Meri Raahein Tere Tak Hai By Madiha Shah Episode 56 Part 2 Online

Meri Raahein Tere Tak Hai By Madiha Shah Episode 56 Part 2 Online 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories



Novel Name : Meri Raahein Tere Tak Hai
Novel Genre: Second Marriage Based Novel Enjoy Reading…..

Writer Name: Madiha Shah

Category: Episodic Novel

Episode No: 56 Part 2

میری راہیں تیرے تک ہے “ 

تحریر ؛۔ مدیحہ شاہ 

قسط نمبر ؛۔ 56 پارٹ ٹو ( ماضی اسیپشل ) 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

🅜🅐🅓🅘🅗🅐🅢🅗🅐🅗🅦🅡🅘🅣🅔🅢

ابھی وہ ویسے ہی بیٹھتے ہوئے تھی ۔ کہ روم کے باہر سے چیخنے چلانے کی آوازیں سن گھبراتی اپنا ڈوپٹہ اوڑھتے بھاگی ۔ 

جیسے ہی وہ باہر گئی تھی ، سبھی اُسکے بابا کو اٹھاتے بھاگتے نظر آئے ، وہ بھی بابا چیختی اُنکی طرف لپکی :۔

عبادت کے بابا کو ایک رات گزر چکی تھی ہسپتال میں ، ڈاکٹروں نے ابھی تک کچھ بتایا نہیں تھا ۔ سب نےاُسکو گھر جانے کا کہا تھا 

مگر وہ ضدی انداز میں بچوں کی طرح ضد کرتی بنج سے اٹھنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔ ابہام جو ابھی نیا نیا اُسکے دکھوں ، دروں، کا سہارا بنا تھا ۔ 

جیسے ہی زاہیان نے اُسکو بتایا کہ تایا ابو کا اٹیک آیا ہے وہ سب کچھ چھوڑ وہاں پہنچ چکا تھا :۔ 

ابہام نے اُسکو روتے دیکھا تھا ، جبکے تبھی حامد چاچو سے کہا تھا کہ سب لوگ گھر جائیں عبادت کے ساتھ میں یہی ہوں ؛۔ 

باقی سب لوگ گھر جا چکے تھے جبکے زاہیان اور حامل سمت ابہام اور عبادت وہی رکے ،۔

“ عبادت کچھ کھا لو ۔۔۔۔؟ حامل جو سینڈوچ لایا تھا سبھی کے لیے ۔۔۔۔ عبادت کے پاس جاتے اُسکے ساتھ بیٹھتے سامنے پیش کرتےبولا ۔۔۔۔” 

مجھے کچھ نہیں کھانا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ مسلسل منہ میں کچھ پڑھ رہی تھی جبکے آنکھیں آنسووں سے لبریز ہوتی گالوں کو ڈوبے ہوئی تھیں۔۔۔۔۔ 

تمہارے ایسے کچھ نا کھانے سے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔؟ زاہیان جو جوس ہاتھ میں پکڑے وہاں آیا تھا ، عبادت کے الفاظ سندوسری  طرف آتے بیٹھا ؛۔

“ میں کیا کروں ۔۔۔۔؟ یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا ۔ نا وہ انسان نکاح کے وقت یہ تماشہ کرتا اور نا میرے بابا کو ایسی تکلیف کاسامنا کرنا پڑتا ۔۔۔۔۔۔ 

وہ زوروں قطار روتے ایک ہی سانس میں بولی جبکے اُسکی آواز اتنا رونے کی وجہ سے بیٹھ چکی تھی “ 

“ تمہاری وجہ سے کچھ برا نہیں ہوا ۔۔۔۔۔ تم ہر وقت خود کو ہی بالیم کیوں دیتی ہو ۔۔۔؟ کبھی کچھ ہٹ کر کیوں نہیں سوچتی ۔۔۔؟ 

زاہیان اُسکی حالت دیکھ بہت فکر مند ہو رہا تھا جبکے حامل جس کے فون پر گھر سے کال آ رہی تھی وہاں سے اٹھتے گیا ۔۔۔۔” 

کاش وہ سب کچھ نا ہوتا جو ہوا ۔۔۔۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی ایک بار پھر اُسی کاش پر ٹھہری ۔ جس پر وہ ہمشیہ روکتی آ رہی تھی۔۔۔۔؛۔ 

زاہیان ۔۔۔۔۔۔ حامل نے زاہیان کو آواز دیتے پکارا تھا۔ وہ عبادت کو ویسے ہی روتے چھوڑ حامل کی طرف بڑھا ؛۔ 

“ ایسے کیسے کاش وہ سب کچھ نا ہوتا ۔۔۔۔؟ ابھی عبادت نے چہرہ ہاتھوں کے پیالوں میں بھرتے خود کے آنسووں کو مزید بڑھایا تھاکہ جانی پہچانی آواز سن سسکیوں کو بریک لگاتے بھیگا چہرہ اٹھاتے اپنے ہمسفر کی طرف دیکھا ؛۔ 

ابہام جو اُسکے بالکل ساتھ آتے بیٹھا تھا ۔ اُسکے بھیگے چہرے کو دیکھ پل بھر کے لیے خود پر وہی تکلیف محسوس کر گیا ۔۔۔

اگر وہ تمہیں یوں نا چھوڑ کر جاتا تو ابہام شاہ تمہاری زندگی میں کیسے شامل ہوتا ۔۔۔؟ 

“ یہی لکھا تھا  ۔۔۔۔۔۔ ایسے ہی ہونا تھا ۔۔۔۔ ہم دونوں کو ایسے ہی ایک دوسرے کے قریب آنا تھا ۔۔۔۔۔ بس اتنا یاد رکھو ۔۔۔۔۔” 

وہ دھیمی آواز میں بولتا جیسے اُسکو اپنے ساتھ ہونے کا احساس کروا رہا تھا ۔ وہ ہچکیاں بھرتی بہتی آنکھوں سے مقابل کے ہلتےلبوں پر نظریں جما گئی ۔۔۔۔۔

جیسے اُسکے الفاظوں پر غور کرتے یقین کرنا چاہتی ہو ۔ کہ شاید ئہی اُسکی قسمت تھا ۔۔۔۔۔؛۔

“ ویسے بھی میں نے شام ٹائم کیا کہا ۔۔۔؟ آج رات تمہیں صرف میرے بارے میں اچھے سے سوچنا ہے ۔۔۔ وہ شرارت سے آنکھ دباتےاُسکو حیران کرتا غصہ دلوا گیا :۔

ویسے ایسے اتنے غصے میں بھی تم دل کے قریب ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی ہو ۔ وہ بنا پروا کیے کہ اُسکی آنکھوں میں مزید غصہبڑھ رہا ہے ، بے باکی سے بولا ۔ 

“ کیا ہوا ۔۔۔؟ ابھی عبادت پورے غصے سے اٹھی تھی کہ مقابل نے ویسے ہی بیٹھے ہوئے اُسکا ہاتھ پکڑتے تیزی سے پوچھا ۔۔۔۔ 

جب سے دونوں کا نکاح ہوا تھا ابہام نے ایک بار بھی اُسکی آواز نہیں سنی تھی وہ اُسکو سننا چاہتا تھا ۔ چاہتا وہ اپنا درد اُسکوکہے ۔۔۔۔ 

اسی لیے وہ اُسکو ایسے تنگ کر رہا تھا ۔ عبادت نے بنا اُسکی طرف دیکھتے ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کی ؛۔ 

ابھی تو میں نے بات کا آغاز کیا تھا کہ تم اٹھ جانے کو کھڑی ہو گئی ۔ ایسے تھوڑی ہوتا ہے ۔ ابھی تمہیں مجھے سننا ہوگا ۔۔۔ وہ اتناکہتے اٹھ کھڑا ہوا تھا ؛۔

جبکے عبادت جو پورا زور لگائے جانے کے لیے اپنا ہاتھ کھینچ رہی تھی ویسے ہی بنا دیکھے اپنے کام میں مصروف رہی ؛۔ 

“ تم مجھے کیوں اگنور کر رہی ہو ۔۔۔؟ تبھی ابہام نے اُسکو ویسے ہی پکڑے اپنی طرف کھینچا تو وہ مقاطسی کی طرح لڑکھڑاتےاُسکے قریب ہوئی ؛۔ 

یوں کہ چند انچ کا فاصلہ درمیان باقی رہ گیا تھا ، ابہام نے غور سے غصے سے لال اُس کی آنکھیں دیکھی جو شاید اتنا رونے کیوجہ سے لال ہوئی تھی ۔۔۔۔

عبادت کا دوپٹہ جو سر پر بہت مشکل سے ٹیکا ہوا تھا مقابل کے ایسے کھنچنے پر کندھوں پر آیا ؛۔ 

کالے سیاہ بال اُسکے چہرے کا طوائف کرنا شروع ہوئی ۔ ابہام نے غور سے اپنی دولہن کے چہرے کا دیدار کیا ؛۔ 

جبکے محبت سے چُور لہجے میں اُسکی کمر پر قابو کرتے دھیرے سے جھٹکا دیتے اُسکو مزید قریب کرنا چاہا ؛۔،

وہ دونوں ہسپتال کے کویڈوڈور میں بالکل نتہا موجود تھے ۔ چونکہ رات پہر سبھی روموں میں موجود تھے ؛۔،

“ عبادت میں ایسے تمہاری آنکھوں میں آنسو برادشت نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔۔ تمہیں اب یہ یاد رکھنا ہوگا ۔ ابہا کے ہوتے ہوئے تم رونہیں سکتی ۔۔۔۔ 

میں نے پہلے بھی کہا تھا نا ۔۔۔۔۔ اب سے اچھا وقت شروع ہو جائے گا ۔۔۔؟ تو یقین کرو میرا ۔۔۔۔ میں کچھ ٹھیک کر دوں گا ۔۔۔۔۔” 

اور ویسے بھی ۔۔۔۔۔ وہ آہستگی سے بولتے اب کہ ساتھ ہی اپنی انگلی اُسکے چہرے پر بکھرے بالوں کو سائیڈ پر کرنے کے لیے چلا گیا۔ 

عبادت اُسکا لمس محسوس کرتی آنکھوں کو بند کرتے آہستہ سے واپس کھول مقابل کی آنکھوں میں دیکھ جھکا گئی چونکہ وہ اُسکیآنکھوں میں ابھرتی محبت میں کھونا نہیں چاہتی تھی ؛۔

“ اک اچھی نیوز دوں ۔۔۔؟ وہ سرگوشی نما میں بولتے دھیرے سے اُسکے کان کے قریب ہوا ۔ 

عبادت اُسکے لمس کے ساتھ اب کے سانسوں کی گرم تپش خود پر پڑتی مشکل سے کھڑی ہوتی ہاتھ کی مٹھی بناتے بھنچ گئی ،۔ 

بابا بالکل ٹھیک ہیں ۔۔۔۔۔ ابھی مجھے ڈاکٹر نے بتایا تھا ۔ کل صبح ہم ان سے مل سکتے ہیں ۔، “ 

وہ بہت دھیرے سے بولتے جیسے اُسکو جہان بھر کی خوشی دے گیا ، عبادت نے بے یقین سے مقابل کے چہرے ک دیکھا :۔

“ تم سچ کہہ رہے ہو ۔۔۔۔ وہ مشکل سے بول پائی تھی لیکن وہ اتنا بولتے ابہام کو انتہا کی خوشی دے گئی ؛۔

“ بالکل سچ کہہ رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔ بابا ٹھیک ہیں ۔ وہ اُسکے چہرے پر پھیلتی خوشی کی لہر دیکھ بہت پیار سے گویا ۔۔

عبادت جس کی آنکھوں سے پھر آنسو جاری ہوئے تھے وہ بے یقین سے ابہام کو دیکھتی بنج پر بیٹھی ، جبکے نظروں کو بار باراٹھاتی جیسے اپنے رب کا دل میں شکر ادا کرنا شروع ہوئی ۔۔۔۔” 

تبھی ابہام نے بیٹھتے جوس اُسکی طرف بڑھیا تو عبادت نے فورا سے پکڑتے منہ سے لگایا وہ کچھ سکون میں جیسے آئی تھی :۔

اگلے دن ہی موسی شاہ کو ہوش آ چکا تھا ۔ ڈاکٹروں نے دوائیں دیتے اُنکو مزید دو دن وہاں ہسپتال میں رکھنے کا گویا ؛۔

موسی شاہ کو ہارٹ اٹیک آیا تھا ۔ اللہ نے اُنکو جیسے ایک نئی زندگی دی تھی وہ بچ چکے تھے ڈاکٹر نے یہی کہا تھا ان کو کسیبھی قسم کی کوئی پریشانی نا مل پائے ۔ 

سبھی بڑوں نے فورا سے اس پر عمل کرنا شروع کیا ، ابہام نے ہسپتال کے سبھی کام خود پر اٹھا لیے تھے ؛۔

عبادت اپنے باپ سے ملنے کے بعد اگلے دن کی شام کو گھر آ گئی تھی کیونکہ حامد اُسکو ویسے ہی دولہن کے لباس میں ملبوس اوراُسکی حالت دیکھ اُسکو زبردستی گھر بھیج گئے ۔۔۔۔ 

لیکن ابہام اُس دن بھی ہسپتال میں حامد اور زاہیان کے ہمراہ وہی ٹھہرا تھا وہ بہت اچھے سے موسی شاہ کا خیال رکھ رہا تھاجیسے ایک بیٹا اپنے باپ کے لیے کرتا تھا ، سبھی ابہام سے خوش نظر آ رہے تھے ؛۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

عبادت جو رات کو گھر واپس آ چکی تھی ، نہانے کے بعد جیسے ہی وہ منر کے سامنے آئی ، ٹاول سے بالوں کو آزاد کرتی چئیر پربیٹھی ۔۔۔۔۔ 

نا چاہتے ہوئے بھی وہ ابہام کی باتوں پر سوچنا شروع ہوئی ، جبکے جیسے ہی اُسکا لمس یاد آیا دل نے ایک بیٹ مس کی ؛۔ 

“ وہ گیلے بالوں میں انگلیاں چلاتے ساتھ ہی اُسکے بولے الفاظ یاد کر گیی ۔۔۔۔۔ “ 

“ تمہیں صرف میرے بارے میں سوچنا ہے ۔ اچھے سے میرے بارے میں سوچو ۔۔۔ کیونکہ اب تم میری بیوی بن چکی ہو ۔۔۔۔ 

اگر نہیں بھی سوچو گئی تو کوئی مسلۂ نہیں ۔۔۔۔ کیونکہ میں تمہیں خود ہی اپنی محبت سے سوچنے پر مجبور کر دوں گا ۔۔۔” 

عجیب ہی دل میں احساس اٹھا تھا جبکے اُسکے الفاظ یاد آتے چہرے پر ہلکی سی مسکان پھیلی ۔ 

“ برا وقت بھول جاؤ ۔۔۔۔۔ وہ بال ویسے ہی گیلے کھولے چھوڑ یاد کرتی کھڑکی کی طرف بڑھی ۔۔۔

یہی لکھا تھا ۔۔۔۔ ایسا ہی ہونا تھا ۔۔۔۔۔۔ تمہیں میری زندگی میں شامل ہونا تھا ۔۔۔۔ کیسے یہ سب کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔؟ “ وہ یاد کرتےبے یقینی سے یارم کو یاد کر گیی ۔۔۔۔ 

“ کیا سچ میں اللہ نے اُسکے لیے اتنا اچھا سوچ رکھا تھا ۔۔۔؟ دل میں ایک محبت سے بھرا سوال ابھرا ، جبکے یارم یاد آتے ہی ابہامکا گفٹ یاد آیا ۔۔۔۔” 

وہ ویسے ہی تیزی سے بھاگتے ٹیبل پر سامنے پڑے سبھی گفٹوں پر نام لکھے پڑھتے سائیڈ پر کرتی یارم کا گفٹ اٹھا گئ ؛۔ 

اُسکو یاد آیا تھا کہ یہ ابہام نے اُسکے لیے پسند کیا تھا وہ ویسے ہی ہر چیز سے بےگانی ہوئی گفٹ کھولنا شروع ہوئی ۔۔۔ 

جیسے ہی اُسنے گفٹ کھولا ، اندر بہت ہی پیارا ڈائمنڈ کا بلکیسٹ موجود تھا ۔۔۔۔

عبادت اتنا خوبصورت ڈائزئن کا وہ بھی ڈائمنڈ کا بلکیسٹ دیکھ حیران ہوتی آنکھیں بڑی کرتی اُس پر لکھی باریک سے تحریر پڑھناشروع ہوئی ؛، 

“ مائے لولی آنی ۔۔۔۔۔ انگلش میں بہت ہی خوبصورتی سے یہ الفاظ لکھے تھے جبکے چھوٹے سے دل میں یارم ابہام شاہ لکھتے عبادتآنی لکھا ہوا تھا ۔۔۔ “ 

عبادت پڑھتے بے حد خوش ہوئی تھی جبکے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ نے احاطہ کیا نجانے آج وہ کتنے عرصے بعد ایسے سکونمحسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

دو دن تک موسی شاہ ہسپتال میں رہے تھے ۔ ابہام وہی اُنکے پاس رہا ۔۔۔ عبادت دن میں ہسپتال جاتی اور رات کو واپس گھر آتی ۔۔۔

دو دن بعد موسی شاہ گھر آ چکے تھے ۔ اور ابہام نے حامد کو بتایا تھا کہ کل وہ اپنی ماں کو اُنکے گھر لائے گا ۔ 

اگلے سبھی گھروں نے بہت اچھے سے پکوان بنائیں ، چونکہ ابہام کی ماں پہلی وہاں آنے والی تھی ؛۔ 

چاچی کے کہنے ہر عبادت ہلکا سا میک اپ کرتے تیار ہو چکی تھی ۔ تبھی تھوڑی دیر بعد ابہام اپنی ماں اور یارم کو لیتے انکے گھرپہنچا ۔۔۔۔۔۔۔

ابہام کی ماں عبادت کے گھر والوں سے مل کر بہت خوش ہوئی تھی کیونکہ اُنکو گھر والے پسند ۔۔۔ 

یارم جو عبادت کے پاس جانے کی ضد کر رہا تھا ، ابہام نے اُسکو گود میں اٹھاتے چاچی سے اشارہ کرتے پوچھا ۔۔۔ 

کہ عبادت کہاں ہے تو وہ مسکراتی کیچن کی طرف اشارہ کر گئی ۔ وہ ویسے ہی مسکراتے اٹھا ۔۔۔۔ 

“ یارم ۔۔۔۔۔۔ میرا بیٹا ۔۔۔۔ چائیکلٹ کھائے گا ۔۔۔۔؟ حامد سونیا اور ابہام کے اشارے اچھے سے سمجھ چکا تھا جبکے اب کہ انھوں نےیارم کو لالچ دیا تو وہ خوشی سے باپ کی گود سے اتر بھاگتے حامد کی گود میں سوار ہوا ۔۔۔۔

ابہام منہ کھولے بیٹے کو دیکھتے ساتھ ہی حامد کو دیکھ گیا جو مسکراتے اُسکو جانے کا اشارہ کر رہے تھے ۔۔۔۔۔

ابہام مسکراتے سر میں ہاتھ پھیرتے کیچن کی طرف بڑھا ، جبکے سبھی بڑے اپنی باتوں میں مصروف تھے :۔

فلک ۔۔۔۔۔ کپ کی ٹرے یہاں رکھ دو ۔۔۔ عبادت جو پلیٹ میں کیک وغیرہ ترتیب سے رکھ رہی تھی ، ویسے ہی مصروف سے انداز میںبولی ؛۔،

ابہام جو دبے پاؤں کیچن میں داخل ہوا تھا ، فلک کو باہر جانے کا اشارہ کرتے خود کپ کی ٹرے اٹھاتے شلف پر رکھ اُسکے قریب ہوتےکھڑا جائزہ لینا شروع ہوا ۔۔۔ 

چلو۔۔۔۔۔ اس میں چائے ۔۔۔۔۔

آہ ۔۔۔۔۔۔ ابھی وہ بولتے بولتے پلٹی تھی ، کہ ڈرتے چیخ نکالتی مقابل نے بہت ہوشیاری سے اُسکے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے خود کے ہونےکا پتا دیا ۔ 

عبادت ابہام کو خود کے اتنے قریب موجود دیکھ پھٹی آنکھوں سے دیکھ خاموشی سے مقابل کا ہاتھ ہٹا گئی ؛۔ 

“ یہ ساری تیاری اپنی ساس سے ملنے کی ۔۔۔۔ کی جا رہی ہے ۔۔۔؟ وہ اُسکو آرام سے ٹرے اٹھاتے دیکھ دھیمے سے بولتے پوچھ گیا۔۔۔۔ 

ویسے میں یہاں تم سے باتیں کرنے نہیں آیا ۔۔۔۔ صرف جواب لینے آیا ہوں ۔۔۔۔ تم نے پچھلے چار دن میں میرے بارے میں کتنا سوچا۔۔۔؟ 

وہ اُسکو اپنے کام میں مصروف دیکھ معنی خیز لہجے میں گویا تو عبادت اُسکے سوال کو سن پل بھر کے لیے رکی ۔ 

مقابل نے اچھے سے نوٹ کیا تھا ۔ تبھی وہ پلٹتے مقابل کے سامنے ہوتے کھڑی ہوئی ۔ ابہام نے ہلکے سے میک اپ میں سجا اُسکاچہرہ دیکھا تھا 

وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔ شاید ہی اُسنے اتنا خوبصورت روپ کسی اور کا دیکھا ہو ۔۔۔

“ میں کل آپ کو کیفے میں ملوں گئی ۔ تب سبھی سوالوں کے جواب بھی دے دوں گئی ؛۔ 

وہ بہت مشکل سے ہمت کرتے اتنا بول پائی تھی ، چونکہ ابہام کے ساتھ اُسکا اچانک سے جو رشتہ بدلا تھا وہ سمجھ نہیں پا رہیتھی دوستی کو سائیڈ پر رکھتے کیسے مخاطب کرے۔۔۔ 

ایک منٹ ۔۔۔۔ ابھی وہ پلٹی تھی اپنے مکمل کرتے کہ ابہام کے کان جیسے پہلی بار اتنے عرصے بعد عبادت کی آواز اتنے قریب سے سندل خوش ہوا تھا 

کہ اُسکا “ آپ ۔۔۔۔۔۔ سن صدمے سے آگے ہوتے اُسکا راستہ روک گیا ۔۔۔۔ 

عبادت جو ضبط کرتے اُسکی ایسی حرکتیں برادشت کر رہی تھی کہ پہلے ایسے ابہام کو نہیں جانتی تھی ۔ مشکل سے آنکھوں میںنرمی رکھتے مقابل کو دیکھا ،۔“ 

“ بہت شکریہ ۔۔۔۔۔ میڈم جو تم نے مجھے اتنے پیار سے دیکھا ۔۔۔ وہ ہاتھ جوڑتے سر خما کرتے شوخی سے بولا تو عبادت نے ناسمجھی سے اُسکو گھورا ۔۔۔۔ 

مجھے یہ بتاؤ ۔۔۔۔۔ ہمارے درمیان یہ آپ کب سے آیا ۔۔۔؟ مجھے تو تم ہمشیہ ۔۔۔۔ تم ۔۔۔۔۔ توں ۔۔۔۔۔ ہمیں ۔۔۔۔ہم ۔۔۔۔ مخاطب کرتی تھی۔ ابھی ایسا کیا ہوا جو آپ تک کا سفر تہ کر گئی ۔۔۔؟ 

وہ اُسکو آنکھوں میں پوری طرح قید کیے ہی آئی ابرواٹھاتے دریافت کر گیا ؛۔ 

“ عبادت اُسکا سوال سن خاموشی سے نظریں جھکا گئی تبھی مقابل نے دھیرے سے انگلی کی مدد سے اُسکا شفاف چہرہ اوپر اٹھایاتھا ۔ 

عبادت ۔۔۔۔۔۔؟ وہ اُسکی آنکھیں ویسے ہی نیچے دیکھ دھیمے سے بولتے خود کی سانسوں کی تپش اُسکے چہرے پ چھوڑنا شروع ہوا ،عبادت اُسکی خوشبو خود پر طاری ہوتی دیکھ فورا سے دور ہوئی تھی ؛۔ 

میں نے بالکل ایسے ہی سفر تہ کیا ، جیسے تم یونی میں آپ کا سفر کرتے تھے ۔ وہ تیزی سے بولی تھی اور ساتھ ہی خود کی حالت پرقابو پاتے برتن ادھر ادھر کرنا شروع ہوئی 

ابہام کا چہرہ مسکرایا ۔ کہ چلو ۔۔۔۔۔ کم از کم اُسکے سوالوں کو سن جواب تو دینے لگی ۔ 

وہ تو یونی تھی۔۔۔۔۔۔ تب حالات کچھ اور تھے ۔ ابھی تم ۔۔۔۔ وہ اُسکے پیچھے فریج تک جاتے بازو سے پکڑے اُسکا چہرہ اپنی طرف کرگیا ۔۔۔۔

ابھی تو تم ابہام کی بیوی ہو ۔۔۔۔۔ اب تو تمہارے پاس بھی حق موجود ہیں ۔ ویسے ہی جیسے میرے پاس تمہارے سبھی حق موجود ہیں۔۔۔۔۔ 

مجھے تم بالکل ویسی ہی عبادت چاہیے جس کو یونی میں ۔۔۔ میں نے جانے سے پہلے چھوڑا تھا ۔ اگلی بار میں آپ نہیں سننا چاہتا۔۔۔۔۔۔” وہ اپنا سحر اُس پر چھوڑ جانے کے لیے پلٹا ۔ عبادت جو اُسکی آنکھوں میں کھو چکی تھی 

خود پر حیران ہوتی مقابل کی پست کو دیکھ گئی ۔ تبھی وہ واپس پلٹا تھا ۔ اور ہاں ۔۔۔۔۔ وہ اتنا کہتے تیزی سے اُسکے قریب ہوا۔۔۔۔۔ 

یوں کہ کان کے بے حد قریب جا چکا تھا ۔ عبادت نے دھڑکتے دل کی دھڑکن سنی تھی ؛۔ 

تمہاری ساس کب کی اپنی بہو کی راہ تک رہی ہیں ، ان کو جاتے ہی خوش کر لینا ۔ چونکہ ساری ہمیں اُن کے سائے میں رہنا ہے ۔۔۔۔

ویسے آپس کی بات ہے ، مجھے پتا ہے تم اُنکو پہلی ملاقات میں ہی خوش کر لو گئ ۔ کیونکہ آج تم لگ بھی حسین رہی ہو ۔ اور زار کیبات بتاؤں ۔۔۔؟ 

وہ جو پہلی بات کہتے اُس سے پیچھے ہوا تھا ، یہ کہتے پھر سے قریب ہوا۔۔

کیونکہ میری ماں کو حسین لوگ پہلی ملاقات میں ہی اچھے لگنے لگ جاتے ہیں ۔ بالکل میری طرح ۔۔۔ وہ یہ کہتے ساتھ ہی شرارت سےآنکھ مارتے کیچن سے باہر نکلا 

چونکہ وہ کسی کے آنے کی آہٹ سن چکا تھا ۔ “ پاگل ۔۔ عبادت اُسکے الفاظ سن صرف مسکرا ہی سکی جبکے دل میں بڑبڑاتے ایک نیانام مقابل کو دیا گیا ۔۔۔” 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

ابہام کی ماں کو عبادت پہلی ہی نظر میں بہت پیاری لگی تھی ۔ اُسنے خوشی سے اپنی بہو کا ماتھا چومتے ساتھ ہی ابہام اور عبادتکو ایک ساتھ بٹھاتے نظر بھی اتار ڈالی تھی ؛۔

سبھی گھر والے ابہام کی ماں سے مل کر بھی بہت خوش ہوئے تھے ، ابہام لوگ جب اپنے گھر جانے لگے تو یارم نے جانے سے انکار کردیا 

کہ وہ اپنی آنی کے ساتھ رہے گا ۔ تبھی ابہام نے خوشی سے اُسکو عبادت کے پاس رہنے کے لیے چھوڑا ،۔

اگلے کیفے میں وہ کب سے اُسکا انتظار کر رہا تھا ۔ عبادت جس نے اُسکو کیفے میں جواب دینے کا کہہ دیا تھا ، ابھی خود کی نروسہوئی تھی 

چونکہ اُسکو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ بات کیسے شروع کرے گئی ۔ کیا کہے گئی اور اس سے کیسے کچھ پوچھے گئی ،۔

وہ ابھی اسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی کہ رکشے والے نے رکشے روکتے اُسکو ہوش میں لایا 

کہ باجی آپ کی منزل آ گئی ۔وہ چند پیسے دیتی دوپٹہ سرسری سیٹ کرتی کیفے کی جانب بڑھی :۔

“ شکر ہے جو تم آ گئی ۔۔۔۔۔ نہیں تو میں ابھی زاہیان لوگوں کو کال ملانے والا تھا ۔ 

ابہام جس نے سچ میں فون ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا عبادت کو بہت آرام سے آتے دیکھ شکر کرتے ساتھ ہی بتاتے اُسکو حیران کیا ۔۔۔ 

کہ وہ اُنکو کال کیوں کرتا ۔۔۔۔۔؟ وہ سوچ میں پڑی ۔ جبکے بیٹھتے ساتھ ہی سلام کیا ۔۔۔۔۔۔ “ 

ابہام سلام کا جواب دیتے ساتھ ہی ویٹر کو دو کافی لانے کا بول گیا جبکے وہ جانتا تھا عبادت کافی نہیں پیتی ۔ لیکن پھر بھی آج وہتہ کر آیا تھا 

اُسکو اپنی پسند کی کافی ضرور پیائے گا ۔ عبادت ہکا بکا اُسکا انداز دیکھتے خاموشی سے ادھر ادھر نظریں گھوما گئی ۔۔

ابہام نے اچھے سے نوٹ کیا تھا ۔جبکے وہ بھی اب خاموشی سے اُسکو دیکھنا شروع ہوا ؛۔

“ ویسے تم نے اتنے دیر کیوں لگائی ۔۔۔۔؟ میک اپ بھی تم نے نہیں کیا ۔۔۔۔ وہ اُسکے چہرے پر گہری نظریں جمائے بہت آہستگی سےبولا 

عبادت نے سرسری سی پلکیں اٹھاتے اُسکے مسکراتے چہرے کو دیکھا جہاں پر شرارت صاف عیاں ہو رہی تھی ۔ 

میں کچھ کام میں مصروف ہو گئی تھی ، وہ اُسکو خود پر نظریں گاڈھے دیکھ تھوڑے تیکے لہجے میں بولی ۔ 

ہممم۔۔۔۔۔۔ 

چلو تم کہتی ہو تو مان لیتا ہوں ۔۔۔۔ جیسے ہی ویٹر کافی لایا ابہام اتنا بولتے خاموش ہوا جبکے عبادت نے ایک نظر کافی کو دیکھتےایک نظر ابہام کو  دیکھا ؛۔ 

“ کیا ہوا ۔۔۔۔؟ پینی شروع کرو ۔ وہ اپنے لبوں سے مگ کو لگاتے ساتھ ہی عبادت کو حکم سعا کر گیا ۔۔۔” 

عبادت نے آنکھیں چھوٹی کرتے ساتھ ہی بے دلی سے ایک گھونٹ کافی کی بھری ۔ 

“ جیسے ہی کافی کی ایک گھونٹ پی ۔۔۔۔۔ کافی اتنی کڑوی نئیں لگی جتنی وہ سنتی آ رہی تھی۔۔۔۔۔” 

دراصل ابہام نے اُسکے لیے کیپوچینوں منگوائی تھی ۔ یہ بلیک کافی کی نسبت بہت اچھی ہوتی ہے ۔۔۔

عبادت اُسکو خود کو دیکھتے دیکھ بات کرنے کا سوچا چونکہ وہ اُسکی نظروں سے سمجھ چکی تھی اب وہ اُسکو سننا چاہتا ہے ؛۔ 

عبادت نے بات کا آغاز سب سے پہلے سیرت کا نام لیتے کیا ۔ ابہام سیرت کا نام سینجدہ ہوا تھا چونکہ عبادت سیرت کے بارے میںاُسکو پوچھ رہی تھی ؛۔ 

تبھی ابہام نے سب کچھ عبادت کو بتایا کہ سب کچھ کیسے ہوا ۔عبادت کا اگلا سوال یارم پر آتے رکا 

کہ وہ تو بچہ تھا تم نے اَسکو کیسے پالا ۔۔۔۔۔ ابہام نے بہت آرام سے کہہ دیا تم نہیں ملی تو سوچا اکیلا ہی پال لیتا ہوں ۔ جیسے ہیابہام نے یہ کہا عبادت کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نے احاطہ کیا ،۔

تبھی ابہام نے عبادت سے سوال کرنے شروع کیے ۔ پہلا سوال تھا ۔۔۔۔ آصف سے شادی کیوں کر رہی تھی ۔۔۔؟ عبادت نے لمبا سانسکھنچا تھا اور سب کچھ اُسکے آغوش اتار ۔۔۔۔ 

دونوں نے ایک دوسرے کے ماضی کو آمنے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا ، چونکہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے پہلے ہمشیہ ماضیصاف کر لینا ہی بہتر ہوتا ہے ۔۔؛۔ 

“ خیر یہ باتیں تو ہوتی رہے گئی ۔ آج ہم یہاں کسی اور وجہ سے ملے تھی ۔ تم نے میرے بارے میں کیا سوچا ۔۔۔؟ تم نے شاید مجھےآج یہ بتانا تھا ۔ 

وہ کافی کا سیپ لیتے ساتھ ہی معنی خیز ہوتا بات کا رک اپنی ملاقات کی وجہ پر ڈالتے اُسکو دیکھنے پر مجبور کر گیا ؛۔ 

“ میرے خیال سے مجھے جو کہنا تھا میں نے کہہ دیا ۔ عبادت لبوں کا آپس میں ملاتے ڈوپٹہ سیٹ کرتے ویسے ہ دھیرے سے اندازمیں بولی ۔۔۔ 

یہ کیا بات ہوئی یار ۔۔۔۔۔یہ تو غلط ہے ۔ تم نے یہاں میرے بارے میں بات کرنی تھی ۔ وہ حیران ہوتے منمناتے گویا ۔۔۔۔ 

ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عبادت اُسکا انداز دیکھ خود کے قہقہے پر بریک نا لگا سکی تو منہ پر ہاتھ رکھتے مقابل کئ روح کو اندر تک خوش کیا ؛۔ 

“ تم سے ایسے سبھی باتیں کرتے بتا تو دیا اپنا فیصلہ ۔۔۔۔ عبادت اُسکو خود پر نظریں جمائے دیکھ ہنسی کو بریک لگاتی بولی ۔۔۔۔ 

جبکے ساتھ ہی کافی ختم کرتے اٹھی ۔ مجھے اب گھر جانا ہے ۔ وہ اتنا کہتی مقابل کو اٹھنے کا اشارہ کر گئی ۔ 

وہ مسکراتے اٹھا تھا ۔ چلیں ۔۔۔۔۔ میڈم ۔۔۔۔ ابہام اُسکو آگے چلنے کا بولتے ساتھ ہی قدم بڑھا گیا۔۔۔۔” 

“ عبادت تم آگئی ۔۔۔۔۔۔؟ کہاں گئی تھی ۔۔۔؟ یارم تمہارے جانے کے بعد ہی اٹھ گیا تھا ۔ 

تمہارا ہئ پوچھے جا رہا ہے ۔ ریحانہ بیگم عبادت کو گھر میں داخل ہوتے ایک ہی سانس میں سوال پوچھتے ساتھ ہی یارم کا بتا گئی۔۔۔۔۔

“ عبادت نے کہاں جانا ہے ۔۔۔۔؟ وہ میرے ساتھ تھی ہم کیفے تک گئے ۔۔۔۔ابھی عبادت کوئی جواب دیتی ابہام جو پیچھے ہی داخل ہواتھا، فورا سے جواب دیتے لاوئج روم میں موجود سبھی لوگوں کے کان کھڑے کر گیا ؛۔ 

عبادت جو دوست کا بتا گئی تھی ۔ ابہام کے ایسے بولنے پر ماتھے پر زور سے ہاتھ مارتی سڑھیوں کی طرف لپکی :۔

سونیا بھی ابہام کو دیکھ ماتھے پر ہاتھ مار گئی تھی ۔ چونکہ عبادت صرف سونیا چاچی کو بتا کر گئی تھی کہ وہ ابہام سے ملنےکیفے جا رہی ہے ۔،

“ ابھی تم دونوں ساتھ آئے ۔۔۔۔؟ حامل بے یقینی سے اٹھتے اُسکی طرف بڑھا تو وہ ہاں میں سر ہلاتے دھر سے صوفے پر جاتے گرا۔۔۔۔ 

سب ایسے شاک سے مجھے کیوں دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔۔؟ بھئی میں اپنی بیوی کے ساتھ تھا کسی اور کے نہیں ۔۔۔۔ 

ویسے بھی آج کی یہ ڈیٹ ہماری شاندار رہی ۔ وہ بولتے ساتھ ہی زاہیان کو آنکھ مار گیا :۔ 

“ کیا واقعی ۔۔۔۔۔؟ سونیا بھی خوشی کے مارے ابہام کے قریب ہوتے بیٹھی ۔ جبکے فلک ۔۔۔ زاہیان ، حامل پریزے سبھی منہ کھولےاُسکے کچھ بولنے کے منتظر تھے ؛۔ 

“ واقعی ۔۔۔۔۔۔ ابہام نے مسکراتے یقین دلایا ۔ وہاں کیا کیا ۔۔۔۔؟ زاہیان نے دھر سے اگلا سوال پوچھا ۔ 

“ میری بیوی نے آج میری پسند کی کافی پی ۔ وہ شوخ لہجا لیے اتنا بولتے سب کو حیران کر گیا ۔ 

چونکہ ابہام جانتا تھا کہ عبادت کافی پسند نہیں کرتی اور یہ بات گھر والے اچھے سے جانتے ہیں۔ لیکن اب یہ بات وہ بھی جانتا تھااُنکو اتنا تو علم نہیں تھا ۔۔۔۔۔” 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے 

کیسا لگا یہ پارٹ ۔۔۔۔؟ پچھلی ایپیسوڈ پر کوئی اچھا رپونس نہیں دیا 

اس پر لائک اور کمنٹ اچھے سے کرنا ۔ اس کا ویڈیو پورا دیکھا کرو ۔ ناول درمیان میں سے پڑھتے ہو اسی لیے سمجھا نہیں تھا ۔۔۔۔۔ 

اگلا پارٹ بھی اسی ایپی کا ہوگا ۔ پھر انشااللہ ماضی ختم اور حال شروع ہو جائے گا 

تب تک اپنا خیال رکھیں اور مجھے دعاوں میں یاد

شکریہ 


This is Official Webby MadihaShah Writes. She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers, who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 

Meri Raahein Tere Tak Hai Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Meri raahein Tere Tak Hai written by Madiha Shah.  Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about  Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

Second Marriage Based Novel Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ آفیشل ویب مدیحہ شاہ رائٹس کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے اپنے لکھنے کا سفر 2019 سے شروع کیا ۔مدیحہ شاہ ان چند ادیبوں میں سے ایک ہے ، جو اپنے انوکھے تحریر ✍️ اسلوب کی وجہ سے اپنے قارئین کو اپنے ساتھ جکڑے رکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنے لکھنے کا سفر 2019 سے شروع کیا تھا۔ انہوں نے بہت ساری کہانیاں لکھی ہیں اور ان کے بارے میں لکھنے کے لئے مختلف موضوعات کا انتخاب کیا ہے

    نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا

ان کا پہلا طویل ناول ہے۔ اس کی کہانی بچپن کی  نفرت سے    شروع ہوتی ہے اور محبت کے اختتام تک پہنچ جاتی ہے۔ کہانی میں بہت سارے اسباق مل سکتے ہیں۔ یہ کہانی نہ صرف نفرت سے شروع ہوتی ہے بلکہ اس کا اختتام محبت کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ اس ناول میں بہت ساری اجتماعی باتیں سیکھی جارہی ہیں .... ، بہت ساری معاشرتی برائیاں اس ناول میں دبا دی گئیں۔ مختلف ناولوں سے جو آج کے نوجوانوں کو تباہ کرتی ہیں وہ اس ناول میں دکھائے گئے ہیں۔ اس ناول میں ہر طرح کے لوگوں کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

  میرا جو صنم ہے ذرا بے رحم  ہے

ان کا دوسرا بہترین طویل رومانٹک سب سے زیادہ مقبول ناول تھا۔ مدیحہ شاہ کے ناول کے اختتام کے ایک سال بعد بھی قارئین اس کو بے شمار بار پڑھ رہے ہیں۔

میری راہیں تیرے تک ہے مدیحہ شاہ   کا   اب تک کا ایک بہترین ناول ہے۔ ناول پڑھنے والوں کو یہ ناول دل کی انتہا سے پسند آیا۔ اس ناول میں خوبصورت الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس ناول میں ان دو لوگوں کی کہانی بیان کی گئی ہے جنہوں نے ایک بار شادی  کی  اور اس کا خاتمہ ہوگیا ، نہ صرف یہ ، بلکہ یہ بھی کہ تعلقات کی خاطر کس طرح قربانیاں دی جاتی ہیں۔

انسان کس طرح اپنے رشتوں کے سامنے اپنے دل کو درد میں ڈالتا ہے اور قربانی بن جاتا ہے ، آپ اسے پڑھ کر پسند کریں گے۔

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  ناول

 مدیحہ شاہ نے ایک نیا اردو سماجی رومانوی ناول  نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا    تحریر مدیحہ شاہ پیش کیا۔ نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  از مدیحہ شاہ ایک خاص ناول ہے ، اس ناول میں بہت سی معاشرتی برائیوں کی نمائندگی کی گئی ہے۔ یہ ناول ہر طرح کے تعلقات کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔امید ہے کہ آپ کو یہ کہانی پسند آئے گی اور ناول کی کہانی کے بارے میں مزید جاننے آپ اسے ضرور پڑھیں۔

اتنا ہی نہیں مدیحہ شاہ نئے لکھنے والوں کو آن لائن لکھنے اور ان کی تحریری صلاحیتوں اور مہارت کو ظاہر کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم دیں۔ اگر آپ سب لکھ سکتے ہو تو اپنا لکھا ہوا کوئی بھی ناول مجھے سسینڈ کریں میں اسکو یہاں اپنی اس ویب پر شائع کروں گئی اگر آپ کو یہ اردو رومانٹک ناول کی کہانی کامنٹ بلو پسند ہے تو ہم آپ کے مہربان جواب کے منتظر ہیں۔

آپ کی مہربانی سے تعاون کرنے کا شکریہ

 /کزن فورس میرج پر مبنی ناولر ومانٹک اردو ناول

مدیحہ شاہ نے بہت سے ناول لکھے ہیں ، جن کو ان کے پڑھنے والوں نے ہمیشہ پسند کیا۔ وہ اپنے ناولوں کے ذریعہ نوجوانوں کے ذہنوں میں نئے اور مثبت خیالات پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ بہترین لکھتی ہیں۔

 

If you want to download this novel ''Meri Raahein Tere Tak Hai'' you can download it from here:

 

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

to download in pdf form and online reading.

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 01, 05

Episode 06 to 10 

Episode 11 to 15 

Episode 16 to 20

Episode 21 to 25

Meri Raahein Tera Tak Hai By Madiha Shah Episode 33 is available here

اگر آپ یہ ناول ”میری راہیں  تیرے تک ہے“ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن پر کلک کریں اور مزے سے ناول کو پڑھے

اون لائن لنک

Online link    

Meri Raahein Tere Tak Hai Novel by Madiha Shah Continue Novels ( Episodic PDF)

میری راہیں تیرے تک ہے ناول    از مدیحہ شاہ  (قسط وار پی ڈی ایف)

 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

اگر آپ سب کو اس ویب پر شائع ہونے والے ناول پسند آرہے ہیں تو ، براہ کرم میری ویب پر عمل کریں اور اگر آپ کو ناول کا واقعہ پسند ہے تو ، براہ کرم کمنٹ باکس میں ایک اچھی رائے دیں۔

شکریہ۔۔۔۔۔۔

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files, as we gather links from the internet, searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

حق اشاعت کا اعلان:

مدیحہ شاہ سرکاری طور پر صرف پی ڈی ایف ناولوں کے لنکس بانٹتی ہے اور کسی بھی سرور پر کسی فائل کو میزبان یا اپلوڈ نہیں کرتی ہے جس میں ٹورنٹ فائلیں شامل ہیں کیونکہ ہم گوگل ، بنگ وغیرہ جیسے دنیا کے مشہور سرچ انجنوں کے ذریعہ تلاش کردہ انٹرنیٹ سے لنک اکٹھا کرتے ہیں اگر کوئی پبلشر یا مصنف ان کے ناولوں کو یہاں پایا جاتا ہے کہ اپ لوڈ کنندہ کو ناولوں کو ہٹانے کے لئے کہیں جس کے نتیجے میں یہاں موجود روابط خود بخود حذف ہوجائیں گے۔  

 

Previous Post Next Post