Meri Muhabbaton Ko Qarar Do Novel By Maha Abid Episode 7 to 8 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 29 January 2023

Meri Muhabbaton Ko Qarar Do Novel By Maha Abid Episode 7 to 8

Meri Muhabbaton Ko Qarar Do Novel By Maha Abid Episode 7 to 8 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Meri Muhabbaton Ko Qarar Do By Maha Abid Episode 7'8

Novel Name: Meri Muhabbaton Ko Qarar Do

Writer Name: Maha Abid 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

شادی کی تقریب کے بعد سب اپنی اپنی لائف میں بزی ہوگئے تھے-"  

عشما زوار, مشا حمزہ دو دن بعد ہی اپنے ہنی مون پر کاغان, مری, روانہ ہو گئے تھے,

 شانزے کے اپنے کالج میں پیپر اسٹارٹ ہو گئے تھے وہ آج کل ان میں بزی تھی-'" 

اور ابھی بھی وہ اور زویا کلاس سے آخری پیپر دے کر باہر نکلی تھی-" 

جب ایک دم سے کالج کے باہر بھاگ ڈر مچ گئی, زور شور سے فائرنگ ہو رہی تھی فائرنگ کی آواز کانوں کو چیرتی ہوئی,  

دل دہلا دینے والا منظر پیش کیا جا رہا تھا-" 

ہر طرف افراتفری کا عالم تھا-"

 زویا شانزے کو کھینچتے بھاگ رہی تھی کہ  پورے کالج کے اسٹوڈنٹ جو گراؤنڈ میں ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے کہ شانزے اور زویا کا ہاتھ چھوٹ گیا اور شانزے کسی سے ٹکرا کر نیچے گر گئی تھی-" 

_________________________

عائشہ بیگم نماز پڑھ کے صوفے پر بیھٹی تھی, جہاں رمشا اور کشف بیگم ٹی وی لگائے شو دیکھنے میں لگی ہوئی تھیں کہ شہوار نے چینل تبدیل کیا تو عائشہ بیگم نے ہڑبڑا کر شہوار سے ریموٹ کھینچ  لیا-"

 تو سب کی سانسیں ٹی وی اسکرین پر منظر دیکھ کر تھم سی گئیں تھیں-" 

جہاں شانزے کے کالج کے باہر اور اندر کا دل دہلا دینے والا منظر دیکھایا جا رہا تھا-"

 نظرین آپ سب دیکھ رہے ہیں, یہاں پر کیسے دہشت گردوں نے پورے کالج کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے, 

مسلسل فائرنگ ہو رہی ہے ہر کوئی اپنی جان بچا کر بھاگ رہا ہے, 

وہیں کچھ اسٹوڈنٹ جو چوری چھپے بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے, 

پکڑے گئے اور دہشت گردوں نے ان کے سینے  گولیوں سے چھلنی کر دیے-" 

نیوز  اینکر چیخ چیخ کر اپنی بات دہرا رہی تھی-"

 یہ نیوز سن کر عائشہ بیگم کھڑے قد سے زمین بوس ہو کر گر گئیں-"

 سب ہی فورًا سے ان کی طرف متوجہ ہوئے-" بھابھی اٹھئیے-"

 رمشا بیگم نے بے ہوش عائشہ بیگم کا چہرہ تھپتھا رہیں تھی,

 وہیں کشف بیگم عائشہ بیگم کے ہاتھ پاؤں سہلا رہی تھیں-' 

شہوار, کے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے کہ یہ سب منٹوں میں کیا سے کیا ہو گیا ہے-

" مما"  شہوار کو ایک دم سے صدف پھپھو کا خیال آیا جو کمرے میں سر درد کی گولی لے کر لیٹی تھیں-" کمرے کی طرف بھاگی-" 

مما" مما اٹھئیے جلدی-' شہوار نے جھنجوڑتے ہوئے اٹھایا-"

 اس اچانک افتاد ہر صدف بوکھلا کر اٹھ بیٹھی-"

 کیا ہوا ہے شہوار کیوں شور مچا رہی ہو-"  مما وہ مامی کو پتا نہیں, شانزے -'

 شہوار کے منہ سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ سن کو صدف پھپھو بھی جلدی سے لاؤنج میں آئیں, جہاں رمشا اور کشف بیگم عائشہ بیگم کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہیں تھی-'"

 کیا ہوا ہے" عائشہ بیگم کو اس طرح بے ہوش دیکھ کر صدف بیگم کو بھی پریشانی ہوئی تو رمشا بیگم نے انہیں بتاتے ساتھ ہی آفس میں احسن اور حسن صاحب کو فون کر کے فورًا سے جلدی گھر بلایا-" 

___________________________

شانزے گراؤنڈ میں گری اس سب صورتحال سے سہمی بیٹھی ہوئی تھی, لاکھ شرارتیں, مستی سہی ہر اس قسم کی خوفناک صوتحال دیکھ کر کوئی بھی اندر تک کانپ سکتا ہے-"

 اٹھو جلدی' سر اشعر نے جلدی سے شانزے کو اٹھایا, شانزے نا سمجھی سے ان کے چہرے کی طرف دیکھ رہی تھی-"

 سر اشعر نے جب شانزے کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں ڈر, خوف سے وہ نا سمجھی سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی تو سر اشعر سمجھ گئے کہ شانزے ڈر گئی ہے اور ان کی بات نہیں سمجھ پا رہی-"

 سر اشعر خود ہی شانزے کو لے کر ایک طرف بھاگنے لگے تھے-"

 شانزے کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے-" 

کہ جب ایک دہشت گرد پتا نہیں کہاں سے نکال آیا اور شانزے کو کھینچ کر اس کی کان پٹی پر پستول رکھ دیا-" 

اور شانزے پسٹل کو خود پر تانے دیکھ کر اپنے ہوش حواس قابو میں نہ رکھ سکی,

 وہ جو پہلے ہی اس سچوئشن سے بہت گھبرائی ہوئی تھی, 

کسی کی بانہوں میں جھول گئی-"

 اس کے بعد کیا ہوا اسے کچھ خبر نہیں تھی-"

____________________________

احسن اور حسن صاحب فورًا سے جلدی ڈاکٹر کو لے کر گھر آگئے تھے,

 جہاں ڈاکٹر صاحب عائشہ بیگم کو دیکھ کر چلے گئے تھے, 

وہیں احسن اور حسن صاحب بھی بہت پریشان تھے, حسن صاحب کا اپنا بھی دل بہت گھبرا رہا تھا,

 ان کے جگر کا ٹکڑا تھی, شانزے میں تو سب گھر والوں کی جان تھی,

 احسن صاحب حسن صاحب کی بھی بگڑتی حالت دیکھی تو انہیں حوصلے دیتے, 

احسن صاحب  نے کالج سے پتا کروایا تو انہوں نے بتایا کہ دہشت گرد اپنے ساتھ ساتھ کچھ گرلز کو بھی اغواء کر کے لے گئے ہیں-" 

اور جب یہ بات گھر میں سب کو پتا لگی تو سب کی جان حلق میں آگئی تھی-" 

حسن صاحب منٹوں میں ہی بوڑھے لگنے لگے تھے-"

 پورے ہمدانی ہاؤس میں اس وقت سوگوارہت پھیلی ہوئی تھی, 

سحر بیگم اور سلمان صاحب جو اپنے بھائی کے گھر رہنے کے لیے گئے ہوئے تھے وہ بھی آگئے تھے-"

  عائشہ بیگم کی حالت بھی رو رو کر بہت خراب تھی, رمشا اور کشف بیگم کا بھی حال مختلف نہیں تھا, 

پر عائشہ بیگم کی حالت دیکھتے سب خون کے آنسو رو رہے تھے-'"

___________________________

اندر آتے اس کی نظر بیڈ پر بے ہوش بند آنکھوں والی اس پری پیکر پر پڑی,

 جس میں اس کی جان تھی, اس کی سانسوں کی ڈور تھی-"

 وہ قدم قدم چلتا ہوا بیڈ تک آیا اس کے سرہانے بیٹھ کر اس کے براؤن سلکی بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا-"

 شکر ہے کہ اس نے تمہیں اغواء نہیں کروا لیا, جب مجھے پتا چلا کہ پاشا کی نظر تم پہ بھی ہے میری روح کانپ گئی تھی,

 پر اس سے پہلے ہی مجھے تمہارے لیے خطرہ مول لینا پڑا اور تمہیں کالج سے اغواء کروانا پڑا-"

اب دیکھنا تم میری جان میں اس پاشا کا کیا حشر کرتا ہوں اس کی آنکھیں نوچ کر  نہ نکال دیں تو میرا بھی نام غازی نہیں-"

 آئندہ کبھی کسی کی طرف دیکھنے لائق نہیں چھوڑو گا-'"

 غازی نے سوئی ہوئی شانزے کی طرف دیکھتے غصے سے کہا-" 

پر اس وقت شانزے اس کے پاس تھی, اس لیے وہ زیادہ دیر تک خود پر غصہ نہ رکھ سکا, اور سر جھٹک کر پوری طرح سے شانزے کی طرف متوجہ ہو گیا-"

  غازی کی  نظر شانزے کے مرمریں موم سے ہاتھ پر گئی تو اس کا دل چاہا کہ شانزے کو خود میں سمیٹ کر پوری دنیا سے چرا لے, پر اس وقت غازی نے اپنے جذبات پر کنڑول رکھتے,  شانزے کا ہاتھ پکڑ کر اپنے مضبوط ہاتھوں میں لیتے لبوں سے لگایا-" 

اس وقت غازی مکمل طور پہ دیوانہ وار مہبوت سا شانزے  کے چہرے کی طرف دیکھتے, اس کے بالوں میں آہستہ آہستہ ہاتھ چلا رہا تھا-"

 پر شانزے خود پر غازی کی محبت لٹاتی نظروں  سے بے خبر تھی-"

____________________________

وہ آفسیر کہاں ہے-' ایک سینئر آفسیر نے اس شخص کی طرف دیکھتے پوچھا-"  

سر وہ انہی کی گینگ میں ہے ان کی پل پل کی پورٹ ہمیں مل رہی ہے-"

 اس شخص نے آداب سے اپنے سینئر آفیسر کا احترام کرتے عزت سے جواب دیا-"

 ٹھیک اور جو کالج سے گرلز اغواء ہوئیں ہیں-" سینئر آفیسر نے پوچھا-"

 ان لڑکیوں کی  گاڑی  ہمارا ہی ایک آدمی ڈرائیو کر رہا تھا اس نے انہیں بچا لیا ہے اور وہ اب سیو ہیں,

 ان سب لڑکیوں کے گھر والوں کو بھی اطلاع کر دی گئی ہے-" 

اس شخص نے ڈیٹیل سے ساری بات بتائی-" اور تمہارے گھر میں بتایا ہے کہ نہیں-" 

سینئر آفیسر نے کہا-" نہیں سر ابھی نہیں بتایا مامی کی طعبیت بہت خراب ہے-"

 دیکھو شہیر حسن اور احسن میرے بہت اچھے دوست ہیں, 

اور شانزے بیٹا جس طرح سے اغواء ہوئی ہے عائشہ بھابھی کی طعبیت مزید خراب ہو سکتی ہے اس سے بہتر ہے کہ تم گھر میں انہیں ساری بات بتاؤ-'

 انہیں پتا ہونا چاہیے حالت کچھ بھی ہو سکتے ہیں,

مزید بھی بگڑنے کا کچھ اندیشہ ہو سکتا ہے-" اور شانزے ان کے پاس ہے,

اور وہ پاشا کچھ بھی کر سکتا ہے-"سینئر آفیسر نے موجودہ حالت شہیر یزدانی کو بتاتے ہوئے کہا-"

 جی سر میں آج ہی گھر میں سب کو بتا دیتا ہوں-"

 شہیر یزدانی نے جواب میں کہا تو چند ایک باتوں کے بعد شہیر کمرے سے نکل گیا-"

_____________________________

عشما‘ زوار مری کے ایک ہوٹل میں تھے۔ جہاں عشما کمرے کی بالکونی میں کھڑی باہر کا پر حسین منظر دیکھنے میں مگن کھڑی تھی۔ جب پیچھے سے زوار نے آکر عشما کو اپنے حصار میں لے لیا۔

’’ اُف۔۔۔۔ف۔۔۔۔ اللہ آپ ہیں‘ ڈرا دیا۔‘‘ عشما زوار کے خود کے اتنے قریب دیکھ کر سرخ ہو گئی۔

’’ کیا میری پرنسس بیوی‘ میں ہوں۔ میرے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے۔‘‘ زوار نے عشما کے بالوں میں اپنا چہرہ چھپاتے کہا۔

’’یہ کتنا حسین منظر ہے نا۔‘‘عشما نے زوار سے کہا۔

’’ہاں‘ حسین ہے پر میری بیوی سے زیادہ پیارا نہیں۔‘‘ زوار محبت سے پر بوجھل گھمبیر آواز میں کہتے اسے اندر بیڈ تک لے گیا۔

عشما ہلکا سا منمنائی پر زوار نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر چپ کروا دیا‘اور عشما کو اپنے مزید قریب کر لیا۔

_____________________________

وہ آہستہ آہستہ ہوش میں آرہی تھی۔   آنکھیں کھولتے اس کی نظر اپنے سرہانے بیٹھے غازی پر پڑی۔ جس نے اپنے ہاتھوں میں اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ غازی کی شاید ابھی ہی آنکھ لگی تھی۔  ایک جھٹکے سے شانزے نے اپنا ہاتھ غازی کے ہاتھ سے چھڑوایاتو غازی کی آنکھ کھول گئی۔

’’آپ کون ہیں؟‘‘شانزے نے غازی کی طرف دیکھتے پوچھا۔

’’ شکر ہے کہ تمہیں ہوش آگیا۔ ورنہ میں ڈر رہا تھا کہ اب تک ہوش کیوں نہیں آرہا تمہیں۔‘‘ غازی نے اس کے سوال کے بدلے میں جواب دیا تو شانزے نے ایک گھوری سے غازی کو گھورا اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔

’’ مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے۔ یہ کون سی جگہ ہے؟‘‘ شانزے نے اس شاندار سے کمرے کی طرف دیکھتے کہا۔

 کمرہ بہت ہی خوبصورتی اور نفاست سے سجایا گیا تھا۔ کمرے کی در و دیوار سے نفاست جھلک رہی تھی۔ شانزے   پورے کمرے میںاپنی تصاویردیکھ کر حیران ہورہی تھی۔ بچپنسے لے کر جوانی کی  ہر تقریب کی تصاویر  سے پورا کمرہ بھرا ہوا تھا۔ یہاں تک کے کمرے کی گھڑی پربھی اسی کی تصویر تھی۔

’’ یہ سب کیا ہے؟‘‘شانزے کے ایک بار پھر حیرت سے غازی کے چہرے کی طرف دیکھتے پوچھا۔ جو اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہا تھا۔

’’ میں ایک دہشت گرد ہوں‘ اور تم اغواء ہو گئی ہو۔‘‘غازی نے سکون   سے اس کے حیرت زدہ چہرے کی طرف دیکھتے جواب دیا۔

’’کیا........ کیا........ کیا.... اغواء ہو گئی۔‘‘  شانزے کو یہ سن کر جھٹکا لگا کہ وہ اچھل کر کھڑی ہو گئی۔ 

’’ ہاں جی تم اغواء ہو گئی ہو۔‘‘غازی نے پھر سے اپنی بات دھراتے جواب دیا۔

’’ مجھے ایک دہشت گرد نے اغواء کر لیا‘ہاؤ۔۔۔۔  رومنٹیک‘ مطلب آپ ایک دہشت گرد اور مجھے ایک دہشت گرد نے اغواء کیا ہے۔‘‘ وہ بچوں کی سے خوشی سے سرخ ہوتے چہرے سے بولی۔

’’اف۔۔۔ف۔۔۔۔ یہ پاگل لڑکی اغواء ہو کر خوش ہورہی ہے۔ لوگ اغواء ہو کر روتے ہیں چیختے ہیں چلاتے ہیں۔ ایک یہ ہے میری محبت‘ میری زندگی‘ میری پاگل سی جان خوش ہو رہی ہے۔‘‘ غازی نے افسوس سے سر ہلاتے اس کے خوشی کے دہمکتے چہرے کی طرف دیکھتے سوچا۔‘‘

’’یہ تصویریں کہاں سے آئیں؟‘‘ اب کی بار شانزے کے اندر خطرے کی گھنٹی بجی۔’’ سر اشعر وہ..... وہ کہاں ہیں؟ وہ میرے ساتھ وہی تو تھے۔‘‘غازی نے شانزے کے رونے والے چہرے کی طرف دیکھا جو سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اب کی بار غازی کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا جواب دے۔

________________________

’’غازی جلدی سے ٹی وی لگاؤ۔‘‘عمر بھاگتے ہوئے غازی کی طرف آیا۔

’’کیا ہوا ہے اتنا ہانپ کیوں رہے ہو؟‘‘ غازی نے عمر کے پسینہ پسینہ ہوتے چہرے کی طرف دیکھتے کہا جو گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔

’’پاشا نے کراچی میں دھماکہ کروا دیا ہے۔کیوں کہ اس نے جو کالج سے لڑکیاں اغواء کی تھیں۔وہ راستے سے ہی غائب ہو گئیں ہیں۔  اس نے بدلے میں یہ دھماکہ کروا دیا ہے۔‘‘ عمر نے بالآخر غازی کے سر پر بمب پھوڑتے کہا‘ اور خود جلدی سے ٹی وی لگایا۔

شانزے پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ سب دیکھ رہی تھی۔ غازی جو اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ عمر کے اچانک سے کمرے میں آنے میں اس کا دھیان شانزے کی طرف سے ہٹ گیا تھا۔ شانزے کی نظر غیر اداری طور پہ ٹی وی اسکرین پر گئی۔ جہاں کراچی کے سینما ہال میں دھماکے کے منظر دیکھائے جا رہے تھے۔ ٹی وی اینکر چیخ چیخ کر سن نیوز سنا رہا تھا۔ دھماکے میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد چار سو سے زیادہ کے لگ بھگ تھی۔ شانزے کے چہرے کا رنگ خطرناک حد تک لٹھے کی مانند سفید ہو گیا تھا۔ اسی پل   اسکرین پر خون سے لت پت زخمی لوگوں کی کو دیکھایا جا رہا تھا۔ شانزے یہ سب دیکھ نہ  پائی اور اگلے ہی پل لہرا کر زمین پر گر پڑی۔ دھم کی آواز پر عمر اور غازی جو ٹی وی اسکرین پر دیکھ رہے تھے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں زمین پر شانزے بے ہوش گری ہوئی تھی۔ غازی لپک کر شانزے کی طرف آیا۔

’‘’شانزے اٹھو۔‘‘غازی نے اس کا چہرہ تھپتھپا تے کہا۔ عمر کو افسوس ہوا کہ اسے اس طرح سے کمرے میں آکر یہ سب نہیں بتانا چاہیے تھا۔’’ شانزے پلیزمیری جان اٹھو۔‘‘غازی دیوانہ وار اسے جھنجھوڑ رہا تھا۔

’’ غازی ہوش کرو۔ بھابھی کو بیڈ ہر لیٹاؤ۔ میں ڈاکٹر کو فون کرتا ہوں۔‘‘" عمر نے غازی کو کہتے ہوئے ساتھ اس کا کندھا ہلایا اور خود باہر ڈاکٹر کو فون کرنے چلا گیا۔ غازی نے جلدی سے شانزے کو اپنی بانہوں میں اٹھا کر بیڈ پر لٹایا‘ اور اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ایک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بیٹھا شانزے کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔

__________________________

عائشہ بیگم نماز پڑھنے کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے شانزے کے لیے دعا کرتے رو رہی تھیں۔’’ یااللہ میری بچی کو آپنے حفظ و امان میں رکھنا۔ وہ پتا نہیں کس حال میں ہو گی ۔یااللہ میری شانزے بہت ناسمجھ ہے اس کی عزت کی حفاظت فرما مولا۔‘‘عائشہ بیگم دعا مانگتے شدت ضبط سے رو پڑی تھیں۔ احسن صاحب جو ابھی ابھی کمرے میں داخل ہوئے تھے۔ فوراً سے لپک کر عائشہ بیگم کے پاس آئے اور انہیں سنبھا لنے لگے۔

’’ بس کریں عائشہ ‘اس طرح رو رو کر آپ کی طبیعت مزید خراب ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر نے آپ کو اسٹریس لینے سے منا کیا ہے۔‘‘ حسن صاحب نے انہیں کندھوں پکڑکر اٹھاتے بیڈ تک لے آئے۔سائیڈ ٹیبل سے پانی کا  گلاس عائشہ بیگم کو تھمایا۔

’’ حسن میری پھول سی بچی پتا نہیں کہاں‘کس حال میں ہوگی ؟‘‘ عائشہ بیگم نے دو گھونٹ پانی کے پیئے اور حسن صاحب سے کہا۔

’’ عائشہ اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ ہماری بچی کو کچھ نہیں ہو گا۔‘‘حسن صاحب کا اپنا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔  وہ ضبط کی آخری حدوں کو چھوتے ہوئے  عائشہ بیگم اپنی شریک حیات کو تسلی دے رہے تھے۔

_____________________

جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

 Meri Muhabbaton ko Qarar Do Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Meri Muhabbaton Ko Qarar Do written by Maha Abid . Meri Muhabbaton Ko Qarar Do  by Maha Abid is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages