Ishq Baz Novel By Monisa Hassan Urdu Novel 15 to16 Episode
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Ishq Baz By Monisa Hassan Episode 15 to16 |
Novel Name: Ishq Baz
Writer Name: Monisa Hassan
Category: Complete Novel
مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔
اسے آج سے پہلے کسی کا ہسنا اتنا اچھا نہیں لگا تھا” فاطمہ نے دل میں اعتراف کیا
“تھوڈا بہت ایکسپیرینس تو ہے ہی...کالج یونیورسٹی میں بہت دیئے ہیں گفٹس بھی”
فاطمہ نے ہنس کر اثبات میں سر ہلایا تھا جیسے اس کے کارنامے سے امپریس ہوئی ہو
وہ اسے لے کر ایک جیولری شاپ میں آیا تھا
وہاں سب کچھ اتنا شاندار تھا کہ فاطمہ جس چیز کو بھی دیکھتی وہ اسے پہلی والی سے زیادہ دلکش لگتی
بالآخر دونوں نے ایک بہت پیاری سی بریسلیٹ پسند کی تھی فاطمہ نے اپنے لیئے بھی ایک بالکل ویسی ہی لے لی تھی
کاؤنٹر سے سامان لیتے ہوئے بل ہادی نے پے کیا تھا اس کے لاکھ روکنے اور لڑنے کے بعد بھی
وہ شاپ سے باہر نکلنے لگی تھی جب اس کی نظر بہت ہی خوبصورت پازیب پر گئی تھی
وہ رُک کر اسے دیکھنے لگی تھی
“پسند ہے تو پیک کرواؤں؟” اس کے عقب میں ہادی کی آواز گونجی تھی
“نہیں میں نے کبھی پہنی نہیں” اس نے ہنس کر کہا تھا پھر باہر نکل آئی
وہ اس کے پیچھے باہر آیا تھا وہ کسی سے فون پر بات کر رہی تھی
اور جس سے کررہی تھی اس کا نام سنتے ہی اس کے ہاتھ سے کچھ گرا تھا
وہ اپنے عقب میں اس آواز پر پلٹی تھی اور پھر ہادی کو سیڑھیاں اترتے دیکھتی رہی تھی
“تمہاری آنکھ سے ٹپکے تو معتبر ٹھہرے
ہماری آنکھ سے بہتا رہا فقط پانی”
*********
وہ خوشی سے بھاگتی سیڑیاں چڑھ رہی تھی جب سامنے سے کسی کے ساتھ بری طرح ٹکرائی تھی اس سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوتی ٹکرانے والے نے فوراً آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا...کتنے ہی لوگوں نے اسے حسرت امیز نظروں سے دیکھا تھا اور کتنوں ہی نے نفرت سے...
ہاتھ میں پکڑے سارے فارم اردگرد بکھر گئے تھے وہ اس اچانک حملے پر بوکھلا کر رہ گئی تھی
“چلو اب اٹھ بھی جاؤ کہ یہیں لٹکے رہنے کا ارادہ ہے؟” وہ تنز اچھالتا ہوا مسکرا رہا تھا
اور سیم کو دیکھتے ہی اس کے دل میں شدید خواہش جاگی تھی کہ کاش وہ گر ہی گئی ہوتی
وہ آنکھیں میچتی ہوئی اوپر اٹھی تھی اور پھر اپنی ندامت چھپاتے ہوۓ اس پر ہی چلائی تھی
“اندھے ہو کیا؟ مجھے تو لگا تھا اتنے دنوں سے تمہاری شکل نہیں دیکھی تو شاید پیچھا چھوٹ گیا ہو گا لیکن تم تو انتہا کے ڈھیٹ ہو”
وہ اس قدر احسان فراموشی پر عش عش کر اٹھا تھا
“اور اپنے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ جو ہر دفعہ میرے راستے میں آ جاتی ہو؟”
“میں آ جاتی ہوں؟ میرا بس چلے نا تو میں تم تک آتے ہر راستے کو آگ لگا دوں” وہ جھک کر فارم اکٹھے کرتی ہوئی بولی
“کتنا اچھا ہوتا اگر میں نے تمہیں ان پیپرز کے ساتھ ہی گر جانے دیا ہوتا” اُسے جیسے افسوس ہو رہا تھا
“یقین کرو مجھے بے حد خوشی ہوتی” وہ اٹھتی ہوئی بولی اور آگے بڑھ گئی
اسکا سارا موڈ خراب ہو گیا تھا کتنی پرجوش تھی وہ اُن تینوں کو گڈ نیوز دینے کے لیئے اور اب اس کی شکل دیکھتے ہی ساری خوشی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی تھی
سارہ،فاریہ اور آیت لائیبریری میں بیٹھی نور کا انتظار کر رہی تھیں جو پتا نہیں انھیں ادھر بُلا کر خود کدھر رہ گئی تھی...
نور نے ان کے قریب آ کر فارم ٹیبل پر پھینکے تھے
“یہ کیا ہے؟ اور ہم کتنی دیر سے انتظار کر رہے ہیں کدھر تھی تم؟” آیت نے اس کی بےزار سی شکل دیکھتے ہوۓ پوچھا
“کچھ نہیں بس یہ لینے میں دیر ہو گئی” اب وہ اُن کو کیا بتاتی
“کیا ہے یہ؟”
“Trip کے فارم ہیں”
“کیا؟ ہمارا Trip جا رہا ہے؟ سارہ ایکسائیٹڈ ہوئی تھی
“کہاں جا رہا ہے؟” اب کہ فاریہ نے پوچھا تھا
“مری جا رہا ہے دو دن کے لئے اگلے ہفتے” آیت نے فارم پر سے پڑھ کر بتایا
“واؤ...چلو پھر ویک اینڈ پر شاپنگ کے لئے چلیں گے”
“میں اور نور تم دونوں کو پک کر لیں گے”
وہ لوگ اپنی پلینگ جاری رکھتیں کہ ایک لڑکی ان کے ٹیبل پر آ کر جھکی تھی اور نور کو وارن کرتی ہوئی بولی
“آئندہ سیم سے دور رہنا ورنہ تمہارے لئے اچھا نہیں ہو گا”
اور نور اسے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے کچھ سمجھ نا آیا ہو
“کیا مطلب؟”
وہ لڑکی اس کی بات پر ہنسی تھی
“مطلب بھی اب میں ہی سمجھاؤں؟”
“یہ تم کیا کہی جا رہی ہو؟” آیت بولی تھی
“اس سے ہی پوچھو ابھی سیڑیوں پر کون سا سین کریٹ کر کے آئی ہے ساری یونیورسٹی میں ایک وہی ملا ہے تمہیں؟”
“گیٹ لاسٹ” نور سے اب اور ضبط کرنا مشکل ہو گیا تھا
“جا رہی ہوں لیکن آئندہ اگر سیم کے...”
“سیم...” وہ اسے لائیبریری کے دروازے سے آتا دکھائی دیا تھا اور وہ اس کی بات کاٹ کر اس کی طرف بڑھی تھی
“بات کرنی ہے تم سے”
“مجھ سے؟” اُسے جیسے یقین نہیں آیا تھا
نور نے اثبات میں سر ہلایا تھا
“جی جی کریں”
“ادھر نہیں” اس نے اسکے دوستوں کو دیکھتے ہوئے کہا
اس نے انہیں جانے کا اشارہ کیا تھا
“اب تم نے کس لڑکی کو میرے پاس بھیجا ہے؟” وہ اس پہ چلائی نہیں تھی نہایت دھیمے لہجے میں پوچھ رہی تھی
“میں نے تو کسی کو نہیں بھیجا” وہ حیران ہوا تھا
“اس نے مجھ سے کہا کہ آئندہ سیم سے دور رہنا ورنہ تمہارے لئے اچھا نہیں ہو گا اور یہ کہ ساری یونیورسٹی میں ایک وہی ملا ہے تمہیں”
“پتا نہیں ایک ساری یونیورسٹی تمہیں ہی آ کر تنگ کیوں کرتی ہے اور اب اس میں رونے والی کون سی بات ہے بتاؤ مجھے کون ہے وہ؟” سیم اس کی آنکھوں میں آتی نمی کو دیکھتا ہوا بولا
“تمہارے لئے چھوٹی سی بات ہے کوئی بھی آ کر فضول الزام لگاتا رہے؟”
“اچھا اب بتاؤ گی کون ہے وہ؟”
اس نے اس ٹیبل کی طرف اشارہ کیا تھا
اور ادھر سے اب وہ جا چکی تھی
***********
شام آہستہ آہستہ پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی موسم آج قدرے صاف تھا آیت اور فاطمہ دونوں لان میں بیٹھی گپ شپ میں مصروف تھیں جب فاطمہ کو موبائل پر پیغام موصول ہوا تھا
“Only 15 mins”
“آیت چلو نا باہر چلتے ہیں...” وہ آچانک اٹھی تھی
“باہر کہاں؟” وہ اس کے ان اچانک باہر جانے والے پراگرامز سے تنگ آ گئی تھی
لیکن اسے کہاں پتا تھا کہ یہ اچانک نہیں بلکہ پورا پلینڈ پروگرام تھا
“چلو نا سرپرائز ہے” وہ اسے کھینچتی ہوئی بولی
“اچھا رکو امی کو تو بتانے دو”
“راستے میں کال کر کے بتا دیں گے”
“اتنی بھی کیا جلدی ہے...”
“ہے نا بس چلو تم”
“افف چلو” وہ کب فاطمہ سے جیت سکتی تھی
گاڑی کسی انجانے راستے پر جا رہی تھی
“ہم پہلے تو یہاں کبھی نہیں آۓ؟” آیت نے حیرانی سے پوچھا تھا
“ہاں نا جب میں نے اس جگہ کو دیکھا تھا تو میں بھی حیران رہ گئی تھی”
اور پھر وہ پورے راستے پوچھتی ہی رہ گئی تھی کہ کون سی جگہ لیکن وہ تو جیسے منہ سی کر ہی بیٹھ گئی تھی بلآخر گاڑی ایک نہایت خوبصورت علاقے میں داخل ہوئی تھی آیت کو تو یقین نہیں آیا تھا کہ اتنے سال کوہاٹ میں رہنے کے بعد بھی اس نے کبھی اس جگہ کو نہیں دیکھا تھا جبکہ وہ ان کے گھر سے زیادہ دور بھی نہیں تھی
وہاں آس پاس بہت سارے huts تھے...نہایت خوبصورت
ان huts کے درمیان بہت چھوٹی سی سڑک تھی اور سڑک کی باؤنڑری پر بہت سارے سفید پھول
“تم یہاں کب آئی” آیت نے اس سے پوچھا تھا
“کل شام” اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
آیت اس سے کچھ اور پوچھتی کہ فاطمہ نے گاڈی ایک hut کے آگے روکی تھی
“اترو...”
“یہاں کون رہتا ہے؟”
“اترو تو...پتا چل جائے گا”
آیت عجیب سی کیفیت میں گھری ہوئی تھی
وہ نیچے اتری تھی جب فاطہ نے دروازہ ناک کیئے بغیر کھولا تھا اور اسے اندر جانے کا اشارہ کر رہی تھی
“تم پاگل ہو پوچھے بغیر اندر گھس رہی ہو” آیت اسے گھور رہی تھی
“کوئی نہیں ہے اندر...چلووو” اس نے آیت کو اندر دھکیلا تھا
آیت کا پاؤں اندر لگتے ہی چھت پر لگا بڑا سا غبارہ پھٹا تھا اور اس میں سے گرتی غلاب کی پتیوں نے نہایت شان سے اس کا استقبال کیا تھا...
پھر آہستہ آہستہ قطار میں لگے باقی غبارے بھی پھٹنے لگے تھے کچھ ہی دیر میں سارا hut غلاب کی پتیوں سے بھر گیا تھا
اس نے دیواروں پر لگی اپنی بہت ساری تصویروں کو دیکھا تھا اور پھر حیرانی سے فاطمہ کو جو کھڑی مسکرا رہی تھی
اس کے بالکل سامنے ایک گول ٹیبل پڑی تھی جس پر بہت پیارا چھوٹا سا کیک رکھا گیا تھا اور اس کے اوپر چھوٹی سی پیاری سی کینڈل...
وہ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی تھی جب اس نے اپنے پیچھے اس کی آواز سنی تھی
“زیادہ لیٹ تو نہیں ہوا؟” وہ فاطمہ کے کان میں کہہ رہا تھا
“نہیں بس دو منٹ” اس نے ہنس کے جواب دیا
“Happy birthday dear”
وہ آیت کے قریب آیا تھا
آیت نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا
“میرا برتھڈے کل ہے”
“تو کیا ہوا ہم ایک دن پہلے تمہارے آنے کی خوشی منا رہے ہیں...کیوں فاطہ؟”
فاطمہ نے ہستے ہوئے اثبات میں سر ہلایا تھا
“ایکچولی رامش آج آؤٹ آف سٹی جا رہا ہے تو کل وہ تمہیں لائیو وش نہیں کر سکتا تھا اس لیئے آج ہی...”
آیت نے اس کی طرف دیکھا تھا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا
“اب کاٹ بھی لو کیک کب سے تمہارا انتظار کر رہا ہے”
“کیوں اپنا الزام کیک پر لگا رہے ہیں...” فاطمہ نے اسے چھیڑا تھا
جوابً اس نے آیت کو دیکھا تھا جونظریں چُرا گئی تھی
رامش نے آگے بڑھ کر کینڈل جلائی تھی
“اب تو ناراض نہیں ہو؟”
آیت نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلایا تھا
“چلو پھر جلدی سے کیک کٹ کرو مجھے تھوڑی دیر میں نکلنا ہے”
آیت نے بہت ساری وشیز میں کیک کٹ کیا تھا اور ایک پیس فاطمہ کے منہ میں ڈالا
باقی کا پیس اس نے رامش کے آگے کیا تھا لیکن پھر فوراً ہی پیچھے کر کے اپنے منہ میں ڈال لیا
رامش اس کی اس حرکت پر ہنس دیا تھا
“تھینک یو”
اور پھر خود ہی آگے بڑھ کر اس نے چھوٹا سا پیس اٹھا لیا تھا
آیت خوش تھی
اور رامش اسے خوش دیکھ کر خوش تھا
اسکی فیورٹ نیلی آنکھیں چمک رہی تھیں اور رامش نے ان کی دائمی چمک کی دعا کی تھی
وہ جھیت گیا تھا...اپنی محبت کو
وہ آج خوش بھی تھی اور اس کے ساتھ بھی...
اور یہ جھیت تو قسمت والوں کو ملتی ہے
اچانک اس کا فون بجنے لگا تھا
وہ جانتا تھا اب اسے نکلنا ہے
وہ انہیں سی اوف کر کے باہر نکلا جب فاطمہ کی آواز پر پلٹا تھا
“بھئی ہمارا گفٹ...؟”
وہ ہنسا تھا
پھر اپنی جیب سے چابی نکال کر آیت کی طرف اچھالی تھی
“یہ hut کی چابی ہے”
اور پھر دور ہوتا اپنی گاڑی کی طرف مڑ گیا تھا
********
چل پیر سائیں کوئی آیّت پُھونک
کوئی ایسا اِسمِ اعظم پڑھ
وہ آنکھیں میری ہو جائیں
کوئی صوم صلوٰۃ دُرُود بتا
کہ وجّد وُجُود میں آ جائے
کوئی تسبیح ہو کوئی چِلا ہو
کوئی وِرد بتا
وہ آن ملے
کچھ تھا جو اسے اندر ہی اندر کھا رہا تھا...دیمک کی طرح
اسے لگا تھا اگر وہ اسے نا ملی تو وہ ختم ہو جائے گا بالکل خالی ہو جائے گا_زندگی سے...
لیکن اس کے اخطیار میں کچھ بھی نہیں تھا فاطمہ اگر اس کی محبت تھی تو رامش میں اس کی جان تھی وہ محبّت کے لئے اپنی جان نہیں دے سکتا تھا وہ یہ بھی جانتا تھا رامش اس کی ایک پکار پر اپنی محبت اس کے حوالے کر دے گا لیکن وہ خودغرض نہیں تھا_محبت کرنے والے خودغرض نہیں ہوتے
"اور پھر وہ بھی تو اُسے ہی چاہتی ہے..."
بس یہیں آ کر وہ ٹوٹ جاتا تھا بس یہی تکلیف اس سے برداشت نہیں ہوتی تھی
اس کا دل چاہتا تھا وہ پوری دنیا کو تہس نہس کر دے اور پھر اُس کے دل کو بھی...
مانا کہ محبت کرنے والے خودغرض نہیں ہوتے لیکن محبت تو ہوتی ہے نا خودغرض وہ اسے پا نہیں سکتا تھا اور خود کو ختم نہیں کر سکتا تھا
کیسی بےبسی تھی...!
وہ چیخنا چاہتا تھا اتنا کہ ہر غم نکل کر باہر آ جائے
"کاش میں تم سے کبھی نا ملا ہوتا" وہ ہار گیا تھا خود سے
رامش کمرے میں داخل ہوا تو پورا کمرہ دھوئیں سے بھرا ہوا تھا اور وہ سامنے کرسی پر بیٹھا اپنا سر گرائے دونوں ہاتھوں سے اپنی کنپٹیاں مسل رہا تھا اُسے اس طرح دیکھ کر اس کے دل کو کچھ ہوا تھا وہ بھاگ کر اس تک آیا تھا
"ہادی..." وہ اسکے سامنے پنجوں کے بل بیٹھا تھا
اس نے سر اوپر اُٹھایا تھا
"تم؟ تم کب آئے؟ تم تو کل آنے والے تھے؟" وہ بری طرح ڈر گیا تھا جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو
"ہاں بس کام ختم ہو گیا تو شام کو ہی نکل آیا"
وہ جواب میں کچھ نہیں بولا تھا بس سر جھکا گیا تھا
رامش کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا تھا وہ تو اس کا ہستا کھیلتا شرارتی سا ہادی نہیں تھا
"ہادی کیا ہوا ہے؟" وہ التجا تھی
"وہ میری نہیں ہو سکتی"
رامش سمجھ نہیں سکا تھا
"کون...؟"
"وہ ملی تھی مجھے..." رامش کو یاد آیا تھا وہ کس کی بات کر رہا ہے
"پھر کدھر گئی؟ تمہاری بات ہوئی اس سے؟"
چلی گئی ہے وہ اب کبھی نہیں آئے گی..."
وہ اسے اس وقت کوئی بہت معصوم بچہ لگا تھا جو اپنی پسندیدہ چیز کھو بیٹھا ہو
"وہ مل جائے گی تم پریشان مت ہو" وہ اسے بہلا رہا تھا
"وہ نہیں ملے گی کبھی نہیں" اس نے نفی میں سر ہلا کر اسے بتایا تھا
"میں ڈھونڈ لاؤں گا اُسے...کہیں سے بھی" وہ اس کا چہرہ ہاتھوں میں لیئے اسے یقین دلا رہا تھا
ہادی اسے دیکھتا رہا تھا پھر اس کے کندھے سے لگ کر سسک اٹھا تھا
"تم کبھی مجھ سے دور مت جانا..."
*********
انہیں کل مری کے لیئے نکلنا تھا نور جانے سے پہلے وہ سکیچ دیکھنا چاہتی تھی لیکن میسم ہر دفعہ نامکمل کا بہانا کر کے ٹال دیتا تھا
"اب تک تو وہ آفس چلا گیا ہو گا" اسے خیال آیا تھا
وہ دیکھنے کے ارادے سے اٹھی تھی
اس کا کمرہ خلاف توقع کافی صاف تھا جس کا مطلب تھا یہاں کی صفائی کی گئی ہے اور وہ اپنی ہر چیز سمیٹ چکا ہے
یقینً وہ لیٹ ہو چکی تھی
وہ الماری کی طرف بڑھی تھی جو لاکڈ تھی اسے حیرت ہوئی تھی وہ تو کبھی اسے لاک نہیں کرتا
اس کے علاوہ وہ ہر اس جگہ کو دیکھ چکی تھی جہاں وہ اپنی پینٹنگز رکھا کرتا تھا لیکن اب وہ بھی صاف تھیں
"میسم کے بچے تمہیں تو میں چھوڈوں گی نہیں..."
وہ ناامیدی سے آ کر بیڈ پر بیٹھ گئی تھی
"کیا ہوا...؟ نہیں ملی؟ میسم جو کب سے اس کی کاروائی نوٹ کر رہا تھا آگے بڑھا
وہ اس کی آواز پر اچھل ہی تو گئی تھی
"اب تم یہاں کیا کر رہے ہو؟"
وہ اس کی بات پر ہنسا تھا
"یہ یقینً مجھے تم سے پوچھنا چائیے"
"ہاں تو جب تم سیدھی طرح بات نہیں مانو گے تو مجھے خود ہی کچھ نا کچھ کرنا پڑے گا نا" وہ خفگی سے بول رہی تھی
"تمہیں پتا تو ہے آج کل کام کا برڈن زیادہ ہے ٹائم ہی نہیں ملتا کمپلیٹ کرنے کا” وہ کف موڑتا ہوا بولا
"ہاں وہ تو نظر آ ہی رہا ہے" وہ اسے دیکھتی ہوئی طنز کر رہی تھی
"میں بس نکل ہی رہا تھا یار... آج میٹنگ تھوڈا لیٹ رکھوائی ہے ابو نے لیکن تم فکر نہیں کرو تمہارے واپس آنے تک میں کمپلیٹ کر لوں گا"
"ٹھیک ہے لیکن اگر کمپلیٹ نہیں کی تو تم مجھے ویسے ہی بتاؤ گے کہ کون ہے وہ؟"
"اوکے لٹل سسٹر" وہ اس کے گال کھینچتا ہوا بولا
*********
"دس پندرہ منٹ تک ہم یہاں سے چل پڑیں گے" سر کی آواز پر سب متوجہ ہوئے تھے
وہ تینوں وہاں پہنچ چکی تھیں لیکن سارہ ابھی تک نہیں آئی تھی نا ہی کوئی کال پک کر رہی تھی
"یار راستے میں ہو گی اس نے آج گھر سے آنا تھا اسی لئے لیٹ ہوگئی ہو گی" آیت انہیں تسلی دے رہی تھی
تب ہی نور کے نمبر پر اس کی کال آئی تھی
"آ گئی ہو گی تم لوگ جاؤ گاڑی میں...میں اسے لے کر آتی ہوں" وہ کہتی ہوئی گیٹ کی طرف بڑھی تھی
آیت اور فاریہ گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی تھیں جب تھوڈی دیر بعد وہ اکیلی ہی واپس آئی تھی
"کیا ہوا سارہ کدھر ہے؟"
"یار وہ لیٹ ہو گئی ہے ہمیں راستے میں جوائن کرے گی" وہ ان دونوں سے پچھلی سیٹ پر بیٹھتی ہوئی بولی
"لو جی یہ کیا بات ہوئی لیٹ کیسے ہو گئی؟" فاریہ کو اس پہ غصہ آیا تھا
"ابھی آنکھ کھلی ہے میڈم کی..."
"اففف ایک تو ہر جگہ اس نے لیٹ ہی آنا ہوتا ہے"
"اقبال لیٹ ہی آتا ہے..." نور ہنس کر سیٹ سے ٹیک لگاتی ہوئی بولی
اس کے ساتھ ایک کلاس فیلو بیٹھی ہوئی تھی جو اب اٹھ کر سامنے جا کر بیٹھ رہی تھی اور اس جگہ سے سیم کو اٹھتا دیکھ کر اس کا حلق تک کڑوا ہوا تھا
"یہ مصیبت بھی ساتھ ہے"
"کون؟" آیت نے پوچھا تھا اور سیم کو دیکھ کر وہ اسے وارن کرنے لگی تھی
"دیکھو اب کوئی پنگا مت لینا اس کے ساتھ"
"میں کیوں..." وہ کچھ بولتی جب وہ آ کر اس کے ساتھ بیٹھا تھا
اور وہ ایک دم چیخی تھی
"اٹھو یہاں سے فوراً..."
"اف آہستہ لڑکی کان کے پردے پھاڑو گی"
"میں تمہیں پورا کا پورا پھاڑ دوں گی اگر تم ایک منٹ میں یہاں سے نا اٹھے" اس کا دل کیا تھا اٹھا کر اسے باہر مارے
"دیکھیں میں ان کی جگہ پر آیا ہوں آپ ان سے بات کریں" وہ صرف سعد کے کہنے پر اپنی گاڑی سے ادھر آیا تھا اور اب دل میں اسے گالیوں سے نواز رہا تھا کہ کس مصیبت میں پھنسا گیا ہے
وہ جوابً اسے دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا
"تم ایسا کرو یہیں بیٹھو میں ہی چلی جاتی ہوں" وہ غصے سے اٹھی تھی
لیکن سامنے دروازے سے کسی کو آتے دیکھ کر دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھی تھی
"ہاں اب کیا ہوا ہے؟" وہ حیرانگی سے پوچھ رہا تھا
"وہ سامنے دیکھو" اس نے سامنے اشارہ کیا تھا
"یہ لڑکی؟"
اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا
"کیا ہے اسے؟"
"یہ وہی لڑکی ہے جو اس دن میرے پاس آئی تھی"
سیم اس کی بات پر ہنسا تھا
"تو اب تم اس کو دکھانے کے لیئے یہاں بیٹھی ہو؟"
"جی بالکل"
"پاگل سی..." سیم زیر لب بڑبڑایا تھا
وہ انہیں دیکھ چکی تھی اور اب سیم کے پاس آئی تھی اور ایسے گپ شپ میں مصروف تھی جیسے پتا نہیں کب سے جان پہچان ہو...
نور کو اس کا یوں فری ہونا زرا اچھا نہ لگا تھا وہ سیم کو اپنے ساتھ آنے کی آفر کر رہی تھی تب ہی وہ بولی تھی
"یہ کہیں نہیں جائے گا یہیں بیٹھے گا میرے ساتھ"
سیم کے ساتھ ساتھ آیت اور فاریہ نے اسے چونک کر دیکھا تھا جیسے انہیں اپنے کانوں پر یقین نہ آیا ہو
سیم نے اس لڑکی کو دیکھ کر کندھے اچکائے تھے
"اب یہ کہہ رہی ہیں تو بیٹھنا تو پڑے گا" وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا
اور نور نے شکر ادا کیا تھا کہ کہیں اس نے منع نہیں کر دیا ورنہ کتنی انسلٹ ہوتی
وہ لڑکی نور کو گھورتی آگے بڑھ گئی تھی
لیکن اب وہ ان تینوں کو اگنور کر کے باہر دیکھنے لگی تھی کیونکہ یقینً ان کے تاثرات دیکھنے لائق نیہں تھے
"ابھی آپ نے کچھ کہا تھا؟" وہ شرارت سے پوچھ رہا تھا
"جی نہیں"
"لیکن میں نے تو سنا تھا" اسے جیسے مزا آ رہا تھا اس نکچڑی کو تنگ کر کے
"آپ کے کان خراب ہیں"
"تو میں جاؤں پھر؟" وہ معصومیت سے پوچھ رہا تھا اور نور کو زہر لگا تھا
"تم اگر یہاں سے اٹھے تو..." وہ لب بھینچ کر بولی
"تو...؟"
"تو میں تمہارا سر پھاڑ دوں گی"
اس کی دھمکی پر سیم کا قہقہ لگا تھا
"مان گئے بھئی..."
"کیا؟" وہ آبرو اچکا کر پوچھ رہی تھی
"یہ دنیا واقعی مطلبی ہے"
میں ضرور پوچھوں گی اس سے کہ وہ ایسا کیوں ہے؟ وہ بھی صرف میرے ساتھ...
کبھی دھوپ تو کبھی چھاؤں
بلکہ دھوپ زیادہ اور چھاؤں کم
وہ بہت اچھا ہے
میں جانتی ہوں
سب کے ساتھ ہنستا بھی ہے
کبھی کبھی میرے ساتھ بھی
لیکن میرے سامنے
جلد سمٹ جاتا ہے
اس کی مسکراہٹ پر کوئی بھی جان دے سکتا ہے
یا شاید صرف میں...
اس کی ایک امانت
جو وہ میرے پاس چھوڑ گیا تھا
مجھے کسی پرکشش چانر کی طرح
اپنی طرف کھینچتی ہے
لیکن میں جانتی ہوں
چاند صرف دور سے دیکھا جا سکتا ہے
اسے پانے کی خواہش
سیراب کے سوا
کچھ بھی نہیں
اور میں
سیراب کے پیچھے
بھاگنا نہیں چاہتی"
*********
وہ لوگ جب ہوٹل پہنچے تو شام بھی ان کے ساتھ ہی اتری تھی...
سارہ کو انہوں نے راستے سے ہی لے لیا تھا اور وہ تو اندر آتے ہی بیہوش ہوتی ہوتی بچی تھی جب اس نے سیم اور نور دونوں کو ایک ساتھ بیٹھے دیکھا تھا سیم تو سویا ہوا تھا لیکن وہ خود بھی سکون سے بیٹھی ہوئی تھی
اس کی شکل دیکھ کر خود نور کو بھی ہسی آئی تھی لیکن بعد میں اسے سب سمجھانے پر وہ سمبھلی تھی
بس تب سے ہی وہ اسے چھیڑ رہی تھی
"خدا کا خوف کرو یار... میرا دنیا میں واحد دشمن ہے وہ"
"پھر تو لگتا ہے دشمن نے کوئی جادو کروا دیا ہے تم پر" اسے نور کو تنگ کرنے میں مزہ آ رہا تھا
"شرم کرو اور سو جاؤ" وہ کمبل منہ تک کھنچ کر لیٹ گئی تھی
"چلو نا اتنا اچھا موسم ہے باہر چلتے ہیں"
"اتنا لمبا سفر کیا ہے تھک گئی ہوں پھر رات کو جانا بھی ہے پلز سو جاؤ" وہ بیچاری تو سارا راستہ جاگتی رہی تھی پہلے سیم کی وجہ سے اور بعد میں سارا نے سونے نہیں دیا تھا
سارہ ان تینوں پر نظر ڈال کر باہر آ گئی تھی آیت اور فاریہ تو پہلے ہی سو گئی تھیں اور اب نور بھی...
باہر ہلکی ہلکی برف باری ہو رہی تھی وہ شال اپنے گرد لپٹتے لان میں نکل آئی تھی
اس وقت وہاں کوئی نہیں تھا سب سٹوڈنٹس آرام کرنے اپنے اپنے رومز میں چلے گئے تھے
وہ مری پہلی بار آئی تھی ایک دفعہ ان کا پروگرام بنا تھا لیکن آ نہیں سکے تھے تب ہادی اسے اداس دیکھ کر اس کے پاس آیا تھا
"بھلا سوات سے پیاری بھی کوئی جگہ ہو سکتی ہے مری تو کچھ بھی نہیں ہے تم اویں پریشان ہو رہی ہو" وہ اسے شاید بہلا ہی رہا تھا اور وہ اس کی بات مان بھی گئی تھی
لیکن اب اس کا دل کیا تھا کاش وہ اس کے ساتھ ہوتا تو وہ اسے دکھاتی کہ ہر جگہ کی اپنی خوبصورتی ہوتی ہے مری کا سوات سے بھلا کیا مقابلہ...
لیکن پھر بھی اس کے بغیر سب منظر اسے بےرنگ ہی لگ رہے تھے کچھ دیر خود پر بند باندھنے کے بعد بلآخر اس نے ہار مانتے ہوئے اس کا نمبر ملایا تھا
"Hellow beautiful lady"
اس کی آواز سنتے ہی جیسے ہر منظر میں رنگ بھرنے لگے تھے
"کیسے ہو؟"
"تم کیسی ہو؟" اس نے الٹا سوال کیا تھا
"پہلے میں نے پوچھا ہے"
"تو پہلے تم جواب دے دو"
"ٹھیک ہوں" آنکھوں کے سامنے منظر دھندلانے لگے تھے
"پھر میں بھی ٹھیک ہوں"
"تم کہتے تھے نا سوات سے خوبصورت کچھ بھی نہیں..." وہ نمی مٹاتی ہوئی بولی
"نہیں تو سوات سے خوبصورت تو اور بھی بہت کچھ ہے" وہ شارت سے بولا تھا
"لیکن تم نے کہا تھا..."
"اچھا کہا ہو گا یاد نہیں" وہ لاپرواہی سے بولا تھا
"ہاں واقعی تمہیں تو اب کچھ بھی یاد نہیں" وہ تلخی سے ہنسی تھی
"ایسا نہیں ہے مجھے یاد ہے سب"
"میں مری آئی ہوئی ہوں اور پتا ہے مری سوات سے ذیادہ خوبصورت ہے"
"جھوٹ..." وہ اس کی بات پر ہنسا تھا
"تمہیں سوات سے پیارا کچھ لگ ہی نہیں سکتا"
"کیوں؟" وہ شکوہ کر رہی تھی
"کیونکہ سوات میں میں جو نہیں ہوں"
کتنا یقین تھا اسے
وہ کچھ لمحے کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں رہی تھی
وہ سچ کہہ رہا تھا...اسے سوات سے پیارا کب کچھ لگ سکتا ہے
"کچھ زیادہ ہی خوش فہم نہیں ہو گئے؟"
وہ پھر سے ہنسا تھا
"نہیں...لیکن جب تم جھوٹ بولتی ہو تو پکڑی جاتی ہو"
"میں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا"
"تو پھر سچ سچ بتاؤ مس کر رہی تھی نا مجھے؟"
"جی نہیں" وہ زور دیتی ہوئی بولی
اور وہ قہقہ لگا کر ہنس پڑا تھا
"جھوٹی..." وہ اسے تنگ کرنے لگا تھا
ایسا اسے لگتا تھا...
*******
وہ لوگ رات دیر تک مال روڈ گھومنے کے بعد ڈنر کرنے ہوٹل آ گئے تھے
"سر یہ جن لوگوں نے آج پوری پوری مارکیٹ خرید لی ہے ان کا سامان کدھر رکھنا ہے؟" سیم شرارت سے نور کی طرف دیکھتا ہوا بولا
"گاڑی میں اور کدھر..." وہ اپنے دھیان میں بولے تھے
"سر گاڑی میں یا تو وہ خود پورے آ سکتے ہیں یا ان کا سامان...اب آپ بتا دیں واپس کس کو لے کر جانا ہے؟"
"سر اگر فالتو لوگوں کو باہر نکال دیا جائے تو دونوں کی جگہ بن سکتی ہے" وہ خود میدان میں کودی تھی
سر نے باری باری دونوں کو گھورا تھا
"تنگ نہیں کرو بہن کو آرام سے سامان رکھو اس کا"
ان کی بات پر تو وہاں موجود سب کا قہقہ بلند ہوا تھا اور وہ بیچارہ برا سا منہ بناتا باہر نکل گیا تھا
"بھائی رکیں ایک اور بیگ ہے وہ بھی لیتے جائیں" وہ ہستی ہوئی اس کے پیچھے آئی تھی
"ادھر آؤ تمہیں میں بتاؤں" وہ اس کے پیچھے بھاگا تھا اور وہ چیختی ہوئی آگے
"بچاؤ...کوئی مجھے اس بھائی جن سے" وہ ہستی ہوئی پیچھے مڑی تھی جب سیم نے اسے پکڑ لیا تھا
"اب بولو ذرا بھائی کی کچھ لگتی"
"ہائے سر یہ دیکھیں..." سیم نے اسے چھوڑتے ہوئے پیچھے دیکھا تھا اور وہ پھر سے بھاگ گئی تھی
"چالاک لومڑی..." وہ اس کے پیچھے لپکا تھا
وہ بھاگتے بھاگتے تھک گئی تو خود ہی ہستے ہوئے فٹ پاتھ پر بیٹھ گئی تھی
"اچھا سوری اب نہیں کہتی" وہ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ کہہ رہی تھی
وہ بھی ہستا ہوا اس کے ساتھ بیٹھ گیا تھا
کچھ دیر تو وہ دونوں بیٹھ کر سانس بہال کرتے رہے تھے
"پانی پیو گی؟"
اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا اور وہ اٹھ کر پانی لینے چلا گیا تھا
وہ کچھ دیر تو اس کا انتظار کرتی رہی پھر سامنے پھولوں سے بھرا سٹال دیکھ کر ادھر چلی آئی تھی
وہ واپس آیا تو وہ ادھر نہیں تھی...
اس نے ادھر ادھر دیکھا تھا وہ کہیں نظر نہیں آئی
اس نے آس پاس سے گزرتے لوگوں سے بھی اس کا پوچھا تھا لیکن کسی نے دیکھا ہی نہیں تھا
"افف میں اس مینٹل کو اکیلا کیسے چھوڑ سکتا ہوں" وہ پریشان ہوا تھا
کچھ دیر اور گزرنے کے بعد اس کے واقعی پسینے چھوٹنے لگے تھے وہ جہاں کا لاپرواہ آج پہلی دفعہ کسی کے لئے حقیقتً پریشان ہوا تھا
اسے سمجھ نہیں آئی تھی اب کیا کرے وہ بےبسی سے کھڑا خود کو ملامت کر رہا تھا جب دور اسے flower shop نظر آئی تھی وہ بےاختیار آگے بڑھا تھا جب وہ اسے چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ گپیں مارتی نظر آئی
وہ غصے سے اس کے قریب آیا تھا اور بازو سے کھنچتا ہوا اسے باہر لے آیا
وہ اس کی اس حرکت پر ہکابکا رہ گئی تھی
"کس سے پوچھ کر تم یہاں آئی تھی؟ پتا ہے کتنی دیر سے میں تمہیں ڈھونڈ رہا ہوں اور تم یہاں مزے سے ہسی مذاق میں لگی ہوئی ہو" اس نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا تھا
وہ تو کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں رہی تھی اس کے لہجے پر آنسو خود بہ خود نکل آئے تھے
"ہمیشہ اپنی ہی کرتی ہو کبھی دوسروں کا بھی سوچ لیا کرو"
وہ بولتا ہوا آگے چل دیا تھا اور وہ تو اسی جگہ جم گئی تھی وہ پھر پلتا تھا
"چلو کہ اب اٹھا کر لے کے جاؤں؟"
"میں تمہارا انتظار کر رہی تھی مجھے لگا تمہیں میں نظر آ جاؤں گی"
"ہاں الہ دین کا چراغ ہے نا میرے پاس جو تم مجھے نظر آ جاتی" وہ اس کے گھورنے پر ساتھ چل پڑی تھی
واپس آ کر بھی اس کا موڈ آف ہی رہا تھا آیت کو اس نے بتا دیا تھا کہ کیا ہوا ہے وہ بھی اسے ہی ملامت کر رہی تھی
"کیا ضرورت تھی ہوٹل سے دور جانے کی اور اگر چلی گئی تھی تو کم از کم اسے تو ساتھ رکھتی اگر گم جاتی تو؟"
"اچھا اب ڈراؤ تو نہیں" اس کی شکل دیکھ کر آیت کی ہسی نکل گئی تھی
"چلو اب سو جاؤ صبح جلدی اٹھنا ہے" وہ اسے ریلیکس کرتی ہوئی اپنے بیڈ پر آ گئی تھی
وہ بھی لیٹ تو گئی تھی لیکن نیند ہی نہیں آ رہی تھی
"بدتمیز کہیں کا" اسے رہ رہ کر اس کا رویہ یاد آ رہا تھا
پھر اپنا دھیان ہٹانے کے لئے اس نے میسم کا نمبر ملا لیا تھا...
اسے بات کرتے تھوڑی دیر ہی گزری تھی جب دروازے پر دستک ہوئی اس نے کال بند کر کے پہلے تو سوچا کسی اور کو اٹھائے پھر انھیں سویا دیکھ کر اس نے خود ہی ہمّت کی تھی
باہر کوئی نہیں تھا...
وہ اندر جانے لگی تھی جب سیم سائیڈ سے نکال کر سامنے آیا تھا اسے دیکھ کر اس نے غصے سے دروازہ بند کرنا چاہا تھا جب اس نے ہاتھ سے روک دیا
"بات تو سن لو" تھوڑی دیر پہلے والا غصہ بالکل غائب تھا
"مجھے نہیں سننی کوئی بھی بات"
"I am sorry yar"
"میں واقعی میں ڈر گیا تھا مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ تمہیں کہاں ڈھونڈوں_ایک تو راستے بھی انجان ہیں اور تم پتا نہیں کہاں چلی گئی تھی" وہ بالکل سنجیدہ تھا
نور تو اسے دیکھے گئی تھی...
"I am sorry too"
اسے بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا
"یہ لو" اس نے پھولوں سے بنے گجرے اس کے آگے کئے تھے
اور وہ حیرانگی سے اسے دیکھ رہی تھی
"یہی لینے گئی تھی نا تم؟" وہ مسکراتے ہوئے پوچھ رہا تھا
"تمہیں کیسے پتا؟" اسکی حیرت میں اور اضافہ ہوا تھا
"اسی دکاندار نے بتایا"
"تم وہاں پھر گئے تھے؟"
"ہاں سوچا اپنی اکلوتی دشمن کو ناراض کر کے سویا تو پوری رات گناہ ہی نا ملتا رہے"
اس کی بات پر ہنس کر نور نے گجرے پکڑ لئے تھے
"Thank you..."
اس کے تھنک یو پر سیم بھی ہنس پڑا تھا
"دشمن کو تھنک یو نہیں بولا کرتے..."
"دشمن سے تو گفت بھی نہیں لیا کرتے" وہ آبرو اچکا کر اسے دیکھ رہی تھی
"تو چلو پھر آج ہم نے اس روایت کو بھی بدل دیا"
*********
کبھی مل تو تجھ کو بتائیں ہم
تجھے اس طرح سے ستائیں ہم
تیرا عشق تجھ سے چھین کے
تجھے مے پلا کے رلائیں ہم
تجھے درد دوں تو نہ سہہ سکے
تجھے دوں زباں تو نہ کہہ سکے
تجھے دوں مکاں تو نہ رہ سکے
تجھے مشکلوں میں گھرا کے میں
کوئی ایسا رستہ نکال دوں
تیرے درد کی میں دوا کروں
کسی غرض کے سوا کروں
تجھے ہر نظر پر عبور دوں
تجھے زندگی کا شعور دوں
کبھی مل بھی جائیں گے غم نہ کر
ہم گر بھی جائیں گے غم نہ کر
تیرے ایک ہونے میں شک نہیں
میری نیتوں کو تو صاف کر
تیری شان میں کوئی کمی نہیں
میرے اس کلام کو تو معاف کر
وہ ٹیرس پر بیٹھا سگرٹ پہ سگرٹ پھونک رہا تھا اب تو نیند نا آنا جیسے روز کا معمول بن گیا تھا سارا دن تو مصروف گزر جاتا تھا لیکن رات تھی کہ کٹتی ہی نہیں تھی اگر کبھی غلطی سے نیند آ بھی جاتی تو ڈر کر اٹھ بیٹھتا تھا...
سکون تو جیسے آہستہ آہستہ زندگی سے ختم ہوتا جا رہا تھا روح آہستہ آہستہ جیسے جسم کا ساتھ چھوڑ رہی تھی کیسی بیماری لگ گئی تھی اسے...!
رامش کے تو اسے ایسے دیکھ دیکھ کر ہی دن رات ازیت میں گزرتے تھے
اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کہاں سے وہ اسکی خوشیاں ڈھونڈ لائے...
درد میں ہادی تھا تو تکلیف اس کی بھی کم نہیں تھی
اسے تھوڑی دیر میں نکلنا تھا اسے اس حالت میں چھوڑ کر جانا ازیت ناک تھا...
لیکن اسے جانا تھا!
اس نے اسے نیند کی دوا دے کر لیٹا دیا تھا اور کچھ دیر اس کو دیکھتے رہنے ک بعد وہ نکل آیا تھا
*********
رات اس کی بہت بےچینی میں گزری تھی نجانے کون سی طاقت ہے عشق میں کہ ایک دفعہ جب یہ ڈیرہ ڈال لے تو سکون چھین لیتا ہے پھر چاہے جتنی منتیں کر لو اس کی جتنا ٹرپ لو سسک لو اس کو رحم نہیں آتا
وہ یکدم اٹھ بیٹھی تھی...
ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی تکلیف میں ہے...پھر اس نے خود ہی اپنے خیال کی نفی کی تھی
"وہم ہے میرا بھلا مجھے کیوں اسکے حوالے سے الہام ہونے لگے"
"لیکن ایک دفعہ کال کر کے تو پوچھ سکتی ہو نا" دل نے کہا تھا
"اتنی رات کو کال کروں اسے؟ اور پھر کہوں گی کیا" اس نے خیال کو دماغ سے جھٹکا تھا
پھر بےاختیار ہاتھ اسکے فون تک گیا تھا گھبراہٹ تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی
بیل جا رہی تھی...
لیکن پھر بند ہو گئی تھی
"فون کیوں نہیں اٹھا رہا" دل نے خطرے کا سگنل دیا تھا
"سو گیا ہو گا" اس نے خود کو تسلی دی تھی
ہمّت کر کے پھر سے کال ملائی تھی
بیل جا رہی تھی...
اور کال اٹھا لی گئی تھی
وہ کچھ نہیں بولی تھی
وہ بھی کچھ نہیں بولا تھا
"کیا دیکھنے کے لیے کال کی ہے؟ یہی کہ زندہ ہوں ابھی تک کہ نہیں؟" وہ شاید نیند میں تھا کم از کم اسے یہی لگا تھا
"ہادی آپ...آپ ٹھیک ہیں؟" اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تھا
"کیا کر لو گی جان کر؟"
"ہادی آپ پلز بتائیں..." اسکی آواز لڑکھڑا گئی تھی
"نہیں ہوں میں ٹھیک_بہت تکلیف میں ہوں_بہت درد ہے_بہت..." اور پھر وہ بولتا رہا تھا...
بہت کچھ...
فاطمہ خود کو کوئلوں پر چلتا محسوس کر رہی تھی
اس کی محبّت تکلیف میں تھی بہت تکلیف میں لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی_کچھ بھی نہیں
"ہادی کون ہے وہ؟" اس نے آنسوں سے تر آواز میں پوچھا تھا
"بے وفا..."
اور پھر کال کٹ کر دی
*********
کل انھیں واپس جانا تھا اور آج کا دن دریائے نیلم پر گزرنے کا ارادہ تھا
یہ جگہ بلاشبہ بہت حسین تھی دریا پہاڑیوں سے گھرا ہوا تھا اور پہاڑیاں چمکدار سبز رنگ کے درختوں سے_اردگرد گنگناتی ہوا وہاں آنے والوں کا استقبال کر رہی تھی
پہاڑیوں کی مانگ بھرتا دریا کا یخ پانی ہر چیز سے زیادہ خوبصورت اپنے ہونے پر نازاں تھا سورج کی قدم بوسی کرتی کرنیں پانی کی چمک کو بڑحانے میں مگن...
سب کچھ اتنا دلکش تھا کہ ایک دن تو اس جگہ کے لئے ناکافی تھا
ان سب کا آج رات بار بی کیو کا پلان تھا کچھ لڑکے لڑکیاں اس کی تیاری میں مصروف تھیں باقی سب سمع دیکھنے میں مگن تھے
وہ دریا کے قریب بڑے سے پتھر پر بیٹھی سب کو دیکھ رہی تھی جب سیم اسے سامنے سے بھاگتا ہوا نظر آیا تھا
"نور کیا کبھی میں تم سے کسی سیدھے کام کی امید رکھ سکتا ہوں؟ پلیز؟" وہ پھولے سانس کے ساتھ معصوم شکل بنا کر کہہ رہا تھا
"افف اب میں نے کیا کیا ہے؟"
"اٹھو ادھر سے پانی کا flow بہت تیز ہے"
"اوہو کچھ نہیں ہوتا اتنا اچھا لگ رہا ہے"
"اٹھتی ہو یا...؟" وہ ڈانٹ پیستا ہوا اس کی طرف بڑھا تھا اور وہ فوراً اٹھ بیٹھی تھی
"دیکھو انتہائی بری بات ہے ہر بات پر blackmailing" وہ غصے سے آگے بڑھی تھی اور وہ مسکراہٹ دباتا ہوا اس کے پیچھے آیا تھا
"تو تم ویسے ہی مان لیا کرو نا پھر"
"کیوں مانوں تمہاری ہر بات؟" وہ ناراضگی سے بولی تھی
"کیوں کہ میں ہمیشہ ٹھیک بات کہتا ہوں"
"اور میں ہمیشہ غلط؟" وہ رک کر پوری اس کی طرف مڑی تھی
"ہمیشہ نہیں_کبھی کبھی"
"ہمم...ٹھیک" وہ نبرا مناتے ہوئے بولی تھی
"اچھا ناراض تو نہیں ہو نا...یہ سب بھی ناراض لگنے لگتے ہیں پھر" اس نے سامنے اشارہ کیا تھا
"یہ سب؟" اس نے پوچھ تھا
"یہ_ ہوا، بادل، دریا، یہ پہاڑیاں..."
"اچھا بس بس" اس نے ہاتھ سے اسے روکا تھا
اور وہ ہنس دیا تھا
"صرف ایک دن؟ یہ تو ناانصافی ہوئی اس جگہ کے ساتھ" وہ افسردہ ہوئی تھی
"تم جب کہو گی ہم پھر آ جائیں گے"
"کیا؟" اسے ہسی آئی تھی
"ہاں نا" وہ یقین دلا رہا تھا
"تم لاؤ گے مجھے؟" اس نے ہنس کے مذاق اڑایا تھا
"آزما کے دیکھ لینا..."
"تم بار بی کیو کی تیاری کر رہے تھے نا؟" اس نے بات بدلی تھی
"ہاں لیکن اب تم سے باتیں کر رہا ہوں"
وہ خاموش ہو گئی تھی
سورج کی کرنیں آہستہ آہستہ مدھم ہو رہی تھیں شام کے سائے پھیلنے لگے تھے آسمان کا رنگ بدلنے لگا تھا اس قدر خوبصورت منظر تھا کہ وہ اس میں کھو گئی تھی...
اس لمحے وہ اسے اس منظر کا سب سے خوبصورت حصہ لگی تھی...
وہ قدم پیچھے بڑھاتا گیا تھا اور پھر اس سے دور نکال گیا
تھوڑی دیر میں سب ایک جگہ جمع ہو گئے تھے باتوں کے درمیان اس خوبصورت وادی میں وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا تھا
تھوڑی دیر میں انھیں واپس ہوٹل کے لئے نکلنا تھا سب یک دم اداس ہو گئے تھے لیکن آنے والوں کو لوٹ کر تو جانا ہی ہوتا ہے
*********
ہوٹل آنے کے بعد سب ہی خاموش خاموش تھے کل صبح انہیں نکلنا تھا واپسی کے لئے...
"چلو کوئی گیم کھیلتے ہیں" وہ سب کے اداس چہرے دیکھ کر اٹھی تھی
اور پھر سب کی مرضی سے فائنل ہوا تھا کہ truth and dare کھیلتے ہیں...
ایک دم سے ہال پھر سے چہک اٹھا تھا
بوتل درمیان میں رکھ کر سب اس کے گرد دائرہ بنا کر بیٹھ گئے تھے اب جس پر بھی رکتی وہ ٹاسک پورا کرتا...
سیم نے جان بوجھ کر بوتل نور کی جانب روکی تھی اور وہ اٹھ کر لڑنے لگی تھی
"اچھا اچھا سوری دوبارہ کرتے ہیں" اس نے کانوں کو ہاتھ لگایا تھا
سارے ہنس دئے تھے
"پورا جہان ہو دسترس میں ، پھر بھی
مجھے اچھا لگتا ہے ، تمہیں ہی ستانا!"
آیت امی کی کال پر اٹھ کر باہر آ گئی تھی باہر بہت سناٹا تھا کال بند کرنے کے بعد وہ ادھر ہی بیٹھ گئی تھی
آواز بہت مدھم تھی شاید تھوڑی دور سے آ رہی تھی لیکن آواز میں ایسی کشش تھی کے اس کے قدم خود بخود اس طرف اٹھنے لگے تھے گرم شال کو اپنے گرد لپٹے آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہی تھی صبح برف پڑنے وجہ سے سڑک پر جگہ جگہ برف جمی ہوئی تھی...
آہستہ آہستہ ٹھنڈ بھی بڑھ رہی تھی وہ روشنیوں کو بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی اب اندھرے میں وہ صرف دور سے جلتی آگ کو دیکھ سکتی تھی آواز بھی قدرے اونچی آ رہی تھی شاید وہ بلے شاہ کا کوئی کلام تھا یکدم اس کا پاؤں برف پر سے پھسلا تھا گرنے سے پاؤں میں موچ آ گئی تھی درد کی وجہ سے اٹھنا مشکل ہو گیا تھا
آس پاس کوئی بھی نہیں تھا اسے بےاختیار رونا آیا تھا
کچھ دیر تو ایسے ہی گزر گئی تھی لیکن درد کم ہی نہ ہو رہا تھا نا اٹھا جا رہا تھا
"ہاتھ دو..." پیچھے سے کسی کی آواز آئی تھی
اسے اپنی سماعت پر شک ہوا تھا
اب تو مجھے اس کی آوازیں بھی سنائی دینے لگی ہیں
اس نے اٹھنے کی ایک اور کوشش کی تھی لیکن بےکار
"کیا ہوا اٹھنے میں مسلئہ ہو رہا ہے؟"
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو ہاتھ دو" رامش نے جھک کر اسکو ہاتھ سے پکڑ کر اٹھایا تھا
"آپ؟" درد کی شدید لہر پاؤں میں اٹھی تھی
"ہاں سوچ رہا ہوں سرحدوں کو چھوڑ کر تمہاری حفاظت میں لگ جاؤں"
"کوئی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ آپ اس کے بغیر بھی ہر جگہ حاضر ہو جاتے ہیں" اس نے خفگی سے کہا تھا
"ویسے سوچو اگر میں نا آتا تو تمہارا کیا ہوتا؟" وہ شارت سے مسکراتے ہوئے پوچھ رہا تھا
"کیا ہوتا کوئی جانور آتا اور مجھے کھا جاتا"
اس کی بات پر وہ قہقہ لگا کر ہنس پڑا تھا
"ادھر کوئی جانور نہیں آ سکتا تھا" اس نے اسے کندھے سے پکڑ کر چلنے میں مدد دی تھی لیکن وہ لڑکھڑا گئی تھی
"آپ یہاں مری میں کیا کر رہے ہیں؟"
"مری میں لوگ سیر کے لئے آتے ہیں"
"میں لوگوں کی نہیں آپ کی بات کر رہی ہوں"
"میں بھی کسی نیک کام کے لئے ہی آیا تھا" وہ اسے بازوں میں اٹھا کر گاڑی تک لایا تھا
"سنا ہے
زمین پر وہی لوگ ملتے ہیں،جن کو
کبھی آسمانوں کے اس پار
روحوں کے میلے میں
ایک دوسرے کی محبّت ملی ہو!"
جاری ہے
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Wahshat E Ishq Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Wahshat E Ishq written by Rimsha Mehnaz .Wahshat E Ishq by Rimsha Mehnaz is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted
No comments:
Post a Comment