Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 9 to 10 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday 27 January 2023

Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 9 to 10

Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 9 to 10    

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...



Ishq Main Hari By Ana Ilyas Novel Episode 9'10


Novel Name: Ishq Main Hari 

Writer Name: Ana Ilyas

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

اگلے دن رئيد تو صبح جلد ہی آفس چلا گيا۔ گيارہ بجے کے قريب مشال لدی پھندی آئ۔ 

"السلام عليکم۔! کيسی ہيں آپ دونوں" مشال بہت محبت سے ان سے ملی۔ 

"بالکل ٹھيک تم سناؤ" کل کی نسبت آج مطيبہ کا رويہ اس سے کافی بہتر تھا۔ 

مشال کو تھوڑا حوصلہ ہوا۔ 

"ميں بھی ٹھيک ہوں۔ يہ کپڑے آپ لوگوں کے لئے لے کر آئ ہوں چيک کر ليں۔۔اب آپ لوگوں کو لے جا نہيں سکتی تھی اسی لئے جو مجھے سمجھ آيا اسی اندازے سے ميں لے آئ" مشال نے شاپر کھول کر ان ميں سے چيزيں نکالتے ہوۓ کہا۔ 

کيونکہ اسکے کہنے پر بھی مطيبہ نے خود سے ايک بھی شاپر کو ہاتھ نہيں لگايا تھا۔ رفيعہ تو اس سے ملتے ہی چاشت کی نماز پڑھنے چلی گئيں۔ 

"ديکھو" وہ محبت سے چار پانچ وہ سوٹ جو اس نے مطيبہ کے لئے ليے تھے اسکے پاس صوفے پر لے آئ۔ 

مطيبہ نے سرسری نگاہ ان پر ڈالی۔ سوٹ سب ايک سے بڑھ کر ايک تھے۔ 

"ميں نے کبھی اتنے مہنگے کپڑے استعمال نہيں کئے اسی لئے مجھے نہيں پتہ کہ اچھے ہيں يا برے۔۔ مگر تم جس محبت سے لائ ہو۔ یقينا اچھے ہی ہيں" مطيبہ يکدم تلخ بولتے بولتے مشال کے چہرے پر پھيلنے والے سائے کو ديکھ کر بات بدل گئ۔

"اوہ تھينک يو۔۔۔ يہ تم پر بہت اچھے لگيں گے" وہ محبت سے اسکے پاس بيٹھتی اسے خود سے لپٹا کر بولی۔ 

"تم ۔۔۔سر کی کس رشتے سے کزن ہو" مطيبہ اسکے ہاتھ ميں تھامے کپڑوں کو شاپر ميں رکھتے ہوۓ بولی۔ 

"ميں رئيد بھائ کی خالہ کی بيٹی ہوں" مشال بھی اسکی مدد کرتے ہوۓ بولی۔ 

"اور تم رئيد بھائ کو سر کيوں کہہ رہی ہو۔۔۔وہ ہزبينڈ ہيں تمہارے اب" مشال اسے ٹوک کر بولی۔

"تمہيں جب سر نے اس نکاح کے وقت بلايا تو کيا بتايا تھا؟"مطيبہ اس کا سوال نظر انداز کرکے اپنا سوال لے بيٹھی۔ 

"يار رئيد بھائ شروع سے کچھ عجيب سے بندے ہيں۔ انکی سائيکی ميں آج تک نہيں سمجھ سکی۔ 

جب بھی ہم کزنز ان سے شادی کا پوچھتے کہ کس سے کريں گے۔ تو وہ ہميشہ يہی کہتے کہ

'کسی بہت حورپری سے نہيں۔۔ايسی ہو جس کے کردار ميں ايسی بات ہو کہ وہ مجھے کلک کرے۔ اور ہاں ميری شادی ہميشہ ہنگامی حالات ميں ہوگی۔۔پتہ نہيں مجھے کيوں يقين ہے کہ ميری شادی عام لوگوں کی طرح نہيں ہونے والی' اور ديکھ لو۔۔

تم دونوں کی شادی واقعی ہنگامی حالات ميں ہوگئ۔" مشال کی حورپری والی بات ميں وہ اٹکی ہوئ تھی۔ 

"مجھے زيادہ تو نہيں معلوم بس اتنا جانتی ہوں کہ رئيد بھائ نے کہا تھا 'مجھے اس وقت تمہاری ضرورت ہے۔۔ تمہاری بھابھی لانی ہے ۔۔اپنا وعدہ پورا کيا ہے شادی ہنگامی حالات ميں ہے۔ اور ميری بيوی کے پيچھے چند نيچ لوگ لگے ہيں۔ ان سے بچانے کے لئے يہ سب اس طرح کرنا پڑ رہا ہے' اور بس ميں آگئ" مشال جس بات کو اتنے آسان انداز ميں بيان کررہی تھی وہ مطيبہ کو ہضم کرنا بہت مشکل ہورہی تھی۔ 

اسکے تو حواس 'بھابھی' 'ميری بيوی' اور 'وعدہ پورا کرنے' ميں بری طرح الجھ گۓ تھے۔ 

وہ تو رئيد کی اسی بات پر يقين رکھے ہوۓ تھی کہ حالات بہتر ہوتے وہ اسے چھوڑ دے گا۔ تو پھر يہ سب باتيں مشال سے کہنے کا کيا مقصد تھا۔ 

اسکے چہرے پر موجود تفکرات شايد مشال نے جان تو لئے تھے مگر انہيں پڑھ نہيں سکی تھی۔ 

"کيا ہوا تم اتنی پريشان کيوں ہو۔۔کچھ غلط کہہ ديا ميں نے" اسکی ہونق شکل دیکھ کر وہ يہی سمجھی کہ رات ميں گاڑی ميں آگے بيٹھنے والی بات کی طرح اب بھی اسے کوئ بات بری لگی ہے۔

"نہيں نہيں" مطيبہ حواسوں ميں لوٹی۔

"شکر ہے۔۔رات ميں بھی شايد تمہارا موڈ آف ہوگيا تھا ميری کسی بات پر تو ميں سمجھی تم ابھی بھی خفا ہوگئ ہو" اسے محبت سے پھر سے اپنے ساتھ لپٹاتے وہ شکر کرنے لگی۔ 

"تم نے اپنا گھر ديکھا ہے" اب وہ اشتياق سے اسے پوچھنے لگی۔ 

"نہيں۔۔مشال ميں" 

"چلو آئ دکھاؤں" وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بات کاٹتی ہوں اسے لئے کھڑی ہوگئ۔ 

وہ اسے مشال کو سمجھا نہيں سکتی تھی کہ يہ گھر اس کا نہيں۔ 

وہ يہاں صرف ايک مسافر کی طرح آئ ہے۔ ايسا مسافر جو کچھ دير سستانے کو کسی سرائے ميں پناہ ليتا ہے۔ 

يہ اس کا گھر نہيں پناہ گاہ تھی۔ اور پناگاہوں ميں لوگ تاعمر نہيں رہتے۔۔

مگر فی الحال وہ خاموش تھی۔ نجانے کس مصلحت کے تحت رئید نے اسے حقيقت نہيں بتائ تھی۔ اس سے پوچھے بنا وہ مشال سے کچھ نہيں کہہ سکتی تھی۔ 

خاموشی سے اسکے ساتھ چلتی رہی۔ 

مشال نے ہی خانساماں کو کھانا بنانے کا آرڈر ديا۔ خانساماں سے بھی اس کا تعارف گھر کی حيثيت سے کروا ديا۔ 

"مشال ابھی اس کو تو مت بتاؤ" آخر اسے مشال کو ٹوکنا پڑا۔ 

"ارے کيوں نہ بتاؤں۔۔ تم نے کل سے سب کو کھينچ کر رکھنا ہے نہيں تو یہ تو ڈھيلے پڑ جاتے ہيں۔ اور رئيد بھائ کے پاس اتنا کہاں ٹائم ہوتا ہے کہ وہ ان پر چيک رکھيں۔ سو اب يہ تمہاری ڈيوٹی" مشال اسکی کچھ بھی سنے بنا بس اپنی ہی کہی جارہی تھی۔ 

وہ سارا دن مشال انکے ساتھ ہی رہی۔ 

"اب کچھ دن نہيں آسکوں گی۔۔اکيڈمی بھی تو چلانی ہے نا" وہ جانے کی تياری کررہی تھی جب مطيبہ سے مخاطب ہوئ۔ 

"کس کی تمہاری اکيڈمی؟" مطيبہ نے سواليہ انداز ميں پوچھا۔ 

"ہاں نا مابدولت کی اکيڈمی ہے کلاس سکس سے گريجويٹ کے اسٹوڈنٹس تک کی۔ کل منزہ کو آفر کی تھی نہ وہاں آکر پڑھانے کی" وہ ان دونوں کے ساتھ چلتی ہوں لاؤنج کے دروازے سے باہر لان کی سيڑھياں اتر کر اپنی گاڑی کے پاس جارہی تھی۔ 

"ماشاءاللہ" رفيعہ نے ستائشی انداز ميں کہا۔ 

"صحيح" مطيبہ کچھ سوچ ميں پڑگئ۔ 

"اوکے آنٹی۔۔اپنا خيال رکھئيۓ گا۔" وہ محبت سے رفيعہ سے ملی۔ اور پھر مطيبہ سے۔۔

"بہت مزہ آيا تمہارے ساتھ بيٹا" رفيعہ نے صاف گوئ سے کہا۔ 

"مجھے بھی۔۔ آتی جاتی رہوں گی ۔۔ ڈونٹ وری" بال جھٹک کر گاگلز پرس ميں سے نکال کر پہنے۔ 

گاڑی ميں بيٹھ کر سٹارٹ کرتے ان دونوں کی جانب الوداعيہ انداز ميں ہاتھ ہلايا۔ 

مطيبہ اور رفيعہ بھی اسے ہاتھ ہلا کر اسکی گاڑی باہر نکلتے ہی اندر کی جانب چل پڑيں۔

_____________________

رات ميں رئيد کے ساتھ کھانا کھانے کے بعد جس لمحے وہ کمرے ميں گيا اور رفيعہ عشاء کی نماز پڑھنے تب مطيبہ نے اسکے کمرے ميں جانے کا سوچا۔ 

صبح مشال کے ساتھ ہی اسکا کمرہ ديکھ تو آئ تھی مگر کمرے ميں داخل تب بھی نہيں ہوئ تھی۔ 

اس کا کمرہ کوئ بہت لگژری روم نہيں تھا۔ دروازہ کھلتے ہی سامنے زمين سے تھوڑا سا اونچا بيڈ اس طرح تھا کہ سيدھے پھٹے پر ميٹرس رکھا ہوا تھا۔ 

کمرے کے دائيں جانب گلاس وال سے لان کا ہر منظر ديکھا جاسکتا تھا۔ گلاس وال پر دبيز پردے پڑے تھے۔ 

بيڈ کے بالکل سامنے رائيٹنگ ٹيبل تھی۔ جس پر ايک ليمپ اور ايک پين ہولڈر تھا اور ساتھ ايک ريوالونگ کرسی۔ 

بائيں ہاتھ پر ديوار کے ساتھ کين کا بک ريک پڑا ہوا تھا جس ميں بہت سی معلوماتی کتابيں موجود تھيں۔

ريک کے ساتھ ہی بين بيگز سے بنے دو سنگل صوفے تھے۔۔جو ڈائس کے پرنٹ ميں تھے۔ 

مطيبہ نے دروازہ ناک کيا۔ 

رئيد جو کہ بيڈ پر تقريبا نيم دراز کتاب پڑھنے ميں محو تھا ہلکی آواز ميں موسيقی بھی لگا رکھی تھی۔ حيرت سے چند لمحے دروازے کو گھورنے کے بعد سيدھا ہو کر بيٹھا۔ 

"کم ان" اسکی اجازت ملتے ہی مطيبہ نے کمرے کا دروازہ کھولا۔ 

اسے دروازے ميں ايستادہ ديکھ کر رئيد حيران ہوا۔ 

"آئيں پليز" ٹانگيں سميٹ کر اسے اندر آنے کی اجازت دی۔ 

"آ۔۔آپ باہر آسکتے ہيں مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے" گھبراتے لہجے پر قابو پاتے وہ اندر آنے کو انکاری ہوئ۔ 

"آپ اندر آجائيں کوئ ايشو نہيں ہے۔ دروازہ کھلا رکھيں" رئيد اسکی گھبراہٹ سے محظوظ ہوا۔ 

پہلی بار اسے خود سے گھبراتے ديکھا تھا۔ 

"نہيں آپ باہر آ جائيں" وہ بضد تھی۔۔

"اوکے۔۔آپ لان ميں چليں ميں آتا ہوں" رئيد نے اٹھتے ہوۓ ہامی بھری۔ 

مطيبہ نے سکھ کا سانس ليا اور خاموشی سے باہر جاکرلان کے پلر کے پاس جا کھڑی ہوئ۔ 

فينسی لائٹس اردگرد جگر جگر کررہی تھيں۔ پورے ماحول پر عجيب سا سکوت طاری تھا۔ ہر چيز خاموش تھی۔ 

ايک سحر ميں لپٹی ہوئ لگ رہی تھی۔ 

اور اس سحر کو رئيد کے قدموں کی چاپ نے توڑا۔ 

"جی۔۔خيريت تھی" رئيد نے اسکے قريب کھڑے ہوتے اسے اب غور سے ديکھا تو اندازہ ہوا وہ کل کے نکاح والے سوٹ کی جگہ يقينا مشال کے لائے ہوۓ گرے اور پرپل سوٹ ميں موجود تھی۔ دوپٹے کو چادر کی طرح اوڑھا ہوا تھا۔ 

"جی۔۔پہلے تو ان سب کپڑوں کا شکريہ جو آپ نے مشال سے کہہ کر ہمارے لئے منگواۓ" نظروں کو ادھر ادھر گھماتے ہلکا سا رخ موڑے وہ رئيد کی نظروں کو پوری طرح اگنور کررہی تھی۔ 

رئيد کو نظريں چرانے کا يہ کھيل بہت مزہ دے رہا تھا۔ 

سينے پر ہاتھ لپيٹے گرے کرتا شلوار ميں وہ مطيبہ کا صبر آزما رہا تھا۔ 

"ويل۔۔ آپ کے ساتھ نکاح کے بعد آپکے نان نفقے کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ تو آپ کے لئے يہ سب لا کر ميں نے کوئ احسان نہيں کيا اپنا فرض پورا کيا ہے" رئيد کے تفصيلی جواب پر اسکی ہتھيليوں ميں پسينہ آيا۔ 

"مگر مجھے يہ احسان لگا ۔۔کيونکہ يہ سب مجبوری کی وجہ سے ہے۔ لہذا ميں چاہتی ہوں کہ جب تک ہم يہاں ہيں تو ميں پھر سے آفس جوائن کرلوں" مطيبہ کے مطالبے پر رئيد نے بھنويں سکيڑيں۔ 

"ايکسکيوزمی۔۔جب تک ميں کيس نہيں کرتا تب تک تو آپ يہاں سے نکل نہيں سکتيں۔۔ شايد آپ بھول گئ ہيں کہ کچھ لوگ آپ پر گھات لگاۓ بيٹھے ہيں" رئيد کی بات پر اس نے ايک خاموش مگر خفا سی نظر رئيد پر ڈالی۔

"ميں جانتی ہوں۔ مگر ميں ايسے يہاں مفتے ميں يہاں نہيں رہ سکتی" آنکھيں جھکاۓ ہاتھوں کو مروڑتی وہ ضدی لہجے ميں بولی۔ 

"آپ کو وضاحت ميں دے چکا ہوں کہ شوہر ہونے کے ناتے آپکے خرچ کی ذمہ داری مجھ پر ہے" رئيد نے پھر سے اسے واضح کيا۔ 

"يہ ايک وقتی تعلق ہے۔۔" مطيبہ نے اب کی بار جتاتی نظروں سے اسے ديکھا۔ 

"جی بالکل۔۔ ليکن بہرحال ہے" رئيد نے دو ٹوک انداز ميں کندھے اچکاتے کہا۔ 

"اوکے اگر ميں آفس نہيں جاسکتی تو کيا آپکی کزن مشال کی اکيڈمی ميں پڑھا سکتی ہوں۔ تاکہ ہمارے کھانے پينے کا خرچہ ميں آپ کو دوں" رئيد کا دل کيا اس خودداری کی ماری لڑکی کا دماغ درست کرے۔ 

"انسان کو خوددار ہونا چاہئيے مگر اتنا نہيں کہ وہ وقت اور حالات نہ ديکھے۔ 

ميں نے آپ کو کہا کہ مجھے آپ کے يہاں رہنے کا معاوضہ چاہئيے" رئيد اب کی بار خطرناک حد تک سنجيدہ ہوا۔ 

"ليکن مجھے يوں اچھا نہيں لگ رہا کہ ہم يوں آپ پر کسی بوجھ کی طرح پڑ گۓ ہيں" رئيد کا دل کيا اپنا سر پيٹ لے۔۔مرغے کی وہی ايک ٹانگ۔ 

"اس نکاح کا مشورہ آپ نے ديا تھا؟" رئيد کے سوال پر وہ عجيب نظروں سے اسے ديکھ کر رہ گئ۔ 

"نہيں" کيا رئيد کو ياد نہيں۔ 

"جب يہ فيصلہ ميں نے کيا تھا تو اسکے نفع نقصان سب سوچ کر کيا تھا۔ جب نکاح کرتے ميری مرضی تھی تو آپ کا خرچ اٹھانے کی مرضی بھی ميری تھی۔۔ 

لہذا فضول سوچوں کو دماغ ميں جگہ دينے سے بہتر ہے آپ اس بات پر فوکس کريں کہ ہم اس مسئلے سے کيسے نپٹنا ہے۔ اس سے متعلق کوئ اچھا مشورہ ديں گی تو ضرور سنوں گا۔ 

فضول باتيں سننے کے لئے ميرے پاس ٹائم نہيں ہے" اب کی بار رئيد نے لگی لپٹی رکھے بغير اسے لتاڑا۔ 

"مگر مجھے"

"اسٹپ اٹ مطيبہ" رئيد کے لہجے ميں غصہ در آيا۔ 

"جب اس مسئلے سے نکل جائيں۔ تو آپکے رہنے کا جتنا خرچہ ہو گا وہ سود سميت ميں لوں گا۔ فکر مت کريں۔ 

خوددار آپ ہيں تو مفت کی روٹياں ميں بھی کسی کو نہيں ديتا" رئيد کی بات کا ذومعنی پن سمجھے بنا وہ ريليکس ہو گئ۔ 

"اوکے آپ سب خرچہ مجھے بتا دينا ميں اپنی پيز ميں سے آپ کو دے دوں گی" مطيبہ جلدی سے خوش ہو کر بولی۔ 

يہ سوچ کر کہ يہ سب قرض ہے۔ 

"ضرور۔۔ ہر لمحے کا حساب اور خرچ بتاؤن گا۔۔" رئيد کے لہجے کی گھمبيرتا اور نظروں کی گہرائ نے اب کی بار مطيبہ کو چونکايا۔ اسے رئيد کے لہجے ميں کچھ انوکھا احساس محسوس ہوا۔ 

جسے وہ فی الحال جھٹلانے پر آمادہ تھی۔ 

"اب ريليکس ہو کر سوجائيں۔" رئيد اسے تسلی ديتا اس سے پہلے اندر جا چکا تھا۔ 

مطيبہ چند لمحے وہيں کھڑی رہی۔

___________________________

"آخر وہ منحوس ماں بيٹی گئ کہاں؟" شہاب کے بندے کتنے دنوں سے فائق کے گھر کی پہرہ داری کررہے تھے۔ مگر کوئ خاطر خواہ رزلٹ نہيں ملا۔ 

"کہاں گئيں تيری بيوی اور بيٹی۔۔بتا" شہاب کے قدموں کے پاس فائق لاچار سا بيٹھا تھا۔ 

يک بيک شہاب چلاتا ہوا اس پر برسا اور جوتے کی نوک اسکی کمر پر ماری۔ 

وہ بلبلا اٹھا۔ 

"مجھے۔۔ مجھے نہيں پتہ خدارا مجھے نہيں پتہ" وہ روتا ہوا ہاتھ جوڑ کر بولا۔ 

"ابے کمينے تو نے پانچ کی بجاۓ پندرہ ہزار بھی لے لئیے مجھے سے اور ابھی تک تيری بيٹی بھی میرے ہاتھ نہيں لگی۔۔" وہ پھنکار کر بولا۔ 

"اب ايک ہی حل ہے ايک تو اسکے باس پر نظر رکھو۔ دوسرا تيری ميسنی بيٹی کی تصوير اب اخباروں ميں چھپواؤں گا۔ اس خبر کے ساتھ کہ تيری بيٹی ميری منکوحہ ہے جو پچھلے چند دنوں سے کسی نے اغوا کرلی ہے۔۔ اسے ڈھونڈنے ميں ميری مدد کريں۔" ايک ايک لفظ وہ چبا کر بولا۔۔

"اور تو۔۔ تو اب تب تک يہاں سے کہيں دفع نہيں ہوجاتا جب تک تيری بيٹی نہيں ملتی۔ شہاب نے کبھی ہارنا نہيں سيکھا" وہ پھر سے جبڑے بھينچ کر بولا۔ 

"تم دونوں کل سے اس کمينے باس کی نگرانی کرو گے۔ اسکے گھر کا بھی پتہ کرو اور ہر رپورٹ مجھے دو۔۔

ايسے کيسے وہ غائب ہوسکتی ہيں۔ يقينا کسی نہ کسی کا ہاتھ اس ميں ہے" اپنے دو بندوں کو حکم دينے کے بعد وہ آنکھيں سکيڑ کر بولا۔ 

داڑھی کھجاتے اسکی سوچ ان دونوں کے گرد ہی گھوم رہی تھی۔ 

"مجھے چھوڑ دو۔ ميں نے تمہارا کيا قصور کيا ہے جہاں تک ہوسکا تمہاری مدد کی" فائق پھر سے منمنايا۔ 

"ابے چپ (گالی) بند کرو اس کمينے کو۔۔۔" ايک بار پھر اسے ٹھوکر مار کر اپنے بندوں سے فائق کو وہاں سے اٹھوا کر اسے ايک کمرے ميں بند کرنے کا حکم ديا۔ 

وہ چيختا چلاتا رہا مگر شہاب جيسے سفاک انسان پر اس کا کيا اثر پڑنا تھا۔ 

"آقا جی۔۔۔منسٹر صاحب کا فون آيا ہے" وہ کرسی پر اور بھی آرام دہ انداز ميں بيٹھتے پاؤں جوتوں سميت سامنے موجود ٹيبل پر رکھتے اپنے ريوالر کے ساتھ کھيلنے ميں مشغول تھا کہ اس کا ايک بندہ ہاتھ ميں فون لئے تيزی سے کمرے ميں آيا۔ 

شہاب بھی سيدھا ہو کر بيٹھ گيا۔ 

"يہ ميں کيا سن رہا ہوں کس لڑکی کے پيچھے ہو تم" ايک کڑک آواز فون سے سنائ دی۔ 

"وہ سر جی بس دل کے معاملے ہيں" وہ ڈھٹائ سے مسکراتے ہوۓ بولا۔ 

"دل کو قابو ميں کرو۔۔ اور کام پر توجہ دو۔۔ ايسی عورتوں کو ٹشو پيپر سے زيادہ اہمیت نہيں ديتے" وہ گرج کر بولا۔ 

"ارے سر جی ٹشو پيپر کو برتنے کا موقع ہی کہاں ملا۔۔ اب پياس بجھانے کو کچھ تو تدبير کرنی ہے نا" آنکھ دبا کر اپنی غليظ گفتگو سے وہ منسٹر کو بور کررہا تھا۔ 

"اچھا ابھی سب باتيں دفع کرو۔ وہ جو جلسے کو ناکام بنانے کا ميں نے تمہيں کام ديا تھا وہ سب تيار ہے نا۔ يہ نہ ہو تم لڑکی کے چکروں ميں ميرا کام بھول جاؤ۔ پيسے وصول کرچکے ہو۔۔ لہذا ذرا سی لاپرواہی ہوئ تو ايک ايک پائ کا حساب لے لوں گا" منسٹر بگڑ کر بولا۔ 

"اوہ سر جی۔ آپ فکر ہی نہ کريں۔ ايسی تباہياں کرنی ہے اس جلسے ميں کے آپکا مخالف آئندہ ايسا کرنے کا سوچے گا بھی نہيں۔ اجی۔ ہاتھ ہی عورتوں پر ڈال کر اسے بدنام کرنا ہے" وہ پھر اپنی شيطانی سوچ پر مسکرايا۔ 

"ہاہا۔۔ شاباش۔۔ چلو بھئ انجواۓ کرو" وہ مطمئن ہو کر فون بند کر گيا۔

____________________

"يار تمہارے آفس کے سی سی ٹی وی کيمروں ميں اس دن کی فوٹيجز ہيں جب شہاب نے تمہارے آفس ميں آکر ہنگامہ کيا تھا" رئيد اس وقت سمير بٹ کے پاس موجود تھا جو شہر کا نامی گرامی وکيل تو تھا ہی مگر رئيد کا بے حد اچھا دوست تھا۔ 

"ہاں بالکل وہ موجود ہے۔ تم کہتے ہو تو کل ہی ميں تمہيں وہ پہنچا ديتا ہوں" رئيد نے سر اثبات ميں ہلاتے بتايا۔ 

"ہاں يار وہ بہت ضروری ہيں۔ اس سے ہمارا کيس اور بھی مضبوط بن جاۓ گا۔" رئيد شہاب پر جھوٹے نکاح نامہ کا کيس دائر کروانے کے لئے اپنے دوست کے ساتھ بيٹھا پيپر ورک کروا رہا تھا۔ 

"تمہاری ساس کی جو ہمسائ ہيں۔ کيا تمہيں يقين ہيں کہ وہ شہاب کے خلاف کورٹ ميں گواہی ديں گی۔ کيونکہ وہی ايک آئ وٹنس ہمارے پاس موجود ہيں" سمير کے ہاتھ تيزی سے سامنے رکھے کاغذات پر چل رہے تھے۔ اور ساتھ ساتھ دماغ بھی۔ جہاں وہ اٹکتا رئید سے سوال پوچھ ليتا تھا۔ 

"ہاں مجھے پورا يقين ہے کہ وہ گواہی ديں گی۔ اور اسکے علاوہ ميرا آفس کا سٹاف بھی شہاب کے خلاف گواہی دے گا۔" رئيد نے پريقين انداز ميں کہا۔ 

"ٹھيک ہے ۔ کل ہی تم وہ فوٹيجز مجھے دو گے۔ اور کل ہم اسے عدالت کی طرف سے نوٹس بھجوا ديں گے۔ مگر اس کے لئے يہ بھی ضروری ہے کہ تمہارے حلقہ احباب ميں تمہاری شادی اور بھابھی کی تمہارے گھر ميں موجودگی کا سب کو معلوم ہو۔ تاکہ کل کو کوئ يہ کہتا ہوا نہ آۓ انہيں بھابھی کی موجودگی کا پتہ نہيں تھا" 

رئيد نے اسکی بات پر کسی قسم کا ردعمل نہيں ديا۔ بس خاموش ہی رہا۔ 

وہ جو اس نکاح کو خفيہ رکھنے کے چکر ميں تھے لگتا تھا پوری دنيا کے سامنے آکر ہی رہے گا۔ 

"تو اس کے لئے کيا کرنا چاہئيے؟" رئيد نے اسی سے حل پوچھا۔ 

"اپنے اسٹيٹس پر ہر جگہ لگا دو کہ تمہارا کچھ ايمرجنسی ميں اس اس لڑکی سے نکاح ہوگيا ہے۔ سب سے معذرت کر لو۔ اور ريسيپشن کی کوئ ڈيٹ ڈيسائيڈ کرکے ريسيپشن بھی دے دو اور سب کو انفارم کردو" سمير کے مشورے پر وہ خاموش رہا۔ 

"ديکھو کوٹ ميں يہ سب پروفس دينے بہت ضروری ہوتے ہيں۔ اگر ايسا کچھ نہيں ہوگا تو ہمارا کيس کمزور بھی پڑ سکتا ہے۔۔ وہ بہت تگڑا بندہ ہے۔" سمير نے اسے حقيقت بتائ۔ 

"اور بدقسمتی سے بھابھی کے سائن سے لے کر آئ ڈی نمبر تک سب اسکے پاس ہے" رئيد کو ايک بار پھر چپ لگی۔ 

"اور فرض کرو ہم بتا بھی ديتے ہيں کہ ان کے باپ نے انہيں بيچا اور تم انہيں پروٹيکٹ کرنے آگۓ جو کہ ہم بتائيں گے۔ مگر وہ نکاح نامہ پروف کے طور پر پيش کرے گا۔ تو پھر بھابھی کی تمہارے ساتھ نکاح ميں مرضی شامل ہونا نہ صرف ضروری ہے بلکہ يہ بھی ضروری ہے کہ تمہارے سب احباب کو پتہ ہو۔۔" سمير کی بات اسے کافی حد تک سمجھ آرہی تھی۔ 

"ٹھيک ہے" 

"سب سے پہلے تو ہم اسکے باپ کو بھی اندر کروائيں گے جس نے جوۓ کے عوض بيٹی کو بيچا اور پھر اسی کو پروسيڈ کرتے ہوۓ شہاب پر ہاتھ ڈاليں گے" سمير نے تفصيل شئير کی۔ 

"ٹھيک ہے۔ ميں بابا سے بھی آج بات کرتا ہوں کہ وہ جتنی جلدی ہوسکے پاکستان آئيں" رئيد نے اٹھتے ہوۓ کہا۔ 

"ٹھيک ہے۔۔ پريشان نہ ہو۔ اللہ بہتر کرے گا۔ اور ہاں ميں نے تيرے گھر کے باہر سکيورٹی بھی ٹائٹ کروادی ہے۔" کھڑے ہوکر رئيد سے بغلگير ہوتے سمير نے اطلاع دی۔ 

"تھينکس يار" رئيد نے تشکر آميز لہجے ميں کہا۔ 

"اور اپنا بھی خيال رکھنا۔ کہ کہيں کوئ تمہارا پيچھا تو نہيں کررہا کيونکہ شہاب کوئ نہ کوئ کمينی چال ضرور چلے گا۔ سو چوکنا رہنا۔" رئيد کو متنبہہ کيا۔ 

"ضرور۔۔اوکے يار اللہ حافظ" رئيد اس سے ہات ملاتا اسکے آفس سے باہر نکل آيا۔ 

گاڑی آفس کے راستے پر لاتے اسے سمير کے شک پر يقين کی مہر ثبت ہوتی محسوس ہوئ جب ايک سفيد سوزکی ايوری اسکا پيچھا کرتی آفس تک آئ۔۔يقينا يہ گاڑی آفس سے اس کا پيچھا کرتی يہاں اور اب يہاں سے واپس آفس آئ ہے۔

رئيد کو اب احتياط کرنی تھی۔ 

____________________

"ہيلو سر جی ايک خبر ہے" کيف جو صبح سے رئيد کا پيچھا کر رہا تھا۔ رئيد کا پيچھا کرتے ہی وہ وکيل کے آفس تک پہنچا اور اب اسکے پيچھے پيچھے ہی واپس اسکے آفس کے باہر آکر کھڑا ہوا تھا۔ 

فون کرکے شہاب کو اطلاع کرنے کا سوچا۔ 

"کيا خبر ہے" شہاب بھی پوری طرح متوجہ ہوا۔ 

"سر جی وہ باس ابھی کچھ دير پہلے ايک وکيل کے آفس گيا تھا اور وہاں سے اب واپس اپنے آفس آيا ہے۔" کيف کی بات پر شہاب کا چونکنا بنتا تھا۔ 

"مجھے شک تھا کہ اس کمينے کا کچھ نہ کچھ ہاتھ ہے اس سب ميں۔ وہ لڑکی ايسے ہی غائب نہيں ہوگئ اور اسکی ماں بھی۔ 

يقينا اسی نے انہيں کہيں چھپايا ہوگا۔ تم تصوير اخبار والے دفتر دے کر آۓ تھے کہ نہيں" شہاب دانت پيس کا بولا۔ 

"آقا جی وہ تو ميں صبح ہی دے کر پھر يہاں آيا تھا" اس نے تابعداری سے کہا۔ 

"ٹھيک ہے۔۔ اب ديکھتے ہيں بکرے کی ماں کب تک خير مناۓ گی" اسکی شيطانی مسکراہٹ اس لمحے اسے اور بھی کرخت بنا رہی تھی۔ 

"سر وہ کہہ رہے تھے کہ خبر دو تين دن تک چھپے گی" کيف نے ايک اور اطلاع دی۔ 

"اچھا کوئ نہيں۔ تب تک ہم اس کے گھر کی نگرانی کروائيں گے۔ کچھ تو معلوم ہوگا ہی" شہاب نے مونچھوں کو تاؤ ديتے ہوۓ کہا۔ 

"چل اب اپنا کام کر" آنکھيں گھما کر فون بند کيا۔ 

"بڑی اونچی اڑان ہے تيری" تصور ميں وہ مطيبہ سے مخاطب ہوا۔

________________________

رئيد نے گھر فون کيا۔ اب اسے فکر تھی کہ اگر اس کا پيچھا ہو رہا ہے تو اسکے گھر کا پتہ کروا کر اسکی نگرانی بھی ہورہی ہوگی۔ 

ملازم نے فون اٹھايا۔ 

"بی بی کہاں ہيں" رئيد کو سمجھ نہ آۓ مطيبہ کو کے بارے ميں کيسے استفسار کرے۔ 

"بھابھی کی بات کررہے ہيں يا انکی امی کی" ملازم لڑکے نے دانت نکالے۔ 

رئيد اسکے بھابھی کہنے پر چونکا۔ وہ جو سب کو بتانے کا تہيہ کررہا تھا۔ اسکے گھر ميں پہلے سے ہی پتہ تھا۔ 

"ہاں اپنی بھابھی کو بلاؤ" رئيد نے سنجيدگی سے کہا۔ 

"بھابھی۔۔۔۔بھائ جی کا فون ہے" سلمان ہميشہ اسے بھائ جی ہی کہتا تھا۔ 

"ميرے لئے؟" اسے فون سے مطيبہ کی آواز واضح سنائ دی

"جی جی۔۔۔ اب مجھ سے تو وہ بات کريں گے نہيں" وہ کافی ہنس مکھ سا سترہ اٹھارہ سال کا لڑکا تھا۔ 

مطيبہ نے اسکے بے وقت مسکرانے پر گھورا۔۔

"ہيلو" ريسيور اب مطيبہ کے ہاتھ ميں تھا۔ 

"ہيلو کيسی ہيں۔ سب ٹھيک ہے گھر پر" رئيد کے لہجے ميں چھپی تشويش مطيبہ کو پريشان کرگئ۔ 

"جی سب ٹھيک ہے کيوں خيريت ہے؟" وہ بھی سمجھ گئ کہ کوئ مسئلہ ہے۔ 

"جی خيريت نہيں ہے۔۔۔ شہاب نے ميرے پيچھے بندے لگا دئيے ہيں۔ اور يقينا وہ گھر کی بھی نگرانی کروا رہا ہوگا۔ 

آپ کوشش کريں کہ فی الحال گھر کے رہائشی حصے ميں رہيں۔ کيونکہ باہر جائيں گی تب بھی ہو سکتا ہے وہ کہيں سے گھر کے لان وغيرہ کی نگرانی کروا رہا ہو" رئيد نے اسے احتياط کرنے کو کہا۔ 

"ٹھيک ہے۔۔" مطيبہ متفکر سی بس يہی کہ پائ۔ 

"چليں ٹھيک ہے۔ کوئ بھی مشکوک حرکت ديکھيں۔ مجھے آپ نے فورا کال کرنی ہے ويسے تو ميرے گھر کی سيکيورٹی کے لئے ميرے ايک دوست نے بندے بھيج دئيے ہيں پھر بھی ايسے شاطر لوگوں کا کچھ نہيں کہا جاسکتا آپ نے مکمل احتياط کرنی ہے۔ اور آنٹی کو بھی سمجھا ديجئيے گا" رئيد نے اسے تسلی دلائ۔ 

"جی ميں امی کو بتا دوں گی" 

"سنيں" وہ فون بند کرنے ہی والا تھا کہ مطيبہ کی آواز پر فون بند کرتا ہاتھ رکا۔ 

"آئم سوری سر" مطيبہ نادم سی ہوئ۔ 

"کس بات کے لئے؟" رئيد الجھا۔ 

"ہماری وجہ سے آپ کی اچھی بھلی زندگی ميں بے سکونی آگئ ہے" مطيبہ اسی لہجے ميں بولی۔ 

"وہ تو واقعی آگئ ہے۔۔ بھوک پياس نيند سب ختم ہوتے جارہے ہيں" رئيد کا گھمبير لہجہ مطيبہ کو ايک بار پھر چونکا گيا۔ دل نے لے بدلی۔ پھر خود پر قابو پاتے وہ وضاحت دينے لگی۔ 

"نہيں مجھے سيريسلی اب بہت برا لگ رہا ہے۔ ہماری وجہ سے آپ اس آگ ميں کودے ہيں۔۔۔کيا کوئ اور حل نہيں ہوسکتا کہ آپ کی جان کو کوئ نقصان نہ ہو۔۔۔ مجھے اب بہت پريشانی ہورہی ہے" مطيبہ اسکی بات کا اثر زائل کرنے کے لئے  بے سوچے سمجھے کيا سے کيا کہ گئ۔ 

رئيد کے چہرے لبوں پر جاندار مسکراہٹ پھيلی۔ 

"آپ کو واقعی ميری جان کی پرواہ ہوگئ ہے؟" رئيد کے ذومعنی لہجے پر مطيبہ گھبرائ۔ 

"ظاہر ہے آپ ميرے محسن ہيں۔۔ پرواہ تو ہوگی" مطيبہ کی وضاحت پر وہ ہولے سے ہنسا۔۔

" يہ عشق نہيں ہے آساں بس اتنا سمجھ ليجئيے

اک آگ کا دريا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔" رئيد کے واضح اظہار نے مطيبہ کو جامد کرديا۔ 

"عشق تو خير نہيں ہے۔ مگر چونکہ اس آگ ميں کود چکا ہوں تو اب تير کر کنارے تو جانا ہی ہے" رئيد اسکی حالت سے محظوظ ہوتے بات بدل گيا۔ 

مگر اسکے لہجے کی شرارت مطيبہ کی دھڑکنيں بے ترتيب کرگئ۔ 

"اوکے اللہ حافظ" گھبراہٹ ميں اور کچھ سمجھ نہيں آيا تو يہی کہہ کر فون بند کرديا۔ 

رئيد کتنی ہی دير اسکی حالت کو انجواۓ کرتا رہا۔

____________________________

"سر جی اس وقت وہ گھر کے لئے نکلا ہے" کيف شام ميں پھر سے رئيد کا پيچھا کرتے اسکے گھر کی جانب جا رہا تھا۔ 

"بس اس کا پيچھا کرو۔۔ مگر کوئ کاروائ نہيں کرنی۔ کيونکہ ہو سکتا ہے اس نے اس لڑکی اور اسکی ماں کو اپنے پاس نہ رکھا ہو کہيں آگے بھيج ديا ہو۔ 

جب تک ہميں يقين نہيں ہوجاتا کہ وہ يہيں ہيں۔ ہم کوئ کاروائ نہيں کريں گے" شہاب نے اسے سمجھايا۔ 

"ٹھيک ہے آقا جی" کيف خاموشی سے اسکا پيچھا کررہا تھا۔ 

رئيد انجان نہيں تھا۔ وہی گاڑی اس وقت پھر اسکے پيچھے تھی۔ 

آفس سے نکلتے وقت اس نے اپنی لائسنسڈ گن لوڈ کر اپنے ساتھ رکھی تھی۔ 

يونی کے دنوں ميں اس نے نشانہ بازی کی کافی پريکٹس کررکھی تھی۔ باقاعدہ مقابلوں ميں حصہ ليتا رہا تھا۔ 

اسی لئے اس کا نشانہ کافی اچھا تھا۔ 

گھر کے باہر پہنچا تو چار پانچ وردی ميں ملبوس جوان اسکے گھر کی پہرہ داری پر موجود تھے۔ 

رئيد کی گاڑی رکتے ہی سليوٹ کيا۔ 

رئيد نے گاڑی سے باہر آکر ان سے سلام دعا کی۔ 

پھر گاڑی ميں واپس بيٹھ کر گاڑی گھر کے اندر بڑھا لے گيا۔

گھر ميں داخل ہوا تو مطيبہ اور رفيعہ دونوں کو کچن ميں کام کرتے ديکھا۔ 

"السلام عليکم۔۔ آپ دونوں کيوں يہاں ہيں" وہ حيرت سے انہيں ديکھ کر پوچھ رہا تھا۔ 

"وعليکم سلام جيتے رہو بيٹا۔۔ بس بيٹا آرام کرکر کے تنگ پڑ گۓ تھے سوچا اس بے چارے کا کچھ کام ہی آسان کرديں" رفيعہ محبت سے اسکے سلام کا جواب دے کر بوليں۔ 

"آپ باہر آئيں۔ يہ پہلے ہی نکما ہے آپ دونوں نے اسے اور بھی نکمابنا دينا ہے" وہ رفيعہ کو کندھوں سے پکڑ کر باہر لاتے ہوۓ بولا۔ 

"ارے ارے ۔۔۔اچھا چلو۔۔ پر مطيبہ کو يہيں رہنے دو۔" رفيعہ نے اسکے زبردستی کرنے پر ہار مانتے ہوۓ کہا۔ اور اسکے ساتھ کچن سے باہر آگئيں۔ 

"ميں آج وکيل کے پاس گيا تھا" رئيد انہيں اپنے سامنے والے صوفے پر بٹھا کر خود بھی انکے مقابل بيٹھتے ہوۓ بولا۔ 

اور پھر ساری تفصيل انہيں بتائ۔ 

"اللہ اس مشکل سے ہميں نکالے۔۔ بيٹا جيسا تمہارا وکيل کہتا ہے ويسے کرو۔۔ مجھے تو کچھ سمجھ نہيں ان باتوں کی۔ بس دل کو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ وہ کمينہ انسان پھر دوبارہ نہ آجاۓ" رفيعہ پريشان ہوئيں۔ 

اتنی دير ميں مطيبہ چاۓ بنا کر لے آئ۔ 

سينٹر ٹيبل پر ٹرے رکھی۔ 

"آپ کيا کہتی ہيں" رئيد نے اس کی بھی راۓ لی۔ 

مطيبہ کے چہرے پر فقط سنجيدگی تھی۔ 

"آپکے لائر کی رائے زيادہ مقدم ہے۔۔ ہميں تو ان باريکيوں کا نہيں پتہ" رئيد کو کپ تھماتے نگاہيں نيچے رکھتے ہوۓ بولی۔ 

ايک کپ رفيعہ کو ديا اور تيسرا کپ لئے خود بھی رفيعہ کے ساتھ بيٹھ گئ۔ 

"ميرا تو خيال تھا کہ يہ سب زيادہ سامنے نہ آۓ۔ مگر جب عدالت تک جاۓ گا ظاہر ہے تب بھی سب کو پتہ چلے گا۔ پہلے پتہ چل جاۓ تو بھی کوئ مسئلہ نہيں۔" مطيبہ جان بوجھ کر 'نکاح' کا نام لينے سے کترا رہی تھی۔ 

'يہ سب' سے مراد اسکی نکاح ہی تھا رئيد جان چکا تھا۔ 

"ہمم" وہ پرسوچ انداز ميں بولا۔ 

"السلام عليکم" يکدم آنے والی آواز پر وہ تينوں چونک کر لاؤنج کے دروازے کی جانب متوجہ ہوۓ۔ 

جہاں موجود شخصيت کو ديکھ کر رئيد کے چہرے پر خوشی اور حيرت کے ملے جلے تاثرات در آۓ

جبکہ رفيعہ کے چہرے پر زلزلے کے آثار تھے۔ وہ پتھرائ آنکھوں سے اس شخص کو ديکھ رہی تھيں جس کی نظريں رفيعہ پر پڑتے ہی ساکت ہوئ تھيں

اور مسکراتے لب خاموش۔ 

مطيبہ کے چہرے پر صرف اجنبيت کے تاثرات تھے۔ 

"بابا۔۔ واٹ آ پليزينٹ سرپرائز" رئيد کپ رکھتا فورا اٹھ کر انکی جانب بڑھا۔ 

جن کی نظريں صرف رفيعہ پر جمی تھيں۔ 

رئيد جيسے ہی اسکے گلے لگا انہيں جيسے ہوش آيا۔ محبت سے اسکے گرد بازو باندھے۔ 

اسکے چہرے پر پيار کيا۔ 

"آپ نے بتايا ہی نہيں" وہ اب بھی خوشی سے تمتماتا چہرہ لئے ان سے شکوہ کررہا تھا۔ 

"سوچا تھا سرپرائز دوں گا مگر يہاں تو ميں سرپرائزڈ ہوگيا ہوں" رئيد کی بات پر پھيکے انداز ميں وہ بولے۔ کچھ دير پہلے جو جوش تھا وہ اب مفقود تھا۔ 

"کيا مطلب" رئيد نے الجھ کر ان کو دیکھا۔ 

"خير آپ آئيں۔۔۔" وہ انہيں لئيۓ اندر کی جانب بڑھا۔ 

"يہ رفيعہ آنٹی ہيں اور يہ مطيبہ ہيں" رئيد نے ان دونوں کا بھی تعارف کروايا جو اپنی جگہ کھڑی باپ بيٹے کی ملاقات دیکھ رہی تھيں۔ 

مطيبہ نے جلدی سے سلام کيا انہوں نے ہاتھ بڑھا کر اسکے سر پر پيار دیا۔ 

"ماشاء اللہ بہت پياری بچی ہے جيتی رہو" مطيبہ جو بس سلام پر ہی اکتفا کرچکی تھی اگلے ہی پل حيران رہ گئ جب انہوں نے اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں ميں تھام کر محبت سے اسکے سر پر بوسہ ديا۔ 

وہ انداز جس کی خواہش وہ اپنے باپ سے کرتی تھی آج کسی اور کے باپ سے پوری ہو رہی تھی۔ 

نمی يکدم اسکی آنکھوں ميں در آئ۔ 

رفيعہ نے بھی بدقت سلام کيا۔ 

"وعليکم سلام کيسی ہو۔۔ کاش مجھے معلوم ہوتا کہ يہ سب ظلم تمہاری بيٹی کے ساتھ ہورہا ہے تو بہت پہلے آچکا ہوتا" حسن کی بات پر رئيد اور مطيبہ دونوں ششدر رہ گۓ۔ 

رئيد کو لگا جن کی تلاش ان دونوں کو کب سے تھی وہ انکے سامنے ہی ہيں۔ 

"کوئ بات نہيں حسن۔۔۔ ہم دونوں دنيا ميں شايد ظلم سہنے ہی آئ ہيں۔ کچھ ظلم ميں نے سہے اور کچھ ميری بيٹی نے"ان کے لہجے کی کاٹ کو مطيبہ سمجھنے سے قاصر تھی۔ 

مگر رئيد انہيں حق بجانب سمجھ رہا تھا۔ 

"بابا۔۔ آپ لوگ بيٹھيں پليز" رئيد نے ان سب کو بيٹھنے کا کہا۔ 

"سلمان بابا کا سامان انکے روم ميں پہنچا دو" رئيد نے سلمان کو آواز لگائ۔ 

"جی آيا بھائ جی" سلمان نے کچن سے آواز لگائی...

__جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Main Hari  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Ishq Main Hari  written by Ana Ilyas . Ishq Mian Hari  by Ana Ilyas is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link



  

 


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages