Bas Tu Hi Piya Novel By Amreen Riaz Complete Short Novel Story 7

Bas Tu Hi Piya  Novel By Amreen Riaz Complete Short Novel Story 7

 Read ONLINE Free Famous Urdu Novel 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading

Bas Tu Hi Piya Novel By Amreen Riaz Complete Short Novel Story 7

"ماما،ماما کہاں ہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ انفال بیگم کو آوازیں دیتا کچن میں آیا تھا جہاں وہ اُس کے اندازے کے مُطابق نفیسہ بُوا کے ساتھ مل کر ڈنر بنا رہی تھیں۔

"کیا ہوا ارمائز،کیوں اتنا شور مچا رہے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"انفال بیگم کے پوچھنے پر وہ جو پہلے تپا ہوا تھا اب کہ جل کر رہ گیا۔

"شور نہ مچاؤں تو کیا کروں میری زندگی کے اتنے اہم فیصلے مُجھے کسی اور کے مُنہ سے سُننے کو مل رہے ہیں اس سے زیادہ ظُلم کیا ہوگا میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"بُوا آپ بریانی کو دم دے کر سلاد کاٹ لیجئے گا اور سالن کی آنچ ہلکی کی ہے میں نے دو منٹ بعد سالن بھی اُتار لیجئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"انفال بیگم اُسکی دہائی کو نظر انداز کرتیں نفیسہ بُوا سے بولیں تو ارمائز جل کر خاکستر ہو گیا۔

"ماما آپ میری تو سُن لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"سُن رہی ہوں میں تُمہاری بات،شور تو یوں مچا رہے ہو جیسے تُمہیں پتہ ہی نہیں تھا اس فیصلے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسے گھورتیں لاؤنج میں آئی تو وہ بھی انکے پیچھے چلا آیا۔

"پر میں نے تو کہاں کے میں ابھی منگنی نہیں کروانا چاہتا،رُک جائیں کُچھ ماہ ابھی دو ماہ تو ہوئے مُجھے آفس جوائن کیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تو کیا ہوا منگنی ہی ہو رہی نہ شادی تو نہیں اور ویسے بھی یہ تُمہارے بابا اور تُمہاری پھوپھو کا فیصلہ ہے مُجھے مت گھسیٹو اس میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"انفال بیگم ہری جھنڈی دکھاتیں اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔ارمائز خود کو ہی کوس کر رہ گیا کس منحوس گھڑی میں اس نے طائشہ سے رشتے جُڑنے کی حامی بڑھی تھی۔وہ خود کو لعن طعن کرتا اپنے کمرے کی طرف بڑھا کہ ساتھ والے کمرے کا دروازہ کُھلا دیکھ کر کُچھ سوچتا دروازہ ناک کرتا کمرے میں داخل ہوا جہاں امروش حسب معمول کسی کتاب میں بُری طرح محو تھی کہ ارمائز کے کمرے میں داخل ہونے کا نوٹس لئے بغیر کتاب میں کھوئی تھی۔

"میری خلاف اتنی بڑی سازش تیار کی جا رہے ہے اور آپ کو کتابوں سے ہی فرصت نہیں۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کی آواز پر وہ ڈر کر اُچھلی تھی کہ کتاب اسکے ہاتھ سے چھوٹتی زمیں بوس ہو گئی۔ارمائز اُسکی حالت سے محفوظ ہوتا ہنس دیا مگر اُسکی گھوریوں سے اپنی مُسکراہٹ دبا گیا۔

"کبھی تو تُم بھی انسانوں کی طرح رہا کرو ابھی میری جان نکل جاتی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تو کیا کم از کم میری منگنی تو پوسٹ پون ہو جاتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز نے منہ لٹکا کر کہا تو مُسکرادی۔

"اوہ تو جناب کو خبر مل چُکی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش جیسے سب سمجھ گئی تھی۔

"جی اور خبر بھی دُشمن اوّل سے،واٹس ایپ پر سٹیٹس کی صُورت میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جل کر بولا تو امروش کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ارمائز بے ساختہ ہی اُسے دیکھے گیا جس کے ہنسنے سے گال پر ڈمپل گہرے ہو گئے تھے۔

"آپ ہنس رہی ہیں ،اکلوتے دیور سے کوئی ہمدردی نہیں ،چلو کوئی نہیں جب بھائی گوری میم امریکہ سے لائیں گئے نہ تو میرے ہی آئیڈیاز پر آپ اُسے یہاں سے نکلوا سکیں گیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا تو امروش نے ایک گھوری سے نوازاہ۔

"تُمہاری یہ حسرت کبھی پوری نہیں ہو گی کیونکہ شائز کسی لڑکی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ پُورے یقین سے بولی تھی۔بات تو سچ تھی کہ شائز لڑکیوں سے زرا فاصلے پر ہی رہتا تھا اور ڈاکٹری کی تعلیم نے اُسے بلکل خُشک بنا دیا تھا۔امروش سے بھی وہ ایسے بات کرتا تھا جیسے بیوی نہ ہو کزن ہی ہو بس۔

"ارے اتنا یقین آپکو اپنے سرتاج پر،یہ نظر میں رہے اُن کے ساتھ بہت خُوبصورت ڈاکٹرز کام کرتی ہیں،یہ جب میں لاسٹ ایئر امریکہ گیا تھا تب ایک دن میں نے بھائی کے ہسپتال چھاپہ مارا تو بھائی اتنی حسین کو لیگ کے ساتھ بیٹھے گپیں مار رہے تھے کہ کیا بتاؤں،اُف کیا گولڈن بال تھے ،گرے آنکھیں اور دلکش مُسکراہٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ارمائز دفعہ ہو جاؤ تُم،کیوں ورغلاتے ہو مُجھے تُمہیں پتہ میں پھر اُن سے پوچھتی ہوں تو وہ ڈانٹ کے رکھ دیتے ہیں کہ میں کس احمق کی باتوں پر ایمان لے آتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا بھائی نے مُجھے احمق بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیرت سے اُسکی آنکھیں کھل گئیں۔امروش نے شرارتی مُسکراہٹ لبوں میں دبا کر سر اثبات میں ہلایا تو ارمائز سر نفی میں ہلاتا مُسکرا دیا۔

"نہ بھابھی دُنیا ادھر سے اُدھر ہو جائے پر بھائی مُجھے احمق نہیں بول سکتے دو بھائیوں میں پُھوٹ ڈلوانے کی کُوشش آپکی بُری طرح ناکام ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے نہ مانو ،مُجھے کیا،شائز نہیں تو طائشہ تو کئی بار احمق بول چُکی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کہ امروش نے اُسکی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا جو بلکل اُسکی سوچ کے مُطابق رزلٹ آیا تھا۔

"اُس فسادن اور ڈرامہ کوئین کا تو نام بھی نہ لیں آپ،اتنی ُمشکل سے یونی کو بائے بول کر اُس سے جان چھڑوائی تھی اب پھر اُسے میرے سر نازل کرنے لگے ہیں سب،وہ بھی ساری عُمر کے لئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ایسے تو نہ ڈرامے کرو تُم میرے سامنے جیسے میں جانتی نہیں،شُروع سے تُم دونوں کا نام ساتھ لیا گیا ہے اور اب بھی تُم سے پوچھ کر ہی منگنی کی ڈیٹ ماموں نے فائنل کی ہے اور جہاں تک میری اطلاع جناب کو وہ پسند بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش نے بیڈ سے کپڑے اُٹھاتے ہوئے اُسے لتاڑا تو وہ ُمسکراتا سر کُھجانے لگا۔

"بات یہ نہیں،دراصل میں ابھی اس زمعداری سے بچنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ابھی کہاں زمعداری پڑے گی تُم پر،منگنی کے بعد بھی تُم لوگ ایسے ہی رہو گئے،ہاں بس ایک بات ہو گی پھر وہ تُم سے حق سے شاپنگ کروایا کرے گی جس چیز کا جنون ہے اُسے کہ ارمائز ہو اور بس وہ ہر ٹائم شاپنگ کے لئے تیار،ویسے بھی مُجھے تو اپنی دیورانی ہر لحاظ سے قبول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش وارڈرب میں کپڑے سیٹ کرتی ساتھ بول بھی رہی تھی جبکہ ارمائز صوفے کی پُشت پر سر ٹکاتے اُسے نظروں کے فوکس میں رکھ کر دیکھنے لگا جو پنک گرم سُوٹ میں ملبوس سکن وُول کی شال کندھوں پر اوڑے لمبے سیاہ گھنے بالوں کو چٹیا کئے سادگی میں بھی خُوبصورت لگ رہی تھی۔ارمائز اُسے دیکھتے دیکھتے ہی نیند کی وادیوں میں کھو چُکا تھا۔امروش الماری سیٹ کر کے اُسکی طرف پلٹی تو اسے سوتے پاکر مُُسکرادی اور بنا شور کئے کمرے کا دروازہ بند کرتی باہر چل دی جہاں انفال بیگم ارمائز کے رُوم سے نکلتیں اُسکی طرف متوجہ ہوئیں۔

"ارمائز کہاں گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"وہ میرے روم میں تھا وہی صوفے پر ہی سو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"دیکھو زرا یہ لڑکا بھی نہ،اب ڈنر کا ٹائم ہو گیا ہے تو سو گیا،اُوپر سے منگنی کی وجہ سے مُجھے پریشان کر رہا ہے کہ ابھی نہیں کروانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"انفال بیگم اُس کے رویعے سے پریشان ہو گئیں تھیں۔

"ارے مُمانی جان آپ کو تو پتہ وہ ایسے ہی تنگ کرتا ورنہ خُود اُس نے طائشہ کا نام لیا تھا اور دونوں کی انڈر سٹینڈ ینگ بھی بہت ہے اور ایک دُوسرے کو پسند بھی کرتے ہیں بس ہمیں نخرہ دکھا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش جو اُسکی رگ رگ سے واقف تھی نرمی سے بولتی انفال بیگم کو پُر سکون کر گئی۔ارمائز انکا چھوٹا اور لاڈلہ بیٹا تھا۔روشن پیلس کی اصل روشنی تھا وہ اس لئے کوئی فیصلہ بھی اُس کی مرضی بغیر نہیں کیا جاتا تھا۔انفال بیگم اور ثقلین آفندی جن کے بس دو ہی بیٹے تھے اپنے دونوں بچوں سے بہت پیار کرتے تھے کہ کبھی اُن پر زبردستی نہیں کی گئی تھی۔آج سے دو سال پہلے جب شائز اور امروش کا نکاح ہوا تھا تب بھی شائز کی رضا مندی لے کر ہی نکاح کیا تھا اور رُخصتی تین سال بعد جب وہ امریکہ سے اپنا کورس مکمل کر کے آئے گا۔امروش ثقلین آفندی کی خالہ زاد بہن کی بیٹی تھی جو کہ اکلوتی تھی اور ساری زندگی ثقلین آفندی کو ہی اپنا بھائی سمجھا تھا پھر جب اُنکے شوہر کی وفات ہوئی تو بھی ثقلین آفندی نے ایک بھائی کی طرح انکا ساتھ دیا اور اپنے بیٹے شائز کے لئے امروش کا ہاتھ مانگ لیا۔انفال بیگم بھی بہت سُلجھی ہوئیں اور نیک دل تھیں جب شائز نے ہاں کی تو وہ بھی خُوشی سے اُسے قبول کر گئیں۔نکاح کے ایک سال بعد جب ثانیہ بیگم کا انتقال ہوا تو انفال بیگم اور ثقلین آفندی نے امروش کے ددھیال پر اعتبار نہ کرتے ہوئے شائز کے بغیر ہی رُخصت کروا کر روشن پیلس لے آئے تھے۔ارمائز جو تب ہی امریکہ سے اپنا ایم بی اے کمپلیٹ کر کے آیا تھا اُسے بھی خُود سے چار سال چھوٹی بھابھی بہت پسند آئی تھی اس لئے اس سے دوستی کر کے اسے بہلا لیا تھا اور پھر شائز بھی کبھی کبھی کال کرتا تھا دُوسرا اُسے اس روشن پیلس میں ایک بیٹی کا درجہ ملا تھا۔

"_____________________________"

"بھابھی میں تو بہت خُوش ہوں کہ نیکسٹ سنڈے میری منگنی پر لگتا آپ کے دیور کو کوئی خاص خُوشی نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"آج شاپنگ کرنے جانا تھا اس لئے امروش نے طائشہ کو صُبح سے ہی بلوا لیا تھا اور وہ تب سے ہی ارمائز کی ناک میں دم کر رہی تھی۔

"میرا دیور بھی بہت خُوش پر وہ تُمہاری طرح تھوڑی کہ یوں سب کے سامنے ہی خُوش ہوتا پھرے کوئی شرم و حیا بھی کوئی چیز دیورانی جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش نے جھٹ سے ارمائز کی طرف داری کی تو وہ منہ بسور کر اُسے دیکھنے لگی جو لا تعلق سا بیٹھا موبائل پر مصروف تھا۔

"دیکھیں تو زرا کیسے اگنور کر رہا مُجھے،ایک دفعہ منگنی ہو لینے دے پھر سیدھا کرونگی اسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکی لاتعلقی پر کُڑھنے لگی۔

"خبردار اگر میرے دیور پر کوئی ظلم کرنے کی کوشش کی ورنہ میں بہت بُری جھٹانی کا رول پلے کرونگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"دیکھ لیں بھابھی اس لڑکی کی زبان اور اسکے نیک ارادے،ابھی بھی وقت ہے روک لے اس ظلم سےکُچھ تو ترس کھائیں مُجھ معصوم پر اتنی تیز لڑکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز نے دل جلانے والی مُسکراہٹ لبوں پر لا کر کہا تو امروش ہنس دی جبکہ طائشہ حسب معمول تپ گئی تھی۔

"تُم اور معصوم ،شُکر کرو میں مان گئی ورنہ اور کوئی بھی خوبصورت لڑکی آپکو لفٹ نہ کرواتی مسٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تُمہیں کس نے کہا کہ تم شادی کے لئے ہاں نہ کرتی تو میں کنوارہ رہ جاتا،ایسا کرو آزما کے دیکھ لو،کرو انکار تاکہ میں تُمہیں بتا سکوں کہ محترمہ آپ جیسی ہزاروں مل سکتی بس بھابھی جیسی کوئی نہیں مل سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ آخر میں امروش کو دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولا تو امروش اُسکا مذاق سمجھتی اُس کے کندھے پر ہلکا سا تھپڑ مار گئی۔جبکہ طائشہ کا منہ جلنے لگا تھا ارمائز کا یہ مذاق اُس کے دل پر لگا تھا اور ایک شک کا ناگ اُس کے سینے میں پھڑپھڑانے لگا تھا۔

"طائشہ تم جانتی ہو یہ بہت بدتمیز ہے،اچھا اب گاڑی نکالو تم ،میں مُمانی کو لے کر آتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش کہتے ہوئے چلی گئی تو ارمائز اُسکی طرف دیکھنے لگا جو یکدم سیریس ہو گئی تھی۔

"تم کہاں کھو گئیں،ڈونٹ وری تم ہی گلے میں پڑنے والی ہو،بھابھی جیسی تو خُوش قسمت لوگوں کو ملتی ہیں اور وہ شائز بھائی ہیں،ہمارے نصیب ایسے کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ شرارت سے مُسکراہٹ دباتا باہر کی جانب چل دیا۔طائشہ جل کر رہ گئی اور اسکی جلتی نگاہیں امروش پر ٹک گیئں جو کہ مُسکراتی ہوئی انفال بیگم کے ساتھ آ رہی تھی۔

"_________________________"

منگنی کی تقریب بڑے پیمانے پر روشن پیلس کے دو کنال پر مُشتمل لان میں کی گئی تھی جہاں بہت سارے لوگوں کو انوائٹ کیا گیا تھا۔آزمائر نیوی بیلو پینٹ کوٹ میں اپنی مردانہ وجاہت لئے غضب ڈھا رہا تھا تو طائشہ بھی روایتی سکائے کلر کی میکسی میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔دونوں کے مُسکراتے چہرے بتا رہے تھے کہ دونوں خُوش تھے۔

"ایکسیوزمی مس بیوٹی فُل آپ نے یہاں میری بھابھی کو دیکھا ہے جو ہمیشہ رف سے حُلیے میں رہتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ڈنر شُروع ہوا تو امروش ان دونوں کے پاس اسٹیج پر آ گئی۔ازمائر جس نے پہلی دفعہ اُسے ہیوی بیلو ڈریس اور میک اپ میں دیکھا تھا شرارت سے بولا تو امروش مُسکرادی جبکہ طائشہ کا مُنہ جو تھوڑی دیر پہلے خوشی سے چمک رہا تھا اب یکدم سنجیدہ ہو گیا۔

"بہت تیز ہو تم،میری دیورانی کو تو دیکھو لگ ہی نہیں رہا کہ یہ لڑاکی سی طائشہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیسے دیکھوں اُسے،آپ سے نظر ہٹے گی تو اُسے دیکھوں گا نہ،آپ تو قیامت لگ رہی ہیں ،ڈاکٹر صاحب کو اپنی سیلفی اُتار کر سینڈ تو کریں سچی پہلی فلائٹ سے آ کر رُخصتی کا شور نہ مچایا تو نام بدل دیجیے گا اس بہانے میرا بھی بھلا ہو جائے گا ورنہ پہلے ہی کہہ دیا گیا ہے کہ آپ لوگوں کے ساتھ ہی میری شادی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مُسکراتے ہوئے بولا تو امروش کے لبوں پر شرمیلی سی مُسکان سج گئی اور اسے گھورتے ہوئے اُٹھنے لگی کہ ارمائز نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر روکا تھا۔

"ایک سیلفی تو بنتی ہے نہ۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز نے کہتے ہوئے اپنا آئی فون نکالا تھا۔جبکہ یہ سب دیکھتی طائشہ صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گئی تھی اور اسے امروش زہر لگ رہی تھی جو ارمائز کے ساتھ تصویر بنواتے پتہ نہیں اُسکی کن باتوں پر سُرخ ہو رہی تھی۔

"مل گئی فرصت۔۔۔۔۔۔"امروش کے جانے کے بعد وہ اسکے قریب ہوا تو طائشہ نے طنزً کہا۔

"ارے تُمہارے لئے تو فُرصت ہی فرصت ہے،یہ دیکھو بھائی کو بھابھی کی تصویریں بھیجی ہیں دیوانہ ہو جائیں گئے اور جلد واپسی کو دوریں گئے اس سے ہمارا کام بھی آسان ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کونسا کام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جو بھابھی کے نام پر ہی اٹکی تھی اُسکی بات پر نہ سمجھی سے دیکھنے لگی تو ُمسکرایا۔

"یہی بھابھی کو دُلہن کے روپ میں دیکھنے کا اور اُن کے ساتھ اُنکی دیورانی کو بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"طائشہ نے اُسکی بات پر غور کئے بغیر اُسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تھا جہاں امروش فون پر لگی تھی اور ازمائر کے ہونٹوں پر شرارتی مُسکان تھی جو اس نے شائز کو امروش کا نام لے کر مِسنگ والا میسج دیا تھا جبکہ طائشہ اس مُسکراہٹ کو اپنے مطلب پر لیتی نفرت بھری نگاہوں سے مسکراتی امروش کو دیکھنے لگی۔

"بھرجائی ہو تو آپ جیسی ظالم،جو خود بھی دو سالوں سے انتظار کی سولی پر لٹک رہی تھی ساتھ دیور کو بھی لٹکا لیا خالی منگنی کروا کے،خود تو نکاح کروا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

امروش کچن میں کھڑی کباب تل رہی تھی جبکہ ارمائز اُس کے کان کھا رہا تھا۔

"بھابھی نے کہا تھا کیا منگنی کروانے کو،میری طرف سے شادی کروا لیتے ،پر تُم تو منگنی نہ کروانے ہر تُلے ہوئے تھے بھول گئے کیا تمُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں وہ تو آپ کے لئے قُربانی دی میں کہ یہ نہ کہیں کہ میں بڑی ہوں اور میری رُخصتی سے پہلے میری دیورانی کی رُخصتی ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ہار ماننے والوں میں سے کہا تھا۔امروش مُسکرادی 

"بہت مہربانی آپ نے میرا احساس کیا ورنہ میں تو آپ دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر آہیں بھرتی مُجھے تو جلن ہونی تھی شُکر ہے تُم نے میرا سوچ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش نے بھی شرارت سے کہا جبکہ کچن میں آتی طائشہ وہی جامد ہوگئ تھی۔

"ارے طاشی آؤ نہ۔۔۔۔۔۔۔"امروش ارمائز کو کباب دینے کے لئے پلٹی تو اسے دیکھ کر خوشگواری سے بولی۔ارمائز نے بھی چہرہ موڑ کر دیکھا جو جینز شرٹ میں ملبوس ہینڈ بیگ لئے کھڑی تھی۔

"اپ دونوں بزی لگ رہے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ چاہ کر بھی اپنے لہجے کی ناگواری چُھپا نہ سکی۔

"نہیں تو،ارمائز کو بُھوک لگ رہی تھی زبردستی مجھے کمرے سے کے کر آیا کہ کباب بنا کر دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش نے کباب تلتے ہوئے کہا تو طائشہ کی سوئی زبردستی پر اٹک گئی۔

"اُف بھابھی اتنے ترلے کروائے آپ نے،اگر اتنی منتیں میں نے ماما کی کیں ہوتیں تو اس وقت میں طاشی سے یہ سب کروا رہا ہوتا پورے حق سے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ معنی خیزی سے طائشہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا تو امروش ہنس دی۔طائشہ اگنور کرتے ہوئے کہا ۔

"میرا کباب کھانے اور کھلانے کا کوئی موڈ نہیں چلو مُجھے کسی ریسٹورینٹ لے کر چلو،منگنی کے بعد پہلی دفعہ مل رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"پر میں تو کباب کھا کر پیٹ پھر چُکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تو کوئی نہیں تُم مجھے دیکھنا میں کھا لونگی اب یہاں کچن میں بھی تو تم دیکھنے کا کام کر رہے ہو نہ بنا تو بھابھی رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ طنز کرتے ہوئے امروش کی طرف دیکھنے لگی جو بنا بات سمجھے مُسکرادی تھی۔

"پر آج نہیں کل سہی،ماما پاپا قیوم انکل کے پوتے کے عقیقے پر گئے،کافی دیر سے آئیں گئے اور بھابھی اکیلی ہیں گھر پر،یا پھر بھابھی بھی چلیں ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کے بات پر طائشہ خُون کے گھونٹ بھر کر رہ گئی۔

"نہیں مُجھے کباب میں ہڈی بننے کا کوئی شوق نہیں آپ دونوں جاؤ،میں نماز پڑھ کر سونے لگی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے،طاشی جاؤ بھابھی کے روم سے میرا موبائل لاؤ میں تب تک گاڑی نکالتا ہوں،منگیتر صاحبہ کی پہلی فرمائش تو پوری کریں ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز مسکراتا ہوا چلا گیا۔

"آپ کے رُوم میں موبائل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں وہ میرے بیڈ پر ہی سو گیا تھا تو موبائل بھی وہی رکھ دیا،تُمہارے آنے سے کُچھ منٹ پہلے اُٹھا ہے پھر بھوک کا شور مچاتے ہوئے مُجھے کچن میں لے آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش مُسکراتے ہوئے بول رہی تھی اس کے تاثرات جانے بغیر جس کا چہرہ نہ صرف سپاٹ تھا بلکہ وہ کڑھ کر رہ گئی تھی۔

"_________________________"

"تم بھابھی کے ساتھ بہت فرینک ہوتے جا رہے ہو ورنہ تم تو لڑکیوں سے ہمیشہ الرجک رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔"طائشہ نے پیزا کی بائٹ لیتے ہوئے کہا تو ارمائز نے غور سے دیکھا جس کے چہرے کے تاثرات اسے طنزیہ لگے.

"بھابھی میرے اکلوتے بھائی کی بیوی ہے کوئی غیر نہیں،اور دوسرا تم جانتی ہو کہ جب انکی ماما کی ڈیتھ ہوئی تو وہ بہت اپ سیٹ اور ڈپرشین میں رہنے لگی تھیں اور بھائی بھی مصروفیت کی وجہ سے انکو ٹائم نہیں دے پاتے تھے تو مُجھے انکے ساتھ کلوز ہونا پڑا اور دوسرا بھابھی اتنی اچھی ہیں اب تو وہ میری فرینڈ بن گئی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کے لہجے میں اسکے لیے پیار صاف محسوس کیا جا سکتا تھا۔

"سال ہو گیا بھابھی کو روشن پیلس آئے میرے خیال میں اُن کو رُخصت کروا کر یہاں لانے سے بہتر تھا کہ امریکہ بھیج دیتے تاکہ شائز بھائی کی انڈر سٹینڈینگ بھی ہو جاتی اور وہ بھی خُوش رہتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ماما پاپا نے پہلے یہی سوچا تھا پر تُمہیں تو پتہ شائز بھائی اپنے پروفیشن کے معاملے میں کتنے سخت ہیں،وہ نکاح پر بھی اس لئے راضی ہوئے تھے کہ تین سال تک اُنکو ڈسڑب نہ کیا جائے تو جب اُن سے کہا گیا تو صاف جواب آیا تھا،کوئی نہیں اب تو بس نو ماہ رہ گئے اُن کے آنے میں تب تک ہمیں بھی سُولی پر لٹکا دیا ظالموں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز ٹھنڈی آہ بھر کر بولا تو طائشہ ہنس دی۔

"تُم رومانٹک ہونے کی کوشش کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔"

"اتنے فیٹ کی دُوری پر بیٹھا ہوں محترمہ رومانٹک کہاں سے ہونگا بھلا،ویسے بھی گھر والوں نے ایسا کوئی حق نہیں قائم کرنے دیا،شائز بھائی تو خُوش نصیب ہیں جن کو بیٹھے بٹھائے اتنی خُوبصورت بیوی مل گئی پر اُنکو قدر نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کی بات پر وہ جو مُسکرا رہی تھی امروش کے زکر پر ناگواری سے بولی۔

"تُمہیں ہی وہ خُوبصورت لگتی ہیں کُچھ زیادہ ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تُم نے کبھی غور سے دیکھا نہیں اُنکو۔۔۔۔۔۔"

"تو تُم بڑے غور سے دیکھتے ہو اُن کو اتنا تو شائز بھائی بھی غور نہیں کرتے ہونگے جن کی بیوی ہیں وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ چبا چبا کر بولتی اُسے چونکا گئی۔ارمائز نے غور سے اُس کے چہرے کے تاثرات دیکھے اور پھر جیسے سمجھ کر مُسکرایا۔

"کہیں تم ابھی سے ہی اُن بیویوں کا رول پلے نہیں کرنا سٹارٹ ہو گئی جو اپنے شوہروں کے منہ سے کسی دوسری عورت کی تعریف سُن کے جل مر جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مُجھے کوئی ضرورت نہیں اُن سے جلنے کی کیونکہ مُجھے پتہ ہے میں ان سے کیا کسی سے بھی کم نہیں،آخر ارمائز آفندی کی منگیتر کے عہدے پر فائز ہوں کوئی عام سی تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے لہجے میں اپنے حُسن کا غرور تھا اور آخری بات پر ارمائز زیر لب مُسکرا دیا۔

"تو اس سب میں ارمائز آفندی کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اُس نے تُمہیں یوں خود پہ ناز کرنے کا موقع دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میرے علاوہ کیا کوئی اور اس قابل تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکی آنکھوں میں دیکھتی دلکشی سے مُسکرائی۔جبکہ ارمائز مُسکراتے ہوئے اُسکی  توجہ کھانے کی طرف مبذول کروا گیا۔

"جلدی کرو یار بہت ٹائم ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اتنا بھی نہیں ہوا ابھی بس دو گھنٹے ہوئے ہمیں آئے،اب بتاؤ شاپنگ کب کروا رہے ہو مُجھے۔۔۔۔۔۔۔۔"طائشہ کوک کا سپ لیتی اپنے پسندیدہ ٹاپک کی طرف آئی تھی۔

"لے چلونگا یار کسی دن،ابھی تو کل اسلام آباد جانا ہے میٹینگ ہے وہاں پھر آ کر کوئی پلان بنائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے مائے لاٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ شرارت سے بولی تو ارمائز بھی مُسکرا دیا ۔

"__________________________"

وہ اسلام آباد گیا تو ایک دن کے لئے تھا مگر ثقلین آفندی جو وہاں بھی فیکٹری کی برانچ اوپن کر رہے تھے اس لئے پورے پانچ دن بعد اُسکی واپسی ہوئی تھی۔اور گھر آتے ہی وہ کمرے میں آ کر سو گیا تھا۔

"ارمائز اُٹھ جاؤ،ڈنر کر لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش اُس کے کمرے میں آئی تو اسے بیڈ پر اوندھے مُنہ لیٹے دیکھ کر ُمسکراتی ہوئی اُس کے قریب آئی۔مگر وہ بے سدھ ہو کر سویا ہوا تھا اس کے بُلانے پر ٹس سے مس نہ ہوا۔امروش نے مُسکراتی آنکھوں سے دیکھا۔اور اُسے وہ دن یاد آ گیا جب ایک سال پہلے وہ اور طائشہ اکھٹے لندن سے تعلیم مُکمل کر کے آئے تھے اور تب ہی امروش کی دونوں سے پہلی دفعہ ملاقات ہوئی تھی پر دونوں نے اجنبیت کی دیواریں ایک پل میں گرا دی تھیں۔امروش جو کبھی کسی لڑکے سے فری نہیں ہوئی تھی ارمائز سے شروع شروع میں بہت جھجک کر رہتی تھی مگر ارمائز جو نہ صرف عزت کرتا تھا بلکہ بہت احترام سے مخاطب ہوتا تھا اور آہستہ آہستہ امروش بھی اُسکی نیچر کو سمجھ کر کافی حد تک اُس کے ساتھ فری ہو گئی تھی۔امروش نے ماضی کی سوچوں سے نکل کر ارمائز کو دیکھا جو بلیک ٹرازور اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھا۔سُنہری بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے وہ چھبیس سالہ ایک جازب دلکش نقوش کا مالک مرد تھا۔اُس کی مردانہ وجاہت اور شخصیت کی سحر انگیزی کسی کو بھی پاگل کر سکتی تھی۔یہ تو سب مانتے تھے وہ شائز کیا پورے خاندان میں سے زیادہ خوبصورت اور غضب کی پرسنالٹی کا مالک تھا۔

"ارمائز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش نے اُسکا کندھا ہلایا تھا تو وہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگا جو اس کے اُٹھ جانے پر شُکر ادا کر رہی تھی۔

"اب جلدی سے فریش ہو کر آ جاؤ،کھانا لگانے لگی ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہہ کر جانے لگی کہ ارمائز نے بے ساختہ ہاتھ پکڑ کر روکا تھا۔

"کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکی کچی نیند سے اُٹھی سُرخ آنکھوں کو دیکھ کر حیرانگی سے بولی تو ارمائز جیسے ہوش کی دُنیا میں آیا اور ہاتھ چھوڑتا نفی میں سر ہلا کر اُٹھا تھا۔

"آپ جائیں میں فریش ہو کر آتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔"وہ بنا دیکھے بولا۔امروش اس کے رویعے کو حیرانگی سے دیکھتی باہر کی جانب چل دی۔ارمائز نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا اور گہرا سانس لیتا واش روم کی طرف بڑھا۔

"______________________________"

"کیا کر رہی ہو تُم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شائز کے پوچھنے پر چائے کا مگ کیمرے کے سامنے کیا۔

"ارمائز کی طرح تُمہیں بھی چائے کی لت لگ گئی،جب دیکھو چائے پی جا رہی ہوتی ہو۔۔۔۔۔۔۔"شائز کے کہنے پر وہ مُسکرادی کیونکہ یہ تو سچ تھا وہ چائے کی اتنی شوقین نہیں تھی جتنی ارمائز کے لئے چائے بنا بنا کر ہو گئی تھی اور شائز کو اُتنی ہی چڑھ تھی۔

"ماما لوگ کہاں ہیں ،نظر نہیں آ رہے۔۔۔۔۔۔"وہ لیپ ٹاپ لئے لاؤنج میں ہی صوفے پر بیٹھی تھی تب ہی شائز کی کال آ گئی تھی سکائپ پر تو اس نے وہاں ہی پک کر لئی کیونکہ کبھی بھی شائز نے اس کے ساتھ کوئی میاں بیوی جیسی کوئی بات نہیں کی تھی جو اسے کسی پرائیوسی کی ضرورت ہوتی۔وہ ایک ہفتے بعد ہی کال کرتا تھا تو وہ بھی امروش سب کے ساتھ بیٹھ کر ہی سُن لیتی تھی۔

"ممانی جان تو نماز پڑھ رہی مغرب کی،ماموں اور ارمائز ابھی آفس سے نہیں آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ تفصیل سے بتا گئی تو شائز نے سر ہلایا پھر جیسے کُچھ سوچ کے بولا۔

"مُجھے تُم سے بہت ضروری بات کرنی ہے،بہت دنوں سے سوچ رہا ہوں پر کہنے کی ہمت نہیں پڑ رہی،تُم سمجھ دار ہو آئی ہوپ میری بات کو سمجھو گئی اور مُجھے معاف بھی کر دو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شائز کی لمبی چوڑی تمہید پر امروش نے کُچھ حیرانگی سے دیکھا تھا کہ ایسی بھی کیا بات جو شائز کرنے میں ہچکچا رہا تھا۔

"جی آپ بولیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ نرمی سے بولی۔شائز نے ایک گہرا سانس لے کر جیسے خُود کو تیار کیا تھا۔

"وہ یہ کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"شائز آپ یہاں ہیں،میں کب سے بُلا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔"شائز کُچھ کہتا کہ شائز کے پیچھے سے ایک نسوانی آواز نہ صرف سُنائی دی بلکہ یییلو کوٹ میں ملبوس کسی عورت کا بازو بھی دکھائی دیا اور اس سے پہلے کہ وہ غور کرتی کال کٹ کر دی گئی تھی۔امروش نے اُلجھن سے خالی سکرین کو گھورا تھا۔

"کون تھی،شاید ہسپتال میں کوئی کو لیگ پر وہ تو کہہ رہے تھے میں گھر پر ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ان سوچوں میں ڈوبی ارمائز اور ثقلین آفندی کی آمد پر بھی دھیان نہ دے پائی۔

"میری بیٹی کن سوچوں میں ڈوبی ہے کہ اُسے ہمارے آنے کی بھی خبر نہیں ہو سکی۔۔۔۔۔۔۔"ثقلین آفندی نے پیار سے اُس کے سر ہاتھ رکھ کر اپنی طرف متوجہ کیا تو وہ چونکتی شرمندہ سی ہو گئی۔ارمائز ہنس دیا۔

"کُچھ نہیں ،آپ بیٹھے میں پانی لاتی ہوں۔۔۔۔۔"

"پیاس نہیں ہے بُھوک لگی ہے،ڈنر لگوائیں نفیسہ بُوا سے ہم فریش ہو لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ثقلین آفندی کہتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھے تو وہ اُٹھ کر کچن میں جانے لگی کہ ارمائز کی طرف دیکھا جو بڑے غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔امروش نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"وہ بات بتائیں جس کو آپ سوچ رہی تھیں بلکہ پریشان بھی ہو رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"شائز سے بات ہو رہی تھی میں نے اُن کے پیچھے ایک لڑکی کو دیکھا جو نہ صرف فری ہو کر بول رہی تھی بلکہ اُسکا ہاتھ بھی شائز کے کندھے پر تھا اور شائز نے جلدی سے کال بند کر دی،وہ ہے بھی گھر میں تھے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش نے جتنی سنجیدہ ہو کر بتایا تھا ارمائز بے اُتنا ہی سنجیدہ ہو کر سُنا تھا اور پھر جیسے ہنسی کا فوارا چُھوٹ پڑا تھا۔امروش نے گھورتے ہوئے اُسے دیکھا۔

"ارمائز دفعہ ہو جاؤ تُم۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کہ وہ اُسکی مسلسل ہنسی سے رو ہانسی ہوئی۔

"صوری بٹ آپ نے اتنی اچھی طرح بتایا کہ بس مجھ سے رہا نہیں گیا،ہوں تو آپ کے شوہر کسی دوسری عورت کے ساتھ پائے گئے وہ بھی اپنے گھر میں اور جب آپ نے دیکھا تو جلدی سے کال بند کر دی گئی تا کہ آپ دیکھ نہ سکیں کہ وہ امریکہ میں کیا کر رہے ہیں ،اُسکا مطلب وہ آپ کو دھوکہ دے رہے یہاں آپ وہاں آپکی سوکن کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ارمائز تُم ،تُم بہت بُرے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کسی سی آئی ڈی کی طرح پُورا نقشہ کھینچتا یقیناً اُسے زچ کر رہا تھا اور وہ ہو بھی گئ تھی۔

"لو میں نے کیا کیا،میں نے تو کب کا خبر دار کیا تھا کہ آپکے شوہر اتنے بھی معصوم نہیں جتنے آپکو اور ماما پاپا کو لگتے،پر نہ جی ہماری باتوں پر تو کوئی یقین ہی نہیں کرتا تھا آخر کو کوئی کرتا بھی کیوں ہم کونسا کسی کے لئے قابل اعتبار تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا واقع وہ سب سچ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش اُسکی باتوں میں آ چُکی تھی۔ارمائز نے ُمسکراہٹ بمشکل روکی اور سر اثبات میں ہلایا تو وہ سچ مُچ پریشان ہوتی وہی صوفے پر بیٹھ گئ۔

"اب کیا کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سوچنے لگا۔

"میرا ایک دوست ایک کامل پیر کو جانتا ہے وہ اپنے عمل سے دو دنوں میں آپکے شوہر کو اُن مغربی عورتوں سے بچا کر آپ کے قدموں میں حاضر کر دے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کی بات پر امروش نے کُچھ سوچتی نگاہوں سے اُسکی طرف دیکھا مگر اُس کی آنکھوں میں چھلکتی شرارت اور لبوں پر تھرکتی شریر مُسکراہٹ کو سمجھتی اپنے بیوقوف بن جانے پر اُسے کشن مارنے لگی جو قہقہ لگا کر ہنس رہا تھا اور ہر ُکشن کو کیچ کرتا مُسکرائی جا رہاتھا۔

"تُم انتہائی فضول آدمی ہو ارمائز آفندی،مجھے پاگل بنا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ کیا ہو رہا ہے،کب بڑے ہو گئے تم ارمائز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"تبھی انفال بیگم اور ثقلین آفندی رُوم سے نکلے تو ہر طرف کُشن بکھرے دیکھ کر ارمائز سے کہنے لگیں کیونکہ وہ اتنا تو جانتی تھیں کہ قصور ارمائز کا ہی ہوگا جو امروش کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔

"ماما آ پکی بہو بہت خونخوار ہے دیکھیں کیسے آپکے بیٹے کو مار رہیں یہ بھی نہیں سوچا کہ اکلوتا سا معصوم سا دیور ہوں اتنے اچھے مشورے دے رہا ہوں فری میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی دہائی پر امروش نے اُس آنکھیں دکھائیں جبکہ ثقلین آفندی مُسکرا دئیے۔

"بیٹا جی ہم تو جیسے نا واقف ہیں آپ سے،ضرور کوئی شرارت ہی کی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی ماموں مجھے کہہ رہا تھا کہ میں آپکو کسی عامل کے پاس لے کر چلتا ہوں جس کے عمل سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"بس بس کیا کر رہی ہیں آپ ،ایسی باتیں سر عام تھوڑی کرتے ہیں،اُف بہت بھوک لگی ہی ماما کھانا لگوائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس سے پہلے کہ وہ مزید بھانڈا پھوڑتی وہ جلدی سے اُسے باز رکھنے کو بُھوک کا شور مچانے لگ گیا تھا جبکہ انفال بیگم اُسکی بات کا مطلب سمجھتے تاسف سے اسے دیکھنے لگیں۔

"کھی اپنے باپ کو تو کسی کامل کا نہیں بتایا تُم نے،یوں ڈر ڈر کر تو نہ رہنا پڑتا تُمہاری ماما سے،بنا کسی افئیر کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُن دونوں کے جانے کے بعد ثقلین آفندی نے ٹھنڈی آہ بھری۔ارمائز اُنکی بات پر قہقہ لگا کر ہنس پڑا۔

"ابھی لے چلتا ہوں،ابھی بھی آپ ایک آدھا افئیر تو چلا ہی سکتے ہیں،قسم سے ابھی بھی آپ میرے بڑے بھائی لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"چل شریر کہیں کا،انفال کو بتاتا ہوں کہ تُمہارا لاڈلہ کیسے ورغلا رہا مُجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مُسکراہٹ دباتے کچن سے آتیں انفال بیگم کی طرف دیکھ کر بولے تو ارمائز ڈرنے کی ایکٹینگ کرتا جلدی سے اُٹھ گیا تو وہ ہنس دئیے۔

"________________"

"صاحب یہ کورئیر آیا ہے چھوٹی بی بی کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز اپنے رُوم کی طرف جا رہا تھا کہ چوکیدار نے ایک لفافہ اُسکی جانب بڑھایا۔

"اوکے تُم جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز نے اس کے ہاتھ سے لیا اور اس انویلپ کو سوچتی نگاہوں سے دیکھا جس کے اُوپر امروش لکھا ہوا تھا اور سٹیمپ کو دیکھ کر جیسے وہ سمجھ گیا۔

"اوہ تو بھائی نے بھیجا ہے بھابھی کے لئیے ۔۔۔۔۔۔"وہ امروش کے کمرے میں آیا جہاں وہ اپنے کپڑے طے کر کے رہی تھی۔

"آؤ ارمائز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ آپ کے لئے امریکہ سے اقرار نامہ آیا ہے،لگتا ہے بھائی بہت شرمیلے اس معاملے میں ،فیس ٹو فیس اظہارِ محبت کر ہی نہیں پائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز اینولپ اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے شرارت سے بولا۔امروش نے کُچھ حیرانگی اور شرمیلی سی مُسکراہٹ لبوں پر سجا کر اُسے کھولا۔

"میرے خیال میں مجھے جانا چاہئیے کوئی خاص بات ہو گی جو ان کاغذوں کا سہارا لیا گیا اور آپکی حیرت دیکھ کر لگ رہا جیسے بھائی نے آپکو بھی لا علم رکھا کہ وہ کُچھ پوسٹ کر رہے ہیں،ہو سکتا کوئی سپرائز ہو،ارے کہیں آپکو وہاں بُلانے کا پلان تو نہیں ہو رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ خُود سے ہی اندازے لگا رہا تھا مگر جب اُسے اُنکو پڑھنے میں محو پایا تو مسکراتا ہوا جانے لگا مگر اگلے ہی لمحے اُسے امروش کو سنبھالنا پڑا جو کسی ٹوٹی ہوئی ڈالی کی طرح زمین پر آ رہی تھی۔

"بھابھی ،کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"طلاق۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے لبوں سے نکلنے والے یہ چار الفاظ ارمائز کو ساکت کر گئے تھے اُس نے جلدی سے زمین پر گرے اُن کاغذوں کو پکڑا اور کھول کر دیکھا۔بلاشُبہ وہ طلاق نامہ تھا اور اُس پر شائز کے سائن بھی موجود تھے۔اُس کے ساتھ ایک اور کاغذ تھا۔ارمائز نے اُسے کھولا تو اُس پر شائز کی لکھائی میں ایک تحریر درج تھی۔ارمائز کی نگاہیں اُن سطروں پر پھرنے لگیں۔

"مُجھے معاف کر دینا امروش،میں بہت دنوں سے تُم سے یہ کہنا چاہتا تھا مگر ہمت نہیں پا رہا تھا اس لئے مُجھے ان کاغذوں کا سہارا لینا پڑا،آج سے دو سال اور تین ماہ پہلے جب ماما نے تُمہارے بارے پوچھا تھا تو میں نے اس لئے ہاں کر دی کہ چلو کہیں تو شادی کرنی ہے تُم سے کیوں نہیں حالانکہ تب بھی مُجھے کُچھ باتوں پر اعتراض تھا جن میں امروش کی کم تعلیم اور اعتماد کی کمی سر فہرست تھیں پر میں چُپ ہو گیا،پر جب میں یہاں آیا اور ڈاکٹر ثمر فیروز سے ملا تو مُجھے اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا کیوں میں نے جلد بازی میں رشتہ قائم کر لیا اور رفتہ رفتہ ثمر میرے حواسوں پر اس قدر چھائی کہ مُجھے اُس سے محبت ہو گئی،چھ ماہ پہلے ہم نے شادی کر لی اور میں اب اور تُمہیں انتظار کی سولی پر نہیں رکھ سکتا تھا نہ دھوکا دے سکتا تھا اس لئے مُجھے تُمہیں آذاد کرنا ہی مناسب لگا تا کہ تُم بھی کسی اچھے انسان کا ہاتھ تھام سکو جو تُمہاری قدر کرے کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تُم جتنی خوبصورت ہو اُتنی سیرت و دل کی بھی اچھی ہو پر شاید میں تُمہارے قابل نہیں تھا کیونکہ مُجھے خوبصورتی سے زیادہ ہمیشہ سے ایسی لڑکی کی خواہش رہی ہے جو تعلیم کے میدان میں بھی اچھی ہو اور پروفیشنل ہو،مُجے پتہ ہے میرے اس فیصلے سے ماما پاپا کو بھی بہت تکلیف ہو گئی اور ارمائز تو شاید مُجھے کبھی معاف نہ کرے آخر کو تم اُسکی فیورٹ بھابھی تھی جس کی آنکھوں میں وہ آنسو نہیں دیکھ سکتا چاہے اُسے جھوٹ بول کر میرے حوالے سے تُمہیں وہ تعریفیں بھی بتانی پڑے جو میں نے کی ہی نہ ہوں،خیر پتہ نہیں اب کتنی دیر مجھے اپنوں سے دُور یونہی رہنا پڑے آخر کو اپنے کئیے کی سزا بھی تو بھگتنی ہے ،ہو سکے تو معاف کر دینا۔۔۔۔۔۔۔"شائز آفندی

"نہیں بھائی آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ،کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بے یقینی کی کیفیت میں ڈوبا بار بار طلاق نامے کو دیکھ رہا تھا اُس کا زہن اس تلخ سچائی کو ماننے سے انکاری تھا۔یکدم اُسکا دھیان بیہوش امروش کی طرف گیا۔جلدی سے اُسے اُٹھا کر بیڈ پر لٹایا جو یقیناً اتنے بڑے صدمے کو برداشت نہیں کر پائی تھی۔

"بھابھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے گال تھپتھپا کر ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا مگر بے سُود۔وہ جلدی سے انفال بیگم کے کمرے کی طرف بھاگا۔

اور پھر جب انفال بیگم اور ثقلین آفندی کو خبر ہوئی تو اُن کی حالت بھی ان سے مُختلف نہ تھی کتنے ہی پل وہ ششدر رہ گئے تھے۔انفال بیگم تو ابھی تک صدمے کی حالت میں بیٹھیں تھیں اور ثقلین آفندی کا غُصے سے بُرا حال تھا۔

"کیسے سامنا کروں اُس معصوم بچی کا جسکی ماں سے مرتے ہوئے میں نے وعدہ کیا تھا کہ میں اسے بیٹی بنا کر رکھونگا اور کبھی بھی اسے میرے گھر میں تکلیف نہیں ہو گی پر آپ کے بیٹے نے اُسے جیتے جی مار دیا انفال ،یہ کیا طریقہ تھا کسی کو یوں اپنی زندگی سے نکال کر پھینکنے کا صرف اس لیے کہ اُس کے سر پر اُس کے ماں باپ نہیں جو کسی سوال کا جواب لے سکیں،پر میں اُسے بیٹی بنا کر اس گھر میں لایا تھا اور اب میں ایک بیٹی کا باپ بن کر ہی اُسے دکھاؤں گا،اب اس گھر میں شائز کی کوئی جگہ نہیں اور جس نے اُس کے ساتھ واسطہ رکھا پھر وہ بھی اس گھر سے جانے کے لئے تیار ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ثقلین آفندی سخت اور دو ٹوک لہجے میں کہتے چلے گئے۔انفال بیگم سر تھام کر رونے لگیں کیونکہ وہ جانتی تھیں ثقلین آفندی جتنے اچھے اور پیار کرنے والے باپ تھے اُتنے ہی اپنی زبان کے پکے اور اصولوں کے سخت تھے۔

"ماما ریلکیس،پاپا غُصے میں ہیں آہستہ آہستہ اُنکا غُصہ بھی نارمل ہو جائے گا آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز اُن کے ساتھ بیٹھ کر اُنکو تسلی دینے لگا حالانکہ وہ خُود کل کا بہت اپ سیٹ تھا اور بار بار شائز کے ہر نمبر پر رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر ہو نہیں پا رہا تھا۔

"مُجھے رونا تُمہارے پاپا کے رویعے پر نہیں آ رہا بلکہ مُجھے شائز کی اتنی سنگدلی اور کھٹور پن پر آ رہا کہ میرا بیٹا ہو کر وہ اتنا ظالم کیسے بن سکتا،مُجھ سے تو امروش کا سامنا نہیں ہو پا رہا وہ روتی ہے تو میرے پاس اُسے چُپ کروانے کو کوئی دلاسہ کوئی تسلی نہیں ہے،کیسے اُسے کہوں کہ کھانا کھا لو فکر نہ کرو میرے پاس تو کوئی الفاظ نہیں اُس کے دُکھ کا مداوا کرنے کو،شائز نے بہت بُرا کیا بُہت زیادہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ آبدیدہ لہجے میں بولیں۔ارمائز نے لب بھینچ کر اُن کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور پھر لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر کی جانب چل دیا۔

"________________________"

"امروش بیٹا کُچھ تو کھا لو،دو دن سے تُم مُنہ لپیٹ کر کمرے میں بند ہو،میرا دل کڑھتا ہے تُمہیں ایسے دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز اُس کے کمرے میں داخل ہوا تو انفال بیگم کو امروش کے ساتھ مصروف پایا جو کھانے کی ٹرے کو پرے کرتی آہستہ سے بولی۔

"مُجھے سچ میں بُھوک نہیں مُمانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"پر بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ارے ماما آپ ٹرے مُجھے دیں،مُجھے بھی بہت زوروں کی بُھوک لگی،آج میں یہی کھانا کھاؤں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز انفال بیگم کو اشارہ کرتا بولا۔انفال بیگم اُٹھ گئیں تو وہ اُنکی جگہ پر بیٹھ گیا۔ٹرے درمیان میں رکھ کر اُس کی طرف دیکھا جو پاؤں سمٹ کر بیٹھ گئی تھی۔اُسکی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور مسلسل رونے اور جاگنے سے آنکھیں سُرخ ہو چُکی تھیں۔دو دن کے پُرانے کپڑے اور بکھرے بال جن کو جوڑے میں جکڑا ہوا تھا ارمائز کو وہ وہی امروش لگی جو آج سے ایک سال پہلے اُسکی ماما کی وفات پر اسے دکھائی دی تھی جسے بڑی مُشکل سے وہ زندگی کی طرف لے کر آیا تھا۔

"تُم دونوں کھانا کھاؤ،میں نفیسہ بُوا کے ہاتھ چائے بھیجتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دونوں کو کہتیں چلی گئیں۔

"چاول کھائیں گئیں آپ کہ روٹی۔۔۔۔۔۔؟ارمائز نے پلیٹ میں چاول ڈالتے ہوئے پوچھا۔

"مُجھے بُھوک نہیں ارمائز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ نم نم لہجے میں بولی۔

"بُھوک نہیں بھی تو میرا ساتھ دینے کے لئے کھا لیں پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز نے پلیٹ اُس کے ہاتھ میں تھمائی۔امروش نے بے بسی سے دیکھا اور چند زہر مار لُقمے اپنے حلق سے اُتارنے لگی۔ارمائز جو کھانا کھا چُکا تھا پھر بھی اس کے لئے کھانے لگا۔

"میرے خیال دو دن ہو گئے آپ کمرے سے باہر نہیں نکلیں اور میں نفیسہ بُوا کے ہاتھ کی بد مزہ چائے پی پی کر تنگ آ چُکا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کے مُنہ لٹکا کر کہنے پر اُس کے لبوں پر مُسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔

"اب وہ اتنی بھی بُری چائے نہیں بناتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"بھابھی آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بے اختیاری میں بولا اور پھر لب بھینچ کر اُس کی طرف دیکھا جس کی آنکھیں پھر سے پانیوں سے بھرنے لگی تھیں۔

"میں تُمہاری بھابھی نہیں ہوں،اب ثمر تُمہاری بھابھی ہے جتنی جلدی ہو سکے عادت ڈال لو۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بیڈ سے اُٹھ کر الماری کی طرف بڑھی مقصد اس سے آنسوؤں کو چھپانا تھا جو پھر بھی ارمائز کی آنکھوں سے مُخففی نہ رہ سکے وہ لب کاٹ کر رہ گیا۔

"بہت غلط کیا بھائی آپ نے بہت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

وہ دل ہی دل میں بولتا اُٹھا۔

"مُجھے بھی اتنی خوبصورت لڑکی کو بھابھی بنانے کا کوئی شوق نہیں تھا،آپ تو میری بہت اچھی دوست ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا اب بھی تُمہیں لگتا میں خُوبصورت ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکی طرف پلٹ کر پوچھ بیٹھی۔اُسکی آنکھوں میں ایسی کاٹ تھی کہ ارمائز نظریں چُرا گیا۔امروش کے لبوں پر ایک نامعلوم سی مُسکراہٹ بکھری۔اور پلٹ کر جانے لگی کہ ارمائز نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر روکا تھا اور تبھی دروازہ کُھلا تھا اور طائشہ اندر داخل ہوئی تھی اور اندر کے منظر نے اُسے ساکت کر دیا تھا۔سین یہ تھا کہ دونوں قریب کھڑے تھے اور ارمائز نے اُسکا ہاتھ پکڑا تھا۔

"آؤ طاشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش نے اُس سے اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوئے لبوں پر مُسکراہٹ لا  کر کہا مگر وہ طنزً مُسکرائی۔

"میں تو افسوس کرنے آئی تھی مگر یہاں تو افسوس کرنے کا کوئی سین ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا بکواس ہے یہ طاشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کو اُسکا لہجہ ناگوار گُزرا تھا۔

"کول ڈاؤن ارمائز،آئی نو میں نے ڈسٹب کر دیا آپ دونوں کو،تُم تو دل بہلا رہے تھے انکا ہے نہ انکے غم کو ہلکا کرنے کی کوشش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"لگتا تُمہارا دماغ ٹھیک نہیں ہے،جاؤ جب ہوش میں آ جاؤ تب آنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز نے سختی سے کہا۔طائشہ نے ایک چُبھتی ہوئی نظر گُم صُم امروش پر ڈالی اور چلی گئی۔

"آپ پریشان نہ ہوں ،اُس نے مُجھے شاپنگ پر جانے کہا تھا اور میں نے منع کر دیا کہ میری طبیعیت ٹھیک نہیں اس لئے ایسے مُجھے دیکھ کر فضول بول رہی تھی،آپ چلیں کچن میں ،مُجھے آپ کے ہاتھ کی چائے پینی ہے چلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز نے کہا تھا تو وہ سر ہلاتی اُس کے ساتھ چل دی۔

"___________________________"

"یہ تم کیا بکواس کر کے آئی تھی کل،تُمہیں بھی پتہ ہے کہ وہ کس صدمے سے گُزر رہی ہیں پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اگلے ہی دن ارمائز نے اُسے جا لیا تھا جو کہ اُسکی بات پر تلخی سے مُسکرائی۔

"مُجھے تو اُن کے چہرے پر کسی صدمے کے نشان نہیں ملے ،شاید تُمہاری دلجوئی سے وہ کافی حد تک سنبھل گئی ہو گئیں آخر اتنے قریب ہو کر دے رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آئی کانٹ بلیو دس تُم ایسا کیسے کہہ سکتی ہوں،یہ جانے بنا کہ وہ کتنے دُکھ میں ہیں،اور تُم بنا احساس کئے کہ جا کر اُن کا دل بہلاؤ  اوپر سے بکواس کر رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ تاسف سے دیکھتے ہوئے بولا۔

"تُم جو اُنکا دل بہلانے کے لئے وہاں میرا کیا کام،پہلے بھی کُچھ کم پیار نہیں جتاتے تھے تُم اب تو پھر ہمدردی لے کر پیار وصول کیا جا رہا ہے سابقہ شوہر کے بھائی سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا فضول بک رہی ہو،اب اگر ایسا کُچھ گھٹیا بولا نہ تو پھر دیکھنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز غُصے میں آیا ۔

"تو کیا غلط کہہ رہی ہوں،طلاق ہو گئی نہ تو پھر کیوں رہ رہی ہیں وہ روشن پیلس میں اب تو تم اس کے دیور اور وہ تُمہاری بھابھی نہیں ہیں تو پھر کیوں دو دنوں سے آفس سے چھٹی کئیے اس کے دل بہلانے کا سامان کر رہے ہو تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"طائشہ کے نہ صرف لہجے بلکہ آنکھوں میں بھی امروش کے لئے صاف نفرت محسوس کی جا سکتی تھی ارمائز تو ہکا بکا اسے دیکھ رہا تھا جو بلکل بدلی ہوئی طائشہ تھی نفرت اور شک کے پانی میں ڈوبی ہوئی۔

"تُم آج کے بعد مُجھے اپنی شکل مت دیکھانا ورنہ آج ضبط کیا ہے پھر نہیں کرونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ درشت لہجے میں بولا اور اس پر ایک نفرت بھری نگاہ ڈالتا یہ جا وہ جا۔طائشہ نے غُصے سے ٹیبل پر پڑے گلاسوں کو دیوار پر دے مارا۔

"__________________________"

ارمائز غُصے سے بڑھا سیدھا گھر آیا تھا آگے نگینہ پھوپھو کو انفال بیگم اور ثقلین آفندی کے ساتھ بیٹھے دیکھ کر انکی طرف آ گیا اور نگینہ پھوپھو کی بات سُن کر اُسکا دماغ گھومنے لگا کہ جیسی بیٹی کی سوچ ویسی ماں کی تھی جو کہہ رہی تھیں ۔

"میں تو پہلے ہی ثقلین بھائی کو منع کیا تھا کہ یہ رشتہ نہ کرے سہی جوڑ نہیں کہاں میرا بھتیجا شائز ایک قابل ڈاکٹر اور کہاں یہ بی اے پاس امروش،اُٹھنے بیٹھنے کی بھی زرا تمیز نہیں کہ کیسے ہائی کلاس لوگوں میں رہا جاتا،بہت اچھا کیا شائز نے اپنے لیے ایک قابل لڑکی چُنی،آخر میرا بچہ کب تک زبردستی کا ڈھول بجا سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نگینہ پھوپھو ثقلین صاحب کی اکلوتی بہن تھیں اور نخرہ اور غرور تو شروع سے بہت تھا آگے انکی اکلوتی بیٹی طائشہ بھی ویسی تھی بس احد اور ماحد اچھے تھے جو لندن میں زیر تعلیم تھے۔

"نگینہ تب اُسے امروش پسند تھی تب ہی ہم نے رشتہ کیا تھا کوئی زور زبردستی نہیں کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"انفال بیگم سے رہا نہ گیا تو بول اُٹھیں۔

"پتہ ہے مجھے جتنی پسند تھی تبھی رُخصتی کروائے بغیر بھاگ گیا اور آنے کا نام بھی نہیں لے رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ نخوت سے بولیں۔انفال بیگم گہرا سانس لے کر چُپ کر گئیں کہ انکو سمجھانا نا ممکن تھا۔

"اب کیا سوچا آپ نے بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کہ وہ کب سے خاموش بیٹھے ثقلین آفندی کی طرف متوجہ ہوئیں۔

"کس بارے نگینہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"امروش کے بارے،کب تک رکھنا اب اُسےیہاں ۔۔۔۔۔۔۔"انکی بات پر تینوں نے کُچھ حیرت سے دیکھا تھا۔

"کیا مطلب ہے تُمہاری بات کا،بیٹی ہے وہ ہماری یہ گھر اُسکا بھی ہے،کہاں جانا اُس نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آپ تو لگتا بہت بھولے ہیں بھائی یا امروش کی محبت میں بہت کُچھ نظر انداز کر رہے ہیں جانتے نہیں کہ امروش ایک جوان لڑکی ہے وہ ایسے کیسے رہ سکتی یہاں،ارمائز کے ہوتے ہوئے چلو پہلے تو دونوں میں ایک دُنیاوی رشتہ تھا بھابھی اور دیور کا،اب وہ ختم ہو چُکا ہے تو دونوں کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نگینہ پھوپھو کی بات پر ارمائز کا چہرہ ضبط کے مارے چہرہ سُرخ ہوا تھا۔انفال بیگم نے تاسف سے ثقلین آفندی کو دیکھا جن کے چہرے پر بھی ناگواریت آئی تھی۔

"تُم جانتی ہو کہ وہ میری بیٹی ہے اور ارمائز میرا بیٹا،مُجھے دونوں کا پتہ ہے اس لئے تُمہیں اس چیز کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ایک رشتے کے ختم ہونے سے سارے رشتے ختم نہیں کر دئیے جاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آپکو شاید میری بات بُری لگی پر میں تو سچ کہہ رہی ہوں لوگ بھی طرح طرح کی باتیں بنائیں گئے کہ دونوں جوان ہیں اور دوسرا آپ یوں تو ساری عُمر اسے بٹھا نہیں سکتے،ایک نہ ایک دن تو شادی کرنی نہ اُسکی تو ابھی کیوں نہ کوئی رشتہ دیکھ کر کر دی جائے،طلاق یافتہ ہے جتنی جلدی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"بس پھوپھو بہت ہو گیا،آپ اپنے مشورے اپنے پاس رکھیں ہمیں بہتر پتہ کیا کرنا ہم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کی برداشت ختم ہو چُکی تھی۔انفال بیگم اور ثقلین آفندی نے ارمائز کو غُصہ کنڑول کرنے کا اشارہ دیا تھا۔جو بھی تھا آخر نگینہ پھوپھو بڑی تھیں۔

"ارمائز تُم تو آج کے بچے ہو تُمہیں کیا پتہ اس اونچ نیچ کا،تو کیا غلط کہا میں نے،شادی بھی تو کرنی نہ اُس کی ایک دن تو اب کرنے میں کیا حرج ہوگا،میری تو دُعا ہے امروش کے لئے کوئی کنوارا مل جائے پر مُشکل ہے طلاق کا داغ لگ چُکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تاسف سے بولیں۔ارمائز مُٹھیاں بھینچ کر خُود پر ضبط کرتا ہوا جانے لگا۔

"سچی بات تو یہ ہے مُجھے ڈر ہے کہیں امروش چالاکی کر کے ہمارے معصوم ارمائز کو نہ پھانس لے ہمدردی لیتی لیتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"انکی بات پر نہ صرف سیڑھیاں چھڑتے ارمائز کے قدم رُکے تھے بلکہ اپنے کمرے سے نکلتی امروش بھی ساکت ہوئی تھی۔

"نگینہ کیا اول فُول بک رہی ہو،کُچھ بولنے سے پہلے سوچ بھی لیا کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ثقلین آفندی نے ناگواری سے ٹوکا۔

"بھائی تو لگتا امروش کی محبت میں اندھے بن رہے ہیں،بھابھی میں آپکو کہہ رہی ہوں کہ نظر رکھیں دونوں پر،طلاق یافتہ لڑکیاں بہت تیز ہوتیں ،ہمارا بچہ تو ہے بھی معصوم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آپ فکر نہ کرے ہمیں اپنے بچوں پر نظر رکھنے کی ضرورت نہیں ، جہاں تک امروش کی شادی کی بات تو ہے تو وہ ہمیں بھی فکر ہے ہم بہت جلد اُس کے جوڑ کا ڈھونڈ کر بڑی دھوم دھام سے اُسے رُخصت کریں گئے میں چائے لاتی ہوں۔۔۔۔۔"انفال بیگم تحمل سے کہتیں اُٹھ گئیں۔نگینہ بیگم کُچھ پُر سکون سی ہو کر بیٹھ گئیں جس کام کے لئے وہ آئیں تھیں کافی حد تک وہ اُس میں کامیاب ہو چُکیں تھیں دراصل ارمائز اور امروش کی بے تکلفی اُن کو پہلے بھی ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی اب تو پھر وہ طلاق لے کر آزاد ہو چُکی تھی اُنکو تین دنوں سے اسی بات کا دھڑکا لگا ہوا تھا کہ کہیں ارمائز ہمدردی میں آگے نہ نکل جائے۔یہی بات طائشہ کے کان میں ڈالی ہوئی تھی جس سے طائشہ کو امروش زہر لگنے لگ گئی تھی۔

ارمائز اُنکی بات کو سوچتا پلٹا کہ امروش کو دروازے کے پاس ساکت دیکھ کر اُسکی طرف بڑھا جو آنکھوں میں آنسو لئے اپنے کمرے میں بھاگ گئی شاید نہیں یقیناً وہ سب سُن چُکی تھی۔ارمائز نے جلدی سے اُسے روم کا ڈور بند کرنے سے روکا تھا اور اُسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کو کیا۔

"آپ جانتی ہیں نہ پھوپھو کی نیچر کو وہ کیسا مائینڈ رکھتی ہیں پھر اُنکی باتوں کو دل پر لینے اور پریشان ہونے کا فائدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز نے نرمی سے کہا پر وہ اُسکا ہاتھ جھٹک گئی۔

"آپ نے سُنا نہیں پھوپھو نے کیا کہا تھا کہ اب آپکا اور میرا کوئی رشتہ نہیں رہا جس کی بُنیاد پر آپ مُجھ سے یوں فری ہوں ،بہتر اسی میں ہے کہ اب آپ مجھ سے دُور ہی رہے بلکہ آپ نہیں مُجھے اب اس گھر سے چلے جانا چاہیئے،جس نام اور رشتے کے عوض رہ رہی تھی جب وہی سب ختم ہو گیا تو اب میرا کوئی جواز نہیں بنتا اس گھر میں رہنے کا۔۔۔۔۔۔۔"

امروش آنسو صاف کرتی فیصلہ کُن انداز میں بولی اور دروازہ بند کر دیا۔ارمائز اُس کے لب و لہجے پر غور کرتا جیسے کسی نتیجے پر پہنچا تھا۔گہری سانس بھرتا واپس لاؤنج میں آیا جہاں انفال بیگم چائے پیش کر رہی تھیں ۔

"آپ نے ٹھیک کہاں پھوپھو کہ اب یوں بنا کسی رشتے کہ میرا اور اُنکا اس گھر میں رہنا ٹھیک نہیں ،اس لئے میں نے اُسکا حل ڈھونڈ لیا ہے،مُجھے امروش سے شادی کرنی ہے اور ہر حال میں کرنی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز نے جتنے سکون سے کہا تھا سب کو اُتنے ہی زور کا جھٹکا لگا تھا۔سب ہکا بکا اُسکی شکل دیکھ رہے تھے جو اپنی بات کہہ کر سب پر نظر ڈالتا چلا گیا اور انفال بیگم اور ثقلین آفندی سر تھامے نگینہ بیگم کا واویلا سُنتے رہے۔

پھر شام کو جب وہ گھر آیا تو ثقلین آفندی اور انفال بیگم نے اُسے گھیر لیا۔

"تم جانتے بھی ہو تم کیا کہہ کے گئے تھے،ایسے کیسے تُم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"انفال بیگم کی بات کو وہ نرمی سے کاٹ گیا۔

"کیا مطلب ماما،ایسے کیسے کا کیا مطلب ہوا،پھوپھو کی بات پر تو آپ بھی مُتفق ہوئیں تھیں کہ کُچھ دن بعد آپ امروش کی شادی کر دیں گئیں تو میں نے بھی اُنہی باتوں کو زہہن میں رکھ کر اپنا رشتہ پیش کیا ہے،آپکو اعتراض کیوں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مگر لوگ کیا کہیں گئے اور نگینہ کی بات سچ ہو جائے گی کہ تُم اپنی بھابھی کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کا سُرخ چہرہ دیکھ کر وہ بات درمیاں میں چھوڑ گئیں۔

"امروش میری بھابھی تھی ماما ہے نہیں، جب تک تھی ایسا سوچا بھی نہیں تھا اب نہیں ہے تو کہہ رہا ہوں،اور جہاں تک لوگوں کی بات ہے تو آپکے بیٹے نے اُسے طلاق دی ہے لوگ تو اب بھی باتیں کر رہے ہیں،لوگوں کی طرف دیکھیں گیئں تو مجھ سے کیا کسی سے بھی اُسکی شادی نہیں کر پائیں گئیں آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اور طائشہ۔۔۔۔۔۔۔"وہ جیسے آخری کانٹا بھی نکالنا چاہتی تھیں۔جبکہ اس معاملے میں ثقلین آفندی چُپ کئے صرف ارمائز کی طرف دیکھ رہے تھے جو کہہ رہا تھا ۔

"اگر آپکا بڑا بیٹا اپنی بیوی چھوڑ سکتا ہے تو چھوٹا اپنی منگیتر بھی چھوڑ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"دیکھ لو ارمائز جو قدم ہمدردی کی آڑ میں اُٹھا رہے ہو کہیں کل کو شائز کی طرح تُمہیں بھی غلطی نہ لگے،کسی معصوم کی بار بار آہ لینے کی مُجھ میں سکت نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ثقلین آفندی اُٹھتے ہوئے اُسکی طرف دیکھ کر بولے کیسے کسی حتمی فیصلے سے پہلے پورا اطمینان چاہتے تھے۔

"وہ وقت کبھی نہیں آئے گا جب میں اپنے فیصلےسے غلطی کی آڑ لے کر دستبردار ہونگا کیونکہ میں شائز نہیں ارمائز آفندی ہوں رشتوں کا مان رکھنا آتا ہے مُجھے،پھر بھی کبھی کوتاہی ہو تو میں ہر سزا کے لئے تیار رہونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔""وہ مظبوط اور اٹل لہجے میں بولا۔

"اور انفال تُم،کیا امروش کو ارمائز کی دُلہن کے طور پر قبول کریں گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کہ وہ انفال بیگم کی طرف پلٹے۔

"میرا فیصلہ آپکو معلوم میں ہے،امروش میری بہو نہیں بیٹی ہے اور بیٹیوں کو ہمیشہ پاس رکھنے کا ہی دل کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُنکی بات پر دونوں باپ بیٹا مُسکرا دئیے۔

"اب امروش کو منانے کی زمعہ داری آپکی ہے،میرے خیال میں نکاح دو دن تک کر لیتے ہیں ،شادی ایک ماہ تک،تا کہ ساری تیاری ہو سکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ثقلین آفندی کی بات پر ارمائز نے گہرا سانس بھر کر سر اثبات میں ہلا دیا۔

"کیا امروش مان جائے گئ،کیا میں اس رشتے کو اچھے طریقے سے نبھا پاؤنگا۔۔۔۔۔۔۔۔"کُچھ سوالوں نے اُس کے دماغ کو جکڑنے کی کوشش کی تھی۔

"______________________________"

اور پھر ارمائز کی سوچ کے عین مطابق امروش نے سختی سے انکار کر دیا تھا اُس نے انفال بیگم کو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ وہ کہیں اور شادی کر لے گی مگر ارمائز سے نہیں اس گھر میں رہنا اُس کے لئے تکلیف دہ ہوگا ایک بھائی سے طلاق لے کر دوسرے کے عقد میں کیسے جائے۔انفال بیگم نے جب اُسے پیار سے بھی منا کر دیکھ لیا مگر اُس کی ناں ہاں میں نہ بدلی تو امروش کو منانے کی زمعہ داری ارمائز کو دے دی۔

ارمائز نے اُس کے کمرے میں قدم رکھے تو وہ واش روم سے نکلتی دکھائی دی۔اسے دیکھ نہ صرف اُس نے مُنہ موڑا تھا بلکہ اُس کے چہرے پر نا پسندیدگی بھی آ چُکی تھی جیسے اُسے اسکا اپنے روم میں آنا ناگوار گُزرا تھا اور کیوں گُزرا یہ ارمائز جانتا تھا اس لئے چُپ کر کے آگے بڑھ آیا۔

"تُم کھانے پر نہیں آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش کو اسکے مُنہ سے اپنے لئے تُم سن کر کافی عجیب سا لگا تھا اس لئے بول اُٹھی۔

"مانا کہ اب وہ والا رشتہ نہیں رہا پر کیا میں ادب سے بُلائے جانے کے قابل بھی نہیں رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ادب اُس رشتے کا تھا ورنہ تُم مجھ سے تین سال چھوٹی ہو تو میں تُم ہی کہہ کر بُلاؤنگا اور دوسری بات ادب سے بھی تُم کہا جاتا ہے تکلف کی ہر دیوار گرانے کے لئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تُمہارا اور میرا اب ایسا کوئی رشتہ نہیں کہ اب بے تکلف ہو کر ُپکارا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ چٹخ کر بولی۔ارمائز نے دونوں ہاتھ جینز کی جیبوں میں پھنسائے اور گہری سانس بھر کر بولا ۔

"رشتہ ہی تو قائم کرنا چاہتا ہوں اگر آپ ہاں بول دیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"شرم آنی چاہئیے تُمہیں ایسا سوچتے ہوئے بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کس بات کی شرم،کیا بُرا کیا میں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تُم جانتے ہو کہ میں تُمہاری بھابھی رہ چُکی ہوں پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس نے شرم دلانی چاہی تھی مگر ارمائز دانت پیس کر بولا۔

"بھابھی رہ چُکی ہو،اب تو بھابھی نہیں ہو نہ تُم،آخر اعتراض کس بات پر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مجھے ہر بات پر اعتراض ہے،پلیز جاؤ یہاں سے مُجھے شادی نہیں کرنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دکھائی سے بولتی رُخ موڑ گئی۔ارمائز نے دو پل اپنے اشتعال کو دبایا اور پھر کہنے لگا ۔

"شادی کرنی نہیں کہ مُجھ سے نہیں کرنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں نہیں کرنی تُم سے تو بلکل نہیں تُم کیا سمجھتے ہو میں پاگل ہوں کہ ایک سوراخ سے دو دفعہ ڈسوں،ایک بھائی نے چھوڑا تو دوسرے کے پاس چلی جاؤں،میں بھی کوئی عزت نفس رکھتی ہوں اور بےعزتی اور زلت نہیں سکہ سکتی میں،لوگوں کے بُہتان برداشت کرنے کی زرا سکت نہیں مُجھ میں کہ چھوٹے سے کوئی چکر ہوگا اس لئے بڑے سے طلاق لے کر چھوٹے کی دلہن بن گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش کی آنکھوں سے آنسو رواں ہونے لگے جن کو دیکھ کر ارمائز لب بھینچ گیا۔

"تُم غلط سوچ رہی ہو ایسا کُچھ نہیں ہوگا،کوئی بھی ایسا نہیں سوچے گا میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ نرمی سے سمجھانے لگا مگر امروش سر نفی میں ہلاتی چیخ اُٹھی۔

"سب سوچیں گئے ایسا ہی کہے گئے اُس دن پھوپھو کی بات سُنی تم نے،میں اُن کے کہے کو سچ ثابت کر دُوں کیا پاگل نظر آتی ہوں اور تُم مجھ سے شادی کرنا کیوں چاہتے ہو صرف اپنے بھائی کا مدواہ کرنے کے لئے مگر کُچھ دن بعد جب تُمہارے سر سے یہ ہمدردی کا بُخار اُترےگا تو تُمہیں بھی پچھتاوا ہوگا میری کم تعلیم پر ویسے بھی تم شاید بھول رہے ہو کہ تُم طائشہ سے محبت کرتے ہو منگنی ہو چُکی تُمہاری ،تم بھی تو وہی کچھ کر رہے ہو جو تُمہارے بھائی نے کیا،کسی کو اپنے ساتھ باندھ کر جب اُسے عادت ہو جائے تو ایک جھٹکے سے چھوڑ دینا پر میں ایسا نہیں کرونگی میں کسی اور کی آ ہوں کی وجہ نہیں بن سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"آنسو صاف کرتی امروش کا انداز اٹل تھا وہ کسی صورت بھی طائشہ کو وہ دُکھ نہیں دے سکتی تھی جس تکلیف سے خُود گُزر رہی تھی۔

"تو تُم نہیں مانو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"نہیں کبھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ قطاً انداز میں بولی۔ارمائز نے جیسے سمجھ کر سر اثبات میں ہلایا پھر آہستہ سے چلتا ہوا اس کے قریب آی اور جیب سے کُچھ نکال کر اسکے سامنے کیا۔امروش جو اس کے قریب آنے پر جھنجھلا اُٹھی تھی اب حیرت سے اُن کاغذوں کو دیکھنے لگی۔

"یہ کل کا ٹکٹ ہے میرا کہاں کا یہ نہیں بتاؤنگا،کل شام نکاح کی تقریب ہے تب تک ویٹ کرونگا اگر ہاں کر دی تو ٹھیک ورنہ میں اُسی وقت یہ گھر یہ مُلک ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلا جاؤنگا،پھر تم رہنا اس گھر میں بنا کسی بھی رشتے کے کوئی کُچھ نہیں گا میرے خیال میں ماما پاپا کو بھی بہتر سنبھال لو گی تُم اور پھر دیتی رہنا لوگوں کو جواب کہ ان کے ایک بیٹے کو طلاق دینے کی وجہ سے اس گھر سے بے دخل کیا ہے اور دوسرے کو تُمہارا ہاتھ تھامنے کی خواہش کے جُرم میں اس گھر سے ہمیشہ کے کئے دُور کر دیا ہے،کل تک کا ٹائم ہے سوچ لو اتنا تو تُم جانتی ہو ضد میں ،میں بھائی سے بھی دو ہاتھ آگے ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنی بات مُکمل کرتا اُس کے حیران و پریشان چہرے پر نظر ڈالتا چلا گیا۔امروش ہکا بکا وہی بیٹھ گئی۔

اور پھر امروش کی رہی سہی ہمت بھی تب جواب دے گئی جب اگلی صُبح ثقلین آفندی نے اس کے پاس آ کر نہ صرف پیار سے سمجھایا تھا بلکہ شائز کے بُرے برتاؤ پر اس سے معافی  بھی مانگی تھی اور امروش اتنی سخت دل نہیں تھی کہ اُنکو خالی ہاتھ لوٹا دیتی اس لئے نم آنکھوں سے سر جھکا کر اُنکو خُوشی سے نواز گئی تھی۔پھر اُسی دن صرف چند عزیزوں اور دوستوں کو بُلا کر انکا نکاح کر دیا گیا تھا۔نگینہ پھوپھو خُود تو نکاح میں نہیں آئیں تھیں پر حیدر شیرازی آئے تھے۔

طائشہ جو اُس دن کی مُنہ ماری سے تنگ آ کر اپنی خالہ کے پاس اسلام آباد چلی گئی تھی جب اس کو اپنی ماں کے زبانی علم ہوا تو وہ پہلی فلائٹ سے واپس آئی تھی۔

"ایسا تُم کیسے کر سکتے ہو میرے ساتھ،تُم جانتے ہو نہ کہ میں تُم سے کتنی محبت کرتی ہوں،منگیتر ہوں میں تُمہاری پھر بھی تم ایسے کیسے کسی اور سے نکاح کر سکتے ہو کیوں کیا ایسا تم نے کیوں۔۔۔۔۔۔؟وہ بول نہیں رہی تھی بلکہ چیخ رہی تھی اور ارمائز اُسے سنبھالنے کی کوشش کرتا اُس کے قریب ہوا تھا مگر طائشہ اُس کی شرٹ کو اپنی مُٹھیوں میں جکڑ چُکی تھی۔

"تُم جانتے تھے نہ لندن میں تمہاری وجہ سے گئی تا کہ تُمہارے ساتھ ہی پڑھ سکوں، تم واقف تھے نہ میری فیلگینز سے پھر بھی تم ایسا کیسے کر سکتے ہو مُجھے دھوکا دیا ہے تم نے،یہی ڈر تھا مجھے کہ وہ چھین لے گی تُمہیں مجھ سے وہی ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"طائشہ پلیز سمجھنے کی کوشش کرو یہ ضروری تھا اس۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس نے اپنی شرٹ طائشہ کی گرفت سے آذاد کروائی۔

"کیوں ضروری تھا بتاؤ مُجھے کیوں؟جس لڑکی کو طلاق ہوئے ابھی کُچھ دن ہی ہوئے اُسکا یوں تم سے اچانک نکاح کرنا کیوں ضروری تھا۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی بات کاٹ کر وہ بولتی اُسے غُصہ دلا گئی۔

"سکون سے بیٹھو گی تو کُچھ سمجھا سکونگا نہ میں۔۔۔۔۔۔۔"

"نہیں سمجھنا کچھ اور جو سمجھ گئی ہوں نہ بس وہی بہت ہے تم نے بہت غلط کیا ہے ارمائز اسکا کیا تو تُمہیں بھگتنا ہی ہوگا معاف نہیں کرونگی میں۔۔۔۔۔۔۔"وہ جس طوفان سے اس کے کمرے میں داخل ہوئی تھی ویسے ہی باہر کو بھاگی۔ارمائز سر پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔

وہ تپی ہوئی اُس کے کمرے سے نکلی تھی۔کچن سے نکلتی امروش کو دیکھ کر جہاں وہ تھمی تھی وہاں امروش بھی دو پل کے لئے ساکت ہوئی تھی۔جس حقیقت سے وہ کل سے نظریں چُرا رہی تھی آج طائشہ کو اپنے سامنے دیکھ کر نظریں چُرا کر رہ گئی۔

"بہت مُبارک ہو تمہیں امروش بھابھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"طائشہ نے امروش بھابھی پر دانت پیسے تھے۔

"یہی چاہتی تھی نہ تم،دیور بھابھی کا کھیل کافی اچھا کھیلا تم نے،اسی نئیت سے تو تم ارمائز ارمائز کرتی اُس کے آگے پیچھے پھرا کرتی تھی آخر کو شائز بھائی سے کہیں درجے خُوبصورت ہے جان تو نکلتی ہو گئی تُمہاری اُسے میرے ساتھ دیکھ کر اور پھر تم نے کتنی چالاکی سے اُسے دیور سے سجنا بنا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"طائشہ کے زہریلے جملے اُسے کاٹ کر رہ گئے وہ نم آنکھیں لئے شرمندگی سے کُچھ بول بھئ نہیں پا رہی تھی۔

"شرم آ رہی ہے کیا تُمہیں مجھ سے جو یوں سر جُھکا رہی ہو کیا ایسا سوچتے ہوئے ارمائز کو اپنے دل میں بساتے ہوئے کل نکاح نامے پر سائن کرتے ہوئے تُمہیں شرم نہ آئی کہ تم کیا کررہی ہو،یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم دونوں نہ صرف منگیتر تھے بلکہ ایک دوسرے سے محبت بھی کرتے تھے پھر بھی تم نے وہی سب کیا جو شائز بھائی نے تُمہارے ساتھ کیا اُسکا بدلہ مجھ سے کیوں لیا تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے بھڑکتے لب ہ لہجے پر ارمائز جو اپنے کمرے سے نکلا تھا آنسو بہاتی امروش اور غُصے سے چلاتی طائشہ کو آمنے سامنے دیکھ کر وہ بھاگنے والے انداز میں ان تک آیا تھا۔

"ناٹک کافی اچھا کر لیتی ہو تُم،سُنا تھا طلاق ہونے پر بڑا ماتم کیا تھا بے ہوش تک ہو گئی تھی پر ارمائز سے نکاح ہوتے ہی تم سب بُھول گئی ،مجھے تو لگتا جان بوجھ کر تم نے طلاق لی صرف ارمائز کو۔۔۔۔۔۔۔۔"

"بس اب ایک لفظ نہیں طائشہ،بہت کر لی بکواس تُم نے،یہ سب میں نے اپنی مرضی سے کیا ہے اور کوئی بھی اُسکی باز پرس امروش سے نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کی اشتعال انگیزی سے جہاں طائشہ تھمی تھی وہاں امروش نے بھی پانیوں سی بھری شکواں کنارہ آنکھوں سے اُسے دیکھا جو اُسکی طرف دیکھتا لب بھینچ گیا۔

"شرم تو نہیں آ رہی بھابھی کو بیوی بنا کر۔۔۔۔۔۔۔۔"

"بھابھی تھی بہن نہیں تھی اور شرم کس بات کی بولو،بیوی بنایا ہے عزت دی ہے کوئی کھیل نہیں رچایا،اب ایک لفظ نہیں اس سے پہلے کے میں آؤٹ آف کنڑول ہو کر تُمہارے ساتھ کوئی بد تمیزی کروں جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز نے چبا چبا کر ایک ایک لفظ ادا کیا اور باہر کی طرف اشارہ کیا۔طائشہ نے ایک نفرت بھری نگاہ امروش پر ڈالی اور چلی گئی۔امروش وہاں سے جانے لگی پر ارمائز نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر روکنا چاہا۔امروش نے بُری طرح اس کا ہاتھ جھٹکا۔

"اتنا تو ذلیل کروا رہے ہو تُم کیا کوئی اور کسر رہ گئی،اب یونہی مُجھے سب کے تانے سُننے ہونگے آخر بھابھی سے بیوی جو بن گئی ہوں،وہ مُجھے کہہ کر گئی ہے کہ سب میں نے جان بوجھ کر کیا پر اُسے کیا پتہ جتنا مُجھے یہ رشتہ تکلیف دے رہا اُتنا تو طلاق کے پیپرز دیکھ بھی نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش نے اپنی بھڑاس اور جلن اس پر نکالی تھی یہ جانے بنا کہ اس کے آخری الفاظ تیر کی طرح ارمائز کے سینے میں پیوست ہوئے تھے۔امروش اسکے سامنے سے ہٹتی چلی گئی ارمائز نے جلتی نگاہوں سے اس کی پُشت کو گھورا تھا۔

"______________________________"

جیسا کہ نکاح کے وقت ہی شادی کی تاریخ فائنل کر لی گئی تھی اس لئے انفال بیگم نے شادی کی تیاریاں شُروع کر دی تھیں لیکن وہ اکیلی بوکھلا چُکی تھیں کہ امروش کسی چیز میں بھی حصہ نہیں لے رہی تھی اُسکی کیفیت سمجھتے ہوئے اُسے کچھ دن اِس کے حال پر چھوڑ کر انہوں نے اپنی بہن اور اُنکی دونوں بیٹیوں کو بُلا لیا تھا دو ہفتوں کے لئے دراصل وہ کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں آخر اُن کے لاڈلے اور چھوٹے بیٹے کی شادی تھی۔اس گھڑی وہ شائز کو بھی بہت مس کر رہی تھیں مگر ثقلین آفندی کی وجہ سے چُپ تھیں پر ارمائز نے کئی دفعہ رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی پر ہو نہیں ہا رہا تھا۔

"لگتا ہے بھائی آپکو امریکہ جا کر ہی لے کے آنا پڑے گا،ایک دفعہ پاپا اور امروش سنبھل جائے تو جاؤنگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بڑبڑایا پھر فون جیب میں رکھتا لاؤنج میں آیا جہاں انفال بیگم بہت سارے کپڑے پھیلا کر بیٹھیں تھیں اقدس خالہ کچھ کپڑے طے کر رہیں تھیں جبکہ ہماس اور اناس امروش کو نیٹ سے کُچھ پسند کروا رہی تھیں مگر اُسکا نفی میں ہلتا سر اُسکی بیزاریت شو کر رہا تھا جو کہ ارمائز کے آنے سے ناگواریت میں بدل چُکی تھی۔

"شُکر ہے ارمائز بھائی آپ آ گئے،بھابھی کو تو کُچھ بھی پسند نہیں آ رہا،اب آپ بتائیں ہمیں کہ مایوں،مہندی،بارات اور ولیمے کے لئے کونسے کلر فائنل کرے جو بھابھی پر سُوٹ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اناس اُٹھ کر اسکے نزدیک آ کر بولی۔ارمائز نے مُسکراتے ہوئے ایک اُچٹتی نگاہ امروش پر ڈالی جو پاؤں سمیٹ کر صوفے پر بیٹھی لب کاٹ رہی تھی۔

"میرے خیال میں تُم لوگوں کی بھابھی پر ہر کلر سُوٹ کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی بات سوائے امروش کے سب مُسکرادئیے۔اور امروش نے ایک جلتی نگاہ اس کے مُسکراتے چہرے پر ڈالی۔

"بات تو سچ ہے پر اب ہر کلر تو وہ شادی والے دن نہیں نہ پہن سکتیں۔۔۔۔۔۔۔"اب کہ ہماس نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ارمائز سر ہلا کر امروش کو نظروں کے فوکس میں رکھتا بولا۔

"مایوں پر ییلو،مہندی پر گرین انیڈ اورینج کنٹراس،بارات پر ریڈ اور ولیمے پر گرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"واؤ،ویری نائس یہی تو ہم بھی سوچ رہے تھے،آپ نے بھی بھابھی کے ساتھ ہر فنکشن پر کنٹراس کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔"دونوں خُوش ہو کر بولیں تو اس نے سر اثبات میں ہلا دیا۔امروش وہاں سے اُٹھ گئی۔

"کہاں بیٹا۔۔۔۔۔۔۔"انفال بیگم نے پوچھا۔

"چائے بنانے جا رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ انکو جواب دیتی جانے لگی۔

"امروش،میرے لئے بھی بنانا۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کی فرمائش پر وہ تپ کے انکار کرنے لگی مگر اقدس بیگم اور باقی سب کا لحاظ کرتی کچن میں چلی گئی۔ارمائز جو اس کے تاثرات نوٹ کر چُکا تھا مُسکراتا ہوا اقدس بیگم کی طرف متوجہ ہوا جو انفال بیگم سے کہہ رہی تھیں ۔

"لگتا ہے امروش ابھی تک اُس دُکھ کو بُھول نہیں پائی،دو دن ہو گئے میں بھی دیکھ رہی گُم صُم سی رہتی ہے آج شاپنگ کرنے بھی ہمارے ساتھ نہیں گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ٹھیک کہہ رہی ہو اقدس،دُکھ کونسا چھوٹا تھا اور پھر ابھی وہ اُس صدمے سے نہیں نکلی تھی کہ ارمائز سے نکاح کر دیا یہ بھی اچانک فیصلہ تھا اُس کے لئے،ابھی کُچھ دن تو لگیں گئے،آج ثقلین سے کہونگا کہ اُس سے بات کریں تاکہ ہمارے ساتھ شاپنگ پر تو چلے،برایڈل ڈریسز،جوتے اور جیولری تو اُسکی پسند کی ہی لینی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"انفال بیگم کی بات پر ارمائز نے پُر سوچ نظریں کچن کے دروازے پر لگا دیں جہاں وہ چائے بنا رہی تھی۔

"ارمائز،حسن بھائی کو کال کی تم نے۔۔۔۔۔۔"اقدس بیگم کے سوال پر وہ اُنکی طرف متوجہ ہوا۔

"جی بات ہوئی ماموں سے،علی تو نیکسٹ ویک آ رہا کیونکہ وہ شادی کی ساری شاپنگ یہاں سے اور میرے ساتھ کرنا چاہتا جبکہ حسن ماموں،حفصہ مُمانی ،ندا اور ولی مایوں والے دن آئے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس نے تفصیل سے بتایا تو اُسکی بات پر اناس نے ہماس کو ٹہوکا مارا۔جو کہ ارمائز کی آنکھوں سے مُخففی نہ رہ سکا۔

"ویسے خالہ،علی کے شادی سے ایک ہفتہ پہلے آنے کی وجہ آپکی سمجھ میں تو آ گئی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز ہماس کو شرارت سے دیکھتا بولا تو اُسکی بات کا مطلب سمجھ کر تینوں مُسکرا دیں اور ہماس شرم سے اُٹھ کر چلی گئی۔آرمائز ہنس دیا۔علی اور ہماس کی منگنی کو دو سال ہو چُکے تھے شادی اُس کے انجنئیر کے کورس مُکمل ہونے پر قرار پائی تھی۔

امروش آج بُری طرح تھک چُکی تھی انفال بیگم اُسے زبردستی آج شاپنگ پر ساتھ لے گئیں تھیں شادی کے سب فنکشنز کے لئے ڈریس،جوتے اور جیولری پسند کر کر کے ہی اُسکی سٹی گُم ہو چُکی تھی اور وہاں سے ہی ہماس اور انفال بیگم اسے پارلر لے کر چلی گئیں جہاں تین گھنٹے سٹیچو بن کر بیٹھنے پر اُسکی کمر درد کرنے لگی تھی۔اور ابھی کمر سیدھی کرنے کو وہ لیٹی تھی کہ اناس اسے پُکارتی کمرے میں داخل ہوئی۔

"بھابھی ادھر آئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اُف کہاں جانا ہے اناس،ابھی تو لیٹی تھی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُکتائی ہوئی آواز میں بولی۔

"بس ارمائز بھائی کے کمرے تک۔۔۔۔۔۔۔"

"کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہماس وہی آپ کے بری کے کپڑے رکھ رہی ہے،پر جو ساڑھی ہم نے اپنی پسند سے اور اپنے اندازے پر لی تھی اب گھر آ کر دیکھا تو بلاؤز ہمیں زیادہ فٹنگ میں لگ رہا پلیز چلیں نہ پہن کر چیک کر لیں آج ہم نے پھر جانا مال،اگر ٹھیک نہ ہوا تو چینج کروا لیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اناس کی بات پر وہ بے بسی سے اُٹھی اور یہ سوچ کر چل دی کہ وہ کونسا گھر ہے۔

"یہ پہن کر چیک کریں۔۔۔۔۔۔۔۔"ہماس نے بلیک کلر کا بلاؤز اُسکی طرف کیا جس کے بس بازوؤں پر ہی کام ہوا تھا یا ساڑھی کے پلوؤں پر ہی سُنہری کام تھا اُسے کافی اچھی لگی تھی۔

"چوائس تو زبردست ہے تُم دونوں کی۔۔۔۔۔۔"اُسکی بات پر دونوں مُسکرا دیں ۔

"شُکریہ یہ تو جب شادی کے بعد اپنی بری کے کپڑے پہن کر بھائی سے تعریف وصول کیا کریں گی تب ہی ہمیں یقین آئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کے زکر پر اُسکا حلق تک کڑوا ہو گیا تھا اور وہ یہ سوچ کر پاگل ہوتی جا رہی تھی کہ اس کے ساتھ یہ نیا سفر کیسے شُروع کرے گی اور سُوئی اس بات پر اٹکی تھی کہ وہ شادی کے بعد بھی صرف منکوحہ بن کر ہی رہے گی اور اسے یقین تھا کہ ارمائز اس سے کسی بھی حق کی ڈیمانڈ نہیں کرے گا آخر وہ بھی تو طائشہ سے محبت کرتا تھا اسے اُس پر غُصہ اور نفرت کرنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ ارمائز نے سب ہمدردی میں آ کر کیا تھا۔

"کیا سوچنے لگیں چلیں نہ پہن کر چیک کریں،ہم تب تک انفال خالہ کے رُوم سے آپکی دوسری چیزیں لے آئیں۔۔۔۔۔۔۔۔"ہماس اس کہتی اناس کو لئے چلی گئی تو امروش ڈریسنگ روم میں چلی گئی جب بلاؤز پہن کر دیکھا تو بلکُل فٹ تھا وہ اوکے کا سنگلر دیتی چینج کرتی باہر آئی تو ٹھٹھک کر رُکی سامنے ہی ارمائز شرٹ اُتار کر ڈریسنگ روم کی طرف ہی بڑھ رہا تھا اسے بیچ دروازے میں ساکت دیکھ کر وہ بھی چونکا تھا جو کہ آف وائٹ سُوٹ میں ملبوس ہاتھ میں بلیک کلر کا بلاؤز پکڑے شرمندہ سی لب کاٹ رہی تھی۔بنا اُسکی طرف دیکھے وہ دروازے کی طرف لپکی کہ ارمائز نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر روکا امروش کو اپنا دل زور زور سے دھڑکتا محسوس ہوا۔

"یہ رُوم تُمہارا بھی اُتنا ہے جتنا میرا،اس لئے یوں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں جیسے تم کوئی چوری کرتی پکڑی گئی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ نرمی سے بولا۔تو وہ اپنا ہاتھ چُھڑا گئی۔

"اب تو شاید ساری عُمر ہی مُجھے یوں شرمندگی سے ہی گُزرانی پرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے لہجے میں عجیب سی کاٹ تھی جو ارمائز کا خُون جلا گئی۔

"کس بات کی شرمندگی،بولو آخر تُمہاری عقل میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ میں نے تُم سے نکاح کیا ہے کوئی چوری نہیں کی جو تُم یوں مُنہ چُھپائے گھومتی رہتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تو کیوں نہ مُنہ چُھپا کے رہوں ہر ایک کی تمسخر اُراتی نظریں کب تک برداشت کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بھی تپ کے بولی۔ارمائز نے سخت نظروں سے گھورا۔

"تو اس میں شرمندگی والی کیا بات ہے،یہ تو تُمہاری اپنی سوچ ہے جو تُمہیں ایسا لگتا۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ شرمندگی نہیں تو کیا ہے کون اپنی بھابھی سے نکاح کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوہ یو۔۔۔۔۔۔"ارمائز نے سختی سے اُسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔امروش اس کی سخت ہوتی گرفت سے خائف ہوتی خود کو آزاد کروانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔

"بھابھی تھی تم ہو نہیں یہ بات آخر کتنی دفعہ دُہرانا ہو گی مُجھے بتاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"چھوڑو ارمائز مُجھے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکی گرفت میں مچلی تھی۔

"نہیں بتاؤ نہ آخر تم پُرانے رشتے کو کیوں نہیں بُلا پا رہی،ایسی بھی کیا اُنسیت تھی اُس پرانے رشتے سے کہ ابھی تک نئے رشتے کو قبول نہیں کر پا رہی تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے لب و لہجے میں ایسی کاٹ تھی کہ جسے محسوس کرتی اُس کے گال تپ اُٹھے۔

"میں بھی کتنا احمق ہوں،ماما کی باتوں میں آ گیا کہ تُمہیں اچانک صدمہ لگا ہے اس لئے ایسا برتاؤ کر رہی ہو پر نہیں میں تو پاگل ہوں یہ ہی سمجھ ہی نہیں سکا کہ دراصل تم 

اس پُرانے رشتے کو بُھلا نہیں پا رہی،ظلم طلاق کا نہیں ہوا بلکہ ظلم یہ ہوا کہ میں نے تم سے نکاح کیا،پچھتا تو اب میں بھی رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ تلخی سے بولتا ایک جھٹکے سے اسے چھوڑ کر بیڈ پر پڑے کپڑے اُٹھا کر واش روم میں گُھس گیا۔امروش اُس کے لفظوں کے تیروں سے گھائل ہوتی وہی بیٹھ گئی۔

"___________________________"

وہ جس چیز کی خُود نفی کرتی آئی تھی تب تک تو ٹھیک تھا مگر جب اس رشتے کی ارمائز نے نفی کی تھی کہ وہ پچھتا رہا تھا یہ بات اُسے ساری رات رُلاتی رہی تھی کہ پہلی دفعہ وہ سب باتوں دے ہٹ کر اپنے اور ارمائز کے رشتے کے متعلق سوچتی رہی تھی۔اور ایک انجانہ سا ڈر اُس کے دل میں کُنڈلی مار کر بیٹھ گیا تھا کہ جو شائز نے اُس کے ساتھ کیا کہ پھر سے ارمائز بھی وہی دُہرائے گا۔ارمائز کا اُس دن کا رویعہ اور اُس کے الفاظ اس کی بُھوک پیاس سب ختم کر گئے کہ جب ہماس ناشتے کا کہنے آئی تو اس نے صاف جواب دے دیا تھا۔

"کیا ہوا امروش نہیں آئی۔۔۔۔۔۔۔"ہماس اکیلی کو واپس آتا دیکھ کر انفال بیگم کے استفسار پر ارمائز نے بھی ہماس کا نفی میں ہلتا سر دیکھا۔

"نہیں وہ کہہ رہیں کہ مُجھے بُھوک نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"پر اُس نے تو رات کو ڈنر بھی نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔"انفال بیگم کو یاد آیا تو پریشانی سے بولیں۔ارمائز اپنی جگہ سے اُٹھا۔

"آپ لوگ ناشتہ کریں میں اُسے لے کر آتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہتا ہوا اُس کے کمرے میں آیا جہاں وہ مُنہ تک کمبل لپیٹے لیٹی تھی۔

"ہماس میں نے کہا نہ کہ مُجھے کھانا نہیں کھانا تو کیوں بار بار تنگ کر رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔"دروازے کے کھٹکے پر اُسے ہماس کے پھر سے آنے کا شک ہوا تو کافی رُوکھے لہجے میں بولی۔ارمائز آہستگی سے اُس کے قریب ہی بیڈ پر بیٹھا گیا۔

"پر میں تو تُمہیں تنگ کر سکتا ہوں نہ،آخر میرے پاس تو تُمہیں تنگ کرنے کا سرٹیفکیٹ بھی موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کی مُسکراتی آواز پر اُس نے ایک جھٹکے سے کمبل اپنے مُنہ سے ہٹا کر اسے دیکھا جو مُسکراتی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔امروش نہ صرف اسے اپنے کمرے میں دیکھ کر چونکی بلکہ اپنے یوں قریب دیکھ کر بے اختیار پیچھے کو سرکی مگر ارمائز نے ایک ہاتھ اس کے دائیں پہلو اور دوسرا اسکے تکیے پر رکھ کر جیسے اسے اپنے حصار میں لیتے قید کر لیا تھا۔امروش کی دھڑکنیں پہلی بار یوں بے تر تیب ہوئیں کہ وہ چاہتے ہوئے بھی ہل نہ سکی۔

"ناراضگی مُجھ سے ہے کھانے سے تو نہیں نہ۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میری کوئی ناراضگی نہیں،تُم۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہششش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز نے اُس کے گلابی لبوں پر اُنگلی رکھ کر اُسے چُپ رہنے کا اشارہ کیا۔

"تُم نہیں آپ،آپ کہنے کی عادت ڈال لو اب،مُجھے تمیز دار بیویاں اچھی لگتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ابھی سے کیڑے نظر آنا شُروع ہو گئے ہیں،میں اچھی بھی کیسے لگ سکتی ہوں میں تو کسی کے لئے پچھتاوا بھی بن گئی ہوں۔۔۔۔۔۔"رات کی باتوں کو یاد کرتی وہ چڑ کر بولی تو ارمائز ہنس دیا۔امروش نے حیرت سے اُسکی طرف دیکھا جسکی آنکھیں بھی اُسکی مُسکراہٹ کا ساتھ دے رہی تھیں وہ آہستگی سے جُھکا اور اُسکی ٹھنڈی پیشانی پر اپنے لب رکھ دئیے۔امروش اس دہکتے لمس پر دھک سی رہ گئی اُس کے پورے جسم میں سُنسناہٹ ہونے لگی۔ارمائز نے سر اُٹھاتے ہوئے اُسکی جُھکی نگاہوں کو دیکھا پھر باری باری اس کی دونوں آنکھوں کو چُوم لیا اور اس سے پہلے کہ کوئی اور حق جتاتا دروازے پر دستک ہوئی۔

"یس۔۔۔۔۔۔"ارمائز اُٹھ کھڑا ہوا۔انفال بیگم اور ہماس اندر داخل ہوئیں۔ہماس کے ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے تھی۔امروش اُڑی اُڑی رنگت لئے اُٹھ کر بیٹھی۔

"مُجھے پتہ لگ گیا امروش ناراض ہے ارمائز سے اس لئے آج سے میں نے بھی ارمائز سے کٹی کر لی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"انفال بیگم اُس کے قریب بیٹھیں۔ارمائز نے مُسکراتے ہوئے امروش کو دیکھا جو ہنوذ نظریں جُھکائے بیٹھی تھی۔

"میں ابھی منانے کا سوچ رہا تھا کہ آپ لوگ آ گئے،اوکے اب آپ اپنی بہو کو ناشتہ کروائیں،میں تو آفس چلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہتا ہوا چلا گیا تو امروش نے کب کا رُکا سانس ہوا کے گرد خارج کیا۔

"______________________________"

آج دونوں کی مہندی تھی۔ارمائز کے پُرذور اصرار پر مہندی کا فنکشن گھر کے لان میں ہی ارینج کیا گیا تھا۔سب مہمان آ چُکے تھے اور امروش ارمائز کے پسند کے کپڑوں میں ملبوس سادگی میں غضب ڈھا رہی تھی۔ارمائز کی نگاہیں بار بار اُس کے چہرے سے اُلجھ رہی تھیں جن کو دیکھتا علی مُسکرا دیا۔

"بس کرو آدھے گھنٹے سے تُمہیں دیکھ رہا ہوں تُم تو نظروں نظروں میں ہی بھابھی کو نگل لینے کے چکر میں ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تُمہیں کیا اس سے،میری اپنی چیز ہے جتنا مرضی دیکھوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ڈھٹائی سے بولتا پھر سے امروش پر نگاہیں مرکوز کر کے بیٹھ گیا جسے سب گھیرے میں لے کر بیٹھیں تصویریں بنوا رہی تھیں ۔

 "وہ تو ٹھیک ہے،پر ایک رات ہی تو ہے اتنا بھی صبر نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ ایک رات بھی سالوں جتنی لگ رہی،ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"لگتا مُُنڈا گوڈے گوڈے محبت میں ڈوب چُکا۔۔۔۔۔۔"علی کو کافی خوشگوار حیرت ہو رہی تھی اس کے رویعے پر ورنہ تو ارمائز محبت کے معاملے میں کوڑا تھا بلکہ لڑکیوں کے معاملے میں بھی۔

"محبت۔۔۔۔۔"وہ مُسکرایا

"مُجھے تو مُحبت سے بھی آگے بات نکلتی دکھائی دے رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اچھا وہ کیسے۔۔۔۔۔۔۔"

"وہ ایسے کہ مُجھے اُس کے آس پاس بیٹھی لڑکیاں زہر لگ رہی ہیں،اپنے والی کو بولو کہ اب بس کریں بہت ہو گئی تصویریں،امروش تھک چُکی ہو گئی،کہاں پچھلے چار گھنٹوں سے وہ ایسے ہی بیٹھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کے کہنے پر علی شرارت سے مُسکراتا ہوا ہماس کی طرف بڑھ گیا اور پھر جب امروش جو خود بھی تھک چُکی تھی ارمائز کے پاس سے گُزرتی اندر جانے لگی کہ ارمائز نے نرمی سے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے روکا۔دونوں کی نگاہیں باہم ٹکرائیں تھیں مگر امروش نے جلدی سے نگاہیں جُھکا کر اپنا ہاتھ اُسکی گرفت سے نکالنے کو مچلی۔

"میں تو کب سے یہی سوچے جا رہا ہوں کہ تُم سادگی میں میرے ہوش و ہواس چھین رہی ہو تو کل ہر ہتھیار سے لیس ہو کر جب روبرو آؤ گی تو کیا تُمہارے حُسن کے جلوؤں سے بچنا آسان ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز سرگوشی کے انداز میں کہا۔امروش کے گال تپ اُٹھے۔

"جاؤ جا کر آرام کرو،کل تیار رہنا،بڑی محبت سے کُچھ حساب چُکانے ہیں۔۔۔..۔۔"ارمائز نے اُسکا ہاتھ ہلکے سے دباتے ہوئے چھوڑ دیا تو وہ بھاگنے والے انداز میں پلٹ گئی۔ارمائز نے گہرا سانس بھر کر علی کی طرف دیکھا جو شرارت سے مُسکرا رہا تھا ارمائز بھی دلکشی سے مُسکرا دیا۔

"_________________________________"

ارمائز کی کہی بات بلکل سچ ثابت ہوئیں تھی دُلہناپے کا اس قدر ٹوٹ کر اُس پر روپ آیا تھا کہ ارمائز کتنے ہی پل اُس پر سے نظریں نہ ہٹا سکا اور اگر علی نہ کندھا ہلاتا تو وہی جم کر اسے دیکھتا رہتا جو لال سُرخ لہنگے میں زیور سے لیس کسی شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ارمائز جو خود بھی سکن شیروانی پر ریڈ کُلہ پہنے اپنی مردانہ وجاہت کا مُنہ بولتا ثبوت دے رہا تھا کہ انفال بیگم بار بار دونوں کی نظریں اُتار رہی تھیں کہ کہیں انکو کسی کی نظر نہ لگ جائے جو ساتھ بیٹھے اتنے مُکمل اور حسین لگ رہے تھے کہ جو بھی دیکھ رہا تھا بے اختیار دیکھے جا رہا تھا۔

امروش کو ہماس اور ندا لوگ ارمائز کے کمرے میں چھوڑ کر گئیں تھیں امروش نے اُن کے جانے کے بعد ایک نظر کمرے پر دُہرائی اس نے سُنا تو تھا کہ ارمائز نے روم کی نہ صرف سیٹنگ چینج کی تھی بلکہ فرنیچر بھی چینج کروایا تھا مگر شادی کے پہلے ایک ہفتے وہ اپنے کمرے سے کے نکلتی تھی کیونکہ ہماس لوگوں نے اُسکا ارمائز سے پردہ کروایا تھا جسکا ساتھ علی نے بھی دیا اور ارمائز نے کافی احتجاج بھی کیا تھا۔

کمرے کو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں پسندیدگی کے تاثرات اُبھرے خاص طور پر بیڈ پر سجی مسہری کو دیکھ کر جن میں نیٹ اور فریش گلاب کے پھولوں کی ڈیکوریشن کی تھی۔تبھی اُسے ہماس' اناس اور ندا کی آوازیں آئیں جو نیگ لینےکے لئے ارمائز کے ساتھ بحث کر رہی تھیں۔ارمائز اُنکو تنگ کرتا مُنہ مانگا نیگ دے کر اپنے کمرے میں آیا اور دروازہ بند کر کے بیڈ کی طرف نگاہ دوڑائی جہاں وہ دھڑکتے دل کے ساتھ گردن جُھکا گئی تھی۔

"اسلام وعلیکم۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز اُس پر سلامتی بھیجتا سر سے کُلہ اُتار کر صوفے پر رکھتا اُس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گیا۔امروش کا جُھکا سر مزید جُھک گیا۔

"مُجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کی بات پر وہ حیران ہوئی۔

"مُجھے اس لئے ڈر لگ رہا ہے کہ قیامت کو قریب سے دیکھنے پر پتھر کا نہ ہو جاؤں،دُور سے ایک  نظر تم پر ڈال کر ارمائز کے ہوش و ہواس اُسکا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں تو ایسے اتنے قریب سے تُمہیں دیکھنے پر کیا گُزرے گی یہی سوچ پریشان کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کی جذبوں سے بھرپور آواز پر وہ خُود میں سمٹ کر رہ گئی۔ارمائز نے آہستہ سے شہادت کی انگلی سے اُسکا چہرہ اُوپر کیا تو اُس کے ہوش چُراتے روپ پر جیسے نگاہیں جم کر رہ گئیں تھیں۔ارمائز یک ٹک اُسے دیکھتا سانس لینا بھول گیا جو بلاشُبہ قیامت ڈھا رہی تھی ہمیشہ سادہ رہنے والی امروش دُلہن بنی کوئی الپسرا لگ رہی تھی۔

"کیا مُجھے رب کا شُکر نہیں کرنا چاہیئے؟جس نے مُجھے میری اوقات سے بڑھ کر نواز دیا،میری زندگی میں آنے کا آپکا بھی شُکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔"دلکشی سے کہتا وہ اُسکا نرم و ملائم ہاتھ پکڑ کر لبوں سے لگا گیا۔امروش کی دھڑکنیں شور کرنے لگیں۔

"تُم نہیں کُچھ کہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی بات پر وہ چُپ ہی رہی تو ارمائز جیسے سمجھ کر مُسکرایا۔

"آئی نو ناراض ہو اُس دن کی وجہ سے،دراصل اُس دن مُجھے غُصہ آ گیا تھا تُمہاری بات پر بس عمل کا رد عمل تھا،خُود سوچو میں نے اپنی مرضی سے شادی کی تُم سے،ماما پاپا کو بھی میں نے بولا نہ کہ اُنہوں نے کوئی زبردستی کی جو تُمہیں لگے کہ میں ہمدردی کے تحت اتنا بڑا فیصلہ کر گیا بلکل بھی نہیں،پتہ نہیں تب کونسا جذبہ تھا جس نے مُجھ سے یہ فیصلہ کروایا پر تب بھی میں ایسا چاہتا تھا کہ تم اسی گھر میں میرے آس پاس رہو اور پھر جب نکاح ہو گیا تو مُجھے احساس ہوا کہ وہ کوئی اور احساس نہیں بلکہ محبت کا احساس تھا اور اب مُجھے کہتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہو رہی کہ مُجھے تم سے محبت ہو گئے ہے اپنی بیوی سے شدید محبت ہو گئی ہے مُجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ چونک کر دیکھنے لگی جس کی آنکھوں میں بھی اُسے صرف پیار ہی دکھائی دیا تھا ارمائز کے مُنہ سے نکلتی اظہار کی بوندیں اُسکا تن من مہکا گئیں ۔

"اور طائشہ۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے دل میں یہ گلٹ بھی تھا شاید۔

"پسند بہت ساری چیزوں کو کیا جاتا ہے ضروری نہیں اُن سے مُحبت بھی ہو جائے،طائشہ کزن تھی اچھی تھی بس،اس سے زیادہ کُچھ نہیں اور ڈونٹ وری ابھی تو زرا وہ غُصے میں ہے میں اُسے جلد ہی منا لونگا،تم دو گی نہ ساتھ میرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کے ہلکے پھلکے لہجے نے اُسکی بھی ہلکا پھلکا کر دیا تو وہ سر اثبات میں ہلا گئی۔

"تُمہارا رونمائی گفٹ تو دینا بھول گیا۔۔۔۔۔۔"ارمائز نے یاد آنے پر ڈرا سے ایک مہرون ویلووٹ کا ڈبہ نکالا اور اُس میں سے ڈائمنڈ کا لاکٹ نکال کر اُس کی طرف بڑھایا جو امروش کو بہت پسند آیا۔

"بہت خُوبصورت ۔۔۔۔۔۔۔"وہ بے اختیار تعریف کر گئی۔ارمائز مُسکراتا ہوا اُس کے گلے میں ڈال گیا۔

"اب اُسکی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔۔۔۔۔۔"ارمائز نے سراہتی نگاہوں سے دیکھا تو وہ جھینپ گئی۔

"میرے خیال میں رات بہت ہو گئی تُم کپڑے چینج کر لو۔۔۔۔۔۔"بمشکل اُس کے چہرے سے نظریں ہٹا کر وہ اُٹھا۔ارمائز نے ڈریسنگ روم کا رُخ کیا تو امروش بھی آہستہ سے اُٹھتی ڈریسنگ کے مرر کے سامنے آئی اپنے آپ کو دیکھ کر اُس کے کانوں میں تھوڑی دیر پہلے کے ارمائز کے کہے جُملے گونجے تو ایک شرمیلی سی مُسکان اُس کے لبوں پر آئی۔وہ جو اس رشتے اور ارمائز کو لے کر کُچھ اوبہام کا شکار تھی ارمائز کے آج کے رویعے پر وہ ہلکی پھلکی ہوتی خُود کو فریش سا محسوس کرنے لگی۔تبھی ارمائز جسٹ بلیک ٹرازر میں ہی باہر نکلا۔امروش اُسکو ایک نظر دیکھتی ہی جلدی سے رُخ موڑ گئی جو بنا شرٹ کے اس کے قریب آیا تھا۔

"جیولری اُتارنے میں ہیلپ کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کے پوچھنے پر وہ سر نفی میں ہلا گئ مگر پھر بھی وہ اسکے ڈوپٹے کی پنیں نکالنے لگا۔ڈوپٹہ اُتار کر صوفے پر رکھا اور ٹیکا اُتارتے ہوئے اُسکی پیشانی پر لب رکھے امروش کے ہاتھ پیر تھنڈے پڑنے لگے جو اس انداز سے ہی اسکا سارا زیور اُتارتا اُسکی کلائیاں بھی سونے کی چوڑیوں سے آزاد کروا گیا۔پھر اسکے بالوں کو جوڑے کی قید سے آزاد کرواتا اسے اپنے قریب کر گیا امروش اسکی مسلسل بڑھتی قربت پر اپنے حواس کھونے لگی۔ارمائز نے اُسے اپنے باذؤوں میں اُٹھایا اور لے جا کر بیڈ پر لٹا دیا اور خُود اُس پر جُھکتا اُس کے فرار کے سارے راستے بند کر گیا۔اُسکی گردن اور اسکے چہرے کہ ایک ایک نقوش کو اپنے لبوں سے چُھوتا وہ اس پر دیوانہ وار اپنا پیار نچھاور کرنے لگا کہ امروش اُسکی تنگ سے تنگ ہوتی گرفت پر ناذاں ہوتی آنکھیں موند گئی۔

ارمائز کی آنکھ اُسکے موبائل کی بپ پر کُھلی تھی وہ اُٹھ کر پہلے موبائل کی طرف متوجہ ہوا جہاں اُس کے دوستوں کے شرارت بھرے میسج اور کالز تھیں وہ اُن کو پڑھتا ہوا مُسکرا اُٹھا پھر نظریں اُٹھائیں تو واش روم سے نکلتی امروش پر ساکت ہوئیں جو خود بھی اسے جاگتے پا کر شرم سے سر جُھکا گئی تھی۔ارمائز نے گہری نگاہوں سے سر سے لے کر پاؤں تک دیکھا جو پنک سُوٹ میں بالوں کو ٹاون میں لپیٹے نکھری نکھری اس کے نگاہ و دست کے بہکے انداز محسوس کرتے ہوئے امروش کا چہرہ تمتا گیا۔

"نئی زندگی کی پہلی صُبح مُبارک مسز ارمائز آفندی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُٹھ کر اسکے قریب آیا اور اسکے بال ٹاول سے آزاد کر دئیے جو کُچھ اسکے چہرے اور پشت پر پھیل گئے جن کو ارمائز نے نرمی سے چہرے سے ہٹایا اور پھر گیلے اور نم نم بالوں میں اپنا مُنہ چُھپا کر اُنکی خُوشبو اپنے اندر اُتارنے لگا۔

"ارمائز نا۔ناشتے کا ٹائم ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکی جان لیوا قربت سے گھبرا اُٹھی۔

"چلتے ہیں یار،پہلے زرا ایک دوسرے کو تو ٹائم دیں لے۔۔۔۔۔۔"وہ اسکے کان کو لو کو چُوم گیا۔

"مُجھے نہیں پتہ تھا کہ تُمہاری قربت اتنی میٹھی اور نشہ آور ہے کہ ابھی تک بن پیئے بہک رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔

"ارمائز،امروش۔۔۔۔۔۔۔۔"تبھی دروازے پر دستک ہوئی تھی اور ساتھ انفال بیگم کی آواز گونجی تو امروش جلدی سے پرے ہوئی۔

"اُف ماما کب سے ظالم سماج بن گئیں۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز بد مزہ ہوا تھا۔امروش اُس کے تاثرات دیکھتی مُسکرا دی۔

"ہس لو تُم،تُمہیں تو بعد میں بتاؤں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسے گھورتا ہوا واش روم میں گُھس گیا۔امروش مُسکراتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھی جہاں انفال بیگم بھی اسکے مُسکراتے اور کھلے کھلے چہرے کی طرف دیکھ کر مُسکرا دیں۔

"________________________________"

اور پھر ارمائز کے ساتھ گُزرتا ہر دن نہ صرف امروش کا ہر وہم دور کر گیا تھا بلکہ وہ اپنے بدلتے احساسات پر بھی حیران ہوتی جا رہی تھی کہ اب ارمائز کے بنا اُسکا بھی ایک پل نہیں گُزر رہا تھا اور اُسکا دل اُسکے اختیار سے باہر ہوتا جا رہا تھا۔

"کہاں جا رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ارمائز کی چائے لے کر اُسکے کمرے میں آئی تو اُسے پکینگ کرتے دیکھ کر چونکی۔

"ایک ضروری میٹینگ ہے،دو دن کے لئے لندن جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز نے اُس کے ہاتھ سے چائے پکڑ کر ٹیبل پر رکھی۔

"پر یوں اچانک۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکا دل گُم صُم ہوا تھا اسکے جانے کا سُن کر۔

"ہاں بس اچانک ہی اُس کمپنی سے ڈیلنگ ہوئی ہے اس لئے جانا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز نے اس کی لٹکتی صُورت دیکھی تو مُسکرا دیا اور اسے اپنے ساتھ لگا کر خُود میں بھینچ لیا۔

"یقین نہیں آتا یہ وہی لڑکی ہے جو آج سے دو ہفتے پہلے مجھے کاٹ کھانے کو دوڑتی تھی کہ میں نے کیوں نکاح کیا اس سے اور آج صرف دو دن کی دُوری کا سن کر مُنہ بنا رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں تو اس میں بھی قصور آپکا ہوا نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میرا قصور وہ کیسے میم۔۔۔۔......"

"کس نے کہا تھا کہ دو ہفتوں میں اتنا پیار دیں کہ دو پل کی دُوری برداشت کرنا بھی عذاب لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش کی بات پر وہ مُسکرایا۔

"اور تُم سے کس نے کہا تھا کہ مُجھے اپنی قربت میں یوں مدہوش کرو کہ تُمہیں خُود سے ایک پل بھی دور کرنا میری برداشت سے باہر ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسکے لبوں کو اپنی اُنگلی سے سہلانے لگا تو اسکے لہجے اور نظر کی گرمی سے جلتا چہرہ جُھکا گئی۔

"بس دو دن کی بات ہے پھر آ کر ہنی مون کا پلان کرتے ہیں تا کہ یہ جو ہر صُبح جلدی اُٹھنا پڑتا ہے مُجھے آفس جانا پڑتا ہے اور تُمہیں کچن کو ٹائم دینا پڑتا ہے ان چیزوں سے تو کُچھ دن جان چھوٹ جائے گی،سچ میں یار میں اپنے اور تُمہارے درمیان ان حسین ذُلفوں کو بھی برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسکے بالوں کو اسکے چہرے سے ہٹا کر اُسکی روشن پیشانی پر بوسہ دے گیا۔

"آپکی چائے تو ٹھنڈی ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش نے اُس طرف توجہ دلائی۔

"پاگل کر رہی ہو مُجھے تم کسی چیز کا ہوش نہیں رہتا۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کی بے بسی پر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

"چائے تو ٹھنڈی اب ہو ہی چُکی ہے سو اب اسے پینے کا کوئی فائدہ نہیں تو کیوں نہ اب اُس جام کو پیا جائے جو کُچھ دیر گرم تو رکھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کی معنی خیزی پر وہ لال سُرخ ہوتی پیچھے کی طرف سرکنے لگی مگر ارمائز آنکھوں میں چاہت کا پیغام لئے اُسکی طرف بڑھتا اسے اپنے قابو میں کر گیا۔

"______________________________"

"ارمائز کیسے بتاؤں آپکو کہ میرا اب آپ کے بنا ایک پل بھی جینا دشوار ہو گیا ہے،یہ دو دن بہت بھاڑی تھے مُجھ پر،بس اب جلدی سے آ جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش اُسکی تصویر کو سینے سے لگائے بولی۔تبھی اُس کے کانوں میں ارمائز کی آواز گونجی تو وہ خوشگوار حیرت سے مُسکراتی باہر کی جانب بھاگی اُس کے قدم ارمائز کی طرف دیکھ کر بڑھنے لگے جو ہال میں داخل ہو رہا تھا مگر اُس کے پیچھے آتے شائز اور ثمر کو دیکھ کر نہ صرف اسکے قدم رُکے تھے بلکہ وہ خود بھی ساکن ہوئی تھی اور ششدر سی انفال بیگم کے گلے لگتے شائز کو دیکھ رہی تھی تبھی ارمائز کی نگاہ اس پر پڑی تھی تو وہ اُسکی جانب لپکا جو سر نفی میں ہلاتی اپنے کمرے میں بھاگ آئی اور اس سے پہلے کہ دروازہ بند کرتی ارمائز نے روک دیا۔

"امروش،میری بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"نہیں سُننی آپکی کوئی بات مُجھے،چلیں جائیں یہاں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ آنکھوں میں آنسو لئے چیخ اُٹھی۔

"دیکھو آئی نو کہ تُمہیں بُرا لگا بٹ ایک دفعہ میری بات سُنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسکے ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا جو اُس نے ایک جھٹکے سے چھڑوائے۔

"کیا سُنوں میں آپ نے دھوکہ دیا مُجھے،جس انسان نے مُجھے اتنی تکلیف پہنچائی آپ ایسے کیسے اُسے میرے گھر لا سکتے ہیں وہ بھی بنا مُجھ سے پوچھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آئی نو مُجھے تُم سے بات کرنی چاہئے تھی پر ایک دفعہ سکون سے بیٹھ کر میری بات تو سُن لو تُم میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا سُنوں میں یہی سب کہ آپ نے مُجھ سے شادی کی تا کہ آپ اپنے بھائی کو واپس گھر میں لا سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بدگمانی کی راہ پر چلنے لگی

"ایسی بات نہیں تم کیوں کہہ رہی ہو ایسا۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ایسی ہی بات ہے ارمائز یہ جانتے بوجھتے بھی کہ وہ انسان قاتل ہے میرے احساسات کا میرے جذبات کا،کس قدر تکلیف دی اُس انسان نے پھر بھی آپ اُسے لینے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں کیونکہ میرے خیال میں جب ہم اپنی لائف میں خُوش ہیں تو بھائی کو کس بات کی سزا ملنی چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کی بات پر وہ طنزً مُسکرائی۔

"اوہ تو یہ پلان تھا تُمہارا ارمائز کہ مُجھ سے شادی کر کے مُجھے اپنا عادی بنا کر پھر سب اچھا ہے کا بورڈ لگا کر اپنے بھائی کو واپس لانا کہ امروش کُچھ کہہ بھی نہ سکے اور معاف کر دے اُس انسان کو جس نے میری تذلیل کی،واہ بہت خُوب بہت اچھا کھیلے تم میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"پاگل تو نہیں ہو گئی تُم کیا بکواس کر رہی ہو امروش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"پاگل تو پہلے تھی جو تُمہاری باتوں میں آ گئی ارمائز آفندی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تمیز سے بات کرو امروش،تُم اس وقت بدگُمانی اور غُصے کی نظر سے سب دیکھ رہی ہو اگر ٹھنڈے دماغ سے سوچو تو تم بھی میرے اس قدم پر میرا ساتھ دیتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"دیا تو ہے تمہارا ساتھ ارمائز تمہاری جھوٹی محبت کے بہکاوے میں آ کر تُمہیں اپنا آپ سونپ کر پر مُجھے نہیں پتہ تھا تُم اس طرح میرے پیٹ پیچھے وار کرو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے تھے جو کہ ارمائز کو اپنے دل پر گرتے محسوس ہوئے تھے وہ اُسے تھام کر اپنے ساتھ لگا گیا مگر وہ ایک جھٹکے سے اس سے دُور ہوئی تھی اور جا کر ڈریسنگ روم میں بند ہو گئی ارمائز بے بسی سے سر پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا کہ ایک طرف انفال بیگم تھیں جو دن رات شائز کو یاد کرکے روتی تھیں اور ثقلین آفندی بھی اس شرط پر رضا مند ہوئے تھے کہ اگر امروش معاف کر دے تو شائز اس گھر میں رہ سکتا اور اُسکی بیوی کو قبول کیا جائے گا۔

"________________________________"

"تُمہیں پہلے اُسے اپنے اعتماد میں لینا چاہیے تھا ارمائز،اُسے شائز کے واپس آنے سے زیادہ اس چیز کا صدمہ ہے کہ تُم نے بنا پوچھے اور بتائے اُسے یہ سب کیا،اُسکا مان ٹوٹا ہے بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"انفال بیگم کی بات پر وہ سر ہلا گیا۔

"جی ماما یہی غلطی ہوئی مُجھ سے،مُجھے لگا شاید پہلے بتانے پر وہ ناراض ہو گی تو واپسی پہ اُسے اعتماد میں لے کر سب کلیئر کر دونگا مگر وہ تو کوئی بات سُننے کے مُوڈ میں ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز بھی اُس کے یوں کمرے میں بند ہونے سے پریشان ہو چلا تھا جو کہ ڈنر کئے بغیر ہی کمرے میں بند تھی۔

"مُجھ سے تُمہارے پاپا بھی پوچھ رہے تھے امروش کا میں نے جھوٹ بول دیا کہ اُسکی طبعیت نہیں ٹھیک اس لئے ڈنر کرنے بھی نہیں آئی ورنہ تم جانتے ہو کہ تُمہارے پاپا کی شرط کہ امروش کے کہنے پر شائز اور رابیل کو اس گھر میں رکھا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُنکے لہجے میں بھی فکرمندی جھلک رہی تھی۔

"ڈونٹ وری ماما سب ٹھیک ہو جائے گا،آپ یہ بتائیں آپکو اپنی بڑی بہو کیسی لگی۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُنکا دھیان بٹانے لگا

"ہاں بہت اچھی لگی،سب سے خاص بات کہ شائز خُوش ہے اُسکے ساتھ پر جو بھی ہے پیاری مجھے اپنی چھوٹی بہو ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ تو بہت غلط بات ہے ماما،آپ کو پتہ نہیں آپکی چھوٹی بہو پہلے ہی اتنے نکھرے کر رہی ہےکہ میرے ہاتھ ہی نہیں آ رہی اُوپر سے آپ اُسے پیاری کہہ رہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ شرارتی مُسکان لئے بولا انفال بیگم نے مُسکرا کر اُس کے کان کھینچے ۔

"شریر کہیں کہ،پیاری تو تُمہیں بھی بہت لگتی ہے وہ اس لئے تو اُس نے ڈنر نہیں کیا تو تُم نے بھی ایک نوالہ مُنہ میں نہیں ڈالا کہ مُجھے بُھوک نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا کروں بیچارہ شوہر ہوں،بیوی کے بغیر کھانا کھا کے خطرے میں نہیں پڑنا مُجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جتنے بیچارے ہو پتہ ہے مُجھے،چلو اب اُٹھو یہاں سے،جا کر امروش کو مناؤ اور کھانا بھی کھلاؤ اُسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی ماما ،گُڈ نائٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُن سے کہتا اپنے کمرے میں آیا جہاں امروش کمبل میں مُنہ دئیے لیٹی ہوئی تھی اور وہ یقین سے کہہ سکتا تھا کہ وہ جاگ رہی ہے۔دروازہ بند کرتا وہ بیڈ کی طرف آیا۔

"امروش مُجھے بہت بُھوک لگی پلیز کچن سے کھانا لا دو،بولنا چاہے مت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسکے بولنے پر بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوئی وہ سر کھجانے لگا

"ناراضگی مجھ سے ہے کھانے سے تو نہیں نہ دیکھو تُمہارے ساتھ میں بھی بھوکا ہوں اتنے لمبی رات کیسے نکالوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تو کھا لینا تھا میں نے نہیں ہاتھ پکڑ کر روکا تھا جہاں اتنے کام بنا میری رضا کے کئیے وہاں یہ بھی کر لیتے تو کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جھٹکے سے کمبل پرے کرتی بولی پھر اُسی پوزیشن میں چلی گئی۔ارمائز جو اسے اُٹھتے دیکھ کر مُسکرایا تھا پھر گہرا سانس بھرتا شرٹ اُتار کر صوفے پر رکھی اور بیڈ پر لیٹ گیا۔اسکے لیٹنے سے امروش جو پہلے ہی ایک سائیڈ پر تھی اب تو کنارے پر چلی گئی تھی۔

"دو دن بعد آیا ہوں پھر بھی اتنی دُوری رکھ کے سو رہی ہو،قریب آنے میں کوئی حرج نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز نے اُسکی پشت کو دیکھتے کہا۔

"اوکے بیوی صاحبہ اب آپکی مرضی نہ صرف بھوکا سُلا رہی ہو بلکہ دو دن کا پیاسہ بھی،بُھوک تو کُچھ نہیں کہے گی پر تُمہاری قربت کی پیاس بہت جان لیوا ثابت ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کی آواز کی گھمبیرتا نے اُسکی دھڑکنوں کی رفتار تیز کر دی اُسکا دل ہمک ہمک کر اُسکی طرف کھینچ رہا تھا مگر وہ دل کو ڈپٹ کر چُپ کروا گئی کہ جو ارمائز نے اُسکا مان توڑا تھا اُس نے اُسے بہت تکلیف پہنچائی تھی کہ وہ اسے اعتماد میں لے کر اگر یہ قدم اُٹھاتا تو وہ اُسکا ساتھ ضرور دیتی مگر ایسے؟اسے تو اپنی توہین لگ رہی تھی۔

"________________________________"

اگلی صُبح انفال بیگم اسے نہ صرف ناشتے کے لئے لینے آئیں تھیں بلکہ اُسکا دل بھی صاف کر گئیں تھیں کہ جب شائز نے اس سے معافی مانگی تھی تو وہ کُھلے دل سے معاف  کر گئی بلکہ ثمر  کو بھی اچھے سے ملی تھی اور زاتی طور پر بھی وہ اسے اچھی لگی تھی۔

"میرے خیال میں اب شائز اور ثمر  کے ریسپشن کا فائنل کر دینا چاہئیے تا کہ سب کو پتہ چلے کہ رابیل شائز کی بیوی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"انفال بیگم نے رابیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو ثقلین آفندی نے بھی تائید کی۔

"اوکے آپ سب مل کر فائنل کر لیں کوئی دن میں سب ارینج کروا دونگا ثمر  بیٹی کے ماما پاپا سے بھی بات کر لیں تا کہ وہ سب بھی پاکستان آ جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی میں نے بات کی تھی ماما سے،وہ لوگ نیکسٹ ویک آ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"ثمر  کی بات پر انفال بیگم کب سے گُم صُم امروش کی طرف متوجہ ہوئیں۔

"امروش بیٹا اب شاپنگ کی ساری زمعہ داری تُم پر ہے کیونکہ مجھ سے تو اب بازار کے چکر نہیں لگتے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی میں اور ثمر جی کر لیں گئیں۔۔۔۔۔"

"یہ ارمائز نہیں نظر آ رہا۔۔۔۔۔۔۔"شائز نے امروش سے پوچھا۔

"میں یہاں ہوں برو۔۔۔۔۔۔۔"تبھی ارمائز لاؤنج میں داخل ہوا۔امروش اُسے دیکھ کر اُٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ارمائز اُسے جاتا دیکھ کر گہری سانس بھر کر رہ گیا کہ اُسکا غُصہ ہنوز برقرار تھا اور اس نے اب سوچ لیا تھا کہ کس طرح سے اُسکی ناراضگی ختم کرنی ہے اس لئے وہ جب دس منٹ بعد اپنے کمرے میں آیا وہ صوفے پر بیٹھی ہوئی ملی اسے دیکھتے ہی وہ باہر جانے کو لپکی مگر ارمائز اُسکا ارادہ بھانپ کر نہ صرف اُس کی کلائی تھام گیا بلکہ دروازہ بھی بند کر گیا۔

"ایسا کب تک چلے گا امروش،تم جب بھائی کو معاف کر چُکی ہو تو مُجھے کیوں تنگ کر رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میں آپکو تنگ نہیں کر رہی بلکہ آپ مُجھے کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔"اُس نے اپنی کلائی آزاد کروائی۔

"اور رہا سوال معاف نہ کرنے کا تو جتنی تکلیف مجھے آپکے رویعے اور دھوکے سے ہوئی ہے اُتنی تو تب بھی نہیں ہوئی تھی،آپ کو اپنے بھائی کو اس گھر میں واپس لانا تھا تو مُجھ سے اگر زکر کر لیتے تو میں نے آپ کو روکنا تو ہرگز نہیں تھا،انفال مُمانی جس کرب سے گُزر رہیں تھیں مُجھے بھی نظر آ رہا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی جُدائی سہہ نہیں پا رہیں اور آپ سے شادی کے بعد میں بھی سوچنے لگی تھی کہ جب میں آپ کے ساتھ خُوش ہوں ایک آسودہ زندگی گزار رہی ہوں تو شائز اور ثمر  کو بھی اب اس گھر میں وہ مقام ملنا چاہئیے جو مُجھے ملا ہوا ہے،مگر آپ نے سب چُھپا کر ایسا کر کے مجھے میری اوقات یاد دلا دی کہ میری مرضی میرے چاہنے کی کوئی اہمیت نہیں آپکی نظر میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش کی دُکھ سے آنکھیں بھیگنے لگیں وہ شرمندہ ہو گیا۔

"صوری یار،اصل میں غلطی میری ہے میں بس  سب ٹھیک کرنا چاہتا تھا اور مُجھ سے غلطی یہاں ہوئی جب میں نے تُم سے زکر کئے بنا یہ فیصلہ کیا مُجھے پہلے تمہیں اعتماد میں لینا چاہیے تھا پھر ایسا قدم اُٹھانا چاہئیے تھا،پر اب تو ہوگیا نہ سب،کیا پہلی غلطی سمجھ کر معاف نہیں کر سکتی تُم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کوئی ضرورت نہیں آپکو مُجھ سے معافی مانگنے کی۔۔....."اُسکا انداز ابھی تک نروٹھا تھا۔

"جب تک معاف نہیں کرو گی ایسے ہی معافی مانگتا رہونگا،اب کیوں جان لینے پر تُل گئی ہو،بس ایک چانس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اور آئندہ۔۔۔۔۔۔۔"تیکھے ابرو سے دیکھا۔

"آئندہ کے لئے توبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شرارت سے اسکے کانوں کو چھُوا۔

"میرے نہیں اپنے کان پکڑیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس نے اسکے ہاتھ پیچھے کیئے۔

"تُم میری ہو تو تُمہاری ہر چیز میری ہوئی نہ،تو تُمہارے کان پکڑوں  یا اپنے بات تو ایک ہی ہوئی نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ آہستہ آہستہ اسے قریب کر گیا مگر امروش جلدی سے اُسکے باذؤوں کا حصار توڑ کر نکلی۔

"دس از ناٹ فیئر ڈارلنگ۔۔۔۔۔۔۔"اُسکا اشارہ اسکے دُور جانے پر تھا۔

"میں نے ابھی تک آپ سے ناراضگی ختم نہیں کی سو ایسا سوچے بھی مت۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وارن کیا گیا وہ گہری سانس بھر کر رہ گیا۔

"اوکے ایک سرپرائز ہے تُمہارے لئیے۔۔۔۔۔۔۔"اُسے اچانک یاد آیا تو اپنی پاکٹ سے کُچھ نکالا۔وہ بھی دیکھنے لگی جس کے ہاتھ میں کُچھ کاغذ تھے۔

"پیرس کے ٹکٹس،ہم دونوں ہنی مون کے لئے پیرس جا رہے ہیں جسٹ فار ٹو ویکس۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مگر شائز اور ثمر  کے ریسپشن کی ڈیٹ فائنل ہو رہی اور ساری تیاری میرے زُمعے ہے۔۔۔۔۔۔۔"وہ کُچھ پریشانی سے بولی

"تُم اُسکی فکر مت کرو میں نے بات کر لی ہے سب سے،اُنکا ریسپشن کُچھ دن اور ڈیلے کر دیا ہے،تُم بس کل تک اپنی تیاری کرو جانے کی،پہلے ہی اتنا لیٹ ہوا ہمارا ہنی مون۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کے کہنے پر وہ مُسکرائی

"اب تو قریب آ سکتا ہوں نہ۔۔۔۔۔۔"کہتا ہوا وہ اسے اپنے قریب کر چُکا تھا اور اس دفعہ امروش بھی اُس کی گرفت سے نکلنے کو مچلی نہ تھی۔

"تُم نہیں جانتی امروش کہ تُم کس قدر میرے اندر بس چُکی ہو،ایک پل کے لئے بھی تُم مُجھ سے دُور ہوتی ہو تو جان نکلتی محسوس ہوتی ہے یہ جو دو دن تُم مجھ سے ناراض رہی ہو سچ میں بہت دشوار تھے وہ لمحے پلیز اب کبھی ناراض نہ ہونا مُجھ سے،تُم خفا ہوتی ہو تو زندگی کی ہر رونق ختم ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کس قدر جادو اثر اور سحر آگیں لہجہ تھا کہ اُس کے جسم و جاں میں ٹھنڈک کی پھوار سی پڑتی جا رہی تھی۔

"مُجھے تو شائز بھائی کا شُکریہ ادا کرنا چاہئیے جن کی وجہ سے تُم میری زندگی میں آئی۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز نے بری محبت سے جُھک کر اُسکی پیشانی پر اپنے لب رکھے۔

"اور آپکا بھی شُکریہ میری زندگی میں آنے کا اتنے رنگ بھرنے کا اور مُجھے اس قدر چاہنے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امروش کے کہنے پر وہ مُسکرا دیا ۔

"تُمہیں پتہ ہے میں چچا اور تُم چچی بننے والی ہو۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں ثمر  نے بتایا تھا اور مُمانی نے بھی۔۔۔۔۔۔"

"تو ُتم کب تک ایسی گُڈ نیوز سُناؤ گی مُجھے۔۔۔۔۔۔۔۔"ارمائز کی آنکھوں کی شرارت دیکھ کر اُسکی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے وہ شرم سے اُسکے سینے میں ہی مُنہ چُھپا گئی۔

"بتاؤ نہ یار،سچی مُجھے بھی بہت انتظار ہے اس گھڑی کا جب تُم مُجھے پاپا بننے کی گُڈ نیوز سُناؤ گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مُجھے نہیں پتہ۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ یونہی اسکے سینے میں ہی مُنہ چُھپائے بولی تو ارمائز ہنس کر اپنی گرفت اور تنگ کرتا چلا گیا اور کسی متاع حیات کی طرح اسے خُود میں سمو لیا۔

"_____________ختم شُدہ_______________"


Muhabbat Aur Ibadat Novel By Chanda Ali Complete Short Story 6

چهوڑدو مجهے چهوڑدو میں نے کوئ گناہ نہیں کیا صرف محبت ہى تو کى ہے محبت تو عبادت ہے گناہ نہیں کہ جس کى سزا کے طور پہ مجهے دوزخ میں ڈال دیا جاۓ محبت جرم کیسے ہو سکتى ہے عشق گناہ کیسے ہو سکتا ہے عشق تو عبادت ہے الله پاک نے بهى تو اپنے نبى پاک(ص) سے عشق کیا ہے پلیز مجهے چهوڑ دو پلیززززززز............

پریشے زور سے چیخ کے اٹه بیٹهى اور سوچنے لگى کہ یہ خواب تها حقیقت یا میرے کسى گناہ کى سزا..........؟

پریشے اپنے ماں باپ کى اکلوتى بیٹى تهى بے انتہا خوبصورت اور ذهین و فطین فرسٹ ائیر کى سٹوڈنٹ تهى ہر کلاس میں ٹاپ کرتى آئ تهى اس کى پورے کالج میں بس اک ہى دوست تهى باقى سب کے ساته علیک سلیک تهى صرف بنقشے کے ساته هى اس کى دوستى تهى بنقشے بهى بہت خوبصوبصورت اور پریشے کى طرح ہى ذہین دونوں اک دوسرے سے ہر بات شئر کرتى تهیں دونوں بہت شوخ اور چنچل تهیں بنقشے برقعہ پہنتى تهى جب کے پریشے صرف دوپٹہ لیتى تهى

اک بات اور تهى جو پریشے کو بنقشے کى بہت حیران کرتى.........؟

پریشے کو بنقشے کى یہ بات عجیب لگتى کہ عبایا پہننے کے باوجود وہ سر اٹها کے اور نظر جهکا کے چلتى تهى پریشے کو تو یہى لگتا تها کہ بس برقعہ پہن لیا اور بس پردے کا فرض پورا ہو گیااک دن دونوں آپس میں باتیں کرتى جارہى تهیں اچانک ہى پریشے کو یوں لگا کہ جیسے وہ کسى کى نظروں کے حصار میں ہے پریشے نے نظر گهما کے چاروں طرف دیکها پر اسے کچه نظر نہ آیا اس نے بنقشے سے کہا بنقشے یار مجهے لگتا ہے کہ کوئ مجهے دیکه رہا ہے بنقشے نے کہا تم اپنے منہ دهیان چلو باقى سب چهوڑو اگلے دن پهر صبح پریشے کو ایسا ہى محسوس ہوا لیکن پهر کوئ نظر نہ آىا اس نے اپنا وہم سمجه کے نظر انداز کردیا روز یہى ڈرامہ ہوتا تقریبا کوئ مہینہ گزر گیا پهر وہ دن بهى آگیا جب یہ لکا چهپى کا کهیل ختم ہوگیا ہوا کچه یوں کہ بنقشے کى خالہ کى زاد بہن کى شادى تهى وہ اپنى فیملى کے ساته اسلام آباد چلى گئ اور پریشے کو اس دن اکیلے کالج جانا پڑا آج پهر اسے لگا کہ کوئ مجهے دیکھ رہا ہے جب نظر اٹها کے دیکها تو سامنے موڑ پہ اک لڑکا کهڑا اسے دیکهے جا رہا ہے کافى ڈیشنگ پرسنالٹى تهى پهر اس نے دیکها کہ وه........

پریشے نے نظر اٹها کے دیکها تو اس کا دل زور سے دهڑکنے لگا کیونکہ وہ لڑکا اک اک قدم اٹهاتا اس کى طرف ہى آرہا تها پریشے سوچ میں پڑگئ کہ کیا کرے اس سے پہلے کہ وہ وہاں سے نو دو گیارہ ہوتى وہ لڑکا اس کے پاس پہنچ گیا....

اسلام علیکم وہ قریب پہنچ کے بولا

پریشے کو سمجه نہ آیا کہ کیا بولے بمشکل لڑکهڑاتے ہوۓ بولى

وووووعلیکم سلااااام....

کیسى ہیں آپ؟ وہ بولا

جى ٹهیک آآآآآپ کون ہیں؟ لڑکے کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ میرا نام آمن على ہے اکثر اپنے روم کى کهڑکى سے آپ کو اپنى دوست کے ساته کالج جاتے دیکها کرتا تهااور آپ کو شاید محسوس بهى ہوتا تها جو آپ آس پاس نظر گهما کے دیکها کرتى تهیں تو میں فورا سائڈ پہ ہوجاتا آپ مجهے پہلى ہى نظر میں بہت اچهى لگى تهیں اور میں آپ کو دل دے بیٹها پریشے کا دل پسلیاں توڑ کے باہر آنے کو ہونے لگا اور وہاں سے جانے کو پر تولنے لگى اور بولى پلیز راستہ چهوڑیں مجهے کالج سے دیر ہو رہى ہے آمن سائڈ پہ ہوگیا اور پریشے چلنے ہى لگى تهى کہ پیچهے سے وہ بولا سنیں اپنا نام تو بتاتى جائیں 

پرى رک گئ اور مڑکے دیکها تو وہ جذبے لٹاتى نظروں سے پریشے کو دیکھ رہا تها

پررررریشے۔

پریشے نے اک منٹ سوچا اور پهر نام بتا کے وہاں سے نکل گئ کہ کہیں پهر نہ کچه پوچه لے کالج پہنچ کے بهى پریشے کا دماغ آمن کى باتوں میں ہى الجها رہا اور واپسى کا سوچ کے پریشے کا دل قابو سے باہر ہونے لگا اگر اس نے اپنى محبت کا جواب مانگ لیا تو پهر میں کیا جواب دوں گى کہیں یہ فلرٹ تو نہیں کررہا بهلا پہلى نظر میں کوئ کسى کو کیسے دل دے بیٹهتا ہے میں نہیں مانتى کہ پہلى نظر میں بهى محبت ہوسکتى ہے دل کہہ رہا تها کہ آمن نے سچ کہا ہے جب کہ دماغ پہلى نظر کى محبت کو قبول کرنے پہ انکارى تها دل و دماغ کى اسى جنگ میں چهٹى کا ٹائم ہوگیا وہ دهڑکتے دل کے ساته گهر کو جانے والے راستے کى جانب چل پڑى اس کا کالج روڈ پر تها اور اس کا گهر روڈ سے 3 گلیاں چهوڑ کے چار گلى میں تها اور آمن کا روڈ سے پہلى گلى میں تها وہ تیزى سے گهر کى جانب جا رہى تهى کہ اچانک سے کسى نے اس کا ہاته پکڑ لیا جب اس نے نظر گهما کے دیکها تو وہ آمن تها پریشے کو یوں لگا جیسے کسى نے اس کا ہاته آگ میں جهونک دیا گیا ہو غصے سے پریشے کا چہرہ سرخ ہوگیا اور اک زناٹے دار تهپڑ آمن کے منہ پہ جڑدیا تمہارى ہمت کیسے ہوئ میرا ہاته پکڑنے کى 

پررررى

آمن منہ پہ ہاته رکهے پریشے کو دکه سے دیکه رہا تها

پرى بخدا میں نے تمہارا ہاته کسى غلط ارادے سے نہیں پکڑا تها میں تمہیں پرپوز کرنے کے لیے تمہارا ہاته پکڑ کر تمہیں یہ گلاب کا پهول دینا چاہتا تها مجهے پتا ہے کہ لڑکیاں اظہار محبت کرنے کى ہمت نہیں کرپاتیں اس لیے تمہیں یہ گلاب دینا تها کے اگر تمہیں بهى مجه سے محبت ہے تو کل تم یہ گلاب کا پهول ہاته میں پکڑ کے مجهے صرف دکها دینا اگر نہ ہو تو آئندہ تم مجهے اپنے راستے میں کبهى نہیں دیکهو گى اور سورى اگر تمہیں برا لگا تو تم جو سزا دو مجهے قبول ہو گى پریشے سانس روکے آمن کى باتیں سن رہى تهى اور اسے افسوس ہونے لگا بنا سوچے سمجهے اور بنا اس کى سنے تهپڑ مارنے پر گلاب ابهى بهى آمن کے ہاته میں ہى تها پریشے نے گلاب اس کے ہاته سے پکڑا اور گهر کى طرف چپ چاپ چل پڑى

آمن نے پیچهے سے آواز دى

سورى میں نے بنا تمہارى کوئ بات سنے تمہیں تهپڑ دے مارا کل تمہیں جواب مل جاۓ گا اوکے پریشے بنا پیچهے مڑے بولى اور گهر کى طرف چل دى

اور آمن بهى اپنے گهر کى طرف چل پڑا اب اس شدت سے صبح ہونے کا انتظار تها،،،،،،،

پریشے جیسے ہى گهر پہنچى مما کو سلام کرکے بنا کهانے کهاۓ اپنے کمرے میں چلى گئ ستارہ بیگم پریشان ہو کے اس کے پیچهے آئیں 

آج ہمارى بیٹى کو کیا ہوا جو آج کهانا نہى کهایا کسى سے کالج میں جهگڑا تو نہى ہوگیا؟

ارے نئ مما آپ کو اپنى بیٹى جهگڑا کرنے والى لگتى ہے کیا بس کالج کى کنٹین سے برگر کهایا تها اس لئے دل نہیں چاہ رہا کهانے کو 

چلو پهر تم تهک گئ ہوگى تهوڑا آرام کرلو ستارہ بیگم کہ کر چلى گئیں اور پریشے پیچهے سوچوں میں چلى گئ اسے رہ رہ کر خود پہ غصہ آرہا تها کے میں نے کیوں بنا آمن کى کوئ بات سنے اسے تهپڑ ماردیا پہلے اس کى بات تو سن لیتى اگر اس کى جگہ کوئ اور لڑکا ہوتا تو شاید جوابا مجهے تهپڑ مار چکا ہوتا یقیناآمن اچها لڑکا ہے تبهى تو اپنى غلطى ہونے پہ فورا سورى بول دیا پریشے آمن کے بارے میں سوچتے سوچتے سوگئ 

اور ادهر آمن کو نیند آکے نہ دے رہى تهى اسے بڑى شدت سے صبح کا انتظار تها الله الله کرکے صبح ہوئ اور............

پریشے صبح اٹهى اور تیارى کرکے ناشتہ کیا اور چل پڑى کالج کى طرف ہاته میں گلاب کا پهول پکڑے 

آمن کى گلى میں داخل ہونے سے پہلے اس کے قدم من من بهارى لگ رہے تهے دهڑکتے دل کو سنبهالے وہ آہستہ آہستہ چل رہى تهى

آمن بهى صبح اٹه کر کهڑکى میں آکهڑا ہوا اور پریشے کى راہ تکنے لگا

آمن کو زیادہ انتظار نہى کرنا پڑا جلد ہى اس کو پریشے آتى ہوئ نظر آئ

پریشے کے ہاته میں گلاب دیکھ کر آمن کى خوشى کا تو کوئ ٹهکانہ نہ رہا

وہ جلدى سے نیچے سیڑهیاں اترنے لگا

پریشے نے آمن کو کهڑکى میں دیکھ لیا تها کہ آمن نے مجهے اور میرے ہاته میم موجود گلاب کے پهول کو دیکه لیا ہے

پریشے نے جلدى سے پهول کو بیگ کى سائڈ ذپ میں احتیاط سے رکها

اور آہستہ آہستہ قدم اٹهانے لگى

آمن نیچے پہنچ کے اس کى طرف بڑهنے لگا

اور اگلا لمحہ پریشے کے لئے آگ لگا دینے والا تها۔۔

آمن نے پریشے کا ہاته پکڑ لیا پریشے کو پهر سے غصہ آنے لگا لیکن وہ پهر سے کوئ بے وقوفى نہیں کرنا چاہتى تهى پہلے ہى وہ اپنى جلد بازى کے ہاتهوں اک بار شرمندہ ہو چکى تهى

آمن پریشے کا ہاته پکڑ کے بولا

تم نہیں جانتى پرى آج تم نے مجهے دنیا کى ہر خوشى دے دى ہے میں اپنى خوشى لفظوں میں بیان نہى کرسکتا مجهے کبهى اکیلا مت چهوڑنا ورنہ میں جى نہ پاؤں گا

پریشے کے کانوں میں آمن کى باتیں رس گهول رہى تهیں

اتنى محبت وہ اپنے آپ کو بہت خوش قسمت تصور کررہى تهى

اس نے اپنا دوسرا ہاته آمن کے ہاتهوں پہ رکه کر آمن کو اپنى محبت اور ساته کا یقین دلایا

آمن نے مسکرا کے اس کے ہاته دبا کے چهوڑ دیے اچها پرى اب تم کالج جاؤ کہیں کالج سے لیٹ نہ ہوجاؤ 

پریشے نے الله حافظ کہہ کر چل پڑیں

پرى صاحبہ کالج کى طرف چلتے ہوۓ خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کر رہى تهى

کالج میں آج سارا دن بہت اچها گزرا اب اسے چهٹى کا شدت سے انتظار تها۔

محبت سمندر ہے

محبت کنارہ ہے

محبت ہى تو دنیا میں

جینى کا سہارا ہے

پریشے چهٹى کى بیل ہوتے ہى جلدى سے گیٹ سے باہر نکلى اور گهر کے راستے پر چل پڑى

جب آمن کى گلى میں پہنچى تو سخت مایوس ہوئ کیونکہ آج آمن واپسى پہ اسے اپنى گلى میں ملا نہى ہوسکتا ہے آمن کو کوئ ضرورى کام آگیا ہو جس کى وجہ سے اسے کہیں جانا پڑگیا ہو

یہ سوچ کر پریشے اپنے گهر کى طرف چل پڑى

آج کل پریشے بس اپنے آپ میں ہى مگن تهى اسے یاد ہى نہى تها کہ آج بنقشے شادى سے واپس آگئ ہے

جیسے ہى وہ گهر پہنچى بنقشے کو دیکه کے اس کى یادداشت فورا واپس آئ

کہ اپنى اکلوتى دوست کو تو وہ بالکل ہى فراموس کر بیٹهى تهى

پریشے بهاگ کے بنقشے کے گلے لگ گئ

حال چال پوچهنے کے بعد پریشے بنقشے کو اپنے روم میں لے گئ

اور ان دو دن میں جو ہوا آمن کے بارے میں سب کچه بنقشے اپنى اکلوتى دوست کو بتا دیا

پریشے برا نہ مانو تو اک بات کہوں؟

بنقشے نے پریشے کى پورى داستان الفت سنى اور آخر میں پریشے سے کہا پرى اتنى جلدى کسى سے محبت نہیں ہوتى ٹائم لگتا ہے خود کو بهى پتا چلنے دو دن میں اظہار کیوں کردیا تم نے اگر اسے تم سے محبت تهى تو وہ کچه دن انتظار تو کرہى سکتا تها ناں؟

پریشے چپ کرکے سب سن رہى تهى اور دل بنقشے کى کہى باتوں کى تائید کررہا تها

اور اگر اسے تم سے محبت تهى تو تمہارے گهر رشتہ بهیجتا

پریشے میں تمہیں اک بات بتاؤں ؟

محبت عبادت کى طرح ہوتى ہے جلدى جلدى ادا کرو گے تو ضائع ہى جاۓ گى اگر لیٹ کرو گے تو قضا ہوجاۓ گى 

محبت کا اظہار اتنى جلدى نہیں کرتے اور اتنى لیٹ بهى نہیں کرتے کہ انسان کى زندگى میں بعد میں پچهتاوہ ہى رہ جاۓ 

اور سچى محبت میں ہوس نہیں ہوتى اگلے کو چهونے کى مطلب اس نے جو تمہارا ہاته پکڑا پہلے دن کى ہى ملاقات میں وہ محبت نہیں ہے محبت عبادت ہے ہوس نہیں

اور پریشے تم اچهى طرح جانتى ہو نا اک مسلمان ہونے کہ ناطے آمن تمہارا غیر محرم ہے محرم نہیں 

محبت ہونے سے کوئ محرم نہى بن جاتا پہلے جب اس نے اظہار کرنے کے لئے ہاته پکڑا تمہیں برا لگا جب تم اظہار کرنے گئ تب پکڑا تم کچه نہ بولى یہ کیسى محبت ہے؟

مت چلو محبت کے ان خاردار راستوں پہ

پاؤں چهلنى ہوجائیں گے پر حاصل کچه بهى نہ ہوگا

{ Poet..... Roshany Chand }

پریشے اگر اس تم سے محبت ہے نہ تو اسے کہو تمہارے گهر اپنے والدین کو بهیجے رشتے کے لئے 

بنقشے نے پریشے سے کہا

لیکن بنقشے ابهى تو مجهے بہت سارا پڑه لکه کے کچه بننا ہے اپنے پاؤں پہ کهڑا ہونا ہے

پریشے جهٹ بولى

پاگل لڑکى خود تو پاگل ہو ہى مجه بهى کردو گى ساته اپنے وہ بهى فرى مىں 

بنقشے اپنے سر پہ ہاته مار کے بولى

میں نے یہ کب کہا کہ ابهى شادى کرکے پیا دیس جاؤ یار میرا یہ مطلب تها کہ منگنى بهى نہى ڈائریکٹ نکاح ہو جاۓ گا تو تم لوگوں کى محبت پاکیزہ ہوجاۓ گى بهلے پهر وہ آمن صاحب ہاته پکڑیں یا پاؤں کوئ نہى روکے گا۔

ہاہاہاہاہاہاہا

بنقشے نے زور سے قہقہہ لگایا

بنقشے باز آجاؤ تم ناں مار کهاؤ گى مجه سے 

پریشے چڑ کے بولى

ہاہاہاہاہاہاہاہاہا 

پهر دونوں مل کے قہقہہ لگانے لگیں

پریشے اور بنقشے دونوں دیر تک باتیں کرتى رہیں

پریشے میں تو آج لوٹى ہوں شادى سے اس لئے میں تو تهک گئ ہوں اس لئے میں صبح کالج نہیں جانا تم اکیلى کالج چلى جانا اور آمن سے ڈائریکٹ بات کرنا کہ اگر محبت ہے تو رشتہ بهیجے تمہارے گهر

بنقشے پریشے سے بولى

پریشے نے سر اثبات میں ہلایا

بنقشے اور پریشے نے اکٹهے کهانا کهایا

پهر بنقشے اپنے گهر چلى گئ

اور پریشے سوچنے لگى کہ وہ صبح آمن سے کیا بات کرے گى

سوچتے سوچتے وہ نیند کى وادى میں چلى گئ

<----

یار دیکهنا اس تهپڑ کا جواب میں اسے کیسے دیتا ہوں

پهر زندگى بهر کسى پہ بهى ہاته اٹهانے کا سوچ کہ ہى کانپ جاۓ گى

ان لڑکیوں کا بهى کوئ حال نہى ویسے

جب میں نے ہاته پکڑا تو تهپڑ جڑ دیا اور بس میرى نام نہاد محبت کہ اظہار پہ جب اپنى بارى آئ تب ہاته پکڑا تو کج نہیں بولى حد ہے ویسے

محبت کا اظہار کرنے سے کونسا میں محرم ہوگیا

ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا

وہ اور اس کے دوست ہاته پہ ہاته مار کے قہقہے لگا نے لگے،،،،،،،

رات پریشے بار بار بنقشے کى باتیں سوچتى رہى

صبح کى اذان کى آواز کان میں پڑى تو وہ اٹه بیٹهى اور وضو کرکے جاۓ نماز پہ نماز کے لئے کهڑى ہو گئ

اور نماز کے بعد اپنے لئے بہتر ہونے کى دعا مانگى

پهر پریشے نے آمن سے بات کرنے کے لئے الفاظ سوچے اور تیارى کرنے لگى کالج جانے کى

پریشے بیٹا آجاؤ جلدى سے ناشتہ کرلو تمہىں دیر نہ ہو جاۓ کہیں 

ستارہ بیگم نے پریشے کو آواز دى

مما مجهے بهوک نہیں ہے ناشتہ نہى کرنا پریشے بولى

اک تو پتا نہیں اس لڑکى کو آج کل ہوا کیا ہے کہ یہ کچه کهاتى نہیں ستارہ بیگم چڑ کر بولیں

پریشے کچه نہ بولى چپ ہى رہى 

پهر وہ چپ چاپ کالج چل دى 

ہم دل دے چکے صنم 

تیرے ہو گۓ ہیں ہم

تیرى قسم 

تیرى قسم

آمن کهڑکى مىں کهڑا تها جب پریشے کو آتے دیکها تو اس کے لبوں پہ شیطانى مسکراہٹ آگئ

آمن نیچے پریشے کے پاس آتا ہے 

اسلام علیکم

آمن پریشے کے پاس پہنچ کر بولا

وعلیکم اسلام کیسے ہیں آپ؟

پریشے بولى

میں ٹهیک ہوں میرى پرى کیسى ہے؟

الحمدالله میں بهى ٹهیک ہوں

پریشے بولى

آمن مجهے آپ سے کچه کہنا ہے 

ہاں ہاں کہو میرى جان

وہ آمن آپ اپنے والدین کو میرے گهر بهیج دیں

پریشے بدقت بولى

آمن کے چہرے پر ناگوارى کے تاثرات آۓ لیکن پهر اس نے جلد ہى خود پہ قابو پالیا

اتنى جلدى کیا ہے پرى میرى جان

ابهى تو ہمارى پڑهائ چل رہى ہے تو ابهى کیسے؟

آمن میں چاہتى ہوں کہ کوئ ہمارے یوں ملنے پر پابندى نہ لگاۓ

اور نہى تو منگنى ہى ہوجاۓ تو کافى ہے

پریشے بولى

اچها ٹهیک ہے تم مجهے اپنا فون نمبر دو میں گهر بات کرکے تمہیں انفارم کردوں گا

پریشے نے نمبر دیا

اوکے اب تم جاؤ کالج دیر نہ ہوجاۓ کہیں تمہیں

آمن بولا

اوکے الله حافظ

سنو پرى

جى؟

آمن اک اک قدم اٹهاتا پریشے کے پاس پہنچا 

اور پریشے کا ہاته پکڑ کر اس پہ بوسہ دیا

آآآآآآمن

پلیز یہ نہیں کیا کرو

پریشے کى جان فنا ہوگئ

یار پرى کیا تم مجه سے محبت نہیں کرتى

آمن میں تم سے محبت کرتى ہوں لیکن یہ گناہ ہے

پریشے بولى

محبت اور جنگ میں سب کچ جائز ہے پرى

آمن بولا

نہیں آمن محبت اور جنگ میں سب کچه جائز ہے

لیکن گناہ نہیں

پریشے بولى

اوکے اس ٹاپک پہ پهر بات کرتے ہیں ابهى تم کالج جاؤ

پرى چپ چاپ کالج کى طرف چل پڑى

<----->

تم سے شادى اور وہ بهى میں ہو ہى نہى سکتا

مجهے محبت سے کوئ مطلب نہى

مطلب تم سے ہے 

پریشے کے جانے کے بعد آمن نفى میں سر ہلانے لگا

<---->

پریشے کالج پہنچى

اور جلد چهٹى ہونے کا انتظار کرنے لگى

لیکن دن تها کہ گزر ہى نہیں رہا تها

الله الله کرکے چهٹى ہوئ

ہوئ تو وہ گهر کى طرف چل دى 

واپسى پہ آمن دکهائ نہ دیا

گهر پہنچ کے وہ اپنے کمرے میں جا کے لیٹ گئ

اور سوچنے لگى کہ آمن کے ماں باپ کیا مان جائیں گے

سوچتے سوچتے اس کى آنکه لگ گئ

<----->

چهوڑ دو مجهے چهوڑ دو وہ چیخ رہى تهى

نہیں ہم تمہیں نہى چهوڑ سکتے تم جہنم میں جاؤ گى

نہیں نہیں میں نے کچه نہیں کیا صرف محبت ہى تو کى ہے اور محبت تو عبادت ہے گناہ نہیں پهر مجهے جہنم کیوں لے جایا جا رہا

وہ چیخ کر بولى

تمہارا ٹهکانہ جہنم ہے کیوں کہ تم نے اک نا محرم کو اپنے آپ کو چهونے دیا

پهر وہ اسے جہنم میں دہکیل دیتے ہیں

آآآآآہ 

وہ چلا اٹهى۔

آآآآآہ

پریشے چلا کے اٹه بیٹهى

اور لمبے لمبے سانس لینے لگى

جب حواس تهوڑے بحال ہوۓ تو پریشے اپنے خواب کے بارے میں سوچنے لگى

یاالہى یہ کیا تها 

وہ سوچ کے بہت شدت سے رونے لگى 

یاالہى میں مجهے معاف کردیں کہ میں نے اک غلط انسان سے محبت کى 

اور اسے اپنے آپ کو چهونے دیا

یاالله مجه گناہ گار کو معاف کردے

پریشے روتى جارہى تهى اور خدا سے معافى مانگ رہى تهى

میرے دل کى دل سے توبہ

دل سے توبہ میرے دل کى

<---->

پریشے صبح معمول سے ہٹ کر اٹهى اور نماز پڑه کرناشتہ کیا اور کالج کى تیارى کرنى لگى

اسلام علیکم

بنقشے دروازے پہ نمودار ہوئ

وعلیکم اسلام 

پریشے بولى

کیا ہوا آج میرى پرى کو منہ کیوں لٹکا رکها ہے

کیا آمن کے گهروالے نہى مانے؟

بنقشے پریشے کا چہرہ دیکه کر بولى

کچه نہیں ہوا بنقشے

اب تم مجه سے چهپاؤ گى

نہیں پریشے بولى

وہ بات یہ ہے کہ،،،،

پریشے نے کل والى آمن اور اپنى بات چیت بتائ

اور خواب سنایا

اوہ تو یہ بات ہے پریشے 

بنقشے بولى

یہى بات تو میں تمہیں کب سے سمجهارہى تهى اب بهى کج نہیں بگڑا پریشے

تم حیران ہوتى تهى نہ کہ میں سر اٹهاکے اور نظرىں جهکا کے کیوں چلتى تهى

تو سنو

میں نہیں چاہتى کہ میرى نظر کسى نامحرم کى طرف اٹهے اور میں اس کى عشق میں مبتلا ہوجاؤں

اور سر اٹهاکے اس لئے چلتى کے میں عزت دار ہوں اور خدا کے سوا کسى کے سامنے مجهے سر نہیں جهکانا

یہ ہوتى ہے محبت اور عبادت،،،

ہم نے عبادت دل سے کى تهى

جس نے چاہا دل کو توڑا

درد محبت تجه کو بتا

کیا نام دوں

میں ایسى محبت چهوڑ دوں گى بنقشے جس میں محبت نہیں ہوس ہو مجهے چهونے کى

پریشے بولى

گڈ

پهر پریشے اور بنقشے کالج چلى جاتى ہیں

راستے میں آمن ملتا ہے بنقشے پرى کو جاکر آمن سے بات کرنے کا اشارہ کرتى ہے 

پریشے چلتى ہوئ آمن کے پاس پہنچتى ہے 

آمن آج سے میرے اور تمہارے راستے جدا ہیں محبت عبادت ہے ہوس نہیں اور تم میں ہوس ہے مجهے چهونے کى اس لئے الله حافظ ہمیشہ کے لئے

یہ کہہ کے پرى بنقشے کے سنگ چل دى کالج کى طرف

اور آمن پیچهے بت بنا سوچتا رہ گیا کہ یہ کیا ہو گیا...!

اور پهر یوں ہوا کہ محبت چهوڑ دى ہم نے

                           🌹 ختم شد             

 مزید ناولز کے لئے نیچے جائیں ، یہاں مکمل اور قسط وار سبھی ناولز کے لنکس دئیے گئے ہیں۔

آپ مزید ناول کی پکس دیکھنے کے لیے نیچے جائیں ، اور ہماری ویب سائٹ کو وزٹ کریں ، اگر آپ نے ابھی تک مدیحہ شاہ کے مکمل اور قسط وار ناولز نہیں پڑھے ۔ تو جلدی سے مدیحہ شاہ کے سبھی ناولز کو پڑھیں اور اپنا فیٹ بائک دیں ۔

 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about


 

Adhure Rishty Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel     Adhure Rishty written  Irsa Rao.  Adhure Rishty  by  Irsa Rao is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Forced Marriage Based Novel Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Mahra Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Mahra Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be delete

Previous Post Next Post