Jazib E Nazar Season 2 By Bia Sheikh New Novel Episode 25 to 26
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Jazib E Nazar Season 2 By Bia Sheikh Episode 25'26 |
Novel Name:Jazib E Nazar
Writer Name: Bia Sheikh
Category: Complete Novel
عدالت میں اس وقت ایک طرف جاذی اور اسکی فیملی ملک فیملی اور ماریہ موجود تھے
جبکہ دوسری جانب سلطان ویلا کے خاص ملازمین
شرجیل ،مالی، ڈرائیور، اور ایک عورت نسرین جو صفیہ بھی کے جانے کے بعد سب کام دیکھتی تھی
ایک طرف احسن جبکہ دوسری طرف شہر کا سب سے بڑا وکیل مرزا جاوید تھا
جج صاحب کے آتے ہی سب کھڑے ہو گئے اور خاموشی چھا گئی
انکے اشارے پہ سب نے پھر سے اپنی اپنی نشست سنبھال لی
عدالت کی کاروائی شروع کی جاے جج نے کیس شروع کرنے کی اجازت دی جس پہ احسن اور مرزا دونوں مسکراتے ہوے کھڑے ہو گئے
جناب یہ کیس بہت ہی سیدھا سا ہے مسٹر جاذب احمد نے اپنی بیوی نظر سلطان پر قاتلانہ حملہ کیا
جن کے خلاف پولیس کے پاس بھی ٹھوس ثبوت اور ہمارے گواہ موجود ہیں
میری عدالت سے درخواست ہے کہ نظر سلطان کو انصاف دیا جاے
نظر سلطان پچھلے پانچ دنوں سے ہاسپٹل میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہیں
مرزا نے بڑے اطمینان نے ساری بات جج کے سامنے رکھی اور دو تین فائلز بھی دیں جن پر سرسری نظر ڈالنے کے بعد جج نے احسن کی طرف اشارہ کیا
سر یہ کیس جتنا سیدھا مرزا صاحب نے بتایا اتنا ہے نہیں
میرے کلائنٹ مسٹر جاذب احمد پر الزام لگایا جا رہا ہے
اکثر جو نظر آتا ہے حقیقت اسکے برعکس ہوتی ہے
میں عدالت سے درخواست کرتا ہوں
جاذب احمد کو انکی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع دیا جاے
احسن نے پراعتماد لہجے میں کہا
اجازت ہے۔۔۔۔ جج نے اجازت دی جس پہ احسن نے شکریہ ادا کیا
میں جاذب احمد کو کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہتا ہوں
احسن نے اجازت چاہی جس پہ جج نے اثبات میں سر ہلاتے ہوے اجازت دے دی
جاذب احمد کیا آپ بتائیں گے کہ سب کیسے ہوا احسن نے پوچھا
جاذی نے فون آنے سے لے کر نظر کو ہاسپٹل لے کر جانے تک کی ساری بات جوں کی توں بتا دی
جناب جاذب احمد بے قصور ہیں انہوں نے نظر سلطان پر حملہ نہیں کیا بلکہ انہیں بروقت ہسپتال پہنچا کر انکی جان بچائی ہے
احسن نے جج کو مخاطب کیا
جج ایک ادھیڑ عمر شخص تھا احسن کی بات پہ اثبات میں سر ہلایا اور مرزا کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا
جھوٹ ۔ ۔۔ سفید جھوٹ. جناب میں وٹنس باکس میں نظر سلطان کے ڈرائیور کو بلانا چاہتا ہوں
مرزا نے اجازت چاہی
ڈرائیور سے پہلے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم لی گئی
مرزا نے سوالات کا آغاز کیا
آپکا نام؟
قاسم
جب آپ جاے وقوعہ پر پہنچے تو آپنے کیا دیکھا؟
جاذب صاحب نظر میڈم کو اٹھاے گھر سے نکل رہے تھے میڈم جی کو گولی لگی تھی خون بہہ رہا تھا
مجھے دیکھ کر جاذب صاحب حیران ہو گئے
میں نے پوچھ کیا ہوا تو جاذب صاحب نے مجھے ہسپتال چلنے کا کہا ہم انہیں لے کر ہسپتال آ گئے
ہسپتال پہنچ کر آپنے پوچھا نہیں کہ کیا ہوا ہے کس نے کیا یہ؟
پوچھا تھا جی بابا اور شرجیل صاحب بھی تھے لیکن جاذب صاحب نے ہماری بےعزتی کی اور جانے کا کہا میں بابا کو لے کر واپس آگیا
سنا آپنے جج صاحب
جب قاسم پہچا تو تو جاذب صاحب نظر سلطان کو گھر سے باہر لا رہے تھے
اور قاسم کو دیکھ کر حیران ہو گئے
مرزا نے طنزیہ لہجے میں کہا
اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ گولی جاذب نے چلائی
میں قاسم سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں احسن نے اجازت لی
تو قاسم کیا تم نے خود دیکھا جاذب احمد کو گولی چلاتے ہوے؟
نہیں قاسم شرمندہ ہوا
جب تم پہچے جاذب کو نظر سلطان کو باہر لاتے دیکھا تو کیا انکا رخ اپنی کار کی طرف تھا؟
جی۔۔۔۔
کیا وہ نظر سلطان کو گھسیٹ کر لا رہے تھے؟
نہیں جناب وہ بہت پریشان تھے انہوں نے میڈم جی کو گود میں اٹھایا ہوا تھا
پوئنٹ ٹو بی نوٹڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔
سر اگر ہم نفسیات کو دیکھیں تو کوئی بھی زی روح اگر کسی پر قاتلانہ حملہ کرے تو وہ اسکی لاش یا باڈی گھیسٹ کر ٹھکانے لگاے گا یا
دستانے پہن کر کوئی قدم اٹھاے گا
جبکہ یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے جاذب احمد نظر سلطان کو اپنی گود میں اٹھا کر لا رہے تھے
کوئی سامان نہیں ہٹایا گیا نا دستانے پہنے نظر کو کے کر سیدھا ہاسپٹل پہنچے گھر والوں کو اطلاع دی
اب یہ کونسا قاتل ہے جو یہ سب کرتا ہے میری عدالت سے درخواست ہے کہ جاذب احمد پر لگاے گئے الزامات بے بنیاد ہیں
انہیں باعزت بری کیا جاے
اتنی جلدی بھی کیا ہے مسٹر احسن ۔۔۔۔
جناب ہمارے پاس موقع واردات کی ویڈیو موجود ہے مرزا نے اجازت طلب کی اور پھر
جاذی اور نظر کی آخری ملاقات کی ویڈیو سکرین پر چلنے لگی
اور پھر جیسے ہی جاذی نے نظر کے سر سے پسٹل ہٹائی سکرین فورا بلینک ہو گئی جبکہ آواز اب بھی آرہی تھی
لگاتار تین گولیوں کے چلنے کی آواز
اور پھر نظر کی تکلیف اور ازیت سے بھری آواز
جاذی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظر کراہ رہی تھی
پھر کوئی آواز نا آئی تو سکرین کو ویسے ہی آف کردیا گیا
مرزا جی یہ سب جاذب احمد پہلے ہی بتا چکے ہیں احسن نے باور کروایا
جی جی لیکن جناب نے چھ گولیاں ۔۔۔یہ نہیں بتایا مرزا جتلانے کے انداز میں بولا
تو آپکے کہنے کا مطلب ہے کہ جاذب نے نظر پر گولیاں چلائیں
احسن نے مرزا کو گھورتے ہوے پوچھا
جی بلکل اور جناب اس ویڈیو میں صاف نظر آرہا ہے کہ
جاذب احمد نے نظر سلطان کو مارنے کی دھمکی دی
پھر انکے پاس پسٹل بھی تھی جسے انہوں نے نظر سلطان پر تان بھی لیا
مانا تکنیکی خرابی کی وجہ سے ویڈیو مکمل نہیں دیکھ سکے لیکن سن تو لی نا
۔
جاذب احمد نے گولیاں چلائیں نظر سلطان کو یقین نہیں آیا کس قدر ازیت میں تھیں جب انہوں نے جان کے دشمن کو بے یقینی کی کیفیت میں پکارہ
مرزا نے سنجیدگی سے ساری وضاحت دی
مرزا صاحب آپ عدالت کو گمراہ کر رہے ہیں احسن نے کہا اب کی بار اسکے لہجے میں وہ اعتماد نہیں رہا تھا
چلیں آپکی تسلی کےلیے اور ثبوت سہی
جناب یہ رہی نظر سلطان کی رپورٹس اور یہ رہی فریکوئنسیک رپورٹ ۔۔۔۔
نظر سلطان کے جسم سے جو گولی نکالی گئی اور موقع واردات سے پولیس کو جو دو گولیاں ملیں وہ ایک ہی گن سے چلیں ہیں
اور یہ کسی اور کی نہیں جاذب احمد کی پسٹل سے نکلی ہوئی گولیاں ہیں
پسٹل بھی پولیس کو مل گئی جس پہ انہی صاحب کے فنگر پرنٹس ہیں
مرزا نے پہلے رپورٹس اور پھر وہ پسٹل جمع کروائی
احسن کو اب اپنی شکست نظر آرہی تھی تمام ثبوت سبکے سامنے تھے
بکواس کر رہا ہے یہ سب جھوٹ ہے میں کیوں ماروں گا نظر کو ۔۔۔۔۔
جاذی اپنی بے گناہی کے لیے چلا رہا تھا
💞💞💞💞
ادھر کیس کی سماعت چل رہی تھی اور ادھر نظر کی حالت اچانک بگڑ گئی
نظر کو سانس لینے میں مشکل ہو رہی تھی ڈاکٹر ۔۔۔۔ ڈاکٹر ایک نرس چلاتی ہوئی روم سے باہر بھاگی اور پھر ڈاکٹرز آگئے
نظر کے لیے آکسیجن کی مقدار بڑھا دی گئی
نظر تڑپ رہی تھی زور زور سے سانس لے رہی تھی
ازیت اتنی تھی کہ آنکھیں کھل گئی
لیکن پھر سے بند ہوگئی
اوہ نو۔۔۔۔ ہمیں انہیں الیکڑانک شاکس دینے ہوگے ایک ڈاکٹر نے کہا
لیکن اسے تو پہلے ہی گولیاں لگی ہیں آپریشن ہوا ہے حالت پہلے ہی نازک ہے دوسری ڈاکٹر نے جواب دیا
نظر کو انجیکشن لگا دیے گئے تھے اور شاکس دینے کی تیاری بھی کرلی گئی تھی
اب یہ آخری حربہ ہے بیچاری نے بہت تکلیف سہی ہے
اب یا تو اسے زندگی مل جاے گی یا اس ازیت سے نجات ایک ڈاکٹر جو نظر کو علاج کر رہی تھی اسے نظر پہ ترس آنے لگا
نظر کو جیسے ہی شاک لگایا جاتا وہ تڑپ اٹھتی
جسم ہوا میں اچھل جاتا ڈاکٹرز بار بار شاک دے رہے تھے
💞💞💞💞
عدالت میں بحث چل ہی رہی تھی جب ایک قاسد نے آکر بتایا
ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے اطلاع دی گئی ہے کہ
نظر سلطان کی موت ہو گئی ہے
یہ خبر ہر سننے والے پہ اپنا اثر چھوڑ گئی تھی
عدالت کے اس کمرے میں چیخ و پکار شروع ہو گئی تھی
خان فیملی ہو یا سلطان ویلاز کے ملازم سب رو پڑے
کیا مرد اور کیا عورت سبکی آنکھیں بھیگ گئی
یہ ایک انوکھا منظر تھا جو پہلے کبھی نا دیکھا تھا
جاذی توجیسے کچھ بھی سننے اور. سمجھنے کی صلاحیت کھو چکا تھا
وہ بس خالی آنکھوں سے سبکو دیکھ رہا تھا
سبکی آوازیں میلوں دور سے آتی دیکھائی دے رہی تھیں
جاذی کا دل جیسے ڈھڑکنا بھول گیا تھا
جاذی کی آنکھوں کے سامنے نظر کے ساتھ گزارے کئی حسین لمحے ایک ساتھ گزر گئے
آرڈر ۔۔۔۔۔ آرڈر۔۔۔۔۔۔آرڈر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جج صاحب کی آواز پہ سب چونک گئے عدالت کا وقت ختم ہوا جاتا ہے
اس کیس کی اگلی اور آخری سنوائی دو دن بعد ہوگی
جج صاحب اپنا حکم سنا کر اپنے پیچھے چینخ وپکار چھوڑ گئے
💞💞💞💞
کیس کی سماعت کے بعد سب ایک دوسرے کو سنبھالتے ہوئے باہر نکلے تو میڈیا نے گھیر لیا
جاذی بھاگتا ہوا اپنی کار کی طرف بڑھا اور ریش ڈرائیو کرتا ہوا ہاسپٹل پہنچ گیا
ہسپتال میں اس وقت شور مچا ہوا تھا رپورٹرز بھی موجود تھے
خان فیملی اور سلطان ویلا کے ملازمین انتظامیہ کے ساتھ بحث کر رہے تھے
کوئی بھی اس بات پہ یقین کرنے کو تیار ہی نہیں تھا کہ نظر اب اس دنیا میں نہیں رہی
سیکیورٹی کو بلا لیا گیا تھا رپورٹرز کو باہر نکالا گیا اور انتظامیہ کے ایک سینیئر پرسن نے سبکو خاموش کروایا
یہ کیا طریقہ ہے آپ سبکا آپ سب ویل ایجوکیٹڈ ہیں پھر بھی اس طرح کا رویہ حیرت ہے
یہاں صرف نظر سلطان کا علاج نہیں ہو رہا تھا اور بھی مریض ہیں آپکی وجہ سے ہمارا سارا نظام خراب ہو گیا ہے
آپکا کیس چل رہا ہے جس کا فیصلہ جلد ہی آجاے گا
جس کے حق میں فیصلہ ہوا ہم باڈی اسکے حوالے کر دیں گے اب پلیز جائیں یہاں سے۔
سب لوگ تھکے ہارے گھر واپس آگئے کسی کے پاس کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں سب اپنے اپنے روم میں چلے آئے
رامش کی وجہ سے مشا کورٹ نہیں گئی تھی
مشا مجبوراً چہرے پہ مسکراہٹ چھپاے رامش کی باتیں سن رہی تھی
ٹی وی پہ وہ بہت کچھ دیکھ چکی تھی اپنے آنسوؤں کو ضبط کر رہی تھی
لیکن یہ آنکھیں پھر سے چھلک پڑتیں تھیں
اسی اثناء میں ساحل روم میں داخل ہوا تو مشا خود کو روک نا پائی بھاگتی ہوئی ساحل کے گلے لگ کر رونے لگی
رامش مشا کو روتا دیکھ کر پریشان ہو گیا
مشا سنبھالو خود کو میں رامش کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتا
ساحل نے مشا کو خود سے الگ گیا اور رامش کے پاس بیڈ پہ آکر بیٹھ گیا مشا بھی اپنے آنسو صاف کرتی واپس آکر بیٹھ گئی
آپ سوے نہیں ؟ ساحل نے رامش کو پیار کرتے ہوے پوچھا
نہیں میں آپکو یاد کر رہا تھا رامش نے مسکراتے ہوے جواب دیا
اچھا چلو اب میں آگیا ہوں نا اب آپ سو جاو ساحل نے رامش کے کھلونے اٹھا کر سائیڈ پہ کئے اور رامش کے ساتھ لیٹ گیا
رامش جلد ہی سو گیا تھا
ساحل یہ سب کیا ہو گیا نظر۔۔۔۔۔۔۔ مشا روتی ہوئی بولی اور ساحل کے کندھے پہ اپنا سر رکھ دیا
یار مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ نظر کی حالت اچانک بہت بگڑ گئی تھی اسے شاکس بھی۔۔۔۔۔
ساحل نے بات ادھوری چھوڑ دی
ہر کوئی آپ دیدہ تھا کوئی بھی سکون میں نہیں تھا ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا
💞💞💞💞
ان سبکا زمہ دار میں ہوں آئی شوڈ ٹرسٹ ہر ۔۔۔
نظر کا مجرم میں ہوں اب کوئی وضاحت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
جاذی ٹوٹ کر بکھر چکا تھا جاذی شراب کی بوتل منہ سے لگاے زمین پہ بیٹھا تھا
آنسوؤں کا سیلاب رواں تھا حقیقی معنوں میں آج جاذی خود کو تنہا محسوس کر رہا تھا
گھر کے باہر پولیس اہلکار پہرہ دے رہے تھے تاکہ جاذی کہیں جا نا سکے
آج جاذی اسی جگہ پہ تھا جہاں نظر پانچ سال پہلے تھی
بے گناہ تھی لیکن گناہگار ٹھہرائی گئی
حالات بھی اسکے خلاف تھے
جاذی اسی جگہ تھا ہاں بلکل اسی جگہ تھا
💞💞💞💞
آج پھر سے عدالت لگ چکی تھی سبکے مرجھاے ہوے اور غمزدہ چہرے تھے نظر کے جانے کا دکھ عیاں تھا
جج صاحبان آچکے تھے یہ مسلہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ اسکا فیصلہ کرنے کے لیے آج دو جج موجود تھے
عدالتی کاروائی شروع کی جاے ایک جج نے اجازت دی تو احسن اپنی نشست سے اٹھ گیا
مائی لارڈ
یہ دو دن مسٹر جاذب احمد اور انکی فیملی پر کسی عذاب سے کم نہیں گزرے
بلکہ پچھلے کئی دنوں سے یہ فیملی خاص طور پر مسٹر جاذب شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں
ایک تو مسسز نظر کا اچانک ذخمی ہونا
اوپر سے حالات ایسے ہو گئے کہ انہی کے شوہر کو انکا مجرم قرار دے دیا گیا
مانتا ہوں ابھی جو ثبوت ہیں وہ جاذب احمد کے خلاف ہیں لیکن ثبوت پورے نہیں ہیں
جیسے ویڈیو ۔۔۔۔۔
جاذب احمد کے ہاتھ میں پسٹل ضرور تھی لیکن ہم نے انہیں چلاتے ہوے نہیں دیکھا
آواز ضرور سنی لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ گولی بھی انہوں نے چلائی
نظر سلطان کا جاذب کو پکارنا بھی فطری تھا
میاں بیوی میں ناراضگی تھی جب گولی چلی تو نظر سلطان کو کسی اپنے کی ضرورت تھی
اس وقت کیونکہ جاذی احمد وہی سے گئے تھے دو تین منٹ پہلے تو نظر کو یقین تھا کہ جاذب ابھی دور نہیں گئے ہونگے
تو مس نظر سلطان نے انہیں پکارہ
میری عدالت سے درخواست ہے کہ کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہمیں ایک موقع دیا جاے
احسن نے ٹھہر ٹھہر کر عدالت میں مزید وقت لینے کے لیے وضاحت دی
آئی آبجیکش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرزا جھٹ سے کھڑا ہوگیا جناب احسن صاحب عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
آبجیکشن از اوور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ احسن نے مرزا کی طرف مسکراہٹ اچھالتے ہوے کہا
نظر کا مجرم میں ہوں مجھے ہر سزا منظور ہے
جاذی نے پر اعتماد لہجے میں کہا تو سب دھنگ رہ گئے
عدالت میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں جاذب صاحب ۔۔۔
ہم ثابت کریں گے نا بے گناہی
احسن کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا
تھینکس احسن لیکن ان سبکا ذمہ دار میں ہی ہوں مجھے سزا ملنی چاہیے
آپ مجھے پھانسی دے دیں ۔۔۔ میں یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتا
جاذی نے پہلے احسن کا شکریہ ادا کیا
پھر جج صاحبان کو مخاطب کیا آنکھیں پھر سے چھلک پڑیں تھی
لیکن ۔۔۔۔۔احسن نے کچھ کہنا چاہا جب مرزا نے اسے ٹوک دیا
آئی آبجیکشن ۔۔۔۔۔۔۔۔
نظر سلطان کے قاتل مسٹر جاذب احمد اپنا گناہ قبول کر چکے ہیں
لیکن میرے یہ دوست انہیں بھی گمراہ کرنا چاہ رہے ہیں تاکہ وہ اپنی بات سے مکر جاے
مرزا کی بات سن کر احسن نے وضاحت دینی چاہی
لیکن ایک جج نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا
جی آپ اپنی بات جاری رکھیں جج نے مرزا سے کہا
شکریہ۔۔۔۔
جناب میری عدالت سے درخواست ہے کہ تمام ثبوت اور گواہ موجود ہیں بلکہ قاتل نے خود اعتراف جرم کر لیا ہے
تو نظر سلطان کو انصاف دیا جاے انکے قاتل کو کڑی سے کڑی سزا سنائی جاے
مرزا نے جزباتی ہوتے ہوے کہا
اسی دوران جہانگیر عدالتی کمرے میں داخل ہوا تو سب حیران رہ گئے
جہانگیر کالا کوٹ پہنے عدالت میں داخل ہوا اور ایک فائل نائب کو پکڑا دی جسے اسے جج صاحبان کے حوالے کر دیا
ٹھیک ہے کہیے ایک جج نے جہانگیر کو بولنے کی اجازت دی
احسن آپ بیٹھیں اب یہ کیس میں لڑوںگا جہانگیر نے مسکراتے ہوے کہا تو احسن چپ چاپ اپنی نشست پر چلا گیا
جناب یہ کیس انتہائی پیچیدہ ہے لیکن میرے دوست اسے بہت سادہ بنا رہے ہیں چند ایک مفروضوں کی بنیاد پر اس کیس کو بند کروانا چاہتے ہیں
کتنا عجیب ہے قتل کیس دوسری سماعت میں ختم ہو رہا ہے نا گواہ اور نا ہی ٹھوس ثبوت
جاذب احمد ۔۔۔۔۔۔ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی بجاے نظر سلطان کی موت کا سن کر اس قدر دل شکستہ ہو چکے ہیں
کہ وہ ان سبکا ذمہ دار خود کو سمجھ رہے ہیں
جہانگیر نے پروقار انداز میں باقاعدہ تقریر شروع کردی
بس بس جہانگیر صاحب آپکی اس جزباتی تقریر سے نا تو سچائی بدلے گی نا فیصلہ مرزا نے ہنستے ہوے طنز کیا
مرزا جی کیس ایسے نہیں لڑے جاتے
جناب ایک بات قابل غور ہے کہ قتل ہوا لیکن اسکی وجہ ابھی تک معلوم نہیں کی گئی
ساحل نے وجہ پر زور دیتے ہوے کہا
میں جاذب احمد سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں جہانگیر نے اجازت طلب کی اور جاذی کی طرف رخ کر لیا
جاذب احمد مجھے گوورنے کا فائدہ نہیں ہوگا
جذبات میں آکر غلط بیان بازی کی بجاے اگر آپ زندہ رہ کر نظر سلطان کو انصاف دلوانے میں مدد کریں گے تو انہیں زیادہ خوشی ہوگی
جہانگیر نے بھی جوابا جاذی کو آنکھیں دیکھائیں
جہانگیر کی بات پر جاذی سوچ میں پڑھ گیا
کچھ اور نہیں تو کم از کم اسے انصاف تو دلوا سکتا ہے ایک کوشش تو کر سکتا ہے نا
جاذب صاحب ویڈیو میں نظر کسی بے گناہی کے ثبوت کی بات کر رہی ہیں کیا آپ عدالت کو بتانا پسند کریں گے کہ یہ کیا ماجرہ ہے ؟
اسے کہتے ہیں آ بیل مجھے مار۔۔۔
جہانگیر کے سوال پہ مرزا نے طنزیہ کہا
جاذی خاموش تھا نادم تھا کیا بتاتا کہ نظر پر یقین نہیں کیا
اس پہ ہاتھ اٹھایا گھر سے نکالا۔۔۔۔۔۔
جاذی کو خاموش پا کر مرزا پھر سے بول بڑا
مائی لارڈ۔۔۔۔
اسکا جواب میں دیتا ہوں کیونکہ جاذب احمد خاموش رہ کر صرف عدالت کا وقت برباد کریں گے
آج سے پانچ سال پہلے جاذب احمد نے نظر سلطان کی جاسوسی کروائی
ڈر تھا کہی وہ آگے نا نکل جاے جاذب کو اپنی ہار پسند نہیں نا اس لیے
پھر انکے ایک مخبر نے انہیں نظر سلطان کی بیرون ملک ہوٹل کے ایک کمرے میں ہونے واکی سیکرٹ میٹنگ کی ویڈیو بھیج دی
مرزا نے بتایا اور ویڈیو چلوا دی
جناب جاذب احمد غصے کے تیز ہیں انکا ہر ورکر انکے گھر والے کولیگز یہاں تک کے میڈیا پر بھی انکے غصے کے چرچے ہیں
سب انکے غصے سے ڈرتے ہیں تو جج صاحبان ہوا کچھ یوں
کہ اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد جاذب احمد کو ڈبل غصہ آیا ایک تو اس پراجیکٹ کا
۔جبکہ دوسرا اپنی بیوی پر نظر سلطان مسٹر ہارون کے ساتھ ہوٹل کے کمرے میں میٹنگ کیوں کر رہی ہیں
ان سے سب کچھ چھپایا کیوں گیا
مرزا کی اگلی بات منہ میں ہی تھی جب جاذی کا ایک مکا منہ پر پڑا
ہمت کیسے ہوئی تمہاری نظر کے بارے میں یہ سب بولنے کی جاذی نے مرزا کا کالر تھام لیا اور ایک دو تھپڑ بھی دے مارے
پولیس اہلکار فورا آگے بڑھے اور جاذی کو الگ کیا
دیکھا آپنے بلکل ایسے ہی ہوا اس دن بھی انہوں نے نظر سلطان کو بھی اسی طرح بے دردی سے مارا پیٹا اور پھر گھر سے دھکے دے کر نکال دیا
مرزا نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور پھر باری باری سب ملازمین کو بلایا اور جاذی سے بھی اس حوالے سے بیان لیا گیا
مائی لارڈ میرے دونوں دوست عدالت کو گمراہ کر رہے ہیں
ویڈیو نا مکمل صحیح
کیا فریکیونسیک رپورٹس بھی جھوٹی ہیں
کیا جاذب احمد کا اعتراف جرم جسے بعد میں بدلنے پر مجبور کیا وہ کوئی معنی نہیں رکھتا
جاذب احمد جیسے درندہ صفت انسان نے نظر سلطان کو مار پیٹ کر گھر سے نکالا
دھوکا دہی سے انکے شیئرز خریدے کیا یہ سب بے معنی ہیں
انہی کی وجہ سے نظر سلطان کی موت ہو گئی
میری عدالت سے درخواست ہے کہ جاذب احمد کو اسکے کئے کی سزا دی جائے مرزا نے جزباتی انداز اپناتے ہوے کہا
نہیں سر میری آپ دونوں سے درخواست ہے کہ مجھے موقع دیا جاے جاذی بے قصور ہے
ہمارے پاس گواہ موجود ہے وہ بس پہنچتا ہی ہوگا
جہانگیر جج صاحبان کے تاثرات دیکھتے ہوے بولا
آرڈر ۔۔۔۔۔ آرڈر۔۔۔۔ آرڈر ۔۔۔۔۔۔
آدھے گھنٹے کے وقفے کے بعد عدالتی کاروائی دوبارہ شروع کی جاے گی دونوں جج کہتے ہوے چلے گئے
ایک نیا ڈرامہ ۔۔۔۔۔۔ مرزا بیزار ہوا جاذی کو پولیس اہلکار اپنے ساتھ لے کر جا رہے تھے جب سب گھر والے اسکے پاس پہنچ گئے
جہانگیر کا سب نے شکریہ ادا کیا اور جہانگیر سبکو یقین دلانے لگا
جاذب احمد مجھے کہنا تو نہیں چاہیے لیکن کیا کروں کہے بنا رہا نہیں جا رہا مرزا نے اونچی آواز میں کہا تو سب اسکی طرف متوجہ ہو گئے
جاذب احمد تم دنیا کے سب سے بد قسمت باپ ہوگے
جسے یہی نہیں پتا کہ اسکی کوئی اولاد بھی تھی
مرزا نے گویا الفاظ ادا نہیں کئے سب کے اوپردھماکا گیا تھا
کک۔۔۔کیا میرا بچہ جاذی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے
یہ تم کیا کہہ رہے ہو مرزا احمد غرایا
افسوس بیچاری نظر ۔۔۔۔۔
اسنے بیٹے کو جنم دیا تھا لیکن ہاے رے پھوٹی قسمت
تمہارا بچہ بس چند گھنٹے ہی سانس کے پایا
مرزا نے ڈرامائی انداز میں بتایا سب حیران تھے
نظر اکیلی کیا کچھ برداشت کر رہی تھی جاذی کے دل پہ بوجھ دوگنا ہو گیا
جاذب احمد تم نے ایک نہیں دو قتل کئے ہیں مرزا نے جلتی پہ تیل چھڑک دیا
آدھا گھنٹہ تو یوں چٹکیوں میں نکل گیا عدالتی کارروائی پھر سے شروع کرلی گئی
جی تو جہانگیر صاحب کہاں ہیں آپ کے گواہ ایک جج نے پوچھا
سر بس کچھ دیر اور جہانگیر نے کہا لیکن مرزا نے اعتراض کیا مزید دس منٹ انتظار کیا گیا لیکن کوئی بھی نا آیا
آرڈر۔۔۔۔۔آرڈر۔۔۔۔۔ارڈر ۔۔۔۔۔۔۔
تمام ثبوتوں اور گواہوں کے بیانات کی بنیاد پر عدالت اس نتیجے پر پہچی ہے کہ
نظر سلطان کے ساتھ مار پیٹ کرنے
دھوکا دہی سے شیئرز خریدنے
اور نظر سلطان کو قتل کرنے کے جرم میں
یہ عدالت جاذب احمد خان کو سزاے موت سناتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ عدالت جاذب احمد خان کو سزاے موت سناتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدالت میں چیخ و پکار شروع ہو گئی تھی لیکن جاذی خاموش کھڑا تھا
پہلے وہ خود کو صرف نظر کا مجرم سمجھ رہا تھا
لیکن مرزا نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی
جاذی نے سچ میں خود کو دونوں کا قاتل تسلیم کر لیا تھا
مرزا کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی سلطان ویلا کے ملازمین بھی خوش دیکھائی دے رہے ہیں
ایک جج نے موت کا پروانا جاری کیا تو دوسرا اسے قلم بند کرنے لگا
ایک منٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدالت میں آواز گونجی پولیس اہلکار بھی بھاگتے ہوے جج صاحبان کے پاس پہنچے اور ایک نے سرگوشی کی
سب نے مڑکر دیکھا تو حیرت ، پریشانی اور خوشی کے ملے جلے تاثرات لیے سب اپنی اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے
جاذی سر جھکائے کھڑا تھا خاموشی پا کر جاذی نے جب سر اٹھایا تو دیکھتا ہی رہ گیا
مم۔۔ممم مجھے گولی جاذی نے نہیں ۔۔۔۔
شرجیل نے ماری تھی
یہ کوئی اور نہیں بلکہ نظر تھی نظر سلطان نظر ابھی بھی زخمی تھی
نظر کو نومی نے تھام رکھا تھا نظر نے شرجیل کی طرف انگلی سے اشارہ کرتےہوے کہا تو سب حیران رہ گئے
کتنے ہی لوگوں نے شرجیل کا نام دہرایا تھا
نظر۔۔۔۔۔۔۔ جاذی نے نظر کو آہستہ آواز میں پکارہ
خود کو یقین دلا رہا تھا تصدیق چاہتا تھا کیا سچ میں اسکے سامنے نظر ہی ہے یا۔۔۔۔۔
نظر کی بات پہ جج صاحبان سمیت سبکی نظریں شرجیل پر ٹھہر گئے
کوئی حیرت سے دیکھ رہا تھا تو کوئی غصے سے
شرجیل کو پسینہ آنے لگا گھبراہٹ کے آثار نمایاں تھے
شرجیل ایک دم سے اٹھا اور نظر کو اپنی طرف کھینچ کر اسکے سر پہ گن تان لی
خبر دار اگر کسی نے بھی قدم بڑھایا دور رہو جانے دو مجھے ورنہ میں اسے مار دونگا
شرجیلی کی اس حرکت پہ پولیس اہلکار آگے بڑھے لیکن اسکی دھمکی سے قدم رک گئے
جانے دو مجھے شرجیل نے باہر کی طرف اشارہ کیا
جاذی نہیں ۔۔۔۔مشا چلائی کیونکہ جاذی وٹنس باکس سے نکل کر شرجیل کی جانب بڑھنے لگا تھا
اے۔۔۔ دور رہو قریب مت آو ورنہ مار دونگا جاذی بڑھتے قدموں کو دیکھتے ہوے شرجیل بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا
آرڈ۔۔۔آرڈ۔۔۔
یہ سب کیا ہو رہا ہے ایک جج غصے میں بولا
ہاں۔۔۔۔تم دونوں انہیں بولو مجھے جانے دو ورنہ میں اس نظر کومار دونگا شرجیل نے جج کو دھمکی دی جس پہ وہ دونوں ایک دوسرے کو مدد طلب نظروں سے دیکھنے لگے
اتنے میں جاذی شرجیل کے سامنے آگیا اور جھٹکے سے شرجیل کا گن والا ہاتھ اپنی طرف کر لیا
جاذی نے پسٹل کا آخری سرا اپنی دونوں آنکھوں کے درمیان میں رکھ لیا
جاذی کی آنکھیں غصے کی شدت سے لال ہو رہی تھی رنگ بھی ٹماٹر کی طرح ہو گیا تھا
چلا گولی ۔۔۔۔ جاذی دھاڑا
عدالت میں پھر سے خاموشی چھا گئی جیسے کوئی موجود ہی نا ہو
شرجیل کے ہاتھ کانپنے لگے
کیا ہوا بس یہی تھی دھمکی ؟
میرے ہوتے ہوئے تم نظر کا بال بھی بانکا نہیں کر سکتے
تو اسے چھونا تو دور نظر اٹھا کر دیکھ بھی نہیں سکتا جاذی نے جتلایا
اور ایک زور دار تھپڑ شرجیل کے منہ پہ دے مارا
پسٹل شرجیل کے ہاتھوں سے دور جا گری
اسکے. بعد شرجیل کو کہاں کہاں پڑ رہی تھی وہ خود بھی گنتی نہیں کرپایا
پولیس اہلکار آگے بڑھے اور شرجیل کو چھڑوایا
نظر۔۔۔۔۔۔۔۔ جاذی نظر کی طرف بڑھا لیکن نظر نے ہاتھ کے اشارے سے جاذی کو خود کے قریب آے سے روک دیا.
جاذی نادم سا مسکراتے ہوے واپس وٹنس باکس میں آگیا
لیکن اب آنسوؤں کی جگہ مسکراہٹ نے لے لی
جاذی مسلسل نظر کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا اسکی آنکھوں کو ٹھنڈک مل رہی تھی
نظر خود پہ جاذی نظروں کو محسوس کر رہی تھی کبھی چہرے کا رخ موڑتی تو کبھی خفگی سے دیکھتی
شرجیل کو بھی اب ملزم کی طرح کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا تھا
جی تو ماسٹر. مائینڈ مسٹر شرجیل کیسا لگ رہا ہے جہانگیر نے تپا دینے والی مسکراہٹ لیے پوچھا تو سب ہنس پڑے
کہاں گئے آپ کے وکیل ۔۔۔۔
مرزا جی۔۔۔۔۔ آپ تو بیٹھ ہی گئے جہانگیر نے پہلے شرجیل اور پھر مرزا کو مخاطب کیا
تو بتائیے شرجیل صاحب کیوں کیا یہ سب؟
آخر کیا بگاڑہ تھا اس معصوم نے آپکا جس کی زندگی اپنے جہنم بنا دی
جہانگیر نے نظر کی طرف اشارہ کرتے ہوے پوچھا
معصوم ۔۔۔۔ کوئی معصوم نہیں ہے یہ اسکی وجہ سے صرف اور صرف اسکی وجہ سے میں نے اپنی بیوی اور بچی کو کھو دیا
شرجیل چلایا
اپنی آواز کو قابو میں رکھیے جہانگیر نے شرجیل کو آنکھیں دیکھائیں
کیوں کیا یہ سب تفصیل سے بتاو ایک جج نے حکم دیا
جس دن اس نظر کی برتھڈے پارٹی تھی اسی دن میری بچی پیدا ہوئی لیکن وہ کمزور تھی
۔اسکے دل میں سوراخ تھا
میری بیوی بھی بیمار ہو گئی میں نے بہت فون کیا وحید صاحب کو مہر میڈم کو سلطان سر صفیہ بی سبکو کیا
لیکن کسی نے. میری کال اٹینڈ نہیں کی اس وقت میری حیثیت مینیجر کی نہیں تھی مجھے ان کے پاس کام کرتے صرف سال ہوا تھا
مجھے پیسوں کی ضرورت تھی میں نے کمپنی سے لون مانگالیکن مجھے کہا گیا نظر کی سالگرہ ہے وحید سر اورباقی سب لندن گئے ہوئے ہیں اور ان میں سے کوئی اپروو کرے گا پھر ہی لون ملے گا
انکی لاڈلی نظر کی سالگرہ کے لیے میں بھیک منگ رہا تھا لیکن مجھے دھتکار دیا گیا
میری بیوی اور بچی دونوں مر گئی پھر ہفتے بعد مجھے وحید سر کا فون آیا
انہوں نے بھی اسکی سالگرہ کا بتایا اور کہا کہ نظر کی ضد تھی کوئی اپنے فون کو ہاتھ بھی نہیں لگاے گا کوئی کام کوئی شخص اس سے زیادہ اہم نہیں ہونا چاہئے
پھر میں نے بیوی اور بچی کےبارے میں بتایا تو وحید سر کو بہت دکھ ہوا انہوں نے مجھے ایک چیک دیا
وہ چیک نہیں میرے منہ پہ کالک لگائی تھی تھپڑ مارا گیا تھا
صرف اس نظر کی وجہ سے یہ سب سے اہم اس لیے اسکی سالگرہ منائی جاے اور میری بچی اسکی اہمیت نہیں وہ مر گئی
شرجیل کی آنکھیں اپنی بیوی اور بچی کے زکر پر نم ہو گئی
اس سب میں نظر کی کیا غلطی ہے انکی موت لکھی ہی ایسے تھی جہانگیر بولا
مائی لارڈ ۔۔۔۔۔
اس پلینگ میں مسٹر شرجیل اکیلے نہیں تھے بلکہ اور لوگ بھی شامل تھے اور مسسز نظر اور جاذب کے ساتھ جو کچھ ہوا یہ سب انکے پلین کا حصہ تھا.
کیا۔۔ ؟ جاذی کو حیرت ہوئی
جسکی شروعات اس دن میٹنگ کی ویڈیو سے ہوئی
اور یہ ویڈیو کس نے بھیجی کس نے بنائی اسکا جواب ماریہ دیں گی کیوں ماریہ ؟
جہانگیر نے پرسکون لہجے میں ماریہ کو مخاطب کیا تو ماریہ کو پسینہ آنے لگا
جہانگیر نے ایک ویڈیو چلوائی جو اس ہوٹل کی تھی جہاں میٹنگ ہوئی تھی
ماریہ پہلے تو ریسیپشن پہ آئی پھر ہارون کے روم میں پھر ایک لڑکی نے اسے کچھ کہا اور ماریہ چلی گئی پھر اگلے دن کی دکھائی گئی
اجازت لیتے ہوے ماریہ کو وٹنس باکس میں بلا لیا گیا
مس ماریہ آپ وضاحت دینا پسند کریں گی؟ جہانگیر نے ماریہ سے پوچھا
جی کیوں نہیں ۔۔۔۔
میں اپنے کسی کام سے وہیں تھی مجھے پتا چلا کہ ہارون وہاں ہے تو اسے ملنے چلی گئی
ہارون ملا نہیں تو واپس چلی گئی اگلے روز صبح کی فلائٹ تھی تو واپس آگئی ماریہ نے اپنی گھبراہٹ پہ قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کی
ماریہ ہمارے پاس آپکے خفیہ کیمرہ چھپانے کی بھی ویڈیو ہے بہتر یہی ہے کہ خود بتائیں
جہانگیر نے کہا
جہانگیر کی بات سن کر ماریہ کی حالت خراب ہو گئی
ہاں۔۔۔ ہاں میں نے چھپایا تھا کیمرہ لیکن اس شرجیل کے کہنے پر ماریہ نے آخر کار مان ہی لیا
سر یہاں سے جاذی اور نظر کو الگ کیا گیا لیکن شرجیل ایسا کیا کیوں جہانگیر نے جج کو بتایا اور پھر شرجیل سے پوچھا
کیونکہ جاذب کے ہوتے ہوے میں نظر کو نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا
پارٹی میں بھی جاذی نے نظر کو بچا لیا
کئی دفعہ کوشش کی لیکن یہ جاذی ہر وقت نظر کے گرد ساے کی طرح منڈلا رہا تھا
میں نے بھی انکے درمیان پھوٹ ڈلوا دی
شرجیل کو اپنے کئے پر پچھتاوا کم اور جاذی پہ غصہ زیادہ تھا
لیکن ماریہ آپنے شرجیل کا ساتھ کیوں دیا جہانگیر نے پوچھا؟
کیونکہ تب مجھے فری پسند نہیں تھی نومی مجھ سے زیادہ فری کو اہمیت دے رہا تھا اس لیے میں نے شرجیل کی مدد لی
اسنے کہا اگرمیں اس میٹنگ کی ویڈیو اسے دے دوں تو نومی کی زندگی سے فری کو نکال دے گا
میں ہوٹل گئی تھی روم میں جاتے ہی کیمرہ چھپا دیا ایک لڑکی نے مجھے روم سے نکلتے دیکھ کیا
میں نے جھوٹ بولا کہ ہارون کا پتا چلا کہ وہ یہاں ہے تو ملنے آگئی
اسنے کہا وہ باہر ہے میں چلی گئی
اگلے روز میں صبح صبح گئی روم خالی تھا ہارون واک کے کیے گیا تھا میں نے کیمرہ بیگ میں ڈالا اور ریسیپشن پہ آگئی
میں نے انہیں کہا کہ کل میرا ایئرنگ یہاں کھو گیا ہے میں اس روم میں بھی دیکھ کر آئی مجھے ملا نہیں
جب ملے مجھے لوٹا دیں میں نے انہیں اسکی ایک تصویر دی ایئرنگ میں نے خود ریسیپشن پہ ہی والز میں گرایا تھا
میرے واپس آنے کے دو دن بعد انہیں وہ مل گیا اور انہوں نے مجھے وہ بجھوا دیا اس طرح مجھ پہ کسی کو شک نہیں ہوا
ماریہ نے سب کچھ بتا دیا اب اسکے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا.
ماریہ نومی کے سامنے شرمندہ تھی نومی ماریہ کو بے یقینی سے دیکھ رہا تھا اسکی ماں فری سے اتنی نفرت کرتی تھی کہ نظر کی زندگی داو پہ لگا دی
شرجیل تم نے نظر پہ گولی کب اور کیسے چلائی تمہیں اس گھر کا کیسے پتا چلا جہانگیر نے اگلا سوال شرجیل سے پوچھا
نظر کے جانے کے بعد میں نے جاذب پہ نظر رکھنی شروع کردی تھی
جاذی اسی گھر میں گیا تھا اور کئی دن وہیں گزارے
جب نظر نے اتنے سالوں کے بعد جاذی کو فون کیا تو میں نے چپکے سے ساری بات سن لی اور نظر سے پہلے وہاں پہنچ گیا
میں نے تار کی مدد سے دروازہ کھولا اور جاذی کی پسٹل نظر آے اس لیے دراز کھول دیا
میں دوسرے کمرے کے باہر ہی چھپا تھا جیسے ہی جاذی واپس گیا میں نظر کے سامنے آگیا
جاذی غصے میں گن روم کے باہر صوفے ہی پھینک گیا تھا میں نے رومال کی مدد سے وہ اٹھا لی تھی
روم میں جاتے ہی میں نے کیمرہ گرایا اور نظر پر گولیاں چلا دیں
لیکن افسوس جاذی واپس آگیا اور اس نے نظر کو بچا لیا
شرم آنی چاہیے تمہیں شرم جہانگیر کو شرجیل کی ڈھٹائی پر غصہ آیا
جناب میں ڈاکٹر نگہت کو وٹنس باکس میں بلانا چاہتا ہوں
جہانگیر نے اجازت طلب کی اور نظر کی ڈاکٹر کو بلا لیا گیا جو نومی اور نظر کے ساتھ ہی آئی تھی
جی تو ڈاکٹر کیا آپ نظر کے بارے میں بتائیں گی
کیونکہ ہمیں خبر دی گئی تھی کہ انکی دیتھ ہو گئی
ہاسپٹل میں بھی تماشا لگا تھا یہ سب کیسے اور کیوں ہوا
جہانگیر نے نرمی سے مسکراتے ہوے پوچھا
وہ دراصل نظر کو میں ایک گھنٹے کے بعد وزٹ کرنے والی تھی میری ایک فائل وہیں رہ گئی تھی جو میں نے ایک نرس کو لانے کا کہا
لیکن جب وہ روم میں گئی تو نظر کی حالت بہت خراب تھی اسکا آکسیجن ماسک اسکے منہ سے اترا ہوا تھا
اور آکسیجن کی مقدار بھی نا ہونے کے برابر تھی
ہم سب بہت گھبرا گئے تھے نوبت الیکٹرانک شاکس تک پہنچ گئی اسی دوران ہمیں مسٹر نعمان کے بارے میں اطلاع ملی
ہمیں پتا چلا کہ یہ مسسز نظر. کے کلوز فریڈ ہیں اور یہ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں
نظر کی جان تو خدا کا شکر ہے بچ گئی لیکن مسٹر نعمان نے جو. با تیں کی اس سے اچھی خاصی الجھ گئی تھی
ہم نے انہیں نظر کی حالت کے بارے میں بتایا تو مسٹر نعمان نے ہم سے ریکویسٹ کی کہ ہم جھوٹ بول دیں کے نظر کی دیتھ ہو گئی
ہم نے بہت بحث کی انتظامیہ تک بات پہچی تو مسٹر نعمان نے ہمیں قائل کر لیا ہی واز رائٹ
نظر پر ہاسپٹل میں بھی حملہ کیا گیا تھا کوئی تھا جو نظر کی جان لینا چاہتا تھا نظر کاماسک ایسے ہی نہیں اترا یہ سب کسی نے کیا تھا
اور ویسے بھی نظرکو بہت زیادہ کیئر کی ضرورت تھی ہم نے غلط اطلاع دی اور نظر کو مسٹر نعمان کے کہنے پر انکے گھر شفٹ کر دیا میرے ساتھ ایک نرس بھی تھی
ہم نے ان دو دنوں میں نظر کی بہت دیکھ بال کی جسکا نتیجہ آپکے سامنے ہے نظر بلکل محفوظ ہے اور مجرم بھی پکڑا گیا
میں جانتی ہوں سر یہ سب غیر قانونی تھا لیکن مجھے کوئی افسوس نہیں آپ مجھے سزا دے سکتے ہیں
لیکن میرا زمیر مطمعن ہے کہ ہم نے مل کر کسی کی جان بچا لی کسی بے گناہ کو سزا نہیں ملی گناہگار پکڑا گیا
ڈاکٹر نگہت اچھی خاصی جزباتی ہو چکی تھی
شکریہ نگہت جہانگیر نے شکریہ ادا کیا تو جج صاحبان نے نعمان کو کٹہرے میں دعوت دی
نومی سے اپنی مسکراہٹ چھپاے نہیں چھپ رہی تھی
اتنا عظیم الشان کارنامہ سرانجام دے چکا تھا
مسٹر نعمان کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ سب آپنے کیوں کیا ؟ ایک جج نے نومی کو گھورتے ہوے پوچھا
گھورنے کی وجہ نومی کی مسکراہٹ تھی
جی جی کیوں نہیں نومی پرجوش تھا سبکو اپنا کارنامہ سنانے کے لیے
سر دراصل میں اور نظر پچھلے چار، پانچ سالوں سے کانٹیکٹ میں ہی تھے
نظر جاذی کو اپنی ڈیل دیکھانے جا رہی ہے یہ مجھے پتا تھا
نظر کے پاکستان آنے کے دوران میں نے مسٹر ہارون کے ساتھ مل کر ہوٹل کی یہ فوٹیج حاصل کی
ہم جاذی اور نظر کے ملنے کے بعد مسسز ماریہ کے خلاف کیس کرنے والے تھے
لیکن نیوز میں نظر کے بارے میں دیکھا
کچھ اور ذمہ داریاں تھیں جنکو پورا کرنا ضروری تھا اس لیے آنے میں دیر ہو گئی
میں نے جہانگیر کو آنے سے پہلے یہ کیس سنبھالنے کا کہا تو جہانگیر وقت پر پہنچ گیا
جب ہاسپٹل پہنچا تو نظر کی حالت خراب تھی لیکن شکر ہے نظر کو ہوش آگیا
نظر کے ہوش میں آتے اسے میرے گھر شفٹ کر دیا گیا
نومی نے بتایا
کیا کہا نومی تمہارا گھر ۔۔۔ ؟ لیکن میں گھر پر ہی تھی تم تو وہاں نہیں آے نا نظر ماریہ پریشانی میں مبتلا ہوئی
مسسز ماریہ میں نے اپنا گھر کہا آپکا نہیں جب نظر کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو نظر نے بتایا کہ اس پہ گولی شرجیل نے چلائی تھی
اور ہاسپٹل میں بھی اسی نے حملہ کیا سماعت آج تھی اس لیے ہم فوراً آپکے پاس نہیں آے ویسے بھی نظر اس قابل نہیں تھی
تھینکس ٹو نگہت انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آج نظر آپکے سامنے ہے
اور میری درخواست ہے پلیز نگہت نے جو کچھ کیا یا ہاسپٹل والوں نے جو کچھ کہا یہ سب میرے کہنے پر ہوا تو سزا صرف مجھے دی
نومی شرمندہ تھا لیکن خوش اتنا تھا کہ مسکراہٹ بد ستور قائم تھی
ویسے مسسز ماریہ آپ پر بھی بہت جلد اگلا کیس کروں گا دھوکے سے میری جائیداد اپنے نام کروانے
اور بھی بہت کچھ ۔۔۔۔۔ نومی نے ماریہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوے کہا
اوہ تو یہ سب تمہیں اس شرابی، جواری بے غیرت ہارون نے کہا ماریہ نے تصدیق چاہی
اپنی زبان سنبھال کر بات کریں مسسز ماریہ آپ اس وقت اپنے جیسے کسی شرابی یا جواری کے بارے میں نہیں بلکہ میرے باپ کے بارے میں بات کر رہی ہیں نومی چلایا
سب کے منہ حیرت سے کھل گئے نومی ہارون کا بیٹا ہے یہ بات سبکو آج پتا چلی تھی
گھر کے بڑوں کے لیے یہ خبر واقع ہی میں حیران کن تھی.
نومی کے بتاتے ہی جہانگیر نے ایک فائل نائب کے حوالے کی جو اس نے جج صاحبان کو پیش کردی
جناب مس ماریہ نے یہ سب کیوں کیا یہ ہمیں مس ماریہ ہی بتا سکتی ہیں
ماما آپکو میری پراپرٹی چاہیے تھی تو بس ایک بار کہا ہوتا میں خود سب آپکے نام کر دیتا لیکن
آپنے بہت بڑا کھیل کھیلا میرے ساتھ بچپن سے باپ کے پیار کے لیے ترسا ہوں
کیا کہا تھا آپنے مجھ سے میرا باپ جواری تھا؟ شرابی تھا؟ وہ آپکو مارتے تھے اسی لیے آپنے انہیں چھوڑا اور مجھے لے کر یہاں آگئی
مجھے منع کیا انکا نام کسی کو بتانے سے واؤ ماما یو آر گریٹ۔۔۔۔۔
ماریہ کے بولنے سے پہلے ہی نومی بول پڑا اب چہرے پر مسکراہٹ کی بجاے غم چھلک رہا تھا
آپ بتانا پسند کریں گی مس ماریہ ؟ جہانگیر نے پوچھا.
ہاں جھوٹ بولا میں نے تم سے وہ ایسا کچھ نہیں کرتا تھا
وہ بھی سبکی طرح ہر وقت مہر کے گن گاتا تھا
میں وحید سے شادی کرنا چاہتی تھی میں نے یونیورسٹی کے بعد وحید کو خود پرپوز کیا
لیکن اس نے معزرت کرلی کہا کہ وہ مہر سے پیار کرتا ہے اور. اسی سے شادی کرنا چاہتا ہے
مجھے تب احساس ہوا پیسے کے بغیر میری کوئی اہمیت نہیں
ہاں یہ بھی سچ ہے کہ میں وحید سے نہیں بلکہ اسکے لائف سٹائل سے امپریس تھی
میں یہ برداشت نہیں کر پائی کہ مہر پھر سے جیت گئی میں پارٹی والے دن چھت سے کودنے والی تھی جب ہارون نے مجھے روک لیا
اس نے مجھے سنبھالا اور اپنے ساتھ لے گیا
پھر کچھ عرصے بعد مجھے وہ اچھا لگا میں وحید کو بھولنے لگی تمہارے باپ کی لائف اسٹائل بھی کسی سے کم نہیں تھی
میں نے ہارون سے شادی کرلی یہ بات کسی کو بھی معلوم نہیں تھی
لیکن کچھ عرصے بعد ہی وہ بھی مجھ سے اکتا گیا ہارون کو میرے بارے میں بہت کچھ معلوم ہو گیا
ماریہ مہر کو دیکھو یہ کرو وہ کرو میں اپنی بوتیک بنانا چاہتی تھی
لیکن ہارون وہ مہر کی وجہ سے یتیم خانہ بنانا چاہتا تھا
یتیم خانہ کھولنے کا بھوت سوار تھا اسی بحث کے دوران ہارون کو پتا چلا کہ میں نے فائنل ایگزام میں مہر کی ساری اسائنمنٹس چرا لی تھی
ہارون نے میری بے عزتی کی کہا میں مطلبی ہوں اپنی اوقات بھول گئی ہوں میں رشتوں سے زیادہ پیسوں کو اہمیت دے رہی ہوں
ہارون نے مجھے پیسے دینے سے منع کر دیا کہا اگر میں جانا چاہتی ہوں تو جا سکتی ہوں
میری اتنی بے عزتی مجھ سے برداشت نہیں ہوئی میں نومی کو لے کر آگئی یہاں آکر بھی سب سے جھوٹ بولا
نومی کے دل میں ہارون کے لیےنفرف پیدا کی میں جانتی تھی ہارون نومی سے بہت پیار کرتا ہے اور. ویسے بھی نومی ہی اسکا وارث ہے
جب نومی نے کہا کے وہ فری سے شادی کرے گا تو میں ڈر. گئی ایک بار پھر سےمجھ سے سب چھن جانے والا تھا
ظاہر ہے فری سے شادی کے بعد وہ برابر کی حصے دار تھی پراپرٹی کی اور ہارون اپنی وصیت بدل کر ساری پراپرٹی انکے بچوں کے نام کرتا جو فری مجھے کبھی بھی لینے نہیں دیتی
میں فری کے لیے مان گئی اسی دوران نومی سے سائن کروا لیے اور نومی نے انجانے میں اپنی ساری جائیداد میرے نام لکھ دی ماریہ نے روتے ہوے ساری تفصیل بتا دی
ماریہ کی باتیں سننے کے بعد سب ماریہ کو حیران پریشان دیکھ رہے تھے ماریہ اتنی مطلبی ہو سکتی ہے یہ کسی نے نہیں تھا سوچا
مائی لارڈ سچ سبکے سامنے ہے میں اپنے دونوں دوستوں اور خاص طور پر جاذب احمد سے معافی چاہتا ہوں مرزا نادم سا اپنی نشست سے اٹھا اور معافی مانگنے لگا
سر ایک اور بات بھی ہے مجھے بس دس پندرہ منٹ دے دیں میرے ایک اور گواہ بس آتے ہی ہونگے جہانگیر نے درخواست کی جسے فورا قبول کر لیا گیا اور بیس منٹ کا وقفہ دے دیا گیا
💞💞💞💞
وقفے کا سنتےہی پولیس اہلکار ماریہ اور شرجیل کو اپنے ساتھ لے گئے جبکہ مرزا روم سے باہر چلا گیا
سب لوگ نظر کی جانب بڑھے نظر کے ملازمین شرمندہ تھے انہوں نے جاذی اور گھر والوں سے معافی مانگی جس پہ سب نے انہیں بخوشی معاف کر دیا
نظر بس خاموش بیٹھی تھی نومی سے بھی سبکو ہمدردی تھی نومی جہانگیر کے ساتھ روم سے چلا گیا
جاذی نظر سے بات کرنا چاہ رہا تھا لیکن نظر جاذی کو نظر انداز کر رہی تھی ڈاکٹر بھی وہی موجود تھی
اس نے سبکو بتایا کہ نظر اب تھک چکی ہے اسے زیادہ باتیں نا کریں
💞💞💞💞
جج صاحبان واپس آچکے تھے سب لوگوں نے اپنی اپنی نشست سنبھال لی جہانگیر اور نومی دونوں غائب تھے
پانچ منٹ کے بعد دونوں واپس آے تو انکے ساتھ فری بھی موجود تھی
جہانگیر نے سب سے پہلے معزرت کی
فری کو دیکھ کر مرزا کے چہرے کے رنگ اڑھ گئے
جبکہ ماریہ کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی
جہانگیر نے ایک چپ نائب کے حوالے کی جسے سکرین پر چلایا گیا تھا
تو سکرین روشن ہو گئی اس میں ریکارڈ تھا
کب کس سے کتنے پیسے لیے گئے کس کو شکست، دی کس بات کی پیمنٹ لی اسکے علاوہ چھوٹی چھوٹی ویڈیوز تھی
جن میں مرزا جھوٹے گواہ تیار کر رہا ہے کہیں مخالفین کو ڈرا دھمکا رہا تھا
یہ سب دیکھنے کے بعد سبکی نظریں مرزا پر جم گئیں
آئیے مرزا جی ایک جج نے کٹہرے کی طرف اشارہ کرتے ہوے مرزا کو مخاطب کیا
مرزا سب سے نظریں چراتا ہوا وٹنس باکس میں آگیا
کوئی وضاحت دینا پسند کریں گے؟ ایک جج نے پوچھا
جناب یہ سب جھوٹ ہے مجھے پھنسایا جارہا ہے
بھلا میں کیوں کروں گا یہ سب مرزا ہکلانے لگا
نن۔۔۔نومی نومی سنو میں ایک بات جانتی ہوں میں گواہی دونگی تم مجھے بچا لو وعدہ کرتی ہوں تمہاری پراپرٹی واپس کردونگی
پلیز پلیز مجھے بچا لو فری تم کہو اس سے فری میں مدد کروں گی تمہیں انصاف چاہیے میں پوری مدد کروں گی میں دونگی گواہی
ماریہ منتیں کرنے لگی سب لوگ ماریہ کی طرف متوجہ ہو گئے
ماریہ کیا جانتی ہے کیا مدد کرے گی یہ سب سوچنے لگے
آرڈر۔۔۔ آرڈر ۔۔۔۔
جج نے سبکو خاموش کروایا.
مسسز ماریہ اگر آپ کچھ، جانتی ہیں تو ہمیں بتائیں
اگر آپ تعاون کریں گی تو امید ہے آپکی سزا کچھ کم کی جا سکے
ایک جج نے ماریہ کو مخاطب کیا
یہ۔۔۔ یہ جو مرزا ہے نا فری اسی نے اسی نے تمہارے اکبر کو مارا تھا
ماریہ نے مرزا کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا تو فری کی آنکھوں میں آنسو آگئے
ماریہ اور نومی کے علاوہ فیملیز میں کوئی بھی اکبر کے بارے میں نہیں جانتے تھے سب ہی سوچ رہے تھے آخر یہ کیا ماجرہ ہے
جھوٹ بول رہی ہے یہ عورت جج صاحب جھوٹ بول رہی ہے یہ
جو عورت اپنے بیٹے تک سے پیار نہیں کرتی کتنی خود غرض ہے سب نے دیکھا یہ صرف خود کو بچانے کے لیے مجھ پر الزام لگا رہی ہے
مرزا چلانے لگا اسے ماریہ پہ بے حد غصہ آیا
آپ چپ رہیے مرزا جاوید آ پ وکیل کی نہیں مجرم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑے ہیں ایک جج نے مرزا کو گھورتے ہوے کہا
ماریہ جی آپ پوری بات بتائیے دوسرے جج نے ماریہ سے کہا تو ماریہ نے اس دن کا سارا واقعہ سنا دیا
ماریہ کیا آپکے پاس کوئی ثبوت بھی ہے جہانگیر نے پوچھا
نہیں ثبوت فری نے پہلے ہی دے دیا ہے لیکن میں گواہی دے رہی ہوں ماریہ شرمندہ تھی
پھر فری کو بلایا گیا فری نے مرزا سے ہونے والی آخری ملاقات کے بارے میں بھی بتایا
مجھے اس رات ان دونوں کی باتیں سن کر ڈر لگنے لگا تھا جو کسی کو مار سکتے ہیں وہ مجھے بھی مار سکتے ہیں
انہیں بھی میرے اور ہارون کے بارے میں یا پراپرٹی کے بارے میں کچھ نہیں تھا پتا انہیں صرف اتنا پتا تھا کہ
میں مہر سے نفرت کرتی آئی ہوں اور فری مجھے نا پسند ہے
میں سب سے بدلہ لینا چاہتی تھی انکی باتوں کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب میں خود کو ہر طرح سے بچاوں گی کل کو یہ پکڑے گئے تو میرا کیا ہوگا
میں مانتی ہوں مطلبی ہوں لالچی بھی لیکن میں کسی کا قتل نہیں کر سکتی بدلہ لینا چاہتی تھی جان نہیں
میرا یقین کریں اس شرجیل نے کہا کہ یہ فری کو نومی کی زندگی سے نکالے گا مرزا نے بھی یقین دلایا کیونکہ یہ فری کو پانا چاہتا تھا مجھ سے ویڈیو کا کہا
میں سچ میں نہیں جانتی تھی میٹنگ میں کیا ہوا میں تو اس دن گھر پہ سب دیکھ کر خود حیران تھی
میں نے خود کو بچانے کے لیے خود کو بدلنا شروع کر دیا سبکو یقین دلایا کہ میں اب بدل گئی ہوں تاکہ کوئی مجھ پہ شک نا کرے ماریہ نے تفصیل سے بتایا
ارے اچھا ہوتا اس منحوس نظر کو بھی اسکے ماں باپ کے ساتھ مار دیا ہوتا
پہلے بھی اسکی وجہ سے میں نے سب کھویا اور اب بھی اسی کی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے
شرجیل نظر کے لیے آنکھوں میں نفرت لیے بولا
تو سب کے منہ کھلے رہ گئے شرجیل نے غصے میں خود ہی اعتراف کر لیا تھا کہ مہر اور وحید کی موت کے پیچھے بھی اسی کا ہاتھ تھا
شرجیل کو یہ بات کہنے کے بعد احساس ہوا کہ اسنے کیا ،کیا پھر شرجیل کو پورا سچ اگلنا ہی پڑا شرجیل نے بتایا کہ وحید مہر کو لے کر کسی دوسرے شہر جانے والا تھا
شرجیل نے اس رات کے اندھیرے میں گاڑی کے انجن اور بریک کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور پھر پلین کے مطابق سنسان سڑک پر وحید نے ریش ڈرائیونگ کی اور بریک فیل ہو گئی گاڑی سیدھی کھائی میں جا گھری
آرڈر۔۔۔۔آرڈر۔۔۔۔آرڈر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ عدالت تمام ثبوتوں اور گواہوں کے بیانات کی بنا پر اس نتیجے پہ پہنچی ہے کہ
شرجیل کو
عدالت میں جھوٹا کیس کرنے
کاروبار میں ہیرا پھیری کرنے
مسٹر اینڈ مسسز وحید سلطان کو قتل کرنے
نظر سلطان پر دو دفع قاتلانہ حملہ کرنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مرزا جاوید کو
جھوٹا کیس لڑنے
عدالت کو گمراہ کرنے
گواہوں کو خریدنے
غیر قانونی کام کرنے
اور اکبر کو قتل کرنے کے جرم میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ عدالت شرجیل کی ساری جائیداد سلطان انڈسٹریز کے حوالے کرتی ہے
مرزا جاوید کی ساری جائیداد ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ
قتل جیسے سنگین جرم کی پاداش میں ان دونوں کو سزاے موت کا حکم سناتی ہے
ایک جج نے پروقار انداز میں ان دونوں کی سزا سنائی تو سب کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے
جبکہ دوسرے جج نے موت کا پروانہ لکھ کر قلم کی نوک کو توڑ دیا.
سب لوگ بہت خوش، تھے لیکن عدالت میں جو راز پتا چلے ان کی وجہ سے سب غمزدہ بھی تھے
سبکی زندگی کو جہنم بنانے والے مرزا اور شرجیل کی سزاے موت کا سن کر سب مطمعن ہو گئے تھے
ڈاکٹر نگہت کا لائیسنس ایک ماہ کے لیے ضبط کر لیا گیا تھا
ہسپتال انتظامیہ کو بھی نوٹس بھیج دیا گیا تھا
ماریہ کی ساری جائیداد ضبط کر لی گئی تھی نومی کی پراپرٹی اسکے نام منتقل کرنے کا حکم بھی دے دیا گیا تھا
کیونکہ ماریہ نے مرزا کے خلاف گواہی دی تھی وہ ڈائریکٹ قتل جیسے سنگین جرم میں ملوس بھی نہیں تھی اس لیے ماریہ کو قید کی سزا نہیں ملی
ماریہ کو اسکے گھر سے ضروری سامان لینے کی اجازت دے دی گئی تھی اسکے بعد کیونکہ ماریہ کے پاس رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ بھی نہیں رہا تھا ماریہ کو اولڈ ایج ہوم بھجوا دیا گیا تھا تاکہ وہ رشتوں کی اہمیت کو سمجھے
نظر کو جاذی اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتا تھا لیکن نومی نے یہ بول کر منع کر دیا کہ
نظر ابھی بیمار ہے اور پریشان بھی جاذی اسے تھوڑا وقت دے پھر نظر جیسا چاہے
💞💞💞💞
ایک ماه بعد ۔۔۔۔۔۔۔
جاذی اور سب گھر والے مسٹر ہارون کے گھر نظر کو لینے پہنچ گئے تھے
اس وقت سب ڈرائنگ روم میں موجود تھے
ہارون یہ کیا حال بنا رکھا ہے یار ملک وہاجت نے پوچھا کیونکہ مسٹر ہارون بہت کمزور ہو گئے تھے
اب کیا بتاوں نظر سے میٹنگ کے بعد میں واپس آنے والا تھا لیکن میری طبیعت خراب تھی
میرے ٹیسٹ کرواے گئے اسی دوران مجھے پتا چلا کہ مجھے ٹی بی ہو گئی
سچ بتاوں تو میں مایوس ہو گیا تھا
میں نومی سے ملنے کے لیے تڑپ رہا تھا میں اپنا خیال بھی نہیں رکھ پایا سب سے تعلق ختم کر لیا
پھر کچھ عرصہ پہلے یہ تینوں اچانک میرے اپارٹمنٹ میں پہنچ گئے
ہارون نے نومی اور فری کی طرف اشارہ کیا تیسری یقیناً نظر تھی
💞💞💞💞
ماضی۔۔۔۔۔۔۔۔
ویٹ۔۔۔۔۔۔ ہارون آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا دروازے تک آیا اور کی ہول سے دیکھا تو نومی کا چہرہ نظر آیا
خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ہارون نے دروازہ کھولا
نومی، فری اور نظر اندر داخل ہو گئے
نومی تم یہاں ہارون حیران ہوا نومی کو گلے لگانا چاہا لیکن نومی نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا
ہارون شرمندہ ہوا اور فری کی طرف بڑھا فری کے سر پہ پیار دیا
نظر خفگی لیے نومی کی طرف بڑھ گئی
بند کریں اپنا یہ پیار محبت کا ڈرامہ نومی نے تلخ لہجے میں کہا
یہ تم کیا بول رہے ہو نومی کونسا ڈرامہ میں اپنے بچوں کے ساتھ ڈرامہ کیوں کرنے لگا
اور تمہارا تو سمجھ آتا ہے لیکن نظر۔۔۔ بیٹا تم کیوں ناراض ہو فری بھی خاموش ہے کیا ہوا ہے مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے کیا
ہارون ایک بار پھر سے حیران ہوا اور پریشان بھی
ہم بیٹھ کر بات کرتے ہیں فری نے نومی کے غصے کو ٹھنڈا کرنا چاہا جو بھی تھا ہارون اسکا محسن تھا
ہاں نومی فری بلکل صحیح بول رہی ہے پلیز بیٹھو ۔۔۔۔
بتاو مجھے کیا ہوا ہے ہارون نے کھانستے ہوے کہا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا تو تینوں دروازے کے بلکل سامنے لگے صوفوں پر بیٹھ گئے
یہ ویڈیو جاذی تک کیسے پہنچی؟ نومی نے اپنے موبائل پر ایک ویڈیو پلے کی اور ہارون کے سامنے کر دیا
یہ وہی ویڈیو تھی مشا نے نظر کو سینڈ کی تھی ہارون ویڈیو دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا
یہ۔۔۔ یہ سب کیا ہے یہ سب ہوا تھا لیکن ایسے نہیں نظر بیٹا بتاو اسے ہارون کو کچھ سمجھ نا آیا
آپکی اسی ویڈیو کی وجہ سے نظر کی زندگی برباد ہو گئی نومی چلایا
نظر کی آنکھیں سب سوچ کر پھر سے نم ہونے لگیں
نہیں یہ سب میں نے نہیں کیا اور میں کیوں کرنے لگا نظر میری بیٹی جیسی ہے ہارون وضاحت دینے لگا
ہاں آپنے کہا اور میں نے مان لیا نومی نے طنزیہ لہجے میں کہا
نومی پلیز مجھے لگتا ہے کہ ایک بار ہمیں سر کی بات بھی سن لینی چاہیے جلد بازی میں کوئی فیصلہ مت لینا فری نے منت بھرے لہجے میں کہا تو نومی چپ ہو گیا
پھر فری نے ہارون کو اس ویڈیو کی ساری بات بتائی
ہارون بھی یہ سب سن کر پریشان ہو گیا
ہارون نے نظر کے سر پہ دست شفقت رکھا اور معزرت کی
نظر کو اپنی بیماری کا بتایا جس کی وجہ سے وہ کسی سے بھی رابطے میں نہیں تھا
نومی میرا ایک دوست اس ہوٹل کے مینیجر کو بہت اچھی طرح جانتا ہے میں اسکے ریفرینس سے بات کروں گا میں وعدہ کرتا ہوں یہ ویڈیو کس نے بنائی یہ پتا لگا کر رہوں گا ہارون کو پورا یقین تھا
یہ اچھائی کا پہناوہ پہن کر اور کتنی زندگیاں برباد کریں گے آپ؟ نومی غصے میں بولا
فری اور نظر نومی کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگیں
نومی تمہیں غلط فہمی ہے ہارون نے قدرے نرم لہجے میں کہا
غلط فہمی تو آپکو ہے مسٹر ہارون بہت اچھی طرح جانتا ہوں میں آپکو
ویسے یہ بیماری بھی کہیں جوے میں ہارنے کی وجہ سے تو نہیں ہوئی نومی پھر سے طنز پر اتر آیا
یہ تم کیا بول رہے ہو ہارون کی آواز آہستہ ہی تھی لیکن لہجے میں تلخی نمایاں تھی
کیوں برا لگا سچ ۔۔۔ اوہ سوری یاد نہیں رہا ان دونوں کے سامنے تو آپ فرشتہ صفت انسان ہیں
غریبوں کی مدد کرنے والے نومی طنز سے باز نا آیا
نومی بس کرو ہارون نے نظریں پھیر لیں
کیوں بس کیوں پتا چلنا چاہیے نا انکو بھی آپ کتنے بڑے ڈھونگی ہیں
ایک نمر کے شرابی اور جواری نومی نے آخری الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا
بس نومی ہارون کا ضبط جواب دے گیا چلانے کی وجہ سے ہارون کو پھر سے کھانسی ہونے لگی
کیوں سچائی برداشت نہیں ہوئی بھول گئے آپنے بھی میری ماں پر ہاتھ اٹھایا تھا
بھول گئے جب گھر سے نکالا تھا تب میں نظر نہیں آیا اب محبت جاگ رہی ہے نومی نے آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوے کہا
بس۔۔۔۔نومی میں سب برداشت کر سکتا ہوں لیکن تمہاری نفرت نہیں ہارون نے نومی کو ہاتھ کے اشارے سے بولنے سے منع کیا
میں آج تک چپ رہا تو صرف تمہارے لیے اسی امید پہ کہ شاید تمہیں میری یاد آجاے
مجھے تمہاری اس سوچ پر کوئی حیرانگی نہیں ہوئی آخر ماریہ کی تربیت ہے اسکا رنگ تو نظر آے گا ہی ہارون نے پھیکی سے مسکراہٹ کے ساتھ کہا
میری ماں کے بارے میں ایک اور لفظ بھی نہ بولیے گا نومی نے شہادت کی انگلی اٹھاتے ہوے وارن کیا
اچھا کیا جانتے ہوے اپنی ماں کے بارے میں ہارون نے پوچھا
فری اور نظر ان دونوں کو مسلسل سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں یہ سب کیا ہو رہا ہے انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی
تمہاری ماں ایک لالچی عورت ہے نومی خود غرض ہے وہ
اپنے علاوہ وہ کسی سے پیار نہیں کرتی
کیا جانتے کیا ہو تم میرے پاس ایسا بہت کچھ بولنے کو ہے جس سے تم اپنی ماں سے نفرت کرو
لیکن میں ایسا نہیں چاہتا اسنے تو جھوٹ کا سہارا لے کر تمہیں مجھ سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیا
لیکن میں جانتا ہوں تم ماریہ سے بہت پیار کرتے ہو میں تمہیں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا
ہارون نے نومی کی گال تھپتھپاتے ہوے کہا
ناجانے کیوں نومی کو ہارون کے لہجے میں سچائی نظر آرہی تھی
کچھ تو تھا یہ وہی پیار تھا جس کے لیے وہ تڑپتا آیا تھا ۔
کیا ہوا تھا مجھے سب جاننا ہے اب کی بار نومی نے قدرے نرم لہجہ اپنایا
ہارون نے کالج سے لے کر آج تک جو کچھ ہوا سب کچھ بتانا شروع کر دیا
ایک منٹ۔۔۔۔ ایک منٹ یعنی آپ نومی کے فادر، ہیں نظر نے پوچھا
نومی آپکے بیٹے ہیں سر؟ فری نے پوچھا دونوں نومی اور ہارون کو دیکھنے لگیں
ہاں بیٹا نومی میرا بیٹا ہے تبھی تو تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو ضمانت دی تھی میں جانتا ہوں اپنے بیٹے کو ہارون نے مسکراتے ہوئے بتایا
کیا ثبوت ہے آپکے پاس کہ آپنے جو کہا وہ سچ ہے نومی نے پوچھا
تم اپنا اکاونٹ چیک کرنا تمہارا اور ماریہ کا جو جوائنٹ اکاونٹ ہے اسے بھی
ماریہ نے مہر کی اسائنمنٹ چرائی اسکا ثبوت پاکستان والے گھر میں ہے وہ اسائنمنٹس
اور تمہاری پراپرٹی والی بات تم اپنے دوست جہانگیر سے کنفرم کرنا۔۔۔۔۔۔۔
💞💞💞💞
حال۔۔۔۔۔۔۔
ہارون نے سبکو بتایا اور پھر ہوٹل سےملی وہ سی سی ٹی وی فوٹیج کے بارے میں بھی بتایا
نظر اب پہلے سے بہتر تھی جو بھی تھا سبکا سامنہ تو کرنا ہی تھا
نظر ڈرائنگ روم میں آئی توسبکے چہرے کھل اٹھے
جی بولیں کیا کہنا تھا آپ سبکو؟ نظر جانتی تھی سب کیوں آے ہیں لیکن پھر بھی انجان بن رہی تھی
نظر دروازے کی قریب لگے ون سیٹر صوفے پہ بیٹھ گئی
آج صرف، میں بولوں گا اور تمہیں سننا ہوگا جاذی اپنی جگہ سے اٹھا اور نظر کے کے سامنے بیٹھ گیا
ہم سب لاؤنج میں چل کر چاے پیتے ہیں ہارون نے مسکراتے ہوے پیشکش کی جسے سب نے فورا قبول کر لیا
سب لوگ جاذی اور نظر کو اکیلے چھوڑ کر چلے گئے
تم اکیلی تھی نا
بہت تکلیف ہوئی ہوگی میرے ہاتھ اٹھانے پہ
گھر سے نکالا تو ٹوٹ گئی ہوگی
دادا جان کے بعد تو بکھر گئی ہوگی
اور۔۔۔اور پھر ہمارے بچے کے آنے پہ خوش بھی ہوئی ہوگی
لیکن اسکے جانے پر مجھ سے نفرت تو کی ہوگی نا
اتنے سال اسی نفرت میں جیتی آئی ہوگی
پھر سچائی بھی ثابت کرنی تھی
موت کو بہت قریب سے دیکھ کر آئی ہو جس کو مخلص سمجھا وہ آستین کا سانپ نکلا غصہ تو آیا ہوگا
ہے نا؟
جاذی نے ٹھہر ٹھہر کر سب پوچھا
گویا جاذی نے ان پانچ سالوں میں نظر پہ کیا بیتی سب دہرا دیا اب نظر کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا تصدیق چاہ رہا تھا کچھ رہ تو نہیں گیا؟ کیا ایسا ہی تھا
جاذی نظر کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا
ہاں۔۔۔۔۔۔ نظر نے کہتے ہوئے چہرے کا رخ موڑ لیا
تم جانتی ہو ان پانچ سالوں میں مجھ پر کیا بیتی ہے؟
جاذی نے پوچھا جاذی کے غیر متوقع سوال پر نظر سوچنے پر. مجبور ہو گئی یہ تو کسی نے بھی نہیں سوچا
نہیں جانتی پتا تھا مجھے بلکہ کوئی بھی نہیں جانت
ا جاذی کی آواز بھر آئی تھی وہ نظر کے قدموں پہ بیٹھ گیا اور نظر کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا
وہ پراجیکٹ صرف تمہاری ماما کا نہیں میری ماما کا بھی خواب تھا
جب مجھے وہ ویڈیو ملی تو مجھے بلکل بھی یقین نہیں آیا
بھروسہ تھا تم پہ تم ایسا کر ہی نہیں سکتی
یہ پراجیکٹ صرف انکے لیے نہیں ہمارے لیے بھی بہت خاص تھا
جاذی نے نظر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوے بولنا شروع کر دیا
ناجانے کتنی. بار وہ ویڈیو دیکھی اس ہوٹل سے کنفرم کیا
میں برداشت نہیں کر پایا مجھے کبھی لگا ہی نہیں کہ تم مجھے دھوکا دو گی
میں اپنے آپے سے باہر تھا اور ایسا نہیں ہے کہ میں نے تمہیں موقع نہیں دیا
یاد کرو میں نے تمہیں بولنے کا پورا موقع دیا
تم نے خود اعتراف کیا یہ سب ہوا تھا وہ تم ہی تھی
میں نے تمہیں نہیں اپنی زندگی سے خوشیوں کو نکال دیا تھا
ان پانچ سالوں میں مجھ پر کیا گزری یہ کوئی نہیں جانتا
میرے اپنے ماں باپ کے لیے میرا بھوکا رہنا راتوں کو گھر نا آنا
خود کو بند رکھنا یہ سب ہر روز کا صرف تماشا تھا اور کچھ نہیں
جاذی کی آنکھیں نم تھی نظر کی آنکھوں سےبھی آنسو بہنے کو تیار تھے
جاذی سچ ہی تو بول رہا تھا
کہاں دیکھی اسکی تکلیف کسی نے انکے لیے یہ ہر روز کا معمول ہی تو بن گیا تھا
جان سے پیارے بیٹے سے کبھی پوچھا ہی نہیں کس ازیت میں ہے
تمہیں پتا ہے نظر میں ہر روز خود سے لڑتا تھا میرا دل کہتا تھا میں نے تمہارے ساتھ غلط کیا
لیکن میرا دماغ ہمیشہ کی طرح مجھے کہتا رہا تم صحیح ہو ثبوت سامنے ہے نظر نے خود اعتراف کیا
میں خود ہی جیت جاتا تھا اور خود ہی ہار جاتا تھا
تم۔۔تمہیں پتا ہے میں نے کبھی سموکنک نہیں کی تھی
لیکن اب میں ساری رات سموکنک کر سکتا ہوں
جاذی نظر کو اپنا حال سناتے ہوے رو پڑا تھا
میں تم سے دور رہ کر پاگل ہو گیا تھا میں وہ جاذی رہا ہی نہیں
ہر روز اس امید پر اٹھتا تھا کہ تم مجھ سے رابطہ کرو تم مجھے کہو، بتاو کہ تم بے گناہ ہو
پھر جب تم نے فون کیا میں بھاگا چلا آیا مجھے تم پہ یقین تھا نظر۔۔۔۔۔
میں معافی مانگنا چاہتا تھا. میں کہنا چاہتا تھا کہ نہیں رہ سکتا اب واپس آجاو میرے ساتھ چلو
لیکن مجھے معافی مانگنی نہیں آئی
میں چاہ کر بھی جھک نہیں سکا میں مناسب الفاظ ڈھونڈ رہا تھا
لیکن نہیں ملے میں ایک بار پھر سے اپنی ایگو کی وجہ سے کچھ، غلط نہیں تھا کرنا چاہتا
اس لیے میں وہاں سے چلا گیا میں رکا بھی تمہارے لیے تھا لیکن نہیں بول سکا نہیں بتا سکا
لیکن جب تمہیں موت کے اتنے قریب دیکھا مجھے لگا میری جان نکال دی کسی نے
بہت تڑپا ہوں میں
صرف یہی سوچتا رہا اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو۔۔۔۔۔
کاش میں معافی مانگ لیتا منا لیتا تمہیں تمہاری اس حالت کا میں قصور وار تھا
لیکن ڈاکٹر نے بتایا یہ خودکشی نہیں ہے ابھی اس بات کو سمجھ ہی رہا تھا جب مجھے تمہارا قاتل مان لیا گیا
تمہاری موت کا سن کر میں خود مر گیا تھا خود کو تمہارا گناہگار تسلیم کر لیا
مان لیا ان سبکا ذمہ دار میں ہوں
جاذی اور نظر کے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے آنسو دونوں کے ہاتھوں کو بھگو رہے تھے
دونوں نظریں جھکائے ہوے تھے
پھر مجھے مرزا نے بتایا کہ ہمارا بچہ بھی تھا
میرا دل کیا کہ خود کو مار دوں ویسے صحیح کہا اس نے بہت بد قسمت ہوں
نظر۔۔۔۔۔
وہ دیکھنے میں کیسا تھا؟
جاذی نے نظریں اٹھا کر نظر کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور اپنے بچے کے بارے میں پوچھا
نظر اور رونے لگی کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں
بہت کچھ بتانا چاہتی تھی لیکن الفاظ دم توڑ گئے
نظر نے جاذی کو بچے کے لیے تڑپتا دیکھ کر اذیت سے اپنی آنکھیں بند کر لیں
تم اکیلی تھی نظر لیکن مجھے تنہا کر گئی
کیا دل صرف تمہارا دکھا تھا؟
کیا صرف تمہیں مجھ سے دور کیا گیا تھا اور جو مجھ سے تم دور ہوئی اسکا کیا؟
اب اگر تم یہ سوچ رہی ہو کہ میں معافی مانگنے والا ہوں تو بھول ہے تمہاری جاذی نے اس انداز میں کہا کہ نظر دیکھ کر رہ گئی
نہیں مانگی معافی مجھے اپنا ملزم بھی میں خود ہی ہوں یہ سب کچھ میں نے جان بوجھ کر اپنے اور تمہارے ساتھ کیا
نظر اب جاذی کو دیکھ رہی تھی یہ جاذی کتنا مختلف تھا
شاید یہ وہ تھا ہی نہیں یہ وہ جاذی تھا جسے کوئی جانتا ہی نہیں تھا وہ خود بھی نہیں
تھک گیا ہوں میں اور برداشت نہیں ہوتا مجھ سے ۔۔۔۔۔
اب بس سزا سناو اور ختم کرو یہ قصہ
جاذی نے روتے ہوے کہا اور باہر کی طرف قدم بڑھا دیا
جاذی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نظر نے جاذی کا ہاتھ تھام لیا اور کھڑی ہو گئی
جاذی نظر کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا پانچ سال بعد نظر نے جاذی کو اس نام سے پکارہ تھا
نظر بنا کچھ کہے جاذی کے گلے لگ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔
جاری ہے
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Jazib E Nazar Season 1 Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Jazib E Nazar written by Bia Sheikh . Jazib E Nazar Season 1 by Bia Sheikh is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment