو شاید آج وِشہ کو مارنے کے درپے تھا تبھی ایسی باتیں کر رہا تھا اور وِشہ کو لگ رہا تھا یہ وہ روحان ہے ہی نہیں جو کھڑوس سا تھا اُس سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتا تھا۔


"جج جی۔ " وہ کُچھ کہہ نہ پائی تو بس جی کہہ کر رہ گئی۔ وہ وجود وِشہ کے چہرے پہ آتے جاتے رنگ اور اُس کا جُھکا سر دیکھ کر بہت کُچھ سمجھ چُکا تھا روحان کا اُس کی طرف محبّت سے دیکھنا اور وِشہ کا شرما کر سر جُھکانا اُسے بہت کُچھ سمجھا گیا تھا۔


ایک دم ہی اُس کے خون میں ایک لاوا سا اُبلا تھا اُس کا ہاتھ بے اختیار لیدر کی کالی جیکٹ کی اندرونی جیب میں گیا تھا اور جب اُس کا ہاتھ باہر آیا تو اُس میں ایک چھوٹا سا پِسٹل تھا اُس نے ایک نظر اِدھر اُدھر دیکھا اور پِھر سامنے بیٹھے وِشہ اور روحان پر نظریں مرکوز کیں۔ سب خود میں مصروف تھے اُس کی طرف کوئی متوجّہ نہیں تھا۔ اُس نے نشانہ لے کر پِسٹل کو سیدھا کیا اور رُخ سامنے کی طرف کیا وِشہ بالکُل اُس کے سامنے بیٹھی تھی۔ جبکہ روحان کی اُس کی طرف پُشت تھی اور اُس کا تِرچھا رُخ نظر آ رہا تھا۔ اُس نے ٹریگر پر اُنگلی رکھی اور اُس پہ دباو ڈالا۔


شو کی آواز سے گولی نِکل اور سامنے بیٹھی وِشہ کی پسلی میں گُھس گئی ایک اور بار شو کی آواز آئی اور دوسری گولی فضا میں تیرتی وِشہ کے کندھے کے آر پار ہو گئی۔ وہ وجود سکون سے بیٹھا وِشہ کا لہولہان ہوتا وجود دیکھ رہا تھا پِسٹل کو وہ دوبارہ اندرونی جیب میں رکھ چُکا تھا پِسٹل پہ سائلنسر لگا تھا جِس کی وجہ سے گولی چلنے کی آواز نہیں آئی۔


وروحان وِشہ کی طرف دیکھتا کُچھ کہہ رہا تھا جب وِشہ کے جِسم کو ایک دم جھٹکا لگا اور اُس کی پسلی والی سائیڈ سے خون بہنے لگا پِھر اُسے دوبارہ جھٹکا لگا اور اُس کے کندھے سے خون بہنے لگا تکلیف کی شِدّت سے وِشہ چیخ بھی نہیں پائی مگر آنسو آنکھوں سے نِکلتے گالوں پہ بہہ رہے تھے۔


وہ دھڑام سے نیچے گِری تو ہر طرف ایک شور سا مچ گیا خون تیزی سے پھسلتا ریسٹورینٹ کے فرش کو سُرخ کر رہا تھا روحان سکتنے کی حالت میں بیٹھا وِشہ کے جِسم سے خون نِکلتا دیکھ رہا تھا شور کی آواز پہ وہ ہوش میں آتا وِشہ کی جانب بڑھا اور اُسے اُٹھا کرسیدھا کرتا اُس کا سر اپنے فود میں رکھ گیا۔


"وِشہ وِش وو وِش آنکھیں کھولو۔ کیا ہوا ہے آنکھیں کھولو پلیز آنکھیں بند نہیں کرنا پلیز کوشش کرو آنکھیں بند نہیں کرنا۔" وہ اُسے آنکھیں کُھلی رکھنے کو کہتا اُسے اپنے بازووں میں اُٹھانے لگا۔


وِشہ کی سفید ٹی شرٹ اب سُرخ رنگ سے رنگی جا چُکی تھی۔ لوگ ایک دوسرے کو دھکے دیتے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے کُچھ لوگ رُک کر روحان کی گود میں موجود اُس پیاری سی لڑکی کو دیکھ رہے تھے جو خون میں نہا گئی تھی۔


ریسٹورینٹ کے مینیجر نے پولیس کو اِطلاع کر دی تھی۔ روحان وِشہ کو اُٹھائے تیزی سے باہر کی طرف بڑھ رہا تھا پاس میں ہسپتال تھا وہ سڑک عبور کرتا تیزی سے ہسپتال کی جانب بڑھا ہسپتال میں داخل ہو کے وہ ایمر جنسی کو بُلانے لگا۔ جلد ہی ڈاکٹر اور نرسز اُس کی طرف بڑھے تو اُس نے وِشہ کو اسٹریچر پر لٹا دیا۔


"یہ پولیس کیس ہے آپ پہلے پولیس کو بُلائیں ہم ایسے ہی اِن کا عِلاج شروع نہیں کر سکتے۔" ڈاکٹر کی بات پر روحان غُصّے سے اُس کی طرف بڑھا اور ایک زور دار تھپڑ اُس کے منہ پہ مارا ڈاکٹر لڑکھڑا کر دیوار سے جا ٹکڑایا اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے روحان کے غُصّے سے سُرخ چہرے کو دیکھنے لگا۔


"یہاں میری زندگی کی زندگی کا سوال ہے اور تُمہیں پولیس کی پڑی ہے؟ جان لے لوں گا میں تُمہاری اگر میری وِش کو کُچھ ہوا۔ روئے زمین پر نظر نہیں آو گے تُم۔ اگر میری وِش کی سانسوں کی ڈور ٹوٹی تو میں تُمہیں توڑ دوں گا۔" جیب سے آرمی بیج نِکال کر ڈاکٹر کی آنکھوں کے سامنے کرتا وہ دھاڑ رہا تھا اُس کی سرد و سپاٹ آواز سُن کر ڈاکٹر کے چہرے پہ پسینہ پھوٹا تھا وہ جلدی سے سر ہلاتا نرس کووِشہ کو آپریشن روم میں لے جانے کا کہنے لگا۔


نرس وِشہ کو لے کے جانے لگی تو روحان بھی

اسٹریچر کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ خون تیزی سے بہہ رہا تھا وِشہ کا چہرہ خون بہنے کی وجہ سے زرد پڑ گیا تھا۔ روحان نے ڈبڈبائی آنکھوں سے وِشہ کو دیکھا تو اُسے بے اختیار آن کی بات یاد آئی "کہیں دیر نہ ہو جائے"۔


"نہیں میں تُمہیں کُچھ نہیں ہونے دوں گا پلیز ایک بار ایک بار ٹھیک ہو جاؤ۔" روحان نے وِشہ کا ہاتھ تھام کے کہا۔ نرس اُسے باہر رُکنے کا کہہ کر خود وِشہ کو لیے آپریشن تھیٹر میں داخل ہو گئی۔


جبکہ روحان تھکے تھکے انداز میں چیئر پر ڈھے گیا اُس نے اپنے ہاتھوں کو سامنے کر کے دیکھا جہاں وِشہ کا خون لگا تھا۔ وہ اُس کی وِشہ کا خون تھا اُس وِشہ کا جِس سے محبّت کا احساس اُسے بہت دیر سے ہوا تھا اور اب ہوا تھا تو وہ اُسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔ اُس کا روم روم خُدا سے اُس کی صحت یابی کی دُعا کر رہا تھا۔


پِھر اُس نے جیب سے فون نِکالا اور ہیڈ کوارٹر میں اِطلاع دی تا کہ وِشہ کے گھر والوں کو اِطلاع دی جا سکے۔ فون کو واپس رکھتا وہ اذیّت سے آنکھیں میچتا سر ہاتھوں میں تھام گیا۔


********************


وہ اِس وقت کمرے میں تھی لنچ سب نے ساتھ ہی کیا تھا داؤد تو لنچ کے بعد پِھر سے باہر نِکل گیا تھا اُس کا سامنا دوبارہ داؤد سے نہیں ہوا تھا جبکہ تحریم فاطِمہ سے مِلنے گئی تھی تا کہ اُس سے صبح جو ہوا اُس کی وجہ جان سکے۔


حمدہ بیگم اور زینب بیگم باہر لان میں بیٹھیں تھیں وہ پہلے اُنہی کے پاس بیٹھی تھی مگر پِھر اُٹھ کر کمرے میں چلی آئی۔


ابھی وہ بیٹھی کُچھ کرنے کا سوچ ہی رہی تھی جب سِکندر صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔


"اسلامُ علیکُم بابا جان! آپ کب آئے۔" معصومہ نے اُن کو کمرے میں آتا دیکھ کر سلام کے بعد پوچھا۔

"وعلیکُم سلام بیٹا میں بس ابھی آیا۔ آپ بیٹھے مُجھے آپ سے کُچھ بات کرنی ہے۔" سِکندر صاحب نے جواب دیتے اُسے بیٹھنے کا اِشارہ کیا اور خود بھی صوفے پہ بیٹھ گئے۔


"جی کک کیا بات کرنی ہے؟" معصومہ نے ہچکچا کر پوچھا۔


"میں نے رات کو آپ سے کہا تھا کہ ہم صُبح بات کریں گے جو آپ نے رات کو کہا اِس کے بارے میں۔ اب آپ مُجھے سب کةچھ سچ سچ بتائیں۔" سِکندر صاحب نے کہا تو وہ گہرا سانس بھرتی اُنہیں شروع سے لے کر آخر تک سب بتاتی چلی گئی۔ داؤد سے پہلی مُلاقات، اُس کی نفرت، غُصّہ سب کُچھ بتانے کے بعد اُس نے داؤد کے رویے کے بارے میں بھی بتا دیا تو وہ سوچ میں پڑ گئے۔


"کیا آپ کبھی اِنگلینڈ گئیں ہیں؟" اُنہوں پوچھا تو معصومہ نے نفی میں سر ہلا دیا۔


"میں اِگلینڈ تو کیا شہر سے باہر بھی نہیں گئی بابا جان! مُجھے نہیں پتہ کہ وہ ایسا کیوں کہتے ہیں۔" معصومہ نے ڈبڈبائی آنکھوں سسے کہا تو وہ بے اختیار اُٹھ کر اُس کے پاس بیٹھے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ گئے۔


"داؤد کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی۔ میں اُسے سمجھا لوں گا آپ فِکر مت کریں۔" اُنہوں نے اُسے تسلی دی تو وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔


"آہمم لگتا ہے میری شکایات کی جارہیں ہیں؟" داؤد کمرے میں داخل ہوتے بولا۔


"نہیں ہماری بیٹی ایسی نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی شکایت کرے۔ ہماری بیٹی تو بہت اچھی ہے اِس نے مُجھ سے کوئی شِکایت نہیں کی۔" سِکندر صاحب نے کہا۔


"جی بابا سائیں! رو آ میرا مطلب معصومہ! باہرتُمہاری دوست آئی ہے۔ آ جاؤ آ کر مِل لو۔ " اُس نے اُسے رومیسہ پُکارتے گڑبڑا کر تصیح کی اور آن کی آمد کا بتایا تو وہ خوشی سے باہر کی طرف بڑھی۔


"ہم بھی وہی جا رہے ہیں۔" داؤد نے طنزیہ کہا تو وہ جھینپ کر رُک گئی بابا جان نے داؤد کو گھورا تو وہ سر پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا وہ اُس کے باپ کم اور معصومہ کے زیادہ بن گئے تھے۔ سِکندر صاحب معصومہ کو لیے باہر نِکلے تو وہ بھی اُن کے پیچھے چل دیا۔ اُس نے بس آن کو دیکھا تھا وجدان کی آمد سے وہ بے خبر تھا۔


******************


"کیسے کیسے کر سکتے ہو تُم اِتنی بڑی غلطی؟ کہا تھا نا کہ مُجھے معصومہ اپنے پاس اپنے سامنے چاہیے؟ پِھر کیسے اِتنی بڑی لاپرواہی کر دی تُم لوگوں نے۔" سامنے مُکمل سیاہ لباس میں ملبوس وہ وجود دھاڑ رہا تھا۔


"اور اُس کی شادی ہوئی بھی کِس سے؟ اُس داؤد سِکندر سے؟ میں کیا کروں کیسے اُسے وہاں سے نِکالوں کیسے اُسے اپنے پاس لاوں؟ جی کر رہا ہے تُم لوگوں کو گولی سے اُڑا دوں۔" وہ وجود خود سے بڑبڑاتا اب اپنے سامنے کھڑے اپنے آدمیوں پہ دھاڑ رہا تھا۔


"مُجھے معصومہ جہانگیر اپنے سامنے چاہیے۔ کیسے بھی کر کے اُسے یہاں لاو چاہے اِس کے لیے تُم لوگوں کو اُسے بیوہ ہی کرنا پڑے۔" وہ وجود اب حُکم دے رہا تھا۔


"مگر بلیک ڈائمنڈ؟ پہلے ہی آرمی والے ہمارے پیچھے پڑے ہیں اب ایسے میں ہم نے زرا سی بھی غلطی کر دی تو ہم پکڑے جائیں گے۔" ایک آدمی نے ڈرتے ڈرتے کہا۔


"یہ سب مُجھے نہیں معلوم۔ مُجھے بس وہ اپنے پاس چاہیے داؤد سِکندر کی پہنچ سے دور۔" اُس نے بے نیازی سے کہا تھا جبکہ اُس کے آدمی اُس کے حُکم ہر ایک دوسرے کی شکل دیکھ کر رہ گئے تھے جیسے بھی اب اُنہیں اپنے باس کا حُکم تو پورا کرنا ہی تھا۔


*********************

وہ داؤد اور بابا جان کے ساتھ ڈرائینگ روم میں داخل ہوئی تو سامنے ہی آن اور وجدان بیٹھے نظر آئے وہ تیزی سے اُن کی جانب بڑھی اور آن کے گلے لگی پِھر وہ وجدان سے مِلی داؤد تو وجدان کو یہاں دیکھ کر حیران تھا اُسے بس یہی لگا تھا کہ آن اکیلی آئی ہے۔


سلام دُعا کے بعد معصومہ آن کے ساتھ ہی بیٹھ گئی جبکہ سِکندر صاحب وجدان اور آن سے مِل کر باہر نِکل گئے۔ داؤد وجدان کو اِشارہ کر کے باہر نِکلا تو وہ ایکسکیوز کر اُس کے پیچھے گیا۔


"کیسی ہو تُم؟ ٹھیک تو ہو نا؟ داؤد بھائی کا رویہ کیسا تُمہارے ساتھ؟ وہ کُچھ کہتے تو نہیں نا تُمہیں؟ ہاتھ تو نہیں اُٹھاتے نا تُم پہ؟" آن نے اُس کا چہرہ، سر، بازو ٹٹولتے کہا تو وہ مُسکراتی نفی میں سر ہلانے لگی۔


"کُچھ نہیں کہتے وہ مُجھے بلکہ کہہ ہی نہیں سکتے۔" معصومہ نے آنکھیں گُھما کر کہا تو آن حیرانی سے اُس کی آواز میں خوشی محسوس کرتی اُسے دیکھنے لگی۔


"کیوں؟ اُنہیں تُم سے پیار ہو گیا ہے کیا؟" آن نے شرارت سے پوچھا تو وہ پھیکا سا مُسکرائی۔


"پیار تو شاید وہ کبھی مُجھ سے نا کر سکیں۔ بات یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔" معصومہ نے کہہ کر آہستہ آہستہ اُسے سب کُچھ بتانا شُروع کیا داؤد کو قسم سے باندھ کر جو اُس نے بہادری دِکھائی تھی وہ اب آن کو سُنا رہی تھی۔ جبکہ آن آنکھیں پھاڑے منہ کھولے اُسے دیکھ رہی تھی۔


"تت تُم میری مومو ہی ہو نا کہیں دماغ پہ اثر تو نہیں ہو گیا؟" آن نے اُس کے ماتھے پہ ہاتھ رکھ کے چیک کیا۔


"ایسا کیوں کہہ رہی ہو؟" معصومہ نے خفگی سے پوچھا۔


"کیونکہ میری مومو کو تو ایسی چالاکیاں آتی ہی نہیں تھی داؤد بھائی کی سنگت کا اثر ہے جو تُم اِتنی چالاک ہو گئی ہو۔" آن نے کہا تو وہ مُسکرا گئی۔

"اب ایسا بھی کُچھ نہیں ہے۔" معصومہ نے کہا ابھی وہ کُچھ اور کہتی جب مُلازمہ ریفریشمنٹ کا سامان لے آئی ساتھ ہی حمدہ بیگم، زینب بیگم اور تحریم ڈرائینگ روم میں داخل ہوئیں۔ معصومہ نے اُن سب کا تعارف کروایا تو آن خوشدلی سے سب سے مِلیں۔


حمدہ بیگم آن سے اُس کی خیریت اور آمد کے بارے میں پوچھ رہیں تھیں۔ وہ اُن کے سوالوں کے چھوٹے چھوٹے جواب دینے لگی۔


*******************


"تُم یہاں کیا کر رہے ہو؟" داؤد نے وجدان کے آتے ہی پوچھا۔


"اپنی منگیتر کے ساتھ اپنی بہن سے مِلنے آیا ہوں۔" وجدان نے سنجیدگی سے کہا داؤد کُچھ پل اُس کی جانب خاموشی سے دیکھتا رہا پِھر ایک دم اُس کی جانب بڑھا اور زور دار مُکّا اُس کے منہ پر مارا۔


وجدان اِس کے لیے تیار نہیں تھا منہ پہ ہاتھ رکھتا وہ پیچھے کو جُھکا تو داؤد نے دھکا دے کے اُسے زمین پہ گِرایا اور خود صوفے سے کُشن پکڑ کر پے در پے اُس پہ جُھکتا اُس کے منہ پہ مارنے لگا۔


"منگنی کر لی مُجھے بتایا بھی نہیں؟ وہ بھی اُس پٹاکا سے؟ تُمہیں اور کوئی نہیں مِلی تھی جو میری بیوی کی دوست سے منگنی کر لی اور مُجھے بتانا بھی مُناسب نہیں سمجھا۔" داؤد اُسے مارتے ہوئے کہہ رہا تھا۔


"ہاں تو نہیں مِلا موقع اور صِرف رِشتہ طے ہوا ہے منگنی میں نے خود ہی کر لی جب اُسے پرپوز کیا۔" وجدان ہنستے کہہ رہا تھا۔


"اچھا کیا بہت اچھا کیا۔" داؤد نے خفگی سے کہا ہاتھ اب بھی چل رہے تھے۔


وجدان خود کو بچانے کی کوشش میں ہلکان ہوتا ہاتھ پیر مارنے لگا۔ کُچھ دیر داؤد نے اُسے مارا پِھر غُصّہ کُچھ ٹھنڈا ہوا تو وہ صوفے پہ بیٹھ کے لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ وجدان بھی گہرے سانس بھرتا اُس کے قریب ہی صوفے پہ دراز ہوا۔


"ایسے ویلکم کون کرتا ہے اپنے سالے کا جیسے تُم نے کیا ہے؟" وجدان نے گال سہلاتے پوچھا۔


"داؤد سِکندر جب غُصّے میں ہوتا ہے تو ایسے ہی ویلکم کرتا ہے چاہے وہ سالا ہو یا کوئی اور۔" داؤد نے بے نیازی سے کہا۔


"مطلب تُم نے میری بہن کا بھی ایسے ہی ویلکم کیا ہے اُسے مار کر؟" وجدان نے اُسے گھورا۔


"وہ اِتنی بھی سیدھی نہیں جِتنی تُمہیں لگتی ہے بہت چالاک ہے وہ اپنے سارے اِنتظامات کر کے آئی تھی۔" داؤد نے دانت پیستے کہا اور شادی کی پہلی رات کا سارا واقعہ سُنا دیا کہ کیسے اُس نے جھوٹ بول کر اُسے بابا سے قسم دِلوائی کہ وہ اُسے کبھی تکلیف نہیں پہنچائے گا۔


"اُس کی بات سُن کر وجدان پہلے شاکڈ ہوا اور پِھر بے اختیار ہنستا چلا گیا۔


"یعنی کک کوئی تو ہہ ہے جو تُمہیں ہرا سکتا ہے ہاہا رئیلی یار مزہ آ گیا۔" وجدان نے ہنسی کے دوران بمشکل کہا۔


"ایک اور مُکاّ کھانا ہے کیا؟" داؤد نے ہاتھ کا مُکّا بنا کر کہا۔


"نہیں مُکّا نہیں کھانا بلکہ کُچھ اور پوچھنا ہے۔" وجدان نے اب کی بار سنجیدہ ہوتے کہا۔


"مُجھے پتہ ہے جو تُمہیں پوچھنا ہے۔" داؤد نے کہا اور آہستہ آہستہ اُسے ادھوری کہانی بتانا شروع کی۔ ایک گھنٹے تک وہ اُسے خود پہ بیتی سُناتا رہا اور وہ حیران بیٹھا اُسے سُنتا رہا۔


"مُجھے یقین نہیں آرہا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ معصومہ تو بہت معصوم ہے وہ رومیسہ کیسے ہو سکتی ہے؟ اور ضروری تو نہیں کہ وہ معصومہ ہی ہو۔ ہو سکتا ہے وہ اُس کی ہمشکل ہو؟" وجدان نے کہا تو وہ چونک اُٹھا۔


"ہمشکل؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کِسی کا ہمشکل تب ہی ہوتا ہے جب اُس کا کوئی جُڑواں ہو اور معصومہ اِس دُنیا میں اکیلی ہی ہے اُس کا کوئی بہن بھائی نہیں ہے۔" داؤد نے کہا۔


"ہاں وہ اکیلی ہی ہے اُس کے تو والدین بھی نہیں ہیں۔ مگر میرا دِل کہتا ہے کہ وہ معصومہ نہیں ہو سکتی وہ اُس کی ہمشکل ہو سکتی لیکن معصومہ کبھی نہیں۔" وجدان نے مضبوط لہجے میں کہا۔


داؤد ابھی کُچھ کہتا کہ دروازہ کھول کر معصومہ اندر داخل ہوئی۔


"وہ سب لنچ کے لیے آگئے ہیں آپ لوگ بھی آجائیں۔" معصومہ نے اندر آ کے دھیمے لہجے میں کہا تو وہ اُٹھ کر اُس کے پیچھے ہی چل دئیے۔


آن نے معصومہ کو بتایا تھا کہ رفیق صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اِسی لیے وہ آ نہیں پائے۔ معصومہ نے سوچا تھا کہ وہ خود جا کے مِل آئے گی۔


لنچ پہ سب ساتھ ہی تھے داؤد کے بابا، امّو جان، چچا، چچی اور تحریم۔ لنچ کے بعد آن اور وجدان نے اِجازت چاہی تھی حمدہ بیگم نے اُنہیں روکنا چاہا مگر اُنہوں نے یہ کہہ کر کہ راستہ کافی لمبا ہے، اِنکار کر دیا۔


اُنہیں رُخصت کرنے کے بعد معصومہ کمرے میں چلی آئی تھی۔ تحریم اپنے کمرے میں تھی جبکہ امّو جان اور بابا جان آرام کر رہے تھے زینب بیگم بھی اپنے کمرے میں تھی اور فراز صاحب باہر نِکل گئے تھے۔ وہ مصروف رہنے کی خاطِر داؤد کے دُھلے ہوئے کپڑے پریس کرنے لگی تھی جو کہ مُلازمہ کی ذمہ داری تھی۔


*********************


رات کا پہلا پہر چل رہا تھا دور کہیں سے ہلکی ہلکی عِشاء کی اذانوں کی آواز آرہی تھی۔ ہسپتال کے کوریڈور میں موجود اُس وجود کی مدھم سی سانسوں کے عِلاوہ اور کوئی آواز نہیں گونج رہی تھی۔ہر طرف گہرا اندھیرہ چھایا ہوا تھا سب سے الگ تھلگ وہ ایک طرف کھڑا ہوا تھا لوگ آ جا رہے تھے۔ ضبط سے اُس کی آنکھیں خون چھلکا رہیں تھیں۔ کُشادہ پیشانی پہ لاپرواہی سے بِکھرے بال اُس کے اندر کی وحشت کو بیان کر رہے تھے۔ اِردگِرد سے بے نیاز وہ آئی سی یو کے دروازے پہ نظریں جمائے کھڑا تھا اُس کے دِل کی دھڑکنیں رُک رُک کر چل رہیں تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کُچھ دیر اور ڈاکٹر باہر نا آیا تو وہ ہوش کھو بیٹھے گا اِتنا درد تو اُسے آن کے اِنکار پر نہیں ہوا تھا جِتنا درد اُسے اپنی وِش کو اِس حال میں دیکھ کر ہو رہا تھا اُس کا بس چلتا تو وہ اُسے جنجھوڑ کر اُٹھا دیتا۔


اچانک ڈاکٹر باہر آیا تو وہ بھاگ کر اُن کی جانب بڑھا۔


"وو وِشہ کیسی ہے؟ وو وہ ٹھیک تو ہے نا؟" ڈاکٹر لے قریب جاتے ہی اُس نے بے تابی سے پوچھا تھا۔


"دیکھیں اُن کا آپریشن ہم نے کر دیا ہے۔ گولیاں بھی نِکال دی ہیں مگر خون بہت زیادہ بہہ گیا ہے بلڈ بینک سے خون دستیاب ہو گیا ہے لیکن ابھی تک اُنہیں ہوش نہیں آیا۔ اُن کا ہوش میں آنا بہت ضروری ہے۔ آپ بس دُعا کریں۔" ڈاکٹر کہہ کر آگے بڑھ گیا تو وہ آنکھیں میچے دروازے کے پاس گیا اور دروازے میں لگے شیشے سے اندر جھانکا۔


پیشنٹ بیڈ پہ پڑی وہ پھول سی لڑکی اِس وقت نالیوں میں جکڑی ہوئی تھی۔ وہ کمزور سی لگ رہی تھی چہرے پہ زردیاں گُھلیں تھیں۔ اُس کا خون نچڑ کر رہ گیا تھا۔ وہ بے حس و حرکت پڑی تھی ایسا لگتا تھا جیسے اُس میں جان ہی نا ہو۔ ایک نرس اُس کے پاس کھڑی اُس کی ہارٹ بیٹ چیک کر رہی تھی وہ آہستہ سے دروازہ دھکیلتا اندر داخِل ہوا۔


"ارے آپ اندر کیوں آرہے ہیں پیشنٹ کی حالت کریٹیکل ہے آپ باہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" نرس اُسے بیڈ کے قریب رکؑی کُرسی پہ بیٹھتے دیکھ کر کہہ رہی تھی جب اُس نے نرس کی بات کاٹی۔


"آپ باہر جائیں۔" روحان نے سرد لہجے میں کہا۔

"لیکن مریض۔۔۔۔۔"


"سُنائی نہیں دیتا؟ کہا نا باہر جائیں۔" وہ دھاڑا تو نرس وہاں سے نکلتی چلی گئی۔


وہ آہستہ سے وِشہ کا دایاں ہاتھ تھام گیا جِس میں کینولا لگا ہوا تھا۔ وہ کُچھ پل وِشہ کا زرد رنگت والا چہرہ دیکھتا رہا۔


"جاگ جاؤ یار! دیکھو تُمہارے بغیر کِتنی ویرانی چھا گئی ہے ایسا لگتا ہے کوئی میرے اندر خاموش ہو گیا ہے۔ تُم بولتی تھی تو ایسا لگتا تھا جیسے چِڑیا چہچہا رہی ہو اور اب وہ چِڑیا اچانک ہی خاموش ہو گئی ہو۔ اِتنی ظالم تو نہیں ہو تُم جو اب اپنی خاموشی سے اِتنی بڑی سزا دے رہی ہو مُجھے۔" وہ اُس کا ہاتھ تھامے اُس کے چہرے ہہ نظریں جمائے کہہ رہا تھا مگر سامنے والا بالکُل خاموش تھا۔


"پلیز ایک آخری بات مان لو میری؟ اِس کے بعد کبھی تُم سے کُچھ بھی نہیں مانگوں گا۔ صِرف وہی کروں گا جو تُم کہو گی۔ تُم نے کہا تھا نا کہ ایک دِن آئے جب میں تُمہیں بولنے کو کہوں گا اور تُم میری بات نہیں مانو گی اور بالکُل بھی نہیں بولو گی۔ جانتا ہوں آج اپنا کہا پورا کر رہی ہو تُم۔ دیکھو میں مِنتیں کر رہا ہوں پلیز ہوش میں آ جاؤ بس پہلی اور آخری دفعہ اپنے ہینڈسم اِنسان کی بات مان لو یار۔ بس ایک بار پلیز۔" وہ نم آنکھوں سے اُس کا ہاتھ ماتھے پہ ٹِکائے اُس کی مِنتیں کر رہا تھا مگر ہر وقت بولنے والی آج خاموش تھی۔


وہ کُچھ دیر اُس کے ہوش میں آنے کا اِنتظار کرتا رہا مگر جب وہ ہوش میں نہ آئی تو سُرخ آنکھیں لیے باہر چلا آیا۔


"ہیلو؟" روحان باہر آیا تو اُس کے فون پہ بیل ہوئی۔


"سر صِرف اِتنا پتہ چلا ہے کہ گولی چلانے والی کوئی لڑکی تھی اور اُس کا ٹارگٹ بھی مِس وِشہ ہی تھیں۔" مقابل نے مودبانہ انداز میں بتایا تھا۔

"باقی کی انفارمیشن بھی جلدی سے نِکلواو۔ دِن نکلنے سے پہلے مُجھے وہ اپنے سامنے چاہیے اور چیف کو اِس بارے میں ساری رپورٹ کر دو۔" روحان نے کہہ کر فون ٹھک سے بند کر دیا اور کُرسی بیٹھ کے سر ہاتھوں میں گِرا لیا۔


******************


وہ دونوں اِس وقت واپس آ رہے تھے جب آن کو انجم صاحب کا فون آیا جانے دوسری طرف سے ایسا کیا کہا گیا تھا جو وہ بے اختیار رونے لگی تھی۔


"آن میری جان! کیا ہوا ہے آپ رو کیوں رہی ہیں؟" وجدان ایکدم پریشان ہوا تھا۔


"ووہ ماما پاپا مم مُجھے ہاسپٹل۔۔۔۔۔۔" آن سے بات مکمل نہی ہو پا رہی تھی۔


"اچھا ریلیکس۔ تُم پریشان مت ہو ہم جا رہے ہیں۔" وجدان نے اُسے کہہ کر انجم صاحب کا نمبر ملایا تھا انجم صاحب سے بات کر کے اُسے اصل معاملے کا پتہ چلا تو وہ لب بھینچ کر رہ گیا۔ ہاسپٹل کا اڈریس پوچھ کر اُس نے فون کٹ کیا اور کار کی سپیڈ بڑھائی۔ اگلے دو گھنٹوں میں وہ آن کے گھر موجود تھے وہاں سے وہ انجم صاحب اور شاہینہ بیگم کو لے کے سیدھا ہاسپٹل کی جانب روانہ ہوا تھا۔


وہ جب ہاسپٹل پہنچے تو عِشاہ کا وقت ہو رہا تھا ریسپیشن سے پوچھ کے وہ آئی سی یو کی جانب بڑھے تھے آئی سی یو کے باہر کوئی بھی موجود نہیں تھا شاہینہ بیگم اور آن روتے ہوئے دروازے میں لگے شیشے کے پار اُس وجود کو دیکھنے لگیں جِس میں اُن کی جان بستی تھی۔ وجدان اور انجم صاحب ضبط کیے آن اور شاہینی بیگم کو سنبھال رہے تھے۔ وجدان تو ڈاکٹر سے مِلنے چلا گیا تا کہ پیشنٹ کی کنڈیشن کے بارے میں جان سکے۔


*********************


وہ عِشاہ کی نماز پڑھ کر واپس آیا تھا دُعاوں میں اُس نے بس وِشہ کی صحت یابی کی دُعا مانگی تھی اِس کے عِلاوہ اُسے اور کُچھ نہیں چاہیے تھا بس ایک بار وہ ٹھیک ہو جاتی پِھر وہ اُسے ساری دُنیا سے چُھپا کر رکھتا کبھی کِسی کے سامنے نا آنے دیتا۔


وہ آئی سی یو کے قریب پہنچا تو اُسے کُچھ لوگ دِکھائی دیے ایک لڑکی ایک عورت کو چُپ کروا رہی تھی اُس کا چہرہ جُھکا ہوا تھا اور ایک مرد بھی بیٹھا تھا وہ شاید وِشہ کے گھر والے تھے۔ وہ شکِستہ قدم اُٹھاتے اُن کی جانب بڑھا۔


"اسلامُ علیکُم!" روحان نے بھاری آواز میں کہا لہجہ رونے کی چُغلی کھا رہا تھا۔


اُس کی سلام پہ سب اُس کی جانِب متوجّہ ہوئے۔ روحان اُس لڑکی کو دیکھ کے حیران ہوا۔


"آپ یہاں؟" روحان نے کُچھ اُلجھ کر پوچھا۔


"میں وِشہ ہمدانی کی بہن ہوں۔ اور یہ میرے ماما پاپا۔" آن نے اُس کی سُرخی مائل آنکھوں میں جھانک کر کہا جہاں کرب اور اذیّت کی گہری داستان رقم تھی۔ اُس کے تعارُف پہ روحان چونکا۔

وِشہ نے کبھی ذِکر نہیں کیا تھا اپنی فیملی کا نا ہی کبھی روحان نے اُس کی ذاتی زندگی کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تھی۔


میں وِشہ کا سینیئر رائڈ پارٹنر ہوں۔" روحان نے کہا۔

"میری بچی کیسی ہے ڈاکٹر نے کیا کہا؟" شاہینہ بیگم نے بے چینی سے اُس سے پوچھا۔


"ووہ ٹٹ ٹھیک نہیں ہے ڈاکٹر نے کہا کہ جلدی ہوش آ جانا چاہیے مگر ابھی تک اُسے ہوش نہیں آیا۔" روحان کا لہجہ ایک پل کو لڑکھڑایا تھا جِسے آن نے شِدّت سے محسوس کیا۔


"اللّہ میری بچّی کو صحت دے آمین۔ جانے کِس نے اپنی دُشمنی نِکالی ہے میری معصوم سی بچّی کے ساتھ؟ وہ تو کبھی کِسی سے دُشمنیاں نہیں مولتی۔ جانے کِس کی نظر لگ گئی میری بیٹی کو۔" شاہینہ بیگم روتے ہوئے کہہ رہی تھیں جبکہ روحان سے وِشہ کی طبیعت کا سُن کر آن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے تھے۔


"کُچھ پتہ چلا کہ کِس نے کیا ہے یہ سب؟" انجم صاحب نے روحان سے پوچھا۔


"جی لاسٹ ٹائم جِن دہشت گردوں کو ہماری ٹیم نے پکڑا تھا اُنہی میں سے کِسی نے وِشہ پہ حملہ کیا ہے۔" روحان نے بتایا اُسے یہ خبر ابھی پتہ چلی تھی کہ بلیک ڈائمنڈ نے بدلے کی خاطِر وِشہ پہ جان لیوا حملہ کیا تھا اب یہ خبر سچ تھی یا جھوٹ یہ تو وقت آنے پہ پتہ چلنا تھا۔


"روحان تُم یہاں؟" وجدان وہاں آیا تو روحان کو دیکھ کر حیران ہوا۔


"ہاں میں وِشہ کا کولیگ ہوں۔" روحان نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ وجدان اور آن کے رِشتے کے بارے میں تو آن نے اُسے بتا ہی دیا تھا۔


"اوہ اچھا! میں ابھی ڈاکٹر سے مِل کے آرہا ہوں اُنہوں نے کہا کہ ہوش میں آتے ہی وہ خطرے سے باہر ہوں گی لیکن اُنہیں ہوش جلدی آ جانا چاہیے۔۔" وجدان نے کہا۔


"جانتا ہوں میری ڈاکٹر سے بات ہو چُکی ہے۔" روحان کہہ کر چیئر گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔


وجدان بھی کُرسی پہ بیٹھ کے انجم صاحب کو حوصلہ دینے لگا جِن کی آنکھوں کا نور اِس وقت زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا۔ جبکہ روحان اِسوقت صرف چُپ بیٹھا تھا وہ کِسی کو کیا تسلی دیتا اُسے اِس وقت خود حوصلے کی ضرورت تھی۔


******************

رات کے کھانے کے بعد وہ بیڈ پہ نیم دراز تھی اُس نے داؤد کی غیر موجودگی میں اُس کے سارے دُھلے ہوئے کپڑے پریس کر دئیے تھے اور ایسا کرنے سے اُسے ایک خوشی سی ہوئی تھی۔


رات کا کھانا سب نے ساتھ ہی کھایا تھا۔ یاسمین بیگم رات کے کھانے پہ آئیں تھیں اور اُنہوں نے فاطِمہ کے رویے کی معافی مانگی تھی جِس پہ سِکندر صاحب نے اُنہیں یہ کہہ کر معاف کر دیا تھا کہ آئیندہ ایسا نا ہو۔ فاطِمہ اُن کے ساتھ نہیں آئی تھی۔ اُس کے ذہن میں کیا چل رہا تھا یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔


یاسمین بیگم کھانا کھائے بغیر ہی واپس چلی گئیں تھیں۔ رات نو بج رہے رہے تھے مگر داؤد ابھی تک واپس نہیں آیا تھا معصومہ کو اُس کی فِکر ہو رہی تھی۔ فریش ہو کے اُس نے سُرخ رنگ کا جوڑا زیب تن کر رکھا تھا جو اُس کی گوری رنگت پہ خوب جچ رہا تھا ہاتھوں میں سونے کے جڑاو کنگن پہن رکھے تھے جو آج ہی بی جان نے اُسے دئیے تھے۔ ہلکے نم بال پُشت پہ ڈال رکھے تھے اور ہلکا ہلکا میک اپ کر رکھا تھا جِس کی ہدایت امّو جان نے کی تھی کہ نئی نویلی دُلہنیں سادہ نہیں رہتیں بلکہ اپنے شوہر کے لیے تیار ہوتی ہیں اور اُن کی ہدایات پہ عمل کرتے اُس نے میک اپ کیا تھا ہونٹوں پہ سُرخ رنگ کی لِپسٹک لگا رکھی تھی وہ کافی فریش فریش لگ رہی تھی۔


وہ ابھی داؤد بارے میں سوچ رہی تھی جب دروازہ کُھلا اور داؤد کے کلون کی مخصوص خوشبو اُس کے حواسوں سے ٹکرائی۔ اُس نے دروازے کی جانب رُخ موڑ کر داؤد کی جانب دیکھا جو اُس پہ دھیان دئیے بغیر دروازہ بند کر رہا تھا۔


دروازہ بند کر کے وہ الماری کی طرف بڑھا اور ٹراوزر اور ٹی شرٹ نِکال کر باتھ روم کی جانب چل دیا۔ اِس سارے عرصے میں اُس نے ایک بار بھی معصومہ کی طرف نہیں دیکھا تھا جیسے کمرے میں اُس کے خود کے عِلاوہ کوئی موجود ہی نا ہو۔

اُس کی بے رُخی اور بے نیازی پہ معصومہ کا دِل کٹا اور آنکھوں کی سرحد سے کُچھ آنسو نِکل کر اُس کی گالوں پہ بہتے بے مول ہو گئے جو اُس نے جلدی سے ہاتھ بڑھا کر صاف کر لیے۔


دس منٹ بعد وہ فریش ہو کر آیا اور آئینے کے سامنے کھڑا بال بنانے لگا۔ وہ آہستہ سے اُٹھتی اُس کے پیچھے کُچھ فاصلے پہ جا کھڑی ہوئی۔


"آپ اِتنی لیٹ کیوں آئے؟" اُس کے سوال پہ وہ اُس کی جانب پلٹا اور اُس کے سجے سنورے چہرے پہ نظر پڑتے ہی ٹھٹھک کر رہ گیا۔


کانچ سی بھوری آنکھوں میں کاجل کی ہلکی سی لکیر جو کُچھ پھیلی سی لگ رہی تھی، گالوں پہ چھائی سُرخی، تھوڑی پہ موجود مدھم سا تِل، گھنیری خم دار پلکیں اُس کے چہرے کو خوبصورت بنا رہیں تھیں۔


وہ آہستہ سے اُس کی جانب بڑھا اور اُس کی کمر کے گِرد دایاں بازو حائل کرتا اُسے اپنے قریب کر گیا۔


"میری یاد آ رہی تھی؟" داؤد گھمبیر لہجے میں بولا۔


وہ جو اُس کی حرکت پہ سنبھلی بھی نا تھی اُس کے سوال پہ بے اختیار نظریں جُھکا گئی۔


"وو وہ آپ اا اِتنی دیر سس سے آئے اا اِسی لیے پوچھا۔" وہ اُس کی قُربت سے لرزتی کانپ کر بولی۔


"مطلب میری یاد نہیں آرہی تھی؟ میری بیوی مُجھے یاد ہی نہیں کرتی اِتنی سی ویلیو ہے میری؟" وہ اُس کے کان کے قریب جُھک کر شِکوہ کرتا پوچھ رہا تھا جیسے اُن کے درمیان مثالی محبّت ہو۔ اُس کے لب معصومہ کے کان کو چھو رہے تھے۔


"مم میں میں وہ کک کر رر رہی تت تھی۔" وہ اُس کے لمس پر ہکلا کر رہ گئی تھی کب وہ اُس پہ اِتنا مہربان ہوا تھا کہ وہ اُس کے لہجے کی نرمی پہ یقین کر پاتی۔


"کیا کر رہی تھی؟" وہ اُس کے کُھلے نم بالوں سے اُٹھتی ائیر کنڈیشنر کی خوشگوار سی خوشبو محسوس کرتا پوچھنے لگا۔


"آپ کک کو یاد مم میں یاد۔۔۔۔۔۔" داؤد کی سانسوں کی تپش کو اپنی کنپٹی پہ محسوس کر کے وہ اُس کی ٹی شرٹ کو مُٹھیوں میں دبوچ گئی۔


"بیوی لگ رہی ہوآج۔" داؤد معنی خیزی سے کہتا اپنے ہاتھ کی پُشت سے اُس کا سُرخی مائل گال سہلانے لگا۔ معصومہ آنکھیں بند کرتی خواب کی سی کیفیت میں اُس کی عنایتیں محسوس کر رہی تھی اُس کے لیے یہ سب خواب ہی تھا۔


ایکدم اُس نے خود کو ہوا میں مُعلّق محسوس کیا تو آنکھیں کھول کے داؤد کی جانب دیکھا جو اُسے بانہوں میں اُٹھائے اُس کی گھنی لرزتی کانپتی پلکوں کا رقص دیکھتا بیڈ کی جانب بڑھ رہا تھا۔


اُسے بیڈ پہ اُس کی جگہ پہ لیٹا کے وہ اُس کی جانب کروٹ لے کر اُس پہ جُھکا اور اُس کے ماتھے پہ محبت بھرا لمس چھوڑا معصومہ ایکدم خوش فہم سی ہوئی۔


"بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔" داؤد نے کہا اور اُس کے تِل کو لبوں سے چھوا۔ معصومہ نے اُس کی آنکھوں میں جھانکا جو بے تاثر تھیں۔


"تُم اِتنی خوبصورت ہو کہ تُمہیں دیکھتے ہی تُم پہ پیار آجائے۔ مگر تُمہاری حرکتیں بالکُل بھی پیار کرنے کے لائق نہیں۔" داؤد کے لہجے کے برعکس اُس کی آنکھوں میں سرد مُہری تھی۔


"بیویوں والے حقوق چاہیے تُمہیں؟ اِسی لیے اِتنا تیار ہو کے مُجھے اپنی طرف مائل کر رہی ہو؟" داؤد کی اگلی بات پہ اُس کا دماغ بھک سے اُڑا۔


"نن نہیں مم میں وہ امّو جج جان نن نے مم مُجھے کہا۔" وہ نفی میں سر ہلاتی صفائی دینے لگی۔


"اچھا؟ امّو جان نے کہا اور تُم اِتنی فرمانبردار کہ اُن کی باتیں ماننے لگیں؟ اور بابا سائیں ؟ اُن سے کیا کہا تُم نے؟ اب اپنے بیڈروم کی باتیں تُم باقی سب کو بتاتی پِھرو گی جو وہ آکر مُجھے میاں بیوی کے حقوق سمجھانے لگے؟" داؤد نے اچانک ہی اُس کے لمبے بال اپنی مُٹھی میں جکڑے تھے کہ معصومہ بے اختیار کراہ کر رہ گئی۔


"مم میں نے کِسی کو کُچھ نن نہیں بتایا بب بابا کو بھی نہیں کک کسی کو بب بھی نہیں۔ مم میرا یی یقین کریں۔" وہ کانپتے لہجے میں اپنے بال چُھڑانے کی کوشش کرتی اُسے یقین دِلا رہی تھی۔


"اچھی طرح جانتا ہوں تُمہاری چالاکیاں۔ مگر کِسی غلط فہمی میں مت رہنا کہ کبھی میں تُمہیں بیوی کا درجہ دوں گا تُمہاری میری زندگی میں ذرا بھی اہمیت نہیں سمجھی تُم۔" اُس نے معصومہ کے بال چھوڑتے اُسے اُس کی اوقت یاد دِلائی اور اپنی جگہ پر پُرسکون ہوتا لیٹ کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔


جبکہ معصومہ اُس کے لہجے میں اپنے لیے تحقیر محسوس کرتی دبی آواز میں روتی کروٹ بدل گئی۔ رونے کی وجہ سے کاجل کی لکیر پھیلتی اُس کے گال کو سیاہ کر رہی تھی اُس کے نصیب کی طرح۔


********************


ڈیڑھ دِن گُزر چُکا تھا مگر وِشہ کو ہوش نہیں آیا تھا وجدان آن کو لیے گھر جا چکا تھا تا کہ وہ تھوڑا آرام کر لے۔ انجم صاحب اور شاہینہ بیگم ہاسپٹل میں ہی موجود تھے وہ اپنی بیٹی کو بالکُل اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔


جبکہ روحان بھوک پیاس سے بے نیاز کوریڈور میں لگی چئیرز میں سے ایک پر بیٹھا تھا البتہ وہ انجم صاحب اور شاہینہ بیگم کے لیے دوپہر کا کھانا لے آیا تھا اور زبردستی اُن کو کِھلایا بھی تھا مگر خود ایک نوالہ بھی نہیں کھایا تھا۔


شام کو وجدان اور آن دوبارہ ہاسپٹل آگئے تھے سات بجے کے قریب وِشہ کو ہوش آ گیا تھا اُسے روم میں شِفٹ کر دیا گیا تھا۔


روحان کے سِوا سب ہی وِشہ سے مِلنے گئے تھے وِشہ کی نظریں دروازے پہ ٹِکیں روحان کی آمد کی مُنتظر تھیں مگر رات ہونے کو تھی وہ نہیں آیا تھا وجدان نے انجم صاحب اور شاہینہ بیگم کو گھربھیج دیا تھا کہ اب وِشہ ٹھیک ہے اور وہ لوگ اُس کے پاس ہی ہیں۔


وہ لوگ گھر چلے گئے تھے آن اور وجدان وِشہ کے پاس بیٹھے باتیں کر رہے تھے وِشہ وجدان کے بابت سب کُچھ جانتی تھی اور وڈیو کال پہ کافی مرتبہ بات بھی کر چُکی تھی اِسی لیے اب بے تکلفی سے اُس سے بات کر رہی تھی۔


وِشہ کی بار بار دروازے کی جانب اُٹھتی نظروں کو آن بخوبی محسوس کر رہی تھی کہ وہ کِس کو ڈھونڈ رہیں ہیں۔


وِشہ لیٹی ہوئی تھی پسلی میں لگی گولی کی وجہ سے زخم بہت گہرا ایا تھا جِس کی وجہ سے وہ بیٹھنے سے قاصِر تھی۔ کندھے میں اُٹھتی ٹیسوں کو دبائے وہ آن اور وجدان سے مُسکرا کر باتیں کر رہی تھی اپنا درد اور تکلیف چُھپانا اُسے بخوبی آتا تھا۔


"آپی اب آپ سو جائیں ڈاکٹر نے زیادہ ریسٹ کرنے کو کہا ہے۔ اب آپ سو جائیں ہم باہر ہی ہیں کُچھ دیر میں آتی ہوں میں۔" آن نے وِشہ کو کہتے وجدان کو اِشارہ کیا تو وہ بھی اُس کے پیچھے ہی باہر نِکل گیا۔


وہ باہر آئے تو سامنے ہی روحان چلا آ رہا تھا۔ وہ اُن کے قریب آ کے رُکا۔


"کیا ہوا؟ آپ لوگ باہر آگئے؟ وِشہ اکیلی ہو گی اندر۔" روحان نے پریشانی سے اِستفسار کیا۔


"جی وہ ہم نے ابھی رات کا کھانا نہیں کھایا تو ہم تھوڑی دیر کے لیے باہر جا رہے ہیں۔ آپی تو سو گئی ہیں آپ تو یہیں ہیں نا؟" آن نے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا گیا۔


وجدان اور آن چلے گئے تو وہ گہرا سانس بھرتا آہستہ سے دروازہ کھولتا روم میں داخِل ہوا۔ کمرے میں خاموشی کا راج تھا۔


وہ چلتا ہوا وِشہ کے پاس پڑی کُرسی پر بیٹھا اور اُس کے چہرے کی جانب دیکھا اُس کی آنکھیں بند تھیں شاید وہ سو رہی تھی۔


"میں بہت شرمندہ ہوں کہ میرے ہوتے ہوئے کوئی تُمہیں نُقصان پہنچا کے چلا گیا اور میں بے بس سا دیکھتا رہ گیا۔ بہت ناراض ہو گی نا مُجھ سے تُم سے مِلنے بھی نہیں آیا؟ مگر میں کیا کرتا؟ تُمہارے چہرے پہ تکلیف کے آثار نہیں دیکھ سکتا میں۔" روحان نے اُس کے ڈرپ لگے ہاتھ پہ نظریں جما کے کہا جِس میں قطرہ قطرہ کوئی محلول اُس کی رگوں میں اُتر رہا تھا۔


وِشہ کی پلکیں لرزیں تھیں اگر روحان اُس کی جانب دیکھتا تو سمجھ جاتا کہ وہ جاگ رہی تھی۔


"جانتی ہو؟ بہت ڈر گیا تھا میں کہ شاید میں نے تُمہیں کھو دیا۔ رگوں میں ایک اذیّت سی بھرنے لگی تھی ایسا لگنے لگا تھا کہ شاید تُمہارے ساتھ میں بھی فنا ہو جاؤں گا۔ مگر خُدا نے تُمہیں زندگی بخش کے میری سانسوں میں بھی روانی بھر دی ہے۔ خُدا کا احسان ہے جو اُس نے میری وِش کو میرے لیے سانسیں بخش دیں۔" اُس کی بات سُن کے وِشہ کے ہونٹ دھیمے سے مُسکرائے تھے مگر وہ ابھی بھی متوجّہ نہیں تھا۔


"بس ایک بار تُم بالکُل ٹھیک ہو جاؤ پِھر میں تُمہیں اِتنے شاندار طریقے سے اپنے دِل کا حال سُناوں گا تُمہیں ایسے پُرپوز کروں گا کہ تُم اپنے پیارے اِنسان کو بالکُل اِنکار نہیں کر پاو گی۔ وِشہ ہمدانی سے وِشہ روحان بننا چاہو گی نا تُم؟" روحان نے اُس کا ہاتھا تھام کر اُس کے ہاتھ کی پُشت کو سہلا کر کہا جو ہلکی ہلکی سُرخ ہو رہی تھی۔


"پہلے اِنسان ہوں گے آپ! جو ہسپتال کے بیڈ پہ پڑی لڑکی کو پرپوز کر رہے ہیں ویسے یہ طریقہ بھی شاندار ہے اِس لیے میں وِشہ روحان بننا چاہوں گی۔" وِشہ کی ہنسی دباتی مدھم آواز پہ اُس نے چونک کر سر اُٹھایا تھا۔


"وِش وِشہ تت تُم جاگ رہی تھیں؟" وہ اُس کی بات پہ توجّہ دئیے بغیر بولا۔


"ہاں جاگ رہی تھی اور آپ کی ساری باتیں بھی سُن لیں۔ ویسے آپ مُجھ پہ نظر ڈالے بیٹھے تھے اور کبھی بتایا بھی نہیں۔" وِشہ نے اُٹھنے کی کوشش کی تو وہ ایک دم آگے بڑھ کے اُس کے پیچھے تکیہ سیٹ کر کے اُسے دوبارہ لٹا گیا۔


"تُمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اِسی لیے ہلنے کی کوشش مت کرو ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔" وہ اُسے ڈپٹ کر بولا لہجے میں خفگی تھی۔


وِشہ نے اُس کا ہاتھ اپنے یاتھ میں لیا تو وہ چونک اُٹھا۔


"میں نے آپ کو جواب دے دیا ہے اِس کے بارے میں کُچھ نہیں کہا آپ نے۔" وِشہ نے اُس کی حیرت نظر انداز کرتے کہا۔


"کون سا جواب؟" وہ اُلجھ کر سوچنے لگا پِھر کُچھ دیر پہلے وِشہ کی کہی بات یاد آئی تو وہ اُچھلا۔


"سچ تت تُم ہاں کہہ رہی ہو مُجھے؟ ہاہاہا سوری میں نے دھیان ہی نہیں دیا تھا۔ مُجھے یقین نہیں آرہا۔" وہ چہک کر کہہ رہا تھا اور وہ مُسکراتی اُس کے کِھلتے چہرے کو دیکھ رہی تھی پہلی بار وہ اُس کے سامنے یوں کُھل کر ہنس رہا تھا وِشہ نے دِل ہی دِل میں اُس کی نظر اُتاری تھی۔


"وِشہ نے اُسے یقین دِلانے کے لیے اپنے ہاتھ میں تھامے اُس کے ہاتھ پہ بائیں ہاتھ سے چُٹکی کاٹی تھی مگر بے اختیار ہی اُس کراہ نِکلی تھی۔ روحان جلدی سے اُٹھ کر اُس کے قریب بیڈ پہ بیٹھا تھا۔


"کیا ہوا درد ہو رہا ہے؟ ڈاکٹر کو بُلاوں؟" روحان کے لہجے میں فِکر مندی تھی۔


"آپ کو یقین دِلانے کے چکّر میں اپنی تکلیف بھول گئی تھی میں۔ اور ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے پین کِلر کھائی تھی آہستہ آہستہ ہی اثر کرے گی۔" وِشہ نے منہ بسور کر کہا تو وہ اُس کی پچکانہ سی حرکت پہ مُسکرایا۔


"مُجھے تُمہاری بات پہ یقین ہے۔ اچھا بتاؤ تُمہیں مُجھ پہ یقین ہے؟ میری دھڑکنوں کا شور سُنائی دے رہا ہے؟ ہر دھڑکن صِرف تُمہارا نام لیتی ہے۔" روحان نے اچانک ہی اُس کا ہاتھ اپنے دِل کے مقام پہ رکھا تھا۔


اُس کے دِل کی دھڑکنیں محسوس کر کے اُس کی نظریں آپ ہی آپ جُھکی۔ روحان اُس کی پلکوں کا رقص دیکھتے اُس پہ جُھکا اور ہونٹوں سے اُس کی گھنیری پلکوں کو چھو لیا۔

وِشہ گُلال ہوتی ایک ہاتھ سے چہرہ چُھپا گئی۔


دوسرے کندھے پر گولی لگنے کی وجہ سے ایک بازو کو حرکت نہیں دے سکتی تھی اِسی لیے ایک ہی ہاتھ سے کام چلانا پڑا۔ اُس کی حرکت دیکھ کے وہ قہقہہ لگا اُٹھا۔


"تو میری مانو بِلی شرماتی بھی ہے ڈیٹس گُڈ۔ مُجھے تو لگا تھا تُمہاری مِنتیں کرنی پڑیں گی کہ تھوڑا سا شرما لو میں اپنی بیوی کو شرماتا دیکھنا چاہتا ہوں۔" روحان ہنستا کہہ رہا تھا جبکہ لفظ بیوی پہ وِشہ نے اُسے کندھے پر ہاتھ کا مُکّا بنا کے رسید کیا تھا۔


"ابھی سے ظُلم شروع کر دیئے ہیں بعد میں کیا بنے گا میرا؟" روحان نے دُہائی دی۔


"آپ ایسے کہہ رہے ہیں جیسے میں کوئی ظالم ملکہ ہوں اور آپ رعایا۔" وِشہ نے خفگی سے کہا۔


"ملکہ تو تُم ہو مگر بہت رحم دِل اور میرا دِل تُمہارا غُلام۔" وہ سر جُھکا کر کہا تو وہ کِھکِھلا اُٹھی۔


"زیادہ ہلو مت ورنہ ٹانکے کُھل جائیں گے۔" اُس نے ڈپٹا تو وہ اچھے بچّوں کی طرح منہ پہ اُنگلی رکھ گئی۔


"اچھا اب سو جاؤ تُمہیں ریسٹ کی ضرورت ہے۔" روحان نے اُس کی آنکھیں بند ہوتے دیکھ کر کہا تو وہ آنکھیں موندتی سر ہلا گئی۔ کُچھ ہی دیر میں کمرے میں وِشہ کی سانسوں کی آواز گونجنے لگی اور روحان اُس کے پاس اُس کا ہاتھ تھام کے بیٹھا رہا۔


وہ کل سے نہیں سویا تھا تھکاوٹ اُس کے اعصاب پر سوار تھی اُس کا ہاتھ نرمی سے بیڈ پہ رکھ کر وہ اُٹھا اور روم میں پڑے صوفے پہ جا کے لیٹ گیا اُس کا چہرہ وِشہ کی جانب تھا تا کہ اگر رات کو وہ جاگ کر کُچھ مانگے تو وہ اُس کی آواز پہ جاگ سکے۔


آن اور وجدان کھانا کھا کے روم میں آئے تو وِشہ گہری نیند سو رہی تھی جبکہ روحان صوفے پہ سو رہا تھا وہ دونوں مُسکراتے باہر پڑی چیئرز پہ بیٹھ گئے وجدان نے آن کا سر اپنے کندھے پہ رکھا اور اُس سے باتیں کرنے لگا۔


وجدان کو آن نے روحان کے اور وِشہ کے بارے میں بتایا تھا کہ اُسے لگتا ہے وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں جِس پہ وجدان چہک اُٹھا تھا کہ اب تو اُن کی شادی جلدی ہو جائے گی جِس پہ آن اُسے گھور کر رہ گئی تھی۔


********************

دِن سُست روی سے گُزرنے لگے تھے ایک ہفتے بعد وِشہ کو ڈِسچارج مِل گیا تھا وہ اپنی فیملی کے ساتھ گھر چلی گئی تھی جبکہ روحان دوبارہ ڈیوٹی پہ حاضر تھا۔

وہ اب جلد سے جلد بلیک ڈائمنڈ گینگ کا پتہ لگانا چاہتا تھا اُس  کا جو نقصان ہوتے ہوتے بچا تھا وہ دوبارہ وہی نقصان نہیں کروانا چاہتا تھا۔ اُس نے اپنے مخبر چھوڑ رکھے تھے جو پل پل اُس کو ہر نئی خبر سے آگاہ کر رہے تھے اب اُسے یقین ہو چلا تھا کہ وہ جلد ہی اپنے دُشمنوں تک پہنچ جائے گا۔

دِن پہ دِن گُزر رہے تھے بلیک ڈائمنڈ کے اڈے کا پتہ لگا لیا گیا تھا جِس سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ وہ خود باس نہیں ہے بلکہ باس کوئی اور ہے اور بلیک ڈائمنڈ باس کا رائٹ ہینڈ۔ اب بس اُن پہ ریڈ کر کے اُن کو پکڑنا تھا جِس کے لیے باقاعدہ پلان تیار کیا جا رہا تھا۔

********************* 

داؤد ابھی تک گاؤں میں ہی تھا کاروبار سارا ارحم اور وجدان سنبھال رہے تھے سِکندر صاحب نے کہا تھا کہ اب وہ تحریم کی شادی کے بعد ہی واپس شہر جائے اور اُس کی شادی میں بس ایک ہفتہ رہ گیا تھا۔ اُسے روکنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُس کا اور معصومہ کا ولیمہ بھی تحریم اور حیدر کے ولیمے کے ساتھ طے پایا تھا۔ حیدر واپس آگیا تھا اُس کی پڑھائی مکمل ہو چُکی تھی اِسی لیے اِتنی جلدی شادی کی ڈیٹ رکھ دی گئی تھی۔ 

گھر والے سب شادی کی تیاریوں میں مصروف ہو چُکے تھے۔ معصومہ بھی سب کے ساتھ مصروف رہنے لگی تھی اُس رات کے بعد وہ کبھی تیار نہیں ہوئی تھی اُسے داؤد کی اُس رات کی باتیں بہت چُھبیں تھیں وہ نفس کی غُلام نہیں تھی جو اُس کی توجّہ اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے اُسے اپنے حُسن سے مائل کرتی۔ اِس سب میں اُس کی روٹین میں کوئی کمی نہیں آئی تھی وہ داؤد کا ہر کام اپنے ہاتھوں سے کرتی تھی۔ اُس کے کپڑے پریس کرنا، اُس کے لیے چائے بنانا اور اُس کے سارے چھوٹے چھوٹے کام۔

 پہلے پہل داؤد نے اُسے ٹوکا تھا مگر وہ بغیر اُس کی سُنے ڈھٹائی سے اپنے کاموں میں لگی رہتی تھی حویلی میں اور کوئی اُسے کام کرنے نہیں دیتا تھا جِس کی وجہ سے وہ بیٹھی بیٹھی بور ہوتی رہتی اور پِھر داؤد کے کاموں سے وہ خود کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتی۔ کبھی کبھی وہ داؤد کی پسند کا کھانا بناتی جِسے سب شوق سے کھاتے۔ داؤد بظاہر تو ناگواری سے کھاتا مگر اُسے معصومہ کے ہاتھ کا ذائقہ بہت اچھا لگا تھا مگر اُس نے معصومہ کی تعریف کرنا گُناہ سمجھا تھا۔

آہستہ آہستہ معصومہ سب کے دِلوں میں رچ بس گئی تھی سب اُس کی خوشی کا خیال رکھتے اور کِسی شہزادی کی طرح ٹریٹ کرتے۔ وہ ساری محبتیں جِن کے لیے وہ بچپن سے ترستی رہی تھی وہ داؤد سے نا سہی مگر اُس کے عزیزوں سے اُسے بخوبی مِل رہیں تھیں۔ حیدر بہت سنجیدہ قِسم اِنسان تھا وہ بھی معصومہ کو چھوٹی گُڑیا کی طرح ٹریٹ کرتا تھا معصومہ کو حیدر اور تحریم کی جوڑی بہت پسند آئی تھی۔ وہ دِل سے اُن کی خوشیوں کے لیے دُعا گو تھی۔ 

فاطِمہ اب اکثر حویلی آنے لگی تھی ہر وقت وہ تحریم کے ساتھ رہتی جِس کی وجہ سے تحریم معصومہ کو ٹائم نا دے پاتی مگر معصومہ کے ماتھے پہ شکن تک نہیں آئی تھی اگر فاطِمہ معصومہ سے بات نہیں کرتی تھی تو معصومہ نے بھی اُس سے فاصلہ ہی رکھا تھا وہ اُس جنگلی لڑکی کے حملے سہنے کی ہمّت نہیں رکھتی تھی۔

اب بھی فاطِمہ تحریم کے ساتھ بیٹھی اُس کے لیے کپڑے پسند کر رہی تھی۔ حمدہ بیگم اور زینب بیگم نے کپڑے گھر میں ہی منگوا لیے تھے کہ جو پسند کرنے ہیں کر لو۔ تحریم اپنے لیے کپڑے دیکھ رہی تھی جب حمدہ بیگم نے معصومہ کو اپنے لیے کپڑے پسند کرنے کو کہا تو وہ خوشی سے سر ہلاتی ٹیبل پہ بِچھے کپڑے دیکھنے لگی۔ 

اپنی ممانی کا معصومہ کے لیے پیار دیکھ کے فاطِمہ انگارے چبا کر رہ گئی تھی مگر فی الحال وہ کُچھ کر نہیں سکتی تھی کہ وہ اپنا اِس گھر میں آنا جانا روکنا نہیں چاہتی تھی۔

معصومہ اپنے لیے کپڑے پسند کر رہی تھی جب کوئی اُس کے ساتھ صوفے پہ آ کے بیٹھا اُس نے چونک کر آنے والے کی طرف دیکھا اور کھسک کر پیچھے کو ہوئی کہ درمیان میں کافی حد تک فاصلہ قائم ہو گیا۔ 

"ارے کیا ہوا معصومہ؟ گبھراو مت میں تُمہارا دیور ہوں۔ سعد نام ہے میرا۔ اور میں داؤد بھائی کی پھوپھو کا بیٹا ہوں۔" اُس نے اپنا ہاتھ معصومہ کی طرف بڑھاتے کہا۔

"جی اسلامُ علیکُم!" معصومہ نے بغیر ہاتھ مِلائے کہا۔ جِس پہ وہ کھسیا کر ہاتھ پیچھے کر گیا۔

"سعد! یہ تُم کیسے بات کر رہے ہو تُم تُم کر کے؟ وہ بھابھی ہیں تُمہاری۔ عُمر میں نا سہی لیکن رِشتے میں بڑی ہیں تُم سے اِس لیے آپ کہہ کر مُخاطب کرو۔" تحریم نے اُسے ٹوکا تو وہ نخوت سے ناک چڑھا گیا۔

"لیکن ہے تو چھوٹی ہی نا؟ اور ویسے بھی آپ کہو یا تُم کیا فرق پڑتا ہے آپی؟" سعد نے جواب دیا۔

"فرق پڑتا ہے جِس طرح تُم ہمیں آپ کہتے ہو ویسے ہی بھابھی کو بھی آپ ہی کہہ کر بُلاو اور اُن کو نام سے نہیں بھابھی کہہ کر مخاطب کرو۔" تحریم نے دو ٹوک لہجے میں کہا تو وہ مجبوراً اثبات میں سر ہلا گیا تو وہ بھی کپڑوں کی طرف متوجّہ ہو گئیں۔

"ویسے ہیں بہت خوبصورت آپ؟" سعد نے ایک دم معصومہ کا ہاتھ پکڑا تو وہ اچُھل پڑی۔

"ہہ ہاتھ چھوڑیں میرا۔" وہ گھبرائی سی بولی۔

"کیوں؟ کوئی اعتراض ہے؟ اگر ہے بھی تو مُجھے فرق نہیں پڑتا۔" سعد نے اُس کا ہاتھ سہلا کر کہا اور اُس کے تھوڑا قریب کھسکا۔ 

معصومہ نے زور لگا کے اپنا ہاتھ اُس سے چھُڑایا تو اُس نے ہنس کر چھوڑ دیا۔ معصومہ کھسک کر پیچھے ہونے لگی جب داخلی دروازے سے اندر داخل ہوتے داؤد کی نظر معصومہ کے قریب بیٹحے سعد پہ پڑی وہ اُس کی خصلت اچھے سے جانتا تھا کہ خوبصورت لڑکیاں اُس کی نظروں میں رہتیں تھیں۔

"تُم کب آئے واپس؟" اُس نے سرد لہجے میں اُن کے قریب پہنچ کر پوچھا۔

 سعد اُسے سر پہ کھڑا دیکھ کر ہڑبڑا کر کھڑا ہوا۔ معصومہ اُسے دیکھتی پُرسکون سانس خارج کرتی سلام کر کے کچن کی جانب چل دی۔

"وہ بھائی میں بس آج ہی آیا ہوں تو سوچا بھابھی سے مِل آوں۔" سعد نے سنبھل کر کیا۔

"مِل ہی لیا تھا تو اب اِن لڑکیوں میں کیا کر رہے تھے؟" داؤد نے تیکھے چتونوں سے پوچھا اُسے زرا پسند نہیں آیا تھا کہ وہ اُس کی بیوی کے اِتنے قریب ہو کے بیٹھا تھا بیوی؟ یعنی وہ معصومہ کو بیوی مانتا تھا۔

"جی بب بس جا ہی رہا تھا میں چلتا ہوں۔" سعد کہہ کر جلدی سے باہر کی جانب بڑھا جانتا تھا کہ وہ کِتنی غُصیل طبعیت کا مالک ہے۔

"وہ جا چُکا تو داؤد کمرے کی جانب بڑھنے لگا معصومہ کچن سے پانی لا رہی تھی جب فاطِمہ کی آواز اُبھری۔

"داؤد! دیکھیں یہ کیسا لگ رہا ہے مُجھ پہ؟" فاطِمہ اشتیاق سے پوچھ رہی تھی جیسے اُن کے درمیان گہری دوستی ہو۔

" پہلی بات یہ کہ تُم مُجھے بھائی کہا کرو جیسے تحریم کہتی ہے اور دوسری بات یہ کہ پہلے کبھی تُم نے نا مُجھ سے پوچھ کپڑے سیلیکٹ کیے ہیں نا مُجھ سے پوچھ کے پہنے ہیں تو آج بھی یہ تکلّف مت کرو اور معصومہ میری جان! تُم وہاں کیوں کھڑی ہو پانی کا گلاس روم میں لے آو اور کُچھ ریسٹ بھی کر لیا کرو ہر وقت اِدھر اُدھر کام میں لگی رہتی ہو چلو روم میں۔" داؤد نے غُصّے سے فاطِمہ کو جواب دیتے معصومہ کو دیکھ کر محبت سے کہا تو فاطِمہ دانت پیستی رہ گئی جبکہ معصومہ کِھل سی اُٹھی تھی وہ جلدی سے اُس کے پیچھے پیچھے کمرے میں پہنچی۔

داؤد نے کمرے میں پہنچ کے گلے میں ڈالا مفلر بیڈ پہ پٹخا اور دروازہ بند کرتا معصومہ کی طرف مُڑا اور اُسکا دایاں بازو اپنے بائیں ہاتھ میں جکڑ گیا۔

" اُس کے اِتنے قریب کیوں بیٹھی تھی ہاں؟"  داؤد نے غُصّے سے پوچھا۔

"میں نہیں بیٹھی وو وہ خود آکے مم میرے پاس بیٹھے اور ہاتھ مم ملانا۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ ابھی بول رہی تھے جب داؤد نے اُسے کمر سے تھام کے قریب کیا۔

"اُس نے تُم سے ہاتھ مِلایا؟ تُم نے اُسے خود کو ہاتھ کیسے لگانے دیا؟ میری بیوی ہو تُم۔ مُجھے بالکُل پسند نہیں کہ تُم میرے عِلاوہ کِسی اور کی طرف دیکھو بھی۔ تُمہیں چھونے کا دیکھنے کا صِرف مُجھے حق ہے۔ جان لے لوں گا تُمہاری اگر میں نے تُمہیں اُس کے ساتھ دوبارہ بات بھی کرتے دیکھا۔" داؤد جنونی انداز میں بول رہا تھا جبکہ معصومہ حیرت سے اُسے سُن رہی تھی۔

"بب بیوی مانتے ہیں مم مُجھے؟ آپ نے تو کہا تت تھا کبھی مُجھے بیوی نن نہیں مانیں گے؟" معصومہ کا لہجہ بھرایا تھا جیسے حلق میں آنسووں کا گولہ اٹکا ہو۔ 

اُس کی بات پہ داؤد ٹھٹھکا تھا مگر پِھر وہ ایکدم اُس کے چہرے پہ جُھکا۔ معصومہ کی سانسوں میں روانی آئی تو وہ مچل کر رہ گئی کُچھ پل بعد اُسے خون کی بوندیں محسوس ہوئیں تو وہ پیچھے ہٹا۔

"میں جو بھی کہوں جو بھی کروں وہ میرا اپنا فیصلہ ہے تُم آئیندہ وہی کرو گی جو مُجھے پسند ہو گا اور جو میں کہوں گا۔" اُس نے معصومہ کے خون آلود ہونٹوں پہ انگوٹھا پھیر کر کہا تو وہ اپنے گالوں پہ بہتے آنسو صاف کرتی باتھ روم میں چلی گئی۔ 

داؤد مُٹھیاں بھینچ کر رہ گیا یہ لڑکی اُس پہ ہاوی ہونے لگی تھی جب بھی وہ اُس پہ غُصّہ کرنے کا سوچتا زرا بھی اُس کے قریب ہوتا اُس کا ہوش ربا حُسن اُسے اپنی طرف کھینچنے لگتا تھا۔ 

بے خودی میں ہی وہ اُس کے قریب ہونے لگتا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ اُسے آنکھ بھر کر دیکھتا بھی نہیں تھا مگر جب دیکھتا تھا تو پِھر دیکھتا رہتا تھا اور جب وہ اُس کی نظروں کی تپش محسوس کرتی مُڑ کر اُسے دیکھتی تو وہ اپنی نظروں کا زاویہ ہی بدل لیتا جیسے وہ اپنے کام میں مصروف ہو۔

وہ اُس کے آس پاس کام کرتی اُسے اپنی طرف متوجّہ کرنے لگی تھی۔ جب آس پاس نا ہوتی تو وہ جان بوجھ کر اُسے کِسی نا کِسی کام کے بہانے روم میں بُلاتا اپنے کاموں میں مصروف کر کے خود بیڈ کراون سے ٹیک لگائے اُسے دیکھتا رہتا تھا۔

 اس کی ایک بھی عادت رومیسہ جیسی نہیں تھی اُس کی باتیں، بولنے کا انداز، چلنے کا انداز، اُس کے بال، آنکھیں کُچھ بھی تو رومیسہ جیسا نہیں تھا پِھر وہ کیوں اُسے اُس لڑکی کے کیے کی سزا دے رہا تھا جو اُس کی زندگی میں ہوا بن کر آئی اور غائب بھی ہو گئی۔

 وہ اُلجھنے لگا تھا جب جب وہ معصومہ کے قریب ہونے لگتا اُسے رومیسہ کا دھوکا یاد آنے لگتا تھا اور وہ معصومہ سے پِھر اُسی فاصلے پر چلا جاتا تھا۔ کبھی وہ اپنے دِل کی حالت سے گھبرا اُٹھتا تھا جو معصومہ کی چاہ رکھنے لگا تھا اُسے معصومہ کی عادت ہونے لگی تھی وہ کمرے میں نا ہوتی تو اُسے ایک کمی سی محسوس ہوتی تھی اور یہ بات اُس نے معصومہ کو محسوس بھی نہیں ہونے دی تھی۔

 البتہ اپنے دِل کی حالت سے پریشان ہوتا وہ معصومہ کو بے وجہ ہی ڈانٹ کر رکھ دیتا یا اُس کی بے عِزّتی کر دیتا جِسے وہ خاموشی سے آنسو پی کے سُن لیتی اور پِھر اُس کے آنسو دیکھ کر وہ خود کو بے بس پاتا آئیندہ ایسا کُچھ نا کرنے کا فیصلہ کرتا مگر پِھر اگلے دِن وہ وہی کرتا۔

معصومہ باہر آئی تو داؤد بیڈ پہ بیٹھا تھا اُس نے نگاہ اُٹھا کے دیکھا تو وہ دُھلے دھلائے چہرے کے ساتھ اُس کے سامنے کھڑی تھی۔ 

آنکھوں میں آنسو اب بھی نظر آ رہے تھے جبکہ ہونٹ کے کنارے پہ زخم بن گیا تھا۔وہ اُس سے نظریں چُراتی باہر جانے لگی جب وہ ایک دم اُٹھتا اُس کی جانب بڑھا۔ 

"ایم سوری۔" داؤد نے شرمندگی سے کہا۔

"آپ کا تو حق ہے مُجھے تکلیف دینا، بار بار مُجھے میری اوقات اور حد یاد دِلانا، مُجھ سے اپنی نفرت کا اِظہار کرنا، مُجھ پہ حُکم چلانا۔ پِھر معافی کِس بات کی؟" معصومہ کے سوال پہ وہ لاجواب ہوا تھا۔

"مُجھے ایک دم غُصّہ آ گیا تھا مُجھ سے برداشت نہیں ہوا تُمہارا  اُس سعد کے قریب بیٹھنا۔" داؤد صفائی دینے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ وہ اپنے دِل کی بغاوت پہ حیران تھا۔

"کیوں؟ آپ تو مُجھ سے نفرت کرتے ہیں پِھر کیوں آپ کو بُرا لگا میں جہاں چاہے جِس کے ساتھ چاہے بیٹھوں۔" معصومہ نم لہجے میں پوچھ رہی تھی۔

 اب اُس کی بس ہو گئی تھی وہ بھی اِنسان تھی کب تک برداشت کرتی ہمیشہ برداشت ہی تو کرتی آئی تھی ایک مہینہ ہو گیا تھا اُن کی شادی کو اور کوئی دِن ایسا نہیں تھا جب داؤد نے اُسے ذلیل نا کیا ہو۔

"اب تُم حد سے بڑھ رہی ہو کہا نا سوری۔" داؤد کو غُصّہ آیا تھا وہ معافی مانگ رہا تھا اور وہ آگے سے ہٹ دھرمی دِکھا رہی تھی داؤد کو تو یہی لگا۔

"آپ کو آرام کی ضرورت ہے آپ آرام کریں۔" کہہ کر وہ رُکی نہیں بلکہ باہر نِکلتی چلی گئی۔ داؤد نے لب بھینچ کر سر ہاتھوں میں گِرا لیا۔

******************

کرتے کرتے شادی کا دِن بھی آ ہی گیا دونوں جوڑوں کا نِکاح ہو چُکا تھا اور دونوں جوڑے ایک ہی گھر میں موجود تھے اِسی لیے دونوں جوڑوں کا صِرف ولیمہ ہی منعقد کیا گیا تھا۔

 تقریب میں خاندان کے عِلاوہ گاؤں کے لوگ بھی شامل تھے جِن میں سے کُچھ تو سِکندر صاحب کے دوست تھے اور کُچھ گاؤں کے باقی لوگ۔

وجدان اور آن کی فیملیاں بھی آئیں تھیں۔ آن اور اُس کے گھر والے تو معصومہ کی طرف سے آئے تھے جبکہ وجدان اور اُس کے گھر والوں کا آنا جانا تھا اور اُن کے فیمیلی ٹرمز بھی تھے۔  

ارحم اور ماہین رفیق صاحب کے ساتھ آئے تھے۔ مشعل اور فرازنہ بیگم تو اِتنی بڑی حویلی دیکھ کر دنگ رہ گئیں تھیں۔ 

مشعل نے ابھی تک معصومہ کا شوہر نہیں دیکھا تھا جبکہ فرزانہ بیگم کو اچھے سے وہ مغرور سا داؤد سِکندر یاد تھا جو اُن کے گھر وجدان کے ساتھ آیا تھا اور بغیر کُچھ کہے واپس چلا گیا تھا۔

مشعل حیران سی ستائشی نظروں سے دیکھتی معصومہ کے کمرے میں پہنچی تھی۔ دُلہنوں کو تیار کرنے کے لیے دو بیوٹیشنز کو بُلایا گیا تھا معصومہ کے کمرے میں ماہین بیٹھی تھی جبکہ مشعل جو ابھی آئی تھی وہ بھی اُسی کے پاس جا کے کھڑی ہو گئی۔

"واہ معصومہ تُمہارے تو نصیب جاگ گئے اِتنا بڑا گھر تُم نے تو خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا۔" وہ اُس کے اِتنے بڑے کمرے کو دیکھتی بولی جِس پہ نعصومہ پھیکا سا مُسکرا دی۔

 جِس کمرے کی وہ رہائشی تھی اُس کمرے کے مالِک کے دِل میں تو اُس کے لیے ذرے برابر بھی جگہ نہیں تھی مگر یہ بات وہ مشعل کو نہیں بتا سکتی تھی۔

"داؤد بھائی بہت امیر ہیں اور بہت ہینڈسم بھی۔ معصومہ کی جوڑی تو اُن کے ساتھ ہی جچے گی۔"ماہین نے محبت سے کہا تو مشعل داؤد کے نام پہ چونکی۔

بیوٹیشن معصومہ کو تیار کر چُکی تھی۔ برائیڈل سکِن کلر کا لہنگا اور ڈیپ ریڈ کامدار دوپٹہ معصومہ کے حُسن کو چار چاند لگا رہا تھا میک اپ نے اُس کے حُسن کو دو آتشہ بنا دیا تھا۔ دُلہن بنی معصومہ اپنے حُسن سے بے نیاز سادگی سے سر جُھکائے بیٹھی تھی۔

"معصومہ؟ میری ٹائی نہیںںںںںں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" داؤد اپنی دُھن میں کہتا اندر داخل ہوا تو نظر سامنے معصومہ پہ پڑی جو اُس کی آواز سُنتے جھٹ سے کھڑی ہو گئی تھی۔

 جبکہ مشعل داؤد کو دیکھ کے شاکڈ رہ گئی تھی یعنی معصومہ کی شادی داؤد سِکندر سے ہوئی ہے اُس داؤد سے جسے اُس نے اپنے لیے پسند کیا تھا۔ وہ ہمیشہ سے معصومہ سے اُس کے کھلونے، کپڑے چھینتی آئی تھی مگر اُس کا نصیب نہیں چھین سکی تھی۔ وہ کفِ افسوس ملتی داؤد کو دیکھتی رہ گئی جو ٹکٹکی باندھے معصومہ کو دیکھ رہا تھا۔

"لیو۔" داؤد کی سنجیدگی سے بھر پور آواز کمرے میں گونجی تو ماہین، مشعل اور بیوٹیشن باری باری کمرے سے نِکلتی چلیں گئیں۔  داؤد نے دروازہ بند کیا اور معصومہ کی جانب بڑھا۔

اُس نے معصومہ کے قریب پہنچ کے اُس کی تھوڑی کے نیچے دو انگلیاں رکھ کے اُس کا چہرہ اوپر اُٹھایا۔ معصومہ آنکھیں میچ کر رہ گئی وہ جب جب اُس کے قریب آتا تھا تکلیف ہی دیتا تھا اب بھی شاید تکلیف دینے ہی آیا تھا۔

"آج میں تُمہیں ماروں گا نہیں مگر تُمہاری جان لے لوں گا۔" وہ معنی خیزی سے بولتا اُسے اُلجھا گیا۔

" جج جی مم مطلب؟" وہ ہکلا کر رہ گئی جب اُس نے داؤد کی ہاتھ کی پُشت اپنے گالوں پہ محسوس کی۔

"سارے مطلب سمجھ آجائیں گے جب میں تُمہیں اپنے طریقے میں سمجھاؤں گا۔" داؤد نے اُس کی ماتھا پٹی سیدھی کرتے کہا۔

" آپ نن نے بب بابا کی قق قسم کھائی تت تھی کہ مُجھے کک کبھ تکلیف نہیں دیں گے۔" وہ بھرائے لہجے میں اُسے یاد دِلانے لگی۔

" شش چُپ۔ رونا نہیں۔ اگر رو کے تُم نے میک اپ خراب کیا تو پِھو لازمی ماروں گا تُمہں۔ پہلے جب تُم نے دُلہن کے جوڑے میں سنگھار کیا تھا تو وہ ہاشم کے نام کا تھا مگر یہ سِنگھار داؤد سِکندر کے نام کا ہے۔ اِسے خراب کرنے پہ کوئی رعایت نہیں مِلے گی۔" اُس نے ڈانواں ڈول ہوتے دِل کو سنبھالتے معصومہ کا گال تھپتھپا کر کہا۔

" جج جی۔" وہ بس یہی بول سکی۔

"فنکشن شروع ہونے والا ہے اِس لیے بغیر روئے یہاں بیٹھو میں باہر جا رہا ہوں۔ اور ہاں رونا بالکُل مت۔" وہ الماری سے اپنی ٹائی نِکالتا اُسے وارن کرتا باہر نِکل گیا اور وہ بیڈ پہ بیٹھ کر خود کو چُپ رکھنے کے لیے لمبے لمبے سانس لینے لگی۔

*********************

شام کے پانچ بج رہے تھے جب فنکشن شروع ہوا۔ داؤد نے بلیک کلر کا تھری پیس پہنا تھا معصومہ اُس کے ساتھ باہر آئی تو سب لوگوں کی نظریں داؤد اور معصومہ پہ جم کے رہ گئیں۔ وہ دونوں ایک ساتھ بہت خوبصورت اور مکمل لگ رہے تھے۔

 کُچھ لوگوں کی آنکھوں میں اُن کے لیے تعریف تھی کُچھ لوگوں کی آنکھوں میں حسد۔ جِن میں سر فہرست فاطِمہ تبریز تھی۔ معصومہ نے دوپٹہ سر پہ سیٹ کروایا تھا جِسے داؤد نے دِل میں سراہا تھا مگر منہ سے تعریف کرنا مناسب نا سمجھا تھا۔

داؤد نے معصومہ کا بایاں بازو اپنی دائیں کہنی میں سے گُزار رکھا تھا اور بایاں ہاتھ اپنے دائیں ہاتھ میں تھام رکھا تھا۔ اُن کے آتے ہی حمدہ بیگم نے اُن کی نظر اُتاری تھی وہ چل کر تحریم اور حیدر کے پاس جا کے کھڑے ہو گئے۔

 تحریم نے ڈیپ ریڈ کلر کا لہنگا پہنا تھا نفاست سے کیے برائیڈل میک اپ اور جیولری میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ داؤد کی طرح اُس نے بھی بلیک تھری پیس پہنا تھا جِس میں اُس کی وجاہت نِکھر رہی تھی۔ 

سب ہی باری باری جا کے دونوں جوڑوں سے مِلتے اُنہیں مبارکباد دے رہے تھے۔ سِکندر صاحب اور فراز صاحب اپنے بچوں کو خوش دیکھ کر خود بھی خوشی سے مہمانوں سے مِل رہے تھے۔

آن کی والدہ اور والد معصومہ اور داؤد سے مِل کے معذرت کر کے واپس چلے گئے تھے کہ وِشہ گھر پہ اکیلی تھی وہ بس معصومہ کی خوشی میں شریک ہونے آئے تھے البتہ آن وہیں تھیں وہ وجدان لوگوں کے ساتھ واپس جانے والی تھی۔ 

 فرزانہ بیگم نے رسمی طور پر معصومہ کے سر پر ہاتھ رکھ کے پیار دیا تھا جِس پہ معصومہ کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں جِسے محسوس کر کے داؤد نے اُس کی کمر کے گِرد گرفت کستے اُسے رونے سے باز رہنے کا اِشارہ کیا تھا جِس پہ وہ ٹھیک طرح سے رو بھی نا پائی تھی مطلب اب اپنی مرضی سے رونا بھی نہیں۔ مگر وہ پگلی نہیں جانتی تھی کہ اب اُس کے آنسو داؤد سِکندر کو بے چین کر دیتے تھے۔ 

آن نے معصومہ کو داؤد کے قریب کھڑے دیکھا تو اُن کی طرف بڑھی وجدان بھی اُس کے ساتھ ہی تھا۔

"اسلامُ علیکُم! کیسے ہیں آپ؟" وہ تحریم اور حیدر سے پہلے ہی مِل چُکی تھی اور اب داؤد کے سامنے کھڑی اُس سے پوچھ رہی تھی۔

"میں ٹھیک مِس آن! آپ کیسی ہیں؟" داؤد نے سنجیدگی سے پوچھا۔

"میں بھی ٹھیک ہوں اور اُمید کرتی ہوں کہ میری دوست بھی بالکُل ٹھیک ہو گی۔" آن نے تیکھے لہجے میں کہا۔

" آپ کی دوست میری بیوی بھی ہے اور داؤد سِکندر کی بیوی بھی بالکُل ٹھیک ہے۔ ہے نا معصومہ داؤد سِکندر!" داؤد نے آن سے بھی زیادہ تلخ لہجے میں کہتے معصومہ سے پوچھتے اپنا رِشتہ بآور کروایا۔

"جج جی میں ٹھیک ہوں آنو!" معصومہ اچانک مخاطب کیے جانے پہ بوکھلا کر گویا ہوئی۔

"آن معصومہ کو گِفٹ نہیں دو گی جو تُم اُس کے لیے لائی تھی؟" وجدان نے بات بدلتے کہا۔

"جی میں ابھی لے کے آتی ہوں۔" آن کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔

"داؤد! تُم بتاؤ کب تک واپس آفس جوائن کرو گے؟" وجدان نے پوچھا۔

"بس یہ شادی کا معاملہ ختم ہو تو میں شہر شِفٹ ہو جاؤں گا۔" داؤد نے کہا تو وجدان نے سر ہلا دیا جبکہ اُس کی بات سُن کے معصومہ کا دِل ڈول گیا مطلب وہ اُس سے دور جانے کے لیے اُسے یہاں چھوڑ جائے گا وہ یہاں اُس کے بغیر اکیلی رہے گی یہ سوچ ہی اُس کے لیے سوہانِ روح تھی۔ اُس کی آنکھوں کے کِنارے ایک دم ہی بھیگے تھے۔

"ارے گُڑیا کیا ہوا؟ رونے کیوں لگی؟" وجدان نے اُسے آنکھوں کے کنارے صاف کرتے دیکھ کر کہا تو وہ پوچھنے لگا۔

"کک کُچھ نہیں وجدان بھائی بس ماما بابا کی یاد آ گئی۔ وہ ہوتے تو آج کِتنا خوش ہوتے نا؟" معصومہ نے بھرائے لہجے میں کہا اور یہ بات سچ بھی تھی اُسے آج اپنی ماں اور باپ کی بہت یاد آئی تھی تصویروں کے عِلاوہ اُس نے اُنہیں دیکھا بھی نا تھا۔

"اوہ کوئی بات نہیں گُڑیا! ہم سب ہیں نا تُمہارے ساتھ۔" وجدان نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تو اُس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

"اچھا معصومہ! تُمہارے کوئی اور بہن بھائی نہیں ہیں کیا؟" وجدان نے کُچھ سوچ کر پوچھا۔

"نہیں وجدان بھائی! میں اکلوتی ہوں۔ بابا تو میری پیدائش سے پہلے ہی چل بسے تھے اور ماما میری پیدائش کے وقت مُجھے تنہا چھوڑ گئیں۔" معصومہ نے افسردہ سے انداز میں بتایا اُس کے لہجے میں ایک حسرت سی تھی جِسے محسوس کر کے داؤد نے پہلو بدلا۔

"اوہ اچھا! تو تُمہیں یی سب کِس نے بتایا؟" وجدان نے ایک اور سوال کیا۔

"مُجھے ماموں ممانی نے ہی پالا ہے اور یہ سب مُجھے ماموں نے بتایا تھا۔" معصومہ نے سادگی سے کہا۔

" مومو! یہ لو تُمہارا گِفٹ۔ یہ میرے اور وجدان کی طرف سے ہے۔" وجدان کوئی اور سوال کرتا کہ آن وہاں آئی اور ہاتھ میں موجود دو بڑے بڑے باکس معصومہ کی طرف بڑھائے جِنہیں داؤد نے  پکڑ کر ایک طرف کھڑے مُلازم کو تھما دیا۔ 

آن کھڑی معصومہ اور تحریم سے باتیں کرنے لگی ماہین وہاں آئی تو آن اُس کے ساتھ مِل کے معصومہ اور تحریم کو چھیڑنے لگی جِس پہ تحریم اور معصومہ گُلال ہوتیں اُنہیں شرارتوں سے منع کرنے لگیں۔ حیدر داؤد، ارحم اور وجدان کے ساتھ کھڑا باتیں کر رہا تھا حیدر کا اِرادہ بھی بزنس کرنے کا تھا اور داؤد نے اُسے اپنے بزنس میں شامل ہونے کا مشورہ دیا تھا جِس پہ وہ اب ڈِسکشن کر رہے تھے۔

دور کھڑی مشعل حسرت سے معصومہ کے گُلنار ہوتے چہرے کو دیکھ رہی تھی جِسے بغیر مانگے سب مِل گیا تھا اور وہ خالی دامن رہ گیی تھی شاید یہ اُسے وجدان کو ٹھکرانے کی سزا تھی بے شک وجدان نے اُسے پسند نہیں کیا تھا یا ابھی باے نہیں ہوئی تھی مگر پِھر بھی اُس نے دِل میں تو وجدان کو ٹھکرایا ہی تھا یہ شاید زیادہ لالچ کی سزا تھی جو بھی تھا ایک بات اُسے سمجھ آ گئی تھی کہ قِسمت سے زیادہ اور وقت سے پہلے کبھی کِسی کو کُچھ نہیں مِلتا ہم جو چاہتے ہیں وہ ہو جائے ضروری تو نہیں۔

جہاں مشعل کی آنکھوں میں معصومہ کو دیکھ کے رشک اور حسرت تھی وہیں فاطِمہ کی آنکھوں میں معصومہ کو دیکھ کر شرارے پھوٹ رہے تھے وہ بہت ضبط کیے وہاں کھڑی تھی یاسمین بیگم اپنی ساری فیملی سمیت وہاں آئیں تھیں اُنہوں نے اپنے پوتے کو گود میں اُٹھا رکھا تھا جبکہ اُن کا بیٹا احمر اور بہو حِنا دُلہنوں اور دُلہوں سے مِلنے گئے تھے۔

سعد ایک طرف کھڑا معصومہ کے حسین مُکھڑے کو گھور کر دیکھ رہا تھا اُس کے دِل میں کیا چل رہا تھا کوئی نہیں جانتا تھا۔ 

جہاں سب اپنی خوشیوں میں مگن تھے وہیں ایک ویٹر جِس کی بڑی بڑی داڑھی اور موچھیں تھیں اور ڈیل ڈول بھی کافی فربہی مائل تھا،  بار بار معصومہ اور داؤد کے آگے پیچھے ہو رہا تھا اُس کا قد تقریبا معصومہ جِتنا ہی تھا وہ جب بار بار وہاں آنے لگا تو داؤد نے اُسے ٹوک دیا جِس پہ وہ اُسے گھورتا واپس دوسرے مہمانوں کو کولڈ ڈرنک سرو کرنے لگا۔ 

مگر اُس کی نظریں بار بار دُلہن بنی معصومہ اور اُس کی طرف تپش دیتی اُٹھتی داؤد کی نِگاہوں کو نوٹ کر رہیں تھیں اور اندر اندر ہی وہ ویٹر سُلگنے لگا تھا۔

کافی دیر مہمانوں سے مِلنے اور مبارکبادیں وصول کرنے کے بعد کھانا کھانا شروع کیا گیا۔ دونوں جوڑے ایک طرف لگے صوفوں پر بیٹھ چُکے تھے۔

 سبھی بڑے علیحدہ نشستیں سنبھال چُکے تھے جبکہ آن، وجدان، ارحم، ماہین، مشعل، فاطِمہ، سعد، حِنا اور احمر دونوں جوڑوں کے پاس ہی بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ معصومہ سے تو کُچھ کھایا ہی نہیں جا رہا تھا۔ 

کُچھ دُلہناپے کا خیال اور کُچھ خود پر بار بار اُٹھتی داؤد کی آنچ دیتی نِگاہیں، وہ نروس ہوتی صحیح سے کھا بھی نہیں پا رہی تھی۔ 

آن بار بار جُھک کر کوئی شرارتی سرگوشی اُس کے کانوں میں کرتی تو وہ سُرخ ہوتی رہ جاتی۔ کُچھ بول بھی نہیں سکتی تھی۔ داؤد اُس کے چہرے پہ آتے جاتے شرم و حیا کے رنگ مبہوت ہو کر دیکھ رہا تھا۔ اُسے اِس وقت سب بھولا تھا یاد تھا تو بس یہ کہ معصومہ اُس کی جائز بیوی ہے جِس پہ وہ شرعی حق رکھتا ہے۔ 

کھانے کے بعد گاؤں کے لوگ تو سِکندر صاحب اور باقی سب سے مِلتے رُخصت ہو گئے جبکہ باقی خاندان والے گیسٹ رومز کی طرف چل دیئے جہاں اُن کی رہائش کا اِنتظام کیا گیا تھا۔ 

رات کے گیارہ بج رہے تھے جب فنکشن ختم ہوا اور دُلہنوں کو اُن کے روم میں پہنچا دیا گیا۔ جبکہ دُلہے ابھی اپنے دوستوں کے پاس کھڑے باتیں بِگھار رہے تھے۔ یاسمین بیگم بھی شوہر اور بچوں کے ساتھ ساتھ ہی موجود اپنے گھر چلیں گئیں۔

سب ہی آہستہ آہستہ کمروں میں جانے لگے تو امّو جان نے حیدر اور داؤد کو بھی روم میں جانے کو کہا کہ رات کافی ہو گئی ہے. سب اپنے رہائشی کمروں میں چلے گئے تو داؤد اور حیدر بھی اپنے کمروں کی طرف بڑھے۔ حیدر تو چلا گیا تھا مگر داؤد کو اپنے کمرے کے باہر رُکنا پڑا تھا کیونکہ آگے پٹاکا کھڑی تھی داؤد کے خال میں۔

"آپ دروازے کے سامنے کیوں کھڑی ہیں؟" اُس نے گھڑی پہ ٹائم دیکھتے پوچھا جو اب بارہ بجا رہی تھی۔

"مُجھے نیگ چاہیے اور میں دروازہ رُکائی کی رسم کے لیے کھڑی ہوں۔" آن نے بے نیازی سے کہا۔

"یہ رسم بہنیں کرتی ہیں اور آپ میری بہن نہیں ہیں۔" داؤد نے کہا تو آن نے آنکھیں گُھمائیں۔

"دیکھ لیں وجدان اپنے دوست کو۔ میں بھی تو اِن کی بہن جیسی ہوں مگر نہیں یہ تو بڑے بے حِس ہیں خُدا نے مُجھے بھائی نہیں دیا تو کیا میرا کوئی بھائی نہیں بن سکتا؟ آپ بھی تو مومو کے بھائی ہیں۔" آن نے ڈرامائی انداز میں دُہائی دیتے کہا تو وجدان پنی ڈرامہ کوئین کو دیکھتے ہنسی دبانے لگا جب کہ داؤد بالوں میں ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔

"ٹھیک ہے کِتنے پیسے چاہیے آپ کو میری بہن؟" اب کی بار داؤد نے نرمی سے پوچھا۔

"پیسے نہیں چاہیے۔ کُچھ اور چاہیے۔" آن نے کہا تو داؤد اور وجدان نے سوالیہ نظروں سے اُس کی جانب دیکھا۔

"آپ وعدہ کریں کہ میری دوست کو کبھی تکلیف نہِیں دیں گے کبھی اُس کی آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دیں گے۔" آن نے کہا تو داؤد چِڑ گیا۔

"نہیں آج آپ ہی بتا دیں مُجھے؟ میں شکل سے جلّاد لگتا ہوں؟ یا پِھر میرے ڈریکولا کی طرح کے دو لمبے لمبے دانت ہیں؟ یا میری شکل اِتنی ڈراونی ہے کہ میں شکل سے ہی ظالم اور جابر لگتا ہوں؟ یا میں کوئی سائیکو ہوں جو بِلا وجہ کِسی کو بھی مارے گا۔"  داؤد نے جھنجھلا کر کہا تو آن سٹپٹا کر اُسے دیکھنے لگی جب کہ وجدان داؤد کی بات کا پسِ منظر سمجھتا ہنسنے لگا۔

"نہیں مم میرا وہ مطلب نن نہیں تھا میں تو بس۔۔۔۔۔۔۔" آن ہڑبڑاتی کہنے لگی جب داؤد نے اُس کی بات کاٹی۔

"پلیز بتا دیں آپ ہی؟ نہیں مطلب حد ہے ہر کوئی مُجھ سے قسمیں وعدے لیتا ہے کوئی ہدایتیں دیتا ہے کہ میں معصومہ  کو تکیلف نا پہنچاوں۔ میں کونسا ہاتھ میں ہنٹر، چاقو یا پِسٹل لے کے گھومتا ہوں جو سب کو یہ لگتا ہے کہ میں معصومہ داؤد سِکندر کو نُقصان پہنچاوں گا۔ پڑھا لِکھا باشعور شخص ہوں میں جاہل نہیں جو اپنی ہی بیوی کو نُقصان پہنچاوں۔ اب آپ ہٹیں گی یا میں آپ کو ہٹاوں۔" داؤد نے تیکھے چتونوں سے اُسے دیکھتے پوچھا جو دروازے کے سامنے ہی کھڑی تھی۔ اُس کی بات سُنتے وہ جلدی سے پیچھے ہٹی تو وہ اُسے دھکیلتا اندر داخل ہوتا کمرہ لاک کر گیا۔

آن خفگی سے وجدان کو دیکھنے لگی تو وجدان نے اپنی ہنسی کو بریک لگائی وہ اُس کی ناراضگی نہیں مول لے سکتا تھا۔

"وہ ایک ہی بات سب کے منہ سے سُن کر جھنجھلا گیا ہے اِسی لیے تُمہیں ایسے بولا بُرا مت ماننا وہ ذرا غُصّے والا ہے۔" وجدان نے داؤد کی طرف سے صفائی دی۔

"آپ بس اپنے دوست کا ہی ساتھ دینا میری تو کوئی ویلیو ہی نہیں ہے۔" آن کہہ کر جانے لگی تو وجدان اُس کے پیچھے گیا جانتا تھا اب وہ کافی دیر روٹھی رہے گی اور پِھر خود ہی مان بھی جائے گی۔

********************

وہ کمرے میں داخل ہوا تو تازہ گُلاب کے پھولوں کی دِلکش خوشبو نے اُس کے وجود کا احاطہ کیا۔ سارا کمرہ گُلاب کے پھولوں سے سجا ہوا تھا کہیں کہیں کینڈل لائٹس روشن تھیں۔ مدھم سا اندھیرا کمرے کے ماحول کو فسوں ناک بنا رہا تھا۔

وہ کمرے کی خوابناک ماحول کا جائزہ لے کر بیڈ کی جانب دیکھنے لگا جہاں وہ بیڈ کراون سے ٹیک لگائے شاید بیٹھی بیٹھی سو گئی تھی اُس نے آگے بڑھ کر لائٹ آن کی اور بیڈ پہ معصومہ کے قریب بیٹھا۔ وہ اِردگِرد سے بے نیاز آنکھیں موندے سو رہی تھی۔ گُلاب کے پھولوں میں بیٹھی وہ داؤد کو خود ایک گُلاب کا پھول محسوس ہوئی۔ 

نیند میں اُس کے چہرے پہ چھائی معصومیت اُسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ اُس نے آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر اُس کا چہرہ سیدھا کیا تو اُس کا سجا سنورا روپ اُس کے سامنے آ گیا اُس نے آہستہ سے اُسے سیدھا کر کے بیڈ پہ لٹایا تو وہ کُچھ کسمساتی سیدھی لیٹ گئی مگر جاگی اب بھی نا۔

 داؤد کو اندازہ ہوا اُس کی نیند بہت گہری تھی۔وہ  مُسکرا کر اُٹھا اور چینج کرنے چل دیا۔ پندرہ منٹ بعد وہ ٹراوزر شرٹ پہنے واپس آیا تو وہ ہنوز نیند میں تھی مگر اب وہ کروٹ کے بل لیٹی تھی شاید زیادہ تھک گئی تھی۔ اُسے معصومہ کی نیند پہ غُصّہ سا آیا۔ وہ اُس کے قریب جا کے دراز ہوا اور اُس کو کمر سے تھامتا اپنے قریب کر گیا۔

وہ نیند میں گُم تھی جب اُسے ایسے لگا جیسے وہ پیچھے کو کِھسک رہی ہو اُسے نرم سی گرفت کا احساس ہوا۔ چہرے پہ پڑتی گرم سانسوں سے وہ  وہ اپنے چہرے پہ کِسی کا لمس محسوس کرنے لگی اِس سے پہلے کہ وہ حواسوں میں آتی چیخ مارتی  داؤد نے اُس کے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اُس کی چیخ کا گلا گھونٹا وہ ادھ کُھلی پھٹی آنکھوں سے اُس کی جانب دیکھنے لگی۔ 

نیند کے خُمار سے بھر پور اُس کے بھورے نینوں میں داؤد سِکندر کو اپنا دِل ڈوبتا محسوس ہوا۔ جبکہ معصومہ کو لگا وہ اُسے مارنے لگا ہے۔ وہ ایکدم جھٹپٹاتی اُس سے دور ہونے کی کوشش کرنے لگی جب داؤد نے ایک جھٹکے سے اُسے خود کے قریب کیا اور اُس پہ جُھکا۔

" دور کیوں ہو رہی ہو مُجھ سے کھا نہیں جاؤں  گا تُمہیں۔" داؤد اُس کے گُریز پہ تلخی سے بولا۔

"مم مجھے مم مت ماریں پلیز۔" وہ روہانسے لہجے میں بولی تو  

داؤد نے اُسے بِٹھایا اور خود اُس کے سامنے بیٹھا۔ 

"میں جانتا ہوں میرا رویہ تُم سے اچھا نہیں ہے۔ جو کُچھ ہوا میرے ساتھ اُس کا قصور وار میں تُمہیں سمجھتا ہوں۔ لیکن اب میں سب کُچھ بُھلا کے نئے سرے سے تُمہارے ساتھ زندگی شروع کرنا چاہتا ہوں۔ میں پِچھلی ساری باتیں بھول کر اپنی آنے والی زندگی تُمہارے ساتھ جینا چاہتا ہوں۔ میں نے تُمہارے ساتھ جو تلخ رویہ رکھا ہے اُسے بھول جاؤ۔ میں آئیندہ کوشش رکوں گا کہ تُمہیں مُجھ سے کوئی تکلیف نا ہو۔" داؤد مدھم لہجے میں کہتا ایک ایک کر کے اُس کے جُھمکے، نیکلیس، چوڑیاں اور ماتھا پٹی اُتار رہا تھا جبکہ وہ اُس کا نرم لمس محسوس کرتی کانپتی آنکھیں بند کر گئی۔

"جانتا ہوں کہ مُجھے دیر ہو گئی ہے لیکن اِتنی بھی دیر نہیں ہوئی کہ مُجھے اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔ وقت سے پہلے سنبھل گیا ہوں میں۔ اور چاہتا ہوں کہ تُم میرے سابقہ رویے کو نظر انداز کر کے مُجھے میری اچھائیوں اور بُرائیوں سمیت قبول کر لو۔" اب وہ اُس کا دوپٹہ اُتار کے اُس کے جوڑے میں بندھے بال کھول رہا تھا۔

"آپ مم مُجھ سے محبت تو نہیں کرتے نا؟" معصومہ نے نم لہجے میں پوچھا۔

"میں تُم سے محبّت نہیں کرتا مگر تُم تو مُجھ سے محبّت کرتی ہو نا؟ کیا تُمہاری محبت ہم دونوں کے لیے کافی نہیں؟" وہ سوال کے بدلے سوال کر رہا تھا مگر اپنے دِل کی بدلتی حالت اور معصومہ کے لیے اپنے دِل میں اُمڈتے جذبات کا اِظہار اب بھی نہیں کیا تھا۔

"محبّت نہیں عِشق کرتی ہوں۔ ایسا عِشق جو کوئی نا کرے۔ جو ہر غرض سے پاک بے غرض ہے۔ اور ہاں میری محبت ہم دونوں کے لیے کافی ہے میں آپ سے کُچھ نہیں مانگوں گی مگر کبھی بھی میری جگہ کسی اور کو مت دیجیے گا۔" معصومہ نے شِدّت سے کہا تو وہ اُس کے لہجے میں اپنے لیے شِدّت دیکھ کر حیران رہ گیا۔

"چینج کر کے آو رات کافی ہو گئی ہے۔" داؤد نے بات بدلتے کہا تو وہ سر ہلاتی لہنگا تھامے کھڑی ہوئی۔

 اور الماری سے کپڑے لیتی باتھ روم میں گُھس گئی۔ 

پندرہ منٹ بعد وہ میک اپ سے پاک چہرہ لیے کمرے میں داخل ہوئی اور بال سُلجھانے لگی۔ داؤد آہستہ سے چلتا اُس کے قریب گیا اور اُکے بال ہاتھوں میں لپیٹے۔

"مُجھے تُمہارے بال بہت پسند ہیں اِنہیں کبھی کٹوانا مت۔" داؤد نے کہا تو خاموشی سے سر ہلا گئی۔ داؤد نے ایک دم ہی اُسے بازووں میں اُٹھایا اور بیڈ کی جانب بڑھا اُس بیڈ پہ لٹا کے وہ اُس کے قریب ہوتا اُس پہ جُھکا۔

محبت نہیں مگر تُمہاری عادت ہو گئی ہے مُجھے اور عادت محبّت سے زیادہ جان لیوا ہوتی ہے۔ پہلے جو ہوا اُسے میں بھول گیا ہوں مگر اب کبھی مجھے دھوکا مت دینا اب کی بار میں بھول نہیں پاوں گا۔" داؤد نے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا گئی کُچھ کہتی تو بھی وہ یقین نا کرتا اِس لیے چُپ رہنے میں ہی عافیت جانی۔

"میرے عِلاوہ کبھی کسی اور کے بارے میں سوچنا بھی مت۔ تمہاری سانسوں پہ تُمہارے وجود پہ صرف میرا حق ہے یاد رکھنا۔" وہ مدھم آواز میں کہتا اُس پہ مہربان ہونے لگا تھا اُس کے لرزتے کانپتے وجود کو داؤد نے سب کُچھ بھول کر یوں سمیٹا تھا کہ وہ خود کے وجود پہ نازاں ہوئی تھی۔

 اُس کی نسوانیت کا احساس کرتے نرمی سے اُسے اپنے نام کر کے اُس کے وجود پہ اپنے نام کی مہر لگائی تھی کہ وہ یہ سوچنے پہ مجبور ہوئی تھی کہ ہر مرد ٹیپیکل نہیں ہوتا جو اپنی عورت کی نسوانیت کی تذلیل کرے بلکہ کُچھ مرد داؤد سِکندر جیسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی عورت کو اپنے وجود کا حِصہ بنا کر اُسے مان بخشتے ہیں

۔ 

رات رفتہ رفتہ گُزرنے لگی تھی ہر طرف خاموشی تھی مگر رات کی فسوں خیز تاریکی میں اک سرشاری تھی کِسی کو خوشیاں مِلنے کی سرشاری۔ 

******************

اگلی صُبح روشن اور چمکیلی تھی فضا میں ایک عجیب سی خوشی کی مہک تھی یوں جیسے فضا میں گلابوں کی مہک رچی بسی ہو۔ اُس کی آنکھ کُھلی تو اُس نے خود پہ نرم سی گرفت محسوس کی۔ معصومہ دونوں ہاتھ اُس کے گِرد حائل کیے اُس کے اوپر پھیلی سو رہی تھی وہ داؤد کے کندھے سے تھوڑا نیچے تک آتی تھی۔


وہ اُس کی بچّوں والی حرکت پہ مُسکرایا اور اُس کے بال پیچھے کیے جو آدھے اُس کے اوپر اور آدھے اُس کے قریب بیڈ پہ بِکھرے پڑے تھے۔ ایک ہاتھ اُس کی کمر کے گِرد حائل کر کے اُس نے کروٹ لی کہ معصومہ اُس کے دائیں بازو پہ شفٹ ہو گئی۔


وہ گہری نیند میں تھی کمرے میں اُس کی سانسوں کی آواز گونجتی خاموشی کو توڑ رہی تھی۔ داؤد نے ایک ہاتھ سے اُس کے بال اُسکے کانوں کے پیچھے اڑسے اور اُس کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا جہاں معصومیت چھائی ہوئی تھی۔


وہ خود پہ پڑتی نظروں سے بے خبر داؤد کے کندھے پہ سر رکھے سو رہی تھی۔ داؤد نے بہت سوچ سمجھ کے یہ فیصلہ لیا تھا کہ وہ معصومہ کے ساتھ اپنی زندگی آگے بڑھائے گا۔ جو کُچھ دو سال پہلے ہوا تھا وہ سب بھول کر وہ معصومہ کے ساتھ نئی زندگی شروع کر کے نئی یادیں بنانا چاہتا تھا۔ اُسے معصومہ رومیسہ سے مختلف لگتی تھی مگر اُس کا چہرہ تو ویسا ہی تھا نا۔


مگر پِھر اُس نے اپنی آنے والی زندگی کو بہتر بنانے اور معصومہ کو خوش رکھنے کی خاطر سب کُچھ بھول کے معصومہ کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا اِن چند دِنوں میں ہی وہ جان گیا تھا کہ بابا سائیں معصومہ سے بہت محبّت کرتے ہیں اگر اُس نے معصومہ کو زرا سی بھی تکلیف پہنچائی تو شاید بابا سائیں اُس سے کبھی بات نا کریں اور ایسا وہ ہرگِز نہیں ہونے دے سکتا تھا۔


اُس نے معصومہ سے اپنے دِل میں پلتی اُس کی محبت کا اعتراف نہیں کیا تھا نا ہی اُس کا اِرادہ تھا کہ وہ کبھی اُسے بتائے گا کہ وہ اُس سے محبّت کرنے لگا ہے وہ محبّت جو اُسے رومیسہ سے نہیں ہوئی تھی مگر کانچ سی آنکھوں والی اِس نازک سی گُڑیا سے ہو گئی تھی جو کبھی اُس کے سامنے بہت بہادر بن جاتی تھی تو کبھی ایک دم ڈرپوک۔


داؤد نے جُھک کر اُس کی پیشانی پہ محبّت بھرا لمس چھوڑا تو وہ کسمساتی اُس کی گردن میں منہ چُھپانے لگی۔


"اُٹھ جاؤ لڑکی! صُبح ہو گئی ہے اور کِتنا سونا ہے؟" داؤد نے اُس کے کان میں سرگوشی کی۔


"بہت سونا ہے۔ مُجھے نہیں اُٹھنا۔ مُجھے سونے نہیں دیا اور اب اُٹھا رہے ہیں۔ نہیں اُٹھنا مُجھے۔" وہ نیند میں ہی بڑبڑاتی جواب دے رہی تھی۔


"اُٹھ جاؤ ورنہ میں اپنے طریقے سے اُٹھاوں گا جو تُمہیں پسند نہیں آئے گا۔" داؤد نے وارن کیا۔


"نہیں اُٹھنا نا۔ بہت نیند آئی ہے۔" معصونہ نے خُمار بھری آنکھیں کھولتے کہا اور پھر آنکھیں بند کرتی نیند میں چلی گئی وہ بے خوفی سے بول رہی تھی جیسے اندازہ نا ہو کہ مقابل کون ہے۔


"اچھا ایسے تو ایسے سہی۔" داؤد کہہ کر جُھکا اور اُس کی چھوٹی سی ناک کو چوم کے زور سے کاٹا کہ وہ سی کرتی اُٹھ بیٹھی نیند جیسے کہیں بھاگ گئی تھی۔


"یی یہ کیا حح حرکت ہے؟ مم مُجھے کِتنا درد ہوا۔" معصومہ ناک مسلتی بولی تو وہ مُسکرا دیا۔


"تُم اُٹھ ہی نہیں رہی تھی تو میں نے اپنا طریقہ آزمایا کیا پسند نہیں آیا؟" داؤد نے ایک گہری نظر اُس کے چہرے پہ ڈالتے آنکھ دبائی تو وہ سٹپٹاتی نظریں چُرا گئی۔


"سات بج گئے ہیں۔" معصومہ نے گھڑی پہ وقت دیکھتے دھیمے سے کہا۔


"جانتا ہوں۔ میں تُم سے باتیں کرنا چاہتا تھا اِسی لیے جگایا۔" اُس نے معصومہ کو کمر سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو وہ بوکھلاتی اُس کے سینے سے آ ٹکرائی۔


"کک کیا باتیں؟" وہ اُس کی قُربت میں سُرخ ہوتی ہکلا کر بولی۔


"شوہر ہوں تُمہارا۔ مُجھ سے اِتنا شرمایا مت کرو اور نا ہی جھجھکا کرو۔" داؤد نے اُس کے نرم و مُلائم ہاتھ کی اُنگلیوں کو اپنی مضبوط اُنگلیوں میں جکڑتے کہا تو وہ خاموشی سے سر ہلا گئی۔


"کک کیا بات کرنی تھی؟" وہ جب کافی دیر اُسے ایسے ہی اپنے حصار میں لیے لیٹا رہا تو وہ خاموشی کو توڑتی پوچھنے لگی۔


"چُپ کر کے لیٹی رہو تُم۔ اب تُمہاری آواز نا آئے۔" داؤد نے اُسے ڈپٹا تو وہ چُپ کر گئی۔


"تُم خوش ہو؟" داؤد نے پوچھا تو وہ جی کر کے چُپ ہو گئی۔


"تُم کِتنا پڑھی ہو؟" داؤد نے پوچھا۔


"جی بی ایس سی کی ہے۔" اُس نے آہستہ سے جواب دیا۔


"ہمم۔ آگے پڑھنا ہے؟" ایک اور سوال ہوا۔


"نہیں۔ اب کیا کرنا ہے پڑھ کے شادی تو ہو گئی۔" معصومہ نے کہا۔


"لوگ صِرف شادی کروانے کے لیے زیادہ نہیں پڑھتے۔ خیر اچھا فیصلہ ہے میں چاہتا ہوں کہ تُم اب صِرف اپنے گھر، شوہر اور ہونے والوں بچّوں پہ توجّہ دو۔" داؤد نے کہا تو وہ شرم سے سُرخ ہوتی اُس پر گرفت سخت کر گئی۔


"عُمر کِتنی ہے تُمہاری؟" اُس نے پھر سوال کیا۔


"بب بیس سال۔" معصومہ منمنائی۔


"اوہ پورے سات سال چھوٹی ہو تُم مُجھ سے۔ اِتنی جلدی کیا تھی تُمہارے ماموں ممانی کو تُمہاری شادی کی؟" داؤد نے اُس اپنے سامنے بِٹھاتے پوچھا۔


"یی یتیم ہوں میں۔ ماں باپ تو ہیں نہیں جِن کو نخررے دِکھاوں۔ اُنہوں نے پوچھا تو اِنکار کیسے کرتی بہت احسان ہیں اُن کے مُجھ پر۔" معصومہ نے بھرائے لہجے میں کہا۔


"شش رونا نہیں۔ کوئی بات نہیں اگر تُم چھوٹی ہو تو بیس سال کی عُمر میں لوگوں کے دو دو بچّے ہو جاتے ہیں ہمارا ایک ہی کافی ہے نہیں؟" داؤد نے کہتے اُس سے تصدیق چاہی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اُسے بچوں کی بہت جلدی ہو۔


"اِتنی جلدی بب بچّے؟" معصومہ بوکھلائی۔ ابھی اُن کے تعلقات ٹھیک ہوئے ایک دِن ہوا تھا اور اگلے ہی دِن وہ بچوں کی پلاننگ کر رہا تھا۔


"مُجھے بچّے پسند ہیں بہت۔ مُجھے ڈھیر سارے بچّے چاہیے بچے ہوں گے تو ہماری محبت بھی بڑھے گی اِس لیے بچے چاہیے تا کہ بچوں سے ہمارا رِشتہ مضبوط تر ہو سکے۔ " داؤد نے کہا تو وہ بوکھلاتی سر ہلا کر رہ گئی۔


"اچھا اب جاؤ فریش ہو کے آو۔" داؤد نے اُسے جانے کی اجازت دی تو وہ الماری سے کہڑے لیتی فریش ہونے چل دی۔ پندرہ منٹ بعد وہ فریش ہو کے سُرخ رنگ کا لباس زیب تن کر کے باہر آئی تو داؤد بھی فریش ہونے چل دیا۔


وہ اپنے گیلے نم بال سُلجھا رہی تھی جب داؤد باتھ روم سے بر آمد ہوا اور اُسے بال بناتے دیکھ کر ٹاول سٹینڈ پر لٹکا کر الماری کی جانب بڑھا اور وہاں سے ایک باکس نِکال کر اُس کے پیچھے کھڑا ہوا۔


معصومہ اُسے اپنے پیچھے دیکھ کر چونکی اور اُس کی طرف مُڑنے لگی جب داؤد نے اُسے کندھوں سے تھام کر مُڑنے سے روکا اور ہاتھ میں پکڑے باکس میں سے ایک پینڈنٹ نِکال کر اُس کی سفید شفاف گردن کی زینت بنا دیا۔


"اِسے کبھی اُتارنا مت۔ رات کو دینا یاد نہیں رہا۔ لوگ پوچھتے ہیں ناں نئی نویلی دُلہن کو اِس لیے دے رہا ہوں۔" داؤد نے کہا اور آئینے میں اُس کے خوشی برساتے چہرے کی جانب دیکھنے لگا جو ایک گِفٹ پہ اِتنی خوش نظر آ رہی تھی۔


"شُکریہ آپ بہت اچھے ہیں۔" وہ ایک دم پلٹتی بے اختیاری میں اُس کے گلے لگی۔ داؤد نے آہستہ سے اُسے پیچھے ہٹایا۔


"تھوڑا تیار ہو جاؤ تا کہ کِسی کو بات کرنے کا موقع نا مِلے۔" داؤد بے تاثر لہجے میں کہہ کر بال بنانے لگا تو وہ اُس کے دھوپ چھاوں سے مزاج کو دیکھ کر رہ گئی جو کبھی بہت مہربان ہو جاتا تھا تو کبھی بالکُل اجنبی۔


داؤد تیار ہوا تو وہ دونوں نیچے کی جانب بڑھے۔ داؤد نے سفید شلوار قمیض پہن رکھی تھی جبکہ معصومہ سُرخ لباس میں ملبوس تھی دونوں ایک سے بڑھ کر ایک لگ رہے تھے۔


وہ نیچے پہنچے تو ڈائیننگ ٹیبل پہ تقریباً سب ہی موجود تھے۔ وہ سب کو سلام کرتے ایک ساتھ بیٹھے تو سب ہی اُن کے کِھلتے چہروں کو دیکھ کر مُسکرا دئیے۔


تحریم کا چہرہ بھی حیدر کی محبّت میں گُلاب کی طرح کِھل رہا تھا وہ بھی بہت خوش تھی اب وہ ہمیشہ وہیں رہ سکتی تھی جہاں اُس کی پیدائش ہوئی اُسے بیاہ کر کہیں اور نہیں جانا پڑا صِرف کمرہ ہی تو بدلا تھا۔


حمدہ بیگم نے دِل ہی دِل میں اپنے سبھی بچوں کی نظر اُتاری تھی۔ ناشتے کے بعد آن معصومہ کے پاس بیٹھی باتیں کرنے لگی تھی اُس کے گلے میں جھولتا ڈائمنڈ کا پینڈنٹ دیکھ کر وہ مطمئن ہوئی تھی۔ کُچھ دیر اُس سے باتیں کرنے کے بعد وہ اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ وہ وجدان اور اُس کے گھر والوں کے ساتھ واپس جا رہی تھی۔


سب سے مِلنے کے بعد وجدان اور آن کے ساتھ جمال صاحب اور آمنہ بیگم واپسی کے لیے نِکلے تو اُن کے پیچھے پیچھے رفیق صاحب بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی سب سے مِلتے اور معصومہ کو آتے جاتے رہنے کی ہدایت کرتے واپسی کے لیے نِکل گئے ارحم اور ماہین بھی اُنہی کے ساتھ جا رہے تھے۔


****************


وقت تیز رفتاری سے گُزرنے لگا تھا جہاں وِشہ کے زخم اب پہلے سے بہتر ہوئے تھے وہیں روحان کی ٹیم بلیک ڈائمنڈ کیس کو حل کرنے کے قریب پہنچ گئی تھی۔ اُن کے دو تین آدمی پکڑے گئے تھے جِن کی زبان کُھلوانے کے لیےاُنہیں اِتنا ٹارچر کیا گیا تھا کہ وہ مرنے کے قریب پہنچ گئے تھے مگر اُنہیں مرنے بھی نہیں دیا گیا تھا۔


اُنہوں نے زبان کھول دی تھی اورپِھر اُن سے بلیک ڈائمنڈ اور اُن کے ماسٹر مائینڈ کا سکیچ بنوانے کو کہا گیا تھا۔ اور وہ مرتے کیا نا کرتے کہ مصداق سکیچ بنوانے کے لیے راضی بھی ہو گئے تھے۔


روحان اِس وقت اکیلا بیٹھا وِشہ کو سوچ رہا تھا ابھی اُس نے سکیچ نہِیں دیکھا تھا مگر اُس کا اِرادہ تھا کہ وہ خود اُس بلیک ڈائمنڈ کی گردن اُڑائے جِس نے اُس کی وِشہ کو جان سے مارنے کی کوشش کی تھی۔


***************


یہ اُن کے ولیمے کے ایک ہفتے بعد کی بات تھی جب حیدر اةس کے پاس آیا۔ وہ اِس وقت کمرے میں بیٹھا آفس کے ایمیلز دیکھ رہا تھا ابھی وہ واپس شہر نہیں گیا تھا۔


"داؤد مُجھے کُچھ بات کرنی تھی۔" حیدر نے سنجیدگی سے کہا۔


"ہاں بولو؟" داؤد نے کہا۔


"وہ دراصل مُجھے سمجھ نہیں آرہا کیسے کہوں مگر کہنا بھی ضروری ہے۔" حیدر ہچکچایا۔

"تُم کُھل کر کہو جو کہنا ہے۔" داؤد نے اُس کا حوصلہ بڑھایا۔


"وہ دراصل میں تم سے یہ کہنا چاہ رہا تھا مطلب اچھا تو نہیں لگتا کہ میں تُم سے یہ بات کہوں مگر میں کِسی اور سے یہ بات کر بھی نہیں سکتا تھا اِسی لیے سیدھا تُمہارے پاس آیا ہوں۔" حیدر نے تمہید باندھی۔


"حیدر یار جو کہنا ہے کُھل کے کہو مُجھے تُمہاری بات کی سمجھ نہی۔ آرہی۔" داؤد نے جھنجھلا کر کہا۔


"وہ جِس دِن ہمارا ولیمہ تھا اُس رات دو بجے کے قریب میں نے معصومہ بھابھی کو کچن کی طرف جاتے دیکھا اور اُنہوں نے بلیک پینٹ اور وائٹ شرٹ پہن رکھی تھی۔ رات کے وقت پینٹ شرٹ مُجھے کُچھ عجیب لگی لیکن تُمہیں بتانے کا مقصد یہ ہے کہ تُم تو جانتے ہو ہمارے یہاں ایسا لِباس کوئی نہیں پہنتا۔ وہ بے شک شہر سے ہیں مگر وہ بہت معصوم سی لگیں مُجھے تُم اگر اُنہیں پیار سے ڈیل کرو گے تو وہ یہاں کے ماحول کے مطابق خود کو ڈھال لیں گی۔" حیدر کی بات سُن کے اُسے اپنے سر پہ دھماکے ہوتے محسوس ہو رہے تھے۔


" ہہ ہاں میں سمجھا لوں گا تُم فِکر مت کرو۔" داؤد نے غائب دماغی سے کہا تو حیدر مُسکرا کر اُٹھتا کمرے سے نِکل گیا۔


رات کے دو بجے معصومہ کو کچن میں جاتے دیکھا وہ بھی پینٹ شرٹ میں۔ مگر معصومہ تو فارن ڈریسز پہنتی ہی نہیں۔ فارن ڈریسز تو دور وہ کبھی ایسا سوچے بھی نا۔ اور اِس سب کے باوجود اُس رات دو بجے تو وہ اُس کے محبت بھرے حصار میں تھی۔ دو بجے تو کیا وہ تو ساری رات اُس کی محبّت کی چھاوں میں پُرسکون سوئی رہی تھی ایک پل کے لیے بھی وہ کمرے سے باہر نہیں نِکلی تھی تو وہ کون تھی جو کچن میں گئی؟


اُس کا دِل جو کہہ رہا تھا وہ اُس کا دماغ قبول کرنے سے عاری تھا۔ لیکن اُس کے کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ وہ خود گواہ تھا کہ معصومہ ساری رات کمرے سے باہر نہیں گئی پِھر وہ جو بھی تھی اگر اُس کی شکل معصومہ جیسی تھی تو اِس کا مطلب وہ "رومیسہ" تھی.


یہ سوچ آتے ہی اُس کا دِل گھبرایا تھا وہ معصومہ نہیں تھی وہ معصومہ سے الگ ایک لڑکی تھی جو معصومہ کی ہمشکل تھی مطلب وہ یہاں اُس کے گھر تک ہہنچ گئی تھی مگر کیوں؟


وہ اب کیوں آئی تھی؟ اب وہ پِھر سے اُس کی زندگی میں کیوں آ گئی تھی کہیں وہ معصومہ کو نُقصان نا پہنچا دے۔ مگر نہیں وہ خود پہ نُقصان برداشت کر گیا تھا مگر اپنی بیوی کو نقصان پہنچانے والے کو وہ زندہ نہیں چھوڑے گا۔


معصومہ کو رومیسہ سمجھتے اُس نے معصومہ کو اپنے تلخ لفظوں سے کِتنی تکلیف پہنچائی تھی اور اب جب اُسے حقیقت پتہ چلی تھی کی رومیسہ اور معصومہ دو الگ الگ وجود ہیں تو وہ اپنے کیے پر پشیمان ہوا تھا۔


مگر اب اُس نے معصومہ کی زندگی کو خوشیوں سے بھرنے کا سوچ لیا تھا اور اگر اب رومیسہ نے یا کِسی اور نے اُس کی معصومہ کو تکلیف دینے کے بارے میں سوچا بھی تو وہ اپنے ہاتھوں سے اُس کی جان لے لے گا۔ رومیسہ اگر اُس کے سامنے آئی تو وہ اُس کو زندہ نہیں چھوڑے گا اُس نے دِل میں عہد کیا تھا۔


لیکن اِس سے پہلے اُسے معصومہ کو یہاں سے لے جانا تھا جہاں تک رومیسہ نا پہنچ سکے۔


لنچ تک اُس نے ٹکٹ کروا لیے تھے وہ معصومہ کو لے کے کہیں جا رہا تھا گھر پہ اُس نے یہی بتایا تھا کہ وہ ہنی مون پہ مری جا رہے ہیں سب کو ہی اُس کا فیصلہ پسند آیا تھا۔ اُن کی دیکھا دیکھی حیدر نے بھی ہنی مون کے لیے پیرس کی ٹِکٹس کروا لیے تھے۔


سِکندر صاحب نے جب اُسے بھی مُلک سے باہر جانے کا کہا تو اُس نے یہ کہہ کر اِنکار کر دیا کہ معصومہ مری گھومنا چاہتی ہے۔ اُس کے جھوٹ پہ معصومہ اُسے گھورتی رہ گئی تھی۔


لنچ کے بعد وہ کمرے میں راکنگ چیئر پر بیٹھا جھول رہا تھا جب معصومہ اندر داخل ہوئی وہ اُس کے قریب پہنچتی ہاتھ مڑوڑنے لگی۔


"کہ دو جو کہنا ہے اِتنا گھبرا کیوں رہی ہو؟" داؤد نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنے گُھٹنے پہ بِٹھایا تو وہ سٹپٹاتی اُٹھنے لگی مگر داؤد نے اُس کی کمر کے گِرد بازو حائل کرتے اُسے ایسا کرنے سے روک دیا۔


"وو وہ آپ نن نے جھوٹ کیوں بولا کہ میں نے مری چلنے کو کہا ہے؟" وہ اُس کی گود میں بیٹھی شرماتی ہوئی اٹک کر بولی۔ ایک ہفتے بعد بھی وہ اُس سے ایسے شرماتی تھی جیسے ابھی کل ہی اُن کی شادی ہوئی ہو۔


"میری مرضی۔ تُم میری ہو تُم کہو یا میں ایک ہی بات ہے۔" داؤد نے بے نیازی سے کہا تو وہ اُسے دیکھ کر رہ گئی۔


"پہلے کبھی مری گئی ہو؟" داؤد نے پوچھا۔


"میں اپنے شہر سے باہر پہلی بار بس یہاں آئی ہوں اِس کے عِلاوہ کہیں جانے کا موقع ہی نہیں مِلا۔" معصومہ نے سادگی سے کہا۔


"تُم بہت معصوم ہو۔ ایسے ہی رہنا چالاک لوگ بالکل اچھے نہیں ہوتے۔" داؤد نے اُس کے بال کانوں کے پیچھے کرتے کہا جو اُس کی چوٹی سے نِکل کر اُس کے گالوں پہ جھول رہے تھے۔


"جا کے پیکنگ کر لو ہم کل مری کے لیے روانہ ہو جائیں گے اور ہاں سارے ہی گرم سوٹ رکھنا وہاں بہت ٹھنڈ ہو گی۔" داؤد نے اُس کے کندھے پر محبت بھرا لمس چھوڑتے کہا تو وہ گُلابی چہرہ لیے خود میں سمٹتی اُٹھ گئی اور الماری سے اپنے اور داؤد کے کپڑے نِکال کر بیگ میں رکھنے لگی جبکہ وہ اُسے اِدھر سے اُدھر ہوتے کپڑے نِکالنے میں مصروف دیکھتا راکنگ چیئر ہر جھول رہا تھا۔


******************

"کیسی ہو؟" سلام دُعا کے بعد اُس نے خیریت دریافت کی۔


"ٹھیک ہوں اب۔ مگر اب بھی کوئی مُجھے بِستر سے نہیں اُترنے دیتا۔" وِشہ نے خفگی سے کہا۔


"اچھی بات ہے نا۔ مُکمّل ریسٹ کرو تا کہ جلدی سے ٹھیک ہو سکو۔" روحان نے آنکھیں موندے کہا۔


"ریسٹ کر کر کے تھک گئی ہوں میں۔ مُجھے ڈیوٹی جوائن کرنی ہے اچھے اِنسان!" وِشہ نے کہا تو وہ مُسکرایا۔


"چین نہیں ہے گھر پر؟ اگر تُمہیں چین نہیں ہے تو کیوں میرا چین برباد کرنے پہ تُلی ہو یہاں آ کے؟" روحان نے ہنسی دباتے کہا۔


"میں آپ کا چین برباد کرتی ہوں؟ اِتنی بُری لگتی ہوں آپ کو؟ اِس سے اچھا تھا میں مر ہی جاتی پھر آپ کو میری قدر ہوتی۔" وِشہ نے کہا۔


"خبردار جو آئیندہ ایسے مرنے کی بات کی۔ میری کیا حالت ہوئی تھی تُمہیں کیا پتہ۔ تُم تو آرام سے گولیاں کھا کے بے ہوش پڑی تھی۔" روحان نے ایک دم اُسے ڈپٹا۔


"تو بتا دیں کیا حالت ہوئی تھی؟ ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ ہمارے صنم ہمیں کِتنا چاہتے ہیں؟" وِشہ نے شرارتی لہجے میں بے باکی سے پوچھا۔


"تُمہاری سانسیں رُکتے دیکھ میری سانسیں رُک گئیں تھیں۔ ایسا لگا تھا جیسے ہر طرف ایک گہری تاریکی چھا گئی ہو سب کُچھ ایک ہی پل میں تہس نہس کرنے کو جی چاہا تھا۔ دِل کیا تھا جِس نے تُم پہ گولی چلائی ہے اُسے اپنے سامنے کھڑا کر کے اپنی گن کا میگزین اُس پہ خالی کر دوں۔ بہت محبّت کرتا ہوں تُم سے۔ دور ہوتی ہو تو سانسیں تھمنے لگتی ہیں۔" روحان نے گھمبیر لہجے میں کہا تو وِشہ کو اپنی دھڑکنوں کا شور کانوں میں سُنائی دینے لگا۔


ابھی روحان کُچھ اور کہتا جب ایک سپاہی اندر داخل ہوا۔


"میں رات میں بات کرتا ہوں تُم سے۔ اِنتظار کرنا۔" وہ وِشہ کو کہہ کر بغیر اُس کا جواب سُنے کال کاٹ گیا کہ دوسری جانب بیڈ پہ بیٹھی وِشہ فون کو گھور کر رہ گئی۔


سپاہی نے بتایا کہ سکیچ تیار ہو چُکا ہے تو وہ سر ہلاتا اُس کے پیچھے بڑا۔ ایک کمرے میں اُن کی پوری ٹیم موجود تھی وہ بھی ایک کُرسی سنبھال کر بیٹھ گیا۔


"سارا پلین تیار ہو چُکا ہے جِس علاقے میں وہ لوگ موجود ہیں ہمیں وہاں اٹیک کرنا ہے اور یہ عِلاقہ مری سے کُچھ فاصلے پر ہے۔ ہمیں ہوری تیاری کے ساتھ جانا ہو گا۔ سردیوں کا موسم ہے اور شاید وہاں برف باری بھی ہو تو اِس لحاظ سے کِسی بھی قِسم کی بھول چوک نا ہو کوئی مجرم بھاگنے نا پائے۔" کرنل نے کھڑے ہوتے بریفنگ دینا شُروع کی۔

"یس سر۔" سبھی بلند آواز میں بولے۔


"سبھی سکیچ دیکھ چُکے ہیں اور کیپٹن روحان! آپ بھی سکیچ دیکھ لیں۔ ہمیں اِس بلیک ڈائمنڈ کو ہر حال میں پکڑنا ہے چاہے کُچھ بھی ہو جائے۔" کرنل نے روحان سے مخاطب ہوتے کہا تو وہ ایک طرف پڑا لفافہ کھولنے لگا۔


"اگلے دو دِن بعد ہم اٹیک کریں گے اور کوشش کریں کے اُن کے باس کو زندہ پکڑا جائے۔" کرنل کے بات ختم ہوتے ہی روحان نے اُلٹی تصویر کو سیدھا کیا اور جو چہرہ اُس کے سامنے آیا تھا اُسے دیکھ کر روحان کو اپنے حواس گُم ہوتے محسوس ہوئے۔ اُس کے دماغ پہ جیسے کوئی ہتھوڑوں سے ضرب لگا رہا تھا۔ جو کُچھ وہ دیکھ رہا تھا اُس پہ یقین کرنا اُس کے لیے مشُکل نہیں بلکہ ناممکن تھا مگر یقین تو اُسے کرنا ہی تھا۔


"میٹینگ از اوور۔ بیک ٹو یور ورک۔" کرنل کے کہتے ہی سب ایک ایک کر کے باہر نِکلتے چلے گئے۔


روحان بھی غائب دماغی سے باہر آتا اپنے روم میں بیٹھ کر پانی کا گلاس گُھٹا گُھٹ چڑھاتا ختم کر گیا اور نڈھال سے انداز میں کُرسی کی پُشت سے ٹیک لگاتا آنکھیں موند گیا۔


**********************


وہ مری پہنچ چُکے تھے مری پہنچنے کے بعد داؤد نے ایک ہفتے کے لیے کار کرائے پہ لی تھی۔ کھانے پینے کا سامان اور معصومہ کے لیے کُچھ اپنی پسند کے کپڑے لیتے وہ کار میں بیٹھے چل پڑے تھے۔ رات کا اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ معصومہ آنکھیں موندے کار میں بیٹھی تھی جبکہ داؤد سامنے دیکھتا گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا کبھی کبھی وہ اونگھتی معصومہ کو دیکھ کر مُسکرا دیتا۔


ایک گھنٹے بعد وہ مری سے کافی مسافت پہ موجود ایک عِلاقے میں آیا تھا یہاں کہیں کہیں فاصلے پر چھوٹے چھوٹے کاٹیج موجود تھے اُس نے کافی ہٹ کر بنا ایک کاٹیج بُک کروایا تھا اُس کا اِرادہ ایک مہینے تک یہاں رہنے کا تھا۔ نومبر کا مہینہ شروع ہو چُکا تھا۔


سردی کی شِدّت بڑھتی کپکپاہٹ میں اضافہ کر رہی تھی۔ برف باری شدید تھی ہر چیز برف میں لپٹی سفید سفید لگتی رات کے اندھیرے میں چمک رہی تھی۔ چلتی ہوائیں بھی سردی کی وجہ سے کافی سرد تاثر دے رہیں تھیں۔ نیند میں گُم معصومہ جِس نے صِرف گرم شلوار سوٹ پہن رکھا تھا اور اوپر صِرف ایک گرم شال اوڑھ رکھی تھی، اب کپکپانا شُروع ہو چُکی تھی۔


کاٹیج کے قریب پہنچ کر اُس نے گاڑی روکی اور ایک طرف پارک کی۔ گاڑی سے اُتر کر اُس نے کاٹیج کا دروازہ کھولا جِس کی چابی اُس نے پہلے ہی لے کی تھی۔ معصومہ کی طرف کا دروازہ کھول کر اُس نے معصومہ کے وجود کو اپنی بانہوں میں اُٹھایا اور کُھلے دروازے سے اندر کی جانب بڑا۔ یہایک چھوٹا سا دو کمروں کا لکڑی کا کاٹیج تھا جِس کی ہر چیز ہی تقریباً لکڑی سے بنی تھی۔


کمروں کے سامنے ایک چھوٹا سا لاونج تھا جہاں لائٹس آن تھیں ایک طرف اوپن کچن تھا اور لاونج کے وسط میں صوفے سیٹ تھے جبکہ ایک جانب آتش دان تھا جو ابھی روشن نہیں تھا۔


وہ معصومہ کو لیے ایک کمرے میں داخل ہوا اور بیڈ پہ لٹا دیا پِھر اُس نے ٹارچ نِکال کر لائٹ اون کی اُس کے اوپر کمبل اوڑھا کے وہ باہر کی جانب بڑھا اور کار کی ڈِگی سے بیگ اُٹھا کر روم میں آیا۔


بیگ ایک طرف رکھ کے وہ باتھ روم میں گُھسا اور گرم پانی سے شاور لے کے باہر آیا۔ وہ ٹاول سے بال رگڑ کر ٹاول کو سِنگل صوفے پہ پھینکتا بیڈ کی جانب بڑھا۔ مگر پِھر کُچھ یاد آنے پہ مُڑا اور روم میں موجود ہیٹر آن کرتا واپس بیڈ کی جانب بڑھا۔


ایک نظر معصومہ پہ ڈالی جو شاید گھوڑے بیچ کر سوئی تھی جو ایک بار بھی نہیں اُٹھی تھی۔ وہ مُسکرا کر اُس کے قریب دراز ہوا اور کمبل اوڑھنے لگا مگر معصومہ خود پہ کمبل اچھی طرح لپیٹ کر سو رہی تھی اُس نے احتیاط سے اُس کی ایک طرف سے کمبل نِکالا تو وہ تھوڑا کسمسائی۔


داؤد کمبل میں گُھسا اور ایک ہاتھ سے اُسے قریب کرتا اُسے خود میں سموتا لیٹ گیا۔ وہ جو سرد سے کمبل میں بھی کانپ رہی تھی اُس کے وجود کا حِصّہ بنتی پُرسکون ہوتی اُس میں سمٹ کر سونے لگی تھی۔


**********************


اگلی صُبح اُس کی آنکھ کُھلی تو نظر دائیں جانب اُٹھی جہاں رات کو معصومہ پُرسکون سی اُس کے ساتھ لپٹی سو رہی تھی مگر اب وہ وہاں نہیں تھی۔ وہ تیزی سے اُٹھتا باہر کی جانب بھاگا مگر وہ کہیں بھی نہیں تھی۔


دوسرے کمرے میں لاونج میں باتھ روم میں ہر جگہ دیکھنے پر بھی وہ اُسے نہیں مِلی تھی وہ جلدی سے اوورکوٹ پہنتا موبائل جیب میں ڈالتا باہر نِکلا کاٹیج سے باہر بھی وہ اُسے کہیں نہیں دِکھی۔ جانے کہاں چلی گئی تھی وہ؟


وہ خوف زدہ سا اُس کے پیروں کے نشان ڈھونڈنے کی کوشش کرتا برف پر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا برف باری ہو رہی تھی موسم کافی بھیانک لگ رہا تھا۔


ایک جگہ اُسے مدھم سے نِشان نظر آئے تو وہ اُن کے پیچھے پیچھے چلنے لگا ساتھ میں معصومہ کو آوازیں دینے لگا مگر کہیں سے بھی اُس کا جواب نہیں آ رہا تھا۔ قدموں کے نِشان باقی بنے کاٹیجز کی طرف نہیں تھے بلکہ اُن کا رُخ مُخالف سمت میں تھا۔ وہ پریشان ہوتا دِل میں اُس کے ٹھیک ہونے کی دُعائیں مانگتا بغیر سردی اور موسم کی پرواہ کیے آگے بڑھا چلا جا رہا تھا۔


اُس کے دِل و دماغ میں اِس وقت صِرف معصومہ کا خیال چل رہا تھا۔ کہیں رومیسہ نے کُچھ؟ نہیں نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ یہاں نہیں آ سکتی۔ اُسے کیا پتہ ہم اِس وقت کہاں ہیں؟ پِھر میری معصومہ کہاں ہے ؟ کہیں اُسے کُچھ ہو تو نہیں گیا؟ نہیں یہ میں کیا سوچ رہا ہوں؟ وہ ٹھیک ہو گی بالکُل ٹھیک۔ میرا خُدا مُجھے اور آزمائش میں نہیں ڈالے گا یااللّٰہ میری بیوی کو اپنے حِفظ و امان میں رکھنا۔


"معصومہ؟ معصومہ؟ میری آواز سُن رہی ہو؟ کہاں ہو تُم؟ کہاں ہو ایک بار بس ایک بار سامنے آ جاؤ اِتنا مت ستاو مُجھے۔ بدلہ دخلے رہی ہو نا مُجھ سے؟ میں نے تُمہیں اِتنا ستایا اب تُم مُجھے ستا کر اپنا بدلہ لے رہی ہو نا؟ مت کرو ایسے۔ مُجھ میں تُمہارے جِتنا حوصلہ نہیں ہے کہ برداشت کر سکوں۔


میری پُکار کا جواب دو معصومہ ہ ہ ہ ؟" اونچی اونچی اُسے پُکارتے اُس کی آواز مدھم ہوئی پِھر آخر میں وہ اُس کا نام لیتا چیخ پڑا۔


برف باری اب طوفان کی شکل اختیار کرتی جا رہی تھی ہر طرح کہر میں لپٹی دُھند جیسے ہر چیز کو دُھندلا رہی تھی۔ سردی کی شِدّت اِتنی تھی کہ اُس کے ہاتھ پاؤں نیلے پڑنے لگے تھے۔


اُس کی یہ حالت تھی تو اُس کی نرم و نازُک سی معصومہ کا کیا حال ہو رہا ہو گا؟ اِس خیال کے آتے ہی وہ اور تیزی سے برف میں قدم جماتا آگے بڑھنے لگا۔


آدھا گھنٹا ہو گیا تھا اُسے پیدل چلتے اور معصومہ کو ڈھونڈتے مگر اُس کا کہیں نام و نِشان بھی نہیں تھا۔ وہ اب پچھتا رہا تھ کہ وہ اُسے یہاں لایا ہی کیوں؟


***************


اُس کی جب آنکھ کُھلی تو اُس نے خود کو اپنے شوہر کے حِصار میں پایا جو اُسے احتیاط اور نرمی سے بچوں کی طرح خود سے لپٹائے سو رہا تھا اُس کا ذہن ابھی خوابیدگی میں تھا وہ اُس کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی پِھر جب اُس کے حواس بحال ہوئے اور وہ نیند کے خُمار سے باہر آئی تو اُسے یاد آیا کہ وہ "کہاں" تھی۔


وہ آہستہ سے اُس کا حِصار توڑ کر اُٹھتی اُس کے قریب ہی بیٹھ گئی اور اُس کے روشن چہرے کی جانب غور سے دیکھنے لگی۔ وہ سوتے ہوئے بہت معصوم لگتا تھا یہ اُس کا ابھی کا تجزیہ تھا۔


اُس کے ہونٹوں پہ سوتے ہوئے میں مُسکراہٹ تھی جیسے وہ بہت حسین خواب دیکھ رہا ہو۔ اُسے اُس کی مُسکراہٹ دیکھ کر حیرانی ہوئی اُس نے اُسے بہت کم مُسکراتے ہوئے دہکھا تھا زیادہ تر تو وہ سنجیدہ ہی رہتا تھا۔


وہ اُس کی مُسکراہٹ پہ نثار ہوتی ایک دم اُس پہ جُھکی اور پہلی بار خود سے اُسے چھو کر اُسے اپنا لمس بخشا۔ وہ سو رہا تھا تبھی یہ عنایت ہوئی تھی اگر وہ جاگ رہا ہوتا تو شاید اُس سے بات بھی ٹھیک سے نا ہوتی ایسی عنایت کرنا تو دور کی بات تھی ہاں وہ اب بھی اُس سے گھبراتی تھی جِس کا مزاج دھوپ چھاوں کی طرح بدلتا رہتا تھا بے شک وہ اُس کے ساتھ نئی زندگی میں قدم رکھ چُکا تھا مگر وہ اِسی خدشے میں گھری رہتی تھی کہ جانے کب اُس کا انداز بدلے اور وہ پہلے سا سرد اور بدمزاج ہو جائے۔


"آپ کی بے رُخی اور نفرت کے باوجود میرے دِل سے آپ کی محبّت کم نہیں ہوئی بلکہ ہر گُزرتے پل کے ساتھ بڑھی ہی ہے۔ آپ سے دور جا کے کِسی اور کے ساتھ زندگی گُزارنے کا فیصلہ تو کر لیا تھا لیکن ہر وقت بس یہی خیال رہتا تھا کہ آپ کو بھولوں تو بھولوں کیسے؟ مگر میری خوش قِسمتی ہے کہ جیسے بھی سہی آپ میرے ساتھ ہیں اور میرے مُقدر کا روشن ستارہ بن کر میرے نصیب کو بھی چمکا دیا ہے۔" کہہ کر وہ جُھکی اور اُس کی پیشانی پہ اپنی مُحبّت کا لمس چھوڑا کر سیدھی ہوئی۔


سوتے ہوئے ہی اُس کے ماتھے پر کُچھ بل نمودار ہوئے جو اُس نے اپنی اُنگلیوں سے سیدھے کیے اور اپنی حرکت پہ مُسکرائی اور پِھر اُس کے اوپر کمبل دُرست کرتی نیچے اُتری۔


وہ شاید بہت تھکا ہوا تھا جو ایک بار بھی ٹس سے مس نا ہوا تھا نا ہی جاگا تھا۔ اُس نے وہ کپڑے نِکالے جو داؤد نے اُس کے لیے خریدے تھے اور تاکید کی تھی کہ یہاں وہ یہی پہنے۔ کپڑے دیکھ کے اُسے حیرت ہوئی تھی۔ کُچھ جینز تھی اور کُچھ گرم سویٹرز اور کُچھ گرم شارٹ شرٹس۔


اُس نے ایسے کپڑے کب پہنے تھے جو وہ اُس کے لیے ایسے کپڑے لے آیا تھا۔ مگر پِھر کُچھ سوچ کر اُس نے جینز اور اپنی لائی ہوئی گُھٹنوں تک آتی گرم لیڈیز شرٹ نِکالی اور فریش ہونے چل دی۔ فریش ہونے کے بعد اُس نے بال بنائے اور ڈھیلی سی چُٹیا بنا کے کمر پر چھوڑ دی۔


سویٹر اور گرم کیپ پہن کر وہ کمرے سے باہر نِکلی اور کاٹیج کا جائزہ لینے لگی۔ اُسے یہ کاٹیج بہت پسند آیا تھا وہ کھڑکی کھول کر بایر کا منظر دیکھنے لگی جب برف باری ہوتی دیکھ کر وہ خوشی سے جھومتی داخلی دروازے کا لاک کھولتی باہر نِکلی اور برف میں کھیلنے لگی۔ پِھر وہ برف پہ لیٹ کہ ہاتھ پیر چلانے لگی جیسے پانی میں تیر رہی ہو۔


وہ پہلی بار اپنی آنکھوں کے سامنے برف باری کا منظر دیکھ رہی تھی وہ کبھی سکول کالج میں ٹرپ کے ساتھ نہیں گئی تھی جب بھی فرزانہ بیگم سے بات کرتیں تو وہ اُس کی اِتنی حوصلہ شِکنی کرتیں کہ وہ رفیق صاحب سے بھی اپنی بات نا کہہ پاتی اور اُس کی حسرت ہی رہ جاتی کہ وہ کبھی گھومنے جا سکے۔


مگر داؤد نے اُس کی یہ حسرت بِن کہے پوری کر دی تھی اِس وقت اُسے داؤد دُنیا کا سب سے اچھا اِنسان لگا تھا۔ وہ برف سے کھیلتی منہ اوپر کرتی برف اپنے چہرے پہ محسوس کرنے لگی جب اچانک اُس کی نظر تھوڑی دور نظر آتے منظر پہ پڑی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے آگے راستہ بند ہو اور آسمان زمین کے ساتھ مِل گیا ہو۔ وہ اِشتیاق سے وہ منظر قریب سے دیکھنے کے لیے اُس طرف بھاگی۔


برف میں اُس کے پیر پھنسے جا رہے تھے مگر اپنے جوش میں وہ سب نظرانداز کرتی آگے بڑھتی رہی۔ اُسے وقت کا زرا احساس نہیں تھا وہ بس خود میں مگن آگے بڑھ رہی تھی مگر وہ منظر قریب ہونے کی بجائے دور ہوتا جا رہا تھا۔ تھک کر وہ ایک جگہ رُکی۔


مگر وہ منظر اب بھی اُسے ویسے ہی لگا جیسے کاٹیج کے قریب لگا تھا وہ منہ بسورتے واپسی کے لیے مُڑی مگر یہ کیا؟ ہر طرف برف ہی برف تھی ایس الگتا تھا جیسے وہ کِسی صحرا میں کھڑی ہو جِس کے چاروں طرف ریت ہو اور درمیان میں ایک اکیلا اِنسان۔ بس فرق یہ تھا کہ یہاں ریت کی بجائے سفید برف تھی۔


وہ گھبراتی اِدھر اُدھر دیکھتی واپسی کا راستہ ڈھونڈنے لگی مگر اُسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ کِس طرف سے آئی تھی۔ وہ پریشان ہوتی پیچھے کی سمت میں چلنے لگی اُسے نہیں پتہ تھا کہ وہ صحیح راستے پہ جا رہی ہے یا غلط وہ بس چلتی جا رہی تھی۔


سردی کا زور بڑھتا جا رہا تھا اُس کے ہاتھ پیر جو پہلے ہی ٹھنڈے تھے اب سُن پڑنے لگے تھے وہ ہمّت کرتی قدم اُٹھاتی چلنے لگی۔ برف باری تیز ہونے لگی جیسے طوفان آنے سے پہلے ہوا تیز ہوتی ہے۔


"مم مُجھے جانا ہو گا۔ داؤد تت تو مُجھے ڈھونڈنے بھی نہیں آئیں گے مم میں کک کیسے جاوں گی؟ وو وہ تو مُجھ سے نفرت کرتے ہِن اُن کی جان چھوٹ جائے گی مُجھ سے اُن پہ کوئی اِلزام بھی نہیں آئے گا یااللّٰہ مُجھے ایسے نہیں مرنا مُجھے لاوارثوں کی طرح نہیں مرنا۔ مُجھے بچا لیں اللّٰہ پاک!" کانپتے لبوں سے کہتی اب وہ رونے لگی تھی۔ اب تو سامنے کا منظر بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ آنکھوں کے سامنے سے برف ہٹاتی تیز تیز قدم اُٹھانے لگی۔


وہ کُچھ دیر چلتی رہی مگر اُسے کاٹیج کا راستہ نا مِلا اُس کے قدم برف میں دھنس رہے تھے رنگت نیلی پڑنے لگی تھی اور ہونٹ تھر تھر کانپنے لگے تھے اُسے لگا جیسے اُس کا آخری وقت آ گیا ہے وہ بے دم سی ایک جگہ پر ڈھے گئی اُس میں اِتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ اور چل پاتی۔ اب وہ بس اپنی آخری سانسوں کے رُک۔ے کا اِنتظار کر رہی تھی بے بسی ہی بے بسی تھی۔


کیوں آئی وہ باہر ؟ داؤد کے اُٹھنے کا اِنتظار ہی کر لیتی وہ لے کے آتے اُسے خود باہر۔" بے بسی سے سوچتے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی جب اُسے لگا جیسے کوئی اُسے پُکار رہا ہے وہ ایک دم ڈر گئی یہاں پہ اُسے کون پُکار سکتا ہے ؟


داؤد؟ ہاں وہ آ گئے مُجھے ڈھونڈتے۔ وہ خوشی سے اُٹھتی چلنے کی کوشش کرنے لگی مگر اعصاب یوں تھے جیسے سُن ہو گئے ہوں۔ وہ ہمّت کرتی اُٹھی اُسے جانا ہی تھا وہ نا اُٹھتی تو وہ بغیر اُسے لیے چلا جاتا اور وہ یہاں سِسک سِسک کر مر جاتی اُسے تو کفن بھی نا مِلتا قبر تو دور کی بات تھی۔


وہ وہیں بیٹھتی پیر پکڑ کر رونے لگی اُس میں اب اِتنی سکت نا تھی کہ سُن وجود کے ساتھ کھڑی بھی ہو پاتی۔ وہ بے ہوش ہونے کے قریب پہنچ گئی تھی جب ایک بار پِھر اُس کے کانوں سے داؤد کی آواز ٹکرائی وہ آہستہ سے کھڑی ہوئی اور لنگڑاتی آواز کی سمت چلنے کی کوشش کرنے لگی۔


"داؤد دد داؤد؟ مم میں یی یہاں یی یہاں ہہ ہوں داؤد؟" وہ جِتنا اونچا چیخ سکتی تھی چیخی۔ وہ بے ہوش ہونے کے قریب روتی آنکھوں سے آگے بڑھی۔


****************

وہ معصومہ کو آوازیں دیتا آگے بڑھ رہا تھا جب اُسے معصومہ کی چیخ سُنائی دی وہ تیزی سے اُس سِمت بڑھا مگر برف کے تھپیڑے اُس کی راہ میں حائل ہوتے اُس کی رفتار سُست کر رہے تھے۔


مگر وہ ہمّت کرتا آگے بڑھا اُسے معصومہ تک پہنچنا تھا اُسے ہر حال میں بچانا تھا۔ وہ اُس کی بیوی ہی نہیں اب تو اُس کی محبّت بھی تھی وہ جو اُس کے بغیر ایک پل بھی نہیں گُزارنا چاہتا تھا کیسے اُسے اِس برفیلے طوفان میں اکیلا چھوڑتا۔


"معصومہ؟ کہاں ہو؟" وہ پھر چیخا مگر آگے سے خاموشی تھی۔


وہ پہلی آواز کی سمت میں آگے بڑھتا رہا جب اُسے معصومہ کی آواز سُنائی دی وہ اُسے پُکار رہی تھی وہ اُس کی آواز میں نمی محسوس کرتا تیزی سے اُس طرف بڑھا۔ برفیلے طوفان کی وجہ سے ہر طرف دُھند سی تھی اُس نے ہاتھ میں موبائل سے ٹارچ روشن کر رکھی تھی۔


وہ آگے بڑھا تو اُسے کوئی وجود لنگڑا کر چلتا دِکھائی دیا۔ قریب پہنچنے پہ اُسے معصومہ کی سِسکیاں سُنائی دیں اِس سے پہلے کہ وہ گِرتی وہ آگے بڑھتا اُسے کمر سے تھامتا اُسے خود میں بھینچتا برفیلی زمین سے اوپر اُٹھا چُکا تھا۔


وہ جو پہلے ہی بے ہوش ہونے کو تھی داؤد کی سخت گرفت میں اُسے اپنی سانس رُکتی محسوس ہوئی۔ وہ جھٹپٹائی مگر داؤد تو جیسے ہر چیز سے بے خبر بس اُس کو صحیح سلامت دیکھ کر اپنے آپ کو یقین دِلا رہا تھا۔


"مم میں سس سانس مم میں۔۔۔۔۔۔۔" معصومہ نے کہنے کی کوشش کی مگر اُس کے الفاظ داؤد کی حرکت پہ منہ میں ہی رہ گئے جو اُس کا چہرہ، ماتھا گال، گردن اور اُس کے یخ ٹھنڈے ہاتھ چومتا اُسے خود میں سمو رہا تھا۔

وہ آگے بڑھا تو اُسے کوئی وجود لنگڑا کر چلتا دِکھائی دیا۔ قریب پہنچنے پہ اُسے معصومہ کی سِسکیاں سُنائی دیں اِس سے پہلے کہ وہ گِرتی وہ آگے بڑھتا اُسے کمر سے تھامتا خود میں سمو چُکا تھا۔ وہ جو پہلے ہی بے ہوش ہونے کو تھی داؤد کی سخت گرفت میں اُسے اپنی سانس رُکتی محسوس ہوئی۔ وہ جھٹپٹائی مگر داؤد تو جیسے ہر چیز سے بے خبر بس اُس کو صحیح سلامت دیکھ کر اپنے آپ کو یقین دِلا رہا تھا۔

"مم میں سس سانس مم میں۔۔۔۔۔۔۔" معصومہ نے کہنے کی کوشش کی مگر اُس کے الفاظ داؤد کی حرکت پہ منہ میں ہی رہ گئے جو اُس کا چہرہ، ماتھا گال، گردن اور اُس کے یخ ٹھنڈے ہاتھ چومتا اُسے خود میں سمو رہا تھا۔


"تُم ٹھیک ہو نا؟ کُچھ ہوا تو نہیں؟ چچ چوٹ تو نہیں لگی؟ اِدھر دیکھو ٹھیک ہو نا؟ درد ہو رہا ہے؟ میں کُچھ پوچھ رہا ہوں ڈیم اِٹ؟" داؤد اُس کا چہرہ اوپر اُٹھاتا ہاتھ بازو چیک کرتا پریشانی سے پوچھ رہا تھا پِھر بغیر اُس کے جواب کا اِنتظار کیے اُسے اُٹھا لیا اور آگے بڑھنے لگا۔ معصومہ اُس کی گردن میں منہ چُھپائے سکون محسوس کرتی اُس کے گِرد سختی سے بازو حائل کیے خاموش تھی اُس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔


طوفان اب شِدّت اختیار کر گیا تھا داؤد کو معصومہ کو ایسے اُٹھا کر چلنا مُشکل ہو رہا تھا۔ اُس نے ایک نظر معصومہ کو دیکھا جِس کے ہونٹ گال اور ناک نیلے پڑ چُکے تھے اُس نے نیچے بیٹھ کے اُسے گود میں لٹایا اور اُس کا گال تھپٹھپانے لگا۔


"سونا نہیں۔ آنکھیں بند مت کرو پلیز۔ ہمیں یہاں سے جانا ہے ورنہ یہیں مر جائیں گے ہم۔ آنکھیں بند مت کرو معصومہ! آنکھیں کھولو پلیز۔" داؤد نے اُس کا چہرہ تھپتھپایا تو اُس نے بمشکل آنکھیں کھولیں۔ داؤدنے اُسے زمین پر بٹھایا اور خود اُس کے آگے جُھکا۔


داؤد نے اُس کے سامنے بیٹھ کر اُس کے بازو اپنی گردن میں ڈالے۔ وہ اپنی پکڑ سخت کرتی اُس کی کمر پہ سوار ہوئی۔ داؤد کھڑا ہوا اور اُس کے پاؤں اپنے بازوں کے نیچے سے گُزارتے اُس کی ٹانگوں پہ گرفت کرتا آگے بڑھنے لگا۔


جب بھی معصومہ کی گرفت ہلکی ہونے لگتی وہ اُس کی ٹانگوں کو ہلاتا اُسے سختی سے جاگنے کی تلقین کرتا۔ اُس سے برف کے تھپیڑوں کا سامنا کرنا مُشکل ہوتا تو وہ اپنی رفتار آہستہ کر دیتا مگر پِھر چلنا شروع کر دیتا اُس کی اپنی حالت بہت خراب ہو رہی تھی جیسے وہ ابھی معصومہ سمیت گِر جائے گا مگر اُسے حوصلے سے کام لینا تھا اپنے لیے نہیں معصومہ کے لیے۔


موبائل وہ جیب میں ڈال چُکا تھا آدھا گھنٹہ چلنے کے بعد اُسے کاٹیج کی لائٹس جلتی نظر آئیں وہ حوصلہ کرتا اُس طرف بڑھا جانتا تھا جو لائٹس اِتنی قریب نظر آ رہیں ہیں وہ اِتنی قریب ہیں نہیں۔ مگر وہ خوش تھا کہ صحیح راستے پر چل رہا ہے۔ اُسے اپنی پُشت پہ موجود معصومہ کے وجود میں کوئی حرکت محسوس نہیں ہو رہی تھی گرفت بھی نرم پڑ گئی تھی۔


وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا اگلے پندرہ مِنٹ میں کاٹیج کے سامنے موجود تھا دروازہ کُھلا تھا وہ تیزی سے اندر بڑھا اور معصومہ کو بیڈ پر لٹایا اُس کی ٹوپی کہیں گِر چُکی تھی اور بال پُشت پہ بِکھرے پڑے تھے۔ اُس کی رنگت خطرناک حد تک نیلی پڑ چُکی تھی اُس نے کمرے کا دروازہ بند کیا ہیٹر پہلے ہی آن تھا۔ وہ اُس کے ہاتھ پیر سہلانے لگا مگر وہ کوئی حرکت نہیں کر رہی تھی اُس کا دِل ایک دم گھبرایا تو اُس نے معصومہ کی نبض چیک کی جو بہت مدھم سی چل رہی تھی۔


وہ اُسے بازووں میں بھر کر باتھ روم کی جانب بڑھا اور گرم پانی کا شاور کھول کر اُسے لیتا گرم پانی کے نیچے کھڑا ہو گیا۔ پانی خود پہ پڑتے وہ جھٹپٹائی اور اُس کی کالر کو دبوچتی وہ اُس کے ساتھ چپکتی گرم پانی سے بچنے کی کوشش کرنے لگی۔ گرم پانی سے جِسم ٹھنڈ سے تھوڑے آزاد ہوئے تو اُن کو کُچھ سکون مِلا۔


"معصومہ؟ ہوش میں آو۔ معصومہ ؟ دیکھو کپڑے بدلنے ہیں۔ ہوش میں آو یار۔ پہلے ہی بہت خوار کروایا ہے تُم نے۔ معصومہ؟" وہ بے بسی سے کہتا اُسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا مگر وہ اب بھی اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔


اُس نے اُسے اپنے ساتھ لگائے سٹینڈ سے باتھ روب کھینچا اور معصومہ کے کپڑے بدل کے اُسے وہ باتھ روب پہنا دیا۔ پِھر وہ اُسے باہر لایا اور بیڈ پہ لٹا کے اُس پہ کمبل اُوڑھا دیا اور اپنے کپڑے لیتا باتھ روم چلا گیا۔


کپڑے بدل کے وہ باہر آیا تو معصومہ بے حِس و حرکت پڑی تھی اُس نے دوبارہ اُس کی نبض چیک کی تو وہ اب پہلے سے کُچھ بہتر چل رہی تھی۔ اُس نے الماری سے معصومہ کے کپڑے نِکالے اور بیڈ پہ آیا۔ اُس نے معصومہ کو اپنے ساتھ لگا کے بِٹھایا اور اُسے گرم شلوار قمیض کے اوپر سویٹر پہنا دیا۔ پِھر اُس نے ایک اور کمبل نِکالا اور پہلے کمبل کے اوپر ڈال کر اُسے ڈبل کیا اور معصومہ کو خود میں بھینچتا سونے لگا۔ اُس کے اعصابوں پر ایک تھکن سوار تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کِسی نے بھاری سِلیں رکھ دی ہوں اُس کے وجود پر۔


" اگر معصومہ کو کُچھ ہو جاتا یا وہ اُسے نا مِلتی تو؟" اِس سے آگے وہ کُچھ سوچنا نہیں چاہتا تھا ہر سوچ کو جھٹک کر وہ خود کو پُرسکون کرتا معصومہ کو خود سے لپٹائے سونے لگا۔


************************


اُس کی آنکھ کُھلی تو اُسے خود پہ وزن سا محسوس ہوا اُس کا دم گُھٹنے لگا اُس نے خود پر سے اُس وزن کو ہٹانے کی کوشش کی تو ناکام رہی۔ وہ بے بس سی لیٹ گئی تو اُسے سارا واقعہ یاد آنے لگا۔ وہ داؤد کی کمر پہ سوار تھی پِھر کیا ہوا اُسے یاد نہیں تھا۔ کیا وہ خواب تھا؟ ہاں وہ خواب ہی تھا تبھی تو وہ یہاں صحیح سلامت تھی اگر وہ وہاں ہوتی برف میں تو شاید اب تک زندہ بھی نا ہوتی۔


سارے واقعے کو خواب سمجھ کر وہ مُطمئن سا مُسکرائی مگر اُس کی مُسکراہٹ سمٹی جب اُسے خود پہ بوجھ سا محسوس ہوا اُس نے سر اُٹھا کے دیکھنے کی کوشش کی تو دھک رہ گئی داؤد آدھا اُس کے اوپر اور آدھا بیڈ پر پھیل کر سو رہا تھا۔ وہ اُسے قبضے میں کر کے سو رہا تھا جیسے وہ کہیں بھاگ جائے گی۔


اُس نے اُسے ہٹانے کی کوشش کی تو وہ کسمسا کر اُس کے اوپر ہی سیدھا ہو گیا۔ کہاں وہ بیس سال کی نازک سی لڑکی اور کہاں وہ بلند قامت ستائیس سالہ بھرپور مرد۔ برفباری سے تو شاید وہ بچ بھی جاتی مگر یہ آدمی اُسے ضرور مار دے گا۔


"داد؟ داد؟ داؤد اُٹھیں میرا دم گُھٹ رہا ہے۔ میں مر جاوں گی۔" وہ اُس کے کان کے قریب ہو کے بولی جو اُس کے چہرے کے قریب ہی تھا۔


داؤد اُس کی آواز سُن کے سیدھا ہوا گھور کر اُسے دیکھا اور اپنے دونوں بازو اُس کی کمر کے نیچے سے گُزار کر اُس پہ گرفت کرتا پہلی پوزیشن میں واپس لیٹ گیا۔ وہ اُس کی حرکت پہ دم بخود رہ گئی مطلب وہ سچ میں اُس کا دم گھوٹ کر اُسے مارنا چاہتا تھا۔


"میں مم مر جاوں گی۔ مم مُجھے سس سانس نہیں آ رہا۔ دم گگ گُھٹ رہا ہے مم میرا۔" وہ بھرائے لہجے میں بولی تو داؤد نے سر اُٹھا کے اُسے دیکھا تو اُس کی نیلی سمندر سی آنکھوں میں سُرخی سی تیر رہی تھی اور غُصّہ واضح ہلکورے لے رہا تھا۔


"میرا دم بھی گُھٹ گیا تھا میری بھی جان نِکلنے والی تھی میں بھی مرنے والا تھا کیا تُم نے پرواہ کی؟ نہیں نہ؟ تو اب میں کیوں پرواہ کروں ؟ جِتنی تکلیف مُجھے دی ہے اُتنی خود بھی چکھو۔" داؤد نے تلخی سے کہا تو وہ اُس کے غُصیلے لہجے پہ حیران ہوئی۔


"میں نے کیا کِیا ہے؟ آپ مُجھ پہ کیوں غُصّہ ہو رہے ہیں؟ ہر بات تو مانتی ہوں آپ کی۔ پِھر بھی آپ بِلا وجہ مُجھ پہ غُصّہ کرتے ہیں۔" معصومہ روہانسے لہجے میں بولتی اُسے کندھوں سے تھامتی پیچھے دھکیلنے لگی۔


"کیا کِیا ہے؟ یہ تُم پوچھ رہی ہو؟ جان نِکال لی تھی تُم نے میری۔ میری سانسیں چھیننے والی تھی تُم؟ میری زندگی میری بیوی کو مُجھ سے دور کرنے والی تھی تُم۔ اور کہتی ہو ہر بات مانتی ہو میری۔" داؤد نے اُس کے دونوں ہاتھ اپنے ایک ہاتھ میں قید کرتے شِدّت سے بھرپور لہجے میں کہا تو وہ اُس کے لہجے میں دیوانگی محسوس کرتی اُسے دیکھتی رہ گئی اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ہوا کیا ہے جو وہ اِتنے غُصّے میں ہے۔


"ہہ ہوا کیا ہے؟" معصومہ کا پِھر سے پوچھنا غضب ہوا تھا جِس کا اندازہ اُسے تب ہوا جب اُس نے داؤد کو اپنی گردن پہ دیوانہ وار اپنی شِدت اور دیوانگی منتقل کرتے دیکھا۔ اُس کی جان لبوں پہ آ گئی جب داؤد نے اُسے اُٹھا کر خود میں سختی سے بھینچ لیا۔


"بہت محبّت کرتا ہوں تُم سے۔ بہتتتتت زیادہ۔ کبھی مُجھ سے دور مت ہونا ورنہ داؤد سِکندر مر جائے گا۔ مجھے نہیں پتا محبت کیسی ہے میں نے کبھی محبت کو نہیں دیکھا۔ ہاں اگر محبت کی کوئی شکل ہوتی کوئی رنگ ہوتا تو اس کی مشابہت ضرور تم سے ملتی۔ محبّت کا نام ہی سنا تھا میں نے مگر کبھی اس کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی لیکن جب سے تم سے ملا ہوں تو لگتا ہے میں جو محبت کے م سے بھی ناواقف تھا آج محبت کے تمام راز سے واقف ہوچکا ہوں آج جب اُس برف کے میدان میں تُمہیں ڈھونڈ رہا تھا تو ایسا لگا تھا جیسے تُمہیں کھو چُکا ہوں میں۔ جیسے اب کبھی تُمہیں دیکھ نہیں پاوں گا۔ جب جب ہار کے گِرنے لگتا تھا تُمہارا چہرہ سامنے آ جاتا تھا جو ایک نیا حوصلہ دیتا تھا کہ تُم مِل جاو گی مُجھے۔ بس ہمّت نہیں ہارنی۔ تب مُجھے احساس ہوا کہ میری شریانوں میں خون کی طرح دوڑنے لگی ہو تُم۔ بہت ضروری ہو میرے لیے جیسے سانسیں ضروری ہیں بالکل ویسے ہی۔۔" وہ اُسے خود میں بھینچے کہہ رہا تھا جبکہ وہ اُس کے منہ سے اپنے لیے محبّت کے الفاظ سُنتی ساکت رہ گئی تھی جیسے یقین نا آ رہا ہو۔ مطلب وہ خواب نہیں تھا وہ سچ میں برف میں پھنس گئی تھی اور داؤد اُسے واپس لایا تھا۔


"آُپ تت تو نن نفرت کرتے تھے مُجھ سس سے پپ پِھر اب کک کیسے محبّت ہہ ہو گئی؟" ددِل میں اُمنڈتا سوال زبان پہ آیا تھا وہ ہنوز داؤد کی گرفت میں تھی۔


"بے وقوف تھا جو سمجھ نہیں پایا۔ وجدان نے صحیح کہا تھا بے پناہ نفرت بے پناہ محبّت کا دوسرا نام ہوتی ہے۔ نفرت کی صورت ہی صحیح مگر ہمیشہ میرے دِل و دماغ پہ چھائی رہتی تھی تُم۔" داؤد نے آنکھیں موند کر اپنی تھوڑی اُس کے سر پر ٹکائے کہا۔


"بب بھوک لگی ہے مُجھے۔" کُچھ پل سِرکے تو معصومہ کی آواز کمرے میں گونجی۔


"مُجھے بھی بہت بھوک لگی ہے۔ تُم ریسٹ کرو میں تُمہارے لیے کُچھ بنا کے لاتا ہوں۔" داؤد نے اُٹھتے ہوئے کہا۔ معصومہ نے تو رات کو بھی کُچھ نہیں کھایا تھا اور اب ڈیڑھ ہو گیا تھا۔


"میں بھی چلتیییییی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" معصومہ بیڈ سے اُتر کر اُس کی جانب بڑھی جب نظر اپنے کپڑوں پر پڑی اور اُس کی چلتی زبام ایک دم رُکی۔ رات کو اُس نے دوسرا شلوار قمیض پہنا تھا اور صُبح جِسے وہ خواب سمجھ رہی تھی یاد آنے پر یاد تھا کہ اُس نے جینز کے اوپر شرٹ پہنی تھی تو اب پِھر سے یہ شلوار قمیض؟


"پریشان مت ہو۔ رات کو تُمہارے کپڑے بھیگ گئے تھے تو میں نے ہی تُمہیں شاور دے کے تُمہارے کپڑے بدلے۔" داؤد نے اِطمینان سے کہا تو وہ شرم سے سُرخ ہوتی رُخ بدل گئی جبکہ اُس کے چہرے پہ آتا گُلال دیکھ کر وہ دِلکشی سے مُسکراتا باہر کی جانب بڑھا اور اوپن کچن میں آتا معصومہ کے لیے سوپ اور پاستا بنانے لگا۔


یہاں ضرورت کا سارا سامان موجود تھا جو کہ اُس نے ہی بُکنگ کرتے وقت رکھوانے کو کہا تھا۔ یہ سبھی کاٹیج اُن کے تھے جِن سے اُس نے کار رینٹ پہ لی تھی اور کار لیتے وقت ہی وہ کاٹیج کی چابی بھی لے چُکا تھا۔


کُچھ دیر بعد وہ روم میں سوپ اور پاستا لیے داخل ہوا تو معصومہ سر سے پیر تک کمبل اوڑھے سو رہی تھی یا شاید سونے کا ڈرامہ کر رہی تھی۔ اُس نے ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور بیڈ کے قریب کھڑا ہوا۔


"معصومہ! تُمہارے سر پہ چھپکلی بیٹھی ہے۔" اُس نے اچانک سے کہا۔


"کہاں کہاں؟ نہیں بچاو مُجھے۔" وہ ایک دم سے کمبل ہٹا کر اُٹھتی پاس کھڑے داؤد سے اِس طرح لپٹی کہ وہ پیچھے گِرتا گِرتا بچا۔


اُس نے اپنے دونوں پیر داؤد کی کمر کے گِرد کس کر باندھے تھے اور اپنے بازو داؤد کی گردن میں ڈالے وہ اُس کے ساتھ چپک گئی تھی۔ اُس کی حرکت پہ داؤد کا قہقہہ بلند ہوا اور اُس نے ہنستے ہوئے معصومہ کی کمر کے گِرد اپنا حِصار قائم کیا۔


"اُس کی شرارتی ہنسی سُن کر معصومہ کو اُس کی شرارت کا احساس ہوا تو وہ خجل ہوتی نیچے اُترنے لگی مگر داؤد نے اُس پہ گرفت مضبوط کرتے اُسے ایسا کرنے سے روکا اور اُسے ایسے ہی لیے بیڈ پہ بیٹھا کہ اب وہ اُس کی گود میں تھی۔


"چچ چھوڑ دیں مم مُجھے بھوک لگی ہے۔" معصومہ نے منمنا کر کہا۔


"مُجھے بھی بہت بھوک لگی ہے کیا کروں؟ تُمہیں کھا جاؤں ؟" داؤد نے معنی خیزی سے کہا۔


"نن نہیں۔ آپ کھانا کھائیں نا؟ میں بہت کک کڑوی ہوں۔" معصومہ بوکھلا کر بولی تو اُس کا قہقہہ گونج اُٹھا۔


"مُجھے تو بہت میٹھی لگتی ہو۔" داؤد نے اُس کی ناک سے ناک رگڑتے کہا۔


"کک کھانا کھائیں؟ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔" معصومہ نظریں چُراتی سُرخ چہرے سمیت بولی۔


"ہاں چلو۔" داؤد نے اُسے آزاد کیا تو وہ تیزی سے نیچے اُترتی ٹرے اُٹھا کر داؤد کے سامنے بیٹھی۔


"تُم باہر کیوں گئی تھی صُبح؟" داؤد نے نرمی سے پوچھا اور پاستے کا ایک چمچ بھر کر اُس کے منہ میں ڈالا۔


"وہ مم میں نے کبھی برف باری کا منظر نہیں دیکھا تھا تو وو وہی دیکھنے گئی مگر پِھر پتہ ہی نہیں چلا میں کب اِتنی دور پہنچ گئی۔" وہ پاستا کھاتی شرمندہ سی ہوئی۔


"مُجھے اُٹھا دیتی میں لے جاتا تُمہیں۔" اُس نے ایک اور سپون اُس کے منہ میں ڈالا۔


"آپ تھکے ہوئے تھے اور کافی گہری نیند سو رہے تھے آپ تو تب بھی نہیں اُٹھے جب میں نے آپ کی پیشانی کو چ چچو۔۔۔۔۔۔۔۔۔" معصومہ نے روانی میں بولتے اپنی زبان کو ایک دم بریک لگائی ہاتھ جو سپون تھامے داؤد کے منہ کی طرف بڑھ رہا تھا راستے میں ہی رُک گیا۔


"کیا؟ کیا کہا؟ پوری بات بتاؤ۔" داؤد نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر چمچ اپنے منہ میں ڈالا اور کھانے لگا مگر اُس کا ہاتھ نہیں چھوڑا۔


"کک کُچھ نہیں وہ میں کہہ رہی تھی۔ کہ مم میں نے سوچا آپ تھک گئے ہیں تو آپ کو کیا جگانا۔" معصومہ نے ہڑبڑا کے بات بدلی تو داؤد اُس کی چالاکی پہ اُسے گھور کر رہ گیا۔


"اچھا صحیح سے کھاو۔ " داؤد اُس کی بات سمجھ چُکا تھا اِسی لیے بغیر اور پوچھ گُچھ کیے بات بدلی کہ وہ اپنے شرمانے میں کھانا بھی صحیح سے نا کھاتی۔


اُسے پاستا اور سوپ پِلا کے وہ برتن کچن میں رکھ کے واپس آیا تو معصومہ کھڑکی سے باہر جھانک رہی تھی۔


"کیا دیکھ رہی ہو؟" داؤد اُس کے کندھے پہ سر رکھتا اُس کے گِرد حِصار قائم کرتا بولا۔


"ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟ ہم تو مری میں ہی رُکنے والے تھے نا؟ ہم یہاں کہاں گھومیں گے ؟ یہاں تو ہر طرف برف ہی برف ہے اور اب مُجھے برف میں نہیں جانا۔" معصومہ نے سوال کرتے جھرجھری لی۔


"بس میں چاہتا تھا کہ میں اور تُم اِک کمرے میں بند ہوں اور کوئی ڈِسٹرب بھی نا کرے اور ہنی مون تو ایک ساتھ مناتے ہیں نا تو گھوم کر کیا کرنا وہ تو یہاں بھی منا سکتے ہیں۔" داؤد نے گانے کا سر پیر توڑ کر اگلی بات معنی خیزی سے کہتے اُس پہ گرفت مضبوط کی۔


"جج جی۔" معصومہ بس یہی کہہ سکی داؤد جو شرارتوں پہ اُترا تھا تو وہ اُس کی زبان بند کر گیا تھا۔ وہ اُسے اُٹھاتا بیڈ پر لے آیا اور اُسے اپنے حِصار میں لیے اُس پہ اپنی چاہت لُٹانے لگا۔


***************

رومیسہ چُپ ہوئی تو معصومہ ایک دم داؤد کی گرفت سے خود کو آزاد کرواتی رومیسہ کی طرف بڑھی اور اُس سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ داؤد اُس کے تکلیف دہ ماضی کے بارے میں جان کر لب بھینچ کر رہ گیا تھا اُسے رومیسہ کے لیے دُکھ ہوا تھا۔ کیا تھی وہ لڑکی اور کیا بن گئی تھی۔


وہ اب چاہ کے بھی اِس راہ سے واپس نہیں جا سکتی تھی۔ معصومہ کو اب سمجھ آیا تھا کہ فرزانہ بیگم نے اُس کی ماں کے بارے میں وہ سب کیوں کہا تھا۔ اُس کی ماں کا قصور یہ تھا کہ اُس نے بھاگ کر شادی کی تھی۔


معصومہ اپنی بہن کی تکلیف اپنے دِل میں محسوس کر رہی تھی۔ رومیسہ نے خوش فہم ہو کر معصومہ کو خود سے لگے دیکھا۔


"تُم چلو گی نا میرے ساتھ؟ ہم یہاں سے بہت دور چلے جائیں گے یہاں کے لوگوں نے ہمیں بہت دُکھ دیے ہیں اِن لوگوں کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔ اب تُم یہاں نہیں رہو گی۔" رومیسہ نے ایک ہاتھ سے معصومہ کا سر سہلاتے کہا تو وہ جھٹکے سے اُس سے الگ ہوئی۔ البتہ داؤد مُطمئن سا کھڑا تھا جیسے یقین ہو کہ اُس کی معصومہ کبھی اُسے چھوڑ کر نہیں جائے گی۔


"مم میں کیسے جا سکتی ہوں؟ نہیں میں اپنے شوہر کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ بلکہ تت تُم ہمارے ساتھ چلو ہم اکٹھے رہیں گے۔ ہے نا داؤد رومیسہ ہمارے ساتھ چل سکتی ہے نا؟" معصومہ نے آنسو پونچھتے آخر میں داؤد سے پوچھا وہ تیزی سے چلتی داود کا بازو تھام چُکی تھی۔


"نہیں میں جِس راہ پر چل رہی ہوں اُس سے کبھی واپس نہیں پلٹ سکتی یہاں غدّاری کی موت سزا تو دی جاتی ہے مگر بخشا نہیں جاتا تُمہیں میرے ساتھ جانا ہو گا۔" رومیسہ نے دو ٹوک کہہ کر اُسے اپنی طرف کھینچا۔


"وہ نہیں جانا چاہتی تُمہارے ساتھ۔ اُسے چھوڑ دو رومیسہ! ورنہ میں تُمہیں مارنے سے بھی دُریغ نہیں کروں گا۔" داؤد نے ہاتھ میں پکڑی گن کا رُخ اُس کی جانب کرتے کہا۔


"مُجھے نہیں مار سکتے تُم۔ میں اپنی بہن کو تُمہارے پاس کبھی نہیں رہنے دے سکتی جانتی ہوں تُم نے اِس سے میرے کیے کا بدلہ لینے کے لیے شادی کی ہے۔ میں اِسے یہاں سے لے کے جاؤں گی چاہے اِس کے لیے تُمہیں مارنا ہی پڑے۔" رومیسہ نے ایک ہاتھ سے معصومہ کو اپنی ڈھال بناتے کہا۔


"داؤد نے مُجھ سے بدلے کے لیے شادی نہیں کی وہ مُجھ سے بہت محبّت کرتے ہیں وہ مُجھے کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتے مُجھے تُمہارے ساتھ نہیں جانا تُم ہمارے ساتھ رہ جاو۔" معصومہ نے اُس کی بات سُن کر وحشت زدہ لہجے میں کہا اور خود کو چھڑانے کی کوشش کی مگر رومیسہ کی گرفت مضبوط تھی۔


"معصومہ کو چھوڑ دو رومیسہ! میں نے تُمہیں معاف کیا۔ میں معصومہ سے محبّت کرتا ہوں پلیز اُسے چھوڑ دو میں نے اُس سے بدلے کے لیے شادی نہیں کی۔" داؤد بے بسی سے بولا۔ معصومہ رومیسہ کے سامنے کھڑی تھی اگر وہ گولی چلاتا تو معصومہ کو بھی لگ سکتی تھی اور وہ معصومہ کو نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔


"شور مت کرو معصومہ! خوشی سے یا رو کر تُمہیں میرے ساتھ ہی جانا ہے۔" رومیسہ اُسے کہہ کر پیچھے کی طرف چلتی چلتی دروازے تک پہنچی۔


داؤد نے آگے بڑھ کر اُسے روکنے کی کوشش کی تو رومیسہ نے گن معصومہ کی کنپٹی پر رکھ دی اُس کی آنکھوں میں ایک جنون سا تھا سب کُچھ تباہ کر دینے کا جنون۔


"رومیسہ پلیز اُسے چھوڑ دو جب وہ نہیں جانا چاہتی تُمہارے ساتھ تو کیوں لے جا رہی ہو اُسے زبردستی؟" داؤد نے درشتی سے کہا تو وہ پُراسرار سا مُسکرائی۔


"تُمہاری وجہ سے نہیں جا رہی نا یہ؟ تو تُمہیں ہی ختم کر دیتی ہوں۔" رومیسہ نے داؤد پر گن تانی تو معصومہ وحشت زدہ سی چیخ پڑی۔


"نن نہیں پلیز مم میں چل رہی ہوں مم میں تُمہارے ساتھ جاوں گی دد داؤد کو کک کُچھ مت کہو۔ پلیز مم میں چل رہی ہوں خُدا کا واسطہ ہے اُنہیں چھوڑ دو میں مر جاوں گی اُن کو کُچھ ہوا تو۔" معصومہ روتی گِڑگِڑاتی مچل کر کہہ رہی تھی اُس کی دیوانوں سی حالت دیکھ کر رومیسہ کی آنکھوں میں جیسے کِسی نے مِرچیں سی بھریں تھیں۔


"سُن لیا نا ؟ جا رہی ہے وہ میرے ساتھ اور اب میرے پیچھے مت آنا۔" رومیسہ نے داؤد سے کہا جو معصومہ کی آنکھوں میں آنسو اور اذیت دیکھ کر تڑپ کر رہ گیا تھا۔


رومیسہ نے دروازہ کھولا اور جلدی سے معصومہ کو باہر کھینچتے دروازہ لاک کر دیا۔ داؤد دروازے کے قریب پہنچتا دروازہ پیٹ کر رہ گیا مگر رومیسہ معصومہ کو کھینچتی گاڑی میں بِٹھاتی اُسے وہاں سے لے گئی تھی۔ داؤد نے کُچھ دیر دروازہ پیٹا پھر کُچھ یاد آنے پر وہ واپس بھاگا اور کھڑکی کھولتا نیچے کودا یہ بھی شُکر تھا کہ کھڑکی میں سلاخیں نہیں لگیں تھی۔


جلدی سے باہر آتا وہ اُسی ایک راستے پر گاڑی دوڑانے لگا جہاں سے وہ یہاں تک آیا تھا۔ سپیڈ تیز کرتے ہوائی جہاز کی مانند گاڑی اُڑاتے وہ بس ایک ہی دُعا کر رہا تھا کہ رومیسہ کی گاڑی اُسے دِکھ جائے۔ اور اُس کی دُعا قبول ہوئی تھی رومیسہ کی گاڑی نارمل سپیڈ میں سامتے چلتی نظر آرہی تھی۔


یہ گاڑی اُسی راستے سے واپس جا رہی تھی جو اُن کے کاٹیج تک جاتا تھا مطلب یہ رومیسہ کی ہی گاڑی تھی۔ شاید وہ داؤد کو روم میں بند کر کے مُطمئن تھی کہ وہ اُس تک پہنچ ہی نہیں پائے گا۔


**********************


آدھے گھنٹے بعد اُس کی گاڑی ایک عمارت کے سامنے رُکی تھی یہ اُسی عِلاقے کا ویران سا حِصہ تھا عمارت بھی کافی پُرانی تھی۔ وہ گاڑی کا دروازہ کھولتی نیچے اُتری اور معصومہ والی سائیڈ پہ آئی۔ دروازہ کھول کے اُس نے معصومہ کو باہر نِکالا اور اُسے بازو سے تھامتی اندر کی جانب بڑھنے لگی۔

اندر پہنچ کر وہ ایک آدمی کے سامنے رُکی تھی۔ کافی سارے آدمی یہاں وہاں بیٹھے تھے کُچھ کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں تو کُچھ بم پکڑے شاید چیک کر رہے تھے وہ تعداد میں بیس پچیس تو ہوں گے ہی۔

"یہ میری بہن ہے معصومہ۔ اور میں چاہتی ہوں اِسے یہاں کوئی تکلیف نا ہو اور نا ہی کوئی اِس کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھے۔" رومیسہ نے سامنے بیٹھے جوزف سے کہا۔

"ضرور۔ جو تُم چاہو۔ کِسی میں اِتنی ہمّت نہیں کہ تُمہارے حُکم کو ٹالے۔ تُم تو ہماری شہزادی ہو۔" جوزف نے مُسکرا کر کہا جانتا تھا کہ وہ چِڑیا اپنی بہن کو کِتنا چاہتی ہے اور اُس کی مبشاء کے خِلاف جا کر وہ اُسے ناراض نہیں کر سکتا تھا کہ رومیسہ اُس کے پاس وہ اِکاّ تھا جِس کے استمعال سے وہ بڑی سے بڑی بازی جیت سکتا تھا رومیسہ کے جیسا نڈر پن اور بے خوف جِگر اُس کے کِسی آدمی کے پاس نہیں تھا۔

"ٹھیک ہے۔" سر ہلاتی وہ معصومہ کو لے کر اوپر موجود کمرے میں چلی گئی جہاں اُس کی رہائش تھی۔


"تُم یہاں رہو گی میرے ساتھ میرے روم میں پِھر ہم ڈھیر ساری باتیں کریں گے صِرف میری اور تُمہاری باتیں۔" رومیسہ نے مُسکرا کر کہا تو معصومہ اُسے سپاٹ چہرے کے ساتھ دیکھتی رہی۔


"تُم ریسٹ کرو مُجھے کُچھ ضروری کام ہے۔" وہ اُس کا گال تھپتھپا کر باہر نِکل گئی تو معصومہ کے رُکے ہوئے آنسو پِھر سے بہنے لگے۔


جانے داؤد کیا کرے گا کیا وہ اُس کے پیچھے آئے گا؟ ہاں اُس نے کہا تھا کہ وہ اُس سے محبّت کرتا ہے وہ ضرور اُسے لینے آئے گا اُس نے اِن سب کے بیچ نہیں رہنا وہ رومیسہ کو بھی اپنے ساتھ لے جائے گی۔ ہاں وہ اپنی بہن کو اِن سب کے بیچ کبھی نہیں چھوڑے گی یہ لوگ اُسے اچھے نہیں لگے تھے۔ وہ گُھٹنوں میں سر دئیے روتے ہوئے سوچ رہی تھی۔


*****************


رومیسہ کی گاڑی اُسے دور رُکتی نظر آئی تو وہ اُس سے کافی پیچھے گاڑی روک چُکا تھا۔ گاڑی سے اُتر کر وہ آہستہ آہستہ اُس جانب بڑھنے لگا جہاں رومیسہ کی گاڑی کھڑی تھی۔ وہ کوئی پُرانی سی عمارت تھی جِس کے اندر وہ معصومہ کو لے کے داخل ہوئی تھی۔


داؤد ایک درخت کے پیچھے کھڑا ہو کے عمارت کا جائزہ لیتا اندر جانے کے بار میں سوچنے لگا۔ عمارت کے سامنے ہی گیٹ پر چوکیدار کھڑا تھا جِس کے ہاتھ میں بھاری کلاشنکوف تھی۔ اُس نے اوپر نظر دوڑائی تو چھت پہ بھی دو آدمی ہاتھوں میں کلاشنکوفیں تھامے چوکنّا سے کھڑے تھے وہ لب بھینچتا پیچھے کی جانب سے ہوتا عمارت کے پِچھلے حِصّے کی طرف آیا۔


یہاں چھت پہ کوئی نظر نہیں آ رہا تھا شاید وہ صِرف سامنے ہی موجود تھے۔ پیچھے والی جانب سے اندر جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا نا ہی نیچے کوئی کھڑکی تھی ہاں البتہ دوسری منزل تک ایک پائپ جا رہا تھا جِس کے ساتھ اوپر کی جانب کھڑکیاں بنی ہوئی تھیں اور کھڑکیوں کے ساتھ کھڑا ہونے کو کافی جگہ بھی تھی۔


وہ آہستہ سے قریب جاتا پائپ کی مدد سے اوپر چڑھنے لگا مگر بار بار پِھسل کر گِر جاتا اُسے کوئی پریکٹس تو تھی نہیں نا ہی وہ بندر تھا جو ایک ہی بار میں اُچھل کر اوپر چڑھ جاتا۔ سردی کا زور تھا ہاتھ بھی کپکپاہٹ کر شِکار ہو رہے تھے لیکن شُکر تھا کہ کل جو طوفان اُٹھا تھا اُس کے آثار اب مندمل ہو چُکے تھے۔ کُچھ پل سوچ کر وہ جُھکا اور شوز اُتارنے لگا۔


شوز اُتار کر اُس نے دونوں کے لیسیز آپس میں باندھے کہ وہ درمیان سے آپس میں جُڑ گئے۔ اُس نے جوتوں کو اپنی گردن میں ڈالا تو وہ اُس کے دائیں بائیں جھول گئے۔ مُطمئن ہو کر وہ ایک بار پِھر پائپ پہ لگے لوہے کے ہُکز کی مدد سے اوپر چڑھنے لگا اور اِس بار وہ اپنی کوشِش میں کامیاب رہا۔ کھڑکی کے پاس پہنچ کر اُس نے اندر جھانکا مگر کمرے میں خاموشی کا راج تھا اور کمرہ اندھیرے میں ڈوبا تھا وہ احتیاط سے کھڑکی کھول کر اندر داخل ہوا۔


صد شُکر کے کھڑکی اندر سے لاک نہیں تھی۔ وہ اندر داخل ہو کے کمرے کا جائزہ لینے لگا کمرہ خالی تھا صِرف نیچے فرش پر میٹرس بِچھے ہوئے تھے۔ وہ جلدی سے دروازے کی طرف بڑھا اور درازہ کھول کے طاہر جھانکا آگے طویل راہداری تھی جِس کے اطراف میں کمرے بنے ہوئے تھے جو تعداد میں تقریباً دس تھے اور دونوں اطراف میں پانچ پانچ کمرے تھے۔


راہداری میں کوئی نہیں تھا وہ تیزی سے آگے بڑھتا ہاتھ میں گن تھامے ہر کمرہ چیک کرنے لگا۔ ہر کمرے میں کافی تعداد میں لکڑی کے کاٹن تھے جِن کو چیک کرنے پر اُسے اندر سے ڈرگز ملیں تھیں کُچھ کاٹنز میں بم اور چھوٹے پِسٹل تھے۔ وہ لب بھینچتا آگے بڑھتا گیا کِسی کمرے میں کوئی ذی روح نہیں تھا بس یہی بے جان چیزیں پڑیں تھیں وہ نو کمرے چیک کر چُکا تھا مگر اُسے معصومہ نہیں مِلی تھی اگر معصومہ یہاں بھی نا ہوئی تو؟


کہاں رکھا ہے اُسے لائی تو اِسی عمارت میں تھی۔ وہ خود سے سوچتا اُس آخری کمرے کا دروازہ کھولنے لگا مگر ہر کمرے کی طرح وہ انلاک نہیں تھا وہ کمرہ بند تھا وہ چونکا اِس کمرے کو بند کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا جب اُسے کِسی کی سِسکیوں کی آواز سُنائی دی اُس کا دِل زور سے دھڑکا۔ اِس آواز کو تو وہ لاکھوں میں بھی پہچان سکتا تھا۔ وہ معصومہ تھی جو شاید رو رہی تھی۔ وہ آہستہ سے ناک کرنے لگا مگر اُس کے ناک کرنے سے پہلے ہی اُسے اپنے سر پر گن کی نال لگی محسوس ہوئی وہ جہاں تھا وہی ساکت کھڑا رہ گیا۔


"اِس طرف چلو!" وہ کوئی آدمی تھا جو اُسے نیچے کی طرف چلنے کا اِشارہ کررہا تھا۔ اُس پہ کلاشنکوف تانتے اُس نے داؤد سے گن جھپٹی اور اُسے نیچے کی طرف دھکا دیا۔


وہ اُس لے کر نیچے ہال میں پہنچا جہاں پہ جوزف اور رومیسہ کھڑے کُچھ بات کر رہے تھے رومیسہ داؤد کو دیکھ کر چونکی جِس کے ہاتھ فضا میں بلند تھے اور اُس کی کمر پہ اُس آدمی کی بندوق ٹِکی تھی۔


"تُم یہاں بھی آ گئے داؤد سِکندر ؟ اپنی جان پیاری نہیں ہے کیا؟ اگر نہیں تو پِھر میں کیا کر سکتی ہوں؟ آ تو اپنی مرضی سے گئے ہو اب جا نہیں سکو گے۔" رومیسہ نے استہزائیہ مُسکراتے کہا۔


"دیکھو رومیسہ معصومہ بہت معصوم ہے اُسے جانے دو۔ اُسے اِس ماحول میں رکھ کر کیوں اُس کی معصومیت کو ختم کرنے کے درپے ہو تُم؟" داؤد نے لاچاری سے کہا۔


"وہ میری بہن ہے جِس سے میں پِچھلے بیس سال سے دور ہوں اور اب وہ صِرف میرے پاس میرے ہی ساتھ رہے گی۔" رومیسہ نے تلخی سے کہا۔


"رومیسہ تُم کہو تو میں ابھی اِسے کُتوں کے آگے ڈال دیتا ہوں؟" جوزف نے کہا تو رومیسہ نے نفی میں سر ہلایا۔


"نہیں یہ میرا پیچھا کرتے یہاں تک آ گیا اِسے اِتنی آسان موت نہیں دوں گی اب۔ پہلے سوچا تھا کہ اِسے اپنی بہن کی خاطِر زندگی بخش دوں گی مگر اب مُجھے اپنا وہ فیصلہ غلط لگ رہا ہے۔ مارٹن؟ اِسے کمرے میں بند کر دو اور وقفے وقفے سے اِس کی ہمارے طریقے سے خاطِر تواضع کرو۔" رومیسہ نے کہہ کر مارٹن کو حُکم دیا جو سر ہلاتا داؤد کو بندوق سے دھکیلتا واپس اوپر لے گیا۔


داؤد خاموشی سے چلتا اپنے بچنے کی ترکیب سوچنے لگا خود بچ پاتا تو ہی وہ معصومہ کو بچا سکتا تھا۔ بغیر سوچے سمجھے اُس نے اپنے پیچھے چلتے آدمی کو دھکا دیا اور اُس کے ہاتھ سے گن چھین کر نیچے پھینکی اور اُس کے اوپر جُھکا پے در پے اُس پہ مُکّے برسانے لگا۔


وہ اُس آدمی کے حملوں کو روکتا اُسے مار رہا تھا جب کِسی نے اُس کے سر پر وار کیا وہ سر تھامتا پیچھے گھوما تو وہ رومیسہ تھی جِس نے پِچھلی بار کی طرح اِس بار بھی اُسے اپنے قابو میں کر لیا تھا۔ داؤد کے سر سے خون بہنے لگا تھا رومیسہ نے نیچے پڑی کلاشنکوف کا دستہ اُس کے سر پہ دے مارا تھا جو کافی وزنی تھا۔ داؤد چکرا کر نیچے گِرا اور بے ہوش ہو گیا۔


"اِسے معصومہ کے ساتھ والے کمرے میں بند کر دو۔" رومیسہ نے سرد لہجے میں اپنے آدمی سے کہا جو شرمندہ سا سر جُھکائے کھڑا تھا۔ وہ سر ہلاتا داؤد کو گھسیٹتا کمرے کی جانب لے گیا۔ جبکہ رومیسہ سر جھٹکتی واپس نیچے چلی گئی اِس کے لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی۔


********************


اُن کی ٹیم مکمل تیاری کر کے اٹیک کرنے کے لیے نِکل چُکی تھی۔ وہ سب لوگ اُس برفانی عِلاقے پہ لینڈ کر چُکے تھے۔ لوکیشن ٹریکر اُن کے پاس ہی تھا جِس نمبر کو اُنہوں نے ٹریس کیا تھا وہ اُس کی ڈائریکشن کی سمت بڑھنے لگے تھے اور کُچھ ہی دیر میں وہ لوگ اُس عمارت کے سامنے کھڑے تھے جہاں کی لوکیشن شو ہو رہی تھی۔ کُچھ جوان عمارت کے پِچھلے حِصّے کی طرف بڑھے اور کُچھ عِمارت کے داخلی دروازے سے اندر کی جانب دبے قدموں بڑھنے لگے.


روحان کا دِل دھڑکنے لگا تھا اُس کی دِل میں ایک اِنتشار سا برپا تھا۔ سکیچ میں جب اُس نے اپنی معصوم سی گُڑیا کی تصویر دیکھی تھی اُس کا دِل یقین کرنے سے اِنکاری تھا مگر پِھر اُس نے وِشہ کو فون کر کے اُسے آن سے معصومہ کے بارے میں پوچھنے کو کہا تھا کہ وہ کہاں ہے تو جواب میں اُس نے بتایا تھا کہ وہ داؤد کے ساتھ گھومنے مری گئی ہے۔


یہ بات اُسے خود معصومہ نے بتائی تھی کہ وہ مری جا رہے ہیں۔ جب یہی بات وِشہ نے روحان کو بتائی تو اُس کا دِل پھیل کر سِمٹا تھا آنے والے وقت کا سوچتے اُس کی آنکھوں کے سامنے اُس معصوم ننھی پری کا چہرہ گھومنے لگا تھا جو اُس کے ہاتھوں میں پل کر بڑی ہوئی تھی۔


اُس کی گُڑیا ایسی ہو ہی نہیں سکتی تھی وہ چِھپکلی تک سے ڈرنے والی لڑکی ایسے غلط کاموں میں ملوِث ہو اور وہ انجان ہوں ایسا تو کبھی بھی نہیں ہو سکتا تھا ضرور کہیں کُچھ مِسنگ تھا مگر کیا یہی اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا اُلجھے دِل کے ساتھ وہ پِچھلی طرف موجود ویرانے میں آیا تھا۔


باقی سب کی طرح وہ بھی معصومہ کے عکس سے انجان تھا۔ وہ پِچھلی طرف پائپ سے اوپر چڑھتا اندر داخل ہوا۔ وہ احتیاط سے ہر کمرے کے آگے سے گُزر رہا تھا جب اُسے کُچھ چیخوں کی آواز سُنائی دی وہ تیزی سے اُس جانب بڑھا اور تھوڑا سا دروازہ کھول کے اندر جھانکا۔ نیچے پڑے آدمی کے جِسم سے خون بہہ رہا تھا ہاتھ بندھے ہوئے تھے جبکہ چیخیں گونج رہیں تھیں۔

اُس نے نِشانہ لیا اور اُس کی گن سے نِکلنے والی گولی اُس آدمی کے دماغ کے آر پار ہو گئی جو نیچے پڑے آدمی کو لگاتار مار رہا تھا۔ اُس آدمی کو چینخنے کا بھی موقع نہ مِلا اور وہ دھڑام سے زمین بوس ہو گیا اُس کی گن پہ سائلنسر لگا تھا جِس کی وجہ سے کوئی اِدھر متوجہ نا ہو سکا۔ وہ تیزی سے نیچے پڑے لہولہان ہوتے وجود کی طرف بڑھا اور اُس کا رُخ اپنی طرف موڑا۔ اُس کا چہرہ دیکھ کے وہ دھک سے رہ گیا۔

******************

رومیسہ جوزف کے ساتھ تہہ خانے میں بندوقیں اور ڈرگز کے کارٹنز چیک کر رہی تھی۔ اُن کی یہ ڈیل بہت اہم تھی جِس سے اُنہیں کروڑوں کا فائدہ ہونے والا تھا یہ اُنہیں کہیں اسمگل کرنی تھی کیونکہ یہ سارا مال الیگل تھا جِسے قانون کے محافظوں کی نظر سے بچا کے لے جانا تھا کُچھ رِشوت خور پولیس آفیسر اُن سے ہاتھ مِلا چُکے تھے جِس وجہ سے اُن کا کام آسان ہو گیا تھا۔


وہ دونوں ابھی وہاں پہ اِسی متعلق ڈِسکس کر رہے تھے جب باہر سے فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں وہ دونوں چونک کر ایک دوسرے کی جانب دیکھتے اپنی اپنی گن سنبھالتے باہر کی جانب بھاگے۔


باہر آ کے اُنہیں پِلرز کی اوٹ میں چُھپنا پڑا تھا کیونکہ جگہ جگہ سے گولیاں چلنے کی آوازیں آ رہیں تھیں آرمی والے اُن پہ حملہ کر چُکے تھے جِس سے وہ پریشان ہو اُٹھے تھے کیونکہ اُن کا حملہ اچانک ہوا تھا وہ اِس حملے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ہال میں اُن کے پانچ آدمیوں کی لاشیں پڑیں تھیں۔ رومیسہ پِلر کے پیچھے چُھپی تاک تاک کر نِشانہ لینے لگی۔


کیسے بھی کر کے اُسے یہاں سے نِکلنا تھا تا کہ وہ آرمی والوں کے ہاتھ نا لگ سکے اور معصومہ کو بھی بحفاظت وہاں سے لے جانا تھا۔ ایک کے بعد ایک اُن کے آدمی مرتے جا ریے تھے آرمی والے تعداد میں زیادہ تھے جبکہ جوزف کے صِرف بیس آدمی یہاں موجود تھے۔


وہ اِس صروتحال کو دیکھ کر اوپر کی جانب بھاگی جہاں معصومہ کو رکھا تھا اُس کے کمرے میں پہنچ کر وہ دھک سے رہ گئی کیونکہ معصومہ کمرے سے غائب تھی۔ نیچے کانوں کے پردے پھاڑ دینے والا شور برپا تھا جبکہ یہاں وہ ساکت سی خالی کمرے کو دیکھ رہی تھی۔


*********************


روحان نے حیرت سے نیچے پڑے وجود کے چہرے کو دیکھا تھا وہ داؤد تھا۔ روحان معصومہ کی شادی پہ نہیں جا سکا تھا مگر وہاں ہوئے واقعے کے بارے میں جان چُکا تھا اور یہ بھی کہ معصومہ کی شادی داؤد سے ہوئی ہے اُس نے داؤد کی تصویریں دیکھ رکھیں تھیں۔


"تُم یہاں کیا کر رہے ہو؟" روحان نے اُسے سہارا دے کر بِٹھایا۔


"وو وہ معصومہ مم معصومہ۔۔۔۔۔۔" داؤد کہنے کی کوشش کرنے لگا مگر اُس کے پورے جِسم سے درد کی ٹیسیں اُٹھ رہیں تھیں اُس سے بولو بھی نہیں جا رہا تھا۔


داؤد کو کمرے میں لانے کے بعد چار پانچ آدمیوں نے مِل کر لاتوں اور گھونسوں سے مارا تھا اُن کے پاس گن تھی کُچھ دیر تک تو داؤد اپنا بچاو کرتا رہا مگر پِھر اُن کے سامنے بے بس ہو گیا تو اُنہوں نے اُسے اُدھیڑ کر رکھ دیا۔


جب وہ مار مار کر تھک چُکے تو باقی سب واپس چلے گئے جبکہ ایک آدمی اُس کے پاس ہی رہ گیا۔


دروازہ کُھلا تھا جِس کا فائدہ اُٹھاتے داؤد نے اُس ایک آدمی کو مار کر وہاں سے بھاگناچاہا مگر نڈھال وجود کے ساتھ وہ اُس ایک آدمی کا بھی کُچھ نہیں بِگاڑ پایا اُلٹا اُس آدمی نے دوبارہ اُسے مارنا شروع کر دیا۔ پِھر روحان وہاں آیا تو اُس کی جان بخشی ہوئی۔


"مُجھے سب کُچھ پتہ ہے کہ یہ سب معصومہ نے ہی کیا ہے میں کبھی جان ہی نہیں پایا کہ اُس کے معصوم سے چہرے کے پیچھے اِتنا گھناونا چہرہ چُھپا ہے۔" روحان نے داؤد کی بات کا غلط مطلب نِکالتے کہا۔


"نہیں مم معصومہ نے نہیں۔۔۔۔۔۔۔" داؤد نے پِھر کہنا چاہا مگر روحان نے اُس کی بات کاٹ دی۔


"تُم فِکر مت کرو وہ اب کِسی کا کُچھ نہیں بِگاڑ پائے گی۔ چلو یہاں سے۔" روحان نے کہہ کر اُسے سہارا دے کر کھڑا کیا۔ اور کمرے سے باہر نِکل گیا۔


وہ اُسے نیچے لے جانے لگا جب داؤد نے ساتھ والے کمرے میں جانے کو کہا۔ روحان نا سمجھی سے اُس کمرے کے لاک پر فائر کرتا اُسے لے کر اندر داخل ہوا تو سامنے میٹرس پہ بیٹھی معصومہ نے چونک کر سر اُٹھایا اور روحان کو دیکھ کر وہ خوشی سے اُس کی طرف بڑھی۔


"حان بھائی! آپ آ گئے۔ یی یہ دد داؤد کو کک کیا ہوا؟ داؤد کک کیا ہوا آپ کو؟ آ پ ٹٹ ٹھیک تو ہیں نا؟" معصومہ روحان کی طرف بڑھتے بڑھتے رُک کر داؤد کو چھو کر دیکھتی بے چینی سے پوچھنے لگی۔


"مُجھے یقین نہیں آ رہا کہ یہ سب تُم نے کیا ہے؟ میں تُُمہیں کِتنا معصوم سمجھتا تھا اور تُم کیا نِکلی؟ میری ہی ناک کے نیچے میرے ہی مُلک کو نُقصان پہنچاتی رہی۔ زرا شرم نہیں آئی تُمہیں؟" روحان نے نفرت سے کہا تو وہ تڑپ اُٹھی۔


"میں نے کُچھ نہیں کیا۔ میں بے قصور ہوں حان بھائی یہ سب رومیسہ نے کیا ہے میری سگی جُڑواں بہن نے۔" معصومہ نے کہا تو وہ چونک اُٹھا پِھر معصومہ اُسے سب بتاتی چلی گئی۔جِسے سُن کر روحان حیرت زدہ رہ گیا۔


"ہمیں یہاں سے نِکلنا ہو گا یہاں خطرہ ہے۔ چلو۔" روحان نے جلدی سے کہا تو معصومہ نے سر ہلایا اور اُن کے ساتھ آگے بڑھی۔ داؤد لنگڑا کر چل رہا تھا جبکہ روحان پِسٹل تھامے محتاط انداز میں اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔


آگے وہ خود تھا جبکہ اُس کے پیچھے داؤد اور اُس کے ساتھ لگی معصومہ تھی۔


وہ اُن دونوں کو لے کر باہر جانے لگا تھا مگر تب تک فائرنگ کی آوازیں گونجنے لگیں تھیں جِس کا مطلب تھا کہ دونوں طرف سے لڑائی شروع ہو چُکی ہے۔ وہ اُن دونوں کو لیے ایک الگ سے بنے کمرے کی طرف آیا وہاں کوئی بھی نہیں تھا شاید سبھی حملے پہ جوابی کاروائی کرنے جا چُکے تھے۔


اُس نے اُنہیں بتایا تھا کہ وہ اپنی پوری ٹیم کے ساتھ آیا ہے جِس پہ معصومہ نے کہا تھا کہ وہ رومیسہ کو بچا لے اُسے کُچھ نا ہو جِس پہ روحان نے خاموشی سے سر ہلا دیا تھا۔


وہ اُن دونوں کو اُس کمرے میں بٹھاتا خود پِسٹل سنبھالے باہر نِکل گیا۔ پیچھے وہ داؤد کے حِصار میں دیوار کے ساتھ لگ کے بیٹھ گئی وہ دروازے کے پیچھے تھے تا کہ اگر کوئی کمرے میں آئے بھی تو کِسی کی اُن پہ ڈائریکٹ نظر نا پڑے۔


"دد درد ہو رہا ہے؟" داؤد کراہا تو معصومہ نے بے تابی سے اُس کے چہرے پہ نظریں جما کے کہا۔


"بہت مارا ہے یار۔" داؤد کراہ کر بولا۔


"آپ بھی مارتے نا اُن کو۔ جیسے ناولز میں اور فِلموں میں ہیرو ایسے ڈِشوں ڈِشوں کر کے سب کو دھول چٹا دیتا ہے۔" معصومہ نے ہاتھ ہلا ہلا کر کہا تو داؤد کو اِتنے ٹینشن زدہ ماحول میں بھی ہنسی آ گئی. مگر پِھر وہ کراہ کر رہ گیا کیونکہ اُس کے ہونٹوں کے قریب کافی زخم آئے تھے جِس کی وجہ سے وہ کُھل کر ہنس بھی نہیں سکتا تھا۔


"میں عام سا بندہ ہوں یار! اِتنے غُنڈے نما آدمیوں کو جِتنا مارا جا سکتا تھا مارا مگر پِھر بھی اُن دو ہاتھوں سے کِتنا مارا جا سکتا تھا پِھر جِتنا وہ مار سکتے تھے اُنہوں نے بھی مارا آخر اِتنے سارے ہاتھوں سے بہت مارا جا سکتا تھا۔" داؤد نے اُسے پِھر سے اپنے حِصار میں لے کے کہا تو وہ نم آنکھوں سے مُسکراتی اُس کے ہاتھ کی ُپشت سہلانے لگی جِس پہ کافی خراشیں آئیں تھیں۔


"ہم یہاں سے چلے جائیں گےنا؟ رر رومیسہ بھی جائے گی نا؟ مُجھے اُسے لے کے جانا ہے داؤد؟" معصومہ اُس کے ساتھ لگی اُسے کہہ رہی تھی۔


"اُس چُڑیل کا تو نام بھی مت لو میرے سامنے۔ آج اُس کی وجہ سے ہی ہم اِس حال میں ہیں۔ اگر وہ تب تُمہیں یہاں لے کے نا آتی تو ابھی ہم سیف ہوتے۔" داؤد نے بھڑک کر کہا۔


"آپ غُصہ کیوں ہو رہے ہیں؟ وہ سب میری محبّت میں کر رہی تھی۔" معصومہ منمنائی۔


"ہاں اِتنی محبّت کہ تُمہیں یہاں غُنڈوں میں رکھ چھوڑا ہے اور اوپر سے قید کر کے رکھا ہے۔" داؤد نے طنز کیا تو وہ روہانسی ہوئی۔


"میرا پہلے ہی دِل گھبرا رہا ہے اب آپ تو مُجھے طعنے نا ماریں۔" معصومہ نے خفگی سے کہا تو وہ گہرا سانس بھر کر دیوار سے سر ٹِکا گیا۔


"دُعا کرو کہ میں تُم، رومیسہ اور روحان صحیح سلامت یہاں سے نِکل جائیں باقی سب بعد میں دیکھا جائے گا۔" داؤد نے آہستہ سے کہا تو وہ سر ہلاتی خاموشی سے بیٹھ گئی۔


باہر سے مسلسل فائرنگ کی آواز آ رہی تھی آدھے گھنٹے تک وہ ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے ساتھ بیٹھے رہے پِھر اچانک خاموشی چھا گئی جیسے جنگ کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے۔


"لگتا ہے سب ٹھیک ہو گیا ہمیں باہر چلنا چاہیے۔" داؤد کہہ کر آہستہ سے اُٹھنے لگا۔


"مم مُجھے ڈر لگ رہا ہے۔" معصومہ نے کہہ کر اُسے روکنا چاہا۔


"کب تک یہاں بیٹھے رہیں گے مُجھے لگتا ہے سب انڈر کنٹرول ہے ہمیں باہر جا کر دیکھنا ہو گا اور میں یہاں تُمہیں اکیلے نہیں چھوڑ سکتا اِس لیے چلو۔" وہ ایک ہاتھ میں معصومہ کا ہاتھ تھامے دوسرا اُس کے گِرد حائل کیے لنگڑا کر چلتا باہر کی جانب بڑھا۔


**************


وہ جب باہر آیا تو دُشمنوں کے بس پانچ لوگ رہ گئے تھے اُن کے اپنے سپاہی بھی کُچھ زخمی ہوئے تھے جِنہیں واپس ٹریٹمنٹ کے لیے بھیج دیا گیا تھا۔ وہ پِلر کی اوٹ میں ہوتا نیچے آیا جہاں کوئی نقاب پوش دوسری طرف رُخ کیے گولیاں چلانے میں مصروف تھا اُس نے دھیمے قدم اُٹھاتے اُس کے پیچھے جا کر اُس کے سر پر گولی تان دی۔


وہ نقاب پوش آہستہ سے اُس کی طرف مُڑا تو اُس کی سیاہ گہری آنکھیں روحان کی آنکھوں سے ٹکرائیں۔ ایک پل کو روحان کو لگا جیسے اُس کی آنکھیں مُسکرائی ہوں اگلے ہی پل اُس نے اپنا نقاب اُلٹ دیا۔ وہ معصومہ کا عکس تھا جو اُس کے سامنے اپنی چمکدار سیاہ آنکھیں لیے کھڑا تھا۔


"کیسے ہو کیپٹن؟" رومیسہ نے دِلکشی سے مُسکراتے پوچھا۔

"شاکڈ۔" روحان نے بے تاثر لہجے میں کہا۔


"ہونا بھی چاہیے۔" رومیسہ ہنسی۔


"خود کو ہمارے حوالے کر دو تُمہارے زندہ بچ جانے کی گارنٹی میں دیتا ہوں۔" روحان نے کہا تو رومیسہ نے اُس کی آنکھوں میں جھانکا۔


"میں تو کب سے تیار ہوں کیپٹن۔" رومیسہ معنی خیزی سے مُسکرائی تو وہ اُلجھا۔ معصومہ اُسے سب کُچھ بتا چُکی تھی سوائے اِس بات کے کہ رومیسہ روحان کو چاہتی ہے۔


"آگے چلو۔" اُس نے رومیسہ کو پِسٹل سے اِشارہ کیا تو وہ مُڑی مگر اگلے ہی لمحے روحان اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھتا نیچے بیٹھ چُکا تھا۔ رومیسہ نے اچانک پلٹ کر اُس کی آنکھوں میں پیپر سپرے کیا تھا روحان نیچے بیٹھا آنکھیں مسل رہا تھا جبکہ وہ ہاتھ میں چھوٹی سی بوتل تھامے مُسکرا رہی تھی۔


"دِل تُمہیں دیا ہے کیپٹن مگر عقل نہیں۔" وہ کہہ کر دوسری جانب بڑھ گئی۔ یہاں رومیسہ کے لوگوں میں سے کوئی نہیں تھا جو روحان کو نُقصان پہنچاتا اِسی لیے وہ اُسے ایسے ہی چھوڑتی جا چُکی تھی۔


روحان جب تک سنبھل کر کھڑا ہوا وہ وہاں نہیں تھی وہ بس ہاتھ پہ مُکاّ مار کر رہ گیا۔ وہ دوسری طرف بڑھا ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ خون سے فرش رنگا ہوا تھا وہ آگے بڑھا تو اُس کی ٹیم کے کُچھ لوگ کھڑے تھے وہ اُن کے پاس پہنچا تو اُن کے سامنے ایک آدمی بندھا ہوا بیٹھا تھا۔


سب دُشمن مارے جا چُکے تھے اور اُن کا باس جوزف سامنے موجود تھا اُسے زندہ رکھا گیا تھا تا کہ اُس سے معلومات حاصل کی جاسکیں۔ کُچھ سپاہی اُس پہ گن تانے کھڑے تھے وہ بھی آگے بڑھتا اُن کے ساتھ جا کے کھڑا ہو گیا۔


"وہ لڑکی مِسنگ ہے۔ اُسے ڈھونڈو۔" ایک آفیسر نے کہا تو روحان نے لب بھینچ لیے۔اِس سے پہلے کہ وہ کُچھ کہتا اُس نے داؤد اور معصومہ کو ایک ساتھ اپنی طرف آتے دیکھا وہ مُطمئن تھے کیونکہ اُنہوں نے آرمی ٹیم اور روحان کو مُطمئن کھڑا دیکھ لیا تھا۔ مگر روحان کا دِل مُطمئن نہیں تھا وجہ معصومہ کا رومیسہ کا ہم شکل ہونا تھا۔


"وہ رہی یہ وہی ہے سکیچ والی لڑکی اور بلیک ڈائمنڈ۔" آفیسر نے کہا تو روحان تیزی سے معصومہ کی جانب بڑھا۔ سب نے ہی رومیسہ کے سکیچ دیکھ رکھے تھے۔


"نہیں یہ وہ نہیں ہے۔ یہ میری بہن ہے معصومہ۔ وہ لڑکی اِس کی ہم شکل ہے یہ وہ نہیں ہے۔" روحان نے تیزی سے کہا۔


"اپنی بہن کو بچانے کے لیے جھوٹ مت بولو روحان۔ یہ وہی ہے ہم سب اپنی آنکھوں دیکھا نہیں جُھٹلا سکتے اور نا ہی تُمہیں اپنے مُلک سے غداری لرنی چاہیے شیم آن یو روحان۔" آفیسر نے اُسے گھورتے کہا۔


"میں سچ کہہ رہا ہوں یہ وہ نہیں ہے اُس کا نام رومیسہ ہے اِس کا کوئی قصور نہیں ہے یہ بے گُناہ ہے۔" روحان نے جلدی سے اپنی بات دوبارہ دُہرائی جبکہ معصومہ سہمی سی داؤد کے ساتھ کھڑی تھی داؤد بھی پریشان ہو چُکا تھا یہ تو اُس نے سوچا ہی نہیں تھا کہ معصومہ کو رومیسہ سمجھ کر اُسے گرفتار کیا جا سکتا ہے۔


"وہ سچ کہہ رہا ہے یہ بے قصور ہے۔" رومیسہ جو ایک پِلر کے پیچھے کافی دور کھڑی سب ی نظروں سے اوجھل تھی ایک دم سامنے آ کر بولی تو سب حیرت سے اُس کا چہرہ دیکھنے لگے جو سامنے کھڑی لڑکی کی ہم شکل تھی

۔

"میں رومیسہ جہانگیر عُرف بلیک ڈائمنڈ ہوں۔ معصومہ بے قصور ہے اُسے کُچھ نا کہا جائے۔" رومیسہ کے لہجے میں اِطمینان تھا جیسے یہ کوئی بڑی بات نہیں۔


وہ معصومہ کو نُقصان پہنچتے کیسے دیکھ سکتی تھی اُسے یقین تھا کہ معصومہ اندر ہی کہیں ہو گی وہ یہاں سے بچ کے اُسے بھی ڈھونڈ کر اپنے ساتھ لے جائے گی مگر وہ رومیسی سے پہلے ہی نیچے آ گئی تھی جِس پہ آرمی والوں کا شک اُس پہ گیا تھا اگر رومیسہ اپنے آپ کو سرینڈر نا کرتی تو وہ بغیر روحان کی کوئی بات مانے معصومہ کو اپنے ساتھ لے جاتے کیونکہ سکیچ کے مُطابق وہی لڑکی اُن کے سامنے کھڑی تھی جِسے بچانے کی روحان کوشش کر رہا تھا۔


اور معصومہ کو کوئی نُقصان پہنچے ایسا وہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی اِسی لیے وہ سرینڈر کرنے اُن کے سامنے آ چُکی تھی آج نہیں تو کل اُس کا یہی انجام ہونا تھا پِھر اگر اب وہ اپنی بہن کو بچا لتی تو کوئی بُری بات نہیں تھی وہ اگر اپنی زندگی نہیں جی پائی تو کیا ہوا اُس کا عکس تو اب خوشی سے اپنی زندگی جی رہا تھا۔


اُسے لگا تھا کہ داؤد نے اس کے کیے کا بدلہ لینے کے لیے معصومہ سے شادی کی ہے مگر آج اُسے یہاں معصومہ کے پیچھے آتے دیکھ کر وہ اُس کی آنکھوں میں معصومہ کے لیے سچی محبّت دیکھ چُکی تھی مگر پِھر بھی اپنی ضد میں وہ معصومہ کو اُس سے دور کرنے والی تھی مگر اب جب وہ خود کو سرینڈر کر رہی تھی تو داؤد ہی تھا جو اُس کی بہن کی حفاظت کر سکتا تھا اِسی لیے وہ مُطمئن سی کھڑی تھی۔


اُس کی بات پہ جوزف نے حیرت سے رومیسہ کو دیکھا تھا اُسے لگا تھا کہ وہ یہاں سے بھاگ جائے گی اور اُس کی آزادی اور بچاو کے لیے کوشش کرے گی مگر اب جب کہ سارے ساتھی مارے جا چُکے تھے تو رومیسہ بھی خود کو سرینڈر کر رہی تھی وہ بھی صِرف اپنی بہن کے لیے۔ اُس کا دِماغ غصّے سے پھٹنے والا ہو گیا تھا۔ رومیسہ غدّاری پر اُتر آئی تھی۔


سب ہی رومیسہ کی طرف متوجہ تھے اُس نے پاس کھڑے سپاہی سے گن جھپٹی اور فائر کرنا چاہا مگر روحان اُس پہ جھپٹتا اُس سے گتھم گتھا ہو گیا اچانک ہی جوزف نے روحان کو دھکا دیا تو وہ لڑکھڑاتا پیچھے کو ہوا جوزف نے گن کا رُخ اُس کی طرف کرتے فائر کیا ٹھاہ کی آواز ہر طرف گونجی تھی جِس میں معصومہ کی چیخ بھی شامل تھی وہ پھٹی آنکھوں سے خون میں رنگے وجود کو دیکھتی بے ہوش ہوتی گِرنے لگی جب داؤد اُسے سنبھال کر گِرنے سے بچا گیا۔


****************


روحان جو ایک طرف کو لڑھکا تھا رومیسہ کے ساتھ جا ٹکرایا تھا جوزف نے اندھا دھند فائر کیے تھے جِسے وہ تو نہیں مگر رومیسہ دیکھ چُکی تھی اور وہ جو اُسے گِرنے سے بچانے کے لیے اُسے تھام چُکا تھا رومیسہ اُس کے گلے سے لگی لگی اُسے پلٹا چُکی تھی کہ اُس کی پُشت جوزف کے سامنے ہوئی تھی۔


جوف کی گن سے دو گولیاں نِکلتی رومیسہ کے جِسم کے آر پار ہوئی تھیں ایک گولی اُس کی کمر میں لگی تھی جب کہ دوسری گولی بائیں کندھے سے نیچے اُسے کی پُشت پہ لگتی دِل کے قریب لگی تھی اِس سے پہلے کہ وہ روحان کی بانہوں میں جھولتی نیچے گِرتی روحان اُس لیے نیچے بیٹھتا چلا گیا۔ ایک سپاہی نے جوزف کی حرکت پہ اُسے گولیوں سے بھون کر رکھ دیا تھا۔


داؤد معصومہ کو سنبھالے زمین پر بیٹھا گنگ سا رومیسہ کے خون آلود وجود کو دیکھ رہا تھا۔


"مم مُجھے خخ خوشی ہہ ہے کک کہ میں تت تُمہارے قق قریب ہو کے مم مر رہی ہہ ہوں۔ تت تُمہارے سس ساتھ جج جی تت تو نہیں پپ پائی ممم مگر دد دُعا کک کرتی ہہ ہوں کک کہ تُم ہہ ہم ہمیشہ خخو خوش رر رہو۔ میں بب بالکُل بب بھی اا اچھی نن نہیں ہوں جج جانتی ہہ ہوں۔ مم مگر کک کبھی ممم مُجھ سس سے نن نفرت مم مت کرنا۔ مم میری رر روح کک کو تت تکلیف ہو گی۔" وہ درد سے کراہتی اٹک اٹک کر روحان سے مُخاطب تھی۔


"نہیں بولو مت پلیز تُمہیں کُچھ نہیں ہو گا۔ ہم ابھی ہسپتال چلیں گے پلیز بولو مت تُمہیں درد ہو گا۔" وہ کہہ کر اُسے اُٹھانے لگا جب رومیسہ نے اپنا خون آلود ہاتھ سے اُس کا ہاتھ تھاما اور اُسے اُٹھنے سے روکا۔


"اُٹھو مم مت مم میرے پہ پاس آہ رر رہو پپ پلیز۔" رومیسہ کی آواز درد میں ڈوبی تھی۔


"کیوں آئی میرے سامنے۔ کیوں؟" روحان چیخ اُٹھا تھا۔


"ہا ہہ بب مم محبّت کک کرتی ہہ ہوں بب بہت بب بہت زز زیادہ۔ تت تُمہیں کک کیسے کک کُچھ ہہ ہونے دد دے سکتی تھی فف فرض تت تھا مم میرا تت تُمہیں بچانا آہ۔ بب بس اا اِتنا کک کہوں گی کک کہ جج جیسا عع عِشق مم میں نے کک کیا ہے کک کوئی اا ایسا عِشق نن نا کک کرے جج جو قِسمت مم میں ہہ ہی نہیں ہہ ہے آہ ہہ۔" رومیسہ کی درد بھری آواز میں نمی گُھلی تھی۔


"مم میرے پاس زز زیادہ وقت نن نہیں ہہ ہے۔ مُجھ مم معاف کر دد دینا مم میں نے تت تُمہاری وو وِشہ پہ گولی چلائی ہہ ہا و وہی لل لڑکیوں والی جج جیلسی آہ۔۔۔۔۔۔۔۔" رومیسہ نم آنکھوں سے درد برداشت کرتے تکلیف میں بھی مُسکراتی آنکھیں میچ گئی۔


"روحان جلدی کرو اُس کی بات مت سُنو اُسے اُٹھاو ہسپتال چلتے ہیں۔" داؤد معصومہ کے بے ہوش وجود کو اُٹھائے اُن کے پاس آ کے زمین پہ بیٹھا۔ جب کہ باقی سب ٹیم ممبرز اُس بہادر لڑکی کی ہمّت دیکھ رہے تھے جو بولنے کی کوشش میں اپنی آخری سانسوں کو مات دیئے ہوئے تھی۔


"نن نہیں خخ خُدا کے لل لیے. مم مُجھے مم مت لے جج جاؤ بس مم میری بب بات سُنو۔ دد داؤد! مم معصومہ کو آہ ہہ ہمیشہ خخ خوش رکھنا۔ اُسے کک کبھی تتت تکلیف مت دد دینا اا اور میرے کک کیے کو مم معاف کر دینا آہ۔ رر روحان؟ مم میں نے صِرف تت تُمہیں چچ چاہا ہے۔ مم مُجھ سس سے مم محبّت تو نہیں کک کرتے ہو تت تُم مم مگر پپ پلیز مُجھے اا اچھے لل لفظوں مم میں یاد کک کرنا اا اور کک کبھی بب بھولنا مت۔ اا اور مم مُجھے لل لاوارثوں کک کی طرح مم مت ددد دفنانا آہ ہہ آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ اپنے قریب بیٹھے داؤد کی گود میں بے ہوش پڑِ معصومہ کا ہاتھ تھام کر بولی جو اب تک ہوش میں نہیں آئی تھی اُس کی آنکھوں میں آنسووں کے ساتھ تکلیف بھی تھی معصومہ کا ہاتھ تھام کے اُس نے روحان کی آغوش میں آخری ہچکی لی تھی اور پِھر اُس کی آنکھیں بے نور ہو گئیں تھیں۔


روحان کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر رومیسہ کے بالوں میں گِرتا بے مول ہوا تھا۔ جبکہ داؤد معصومہ کو خود میں بھینچے اذیّت سے اُس لڑکی کے بے جان وجود کو دیکھ رہا تھا جِس نے اپنی زندگی میں نا جانے کیا کُچھ سہا تھا مگر اب شاید اُس کا حوصلہ جواب دے گیا تھا۔


روحان خود کو سنبھالتا رومیسہ کے بے جان وجود کو اُٹھائے باہر کی جانِب بڑھا۔ اُس کے ہیڈ نے اُسے روکنا چاہا مگر وہ اِس حالت میں نہیں تھا کہ اُن کی کوئی بات سُنتا۔ وہ رومیسہ کے بے جان وجود کو لیے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ چُکا تھا وہ فلائنگ نہیں کر سکتا تھا اِس لیے ہیڈ نے دوسرے پائلٹ کو ڈیوٹی سنبھالنے کو کہا جبکہ روحان رومیسہ کا ہاتھ تھامے دُکھ اور نم آنکھوں سے اُس کا چہرہ دیکھنے لگا تھا بے شک اُس کے دِل میں رومیسہ کے لیے کوئی فیلینگز نہیں تھیں مگر وہ معصومہ کا عکس تھی اور کُچھ دیر میں ہی اُسے معصومہ جِتنی ہی عزیز ہو گئی تھی۔


اُن کے جانے کے بعد داؤد نے سر پہ ہاتھ پھیرا جہاں اُسے درد محسوس ہو رہا تھا ہلکا ہلکا خون بھی رِس رہا تھا اُس نے جیب سے روماہ نِکال کے سر پہ باندھا تا کہ خون بہنا بند ہو جائے۔ کُچھ دیر گہرے سانس لینے کے بعد وہ معصومہ کو اُٹھائے باہر کی جانب بڑھا ہر طرف سنّاٹا چھایا ہوا تھا۔


وہ چلتا اپنی گاڑی کے پاس آیا اور معصومہ کو اپنے ساتھ کھڑا کرتے ایک ہاتھ سے دروازہ کھولنے لگا۔ معصومہ کو فرنٹ سیٹ پہ بِٹھا کے اُس نے بیلٹ باندھا اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتا گاڑی سٹارٹ کرتے کاٹیج کی جانب دوڑانے لگا۔


اُسے معصومہ کی طویل بے ہوشی اندیشوں میں مُبتلا کر رہی تھی وہ جلد از جلد کاٹیج پہنچنا چاہتا تھا تا کہ معصومہ کو کِسی طرح ہوش دِلا سکے۔ فاسٹ ڈرائیونگ کرتا وہ کاٹیج پہنچا تھا معصومہ کو بیڈ پہ لٹا کے وہ کچن سے پانی کا گلاس بھر لایا تھا معصومہ ہنوز بے ہوش تھی۔


اُس نے بیڈ پر معصومہ کے قریب بیٹھتے اُس کے اوپر پانی کا چِھڑ کاو کیا۔ معصومہ جھٹپٹائی اور نیم آنکھیں کھولتی خود پہ جُھکے داؤد کو دیکھنے لگی جِس کے چہرے پہ پریشانی کے تاثرات تھے وہ لاشعور سے شعور کا سفر طے کرتی ہوئی اُٹھ کر بیٹھی چہرے پہ وحشت زدہ سے تاثرات تھے۔


" دد داد وو وہ رر رومیسہ وو وہ ٹھیک ہے نا؟ اُسے کک کُچھ ہوا تو نہیں؟ مم مُجھے اُس کے پاس جانا ہے مُجھے اُس کے پاس لے چلیں پلیز۔ وو وہ کہاں ہے اِس وقت؟" معصومہ تیزی سے بولتی اُٹھنے کی کوشش کرنے لگی جب داؤد نے اُس کا بازو پکڑ کر اُس کا رُخ اپنی طرف کرتے اُسے اُٹھنے سے روکا۔

"میری بات سُنو! کُچھ نہیں ہوا سب ٹھیک ہے تُم ابھی آرام کرو تُمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔" داؤد نے اُسے لٹانا چاہا۔


"کُچھ ٹھیک نہیں ہے میری بہن کو گولیاں لگیں ہیں وہ میری آنکھوں کے سامنے مر رہی تھی اور آپ کو میری طبیعت کی پڑی ہے آپ کو میری فِکر ہے میری بہن کی نہیں۔ ہاں آپ کو کیوں فِکر ہو گی آپ تو چاہتے تھے نا کہ وہ مر جائے ہے نا۔" معصومہ ایکدم چیخ پڑی تھی داؤد کی رگیں غُصّے سے پھولنے لگیں تھیں۔


"میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ مر جائے۔ میں نے اُسے معاف کر دیا تھا۔ اب جب وہ اِس دُنیا میں نہیں ہے تو اِس میں میرا کیا قصور؟ مُجھے تُمہاری فِکر ہے کیونکہ محبّت کرتا ہوں میں تُم سے۔" داؤد نے اُسے خود میں بھینچ کر نرمی سے کہا وہ سمجھ سکتا تھا اُس کی فیلینگز۔ وہ اُس کا اِس دُنیا میں واحد سگا اور خونی رِشتہ تھا وہ اُس کی ذہنی حالت سمجھ رہا تھا اِسی لیے اُس کی سب باتوں کو نظر انداز کرتے وہ نرمی سے بول رہا تھا۔


معصومہ جو رومیسہ کے لیے پریشان ہو رہی تھی داؤد کی بات سُن کے ایک دم ساکت ہوئی تھی۔ کیا مطلب تھا اُس کی بات کا؟ کیا اُس کی بہن اُس کے ساتھ جینے سے پہلے ہی چلی گئی۔وہ اُس کی زندگی میں کِسی ہوا کے جھونکے کی طرح آئی تھی جو زرا سا اُسے چھو کے اپنا احساس دِلا کے واپس پتہ نہیں کِس جہاں میں چلی گئی تھی۔


"جج جھوٹ بول رہے ہیں جج جانتی ہوں میں۔ آپ اا اُس سے نفرت کرتے ہیں نا اِس لیے جھوٹ بول رر رپے ہیں کہہ دیں یہ جھوٹ ہے ووو وہ مُجھے اِتنی جلدی چھوڑ کر کیسے جا سکتی ہے ابھی تو میں نے اُس سے کوئی بات بھی نہیں کی تھی اچھے سے مِل بھی نہیں سکی تھی نا ہی اُسے محسوس کر سکی تھی ۔" معصومہ داؤد کا کالر جکڑتی روتی ہوئی بول رہی تھی مگر پھر اُس کی نظر اپنے خون آلود ہاتھ پہ پڑی تھی جانے کیوں اُسے اِس خون میں اپنے خون کی مہک محسوس ہوئی تھی۔


"اُس کی اِتنی ہی زندگی لِکھی تھی تُم اُس کے لیے دُعا کرو تُم رو گی تو اُسے تکلیف ہو گی۔" داؤد نے اُس کے بال سہلاتے کہا جو اُسکی کمر پہ بِکھرے پڑے تھے۔


" وہ بب بھی مُجھے چچ چھوڑ کر چلی گئی مم مُجھے کبھی دائمی خخ خوشیاں نہیں مِلتیں جج جب جب مُجھے لگتا ہے کہ مم میں اب سکون میں رر رہوں گی مم میرے نصیب میں بھی خخ خوشیاں ہیں تب تب کک کُچھ ایسا ہہ ہو جاتا ہے جج جِس سے میں پپ پِھر خود کو وہیں کک کھڑا پاتی ہوں جج جہاں ہر سو بب بس دُکھ اا اور تکلیفیں ہیں۔ اا ایسا کیوں ہوتا ہے مم میرے ساتھ؟ کک کب میری ذات کو سکون مِلے گا کک کب مُجھے مکمل خخ خوشیاں مِلیں گی؟" وہ اُس کے گِرد بازو پھیلائے ہچکیاں لیتی شِکوے کر رہی تھی۔


"ایسے نہیں کہتے۔ جو ہوتا ہے بہتر کے لیے ہوتا ہے ہر حال میں خُدا کا شُکر ادا کرنا چاہیے خُدا نے جو بھی کیا ہے اُس میں خُدا کی مصلحت ہو گی۔" داؤد نرمی سے اُسے سمجھا رہا تھا۔


"مم مُجھے اُسے دیکھنا ہے مم میں اُسے دد دیکھنا چاہتی ہوں مم مُجھے اُس کے پاس جانا ہے آپ لل لے جائیں گے ناں؟" وہ سِسکتے ہوئے سر اُٹھا کر بولی تو داؤد نے اُس کی بھیگی آنکھوں پہ اپنا لمس چھوڑا۔


"ہاں ہم آج ہی واپس جا رہے ہیں۔ بس تُم رونا بند کرو ورنہ رومیسہ تُمہیں ایسے روتا دیکھ کر ناراض ہو گی ناں؟" داؤد نے اُسے بہلایا۔


"مم میں نہیں روؤں گی مم میں اُسے ناراض نہیں کرنا چاہتی۔" وہ جلدی سے آنسو پونچھتی بولی۔


"تُم آرام کرو میں ٹِکٹس کرواتا ہوں واپسی کی۔" داؤد نے اُسے بیڈ پر لٹایا اور فون اُٹھاتا باہر آگیا۔


فون پہ ہی اُس نے دو ٹِکٹس بُک کروائی۔ واپس کمرے میں آ کے اُس نے الماری سے کپڑے نِکال کے بیگ میں رکھنے شروع کیے۔


ساتھ ساتھ وہ معصومہ پہ بھی نظر رکھے ہوئے تھا جو اُس کی طرف دیکھتی وقفے وقفے سے ہچکیاں بحر رہی تھی جیسے واقعی وہ چاہتی ہو کہ اُس کے رونے سے رومیسہ ناراض نا ہو جائے۔ اُس کے بیگ پیک کرنے تک معصومہ غنودگی میں جا چُکی تھی۔ رونے کی وجہ سے اُس کا سر بوجھل سا ہو رہا تھا کُچھ طبیعت بھی ڈل سی لگ رہی تھی۔ اُسے سیدھا کر کے لٹاتا وہ الماری سے کپڑے نِکالتا فریش ہونے چل دیا۔


فریش ہونے کے بعد وہ دروازہ لاک کرتا بیڈ پر معصومہ کے قریب لیٹا اور اُسے اپنے حِصار میں لیتا آنکھیں موند گیا۔ شام کو اُنہیں نِکلنا تھا اور ابھی وہ کُچھ دیر آرام کر لیتا تو اچھا تھا اُسے اپنے جِسم میں درد کی ٹیسیں اُٹھتی محسوس ہو رہی تھیں جِسم پہ اُن کے مارنے کی وجہ سے نیلے رنگ کے نیل پڑ گئے تھے۔ جو اب ٹھنڈ کی وجہ سے تکلیف دے رہے تھے۔


*****************


رومیسہ کی باڈی کو تابوت میں ڈالا گیا تھا روحان نے اپنے لیڈر سے کہا تھا کہ وہ اُس کی کزن ہے جِسے پھنسایا گیا ہے وہ کم عُمر تھی اِسی لیے اُن کی باتوں میں آ گئی اور اب جبکہ وہ زندہ نہیں ہے تو وہ نہیں چاہتا کہ اُس کی لاش کی بے حُرمتی ہو۔ اُن سے اِجازت مِلنے پر وہ رومیسہ کی باڈی کو گھر لے جانے کی تیاری کر رہا تھا اُس نے داؤد کے نمبر پر ٹیکسٹ کر دیا تھا کہ وہ رومیسہ کی باڈی کو اپنے گھر لے جارہا ہے اِسی لیے معصومہ کو لے کے سیدھا وہیں آ جائے۔


اِس وقت وہ پلین میں بیٹھا رومیسہ کی گُزری زندگی کے بارے میں سوچ رہا تھا معصومہ کی طرح کِتنی معصوم ہو گی وہ بھی مگر حالات کی تلخیوں اور سختیوں نے اُسے کِتنا بے حِس اور نڈر بنا دیا تھا۔ اگر وہ اُن کے پاس ہوتی تو آج اُن کے ساتھ ہنسی خوشی اپنی زندگی گُزار رہی ہوتی۔


رومیسہ کو سوچتے اُس کی آنکھوں کے کنارے نم ہوئے جِنہیں اُس نے ہاتھ بڑھا کر صاف کیا۔ کُچھ گھنٹوں کا سفر طے کر کے وہ ائیر پورٹ پہ رومیسہ کے تابوت کے ساتھ اُتر چُکا تھا رات کے تین بج رہے تھے جب وہ گھر پہنچا۔ دروازہ رفیق صاحب نے کھولا تھا وہ روحان کے افسردہ چہرے اور نم آنکھوں کو دیکھتے پریشان ہوئے تھے مگر پِھر جب اُن کی نظر تابوت پہ پڑی تو اُن کا دِل دہلا تھا۔


اُس کے ساتھ آئے چار سپاہی تابوت کو لاونج میں چھوڑتے واپس جا چُکے تھے۔ رفیق صاحب پریشانی اور تفکر سے روحان کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھے لگے۔ مگر اُس کے جواب نا دینے پر وہ خود تابوت کی جانب بڑھے اور اوپر لگے شیشے میں میت کا چہرہ دیکھ کے دھک رہ گئے۔


"میری بچی مع معصومہ! نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ رر روحان یی یہ کیا ہے؟ کک کیسے نن نہیں۔" رفیق صاحب روحان کا گریبان جھنجھوڑتے بے ربطگی سے بولنے لگے۔


اُن کی بُلند آواز سُن کر فرزانہ بیگم اور مشعل بھی اپنے کمرے سے نِکل آئیں تھیں اِس وقت روحان کو جُھکے سر اور ستے ہوئے چہرے کے ساتھ دیکھ کر اُن کا دِل انجانے خدشات سے دھڑکا تھا۔ پِھر اپن کی نظر تابوت پہ پڑی تھی۔


"رر روحان یی یہ کک کون ہے؟" فرزانہ بیگم کی سرسراتی آواز لاونج میں گونجی تھی۔


"معصومہ جہانگیر کی بہن رومیسہ جہانگیر ہے یہ۔" روحان کی آواز سب پہ دھماکے کی طرح لگی تھی۔


"رر رومیسہ کون؟" مشعل نے حیرت سے پوچھا تھا۔


جواب میں روحان نے اُنہیں صِرف یہ بتایا تھا کہ روحان کو بچاتے اُسے گولیاں لگیں ہیں اُس نے رومیسہ کی پِچھلی زندگی کے بارے مِن اُنہیں نہیں بتایا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اُسے بُرے لفظوں میں یاد کرے۔ فرزانہ بیگم کی آنکھیں بھیگیں تھیں جِس لڑکی کی بہن کو وہ ساری عُمر کوستی آئیں تھیں اُسی نے آج اُن کے بیٹے کی جان بچائی تھی۔


وہ روتی ہوئی روحان کے گلے لگیں تھیں۔ مشعل کی آنکھیں بھی نم ہوئیں تھیں جبکہ رفیق صاحب روتے ہوئے تابوت کو چھونے لگے تھے اُن کے دِل میں پچھتاوے ناگ کی صورت سر اُٹھانے لگے تھے کیا تھا وہ لڑ جھگڑ کر معصومہ کے ساتھ اُسے بھی اپنے پاس لے آتے جانے کیسی زندگی گُزاری تھی اُس نے۔


روحان اُنہیں چھوڑتے کمرے کی جانب بڑھا تھا کمرہ بند کر کے اُس نے فون نِکال کے اُس نے داؤد کا نمبر ڈائل کیا۔ وہ لوگ ابھی راستے میں تھے۔ روحان نے اُسے سمجھا دیا کہ وہ رومیسہ کے ماضی کی بابت کِسی کو نا بتائے کہ وہ کہاں تھی اُس نے کیسی زندگی گُزاری۔


اُس نے اہم باتیں سمجھانے کے بعد فون بند کر دیا۔ وہ باہر آیا تو چار بج چُکے تھے رفیق صاحب پھٹتے دِل کے ساتھ اپنے رِشتے داروں کو اِطلاع دے رہے تھے۔ فرزانہ بیگم نم آنکھوں سے رومیسہ کی میّت کے پاس بیٹھی تھیں۔


****************


داؤد معصومہ کو ساتھ لے کے جلد ہی واپسی کے لیے نکلا تھا اُس کی روحان سے بات ہوئی تھی اور وہ اُس کا نُکتہ نظر سمجھ بھی گیا تھا اِس لیے اُس نے معصومہ کو بھی سمجھا دیا تھا جِس کی رو رو کر آنکھیں سوجھ گئیں تھیں یی راز اب صِرف اُن تینوں کے عِلاوہ خُدا ہی جانتا تھا کہ رومیسہ کی پِچھلی زندگی کیسی تھی۔


وہ صُبح کے چھ بجے واپس پہنچے تھے معصومہ بغیر کِسی کی جانب دیکھے بس تابوت کے پاس بیٹھ گئی تھی سب رِشتہ دار آنا شروع ہو گئے تھے جو بھی آتا پہلے سوال کرتا بعد میں افسوس۔ معصومہ سب سے بے نیاز بس خاموش سی بیٹھی بے آواز آنسو بہا رہی تھی۔


کُچھ دیر بعد میّت کو غُسل دے دیا گیا تھا اور پِھر اُسے چارپائی پہ پھولوں کی مہکتی خوشبو کے درمیان لٹایا گیا تھا۔ جو بھی آتا معصومہ طرح نظر آنے والی اُس لڑکی کی جوان موت پہ افسوس کرتا اور ایک طرف بیٹھ جاتا۔


آٹھ بجے کے قریب سب حویلی والے بھی چلے آئے تھے داؤد اُن کو فون کر کے اِطلاع دے چُکا تھا معصومہ جو فرزانہ بیگم کے گلے لگ کر نہیں مِلی تھی نا اُن کے گلے لگ کے روئی تھی۔ اب حمدہ بیگم کے گلے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی تھی۔ داؤد بے بسی سے امّو جان کو اُسے سنبھالنے کا اِشارہ کر کے باہر مردوں میں چلا گیا تھا۔ معصومہ کِسی کے سنبھلنے میں نہیں آ رہی تھی وہ جو پہلے بس خاموشی سے آنسو بہا رہی تھی اب ہذیانی انداز میں چیخنے لگی تھی۔


کلمے کے سائے میں رومیسہ کا جنازہ اُٹھا تو معصومہ بے قابو ہو گئی تھی وہ بے بسی سے خود کو ماہین کی گرفت سے چُھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ بے ہوش ہو کے گِرنے کو تھی جب ماہین اور مشعل اُسے تھام کے اندر کمرے میں لے گئیں تھیں۔ تحتیم اور حیدر ابھی واپس نہیں آئے تھے اور نہ ہی وہ اِس بارے میں کُچھ جانتے تھے۔


حمدہ بیگم اپنی بہو کی یہ حالت دیکھتی پریشان ہو اُٹھیں تھں۔ جبکہ فاطِمہ جو ایک کونے میں بیٹھی سب دیکھ رہی تھی مُطمئن سی تھی جیسے اُسے معصومہ کی حالت لُطف دے رہی ہو مگر اُسے افسوس بھی تھا کہ وہ لڑکی جو ویٹر کے روپ میں اُسے مِلی تھی اُس نے اب تک معصومہ کو مارا کیوں نہیں؟ وہ رومیسہ کا چہرہ نہیں دیکھ سکی تھی کیونکہ رومیسہ اُس وقت ویٹر کے روپ میں تھی۔


فرزانہ بیگم اپنے دِل میں شرمندگی محسوس کر رہیں تھیں ساری عُمر انہوں نے معصومہ کو بس کوسا یا ڈانٹا ہی تھا اور آج جب وہ اُس کی بہن کے احسان تلے دبی تھیں تو اُنہیں معصومہ کی تکلیف کا اندازہ ہوا تھا اور جب اُنہوں نے معصومہ کو گلے لگانے کا سوچا تھا تو معصومہ بالکُل اجنبیوں کی طرح اُن سے مِلی تھی۔


ہوش میں آنے کے بعد معصومہ نے بس ایک ہی رٹ لگائی تھی کہ اُسے یہاں نہیں رہنا اُسے یہاں سے جانا ہے وہ بار بار امّو جان کی مِنتیں کر رہی تھی اُس نے ایک بار بھی رفیق صاحب یا روحان کی جانب نہیں دیکھا تھا نا ہی وہ فرزانہ بیگم اور مشعل کی طرف متوجّہ تھی وہ صِرف اپنی امّو جان کی طرف متوجہ تھی جو اُسے دِلاسہ دے رہیں تھیں کہ وہ ابھی یہاں سے جائیں گے۔


مرد سبھی نمازِ جنازہ اور کفن دفن سے فارِغ ہو کے آئے تو معصومہ سِکندر صاحب کی طرف لپکی۔


"بب بابا مُجھے مُجھے یہاں نہیں رہنا۔ مم مُجھے یہاں سے لے جائیں پلیز۔ مم میرا دم گگ گُھٹتا ہے یہاں۔ مم مُجھے لے جائیں۔" وہ روتی سِسکتی سِکندر صاحب کے آگے ہاتھ جوڑتی کہنے لگی وہ پریشانی سے اُسے دیکھنے لگے۔


"ہم جا رہے ہیں بیٹا بس تھوڑی دیر اور۔ پِھر ہم یہاں سے چلیں گے۔" اُنہوں نے اُسے بہلانا چاہا۔


"نن نہیں مم مُجھے ابھی ابھی جج جانا ہے مم مُجھے جج جانا ہہ ہے دد داؤد مم مُجھے لل لے جج جائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ ہذیانی انداز میں بولتی ایک دم چکرا کے گِرنے لگی جب داؤد نے آگے بڑھ کر اُسے تھام لیا وہ بے ہوش ہو چُکی تھی۔


"اِسے کمرے میں لے جائیں داؤد بیٹا!" حمدہ بیگم نے داؤد سے کہا تو وہ سر ہلاتا اُسے اُٹھائے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔


"میرے خیال سے ہمیں اُسے یہاں سے لے جانا چاہیے۔ اُس کے دماغ پہ گہرا اثر پڑا ہے اپنی بہن کو کھویا ہے اُس نے۔ شاید ماحول بدلے تو وہ کُچھ بہتر محسوس کرے۔" سِکندر صاحب نے رفیق صاحب سے کہا تو وہ سر اثبات میں ہلا گئے۔


وہ جانتے تھے کہ معصومہ ییاں کیوں نہیں رہنا چاہتی اُس سے اِتنی بڑی حقیقت چُھپائی تھی اُس کے ماموں نے تو وہ کیسے اُنہیں معاف کرتی۔ چار بجے کے قریب وہ سب لوگ حویلی کے لیے نِکلے تھے داؤد کے ساتھ گاڑی میں حمدہ بیگم اور زینب بیگم تھیں جو معصومہ کو سنبھالے ہوئے تھیں جبکہ باقی سب دوسری گاڑیوں میں تھے۔


****************

معصومہ کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا داؤد اُسے اپنے کمرے میں لے گیا تھا یاسمین بیگم اور فاطِمہ اپنے گھر چلیں گئیں تھیں۔


حمدہ بیگم اور زینب بیگم معصومہ کے سرہانے بیٹھیں تھیں جبکہ داؤد ڈاکٹر کو بُلانے کے لیے گیا تھا۔ کُچھ دیر بعد وہ ڈاکٹر کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوا ڈاکٹر نے باقی سب کو باہر جانے کا اِشارہ کیا اور خود معصومہ کا پراپر چیک اپ کیا۔


کُچھ دیر بعد وہ دروازہ کھول کر باہر آئیں تو داؤد جلدی سے اُن کی طرف بڑھا۔


"پیشنٹ کِسی چیز کا سٹریس لے رہی ہیں وہ مینٹلی طور پہ ٹھیک نہیں ہیں اُنہیں ٹینشن فری رکھیں اِس حالت میں اُن کا سٹریس لینا ٹھیک نہیں ہے۔" ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ لہجے میں کہا۔


"ایسی حالت مطلب؟ کیا ہوا ہے میری وائف کو؟" داؤد نے بے چینی سے پوچھا۔


"مُبارک ہو آپ باپ بننے والے ہیں۔ لیکن آپ کی مِسز بہت ویک ہیں اُن کی ڈائٹ کا پراپر خیال رکھیں اور اُنہیں ٹینشن والے ماحول سے دور رکھیں ورنہ کمپلیکیشنز ہو سکتی ہیں کیونکہ آپ کی مِسز کی عُمر بھی ابھی کم ہے۔" ڈاکٹر نے کہا تو سب کے چہروں پہ الوہی سی خوشی چھا گئی۔


"تھینکیو ڈاکٹر! میں پوری کوشش کروں گا آپ کا بہت شُکریہ۔ لیکن اُسے ہوش کیوں نہیں آ رہا؟" داؤد کے لہجے میں خوشی و سرشاری کے ساتھ فِکرمندی کے آثار تھے۔


"اُنہیں کِسی بات کا صدمہ لگا ہے یا پھر کسی قِسم کا سٹریس لے رہیں ہیں جِس کی وجہ سے اُن کا ذہن پراپرلی کام نہیں کر پارہا۔ اِس لیے میں کہہ رہی ہوں کہ آپ کو اُن کا اچھے سے دھیان رکھنے کی ضرورت ہے۔" ڈاکٹر نے کہا تو داؤد نے سر ہلا دیا۔

"آئیے میں آپ کو باہر تک چھوڑ دیتا ہوں۔" داؤد نے کہا تو وہ سر ہلاتیں باہر کی جانب چل دیں۔


حمدہ بیگم اور زینب بیگم اب واپس معصومہ کے پاس جا بیٹھیں تھیں اُن کے چہرے سچی خوشی کا غماز تھے۔ کئی سالوں بعد اِس گھر میں ننھی ننھی چہکاریں گونجنے والیں تھیں خوش کیوں نا ہوتے وہ۔


داؤد ڈاکٹر کو چھوڑ کر واپس آیا تو حمدہ بیگم نے اُس کا ماتھا چومتے اُسے مبارکباد دی۔ زینب بیگم نے بھی اُسے گلے لگاتے مبارکباد دی۔ خوشی سے داؤد کا چہرہ سُرخ پڑ رہا تھا جانے معصومہ کا کیا ری ایکشن ہوتا؟


"امّو جان! چچی جان! آپ لوگ تھک گئے ہوں گے رات بھی کافی ہو گئی ہے آپ لوگ جا کے آرام کریں میں معصومہ کے پاس ہی ہوں۔" داؤد نے کہا تو وہ سر ہلاتیں اپنے اپنے کمرے کی جانب چل دیں۔

داؤد آہستہ سے چلتا معصومہ کے پاس آیا اور جُھک کر اُس کے ماتھے پہ بوسہ دیا۔


"اِتنا خوبصورت تحفہ دینے کا بہت شُکریہ۔ میں رب پاک کا جِتنا شُکریہ کروں کم ہے جِس نے مُجھے تُم جیسے انمول ہیرے سے نوازا۔ اُس نے معصومہ کا ہاتھ سہلاتے کہا پِھر اُس کے ہاتھ کی پُشت پہ اپنا لمس چھوڑتے اُٹھ کھڑا ہوا اور الماری سے کپڑے نِکالنے لگا جب اُس کی نظر ایک باکس پہ پڑی وہ گِفٹ تھا جو آن نے اُن کے ولیمے پہ دیا تھا ولیمے کے فوراً بعد تو وہ لوگ مری چلے گئے تھے جِس وجہ سے وہ دیکھ ہی نہیں پائے باکس کو بیڈ پہ رکھتا وہ فریش ہونے چلا گیا۔


فریش ہو کے اُس نے بال سنوارے اور پِھر معصومہ کے قریب بیٹھتا باکس کھولنے لگا۔ باکس میں کُچھ کارڈز، چارٹ پیپر اور ایک دو سکیچ بُک بھی تھیں۔ اُس نے ایک ایک کر کے سارے چارٹ پیپرز، کارڈز اور سکیچ بُک دیکھ ڈالیں۔ ہر ایک جگہ اُس چہرے کی پینٹنگ تھی کہیں آنکھیں، کہیں آدھا چہرہ اور کہیں پورا۔


کارڈز کے اوپر کُچھ شعر بھی لِکھے تھے اُس نے ایک ایک کر سارے کارڈز پڑھے۔ ہر سکیچ کے ایک طرف نظمیں غزلیں لِکھی ہوئیں تھیں جو لِکھنے والے کے دِل کا احوال بیان کر رہیں تھیں ہر سکیچ کے نیچے معصومہ جہانگیر کے سائن اور تاریخ لِکھی گئی تھی۔ وہ حیرت اور ستائش سے معصومہ کی مہارت دیکھتا رہ گیا۔ وہ ابھی یہ سب دیکھ ہی رہا تھا جب معصومہ ہوش میں آنے لگی وہ ساری چیزیں ایک سائیڈ پہ کرتا اُس کی طرف متوجّہ ہوا جو اب بیٹھ کر سامنے پڑے چارٹ پیپرز اور سکیچ بُکس دیکھ رہی تھی کہا اُس نے کُچھ بھی نہیں تھا بس خاموشی سے آنسو بہتے اُس کے گالوں پہ اپنا راستہ بنا رہے تھے۔


"کیا حالت بنا لی ہے تُم نے اپنی؟ رومیسہ ہوتی تو اُسے کِتنا دُکھ ہوتا۔ رو کے تُم اُس کی روح کو تکلیف دے رہی ہو۔ پلیز رو مت تُمہارے آنسو میرے دِل پہ گِرتے ہیں۔" داؤد اُسے اپنے حِصار میں لیتا کہہ رہا تھا۔


"وہ کیوں اِتنی جلدی چلی گئی؟ کُچھ پل تو میرے ساتھ گُزارتی۔ اِتنی تکلیفیں اُٹھائیں اُس نے۔ کبھی کوئی خوشی اُسے نصیب نہیں ہوئی۔ اب تو تھوڑی سی خوشیاں تھوڑی سی مہلت مِل جاتی اُسے کہ وہ میرے ساتھ کُچھ خوشی کے پل گُزار لیتی۔" معصومہ نے ایک ہاتھ سے آنسو صاف کرتے کہا۔


"جِس راہ پہ اُسے اُس کی قِسمت لے گئی تھی نا؟ اُس سے وہ چاہ کے بھی واپس نہیں پلٹ سکتی تھی۔ وہ پلٹنا بھی چاہتی تو اُسے زبردستی کھینچ کر اُسی راستے پہ لے جایا جاتا۔ وہ لوگ اُسے مار دیتے کیونکہ وہ اُن کے رازوں سے واقف تھی۔ ایسے لوگ کِسی کو زندہ نہیں چھوڑتے۔ تُم بس اُس کی مغفرت کی دُعا کرو کیونکہ اب ہمارے چاہنے سے بھی وہ واپس نہیں آ سکتی۔" داؤد نے اُس کے سر پہ تھوڑی ٹکاتے کہا۔


" کُچھ لوگ کِتنی جلدی دُنیا سے چلے جاتے ہیں نا؟" معصومہ نے افسردگی سے کہا۔


"ہاں کیونکہ وہ اِتنی ہی زندگی لِکھوا کر آئے ہوتے ہیں۔" داؤد نے کہا تو معصومہ نے کوئی جواب نا دیا بس خاموشی سے اس کے گِرد بازو حمائل کیے بیٹھی رہی۔


"اب تُمہیں اپنا بہت خیال رکھنا ہے بھر پور غذا لینی ہے کوئی بہانہ نہیں کرنا اور مُکمل ریسٹ کرنا ہے کوئی ٹینشن نہیں لینی۔ میری ہدایات پہ عمل کرو گی تو بے بی بالکُل فِٹ ہو گا۔" داؤد کو سمجھ نا آیا کہ اُسے کیسے بتائے کہ وہ ماں بننے والی ہے اِس لیے بغیر سوچے سمجھے ہدایات دینا شروع کر دیں۔


"کِس کا بے بی داؤد؟" معصومہ نے اُس کے ساتھ لگے لگے ہی پوچھا۔


"معصومہ اور داؤد کا بے بی۔" داؤد نے نرمی سے مُسکرا کر کہا۔


"اوہ اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا؟ کِس کا بے بی؟ مم معصومہ یی یعنی مم میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟" وہ بے دھیانی سے بولی مگر پِھر جب بات سمجھ آئی تو چونک کر سیدھی ہوتی داؤد کی گہری بولتی نظروں سے سُرخ ہوتی بات ادھوری چھوڑ گئی۔


"جی ہاں آپ یعنی کہ ہم دونوں ایک پیارے سے بے بی کے ماما بابا بننے والے ہیں۔" داؤد نے اُس کی پیشانی پہ عقیدت بھرا لمس چھوڑتے کہا۔


"مم میرا بب بےبی مم میرا اپنا خخ خون، سس سچ؟" معصومہ بے یقینی سے پوچھنے لگی تو داؤد نے اثبات میں سر ہلاتے اُسے خود میں بھینچا۔


وہ اُس کے حصار میں قید خاموشی سے آنسو بہانے لگی مگر اب کی بار آنسو خوشی کے تھے کہ اُس کا اب اپنا ایک خونی رِشتہ ہو گا جو صِرف اُس کا ہو گا اُس کے وجود کا حِصّہ۔


"بچّے پسند ہیں نا تُمہیں؟" داؤد نے ہوچھا تو وہ گُلال ہوتی اُس کے سینے میں منہ چُھپانے لگی

"ہہ ہاں۔" وہ ہکلا کر گویا ہوئی۔


"تو پِھر کیا خیال ہے ایک درجن بچّے کافی ہیں ہمارے لیے؟ یا اور کا پلان کریں؟" داؤد نے چہرے پہ سنجیدگی سجائے کہا۔


"بب بارہ بب بچّے؟ اا اِتنے بچّے کک کیا کرنے ہیں؟" معصومہ بوکھلا تی پوچھنے لگی۔


"ارے ہم گیارہ بچّوں کی کرکٹ ٹیم بنائیں گے اور بارہویں کو ایمپائر بنا دیں گے؟ کیسا؟ خیر جو بھی ہے مُجھے تو بس ایک درجن بچّے چاہیے نا اِس سے کم نا اِن سے زیادہ۔" داؤد کے دو ٹوک لہجے پر وہ منہ کھولتی اُس کا چہرہ دیکھنے لگی جہاں شرارت کا نام و نشان تک نا تھا۔ بے اختیار ہی اُس کی بھوری کانچ سی آنکھوں سے دوبارہ آنسو گِرنے لگے۔


"آپ اب بھی مُجھ سے نن نفرت کرتے ہیں نا؟ اِسی لیے بارہ بچّے مانگ رہے ہیں تا کہ میں مر جاؤں اور آپ کی جان چھوٹ جائے مُجھ سے۔ سب پتہ ہے مُجھے۔" معصومہ نے ہاتھ کی پُشت سے آنکھ رگڑتے کہا تو وہ بے اختیار ہی آگے ہوتا اُس کی نم آنکھوں پہ بوسہ دے گیا۔


"تُم یہ بات چھوڑ دو نا کہ میں کبھی تُم سے نفرت کرتا تھا بس یہ یاد رکھو کہ داؤد سِکندر معصومہ داؤد سِکندر سے بہت محبّت کرتا ہے۔" داؤد نے اُس کی ناک سے ناک رگڑتے کہا۔


"ہیروئن کے منہ سے مرنے کی بات سُن کر ہیرو اُس کے منہ پہ ہاتھ رکھتا ہے اور کہتا ہے خبردار اگر دوبارہ مرنے کی بات کی تو ورنہ تُمہاری جان لے لوں گا میں۔" معصومہ نے ُاسے گھورتے کہا تو داؤد کا زندگی سے بھر پور قہقہہ کمرے میں گونجا۔


معصومہ نے بے اختیار اُس کے منہ پہ ہاتھ رکھتے اُس کی آواز کا گلا گھونٹنا چاہا مگر داؤد کی آواز کافی بُلند تھی جو اُس کے ہاتھ رکھنے پر بھی بند نہیں ہوئی تھی۔


"یہ کوئی فِلم نہیں ہے جِس میں میں یہ ڈائیلوگ بولوں۔ بہت پریکٹیکل اِنسان ہوں میں۔ خیر میں تُمہارے منہ پہ ہاتھ رکھ کے کہہ رہا ہوں میری جان اگر آئیندہ تُمہارے منہ سے میں نے مرنے کی بات سُنی تو اپنی اور تُمہاری جان ایک کر دوں گا میں۔" داؤد نے اپنا ہاتھ اُس کے منہ پہ رکھتے کہا تو وہ بے اختیار اُس سے لپٹ گئی کُچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔


" یہ بتاؤ؟ تُم کیا شروع سے مُجھ پہ قبضہ جمانے کا سوچتی تھی؟" داؤد نے بات بدلتے کہا۔


"مم مطلب؟" معصومہ نے اُلجھ کر پوچھا۔


"مطلب یہ کہ یہ جو تُم میرے سکیچیز بناتی تھی میری آنکھیں بناتی تھی میرے لیے اِتنے رومینٹک اشعار اور غزلیں لِکھتی تھی کیا یہ سب مُجھے امپریس کرنے کے لیے تھا؟ یا مُجھ پہ اپنا جادو چلانے کے لیے؟" داؤد نے مُسکراہٹ دباتے کہا تو وہ اُس کی پناہوں میں چُھپنے لگی۔


"میں ہمیشہ آپ کو خواب میں دیکھتی تھی آپ کی گہری سمندر سی آنکھیں جب بھی خواب میں دیکھتی تھی تو اِنہیں چھونے کا دِل کرتا تھا مگر آپ مُجھے دھتکار کر چلے جاتے تھے۔ خواب میں بھی آپ مُجھ اپنے قریب نہیں آنے دیتے تھے تب بھی آپ مُجھ سے صِرف نفرت کرتے تھے۔" معصومہ کھوئے کھوئے لہجے میں بتا رہی تھی۔


"خواب میں میں نے تُمہیں دھتکارا اِس کے لیے معذرت۔ مگر اب چھو لو اب تو صِرف تُمہارا ہوں کوئی پابندی نہیں ہے۔" داؤد نے کہا تو وہ سیدھی ہو کر اُسے دیکھنے لگی داؤد مُسکرایا تو وہ جِھجھکتے اُس کی پلکوں کو چھونے لگی۔ پِھر جانے من میں کیا سمائی کہ وہ تھوڑا اونچی ہوتی اُس کی آنکھوں پہ جُھکتی باری باری دونوں آنکھوں پہ اپنا لمس چھوڑ گئی۔ اُس کے لمس کی نرمی محسوس کرتے داؤد کُھل کر مُسکرایا اور اُس کے سر کی جانب دیکھا جو نیچے جُھکا کر وہ اُس سے اپنا چہرہ چُھپا گئی تھی۔


وہ کُچھ دیر اُس کے بالوں میں اُنگلیاں چلاتا اُن کی نرمی محسوس کرتا رہا۔ پِھر اپنے سینے پہ معصومہ کی سانسوں کی گرمائش محسوس کرتا اُسے اپنے حصار میں قید کیے لیٹتا سونے کی کوشش کرنے لگا وہ اُس کی انگلیوں کا لمس اپنے سر میں محسوس کرتے کب نیند میں گئی تھی اُسے پتہ ہی نہیں چلا تھا۔


********************


اگلے دِن داؤد نے اُسے اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کروایا تھا اُس کی میڈیسن بھی خود اپنی نگرانی میں کھلائی تھی جو کہ اُس نے ناک بھوں چڑھاتے کھائی تھی۔ سب بڑوں نے اُس کو مبارکباد دیتے دُعاوں سے نوازا تھا۔ گھر میں سب ہی بہت خوش تھے فاطِمہ کو یہ بات پتہ چلی تو وہ کڑھ کر رہ گئی تھی اُس کا ذہن کوئی جال بُننے لگا تھا اور وہ کیا تھا یہ تو بس خُدا ہی جانتا تھا۔


داؤد اب واپس شہر جانا چاہ رہا تھا تا کہ آفس کا کام دیکھ سکے مگر امو جان نے کہا کہ معصومہ کو یہی چھوڑ جائے جِس پہ وہ راضی نہیں تھا اب وہ ایک پل بھی اُسے اپنی نظروں سے دور نہیں رکنا چاہتا تھا۔ لیکن وہ آفس کا کام بھی ایسے نہیں چھوڑ سکتا تھا چارو ناچار وہ معصومہ کو یہاں چھوڑنے پر راضی ہو گیا تھا اور اب چار دِن بعد وہ واپس جانے والا تھا۔ آن کی معصومہ سے بات ہو چُکی تھی وہ معصومہ سے سب کُچھ پوچھ رہی تھی کہ رومیسہ کون تھی۔


معصومہ نے اُسے بس یہی بتایا تھا کہ وہ اُس کی جُڑواں بہن تھی جو پھوپھو کے پاس رہتی تھی اور روحان کو بچاتے اُس کی ڈیتھ ہو گئی وہ اپنی بہن کے ماضی کو کِسی کے سامنے دُہرانا نہیں چاہتی تھی۔ خالہ بننے کی خبر سُن کر آن نے کہا تھا کہ وہ اُس سے مِلنے آئے گی جِس پہ معصومہ بس ہمم کر کے رہ گئی تھی۔


سب گھر والوں نے معصومہ کو ہتھیلی کا چھالہ بنا رکھا تھا کوئی اُسے ہِل کر پانی بھی نا پینے دیتا۔ وہ سب کے ہیار پہ کبھی کبھی خوشی سے رو پڑتی اور پِھر داؤد سے ڈانٹ کھاتی۔


داؤد نے سُن رکھا تھا کہ جو عورت پریگننٹ ہوتی ہے اُسے بہت وومیٹنگ ہوتی ہے مگر معصومہ کو ایسا کُچھ نہیں ہوا تھا جِس پہ وہ پریشان ہوتا ڈاکٹر سے رابطہ کر چکا تھا کہ معصومہ کو وومیٹنگ کیوں نہیں ہوتی جِس پہ ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ ضروری نہیں کہ ہر عورت کو وومیٹنگ ہو کُچھ عورتوں کو وومیٹنگ نہیں بھی ہوتی اِس کا ماں اور بچّے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ڈاکٹر کا جواب سُن کر داؤد کو تھوڑا سکون ہوا تھا کہ چلو اُس کی معصومہ کو اب وومیٹنگ جیسے مسلے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔


*******************


روحان رفیق صاحب اور فرزانہ بیگم سے اپنی اور وِشہ کی شادی کے بارے میں بات کر چُکا تھا وہ اُنہیں یہ بھی بتا چُکا تھا کہ وِشہ آن کی بہن یے اور اُسی کی کولیگ ہے۔ فرزانہ بیگم اور رفیق صاحب کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ پہلے کی بات ہوتی تو شاید فرزانہ بیگم نا کر دیتیں مگر اب اُن کا دِل معصومہ کے لیے صاف ہوا تھا تو ہر چیز اچھی لگنے لگی تھی۔


وِشہ انجم صاحب کو سب بتا چُکی تھی اُنہیں کوئی اعتراض نہیں تھا جب زندگی اُن کی بچیوں نے جینی تھی تو وہ کیوں اُن کی پسند کو رد کرتے اُن کے ہاں کرتے ہی وِشہ نے روحان کو بتا دیا تھا جِس پہ وہ خوش ہوتا رفیق صاحب کو بتا چُکا تھا اور اُنہوں نے باقاعدہ رِشتہ لینے جانے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔


وِشہ اب ٹھیک تھی رفیق صاحب فرزانہ بیگم اور مشعل کے ساتھ وِشہ کے گھر گئے تھے جہاں پہ اُن کا شاندار اِستقبال ہوا تھا۔ لنچ اُنہوں نے وِشہ کے گھر والوں کے ساتھ ہی کیا تھا۔ مشعل تو اآن اور وِشہ کے ساتھ بیٹھی باتیں کرتی رہی تھی جبکہ سب بڑے آپس میں شادی کے متعلق ڈِسکس کرنے لگے تھے دونوں گھرانوں کو کوئی اعتراض نہیں تھا تو انجم صاحب نے سوچا تھا کہ اب جلد شادی کر دی جائے کیونکہ وجدان کی ماما آمنہ بیگم اب جلد از جلد بارات لے کے آنا چاہتی تھیں۔


رفیق صاحب بھی اُن کی بات پہ متفق تھے۔ اُنہوں نے اِسی مہینے کے آخر کی ڈیٹ فِکس کی تھی اور انجم صاحب یہی ڈیٹ آن کی شادی کی بھی دینے والے تھے۔ ایک بھرپور دِن وہاں گُزار کر وہ لوگ واپس ہوئے تھے۔ مشعل کو وِشہ بہت پسند آئی تھی۔ فرزانہ بیگم بھی خوش تھیں آخر کو اُن کے یٹے کی شادی ہونے والی تھی۔


شادی کی خبر سُن کے روحان کا چہرہ کِھل اُٹھا تھا۔ رفیق صاحب بظاہر تو خوش تھے مگر اندر سے وہ معصومہ کے لیے پریشان تھے جِس سے اب رابطہ نا ہونے کے برابر تھا وہ اُن کا فون بھی نہیں اُٹھاتی تھی۔ رفیق صاحب داؤد سے ہی اُس کی خیریت دریافت کر لیتے تھے۔ روحان بھی معصومہ کو منانے کا اِرادہ کر چُکا تھا اور اب وہ شادی سے پہلے ہی معصومہ کو اپنے گھر لے آنے والا تھا اُسے یقین تھا کہ داؤد کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔


******************


وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ یاسمین بیگم تو اُن کی حویلی تھیں جبکہ فاطِمہ اپنے کمرے میں تھی فاطِمہ کی بھابھی کچن میں کُچھ کام کر رہیں تھیں جبکہ سعد اور احمر گھر پر نہیں تھے۔ وہ بغیر بھابھی کو بتائے فاطِمہ کے کمرے کی جانب بڑھا۔


وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو وہ کوئی کِتاب پکڑے بیٹھی تھی۔ کھٹکے کی آواز پہ اُس نے سر اُٹھا کے دیکھا تو اُسے خوشگوار حیرت ہوئی وہ پہلی بار یوں اُس کے کمرے میں آیا تھا وہ جلدی سے بیڈ سے اُترتی اُس کے قریب پہنچی۔


"واللّٰہ میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہی؟ داؤد سِکندر خود میرے کمرے میں تشریف لاِئے ہیں۔" وہ خوشی سے چہکتی اُس کے سامنے کھڑی تھی۔


"تُم نے میرے ولیمے کے دِن کِسی غیر کو میرے گھر تک رسائی دی کہ وہ میری بیوی کو نقصان پہنچا سکے؟" داؤد نے اُس کی گردن دبوچتے سرد لہجے میں کہا۔


"دد دداؤد میرا دد دم گگ گھٹ رر رہا ہہ ہے۔" وہ اُس کے ہاتھوں پہ گرفت کرتی خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔


"میرے سوال کا جواب دو جو میں نے پوچھا ہے۔" داؤد نے اُس کی گردن پہ دباو بڑھایا۔


" ہہ ہاں مم میں نے ایک وو ویٹر کک کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اُس کی بات ابھی پوری بھی نہیں ہوئی تھی جب داؤد نے اُسے چھوڑ کر ایک زنّاٹے دار تھپڑ اُس کے گال پہ رسید کیا۔


"مُجھے نہیں پتہ تھا کہ تُم اِتنی گھٹیا ہو ایک عورت ہو کر تُم دوسری عورت کی جان لینے چلی تھی؟ کیا بگاڑا ہے اُس نے تُمہارا جو تُم اُس کے پیچھے پڑی ہو۔"


"آپ کو چھینا ہے اُس نے مُجھ سے۔ میری جگہ لی ہے اُس نے کیسے بخش دوں میں اُسے۔ مار دوں گی میں جب موقع مِلا۔" فاطِمہ نے چیخ کر کہا۔


"اُسے ایک خراش بھی آئی تو میں تُمہاری سانیس چھین لوں گا سمجھی تُم؟ یہ آخری وارننگ ہے تُمہارے لیے۔۔اگلی بار وراننگ بھی نہیں دوں گا۔" داؤد نے غُصّے سے چِنگھاڑتے کہا اور ٹھاہ سے دروازہ بند کرتا باہر نِکل گیا۔


جبکہ فاطِمہ سُرخ انگارہ آنکھوں سے بس اُس کی پُشت دیکھتی معصومہ کو اِس دُنیا سے رُخصت کرنے کا سوچنے لگی اُسے داؤد کی دھمکیوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی نا ہی اُسے کِسی کا ڈر تھا ہر خوف وہ دِل سے نِکال چُکی تھی۔۔۔۔


**************

وہ پھولے منہ کے ساتھ داؤد کے کپڑے پیک کر رہی تھی۔ ایک ایک ڈریس ترتیب سے رکھتی وہ اُداس ہو رہی تھی داؤد واپس شہر جا رہا تھا اور اُسے لگ رہا تھا وہ اُس کا دِل اور جان بھی اپنے ساتھ لے جا رہا ہے وہ اُسے بھی لے جانا چاہتا تھا مگر پِھر اُس کی حالت دیکھتے وہ اُسے یہاں چھوڑ کے جا رہا تھا کہ وہ تو سارا دِن آفس رہا کرے گا تو پیچھے اُس کا خیال کون رکھے گا یہی سوچتے اُس نے اپنے دِل پہ کڑے پہرے بِٹھاتے اُسے یہیں چھوڑ کر جانے کا فیصلہ کیا تھا۔


معصومہ اُس کا سامان پیک کر رہی تھی اور وہ خود بیڈ کراون سے ٹیک لگائے اُس کے چہرے کے بِگڑتے روہانسے ہوتے زاویوں کو دیکھ رہا تھا۔ اُس کی محبّت کے سائے میں رہتے معصومہ کو اُس کی عادت ہو گئی تھی اور اب جب وہ اُس سے دور جا رہا تھا تو اُس کا دِل بار بار بھرّا رہا تھا۔


"یہاں آو!" داؤد نے اُسے پُکارا تو وہ ایک نظر اُسے دیکھ کر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی جیسے اُسے نظر انداز کیا ہو۔


وہ اُس کی بے نیازی دیکھتا مُسکرایا یہ بھی اُس کی محبّت کا دیا اِعجاز تھا جو اب وہ یوں اُسے نخرے دِکھا لیتی تھی اور وہ بھی اُس کے لاڈ محبّت سے اُٹھاتا تھا کہ ہاں محبوب کے لاڈ تو سر آنکھوں پہ رکھے جاتے ہیں۔


وہ اُسے مصروف دیکھ کر مُسکراہٹ دباتا اُٹھا اور دبے قدموں چلتا اُس تک آیا اور اُسے بانہوں میں اُٹھا کر بیڈ کی طرف بڑھا۔ وہ جو اپنے دھیان میں کبرڈ میں منہ دیئے کھڑی تھی اچانک سٹپٹا کر ہاتھ پاؤں مارتی رہ گئی۔ وہ اُسے اپنے حصار میں قید کر کے بیڈ پر بیٹھا۔


"اپنے سرتاج کو نظرانداز کر رہی ہو خُدا گُناہ دے گا۔" داؤد نے اُس کے خفا خفا سے چہرے کو دِل میں اُتارتے کہا۔


"شوہر بیوی کو چھوڑ کر پردیس چلا جائے تب خُدا گُناہ نہیں دے گا؟" معصومہ نے خفگی سے کہا آنکھوں میں پانی بھرنے لگا۔


"پردیس نہیں بیوی! دوسرے شہر جا رہا ہوں اور اکیلا چھوڑ کر تو نہیں جا رہا نا۔ یہاں سب ہیں تُمہارا خیال رکھنے کے لیے۔" داؤد نے اُس کی بھوری آنکھوں پہ بوسہ دیتے کہا۔


"مگر مُجھے آپ کے ساتھ، آپ کے پاس رہنا ہے ہمیشہ۔" معصومہ نے اُس کے دِل پہ ہاتھ رکھتے دِل کی دھڑکنوں کو محسوس کیا۔


"ہمیشہ ساتھ ہوں اور پاس بھی۔ تُم اِتنا پریشان کیوں ہو رہی ہو؟" داؤد نے پوچھا۔


"ڈر لگنے لگا ہے مُجھے اپنی قِسمت سے۔ اب کِسی اور کو کھونے کا حوصلہ نہیں مُجھ میں۔ میں بس آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں آپکو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتی ہوں۔" معصومہ نے نم لہجے میں کہا تو وہ اُسے خود سے لگا گیا۔


"میں ہمیشہ تُمہارے ساتھ رہوں گا اِنشاللّٰہ!" اُس نے آرام سے اُسے لٹایا اور خود اُٹھ کھڑا ہوا۔


"تُم ریسٹ کرو۔ باقی کپڑے میں رکھتا ہوں بلکہ ایسا کرو سو جاو کُچھ دیر ۔ بہتر محسوس کرو گی۔" داؤد نے اُس کے اوپر چادر ڈالتے کہا تو وہ اُس کے سنجیدہ چہرے کی طرف دیکھتی آنکھیں موند گئی۔


وہ سمجھ چُکی تھی وہ اُس کو ساتھ نہیں لے کے جائے گا اپنے آنسو چُھپانے کے لیے اُس نے کروٹ بدل کر اپنا رُل دوسری جانب کر لیا یوں کہ اب داؤد کی طرف اُس کی پُشت تھی۔ داؤد اُس طرف دیکھ کر مُسکرایا اور کپڑے پیک کرنے لگا۔


*************


روحان، وِشہ، آن اور وجدان اِس وقت شاپنگ کے لیے آئے تھے کپڑوں، جوتوں، جیولری اور چھوٹی موٹی چیزوں کی شاپنگ کر کے اب وہ لنچ کرنے بیٹھے تھے۔


"ویسے رومیسہ اِتنے عرصے سے تھی کہاں؟ اور مِلی بھی تو ایسے؟" وجدان نے اچھنبے سے روحان سے پوچھا وہ کافی دیر سے جاننا چاہ رہا تھا مگر ایک تو وہ رومیسہ کے جنازے میں شریک نہیں ہو پایا تھا دوسرا وہ معصومہ سے مِل بھی نہیں سکا تھا۔


"وہ اپنی پھوپھو کے پاس رہتی تھی پھوپھو کی ڈیتھ کے بعد وہ یہاں آرہی تھی جب میں اُسے مِل گیا اور دُشمنوں کی چلائی گولی کا نِشانہ رومیسہ بن گئی ورنہ وہ مُجھے مارنا چاہتے تھے۔" روحان نے باقی سب کو جو بتایا تھا وجدان کو بھی وہی بتایا تو وہ افسوس سے سر ہلا گیا۔


"معصومہ آئے گی تو اُس سے مِلوں گا میں۔ ویسے روحان تُمہاری بہن ہے معصومہ تُمہیں چاہیے کہ اپنی شادی سے ایک مہینے پہلے اُسے لے آو۔" وجدان نے مشورہ دیا تو وہ مُسکرا گیا۔


"میں نے بھی سوچا ہے کل جاوں گا اُسے لینے۔" روحان نے کہا تو وہ خاموشی سح سر ہلاتا کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا۔ آن اور وِشہ خاموش بیٹھیں تھیں۔


شاپنگ تو ہو ہی چُکی تھی۔ لنچ کے بعد وہ گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ روحان نے چُھٹی لے رکھی تھی اب اُسے شادی کے بعد ہی جوائن کرنا تھا۔ لنچ کے بعد وہ سب اکٹھے ہی گھروں کو نِکلے تھے وہ سب وجدان کی گاڑی میں آئے تھے تو سب کو وجدان ہی ڈراپ کرنے والا تھا۔


**************


وہ ابھی کمرے سے نِکل کر باہر جا رہی تھی جب اُس کا سامنا فاطِمہ سے ہوا۔ وہ کنّی کترا کر نیچے کی جانب بڑھنے لگی جب فاطِمہ اُس کی راہ میں حائل ہوئی۔


"سُنا ہے کہ اِس گھر میں خوشی آنے والی ہے وہ بھی تُم سے؟" فاطِمہ نے چُھبتے ہوئے لہجے میں کہا تو وہ سُرخ ہوئی۔


"جج جی۔" وہ اِتنا ہی کہہ پائی۔


"لگتا ہے بہت خوش ہو تُم؟" فاطِمہ نے اگلا سوال کیا جو کہ معصومہ کو عجیب لگا۔


"میں ماں بننے والی ہوں جو اِس دُنیا کی ہر عورت کے لیے سب سے فضیلت کی بات ہے تو میں خوش کیوں نہیں ہوں گی؟" معصومہ نے جواب دیتے ساتھ سوال کیا۔


"ہاں میں بھی خوش ہوتی اگر تُم داؤد کی بیوی نا ہوتی کیونکہ داؤد کی بیوی مُجھے بننا تھا پر میری جگہ تُم نے چھین لی جِس کا حِساب تُمہیں دینا پڑے گا۔" وہ کہتی آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی جبکہ معصومہ اُس کے چہرے پہ وحشت دیکھتی گھبرا کے پیچھے ہو رہی تھی۔


"دد دیکھیں میں نے زبردستی داؤد سے شادی نہیں کی ہے۔ نا ہی آپ کی جگہ چھینی ہے۔ یہ سب تو قِسمت کے فیصلے ہوتے ہیں۔" معصومہ نے اُسے سمجھانے کی ہلکی سی کوشش کی مگر وہ اُسے سُن ہی نہیں رہی تھی۔


"تُم مر جاؤ گی تو داؤد میرے ہو جائیں گے اور قِسمت کا بھی خوب کہا۔ وہ تو مُجھے اچھے سے بدلنا آتی ہے۔" فاطِمہ نے کہا اور ایک قدم آگے آئی معصومہ سیڑھیوں کے کنارے پر کھڑی تھی ایک قدم بھی پیچھے ہوتی تو لڑکھڑا کر گِر جاتی اور یہ بات معصومہ نہیں جانتی تھی اُس کا دھیان تو صِرف فاطِمہ کے چہرے پہ رھا جہاں اُس کے لیے صِرف نفرت تھی۔


"تُم مر جاو معصومہ!" کہہ کر وہ ایک قدم آگے ہوئی اور معصومہ ایک قدم پیچھے اور پیچھے ہوتے ہی اُسے پاؤں رکھنے کو جگہ نا مِلی تو وہ پیچھے کو ہوا میں لڑکھڑائی۔ اُس کے منہ سے چیخ کی صورت بس ایک ہی نام نِکلا تھا "داؤد"


**************


وہ اِس وقت باہر سے آ رہا تھا جب اُس کی نظر سامنے باتیں کرتی معصومہ اور فاطِمہ پر پڑی۔ فاطِمہ کے چہرے پہ معنی خیز مُسکراہٹ تھی اور وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی جبکہ معصومہ کا چہرہ وہ دیکھ نہیں پایا کیونکہ اُس کا رُخ دوسری جانب تھا وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہو رہی تھی۔


وہ معصومہ کے پاؤں کی سیڑھیوں کی طرف حرکت دیکھ کے پریشان ہو اتھا اگر وہ اور پیچھے ہوتی تو یقیناً گِر جاتی جو نا صِرف اُس کے لیے بلکہ اُن کے بچّے کے لیے بھی خطر ناک ہوتا باقی سب جانے کِدھر تھے۔


وہ تیز تیز سیڑھیا ہھلانگتا اوپر پہنچا تب تک معصومہ لڑکھڑاتی گِرنے لگی تھی اگر وہ اُسے بروقت نا تھامتا تو شاید آج اُس کی کُل متاع شدید نُقصان سے دوچار ہوتی جو وہ مر کر بھی افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ اُسے تھامتا خود سے لگا گیا اور وہ جو آنکھیں میچے نیچے گِرنے کے اِنتظار میں تھی خود کو محفوظ گرفت میں پا کر آنکھیں کھول گئی۔


دد داؤد۔" وہ ہکلاتی گھبرائے لہجے میں اُسے پکار اُٹھی داؤد نے اُسے سیڑھیوں سے دور لا کے کھڑا کیا اور خود فاطِمہ کی جانب بڑھا جو آنکھیں پھاڑے داؤد کو شرارے برساتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔


آج گھر میں کِسی کے نظر نا آنے پر جب اُسے معصومہ نظر آئی تو اُس کے دماغ نے نیا پلان بنایا تھا اگر معصومہ مر جاتی تو داؤد صِرف اُس کا ہو سکتا تھا وہ بھی تب جب کہ وہ اِنتہائی نرم ونازک حالات سے گُزر رہی تھی ناصِرف اُس کا بچہ مر جاتا بلکہ معصومہ بھی ساتھ ہی مر جاتی مگر اُسے نہیں پتہ تھا کہ داؤد وہاں آ جائے گا اور اُسے بچا لے گا۔


اب وہ تھوک نِگلتے داؤد کی پُشت دیکھ رہی تھی جو معصومہ کو ساتھ لگائے اُس کی پُشت سہلاتا اُس کا خوف کم کر رہا تھا اُس نے چُپ کر کے وہاں سے جانا چاہا جب داؤد کی غُصّے بھری آواز سُن کر اُس کے قدم وہیں تھم گئے۔


"یہاں سے ہِلی تو جان سے مار دوں گا تُمہیں۔" داؤد کی دھاڑ سے ڈرتی وہ وہیں رُک گئی جبکہ وہ اُسے اُٹھائے کمرے میں داخل ہوا اور بیڈ پہ جا لٹایا وہ ابھی بھی خوف سے پیلی ہوتی کانپ رہی تھی۔


"ری لیکس۔ کُچھ نہیں ہوا میں ہوں نا تُمہارے پاس؟ پریشان نہیں ہونا۔" داؤد نے اُس کا ہاتھ سہلاتے ہولے سے چوما اور اُس پہ بِستر ٹھیک کرتا اُٹھ کھڑا ہوا۔


"میں بس ابھی آیا تُم سو جاؤ اور گھبرانا بالکُل مت۔" داؤد نے کہا تو اُس نے سر ہلا دیا وہ اُسے کی پیشانی پہ بوسہ دیتا باہر نِکل گیا۔


وہ باہر آیا تو فاطِمہ نیچے کی طرف جا رہی تھی۔ وہ آخری سیڑھی پر تھی جب داؤد نے اُسے پُکارا۔


"رُکو فاطِمہ!" اُس کی آواز سے فاطِمہ کے قدم تھمے۔


"امّو جان؟ بابا سائیں؟ چچی جان؟ کہاں ہیں سب؟" داؤد نے چیخ کر سب کو پکارا تو سِکندر صاحب کے عِلاوہ سبھی وہاں آگئے۔


"کیا بات ہے داؤد؟ کیا ہوا ہے؟" حمدہ بیگم نے پوچھا۔


"فاطِمہ سے پوچھیں کیا ہوا ہے؟" داؤد نے اِطمینان سے کہا۔


" کک کیا کک کُچھ بھی تو نہیں ہوا۔داؤد کو غلط فہمی ہوئی ہے کوئی" فاطِمہ نے نظریں چُرائیں۔

"یار گھبرا کیوں رہی ہو۔ میں نے تُم سے شادی کا ہی کہا ہے نا؟ اِس میں کیا بُرا ہے لاکھوں مرد دوسری شادی کرتے ہیں میں کر لوں گا تو کیا بُرا ہے اور معصومہ کا کیا ہے اُسے کوئی اعتراض نہیں ہو گا اور ویسے بھی وہ اِتنی کمزور سی ہے کیا پتہ بچّہ پیدا کرتے ہی مر جائے۔" داؤد کے چہرے پر اِطمنان تھا مگر اُس کے اندر کیا چل رہا تھا اُس سے وہاں موجود ہر فرد انجان تھا اُس کی بات سُن کے فاطِمہ کے ساتھ باقی سب نے بھی حیرت سے اُسے دیکھا تھا مگر فاطِمہ کو کہیں اندرونی خوشی ہوئی تھی مطلب داؤد اُس سے شادی کرنے کا سوچ رہا تھا وہ خوشی سے جھوم اُٹھی تھی۔


"یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں داؤد؟ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں آپ؟" حمدہ بیگم نے غُصّے سے کہا۔


"اِس میں کیا غلط ہے بڑی ممانی جان؟ اگر داؤد کو میں پسند ہوں تو آپ سب معصومہ نامی بلا کو اُن کے سر پہ کیوں ڈال رہے ہیں۔ اور سچ ہی تو کہا کیا پتہ وہ مر جائے؟" فاطِمہ نے کہا تو داؤد نے ضبط سے مُٹھیاں بھینچیں۔


"ہاں اور اگر نہیں مری تو میں خود اُسے مار دوں گا اگر میں نا مار سکا تو فاطِمہ مار دے گی ہے نا فاطِمہ؟ پِھر تو وہ ہم میں نہیں ہو گی تو ہمارا راستہ کلیئر ہو جائے گا۔" داؤد نے اندر اُبلتے طیش کو دبا کر کہا۔


"دد دا داؤد!" اپنے نام کی پُکار سُن کے وہ پیچھے مُڑا تو ہکّا بکّا رہ گیا معصومہ اپنی کانچ سی بھوری آنکھوں میں ڈھیر سارے آنسو بھرے دُکھ سے اُس کی جانب دیکھ رہی تھی۔ داؤد نے کوئی جواب نا دیا تو وہ روتی ہوئی اوپر جا کے کمرے میں بند ہو گئی۔ داؤد جانتا تھا کہ وہ اُس کی ساری باتیں سُن چُکی ہے مگر پِھر بھی وہ اُس کے پیچھے نہیں گیا۔


"ہاں داؤد آپ اُسے مار دیجیے گا پِھر وہ کبھی ہمارے بیچ آنے کی کوشش نہیں کر پائے گی۔" فاطِمہ نے اُس کی جانب بڑھتے کہا۔ حمدہ بیگم، زینب بیگم اور فراز صاحب افسوس سے اُن دونوں کو دیکھ رہے تھے۔


"یہ کام تُم ہی کرنا فاطِمہ میرے پاس کہاں اِتنا ٹائم کہ میں فضول لوگوں پہ ویسٹ کروں۔" داؤد نے کہا۔


"میں تو آج ہی اُسے سیڑھیوں سے گِرا کے مارنے والی تھی اگر آپ نا آتے اور نا ہی اُسے تھامتے تو ابھی وہ ہسپتال میں مر رہی ہوتی۔ مُجھے لگا کہ آپ مُجھ پہ غُصّہ ہوں گے مگر مُجھے کیا پتہ تھا آپ یہ سب سوچے بیٹھے ہیں۔" اُس کی بات سُن کر جہاں باقی سب کے منہ حیرت اور پریشانی سے کُھلے تھے وہیں


داؤد کا ہاتھ بے ساختہ اُٹھا تھا اور فاطِمہ کے منہ پہ اپنی چھاپ چھوڑ گیا تھا۔ فاطِمہ چیخ کر پیچھے گِری اور حیرت سے داؤد کو دیکھنے لگی جِس کے چہرے کے رنگ بدلے تھے۔


"سُن لیا آپ سب نے؟ میری بیوی کو مارنے والی تھی یہ اور اگر اُسے کُچھ ہو جاتا تو شاید میں بھی مر جاتا۔ آپ سب کے گھر میں ہوتے ہوئے بھی وہ غیر محفوظ ہے تو پِھر اُسے یہاں رکھنے کا کیا فائدہ؟ میں اُسے اپنے ساتھ ہی لے جاؤں گا جہاں فاطِمہ نامی بلا اُسے نُقصان پہنچانے کے لیے موجود نہیں ہو گی۔" داؤد نے کہا تو فاطِمہ داؤد کے لہجے میں معصومہ کے لیے محبّت محسوس کر کے اُس پہ جھپٹی۔


"ابھی آپ نے کہا کہ آپ مُجھ سے شادی کریں گے معصومہ کو مار دیں گے وہ سب کیا تھا؟" وہ اُس کا کالر تھامے بولی۔


"ناٹک تھا تا کہ تُم سب کُچھ اپنے منہ سے بتاو کہ تُم میری بیوی اور بچّے کو نُقصان پہنچانا چاہتی تھی۔" داؤد نے ایک جھٹکے سے اپنا کالر چُھڑوایا تو وہ دُکھ سے اةس کی جانب دیکھنے لگی۔


"مُجھے یقین نہیں ہوتا کہ آپ اِس حد تک گِر سکتی ہیں فاطِمہ؟ ہم نے کبھی آپ کو تحریم سے کم نہیں جانا مگر آپ ہمارے ہی گھر کی خوشیوں کو روندنے پہ تُلی ہیں۔ بہتر ہے کہ آپ یہاں سے چلی جائیں ورنہ ہم آپ کو دھکے دے کے یہاں سے نِکالیں گے۔" حمدہ بیگم غُصے سے بولیں۔


"مُجھے کُچھ نہیں پتہ۔ مُجھے داؤد سے شادی کرنی ہے میں داؤد سے محبّت کرتے ہوں ماموں جان آپ بات کریں نا؟میں نہیں رہ سکتی داؤد کے بِناء۔" فاطِمہ ہذیانی انداز میں بولتی فراز صاحب سے کہہ رہی تھی۔


"چلو یہاں سے۔" وہ اُس کی باتوں کو نظر انداز کرتے اُسے بازو سے پکڑ کر کھینچتے باہر کی جانب بڑھے وہ چیختی چلاتی خود کو چُھڑوانے کی کوشش کرتی ناکام ہو رہی تھی۔ فراز صاحب اُسے وہاں سے لے گئے تو داؤد اُن کی طرف متوجّہ ہوا۔


"میں اب معصومہ کو یہاں چھوڑنے کی غلطی نہیں کر سکتا اور جب تک فاطِمہ کی کہیں شادی نہیں ہو جاتی معصومہ لیرے ساتھ ہی رہے گی اور تب ہی آئے گی جب فاطِمہ اِس گھر سے دور چلی جائے گی۔" داؤد نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔


"مگر داؤد بیٹا؟ وہاں اُس کا خیال کون رکھے گا؟" زینب بیگم نے پریشانی سے اِستفسار کیا۔


"داؤد سے بہتر معصومہ کا خیال کوئی نہیں رکھ سکتا۔ داؤد ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ معصومہ کو اِن کے ساتھ ہی بھیج دینا چاہیے فاطِمہ کا جنون بڑھنے لگا ہے اور میں نہیں چاہتی کہ میری بہو کو اب اور کوئی تکلیف ہو۔ آپ پریشان مت ہوں میں آپ کے بابا سے بھی بات کر لوں گی۔" حمدہ بیگم نے جواب دیا تو داؤد سر ہلاتا اوپر کی جانب بڑھا جہاں اُس کی زندگی شاید آنسو بہا رہی تھی۔


وہ کمرے کے قریب پہنچ کے دروازہ کھولنے لگا مگر دروازہ اندر سے لاک تھا۔ وہ سِکندر صاحب کے کمرے میں پہنچا اور وہاں سے ایکسٹرا کی لے کر واپس اپنے کمرے کے باہر پہنچا۔


دروازہ کھول کے وہ اندر داخل ہوا تو وہ بِستر میں گُھسی ہوئی تھی سردی کافی بڑھ گئی تھی۔ اُس نے قریب پہنچ کے دیکھا تو وہ سو رہی تھی اور سوتے ہوئے ہی ہچکیاں بھر رہی تھی جیسے روتے روتے سوئی ہو۔ اُس نے جھک کر اُس کے اُس کے گالوں پہ بہتے آنسووں کو صاف کیا اور خود بیگ میں کپڑے رکھنے لگا۔


********************


وہ سو رہی تھی جب اُس نے اپنے جِسم کو ہِلتا محسوس کیا۔ اُسے ایسا لگا جیسے ہلکا ہلکا زلزلہ آ رہا ہو۔ لیکن پِھر اُس نے اپنے خیالات کو جھٹکا لیکن وہ ابھی بھی آہستہ آہستہ ہِل رہی تھی اُس کی کمر پر کُچھ بندھا ہوا تھا کیا؟ اُسے سمجھ نہیں آیا۔ لاشعور میں ہی وہ اپنے خیالات سے اُلجھ رہی تھی۔


آہستہ آہستہ لاشعور سے شعور کا سفر طے کر کے وہ ہوش میں آئی تو نظر سامنے پڑی جہاں سیدھی سڑک تھی اُس نے سر موڑ کے بائیں طرف جھانکا جہاں گاڑی کی کھڑکی تھی سر کو بائیں طرف موڑا جہاں اُس کا شوہر بیٹھا اُس کی حرکات کا جائزہ لیتا زیرِ لب مُسکرا رہا تھا اور دونوں ہاتھ اسٹئیرنگ پر رکھے تھے۔ وہ ایک دم چونک کر سیدھی ہوئی۔

"ہہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟" اُس نے حیرت سے پوچھق۔


"اپنے گھر۔" جواب پُرسکون انداز میں دیا گیا تھا۔


"کونسے گھر ہم تو گھر میں ہی تھے۔" اُس نے دوبارہ پوچھا۔


"میرے اور تُمہارے گھر۔ جہاں ہم پہلے تھے وہ تُمہارا سسُرال تھا۔" جواب ہنوز اِطمینان سے دیا گیا تھا۔


"آپ نے کہا تھا داؤد کہ میں نہیں جاؤں گی؟" معصومہ نے اب بار اچھنبے سے پوچھا۔


"اب میں ہی تُمہیں لے جا رہا ہوں۔" داؤد نے کہا۔


"اب کیوں؟ مُجھے نہیں جانا مُجھے واپس گھر چھوڑ کر آئیں۔" معصومہ نے چیخ کر کہا۔


"کینوکہ میں اپنے دِل کے بغیر نہیں رہ سکتا نا ہی اُس کے مُکھڑے پر پریشانی دیکھ سکتا ہوں۔ اگر تُمہیں وہاں چھوڑ آتا تو تُم ایسے ہی پریشان رہتی اور اپنی حالت بِگاڑ لیتی جِس سے ہمارے بچّے پہ بُرا اثر پڑتا اور میں نہیں چاہتا تھا ایسا ہو۔" داؤد نے اب کی بار وضاحت دی۔


"تو یوں کہیں ناں کہ اپنے بچّے کے لیے لے جا رہے ہیں تا کہ اُس کی صحت پہ اثر نا پڑے۔" وہ بڑبڑا کر رہ گئی اور یہ بڑبڑاہٹ اِتنی اونچی تو تھی کہ وہ آرام سے سُن سکتا تھا۔


"میں تُمہیں تُمہارے لیے لے کے جا رہا ہوں اور اِس لیے بھی کیونکہ اب میں بھی تُمہارے بغیر ایک پل نہیں رہ سکتا۔ اب اپنے ننھے سے ذہن پہ بوجھ مت ڈالو۔" داؤد نے اُس کا دایاں ہاتھ تھام کر اپنے دِل کے مقام پر رکھا تو وہ پُرسکون ہوتی سیٹ کی پُشت سے ٹیک لگا گئی۔


اگلے دو گھنٹوں بعد وہ شہر پہنچ گئے تھے۔ سارے راستے داؤد اُس سے ہلکی پھلکی باتیں کرتا آیا تھا مقصد صِرف اُس کا دِل بہلانا تھا۔ معصومہ کی آدھی باتیں رومیسہ کے متعلق تھیں تو آدھی اپنے آنے والے بچّے کے متعلق۔


گھر پہنچ کر اُس نے بیگ ڈِکی سے نِکالا اور معصومہ کو اپنے بازووں کے گھرے میں لیتا اندر کی جانب بڑھا۔ اُس کا فلیٹ دوسرے فلور پہ تھا۔ لفٹ کے ذریعے وہ اوپر پہنچے لاک کھول کے داؤد نے اُس صوفے پر بِٹھایا اور خود اُس کے لیے کُچھ کھانے کو لینے چلا گیا۔


اُس کے جانے کے بعد وہ فلیٹ کا جائزہ لینے لگی۔ یہ کافی کُھلا اور بڑا تھا تین کمرے اور اوپن کچن۔ چھوٹے سے لاونج میں صوفے لگے تھے جِن میں سے ایک پر وہ بیٹھی تھی۔ ایک طرف ڈائیننگ ٹیبل اور دوسری طرف ایل ای ڈی ایریا بنا ہوا تھا۔


وہ ابھی فلیٹ کا جائزہ لے رہی تھی جب داؤد ہاتھ میں کُچھ شاپرز پکڑے اندر داخل ہوا۔ اُس نے کچن میں جا کر سارا سامان کھولا اور کھانا ٹرے میں سیٹ کرتا اُس کے پاس آیا۔


"منہ ہاتھ دھویا؟" داؤد نے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی۔


"چلو میں دُھلاتا ہوں۔" داؤد نے اُس کی طرف بڑھتے کہا۔


"میں بچّی نہیں ہوں جو ہاتھ منہ بھی نا دھو سکوں۔ آپ جائیں اپنی فاطِمہ کے پاس۔ جا کے اُسے بتائیں کہ معصومہ کو کیسے مارنا ہے بلکہ ایک کام کرتی ہوں میں خود ہی زہر کھا کے مر جاوں گی تا کہ آپ لوگوں کا راستہ صاف ہو سکے۔" معصومہ نے بھرائے لہجے میں کہا اور بغیر داؤد کی طرف دیکھے اندازے سے کمرے کی جانب بڑھی کیونکہ وہ نہیں جانتی تھی کہ داؤد کا کمرہ کونسا ہے۔


داؤد نے نفی میں سر ہلاتے افسوس سے اپنی بے وقوف بیوی کو دیکھا جو بچّوں کی طرح منہ پھلائے آنکھوں میں نمی لیے اندر جا رہی تھی۔ وہ تیزی سے اُس کی جانب بڑھتا اُسے بانہوں میں اُٹھا گیا اور اپنے کمرے میں آتا باتھ روم کی جانب لے گیا۔


"بغیر کوئی سوال کیے منہ ہاتھ دھو کر آو کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔" اُس نے سنجیدگی سے کہا اور باہر نِکل گیا۔


معصومہ نے نم آنکھوں سے واش بیسن کا نل کھولا اور منہ دھونے لگی۔ کُچھ دیر بعد وہ دُھلے دُھلائے چہرے کے ساتھ باہر آئی تو داؤد اُس کے گُلاب چہرے پہ شبنم کی طرح پڑے پانی کے قطروں کو دیکھتا مُسکرایا اور آگے بڑھتا اُسے اپنے حلقے میں لیتا صوفے پر بیٹھا۔ ایک نوالہ اُسے اور ایک نوالہ خود بنا کے کھایا۔ پانی پِلانے کے بعد اُس کا منہ صاف کیا اور پِھر اُس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔


معصومہ اُسے گھور کر رہ گئی جو آرام سے اُس کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا اُس نے اُٹھنا چاہا مگر داؤد نے اُس کے گِرد دونوں بازو حمائل کر کے اپنا رُخ اُس کی جانب کرتے اُسے اُٹھنے سے روکا اور اُس کے ہاتھ اپنے سر میں رکھے تا کہ وہ اُس کے سر میں اُنگلیاں گھمائے۔


"میری بات سُن لو پِھر جو چاہے سزا دینا۔" داؤد نے آہستہ آہستہ اُسے سب بتایا کہ کیسے فاطِمہ اُسے آج گِرانا چاہتی تھی اور پِھر داؤد نے اُس کے منہ سے وہ سب اُگلوانے کے لیے وہ سب کہا۔ مگر معصومہ نے اُسے غلط سمجھا۔ اُس کی ساری بات سُنتے معصومہ نے نظریں چُرائیں مگر اُنگلیوں کی حرکت ہنوز رکھی۔


"سس سوری مم مُجھے لگا آپ اُس سس سے شادی کر لیں گے۔" وہ منمنائی۔


"میرا یقین کرنا سیکھ لو ہمارے رِشتے میں اِس کی بہت ضرورت ہے۔ آئیندہ ایسا بُھول کر بھی مت سوچنا کہ داؤد سِکندر معصومہ داؤد سِکندر کے عِلاوہ کِسی اور کا ہو سکتا ہے۔" اُس نے کہا تو معصومہ نے جلدی سے اثبات میں سر ہلا دیا۔

"اب جا کے ریسٹ کرو۔" داؤد نے فون پہ کال آتی دیکھ کر کہا۔


"آپ کہاں جا رہے ہیں؟" اُسے باہر کی جانب بڑھتے دیکھ کر اُس نے پوچھا۔


"یہیں ہوں روحان کی کال آرہی ہے بس وہی سُننے لگا ہوں۔" اُس نے مصروف سے لہجے میں کہہ کر فون کان سے لگایا جبکہ معصومہ روحان کا نام سُن کر سنجیدہ تاثرات چہرے پہ سجائے بغیر کوئی دوسری بات کیے کمرے میں چلی گئی۔

*********************

ختم شدہ


          

 مزید ناولز کے لئے نیچے جائیں ، یہاں مکمل اور قسط وار سبھی ناولز کے لنکس دئیے گئے ہیں۔

آپ مزید ناول کی پکس دیکھنے کے لیے نیچے جائیں ، اور ہماری ویب سائٹ کو وزٹ کریں ، اگر آپ نے ابھی تک مدیحہ شاہ کے مکمل اور قسط وار ناولز نہیں پڑھے ۔ تو جلدی سے مدیحہ شاہ کے سبھی ناولز کو پڑھیں اور اپنا فیٹ بائک دیں ۔

 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about


 

 Koi Na Aisa Ishq Kare Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Koi Na Aisa Ishq Kare  written Kanwal Akram . Koi Na Aisa Ishq Kare  by  Kanwal Akram is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Forced Marriage Based Novel Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Mahra Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Mahra Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be delete

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages