Ishq Baz Novel By Monisa Hassan Urdu Novel 9 to10 Episode
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Ishq Baz By Monisa Hassan Episode 9 to 10 |
Novel Name: Ishq Baz
Writer Name: Monisa Hassan
Category: Complete Novel
مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔
آیت،فاریہ،سارہ اور نور فری پیریڈ میں لائبریری میں بیٹھی ہوئیں تھیں اور پچھلے آدھے گھنٹے سے کسی اسائنمنٹ پر ڈسکشن چل رہی تھی...
"یار مجھے لگتا ہے ہمیں سر سے ہیلپ لے لینی چائیے...میں مزید اس کے ساتھ سر نہیں کھپا سکتی"
نور نے تنگ آ کر کہا
"ہاں یار صحیح کہہ رہی ہو...جلدی چلو پھر اگلی کلاس سٹارٹ ہو جائے گی"
"ہاں چلو"
کچھ دیر میں وہ سر کے آفس میں موجود تھیں...
سر کسی گیسٹ کے ساتھ مصروف تھے اور انہیں انتظار کرنے کا کہا گیا تھا...
اب وہ چاروں اس گیسٹ کی پشت پر نظریں ٹکائے بیٹھی ہوئیں تھیں کہ ایسی بھی کون سی گفتگو ہے جو ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہی...
"یار اس کو بولو اپنا مسلئہ کشمیر بعد میں آ کر سلجھا لے ہماری کلاس شروع ہو گئی تو میم سے انسلٹ پکی..."
سارہ کی بات پر آیت نے اسے کہنی مار کر گھورا تھا
"آہستہ بولو سر نے سن لیا نا تو آفس سے باہر اٹھا کر ماریں گے پھر کرتی رہنا اپنی اسائنمنٹ کمپلیٹ"
خیر اللہ اللہ کر کے وہ جناب اٹھے تھے اور وہ تینوں سر کی طرف متوجہ ہوئیں سوائے سارہ کے...
سارہ تو ہادی کو دیکھ کر وہیں جم گئی تھی...اسے بھی سارا کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی تھی...
اس نے دور سے ہی سر کو خم کر کے سلام کیا تھا...
اور سارہ
وہ تو جواب میں مسکرا بھی نہ سکی تھی...
نور نے اسے کھڑا دیکھ کر کھنچ کر کرسی پر بیٹھایا تھا...
کتنے دنوں بعد دیکھا تھا اسے...یا شاید مہینوں بعد...وہ اندازہ نہیں لگا سکی تھی...
وہی پرانا فوجی کٹ اور گہری مسکراہٹ...جو ہمیشہ اس کے دل کی حالت کو بدل دیا کرتے تھے...آنکھوں کے گوشے نم ہونے لگے تھے...
اس کا دل چاہا بھاگ کر اسے روک لے اور پوچھے کہ محبّت کرنے والوں کے ساتھ یوں کیا جاتا ہے؟؟؟
سر سمجھا چکے تو وہ بھی سب کے ساتھ باہر آ گئی تھی...
"کون تھا وہ اور تم اسے یوں...؟ تم رو رہی ہو؟"
اور نور کے پوچھنے کی دیر تھی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی اور وہ تینوں تو بوکھلا ہی گئیں تھیں...
"یار کیا ہوا بتاؤ تو صحیح؟" آیت نے اسے گلے لگاتے ہوئے پوچھا
"کوئی اموشنل اٹیچمنٹ؟" فاریہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا
اور سارا نے اثبات میں سر ہلایا تھا
"ہائے او ربّا..." وہ چلا ہی تو پڑی تھی...
"کتنی تم ویسے بدتمیز ہو پہلے تو کبھی نہیں بتایا" نور کو اپنی ہی فکر پڑ گئی تھی...
"تم تو چپ ہی کرو وہ رو رہی ہے اور تمہیں اپنی پڑی ہوئی ہے" آیت نے اسے ڈپٹا
"تو رو کیوں رہی ہو؟ دھوکہ دیا اس نے تمہیں؟"
اس نے نفی میں سر ہلایا تھا
" تو کہیں انگیجمینٹ ہو گئی ہے اس کی؟
"ہائے اللہ نہ کرے" سارا آنسوں پونچھ کر فوراً بولی تھی...
اور باقی سب کی ہسی نکل گئی تھی...
"ویسے بندے کی شکل اچھی نہ ہو تو بندہ بات ہی اچھی کر لے" فاریہ نے نور کو چڑایا تھا
"ہاں تمہاری اچھی ہے تو تم ہی کر لو"
"پہلے سارا کچھ بتائے گی تو کروں گی نا چلو سارا شروع ہو جاؤ...بتاؤ ہے کون وہ؟ اور باقی کیا سین ہے؟
نور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی تھی
"یار بابا کے فرنڈ کا بیٹا ہے...کچھ عرصہ پہلے ہی آرمی جوائن کی ہے...اس لیے اب تو دیکھے ہوئے بھی مہینے گزر جاتے ہیں"
"اوہ تو وہ بھی تمہیں لائک کرتا ہے؟
"پتا نہیں"
"واؤ ون سائیڈڈ لو"
"تم فکر نہ کرو وہ بھی لائک کرتا ہی ہو گا" فاریہ نے اسے حوصلہ دیا تھا
"ضروری نہیں ہے وہ بھی کرتا ہی ہو...اویں فضول میں امیدیں نہیں لگاتے بعد میں تکلیف ہوتی ہے" آیت نے اسے ڈپتا تھا...
"چلو نا بھی کرتا ہوا تو تم بالکل فکر نا کرو ہم اسے اٹھوا لیں گے"
"اتنے عقلمندانہ مشورے پر آپکو ستر توپوں کی سلامی پیش کی جائے؟" فاریہ کو نور کا مشورہ ذرا پسند نا آیا تھا بھلا اب وہ معمولی سی لڑکیاں ایک فوجی کو کیسے اٹھوا سکتیں تھیں"
"اچھا چھوڑو یہ بتاؤ نام کیا ہے اس کا؟ نور نے پوچھا تھا
"ہادی"
"واؤ نام بھی اس کی طرح ہی handsome ہے" فاریہ نے سارا کو آنکھ مرتے ہوئے کہا
"شرم کرو جیجو ہیں تمہارے" نور کی بات پر سب ہی ہنس پڑیں تھیں...
"چلو یار کلاس شروع ہو گئی ہو گی" سارا نے ان سب کو اٹھنے کا اشارہ کیا تھا
"تم ٹھیک ہو اب؟" آیت نے فکرمندی سے پوچھا تھا
"ہاں" اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا
******
کبھی کبھی ہم قسمت کے آگے بےبس ہو جاتے ہیں
ہماری ساری کوششیں بےکار جاتی ہیں
ساری دعایں محفوظ کر لی جاتی ہیں
بچتا ہے تو صرف صبر...بےبسی
اور کچھ بھی نہیں___
کمرے میں مکمل اندھیرا تھا کھڑکی سے چاند کی روشنی چھن چھن کر کمرے میں نور بکھیرے ہوئے تھی
آیت کو اندازہ تھا کہ سارہ جتنی نارمل نظر آنے کی کوشش کر رہی تھی اتنی تھی نہیں!
سب محبّت کرنے والے ایک ہی جیسے ہوتے ہیں اپنا دکھ دوسروں سے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں...
وہ ٹھنڈے فرش پر دیوار سے ٹیک لگائے بند کھڑکی کے باہر گرتی مسلسل بارش پر نظریں ٹکائے اسے سوچ رہی تھی...
بارش کے قطرے اپنے سر بکھیرنے میں مگن تھے...وہ جیسے ان قطروں میں کسی آواز کو تلاش رہی ہو
"آیت مجھے کسی سے محبّت ہو گئی ہے"
ہاں یہی تھی وہ آواز_ایک دن ایسے ہی برستی بارش میں اس نے لان میں پڑے جھولے پر بیٹھے کہا تھا...
"کس سے؟" آیت کی دھڑکن تھمی تھی
"ہے ایک لڑکی"
"اچھا تم نے پہلے تو کبھی نہیں بتایا" اس نے آنکھوں کی نمی صاف کرتے ہوئے کہا
"بس ایسے ہی سوچا تمہیں سرپرائز دوں گا" اس نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا
"کیا ہوا تمہیں خوشی نہیں ہوئی؟" اس کا جواب نہ پا کر اس نے سوال کیا
"نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں" اس نے سر جھکائے جواب دیا تھا
"اچھا رکو میں تمہاری بات کرواتا ہوں" اور پھر وہ اپنے فون میں نمبر ڈائل کرتا ہوا اٹھ کر دور چلا گیا تھا
آیت اسے بارش میں دور جاتا دیکھتی رہی تھی
بارش کے قطرے جیسے اس کے دکھ میں شور مچا رہے تھے...
اسے روک رہے ہوں کہ مت جاؤ دور مجھے کسی سے بات نہیں کرنی...
فون بجنے کی آواز پر اس نے نظریں ہٹائیں تھیں سکرین پر کسی unknown نمبر سے کال آ رہی تھی...
اس نے کال پک کی تھی
"Met My Love my sweet cusion I Love U"
سپیکر پر زین کی آواز گونجی تھی
آیت نے فون کان سے ہٹا کر دیکھا تھا یہ واقعی کوئی خواب نہیں تھا
"بتاؤ پھر کیسی لگی میری چوائس؟" اس نے ہستے ہوئے پوچھا تھا...
ماضی کے کچھ خوبصورت مگر دھوکےباز لمحوں کی فلم دماغ کے پردے پر چل رہی تھی
اسے اس لمحے اس آواز سے نفرت محسوس ہوئی تھی...اس کا دل چاہا اس آواز کا گلہ گھونٹ دے...لیکن یہ آواز تو بڑھتی ہی جا رہی تھی اسے ہر طرف اسی کی ہی آوازیں سنائی دے رہیں تھیں...بارش کی آواز کہیں پیچھے دب گئی تھی...
وہ اس آواز سے دھیان ہٹا کر اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو گھورنے لگی تھی
اتنا اندھیرا...ہاں ٹھیک ہی تو ہے اتنا اندھیرا ہی تو ہے میری زندگی میں ہر طرف جدھر دیکھو اندھیرا ہی اندھیرا ہے
اب تو میرا دم گھٹتا ہے اس زندگی سے اب یہ سانسیں مجھے زندگی نہیں بلکہ تکلیف دیتی ہیں
مجھے ڈر لگنے لگا ہے اب خود سے...اپنے آپ سے... اپنے وجود سے....
کیوں کیا تم نے ایسا...کیوں؟؟
کیا کمی تھی میری محبّت میں...بولو؟ بولتے کیوں نہیں ہو؟؟
وہ مسلسل کانپتے ہوئے بےبسی سے چیخ رہی تھی_آنکھیں مسلسل رونے کی وجہ سے لال ہو رہیں تھیں_ جسم کی حرارت بڑھتی جا رہی تھی...
میں کیا کروں...؟ کیا کروں میں کہ مجھے اس تکلیف سے چھٹکارا مل جائے...میں آزاد ہو جاؤں اس درد سے...
مجھے درد ہو رہا ہے...بہت درد ہو رہا ہے میں کیا کروں اللہ جی...کیا کروں...سر درد سے پھٹ رہا ہے میرا
جنونی کفیت میں اس کا سر زور سے دیوار کے ساتھ لگا تھا اور آہستہ آہستہ وہ فرش پر گرتی چلی گئی تھی...ہر درد سے آزاد ہو کر...!
محبّت میں بےبسی انسان کی روح کے ریشے ریشے کر دیتی ہے...
پاس پڑا اس کا موبائل لگاتار بج رہا تھا اور وہ ہر چیز سے بےنیاز بیہوشی کی حالت میں تھی
فون پر فاطمہ کا لنک آ رہا تھا جب بہت دیر تک کوئی جواب نا آیا تو وہ خود گھر آ گئی تھی
دروازہ اندر سے لاک تھا فاطمہ نے کافی دیر دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد ملازمہ سے چابی منگوائی تھی...دروازہ کھلتے ہی سامنے کا منظر دیکھ کر فاطمہ پریشانی میں اوندھے منہ پڑی آیت کے پاس آئی تھی...
بہت کوششوں کے بعد بھی جب وہ نہ اٹھی تو وہ ملازمہ کے ساتھ مل کر اسے گاڑی تک لائی تھی...
"آنٹی کو کچھ مت بتانا انھیں سویا رہنے دو ہم بس تھوڑی دیر میں آ جائیں گے" وہ ملازمہ کو ہدایت کر کے اسے ہسپتال لے آئی تھی
آیت کو بہت تیز بخار تھا اس لیے انہوں نے رات ہسپتال میں ہی رکھنے کا کہا تھا
ساری رات گزرنے کے بعد بھی آیت کو ہوش نہیں آیا تھا اس نے ماما کو فون کر کے آیت کی حالت کے بارے میں بتا دیا تھا اور کچھ دیر میں وہ آیت کی امی کے ساتھ ہسپتال پہنچ گئیں تھیں...
"کیا ہوا بیٹا اسے؟"
"کچھ نہیں ہوا آنٹی بس سردی کی وجہ سے بخار ہو گیا ہے"
"پھر اسے ہوش کیوں نہیں آ رہا"
"ڈاکٹرز کوشش کر رہے ہیں آپ پلز پریشان نہ ہوں" وہ ان سے زیادہ خود کو تسلی دے رہی تھی آیت کی ایسی حالت اسے بھی کہاں برداشت تھی
******
آج کورٹ میں فیصلہ سنایا گیا تھا اور ساری پراپرٹی آیت کے نام منتقل کر دی گئی تھی_گولی چلانے کی وجہ سے اسے دو سال کی جیل سنائی گئی تھی...
"جو گزر گیا وہ معاف کیا آئندہ آیت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو سلوک اس سے بھی برا ہو گا" رامش نے فاتحانہ نظر زین پر ڈالی تھی
زین جو اپنے باپ کے کہنے پر سب کرتا آیا تھا آج پچھتا رہا تھا
اسے وہ سب یاد آ رہا تھا کہ کیسے اس نے آیت کے ساتھ برا سلوک کیا اسے دھوکہ دیا اور آج وہ اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا
رامش جیسے مشہور بزنس مین کے بیٹے کے لئے ثبوت اکھٹے کروانا کوئی مشکل کام نہ تھا اس کے سامنے زین کے باپ کا ایک بھی جھوٹا گواہ یا ثبوت نہیں ٹک سکا تھا...
وہ مطمعن تھا اور اب آیت کو اس کے خواب لوٹانا چاہتا تھا
لیکن یہ سوچ کر وہ پریشان ہونے لگا تھا کہ وہ اب آگے بڑھ چکی ہے چاہے دل سے نا سہی مگر وہ اپنے قدم آگے بڑھا چکی تھی
اپنا نیا راستہ وہ اپنا چکی تھی اب اسے پھر واپس لانا رامش کو اچھا نہیں لگ رہا تھا
لیکن اب آگے اسے کیا کرنا تھا وہ جانتا تھا اس لیا ابھی اس نے یہ سب آیت سے چھپانے کا فیصلہ کیا تھا...
******
شام کے قریب جا کر آیت کو ہوش آیا تھا لیکن بخار ہنوز برقرار تھا ڈاکٹرز نے ابھی مزید ہسپتال میں رکھنے کا کہا تھا اس لیے فاطمہ آنٹی کو آیت سے ملوا کر اب گھر جانے کا کہہ رہی تھی...
"آنٹی آیت اب ٹھیک ہے آپ گھر چلی جائیں میں رات آیت کے ساتھ رکوں گی"
"نہیں بیٹا میں اسے اس حال میں چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی" وہ بضد تھیں
"آنٹی دیکھیں آپ کی طبیعت خراب ہو گئی تو مزید مسئلہ ہو جائے گا میں وعدہ کرتی ہوں صبح ہوتے ہی آپ کو لے آؤں گی"
آیت نے انھیں سمجھا کر گھر بھیج دیا تھا
اب وہ آیت کے کمرے میں اکیلی تھی...
اسے اس حال میں دیکھنا فاطمہ کے لیے تکلیف دہ تھا ایک رات میں ہی وہ پہلے سے کمزور لگنے لگی تھی آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکے اس پر گزری ہر تکلیف کا پتا دے رہے تھے اب تک جو سب کے سامنے خود کو مظبوط دکھانے کی کوشش کر رہی تھی سب لمحے میں ہار گئی تھی...
ایک بےرحم آنسوں اسکی پلکوں سے ہوتا ہوا آیت کی پلکوں پر جا گرا تھا اور پھر ایک کے بعد ایک گرتے چلے گئے تھے
"تم بھول کیوں نہیں جاتی ہو اسے؟" اس نے جیسے آیت کی منت کی تھی
"انسان ہی تھا نا...وہ بھی بے وفا" اب کہ لہجے میں حقارت تھی
"کیوں خود کو اور ہمیں تکلیف دے رہی ہو؟"
"بس کر دو خدا کا واسطہ ہے تمہیں آیت خدا کا واسطہ..." سسکتے ہوئے اس نے ہاتھ جوڈ دیئے تھے
آنسو آیت کی کنپٹی سے اب اس کے بالوں کو بھیگونے لگے تھے
"کوئی قیامت نہیں آ گئی اس کے جانے سے" اب کے وہ غصے سے بولی تھی
"پتا نہیں قیامت اسے نہیں کہتے تو اور کسے کہتے ہیں" نہایت دھیمی آواز میں وہ بولی تھی جو فاطمہ بمشکل ہی سن پائی تھی
"آیت..."
"وہ شخص تمہارے قابل تھا ہی نہیں" اب وہ اسے پیار سے سمجھا رہی تھی
"میں خود تمہارے لیے ڈھونڈوں گی دیکھنا اتنا پیارا پرنس سب دیکھتے رہ جائیں گے" یا شاید بہلا رہی تھی
جیسا بچہ جب کسی چیز کے لئے زد کرتا ہے تو اسے بہلایا جاتا ہے...
"پیاری بہن ہو نا میری؟"
"پلز میری بات مان لو" وہ آس بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی
"اس کے بدلے میں تم جو کہو گی میں کرنے کے لئے تیار ہوں بس مجھے میری دوست لوٹا دو"
آیت نے اذیت سے آنکھیں میچ لیں تھیں...
"پہلے جیسی ہستی ہساتی" وہ حسرت سے اسے دیکھ رہی تھی
"تمہیں یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے تو جب کبھی ہم رونے لگتے تو انکل کیسے کیسے ہمیں ہساتے تھے..." وہ آنسوں کے درمیان میں ہسی تھی
"کبھی گھوڑا بنتے تھے کبھی بندر کی نقل اتارتے...اور پھر ہم فوراً ہس دیتے تھے...پھر ہم تینوں ہسنے لگتے تھے اور ہستے ہی جاتے تھے بلاوجہ...بس ایک دوسرے کو دیکھ کر"
"چلو نا آج پھر ہستے ہیں...زندگی نے اتنے دکھ دیئے ہیں آج اسے ہرا ہی دیتے ہیں"
"دل نہیں کر رہا نا؟"
"چلو پھر آج خود کو ہرا دو...بولو آج میں تمہاری نہیں سنوں گی...اور ہس لو"
"بہت سارا"
"اویں بلا وجہ" وہ بچوں کی طرح اسے بہلا رہی تھی
"پلز" آیت نے اسے روکا تھا
"پلز نا" وہ بھی اسی کی جان تھی کیسے رکتی
"فاطمہ..."
"آیت"
"نہیں کرو"
"پلز کر لو"
"فاطمہ..."
"جی..." وہ محبّت سے آیت کے بال سہلا رہی تھی
"میرا دل چاہتا ہے کوئی مجھے اٹھا اٹھا کر زمین پر پٹخے یا مجھے تڑپا تڑپا کر مارے کہ اس بے وفا کے لئے اپنے پیارے رشتوں کو دکھ دیئے...؟؟"
"نہیں میری جان تم نے کسی کو دکھ نہیں دیا دکھ تو تمہیں ملا ہے اور ہم کچھ بھی نہیں کر سکے تمہارے لئے" فاطمہ نے اسے گلے لگایا تھا
"مجھے لگتا ہے پوری دنیا مجھ پر ہستی ہے..."
"نہیں میری جان ایسے نہیں سوچتے کوئی نہیں ہستا"
دروازے پر دستک پر دونوں ادھر متوجہ ہوئیں تھیں
فاطمہ نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تھا...گھر سے آیت کے لئے سوپ آیا تھا
"یہ دیکھو امی نے تمہارے لئے سوپ بھیجا ہے اچھے بچوں کی طرح سارا ختم کرنا ہے" فاطمہ نے اسے بیٹھنے میں مدد دی تھی اور اب اسے سوپ پلانے لگی تھی
آیت نخرے دکھانے لگی تھی اور فاطمہ ساتھ ساتھ اسکی نقل اتار رہی تھی....
فاطمہ کی الٹ پٹانگ شکللیں دیکھ کر آیت ہسنے لگی تھی اور فاطمہ نے اللہ کا شکر ادا کیا تھا
******
رامش کو کچھ ڈاکومینٹس پر آیت کے سائن چائیے تھے وہ صبح سے آیت کو کالز کر رہا تھا لیکن کوئی جواب نہیں مل رہا تھا اس نے بارہا فاطمہ کو بھی کالز کی تھیں لیکن وہ بھی نہیں اٹھا رہی تھی...
اس نے آیت کی لوکیشن ٹریس کی تھی جو مسلسل ہسپتال کی آ رہی تھی اس نے ہسپتال کال کی تو پتا چلا کے آیت ادھر ایڈمٹ ہے...
رامش ڈیوٹی پر تھا جب اس کی ڈاکٹر سے بات ہوئی اس نے ہادی کو جلدی آنے کا میسج کیا تھا جو اس کی گاڑی لے کر آوارہ گردی پر نکلا ہوا تھا...
******
فاطمہ آیت کو سوپ پلا کر اس کے ڈاکٹر سے ملنے روم سے باہر آ گئی تھی اور اب میڈیسن لینے باہر کی طرف بڑھ رہی تھی جب اس کی نظر ریسیپشن پر کھڑے ہادی پر پڑی
وہ بھی اسے دور سے آتا دیکھ چکا تھا لیکن حیرانگی کی بات تو یہ تھی کہ سلام تو دور کی بات اس نے اسے دیکھتے ہی منہ دوسری طرف کر لیا تھا
"اسلام علیکم" اس نے پاس آ کر کہا
"وعلیکم اسلام! کیسی ہیں مس فاطمہ" انداز میں کچھ طنز تھا جسے فاطمہ سمجھنے سے قاصر تھی
"میں تو ٹھیک ہوں لیکن لگتا ہے آپ نے ابھی تک اس دن کے لئے مجھے معاف نہیں کیا" فاطمہ پریشانی سے اسے دیکھ رہی تھی
"کس دن؟" اس نے ابرو اچکا کر پوچھا جیسے کچھ یاد ہی نہ ہو
"وہ جب آپ پر غلطی سے کیک..."
"اوہ ناٹ اگین مس فاطمہ...اور سنائیں آج کل کیا کر رہی ہیں" اس نے موضوع بدلا تھا اور فاطمہ کو ایسا کرتا وہ بہت عجیب لگا تھا
"وہی پرانی روٹین کچھ خاص نہیں" اس نے پھر بھی مسکرا کر جواب دیا تھا
"اییم گڈ" اس نے نظریں موبائل پر جماتے ہوئے کہا جیسے کچھ اور نا ہو بات کرنے کے لئے
"رامش کیسا ہے؟" اس نے بات بڑھاتے ہوئے کہا پتا نہیں کیوں اسے تجسس تھا جاننے کا کہ وہ فاطمہ سے اتنا الجا ہوا کیوں رہتا ہے جبکہ باقی سب کے ساتھ اس نے اسے بہت مختلف دیکھا تھا
پچھلے ہفتے بھی جب وہ اور آیت ڈنر کرنے گئے تھے تو اتفاقاً ہادی سے ملاقات ہوئی تھی وہ آیت سے بالکل نارمل ملا تھا بلکہ ہلکا پھلکا مذاق بھی کرتا رہا تھا لیکن فاطمہ کو مکمل نظرانداز کیا تھا
"یہیں ہے وہ بھی کسی رشتےدار سے ملنے آیا ہے شاید خود ہی پوچھ لیں" اس نے سامنے کمرے کی طرف اشارہ کیا جدھر تھوڑی دیر پہلے وہ گیا تھا
یہ وہی کمرہ تھا جدھر آیت ایدمٹ تھی اسے بہت خوشی ہوئی تھی کہ اس کی دوست کو ایک پرفیکٹ انسان چاہتا ہے جس کو اس کے بارے میں بغیر بتائے ہی ساری خبر ہوتی ہے اسے یقین تھا وہ آیت کی زندگی میں پھر سے رنگ بھر دے گا اسکا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا تھا وہ گہری مسکراہٹ لئے ہادی سے ایکسکیوذ کرتی کمرے کی طرف بڑھی تھی
اور رامش کے نام پر اس کا خوشی سے کھلتا چہرہ دیکھ کر اس کا دل جل کر رہ گیا تھا اس لمحے اس کے دل نے رامش سے جلن محسوس کی تھی
وہ جتنا اسے اپنے ذہن سے جھٹکتا تھا وہ اتنا ہی اس کے حواسوں پر سوار ہوتی تھی
"اسی لئے اتنا بےتاب تھا یہاں آنے کے لئے جیسے نا آیا تو جان نکل جائے گی" اس کو رامش پر غصہ آیا تھا
ریسیپشن پر اس کی گاڑی کی چابی اور اس کے نام پیغام چھوڑ کر وہ ہسپتال سے باہر نکل آیا تھا
اور بےمقصد سڑکوں پر پھرتا رہا تھا وہ خود اپنی حالت پر حیران تھا جتنا اپنے جذبوں کی نفی کرتا اتنا ہی وہ سر چڑھ کر بولتے تھے...
"آہ فاطمہ..."
"مجھے معاف کرنا رامش لیکن کچھ بھی میری اخطیار میں نہیں ہے سب خود بہ خود ہوتا چلا جا رہا ہے..." اس نے منہ سے دھواں ہوا میں خارج کرتے ہوئے ہاتھ میں پکڑا ہوا آدھا سگرٹ دور پھینکا تھا
_______
آیت آج بہت دنوں بعد یونیورسٹی آئی تھی اور آتے ہی وہ تینوں اسے گھیر کر بیٹھ گئیں تھیں
"جی محترمہ آ گئی آپ کو ہماری یاد" نور قدرے خفگی سے بولی
"ارے یاد تو انھیں کیا جاتا ہے جنہیں ہم بھولتے ہوں تم لوگ بھولتے ہی کب ہو" آیت نے مسکراتے ہوئے کہا
وہ آج پہلے سے بہت فریش لگ رہی تھی
"بس کرو ڈائلاگ مارنا ان کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہونے والا" سارہ ناراضگی سے منہ دوسری طرف کرتی ہوئی بولی
"ویسے اتنے دن کدھر غائب تھی ڈھیروں کالز اور میسجز کئے تمہیں ایک کا بھی رپلائے نہیں کیا؟" اب کے فاریہ آگے ہوئی تھی
"یار بخار تھا... ہسپتال میں ایدمٹ تھی"
"کیا؟ اور تم نے ہمیں بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا؟"
"ایسی بات نہیں ہے یار بس خیال ہی نہیں رہا اور ویسے بھی کوئی اتنا خاص مسلئہ نہیں تھا کہ تم لوگوں کو بھی پریشان کرتی"
"کتنی غلط بات کی تم نے آیت ہم اتنے دنوں سے تمہارے لیے پریشان تھے اور تم نے ایک لمحے میں ہمیں غیر کر دیا" سارہ بےیقینی سے اسے دیکھ رہی تھی
"اوہو میرا وہ مطلب نہیں تھا یار میں تو بس یہ کہ رہی ہوں نارمل سا بخار تھا اور کچھ بھی نہیں"
"ہم at least تم سے ملنے تو آ سکتے تھے نا" نور فکرمندی سے کہہ رہی تھی
"اچھا نا سوری آئندہ ایسا نہیں ہو گا"
"اچھا چھوڑو یہ بتاؤ اب کیسی طبیعت ہے؟"
"ہاں نا بالکل ٹھیک ہوں_دیکھو" آیت نے ہستے ہوئے کہا
"ڈرامےباذ" سارہ فوراً بولی تھی
وہ تینوں صبح آیت کو دیکھ کر کلاس کی بجائے کینٹین میں آ گئی تھیں تاکہ پہلے تفتیش کر لیں اور اب ساتھ ساتھ چائے سے انصاف ہو رہا تھا.
ٹھیک ہے یار اگر تو یہ شرط جھیت گیا تو آج کی پارٹی میری طرف سے" کلاس شروع ہونے میں ابھی وقت تھا تو وہ پانچوں کینٹین میں بیٹھے آج شام کی پلاننگ کر رہے تھے
"بس اتنی سی بات؟ لو بھئی آج پھر ایک اور ممبر ایڈ کر ہی لو پارٹی میں"
"کیا مطلب بات صرف نمبر کی ہے اور کچھ نہیں"
"جانے دے یار اسکا ٹیسٹ بدلنے کا موڈ بن گیا ہوگا" ساتھ ہی سب کے قہقے بلند ہوئے تھے اور بہت سی حسرت بھری نگاہیں ان کی طرف اٹھیں تھیں
اسے لگا تھا یہ کام اسکے لئے مشکل نہیں ہے اسکا فلسفہ یہی تھا کہ حسن اور پیسہ ہو تو دنیا آگے پیچھے گھومتی ہے اور آج تک اسکا فلسفہ غلط ثابت بھی تو نہیں ہوا تھا
یونیورسٹی کی لڑکیاں تو اس سے باتیں کرنے کے بہانے ڈھونڈتی تھیں
وہ ایک ادا سے چلتا ہوا اس کے قریب آیا تھا اور اسکی یہی ادا تو مقابل کو اس کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیتی تھی...
مغرور لہجے میں مسکراہٹ سجاتے ہوئے اس نے نور کو مخاطب کیا تھا
"Hi"
اس کی آواز پر ان سب نے سر اٹھایا تھا
"جی" اس نے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو اگنور کرتے ہوئے کہا
اس کی اس حرکت پر سیم کو اپنی بےعزتی کا احساس ہوا تھا
لیکن فل حال اسے اپنی شرط جھیتنی تھی سو اسے دماغ سے جھٹکتے ہوئے بات شروع کی...
وہ جو سوچ کر آیا تھا کہ اس کی تعریف میں دو بول بولے گا اور پھر پارٹی کی آفر کرے گا اور وہ مان جائے گی...لیکن اب وہ کنفیوز ہو گیا تھا
ایک اسکا اگنور کرنا اور دوسرا اسکا سنجیدہ چہرہ
اسے پہلی بار کسی لڑکی سے بات کرنے میں مشکل ہوئی تھی...
"ایکچولی یہ جگہ ہماری ہے آپ پلز یہ ساتھ والی ٹیبل پر بیٹھ جائیں"
"کیوں ہم کیوں بیٹھیں؟ اور ابھی کیا کہا آپ نے؟ یہ جگہ آپ کی ہے؟ لیکن میں نے یہاں ایسا کوئی بورڈ لگا نہیں دیکھا...
اس لئے ہم تو یہاں سے نہیں اٹھیں گے..ہاں لیکن آپ ہمارے اٹھنے تک کا ویٹ کر سکتے ہیں" وہ بےنیازی سے بولی تھی
سیم کو اس کی باتیں تیر کی طرح لگیں تھیں...
لیکن اب کیا ہو سکتا تھا تیر کمان سے نکل چکا تھا اور درست نشانے پر بھی لگا تھا...
"دیکھیں میں آپ کو آخری دفع کہہ رہا ہوں اٹھ جائیں ورنہ..."
"ورنہ کیا؟ ہاں کیا کریں گے آپ؟"
"میں وہ کروں گا کہ تم پچھتاؤ گی"
"میں تب بھی پچھتاؤں گی اگر یہاں سے اٹھ گئی اس لیے یہ دھمکیاں کہیں اور جا کر دیں"
"تو تم نہیں اٹھو گی"
آیت نے لڑائی بڑھتے دیکھ کر اسے منع کیا تھا لیکن وہ تو جیسے پورا مقابلہ کرنے کے موڈ میں تھی
"آپ انتظار کر سکتے ہیں" اس کے سکون میں ذرا فرق نا آیا تھا
"چلو سیم ہم وہاں جا کر بیٹھتے ہیں" حارث معاملہ کی سنگینی کو بھامپتے ہوئے آگے بڑھا
پھر وہ وہاں بیٹھا تو نہیں تھا لیکن وہاں سے چلا ضرور گیا تھا
اتنی بےعزتی اسے برداشت کہاں تھی...
"آج کی پارٹی سیم کی طرف سے" حارث نے گروپ میں میسج کیا تھا
اور یہ پارٹی تھی سیم کی ہار کی خوشی میں!
******
"کیا ضرورت تھی الجھنے کی ہم ویسے بھی اٹھنے ہی والے تھے ایویں بلاوجہ ایشو کریٹ کر دیا" فاریہ اس پہ برسی تھی
"ایشو میں نے نہیں اس ایڑیٹ نے کریٹ کیا ہے یونیورسٹی کو بھی اپنی پرسنل پراپرٹی سمجھ رکھا ہے"
"اچھا نا اب بس کرو اس کی وجہ سے اپنے دن کا آغاز خراب موڈ سے کرنے کی ضرورت نہیں ہے" آیت نے اسے ٹھنڈا کرنا چاہا تھا
"ضرورت کیسے نہیں ہے تم نے سنا نہیں وہ کیا کہہ کر گیا ہے_سمجھتا کیا ہے خود کو" وہ اس کے سامنے خود کو پرسکون ظاہر کر رہی تھی لیکن اس کا لب و لہجہ اسے اندر تک سلگا گیا تھا
"چھوڑو اسے ویسے بھی وہ اتنا اہم نہیں ہے کہ تم اس کے بارے میں سوچو" سارہ نے اسے ٹوکا تھا
نور منہ جھٹک کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی
"کدھر جا رہی ہو بیٹھو تو مجھے کچھ بتانا ہے" سارہ نے اسے واپس بیٹھایا تھا
"بولو"
"میں آج گھر جا رہی ہوں جب سے ہوسٹل شفٹ ہوئی ہوں گھر کا چکر ہی نہیں لگا"
"تو کلاسز؟"
"یار آج کل تو ویسے بھی ویلکم پارٹی کی تیاری چل رہی ہے اور سٹڈی کا اتنا برڈن بھی نہیں ہے"
"کتنے دن کے لئے جا رہی ہو؟" نور کو اپنی فکر بھول کر ایک نئی پریشانی لاحق ہوئی تھی
"تین چار دنوں کے لیے ویک اینڈ کے بعد آ جاؤں گی"
"پارٹی تک تو آ جاؤ گی نا؟"
"ہمم پوری کوشش کروں گی"
"کوشش والی کوئی بات نہیں ہے اگر نا آئی تو ہوں خود تمہیں لینے پہنچ جائیں گے ویسے بھی اتنا دور نہیں ہے"
"اچھا بابا آ جاؤں گی"
"جاؤ گی کیسے؟"
"بھائی ابھی ادھر ہی ہیں وہی لینے آئیں گے"
چلو ٹھیک ہے پھر یونیورسٹی کے بعد ہم ایک اچھا سا لنچ کریں گے پھر تم جاؤ گی"
"اوکے" وہ ان کی محبّتوں پر مسکرا دی تھی
وہ تینوں نور کو بھی باتوں میں بہلا چکی تھیں...
یونیورسٹی کے بعد وہ چاروں ایک شاندار ریسٹورینٹ میں آ گئیں تھیں
اندر آتے ہی آیت کو بہت سی یادوں نے آن گھیرا تھا لیکن وہ انہیں دماغ سے جھٹکتے ہوئے آگے بڑھ گئی...
اب زہر اتنی جلدی بھی تو اپنا اثر نہیں چھوڑتا...
"آیت،نور تم دونوں نے نوٹ کیا ہے آج موسم کچھ زیادہ ہی خوشگوار نہیں ہے؟" فاریہ نے بیٹھتے ہوئے کہا
"ہاں یار نوٹ تو میں نے بھی کیا ہے...
خالی خالی گھر جانے کی خوشی تو نہیں لگتی ابھی پرسوں ہی تو انکل آنٹی مل کر گئے ہیں"
ان کا اشارہ سمجھ کر سارہ کے چہرے پر سرخی دھوڑ گئی تھی
"چلو اب بتا بھی دو کہیں کوئی ڈیت ویٹ تو نہیں فکس کر لی؟" نور ہستے ہوئے بولی
"جی نہیں" سارا نے اسے ایک دھپ رسید کرتے ہوئے کہا
"تو پھر؟" فاریہ سارہ کی طرف دیکھ کر شرارت سے بولی
"کیا ہے یار تنگ نہیں کرو" وہ آیت کے کندھے میں منہ چھپاتے ہوئے بولی
اور وہ تینوں تو اسے دیکھ دیکھ کر محظوظ ہو رہی تھیں
"بس کرو بھئی تنگ نہیں کرو میری دوست کو" آیت نے ہستے ہوئے اس کا دفاع کیا تھا
"تو کہہ دو نا اپنی دوست سے کیوں چھپا رہی ہے سیدھی طرح بتا دے"
"ہاں نا کیا پتا ہماری ہیلپ کی ضرورت ہی پڑ جائے" فاریہ اور نور کہاں باز آنے والیں تھیں
"چلو سارہ بتا ہی دو انہیں ورنہ تو ان کا لنچ کرنا مشکل ہو جائے گا"
اس نے ان کی طرف دیکھا اور پھر بولی تھی
"کل نا میرے کزن کی انگیجمنٹ ہے"
"تو؟" نور ناسمجھی سے بولی
"تو وہ ہادی کا کافی کلوز فرینڈ ہے مجھے لگتا ہے وہ ضرور آئے گا"
"اوووو تو یہ بات ہے پھر تو بھئی کھلنا بنتا ہے" نور کے چھیڑنے پر وہ سر جھکا گئی تھی
"ویسے ایسا بھی کیا ہے اس میں جو وہ تمہیں اپنا اسیر بنا گیا ہے؟ آیت کے پوچھنے پر وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی تھی
"کچھ ہونا محبّت کی شرط کب ہوتی ہے" وہ دھیمے سے بولی تھی
"اور ویسے بھی جن سے محبّت ہوتی ہے وہ ہر حال میں ہر انداز میں اچھے لگتے ہیں"
"ہاں اس سے پوچھو بڑا ایکسپیرینس ہے اسے" فاریہ نے ہستے ہوئے نور کا مذاق اڑایا تھا
"ضروری نہیں انسان ہر تجربہ خود پر ہی کرے دوسروں کے تجربوں سے بھی انسان بہت کچھ سیکھ جاتا ہے" نور نے فوراً فاریہ پر چوٹ کی تھی
"شرم کرو شرم کیسا الزام لگا رہی ہو دادی نے سنا نا تو زندہ جہنم میں پھنک آئیں گی"
"دادی کو کیوں اندر گھسیٹ رہی؟" سارہ نے ہستے ہوئے پوچھا
"تمہیں نہیں پتا یار بڑی کوئی ہٹلر قسم کی ہیں میرے بڑے چاچو نے اپنی مرضی سے شادی کی اور سات سال ہو گئے ہیں آج تک انھیں گھر آنے کی اجازت نہیں ملی"
"اسی لیے محبّت تو ہمارے خاندان میں گناہ ہے اور ہم پر حرام" نور نے دکھ سے بتایا تھا
"ارے محبّت تو قسمت سے ملتی ہے اگر تمہاری قسمت میں ہوئی تو تمہیں مل کر رہے گی بھلا قسمت کی ہونی کو کون روک سکتا ہے" آیت کی بات پر وہ خوبصورتی سے مسکرا دی تھی
اور دور کھڑی اسکی قسمت بھی...
******
وہ گاڑی سے اتر کر گیٹ کے قریب آیا تھا اب اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اندر جائے یا واپس پلٹ جائے_آیت بھی تو فون نہیں اٹھا رہی تھی اور اتنی رات کو فاطمہ کو ڈسٹرب کرنا اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا
اگر کام ضروری نہیں ہوتا تو وہ کبھی نہ آتا
کچھ سوچ کر اس نے قدم آگے بڑھائے تھے...
تیسری بیل پر ملاذمہ باہر آئی تھی ورنہ اب اس کا ارادہ پلٹ جانے کا تھا
"اسلام علیکم مجھے آیت سے ضروری کام ہے کیا ان سے اس وقت ملاقات ہو سکتی ہے؟"
ملاذمہ اسے پہچان گئی تھی اور ساتھ ہی اسے آیت کی اسے کبھی اندر نا آنے دینے والی ہدایت بھی یاد آ گئی تھی...
"دیکھیں پلز آپ پریشان نا ہوں میں زیادہ وقت نہیں لوں گا آپ جا کر انھیں بتا دیں" وہ ملاذمہ کی شکل دیکھ کر کہہ رہا تھا
"لیکن انہوں نے تو مجھے منع کیا تھا کہ آئندہ کبھی آپ کو اندر داخل نا ہونے دوں" وہ مظلوم سی شکل بنا کر کہہ رہی تھی اور رامش کو کئی واٹ کا کرنٹ لگا تھا
"کیا؟" وہ بےیقین تھا
"ایسا کب کہا انہوں نے آپ سے؟" رامش کو اپنی حد درجہ توہین پر ہسی آئی تھی
"وہ جب ان کو بخار تھا تو آپ آئے تھے اور پٹیاں بھی..." وہ فقرہ ادھورا چھوڑ کر اس کی شکل دیکھنے لگی تھی
رامش نے اثبات میں سر ہلایا تھا جیسے سب سمجھ گیا ہو
"آپ ابھی جا کر ان کو میرا بتائیں مجھے یقین ہے وہ منع نہیں کریں گی" وہ جیسے اسے یقین دلا رہا تھا
"وہ ہیں تو ادھر لان میں ہی آپ پھر آ جائیں اندر"
اس نے لان کی طرف اشارہ کیا جدھر آیت بیٹھی ہوئی تھی
وہ شکریہ کہتا آگے بڑھ گیا تھا...
آیت کے پاس آ کر اس نے گلا کھنگالا تھا
وہ اپنی سوچوں میں گھری ڈائری پر کچھ لکھنے میں اتنی مگن تھی کہ اس کے آنے کا احساس ہی نہیں ہوا تھا اور اب اس کی آواز پر چونک کر اسے دیکھنے لگی تھی
"آپ؟" وہ اس وقت اسے دیکھ کر حیران ہوئی تھی
"جی میں"
"ویسے اگر آپ مجھے گھر سے باہر نکالنے کا ارادہ رکھتی ہیں تو میں بتا دوں کہ ایک بہت ہی ضروری کام سے آیا ہوں ورنہ اتنی رات میں آپ کو کبھی ڈسٹرب نہ کرتا" وہ مودبانہ انداز میں کہہ رہا تھا
"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں میں بھلا آپ کو باہر کیوں نکالوں گی؟"
"اچھا" وہ حیران ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے بولا
"ابھی ابھی آپ کی ملاذمہ سے تو یہی علم ہوا ہے کہ آپ کا مجھے باہر سے ہی بھیج دینے کا حکم ہے وہ تو اس بیچاری کو مجھ پر ترس آ گیا جو اس نے مجھے باہر سے ہی نہیں بھگا دیا"
"میں نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا" اس کے تو فرشتوں کو بھی یاد نہیں تھی
"لیکن وہ تو ایسا ہی بتا رہی تھی کہ میری پچھلی دفعہ کی تماداری آپ کو شاید پسند نہیں آئی تھی"
آیت کے ذہن میں جھماکا ہوا وہ تو اس نے اس وقت غصے میں کہ دیا تھا ساتھ ہی اسے آنٹی پر شدید غصہ آیا تھا
"I'm sorry"
"انھیں ضرور کو غلط فہمی ہوئی ہو گی آپ بیٹھیں پلز"
"ہو سکتا ہے" وہ لان میں پڑی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھتا ہوا بولا
"خیریت اتنی رات کو آپ کو آنا پڑا؟"
"ایکچولی میری ٹرانسفر سرگودھا ہو گئی ہے واپسی کا کوئی پتا نہیں کچھ ڈاکومینٹس پر آپ کے سگنیچر چائیے تھے"
"میرے سگنیچر؟"
"جی" اس نے فائل آیت کی طرف بڑھائی تھی
"لیکن کس لئے؟"
"کیس کے سلسلے میں_زین کا تو پتا چل ہی گیا ہو گا کہ اس کو جیل ہو گئی ہے اور پراپرٹی بھی انشاءلله میں پوری کوشش کروں گا کہ آپ کو واپس مل جائے"
آیت کی اٹھی ہوئی پلکیں جھک گئیں تھیں...
احساس ندامت تھا یا حجاب وہ سمجھ نہیں پایا تھا
اور پھر آیت نے اس کی توقع کے عین مطابق بغیر پڑھے ہی سائن کر دیئے تھے ورنہ اگر وہ پڑھ لیتی کے یہ وہی پراپرٹی ٹرانسفر لیٹر تھا جس پر ایک دفعہ وہ دھوکے سے سائن کر گئی تھی اور آج وہی لیٹر اسے ساری پراپرٹی واپس دے گیا تھا تو مسلئہ بن جاتا...
شاید آیت کے پچھتاوں کی فہرست میں ایک اور پچھتاُوے کا اضافہ ہو جاتا جو کہ رامش بالکل نہیں چاہتا تھا
"آپ بیٹھیں میں کافی بنا کر لاتی ہوں" وہ اٹھتے ہوئے بولی
"نہیں آیت میں اب چلتا ہوں مجھے کافی لمبا سفر کرنا ہے"
"اسی لئے تو کہہ رہی ہوں_سفر اچھا گزر جائے گا" وہ مسکرا کر کہتی اندر بڑھ گئی تھی
اندر آ کر وہ خود کو قدرے سمبھال چکی تھی ورنہ زین کے جیل جانے کی خبر نے تو اسے ایک دفعہ کے لئے ہلا دیا تھا"
تھوڑی دیر میں وہ ٹرے میں دو مگ سجائے باہر آ گئی تھی
ایک مگ رامش کے حوالے کرتے اور دوسرا خود سمبھالتے اپنی جگہ پر بیٹھ گئی تھی
"یونیورسٹی کیسی جا رہی ہے؟"
"بہت اچھی" وہ ان تینوں کو یاد کر کے دل سے مسکرائی تھی
اور رامش کو اس وقت وہ بہت بھلی لگی تھی کبھی کبھی ہی تو وہ اتنا مطمئن سا مسکراتی تھی
"آنٹی کیسی ہیں اور تم اس وقت ادھر اکیلی کیوں بیٹھی ہوئی تھی؟"
"امی بالکل ٹھیک ہیں بس میڈیسن لے کر جلدی سو جاتی ہیں"
"اللہ انھیں تمہارے سر پر سلامت رکھے" اس کے دل سے دعا نکلی تھی
"آمین"
اور پھر دونوں میں گہری خاموشی چھا گئی تھی
آیت مسلسل مگ سے اڑتی بھاپ کو گھور رہی تھی_اس لمحے وہ رامش کو بالکل ایک پہیلی لگی تھی جس سے وہ بالکل انجان ہو...
"کیا بات ہے آیت؟"
وہ چونکی تھی پر بولی کچھ نہیں
رامش ٹیبل سے ڈائری اٹھا کر الفاظ کو دہرانے لگا تھا...
جو کہ آیت کے اندر جانے کے بعد وہ پہلے بھی پڑھ چکا تھا
آیت خود کو کوسنے لگی تھی کہ وہ اسے کیسے ادھر بھول گئی
"کوئی تو ہو ایسا جو ہر قدم پر ساتھ دیا کرے،ہر خواہش پر خوشی سے سر جھکا جایا کرے،پوری دنیا سے لڑ سکنے کی ہمّت رکھے،دل کے سلگنے پر ٹھنڈی پھوار بن جایا کرے،گہری اداسی میں ہنسا جایا کرے،درد پر مرہم بن جایا کرے،کوئی تو ہو جس پر اندھا اعتبار کیا جا سکے،کوئی تو ہو جو محبّت اور مان کا بھرم رکھا کرے...
کوئی تو ہو_ہائے کاش!"
"خدا ہے نا آیت" اس نے آنکھوں میں امید کے جگنو لئے کہا
پھر پتا نہیں کیوں وہ رامش کے سامنے خود پر بند نہیں باندھ سکی تھی
"وہ تو اللہ ہیں_اور اللہ تو سب کے ہیں
انہوں نے ہمیں انسان بنایا_کوئی انسان بھی تو ہو جو بس ہمارا ہو"
"تو کیا اللہ کافی نہیں ہیں؟"
"توبہ...
یہ کیسی بات کر دی آپ نے" وہ اپنے آنسوں صاف کرتی سمبھل کر بیٹھ گئی جیسے سامنے والا ہر بات سے لاعلم ہو اور وہ اسے سمجھانا چاہ رہی ہو
"دیکھیں..." وہ بات جاری رکھتے ہوئے بولی اور وہ ایسے سن رہا تھا جیسے کوئی بہت بڑے راز سے پردہ اٹھنے والا ہو
"خدا نے انسان کو دوسرے انسان سے منسلک کیا اور اسے قدم قدم پر دوسرے انسان کا ضرورت مند بنایا_اب یہ سب تو وہ خود بھی کر سکتا تھا لیکن اس نے زندگی گزانے کے لئے ایک انسان کو ہی دوسرے انسان کے لئے چنا_اور اس سے بڑھ کر اور گواہی کیا ہو گی کہ وہ اپنے حقوق تو معاف کر دے گا لیکن کسی انسان کے حقوق کی کوئی معافی نہیں_نہ اب نہ کبھی"
وہ سانس لینے کو رکی
"پھر آپ کیسے کہ سکتے ہیں کہ میرا مطالبہ غلط ہے؟
اب یہ سب خواہشات تو فطری ہیں"
پھر وہ اسکی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر بولی تھی
"لیکن آپ فکر نہ کریں میں جانتی ہوں ایسا کوئی مجھے کبھی نہیں مل سکتا" وہ سانس اندر کی طرف کھنچتی ہوئی اسے بہت بےبس لگی تھی
اور اس کے پاس تو جواب میں کہنے کو ایک لفظ نا تھا
"پتا ہے فاطمہ کہتی ہے ایسا بندہ تو تمہیں Mars پر ہی ملے گا" اب وہ ہستے ہوئے کہہ رہی تھی
"اور میں جانتی ہوں میں کبھی Mars پر نہیں جا سکتی"
رامش اسے دیکھے گیا تھا اور پھر خاموشی سے فائل اٹھا کر باہر کی طرف چل دیا...
اور وہ پھر سے اپنے خیالوں کا ٹوٹا ہوا بند جوڑ چکی تھی...
"اداسیاں تو میرے عہد کی
علامت ہے
میں ہنس پڑا تو بہت پیچھے
لوٹ جاؤں گا"
******
سارہ گھر آ گئی تھی اور اس کے گھر آتے ہی جیسے ساری رونقیں بھی لوٹ آئیں تھیں
"امی بھائی خود کیوں نہیں آئے مجھے لینے ڈرائیور کو کیوں بھیجا؟" وہ امی سے شکایت کر رہی تھی
"بیٹا آنا تو اس نے ہی تھا لیکن اچانک اس کی کال آ گئی تو اسے جانا پڑا"
"امی بھائی ہمیشہ ایسے ہی کرتے ہیں مجھے نہیں بات کرنی اب ان سے"
"ایسے نہیں کہتے بیٹا تم جانتی تو ہو اس پر کتنی بڑی ذمہ داری ہے"
"تو کیا وہ انگیجمنٹ میں بھی نہیں آئیں گے؟"
"ظاہر ہے"
"امی میں نے ابھی ڈریس بھی نہیں لیا سوچا تھا بھائی کے ساتھ جا کر لوں گی ان کے ساتھ بہت ساری باتیں کروں گی" وہ روہانسی ہوئی تھی
"تو کیا ہوا میری جان بھائی اگلے ہفتے آئے گا تو میں اسے کہوں گی تمہیں لے آئے پھر جتنی مرضی باتیں کر لینا"
اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر انکا دل بھر آیا تھا
"اچھا چلو پریشان نا ہو میں ہادی سے کہتی ہوں وہ لے جائے گا تمہیں" ہادی کے نام پر تو وہ اچھل ہی پڑی تھی
"ہادی کب آیا؟"
"کل کا آیا ہوا ہے آج تو وہ اور سیماب صبح سے ادھر ہی تھے تمہارا پوچھ رہے تھے سیماب تو کہہ رہی تھی کہ وہاں جا کر سارہ ہمیں بھول ہی گئی ہے"
"نہیں امی بھلا میں انھیں کیسے بھول سکتی ہوں رات میں جا کر مل آوں گی"
"چلو جاؤ میرا بچہ بھائی کو کال کر لو انتظار کر رہا ہو گا میں ہادی کو بلواتی ہوں"
"جی امی"
پورا گھنٹہ علی کا سر کھانے کے بعد کہیں جا کر اسے سکون ملا تھا اور اب وہ جانے کی تیاری کرنے لگی تھی...
اب تو جیسے ہر عضو دل بن کر دھڑک رہا تھا ہر آہٹ پر یہی گمان ہوتا تھا کہ وہ آ گیا ہے
"آیت ہادی کا فون آیا ہے باہر آ جاؤ"
"جی امی"
ساتھ ہی پورچ میں گاڑی رکنے کی آواز آئی تھی
"اچھا سنو اب تم اسے زیادہ تنگ مت کرنا"
"امی میں کب تنگ کرتی ہوں بھلا"
"اتنی جلدی بھول گئی ہو کیسے وہ بیچارہ ہر دفعہ آ کر مجھے کہتا تھا کہ آنٹی اگلی دفعہ اسے خود ہی لے کر جائیے گا"
"امی بہت عرصہ ہو گیا ہے اب تو" وہ یاد کر کہ ہنس دی تھی
"اچھا جاؤ باہر انتظار کر رہا ہے جلدی آنا"
"جی امی اور کچھ؟" اسکے ڈرامائی انداز پر وہ ہنس دی تھیں اور وہ بھی اپنی سانسیں ہموار کرتی باہر کی طرف بڑھی تھی
وہ بلیک ٹراؤزر شرٹ میں ماتھے پہ بکھرے بال پیچھے کرتا گاڑی سے باہر نکل رہا تھا
اسکی دھڑکنیں بےترتیب ہونے لگی تھیں...
سارہ کو آتے دیکھ کر اس نے اس کے لیے ساتھ والا دروازہ کھولا تھا
"Hellow Beautiful Lady"
وہ ہاتھ سینے پر رکھتا سر جھکا کر بولا تھا
سارہ اس کے انداز پر ہنس دی تھی...
سارہ کا دروازہ بند کرتا وہ اپنی سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا تھا
"کیسے ہو؟"
"ہاہ! کیسا لگ رہا ہوں؟" وہ اس کی طرف گھوما تھا
"بالکل نہیں بدلے"
"تو تم کچھ بدلا ہوا ایکسپکٹ کر رہی تھی"
"اممم...نہیں تو بس ایسے ہی"
"ویسے سارہ تم تو بہت ہی احسان فراموش نکلی یار"
"وہ کیسے؟"
اس کے پوچھنے پر ہادی نے اسے گھورا تھا
"تمہارے آرٹس میں ایڈمشن کے لئے کتنی مشکل سے میں نے تمہارے بھائی محترم کو منایا تھا اور تم نے تو شکریہ تک کہنا ضروری نہیں سمجھا"
"کیا؟" سارہ کو جیسے شاک لگا تھا
"کیا ہاں؟ دیکھو اب یہ مت کہنا کہ تمہیں تو کچھ پتا ہی نہیں تھا"
"ہاں نا مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا کہ وہ تم تھے اور ویسے بھی مجھے بھائی نے کچھ نہیں بتایا"
"کیوں یقین کیوں نہیں آ رہا؟" اس نے آبرو اچکا کر پوچھا
"مطلب تم سے مجھے کسی اچھے کام کی امید جو نہیں ہے اس لیے" سارہ ہسی دباتے ہوئی بولی
"اچھا جی سارے اچھے کام تو وہ تمہارا کھڑوس بھائی ہی کرتا ہے میرا کریڈت بھی خود ہی لے گیا ایک دفعہ ہاتھ لگنے دو پوچھتا ہوں میں اس سے"
"کمینہ" وہ زیر لب بڑبڑایا تھا جو کہ سارہ بڑی آسانی سے سن چکی تھی
"کیا کہا؟؟" وہ چیخی تھی
ہادی کا قہقہ بلند ہوا تھا
"بھائی کی چمچی"
سارہ نے اس کے بازو پر مکے مرنا شروع کئے تھے اور اس کی ہنسی مزید اونچی ہوئی تھی
"گاڑی روکو مجھے نہیں جانا تمہارے ساتھ" وہ ناراضگی شیشے سے باہر دیکھتے ہوئے بولی
"اچھا اچھا سوری اب نہیں کرتا"وہ اسکی ناک پکڑتے ہوئے بولا
سارہ نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا تھا
"اچھا چلو آئسکریم کھلاتا ہوں پھر جتنی کہو گی اتنی شاپنگ کرواؤں گا اب تو مان جاؤ"
وہ سٹیئرنگ چھوڑ کر کان پکڑتا بولا
"اچھا اچھا گاڑی چلاؤ صحیح طرح" وہ فوراً سیدھی ہوئی تھی.
جاری ہے
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Wahshat E Ishq Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Wahshat E Ishq written by Rimsha Mehnaz .Wahshat E Ishq by Rimsha Mehnaz is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
No comments:
Post a Comment