Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 15 to 16 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 30 January 2023

Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 15 to 16

Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 15 to 16 

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...



Ishq Main Hari By Ana Ilyas Novel Episode 15'16


Novel Name: Ishq Main Hari 

Writer Name: Ana Ilyas

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

عجيب جلول سے حليے والا شخص رئيد کے آفس کے اندر آنے لگا کہ گیٹ پر موجود شمس نے اسے روکا۔ 

"اوہ بھائ کہاں" اس نے حيران ہو کر اسے روکا۔ مٹی سے اٹی شلوار قميض اور ٹوٹی جوتی پہنے کھچڑی نما بالوں والا وہ شخص شمس کو کوئ نشی معلوم ہوا بڑھی ہوئ شيو اور لڑکھڑاتے قدموں والا فائق رئيد سے آفس ملنے گيا تاکہ مطيبہ کے بارے ميں کچھ پوچھ سکے۔ 

"تت۔۔ تمہارے صاحب سے ملنا ہے۔۔" لڑکھڑاتی آواز ميں وہ بمشکل اپنی بات پوری مکمل کرسکا۔ 

"تمہارا ميرے باس سے کيا کا۔۔ " شمس خفگی بھرے لہجے ميں بولا۔ 

"مم۔۔ مي۔۔۔ميری بيٹی يہاں کام کرتی تھی کتنے دنوں سے وہ آفس سے گھر نہيں پہنچی ميں پوچھنے آيا ہوں کہاں ہے ميری بيٹی" غصے ميں بولتے وہ ہانپنے لگا۔ لال انگارہ آنکھوں سے شمس کو گھور رہا تھا۔ 

شمس اسکی بات پر يکدم چونکا۔ ذہن ميں ايک ہی نام گونجا۔ 

'مطيبہ کا باپ'

"کون سی بيٹی؟" اپنے شک کو يقين کا روپ دينے کے لئے اس نے سوال کيا۔ 

"مطيبہ" اسکے جواب نے شمس کے شک کو يقين کی رونق بخشی۔ 

"صاحب دو دن کی چھٹی پر ہيں جب آئيں گے۔ تب تم بھی آنا" شمس کی بات پر وہ مايوس سا ہوا۔ 

"تم جھوٹ بول رہے ہو" کچھ خيال آنے پر وہ شمس کو جھٹلانے لگا۔ 

"مجھے کيا ضرورت ہے جھوٹ بولنے کی۔ سچ کہہ رہا ہوں۔ يقين نہ آۓ تو اس سے پوچھ لو" شمس اندر سے نکلتے ايک ملازم کو آواز دے کر قريب بلانے لگا۔ 

"ادھر آؤ" اس کے قريب آتے ہی شمس نے اسکے کندھے پر بازو پھيلايا۔ 

"اس کو بتاؤ کے رئيد سر آفس ميں ہيں کہ نہيں"

"سر تو دو دن کی چھٹی پر ہيں" اس نے بھی وہی جواب ديا۔ 

"يقين کرو دو دن بعد آؤ گے ميں خود تمہيں سر کے پاس لے کر جاؤں گا" شمس نے اسے يقين دلايا۔ 

فائق کچھ سوچ کر خاموشی سے پلٹ گيا۔ 

پھر واپس آيا۔ 

"سنو۔ کچھ پيسے ہوں گے تمہارے پاس" نشے نے اسے بے بس کر ديا تھا۔ 

"ہاں ہاں کيوں نہيں" مطيبہ کی وجہ سے اسے فائق کو ناچاہتے ہوئے بھی اسے پيسے دينے پڑے۔ وہ جان گيا تھا اس کا نشہ اسے مزيد بے غيرت بنانے پر تلا ہے۔ 

بيٹی بيچ کر تو وہ پہلے سے ہی بے غيرتی کا ثبوت دے چکا ہے۔ 

ايک بے غيرتی اور سہی۔ 

کچھ پيسے نکال کر اس نے فائق کے ہاتھ ميں تھماۓ۔ 

عجيب سی خوشی کی چمک اسکی آنکھوں ميں ابھری۔ 

"شکريہ" خوشی خوشی وہ واپس چلاگيا۔

____________________

صبح آنکھ کھلتے ہی جو سب سے پہلا احساس مطيبہ کو آيا وہ اس فاصلے کا تھا جو رئيد اور مطيبہ ميں رات سونے سے پہلے تھا۔ 

ڈرتے ڈرتے اس نے کروٹ بدل کر ديکھا۔ 

تواتنے ہی فاصلے پر مگر منہ کے بل الٹا ليٹے رئيد کو ديکھ کر اس نے سکھ کا سانس ليا۔ 

آہستہ سے اٹھی پھر نجانے کيا سوچ کر رک گئ۔ 

گردن موڑ کر رئيد کے سوۓ ہوۓ چہرے کی جانب ديکھا جو مطيبہ کی جانب تھا۔ 

اتنے وجيہہ شريک سفر کی خواہش کوئ بھی لڑکی کر سکتی تھی۔ 

مگر مطيبہ خواہش بھی نہيں کرنا چاہتی تھی۔ وہ ساری زندگی اس احساس کے ساتھ نہيں رہنا چاہتی تھی کہ اسکے شوہر نے اسے احسان کے بدلے قبول کيا ہے۔ 

چاہے وہ اب محبت کا دعويدار تھا۔ 

مگر محبت سے پہلے جو ايک جذبہ ان کے درميان پروان چڑھا تھا وہ احسان کا تھا۔ 

اور مطيبہ تو ايسی خودداری کی ماری لڑکی تھی کہ وہ يہ احسان کسی صورت لينے کی روادار نہيں تھی۔ 

لب بھينچ کر خاموشی سے اٹھی کہ دوپٹے کا کونا کھينچا جو اس نے اٹھتے ساتھ ہی کندھے پر اوڑھا تھا۔ 

سانس سينے ميں اٹکی۔ 

رخ موڑ کر پيچھے ديکھا۔ تو وہ نيند ميں غافل رئيد کے ہاتھ کے نيچے تھا۔ وہ شايد مطيبہ کی خود کو تکتی نظروں يا پھر اسکے اٹھنے کی آہٹ کی وجہ سے اپنی پوزيشن بدل رہا تھا کہ مطيبہ کا دوپٹہ اس ہاتھ کے نيچے آگيا جو اسکے تکيے کے گرد لپٹا تھا۔ 

مطيبہ نے رکی سانس بحال کی۔ 

آہستگی سے دوپٹہ کھينچنا چاہا۔ 

مگر دوپٹے کی سر سراہٹ اپنے ہاتھ کے نيچے محسوس کرکے رئيد نے يکدم آنکھيں کھول کر نيند ميں ڈوبی استفہاميہ نظريں مطيبہ کے چہرے پر جمائيں۔ 

جيسے پوچھنا چاہ رہا ہو 'کيا ہوا'

مطيبہ اسکے حرکت ميں آتے ہی دوپٹہ پوری طرح کھينچ بھی نہ پائ تھی کہ وہيں رک گئ۔ 

"ميرا دوپٹہ۔۔"مطيبہ کو يہ تمام سچويشن نہايت جھنجھلاہٹ اور خفت سے دوچار کررہی تھی۔ 

رئيد نے پوری آنکھيں کھول کر اسکی نظروں کی سمت دیکھا۔ 

اپنے ہاتھ کے نيچے دبا اسکا دوپٹہ ديکھ کر وہ ہولے سے مسکرايا۔ 

پھر چھوڑ کر شرارت سے اسکی جناب دیکھا۔ 

"تو نہيں پاس۔۔۔۔ تو کيا ہوا

تيری خوشبو ميں لپٹا دوپٹہ ہی سہی" رئيد کے شعر پڑھنے پر مطيبہ کی کانوں کی لوئيں تک سرخ ہوگئيں۔ 

تيزی سے رئيد کی جانب ديکھے بنا اٹھ کر واش روم کی جانب بڑھی۔ 

واش روم کی کنڈی چڑھاتے سامنے نظر آتے آئينے ميں اپنا چہرہ دیکھا۔ 

ہولے ہولے قدم اٹھاتی ديوار ميں نسب شيشے کے قريب آئ۔ 

اپنے چہرے پر ہاتھ پھيرے۔ 

"مجھ ميں ايسا کيا ہے جو تمہيں يہ سب کہنے پر مجبور کرتا ہے" آئينے ميں نظر آتے اپنے عکس کی بجاۓ آنکھوں ميں موجود رئيد کے عکس سے ہمکلام ہوئ۔ 

کوئ جواب نہ پاکر سر جھٹکا۔ 

سر بيسن کی جانب جھکا کر منہ ہاتھ دھونے لگی۔ 

جس لمحے باہر آئ رئيد بيڈ کی پشت سے ٹيک لگاۓ موبائل پر کچھ ديکھنے يا پڑھنے ميں مصروف تھا۔ 

مطيبہ کو اندر آتے ديکھ کر ايک نظر بھر کر اسکی جانب ديکھا۔ 

مطيبہ اسے نظر انداز کئيے ڈريسگ کے پاس کھڑی ہوکر بال سلجھانے لگی۔ 

کمر تک آتے اسکے لمبے گھنے سياہ بال ديکھ کر رئيد اپنی جگہ سے اٹھا۔ 

مطيبہ کی تمام حسيات اسی کی جانب متوجہ تھين۔ 

اسکی نظروں کا ارتکاز وہ نوٹ کر چکی تھی۔

الجھن سوا نيزے پر پہنچ چکی تھی۔ 

وہ آہستہ روی سے چلتا اسکے قريب سے قريب تر آيا۔ 

مطيبہ دم سادھے اس کا قريب آنا نوٹ کررہی تھی۔ اسکے بالکل پيچھے رکتے اس نے ہاتھ بڑھا کر مطيبہ کے بالوں کو چھوا۔ 

مطيبہ نے ششدر نگاہوں سے آئينے ميں نظر آتے اسکے عکس کو ديکھا۔ 

رئيد نے اسکے بالوں ميں سے ايک موتی چن کر مطيبہ کی نگاہوں کے سامنے کيا۔ 

اس نے ايک گہری اور مطمئن سانس فضا کے سپرد کی۔ 

"يہ سيپ کا موتی آپکے بالوں ميں کيا کررہا ہے" شرارت سے آئينے ميں سے نظر آتے اس کے عکس کو ديکھ کر بولا۔ 

"رات ميں اس پارلر والی نے ميرے بالوں ميں ڈھير سارے لگا کر کوئ عجيب سا ہئير اسٹائل بنايا تھا۔ 

جتنے ہوسکے تھے رات ميں نکال لئيے تھے يہ رہ گيا ہوگا" مطيبہ نے بالوں کو کيچر ميں قيد کرتے جلدی سے جواب ديا۔ جان ميں جان آئ جو لمحہ پہلے رئيد کھينچ رہا تھا۔ 

"اوہ ۔۔۔ميں سمجھا آپکے بالوں ميں خزانے ہيں۔ تبھی يہ سيپ کا موتی بھی مل گيا"رئيد نے مصنوعی انداز ميں اپنی عقل کا ماتم کيا۔

"کيوں ميرے بال ہيں کہ قومی خزانہ" مطيبہ اسکے مذاق پر منہ بنا کر رہ گئ۔ 

"ويسے ميرے يہاں کھڑے ہوتے آپکے چہرے پر بارہ کيوں بجے تھے" رئيد اسکے چہرے کی اڑتی ہوائياں ديکھ چکا تھا۔ اسی لئے اسے نارمل کرکے جان کر يہ سب کہا۔ 

"اسی لئے کے گھڑی بھی بارہ بجا چکی ہے" مطيبہ نے گھڑی کی جانب ديکھ کر اسے احساس دلايا کہ وہ دونوں اٹھنے ميں بے حد ليٹ ہوگۓ ہيں۔ 

"سب کيا سوچ رہے ہون گے" مطيبہ نے اسکی توجہ خود سے ہٹانے کے لئے جو کہا اس بات کا مفہوم سوچ کر اپنی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہا۔ 

جبکہ واش روم کی جانب جات رئيد حيرت آنکھوں ميں سموۓ مڑا۔ 

"واقعی" مطيبہ اسے جواب دينے کی بجاۓ بيڈ کی جانب آئ۔ 

بيڈ شيٹ ٹھيک کرتے کمال مہارت سے رئید کو ايسے نظر انداز کيا جيسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ رئيد مطيبہ کی اس حرکت پر نفی ميں سر ہلاتا واش روم مين جا چکا تھا۔

دروازہ بند ہونے کی آواز سن کر مطيبہ نے اپنی جلدبازی پر ماتم کيا۔

______________________

اسی شام شمس نے فون کرکے رئيد کو فائق کی آمد کے بارے ميں بتايا۔ 

"ٹھیک کيا آپ نے شمس بابا۔۔اس کا مطلب ہے کہ شہاب نے اسے جان بوجھ کر بل سے نکالا ہے تاکہ وہ مجھ تک آۓ اور اسے مزيد آگے آنے کا موقع ملے"رئيد نے پرسوچ انداز ميں کہا۔ 

"يقینا يہی مقصد ہوگا۔ فائق تو صرف بيٹی کو ڈھونڈنے اسی لئے آيا ہے کہ اسکے نشے کا خرچہ پانی بند ہو گيا ہے۔اب پيسے لينے کی خاطر کچھ تو اسے کرنا ہے۔

"بالکل۔۔ اور شہاب اسی بات کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے" رئيد کی بات کی شمس نے پھر سے تائيد کی۔ 

"يہی بات ہے" 

"بہت شکريہ بابا۔۔ اب يہ کيس اور بھی آسان ہوجاۓ گا۔ کيونکہ مرغا خود شکنجے ميں پھنسنے کو آيا ہے " وہ تلخی سے مسکرايا۔ 

"کوئ بات نہيں بيٹا اللہ بہتر کرے" شمس نے دعائيں ديتے ہوۓ فون بند کيا۔ 

رئيد نے اسی وقت اپنے سمير کو کال کی۔ 

"ہيلو۔۔ کيسے ہو دولہے مياں" وہ شوخ لہجے ميں بولا۔ 

ابھی کل ہی تو اسکے ريشيپشن کے فنکشن ميں وہ موجود تھا۔ 

اسکی بات پر رئيد نے سر اٹھا کر سامنے کچن سے نظر آتی مطيبہ کو ديکھا۔ جس کی پشت رئيد کی جانب ہی تھی۔ 

"بالکل ٹھيک خوش باش" رئيد کے لہجے ميں بھی  شوخی در آئ۔ 

"ماشاءاللہ۔۔اور بتاؤ" 

رئيد نے شمس کے ساتھ ہونے والی گفتگو من و عن بتائ۔ 

"ٹھيک ہے ميں شام ميں آتا ہوں تو ڈسکس کرتے ہيں" اس نے فورا آنے کی حامی بھرتے فون بند کيا۔ 

رئيد اٹھ کر کچن کی جانب گيا۔ 

جہاں مطيبہ اسکی خالہ اور ماميوں کے نرغے ميں پھنسی ہوئ تھی۔ 

شکل سے تو يہی لگ رہا تھا۔ پھر سے بارہ بجے ہوۓ تھے مطيبہ کی شکل پر۔ 

وہ آہستہ سے چلتا اسکے قريب آکر کھڑا ہوا۔ 

"بھئ کب آؤ گے تم دونوں دبئ" اسکی خالہ رئيد کو مطيبہ کے قريب کھڑے ديکھ کر بوليں۔ 

مطيبہ نے چونک کر بائيں جانب نہيں ديکھا۔ رئيد سے پہلے اسکی خوشبو مطيبہ تک پہنچ چکی تھی۔ 

اپنی بدلتی کيفيت پر وہ خود بھی حيران ہوئ۔ 

"پہلے آپ جائيں گی تو ہم آئيں گے نا" رئيد کی سب کے ساتھ بہت بے تکلفی تھی۔ اور فوزيہ نے تو اسکی ماں کی ڈيتھ کے بعد رئيد کو بے حد سنبھالا تھا۔ اسی لئے بھی وہ اسکے بے حد قریب تھی اور بے تکلفی بھی اسی قدر۔

"ہو ہاۓ۔۔۔ ديکھو ذرا کيسا بے مروت ہے" وہ ہاتھ ٹھوڑی کے نيچے رکھے حيرت سے بوليں۔ 

"تو کيا کہوں" وہ مسکرايا۔ 

"اچھا بيٹا يہ ہے اب ہماری قدر۔۔۔مطيبہ يہ بہت مطلبی ہے تم آئ تو ہميں بھول گيا۔۔ اسے کس کے رکھنا يہ نہ ہو کل کو بچے آئيں تو يہ تمہيں بھول جاۓ" مطيبہ تو انکی بات پر اور بھی ہونق شکل لئے نظريں ادھر ادھر گھمانے لگی۔ 

جبکہ رئيد کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔ 

ان کے آپسی حالات کيا تھے يہ بس وہ دونوں يا پھر حسن اور رفيعہ جانتے تھے۔ باقی سب کے لئے تو وہ ايک عام شادی شدہ جوڑا ہی تھے۔ 

"ديکھو کتنا خوش ہوا ہے بچوں کی بات پر" فوزيہ نے رئيد کے قہقہے پر مطيبہ کو متوجہ کروانا چاہا۔ 

"ماما۔۔ ڈيدی بلا رہے ہيں" اس سے پہلے کے وہ کوئ اور گل افشانی کرتيں۔ ان کا بيٹا ۔۔۔انکے مياں کا بلاوا لے آيا۔ 

مطيبہ نے ان کے کچن سے نکلے جانے پر سکھ کا سانس ليا۔ 

"اس وقت چہرے پر بارہ کيوں بجے ہين" وہ سرگوشی نما آواز ميں بولا۔ 

رفيعہ اور رئيد کی ممانی دوپہر کا کھانا تيار کرنے ميں مگن تھيں۔ ان دونوں کی جانب وہ متوجہ نہيں تھيں۔ 

"کيامطلب" مطيبہ کو اسکی بے وقت کی راگنی کی سمجھ نہيں آئ۔ 

"اب تو دوپہر کے تين بج چکے ہيں۔ جبکہ آپکے چہرے پر وہی ٹائم ہے" رئيد نے اسے چڑايا۔ 

"ميرے منہ پر اتنی ريسرچ کرکے آپکو کچھ نہيں ملنے والا" مطيبہ نے تڑخ کر جواب ديا۔ 

"ہوسکتا ہے کچھ مل ہی جاۓ" رئيد کی بات پر اس نے سنجيدگی سے اب کی بار رئيد کی جانب ديکھا۔ 

جس کی نظروں کے مفہوم سمجھتے ہی اسکے چہرے کی سنجيدگی ميں اضافہ ہوا۔ 

"ميری ہر بات پر غصہ ہونے سے بہتر ہے دوستی کرليں" رئيد نے ہاتھ اسکی جانب پھيلايا۔ 

"ميں کون سی آپکی دشمن ہوں" مطيبہ نے منہ بنايا۔ 

"نہيں مگر جيسے گھورتی ہيں دشمن سے کم بھی نہيں۔۔ دوستی ميں تو ايک دوسرے کے لئے گنجائش پيدا ہوجاتی ہے نا" رئيد کے پھيلے ہاتھ کو نظر انداز کرنے ہی والی تھی کہ رئيد کی بات سن کر چند لمحے توقف کيا۔ پھر اپنا ہاتھ اسکے مضبوط ہاتھوں ميں ايسے ديا کہ بمشکل وہ انگلياں ہی تھام سکے۔ 

رئيد نے خود ہی صحيح سے مصافحہ والا طريقہ اپنايا۔ 

"دوستی تو صحيح انداز ميں کريں۔ يہ کيا کہ شش و پنج ختم ہی نہيں ہورہی" رئيد نے مصنوعی خفگی سے اسے گھورا۔ 

مطيبہ نے فورا ہاتھ کھينچا اور کچن سے باہر نکل گئ۔

______________________

شام ميں سمير اسکے گھر موجود تھا۔ جتنے مہمان باقی رہ چکے تھے انکی رات کی فلائٹ تھی۔ 

لہذا رئيد سمير کو لئے اپنے روم ميں چلا گيا تاکہ انکے مابين گفتگو اسکے رشتہ دار نہ سن سکيں۔ 

"اب بتاؤ پوری بات" سمير کے کہنے پر اس نے پھر سے وہ سب دہرايا جو شمس نے اسے فون کرکے بتايا تھا۔ 

"ٹھيک ہے تم کل فائق کو گھيرو اور کل ہی ميں شہاب کے خلاف جھوٹے نکاح کا نوٹس بھجواتا ہوں" سمير نے فورا ہی تمام پلان ترتيب ديا۔ 

"ٹھيک ہے" رئيد نے سر ہلا کر اسکی بات کی تائيد کی۔ 

"اور اس فائق کو کل واپس نہيں جانے دينا۔ يہيں سے اسے جيل بھجوائيں گے۔ جس وقت يہ تمہارے آفس پہنچے۔ تم نے مجھے کال کرنی ہے۔ ميں پوليس سميت آؤں گا اسے سلاخوں کے پيچھے دھکيلنے" سمير نے نفرت سے فائق کا ذکر کيا۔ 

"تو بيٹھ ايک منٹ" رئيد کمرے سے نکل کر کچن کی جانب آيا جہاں مطيبہ اور فوزيہ ٹرالی سيٹ کرنے ميں مصروف تھيں۔ 

مطيبہ جانتی تھی کہ سمير ہی وہ وکيل ہے جو انکی جانب سے کيس لڑے گا۔ 

"ميں يہی کہنے کے لئے آنے والا تھا کہ ميرے دوست بيچارے کے لئے کچھ کھانے پينے کا بندوبست کرليں۔" رئيد نے تشکر سے ان دونوں کو ديکھا۔ 

"بھئ تمہاری اور اسکی انڈرسٹينڈنگ تو ماشاءاللہ سے کمال کی ہے۔ بن کہے تمہاری سب خواہشيں سمجھ جاتی ہے۔ تمہارے دوست کو سلام کرنے کے بعد يہ سيدھی کچن ہی آئ۔ ميں نے سوچا ايک دن کی دلہن ہے اکيلی کام کرتی کيا اچھی لگے گی۔ تو اسکی مدد کے لئے پہنچ گئ" فوزيہ کی بات پر ٹرالی ميں کباب کی پليٹ رکھتے ہوۓ مطيبہ نے گھبرا کر رئيد کی جانب ديکھا۔کہ وہ متوجہ ہے يا نہيں۔ 

اسکی نظريں خود پر مرکوز ديکھ کر مطيبہ نے فورا پلکوں کی جھالر گرائ۔ 

"يہ تو آپ صحيح کہہ رہی ہيں۔ بن کہے ہی بہت کچھ جاننے لگ گئ ہيں يہ" رئيد نے گمبھير لہجے ميں کہا۔ 

"يہ سلمان کہاں ہے" مطيبہ نے بات پلٹنے کی خاطر جان بوجھ کر موضوع ہی بدل ديا۔ 

لہجہ کا معمولی سا ارتعاش رئيد کے لبوں پر مسکراہٹ بکھرا گيا۔ 

اسکے جذبے اسکے لہجے پر بو اثرانداز ہونے لگے تھے۔ اتنی تقويت ہی بہت تھی۔ 

"کچھ سوٹس ميں نے ڈرائ کلين کے لئے دئيے تھے وہ وہی لينے گيا ہے"رئید نے اب کی بار سنجيدگی سے کہا۔ 

"آپ پھر خود لے جائيں يہ سب ۔۔ " مطيبہ نے کپس رکھتے ہوۓ کہا۔ 

"ميں لے جاتا ہوں کوئ ايشو نہيں۔۔ بابا کہاں ہيں" کمرے ميں جانے سے پہلے تو حسن لاؤنج ميں سب کے ہمراہ بيٹھے تھے۔ مگر ابھی جب وہ کمرے سے باہر آيا تو وہ لاؤنج ميں نظر نہيں آۓ تھے۔ 

"وہ وقار ماموں کے ساتھ شطرنج کی بازی لگانے اسٹڈی ميں گۓ ہيں" مطيبہ نے مصروف انداز ميں کہا۔ 

فوزيہ باہر جا چکی تھيں۔ 

رئيد چند قدم چل کر اسکے قريب آيا۔ 

"مجھ سے اتنا گھبراتی کيوں ہيں آپ؟" نجانے کيوں يہ دو دن مسلسل اسکی سنگت ميں رہنے کی وجہ سے دل تھا کہ ہر پل اسکی جانب کھچتا جاتا تھا۔ اسے خوامخواہ مخاطب کرنے کو دل کرتا تھا۔ 

يہ جذبے کبھی کسی کے لئے دل ميں پيدا نہيں ہوۓ تھے۔ 

بہت سی کزنز تھيں۔ کلاس فيلوز بھی رہيں تھيں۔ مگر نجانے کيوں دل نے کبھی ضدی بچے کی طرح کسی کی ضد نہيں کی تھی۔ 

مگر يہ انا رکھنے والی مطيبہ اسے چاروں خانے چت کرگئ تھی۔ 

سرسری نظر اس کی جانب کی۔ مطيبہ نے

"کيونکہ ميں احسان فراموش نہيں بننا چاہتی۔ اپنی اوقات اچھے سے پہچانتی ہوں" مطيبہ کے سنجيدہ لہجے پر رئيد کے مسکراتس لبوں سے مسکراہٹ معدوم ہوئ۔ 

"چاۓ ٹھنڈی ہو جاۓ گی لے جائيں" اسکے لب کھلتے ديکھ کر مطيبہ نے جلدی سے کہا اور خود بھی کچن سے باہر نکل گئ۔ 

رئيد کو اسکا يہ انداز نجانے کيوں کھولا گيا۔ 

خاموشی سے ٹرالی گھسيٹ کر کمرے کی جانب بڑھا۔

______________________

اگلے دن فائق صبح ہی صبح رئيد کے آفس پہنچ چکا تھا۔ 

شمس نے آفس ميں اطلاع پہنچائ۔ 

مريم نے فورا رئيد کے روم ميں کال ملائ۔ 

"سر وہ شمس بابا کہہ رہے ہيں کہ کوئ فائق نامی شخص آپ سے ملنے کے لئے آيا ہے" رئيد دو دن کے تمام کام چيک کررہا تھا۔ 

"ٹھيک ہے اسے اندر بھيج دو۔" مصروف سے انداز ميں مريم کو جواب ديا

فورا سمير کو کال ملائ۔ 

"ہاں وہ آفس پہنچ چکا ہے" رئيد نے سمير کے فون اٹھاتے ہی اسے مطلع کيا۔ 

"ٹھيک ہے۔ اسکے خلاف ايف آئ آر ميں بنوا چکا ہوں۔ اسے وارنٹ گرفتاری لے کر پہنچتا ہوں" سمير نے اپنی پيش رفت بتائ۔ 

"ٹھيک ہے" رئيد فون بند کرکے سامنے پھيلی فائلز کی جانب متوجہ ہوا۔ 

کچھ دير بعد اسی دن کی طرح عجيب ہئيت والا فائق رئيد کے کمرے ميں داخل ہوا۔ 

رئيد کی رگيں اس بے غيرت باپ کو ديکھ کر تن گئيں۔ 

"جی کيا مسئلہ ہے آپ کا" رئيد نے سپاٹ لہجے ميں اسے مخاطب کيا۔ 

جو جھومتا جھامتا بمشکل اپنے پاؤں زمين پر ٹکاۓ ہوۓ تھا۔ 

"مم۔۔ مي۔۔ ميری بيٹی کہاں ہے؟" اسکے سوال پر رئيد کا دل کيا اٹھ کر اسکے منہ پر ايک زور دار تھپڑ لگاۓ۔

"بيٹھو" مگر اپنی سوچ کے برخلاف اسے بيٹھنے کا کہا۔ 

"کون  سی بيٹی اور کس کی بيٹی؟" رئيد نے غصے سے بھری نظروں سے اسے ديکھا۔ 

"وہی بيٹی جو يہاں کام کرتی تھی۔۔ کہاں چھپا کر رکھی ہے ميری مطيبہ" وہ انگلی اٹھا کر اپنی آواز ميں جان پيدا کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔ 

"اپنے اس دوست سے کيوں نہيں پوچھتے جس کے ہاتھ تم نے اسے بيچا تھا" رئيد نے ايک ايک لفظ پر زور دے کر کہا۔ 

"مم۔۔ ميں نے نہيں بيچا اسے۔ نکاح کيا تھا اس کے ساتھ" فائق کی بات سن کے اسے يقين ہوگيا کہ شہاب اس کی برين واشنگ کرچکا ہے۔

"اچھا۔۔ ثبوت دو۔۔ کہ تم نے ہی اس کا نکاح کروايا ہے" رئيد نے کسی نہ کسی طرح تو اسے الجھانا تھا۔ 

"کيوں تم کون ہوتے ہو ۔۔ جس کو ميں ثبوت ديتا پھروں" فائق نے غرا کر کہا۔ 

"کيونکہ ميں وہ ہوں ۔۔ جو تمہاری بدقسمت بيٹی کا شوہر ہے۔۔ ميری بيوی کے بارے ميں ايسی بکواس کرنے والے کو تو ميں زمين ميں گاڑھ دوں گا۔۔ 

اور بدقسمت وہ اسی لئے ہے کہ تم جيسا خبيث انسان اس کا باپ ہے" رئيد نے جبڑے بھينچ کر فائق کو حقيقت بتائ۔ 

"يہ۔۔ يہ نہيں ہوسکتا۔۔ تم کہاں سے آگۓ۔۔ ميں ميں پوليس کے پاس جاؤں گا۔۔ نکاح پر نکاح کيسے ہوسکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے تم نے ميری بيٹی اغوا کی ہے۔۔ ميں تمہيں چھوڑوں گا نہيں" فائق بھڑکيں مارنے لگا۔ 

"پريشان نہ ہو۔۔ پوليس تک تمہيں جانے کی ضرورت نہيں پوليس خود يہاں آرہی ہے" رئيد کی بات پر اسے جھٹکا لگا۔ فورا اپنی کرسی سے کھڑا ہوا۔ 

"تم۔۔ تمہيں ديکھ لوں گا ميں" وہ بھاگنے کو تيار تھا کہ رئيد تيزی سے اپنی کرسی چھوڑ کر اسکے پيچھے لپکا جو لڑکھڑاتے قدموں سے دروازے کی جانب بڑھ رہا تھا۔ 

مگر نشے کے باعث اسکے قدموں ميں اتنی طاقت نہيں تھی کہ وہ تيزی سے دوڑ سکتا۔ اور اسی کا فائدہ رئيد نے اٹھايا۔ اسے پيچھے سے دبوچا۔ 

"تم يہاں سے اب ہل بھی نہيں سکتے۔ باہر جانا تو بڑی دور کی بات ہے۔" رئيد نے اسے جھٹکے سے اپنی جانب موڑتے کرسی کی جانب دھکيلا۔۔ 

"تم۔۔ تم ٹھيک نہيں کررہے " وہ ہکلايا۔ 

"ابھی تو سب ٹھيک ہورہا ہے تمہارے ساتھ۔۔ فکر کيوں کرتے ہو" رئيد نے اسکے کندھے کو تھپکا۔

_____________________

"ہيلو آقا جی۔۔۔" شہاب کا وہ بندہ جو فائق کا پيچھا کررہا تھا۔ 

اس وقت رئيد کے آفس کے باہر کھڑا شہاب کو رپورٹ دے رہا تھا۔ 

"ہاں بھئ کيا رپورٹ ہے۔۔" شہاب آج کچھ دير سے اٹھا تھا۔ اس وقت بيٹھا ناشتہ کرنے ميں مصروف تھا۔ 

"آقا جی فائق کافی دير کا اندر آفس ميں گيا ہوا ہے" 

"بس ٹھيک ہے۔۔ جيسے ہی وہ باہر آۓ تم اسکا پيچھا کرو اور اسے قابو کرکے ميرے پاس لے آنا۔۔ تاکہ اس سے اگلوائيں کہ اس کمينے انسان نے ان ماں بيٹی کے بارے ميں کيا بتايا ہے" شہاب نے ہاتھ روک کر اسے ہدايات ديں۔ 

"ٹھيک ہے آقاجی۔۔ اوہ يہ کيا" فون بند کرتے اسکی نظر جيسے ہی سامنے گئ اسکے منہ سے اچانک کچھ بے ترتيب سے الفاظ نکلے۔ 

"کيا ہوا" شہاب کے بھی کان کھڑے ہوۓ۔ 

"آقا جی۔۔ يہ تو پوليس آگئ ہے يہاں" اسکا ماتحت سامنے ديکھتے ہوۓ بولا۔ جہاں سمير کی ہمراہی ميں پوليس والے رئيد کے آفس کے اندر داخل ہوۓ۔ 

"کيا بکواس کررہے ہو" انڈے اور پراٹھے کا لقہ غصے سے پليٹ ميں پھينکتے ہوۓ بولا۔ 

"آقا جی۔۔ انکے ہاتھوں ميں ہتھکڑی بھی تھی"

"يہ۔۔يہ (گالی)انسان بہت شاطر نکلا۔۔

اب يہ ميرے وارکے لئے تيار رہے" شہاب غصے سےجبڑے بھينچ کر بولا۔ 

فون بند کرتے ہی کيف کا نمبر ملايا۔ 

"جی آقاجی" کيف نے فون اٹھاتے ہی تابعداری سے پوچھا۔ 

"کچھ دير ميں گھر کے اندر پھلانگوں۔۔ اور اگر ماں بيٹی ملتی ہيں تو فورا پکڑ کر لے آؤ۔۔ ميں اب اور انتظار نہيں کرسکتا۔ 

يہاں سے کچھ اور بندوں کو بھی ميں بھجواتا ہوں۔ جو پہرہ داروں کو قابو کريں گے۔ اور تم تب تک جائزہ لے کر بتاؤ کہ کن کن جگہوں پر چھپ کر وار ہوسکتے ہيں۔ 

جن چند لوگوں کو ميں بھجوا رہا ہوں۔ ابھی انکے نام تمہيں بتا دوں گا۔ تم پھر ان سے رابطہ رکھنا" کيف چوکنا ہو کر اسکی ہدايات سن رہا تھا۔ 

"جو حکم آقا جی" اس نے پھر سے نمک حلالی کا ثبوت ديتے کہا۔ شہاب نے فون بند کيا

"تجھے تو اب ايسا سبق دوں گا کہ تيری سات نسليں ياد رکھيں گی" غصے سے ايک ہاتھ کی مٹھی دوسرے ہاتھ پر ماری۔ 

بس نہيں چل رہا تھا کہ رئيد سامنے ہوتا اور اسے گوليوں سے بھون ڈالتا۔ 

کبھی کبھی ہم خود پر اور اپنی طاقت پر اتنے نازاں ہوتے ہيں کہ جيسے ہم دنيا کو فتح کرنے کی صلاحيت رکھتے ہيں۔ 

اور ہر کسی کو اپنی طاقت کے بل بوتے پر زير کر سکتے ہيں۔ ايسا ہی زعم شہاب کو خود پر تھا۔ 

مگر وہ اس بات سے لاعلم تھا کہ جس اللہ نے اسے اتنا طاقتور بنايا ہے وہ لمحوں ميں انسان کو اسی بے جا خوداعتمادی کے زير کر ديتا ہے۔ 

"آقا جی" نثار بھاگتا ہوا آيا۔ پھولے سانسوں کے درميان وہ بس اسے ہی مخاطب کرسکا۔ 

"کيا موت آئ ہے تجھے۔" شہاب نے ناگواری سے کہا۔ 

"آقا جی يہ عدالت کا کوئ نوٹس آپکے نام آيا ہے" بندوق کاندھے پر سيدھی کرتے ايک لفافہ اس نے شہاب کی جانب بڑھايا۔ 

شہاب ايسے کئ نوٹسس کا عادی تھا۔۔ جانتا تھا ہزاروں د شمن يہ حرکتيں کرتے رہتے ہيں۔ 

مگر انصاف تو اسکے ہاتھوں ميں تھا۔ دنوں ميں کيس ختم کروا ديتا۔ 

مغرورانہ انداز ميں وہ لفافہ کھولا۔ 

جيسے جيسے پڑھتا گيا اسکی رگيں تن گئيں۔ 

"کاش تجھے پہلے ہی قابو کرليتا" عدالت کی طرف سے جھوٹے نکاح اور مطيبہ اور اسکی ماں کو دھمکياں دينے کا نوٹس نہ صرف آيا تھا بلکہ اسکی پيشی کی تاريخ بھی درج تھی۔

اس نوٹس کو غصے سے مٹھی ميں بھينچا کہ وہ چڑمڑا گيا۔ 

کيف کو دوبارہ فون کيا۔ 

"ابھی اسکے گھر ميں مت گھسنا۔۔۔۔ بہت طريقے سے وار کر گيا ہے يہ شخص۔۔ اس کا کوئ اور علاج کرنا پڑے گا" کيف کو منع کرکے فون بند کيا۔ 

"گاڑی نکالو مجھے وکيل کے پاس جانا ہے" ناشتہ وہيں ادھورا چھوڑ کر وہ وکيل کے پاس دوڑا۔

جس معاملے کو وہ سيدھا سمجھا تھا وہ پيچيدہ ہوتا جارہا تھا

___________________________

جيسے ہی سمير فائق کو ہتھکڑی لگا کر گيا۔ 

رئيد نے حسن کو فون ملا کر باخبر کيا۔ 

"ٹھيک ہے۔ ميں رفيعہ اور مطيبہ کو تمام صورتحال سے آگاہ کرديتا ہوں۔ تم کوشش کرو کہ گھر جلدی آسکو تو آجاؤ۔ آج تمہاری ماں کی بھی برسی ہے ميں چاہ رہا تھا کچھ ديگيں ہم غرباء ميں بانٹ آئيں" حسن کی بات پر اس نے ايک ٹھنڈی سانس فضا کے سپرد کی۔ 

"جی بابا ميں بس گھنٹے تک آتا ہوں" رئيد کيسے اس دن کو بھول سکتا تھا۔ جب اسکی ماں بيماری سے لڑلڑ کر تھک ہار کر آنکھيں موند گئ تھی۔ اس وقت وہ فقط دس سال کا تھا۔ 

اسکی بيماری کی نوعيت اور تکليف کا اندازہ تب تو نہين کرسکتا تھا۔ مگر اب جب اسے معلوم ہوا تھا کہ پھيپھڑوں کا کينسر کتنا تکليف دہ ہوتا ہے تو اپنی ماں کی ہمت ياد آتی تھی جس نے اپنی بيماری کا ہر لمحہ ہمت سے گزارا۔ رئيد کو ہر دم وہ بيماری کی حالت ميں بھی چہرہ پر مسکراہٹ لئے ويلکم کرتی۔ 

بستر سے لگی بھی وہ ہر دم اسکے لئے پريشان رہتی۔ 

اس سے پہلے کے آنکھوں کی نمی چہرہ بھگوتی اس نے خود کو کام ميں مصروف کر ليا۔

_____________________

ايک کی بجاۓ دو گھنٹے بعد وہ فارغ ہوا۔ سيدھا رخ گھر کی جانب کيا۔ 

گھر ميں داخل ہوا تو رفيعہ کچھ پريشان سی نظر آئيں۔ 

"آپ کيوں پريشان ہيں" لاؤنج کے صوفے پر انکے قريب بيٹھتے۔ انکی پريشانی بھانپ گيا۔ 

"اب کہيں شہاب کوئ گھٹيا حرکت پر نہ اتر آۓ۔"حسن رئيد کے آتے ہی ديگون کے لئے فون کرنے اٹھ کھڑے ہوۓ تھے۔ 

مطيبہ اسے نظر نہيں آرہی تھی۔ 

"نہيں آج کا نوٹس ملنے کے بعد وہ اب کوئ غلط حرکت نہيں کر سکتا۔ کيونکہ اس طرح وہ قانون کو اپنے ہاتھ ميں لے لے گا۔ اور اتنی عقل يقينا اسے ہوگی کہ قانون کو ہاتھ ميں لينے کا مطلب سيدھا سيدھا يہی ہے کہ وہ ہی غلطی پر ہے۔" رئيد نے تفصيل سے اسے سمجھايا۔ 

اسی لمحے سلمان جوس کا گلاس لئے آيا۔ 

رئيد نے سلمان کی پھرتی پر چونک کر اسکی جانب سواليہ نظروں سے ديکھا۔ 

جيسے پوچھ رہا ہو" آج يہ مستعدی کسی خوشی ميں" 

"وہ بھابھی نے آپ کی آواز سنی تو جوس بنا کر مجھے کہا آپکو دے آؤں۔" سلمان نے دانت نکالے۔ 

اسکی بات سن کر رئيد کو مطيبہ کی کل کی باتيں ياد آئيں۔ 

"مجھے ابھی نہيں پينا۔ فريج ميں رکھ دو۔ صرف پانی کا ايک گلاس لے آؤ" رئيد نے صاف انکار کيا۔ 

'اتنی مہربانی کردی تھی تو خود لے بھی آتی'مطيبہ کا فضول کا گريز اسے غصہ دلا گيا۔ 

سلمان منہ بناتے گلاس واپس لے گيا۔ 

مطيبہ جو کچن ميں کھڑی کچھ کباب تل رہی تھی ساتھ ہی چاۓ کا پانی رکھ کر پلٹی تھی کہ سلمان کے ہاتھ ميں جوس کا گلاس ويسے ہی ديکھ کر حيران ہوئ۔ 

"بھائ جی کہہ رہے ہيں مجھے نہيں پينا۔ بس پانی کا گلاس لے آؤ" مطيبہ نے ہولے سے سر ہلايا۔

کل جب اس نے احسان فراموشی والی بات کہی تھی تب سے ہی رئيد کا موڈ خراب ہوچکا تھا۔ پھر سارا دن اس نے مطيبہ کو مخاطب نہيں کيا۔ 

رات ميں مہمانوں کے چلے جانے کے بعد جب اس نے اپنی چيزيں واپس شفٹ کيں تب بھی وہ کمرے ميں موجود ہونے کے باوجود مطيبہ کو مخاطب تک نہيں کيا۔ 

اسے مسلسل نظر انداز کررہا تھا۔ 

مطيبہ کو اسکی ناراضگی کی سمجھ نہيں آرہی تھی۔ 

اس نے تو حقيقت بيان کی تھی۔ وہ کيوں مطيبہ سے اميديں باندھ رہا تھا۔ 

سر جھٹک کر اپنے کام کی جانب متوجہ ہوئ۔ 

حسن نے اسے بتايا تھا کہ آج رئيد کی ماں کی برسی ہے۔ 

چاۓ اور کباب وہ خود لے کر لاؤنج ميں گئ۔ 

مگر رئيد نے ايک نگاہ غلط تک اس پر نہيں ڈالی۔ 

نہ چاۓ کو ہاتھ لگايا اور نہ کباب کھاۓ۔ 

کمرے ميں جاکر کپڑے بدلے اور حسن کے ساتھ ديگيں بانٹنے چل پڑا۔ 

رات بھی جب اسکی واپسی ہوئ تب بھی وہ اتنا ہی سنجيدہ تھا۔ 

"کل ہوسکتا ہے شہاب کی جانب سے کوئ پيش رفت ہو" رئيد نے کھانے کی ٹيبل پر حسن کو مخاطب کيا۔ 

"کوئ بات نہيں ۔۔ کرنے دو۔۔ ميں کرنل حميد کو سارا معاملہ بتا چکا ہوں۔ وہ اب اپنے طور پر اس کيس کو ہينڈل کرے گا۔ ججوں سے وہ بات چيت کرچکا ہے" 

حسن نے چاولوں سے بھرا چمچ منہ ميں ڈالتے رئيد کو تسلی دلائ۔ 

وہ بہت اثر و رسوخ والے بندے تھے۔ 

"آنٹی آپ کل جو آپکی ہمسائ تھيں ان کو فون کرکے تيار رہنے کا کہئۓ گا۔ ان کا بيان عينی شاہد کے طور پر لينا ہے" رئيد رفيعہ سے مخاطب ہوا۔ 

"ٹھيک ہے بيٹا" رفيعہ کھانا ختم کرچکی تھيں۔

کھانا کھا کر رئيد باہر لان ميں چلا گيا۔ 

مطيبہ برتن اٹھا کر لان کی جانب بڑھی۔ 

رئيد آہستہ روی سے فينسی لائٹس کے قريب ہاتھ پيچھے باندھے سر کو ہلکا سا جھکاۓ اپنے قدموں پر نظر کئيے واک کررہا تھا۔ 

مطيبہ اسکی جانب بڑھی۔ 

رئيد اسکے قدموں کی چاپ محسوس کرچکا تھا پھر بھی اپنے انداز ميں فرق لاۓ بنا ويسے ہی چلتا رہا۔ 

مطيبہ اسکے ہمقدم ہوئ۔ 

کچھ دير خاموشی سے اسکے ساتھ چلتی رہی۔ 

رئيد کا اسے يوں نظر انداز کرنا نجانے کيوں مطيبہ کو عجيب سے احساس سے دوچار کرگيا۔ 

کبھی کبھی بنا کہے کسی کی توجہ کے ہم اتنے عادی ہوجاتے ہيں کہ اس کا نظر انداز کئيے جانا برداشت نہيں ہوتا۔ 

مطيبہ بھی پچھلے دنوں اسکی توجہ کی اس قدر عادی ہوچکی تھی کہ اندازہ نہيں تھا وہ يوں بے خبر اور لا تعلق بھی ہوجاۓ گا۔

"آج آپکی امی کی برسی تھی" کافی دير کی خاموشی کے بعد مطيبہ کو سمجھ نہ آئ کيا کہے تو اسکی ماں کے بارے ميں ہی پوچھ ليا۔ 

"جی" رئيد نے مختصر جواب ديا۔ 

"آپ آج انہيں بہت مس کررہے ہيں۔۔" مطيبہ کے سوال پر وہ چلتا چلتا يکدم رکا۔ 

چہرہ موڑ کر اسکی جانب ديکھا۔ 

جو منتظر نگاہوں سے اسکی جانب ديکھ رہی تھی۔ 

"ميں آپ سے اپنی کيفيت کيوں شئير کروں" رئيد کے اجنبی انداز پر وہ چند پل اسے ديکھتی رہ گئ۔ 

جس کے لہجے ميں ہی نہيں اسکی نظروں ميں بھی آج اجنبيت تھی۔ 

کس رشتے کا کہتی جسے وہ خود ماننے سے انکاری تھی۔

"ايک دوست سمجھ کر" يکدم ياد آيا کل ہی تو دوستی کی تھی۔ 

"ميں خود ترسی کا شکار لوگوں کے ساتھ کوئ رشتہ نہيں رکھتا۔ " رئيد کی ناراضگی انتہائ بڑھ چکی تھی۔ 

"آپکے خیال ميں مجھے آپ سے کوئ لالچ ہے کہ ميں ہر بار خود بڑھ کر آپکی جانب آتا ہوں" رئيد نے بازو سينے پر لپيٹتے اسے سرد نظروں سے ديکھا۔ 

"يہ بات نہيں۔۔ مگر آپ سمجھ نہيں رہے۔۔ مجھے لگتا ہے ميں زبردستی آپ پر مسلط کردی گئ ہوں۔ آپ۔۔ آپ میرے محسن ہيں۔ اور ميں آپ کو زبردستی خود سے باندھے نہيں رکھنا چاہتی۔ جبکہ ميں جانتی ہوں کہ۔۔" 

"آپ صرف يہ جانتی ہيں کہ آپ نے لوگوں کو اپنی باتوں سے تکليف کيسے دينی ہے۔ ميں نے تو بہت صاف دل سے کل آپکی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھايا تھا تاکہ آپ جب تک يہاں رہيں اس احساس کے ساتھ نہ رہيں کہ ميں نے آپ پر کوئ بہت بڑا احسان کيا ہے۔ 

ہم انسانوں کو ہی اللہ نے ايک دوسرے کی مدد کے لئے معمور کيا ہے۔ اب آسمان سے تو کوئ آپکی مدد کے لئے نہيں اترتا۔ 

اور پھر اب تو ہم ميں رشتہ داری بھی نکل آئ ہے۔ تو اس رشتے داری کے حوالے سے ہی يہ کوئ احسان نہيں۔ 

مگر پتہ نہيں آپ کيوں اس خود ساختہ خول سے باہر نہيں آنا چاہتيں۔ 

ہم نارمل کزنز کی طرح بھی تو ايک دوستی کے رشتہ کے حوالے سے بات چيت کرسکتے ہيں نا۔۔ ليکن نہيں آپ نے تو سوچا ہوا ہے کہ کسی کو خاطر ميں ہی نہيں لانا" رئيد اپنی بھڑاس نکال رہا تھا۔ 

"مگر آپ دوستی سے آگے کی باتيں کرنے لگ جاتے ہيں" وہ لہجے ميں بے چارگی سموۓ بولی۔ 

"تو کيا کروں۔۔۔۔۔اب ايک جذبہ جو ميرے دل ميں آپ کے لئے بيدار ہوچکا ہے اس سے نظريں چرانے سے تو رہا۔ مجھے اگر صاف گو لوگ پسند ہيں تو وہ اسی لئے کہ ميں خود بھی ويسا ہوں۔"رئيد نے صاف جواب ديا۔ 

"خیر يہ سب ميں آپ کو کيوں بتا رہا ہوں۔ فکر مت کريں۔ اب آپ تک اپنا کوئ احساس نہيں پہنچاؤں گا۔۔ بے فکر رہيں۔ آپ اجنبی بن کر رہنا چاہتی ہيں۔ تو ميں بھی اب ويسا ہی رہوں گا۔ 

ويسے بھی کيس شروع ہوچکا ہے۔ اب آپ کو زيادہ دن اس ان چاہے تعلق کے ساتھ نہيں رہنا پڑے گا۔۔" اپنے احساسات بتاتے بتاتے وہ پھر سے اجنبيت کے خول ميں بند ہوگيا۔ 

اپنی بات ختم کرکے وہ وہاں رکا نہيں متوازن چال چلتا اسے کچھ بھی کہنے کا موقع دئيے بغير چلا گيا۔ وہ خاموش کھڑی اسے خود سے دور جاتا ديکھتی رہی۔ 

وہ کيسے اسے سمجھاۓ کہ اسکی اوقات ہی نہيں کہ وہ رئيد کی مجتوں کی خود کو اہل جانے۔

جس نے دوستی تک کے رشتے ميں کبھی کسی کا احسان  نہيں ليا وہ کيسے اتنے اہم رشتے کی بنياد اس ہمدردی کے احساس سے کرے۔

کبھی کبھی اپنی خودداری انسان کو بہت خوار کرتی ہے۔

_

جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Main Hari  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Ishq Main Hari  written by Ana Ilyas . Ishq Mian Hari  by Ana Ilyas is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link



  

 


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages