Pakiza Mohabbat Novel By Noor Fatima Complete Short Novel Story

Pakiza Mohabbat Novel By Noor Fatima Complete Short Novel Story

 Read ONLINE Free Famous Urdu Novel 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading

Pakiza Mohabbat By Noor Fatima Complete Novel Story Online 


                ” اللہ اکبر اللہ اکبر“

(اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے )

یہ آواز سنتے ہی وہ بیدار ہوئی۔

اسے آٹھ سال پہلے ہی نماز سے محبت ہوگئی تھی۔ اسے نماز میں سکون ملتا تھا۔

اسنے وضو کیا اور نماز ادا کی۔

”واقعی کتنا سکون ملتا ہے فجر میں اٗٗٹھ کر، دس بجے سو کر اٹھنے والوں کو تو اسکا علم ہی نہیں۔“ اس نے سوچا، اور پھر قرآن پاک لے کر بیٹھ گٸ۔

اسکی عادت تھی نمازسے فارغ ہو کر وہ قرآن پاک کی تلاوت کرتی تھی- تلاوت سے فارغ ہو کر وہ کمرے سے باہر آگئ- 

کچن میں فاطمہ بیگم ناشتے کی تیاری کر رہی تھیں۔

اس نے کچن میں داخل ہوتے ہی سلام کیا۔

”السلام علیکم میری پیاری امی جان“۔

”وعلیکم السلام میرا بچہ“۔

فاطمہ بیگم نے خوش دلی سے سلام کا جواب دیا۔

”لاءیں امی میں چائے بنا دوں“۔

”ہمم ٹھیک ہے بیٹا مگر پہلے حیا اور حنین کو اٹھا دو, نہیں تو یوں ہی سوۓ رہنا ہے دونوں نے۔“

”جی امی“........

اس گھر میں صبیحہ بیگم (دادی), ان کے بڑے بیٹے سلیمان رضا صاحب ,ان کی اہلیہ فاطمہ بیگم اور ان کے تین بچے رہتے ہیں۔

سب سے بڑی بیٹی ادیبہ, پھر حیا اور چھوٹا بھائی حنین رضا۔

ادیبہ کی پڑھائی مکمل ہو چکی تھی۔ اسے دین سے محبت تھی۔ وہ سنجیدہ ,باوقار اور نمازوں کی پابند تھی۔ بارہویں جماعت کے بعد سے اس نے دینی کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا تھا۔

حیا کی پڑھائی مکمل ہونے میں ایک سال باقی تھا۔

اور حنین رضا ,اس سال یونیورسٹی میں داخل ہوئے تھے۔

            ___________________________

”ادیبہ آپی آپ فارغ ہو کیا؟“ حیا ادیبہ کے کمرے میں آئی, ادیبہ اس وقت دینی کتابوں کا مطالعہ کر رہی تھی۔

”ہمم کیا کام ہے؟“ ادیبہ نے ایک نظر حیا کو دیکھ کر کہا۔ اور دوبارہ نظریں کتاب پر کرلی۔ 

”مجھے شاپنگ کرنی ہے آپ چلو نا پلیز“ حیا نے التجاءیہ  نظروں سے ادیبہ کی طرف دیکھ کر کہا, کیونکہ اسے پتہ تھا اگے سے کیا جواب آنے والا ہے۔

”حیا شاپنگ, شاپنگ, شاپنگ اور کوٸ کام رہ گیا ہے تمہارا, ابھی دو دن پہلے ہی تو گئی تھی شاپنگ پر۔“

 ادیبہ نے غصے سے کہا کیونکہ ابھی دو دن پہلے ہی حیا اسے اپنے ساتھ شاپنگ پر لے کر گئی تھی۔

”آپی پلیز چلو نا , lمی بھی نہیں جا رہیں, حنین صاحب کو تو ویسے ہی دوستوں کے ساتھ گھومنے سے فرصت نہیں ہے۔ آپ میری پیاری سی آپی ہو نا چلو نا پلیز۔“

”اچھا ٹھیک ہے مگر اس کے بعد اگر تم نے رٹ لگائی نا شاپنگ کی تو دیکھنا۔“ ادیبہ نے کتاب بند کرتے ہوئے کہا۔ ”تھینک یو سو مچ آپی“ حیا خوشی کے مارے ادیبہ کے گلے لگ گئی ۔

”اچھا اب زیادہ اورایکٹنگ مت کرو“ ادیبہ نے اس کو خود سے الگ کیا۔

”آپی آپ جلدی سے عبایا لگا لو میں نیچے ویٹ کرتی ہوں آپ کا“ یہ کہہ کر حیا نیچے چلی گئی۔

           ___________________________

”روحان خان“ جو اپنے نام کا ایک ہی تھا۔

 ضدی, کامچور , جلد باز۔ اس کو جو لقب دیا جائے کم تھا۔

 احمد رضا خان کے گھر میں احمد رضا, ان کی اہلیہ صوفیہ بیگم اور ان کا بگڑا ہوا اکلوتا بیٹا روحان خان رہتے تھے۔

روحان خان(R.K) ,جو حد سے زیادہ بگڑا ہوا, ضدی ,شریر, دنیا دار اور ایک اعتبار سے گنڈا کہنا مناسب ہو گا۔ مگر گھر والوں کے سامنے وہ سلجھا ہوا نوجوان تھا۔

کالج یونیورسٹی ہر جگہ اس کا رعب تھا۔ اس کے پاس خوبصورتی تھی تو وہ اس کا استعمال بھی جانتا تھا۔

وہ کبھی خود سے کسی لڑکی سے دوستی نہیں کرتا تھا۔ ہر لڑکی خود ہی اُس سے دوستی کی ابتدا کرتی تھی۔ اس کی کالی سیاہ آنکھوں میں ایک الگ ہی کشش تھی، لڑکیاں خود ہی اس کی طرف کھنچی چلی آتی تھیں۔

وہ ہر وقت ہنسی مذاق میں لگا رہتا تھا۔ اس کے سبھی دوست یونیورسٹی سے فارغ ہو چکے تھے، مگر وہ ہر بار فیل ہونے کی وجہ سے ابھی تک لاسٹ ایئر میں اٹکا ہوا تھا۔

وہ پوری یونیورسٹی میں مشہور تھا اور یونیورسٹی کے لڑکے لڑکیاں اس کے فین تھے۔

پوری یونیورسٹی کی طرح حنین بھی روحان کا فین تھا۔ حیا بھی روحان کے گروپ کی تھی ادیبہ کو یہ بات بالکل پسند نہیں تھی کہ لڑکوں سے دوستی رکھی جائے مگر وہ حیا ہی کیا جو کسی کی بات مان لے۔

           ___________________________

”ابے یار! قسم سے آج تو مس ماہین کی شکل ہی اتر گئی تھی، مزہ آگیا۔“ روحان نے آج مس ماہین کو حیران کر ڈالا تھا۔

”یار بلاوجہ دماغ کی دہی کر رہی تھیں۔ بار بار بول رہی تھیں کہ کوٸ سوال ہے تو پوچھ لو ,اب میں نے کچھ غلط تو نہیں پوچھا تھا بس اُس ڈریس کی قیمت ہی تو پوچھی تھی جو سر سلیم نے انہیں دیا تھا۔“ ازلان (جو کہ روحان کا بیسٹ فرینڈ تھا) اس کی باتوں پر قہقہہ لگا رہا تھا۔

”باۓ دا وے , حنین آج حیا یونی نہیں آٸ“ ازلان نے حنین سے پوچھا۔

” آج میری پیاری آپی کے سر میں درد ہو رہا تھا اسی لیے حیا آپی نہیں آٸ۔“

”اب کون سی آپی ,یار کتنی آپی ہیں تیری؟؟؟“

” یار میری بڑی آپی“۔

”کیااااااااا؟؟؟؟؟؟“

روحان اور ازلان دونوں چونک گۓ کیونکہ آج تک حیا نے انہیں ادیبہ کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔

           ___________________________

”یار حیا ایک بات تو بتاؤ تمہاری کوئی بہن بھی ہے کیا؟؟“ اگلے دن ازلان نے حیا سے سوال کیا۔

 روحان بھی ان کے ساتھ تھا۔

” کیا؟؟؟“ حیا ڈر گئی, روحان نے اس کے چہرے کے بدلتے تأثرات دیکھ لیے تھے۔

”یار اس میں چھپانے والی کیا بات ہے؟ تم نے آج تک ہمیں کیوں نہیں بتایا کہ تمھاری بہن بھی ہے۔“ ازلان نے اُس سے پوچھا۔

”بس ایسے ہی نہیں بتایا, میری آپی پردہ کرتی ہیں تو میں نہیں چاہتی کہ کوئی  ان کے بارے میں بات بھی کرے, وہ بہت پاکیزہ اور نیک ہیں۔“حیا نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔

”ہاؤ از دیٹ پوسیبل؟؟؟“ اب کی بار سوال روحان کی طرف سے تھا۔ 

”آج کے دور میں کہاں ہوتی ہیں ایسی لڑکیاں جو پردہ کرتی ہیں یہ تو پرانی عورتوں کا رواج ہے۔“

”ہوتی ہیں آج کے دور میں ایسی لڑکیاں ,میں نے اپنی آپی کو دیکھا ہے, وہ راتوں کو اٹھ کر تہجد پڑھتی ہیں, رو رو کر اللہ سے دعائیں مانگتی ہیں, خیر چھوڑو یہ ذکر, میں چلتی ہوں مجھے دیر ہو رہی ہے, حنین ویٹ کر رہا ہوگا, اللہ حافظ !“  یہ کہہ کر حیا چلی گئی اور روحان کے چہرے پر شریر مسکراہٹ آ گئی۔

           ___________________________

”انکل یہ والا ڈریس دکھانا۔“

حیا جو آج پھر ادیبہ کو اپنے ساتھ بازار لے آئی تھی اور پچھلے ایک گھنٹے سے اس نے پوری دکان کے کپڑے دیکھ لیے تھے, مگر اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا

”حیا چلو گڑیا ,بہت دیر ہو گئی ہے۔“ ادیبہ جو اب بار بار اس کے کپڑے ریجیکٹ کرنے پر اکتا گئی تھی۔

” ہاں بس آپی آٸ, انکل یہ والا پیک کردیں۔“

ابھی وہ دونوں دکان سے نکل ہی رہی تھیں کہ سامنے سے ازلان اور روحان جا رہے تھے۔

”ہائے حیا!“ دونوں نے حیا کو دیکھا تو حیا کے پاس آکر کہا۔

”میں بعد میں ملتی ہوں“ حیا کہتے ہی ادیبہ کے ساتھ جلدی سے روڈ کراس کر گئی۔

”ارے یار یہ حیا کو کیا ہوا ہے,بغیر کچھ کہے ایسے ہی چلی گئی۔“ ازلان حیران تھا۔

”ارے یار ساتھ میں شاید کوئی آنٹی وغیرہ تھی اسی لیے بات نہیں کر رہی ہو گی, تو چل اب, دیر ہو رہی ہے۔“ روحان نے جواب دیا ۔ 

           ___________________________

”حیا کون تھے وہ لڑکے؟؟“ ادیبہ نے گھر آتے ہی حیا کی کلاس لینی شروع کر دی۔

” آپی وہ میرے یونی فیلوز ہیں۔“ حیا نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔ کیونکہ اس وقت ادیبہ بہت زیادہ غصے میں تھی۔

”یونی فیلوز ہیں تو یوں راستے میں روک کر تمہیں ہیلو ہائے کرتے پھریں گے, تمھیں میں نے کتنی دفعہ منع کیا کہ لڑکوں سے دور رہا کرو, مگر تمہیں میری بات سمجھ نہیں آتی شاید۔“

”آپی وہ صرف میرے دوست ہی تو ہیں۔“ حیا نے معصوم سی شکل بنا کر کہا۔

”تمہیں جب میں نے منع کیا تھا کہ لڑکوں سے دوستی مت کرنا پھر بھی تم نے دوستی کی, مطلب میرا بولنا نہ بولنا ایک برابر ہے تمھارے لیے۔“

”آپی ایسی بات نہیں ہے, وہاں پر سب لڑکیاں لڑکے ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں ,تو میں نے بھی دوستی کرلی۔“

”حیا وہاں پر تو اور پتہ نہیں کیا کیا ہوتا ہے لڑکا لڑکی کے درمیان, کل کو تم کہنا آپی سب ہی تو کرتے ہیں میں بھی کر لونگی تو کیا ہوجائےگا۔“ ادیبہ غصے سے آگ بگولا ہو رہی تھی

”آپی ایسے تو نہ بولیں۔“ حیا کی آنکھوں میں ادیبہ کی بات سن کر آنسو آنے لگے۔

”حیا آئیندہ میں تمھیں لڑکوں کے ساتھ نہ دیکھوں, خاص طور پر اس لڑکے کے ساتھ جو ابھی راستے میں ملا تھا۔“ ادیبہ روحان کی بات کر رہی تھی کیونکہ اسے روحان خان سے سخت نفرت تھی۔

”مگر آپی وہ تو ازلان اور روحان تھے۔“ 

 ”اس گھٹیا انسان کا نام مت لو میرے سامنے حیا۔“ ادیبہ کو روحان کا نام سنتے ہی آگ لگ گئی تھی۔

”مگر آپی۔“ حیا کچھ بولتی اس سے پہلے ہی ادیبہ نے اس کی بات بیچ میں کاٹ دی۔

”تم جانتی بھی ہو وہ کس کا بیٹا ہے, حیا۔“

” آپی آپ کس کی بات کر رہی ہیں  روحان کی یا پھر ازلان کی۔“حیا حیران تھی کہ ادیبہ ان کو کیسے جانتی ہے۔ 

”میں نے تو آپی کو کبھی نہیں بتایا انکے بارے میں۔“حیا نے دل میں سوچا۔

”میں روحان کی بات کر رہی ہوں۔“ ادیبہ نے دانت پیستے ہوئے کہا۔

”مگر اس نے کیا کیا ہے آپی, وہ بہت اچھا انسان ہے۔“ ”اچھا انسان ہے؟ واہ حیا! تم جانتی کیا ہو اس کے بارے میں ,اگر ایک بار تم جان لو نا کہ اس کے باپ نے کیا کیا ہے, تو تم اس سے دوستی کرنا تو دور کی بات ,اس کی شکل بھی نہ دیکھو۔“ ادیبہ کے پرانے زخم ایک بار پھر تازہ ہو گئے تھے۔

”آپی ایسا کیا کیا ہے اس کے باپ...“ حیا اپنی بات مکمل کرتی اس سے پہلے ہی ادیبہ بول پڑی۔

”حیا جاٶ اپنے روم میں, مجھے اور کوئی بحث نہیں کرنی ابھی۔“

”مگر آپی..“

”حیا جاؤ اپنے روم میں۔“اب کی بار ادیبہ نے تھوڑا تیز بولا۔

حیا بھیگی آنکھوں کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی گئی۔  ادیبہ نے حیا کے جاتے ہی اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا اور وہیں گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھ گئی۔ آج پھر اس کے زخم تازہ ہو گئے تھے, ماضی کی تلخ یاد اس کے سامنے آ گئی تھی۔ احمد رضا خان چھوڑوں گی نہیں تمہیں تم نے 8 سال پہلے جو کیا نہ میرے ساتھ, بھولی نہیں ہوں میں۔“ ادیبہ کا چہرہ ضبط کے مارے لال ہو گیا تھا۔ اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور اٹھی پھر واش روم جاکر وضوکیا اور نماز پڑھنے کھڑی ہوگی نماز پڑھنے کے بعد اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاۓ, تو ماضی کی یاد اس کے دماغ میں گھوم گئی اور وہ زاروقطار رونے لگی۔

” یا اللہ مجھے کمزور نہ کر, مجھے ہمت دے, میں اُُس گنہگار کو سزا دلوا سکوں۔ وہ رو رو کر اللہ سے دعاءیں مانگ رہی تھی۔

        ___________________________

”آپی روحان کو کیسے جانتی ہیں۔“ حیا اپنے روم میں ادھر سے ادھر چکر کاٹتے ہوئے ایک ہی بات سوچ رہی تھی میں نے تو کبھی آپی کے آگے ذکر نہیں کیا۔“

” آخر ایسی کیا بات ہے جو مجھے نہیں پتا“........        

اگلے دن حیا یونی گئی تو اس کا چہرہ اترا ہوا تھا, وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ میں جا رہی تھی کہ سامنے سے ازلان اور R.K آ رہے تھے۔ 

”ہائے حیا!“۔ دونوں نے حیا کو دیکھ کر کہا۔

 مگر نہ ہی تو حیا رکی اور نہ ہی ان کی بات کا جواب دیا۔ بلکہ ایک سائیڈ سے گزر گئی۔

”کیا ہوا ہے حیا؟“ وہ دونوں اس کے پیچھے آۓ۔

”یار تم کل بھی بغیر جواب دیے ہی چلی گئی تھی“۔

 ”پلیز تنگ نہیں کرو مجھے“۔ حیا نے غصے سے کہا۔

”مگر حیا ہوا کیا ہے بتاؤ تو سہی۔“ ازلان نے فکر مندی سے پوچھا ,کیونکہ پہلے کبھی بھی حیا نے ان سے اس طرح سے بات نہیں کی تھی۔

”کچھ نہیں ہوا۔“ حیا نے مختصر سا جواب دیا اور اپنے ڈپارٹمنٹ میں چلی گئی۔

وہ دونوں اس کے پیچھے ڈیپارٹمنٹ میں گئے اور اس کے برابر والی سیٹ پر بیٹھ گئے۔

”اچھا حیا سنو, کل وہ تمہارے ساتھ آنٹی کون تھی؟؟“ روحان نے سوال کیا۔

(روحان ادیبہ کو آنٹی سمجھ رہا تھا ,کیونکہ اس نے حجاب اوڑھ رکھا تھا, جس کی وجہ سے وہ اپنی عمر سے زیادہ لگتی تھی۔)

”آنٹی نہیں تھی, وہ میری آپی تھیں۔“ ادیبہ نے غصے سے کہا۔

”اچھا وہی جس کا تم بتا رہی تھیں۔“ روحان نے کہا۔

”ہاں وہی, اب جاؤ یہاں سے تنگ مت کرو مجھے ۔“

”اچھا تو وہ  تمہاری آپی تھیں, ہمیں لگا کہ کوئی آنٹی وغیرہ  تھی۔“ روحان نے ازلان کے ہاتھ پر تالی مار کر ہنستے ہوئے کہا جس کی وجہ سے حیا غصہ ہو گئی۔

”خبردار! جو تم نے میری آپی کے بارے میں کچھ اُلٹا سیدھا کہا تو; میں نے اس لیے نہیں بتایا تھا تمہیں کہ تم ان کا مذاق اڑاتے پھرو۔“ مزاق اپنی جگہ, مگر کوئی اس کی آپی کے بارے میں ایسا کچھ کہے, حیا بالکل برداشت نہیں کرتی تھی۔

”سوری یار ہم تو بس ایسے ہی مذاق کر رہے تھے۔“  ”ویسے یار تمہارا موڈ کیوں آف ہے؟؟؟“ ازلان نے پوچھا کیونکہ صبح سے حیا کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ 

”بس ایسے ہی۔“ حیا نے مختصر سا جواب دیا۔ 

اب وہ کیا بتاتی کہ اسے گھر پر اپنی آپی سے ڈانٹ لگی ہے۔

                  ___________________________

” ہاۓ دادی ! یہ امی کہاں چلی گئی, کتنی بار کہا ہے مجھے سکوٹی دلا دیں ,میں سنبھال کر چلاؤں گی, پتہ نہیں کوئی میری بات کیوں نہیں سنتا اس گھر میں۔“ ادیبہ غصّہ سے چلّائے جا رہی تھی۔

”بیٹا یہ ہائے کیا ہوتا ہے, جب آپس میں ملتے ہیں تو السلام علیکم کہتے ہیں, ہیلو ہاۓ کرنا یہ ہم مسلمانوں کا رواج نہیں ہے۔“ دادی نے ادیبہ کو سمجھایا۔

آُففف ٹھیک ہے, السلام علیکم دادی, اب آپ بتانا پسند کریں گی کہ امی کہاں ہیں۔“ ادیبہ نے دادی سے بدتمیزی سے  بات کی۔

”وہ سامنے والے کمرے میں ہیں, کوئی عالمہ صاحبہ آئی ہیں ان سے کچھ مسائل وغیرہ پوچھ رہی ہیں۔“

”ٹھیک ہے دادی تھینک یو سو مچ۔“

 ادیبہ کمرے میں جا ہی رہی تھی کہ اندر سے آتی آوازوں نے اسے روک لیا۔

 ”آج ہماری نا شکری ختم نہیں ہوتی ہم اللہ سے گلہ شکوہ کرتے نہیں تھکتے ,ہم کہتے ہیں یا اللہ آپ نے فلاں کو وہ چیز دے دی, فلاں کو وہ دے دیا ,ہم نے کیا کیا تھا جو ہمیں نہیں دیا, اگر انسان غور کرے نا کہ اللہ نے اسے کتنی نعمتوں سے نوازا ہے تو انسان اللہ کا شکر ادا کرتے کرتے نہ تھکے۔

صرف اپنے جسم میں دیکھ لیں, اللہ نے ہمیں کتنی نعمتوں سے نوازا ہے, اللہ نے ہمیں آنکھیں دیں,

(آنکھیں نہیں ہوتی تو ہم کیسے دیکھتے).

سننے کے لیے کان دیے,

(کان نہیں ہوتے تو سنتے کیسے).

سونگھنے کے لیے ناک دی,

(ناک نہیں ہوتی تو کسی بھی چیز کی خوشبو یا بدبو کیسے سونگھتے,اور سب سے بڑی بات سانس کیسے لیتے).

چکھنے اور بولنے کے لئے زبان دی۔ اور بھی نہ جانے کتنی نعمتوں سے نوازا ہے۔

سوچیے ہمارے ہاتھ پاؤں نہیں ہوتے تو ہم کیا کرتے۔

اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتے ہیں:

'تم میری نعمتوں کو اگر گننے بیٹھو تو گن نہیں پاؤ گے۔'

اور ہم کیا کرتے ہیں بس ناشکری کرتے ہیں۔ کبھی بھی اپنے سے بڑے کو (یعنی مالدار کو) نہ دیکھو (اللہ نے اسے یہ دیا ہے اور مجھے کچھ نہیں دیا, ہمیشہ اپنے سے چھوٹے کو (یعنی اپنے سے کمتر کو) دیکھو کہ اللہ نے اسے یہ نہیں دیا مجھے دیا ہے, تو ہم خود بخود ہی اللہ کا شکر ادا کرنے لگ جائیں, مگر ہم تو ہمیشہ اپنے سے بڑوں کو ہی دیکھتے ہیں اور اللہ سے گلہ شکوہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ صرف ایک بار سوچو کہ دنیا میں کتنے لوگ نابینا (جنکو نظر نہیں آتا) ہوتے ہیں ,بہرے ہوتے ہیں, گونگے ہوتے ہیں, اگر اللہ ہمیں اُُُن جیسا بنا دیتا تو۔“

باہر کھڑی ادیبہ کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے عالمہ صاحبہ کی بات سن کر۔ اس نے اپنے کمرے میں جاکر وضو کرنا چاہا مگر اس کے ہاتھ پر نیل پالش لگی ہوئی تھی اس نے نیل پالش صاف کی اور خود سے وعدہ کیا کہ آئندہ کبھی بھی ایسی غلیظ چیز نہیں لگائے گی جس سے وضو نہیں ہوتا۔

وہ وضو کر کے قرآن پاک لے کر بیٹھ گٸ اور سورة انفطار کا ترجمہ پڑھنے لگی۔ جس کے بارے میں عالمہ صاحبہ بتا رہی تھیں۔

              "اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم"

         میں پناہ مانگتی ہوں شیطان مردود سے

                 "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم"

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

  آیة نمبر ١:  جب آسمان پھٹ پڑے گا۔

  آیة نمبر ٢: اور جب تارے ٹوٹ پڑیں گے۔

  آیة نمبر ٣: اور جب سمندر بہا دیے جائیں گے۔

  آیة نمبر ٤: اور جب قبریں کُریدی جائیں گی۔

  آیة نمبر ٥: ہر جان جان لے گی جو اس نے آگے بھیجا اور جو پیچھے چھوڑا۔

  آیة نمبر ٦: اے انسان! تجھے کس چیز نے دھوکے میں رکھا اپنے رب کریم سے۔

  آیة نمبر ٧: جس نے تجھے پیدا کیا, پھر ٹھیک بنایا اور پھر ہموار فرمایا۔

آیة نمبر٨: جس صورت میں چاہا ترکیب دے دیا۔

آیة نمبر٩: کچھ نہیں بلکہ تم لوگ تو اس انصاف کے دن کو جھٹلاتے ہو۔ 

آیة نمبر١٠: اور بے شک تم پر کچھ محافظ (فرشتے) ہیں۔

آیة نمبر١١: تمہارے اعمال لکھنے والے۔

آیة نمبر١٢: وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو۔

آیة نمبر١٣: بے شک نیک لوگ جنت میں ہوں گے۔

آیة نمبر١٤: اور بے شک گنہگار لوگ جہنم میں ہوں گے۔

آیة نمبر١٥: قیامت کے دن اس میں ڈالے جائیں گے۔

آیة نمبر١٦: اور آپ کیا جانیں کیسا ہے قیامت کا دن۔

آیة نمبر١٧: اور پھر سے آپ کیا جانیں کیسا ہے قیامت کا دن۔

آیة نمبر١٨: جس دن کوئی جان کسی جان کے کچھ کام نہ آئے گی, اور سارا حکم اُس دن اللہ کے ہاتھ میں ہوگا۔

                                                   (سورہ انفطار)

ادیبہ کی آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے وہ بار بار اُس آیت کا ترجمہ دہرانے لگی ۔"اے انسان تجھے تیرے رب کریم سے کس چیز نے دھوکے میں رکھا۔"

”یا اللہ پاک مجھے معاف کر دیں۔“ ادیبہ رو رو کر اپنی بخشش کی دعائیں مانگ رہی تھی۔

" بے شک گناہگار لوگ جہنم میں ہوں گے۔" اس کے کانوں میں یہ آیت بار بار گونج رہی تھی۔ اس کا جسم کانپنے لگ گیا تھا۔

”یا اللہ میں نے آج تک کتنے گناہ کیے ہیں امی کہتی تھیں, نماز پڑھو تو مجھے اتنا غصہ آتا تھا, نماز کا نام سنتے ہی چڑ لگ جاتی تھی ,مگر میں آپ سے پرومس کرتی ہوں اللہ پاک آئندہ کبھی نماز نہیں چھوڑوں گی۔

قرآن پاک بھی شاید میں نے بچپن میں آخری بار کھولا تھا, اس کے بعد آج اتنے سالوں بعد کھولا ہے, کبھی آپ کا پاک کلام نہیں پڑھا مگر میں آپ سے پرومس کرتی ہوں آئندہ سے روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کروں گی۔

اور نا صرف تلاوت کروں گی بلکہ اسے سمجھوں گی بھی کہ میرے رب نے اس میں کیا لکھا  ہے۔

بس آپ ایک بار مجھے معاف کر دو نا۔ آپ نے خود ہی تو فرمایا ہے: آپ ہم سے ستّر ماٶں سے زیادہ پیار کرتے ہو تو مجھے بھی معاف کر دو نا پلیز۔

امی کہتی تھی ادیبہ چادر اوڑھ کر گھر سے باہر نکلو اور میں ہمیشہ اتنے ٹائٹ کپڑے پہن کر گھر سے باہر نکلتی ہوں کہ ہر کوٸ مجھے ہی دیکھتا رہتا ہے, مجھے معاف کردیں اللہ تعالی آئندہ سے چادر اوڑھ کر گھر سے باہر نکلوں گی۔“  

ادیبہ اپنے گناہ یاد کر رہی تھی اور ساتھ میں توبہ بھی کیے جا رہی تھی۔

اللہ تعالی تو خود فرماتے ہیں: اے میرے بندے اگر تم دن میں ستر دفعہ بھی گناہ کر لو اور مجھ سے ایک بار سچے دل سے توبہ کرو تو میں تمہاری توبہ ضرور قبول کروں گا۔

ادیبہ جاۓ نماز پر بیٹھی ہوئی اپنا ماضی یاد کر رہی تھی کہ وہ پہلے کیسی تھی اور اب دین کی محبت نے اسے کیسا بنا دیا۔ 

وہ لڑکی جو شادی وغیرہ میں بال کھول کر, تیار ہو کر جاتی تھی تاکہ سب کی نظریں اُسکی طرف اُٹھیں اب وہ اپنا چہرہ بھی کسی غیر محرم کو دیکھانے سے کتراتی ہے۔ 

ادیبہ کو بے اختیار وہ آیت یاد آئی۔ 

"اور اللہ جس کو چاہے ہدایت دے اور جس کو چاہے گمراہ کرے"

ادیبہ نے سجدہ کرکے اپنے رب کا شکر ادا کیا جس نے اسے گمراہی کے راستے سے نکال کر ہدایت کے راستے کے لئے چُنا۔

                 ____________________________

حنین اپنے ڈیپارٹمنٹ میں جا رہا تھا کہ اچانک اس کی ٹکر ایک لڑکی سے ہوئی۔ 

(حنین ہمیشہ نظریں جھکا کر چلتا تھا۔ وہ دوسرے لڑکوں کی طرح لڑکیوں کو گھورتا نہیں تھا اور یہ بھی ادیبہ کی ہی تربیت کا نتیجہ تھا۔)

”اوۓ اندھے ہو کیا؟ تم دیکھ کر نہیں چل سکتے ,آنکھیں ہیں یا بٹن۔“ سامنے کھڑی حمنہ حنین پر برس پڑی۔

”سو سوری مجھے نظر نہیں آیا۔“ حنین نے معذرت کی۔

”نظر نہیں آیا ,یہ دو عدد آنکھیں کس لیے رکھی ہوٸ ہیں, ان کا استعمال بھی کر لیا کرو۔“ حمنہ یہ کہہ کر چلی گئی۔

حنین نے ایک نظر اس کو دیکھا اور چلا گیا۔

”یار ویسے لڑکا بڑا ہی کمال کا ہے۔“حمنہ نے اپنی دوست سارہ سے کہا۔

(حمنہ جان بوجھ کر حنین سے ٹکرائی تھی۔)

”یار یہ بہت شریف لڑکا ہے۔ اس کے گھر کا ماحول بہت دینی ہے ,اس کی بڑی بہن نے عالمہ کا کورس بھی کر رکھا ہے۔“ سارہ حمنہ کو بتا رہی تھی۔  ”تو میں کیا کروں, اور تجھے کیسے پتہ اسکے بارے میں اتنا کچھ؟“ 

”یار میرے ابو اسکے ابو کے دوست ہیں,اسکا نام حنین رضا ہے,ہمارا آنا جانا لگا رہتا ہے۔“

”ہمم اس کو دیکھ کر لگتا بھی ہے, یہ سیدھا بندہ ہے۔“

”اچھا چل اب کلاس شروع ہونے والی ہے۔“سارہ نے کہا۔

اور پھر وہ دونوں اپنے ڈیپارٹمنٹ میں چلی گئیں۔

              _________________________

”کیا ہوا ادیبہ, اتنی دیر سے اٹھی ہو خیریت تو ہے نہ ۔“ ادیبہ کی عادت تھی وہ صبح جلدی اٹھتی تھی مگر آج  دیر سے اٹھی تھی۔

”جی امی ,سب ٹھیک ہے بس تھوڑا سا سر میں درد ہو رہا تھا اس لئے دیر ہو گئی اٹھنے میں ۔“

 ادیبہ کی آنکھیں لال ہو رہی تھی کیونکہ پوری رات اس کو نیند نہیں آئی تھی ماضی کی یادوں نے اسے سونے نہیں دیا تھا۔

بیٹھو میں ناشتہ لگاتی ہوں فاطمہ بیگم اس کو کہہ کر کچن میں چلی گئی ادیبہ اپنی دادی کے پاس بیٹھ گئی ۔ ”دادی جان آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ ادیبہ نے دادی کے پاس بیٹھتے ہوۓ پوچھا ”میں تو اللہ کے کرم سے ٹھیک ہوں بیٹا۔“

اتنے میں فاطمہ بیگم ناشتہ لے آئیں۔ 

”امی بیٹھیں مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔“ 

”ہاں میرا بچہ بولو کیا بات کرنی ہے۔“

”امی آپ نے حیا کو بہت ڈھیل دے رکھی ہے, آپ کو پتہ ہے, اس نے لڑکوں سے دوستی کی ہوئی ہے یونی میں۔ اسکو یونی پڑھنے بھیجا ہے یا لڑکوں سے دوستی کرنے کیلیے۔“

”ہاں بیٹا مجھے پتا ہے, آج کل تو یہ عام بات ہے, تم اتنا غصہ کیوں کر رہی ہو۔“

”امی ہمارے اسلام میں کہیں بھی نہیں ہے کہ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے سے دوستی کریں۔“

”مگر بیٹا آج کل کے دور میں تو سب ایک دوسرے سے دوستی کرتے ہیں اس میں اتنی کوئی بڑی بات تھوڑی ہے۔“ 

”امی آپ سمجھ نہیں رہیں۔“ ادیبہ آگے کچھ کہتی اتنے میں سلیمان صاحب وہاں آ گئے۔

”السلام علیکم بیٹا۔“ انہوں نے آتے ہی سلام کیا۔ 

”وعلیکم سلام ابو۔“ ادیبہ نے بات بیچ میں چھوڑ کر سلام کا جواب دیا۔ 

”بیٹا طبیعت ٹھیک ہے آپ کی, آج اتنی دیر سے اُٹھی ہو۔“ سلیمان صاحب نے ادیبہ کے برابر بیٹھے ہوئے کہا۔

”جی ابو اللہ کا شکر ہے۔ بس سر میں تھوڑا سا درد ہو رہا تھا اب ٹھیک ہے۔“ ادیبہ نے مسکرا کر جواب دیا۔

              __________________________

اگلے دن حمنہ نے حنین کو دیکھا تو بس اس کو دیکھتی ہی رہ گئی۔

”اُفف یار, یہ نظریں جھکا کر چلتا ہوا کتنا پیارا لگتا ہے۔“ حمنہ سارہ سے کہ رہی تھی۔

”چل آجا اس کے پیچھے چلتے ہیں۔“

”تو جا مجھے کوئی شوق نہیں ہے بےعزتی کروانے کا۔“

”مر تُو تو, میں جاتی ہوں۔“

حمنہ حنین کے پیچھے چلی گٸ۔

حنین کسی کو کال ملا رہا تھا۔ پیچھے سے کسی کی باریک نسوانی آواز آئی۔ 

”اسلام علیکم۔“

وہ مڑا اور ایک نظر اُس کو دیکھا۔ اور سوچنے لگ گیا کہ اس کو کہاں دیکھا ہے۔ ”ہاں یہ تو وہی ہے جو کل ٹکرائی تھی۔“ حنین نے سوچا۔

”وعلیکم السلام۔“ حنین نے جواب دے کر دوسری طرف رخ کر لیا۔

”کیسے ہیں آپ؟“ حمنہ نے اُس سے بات کرنا چاہتی تھی۔

”ٹھیک۔“ حنین نے ایک لفظی جواب کے بعد کال پر بات کرنا شروع کر دی۔ 

(انداز صاف ایسا تھا کہ اب آپ جا سکتی ہیں۔)

”السلام علیکم ادیبہ آپی, میں نے کارڈس کی پک سینڈ کر دی ہے آپ کے نمبر پر آپ امی سے پوچھ لیجئے گا۔ اوکے میری پیاری آپی, اللہ حافظ۔“

”مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے کیا؟“ حمنہ نے حنین سے کہا۔

”جی نہیں ,آپ کیوں پریشان ہو رہی ہیں اور جہاں تک میرا خیال پڑتا ہے میں نے آپ کو پہلی یا دوسری مرتبہ دیکھا ہے تو پھر, اور پلیز اس طرح کسی غیر لڑکوں سے بات کرنا اچھی لڑکیوں کو زیب نہیں دیتا۔“ حنین کے لہجے میں بلا کی سنجیدگی تھی, وہ کہہ کر رکا نہیں بلکہ چلا گیا۔

”کیا ہوا حمنہ۔۔۔ چلو چلیں مجھے پتہ تھا وہ یہی بولیں گے, میں نے تمہیں بتایا بھی تھا کہ دینی گھر سے ان کا تعلق ہے ,وہ غیر لڑکیوں سے فالتو بات نہیں کرتے۔“ سارہ نے حمنہ کے پاس آکر کہا۔

”سارہ ادیبہ کون ہے؟“ حمنہ کو حنین کے چہرے کی چمک یاد آئی جو ادیبہ سے بات کرتے وقت اس کے چہرے پر تھی۔ 

”ادیبہ ان کی بڑی بہن ہے جن کا میں نے تمہیں بتایا تھا کہ انہوں نے عالمہ کا کورس کیا ہوا ہے۔ حنین رضا ان کا بہت احترام کرتے ہیں ان ہی کی وجہ سے یہ کافی سدھرے ہوئے ہیں۔“ 

”سارہ مجھے ملنا ہے ادیبہ آپی سے۔“

”یار تجھے کیا ہوا ہے؟ آجا کینٹین چل کر بات کرتے ہیں۔“

”ایک حنین بھائی ہیں جو اپنی ادیبہ آپی کے دیوانے ہیں اور ایک میری دوست ہے جو اُن کی دیوانی ہے۔“ سارہ دل میں سوچ کر رہ گئی۔

”سنو حمنہ صرف ایک طریقہ ہے حنین بھائی کو پانے کا۔“

”ہاں بتا نا یار۔“

”میں تجھے ملواؤنگی ادیبہ آپی سے مگر تجھے خود کو بدلنا پڑے گا ,میرا مطلب ایسے کپڑے پہن کر تو وہاں نہیں جائے گی ان سے ملنے۔“ سارہ نے اس کے کپڑوں کو دیکھ کر کہا۔

”اچھا ٹھیک ہے میں کوئی عبایا وغیرہ پہن لوں گی۔“

”ادیبہ آپی کی چھوٹی بہن حیا آپی یہاں پڑھتی ہیں۔ آجا اُن سے بات کرتے ہیں وہ ملوا دیں گی ہمیں ادیبہ آپی سے۔“

وہ دونوں حیا کے ڈیپارٹمنٹ گئی اور حیا کو ڈھونڈنے لگیں۔ اُنھیں حیا ایک سیٹ پر بیٹھی ہوئی نظر آئی, تو دونوں اس کے پاس چلی گئیں۔

”اسلام علیکم حیا آپی۔“ سارہ نے سلام کیا۔

”وعلیکم السلام ,سارہ کیسی ہو؟“

”الحمد لله میں بالکل ٹھیک ہوں, آپ کیسی ہیں؟“ سائرہ نے کہا۔

”میں بھی اللہ کا شکر ہے ٹھیک ہوں۔“

”حیا آپی ہمیں آپ سے کچھ کام تھا۔“ 

”ہمم بولو کیا کام تھا؟“

”وہ دراصل یہ میری دوست حمنہ ہے اسے ادیبہ آپی سے ملنا ہے, اسکو دین سیکھنے کا بہت شوق ہے۔ آپ پلیز ادیبہ آپی سے پوچھ کر بتا دیں کہ کیا وہ اسے دین سکھا دیں گی۔“

(حمنہ سارہ کو گھور کر رہ گئی کیونکہ اسے دین سیکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔)

”جی کیوں نہیں, میں آج ہی ادیبہ آپی سے پوچھ لوں گی اور آپ کو کل بتا دوں گی۔“ 

”شکریہ آپی۔الله حافظ“

”الله حافظ!“”ادیبہ آپی, ادیبہ آپی کہاں ہو آپ۔“ حنین گھر آیا تو ادیبہ کو ڈھونڈنے لگ گیا۔

”ارے بیٹا کیوں چینخ رہے ہو ادیبہ اپنی دادی کے سر پر تیل لگا رہی ہے, تمہیں کیا کام ہے؟“ فاطمہ بیگم نے کہا۔

”میں آپی کے لئے چاکلیٹس لایا ہوں۔“ ادیبہ کو چاکلیٹ بہت پسند تھی۔

”بےوفا انسان میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا۔“ حیا نے ناراض ہوتے ہوئے کہا۔

”ارے یار آپ تو اتنییییییییییی بڑی ہو۔ آپ کیا کروگی چاکلیٹ کھا کر۔“ 

(حنین کا کہنا تھا کہ ادیبہ حیا سے چھوٹی لگتی ہے۔) حنین نے اتنی کو اتنا کھینچا کہ دونوں کو بے ساختہ ہنسی آگئی۔

”آنے دو تمہاری شریک حیات کو پھر بتاتی ہوں تمھیں تو میں۔“ حیا نے جان بوجھ کر وہی ٹوپک چھیڑا جس سے حنین چڑتا تھا۔

”امی آپ دیکھ رہی ہیں یہ کیسے اپنے چھوٹے سے, معصوم سے بھائی کو تنگ کر رہی ہیں۔“ حنین نے فاطمہ بیگم کو شکایت لگائی۔ 

”حیا بیٹا کیوں میرے بیٹے کو تنگ کر رہی ہو۔“ فاطمہ بیگم ہمیشہ اپنے بیٹے کی سائڈ لیتی تھیں۔ 

”آپ تو بس اپنے معصوم سے بیٹے کی طرف داری کرنا, مجھے تو لگتا ہے آپ لوگ مجھے سڑک سے اٹھا کر لاۓ تھے ,کوئی ویلیو ہی نہیں ہے میری۔“ حیا نے ناراض ہوتے ہوئے کہا۔

حنین ادیبہ کے روم میں گیا اور وہاں جاکر ویٹ کرنے لگا۔

ادیبہ کا کمرہ بہت ہی نفاست سے سجا ہوا تھا۔ وہاں جاکر حنین کو بہت سکون ملتا تھا۔ 

(جس جگہ ہر وقت اللہ کا ذکر کیا جاۓ وہاں بہت سکون ملتا ہے۔) 

”السلام عليكم ورحمة الله وبركاته۔“ ادیبہ کمرے میں آئی تو حنین نے سلام کیا۔

”وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته۔“

”یہ لیں آپی میں آپ کے لیے چاکلیٹس لایا ہوں۔“

”جزاک اللہ حنین۔“

"اچھا آپی میں چلتا ہوں, بازار بھی جانا ہے اُففففف۔"

اُس نے اس انداز میں اُفف کہا کہ ادیبہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔

”ادیبہ آپی مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔“ ابھی  حنین گیا ہی تھا کہ حیا ادیبہ کے روم میں آ کر کہنے لگی۔

 ”جی بولو کیا بات کرنی ہے۔“ 

”ادیبہ آپی وہ میری ایک فرینڈ ہے, اسے دین سیکھنے کا بہت شوق ہے ,تو وہ پوچھ رہی تھی کیا آپ اسے دین سکھا دیں گی؟“

”ماشاءاللہ یہ تو بہت اچھی بات ہے ,اسے کہو کہ کوئی مدرسہ جوائن کرلے وہاں پر دین سیکھنے کو مل جاۓ گا۔“

”مگر آپی وہ آپ سے دین سیکھنا چاہتی ہے اور ویسے بھی آپ اسے دین سیکھاٶ گی تو آپ کو کتنا ثواب ملے گا نا۔“

”نام کیا ہے اُسکا؟“

”حمنہ نام ہے اُسکا۔“

”اچھا ٹھیک ہے میں اسے سکھا دوں گی۔“

”ٹھیک ہے آپی میں اسے کہہ دوں گی۔“

حیا کہہ کر چلی گئی۔

               _________________________

”حمنہ مبارک ہو ادیبہ آپی مان گئی۔“ سارہ ابھی ابھی حیا سے مل کر آئی تھی۔ 

”کیا سچییییی۔“ حمنہ خوشی کے مارے جھوم اٹھی۔

”مگر تمہیں وہ کرنا پڑے گا جو میں کہوں گی۔“ 

”اچھا ٹھیک ہے بولو کیا کرنا ہے۔“ 

”تمہیں حجاب پہننا ہوگا, تم مکمل پردے میں ان کے گھر جاؤ گی۔“

”واٹ! پاگل ہوگئی ہو تم؟ میں اور حجاب نونونو ۔“

”تو پھر ٹھیک ہے میں نہیں ملوا رہی تمہیں ادیبہ آپی سے۔“

”یار ایسے تو نہیں کر, اچھا ٹھیک ہے میں لے لوں گی حجاب, کب جانا ہے ان کے گھر؟“

”شام میں چلیں گے,  تم شام میں میرے گھر آ جانا میں تمہیں اُنکے گھر چھوڑ دوں گی۔“

”ٹھیک ہے۔“

                   _________________________

”ماشاءاللہ! میری بیٹی نے حجاب لینا شروع کردیا۔“ جہانگیر صاحب (حمنہ کے والد) نے حمنہ کو پہلی بار حجاب لیتے دیکھا تو تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکے۔

”جی ابو میرا دل کر رہا تھا, آج سے میں حجاب پہن کر گھر سے باہر جایا کروں گی۔“ حمنہ نے کہا۔

”ماشاءاللہ! بیٹا یہ تو بہت اچھی بات ہے, مگر اس وقت کہاں جا رہی ہو؟ ابھی تو یونیورسٹی سے آئی ہو۔“

”ابو وہ میری دوست سے ملنے جا رہی ہوں, میری دوست دینی تعلیمات سکھاتی ہیں, تو میں نے سوچا میں تھوڑا بہت دین کے بارے میں سیکھ لوں۔“

(حمنہ کو بالکل شوق نہیں تھا دینی تعلیمات سیکھنے کا ,وہ تو بس حنین کے لئے سیکھ رہی تھی۔)

”ٹھیک ہے بیٹا مگر جلدی آ جانا۔“ جہانگیر صاحب نے کہا۔ 

(حمنہ کی امی کا حمنہ کے پیدا ہونے کے وقت انتقال ہو گیا تھا ,اس لئے جہانگیر صاحب اور حمنہ گھر میں اکیلے رہتے تھے۔)

”اللہ حافظ ابو۔“ حمنہ دروازے سے نکلتے ہوئے کہنے لگی۔ 

”اللہ حافظ بیٹا۔“

                _________________________

حمنہ اور سارہ سلیمان رضا ہاؤس کے باہر کھڑی تھیں۔ ”یہ تم مجھے حنین کے گھر لائی ہو۔“ حمنہ نے اشتیاق لہجے میں پوچھا۔

”ہاں حنین بھائی کے گھر ہی لائی ہوں مگر تم شرافت کا مظاہرہ رکھنا اندر جا کر اپنی گنڈاگردی شروع مت کر دینا۔“

ان دونوں نے دروازے سے اندر قدم رکھا تو انہیں حیا نظر آئی۔

”اسلام علیکم حیا آپی۔“ انہوں نے سلام کیا۔ 

”وعلیکم السلام, آٶ اندر۔“حیا انہیں گھر کے اندر لے گئی۔

”السلام علیکم آنٹی۔“ انہوں نے فاطمہ بیگم کو سلام کیا۔ 

”وعلیکم السلام, بیٹا بیٹھو۔“ فاطمہ بیگم نے خوش دلی سے انہیں سلام کا جواب دیا۔  

”سارہ بیٹا اس وقت خیریت سے آنا ہوا؟“

”آنٹی یہ میری دوست ہے حمنہ, اسے ادیبہ آپی سے دین سیکھنے کا بہت شوق ہے, اس لیے ان سے ملنے کے لیے آۓ ہیں۔“

”ماشاءاللہ بیٹا یہ تو بہت اچھی بات ہے, حیا جاؤ ادیبہ اپنے کمرے میں ہو گی انہیں ادیبہ سے ملوا دو۔“

حیا ان دونوں کو لے کر ادیبہ کے کمرے میں چلی گئی۔ 

”السلام عليكم ورحمة الله وبركاته۔“ حمنہ نے اندر جاتے ہی سلام کیا۔ سارہ تو اس کا مکمل سلام سن کر حیران ہو گئی۔

”آج سے پہلے تو کبھی کسی کو ایسے سلام نہیں کیا۔“ سارہ نے دل میں سوچا۔

”وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته۔“ ادیبہ نے جواب دیا۔ 

”ادیبہ آپی یہ میری دوست ہیں حمنہ جہانگیر, یہ آپ سے دین سیکھنا چاہتی ہیں۔“ سارہ نے کہا۔

حمنہ تو بس ادیبہ کو گھورنے میں ہی لگی ہوئی تھی۔ 

”اتنا خوبصورت چہرہ شاید نور تھا اس کے چہرے پر کیوں کہ گورا رنگ ایسا تو نہیں ہوتا۔“ حمنہ نے دل میں سوچا۔

”آپ یہاں پر حجاب ہٹا لیجئے یہاں کوئی نہیں آئے گا۔“ حمنہ نے اپنا حجاب اتار دیا۔ اسے کب سے حجاب میں گرمی لگ رہی تھی۔ 

”مجھے بہت خوشی ہوئی یہ جان کر کہ آپ دین سیکھنا چاہتی ہیں۔“ 

”جی میرا دل کر رہا تھا میں دین کے بارے میں کچھ سیکھوں اور اس پر عمل کروں۔“

ادیبہ نے سب سے پہلے حمنہ کو نماز کے بارے میں بتایا کہ نماز ہمارے دین میں کتنی ضروری ہے۔ نماز کی اہمیت اور فضیلتیں بتائیں۔ اس کو چھوڑنے پر کتنا عذاب ہوتا ہے۔ نماز کے بارے میں کافی احادیث بھی سنائیں۔

١۔ ”رسول اللہ صلى الله عليه واله وسلم کا مبارک فرمان ہے: ہمارے اور کافروں کے درمیان فرق نماز ہے۔ جس نے نماز چھوڑ دی اُس نے کفر کیا۔“

          (صحیح سنن ترمذی 2113)

٢۔ ”رسول اللہ صلى الله عليه واله وسلم کا مبارک فرمان ہے: مسلمان اور کفر و شرک کے درمیان فرق نماز ہے۔“

                                                (صحیح المسلم الایمان 243)

٣۔ ”رسول اللہ صلى الله عليه واله وسلم کا مبارک فرمان ہے: وقت پر ادا کی ہوئی نماز اللہ کو تمام اعمال میں زیادہ محبوب ہے۔“

                                                        (صحیح البخاری 527)

نماز پڑھنے کے دس فوائد بتاۓ۔

١۔ اللہ کی رضا ملتی ہے۔

٢۔ دل اور چہرہ پُر نور ہوجاتا ہے۔

٣۔ جسم کو راحت ملتی ہے۔

٤۔ بے حیائی اور برے کاموں سے نجات ملتی ہے۔

٥۔ رزق میں کشادگی ہوتی ہے۔

٦۔ برکتیں اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔

٧۔ نماز, قبر میں ساتھی ہوگی۔

٨۔ نامہ اعمال میں نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگا۔

٩۔ جنت میں داخلے کا سبب بنتی ہے۔

١٠۔ جہنم سے نجات کا ذریعہ بنتی ہے۔

حمنہ جس کو صحیح سے چھ کلمے بھی یاد نہیں تھے, آج افسوس کر رہی تھی۔ 

ادیبہ نے اُسے کچھ کتابیں دیں مطالعہ کرنے کے لیے, جس میں نماز کا طریقہ ,اُسکی اہمیت اور فضیلتیں لکھی ہوٸ تھیں۔

”کوٸ عبادت کی چاہ میں رویا

کوٸ عبادت کی راہ میں رویا

عجیب ہے یہ نمازِ محبت کا سلسلہ,

کوٸ قضا کر کے رویا, کوئی ادا کر کے رویا.“

 جاتے وقت حمنہ ہاتھ ہلا کر اللہ حافظ کرنے والی تھی اس سے پہلے ادیبہ نے مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا۔ 

”آپ کو پتہ ہے مصافحہ کرنے سے محبت بڑھتی ہے اور یہ سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی ہے۔“

ادیبہ نے اس سے مصافحہ کرتے وقت کہا۔

”جی۔“ حمنہ نے محبت سے ہاتھ ملایا, اسے ادیبہ سے مل کر سچ میں بہت خوشی ملی تھی۔ ابھی وہ جا رہی تھی کہ سیڑھیوں پر اس کا پاٶں پھسلا اور گرتے گرتے بچی۔ سامنے سے حنین آرہا تھا, اس نے حیرانی سے دیکھا۔ 

”ادیبہ آپی کی بھی کوٸ فرینڈ ہے کیا ,آج سے پہلے تو کبھی کوئی نہیں آیا, پوچھتا ہوں آپی سے۔“ اس نے دل میں سوچا۔

”آپ ٹھیک ہیں؟“ حنین نے حمنہ سے پوچھا۔

 حمنہ جی کہہ کر وہاں سے چلی گٸ۔

             _________________________

حیا جلدی سے تیار ہوجاؤ, آج تمھیں رشتے والے دیکھنے کے لیے آرہے ہیں, ادیبہ نے حیا کے روم میں آکر کہا۔

حیا جو کہ اس وقت موبائل چلانے میں مصروف تھی۔ ”واٹ۔۔۔۔۔“ حیا شوکڈ ہو گئی تھی۔ 

”ہاں سچّی! لڑکا امی کی دوست کا بیٹا ہے۔“ 

”مگر آپی وہ مجھے کیوں دیکھنے آ رہے ہیں میں تو چھوٹی ہوں نہ مجھ سے پہلے تو آپ کی شادی ہوگی نا۔“

”تم سارے سوال بعد میں کر لینا پہلے جلدی سے تیار ہو جاٶ۔“ ادیبہ کہتے ہی کمرے سے چلی گئی۔

ازلان کی امی زاہدہ بیگم اور فاطمہ بیگم دونوں دوست تھیں۔ زاہدہ بیگم کی خواہش تھی کہ ادیبہ انکی بہو بنے ,جب انہوں نے فاطمہ بیگم سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ادیبہ شادی کے لیے راضی نہیں ہے تو انہوں نے حیا کا رشتہ مانگ لیا۔

_______________

ازلان گھر آیا تھا اور اپنے روم میں جا رہا تھا کہ پیچھے سے اس کی امی کی آواز آئی۔

”ازلان بیٹا جلدی سے تیار ہو جاؤ آج ہم تمہارا رشتہ دیکھنے جائیں گے۔“ ازلان کے قدم وہیں رک گئے۔ 

”امی کیا کہا آپ نے؟“ اسے لگا شاید اس نے کچھ غلط سن لیا۔

”میری دوست فاطمہ کی بیٹی ہے, اس کا رشتہ دیکھنے کے لیے جا رہے ہیں۔“ 

”مگر امی! آج اچانک آپ مجھے پہلے بتادیتی نا۔“

بیٹا میں نے انہیں کہہ دیا ہے کہ ہم آرہے ہیں۔“ 

”مگر امی۔۔۔۔“

”اگر مگر کچھ نہیں, جاؤ جاکر ریڈی ہو کر آٶ۔“ انہوں نے  فیصلہ سنا دیا تھا۔

ازلان اپنے روم میں آیا اور دروازہ بند کر کے روحان کا فون کرنے لگا۔

”روحان تو فٹا فٹ تیار ہو کر میرے گھر پہنچ۔“

”سب خیریت ہے نا برو۔“

”یار یہ امی میرا رشتہ دیکھنے جا رہی ہیں اور مجھے بھی ساتھ چلنے کو کہا ہے۔“ 

”ہاں تو پھر مجھے کیوں بلا رہا ہے, میرا رشتہ دیکھنے تھوڑی جارہی ہیں آنٹی۔“

”تو آرہا ہے یا میں لینے کے لئے آٶں۔“ 

”اچھا آتا ہوں, فون رکھ۔“

            _________________________

حمنہ نے گھر آکر سارہ کو فون کرکے سب کچھ بتادیا کہ آج وہ سیڑھیوں سے گرتے گرتے بچی, اور حنین نے اس سے پوچھا کہ وہ ٹھیک ہے۔ 

”تم نے آگے سے کچھ کہا تو نہیں۔“ سارہ پریشان تھی کہیں اس نے کچھ کہ نہ دیا ہو۔ 

”نہیں یار میں نے کہا جی ٹھیک ہوں اور آگٸ وہاں سے۔ اچھا یار بات سن مجھ سے پردہ نہیں کیا جاتا, مجھے چکر آتے ہیں, میں نہیں کروں گی آئندہ سے پردہ۔“

”دیکھو حمنہ! حنین بھائی کا مزاج بہت سنجیدہ ہے, وہ لڑکیوں سے فری نہیں ہوتے, نہ ہی ان سے فضول میں باتیں کرتے ہیں کیونکہ وہ خود بہنوں والے ہیں اور بہنیں بھی اتنی سیدھی ہیں تم خود واقف ہو۔ تمہیں پتا ہے حمنہ آج حنین بھائی نے تم سے یہ پوچھا کہ تم ٹھیک ہو, اگر تمہاری جگہ کوئی اور بے پردہ لڑکی ہوتی تو انہیں پرواہ نہیں ہوتی, تمہاری پرواہ انہوں نے اس لیے کی کہ تم نے پردہ کیا ہوا تھا اور باپردہ لڑکیاں ان کے لئے قابل احترام ہے۔ دوسری بات تم کہہ رہی ہو کہ تم پردہ چھوڑ دو گی تو ٹھیک ہے بھول جاؤ حنین بھاٸ کو۔ میرا پلان تھا کہ تم پردہ شروع کرلیتی تو, حنین بھائی پردہ کرنے والی لڑکی کے رشتے کیلیے منع بھی نہیں کرتے, مگر شاید تمہیں حنین بھائی نہیں چاہیے, پھر چھوڑ دو یہ سب پاگل پن۔“

حمنہ جو غور سے سارہ کی باتیں سن رہی تھی, اس نے آخری بات پر آنکھیں بند کیں اور پھر کھولیں۔ 

ساءرہ تو ٹھیک کہہ رہی ہے, میں پردہ نہیں چھوڑوں گی بلکہ اس فیشن کو چھوڑ دوں گی, ہر اس چیز کو چھوڑ دوں گی جو حنین کو نا پسند ہے۔“

”یہ ہوئی نا بات اب بس تم ایک بار دین سیکھ لو پھر حنین بھائی تمہارے ہوں گے۔“ 

”تھینک یو سو مچ سارہ ,آئی لو یو, تم جیسی دوست اللہ سب کو دے۔“ حمنہ نے خوشی سے کہا۔

                   ”روح ميں حيا نہ ہو تو, 

         رنگ برنگے حجاب بھی کام نہيں ديتے۔“             _________________________

روحان ,ازلان اور زاہدہ بیگم سلیمان رضا ہاٶس پہنچ گئے تھے۔ وہ لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے, سامنے فاطمہ بیگم, صبیحہ بیگم اور سلیمان صاحب بیٹھے تھے۔ 

حیا چاۓ لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔

”حیا یہاں کیا کر رہی ہے۔“ روحان نے ازلان کے کان میں کہا۔ 

”ہاں یار یہی تو میں سوچ رہا ہوں۔“ 

”السلام علیکم۔“ حیا نے اندر آتے ہی سلام کیا, اس نے سامنے دیکھا تو اسے روحان اور ازلان بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ 

”وعلیکم السلام بیٹا۔“ زاہدہ بیگم نے جواب دیا۔ 

”یہ دونوں یہاں کیوں آئے ہیں اگر آپی نے ان کو دیکھ لیا تو مجھے بہت ڈانٹیں گی۔“ حیا دل میں سوچ رہی تھی۔ 

 ”بیٹا یہاں میرے پاس آکر بیٹھو۔“ زاہدہ بیگم نے حیا کو کہا جو سب کو چاۓ سرو کرنے کے بعد ایک جگہ کھڑی ہوگئی تھی۔ 

”جی آنٹی۔“ حیا ان کے ساتھ بیٹھ گئی۔

”حیا یہ میرا بیٹا ہے ازلان۔“ زاہدہ بیگم نے اپنے بیٹے کا تعارف کروایا۔

”جی آنٹی میں جانتی ہوں ازلان اور روحان کو یہ دونوں میرے ساتھ ہی پڑھتے ہیں۔“ حیا نے ان دونوں کی طرف دیکھ کر کہا جو بالکل خاموش بیٹھے تھے۔ 

”یہ تو بہت اچھی بات ہے آپ دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہو۔“ زاہدہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

”دیکھو فاطمہ مجھے تمہاری بیٹی بہت پسند آئی ہے ہماری طرف سے تو ہاں ہی سمجھو۔ اب میں تمہاری طرف سے بھی ہاں سمجھوں؟“

”بالکل ہماری طرف سے بھی ہاں ہے, حیا اور ازلان بیٹا آپ دونوں کو کوئی اعتراض تو نہیں۔“

”نہیں آنٹی جب آپ بڑے راضی ہیں تو ہمیں کیا اعتراض ہوگا۔“

 حیا نے بھی ہاں کر دی تھی۔

”چلو اس بات پر منہ میٹھا ہو جائے۔“ صبیحہ بیگم نے کہا۔

”فاطمہ تمہاری بڑی بیٹی ادیبہ نظر نہیں آرہی۔“

”زاہدہ وہ اپنے کمرے میں ہے ,تمھیں بتایا تو تھا وہ پردہ کرتی ہے۔“ فاطمہ بیگم کو عجیب لگ رہا تھا کہتے ہوئے۔ 

”چلو کوئی بات نہیں میں اس سے کمرے میں مل لوں گی۔“

”حیا بیٹا جاؤ آنٹی کو ادیبہ سے ملوا لاٶ۔“ فاطمہ بیگم نے حیا سے کہا۔ 

”آئیں آنٹی۔“ حیا نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ 

”ایسا بھی کیا پردہ کہ بندہ کمرے سے ہی نہ نکلے۔“ روحان نے دل میں سوچا۔   

                                                                                     ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

ابھی روحان ,ازلان اور زاہدہ بیگم گاڑی میں بیٹھ رہے تھے کہ اتفاق سے روحان کی نظر اوپر اٹھی تو اسے سامنے کھڑکی میں کسی کا آدھا چہرہ دکھائی دیا۔ ادیبہ جو ایسے ہی کھڑکی کے باہر دیکھ رہی تھی اس کی نظر جیسے ہی نیچے پڑی تو سامنے کھڑے روحان کو دیکھ کر فوراً پیچھے ہو گئی۔

”کون تھی وہ لڑکی؟ شاید ادیبہ تھی۔“ روحان خود سے باتیں کر رہا تھا۔

ادیبہ کا جسم کانپنے لگ گیا تھا۔ اس کا ڈر کے مارے برا حال تھا۔ اتنے سالوں میں آج پہلی بار کسی غیر مرد کی نگاہ اسکے چہرے پر پڑی تھی۔

”کیا وہ روحان احمد تھا۔“

ادیبہ خود سے ہی سوال کر رہی تھی۔ 

”نہیں شاید میرا وہم ہو گا وہ یہاں کیوں آئے گا۔“  ادیبہ نے استغفار پڑھتے ہوئے آنکھیں بند کر لی۔

              _________________________


”السلام علیکم یارا۔“

ازلان نے روحان کے روم میں آتے ہی سلام کیا۔ 

”وعلیکم السلام۔“ 

”کیا ہوا محمد روحان ابن احمد رضا خان۔“

روحان جو اس وقت بہت پریشان تھا مگر ازلان کی بات سن کر اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔

               ”کیا بات ہے آخر کس غم نے تمہیں گھیرا ہے

                 بکھری ہوئی زلفیں ہیں اترا ہوا چہرہ ہے۔“

”یار میری بات سن۔“ روحان نے ازلان کی طرف دیکھ کر کہا۔

”ہاں بول۔“ ازلان اب سنجیدہ ہو گیا تھا۔

”یار مجھے اس کو دیکھنا ہے۔“  

”کس کو؟“ ازلان نے چونک کر کہا کیونکہ اس نے بات ہی ایسی کہی تھی۔

”ادیبہ سلیمان کو۔“ اس نے آہستہ آواز میں ادیبہ کا نام لیا۔

”تو پاگل ہوگیا ہے, وہ پردہ کرتی ہے۔“ 

”یار میں تھوڑی کچھ کہہ رہا ہوں صرف دیکھنا ہے اسے اور کچھ نہیں۔“

”تجھے جو کرنا ہے کر, مگر میں اس غلط کام میں تیرا ساتھ نہیں دونگا, وہ باپردہ لڑکی ہے ایسی لڑکیوں کی طرف نگاہ اٹھتی نہیں ہے خود ہی جھک جاتی ہے۔“ ازلان کے لہجے میں احترام تھا۔ روحان کو بھی شاید اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔

”واقعی یار! تو صحیح کہ رہا ہے۔ سوری میں نہیں دیکھوں گا ,بس ایسے ہی میں نے سوچا ایسی لڑکیاں کیسی دکھتی ہیں جو خود کو چھپا کر رکھتی ہیں“۔

             _________________________

”ادیبہ آپی اللہ تعالی سے دعا کیسے مانگی جائے؟“ حمنہ نے ادیبہ سے پوچھا۔

”دیکھو حمنہ دعا مانگنے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی الفاظ کو رٹ لیا جائے بلکہ دعا تو دل کی آواز کو کہتے ہیں۔ ہاں مگر میں آپ کو ایک طریقہ بتاتی ہوں جس سے اکثر دعائیں قبول ہو جاتی ہے۔

دیکھو اگر کوئی فقیر ہمارے پاس آتا ہے تو ہمیں ہمارے پیاروں کا واسطہ دےکر کچھ مانگتا ہے۔ کبھی کہتا ہے تجھے تیرے ماں باپ کا واسطہ یا تجھے تیرے بچوں کا واسطہ, تو ہم اسے کچھ پیسے وغیرہ دے دیتے ہیں, اسی طرح ہم بھی غریب بن کر اللہ پاک کی بارگاہ میں آتے ہیں۔

(اللہ پاک تو ویسے بھی اولاد اور ماں باپ سے پاک ہیں۔) جب اللہ پاک کو انکے پیارے نبی حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم کا واسطہ دے کر کچھ مانگا جاۓ تو یقیناً دعا قبول ہو جاتی ہے اور یہی بہتر طریقہ ہے دعا مانگنے کا۔“

”جزاك الله ادیبہ آپی, میں آئندہ سے ایسے ہی دعا مانگا کروں گی۔ ادیبہ آپی آپ سے ایک سوال اور پوچھنا تھا۔“

”جی پوچھیں حمنہ۔“

”آپی کیا پردہ کرنا ضروری ہے؟ میرا مطلب اگر نہ کریں تو کوئی حرج تو نہیں۔“

حمنہ دو دن پردہ کرنے سے تنگ آگئی تھی اسے گھٹن ہوتی تھی پردہ سے تو اس نے سوچا ادیبہ آپی سے پوچھ لوں اگر پردہ کرنا ضروری نہیں ہے تو چھوڑدوں گی۔

”میں آپکو قرآن پاک کی آیت سناتی ہوں اس سے آپکو پردہ کی اہمیت کے بارے میں پتہ چل جاۓ گا۔

اللہ پاک قرآن کریم میں فرماتے ہیں: 

"اے نبی (صلى الله عليه واله وسلم)! آپ اپنی بیویوں, بیٹیوں اور تمام مسلم عورتوں سے فرما دیجئے کہ اپنی چادروں کو اپنے (منہ کے) اوپر ڈال لیا کریں۔ اس طریقے میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی تو ان کو ستایا نہیں جائے گا اور اللہ تو بخشنے والے مہربان ہیں۔“

(سورة الاحزاب آیت نمبر 59)

ایک اور آیت میں فرمایا کہ:

” اے نبی (صلى الله عليه واله وسلم)! آپ فرما دیجیے مومن مردوں سے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنے ستر کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے پاکیزہ رہنے کا طریقہ ہے اور وہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں اللہ پاک  کو ان کی خبر ہوتی ہے۔ اور آپ مومن عورتوں سے (بھی) کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنے ستر کی حفاظت کریں اور اپنے حسن کو کسی پر ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود ظاہر ہو جائے (یعنی ستر کے علاوہ) اور اپنی چادر کو اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں اوراپنی سجاوٹ کو کسی پر ظاہر نہ کریں,...................“

                              (سورة النور آیت نمبر 30-31)

 اس آیت میں مردوں کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں بلاوجہ غیر محرم عورتوں کو  نہ دیکھیں ۔

اور عورتوں کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ بلاوجہ غیر مردوں کو نہ دیکھیں۔اور یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ اپنی سجاوٹ کو غیر مردوں سے چھپا کر رکھیں۔ 

اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ عورت اپنے حسن کو چھپا کر رکھے, مگر آج کے دور میں عورتیں اپنے حسن کو نمایاں کرتی پھرتی ہیں۔ آپ خود سوچیں جب ایک لڑکی پردہ کر کے گھر سے نکلے گی تو کوئی بھی غیر مرد اسکی طرف دیکھنے کی زحمت نہیں کرے گا۔ اب یہی لڑکی تیار ہوکر, فیشن کر کے گھر سے نکلے گی تو غیر مرد کی نگاہ خود بخود اس پر جائے گی۔ پھر یہی عورتیں کہتی پھرتی ہیں کہ آج کل کے مردوں میں کوئی شرم نام کی چیز نہیں ہے ہر وقت لڑکیوں کو ہی تاڑتے رہتے ہیں۔ اگر یہ عورتیں خود کو چھپا کر رکھیں, اللہ پاک کے حکم کے مطابق پردہ کر کے گھر سے نکلیں گی تو کسی کی کیا مجال کہ انکو دیکھے۔

آج کے دور میں پردہ تو بالکل ختم ہوگیا ہے۔ اگر کسی کو کہہ بھی دیتے ہیں کہ پردہ کرو تو کہتی ہیں کہ پردہ آنکھوں کا ہونا چاہیے۔ اگر ان سے کہا جائے کہ بھئی آنکھوں کا پردہ ہونا چاہیے تھا تو ازواج ِمطہراتؓ  جیسی پاکیزہ عورتیں کیوں پردہ کرتی تھیں کیا ان کی آنکھوں میں حیا نہیں تھی؟ وہ صحابہ کرامؓ  جیسے پاک مردوں سے پردہ کرتی تھیں۔ کیا صحابہ کرامؓ  کی آنکھوں میں حیا نہیں تھی؟ وہ پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں سے پردہ کرتی تھیں۔ تو آج کے دور کے مرد و عورت تو ان جیسے پاک نہیں ہیں پھر انکو پردہ کرنا کتنا ضروری ہوگا۔

ان آیات سے آپ کو اندازہ تو ہو ہی گیا ہوگا کہ پردہ کرنا کتنا ضروری ہے۔“

”شکریہ ادیبہ آپی آپنے مجھے اتنے اچھے سے پردے کے احکام بتاۓ۔ میں ان آیات پر ضرور عمل کروں گی اور ان شاء اللہ کبھی بھی پردہ نہیں چھوڑونگی۔“ حمنہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ وہ سوچتی تھی کہ پردہ کرنا کیا ضروری ہے بلاوجہ بس حجاب پہننا پڑتا ہے۔ آج اسے احساس ہوگیا تھا کہ پردہ کرنا کیوں ضروری ہے۔

”‏فیشن چاہے جتنا بھی خوبصورت لگے مگر وہ پردے اور شرم و حیا سے زیادہ خوبصورت نہیں ہوتا..“

”حمنہ آپ نے کبھی قرآن پاک کو پڑھا ہے۔“ ادیبہ نے اس سے عام سا سوال پوچھا۔

”جی بہت بار مکمل پڑھا ہے۔“ حمنہ حیران تھی کہ یہ کیسا سوال ہے۔

”کیا آپ نے کبھی قرآن پاک پڑھتے ہوۓ سوچا ہے کہ اس میں کیا لکھا ہے؟“

(ہمیں عربی پڑھ کر تو کچھ سمجھ نہیں آتا بس ایسے ہی پڑھتے رہتے ہیں۔)

”نہیں میں نے کبھی نہیں سوچا کہ اس میں کیا لکھا ہے مگر آپ مجھے میرے سارے سوالوں کے جواب قرآنی آیات سے دیتی ہیں تو مجھے دلچسپی ہوگئی ہے کہ میں اسکا ترجمہ پڑھوں تاکہ مجھے پتہ چلے کہ  اس میں کیا لکھا ہے۔“

”ہمم آپ ایک بار ضرور قرآن پاک کا ترجمہ پڑھیں۔ ظاہر ہے اللہ پاک نے بلاوجہ تو قرآن پاک نازل نہیں کیا نا کہ ہم بس عربی پڑھیں اور ہمارے پلے کچھ پڑے ہی نہیں۔ ہم عربی نہیں عجمی ہیں اسی لیے ہمیں قرآن پاک سمجھ نہیں آتا۔ ہمیں اس کا ترجمہ پڑھنا پڑتا ہے۔ یہ میں آپ کو ایک کتاب دیتی ہوں۔ آپ اس کو ضرور پڑھیں۔ اس میں قرآن پاک کا ترجمہ بہت آسان لفظوں میں لکھا ہے آپ کو سمجھنے میں مشکل بھی نہیں ہوگی۔ ان شاء اللہ آپ کو آپ کے سارے سوالوں کے جواب اس میں ضرور مل جائیں گے ,اگر کوئی چیز سمجھ نہیں آۓ تو مجھ سے پوچھ لیجئے گا۔“ ادیبہ نے اسے کتاب دیتے ہوئے کہا۔

”جزاک اللہ ادیبہ آپی! میں ضرور پڑھوں گی۔“ حمنہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

                     ”قصہ یہ پڑھا ہے پرانی کتاب میں!!

                   حُسن محفوظ رہتا ہے ہمیشہ حجاب میں۔“

                  _________________________

”امی مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔“ فاطمہ بیگم کچن میں کام کررہی تھیں اتنے میں ادیبہ آئی اور کہنے لگی۔

”ہاں بیٹا بولو کیا بات کرنی ہے؟“

”امی میں سوچ رہی تھی کہ حیا اور ازلان کا رشتہ تو پکا ہو ہی گیا ہے تو آپ ان کا نکاح کروا دیں۔“

”مگر بیٹا حیا کے اگزامز تو ہونے دو۔“

”امی میں کونسا رخصتی کروانے کا بول رہی ہوں صرف نکاح کا ہی تو بولا ہے ایک بار نکاح ہو جاۓ گا تو سنت بھی ادا ہو جاۓ گی اور حیا کا ازلان خان سے بات کرنا بھی گناہ نہیں ہوگا اور ویسے بھی ہمارے اسلام میں منگنی کا کوئی رواج نہیں ہے۔“ ادیبہ نے فاطمہ بیگم کو سمجھانا چاہا۔

”ٹھیک ہے بیٹا میں تمہارے ابو سے بات کرتی ہوں۔“ ”شکریہ امی۔“ ادیبہ نے مسکراتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔

فاطمہ بیگم نے سلیمان صاحب اور زاہدہ بیگم سے بات کی تو وہ بھی خوشی خوشی راضی ہوگئے اور ان دونوں کا نکاح ہو گیا۔

                      _________________________

حمنہ ادیبہ کے روم میں جا رہی تھی کہ تب ہی سامنے سے حنین سیڑھیوں سے اتر کر آرہا تھا۔

”اسلام علیکم۔“ حمنہ نے اسے دیکھ کر کہا۔ 

”وعلیکم السلام۔“ حنین اسے پہچان گیا تھا کہ ادیبہ کی دوست ہے۔ حنین نے ہلکا سا مسکرا کر اسے جانے کی جگہ دی۔

”کیا مسکراتا ہے, اُففف اس کا ڈمپل......“ حمنہ سوچتی ہوئی آگے کی طرف بڑھ گئی۔

”السلام عليكم ورحمة الله وبركاته“ اس نے ادیبہ کے کمرے میں آتے ہی سلام کیا۔

”وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔“ 

”ادیبہ آپی یہ آپ کے لیے۔“ 

حمنہ نے خوبصورت سا ڈریس ادیبہ کو دیا۔

”اس کی کیا ضرورت تھی حمنہ۔ آپ بلاوجہ ہی پریشان ہوئی۔“ 

”اسمیں پریشانی والی کیا بات, آپ نے ہی تو کل حدیث پاک سنائی تھی کہ تحفہ دینے سے محبت بڑھتی ہے, بس اسی لیے۔“

”اچھا جزاك اللہ“ ادیبہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

”اِٹس اوکے۔“ حمنہ نے کہا۔ 

”حمنہ "جزاك الله" کا مطلب ہوتا ہے اللہ آپ کو اس کا اچھا بدلہ دے اس کے جواب میں آمین کہتے ہیں۔“

”اوہ سوری مجھے پتا نہیں تھا, آمین۔“ حمنہ نے کہا۔

”اُفف ادیبہ آپی کی مسکراہٹ بالکل حنین کے جیسی ہے۔ مگر حنین کا ڈمپل...“ حمنہ دل میں سوچے جا رہی تھی اور مسکرا رہی تھی۔

”کیا ہوا؟“ ادیبہ نے اس کو اکیلے مسکراتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔ 

”جی وہ ڈمپل۔“ حمنہ کے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ ”کیا!!!“ ادیبہ سمجھ نہیں پائی۔

”وہ میں کہہ رہی تھی آپ مسکراتے ہوئے بہت پیاری لگتی ہیں۔“ حمنہ اپنے بے اختیار ہو جانے پر کنفیوزڈ ہو گئی تھی۔ 

”ہمم حنین بھی مجھے یہی کہتا ہے کہ میں مسکراتے ہوۓ پیاری لگتی ہوں۔“

”جی آپ سچ میں بہت پیاری لگتی ہیں۔“ حمنہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

”شکریہ حمنہ۔“

ادیبہ آج اُسے روزے کی فضیلت بتا رہی تھی۔ ساتھ ساتھ بہت سے واقعات بھی سنا رہی تھی۔

”ادیبہ آپی سچ بتاؤں اتنی اچھی باتیں سن کر میرا یہاں سے جانے کو دل نہیں کرتا۔“

”تو آپ یہیں آجائیں مستقل۔“ ادیبہ نے محبّت سے کہا۔

”ارے میں بھی تو یہی چاہتی ہوں۔“ حمنہ نے دل میں سوچا۔

”ایسا ممکن کہاں؟“ 

”آپ کا جب دل کیا کرے آپ آ جایا کریں۔“ 

”شکریہ ,اچھا اب میں چلتی ہوں۔ اللہ حافظ۔“

”اللہ حافظ۔“

 وہ سیڑھیاں اُتر رہی تھی۔ اسکی آنکھیں حنین کو ڈھونڈ رہی تھیں۔

(حالانکہ اس نے ابھی پڑھا تھا کہ غیر محرم کو پہلی نظر دیکھنا معاف ہے مگر بار بار نہیں۔)

اس نے نگاہ نیچے کر لی۔ دل میں بار بار یہی خیال آ رہا تھا کہ اتنی محنت کے بعد بھی حنین نے ریجیکٹ کر دیا تو۔ یہ سوچ کر اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

حمنہ نگاہ نیچی کیے ہوۓ جا رہی تھی سامنے سے حنین چوکیدار سے بات کرتا ہوا پلٹا تو حمنہ سے ٹکرا گیا۔ 

”اوہ آئی ایم سو سوری۔“ حنین ایک دم گھبرا گیا۔

حمنہ نے نگاہیں اُوپر کیں اور کچھ بولے بغیر ہی آگے بڑھ گئی۔ 

”سنیئے۔“ حنین اس کے پیچھے گیا۔

”کیا ہوا زیادہ لگ گیا کیا؟ آپ رو رہی ہیں۔“ حنین نے اس کے آنسو دیکھ لیے تھے۔ 

”جی نہیں لگی۔“ اتنا کہہ کر وہ رکی نہیں, چلی گئی۔ ادھر حنین پریشان تھا کہ وہ کیوں رو رہی تھی۔

                  _________________________

”چلو بیٹا آج شاپنگ پر چلیں۔“ فاطمہ بیگم نے ادیبہ سے کہا ,جو ان کے پیر دبا رہی تھی۔

”امی اس وقت بہت دھوپ ہے شام میں چلیں؟“ اس نے اجازت طلب انداز میں کہا۔ 

”ٹھیک ہے بیٹا پھر شام میں چلیں گے۔“

ادیبہ کی عادت تھی جب فارغ ہو جاتی تو اپنی امی کے پاس آجاتی۔ کبھی ان کے پیر دباتی تو کبھی سر دبا دیتی تھی۔ وہ فارغ وقت میں موبائل استعمال نہیں کرتی تھی بلکہ اپنی امی کی خدمت کرتی تھی۔ وہ رشتوں کو موبائل پر ترجیح نہیں دیتی تھی۔

                _________________________

ادیبہ ,حیا اور فاطمہ بیگم شاپنگ کرنے آئیں تھیں۔ مال پہنچ کر انہوں نے ادیبہ کیلیے عبایا لیا اور اس کے منع کرنے کے باوجود کچھ جیولری وغیرہ بھی لیں۔ کچھ دیر شاپنگ کرنے کے بعد ادیبہ کو چکر آنے لگے تو وہ سائیڈ بینچ پر بیٹھ گئی اور درود شریف کا ورد کرنے لگی۔

سامنے روحان اور ازلان بھی شاپنگ کر رہے تھے۔ انہوں نے حیا اور فاطمہ بیگم کو دیکھا تو سلام کرنے کے لئے آگے بڑھے۔ اچانک روحان کی نظر ادیبہ پر گئی اس نے مکمل نقاب کیا ہوا تھا۔

”یہ ادیبہ سلیمان ہے؟“ اس نے خود سے سوال کیا۔ 

”ہاں یہی ہے وہ جو اُس دن حیا کے ساتھ تھی۔“ اس نے خود کو اس کے پاس جانے سے باز رکھنا چاہا مگر اس کی آواز سننے کی نیت سے اس کے پاس چلا گیا۔ ازلان فاطمہ بیگم اور حیا سے باتیں کر رہا تھا۔

”السلام علیکم ادیبہ جی۔“ اس نے ادیبہ کے پاس جاتے ہی سلام کیا۔ ادیبہ نے اپنے قریب انجان آواز سنی تو ڈر گئی۔ نظر اٹھانا بھی چاہا تو نہیں اٹھا پائی۔ اس نے دل میں سلام کا جواب دیا۔

”آپ تو کافی دیندار ہیں, تو سلام کا جواب دینا ہر مسلمان پر واجب ہے یہ بھی پتہ ہوگا۔“

”سلام کا جواب غیر محرم کو تیز آواز میں دینا ضروری نہیں ہے۔“ روحان کو پیچھے سے حیا کی آواز آئی تو وہ مڑا۔

”حیا تم, میں تو ویسے ہی سلام کرنے آیا تھا۔“ روحان حیا کے آنے پر گھبرا گیا تھا۔

”چلو روحان چلیں۔ اچھا آنٹی ہم چلتے ہیں پھر ملاقات ہوگی۔“ ازلان اُسے لے کر مال سے نکل گیا۔

”روحان تو کیا کر رہا تھا۔ تجھے کتنی مرتبہ کہا ہے ادیبہ سے دور رہا کر۔“ ازلان نے غصے سے کہا۔

”یار میں نے تو بس سلام ہی کیا تھا اس میں اتنی بڑی کیا بات تھی؟“ وہ اپنی غلطی ماننے کو تیار ہی نہیں تھا۔

”دوسری ہزار لڑکیاں ہیں تو ان سے بات کرلیا کر۔ کیوں اس پارسا عورت کے پیچھے پڑا ہے۔ اچھا تو ایک بات بتا تو نے اس کی طرف دیکھا؟“ ازلان نے موضوع سے ہٹ کر بات کی۔

”نہیں یار اچھا نہیں لگ رہا تھا مجھے۔“ 

”اچھا نہیں لگ رہا تھا وہ بات الگ ہے مگر روحان جب تک ایک عورت خود نہ چاہے تب تک مرد اپنی حدود پار نہیں کر سکتا اور دوسری بات وہ اتنی پاکیزہ ہے, اس نے خود کو اچھے سے کور کر رکھا ہے۔ اس کی طرف نگاہ نہیں اٹھتی بلکہ جھک جاتی ہے۔“

”واقعی یار تو صحیح کہہ رہا ہے مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔“ وہ واقعی شرمندہ ہو گیا تھا۔

              _________________________

روحان گھر پر آیا تھا تب سے بے سکون تھا۔ اس کا دل بار بار اسے ادیبہ کو دیکھنے پر اُکسا رہا تھا۔ وہ باہر بالکونی میں گیا اور سگریٹ پینے لگا کہ شاید اس کو سکون مل جائے۔ 

”وہ لڑکی کیوں میرے ذہن پر سوار ہو گئی ہے۔“ وہ سگریٹ کے کش لگاتا ہوا خود سے سوال کر رہا تھا۔

”ایسا بھی کیا ہے اس میں جو وہ خود کو اتنا کور کرکے رکھتی ہے۔“ روحان کو ابھی تک یہ بات ٹھٹھک رہی تھی کہ کوئی اس زمانے میں بھی اتنا باپردہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ وہ جس سوسائیٹی میں پلا بڑھا تھا وہاں کی لڑکیاں بہت زیادہ موڈرن تھیں۔ اسی لیے ادیبہ کا پردے میں رہنا اسے عجیب لگ رہا تھا۔ اب اس کا صبر جواب دے گیا تھا۔ وہ کمرے میں آیا, اپنی جیکٹ اور موبائل اٹھایا اور گھر سے باہر نکل گیا۔ رات کے دو بج رہے تھے وہ سلیمان رضا ہاؤس کے باہر کھڑا تھا۔ چوکیدار سویا ہوا تھا۔ اس نے اس بات کا فائدہ اٹھا کر دیوار سے چھلانگ لگائی اور جس کھڑکی سے اسے ادیبہ نظر آئی تھی اس کے نیچے جا کر کھڑا ہو گیا۔

”یہ تو اوپر ہے, اب کیسے چڑھوں؟“ وہ دل میں سوچ رہا تھا کہ اسے سائیڈ میں ایک پائپ نظر آیا جو کہ دیوار کے ساتھ لگا ہوا تھا وہ پائپ کی مدد سے کھڑکی تک پہنچ گیا۔ کھڑکی نیم واں (آدھی کھلی ہوئی) تھی۔ روحان نے اندر جھانکا۔ ادیبہ تہجد کی نماز پڑھ رہی تھی۔ ادیبہ کی پِیٹھ اس کی طرف تھی۔ 

”یار ذرا سا پلٹ جاٶ دیکھ لوں تھوڑا سا۔“ اسے ڈر تھا کہ کہیں کوئی آ نہ جائے۔

ادیبہ نے جیسے ہی سلام پھیرا تو روحان کو اس کا آدھا چہرہ نظر آیا وہ حیران ہو گیا تھا اس کا چہرہ دیکھ کر۔ اتنا حسین چہرہ,اتنی خوبصورت آنکھیں جن میں الگ ہی چمک تھی۔ شفاف اور گورا رنگ, گلابی ہلتے ہوئے ہونٹ, اس کے چہرے پر نور ہی نور تھا۔

          ”‏کیا حُسن تھا کہ آنکھ سے دیکھا ہزار بار,

           پھر بھی نظر کو حسرت دیدار رہ گئی۔ “

روحان اس کو دیکھتا ہوا کہیں کھو سا گیا تھا۔ 

”یا اللہ پاک اسے میرا بنا دو۔“ اس کے لب سے بے اختیار دعا نکلی تھی اور اب اسے احساس ہوا تھا کہ اس نے کتنا بڑا گناہ کیا ہے۔

”یا اللہ! میں نے کتنا بڑا گناہ کر دیا اس کو دیکھ کر۔ آئی ایم سوری اللہ تعالیٰ۔“ دل ہی دل میں وہ اللہ پاک سے مخاطب ہوا اور وہاں سے نیچے چھلانگ لگا دی اور اپنے گھر آ گیا۔ رات بھر وہ سو نہیں سکا۔ اس نے بیڈ کراٶن سے ٹیک لگایا اور آنکھیں بند کیں تو وہ پاکیزہ چہرہ اس کی آنکھوں میں آ گیا۔

           "نہ جانے کیا کشش ہے اس کی مدہوش آنکھوں میں

            نظر انداز جتنا بھر کروں, نظر اُس پر ہی رہتی ہے۔"

             _________________________

آج حمنہ ادیبہ سے سبق پڑھ رہی تھی کہ اتنے میں حنین کمرے میں آ گیا۔

”ادیبہ آپی! آپ کے لئے چاکلیٹس....“ وہ آگے کچھ کہتا اس سے پہلے اس کی نگاہ حمنہ کے چہرے پر گٸ۔ حمنہ نے فوراً اپنا رخ دوسری طرف کر لیا۔

”حنین میں آپ سے تھوڑی دیر بعد بات کرتی ہوں, ابھی میری دوست ہیں یہاں۔“ ادیبہ نے کہا۔

”ٹھیک ہے آپی۔“حنین کہہ کر چلا گیا۔

”یہ تو وہی لڑکی ہے جو یونی میں ملی تھی۔ یہ ادیبہ آپی سے دین  سیکھ رہی ہیں۔“ حنین حیران تھا اس نے حمنہ کو دیکھتے ہی پہچان لیا تھا۔

”سوری حمنہ میرے بھائی کو پتہ نہیں تھا کہ آپ میرے کمرے میں ہیں۔“ ادیبہ نے حمنہ سے کہا۔

”کوئی بات نہیں ادیبہ آپی۔“

حمنہ کو ٹینشن ہو رہی تھی کہیں حنین نے اسے دیکھ نہ لیا ہو۔ 

”اچھا حمنہ آپ سے ایک گزارش تھی۔“ 

”جی کہیں ادیبہ آپی۔“

”حمنہ میرے ماموں کے بیٹے کا ولیمہ ہے لاہور میں۔ امی کہہ رہیں تھی کہ ماموں نے کہا ہے ادیبہ کو لازمی لانا۔ حیا کے امتحان شروع ہوگئے ہیں۔ تو کیا آپ میرے ساتھ چلیں گی؟ مجھے اکیلے جاتے ہوئے عجیب لگ رہا ہے۔ میں حیا کے بغیر کبھی کہیں نہیں گئی۔“

”ٹھیک ہے ادیبہ آپی, میں اپنے ابو سے ایک بار اجازت لے لوں، اگر وہ اجازت دے دیتے ہیں تو میں آپ کو بتا دوں گی۔“

”جزاک اللہ! حمنہ“

”آمین۔“

                ________________________

”کیا ہوا روحان؟ تو اتنا اداس چہرہ لے کر کیوں بیٹھا ہے؟“ ازلان روحان سے ملنے آیا تھا۔ وہ اداس لگ رہا تھا۔

”یار مجھے سکون کیوں نہیں مل رہا؟ میں کچھ بھی کروں مجھے سکون نہیں مل رہا۔ میں کیا کروں؟“ اس کے چہرے پر تکلیف کے اثرات صاف نمایاں ہو رہے تھے۔

”تو اُٹھ میرے ساتھ چل۔“ ازلان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

”مگر کہاں؟“ روحان حیران تھا۔ 

”تو اٹھ تو سہی, میرے ساتھ چل۔“

ازلان اسے مسجد میں لے کر گیا اور اسے وضو کرنے کو کہا۔ وضو کرنے کے بعد دونوں نے نماز پڑھی۔ روحان کو نماز میں بہت سکون مل رہا تھا۔ نماز پڑھنے کے بعد وہ وہیں بیٹھ گیا۔ 

”اب بتا سکون ملا یا نہیں؟“ ازلان نے اس سے پوچھا۔

”قسم سے یار! یہاں اتنا سکون مل رہا ہے۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ مسجد میں اتنا سکون ملتا ہے۔“ روحان نے ازلان کی طرف دیکھ کر کہا۔

”تجھے پتہ ہے, اللہ تعالی نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:

                   "الا بذکر اللہ تطمئن القلوب"

جس کا مطلب ہے: "سن لو! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے۔".....“

”تو صحیح کہہ رہا ہے یار مجھے سچ میں بہت سکون ملا یہاں آکر۔“

                 _________________________

حمنہ اپنے ابو سے مل کر دعا لیتی ہوئی اور ملازمہ کو دواٸ کی تاکید کرتی ہوئی گاڑی میں بیٹھ گئی اُسے ادیبہ کے ساتھ لاہور جانا تھا۔ وہ ادیبہ کے کمرے میں گئی اور ادیبہ کو سلام کیا۔

”السلام عليكم ورحمة الله وبركاته۔“

”وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته۔“

”کیسی طبیعت ہے آپ کی ادیبہ آپی؟“ 

”جی الحمدللہ! بالکل ٹھیک۔ آپ سنائیں۔“

”میں بھی ایک دم فائن۔“ 

”جزاک اللہ ساتھ چلنے کے لیے۔“ 

”آمین۔ کوئی بات نہیں ادیبہ آپی۔“

”ادیبہ آپی آپ تیار ہو؟“ حنین کمرے میں آیا۔ حمنہ نے حنین کو دیکھ کر رُخ پھیر لیا۔

”حنین ہم تیار ہیں۔ کب نکلنا ہے؟“ ادیبہ نے کہا۔

”میں, امی ابو اور دیگر رشتہ داروں کو بھجوا دوں ایئرپورٹ پھر ہم ساتھ نکلیں گے۔“

”ٹھیک ہے۔“ حنین نیچے آیا اور سب کو ایئرپورٹ کے لیے روانہ کردیا۔ پھر اپنے کمرے میں آکر سب چیزیں دیکھنے لگا۔ ویسے تو سارا سامان تیار تھا۔ اس نے اپنے بیگ میں ادیبہ کے لیے چاکلیٹس رکھیں اور پھر بیگس اٹھا کر باہر نکل گیا۔

”ادیبہ آپی چلیں؟“

”چلو۔۔۔۔۔“ ادیبہ اور حمنہ دونوں نے حجاب درست کیا اور گاڑی میں بیٹھ گئیں۔

ازلان کے ساتھ روحان بھی انہیں ائرپورٹ ڈراپ کرنے آیا تھا۔

”ارے روحان بھائی۔ اسلام علیکم۔“ حنین نے روحان کو دیکھا تو سلام کیا۔

”وعلیکم السلام۔ سوچا آپ لوگ جا رہے ہیں تو میں بھی آ جاؤں۔“

”بہت اچھا کیا آپ نے یہاں آکر میں نے تو آپ کو اور ازلان بھائی کو کہا تھا چلنے کو مگر آپ دونوں کے اگزامز سٹارٹ ہو گئے ہیں۔“

”بس یار کیا کر سکتے ہیں۔ تم لوگ وہاں سے آٶ گے تو پھر ملاقات ہوگی۔“

سلام دعا کے بعد روحان ازلان کے ساتھ چلا گیا۔ وہ صرف ادیبہ کو دیکھنے کی نیت سے آیا تھا۔ ادیبہ کو دیکھ کر اسے بے حد سکون ملا تھا۔

    ”خود کو باوضو کیا تیرے تصور سے بھی پہلے،

   میں نے اس درجے تک تیری محبت کو پاکیزہ رکھا۔“

                    _________________________

سفر کا اختتام ہو چکا تھا کل ولیمہ تھا تو سب گھر پہنچ کر آرام کی نیت سے اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ حمنہ سو چکی تھی۔ اور ادیبہ ابھی لیٹی ہی تھی کہ دروازہ ناک ہوا۔ ادیبہ نے حمنہ کی بلینکٹ صحیح کی اور دروازہ کھولا حنین اور فاطمہ بیگم اندر آئے۔ حنین بیڈ پر بیٹھ گیا فاطمہ بیگم ادیبہ کو اپنے ساتھ لے کر چلیں گٸ۔ انہیں کچھ دعائیں وغیرہ پوچھنی تھی۔ حنین ادیبہ کیلیے چاکلیٹس لایا تھا اس نے وہ چاکلیٹس بیڈ پر رکھ دیں پھر اسے احساس ہوا کہ کمرے میں حمنہ بھی ہے وہ جانے کی نیت سے اٹھا ہی تھا کہ اسے نیند میں بولتی حمنہ کی آواز سنائی دی۔ جس کی وجہ سے اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ اپنے کمرے میں آ کر بھی وہ مسکرا رہا تھا۔ حمنہ کی بڑبڑاہٹ سے خود بخود اس کے لب مسکرا رہے تھے۔ اسکے الفاظ ہی اتنے پیارے تھے۔ ”دین حنین کے لیے نہیں, دین اللہ پاک کے لیے سیکھنا ہے۔ وہ میرا ہو نہ ہو میں بس اللہ پاک کی ہو جاؤں۔ مگر اس کا ڈمپل۔“ حمنہ نیند میں بھی پریشان سی تھی۔

”تو محترمہ نے اپنے سوالات کے جوابات خود ہی دے دیے۔ میں بھی پریشان تھا کہ یہ ڈون جیسی لڑکی کو کیا شوق چڑھا ہے دین سیکھنے کا۔“ وہ سوچتے سوچتے تھوڑی دیر بعد سو گیا۔

             _________________________

روحان بیڈ پر بیٹھے ہوئے اپنا مستقبل سوچ رہا تھا۔

”ادیبہ کیا تم مجھے مل سکتی ہو؟“ خود بخود اس کے دل میں خیال آیا۔ اس نے خیال کو جھٹکا اور سگریٹ لے کر بالکونی میں آگیا۔ اس نے سگریٹ جلائی اور آسمان کو دیکھنے لگا۔

          ”یوں جو تکتہ ہے آسمان کو تو,

         کوٸ شخص رہتا ہے آسمان میں کیا۔

             یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا,

           ایک ہی شخص ہے جہان میں کیا۔“

اس کو وہ دن یاد آنے لگا جب وہ اس کھڑکی پر چڑھا تھا۔

ازلان نے اس کے ہاتھ سے سگریٹ لی۔ وہ سوچوں میں اتنا مگن تھا اسے خیال ہی نہیں رہا کہ اس کی انگلیاں جل گئی ہیں۔

           ”عشق کی وہ مثال ہے جیسے, 

            کوئی سگریٹ تم نے سلگائی

           اور وہ ٹھیک سے سلگ نا سکی..

          اس کا ہر کَش تمھیں ایزا دے گا,

         مگر بجھانے کو دل نہیں کرے گا!“

”کیا ہوا یار جب سگریٹ پینی ہی نہیں تھی تو جلائی کیوں؟“ روحان نے اپنی انگلیاں دیکھیں اور پھر ازلان کی طرف دیکھنے لگا۔

”کیا ہوا یار یہ کیا حال بنا رکھا ہے تو نے؟ کوئی پرابلم ہے تو بتا نا۔“ ازلان نے اسکی آنکھوں میں نمی دیکھ لی تھی۔

”ازلان....“

”ہاں یار بول۔“ ازلان نے فکرمندی سے کہا۔

”ازلان! ادیبہ.....“ اس سے آگے روحان سے بولا نہیں گیا۔

ازلان اسے لیکر کمرے میں آیا اور بیڈ پر بٹھایا۔

”ازلان مجھے وہ چاہیے۔“ ازلان کو وہ ایک چھوٹا بچہ لگ رہا تھا جو کسی چیز کیلیے ضد کر رہا تھا۔

”دیکھ روحان اسکو پانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔“ ازلان نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

”بتا یار کیا طریقہ ہے؟ میں اس کو پانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔“

”اگر تو اس کو پانا چاہتا ہے تو تجھے خود کو بدلنا پڑے گا۔ وہ کتنی نیک ہے اور تو خود کو دیکھ۔ اس کے گھر والے کبھی اپنی بیٹی تجھے نہیں دیں گے۔ جب تک تو خود کو بدل نہیں لیتا۔“ ازلان نے اس کے ہاتھ پر دوا لگاتے ہوئے کہا۔

”ازلان میں نے بہت کوشش کی ہے مگر میں اس کو بھول نہیں پا رہا۔ میں آنکھیں بند کرتا ہوں تو وہ یاد آنے لگتی ہے۔“ روحان نے بے بسی سے کہا۔

”ٹھیک ہے یار پھر جیسے میں کہتا ہوں ویسا کر۔ کل ہم دونوں ملتے ہیں پھر بات ہوتی ہے۔ وہ تیری ہی ہے تو فکر مت کر“۔ ازلان اسے تسلی دیتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔

                ”لوگ ان کے حسن پر مرتے ہیں,

                ہمارا دل ان کے حجاب پر آیا ہے۔“

            _________________________

ولیمہ بالکل گھر کے قریب ہی ایک کشادہ گارڈن میں تھا۔ جو انتہائی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ انٹری کرتے وقت پھول نظر آتے تھے۔ ادیبہ اور حمنہ نقاب کیے ایک طرف بیٹھی تھیں۔

”حمنہ سچ میں اگر آپ نہیں آتیں تو میں نے اکیلے بور ہو جانا تھا۔“

”اوہ ہو! اب تو ہم غالباً دوست ہیں تو میں اپنی دوست کے لئے اتنا تو کر ہی سکتی ہوں۔“

اب میز پر کھانا شروع ہوچکا تھا۔ انہوں نے حجاب کی مدد سے بڑی آسانی سے کھانا کھا لیا تھا۔ ابھی وہ دلہن کو دیکھنے جا رہی تھیں کہ ادیبہ کی مامی ادیبہ سے ملنے آئیں۔ 

”ادیبہ بیٹا اپنا چہرہ تو دکھاؤ, شادی میں کیا پردہ کرنا۔“ 

”ہاں بیٹا پردہ تو آنکھوں کا ہوتا ہے۔“ برابر میں کھڑی ایک عورت نے مداخلت کی۔

حنین انکی بات سن چکا تھا۔ وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ حمنہ بول پڑی۔

”آپ کو ہمارا چہرہ دیکھنا ہے تو آپ گھر تشریف لائیں ہم ضرور آپ کو چہرہ دکھائیں گے۔“ وہ دونوں مسکرا دیں۔

”ٹھیک ہے بیٹا ہم گھر پر دیکھ لیں گے۔“ دلہن سے مل کر وو دونوں چلی گئیں۔

ابھی وہ دونوں کمرے میں تھیں اور کچھ باتیں کر رہی تھیں کہ دروازہ ناک ہوا۔

”کون؟“ ادیبہ نے پوچھا۔

”آپی میں ہوں حنین۔“ حمنہ نے سنتے ہی دوبٹہ ٹھیک کیا اور کھڑکی کی طرف رُخ کر لیا۔

”آجاٶ حنین۔“ ادیبہ نے کہا۔

حنین اندر آیا اس نے محسوس کیا کہ جو لڑکی اس کو دیکھتے ہی ہمیشہ اسے گھورتی رہتی تھی ,آج اسے دیکھ کر کھڑکی کی طرف رُخ کرکے کھڑی ہے۔ اسے خوشی ہوئی کہ حمنہ نے خوفِ خدا کی وجہ سے اس کی طرف نہیں دیکھا۔

(یہ بات ناممکن نہیں ہے کہ کوئی بگڑا ہوا ہے تو وہ سدھر نہیں سکتا۔ ایک سچی طلب اور صرف ایک قدم بڑھانا ہوتا ہے۔ پھر اللہ پاک خود ہی مدد کرتے ہیں۔)

”کہاں کھو گئے حنین۔“ ادیبہ نے اسے کہا۔

”کچھ نہیں آپی۔ میں چاکلیٹس لایا تھا آپ کے لئے۔“

”جزاک اللہ بہت بہت۔ تم یہاں بھی میرے لیے چاکلیٹس لائے۔“

”جی آپی اور یہ آپ کی دوست کے لیے۔“ حنین نے ایک اور پیکٹ دیا اور چلا گیا۔ ادیبہ نے اس کے جاتے ہی دروازہ بند کیا۔

اب دونوں سونے کی تیاری کرنے لگیں۔

”یہ لیں چاکلیٹس حنین دے کر گیا ہے۔“ ادیبہ نے اسے چاکلیٹس دی۔

”جی شکریہ۔“

            _________________________

سارے بڑے روم میں بیٹھے تھے۔ کسی کے بلانے پر ادیبہ اور حمنہ بھی پہنچ گئیں۔ دونوں سلام کرتی بیٹھ گئیں۔

”بیٹا آپ کا نام؟؟“ ادیبہ کے خالو نے حمنہ سے پوچھا۔ 

”جی ،جی حمنہ جہانگیر۔“

”ماشاءاللہ بہت پیارا نام ہے۔ بیٹا ہم آپ کے والد سے بعد میں بات کرلیں گے, ہم نے سوچا پہلے آپ سے پوچھ لیں۔“

”جی انکل پوچھیں۔ کیا پوچھنا ہے؟“

”بیٹا کیا آپ میرے بیٹے سے شادی کریں گی؟“ حمنہ خاموش ہو گئی کیونکہ بات ہی اتنی غیر متوقع تھی۔ 

”خالو جان ان کا رشتہ پہلے سے ہی فِکس ہے۔“ حنین نے کہا۔

”اچھا! بیٹا معاف کرنا ہمیں پتہ نہیں تھا آپکا رشتہ فکس ہے۔“ حمنہ حیران تھی اس کا رشتہ کب فکس ہوا۔

”انکل! کوئی بات نہیں۔“ حمنہ کہہ کر ادیبہ کے ساتھ کمرے سے باہر آگئی۔

حنین بھی اپنے روم میں آ گیا۔

”اس نے ایسا کیوں کہا تھا۔“ وہ خود ہی حیران تھا۔

حمنہ بھی حیران سی کھڑکی کی طرف منہ کر کے کھڑی تھی۔ ”اس نے ایسا کیوں کہا۔“ وہ سوچ رہی تھی۔

”سنیے!“پیچھے سے حنین کی آواز آئی۔

”ج..جی,,“ حمنہ نے بغیر مڑے کہا۔

”بہت معذرت چاہتا ہوں اس جھوٹ کیلیے۔ ہم آپ کو اپنی ذمہ داری پر یہاں لاۓ تھے۔ ہم نہیں چاہتے آپکو بلاوجہ یہاں کوئی پریشانی ہو۔“ اپنے دل کے برخلاف بول کر حنین نے اسے مطمئن کر دیا تھا اور چلا گیا۔

”اُففف! مجھے لگا کہیں یہ مجھ پر فدا تو،،،، توبہ استغفر اللہ یہ شیطانی سوچ۔“ وہ توبہ کرتی بیڈ کے پاس آئی اور اپنا فون اٹھایا۔ اس نے اپنے ابو کو کال کی مگر کسی نے فون نہیں اٹھایا۔ پھر اس نے ملازمہ کو کال کی۔ ملازمہ نے اسے بتایا کہ اس کے ابو کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ اس لیے ہسپتال لے کر گئے ہیں۔ حمنہ گھبرا  گئی۔ ادیبہ نماز پڑھ رہی تھی۔ حمنہ سلیمان صاحب کے کمرے میں گئی اور جاتے کے ساتھ ہی روتے ہوئے کہنے لگی۔

”انکل پلیز مجھے گھر جانا ہے۔ میرے ابو کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔“ وہ روتی ہوئی ان کو اپنی بیٹی لگ رہی تھی۔ انہوں نے حنین کو ٹکٹ بک کروانے کو کہا۔ حنین نے بڑی مشکل سے فوراً تین ٹکٹ کا بندوبست کیا۔ اور وہ تینوں سب سے مل کر رخصت ہو گئے۔

...............................

ائیرپورٹ پہنچ کر وہ تینوں گاڑی میں بیٹھے اور فوراً ہسپتال آگئے۔ اپنے ابو کو بیڈ پر لیٹا دیکھ کر حمنہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ایک واحد رشتہ تو تھا اس کے پاس۔

”السلام علیکم! ابو۔“ 

”وعلیکم السلام! بیٹا۔ آپ یہاں؟ آپ تو لاہور گئی تھی نا۔“ جہانگیر صاحب حیران تھے کہ حمنہ کو کیسے پتہ چلا۔ 

”میں آپ کو چھوڑ کر گئی اور آپ بیمار ہوگئے۔ مجھے ملازمہ آنٹی نے بتایا ہے کہ آپکو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔“ حمنہ روتے ہوۓ کہنے لگی۔

”بیٹا بس تھوڑا سا بلڈ پریشر بڑھ گیا تھا۔ یہ ملازمہ تو ایسے ہی بولتی ہے۔“

”جھوٹ نہیں بولیں آپ۔“

”بیٹا رونا تو بند کرو۔ ایسی عمر میں ہو جاتا ہے یہ سب۔“ 

ادیبہ اور حنین کھڑے ان کی باتیں سن رہے تھے۔

”اچھا بیٹا ان کو بٹھاؤ تو سہی۔“

”سوری! پلیز بیٹھیں نا۔“

”نہیں انکل ہم ٹھیک ہیں۔“ حنین نے کہا۔

” بیٹا آپ لوگ کیوں پریشان ہوۓ۔ میں زیادہ بیمار نہیں تھا۔ تو سوچا آپ لوگوں کو پریشان کرنا مناسب نہیں ہوگا۔“

”انکل کوئی بات نہیں۔ ویسے بھی کل تو ہمیں آنا ہی تھا۔ تو آج ہی آ گئے۔ اچھا انکل اب ہم چلتے ہیں۔“ 

”پھر کب آؤ گے؟“

”ان شاءاللہ کل آٶں گا۔“

”ٹھیک ہے بیٹا الله حافظ۔“

”اللہ حافظ“ حنین کہہ کر ادیبہ کو لیے گھر آگیا۔

             ________________________

”ڈیڈ مجھے ہوسٹل جانا ہے۔“ روحان ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا ہوا احمد رضا سے مخاطب ہوا۔

”کیا کرنا ہے تمھیں ہوسٹل جاکر؟ پڑھائی مکمل تو ہو چکی ہے تمہاری بہتر یہی رہے گا کہ اب تم میرا آفس جوائن کر لو۔“

احمد رضا نے دھیمے مگر سخت لہجے میں کہا۔ 

(وہ ہمیشہ روحان سے سخت لہجے میں بات کرتے تھے۔ ان کی اہلیہ صوفیہ بیگم بھی روحان سے اسی طرح بات کرتی تھیں۔ روحان کے ماں باپ کبھی اس کو وقت نہیں دیتے تھے اسی لئے اس کی تربیت بھی صحیح طریقے سے نہیں ہوئی تھی۔ تب ہی وہ اتنا بگڑا ہوا لڑکا تھا۔)

”میں آفس بعد میں جوائن کرلوں گا۔ ابھی مجھے ہاسٹل جانا ہے۔“ اس نے بھی ضد میں آکر کہا۔

”ٹھیک ہے جو تمہارے جی میں آئے وہ کرو۔“ احمد رضا غصے سے کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئے۔ دونوں باپ بیٹے کی کبھی نہیں بنتی تھی۔

روحان سب سے مل کر ہاسٹل کیلیے نکل چکا تھا۔ وہ علم دین حاصل کرنے کے لیے نکلا تھا۔ تاکہ اسے ادیبہ مل جاۓ۔

”ادیبہ آپ صرف میری ہیں۔“ اس نے آنکھیں بند کیں اور مسکرانے لگا۔

”جب دل تمہارا اپنا ہو,

پر باتیں ساری اسکی ہوں۔

جب سانسیں تمہاری اپنی ہوں, 

اور خوشبو آتی اسکی ہو۔

جب حد درجہ مصروف ہو تم,

وہ یاد اچانک آۓ تو۔

جب آنکھیں نیند سے بوجھل ہوں,

تم پاس اسے ہی پاٶ تو۔

پھر خود کو دھوکہ مت دینا,

اور اس سے جا کر کہہ دینا,

اس دل کو محبت ھے تم سے۔“

                  _____________________

اگلے دن حنین فجر کی نماز پڑھ کر جہانگیر صاحب سے ملنے چلا گیا۔ جہانگیر صاحب بیڈ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ حمنہ پرئیر روم میں نماز پڑھ رہی تھی۔

”اسلام علیکم انکل۔“ حنین نے آتے ہی مصافحہ کیا۔

”وعلیکم السلام بیٹا۔“ 

”انکل آپ کی طبیعت کیسی ہے اب؟“

 ”الحمد الله! اب کافی ٹھیک ہے۔ اچھا آپ سے ایک بات پوچھوں؟“ 

”جی پوچھیں۔“

”بیٹا آپ کا رشتہ وغیرہ.....“ انہوں نے بات ادھوری چھوڑدی۔

”نہیں انکل ابھی نہیں ہوا میرا رشتہ۔“ اس نے احترام سے کہا۔

”بہت غیرت آرہی ہے, ایک بیٹی کا باپ ہوتے ہوۓ۔ مگر بیٹا میری بات سنو گے؟“

”آپ بلاجھجک کہیں۔“ حنین نے انکا ہاتھ تھام کر کہا۔

”بیٹا حمنہ کی ماں اس کے پیدا ہونے کے وقت ہی ہمیں چھوڑ کر چلی گئی۔ تب سے میں نے اکیلے ہی حمنہ کو پالا ہے۔ مگر بیٹا اب میری عمر ہو گئی ہے۔ میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ آج ہوں کل نہ ہوا تو میری بچی کو کون سنبھالے گا۔ اسی لیے میں آپ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا آپ میری بیٹی سے نکاح کرو گے؟ بیٹا آپ بہت دیندار ہو مجھے یقین ہے آپ میری بیٹی کو بہت عزت دوگے۔ میری بیٹی کو اور کچھ نہیں چاہیے۔ لیکن آخری فیصلہ آپ کا ہوگا۔“ یہ کہہ کر جہانگیر صاحب نے اپنے آنسو صاف کیے۔

”انکل ایک بار آپ ٹھیک ہو جائیں پھر میں اپنے امی ابو کو آپ کے گھر بھیج دوں گا۔“ حنین نے انھیں مطمئن کر دیا تھا۔

”شکریہ بیٹا۔“

               _________________________

”السلام علیکم“ اگلے دن حنین سلیمان صاحب کے کمرے میں آیا اور ان کو سلام کیا۔

”وعلیکم السلام۔“

”ابّو آپ سے ایک بات کرنی تھی۔“ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ بات کی ابتداء کیسے کرے۔

”ہاں بولو، کیا بات کرنی ہے؟“ 

”ابو یہ بات صرف میرے اور آپ کے درمیان رہے گی۔ آپ کسی کو بھی نہیں بتائیں گے۔“ 

”ٹھیک ہے بولو۔“

حنین نے اپنے اور جہانگیر صاحب کے درمیان ہونے والی تمام باتیں سلیمان صاحب کو بتا دیں۔

”مگر تم تو کہہ رہے تھے کہ اس کا رشتہ فکس ہے۔“ اب کے حنین گڑبڑا گیا تھا۔

 ”وہ، وہ، ابو۔“ اس سے جواب نہ بن پایا۔

”مطلب میرے صاحب زادے بھی تھوڑے بہت اِنوولو ہیں۔“ سلیمان صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔

”نہیں ابو آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔“

”اچھا پھر کوئی اور پسند ہے؟“ 

”نہیں ابو۔“

”اچھا ٹھیک ہے میں فاطمہ سے بات کرتا ہوں۔ پھر ہم چلے جائیں گے۔“

”شکریہ ابو۔“ حنین کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔

           ________________________

آج حمنہ یونیورسٹی سے آرہی تھی اس نے ادیبہ کے گھر کا رخ کیا۔ اسے ادیبہ سے سر درد کی کچھ دعائیں پوچھنی تھیں۔ وہ جا ہی رہی تھی کہ راستے میں کسی نے اس کے سامنے بائیک روکی۔ 

”کیا مسئلہ ہے؟ ہٹو سامنے سے۔“ حمنہ نے اس بائیک والے کو کہا۔

”اچھا نہیں ہٹوں تو؟“ وہ بائیک سے اترا اور حمنہ کے پاس آنے لگا۔ حمنہ ایک طرف سے جانے لگی اتنے میں اس نے حمنہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ حمنہ اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی کہ سائیڈ سے گاڑی میں حنین گزر رہا تھا۔ اس نے حمنہ کو دیکھا تو گاڑی روکی۔ گاڑی سے اتر کر وہ انکے پاس آیا اور حمنہ کا ہاتھ بائیک والے سے چھڑوا کر بائیک والے کو پنچ مارا۔ وہ اچانک پنچ پڑنے پر نیچے گر گیا۔

”تیری ہمت کیسے ہوئی مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی۔“ وہ اٹھا اور اس نے حنین کا گریبان پکڑ لیا اور ان دونوں کے درمیان لڑائی شروع ہوگئی۔

حمنہ ان کی لڑائی دیکھ کر ڈر گئی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کیا کرے اتنے میں پولیس کار کا سائرن سنائی دیا۔ وہ بائیک والا اپنی بائیک لے کر بھاگ گیا۔ حنین اس کے پیچھے جاتا مگر حمنہ کی وجہ سے نہیں گیا۔ اس نے حمنہ کو کار میں بیٹھنے کا کہا۔ حمنہ کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ گھر پہنچ کر حمنہ ادیبہ کے روم میں چلی گئی اور ادیبہ کو سارا قصہ سنایا۔

”اوہ لگی تو نہیں حنین کو؟“ ادیبہ نے فکرمندی سے کہا۔

نہیں وہ بھاگ گیا تھا۔ اچھا آپی میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے آپ پلیز کوئی دعا بتا دیں۔“

"حمنہ یہ جو علاج میں تمھیں بتاؤں گی۔ یقیناً فائدہ مند ہے۔ میرا سر درد بھی اس سے ٹھیک ہوجاتا ہے۔ "

”پھر بتائیں۔“

”آپ تیل کو بسم اللہ پڑھ کر ہتھیلی میں لیجئے پھر سورة فاتحہ پڑھ کر پھونکیں اور پہلے دائیں طرف سے، پھر بائیں طرف سے لگائیں۔ اور پھر پورے سر میں لگائیں۔ پھر سات سات بار کنگھی کریں۔ ان شاءاللہ درد چلا جائے گا۔ یہ سنت طریقہ بھی ہے۔“

"ٹھیک ہے ادیبہ آپی میں ایسا ہی کروں گی۔ شکریہ۔ اچھا اب میں چلتی ہوں۔“

”حمنہ کھانا کھا کر جائیے گا۔“

”نہیں ادیبہ آپی ابھی دیر ہو رہی ہے۔ ابو ویٹ کر رہے ہوں گے پھر کبھی۔ اللہ حافظ!“

”اللہ حافظ!“

”آپ کہیں تو میں آپ کو ڈراپ کردوں؟“ باہر حنین کھڑا تھا اس نے حمنہ کو دیکھ کر کہا۔

”جی نہیں میں چلی جاؤں گی۔ شکریہ!“ حمنہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔

          ________________________

حمنہ اپنے روم کے باہر غیر معمولی شور سن کر آئی۔ سامنے لوگوں کو دیکھ کر اسے دھچکا لگا۔

کیونکہ سامنے فاطمہ بیگم ,سلیمان صاحب اور حنین بیٹھے تھے۔ اس نے فاطمہ بیگم اور سلیمان صاحب کو سلام کیا۔

”یہاں آٶ بیٹا۔“جہانگیر صاحب نے حمنہ کو اپنے پاس بٹھایا۔

”ہماری دو بیٹیاں ہیں جو حنین سے بڑی ہیں۔ سب سے بڑی کا نام ادیبہ ہے اس کا ابھی نکاح نہیں ہوا۔ اس سے چھوٹی حیا ہے۔ اس کا نکاح ہوگیا ہے۔ کچھ مہینوں کے بعد اس کی رخصتی ہے۔“

”جی مجھے بتایا تھا حمنہ نے۔ ادیبہ کی تو اتنی تعریفیں کرتی ہے حمنہ۔ ایک دن تو اس کی تعریف کرتے کرتے شام کر دی تھی۔“

”ہماری بیٹی ادیبہ ہے ہی ایسی۔“ سلیمان صاحب نے کہا۔

کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد فاطمہ بیگم نے حمنہ کو منگنی کی رسم کے طور پر انگوٹھی پہنائی اور وہاں سے چلی گئیں۔ حمنہ کو تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ اس کی منگنی ہوگئی ہے حنین سے۔ اس نے فوراً اپنے رب کا شکریہ ادا کیا۔

”یقین گہرا ہو تو ہر ان شاءاللہ، الحمد للہ ہو جاتا ہے۔“

            ________________________

سرخ جوڑے میں حمنہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ حمنہ اور ادیبہ دونوں ساتھ ساتھ تھیں۔ نکاح کا سادہ سا فنکشن ارینج کیا گیا تھا۔ کیونکہ رخصتی تو بعد میں ہونی تھی تو انہوں نے سوچا کہ رخصتی کا فنکشن اچھے سے کریں گے۔ ابھی سادگی سے نکاح ہو جائے۔

مولوی صاحب نے ان کا نکاح پڑھایا اور حمنہ جہانگیر حمنہ حنین بن گئی۔

سب نے مبارک باد دی۔ چھوٹا مگر خوبصورت فنکشن تھا۔ کچھ دیر بعد حمنہ سر درد کا بہانہ کر کے وہاں سے اٹھ کر اپنے روم میں آ گئی اور اکیلی بیٹھ کر رونے لگی۔ خوشی اور غم کی کیفیت پر اسے رونا آ رہا تھا۔ ایک طرف حنین سے نکاح ہونے کی خوشی تھی اور دوسری اپنے ابو کو چھوڑ کر جانے کا دکھ۔ رخصتی بعد میں ہونی تھی مگر اسے پھر بھی رونا آرہا تھا۔

تھوڑی دیر بعد اس کا فون بجنے لگا۔ لگاتار فون بجتے رہنے کے بعد اس نے بیزاری سے فون اٹھایا۔

”ہیلو!“ آگے سے کوئی جواب نہیں آیا۔

”ہیلو کون ہے؟ اب بول بھی لو۔ نہیں تو میں فون رکھ رہی ہوں۔“ اب کی بار حمنہ تھوڑا اونچا بولی۔

”السلام علیکم بیگم صاحبہ۔“ حنین کی آواز سنتے ہی وہ ڈر گئی۔

”کیا ہوا بولتی کیوں بند ہوگئی۔“

”و...وعلیکم السلام۔“ اس نے بمشکل جواب دیا۔

”ویسے اتنا غصے میں کیوں تھیں محترمہ؟“ اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے۔

”حنین کو میرا نمبر کہاں سے ملا؟“ وہ سوچ رہی تھی۔ 

”اب یہ مت سوچنا کہ مجھے آپ کا نمبر کہاں سے ملا آپ کا شوہر ہوں۔ نمبر ملنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔“

”اس کو کیسے پتہ چلا کہ میں کیا سوچ رہی ہوں۔“ حمنہ نے کچھ کہے بغیر ہی کال کٹ کر دی۔ تھوڑی دیر بعد حنین دروازے سے اندر آیا حمنہ بالکل پسینے میں ڈوب گئی تھی۔

”میری بات مکمل نہیں ہوئی تھی۔ آئندہ کال مت کاٹنا۔“ 

حنین نے اس کے پاس آکر کہا۔

”اچھا سنو! آپ نے کھانا کھایا؟“

”ن..نہیں۔“

”اچھا پھر کھا لینا۔“

”ج..جی۔“

”اور یہ لیں یہ آپ کے لئے۔“ حنین نے اسے ایک باکس دیا اور اللہ حافظ کہہ کر چلا گیا۔ حمنہ نے اُٹھ کر وہ باکس الماری میں رکھ دیا اور فوراً کھانا کھانے چلے گئی اس کا کیا بھروسہ تھا کہ دوبارہ آجائے۔

               ________________________

سب چلے گئے تھے۔ حمنہ فارغ ہو کر اپنے روم میں آئی اور وہ باکس لے کر بیٹھ گئی اسے بہت تجسس تھا حنین کے دیے گئے تحفے کو دیکھنے کا۔ اس نے باکس کھولا تو اس میں بہت خوبصورت سا گولڈ لاکٹ اور ایک کتاب تھی۔ ساتھ میں ایک پرچی بھی تھی۔ جس پر لکھا تھا۔

”یہ لاکٹ ہمیشہ پہن کر رکھنا۔ مسز حنین رضا۔“ حمنہ نے پڑھا اور مسکرانے لگی۔ اور وہ لاکٹ پہن لیا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ حنین بھی اتنا فرینک ہو سکتا ہے۔ 

دو سال بعد....

حمنہ اور حیا دونوں کی پچھلے سال رخصتی ہو گئی تھی۔ حمنہ اور حنین دبئی شفٹ ہوگئے تھے۔ کیونکہ حنین کی جاب دبئی میں لگ گئی تھی۔

حمنہ کے والد حمنہ کی رخصتی کے کچھ وقت بعد ہی وفات پاگئے تھے۔ 

ازلان اور حیا کی ایک سال پہلے بیٹی ہوئی تھی۔ جس کا نام حیا نے ضد کرکے ادیبہ سے رکھوایا تھا۔ ادیبہ نے اس کا نام عروبہ فاطمہ رکھا تھا۔

روحان نے بھی ان دو سالوں میں کافی علمِ دین حاصل کر لیا تھا۔

آج اس کی واپسی تھی۔ وہ واپس آیا تو بالکل بدل چکا تھا۔ اب وہ پہلے والا R.K نہیں تھا، بلکہ "حافظ محمد روحان خان" بن چکا تھا۔ اس نے ان دو سالوں میں نہ صرف قرآنِ پاک کو حفظ کیا بلکہ اسکو سمجھا اور اس کی تفسیر بھی پڑھی۔ اس نے اور بھی بہت سی دینی کتابیں پڑھیں۔ وہ جسکو ایک وقت کی نماز پڑھنا مشکل لگتا تھا اب وہ پانچ وقت کی نماز کا پابند بن گیا تھا۔

             ________________________

”روحان یار تُو تو بہت بدل گیا ہے۔ پہلے والا R.K تو لگ ہی نہیں رہا۔“ ازلان روحان کے گلے لگتا ہوا بولا۔

”بس یار اللہ کا کرم ہے سب۔ اور تجھے مبارک ہو بیٹی کا باپ بن گیا۔“ روحان نے اسے مبارکباد دی۔

”اوۓ میری بیٹی ایک سال کی ہوگئی ہے, تو اب مبارکباد دے رہا ہے۔“

”میں تو اب مل رہا ہوں نا۔“ روحان نے بیڈ سے عروبہ کو اٹھایا۔

(عروبہ کی آنکھیں حیا جیسی تھی۔ مگر اس کا چہرہ بالکل ادیبہ میں ملتا تھا۔) 

روحان نے جیسے ہی اس کو گود میں لیا, تو حیران ہو گیا۔ اسے ایک دم ادیبہ کا چہرہ یاد آیا۔

”یار اس کا چہرہ کس میں ملتا ہے؟“

روحان نے ازلان سے سوال کیا۔

”حیا تو کہتی ہے اس کا چہرہ ادیبہ میں ملتا ہے۔“ ادیبہ کا نام سنتے ہی روحان کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ ازلان نے بھی اسکے چہرے کی مسکراہٹ کو نوٹ کیا تھا۔

”ویسے اس کا نام کیا ہے؟“ روحان نے اس کے دونوں گال چومتے ہوئے کہا۔

اس کا نام عروبہ فاطمہ ہے۔“

”ماشاءاللہ یہ تو بہت ہی پیارا نام ہے عروبہ۔“ 

”تجھے پتہ ہے کہ یہ نام کس نے رکھا ہے؟“ ازلان نے چہرے پر شرارت لئے پوچھا۔

 ”یقیناً اس کی ماں نے رکھا ہو گا۔“ روحان نے جواب دیا۔

”نہیں تو اس کی ماں نے تو نہیں رکھا۔“ ازلان نے کہا۔

”پھر کس نے رکھا ہے؟“

”سوچ سوچ کون روک سکتا ہے۔“ ازلان اس کو تنگ کر رہا تھا۔

”یار! اب بتا بھی دے کس نے رکھا ہے؟“ روحان تنگ آگیا تھا۔

”اس کا نام رکھا ہے میری ہونے والی بھابھی نے۔“ ازلان نے شرارتی مسکراہٹ لیے کہا۔

”ہیں؟ ہونے والی بھابھی؟ تیرا تو کوئی بھائی نہیں ہے, پھر بھابھی کہاں سے آگئی؟“ روحان حیران تھا۔

”ابے کمینے تو میرا بھائی نہیں ہے کیا؟“ ازلان نے اس کی کمر پر ایک تھپڑ رسید کیا۔

”ہاں ہوں تو سہی مگر یہ بھابھی کہاں سے آگئی؟“

”ابے یار اس کا نام ادیبہ نے رکھا ہے۔“ ادیبہ کا نام سنتے ہی روحان ایک دم خوش ہو گیا۔

”سچییییی! اس کا نام ادیبہ نے رکھا ہے؟“ روحان کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ 

”ہاں! تو اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے؟“

”میں کہاں حیران ہو رہا ہوں؟ بس ایسے ہی پوچھ لیا۔“ روحان کے چہرے سے مسکراہٹ جا ہی نہیں رہی تھی۔ 

”اسلام علیکم روحان!“ پیچھے سے حیا کی آواز آئی۔

روحان مڑا اور سلام کا جواب دیا۔

”وعلیکم السلام! کیسی ہو حیا؟“ 

”میں ایک دم ٹھیک ہوں اللہ کا شکر ہے۔ تم سناؤ بڑے ٹائم بعد نظر آئے ہو۔ اور اتنی تبدیلی کی کیا وجہ ہے؟“ حیا نے شرارتاً کہا۔

”میں الحمدللہ بلکل ٹھیک ہوں۔ اور یہ تبدیلی تو تمہاری بہن کی وجہ سے آئی ہے۔“ آخری جملہ اس نے آہستہ آواز میں کہا۔ جو صرف پاس کھڑا ازلان ہی سن سکا۔

”کیا کہا؟؟؟“ حیا نے حیرانی سے پوچھا۔

”نہیں کچھ نہیں۔ تم بتاؤ یہ کمینہ تنگ تو نہیں کرتا؟“

"ابے اوۓ تو کیوں پوچھ رہا ہے؟ تو اسکا بڑا بھائی ہے؟“

”ارے میں نےتو ایسے ہی پوچھ لیا۔“

وہ تینوں دوست تھوڑی دیر بیٹھے ایسے ہی باتیں کرتے رہے پھر روحان اپنے گھر کو روانہ ہو گیا۔

                     ________________________

”مام مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔“ روحان صوفیہ بیگم کے کمرے میں آیا اور کہنے لگا۔

”ہاں بولو۔“ صوفیہ بیگم نے مصروف انداز میں کہا۔

”میں چاہتا ہوں آپ میرا رشتہ لے کر جائیں سلیمان رضا صاحب کے گھر ,ان کی بڑی بیٹی ادیبہ کے لئے۔“ روحان نے ساری بات صاف لفظوں میں کردی۔

”تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے۔“ صوفیہ بیگم حیران تھیں۔ کیونکہ وہ اتنی بڑی بات اتنی آسانی سے کہہ رہا تھا۔

”میرا دماغ بالکل ٹھیک ہے۔ مجھے بھی اپنا فیوچر پلان کرنا ہے اور ویسے بھی میں نے ڈیڈ کا آفس بھی جوائن کر لیا ہے۔ اور اب میں بالکل اسٹیبل ہوں۔“

”تو کیا مطلب ہے ایسے ہی منہ اٹھا کر کسی کے بھی گھر چلی جاؤں۔“

”مام میں اسے پسند کرتا ہوں اور آپ میرا رشتہ لے کر جائیں گی دیٹس اِٹ۔ اگر آپ نہیں گئی تو میں خود ہی کر لوں گا۔“ روحان نے دھمکی دی۔

"یہ دھمکی کسی اور کو جا کر دینا۔" صوفیہ بیگم نے غصے سے کہا۔

”تو کیا آپ نے شادی نہیں کروانی میری؟ اب تو میری عمر بھی اچھی خاصی ہو گئی ہے۔“

”مجھے نہیں پتا ,جاؤ جا کر اپنے باپ سے بات کرو, میرا دماغ خراب مت کرو۔“

”ٹھیک ہے۔“ روحان زور سے دروازہ بند کر کے چلا گیا۔

”ڈیڈ۔“روحان کمرے سے نکلا تو سامنے احمد رضا بیٹھے نظر آئے۔

”ہاں بولو۔“ 

”ڈیڈ اب تو میں سیٹل ہو گیا ہوں آپ کا آفس بھی جوائن کر لیا ہے۔ مجھے اب نکاح کرنا ہے۔“

”کس سے کرنا ہے؟“

”سلیمان رضا صاحب کی بیٹی ادیبہ سے۔“

”کون سلیمان رضا؟“ احمد رضا نے سوال کیا۔

”وہ جن کی بیٹی حیا کا نکاح ازلان سے ہوا ہے۔ میں اس کی بڑی بہن ادیبہ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔“

”ٹھیک ہے۔ میں بات کرتا ہوں تمہاری ماں سے۔“ انہوں نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا۔

”تھینکس ڈیڈ۔“ روحان کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔

حیا بات سنو۔“ ازلان نے حیا کو مخاطب کیا۔

”ہمم بولو۔“ حیا عروبہ کے کپڑے تبدیل کروا رہی تھی۔

”تم لوگوں نے ادیبہ کی شادی کے بارے میں کیا سوچا ہے؟ اس کی عمر ہو گئی ہے۔ ابھی تک شادی نہیں کی۔“ 

”ازلان! آپی کے لیے بہت سے رشتے آتے ہیں, مگر وہ کسی کے لیے بھی ہاں نہیں کرتی۔ وہ کہتی ہے مجھے ابھی شادی نہیں کرنی۔“

”ابھی نہیں کرنی تو پھر کب کرنی ہے؟ اتنی عمر تو گئی ہے اس کی۔ اب تو اس کے چھوٹے بہن بھائیوں کی بھی ہو گئی ہے۔ تو پھر وہ کیوں نہیں کرتی ہے؟“

”بس کیا کریں ازلان۔ ہم نے بہت سمجھایا آپی کو مگر آپی مانتی ہی نہیں ہیں۔“

”تم ایک بار اپنی امی سے بات کرو ان کے لیے کہ انہیں سمجھائیں۔“

”ٹھیک ہے میں امی کو کہتی ہوں۔ تمہاری نظر میں کوئی لڑکا ہے, جو آپی کے لئے پرفیکٹ ہو؟“ حیا نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔

”ہاں ہے تو سہی۔“

”کون؟“

”روحان کیسا رھے گا ادیبہ کے لیے؟“ 

”اپنا R.K؟“ حیا نے حیرانی سے پوچھا۔

”ہاں اپنا R.K۔ تمہیں پتہ ہے وہ ادیبہ سے محبت کرتا ہے۔ اس نے قرآن پاک حفظ کیا, دینی تعلیمات حاصل کیں, صرف اور صرف ادیبہ کے لئے۔“

”کیااااا؟؟ وہ آپی کو پسند کرتا ہے؟“حیا ازلان کی بات سن کر حیران ہو گئی۔

”ہاں وہ ادیبہ کو پسند کرتا ہے اس نے خود مجھ سے یہ بات کہی تھی۔ یار تم آنٹی سے بات کرو نہ کہ وہ ادیبہ کو منا لیں نکاح کے لیے۔“

”ٹھیک ہی ازلان! میں بات کرتی ہوں امی سے, مگر یہ مشکل کام ہے مجھے نہیں لگتا کہ آپی مانیں گی۔“

”مشکل تو ہے پر تم ٹرائے تو کرو۔ ہم اپنے R.K کیلیے اتنا تو کر ہی سکتے ہیں نا۔“

”ٹھیک ہے۔ میں کرتی ہوں امی سے بات۔“

            ________________________

”ادیبہ میرا بچہ یہاں آٶ۔ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔“ فاطمہ بیگم نے کچن میں کام کرتی ہوئی ادیبہ کو اپنے پاس بلایا۔

”جی امی بولیں۔“ ادیبہ نے مسکرا کر کہا۔

”بیٹا ازلان کے دوست کی امی آج آپ کو دیکھنے کے لیے آرہی ہیں۔“

”مگر کیوں امی؟“ ادیبہ حیران تھی۔

”بیٹا وہ اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر آرہی ہیں آپ کے لئے۔“

”مگر امی۔“ ادیبہ بولنے لگی مگر فاطمہ بیگم نے اس کی بات کاٹی۔

”کوئی اگر مگر نہیں۔ اتنی عمر ہوگئی ہے اب بھی شادی نہیں کرنی۔ لوگ باتیں بناتے ہیں چھوٹی بیٹی کو رخصت کر دیا اور بڑی گھر میں بیٹھی ہے۔“

”امی پلیز مجھے نہیں کرنی شادی۔“ ادیبہ روہانسی ہو گئی۔

”بیٹا میری آخری خواہش سمجھ کر شادی کر لو۔ میں چاہتی ہوں میرے مرنے سے پہلے اپنی بیٹی کو اس کے گھر بھیج دوں۔“

”امی آپ ایسی باتیں کیوں کر رہی ہیں؟“

”تم مجھے مجبور کر رہی ہو ایسی باتیں کرنے پر اور ویسے بھی بہت اچھا رشتہ ہے لڑکا بھی حافظِ قرآن ہے۔ اب تم جاؤ جاکر تیار ہو کر آٶ, وہ آتی ہی ہوں گی۔“

”ٹھیک ہے امی۔“ ادیبہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔

             ________________________

احمد رضا خان اور انکی اہلیہ سلیمان صاحب کے گھر بیٹھے تھے۔ روحان نے جانے سے منع کر دیا تھا۔

”کہاں ہیں آپ کی بیٹی ادیبہ؟“ صوفیہ بیگم نے کہا۔ 

”حیا بیٹا جاٶ ادیبہ کو بلا کر لاؤ۔“

”جی امی۔“

”السلام عليكم ورحمة الله وبركاته۔“ ادیبہ نے کمرے میں آتے ہی سلام کیا۔

”وعلیکم السلام۔“ سب نے جواب دیا۔

ادیبہ اپنی امی کے پاس صوفے پر بیٹھ گئی۔ ادیبہ کی نظر جیسے ہی سامنے بیٹھے احمد رضا پر گئی تو حیران رہ گئی۔

اسے نہیں پتا تھا کہ احمد رضا, جو کہ اس کا دشمن ہے اس کے بیٹے کا رشتہ آیا ہے۔

وہ وہاں پر خاموش رہی۔ تھوڑی بہت باتیں کرنے کے بعد وہ وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔

”فاطمہ! رشتہ تو پکا ہو ہی گیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں آپ اپنی بیٹی ہمارے بیٹے کے نکاح میں دے دیں۔ رخصتی بے شک بعد میں کرلیجئے گا۔“

(یہ بھی روحان کا ہی کہنا تھا کہ رشتہ پکا ہو جاۓ تو فوراً نکاح ہو جاۓ۔ اسکی ضد کے آگے صوفیہ بیگم کچھ نہیں کہہ پائیں۔)

”ٹھیک ہے ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے, میں ادیبہ کو بلاتی ہوں۔“ فاطمہ بیگم اٹھ کر ادیبہ کے کمرے میں آگئیں۔

”ادیبہ بیٹا!  وہ لوگ چاہتے ہیں کہ تمھارا اور انکے بیٹے روحان کا نکاح کر دیا جاۓ۔ رشتہ تو پکا ہو ہی گیا ہے رخصتی بعد میں کروا لیں گے۔“

”مگر امی اتنی جلدی, ہم تو ان لوگوں کو جانتے بھی نہیں ہیں۔“ ادیبہ انھیں سچ نہیں بتانا چاہتی تھی۔ اگر سچ بتا دیتی تو اس کی امی سچ کو برداشت نہیں کر پاتیں۔ 

”امی پلیز مجھے ابھی نہیں کرنا نکاح۔“ ادیبہ کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔

”ادیبہ بیٹا آپ ہی تو کہتی ہو منگنی کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ نکاح ہونے پر سنت ادا ہو جاتی ہے۔“ فاطمہ بیگم نے اسے اسکی بات یاد کروائی جو اس نے حیا کے نکاح کے وقت کہی تھی۔

”جی امی میں نے ہی کہا تھا مگر....“ ادیبہ کی بات فاطمہ بیگم نے کاٹ دی۔

”اگر مگر کچھ نہیں۔ اپنے باپ کی عزت کا کچھ تو خیال رکھو۔ میں ان کو کہہ کر آئی ہوں آپ اپنے بیٹے کو بلا لیں۔ میں ادیبہ کو لاتی ہوں۔ وہ کیا سوچیں گی؟“ اتنے میں صبیحہ بیگم بھی کمرے میں آگئیں۔

”کیا ہوا ادیبہ بیٹا ابھی تک آئی نہیں۔“

”دادی جان! آپ کہیں نا امی سے مجھے نہیں کرنا نکاح۔“ ادیبہ نے دادی جان سے التجاء کی۔

”ادیبہ بیٹا کب تک ماں باپ کے گھر بیٹھی رہے گی۔ لڑکیوں کو تو ایک دن رخصت ہوکر جانا پڑتا ہے۔“

”مگر دادی جان یہ پتا نہیں کیسے لوگ ہیں۔ ہم تو جانتے بھی نہیں ہیں۔“

”بیٹا لڑکا ازلان کا دوست ہے۔ ازلان بتا رہا تھا بہت سلجھا ہوا نیک لڑکا ہے۔ ماشاءاللہ حافظِ قرآن بھی ہے اور کیا چاہیے۔“ دادی جان نے سمجھانا چاہا۔

”ٹھیک ہے امی, دادی جان آپ چلیں میں آتی ہوں تیار ہو کر۔“ ادیبہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

آخر کار ادیبہ سلیمان رضا, ادیبہ روحان خان بن گئی۔

روحان تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ سب اسکو اور ادیبہ کو مبارکباد دے رہے تھے۔

ادیبہ, حیا ,فاطمہ بیگم ,صوفیہ بیگم اور دادی جان لاٶنچ میں تھیں اور باقی کے مرد حضرات ڈرائنگ روم میں تھے۔

روحان نے ابھی تک ادیبہ کو نہیں دیکھا تھا۔

ادیبہ کے سر میں درد ہو رہا تھا اسی لیے وہ اپنے کمرے میں آگئی۔ اس نے پین کلر لی اور سو گئی۔

کچھ دیر بعد روحان ادیبہ کے روم میں آیا اور دروازہ بند کر کے ادیبہ کے سرہانے بیٹھ گیا۔

وہ یک ٹک ادیبہ کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔

”کتنی پاکیزہ ہے یہ۔ کتنا نور ہے اس کے چہرے پر۔“ وہ دل میں سوچ رہا تھا۔

کچھ دیر وہ اسے دیکھتا رہا۔ پھر جھک کر اس کی پیشانی پر بوسہ دے کر وہاں سے چلا گیا۔

ادیبہ کی آنکھ کھلی تو رات کے دو بج رہے تھے۔ وہ اٹھی اور وضو کرکے تہجد کی نماز پڑھنے لگی۔ نماز پڑھ کر دعا مانگنے کیلیے ہاتھ اٹھاۓ۔

”اللہ پاک کیوں؟؟؟؟ میں جس انسان سے نفرت کرتی ہوں آپ نے اسی کی بہو کیوں بنا دیا؟؟؟؟“ وہ رو رو کر اللہ پاک سے شکوہ کر رہی تھی۔

”آپ کے ہر فیصلے میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ آپ نے یقیناً میرے لیے بھی کوئی بھلائی رکھی ہوگی۔ آپ تو ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں نا مجھ سے۔ پھر کیسے مجھے تکلیف دے سکتے ہیں آپ۔“

دعا مانگ کر وہ یکدم پرسکون ہو گئی تھی۔ 

وہ جب بھی تکلیف میں ہوتی تو اللہ پاک کو اپنی تکلیف بتاتی تھی۔

‏کبھی بات بھی نہ کرنا,

کبھی گفتگو مسلسل۔ 

کبھی رب کو یاد کرنا,

تسبیح نماز پل پل۔

کبھی ایک سجدہ مشکل,

اور دنیا میں گم مسلسل۔

             ________________________

ایک ماہ بعد.....

اس ایک مہینے میں روحان نے اپنے باپ کا سارا بزنس اچھے سے ہینڈل کر لیا تھا۔

آج اس کا ادیبہ سے ملنے کا بہت دل کر رہا تھا۔ تو وہ آفس سے جلدی کام سمیٹ کر سلیمان رضا کے گھر پہنچ گیا۔

”السلام علیکم انکل۔“ دروازے پر ہی اسے سلیمان صاحب مل گئے تھے۔ 

”وعلیکم السلام کیسے ہو بیٹا۔ آٶ اندر۔ بڑے وقت کے بعد نظر آۓ ہو آج تو۔“

”ارے انکل وہ آفس کا کچھ زیادہ کام تھا نا بس اسی لئے ٹائم ہی نہیں ملا۔“

”السلام علیکم آنٹی!“ وہ اندر آیا تو فاطمہ بیگم کو دیکھ کر سلام کیا۔

”وعلیکم السلام بیٹا! کیسے ہو؟“ انھوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

”اللہ کا شکر ہے آنٹی میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ کی طبیعت کیسی ہے؟“ روحان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

”بس اللہ کا کرم ہے بیٹا۔ آٶ بیٹا بیٹھو۔“ انہوں نے روحان کو بیٹھنے کا کہا۔

”نہیں آنٹی مجھے لیٹ ہو رہا ہے پھر کسی ٹائم۔ وہ تو میں گزر رہا تھا یہاں سے تو سوچا آپ لوگوں سے حال احوال پوچھ لوں۔“

”اچھا اپنی بیوی سے تو مل لو۔ وہ اوپر اپنے کمرے میں ہے۔“

”ٹھیک ہے آنٹی۔“

روحان نے ادیبہ کا روم ناک کیا۔ اندر سے کوئی آواز نہیں آئی تو وہ دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔ اندر ادیبہ نماز پڑھ رہی تھی۔ اس نے دروازہ بند کیا اور بیڈ پر بیٹھ کر اس کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا۔

ادیبہ نے سلام پھیرا پھر دعا مانگنے لگی۔ دعا مانگنے کے بعد اس نے جاۓ نماز  اٹھائی اور پلٹی تو اس کے قدم وہیں جم گئے۔ روحان بھی اس کو دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔

”السلام علیکم۔“ روحان نے سلام کا آغاز کیا۔

”و..وعلیکم السلام۔“ادیبہ روحان کو دیکھ کر گھبرا گئی تھی۔

روحان نے آج پہلی بار ادیبہ کی آواز سنی تھی۔

”کیسی ہیں آپ“

”م.میں ٹھیک ہوں۔“

”آ..آپ بیٹھیں۔“ سامنے کھڑا ہوا انسان R.K نہیں تھا بلکہ حافظ محمد روحان خان تھا۔ جس سے چاہ کر بھی ادیبہ بدتمیزی سے بات نہیں کر پا رہی تھی۔

”میں کیوں اس انسان سے اتنا آرام سے بات کر رہی ہوں۔ جس کے باپ نے میرا سب کچھ اجاڑ دیا۔“ ادیبہ نے دل میں سوچا۔ 

”ادیبہ مجھے لیٹ ہو رہا ہے۔ میں چلتا ہوں۔ آپ اپنا خیال رکھیے گا۔“ وہ آگے بڑھا اور ادیبہ کی پیشانی پر بوسہ دیا۔

”اللہ حافظ!“ ادیبہ گھبرا گئی۔ اس نے آگے سے کچھ نہیں کہا.

آج ادیبہ کی رخصتی تھی۔ بالکل سادگی سے رخصتی ہوئی تھی۔ ادیبہ نے فضول رسومات کرنے سے منع کیا تھا۔ 

ابھی وہ روحان کے کمرے میں بیٹھی تھی۔

”آہ!!! کبھی سوچا نہیں تھا کہ یہ دن بھی دیکھنے کو ملے گا۔ آج میں اپنے دشمن کے گھر میں بیٹھی ہوئی ہوں, اسی کے بیٹے کی بیوی بن کر۔ روحان تمہیں مجھ سے کبھی کچھ بھی نہیں ملے گا, سوائے دکھ اور تکلیف کے۔“ ادیبہ اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی اٹھی اور برائیڈل ڈریس چینج کرنے کے بعد بیڈ پر لیٹ گئی۔ وہ بہت تھک گئی تھی۔ اسی لیے لیٹتے ہی سو گئی۔

روحان کمرے میں آیا تو ادیبہ سوئی ہوئی ملی۔

”محترمہ میرے آنے کا تو انتظار کر لیتی, بڑی نیند آ رہی تھی۔“ روحان نے ایک نظر اس کو دیکھا اور چینج کرنے چلا گیا۔

چینج کرنے کے بعد تھوڑی دیر ادیبہ کے پاس بیٹھا رہا پھر بیڈ کے دوسری سائیڈ پر لیٹ گیا۔

”اللہ پاک آپ کو میری کونسی نیکی پسند آ گئی تھی جو آپ نے اتنی پاکیزہ لڑکی کو میرا نصیب بنا دیا۔“ روحان دل میں اللہ پاک سے مخاطب ہوا اور کچھ دیر بعد وہ بھی نیند کی وادیوں میں چلا گیا۔

              ________________________

کچھ دنوں سے روحان نوٹ کر رہا تھا کہ ادیبہ اس سے کھنچی کھنچی رہتی ہے۔ کسی بات کا ڈھنگ سے جواب نہیں دیتی تھی۔ روحان کے آفس سے آنے سے پہلے ہی سو جاتی تھی۔ خود سے کبھی بھی روحان کو مخاطب نہیں کرتی تھی۔ آج اس نے سوچا کے وہ ادیبہ سے اس بارے میں بات کرے گا۔ اسی لیے وہ آفس سے جلدی گھر آ گیا تھا۔ ادیبہ کوئی کتاب لے کر بیڈ پر بیٹھی تھی۔ اس کی عادت تھی فارغ وقت میں کتابیں لے کر بیٹھ جاتی تھی۔

”السلام علیکم۔“ روحان نے کمرے میں آتے ہی سلام کیا۔

”وعلیکم السلام! خیریت آج آپ جلدی آ گئے؟“ ادیبہ نے روحان کو کہا جو اس وقت اس کے آگے بیڈ پر لیٹ گیا تھا۔

”کیوں میرا جلدی آنا اچھا نہیں لگا؟“ روحان نے اپنے سر کے نیچے ہاتھ رکھا اور تھوڑا اونچا ہو کر بولا۔

”نہیں میں تو ایسے ہی پوچھ رہی تھی۔ مجھے کیا آپ جب بھی آئیں۔“ ادیبہ کہہ کر بیڈ سے اٹھنے لگی۔

”رکو مجھے کچھ بات کرنی ہے۔“ روحان نے اسکو اٹھتے دیکھا تو اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ جسے ادیبہ نے فوراً چھڑوا لیا اور روحان نے یہ بات نوٹ بھی کی تھی۔

”کیا بات کرنی ہے؟“ روحان سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔

”کیا یہ شادی تمہاری رضامندی سے نہیں ہوئی؟“ ادیبہ حیران ہو کر روحان کو دیکھنے لگی۔

”کیا ہوا میں نے کوئی مشکل سوال پوچھ لیا کیا؟“

”ظاہر ہے میری رضامندی سے ہوئی ہے۔“ ادیبہ نے نظریں چرا کر کہا۔

”تو پھر مجھ سے تم ایسا بیہیوئیر (behaviour) کیوں رکھتی ہو؟“ روحان نے ادیبہ سے شکوہ کیا۔

”میں کیسا بیہیوئیر (behaviour) رکھتی ہوں؟“

”تمہیں اچھے سے معلوم ہوگا کہ تم میرے ساتھ کیسا رویہ رکھتی ہو۔“ ادیبہ وہاں سے اٹھنے لگی تو روحان نے اس کے دونوں بازو تھام لیے اور اس کو کھڑے ہونے سے روکا۔

”چھوڑیں مجھے۔“ ادیبہ نے خود کو چھڑوانا چاہا مگر ناکام رہی۔

”پہلے میری بات کا جواب دو۔ کیوں مجھ سے بھاگتی رہتی ہو؟ میں کوئی زبردستی تو تمہیں تمہارے گھر سے نہیں اٹھا لایا نا؟ پھر کیوں ایسا کرتی ہو میرے ساتھ؟“ ادیبہ کے بازوٶں پر روحان کی گرفت سخت ہوگئی تھی۔ ادیبہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔

”ادیبہ جواب دو۔“ اب کی بار روحان کی آواز میں تھوڑی سختی شامل تھی۔

”کیونکہ نفرت کرتی ہوں میں تم سے, تمہارے باپ سے, تمہاری ماں سے, تمہاری ہر چیز سے۔“ ادیبہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔

روحان کو ادیبہ کی باتیں سن کر دھچکا لگا تھا۔ ادیبہ کے بازو پر اب اس کی گرفت ہلکی ہو گئی تھی۔

”سن لیا جواب۔ اب چھوڑو مجھے۔“ ادیبہ نے اس کا ہاتھ ہٹایا اور اٹھنے لگی۔ تو روحان نے دوبارہ اس کے بازو پکڑ لئے۔

”کیوں نفرت کرتی ہو مجھ سے اور میرے ماں باپ سے؟ کیا بگاڑا ہے ہم نے تمہارا؟“

”جا کر اپنے باپ سے پوچھو۔ جس نے میری زندگی تباہ کردی۔ مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا۔“ ادیبہ کو ایک بار پھر ماضی کی یاد نے بکھیر دیا تھا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

روحان نے ادیبہ کے بازو چھوڑ دیے اور اس کے آنسو صاف کرنے لگا۔

”ادیبہ یہاں دیکھو میری طرف۔ پلیز رونا بند کرو اور مجھے بتاؤ کیا کیا ہے میرے باپ نے تمہارے ساتھ؟ بتاؤ مجھے۔“ روحان کو یقین تھا کہ ادیبہ کبھی جھوٹ نہیں بولے گی۔

”بتا کر بھی کیا فائدہ آپ نے تو اپنے باپ کی ہی سائیڈ لینی ہے نا۔ آپ کیوں میری بات کا یقین کرو گے؟“ روحان نے اسے آگے کر کے اپنے سینے سے لگا لیا اور اس کے بال سہلانے لگا۔

”دیکھو ادیبہ! میں تم سے بے انتہا محبت کرتا ہوں۔ میں دین کی طرف راغب ہوا تو صرف تمہاری وجہ سے میری محبت کوئی دو کوڑی کی محبت نہیں ہے۔ مجھے محبت سے پہلے تم پر یقین ہے۔ آنکھیں بند کر کے تم پر یقین کرتا ہوں۔ اور رہی بات میرے ماں باپ کی تو آج ایک سچ میں بھی تمہیں بتاتا چلوں کہ احمد رضا جسے تم میرا باپ سمجھتی ہو۔ یہ میرا سگا باپ نہیں ہے۔ میرے ابو کا تو ٩ سال پہلے ہی انتقال ہو چکا ہے۔ میرے ابو کے انتقال کے بعد میری ماں نے احمد رضا سے شادی کرلی تھی۔ میں اس شادی پر خوش نہیں تھا۔ احمد رضا کوئی اچھا انسان نہیں تھا۔ وہ ڈرگس کی اسمگلنگ کرتا تھا۔ مگر میری ماں کون سا میری بات کبھی سنتی تھی۔ خیر! ان کی شادی ہوگئی۔

ایک میرے ابو تھے جو مجھ سے محبت کرتے تھے ان کے جانے کے بعد نہ کبھی میرے سوتیلے باپ نے مجھ سے محبت کی نہ کبھی میری سگی ماں نے۔ شاید اسی لیے میں اتنا بگڑا ہوا ہوں کیونکہ مجھ سے کبھی کسی نے محبت نہیں کی۔ مجھے کبھی کسی نے کچھ بھی کرنے سے نہیں روکا۔ مگر ادیبہ تمہیں پتہ ہے میں نے جب تمہیں پردے میں دیکھا تھا۔ تو میں سوچتا تھا کہ آج کے دور میں بھی ایسی لڑکیاں ہوتی ہیں جو خود کو اتنا کور کرکے رکھتی ہیں۔ بار بار میرا دل مجھے تمھیں دیکھنے پر اُکسا رہا تھا کہ ایک بار تمہیں دیکھ لوں تم کیسی دکھتی ہو۔  پھر ایک مرتبہ میں رات کے وقت چھپ کر تمہارے کمرے کی کھڑکی میں آیا تھا۔ تم اس وقت نماز پڑھ رہی تھی۔“

روحان نے آخری بات ڈرتے ہوۓ بتائی۔ ادیبہ حیران تھی کہ روحان کب آیا اسکی کھڑکی میں اسے تو پتہ بھی نہیں چلا۔ ادیبہ نے سر اٹھا کر روحان کو دیکھا۔

”آپ نے مجھے دیکھا بھی تھا؟“

”بس تھوڑا سا دیکھا تھا مگر سچی، میں وہاں سے چلا گیا تھا اس کے بعد کبھی نہیں دیکھا۔“ روحان نے اسے پھر سے خود کے سینے سے لگا لیا۔

”تمہیں پتا ہے جب  میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا نا تو اسی وقت میرے دل سے بے اختیار دعا نکلی تھی کہ اللہ پاک اسکو میرا مقدر بنا دیں اور شاید اللہ پاک نے مجھ جیسے ناچیز کی دعا قبول کرلی اور آج تم مجھے مل گئیں ادیبہ۔ اب دیکھو میں نے تمہیں سب کچھ بتا دیا اب تم بتاؤ کیا کِیا ہے احمد رضا نے تمہارے ساتھ؟"

”روحان....“

”بولو میری جان! مجھے بتاؤ گی نہیں تو مجھے کیسے پتہ چلے گا؟“

” ر..رو..روحان۔“ ادیبہ پھر سے رونے لگی۔

”ادیبہ پلیز میری جان رو نہیں۔ تم تو بہت بہادر ہو نا۔ چلو بتاؤ مجھے کیا ہوا؟“ روحان نے اس کے آنسو صاف کیے۔

”روحان آٹھ سال پہلے کی بات ہے میرے یونی کے پیپرز چل رہے تھے۔ میں ان کی تیاری کر رہی تھی۔ باقی سب گھر والے ماموں کی بیٹی کی شادی میں گئے ہوئے تھے۔ اچانک میرا فون بجنے لگا میں نے کال ریسیو کی ہاسپیٹل سے کال تھی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے بھائی کو کسی نے گولیاں مار دیں آپ پلیز جلدی ہاسپیٹل آئیں۔ انہوں نے ایڈریس وغیرہ بھی بتایا تھا۔ میں بہت گھبرا گئی تھی۔ میں نے ابو کو کال کی تو وہ نہیں اٹھا رہے تھے۔ پھر حنین کو کی تو اس نے بھی کال نہیں اٹھائی۔ تو میں اکیلی چلی گئی مجھے میرے بھائی کی فکر تھی۔“

”حنین کے علاوہ بھی تمہارا کوئی بھائی ہے؟“ روحان نے اس کی بات بیچ میں کاٹی۔

”ہاں مجھ سے بڑے میرے ایک اور بھائی تھے۔ ہم چاروں بہن بھائیوں میں سب سے بڑے روحیل بھائی تھے۔“

”پھر آگے کیا ہوا؟“

”میں ہاسپٹل پہنچی تو بھیا آئی سی یو میں تھے۔ ان کی حالت بہت زیادہ سیریس تھی۔ ڈاکٹر مجھے ان سے ملنے کی اجازت ہی نہیں دے رہے تھے۔ مگر میں ضد کر کے اندر چلی گئی۔ بھیا تھوڑا بہت ہوش میں تھے۔ میں نے انہیں آواز دی تو انھوں نے آنکھیں کھولیں اور مجھے دیکھنے لگے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کس نے کیا ہے بھیا؟ تو بھیا نے مجھے بتایا کہ: “

”یہ احمد رضا نے کیا ہے۔ اس نے میرے دوست کے باپ کا قتل کیا تھا میں نے اسے جیل میں ڈلوا دیا تو اس نے اپنے آدمیوں کے ذریعے مجھ پر فائرنگ کروادی اور خود بیل کے ذریعے رہا ہو گیا۔ ادیبہ تم میرا ایک کام کرو گی؟“ بھیا نے مجھ سے التجاء کی۔

”جی بھیا بولیں آپ۔“

”ادیبہ احمد رضا کو اب تم سزا دلواٶ گی۔ مجھے یقین ہے میری ادیبہ اس گنہگار کو ضرور سزا دلواۓ گی۔“ آخری بات بھیا نے اٹکتے ہوۓ بولی اور اسکے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرلیں۔

”تم نے اپنے بھائی کا کیا نام بتایا تھا؟“ روحان نے ادیبہ کو سیدھا کرتے ہوئے کہا۔

”روحیل نام تھا میرے بھیا کا۔“

روحیل پولیس آفیسر تھا؟“ روحان نے سوال کیا۔

”ہاں بھیا پولیس آفیسر تھے۔ مگر آپ کو کیسے پتہ؟“

”ایک منٹ ادیبہ۔“ روحان نے اپنا فون اٹھایا اور گیلیری میں سے ایک پک نکال کر ادیبہ کو دکھائی۔

”کیا یہ ہے تمہارا بھائی؟“ 

”ہاں یہ میرے بھیا ہیں مگر ان کی پک آپ کے پاس کیا کر رہی ہے۔“ 

”کیونکہ روحیل میرا دوست تھا۔“

”آپ بھیا کے دوست ہیں؟“ ادیبہ کو یقین نہیں آرہا تھا۔

” ہاں روحیل میرا دوست تھا۔ میرے ابو کے قتل کا کیس بھی اس کے پاس تھا۔ اس کا مطلب روحیل نے میرے ابو کے قاتل کو ڈھونڈ لیا تھا۔ وہ مجھے بتاتا اس سے پہلے احمد رضا نے اس کو مروا دیا۔“ روحان کی آنکھیں ضبط سے لال ہو گئیں تھیں۔

”تم فکر نا کرو ادیبہ اس احمد رضا کو میں سزا دلواٶں گا۔ بس ایک بار کوئی ٹھوس ثبوت میرے ہاتھ لگ جاۓ, پھر یہ دوبارہ جیل سے رہا نہیں ہو پائے گا۔“

”تھینک یو سو مچ روحان۔“ ادیبہ کہہ کر اس کے گلے لگ گئی۔آج روحان آفس میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کیسے احمد رضا کے خلاف ثبوت اکٹھے کرے, تو اسے خیال آیا کہ رامو کاکا کو کچھ پتہ ہو گا, کیونکہ وہ بہت پرانے ملازم تھے۔ جو اسکے سگے باپ کے زندہ ہونے کے وقت سے آفس میں کام کر رہے تھے۔

”رامو کاکا کو بھیجو۔“ روحان نے وہاں پر کام کرنے والے ملازم سے کہا۔

”جی روحان بیٹا۔ آپ نے بلایا؟“ رامو کاکا نے آکر کہا۔ 

”جی کاکا بیٹھیں مجھے آپ سے کچھ کام تھا۔“

”جی بیٹا بولو کیا کام تھا؟“ رامو کاکا کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہنے لگے۔

”مجھے آپ سے یہ پوچھنا تھا کہ میرے ابو کی ڈیتھ کیسے ہوئی تھی؟ کیا آپ کو پتہ ہے انہیں کس نے قتل کیا تھا اور کیوں؟ کیا وجہ تھی قتل کرنے کی؟“

”بیٹا اتنے سالوں بعد کیوں پوچھ رہے ہو؟“ رامو کاکا حیران تھے کہ اتنے سالوں پرانی بات روحان کیوں پوچھ رہا ہے؟

”کیونکہ مجھے شک ہے میرے باپ کا قاتل اور کوئی نہیں بلکہ میرا سوتیلا باپ احمد رضا ہے۔ کیا یہ سچ ہے؟ پلیز کاکا مجھے سب سچ بتائیں۔ مجھے یقین ہے آپ کو پتہ ہو گا۔“

”بیٹا ہاں یہ بات سچ ہے کہ احمد رضا نے ہی سکندر اعلم کا قتل کروایا ہے۔ تمہاری ماں اور احمد رضا ملے ہوئے تھے۔ ایک دن احمد رضا آفس آیا تھا سکندر اعلم سے ملنے کے لئے۔ ان کا کسی بات پر جھگڑا ہو رہا تھا۔ تو میں دروازے کے باہر کھڑا ہو کر سننے لگ گیا۔

احمد رضا سکندر اعلم کو دھمکی دے رہا تھا کہ اگر تم نے اپنی پراپرٹی میرے نام نہیں کی تو میں تمہارے بیوی بچے کو مار دوں گا۔ تو سکندر اعلم نے پراپرٹی کے کاغذات پر سائن کر کے پراپرٹی اس کے نام کر دی۔ اگلے دن ہی سکندر اعلم کی موت ہوگئی تھی۔ کچھ وقت بعد احمد رضا نے سکندر اعلم کی بیوی سے شادی کرلی اور آفس آنے لگا۔ ایک دن تمہاری ماں بھی اس کے ساتھ آفس آئی تھی۔ میں اندر کچھ کام سے جارہا تھا کہ کمرے سے ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں۔ وہ دونوں میاں بیوی ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔ احمد رضا نے کہا بیچارہ سکندر اعلم کتنی دردناک موت مرا۔ میں نے جب یہ سنا تو اپنا فون نکال کر ریکارڈنگ کرنے لگا۔ اس ریکارڈنگ میں احمد رضا نے خود اپنے جرم کا اقرار کیا ہے۔ میں یہ ریکارڈنگ لے کر پولیس کے پاس گیا۔ پولیس آفیسر نے احمد رضا کو گرفتار بھی کروا لیا تھا۔ مگر احمد رضا نے اپنے ساتھیوں کے ذریعے اس پولیس والے کو مروادیا اور جیل سے رہا ہو گیا۔ اس کے بعد سے میں نے آج تک کبھی کسی کو سچ نہیں بتایا۔ میں ڈرتا تھا کہ کہیں وہ میرے گھر والوں کے ساتھ کچھ غلط نہ کردے اس لیے میں نے یہ راز ,راز ہی رہنے دیا۔“

”کیا وہ ریکارڈنگ ابھی بھی آپ کے پاس ہے؟“

”ہاں بیٹا وہ ریکارڈنگ میں نے سنبھال کر رکھی ہے۔ میں نے سوچا کہ کبھی تو احمد رضا کو سزا دلواٶں گا۔ اس نے میری جان سے زیادہ عزیز دوست سکندر اعلم کا قتل کروایا تھا۔“ رامو کاکا نے اپنے موبائل سے ریکارڈنگ نکال کر روحان کو سنائی۔

” شکریہ رامو کاکا اب دیکھنا میں کیسے اس کو اندر کرواتا ہوں۔“

روحان وہ ریکارڈنگ لے کر پولیس اسٹیشن پہنچا اور احمد رضا کو گرفتار کروادیا۔

کورٹ نے احمد رضا کو دو دو قتل کرنے کے جرم میں پھانسی کی سزا سنائی اور صوفیہ بیگم کو پانچ سال قید کی سزا ملی۔

             ________________________

آج ادیبہ بہت خوش تھی کیونکہ اس کی جان سے پیارے بھائی کو آج انصاف ملا تھا۔ 

”تھینک یو سو مچ روحان۔“ روحان کمرے میں آیا تو ادیبہ فوراً اس کے گلے لگ گئی۔

”وہ کس خوشی میں؟“

”آپ نے میرے بھائی کے قاتل کو سزا دلوا دی, اس خوشی میں۔“

”اچھا جی میں تو سمجھ رہا تھا ایسے ہی بول رہی ہو۔“

روحان نے ادیبہ کے گرد بازوؤں کا حصار باندھ لیا۔

”آئی لو یو, ادیبہ۔“

”آئی لو یو ٹو ,روحان۔“

             ________________________

ایک سال بعد....

آج ادیبہ کی نارمل ڈیلیوری تھی۔ روحان نے ہاسپٹل میں بھی ادیبہ کے پردے کا خیال رکھا تھا۔ 

روحان کھڑا ہوا رو رہا تھا۔

”بیٹا تم کیسے رو سکتے ہو؟ یہ وقت تو ہر عورت پر آتا ہے۔“ فاطمہ بیگم نے روحان کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ روحان کچھ کہے بغیر ہی خاموشی سے باہر نکل گیا اور رونے لگا۔

”یا اللہ پاک اتنی تکلیف کیوں دے رہے ہو میری جان کو؟ میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے کیوں ہے؟ آج سمجھ آگیا کہ کیوں جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔“ ادیبہ کا تڑپتا ہوا چہرہ اور سوجی ہوٸ آنکھیں روحان کو پریشان کر رہی تھی۔

اگلے آدھے گھنٹے بعد اس کو بیٹی کے ہونے کی خوشخبری ملی تھی۔ اس کا چہرہ بالکل ادیبہ جیسا تھا۔  ادیبہ نے اس کا نام ریحانہ فاطمہ رکھا تھا۔ روحان سے ملتا جلتا نام تھا۔

روحان ان دونوں کو لئے گھر آ گیا۔

”تھینک یو سو مچ میری جان! مجھے اتنی پیاری سی باربی ڈول دینے کے لئے۔“ روحان نے ادیبہ کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔

”آئی لو یو سو مچ ادیبہ۔“ روحان کی آنکھیں بھیگنے لگیں تھیں۔

”آئی لو یو ٹو روحان۔“ ادیبہ نے روحان کی بھیگی آنکھیں صاف کی اور اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔

روحان نے اپنی پاکیزہ محبت کو پاکیزہ رکھا بھی تھا۔ باہر آسمان پر چمکتا ہوا چاند ان کی پاکیزہ محبت کی گواہی دے رہا تھا۔

کسی سے محبت رکھو,

تو اسے پاکیزہ رکھو۔

تاکہ خدا بھی دیکھ کر,

کن فیکون کہہ دے۔❤

ختم شدہ۔۔۔

 مزید ناولز کے لئے نیچے جائیں ، یہاں مکمل اور قسط وار سبھی ناولز کے لنکس دئیے گئے ہیں۔

آپ مزید ناول کی پکس دیکھنے کے لیے نیچے جائیں ، اور ہماری ویب سائٹ کو وزٹ کریں ، اگر آپ نے ابھی تک مدیحہ شاہ کے مکمل اور قسط وار ناولز نہیں پڑھے ۔ تو جلدی سے مدیحہ شاہ کے سبھی ناولز کو پڑھیں اور اپنا فیٹ بائک دیں ۔

 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels


This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about


 

Pakiza Muhabbat Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Pakiza Muhabbat  written Noor Fatima . Pakiza Muhabbat by Noor Fatima  is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

Forced Marriage Based Novel Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my web And if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............


If you want to read More Madiha Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Madiha Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be delete

Previous Post Next Post