Ishq Baz Novel By Monisa Hassan Urdu Novel 1 to 2 Episode - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday, 26 February 2023

Ishq Baz Novel By Monisa Hassan Urdu Novel 1 to 2 Episode

Ishq Baz  Novel By Monisa Hassan Urdu Novel 1 to 2 Episode

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ishq Baz By Monisa Hassan Episode 1 to 2 


Novel Name: Ishq Baz

Writer Name: Monisa Hassan 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

رات کا پچھلا پہر،مسلسل بارش، تیز ہوا اور وقفے وقفے سے گرجتی بجلی نے کسی ہارر مووی کا سمع باندھا ہوا تھا...

ایسے میں سنسان پارک میں درخت کے نیچے موجود نیلی آنکھیں اس منظر کو قید کر رہیں تھیں...

 تیز ہوا اسکے سنہرے لمبے بالوں کو اردگرد پھیلا رہی تھی...

اوپر آسمان گواہ تھا کے آج سے پہلے جب بھی بارش کا موسم آتا تو ایسا لگتا کہ اس پوری دنیا کی خوشیاں ان نیلی آنکھوں میں بکھر گئیں ہیں...لیکن آج ان میں کیا نہیں تھا؟

خوف،درد،طوفان کے بعد کی خاموشی...اور گرم پانی کا سیلاب جو اسکے چہرے کو بھیگوئے ہوئے تھا اور دل جیسے ہر چیز سے اٹھ چکا تھا...بس خدا سے شکوہ کر رہا تھا کہ 

"میں تو تیری ہوں"

"تو مجھ سے محبّت کرتا ہے"

"تو پھر میرے ساتھ ایسا کیسے ہونے دے سکتا ہے؟"

"تو اس پوری دنیا کا مالک ہے...تو ہر چیز پر قادر ہے" 

" تو اسکا دل پھیر دے"

"میرا سب کچھ مجھ واپس لوٹا دے"

"مجھ سے میرے خواب نا چھین"

"مجھے میرے جینے کی وجہ لوٹا دے"

"آج میں اپنے خوابوں کی تعبیر کے اتنا قریب آ کر انہیں کھو نہیں سکتی"

"یا اگر تو نے چھیننا ہی ہے نا...تو میری خواہش چھین لے لیکن میرے ابو کے خواب نا چھین"

"پہلے میرے ابو مجھ سے چھین لئے اب انکے خواب تو نا چھین"

"اسکے بعد چاہے مجھے کبھی کچھ عطا نا کرنا اگر میں مانگوں تب بھی نا کرنا"

"سنیں" کسی مردانہ آواز پر وہ حال میں واپس لوٹی تو اسے احساس ہوا وہ اس پاس سے بیگانہ اونچی آواز میں بول رہی تھی 

"رات یہیں خدا سے لڑ کر گزرنے کا ارادہ ہے ؟"

"نہیں...وہ میں...بس جا ...وہ ...لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہو رہے تھے...

"وہ اسکی حالت کا اندازہ لگا چکا تھا اس لئے مزید کوئی سوال نا کیا"

"رات بہت ہو چکی ہے آئیں آپ کو آپ کے گھر چھوڑ دوں"

"نہیں میں چلی جاؤں گی"اس کی گھبراہٹ اس کے انداز سے صاف ظاہر ہو رہی تھی...

"دیکھیں آپ ڈریں نہیں میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائوں گا کیونکہ اس ملک کی ہر بیٹی کی حفاظت کرنا میرا فرض ہے"

آیت نے ایک نظر اس کی خاکی وردی پر ڈالی اور اس کے ساتھ چل پڑی...

"پارک کے گیٹ کے قریب پہنچتے ہی آیت نے اپنی گاڑی کی طرف اشارہ کیا

"میں اپنی گاڑی میں چلی جاؤں گی"

گاڑی کے قریب پہنچتے ہی مینڈک کی فوج اس کے استقبال کے لئے پہلے سے موجود تھی اور مینڈک سے تو اسے سخت نفرت تھی...

 اب اسی سوچ میں تھی کے آگے جائے یا پیچھے...کوئی چیز اس کے پاؤں سے ٹکرائی...

ساتھ ہی اس کی چیخ بلند ہوئی...

نیچے گرنے کو ہی تھی کہ کسی کے مظبوط ہاتھوں نے اسے پیچھے سے تھام لیا تھا...

"میں نے کہا تھا کہ میں چھوڑ آتا ہوں"

"لیکن میری گاڑی؟" آیت نے شرمندگی سے منہ جھکاتے ہوئے کہا 

"یہ ہیں نا مینڈک کی فوج آپ انہیں بتائیں یہ چھوڑ آئیں گے"

رامش نے اسکا موڈ ٹھیک کرتے ہوئے کہا 

"انکو میرے گھر کا راستہ نہیں پتا" آیت نے اسے گھوری سے نوازتے ہوئے کہا اور آگے چل دی...

"اوہ!میں تو مذاق کر رہا تھا آپ غصہ نا ہوں آپ چلیں میرے ساتھ اسے میرا ڈرائیور لے آئے گا"

آیت نا چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ چل پڑی...اسے اپنے جسم سے جان نکلتی محسوس ہو رہی تھی اور ایسے میں وہ گاڑی ڈرائیو نہیں سکتی تھی...

گھر کا پتہ بتانے کے بعد وہ سارا راستہ سیٹ سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیئے ہوئے تھی...

 اچانک اسے گاڑی رکنے کا احساس ہوا...اسنے آنکھیں کھولیں اور اسے گاڑی سے نکلتے ہوے دیکھا 

کچھ دیر بعد وہ واپس لوٹا تو اس کے ہاتھ میں جوس کا ڈبہ اور کچھ دوائیاں تھیں جو اس نے آیت کی طرف بڑہائیں...

"یہ کس لیے؟"

"آپ کے لیے"

"لیکن میں نے تو نہیں منگوائیں" آیت نے حیرانگی سے دوائیوں کی طرف دیکھا 

"جی آپ نے نہیں منگوائیں لیکن آپ کو تیز بخار ہو رہا ہے گھر پہنچنے میں مزید ایک گھنٹہ لگ جائے گا"

"آپ کو کیسے پتا مجھے بخار ہے؟"اسکی حیرانگی میں مزید اضافہ ہوا تھا 

"ان مینڈک کی فوج نے بتایا"رامش نے مسکراہٹ ڈوباتے ہوے کہا 

آیت نے اسے گھور کر دیکھا تھا

"آپ میرا مذاق بنانا بند کریں ورنہ میں پیدل بھی گھر جا سکتی ہوں"

"ارے نہیں نہیں میرا مطلب تھا کے جب آپ ان سے ڈر کر گرنے لگیں تھیں تو میں نے ہی آپ کو پکڑا تھا تب مجھے پتا چلا"

آیت نے غصے سے منہ دوسری طرف کر لیا 

"ایک تو پہلے ہی میں اتنی تکلیف میں ہوں اوپر سے یہ نئ آفت میرے سر پر سوار ہو گئی ہے"اسنے دل میں سوچا 

"اب اسے کھا لیں اس سے پہلے بخار اور تیز ہو جائے اور ہاں آگے راستے میں کوئی ہسپتال بھی نہیں ہے"

آیت نے ایک نظر اس پر ڈالی وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا...

ایک دم اسکی نیلی آنکھیں اسکے یونیفارم پر ٹھہر گئیں جس پر لکھا تھا 

"کیپٹن محمّد رامش"

"فاطمہ کو اگر پتا چلا کے ایک فوجی وہ بھی کیپٹن مجھے گھر چھوڑنے آیا ہے...وہ تو خوشی سے پاگل ہو جائے گی"

اس نے اپنی دوست کے بارے میں سوچا

"ایسے کیا دیکھ رہی ہیں؟

مجھے پتا ہے میں بہت handsome ہوں"رامش نے اسکی نیلی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا...ایک دفعہ کے لیے تو اسے ایسے لگا کہ اگر اس نے نیلی آنکھوں سے نظر نا ہٹائی تو ان میں ڈوب جائے گا...

"کتنی گہری ہیں یہ آنکھیں...لیکن پتا نہیں انہیں تکلیف پہنچانے والا کون ہو گا"

"نہیں کچھ نہیں...میں وہ...پانی چائیے تھا...آیت نے اسے اپنی طرف متوجہ پا کر گڑبڑا کر کہا 

"ہاں وہ میں نے پچھلی سیٹ پر رکھا ہے"

 آیت دوا لے کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی...

"یا اللہ‎ تیرے بندوں میں کتنا فرق ہوتا ہے...کوئی اپنا نا ہو کر بھی اپنوں کی طرح خیال رکھتا ہے...اور کوئی اپنا ہو کر بھی ہمیں توڑ دیتا ہے جیسے ہمارا انکے ساتھ کوئی رشتہ ہی نا ہو...کوئی تیری خاطر اپنی پوری زندگی دوسروں کے لیے قربان کر دیتا ہے 

جیسے تیرا یہ بندا اس وردی کو پہننے والا ہر بندا اپنے ملک کے لیے اس کے لوگوں کے لیے... جس سے ان کا کوئی ذاتی رشتہ بھی نہیں ہوتا تیری خاطر اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں...شہادت کی دعایں مانگتے ہیں تاکے تیرے سامنے سر خرو ہو سکیں...

 اور کچھ لوگوں کے دل میں تیرا ذرا بھی ڈر یا خوف نہیں ہوتا... وہ جیسے تجھے جانتے ہی نہیں...جانتے ہی نہیں ہیں کہ کبھی انکی بھی پکڑ ہوگی....کیسے دوسروں کے دلوں کو کچل کررکھ دیتے ہیں کیسے لوگوں کے خوابوں کو توڑ دیتے ہیں...یہ جانے بغیر کہ انکے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کرچیاں پوری زندگی انکی آنکھوں کو زخمی کرتی رہتی ہیں....شاید انکو نہیں پتا کہ یہ دنیا مکافات عمل ہے جو بھی ہم کسی کے ساتھ کرتے ہیں اسکا اچھا یا برا بدلہ اس دنیا میں ہی ہمارے سامنے آجاتا ہے"

"میرے مالک میری مدد فرما...میں نے تو کبھی تیرے بندوں کا دل نہیں توڑا کبھی کسی کا برا نہیں چاہا تو پھر  میرے ساتھ کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے؟"

رامش نے دیکھا وہ کافی دیر سے بغیر آواز کے رو رہی تھی اسکے دل کو کچھ ہوا تھا 

"اتنی تکلیف ؟کتنا برا کیا کسی نے اسکے ساتھ اے میرے مالک اسکی مدد فرما...میں  نے اپنے لیے کبھی کچھ نہیں مانگا...اپنا آپ بھی اس ملک کے لیے قربان کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن آج میں اس کے لیے خوشی مانگتا ہوں اسکی زندگی میں جو بھی تکلیفیں،دکھ،درد ہیں سب مٹا دے" (اچانک اسکے دل سے رعا نکلی تھی )

اور کاتب تقدیر کو اسکی معصوم دعا اتنی پیاری لگی کہ اسنے اس دعا پہ کن فرما دیا تھا

کچھ دیر بعد گاڑی کالونی میں داخل ہوئی اور ساتھ ہی فجر کی اذان سنائی دینے لگیں تھیں 

"گھر کس طرف ہے آپکا؟" رامش نے پوچھا 

آیت کچھ دیر سوچنے کے بعد فاطمہ کے گھر کا پتا بتا دیا تھا... 

"فل حال میں اس حال میں اپنے گھر نہیں جا سکتی ورنہ امی کو سب پتا چل جائے گا اور میں انھیں اب اور دکھی نہیں دیکھ سکتی انھیں تو میرے ہنستے ہوئے چہرے کے پیچھے چھپی میری تکلیف کا اندازہ ہو جاتا ہے پھر اس حالت میں تو وہ فوراً جان جائیں گی"

رامش نے گھر کے گیٹ کے پاس گاڑی روک دی تھی

آیت گاڑی سے اتر کر بیل بجا چکی تھی اسے احساس ہوا کہ وہ تو ابھی تک گاڑی میں ہی ہے

 وہ اسکے پاس گئی تھی... 

اندر نہیں آئیں گے آپ؟ 

"نہیں پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے امی پریشان ہو رہی ہونگی"

"تو آپ انھیں فون کر کے بتا دیں"

رامش جواب دیتا اس سے پہلے فاطمہ کے چلانے پر دونوں نے پریشان ہو کر ادھر دیکھا جو کھڑی انکی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی 

"اتنا برا سرپرائز؟" 

کم از کم ایک فون ہی کر دیتی یہ تو اچھا ہوا کہ میں نماز کے لیے اٹھی ہوئی تھی ورنہ یہیں کھڑی بیل بجاتی رہتی"

"اب آ گئی ہوں تو اندر آنے دو گی؟" اس نے گاڑی کی طرف متوجہ کروایا

ایک دم پہلے سے بھی زیادہ اونچی چیخ بلند ہوئی تھی 

"فوجی" آیت ذرا مجھے چٹکی کاٹنا یہ سچ میں فوجی ہے؟"

"اور یہ سچ میں تمھارے ساتھ آیا ہے؟" 

"جلدی بولو اب چپ کیوں کھڑی ہو؟"

"اب تم چیخیں مارنا بند کرو گی تو میں کچھ بولوں گی نا اور یہ باتیں اندر جا کر کرتے ہیں ورنہ تم سارے محلے کو اٹھاؤ گی"

"ہاں ہاں اندر چلو"

آیت اندر جا چکی تھی وہ جانتی تھی کہ فاطمہ ہی اب رامش کو اندر لا سکتی ہے 

رامش بھی اس سب گفتگو کے دوران گاڑی سے باہر آ چکا تھا 

فاطمہ اب اسکی طرف متوجہ ہوئی تھی...جسکی خوشی کہ کوئی ٹھکانہ ہی نا تھا 

"آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں اندر چلیں کیوں کہ میں ایک فوجی کو اتنی ٹھنڈ میں باہر کھڑا نہیں کر سکتی"

پتا نہیں کیا تھا اسکے لہجے میں کہ وہ اسے منع نہیں کر سکا  اور اسکے ساتھ اندر چل پڑا ویسے بھی اسے فجر کی نماز پڑھنی تھی

"ویسے فوجیوں کو اس معمولی ٹھنڈ سے خاص فرق نہیں پڑتا"

رامش نے بھی مسکراہٹ سجاتے ہوئے جواب دیا 

"ہاں مجھے پتا ہے فوجی بہت بہادر ہوتے ہیں لیکن اس وقت آپ ہمارے مہمان بھی ہیں اور میں نہیں چاہتی کہ آپکو تھوڑی سی بھی تکلیف ہو...

 لگتا ہے آپ فوجیوں کی کافی بڑی فین ہیں؟

صرف فین؟"

"نہیں یہ لفظ بہت چھوٹا ہے میں دل و جان سے صرف فوجیوں کی ہی نہیں بلکہ پوری پاک آرمی کی عزت کرتی ہوں اور ... فاطمہ کی بات ابھی جاری تھی کہ اسکی امی باہر لاونج میں داخل ہوئیں 

!"السلام و علیکم بیٹا کیسے ہو؟ 

"وعلیکم اسلام آنٹی بلکل ٹھیک"

فاطمہ تمھیں پتا نہیں کب عقل آنی ہے دروازے میں ہی شروع ہو گئی ہو اسکو اندر لے کر جاؤ...

"جی جی امی وہیں لے کر جا رہی ہوں آپ فکر نہ کریں "

"بیٹا ناشتہ کیا کرو گے؟"

امی نے جاتے جاتے پوچھا 

"نہیں آنٹی میں بس نماز پڑھ کر نکلو گا پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے"

"ارے! ایسے کیسے؟ آپکو ناشتہ تو کرنا پڑے گا میں پاک آرمی کی کتنی بڑی فین ہوں ایسے تھوڑی جانے دوں گی" 

فاطمہ نے شرارت سے کہا اور اسے اندر لے گئی تھی...

"اب آپ فریش ہو جائیں میں تب تک ناشتہ تیار کرتی ہوں"

رامش کو کمرے میں چھوڑ کر وہ اب اپنے کمرے میں آ گئی تھی  اسے پتا تھا کہ آیت ادھر ہی ہوگی

"آیت کیسی ہو؟ اور اتنی صبح کیسے آگئی اور بتایا بھی نہیں"

"ہاں بس کل آخری پیپر تھا تو سوچا گھر چلی جاؤں"

"تم روتی رہی ہو"؟ فاطمہ نے اسکے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا جو وہ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی...

"نہیں تو" آیت نے بیڈ سے اٹھتے ہوئے کہا

"اچھا پھر تمہاری آنکھیں کیوں لال ہو رہی ہیں؟"

فاطمہ نے بازو سے پکڑ کر اسے اپنی طرف کرتے ہوئے پوچھا

آیت نے سوچا کہ اگر اسے ابھی سارا کچھ بتایا تو یہ پریشان ہو جائے گی اور ابھی اسکے پیپر بھی مکمل نہیں ہوئے

"نہیں نہیں  ابھی نہیں بتا سکتی" اس نے سوچا 

"یار وہ ابو کی وفات کے بعد پہلی دفعہ گھر آئی ہوں نا بس اسی لیے"

"میری جان بس جو میرے مالک کی مرضی...وہ اللہ‎ کی امانت تھے جن کو انہوں نے واپس لے لیا تم پریشان نہیں ہو" اس نے آیت کو تسلی دیتے ہوئے کہا

"ٹھیک کہ رہی ہو تم"

'اوہ! یار میں تو ناشتے کا بھول ہی گئی تم چینج کرو میں ناشتہ لگاتی ہوں"

"ویسے ایک بات بتاؤ؟"

(سنجیدگی سے پوچھا گیا تھا)

آیت واش روم کی طرف بڑھتی ہوئی رکی 

"ہاں پوچھو؟"

"یہ اتنا پیارا فوجی کہا سے ملا؟" ایک شرارتی مسکراہٹ اچھالی گئی

"اغوا کیا ہے" آیت چیخ کر کہتی واش روم میں چلی گئی

"تم سے تو میں بعد میں پوچھتی ہوں"

فاطمہ کہتی ہوئی کچن میں چلی گئی تھی...

کچھ دیر بعد آیت کپڑے بدل کر ڈرائنگ روم میں آئی جہاں رامش وضو کر کے جائے نماز ڈھونڈ رہا تھا

"کچھ چاہیے تھا "؟

آیت نے آہستہ سے پوچھا 

"ہاں !جائے نماز چاہیے تھی"

"میں دوسرے کمرے سے لاتی ہوں ادھر شاید نہیں ہے"

آیت جائے نماز دینے کے بعد اب برتن لگانے لگی تھی 

رامش کو نماز پڑھتا دیکھ کر وہی رک گئی... کتنا سکون تھا اسکے چہرے پر  جیسے اسکے پورے چہرے پر نور ہی نور تھا ...جو لوگ خدا کے لیے اپنی جان ہر وقت قربان کرنے کو تیار رهتے ہیں...جو لوگ خدا سے محبت کرتے ہیں...خدا انکو نور عطا کرتا ہے...کتنے پیارے ہوتے ہیں نہ یہ لوگ جن کو دنیا سے کوئی غرض نہیں...انکا ہر وعدہ خدا سے ہوتا ہے وہ خدا کے بندوں کی حفاظت کرتے ہیں اور پھر خدا انکو اتنی طاقت عطا کرتا ہے کہ انکا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا... انکے ناموں سے دشمن ممالک بھی کانپ اٹھتے ہیں اور ایک ہم لوگ ہیں جو امیدیں انسانوں سے لگاتے ہیں اور انہی کے ہاتھوں ٹوٹتے رهتے ہیں

"آیت" رامش کی آواز پے وہ پلٹی اور اور دیکھا وہ نماز بھی پڑھ چکا تھا اور وہ ابھی تک انہی سوچوں میں گم تھی

"جی "

آیت نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا تھا 

"ادھر آؤ...یہاں بیٹھو"

رامش نے ساتھ والے صوفہ کی طرف دیکھتے ہوئے اشارہ کیا

"آیت مجھے نہیں پتا تمہے کیا پریشانی ہے لیکن پارک میں میں نے تمہیں خدا سے دعا کرتے دیکھا تھا...اس دعا میں دعا کم اور شکوہ زیادہ تھا...میں بس یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اگر یہ تم پر کوئی آزمائش ہے تو تمھے شکوہ کرنے کے بجائے صبر کی توفیق مانگنی چاہیے کیوں کہ اللہ‎  نے فرمایا ہے کہ وہ انہی بندوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے جن کو وہ خود سے قریب کرنا چاہتا ہے اور جو بندے آزمائش میں ثابت قدم رهتے ہیں وہی اسکے پسندیدہ بندوں میں شامل ہوتے ہیں

آیت آنسوؤں کے سمندر کو حلق میں اتار رہی تھی لیکن اب اسکی برداشت جواب دینے لگی تھی 

وہ کمرے سے باہر آگئی کیوں کہ وہ اس کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی

رامش اس کو کمرے سے باہر جاتا دیکھتا رہا تھا وہ اسکی نیلی آنکھوں میں نمی دیکھ چکا تھا

اسنے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی اتنے میں فاطمہ اور اسکی امی ناشتہ لگا چکے تھے 

" بیٹا آو کھانا لگا دیا ہے" 

ساجدہ بیگم نے کمرے میں آکر کہا 

سب ٹیبل کے گرد بیٹھے تھے کہ ساجدہ بیگم نے فاطمہ کو آواز دی کہ آیت کو بھی بلا لاؤ...

"جی امی "

فاطمہ جواب دیتے ہوئے کمرے سے آیت کو بلا لائی تھی 

"آیت بیٹی تم نے بیٹے کا تعارف نہیں کروایا"

ساجدہ بیگم نے پیار سے رامش کی طرف دیکھتے ہوے کہا

رامش اسکی بھیگی ہوئی نیلی آنکھیں دیکھ چکا تھا اس لیے فوراً خود ہی بولا 

آنٹی وہ آیت کی گاڑی خراب ہو گئی تھی میرا گھر بھی یہاں قریب ہی ہے تو بس میں انکو یہاں لے آیا 

رامش نے بات بناتے ہوئے کہا 

وہ جانتا تھا کہ آیت کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ہے اس بارے میں گھر والوں کو اسنے کچھ نہیں بتایا کیوں کہ وہاں سب خوشگوار موڈ میں ہی تھے

بیٹا تمہارا بہت بہت شکریہ...تمہارا احسان رہے گا ہم پے اگر تم نہ ہوتے تو پتا نہیں ابھی تک میری بچی مصیبت میں ہی ہوتی

ساجدہ بیگم نے فکرمندی سے کہا

 آنٹی اب آپ مجھے شرمندہ کر رہی ہیں میں اس ملک کا محافظ ہوں اور یہ میرا فرض تھا 

آیت بےیقینی  سے اسے دیکھ رہی تھی...یہ کون تھا جو اسکے بغیر کچھ کہے ہی سب سمجھ گیا تھا اور اب اگر وہ سچ بتا دیتا تو وہ کیا جواب دیتی

رامش اب فاطمہ سے باتوں میں مصروف تھا لیکن آیت اس کی نظروں کی تپش کو خود پر محسوس کر سکتی تھی...اسی لمحے رامش نے اسکی نیلی آنکھوں میں دیکھا جو اسی کی طرف متوجہ تھی...پتا نہیں کیا تھا ان گہری نیلی آنکھوں میں کہ کچھ دیر کے لیے وو نظر ہٹانا بھول گیا تھا...

"Ramish are you committed with someone?"

فاطمہ کی آواز پر وہ چونکا

No! Not Yet...

ویسے حیرانگی کی بات ہے اتنا handsome caption ابھی تک سنگل ہے ؟ 

"ہاں حیرانگی کی بات تو ہے پر شاید ساری زندگی ہی سنگل رہنا پڑے"

 فوراً سے اسکے منہ سے نکلا لیکن بات کی گہرائی کا احساس ہوتے ہی اسنے بات کو گول کیا

"دراصل میں نے کبھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں" اس نے بات مکمل کی اور گھڑی کی طرف دیکھا..."ٹھیک ہے آنٹی اب میں چلتا ہوں مجھے لیٹ ہو رہا ہے"

آپ اتنی جلدی جا رہے ہیں مجھے تو ابھی آپ سے بہت ساری باتیں کرنی تھی آرمی لائف کے بارے پوچھنا تھا ویسے میں نے سنا تھا کہ آرمی میں سب روبوٹ ہوتے ہیں ہر کام وقت پر کرتے ہیں۔ نہ ہی ایک منٹ پہلے اور نہ ہی ایک منٹ بعد... فاطمہ نے  ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا 

"ایسی بات نہیں ہے بس ہم وقت کے پابند ہوتے ہیں... میں واقعی میں لیٹ ہو رہا ہوں ورنہ  تھوڑی دیر اور رک جاتا"

"مجھے بھی بہت اچھا لگا تم سب سے مل کر" رامش نے فاطمہ کی ناراضگی دور کرتے ہوئے کہا 

ٹھیک ہے لیکن وعدہ کرو کہ اسے اپنا ہی گھر سمجھو گے اور اپنی پوری فیملی کو لے کر یہاں ضرور آؤ گے...اب کہ ساجدہ بیگم نے مداخلت کی 

"جی آنٹی ضرور"

"جیتے رہو بیٹا خدا تمہے کامیاب کرے"

انہوں نے فاطمہ اور آیت کو اشارہ کیا کہ اسے باہر تک چھوڑ آؤ

گیٹ کے پاس آکر اسے یاد آیا کہ وہ چابی کمرے میں ہی بھول آیا ہے 

"میں چابی لے کر آتا ہوں"

رامش نے اندر جاتے ہوئے کہا 

"میں لے کر آتی ہوں... "میں نے ٹیبل سے اٹھا کے رکھی تھی"فاطمہ کہتی ہوئی اندر چلی گئی 

"آیت " رامش کی آواز پے اس نے سر اٹھایا

جی !آیت نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا 

"یہ میرا کارڈ رکھ لو کبھی بھی میری ضرورت پڑے تو میں حاضر ہوں

اسنے بغیر دیکھے کارڈ رکھ لیا تھا 

"یہ لیں اور آپ اپنا نمبر تو دے دیں...پھر آپکو پوری فیملی کے ساتھ دعوت پر بھی تو بلانا ہے اور مجھے بہت ساری باتیں بھی کرنی ہیں"

"میں نے آیت کو اپنا کارڈ دیا ہے اس پر میرا نمبر بھی ہے"

"یہ تو ہو گیا لیکن فیس بک اور انسٹاگرام..."

آیت نے اسکی طرف گھور کر دیکھا 

"اچھا اچھا وہ میں آپ سے نمبر پر کانٹیکٹ کر کے پوچھ لو گی"

"جی ٹھیک ہے پھر میں چلتا ہوں"

اس نے حیا کی آنکھوں میں دیکھا جیسے سارا نیلا رنگ اپنی آنکھوں میں جذب کر لینا چاہتا ہو لیکن یہ تو اتنی گہری ہیں کہ اگر ساری زندگی بھی ان میں ڈوبتا رہتا تو بھی انکی گہرائی تک نا پہنچ سکتا 

پتا نہیں کیسا سحر تھا اسکی آنکھوں میں جس نے اتنے مضبوط مرد کو لپیٹ کر اپنے سحر میں لے لیا تھا

رامش گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا...

"ٹھیک ہے فاطمہ میں بھی اب گھر جا رہی ہوں شام کو ملتے ہیں"

آیت کہہ کے ساتھ والے بنگلے میں میں داخل ہوئی

"فاطمہ یہ آیت اس وقت کس کے گھر گئی ہے؟"

"اپنے گھر"

"کیا مطلب یہ اسکا گھر نہیں ہے" 

"نہیں یہ میرا گھر ہے" اور میں اسکی بیسٹ فرینڈ ہوں اس کی امی کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی اس لیے اتنی صبح وہ اپنے گھر نہیں گئی تاکہ آنٹی جاگ نہ جائیں"

"اوہ! کافی کلوز فرینڈ شپ  ہے مجھے لگا تم دونوں بہنیں ہو"

"Yup! We are sisters by hearts"

"Oh! Great"

ویسے آپکو پتا وہ جو دو بالکنی ایک ساتھ ہیں نہ وہ ہم دونوں کے کمروں کی ہیں (اس نے اوپر اشارہ کرتے ہوئے کہا )

Our friendship starts from there.

ہم پہلی دفعہ ایک دوسرے سے یہی پر  ملے تھے...

فاطمہ اب بھی کچھ بول رہی تھی لیکن وہ نہیں سن رہا تھا وہ اس بالکنی کو دیکھ رہا تھا اور کسی سوچ میں گم تھا...

"چلو ٹھیک ہے فاطمہ اب میں چلتا ہوں اپنا اور اپنی دوست کا خیال رکھنا"

 رامش نے مسکراتے ہوئے کہا

"آپ بھی اپنا خیال رکھیے گا  اور کہیں ہمیں بھول نہ جائیے گا"

"اب تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا"

اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا اور فاطمہ کو ٹھیک سے سنائی بھی نہ دیا...

 جب گاڑی گلی سے مڑ گئی تو فاطمہ اندر چلی گئی 

آیت کمرے میں داخل ہوئی اور سیدھا اپنی امی کے کمرے کی طرف چلی گئی...کمرے کا دروازہ بند تھا...اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا 

ماریہ بیگم سو رہی تھیں وہ انکے قریب صوفے پر بیٹھ گئی

تھوڑی دیر وہی بیٹھی انھیں دیکھتی رہی...آپ کتنی کمزور ہو گئی ہیں؟ آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکے صاف نمایاں ہو رہے تھے...اور رنگت بھی پیلی پڑتی جا رہی ہے...

پھر اٹھ کر انکے ماتھے پے پیار کیا اور چادر ٹھیک کر کے اپنے کمرے میں لوٹ آئی...کمرے میں آتے ہی اسنے کھڑکی کھول دی اور تازہ ہوا کو اپنے اندر اتارنے لگی... تھوڑی دیر بعد وضو کر کے آئی اور  جائے نماز پھیلا کے سجدے میں چلی گئی اور کھل کے رونے لگی... اور اپنے رب سے معافی مانگنے لگی...

"اے میرے مالک مجھے معاف کر دے میں تجھ سے ہمت مانگنے کے بجائے تجھ سے شکوہ کرتی رہی...جب کہ غلطی بھی میری ہی ہے...مجھے معاف فرما دے اور اگر یہ میری کوئی آزمائش ہے...تو مجھے صبر عطا کرنا اور اس آزمائش میں کامیابی عطا کرنا...

اور پھر پتا نہیں کتنی دیر وہ اپنے رب کے سامنے گڑگڑاتی رہی...

جب اسکا دل ہلکا ہوا تو اٹھ کر کھڑکی کے پاس آگئی...جہاں ابھی بھی بارش کے بعد بادل چھائے ہوئے تھے...ٹھنڈی ہوا سے اسے سکون مل رہا تھا

 اچانک اسکی نظر  کھڑکی پے لگے sticky note پر پڑی  

اس نے اسے اتارا اس پر لکھا تھا 

"ان مع العسر یسرا"

یہ یہاں کس نے چپکایا یہاں ؟میرے بعد تو میرے کمرے میں کوئی بھی نہیں آتا یہاں تک کہ کوئی ملازم بھی نہیں... لیکن یہ کھڑکی کے باہر کی طرف لگا ہے وہاں کس نے لگایا...

"بےشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے"

اس نے زیر لب بڑبڑایا 

پھر اپنے بیڈ پر لیٹ گئی...

چٹ اب وہ دراز میں رکھ چکی تھی 

نیند کی وجہ سے اسکی آنکھیں بھاری ہو رہیں تھیں...اور آہستہ آہستہ وہ نیند میں جانے لگی تھی...

کس نے یہ چٹ یہاں پر چپکائی ؟ لگتا ہے فاطمہ ہوگی ...ہاں وہی ہوگی اور پھر وہ گہری نیند میں چلی گئی...

****

وہ کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ کوڑے سے بھری بالٹی اس کے سر پر الٹی جسے بڈی مہارت سے دروازے کے اوپر رکھا گیا تھا...

"عادی! میں تمہیں جان سے مار ڈالو گا "

غصے سے کہتا ہوا وہ کمرے کی طرف بڑھ گیا جہاں عادی ابھی خراٹے لے کر سو رہا تھا

 اس نے کمبل کھینچنے کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن پھر رک کے کچن کی طرف چلا گیا...

واپس آیا تو اسکے ہاتھ میں ٹھنڈے پانی کا ایک جگ تھا جسے اس نے عادل کے منہ پر انڈیل دیا...

 عادل ہڑبڑا کے بیڈ سے چھلانگ لگا کر اترا اور رامش کے ہاتھ میں خالی جگ دیکھ کے اسکی طرف لپکا اس سے پہلے کہ وہ اس کے ہاتھ آتا وہ واش روم میں جا کر کنڈی لگا چک تھا...

"باہر نکل ورنہ میں دروازہ توڑ دو گا"

ہاں تاکہ تو میری چٹنی بنا سکے...

رامش نے ہستے ہوئے کہا جس پر عادل اور بھڑک اٹھا

وہ تو میں بعد میں بھی بنا دو گا تو نے کونسا پوری زندگی اندر ہی رہنا ہے...

"اچھا اب اتنا بھی بھڑکنے کی ضرورت نہیں ہے میں نے بس اپنا بدلہ لیا ہے ورنہ تجھے پتا ہے مجھ جیسا شریف بندہ ایسی حرکت کبھی نہیں کر سکتا" رامش نے منہ بناتے ہوئے کہا

"ساری شرافت سے واقف ہوں تیری اور کون سا بدلہ مسٹر شریف؟"

وہ جو گندے کیلوں کے چھلکوں سے بھری  بالٹی تو نے میرے لیے سجائی تھی... اسی کی بات  کر رہا ہوں...

یاد آتے ہی عادی کا قہقہ چھوٹ گیا 

"اوہ! وہ تو میں بھول ہی گیا تھا... اچھا اب باہر نکل کچھ نہیں کہتا میں"عادی نے ہستے ہوئے کہا "

نہیں تو جا اب میں تیری پھیلائی ہوئی گندگی صاف کر کے ہی نکلوں گا"

"ٹھیک ہے پھر میں میس جا رہا ہوں تم ادھر ہی آ جانا"

"نہیں میں ناشتہ کر کے آیا ہوں"

"کیا؟"

"تو اتنی صبح کس کے ساتھ ناشتہ کر کے آیا ہے" 

"اور ہاں تیری ڈیوٹی تو رات بارہ بجے ختم ہو گئی تھی پھر ساری رات کدھر تھا؟"

"یار کیا تو شکی بیویوں کی طرح سوال پر سوال کر رہا ہے...ایک ضروری کام تھا... اب مجھے نہانے دو"

"اچھا پھر سیدھا اکیڈمی ہی آ جانا"

"اچھا اب جا یا میں چھوڑ کر آو"

"جا رہا ہوں...جا رہا ہوں"

_________

رات کا پچھلا پہر،مسلسل بارش، تیز ہوا اور وقفے وقفے سے گرجتی بجلی نے کسی ہارر مووی کا سمع باندھا ہوا تھا...

ایسے میں سنسان پارک میں درخت کے نیچے موجود نیلی آنکھیں اس منظر کو قید کر رہیں تھیں...

 تیز ہوا اسکے سنہرے لمبے بالوں کو اردگرد پھیلا رہی تھی...

اوپر آسمان گواہ تھا کے آج سے پہلے جب بھی بارش کا موسم آتا تو ایسا لگتا کہ اس پوری دنیا کی خوشیاں ان نیلی آنکھوں میں بکھر گئیں ہیں...لیکن آج ان میں کیا نہیں تھا؟

خوف،درد،طوفان کے بعد کی خاموشی...اور گرم پانی کا سیلاب جو اسکے چہرے کو بھیگوئے ہوئے تھا اور دل جیسے ہر چیز سے اٹھ چکا تھا...بس خدا سے شکوہ کر رہا تھا کہ 

"میں تو تیری ہوں"

"تو مجھ سے محبّت کرتا ہے"

"تو پھر میرے ساتھ ایسا کیسے ہونے دے سکتا ہے؟"

"تو اس پوری دنیا کا مالک ہے...تو ہر چیز پر قادر ہے" 

" تو اسکا دل پھیر دے"

"میرا سب کچھ مجھ واپس لوٹا دے"

"مجھ سے میرے خواب نا چھین"

"مجھے میرے جینے کی وجہ لوٹا دے"

"آج میں اپنے خوابوں کی تعبیر کے اتنا قریب آ کر انہیں کھو نہیں سکتی"

"یا اگر تو نے چھیننا ہی ہے نا...تو میری خواہش چھین لے لیکن میرے ابو کے خواب نا چھین"

"پہلے میرے ابو مجھ سے چھین لئے اب انکے خواب تو نا چھین"

"اسکے بعد چاہے مجھے کبھی کچھ عطا نا کرنا اگر میں مانگوں تب بھی نا کرنا"

"سنیں" کسی مردانہ آواز پر وہ حال میں واپس لوٹی تو اسے احساس ہوا وہ اس پاس سے بیگانہ اونچی آواز میں بول رہی تھی 

"رات یہیں خدا سے لڑ کر گزرنے کا ارادہ ہے ؟"

"نہیں...وہ میں...بس جا ...وہ ...لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہو رہے تھے...

"وہ اسکی حالت کا اندازہ لگا چکا تھا اس لئے مزید کوئی سوال نا کیا"

"رات بہت ہو چکی ہے آئیں آپ کو آپ کے گھر چھوڑ دوں"

"نہیں میں چلی جاؤں گی"اس کی گھبراہٹ اس کے انداز سے صاف ظاہر ہو رہی تھی...

"دیکھیں آپ ڈریں نہیں میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائوں گا کیونکہ اس ملک کی ہر بیٹی کی حفاظت کرنا میرا فرض ہے"

آیت نے ایک نظر اس کی خاکی وردی پر ڈالی اور اس کے ساتھ چل پڑی...

"پارک کے گیٹ کے قریب پہنچتے ہی آیت نے اپنی گاڑی کی طرف اشارہ کیا

"میں اپنی گاڑی میں چلی جاؤں گی"

گاڑی کے قریب پہنچتے ہی مینڈک کی فوج اس کے استقبال کے لئے پہلے سے موجود تھی اور مینڈک سے تو اسے سخت نفرت تھی...

 اب اسی سوچ میں تھی کے آگے جائے یا پیچھے...کوئی چیز اس کے پاؤں سے ٹکرائی...

ساتھ ہی اس کی چیخ بلند ہوئی...

نیچے گرنے کو ہی تھی کہ کسی کے مظبوط ہاتھوں نے اسے پیچھے سے تھام لیا تھا...

"میں نے کہا تھا کہ میں چھوڑ آتا ہوں"

"لیکن میری گاڑی؟" آیت نے شرمندگی سے منہ جھکاتے ہوئے کہا 

"یہ ہیں نا مینڈک کی فوج آپ انہیں بتائیں یہ چھوڑ آئیں گے"

رامش نے اسکا موڈ ٹھیک کرتے ہوئے کہا 

"انکو میرے گھر کا راستہ نہیں پتا" آیت نے اسے گھوری سے نوازتے ہوئے کہا اور آگے چل دی...

"اوہ!میں تو مذاق کر رہا تھا آپ غصہ نا ہوں آپ چلیں میرے ساتھ اسے میرا ڈرائیور لے آئے گا"

آیت نا چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ چل پڑی...اسے اپنے جسم سے جان نکلتی محسوس ہو رہی تھی اور ایسے میں وہ گاڑی ڈرائیو نہیں سکتی تھی...

گھر کا پتہ بتانے کے بعد وہ سارا راستہ سیٹ سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیئے ہوئے تھی...

 اچانک اسے گاڑی رکنے کا احساس ہوا...اسنے آنکھیں کھولیں اور اسے گاڑی سے نکلتے ہوے دیکھا 

کچھ دیر بعد وہ واپس لوٹا تو اس کے ہاتھ میں جوس کا ڈبہ اور کچھ دوائیاں تھیں جو اس نے آیت کی طرف بڑہائیں...

"یہ کس لیے؟"

"آپ کے لیے"

"لیکن میں نے تو نہیں منگوائیں" آیت نے حیرانگی سے دوائیوں کی طرف دیکھا 

"جی آپ نے نہیں منگوائیں لیکن آپ کو تیز بخار ہو رہا ہے گھر پہنچنے میں مزید ایک گھنٹہ لگ جائے گا"

"آپ کو کیسے پتا مجھے بخار ہے؟"اسکی حیرانگی میں مزید اضافہ ہوا تھا 

"ان مینڈک کی فوج نے بتایا"رامش نے مسکراہٹ ڈوباتے ہوے کہا 

آیت نے اسے گھور کر دیکھا تھا

"آپ میرا مذاق بنانا بند کریں ورنہ میں پیدل بھی گھر جا سکتی ہوں"

"ارے نہیں نہیں میرا مطلب تھا کے جب آپ ان سے ڈر کر گرنے لگیں تھیں تو میں نے ہی آپ کو پکڑا تھا تب مجھے پتا چلا"

آیت نے غصے سے منہ دوسری طرف کر لیا 

"ایک تو پہلے ہی میں اتنی تکلیف میں ہوں اوپر سے یہ نئ آفت میرے سر پر سوار ہو گئی ہے"اسنے دل میں سوچا 

"اب اسے کھا لیں اس سے پہلے بخار اور تیز ہو جائے اور ہاں آگے راستے میں کوئی ہسپتال بھی نہیں ہے"

آیت نے ایک نظر اس پر ڈالی وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا...

ایک دم اسکی نیلی آنکھیں اسکے یونیفارم پر ٹھہر گئیں جس پر لکھا تھا 

"کیپٹن محمّد رامش"

"فاطمہ کو اگر پتا چلا کے ایک فوجی وہ بھی کیپٹن مجھے گھر چھوڑنے آیا ہے...وہ تو خوشی سے پاگل ہو جائے گی"

اس نے اپنی دوست کے بارے میں سوچا

"ایسے کیا دیکھ رہی ہیں؟

مجھے پتا ہے میں بہت handsome ہوں"رامش نے اسکی نیلی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا...ایک دفعہ کے لیے تو اسے ایسے لگا کہ اگر اس نے نیلی آنکھوں سے نظر نا ہٹائی تو ان میں ڈوب جائے گا...

"کتنی گہری ہیں یہ آنکھیں...لیکن پتا نہیں انہیں تکلیف پہنچانے والا کون ہو گا"

"نہیں کچھ نہیں...میں وہ...پانی چائیے تھا...آیت نے اسے اپنی طرف متوجہ پا کر گڑبڑا کر کہا 

"ہاں وہ میں نے پچھلی سیٹ پر رکھا ہے"

 آیت دوا لے کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی...

"یا اللہ‎ تیرے بندوں میں کتنا فرق ہوتا ہے...کوئی اپنا نا ہو کر بھی اپنوں کی طرح خیال رکھتا ہے...اور کوئی اپنا ہو کر بھی ہمیں توڑ دیتا ہے جیسے ہمارا انکے ساتھ کوئی رشتہ ہی نا ہو...کوئی تیری خاطر اپنی پوری زندگی دوسروں کے لیے قربان کر دیتا ہے 

جیسے تیرا یہ بندا اس وردی کو پہننے والا ہر بندا اپنے ملک کے لیے اس کے لوگوں کے لیے... جس سے ان کا کوئی ذاتی رشتہ بھی نہیں ہوتا تیری خاطر اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں...شہادت کی دعایں مانگتے ہیں تاکے تیرے سامنے سر خرو ہو سکیں...

 اور کچھ لوگوں کے دل میں تیرا ذرا بھی ڈر یا خوف نہیں ہوتا... وہ جیسے تجھے جانتے ہی نہیں...جانتے ہی نہیں ہیں کہ کبھی انکی بھی پکڑ ہوگی....کیسے دوسروں کے دلوں کو کچل کررکھ دیتے ہیں کیسے لوگوں کے خوابوں کو توڑ دیتے ہیں...یہ جانے بغیر کہ انکے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کرچیاں پوری زندگی انکی آنکھوں کو زخمی کرتی رہتی ہیں....شاید انکو نہیں پتا کہ یہ دنیا مکافات عمل ہے جو بھی ہم کسی کے ساتھ کرتے ہیں اسکا اچھا یا برا بدلہ اس دنیا میں ہی ہمارے سامنے آجاتا ہے"

"میرے مالک میری مدد فرما...میں نے تو کبھی تیرے بندوں کا دل نہیں توڑا کبھی کسی کا برا نہیں چاہا تو پھر  میرے ساتھ کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے؟"

رامش نے دیکھا وہ کافی دیر سے بغیر آواز کے رو رہی تھی اسکے دل کو کچھ ہوا تھا 

"اتنی تکلیف ؟کتنا برا کیا کسی نے اسکے ساتھ اے میرے مالک اسکی مدد فرما...میں  نے اپنے لیے کبھی کچھ نہیں مانگا...اپنا آپ بھی اس ملک کے لیے قربان کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن آج میں اس کے لیے خوشی مانگتا ہوں اسکی زندگی میں جو بھی تکلیفیں،دکھ،درد ہیں سب مٹا دے" (اچانک اسکے دل سے رعا نکلی تھی )

اور کاتب تقدیر کو اسکی معصوم دعا اتنی پیاری لگی کہ اسنے اس دعا پہ کن فرما دیا تھا

کچھ دیر بعد گاڑی کالونی میں داخل ہوئی اور ساتھ ہی فجر کی اذان سنائی دینے لگیں تھیں 

"گھر کس طرف ہے آپکا؟" رامش نے پوچھا 

آیت کچھ دیر سوچنے کے بعد فاطمہ کے گھر کا پتا بتا دیا تھا... 

"فل حال میں اس حال میں اپنے گھر نہیں جا سکتی ورنہ امی کو سب پتا چل جائے گا اور میں انھیں اب اور دکھی نہیں دیکھ سکتی انھیں تو میرے ہنستے ہوئے چہرے کے پیچھے چھپی میری تکلیف کا اندازہ ہو جاتا ہے پھر اس حالت میں تو وہ فوراً جان جائیں گی"

رامش نے گھر کے گیٹ کے پاس گاڑی روک دی تھی

آیت گاڑی سے اتر کر بیل بجا چکی تھی اسے احساس ہوا کہ وہ تو ابھی تک گاڑی میں ہی ہے

 وہ اسکے پاس گئی تھی... 

اندر نہیں آئیں گے آپ؟ 

"نہیں پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے امی پریشان ہو رہی ہونگی"

"تو آپ انھیں فون کر کے بتا دیں"

رامش جواب دیتا اس سے پہلے فاطمہ کے چلانے پر دونوں نے پریشان ہو کر ادھر دیکھا جو کھڑی انکی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی 

"اتنا برا سرپرائز؟" 

کم از کم ایک فون ہی کر دیتی یہ تو اچھا ہوا کہ میں نماز کے لیے اٹھی ہوئی تھی ورنہ یہیں کھڑی بیل بجاتی رہتی"

"اب آ گئی ہوں تو اندر آنے دو گی؟" اس نے گاڑی کی طرف متوجہ کروایا

ایک دم پہلے سے بھی زیادہ اونچی چیخ بلند ہوئی تھی 

"فوجی" آیت ذرا مجھے چٹکی کاٹنا یہ سچ میں فوجی ہے؟"

"اور یہ سچ میں تمھارے ساتھ آیا ہے؟" 

"جلدی بولو اب چپ کیوں کھڑی ہو؟"

"اب تم چیخیں مارنا بند کرو گی تو میں کچھ بولوں گی نا اور یہ باتیں اندر جا کر کرتے ہیں ورنہ تم سارے محلے کو اٹھاؤ گی"

"ہاں ہاں اندر چلو"

آیت اندر جا چکی تھی وہ جانتی تھی کہ فاطمہ ہی اب رامش کو اندر لا سکتی ہے 

رامش بھی اس سب گفتگو کے دوران گاڑی سے باہر آ چکا تھا 

فاطمہ اب اسکی طرف متوجہ ہوئی تھی...جسکی خوشی کہ کوئی ٹھکانہ ہی نا تھا 

"آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں اندر چلیں کیوں کہ میں ایک فوجی کو اتنی ٹھنڈ میں باہر کھڑا نہیں کر سکتی"

پتا نہیں کیا تھا اسکے لہجے میں کہ وہ اسے منع نہیں کر سکا  اور اسکے ساتھ اندر چل پڑا ویسے بھی اسے فجر کی نماز پڑھنی تھی

"ویسے فوجیوں کو اس معمولی ٹھنڈ سے خاص فرق نہیں پڑتا"

رامش نے بھی مسکراہٹ سجاتے ہوئے جواب دیا 

"ہاں مجھے پتا ہے فوجی بہت بہادر ہوتے ہیں لیکن اس وقت آپ ہمارے مہمان بھی ہیں اور میں نہیں چاہتی کہ آپکو تھوڑی سی بھی تکلیف ہو...

 لگتا ہے آپ فوجیوں کی کافی بڑی فین ہیں؟

صرف فین؟"

"نہیں یہ لفظ بہت چھوٹا ہے میں دل و جان سے صرف فوجیوں کی ہی نہیں بلکہ پوری پاک آرمی کی عزت کرتی ہوں اور ... فاطمہ کی بات ابھی جاری تھی کہ اسکی امی باہر لاونج میں داخل ہوئیں 

!"السلام و علیکم بیٹا کیسے ہو؟ 

"وعلیکم اسلام آنٹی بلکل ٹھیک"

فاطمہ تمھیں پتا نہیں کب عقل آنی ہے دروازے میں ہی شروع ہو گئی ہو اسکو اندر لے کر جاؤ...

"جی جی امی وہیں لے کر جا رہی ہوں آپ فکر نہ کریں "

"بیٹا ناشتہ کیا کرو گے؟"

امی نے جاتے جاتے پوچھا 

"نہیں آنٹی میں بس نماز پڑھ کر نکلو گا پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے"

"ارے! ایسے کیسے؟ آپکو ناشتہ تو کرنا پڑے گا میں پاک آرمی کی کتنی بڑی فین ہوں ایسے تھوڑی جانے دوں گی" 

فاطمہ نے شرارت سے کہا اور اسے اندر لے گئی تھی...

"اب آپ فریش ہو جائیں میں تب تک ناشتہ تیار کرتی ہوں"

رامش کو کمرے میں چھوڑ کر وہ اب اپنے کمرے میں آ گئی تھی  اسے پتا تھا کہ آیت ادھر ہی ہوگی

"آیت کیسی ہو؟ اور اتنی صبح کیسے آگئی اور بتایا بھی نہیں"

"ہاں بس کل آخری پیپر تھا تو سوچا گھر چلی جاؤں"

"تم روتی رہی ہو"؟ فاطمہ نے اسکے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا جو وہ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی...

"نہیں تو" آیت نے بیڈ سے اٹھتے ہوئے کہا

"اچھا پھر تمہاری آنکھیں کیوں لال ہو رہی ہیں؟"

فاطمہ نے بازو سے پکڑ کر اسے اپنی طرف کرتے ہوئے پوچھا

آیت نے سوچا کہ اگر اسے ابھی سارا کچھ بتایا تو یہ پریشان ہو جائے گی اور ابھی اسکے پیپر بھی مکمل نہیں ہوئے

"نہیں نہیں  ابھی نہیں بتا سکتی" اس نے سوچا 

"یار وہ ابو کی وفات کے بعد پہلی دفعہ گھر آئی ہوں نا بس اسی لیے"

"میری جان بس جو میرے مالک کی مرضی...وہ اللہ‎ کی امانت تھے جن کو انہوں نے واپس لے لیا تم پریشان نہیں ہو" اس نے آیت کو تسلی دیتے ہوئے کہا

"ٹھیک کہ رہی ہو تم"

'اوہ! یار میں تو ناشتے کا بھول ہی گئی تم چینج کرو میں ناشتہ لگاتی ہوں"

"ویسے ایک بات بتاؤ؟"

(سنجیدگی سے پوچھا گیا تھا)

آیت واش روم کی طرف بڑھتی ہوئی رکی 

"ہاں پوچھو؟"

"یہ اتنا پیارا فوجی کہا سے ملا؟" ایک شرارتی مسکراہٹ اچھالی گئی

"اغوا کیا ہے" آیت چیخ کر کہتی واش روم میں چلی گئی

"تم سے تو میں بعد میں پوچھتی ہوں"

فاطمہ کہتی ہوئی کچن میں چلی گئی تھی...

کچھ دیر بعد آیت کپڑے بدل کر ڈرائنگ روم میں آئی جہاں رامش وضو کر کے جائے نماز ڈھونڈ رہا تھا

"کچھ چاہیے تھا "؟

آیت نے آہستہ سے پوچھا 

"ہاں !جائے نماز چاہیے تھی"

"میں دوسرے کمرے سے لاتی ہوں ادھر شاید نہیں ہے"

آیت جائے نماز دینے کے بعد اب برتن لگانے لگی تھی 

رامش کو نماز پڑھتا دیکھ کر وہی رک گئی... کتنا سکون تھا اسکے چہرے پر  جیسے اسکے پورے چہرے پر نور ہی نور تھا ...جو لوگ خدا کے لیے اپنی جان ہر وقت قربان کرنے کو تیار رهتے ہیں...جو لوگ خدا سے محبت کرتے ہیں...خدا انکو نور عطا کرتا ہے...کتنے پیارے ہوتے ہیں نہ یہ لوگ جن کو دنیا سے کوئی غرض نہیں...انکا ہر وعدہ خدا سے ہوتا ہے وہ خدا کے بندوں کی حفاظت کرتے ہیں اور پھر خدا انکو اتنی طاقت عطا کرتا ہے کہ انکا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا... انکے ناموں سے دشمن ممالک بھی کانپ اٹھتے ہیں اور ایک ہم لوگ ہیں جو امیدیں انسانوں سے لگاتے ہیں اور انہی کے ہاتھوں ٹوٹتے رهتے ہیں

"آیت" رامش کی آواز پے وہ پلٹی اور اور دیکھا وہ نماز بھی پڑھ چکا تھا اور وہ ابھی تک انہی سوچوں میں گم تھی

"جی "

آیت نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا تھا 

"ادھر آؤ...یہاں بیٹھو"

رامش نے ساتھ والے صوفہ کی طرف دیکھتے ہوئے اشارہ کیا

"آیت مجھے نہیں پتا تمہے کیا پریشانی ہے لیکن پارک میں میں نے تمہیں خدا سے دعا کرتے دیکھا تھا...اس دعا میں دعا کم اور شکوہ زیادہ تھا...میں بس یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اگر یہ تم پر کوئی آزمائش ہے تو تمھے شکوہ کرنے کے بجائے صبر کی توفیق مانگنی چاہیے کیوں کہ اللہ‎  نے فرمایا ہے کہ وہ انہی بندوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے جن کو وہ خود سے قریب کرنا چاہتا ہے اور جو بندے آزمائش میں ثابت قدم رهتے ہیں وہی اسکے پسندیدہ بندوں میں شامل ہوتے ہیں

آیت آنسوؤں کے سمندر کو حلق میں اتار رہی تھی لیکن اب اسکی برداشت جواب دینے لگی تھی.

جاری ہے                       


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Wahshat E Ishq  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Wahshat E Ishq  written by Rimsha Mehnaz  . Wahshat E Ishq    by Rimsha Mehnaz  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages