Rakhail By Riaz Aqib New Novel Episode 18

Rakhail By  Riaz Aqib New Novel Episode 18

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Rakhail By Raiz Aqib Episode 18

Novel Name: Rakhail 

Writer Name: Riaz Aqib  

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

رات کو جلدی سونے کی وجہ سے صبح اس کی آنکھ جلدی کھل گی تھی ۔وہ صوفے پر بیٹھی پڑھائی میں مصروف تھی ۔گاہے گاہے اس کی نظریں کبیردادا کی طرف بھی اٹھ جاتیں ۔اسے کسمسا کر اٹھتے دیکھ کر وہ تیرکی طرح اس کی طرف بڑھی ۔لیموں نچوڑے پانی کا گلاس اس نے میز پر تیار رکھا ہوا تھا ۔

”یہ لیں ۔“ گلاس پکڑاتے ہوئے وہ اس کے قریب ہی بیٹھ گئی ۔

کبیردادا نے خاموشی سے گلاس کو منھ لگا لیا ۔

”ناشتا لے آﺅں یا اپنے وقت پر ناشتا کریں گے ۔“

خالی گلاس اس کی جانب بڑھاتے ہوئے وہ مستفسر ہوا ۔”جاگ تو گیا ہوں ،کیا کروں گا ۔“

وہ معصومیت سے بولی ۔”مجھ سے باتیں ۔“

”اتنا فالتو دماغ میرے پاس ہے نہیں جو تمھاری بے مزہ اور بے مطلب باتیں سنتا رہوں ۔“کبیردادا نے منھ بنایا۔

”اچھا میں نہیں کرتی باتیں ،آپ کی سنوں گی ۔“یہ کہتے ہوئے وہ اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی ۔

”یہ کیا بے ہودگی ہے ۔“یہ کہتے ہوئے کبیردادا نے اسے کندھوں سے پکڑ کر بیڈ پر پھینک دیا ۔تناوش نے اس کی کمر کے گرد بازو لپیٹنے کی کوشش کی مگر کبیردادا نے اس کی کوشش ناکام بنا دی تھی ۔

”اچھا دور دور بیٹھ کر باتیں کرلیں گے ۔“وہ برا منائے بغیر اس نے اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے کبیردادا کا بازو پکڑ لیا ۔

”بتایا تھا نا مجھے ایسی باتوں سے چڑ ہے ،کوفت ہوتی ہے تمھاری حرکتیں دیکھ کر ۔“اس کی گرفت سے بازو چھڑا کر وہ غسل خانے کی طرف بڑھ گیا ۔اور تناوش ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی ۔اس کے پہننے کے کپڑے وہ پہلے سے الماری سے باہر لٹکا چکی تھی ۔

اس کے ناشتا تیار کرنے تک وہ سوٹ پہن کر نکل آیا تھا ۔ٹائی حسب عادت اس نے مفلر کی طرح گلے میں ڈالی ہوئی تھی ۔ناشتا کرنے کے بعد ہی وہ ٹائی باندھا کرتا تھا ۔آج سویرے تیار ہونے کی وجہ سے اس نے بیٹھنے سے پہلے موبائل فون پر عظیم کو کال کر کے آدھے گھنٹے تک اپنی آمد کا بتا دیا تھا ۔

بیٹھتے ساتھ اس نے میز پر سجے ناشتے کو دیکھ کر حیرانی بھرے لہجے میں پوچھا ۔”یہ پراٹھا اور انڈہ فرائی کس لیے ؟“

”یہ میرا ناشتا ہے ۔“اسے مطلع کرتے ہوئے وہ انڈہ چھیلنے لگی ۔

”صبح سویرے اٹھ جاتی ہو تو اسی وقت کر لیا کرو ۔“

”امی جان کہتی ہیں ،بیویوں کو شوہر سے پہلے ناشتاوغیرہ نہیں کرنا چاہیے ۔ ان کے ساتھ یا بعد میں کرنا چاہیے ۔“

وہ طنزیہ لہجے میں بولا ۔”ہنسی آتی ہے یہ فرسودہ باتیں سن کر ۔“

”تو ہنس لیں ۔“صاف انڈہ پلیٹ میں رکھ کر اس نے دوسرا انڈہ اٹھا لیا ۔

”امی جان نے یہ کبھی نہیں بتایا کہ شوہروں کو روکنا ٹوکنا نہیں چاہیے ۔“

تناوش کے ہونٹوں پر شرارتی ہنسی نمودار ہوئی ۔”بتایا تو ہے ،مگر ہر بات پر عمل تو نہیں کیا جاسکتا نا ۔“

”جس دن تمھیں ایک تھپڑ بھی لگ گیا یہ شوخی شرارت بھول جائے گی ۔“

”خیال رکھنا ،نازک سی ہوں کہیں آپ کے تھپڑسے جان ہی نہ نکل جائے ۔“ جوس کا گلاس بھرتے ہوئے وہ شوخی سے بولی ۔

”اچھا ہے جلدی جان چھوٹے گی ۔“

”کتنا شوق ہے جان چھڑانے کا ۔“وہ اس کے بازو سے لگ گئی ۔

”ناشتا کر لو ٹھنڈا ہو جائے گا ۔“اس کے چاہت جتانے پر کبیردادا نے حسب عادت ناک بھوں چڑھائی ۔

وہ اٹھلاتے ہوئے بولی ۔”اگر پہلا نوالہ آپ کھلائیں تو کر لیتی ہوں ،ورنہ ناشتا نہیں کروں گی ۔“

”بھاڑ میں جاﺅ ۔“

”جب آپ غصہ کرتے ہیں تو جی کرتا ہے ........“وہ فقرہ پورا کیے بغیر ہنس پڑی ۔

”کیا ؟“کبیردادا نے اس کی طرف غصیلی نظروں سے گھورا۔

”چھوڑیں اگر بتا دیا تو آپ کچھ اور پیارے لگنے لگیں گے۔“شرارتی لہجے میں کہتے ہوئے اس نے وضاحت کی ۔”میرا مطلب ہے مزید غصہ کر کے ۔“

کبیردادا نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا ۔”جانتی ہو تم میری ضد اور انا کی وجہ سے یہاں نظر آرہی ہو ،کچھ لوگوں کا اصرارتھا کہ ایک چھوکری کو میں اتنی اہمیت نہ دوں اور میں اپنی بات پر اڑ گیا ۔اصرار کرنے والے کافی بڑے لوگ ہیں ۔ان میں سے ایک کل تمھیں تحفہ دے کر بھی گیا ہے ۔اگر وہ تمام لوگ مجھے مجبور کرنے کی کوشش نہ کرتے تو یقین مانو تم کل کی گھر جا چکی ہوتیں ۔“

”اچھا ،میں یونھی انھیں اپنا دشمن سمجھے بیٹھی ہوں ۔“تناوش نے پر خیال انداز میں سر ہلایا۔”جن کی وجہ سے میں یہاں ہوں وہ دشمن تو نہ ہوئے نا ۔“

”تمھاری تو کوئی کل ہی سیدھی نہیں ہے ۔“ٹشو سے ہاتھ صاف کر کے وہ ٹائی باندھنے لگا ۔

وہ سرعت سے بولی ۔”ایک منٹ ،ٹائی میں خود باندھوں گی ۔“

”کل تو کہہ رہی تھیں تمھیں ٹائی باندھنے کا طریقہ نہیں آتا ۔“

”گزشتا رات آپ کے آنے سے پہلے یہی سیکھتی رہی ۔اب آگیا ہے ۔“اعتماد سے کہہ کر وہ اس کے ٹائی اندھنے لگی ۔پہلی مرتبہ اس نے الٹی گرہ لگا دی ۔دوبارہ کھول کر اس نے سیدھا کرنے کی کوشش کی مگر پھر الٹا کر دیا ۔

اس نے طنزیہ لہجے میں پوچھا ۔”گھنٹا ایک لگ جائے گا ۔“

”صبر کریں نا ۔“اس نے روہانسے لہجے میں اسے ڈانٹا۔

”یہ ایسے باندھتے ہیں ۔“وہ تنگ آکر اسے سمجھانے لگا ۔

”اب نہیں بھولے گا ۔“کبیردادا کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اس نے گرہ لگاکر بچوں کے سے انداز میں خوشی کا اظہار کیا تھا ۔

”اب ناشتا کر لو ۔“وہ جانے کے ارادے سے کھڑا ہو گیا ۔

وہ مسکرائی ۔”بتا دیا نا ایسے نہیں کروں گی ۔“اس کے ساتھ کھڑے ہو کر وہ منھ ہی منھ میں کچھ بڑبڑانے لگی ۔کبیردادا اس کی عادت سے واقف تھا خاموش سے کھڑا اسے گھورتا رہا ۔اس کے چہرے اور چھاتی پر پھونک مارتے ہوئے وہ بولی ۔”جلدی آنے کی کوشش کرنا ۔“

افسوس بھرے انداز میں سر ہلاتے ہوئے کبیردادا چل پڑا ۔اس کے بار بار ڈانٹنے اور شرمندہ کرنے کا تناوش پر کوئی اثر ہی نہیں ہورہا تھا ۔

وہ حسب عادت اس کے پیچھے ہی بڑھ گئی تھی ۔

گاڑیاں تیار کھڑی تھیں ۔عظیم نے اس کے لیے دروازہ کھولا ۔وہ اس کے قریب رکتے ہوئے بولا ۔”تم آج یہیں رہ جاﺅ ، اس کے داخلے کا کوئی مسئلہ تھا ۔ کالج کے پرنسپل سے جا کر مل لینا ۔“

”کس کے داخلے کا مسئلہ ہے دادا۔“عظیم کی سمجھ میں نہیں آیا تھا ۔

کبیردادا نے گہراسانس لے کے پھر پیچھے مڑ کر دیکھا ،تناوش دروازے پر کھڑی اسی کی جانب متوجہ تھی ۔”وہ مصیبت جو دروازے پر کھڑی ہے ۔“ کبیردادا کے لہجے سے شوہرانہ بے بسی کا اظہار ہو رہا تھا ۔

عظیم کے ہونٹوں پر تبسم ظاہر ہوا مگر پھر وہ ہونٹ بھینچ کر خود کو سنجیدہ ظاہر کرنے لگا ۔ ”ٹھیک ہے دادا ،یہ ہو جائے گا ۔البتہ ایک اور مسئلہ ہے ۔“

”وہ کیا ۔“گاڑی میں بیٹھتے ہوئے وہ شیشہ کھول کر عظیم کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا ۔

”تنویر پلازہ اور عباسیہ مارکیٹ کے دکانداروں کو مقامی تھانیدار تنگ کر رہا ہے ۔“

”نیا تھانیدار ہے ؟۔“

”وہی پرانے والا ہے راﺅاجمل رحیم، اس کا حصہ بھی باقاعدگی سے دیا جا رہا ہے ۔“

کبیردادا نے پوچھا ۔”ذرا اس کا بائیو ڈیٹا دہراﺅ۔“اور عظیم اس کے بارے تفصیل بتانے لگا ۔

”ہونہہ!“عظیم کی بات ختم ہوتے ہی اس نے اثبات میں سرہلایا۔”ٹھیک ہے میں اسے دیکھ لیتا ہوں ۔“یہ کہتے ہی اس کی نظریں تناوش کی جانب اٹھ گئیں ۔وہ دروازے سے ٹیک لگا ئے کسی تصویر کی طرح کھڑی تھی ۔اس کا معصومیت بھرا انداز دیکھ کر ایک لمحے کے لیے کبیرداداکا جی چاہا کہ جا کر اسے اپنے ہاتھ سے ناشتا کرادے ۔نہ جانے اسے کیوں یقین تھا کہ وہ ناشتا نہیں کرے گی ،مگر پھر وہ سر جھٹک کر رہ گیا ۔

اسے خاموش پا کر ڈرائیور نے پوچھا ۔”چلیں دادا !“

”آں ،ہاں ....چلو ۔“چونکتے ہوئے اس نے تناوش سے نظر ہٹائی ۔گاڑی کے آگے بڑھتے ہی وہ ایک مرتبہ پھر مڑ کے دیکھنے لگا ۔گیٹ سے نکلتے ہی اس سے رہا نہیں گیا تھا موبائل فون نکال کر وہ اس کا نمبر ملانے لگا ۔تیسری چوتھی گھنٹی پر اس نے کال وصول کی یقینا موبائل کمرے میں تھا وہ باہر سے بھاگ کر گئی تھی ۔

”جی ۔“اس کی خوشی سے بھرپور آواز نے کبیردادا کے کانوں میں رس گھولا ۔

اس نے بہانہ گھڑا ۔”کل جو سوٹ پہنا تھا اس کی جیب میں ایک وزٹنگ کارڈ پڑا تھا۔“

”اس میں تو صرف پرس پڑا تھا جو میں نے اِن کپڑوں میں منتقل کر دیا تھا ۔“

”تم ان کپڑوں میں دوبارہ بھی دیکھ لو۔“

”ٹھیک ہے ۔“اس کی آواز میں شامل مایوسی ظاہر کر رہی تھی کہ وہ کال اس کی توقع کے بر عکس نکلی تھی ۔

”اور ہاں ....ناشتا کرلینا ۔“کبیردادا نے یوں ظاہر کیا جیسے رابطہ منقطع کرتے ہوئے اس کے ذہن میں کوئی بات آ گئی ہو ۔

وہ خوشی سے چہکی ۔”اس شرط پر کہ کل آپ پہلا نوالہ اپنے ہاتھوں سے کھلائیں گے ۔“

”ہٹ دھرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔“اس نے مصنوعی غصہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ۔ ”کبھی تو سنجیدہ ہو جایا کرو۔“

”ہاں یا ناں میں جواب دیں ۔“اس کا خوشی سے بھرپور لہجہ ظاہر کر رہا تھا کہ وہ کال کی نوعیت کو جان چکی تھی ۔

”ٹھیک ہے مس مصیبت کھالینا ۔“اس نے گویا بادل نخواستہ حامی بھری ۔

اس کا”اب کر لیتی ہوں ۔“سن کر کبیردادا نے رابطہ منقطع کر دیا ۔

٭٭٭

گاڑیوں کے گیٹ سے نکلتے ہی اس نے عظیم کو اپنی طرف آتے دیکھا ۔اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ اسے کوئی بات کرنا چاہتا ہے ۔کمرے کی طرف جانے کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے وہ اس کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگی ۔

”بیگم صاحبہ........“اس نے کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا ہی تھا کہ اس کے کانوں میں گھنٹی کی آواز گونجی ۔نہ جانے کیوں اسے لگا کہ کبیردادا کی کال ہے ۔

”ایک منٹ بھائی ۔“قطع کلامی کرتے ہوئے وہ کمرے کی طرف بھاگی ۔اس کے اندازے کے مطابق کبیردادا ہی تھا ۔بات کے اختتام پر وہ خوشی سے جھوم اٹھی تھی ۔بغیر کسی شک و شبہ کے اسے معلوم ہو گیا تھا کہ کبیردادا کی کال کا مقصد کیا تھا ۔

رابطہ منقطع ہوتے ہی وہ ڈرائینگ روم کی طرف بڑھ گئی ۔عظیم کا بیگم صاحبہ کہنا اسے بہت اچھا لگا تھا ۔

”جی بھائی آپ کچھ کہہ رہے تھے ۔“ عظیم ڈرائینگ روم میں اس کا منتظر تھا ۔

”جی بیگم صاحبہ ،کبیردادا آ پ داخلے کے بارے کچھ بتا رہے تھے ۔“

”بیٹھو ۔“نشست سنبھالتے ہوئے اس نے عظیم کو بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔

”شکریہ ۔“اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے عظیم نے نوٹ بک نکال لی ۔

وہ اسے اپنا رول نمبر ، کلاس ،کالج کا پتا وغیرہ بتا کراپنا مطمح نظر بتانے لگی ۔ 

”ٹھیک ہے بیگم صاحبہ !....آپ اپنا موبائل فون نمبر بھی نوٹ کرا دیں اگر کوئی معلومات لینا ہوئی تو میں کال کر کے پوچھ لوں گا ۔“

اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس نے اپنا موبائل فون نمبر نوٹ کرایا اور خواب گاہ کی طرف بڑھ گئی ۔کبیردادا کے کہنے کے جانے کیوں اسے بھوک محسوس ہونے لگی تھی ۔ورنہ تو اس نے ناشتا نہ کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا ۔

٭٭٭

تھانے کے سامنے گاڑیاں رکتے ہی کبیردادا اندر کی جانب بڑھ گیا ۔محافظوں کو اس نے وہیں ٹھہرنے کا اشارہ کر دیا تھا ۔

اسے ایس ایچ او کے دفتر کی جانب بڑھتے دیکھ کر ایک سپاہی نے آواز دے کر روکنے کی کوشش کی مگر وہ سنی ان سنی کرتا ہوا دفتر میں گھس گیا ۔

راﺅ اجمل رحیم اسے اچھی طرح جانتا تھا ۔اسے دیکھتے ہی وہ بے اختیار اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا۔

”کبیردادا آج کیسے بھول پڑے ۔“اس نے لہجے میں خوشگواری سمونے کی کوشش کی جو بالکل ناکام ہوئی تھی ۔اسی وقت ایک سپاہی فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اندر داخل ہوا۔”سر !یہ ........“

”دو چاے لے آﺅ ۔“ایس ایچ او نے اس کی بات مکمل نہیں ہونے دی تھی۔

”وہ جی سر ۔“کہتے ہوئے واپس لوٹ گیا ۔

 ایس ایچ او کی دعوت کا انتظار کیے بغیر کرسی سنبھالتے ہوئے اس نے کسی تمہید میں پڑنے کے بجائے براہ راست مطلب کی بات شروع کر دی ۔”یقینا آپ میری آمد کا مقصد جانتے ہوں گے ۔“

”جب آپ تشریف لے ہی آئے ہیں تو بتا دیں ۔“اس نے بیٹھتے ہوئے معنی خیز لہجے میں پوچھا ۔

”تنویر پلازہ اور عباسیہ مارکیٹ کے دکاندار و ں کی شکایت موصول ہوئی تھی ۔“

”کوئی بڑی بات کریں کبیردادا!....یہ چھوٹی موٹی شکایتیں تو آئے روز کا معمول ہیں ۔“

”آپ کا حصہ پہنچ گیا تھا ؟“کبیردادا نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے پوچھا ۔

”ہاں ،مگر مجھے لگتا ہے اس کی مقدار کچھ بڑھا دینا چاہیے ۔“

”اس وجہ سے کہ نادیہ اب دسویں کلاس میں پہنچ گئی ہے ۔“کبیردادا کا معنی خیز لہجہ کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا ۔

”سنا تھا کبیردادا ،دشمن کی بہو بیٹیوں پر نظر نہیں ڈالتا ۔“راﺅ اجمل چہرے پر کھلنے والی مسکراہٹ گھمبیر سنجیدگی میں ڈھل گئی تھی ۔

کبیردادا اطمینان بھرے لہجے میں بولا ۔”بالکل ،نادیہ بھی میری بھانجی ، بھتیجی کی طرح ہے اسی لیے میں نہیں چاہتا کہ اس کے سر سے باپ کا سایا اٹھ جائے ۔“

”کبیردادا !آپ زیادتی کر رہے ہیں ۔“ اجمل رحیم کو غصے پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا۔

جاری ہے

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes.She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Rakhail Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Rakhail written by  Riaz aqib Kohlar  .Rakhail  by Raiz Aqib Kohlar is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

Previous Post Next Post