Rakhail By Riaz Aqib New Novel Episode 15

Rakhail By  Riaz Aqib New Novel Episode 15

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Rakhail By Raiz Aqib Episode 15

Novel Name: Rakhail 

Writer Name: Riaz Aqib  

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

وقت دیکھتے ہی اس نے منھ بناتے ہوئے بیزاری بھرے لہجے میں کہا ۔

”ساڑھے سات بجنے میں بیس منٹ رہتے ہیں ۔“

وہ ہنسی ۔”تو کس نے کہا آپ اٹھ جائیں ،لیٹے رہیں ۔“

”اور یہ جو میرے سر میں ہل چلا رہی ہو اس کا کیا ؟“

” آپ کو جگانے کے لیے ایسا کر رہی ہوں ،اٹھانے کے لیے نہیں۔چند منٹ میرا بھی تو حق بنتا ہے کہ آپ کے ساتھ لیٹ کر کچھ باتیں کر لوں ۔“

”تمھارے ناز اور لاڈ اٹھانے کے لیے نہیں لایا ہوں محترمہ ۔“

وہ فلسفیانہ لہجے میں بولی ۔”تو کس نے کہا ہے میرے ناز اٹھائیں ،میں ناز اٹھانے آئی ہوں اٹھوانے نہیں ۔“

کبیردادا جھلاتے ہوئے بولا ۔”پھر وہی رومانس ۔“

وہ کہاں باز آنے والی تھی ۔شرارتی لہجے میں بولی ۔”جو پیارا لگتا ہے نا ،اس سے رومانس جھاڑا جاتا ہے جناب ۔“

”تو میں تمھیں پیارا لگتا ہوں ۔“کبیردادا نے سنجیدگی سے اس کی آنکھوں میں گھورا۔

”آپ کو کیا لگتا ہے ۔“اس نے اپنی گہری سیاہ آنکھیں کبیردادا کی جانب اٹھائیں جن میں چاہت کا سمندر موجزن تھا ۔

”دماغ کام نہیں کر رہا تمھارا۔“اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کبیردادا کو کچھ ہونے لگا تھا ۔وہ نظریں چراتے ہوئے اٹھ بیٹھا ۔

مگر اس کے بیڈ چھوڑنے سے پہلے تناوش نے اسے کندھے سے پکڑ کر پیچھے کھینچتے ہوئے دوبارہ تکیے پر لٹا دیا ۔”ابھی تک ساڑھے سات نہیں بجے ،آپ بستر کو نہیں چھوڑ سکتے ۔“

”یہ چونچلے مجھے بالکل پسند نہیں سمجھیں ۔“کبیردادا نے اسے دور دھکیلنے کی کوشش کی مگر وہ بری طرح اس سے چمٹ گئی تھی ۔

”کیوں ا تنا بھی حق نہیں بنتا کہ آپ دو منٹ مجھ سے باتیں کر لیں ۔“

وہ دق ہوتے ہوئے بولا ۔”تو باتیں کرنے کے لیے اور وقت نہیں ملے گا ۔“

”کس وقت ملے گا ،کھانا کھا کر آپ گھر سے نکل جائیں گے اور پھر معلوم نہیں بارہ بجے لوٹیں گے یا اس سے بھی دیر کر دیں ۔البتہ وعدہ کریں کہ دس گیارہ تک لوٹ آئیں گے تو جانے دیتی ہوں ۔“

”دماغ درست ہے تمھارا،کچھ زیادہ ہی پر پرزے نکالنا شروع کر دیے ہیں ۔“ کبیر دادا کو سچ مچ تپ چڑھ گئی تھی ۔”دور ہٹو ۔“اس نے سختی سے اسے دور جھٹکا ۔

”بس پانچ منٹ اور ،ساڑھے سات بجے چلے جانا ۔“وہ ڈھیٹ پن سے اس سے چمٹی رہی ۔

”افف....“اٹھنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے کبیردادا نے سر پکڑ لیا تھا ۔اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھاکہ ایک ہی دن میں وہ اتنی بے تکلف ہو جائے گی جیسے برسوں کی آشنا ہو ۔ کبھی کبھی تو اسے یونھی محسوس ہونے لگتا جیسے وہ واقعی میں اس کی محبوبہ ہو ۔

”اتنے ہی تنگ پڑ رہے ہیں تو یہ لیں جائیں ۔“وہ روٹھتے ہوئے اس سے دو ر ہو گئی۔

”شکریہ ۔“وہ اٹھتے ہوئے بولا ۔”اب براہ مہربانی چند دن ناراض ہی رہنا ۔“

مگر اس کے غسل خانے میں گھستے ہی وہ مسکراتے ہوئے اٹھی اور ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گئی ۔اس کے لیے استری شدہ سوٹ نکال کر اس نے باہر لٹکایا اور خود کھانا لینے چل دی۔راحت خالہ اسے باورچی خانے ہی میں نظر آئی تھی ۔

”خالہ جان !آپ جائیں آرام کریں ۔بتایا تھا نا جب تک میں یہاں ہوں آپ باورچی خانے کی طرف سے بے فکر ہو جائیں ۔“

”مگر بیٹی ....“اس نے فکر مندی سے کچھ کہنا چاہا ۔

تناوش قطع کلامی کرتے ہوئے بولی ۔”بحث کو چھوڑیں خالہ جان !....میں یہ سب اپنی خوشی سے کر رہی ہوں ۔“

”خوش رہو بیٹی ۔“وہ دعا دیتے ہوئے باہر نکل گئی ۔تناوش چولھے پر توا رکھ کر جلدی جلدی روٹیاں ڈالنے لگی ۔روٹیاں پکا کر اس نے کھانے کے برتن ٹرے میں سجائے اور خواب گاہ کی طرف بڑھ گئی ۔راحت خالہ نے اسے بتایا تھا کہ کبیردادا کھانا وغیرہ کمرے ہی میں کھاتا تھا ۔ ڈائینگ ہال کا وسیع کمرہ صرف مہمانوں کی آمد پر استعمال ہو تا تھا ۔

اس کے کھانا لگانے تک کبیردادا بھی تیار ہو کر آگیا تھا ۔اسی وقت تپائی پر رکھے انٹرکام کی گھنٹی بجی ۔کبیردادا نے رسیو اٹھایا ۔

چوکیدار نے مودّبانہ لہجے میں کہا ۔”سر!....اخلاق حسین شاہ صاحب تشریف لائے ہیں ۔ڈرائینگ روم میں بھیج دیا ہے ۔“

”ٹھیک ہے ۔“مختصراََ کہتے ہوئے اس نے رسیور واپس رکھ دیا۔

”میرا مہمان آگیا ہے تم کھانا کھا لو میں بعد میں کھالوں گا ۔“تناوش کا جواب سنے بغیر وہ ڈرائینگ روم کی طرف بڑھ گیا ۔وہ بس خفا نظروں سے اسے گھورتی رہ گئی تھی ۔

خواب گاہ سے نکلتے ہی اسے دروازے سے اندر داخل ہوتا ہوا اخلاق حسین نظر آیا ۔ اس کے ہونٹوں پر ندامت بھری مسکراہٹ تھی ۔کبیردادا نے آگے بڑھ کر اس سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا ۔

”بیٹھیں شاہ جی !“

”شکریہ ۔“کہتے ہوئے اس نے صوفے پر نشست سنبھالی ۔”بھابی نظر نہیں آ رہیں۔“

”ہاں وہ کمرے میں ہے ۔“یہ کہتے ہی اس نے تناوش کو پکارا ۔

وہ دروازے کی درز سے آنے والے کو جھانک رہی تھی ۔کبیردادا کی آواز سنتے ہی اس نے پیچھے ہو کر سر پر دوپٹا درست کیا اور دروازہ کھول کر باہر نکل آئی ۔

”اسلام علیکم بھائی جان !“قریب پہنچ کر اس نے دھیمے لہجے میں اخلاق حسین کو سلام کہا ۔

”وعلیکم اسلام !“اخلاق حسین نے اٹھ کراس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔”ویسے آپ میری بیٹی کی ہم عمر ہو،مگر کبیر بھائی کی وجہ سے آپ کو بھابی ہی کہنا پڑے گا ۔“

”جی بھائی جان !“وہ مسکرا دی تھی ۔

”آپ کی شادی پر تو آ نہیں سکا کہ آپ نے جھٹ پٹ میں سب کچھ کر لیا ۔بہ ہر حال میری طرف سے یہ حقیر سا تحفہ قبول فرمالیں ۔“اخلاق حسین نے خوب صورت پیکنگ میں لپٹا ہوا ایک چھوٹا سا پیکٹ اس کی طرف بڑھایا ۔

”اس کی کوئی خاص ضرورت تو نہیں تھی بھائی جان ۔“یہ کہتے ہوئے اس نے سوالیہ نظروں سے کبیردادا کی طرف دیکھا ۔اور اس کے اثبات میں سر ہلانے پر اس نے وہ پیکٹ پکڑ لیا۔ ”شکریہ بھائی جان ۔“

”جیتی رہو ۔“اخلاق حسین نے بہ ظاہر اخلاص بھرے لہجے میں کہا ،مگرنہ معلوم کیوں تناوش کو اس کے لہجے میں خلوص کی سخت کمی محسوس ہو رہی تھی ۔

”ٹھیک ہے جاﺅ ۔“کبیردادا نے اسے واپس جانے کا اشارہ کیا اور وہ سرجھکائے خواب گاہ کی طرف بڑھ گئی ۔اس کے خواب گاہ میں غائب ہونے تک اخلاق حسین کی آنکھیں اسے گھورتی رہیں ۔

کبیر دادا کے گلا کھنکارنے پر اخلاق حسین نے گڑبڑا کر اس کی طرف دیکھا اور خفیف ہوتے ہوئے بولا ۔”ویسے بھابی کچھ زیادہ کم عمر نہیں ہے ۔“

”غور نہیں کیا ۔“کبیر دادا بے پروائی سے بولا تھا ۔

”اچھا میں دو کاموں کے لیے حاضر ہوا تھا ،ایک تو کل رات میرے ہاں چھوٹی سی تقریب ہے آپ کو اپنی بیگم کے ساتھ حاضری دینا ہو گی اور دوسرا کام آپ کو معلوم ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ واضح انداز میں بھابی سے معذرت کروں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔“

”ایسی کوئی بات نہیں ہے شاہ جی !اگر آپ مجھے اسی وقت روک کر اپنے الفاظ واپس لے لیتے تو مجھے ضد پر جری نہ پاتے ۔“

”شکریہ ۔“اخلاق حسین اٹھتے ہوئے مسکرایا ۔”ویسے ایسی لڑکی کے لیے اتنا غصہ کرنا تو بنتا ہے ۔“

”کھانے کا وقت ہے ۔“کبیردادانے بھی اپنی جگہ چھوڑ دی تھی ۔

”کھانا کل رات اکٹھا کھائیں گے ،اس وقت میں کسی دعوت میں جا رہا ہوں آپ کی دعوت ادھار رہی ۔“کبیردادا سے الوداعی مصافحہ کر کے وہ تیزی سے چلتا ہوا باہر نکل آیا ۔ڈرائیور نے اسے دیکھتے ہی کار کا عقبی دروازہ کھول دیا تھا ۔کار میں بیٹھتے ہی وہ نوشاد آفریدی کا نمبر ڈائل کرنے لگا ۔

”سنائیں شاہ جی !“وہ شاید اس کی کال ہی کا منتظر تھا کہ پہلی ہی گھنٹی پر کال وصول کر لی گئی تھی ۔

”اپنا نمبر بُھگتا آیا ہوں اب کبیردادا کی باری ہے ۔“

”تفصیل سناﺅ یار !“نوشاد کے لہجے میں کچھ جاننے کی تڑپ تھی ۔

”بس اسے شادی کی مبارک دی ، اس فاحشہ کو چھوٹا سا تحفہ دیا اور واپس آگیا ۔“

”کیسی ہے ۔“اس مرتبہ نوشاد گل نے صاف طور پر منھ سے اگل دیا تھا کہ اسے کیا جاننے کی خواہش تھی ۔

”سچ کہوں تو وہ کمینہ فضول میں پاگل نہیں ہوا جا رہا ۔اگر اس سے جھگڑا نہ ہوا ہوتا تب بھی اس لڑکی کو دیکھنے کے بعد میں اس کے حصول کی کوشش ضرور کرتا ۔“اخلاق حسین نے اپنے دماغ میں چھپی غلاظت اگلی ۔

”ہاہاہا۔“نوشاد گل نے بلند بانگ قہقہہ لگایا ۔”اب تو اس رکھیل کو دیکھنے کی خواہش اور بڑھ گئی ہے ۔“

”امید ہے کل رات کی تقریب میں تمھاری یہ حسرت باقی نہیں رہے گی ۔“

نوشاد نے مسکراتے ہوئے کہا ۔”شاہ جی انھی باتوں نے تو ہمیں آپ کا مرید بنایا ہوا ہے ۔“

اخلاق حسین بھی کھل کھلا کے ہنس پڑا تھا ۔

٭٭٭

”تم نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا ۔“خواب گاہ میں داخل ہوتے ہی کبیردادا کی نظر جوں کے توں پڑے ہوئے کھانے کے برتنوں پر پڑی ۔

”آپ کی منتظر تھی ۔“

کبیردادا کو معلوم تھا کہ اس سے بحث بے کار ہے وہ خاموشی سے کھانا کھانے بیٹھ گیا۔ ایک ہی دن تناوش کے ساتھ گزارنے کے بعد اسے لگنے لگا تھا، جیسے وہ اسے برسوں سے جانتا ہو ۔اس کا ہر عمل کبیردادا کو پہلے سے پتا چل جاتا تھا ۔اس کے منھ سے نکلنے والے الفاظ کا مفہوم وہ ادائی سے پہلے جان جاتا تھا ۔

اس نے سالن نکالنے کے لیے جونھی ڈونگے کو ہاتھ لگایا ۔اس کے ہاتھ سے ڈونگا جھپٹتے ہوئے وہ تیز لہجے میں بولی ۔

”میں ڈال رہی ہوں نا ۔“

”میرے پاس ہاتھ نہیں ہیں کیا ۔“

وہ کہاں ہار ماننے والی تھی برجستہ بولی ۔”ہاتھ پاﺅں تو بیوی کے پاس بھی موجود ہوتے ہیں پھر وہ کیوں شوہر کی کمائی کھاتی ہے ۔“

”غلط ،آج کل کئی عورتیں نوکری پیشہ ہیں ۔“وہ بحث پر اتر آیا تھا ۔

”ان میں اکثریت مجبور خواتین کی ہے اور جو شوقیہ نوکری کرتی ہیں انھیں شوہر کی پروا ہی نہیں ہوتی ۔“

کبیردادا اس پر چوٹ کرتا ہوا بولا ۔”تو بس تم بھی اپنا شوق پورا کرنے کے لیے نوکری ڈھونڈ لو ۔کم از کم اس بہانے میری جان تو اس خدمت گزاری سے چھوٹ جائے گی ۔“

”ہر کسی کا اپنا اپنا شوق ہوتا ہے اور میرا شوق آپ کی خدمت کرنا ،آپ کا خیال کرنا اور آپ کے ناز نخرے برداشت کرنا ہے۔“شوخی بھرے لہجے میں کہتے ہوئے اس نے پہلا نوالہ کبیردادا کے منھ کی طرف بڑھایا ۔

”یہ کیا ہے؟“منھ کھولے بغیر اس نے ناک بھوں چڑھائی ۔”جب بتایا ہے اس طرح کے چونچلے مجھے بالکل پسند نہیں ہیں پھر تمھاری سمجھ میں کیوں نہیں آرہا ہے ۔“یہ کہتے ہوئے وہ خود نوالہ توڑنے لگا ۔تناوش نے اپنا ہاتھ پیچھے نہیں ہٹایا تھا ۔جونھی اس نے نوالہ منھ کی طرف لے جانا چاہا تناوش نے بائیں ہاتھ سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔

چہرے پر غصہ طاری کرتے ہوئے کبیردادا نے اس کی طرف دیکھا ۔وہ گھبرائے بغیر بولی ۔”ہر بات پر ضد کرنا اچھی عادت نہیں ہے ۔“

”ضد نہیں کر رہا تمھاری بچکانہ حرکتوں پر غصہ آجاتا ہے ۔“یہ کہتے ہوئے اس نے تناوش کے ہاتھ میں پکڑا نوالا منھ میں لے لیا تھا۔

تناوش نے اپنے دونوں ہاتھوں سے کبیردادا کا دایاں ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے منھ کی طرف لے جانے لگی ۔

”یہ کیا بے ہودگی ہے ۔“کبیردادا نے اسے روکنے کی واجبی سے کوشش کی مگر وہ تناوش ہی کیا جو مان جائے ۔اپنا سر جھکا کر اس نے کبیردادا کے ہاتھ میں موجود نوالہ اپنے منھ میں لیا اور اس کے ساتھ اس کی انگلیاں بھی منہ میں ڈال لی تھیں ۔

نوالہ چباتے ہوئے وہ شوخی سے بولی ۔”جو بچے پیار کی زبان نہیں سمجھتے ان سے زبردستی کام لینا پڑتا ہے ۔“

کبیردادا اسے غصیلی نظروں سے گھورتا رہ گیا تھا ۔

وہ شرارتی لہجے میں بولی ۔”اب خود کھانا شروع کریں مجھ سے دوسرے نوالے کی امید نہ رکھنا ۔“

نہ چاہتے ہوئے بھی کبیردادا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔”اور اگر میں کہوں کہ سارا کھانا ہی تمھارے ہاتھوں سے کھانا ہے پھر ؟“

”سچ ۔“وہ جیسے خوشی سے کھل اٹھی تھی ۔اس کے ساتھ لگتے ہوئے وہ وارفتگی سے بولی۔”میں حاضر ہوں ۔“یہ کہتے ہی اس نے دوسرا نوالہ کبیردادا کے ہونٹوں کی طرف بڑھایا۔

اس کی بے ساختہ خوشی نے کبیردادا کو حیران کر دیا تھا ۔ خلوص کسی تعارف کا محتاج نہیں ہواکرتا ۔محبت کو اظہار کی حاجت نہیں رہتی ۔چاہت الفاظ کا سہارا نہیں لیتی ۔عشق خوشبو کی طرح نظر آئے بغیر اپنی موجودی کا یقین دلا دیا کرتا ہے ،پیار پھول کی طرح گونگا ہو کر بھی اپنی کشش میں جکڑ لیتا ہے ۔کبیردادا نے بھی اس کے شرارتی لہجے کو دیکھتے ہوئے مذاق کیا تھا ،مگر تناوش کے چہرے پر امڈ پڑنے والی بے پایاں خوشی نے اسے مسحور کر دیا تھا ۔وہ اس سحر سے تب باہر آیا جب تناوش اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلا چکی تھی ۔

”اچھا اب بس کرو اور خود بھی دو نوالے لو۔“پانی کا گلاس اٹھاتے ہوئے اس نے سیر ہوجانے کا اعلان کیا ۔

وہ خوشی سے چہکی ۔”مجھے تو لگ رہا ہے یہ سارا کھانا میرے ہی پیٹ میں گیا ہے ۔“

کبیردادا نے منھ بنایا ۔”احمقوں کے سینگ تو نہیں ہوتے ۔“

وہ شوخی سے گنگنائی ....

ایک ہمی کو احمق کہنا کوئی بڑا الزام نہیں 

دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں 

”کیا تمھیں حقیقت میں ایسا ہی لگتا کہ میں تمھیں محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر لے آیا ہوں ۔“کبیردادا ایک دم سنجیدہ ہو گیا تھا ۔

وہ پھیکی مسکراہٹ سے بولی ....

ع کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

”اگر جانتی ہو تو پھر ہر وقت رومانس کا بھوت خود پر سوار نہ رکھا کرو ۔“اس مرتبہ کبیردادا کی بات کا جواب دیے بغیر وہ کھا نا کھاتی رہی ۔کبیردادا میٹھا کھانے لگا ۔دو تین چمچ لے کر وہ گلے میں مفلر کی طرح لٹکی ہوئی ٹائی باندھنے لگا تھا ۔

تناوش نے کھانے سے ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا ۔”مجھے بھی ٹائی باندھنا سکھادو ۔“

”کیوں ....کیا سوٹ پہننے کا شوق ہے ؟“

”نہیں ،آپ کی ٹائی میں خود باندھا کروں گی ۔“

”میں باندھ سکتا ہوں ۔“وہ جانے کے ارادے سے اٹھ کھڑا ہوا ۔

”بار بار یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آپ کیا کیا کرسکتے ہیں ۔میں محتاج یا معذور سمجھ کرآپ کے کام نہیں کرتی ۔“

اس کا لہجہ طنزیہ نہیں تھا مگر کبیردادا کو غصہ آگیا تھا ۔”جب مجھے ضرورت نہیں ہے تمھاری خدمت کی تو کیوں اپنی توانائیاں ضائع کرتی ہو ۔“

اس کے سامنے کھڑے ہو کر تناوش نے سر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔”اور جب معلوم ہے کہ میں یہ سب کرنے سے باز نہیں آﺅں گی تو آپ کیوں نہیں اپنی ضد چھوڑ دیتے۔“

وہ جھلاتے ہوئے بولا ۔”ضد چھوڑوں گا یا نہیں تمھیں ضرور چھوڑ دوں گا ۔“

”شاید مجھے ڈراکر خوشی ملتی ہے ۔“دکھی لہجے میں کہتے ہوئے وہ اس کے قریب ہوئی اور منھ ہی منھ کچھ بڑبڑا کر اس نے کبیردادا کے چہرے اور چھاتی پر پھونکا ۔

کبیردادا نے طنزیہ لہجے میں پوچھا ۔”اب جاﺅں یا کوئی اور وظیفہ رہ گیا ہے ۔“

وہ لجاجت سے بولی ۔”پلیز ،جلدی آنے کی کوشش کرنا،مجھے نیند نہیں آئے گی ۔“

”تو ٹی وی دیکھ لینا ،ڈی وی ڈی پر فلم دیکھ لینا نہیں تو نیند کی گولیاں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں ۔“یہ کہتے ہوئے وہ دروازے کی طرف مڑگیا ۔

تناوش نے بھی اس کے پیچھے قدم بڑھا تے ہوئے کہا۔”اتنا ہی کہہ دیتے کہ کوشش کروں گا تو کوئی خوش ہو جاتا۔“

دروازے کے قریب رکتے ہوئے اس نے تیکھے لہجے میں کہا ۔”کسی کو خوش کرنا میری عادت نہیں ہے ۔“

وہ شوخی سے بولی ۔”اچھی عادت ،ڈال لینی چاہیے ۔“

وہ ترکی بہ ترکی بولا۔”اچھی عادتیں ،اچھوں کے ساتھ جچتی ہیں ۔“

وہ سرعت سے بولی ۔”اپنی اچھائی کا مجھ سے پوچھیں ۔“

”رہنے دو ۔“منھ بناتے ہوئے وہ باہر نکل گیا ۔

محافظوں کو اس کی روزمرہ معلوم تھی ۔گاڑیاں تیاری حالت میںکھڑی تھیں ۔ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اس کی نظریں ڈرائینگ روم کے دروازے کی جانب اٹھیں ۔وہ وہیں کھڑی اسے دیکھ رہی تھی ۔گاڑی کے آگے بڑھنے تک وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی طرف متوجہ رہا ۔

جاری ہے

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes.She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Rakhail Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Rakhail written by  Riaz aqib Kohlar  .Rakhail  by Raiz Aqib Kohlar is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

Previous Post Next Post