Mohabbat Meri Junoon Tera By AS Rajpoot Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 10 November 2024

Mohabbat Meri Junoon Tera By AS Rajpoot Complete Romantic Novel

Mohabbat Meri Junoon Tera By AS Rajpoot Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Mohabbat Meri Junoon Tera By AS Rajpoot Complete Romantic Novel 

Novel Name: Mohabbat Meri Junoon Tera

Writer Name: AS Rajpoot 

Category: Complete Novel

میں تمہیں کتنی بار کہہ چکا ہوں کہ میری ڈیمانڈ پوری کرو.. نہیں تو تم جانتی ہو کہ میں کیا کرسکتا ہوں.. 

تمہیں یہ بھی نہیں پتہ چلے گا کہ تمہارے ساتھ ہوا کیا ہے.. 

اونچی کرسی پر ٹانگوں کو پھلائے شراب کے گلاس پر گلاس ختم کرتے ہوئے وہ لیڈی بینا کو کہہ رہا تھا

  سرخ چمکیلا سکرٹ  پہنے جو کمر سے ٹائٹ ہونے کی وجہ سے اس کے ابھار پن کو واضح کر رہا تھا.. لیڈی بینا  کیلیفورنیا کی سب سے بڑی جسم فروش کرنے والی عورت تھی جس کے پاس مجبور لڑکیاں لاتعداد تھی جو اپنے ملک سے نوکری کرنے دوسرے ملکوں میں آتی تھیں لیکن کام نا ملنے کی وجہ سے وہ گھر کے حالات کو دیکھتے ہوئے اس کام میں پڑ جاتی تھیں.. .. وہ سب لڑکیاں لیڈی بینا کے پاس آتی تھیں.. 

تم اچھے سے جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کبھی مایوس نہیں کیا لیکن اب ایسی کوئی لڑکی نہیں ہے جو آج رات میں تمہارے لیے تیار کروں.. اور ویسے بھی تمہارے تشدد کی وجہ سے کوئی بھی اب تمہارے پاس آنے کو تیار نہیں ہوتیں. .. لیڈی بینا نے بے زاری سے کہا.. 

کلائی میں باندھے تین رنگ کے دھاگوں کو  جو اس کی کلائی پر ہمیشہ نظر آتے تھے اس کو گول گول گھماتے ہوئے وہ لیڈی بینا کی بات سن رہا تھا.. 

تم کچھ کہو گے نہیں.. لیڈی بینا اس کی خاموشی سے گھبرا گی… 

مارک نے آنکھوں میں غصہ لیے لیڈی بینا کی طرف دیکھا انکار اسے پسند نہیں تھا اور ہار کبھی اس نے مانی نہیں تھی.. اور بینا اسے اپنے الفاظ میں انکار کر چکی تھی.. 

تم جانتی ہو کہ تم کیا کہہ رہی ہو.. مارک نے اگے بڑھ کر لیڈی بینا کی ٹانگ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے اپنی گرفت کو مضبوط کیا جس سے لیڈی بینا درر سے بلبلا اٹھی.. 

 وہ میرا تشدد نہیں میرے جذبات کا پاگل پن ہوتا ہے جو ہر لڑکی اس کے لیے ترستی ھے اور تم میرے جذبات کو تشدد کہہ رہی ہو آئیندہ مجھ سے اس قسم کی بات نا کرنا اور آج رات کو میرے پاس لڑکی کو بھیج دینا سمجھ آئی.. 

مارک لیڈی بینا کی ٹانگ پر زور دیتے ہوئے اگے کو جھکا مارک کی آنکھوں میں اتنی وحشت تھی کی لیڈی بینا سانس لینا بھول گی.. وہ. بس اثبات میں سر ہلا سکی.. 

بینا کے جواب کے بعد مارک نے گلاس میں پڑی شراب کو ایک ہی گھونٹ میں پیا اور اٹھ کھڑا ہوا.. 

بینا اپنی ٹانگ کو مسلتی ہوئی مارک کی طرف دیکھ رہی تھی.. جہاں مارک کے انگلیوں کے نشان پڑ چکے تھے. 

کہاں جا رہے ہو سویٹ ہارٹ کبھی ہمیں بھی یاد کر لیا کرو.. 

کیفے کی رونق جوئی.. مارک کے سامنے کھڑی تھی جب وہ واپس جانے کے لیے موڑا.. 

چست شارٹ پہنے  جس کے اردگرد ایک موٹی چین لٹک رہی تھی اوپر بلیو کلر کی بیک لیس شارٹ ٹاپ پہنے جوئی نے آگے بڑھ کر مارک کے گلے میں بانہیں ڈالی.. 

مارک نے جوئی کو ناگوار نظر سے دیکھا.. 

میرا رستہ چھوڑو جوئی.. مارک نے اس کی صراحی جیسی کمر پر اپنے دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے جوئی کو سائیڈ پر کرنے کی کوشش کی لیکن جوئی وہاں سے زرا برابر بھی نہیں ہلی.  

کیوں تمہیں مجھ سے کیا مسئلہ ہے میں اس کیفے کی جان ہوں اور تم میری طرف ایک نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے کیا میں اتنی بری ہوں.. جوئی نے مارک کی بےرخی کو دیکھتے ہوئے اس کے مزید قریب آئی. 

جوئی کی بات پر مارک نے ایک جھٹکے سے جوئی کو کمر سے پکڑتے ہوئے اپنے ساتھ لگایا.. اور وحشت زائدہ آنکھوں سے جوئی کی طرف دیکھا.. جوئی خوش ہو گی کہ آج تو مارک اس پر مہربان ہو ہی جائے گا.. لیکن ایسا نہیں ہوا.. 

تم جانتی ہو کہ میرا سٹینڈرڈ ابھی اتنا لو نہیں ہوا کہ میں سیکنڈ ہینڈ چیزوں کو استعمال کروں… مارک کے منہ سے نکلے الفاظ سے جوئی کا رنگ پیلا پڑ گیا آج تک کسی نے اس کی اتنی بےعزتی نہیں کی تھی.. بات ختم کرتے ہوئے مارک جوئی کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا جہاں اسے جلتے ہوئے انگارے نظر ارہے تھے.. 

جوئی نے فوراً مارک کے ہاتھوں کو پیچھے کیا جو اس کی کمر پر حصار بنائے ہوئے تھے.. 

جوئی کے اس ریکیشن پر مارک کے چہرے پر ایک غرور کی ہنسی پھیل گئی.. اس نے اپنی شرٹ کو ٹھیک کیا اور کیفے سے باہر جانے کے لیے موڑا.. 

تمہیں تمہارا یہ غرور ایک دن لے ڈوبے کا مارک یاد رکھنا.. باہر جاتے ہوئے مارک کو جوئی نے پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا.. 

جوئی کی بات کو اگنور کرتے ہوئے مارک نے گاڑی کا لاک کھولا اور اپنے اگلے سفر پر روانہ ہو گیا.. 

➖➖➖➖➖➖

لوس اینجلس کیلیفورنیا شہر جہاں کی روشنی اور خوبصورتی کو ہم جتنا آنکھوں میں سمیٹنا چاہیں اتنا کم ہے…

لوس اینجلس میں ہر پوائنٹ پر نائٹ کلب روف بار اور پارٹیوں کی ہلچل لگی رہتی ہے.. کوئی نائٹ کلب جا رہا ہوتا ہے تو کوئی میوزک سننے کسی فنکشن پر.. 

ایسی ہی ایک نائٹ روف بار پر پارٹی چل رہی تھی رات کے دس بجنے والے تھے مہمانوں کی آمد جاری تھی.. 

ماحول او موقع کی مناسبت سے ہر ایک نے الگ دکھائی دینے کے لئے مختلف طرز کا لباس پہنا ہوا تھا.. 

ہر مہمان ایک کپل کی شکل میں آتا.. اور آتے ہی شراب ڈرنک کا سلسلہ شروع ہو جاتا… 

آپ کو انوایئٹ کیا گیا ہے کیا… آپ اپنا نام بتا دیں.. گیٹ پر گارڈ نے اسے اندر آنے سے روکا.. 

بلیک کلر کا  فل لونگ گون پہنے جس کا ڈیزائن مکسی کی طرح لگ رہا تھا.. ہاتھ میں پرس پکڑے وہ گیٹ کے پاس کھڑی تھی. جب گارڈ نے اسے اندر آنے سے روکا.. 

مجھے انویٹیشن کی ضرورت نہیں ہے اندر جانے دو مجھے.. اس نے بڑے رعب دار آواز میں گارڈ کو کہا.. 

ایم سوری میڈم ہم آپ کو ایسے اندر جانے نہیں دے سکتے ہمیں سختی سے کہا گیا ہے.. گارڈ نے بڑے نرم لہجے میں اس سے کہا… 

دیکھو تم مجھے یہاں روک کر غلطی کر رہے ہو.. روکو میں ابھی کال کرتی ہوں پھر تمہاری جاب سے چھٹی.. 

اس نے جلدی سے اپنے پرس میں رکھے موبائل-فون کو نکلا اور اس پر نمبر ڈائل کرتے ہوئے گارڈ سے تھوڑا دور چلی گی.. 

تمہیں ایک کام کہا تھا وہ بھی تم نے ٹھیک سے نہیں کیا اب میں اندر کیسے جاؤ وہ لوگ مجھے اندر نہیں جانے دے رہے.. وہ فون پر بری طرح کسی کو ڈانٹ رہی تھی.. 

جلدی کرو جو بھی کرنا ہے.. یہ کہتے ہوئے اس نے فون بند کر دیا.. اور اپنے بالوں کو ہاتھوں سے سیٹ کرتے ہوئے خود کو ریلیکس کیا اور دوبارہ گیٹ کی طرف چلی گی گارڈ نے اسے دوبارہ آتے دیکھ کر ابھی کچھ کہنے والا تھا کہ اندر سے ایک لمبے قد کا بلیک مین باہر آیا.. 

ہیلو.. مس صوفیا.. کم ان.. بلیک مین نے اگے ہاتھ بڑھا کر صوفیا کو اندر آنے کا کہا.. 

صوفیا نے اندر جاتے ہوئے گارڈ کی طرف دیکھا جو شرمندگی سے منہ نیچے کئے کھڑا تھا.. 

صوفیا اس بلیک مین کا ہاتھ پکڑے بڑی نزاکت سے سیڑھیاں چڑ رہی تھی.. بلڈنگ کے اوپر روف پر آتے ہی صوفیا کی آنکھیں کھول گی اس نے آج سے پہلے اس طرح کی پارٹی نہیں دیکھی تھی اس روف سے پورا لوس اینجلس دکھائی دے رہا تھا.. 

او مائی سوئٹ ہارٹ کم آن اینڈ جوائن ود اس…  ایک گورے نے آگے بڑھ کر صوفیا کا ہاتھ بلیک مین کے ہاتھ سے لیا اور پارٹی میں موجود لوگوں کے درمیان لے گیا.. 

ہر کوئی ہاتھ میں ڈرنک لیے چلتے ہوئے گانوں پر مست تھا.. اور یہی اچھا موقعہ تھا صوفیا کے لیے جس کام کے لئے وہ یہاں آئی تھی.. 

میم will you have a drink. ویٹر نے صوفیا کو ڈرنک کی آفر کی صوفیا نے ڈرنک کی جگہ کولا ڈرنک کا گلاس اٹھا لیا.. اور چلتے ہوئے تمام لوگوں کا جائزہ لینے لگ گی.. 

ہر ٹیبل کے پاس سے گزرتے ہوئے وہ ٹیبل پر کھڑے کپل کو ایک سمائل پاس کرتی اور ساتھ اپنا کام دیکھا کر  چلی جاتی.. 

یہ سلسلہ پارٹی ختم ہونے تک جاری رہتا اگر وہی بلیک مین جو صوفیا کو اندر لے کر آیا تھا اسے نا دیکھتا جب وہ ایک کپل کے پاس سے گزرتے ہوئے اس لڑکی کے. ہاتھ کا ڈیمانڈ براسلیٹ نا اتارتی.. 

بلیک مین نے فوراً سکیورٹی کو بتایا.. سیکیورٹی افسر نے صوفیا کی طرف دیکھا اس سے پہلے سیکیورٹی افسر اتنی بھیڑ مسے گزر کر صوفیا کہ پاس اتا صوفیا خطرے کو  بھانپ چکی تھی ہائی ہل کے ساتھ وہ بڑے بڑے قدم اٹھاتے ہوئے سیڑھیوں سے نیچے اتر رہی تھی اور بار بار پیچھے کی طرح دیکھ رہی تھی سکیورٹی گارڈ صوفیا کے. پیچھے ہی تھا.. 

سیڑھیاں ختم ہوتے ہی صوفیا نے جلدی سے اپنی ہائی ہل جوتی اتار کر ہاتھ میں پکڑی اور بجلی کی رفتار سے گیٹ سے باہر نکل آئی گیٹ پر کھڑا وہی گارڈ اسے یوں جاتے دیکھ رہا تھا لیکن وہ روک نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ تو مس صوفیا تھی لوس اینجلس کے بزنس مین کی بیٹی.. 

سٹاپ دیس گرل.. پیچھے آتے ہوئے سیکیورٹی کے بندے نے گارڈ کو کہا.. جو سمجھ نہیں پایا کہ وہ کیوں اسے روکے اتنے میں صوفیا ہاتھ میں جوتی پکڑے لوس اینجلس کی سڑکوں پر دوڑتی ہوئی سکیورٹی کے بندوں کی نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی.. 

آج تو بال بال بچ گی روشانی.. اس صوفیا نے تو کام خراب کر دیا اتنی جلدی پہچانی گی میں.. روشانی نے خود کو بچانے کے لئے ایک اندھیری گلی میں جاکر دیوار کے ساتھ ٹیک لگائی.. 

اب وہ گہرے سانس لے رہی تھی.. اتنا تو وہ بھاگ کر آئی تھی.. جس سے اس کی سانس پھول رہی تھی.. 

روشانی نے جلدی سے اپنا پرس کھولا جس کے اندر ڈیمانڈ اور گولڈ کا کافی مال جمع ہو چکا تھا.. 

مال کو دیکھتے ہی روشانی کے چہرے پر مسکراہٹ اگی.. اس نے بڑی خوشی سے پرس کو دوبارہ بند کیا اور سائیڈ پر رکھی ہائی ہل جوتی کو اٹھا اس سے پہلے وہ جانے کے لیے اٹھتی دوسری طرف سے کسی نے اس کی کنپٹی پر پسٹل رکھ دیا.. 

پسٹل کو کنپٹی پر محسوس کرتے ہی روشانی کے پاؤں تلے زمین نکل گی…  

آج بچ نہیں سکی تو روشانی…زلت لکھ دی گی ہے آج تیری قسمت میں.. اس نے دل میں سوچا.. اور خوف سے آنکھیں بند کر 

کھڑی ہو جاؤ… ایک بھاری بھرکم آواز نے روشانی کو چونکا دیا.  

تم…   تم باز نہیں آؤ گے آواز سنتے ہی روشانی نے خود کو سنھبالتے ہوئے ہادی  کو دیکھا.  

تم کیسے پہنچان لیتی ہو روشانی.. میں نے تو سوچا اس بار تمہیں ثابت کر دوں گا کہ تم مجھے نہیں پہچان سکتی.. 

ہادی نے یہ کہتے ہوئے پسٹل کو اپنے کمر کے پیچھے رکھا.. 

درمیان قد کاٹھ رکھتا ہادی اب روشانی کے سامنے اکر کھڑا ہو گیا جو روشانی کی ہر اچھے برے کام کا ساتھی تھا.. 

میں اڑتی چڑیا کے پر گن لیتی ہوں تو تم کیا چیز ہو.. روشانی اب بے فکری سے اٹھی اور جوتی پہنتے ہوئے ہادی کی طرف دیکھا جو اس کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی ہنسی کو کنٹرول کر رہا تھا.. 

کیوں ہنسی دبا کر رہے ہو میں نے کون سا تمہیں کوئی لطیفہ سنا دیا ہے چلو اب جلدی کرو یہاں سے نکلنا ہے ہمیں.. 

روشانی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ہادی کیوں ہسنی دبا کر کھڑا ہے لیکن وہ کبھی اپنی پلان کہ ناکامی پر شرمندہ نہیں ہوتی تھی.  

اس لیے تو تم آج پکڑی جانے والی تھی.. ہادی نے اب اونچا قہقہہ لگایا.. 

ہادی کی بات پر روشانی نے برا سا منہ بنایا اور کچھ کہے بغیر چلنے لگی.. 

اگنور کرو.. اوکے وہ تو صوفیا جلدی پہچانی گئی نہیں تو ابھی تک میں بہت سے لوگوں پر اپنا ہاتھ صاف کر چکی ہوتی.. 

روشانی باس کی طرح آگے بڑھتے ہوئے ہادی سے بات کرتے ہوئے آج کی پارٹی کے بارے میں بتا رہی تھی.. 

اس کی لمبی مکسی گاؤن بار بار اس کے چلنے میں روکاٹ بن رہا تھا.  

اففف..  ایک تو یہ لباس.. پتہ نہیں کیسے یہ گورے ایسا لباس پہن لیتے ہیں .. روشانی نے مکسی کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹا.. 

ہادی جیبوں میں ہاتھ ڈالے روشانی کی طرف مسکرا کر دیکھا جو عجیب سی حرکتیں کر رہی تھی اور وہ ایسا ہی تو کرتی تھی.. جب بھی پلان فیل ہوتا اس کا سب سے پہلے غصہ اس کے پہنے ہوئے لباس پر ہوتا.. اور وہ اج بھی ایسا ہی کر رہی تھی.. 

اب کہاں جا رہی ہو تم..  ہادی نے مسلسل چلتے ہوئے روشانی کو کہا.. کیوں کہ وہ کام پہلے کرتی تھی اور بتاتی بعد میں تھی.. 

باس نے ایک بہت ضروری کام دیا ہے آج رات ہی مکمل کرنا ہے.. روشانی نے اپنے پرس سے موبائل نکالا جس پر ایک ایڈریس تھا اس نے وہ ایڈریس گوگل پر ڈالا اور سڑک کی دوسری جانب دیکھا جہاں ایک پرانی سی ڈی شاپ تھی جس کو دیکھ کر لگتا تھا کہ جیسے یہ قدیم دور کی ہو.. اس کا لگا بورڈ اتر کر ایک طرف لٹک رہا تھا.. 

وہاں جانا ہے میں نے.. روشانی نے انگلی  سے اشارہ کرتے ہو ہادی کو بتایا.. 

تم نہیں ہم.. میں بھی تمہارے ساتھ چلو گا باس کا کام ہے کوئی چوک ہو گی تو یہاں ہی لوس اینجلس کیلیفورنیا میں تمہاری قبر کراس کے نشان کے ساتھ بن جائے گی.. ہادی بات کرتے ہوئے روشانی کے سامنے اگیا.. 

روشانی نے ہادی کی طرف دیکھا وہ جانتی تھی کہ یہ مانے گا تو نہیں اب اس کو ساتھ لے کر جانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے.. 

اوکے ٹھیک ہے.. لیکن میری کسی بھی حرکت میں تم مداخلت نہیں کرو گے.. روشانی نے اپنے باس کی کاپی کرتے ہوئے اپنی انگلی میں چابی گھماتے ہوئے کہا.. 

اوکے.. اب چلو…  ہادی نے کہا اور وہ دونوں اس شاپ کی طرف چل پڑے جہاں روشانی کا میشن ٹو مکمل

 ہونےوالا تھا.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

مارک کی ڈیلی لائف سٹائل میں یہ شامل تھا کہ وہ روزانہ صبح سات بجے جم جاتا تھا.. آج بھی وہ جم میں موجود تھا.  

سلیو لیس شرٹ پہنے ویٹ لفٹنگ کر رہا تھا چہرے پر سنجیدگی لیے وہ پندرہ کلو کے ڈمبل اٹھائے اپنے بازوؤں کے پٹھوں کو اور مضبوط کر رہا تھا… 

اس کا چوڑا سینا اور باائسیس اس کی شرٹ سے صاف ظاہر ہو رہے تھے.. 

سر.. آپ سے کوئی ملنے آیا ہے.. جم کی ٹیم میں سے ایک بندے نے اکر مارک کو کہا.. 

کتنی بار کہا ہے کہ جب میں ورک آؤٹ کر رہا ہوں تو مجھے ڈسڑب نا کیا کرو چاہے کچھ بھی ہو جائے.. مارک نے دھاڑے ہوئے اس لڑکے کو کہا.. جو اب خاموشی سے کھڑا تھا.. 

اب میری شکل کیوں دیکھ رہے ہو.. جاؤ یہاں سے.. 

سر وہ ایک لڑکی ہے اس نے کہا ہے کہ آپ سے ضروری بات کرنی ہے.. مارک نے نیچے رکھے ڈمبل کو اٹھا رہا تھا جب لڑکا بولا.. 

لڑکے کی بات سنتے ہی مارک نے اسے ہاتھ کے اشارے سے جانے کا کہا. .. 

لڑکے کے جاتے ہی مارک وہاں سے اٹھ گیا اور سیدھا جم کی کینٹین کی طرف چلا گیا.. صبح کا وقت ہونے کی وجہ سے جم میں رش کم تھا اس لیے کینٹین بھی بلکل خالی تھی.. اس لئے مارک کو وہ لڑکی کو ڈھونڈنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی.. وہ کینٹین میں سب سے آخری ٹیبل پر سر جھکائے بیھٹی تھی.. 

مارک نے دور سے اس لڑکی کو دیکھا جس کی پشت مارک کی طرف تھی.. 

اس نے سردی سے بچنے کے لیے بلیک کلر کا فل کوٹ پہنا ہوا تھا جس پر اس کے سنہری بال بکھرے ہوئے تھے.. 

مارک اب اس لڑکی کے قریب اچکا تھا اس سے پہلے کہ مارک اس سے کچھ کہتا لڑکی نے مارک کی موجودگی کو بھانپ لیا.. 

ا بھی مارک دو قدم پیچھے تھا کہ لڑکی نے فوراً اپنی گردن گھوما کر اس کی طرف دیکھا.. 

مارک کی نظر جب اس لڑکی پر پڑی اس نے اپنے قدم وہی روک لئے…  

تم…  تم یہاں کیا لینے آئی ہو شیزا… مارک کے چہرے پر ناگواری کے اثرات تھے.. 

چلی جاؤ یہاں سے میں تم سے بات نہیں کرنا چاہتا.. مارک یہ کہتے ہوئے جانے کے لیے موڑا.. 

مارک تم میری بات سنے بغیر نہیں جاسکتے میں جس مارک کو جانتی ہوں وہ ہمیشہ دوسروں کی سنتا ہے.. 

شیزا  نے جاتے ہوئے مارک کو پیچھے سے کہا.  شیزا کی بات پر مارک کے اٹھتے قدم روک گے.  وہ واپس موڑا.. 

مر گیا ہے وہ مارک اور اسے مارنے والا کوئی اور نہیں تم ہو.. اور یہ تم اچھے سے جانتی ہو.. مارک کی اب غصے سے رگیں پھول رہی تھیں.. .. 

نہیں مارک تم اب بھی ویسے ہی ہو.. شیزا نے اپنے آنسو حلق میں اتارتے ہوئے مارک کی طرف دیکھا.. 

نہیں ہوں میں ویسا اب.. سمجھ آئی.  مارک نے اگے بڑھ کر دونوں ہاتھوں سے شیزا کے بازوں کو دبوچا.. 

تم بے وفا ہو.. دھوکے باز ہو.. اور رہو گی.. مجھے تم سے نفرت ہے.. نفرت ہے.. سن لیا تم نے اور آئیندہ میرا پیچھا کرنے کی کوشش. بھی مت کرنا.. ورنہ میں تمہاری بوٹی بوٹی کرکے کتوں کو ڈال دوں گا  اور تمہارے شوہر کو کانوں کان خبر نہیں ہو گی سمجھ گی ہو تم..

 مارک نے ایک جھٹکے کے ساتھ شیزا کو دھکا دیا جو گرتے گرتے بچی شیزا نے کرسی پر ہاتھ رکھا اور خود کو سنبھالا.. 

اتنی نفرت مارک اتنی…  اب شیزا کے حلق میں اٹکے انسو اس کے رخسار پر گر گے.. 

ہاں اس سے بھی زیادہ نفرت..  مارک نے اپنے مضبوط ہاتھ میں شیزا کا چہرے کو دبوچا… اور یہ نفرت دن با دن بڑھتی جارہی ہے کسی جنگل میں لگی آگ کی طرح..

 میں اب تمہاری شکل دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتا.. مارک کے آنکھیں غصے سے لال ہو رہی تھیں اس کے ماتھے پر بل پڑ گے تھے اس کا بس نا چلتا وہ ایک ہی جھٹکے میں شیزا کی گردن اس کے تن سے الگ کر دیتا. مارک کی زندگی کا یہ پہلا دن تھا جب اس نے اپنے غصے پر کنٹرول رکھا تھا.. 

مارک اب شیزا کو وہی چھوڑ کر اندر کی طرف چلا گیا.. شیزا وہی کھڑی اس مارک کو جاتے دیکھ رہی تھی جیسے وہ اپنے ہاتھوں سے دفن کر چکی تھی.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

بابا مجھے نا ماریں مجھے درد ہو رہا ہے مجھے معاف کر دیں میں آیندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کروں گا.. 

آٹھ سال کا بچہ درد سے بلبلا رہا تھا اس کا بے رحم باپ اسے بیلٹ سے بے دردی سے مار رہا تھا.. 

تیری ماں بھی ایسی تھی اور تو بھی ایسا نکلا.. میں تمہیں آج چھوڑوں گا نہیں آج تو تیری جان لے کر ہی رہوں گا.. رشید نے بیلٹ کو گھماتے ہوئے اذعام کی پشت پر دے ماری جس سے اذعام کی پشت پر ایک اور سرخ نشان پڑ گیا.. جس سے خون نکلنا شروع ہو گیا.. 

اس سے پہلے کہ اذعام کی ہمت جواب دے جاتی اور وہ اپنی ماں کے پاس پہنچ جاتا جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا. دروازے پر دستک ہوئی.. ریشد نے بیلٹ کو چارپائی پر پھینکا.. 

یہاں سے ہلنے کی سوچنا بھی نا نہیں تو میں تمہاری زبان کاٹ دوں گا رشید نے غراتے ہوئے اذعام کو کہا اور دروازے کی طرح چلا گیا..

  یہی اذعام کے پاس اچھا موقع تھا کہ وہ اپنے باپ کی بے رحمی سے بچ جائے رشید کے جاتے ہی اذعام کمرے کا دروازہ کھول کر چھت کر طرف بھاگ گیا.. سبھی گھر ساتھ ساتھ ہونے کی وجہ سے اذعام ایک چھت کو کراس کرتے ہوئے دوسری کی طرف بڑھتا گیا.. 

بالآخر اذعام نے اپنے آپ کو ایک تنگ گلی کے کونے میں چھپا لیا جہاں اس کا باپ نہیں پہنچ سکتا تھا.. کمر پر پڑے زخم سے اٹھنے والے درد سے  وہ تڑپ رہا تھا آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے بار بار وہ اپنی ماں کو شام کے اندھیرے میں پکار رہا تھا.. جو اسے پیدا کرتے ہی خلق حقیقی سے جا ملی تھی..  

ٹانگوں میں سر چھپائے اذعام رو رہا تھا جب اسے کسی کی آواز سنائی دی آواز سنتے ہی اذعام کا وجود بری طرح کانپ گیا.. 

مجھے نا مارنا.. مجھے نا مارنا.. اذعام نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ جوڑتے ہوئے سامنے کھڑی ہوئی دو لڑکیوں کو کہا.. 

 درد کی وجہ سے اذعام کی آنکھیں نہیں کھول رہی تھی .. 

کوئی نہیں مارے گا تمہیں.. ایک لڑکی نے اگے بڑھ کر اذعام کے بالوں میں ہاتھ پھیرا… 

روئی جیسے نرم ہاتھ کی گرمائش سے اذعام کو اپنائیت محسوس ہوئی اس نے اپنی قمیض کے دامن سے اپنا چہرہ صاف کیا..

 اور آنکھیں کھول کر اس لڑکی کی طرف دیکھ رہا تھا جو پیار سے اس کے بالوں کو چھو رہی تھی.. جس کی عمر تقریباً بیس سے پچیس سال کے درمیان میں تھی.. 

میں پری ہوں اور یہ سونیا.. پری نے سونیا کی طرف اشارہ کیا.. تم کیوں رو رہے ہو کس نے مارا ہے.. پری نے بڑے پیار سے اذعام کی کمر پر تھپکی دی جس سے وہ تڑپ اٹھا اس کے منہ سے چیخ نکلی.. 

کیا ہوا ہے.. پری نے پریشانی میں اذعام کی قمیض کو اوپر کیا جہاں اس کے زخموں سے خون نکل رہا تھا.. 

یہ کس حیوان نے کیا ہے پری اذعام کے زخم دیکھ کر تڑپ اٹھی.. تم چلو ہمارے ساتھ ہم تمہارا علاج کریں گے.  پری نے اٹھتے ہوئے اذعام کے اگے ہاتھ بڑھایا.. 

اذعام نے پہلے پری کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور پھر سونیا کی طرف جو کب سے سنجیدہ کھڑی تھی.. 

اور ساتھ ہی اسے اپنے باپ کا ظلم یاد اگیا.. اذعام نے پری کا بڑھایا ہوا تھا تھام لیا.. 

پری نے اگے بڑھ کر اذعام کو سہارا دیا اور اپنے ساتھ لے گی… اذعام سارے رستے یہی سوچتا رہا کہ آخر اسے اپنے باپ کے ظلم سے نجات مل گی ہے.. وہ اپنی سوچوں میں گم تھا جب گاڑی ایک بڑے بنگلے کے پاس اکر روک گی… 

آو اندر آو.. پری نے بڑے پیار سے اذعام کو کہا.. پری کے لہجے میں اتنی مٹھاس تھی کہ اذعام خودبخود اس کی طرف کھینچا چلا ارہا تھا آٹھ سال کے بچے کو پری سے وہ محبت مل رہی تھی جسے وہ پیدائش سے لے کر اب تک تلاش کر رہا تھا…. 

پری کے گھر میں اذعام کا اچھا خاصہ خیال رکھا جا رہا تھا.. اس کے زخم دنوں میں ٹھیک ہو گے تھے.. اذعام کے چہرے کی رونق بھی واپس اگی تھی.. وہ اب پہلے سے بہتر لگ رہا تھا.. جب پری نے کمرے کی کھڑکی سے اسے باہر گارڈن میں بیٹھے دیکھا.. 

اب یہ تیار ہو چکا ہے سونیا.. وقت آگیا ہے اس پر جتنا خرچ کیا ہے اس سے ڈبل وصول کرنے کا.. 

پری کھڑکی کے پاس کھڑے سونیا کو حکم دے رہی تھی جس پر سونیا افسردگی چہرے پر لیے کھڑی تھی.. 

کیا کہا ہے تمہیں جاؤ اسے تیار کرو.. پری سونیا پر چیخی.. 

پری وہ ابھی بہت چھوٹا ہے سونیا کے منہ سے یہ الفاظ نکلنے کی دیر تھی پری نے ایکے زوردار طمانچہ سونیا کے گال پر دے مارا… 

آگے سے بکواس کرتی ہو.. جو کہا ہے وہ کام کرو مشورے نہیں مانگے تم سے…  پری کے غصے سے بولنے پر سونیا فوراً گال پر ہاتھ رکھے وہاں سے چلی گی… 

اذعام کمرے میں رکھی کتابوں میں سے ایک کتاب نکال کر بیڈ پر بیٹھے پڑھ رہا تھا جب سونیا ہاتھ میں کپڑے لیے کمرے میں داخل ہوئی.. 

سونیا کو آتا دیکھ کر اذعام نے فوراً کتاب بند کر دی.. 

تمہیں پڑھنے کا بہت شوق ہے نا.. سونیا نے کپڑے سائیڈ پر رکھتے ہوئے اذعام کے ہاتھ سے کتاب لی.. 

بہت شوق ہے میں کلاس میں اؤل پوزیشن لیتا تھا اذعام نے اپنے معصومہ انداز میں کہا.. اذعام کی اس بات پر سونیا تھوڑا مسکرائی اس نے اگے بڑھ کر اذعام کا ہاتھ پکڑا.. 

کتنا نرم ہے نا تمہارا ہاتھ.. سونیا اذعام کی انگلیوں کی نرم پوروں کو چھوتے ہوئے بولی.. 

کیا تم چاہتے ہو کہ تم نوکری کرو اور تمہارے پاس تمہارے اپنے پیسے ہوں جس سے تم اپنی پڑھائی مکمل کر لو اور ساتھ میں اپنے لیے گھر بھی.. سونیا کہتے ہوئے رک گی.. 

ہاں کیوں نہیں میں پڑھوں گا اس کے لیے میں نوکری بھی کروں گا اور ایک بڑا آدمی بھی بنوں گا.. اذعام نے بڑے جوش سے کہا.. 

سونیا نے پاس رکھے کپڑے اٹھائے اور اذعام کے. سامنے رکھ دیئے.. ان کپڑوں کو دیکھتے ہوئے اذعام نے سونیا کی طرف دیکھا.. 

یہ تمہارے کپڑے ہیں آج تم تیار ہو جاؤ آج تمہاری نوکری کا پہلا دن ہے.. کب تک تم ایسے یہاں رہو گے یہ تو پری کی مہربانی ہے کہ اس نے تمہیں جاب دے دی ہے نہیں تو تمہارے زخم ٹھیک ہونے کے بعد وہ تمہیں یہاں سے جانے کا کہہ دیتی..  سونیا نے اذعام کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا.. 

نہیں.. نہیں میں وہاں اب نہیں جاؤں گا.. اذعام واپس جانے کا سوچ کر کانپ گیا.. 

تو تم یہ کپڑے پہن لو اور یہاں بیٹھ جانا بس.. سونیا یہ کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ گی.. 

لیکن مجھے کرنا کیا ہو گا.. اذعام نے جاتے ہوئے سونیا کو پیچھے سے کہا.. سونیا نا چاہتے ہوئے بھی اس کا جواب نہیں دے پائی… 

رات کے نو بج رہے تھے جب اذعام کمرے میں بیٹھا یہ ہی سوچ رہا تھا کہ یہ کیسی نوکری ہے میں کمرے میں بند ہوں معصوم دماغ میں سو سوال چل رہے تھے جب اذعام کے. کمرے کا دروازہ کھولا… 

اذعام اپنے سامنے آتے ہو بھاری بھرکم آدمی کو دیکھ رہا تھا جو کمرے کا دروازہ بند کرکے اذعام کی طرف ارہا تھا.  

آپ کون ہیں.. کیا آپ کو پری اور سونیا آپی نے بھیجا ہے.. بتائیں مجھے.. اذعام بولتا جا رہا تھا جب اس آدمی نے ایک زور کا تھپڑ اذعام کے منہ پر دے مارا.. 

تھپڑ پڑتے ہی اذعام وہی بت بنا کھڑا رہا اس کا ایک ہاتھ اس کے گال پر تھا وہ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے.. اگلے ہی لمحے اس آدمی نے ایک جھٹکے سے اذعام کو بیڈ پر دھکا دیا اذعام جاکر بیڈ پر گر گیا.. اور پھر کچھ ہی دیر میں اذعام کی چیخوں کی آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی.. جس اذیت سے وہ بچ کر نکلا تھا آج اُس سے بھی زیادہ اذیت سے وہ گزر رہا تھا جو اس کے وجود کے ساتھ ساتھ اس کی روح کو بھی چھلنی کر رہی تھی.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

تم لوگ سو رہے تھے کیا جو وہ اتنی آسانی سے وہ ڈائمنڈ بکس لے گئے کون تھے وہ جس نے اتنی ہمت کی مارک کے ہوتے ہوئے…  

آج تک مارک کو کسی نے مات نہیں دی تھی وہ لوس اینجلس کیلیفورنیا کا واحد بندہ تھا جو بڑے سے بڑا کام انکھ جھپکتے کر جاتا تھا.. 

انڈر ولڈ کی دنیا میں اگر کسی نے کوئی کام کروانا ہو تو وہ مارک کو کہتا اور اگلے لمحے میں وہ کام ہو جاتا.. لیکن اس بار کوئی مارک کو مات دے گیا تھا.. 

جس ڈائمنڈ بکس کی تلاش مارک کو تھی وہ اس سے پہلے کوئی لے اڑا تھا.. 

مارک اپنے بندوں کو سامنے کھڑا کیے پوچھ رہا تھا. جن کو اس نے کام سونپا تھا…  

ایک کام دیا تھا تم دونوں کو وہ بھی تم دونوں سے نہیں ہوا… میرے منہ پر سیاہی مل دی ہے تم دونوں نے.. بتاؤ کون تھا وہ کس کی اتنی ہمت جس نے اپنی موت کو آواز دی ہے.. 

مارک نے  جارج کا گریبان پکڑا… مارک کا دماغ گھوم چکا تھا اس کے سر پر خون سوار تھا اس کا جس نے اس کے کام میں مداخلت کی.. 

نہیں معلوم کر سکے ہم کہ وہ کون تھا.. جارج نے ڈرتے ہوئے کہا.. 

اچھا تو تمہیں معلوم ہی نہیں ہوسکا کیا اتنے بے خبر تھے سوئے ہوئے تھے کیا.. مارک کی آواز پورے کمرے میں کسی شیر کی دھاڑ کی طرح گونج اٹھی..  

ٹھیک ہے تو میں ایسا کرتا ہوں کہ تم دونوں کو ہمیشہ کے. لیے میٹھی نیند سلا دیتا ہوں.. مارک نے یہ کہتے ہوئے ٹیبل پر رکھی فروٹ باسکٹ سے چاقو اٹھایا اور اگلے لمحے جارج کے گلے پر چلا دیا.. 

جارج کے گلے سے خون فوارہ کی طرح نکل رہا تھا اور وہ زمین پر گرتے ہی تڑپنے لگا.. 

جارج کو دیکھتے ہی ولیم فوراً مارک کے قدموں میں گر پڑا.. معافی کی بھیگ مانگنے لگا.. 

مارک ولیم کو ایسے گڑگڑاتے ہوئے دیکھ کر اس کے سر پر پیار ے ہاتھ رکھا ولیم کو ایسا لگا کہ مارک نے اسے معاف کر دیا ہے لیکن اسے کیا پتہ تھا کہ معاف کرنا مارک کی ڈکشنری میں نہیں لکھا تھا.. 

مارک نے ولیم کے بالوں سے پکڑتے ہوئے اس کی گردن موڑی اور ولیم کی شاہ رگ پر ہاتھ میں پکڑا چاقو چلا دیا 

براؤن کلر کی پینٹ شرٹ پہنے اوپر بلیک کلر کا کوٹ پہنے شرٹ کے ہاف بٹن کھولے ایک ہاتھ میں سگریٹ لگائے اور دوسرے ہاتھ میں شراب کا گلاس پکڑے ٹانگ پر ٹانگ رکھے کایا روشانی کا انتظار کر رہا تھا.. 

کلائی پر بندھی سوٹ کے ساتھ کی میچنگ گھڑی کو وہ بار بار دیکھ رہا تھا ساتھ میں سگریٹ کا ایک کش لیتا اور پھر شراب کا گھونٹ.. 

اتنے میں کمرے کا دروازہ کھولا…  روشانی اور ہادی اندر داخل ہوئے روشانی کو دیکھتے ہی کایا کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ اگی… کیونکہ روشانی کے ہاتھ میں وہ تھا جس کی کایا کو تلاش تھی.. 

روشانی نے اندر آتے گولڈن کلر کا بکس کایا کے سامنے رکھ دیا.. ہادی وہی کمرے کے دروازے کے پاس روک گیا.. روشانی بکس رکھ کر کچھ قدم پیچھے ہو گی.. 

آپ نے جیسا کہا تھا ویسا ہو گیا یہ آپ کی امانت.. روشانی بات کرتے ہوئے بکس کی طرف دیکھ رہی تھی اسے اس بات کا انتظار تھا کہ وہ بھی یہ جاننے کے لئیے بے تاب تھی کہ آخر اس بکس میں ایسا کیا ہے جو کایا نے اسے اتنی ایمرجنسی میں وہاں سے چوری کرنے کا کہا.. 

کایا نے ٹیبل پر رکھے بکس کو اپنی طرف کھینچا.. کرسی کو آگے کرتے ہوئے اس نے بکس کھلولا اس کی آنکھوں میں ایک بھیانک چمک تھی.. 

روشانی نے تھوڑی گردن موڑ کر ہادی کی طرف دیکھا جو آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا تھوڑا اگے آیا.. 

بکس کھولتے ہی سب کی آنکھیں کھولی کی کھولی رہ گی.. وہ بکس ڈائمنڈ سے بھرا ہوا تھا.. 

اس سب کو دیکھتے ہی روشانی کی آنکھیں پتھر کی ہو گی وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کاش وہ بکس کھول لیتی اور اس میں دو چار ڈائمنڈ نکال لیتی…  

بہت خوب.. روشانی بہت خوب..  اس لئے تو تم میرے لیے اتنی خاص ہو کہ تم کبھی مجھے مایوس نہیں کرتی.  

کایا نے بکس بند کیا اور ہاتھ سے بکس کو سائیڈ پر کیا.. بکس کے ساتھ ساتھ روشانی کی نظریں اسی طرف جا رہی تھیں.. 

تمہیں وہاں مارک کا کوئی بندہ تو نہیں ملا کیا.. کایا نے دونوں ہاتھوں کو ٹیبل پر رکھا اور روشانی کی طرف دیکھا جس کی نظر ابھی بھی بکس پر تھی.. لیکن کایا کے منہ سے مارک کا نام سن کر روشانی یک دم چونک گی.  

کککک.. کیا.. کہا باس آپ نے مارک.. مطلب مارک جوزف .. وہاں کیا کرے گا وہاں.. .. روشانی  کو اب ڈائمنڈ نہیں موت نظر ارہی  تھی.. 

ہاں روشانی مارک.. وہ تو کب سے ان ڈائمنڈ کے پیچھے تھا.  لیکن اسے کیا خبر کہ اس کے پہنچنے سے پہلے میں لے اڑو گا.. وہ سمجھتا کہ وہی چلاک ہے اسے کیا خبر کہ ابھی کایا موجود ہے.. 

کایا بات کرتا ہوا روشانی کے. پاس ایا.. جو بت بنے کھڑی تھی یہی حالت ہادی کی بھی تھی.. 

لیکن تم جانتی ہو نا روشانی کہ زخمی شیر کتنا خطرناک ہوتا ہے اس سے پہلے وہ حملہ کرے اس شیر کو ہی ختم کر دینا چاہیے. اور اس وقت مارک بھی ایک زخمی شیر کی طرح ہوا پڑا ہے کیونکہ میں نے اس کے گھر میں گھوس کر اسے مارا ہے.. 

اس سے پہلے کہ اسے یہ پتہ چلے کہ یہ کام ہم نے کیا ہے اسے ختم کرنا ہو گا.. کایا بات کرتے ہوئے روشانی کے  اتنا قریب آیا.کہ. روشانی ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑا.. 

تو.. باس.. ٹھیک ہے جو آپ کرنا چاہتے ہو وہ کر لیں آپ نے مجھے جو کام دیا تھا وہ میں نے کر دیا ہے.. روشانی نے بڑی ہمت کرکے کایا کو جواب دیا اس کی چھٹی حس جس بات کا الرٹ دے رہی تھی وہ اس سے بچنا چاہتی تھی…  

تمہیں پتہ ہے روشانی مارک کو کیا پسند ہے.. کھلتی ہوئی کلیاں وہ ایک بھوراہے جو ہر کھلتی ہوئی کلی پر جا بیٹھتا ہے…

 کایا روشانی کے اور. مزید قریب آیا.. اس نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو روشانی کے روئی جیسے گالوں  پر رکھا اور پھر  آہستہ آہستہ اس کی گردن کی طرف لے کر  جا رہا تھا.. کایا کی اس حرکت پر روشانی نے دانت پیستے ہوئے سانس کو  اندر کی طرف کھینچا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کایا کے منہ پر تھپڑ مار دے لیکن وہ مجبور تھی.. 

ہادی نے جب یہ دیکھا تو وہ آگے کی طرف غصے سے بڑھا.. ہادی کو یوں آتا دیکھ کر روشانی نے ہاتھ کے اشارے سے اسے وہی روک دیا.. 

کایا نے اپنا ہاتھ روشانی کی گردن سے ہٹایا اور اگے کو جھک کر  اپنا منہ اسکے کان کی طرف لے گیا…  

تم بھی ایک کھلتی ہوئی کلی ہو روشانی .. جس کی خوشبو میں آج تک سونگھ نہیں پایا… اگے تم سمجھ گی یو نا.. کایا نے اپنی بات مکمل کی اور سیدھا ہو گیا.. 

کایا کی بات سن کر روشانی ٹھنڈی پڑنے لگی وہ جس بات سے ڈر رہی تھی وہی ہوا.. 

ویسے پرفیوم تم اچھا لگاتی ہو.. کایا یہ کہتے ہوئے واپس جانے کے لیے موڑا..  اب تم بہتر جانتی ہو روشانی کے تم نے کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے.. 

کایا کی پشت روشانی کی طرف تھی اور وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالے اپنا حکم سنا چکا تھا.. 

روشانی اور ہادی وہاں سے بغیر کچھ کہے نکل آئے.. 

تم پاگل ہو روشانی تم مارک کو مارو گی… مارک کو.. جانتی بھی ہو نا کہ کس کی بات ہو رہی ہے.. ہادی نے کمرے سے نکلتے ہی روشانی کو احساس دلایا کہ وہ کیا کرنے جا رہی ہے.. 

ہاں.. میں جانتی ہوں ہادی لیکن تم کایا کو نہیں جانتے اگر میں انکار کر دیتی تو اس کا انجام کیا ہونا تھا تم اچھے سے پتہ ہے.. 

روشانی نے دھیمی آواز میں. ہادی سے بات کی وہ خود اندر سے ڈر گی تھی.. مارک کو مارنا کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں تھی. .. شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے برابر تھا.. 

دونوں چلتے ہوئے بنگلہ سے باہر آگے  

جہاں لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ بنائی ہوئی تھی.. 

روشانی مارک ایک جانور ہے حیوان ہے.. 

تم کیا سمجھتی ہو کہ وہ تمہیں بخش دے گا نہیں روشانی نہیں.. میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دے سکتا..

ہادی اپنی پوری کوشش کر رہا تھا کی وہ روشانی کو اس کام کے لیے روک دے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ آج تک جس لڑکی نے بھی یہ ہمت کی اس کی لاش کمرے سے ملی…. 

میں جانتی ہوں ہادی سب جانتی ہوں پر میں کیا کر سکتی ہوں میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں میں کایا کی ایک کٹ پتلی ہوں  جیسے وہ جب  چاہتا ہے اسے چلا لیتا ہے.. 

اور وہ اس بات کا حق بھی رکھتا ہے ایک وہی تو ہے جس کی وجہ سے میں یہاں ہوں نہیں تو میں پتہ نہیں کہاں ہوتی.. روشانی یک دم اپنے ماضی میں چلی گی اور اس کی  آنکھیں بھر آئی انسو باہر نا نکلے اس لیے روشانی نے انسو کو اپنے حلق میں اتارا.. 

لیکن روشانی.. میں تمہیں ایسے کیسے.. ہادی نے بڑی نرمی سے روشانی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے روشانی کی آنکھوں میں دیکھا جہاں آنسو روکنے سے سرخ لائنز بن گی تھیں… 

ہادی میری ایک بات یاد رکھو.. انسان کی گندی سوچ اور گھٹیا نیت ہر جگہ ملے گی تمہیں بس بات یہ ہے کہ ہمیں کس طرح اس سے بچ کر چلنا ہے یہ ہنر آنا چاہیے. .. 

اور تم پریشان نا ہو.. اس بار مجھے تمہاری ضرورت ہو گی.. روشانی نے اپنا دوسرا ہاتھ ہادی کے ہاتھ پر رکھا.. 

ہادی جان گیا تھا کہ روشانی اب پیچھے ہٹنے والی نہیں ہے اور وہ روشانی کو اکیلا بھی نہیں چھوڑ سکتا تھا.. اس لئے اس نے روشانی کی بات مان لی.. 

روشانی نے ہادی کو تو سمجھا دیا تھا لیکن وہ خود اندر سے ڈر گی تھی آج تک اس نے صرف چوری کی تھیں کسی کا خون نہیں.. روشانی نے بس ایک خون دیکھا تھا جو وہ کبھی بھولا نہیں پا رہی تھی… 

➖➖➖➖➖➖➖

صبح کا اجالا اذعام کے لیے بہت درد ناک تھا ساری رات وہ جس اذیت سے گزارا تھا وہ اس کے باپ کی آٹھ سال کی مار اس کے اگے کچھ بھی نہیں تھی.. 

مجھے اگلی بار یہ ہی لڑکا چاہے..  بہت کمال کا چکنا لڑکا ہے… 

ایسے نہیں لوگ تمہاری تعریفیں کرتے تمہارے پاس مال بہت اچھا ہوتا ہے.. آدمی کمرے سے باہر آتے ہی پری کو نوٹوں کا پیکٹ پکڑتے ہوئے کہا.. 

نوٹوں کا بھرا پیکٹ دیکھتے ہی پری کے چہرے پر خوشی اگی.. 

آپ بے فکر رہیں آیندہ بھی آپ کو یہ ہی ملے گا.  پری نے تھوڑا جھک کر کہا.. آدمی مسکراتا ہوا بنگلہ سے باہر اگیا سونیا دیوار کے پاس کھڑی سب باتیں سن رہی تھی.. 

وہ بھی ساری رات نہیں سو سکی اذعام کی چیخیں اس کی کانوں میں بار بار پڑ رہی تھیں.. 

آدمی کے جانے کے بعد پری بھی اپنے کمرے میں چلی گی.. پری کو جاتا دیکھ کر سونیا بھاگتی ہوئی اذعام کے کمرے میں آئی دروازہ کھولتے ہی اس نے جو  دیکھا اس کے منہ سے چیخ نکل گی.. 

اذعام بیڈ سے نیچے بیہوش گرا پڑا تھا اس کے کپڑے خون سے بھرے ہوئے تھے.. 

پری.. پری.. وہ چلاتی ہوئی اذعام کے. پاس آئی اسے بمشکل وہ اٹھا رہی تھی .. خود وہ لگ بھگ چودہ سے پندرہ سال کی تھی وہ اذعام کا بھاری وجود اٹھا نہیں پا رہی تھی.. آج اس نے پہلی بار کسی کو اس حالت میں دیکھا تھا.. وہ نہیں جانتی تھی کہ رات گزارنے کے بعد چھوٹے بچوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے وہ کئی کئی دن بعد بنگلہ واپس آتے تھے.. 

سونیا کے ایسے چلانے کی آواز سن کر پری کمرے میں آئی.. اس نے پہلے سونیا کی طرف دیکھا جو گھبرائی ہوئی تھی اور اس کے بعد اذعام کی طرف.. 

تمہیں کس نے کہا ہے کہ اس کے کمرے میں آؤ.. ہاں.. پری نے اگے بڑھتے ہوئے سونیا کو بالوں سے پکڑتے ہوئے  پیچھے کی جانب کھینچا .. 

سونیا درد سے بلبلا اٹھی.. 

وہ میں گزر رہی تھی کمرے کا دروازہ کھولا تھا..  تو میری نظر پڑ گی.. سونیا کو بال کھینچنے سے درر ہو رہا تھا. اس نے پری کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ہوا تھا. مضبوطی سے . 

اٹھو یہاں سے اور جاؤ عزل کو بلا کر لاؤ.. اور ہاں اسے کہنا کہ ڈاکٹر ساتھ کے کر آئے.. 

پری نے سونیا کے بال چھوڑے اور اسے عزل کو بلانے کا کہا جو ہر صبح یہی کام کرتا تھا وہ لڑکوں اور لڑکیوں کو دن چڑھتے ہی یہاں سے لے جاتا تھا لیکن اس بار سونیا پہلے پہنچ گی.. 

تھوڑی دیر میں ہی عزل ڈاکٹر کے ساتھ کھڑا تھا.. سونیا اذعام کے. کپڑے تبدیل کر چکی تھی.. 

انہیں کیا ہوا ہے یہ کس طرح بہوش ہوا ہے بچہ.. اذعام کو چیک کرتے ہوئے ڈاکٹر نے پاس کھڑی پری سے پوچھا.. 

بس کل سے کچھ کھا نہیں رہا تھا آج صبح بیوش ہو گیا.. پری نے بڑی سفاکی سے جھوٹ بول دیا پری کی اس بات پر سونیا ہکی بکی رہ گی.. 

ڈاکٹر نے اذعام کا  چیک اپ مکمل کیا اور کچھ میڈیسن لکھ کر دے دی.. 

عزل ڈاکٹر کو لے کر چلا گیا.  

اب کچھ دن تم اس کی دیکھ بھال کرنا اور جیسے یہ ٹھیک ہو جائے مجھے بتا دینا اور ہاں میں کسی کام کے سلسلے میں باہر جا رہی ہوں کوئی بات ہو تو مجھے کال کر دینا.. پری یہ کہتے ہوئے سونیا سے کمرے سے باہر چلی گئی.. 

پری کے جاتے ہی سونیا اذعام کے. پاس بیٹھ گی.. اسکے نرم ہاتھوں کو سونیا نے اپنے ہاتھ میں لیا اس کی آنکھوں کے سامنے وہ سارے زخم آگے جو اسے کپڑے تبدیل کرتے ہوئے اس نے دیکھے تھے.. 

نجانے کیوں سونیا کو اذعام سے ہمدردی ہو رہی تھی اس نے اگے بڑھ کر بیہوش ہوئے اذعام کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھ دیے… 

➖➖➖➖➖➖➖

مارک کو پتہ چل چکا تھا کہ ڈائمنڈ بکس کس نے وہاں سے لیا ہے وہ ہمیشہ اپنے حصے کا مال زیادہ دیر تک کسی کے پاس رہنے نہیں دیتا تھا.. 

آج بھی وہ پوری پلاننگ کے ساتھ ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھا ہوا تھا..  وہی آنکھوں میں غصہ ہمیشہ کی طرح شرٹ کے بٹن کھولے ہوئے اس کے گھنگریالے بال اسکے کندھوں پر پڑ رہے تھے… 

وہ بے صبری سے کسی کا انتظار کر رہا تھا.. کچھ ہی دیر میں بیلو کلر کی منی سکرٹ پہنے بالوں کا کھولا چھوڑے اس کی. طرف ارہی تھی.. 

وہ دور سے دیکھتے ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ وہی ہے جس کا وہ انتظار کر رہا ہے… 

ہائے ای ایم ایما ولسن…  ایما نے آتے ہی اپنا تعارف کروا یا.. اور ساتھ ہی کرسی پر بیٹھ گی.. 

میرا کام ہو گیا کیا.. مارک نے فوراً اپنے کام کی بات کی.. 

ہاں ہو گیا ہے… ایما نے بیگ سے ایک پیپر نکالا اور ساتھ ایک تصویر.. 

یہ رہی تمہارے کام کی چیزیں..  یہ وہ پتہ ہے جہاں تمہارا بکس پڑا ہے اور یہ تصویر اس لڑکی کی ہے جس نے چرایا ہے اور یہ لڑکی کایا کے لیے کام کرتی ہے.  

ایما نے ساری ڈیٹیل.. مارک کو بتائی.. مارک نے جلدی سے وہ کاغذ اور تصویر اٹھائے اور کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا.. ایما ایک دم سے حیران ہو گی ابھی اسے اس کام کی رقم بھی نہیں ملی تھی.. 

تمہاری رقم ٹشو بکس کے نیچے پڑی ہے. یہ کہہ کر مارک باہر کی طرف نکل آیا جاتے ہوئے اس نے وہ تصویر ڈسٹ بین میں پھینک دی تھی اسے غرض تھی تو صرف اپنے ڈائمنڈ کی. . .. اور کایا سے حساب پورا کرنے کی… 

باہر آتے ہی مارک نے گاڑی سٹارٹ کی اور لکھے ہوئے پتہ پر پہنچ گیا.. 

یہ ایک پرانی طرز کا مکان تھا.. جو شہر سے باہر تھا.. وہاں دو آدمی پہرہ دے رہے تھے… 

مارک بلاخوف اس کی گھر کی طرف چل پڑا.. ان آدمیوں نے جب مارک کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اس پر فائرنگ شروع کردی.. مارک ان گولیوں سے خود کو بچاتا ہوا ان دونوں کے پاس پہنچ گیا.. 

اس سے پہلے کہ وہ آدمی اس پر مزید گولی چلاتے مارک نے اگے بڑھ کر ایک زور کا مکا اس آدمی کے ناک پر دے مارا.. وہ آدمی جیسے درد سے جھکا مارک نے اس کی ہسٹل پکڑ لی.. 

دوسرا آدمی اندر چلا گیا تھا کایا کو انفارم کرنے.. 

مارک اس آدمی کو مارنے کے بعد اندر گیا تو دوسرا آدمی کال پر کایا کو بتا  ہی رہا تھا کہ مارک نے اس آدمی کی کھوپڑی میں گولی مار دی جو اس کے دماغ کے آر پار ہو گی اس کے ہاتھ سے فون گر گیا.. 

مارک ہاتھ میں پسٹل لیے اگے بڑھا.. زمین پر گرے موبائل کو اٹھایا جس کی دوسری طرف کایا تھا…  

تم ابھی اپنے باپ کو نہیں پہنچانے کیا…  کایا.. تمہاری پیدائش بھی مجھ سے پوچھ کر ہوئی تھی.. آیندہ میرے کام میں دخل اندازی کی تو انجام برا ہو گا.. اس سے پہلے کے کایا کچھ کہتا مارک نے فون دیوار پر مار کر توڑ دیا.. 

مارک چلتا ہوا اس سیف کہ پاس پہنچا جہاں ڈائمنڈ بکس رکھا تھا.. 

بلیک مین کو کایا نے لوہے کی کرسی کے ساتھ باندھا ہوا تھا.. جس کو کایا نے ڈائمنڈ کی حفاظت کا ذمہ دیا تھا صرف ایک رات کے لیے اگلی صبح وہ ہیرے سمگلنگ ہو کر کہیں اور پہنچ جانے تھے لیکن اس سے پہلے کہ کایا اس کو کہیں اور پہنچا دیتا.. مارک اپنا ہاتھ صاف کر گیا تھا…  

تمہیں میں نے کس لیے وہاں رکھا تھا کس کی حفاظت کے لیے تمہاری ایک چھوٹی سی غلطی سے مجھے کتنا نقصان ہوا ہے تم جانتے بھی ہو کیا.. کایا اس آدمی پر چلایا اور اسکے ہاتھ میں پکڑی بجلی کی تار اس نے لوہے کی کرسی کو لگائی جس سے بلیک مین کو جھٹکے لگانا شروع ہو گے اتنے میں دروازہ کھولا اور اندر روشانی اور ہادی آئے دونوں نے آتے ہی اس آدمی کو دیکھا جس کی ناک سے خون بہہ رہا .. اور اسکی آنکھیں سیفد ہو رہی تھیں.. 

روشانی کو خبر مل چکی تھی کہ ڈائمنڈ مارک لے گیا ہے یہ سنتے ہی وہ کایا کی کال پر اس کے پاس اگی تھی..  

لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ صورتحال اس قدر خراب ہو گی.. 

اگی تم دیکھو.. مجھے دیکھو.. اس مارک نے مجھے پھر مات دے دی وہ لے گیا ہے ڈائمنڈ.. میں اس ناسور کو چھوڑوں گا نہیں.. یہ کہتے ہوئے کایا نے آخری سانس پر آئے ہوئے بلیک مین کی کھوپڑی کے دونوں سائیڈ پر بجلی کی تاریں رکھ دی بلیک مین کرنٹ سے جھٹکے کھاتا ہوا اپنی سانسیں ختم کرچکا تھا.. اور اس کے منہ اور کانوں سے بھی خون نکلنا شروع ہو گیا تھا

یہ سب دیکھتے ہوئے روشانی کا گلہ خشک ہو رہا تھا….وہ سمجھ گی تھی کہ اس وقت کایا پاگل ہو گیا ہے.. 

بلیک مین کو مارنے کے بعد کایا روشانی کی طرف آیا.. 

میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ اس زخمی شیر کو مار دو لیکن تم نے دیر کر دی اور اس نے ایک رات کا انتظار بھی نہیں کیا اور اپنا کام کر گیا.. کایا نے اگے بڑھ کر روشانی کا منہ اپنے ہاتھ میں دبوچا.  

کایا مجھے چھوڑو مجھے درد ہو رہا ہے اس میں میرا کیا قصور ہے.. روشانی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے کایا کا ہاتھ پیچھے کرنے کی کوشش کی لیکن کایا کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ وہ اس کا ہاتھ پیچھے نا کر سکی.. 

درد ہو رہا ہے تمہیں ہاں..  اور جو میرے اندر آگ جل رہی ہے مجھے جلن ہو رہی ہے اسکا کیا.. آؤ تمہیں بتاؤں میرے اندر کی آگ مجھے کیسے جلا رہی ہے.. کایا نے روشانی کا منہ چھوڑتے ہوئے اس کا بازو مضبوطی سے پکڑا.. اور کھینچتے ہوئے ہیٹر کی طرف لے گیا.. 

ہادی روشانی کو بچانے کے لیے اگے بڑھا لیکن کایا نے اس کی طرف خون خوار نظروں سے دیکھا تو ہادی وہی روک گیا.. 

آؤ میں تمہیں وہ تکلیف بتاتا ہوں جو میرے اندر ہو رہی ہے یہ کہتے ہوئے کایا نے فل ہیٹ کیا ہوا ہیٹر پر روشانی کا ہاتھ  رکھ دیا.. روشانی درد سے چلا اٹھی.. 

کرو محسوس کرو یہ تکلیف کچھ بھی نہیں ہے جو تم نے مجھے دی ہے مارک کو ایک رات کا ٹائم تم نے دیا ہے میں نے کہا تھا کہ مار دو اسے.. کایا بولتا جا رہا تھا اور روشانی کا ہاتھ ہیٹر پر جل رہا تھا.. 

ہادی سے یہ سب نہیں دیکھا گیا اور وہ تیز رفتار سے روشانی کو بچانے کے لئے آیا.. ہادی کو ایسے آتا ہوا دیکھ کر کایا نے اپنے دوسرے ہاتھ سے کمر کے پیچھے رکھی پسٹل نکالی اور ہادی پر فائر کر دیا.. گولی ہادی کے بازو کو چھوتی ہوئی گزر گی..  ہادی نے پھر ہمت کی اور بازو پر لگی گولی کو نظر انداز کرتے ہوئے.. اگے کی طرف بڑھا.. 

جب کایا نے دیکھا کہ ہادی روکا نہیں اس نے ایک گولی اور اس کی ٹانگ پر چلا دی… ہادی وہی زمین پر گر پڑا.. 

روشانی درد سے چلا رہی تھی اسکا حلق خشک ہو رہا تھا وہ ٹھنڈی پڑ رہی تھی.. درد سے بلبلاتی ہوئی اس نے جب ہادی کو ایسے زمین پر گرا دیکھا اس کے ہوش اڑ گئے.. 

کایا یہ تم کیا کر رہے ہو اگر تم مجھے اور ہادی کو مار دو گے تو تمہارے کام کون کرے گا.. روشانی نے چیختے ہوئے کایا کی طرف دیکھا..  روشانی کی آنکھیں درد اور غصے سے سرخ ہو رہی تھیں 

کایا جو اپنی ناکامی پر پاگل ہو رہا تھا روشانی کی بات پر اسے یک دم ہوش میں آیا اس نے فوراً روشانی کا ہاتھ چھوڑ دیا.. 

روشانی اور ہادی کایا کے وہ واحد بندے تھے جو بڑے سے بڑے چوری منٹو میں بڑی صفائی سے کر لیتے تھے.. 

روشانی اپنے جلے ہوئے ہاتھ کی پرواہ کیے بغیر جلدی سے ہادی کے پاس آئی.. 

ہادی تمہیں کچھ نہیں ہو گا روشانی نے ہادی کا سر اپنی گود میں لیا.. 

تم دونوں کو یہ لاسٹ وارننگ ہے اگر تم دونوں نے مارک کو نہیں مارا تو تمہاری لاشیں لوس اینجلس کیلیفورنیا کے مین بازار میں لٹکی ہوں گی.. مجھے جلد از جلد مارک کا سر چاہیے.. 

کایا نے غصے سے کہا اور جاتے ہوئے زمین پر پڑے ہادی کو پاؤں سے ٹھوکر ماری اور باہر کی. طرف چلا گیا.. 

روشانی جو کبھی روئی نہیں تھی ہادی کی حالت دیکھ کر اس کے بازو اور ٹانگ سے خون نکلتا دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو اگے اس نے اپنی زندگی میں بس ایک بار خون دیکھا تھا اور وہ اس کی ماں کا تھا… 

➖➖➖➖➖➖➖➖

رقص و سرور کی محفل چلی رہی تھی مارک اپنی کامیابی کو منا رہا تھا.. 

چار لڑکیاں جو بیلی ڈانسر تھی اپنی صراحی جیسی  لچکدار کمر کو گھوما گھوما کر مارک کا دل لوبا رہی تھیں.. بے نام کپڑے پہنے وہ کبھی مارک کے اوپر اکر جھکتی اور اس کے چوڑے سینے کو چھوتے ہوئے اپنے گلاب جیسے ہونٹوں سے مارک کے سینے پر نشان  چھوڑ جاتی تو کبھی آتے جاتے پاس پڑے فروٹ باسکٹ میں سے انگور نکالا کر مارک کے منہ میں ڈالتی.. 

مارک کا بھی جب دل کرتا ڈانس کرتی ہوئی لڑکی کو اپنی طرف کھینچتا اور اپنے جذبات کو اس پر نچھاور کرتا اور پھر اسے ڈانس کے لیے بھیج دیتا… 

یہ سب  ایسے ہی چل رہا تھا جب اس کے گھر کے ھال میں جہاں لڑکیاں ڈانس کرنے میں مصروف تھیں.. پردہ ہٹتے ہی سامنے مارک کو ایما  آتی نظر آئی.. اس بار بلیو کلر کی جینز شرٹ میں تھی کندھے پر لونگ سڑپ والا بیگ پہنے جیسے ہی اندر آئی اندر کا ماحول  دیکھتے ہی اسکے قدم وہی روک گے.. 

ایما کو دیکھتے ہی مارک کے ماتھے پر بل پڑ گے.. اس نے ہاتھ کے اشارے سے ڈانسز کو جانے کا کہا.. 

ایما چلتی ہوئی مارک کے پاس آئی.. 

تمہیں کسی نے بتایا نہیں کہ مجھ سے ملنا ہو تو پہلے پوچھا جاتا ہے.  مارک ٹانگ پر ٹانگ رکھے ایما کو غور سے دیکھ رہا تھا آج وہ بنا میک اپ کے آئی تھی سادگی میں وہ ایک نرم موم کی گڑیا لگ رہی تھی اس سے پہلے مارک اپنی نیت اس پر خراب کرتا..ایما بول پڑی.. 

مارک میں تمہارے ساتھ کام کرنا چاہتی ہوں.. ایما کو پیچھلی بار مارک کا کام کرنے کے بدلے کافی بھاری رقم ملی تھی یہ کام ایما کے لیے ایک معمولی کام تھا.. لیکن مارک نے جو رقم دی تھی وہ اس کی توقع کے برعکس تھی.. 

ایما کی بات پر مارک نے شراب کا گھونٹ لیا اور سیدھا ہوکر بیٹھ گیا وہ اپنے کام کے معاملات کو بڑی سنجیدگی سے لیتا تھا.. 

تمہیں کس نے بھیجا ہے.. ایما کی بات پر مارک نے کہا.. 

کسی نے نہیں… مجھے تمہارے ساتھ کام کرنا ہے اس لیے نہیں کہ مجھے کسی نے بھیجا ہے  بلکہ میں اس لیے کام کرنا چاہتی ہوں کہ تم اچھی رقم دیتے ہو. اس سے میری ضروریات پوری ہو جائیں گی.. ایما نے اپنی بات بتاتے ہوئے مارک کی طرف دیکھا جو اسے بات کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں بڑے غور سے دیکھ رہا تھا.. 

مارک ہمیشہ سچ اور جھوٹ کو معلوم کرنے کے لیے لوگوں کی آنکھوں میں دیکھتا تھا اس کے مطابق آنکھیں کبھی جھوٹ نہیں بولتی اور انسان کی آنکھیں ہی اس کا آئینہ دار ہوتی ہیں.. 

مارک کو ایما کی آنکھوں میں بھی سچائی دیکھی.. 

ہمممم.. ٹھیک ہے لیکن تم میرے کسی کام میں داخل اندازی نہیں کرو گی اور دھوکہ مجھے پسند نہیں اور دوسرا موقع میں کبھی دیتا نہیں…  بس یہ بات یاد رکھنا جس دن مجھے یہ لگے کہ تم مجھے دھوکہ دے رہی ہو اس دن تمہارا آخری دن ہو گا.. ساتھ ہی مارک نے شراب کا گھونٹ لیا.. 

ٹھیک ہے مارک مجھ سے تمہیں کسی قسم کی شکایت نہیں ہو گی.. ایما نے پرجوش ہو کر کہا.. 

اوکے تم میرے اکاؤنٹنٹ سے مل لو.. یہ کہتے ہوئے مارک وہاں سے اٹھ گیا.. 

ایما بہت خوشی تھی کہ اسے  چھوٹے چھوٹے کاموں کا اب بڑا معاوضہ ملے گا لیکن وہ اس بات سے انجان تھی کہ اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھودنا شروع کر دی ہے… 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖

مارک نے روشانی کے نرم ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا..

 روشانی مارک کو مارنے جب اس کے گھر آئی تو کیمرے سے مارک پہلے ہی روشانی کو دیکھ چکا تھا.. 

اس نے بیڈ پر تکیے رکھ کر خود دروازے کے پیچھے چھپ گیا.. روشانی جیسے ہی اندر آئی اس نے بیڈ پر مارک کو لیٹے دیکھا.. تو جلدی سے چاقو نکال کر ناجانے کتنے وار کر دیے لیکن وہاں خون نکلنے کی بجائے روئی اُڑنا شروع ہو گی…. روشانی یک دم گھبرا گی اس نے اپنے پیچھے سانسوں کی آواز سنی جو اس کی گردن کے بلکل پاس سے ارہی تھی.. اور کسی نے آہستہ سے اس کی گردن کو چوما تھا.. 

روشانی گھبراہٹ سے فوراً موڑی تو اس کے سامنے مارک کھڑا تھا..  روشانی کے ڈر سے اس کی سانسیں روک گی وہ الٹے پاؤں چلتے ہوئے دیوار کے ساتھ لگ گی مارک بھی قدم بڑھاتے ہوئے اس کے پاس ارہا تھا دیوار کے ساتھ لگی روشانی کے اتنی سردی میں بھی پسینے چھوٹ رہے تھے.. 

کیا خوبصورتی ہے سوچ رہا ہوں کہ تمہیں مارنے سے پہلے کیوں نا اس خوبصورتی کا فائدہ اٹھایا جائے مارک نے روشانی کی گردن پر ہاتھ رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ اس کے سینے کی طرف لے کر جا رہا تھا.. روشانی کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے چاقو اس کے ہاتھ سے پہلے ہی گرِ چکا تھا.. 

مارک نے اپنے ایک  ہاتھ میں روشانی کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگایا ہوا تھا.. 

پانچ فٹ چھ انچ کی اونچی قد والی روشانی مارک کی چوڑی جسامت کے اگے چھپ گی تھی.. 

مارک اپنے ہونٹ روشنی کے ہونٹوں کے قریب لا رہا تھا کہ روشانی بول پڑی.. 

پلیز.. ایسا نا کرو.. مجھ سے غلطی ہو…  ابھی روشانی پورا بول ہی نہیں پائی کہ اس کے منہ سے زور کی چیخ نکلی… 

 مارک کے دوسرے ہاتھ میں پکڑا چاقو روشانی کے دل کے آر پار ہو چکا تھا.. روشانی کی چیخ سے پورا کمرہ گونج اٹھا..  

وہ یک دم بیڈ سے اوچھل کر نیچے گر گی.. مارک مجھے نا مارو.. مارک مجھے نا مارو…  بیڈ سے نیچے گرتے ہی روشانی کے منہ سے آواز نکلی لیکن جب اس نے خود کو زمین پر گرا پایا تو جلدی سے اٹھ کر لائٹ آن کی.. اور  شیشے کے سامنے خود کو دیکھنے لگ گی.. 

اففف.. اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے یہ ایک خواب تھا.. روشانی نے شیشے میں خود کے دل والی سائیڈ کو گھوم گھوم کر دیکھ رہی تھی کبھی ہاتھ سے چیک کر رہی تھی کہ کوئی خون تو نہیں نکلا… 

اتنا بھیانک خواب روشانی نے کبھی نہیں دیکھا تھا.. 

ساتھ ہی وہ اپنے جلے ہوئے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی جو کایا نے اس کا حال کیا تھا وہ بھوجل قدموں کے ساتھ دوبارہ بیڈ پر اکر بیٹھ گی.. ہاتھ کی جل اور درد پھر سے شروع ہو گیا تھا.. 

لیکن اسے اس بات کی پروا نہیں تھی وہ انہیں سوچوں میں گم تھی کہ وہ اب کیا کرے اگے کنواں اور پیچھے کھائی تھی.. اگر وہ مارک کو نہیں مارتی تو کایا اس کو مار دے گا اور اگر وہ مارک کو مارنے جاتی ہے تو مارک اسے مار دے گا وہ سر پکڑ کر بیٹھ گی.. 

مجھے مارک کو مارنا ہی ہو گا کسی بھی طریقے سے وہ بیڈ سے دوبارہ اٹھی.. 

لونگ سلور رنگ کی ریشمی نائٹی پر گاؤن  پہنے جو ٹخنوں کو چھو رہی تھیں جس کی اگے کی ڈوریاں وہ بند کر بھول گی  اندر کی ریشمی نائٹی اس کے جسم کے خدوخال نمایاں کر رہی تھی کھڑکی کے پاس اکر کھڑی ہو گی..

 باہر کی چلتی سرد ہوا اسے سکون دے رہی تھی ہاتھ کی جلن اب اسے تقریباً بھول چکی تھی.. وہ اپنے دماغ میں مارک کو مارنے کی پلان بنا رہی تھی تب ہی اس کے دماغ میں ایک پیری پلان آیا.. 

اور ساتھ ہی سرد ہوا کا جھونکا اس کے سنہری کھلے بالوں کو چھوتا ہوا گزرا

سارا دن سونیا اذعام کے پاس بیھٹی رہی لیکن اذعام کو ہوش نہیں آیا.. 

سونیا اس کے بالوں میں بڑی شائستگی سے اپنی نرم انگلیاں پھر رہی تھی.. اذعام سوتے ہوئے کتنا پر سکون لگ رہا تھا.. اس کے چہرے پر پھیلی پیلاہٹ اب دور ہو رہی تھی جیسے اس کی تکلیف میں کمی ارہی ہو.. 

تھوڑی ہی دیر بعد پری کمرے میں آئی.. 

تم کیا سارا دن اسی کے پاس بیھٹی رہو گی یا کوئی اور بھی کام کرو گی ایک نئی لڑکی آئی ہے.. شکل وصورت اتنی خاص نہیں ہے لیکن اب گزارا کرنا ہے جب تک اذعام ٹھیک نہیں ہو جاتا تم اٹھو اور اسے تیار کرکے لے کر آؤ تھوڑی دیر میں کسٹمر آنے والا ہو گا..

 پری سونیا کو ہدایت دیتے ہوئے کمرے سے باہر آگئی.. سونیا وہی اس کا منہ دیکھتی رہ گی آج وہ پھر کسی اور کی بالی چڑھانے جا رہی تھی.. 

سونیا نے جب سے اذعام کی حالت دیکھی تھی اس کی آنکھیں کھول گی تھی.. آج تک وہ اپنے اوپر ہوتے ظلم کو برداشت کر رہی تھی لیکن ناجانے کیوں اسے اذعام کی تکلیف نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا.. 

اس کا دل اب اتنے عیش و آرام والے بنگلہ سے اٹھ گیا تھا.. وہ اب یہ نہیں چاہتی تھی کہ جس تکلیف سے وہ اور اذعام گزرے ہیں اور کوئی بھی گزرے…  

سونیا نے ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بیڈ سے اٹھنے ہی والی تھی کہ اذعام نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا جو اذعام کے سینے پر تھا.. 

اذعام کو ایسے ہوش میں آتا دیکھ کر سونیا کے چہرے پر مسکراہٹ اگی وہ جو صبح سے مایوس ہو کر بیھٹی تھی اب اذعام کے حرکت میں آنے پر وہ خوش ہو گی تھی لیکن ابھی اذعام نے آنکھیں نہیں کھولی تھیں.. 

سونیا کو پری کا جو حکم ملا تھا وہ بھی کام اس نے کرنا تھا.. اس نے بڑے آرام سے اذعام کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور بیڈ سے اتر گی کمرے سے جاتے ہوئے اس نے کمرے کو باہر سے لاک کر دیا تاکہ کوئی اندر نا جا سکے.. 

سونیا جیسے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو وہاں تقریباً بارہ سال کی گندمی چپٹے ناک والی لڑکی بیھٹی ہوئی تھی جس کی حالت دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ مانگنے والی ہو گی.. 

اس نے سر پر کافی مقدار میں تیل لگایا ہوا تھا اور اپنی بڑی بڑی آنکھوں میں سرمہ بھر کر ڈالا ہوا تھا.. پاؤں میں جو چپل پہنی ہوئی تھی وہ کافی پرانی لگ رہی تھی جس پر مٹی جمی ہوئی تھی.. 

سونیا چلتی ہوئی اس کے پاس آئی اس لڑکی نے سر اٹھا کر سونیا کی طرف دیکھا.  سونیا کو اس لڑکی پر بڑا ترس آیا.. اس نے ڈرائنگ روم کے چاروں طرف نظر گھوما کر دیکھا کوئی بھی نہیں تھا.. 

سونیا گھٹنوں کے بل اس لڑکی کے. پاس بیٹھ گی.. 

اگر تم یہاں سے جانا چاہتی ہوں تو میں تمہیں ابھی یہاں سے نکال دوں گی کسی کو خبر بھی نہیں ہو گی.. سونیا نے دھیمے لہجے میں. اس سے بات کی 

لڑکی اپنی بڑی بڑی آنکھوں کھولے سونیا کی طرف دیکھ رہی تھی.. اس نے اپنے دوپٹے کے ساتھ ناک صاف کیا اور سونیا کی طرف دیکھ کر بولی.. 

کیوں. بی بی.. اپنوں کو تو یہاں سے کیوں جانے کو کہہ رہی ہے.. لڑکی نے سونیا کو بڑے کرخت سا جواب دیا جس پر سونیا نے اسے منہ پر انگلی رکھتے ہوئے آہستہ بولنے کا کہا.. 

تم  نہیں جانتی کہ یہاں تمہیں کیوں لایا گیا ہے.. اس لئے میں تمہیں کہہ رہی ہوں کہ تم یہاں سے چلی جاؤ نہیں تو تمہارے لیے یہ جیل سے کم نہیں ہو گا.. سونیا نے اس لڑکی کے گردآلود ہاتھوں کا تھامتے ہوئے کہا.. 

بی بی اپنوں کو سب پتہ ہے یہاں کیا کام ہوتا ہے اپنوں کو تو ہمیں کوئی بچی ناہی سمجھ.. جو یہاں کام ہوتا ہے ہمرے ساتھ پچھلے دو سالوں سے ہو رہا ہے وہ بھی بنا پیسے دیے .. کبھی کوئی آتا ہے. پکڑ کر لے جاتا ہے تو کبھی کوئی.. ایک بار تو ہمرے چچازاد ہم کو لے گیا تین دن تک اپنے بدمعاش دوستوں کے ساتھ رکھا.. 

اور تو اور ایک بار ہمرے جھگی میں جو سردار ہے وہ لے گیا.. اس نے تو پورے دو ہجار روپے دیے تھے.. اس لئے ہمرے کو نا سیکھا.. یہ تو پری باجی کا کرم ہے جو ہمرے کو یہاں کپڑا لیتھا دے گی سکون سے رہے گے ہم تو.. اب بتا کس کے پاس جانا ہے.  لڑکی نان سٹاپ بولتی جارہی تھی اس کا ایک ایک لفظ سونیا کے وجود میں تیر کی طرح لگ رہا تھا.. 

ایک بارہ سال کی لڑکی کس طرح رہ رہی تھی سونیا نے اپنے آنکھوں سے نکلتے آنسو کو فورا چھپایا.. 

تمہارے ماں باپ کہاں ہیں.. سونیا نے  بمشکل کہا.. 

اپنوں کو نہیں پتہ جس سے پوچھو کہتا ہے کہ تو سڑک پر ملی تھی پتہ نہیں کس کا گناہ ہیں اپنوں.. اپنوں کو تو بس یہ پتہ ہے کہ ہم فقیر ہیں.. مانگ لیا تو کھا لیا.  نہیں مانگا تو کوئی اور اپنوں کی بوٹی بوٹی نوچ کر کھا جائے گا.

لڑکی نے ایک ٹانگ صوفے پر رکھی اور سونیا کے بولنے کا انتظار کرنے لگ گی اب سونیا کے پاس اور کوئی بات نا جواز تھا کہ وہ اس کی مدد کرتی.. پری ہمیشہ وہی مال اٹھا کر لے کر آتی تھی جس پر اسے نقصان نا ہو.. 

ہممم…  ٹھیک ہے آؤ میرے ساتھ.. سونیا نے لڑکی کو کہا جو اپنے سر میں کھجلی کر رہی تھی.. 

اچھا بی بی.. لڑکی نے کہا اور سونیا کے پیچھے چلی پڑی.. 

پری کے کہنے کے مطابق سونیا نے اس لڑکی کو تیار کر دیا.. اور ایک کمرے میں لے گی جہاں مدھم سی روشنی جل رہی تھی.. سونیا نے لڑکی کو وہاں بیٹھنے کا کہا اور خود باہر اگی.. 

اسے سب سے زیادہ فکر اذعام کی کھائی جا رہی تھی.. وہ جلدی سے چلتے ہوئے. اذعام کے کمرے تک آئی اس نے جیسے کمرے کا دروازہ کھولنے کے لیے چابی لگائی تو دیکھا کمرہ پہلے سے کھولا ہو ا تھا.. یہ دیکھتے ہی سونیا کہ ہوش اڑ گئے..

 اس کے دماغ میں سو وسوسے آنا شروع ہو گے کہ کہیں پری اذعام کو اسی حالت میں دوبارہ…. سونیا نے فوراً  ان وسوسوں کو اپنے دماغ سے نکالا اور اندر آئی اندر پری کے ساتھ عزل کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں پسٹل تھا اور اذعام اب بیڈ سے ٹیک لگائے دونوں کی طرف خوف زدہ آنکھوں سے دیکھ رہا تھا.. 

سونیا کے کمرے سے جانے کے بعد پری اور عزل اذعام کے کمرے میں آئے تھے جب انہیں سامنے اذعام آنکھیں کھولے لیٹا نظر آیا.. 

پری اور عزل دونوں اذعام پر وہی طریقہ استعمال کر رہے تھے. جو وہ ہر گھبرائے ہوئے بچوں پر کرتے ارہے تھے.. ان کے دماغ میں یہاں سے نکلنے کا ہر خیال کو ان کی موت کا ڈر ڈال کر چپ کروا دیتے تھے.. 

اور یہی طریقہ وہ اذعام پر استعمال کر رہے تھے.. عزل نے ہاتھ میں پسٹل پکڑی ہوئی تھی جو اس بات کے انتظار میں. تھا کہ اگر اذعام انکار کرتا ہے تو گولی اس کے دماغ کے آر پار کر دوں.. 

یہ سب دیکھ کر سونیا کے پسینے چھوٹ رہے تھے.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

روشانی اپنا پلان بنا چکی تھی اس نے صبح اٹھتے ہی سب سے پہلے ہادی کو کال کیا… لیکن ہادی نے روشانی کا فون نہیں اٹھایا.. روشانی نے کافی مرتبہ ٹرائی کی لیکن ہادی نے فون نہیں اٹھایا روشانی کو یہی پریشانی لگ گی کہ کہیں کایا نے اس کچھ کر نا دیا ہو.. 

اسی سوچ میں روشانی نے ایک ہاتھ سے بمشکل اپنی جیکٹ اٹھائی اور باہر جانے کے لئے موڑی ہی تھی کہ اس کے فلیٹ کی بیل ہوئی روشانی نے جلدی سے بڑھ کر دروازہ کھولا.. 

دروازہ کھولتے ہی اس کے سامنے ہادی کھڑا تھا بازوں اور ٹانگ پر پٹی باندھے..  

ہادی تم.. یہاں.. تمہیں آرام کی ضرورت تھی تم کیوں آئے ہو میں ارہی تھی تمہاری طرف.. روشانی نے دروازے سے رستہ چھوڑا اور ہادی اندر اکر کرسی پر بیٹھ گیا.. 

مجھے کچھ بھی تو نہیں ہوا بس یہ معمولی سے زخم ہیں جو ٹھیک ہو جائیں گے مجھے تو تمہاری فکر ہو رہی تھی اس لیے صبح چلا آیا..  ہادی روشانی کو کہہ رہا تھا اور روشانی کو ہادی کا یوں اس کا خیال کرنا متاثر کر رہا تھا.. 

میں تمہارے لیے چائے بنا کر لاتی ہوں روشانی فوراً اٹھ کھڑی ہوئی.. 

کیا اس زخمی ہاتھ سے چائے بناؤ گی رہنے دو میں ناشتہ کرکے آیا ہوں تم میرے پاس بیٹھو.. اور بتاؤ تم نے کیا پلان بنایا ہے..  ہادی جو بغیر ناشتے کے اٹھ کر اگیا تھا اس نے روشانی کو روکنے کے لئے کہا کیوں کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنے ایک جلے ہوئے ہاتھ کے ساتھ چائے بنائے.. 

تمہیں کیسے پتہ کہ میں پلان بنا چکی ہوں.. روشانی جاتے ہوئے ہادی کی بات پر حیرت سے روک گی.. 

ہادی کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اس نے جواب دینے کی  بجائے اپنے کندھے اوپر کئے.. 

چلو اب آجاؤ مجھے اپنا پلان بتاؤ تاکہ اس پر کام شروع کیا جائے.. ہادی نے بات ٹالتے ہوے روشانی کو بیٹھنے کا اشارہ کیا.. 

کام میں کر چکی ہوں.. بس آج رات کا انتظار ہے.. اگر وہ لڑکی کامیاب ہو گی تو بہت اچھی بات ہے اور اگر وہ کامیاب نہیں ہوئی تو کم از کم اس کے گلےمیں پہنا نکلیس جس میں میں نے کیمرا لگایا ہے اس سے کچھ نا کچھ تو ہمیں مارک کے بارے میں پتہ چل جائے گا.. 

پھر اسی حساب سے ہم اپنا اگے کا پلان کریں گے.. 

روشانی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے روانی کے ساتھ ہادی کو اپنے پلان کے بارے میں بتا رہی تھی.. 

اس کا مطلب کہ تم کسی لڑکی کی جان کو خطرہ میں ڈال رہی ہو.. تم کب سے قاتل بن گی ہو.. ہادی روشانی کا پلان سن کر شوکڈ ہو گیا.. 

ہادی کی اس بات پر روشانی نے آنکھیں سکڑتے ہوئے اس کی طرف دیکھا.. 

تم نے میری بات کو غور سے نہیں سنا میں نے کہا ہے کہ اگر وہ ناکام ہو جاتی ہے تو.. اور وہ ناکام اپنی وجہ سے ہو گی میں نے اسے سب بتایا ہے اور وہ اس بات پر ایگری ہے وہ تو کہتی ہے. کہ میں نے بڑے بڑوں کو مارا ہے تو یہ مارک کیا چیز ہے.. تو میں نے کہا ٹھیک ہے.. اس لئے میں نے جولیا کی بات پر اسے یہ کام دیا ہے.. 

روشانی کے منہ سے جولیا کا نام سن کر ہادی کو  تھوڑی تسلی ہوئی کیونکہ  جولیا وہ لڑکی تھی جو کسی کا قتل  بآسانی طریقے سے کر دیتی تھی اور کوئی سوراخ بھی نہیں چھوڑتی تھی.. 

اوکے پھر  ٹھیک ہے تو ہمیں کیا کرنا ہو گا کیا ہم اس طرح کمرے میں رہ کر جولیا کے فون کا انتظار کرنا ہو گا.. ہادی نے اگے کے پلان کے بارے میں پوچھا… 

نہیں ہم بھی اسی ہوٹل میں جائیں گے جہاں جولیا اور مارک ہو گا جو بھی صورتحال بنے گی ہمیں سب سے پہلے وہاں کمرے میں جانا ہو گا.  روشانی نے ساری پلاننگ ہادی کو بتائی اب دونوں اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ رات کو فتح ملتی ہے یا ناکامی.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖

رات کے دس بج رہے تھے.. مارک اپنے ہوٹل کے. کمرے میں موجود تھا جہاں وہ ٹیبل پر ٹانگیں رکھے شراب سے لطف اندوز ہو رہا تھا.

 جہاں ہر طرف گولڈن لائٹس آن تھی بیڈ پر مخمل کا بستر تھا جہاں آج ایک اور کلی نے اس کی خواہشات کی بالی دینی تھی..

کمرے کا دروازہ کھولا اور جولیا اندر آئی.. مارک نے ایک نظر جولیا پر ڈالی اور پھر شراب پینے میں مصروف ہو گیا..

 جوشوخ رنگ برنگے کپڑوں میں مینی سکرٹ پہنے بال کھولے چھوڑے ہونٹوں پر سرخ رنگ کی لپ سٹک لگائے کھڑی تھی گلہ اتنا گہرا تھا اس کے وجود کے خدوخال صاف دکھائی دے رہے تھے.. پاؤں کی قینچی بنائے وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے اب وہ  بڑی رومینٹک انداز میں اس کی طرف دیکھ رہی تھی.. 

مارک کو ہمیشہ وہ لڑکیاں پسند تھی جو اس کی حیوانات کو دور کرنے کے لیے اس کا برابر ساتھ دے.. مارک نے دوبارہ جولیا کی طرف دیکھا جو اس انداز میں کھڑی تھی.. جسے لگ رہا ہو کہ وہ آج مارک کے لیے رات کو  اور حسین بنا دے گی 

مارک ہاتھ میں شراب کا گلاس لیے کرسی سے اٹھا اور اس کی طرف بڑھ رہا تھا آنکھوں میں مدہوشی تھی  شرٹ کے اگلے بٹن کھولے ہوئے تھے جس میں اس کا چھوڑا سینہ صاف دکھائی دے رہا تھا..

مینی سکرٹ پہنے جولیا نے اس کو اپنے پاس آتے دیکھا..تو اس نے اپنے بالوں کو ہاتھ سے سیٹ کیا.. 

 مارک نے جولیا کے قریب آتے ہی اس  کی کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے اپنی طرف کھینچا.. جولیا ایک جھٹکے کے ساتھ اس کے چوڑے سینے کے ساتھ جا لگی..

وہ نشے میں اتنا دھت تھا کی اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھی..جس سے وہ جولیا کے شربتی ہونٹوں کو دیکھ رہا تھا

جولیا کے پاس اس سے اچھا موقع اور کوئی نہیں تھا وہ سمجھ گی تھی کہ مارک اب فل نشے میں ہے.. 

اس نے جلدی سے اپنی کمر کے پیچھے رکھے ہوئے پسٹل کو نکالنے کے لیے ہاتھ اپنی کمر کے پیچھے لے کر گی..

اففففف... میرے بال چھوڑو... مارک.. مجھے درد ہو رہا ہے..

مارک نے شراب کا گلاس زمین پر پھینکتے ہوئے ایک ہاتھ سے جولیا کے پیچھے سے بالوں کو پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے کمر کی طرف جاتے ہوئے ہاتھ کو..

تم نے کیا مارک کو بیوقوف سمجھا ہے جولیا.. جہاں تمہاری سوچ ختم ہوتی ہے وہاں میری شروع ہوتی ہے.. میری چار آنکھیں ہیں یہ تم بھول گی ہو کیا..

مارک نے ایک جھٹکے سے جولیا کو بیڈ پر پھینکا.. اور اس کی کمر کے پیچھے رکھی پسٹل کو نکلا کر اپنی سیدھی ہاتھ کی انگلی میں گول گول گھومانے لگا..

مارک شراب میں بھی ہوش میں رہتا ہے یہ تمہیں کسی نے نہیں بتایا کیا..

میں کسی کو سر پر سوار نہیں ہونے دیتا چاہیے وہ کوئی لڑکی ہو یا شراب..

اب تم مجھے بتاؤ کہ تمہیں کس نے بھیجا ہے یہاں.. تم نے آج تک بہت سے لوگوں کو مارا ہے تم کیا سمجھی تھی کہ میں نادان ہوں مجھے تمہارے بارے میں پتہ نہیں ہو گا.. اب جلدی سے بتاؤ کس نے بھیجا ہے  تمہیں.. 

مارک نے ایک ٹانگ بیڈ پر رکھی اور تھوڑا جھک کر جولیا کی طرف دیکھا...

جو اپنی موت کو اپنے سامنے دیکھ کر بت بن گی تھی.. اسے اب  پتہ چل گیا تھا  کہ اب وہ بچ بھی نہیں سکتی اس لیے چپ رہنا ہی بہتر ہے..

اتنی پیاری رات کو تم نے ضائع کر دیا سارا موڈ ہی آف ہو گیا..

مارک نے پسٹل جولیا کے گلے کے پاس رکھتے ہوئے پسٹل کو گول گول گھوما رہا تھا..

مجھے ایک موقع دے دو مارک میں دوبارہ ایسا کچھ نہیں کرو گی.. جولیا کے منہ سے بمشکل یہ الفاظ نکل پائے..

مارک تھوڑا اور جولیا پر جھکا...

ہممممممہ... کیا پرفیوم لگایا ہے.. مارک کا چہرہ اب جولیا کی گردن کے پاس تھا...

کاش تم آج یہ سب نا کرتی..

مارک کو دھوکہ پسند نہیں اور موقع وہ کبھی  دیتا نہیں ...

اگلے لمحے مارک کے ہاتھ میں پکڑی پسٹل سے گولی نکلی جو  جولیا کے سر کے آر پار ہو چکی تھی..

خون کی چھینٹے بیڈ کی چادر کو سرخ کر رہی تھی..

کتنی بار کہا ہے دھوکہ نہیں...

مارک چلتا ہوا ٹیبل کے پاس آیا اور شراب کی بوتل اٹھا کر ایک ہی گھونٹ میں خالی کرتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکل گیا…  

روشانی اور ہادی پہنچ چکے تھے.. ہوٹل کے مین ھال میں بیٹھتے وہ جولیا کا انتظار کر رہے تھے.  اتنے میں روشانی کو سامنے سے مارک آتا دکھائی دیا جس کی شرٹ اور اس کے سینے پر خون کے چھینٹے پڑے ہوئے تھے.. 

مارک کو آتا دیکھ کر روشانی نے جلدی سے اپنے منہ کو اخبار کے اندر چھپا لیا.. مارک غصے سے چلتا ہوا باہر گاڑی کی طرف چلا گیا.. 

لو تمہاری جولیا گی کام سے… ہادی نے روشانی کے چہرے سے اخبار ہٹاتے ہوئے کہا.. 

چپ کرو اور میرا یہاں انتظار کرو میں جولیا کا نکلیس لے کر آئی.  روشانی جلدی سے وہاں سے اٹھی اور جس کمرے میں مارک اور جولیا تھے اس طرف چلی گی.. 

کمرے میں جاتے ہی اسے بیڈ پر جولیا کی لاش پڑی نظر آئی جو خون سے لت پت تھی.. 

جولیا کو دیکھ کر اسے دکھ تو بہت ہوا لیکن جیتنے خون جولیا نے کیے تھے لوگوں کہ اس کی یہی سزا ہونی چاہیے تھی.. یہ سوچتے ہوئے. روشانی اگے کو بڑھی اور جولیا کے گلے میں پڑا نکلیس کو خون سے بھرا ہوا تھا کھینچ کر نکال لیا.. 

روشانی اور ہادی کمپیوٹر پر وہ ریکارڈنگ لگا کر دیکھ رہے تھے جو روشانی  کو جولیا سے ملی تھی… 

یہ تو جانور ہے پورا  اسے تو کسی بات کی تمیز نہیں ہے.. ہادی  بڑے غور سے ویڈیو کو دیکھ رہا تھا جب مارک نے جولیا کو ایک ہی گولی سے مار دیا تھا.. 

ٹھیک کہا تم نے ہادی یہ جانور ہے اور اگر جانور کو جانور کے طریقے سے مارا جائے تو وہ زیادہ بہتر ہوگا.. 

روشانی نے ویڈیو کو وہی روکا اور اٹھ کھڑی ہوئی اب وہ ایک ہاتھ کمر پر رکھے دوسرے ہاتھ سے اپنی تھوڑی کو مسلتے ہوئے چکر پر چکر لگا رہی تھی…. 

بیٹھ جاؤ روشانی بیٹھ کر بھی سوچا جا سکتا ہے.. ہادی کی آنکھیں تھک گی تھی جتنے روشانی چکر لگا رہی تھی.. 

اگیا.. یس پلان دماغ میں اگیا روشانی نے چیختے ہوئے ہادی کر طرف دیکھا.. 

اچھا ٹھیک ہے بتاؤ تمھارا کیا پلان ہے..روشانی جلدی سے ہادی کے پاس اکر بیٹھ گی اور سارا پلان ہادی کو بتا دیا.. 

ہادی روشانی کا پلان سن کر اس کی طرف بڑے غور سے دیکھ رہا تھا.. 

سمجھ گے ہونا بس اب کل کا انتظار کرو.  روشانی ہادی سے بات کرتے ہوئے سیدھی ہو کر بیٹھ گی اس کی نظریں باہر کھڑکی کی طرف تھیں جہاں سے ہوا کے سرد جھونکے اندر آرہے تھے.. 

➖➖➖➖➖➖➖

شام کا وقت تھا مارک اپنے ہوٹل کے گراؤنڈز فلور پر موجود تھا.. مارک کا یہ ہوٹل پچیس فلور پر مشتمل ایک بڑی بلڈنگ تھی جس کا فسٹ فلور کے کمروں اور ایک بڑے ھال کو اس نے اپنی عیاشی کے لیے رکھا ہوا تھا.. 

کل کے واقعہ کے بعد مارک بہت زیادہ محتاط ہو گیا تھا اور اسے لیڈی بینا پت غصہ بھی تھا کہ اس نے ایسی لڑکی کیوں بھیجی.  اتنے میں سامنے سے لیڈی بینا بڑے خوشگوار موڈ میں چلتی ہوئی مارک کے پاس ارہی تھی اس کے پاس مارک کو خوش کرنے کے لیے ایک نئی لڑکی آئی تھی.. 

لیڈی بینا کو دیکھ کر مارک غصے میں اگیا.. لیڈی بینا جیسے کرسی پر بیٹھی مارک نے غصے نے اس کا بازو دبوچا.. 

کل تم نے کون سی لڑکی بھیجی تھی تمہیں پتہ بھی ہے کہ وہ مجھے مارنے کے لیے آئی تھی.. مارک نے غصے سے لیڈی بینا کا بازوں اور مزید دبوچا.. 

مارک چھوڑو مجھے.. میں نے کل کسی کو نہیں بھیجا.. تمہیں کوئی غلطی ہوئی ہے میں تو آج تمہارے پاس اس لیے آئی تھی کہ تمہیں بتا سکوں کہ آج ہی میں نے تمہارے لئے ایک لڑکی کا انتظام کیا ہے مگر تم مجھ پر ہی بول رہے ہو.

  لیڈی بینا نے مارک کے ہاتھ کو اپنے بازو سے الگ کرتے ہوئے غصہ سے بھر لہجے میں. کہا.. اس سے پہلے کہ مارک کچھ کہتا.. سامنے سے ویٹر کا لباس پہنے ہائی پونی کیے آنکھوں میں گرین لینز لگائے ہاتھ میں ڈرنک کی ٹرے پکڑے روشانی مارک اور بینا کی طرف ارہی تھی.. 

ان دونوں کے پاس آتے ہی روشانی نے. لیڈی بینا کو ہائے بولا.. 

ہائے لیڈی بینا.. کیسی ہیں آپ.. یہ کہتے ہوئے روشانی نے ٹرے  ٹیبل پر رکھ کر جانے کے لیے موڑی.. مارک نے روشانی کو سر سے لے کر پاؤں تک دیکھا.. 

یہی ہے وہ لڑکی کیا.. مارک نے بینا کو کہا.. مارک کی آواز سن کر روشانی وہی گلاس ٹھیک کرنے کے بہانے روک کی اس نے جیسا سوچا تھا ابھی تک ویسے ہی ہو رہا تھا.. 

لیڈی بینا نے گردن موڑ کر روشانی کی طرف دیکھا وہ جانتی تو نہیں تھی لیکن روشانی کے حلیہ اور اس کے جسم کے خدوخال سے اس نے ایک منٹ میں اندازہ لگا لیا تھا کہ لڑکی یہاں پر نئی ہے…. 

سچ میں لیڈی بینا تمہاری چوائس کی داد دینی پڑے گی.. مارک دور کھڑی روشانی کی طرف دیکھا.. جس کی پشت مارک کی طرف تھی.. مارک کی اس بات پر روشانی تھوڑا ہنسی.. 

کتنا شوق ہے اسے اپنی موت سے ملنے کو.. روشانی نے گلاس صاف کرتے ہوئے بڑبڑائی.. 

بینا روشانی کو نہیں جانتی تھی.. لیکن روشانی کو دیکھ کر مارک کا موڈ اچھا ہو گیا تھا اس لیے اس نے ہاں بولنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی.. 

یہ ہی ہے مارک آج میں اسے تمہارے پاس بیھج دوں گی لیکن یہ نئی لڑکی ہے تو خیال سے.. بینا نے یہ کہا اور کرسی سے اٹھ کر روشانی کی طرف چلی گی جو اسی انتظار میں تھی کہ لیڈی بینا اسے خود اکر کہے سب کچھ پلان کے مطابق چل رہا تھا.. کیفے میں کچھ فاصلے پر ہادی بیٹھا روشانی کی نگرانی کر رہا تھا جیسے روشانی نے. ہادی کو کہا تھا.. 

لیڈی بینا روشانی کے پاس کھڑی کچھ باتوں میں مصروف تھی مارک مسلسل روشانی کو دیکھ رہا تھا.. تھوڑی دیر بعد لیڈی بینا مارک کے پاس آئی.. 

مارک وہ لڑکی بہت بڑی رقم کا مطالبہ کر رہی ہے میں تمہیں کوئی اور لڑکی بھیج دیتی ہوں اور اس کی کچھ شرائط بھی ہیں.. بینا پریشانی میں مارک کے پاس آئی.. 

مارک جو مسلسل روشانی کے پلٹنے کا انتظار کر رہا تھا بینا کی بات پر اس نے بینا کی طرف دیکھا.. 

جیسا وہ کہتی ہے ویسا کر لو جتنی رقم اسے چاہیے دے دو مجھے بھی اس کی ہر شرط منظور ہے لیکن لڑکی یہی چاہے مجھے.. مارک شراب کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا.. 

ٹھیک ہے. مارک.. جیسا تم کہو.. یہ کہتے ہوئے لیڈی بینا وہاں سے چلی گئ.. روشانی نے. جب یہ سنا تو اسے اپنا پلان کامیاب ہوتا دکھائی دیا.. اس نے سامنے بیٹھے ہادی کو آنکھ مارتے ہوئے اوکے کا اشارہ کیا.. 

➖➖➖➖➖➖➖

مارک کے کمرے کو کچھ الگ طریقے سے سجایا ہوا تھا گولڈن لائٹس کی جگہ پر بلیو لائٹس لگائی گی تھی.. 

پردے تبدیل کر دے گے تھے ان کی جگہ پر سکن اور بلیو رنگ کے ریشمی پردے لگائے گئے تھے.. 

بیڈ پر آف وائٹ کلر کی مخمل کی بیڈ شیٹ بچھائی گی تھی.. ہر طرح سے وہ کمرہ ایک الگ لوک دے رہا تھا.. 

دوسری جانب اسی ہوٹل کے دوسرے روم میں  روشانی تیار ہو رہی تھی.. رائل بلیو کلر کا منی سکرٹ پہنے اوپر شارٹ ٹاپ پہنے جس کا گلا کافی گہرا تھا اپنے بالوں کو گولڈن کلر کے سپرے سے ڈیزائن بنایا ہوا تھا تاکہ وہ پہچانی نا جایے آخر میں. اس نے اپنی کالی سیاہ آنکھوں میں گرین کلر کے لینز لگائے.. اتنے میں. روم کا دروازہ کھولا ہادی اندر ایا.. اس نے روشانی کو اس حلیے میں دیکھ کر شکڈ ہو گیا.. 

روشانی یہ کیا تم نے ایسا لباس کیوں پہنا ہے آج تک تو تم نے کبھی نہیں پہنا اور صرف مارک کو مارنے کے لیے تم.. ہادی بولتا ہو چپ کر گیا اس نے فوراً اپنی نظریں روشانی سے ہٹا لی.. 

ہادی کو ایسا بولتا دیکھ کر روشانی ہنس پڑی.. اور چلتے ہوئے ہادی کے پاس آئی جو ماتھے پر بل ڈالے کھڑا تھا.. 

اس نے ہادی کا ہاتھ پکڑا اور اپنے بازو پر رکھا.. 

یہ دیکھو میں نے سکن ٹائٹ پہنی ہوئی ہے پوری باڈی پر تم نے مجھے بیوقوف سمجھا ہوا ہے کیا.. چلو اب میں چلتی ہوں تمہیں پتہ ہے نا کہ اگر کوئی کام خراب ہوا تو میں تمہیں اس رنگ میں چھپے آلارم سے الرٹ کر دوں گی.. 

روشانی کے بازو پر ریشمی سکن ٹائیٹ کو محسوس کرتے ہوئے ہادی کو کچھ حوصلہ ہوا.. 

ٹھیک ہے. تم جاؤ اور دھیان سے اوہ انسان نہیں جانور ہے اوکے.. 

ہادی نے روشانی کو ہدایت دی.. جس پر روشانی مسکرا دی اسے اپنے پلان پر بہت یقین تھا اب تک وہ کوئی بھول چوک نہیں کر پائی تھی اور آگے بھی اسے یقین تھا کہ وہ کامیاب ہی ہو گی.. 

روشانی نے. اثبات میں. سر ہلایا اور کمرے سے چلی گی.. ہادی اسے جاتا دیکھ رہا تھا وہ  شیر کی غار میں گھس کر اسے مارنے گی تھی پتہ نہیں وہ آج کی رات روشانی کو ہمیشہ کے لئے کھو دیے گا یا وہ فاتح حاصل کر کے آئے گی یہ اب ہادی کے دماغ میں چل رہا تھا.. 

➖➖➖➖➖➖➖

مارکے نے جیسے کمرے کا دروازہ کھولا اس کی آنکھیں وہی سامنے بیڈ پر بیھٹی روشانی کو دیکھ کر روک گی.. کمرے کی سجاوٹ اور روشانی کے لباس دونوں میں اتنی رغبت تھی کہ مارک دروازے کے پاس ہی روک گیا.. 

روشانی مارک کو ایسے سکتے میں کھڑا دیکھ کر بیڈ سے اٹھی اور ہائی ہل کے ساتھ بمشکل چلتے ہوئے. اپنی صراحی جیسی کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے مارک کے پاس  آئی…  

مارک اسے یوں اپنے پاس آتا دیکھ کر زرا برابر بھی نہیں ہلا. روشانی نے آگے بڑھ کر مارک کے گلے میں اپنی بانہوں کو حصار بناتے ہوئے اپنے ایک پاؤں سے کھولے دروازے کو ٹھوکر لگائی جس سے وہ بند ہو گیا.. 

مارک بڑے غور سے روشانی کی طرف دیکھ رہا تھا اسے روشانی سے ایک عجیب سی اپنائیت کا احساس ہو رہا تھا جو آج سے پہلے اسے کسی لڑکی سے نہیں ہوا.. 

مارک نے روشانی کی کمر پر بڑی نزاکت سے  اپنے ہاتھ رکھے جیسے کوئی موم کی گڑیا ہو جو چھونے سے ٹوٹ بھی سکتی ہے.. مارک کے اس طرح ہاتھ رکھنے سے روشانی کے جسم میں یک دم کپکپاہٹ اگی.. لیکن اس نے خود کو کنٹرول کیا وہ جس مقصد سے آئی تھی اسے وہ ہر حال میں. پورا کرنا تھا.. 

روشانی نے مسکراتے ہوئے مارک کو دیکھا جو اس کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا.  روشانی نے اپنے بازوؤں کو حصار توڑتے ہوئے بڑے پیار سے مارک کی جیکٹ کو اتر کر بیڈ پر پھینک دیا اور مارک کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے ٹیبل کے ساتھ رکھی ہوئی کرسی پر لے گی.. مارک نے آج ابھی شراب نہیں پی تھی لیکن وہ روشانی کے نشے میں ایسا گم ہو گیا تھا کہ وہ بولنا ہی بھول گیا تھا…. 

روشانی نے مارک کو کرسی پر بیٹھا دیا اور خود چلتے ہوئے ٹیبل کے پاس آئی مارک روشانی کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا اس کی لچکدار کمر جو بمشکل اٹھائیس انچ کی ہو گی اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہی تھی.. 

روشانی نے گلاس میں شراب ڈالی اور مارک کے پاس آئی.. 

یہ لو آج کی رات کی شروعات اس ڈرنک سے کرتے ہیں.. روشانی کی آواز مارک کے کانوں کو چھوتی ہوئی کسی ہائی لیول کی شراب کی طرح لگ رہی تھی.. 

نہیں… مجھے آج رات شراب نہیں پینی آج رات تم ہی کافی ہو میرے لیے.. مارک نے اتنے دھیمے لہجے میں. آج تک کسی لڑکی سے بات نہیں کی تھی اس نے روشانی کے ہاتھ سے شراب کا گلاس پکڑتے ہوئے دوبارہ ٹیبل پر رکھ دیا.. 

روشانی مارک کی اس بات پر چونک گی تھی کیونکہ کہ اس نے شراب گلاس میں ڈالتے ہوئے اس میں نیند کی گولیاں ڈال دی تھیں.  اب یہ پلان روشانی کا نیند کی گولیوں والا ناکام ہو گیا تھا.  اب اس نے جو دوسرا پلان سوچا تھا اسے اس پر عمل کرنا تھا.. 

تمہیں لیڈی بینا نے نہیں بتایا تھا کہ آج کی رات میری مرضی سے ہو گی میں نے اپنی تمام شرائط لیڈی بینا کو بتا دی تھیں.. روشانی مارک پر تھوڑا جھکی اور اسکے کھلے ہوئے شرٹ کے بٹن کو مزید کھولتے ہوئے مارک کی طرف دیکھا جو روشانی سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں پا رہا تھا اس نے فوراً روشانی کے ہاتھوں کو روکا جو اس کی شرٹ کے بٹن کھول رہی تھی.. مارک کی اس حرکت پر روشانی چونک گی. اس نے حیرت مارک کی طرف دیکھا.. 

مجھے منظور ہے تمہاری ہر شرط لیکن آج شراب نہیں.. 

مارک نے  یہ کہتے ہوئے جیسے روشانی کی گردن کو چھوا اسے کسی نرم روئی کی طرح لگی.. 

مارک کے ایسے چھوتے ہی روشانی فوراً پیچھے ہو گی.  ٹھیک ہے تو پھر ابھی تم نے کچھ نہیں بولنا چپ کرنا ہے.  روشانی نے. پاس پڑی ٹیبل پر رکھی ٹیپ کو اٹھا کر مارک کے منہ پر لگا دی.. 

مارک روشانی کی اس حرکت پر مسکرا رہا تھا جو  اس کی آنکھوں سے صاف دکھائی دے رہا تھا.. 

مارک نے اپنے سر کو نیچے کی طرف جھکاتے ہوئے رضامندی کا اظہار کیا.. 

روشانی چلتی ہوئی مارک کے پیچھے اکر کھڑی ہو گی اس نے بڑے نازک طریقے سے مارک کے دونوں بازو کو پیچھے کی طرف کیا اور اس پر سائیڈ ٹیبل میں رکھی ہوئی رسی کو نکال کر مارک کے ہاتھوں کو باندھ دیا یہ سب پلاننگ روشانی نے مارک کے کمرے میں آنے سے پہلے کر رکھی تھی.. مارک نے جب محسوس کیا کہ اس کے ہاتھوں کو وہ باندھ رہی ہے تو وہ پھر مسکرایا.. 

افف اس نے کتنے براسلئٹ پہنے ہوئے ہیں.. روشانی نے رسی باندھتے ہوئے دل میں سوچا.. اب چونکہ روشانی مارک کو رسی سے باندھ چکی تھی اور اس کے منہ پر بھی ٹیپ لگی ہوئی تھی اب روشانی کو مارک کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں تھا وہ بے فکری سے اٹھی اور سیدھا واش روم چلی گی اس نے وہاں جاکر اپنا حلیہ ٹھیک کیا منی سکرٹ کی جگہ اب وہ بلیک پنٹ شرٹ میں تھی اور اس کے ہاتھ میں. پسٹل تھی… بالوں کو اس نے ہائی پونی کے ساتھ باندھ لیا تھا.. 

اب وہ چلتی ہوئی مارک کے سامنے اکر کھڑی ہو گی مارک اب روشانی کو اس حلیے میں دیکھ کر حیران تھا 

مارک  غصے اور حیرت کی ملی جلی کیفیت سے اسے دیکھ رہا تھا.. 

کیوں مسٹر مارک جوزف.. کیسا لگ رہا ہے ایک کرسی پر اس طرح بندھے ہوئے.. ہاں.. 

او مائی گوڈ میں نے مارک جوزف کو باندھ دیا جو کسی کے بھی ہاتھ نہیں آتا.. چچچچچ…. کتنی شرم کی بات ہے نا مارک تمہارے لئے کہ ایک لڑکی نے تمہیں اس طرح اپنی قید میں رکھ لیا ہے…  

روشانی مارک کی کرسی کے اردگرد چکر لگاتے ہوئے اس کے کندھوں پر اپنی انگی پھیرتے ہوئے چکر لگا رہی تھی.. اور دوسرے ہاتھ میں پسٹل پکڑے اسے اپنی انگلی پر گھوما رہی تھی.. 

اوہ مارک بتاؤ گے نہیں کہ کیسا محسوس کر رہے ہو ایک لڑکی کی قید میں اکر تم تو لڑکی کو ایک ٹشو پیپر سے بھی کم اہمیت دیتے ہو تو پھر ایک لڑکی کے سامنے اتنا بے بس مارک…  اور ساتھ ہی اس روشانی نے زور کا قہقہہ لگایا.. 

ویسے کتنا اچھا لگے گا جب میں تمہیں ماروں گی اور تم کہو گے. پلیز.. پلیز مجھے چھوڑ دوں میں رحم کی بھیک مانگتا ہوں.. ہاہاہاہاہا..  روشانی نے منہ کے زاویے تبدیل کرتے ہوئے مارک کی نکل اتراتے ہوئے مارک کے قریب آئی…  

ویسے مارک تم سب کام رات کے اندھیرے میں ہی کیوں کرتے ہو تمہیں کیا دن کے اجالے سے ڈر لگاتا ہے. کیا.

اندھیرے میں. تو بزدل نکلتے ہیں.. شیر بھی اپنا شکار دن کے اجالے میں کرتا ہے.. 

روشانی مارک کے قریب آتے اس پر تھوڑا جھکی. اس نے اپنا ایک ہاتھ مارک کی گردن پر رکھا اور دوسرے ہاتھ کی پہلی انگلی کے ناخن سے جس پر سرخ رنگ کا نیل پینٹ ہوا تھا مارک کے ماتھے سے لے کر اس کی تھوڑی تک ایک لائن بنا رہی تھی.. 

کیوں نا مارک آج تمہارے طریقے سے ہی تمہیں مارا جائے.. پہلے تمہیں تھوڑا تڑپاؤں گی پھر تمہیں آہستہ آہستہ موت کی وادی میں. بھیج دوں گی.. روشانی مارک پر جھکی ہوئی اس سے بات کر رہی تھی 

مارک اسکی جھیل سی گہری آنکھوں کو دیکھ رہا تھا جو آج سے پہلے اس نے کسی لڑکی کی نہیں دیکھی تھی اور ساتھ ہی مارک کی نظر اس کے گلابی ہونٹوں پر پڑی جو کسی گلاب کی پنکھڑی کی طرح لگ رہے تھے.. روشانی نے اپنے دونوں بازو اب مارک کی گردن میں ڈالتے ہوئے اسکی قینچی بنا لی.. 

روشانی کے پاس سے آتی خوشبو مارک کو مزید اس کے قریب لا رہی تھی وہ قید میں تو تھا لیکن ایسی قید جس سے وہ کبھی نکلنا ہی نہیں چاہ رہا تھا.. 

روشانی کا چہرہ اب مارک کے اتنے قریب اچکا تھا کہ اس کی سانسوں کی مہک مارک محسوس کر رہا تھا..

 لیکن وہ ان سب میں بھی اپنے ہوش میں تھا.. مارک کے ہاتھ میں پہنے براسلیٹ کے ساتھ لگی مصنوعی چھوٹے چھوٹے چاقو جیسے سب مصنوعی سمجھتے تھے وہ دراصل میں اصل تھے.. جتنی دیر میں روشانی مارک سے باتوں سے مصروف تھی مارک ان چاقو سے رسی کو کاٹنے میں کامیاب ہو چکا تھا.. اب مارک نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ لڑکی کے ہاتھ میں پکڑی پسٹل کی گولیاں نکال چکا تھا.. 

روشانی مارک پر جھکی ہوئی تھی تب اچانک ہی مارک نے اسے اپنے مضبوط ہاتھوں سے اسکے کندھوں سے پکڑ لیا… 

اور اپنے منہ پر لگی ٹپ کو اترا…  

تم کیا سمجھی کہ مارک بیوقوف ہے.. تمہارے حسن پر فدا ہو گیا ہے جو چپ کرکے کب سے تمہاری ٹر ٹر سن رہا ہے مارک نے اب اپنے ایک ہاتھ سے روشانی کو کمر سے پکڑا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اکے اس ہاتھ کو جس میں پسٹل تھی 

خود کو مارک کی گرفت میں آتے ہی روشانی کی آنکھیں خوف سے پھیل گی.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

روشانی کے پسینے چھوٹ رہے تھے وہ سمجھ گی تھی کہ اب وہ بچنے والی نہیں ہے اور دونوں ہاتھ بھی اب مارک کی گرفت میں تھے.. وہ کسی بھی طرح ہادی کو  الرٹ  نہیں کر پا رہی تھی.. جو ہاتھ اس کا جلا ہوا تھا اسی کو مارک نے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا.  روشانی کو درد تو ہو رہا تھا لیکن وہ موت کے درد سے کم تھا.. 

ایک منٹ کے لئے روشانی کو لگا کہ اس کا خواب سچ ہو نے والا ہے اور ابھی مارک اس کے دل کے آر پار چاقو چلا دے گا.. 

مارک روشانی کو کمر سے پکڑتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا… 

مجھے چھوڑو…  روشانی نے مارک کے ہاتھوں کی قید سے رہائی پانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارے لیکن مارک کی گرفت مضبوط تھی وہ ٹس سے مس نہیں ہوئی…  

ویسے تمہیں لنز لگانے کی ضرورت نہیں ہے.. مارک جو مسلسل اس کی آنکھوں کی طرف دیکھ رہا تھا روشانی کی کمر سے ہاتھ ہٹایا.. روشانی مارک کی گرفت سے نکلتے ہی اس پر پسٹل تان لی..  

دیکھو میرے قریب بھی مت آنا نہیں تو میں گولی چلا دوں گی.. روشانی مارک پر چلائی جو آہستہ سے چلتا ہوا اس کے قریب آرہا تھا.. 

کون سی گولی چلاو گی ہاں…  مارک نے اپنی پاکٹ سے روشانی کی پسٹل کی گولیاں نکال کر اس کے سامنے زمین پر گرا دی.. گولیوں کو دیکھ کر روشانی نے جلدی سے اپنی پسٹل دیکھی جو خالی تھی.. اب روشانی کو اپنے سامنے مارک نہیں موت کا فرشتہ نظر ارہا تھا.. 

تم بولتی بہت ہو اور کام کم کرتی ہو اگر تم اتنی بے تکی بکواس نا کرتی تو شاید تم سچ میں مجھے مار چکی ہوتی لیکن.. تمہاری وہ فلموں جیسے ڈائلاگ کہ میں یہ کر دو تو میں وہ کر دو تو.. بلا.. بلا.. وہ کام خراب کر گئے..

 مارک نے اپنے ہاتھوں کی پہلی دونوں انگلیوں کو نیچے اوپر کرتے ہوئے روشانی کی طرف دیکھا جو اب پیلی پڑ رہی تھی.. اسے جولیا کی موت یاد اگی تھی ابھی اس کا بھی وہی حال ہونے والا تھا.  

تو اب مارو گے مجھے کیا.. روشانی نے سیدھا سیدھا مارک سے پوچھ لیا.. 

روشانی کی اس بات پر. مارک تھوڑا مسکرایا…  

یہ تم پر ہے کہ تم مرنا پسند کرو گی یا جو میں کہوں گا وہ کرو گی.. مارک کہتا ہوا روشانی کے پاس آیا.. روشانی دو قدم پیچھے ہو گی.. 

وہ دیکھو… کونے میں ایک چھوٹا سا سوراخ ہے وہ سوراخ نہیں ہے وہاں کیمرہ لگا ہوا ہے جس میں تمہاری وہ ساری حرکتیں ہیں جو تم نے میرے ساتھ کی ہیں اور یہ حرکتیں اگر صبح لوس اینجلس کے ہر نیٹ کیفے پر چلی گی تو سوچو کیا ہو گا..  پولیس پھر قید کی سزا اور ساری زندگی جیل کی روٹی.. مارک نے روشانی کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے کیمرے کی طرف اس کا منہ کیا.. 

افف.. روشانی.. اففف.. یہ غلطی تم سے کیسے ہو گی.. یہ ہوٹل ہی مارک کا ہے تو یہاں کیمرے تو ہوں گے…  روشانی اب دل ہی دل میں خود کو کوس رہی تھی.. 

اب روشانی کے پاس مرنے کے علاوہ مارک کی بات ماننے کا اور کوئی چارہ نہیں تھا.. 

ہاں بولو کیا بات ہے تمہاری جو مجھے مانی پڑے گی.. روشانی نے ہتھیار ڈالتے ہوئے مارک کی طرف دیکھا.. 

یہ ہوئی نا سمجھداری والی بات.. چلو تمہارے پارٹنر کے پاس چل کر بات کرتے ہیں زرا تفصیل سے بات ہو جائے گی.  مارک کی بات پر روشانی چونک گی.. 

کون سا پارٹنر.. روشانی نے لاعلمی کا اظہار کیا. 

وہی جو ایک کمرہ چھوڑ کر بیٹھا تمہارے آنے کا انتظار کر رہا ہے وہی.. مارک نے ٹیبل سے فون اٹھایا اور کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے تھوڑا جھک کر روشانی کو باہر آنے کا کہا.. 

روشانی تو بہت بڑی بیوقوف ہے مارک کو اگرمارنا ہی تھا تو کہیں اپنی جگہ پر بلاتی اسی کے ہوٹل میں ہی کیوں.  روشانی نے غصے سے مارک کی طرف دیکھا اور کمرے سے باہر اگی.. 

مارک بھی اس کے پیچھے چلاتا ہوا باہر اگیا.. 

ویسے تمہاری بٹن کھولنے کی سپیڈ بہت اچھی ہے.. کسی دن ٹرائی ضرور کرواں  گا  تم سے آج تو موقع ہی نہیں ملا.. مارک جیبوں میں ہاتھ ڈالے ایک نظر روشانی کی طرف دیکھا.  

شیٹ اپ.. اپنی بکواس بند کرو.. روشانی نے غصے سے مارک کی طرف دیکھا.. اتنے میں ہادی کا کمرہ اگیا روشانی نے. کمرے کی بیل دی.. ہادی نے انتظار کروائے بغیر جلدی سے دروازہ کھول دیا.  

لیکن دروازہ کھولتے ہی اس کی سانس وہی روک گی.. جب اس نے روشانی کے ساتھ مارک کو دیکھا.. ہادی نے فوراً کمر کے پیچھے رکھی پسٹل نکالنا چاہی لیکن روشانی نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا.  

کیوں کہ مارک اسے بتا چکا تھا کہ اگر وہ اسے کسی بھی طرح اسے مار دیتی ہے تو اس کہ یہ ویڈیو پھر بھی لیک ہو جائے گی.. 

روشانی کے اشارے پر ہادی نے پسٹل نہیں نکالی.. 

مارک اندر آتے ہی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر کرسی پر بیٹھ گیا.. 

اب مجھے تم دونوں بتاؤ کے کس کے لیے کام کرتے ہو.. 

مارک جو پہلے یہ غلطی کر چکا تھا جولیا سے پوچھے بغیر اسے مار دیا تھا کہ وہ کس کہ کہنے پر آئی تھی اس بار وہ ایسی غلطی نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے مارک نے اس بار غصے سے زیادہ سمجھداری سے کام لیا.. 

یہ ہم نہیں بتا سکتے.. روشانی جو اپنے ہاتھ کی پٹی تبدیل کر رہی تھی.. مارک کے مضبوطی سے پکڑنے سے اس کے زخم سے خون نکل رہا تھا مارک کی بات سن کر بولی.. 

اچھا تو تم نہیں بتاؤ گی پیچھے موڑ کر دیکھو.. مارک نے پسٹل ہادی کی طرف کی ہوئی تھی.. روشانی نے جیسے ہی یہ دیکھا اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا.. 

ہادی پہلے زخمی تھا اور اب یہ سب.. کایا کے لیے ہم دونوں کام کرتے ہیں.. روشانی یہ کہہ کر واپس موڑ کر اپنے ہاتھ کو سپرٹ سے صاف کرنے لگ گی.  

اوہو.. تو .. کایا نے تم دونوں کو بھیجا ہے.. وہ کایا جو ابھی خود بچہ ہے اپنے باپ کو مارنے کا سوچ رہا ہے وری گڈ…. مارک نے حیرت سے دونوں کی طرف دیکھا.. 

اگر ہم تمہیں نہیں مارتے تو وہ ہم دونوں کو مار دے گا.. اس بار ہادی بول پڑا.. 

مطلب اپنی جان بچانے کے لیے تم مجھے مارنے آئی تھی.. ویسے تم دونوں اس کے پاس گئے ہی کیوں.  وہ اچھا آدمی نہیں ہے.. مارک نے ہادی کی بجائے روشانی کی طرف دیکھا جو ابھی بھی اپنا ہاتھ صاف کرنے پر لگی ہوئی تھی.. 

اچھا تو تمہاری نظر میں کایا اچھا آدمی نہیں ہے تو کیا تم سات حج کر کے آئے ہو لوگوں کو تو تم ایسے مارتے ہو جیسے وہ مولی گاجر ہوں کہ بس کاٹ دیا.. جیسے جولیا کو مار دیا روشانی غصے سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے اپنے پلان کی ناکامی کا غصہ اتار رہی تھی.. 

نہیں سات حج تو میں نے نہیں کیے.. لیکن میں دھوکہ دینے والوں کو نہیں چھوڑتا اور موقع کبھی میں دیتا نہیں ہوں.. اور جس جولیا کو تم نے بھیجا تھا وہ موقع ہی مانگ رہی تھی.. یہ کہتے ہوئے. مارک کرسی سے اٹھ گیا.. اسے سمجھ نہیں. آرہی تھی کہ روشانی کب سے اس کی طرف پشت کیے کیوں کھڑی ہے.  مارک کرسی سے اٹھا اور چلتا ہوا روشانی کی طرف آیا.. 

روشانی اپنے ہاتھ سے نکلا خون صاف کر چکی تھی اب اس کے ہاتھ کا زخم سرخ نظر آرہا تھا… جو اسکے نرم سیفد رنگ پر زیادہ واضح ہو رہا تھا 

یہ کایا نے کیا ہے نا.. مارک کو نجانے کیوں روشانی کے ہاتھ کی حالت دیکھی نہیں گی اسکی روئی جیسی نرم اور سیفد انگلیاں سرخ ہو رہی تھیں جو شخص کسی دوسرے کو مارنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگاتا تھا آج ایک لڑکی کے جلے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر تڑپ گیا.  

تمہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے اپنے کام سے کام رکھو اور مجھے بتاؤ کہ کونسی تمہاری بات مانی پڑے گی.. روشانی بات کرتے ہوئے چل کر کرسی پر جا بیھٹی.. 

تم مجھے بتاؤ گی نہیں کہ یہ کایا نے کیا ہے کہ نہیں.. مارک بات کرتے ہوئے روشانی کے قریب آیا اس کے ہاتھ میں پسٹل تھی. .. 

ہاں یہ کایا نے کیا ہے.. ہادی نے فورا گھبراہٹ سے بول دیا اسے لگ رہا تھا کہ کہیں مارک غصے میں گولی نا چلا دے… 

یہ کایا کہ نہیں تمہاری مہربانی ہے جو تم ڈائمنڈ چوری کر کے لے گئے تھے.. ہادی کے بعد روشانی نے بات مکمل کی.. مارک سب سمجھ گیا تھا کہ وہ ڈائمنڈ روشانی نے چوری کیے تھے اور بعد میں جب کایا کے ہاتھوں سے وہ ڈائمنڈ چلے گئے تو اس نے روشانی اور ہادی کو یہ سزا کے طور پر کیا ہے مارک مافیا کی دنیا کو اچھے سے جان چکا تھا جہاں معافی کی گنجائش نہیں تھی.. اور کایا کے بارے میں. بھی اس نے سن رکھا تھا کہ وہ اپنے بندوں کو بہت بھیانک سزا دیتا ہے.. 

ہممم…  اوکے چلو اب کام کی بات کرتے ہیں.. مارک نے روشانی کی بات کو اگنور کرتے ہوئے اگے بات شروع کر دی.. 

تو ایسا ہے کہ تم دونوں اگر چاہتے ہو کہ اس کمرے سے زندہ نکل کر جاؤ تو تم دونوں کو میرے لیے کام کرنا ہو گا.. مجھے ایسے ہی لوگ چاہیں جو کام کم اور باتیں زیادہ کرتے ہوں.. مارک نے بات کرتے ہوئے روشانی کی طرف دیکھا جو سمجھ چکی تھی کہ مارک اسے کہہ رہا ہے.. 

لیکن یہ ممکن نہیں ہے ہم کایا کے لیے کام کرتے ہیں اور اسی نے تمہیں مارنے کے لیے ہمیں بھیجا ہے اگر اس کو پتہ چل گیا تو وہ ہمیں مار دے گا.. ہادی مارک کی بات پر پریشان ہو گیا…  

اہو تو تم دونوں اپنی جان بچانے کے لیے مجھے مارنے آئے تھے.. اور یہاں تو پہلے انسانیت کا درس دیا جا رہا تھا مجھے. اور خود کسی کی جان لینے آئے تھے.. مارک نے روشانی کو پھر بات لگا دی.. 

ہم نے کسی کا قتل نہیں کیا آج تک بس چوری کرتے ہیں.. سمجھ آئی یہ تو اگر تم وہ اپنی بہادری دیکھا کر ڈائمنڈ نا لے کر جاتے تو نوبت یہاں تک نا آتی.. روشانی کرسی سے غصے سے اٹھ کھڑی ہوئی… 

مجھے زیادہ باتیں سنے کا شوق نہیں ہے سمجھ آئی تمہیں اگر تمہیں میری شرط منظور نہیں ہے تو میں پھر کیا کروں گا یہ تم اچھے سے جانتی ہو مارک غصے سے چلتا ہوا روشانی کے پاس آیا اور اس کی گردن کے پاس پسٹل رکھ دی.  پسٹل کو دیکھتے ہی روشانی کی سانس روک گی اس نے اندر کی طرف سانس کو کھینچا اس سے پہلے مارک کا دماغ گھوم جاتا ہادی فوراً بول پڑا.. 

اوکے ہمیں منظور ہے.. تم جو کہو گے ہم کریں گے لیکن ہماری بھی کچھ شرائط ہیں.. 

ہمممم ٹھیک ہے.. کل میں تم دونوں کو کال کروں گا اس جگہ پہنچ جانا.. اور تم دونوں نے اپنے باس کو کیا کہنا ہے یہ تمہارا کام ہے لیکن مجھے وقت کی پابندی چاہیے.. مارک نے ایک نظر روشانی پر ڈالی اور پھر دوبارہ اس کے ہاتھ کو دیکھا.. مارک نے پسٹل نیچے کیا اور جانے کے لیے موڑا.. 

اور ہاں کوئی چلاکی نہیں.. میری چار آنکھیں ہیں جو تم دونوں کو دیکھ کر رہی ہو گی.. اوکے.. مارک نے ان دونوں کو کہا اور کمرے سے باہر نکل آیا.. 

اب روشانی کا پلان اس کے گلے پڑ چکا تھا وہ مارنے مارک کو آئی تھی لیکن خود اس کے جال میں پھنس چکی تھی.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖

کایا ہر ویک اینڈ پر اپنے کیسینو میں  بہت بڑی پارٹی رکھتا تھا اور اس ویک اینڈ پر بھی اس کے کیسینو میں پارٹی ہو رہی تھی جہاں پروہ ہمیشہ اعلی طبقے کے لوگوں کو بلاتا تھا… 

پارٹی اپنے زور شور سے چلی رہی تھی ہر کوئی گیم کھیلنے اور شراب سگریٹ اور ڈانس کرنے میں مصروف تھا.. میوزک کی آواز اتنی اونچی تھی کہ لوگوں کو ایک دوسرے کی آواز سنا مشکل تھا… 

کایا کے اردگرد لڑکیوں کا جھرمٹ بنا ہوا تھا جس سے وہ اپنا دل لوبا رہا تھا.  کبھی مہمانوں کے پاس جاتا تو کبھی ڈانس کرتی لڑکیوں کے پاس.. . 

کایا ابھی ان ڈانس کرتی لڑکیوں کے جھرمٹ میں مصروف تھا کہ دو لڑکیاں کایا کے مزید قریب آنے کی کوشش کر رہی تھیں. .. گوری رنگت پر ان دونوں نے شارٹ سکرٹ اور بیک لیس ٹاپ پہنی ہوئی تھی.  

دیکھنے والا ان دونوں پر دل ہارے بغیر رہ نہیں پاتا.. 

لیکن وہ کایا کے اگے پیچھے ہو رہی تھی کایا کو بھی سگنل مل رہے تھے وہ ان لڑکیوں کے ساتھ ڈانس کرنے میں مگن تھا.. کہ ان میں سے ایک لڑکی نے کایا کے کان میں کچھ کہا.. لڑکی کی بات سن کر کایا کے چہرے پر مسکراہٹ اگی اس نے اگے بڑھ کر اس لڑکی کو کمر سے کھینچ کر اپنی طرف کیا اور ساتھ ہی اسکی گردن پر اپنے ہونٹ رکھ دیے.  لڑکی نے کایا کو فوراً پیچھے کیا.. اور پھر کان میں کچھ کہا.. اب کایا کا بھی فل موڈ بن چکا تھا اس نے لڑکی کے ساتھ کمرے میں جانے کی حامی بھر لی.. 

شراب کے نشے میں دھت کایا لڑکی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے  وہ بار بار لڑکی کو چھونے کی کوشش کر رہا تھا.. لڑکی اسے بمشکل کمرے تک لے کر آئی.  

جیسے ہی وہ کمرے کا دروازہ کھولا اور کایا کمرے کے اندر داخل ہوا کسی نے اس کے منہ پر کپڑا ڈال دیا اور اسی کپڑے کو گول گھوما کر اسکی گردن پر ٹائٹ  دیا.. 

لڑکی کایا کو کمرے تک چھوڑ کر چلی گی تھی.. کایا کو جب اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہوا تو اسے ہوش آئی اس کے سر پر جو نشہ چڑھا ہوا تھا وہ اترنے لگا.. 

کککک.. کون ہو تم.. کیا چاہتے ہو تم.. کایا کسی کی مضبوط گرفت میں تھا.. جو اسے لے کر آتش دان کی طرف چلا گیا جہاں کمرے کو گرم کرنے کے لئے لکڑیاں جلائی ہوئی تھی.. 

کایا جب آتش دان کے پاس آیا تو اسے آگ کی تپش محسوس ہوئی.  

کون ہو تم.. اور کیا چاہتے ہو. تمہیں پتہ نہیں کہ تم نے کس سے پنگا لے رہے ہو میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں.  کایا بولتا جا رہا تھا کہ اچانک اس کے منہ پر مضبوط ہاتھ اگیا اور اسکی بولتی وہی بند ہو گی.. 

کایا کو پکڑنے والے نے اب کایا کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے اتش دان کے اندر رکھ دیا.  اب کایا درد سے چلا رہا تھا اس کا ہاتھ جل رہا تھا جب تک کایا کا ہاتھ جل کر  سرخ نہیں ہو گیا اس نے کایا کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھوڑی ہی دیر میں جب کایا تڑپنے لگا تو پکڑنے والے نے کایا کو اپنی گرفت سے آزاد کر دیا.. 

گرفتے سے آزاد ہوتے ہی کایا نے فوراً اپنے چہرے پر باندھا کپڑا اتارا اور کمرے کے چاروں طرف دیکھنے لگ گیا جہاں اب کوئی نہیں تھا.. 

کایا اپنے جل ہوئے ہاتھ کی جلن سے تڑپ اٹھا.  چھوڑوں گا میں نہیں تمہیں تم جو بھی ہو.  اس نے یہ کہتے ہوئے. فوراً کمرے میں رکھے فون سے سکیورٹی کو کال کی اور ساتھ ہی ساتھ اپنے جلے ہوئے ہاتھ کو پھونک مار کر سکون دے رہا تھا.. 

سکیورٹی کے آتے ہی سارے کیمرے چیک کیے گے جہاں کایا کو کچھ نہیں ملا ویڈیو بس وہاں تک تھی جہاں کایا لڑکی کے ساتھ کمرے میں گیا اگے سے کیمرے نے کوئی ویڈیو ریکارڈ نہیں کی تھی.. گیٹ سے لے کر ہر کمرے اور حال تک چیک کیا گیا.. لیکن کایا کو کچھ نہیں ملا.. 

اتنی دیر میں کایا کے فون پر میسج آیا جو ایک انجانے نمبر سے تھا جس کو پڑھتے ہی کایا غصے سے سرخ ہو گیا.. میسج میں لکھا تھا کہ اپنے ہاتھ پر اچھے سے برف لگا لینا..  اور اپنے باپ تک پہنچنے کا سوچنا بھی نا.. اور ساتھ ایک سمائل تھی.. 

کایا نے غصے سے اپنا فون دیوار میں دے مارا.. 

تم جو بھی ہو مجھ سے بچ نہیں سکتے اب دیکھنا میں تمہارا حال کیا کرتا.. 

کایا اپنے ہاتھ پر پٹی کرواتے ہوئے غصے میں کمپیوٹر کی طرف دیکھ رہا تھا جہاں وہ شخص کا نام ونشان نہیں تھا جس نے کایا کا یہ حال کیا تھا.. 

➖➖➖➖➖➖

مارک کی کال آنے سے پہلے روشانی اور ہادی نے کایا کے پاس جانا بہتر سمجھا تاکہ وہ آج کی روٹین کے بارے میں پتہ کر سکے.. اور مارک سے ملنے پر کایا کو کسی قسم کا کوئی شک نا ہو.. 

کایا اپنے کمرے میں کرسی پر بیٹھا تھا بال اس کے بکھرے ہوئے تھے آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں جیسے وہ درد سے ساری رات نہ سویا ہو.. 

اس نے اپنے ہاتھ پر کریم لگائی ہوئی تھی اور ہاتھ کو ٹیبل پر. رکھا ہوا تھا جب روشانی اور ہادی کمرے میں. داخل ہوئے.. 

کمرے میں. داخل ہوتے ہی روشانی کی نظر کایا کے ہاتھ پر پڑی جو جلا ہوا تھا.. روشانی نے حیرت سے ہادی کی طرف دیکھا.. یہ اتفاق نہیں ہوسکتا کہ کایا کا بھی وہی ہاتھ جلا ہوا تھا جو روشانی کا جلا  تھا.. 

روشانی کو کل کی مارک کی بات یاد اگی.  جو وہ بار بار پوچھ رہا تھا کہ یہ کام کایا نے کیا ہے.. 

روشانی نے ایک گہرا سانس لیا.. اور اگے کایا کی طرف بڑھی

کایا آج کوئی آڈر ہے تو ہمیں بتا دیں.. روشانی نے کایا کے. پاس جاتے ہوئے کایا کو کہا جو آنکھیں بند کرکے کرسی سے ٹیک لگا کر لیٹا تھا روشانی کی بات پر اس نے آنکھیں کھول کر روشانی کی طرف دیکھا جو خون کی طرح سرخ تھیں.. 

روشانی کایا کی آنکھوں کو دیکھ کر یک دم ڈر گی.. 

مجھے تم دونوں سے کچھ نہیں چاہے مجھے بس مارک کا سر چاہیے وہ کسی بھی طرح سے لے کر آؤ.. نہیں تو اپنا انجام خود سوچ لینا.. کایا بات کرتے ہوئے تھوڑا اگے کو جھکا اور اپنے دوسرے ہاتھ سے روشانی کا ہاتھ دبوچا جو وہ کرسی پر بیٹھے اپنے ہاتھوں کو ٹیبل پر رکھ کر کایا سے بات کر رہی تھی.. 

کایا…  روشانی کی جب زخمی ہاتھ پر کایا کی گرفت پڑی تو اسے شدید درد ہوا.. لیکن ساتھ ہی اس نے خود کو کنٹرول کیا وہ کایا کے سامنے یہ نہیں شو کروانا چاہ رہی تھی کہ وہ ایک معمولی ہاتھ کی درد سے پریشان ہے.. 

کایا.. ہم کوشش کر رہے ہیں.. آپ تو جانتے ہیں مارک کتنا ہوشیار بندہ ہے وہ کسی نا کسی طرح بچ نکلتا ہے میں دو بار کوشش کر چکی ہوں لیکن وہ پھر بچ نکلا ہے.. روشانی کوبات کرتے ہوئے کل رات کی ساری باتیں یاد اگی.. 

مجھے انکار نہیں سنا  جو مرضی ہو جائے مجھے مارک کا سر چاہے.. میری یہ حالت بھی مجھے لگتا ہے مارک نے ہی کی ہے وہ سمجھتا کیا ہے اپنے آپ کو.. کایا نے اپنے جلے ہوئے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے کہا.. 

کایا کی اس بات پر روشانی چونک گی اسے سب سمجھ اگیا تھا لیکن وہ اپنی زبان سے کچھ نہیں بولنا چاہ رہی تھی اگر وہ بول دیتی تو وہ خود ہی پھنس جاتی.. 

کایا وہ میرے مائنڈ میں ایک پلان ہے اگر آپ کی اجازت ہو تو بتاؤں.. اس کے علاوہ مارک کو پکڑنا بہت مشکل ہے.. روشانی نے ڈرتے ڈرتے کایا کو اپنے پلان کے بارے میں کہا جو وہ ساری رات جاگ کر بناتی رہی تھی کہ مارک اور کایا کو کیسے ساتھ لے کر چلیں.. 

روشانی کے منہ سے پلان کا نام سن کر ہادی جو پیچھے کھڑا تھا اس نے یک دم روشانی کو دیکھا. .. کچھ دنوں سے روشانی کے پلان ناکام ہو رہے تھے اور اس پلان کے بارے میں تو روشانی نے. ہادی کو کچھ نہیں بتایا تھا.. اگر کچھ بتایا ہوتا تو شاید ہادی اسے مزید پلان بنانے کے لیے روک دیتا.. 

ہاں بولو کیا پلان ہے.. کایا نے بزای سے کہا.. 

کایا میں یہ چاہتی ہوں کہ میں مارک کا اعتماد حاصل کرو اس کی ٹیم میں کسی طرح داخل ہو جاؤں اور جب مارک کو مجھ پر پورا یقین ہو جائے گا تب میں اسے مار دوں گی.. 

تب اسے مارنے میں آسانی ہو گی.. اگر ہم ایسے دن با دن پلان بناتے رہے اور وہ بچتا رہا تو ہم کبھی بھی اسے مار نہیں سکے گے.. مارک کو یہ نہیں پتہ کہ میں تمہارے لیے کام کرتی ہوں اس طرح وہ قابو میں بھی آجائے گا اور ہمارا کام بھی ہو جائے گا.. روشانی نے اپنا پلان کایا کو بتا رہی تھی اور ہادی اس کی طرف دیکھ رہا تھا ہادی کو یقین ہی نہیں ارہا تھا کہ روشانی نے کس صفائی سے دونوں کے ساتھ کام کرنے کا رستہ نکال لیا ہے 

روشانی کے پلان میں وزن تھا جو کایا کو بھی کچھ کچھ سمجھ میں آیا.. کایا کے دماغ پر بس مارک کا خون سوار تھا اس نے روشانی کا پلان سنے کے بعد اس کی طرف دیکھا.. 

اور اگر تم دونوں نے میرے ساتھ غداری کر دی تو.. کایا کو پلان کے ساتھ ساتھ اپنے ٹیم کے کام کرنے والوں کی غداری کا خوف بھی تھا

کایا ایسا نہیں ہوسکتا یہ اپ بھی جانتے ہو.. میں اپ کی احسان مند ہوں میں کبھی بھی آپ سے غداری کا سوچ بھی نہیں سکتی میرا مقصد مارک کے پاس جانا صرف آپ کے کام کے لیے ہے نہیں تو میں اس جانور کی طرف دیکھو بھی نا..  روشانی نے اپنی طرف سے کایا کو پورا اعتماد دلایا وہ نہیں چاہتی تھی کہ کایا اس کے پلان سے انکار کر دے.. 

ہمممممم.. یہ تو تم نے ٹھیک کہا.. اوکے ٹھیک ہے لیکن تم کہاں جا رہی ہو کیا کر رہی ہو سب مجھے معلوم ہونا چاہیے.. کایا نے روشانی کے پلان پر حامی بھر لی یہ سن کر روشانی کی ایک بڑی ٹینشن ختم ہو گی تھی.. روشانی اور ہادی کو اب مزید کوئی چوری نہیں کرنی تھی.. اب ان دونوں کے پاس مارک کو مارنے کا ٹارگٹ ملا ہوا تھا.. 

کایا کی اجازت کے بعد روشانی اور ہادی وہاں سے نکل آئے.. 

کہاں پھنس گئے ہیں ہم دونوں ہادی ایک مصبیت ختم نہیں ہوتی دوسری شروع ہو جاتی ہے کاش یہ مارک ہماری زندگی میں نا آیا ہوتا.. روشانی باہر گارڈن میں بیٹھے گھاس کو توڑتے ہوئے اپنی زندگی پر افسوس کر رہی تھی.. 

ویسے روشانی تم نے پیچھلے کچھ دنوں کا کوٹا پورا کر دیا ہے آج کا پلان بنا کر نہیں تو تمہارے سارے پلان ناکام ہو رہے تھے.. آج کا پلان تو کامیاب ہو گیا ہے.. ہادی نے روشانی کے پلان کی تعریف کرتے ہوئے اسے حوصلہ دیا جو ہمت ہار رہی تھی..  

کایا کو تو کسی طرح ہم نے مطمئن کر دیا ہے اب پتہ نہیں یہ مارک اب ہم سے کیا کروانے والا ہے ابھی تک اس کی کال نہیں آئی.  روشانی اپنے سامنے فون رکھ کر. مارک کی کال کا انتظار کر رہی تھی.. 

اتنے میں. مارک کی کال اگی روشانی نے فون اٹھایا تو مارک نے ان دونوں کو بریج کے پاس آنے کو کہا.. اور ساتھ ہی کال بند ہو گی.. 

روشانی مایوس سا چہرہ لیے وہاں سے ہادی کے ساتھ مارک کی بتائی ہوئی جگہ پر جانے کے لیے نکل پڑی.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖

مارک سر پر کیپ پہنے جس کا فرنٹ اس نے تھوڑا سر سے نیچے کیا ہوا تھا جس سے اسکا ادھا چہرہ چھپا ہوا تھا.. موبائل پر کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا جب روشانی نے اسے دور سے دیکھ لیا.  

روشانی اور ہادی چلتے ہوئے مارک کے پاس آئے.. 

بولو کیا کرنا ہے.  روشانی نے ہیلو ہائے کہے بغیر مارک کو کام کا کہا.. روشانی کی آواز سنتے ہی مارک نے اپنی کیپ کو اپنے ہاتھ سے اوپر کیا.. اور ساتھ ہی دونوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا.  

تم نے مجھے اس حلیے میں بھی پہچان لیا ہے بڑی بات ہے.. مارک نے روشانی کی آنکھوں میں دیکھا جو اب سیاہ رنگ کی تھی آج روشانی نے گرین کلر کے لینز نہیں لگائے تھے.. 

تمہیں پہچانے کی ضرورت نہیں ہے جانور اپنا کوئی بھی روپ تبدیل کر لے رہتا وہ جانور ہی ہے.. روشانی نے چہرے پر غصہ تھا اس نے مارک کو دو ٹوک جواب دیا.. روشانی اپنی اس حالت کا ذمہ دار مارک کو ٹھہرا رہی تھی اگر وہ ان کی زندگی میں نا آتا تو اب حالات کچھ اور ہوتے.. 

جانور..  ہمممم.. گڈ…  روشانی کے جواب پر مارک دانت پیس کر رہ گیا.. 

کام کی بات کرتے ہیں.  مارک نے فوراً بات کو ٹالتے ہوئے ہادی کی طرف دیکھا جو مارک اور روشانی کے غصے کو ٹھنڈا کر نے کی سوچ رہا تھا.. 

آج ایک ڈنر پارٹی ہے.. وہاں سے میں نے کسی کو اغوا کرنا ہے.. کس کو کرنا ہے یہ میں نہیں بتاؤں گا اور نا مجھ سے پوچھنے کی کوشش کرنا.. 

ویسے تو میں یہ خود کرسکتا ہوں لیکن پرابلم یہ ہے کہ کہ وہاں صرف کپل کے جانے کی اجازت ہے اور سکیورٹی اتنی سخت ہے کہ میرے بھی ہاتھ کھڑے ہو گئے ہیں.. 

لیکن اس کام کا پیسہ بہت ملا ہے مجھے اس لیے میں نے انکار نہیں کیا.. مارک نے روشانی اور ہادی کو پلان بتاتے ہوئے کہا.. 

تو اس میں ہمارا کیا کام ہے تم کسی بھی لڑکی کو لے کر جا سکتے ہو تمہیں لڑکیوں کی کمی نہیں ہے.. روشانی نے مارک کی بات ٹوکتے ہوئے کہا.. 

صحیح کہا مجھے لڑکیوں کی کمی نہیں ہے.. لیکن جب میرے پاس تم ہو کام کرنے کے لیے تو میں کسی اور کو کیوں کہو.. اور ویسے بھی تم ماہر ہو کپل پارٹیز میں جانے کی تو مجھے اب کسی ماہر کی ہی ضرورت ہو گی نا.. 

مارک نے ایک رات میں ہی روشانی اور ہادی کی ساری معلومات حاصل کر لی تھی وہ کیا کرتے رہے ہیں اور کس قسم کا کام کرتے ہیں.. 

تم نے ہماری انویسٹی گیشن  کروائی ہے تم ایسا کیسے کر سکتے ہو.. روشانی کی آواز اونچی ہوئی. ہادی نے روشانی کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کو کنٹرول کرنے کا کہا.  ہادی نے. جیسے روشانی کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا مارک کی نظر ان دونوں کے ہاتھ پر گی.  اس نے اپنے غصے کو دباتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے گلاس پر اپنی گرفت اتنی مضبوط کی کہ وہ ٹوٹ گیا.  گلاس کے ٹوٹنے کی آواز سے روشانی کپکپا گی اس کی آنکھوں میں خوف اتر آیا.. 

آئندہ میری کسی بات پر بحث مت کرنا اور نا ہی اگے سے بولنا سمجھ آئی میں شام کو چھ بجے آؤں گا تیار رہنا.. اور ہاں اپنے اس حلیہ میں نا آنا.. مارک غصے سے اٹھا اور بغیر ان دونوں کی بات سنے وہاں سے چلا گیا..  

روشانی تھوڑا حوصلہ کرکے بات کیا کرو.. اگر تم ایسے بات کرتی رہی تو مارک ہمارے قابو میں نہیں اسکتا.. ہادی روشانی کو سمجھا رہا تھا جو گلاس کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں  کو دیکھ رہی تھی.. 

➖➖➖➖➖➖➖

شام کے ٹھیک چھ بجے روشانی کے فلیٹ کی بیل ہوئی.. روشانی شیشے کے اگے کھڑے اپنا حلیہ تبدیل کر رہی تھی اس بار اسکے بالوں کا رنگ گہرا کالا تھا.. آنکھوں میں گرین لینز کی جگہ اس نے بلیو لینز استعمال کیے تھے ناک کو تھوڑا پتلا کر دیا تھا اور میک اپ سے منہ کی شیپ کو مزید سلم کر دیا تھا.. 

بیل کے بجنے پر روشانی نے دروازہ کھولا تو اس کے سامنے مارک کھڑا تھا.  وہی شرٹ کے اگلے بٹن کھولے جس سے اس کا چوڑا سینا اور سینے پر گھنے بال صاف دکھائی دے رہے تھے اس پر گلے میں پہنے پانچ چھ چینز جس پر مختلف جانورے بنے ہوئے تھے.. 

روشانی مارک کو اس حلیے میں دکیھ کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گی وہ سوچ رہی تھی کہ مارک اس حلیے میں ڈنر پارٹی میں جائے گا.. 

دوسری طرف مارک روشانی کو ایسے تیار دیکھ کر اس کی نظر روشانی پر روکی ہوئی تھی لونگ سرخ مکسی میں وہ سنڈ ریلا کی طرح لگ رہی تھی.. 

تم…. تم اس حلیہ میں جاؤ گے.. روشانی نے دروازے سے رستہ چھوڑتے ہوئے اندر اگی.  

تو کیا ہے اس حلیے میں.. وہاں جاکر اغوا ہی کرنا ہے تو ان کپڑوں میں کیوں نہیں.. مارک نے اپنے اوپر ایک نظر ڈالی.. 

تم ولیم جانس کی پارٹی پر جا رہے ہو کسی چڑیا گھر میں نہیں.. تمہارے اس جانور جیسے حلیے کے. ساتھ میں نہیں چل رہی.. روشانی نے اپنی ہائی ہل اتارتے ہوئے کرسی پر جا بیٹھی..  

روشانی کے مارک کو پھر جانور کہنے پر مارک کے ماتھے پر بل پڑ گئے وہ غصہ سے اگے بڑھا لیکن کچھ سوچتے ہوئے پھر روک گیا.  

اس وقت کچھ نہیں ہو سکتا تمہیں میرے ساتھ ایسے ہی چلنا ہو گا..  مارک اب روشانی کے شیشے کے پاس کھڑا اپنے کندھوں تک آتے بالوں کو سیٹ کر رہا تھا.. 

روشانی غصے سے اٹھی اور جاکر الماری سے بلیک کلر کا تھری پیس سوٹ نکال کر بیڈ پر رکھ دیا.. 

یہ پہنو گے تم.. مجھے اندازہ تھا کہ جنگل میں رہنے والوں کو ڈنر میں جانے کی تمیز نہیں ہو گی اس لیے میں نے یہ سوٹ منگوا لیا تھا اگر تم یہ نہیں پہنو گے تو میں بھی تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گی. ..

 روشانی جو اپنی ہائی ہل اتار چکی تھی اسے پہنتے ہوئے مارک کی طرف دیکھا جو بیڈ سے سوٹ اٹھا کر اس کا جائزہ لے رہا تھا.. 

میں یہ نہیں پہنوں گا اس میں ٹائی ہے اور ٹائی لگا کر  مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی کتے کے گلے میں پٹا ڈالا ہو.  مارک نے سوٹ دوبارہ بیڈ پر پھینک دیا.. 

ویسے تم اپنے بارے  میں اچھا خاصہ جانتے ہو.. میں نیچے جا رہی ہوں اگر سوٹ پہن لیا تو اجانا.. روشانی نے مارک کو سر سے لے کر پاؤں تک دیکھا اور چلتی ہوئی کمرے سے باہر اگی جاتے ہوئے وہ ایک بار پھر مارک کو جانور سے تشبیہ دے گی تھی.. 

جانور…  جانور.   میں اس کی. بکواس سن ہی کیوں رہا ہوں.. مارک نے غصے سے سوٹ کی طرف دیکھا جو آج کی رات پہنا اس کی مجبوری بن چکا تھا.. 

تھوڑی دیر بعد مارک تیار ہوکر نیچے گاڑی میں اکر بیٹھ گیا جہاں روشانی پہلے سے انتظار کر رہی تھی.. 

مارک تھری پیس سوٹ پہن کر کوئی بڑے بزنس مین کی طرح لگ رہا تھا.. بالوں کو اس نے پیچھے کی طرف کرکے پونی سے باندھ لیا تھا اور گلے میں پہنے ہوئی چینز کو اتارا کر اس نے روشانی کے سامنے ڈیش بورڈ پر رکھ دی.. 

ہادی کہاں ہے.. روشانی نے جب مارک کو گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے دیکھا تو فوراً بولی.. 

ہادی کو میں نے دوسری گاڑی دے کر بھیجا ہے اگر ہمیں وہاں کوئی پرابلم ہوتی ہے تو وہ ہمیں اکر گاڑی میں لے جائے گا اس طرح ہم گاڑی کو پارکنگ سے نکلنے سے بچ جائیں گے.. 

مارک نے گاڑی سٹارٹ کی اور ساتھ ساتھ روشانی کو بتا رہا تھا.  مارک کی بات سنتے ہی روشانی نے فوراً ہادی کو میسج کیا.. ہادی کی طرف سے جواب میں آنے والا میسج بھی وہی تھا جو مارک کہہ رہا تھا.. 

تمہیں میری بات پر یقین نہیں آیا.. اچھی بات ہے.  مارک کو پتہ چل گیا تھا کہ روشانی نے ہادی کو میسج کرکے کنفرم کیا ہے. 

مارک اب اپنے غصہ  کو گاڑی کے سٹیرنگ کو دبوچتے ہوئے کنٹرول کر رہا تھا.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

وینس Florida Beach پر یہ ڈنر پارٹی لوس اینجلس کہ جانے مانے بزنس مین ولیم جانسن نے رکھی تھی جس نے حال ہی میں پوری بزنس مارکیٹ میں ٹاپ کیا تھا… 

پارٹی والی جگہ کو بڑے خوبصورت طریقے سے سجایا گیا تھا. .. چاند کی روشنی اور اگ کے جلتے ہوئے شعلے بہت اچھا نظارہ پیش کر رہے تھے… 

مارک اور روشانی کی گاڑی بیچ سے تھوڑا دور رکی جہاں سب کی پارکنگ کے لیے جگہ بنائی گی تھی.. 

گاڑی سے اترکر مارک اور روشانی ایک ساتھ کھڑے اس پارٹی کی ارینج منٹ دیکھ رہے تھے جہاں چاروں طرف پانی ہی پانی تھا. . 

لگتا ہے مارک نے اپنی موت خود چن لی ہے اب یہاں سے بھاگے گا تو سمندر میں گر کر ہی مرے گا…  روشانی نے جگہ کا جائزہ لیتے ہوئے دل میں سوچا.. 

پارٹی کے اہتمام میں سکیورٹی کافی سخت تھی ہر کسی کی چیکنگ ہو رہی تھی اس کے بعد ہی وہ پارٹی میں جا رہا تھا.. 

مارک نے روشانی کے اگے ہاتھ رکھا جیسے وہ تمام کپل ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر اندر جا رہے تھے.. مارک کا اگے بڑھا ہاتھ دیکھ کر روشانی اگنور کرتی ہوئی اگے چل پڑی.. 

اس سے اچھا تھا میں کسی اور کو لے آتا.. آج کا پلان خراب نا کر دے یہ.. مارک نے اپنے ہاتھ کی مٹھی بناتے ہوئے روشانی کے پیچھے چل پڑا.. 

دونوں سکیورٹی کلیر کروا کر اندر چلے گئے تھے.. اندر سب لوگ اپنی موج مستی میں لگے ہوئے تھے شراب اور ڈانس ہر طرف تھا.. 

اتنے رش میں اس انسان کو ڈھونڈنا جس کو مارک نے اغوا کرنا تھا مشکل لگ رہا تھا.. مارک اور روشانی دونوں ایک لکڑی کے بنائے گے ٹیبل کے پاس جاکر بیٹھ گئے مارک کی نظریں ولیم جانسن کے بیٹے لیی جانسن کو ڈھونڈ رہی تھی.. لیکن وہ کہیں بھی نظر نہیں آرہا تھا.. 

اچانک مارک کی نظر ولیم جانسن پر پڑی اور اس کے ساتھ ہی اس کا بیٹا لیی جانسن کھڑا تھا.. مارک نے روشانی کو ولیم جانسن کی طرف اشارہ کیا.. 

تم اس آدمی کے پاس جاؤ گی اور اسے اپنی باتوں میں لگا کر کسی دوسری طرف لے جانا باقی میرا کام ہے.. مارک نے روشانی کو ولیم جانسن کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا.. 

اوکے.. روشانی کو سمجھ اگی تھی کہ کیا کرنا ہے وہ اٹھ کر اس سائیڈ کی طرف چلی گی جہاں ولیم جانسن اور اسکا بیٹا کھڑا تھا.. 

روشانی نے جاتے ہی ولیم کو ہائے کہا.  اور اس کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گی.. مارک اسی انتظار میں تھا کہ روشانی ولیم کو لے کر جائے اور مارک اس کے بیٹے کو باتوں میں لگا کر باہر لے کر آجائے اور اس طرح وہ پارٹی اے باہر اپنا کام مکمل کر لے گا.. .  لیکن ایسا نہیں ہوا.. 

ولیم خوبصورت لڑکیوں کا دیوانہ نکلا اس نے روشانی کو دیکھتے ہی. اسے ڈانس کی آفر کر دی اب روشانی کے پاس انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی اگر وہ انکار کرتی تو پارٹی میں گڑبڑ ہوسکتی تھی.  

ولیم نے ڈانس کے لیے روشانی کی کمر پر ہاتھ رکھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے ڈانس کرنے لگ گیا.  

کمال کرتی ہے یہ لڑکی بھی میں نے اسے باتوں کا کہا تھا یہ ڈانس پر لگ گی.. مارک جس کی نظریں روشانی اور ولیم پر تھی ان دونوں کو ڈانس کرتے دیکھ کر اسے غصہ ارہا تھا.. 

ولیم ڈانس کرتے ہوئے روشانی کے قریب آنے کی کوشش کر رہا تھا بار بار اپنے ہونٹ روشانی کی گردن کے پاس لے کر آتا جس سے روشانی گھبرا کر اپنا سر تھوڑا پیچھے کر لیتی.. 

مارک سے اب یہ سب برداشت نہیں ہوا جب ولیم نے زبردستی روشانی کی گردن پر اپنے ہونٹ رکھ دیے مارک بڑے بڑے قدم اٹھاتا ہوا ولیم کے پاس آیا اور ایک ہی جھٹکے میں اس نے ولیم کی قید سے روشانی کو چھڑایا اور ساتھ ہی ایک زور کا مکا ولیم کی ناک پر دے مارا.. 

تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہ حرکت کرنے کی.  

How dare you…  why did you touch it.. 

تم نے اسے چھوا کیوں..  

اور ساتھ ہی ایک مکے کے بعد دوسرے اور پھر مکے کی بھرمار شروع ہو گی.. یہ سب تماشا دیکھتے ہی سب لوگ اکٹھے ہو گئے.. جب لیی جانسن نے دیکھا کہ مارک اس کے والد کو مار رہا ہے اس نے فوراً سکیورٹی کو بللایا.  

سکیورٹی کا نام سنتے ہی روشانی کے پاؤں تلے زمین نکل گی.. اس نے مارک کے کوٹ کو کھینچا.. 

مارک بس کرو تماشا سکیورٹی ارہی ہے ہمیں یہاں سے نکلنا ہو گا.. روشانی کی آواز کانوں میں پڑتے ہی جیسے مارک کو ہوش اگیا ہو.. اس نے اپنے چاروں طرف لوگوں کو جمع ہوتے دیکھا. .. 

مارک فوراً اٹھا اور روشانی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے لوگوں کے ہجوم سے تیز رفتار میں نکل گیا.. روشانی کی ہائی ہل کی وجہ سے وہ چلی نہیں پا رہی تھی.. سکیورٹی نے ہر باہر جانے والے رستے سے  ان دونوں کو گھیر لیا تھا.. 

روشانی نے فوراً اپنی جوتی اتار کر وہی پھینک دی.  اور بھاگتے ہوئے بیچ کے آخر میں اگے.  جہاں سمندر کی تیز ہوا چلی رہی تھی.. روشانی کے بال اڑ کر اس کے چہرے کو چھو رہے تھے.. 

کیا ضرورت تھی یہ تماشا کرنے کی.  روشانی نے پھولی ہوئی سانس کے غصے سے اپنا ہاتھ مارک کے ہاتھ سے چھڑایا.  

تو تمہیں کیا ضرورت تھی اس بڈھے کے اتنے قریب آنے کی.. مارک اب اپنی کمر پر دونوں ہاتھ رکھے چاروں طرف دیکھ رہا تھا جہاں اسے کوئی نکلنے کا رستہ نظر نہیں ارہا تھا.. اتنے میں. سامنے سے سکیورٹی کے ساتھ ساتھ پولیس بھی آرہی تھی اب دونوں کے پاس بچنے کا کوئی رستہ نہیں تھا پیچھے سمندر تھا اور اگے پولیس اور سکیورٹی.. 

کہاں پھنسا دیا ہے اس نے.. مارک اپنے پیچھے کی جانب دیکھ رہا تھا جہاں پانی کے علاوہ اور کوئی رستہ نہیں تھا.. 

مارک پولیس.. روشانی نے مارک کو آواز دی.. روشانی کی آواز پر مارک نے سامنے دیکھا تو سکیورٹی کے ساتھ پولیس بھی تھی جن کی پسٹل کے رخ مارک کی طرف تھے.. 

مار دو..  جلدی سے گولی چلا بھی دو.. اس طرح سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی.. روشانی دل ہی دل میں مارک پر گولی چلنے کی دعا مانگ رہی تھی.. 

ڈونٹ موو…  پولیس والے نے اونچی آواز میں مارک کو کہا.. 

او شیٹ اس کی کثیر باقی تھی.. مارک نے پیچھے پانی کی طرف دیکھا جو برف کی طرح ٹھنڈا تھا اور پھر روشانی کی طرف جس نے سلیو لیس مکسی پہنی ہوئی تھی.  

اب اور کوئی چارہ نہیں ہے.. مارک نے جلدی سے روشانی کا ہاتھ پکڑا جو پولیس کی طرف دیکھ رہی تھی کہ وہ کب مارک پر گولی چلائیں.  

کیا.. کیا کہا تم نے.. روشانی مارک کی بات پر چونک گی.. 

میں نے کہا اب چھلانگ لگانے کے علاوہ اور کوئی رستہ نہیں ہے.. مارک نے روشانی کا ہاتھ پکڑا اور چھلانگ لگانے ہی والا تھا کہ روشانی بول پڑی.. 

مارک مجھے تیرنا نہیں آتا.. بات کرتے ہوئے روشانی کی شکل معصوم سے بچے کی طرح تھی..

واٹ.  تم پاگل ہو دماغ ٹھیک تو ہے تمہیں تیرنا نہیں آتا یہ تم مجھے اب بتا رہی ہو جب ہمارے پیچھے پولیس کھڑی ہے.  روشانی کی بات سنتے ہی مارک کا دماغ گھوم گیا.  

پولیس مزید قریب ارہی تھی.. مارک نے گردن موڑ کر پولیس کی طرف دیکھا.. 

میرے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا.. مارک نے اگلی بات روشانی کی سنے بغیر پانی میں چھلانگ لگا دی روشانی ایک جھٹکے کے ساتھ سمندر کے ٹھنڈے برف جیسے پانی میں گر گی.  

ان دونوں کو پانی میں گرتا دیکھ کر پولیس جو آہستہ آہستہ سے قدم بڑھا رہی تھی جلدی سے چلتی ہوئی پانی پر بنے بریج کے کونے پر آئی.. پانی میں انہیں رات کے وقت کچھ نظر نہیں آرہا تھا.. 

پولیس کافی دیر وہاں کھڑی رہی لیکن جب انہیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ دونوں ڈوب گئے ہیں وہ وہاں سے چلی گی.. 

تھوڑی دیر میں  مارک پانی سے باہر آتے ہی اس نے سانس لیا تو روشانی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں نہیں تھا.. 

روشانی..  مارک نے ادھر ادھر پانی میں دیکھتے ہوئے روشانی کو ڈھونڈا لیکن روشانی نہیں ملی مارک کی پریشانی بڑھ گئی اس نے پانی میں دوبارہ غوطہ لگایا اور تیرتا ہوا پانی کی گہرائی میں جاکر روشانی کو ڈھونڈنے لگ گیا.. 

رات کے اندھیرے میں پانی میں کچھ نظر نہیں ارہا تھا..  مارک پانی میں دو منٹ بغیر آکسیجن کے رہ سکتا تھا جب دو منٹ تک روشانی کہیں نہیں ملی تو مارک نے پانی سے اپنا سر باہر نکالا اپنے گیلے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے اس نے اپنے داڑھی سے پانی صاف کرتے ہوئے پریشانی میں پھر چاروں طرف دیکھا.. 

تھوڑا دور اسے سرخ رنگ کا کپڑا نظر آیا جو پانی کے اوپر تیر رہا تھا.  وہ شاید روشانی کی مکسی کا تھا.  اس کو دیکھتے ہی مارک جلدی سے تیرتا ہوا.  اس طرف گیا.. روشانی پانی کے اوپر تھی.. مارک روشانی کے پاس آتے ہی اسے فوراً کمر سے پکڑتے ہوئے اپنے کندھے کے ساتھ لگایا اور تیرتا ہوا سمندر کے کنارے کی طرف چلا گیا.. 

جہاں دور دور تک کوئی آبادی نہیں تھی. شہر تھا لیکن بہت دور آنے جانے کے لیے بوٹ کشتیوں کا استعمال کیا جاتا تھا.. 

مارک نے فوراً پانی سے باہر آتے ہی روشانی کو ریت پر لٹایا.. 

اسے کیا ہو گیا.. روشانی آنکھیں کھولو.. مارک نے اسے کندھوں سے جھنجھوڑتے ہو روشنائی کو ھوش میں لانے کی کوشش کی لیکن روشانی کو ھوش نہیں آیا مارک نے اردگرد پھر دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا..

 مارک نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ملاتے ہوئے روشانی کے سینے کو پوش کیا کہ جو پانی اندر گیا ہے نکل آئے لیکن ایسا نہیں ہوا.. 

مارک نے روشانی کی طرف دیکھا جو ایک موم کی گڑیا کی طرح لگ رہی تھی.  اب مارک کے پاس اسے خود سے  آکسیجن دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا.. 

مارک روشانی پر تھوڑا جھکا اور اس نے روشانی کو آکسیجن دینے کے لئے اپنے ہونٹوں کو جیسے ہی روشانی کے ہونٹوں کے قریب لے کر آیا اس سے پہلے مارک اپنے ہونٹ روشانی کے ہونٹوں پر رکھتا…  روشانی نے دونوں ہاتھ مارک کے سینے پر رکھتے ہوئے اسے زور کا دھکا دیا.. مارک پیچھے کی جانب جا کر گر گیا.. 

خبردار جو ایسا کرنے کا  سوچا بھی  .. نہیں تو تمہارے ہونٹ کاٹ کر تمہارے ہاتھ میں رکھ دوں گی.. 

روشانی جو مرنے کا ناٹک کر رہی تھی کہ اس طرح مارک سے جان چھٹ جائے گی.. وہ اسے مری ہوئی سمجھ کر باقی لڑکیوں کی طرح چھوڑ کر چلا جائے گا اس طرح وہ مارک کے چنگل سے آزاد ہو جائے گی لیکن ایسا ہوانہیں سکا مارک اسے چھوتا یہ روشانی کو گوارا نہیں تھا.. 

مارک کو پیچھے دھکا دیتے ہوئے وہ جلدی سے اٹھی اور بڑے بڑے قدم اٹھاتے ہوئے اگے کو بڑھ گی.  

عجیب لڑکی ہے ابھی تھوڑی دیر پہلے بہوش تھی اور اب مرنے مارنے پر اگی ہے.  مارک ریت سے اٹھتا ہوا اپنے ہاتھوں پر لگی ریت کو صاف کرتے ہوئے روشانی کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا جو اپنے ہاتھوں کو بغل میں چھپائے سردی سے بچتی ہوئی جارہی تھی تیز ہوا اس کی مکسی کو اڑاتے ہوئے اس کی سردی میں اضافہ کر رہی تھی.. 

. آگے کہا جا رہی ہو.  اتنی رات کو کوئی جانور اور سانپ بچھو نکل آئے گا.  مارک تیز قدم بڑھاتے ہوئے روشانی کے برابر پہنچ چکا تھا.. مارک کی آواز سنتے ہی روشانی نے اپنے قدم اور تیز کر لیے.. 

میں کہہ رہا ہوں روک جاؤ اگے کا رستہ تمہیں معلوم نہیں ہے کہاں جا رہی ہو.. مارک چلتا ہوا روشانی کے سامنے اگیا.. 

میرے رستے سے ہٹ جاؤ مارک.. اگر میں تمہارے جیسے جانور کے ساتھ یہاں ہوں تو کوئی دوسرے جانور سے مجھے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے..

 روشانی نے اپنے اڑتے ہوئے بالوں کو ہاتھ سے سمٹتے ہوئے مارک کی طرف دیکھا.. روشانی کا مارک کو پھر سے جانور کہنا مارک اس دفعہ اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پایا.. 

اس نے غصے سے روشانی کا بازو دبوچا اور اپنی طرف کھینچتے ہوئے اسکی آنکھوں میں دیکھا.. 

مجھے جانور کہنا بند کرو.. اگر میرے اندر کا جانور جاگ گیا نا.. تو تم جانتی ہو تمہارا کیا حال ہو گا پھر تمہارے پاس پچھتاوے کے سواء اور کچھ نہیں ہو گا سمجھ آئی.

  مارک نے ایک جھٹکے سے روشانی کو پیچھے کیا.. روشانی ایک لمحہ کے لئے مارک کے غصے سے ڈر گی وہ یہاں اکیلی تھی اور اب تک مارک نے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا. اس لئے روشانی نے. مارک کی بات پر خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا.. 

اگر اپنی زندگی پیاری ہے تو میرے پیچھے چلو.. مارک یہ کہتا ہوا اگے کی طرف چل پڑا روشانی خاموشی سے اب مارک کے پیچھے چل رہی تھی.. مارک نے جب غصے سے روشانی کا بازو دبوچا تھا تب ہی اسے احساس ہو گیا تھا کہ روشانی کو کتنی سردی لگ رہی ہے روشانی کا بازو سردی سے فل ٹھنڈا ہوا تھا.  مارک نے چلتے ہوئے گردن موڑ کر پیچھے دیکھا تو روشانی سردی سے کانپ رہی تھی.  

افف.  یہ لڑکی بھی نا دل تو کر رہا ہے کہ اسے یہی مار کر دفنا دوں.. مارک اس ساری صورتحال سے اکتا گیا تھا اس نے دانتوں کو پستے ہوئے روشانی کی طرف دیکھا جو منہ سے یہ کہنے والی نہیں تھی اسے سردی لگ رہی ہے.  مارک واپس موڑا اور اپنا کوٹ اتار کر روشانی کے کندھوں پر رکھ دیا.  

اپنے اوپر کسی گرم چیز کا احساس ہوتے ہی روشانی نے سر اٹھا کر دیکھا تو مارک اگے جا چکا تھا. . 

جیبوں میں ہاتھ ڈالے سنگل شرٹ پہنے وہ اتنی سردی میں ایسے چل رہا تھا جیسے اس کے لیے گرمیوں کا موسم ہو.  اور پانی میں گرنے کے باوجود مارک کا کوٹ اندر سے گرم تھا جو اسکی باڈی ہیٹ کی وجہ سے ہوا تھا.. 

روشانی نے جلدی سے وہ کوٹ پہنا اسے خود کو کچھ بہتر محسوس ہوا.. 

کچھ دیر بعد ہی مارک ساحل کے پاس بنی ہوئی ایک کوٹیج کے سامنے کھڑا تھا.. جو دیکھنے میں ایک کمرے کے برابر لگ رہی تھی.. 

روشانی یہ دیکھتے ہوئے وہی روک گی.. یہ کیا ہے تم مجھے یہاں کیوں لے کر آئے ہو.. روشانی یہ سب دیکھ کر گھبرا گی.  

اب رات کو ٹھہرنے کے لیے کچھ تو انتظام کرنا تھا اگر ایسے ہی باہر رہے تو صبح لوس اینجلس نہیں بلکہ دوزخ میں آنکھ  کھلتی.. یہاں صبح کے وقت صرف ایک ہی cruise ship آتی ہے جو یہاں روکے مسافروں کو لے کر  جاتی ہے.. مارک نے یہ کہتے ہوئے اس کاٹیج کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی جو لاک تھا.  

تمہیں کیسے پتہ ہاں.. روشانی جو اتنے سالوں سے لوس اینجلس میں رہ رہی تھی اسے اس جگہ کا نہیں پتہ تھا.. 

یہاں اکثر کپل ہنی مون کے لیے آتے ہیں.. اس لئے پتہ ہے مجھے .. مارک پن کے ساتھ لاک کھولنے کی کوشش کر رہا تھا.. 

او اچھا اس کا مطلب تم یہاں اپنی وائف کے ساتھ اچکے ہو ہنی مون کے لیے.. روشانی کی بات پر مارک نے موڑ کر روشانی کی طرف دیکھا.. 

ہاں میں آیا ہوں اپنی وائف کے ساتھ وہ بھی ایک نہیں دس بار کیوں کہ دس وائف ہیں میری اب گیارہویں کا بھی سوچ رہا ہوں. تمہیں کوئی مسئلہ ہے کیا..  اگر تم اپنی ٹر ٹر بند کرو گی تو میں یہ لاک کھولو گا.. مارک روشانی کے سوالوں سے تنگ اچکا تھا.. 

تمہیں کب سے بول رہے ہو میں تو چپ ہوں.. روشانی نے نے کندھےاچکاتے ہوئے مارک کی طرف دیکھا جو اب لاک نا کھولنے پر تنگ آگیا تھا.. اس نے دروازے پر ہاتھ رکھ کر دروازے کو چیک کیا اور پھر ساتھ ہی ایک زور کے جھٹکے کے ساتھ دروازہ توڑ دیا.. 

دروازہ ٹوٹتے ہی روشانی اندر جانے کے لیے اگے بڑھی اب اس سے سردی اور برداشت نہیں ہو رہی تھی .  تیز ہوائیں اسے مزید ٹھنڈا کر رہی تھی.. 

صبر..  مارک نے اگے جاتی ہوئی روشانی کو ہاتھ سے روکا.. روشانی وہی روک گی… 

مارک کاٹیج کے اندر گیا کچھ ڈھونڈنے کے بعد وہاں رکھا ہوا جنریٹر چلایا ساتھ ہی کاٹیج نما کمرہ روشن کو گیا.. 

آجاؤ.. مارک نے روشانی کو اب اندر آنے کا کہا..

اندر آتے ہی روشانی نے ایک ہی نظر میں پوری کاٹیج کا جائزہ لے لیا.. ایک طرف بیڈ تھا جس کے کچھ فاصلے پر چھوٹا سا کچن تھا.  اور دوسری جانب ایک آتش دان اور ساتھ رکھی دو چھوٹی کرسیاں .. روشانی اندر آتے ہی بیڈ پر. جاکر بیٹھ گی.  

مارک کچن میں کھڑا کچھ ڈھونڈ رہا تھا.  پھر تھوڑی دیر بعد مارک کچن میں رکھی کچھ لکڑیاں لے آیا.. روشانی مارک کو ایسے کام کرتے دیکھ کر حیران ہو رہی تھی وہ کاٹیج میں ایسے چل پھر رہا تھا جیسے اس کا گھر ہو.. 

روشانی کا یہ شک تھا بھی ٹھیک. مارک جب بھی بیچ پارٹیوں میں آیا کرتا تھا تو یہاں ہی لڑکیوں کے ساتھ رات گزارتا تھا اس لیے اسے یہاں کی رکھی ہوئی ہر چیز کا پتہ تھا.. 

مارک نے آتش دان میں لکڑیاں جلا دی.. جس سے کمرہ کچھ گرم ہو گیا خود وہ اتش دان کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا.  اس نے شرٹ کی آستینوں کو اوپر کر لیا تھا اور شرٹ کے اگے کے بٹن کھول دیے تھے.  

روشانی بیڈ پر بیھٹی یہ سب دیکھ رہی تھی.  

یہاں آجاؤ اتش دان کے پاس کپڑے خشک ہو جائیں گے.  مارک نے روشانی کی طرف دیکھے بغیر لکڑیوں کو اوپر نیچے کرتے ہوئے کہا.. 

نہیں میں یہاں ہی ٹھیک ہوں.. روشانی نہیں چاہتی تھی کہ وہ مارک کے قریب جا کر بیٹھے.. 

روشانی کے جواب پر مارک خاموش رہا..

تھوڑی دیر جب گزری تو روشانی کو اپنے گیلے کپڑوں سے الجھن ہونا شروع ہو گی.. . اب روشانی کو سمجھ نہیں ارہی تھی کہ وہ کیا کرے اب اسے اپنی مکسی سے الجھن ہو رہی تھی.. اور خود سے وہ اٹھ کر جا نہیں سکتی تھی. کیونکہ وہ مارک کو انکار کر چکی تھی.. 

بولا تھا نا کہ اکر کپڑے خشک کر لو پر تم پر تو کوئی بات اثر نہیں کرتی ڈھیٹ جو ہوئی تم.. مارک کو اندازہ تھا کہ ابھی تھوڑی دیر بعد ہی روشانی کو اپنے انکار پر پچھتاوا ہو گا.. 

یہ بندہ کیا چیز ہے دماغ بھی پڑنے آتے ہیں اسے.. 

روشانی مارک کی بات پر حیران ہو گی تھی اب وہ مارک کہ دوبارہ کہنے پر انکار کرتی تو بہت بڑی بیوقوفی کرتی.. روشانی خاموشی سے چلتی ہوئی ننگے پاؤں آتش دان کے پاس رکھی دوسری کرسی پر اکر بیٹھ گی یہاں اسے کچھ سکون مل رہا تھا گرم آگ کی تپش اسے سکون دے رہی تھی ہاتھوں کو گرم کرنے کے لئے اس نے اپنے دونوں ہاتھ آتش دان کے پاس لے گی.  

مارک کی نظر روشانی کے ہاتھوں پر پڑی جس میں ایک ہاتھ پر پٹی باندھی ہوئی تھی.. 

تم پاگل ہو کیا.. جلے ہوئے ہاتھ کو آگ کے پاس لے کر جا رہی ہو.. مارک نے فوراً روشانی کا ہاتھ پیچھے کیا.. 

روشانی مارک کا یہ روپ دیکھ کر گم سم ہو گی تھی جو بندہ ایک گولی میں دوسرے بندے کا دماغ اڑا  دے وہ ایک اجنبی لڑکی کی اتنی پروا کر رہا ہے.. 

ایک کمرے میں رہتے ہوئے اس نے مجھے ہاتھ تک نہیں لگایا.  اس کی کوئی نا کوئی وجہ ضرور ہو گی.. روشانی نے اپنے کندھوں پر پہنے کوٹ کو ٹھیک کرتے ہوئے سوچا.  

تمہارے ہاتھ کی پٹی گیلی ہو گی ہے لاؤ میں تبدیل کر دوں.. مارک نے اگے بڑھ کر روشانی کا ہاتھ پکڑنا چاہا لیکن روشانی نے فوراً ہاتھ پیچھے کر لیا.. 

مارک کو روشانی کی اس حرکت پر بے حد غصہ آیا.  اس نے غصے سے اگے بڑھ کر روشانی کا ہاتھ زبردستی پکڑ لیا.. 

جب میں ایک بات کہہ دوں تو وہ مان لیا کرو اگے سے بحث اور انکار مجھے پسند نہیں ہے مارک نے اپنے ایک ہاتھ سے روشانی کا بازو پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے روشانی کے ہاتھ کی پٹی کھول رہا تھا.  

روشانی کو مارک کے اتنے قریب اگی تھی کہ اسے مارک سے آتی دھیمی دھیمی خوشبو مسرور کر رہی تھی. مارک روشانی کے ہاتھ کی پٹی کھول رہا تھا جب روشانی نے مارک کو قریب سے دیکھا.. سفید رنگ پر براؤن کلر کی داڑھی جو آتش دان میں جلتی ہوئی اگ کی روشنی میں چمک رہی تھی اس پر اسکے آنکھوں کی پلکیں اتنی گھنی  اور لمبی تھی جیسے کسی لڑکی کی ہوں.. 

تم بہت منحوس ہو.. جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتی ہو وہی خراب ہو جاتا ہے.. آج تک میرا کوئی کام خراب نہیں ہوا بس تمہیں ساتھ لانے کی دیر تھی اور یہ سب ہو گیا.  مارک کی آواز روشانی کے کانوں میں پڑی جب مارک نے اسے منحوس کہا.. روشانی نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ مارک کے ہاتھوں سے چھڑا لیا.  اور کرسی سے فوراً اٹھتی ہوئی باہر کو اگی.. 

اسے کیا ہوا ہے.. مارک ایک ٹانگ پر اپنا ہاتھ رکھے موڑ کر روشانی کی طرف دیکھا جو اب باہر جا چکی تھی.. 

پاگل ہے یہ ابھی کپڑے خشک بھی نہیں ہوئے اور پھر باہر چلی گی ہے مارک یہ کہتا ہوا روشانی  کے پیچھے باہر جانے کے لیے اٹھا.. 

روشانی سمندر کنارے کھڑے سینے پر ہاتھ باندھے کھڑی تھی.. اسکے کانوں میں مارک کی آواز سنائی دے رہی تھی.. تم بہت منحوس ہو…  یہ الفاظ وہ بچپن سے سنتی ارہی تھی جب تک اس کی ماں زندہ تھی.. سبھی تو اسے منحوس کہتے تھے.. کوئی نہیں تھا جو اسے پیار سے بات کرتا.. یہ سب سوچتے ہوئے روشانی کی آنکھوں میں نمی اگی.. اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی ماں کے مرنے کے بعد کبھی بھی نہیں روئے گی لیکن آج مارک کی بات نے اس کے پرانے زخم تازہ کر دیے تھے.. 

روشانی کو احساس ہی نہیں ہوا کہ کب مارک اس کے پاس اکر کھڑا ہوا ہے.. 

کیا ہوا باہر سردی میں کیوں اگی ہو.. مارک کی آواز روشانی کے کانوں میں پڑی تو اس نے جلدی سے اپنی آنکھ  کے کونے پر  نمی کو صاف کیا.. 

کچھ نہیں بس ہادی کی فکر ہو رہی تھی اس لیے.. روشانی نے بات کو ٹال دیا.. 

ہمممم…  آؤ اندر ہادی سے بات کر لو.. مارک یہ کہتا ہوا اندر کی طرف چلا گیا.. روشانی اسی حیرت میں تھی کہ وہ ہادی سے کیسے بات کروایے گا فون تو ان کے پانی میں گر گئے ہیں.. لیکن وہ یہ بات بھول گی تھی کہ  وہ مارک ہے جو توقعات سے الٹ کام کرتا ہے.. 

روشانی جب اندر آئی تو سامنے ٹیبل پر فون رکھا ہوا تھا.. 

اس نے جلدی سے اگے بڑھ کر ہادی کو کال ملا دی.  کچھ دیر بات کرنے کے بعد روشانی نے فون بند کر دیا.  اور بیڈ سے اٹھ کر آتش دان کے پاس اکر بیٹھ گی.  

کر لی بات.. ویسے بڑی فکر رہتی ہے تمہیں ہادی کی اور اسے تمہاری.. مارک نے طنزیہ بھری بات روشانی کو کہہ دی… 

تمہیں اس سے کوئی مسئلہ.. روشانی نے الٹا جواب دیا.  

مارک چپ رہا.. 

میں نے کبھی تمہاری پرسنل لائف کے بارے میں کچھ پوچھا کیا ہاں جو تم مجھ سے پوچھ رہے ہو.. روشانی کو مارک کا یوں چپ رہنا اس کی بات پر چھب رہا تھا.. 

میں باہر ہوں تم سو جاؤ.. مارک یہ کہہ کر وہاں سے اٹھ کر باہر چلا گیا.. عجیب بندہ ہے یہ.. روشانی کے کپڑے اب خشک ہو گئے تھے.. اس نے کوٹ اتار کر کرسی پر رکھ دیا تھا اور خود بیڈ پر جاکر بیٹھ گی.. 

پچھلے چار گھنٹے سے روشانی کا فون بند تھا.. وہ  ہادی کو بتانا بھول گی تھی کہ کایا کو وہ کیا کہیے گا اگر اس نے مجھے کال کر دی تو..

یہی سوچتے ہوئے روشانی نی نظر فون پر پڑی جو ابھی بھی ٹیبل پر تھا.  

روشانی بیڈ سے اٹھی اور فون کے پاس آتے ہی اس نے جب ہادی کو کال ملائی تو فون پر سگنل نہیں ارہے تھے.  

ابھی تو بات ہوئی ہے.. روشانی نے حیرت اے فون بکو دیکھا اور پھر فون  کے  سگنل  لانے کے لیے فون کو اوپر نیچے کر رہی تھی کہ تب ہی  فون کی سکرین پر میسج آیا.. 

روشانی نے فوراً وہ میسج کھولا جس ہر لکھا تھا کہ ایک فون سے صرف ایک بار کال  ہوتی ہے.. 

میسج پڑتے ہی روشانی نے غصے سے فون زمین پر دے مارا…  

کتنا گھٹیا انسان ہے یہ میں اسے ایک لمحہ کے لیے اچھا سمجھ بیھٹی تھی.. روشانی غصہ سے چلتی ہوئی.. بیڈ پر جا بیھٹی. روشانی جو مارک پر تھوڑا یقین کرنے لگ گی تھی اس کی اس حرکت سے وہ پھر سے الرٹ ہو گی.  

اب روشانی کو نیند کے جھونکے ارہے تھے لیکن وہ سو نہیں سکتی تھی اسے مارک پر اعتبار نہیں تھا.. 

مارک اندر اچکا تھا اور کرسی پر بیٹھے روشانی کو ایسے نیند کے جھونکے لیتے دیکھ رہا تھا.. 

جو نیند کے  جھونکے کے ساتھ ہی اپنی آنکھیں ملتے ہوئے مارک کی طرف دیکھتی اور پھر خود کو سیدھی کرکے بیٹھ جاتی. .. جلتی ہوئی آگ کی گرمائش سے اور بستر کی نرمی نے روشانی کو بلا آخر نیند کی وادیوں میں بھیج دیا.. 

صبح کے سات بج رہے تھے جب روشانی کے کانوں میں باہر سے آتی کروس شیپ کی آواز سنائی دی.. روشانی یک دم ہڑبڑاتے ہوئے اٹھی اس نے کمرے کے چاروں طرف دیکھا تو مارک نہیں تھا…  

روشانی فوراً بیڈ سے اٹھی ساتھ ہی اسے ٹیبل پر ایک نوٹ لکھا ملا جس پر لکھا تھا کہ آٹھ بجے شیپ نکل جائے گی.. میں باہر شیپ میں انتظار کر رہا ہوں آجانا.  اور ساتھ ہی نیچے لکھا تھا..  

کل کی رات میری زندگی کی بہترین راتوں میں سے ایک تھی.. تم سوتی ہوئی بہت خوبصورت لگتی ہو.. 

یہ پڑھتے ہی روشانی کے پاؤں تلے زمین نکل گی.. اس نے فوراً اپنے دونوں ہاتھوں سے خود کا جائزہ لیا.. سب ٹھیک تھا جیسے وہ بیھٹی سوئی تھی ویسے ہی اٹھی تھی.. 

لیکن مارک کی بات سے اس کا دل ڈوب رہا تھا.. اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ سونے کے بعد کیا ہوا تھا.. اتنے میں شیپ کی دوبارہ آواز آئی جو وہ مسافروں کو الرٹ کر رہی تھی کہ وہ جانے لگی ہے.  روشانی نے وہ نوٹ اپنی مٹھی میں بند کیا اور جلدی سے شیپ کی طرف چلی گئی.. جہاں مارک اس کا انتظار کر رہا تھا.. روشانی کے دماغ میں بہت سے سوال چل رہے تھے جس کا جواب اسے بس مارک سے ملنا تھا. 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖

اذعام کو پری کی قید میں رہتے ہوئے چھ ماہ ہو گئے تھے وہ ہر روز اسی تکلیف میں گزرتا تھا ہر روز اس کا قیامت سے کم نہیں ہوتا تھا.. 

ایک طرف اذعام کے دن عذاب کی طرح گز رہے تھے دوسری طرف سونیا اذعام کو پری کی قید سے نکالنے کے طریقے ڈھونڈ رہی تھی.. 

اذعام اٹھو…  جلدی…  سونیا نے جب دیکھا کہ گھر میں کوئی نہیں ہے سب اپنے اپنے دھندوں پر. نکل چکے ہیں وہ اذعام کے کمرے میں آئی جو اپنی قسمت پر ساری رات روتا ہوا اب صبح کو سو رہا تھا. 

سونیا کی آواز کان میں پڑتے ہی اذعام نے فوراً آنکھیں کھولی.. 

سونیا آپی آپ…  اذعام نے سونیا کو دیکھتے ہی بول پڑا.. اس گھر میں ایک وہی تھی جو اس کا خیال رکھتی تھی.. 

شیشیشیش…  چپ آواز نا نکالو.. سب کو پتہ ہے کہ تم اس وقت سو رہے ہوتے ہو.. یہ لو اپنا بیگ اور یہاں سے نکل جاؤ آج کوئی بھی گھر پر نہیں ہے.. تم آسانی سے گھر سے جا سکتے ہو.. 

سونیا نے اذعام کا بیگ پہلے سے تیار کیا ہوا تھا جس میں کچھ کپڑے اور پیسے تھے.. 

نہیں سونیا آپی میں آپ کو یہاں چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤ گا یہ سب آپ کو مار دیں گے..اذعام کے دماغ میں عزل نے بہت ڈر ڈال دیا تھا وہ اس دن سے بہت ڈر گیا تھا.. 

وہ نہیں چاہتا تھا کہ سونیا یہاں رہے اذعام ضد پر اڑ گیا تھا کہ وہ سونیا کہ بغیر کہیں نہیں جائے گا.  

دیکھو اذعام میں یہاں بہت عرصے سے ہوں مجھے یہاں کوئی کچھ نہیں کہے گا تم بس یہ بیگ لو اور جاؤ یہاں سے سونیا نے بیڈ سے اٹھتے ہوئے اذعام کا ہاتھ پکڑ اور بیڈ سے نیچے اتارنے کی کوشش کر رہی تھی.. 

لیکن اذعام اپنی جگہ سے زرا بھی نہیں ہلا.. 

اذعام کیا کر رہے ہو جلدی اٹھو.. سونیا نے جب یہ کہتے ہوئے. اذعام کی طرف دیکھا جو پھتر کا بن کر سونیا کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا ماتھے پر اس کے پسینہ ارہا تھا.. 

کیا ہوا ہے اذعام.. ایسے کیوں ہو گے ہو.. سونیا یہ کہتے ہوئے ابھی اذعام کی طرف بڑھی ہی تھی کہ کسی نے سونیا کو اس کے بالوں سے مضبوطی سے پکڑا…  

اچھا تو تم ہمارے پیچھے یہ کرتی ہو.. ہاں.. آج تو تمہیں ایسی سزا دوں گی وہ بھی تمہارے اس چہیتے کے سامنے کہ تم ساری زندگی دوبارہ ایسا کرنے کے بارے میں سوچو گی بھی نہیں…  پری جو کب سے پیچھے کھڑے سونیا کی باتیں سن رہی تھی عزل کو آواز دی.. 

عزل زرا  اندر آؤ.. عزل جو باہر کھڑا تھا.. پری کے بلوانے پر فوری اندر آگیا.. 

یہ اپنی بیلٹ اتار کر دینا.. پری کے کہنے پر عزل نے اپنی بیلٹ اتار کر پری کو دی.. 

پری نے ایک جھٹکے سے سونیا کو زمین پر گرا دیا.. 

اذعام یہ سب دیکھ کر سہم گیا.. 

اچھا اب تم ہمارے ساتھ غداری کرو گی ہاں.. پری یہ کہتے ہوئے سونیا پر بیلٹ سے وار کرنا شروع ہو گی. 

اذعام سونیا کو ایسے مار کھاتا دیکھ نہیں سکا اور وہ ڈر کے مارے وہی بہوش ہو گیا.  

پری سونیا کو تب تک مارتی رہی جب تک سونیا نے اگے بڑھ کر پری کے پاؤں پکڑ کر معافی نہیں مانگی… 

سونیا کے معافی مانگنے پر پری نے پاؤں سے سونیا کو ٹھوکر ماری اور کمرے سے باہر اگی.. پری کے پیچھے عزل بھی باہر اگیا.. 

سونیا کی کمر سے اب خون نکل رہا تھا وہ خود کو گھسیٹتی ہوئی بمشکل اذعام کے بیڈ کے پاس پہنچی جہاں وہ ڈر سے بہوش ہو گیا تھا.. 

اذعام اٹھو.. دیکھو مجھے کچھ نہیں ہوا.. سونیا کے بات کرتے ہوئے آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے اس نے مار کھاتے وقت بھی زرا اف تک نہیں کیا.. اگر وہ رو پڑتی اپنی تکلیف سے تو اذعام اور ڈر جاتا اور ساری زندگی اسے اسی جہنم میں گزارنی پڑتی.. 

شہر میں پہنچتے ہی مارک کی گاڑی اس کو لینے پہنچ گی تھی ڈرائیو گاڑی چھوڑ کر چلا گیا تھا.. شیپ کے  سارے سفر میں روشانی نے. مارک سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن مارک مسلسل فون پر بزی تھا.. 

روشانی جب مارک کی گاڑی میں بیٹھ رہی تھی تب ہی کچھ آدمی روشانی اور مارک کی گاڑی کا پیچھا کرنا شروع ہو گئے.. روشانی جو بکھرے بالوں کو سمٹ رہی تھی اس نے مارک کی طرف دیکھا جو بڑی سنجیدگی سے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا.. اتنی سنجیدگی جو کسی طوفان کا آنے کا اندیشہ دے رہی ہو.. 

مارک تم نے صبح جو نوٹ………. روشانی نے مارک کی طرف ابھی دیکھ کر بات ہی کی تھی کہ مارک نے اسے بازو سے پکڑتے ہوئے سیٹ سے نیچے کیا.. 

سیٹ کے نیچے ہو جاؤ.. مارک نے یہ کہتے ہوئے گاڑی کی رفتار تیز کر دی.. روشانی یہ سب دیکھ کر پریشان ہو گی.. اس سے پہلے روشانی کچھ بولتی مارک کی گاڑی پر فائرنگ شروع ہو گئی.. پیچھے آنے والی دو گاڑیوں میں سے فرنٹ کی دونوں ونڈوز سے آدمی آدھے باہر نکل کر مارک کی گاڑی کو نشانہ بنا رہے تھے.. مارک گولیوں سے بچنے کے لیے گاڑی کو بری طرح ڈرائیو کر رہا تھا.. 

 روشانی اپنے سر  کے پیچھے ہاتھ رکھتے ہوئے نیچے کو جھک گی.. 

پیچھے آنے والی گاڑیاں مسلسل فائرنگ کر رہی تھیں.. 

روشانی گاڑی کی سیٹ کے نیچے پسٹل پڑی ہے جلدی سے نکالو.. مارک کی بات سنتے ہی روشانی نے جلدی سے گاڑی کی سیٹ کے نیچے سے پسٹل نکال کر مارک کو دی.. مارک گاڑی تیز رفتار سے چلتا ہوا اگے کی پرواہ کیے بغیر گاڑیوں کو ٹکر مارتا ہوا ان سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا.. 

یہ لو پسٹل.. روشانی نے پسٹل مارک کی طرف کی.. مارک نے روشانی کی طرف دیکھا.. 

تمہیں گاڑی ڈرائیو کرنی آتی ہے کیا.. مارک جو اگے ٹریفک سے رستہ بناتے ہوئے روشانی کی طرف دیکھا.. 

روشانی جسے ڈرائیو آتی تھی وہ بتانا نہیں چاہتی تھی لیکن اب بات اس کی جان کی بھی تھی.. اس نے مثبت میں سر ہلایا.. 

اوکے تو آجاؤ سیٹ پر اور گاڑی کو سنبھالو میں ان بیغرتوں  کو سنبھالتا ہوں مارک نے روشانی کو کہا اور روشانی جھکتی ہوئی مارک کی سیٹ پر آئی.. جہاں مارک بیٹھا تھا مارک کی سیٹ پر آنے کے لیے روشانی کو مارک کی گود میں بیٹھ کر گاڑی  کو سنبھالنا تھا.. 

روشانی کو اس وقت اپنی جان کر پروا تھی اس نے جلدی سے گاڑی کے سیڑنگ کو کنٹرول کیا.. اور مارک کی گود میں بیٹھتے ہی گاڑی کے بریک اور ریس کو سنبھلا.. 

مارک نے ایک لمحہ کے لیے روشانی کی طرف دیکھا..موقعے ہمیشہ غلط ٹائم پر ہی کیوں آتے ہیں.. مارک یہ کہتا ہوا دوسری سیٹ کی طرف چلا گیا.. 

شیٹ اپ.. نہیں تو میں گاڑی روک دوں گی.. روشانی شرم سے سرخ ہو گی.. 

مارک نے روشانی کی بات اگنور کرتے ہوئے ونڈو سے سر باہر نکلا اور پیچھلے آتی گاڑیوں کو جوابی فائرنگ کرتے ہوئے روک رہا تھا.. 

روشانی نے گاڑی کا کنٹرول سنبھالتے ہی اس کی رفتار ایک سو اسی پر لے گی.. اگے چلتی ہوئی گاڑیوں میں سے رستہ بناتے ہوئے وہ اگے کو بڑھ رہی تھی.. 

مارک کبھی گولی سے بچنے کے لئے اندر ہو جاتا تو کبھی جوابی کارروائی کے لئے پھر فائرنگ کر  دیتا…. 

مارک نے جیسے گاڑی پر وار کرنے کے لئے سر باہر نکلا تو پیچھے آنے والی گاڑی نزدیک اگی تھی.. 

مارک کی نظر اگے ڈرائیو کرتے ہوئے آدمی پر پڑی جسے وہ بھول نہیں سکتا تھا وہ کایا کا آدمی تھا.. 

پیچھے آتی گاڑیاں اب نزدیک آرہی تھیں.. 

مارک اندر بیٹھ جاو.. روشانی نے مارک کی شرٹ سے اسے اندر کی طرف کھینچا.. 

کیا ہوا ہے مجھے روک کیوں رہی ہو.. مارک نے اندر آتے ہی روشانی کی طرف دیکھا.  

تمہیں زیادہ مرنے کا شوق ہے تو میرے ہاتھ سے مر جاؤ میری جان بھی چھوٹ جائے گی.. اب بیلٹ باندھ لو ان جیسوں سے مجھے نمٹنا آتا ہے.. 

روشانی کو اس طرح بولتے دیکھ کر مارک شوکڈ ہو گیا.. وہ روشانی کو ایک ناسمجھ اور پلان خراب کرنے والی لڑکی سمجھ رہا تھا.. لیکن یہ تو کچھ اور ہی تھی.. 

روشانی کے کہنے پر مارک نے بیلٹ باندھ لی.. 

روشانی نے پھر اپنی وہ صلاحیت دکھائی جو وہ لوس اینجلس آتے ہی اس. نے کار ریسنگ میں سیکھی تھی.  

گاڑی تھی کہ. روشانی اسے کسی جہاز کی طرح اڑا رہی تھی.. 

اگے آتی بس سے روشانی نے جو ٹرن لیا مارک کو لگا کہ وہ آج اس دنیا سے گیا.. لیکن روشانی نے بڑی مہارت سے گاڑی کو بس سے نکالتے ہوئے اگے لے گی.  اس سے پیچھے آتی ہوئی گاڑیاں بس کی وجہ سے وہی روک  گی.. 

سڑک پر یوں فائرنگ سے پولیس بھی ان گاڑیوں کے پیچھے لگ گی تھی پولیس کو ایسے پیچھے آتا دیکھ کر کایا کے آدمیوں نے اپنی اپنے گاڑیاں وہی پر چھوڑی اور وہاں سے بھاگ گئے.. روشانی نے گاڑی کو چلاتے ہوئے رستوں میں سے رستہ  نکال کر سیدھے مارک کے ہوٹل کے. پاس لے گی اور ہوٹل کے گیٹ کے سامنے گاڑی روکی.. 

واہ.. کیا گاڑی چلائی.. ایم ایمپریس.. گاڑی روکتے ہی مارک نے روشانی کی طرف دیکھا.. جس کی غصے  سے آنکھیں سرخ ہو رہی تھی.. 

تم گاڑی سے اترو اور جاکر شراب پیو.. جو تمہارا کام ہے میں کچھ کام کر کے آتی ہوں.. روشانی نے مارک کی طرف دیکھے بغیر کہا.. روشانی کی بات پر مارک سمجھ گیا تھا کہ روشانی کو بھی پتہ چل گیا تھا کہ وہ کایا کے بندے تھے.. 

اوکے…  تو تمہیں بھی پتہ چل گیا کہ وہ کایا کے بندے تھے.. مارک کی بات پر روشانی نے فوراً مارک کی طرف دیکھا.. 

یہ انسان ہے کہ کیا.. مجھ سے پہلے ہی اسے سب پتہ چل جاتا ہے روشانی مارک کی طرف دیکھ کر سوچ رہی تھی.. 

تم اترو گے گاڑی سے کہ نہیں.. روشانی نے مارک کی بات کا جواب دے بغیر بولی.. 

اوکے.. کایا کو میرا ہائے بول دینا.. مارک یہ کہتے ہوئے. گاڑی سے اتر گیا.. مارک کہ گاڑی سے اترتے ہی روشانی ے تیز رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے چلی گی.. 

مارک نے روشانی کو اسے جاتے دیکھ کر فوراً ہادی کو کال کی اور ساری صورتحال سے آگاہ کیا.. 

ہادی جو ہوٹل میں روشانی کا انتظار کر رہا تھا مارک کی بات سنتے ہی کایا کی طرف نکل گیا…. 

کچھ ہی دیر میں روشانی کایا کی طرف تھی جو ٹیبل پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے انگور کے ساتھ شراب پینے میں مصروف تھا.. 

روشانی نے آتے ہی غصے سے دروازہ کھولا جو زور سے دیوار پر جالگا.. 

کایا یہ کیا حرکت تھی.. روشانی نے جاتے ہی ٹیبل پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے غصے سے جھک کر کایا کو کہا جو شراب پینے میں مصروف تھا.. 

بڑے آرام سے روشانی کی طرف دیکھا.. ٹانگوں کو ٹیبل سے نیچے کیا.

یہ تو بس ایک چھوٹا سا ٹریلر تھا تمہارے مارک کے ساتھ رات گزارنے کا.. تم تو مارک کو مارنے گی تھی نا.. اس کے ساتھ رات گزارنے کے لئے نہیں.  سمجھ آئی.. کایا نے غصے سے ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوئے. کرسی سے اٹھتے ہوئے روشانی کے پاس آیا.. 

میں مارک کے ساتھ رات گزارنے نہیں گی تھی وہ ایک اتفاق تھا.. میرا مقصد مارک کو  مارنا ہے نا کی اس کے ساتھ سونا..  آج آپ نے جو کیا ہے اگر مجھے کچھ ہو جاتا مجھے گولی لگ جاتی تو.. روشانی غصے سے کایا پر چلائی.. 

تمہاری اتنی ہمت کہ تم میرے سامنے بولو ہاں.. کایا کو روشانی کا یوں بولنا انتہائی ناگوار گزرا.. 

ہاں کایا میں بولوں گی اگر آپ کو مجھ پر اعتبار نہیں ہے تو کسی اور سے یہ کام کروا لیں.. روشانی کے یہ بولنے کی دیر تھی.. کایا نے روشانی کے منہ پر زور کا طمانچہ دے مارا انتے میں ہادی فوراً اندر آیا.. 

کایا سے تھپڑ پڑتے ہی روشانی نے غصے سے اپنی مٹھی بند کی.. 

آیندہ میرے سامنے اونچی آواز میں. بات کی تو تمہاری زبان حلق سے کھینچ لوں گا.. کایا نے اگے بڑھ کر روشانی کو گردن سے دبوچا.. 

کایا.. روک جاؤ.  روشانی کے ہر کام پر میری نظر ہے میں ساتھ تھا روشانی کے.. ہادی کی بات پر کایا نے ہادی کی طرف دیکھا.. 

تم دونوں طوطا مینہ کی جوڑی کی طرح ایک دوسرے کو بچانا بند کرو.. کایا نے روشانی کی گردن کو چھوڑتا ہوا ہادی کے پاس آیا.. 

یہ سچ ہے کایا آپ اس ہوٹل میں کال کرکے معلوم کر سکتے ہیں جہاں ہم ٹھہرے تھے.. مارک الگ تھا.  ہادی نے. کایا کے اگے فون کیا جس پر نمبر تھا.. 

کایا نے اپنے فون سے ہوٹل کال کی اور معلوم کیا تو پتہ چلا کہ مارک اس ہوٹل میں. نہیں تھا. 

کال بند ہوتے ہی کایا  روشانی کی طرف دیکھا جو اپنا سانس بند ہونے کی وجہ سے خود کو سنبھال رہی تھی.. 

اگر تم نے میرے ساتھ غداری کرنے کا سوچا بھی تو تمہارا وہ حشر کروں گا جو تم نے سوچا نہیں ہو گا.. چلی جاؤ یہاں سے اور مجھے جلد ہی اپنا کام مکمل چاہے.. کایا نے روشانی کو بازو سے پکڑتے ہوئے باہر کی طرف دھکا دیا.. 

ہادی نے اگے بڑھتے ہوئے روشانی کو پکڑا.. اور باہر لے آیا.. کایا دوبارہ پھر وہی پوزیشن پر بیٹھتے ہوئے شراب پینے میں مصروف ہو گیا.. 

ہادی نے روشانی کو باہر آتے ہی. گارڈن میں بیٹھایا.. تم بیٹھو میں پانی لے کر آیا روشانی کا سانس ٹھیک نہیں ہو رہا تھا کایا کی گرفت روشانی کی گردن پر اتنی مضبوط تھی.. 

ہادی روشانی سے دور آتے ہی مارک کو کال ملا دی.. 

جیسا آپ نے کہا تھا میں نے ویسا ہی. کیا ہے.  کایا کو کال کروا دی تھی ہوٹل میں.  اسے یقین اگیا تھا.. 

نہیں تو وہ آج روشانی کو مار ہی دیتا.. 

 ہادی جب کایا کی طرف ارہا تھا تب ہی مارک نے ہادی کو کال کر کے سارا پلان بتا دیا تھا مارک کو اندازہ تھا کہ وہ کیا کرے گا.  اس لئے اس نے روشانی کو بچانے کے لیے ہادی کو اگے کیا اور اس طرح مارک کے پلان سے روشانی بچ گی.  

ہادی نے مارک کو بتا کر کال بند کر دی اور روشانی کے لیے پانی لے کر چلا گیا.. 

یہ لو روشانی پانی.. ہادی نے اگے بوتل کی روشانی نے پانی کی بوتل پکڑتے ہوئے ہادی کی طرف دیکھا.. 

ہادی ہمیں جلد ہی کچھ کرنا ہو گا.  نہیں تو کایا..  روشانی بات کرتے روک گی.  

کچھ نہیں ہوتا روشانی تم آرام سے پانی پیو  اور پھر اپنے فلیٹ میں چلو اپنا حلیہ ٹھیک کرو کپڑے تبدیل کرو کیا حال بنا ہوا ہے.. 

ہادی نے فوراً بات تبدیل کر دی کہ کہیں روشانی یہ نا پوچھ لے کہ تم نے کون سے ہوٹل میں بات کروائی تھی.  کیونکہ وہ ہوٹل بھی مارک کا تھا جس میں ہادی نے کایا کی بات کروائی تھی.. 

ہممم ٹھیک کہہ رہے ہو مجھے تھوڑا آرام کی ضرورت ہے روشانی نے اپنے کندھے کو دباتے ہوئے وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی.. ہادی بھی روشانی کے ساتھ اٹھ گیا.. 

چلو میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں.. تمہاری حالت بھی ایسی نہیں ہے کہ تم ڈرائیو کرو اور ویسے بھی جس گاڑی میں تم آئی ہو اس کی اب ایسی حالت نہیں ہے کہ اسے لے کر جائے.. ہادی کی بات پر روشانی نے اثبات میں سر ہلایا اور ہادی کے ساتھ چل پڑی.. 

باہر آتے ہی اس نے ہادی کی گاڑی کی جگہ کوئی اور گاڑی دیکھی جو. مارک نے ہادی کو رات میں دی تھی.. لیکن روشانی کو اس بات کا نہیں پتہ تھا.. 

یہ گاڑی کس کی ہے.  روشانی گاڑی میں سوار ہوتے ہادی سے پوچھا.. 

اپنی ہی ہے تم اپنے دماغ پر زور نا دو آرام کرو.. ہادی نے بات ٹال دی اور روشانی نے گاڑی کی سیٹ پر ٹیک لگا لی.. 

تھوڑی دیر میں وہ ہادی روشانی کے فلیٹ کے پاس تھا.. اس نے گاڑی سے اترتے ہی جلدی سے جاکر روشانی کی طرف کا دروازہ کھولا.. اور روشانی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے نیچے اتارا.. روشانی کے چہرے پر کایا کی انگلیوں کے نشان پڑ گے تھے جو اب مزید سرخ ہو رہے تھے.. 

روشانی فلیٹ میں اچکی تھی اس نے شاور لیا اور برف کے ٹکڑے سے اپنے گال کی تھپڑ کی جلن کو ختم کر رہی تھی 

ہادی روشانی کے لیے چائے بنا کر لے کر آیا.  

لو یہ چائے پیو تم تھوڑا سکون ملے گا تمہیں.. ہادی نے چاۓ کا کپ روشانی کی طرف کیا.. 

تھینکس ہادی تم نا ہوتے آج تو پتہ نہیں کیا ہو جاتا..  روشانی نے کپ پکڑا.. 

ہادی وہ کون سا ہوٹل تھا جس میں تم نے کایا کی بات کروائی تھی.. ہادی روشانی کی بات پر چونک گیا اسے لگا تھا کہ روشانی بھول گی ہو گی لیکن اس کے دماغ میں. بھی میموری چیپ تھی جس میں وہ باتیں سیو کر لیتی تھی.. 

روشانی میں نے کہا نا ابھی کوئی بات نہیں ابھی تم آرام کرو یہ چائے پیو اور تھوڑی دیر سو جاؤ.. میں دوبارہ آؤں گا.. ایک دو کام ہیں کایا کے کرکے.. تب تک تم سو جاؤ.. اوکے.. ہادی نے کایا کا نام لے کر اس بات سے اپنی جان چھڑا لی.. روشانی نے ہادی کی بات پر خاموش ہو گی.  

وہ خود تھوڑی دیر آرام کرنا چاہتی تھی رات کی سردی پھر صبح کا واقعہ اور پھر کایا کا تھپڑ نے اس کے دماغ کو ہلا کر رکھ دیا تھا.. 

ٹھیک ہے ہادی.. لیکن آجانا لازمی.. روشانی نے چاۓ کا گھونٹ لیا اور کمبل کو اپنے اوپر کیا.. 

ہادی  کمرے کی لائٹ آف کرتے ہوئے روشانی کو خدا حافظ کہہ کر چلا گیا.. ہادی کے جاتے ہی.. روشانی نے سائیڈ لیمپ کی لائٹ چلائی اور اپنے اوپر کمبل اوڑھ کر لیٹ گی.. 

اپنے سامنے رکھی اپنی ماں کی تصویر کو دیکھتے ہوئے وہ نیند کی وادی میں کھو گی.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

مارک روشانی کو سوتے دیکھ رہا تھا جو کمبل اوڑھے پرسکون ہو کر سو رہی تھی.. 

روشانی کے پاس سے جاتے ہی ہادی نے مارک کو ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا تھا لیکن کایا نے جو روشانی کو تھپڑ مارا تھا اس کا نہیں بتایا تھا.. 

مارک کا یوں روشانی کو بچانے کے لیے اقدامات کرنے سے ہادی کے دماغ میں جو مارک کا تصور بنا تھا وہ کافی حد تک تبدیل ہو گیا تھا.. اسی وجہ سے وہ مارک کو روشانی کی صورتحال سے اگاہ کر رہا تھا ایک وہی تھا جو کایا کو اس کے مطابق نمٹ سکتا تھا.. مارک کے ساتھ رہنے کے لیے مارک کو سمجھنا بھی ضروری تھا اور یہ کام ہادی کر رہا تھا.. 

ہادی کے بتانے کے باوجود مارک کو سکون نہیں ملا اور وہ روشانی کو دیکھنے کے لیے اس کے فلیٹ میں اگیا.. وہ کایا کو اچھے سے جانتا تھا اس لیے جب تک وہ روشانی کو خود اپنی آنکھوں سے نا دیکھ لیتا اسے سکون نہیں ملنا تھا.. 

روشانی کے فلیٹ پر آنے کے بعد اس نے دیکھا کہ روشانی آرام سے سکون سے سو رہی ہے تو اسے تسلی ہوئی.  مارک نے اٹھتے ہوئے روشانی کے کمبل کو اس کے اوپر بڑے آرام سے کیا جو اس کی کمر تک اگیا تھا.  

کمبل کی حرکت سے روشانی جو دائیں طرح رخ کر کے لیٹی تھی.. خود کو سیدھا کیا.. روشانی کی اس موومنٹ پر مارک ابھی پیچھے ہٹنے والا ہی تھا کہ اسے روشانی کے چہرے پر سرخ نشان نظر آئے جو انگلیوں کے نشانات تھے.. 

نشان کو دیکھتے ہی مارک کا پارہ ہائی ہو گیا.. وہ غصہ سے کایا کی طرف جانے کے لیے موڑا ہی تھا کہ اپنے پیچھے ہادی کو کھڑا دیکھا جس نے تھوڑی دیر بعد آنا تھا.. 

مارک نے ہادی کی طرف غصے سے دیکھا اور پھر باہر نکل گیا.. ہادی نے روشانی کی طرف دیکھا جو میٹھی نیند سو رہی تھی.. ہادی آرام سے دروازہ بند کرتے ہوئے باہر نکل آیا.. 

مارک…  مارک.. میری بات سنتے جاؤ.  مارک غصے سے گاڑی میں بیٹھ رہا تھا جب ہادی نے اس کو آواز دی.. 

ہادی کی آواز سن کر مارک وہی روک گیا.  

. تم نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا.. مارک چلتا ہوا ہادی کے پاس آیا اور اس کے کالر سے پکڑتے ہوئے غصے سے دیکھا.. 

مارک ہوش سے کام لو.. تمہیں اگر روشانی کی اتنی ہی پرواہ ہے تو یہ سوچ لو اگر تم اس وقت کایا کو کچھ کرو گے تو بات اور بگڑ جائے گی.  اور اس میں نقصان روشانی کا ہی ہو گا.  ہادی نے مارک کا ہاتھ اپنے کالر سے نیچے کیا.. 

ہادی کی بات مارک کے دماغ میں اگی تھی.. 

مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے اوکے..  مارک ہادی کی بات سن کر انجان بن گیا. 

میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی کو کوئی نقصان ہو.  روشانی میرے کام سے گی تھی میرے ساتھ.  اور یہ جو کچھ ہوا ہے میرے کام کی وجہ سے ہوا ہے.  بس.. مارک کی آواز اب دھیمی تھی.. وہ ہادی سے اتنا ہی کہہ پایا تھا.. اور پھر گاڑی کی طرف چلا گیا.. 

ہادی نے گہرا سانس لیا.. معاملات مزید خراب ہو رہے تھے.. ہادی وہ دیکھ رہا تھا جو مارک اور روشانی کو بھی نہیں پاتا تھا.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖

مارک کا جو کام کل رات ادھورا رہ گیا تھا. اس نے آج مکمل کرنا تھا لیکن روشانی کی حالت دیکھتے ہوئے مارک کا دماغ خراب ہو رہا تھا اب جب تک وہ کایا سے اس کے اس تھپڑ کا بدلہ نا لے لیتا اسے سکون نہیں ملنا تھا لیکن ہادی کی بات مارک کو سکون  نہیں دے رہی تھی وہ خود کو سمجھنا کی کوشش کر رہا تھا لیکن ناکام ہو رہا تھا.. 

اس نے گاڑی نائٹ بار کے پاس روکی جہاں وہ ہمیشہ شمپین پینے آتا تھا.. اور اپنا غصہ کسی نا کسی لڑکی کے ساتھ نکلتا تھا.. 

گاڑی سے نکلتے ہوئے مارک نائٹ بار کے اندر چلا گیا جہاں شراب کی محفل چل رہی تھی ہر کوئی ڈانس کرنے. میں مصروف تھا

مارک بار ٹینڈر کے پاس  جاکر بیٹھ گیا اس نے بیٹھتے ہی   شمپین کا آڈر دیا.. وہ ہمیشہ نائٹ کلب میں شمپین ہی پیتا تھا..

اس نے شراب کا گلاس ہاتھ میں لیا  اور ایک ہی گھونٹ میں پی لیا.. ایسے ہی ایک گلاس کے بعد دوسرا گلاس ختم کر رہا تھا لیکن اس کی آنکھوں کے سامنے روشانی کا چہرہ نہیں جارہا تھا جس پر کایا کی انگلیوں کے نشان تھے…  مارک نے اب اپنی پریشانی کو ختم کرنے کے لیے ہمیشہ کی طرح ڈانس کرتی ہوئی لڑکیوں میں اپنے لیے ڈھونڈ نا چاہا..

 اس نے  گردن موڑ کر ڈانس کرتی ہوئی لڑکیوں کو دیکھا جو بے نام لباس  پہنے اپنے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ڈانس کرنے میں مصروف تھی..

سامنے اکیلی لڑکی جس نے سرخ رنگ کا لونگ سکرٹ پہنا تھا اور اس سکرٹ میں اس کے وجود کے خدوخال کافی نمایاں نظر آرہے تھے. اکیلی ڈانس کر رہی تھی..

مارک نے شراب کا گھونٹ لیا اور آنکھوں میں شیطانیت لیے ابھی اٹھنے ہی والا تھا کہ سامنے سے وائٹ کلر کی چست پینٹ  پہنے  جس پر پنک کلر شارٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی جس کا گلہ اس کے کندھوں تک آرہا تھا.. گلے میں موتیوں کا لمبا ہار پہنے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھامے  ایما مارک کی طرف ارہی تھی جیسے مارک دیکھتے ہی وہی روک گیا..

تم یہاں کیسے آئی ہو.. مارک نے شراب کا گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے بڑے رعب میں ایما کو کہا مارک کو ایما کا   اس وقت  آنا ناگوار گزرا .. ایما اونچی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے مارک کو یوں بولتا ہوا دیکھ رہی تھی..

اس نے مارک کی بات کا جواب دے بغیر ایک پیکٹ مارک کی طرف کیا..

مارک نے ترچھی نگاہ سے پیکٹ کی طرف دیکھا اور پھر ایما کی طرف.. جو ابھی بھی ٹکٹکی باندھے مارک کی طرف دیکھ رہی تھی.. ایما کی گرین آنکھوں میں. بہت سے سوال تھے جو وہ مارک سے پوچھنا چاہ رہی تھی لیکن اسے مارک کے غصے کا پتہ تھا کہ اگر اس کا دماغ گھوم گیا تو یہاں ایک اور تماشا بن جائے گا..

مارک نے پیکٹ کے اوپر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے اپنی طرف کھینچا.... اس سے پہلے مارک کچھ کہتا ایما وہاں سے اٹھ کر چلی گی..

مارک نے پیکٹ کھولا تو اس کے اندر ڈالرز تھے اور ساتھ ایک  چھوٹا پیپر تھا..

پیپر کو دیکھتے ہی اس نے گردن موڑ کر جاتی ہوئی ایما کو دیکھا جو تیز رفتار سے کلب سے باہر نکل رہی تھی..

مارک نے پیکٹ اٹھایا اور کلب سے باہر اگیا..

آج مارک کو اپنی پریشانی دور کرنے کے لیے شکار مل چکا تھا جو کام وہ کال رات ادھورا چھوڑا تھا آج اس وقت اسے مل گیا تھا ڈبل قیمت کے ساتھ.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖

رات کے دو بجے کا وقت تھا لوس اینجلس کیلیفورنیا کی سڑکوں پر مارک تیزی سے چلتا ہوا ایک بنگلے کے گارڈن میں چھلانگ لگا کر اندر داخل ہوا.. ہر طرف خاموشی تھی..

برف باری کی وجہ سے گھر کی لائٹس پر برف جمی ہوئی تھی جس سے لائٹس کی روشنی مدھم تھی..

دبے پاؤں چلتا ہوا مارک گھر کے دروازے کے پاس پہنچا.. اور ایک ہی جھٹکے کے ساتھ اس نے بغیر آواز کئے گھر کا لاک توڑ دیا..

گھر کی خاموشی بتا رہی تھی کہ شاید گھر میں کوئی نہیں تھا یا سب سو رہے ہوں گے وہ اس بات سے لاعلم تھا..

وہ تو اس کام کے لیے آیا تھا جو اسے سونپا گیا تھا..

 اندر اتے ہی مارک نے گھر کے چاروں طرف دیکھا اور پھر سامنے سیڑھیوں کی طرف بڑھا..

ولیم جانس کا بیٹا لیی جانس اپنے کمرے میں. موجود تھا.. اس کے کمرے کی لائٹس ابھی تک جل رہی تھی..

مارک چلتا ہوا لیی جانس کے کمرے کی طرف آیا اور ہاتھ بڑھا کر لاک کھولنے ہی لگا تھا کہ دروازہ خودبخود کھل گیا شاید لیی جانس کمرے کو لاک کرنا بھول گیا تھا..

مارک کمرے کے اندر آیا لیکن وہاں لیی جانس نہیں تھا..

مارک نے سامنے کمرے میں. لگی تصویر کو دیکھا اور پھر اپنی پاکٹ سے موبائل نکال کر گیلری سے ایک تصویر نکالی..

تصویر دیکھنے کے. بعد مارک نے موبائل دوبارہ پاکٹ میں رکھا اور دبے پاؤں سے چلتا ہوا واش روم کی طرف آیا جہاں اندر سے شاور لینے کی آواز آرہی تھی..

مارک نے واش روم کے دروازے کا لاک پن سے کھول دیا..

دروازہ کھولتے ہی لیی جانس جو شاور لے  رہا تھا مارک کو دیکھتے ہی گھبرا گیا..

ک.. کک کون ہو تم.. لیی جانس نے فورا ٹاول باندھتے ہوئے مارک کو کہا جو منہ میں ڈالی ببل سے غبارے بنا رہا تھا..شراب پینے سے مارک کی آنکھیں ویسے سرخ ہو رہی تھیں.. 

یہ تو آج تک میں بھی نہیں جان پایا کہ میں کون ہوں تمہیں کیسے بتا دوں... مارک کہتا ہوا لیی جانس کے قریب آیا ..

دور رہو مجھ سے.. ہیلپ می... ہیلپ می.. لیی زور زور سے چلایا..

شششش... آواز نہیں.. مارک نے اگے بڑھ کر لیی جانس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا مارک کی گرفت  لیی جانس پر اتنی مضبوط تھی کہ ایک اٹھارہ سالہ لڑکا اس کی مزاحمت نہیں کرسکا..

اس سے پہلے کے مارک اپنا کام شروع کر تا.. باہر سے پولیس ہارن کی آواز آنا شروع ہو گی..

او شیٹ.. مارک نے گردن موڑ کر دروازے کی طرف دیکھا.. ایک کہ بعد دوسرا دھماکہ ہو رہا ہے.. مارک کے ساتھ.. اب یہاں بھی پولیس اگی تھی. 

کہا تھا نا کہ دھوکہ نہیں... مارک نے غصے سے اپنے دانت پیستے ہوئے لڑکے کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں خوف جھلک رہا تھا..

سوری لیی جانس ... یہ کام اب مجھے جلدی کرنا ہو گا.. مارک نے لیی جانس کی طرف دیکھا اور ایک جھٹکے میں اس کا سر باتھ ٹب کے کنارے پر دے مارا....

لیی جانس کے سرکے پیچھلے حصے سے خون نکل کر ٹب میں موجود پانی  سرخ ہو رہا تھا..

تمہیں میں چھوڑوں گا نہیں..ایما.. 

پولیس کے ہارن کی آواز دوبارہ سنتےہی مارک نے لیی کا سر دوبارہ ٹب کے کنارے پر زور سے دے مارا جس سے لیی جانس کے سر کے پچھلا حصہ پھٹ چکا تھا لیی جانس کی آنکھیں وہی کھولی کی کھولی رہ گی..اور مارک کا کام مکمل ہو چکا تھا.. 

مارک نے جلدی سے اپنے ہاتھ  میں پہنے دستانے کو اتارا اور کموڈ میں فلش کر دیا...

پولیس گھر میں داخل ہو چکی تھی....

اور مارک ہمیشہ کی طرح پولیس کی گرفت سے نکل چکا تھا

➖➖➖➖➖➖➖➖

ایما ریشمی سلک کی نائٹی پہنے.. اپنے کمرے میں چکر پر چکر لگا رہی تھی وہ کبھی اپنے ہاتھوں کو مسلتی تو کبھی بیڈ پر پڑے فون کو دیکھتی.. ایما مارک کو دھوکہ دے چکی تھی.. جب اسے پتہ چلا کہ مارک ایک اٹھارہ سال کے لڑکے کو مارنے والا ہے اس کا دل موم پڑ گیا تھا.. اس نے یہ سوچا نہیں تھا کہ مارک کے ساتھ کام کر کے اسے کسی کی جان لینے میں برابر کی شریک ہونا پڑے گا.  وہ صرف جاسوسی کا کام کرتی تھی لیکن مارک کے کام سے وہ واقف نہیں تھی.. 

اس لیے اس نے مارک کے ساتھ کام صرف ذیادہ پیسوں کے لیے کیا تھا.. لیکن لیی جانسن کے بعد وہ ڈر گی تھی.. اب جب کہ وہ مارک کو دھوکہ دے چکی تھی پولیس کو بتانے کے بعد اب اس کی بے چینی میں اضافہ ہو رہا تھا.. 

ابھی وہ فون کی طرف دیکھ ہی رہی تھی کہ موبائل فون کی سکرین روشن ہوئی ایما نے فوراً آگے بڑھ کر موبائل اٹھایا اور میسج دیکھتے ہی ٹی وی لانچ کی طرف بھاگی..

ایما نے جلدی سے ٹی وی آن کیا جہاں ہر طرف خبر چل رہی تھی کیلیفورنیا کے بڑے بزنس مین ولیم جانس کے بیٹے لیی جانس واش روم میں مردہ حالت میں پائے گے رپورٹ دی جا رہی ہے کہ یہ واقعہ ایک حادثہ ہے جو واشروم میں پاؤں پھسلنے سے ہوا ہے..

ہر  چینل پر یہ ہی خبر چل رہی تھی.. خبر کو سنتے ہی ایما کانپ اٹھی اس کے ہاتھ میں پکڑا ریموٹ نیچے گر گیا....

ایما کا جسم ٹھنڈا پڑنے لگا وہ جان گی تھی اب اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے.. کیوں کہ مارک تو پھر بچ گیا تھا.. 

اتنے میں ایما کو اپنے پیچھے کسی کے ہونے کا احساس ہوا اس سے پہلے وہ موڑتی

مارک اس کی گردن کے گرد موٹی تار ڈال چکا تھا..

تم نے میرے ساتھ دھوکہ کیوں کیا.. مارک نے دھاڑے ہوئے ایما کی گردن پر تار کو اور ٹائیٹ کیا...

ایما خود کو بچانے کے لیے اپنی گردن پر تار کو ہاتھوں سے کھینچ رہی تھی..  اس کا سانس بند ہو رہا تھا..

وہ بچہ تھا مارک اس کا کیا قصور تھا.. ایما نے درد سے بلبلاتے ہوئے مارک سے رحم کی فریاد کی… 

وہ بچہ تھا.. ہاں.. تم کتنا جانتی ہو اسے ہاں.. جو وہ تمہیں بچہ لگتا تھا… مارک بات کرتے ہوئے ایما کی گردن پر تار کو مزید ٹائٹ کر رہا تھا.. 

مارک میں بس یہ جانتی ہوں وہ بچہ تھا.. ایما نے مارک کو بیک کک ماری جس سے مارک کی گرفت ایما پر کمزور پڑ گی اور اس نے جلدی سے خود کو اس تار سے چھڑا کر دوسرے کمرے کی طرف بھاگی.. 

ایما کے اپنے بچاؤ پر جو حرکت کی.. اس پر مارک کا دماغ اور گھوم گیا.. 

اس نے غصے سے اپنے دانت پیستے ہوئے ایما کے پیچھے گیا.. 

ایما تم مجھ سے بچ نہیں سکتی یہ تم بھی جانتی ہو اس لیے بہتر یہی ہے کہ  تم خود باہر اجاؤ.. مارک کمرے میں گھومتا ہوا ایما کو کہہ رہا تھا جو سٹڈی ٹیبل کے نیچے چھپی ہوئی تھی.. 

ایما آجاو باہر دیکھو میرا دماغ مزید خراب نا کرو میرا دماغ پہلے ہی گھوما ہوا ہے اگر تم مجھے اسی طرح گھوماتی رہی تو میں تمہیں ٹیبل کے نیچے سے ہی گولی مار دوں گا..  

مارک صوفے پر بیٹھا ایما کو دیکھ چکا تھا جو ٹیبل کے نیچے چھپی ہوئی تھی.. مارک کی بات پر ایما نے آنکھیں پینچ لیں وہ اب مارک سے کسی بھی صورت نہیں بچ سکتی تھی.. اس نے اپنے حلق کو تر کیا اور گہری سانس لی.. 

آجاؤ شاباش ایما.. میں کچھ نہیں کہوں گا آج یہ مارک کا وعدہ ہے تم سے لیکن تم اگر ایسے ہی کرتی رہی تو مجھے مجبور کر دو گی.. مارک کے دوبارہ کہنے پر ایما حوصلہ کرتے ہوئے ٹیبل سے باہر آئی.  

ایما نے مارک کے بارے میں یہ بھی سنا تھا کہ وہ اپنے وعدے کا پکا ہے جب وہ کسی بات کا کہہ دیتا ہے تو وہ کر کے چھوڑتا ہے.. اور مارک نے ایما کو بھی یہ وعدہ دیا تھا کہ وہ اسے کچھ نہیں کرئے گا. 

ایما اب ٹیبل سے باہر اکر مارک کے سامنے کھڑی تھی.  مارک ایما کو غور سے دیکھ رہا تھا جس کی آنکھوں میں خوف تھا گھبراہٹ تھی ڈر تھا اس کا سیفد رنگ پھیکا پڑا ہوا تھا.. اور ساتھ ہی وہ کانپ رہی تھی… مارک ایما کو اس حالت میں دیکھ کر  ہاتھ سے اشارے سے اپنے پاس صوفے پر بیٹھنے کا کہا.. 

ایما سہمی ہوئی چلتی ہوئی مارک کے پاس اکر بیٹھ گی.. 

مارک نے ہاتھ میں پکڑی پسٹل کو صوفے پر رکھ دیا اور اس کا دوسرا ہاتھ اسکی داڑھی پر تھا.. وہ بغیر پلکیں جھپکائے ایما کی طرف دیکھ رہا تھا…  جو خود میں مسلسل سمٹ رہی تھی.. 

کیا کہا تھا تم نے مجھ سے کہ وہ لیی جانسن ایک بچہ تھا.  مارک نے ایما کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو سر جھکائے بیھٹی تھی.  اب وہ دوبارہ بولنے کی غلطی نہیں کر سکتی تھی اس لیے ایما چپ رہی. 

بولو ایما…  تمہیں لیی جانسن بچہ لگتا ہے بولو.. 

ایما پھر خاموش رہی.. ایما کی خاموشی پر مارک نے غصے سے اپنے دانت چبائے.  

بولو ایما میری بات کا جواب دو.. مارک نے غصے سے پاس رکھے ٹیبل پر ہاتھ مارا.  مارک کی اس حرکت پر ایما کپکپا گی.  

ہاہہہہہاں… ہاں.  میں نے یہ کہا تھا.. ایما کپکپاتی آواز میں بول پڑی.. 

ہممم.. اوکے.. کبھی کسی کو اسکی عمر اور حلیے سے اندازہ نا لگایا کرو.. میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ اٹھارہ سال کا لڑکا جو تمہاری نظر میں بچہ تھا وہ کیا تھا.  یہ تمہارے لیے جاننا ضروری ہے.  تاکہ تمہیں لوگوں کی پہچان ہو سکے.. 

مارک نے اپنی پاکٹ سے یو ایس بی نکالی اور ایما کی طرف کی.. 

جاؤ یہ ٹی وی پر لگاؤ اور یہاں میرے پاس اکر بیٹھ کر دیکھو جو تم نہیں دیکھنا چاہو گی.  

ایما نے کانپتے ہاتھوں سے وہ یو ایس بی پکڑی اور سامنے لگی led میں جاکر لگا دی.  اور اکر مارک کے پاس بیٹھ گی.  

آں ہاں.  وہاں نہیں یہاں میرے پاس اکر بیٹھو مارک نے ایما کو بلکل اپنے ساتھ اکر بیٹھنے کا کہا..

 ایما مارک کی بات پر ٹھنڈی پڑ رہی تھی.. مارک نے دوبارہ اشارہ کیا تو ایما اٹھ کر مارک کے پاس اکر بیٹھ گی مارک نے اپنا بازو کھول کر ایما کے کندھے پر رکھ دیا مارک کا بازو اپنے کندھے پر محسوس کرتے ہوئے ایما اور گھبرا گی.  

مارک نے دوسرے ہاتھ میں پکڑے ریموٹ سے ٹی آن کیا جس میں لیی جانسن کی تمام ویڈیوز تھی جو ایک اٹھارہ سال کا لڑکا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا.. 

پہلی ویڈیو چل پڑی جس میں لیی جانسن اس ویڈیو میں. کیمرا سیٹ کرتے ہوئے اپنے پانچ دوستوں کے ساتھ مل کر ایک برہنہ لڑکی کی ویڈیو بنا رہا تھا.  جسے رسی کے ساتھ باندھا ہوا تھا اور ایک کے بعد دوسرا لیی کا دوست آتا اور اپنی حیوانیت پوری کرتا اور کیمرے کے سامنے اکر خود کے بے ہودہ ایکسپریشن  دے کر چلا جاتا.  

وہ لڑکی جس کی عزت تار تار ہو رہی تھی وہ روتے ہوئے لیی جانسن سے رحم کی بھیگ مانگ رہی تھی.. 

.  یہ سب دیکھتے ہی ایما  کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گی اس نے فوراً اپنا سر نیچے کر لیا اس کے اندر اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ لیی جانسن کی مزید کو اور ویڈیوز دیکھ پاتی.. ایما کے چہرے نیچے کرتے ہی مارک نے اس کے بازو کو غصے سے دبوچا.. ایما درد سے بلبلا اٹھی.  

کیوں کیا ہوا تکلیف ہو رہی ہے اس لڑکی کو دیکھو جس کو اس سے زیادہ تکلیف ہو رہی ہو گی.  اور کیا ہوا تمہاری آنکھیں کیوں جھک گی دیکھو اپنے اس بچے کو کیا کر رہا ہے دیکھ کیوں نہیں رہی. 

مارک نے ایما کا منہ دبوچتے ہوئے اوپر کیا لیکن ایما کے اندر ہمت نہیں تھی.  

 کہ وہ مزید دیکھ سکتی.  ٹی وی پر لیی جانسن کی ایک کے بعد دوسری بیہودہ ویڈیو چلی رہی تھی.  جو کوئی بھی دیکھتا تو اس کا خون کھول اٹھتا.  

لیکن یہ لیی جانسن تھا ولیم جانسن کا بیٹا جسے کوئی کچھ کہنے والا نہیں تھا یہ ایسے ہی ویڈیوز بنتا اور بعد میں اسے نیٹ پر ڈال دیتا. .. 

ایسے ہی ایک لڑکی کے والد نے اس گند کو ختم کرنے کے. لیے مارک سے رابطہ کیا اور لیی جانسن نامی گندگی کو جڑ سے ختم کرنے کا کہا.  مارک نے لیی جانسن کو اغوا کرکے وہ  درد ناک موت دینی تھی جس کی تکلیف لیی جانسن کو یہ یاد کرواتی کہ وہ اُن سب  لڑکیوں کو کتنی تکلیف سے گزارتا تھا.. 

لیکن روشانی کی وجہ سے مارک کا پلان خراب ہو گیا تھا اور پھر مارک کو لیی جانسن کو آسان موت دینی پڑی.. 

مارک کی باتیں اور لیی جانسن کی ویڈیوز دیکھ کر اب ایما ڈرنے کی بجائے مارک کے سامنے اپنے کیے پر شرمندہ تھی. .. اگر اس کا بس چلتا تو شاید ایما بھی اسے اس سے زیادہ درد ناک موت دیتی.  ایما نے مارک کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا.. 

مارک اب صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا.  

تمہارے اور میرے درمیان جو ایگریمنٹ تھا وہ اب ختم.  میرے پاس دوبارہ کبھی مت آنا نہیں تو تب دوبارہ زندہ نہیں جاؤ گی.  ا بھی مارک نے وعدہ کیا تھا جو پورا کیا.اور مارک کے کام کے پیچھے کوئی نا کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے یہ دماغ میں بیٹھا لو.  

. اور یہ ویڈیو دیکھ کر تمہیں بہت سبق مل گیا ہو گا.  

مارک یہ کہتے ہوئے گھر سے باہر کی طرف نکل گیا.  ایما وہی کھڑی بت کی طرح مارک کو کچھ بھی نہیں کہہ سکی اس نے ایک نظر پھر ٹی وی پر ڈالی جہاں لیی جانسن مسلسل اپنی اور اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر  برہنہ لڑکیوں پر اپنی حیوانیت نکال رہا تھا.  

➖➖➖➖➖➖➖➖

کیوبا کے خوبصورت آئس لینڈ میں روشانی بیچ کے کنارے بیھٹی دھوپ کی تپش کو محسوس کر رہی تھی.. سامنے سمندر میں مارک سوئمنگ کر رہا تھا.. 

روشانی کب سے مارک کو ایسے سوئمنگ کرتے دیکھ رہی تھی.. تھوڑی دیر بعد روشانی اپنی جگہ سے اٹھی بلیک ٹائٹ ٹروزر اور شرٹ کے اوپر پہنا لونگ سلک کا گاؤن اتراتے ہوئے وہ تپتی ریت پر نزاکت سے پاؤں رکھتی ہوئی مارک کے پاس جا رہی تھی.. 

مارک شارٹ پہنے سوئمنگ میں مصروف تھا روشانی نے آج پہلی بار مارک کو کبھی شرٹ بغیر  نہیں دیکھا تھا اس کے باآئسیس اس کی باڈی میں اور کشش پیدا کر رہے تھے.  

روشانی چلتی ہوئی آہستہ سے پانی میں پاؤں رکھا..اور پاؤں سے پانی کو چھوا.. پانی ٹھنڈا تھا لیکن اس نے مارک کے پاس جانا تھا ٹھنڈے پانی کی پروا کیے بغیر وہ پانی میں اتر گی.. 

روشانی کے پرفیوم کی خوشبو محسوس ہوتے ہی مارک جو سوئم کر. رہا تھا اپنے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے اس نے روشانی کی طرف دیکھا جو اس کے قریب اچکی تھی…  

روشانی تم پانی میں کیا کر رہی ہو تمہیں ٹھنڈ لگ جائے گی.. مارک نے روشانی کی طرف دیکھا جو اسکے بلکل قریب اچکی تھی.. پانی کی لہریں دونوں کو چھو کر گزر رہی تھیں.. دونوں آدھے سمندر کے پانی میں تھے.. 

جب تم پاس ہو تو مجھے ٹھنڈ کیسے لگ سکتی ہے مارک روشانی نے  مارک کے پانی سے بھیگے ہوئے بالوں میں نرمی سے اپنے ہاتھ سے اسے سیٹ کیا.. ایک ہاتھ مارک کی گردن پر اور دوسرا ہاتھ مارک کے کندھے پر رکھ کر وہ اسے بڑی پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی.. 

سچ میں روشانی.. کہیں میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا.. مارک نے روشانی کی بات پر اسے کمر سے پکڑتے ہوئے مزید اپنے قریب کیا.  روشانی کی اٹھائیس انچ کی کمر اب مارک کے ایک بازو میں چھپ گی تھی.. 

روشانی اب مارک کے چوڑے سینے کے ساتھ لگ چکی تھی 

مارک کی باڈی سے نکلتے پانی کے قطرے روشانی کی شرٹ کو گیلا کر رہے تھے.. 

اگر تم سمجھتے ہو یہ خواب ہے تو یہ خواب بھی ہوسکتا ہے اور تم نہیں چاہو گے کے اس کی تعبیر معلوم کرو.. 

روشانی نے مارک آنکھوں میں. دیکھا جو پوری طرح روشانی کی محبت میں ڈوب چکا تھا.. 

جب خواب اتنا حسین ہے تو تعبیر کتنی خوبصورت ہو گی.. مارک نے اپنے دوسرے ہاتھ سے روشانی کے بالوں کو اس کے کانوں کے پیچھے کیا جو ہوا سے مسلسل اس کے چہرے کو چھو رہے تھے.. 

ضروری نہیں مارک ہر خواب کی تعبیر خوبصورت ہو کچھ خوابوں کی تعبیر بھیانک بھی ہوتی ہے.. 

روشانی کی بات پر مارک تھوڑا مسکرایا.. وہ روشانی کے ساتھ اس پل کو خراب نہیں کرنا چاہتا تھا….. 

وہ روشانی کی آنکھوں کی گہرائی میں مکمل ڈوب چکا تھا.. تیز ہوا اور سمندر کی لہروں کا شور چیخ چیخ کر مارک اور روشانی کی محبت کی گواہی دے رہا تھا.. 

تب ہی روشانی نے اپنی ٹانگ کے ساتھ بلیٹ سے باندھی ہوئی پسٹل نکالی اور مارک کے چہرے کو چھوتے ہوئے پوری پسٹل کی گولیاں اسے کے سینے میں. اتار دی… 

یک دم مارک کے ہاتھ کی گرفت جو روشانی کی کمر پر تھی وہ ڈھیلی پڑ گی…. مارک کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جب وہ پانی میں گر رہا تھا مارک کی باڈی سے نکلتا خون سمندر کے پانی کو سرخ کر رہا تھا.. 

میں تم سے… ممممم...ح..ب… مارک کے منہ سے الفاظ پورے نہیں نکل پائے کہ وہ پانی میں گر گیا.. 

مارک کو یو مرتا دیکھ کر روشانی نے زور کا قہقہہ لگایا…. سورج غروب ہورہا تھا اور ساتھ ہی مارک.. 

میں نے مارک کو مار دیا… ہاہاہاہا… میں نے مارک  مار دیا….. میں آزاد ہوں.. مارک مر گیا.. 

روشانی  خواب دیکھتے ہوئے نیند میں بڑبڑا رہی تھی تب سائیڈ ٹیبل  پر رکھے موبائل فون پر  بیل بجی  اور موبائل فون کی  سکرین پر مارک کا نام چمک رہا تھا.. بیل کی آواز پورے کمرے میں گونج رہی تھی.. روشانی پسینے میں ڈوبی ہوئی ہڑبڑا کر اٹھی… 

اس نے جلدی سے اپنے بکھرے بالوں کو سمیٹا.. کل کی اور صبح کی تھکن سے اس کا پورا وجود درد کر رہا تھا.. 

موبائل-فون پر مسلسل مارک کی کال ارہی تھی..  روشانی اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گی.. 

کاش یہ خواب نا ہوتا روشانی.. اور شاید میں ابھی بھی خواب میں ہی ہوں.. روشانی نے اپنے بازو پر چٹکی بھری.. اسے تب یقین آیا کہ وہ خواب میں نہیں ہے.. اتنی دیر میں مارک کی کال بند ہو چکی تھی.. روشانی کا  دھیان موبائل کی طرف پھر بھی نہیں گیا .. 

اس نے اپنے اوپر سے کمبل کو ہٹایا اور اپنی لونگ نائٹی کے اوپر گاؤن کی ڈوریاں باندھتے ہوئے کھڑکی کی طرف چلی گئی   کھڑکی کو کھولتے ہی باہر سے آنے والی سرد ہوا روشانی کو سکون دے رہی تھی.. 

اس نے اپنے گال پر آرام سے ہاتھ پھرا اب چہرے کی سوجن کافی کم ہو گی تھی.. کھڑکی کے پاس کھڑے روشانی کی نظر نیچے پارکنگ میں بنے ہوئے بینچ پر پڑی جہاں مارک بیھٹا ہوا تھا.. 

روشانی نے جلدی سے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے دوبارہ ..  دیکھا. . وہ مارک ہی تھا.. بالوں کو سمٹ کر پونی کی ہوئی تھی ہمیشہ کی طرح کی ڈریسنگ کی ہوئی تھی لیکن وہ سر جھکائے بیھٹا تھا.. 

روشانی جلدی سے اپنے فون کی طرف لپکی.. فون اٹھاتے ہی اس نے جب آن کیا تو اس پر مارک کی کال آئی ہوئی تھی.. 

روشانی نے کال دیکھتے ہوئے گردن موڑ کر کھڑکی کی طرف دیکھا.. اور چلتی ہوئی کھڑکی کی طرف اگی.  

مارک ابھی بھی وہی بیھٹا تھا.. روشانی نے مارک کو کال ملا دی.. لیکن مارک نے فون نہیں اٹھایا..  روشانی کو پریشانی ہونا شروع ہوگی کہ اگر وہ مارک ہے تو وہ فون کیوں نہیں اٹھا رہا.. اور اس نے تو فون نکال کر بھی نہیں دیکھا.. 

روشانی جلدی سے موڑی اور گرم شال اپنے کندھوں پر ڈالتے ہوئے فلیٹ سے باہر اگی.. لفٹ میں جاتے ہوئے وہ بار بار یہ ہی سوچ رہی تھی کہ مارک یہاں اس وقت اس کے فلیٹ کے سامنے کیا کر رہا.. اس نے ایک بار پھر فون کی طرف دیکھا لیکن مارک کی اب کال نہیں تھی.. 

لفٹ سے باہر نکلتے وہ پارکنگ کی طرف چلی گئی مارک وہی موجود تھا اسی پوزیشن میں.. 

مارک….  روشانی نے مارک کے پاس آتے اسے آواز دی جو خاموشی سے بیھٹا تھا.. 

روشانی کی آواز پر مارک نے سر اٹھا کر روشانی کی طرف دیکھنے کی بجائے اس کی نظر روشانی کے گال پر پڑی.. جو ابھی بھی کچھ سرخ تھا.. 

تم یہاں کیا کر رہے ہو.. روشانی نے ساتھ ہی پوچھ لیا.  

کچھ بھی نہیں… بس اپنا کوٹ لینے آیا تھا جو تمہارے پاس ہے.. مارک نے ٹانگ پر ٹانگ رکھتے ہوئے دونوں بازو بینچ پر پھیلاتے ہوئے روشانی کی طرف دیکھا جو اسی حیرت میں کھڑی تھی کہ مارک صرف اپنا کوٹ لینے رات کے اس وقت آیا ہے .. 

تم پاگل ہو کیا.. کوٹ لینے اتنی سردی میں آئے ہو.  روشانی کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا.. 

بس میں ایسا ہی ہوں اپنی چیزوں کو اپنے پاس ہی رکھتا ہوں.. تو کیا مل جائے گا کوٹ مجھے.  سردی بہت ہے.. مارک نے فوراً کوٹ لینے کا کہا.. 

روشانی کو سمجھ نہیں آرہی تھی وہ کیا کہے.. اتنی رات کو وہ شخص سردی کی بات کر رہا تھا جو سمندر کے کنارے سنگل شرٹ پہنے چل رہا تھا اور اب اسے سردی لگ رہی ہے.. 

. اوکے آجاؤ.. روشانی یہ کہتے ہوئے چل پڑی.. 

مارک بینچ سے اٹھا اور روشانی کے پیچھے مسکراتا ہوا چل پڑا..  

روشانی نے اندر فلیٹ میں آتے ہی لائٹ آن کی اور الماری سے کوٹ نکلا جو اس نے آتے ہی. الماری میں رکھ دیا تھا اب اس نے کوٹ نکال کر  مارک کی طرف کیا.. 

یہ لو اپنا کوٹ.. روشانی نے کوٹ مارک کی طرف کیا جو کرسی پر بیٹھ گیا تھا…  

چائے نہیں پوچھو گی مارک نے کوٹ پکڑتے ہوئے روشانی کی طرف دیکھا.  جو مارک کے اس رویے پر شکڈ ہو رہی تھی… جو شخص شراب کے علاوہ دوسری بات نہیں کرتا تھا آج چائے کا کہہ رہا ہے.. 

روشانی نے حیرت سے مارک کی طرف دیکھا اور بغیر کچھ کہے کچن کی طرف چلی گی.. مارک نے کوٹ ٹیبل پر رکھ دیا.. اور کچن میں چائے بناتے ہوئے روشانی کو دیکھ رہا تھا.  جس کے ریشمی بال بار بار اس کے کانوں کی گرفت سے نکل کر اس کے چہرے کو چھو رہے تھے اور روشانی اسے بار بار کانوں کے پیچھے کر رہی تھی .. 

مارک کی آنکھوں کے سامنے اس دن کا منظر اگیا جب روشانی نے اسے رسی سے باندھا ہوا تھا اوروہ اس کے قریب اکر اس پر جھک کر  بات کر رہی تھی روشانی سے آنے والی وہ خوشبو آج بھی مارک کو محسوس ہو رہی  تھی.. 

مارک کرسی سے اٹھتے ہوئے کچن میں روشانی کی طرف اگیا.. 

روشانی یہ اچھا موقع ملا ہے ابھی مارک سے کل رات کے بارے میں بھی پوچھ لے آج ویسے بھی مارک کا رویہ ہی تبدیل ہے…. اس کا موڈ بھی اچھا ہے.. 

روشانی یہ سوچتے ہوئے. چائے کا کپ لے کر موڑی تو اسے اپنے سامنے کچن کی دیوار کے ساتھ مارک ٹیک لگائے کھڑا نظر آیا.. 

تم…  تم یہاں کیوں آئے ہو.. لے کر تو آرہی تھی چائے .. روشانی نے کپ مارک کی طرف کیا.. 

ایسے ہی وہاں بھی چائے کا انتظار کرنا تھا تو یہاں آکر کر لیا تو کوئی پرابلم ہو گی ہے  کیا.  مارک نے چاۓ گا گھونٹ لیتے ہوئے روشانی کی طرف دیکھا اور ساتھ ہی اس کے منہ سے چائے باہر اگی.. 

کیا ہوا.. روشانی یک دم گھبرا گی.. 

یہ چائے ہے کیا.  یہ پانی ہے.. مارک نے کپ کچن میں پڑے ٹیبل پر رکھ دیا.. 

مجھ سے تو ایسی ہی چائے بنتی ہے.  روشانی کندھے اچکاتے ہوئے اندر کی طرف اگی.. 

چلو میں اب چلتا ہوں.. مارک اندر کی طرف آتے ہوئے اپنا کوٹ پکڑا.. مارک جو دیکھنے آیا تھا اس کا کام ہو گیا تھا اسے روشانی کو دیکھنا تھا اس کے چہرے پر لگے زخم کو دیکھنا تھا کہ وہ ٹھیک ہوا کہ نہیں. 

مارک.. روشانی کی آواز پر مارک نے کوٹ اٹھاتے ہوئے گردن موڑ کر روشانی کی طرف دیکھا جو اس کی طرف دیکھ رہی تھی.. 

ہاں کیا ہوا ہے.. مارک نے کوٹ کو بازو پر ڈالا اور روشانی کی طرف آیا.. 

وہ مارک کل رات.. اور تم نے جو وہ نوٹ چھوڑا تھا وہ کیا تھا.. مجھے جاننا ہے کیا ہوا تھا.. روشانی بات کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کر رہی تھی.  

آج تک وہ کبھی کسی سے اتنی کنفیوز نہیں ہوئی تھی اور نا نہیں مارک سے لیکن اب بات ہی کچھ ایسی تھی کہ اسے بات کرتے ہوئے شرم محسوس ہو رہی تھی.. 

اچھا تو تم یہ جاننا چاہتی ہو. کہ کل رات کیا ہوا تھا… مارک قدم بڑھاتے ہوئے روشانی کی طرف آیا.. روشانی کے قدم پیچھے کو ہو گئے.  

اور اگر میں نا بتاؤ تو.  مارک دو قدم اور اگے کی طرف بڑھا.. 

لیکن مجھے جاننا ہے.. مارک اب روشانی کے قریب اچکا تھا روشانی پیچھے کی طرف جانا چاہتی تھی لیکن پیچھے کمرے کی دیوار تھی.. 

نہیں ایسے   نہیں بتاؤں گا   کیونکہ کہ تم نے بھی مجھے ان نشانات کے بارے میں نہیں بتایا.. مارک نے اپنے ہاتھ کی پہلی انگلی سے روشانی کی گال کو نرمی سے چھوا.. جو سرخ تھی.. مارک کو اپنے اندر وہی تکلیف محسوس ہو  رہی تھی جو روشنائی کے چہرے پر تھپڑ پڑنے سے اسے ہوئی تھی. 

لیکن میں جاننا چاہتی ہوں.. روشانی کی دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھی…. اس نے اپنے سانس کو اندر کی طرف کھینچتے ہوئے مارک کو کہا.. آج پہلی بار کسی نے روشانی کو اتنے پیار سے اور نرمی سے نہیں چھوا تھا.. 

روشانی بول رہی تھی لیکن مارک کی نظر روشانی کے چہرے پر تھی.. وہ اپنے دماغ میں اس تھپڑ کا بدلہ لینے کا سوچ رہا تھا جب روشانی کی دوبارہ آواز اس کے کان میں پڑی.. 

ٹھیک ہے تو ایک ڈیل کر لیتے ہیں مارک فوراً روشانی کی بات کی طرف متوجہ ہوا.. میں تمہیں سب بتا دوں گا لیکن تمہیں میری بات مانی پڑے گی. . مارک نے روشانی کے  ریشمی بالوں کو اس کے کندھے سے پیچھے کیا.. 

وہی خوشبو مارک کو اپنے سحر میں گرفتار کر رہی تھی.. اس سے پہلے مارک روشانی کے سامنے بے بس ہو جاتا اور اسے سب بتا دیتا اس نے فوراً خود پر کنٹرول کیا.. 

یہ تمہیں میں صبح بتاؤں گا اگر منظور ہے تو پھر مجھے بتا دینا.. مارک بات کرتے ہوئے اس کی نظر روشانی کے اوپر پہنے ہوئے گاؤن پر پڑی جو اس کے کندھوں سے نیچے سرک رہا تھا.. جس سے اس کی اندر کی نائٹی نظر ارہی تھی.. 

مارک اسے ٹھیک کرنے کے لیے جیسے ہی اپنے ہاتھ  روشانی کے کندھوں پر لے کر گیا.. روشانی یک دم گھبرا گی  وہ مارک کا ہاتھ پیچھے کرنے ہی والی تھی کہ مارک نے اس کے سرکتا ہوئے گاؤن کو پکڑتے  ہوئے اس کو اوپر کیا اور گاؤن کی ڈوریاں جو کھول چکی تھی اسے دوبارہ باندھ دیا. .. 

روشانی نے ایک نظر مارک کے ہاتھوں کو دیکھا اور پھر مارک کی طرف جو کسی سائبان کی طرح اسکی حفاظت کر رہا تھا.  

روشانی اس سے پہلے کچھ کہتی مارک نے نرمی سے روشانی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فلیٹ سے باہر اگیا.  

روشانی اپنے گاؤن کے کالر پر ہاتھ رکھے مارک کو جاتا دیکھ رہی تھی جو آج اس پر اپنا وہ روپ چھوڑ گیا تھا جو اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖

اذعام جب ہوش میں آیا تو اس کے کمرے میں سونیا نہیں تھی.. اس نے اپنی آنکھیں مسلتے ہوئے. دوبارہ کمرے کا جائزہ لیا لیکن سونیا نہیں تھی.  

اذعام جلدی سے بیڈ سے اتارا اور دبے پاؤں کے ساتھ چلتا ہوا کمرے سے باہر آیا.. ہر طرف خاموشی تھی.. ایسے جیسے گھر میں کوئی موجود نا ہو.. 

اذعام  سامنے  کمرے کی طرف چلا گیا جہاں اسے کمرے سے  روشنی دکھائی دے رہی تھی.. 

اذعام نے آہستہ سے تھوڑا دروازہ کھولا تو اسے سامنے عزل کے ساتھ دو آدمی کھڑے نظر آئے عزل کو دیکھتے ہی  اذعام یک دم پیچھے ہو گیا اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگ گیا.. 

اتنے میں اسے پری کی آواز سنائی دی اذعام نے ہمت کرتے ہوئے کمرے کے دروازے پر کان لگائے.. 

پری ان دونوں آدمیوں کو پیسے دے رہی تھی اور ساتھ ہی سونیا کو اس کے زخم ٹھیک ہونے کے بعد ٹھکانے لگانے کا کہہ رہی تھی.. اذعام کو یہ سمجھ نہیں. آرہا تھا کہ یہ ٹھکانے لگانے کا کیا مطلب ہے.. 

لیکن جب عزل کے منہ سے اذعام نے سنا کہ سونیا کو مار کر کہیں ایسے جگہ ٹھکانے لگانا ہے. کہ ہم پر شک تک نا ہو تو اذعام کے پاؤں تلے زمین نکل گی وہ بھاگتا ہوا اپنے کمرے میں اگیا.  اس کی سانس پھول رہی تھیں.. 

اسے سمجھ نہیں ارہی تھی کہ وہ سونیا کو کیسے بتائے اسے تو یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ ہے کہاں.. جب وہ بہوش ہوا تھا تب وہ اس کے بیڈ کے پاس زمین پر گری ہوئی تھی.. 

مارک کے جانے کے بعد روشانی ساری رات سو نہیں سکی اس کیو بے چینی  لگی ہوئی تھی کہ آخر کیا ہوا تھا جو مارک مجھے بتا نہیں رہا اور اس کا رویہ بھی اتنا تبدیل ہوگیا ہے.. وہ ایک کوٹ لینے نہیں اسکتا اس کے پیچھے کوئی نا کوئی وجہ ضرور ہو گی.. 

صبح ہوتے ہی روشانی نے مارک کو کال کی لیکن آگے سے کوئی جواب نہیں آیا.. روشانی کمرے میں ٹہلتی ہوئی اس بارے میں سوچ رہی تھی کہ اگر مارک کی ڈیل کو اس نے مان لیا تو وہ کون سی بات ہو گی جو اسے مانی پڑے گی.  

مارک کی نیچر کے مطابق روشانی کے دماغ میں خیالات آرہے تھے.. وہ ہر خیال کو اپنے دماغ سے جھٹک رہی تھی.  انہی سوچوں کے ساتھ روشانی نے مارک کے نمبر پر دوبارہ کال ملائی اس بار مارک کا نمبر بند جارہا تھا.  

یہ کیا مصبیت ہے اب نمبر بھی بند ہے.  روشانی نے غصے سے فون بیڈ ہر پھینکا اور چلتی ہوئی شیشے کے پاس آئی اور اپنے گال پر پڑے کایا کی انگلیوں کے نشان کو دیکھ رہی تھی جو ابھی بھی واضح تھے وہ اس حالت میں باہر بھی نہیں جا سکتی تھی.. 

شیشے میں اپنی گال کو دیکھتے ہی روشانی کی آنکھوں کے سامنے رات والا منظر آگیا جب مارک نے بڑی نرمی سے اس کی جلتی ہوئی گال پر اپنی انگلی پھری تھی جس سے اسے احساس بھی نہیں ہوا درد کا.  یہ سوچتے ہی روشانی کو اپنے وجود میں سنسنی سی محسوس ہوئی ..  

روشانی نے فوراً اپنے دماغ سے اس خیال کو نکالا اور کچن کی طرف جانے والی ہی تھی کہ فلیٹ کی بیل ہوئی روشانی جلدی سے دروازے کی طرف بڑھی.. 

روشانی نے  دروازہ کھولا تو سامنے ہادی تھا.. 

اوہو ہادی تم.. روشانی یہ کہتے ہوئے دروازہ چھوڑ کر اندر اگی.  روشانی کو لگا شاید مارک اگیا ہے.. 

کیوں تمہیں کسی اور کا انتظار تھا.. ہادی نے اپنے ہاتھ میں پکڑے کھانے کی کچھ چیزیں ٹیبل پر رکھی اور موڑ کر روشانی کی طرف دیکھا.  

نہیں.. نہیں تو مجھے کس کا انتظار ہونا ہے.. روشانی نے فوراً اپنی گھبراہٹ چھپائی.. 

تم بیھٹو میں ناشتہ بناتی ہوں.. روشانی نے ہادی کو کہا اور کچن کی طرف جانے ہی لگی تھی کہ ہادی نے روک دیا.. 

تم رہنے دو.. چائے تو تم سے بنتی نہیں چلی ہو ناشتہ بنانے میں بناتا ہوں پھر دونوں ساتھ میں ناشتہ کرتے ہیں ہادی کچن کی طرف چلا گیا.  اور روشانی چائے کا نام سن کر وہی روک گی رات کو جب اس نے مارک کو چائے بنا کر دی تھی تو اس سے ایک گھونٹ بھی نہیں پی گی تھی.. 

تم نے میڈیسن لگائی اپنی گال پر.  ہادی روشانی سے بات کر رہا تھا اور روشانی کہیں اور گھوم تھی.  

روشانی…  ہادی نے جب کچن سے اونچی آواز دی تو روشانی اپنے خیالات سے واپس آئی.. 

روشانی ہادی کی آواز پر کچن کی طرف چلی گئی.. ہادی آملیٹ بنا رہا تھا.  روشانی کچن کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی ہو گی.. 

آج کا کیا پلان ہے تمہارا.. روشانی نے ہادی سے پوچھا جو ناشتہ بنانے میں مصروف تھا.  

کچھ خاص نہیں کایا نے تو سب کاموں سے فارغ کر دیا ہے بس ایک ہی کام دے دیا ہے اور باقی رہی بات مارک کی تو میں اسی کے پاس تھا اس کے کچھ کام ہیں اتنے بڑے نہیں ہیں بس چھوٹے چھوٹے ہیں وہ کر کے جلدی ہی اجاؤ گا. 

 ہادی ناشتہ بناتے ہوئے اپنا پلان روشانی کو بتا رہا تھا ہادی کے منہ سے جب روشانی نے مارک کا نام سنا تو وہ چونک گی.  

کیا کہا تم نے تم مارک کے پاس تھے کیا.. روشانی کو حیرت ہوئی کہ وہ صبح سے کال کر رہی تھی اور مارک نے اٹھائی نہیں اور اب ہادی سے پتہ چل رہا ہے کہ وہ صبح سے اٹھا ہوا تھا.. اور ہادی کے ساتھ تھا.. 

کیوں کیا ہوا تم اتنی حیرت سے کیوں پوچھ رہی ہو میں مارک کے ساتھ نہیں ہو سکتا کیا.. ہادی ناشتہ لےکر ٹیبل کے پاس چلا گیا.. 

نہیں میرا یہ کہنے مطلب نہیں ہے.. وہ تم زیادہ ہی مارک کے کام کر رہے ہو. تو اس لیے.. روشانی نے. کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ کر چائے کا کپ اٹھایا.. 

ہادی نے روشانی کی طرف دیکھا جس کی آنکھیں سرخ تھی.  

تم ساری رات نہیں سوئی کیا.  ہادی نے روشانی کی طرف دیکھا.  

میں سو گی تھی کیوں تم کیوں پوچھ رہے ہو.. روشانی نے کبھی ہادی سے کوئی بات نہیں چھپائی تھی لیکن وہ کیسے ہادی کو وہ سب بتاتی جو اسے بھی نہیں پتہ تھا.. 

ہادی نے روشانی کو چائے پیتے مسلسل دیکھ رہا تھا.  روشانی نے ایک دو بار اپنی نظریں چرائی لیکن پھر اس سے رہا نہیں گیا جب ہادی مسلسل اس کہ طرف دیکھ رہا تھا.. 

کیا ہوا ہے ہادی آج تم عجیب عجیب سی باتیں کیوں کر رہے ہو.. اور اب ایسے کیوں دیکھ رہے ہو.. روشانی نے کپ سائیڈ پر رکھا اور ہادی کی طرف متوجہ ہوئی.  ہادی کے چہرے پر صاف دکھائی دے رہا تھا کہ وہ کچھ بتانا اور پوچھنا چاہ رہا ہے.  

ہادی بولو کیا بات ہے.  روشانی کہ دوبارہ کہنے پر ہادی نے گہرا سانس لیا اور تھوڑا اگے کو جھکا.. روشانی کے دونوں ہاتھ ٹیبل پر تھے.. ہادی نے درمیان میں رکھی پلیٹ کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے روشانی کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ  میں لیا.. روشانی یک دم چونک گی اس نے حیرت سے ہادی کی طرف دیکھا جو اب بہت کنفیوز لگ رہا تھا.  

ہادی کیا بات ہے تم ایسے ری ایکٹ کیوں کر رہے ہو.  ہادی کے اس طرح کے ریکشن پر روشانی پریشان ہو گی.  

روشانی تمہیں مجھ پر یقین تو ہے نا.  میں نے کبھی تم سے کچھ نہیں چھپایا… ہادی کی بات پر روشانی پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں ڈر محسوس ہو رہا تھا کہ ایسا کیا ہوا ہے جو ہادی اس قسم کی باتیں کر رہا ہے.. کہیں مارک نے تو اسے سب بتا تو نہیں دیا.. روشانی کا دل بیٹھتا جارہا تھا.  

ہادی کھول کر بات کرو.. میں نے کبھی بھی تمہیں ایسا کچھ نہیں کہا.. مجھے تم پر خود سے زیادہ یقین ہے تم ایسی باتیں کیوں کر رہے ہو کیا بات ہے.  روشانی نے ہادی کی طرف دیکھا.  

بس روشانی میں یہی چاہتا ہوں کہ اگر تمہیں کہیں سے یہ پتہ چلے کہ میں نے تم سے کچھ چھپایا ہے تو بس یہ دماغ میں رکھنا کہ وہ تمہاری بھلائی کے لیے ہو گا.

  میں کبھی تم سے ناراض نہیں رہ سکتا اور نا تمہیں کھونے کا سوچ سکتا ہوں.  ہماری یہ دوستی کوئی عام دوستی نہیں ہے ہم نے ساتھ میں بارہ سال گزارے ہیں.. ہادی کی آواز میں اداسی تھی کچھ خاص کھونے کا خدشہ تھا.. 

ہادی.. پلیز.. تمہیں پتہ ہے مجھے ایسے ایموشنل باتیں پسند نہیں ہیں.. تم میرے لیے بہت خاص ہو یہ تم. بھی جانتے ہو.. میں تم پر کبھی شک کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی.  اور اگر تم نا ہوتے تو میں کچھ بھی نا ہوتی.  

تمہاری دوستی میرے لیے سب سے بڑھ کر ہے.  اور مجھے یہ بھی پتہ ہے تم کبھی میرا یقین نہیں توڑو گے.  اور اب یہ ایموشنل سین بند کرو.  

میں تو ڈر گی تھی کہ پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے.  روشانی نے  بات مکمل کرتے ہوئے ہادی کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ الگ کئے اور آملیٹ کی پلیٹ ہادی کے پاس کی.  

لو ناشتہ کرو.  ایسی باتیں نہیں سوچتے.  ہمیں کوئی الگ نہیں کرسکتا.. روشانی بات کر رہی تھی جبکہ ہادی روشانی کی طرف دیکھ رہا تھا.  آج وہ صبح مارک سے جو وعدہ کرکے آیا تھا اس سے وہ روشانی کو شاید ہمیشہ کے لیے کھو بھی سکتا تھا.  

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

میں ہی پاگل ہوں جو اس سر پھرے کی باتوں میں اگی.  اور کب سے اس کا انتظار کر رہی ہوں.  یہ ہادی بھی دوبارہ آنے کا کہہ کر پتہ نہیں کہاں چلا گیا ہے.  میں ایسے گھر میں بیھٹی بور ہو رہی ہوں.  باہر جاکر کافی پیتی ہوں.  

روشانی بڑبڑاتی ہوئی الماری سے کپڑے نکل رہی تھی.. 

تھوڑی دیر میں روشانی کپڑے تبدیل کرکے شیشے کے سامنے کھڑی تھی براؤن کلر کی پینٹ شرٹ کے اوپر شارٹ جرسی پہنے اپنے بالوں کو کھول کر چہرے کے نشان کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی.. 

افف.. کب جائیں گے یہ نشان.  جب روشانی کی کوشش ناکام ہوگئی تو تھک  کربیڈ پر بیٹھ گی.  ابھی وہ اپنے پہنے شوز اتارنے والی تھی کہ فلیٹ کی بیل ہوئی.. 

روشانی نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے مارک کھڑا تھا.  

تم.. سوری تم اندر نہیں اسکتے.. روشانی نے یہ کہتے ہوئے دروازہ بند کرنا چاہا لیکن مارک نے ساتھ ہی ہاتھ رکھ کر دروازے کو بند کرنے سے روک دیا.  

یہ کیا بدتمیزی ہے.. روشانی نے آنکھیں نکالتے ہوئے مارک کو دیکھا.. 

بدتمیزی تو میں نے ابھی تک کی ہی نہیں تو تم کون سی بدتمیزی کی بات کر رہی ہو.. مارک دروازہ کھولتے ہوئے اندر آگیا.  روشانی حیرت سے کھڑی مارک کو دیکھ رہی تھی جو بڑے آرام سے اکر کرسی پر بیٹھ گیا تھا.. 

تم کتنے ڈھیٹ اور بے شرم ہو.. میرے منع کر نے کے باوجود کتنے دھڑلے کے ساتھ اکر بیٹھ گئے ہو.  روشانی اپنے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے حیرت سے مارک کی طرف دیکھ رہی تھی جو ٹیبل پر پڑی فروٹ باسکٹ سے سیب اٹھا کر کھا رہا تھا.  

ویسے تم سمجھ رہی ہو  مجھے آہستہ آہستہ تمہارا اندازہ ٹھیک ہے میں ڈھیٹ بھی ہوں اور بے شرم بھی تو پھر اس میں اتنی حیرت سے اس طرح خونی بلی کی طرح دیکھنے کا کیا مقصد ہاں.  اور ساتھ ہی مارک نے سیب کو ہوا میں اچھلتے ہوئے کرسی سے اٹھا اور چلتے ہوئے روشانی کے پاس آیا.. 

کیا مطلب ہے تمہارا یہ فلیٹ تمہاری پراپرٹی نہیں ہے جب چاہا منہ اٹھا کر چلے آئے.. اور جب مرضی دل کیا فون اٹھا لیا یا فون کو بند کر دیا. .میں کوئی تمہاری ملازم نہیں ہوں جسے تم. اپنے اشاروں…  

روشانی بولتی جارہی تھی جب مارک نے اس کے پھول کی پنکھڑی جیسے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھ دی.. 

روشانی کی وہی  بولتی بند ہو گی.. 

میری ڈیل کے بارے میں کیا سوچا پھر.. مارک روشانی کے قریب آیا اور اس کے کان کے  پاس جاکر بولا.  

روشانی نے. فوراً اپنا سانس کھنچتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں سے قریب آئے مارک کو پیچھے کرتے ہوئے دوسری سائیڈ سے کچن کی طرف چلی گئی.. 

مارک نے گردن موڑ کر روشانی کی طرف دیکھا جو اب اس کے پیچھے کھڑی تھی.. 

ہاں مجھے منظور ہے تمہاری ڈیل.. میں مانوں گی تمہاری بات اب بتاؤں اس رات کیا ہوا تھا.. 

روشانی نے بات مکمل کرتے ہوئے اندر کی طرف سانس کھینچا.. وہ صبح سے ہی تو مارک کا انتظار کر رہی تھی کہ وہ کب آئے اور وہ سب معلوم کرکے اس ٹینشن سے جان چھڑائے.. 

روشانی کی بات پر مارک جو پہلے روشانی کو تنگ کر رہا تھا اچانک سیریس موڈ میں اگیا.. 

اچھا تو تمہیں یقین ہے کہ کہ تم سن پاؤ گی جو میں کہوں گا.. مارک نے جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے روشانی کی طرف دیکھا جو سینے پر ہاتھ باندھے کھڑی تھی.. 

ہاں بلکل سن سکتی ہوں.. روشانی نے ہمت سے جواب دیا.. 

اور جو میں کہوں گا وہ بھی کرنا ہو گا یہ بھی تم جانتی ہو کیونکہ میں انکار سنے والوں میں سے نہیں ہوں اور نا میں موقع دیتا ہوں.. مارک نے روشانی کی طرف دیکھا جو اب غصے سے مارک کی طرف دیکھ رہی تھی کہ وہ اب اگے بول کیوں نہیں رہا.. 

اوکے.. اوکے.. میں بتا دیتا ہوں.  مارک ایسے غصے سے روشانی کو دیکھ کر بول پڑا.. روشانی نے. مارک کو دیکھتے ہوئے دانت پیسے.. 

دیکھو.. اگر تم اس رات کے بارے میں یہ سوچ رہی ہو کہ میں نے تمہارے ساتھ کچھ کیا ہے تو.. یہ.. تمہارا خیال.. 

مارک کہ منہ سے نکلتے ہوئے. الفاظ کو روشانی بڑے غور سے سن رہی تھی.. اسکی دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہو رہی تھی.. مارک نے جب روشانی کو ایسے غور سے سنتے ہوئے دیکھا تو اسے روشانی کی معصومیت پر بہت پیار آیا وہ بات کرتے ہوئے ایک لمحہ کے لیے بولتے روک گیا. پھر بولا.. 

ہاں  تو میں کہہ رہا تھا کہ اس رات جو تم سوچ رہی ہو ایسا.. کچھ نہیں ہوا تھا.. تم بے فکر رہو. تمہیں کیا لگتا ہے. کہ میں زبردستی کی ہے کوئی تمہارے ساتھ یا تمہاری مجبوری کا فائدہ اٹھایا ہے .. یہ تمہاری سوچ غلط ہے.. 

مارک کہ منہ سے یہ الفاظ نکلتے ہی روشانی نے سکون کا سانس لیا اسے لگا جیسے اسکے جسم جان واپس اگی ہو.. 

ہاں تو. مجھے پتہ تھا ایسا کچھ نہیں ہوا تھا وہ تو میں کنفرم کر رہی تھی.. روشانی نے خود کو تسلی دیتے ہوئے جاکر کرسی پر بیٹھ گی.. 

اچھا تو تمہیں پتہ تھا تو پھر اتنی پریشان کیوں تھی.  مارک جیبوں میں ہاتھ ڈالے روشانی کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا.. 

ہاں تو تمہاری ہسٹری ہی ایسی ہے تو خود کو بچانا تو پڑتا ہے.. روشانی اب ٹیشن فری ہو گی تھی.. 

اوکے.. اوکے بس.. اب اپنا وعدہ پورا کرو.  مارک سیدھا اپنی بات پر اگیا.  

ہاں بتاؤ. کیا بات مانی ہے تمہاری.. روشانی نے سر اٹھا کر مارک کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر طوفان کے آنے کے اثرات نمایاں تھے.. 

تم کایا کہ پاس اب کام نہیں کرو گی.  مارک نے سیدھی بات کہہ دی.. 

واٹ.. تم ہوش میں تو. کیا کہہ رہے ہو تم.. روشانی مارک کی بات پر بھڑک اٹھی.. اور کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی.. 

تم نے ڈیل کی ہے اب پوری کرو.. مارک نے اپنی بات دوہرائی.. 

تم سمجھتے کیا ہو. خود کو ہاں.. اور میں کیوں اپنے باس کو چھوڑوں.. ہاں.. 

وہ ا چھا آدمی نہیں ہے.. مارک نے مختصر سا جواب دیا.. 

کیا.. کیا کہا.. تم نے کایا اچھا آدمی نہیں ہے یہ میں تمہارے منہ سے دوسری بار سن رہی ہوں.  تم جانتے کیا ہو کیا کایا کے بارے میں ہاں.. تم سے لاکھ درجے وہ بہتر ہے..

 تم ایک حیوان ہو اور وہ ایک انسان ہے  آئندہ میرے باس کے بارے میں ایک بھی بات کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا.. تمہارے ساتھ چار دن کیا گزار لیے تم مجھے اپنی پراپرٹی سمجھنے لگ گے ہو..

 میں تمہارے حکم پر سالوں سے اپنے باس کے ساتھ جو گزارے ہیں وہ غداری میں بدل دوں یہ نہیں ہوسکتا روشانی نے غصے سے مارک کی طرف ا نگلی کرتے ہوئے کیا روشانی کی آنکھیں مزید سرخ ہوری تھیں.. 

اچھا تو وہ انسان ہے جس نے تمہارے چہرے پر یہ نشان چھوڑے.. ایسے انسان نہیں کرتے جانور کرتے ہیں اور تم مجھے حیوان کہہ رہی ہو.   مارک نے جاتی ہوئی روشانی کا بازو پکڑتے ہوئے اسے اپنی طرف کھینچا 

تمہارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ وہ مجھ پر ہاتھ اٹھائے یا مجھے ٹارچ کرے.  ان کے جتنے احسان ہیں مجھ پر اتنے تم. نے لوگوں کو مارا ہو گا سمجھ آئی.. اب میرا بازو چھوڑو..  روشانی مارک کی ہاتھ کی گرفت سے اپنا بازو چھڑانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی.. 

کتنی صفائی سے اس نے تمہارے دماغ کو کلیر کیا ہے.. لگتا ہے تمہیں تمہارے باس کا اصل چہرہ دیکھنا ہی پڑے گا.. مارک نے روشانی کا بازو چھوڑا اور جیب سے موبائل نکالا.. 

مارک نے فون نکال کر روشانی کی طرف کیا.. 

اگر تمہارے اندر اتنی ہمت ہے  یہ سب دیکھنے کی تو اس موبائل کو آن کرتے ہی پہلی ویڈیو ہے وہ دیکھ لینا اور اس کے بعد تمہیں تمہارے سو کالڈ باس کی حقیقت سامنے آجائے گی جس کو تم فرشتہ سمجھتی ہو.. جو تمہیں بارہ سال سے دھوکے میں رکھا ہوا ہے.. 

مارک کے ہاتھ میں فون تھا جو اس نے روشانی کی طرف کیا تھا روشانی فون کی طرف دیکھ رہی تھی ساتھ ہی اس کی گھبراہٹ میں اضافہ ہو رہا تھا…  

اس فون میں ایسا کیا ہے جو مارک اتنے اعتماد کے ساتھ بات کر رہا ہے.. اس سے پہلے روشانی فون پکڑتی.. روشانی کو اپنے پیچھے کسی کی آہٹ محسوس ہوئی اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو پیچھے ہادی کھڑا تھا.. 

روشانی نے ہادی کی طرف دیکھا اور پھر مارک کی طرف.. اور ساتھ ہی مارک کے ہاتھ سے موبائل-فون پکڑا.. 

فون کو آن کرتے ہی روشانی نے موبائل کی پہلی ویڈیو نکالی اور اسے آن کرنے سے پہلے دوبارہ ہادی کی طرف دیکھا جو چپ کھڑا تھا.. 

مارک مسلسل روشانی کی طرف دیکھ رہا تھا.. 

روشانی نے جیسے ہی وہ ویڈیو آن کی اس کے پاؤں تلے زمین نکل گی.. وہ ویڈیو اس کی ماں کی تھی. . جو کسی کے پیروں میں پڑی ہاتھ جوڑ کر کسی بات پر التجا کرہی تھی.  ویڈیو میں کھڑا شخص دکھائی نہیں دے رہا تھا 

روشانی کی ماں نے جس آدمی کے پاؤں پکڑے ہوئے تھے اس نے اسے ایک ٹھوکر ماری اور چلتا ہوا کرسی پر جاکر بیٹھ گیا.. 

میری بچی کو چھوڑ دو.. اس کا کوئی قصور نہیں ہے میں تمہارا سارا قرض اتار دوں گی… میری بچی کو چھوڑ دو.   روشانی کی ماں گڑگڑاتی ہوئی اس آدمی سے کہہ رہی تھی.. 

روشانی کے باپ نے ایک بھاری رقم ادھار لی تھی کاروبار میں لگانے کے لئے لیکن اگے سے دھوکا ملنے پر وہ رقم ڈوب گی اور روشانی کے باپ  نے پھانسی لے لی.. 

روشانی کی عمر تب دس سال تھی جب اس کے سر باپ کا سایہ اٹھ گیا تھا.  باپ کے قرض کی وصولی اب اسکی بیٹی روشانی کی صورت میں لی جارہی تھی جو بچپن سے ہی ہوشیار اور فطین بچی تھی.  

روشانی ویڈیو دیکھتے ہی اتنی سردی میں اسکے ماتھے پر پسینے ارہے تھے…. ویڈیو چلتی ہوئی جب اس آدمی پر آئی جس کے پاؤں پر اسکی ماں نے ہاتھ رکھے ہوئے تھے وہ اور کوئی نہیں تھا وہ کایا تھا.  

میں تمہاری بیٹی کو تو لے کر ہی جاؤں گا چاہے جو مرضی ہو جائے.  کایا  جو وہ اس وقت مافیا کی دنیا میں. نیا تھا  بائیس سال کا نوجوان جس کا گرم خون سمجھداری سے زیادہ جوش سے کام لیتا تھا اس نے روشانی کی ماں کی بازو سے پکڑتے ہوئے دور پھینکا اور روشانی کو لے جانے  کے لیے موڑا تھا کہ روشنائی کی ماں نے کایا کا ایک پاؤں پکڑ لیا.. کایا نے غصے سے اکر اپنی کمر کے پیچھے رکھے پسٹل نکلا اور گولی چلادی جو روشانی کی ماں کے دماغ کے آر پار کر دی.  

روشانی کی ماں کو دوسرا سانس نہیں آیا اور وہ وہی مر گی… 

ابھی ویڈیو چل رہی تھی کہ موبائل روشانی کے ہاتھ سے گر گیا جو آنسو اس نے اب تک روک کر رکھے تھے  بارش کی طرح برس پڑے.. اپنی ماں کو خون سے لت پت پڑے دیکھ کر   وعدہ کیا تھا کہ وہ  اب نہیں روئے گی.  اور ماں کے قاتلوں کو ڈھونڈے گی.  وہ وعدہ ٹوٹ چکا تھا 

اور وہ اپنی ماں کے قاتل کے ساتھ ہی بارہ سال سے کام کر رہی تھی.  

ہادی نے جب روشانی کی یہ حالت دیکھی تو وہ اگے بڑھا.  روشانی نے اسے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے وہی روکنے کا کہا اور گردن موڑ کر ہادی کی طرف دیکھا.. 

جس کی آنکھوں میں شرمندگی تھی جو روشانی سے بارہ سال سے یہ راز چھپائے بیھٹا تھا.  

تمہیں پتہ تھا نا ہادی یہ سب ہاں… بولو ہادی.   روشانی نے روتے ہوئے ہادی کا گریبان پکڑتے ہوئے اسے کہا جو آنکھیں جھکائے شرمندہ کھڑا تھا.. 

کیوں ہادی.  کیوں.  مجھے نہیں بتایا کہ میں اپنی ماں کے قاتل کے ساتھ کام کر رہی ہوں اس امید کہ ساتھ کہ وہ میری ماں کے قاتلوں کو ڈھونڈ نکالے گا.. 

اور آج مجھے ایک ایسے شخص سے پتہ چلا ہے جس کو میں چار دن سے جانتی ہوں اور جس کو میں بارہ سال سے جانتی ہوں اپنا سب کچھ مانتی ہوں اس نے مجھ سے اتنی بڑی بات چھپائی.   روشانی کی بات پر ہادی چپ کھڑا تھا.. وہ روشانی کا مجرم تھا.. 

اور مارک روشانی کی اس بات پر حیرت سے روشانی کی طرف دیکھا کہ ہادی اس کا سب کچھ ہے.  مارک کی حیرت اے آنکھیں پھیل گئی 

روشانی.. میں نے  یہ سب تمہارے لیے..  ہادی بمشکل بولا ہی تھا کہ روشنائی نے اسے ہاتھ اوپر کرتے ہوئے چپ رہنے کا کہا.. 

نہیں کچھ. نہیں کیا تم نے میرے لیے.  کچھ نہیں کیا. . 

روشانی نے اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسو صاف کیے اور کرسی سے اپنی جیکٹ اٹھائی اور باہر کی طرف نکل گی.. 

ہادی نے مارک کی طرف دیکھا جو ٹانگ پر ٹانگ رکھے ایک بازو کرسی کی بیک پر رکھے ہادی اور روشانی کو دیکھ رہا تھا.. 

میں نے پہلے کہا تھا کہ یہ سب ہو گا. .. تم نے اس سے اتنی بڑی بات چھپا کر اچھا نہیں کیا.. اور وہ بھی اس کایا کے لیے جو روشانی کو بات بات پر ٹارچ کرتا ہے.. 

ایک طرف وہ تمہیں اپنا سب کچھ مانتی ہے دوسری طرف تم اسے کایا سے ٹارچ ہوتا دیکھ لیتے ہو.  عجیب رشتہ ہے تم دونوں کا. . مارک نے لفظوں کو چبا چبا کر کہا.  

اس کے کانوں میں روشانی کی بات گونج رہی تھی جب اس نے ہادی کو کہا کہ وہ اسے اپنا سب کچھ مانتی ہے. 

مارک یہ کہتے ہوئے کرسی سے اٹھا.  اور ہادی کے پاس آیا.. 

مجھ سے اسکے چہرے کے نشان ایک دن  برداشت نہیں ہوئے تو اسے کایا سے چھٹکارا دلا دیا.  تم کیسے اس کے  سب کچھ ہو کر اسے کایا کی قید سے نہیں نکال سکے. .. 

مارک نے ہادی کو کہا اور اپنی جیکٹ کندھے پر رکھی اور روشانی کے پیچھے چلا گیا.  

ہادی وہی خالی ہاتھ کھڑا رہا اسے جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا.. آج وہ خود کو پھر سے اکیلا محسوس کر رہا تھا جیسے وہ بارہ سال پہلے خود کو کرتا تھا. 

➖➖➖➖➖➖

مارک گاڑی لے کر روشانی کو ڈھونڈنے نکل گیا تھا. ہر جگہ دیکھ لی لیکن روشانی کا کہیں پتہ نہیں چل رہا تھا.  

ایک طرف مارک روشانی کو ڈھونڈ رہا تھا تو دوسری طرف ہادی.. 

ہادی کو جب روشانی کہیں نہیں ملی اس نے مارک کو کال ملا دی.. 

ہادی کی کال آتی دیکھ کر مارک نے جلدی سے کال اٹھائی.. ہادی کی کال سے بھی مارک کو یہی پتہ چلا کہ روشنائی کہیں نہیں ملی.. 

مارک نے ہادی کو حوصلہ دیتے ہوئے کال بند کر دی کہ وہ روشانی کو ڈھونڈ لے گا. .. 

رات کے دو بجنے والے تھے لیکن روشانی کا کہیں نام نشان نہیں تھا.. 

تب ہی مارک کے دماغ نے کام کیا.. وہ جگہ جہاں کوئی کم ہی آتا ہے وہ وہی گی ہو گی.  مارک گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے ساحل سمندر کی طرف نکل گیا.. 

ساحل سمندر کے پاس بنے دو کیفے جس کا ذکر مارک نے اس رات روشانی سے  باتوں باتوں میں کیا تھا.. 

مارک نے گاڑی کھڑی کی او چلتا ہوا کیفے تک آیا  کیفے کے اندر آتے  ہی اس کی نظر سارے خالی کیفے میں سامنے بیھٹی روشانی پر پڑی جو اپنا غم بھولنے کے لیے شراب کے گلاس پر گلاس ختم کر رہی تھی.. 

مارک نے روشانی کو ایسی حالت میں دیکھ کر کیفے کے مینجر کے پاس گیا جو کچھ ہی فاصلے پر کھڑا تھا…  

کیا دیا ہے تم نے اسے پینے کے لیے.. مارک نے اگے بڑھ کر مینجر کا گریبان پکڑتے ہوئے غصے سے کہا.  

وہ سر انہوں نے. کہا کہ کوئی ایسی ڈرنک دو کہ میں اپنے سارے غم بھول جاؤں سارے زخم ٹھیک ہو جائیں تو میں نے انہیں.. مینجر کی بات سنتے ہی. مارک نے ٹیبل پر رکھے گلاس کو سونگھا…. 

ایک لڑکی کو یہ پینے کے لیے دیتے ہیں مارک نے غصے سے چلاتے ہوئے منیجر کو گردن سے  دبوچا..

ششیشششیشش.. چپ. کون شور کر رہا ہے پتہ نہیں میڈم سو رہی ہیں.. روشانی جو ٹیبل پر سر رکھے شراب کے نشے میں  دھت تھی آوازیں سن کر بند آنکھوں سے اپنے منہ پر انگلی رکھتے ہوئے بولی.. 

روشانی کی آواز پر مارک نے مینجر کی گردن چھوڑی اور روشانی کی طرف آیا.  

روشانی اٹھو چلو یہاں سے.. مارک نے روشانی کو بازو سے پکڑتے ہوئے اٹھانے کی کوشش کی.. 

کون ہو تم..  اور مجھے کیوں اٹھا رہے ہو.. ہاں.  گیٹ آوٹ.. روشانی نے نشے میں مارک کو جانے کا اشارہ کیا.. اور ہھر دوبارہ ٹیبل پر سر رکھ کر دیا.  

روشانی.. مارک نے  آرام سے پیار سے آواز دی تو روشانی نہیں اٹھی تو مارک نے روشانی کو اپنی بانہوں میں اٹھا لیا.. 

بات تو تم. نے سنی نہیں ہوتی.  مارک روشانی کو بانہوں میں اٹھاتے ہوئے باہر کی طرف لے گیا.  

کون ہو تم.. مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو ہیلپ می ہیلپ می.. 

مارک گاڑی کی طرف جارہا تھا اور روشانی نشے کی حالت میں چلا رہی تھی.  

چپ کر جاؤ روشانی.  مارک کی آواز پر روشانی نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے مارک کو بڑے غور سے دیکھا.  

تم.. تم تو وہ ہو نا جو موویز میں آتا ہے.   وہ جو سب کو مار دیتا ہے وہوہو… روشانی بات کرتے ہوئے روک گی.  

او نو..  نہیں روشانی یہاں ومیٹ نہیں کرنی.. مارک نے جلدی سے روشانی کو نیچے اتارا اور ساحل کی ریت پراس کی کمر سے پکڑتے ہوئے اسے تھوڑا جھکایا.. 

روشانی کے اندر جتنی بھی شراب گی تھی وہ باہر نکل آئی.. روشانی اب اپنا سر پکڑے کھڑی ہو گی.  

مجھے چکر آرہے ہیں.  روشانی لڑکھڑاتی ہوئی چلی نہیں پا رہی تھی.. 

جب تم اتنی شراب وہ بھی پہلی بار پیو گی تو ایسا ہی ہو گا.   مارک نے روشانی کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے اسے سمندر کی ریت پر بیھٹا دیا.  

یہاں بیٹھو تھوڑا اچھا محسوس کرو گی. . 

سمندر سے چلنے والی تیز ہوا روشانی کے بالوں کو چھو رہی تھی.  اور ساتھ ہی ساتھ اس کے آنکھوں سے نکلتے آنسو ریت میں جذب ہو رہے تھے.. 

مارک نے اگے بڑھ کر روشانی کا ہاتھ پکڑا اور اس کا سر اپنے کندھے پر رکھ دیا.. 

انسان جب اکیلا ہوتا ہے نا اور اس کا رونے کو بھی دل کرے تو اسے کسی کندھے کی ضرورت ہوتی ہے جس پر وہ اپنا سر رکھ کر اپنے سارے غم مٹا دے.. 

مارک  بات کرتے ہوئے روشانی کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں آنسو کی بارش ہو رہی تھی.. 

اس نے مجھے کہا تھا کہ میں تمہاری ماں کے قاتلوں کو ضرور پکڑوں گا.  جب میں اپنی ماں کے پاس بیٹھی تھی اور وہ خون میں نہائی ہوئی تھی ان کا خون میرے ہاتھ پر لگ گیا تھا وہ اپنی کھولی آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہی تھیں جیسے کچھ کہنا ہو.. 

شاید وہ بتانا چاہ رہی تھی کہ یہ کایا ہی تمہاری ماں کا قاتل ہے لیکن وہ بول نہیں سکتی تھیں وہ تو مر چکی تھیں.  اور میں اپنی ماں کے قاتل کو اپنا محسن سمجھ بیھٹی.. 

میری ماں مجھے کبھی معاف نہیں کرے گی کبھی نہیں.. 

روشانی بات کرتے ہوئے رو رہی تھی.  اور مارک خاموشی سے روشانی کا ہاتھ تھامے اس کے غم کو سن رہا تھا.  

روشانی جب بات کرتے  ہوئے چپ کر گی نہیں بولی تو مارک نے روشانی کی طرف دیکھا جس کی آنکھیں بند ت

روشانی آنکھیں کھولو.. روشانی کو ایسے یک دم چپ ہوتے دیکھ کر مارک نے روشانی کو کندھوں سی جھنجھوڑا.. 

روشانی نے آنکھیں کھولتے ہی مارک کی طرف دیکھا جو اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیھٹا پریشانی سے روشانی کی. طرف دیکھ رہا تھا.. روشانی نے اگے بڑھ کر مارک کے گلے میں اپنی بانہیں ڈال دی.. 

تم.. مجھے یہاں کیوں لے کر آئے ہو.. روشانی بات کرتے ہوئے مارک کے قریب ہوئی.. مارک روشانی کو یوں اپنے قریب ہوتا دیکھ کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا رو رو کر ناک سرخ ہو رہی تھی اور آنکھوں میں جھیل سی گہری نظر آرہی تھی.. روشانی مارک کے مزید قریب آرہی تھی.  

مارک کو پتہ تھا کہ وہ نشے میں ہے اس سے پہلے روشانی مارک کے ہونٹوں تک پہنچاتی مارک فوراً پیچھے ہو گیا.. 

اب تمہیں گھر جانا چاہیے.. روشانی.. مارک یہ کہتے ہوئے روشانی کو دوبارہ اپنی بانہوں میں اٹھایا اور گاڑی کی طرف لے گیا.. 

میں نے کہیں نہیں جانا چھوڑو مجھے.. میں نے ہواؤں میں اڑنا ہے.  روشانی نشے میں. بات کرتے ہوئے مارک کے چوڑے سینے پر اپنے نازک ہاتھوں سے مکے مار رہی تھی جو مارک کو محسوس بھی نہیں ہو رہا تھا.. 

پہلے گھر چلو پھر جہاں مرضی اُڑ جانا.. مارک نے روشانی کو گاڑی کے پاس آتے نیچے اتارا اور گاڑی کا دروازہ کھولا.. 

چلو بیٹھو گاڑی میں.. مارک نے روشانی کو گاڑی کی طرف اشارہ کیا جو گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی تھی.. 

نہیں.. نو… نیور..  میں یہاں ہی رہو گی تم جاؤ یہاں سے.. روشانی نے اپنے سینے ہر ہاتھ رکھتے ہوئے مارک کو کہا جو دونوں ہاتھ اپنی کمر پر رکھے روشانی  کی طرف دیکھ رہا تھا.. 

افف.. اس لڑکی کو سنبھالنا کتنا مشکل ہے… مارک پھر آگے بڑھا اور روشانی کو اٹھاتے ہوئے گاڑی کی سیٹ پر بیٹھا دیا.. روشانی نے مارک کی گردن میں پھر بانہیں ڈال کر اس کی قینچی بنا لی.. مارک دروازہ بند کرنے کے لیے پیچھے ہوا تو روشانی کی بانہوں کی گرفت میں خود کو محسوس کرتے ہوئے وہی روک گیا.. 

روشانی.. بس کرو اب.. ہٹاو ہاتھ اپنے .. مارک نے روشانی کے بازو کو پیچھے کرنا چاہا لیکن روشانی نے مارک کو گردن سے ایک جھٹکے کے ساتھ اپنے قریب کیا.. 

تم پہلے وعدہ کرو… مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ گے.. روشانی نے نشے  سے بھری آنکھوں سے مارک کی طرف دیکھا جو آدھی کھولی ہوئی تھی اور آدھی بند تھیں.. 

روشانی کی بات پر مارک نے روشانی کے کی طرف بڑے پیار سے دیکھا..   ہوا سے بال اڑ کر روشانی کے چہرے کو چھو رہے تھے.. مارک نے بڑے پیار سے روشانی کے چہرے سے بال پیچھے کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا.. 

ہاں.. نہیں چھوڑ کر جاؤ گا کبھی بھی نہیں.. اب گھر چلیں.. مارک یہ کہتے ہوئے روشانی کے بازو کو بڑے پیار سے اپنی گردن سے ہٹائے اور اگے بڑھ کر روشانی کو سیدھا کیا اور گاڑی کی بیلٹ لگا دی..

 اور خود دوسری طرف سے اکر گاڑی میں بیٹھ گیا.. گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے مارک نے ایک نظر روشانی کی طرف دیکھا جو اب آنکھیں بند کیے سو گی تھی.. 

تھوڑی دیر بعد ہی مارک روشانی کی فلیٹ کے پاس تھا.. 

اس نے روشانی کو گاڑی سے نکلا جو وہ سو رہی تھی اور اسے اٹھاتا ہوا.. روشانی کے فلیٹ تک لے گیا.. 

مارک نے روشانی کے فیلٹ کی ڈپلیکیٹ چابی پہلے کی بنائی ہوئی تھی.. دروازہ کھولتے ہی مارک روشانی کو سیدھا اس کے بیڈ روم کی طرف لے گیا اور اسے بیڈ پر لیٹا دیا.. 

روشانی اب نشے کی حالت میں گہری نیند سو رہی تھی.. مارک نے اگے بڑھ کر روشانی کے جوتے اتارے اور اس کو سیدھا کرتے ہوئے اس کے اوپر کمبل دے دیا.. 

کبمل کی گرمائش کو محسوس کرتے ہی روشانی نے کروٹ لی اور پھر سو گی.. 

مارک نے اپنے فون سے ہادی کو کال کی اور روشانی کی آنے کی اطلاع دے کر خود وہاں سے چلا گیا.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖

صبح کی کرن سیدھی کھڑکی سے ہوتے ہوئے روشانی کے چہرے کو چھو رہی تھی.. چہرے پر روشنی پڑتے ہی روشانی نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھا.. 

تھوڑی دیر تک اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھے لیٹی رہی.. پھر جب اسے اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا تو روشانی خود کو سنبھالتے ہوئے بیڈ سے اٹھ کر ٹیک لگا کر بیٹھ گی.. 

کچن میں ہادی روشانی کے لیے لیموں جوس بنا رہا تھا جس سے  روشانی پر نشے کا اثر ختم ہو جانا تھا.. 

روشانی اپنی آنکھیں ملتے ہوئے اس نے اپنے ارد گرد دیکھا کل رات کےوہی کپڑے پہنے ہوئے تھے لیکن جوتے اس کے پاؤں میں نہیں تھے.. 

روشانی خود کو سنبھالتے ہوئے بیڈ سے اٹھی لیکن چکر آنے پر پھر بیڈ پر گر گی جس سے سائیڈ ٹیبل پر پڑا گلاس نیچے گر گیا.. 

آواز سنتے ہی. ہادی فوراً اندر آیا اس کے ہاتھ میں لیموں کا رس تھا.. 

اس نے اگے بڑھ کر فوراً روشانی کو پکڑنا چاہا جو دوبارہ اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی.. 

مجھے ہاتھ مت لگاؤ.. روشانی نے ہادی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا.. 

روشانی.. تمہارا غصہ اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن یوں اپنے آپ کو تکلیف نا دو.. دیکھو تمہاری کیا حالت ہو رہی ہے پلیز یہ پی لو تھوڑا بہتر محسوس کرو گی.. 

ہادی نے روشانی کے آگے گلاس کرتے ہوئے کہا.. 

روشانی نے  اپنا منہ دوسری طرف کیا ہوا تھا.. 

ہادی کے کہنے کے باوجود بھی اس نے ہادی کی طرف نہیں دیکھا.  

پلیز روشانی.  یہ پی لو.. تم ٹھیک ہو جاؤ.. میں دوبارہ تمہیں اپنی شکل بھی نہیں دکھاؤں گیا.. شاید میں اسی قابل ہوں.  اور میری یہ سزا بھی کم ہے کہ میں تم سے دور چلا جاؤں.. 

ہادی کی باتیں روشانی کو تیر کی طرح لگ رہی تھی.. اس کے دماغ میں کل صبح کی باتیں اگی جو ہادی نے اسے کہا تھا.. یہی وجہ تھی کہ ہادی اتنا پریشان تھا.. 

روشانی نے وہ سب سوچتے ہوئے ایک گہرا سانس لیا اور ہادی کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر اداسی تھی اور وہ  وہی گلاس لیے کھڑا تھا.. 

روشانی نے ہادی کے ہاتھ سے گلاس پکڑتے ہوئے لیموں رس پی لیا.. ہادی نے جب دیکھا کہ روشنائی اب وہ جوس پی چکی ہے اب اس کا یہاں کوئی کام نہیں ہے تو وہ جانے کے لیے موڑا.. 

کہاں جا رہے ہو.. ہادی کو جاتے ہوئے روشانی نے پیچھے سے آواز دی.. 

روشانی کی آواز پر ہادی نے گردن موڑ کر دیکھا.  روشانی ہادی کی طرف دیکھ رہی تھی.. جیسے اس نے ہادی کو اس کی غلطی معاف کر دی ہو.. 

مجھے کچھ کہا تم نے .. ہادی بس اتنا ہی کہہ سکا.  

ہاں تمہیں کہا.. کیا میری اس جنگ میں مجھے اکیلا چھوڑ دو.. گے کیا.. روشانی اب خود کو سنبھالتے ہوئے اٹھ کر ہادی کے پاس اکر کھڑی ہو گی اور اس کا ہاتھ تھاما.. 

مجھے معاف کر دو ہادی میں تم پر زیادہ بول پڑی مجھے پتہ ہے کہ تم میرے لیے کبھی بھی نہیں برا سوچ سکتے.. لیکن تمہیں مجھ سے یہ بات نہیں چھپانی چاہیے تھی. 

 وہ میری ماں کا قاتل ہے. میں اس کے ساتھ کیسے رہ سکتی ہوں تم خود سوچو…  اگر تم تب مجھے بتا دیتے جب ہم وہاں سے نکلے تھے تو ہم تب کوئی اور راستہ نکال لیتے.. روشانی ہادی کا ہاتھ تھامے اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی جس میں ندامت صاف دکھائی دے رہی تھی.. 

مجھے کایا نے دھمکی دی تھی کہ اگر میں نے تمہیں بتایا تو وہ تمہیں مار دے گا اور میں ڈر گیا تھا..  میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا تھا.. ہادی نے روشانی کو اس راز کے نا بتانے کی وجہ بتائی… 

وہ کیا کسی کو مارے گا جو وہ خود موت سے ڈرتا ہو.. اب کایا کی موت میرے ہاتھوں سے ہو گی.. روشانی نے غصے سے دانت پستے ہوئے کہا.. 

روشانی کیا تم نے مجھے معاف کر دیا.. ہادی نے خود کی تسلی کے لیے روشانی سے دوبارہ پوچھا.  

ہاں.. لیکن اب آئندہ مجھ  سے کوئی بات نا چھپنا.. روشانی کے منہ سے یہ الفاظ نکلتے ہی ہادی نے خوشی سے روشانی کو گلے لگا لیا.. 

تھینکس.. روشانی.. تھینکس.. ہادی نے روشانی کو مضبوطی سے گلے لگایا ہوا تھا.. 

ہادی یہ کچھ زیادہ نہیں ہو گیا..  روشانی ہادی کی مضبوط گرفت  پر کنفیوز ہو گی.. 

روشانی کی بات سنتے ہی ہادی نے فوراً روشانی کو اپنے سے الگ گیا.. 

ایم سوری روشانی.. میں خوش اتنا تھا کہ وہ بس یہ…. ہادی اب اپنی اس حرکت پر شرمندہ ہو رہا تھا.. 

اڑس اوکے میں فریش ہونے جارہی ہوں.  پھر ساتھ میں ناشتہ کرتے ہیں..  روشانی یہ کہتے ہوئے شاور لینے چلی گئی.. 

شاور لیتے ہوئے . روشانی کو ساری باتیں یاد آرہی تھیں.  کیسے مارک نے اسے وہ ویڈیو دکھائی.  جس میں اس کی ماں تھی.. وہ اپنی بیٹی کے لئے کایا سے بھیک مانگ رہی تھی یہ سب سوچتے ہی روشانی کی آنکھوں میں سے آنسو نکل پڑے جو پانی کے ساتھ زمین پر گر رہے تھے.. 

خود کو کنٹرول کرتے ہوئے روشانی شاور لے کر  کپڑے تبدیل کرکے باہر آئی تو .. ہادی ناشتہ بنا چکا تھا. .. 

ہادی میں رات کو خود آئی تھی کیا اپنے فلیٹ پر.. روشانی کو بس اتنا یاد تھا کہ وہ روتی ہوئی دور  ساحل کی طرف نکل آئی تھی اور پھر اس نے ایک کیفے میں گی جہاں اس نے ڈرنک کا آڈر دیا تھا.. 

روشانی کی بات پر ہادی نے چونک کر روشانی کی طرف دیکھا وہ بتانا نہیں چاہتا تھا کہ اسے مارک لے کر آیا ہے لیکن اس نے ابھی روشانی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اب اس سے کچھ نہیں چھپائے گا.  

روشانی چائے پیتے ہوئے ہادی کے بولنے کا انتظار کر رہی تھی.. 

بولو ہادی. .. روشانی نے چاۓ کا گھونٹ لیتے ہوئے ہادی کی طرف دیکھا.. 

نہیں تم خود نہیں آئی.  ہادی نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا.. مارک نے اسے منع کیا تھا کہ وہ روشانی کو نا بتائے کہ مارک اسے گھر لے کر. آیا تھا.. 

اچھا تو تم نے مجھے کیسے ڈھونڈا.. روشانی اپنی پریشانی کو ختم کرنے کے لیے ہادی سے الٹے سیدھے سوال پوچھ رہی تھی لیکن ہادی کو یہ سب بتانا بہت مشکل لگ رہا تھا.

  ایک طرف مارک تھا جس نے سختی سے کہا تھا کہ وہ روشانی کو نا بتائے اور دوسری طرف روشانی سے وہ بات چھپا نہیں سکتا تھا اسے بعد میں. پتہ چلے گا تو وہ اور مسئلہ بن جائے گا.  

بتاؤ.. روشانی اب ہادی کے بولنے کا انتظار کر رہی تھی.. 

میں نہیں ڈھونڈ کر لایا تمہیں روشانی.. مارک نے ڈھونڈا تھا تمھیں.. ہادی کے منہ سے یہ الفاظ نکلتے ہی روشانی نے فوراً ناشتہ سے ہاتھ اٹھا لیا.. 

ہممم… روشانی  نے ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا اور ٹیبل سے اٹھ گی.. 

روشانی پلیز مارک کو کچھ مت کہنا اس نے مجھے منع کیا تھا. کہ میں تمہیں نا  بتاؤں.. لیکن میں نے ابھی تم سے وعدہ کیا ہے تو کیسے چھپا سکتا ہوں…. 

روشانی کے ٹیبل سے اٹھتے ہی ہادی بھی اٹھ گیا.. اس سے پہلے روشانی مارک کو جاکر یا کال کرکے کچھ کہتی ہادی فورا بول پڑا.. 

اوکے.  کچھ نہیں کہتی. .. میں کچھ دیر اکیلی رہنا چاہتی ہوں.  شام کو ملاقات ہوتی ہے.  روشانی ہادی کو یہ کہتے ہوئے کمرے کی طرف چلی گئی..  ہادی کو کچھ سمجھ نہیں ارہی تھی کہ وہ اب اس ساری صورتحال کو کیسے ٹھیک کرے.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖

اذعام کی بے چینی بڑھ رہی تھی وہ کسی بھی طرح سونیا کے پاس جانا چاہتا تھا لیکن اسے اتنے بڑے بنگلے کے رستوں کا نہیں پتہ تھا اس کو بس اپنے کمرے اور کمرے سے باہر گارڈن تک جانے کی اجازت تھی.. 

اب جبکہ اذعام نے یہ سب سن لیا تھا اسکی راتوں کی نیند اڑی ہوئی تھی.  پری اور عزل کا دھیان آجکل کے دنوں میں. اذعام پر کم.تھا وہ دونوں کچھ نئے بچوں کو لے کر آرہے تھے جن میں لڑکیاں اور لڑکے شامل تھے.. 

اسی بات سے اذعام فائدہ اٹھنا چا رہا تھا کہبوہ اب وہاں مصروف تھے لیکن وہ  سونیا کو کہاں  ڈھونڈتا.. 

پری دو لڑکیوں کو تیار کر کے کسٹمر کے پاس لے کر جارہی تھی جیسے جیسے شام ہو رہی تھی بنگلہ میں رونق ہو تی جا رہی تھی کسٹمر کا آنا جانا شروع ہو گیا تھا.. پری کراچی کے ڈیفنس ایرا کی وہ واحد لڑکی تھی جس کے کام کو جاننے کے باوجود کوئی اسے پوچھنے والا کوئی نہیں تھا.. 

بڑے بڑے بزنس مین پری کے پاس آتے.. آج بھی کراچی کا ایک بزنس مین پری کے پاس آنا تھا اسی کی تیاریاں چلی رہی تھیں.. 

ایک سولہ سال کی معصوم سی گڑیا جیسی لڑکی کو اس بزنس مین کی ہوس کا نشانہ بنا تھا.. پری کو اس کے اچھے خاصے پیسے ملے تھے.  

وہ لڑکی کمرے میں بند اپنی ٹانگوں میں سر چھپائے رو رہی تھی جب پری اس کے  پاس شوخ رنگ کا سوٹ لے کر  آئی.. 

لڑکی نے پہنے سے انکار کردیا.. لڑکی کے انکار پر.. پری نے ایک زور کا طمانچہ اس کے منہ پر دے مارا وہ درد سے چلا اٹھی.. لڑکیوں کو تیار کرنے کا کام سونیا کا تھا لیکن اب سونیا کو پری نے تہہ خانے میں بند کیا ہوا تھا جہاں اس کے زخم ٹھیک ہونے تک اسے وہاں بھوکا پیاسا رہنا تھا.. 

لڑکی تھپڑ پڑتے ہی ڈرتے ڈرتے وہ کپڑے اٹھا کر تبدیل کرنے چلی گی.. 

اذعام یہ سب دیکھ رہا تھا.. جیسے پری کمرے سے باہر نکلی اذعام فورا دیوار کے پیچھے ہو گیا.  

اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ سونیا کو تہہ خانے میں. بند کیا ہوا ہے.. اذعام اب اپنے کمرے میں اگیا تھا اتنا عرصہ پری کی قید میں. رکھتے ہوئے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ کس طرح خود کو بچا کر کام کرنا ہے.. 

رات کے ایک بج رہے تھے جب اذعام نے باہر کسی کا شور سنا وہ دبے پاؤں سے چلتا ہوا کمرے کے دروازے کے پاس آیا شور زیادہ دور سے نہیں آرہا تھا اس نے آرام سے دروازہ کھولا اور باہر نکلتے ہوئے اس نے اپنے کمرے کے سامنے سایہ دیکھا جس میں چند لوگ کھڑے تھے.. 

اذعام بڑی احتیاط سے دبے پاؤں چلتا ہوا اس دیوار کے پاس اگیا جس کے دوسری طرف پری عزل اور ساتھ دو آدمی تھے جس پر غصے سے پری چلا رہی تھی.. 

اذعام نے جب پری کے منہ سے سنا جب وہ ان دو آدمیوں پر چیخ رہی تھی کہ وہ لڑکی جو سولہ سال کی تھی مسلسل چار حیوانوں کی حیوانیت کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گی ہے اب  اس حالت میں. اسے کہیں ٹھکانے بھی نہیں لگا سکتے.. 

یہ سب سنتے ہی اذعام کے پاؤں تلے زمین نکل گی اس کے دماغ میں فوراً سونیا کا خیال آیا کہ کہیں ان لوگوں نے سونیا کو بھی تو نہیں مار دیا.. 

ابھی اذعام یہ سوچ ہی رہا تھا نہ کہ پری ان دو آدمیوں سے بات کر کے جانے کے لیے موڑی تھی کہ اس نے عزل سے کہا.. 

جاؤ وہ سونیا کو دیکھو کہیں تہہ خانے میں. وہ بھی تو نہیں مر گی.. 

یہ کہتے ہوئے پری اپنے کمرے کی طرف چلی گی اور عزل تہہ خانے کی طرف.  

اذعام کو  اب اس بات اب پتہ چل گیا تھا کہ سونیا تہہ خانے میں. ہے وہ عزل کا پیچھا کرتے ہوئے جا رہا تھا تاکہ اسے تہہ خانے کا رستہ پتہ چل سکے. 

ہادی کے جانے کے بعد روشانی کمرے کی لائٹ بند کرکے بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھے اپنے ماضی کی الجھنوں میں گم ہو گی.. 

جب وہ پیدا ہوئی تھی تب ہی اس کے والد کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا تب ہی اسے منحوس کا لقب مل گیا تھا اور جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گی اس کے گھر والوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا.. کبھی کوئی مر جاتا اچانک اور کبھی کسی کو نقصان ہو جاتا.. 

جو بھی روشانی کی فیملی سے مل کر جاتا رستے میں اس کے ساتھ کوئی نا کوئی مسئلہ ہو جاتا حتی کہ کسی کو بخار بھی ہو جاتا تو اس کی وجہ بھی روشانی کو ہی سمجھا جاتا..  

روشانی کی منحوس کی مہر اس وقت اور پکی ہو گی جب اس کے والد نے جو قرضہ لے کر کام شروع کیا تھا وہ بھی ڈوب گیا.. اور والد نے خودکشی کر لی.. 

وہ وقت روشانی کے لیے کتنا مشکل تھا اکیلی ماں کے ساتھ رہ کر سب کا سامنا کرنا آہستہ آہستہ سب نے روشانی کے گھر میں آنا جانا ختم کر دیا.. باپ کے مرنے کے بعد سب رشتے داروں نے منہ پھیر لیا.. 

باپ کی وفات کے بعد سکول میں بھی سب نے روشانی کو منحوس کہنا شروع کر دیا.. لاسٹ بینچ پر بیٹھے ہوئے روشانی  روتی رہتی  تھی ایک دن وہ ایسے ہی رو رہی تھی جب ایک سٹوڈنٹ نے اس کے پاس بیٹھنے سے انکار کر دیا کہ وہ منحوس ہے. تب ہی اس نے اپنے چہرے کے آگے کسی کا ہاتھ محسوس کیا.. 

کیا تم میری دوست بنو گی.. کسی لڑکے کی آواز سے روشانی نے چہرہ اوپر کرتے ہوئے دیکھا.. 

پتلی جسامت والا لڑکا کھڑا تھا…  میں ہادی مرتضیٰ ہوں.. مجھے فرق نہیں پڑتا کہ تم منحوس ہو کہ نہیں مجھے بس فرق پڑتا ہے. تو تمہارے ان آنسو سے جو تم روزانہ یہاں بیٹھ  کر بہاتی ہو.. ہادی روشانی کو روزانہ روتے دیکھتا تھا ہر دفعہ ہمت کرتا تھا کہ روشانی سے بات کرے لیکن پھر روشانی  کے ڈر کی وجہ سے بات نہیں کر پاتا تھا.. 

آج اس نے ہمت کر کے بات کر ہی لی.  بولو کرو گی مجھ سے دوستی.. ہادی دوبارہ بولا.. روشانی رومال سے اپنا چہرہ صاف کیا.. 

واقعی تم میرے دوست بناو گے یہ جانتے ہوئے کہ میں منحوس ہوں.. روشانی کو ہادی کی دوستی سے ایک کرن نظر آئی کہ وہ بھی کسی کی دوست بن سکتی ہے.  

میں نے کہا نا کہ مجھے فرق نہیں پڑتا.. تو کیا اب ہم دوست ہیں نا.. ہادی کا ہاتھ وہی تھا.. 

نہیں تم چھوڑ کر چلے جاؤ گے.  روشانی نے اٹھتے ہوئے اپنا بیگ اٹھایا.. 

نہیں میں کبھی بھی نہیں تمہیں چھوڑوں گا.  کیونکہ  میرا بھی کوئی دوست نہیں ہے اور نا ماں باپ.. بس میرے چاچو ہیں بس.. ہادی جو خود اکیلا تھا اسے روشانی کی حالت کا اچھے سے اندازہ تھا کہ وہ کیا محسوس کر رہی ہے.. ہادی کی بات سنتے ہی روشانی نے ہادی کی طرف دیکھا جسے وہ اور روشانی ایک کی راہ کے مسافر ہوں.. 

پکے والے دوست بنو گے نا.. روشانی نے ہادی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے آنکھوں میں خوشی لیے کہا.  

ہاں پکے والا.. ہادی بھی مسکرا دیا.  

روشانی اپنے ماضی میں ہی کھوئی ہوئی تھی کہ اس کے فلیٹ کی مسلسل بیل بج رہی تھی جو اسے احساس تک نہیں ہوا.. جب کسی نے زور کا دروازہ نوک کیا تو روشانی چونک گی وہ اپنی ماضی کے صحرا سے واپس اگی تھی.. 

اس نے اکر دروازہ کھولا تو باہر ایک ڈلیوری بوائے کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں پھولوں کا گلدستہ تھا ساتھ ایک کارڈ تھا.. 

روشانی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پھر اس لڑکے کے ہاتھ سے پھولوں کا گلدستہ لے کر اندر اگی پھول اس نے ٹیبل پر رکھ دیے اور کارڈ کھول کر دیکھا جس پر لکھا تھا.. 

ویلکم ٹو نیو لائف…  روشانی نے کارڈ کو الٹ پلٹ کر دیکھا تو اس کے علاوہ اور کچھ نہیں لکھا تھا.. روشانی کو بڑی حیرت ہوئی اس نے پھولوں کی طرف دیکھا جو اس کے فیورٹ تھے وائٹ گلاب..! 

کون ہو سکتا ہے…  روشانی نے  کارڈ دراز میں رکھا اور پھولوں کو لے کر بیڈ پر دوبارہ اکر بیٹھ گی.. 

اسے اچھے سے یاد تھا جب اس کی ہر سالگِرہ پر اس کے بابا جان اس کے لیے وائٹ گلاب لازمی لے کر آتے تھے.  

روشانی پھولوں کو  نرمی سے چھو رہی تھی.. جب اس کے فون پر کایا کی کال آئی اس نے گردن موڑ کر سائیڈ ٹیبل پر پڑے فون کی طرف دیکھا جس پر کایا کا نام چمک رہا تھا.. 

کایا کا نام دیکھتے ہی روشانی کا خون کھول اٹھا.  اس نے غصہ ضبط کرتے ہوئے کایا کی کال اٹھائی.. کایا نے اسے ملنے کا کہا تھا.  روشانی نے بھی حامی بھر لی اور کایا کو اپنی بتائی ہوئی جگہ پر آنے کا کہا تاکہ مارک کو کسی قسم کا  شک نا ہو.. 

کایا کی کال بند کرکے روشانی اٹھ کر شیشے کے سامنے اکر کھڑی ہو گی.  اس نے اپنے چہرے پر پڑے کایا کی انگلیوں کے نشان دیکھے جو اب کافی مدھم پڑ چکے تھے.  

لیکن اس سے زیادہ وہ اندر سے زخمی ہو گی تھی.. اور کایا  سے بدلہ لینے کے لیے بے تاب تھی.. 

کایا اب تمہیں میرے ہاتھوں سے کوئی نہیں بچا سکتا روشانی نہیں. تمہاری موت تم  سے ملنے آرہی.. جس طرح تم نے میری ماں کو مارا تھا.. ویسے ہی ایک گولی تمہارے دماغ کے آر پار کر دوں گی.  روشانی شیشے کے سامنے کھڑی کایا کو مارنے کا سوچ رہی تھی اسکی آنکھیں غصے سے سرخ ہو رہی تھیں. 

روشانی نے الماری سے بلیک کلر کا فل سوٹ نکلا اور کپڑے تبدیل کرکے کے الماری کی طرف دوبارہ آئی جہاں پسٹل پڑی تھی.  پسٹل نکلا کر کمر کے پیچھے رکھی لی اور چھوٹے سائز کے چاقو نکال کر اپنی کلائی کے اندر باندھے بینڈ میں چھپا لیے.. بالوں کی ہائی پونی کرتے ہوئے وہ شیشے کے سامنے کھڑی خود کو دیکھ رہی تھی.  

آج وہ بارہ سال پرانا بدلہ لینے جارہی تھی بارہ سال سے وہ جس آگ میں جل رہی تھی آج اس کو بجھانے کا وقت اگیا تھا.  اس نے اپنا فون نکالا اور اور اسے آف کرتے ہوئے  شیشے کے پاس رکھ دیا اور خود فلیٹ کو لاک لگاتے ہوئے کایا کی بتائی ہوئی جگہ پر جانے کے لیے گاڑی لے کر نکل گی.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖

مارک نے روشانی کو کال کی لیکن اس کا نمبر بند تھا.. مارک اسے نارمل لیے اپنے ہوٹل کے کاموں میں مصروف ہو گیا.. کچھ دیر گزری تھی کہ مارک نے دوبارہ ٹرائی کیا تو اس کا نمبر اب بھی بند تھا.  

مارک نے کچھ  سوچتے ہوئے پھر موبائل پاکٹ میں رکھ لیا شاید وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی ہو اتنے بڑے صدمے سے گزر جانے کے بعد.. لیکن اگلے لمحے اس نے فوراً فون نکلا اور ہادی کو کال ملا دی.. 

مارک کی کال جب ہادی کو آئی تو مارک نے بتایا کہ روشانی کا نمبر بند ہے وہ جاکر دکیھے کہیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے.. مارک کی کال بند ہوتے ہی ہادی روشانی کے فلیٹ کی طرف نکل پڑا.  

فلیٹ کی بیل  مسلسل دیتے رہنے کے باوجود کوئی جواب نہیں ملا تو ہادی لاک کھول کر اندر آیا.  فلیٹ خالی تھا.. 

ہادی ٹی وی لانچ سے ہوتا ہوا روشانی کے بیڈ روم کی طرف آیا تو کمرے میں کوئی نہیں تھا.  بیڈ پر پھولوں کا گلدستہ پڑا تھا.  ہادی نے کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے جب اپنے فون سے روشانی کو کال کی تو نمبر بند تھا.  

ہادی فون کان کو لگائے کمرے کا جائزہ لے رہا تھا کہ کوئی مسئلہ نا ہوا ہو. کوئی فلیٹ میں نا گھس گیا ہو.. کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی نظر شیشے کے اگے رکھی ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی جس پر روشانی کا فون تھا.. 

ہادی نے اگے بڑھ کر فون اٹھایا اور اسے دیکھا جو آف تھا.  ہادی فون وہی رکھتے ہوئے جلدی سے الماری کی طرف بڑھا جہاں روشانی اپنا اسلحہ رکھتی تھی جب اس نے دیکھا تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا. 

یہ سب دیکھتے ہوئے ہادی فوراً باہر جانے کے لیے بھاگا لیکن باہر آتے ہی روک گیا کیونکہ وہ اکیلے کچھ نہیں کر سکتا تھا.  اس نے فوراً مارک کو کال ملا دی.. 

مارک جو پہلے سے ہادی کی کال کا انتظار کر رہا تھا اس کی ایک بیل پر کال اٹھا لی.. 

مارک روشانی اپنے فلیٹ میں نہیں ہے اور نا ہی اس کی پسٹل پڑی ہے اور فون بھی وہ یہاں چھوڑ  گی ہے جو آف ہے. .. 

ہادی نے مارک کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا.. ہادی کی بات سنتے ہی مارک نے غصے سے دانت پیسے…  

اس بیوقوف  لڑکی کو  کب عقل آئے گی.. جس کا ڈر تھا وہی ہو گیا.  لیکن یہ اتنی جلدی یہ سب کر لے گی سوچا نہیں تھا.. مارک کال پر بڑبڑا رہا تھا.    

مارک کا بڑبڑانا ہادی نے سن لیا تھا.  مارک تمہارا یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ وہ کایا کے پاس اسے مارنےگی ہے.  ہادی نے مارک کی بات کی تصدیق کی.  

ہاں تو وہ اور کہاں جا سکتی ہے اس سے اسی قسم کی امید کی جا سکتی ہے.. دماغ سے پھری ہوئی ہے وہ … اسے اس دنیا سے جلدی جانے کا شوق ہے..

 تم کسی بھی طرح کایا سے پتہ کرو کہ وہ اس وقت کہاں ہے اتنی دیر میں تمہیں لینے آرہا ہوں.  اپنی پوری تیاری کرلینا کچھ بھی ہو سکتا ہے اس بیوقوف لڑکی کی وجہ سے.. مارک نے یہ کہتے ہوئے ہادی کی کال بند کر دی.. 

مارک کی بات سن کر ہادی پریشان ہو گیا.  روشانی اکیلی اس سانپ کو مارنے جارہی تھی جس کے چار منہ تھے وہ چاروں طرف ڈسنا جانتا تھا.. 

ہادی  پریشان تو تھا لیکن اس نے خود کو نارمل کیا اور کایا کو کال کی.  

کایا نے ہادی کی کال اٹھائی جو وہ رستے میں تھا.  

کایا میں آپ کے بنگلہ میں آیا تھا لیکن آپ تھے نہیں میں نے آپ کو خبر دینی تھی کہ لوس اینجلس میں بہت قیمتی ہیرے آرہے ہیں تو اس کو چوری کرنے کا کوئی پلان بتا دیں.  ہادی نے  بڑی صفائی سے کایا سے جھوٹ بولا.  

ہاں میں روشانی سے ملنے جارہا ہوں تم بھی وہاں آجاؤ. پرانے کھنڈر میں وہاں روشانی کے ساتھ مل کر پلان بنا لیتے ہیں.  کایا نے ہادی کو پتہ بتاتے ہوئے کال بند کر دی.. 

ہادی جلدی سے لفٹ سے ہوتا ہوا باہر آیا.. باہر روڈ پر کھڑے وہ مارک کا انتظار کر رہا تھا جو کچھ ہی دیر میں وہاں پہنچ چکا تھا گاڑی پاس آتے ہی ہادی جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گیا.  

ہاں کیا پتہ چلا.  مارک نے گاڑی چلاتے ہوئے ہادی سے پوچھا .. 

تم ٹھیک تھے مارک.. روشانی کایا کے پاس ہی گی ہے.  وہ تو اسے اسی وقت مار دے گا. .. اگر روشانی نے کایا کو کچھ کہا.. ہادی بہت پریشان تھا.  مارک جو ہادی کی  روشانی کے لیے حد سے زیادہ پریشانی کو دیکھ کر اسے بڑی حیرت ہو رہی تھی وہ ہادی کی بات پر   خاموش رہا.  

ساتھ ہی اس نے اپنی گاڑی کی سپیڈ تیز کر دی… مارک کا ابھی مقصد روشانی کو کایا سے بچنا تھا.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖

کایا پرانے کھنڈر پہنچ چکا تھا اب وہ روشانی کا انتظار کر رہا تھا.. روزانہ کی نسبت آج کایا کافی اچھے موڈ میں تھا وہ تب ہی اچھے موڈ میں ہوتا تھا جب اس نے کسی کو مارنا ہو.  

آج اس کی ڈریسنگ پینٹ کوٹ نہیں تھی اس نے جینز اور اوپر شرٹ.. اور سردی سے بچنے کے لئے لونگ کوٹ پہنا ہوا تھا.. 

گاڑی کی چابی کو انگلی میں گھماتے ہوئے منہ میں ببل ڈالے بے صبری سے روشانی کا انتظار کر رہا تھا.. 

اتنے میں روشانی کی گاڑی اکر روکی.  کایا نے دور سے روشانی کی گاڑی کو دیکھ لیا. .. اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ اگی.  

روشانی گاڑی بند کرتے ہوئے چلتے ہوئے کایا کی طرف ارہی تھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ سامنے سے گولی مار دے لیکن اس سے کایا خود کو بچا سکتا تھا وہ اسے اپنے سامنے  اس کے دماغ میں گولی مارنا چاہتی تھی .. 

کیسی ہو میری شیرنی..  کیا خبر لے کر آئی ہو.. یقیناً کچھ الگ ہو گا اس لیے تو تم نے اس جگہ ملنے کا کہا ہے.. کایا نے روشانی کے آتے ہی اسے کہا.. 

جی کایا ایسا ہی ہے. آپ کے لیے ایسی خبر ہے کہ آپ سن کر حیران رہ جائیں گے میری بارہ سال کی خدمت کا صلہ مجھے مل جائے گا.. روشانی نے چہرے پر مسکراہٹ لیے غصے سے دانت پیستے ہوئے کایا کی طرف دیکھا.  

ریلی…  تو جلدی سے بتاؤ.. کایا روشانی کے قریب آیا.. 

کایا کو یوں قریب آتے دیکھ کر روشانی نے جلدی سے اپنی کمر کے پیچھے رکھی پسٹل نکال لی. اور کایا پر تان لی.. 

او…  تو تم مجھے مارنے آئی ہو میری شیرنی.. اپنے کایا کو مارنے آئی ہو جس نے تمہیں سہارا دیا.. تمہیں اس قابل بنایا کہ تم اپنے پاؤں پر کھڑی ہو.. 

آج تمہارے پاس سب کچھ ہے جو ایک لڑکی خواہش کر سکتی ہے.  اور تم مجھے مار رہی ہو.. اگر تم مجھے مار دو گی تو تمہاری ماں کے قاتل کو کون ڈھونڈے گا ہاں…  کایا بات کرتے ہوئے قدم بڑھا رہا تھا اور روشانی وہی  پسٹل تانے کھڑی تھی.. 

تمہیں ضرورت نہیں ہے میری ماں کے قاتلوں کو ڈھونڈنے کی. کیونکہ مجھے پتہ چل چکا ہے کہ میری ماں کا قاتل کون ہے..  

روشانی نے غصے سے کایا کی طرف دیکھا.. 

اوہ اچھا تو تمہیں پتہ چل چکا ہے کہ کون قاتل ہے زرا مجھے بھی تو بتاؤ کون ہے.. کایا اب وہی روک گیا اس نے جیبوں میں ہاتھ ڈالے اور روشانی کی طرف بڑے مطمئن ہو کر دیکھا.  

میرے سامنے ہی کھڑا ہے میری ماں کا قاتل.. جو آج میرے ہاتھوں سے مرے گا جیسے تم نے میری ماں کو مارا تھا.. ویسے ہی میں آج تمہیں ماروں گی..  روشانی نے پسٹل پر اپنی گرفت مضبوط کی.. روشانی کی اس بات پر کایا نے زور کا قہقہہ لگایا.. 

کایا کے اس رویہ پر روشانی یک دم گھبرا گی.  

آخر تم پر مارک کا رنگ چڑ ہی گیا نا.  تم تو مارک کو مارنے گی تھی اور مارک نے تمہیں مجھے مارنے بھیج دیا.. لیکن تم کیا سمجھتی ہو کہ مجھے پتہ نہیں ہو گا کہ تم کیا کرتی پھر رہی ہو.. میرا نام کایا رچرڈ ہے.. میں انڈر ورلڈ کی دنیا میں آنکھیں بند کر کے نہیں بیٹھا ہوا.. شاید تم بھول گی ہو.. 

جس دن تم نے مارک کے ساتھ کام کرنے کا کہا میں اسی دن سے زیادہ الرٹ ہو چکا تھا.  میرا ہاتھ جلنا میرے گھر میں ہی گھس کر مجھے مارنا.  یہ کوئی نہیں کرسکتا سوائے مارک کے.. 

مارک تو  معصوم کلیوں کا شوق رکھتا ہے لیکن اس بار لگتا ہے. کہ وہ اس کلی پر اپنا دل ہار بیٹھا ہے جو وہ تمہارا اتنا ساتھ دے رہا ہے.  کایا بڑے آرام سے ہنس کر بات کر رہا تھا. .. 

اپنی بکواس بند کرو اور مرنے کے لیے تیار رہو.. روشانی اس سے پہلے گولی چلاتی روشانی کے چاروں طرف کایا کے آدمی نکل آئے جن کے ہاتھ میں اسلحہ تھا.. کایا. بھی اپنی پوری تیاری سے آیا تھا.. 

روشانی نے اپنی چاروں طرف دیکھا وہ اب بری طرح پھنس چکی تھی.  

تم کیا سمجھتی ہو کہ میں بیوقوف ہوں تم مجھے یوں یہاں بلاو گی تو میں بغیر سوچے سمجھے آجاؤںگا باس تم ہو یا میں… ہاں..  کایا کا اب لہجہ گرم تھا

اب آرام سے پسٹل نیچے رکھ دو نہیں تو تمہیں بھی تمہاری ماں کے پاس بھیج دوں گا.. اور تم بھی ویسے ہی بھیک مانگو گی جیسے تمہاری ماں نے مانگی تھی.  

شیٹ اپ..  آئی سیڈ شیٹ اپ.. اپنی گندی زبان سے میری ماں کا نام نا لینا.  روشانی نے غصے سے کایا کو جواب دیا.. 

روشانی اور کایا دونوں ایک دوسرے کے قریب کھڑے تھے کایا نے اگے ہاتھ رکھا ہوا تھا کہ روشانی اسے پسٹل پکڑا دے.  

اتنے میں. مارک اور ہادی وہاں پہنچ گئے.. دونوں نے جب دیکھا کہ روشانی چاروں طرف سے گھیری ہوئی ہے تو وہ بڑے احتیاط سے بغیر آواز کیے اگے کو بڑھے.. 

مارک نے ہادی کو دوسری طرف جانے کا کہا اور خود روشانی کے پاس کھڑے آدمی کے سامنے کھنڈر کی دیوار کے پیچھے چھپ گیا اس آدمی نے روشانی پر پسٹل تانی ہوئی تھی.. 

چلو اب آرام سے یہ پسٹل میرے حوالے کر دو اور پھر میں تمہیں کتوں جیسی موت دوں گا تم نے غلطی کر دی جو مارک کہ ساتھ مل گی ہو.. کایا کی یہ بات مارک نے سن لی تھی.. یہ بات سنتے ہی مارک کہ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ اگی.. وہ پسٹل پر نشانہ بنائے ساتھ ہی روشانی کو دیکھ رہا تھا.. جو ایک خون خوار شیر نہ طرح لگ رہی تھی.. 

اور رہی بات تمہاری ماں کی تو وہ تمہیں میرے ساتھ بھیج دیتی تو آج وہ زندہ ہوتی پر کیا کریں وہ تھی بھی بہت ڈھیٹ مان ہی نہیں رہی تھی تو مجھے یہ سب کرنا پڑا.  

کایا کے منہ سے اپنی ماں کے لیے یہ الفاظ سنتے ہی روشانی کا خون کھول اٹھا اس نے جیسے ہی کایا پر گولی چلائی کایا جلدی سے پیچھے ہٹتے ہوئے روشانی کے ہاتھ سے پسٹل پکڑ لی.. 

اتنے میں مارک نے ہادی کو اشارہ کیا جو آدمی کایا کی سکیورٹی کے لیے کھڑا تھا اس پر گولی چلا دو.  ہادی نے کایا کے پاس کھڑے سکیورٹی کے آدمی پر گوکی چلا دی اور ساتھ ہی مارک نے نشانہ بناتے ہوئے روشانی کے پاس کھڑے آدمی کے دماغ میں گولی مار دی.. 

گولیوں کی آواز سنتے ہی کایا وہاں سے بھاگتے ہوئے روشانی پر گولی چلادی   جو اس کے بازو کو چھوتی ہوئی گزری.. 

گولی لگتے ہی روشانی فوراً دیوار کے پیچھے چھپ گی اس کی بازو سے خوب نکل رہا تھا.. کایا وہاں سے بھاگ گیا تھا اور مارک اور ہادی کایا  کے بندوں پر فائرنگ کر رہے تھے   کایا کے پانچ بندوں کو مار چکے تھے.. 

مارک اور ہادی اب دونوں اسی جگہ اگے جہاں کایا اور روشانی کھڑے تھے .. ہادی نے چاروں طرف دیکھا  وہاں اب کوئی نہیں تھا جہاں کایا کی گاڑی کھڑی تھی اب وہاں نہیں تھی وہ جا چکا تھا.  

مارک میں کایا کو دیکھتا ہوں تم روشانی کو گھر لے جاؤ.. ہادی نے پسٹل کمر کے پیچھے رکھتے ہوئے مارک کو دیکھا جو اپنے کپڑوں پر لگی مٹی کو صاف کر رہا تھا.. 

ہممم…  ٹھیک ہے لیکن سنبھل کر.  مارک نے ہادی کو کہا اور ہادی نے اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے روشانی کی کار لے کر کایا کے پیچھے چلا گیا.. 

باہر نکل آؤ بیوقوف روشانی.. چلیں گے ہیں سب.. مارک وہاں پڑے پھتر پر بیٹھتے ہوئے روشانی کو آواز دی.. مارک کو پتہ تھا کہ روشانی یہاں کہیں چھپی بیھٹی ہو گی لیکن اسے اس بات کی خبر نہیں تھی کہ اسے گولی لگی ہے.. 

روشانی آجاؤ باہر.. فضول میں اتنی محنت کروائی.. مارک بولتا جارہا تھا لیکن روشانی باہر نہیں آئی.. 

وہ دیوار کے پیچھے بیھٹی اپنے ٹانگوں میں سر چھپائے رو رہی تھی آج اس کی ماں کا قاتل پھر بچ گیا تھا اسے اپنے بازو پر لگی گولی پر اتنا درد اور تکلیف نہیں ہو رہی تھی جتنی اس کے اندر کایا کے بچ جانے سے تکلیف ہو رہی تھی.. 

روشانی کی آواز  نا آنے پر مارک  اٹھ کر دیوار کے پاس آیا دائیں بائیں دیکھتے ہوئے اسے سامنے کھنڈر کی دیوار کے ساتھ روشانی بیھٹی نظر آئی.. 

مارک چلتا ہوا روشانی کے پاس آیا.. اس کے بازو سے نکلتے ہوئے خون کو دیکھ کر اس نے فوراً اس پر ہاتھ رکھا.  

روشانی تمہیں گولی لگی ہے.  اٹھو جلدی سے  چلو تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتا ہوں …. مارک نے روشانی کو اٹھانا چاہا لیکن روشانی نہیں اٹھی اس نے سر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا.. 

روشانی اٹھو.  مارک نے دوبارہ روشانی کو اٹھنے کا کہا.. 

نہیں جانا میں نے کہیں جاؤ یہاں سے تم.. روشانی نے جب سر اٹھا کر مارک کی طرف دیکھا تو اس کا چہرہ آنسو سے بھیگا ہوا تھا آنکھیں اور ناک سرخ ہوا تھا.. 

میری ماں کا قاتل بھاگ گیا ہے میں اسے مار نہیں سکی اور تم مجھے کہہ رہے ہو کہ میں ڈاکٹر کے پاس چلوں نہیں جانا مجھے.  چھوڑ دو میرا پیچھا.. روشانی مارک پر چلائی.. 

اپنی بکواس بند کرو.. اور اٹھو یہاں سے.. میرا دماغ خراب نا کرو.  اگر میرا دماغ گھوم گیا نا تو بہت برا ہو گا ایک تو تم نے بچوں والی حرکت کی ہے. یوں اکیلی کایا کو مارنے چلی آئی ہو.  وہ کیا دودھ پیتا بچہ تھا جسے تم جیسے چاہتی مار دیتی.  

تمہاری عقل نے کام نہیں کیا کہ تم نے اسے اپنی بتائی ہوئی جگہ پر بلایا ہے اور وہ مان گیا ہے جیسے تمہارا عاشق تھا نا جو تم سے  ملنے کے لیے مر رہا تھا اور تم نے بلایا اور وہ بھاگا چلا آیا .. 

کبھی عقل سے کام بھی لے کیا کرو.. 

اب  اٹھو.. دماغ خراب کر دیا ہے….مارک چلاتے ہوئے روشانی کی بیوقوفی پر غصہ نکال رہا تھا مارک کی باتوں پر روشانی جو پہلے بھڑک رہی تھی خاموش ہو گی.. مارک کی باتیں تھی بھی ٹھیک.. 

روشانی کو یوں خاموش دیکھ کر مارک نے پھر آگے ہاتھ کیا اٹھنے کے لیے.. روشانی نے اس بار خاموشی سے مارک کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی.  

ایک منٹ.. مارک نے روشانی کو روکا جب وہ اگے جانے کے لیے موڑی تھی.  

تمہارے بازو سے خون روک نہیں رہا ڈاکٹر کے پاس جاتے ہوئے دیر لگ جائے گی کہیں مر نا جانا رستے میں.. 

مارک نے اپنی کلائی پر باندھے رومال کو کھول کر روشانی کے بازو  پر باندھ دیا.  روشانی نے ایک نظر مارک کی طرف دیکھا.  کچھ دیر پہلے ہی تو وہ اس پر غصہ سے چلا رہا تھا اور اب کسی مسیحا کی طرح اس کی مدد کر رہا تھا.. 

رومال باندھنے سے روشانی کے بازو سے نکلتا خون اب کافی حد تک روک گیا تھا.  مارک اگے چلتا ہوا گاڑی کی طرف جا رہا تھا روشانی اس کے پیچھے چلتی ہوئی مارک کو دیکھ رہی تھی.. جس کے آنے سے اس کی زندگی مکمل طور پربدل چکی تھی.. .

➖➖➖➖➖➖➖➖

یہ کہاں لے کر جارہے ہو…  روشانی نے جب رستہ مختلف دیکھا جو ہسپتال کی طرف نہیں جا رہا تھا مارک کی طرف دیکھا.. 

میں تمہاری طرح بیوقوف نہیں ہوں.. کہ سیدھا ہسپتال لے جاؤں.. پھر پولیس آجائے اور نئے مسئلے کھڑے ہو جائیں. تمہیں گولی لگی ہے کوئی تم سیڑھیوں سے نہیں گری جو ڈاکٹر معمولی چوٹ سمجھیں… 

میرا اپنا ڈاکٹر ہے وہ تمہاری نرسنگ کر دے گا.. مارک بات کرتے ہوئے سامنے کی طرف دیکھ رہا تھا اس نے ایک نظر بھی روشانی کی طرف نہیں دیکھی وہ اس کی روتی آنکھوں کو مزید نہیں دیکھ سکتا تھا.. 

مارک کی بات پر روشانی چپ رہی.  

ویسے تم واقعی کہیں بچپن میں سیڑھیوں سے تو نہیں گری ہو یا تمہارے دماغ پر چوٹ لگ گی ہو گی.. اس لئے اس طرح کے بیوقوفانہ کام کرتی ہو.. مارک نے یہ کہتے ہوئے گاڑی ایک گھر کہ سامنے روک دی.. 

مارک کی بات پر روشانی جو کب سے ضبط کر کے بیھٹی تھی پھٹ پڑی.. 

تم سمجھتے کیا ہو اپنے آپ کو.. ہاں..  کون ہو تم جو مجھے اتنی باتیں سنا رہے ہو کب سے.. میں نے تو نہیں کہا تھا کہ میری مدد کو آؤ. کایا ماررہا تھا مجھے تو مرنے دیتے کیوں آئے تم… روشانی کی بات کو سنتے ہوئے بغیر کوئی جواب دیے مارک گاڑی سے اتر کر روشانی کی طرف آیا گاڑی کا دروازہ کھولا.. 

میں جو بھی ہوں.  تمہاری سوچ سے ابھی فی الحال بہت دور ہوں.. اور نا ہی تمہاری جیسی بیوقوفانہ حرکتیں کرتا ہوں.  اب گاڑی سے اترو.. نہیں تو جتنا خون نکل چکا ہے نا تمہارا یہاں بیوش ہو جاؤ گی.  مارک ایک ہاتھ گاڑی کہ دروازے پر رکھے اور دوسرا جیب میں ڈالے روشانی کے باہر نکلنے کا انتظار کر رہا تھا.  

روشانی نے غصے سے دانتوں کو چباتے ہوئے گاڑی سے باہر اگی. .. 

محترمہ کا نخرہ چیک کرو.. ایک تو غلطی اوپر سے باتیں بھی سنو.. مارک نے گاڑی کا دروازہ بند کیا اور روشانی کو لے کر ڈاکٹر کے گھر چلا گیا.  

وہاں سے روشانی کی نرسنگ کروا کر جب دونوں فلیٹ پر پہنچے تو روشانی کے فلیٹ کے باہر وہی وائٹ گلاب اور ساتھ ایک کارڈ تھا.. 

روشانی نے جھک کر وہ وائٹ گلاب اٹھائے اور کارڈ پکڑا جس پر گیٹ ویل سون لکھا تھا. .. 

روشانی نے کارڈ پر پڑھتے ہی کارڈ کو مٹھی میں بند کر دیا اور لاک اوپن کرتے ہوئے. اندر آئی.. 

بہت زیادہ خیر خواہ ہیں تمہارے یہاں لوس اینجلس میں .. پہلے ہی پتہ چل گیا اور گلاب بھی بھیج دیے.  ویسے یہ وائٹ گلاب

 بےوفا ئی کی نشانی ہوتے ہیں کس کے ساتھ تم نے بےوفا ئی کر دی.  مارک نے اندر آتے ہی گلاب کے گلدستے کو پکڑا جو اندر آتے ہی روشانی نے ٹیبل رکھ دیا تھا.. 

مارک کی بات پر روشانی  موڑ کر آئی اور مارک کے ہاتھ سے گلدستہ پکڑا.. 

ہاں میں بےوفا ئی کرتی ہوں اور تم بھی مجھ سے وفا کی امید نا کرنا.  

روشانی کی بات پر مارک روشانی کے قریب آیا. تمہیں کس نے کہا ہے کہ مجھے وفا چاہیے تم سے.. مجھے جو چاہے وہ تمہیں پتہ چل جائے گا .  دوائی ٹائم سے لے لینا.  

مارک نے اگے بڑھتے ہوئے  اپنی انگلی سے روشانی کی آنکھ کے قریب روکا ہوا آنسو کے قطرے کو صاف کیا…. مارک کے یوں قریب آنے پر روشانی سمٹ کر رہ گی. .. 

اور ہاں اپنا فون آن کر لو ہادی کال کر سکتا ہے تمہیں.. مارک نے جاتے ہوئے موڑ کر روشانی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو ابھی تک مارک انگلیوں کے لمس کو محسوس کر رہی تھی.. 

ہادی کایا کے پاس جاتے ہوئے اس کو رستے میں کال کی.. کایا جو وہاں سے بھاگ آیا تھا.. اپنے بنگلہ ہر آتے ہی آگ بگولہ ہو رہا تھا.. کایا کو اس بات کی امید نہیں تھی کہ روشانی اپنے پیچھے مارک کو بھی لے آئے گی.. 

اسی دوران ہادی نے کایا کو کال کر دی.. 

کایا میں پرانے کھنڈر آیا ہوں پر یہاں کوئی نہیں ہے اپ کہاں ہیں.. ہادی کی کال پر کایا نے بھی اس سے صاف جھوٹ بول دیا.. 

ہادی میں وہاں گیا ہی نہیں تھا تم بنگلہ میں اجاؤ یہاں بات کرتے ہیں.. کایا نے یہ کہتے ہوئے کال بند کر دی.. 

ہادی نے اپنی طرف سے ساری صورتحال کو سنبھال لیا تھا لیکن ہادی کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ کایا کے پاس جا کر اپنی موت کو آواز دے رہا ہے. . 

ہادی بڑے مطمئن سے ہو کر کایا کے بنگلہ میں داخل ہوا.. اندر کایا کے کمرے میں آتے ہی اس نے کایا کو بےچینی سے ٹہلتے ہوئے دیکھا.. 

جیسے ہادی اندر داخل ہوا کایا نے اسے بڑے غصے سے دیکھا.. لیکن ہادی اپنی طرف سے مطمئن تھا اس نے کایا کے غصے کو خاص نوٹس نہیں کیا.. 

تو مسڑ ہادی مرتضیٰ کیا تم مجھے بتاؤ گے کہ کہاں سے اور کس وقت آرہے ہیں لوس اینجلس میں ہیرے…  کایا جیبوں میں ہاتھ ڈالے ہادی کے پاس اکر کھڑا ہو گیا.  

وہ کایا.. ہیرے شام کو……  ابھی ہادی کے منہ سے الفاظ نکلے نہیں تھے کہ. کایا نے زور کا مکا ہادی کے ناک پر دے مارا.  مکا پڑتے ہی ہادی پیچھے کی طرف گرتے ہوئے بچا اس نے اپنی ناک پر ہاتھ رکھا تو وہاں سے اب خون نکل رہا تھا.. 

میرے ساتھ دغابازی کرتے ہو.. جھوٹ بولا میرے ساتھ ہاں.. کایا نے ہادی کو اگے سے بولنے کی مہلت ہی نہیں دی اور ایک اور زور کا مکا دے مارا.. 

کایا تم غلطی کر رہے ہو.. ہادی نے اپنے ناک اور ہونٹ سے نکلتے ہوئے خون صاف کرتے ہوئے کایا کی طرف غصے سے دیکھا.. ہادی کو امید نہیں تھی کہ کایا اس پر شک کرے گا.. 

میں غلطی کر رہا ہوں..  میں غلطی کر رہا ہوں.  تم نے غلطی کی ہے روشانی کو اب بتا کر میں نے کہا تھا نا کہ تم اسے کچھ نہیں بتاؤ گے مگر تم نے اسے سب بتا دیا اب دیکھنا میں تمہارا کیا حال کرتا ہوں.. کایا نے اگے بڑھ کر ہادی کا منہ نوچا.  

چھوڑو مجھے کایا.  میں نے. روشانی کو کچھ نہیں بتایا.  اگر میں بارہ سال چپ رہا تو اب کیوں بتاؤں گا لیکن مجھے اب احساس ہو رہا ہے کہ. میں نے تمہاری بات مان کر غلطی کی اور روشانی کو کچھ نہیں بتا.. ہادی نے کایا کا ہاتھ ایک جھٹکے سے پیچھے کیا اور کایا کو دھکا دے کر اپنے سے پیچھے ہٹایا.  

تمہاری اتنی جرات کہ تم مجھے دھکا دو.. کایا ہادی کو مارنے آگے کی طرف بڑھا ہی تھا کہ ہادی نے کایا کا ہاتھ پکڑ لیا.. مجھ پر اب ہاتھ نا اٹھنا نہیں تو تمہارے باقی کے سارے راز سب کے سامنے لے آو گا پھر ساری زندگی جیل میں سڑتے رہنا.. ہادی نے ایک ہاتھ سے کایا کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے کایا کا کالر پکڑا ہوا تھا.. 

ہادی کی اس حرکت پر کایا نے اپنے کالر کی طرف دیکھا اور پھر ہادی کی طرف دیکھا. .. اور ساتھ ہی ہادی کے پیچھے کھڑے آدمی کو اشارہ کیا.  

اس آدمی نے آتے ہی ہادی کو پیچھے سے اپنی گرفت میں لیتے ہوئے ہادی کو پیچھے کیا

کایا نے اپنا کالر ٹھیک کیا.. اب تم ہی مجھے روشانی اور مارک تک لے کر جاؤ گے اور میں پھر تمہارے سامنے ہی ان دونوں کو ایسی موت دوں گا کہ پورا انڈر ورلڈ کانپ جائے گا.. 

باندھ دو اسے کرسی سے.. کایا نے اپنے آدمی کو حکم دیا اور خود اپنی شرٹ ٹھیک کرتے ہوئے کرسی پر جا کر بیٹھ گیا… 

تم کبھی بھی اپنی چال میں کامیاب نہیں ہو سکتے کایا کبھی نہیں ہو سکتے.. ہادی خود کو اس آدمی کی  گرفت سے چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا.. لیکن اس آدمی کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ ہادی خود کو چھڑا نہیں سکا.. 

کایا ہادی کی طرف دیکھ رہا تھا جیسے وہ آدمی کرسی سے باندھ رہا تھا.. اور ساتھ ہی اس نے شراب کا گلاس منہ کو لگایا.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖

مارک کے جاتے ہی روشانی کمرے میں اگی.  کمرے میں آتے ہی اسے بیڈ پر پڑے وائٹ گلاب نظر آئے.  اور ساتھ ہی اس کے کانوں میں مارک کی آواز گونج اٹھی.. بہت خیرخواہ ہیں تمہارے یہاں.. 

روشانی نے جلدی سے آگے بڑھی اور بیڈ پر پڑے گلاب کے گلدستے کو اٹھا کر ڈسٹ بین میں ڈال دیا.. 

ایک مصبیت ختم نہیں ہوتی کہ دوسری شروع ہو جاتی ہے.. روشانی یہ کہتے ہوئے دوبارہ بیڈ پر اکر بیٹھ گی.. اس نے اپنا فون آن کیا. لیکن ہادی کی کوئی کال نہیں تھی.. فون کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے اس نے اپنے پاؤں سے جوتی اتاری جس سے اس کے بازو پر وزن پڑنے سے اس کے منہ سے ہلکی سی درد بھری آواز نکلی.  

جیسے کیسے روشانی نے اپنی جوتی اتار دی لیکن اس نے جو جیکٹ پہنی ہوئی تھی وہ اس سے نہیں اتر رہی تھی.. مارک کہ ڈاکٹر نے جیکٹ کا بازو قینچی سے کاٹ کر ارتار تو دیا تھا لیکن جیکٹ روشانی نے پہن رکھی تھی.. 

کافی کوشش کہ باوجود جب روشانی سے جیکٹ نہیں اتری وہ اٹھ کر شیشے کے پاس اکر کھڑی ہو گی.  خود کو شیشے کے سامنے کھڑے وہ خود کی حالت کو دیکھ رہی تھی وہ ایسی نہیں تھی.. کچھ مہینے پہلے.. 

مارک کے آنے سے پہلے اس کی زندگی کتنی آسان تھی.  سب ٹھیک تھا.  کایا کہ لیے کام کرنا اور کچھ اپنے لیے چوریاں کرنا اور ہنسی خوشی زندگی گزار رہی تھی.  

لیکن مارک نے اکر اس کی ماں کہ قاتل کا بھی تو بتایا تھا نہیں تو وہ کیسے اپنی ماں کے قاتلوں کے بارے میں جان پاتی َ.. شیشے کے سامنے کھڑے یہ اب سوچ ہی رہی تھی کہ اسے اپنے پیچھے مارک آتا نظر آیا جو اس کے پیچھے اکر کھڑا ہو گیا.. 

پہلے روشانی اسے اپنا وہم سمجھی لیکن جب مارک نے اپنے ہاتھ اسکے کندھوں پر رکھے تو وہ وہم نہیں حقیقت میں تھا.. روشانی آنکھیں پھاڑے مارک کی طرف دیکھ رہی تھی اس کی سانسیں وہی روک گی تھی.  

مارک جو اپنا فون ٹیبل پر بھول گیا تھا جب اس نے پھولوں کا گلدستہ اٹھایا تھا.  جب وہ دوبارہ فون لینے ایا تو اس نے فلیٹ کا دروازہ کھولا دیکھا جو مارک کے جاتے روشانی بند کرنا بھول گی تھی.. اور مارک کب سے اس کے کمرے کے دروازے کے سامنے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا جو اپنی جوتی اور جیکٹ اتارنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی.. 

گھر کہ دروازے کو بند رکھتے ہیں. کوئی بھی اسکتا ہے.  مارک نے یہ کہتے ہوئے روشانی کی جیکٹ کو آرام سے اس کے کندھوں سے اتار رہا تھا.. روشانی مارک کو اپنے اتنے قریب پا کر اس کی دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھی.. 

وہ یوں اچانک آجائے گا.. وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی.  

جب خود سے کوئی کام نا ہو رہا ہو تو کسی کو مدد کے لیے کہہ دیتے ہیں نہیں تو خود کو نقصان پہنچ جاتا ہے جیسے ابھی تم خود جیکٹ اتارتی تو زخم سے خون نکل آتا.. 

مارک نے باتیں کرتے ہوئے کب روشانی کی جیکٹ اتار دی روشانی کو خود معلوم نہیں ہوا… 

تمہاری جیکٹ..  مارک.. نے جکیٹ اتار کر روشانی کی طرف کی جو ٹکٹکی باندھے مارک کو دیکھ رہی تھی.. 

ہاں…  او.. تھینکس.. روشانی مارک کی بات پر چونک گی اور جیکٹ کو پکڑتے ہوئے اگے کو بڑھی.  

مارک نے جاتے ہوئے روشانی کو اس کا ہاتھ  پکڑا. روشانی کے ہاتھ ٹھنڈے پڑ رہے تھے…. 

روشانی کا ہاتھ پکڑتے ہی مارک نے روشانی کی طرف دیکھا.. 

اتنے ٹھنڈے ہاتھ…  مارک نے اپنا دوسرا ہاتھ بھی روشانی کے ہاتھ پر رکھ دیا.  مارک کے ہاتھوں کی گرمائش روشانی کو عجیب سا احساس دلا رہی تھی آج سے پہلے اس نے کبھی  ایسا احساس  محسوس نہیں کیا تھا.. 

ادھر آو.  مارک نے روشانی کو اپنی طرف کرتے ہوئے شیشے کی طرف کیا.. 

خود کو شیشے میں دیکھو اور خود بتاؤ.  جو لڑکی ٹھیک سے چائے نہیں بنا سکتی وہ کایا کو کیسے مار سکتی ہے.  ہاں..  

تم نے صرف چوریاں کرنی سیکھی ہیں کسی کو مارنا نہیں سیکھا.. تو اپنے اس نازک وجود کو کیوں کایا کے ہاتھوں چیڑ پھاڑ کروانا چاہتی ہو.. 

مارک نے اپنے دونوں ہاتھ روشانی کے کندھے پر رکھے ہوئے تھے اور شیشے میں روشانی کو دیکھ رہا تھا.. جو مسلسل مارک کی طرف دیکھ رہی تھی.. 

مارک نے اپنی بات مکمل کی اور روشانی کے کندھوں پر پیار سے ہاتھ پھرا اور پاکٹ سے موبائل نکال کر روشانی کو دکھایا.. 

میں یہ بھول گیا تھا یہاں.. . اب چلتا ہوں. لیکن میری بات کہ بارے میں سوچنا ضرود.. مارک یہ کہتے ہوئے. جانے کے لیے موڑا.  

تم میرا ساتھ دو گے کیا.  کایا کو مارنے میں.. روشانی نے جلدی سے موڑ کر مارک کو جاتے ہوئے کہا.  

روشانی کی بات پر مارک کے اٹھتے ہوئے قدم وہی روک گئے.. اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ اگی.. 

مارک نے موڑ کر روشانی کی طرف دیکھا.  جو سرخ آنکھیں اورچہرے پر اداسی لیے اس کے جواب کا انتظار کر رہی تھی.. 

تمہیں تو میری ضرورت نہیں تھی.. مارک نے جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے اس کی طرف دیکھا.  

لیکن اب ہے.  روشانی نے پلکیں جھپکائے بغیر مارک کے جواب کا انتظار کر رہی تھی 

روشانی کی بات پر مارک دوبارہ چلتا ہوا روشانی کی طرف آیا.  

سوچ لو تم میرے ساتھ رہ سکو گی گیا.  میں تو ایک جانور ہوں… اور جانور کبھی بھی نقصان پہنچا سکتا ہے .. مارک نے اگے بڑھا اور  روشانی کے قریب آیا.. روشانی یک دم گھبرا گی  مارک بات کرتے ہوئے روشانی کے شرٹ کے اگلے دو بٹن جو کھلے ہوئے تھے اسے بڑے پیار سے بند کیا.. …. مارک ایک طرف برا انسان تھا روشانی کی نظر میں اور دوسری طرف روشانی کے لیے اس کی اتنی کیئر روشانی کو گھائل کر رہی تھی.. 

مجھے اپنی ماں کے قاتل کو مارنا ہے.. مجھے بس اتنا پتہ ہے.  روشانی فوراً مارک کے اگے سے ہٹ گی اور باہر ٹی وی لانچ میں اگی.  

مارک نے جیب سے موبائل نکالا.. اور اس پر ٹائم دیکھا جو کافی ہو چکا تھا ہادی کو گئے ہوئے . لیکن اس کی کال ابھی تک نہیں آئی تھی مارک ہادی کی کال کا انتظار کر رہا تھا.  

روشانی…  اپنا فون دو مجھے.. مارک  نے باہر آتے ہی کہا.  

کیوں تمہیں فون کیوں چاہیے.. روشانی جو گلاس میں پانی ڈالے پی رہی تھی.  مارک کے یوں فون مانگنے پر چونک گی. .. 

ابھی تو تم مجھے کہہ رہی تھی کہ تمہیں میری ضرورت ہے کایا کو مارنے کے لیے اور اب سوال اٹھا رہی ہو.  پھر سوچ لو اگر یوں آگے سے سوال کرنے ہیں تو میرے ہاتھ کھڑے ہیں.  کیونکہ میں تمہاری فضول کی بک بک نہیں سن سکتا.  مارک کی بات پر روشانی بغیر کچھ کہے اندر چلی گی اور اندر سے اپنا فون لاکر مارک کو دے دیا.. 

مارک نے روشانی کا فون لیتے ہی اس پر ہادی کو کال ملا دی کافی بیل جانے پر ہادی نے کال نہیں اٹھائی.. 

کیا ہوا ہے مارک تم میرے نمبر سے ہادی کو کال کیوں کر رہے ہو.  روشانی جو اس بات سے بے خبر تھی کہ ہادی بھی وہاں موجود تھا اور وہ کایا کے پیچھے گیا تھا.. 

بتاؤ مارک.. روشانی دوبارہ بولی.. 

ہادی کایا کے پیچھے گیا تھا کہہ رہا تھا کہ کال کروں گا لیکن ابھی تک اس کی کال نہیں آئی.. تو سوچا تمہارے نمبر سے ملا کر دیکھو تمہاری کال تو وہ ہر حال میں اٹھا لے گا مگر نہیں اٹھائی.  مارک نے فون روشانی کو دیتے ہوئے کہا.  

تمہارا کہنے کا مطلب ہے کہ ہادی بھی وہی تھا پرانے کھنڈر میں.. روشانی حیرت سے مارک سے پوچھ رہی تھی.. 

. ہاں تو اسی نے ہی تو کایا سے معلوم کیا تھا کہ تم کہاں اس سے ملنے جا رہی ہو.  تم تو بتا کر نہیں گی تھی تو کچھ نا کچھ تو کرنا تھا نا.. مارک بات کرتے ہوئے دوبارہ پھر اپنے موبائل پر لگ گیا.  

مارک اگر تم مجھے وہاں سے بچا سکتے تھے تو ہادی کو کیسے جانے دیا تم نے.  روشانی نے مارک کے ہاتھوں سے اس کا موبائل پکڑا جو مسلسل میسج کرنے پر لگا ہوا تھا.  روشانی کے ایسے موبائل پکڑنے پر مارک کہ ماتھے پر بل پڑ گے.  

تم دو منٹ کے لئے اپنا منہ بند کرسکتی ہو کیا.  تمہارا ہی انجام دے ہوئے کارنامہ سے یہ سب ہو رہا ہے نا تم بغیر بتائے جاتی اور نا یہ سب ہوتا.  اب میرا موبائل فون مجھے دو مجھے اپنا کام کرنے دو.  ہادی کی کال آئے تو مجھے بتا دینا.. 

مارک نے اگے بڑھ کر روشانی کے ہاتھ سے موبائل پکڑا اور کال ملاتے ہوئے فلیٹ سے باہر نکل آیا.  روشانی پریشانی میں دوبارہ ہادی کو ملانے لگ گی.  

➖➖➖➖➖➖➖➖

دیکھو ہادی تمہاری مینا کی کال آرہی ہے دیکھو تو سہی کتنا خیال ہے نا اسے تمہارا…  اب دیکھنا میں کیا کرتا ہوں.. 

کایا نے ہادی سے اس کا موبائل لے لیا تھا اور وہ اسی انتظار میں. تھا کہ کب روشانی کی کال آئے.. 

جیسے روشانی کی کال بند ہوئی کایا نے روشانی کو واپس ویڈیو کال کر دی.. 

موبائل ابھی روشانی کے ہاتھ میں. ہی ہادی کی ویڈیو کال اگی.. ویڈیو کال دیکھتے ہی روشانی تھوڑا کنفیوز ہوئی کیونکہ ہادی نے کبھی آج تک روشانی کو ویڈیو کال نہیں کی تھی.  

روشانی نے جیسے ویڈیو کال اٹینڈ کی اگے سے کایا تھا.. یک دم روشانی سکتے میں اگی کہ ہادی کا موبائل کایا کے پاس کیوں ہے.. 

او.. روشانی کتنی دیر کر دی تم نے کال کرنے میں دیکھو کیا حال ہو گیا ہے تمہارے طوطے کا.. کایا نے موبائل ہادی کی طرف لے کر گیا.. 

ہادی کو دیکھتے ہی روشانی کے پاؤں تلے زمین نکل گی.. 

کایا  ہادی کو اس آدمی سے ٹارچ کروا رہا تھا.. ہادی کے منہ اور ناک سے خون نکل رہا تھا.. ہادی کا سر ایک طرف لٹکا ہوا تھا وہ نیم بیہوشی کی حالت میں تھا.. 

ہادی.. ہادی.. روشانی ہادی کو دیکھ کر چلا اٹھی.. کایا نے آدمی کو اشارہ کیا کہ وہ ہادی کے منہ پر ٹھنڈا پانی ڈالے.. اتنی سردی میں جب آدمی نے ہادی کے منہ پر ٹھنڈا پانی ڈالا تو ہادی نے فوراً آنکھیں کھولی.. 

آنکھیں کھولتے ہی ہادی کو سامنے اپنے فون پر روشانی نظر آئی جو اسے آواز دے رہی تھی.. 

روشانی تم یہاں مت آنا اور نا ہی مارک کو لے کر آنا.. میں کہہ رہا ہوں تمہیں مت آنا روشانی.. ابھی ہادی یہ ہی کہہ پایا تھا کہ کایا کے آدمی نے زور کا مکا ہادی کے منہ پر دے مارا.. جس سے جون کے چھینٹے آڑ کر موبائل سکرین پر گر گے.  ہادی کی گردن پھر ایک طرف لٹک گی.. 

دیکھ لیا تم نے اپنے ہادی کو اگر تم چاہتی ہو کہ ہادی کو کچھ نا ہو تو میری بتائی ہوئی جگہ پر آجاو.  اور  ہاں  ساتھ میں اپنے نئے یار کو بھی لیتی آنا.. اور اگر تم دونوں نے کوئی گڑبڑ کی کوئی ہشیاری کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا اور پھر تمہیں ہادی کی لاش ہی ملے گی. 

یہ کہتے ہوئے کایا نے کال بند کر دی اور روشانی کو لگا اس نے ہمیشہ کے لیے ہادی کو کھو دیا ہے.. روشانی کہ ہاتھ سے موبائل گر گیا.  

وہ اپنے زخمی بازو کی پروا کیے بغیر جلدی سے فلیٹ سے نکلی.  باہر آتے ہی. اس نے دیکھا مارک جا چکا تھا.  

آنسو روشانی کی آنکھوں سے روک نہیں رہے تھے اس کے سامنے بار بار ہادی کا چہرہ نظر آرہا تھا.. 

روشانی نے جلدی سے گاڑی نکالی اور مارک کے ہوٹل کی طرف نکل گی.. 

مارک ابھی ہوٹل پہنچا ہی تھا.  وہ ہادی کو بچانے کا پورا انتظام کر چکا تھا. .. اسے خبر مل گی تھی کہ کایا نے ہادی کو قید میں رکھا ہوا ہے.. 

اتنے میں روشانی کی گاڑی مارک کے ہوٹل کے پاس اکر روکی.. مارک فون پر ہی تھا جب اسے سامنے سے روشانی پریشانی میں بھاگتی ہوئی اندر کی طرف آتی نظر آئی. .  

مارک نے فوراً کال بند کی.. اور باہر کی طرف جانے کے لیے اٹھا اتنے میں. روشانی اندر اچکی تھی.. 

روشانی کیا ہوا ہے اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو.  روشانی کا سانس پھلا ہوا تھا جب وہ مارک کہ سامنے اکر کھڑی ہوئی… 

وہ ہادی..  کایا اسے مار دے گا.  اس نے مجھے ویڈیو کال کی تھی اور ہادی کی حالت بہت بری کر دی ہے اس نے پلیز ہادی کو بچا لو وہ اسے مار دے گا.  روشانی روتے ہوئے مارک کو کہہ رہی تھی.  

روشانی ریلکس. میں نے. سب انتظام کر لیا ہے ہادی کو کچھ نہیں ہو گا مارک نے روشانی کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے کہا.. 

نہیں.. مارک.. نہیں. تم کایا کو نہیں جانتے.  اس نے مجھے اور تمہیں بلایا ہے جگہ بتا دی ہے  کایا نے کہا ہے کہ اگر تم دونوں نا آئے تو ہادی کی لاش ملے گی

  پلیز مارک ہادی کو بچا لو.  روشانی نے التجائی نظروں سے مارک کو دیکھا اور اپنے دونوں ہاتھ مارک کے بازو پر رکھے.. 

مارک نے روشانی کو دیکھا اور پھر اس کے. ہاتھوں کو.. جو اس کے دونوں بازو پر تھے.. 

مارک کی انفارمیشن کہ مطابق ہادی کایا کے  بنگلہ میں تھا. لیکن روشانی کے مطابق وہ کایا کی پرانی ورکشاپ میں تھا.. جہاں سے اسے ویڈیو کال کی گی تھی.. 

اوکے.. اوکے.. خود کو سنبھالو. میں دیکھ لیتا ہوں.  لیکن تم نہیں جاؤ گی وہاں.  مارک نے روشانی کو ساتھ لے کر جانے سے صاف انکار کر دیا.. 

مارک تم بات کو کیوں نہیں سمجھ رہے کایا نے ہم دونوں کو بلایا ہے اس نے کہا ہے کہ اگر ہم نے کوئی چالاکی کی تو وہ ہادی کو مار دے گا اور اگر میں نہیں گی تو وہ ہادی کو مار دے گا. پلیز مارک مجھے ساتھ جانے دو.  

روشانی مارک کے رستے میں اگی جو جانے کے لیے اٹھا ہی تھا. 

روشانی کی یہ حالت مارک سے دیکھی نہیں گی.  اور یوں اچانک سب گڑبڑ ہو گیا تھا.  مارک نے جو انتظام کیا تھا روشانی اس کے برعکس بتا رہی تھی.. 

اوکے.. چلو.. مارک جیکٹ پہنتے ہوئے باہر کی طرح نکلا اور روشانی اس کے ساتھ 

روشانی تم شیور ہو نا کہ کایا نے ہادی کو اپنی پرانی ورکشاپ میں رکھا ہو ا ہے.. مارک نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے روشانی سے ایک بار پھر کنفرم کیا.. 

مارک میں کیوں تم سے غلط بیانی کیوں کرو گی یہ جانتے ہوئے بھی کہ کایا میری ماں کا قاتل ہے. مجھے جیسے اس نے کہا میں نے تمہیں اکر سب بتا دیا ہادی کی حالت بہت بری ہے.. روشانی کی بات کرتے ہوئے آنکھوں میں نمی اگی.. 

مارک بغیر کچھ کہے گاڑی میں بیٹھ گیا.. روشانی بھی اب گاڑی میں بیٹھ گی تھی.  مارک نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے. روشانی کی طرف دیکھا جو اپنے ناخن کو دانتوں سے کاٹ رہی تھی پریشانی میں.. مارک نے گاڑی کے گیر سے ہاتھ اٹھایا اور روشانی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے نیچے کیا.. جو وہ ناخن کو کاٹ رہی تھی.. 

اتنی پریشان نا ہو سب ٹھیک ہو جائے گا اگر ایسے پریشان رہو گی تو وہاں کیسے کایا کا سامنا کرو گی.. مارک کے ہاتھ میں روشانی کا ہاتھ تھا.. جب وہ گاڑی چلاتے ہوئے اس کی طرف دیکھ رہا تھا.. اور ساتھ ساتھ گاڑی چلا رہا تھا.. 

روشانی نے مارک کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں روشانی کو دینے کے لئے اعتماد اور اطمینان تھا روشانی کو اس حالت میں کسی سہارے کی ضرورت تھی جو مارک سے مل رہا تھا.. اس نے اپنا ہاتھ مارک کہ ہاتھ نہیں چھڑایا.  

مارک نے بات مکمل کرتے ہوئے روشانی کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ اٹھایا اور گاڑی کے سٹیرنگ پر رکھ لیا…  

ہادی نے مجھے بتایا تھا کہ تم دونوں بہت اچھے دوست ہو.  لیکن کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ تم دونوں دوست سے کچھ زیادہ اگے ہو.. کچھ دیر وقفے کے بعد مارک بولا

مارک کی دل و دماغ میں جو بات کب سے تھی آج اس نے روشانی پوچھ ہی لی.. مارک نے ایک ہاتھ سٹیرنگ پر رکھا ہوا دوسرا بازو گاڑی کی ونڈو پر اور سامنے دیکھتے ہوئے. بات کر رہا تھا.. لہجے میں سنجیدگی تھی.. روشانی نے مارک کی بات پر چونک کر مارک کی طرف دیکھا.. 

کیا تمہیں لگتا ہے کہ یہ وقت ہے ایسی باتیں کرنے کا.  روشانی کو بلکل بھی توقع نہیں تھی کہ مارک اسے یوں ہادی کے بارے میں پوچھے گا.. 

وقت کیسی کا انتظار نہیں کرتا کیا پتہ اگلے لمحے میں تمہارے ساتھ ہو یا نہ ہوں تو دل کی بات دل میں رہ جائے  اور وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے جو دل میں ہو اسے کہہ دینا چاہے اور ویسے بھی میں نے کبھی وقت کے مطابق نہیں چلا بلکہ وقت کو خود اپنے مطابق چلایا ہے.. 

مارک بات کر رہا تھا اور روشانی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کرمارک کی طرف دیکھ رہی تھی.  آج اس کے لہجے میں. عجیب سی بات تھی جیسے وہ آج کے بعد اس سے کبھی نہیں ملے گا.. یہ سوچتے ہی روشانی کپکپا گی.. 

گاڑی روکو مارک.. روشانی نے گاڑی کے سٹیرنگ پر ہاتھ رکھا.. 

روشانی پاگل ہو پیچھے کرو ہاتھ گاڑی لگ جائے گی پھر ہم ہادی کو نہیں بچا پائیں گے. روشانی کہ یوں سٹیرنگ پر ہاتھ رکھنے سے گاڑی کا بیلنس خراب ہو گیا.. 

میں کہہ رہی ہوں مارک گاڑی روکو.. روشانی نے مارک کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا.. 

روشانی نے سٹیرنگ کو گھماتے ہوئے مارک کو گاڑی روکنے کہا.. اس سے پہلے گاڑی کہیں لگ جاتی مارک نے گاڑی کو سڑک کے کنارے روک دیا.  

ہاں بولو روک دی میں نے گاڑی.  ایک بات پوچھی ہے تم سے اور تم ایسے ری ایکٹ کر رہی ہو جیسے پتہ نہیں کیا پوچھ لیا ہے تم سے.. مارک نے گاڑی روک کر روشانی کی طرف دیکھا.. لیکن مارک کو خبر نہیں تھی کہ روشانی کس بات پر گھبرا گی تھی

تمہیں یہ لگتا ہے کہ میرے اور ہادی کہ درمیان میں کچھ ہے جو میں اتنی پریشان ہو اور تمہیں کایا کے پاس تمہاری پروا کیے بغیر لے کر جا رہی ہوں.. تو سن لو میرے اور ہادی میں ایسا کچھ نہیں ہے جو تمہارے دماغ میں چل رہا ہے وہ میرا وہ دوست ہے جس کے لیے میں 

اپنی جان بھی دینے کو تیار ہوں.. وہ تب سے میرے ساتھ ہے جب میرا کوئی نہیں تھا.  

سمجھ آئی.. اور اگر تم نے نہیں جانا میرے ساتھ تو نا جاؤ کایا کو سے غداری میں نے کی ہے تو میں اکیلی بھی چلی جاؤں گی.  

روشانی مسلسل بول رہی تھی اور مارک ٹکٹکی باندھے روشانی کی طرف دیکھ رہا تھا.  

روشانی نے بات مکمل کرتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھولا لیکن وہ نہیں کھولا.  

دروازہ کھولو مارک میں خود چلی جاؤں گی.  مارک جو روشانی نی طرف دیکھ رہا تھا اگے بڑھ کر روشانی کا ہاتھ پکڑا جو اس کے گاڑی کے لاک پر رکھا ہوا تھا.. 

تم ایک تو بولتی بہت ہو.. اور ایک بات اپنے دماغ میں بیٹھا لو مارک کو اتنا فضول نہیں ہے کہ منہ اٹھا کر ہر کسی کے ساتھ چل پڑے مارک چلتا ان کے ساتھ ہے جو ان کے لیے بہت خاص ہو اور تم میرے لیے بہت خاص ہو.. مارک نے اپنی بات مکمل کی اور گاڑی سٹارٹ کر دی.. 

مارک بات کرتے ہوئے روشانی کے اتنے قریب تھا کہ اس نے اپنی سانس روکی ہوئی تھی وہ مارک کہ کہے ایک ایک لفظ کے سحر میں ڈوبی ہوئی تھی.. لیکن جیسے مارک نے سیدھا ہو کر گاڑی سٹارٹ کی روشانی دوبارہ بول پڑی

مارک میں نے کہا تھا کہ گاڑی کا دروازہ کھولو اور تم نے گاڑی سٹارٹ کر دی ہے.  مجھے اکیلے جانا ہے.. مجھے ایسے شخص کہ ساتھ نہیں جانا جس کے دماغ میں شک ہو.  روشانی بولتی جا رہی تھی کہ مارک نے گاڑی چلاتے ہوئے روشانی کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا.  

چپ…  بہت بولتی ہو.. تم.. ایک بات پوچھی تھی اور تم نے ہنگامہ کھڑا کر دیا.. اب ایک لفظ بھی  تمہارے منہ سے نہیں نکلے گا اوکے.  

مارک کی ہاتھ کی گرفت روشانی کے منہ پر مضبوط تھی روشانی اسے پیچھے ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ناکام رہی.. 

مارک نے بات مکمل کرتے ہوئے اپنا ہاتھ روشانی کے منہ سے ہٹایا.  ہاتھ پیچھے ہوتے ہی روشانی نے گہرا سانس لیا.. 

میرا سانس بند ہو رہا تھا مر جانا تھا میں نے اگر تم ہاتھ پیچھے نا کرتے.. روشانی لمبے لمبے سانس لے رہی تھی.. 

ڈونٹ وری. تم میرے ہاتھوں سے مرو گی اس سے پہلے نہیں.. مارک کہ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ اگی.. 

مارک کی بات پر روشانی نے حیرت سے مارک کی طرف دیکھا… 

➖➖➖➖➖➖➖➖

مارک نے گاڑی کایا کی ورکشاپ پر لاکر کھڑی کر دی.. جو کایا نے شہر سے باہر بنوائی تھی.. جو نام کی ورکشاپ تھی.. وہاں پر ہر چیز  سمگلنگ ہو کر آتی تھی.. 

 گاڑی سے اترنے سے پہلے مارک نے پسٹل کو کمر کے پیچھے رکھا.. 

روشانی دوسری طرف اترنے لگی تھی کہ مارک بول پڑا.. 

روشانی تم گاڑی میں بیٹھو.. میں دیکھتا ہوں.. تم پہلے ہی زخمی ہو یہاں تک اگی ہو تو ٹھیک لیکن باہر نہیں نکلو گی.. مارک کی بات سن کر روشانی کے ہاتھ دروازے پر روک گئے.. 

میں یہاں تمہارے ساتھ ہادی کو چھڑانے آئی ہوں.. اگر میں نے گاڑی میں بیٹھنا تھا تو میں اپنے فلیٹ پر ٹھیک تھی.. 

یہ کہتے ہوئے روشانی نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور باہر اگی.. 

یہ لڑکی.. پتہ نہیں کب بات مانے گی.. مارک نے روشانی کی طرف دیکھا جو گاڑی سے اتر چکی تھی.  

مارک گاڑی سے اترا اور گاڑی کا دروازہ بند کرنے ہی والا تھا کہ اسے روشانی کی چیخ سنائی دی.. 

مارک…. گاڑی سے اترتے ہی کایا کے بندے جو کب سے تاک لگائے بیٹھے تھے روشانی کی گاڑی سے اترتے ہی اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے قابو کر لیا روشانی کے کو بس مارک کہنے کی مہلت ملی.. اس کے بعد اسکی آواز بند ہو گی تھی.. 

روشانی کی آواز سنتے ہی. مارک روشانی کی طرف بڑھا..  جو کایا کے بندے کی گرفت میں تھی.. لیکن اگلے ہی لمحے کایا کے بندے نے مارک کو پیچھے سے وار کر دیا مارک کے سر پر زور کا ڈنڈا مار دیا جس سے مارک چلتے ہوئے لڑکھڑا گیا.. اس کی آنکھوں  سامنے اندھیرا اگیا مارک نے اپنے سر کو جھٹکا اور سامنے روشانی کی طرف دیکھا جو کایا کے آدمی سے اپنے آپ کو چھڑانے کے. لیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی.. 

روشانی..  مارک نے اگے بڑھنا چاہا لیکن کایا کہ بندے نے ایک اور وار مارک پر کر دیا.. 

مارک کے سر سے اب خون نکلنا شروع ہو گیا تھا.. 

سامنے روشانی کو یوں تڑپتے دیکھ کر مارک نے غصے سے پیچھے کھڑے بندے کو  الٹے ہاتھ مکا دے مارا اور خود لڑکھڑاتا ہوا روشانی کے پاس جانے لگا.. 

کایا کا وہ بندہ دور جا کر گر گیا.. اتنے میں جس نے روشانی کو پکڑا ہوا تھا اس نے دوسرے کو اشارہ کیا.. اور وہ چلتا ہوا مارک کے قریب آیا اور مارک کو کلر سے پکڑتے ہوئے اس نے مارک کا چہرہ اپنی طرف کیا.. اور زور کا مکا دے مارا.. 

جوابی مارک اسے مارنے کے لیے آگے بڑھا ہی تھا کہ اس کے اردگرد گرد کایا کہ کافی بندے کھڑے ہو گئے.. خون مارک کے سر سے نکلتے ہوئے اس کی چہرے پر پڑ رہا تھا.. 

ایک آدمی نے اگے بڑھ کر مارک کے پیٹ پر زور سے ٹانگ ماری…. مارک لڑکھڑاتا ہو پیچھے ہوا ابھی وہ آدمی دوسری ٹانگ مارنے ہی والا تھا کہ مارک نے اس کی ٹانگ کو پکڑتے ہوئے اس کے منہ  پر مکا مارا.. 

مارک کہ یوں لڑنے پر کایا کا بندے جو پیچھے کھڑے تھے ان میں سے  ایک  نے ایک بار پھر زور کا  ڈنڈا مارک کے سر پر دے مارا.. مارک پر یہ وار ہوتے ہی مارک گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا.  اب اس کی شرٹ خون سے بھر گی تھی.  

پیچھے کھڑے آدمی نے مارک کو پاؤں مارتے ہوئے آگے کو دھکا دیا مارک اوندھے منہ زمین پر گر گیا.. 

روشانی اپنے آپ کو اس آدمی کی گرفت سے نکالنے کی کوشش کر رہی تھی اس کی آنکھوں کے سامنے مارک خون میں نہا گیا تھا.. روشانی کی آنکھوں میں خوف اور مارک کے لیے آنسو نکل رہے تھے.. 

مارک کی نظر سامنے روشانی پر پڑی  جو اپنی آنسو سے بھیگی آنکھوں کے ساتھ بےبسی سے دیکھ رہی  تھی کایا کہ آدمی نے اسے پکڑا ہوا تھا کایا کہ آدمی کا ایک ہاتھ روشانی کی کمر پر تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس نے روشانی کے بازو پکڑے ہوئے تھے.. 

روشانی کے پاس آتے ہوئے کسی کے پاؤں مارک کو دکھائی دے جو کایا تھا اس نے آتے ہی  روشانی کے چہرے پر اپنا ہاتھ پھیرا..  مارک جو یہ سب دیکھ رہا تھا غصے سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن مارک کی پشت  پر  کایا  کہ آدمی کا پاؤں تھا…. 

مارک نے اپنا پورا زور لگا کر اٹھا لیکن ساتھ ہی کھڑے آدمی نے مارک کے سر پر ایک اور ڈنڈا مار دیا.. 

اب مارک کی آنکھوں کے سامنے روشانی دھندلی پڑی رہی تھی.. کایا چلتا ہوا مارک کے پاس آرہا تھا.. 

مارک کی آنکھیں بند ہونے سے پہلے اس کے منہ سے روشانی کا نام نکلا.. 

روشانی…. 

اور ساتھ ہی مارک کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا.. 

کایا چلتا ہو مارک کے پاس آیا جو اب ایک لاش کی طرح پڑا ہوا تھا.. کایا نے اپنے شوز کی نوک سے مارک کے چہرے کو اوپر کیا.. جو خون سے لت پت تھا.. 

چیچیچی.. کیا حال ہو گیا ہے مارک کا ایک لڑکی کے پیچھے.. انڈر ورلڈ کا ٹائیگر آج میرے پاؤں کے نیچے ہے.. 

کیا کہا تھا مارک کہ تم میرے باپ ہو.. ہاں.. میں تمہارا باپ ہوں آج تو تمہیں سمجھ اگی ہو گی.. کایا نے ایک زور کا قہقہہ لگایا.. 

اٹھا کہ لے جاؤ اس ناسور کو.. دونوں کو ورکشاپ میں بند کر دو.. اور گیس آن کر دو.. جب دونوں صبح تک مر جائیں تو انہیں سمندر میں پھینک دینا.. کایا نے مارک کو اپنے جوتے سے ٹھوکر ماری اور اپنے آدمیوں کو کہہ کر گاڑی میں. بیٹھ کر نکال گیا.. 

آج کایا کے لیے جشن کا دن تھا اور وہ اسے ہمیشہ اپنی کامیابی کو مانتا تھا اور آج بھی وہ اس کمیابی کومنانے چلا گیا.. آج اس نے مارک کو قابو کر لیا تھا اور وہ صبح کے نکلتے سورج کے ساتھ مارک کی زندگی کا سورج غروب کر چکا تھا.. 

روشانی اور مارک  کو کرسی کے ساتھ باندھ دیا تھا.. کایا کے آدمیوں نے دونوں کو باندھنے کے. بعد ورکشاپ کے اندر گیس چھوڑ دی اور خود ورکشاپ کا شٹر بند کرتے ہوئے باہر اکر پہرہ دینے لگ گئے.. 

روشانی مارک کی طرف دیکھ رہی جو کرسی پر رسیوں کے ساتھ باندھا ہوا تھا اس کی گردن ایک طرف لٹکی ہوئی تھی.. 

مارک…. مارک.. آنکھیں کھولو.. پلیز مارک آنکھیں کھولو… روشانی زور زور سے چلا رہی تھی لیکن مارک کی کانوں میں روشانی کی آواز نہیں پڑی رہی تھی.. گیس کا پریشر ورکشاپ میں بڑھتا جا رہا تھا.. 

روشانی نے اپنے چاروں طرف دیکھا اسے ہر طرف کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس سے وہ اپنے ہاتھوں کی رسی کاٹ سکے.. 

روشانی نے اپنے ہاتھوں کو زور لگاتے ہوئے اس پر باندھی رسی کو ڈھلی کرنے کی کوشش کی جس سے اس کے بازو سے جہاں گولی لگی تھی وہاں سے خون نکلنا شروع ہو گیا..

 اس کی پرواہ کیے بغیر روشانی نے اپنے ہاتھ کی رسیوں کو مسلسل ڈھیلا کرنے لگ گی.. لیکن رسی کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ روشانی کی مسلسل کوشش سے بھی وہ ڈھلی نہیں ہوئی بلکہ روشانی کی مسلسل رسی کو ڈھلی کرنے پر اس کی کلائیوں سے خون نکلنا شروع ہو گیا.. 

نہیں.. ایسا نہیں ہوسکتا.  نہیں.. مارک میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گی یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے.  تمہیں کچھ نہیں ہو گا.  روشانی نے بات کرتے ہوئے کرسی کو اپنے پاؤں کی مدد سے جو رسی سے باندھے ہوئے تھے گھسیٹتے ہوئے مارک کے پاس آرہی تھی.. 

اس کے کانوں میں. مارک کی باتیں گونج رہی تھیں جو اس نے نکلنے سے پہلے روشانی سے کی تھی.. مارک کہ ساتھ گزارا ایک ایک لمحہ روشانی کی آنکھوں کے سامنے آرہا تھا.. اسے یوں لگ رہا تھا کہ اس نے مارک کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا ہے.. 

ورکشاپ میں میں گیس پھیلتی جا رہی تھی.. روشانی کو سانس  لینے میں مسئلہ ہو رہا تھا وہ گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی.. 

اکھ.. اکھ.. روشانی کو خود کا گلا بند ہوتا ہوا محسوس ہوا.. روشانی نے اپنا سانس اندر کی طرف کھینچا.  اور کرسی کو مارک کی کرسی کے پاس لے گی جو ایک لاش کی طرح کرسی پر پڑا تھا.. 

روشانی کی کرسی کی سائیڈ مارک کی کرسی کی پشت پر تھی اس نے زور لگا کر مارک کی کرسی کو دھکا دیا.. 

مارک.. آنکھیں کھولو.  دیکھو تو سہی.. پلیز مارک…. ایسا مت کرو تم نے میرا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا مجھے ایسے چھوڑ کر مت جانا.. روشانی نے اونچی آواز میں بولا لیکن مارک کی طرف سے پھر کوئی جواب نہیں آیا.. 

روشانی نے اپنی کرسی کو ٹیڑھا کیا اور اور اپنی کرسی کی پشت مارک کی کرسی کی پشت کے ساتھ لگا دی جہاں مارک کے ہاتھ رسی سے باندھے ہوئے تھے.. 

روشانی نے مارک کی رسی کھولنے کی کوشش کی لیکن روشانی کا ہاتھ صرف مارک کی انگلیوں تک ارہا تھا رسی تک نہیں.. 

لیکن اچانک روشانی کو اپنے ہاتھ ہر کسی تیز چیز کے چبھنے کا احساس ہوا.. وہ وہی براسلٹ میں لگے چھوٹے چاقو تھے جیسے مارک ہمیشہ اپنی کلائی میں باندھے رکھتا تھا.. وہ لٹک کر مارک کی انگلیوں تک آرہے تھے.. 

روشانی نے بمشکل گردن موڑ کر ان چاقو کو دیکھا اسے امید نظر آئی.. روشانی نے جلدی سے ان چاقو سے اپنے ہاتھ کی باندھی ہوئی رسی کو کاٹنے لگ گی.. 

ورکشاپ میں بڑھتی گیس سے روشانی کی سانس بند ہورہی تھی اچانک اس کی آنکھیں بند ہونے لگ گی.  ایک جھٹکے کے ساتھ اس کی گردن نیچے کو ہوئی اور جس چاقو سے وہ رسی کاٹ رہی تھی اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گیا.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖

مارک کے بندوں کی بتائی ہوئی انفارمیشن ٹھیک تھی کایا نے  ہادی کو اپنے گھر ہی رکھا ہوا تھا سخت پہرے میں.. 

یہ کایا کی چال تھی جس میں روشانی اگی تھی.. کایا روشانی کی کمزوری کو اچھے سے جانتا تھا اس نے روشانی پر وہی وار کیا جو وہ ہمیشہ اس کے ساتھ کرتا ارہا تھا.. 

کایا کلب میں اپنے جشن کو منا رہا تھا جب مارک کے بندوں نے کایا کے گھر کو گھیرے میں لے لیا تھا.. 

مارک کے پلان کے مطابق کایا کے گھر کے باہر دو آدمی ہوں گے اور اندر چار ہوں گئے پہلے ان کو مارنا تھا اور اس کے بعد اس کے گھر گھس کر جہاں ہادی کو رکھا ہے وہاں کھڑے چار آدمیوں کو مارنا تھا .. 

مارک کے پلان کے مطابق ہی اس کے بندوں نے کیا اور آسانی سے وہ باہر کے دو بندوں کو مار کر اندر چلے گئے.. 

اندر آتے ہی مارک کے بندوں نے کایا کے بندوں پر گولیاں چلا دی ان کو اگے سے وار کرنے کی مہلت بھی نہیں دی.. 

ہادی  اندر قید تھا گولیوں کی آواز سنتے ہی. اس نے کمرے کے چاروں طرف دیکھا ہر طرف اندھیرا تھا.. 

اچانک دروازہ کھولا اور مارک کے بندے اندر آگے.. 

ایک نے اگے بڑھ کر ہادی کی ہاتھ کی رسیاں کھولی.. 

کون ہو تم لوگ.    ہادی نے ان لوگوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا.. 

ہمیں مارک نے بھیجا ہے کہ اپ کو یہاں سے نکال کر کسی سیو جگہ پر لے جائیں.. ان میں سے ایک آدمی بولا.. 

لیکن کایا نے تو مارک کو اور روشانی کو ورکشاپ بلایا تھا وہ وہاں تو نہیں چلا گیا کہیں.. 

ہادی جلدی سے کرسی سےاٹھا.. اور اپنے ارد گرد باندھی ہوئی رسیوں کو اپنے سے الگ رہا تھا.. 

یہ ہمیں نہیں پتہ.. بس ہمیں جتنا کہا تھا ہم نے کر دیا اب آپ ہمارے ساتھ چلیں….

نہیں میں تمہارے ساتھ نہیں چلوں گا.. کایا نے. لازمی 

مارک اور روشانی کے ساتھ کچھ کیا ہو گا.. مجھے ورکشاپ جانا ہے ہادی باہر جانے کے لیے آگے بڑھا تو مارک کا ایک آدمی ہادی کے رستے میں. اگیا.. 

ایم سوری ہم اپ کو یوں نہیں جانے دے سکتے باس کا حکم جو ہے وہ ہم نے پورا کرنا ہے آپ کو سیو جگہ لے کر جانا ہے…  

ہادی جاتے ہوئے روک گیا.. 

اوکے تو تم سب میرے ساتھ چلو اگر تمہیں اپنے باس کی زندگی عزیز ہے تو.. ہادی نے ان سب بندوں کی طرف دیکھا.. 

سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا.. اور پھر وہ ہادی کے ساتھ ورکشاپ کی طرف نکل پڑے.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖

ورکشاپ پہنچتے ہی دور سے ہادی نے دیکھ لیا تھا کہ کایا کے بندوں نے ورکشاپ کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے.. 

ہادی کایا کے ہر چور رستے کو جانتا تھا.. اس نے گاڑی دور کھڑی کی اور پیدل چلتے ہوئے ورکشاپ کے اس خفیہ رستے کی طرف آیا جو کایا عموماً سمگلنگ کے لیے استعمال کرتا تھا یہ رستہ ایک سرنگ کی شکل میں ورکشاپ کے پیچھے بنے گارڈن سے ہوتا ہوا اندر کی طرف جاتا تھا.. جس کو ایک ابھرتے ہوئے ڈھکن سے بند کیا  ہوا تھا.. 

کایا اپنے خفیہ رستے ہمیشہ اپنے قریبی لوگوں کو بتاتا تھا اور ہادی اس کے قریب اور اعتمادی بندہ تھا.. کایا اس بات سے بے خبر تھا کہ ہادی اس کی قید سے نکل چکا ہے کایا کے مطابق وہ مارک اور روشانی کومار چکا تھا اب ہادی کو کوئی بھی بچانے نہیں آئے گا.. 

اب ہادی مارک کے بندوں کے ساتھ دبے پاؤں چلتا ہوا سرنگ سے جیسے ورکشاپ کے اندر گیا.. ورکشاپ گیس سے بھری پڑی تھی.. 

ہادی کو خود کو سانس لینا مشکل ہو رہا تھا اس نے جلدی سے اگے بڑھ کر گیس کے پائپ کو بند کیا… 

اور جلدی سے روشانی کی رسیاں کھولی جو بہوش کرسی پر پڑی تھی.. مارک کے بندوں نے جلدی سے مارک کو کھولا اور اسے باہر گاڑی کی طرف لے آئے ہادی روشانی کو اپنی بانہوں میں اٹھائے وہ بھی باہر اگیا.. 

ہادی نے روشانی کو گاڑی میں ڈالا اور اسی گاڑی میں. مارک کو بھی.. 

تم ان دونوں کو لے کر ہسپتال جاؤ جلدی میں تھوڑی دیر تک یہاں یہ قصہ ختم کر کے آتا ہوں.. ہادی نے مارک کے بندوں کو کہا.. 

ہم باس کو ہسپتال نہیں لے کر جا سکتے انہوں منع کیا ہے.. ہم جس ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں وہاں کا اپ کو ایڈریس بتا دیتے ہیں آپ وہاں اجانا.. 

مارک کے بندے نے ہادی کو مارک کے ڈاکٹر کا ایڈریس بتایا اور گاڑی لے کر نکل گئے.. 

ہادی اب دوبارہ سرنگ کے رستے ورکشاپ کے اندر چلا گیا.. اب ورکشاپ میں. گیس کم تھی ہادی نے وہاں سے پیٹرول کا کین اٹھایا اور ورکشاپ کے چاروں طرف گرا دیا.. 

 ایک اور کین کو اٹھا کرباہر لے ایا.  باہر سے بھی ورکشاپ کی دیواروں پر پیٹرول گرا دیا اور خود چلتے ہوئے کافی دور نکل ایا.. کایا کے آدمی چلتے ہوئے پہرہ دے رہے تھے.  

اب تم سب جہنم میں جاؤ گئے.. ہادی نے ان آدمیوں کی طرف دیکھا اور پسٹل نکال کر سیدھا پیٹرول کے کین پر  گولی مار دی.. جس سے ایک زور کا دھماکہ ہوا اور پوری ورکشاپ کو آگ لگ گی.. کایا کے آدمی جو ورکشاپ کے پاس کھڑے تھے وہ آگ سے نہیں بچ سکے…. 

اب تمہاری باری ہے کایا تمہیں ایک ایک اپنے کیے کا حساب دینا ہو گا.. ہادی مارک کے بندوں کی چھوڑی ہوئی گاڑی کی طرف چلا گیا.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖

دونوں کی حالت  تشویشناک  ہے روشانی کو آکسیجن لگائی ہے.. شاید اسے کچھ دیر تک ہوش آجائے لیکن مارک کے سر پر چوٹ کافی لگیں ہیں خون بھی بہت نکل چکا ہے. اس کے بارے میں ا بھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا.. میں اپنی پوری کوشش کروں گا.. کہ مارک جلد ہوش میں آجائے 

مارک کا ڈاکٹر ہادی کے چہرے پر لگے  زخم پر میڈیسن لگاتے ہوئے اسے صورتحال سے آگاہ کر رہا تھا.. 

اگر مارک کو ہوش نا آیا تو اسے ہسپتال جانا ہو گا.. ایسا ہی ہے نا.. ہادی نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا.. 

ہوسکتا ہے.. لیکن میں نے کہا کہ میں اپنی پوری کوشش کروں گا کہ اسے ہسپتال نا جانا پڑے یہاں اسے ہسپتال جیسی ہی سہولیات مل جائیں گی.. ڈاکٹر نے ہادی کے سر پر پٹی باندھی جہاں کایا نے اپنی پسٹل ماری تھی.. 

ہمممممم.. ٹھیک ہے.. کیا میں آپ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں کیا.. ہادی نے جاتے ہوئے ڈاکٹر کو کہا.. 

جی.. کیا پوچھنا ہے.. 

آپ مارک کو کب سے جانتے ہیں.. 

ہادی کی بات پر ڈاکٹر نے ہلکی سی مسکراہٹ دی.. 

یہ تو میں بھی نہیں جانتا.. لیکن یہ جانتا ہوں کہ مارک جیسا میں نے آج تک کوئی شخص نہیں دیکھا.. ڈاکٹر جانتے ہوئے بھی ہادی کو کچھ نہیں بتانا چاہتا تھا.. ڈاکٹر نے ہادی کو مسکراہٹ. دی اور کمرے سے باہر اگیا.. 

ہادی اٹھ کر روشانی کے کمرے کی طرف چلا گیا.. روشانی کو آکسیجن لگی ہوئی تھی لیکن وہ ابھی ہوش میں نہیں تھی.. 

ہادی روشانی کے پاس جاکر بیٹھ گیا اس کی طرف دیکھا جو گہری نیند میں تھی.. 

مجھے معاف کر دینا روشانی میں تمہاری حفاظت نہیں کرسکا.. تم سے وعدہ کیا تھا تمہاری حفاظت کا لیکن میں ناکام ہو گیا.. مجھے معاف کر دینا.. آج تم اس حالت میں ہو.. میری وجہ سے ہو اگر میں کایا کہ پاس نا جاتا تو یہ سب نا ہوتا.. لیکن میں تم سے اب کوئی وعدہ نہیں کروں گا بلکہ کایا کو تمہارے قدموں میں لاکر پھینکو گا.. 

ہادی سوئی ہوئی روشانی کے ہاتھ کو نرمی سے پکڑتے ہوئے باتیں کر رہا تھا.. ہادی نے کچھ سوچتے ہوئے ایک گہری سانس لی اور وہاں سے اٹھ گیا.. 

باہر جاتے ہوئے اس کی نظر مارک کے کمرے پرپڑی جو ساتھ ہی تھا.. مارک کی حالت اس قابل نہیں تھی کہ اسے دیکھا بھی جائے اس کا سر پوری سیفد پٹیوں سے بھرا ہوا تھا.. 

مارک تمہیں پتہ تھا کہ کایا روشانی کو استعمال کرکے تمہیں وہاں بلا رہا ہے پھر بھی تم وہاں کیوں گے.. اور مجھے بھی وہاں سے چھڑا لیا.  مارک کو دیکھتے ہی ہادی کے دماغ میں سوالات بن رہے تھے جن کا جواب  مارک کہ ہوش آنے پر ہی ہادی کو مل سکتے تھے.. 

ہادی یہی سوچتے ہوئے باہر گارڈن کی طرف آگیا.. شرٹ کو آستینوں تک کیے اپنے ہاتھ پر لگی چوٹ کو دیکھتے ہی ہادی ماضی میں کھو گیا.. 

کایا نے جب روشانی کی ماں کو مارا تھا تب ہادی روشانی سے ملنے اس کے گھر آیا تھا.  لیکن روشانی گھر میں نہیں تھی تو وہ جاتے جاتے وہی روک گیا تھا جب اسے اندد کمرے سے کسی عورت کے رونے کی آواز سنائی دی.. 

نا چاہتے ہوئے بھی ہادی کمرے کے دروازے کے پاس اگیا اس نے تھوڑا دروازہ کھولا  تو سامنے روشانی کی ماں تھی جو کایا کے پاؤں پکڑ رہی تھی…  اور اگلے لمحے کایا نے روشانی ماں کو گولی مار دی تھی.. 

اس سے پہلے کہ ہادی وہاں سے بھاگتا کایا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا جیسے ہادی جانے کو موڑا.. 

کیا دیکھا تم نے.. کایا نے پسٹل ہادی کے سینے پر رکھتے ہوئے کہا.. 

آ..آ..آ..پ...پ..آپ نے آنٹی کو مار دیا.. ہادی نے کانپتی آواز سے کہا.. 

تو تمہاری یہ آنٹی تھی تو تم روشانی کو بھی جانتے ہو گئے.. کایا نے اب اپنا دوسرا ہاتھ. بھی ہادی کے کندھے پر رکھا.. 

ہادی نے حلق کو تر کرتے ہوئے اثبات ت سر ہلایا.. 

تو اگر تم نے کسی کو بھی یہ بتایا یا روشانی کو بتایا تو اس کی ماں کہ طرح تمہاری روشانی کو بھی مار دوں گا بولو بتاؤ گے کسی کو کیا.. کایا نے آنکھیں نکالتے ہوئے ہادی کی طرف دیکھا.. 

نہ.. نہ.. نہیں میں کسی کو نہیں بتاؤں گا.. آپ روشانی کو کچھ مت کرنا.. ہادی نے ڈرتے ہوئے کایا کو کہا.. 

گڈ کافی سمجھدار ہو.. اور ویسے بھی روشانی میرے ساتھ لوس اینجلس کیلیفورنیا جا رہی ہے.  تو اس کے جانے سے پہلے اپنا منہ بند رکھنا.. یہ کہتے ہوئے کایا چلا گیا.. 

اور پھر وہ لمحہ جب روشانی اپنی ماں سے لپیٹ لپیٹ کر رو رہی تھی.  اور ہادی قاتل کو جانتے ہوئے بھی روشانی کو کچھ بھی نہیں بتا سکا.. 

اگلا لمحہ ہادی کے لیے اور حیرت انگیز تھا جب روشانی کی ماں کو دفنانے کے بعد کایا نے روشانی کو کہا کہ وہ اس کی ماں کے قاتلوں کو پکڑے گا اس کے لیے اسے اس کے ساتھ جانا ہو گا.. 

روشانی کے حامی بھرنے پر ہادی بول پڑا.. 

میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گا روشانی.. ہادی کی آواز پر کایا نے غصے سے ہادی کی طرف دیکھا.. 

اگر آپ چاہتے ہیں کہ روشانی اپنے ماں کے قاتلوں کو پکڑے تو میں اپ کی اور روشانی کی مدد کر سکتا ہوں اور میں روشانی کو یوں آپ کے ساتھ اکیلا نہیں جانے دے سکتا.. دس سال کا بچہ اس وقت کایا کہ سامنے پہاڑ بن کر کھڑا تھا.. 

کایا کی اب مجبوری بن گی تھی کہ وہ ہادی کو اپنے ساتھ لے کر جائے کیونکہ اگر وہ نا لے کر جاتا تو یہ پیچھے سے سب کو بتا سکتا تھا.. 

کایا نے ہادی کو بھی اپنے ساتھ لے کر جانے کہ حامی بھر لی.. ہادی ساتھ جائے گا یہ سنتے ہی روشانی نے اگے بڑھ کر ہادی کو گلے لگا لیا.. 

تم میرے بہت خاص دوست ہو اور رہو گے ہادی.. روشانی نے ہادی کو کہا.. 

اور میں تمہاری ہمیشہ حفاظت کرتا رہوں گا.. ہادی نے بات کرتے ہوئے کایا کی طرح دیکھا جو اب ایک چھوٹے بچے سے ڈر رہا تھا.. 

یہ لو چائے پی لو کافی بہتر محسوس کرو گے.. ڈاکٹر نے جب ہادی کو یوں اکیلا باہر سردی میں کھڑے دیکھا تو اس کے لیے چائے بنا کر لے آیا.. 

مارک ڈاکٹر کو ہادی کے بارے میں پہلے سے ہی بتا چکا تھا.. ڈاکٹر کی آواز پر ہادی اپنی ماضی کی یادوں سے باہر اگیا.. 

تھینکس.. ہادی نے چاۓ کا کپ ڈاکٹر کے ہاتھ سے پکڑا.. 

ابھی ہادی نے چاۓ کا ایک گھونٹ ہی لیا تھا کہ اسے روشانی کی آواز سنائی دی.. 

دونوں وہی چائے چھوڑے کر اندر کی طرف بھاگے.. 

مارک.. مارک کہاں ہے مجھے اس کے پاس جانا ہے.. روشانی ہوش میں آتے ہی اپنے بازو پر لگی ڈرپ کی سوئیاں اتار رہی تھی.. 

روشانی یہ کیا کر رہی ہو.  ہادی نے اگے بڑھتے ہوئے روشانی کو روکا.. 

ہادی تم ٹھیک ہو.. روشانی نے ہادی کو دیکھتے ہوئے کہا.. 

ہاں میں ٹھیک ہوں تم یہ سب نا اتارو.. ہادی نے ساری ڈرپ کو جو روشانی اتار چکی تھی اسے دیکھتے ہوئے کہا.. 

اگر تم ٹھیک ہو تو مارک کہاں ہے ہادی.. تم مجھے بتا کیوں نہیں رہے مارک کہاں ہے.. مجھے مارک کو دیکھنا ہے کہاں ہے.  روشانی نے ہادی کو ہاتھ سے پیچھے کیا.. اور بیڈ سے اٹھتے ہوئے باہر کو جانے لگی.. 

روشانی تم ابھی ٹھیک نہیں ہوئی بیٹھ جاؤ.  ہادی نے روشانی کو بیڈ پر بیٹھانے کی کوشش کی لیکن روشانی نہیں روکی.. 

میں کیسے بیٹھ جاؤں ہادی. کایا کے بندوں نے مارک کو مارا تھا وہ تو بول بھی نہیں رہا تھا میں نے اسے اتنی آوازیں دی وہ نہیں بولا جو میری سرگوشی بھی سن لیتا تھا وہ نہیں بولا مجھے مارک کو دیکھنا ہے. . 

ہادی جس نے روشانی کو کندھوں سے پکڑا ہوا تھا ڈاکٹر کی طرف دیکھا.  ڈاکٹر نے سر سے اشارہ کیا کہ وہ روشانی کو جانے دے.. 

ہادی نے روشانی کو چھوڑا اور مارک کے کمرے کا بتایا.. روشانی کمرے کا پتہ چلتے ہی باہر کی طرف بھاگی.. 

جانے دو اسے.. اس نے وہ دیکھا ہو گا جو ہم نے نہیں دیکھا.. مارک کی حالت دیکھ کر ہی پتہ چل رہا ہے کہ روشانی پر کیا گزری ہو گی.. 

ڈاکٹر نے ہادی کو تسلی دی.. 

➖➖➖➖➖➖➖

روشانی جیسے ہی کمرے کے دروازے پر گی مارک کو دیکھتے ہی اس کے قدم وہی روک گے.. مارک کو اس حالت میں 

اذعام دبے پاؤں چلتا ہوا عزل کا پیچھا کر رہا تھا.. تہہ خانہ جو پری نے اپنے بنگلہ کے پیچھلے حصے میں بنایا تھا. جس کا اندر جانے  ایک رستہ  بنگلہ کے کچن سے بھی جاتا تھا اور عزل اسے رستے سے گیا تھا.. 

جب اس نے کچن کا باہر کو جانے کا دروازہ کھولا تو اذعام وہی روک گیا.. عزل جب دروازہ کھول کر باہر کی طرف گیا تو اذعام بھی پیچھے چلا گیا.. رات کی خاموشی ہر طرف چھائی ہوئی تھی.. عزل نے جاتے ہی تہہ خانے کا دروازہ کھولا.. 

اور اندر چلا گیا جہاں سونیا بھوکی پیاسی زمین پر پڑی تھی.. عزل نے جاتے ہی اس کے بالوں سے پکڑتے ہوئے اس کا چہرہ اوپر کیا.. بھوک اور پیاس سے نڈھال سونیا نے آدھی بند آنکھوں سے عزل کی طرف دیکھا.. 

پانی…  سونیا کے پیاس سے ہونٹ اور زبان خشک ہو رہی تھی.  وہ بمشکل یہ ہی بول پڑی.. 

اذعام جو تہہ خانے کی سیڑھیوں کے پاس کھڑا سب سن رہا تھا سونیا کی کانپتی آواز سن کر اس کی آنکھوں میں آنسو اگے.  اس نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے اور دو سیڑھیاں اور نیچے آیا.. 

تہہ خانے کو کافی نیچے بنایا ہوا تھا بارہ سے تیرہ سیڑھیاں اتر کر جانا پڑتا تھا.. 

او اچھا تو تمہیں پیاس لگی ہے.  پانی چاہیے تمہیں.. ہاں.. 

ویسے تو میں تمہیں دیکھنے آیا تھا کہ تم مر گی ہو یا زندہ ہو لیکن تم تو زندہ ہو.. چلو پھر تمہاری پیاس بجھانے سے  پہلے تم  میری پیاس بھجا دو.  موقع بھی ہے عزل نے یہ کہتے ہوئے اپنی شرٹ کے بٹن کھولے.. 

نہ.. نہ.. نہیں..  ایسا نا کرو.  میں تمہارے اگے ہاتھ جوڑتی ہوں.. سونیا نے جب عزل کو دیکھا جس کی آنکھوں میں حواس ٹپک رہی تھی اس کے پاؤں میں پڑ گی.. 

سونیا کی بات پر عزل نے سونیا کو بالوں سے پکڑا.. تمہاری یہی سزا ہے غداری کی.. اب مرنے سے پہلے کسی کے کام تو آجاؤ.. عزل نے یہ کہتے ہوئے ایک جھٹکے سے سونیا کو زمین پر گرا دیا عزل سونیا کے قریب آرہا تھا.. سونیا زمین پر رینگتی ہوئی پیچھے کی طرف جارہی تھی.. 

یہ سب سنتے ہی اذعام کو پسینے آنا شروع ہو گئے اس کا خون کھول رہا تھا. اذعام کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ سونیا کو اس حیوان سے کیسے بچائے.. اذعام نے ادھر اُدھر دیکھا تو اسے سیڑھیوں کے پاس ایک چھوٹا پھتر نظر آیا.  اذعام نے وہ پھتر نیچے تہہ خانے کی طرف پھینکتے ہوئے باہر کی طرف دوڑ لگا دی.. 

تہہ خانے میں. پھتر گرنے کی آواز سے عزل جو اپنی حواس لیے سونیا کی طرف بڑھ رہا تھا وہی روک گیا.. 

کون ہے.. کون ہے یہاں.  عزل جلدی سے اوپر کی طرف بڑھا اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا ہوا باہر آیا.  باہر اکر عزل نے دیکھا کوئی نہیں تھا.  لیکن وہ پھتر کس نے پھینکا ہو گا عزل کو پریشان کر رہا تھا.. اس نے ایک نظر نیچے تہہ خانے پر ڈالی اور پھر اپنی شرٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے عزل نے دوبارہ تہہ خانے کو تالا لگایا اور تیز قدموں سے چلتا ہوا پری کو بتانے کے لئے چلا گیا.. 

اذعام اپنے دھڑکتے دل کے ساتھ جلدی سے اپنے کمرے میں اکر بیڈ پر  لیٹ گیا اور اپنی آنکھیں زور سے بند کر لیں.. 

عزل پری کے پاس پہنچ کر ساری صورتحال کا بتایا.. پری کا شک سیدھا اذعام پر گیا.. لیکن وہ ایسا کرے گا پری کو یقین نہیں ہو رہا تھا. لیکن عزل مسلسل پری کو اذعام کا کہہ رہا تھا 

عزل کے مسلسل کہنے پر پری عزل کے ساتھ اذعام کے کمرے میں آئی جہاں وہ لائٹ بند کرکے سونے کا ڈرامہ کر رہا تھا.. 

پری نے اکر اذعام کے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر آئی اذعام کے بیڈ کے پاس کر وہ اذعام پر جھک کر بڑی خاموشی سے اذعام کو دیکھا جو دیکھنے میں پر سکون نیند سو رہا تھا.. 

#محبت_میری_جنون_تیرا

#اے_ایس_راجپوت 

پری کچھ کہے بغیر وہاں سے باہر اگی.. باہر آتے ہی. اس نے اذعام کے دروازے کو بند کرتے ہو لاک لگا دیا جس کی آواز اذعام سن چکا تھا.. 

اذعام نے ایک گہرا سانس لیا اور فوراً بیڈ سے اٹھ کر دروازے کے پاس آیا.. عزل اور پری ابھی دروازے کے پاس ہی کھڑے تھے.. 

عزل تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے.  وہ ابھی بچہ ہے.. تم جیسے بتا رہے ہو وہ اتنی جلدی کیسے واپس اکر اپنے بیڈ پر اتنی گہری نیند سو سکتا ہے.. کوئی بڑا ہوتا تو میں یقین کر لیتی.. لیکن اس میں تمہاری بھی غلطی ہے کہ تمہیں  احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا.. 

آئندہ ایسا کچھ ہوا تو تمہیں بھی تہہ خانے میں بند کر دوں گی.  اور اب مجھے تنگ مت کرنا.. پری یہ کہتے ہوئے چلی گئی اس کے قدموں کی آواز آئی جو چلتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تھی.  اس کے جانے کے بعد عزل کے قدموں کی بھی آواز آئی وہ بھی اب اذعام کے کمرے کے دروازے سے ہٹ گیا تھا.. 

دونوں کے جانے کے بعد اذعام نے اپنے ماتھے کا پسینہ صاف کیا.. اور بیڈ پر جاکر بیٹھ گیا.. اب اذعام کا ایک ہی کام تھا کہ اس نے سونیا کو کسی طرح تہہ خانے سے باہر نکلنا تھا اور وقت اذعام کے پاس بہت تھوڑا تھا.. 

➖➖➖➖➖➖➖

روشانی کو جب ہوش آئی تو وہ دوبارہ پھر سے اپنے بیڈ پر تھی.. اس بار اسے کوئی ڈرپ نہیں لگی ہوئی تھی.. اب رات کا وقت نہیں تھا صبح ہو چکی تھی ساری رات روشانی بہوش رہی دوپہر کے بارہ بجے جب وہ ہوش میں آئی تو اس نے کمرے کے چاروں طرف نظر دوڑائی.. 

ایک عام سا کم فرنیچر والا کمرہ تھا.  اپنے بوجھل سر کو اپنے ہاتھ سے دباتے ہوئے اس نے بیڈ سے نیچے پاؤں رکھے.. روشانی کو ابھی بھی چکر آرہے تھے اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے اپنی آنکھوں کو زور سے بند کیا.. 

آنکھیں بند ہوتے ہی روشانی کے سامنے مارک کا وہ چہرہ اگیا جو خون سے لت پت تھا اور اس کا اوندھے منہ لیٹے ایک ہاتھ سے روشانی کی طرف تھا.. 

آنکھیں کھولتے ہی روشانی کی آنکھوں میں نمی اگی.. 

اس نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے اپنی آنکھوں کی پوروں کو صاف کیا جو آنسو سے بھیگ گی تھیں.. 

خود کو ٹھیک کرتے ہوئے روشانی کمرے سے باہر آئی.. کمرے سے باہر آتے سامنے ٹی وی لانچ میں اسے وہی ڈاکٹر نظر آیا جس نے اس کی اس دن نرسنگ کی تھی.  

ڈاکٹر کسی سے فون پر بات کرنے میں مصروف تھا روشانی کو آتا دیکھا کر اس نے کال فوراً بند کر دی.  اس سے پہلے کہ وہ اٹھ کر روشانی کے پاس آتا روشانی ڈاکٹر کے پاس اگی تھی.  

تمہیں آرام کی ضرورت ہے.  ڈاکٹر نے روشانی کی طرف دیکھا.  

نہیں.. میں اب ٹھیک ہوں.  مارک کیسا ہے اب.  روشانی نے ڈاکٹر کی بات ٹالتے ہوے مارک کے بارے میں. پوچھا.  

مارک ویسا ہی ہے جیسے تم نے رات کو دیکھا تھا.  ڈاکٹر یہ کہتے ہوئے. صوفے سے اٹھ کر روشانی کے لیے چائے بنانے چلا گیا.. 

میں نے رات کو دیکھا تھا.  میں رات کو گی تھی مارک کے پاس کیا.  روشانی نے اپنا سر دباتے ہوئے دماغ پر زور دیا.. اسے بس یہاں تک یاد تھا کہ جب وہ رسی کاٹتے ہوئے بہوش ہو گی تھی.  

یہ لو چائے اور تمہارا ناشتہ یہ کھا کر تم میڈیسن لے لینا.  ڈاکٹر سوچوں میں گم روشانی کے سامنے اس کا ناشتہ لا کر رکھ دیا… 

ہممم.. ہاں.. تھینکس.. میں بس چائے لوں گی.  اور میں اب ٹھیک ہوں مجھے میڈیسن کی ضرورت نہیں اب.  روشانی نے چاۓ کا کپ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر کو کہا جو روشانی کی بات پر چپ رہا.  مارک نے جہاں ہادی کے بارے میں ڈاکٹر کو بتایا تھا وہاں روشانی کا. بھی بتایا تھا. 

مارک کے مطابق وہ جب ایک بار بات کہہ دے تو پھر کسی کی نہیں سنتی اس لیے ڈاکٹر نے روشانی کے جواب پر اگے سے کچھ نہیں کہا.. 

روشانی نے ایک گھونٹ چائے کا لیا جو اس کے حلق سے نیچے نہیں جا رہا تھا.  اس نے مارک کو دیکھنا تھا.. 

میں نے مارک کے پاس جانا ہے.. روشانی یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی.  ڈاکٹر نے یوں روشانی کو کھڑے دیکھا تو ہاتھ کا اشارہ کیا مارک کے کمرے کی طرف.  

روشانی ابھی مارک کے کمرے کی طرف موڑی تھی کہ ڈاکٹر نے پیچھے سے آواز دی.. 

روشانی.. یہ تمہارے لیے آیا تھا.  روشانی نے. گردن موڑ کر دیکھا تو ڈاکٹر کے ہاتھ میں. وائٹ گلاب کا گلدستہ تھا اور ساتھ ہی ایک کارڈ تھا.  

روشانی نے. ڈاکٹر کو دیکھا اور پھر گلدستے کی طرف اور بغیر کچھ کہے وہ مارک کے کمرے کی طرف چلی گئی.. 

ڈاکٹر روشانی کے اس رویہ سے شکڈ ہو گیا. 

ٹھیک بتایا تھا مارک نے اس کے بارے میں.  یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر نے گلدستہ دوبارہ  ٹیبل پر رکھ دیا.. 

روشانی مارک کے کمرے کا دروازہ کھولتے اندر آئی. سامنے بیڈ پر مارک بہوش  لیٹا تھا روشانی چلتی ہوئی مارک کہ بیڈ کے پاس اکر بیٹھ گی.  

مارک کی ہاتھ میں ویسے ہی براسلٹ تھے اور انگلیوں میں انگوٹھیاں بھی ویسی تھیں.  روشانی نے اگے بڑھ کر مارک کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا اور بڑی نرمی کے ساتھ اس کے ہاتھ کے براسلٹ اور انگوٹھیاں اتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی.  

اور دوبارہ  مارک کے پاس اکر بیٹھ گی.  روشانی نے بڑے پیار سے مارک کا ہاتھ اپنے نرم ہاتھوں میں پکڑا.. 

اور ٹکٹکی باندھے مارک کی طرف دیکھتی رہی.  

مارک تم جلدی ٹھیک ہو جاؤ گے.. میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گی.. تم نے میرے لیے اتنا سب کیا. آج تک کسی نے ایسا نہیں کیا جو تم نے کیا ہے تم نے میرے لیے اپنی جان  تک کی پرواہ نہیں کی.. 

یہ سچ ہے کی جب سے تم میری زندگی میں آئے ہو میری زندگی کا سکون ختم ہو گیا ہے…  لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جو سکون مجھے تم سے ملتا ہے وہ ایک الگ ہی احساس ہے اسے میں اپنی زندگی کے بہترین لمحوں میں رکھتی ہوں وہ تمہارا میری کیئر کرنا. میری حفاظت کرنا.. مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ تم میرے اتنے قریب آتے ہو لیکن میں تمہیں خود سے کیوں نہیں دور کر پاتی.  

روشانی بات کرتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہو گی اس نے اپنے آنسو کو گلے میں اتارا اور اپنے رخسار پت گرے انسو کو صاف کیا.  

تمہیں پتہ ہے مارک تمہارے ہاتھوں کا وہ لمس میں ہمیشہ محسوس کرتی ہوں.. ہر لمحہ مجھے تمہارے ہونے کا احساس دلاتا ہے اور جب تم نے گاڑی میں اپنے بارے میں ایسا کہا تو مجھے لگا کہ میرے جسم سے روح نکل گی ہے اور جب کایا کے بندے تمہیں مار رہے تھے اور تمہیں میں ورکشاپ میں آواز دے رہی تھی اور تم اگے سے نہیں بولے تو مجھے لگا کہ میں نے  ہمیشہ کے لیے تمہیں کھو دیا ہے.. 

روشانی نے بات کرتے ہوئے مارک کے ہاتھوں پر نرمی سے اپنے ہونٹ رکھ دیے.. 

مجھے نہیں پتہ مارک میں اپنی اس فیلنگز کو کیا نام دوں لیکن اگر اسے محبت کہتے ہیں تو ہاں میں تم سے محبت کر بیھٹی ہوں تم ہی میرا اصل زندگی کا حاصل ہو. میں تمہیں کبھی کھونا نہیں چاہوں گی 

تمہارے بغیر اب کوئی بھی لمحہ گزارنا میرے لیے مشکل ہے.  روشانی بیڈ سے اٹھی اور مارک کے قریب آئی.  

آئی لو یو مارک.. روشانی مارک کے اوپر تھوڑا جھکی اور اسکی گال پر اپنے ہونٹ رکھتے ہوئے چوما.  اور ساتھ ہی روشانی کی آنکھوں سے آنسو نکل کر مارک کے چہرے پر گرے. 

روشانی بہوش ہوئے مارک کو اپنی دل کی بات کہہ چکی تھی اور جیسے ہی روشانی نے اپنا چہرہ اوپر کیا اور مارک کے اوپر سے ہٹنا چاہا.  مارک نے اپنے ہاتھ سے روشانی کو کمر کو پکڑ لیا.. اور کیھنچتے ہوئے مزید اپنے قریب کیا.. روشانی مارک کے اتنے قریب اگی تھی کہ وہ مارک کی سانسوں کی آواز سن سکتی تھی.. 

مارک.. تم…  روشانی اس طرح مارک کو ہوش میں آتا دیکھ کر اس کے رخسار سرخ پڑنے لگ گئے.  

روشانی کو توقع نہیں تھی کہ مارک ہوش میں ہو گیا.  مارک کو صبح ہی ہوش اگیا تھا.. ڈاکٹر نے مارک کو رات کی ساری صورتحال بتا دی تھی اور روشانی کی حالت بھی.. مارک کہ کہنے کے مطابق ڈاکٹر نے روشانی کو یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ ہوش میں اگیا ہے.  

ایک بار پھر کہو جو ابھی کہہ رہی تھی.  مارک نے روشانی کی آنکھوں میں دیکھا جس میں پیار اور معصومیت جھلک رہی تھیں.. 

نہیں.. مجھے چھوڑو… روشانی نے مارک کی گرفت سے نکلنے کے لیے اوپر ہوئی لیکن وہ خود نہیں چاہتی تھی کہ مارک اسے چھوڑے اس لیے اس نے زیادہ مزاحمت نہیں کی.. 

ایسے تو نہیں چھوڑوں گا.  کب اسے تمہارے اظہارِ محبت کا انتظار کر رہا تھا اور اگر آج تم نے کر دیا ہے تو میں کیوں نا اسے یادگار بناو.. تو ایک بار پھر کہو.. 

مارک نے اپنے دوسرے ہاتھ سے روشانی کے بالوں کو پیچھے کیا جو اس کے چہرے پر پڑ رہے تھے.. 

روشانی شرم سے دوبارہ بول نہیں پا رہی تھی.  اس کے چہرے پت مسکراہٹ تھی.. مارک سمجھ گیا تھا کہ وہ اب نہیں بولے گی.  

آئی لو یو ٹو… مارک نے یہ کہتے ہوئے روشانی کی گال کو اپنے انگوٹھے سے نرمی سے چھوا. .. 

میں نے جب تمہیں پہلی بار دیکھا تھا جب تم مجھے مارنے آئی تھی تب سے ہی میں تمہاری محبت کی قید میں چلا گیا تھا اور بس تمہارے اظہار کا انتظار تھا.  مارک کی بات سب کر روشانی مسکرا دی.. 

ویسے یہ جو تم نے مجھے ابھی دواء دی ہے کیا یہ روزانہ مل سکتی ہے. میں پھر جلدی ٹھیک ہو جاؤں گا.  مارک نے روشانی کے ہونٹ ہر انگلی رکھتے ہوئے کہا.  مارک کی بات پر روشانی جلدی سے اٹھ گی.  

اس کے گال اب لال ہو گئے تھے. 

یہ تو ناانصافی ہے روشانی اپنے مریض کو تم اس کی دوائی بھی نہیں دو گی تو وہ کیسے ٹھیک ہوگا.. مارک نے روشانی کی طرف دیکھا جو جانے کے لیے موڑی تھی.. 

مارک کی بات پر روکی اور گردن موڑ کر مارک کی طرف دیکھا.  

آج کی دوائی مل گی نا اب کل.  روشانی یہ کہتے ہوئے جلدی سے کمرے سے نکل گی.. 

روشانی جیسے مارک کے کمرے سے باہر نکلی تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی.. باہر نکلتے اس کا سامنا ہادی سے ہوا جو مارک کو دیکھنے آرہا تھا.. 

 دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ روشانی کے سامنے کھڑا تھا وہ تب سے مارک کہ کمرے کے باہر کھڑا تھا جب روشانی اپنی محبت کا اظہار کر رہی تھی مارک اور روشانی دونوں کی باتیں ہادی سن چکا تھا.  

ہادی کو یوں دیکھ کر روشانی یک دم چونک گی.  جو کبھی ہادی سے ڈری نہیں تھی کبھی اس کے سامنے ہمیشہ بہادری سے کھڑی رہتی تھی.  آج ہادی کے یوں دیکھنے پر گھبرا گی.  ہادی کی آنکھوں میں سو سوال تھے جس کے جواب روشانی نہیں دے پاتی.. 

ک.. ک.. کیا.  ہوا.. ایسے کیوں دیکھ رہے ہو.  روشانی نے اپنے بال کانوں کے پیچھے کرتے ہوئے ہادی سے نظریں چرائی.  

میں تو ایسے ہی دیکھتا ہوں تمہیں کیا ہوا ہے یوں گھبرا کیوں رہی ہو.  ہادی نے روشانی کی کنڈیشن دیکھتے ہوئے اس کے چہرے کو دیکھا جو تھوڑی دیر پہلے سرخ ہورہا تھا اب پیلا پڑ رہا تھا.  

بتاؤ کیا ہوا ہے.  طبیعت تو ٹھیک ہے نا تمہاری.  روشانی کی ایسی حالت دیکھ کر ہادی نے اگے بڑھ کر روشانی کو کندھوں سے پکڑا.  

ہاں میں ٹھیک ہوں.. مختصر سا جواب دیا.. 

اپنا خیال رکھو.. اور مارک کو ہوش اگیا کیا.. ہادی نے فوراً بات ٹال دی اسے روشانی کی حالت بگڑتی ہوئی لگ رہی تھی.. 

ہاں آگیا ہے وہ ہوش میں.. جاؤ مل آؤ.. روشانی نے. کہا اور ہادی کے اگے سے ہٹتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلی گی.. ہادی نے روشانی کو یوں جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا آج اس کے لہجے میں کچھ عجیب تھا.. اس نے ایک گہرا سانس لیا اور مارک کے کمرے کے اندر چلا گیا

روشانی اپنے کمرے میں آتے ہی بیڈ پر اکر بیٹھ گی.. اس کی سانس پھول رہی تھی.. دل کی دھڑکن بھی تیز ہو رہی تھی.  آج وہ ہادی کا سامنا کیوں نہیں کر سکی.. اب تک اس نے ہادی سے کوئی بات نہیں چھپائی تھی تو وہ اس سے اتنی بڑی بات کیسے چھپا سکتی ہے.. 

روشانی پریشانی میں اٹھ کر ٹہلنے لگ گی.  ایک ہاتھ اس کے گلے  پر  تھا اور گلے میں ڈالی چین کو موڑوڑ رہی تھی اور دوسرے ہاتھ کے ناخن اپنے دانتوں سے کاٹ رہی تھی.. 

میں کیسے ہادی کو بتا دوں کہ مجھے مارک سے محبت ہو گی ہے ایک ایسے شخص سے محبت ہو گی جو لڑکی کو کسی ٹشو پیپر سے کم نہیں سمجھتا.  جس کے نزدیک لڑکیاں صرف بیڈ روم تک اچھی لگتی ہیں.

  وہ کیا سوچے گا میرے بارے میں. میں کیا کروں میں بھی بے بس ہوں اپنے دل کے ہاتھوں.. ابھی روشانی ٹہلتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی.. روشانی نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا.  وہاں ہادی کھڑا تھا. 

آؤ ہادی وہاں کیوں کھڑے ہو.  روشانی نے. فوراً خود کو نارمل کرتے ہوئے کہا.  روشانی کی بات پر ہادی چلتا ہوا اندر اگیا اور روشانی کے سامنے اکر کھڑا ہو گیا.. 

میں سپین جا رہا ہوں.. ہادی کہ منہ سے یہ الفاظ نکلتے ہی. روشانی چونک گی.  

سپین… مگر وہ کیوں…  روشانی کو سمجھ نہیں آئی کہ ہادی نے یوں اچانک سپین جانے کا پروگرام کیوں بنا لیا.. 

کام ہے بہت ضروری. کچھ دنوں میں واپس اجاؤں گا.  

مگر ہادی ایسا کیا کام ہے جو تمہیں یوں جانا پڑ رہا ہے تمہاری حالت بھی ایسی نہیں ہے کہ تم سفر کر سکو.. روشانی نے. اگے بڑھ کر ہادی کے بازو پر ہاتھ رکھا.  

فکر نا کرو.. مارک تمہیں سب بتا دے گا.. کیوں کہ اب ہمیں اپنی باتیں شیئر کرنے کے لیے اس کا سہارا لینا پڑ رہا ہے.. ہادی نے یہ کہا اور جانے کے لیے موڑا.. 

ہادی.. روکو… روشانی کی آواز پر ہادی کے اٹھتے قدم وہی روک گے.  اس نے گردن موڑ کر روشانی کی طرف دیکھا.  جس کی آنکھوں میں. نمی تھی.  بازوں لٹکائے وہ بے بسی سے ہادی کو دیکھ رہی تھی.. 

تم نے سب سن لیا  نا…   روشانی کو اب پتہ چل گیا تھا کہ ہادی کو مارک کے دروازے کہ پاس کھڑا تھا سب سن چکا تھا.  

روشانی کی بات پر ہادی جو باہر کی طرف جانے والا تھا موڑ کر دوبارہ روشانی کی طرف آیا.. 

کاش کہ تم مجھے خود بتاتی. روشانی.  تم نے تو مجھے ایک سکینڈ میں اجنبی کر دیا.. کیا تم نے مجھے اس قابل نہیں سمجھا کہ تم اپنی دل کی بات کر سکو.. مانا کہ مجھ سے غلطیاں ہوئی ہیں.. لیکن میں اب کیا اس قابل بھی نہیں رہا کہ تمہاری دل کی بات ہی نا سن سکو.. ہادی کا ایک ایک لفظ روشانی کو تیر کی طرح لگ رہا تھا.  

اس نے سانس اندر کی طرف کھینچا اور اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسو صاف کیے.  اگے بڑھ کر ہادی کا ہاتھ پکڑا.. روشانی کی اس حرکت پر ہادی نے روشانی کی طرف دیکھا پھر اس کے ہاتھ کو.. 

ہادی.. پلیز.. مجھے غلط مت سمجھنا.. مجھے خود نہیں پتہ تھا کہ کب میں مارک کی محبت میں ڈوبتی جا رہی ہوں.. مجھے تب احساس ہوا جب وہ مر رہا تھا.  وہ خون میں نہا چکا تھا.. تب مجھے احساس ہوا کہ چوٹ اسے لگ رہی ہے لیکن درد مجھے کیوں محسوس ہو رہا ہے ایسا درد جو آج سے پہلے میں نے کبھی محسوس نہیں کیا.  

میں نے خود کی روح نکلتے ہوئے محسوس کی.. ہادی میں کیسے تم سے چھپا سکتی ہوں تم خود سوچو.. تم میرے لیے کتنے خاص ہو.. لیکن یہ اب یوں اچانک ہو جائے گا مجھے اندازہ نہیں تھا.. اس دل پر کس کا اختیار ہے.  میرا دل بھی مجھ سے بے قابو ہو گیا.  ایم سوری ہادی.. اگر تم کہو گے تو میں مارک سے بات نہیں کروں گی کبھی بھی نہیں..  روشانی کی بات کرتے ہوئے آنسو نکل کر اس کی رخسار پر گر پڑے.. 

ہادی  جو کب سے روشانی کی آنکھوں میں. دیکھ رہا تھا اس کی باتیں سن رہا تھا اس نے اپنا دوسرا ہاتھ روشانی کے ہاتھ پر رکھا.. 

نہیں.. میں تمہیں کبھی نہیں کہوں گا روشانی کہ تم مارک سے بات نا کرو.. مجھے خوشی ہے کہ تمہاری زندگی میں بھی کوئی ایسا آیا ہے. جس میں تمہاری خوشی ہے.  

لیکن تم نے غلط انسان کو چنا ہے. یہ تو تمہیں بھی پتہ ہے کہ اس کے نزدیک انسان کی اور خاص کر لڑکی کی کیا اہمیت ہے.. ہادی اپنی بات پوری نہیں کرسکا.. اور چپ کر گیا.  

میں جانتی ہوں ہادی.. لیکن میں اس دل کا کیا کروں جو صرف مارک کے لیے دھڑکتا ہے.  اور جب تم ہو میرے ساتھ تو مجھے کوئی بھی پریشانی نہیں ہو گی.  تم ہو نا میرے ساتھ.  روشانی نے آخری امید آنکھوں میں لیے ہادی کی طرف دیکھا.. 

ہمممم.. میں تمہارے ساتھ ہوں.. لیکن جب مجھے لگا کہ مارک نے تمہیں کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے تو پھر تم درمیان میں. مت آنا.. ہادی نے روشانی کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے کہا.. 

ہادی کی اس بات پر روشانی کے چہرے پر مسکراہٹ اگی.. ٹھیک ہے تم جو مرضی کرنا میں تمہارے رستے میں نہیں آؤں گی.. اب تو تم مجھ سے ناراض تو نہیں ہو نا.  روشانی نے پھر ہادی کی طرف دیکھا.  

نہیں…  میں ناراض نہیں ہوں.. خوش رہو تم.. میرے لیے تمہاری خوشی سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہے.  ہادی کی آنکھوں کے سامنے روشانی کا وہ چہرہ اگیا جب وہ مارک کے کمرے سے باہر نکل رہی تھی اتنی خوشی اس نے کبھی روشانی کے چہرے پر پہلے نہیں دیکھی تھی.. 

تھینکس ہادی.. تم نے میری ساری پریشانی دور کر دی.  اب مجھے بتاؤ کیوں جا رہے ہو سپین.  ساری بات مکمل ہوتے ہی روشانی کی سوئی دوبارہ اسی بات پر اگی کہ ہادی کیوں جا رہا ہے.  

روشانی.. تم معلوم کیے بغیر چپ کر کے نہیں بیٹھو گی.  

میں سپین میں مارک کہ کام کے سلسلے میں. جانا ہے وہاں کسی سے ملنا ہے اگر مارک ٹھیک ہوتا تو وہ چلا جاتا لیکن اب وہ پورے سے ٹھیک نہیں ہوا.  تو مجھے جانا ہے.. تم اپنا خیال رکھنا اور جب میں آؤں تو مجھے ایسے ہی ہنستی ہوئی ملو.. اوکے.. ہادی نے کہا اور جانے کے لیے موڑا.  

لیکن ہادی وہاں ہے کون.. روشانی نے پھر پیچھے سے آواز دی.. 

یہ مجھے بھی نہیں پتہ.. بائے.. ہادی نے جاتے ہوئے اونچی آواز میں کہا.  ہادی کے جاتے ہی روشانی کو بے چینی لگ گی کہ آخر ایسا کیا کام تھا جو مارک نے ہادی کو اس حالت میں سپین جانے کا کہا.. روشانی یہی سوچتی ہوئی مارک کہ کمرے کی طرف چلی گی جیسے وہ دروازے کے قریب پہنچی تو اسے مارک کی آواز آئی جو کسی سے فون پر بات کر رہا تھا روشانی وہی روک گی.. 

میں اب ٹھیک ہوں.  آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے.. یہ میری اور کایا کی جنگ ہے.. میں اسے خود لڑنا چاہتا ہوں.. آپ کے پہلے مجھ پر بہت احسانات ہیں.. اگر مجھے آپ کی ضرورت پڑی تو میں ضرور بتاؤں گا.. اور میں بہت جلد آپ کے پاس ملنے آؤں گا.  یہ کہتے ہوئے.. مارک نے کال بند کر دی.. 

یہ کون ہوسکتا ہے جس سے مارک بڑی تمیز سے بات کر رہا تھا. روشانی سوچ میں پڑ گئی.. اس نے کچن کی طرف دیکھا اور پھر مارک کے کمرے کی طرف.  

کچن سے سوپ بنا کر وہ مارک کے کمرے کی طرف چلی گئی جیسے کمرے میں داخل ہوئی مارک بیڈ سے ٹیک لگائے کسی سے میسج کرنے میں مصروف تھا.. 

روشانی کو آتا دیکھ کر مارک نے فوراً فون سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا.. 

مائی لو…  کب سے تمہیں نہیں دیکھا تھا کہاں تھی تم.. مارک نے روشانی کو آتے دیکھ کر کہا جو سوپ ٹیبل پر رکھ رہی تھی.. 

او پلیز یہ فلمی ڈائلاگ مت مارو.. روشانی نے مارک کو دیکھے بغیر کہا.. 

تمہیں یہ فلمی ڈائلاگ لگ رہے ہیں. جو میرے دل کی آواز ہے.  بڑے افسوس کی بات ہے روشانی.  آج ہی تم نے مجھے کہا کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو اور ابھی کچھ ہی دیر میں تم مجھ سے بور ہو گی ہو میری باتیں تمہیں فلمی ڈائلاگ لگی رہی ہیں.. مارک تنگ کرنے کے انداز میں روشانی کو دیکھا.. 

یہ. سوپ پی لو.  اور زیادہ باتیں نا کرو.  روشانی نے بیڈ کے کنارے پر بیٹھتے ہوئے سوپ مارک کی طرف کیا.. 

کیا میں خود پیو یہ سوپ دیکھو میرے ہاتھ میں تو ابھی اتنی جان بھی نہیں کہ میں چمچ اٹھا سکو.  

مارک نے اپنے ہاتھ کو ہلکا سا ہلا تے ہوئے روشانی کی طرف دیکھا.  

اچھا.. میسج تو تم کر سکتے ہو لیکن چمچ نہیں اٹھا سکتے.. روشانی نے اپنی آنکھیں سکڑتے ہوئے کہا.  

ہا. ہا. ہا. ہا.. یہ لگی نا میری روشانی…  جو سب کچھ دیکھ لیتی ہے.   تو اب سمجھ جاؤ نا کہ میں نے تمہارے ہاتھ سے سوپ پینا ہے.. مارک نے ہنستے ہوئے کہا.. 

سیدھی طرح بول دیتے.. روشانی نے کہتے ہوئے سوپ کا چمچ مارک کی طرف کیا.  ابھی مارک سوپ پینے لگا تھا کہ اس کے موبائل پر کسی کی کال آئی .  سکرین آن ہوتے ہی اس پر شیزا کا نام لکھا ارہا تھا.  

مارک نے گردن موڑ کر موبائل کو دیکھا اور پھر کال کاٹ دی.. روشانی یہ سب دیکھتے ہوئے. خاموشی سے مارک کی طرف دیکھ رہی تھی کہ وہ کچھ بتائیے گا لیکن مارک کچھ نہیں بولا.. 

روشانی نے اپنی توجہ موبائل سے ہٹا کر سوپ مارک کو پلانے پر لگ گی.  تھوڑی دیر بعد ہی موبائل سکرین پھر روشن ہوئی اور اس پر شیزا کا میسج ایا. . 

کیا ہوا روشانی.  میرا منہ یہاں ہے.  روشانی موبائل کو دیکھتے ہوئے سوپ کا چمچ دوسری طرف لے کر جا رہی تھی مارک نے روشانی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے کہا.. 

ہاں.. وہ.  میں.. روشانی یک دم چونک گی.. مارک نے روشانی کے ہاتھ سے چمچ لیتے ہوئے سوپ کے پیالہ میں رکھا اور روشانی کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا.  

تمہیں مجھ پر شک ہو رہا ہے.. مارک  نے روشانی کی آنکھوں میں دیکھا.  

ہاں ہو سکتا ہے شک تمہارا ماضی کون سا پانی کی طرح صاف ہے.  روشانی  یہ کہتے ہوئے مارک کہ ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑایا.  

اچھا تو تم ایک دن میں مجھ پر شک کرنا شروع ہو گی.  مانا کہ میرا ماضی پانی کی طرح شفاف نہیں ہے لیکن جب سے تم مجھے ملی ہو میں تب سے کسی لڑکی سے نہیں ملا.. کیا یہ تمہارے لیے کافی نہیں.  مارک نے روشانی کی طرف دیکھا.  

نہیں کافی.  اور اگر کسی دن مجھے پتہ چلا کہ تم نے میرے ساتھ چیٹ کیا ہے اس دن روشانی تمہارے لیے مر گی.  روشانی کہتے ہوئے سوپ کا پیالہ پکڑے جانے کے لیے موڑی.. 

روشانی.. روشانی.. مارک نے درد بھری آواز دی روشانی نے فوراً پیچھے موڑ کر دیکھا تو مارک اپنے سر کو پکڑے بیھٹا تھا.. 

کیا.. ہوا.  مارک تم ٹھیک تو ہو نا.  روشانی نے جلدی سے سوپ کا پیالہ ٹیبل  پر رکھا اور مارک کی طرف بڑھی.  

مارک پلیز مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں.  روشانی مارک کی یوں طبیعت خراب ہونے پر گھبرا گی.  اور ڈاکٹر کو بلانے کے لیے جانے لگی تو مارک نے روشانی کو بازو سے پکڑتے ہوئے اپنی طرف کھینچا.. روشانی ایک جھٹکے کے ساتھ مارک کی بانہوں میں اگی.  

کیا ہوا اتنی پریشان کیوں ہو گی تھی. ابھی تو  کچھ اور کہہ رہی تھی. مارک نے روشانی کے بالوں میں ہاتھ پھرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا.  جو پھر سے سرخ ہو رہی تھی. 

چھوڑو مارک.. مجھے.. تم انتہائی بدتمیز بھی ہو.. ایسے بھلا کوئی کسی کو تنگ کرتا ہے اتنا گٹھیا مزاق.. روشانی فوراً اٹھ کھڑی ہوئی.. مارک اب روشانی کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا اسے روشانی کی ہر ادا پر پیار آرہا تھا.. 

میں اپنے کمرے میں ہوں اگر کچھ چاہیے تو مجھے بتا دینا.. روشانی اب مارک کہ پاس زیادہ دیر روک نہیں سکتی تھی جس طرح مارک پیار سے روشانی کی طرف دیکھ رہا تھا اسکی آنکھوں کی گھنی پلکیں روشانی کو موم کر رہی تھی.. روشانی یہ کہتے ہوئے جلدی سے مارک کے کمرے سے باہر اگی.  

➖➖➖➖➖➖➖➖

ہوٹل کے کمرے میں. کایا رات کے نشے میں دھت پڑا ہوا تھا جب اس کے موبائل پر کال آئی.. موبائل کی بیل پر اس نے نشے میں ڈوبی آنکھوں کو بمشکل کھول کر دیکھا تو اس کے گارڈ کی کال تھی جو اس نے ورکشاپ پر پہرہ دینے کے لئے رکھا تھا اس کی کال کو دیکھ کر کایا فوراً اٹھ کھڑا ہوا

کال اٹھانے سے پہلے اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو اس کے بیڈ پر ایک رشین لڑکی گہری  نیند سو رہی تھی جس کے ساتھ کایا نے ساری رات اپنی کامیابی کا منایا تھا.. اس سے نظر ہٹاتے کایا واش روم کی طرف چلا گیا.. 

ہاں بولو کیوں کال کی ہے.. کایا نے گارڈ کی کال اٹھاتے ہوئے اسے کہا.. 

واٹ.. یہ تم کیا کہہ رہے ہو.. گارڈ کی بات سنتے ہی. کایا کا بلڈ پریشر ساتویں آسمان کا چھو رہا تھا.. اور ہادی جس کو میں نے اپنے گھر بند کیا تھا وہ.  کایا کا اگلا سوال ہی ہادی کا تھا.. اور ہادی کے بارے میں. سنتے ہی. کایا نے غصے سے فون سامنے شیشے کو دے مارا.. 

یہ سب کیسے ہو گیا.. کیسے ہو گیا.. مارک تو تقریباً مر چکا تھا اور ہادی کو کون چھڑا کر لے گیا.. یہ سب سوچتے ہوئے کایا نے اپنا سر پکڑ لیا ابھی وہ اس صدمے سے باہر ہی نہیں آیا تھا کہ اس کے روم کی بیل ہوئی.. 

کایا کپڑے تبدیل کیے بغیر شارٹس میں تیزی سے چلتا ہوا دروازے کے پاس ایا.. دروازہ کھولتے ہی کایا کو سامنے ویٹر دکھائی دیا جس نے ایک ٹرے میں جس کے اوپر ویلوٹ کا کپڑا تھا اس کے اوپر رکھے ایک لیٹر کو اٹھا کر کایا کی طرف کیا.. 

سر یہ آپ کے لیے آیا ہے بتایا گیا ہے کہ یہ بہت ضروری ہے. اس لئے میں دینے اگیا.  ڈسٹرب کے لیے سوری.. ویٹر نے یہ کہتے ہوئے لیٹر کایا کو دیا اور وہاں سے چلا گیا.. 

کایا نے دروازہ بند کیا اور لیٹر کو کھولتے ہی اس کے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گی.. 

باپ کی نافرمانی کرکے تم نے بہت غلط کیا ہے اب  نتیجے کے لیے تیار رہو.  تم نے جو غلطی کی ہے اب اس کی سزا پورا لوس اینجلس کیلیفورنیا دیکھے گا.  

لیٹر پڑھتے ہی کایا کہ ہاتھ سے وہ پیپر گر گیا.. اس نے جلدی سے اپنا کوٹ اٹھایا اور پریشانی اور گھبراہٹ کی وجہ سے کایا نے اسی شاڑس کے اوپر کوٹ پہنا اور کمرے سے باہر اگیا.  

پاؤں میں جوتی نہیں تھی اور کوٹ کے نیچے شاڑس پہنی ہوئی تھی ہوٹل کا ہر فرد کایا کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا کچھ تو ہنس بھی رہے تھے.. 

سپین  پہنچتے ہی ہادی نے جیب سے فون نکلا اور اس پر ایڈریس دیکھا اور ساتھ ہی فون نمبر تھا.. جو مارک نے ہادی کو دیا تھا.. ہادی ائرپورٹ پر ہی کھڑا تھا اس نے اپنے فون سے وہ نمبر ملایا.  ٹھیک پانچ بیل کے بعد دوسری طرف ریسو ہوا.. 

ہائے…  مجھے مارک نے آپ کے پاس بھیجا ہے.. ہادی نے بات مکمل کی.. تو دوسری طرف کسی نسوانی آواز نے ملنے کے لیے ایڈریس بتایا اور فون بند کر دیا.. 

لڑکی…  ہادی نے کال بند ہوتے ہی فون کو دیکھا.. اور اپنے آئی برو اوپر کیے.. مارک سے اسی قسم کی امید تھی روشانی پاگل ہے.. یہ کہتے ہوئے ہادی نے موبائل کو دوبارہ پاکٹ میں رکھا اور ٹیکسی لیتے ہوئے لڑکی کی بتائی ہوئی جگہ کے لیے نکل گیا.. 

تھوڑی دیر بعد ہی ہادی سپین کے ساحل کے پاس بنا ریسٹورنٹ کے باہر کھڑا تھا.. اس کے موبائل پر میسج کی ٹون ہوئی.  ہادی نے. ٹیکسی والے کو پیسے دیے اور ساتھ ہی پاکٹ سے موبائل نکلا جس پر اسی نمبر سے میسج آیا.. 

ٹیبل نمبر 14..

 ہادی نے حیرت سے میسج کی طرف دیکھا.. 

مارک کے لوگ بھی اسی کی طرح  کے ہیں اسے بھی پہلے سے ہی پتہ چل گیا ہے کہ میں پہنچ گیا ہوں.. خیر دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے ہادی نے کہتے ہوئے موبائل  دوبارہ پاکٹ میں. ڈالا اور  ہوٹل کے اندر چلا گیا.  

ٹیبل نمبر 14 پر پہنچتے ہی اس نے کرسی پر  بیھٹی لڑکی کو دیکھا جس کی پشت ہادی کی. طرف تھی.. ہائی پونی کی ہوئی تھی جس سے اس کے سنہری بال نکل کر اس کی گردن پر گرے ہوئے تھے خود کو پورے کپڑوں میں. کور کیا ہوا تھا.. 

رائٹر. اے ایس راجپوت 

محبت میری جنون تیرا 

ہادی اپنے گلے کو کھنگارتے ہوئے ٹیبل کے پاس آیا.. 

ہائے ای ایم ہادی…. ہادی نے اس لڑکی کی طرف ہاتھ کیا.. جس نے اپنے چہرے کو ڈھانپا ہوا تھا

پلیز have a seat لڑکی نے ہادی کو ہاتھ ملانے کی بجائے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا.  

ہادی کافی شکڈ ہوا.  لیکن اس نے اس بات کو اگنور کیا.. اور کرسی پر بیٹھ گیا…. 

مارک نے آپ کو سب بتا دیا  ہو گا کہ اپ نے یہاں آکر کیا کرنا ہے.  لڑکی بول رہی تھی لیکن ہادی اس کی براؤن آنکھوں کو دیکھ رہا تھا جس میں سرخ لائنز پڑی ہوئی تھی جیسے وہ کئی راتوں سے سوئی نا ہو.. 

نہیں مجھے مارک نے نہیں بتایا اس نے کہا ہے کہ بس میں آپ سے مل لوں.. آپ سب مجھے بتا دے گی.. .

 مارک ہادی کو سب بتا چکا تھا لیکن اس لڑکی کے سامنے بیٹھ کر خود اس کی بات سننا چاہتا تھا.. 

ہممممم…. مجھے اپنے شوہر سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے.. لڑکی نے مختصر سا کہا.. 

تو آپ طلاق بھی تو لے سکتی ہیں… ہادی ایک ہاتھ کرسی پر. رکھے دوسرا بازوں کرسی کے ہینڈل پر کھے اپنے گال پر ہاتھ رکھے لڑکی کے ایک ایک لفظ پر غور کر رہا تھا.. 

نہیں لے سکتی میں اس سے طلاق.. لڑکی ہادی کی باتوں سے زچ ہو رہی تھی.. 

کیوں نہیں لے سکتی طلاق کوئی وجہ..  ہادی نے پھر سے سوال کر دیا.. 

یہ بہت لمبی سٹوری ہے… لڑکی نے ہادی کی طرف دیکھا جو مسلسل اس کی طرف دیکھ رہا تھا. . 

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

محبت میری جنون تیرا 

میرے پاس بہت وقت ہے آپ بتا سکتی ہیں.  ہادی نے لڑکی کو اپنی طرف دیکھتے ہوئے اگے سے جواب دیا.. 

ہادی کے جواب پر لڑکی نے اپنے کور کیے ہوئے منہ کے اندر دانتوں کو پیسا.. اور ساتھ ہی ایک گہرا سانس لیا.  

اور ساتھ ہی لڑکی نے اپنے چہرے سے پردہ ہٹایا جس سے اس نے چہرہ چھپایا ہوا تھا.  

لڑکی کے چہرے کو دیکھتے ہی ہادی یک دم شکڈ میں اگیا.. لڑکی کے چہرے پر چاقو سے کٹ لگے ہوئے تھے.. 

اہو ایم سوری…  ہادی اپنی کہی ہوئی باتوں پر شرمندہ ہو رہا تھا… 

اڑس اوکے.. یہ سب دیکھنے کے بعد اب آپ مجھ سے کوئی سوال نہیں کریں گے… 

اب آپ کیسے میری مدد کر سکتے ہیں یہ مجھے بتائیں اگر مارک نے آپ کو بھیجا ہے تو اس کا مطلب کہ آپ کے  پاس کوئی پلان ہو گا .. لڑکی نے دوبارہ اپنا چہرہ ڈھانپ لیا.. 

وہ. میں..  کیا آپ اپنا نام بتا دے گی تاکہ مجھے بات کرنے میں آسانی ہو.. ہادی نے بات کرتے ہوئے کہا.. 

شیزا…. شیزا نام ہے میرا.. 

شیزا… ہمممم…  دیکھو شیزا مجھے مارک نے جو کہا تھا تب وہ میں نہیں مان رہا تھا اور میں نے یہاں آنے کی اس لیے حامی  بھری تھی.  کہ میں آپ کو سمجھا دوں کہ ہر مسئلہ کا حل قتل وغارت نہیں ہوتا.. لیکن آپ کی حالت دیکھ کر مجھے اب لگا کہ مارک نے ٹھیک کہا تھا . 

آپ بے فکر ہو جائیں.. . وہ شخص آپ کو آج کے بعد تنگ نہیں کرے گا کیونکہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے گا.  شاید میرے ہاتھوں سے یہ پہلا قتل ہو گا..  ہادی یہ کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا.  

لیکن میرا یہاں سے جانا.  میں اب سپین نہیں رہ سکتی.  ہادی کو یوں اٹھاتا دیکھ کر شیزا نے اسکی کی طرف دیکھا.  

کیا مطلب آپ یہاں نہیں رہنا چاہتی.. ہادی نے حیرت سے کہا. کیونکہ مارک نے اسے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ. اسے اپنے ساتھ لوس اینجلس لے کر آئے.. 

ہاں. میں اب یہاں نہیں رہنا چاہتی کیوں کہ جب سب کام ہو جائے گا.. میرا یہاں رہنا مشکل ہو جائے گا.. اور ویسے بھی میں اس کے اس تشدد کے بعد اس کا گھر چھوڑ آئی ہوں..  شیزا نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا وہاں بھی زخم تھے .  

رائٹر… اے ایس راجپوت 

محبت میری جنون تیرا 

ہادی کو سمجھ نہیں ارہی تھی کہ وہ اب کیا کرے اس کا ایک ہاتھ کمر پر تھا اور دوسرے ہاتھ سے ماتھے کو مسل رہا تھا.. 

ہمممم.. اوکے.. ٹھیک ہے آپ کو اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا تو ٹھیک ہے لیکن اگر آپ ان کے ساتھ نہیں ہوں گی تو مجھے ان کی ڈیلی روٹین کا کیسے پتہ چلے گا وہ  کہاں جاتا ہے کس سے ملتا ہے یہ میں ایسے نہیں جان سکتا  اس کے لیے آپ کو ان کے ساتھ رہنا ہو گا

 اور دوسری بات جب آپ کے. شوہر کے ساتھ کچھ ایسا ہوا مطلب انکی موت تو اس وقت اپ کا گھر میں ہونا لازمی ہے نہیں تو صاف شک آپ پر جائے گا.  ہادی نے شیزا کی طرف دیکھا جو پلکیں چھپکائےہادی کی طرف دیکھ رہی تھی.. 

ٹھیک ہے… جیسا تم کہو.. شیزا نے مختصر سا جواب دیا اور چپ کر گی.  

ٹھیک ہے. ہمارا پھر کال پر رابطہ رہے گا.. مجھے اب اجازت دیں.  ہادی نے کہا اور جانے کے لیے موڑا.. 

کیا تم میری مدد نہیں کرو گے.  شیزا کی آواز پر ہادی نے پیچھے موڑ کر دیکھا.  

کہا تو ہے کہ آپ کا کام ہو جائے گا.. ہادی نے حیرت سے شیزا کو دیکھا.  جس نے آنکھوں کے اشارے سے اپنی ٹانگوں کی طرف اشارہ کیا.. 

کیا…. کیا. مطلب آپ چل نہیں سکتیں.. ہادی ہکا بکا وہاں کھڑا شیزا کو دیکھ رہا تھا اتنی پیاری لڑکی ٹانگوں سے معذور ہے.. 

ہاں کچھ ٹائم کے لیے.  جب میرے شوہر. نے مجھ پر تشدد کیا تو اس نے مجھے سیڑھیوں سے دھکا دیا تھا جس سے میری ٹانگوں پر چوٹیں لگی اور میں وقتی طور پر چل نہیں سکتی جیسے زخم ٹھیک ہوں گے میں چل سکوں گی.  

شیزا نے اپنی ٹانگوں پر ہاتھ پھرتے ہوئے ہادی سے بات کر رہی تھی.. 

اہو.. اچھا.. ہادی نے گہرا سانس لیا.. آئیں میں آپ کو ویل چیئر پر بیٹھنے پر آپ کی مدد کرتا ہوں ہادی نے ہاتھ آگے کیا.. شیزا نے ایک نظر ہادی پر ڈالی اور پھر ہادی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی لیکن گھٹنوں پر زخم کی وجہ سے وہ اپنی ٹانگوں پر زور نہیں دے پائی اور گرنے ہی والی تھی کہ ہادی نے اگے بڑھ کر شیزا کو کمر سے تھما.. شیزا اب ہادی کے سینے کے ساتھ لگی ہوئی تھی.  

ایک لمحہ کے لیے ہادی سکت ہو گیا…. مجھے چیئر پر بیٹھنا ہے شیزا کی آواز پر ہادی چونک گیا.. 

اہو ایم سوری…  ہادی نے شیزا کو کمر سے تھامتے ہوئے پاس پڑی چیئر پر بیھٹا دیا.. 

چلیں میں آپ کو گاڑی تک چھوڑ دیتا ہوں.. ہادی یہ کہتے ہوئے شیزا کی ویل چیئر کو تھماے ہوئے ریسٹورنٹ سے باہر کی طرف آیا.. 

آپ کی گاڑی…  ہادی نے. جب باہر  کوئی گاڑی نہیں دیکھی تو شیزا کو کہا جو اپنے فون پر مصروف تھی.. 

بس آنے والی ہے.. میں نے کال کی ہے ڈرائیور لے کر آرہا ہے.. شیزا موبائل پر میسج کرتے ہوئے ہادی کو جواب دیا.. 

ہمممم.. اوکے.. ہادی نے اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اور سڑک کی طرف دیکھا جہاں سے گاڑی نے آنا تھا.. 

تھوڑی دیر میں بلیک کلر کی گاڑی شیزا کے پاس اکر روکی.. گاڑی سے ڈرائیور باہر آیا.. 

ٹھیک ہے. مجھے بتا دینا کیا کرنا ہے.  یہ کہتے ہوئے شیزا نے اپنے ڈرائیور کی طرف دیکھا جو اس کی طرف آرہا تھا.. 

ہادی نے شیزا کی  بات کا جواب نہیں دیا وہ ڈرائیور کی طرف دیکھ رہا تھا جو ایک بلیک مین تھا.  اس نے آتے ہی ہادی کے ہاتھوں سے شیزا کی ویل چیئر لی اور گاڑی کی طرف چلا گیا.  ہادی وہی کھڑا شیزا اور اس کے ڈرائیور کو دیکھ رہا تھا.. 

ڈرائیور نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور شیزا کو دونوں بازو سے پکڑتے ہوئے اٹھانے کی کوشش کی.. 

روکو…. ہادی جو یہ سب دیکھ رہا تھا اس نے فوراً ڈرائیور کو روکنے کے لیے آواز دی.. ہادی کی آواز پر شیزا نے گردن موڑ کر ہادی کی طرف دیکھا جو اب اس کے پاس اگیا تھا.. 

چھوڑو تم .. جاؤ گاڑی ڈرائیو کرو جو تمہارا کام ہے. .. ہادی نے ڈرائیور کو کہا اور وہ وہاں سے ہٹ گیا اور گاڑی کی ڈرائیونگ والی سیٹ کی طرف چلا گیا.. 

ہادی نے شیزا کو سہارا دیا اور گاڑی میں بیٹھا دیا.. ڈرائیور سے ڈرائیونگ کا کام لیا جائے تو زیادہ بہتر رہتا ہے… ہادی کی بات پر شیزا ہادی کو غور سے دیکھ رہی تھی.  لیکن میں آئی بھی ایسے ہی تھی مجھے کوئی پرابلم نہیں ہے. اپنے ڈرائیور سے وہ نائس مین ہے.. 

شیزا کے جواب پر ہادی چونک گیا…  وہ میں اس لیے کہا ہے کہ مارک نے مجھے آپ کی خاص دیکھ بھال کا کہا ہے اس لیے.. ہادی نے یہ کہتے ہوئے گاڑی کا دروازہ بند کرنے لگا ہی تھا کہ روک گیا.. 

آپ ابھی کہاں رہ رہی ہیں.. مجھے آپ نے بتایا نہیں.  ہادی نے دوبارہ گاڑی کا دروازہ کھولا.  

میرا یہاں ایک اپنا چھوٹا گھر ہے وہاں ہی ہوں.. شیزا نے جواب دیا.. 

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

محبت میری جنون تیرا. 

تو میں ایسا کرتا ہوں کہ آپ کے ساتھ ہی چلتا ہوں اس طرح آپ کے گھر کا بھی پتہ چل جائے گا.. اس سے پہلے شیزا کچھ کہتی ہادی گاڑی میں بیٹھ چکا تھا.. 

کیا مارک نے یہ بھی کہا تھا.. شیزا نے ہادی کی. طرف دیکھا.. 

بلکل…  گاڑی چلاو.. ہادی نے مختصر سا جواب دیا اور پھر موبائل پر لگ گیا.. شیزا بھی تک ہادی کی طرف دیکھ رہی تھی.  لیکن ہادی نے اپنی آنکھیں اوپر نہیں کی وہ جانتا تھا کہ شیزا اسے ابھی تک دیکھ رہی ہے اور وہ کیوں نا ایسے دیکھتی ایک ملاقات میں ہی وہ اس سے ایسا رویہ رکھ رہا تھا جیسے وہ صدیوں سے اس کا مالک ہو.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

مارک اب کافی حد تک ٹھیک ہو گیا تھا اس نے جلدی ہی ریکور کر لیا تھا.. لیکن ابھی تک وہ ڈاکٹر کے گھر ہی تھا اور روشانی بھی وہی تھی.. 

روشانی میں بور ہو گیا ہوں یہ روزانہ سوپ پی پی کر کچھ اور بنانا نہیں آتا تمہیں اس سوپ کے علاوہ.. مارک نے سوپ کا چمچ ہاتھ سے پیچھے کرتے ہوئے کہا..

 مارک کے یوں سوپ نا پینے پر روشانی نے اٹھ کر سوپ ٹیبل پر رکھا اور موبائل اٹھاتے ہوئے مارک کی طرف دیکھا..  

پیزا آڈر کر دوں…  کیوں کہ یہ سوپ بھی تو میں آڈر پر ہی منگواتی تھی.. تم کیا سمجھے تھے کہ میں تمہارے پیار میں اتنی پاگل ہو جاؤ گی کہ خود سے سوپ بنا بنا کر تمہیں پلاو گی.. 

روشانی کی بات پر مارک کی آنکھیں پھیل گی.. 

 سیریسلی روشانی تمہیں سوپ بھی نہیں بنانا آتا.. میں تو اس خوش فہمی تھا کہ تم اپنے ہاتھوں سے سوپ بنا کر دے رہی ہو.. 

مارک روشانی کی بات پر مکمل طور پر شکڈ ہو چکا تھا.. 

ہاں…  تو.. نہیں آتا کچھ بنانا.. یہ سب کام ہادی کرتا تھا…  کھانا بنانا وغیرہ… اور ویسے بھی تم نے کیا سمجھا کہ میں وہ روایتی عورتوں کی طرح تمہاری سیوا کروں گی.. یہ ماڈرن دور ہے جب یہاں سب باہر سے مل رہا ہے تو گھر میں بنانے کی کیا ضرورت ہے.. شیزا موبائل پر آڈر کرتے ہوئے مارک کی  طرف دیکھے بغیر بات کر رہی تھی.. 

اچھا…  تو سب  کچھ باہر سے مل جاتا ہے.. اس مطلب کہ میں پھر اپنی باہر والیوں کو پھر سے بلا لوں.. کیوں کہ باہر سے تو سب ملتا ہے.. 

مارک کی بات پر روشانی نے موبائل سے نظریں ہٹاتے ہوئے خونخوار نظروں سے مارک کی طرف دیکھا.. 

کیا کہا.. ہاں.. زرا پھر سے بولنا… روشانی نے بات کرتے ہوئے مارک کی ٹانگ کو زور سے دبایا جہاں زخم پر پٹی ہوئی تھی.. 

افففف.. روشانی یار کیا کر رہی ہو درد ہو رہا ہے.. مارک درد سے بول اٹھا.. 

بس.. ہو گیا.. اب جاؤ گے باہر کسی لڑکی کی. طرف.. روشانی نے دوبارہ زور دیا.. 

ا چھا.اچھا.. نہیں جاتا.. بس چھوڑ دو.  مارک نے روشانی کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے پیچھے کرنے. کی کوشش کر رہا تھا.. 

ہمممم.. ٹھیک ہے اب.. اور ہاں کبھی سوچنا بھی نا نہیں تو تمہاری موت میرے ہاتھوں سے ہی ہو گی.. 

رائٹر… اے ایس راجپوت 

محبت میری جنون تیرا 

روشانی کہتے ہوئے اٹھی تھی کہ مارک نے روشانی کا ہاتھ پکڑ لیا.. 

اگر موت اتنی پیاری ہو.. تو. میں سو بار مرنے کو تیار ہوں.. اور ساتھ ہی مارک نے اپنے ہونٹ روشانی کے ہاتھ پر رکھ دیے.. 

تم بھی نا مارک.. چھوڑو میرا ہاتھ.. میں تمہاری میڈیسن لے کر آتی ہوں. روشانی مارک سے ہاتھ چھڑاتے ہوئے باہر کی طرف چلی گئی.. 

روشانی کے جاتے ہی مارک کے موبائل پر کال آئی.  مارک بڑے پیار سے مسکراتے ہوئے روشانی کو جاتے دیکھ رہا تھا جب اس کو فون کی بیل سنائی دی.. 

اس نے جلدی سے اٹھ کر باہر کی طرف دیکھا روشانی جا چکی تھی.. 

مارک  بیڈ سے نیچے اترا اور جاکر دروازے کو لاک کیا.. اور ساتھ ہی کال اٹھائی.. 

ہیلو.. جی.. میں ٹھیک ہوں اب..  نہیں میں ابھی نہیں اسکتا… ہاں وہ. بھی ٹھیک ہے…. نہیں اتنی جلدی نہیں.. ا بھی تو وہ مشکل سے مانی ہے میں مزید اس پر دباؤ نہیں ڈال سکتا.. تھوڑا انتظار کر لیں.. جیسے کام ہو جائے گا میں آپ کو بتا دوں گا .  ہر کام میں دیر لگتی ہے اور یہ کام بھی اتنا آسان نہیں ہے… ہم اس کے  بارے میں  بعد میں بات کرتے ہیں…  

ابھی مارک بات ہی کر رہا تھا کہ روشنائی نے دروازے پر دستک دی.. 

اوکے میں فون رکھتا ہوں.. فری ہو کر بات کرتا ہوں.. مارک نے جلدی سے کال بند کر دی.. اس نے جلدی سے فون ٹیبل پر رکھا.. 

مارک…   روشانی نے دوبارہ دستک دی.. 

مارک چلتا ہوا دروازے کے پاس آیا.. اور دروازہ کھولا.. 

تم نے دروازہ کیوں بند کیا..کیا کر رہے تھے تم.. روشانی نے اندر آتے ہی اپنی نظر کمرے  کے چاروں طرف ڈالتے ہوئے کمرے کا جائزہ لیا.. 

روشانی…  کمال ہے.. ابھی تم کہہ رہی تھی کہ تم. روایتی عورتوں کی طرح نہیں ہو اور اب ایک بیوی کی طرح ری ایکٹ کر رہی ہو.. میں کپڑے تبدیل کرنے کے لیے اٹھا تھا اس لئے کمرہ لاک کر دیا.. اب کھولے دروازہ کے ساتھ تو کپڑے تبدیل نہیں سکتا.. 

مارک نے بڑے اچھے سے صورتحال کو سنبھال لیا.. اور وہ ہمیشہ ایسے ہی بغیر شک پیدا کیے صورتحال کو اپنے ہاتھ میں کر لیتا تھا..لیکن اس بار اس کے سامنے روشانی تھی جو وہ بھول گیا تھا. 

رائٹر…  اے ایس راجپوت 

محبت میری جنون تیرا 

اہو.. اچھا.. ٹھیک ہے.. میں سمجھی…   ابھی روشانی پورا بول نہیں پائی تھی کہ مارک روشانی کے قریب اچکا تھا…. 

تمہارا یہی شک اور پیار میری جان لے جاتا ہے.. مارک نے روشانی کے بالوں کو چھوتے ہوئے اس کی آنکھوں میں. دیکھا…. 

اور تم سے بڑا چلاک میں نے اپنی زندگی میں. نہیں دیکھا. جو بات کو اچھے سے ٹال لیتا ہے.. روشانی نے اپنا ہاتھ مارک کے سینے پر رکھتے ہوئے اسے پیچھے کیا.. 

روشانی کی بات پر مارک مسکرا دیا.. 

تمہاری یہ ہی ادائیں.. جس پر میں فدا ہو گیا تھا.. مارک روشانی کی طرف دیکھ رہا تھا جو ٹیبل پر میڈیسن رکھ رہی تھی.. 

میں کل چلی جاؤں گی تم اب کافی بہتر ہواس لیے اپنے ہوٹل چلے جانا.. اور ہاں کمرے میں تمہارے کپڑے نہیں ہیں جاتے ہوئے مارکیٹ سے لے لینا… 

روشانی نے مارک کی. طرف دیکھے بغیر باہر نی طرف نکل گی.. 

افففف.  پھنس گیا مارک..  کمرے میں تو کوئی الماری ہی نہیں ہے تو کپڑے کہاں سے آئیں گے… 

اب  روشانی کو ماننا بھی پڑے گا..  مارک کو پتہ چل گیا تھا کہ روشانی پر اس کا یہ بہانہ کی نہیں چلا..

کایا گاڑی لے کر جلدی سے ورکشاپ پہنچا گاڑی میں بیٹھے ہی اس نے اپنی ورکشاپ کو ایک پرانے کھنڈر بنا دیکھا.. جہاں کچھ گارڈز کی لاشیں جل کی راکھ بن چکی تھیں…  کایا نے غصے سے سٹیرنگ پر ہاتھ مارا اور گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے گھر کی طرف روانہ ہو گیا.. 

اپنے بنگلہ کے پاس پہنچتے ہی اس نے گاڑی باہر کھڑی کی اور جیسے گیٹ کے اندر آیا وہاں اس کے دونوں سکیورٹی گارڈز کی لاشیں پڑی تھیں جن کو وہ سالوں سے پال رہا تھا 

ان کو دیکھتے ہوئے آگے اندر کی طرف گیا تو وہاں بھی چار کے چار بندوں کی لاشیں پڑی تھی جن کی باڈی اور پاورفل بنانے کے لیے کایا نے لاکھوں پیسا خرچ کیا تھا.. 

یہ سب دیکھنے کے بعد جب کایا اپنے کمرے میں. گیا جہاں اس نے ہادی کو باندھ کر رکھا تھا وہاں اب رسیوں کے سوا کچھ نہیں تھا.. کایا غصے سے آگ بگولہ ہو رہا تھا.. وہ جاکر کرسی پر بیٹھ گیا… 

اس کے آنکھوں کے سامنے مارک کا وہ لیٹر ارہا تھا جس میں اسے کھولی دھمکی دی تھی.. اپنے دانتوں کو چباتے ہوئے اپنے ہاتھوں کی مٹھی بنائے اپنے غصے کو کنٹرول کر رہا تھا… 

کایا کے ہاتھ اب خالی ہو چکے تھے روشانی پہلے ہی اس کے پاس سے چلی گی تھی.. ہادی کو اس نے خود اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا تھا اور جو گارڈ اس نے اپنی حفاظت کے لئے تیار کیے تھے اب ان کی لاشیں باہر پڑی تھیں… 

مایوسی اور ہار کایا کو پاگل کر رہی تھی.. خود کے غصے پر قابو پاتے ہوئے اس نے اپنے ٹیبل کا دراز کھولا اور اس میں سے دوسرا فون نکلا اپنا فون تو وہ ہوٹل کے. واش روم میں ہی توڑ آیا تھا.. 

فون نکالتے ہی کایا نے ایک نمبر ملایا فون ریسو ہوتے ہی کایا نے فون کرنے والے کو ریسٹورنٹ میں آنے کا کہا…  

مارک اب  میں لڑائی تمہارے مطابق ہی چلو گا اور اس میں ہار تمہاری ہو گی اور اس ہار کو تم خود اپنے گلے ڈالو گے..  کایا نے فون ٹیبل پر رکھا اور کرسی سے ٹیک لگا کر چہرے پر شیطانی مسکراہٹ لیے مارک کو برباد کرنے کا پلان بنا چکا تھا.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

صبح ہوتے ہی اذعام نے اپنے کمرے کے کونے کونے کی تلاشی کی لیکن اسے وہاں ایسا کچھ نظر نہیں آیا جس سے وہ تہہ خانے کا دروازہ کھول سکے..  

اذعام مایوسی چہرے پر لیے بیڈ پر. اکر بیٹھ گیا.. تھوڑی دیر بعد اس کے. دماغ میں اپنے استاد کی بات گھوم گی جب وہ ایک  مشینری پرزے بنانے والی فیکٹری میں کام کرتا تھا.. 

جب بھی کسی مصیبت میں پھنس جاؤ تو سب سے پہلے اپنے آپ پر اعتماد کرو اور خود کو اس قابل سمجھو کہ تم اپنی پریشانی یا مصبیت کو خود حل کرسکتے ہو.. کسی دوسرے کے ہاتھ کی طرف دیکھنے کی  بجائے… تو پھر دیکھنا مصیبت اور پریشانی کیسے حل یو جاتی.. 

اذعام نے گہرا سانس لیا اور اپنے بیڈ سے اٹھا اور کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے باہر اگیا.. باہر آتے ہی اذعام  سب سے پہلے ڈرائینگ روم کی طرف گیا جہاں پری کچھ لوگوں کے ساتھ بیھٹی باتیں کر رہی تھی…. پری کو دیکھتے ہی اذعام فوراً پیچھے ہٹ گیا.. 

اگے چلتے ہوئے اذعام دو کمرے چھوڑ کر عزل کے کمرے کی طرف گیا.. وہ جانتا تھا کہ جو وہ کرنے جا رہا ہے اس سے یا تو وہ مر جائے گا یا بچ جائے گا کیونکہ کہ عزل کے کمرے میں وہ سب کچھ تھا جو اذعام کو چاہیے تھا.  

اذعام نے آرام سے دروازہ کھولا تو عزل اپنے بستر پر گہری نیند سو رہا تھا.  ساری رات وہ پری کے کام کرکے صبح کے وقت سو جاتا تھا تاکہ پھر دوبارہ سے اپنا کام چاک وچوبند طریقہ سے کر سکے.. 

اذعام کے پاس وقت بہت کم تھا اسے ہر حال میں اگلی صبح کو سونیا کو لے کر  نکلنا تھا.. جان ہتھیلی پر رکھے وہ عزل کے کمرے میں داخل ہو چکا تھا… 

دبے قدموں کے ساتھ وہ عزل کی الماری کے پاس پہنچا .. اذعام نے بڑی احتیاط سے عزل کی الماری کھولی لیکن الماری کھولتے ہی اس نے ہلکی سی آواز دی اور ساتھ ہی عزل نے کروٹ لی.. 

عزل کی کروٹ لیتے ہی اذعام فوراً زمین پر لیٹ گیا کمرے میں روشنی نہیں تھی عزل نے لائٹ آف کی ہوئی تھی.. جب اذعام نے دیکھا کہ عزل کروٹ لے کر پھر گہری نیند سو گیا ہے اس نے جلدی سے عزل کی الماری کھولی.. الماری کھولتے ہی اس کے سامنے مختلف اسلحے پڑے نظر آئے.  

لیکن اذعام کو اس میں سے ایک بھی نہیں چلانا آتا تھا.. 

اس نے  الماری کے اندر ادھر اُدھر نظر دوڑائی کہ کچھ اور مل جائے جس سے وہ لاک کھول سکے.. اچانک اس کی نظر چمک دار چیز پر پڑی جس کے اوپر کپڑا تھا.. 

اذعام نے گردن موڑ کر عزل کو دوبارہ دیکھا جو ابھی تک سو رہا تھا.  اذعام نے جلدی سے کپڑا ہٹایا تو نیچے تیز دھار والا چاقو پڑا ہوا تھا.. اذعام نے جلدی سے وہ چاقو اٹھایا اور اسے اپنی پہنی ہوئی جراب میں رکھ لیا  الماری کو بند کرتے وہ  ابھی جانے کے لیے موڑا ہی تھا کہ اس کی نظر ٹیبل پر پڑی جہاں پر ایک لوہے کا سکیل پڑا ہوا تھا.. 

اذعام جلدی سے اگے بڑھا اور سکیل اٹھا کر دروازے کی طرف بڑھانے والا تھا کہ اسے پری کے جوتوں کی آواز سنائی دی جو چلتے ہوئے عزل کے کمرے کی طرف ارہی تھی.. 

آواز سنتے ہی اذعام کے پاؤں تلے زمین نکل گی.. اس کو ٹھنڈے پسینے آنا شروع ہوگئے.. وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پری اتنی جلدی فارغ ہو جائے گی اور وہ بھی عزل کے پاس آئے گی.. اذعام نے کمرے کے چاروں طرف دیکھا سوائے واش روم کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آیا . اور واش روم میں چھپنا بےوقوفی تھی.  

پری کے قدموں کی آواز قریب آتی جارہی تھی.. اذعام فوراً دروازے سے  ہٹا اور جاکر عزل کے بیڈ کے نیچے لیٹ گیا.  اس کے دل کی دھڑکن اتنی تیز تھی جیسے اس کا دل سینہ پھاڑ کر باہر آجائے گا.. 

پری عزل کے کمرے میں آتے ہی اسنے لائٹ آن کی.. لائٹ آن ہوتے ہی عزل نے فوراً اپنی آنکھیں ایسی کھول لی جیسے وہ سویا ہی نا ہو.. 

عزل اٹھو.. ہمیں جانا ہے.. ایک نئی جگہ کا پتہ چلا ہے جہاں آسانی سے  چھوٹی عمر کے لڑکے اور لڑکیاں مل سکتی ہیں.. آج رات ویسے بھی خاص لوگ آرہے ہیں ان کے لیے ہمیں کچھ خاص مال تیار کرنا ہو گا.. پری نے عزل کو کہا جو اٹھ کر اپنا ایک بازو اپنے سر کے نیچے رکھے پری کی طرف دیکھ رہا تھا سرخ رنگ کی لونگ فراک پہنے وہ عزل کے پاس کھڑی تھی.. 

عزل پری کو ایسے دیکھتے ہی اس نے اپنا ہاتھ اگے کیا.. 

کبھی ہمارے لیے بھی خاص وقت نکال لیا کرو اتنے دنوں سے تو تم آئی نہیں میرے لیے خاص بن کر.. عزل نے اگے بڑھ کر پری کے بازو سے پکڑتے ہوئے اسے اپنی طرف کھینچا پری گرتے ہوئے عزل کے اوپر اگی.. 

عزل میں نے کتنی بار کہا ہے کہ کام کہ وقت ایسی حرکتیں نا کیا کرو.. پری نے غصے سے عزل کی طرف دیکھا… عزل نے مسکراتے ہوئے اٹھتے ہوئے پری کے ہونٹ پر اپنے ہونٹ رکھ دیے.. 

اوکے ڈارلنگ.. جو حکم.. پر یاد رکھنا کام کے بعد ہماری محفل ہو گی.. تم چلو میں تیار ہو کر آتا ہوں.. عزل اب بیڈ سے اٹھ چکا تھا.. پری نے عزل کی طرف مسکرا کر دیکھا اور کمرے سے باہر اگی.. 

عزل کی جوتی ایک بیڈ کے نیچے پڑی تھی اور ایک. باہر اپنی جگہ پر پڑی تھی.. 

اذعام جو بیڈ کے نیچے لیٹا پری اور عزل کی باتیں سن رہا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے بچ جانے کی دعائیں کر رہا تھا جب اس کے کان میں عزل کی آواز پڑی.. 

کہاں چلا گیا میرا جوتا.. عزل ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا اذعام اسکے پاؤں کی حرکات سے پتہ کر سکتا تھا.. 

اذعام کی نظر جب اپنے بازو کے پاس پڑے عزل کے جوتے پر گی.. تو اسکی جان ہی نکل گی.. عزل جب اپنا جوتا ڈھونڈنے بیڈ کے نیچے دیکھے گا تو اسے اذعام کا پتہ چل جائے گا.. 

اذعام نے جلدی سے ادھا جوتا بیڈ سے باہر کر دیا…  

یہ پڑا ہوا ہے…  عزل دوسرا جوتا پہنتے ہوئے واش روم کی طرف چلا گیا.. اذعام نے واش روم کے دروازہ بند ہونے کی آواز سن کر جلدی سے بیڈ کے نیچے سے نکل آیا.. 

اذعام نے عزل کے کمرے کا دروازہ کھلا دیکھا تو باہر جانے کے لیے بھاگا…. اپنے کمرے میں پہنچتے ہی اس نے گہرا سانس لیا.. آج وہ بال بال بچ گیا تھا.. 

لیکن جس کام سے وہ گیا تھا وہ اس کا ہو گیا تھا اذعام کو اسی بات کی خوشی تھی.. اسی خوشی میں اسے اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ اس کی ٹانگ پر تیز چاقو لگ چکا ہے جس سے خون بہہ رہا ہے.. اس نے جب چاقو نکالنے کے لیے اپنی ٹانگ اوپر کی تو اسے پتہ چلا.. 

لیکن اذعام کو اس کی بھی پرواہ نہیں تھی اذعام نے پہلے دونوں چیزوں کو کمرے میں کسی سیو جگہ پر چھپایا اور اس کے بعد واش روم میں. اپنی ٹانگ پر بہتے ہوئے خون کو دھونے چلا گیا.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖

صبح کے پانچ بج رہے تھے.. یہ وہ وقت تھا جب پری اور عزل ساری رات معصوم لڑکیوں کو اذیت دے کر خود آرام سے سو جاتے تھے… 

اذعام ساری رات نہیں سو سکا اور نا ہی وہ رات کو سوتا تھا.. پانچ بجتے ہی اس نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا اور بغیر کوئی آواز کیے کمرے سے باہر نکل آیا… 

چاروں طرف دیکھتے ہوئے وہ بڑی ہوشیاری کے ساتھ آگے کی طرف بڑھ رہا تھا.   کچن میں آتے ہی اس نے کچن کا دروازہ کھولا جو باہر گارڈن کی طرف جاتا تھا..   باہر اتے ہی اذعام نے کچن کا دروازہ ویسے ہی دوبارہ بند کر دیا.. 

اور بھاگتا ہوا تہہ خانے کی طرف چلا گیا.. تہہ خانے کے پاس پہنچتے ہی اذعام نے اپنے پہنے ہوئے ٹروزر کی جیب سے چاقو نکلا اور تہہ خانے کے دروازے کو جو لکڑی کا بنا ہوا تھا چاقو کی نوک سے اس میں سوراخ کرنے لگ گیا.. 

سوراخ کرتے ہوئے وہ اپنے چاروں طرف دیکھ رہا تھا کہ کوئی اچانک نا آجائے.. 

اذعام نے جب دروازے کے لاک والی جگہ پر گہرا سوراخ کر لیا جس سے اندر لگا لاک صاف دکھائی دے رہا تھا اس کے بعد اذعام نے جو لوہے کا سکیل عزل کی ٹیبل سے اٹھایا تھا اسے دروازے کے آر پار کرتے ہوئے زور لگایا جس سے تھوڑی دیر بعد ہی لاک لکڑی کے دروازے سے باہر اگیا… 

خود کو کامیاب ہوتا دیکھ کر اذعام کو کچھ سکون ملا بس اب وہ سونیا کو لے کر جلدی سے یہاں سے نکلنا چاہتا تھا.. دروازہ کھولتے ہی اذعام تیزی سے تہہ خانے کی سیڑھیاں اترتے نچے آرہا تھا.. 

نیچے آتے ہی اس نے اپنے سامنے جو دیکھا اسے دکھتے ہی اس کی جسم سے روح نکلتے ہوئے محسوس ہوئی اذعام ایک منٹ میں پسینے میں نہا گیا.. اس کا رنگ پیلا پڑ گیا.. 

اذعام کے سامنے پری اور عزل کھڑے ہوئے تھے.. پری نے سونیا کو اب رسیوں سے باندھا ہوا تھا.. اور عزل پری سے  کچھ فاصلے پر کھڑا تھا.. اذعام ان دونوں کو دیکھتے ہی اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ارہا تھا کہ اتنی احتیاط کرنے کے باوجود ان لوگوں کو کیسے پتہ چلا.. 

کیا دیکھ رہے ہو.. ہمیں یہاں دیکھ کر تمہیں اچھا نہیں لگا کیا.. عزل بات کرتے ہوئے آگے کی طرف بڑھا اس کے ہاتھ میں پسٹل تھی.. 

تمہیں کیا لگا کہ تم جو کچھ کر رہے ہو وہ ہمیں پتہ نہیں چلے گا.  اگر ہم اس کام میں پڑے ہیں تو ہمیں سوتے ہوئے  بھی اپنی آنکھیں کھولی رکھنی پڑتی ہیں.. 

اب تم سوچ رہے ہو گئے کہ ہمیں کیسے پتہ چلا تو جب تم میرے کمرے سے باہر نکل  آئے تھے تب تمہارے پاؤں سے خون نکل رہا تھا شاید کوئی جلدی میں ٹھکر لگ گی ہو بس اسی خون نے ہمیں تمہارے ارادوں کا پتہ چلایا…  

عزل کہ منہ سے یہ بات سن کر اذعام کو کچھ حوصلہ ہوا کہ عزل کو یہ نہیں پتہ کہ میں نے. اس کی الماری سے چاقو چوری کیا ہے…  

تو پھر کیا خیال ہے عزل دونوں کو ایک ساتھ ہی مار نا دیا جائے.. دونوں کی جوڑی بھی تو طوطا منیا کی طرح ہے تو دونوں کو ہی ایک بار ایک جھٹکے میں مار دیتے ہیں.. 

پری  سونیا کے پاس کرسی پر بیھٹی اذعام کی طرف دیکھ رہی تھی اذعام نے پری کی طرف دیکھا اور پھر سونیا کی طرف جس کی آنکھوں میں التجا تھی کہ وہ کہہ رہی ہو اذعام کو کہ. اس نے یہ کیا کر دیا ہے..   بھاگ جاؤ یہاں سے.. لیکن اذعام سونیا کے بغیر کیسے جا سکتا تھا.. 

اذعام نے ایک بار پھر  عزل کی طرف دیکھا..  

مارنا ہے نا مجھے مار دو لیکن میں یہاں سے سونیا آپی کو لے کر ہی جاؤں گا.. نہیں تو میں مر جاؤں گا.. اذعام نے عزل کی طرف غصے سے دیکھا.. 

اپنی موت کو سامنے دیکھتے ہوئے اذعام کو اب کسی قسم کا خوف نہیں آرہا تھا.. وہ عزل کے سامنے ڈٹ کر کھڑا تھا.. 

تم لوگ اور کیا کر سکتے ہو مارنے کے سواء بزدل ہو تم لوگ جو مجھ جیسے حالات کے ستائے ہوئے مجبور بچوں کو پکڑ کر انہیں اذیت دیتے ہو.. اور خود کو بڑے بہادر سمجھتے ہو.. 

تم لوگوں سے بڑھ کر کوئی کمزور نہیں ہے. کوئی بزدل نہیں ہے تم سب ایک جنگلی ہو… بے حس ہو.. تمہاری موت کتوں کی موت سے بھی بری  ہو گی.. اگر تمہارے اندر ہمت ہے تو مارو مجھے…  اذعام مسلسل بول رہا تھا جو دو سالوں سے پری کی قید میں تھا آج اس نے کھول کر اپنے اندر کا غبار نکالا.. 

لو میں کھڑا ہوں مار دو مجھے….. مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا.. میں مر اس دن ہی گیا تھا جس دن تم نے مجھے سہارا دے کر جھوٹے پیار کا ڈرامہ رچا کر میری زندگی کو برباد کر دیا تھا میں اسی رات مر چکا تھا.. 

آج تم ایک دس سال کے بچے کو مار کر خود کو ٹھیک ثابت نہیں کرسکتے تمہیں ایک نا ایک دن ہر چیز کا حسب دینا ہو گا..  

اس سے پہلے اذعام کچھ اور کہتا.  عزل نے اگے بڑھ کر اذعام کے منہ پر تھپڑ دے مارا.. 

تھپڑ پڑتے ہی اذعام رونے کی بجائے ہنس پڑا…  

ہنس رہے ہو اگے سے.. عزل نے ایک اور تھپڑ اذعام کو مارا.. اذعام کی باتیں عزل اور پری کو تیر کی طرح لگ رہی تھیں.. 

عزل اب اذعام کے بہت قریب اچکا تھا… اس نے پسٹل اذعام کے سینے پر رکھا.. پری بھی کرسی سے اٹھ گی.. سونیا کی آنکھوں میں. خوف اتر آیا.. اس کے منہ پر پٹی بندھی ہوئی تھی وہ بولنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس کے منہ سے آواز باہر نہیں نکل پا رہی تھی.. 

پتہ نہیں کیا سمجھتا ہے خود کو جیسے میں بات نہیں کروں گی تو مر جاؤں گی.. مجھ سے باتیں چھپا رہا ہے کمرہ بند کر کے… اور تو اور وہ مسٹر ہادی وہ بھی سپین جا کر مجھے ایسے بھول گیا ہے کہ جیسے میں اس کی کچھ لگتی ہی نہیں ہوں..  

روشانی اپنے فلیٹ پر آتے ہی خود سے بولتے ہوئے اپنا غصہ اتار رہی تھی مارک کا جھوٹ بولنا اسے ہضم نہیں ہو رہا تھا.  روشانی کے دماغ میں سو وسوسے آرہے تھے.. 

کسی کو میری پرواہ نہیں ہے..  ایسا ہے تو ایسے ہی ٹھیک ہے.. میں بھی کیوں لو ٹیشن مارک صاحب کی جو مرضی کرنا ہے کرتا پھرے.

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

اتنے دن خود بھی سوپ پی پی کر میرے منہ کو ذائقہ خراب ہو گیا ہے.. چل بھی روشانی کسی اچھے سے ریسٹورنٹ میں جاکر کھانا کھاتی ہوں.. 

روشانی نے الماری سے سرخ رنگ کی سکرٹ نکالی… اور شیشے کے سامنے جاکر کھڑی ہو گی.. 

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

ہمممم.. یہ زیادہ چھوٹی ہے…  سکرٹ روشانی کے گھٹنوں تک آرہی تھی.. اس نے سکرٹ کو بیڈ پر پھینکا اور الماری سے بلیو کلر کی پینٹ شرٹ نکالی.  

ہاں یہ ٹھیک رہے گی.. پینٹ شرٹ کو دیکھتے ہوئے روشانی نے بیڈ پر پڑی سرخ رنگ کی سکرٹ کو دیکھا..  اس کو دکھتے ہی اس نے اپنا ایک آئی برو اوپر کیا اور چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لے کر آئی.. 

رائٹر. اے ایس راجپوت

یہ سکرٹ ہی ٹھیک ہے جب سب اپنی مرضی کر سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں…  چل بھی روشانی آج کا دن تمہارا ہے گھوم پھر اس کے بعد سوچتے ہیں کیا کرنا ہے.  

روشانی نے بیڈ سے سکرٹ اٹھائی اور تبدیل کرنے چلی گی تھوڑی دیر بعد ہی وہ شیشے کے سامنے کھڑی تھی اپنے بازو پر دوبارہ پٹی کی اور خود کو میک اپ کا ہلکا سا ٹچ دے کر بالوں کو اپنے کندھوں پر کھولا چھوڑتے ہوئے گھوم کر شیشے میں خود کو دیکھتے ہوئے ہلکا سا مسکرائی اور ٹیبل پر پرس اٹھاتے ہوئے باہر کی طرف نکلی.. 

رائٹر.. اے ایس راجپوت

فلیٹ کا دروازہ کھولتے ہی اس نے اپنے سامنے مارک کو دیکھا جس کا ہاتھ فلیٹ کی بیل پر تھا اس سے پہلے مارک بیل دیتا روشانی باہر جانے کے لیے دروازہ کھول چکی تھی..  روشانی کے یوں ڈاکٹر کے گھر سے چلے جانے کے بعد مارک کو پتہ چل گیا تھا کہ روشانی غصہ کر گی ہے وہ بھی ڈاکٹر کو بتا کر وہاں سے نکل پڑا تھا..

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

دروازہ کھولتے ہی مارک نے روشانی کو سر سے لے پاؤں تک دیکھا..  بلیک کلر کی ہائی ہیل پہنے گھٹنوں تک سکرٹ بال کھولے چھوڑے کندھے پر بیگ ڈالے روشانی مارک کے سامنے کھڑی تھی.. مارک نے روشانی کو کبھی ایسے کپڑوں میں نہیں دیکھا تھا وہ ہمیشہ پینٹ شرٹ یا لونگ مکسی میں ہوتی تھی. 

رائٹر.... اے ایس راجپوت 

کہاں جا رہی ہو.. روشانی کا حلیہ دیکھتے ہی مارک کے ماتھے پر بل پڑ گئے…  

کیوں..  تمہیں کیوں بتاؤں..  روشانی نے کندھے پر ڈالے بیگ کے سٹیپ کو ٹھیک کرتے ہوئے مارک کی دیکھتے ہوئے لاپرواہی سے کہا.  

رائٹر.. اے ایس راجپوت

کیا مطلب.. تم مجھے نہیں بتاؤ گی کہ کہاں جارہی ہو.. مارک نے یہ کہتے ہوئے روشانی کا ہاتھ پکڑا اور اندر کی طرف لے آیا.  روشانی مارک کی اس حرکت پر آنکھوں میں حیرت لیے اس کو دیکھ رہی تھی جو روشانی کے ہاتھ سے پکڑے اسے زبردستی اندر لے کر آرہا تھا.. 

مارک چھوڑو میرا ہاتھ.. روشانی نے ایک جھٹکے کے ساتھ مارک کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑایا…  

رائٹر.. اے ایس راجپوت

میں جہاں مرضی جاؤں تمہیں کیا.. جیسے تمہاری لائف ہے تم جو مرضی کررہے ہو.. کسی کو نہیں بتاتے مجھے بھی نہیں بتاتے… تو مجھے بھی کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں بتانے کی اوکے.. 

رائٹر.. اے ایس راجپوت..

ناول.. محبت میری جنون تیرا

روشانی بولتی جا رہی تھی اور مارک سینے پر ہاتھ باندھے اس کی طرف دیکھ رہا تھا اسے پتہ تھا کہ روشانی کا یہ ری ایکشن اسی بات کا ہے. جو ڈاکٹر کے گھر ہوا. 

ہو گی تمہاری بات مکمل…  اب میری بات سنو…  مارک چلتا ہوا روشانی کے قریب آیا.. 

پہلی بات کہ تمہیں اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ تمہاری لائف جو پہلے تمہاری تھی.. اب تمہاری نہیں رہی یہ اب میری ہے.. اور تم سانس بھی لو گی تو مجھے علم ہونا چاہئے..  اور اگر تم مجھے نہیں بتاؤ گی تو میں پتہ کروا لوں گا… مارک بات کرتے ہوئے روشانی کے اور قریب آیا اور اپنے ہاتھ سے اس کے بالوں کو کان کے پیچھے کیا..

رائٹر... اے ایس راجپوت

ناول.. محبت میری جنون تیرا 

روشانی کو آج پہلی بار مارک کی بات سے خوف محسوس ہو رہا تھا… 

اور دوسری بات.. کہ میں کیا کر رہا ہوں.. وہ تمہیں سب پتہ چل جائے گا لیکن وقت آنے پر.. کیوں کہ ابھی وقت نہیں آیا اور کچھ باتیں وقت پر ہی اچھی لگتی ہیں.. مارک نے بات مکمل کی اور اپنا چہرہ روشانی کی گردن کے پاس لے کر گیا….

رائٹر.. اے ایس راجپوت

ناول.. محبت میری جنون تیرا

ہمممم…  بہت اچھا پرفیوم ہے… مارک نے روشانی کے لگائے پرفیوم کو سونگھتے ہوئے کہا روشانی کو مارک کی گرم سانسیں اپنی گردن پر محسوس ہو رہی تھیں اس نے خود کو کنٹرول کرتے ہوئے. سانس اندر کی طرف کھینچا…  

اب بتاؤ کہاں جا رہی ہو.. مارک نے سیدھا ہوتے روشانی کی طرف دیکھا جس کے گال سرخ ہو رہے تھے.. 

میں… میں..  نہیں بتاؤ گی..  روشانی نے گھبراتے ہوئے کہا وہ جب بھی مارک کہ اتنے قریب ہوتی خود کو بھول جاتی تھی.. 

رائٹر.. اے ایس راجپوت

ناول.. محبت میری جنون تیرا

ضد نہیں کرتے روشانی. میں نے کہا نا کہ وقت آنے پر سب بتا دوں گا..  یقین رکھو مجھ پر… اب مارک نے پیار سے روشانی کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھا…  

روشانی نے مارک کی آنکھوں میں. دیکھا اور اسکی لمبی گھنی پلکیں جس کو وہ سلو موشن کی طرح جھپکا رہا تھا.. 

میں کھانا کھانے جا رہی ہوں.. روشانی نے گہرا سانس لیتے ہوئے جلدی سے مارک کے ہاتھوں کو اپنے چہرے سے پیچھے کیا اور باہر جانے کے لیے دروازے کی طرف بڑھی…

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

کیا…  کیا.. کہا تم کھانا کھانے جارہی ہو ان کپڑوں میں..  مارک تیزی سے چلتا ہوا دروازے کے پاس آکر روشانی کا رستہ روکا.. 

کیوں ان کپڑوں میں کیا ہے.. سب پہنتی ہیں.. روشانی نے برا سا منہ بنایا.. 

رائٹر... اے ایس راجپوت 

سب مارک کی محبت نہیں ہیں.. سمجھی اور اب  جاؤ اور جاکر ڈھنگ کے کپڑے پہنو میں بھی ساتھ چلوں گا..  مارک نے ہاتھ کے اشارے سے روشانی کو واپس جانے کا کہا..  

افف.. اففف.. کیا ہے…  روشانی نے غصے سے زمین پر پاؤں مارا… جارہی ہوں تبدیل کرنے لیکن یہ مت سمجھنا کہ میں صبح کی بات بھول گی ہوں..  روشانی پاؤں پٹختی ہوئی واپس اپنے کمرے کی طرف چلی گئی..

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

یہ لڑکی بھی نا.. شکر ہے میں وقت پر آگیا یہ کپڑے تھے باہر جانے والے…  مارک منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کرسی پر جاکر بیٹھ گیا.   

چلیں اب…. روشانی نے وہی پینٹ شرٹ پہنی جو اس نے بلیو کلر کی نکال کر دوبارہ الماری میں رکھ دی تھی.. 

مارک نے روشانی کو سر سے لے کر پاؤں تک دیکھا.. 

اب ٹھیک ہے چلو…. مارک یہ کہتے ہوئے دروازے کی طرف مڑا..  روشانی چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لیے مارک کے پیچھے چل دی.. اس نے جو سوچا تھا ویسا ہی ہوا..  اپنے اس سوٹ میں تصاویر سنڈ کرنے کی بجائے مارک خود چل کر اگیا تھا.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖

لوس اینجلس کیلیفورنیا کے ائرپورٹ  پر فلائٹ نے لینڈ کیا… 

مسافروں کے درمیان بلیک  کلر کی جینز گرے کلر کی شرٹ آنکھوں پر گلاسسز لگائے.. آستینوں کو فولڈ کیے فون کان کے ساتھ لگائے بغیر کسی سامان کے نافع چلتا ہوا گاڑی کے قریب آیا.. جیسے اسے پہلے سے علم ہو کہ یہ گاڑی اسی کے لیے آئی ہے…

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

ڈرائیور نے اگے بڑھ کر دروازہ کھولا.. نافع کے کان کے ساتھ فون ابھی تک لگا ہوا تھا… گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے ڈرائیور کو ریسٹورنٹ جانے کا کہا.. 

لیکن باس نے تو کہا ہے کہ آپ کو….. ابھی ڈرائیور کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ نافع نے اپنی آنکھوں سے گلاسسز اتار کر غصے سے ڈرائیور کو دیکھا…  

تمھارے باس نے اپنے ڈرائیور کو کافی کھلی چھٹی دی ہوئی ہے جو اگے سے جواب دے رہے ہو.. میں تمہارے باس کا ملازم نہیں ہوں مجھے پہلے ریسٹورنٹ میں کام ہے وہاں سے فارغ ہو کر تمہارے باس کے پاس جاؤں گا.  اب بغیر آواز کیے گاڑی چلاؤ ورنہ تمہیں اسی گاڑی کے نیچے کچل دوں گا.. 

رائٹر... اے ایس راجپوت 

نافع کی بات سنتے ہی ڈرائیور گھبرا گیا اس نے اگے سے کوئی جواب نہیں دیا اور گاڑی نافع کے بتائے ہوئے ریسٹورنٹ کی طرف لے گیا… 

گاڑی ریسٹورنٹ کے باہر اکر روکی…  نافع گاڑی سے باہر نکل کر ریسٹورنٹ کے اندر چلا گیا… 

ویلکم ٹو لوس اینجلس مائی برو…  سامنے سے درمیانی عمر کے آدمی نے اندر آتے نافع کو دیکھ کر اپنے بازو پھیلائے..  

تھینکس.. ولکین…. نافع نے اگے بڑھ کر ولکین کو گلے سے لگایا…

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

کیسے آنا ہوا تمہارا لوس اینجلس…  تم تو بلا بلا کر بھی نہیں آتے اور اب یوں اچانک.  ولکین نے نافع کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ہاتھ کے اشارے سے آگے آنے کو کہا. 

بس جہاں مجھے شکار نظر آتا ہے. میں وہی پہنچ جاتا ہوں.. نافع نے قہقہہ لگایا اور ولکین کی بک کی ہوئی ٹیبل پر جاکر نافع بیٹھ گیا.. 

کیا پلان ہے تمہارے اگے کے کسی ہوٹل میں روکے ہو یا اپنے گھر جاؤ گئے.. ولکین نے نافع کی طرف دیکھا جو ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا.. 

نافع کیا دیکھ رہے ہو میں تم سے بات کر رہا ہوں..  ولکین نے جب نافع کو یوں بے چینی سے متلاشی بھری نظروں سے دیکھا تو پوچھا. 

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

ایک منٹ ولکین میں آتا ہوں.. نافع بات کا جواب دیے بغیر کرسی سے اٹھا اور کیش کاونٹر کی طرف بڑھا…  

آہو ایم سوری…. نافع جیسے کیش کاونٹر کی طرف گیا اگے سے روشانی ڈرنک کے گلاس پکڑے واپس ٹیبل پر جانے کے لیے موڑی تھی کہ سامنے اسکی ٹکر نافع سے ہو گی.. اور ڈرنک کے گلاس کچھ روشانی پر اور کچھ نافع پر گر گئے.. 

آپ دیکھ کر نہیں چل سکتے کیا.. روشانی نے اپنے کپڑوں کو صاف کرتے ہوئے کہا.. 

مارک جس کی نظر روشانی پر ہی تھی فوراً کرسی سے اٹھا اور روشانی کے پاس آیا..

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

کیا مطلب کہ غلطی آپ کی ہے اور آپ ہی مجھ پر چلا رہی ہیں.. نافع ابھی بول ہی رہا تھا کہ مارک روشانی کے پاس اگیا.. 

کیا ہوا روشانی سب ٹھیک ہے نا.. مارک نے روشانی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا.. 

ہاں ٹھیک ہے. کچھ لوگوں کو نظر نہیں آتا.. روشانی نے غصے سے نافع کی طرف دیکھا. 

رائٹر.. اے ایس راجپوت.. 

اہو آپ تو مارک جوزف ہیں..  نافع نے اپنی نظریں روشانی سے ہٹاتے ہوئے مارک کی طرف دیکھا.  

ہیلو…  ایم نافع علی…  نافع نے مارک کے آگے سلام کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا.. 

مارک نے حیرت سے نافع کی طرف دیکھا جو اس کی پہچان میں نہیں ارہا تھا.. 

نائس ٹو میٹ یو..  مارک نے ہاتھ ملاتے ہوئے مختصر سا جواب دیا.. روشانی حیرت سے مارک کی طرف دیکھ رہی تھی کہ وہ اس شخص سے کیسے نارمل بات کر سکتا ہے جس نے اس کے اوپر ڈرنک گرا دی ہے..

رائٹر... اے ایس راجپوت 

آپ کا بہت سنا تھا لیکن آج مل بھی لیا.. کسی دن ساتھ میں کھانے کھاتے ہیں کیا آپ میری دعوت کو قبول کریں گے.. نافع نے موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور ساتھ ہی مارک اور روشانی کو کھانے کی دعوت دے دی.  

ہمممم…. تھینکس.. لیکن ابھی ہم فری نہیں ہیں.. چلو روشانی.  مارک نے نافع کو جواب دیا اور روشانی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ٹیبل کی طرف لے گیا.. 

تم اسے جانتے ہو. کیا.. روشانی نے حیرت سے مارک کو دیکھا.  

نہیں میں نہیں.. جانتا اسے.. مارک نے. ٹیبل سے اپنا فون اور گاڑی کی چابی اٹھائی…  

لیکن وہ تو تمہیں جاتنا ہے.  روشانی نے پھر مارک سے سوال کر دیا.. 

دیکھو روشانی ضروری نہیں کہ جو مجھے جانتا ہو میں بھی اسے جانتا ہوں.. چلو اب ہم یہاں کھانا نہیں کھائیں گے کہیں اور چلتے ہیں.. مارک نے روشانی کا ہاتھ پکڑا اور اسے باہر کی طرف لے آیا..

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

لیکن ہم وہاں کھانا کیوں نہیں کھا سکتے.  اور تم نے اس سے اتنے آرام اور پیار سے بات کیوں کی جبکہ اس نے مجھ پر ڈرنک گرا دی تھی.. 

مارک گاڑی کا لاک کھول رہا تھا جب روشانی اپنے دماغ میں چلتے ہوئے سوال پر سوال مارک سے پوچھ رہی تھی.. 

اچھا تو تمہارا کہنے کا مطلب ہے کہ مجھے اسے دو تین تھپڑ مار دینے چاہیں تھے.  ہے ناں..  بلکہ تم یہاں روکو میں اسے لگا کر آتا ہوں اس کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ میری روشانی پر ڈرنک گرا دے.  

روشانی کے مسلسل بولنے پر مارک واپس جانے کے لیے. موڑا.. 

نہیں روکو. میں تو ویسے ہی کہہ رہی تھی. تم تو سچ میں مارنے جا رہے ہو.. روشانی نے مارک کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے روکا..

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

روشانی تم بھی کمال کرتی ہو.. ایک طرف تم مجھے اچھا بنانا چاہتی ہو اور دوسری طرف تم ہی مجھے اسے مارنے کا کہی رہی ہو میں تو تمہاری وجہ سے روک گیا تھا.. نہیں تو آج اسے اپنی زندگی کا سبق مل جاتا.  

مارک نے روشانی کے ہوا سے اڑتے ہوئے بالوں کو اس کے چہرے سے پیچھے کیا.. 

ہممم ٹھیک ہے چلو پھر کہیں اور چلتے ہیں.. روشانی کی بات پر مارک گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ کی طرف چلا گیا. 

لیکن روشانی کی آنکھیں ریسٹورنٹ کی طرف ہی تھی جب وہ گاڑی میں بیٹھ رہی تھی. 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖

شیزا کی گاڑی اس کے گھر کے پاس اکر روکی.. اس سے پہلے ڈرائیور اکر شیزا کو گاڑی سے نیچے اتارتا ہادی نے. رائٹر.. اے ایس راجپوت... گاڑی کا دروازہ کھولا اور ویل چیئر کو باہر نکالتے ہوئے شیزا کو سہارا دیا اور وہ گاڑی سے نیچے اترتے ہوئے ویل چیئر پر بیٹھ گی.. 

مجھے مارک کے بندوں کی یہی بات اچھی لگتی ہے کہ وہ دوسروں کا خیال اچھے سے رکھتے ہیں.  ویل چیئر پر بیٹھتے ہوئے شیزا نے ہادی کو کہا.. 

لیکن میں مارک کے بندوں میں سے نہیں ہوں…  ہادی نے. ویل چیئر کے ہینڈل کو پکڑتے ہوئے اندر کی طرف شیزا کو لے کر جا رہا تھا کہ ہادی کی بات سن کر شیزا نے فوراً چیئر روک دی.  

اس کا دل گھبرا گیا..  کہ کہیں یہ اس کے شوہر کا بھیجا ہوا آدمی تو نہیں جیسے وہ مارک کا آدمی سمجھ رہی تھی.. 

ایسے کیا دیکھ رہی ہیں آپ…  ہادی شیزا کو یوں اپنے طرف گھورتے ہوئے دیکھ کر حیرت سے پوچھا.. 

کون ہو تم… شیزا ساتھ ہی اپنے بیگ سے پسٹل نکال لی.. 

ہاہاہاہا…. ہادی نے زور کا قہقہہ لگایا.. ڈر گئیں آپ… پریشان مت ہو مجھے مارک نے ہی بھیجا ہے.. میری بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ میں مارک کا بندہ نہیں ہوں. میں اس کا دوست ہوں.  ہادی نے شیزا کے. سامنے آتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ لیے کہا..

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

تم سچ میں بہت بڑے ڈفر ہو.. میں سمجھی…  ابھی شیزا بول نہیں پائی تھی کہ ہادی بول پڑا…  

آپ یہ سمجھی کہ میں آپ کے شوہر کا بھیجا ہوا آدمی ہوں.. کم آن.. اتنا بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے پسٹل دوبارہ بیگ میں رکھ سکتی ہیں آپ.. ہادی بولتا ہوا دوبارہ شیزا کی چیئر کے پیچھے اگیا اور چیئر کے ہینڈل پکڑتے ہوئے اندر کی طرف گیا.. 

شیزا جس کا دل چلنا روک گیا تھا اس نے گہرا سانس لیا.. 

آپ تو میرے مذاق کو سیریس لے گی ہیں اگر آپ کی جگہ روشانی ہوتی تو وہ ایک منٹ میں جان لیتی کہ میں مذاق کر رہا ہوں. ہادی روشانی کا سوچ کر مسکرا دیا. رائٹر. اے ایس راجپوت 

اچھا تو تم کیسے سے پیار کرتے ہو.. شیزا نے کھڑکی کے پاس  رکھی چابی نکال کر ہادی کی طرف کی کہ وہ دروازہ کھولے.. 

نہیں.. نہیں.. روشانی میری بہت اچھی دوست ہے بلکہ دوست سے بھی بڑھ کر.. ابھی تک میں نے اسے نہیں بتایا کہ میں پہنچ چکا ہوں جب کال کروں گا تو اس کا غصے دو سو ڈگری سے بھی اوپر ہو گا.. ہادی نے گھر کے دروازے کا لاک کھلولا اور  شیزا کو اندر لے کر آگیا..

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

تو تم کر لو کال.. شیزا نے چیئر گھماتے ہوئے ہادی کی طرف دیکھا.  

ہاں اب کرتا ہوں.. آپ سیولی گھر پہنچ گی ہیں. اب میں کرتا ہوں کال.  اور ہاں آپ کو اپنے شوہر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے میں سب دیکھ لوں گا.  اب مجھے اجازت دیں.  ہادی نے کہتے ہوئے پھر سے ہاتھ آگے کیا..

رائٹر.. اے ایس راجپوت

ناول.. محبت میری جنون تیرا 

شیزا نے ہادی کی طرف دیکھا اور پھر اس کے ہاتھ کی طرف اب وہ دوبارہ اسے شرمندہ نہیں کرنا چاہتی تھی اسے ہادی کی باتوں سے ہادی پر یقین آرہا تھا.. 

اوکے.. سی یو لیڑ.. شیزا نے اپنا روئی جیسا نرم ہاتھ ہادی کے ہاتھ میں دیتے ہوئے اس سے ہاتھ ملایا… 

ہممم.. تھینکس…  ہادی کی گرفت شیزا کے ہاتھ پرمضبوط تھی جیسے شیزا نے بھی محسوس کیا.. 

➖➖➖➖➖➖➖

روشانی تم جاو میں تھوڑا کام کر لوں.. میں ہوٹل جا رہا ہوں. کافی  دن ہو گئے ہیں ہوٹل کا کام نہیں دیکھا.. 

مارک اور روشانی دوسرے ریسٹورنٹ میں. کھانا کھانے کے بعد روشانی کو اس کے فلیٹ پر چھوڑنے آیا تھا..

ہممممم…  ٹھیک ہے.. روشانی نے. کہا اور گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے باہر کی طرف نکلنے ہی لگی تھی کہ مارک جو سٹیرنگ پر بازوں رکھے ترچھا ہوئے روشانی کی طرف دیکھ رہا تھا اس کے بازو سے پکڑتے ہوئے اندر کی طرف کیا.  

کیا ہوا اب..  روشانی نے یک دم گردن موڑ کر دیکھا.. 

گڈ بائے نہیں کہو گی.. مارک نے روشانی کے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا. 

رائٹر.. اے ایس راجپوت

ناول.. محبت میری جنون تیرا 

مارک کی بات پر روشانی مسکرا دی.  اس کو مارک کے معصوم بنے ہوئے چہرے پر بے حد پیار آرہا تھا لیکن وہ اندر ہی اندر اپنے احساسات کو چھپا گی..  

مجھے گڈ بائے سے نفرت ہے…  گڈ بائے اسے کہتے ہیں جس سے دوبارہ ملنا نا ہو… اوکے.. روشانی نے مسکراتے ہوئے مارک کو کہا.  رائٹر.. اے ایس راجپوت.... روشانی کی اس بات پر مارک کے چہرے پر مسکراہٹ اگی.  مارک تھوڑا آگے کو بڑھا اور اپنا چہرہ روشانی کے کان کی طرف لے گر گیا.. اور سر گوشی میں روشانی کے کان میں کہا

تمہاری انہیں باتوں کی وجہ سے آج یہ مارک تمہاری قید میں ہے…  مارک کی بات سن کر روشانی نے شرم سے اپنے ہونٹوں کو دانت کے نیچے دبا لیا.. 

لیکن یہ بھی نا بھولنا تم بھی مارک کی قید میں ہو..  اور جب تک میں تمہارے فلیٹ پر نا اجاؤں تم کہیں بھی نہیں جاؤ گی.. اوکے اور اگر میری بات نا مانی تو مارک کو تو تم جانتی ہو نا.. مارک نے اپنی بات پوری کرتے ہوئے اپنا چہرہ پیچھے کیا.. روشانی جو پہلے شرما رہی تھی یک دم مارک کی بات پر اس کی آنکھیں پھیل گئیں.. 

رائٹر.. اے ایس راجپوت

ناول.. محبت میری جنون تیرا 

واٹ…. کیا کہا تم نے.. روشانی نے شکڈ ہو کر کہا.. 

جو تم نے سنا…  مارک نے روشانی کے ناک پر پیار سے چھوتے ہوئے کہا.. 

اس کا مطلب بتا سکتے ہو.. روشانی نے آنکھیں سکڑتے ہوئے کہا 

جب تک کایا کا کچھ پتا نہیں چلتا تم اکیلی کہیں نہیں جاؤ گی گھر سے باہر کہیں بھی.. ہادی بھی نہیں ہے یہاں تو بہتر یہی ہے کہ تم فلیٹ پر ہی رہو.  اور اب کوئی دوسرا سوال نہیں کوئی دوسری بات نہیں.. بس چپ کر کے فلیٹ میں جاکر آرام کرو.. 

اور اگر باہر نکلی تو وہ دیکھو وہ مجھے بتا دے گا.. مارک نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے فلیٹ کی بلڈنگ کے باہر کھڑے گارڈ کی طرف اشارہ کیا جو بڑے جوش سے مارک کو دور سے ہائے بول رہا تھا.. 

سچ میں مجھے میری آنکھوں پر یقین نہیں ہو رہا کہ تم یہ بھی کرو گے..مجھ پر نظر رکھو گے.  روشانی نے. غصہ سے منہ بناتے ہوئے مارک کی طرف دیکھا..

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

مارک نے اپنے چہرے پر مسکراہٹ لیے بغیر کچھ کہیے گاڑی کے دروازے کی طرف اشارہ کیا.. 

افففف…  جارہی ہوں.  لیکن یہ بھی یاد رکھنا.. روشانی نے یہ کہتے ہوئے گاڑی سے اترتے ہوئے زور سے گاڑی کا دروازہ بند کیا.. 

اتنا غصہ.. مارک نے اگے بڑھ کر گاڑی کے دروازے کو چیک کیا کہ کہیں ٹوٹ تو نہیں گیا.. روشانی گاڑی سے اتر کر مارک کی طرف دیکھے بغیر فلیٹ کے اندر چلی گی..  رائٹر. اے ایس راجپوت... روشانی کے اندر جاتے ہی مارک نے گاڑی سٹارٹ کی اور اسی ریسٹورنٹ کی طرف چلا گیا جہاں اسے نافع ملا تھا… 

ہیلو مسٹر مارک ہم آپ کی کیا مدد کرسکتے ہیں.. مارک ریسٹورنٹ کے منیجر کے کمرے میں. بیٹھ تھا اس کا انتظار کر رہا تھا جو کسی کام سے باہر گیا تھا.. 

مجھے تین گھنٹے پہلے کی آپ کے ریسٹورنٹ کی کیمرے کی ویڈیو چاہیے.. مارک نے مینجر سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا.. 

جی ٹھیک ہے میں ابھی منگوا لیتا ہوں.. سب ٹھیک تو ہے نا.. مینجر نے فون کا ریسور کان کے ساتھ لگاتے ہوئے کہا..

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

ہاں.. ہاں.. ٹھیک ہے سب.. بس آپ جلدی سے منگوا لیں مجھے جلدی جانا ہے.  مارک بے چینی سے ٹیبل کے کونے کو کھرد رہا تھا.. کچھ ہی دیر میں کیمرے کی ریکارڈنگ کی سی ڈی مارک کے سامنے تھی.  

اوکے تھینکس..  مارک نے جلدی سے سی ڈی اٹھائی اور باہر کی طرف نکل گیا.. 

گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے گاڑی کے سی ڈی روم میں سی ڈی ڈالی اور گاڑی میں لگی lcd پر ویڈیو چل پڑی..

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

ریسٹورنٹ میں کسٹمر کا آنا جانا لگا  ہوا تھا جب ایک بلیک کلر کی گاڑی اکر روکی جس میں نافع نکلا..  رائٹر.. اے ایس راجپوت... مارک نے ویڈیو کو روک کر نافع کی گاڑی کا نمبر نوٹ کیا اور ساتھ ہی نافع کی تصویر کھینچ کر کسی کو اپنے موبائل سے واٹس ایپ کر دی. 

ویڈیو میں صاف دکھائی دے رہا تھا کہ نافع کسی کو تلاش کر رہا ہے ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر …  جیسے ہی نافع ولکین سے ملا.  مارک نے غصے سے زور سے سٹیرنگ پر ہاتھ مارا.  

تم اس حد تک گر جاؤ گے میں نے سوچا نہیں تھا..ولکین اور ساتھ ہی مارک نے فون پر نمبر ڈائل کیا.. 

ابھی جو میں نے گاڑی نمبر بھیجا ہے اس کا پتہ لگاؤ کس کی ہے اور جس آدمی کی تصویر بھیجی ہے اس کو ایسا سبق سکھاؤ کہ اسے خود سمجھ نا آئے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے اور کل تک وہ لوس اینجلس چھوڑ کر چلا جائے یہ کام شام تک ہو جانا چاہیے..  

مارک نے یہ کہتے ہوئے کال بند کر دی.. 

➖➖➖➖➖➖➖

روشانی جیسے فلیٹ آئی غصے سے لال ہو رہی تھی.. اس کی محبت اسکی قید بن رہی تھی.. 

پتہ نہیں سمجھتا کیا ہے خود کو.. اب میں ایسے تو فلیٹ میں بند ہو کر نہیں رہ سکتی میری اپنی بھی لائف ہے.. روشانی ٹہلتی ہوئی سوچ رہی تھی.  

لیکن وہ اس بات سے انجان تھی کہ مارک اسے آنے والے خطرہ سے بچا رہا ہے.. وہ محبت جیسے ابھی اسے ایک قید کی طرح لگ رہی وہ اسکی حفاظت کا خول ہے.. 

روشانی یہ سب سوچتے ہوئے الماری سے کپڑے نکالتے ہوئے شاور لینے چلی گی.. روشانی جب شاور لے کر آئی تو اس نے بیڈ سے فون اٹھایا جو مسلسل کال سے بج رہا تھا..

رائٹر اے ایس راجپوت 

روشانی نے موبائل اٹھا کر دیکھا.. تو اس پر ہادی کی کال ارہی تھی.. 

تو جناب کو ٹائم مل گیا کیا بتانے کا یہ بھی کال نہیں کرنی تھی.. کیوں زحمت کی تم نے.. ہاں..  روشانی نے فون اٹھاتے ہی ہادی پر برس پڑی.. ہادی دوسری طرف اپنی ہنسی کنٹرول کرے مسکرا رہا تھا.. اسے علم تھا کہ روشانی کا ری ایکٹ ایسا ہی ہو گا…. اس لئے وہ خاموشی سے روشانی کی باتیں سن رہا تھا کہ جب وہ اپنا غصہ نکال لے گی تو پھر وہ بولے گا.. 

ہاں  تو غصہ ٹھنڈا ہو گیا کیا تمہارا…  روشانی جب خاموش ہوئی.. تو ہادی بولا.. 

ہاں ہوگیا ہے…  اب بتاو کب تک آرہے ہو.  میں بور ہو رہی ہوں یہاں.. روشانی اب نارمل بات کر رہی تھی.. 

کیوں.. تم کیوں بور ہو رہی ہو وہ بھی مارک کے ہوتے ہوئے بھی.. ہادی نے حیرت سے کہا.. 

کیوں مارک کوئی جوکر ہے جو مجھے بور نہیں ہونے دے گا اس نے تو مجھے قید کر کے رکھا ہوا ہے کہتا ہے جب تک کایا کا کچھ پتہ نہیں چلتا میں  اکیلی کہیں نہیں جاؤ گی اب بتاو بھلا کہ میں کوئی بچی تھوڑی ہوں.  کہ یوں چپ کر کے بیٹھ جاؤں.. روشانی نے اپنے گیلے بالوں کی لٹ کو اپنی انگلی میں لپٹتے ہوئے برا سا منہ بنایا..

رائٹر.. اے ایس راجپوت.. 

ہاں تو ٹھیک کہا ہے مارک نے اور جو وہ کر رہا ہے وہ بھی ٹھیک ہے.. میں بھی وہاں نہیں ہوں تمہیں گھر سے اکیلے نہیں نکلنا چاہیے تم جانتی ہو کہ پچھلی بار کیا ہوا تھا.. اب جو مارک کہہ رہا ہے اس پر عمل کرو.. 

ہادی کی بات سن کر روشانی کو غصہ اگیا.  وہ ہادی سے اس بات کی توقع نہیں کر رہی تھی کہ وہ مارک کا ساتھ دے گا.. 

کیا مطلب ہے. تمہارا ہاں…  ویسے تمہیں مارک پسند نہیں ہے لیکن تم اب اسی کی سائیڈ لے رہے ہو.. روشانی اب بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی.. 

روشانی جہاں مارک صحیح ہے وہاں صحیح ہے.. میں اسے کیوں غلط کہوں گا. . اچھا اب میں فون رکھتا ہوں.  مجھے ضروری کام سے جانا ہے میں جلد ہی آجاؤں گا اوکے بائے.. ہادی نے بات مکمل کی اور فون رکھ دیا.

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

سارے اپنی جگہ سیانے ہیں ایک  تو میں ہی پاگل ہوں.. کوئی میری بات نہیں سن رہا ہے نا سمجھ رہا ہے .. روشانی نے فون دوبارہ بیڈ پر رکھا اور بالوں کو ڈرائی کرنے چلی گی جب واپس آئی تو اس کے موبائل کے واٹس ایپ پر کچھ تصاویر آئی ہوئی تھیں اور ساتھ ہی ایک وائس میسج تھا.. 

روشانی نے تصاویر اوپن کہ تو وہ نافع کی تھیں جس کے چہرے پر زخم کے نشان تھے.. اور وہ ہسپتال میں تھا.. 

یہ کون ہے روشانی نے پہچان کرنے کی کوشش کی لیکن اسے یاد نہیں آیا نمبر بھی کوئی نیا تھا.. 

روشانی نے. جب وائس میسج اوپن کیا سننے کے لیے تو وہ نافع کا تھا.. 

ہائے…  مجھ یقین ہے کہ آپ نے مجھے پہچانا نہیں ہو گا.. لیکن میں آپ کو بس اتنا بتا دوں کہ آپ پر ڈرنک گرانے کی سزا مجھے مل گی ہے…. بائے..  

ارے یہ تو نافع ہے جو   دوپہر کو ملا تھا ریسٹورنٹ  میں.. روشانی نے. گھڑی کی طرف دیکھا تو شام کے سات بج رہے تھے..  اس کو ایسا کیا ہوا ہے.. روشانی نے. سوچتے ہوئے دوبارہ تصاویر کو زوم کرکے دیکھا..

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

اور ساتھ ہی روشانی کے دماغ میں. مارک کا وہ چہرہ اگیا جو وہ نافع کی حرکت پر خاموش تھا.. وہ خاموش کیوں تھا.. او شیٹ میں سمجھ نہیں سکی کہ وہ کیوں خاموش تھا وہ تو میری وجہ سے خاموش تھا میں اس کے ساتھ تھی.. اس لئے..  رائٹر.. اے ایس راجپوت.. اور وہ مجھے یہ شو کروا رہا تھا کہ اس نے میرے لیے یہ سب چھوڑ دیا ہے کتنا جھوٹا ہے…   کتنے جھوٹ بولے گا یہ.. 

روشانی نے موبائل پنٹ کی پاکٹ میں ڈالا اور اپنے بالوں کو سمٹتے ہوئے جیکیٹ پہنتی ہوئی فلیٹ سے باہر اگی.. 

مجھے گھر میں بند کر کے رکھا ہے. اور خود کسی کو بھی مار دے کسی کے ساتھ بھی رات گزار لے.. وہ کسی کو نہیں پتہ.. کم از کم مجھے بتاتا تو سہی.. روشانی گاڑی ڈرائیور کرتے ہوئے غصے سے بولتی جا رہی تھی..

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

روشانی نے گاڑی مارک کے ہوٹل کے پاس کھڑی کی اور غصے سے باہر آئی.  غصے میں اسے مارک کی ہر چھوٹی چھوٹی غلطیاں یاد آرہی تھیں.  ڈاکٹر کے گھر دروازہ بند کر کے کال پر بات کرنی.  ہادی کو اسے بغیر بتائے سپین بھیج دینا.  

مارک کے موبائل پر کسی لڑکی کا میسج آنا وغیرہ وغیرہ.. روشانی نے ہوٹل کا دروازہ کھولا تو مارک سامنے ہی کیش کاونٹر کے پاس چیئر پر بیٹھا تھا اس کے ہاتھ میں اب شراب کے گلاس کی بجائے کولا کا گلاس تھا.  

روشانی غصے سے چلتی ہوئی مارک کے پاس آئی.  مارک روشانی کو یوں ہوٹل میں دیکھ کر چونک گیا اور جلدی سے کرسی سے اٹھا کھڑا ہوا.. 

روشانی تم یہاں.. سب ٹھیک تو ہے نا.  مارک نے روشانی کے کندھوں سے پیار سے پکڑتے ہوئے پریشانی سے روشانی کی طرف دیکھا.  

روشانی نے ایک جھٹکے سے مارک کے دونوں ہاتھ اپنے کندھوں پر سے پیچھے کئے. مجھے ہاتھ مت لگاؤ.. روشانی کی اس حرکت پر مارک نے حیرت سے روشانی کی طرف دیکھا.  جس نے آج سے پہلے ایسی حرکت نہیں کی تھی مارک سمجھ گیا تھا کہ کوئی بڑی بات ہے. 

رائٹر.. اے ایس راجپوت.. 

اوکے.. اوکے.. بتاو کیا ہوا ہے.  مارک نے اپنے ہاتھ اوپر کرتے ہوئے روشانی سے تھوڑا پیچھے ہوا.. 

یہ کیا ہے.. ہاں تم کچھ بتاؤ گئے.  روشانی نے. فون نکال کر نافع کی تصویر مارک کے سامنے کی… تم تو کہہ رہے تھے کہ تم میرے لیے اچھے بن رہے ہو.  ہاں تو یہ سب کیا ہے.. اور کتنے جھوٹ بولو گے مارک بولو.. 

اور کتنے جھوٹ بولو گے.. روشانی کی آواز اونچی ہوئی.. مارک نے ہوٹل میں بیٹھے لوگوں کو دیکھا جو اب روشانی اور مارک کی طرف متوجہ ہو رہے تھے.. 

روشانی چلو یہاں سے… مارک نے روشانی کا ہاتھ پکڑا… 

چھوڑو میرے ہاتھ کو.. روشانی نے اپنا ہاتھ مارک کے ہاتھ سے چھڑایا.. کیوں کیا ہوا.. ڈر گئے ہو کیا.. کہ لوگوں کو تمہارا اصل چہرہ پتہ چل جائے گا.  روشانی نے غصے سے مارک کی طرف دیکھا..

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

مجھے اپنی کوئی پروا نہیں ہے.. مجھے تمہاری پروا ہے اور سب مجھے دیکھ بھی نہیں رہے سب تمہیں دیکھ رہے ہیں.  اور کوئی تمہیں کچھ کہے یہ میں برداشت نہیں کر پاؤگا تم نے بات کرنی ہے نا تو چلو باہر چل کر بات کرتے ہیں.. 

مارک کی بات پر روشانی نے. گردن موڑ کر اپنے پیچھے دیکھا تو سب روشانی کی طرف دیکھ رہے تھے.. اس سے پہلے روشانی کچھ اور کہتی مارک نے روشانی کا ہاتھ دوبارہ پکڑا اور باہر کی طرف لے آیا.. 

اب بتاؤ کیا کہنا ہے.. مارک نے روشانی کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے کہا.. 

کیا تم مجھے ان تصاویر کا جواب دو گے. . روشانی نے. دوبارہ موبائل مارک کی طرف کیا.. 

او اچھا تو اس کے پاس تمہارا موبائل نمبر بھی ہے پوری تیاری کے ساتھ آیا ہے… مارک کی بات پر روشانی یک دم ٹھہر گی کہ اس کے پاس میرا موبائل نمبر کیسے آیا..

لیکن جب انسان کے دماغ میں غصہ سوار ہو تو وہ اس کی عقل کو بھی کھا جاتا ہے.  روشانی نے. اگلے ہی لمحے مارک کی بات کو اگنور کر دیا..

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

واٹ ایور..  یہ میری بات کا جواب نہیں ہے مجھے میری بات کا جواب چاہیے.. تم تو میرے لیے اچھے بن رہے تھے تو یہ سب کیا ہے. .. روشانی نے. اپنی بات دوہرائی.. 

مارک دو قدم چل کر روشانی کے پاس آیا.  اور بڑے پیار اور تحمل کے ساتھ روشانی کا ہاتھ پکڑا وہ جانتا تھا کہ روشانی بہت غصے میں ہے اور اگر وہ بھی غصہ میں آگیا تو کام خراب ہو سکتا ہے. 

روشانی یہ سچ ہے کہ تمہارے آنے کی وجہ سے میں  وہ پہلے والا مارک نہیں رہا… تم میری زندگی میں روشنی لے کر آئی ہو.  تم میری روشانی نہیں میری روشنی ہو… جب تک میں تم سے محبت کرتا تھا وہ محبت بس میری تھی لیکن جب تم نے بھی اپنی محبت کا اظہار کیا تو تمہاری محبت میرا جنون بن گی ہے.  

تمہارے لیے میں کچھ بھی برداشت نہیں کرسکتا.  تمہیں کوئی چھوٹی سی بھی چوٹ پہنچائے مجھ سے برداشت نہیں ہوتا… مارک ابھی بات کر رہا تھا کہ روشانی نے. اپنا ہاتھ پھر سے مارک کے ہاتھ سے چھڑایا.. 

. تو یہ سچ ہے جو نافع  نے مجھے سے کہا.  روشانی مارک سے بات کر رہی تھی لیکن مارک اپنے خالی ہاتھ کو دیکھ رہا تھا جس میں اب روشانی کا ہاتھ نہیں تھا…

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

 ہاں یہ سچ ہے.. مارک نے گہرا سانس لیا اور روشانی کی طرف دیکھا..  

کیوں مارک کیوں مجھ سے جھوٹ بولتے ہو.. میری محبت کا یہ صلہ دے رہے ہو.  تم سے اچھا تو یہ نافع ہے جس سے میرا کوئی تعلق بھی نہیں اور اس نے مجھے یہ سب بتا دیا…  

روشانی کے منہ سے یہ الفاظ نکلتے ہی مارک نے یک دم روشانی کی طرف دیکھا اور اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے اپنے ہاتھ کی مٹھی کو زور سے دبایا… 

میں نے جو کیا ٹھیک کیا… اور میں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا.. جب مجھے نافع کے بارے میں سب پتہ چل جاتا تو میں نے تمہیں بتا دینا تھا.. 

مارک نے. اپنے الفاظ کو دباتے ہوئے روشانی کو کہا.. 

اچھا تو یہ بات ہے..  اچھا تو اس بات کا کیا جواب ہے تمہارے پاس جو ڈاکٹر کے گھر کمرے کا دروازہ بند کرکے بات کررہے تھے.. اور ہادی کو کہاں بھیجا ہے.. اور تو اور وہ تمہارے نمبر پر اس لڑکی کا میسج..  ہاں بولو.. ہے کوئی جواب.. روشانی بول رہی تھی.. اور مارک اب خاموش کھڑا تھا.. رائٹر.. اے ایس راجپوت 

روشانی نے وہ سب پوچھ لیا تھا جو مارک نے روشانی کو وقت آنے پر بتانا تھا لیکن مارک کو وہ سب باتیں کوئی اثر نہیں کر رہی تھی جو روشانی نے اب کی تھی.. 

اس کے دماغ میں بس یہی بات چل رہی تھی کہ نافع کے پاس روشانی کا نمبر کیسے آیا اور روشانی کے کہے الفاظ جو اس نے نافع کے لیے کہے تھے.   

چپ کیوں ہو.. بول کیوں نہیں رہے.. کوئی جواب نہیں ہے تمہارے پاس.. تم نے جھوٹ ہی اتنے بولے ہیں.. کیا پتہ    ابھی بھی تم کتنی لڑکیوں کے ساتھ رات گزار رہے ہو گئے.   اور میرے سامنے نیک  بن رہے ہو.. 

روشانی اب  کچھ زیادہ نہیں ہو گیا تم بغیر کچھ سوچے سمجھے بول رہی ہو.. روشانی کی اس بات مارک جو کب سے خاموش تھا بول پڑا…

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

ٹھیک کہا مارک.. میں واقعی بغیر سوچے سمجھے ہی سب کر لیتی ہوں.. بول پڑتی ہوں.. تم سے محبت بھی میں نے. بغیر سوچے سمجھے کر لی یہ جانتے ہوئے بھی کہ تم لڑکیوں کو کیا سمجھتے ہو.. ہادی ٹھیک ہی کہتا تھا.. کہ جو شخص کسی لڑکی کی عزت نہیں کرسکتا وہ محبت کیسے کر سکتا ہے..  

غلطی ہو گی مجھ سے جو میں نے. تم سے محبت کی.  روشانی کی اب آنکھوں میں نمی اگی…  

کیا کہا تم نے..  تم سے غلطی ہو گی. .. ہاں..  دیکھو.. میری طرف… تمہیں میری محبت غلطی لگتی ہے روشانی تم مجھے جو مرضی کہہ لو لیکن میری محبت کو کچھ مت کہو.. تمہاری محبت جہاں ختم ہوتی ہے میری محبت وہاں شروع ہوتی ہے… اور میں نے. تم سے کہا تھا کہ وقت آنے پر میں تمہیں سب بتا دوں گا.  مارک کی اب بات برداشت سے باہر ہو رہی تھی.. آج ایک لمبے عرصے بعد مارک کی آنکھوں میں نمی جھلکی تھی.. 

تم نے وقت ہی تو گنوا دیا ہے مارک اور میری محبت کو بھی…. بات کرتے ہوئے روشانی کی آنکھوں سے آنسو کے قطرے نکل کر  اس کے رخسار پر گر گے.  روشانی نے اپنی ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کیے  اور اپنے مزید آنسو کو کنٹرول کرنے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے تیزی سے چلتی ہوئی اپنی گاڑی کی طرف چلی گئی..

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

روشانی روکو.. مارک روشانی کے پیچھے بھاگا.. لیکن روشانی گاڑی لے کر چلی گی تھی.  

مارک وہی ساکت کھڑا تھا.. جس کی محبت ابھی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گی . …. آج وہ اپنے آپ کو دنیا کا ایک ہارا ہوا انسان سمجھ رہا تھا. 

➖➖➖➖➖➖➖

روشانی ہوٹل سے نکلتے ہی سیدھا ہسپتال پہنچ گی جہاں نافع تھا.. نافع نے اپنی ایک تصویر کے نیچے جان بوجھ کر ہسپتال کا نام لکھ دیا تھا.. 

ایک تیر نشانہ پرچلانے کے بعد اس نے دوسرا بھی چلا دیا تھا جو ٹھیک جگہ پر لگا تھا.. 

روشانی گاڑی کے شیشے سے اپنے چہرے کو نارمل کرتے ہوئے گاڑی سے اتری.. 

نافع کے کمرے میں جانے سے پہلے اس نے دروازہ نوک کیا.. اور ساتھ ہی دروازہ کھول دیا.. 

اندر بیڈ پر نافع لیٹا ہوا تھا.. اس کا چہرہ کافی زخمی تھا روشانی کو یوں آتا دیکھ کر وہ فوراً اٹھا کر بیٹھ گیا.. اس کو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ اس کا پلان اتنی جلدی کمیاب ہو جائے گا.. 

روشانی جب اندر آئی تو اسے نافع کے بیڈ کے پاس وہی وائٹ گلاب پڑے نظر آئے جو اسے تین چار بار کسی انجان نے بھیجے تھے.. 

آپ لیٹے رہو.. روشانی نے آتے ہی نافع کو کہا.. 

نہیں.. آپ اگی میرے لیے تو مجھے یقین نہیں آرہا بس اس لیے جوش سے اٹھ  گیا.. نافع اپنے پلان کی خوشی کو کنٹرول نہیں کر پایا…

رائٹر.. اے ایس راجپوت 

میں بس یہ کہنے آئی تھی کہ ایم سوری آپ کو مارک کی وجہ سے یہ سب ہوا..  وہ زرا میرے معاملے میں کوئی بات برداشت نہیں کر سکتا تو بس یہ سب کچھ ہو گیا.  روشانی نے نافع کی طرف دیکھتے ہوئے کہا.. 

کوئی بات نہیں اب میں ٹھیک ہو گیا ہوں آپ پوچھنے اگی ہیں تو میرے لیے یہی کافی ہے..  نافع نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ روشانی کی طرف دیکھا.. 

ہمممم…. تھینکس..  میں اب چلتی ہوں.. آپ اپنا خیال رکھیں.. روشانی نے موڑ تے ہوئے پھر سے پھولوں کو دیکھا.. 

یہ پھول.. روشانی نے. پھول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا.. 

ہاں وہ مجھے وائٹ گلاب پسند ہیں.. اس لئے میں  جب  بھی بیمار ہوتا ہوں تو اسے اپنے پاس رکھتا ہوں.. 

نافع نے پھولوں کی خوشبو لیتے ہوئے کہا.. 

ہمممم. اوکے.. روشانی نافع کی بات کرتے ہوئے جلدی جلدی سے کمرے سے باہر اگی. .. اسے بھی تو تب ہی وائٹ گلاب ملتے تھے جب وہ ٹھیک نہیں ہوتی تھی.. 

روشانی  جیسے نافع کے کمرے سے باہر آئی.. اس کے دماغ پر غصے کے چھائے بادل یک دم ختم ہو گئے.. 

یہ میں نے کیا کر دیا.. روشانی کا دل ضرور سے دھڑکنے لگ گیا اس نے گردن موڑ کر نافع کے کمرے کی طرف دیکھا اور اس کی آنکھوں کے آگے وہی وائٹ گلاب آگے.. 

کہیں یہ نافع تو نہیں تھا جو مجھے گلاب بھیجتا تھا.. روشانی پریشانی سے قدم اٹھائے گاڑی کی طرف جا رہی تھی.. گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے موبائل اٹھایا اور مارک کا نمبر نکالا.. لیکن ساتھ ہی اسے مارک سے کہی ہوئی ساری باتیں یاد آگئی.. جو اس نے  بغیر سوچے سمجھے کہہ ڈالی تھی. 

وہ مارک جس نے اس کو بچانے کے لئے اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کی تھی آج اس نے حد کر دی تھی.. اسے باتیں کر کے.. 

روشانی کی آنکھوں کے سامنے مارک کا وہ چہرہ آرہا تھا جس کی آنکھوں کی چمک روشانی کی باتیں سن کر غائب ہو گی تھیں.. 

یہ کیا ہو گیا مجھ سے.. میں نے کیا کر دیا.. کیوں خود پر قابو نہیں پا سکی.. میں نے اس شخص کو اتنا کچھ کہہ دیا جس نے میرے لیے کیا کچھ نہیں کیا.  روشانی یہ سوچتے ہوئے رو دی.  اس کے ہاتھ میں پکڑا موبائل نیچے گر گیا.. روشانی کے دونوں ہاتھ اسکے چہرے کو چھپائے ہوئے تھے.. جب روشانی کی گاڑی کے شیشے پر کسی نے نوک کیا.. 

مارک…  روشانی نے ہاتھ اپنے چہرے سے پیچھے کرتے ہوئے بولا.  روشانی کو لگا کہ مارک اس کے پیچھے اگیا ہے.  لیکن جب روشانی نے اپنے بھیگے ہوئے چہرے کے ساتھ باہر دیکھا تو ہسپتال کا گارڈ تھا جو روشانی کو گاڑی سائیڈ پر رکھنے کا کہہ رہا تھا.. 

روشانی نے اپنا چہرہ صاف کیا اور گاڑی کو نکالتے ہوئے اپنے فلیٹ کی طرف چل پڑی.. 

➖➖➖➖➖➖➖➖

روشانی کے جانے کے بعد مارک فوراً اپنی گاڑی کی طرف گیا کہ وہ روشانی کے پیچھے جا سکے لیکن ساتھ ہی اس کے موبائل پر کال اگی.. 

کال کرنے والے نے اس گاڑی کا بتایا اور نافع کا بھی بتایا…  گاڑی کایا کی تھی اور نافع کے کال ریکارڈ پر کایا کے نمبر پر کافی بار کال ہوئی تھی.  

مارک نے کال بند کرتے ہوئے اپنی گاڑی کے ونڈو کے شیشے پر غصے سے مکا دے مارا جس سے ونڈو کا شیشہ ٹوٹ گیا.. شیشے ٹوٹنے کی آواز سن کر ہوٹل کا گارڈ جلدی سے مارک کی طرف بڑھا…  

مارک نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روکنے کا کہا.  

مارک کے ہاتھ سے اب خون نکل رہا تھا.. جس کی بوندیں زمین پر گر رہی تھیں.  

سر آپ کے ہاتھ سے خون نکل رہا ہے گارڈ جو مارک کے کہنے پر وہی روک گیا تھا اس سے رہا ہی نہیں گیا اور بول پڑا.  

مارک گارڈ کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے اندر بیٹھ گیا… اپنا خون سے لت پت ہاتھ مارک نے سٹیرنگ پر مارا.. 

یہ کیا کر دیا تم نے روشانی…  کیا کر دیا…  تھوڑی دیر تو انتظار کر لیتی… مارک نے گاڑی سٹارٹ کیا اور تیز رفتار سے چلاتے ہوئے اپنے گھر کی طرف چلا گیا.. 

➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ 

شیزا کا شوہر جیسے اپنے آفس جانے کے لیے گھر سے باہر نکالا ہادی کے بندے کی گاڑی نے شیزا کے شوہر کے گاڑی کا تعاقب کرتے ہوئے اس کا پیچھا کرنا شروع کر دیا. .. 

شیزا کے شوہر کی گاڑی اس کا ڈرائیور چلا رہا تھا اس نے جب اپنے پیچھے آتی مسلسل گاڑی کو دیکھا تو شیزا کے شوہر کو بتایا..  

سر کوئی گاڑی ہمارا مسلسل پیچھا کر رہی ہے.. 

. ڈرائیور کی بات پر شیزا کے شوہر نے گردن موڑ کر پیچھے کی جانب دیکھا وائٹ کلر کی گاڑی نے ساتھ ہی اپنی گاڑی کی ہیڈ لائٹس آن کی.  

گاڑی کی  رفتار تیز کرو.. 

شیزا کے شوہر نے یہ دیکھتے ہوئے اپنے ڈرائیور کو کہا جس نے گاڑی کی رفتار تیز کر دی.. گاڑی تیز رفتار سے چلتے ہوئے ہائی وے پر پہنچ گی جہاں ہاوی لوڈ ٹریک چل رہے تھے….

ہادی کے بندے نے شیزا کے شوہر کی گاڑی کو بار بار اور ٹیک اور کر رہا تھا  گاڑی کی رفتار تیز ہونے کی وجہ سے شیزا کے ڈرائیور سے گاڑی کنٹرول نہیں ہوئی اور گاڑی تیز رفتاری سے سیدھی جاکر آگے ہاوی ٹرک سے ٹاکرا گی جس سے پیچھے سے آتا ایک اور ٹرک اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکا اور شیزا کے شوہر کی گاڑی کے ساتھ اکر ٹکرا گیا.. 

جس سے گاڑی دونوں ٹرک کے درمیان میں اکر سینڈوچ بن گی… 

ہادی کے بندے کی گاڑی نے وہاں سے گزرے ہوئے شیزا کے شوہر کی تصویر لی جس میں شیزا کا شوہر اور اسکا ڈرائیور موقع پر جاں بحق ہو گئے تھے 

اس بندے نے تصاویر لی اور ہادی کو سنڈ کرتے ہوئے اپنے رستے کی طرف نکل گیا..  

ہادی ابھی شاور لے کر نکلا ہی تھا کہ اسے اپنے فون پر میسج ٹون سنائی دی اس نے ٹیبل سے فون اٹھایا اور

 واٹس ایپ  اوپن کرتے ہی اس نے تصاویر اوپن کی اور نیچے ڈن لکھا تھا. 

ہادی نے ساتھ ہی شیزا کو کال مالا دی.. شیزا جو اپنے فون پر پہلے ہی مصروف تھی ہادی کی کال آتی دیکھ کر اس نے فوراً کال اٹھائی.. 

ٹی وی آن کرو.. ہادی کی کال ریسو ہوتے ہی اس نے شیزا کو کہا.. 

شیزا نے فوراً ریموٹ سے ٹی وی آن کیا.  ایک ہاتھ میں موبائل کان کو لگائے وہ ہادی کی خاموشی کو محسوس کر رہی تھی دوسری طرف ٹی وی پر چلنے والی نیوز کو دیکھ رہی تھی اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں ارہا تھا کہ ایک دن میں یہ سب ہو گیا.. 

سپین کے بڑے بزنس مین آج ٹریفک حادثے میں اپنے ڈرائیور کے ساتھ جان بحق ہو گئے.. 

نیوز سنتے ہی شیزا نے فوراً ٹی وی بند کر دیا.. اس کی دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھی جس کے ساتھ ایک عرصہ گزارا تھا.  جس شخص کے ظلم وہ پیچھلے کئی سالوں سے برداشت کر رہی تھی آج ایک ہی دن میں اس سے نجات مل گی تھی.  

آپ کا کام ہو گیا ہے اب آپ اپنے شوہر کے لیے ان کے دفنانے کا انتظام کریں وہاں ہی ملاقات ہوتی ہے.. 

ٹی وی کی آواز بند ہوتے ہی ہادی فون پر بولا.  اور ساتھ ہی ہادی نے فون بند کر دیا.. شیزا کہ منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکل سکا وہ وہی گھم سم بیھٹی رہی… .. 

ہادی کی کال بند ہوتے ہی شیزا کے نمبر پر ہسپتال سے کال اگی اور اس کے ساتھ ہی کالز کا سلسلہ شروع ہو گیا.. 

شیزا نے خود کو سنبھالا اور ویل چیئر پر بیٹھتے ہوئے باہر کی جانب  اگی جہاں گارڈ گاڑی کے پاس اس کا انتظار کر رہا تھا.. 

شیزا کے دماغ میں ہلچل پیدا ہو رہی تھی کہ ہسپتال پہنچ کر پولیس اس سے کون سے سوال کرے گی.  سارے راستے وہ یہی سوچتی رہی.. لیکن ہسپتال پہنچتے ہی شیزا کی سوچ کے بلکہ مختلف ہوا.  

وہاں پولیس تو تھی لیکن کسی بھی پولیس والے نے شیزا سے کچھ نہیں پوچھا شیزا اسی حیرانگی سے اندر کمرے کی طرف چلی جہاں اس کا شوہر خون سے لت پت پڑا تھا جس کی حالت اس قابل نہیں تھی کہ اسے دیکھا جائے.  شیزا ایک نظر بھی نہیں دیکھ سکی اور فوراً باہر کی طرف پلٹی…  

باہر نکلتے ہی اسے سامنے پولیس کے پاس ہادی کھڑا نظر آیا.. شیزا سمجھ چکی تھی کہ ماجرا کیا تھا کہ کیوں پولیس والوں نے اس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی.. 

شیزا ویل چیئر کے ساتھ ہادی کے پاس اگی.  

ٹھیک ہے آپ ڈیڈ باڈی لے کر جا سکتے ہیں.. شیزا کے پاس آتے ہی پولیس والے نے ہادی کو کہا اور وہاں سے چلا گیا.. 

ہادی یہ سب کیا تھا.. میں نے. مارک کو یہ سب کرنے کے لیے نہیں کہا تھا.. جو تم نے اس کا حشر کیا ہے.. شیزا جس کی سانس اکھڑ رہی تھی بمشکل بول سکی تھی.. 

مجھے جو مارک نے کہا تھا وہ میں نے کر دیا اب آپ اور مارک کی کیا بات چل رہی تھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا…  اب آپ یہاں سے چلیں.. مجھے آپ کے شوہر کے دفنانے کا کام بھی تو مکمل کرنا ہے.. ہادی نے موبائل پاکٹ میں ڈالا.. اور شیزا کو باہر کی طرف جانے کا اشارہ کیا.. 

شیزا حیرت سے ہادی کی طرف دیکھ رہی تھی کہ یہ کیوں انتظام کرے گا.. 

روکو ہادی…  شیزا نے باہر جاتے ہادی کو آواز دی.. شیزا کی آواز پر ہادی نے گردن موڑ کر شیزا کی طرف دیکھا.. 

کیا ہوا اب…  ہادی نے حیرت بھری نظروں سے شیزا کی جانب دیکھا.. 

تم…. تم کیوں انتظام کرو گے… شیزا نے اپنی ویل چیئر ہادی کے پاس لے آئی…  شیزا کی اس بات پر ہادی مسکرا دیا.. اور شیزا کی طرف بڑھا اپنے دونوں ہاتھ شیزا کی چیئر کے ہینڈل پر رکھتے ہوئے  تھوڑا  آگے کو جھکا.. ہادی کو ایسے اپنے قریب ہوتے دیکھ کر شیزا نے نے فوراً اپنا چہرہ پیچھے کیا.. 

مارک نے ٹھیک کہا تھا.. کہ آپ ہر ایک بات پر سوال کرتی ہو.  لیکن ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ آپ کی ہر بات کا جواب دینا ضروری نہیں ہے.. ہادی بات کرتے ہوئے شیزا کی آنکھوں میں. دیکھ رہا تھا اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی.. شیزا اپنی آنکھوں کو سکڑتے ہوئے ہادی کی طرف دیکھ رہی تھی ساتھ ہی اس نے غصے سے دانت پیستے ہوئے اپنی چیئر کو پیچھے کیا.. 

ہادی اب سیدھا ہو کر کھڑا ہو گیا.. 

کچھ اور پوچھنا ہے. آپ نے کیا.. 

نہیں.. کچھ نہیں پوچھنا.. شیزا یہ کہتے ہوئے باہر کی جانب چلی گئی.. ہادی نے اپنے آنکھوں پر گلاسسز لگائے اور شیزا کے پیچھے باہر کی جانب اگیا.. 

شام تک تمام انتظامات ہو چکے تھے شیزا اب قبرستان میں موجود تھی جہاں اس کے شوہر کی آخری رسومات ادا کی جارہی تھیں.. 

بلیک کلر کے سوٹ میں آنکھوں پر بلیک کلر کے گلاسسز لگائے افسردہ چہرہ بنائے شیزا ویل چیئر پر بیھٹی تھی اور ساتھ ہی ہادی ہاتھ باندھے کھڑا تھا.. 

ہادی نے ایک دو بار شیزا کی طرف دیکھا جو خاموش بیھٹی تھی.. ہادی کے ہاتھ میں. گاڑی کی چابی تھی جو اس نے زمین پر گرا دی.. 

چابی کو اٹھانے کے بہانے  ہادی جیسے نیچے کی طرف جھکا اس نے شیزا کی طرف دیکھا جس کا چہرہ اور رخسار خشک تھے وہاں کوئی  آنسو  کا ایک بھی قطرہ نہیں تھا.. 

اگر آپ اپنی گلاسسز اتار کر دو آنسو بہا دے گی تو سب کو یقین ہق جائے گا کہ آپ اپنے شوہر سے کتنا پیار کرتی تھیں اور ان کے جانے کا آپ کو دکھ ہے.. تو یہ گلاسسز اتار کر اس ڈرامے میں تھوڑی حقیقت بھر دیں.. ہادی یہ کہتے ہوئے زمین سے چابی اٹھا کر سیدھا کھڑا ہو گیا.. 

ہادی کی بات پر شیزا نے سر اٹھا کر ہادی کی طرف دیکھا جو اب سامنے دیکھ رہا تھا.. 

شیزا نے ایک گہرا سانس لیا.. اور ساتھ ہی گلاسسز اتار کر اپنی گود میں رکھ لیے.  ہادی نے نظر جھکا کر. شیزا کی طرف دیکھ اور بمشکل اپنی مسکراہٹ کو دبا سکا وہ ایسی جگہ کھڑا تھا جہاں وہ کھول کر مسکرا بھی نہیں سکتا تھا.. 

شیزا کی کوشش کے باوجود اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں نکلے.. جس شخص نے اسے اذیت میں رکھا تھا وہ اس کے لیے کیسے اپنے آنسو بہا سکتی تھی.. 

تمام رسومات مکمل ہونے کے بعد ہادی نے شیزا کو اس کے گھر چھوڑا…  

اب مجھے اجازت دیں آپ کا کام مکمل ہو گیا ہے میں اب واپس چلا جاؤں گا.. ہادی نے شیزا کی طرف دیکھا.. 

لیکن میرا کیا ہو گا میں ایسے نہیں رہ سکتی یہاں مجھے اپنے ساتھ لے کر جاو.. شیزا نے ہادی کی بات پر فوراً جواب دیا وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ مزید سپین میں رہے.. 

ایم سوری میں آپ کو ساتھ نہیں لے کر جا سکتا مجھے مارک نے نہیں کہا تھا.. اور ویسے بھی آپ اس حالت میں. سفر نہیں کرسکتی.. 

ہادی ابھی بات کر رہا تھا کہ. اس کے فون پر کال آئی.. اس نے فون کو دیکھتے ہی شیزا کو ویٹ کا کہہ کر جلدی سے باہر کی طرف نکل گیا.. 

کال سننے کے بعد ہادی اندر آیا نظریں اس کی موبائل پر تھیں.  

مارک کو آپ کال کرکے بتا دیں مجھے ابھی نکلنا ہے.  ہادی نے جیسے سر اوپر اٹھایا تو اس کے سامنے شیزا اپنے پاؤں پر کھڑی تھی اور اس کے ساتھ زمین پر بیگ پڑا تھا جیسے وہ پہلے سے جانے کی پوری تیاری کر چکی تھی.. 

یہ سب دیکھ کر ہادی کی آنکھیں کھول گی وہ حیرت سے شیزا کی طرف دیکھ رہا تھا اور پھر بیگ کی طرف.   

آپ…  آپ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہیں کیا.. ہادی حیرت سے بولا.. 

بلکل …  اب چلیں.  اب تو کوئی وجہ نہیں ہے نا تمہارے پاس مجھے ساتھ نا لے جانے کی .. شیزا چلتی ہوئی ہادی کے پاس آئی اور بیگ ہادی کی طرف کیا.. 

کیا سامان نہیں اٹھاو گے میرا.. شیزا نے کی طرف اشارہ کیا.. 

ہاں…. کیا…  بیگ.. ہادی نے بیگ کی طرف دیکھا.. 

ہاں بیگ.. پکڑو…  شیزا نےکہا.. 

لیکن آپ کی  ٹکٹ تو کنفرم نہیں ہے تو کیسے.. ہادی کے پاس اب شیزا کا بیگ پکڑنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا…  

وہ میں نے انتظام کر لیا ہے..تم آجاؤ بس.. شیزا یہ کہتے ہوئے باہر کی طرف چلی گی.. 

یہ تو میری سوچ سے بھی زیادہ تیز نکلی.. ہادی بڑبڑاتا ہوا شیزا کے پیچھے چلا گیا.. 

➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ 

عزل نے ایک ہاتھ اذعام کے کندھے پر. رکھا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ میں پسٹل پکڑے اذعام کے سینے پر رکھی ہوئی تھی.. 

اذعام نے سونیا کی طرف دیکھا جو آنکھوں کے اشارے سے اذعام کو بھاگنے کا کہہ رہی تھی… اذعام نے سونیا کی طرف ایک مسکراہٹ دی اور پھر عزل کی طرف دیکھا.. 

آپ مجھے مارنا چاہتے ہو تو مار دو مجھے.. دیر کیوں کر رہے ہو… اذعام نے عزل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا.. 

اہو تو تم اتنے بہادر ہو گئے ہو.. بڑی بات ہے.. اگر مرنے کی اتنی ہی جلدی ہے تو میں کیوں کروں دیر پھر.. عزل نے یہ کہتے ہوئے اذعام کے سینے پر پسٹل کو دبایا.. اذعام کی بات سن کر سونیا کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے.. یہ سب اسی کی وجہ سے ہو رہا تھا.. اذعام سونیا کو ہی بچانے آیا تھا اور خود پھنس گیا تھا.. 

اس سے پہلے عزل پسٹل سے گولی نکال کر اذعام کے سینے کے آر پار کرتا.. اذعام کے ہاتھ میں پکڑا تیز دھار والا چاقو جو اس نے اپنی لمبی شرٹ کے بازو کے نیچے چھپایا ہوا تھا.  سیدھا عزل کے دل میں گھونپ دیا.. 

چاقو عزل کے دل کو چیر چکا تھا چاقو لگتے ہی عزل کے سینے سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا.. عزل کے ہاتھ سے پسٹل نیچے گر گی.. 

پری یہ سب دیکھتے ہوئے جلدی سے عزل کی طرف بڑھی.. اذعام نے موقع دیکھتے ہوئے عزل کے ہاتھ سے گری ہوئی پسٹل کو اٹھا لیا.. 

روک جاؤ وہی…  اذعام نے پسٹل کا رخ پری کی طرف کیا.. پسٹل کا رخ اپنی طرف دیکھتے ہی پری وہی روک گی.. اس کی نظر عزل پر پڑی جو بغیر پانی کے مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا.. 

کیا دیکھ رہی ہیں آپ.. ایسے ہی تو آپ دوسرے لوگوں کو تکلیف دیتی ہیں. وہ بھی ہر رات اس سے زیادہ اذیت سے گزارتے ہیں.. یہ تکلیف تو کچھ بھی نہیں ہے.. 

جائیں اور جاکر سونیا آپی کی رسیاں کھولیں نہیں تو میں آپ پر گولی چلا دوں گا.. اذعام نے بڑے اعتماد کے ساتھ پری کو کہا.. اذعام کے لہجے میں. وہ رعب دبدبہ تھا جیسے کوئی تیس پینتیس سال کا آدمی بات کرتا ہو…  

اذعام نے پسٹل سے پری کو اشارہ کیا کہ وہ سونیا کی رسیاں کھول دے. .. 

پری جلدی سے سونیا کی طرف گی اور کانپتے ہاتھوں سے اس نے سونیا کی رسی کھول دی.. 

کتنا دکھ ہوتا ہے نا کسی اپنے کو یوں مرتا دیکھ کر…  اذعام نے عزل کی طرف دیکھا جو اب ٹھنڈا پڑ چکا تھا.. 

آپ نے کتنے لوگوں کو مار دیا.  کتنے ماؤں سے انکی بیٹیاں بیٹے الگ کر دیے لالچ دے کر.. آج ایک برائی اپنے انجام کو پہنچ گی.. اذعام کے ہاتھ میں پکڑی پسٹل اب  بھی پری کی طرف تھی.. سونیا جلدی سے اٹھ کر اذعام کی طرف آئی..  

مجھے معاف کر دو اذعام مجھے ایک موقعہ دو میں اب ایسا کچھ نہیں کروں گی پری نے اذعام کے آگے ہاتھ جوڑے…  

آپ بھی تو کسی کو موقع نہیں دیتی.. بلکہ آپ تو دوسروں سے ان کی زندگی چھن لیتی ہیں…  ابھی اذعام بات کر رہا تھا کہ سونیا نے اذعام کے کندھے پر ہاتھ رکھا.. 

اذعام چلو ہم چلتے ہیں.. چھوڑ دو اسے.. سونیا کی بات پر اذعام نے سونیا کی طرف غصے سے دیکھا.. آج سونیا کو بھی اذعام وہ اذعام نہیں لگ رہا تھا جو وہ دو سال پہلے یہاں آیا تھا.. 

آپ باہر جائیں.. میرا انتظار کریں..  میں آتا ہوں.. اذعام کے جواب پر سونیا کچھ بول نہیں سکی اور اذعام کی طرف دیکھتے ہوئے باہر کی طرف جاتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گی.. 

اچھا تو آپ کو معاف کر دوں.. موقع دے دوں.  ٹھیک ہے.. میں تین گنو گا اگر آپ میرے تین گنے تک آپ سیڑھیوں تک نہیں گی تو آپ موقع گنوا دے گی.  

پری اذعام کی بات سب کر دل ہی دل میں ہنس پڑی کہ یہ ابھی بھی بچہ ہے. جو تین گننے پر چھپن چھپائی کھیل رہا ہے.. وہ تین گننے سے پہلے ہی سیڑھیوں تک چلی جائے گی.. 

یہی سوچتے ہی پری نے سیڑھیوں کی طرف جانے کے لیے قدم اٹھایا.. اور ساتھ ہی اذعام نے ایک کہا.. 

ایک…. اور ساتھ ہی پسٹل سے ایک گولی نکل کر پری کی ٹانگ پر جا لگی.. پری وہی لڑکھڑا کر گر گی.. 

اٹھیں..  گر کیوں گی.  نہیں تو موقع نہیں ملے گا. .  پری کو گرتے دیکھ کر اذعام بول پڑا.. 

پری کہ دل میں اب خوف بیٹھ گیا وہ جو سوچ رہی تھی ویسا نہیں ہوا. اس سے پہلے کہ وہ موقع واقعی گنوا دیتی اپنی زخمی ٹانگ کے ساتھ بمشکل اٹھی اس کی ٹانگ سے خون بہہ رہا تھا ابھی وہ دو قدم بمشکل چل پائی تھی کہ اذعام بول پڑا.. 

دو….. اور ساتھ ہی اذعام کی پسٹل سے دوسری گولی نکل کر پری کی دوسری ٹانگ پر جا لگی.. پری اب اوندھے منہ زمین پر جا گری..  

کیا ہوا..  آپ چل کیوں نہیں رہی…  گر کیوں گی ابھی تو سیڑھیاں بہت دور ہیں.. چلیں اٹھیں…  اذعام اب پری کے قریب آگیا تھا.. 

آپ انہیں پاؤں سے چل کر جاتی تھیں نا اور دوسروں کی زندگی برباد کر دیتی تھیں.  اب کیوں نہیں چل رہی جائیں.. چلیں.. 

اذعام بول رہا تھا لیکن پری کے منہ سے ایک لفظ بھی. نہیں نکلا.. ٹانگوں پر گولیاں لگنے سے اور خون بہنے سے پری کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا.  

کتنی بے بس ہو گی ہیں آج آپ.. لیکن پھر بھی میں آپ کو چھوڑ رہا ہوں اگر آپ باہر نکل سکتی ہیں تو نکل جائیں.. اذعام یہ کہتے ہوئے آگے کی طرف بڑھا.. پھر روک گیا.. 

میری تو گنتی پوری نہیں ہوئی ابھی..  پری جو آدھی بند آنکھوں سے اذعام کو اپنی طرف آتا دیکھ رہی تھی لیکن کچھ کر نہیں پا رہی تھی.. خاموشی اپنی موت کو اذعام کی شکل میں دیکھ رہی تھی.. 

اذعام پری کے پاس آتے ہی پسٹل پری کی کمر کے اوپر کی.. 

تین….  اور پھر تیسری گولی پسٹل سے نکل کر پری کی ریڑھ کی ہڈی کے آر پار کر دی.. پری جس کے اندر  تھوڑی بہت ہمت تھی وہ بھی جواب دے گی اور اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا.. 

پری کی سانسیں تو چل رہی تھیں لیکن وہ ایک بے جان لاش کی طرح پڑی ہوئی تھی….. اذعام نے اگے بڑھ کر اسی رسی کے ساتھ عزل اور پری کی دونوں ٹانگوں کو آپس میں. باندھ دیا اور پسٹل کو اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ڈالتے ہوئے جلدی سے تہہ خانے سے باہر نکل ایا جہاں سونیا اس کا انتظار کر رہی تھی.. 

کیا ہوا پری کا.. سونیا نے اذعام سے پوچھا جو جلدی سے تہہ خانے کا لاک دوبارہ سے بند کر رہا تھا..  

 دونوں اپنے انجام کو پہنچ گئے ہیں.. اب ہمیں یہاں سے نکلنا ہے.. 

اذعام یہ کہتے ہوئے آگے کی طرف بڑھا.. سونیا وہی کھڑی تھی.. اذعام نے جب دیکھا کہ سونیا ساتھ نہیں آئی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا.. 

آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں… چلیں..  اذعام کو حیرت ہو رہی تھی کہ سونیا اب وہاں کیوں کھڑی ہے…  

اذعام میں نے تمہیں ایک قاتل بنا دیا ہے.. یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے میں تمہیں اب کسی اور مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتی تم چلے جاؤ میں کہیں اور چلی جاؤں گی.. 

سونیا کی بات پر اذعام چلتا ہوا سونیا کے پاس آیا.. 

میں نے اپ کو اپنی آپی کہا ہے اور آپ کی وجہ سے کچھ نہیں. ہوا برائی کا انجام برا ہی ہوتا ہے.. اگر آپ میرے ساتھ نہیں آئی تو میں خود کو پولیس کے حوالے کر دوں گا.. 

اذعام کی بات پر سونیا نے یک دم اذعام کی طرف دیکھا.  وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اذعام یہ سب بھی سوچ سکتا ہے.. 

نہیں تم ایسا کچھ نہیں کرو گے.. سونیا فوراً بول پڑی.. 

تو چلیں پھر.. اذعام نے ہاتھ آگے کی طرف کیا.. سونیا نے گہری سانس کے ساتھ اذعام کا ہاتھ پکڑا.. اور وہ دونوں اس قید سے باہر نکل آئے… 

صبح کی روشنی بڑھتی جا رہی تھی.. لیکن سونیا اور اذعام کو کہیں سر چھپانے کے لئے کوئی جگہ نہیں ملی.. 

سونیا کے ہاتھ میں پہنی انگوٹھی کو بیچ کر دونوں نے کچھ کھانے کا سامان لیا.  لیکن رقم اتنی نہیں تھی کہ وہ کسی جگہ روک سکتے..  اور اگر کہیں روکتے بھی تو کیا کہتے.. دونوں کے حلیے کو دیکھ کر کوئی بھی انہیں نا رکھتا.. 

سارا دن سڑکوں کی دھول جھونکتے ہوئے دونوں تھک ہار کر فٹ پاتھ پر بیٹھ گئے..  شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے.. اور دیکھتے ہی دیکھتے رات کی سیاہی نے شام کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا.. 

اب اذعام اور سونیا فٹ پاتھ پر بیٹھے بچا کچا کھانا کھا رہے تھے.  جب ان پر گاڑی کی روشنی پڑی..  اذعام نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے گاڑی کی طرف دیکھا.. 

سونیا نے جلدی سے اذعام کو اپنے پیچھے کیا اور خود کھڑی ہو گی.. 

گاڑی روکتے ہی گاڑی سے.. درمیانی عمر کا شخص نکلا جس کے کچھ بال سیفد تھے.. اور ساتھ ہی ایک با وقار عورت باہر نکلی جس نے کالی چادر اوڑھ رکھی تھی… دونوں چلتے ہوئے سونیا اور اذعام کی طرف دیکھا..  

سونیا نے دونوں کی طرف دیکھا اور پھر اذعام کی طرف دیکھا کیا وہ ایک مصبیت سے نکل کر دوسری میں پھنسے والے تھے سونیا کی آنکھوں میں چھپی بات اذعام کو پتہ چل گی تھی.. 

اذعام سونیا کے پیچھے سے ہوتا ہوا اس آدمی کے سامنے اکر کھڑا ہو گیا..  آدمی اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا.. 

کیا ہمارے ساتھ چلو گئے… آدمی نے بڑے پیار سے اذعام کو کہا… اس سے پہلے اذعام اس آدمی کو کچھ کہتا

اذعام کی نظر اس آدمی کی گاڑی کی نمبر پلیٹ پر پڑی..  ایک عرصہ ورکشاپ میں کام کرتے ہوئے اذعام کو اتنا پتہ چل گیا تھا کہ کون سی گاڑی کس نمبر پلیٹ کی کس کی ہوتی ہے.. 

نہیں ہم کہیں نہیں جائیں گئے.. سونیا پیچھے سے بول پڑی.. سونیا کو وہ وقت یاد اگیا جب پری ایسے ہی. بچوں کو ہمدردی دیکھا کر اپنے ساتھ لے جاتی تھی.. وہ اب کسی اور مشکل میں نہیں پڑنا چاہتی تھی.. 

سونیا کی بات پر اس آدمی نے مسکرا کر سونیا کی طرف دیکھا…  اور اپنے ساتھ کھڑی عورت کو اشارہ کیا کہ وہ سونیا کے پاس جائے..  

عورت کو اپنے پاس اتا دیکھ کر سونیا فوراً پیچھے کو ہوئی..  

گھبراو نہیں.  یہ میری مسز ہے.. اور جب دو بچے کسی کا قتل کر کے  بھاگ رہے ہو تو پولیس کے ہاتھوں میں آنے کے لیے یہ ثبوت ہی کافی ہو گا.  اس آدمی نے وہی پسٹل آگے کو کی جو اذعام کی پاکٹ میں تھی.. اپنی پسٹل کو اس آدمی کے ہاتھ میں دیکھ کر اذعام نے فوراً اپنی جیب میں دیکھا تو وہاں پسٹل نہیں تھی… 

اب اذعام اور سونیا ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھ رہے تھے ایک بار پھر وہ پھنس گئے تھے… 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

مارک ساری رات باہر گاڑی میں گزار دی ڈرائیو کرتے ہوئے وہ شہر سے بہت دور نکل چکا تھا اور ساتھ اپنی سوچوں میں بھی بہت دور نکل چکا تھا.. مارک کہ کانوں میں روشانی کی باتیں بار بار گونج رہی تھیں.  

گاڑی کو سائیڈ پر لگاتے ہوئے نجانے کب مارک نیند کی آغوش میں چلا گیا.. صبح کی سورج کی پہلی کرن جب گاڑی کے شیشے پر پڑتے مارک کے چہرے پر پڑی تو اس نے اپنی سرخ آنکھوں کو بمشکل کھولا.. 

آنکھیں کھولتے ہی اس نے اپنے کندھے کو دبایا جو ایک طرف سونے سے سن ہو چکا تھا اور ساتھ ہی اپنی گردن کے پیچھے ہاتھ رکھتے ہوئے اسے گھماتے ہوئے اپنے سر کو ایک جھٹکا دیا.. 

صبح ہو گی…  مارک نے گاڑی کی ونڈو سے سر باہر نکال کر دیکھا دور دور تک کھیتوں کے سواء کچھ نہیں تھا.. اس نے اپنے ہاتھ کو دیکھا جو گاڑی کا شیشہ توڑنے کی وجہ سے زخمی ہو گیا تھا اور ساری رات خون نکل کر وہی ہاتھ پر جم گیا تھا.. 

مارک نے ہاتھ کو نرمی سے موو کیا.. اور ساتھ ہی سامنے پڑا موبائل فون اٹھایا جو چارجنگ نا ہونے کی وجہ سے بند پڑا تھا..  

فون کو ساتھ والی سیٹ پر رکھتے ہوئے مارک نے گاڑی سٹارٹ کی اور اپنے ہوٹل نی طرف چل پڑا…  

گاڑی سڑک پر تیز رفتار سے چلاتے ہوئے وہ اپنے ہوٹل پہنچ چکا تھا.. آج وہ خود کو بہت تھکا ہوا محسوس کر رہا تھا جیسے کئی دنوں کی مسافت طے کر کے آیا ہو.. آنکھیں سرخ. بال الجھے ہوئے.. شرٹ کے بٹن کھولے ہوئے.. مارک ہوٹل کے اندر داخل ہوا.. 

ہوٹل کے کیفے میں بیٹھے اب لوگ مارک کو عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے.  مارک  سب کو اگنور کرتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا.. 

کمرے میں. جاتے ہی اس نے موبائل کو چارجنگ پر لگایا اور خود شاور لینے چلا گیا.. 

شاور لیتے ہوئے مارک کے ہاتھ پر پانی پڑتے ہی دوبارہ خون نکلنا شروع ہو گیا… ایک ہاتھ دیوار پر رکھے دوسرے ہاتھ کو شاور کے نیچے رکھے اپنے ہاتھ سے نکلتے خون مارک غور سے دیکھ رہا تھا بغیر کسی تکلیف کے وہ اپنے ہاتھ کو دیکھ رہا تھا.. 

روشانی جو اسے درد دے کر جا چکی تھی اس کے سامنے یہ  تکلیف کچھ بھی نہیں تھی . .. 

➖➖➖➖➖➖

روشانی کی موبائل فون کی بیل سے آنکھ کھولی..  جو مسلسل بج رہا تھا.. 

روشانی نے فوراً اپنی آنکھوں کو اپنے ہاتھ سے مسلتے ہوئے بیڈ سے اٹھی.. 

مارک کا فون ہو گا.. روشانی نے اٹھتے ہی کہا.. رات سے وہ مارک کو فون ٹرائی کر رہی تھی لیکن مارک کا نمبر بند جا رہا تھا…. 

صبح فون بجتے ہی اس کا دھیان سیدھا مارک کی طرف گیا.  لیکن فون پر مارک کی کال نہیں تھی کسی انجان نمبر سے کال آرہی تھی.. 

نمبر دیکھتے ہی روشانی نے کا دل بجھ گیا.. اس نے کال نہیں اٹھائی اور موبائل سائیڈ پر رکھ دیا.  کال بند ہونے کے بعد پھر دوبارہ سے آنا شروع ہو گی.. 

روشانی نے دوبارہ فون اٹھایا.. کون ہو سکتا ہے شاید مارک کا فون خراب ہو گیا ہو وہ کسی دوسرے نمبر سے کال کر رہا ہو… 

روشانی نے یہ سوچتے ہوئے کال ریسو کی.. 

ہیلو…  روشانی کے فون اٹھاتے ہی اگے سے آواز آئی.  

روشانی پلیز مجھے بچا لو مارک کے بندوں نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے وہ مجھے مار دیں گئے.  

نافع گھبرائی ہوئی آواز میں. روشانی کو کہہ رہا تھا.. 

روشانی سمجھ نہیں پائی کہ کون ہے دوسری طرف.   

کون…  کون ہو تم.. اور مارک کو کیسے جانتے ہو.. روشانی کے دماغ میں نافع کا زرا بھی  خیال نہیں آیا.. 

روشانی میں نافع…   میں ہسپتال سے نکلا ہی تھا کہ مارک کے بندوں نے مجھے گھیر لیا ہے وہ خود بھی سامنے گاڑی میں بیٹھا ہے.  میں گاڑی نہیں اوپن کر رہا.  پلیز تم اجاؤ.. نہیں تو مارک مجھے مار دے گا میں اس شہر میں کسی کو نہیں جاتنا.. تمہارے آنے سے کیا پتہ وہ مجھے چھوڑ دے..  

نافع کی بات سنتے ہی روشانی کو فوراً مارک کا خیال آیا جس کا کل رات سے نمبر بند تھا.  روشانی بغیر کچھ سوچے سمجھے نافع سے ایڈریس پوچھا اور جلدی سے بیڈ سے اٹھی.. 

اور ساتھ ہی مارک کو دوبارہ کال ملائی جو ابھی بھی بند جا رہا تھا.  

مارک پلیز.. ایسا کچھ مت کرنا.. روشانی خود  سے بات کرتے ہوئے جلدی سے کپڑے تبدیل کرتے ہوئے نافع کی بتائی ہوئی جگہ پر جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھ گی گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے مارک کو  دوبارہ کال کی لیکن نمبر پھر بند تھا…. 

اس نے گاڑی سٹارٹ کی اور تیز رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے نافع کی بتائی ہوئی جگہ کی طرف نکل گی..  

روشانی جیسے ہی اس جگہ پر پہنچی وہاں ایک گاڑی کے علاوہ اور کوئی گاڑی نہیں تھی..  روشانی گاڑی سے اتری اور چلتی ہوئی اس گاڑی کی طرف چل پڑی..جو سامنے کھڑی تھی.. 

کہیں مارک نے نافع کو مار تو نہیں دیا یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے.. یا نافع کی یہ کوئی چال تو نہیں.. روشانی دل میں سوچتی ہوئی اگے کی طرف بڑھا رہی تھی جب اسے کسی نے پیچھے سے اکر دبوچ لیا.. 

وہ کوئی اور نہیں بلکہ نافع تھا جس کے بچھائے ہوئے جال میں اب روشانی پھنس گی تھی.. 

چھوڑو.. مجھے کون ہو تم.. روشانی خود کو نافع کی قید سے چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی جس نے اپنا ایک بازو سے  روشانی کو سینے سے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے روشانی کے دونوں ہاتھوں کو.. 

بھول گی ہو مجھے روشانی.  میں تمہارا ویل ویشر.  جو تمہارے لیے وائٹ گلاب بھیجتا تھا کہ تم اچھا محسوس کرو جب بھی تم بیمار ہو.. 

لیکن تمہیں بھی کیسے پتہ ہو گا.  تم نے کسی کی پرواہ ہی نہیں ہے.. تمہیں تو مارک کی بھی پرواہ نہیں کی اور میری باتوں میں آگی.. وہ تو مارک میرے بارے میں سب جان گیا تھا ایک ہی دن میں اور مجھے اپنا کام جلدی کرنا پڑا نہیں تو مارک کو میں نے تمہارے ہاتھوں ترسا ترسا کر مارنا تھا.. 

نافع کی باتیں سن کر روشانی کو اپنے جسم سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی.. وہ ساری باتیں جو مارک نے اسے نافع کے بارے میں کہی تھی وہ سچ ہو گی تھی یہ نافع کی چال تھی لیکن کیوں تھی روشانی سمجھ نہیں پا رہی تھی.  وہ یک دم بے سود ہو گی تھی اس کو اپنی حماقت پر غصہ ارہا تھا اب اس کے آگے موت تھی.. 

اب نا تو مارک اسے بچانے اسکتا تھا نا ہادی..  

کیا چاہتے ہو تم مجھ سے.. روشانی نے اپنے آپ کو چھڑاتے ہوئے نافع کو کہا.. 

ہاہاہاہا…  روشانی کی بات پر نافع نے زور کا قہقہہ لگایا.. 

تم سے…  تم سے مجھے کیا مل سکتا ہے تم تو ایک نازک سی بیوقوف لڑکی ہو جو میرے کسی کام کی نہیں ہو…  مجھے مارک چاہیے… وہ بھی مردہ حالت میں.  سمجھی.. نافع نے اب پسٹل نکال کر روشانی کی کنپٹی پر رکھ دی.. 

تمہاری بھول ہے.. مارک کو مارنے کا خواب ہی دیکھ سکتے ہو تم.. میں مر جاؤں گی لیکن تمہارا خواب کبھی پورا نہیں. ہونے دو گی.. روشانی مسلسل خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن نافع کی گرفت بہت مضبوط تھی.. 

یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کون کس کو بچاتا ہے.  نافع نے ہاتھ میں پکڑے موبائل پر مارک کو کال ملا دی… 

روشانی اس بات پر مطمئن تھی کہ مارک کا نمبر بند ہو گا لیکن نافع کے کال ملاتے ہی مارک کے نمبر پر بیل چلی گئی.  روشانی بیل کی آواز سنتے ہی ٹھنڈی پڑ گی.  

دوسری طرف مارک شاور لے کر باہر آتے ہی اس نے اپنا موبائل آن کر دیا تھا اور کرسی پر بیٹھے اپنے ہاتھ پر پٹی باندھ رہا تھا.  جب اسے موبائل فون کی بیل سنائی دی.  

مارک نے. اٹھ کر ٹیبل پر رکھے فون کو دیکھا جس پر نافع کی کال آرہی تھی مارک نے نافع کا نمبر اپنے موبائل میں سیو کر رکھا تھا.. 

نافع کی کال آتا دیکھ کر مارک نے فوراً کال اٹھائی.. 

کیسے ہو میرے بھائی…  تم تو حال بھی پوچھنے نہیں آئے کہ میں کتنا زخمی ہوں نافع نے کال اٹھاتے ہی بغیر کسی انتظار کیے بول پڑا..  

اپنی بکواس بند کرو.. مجھے کیوں کال کی تم نے. اور شکر کرو کہ تمہیں زندہ چھوڑ دیا.  اب مجھے کال نا کرنا نہیں تو تمہاری لاش کے ٹکڑے کرکے کتوں کو کھلا دوں گا.  مارک نے نافع کو جواب دیا اور ساتھ ہی فون بند کرنے والا تھا کہ اسے روشانی کی آواز سنائی دی.. 

روشانی.. مارک نے فوراً دوبارہ فون کان پر لگایا.. 

روشانی…  تم اس کے ساتھ کیا کر رہی ہو.  مارک چلایا.. 

مارک تم یہاں مت آنا پلیز…  روشانی اتنا ہی بول سکی کہ نافع نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا.. 

ہاں تو کیا ہوا مارک اب بولتی کیوں بند ہو گی اب کیوں نہیں بول رہے ہاں اگر روشانی کی زندگی پیاری ہے تو میری بتائی ہوئی جگہ پر اجاؤ.. نافع نے اگے سے کہا.. 

کمینے.. روشانی کو ہاتھ مت لگانا نہیں تو میں تیری گردن تن سے الگ کر دوں گا.  جگہ بتا.   مارک نے جگہ کا سنتے ہی فون بند کیا اور الماری سے پسٹل نکال کر اپنی کمر کے پیچھے رکھی اور جیکٹ اٹھاتے ہوئے جلدی سے کمرے سے باہر اگیا.. 

روشانی…   روشانی…  کیا کرتی ہو.  کہاں پھنس گی ہو.   مارک گاڑی کا ہارن مسلسل دیتے ہوئے رستہ صاف کرتے ہوئے تیز رفتار سے نافع کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ گیا.. 

سامنے آتی گاڑی کو دیکھ کر نافع نے اپنا رخ مارک کی گاڑی کی طرف کر لیا.. اور ساتھ روشانی کا بھی.  

مارک نے گما کر گاڑی کو روکا زمین سے اٹھتی دھول گاڑی کو چھپا رہی تھی.. 

مارک نے گاڑی سے نکلتے ہی کمر سے پسٹل نکالی اور نافع کی طرف کی…  

چھوڑ دو. روشانی کو تمہیں مسئلہ مجھ سے ہے تو میرے سے بات کرو کیوں بزدل کی طرح ایک لڑکی کا سہارا لے رہے ہو… مارک بات کرتے ہوئے قدم بڑھا رہا تھا.. 

روک جاؤ مارک وہی نہیں تو میں روشانی پر گولی چلا دوں گا نافع نے پسٹل دوبارہ روشانی کی کنپٹی پر رکھ دی اور اس کے منہ سے ہاتھ اٹھا لیا…  

روشانی کے سر پر پسٹل دیکھ کر مارک وہی روک گیا.. 

پسٹل نیچے رکھو مارک نہیں تو میں گولی چلا دوں گا.. نیچے رکھ دو.. نافع چلایا.. 

مارک نے غصے سے نافع کی طرف دیکھا اور پھر روشانی کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں آنسو بہہ رہے تھے.. مارک نے بے بسی کے تاثر دیتے ہوئے روشانی کی طرف دیکھا جس کو روشانی سمجھ گی تھی کہ اس سے کتنی بڑی غلطی ہو گی تھی.. 

پسٹل میری طرف پھینکو.. نافع نے مارک کو کہا.  

مارک نے. پسٹل زمین پر رکھتے ہوئے نافع کی طرف کر دی.. 

پسٹل پکڑو.  نافع نے روشانی کو پسٹل پکڑنے کا کہا.. روشانی پسٹل پکڑنے کے لئے. نہیں جھکی…  نافع نے روشانی کے سر پر پسٹل کو دبایا.  میں کہہ رہا ہوں. پسٹل پکڑو..  

روشانی مارک کی طرف دیکھ رہی تھی نافع کی بات پر مارک نے روشانی کو آنکھوں سے اشارہ کیا کہ وہ پسٹل پکڑ لے.. روشانی نے گھبراتے ہوئے زمین سے جھک کر پسٹل پکڑ لی.. 

آگے نہیں بڑھنا نہیں تو گولی چلا دوں گا.. مارک نے اپنے دو قدم آگے بڑھائے جیسے ہی روشانی پسٹل پکڑنے کے لئے نیچے کو جھکی.. 

اوکے.. اوکے.. نہیں آتا.  لیکن روشانی کو اب چھوڑ دو.. 

مارک وہی روک گیا.. 

چھوڑ دیتا ہوں.. پہلے کام تو مکمل کر لوں… ہاتھ اوپر کرو تم.. نافع نے مارک کو ہاتھ اوپر کرنے کا کہا.. 

مارک نے اپنے دانت پیستے ہوئے اپنے ہاتھ اوپر کر لیے.. 

تم بہت بزدل ہو نافع اور سب سے بڑھ کر بزدل تمہارا باس کایا ہے جس نے تمہیں یہاں بھیجا ہے. اور مجھے یقین ہے کہ وہ اس وقت بھی ہمیں دیکھ رہا ہو گا.. 

تم بزدل ہو کایا جو پیچھے سے وار کرتے ہو.. مرد ہو تو سامنے اکر وار کرو تم مافیا کی دینا میں ایک دھبہ ہو.  بزدل سامنے آو.. 

نافع مارک کی بات پر غصہ میں اگیا.  اسے اندازہ نہیں تھا کہ مارک کو پتہ چل جائے گا کہ اسے کایا نے بھیجا ہے.. 

بکواس بند کرو اپنی.. اور مارنے کے لیے تیار ہو جاو.. 

چلو شاباش روشانی اب تم اپنے ہاتھوں سے مارک کو مارو گی.. نافع نے روشانی کو مارک پر پسٹل تانے کے لیے کہا…  

نافع کی بازوں کی گرفت میں جکڑی روشانی خود کو بے بس محسوس کر رہی تھی..  اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے.. اور ہاتھ میں پکڑی پسٹل بھی.. جس کا رخ مارک کی طرف تھا 

میں بول رہا ہوں.. چلاو گولی نہیں تو تمہاری کھوپڑی میں یہ پوری پسٹل اتار دوں گا.. نافع نے روشانی کی کنپٹی پر پسٹل کو زور دیتے ہوئے کہا. 

روشانی دور اپنے سامنے کھڑے مارک کو دیکھ رہی تھی جس نے ہاتھ اوپر کیے ہوئے تھے اور اس کی آنکھوں میں صرف محبت کے سواء اور کوئی احساس نہیں تھا..

روشانی چلا دو گولی.  میں تمہیں کہہ رہا ہوں.. کسی اور کے ہاتھوں سے مرنے سے بہتر ہے کہ میں اپنی محبت کے ہاتھوں سے مر جاؤں.. مارک کے لہجے میں اطمینان تھا 

مارک نے روشانی کی طرف دیکھا جو اپنے غلط فیصلے پر خود کو کوس رہی تھی.. 

نہیں.. میں تم پر کبھی گولی نہیں چلا سکتی مارک اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے.. تم نے تو مجھے بچانے کی کوشش کی تھی.. میں ہی اندھی تھی تمہاری بات کو تمہاری محبت کو نہیں سمجھ سکی.. 

میں نے تم سے محبت تو کر لی لیکن تم پر اعتبار نہیں کر سکی.. تمہاری محبت کے جنون کی قدر نا کر سکی.. تمہاری محبت کے قابل ہی نہیں ہوں میں.. مجھے مر ہی جانا چاہئے… مارک لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ میری زندگی میں تم ہی وہ واحد ہو جس نے میرے دل کے بند دروازے کو کھولا.. 

ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا مارک…  لیکن میں تمہیں کبھی نہیں مارو گی خود مارنا قبول کر لو گی لیکن یہ کبھی نہیں کروں گی.. 

روشانی بات کر رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے.. 

مارک ہاتھ اوپر کیے روشانی کی باتیں سن رہا تھا.. اس سے روشانی کا ایک بھی آنسو برداشت نہیں ہورہا تھا اگر وہ نافع کی گرفت میں نا ہوتی تو وہ اس کے آنسوؤں کو اپنے اندر اتار لیتا.. 

روشانی مجھ پر یقین رکھو.   اور گولی چلاو.. مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم مجھ پر اعتبار کرتی ہو کہ نہیں.. مجھے بس اس بات سے فرق پڑتا ہے کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو کہ نہیں اور آج تم نے پھر مجھے کہا کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو تو اب میرے لیے تمہارے ہاتھوں سے ایک بار نہیں سو بار مرنا قبول ہے.. 

کم از کم میں سکون سے مر تو جاؤں گا.  کہ مجھ سے کوئی محبت کرنے والا ہے جو میرے لیے رو تو سکے گا.  

پلیز روشانی چلا دو گولی…  مارک کی بات پر نافع نے روشانی کے سر پر پسٹل گو گول گمایا.. 

سنا نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے گولی چلاو.. نہیں تو میں چلا دوں گا گولی 

مارک نے ابھی اپنی بات مکمل نہیں کی تھی کہ ساتھ ہی گولی چلنے آواز آئی.. اور ساتھ ہی روشانی کی یک دم سانس روک گی… اس کے ہاتھ سے پسٹل گر گی.. سامنے کھڑا مارک کو اب روشانی دکھائی نہیں دے رہی تھی…  اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا آگیا.. 

لوس اینجلس کیلیفورنیا کے سنسان علاقے میں گولی کی آواز گونجی.. روشانی کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا… . 

اٹھو روشانی جلدی سے اٹھو تمہارا کام مکمل ہو گیا ہے شاباش… کایا نے روشانی کے چہرے پر پانی ڈالتے ہوئے کہا.. 

روشانی کے چہرے پر پانی پڑتے ہی اس نے آنکھیں کھولی تو اس کے سامنے مارک زمین پر پڑا ہوا تھا… جس کے بازو پر گولی لگی تھی اور ہادی نے مارک کو رسیوں سے باندھا ہوا تھا.. 

ہاں… کیا.. ہو گیا کام… روشانی نے جلدی سے اٹھی اور خود کے کپڑوں سے مٹی جھاڑتے ہوئے مارک کی طرف بڑھی جو ہادی کی باندھی ہوئی رسیوں سے خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا… 

اوہ بیچارے میرے عاشق.. دیکھو کیا حال ہو گیا ہے نا تمہارا میری محبت میں.. سچ ہی کہتے ہیں کہ محبت انسان کو برباد کر دیتی ہے اور آج میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا.. بات ختم کرتے ہوئے روشانی کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ اگی.. 

مارک جو روشانی کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا کچھ بھی نہیں بول سکا… 

اتنی دیر میں ہادی اور اس کے بندوں نے مارک کو اٹھایا اور گاڑی میں ڈال دیا.. جہاں پہلے سے شیزا بےہوش پڑی تھی… 

❤️ ❤️ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖➖ ➖ ❤️❤️

کمرے کی لائٹ آئن ہوتے ہی مارک کی بند آنکھیں کھول گی… دروازے کے کھولنے کی آواز آئی… 

مارک نے اپنے جھکے ہوئے سر کو اٹھا کر سامنے دیکھا.. اور غصے سے سرخ پڑنے لگا غصے کی اتنی شدت تھی  وہ خود کو مضبوط رسیوں سے چھڑاتے ہوئے کسی شیر کی طرح دھڑا… 

ریلکس میرے بھائی اتنا زور کیوں لگا رہے ہو جس کا کوئی فائدہ نہیں.. اب تمہیں یہاں سے کوئی نہیں نکال سکتا..  وہ کہتے ہیں نا کہ سانپ کو جتنا مرضی دودھ پلاؤ وہ ڈستا ضرور ہے.. مگر افسوس تم  اپنے ہی جال میں پھنس گئے اور وہ بھی محبت کا جال…  چھی چھی چھی…  مافیا کا بے تاج بادشاہ آج بھیگی بلی بنا ہوا ہے.. 

کایا نے اپنی پسٹل کو مارک کی ٹانگ پر رکھتے ہوئے زور دیا…  

کایا کی بات ختم ہوتے ہی مارک طنزیہ ہنس پڑا…  

تم نے بھی سنا ہے نا کایا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے…  تو اب سمجھ جاؤ کہ اس وقت تم کیا ہو.. مارک نے اپنی غصے سے بھری خونی آنکھوں سے کایا کے قریب چہرہ لاتے ہوئے کہا.. 

مارک کی بات پر کایا غصے سے دانت پیستے ہوئے پسٹل کو جو مارک کی ٹانگ پر تھی گولی چلا دی.. 

گولی لگتے ہی مارک کی ٹانگ سے خون بہنے شروع ہوگیا…  

تم بکواس بہت کرتے ہو دل تو کرتا ہے کہ تمہاری زبان ہی کاٹ دوں پر میں ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ تم اسی زبان سے ہی تو مجھ سے زندگی کی بھیک مانگو گے… 

کایا نے مارک کو گریبان سے پکڑتے ہوئے اپنی طرف کھینچا اور پھر ایک جھٹکے سے پیچھے کیا.. 

بھیک وہ بھی تم سے…. یہ تو وقت ہی بتائیے گا.. مارک جس کے منہ سے خون نکل رہا تھا اسے باہر تھوکتے ہوئے کہا… 

ابھی پتہ چل جاتا ہے کہ کون زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے.. لے آؤ اندر اسے… 

کایا بات کرتے ہوئے پلٹا اور اونچی آواز میں بولا.   

کایا کی بات پر مارک کی نظریں دروازے پر گی.. جس کا دروازہ کھولتے ہی نیم بیہوشی کی حالت میں شیزا ہادی اور روشانی کی گرفت میں تھی..  

مارک کی نظر شیزا پر پڑی جو آنکھوں میں آنسو بھرے مارک کی طرف دیکھ رہی تھی.. 

روشانی جس نے شیزا کو بازو سے دبوچا ہوا تھا مارک کی طرف دیکھا لیکن مارک کی نظریں شیزا پر تھی اور ہادی کا وہ ہاتھ جو شیزا کے بالوں پر تھا جیسے اس نے کھینچ کر اوپر کیا ہوا تھا.. 

کمینے ہاتھ نا لگا اسے.. نہیں تو میں تیری ہڈیاں توڑ دوں گا.. 

مارک غصے سے غرایا .. 

روشانی نے پھر مارک کی طرف دیکھا جو اسے مسلسل نظر انداز کر رہا تھا.. 

اور ساتھ ہی ہادی کی طرف دیکھا جو شیزا کی آنکھوں سے بہتے آنسو کو دیکھ رہا تھا.. 

مارک نے شیزا سے نظریں ہٹاتے ہوئے روشانی کی طرف دیکھا جو گھم سم کھڑی تھی.. 

یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے روشانی…  تم غلطیاں کرتی تھیں لیکن مجھے یہ بلکہ نہیں پاتا تھا کہ تم اتنی بڑی غلطی کر جاؤ گی.. تمہیں غلط اور صحیح کی پہچان نہیں ہے یہ کبھی میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا.. تم نے ایسا کیوں کیا…  

بولو روشانی چپ کیوں ہو بول کیوں نہیں رہی بولو کچھ…. میری طرف دیکھو…  روشانی 

مارک چیختے ہوئے روشانی کو کہہ رہا تھا جو بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی.. مارک کی آواز سنتے ہی وہ اپنے اس خواب سے واپس اگی جس کو وہ دیکھنا نہیں چاہتی تھی.. 

مارک جو روشانی کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا روشانی کی کھولی آنکھیں دیکھ کر وہی روک گیا.. 

تم ہو ش میں اگی…  مارک کی آنکھیں خوشی سے چمک گی.. 

مارک تم ٹھیک ہو…  روشانی گھبراہٹ سے فوراً اٹھ بیھٹی اپنے دونوں ہاتھ  مارک کے سینے پر رکھتے ہوئے اور پھر چہرے پر رکھتے ہوئے گھبراہٹ سے بولی.. 

ہاں میں ٹھیک ہوں روشانی.. میں ٹھیک ہوں مجھے کچھ نہیں ہوا خود کو سنبھالو…  مارک نے روشانی کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لیا… 

لیکن وہ.. کایا.. ہادی.. اور وہ لڑکی.. وہ سب کیا تھا..  روشانی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ گولی کی آواز کے بعد کیا ہوا تھا.. جو وہ دیکھ رہی تھی وہ سچ تھا یا اب جو ہو رہا ہے وہ خواب ہے.. اس سے پہلے کہ مارک کچھ کہتا ہادی ہاتھ میں ٹرے پکڑے روشانی کے لیے سوپ لے آیا.. 

ہادی تم…  روشانی نے حیرت سے ہادی کی طرف دیکھا.. 

زیادہ زور نا ڈالو اپنے نازک دماغ پر کہیں پھر بےہوش نا ہو جانا.. ایک تو تمہارے کام عجیب ہیں اور اوپر سے غلط ٹائم پر بے ہوش ہو جاتی ہو.. 

ہادی یہ کہتے ہوئے سوپ کا پیالہ لیے آگے کو بڑھا.. ہادی کے ہاتھ سے مارک نے سوپ کا پیالہ پکڑتے ہوئے ہنس پڑا.. 

تو کیا وہ خواب تھا جو ابھی میں نے…… روشانی بات کرتے ہوئے سر کھجلانے لگ گی…  

جی محترمہ وہ خواب تھا اب منہ کھولو اور یہ سوپ پیو.. مارک نے بات کرتے ہوئے سوپ کا چمچ روشانی کے ہونٹوں کے پاس لے گیا.. 

لیکن وہاں ہوا کیا تھا…  اور وہ لڑکی کون تھی جس کو میں نے خواب میں دیکھا… روشانی کی اس بات پر ہادی نے مارک کی طرف دیکھا…  جو خاموشی اختیار کیے ہوا تھا…  

کون سی لڑکی روشانی…  کیسی باتیں کر رہی ہو.. ایک تو تم نے بغیر سوچے سمجھے نافع پر یقین کر لیا اور اب پتہ نہیں کون سی لڑکی کی بات کر رہی ہو.. 

ہادی کے جواب میں روشانی کچھ نہیں بول سکی کیونکہ اسے اپنی غلطی کا احساس تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ بات کو مزید بڑھائے… اس نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا… 

❤️❤️➖➖➖➖➖➖➖➖➖❤️❤️

شام ہو چکی تھی روشانی اسی بات کا انتظار کر رہی تھی کہ کب مارک اس سے اکیلے میں بات کرنے آئے تاکہ وہ اسے اپنی کی ہوئی غلطی پر معافی مانگ سکے اور جو آخری بار روشانی نے مارک کو کہا تھا وہ اپنے الفاظ واپس لے سکے.. یہی سوچتے ہوئے روشانی بیڈ سے اٹھی اور کھڑکی کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی.. 

روشانی نے جیسے کھڑکی کا دروازہ کھولا سامنے سڑک  کے پار بنے ہوئے پارک میں مارک کو کسی لڑکی کے ساتھ بیٹھا دیکھا… 

یہ کون ہے.. اور مارک اس کے ساتھ کیوں بیٹھا ہے… روشانی بغیر سوچے سمجھے نیچے جانے کے موڑی ہی تھی کہ اسے اپنے سامنے ہادی کھڑا نظر آیا جو دونوں ہاتھوں میں دو چائے کے کپ لیے کھڑا تھا.. 

کہاں جا رہی ہو اس وقت…  ہادی نے روشانی کے کمرے کی کھڑکی کے باہر نظر ڈالتے ہوئے روشانی کو کہا.. 

نہن.. نہن.. نہیں کہیں بھی نہیں جا رہی میں تو وہ بس… روشانی یک دم گھبرا گی.. 

یہ بیوقوفی مت کرنا.. پہلے ہی تم بہت بیوقوفی کر چکی ہو اب مارک کے پاس مت جانا…  ہادی نے چاۓ کے کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کھڑکی کو بند کر دیا…  

مجھے پتہ ہے ہادی کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ مارک کا سامنا بھی کر سکوں لیکن مجھے اپنی غلطی کا احساس ہے میں اسکی تلفی کرنا چاہتی ہوں…  روشانی کھڑکی کے پاس رکھی ہوئی کرسی پر اداس لہجے کے ساتھ بیٹھ گی…  

مجھے نہیں پتہ روشانی کہ اب مارک کی کیا سوچ ہو گی.. 

تمہاری اس حرکت کی وجہ سے مارک کی جان تو جاتی ساتھ میں تمہیں بھی نافع نے مار دینا تھا اگر میں وقت پر نا پہنچتا… 

ہادی بھی روشانی کے سامنے کرسی کیھنچتے ہوئے بیٹھ گیا…  

دیکھو روشانی ہم یہاں تک کیسے آئے یہ تم اچھے سے جانتی ہو.. ہم ایک اندھیرے میں رہ رہے تھے تمہاری ماں کا قاتل کون تھا یہ نا تو تمہیں پتہ تھا نا مجھے یہ سب مارک نے ہمیں بتایا…  پھر تم نے خود اپنے فیصلے لینے شروع کر دیے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کا نقصان تمہیں ہو سکتا ہے.. اور وہاں بھی تمہاری مدد مارک نے کی…  

اور تم نے ایک انجان آدمی پر یقین کر کے مارک کی محبت کو شک میں ڈال دیا…  مجھے سمجھ نہیں آرہی تم ایسے کیسے کر سکتی ہو.. 

جہاں رہی میری بات میں کچھ جانتا تھا مارک کے بارے میں اس لیے تمہیں مارک سے دور رکھنا چاہتا تھا لیکن میرے سارے سوالوں کا جواب مل گیا ہے مجھے… 

اور مارک کی حالت دیکھ کر اب مجھے اس پر ترس آتا ہے… ہادی نے بات مکمل کرتے ہوئے گہری سانس لی… 

ہادی کی جیسے بات ختم ہوئی روشانی نے اپنے چہرے کو اوپر کیا… 

میں سب کا ازالہ کرنا چاہتی ہوں ہادی …  اور مجھے نہیں پتہ کہ تم کن سوالوں کی بات کر رہے ہو لیکن تم اس بات سے تو مطمئن ہو کہ اب تمہارے دماغ میں سب کلیر ہو چکا ہے لیکن میرے… وہ تمام خدشات اور سوال جن کا جواب مجھے ابھی تک نہیں ملا میں کیا کروں بتاؤ مجھے… 

میں نے مارک پر یقین کیا…  اپنی محبت کا اظہار کیا… یہ تم بھی جانتے ہو کہ میں نے کبھی آج تک کسی کو بھی اپنی محبت کے قابل نہیں سمجھا اور نا ہی اپنے دل میں جگہ بنانے دی.. مارک ہی وہ واحد انسان تھا جو میرے دل تک پہنچا…  لیکن اس کی ہر حرکت مجھے شک میں ڈال دیتی تھی… 

شک….. 

روشانی ابھی بات ہی کر رہی تھی کہ ہادی نے اس کی بات کاٹ دی… 

روشانی تمہیں پتہ بھی کہ محبت میں شک کی گنجائش نہیں ہوتی اور جہاں محبت میں شک آجائے وہاں محبت نہیں رہتی…. 

تم اس سے پوچھ سکتی تھی اگر وہ ٹال رہا تھا تو تم انتظار کرتی کوئی نا کوئی وجہ تو ہو گی تمہیں نا بتانے کی…  

ہادی کی اس بات پر روشانی کے کانوں میں. مارک کے وہ الفاظ گونجنے لگ گے جب اس نے آخری بار ملاقات میں روشانی کو کہا تھا کہ وقت آنے پر وہ سب بتا دے گا 

مارک اور شیزا دونوں ہسپتال میں ایمرجنسی کے باہر کھڑے تھے مارک کے دونوں ہاتھ خون سے بھرے ہوئے تھے شیزا کے کپڑوں پر بھی خون لگا ہوا تھا.. 

اپنے ہاتھوں پر خون لگا دیکھ کر مارک کو آج سے تیس سال پہلے کا واقعہ یاد آگیا جب اذعام نے پری اور عزل کو مارا تھا اور اسی قتل نے اسے مارک بنا دیا تھا… 

زندگی کے ان سالوں میں مارک نے اس اذعام کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا تھا جس کے کچھ خواب تھے… جو کچھ بنا چاہتا تھا.. لیکن زندگی اسے کہاں لے آئے تھی اور کیا بنا دے گی یہ اسے علم نہیں تھا.. 

مارک نے اپنے بارے میں سوچنا ہی بند کر دیا تھا اس کا مقصد زندگی میں بس شاہ کے کام کو لے کر چلنا تھا.. 

لیکن روشانی کے آنے سے مارک کی زندگی ہی بدل گی تھی وہ پھر سے مارک سے اذعام کی طرف تبدیل ہو رہا تھا جس کو کسی کی پرواہ ہونے لگی تھی محبت ہونے لگی تھی لیکن زندگی کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا.. 

یہی سوچتے ہوئے مارک کے کانوں میں شیزا کے رونے کی آواز پڑی جو اس بات سے بے خبر تھا کہ شیزا بھی اس کے پاس کھڑی ہے. 

مارک نے شیزا کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں سے آنسو نکل کر اس کے رخسار پر گر رہے تھے.. 

مارک جو روشانی کی حالت دیکھ کر خود ٹوٹ چکا تھا اس نے خود کو کنٹرول کیا اور ایک گہرے سانس کے ساتھ شیزا کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا.  

چپ کر جاؤ شیزا کچھ نہیں ہو گا کسی کو بھی. خود کو سنبھالو…  مارک نے شیزا کے ہاتھوں کو تھپتھپایا.. 

ہمارے ساتھ ہی کیوں اذعام…   شیزا نے اپنے آنسو حلق میں اتارتے ہوئے مارک کی آنکھوں میں دیکھا جو خود کے آنسو روکتے ہوئے سرخ ہو رہی تھیں..

❤️❤

ختم شد 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Mohabbat Meri Junoon Tera Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mohabbat Meri Junoon Tera written by AS Rajpoot . Mohabbat Meri Junoon Tera by AS Rajpoot  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages