Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 15 to 16 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday 16 February 2023

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 15 to 16

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz  Urdu Novel Episode 15 to 16

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Episode 15'16

Novel Name: Wahshat E Ishq 

Writer Name: Rimsha Mehnaz 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

شام ہونے کو آئی تھی آزر ابھی تک گھر واپس نہیں آئے تھی شزرا کا دل کسی انجانے خدشے کے تحت دھڑک رہا تھا وہ دل ہی دل  میں دعا کر رہی تھی کہ آزر کو اس بارے میں علم نہ ہو کہ وہ تیمور کے آفس کس کام سے گئی تھی مگر یہ ناممکن تھا آزر نے آج خود اسے وہاں دیکھا تھا اور اب یہ آزر کی خاموشی اسے ہولائے دے رہی تھی۔

تایا ابو اور بابا لاونج میں ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھے اور ساتھ ساتھ سیاست پہ تبادلہ خیال کر رہے تھے ان سے کچھ فاصلے پہ دادو ہاتھ میں تسبیح لئے بیٹھی تھیں۔

شزرا اس وقت تائی امی کے پاس کچن میں کھڑی تھی جب آزر آندھی طوفان کی طرح گھر میں داخل ہوئے۔

اور سیدھے شزرا کے سر پہ پہنچے شزرا نے سہمی سہمی نگاہوں سے سر اٹھا کر انہیں دیکھا ان کی آنکھیں شعلے برسا رہی تھیں۔

"کیا کرنے گئیں تھیں تم آج تیمور ملک کے آفس؟" آزر نے قدرے چلا کر درشتی سے اس سے پوچھا۔شزرا کوئی جواب نہ دے سکی وہ بس ٹکر ٹکر آزر کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔

"میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے" آزر نے اس کا بازو پکڑ کر اسے جھٹکا دیا۔

"آزر پاگل ہوگئے ہو کیا؟" تایا ابو نے آگے بڑھ کے شزرا کا بازو آزر کی مضبوط گرفت سے چھڑوایا۔

"پوچھیں اس سے یہ کیا کرنے گئی تھی تیمور ملک کے آفس؟" آزر کا غصہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سامنے کھڑی اس لڑکی کا دماغ ٹھکانے لگادیں۔

"شزرا تم تیمور ملک کے آفس گئیں تھیں؟" تایا ابو نے کچھ ناسمجھی اور حیرت سے اسے دیکھا وہ زمین میں نظریں جمائے کھڑی تھی آنسو اس کے گال بھگو رہے تھے۔

"کیوں بیٹا۔۔۔۔بتاو مجھے" تایا ابو پیار سے اس سے پوچھ رہے تھے۔

"مجھے نہیں کرنی یہ شادی" شزرا نے روتے ہوئے کہا۔

"کیوں نہیں کرنی شادی۔۔۔۔۔جواب دو" آزر تلخ لہجے میں بول رہے تھے۔شزرا نے نظریں اٹھاکر انہیں دیکھا جن کی آنکھوں میں سفاکیت تھی۔

"یہ میری لائف ہے آپ کون ہوتے ہیں مجھ سے سوال کرنے والے" شزرا کا ضبط جواب دے گیا تھا۔

"کیوں کیا کمی ہے تیمور میں جو اس سے شادی نہیں کرنا چاہتیں" آزر نے ٹھنڈے لہجے میں پوچھا اس سوال کا جواب تو شزرا کے پاس بھی نہیں تھا۔

"جواب دو ورنہ میں ابھی فون کر کے ہاں کر رہا ہوں" انہوں نے حتمی لہجے میں کہا ان کی بات سن کے شزرا تڑپ ہی اٹھی۔

وہ دلاور صاحب کی طرف بڑھی۔

"بابا مجھے نہیں کرنی شادی" شزرا بے تحاشا رو رہی تھی۔

" آزر اگر تمہیں میری بیٹی کا وجود اس گھر میں اتنا ہی ناگوار گزر رہا ہے تو میں چلا جاتا ہوں یہاں سے اپنی بیٹی کو لے کے" دلاور صاحب نے آزر کو مخاطب کر کے ٹھنڈے لہجے میں کہا آزر نے حیرت سے اپنے عزیز از جان چاچو کی طرف دیکھا۔

"اگر مجھے اپنی بیٹی کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کرنی ہوتی تو آج سے چھ سال پہلے میں اس کی شادی برہان سے کرچکا ہوتا اسے یہاں سے بھیجتا نہیں" وہ دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے آزر کو بہت کچھ جتا رہے تھے اور آزر تو جیسے سن ہو گئے تھے۔

"شزرا اپنا سامان پیک کرو ہم یہاں نہیں رہیں گے" دلاور صاحب نے ضبط سے کہا ان کے لئے یہ بولنا آسان نہیں تھا مگر جو دل پہ گزری سو گزری۔

"دلاور ہم آرام سے بیٹھ کے بات کرتے ہیں غصے میں کوئی فیصلہ نہیں کرو۔۔۔۔۔اس گھر پہ تمہارا برابر کا حق ہے کیوں جاؤ گے اس گھر سے" امین صاحب نے دلاور صاحب کو سمجھاتے ہوئے رسان سے کہا۔

"نہیں جہاں میری بیٹی کو آنسو ملیں میں وہاں نہیں رہوں گا۔۔۔۔میں کل سے یہ سب تماشا دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔جب شزرا نے ایک بار منع کردیا تو بار بار یہ بات کیوں اٹھائی جا رہی ہے" دلاور صاحب مستقل آزر پہ برس رہے اور آزر ان کے سامنے سر جھکائے کھڑے تھے۔

"ایک بیٹی تو چلی گئی کیا دوسری کو جیتے جی ماردوں"ان کی آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی شاید یہ زندگی میں پہلی بار تھا جب وہ آزر پہ چلا رہے تھے آج سے پہلے انہوں نے آزر سے کبھی سخت لہجے میں بات بھی نہیں کی تھی آزر ان کے لئے بیٹوں سے بڑھ کے تھے مگر آج اپنی بیٹی کے آنسوؤں نے انہیں یہ سب کرنے پہ مجبور کردیا تھا

آزر نے قہر آلود نگاہوں سے شزرا کی طرف دیکھا اور بناء کچھ کہے پلٹ کے گھر سے نکل گئے۔

تائی امی انہیں پیچھے سے آوازیں دیتی رہ گئیں۔

________________________

جانے رات کے کس پہر آزر گھر لوٹے وہ سیدھا دلاور صاحب کے روم کی طرف بڑھے وہ جانتے تھے وہ اس وقت جاگ رہے ہوں گے انہوں نے دروازے کا لاک گھمایا تو دروازہ بناء آواز کے کھلتا چلا گیا وہ اندر داخل ہوئے تو دلاور صاحب راکنگ چیئر پہ آنکھیں موندے بیٹھے تھے۔

وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ان کے سامنے جا کھڑے ہوئے اور گھٹنوں کے بل ان کے قدموں میں بیٹھ گئے۔دلاور صاحب نے آنکھیں کھول کے انہیں نہیں دیکھا مگر پلکوں سے ایک موتی ٹوٹا تھا اب آزر ان کے گھٹنوں پہ سر رکھے خاموش بیٹھے تھے۔

بہت دیر تک دونوں کے بیچ خاموشی حائل رہی اور ایسا پہلی بار تھا جب چاچو بھتیجے کے بیچ بہت دیر تک خاموش رہی ہو۔

"آئی ایم سوری چاچو۔۔۔۔پلیز آپ ناراض نہ ہوں" آزر نے اسی پوزیشن میں ان کے گھٹنے پہ سر رکھ کے کہا مگر دلاور صاحب نے کوئی جواب نہ دیا۔

"چاچو پلیز ناراضگی ختم کریں" آزر نے سر اٹھا کے منت بھرے لہجے میں کہا دلاور صاحب نے آنکھیں کھول کے انہیں دیکھا انہیں اس وقت وہی دس سالہ آزر جو اپنی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات ان سے شیئر کرتے تھے مگر وقت نے بہت کچھ بدل دیا۔

شزرا کے جانے کے بعد ان دونوں کا رشتہ بھی ویسا نہیں رہا تھا دلاور صاحب کو پوری بات تو نہیں پتا تھی مگر اس رات جب آزر نے شزرا کو یہاں سے جانے کو کہا تھا تو وہ صرف یہی جانتے تھے کہ آزر شاید شزرا کو پسند کرتے ہیں اور آزر اور شزرا کے درمیان ضرور کچھ ہے مگر منال کی شادی شدہ زندگی کا سوچ کے وہ اس بات کو زبان پہ لانے کی ہمت بھی نہ کر سکے اور جب شزرا نے ان سے جانے کی بات کی تو انہوں نے ایک بیٹی کا گھر بچانے کے لئے دوسری بیٹی کو جانے کی اجازت دے دی۔

مگر ہر پل وہ اسی احساس ندامت میں جلے تھے کہ ایک بیٹی کے لئے دوسری کو خود سے دور کردیا۔

مگر آج جب وہ آزر اور شزرا کو ایک دیکھنا چاہتے تھے تو آزر کا شزرا کے ساتھ رویہ انہیں آگے بڑھنے سے روک رہا تھا۔

"چاچو میں نے کبھی نہیں چاہا آپ ہمیں چھوڑ کے جائیں میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔۔اپ جانتے ہیں نہ" آزر ان سے پوچھ رہے تھے یا انہیں بتا رہے تھے۔

"میں اپنی بچی کو روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا" دلاور صاحب وہ بوڑھے باپ لگ رہے تھے جو اپنے بچوں پہ دنیا کار بیٹھے ہوں۔

شزرا کا تذکرہ سن کے آزر کے لب بھینچے تھے۔

"آپ مجھے معاف کردیں" آزر نے ان کے ہاتھ پکڑ کے کہا۔

"میں تم سے ناراض نہیں ہوں" دلاور صاحب نے نرم لہجے میں کہا۔

آزر نے اپنے بالوں میں ان کے ہاتھ کا لمس محسوس کیا تھا۔

___________________

دلاور صاحب اس وقت دادو کے کمرے میں بیٹھے تھے جب دادو نے ان کی خاموشی نوٹ کر کے ان سے سوال کیا۔

"کیا ہوا دلاور؟ اتنے خاموش کیوں ہو بیٹا؟" دادو نے اپنے بیٹے کے اترے چہرے کی طرف دیکھا جو کسی گہری سوچ میں گم سر جھکائے بیٹھے تھے۔

"میں بس شزرا کی وجہ سے پریشان ہوں" انہوں نے اپنی پریشانی کی وجہ بتائی۔

"کیوں پریشان ہو میری بچی کی وجہ سے" دادو نے اپنی عینک درست کرتے ہوئے پوچھا.

"اماں اس کی پڑھائی مکمل ہو چکی ہے اور اب اس کی شادی کی عمر بھی ہو چکی ہے مگر وہ کسی بھی رشتے پہ راضی نہیں ہے اور میں اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرنا چاہتا" دلاور صاحب نے اپنی پریشانی کی اصل وجہ بتائی۔

"ہاں بہت خاموش رہتی ہے میری بچی پتہ نہیں اتنی سی عمر میں کونسا روگ لگائے بیٹھی ہے اس کی عمر کی لڑکیاں کیسے تتلیوں کی طرح ہنستی کھیلتی پھرتی ہیں" دادو نے ایک ٹھنڈی آہ ہوا کے سپرد کی۔

دروازے پہ کھڑی تایا ابو اور تائی امی نے ان کی باتیں سنی تھیں۔

"فکر نہیں کرو دلاور سب ٹھیک ہو جائے گا" امین صاحب نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے انہیں تسلی دی۔

"ہاں بھائی صاحب شزرا بچی ہے مان جائے گی وہ شادی کے لئے" سلمہ نے بھی انہیں تسلی دی۔

"دلاور مجھے تم سے کچھ کرنی تھی" امیں صاحب نے تہمید باندھی۔

"جی بولیں بھائی جان" دلاور صاحب پوری طرح ان کی طرف متوجہ تھے۔

"ہم آزر کے لئے شزرا ہاتھ مانگنا چاہتے ہیں" امیں صاحب نے سر جھکائے کہا۔

"بھائی صاحب شزرا مجھے بیٹیوں کی طرح عزیز ہے اگر آپ اس رشتے کے لئے ہاں کردیں گے تو مجھے بہت خوشی ہوگی" سلمہ تائی نے بھی امید بھرے لہجے میں کہا۔

"بھائی جان آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پہ مگر اس بارے میں ایک بار آزر سے رائے لے لیں" دلاور نے بغیر کسی حیل حجت کے کہا۔برسوں پہلے جب منال کی محبت میں انہوں نے شزرا کو خود سے دور جانے دیا تھا وہ شاید اس نا انصافی کی بھر پائی کرنا چاہتے تھے۔

امیں صاحب نے آگے بڑھ کے انہیں گلے لگا لیا۔

_______________________

"آزر مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے" تائی امی دودھ کا گلاس لے کے آزر کے روم میں داخل ہوئیں تو آزر بیڈ پہ ٹانگیں پھیلائے لیپ ٹاپ میں مصروف تھے۔

"جی بولیں امی" انہوں نے سر اٹھائے بغیر مصروف سے انداز میں کہا۔

"تمہیں اب شادی کر لینی چاہیے" تائی امی نے تہمید باندھی۔

"ہوں" آزر نے بے تاثر چہرے کے ساتھ گردن ہلائی۔

"تمہیں کوئی پسند ہے تو بتاو" انہوں نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں ۔۔۔۔۔کوئی نہیں۔۔۔۔" انہوں نے حتمی لہجے میں کہا آج زہن کے پردے پہ کسی کہ شبیہہ نہیں لہرائی تھی یا انہوں نے خود پہ بند باندھ لیا تھا۔

"ہم چاہتے ہیں تم شزرا سے شادی کر لو" تائی امی نے رسان سے کہا آزر نے ایک جھٹکے سے سر اٹھا کے انہیں ان کی آنکھوں میں بے یقینی تھی پھر یہ بے یقینی حیرت میں بدلی اور حیرت کی جگہ طیش نے لے لی۔وہ اپنی جگہ سے کرنٹ کھا کے کھڑے ہوئے تھے اور پھٹی پھٹی نگاہوں سے اپنی ماں کا چہرہ دیکھا۔

"یہ آپ کیا بول رہی ہیں" وہ شاکی نگاہوں سے انہیں دیکھ رہے تھے۔

"ایسا کیا بول دیا۔۔۔۔۔وہ بچی ہر لحاظ سے تمہارے سے درست ہے" تائی امی اپنی ہی دھن میں تھیں آزر کی نگاہوں کے سامنے برسوں پہلے کا وہ منظر لہرایا جب شزرا نے بیدردی سے انہیں ٹھکرایا تھا اور وہ کسی سوالی کی طرح اس کے راستے پہ کھڑے تھے مگر اب وہ یہ سب بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے اور اس مقام سے پلٹنا ان کے لئے آسان نہیں تھا۔

"آرام سے سوچ سمجھ کے جواب دے دو کوئی جلدی نہیں ہے" تائی امی نے آرام سے کہا اور ان کے روم سے نکل گئیں۔

انہیں لگا کسی نے انہیں بھٹی میں جھونک دیا ہو وہ اپنا روم روم جلتا محسوس کر رہے تھے۔

وحشت ان کے سر پہ سوار ہو چکی تھی۔

وہ نہایت طیش کے عالم میں شزرا کے روم کی طرف بڑھے اور ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کے اندر داخل ہوئے کمرے میں اندھیرا چھایا تھا نائٹ بلب کی مدھم سی روشنی پورے کمرے میں پھیلی تھی شزرا بیڈ پہ ہر چیز سے بے نیاز سو رہی تھی وہ جھنجھلاتے ہوئے اس کے سر پہ گئے اور اس کا بازو پکڑ کر اسے اٹھایا پکڑ اتنی شدید تھی کہ شزرا کے منہ سے بے اختیار ہی چینخ نکلتے نکلتے رہ گئی آزر اگلے ہی پل اپنا دوسرا ہاتھ اس کے منہ پہ رکھ کے بیڈ پہ جھکے تھے اور ایک ہاتھ سے اس کا بازو زور سے پکڑ رکھا تھا اس اچانک افتاد سے شزرا گھبرا گئی اور آنکھیں پھاڑے اس ملگجے اندھیرے میں آزر کا چہرہ دیکھ رہی تھی جن کے ماتھے پہ پڑے لا تعداد بل نمایاں تھے۔

"میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم اتنے گھٹیا پن پہ اتر آؤ گی" آزر نے دبے دبے لہجے میں غراتے ہوئے کہا پہلے ہی جملے کی برچھیاں شزرا کو اپنی رگ و پے میں اترتی محسوس ہوئیں احساس توہین سے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔

"تم کیا سمجھتی ہو کہ میں تمہاری محبت میں اتنا پاگل ہوں گا برسوں بعد بھی تمہاری راہ میں کھڑا ہوں گا" ان کے لہجے کی درشتی،تلخی اور تحقیر پن اسے صاف محسوس ہو رہا تھا آنکھوں سے آنسو نکل کر آزر کے ہاتھ پہ گر رہے تھے مگر اب تو وہ جیسے پتھر کے ہو چکے تھے۔

"چلی جاؤ میری زندگی سے ہاتھ جوڑتا ہوں تمہارے سامنے" وہ جیسے اب بے بس ہو چکے تھے انہوں نے اس کے منہ سے ہاتھ ہٹایا وہ اٹھ گہری گہری سانسیں لینے لگی اور سہم کے آزر کو دیکھ رہی تھی۔

"کیا کیا ہے میں نے؟" اس نے آنسو ضبط کرتے ہوئے پوچھا۔

"واو۔۔۔۔۔آپ کی معصومیت کو داد دیتا ہوں میں۔۔۔۔۔آج امی نے مجھ سے تمہاری اور میرے شادی کی بات کی اور محترمہ مجھ سے پوچھ رہی ہیں کیا کیا ہے میں نے" ان کے ایک ایک جملے سے طنز نمایا تھا شادی کی بات سن کے شزرا کا دل تھم سا گیا۔ 

"داد دیتا ہوں تمہارے گھٹیا پن کو پہلے میں پھر برہان اور اب تیمور۔۔۔۔۔کتنے لوگوں کو اپنے پیچھے لگاؤ گی" اس حد درجہ ہتک پہ اس کا چہرہ سلگ اٹھا۔

"کیا بکواس کر رہے ہیں" اس نے بھی جواباً چلا کے کہا۔

"چلاؤ مت۔۔۔۔۔۔جھوٹ بول رہا ہوں میں تو ثابت کرو" وہ اس کی طرف گھومے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہہ رہے تھے۔

"پہلے تو ایک عرصے تک مجھے پیچھے لگائے رکھا جب مجھ سے دل بھر گیا تو برہان کی طرف متوجہ ہو گئیں اور جب اس سے بھی دل بھر گیا تو آسٹریلیا چلی گئیں پتہ نہیں وہاں کتنوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ زہر اگل رہے تھے اور یہ زہر شزرا کے جسم میں سرایت کرتا جا رہا تھا وہ زمین کی گہرائیوں میں دفن ہو رہی تھی۔

"آپ میرے بارے میں ایسا سوچ بھی کیسے۔۔۔۔۔۔" زبان اس کا ساتھ نہ دے رہی تھی وہ اس حسن کے دیوتا کو دیکھ رہی تھی جس کی آنکھوں میں سفاکیت اور بے رحمی تھی۔

"اگر میں غلط ہوں تو کرو تیمور سے شادی" انہوں نے جیسے اس کا مذاق اڑایا لہجے میں طنز نمایا تھا۔

آج بات اس کے کردار پہ آئی تھی اگر وہ اب بھی کوئی فیصلہ نہیں۔ لیتی تو شاید پوری زندگی خود سے ہی نظریں ملانے کے قابل نہیں رہتی اس کا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا آزر کی زبان سے نکلا ہر لفظ اس کے سر پہ ہتھوڑے بن کے برس رہے تھے اس نے دھندلی آنکھوں سے آزر کی طرف دیکھا مگر وہ تو جیسے بلکل ہی بدل چکے تھے آج اس پہ اتنے گھٹیا الزام لگاتے ہوئے یہ بھی انہیں یاد نہیں رہا کہ کبھی وہ لڑکی ان کے دل میں بستی تھی۔

مگر اب وہاں کچھ نہیں تھا سارے رشتے جیسے نفرت کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔

وہ اب اس کے روم سے جا رہے تھے جب شزرا نے انہیں پکارا۔

"آزر۔۔۔۔۔!!!!" اس کے لہجے میں۔ ارتعاش واضح محسوس کیا جا سکتا تھا انہیں کے بڑھتے قدم رک گئے مگر انہوں نے پیچھے مڑ کے نہیی دیکھا۔

"میں تیمور ملک سے شادی پہ راضی ہوں" شزرا نے بے تاثر لہجے میں کہا مگر ایک آنسو اس کی پلکوں سے ٹوٹ کے گرا تھا وہ آنسو شاید بہت کڑوا تھا اسے یہ کڑواہٹ اپنے اندر گھلتی محسوس ہوئی آزر کا دل یکبارگی زور سے دھڑکا تھا مگر اگلے ہی پل وہ اس کے روم سے جا چکے تھے۔

___________

وہ ایک بار پھر تیمور ملک کے آفس میں اس کے سامنے براجمان تھی گھڑی کی سوئیوں کی ٹک ٹک ماحول میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی اور یہ واحد آواز تھی جو اس کمرے میں گونج رہی تھی۔

تیمور کے بلکل پیچھے بنی گلاس وال کے پار غروب آفتاب کا منظر نمایاں تھا اسے قسمت آج پھر وہاں لے آئی تھی جہاں آنے کا وہ دوبارہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔

تیمور ملک اپنے شاندار آفس نے اسکے سامنے بیٹھے پیپر ویٹ گھماتے ہوئے ایک نگاہ اس پہ بھی ڈال لیتے جو جب سے آئی بس خاموش ہی بیٹھی تھی نظر اٹھا کر ایک بار بھی تیمور کی طرف نہ دیکھا۔

اور تیمور اپنے آفس کو نہایت دلچسپی سے دیکھنے میں مگن تھا جیسے وہ پہلی بار ہی آفس آیا ہو.

"پندرہ منٹ اور گزر گئے" اس نے اپنے دل میں سوچا مگر زبان پہ لانے کی غلطی نہ کر سکا۔

کچھ دیر اور گزری اور بلاآخر اس کا صبر جواب دے گیا۔

"محترمہ آپ سے بات کرنے کے لئے مجھے انتہائی صبر و تحمل کی ضرورت پڑتی ہے" تیمور نے کچھ جل کے  مگر نرمی سے کہا۔

”آں۔۔۔۔ہاں" شزرا نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔

"آپ یہاں کچھ بولنے آئی ہیں نہ تو بات کریں نہ۔۔۔۔میں تو انتظار کی سولی پہ ہی لٹک کے آدھا ہوگیا" تیمور نے برے برے منہ بنا کے کہا۔

"جی۔۔۔۔۔وہ میں" شزرا نے بال کان کے پیچھے کرتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔

"جی جی میں سن رہا ہوں" اسے واپس چپ ہوتے دیکھ کر تیمور نے جلدی سے کہا مبادہ پھر کہیں انتظار ہی نہ کرنا پڑے۔

"میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں" شزرا نے روانی سے کہا اس ایک جملے کو بولنے کے لئے وہ کب سے ہمت جمع کر رہی تھی اور جب یہ جملہ اس کی زبان سے ادا ہوا اسے ایسا لگا اس کے سر سے کوئی بوجھ ہٹ گیا ہو۔

تیمور کو لگا اس کے پاس کوئی چھوٹا موٹا بم پھٹا ہو وہ اپنی جگہ سے اچھلا تھا اور بے یقینی سے شزرا کو دیکھا۔

"کیا میں مان لوں یہ بات آپ اپنے ہوش و حواس میں بول رہی ہیں" تیمور نے مشکوک نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔

شزرا نے اثبات میں سر ہلادیا۔

"تو اس دن آپ نے منع کیوں کیا؟" اسے جیسے اب تک شزرا کی بات پہ یقین نہیں آیا تھا۔

"اس وقت میں شادی نہیں کرنا چاہتی تھی" شزرا نے ایک الگ ہی دلیل پیش کی۔

"اب کرنا چاہتی ہیں؟" تیمور نے حیرت سے پوچھا۔

اس بار بھی شزرا نے اثبات میں سر ہلادیا۔

"وہ۔۔۔۔آزر۔۔۔۔۔!!" تیمور نے کچھ بولنا چاہا۔

"آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ بس یہ رشتہ میرے لئے متوقع نہیں تھا اس لئے میرا رد عمل ایسا تھا" شزرا نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا تیمور کے لبوں پہ مسکراہٹ دوڑی تھی۔

"اوہ اچھا اچھا آپ نے اس دن میری بات کی نفی نہیں کی تھی" تیمور نے جیسے کچھ سمجھتے ہوئے کہا شزرا کچھ بول نہ سکی۔

"میں بس تھوڑا پریشان تھی" شزرا نے انگلیاں مروڑتے ہوئے کہا۔

"ویسے اپنی شادی کی بات پہ لڑکیاں شرما جاتی ہیں اور ایک آپ ہیں" تیمور نے اس کی طرف جھکتے شرارت سے کہا اور وہ سر جھکا کے رہ گئی۔ایک بار پھر دونوں کے بیچ خاموشی ٹہر گئی۔

"آپ نے جواب نہیں دیا" شزرا نے کچھ دیر بعد جھجھکتے ہوئے پوچھا۔

"کونسا سوال" تیمور نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔

"شادی کا" اب اس سے بولنا دوبھر ہو رہا تھا۔

"وہ تو آپ لوگ جواب دیں گے نہ مما تو روز بابا سے بولتی ہیں کہ دلاور انکل کو فون کر کے پوچھیں" تیمور نے سیٹ سے ٹیک لگاتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔

"آپ کو کوئی اعتراض۔۔۔۔۔" شزرا نے اپنے دل میں آیا ہوا جملہ بلاآخر بول دیا۔

"مجھے کیوں اعتراض ہوگا" تیمور نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"میں نے پہلے انکار کردیا تھا " شزرا نے سر جھکائے کہا شرمندگی سے اس کا سر نہیں اٹھ رہا تھا۔

"وہ تو میں کب کا بھول گیا" تیمور نے اس چہرہ نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا۔

"تھینک یو سو مچ" شزرا نے اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے دھکیلا جو تیمور کی نگاہوں سے چھپی نہ رہ سکی۔

"آہاں دوستوں میں تھینک یو نہیں ہوتا" تیمور نے مسکراتے ہوئے کہا شزرا کچھ نہ بول سکی۔

"ویسے آپ کیسے آئی ہیں۔۔۔میرا مطلب کہ ڈرائیور کے ساتھ یا خود" تیمور نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔

"خود ڈرائیو کر کے آئی ہوں" شزرا نے دھیمے سے جواب دیا۔

"اوہو بڑی ہی کوئی خشک مزاج لڑکی ہو" تیمور نے اس کی اٹھتی گرتی سیاہ پلکوں کی ڈوری میں الجھتے ہوئے کہا۔

"کیا مطلب؟" اس نے نا سمجھی سے پوچھا۔

"میرا مطلب کے ساتھ میں ڈنر کر لیتے ہیں اور میرا گھر چھوڑ دوں گا" تیمور نے مسکراتے ہوئے میں بتایا۔

"نہیں ابھی مجھے گھر جانا ہے پھر کبھی" اس نے شائستگی سے معذرت کی اور جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی

""اوکے۔۔۔میں آپ کو پارکنگ تک تو چھوڑ ہی سکتا ہوں" تیمور نے اس نے ساتھ اٹھتے ہوئے کہا۔

_____________________

وہ گھر پہنچی تو سب لوگ ہال میں ہی جمع تھے اس نے سب کے پریشان حال چہروں پہ ایک نگاہ دوڑائی اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اندر آئی۔

"کہاں تھیں بیٹا ہم سب کتنا پریشان ہوئے ہیں تمہارے لئے" اسے دیکھتے ہی دلاور صاحب اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور اس کے یوں غائب ہونے کی وجہ پوچھی اس نے ایک نظر ان کے پریشان حال چہرے کی طرف دیکھا اور ایک ٹھنڈی آہ ہوا کے سپرد کی۔

"میں تیمور ملک سے ملنے گئی تھی" اس نے سپاٹ لہجے میں کہا اور ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھی سب نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔

آزر جو لا تعلقی سے ٹی وی کے چینل بدل رہے تھے ایک پل کو نظریں ترچھی کر کے اس کی طرف دیکھا تھا۔

"کیوں ملنے گئیں تھیں" امین صاحب نے انجانے خدشے کے تحت پوچھا۔

"آپ انہیں فون کر کے ہاں بول دیں میں تیمور ملک سے شادی کے لئے راضی ہوں" پانی کا گھونٹ بھر کے گلاس ٹیبل پہ رکھا اور آسودگی سے سب کی طرف دیکھ کے کہا سب کے چہروں پہ تفکر کی لکیریں ابھی تھیں۔

آزر کو اپنی دھڑکنیں خاموش ہوتی محسوس ہوئیں۔

"لیکن کل تک تو تم" تائی امی نے ایک شکوہ کناہ نگاہ آزر پہ ڈالی جو سپاٹ چہرے کے ساتھ وہاں موجود تھے۔

"کل تک نہیں تھی لیکن اب راضی ہوں" وہ اعتماد سے بول رہی تھی۔

وہ بول کے رکی نہیں وہاں سے چلی گئی تھی آزر کی نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔

دلاور صاحب نے شکایتی نظروں سے امین صاحب کو دیکھا امین صاحب شرمندگی سے نگاہیں جھکا گئے۔

وہاں موجود ہر شخص جانتا تھا کہ شزرا کے ہاں کرنے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔

آزر کو لگا کسی نے ان کے سر سے محبت کے ٹھنڈے بادل ہٹا کر انہیں بے اعتنائی کی دھوپ میں ڈال دیا ہو۔

شزرا کا پرسکون لہجہ ان سے ہضم نہیں ہو رہا تھا وہ تو اسے اپنے سامنے روتے بلکتے دیکھنا چاہتے تھے مگر وہ تو کسی ٹہری ہوئی جھیل کی طرح پرسکون تھی۔

 _______________________

"کیا کر رہی ہو بیٹا؟" دلاور صاحب نے دروزی ناک کر کے اندر آتے ہوئے پوچھا۔

"آئیں نہ بابا وہاں کیوں کھڑی ہیں؟" شزرا نے بک بند کر کے سائڈ پہ رکھتے ہوئے کہا

دلاور صاحب آکے اس کے برابر میں بیٹھ گئے۔

"آپ پریشان کیوں ہیں بابا؟" شزرا نے ان کے پریشان چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"کیا تم دل سے راضی ہو تیمور ملک سے شادی کے لئے" انہوں نے لفظوں کا چناؤ کرتے ہوئے پوچھا۔

"جی بابا میں دل سے راضی ہوں" شزرا نے مسکراتے ہوئے ان کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ دھرا۔

"مجھے کچھ بات کرنی تھی" دلاور صاحب نے تہمید باندھی۔

"جی بولیں" وہ پوری طرح سے ان کی طرف متوجہ تھی۔

"کیا آزر اور تمہارے بیچ۔۔۔۔" انہوں نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑا انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنی بیٹی سے اس بارے میں کیسے ہوچھیں شزرا نے چونک کے ان کی طرف دیکھا اس کا دل یکبارگی دھڑکا۔

"کیا مطلب؟" اس نے لرزتی آواز میں پوچھا نگاہیں شرمندگی کے بوجھ تلے دب گئیں۔

"منال اور آزر کی شادی کی رات میں نے آپ دونوں کی گفتگو سنی تھی جب آزر آزر آپ کو یہاں سے جانے کے لئے بول رہا تھا" دلاور صاحب نے سر جھکائے بتایا بہت ضبط کے باوجود بھی پلکوں سے ایک موتی ٹوٹ کے دلاور کے ہاتھ پہ گرا تھا اسے لگا لگا اب وہ کبھی بھی اپنے بابا کے سامنے سر نہیں اٹھا سکے گی۔

"کیا آزر آپ کو پسند کرتا تھا؟" انہوں نے ٹہرے ٹہرے لہجے میں پوچھا اس نے اثبات میں سر ہلادیا دلاور صاحب نے اذیت سے آنکھیں بند کیں۔

"اور آپ۔۔۔۔؟" ان کی نظریں اپنے ہاتھوں پہ جمی تھیں جہاں شزرا کے آنسو ٹوٹ کے گر رہے تھے۔اس بار وہ کچھ نہ بولی بس سر جھکائے روتی رہی۔

"تو آپ نے بتایا کیوں نہیں کسی کو۔۔۔۔جں آپ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے تو کیا وجہ تھی اس سب کی" انہوں نے نا سمجھی سے پوچھا۔

"آپی آزر کو پسند کرتی تھیں اور سب گھر والے بھی چاہتے تو میں راستے سے ہٹ گئی ویسے بھی میرے لئے سب سے پہلے آپی کی خوشی ہے" اس نے سر جھکائے جیسے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا اس کی یہ قربانی اس کے لئے گناہ ہی تو بن گئی تھی جس کی سزا اس نے پوری زندگی کاٹنی تھی۔

دلاور صاحب کو لگا کسی نے ان کا دل چیر کے رکھ دیا ہو۔

"تو آزر آپ سے اتنی نفرت کیوں کرتا ہے" انہوں نے پوچھا۔

"انہیں لگتا ہے میں نے اپنی مرضی سے انہیں ٹھکرایا ہے وہ نہیں جانتے میں آپی کی وجہ سے انہیں منع کیا تھا" وہ ایک ایک دھیمے لہجے میں بول رہی تھی۔

"آزر کو بتایا کیوں نہیں؟" انہوں نے شاکی لہجے میں پوچھا۔

"اگر بتادیتی تو کبھی آپی سے شادی نہیں مرتے۔۔۔انہیں یہی لگتا ہے کہ میں ان سے پیار نہیں کرتی تھی اس لئے انہیں ٹھکرا دیا۔۔۔۔اگر انہیں سبب معلوم ہوتا تو آپی کا دل ٹوٹ جاتا اور آپی کی خوشی میرے لئے سب سے بڑھ کر ہے" وہ آج ان کے سامنے اپنا دل ہلکا کر رہی تھی وہ بوجھ جو سالوں سے اس کے دل پہ تھا أج اتار رہی تھی۔

"اور تم ہم سب کو چھوڑ مے چلی گئیں" انہوں نے اسے بازوں میں سماتے ہوئے کہا۔

"آپی کی خوشی اہم تھی بابا" اس کے آنسو دلاور صاحب کا کندھا بھگو رہے تھے۔

"اور تمہاری خوشی میری بچی؟" وہ اس چکا سر ہلاتے ہوئے بول رہے تھے۔

"میں خوش ہوں بابا" وہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے ان سے الگ ہوئی۔

"اگر تمہاری خوشی آزر ہے تو میں وہ خوشی تمہیں دوں گا" دلاور صاحب نے اس سے کہا۔

"نہیں بابا میں آزر سے شادی نہیں کرنا چاہتی" اس نے حتمی لہجے میں کہا۔

"آپ پلیز تیمور ملک کے گھر والوں کو ہاں کردیں" اس نے ان کا ہاتھ پکڑ کے لجاجت سے کہا۔

"لیکن بیٹا تمہاری خوشی۔۔۔۔" وہ بولتے بولتے رکے۔

"کیسی خوشی بابا" اس نے تڑپ کے انہیں دیکھا۔

"بابا بات میرے کردار پہ آئی ہے اور میں اس پہ کسی قسم کو کوئی سمجھوتہ نہیں کروں گی" اس کا لہجہ اٹل تھا۔

"تیمور ملک کے رشتے کے پیچھے آزر کا ہاتھ ہے نہ" انہوں نے اپنے دل کا خدشہ ظاہر کیا۔

"بابا اب میں چاہتی ہوں تیمور ملک سے شادی کرنا کوئی اور چاہے نہ چاہے مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا" پرسکون ہو کے آنکھیں موندے گئی۔

وہ ان کے گھٹنے پہ سر رکھے سو چکی تھی۔

وہ جانے کتنی دیر اس کا بچوں سا معصوم چہرہ دیکھتے رہے۔

_________________________

دلاور صاحب نے اگلے ہی روز خاقان ملک کو فون کر کے رشتے کے لئے حامی بھر لی تھی ان کے گھرانے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

اور تائی یامی دوپٹے میں چہرہ چھپا کے کتنی دیر سسکتے رہی تھیں۔

دادو بھی وقفے وقفے سے اپنی آنکھیں صاف کر رہی تھیں۔

امین صاحب بھی خاموش خاموش سے بیٹھے تھے۔

یہ اب کیا دھرا ان کے بیٹے کا ہی تھا ان کے لاڈلے نے انہیں کبمچھ بولنے کے لائق نہیں چھوڑا تھا انہیں ان کے ہی چھوٹے بھائی کے سامنے شرمندہ کروا دیا تھا۔

"وہ لوگ منگنی کی جگہ نکاح کی رسم رکھنا چاہتے ہیں" دلاور صاحب نے ڈائننگ ٹیبل پہ موجود گھر کے تمام افراد کو مخاطب کر کے کہا۔

"لیکن اتنی جلدی" امین صاحب کے حلق میں نوالہ پھنسا تھا۔

"وہ اگلے ہفتے ہی نکاح کرنا چاہتے ہیں" دلاور صاحب نے سنجیدگی سے بتایا۔

شزرا سر جھکائے خاموشی سے کھانا کھلاتی رہی۔

اور آزر۔۔۔۔۔۔۔آذر کی بھوک تو یکدم ہی ختم ہوئی تھی ان کا دل اچانک ہی ہر چیز سے اچاٹ ہو گیا۔

"شزرا کیا تمہیں ٹائم چاہیے تیاری کے لئے؟" دلاور صاحب نے شزرا سے پوچھا جو انہماک سے کھانا کھا رہی تھی۔

"نہیں بابا۔۔۔۔ تیاری تو ایک دن میں بھی ہو جاتی ہے" شزرا نے رسان سے کہا۔جیسے اگر نکاح کل پرسوں بھی ہو تو اسے کوئی اعتراض نہیں ہے سب نے ایک بار چونک کے اس کا یہ اطمینان ضرور دیکھا تھا۔

مگر وہاں کوئی نہیں جانتا تھا کہ بات اگر کردار پہ آئے تو محبت مارنی پڑتی ہے۔۔۔

اپنی ہی محبت سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔

دل کو پتھر کرنا پڑتا ہے۔

پھر بس انسان آگے ہی جا سکتا ہے پیچھے پلٹنے کا کوئی راستہ نہیں بچتا۔

وہ اپنے ہی ہاتھ سے واپسی کی سارے کشتیاں جلا کے آیا ہوتا ہے۔

وہ بھی جلا آئی تھی اور اب پیچھے مڑ کے دیکھنا اسے کسی صورت گوارہ نہیں تھا۔

_____________

دونوں گھرانوں میں شزرا اور تیمور کے نکاح کی تیاریاں چل رہی تھیں آئے روز بازاروں کے چکر لگ رہے تھے۔

بے شک شزرا خوش نہیں تھی مگر اس نے خود پہ بے حسی کا لبادہ اوڑھ لیا تھا۔

نکاح میں اب ایک ہفتہ رہتا تھا آج بھی اسے تیمور کے ساتھ اپنے نکاح کا ڈریس لینے جانا تھا تیمور نے کچھ دیر پہلے ہی فون کیا تھا کہ وہ تیار رہے وہ اسے لینے آرہا تھا۔

شزرا تیار ہو کے لاونج میں بیٹھی تھی جب آزر وہاں آئے۔

"امی میں جا رہا ہوں شام کو شاید دیر ہو جائے" آزر نے فائل کے کاغذات ادھر ادھر کرتے ہوئے تائی امی کو مخاطب کر کے کہا۔

تائی امی نے محض اثبات میں گردن ہلائی شاید وہ آزر سے ناراض تھیں اب ان سے بہت کم مخاطب ہوتی تھیں اور ان کے مخاطب کرنے پہ بھی محض ہوں ہاں میں جواب دیتیں اس وقت بھی وہ مختصر سا جواب دے کر خاموش ہو گئیں۔

آزر نے ایک نظر ان کے برابر میں بیٹھی شزرا پہ ڈالی جو ارد گرد سے بے نیاز سر جھکائے کسی رسالے کی ورق گردانی میں مصروف تھی سفید شارٹ شرٹ اور ٹراؤزر کے ساتھ دوپٹہ کندھوں پہ پھیلائے ہلکا ہلکا میک اپ کئے وہ اس وقت سیدھی آزر کے دل میں اتر رہی تھی سیاہ بال پشت پہ بکھرے تھے مگر وہاں صرف بے نیازی کی تھی۔

اسی اثناء میں شزرا کے موبائل کی رنگ  ٹون بھی اس نے فون اٹھا کے دیکھا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔

"تائی امی تیمور آگئے ہیں میں چلتی ہوں" شزرا نے تائی امی کو مخاطب کر کے کہا۔

"ٹھیک ہے بیٹا دھیان سے جاؤ" تائی امی نے جانے کی اجازت دی۔

وہ وہاں آزر کی موجودگی کو یکسر فراموش کرتی ہوئی باہر کی طرف بڑھی۔

"کہاں جا رہی ہے شزرا؟ اور تیمور کیوں آیا ہے اسے لینے" آزر نے گیٹ کی بڑھتی شزرا کی پشت کو دیکھتے ہوئے تلخی سے پوچھا۔

"اگلے ہفتے نکاح ہے تو نکاح کا ڈریس لینے جا رہی ہے" تائی امی نے ناراض لہجے میں کہا اور وہاں سے اٹھ کے چلی گئیں۔

"شزرا کا نکاح" آزر کو لگا کسی نے ان کی طرف خنجر اچھالا ہو اور وہ لہولہان ہو گئے ہوں۔

آزر اپنے بوجھل قدموں کو بمشکل گھسیٹ کر باہر گئے شزرا تیمور کی گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول کر اس میں بیٹھ رہی تھی آزر نے زخمی نگاہوں سے اسے دیکھا اسی وقت تیمور نے بھی آزر کو دیکھا آزر پلٹ کر اپنی گاڑی کا ڈور کھولنے لگے۔

"آزر کیسے ہو؟" تیمور گاڑی سے اتر کر آزر کی طرف بڑھا اور اس سے مصافحہ کیا۔

"ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔تم کیسے ہو؟" آزر نے سرد لہجے میں جواب دے کر اس سے پوچھا۔

"میں اور شزرا نکاح کی شاپنگ کرنے جا رہے ہیں" تیمور نے ان کا سوال نظر انداز کر کے ایک دل جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ انہیں بتایا آزر کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔

"ہہہم۔۔۔۔۔جانتا ہوں" انہوں نے مختصر جواب دیا اور پلٹ کے گاڑی کا ڈور کھولنے لگے جیسے اب مجھے تمہاری اور کوئی بات نہیں سننی۔

مگر مقابل بھی تیمور ملک تھا۔

"تم بھی چلو ہمارے ساتھ" تیمور نے ان کا خشک لہجہ یکسر نظر انداز کرتے ہوئے خوشدلی سے کہا۔

"نہیں مجھے بہت کام ہیں" آزر کا لہجہ ہنوز خشک تھا۔

"ہاں ویسے بھی تم کیا کرو گے ہمیں تو رات کو دیر ہو جائے گی۔شاپنگ کا بعد ڈنر کا پلان ہے" تیمور بھی انہیں مزے لے لے کے بتا رہا تھا آزر کے ماتھے پہ پڑے لاتعداد بل اسے واضح دیکھ سکتے تھے آزر کی مٹھیاں بھینچی تھیں۔

ان کی یہ حالت دیکھ کے تیمور کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ رینگ گئی۔

"ویسے اگر رات کو دیر ہو جائے تو تم لوگ پریشان نہیں ہونا" تیمور نے آنکھ مار کے ہنستے ہوئے کہا آزر کا تو روم روم سلگ اٹھا تھا۔

انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ آگے بڑھ کے تیمور کا گریبان پکڑ لیا۔

"کہا بکواس کر رہے ہو" آزر طیش کے عالم میں دھاڑے تھے۔

آزر کو تیمور کا گریبان پکڑے دیکھ کے شزرا گاڑی سے اتری تھی اور دونوں کی طرف بڑھی۔

"کیا کر رہے ہیں آپ یہ؟ پاگل ہوگئے کیا" شزرا نے آزر کو تیمور سے الگ کرتے ہوئے کہا آزر نے ایک جھٹکے سے تیمور کو چھوڑا تھا۔

"کیا ہوا ہے؟" شزرا نے آزر کو نظر انداز کر کے تیمور سے پوچھا آزر اب بھی ناگواری سے تیمور کو گھور رہے تھے۔

"میں نے تو صرف اتنا کہا ہے دیر ہو جائے تو پریشان نہیں ہونا" تیمور نے اپنے چہرے پہ دنیا جہاں کی معصومیت سموتے ہوئے کہا۔

شزرا نے ناگواری سے آزر کو دیکھا۔

"چھوڑیں آپ ان کی تو عادت ہے" شزرا نے تیمور کا بازو تھامتے ہوئے کہا اور اسے لے کے گاڑی کی طرف بڑھی۔

"تمہیں اس کے ساتھ جانے کی کوئی ضرور نہیں ہے اگر جانا ہی ہے تو امی کو لے کے جاؤ" آزر شزرا ہاتھ تھامتے کوئی درشتی سے کہا جیسے اگر وہ اس کا ہاتھ چھوڑ دیں تو کہیں وہ ان سے دور نہ ہو جائے۔

"آپ کون ہوتے ہیں مجھے روکنے والے" شزرا نے ایک جھٹکے سے ان سے اپنا ہاتھ چھڑوایا۔

"چلیں تیمور" وہ آگے بڑھ گئی تھی تیمور نے ایک نظر آزر کی طرف مسکرا کے دیکھا آنکھوں پہ سن گلاسس لگا کے سیٹی بجاتے ہوئے گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔

آزر غصے سے انہیں جاتا دیکھتے رہے یہاں تک کے ان کی گاڑی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔

"ویسے دوست تمہارا یہ کزن بڑی ٹیڑھی کھیر ہے" تیمور نے ڈرائیو کرتے ہوئے شزرا سے کہا جو جانے کن سوچوں میں کھوئی ہوئی تھی۔

"میں ان کی طرف سے معافی مانگتی ہوں" شزرا نے شرمندگی سے کہا۔

"اففف لڑکی اب میں نے یہ بھی نہیں کہا" تیمور نے چڑ کے کہا۔

"نہیں میرا مطلب" وہ بلاوجہ ہی صفائیاں دینے لگی۔

"ارے چھوڑو یار" تیمور نے مسکرا کے کہا۔

شاپنگ کے دوران بھی تیمور کی الٹی سیدھی بے سروپا باتوں پہ ہنسنے کے بجائے اس کا دھیان آزر میں ہی اٹکا ہوا تھا وہ دل سے مسکرا بھی نہ سکی۔

پتہ نہیں میں کبھی دل سے مسکرا سکوں گی بھی یا نہیں شزرا نے تیمور کے ساتھ ڈنر کرتے ہوئے سوچا تھا۔

رات دس بجے تیمور نے اسے گھر پہ ڈراپ کیا تھا۔

"اندر آجائیں،سب سے مل لیں" شزرا نے گاڑی سے اترتے ہوئے اسے اندر آنے کو کہا۔

"نہیں یار پھر کبھی ابھی بہت تھک گیا" تیمور نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔

"اوکے" شزرا نے اثبات میں گردن ہلائی اور اندر چلی گئی۔

وہ گھر میں داخل ہوئی تو پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا تھا شاید سب سو چکے تھے وہ پانی پینے کچن کی طرف بڑھی ہاتھ بڑھا کے کچن کی لائٹ جلائی اور فریج سے پانی کی بوتل نکال کر گلاس میں پانی انڈیلنے لگی۔

____جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Wahshat E Ishq  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Wahshat E Ishq  written by Rimsha Mehnaz  . Wahshat E Ishq    by Rimsha Mehnaz  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages