Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 3 to 4 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday 21 January 2023

Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 3 to 4

Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 3 to 4  

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...



Ishq Main Hari By Ana Ilyas Novel Episode 3'4


Novel Name: Ishq Main Hari 

Writer Name: Ana Ilyas

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔


رات ميں وہ اگلے دن کی تياری کررہی تھی کہ رفيعہ اسکے پاس آئيں۔ 

"ميری بات سن ابھی تيرا باپ پوچھے تو اسے اپنے پيسے نہ بتانا ميں خود ہی کچھ کہہ کر ٹال دوں گی۔ مگر فی الحال يہ بات اس پر نہ کھلے تو بہتر ہے۔۔" وہ فرش پر کپڑا رکھے پاس موجود سوئچ ميں استری کا پلگ لگاۓ کپڑے استری کرنے ميں مصروف تھی۔ 

"جی اماں" وہ بس مختصر سا ہی جواب دے سکی

"ميں کہتی تھی نا مطيبہ قسمت سے خفا نہيں ہوتے۔ ديکھ اللہ نے ہماری بازو پکڑ ہی لی" وہ ہاتھ اوپر کی جانب اٹھا کر بوليں۔ خوشی ان کے ہر ہر انداز سے ظاہر ہورہی تھی۔

"اماں جيسے ہی ميری پہلی پے آئے گی آپ نے يہ سلائ کڑھائ بند کردينی ہے۔" پلگ نکالتے ہوۓ وہ انہيں تنبيہہ کرنا نہيں بھولی۔ 

"اچھا پو رہنے دے۔ ميں ان پيسوں سے تيرے جہيز کا۔۔" 

"افوہ اماں ميں نے کبھی کوئ شادی وادی نہيں کرنی يہ بات آپ بھول جائيں۔ ضروری نہيں ہوتا کہ بيٹے ہی ماں باپ کے ساتھ رہيں بيٹياں بھی رہ سکتی ہيں۔ اسی لئے آپ شادی والی بات تو اپنے ذہن سے نکال ديں۔ ابھی مجھے بہت آگے تک جانا ہے۔" رفيعہ کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی وہ بات کاٹ کر جھنجھلا کر بولی۔

"تيری تو مت ہی الٹی ہے۔ ميں کون سا کل ہی تيری شادی کررہی ہوں" وہ منہ بنا کر بوليں۔

"ميں آپکو کہہ رہی ہوں کہ يہ خیال دل سے بالکل نکال ديں۔ابھی تو جاب کرکے پيسے جمع کروں گی اور ابا کا علاج کرواؤں گی تاکہ يہ نشے کی عادت ان سے چھوٹے" ہاتھوں پر نظريں جماۓ وہ اپنا ارادہ بتانے لگی۔ 

"تيرے ابا کی يہ لت چھوٹنے والی نہيں" رفيعہ نے ہاتھ ايسے ہلايا جيسے ناک سے مکھی اڑائ ہو۔ 

"کہاں مر گئ ہے تو" فائق کی چنگھاڑتی آواز آئ۔

"تم کرالو اس شخص کا علاج" وہاں سے اٹھتے ہوۓ وہ پھر سے تلخی سے بوليں۔ مطيبہ نے بس ايک بے بس نظر ماں کے چہرے پر ڈالی۔ 

توڑ پھوڑ کی آوازوں پر وہ اتنی بہادر سہم جاتی تھی۔ 

آنسو بے اختيار ہوکر گالوں پر پھسلے۔ غربت انسان سہہ ليتا ہے مگر ماں يا باپ کی لاپرواہی نہيں سہہ سکتا۔ 

وہ ہميشہ باپ کی پرواہ کرتی اور وہ اتنا ہی ان دونوں سے نالاں رہتا۔ 

اسکے نشہ کرنے کی وجہ سے رفيعہ مطيبہ کو باپ کے پاس زيادہ جانے نہيں ديتی تھيں۔ وہ تو فائق کی نشے کی حالت ميں مار سہہ ليتی تھيں۔ مگر اولاد کو پٹتا وہ نہيں ديکھ سکتی تھيں۔ 

اسی لئے جب وہ جنونی ہوا ہوتا ۔ وہ مطيبہ کوفائق کے قريب بھی پھٹکنے نہيں ديتی تھيں۔ 

اور نارمل حالت ميں وہ کم کم ہی ہوتا تھا۔ 

گھر پر جب بھی آتا بس توڑ پھوڑ کرتا اور مغلظات بکتا۔ 

مطيبہ تو کبھی کبھی کانوں پر ہاتھ رکھ ليتی کہ اتنی گندی زبان سننے کی وہ متحمل نہيں ہوپاتی تھی۔ 

نگاہ اٹھا کر چھت کی جانب ديکھتے جيسے وہ اللہ سے مخاطب تھی۔

_______________________________

اگلے دن وہ آفس ٹائم سے پہنچ چکی تھی۔ رئيد ابھی آفس نہيں آيا تھا مگر جواد کو اس نے تاکيد کی تھی کہ مطيبہ کو پورے اسٹاف سے متعارف کرواۓ اور اسے اسکی ڈيوٹيز کے بارے ميں بھی بريف کردے۔ 

جواد مطيبہ کے آفس پہنچتے ہی رئيد کے حکم نامے پر عمل کررہا تھا۔ 

تمام اسٹاف اسے اوپر سے نيچے تک ضرور ايک مرتبہ ديکھتا جو سادے سے سوٹ ميں بغير کسی آرائش کے بڑے سے دوپٹے کو خود سے لپيٹے اعتماد سے کھڑی سب سے سلام دعا کررہی تھی۔ 

اب تک اس آفس ميں جتنی بھی لڑکياں آئيں تھيں سب ايک سے ايک فيشن ايبل تھيں۔ ان ميں يہ نمونہ سب کو عجيب لگا تھا۔ 

مگر کسی ميں کچھ کہنے کی ہمت نہيں ہوئ۔ رئيد کی سخت طبيعت سے سبھی واقف تھے۔ گو کہ وہ اپنے سٹاف ميں گھل مل کر رہتا تھا مگر جو فاصلہ وہ قائم رکھتا تھا اسے کوئ پھلانگنے کی ہمت نہيں کرسکتا تھا۔ 

اپنے اصولوں ميں وہ نہايت سخت تھا۔ 

گيارہ بجے کے قريب وہ آفس آيا تب تک مطيبہ اپنا کمپيوٹر اور سيٹ سنبھال چکی تھی۔ 

جواد اسے پچھلے مہينے کی چيزوں کا ريکارڈ دکھا چکا تھا۔ اب اسے ان چيزوں کو ايکسل شيٹ ميں انٹر کرکے ديکھنا تھا کہ کتنا اسٹاک کتنے کسٹمرز کو جا چکا ہے کتنا پينڈنگ ہے۔ 

رئيد باہر کے ملکوں سے اور مختلف کمپنيوں سے آرڈر کئے جانے والے گارمنٹس، اليکٹرانک اور بے شمار چيزوں کو اپنی کمپنی کی مدد سے پاکستان ميں موجود کسٹمرز کو ڈس پيچ کرتا تھا۔ 

مختلف کمپنيز سے لنک کرکے پاکستانيوں کو وہ مال اسپلائ کرتا تھا جو وہ آن لائن مختلف کمپنيون سے چيزيں خريدتے تھے۔ ايک بہت بڑا نيٹ ورک اس کا پورے پاکستان ميں چل رہا تھا۔ 

ان سب چيزوں کی يہاں ترسيلی کی رپورٹ کے لئے اس نے مطيبہ کو رکھا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے دو بندوں نے چيزوں کی غلط انٹری کرکے نہ صرف اسے نقصان پہنچايا تھا بلکہ اس کے کسٹمر بھی خراب کئيے تھے۔ بات يہيں تک رہتی تو ٹھيک تھا۔ 

مگر ان دو لوگوں نے باہر کی کمپنيوں سے آنے والی چيزوں کی چوری بھی کی تھی۔ اور يہ بات رئيد کے لئے کسی طور قابل قبول نہيں تھی۔ بھاری حرجانے کے ساتھ اس نے انہيں جيل کی بھی ہوا لگوائ تھی۔ 

لہذا اب اسے ايک ايماندار بندے کی ضرورت تھی اور مطيبہ سے بہتر اسے فی االحال کوئ اور اعتبار کے قابل نہيں لگا تھا۔ 

اس کا باہر کے ملکوں ميں آنا جانا لگا رہتا تھا لہذا اسے ايسا بندہ چاہئيے تھا جو اسکی غير موجودگی ميں بھی پوری ديانتداری سے اپنا کام انجام دے۔ 

آفس آتے ہی اس نے انٹر کام پر اپنی پی اے کو کہہ کر مطيبہ کو آفس بلوايا۔ 

"ہيلو" جواد اسے مختلف ايکسچينج نمبر بتا گيا تھا۔ 

فون پر ہونے والی بلنک ديکھتے ہی وہ سمجھ گئ کہ يہ رئيد کی پی اے کی کال ہے۔ 

"سر آپ کو آفس بلا رہے ہيں" مريم بہت اچھے دل والی لڑکی تھی۔ پہلے دن ہی اس نے مطيبہ کو بہت اچھے انداز ميں ويلکم کيا۔ باقی سب لڑکيوں نے اسے ديکھ کر ناک منہ بنايا۔ 

"اوکے" وہ مختصر سا اوکے کہہ کر سيٹ سے کھڑی ہوئ۔ 

فون رکھ کر اب اسکے قدم رئيد کے روم کی جانب تھے۔ مطيبہ کا رئيد کے فلور پر ہی ايک ڈيسک ديا گيا تھا۔ 

آہستہ سے دروازہ ناک کيا۔ 

"کم ان کی آواز پر وہ اندر داخل ہوئ۔  

خاموشی سے وہ اندر داخل ہوئ۔ 

کل کی طرح آج بھی رئيد ليپ ٹاپ سامنے کھولے کچھ تيزی سے ٹائپ کررہا تھا۔ فائلز کا پلندہ سامنے کھلا تھا۔ 

کان سے ريسيور لگاۓ کسی کو ہدايتيں دينے ميں بھی مصروف تھا۔ 

اندر داخل ہوتی مطيبہ کو ايک نظر ديکھ کر ہاتھ سے سامنے رکھی کرسيوں پر بيٹھنے کا اشارہ کيا۔ 

وہ خاموشی سے ايک کرسی گھسيٹ کر بيٹھ گئ۔ 

رئيد نے سرسری نگاہ اس پر ڈال کر فون بند کيا۔ 

"کيسی ہيں مس آپ؟" چہرے پر خوشگوار مسکراہٹ سجاۓ وہ مدھم لہجے ميں بولا۔

"ٹھيک سر" اس نے مختصر جواب ديا۔ 

گہری سياہ آنکھوں نے ہيزل آنکھوں کی جانب ديکھنے سے انکار کيا۔ 

اسکا ادھر ادھر ديکھ کر بات کرنا نجانے کيوں رئيد کو عجيب مگر دلکش منظر لگا۔ 

"کوئ ايشو تو نہيں ہوا۔۔۔کوئ بھی مسئلہ ہو آپ بلا جھجھک مجھ سے اکر پوچھ سکتی ہيں۔ اور اگر ميں نا ہوں تو جواد سے ہيلپ لے سکتی ہيں" رئيد نے کھلے دل سے آفر کی۔

"جی سر ضرور۔۔" مطيبہ نے ايک نگاہ غلط اسکی جانب ڈال کر فورا ہٹا لی۔ 

"اوکے ناؤ يو کين کيری آن يور ورک" اسے واپس اپنی سيٹ پر جانے کا کہتے وہ ايک فائل کی جانب متوجہ ہوا۔ 

"تھينکس سر" ہولے سے کہہ کر وہ تيزی سے آفس سے باہر آئ۔

عجيب اندر تک کھوبتی اور کھوجتی نظريں تھيں رئيد کی۔ 

مطيبہ کو بے حد الجھن ہوتی تھی۔ کم کم ہی وہ اسکی جانب ديکھتی تھی۔

__________________________

بہت دھيرے دھيرے وہ اس ماحول ميں ايڈجسٹ ہورہی تھی۔ اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کرتی کہ کام کو صحيح سے سيکھے اور سمجھے اور اس ميں وہ کسی حد تک کامياب بھی تھی۔ 

دن بھر کی رپورٹ اسے جواد کو دينی ہوتی تھی۔ رئيد کے ساتھ اس کا ڈائريکٹ کوئ واسطہ نہيں تھا۔ 

اسی لئے شروع کے چند دن کے بعد اس کا رئيد سے آمنا سامنا بھی نہيں ہوا تھا۔ 

وہ اپنے کام ميں مگن رہنے والوں ميں سے تھی۔ 

ہاں مريم ايک واحد بندی تھی جس سے وہ کافی حد تک فرينک ہوچکی تھی۔ 

ماں کے کہنے پر اس نے باپ کو ابھی تک ہوا نہيں لگنے دی تھی کہ وہ کہيں جاب کرتی تھی۔ 

ويسے بھی جس وقت وہ صبح آفس کے لئے نکلتی فائق نيند ميں دھت ہوتا۔ اور جب وہ شام ميں واپس گھر آتی تب وہ گھر پر نہيں ہوتا تھا۔ 

اس دن وہ قسمت سے صبح کے وقت ہی اٹھ گيا۔ 

باہر آيا۔ مطيبہ ناشتہ کرنے ميں مصروف تھی۔ 

اس نے سر سے پير تک بيٹی کو چادر ميں لپٹا ہوا ديکھا۔ قريب ہی رکھے پرس پر بھی نظر پڑی۔ 

رفيعہ روٹی بنانے ميں مصروف تھيں۔ وہ فائق کی کچن ميں آمد سے بے خبر تھيں۔ 

"کہاں جارہی ہے تو" وہ يکدم مطيبہ پر غرايا جو قدموں کی آہٹ پر گردن موڑے باپ کو کچن کے دروازے پر ايستادہ ديکھ چکی تھی۔ 

لال انگارہ آنکھيں مطيبہ پر جمائے وہ اسے مشکوک نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ 

مطيبہ نے نظر اٹھا کر ماں کو ديکھا۔ 

"ايک سکول ميں جاب لگی ہے اسکی۔" رفيعہ نے گردن موڑ کر شوہر کو ايک نظر ديکھا اور بات سنبھالی۔ 

"کون سے سکول" جاب کا سن کر فائق کی رال ٹپکنے لگی۔ 

"ہے کوئ۔۔تجھے اس سے کيا۔۔چل بيٹا تو جا جلدی" رفيعہ نے اسے منظر سے ہٹانا چاہا۔ 

"ارے بات تو کرنے دے دو گھڑی۔۔ اپنی بيٹی سے" وہ پينترا بدل گيا۔ 

جاب کا سنتے ہی پيسے اسکی آنکھوں کے سامنے ناچنے لگے۔ 

"اس کا اپنا کاروبار نہيں کہ جب مرضی جاۓ۔ چند ہزار کی نوکری کر رہی ہے۔ ٹائم کی پابندی کرنی پڑتی ہے " 

رفيعہ نے اس کا دھيان اپنی باتوں کی جانب لگايا۔ 

مطيبہ کی بھوک پياس باپ کے پاس سے آتی شراب کی بدبو نے ختم کردی تھی۔ 

تيزی سے وہ اٹھی۔ 

"کتنے پہ رکھا ہے تجھے" فائق دروازے سے ہٹنے کو تيار نہيں تھا۔

"ابا وہ" باپ کے سوال پر وہ گڑبڑائ۔ 

"جتنے پر بھی رکھا ہے۔ تيری عياشی کے لئے ميں اسکا ايک پيسہ برباد نہيں کرسکتی" رفيعہ غصے سے اٹھ کر ان کی جانب آئ۔ 

"ہٹ آگے سے" غصے سے فائق کو ہٹايا۔ 

"تو اولاد نے ماں باپ کو نہيں دينا تو اور کس کو دينا ہے۔ يا کوئ عاشق پال رکھے ہيں" فائق کے منہ سے مغلظات جاری ہوچکی تھيں۔ 

مطيبہ نے اسکے منہ سے نکلنے والے لفظوں کی تکليف محسوس کرتے آنکھيں ميچ ليں۔ کيا کوئ باپ اپنی بيٹی پر ايسے الزام لگا سکتا ہے۔ مگر وہ باپ بنا ہی کب تھا جو اس رشتے کے تقاضے اور اہميت محسوس کرتا۔ 

"ميں کہہ رہی ہوں۔ اپنی بکواس بند کرلے۔۔شرم نہيں آتی بيٹی کو ايسی گھٹيا بات کہتے" رفيعہ نے افسوس سے اسے ديکھ کر وارننگ دی۔ 

"ہاں تو پيسہ کہاں لے کر جانا ہے اس نے" دونوں کا محاذ شروع ہوچکا تھا۔ مطيبہ خاموشی سے گھر سے نکل آئ۔

تمام دن ذہن منتشر رہا۔ 

حالانکہ اس دن اس نے دو دن کی چھٹی لينی تھی کيونکہ حريم کی شادی آرہی تھی۔ 

اور وہ چاہتی تھی کہ مطيبہ اسکے ہر فنکشن ميں نہ صرف اسکے ساتھ ہو بلکہ مہندی اور بارات ميں وہ اسکے گھر ہی پر ہو۔ 

صبح کی ہونے والی ٹينشن کے باعث وہ بمشکل اپنا کام کرپارہی تھی۔ 

لنچ ٹائم کے دوران حريم کا فون آگيا۔ 

"تم نے بات کی ہے باس سے چھٹی کی" حريم نے چھوٹتے ہی پوچھا۔ 

"اوہ يار بھول گئ" وہ سر پر ہاتھ مار کر بولی۔ 

"ميری شادی کا دن بھی اب بھول جانا" وہ تپ کر بولی۔ 

"ارے نہيں يار۔۔بس صبح صبح ابا اور اماں کی لڑائ ہوگئ۔ اسی لئے پريشان تھی" مطيبہ نے ادھر ادھر ديکھ کر اسے اصل مسئلہ بتايا۔ 

"کيوں کيا ہوا؟" وہ يکدم پريشان ہوئ۔ 

مطيبہ اس وقت آفس کے کيفے ٹيريا ميں تھی۔کچھ اور کوليگ تھے مگر وہ کافی فاصلے پر بيٹھے تھے۔

اس نے صبح کی تمام روداد اسے کہہ سنائ۔ 

"يار حد ہے ويسے" حريم افسوس کے سوا اور کر بھی کيا سکتی تھی۔ 

"بس يار۔۔۔خير ميں ابھی لنچ کے بعد سر سے بات کرتی ہوں" اس نے حريم کو تسلی دلائ۔ 

"ٹھيک ہے" فون بند کرتے ہی مطيبہ نے گھڑی پر وقت ديکھا۔ 

لنچ بريک ختم ہوچکی تھی۔

وہ اپنے کيبن کی جانب آنے کی بجاۓ مريم کے پاس آئ۔ 

"کيا ہوا" مريم اسے اپنی ٹيبل کے پاس رکتے ديکھ کر سواليہ انداز ميں بولی۔

"يار مجھے چھٹی چاہئيے دو دن کی" اس نے اپنا مسئلہ بتايا۔ 

"ہاں تو سر سے بات کرلو" مريم نے اسے مزے سے مشورہ ديا۔

"سر کچھ کہيں گے تو نہيں" وہ انگلياں مروڑ کے بولی۔

"ارے نہيں بے وقوف انہوں نے کيا کہنا ہے۔ تم اپنے زيادہ تر آرڈرز ان دنوں وائنڈ اپ کر جاؤ اور جو باقی کے آئيں گے وہ سر جواد ديکھ ليں گے" مريم کی بات پر اس نے ہولے سے سر ہلايا۔ 

"مگر پانج بجے تک کچھ نہ کچھ آرڈرز رہ جاتے ہيں" اس نے ايک اور مشورہ پيش کيا۔

"تو ميری جان ليٹ سيٹنگز کرلو" مريم نے مسکراتے ہوۓ اسے مشورہ ديا۔ 

"ہاں يہ ٹھيک ہے" مريم کی بات دل کو لگی۔

"چلو جاؤ اب" مريم نے اسے اندر جانے کا اشارہ کيا۔ 

وہ عموما لوگوں سےگھبراتی نہيں تھی ليکن نجانے کيوں انٹرويو کے بعد سے اسے رئيد سے عجيب طرج کی جھجھک محسوس ہوتی تھی۔ 

اسکے ديکھنے کا انداز تھا يا کچھ اور۔۔وہ گھبرا جاتی تھی۔ اسی لئے اسکی کوشش ہوتی تھی کہ کم سے کم اس سےسامنا ہو۔

دروازہ ناک کرکے رئيد کی اجازت ملتے ہی وہ اندر داخل ہوئ جو سينڈوچ کھانے ميں مصروف تھا۔ 

"اوہ سوری سر۔۔ آپ پليز لنچ کريں ميں ٹھہر کر آجاؤں گی" اسے کھاتا ديکھ کر وہ يکدم شرمندہ ہوئ۔ اس بات پر حيران بھی ہوئ کہ اپنے کھانے کی پرواہ کئيے بغير وہ آفس کے لوگوں کا کتنا خيال رکھتا ہے۔ 

"اٹس اوکے پليز آجائيں۔ آپکے ساتھ شايد پہلی بار ہے۔ مگر ميں اگر کھانے ميں بھی بزی ہوں تو اپنے ورکرز کو مخل ہونے کی پوری اجازت ديتا ہوں۔" سينڈوچ سامنے پڑی پليٹ ميں رکھتے ہوۓ وہ مسکراتے لہجے ميں بولا۔

"خير آپ بتائيں" اسکی شرمندگی دور کرنے کو اس نے بات بدل دی۔

"وہ سر مجھے دو دن کی چھٹی چاہئيے۔ميں ليٹ سيٹنگز کرکے جو نۓ آرڈرز آۓ ہيں انہيں مکمل کرلوں گی" اپنا مسئلہ بتاتے اس نے جلدی سے حل بھی بيان کيا۔ 

رئيد اسکی جلدی پر چونکا پھر مسکرايا۔ 

"چھٹی چاہئيے کس لئے" مسکراہٹ روکتے سنجيدہ ہوا۔ 

"سر وہ ميری فرينڈ کی شادی ہے۔ وہ جو اس دن ميرے ساتھ تھی" مطيبہ نے اسے ياد دلايا۔ 

"تو وہ کيا کسی اور شہر ميں رہتی ہيں" رئيد نے سوال کيا۔ 

"نہيں سر مگر مجھے اسکے گھر رہنا ہے۔ اورپھر آپ کو پتہ ہے نا کہ شادی کے ہنگاموں ميں دير سوير ہو جاتی ہے۔ آفس نہ آسکی تو يہ بات زيادہ غلط ہوگی۔ اسی لئے چھٹی مانگ رہی ہوں" وہ کھڑے کھڑے ہی سب بتا رہی تھی۔ 

"ٹھيک ہے۔ آپ جواد کو انفارم کرديں" رئيد آسانی سے مان گيا۔

"تھينک يو سر" صبح والی پريشانی کافی حد تک ختم بھی ہوگئ تھی اور چھٹی ملنے کی خوشی ميں وہ بھول بھی چکی تھی۔

"نو پرابلم" رئيد کے کہتے ہی وہ آفس سے باہر نکلی۔ 

حريم کو فون ملا کر چھٹی کا بتايا۔

______________________

شام کے بعد اب رات اپنے پر پھيلا چکی تھی۔ رئيد نے ليپ ٹاپ بند کرکے تھکی ہوئ گردن کو دائيں بائيں جھلا کر خود کو ريليکس کرنا چاہا۔ 

چيزيں سميٹ کر وہ اپنی سيٹ سے کھڑا ہوا۔ اسے معلوم تھا سب ورکرز جا چکے ہوں گے۔ روزانہ وہ سب کے جانے کے بعد جاتا تھا۔ بابا دبئ ميں تھے يہاں وہ اکيلا تھا اسی لئے گھر پر کسی کے انتظار والا کوئ معاملہ نہيں تھا۔ نہ اسے جلدی جانے کی ٹينشن ہوتی تھی۔ 

ليپ ٹاپ بيگ ميں رکھ کر وہ کمرے سے باہر نکلا۔ 

چلتے چلتےاسکے کان کھڑے ہوۓ

 سيدھے ہاتھ پر بنے کيبن سے ٹائپنگ کی آواز آئ وہ حيران ہوتا کيبن کے پاس آيا۔ 

مطيبہ کام ميں مصروف نظر آئ۔ 

رئيد حيران ہوا۔ 

"يہ اس وقت کيا کررہی ہے" آگے بڑھ کر اسکے کيبن کی ديوار پر ناک کيا۔ 

مطيبہ دائيں جانب مڑ کر کام کرنے ميں منہمک تھی۔ 

چاروں جانب خاموشی تھی۔ اسے پتہ نہيں تھا کہ رئيد ابھی تک نہيں گيا۔ 

ناک کی آواز پر نہ صرف وہ بری طرح ڈری بلکہ چيخ مار کر کرسی سے کھڑی بھی ہوگئ۔ 

رئيد اس سے اتنے شديد ردعمل کی توقع نہيں کررہا تھا۔ 

وہ کھسيا گيا۔ 

"سر آپ" دل پر ہاتھ رکھے دل کی بے ترتيب دھڑکنوں کو ہموار کرنے کی سعی کرنے لگی۔ 

"آئم سوری مجھے نہيں پتہ تھا کہ مجھ سے کوئ يوں ڈر بھی سکتا ہے" کھسياہٹ کی جگہ اب شرير سی مسکراہٹ نے لے لی تھی۔ 

اسکی آنکھوں ميں چھپی شرارت کو نظر انداز کرتے مطيبہ نظريں پھير گئ۔ 

"ويسے آپ آج اتنی دير تک يہاں کيوں بيٹھی ہيں" رئيد نے بات بدلتے اسکے اب تک آفس ميں موجودگی کی وجہ پوچھی۔ 

"سر آپ سے کل چھٹی لی تھی نا اب جو آرڈرز ہيں انہيں مکمل کرکے جاؤں گی" مطيبہ نے نظريں ليپ ٹاپ کی جانب کرتے اسے جواب ديا۔

"مائ گاڈ آپ اس وجہ سے اتنی دير تک يہاں بيٹھی ہيں" رئيد اسکے جواب پر ششدر رہ گيا۔ وہ تو سمجھا تھا کہ وہ صرف چھٹی کی خوشی ميں يہ بات کہہ رہی ہے۔ 

"آپ کو بتايا تو تھا" وہ اسکی حيرانگی پر حيران ہوئ۔ 

"دو دن کی چھٹی سے کوئ اتنا بڑا مسئلہ نہيں ہو جاتا۔ مگر آپ کا یوں يہاں اتنی دير بيٹھنا ٹھيک

 نہيں ہے۔ آپ کو رپورٹ فائنلائز کرنی تھی تو آپ ليپ ٹاپ گھر لے جاتيں۔ کل آپ بالکل بھی اتنی دير تک نہيں رکيں گی۔ چيزيں پيک کريں ميں آپ کو ڈراپ کر ديتا ہوں" اسے تنبيہہ کرتے کرتے وہ ہتھيلی پر سرسوں جمانے والے انداز ميں بولا۔ 

"ليکن سر۔۔ آپ بھی تو اتنی دير تک يہاں ہيں نا" وہ الجھ کر اس سے جرح کرنے لگی۔ 

"مرد کے دير تک باہر رہنے اور عورت کے دير تک باہر رہنے ميں فرق ہوتا ہے۔ آپ بس چيزيں سميٹيں" اسے چيزوں کی جانب متوجہ کرتے وہ قطيعت بھرے لہجے ميں بولا۔ 

مطيبہ نے خاموشی سے سب سميٹا۔ ليپ ٹاپ اور ہينڈ بيگ اٹھايا۔ 

"سر ميں چلی جاؤں گی" مطيبہ نے اسے وہيں جمے ديکھ کر کہا۔ 

"نہيں اتنی رات ميں آپ اکيلی نہيں جائيں گی" رات کے بڑھتے ساۓ ديکھ کر وہ سنجيدگی سے بولا۔ 

مطيبہ تذبذب کا شکار تھی۔ 

"سر آپ کو آؤٹ آف دا وے پڑے گا" وہ لاچار انداز اپنا کر بولی۔ 

"وہ ميرا مسئلہ ہے۔ ميرے آفس ميں کام کرنے والے ورکرز ميری ذمہ داری ہيں۔ اور اگر کوئ ميرے آفس کی وجہ سے يہاں رک رہا ہے تو اسکا خيال رکھنا ميری ذمہ داری ہے۔ آپ نے ميرے لئے کام کيا ميں اسکا بدلہ چکا رہا ہوں۔ آپ پر کوئ احسان نہيں کررہا"اسکی خوددار طبيعت کے باعث وہ آخری جملہ کہہ کر آگے بڑھ گيا اس يقين کے ساتھ کہ اب وہ اسکے پيچھے آۓ گی ہی۔

اور وہی ہوا۔ وہ خاموشی سے چل پڑی۔ صحيح تو کہا تھا اس نے کام کے عوض ہی وہ اسے يہ ڈراپ دے رہا ہے۔ ورنہ اسے اپنے ورکرز سے کيا سروکار۔ 

مطيبہ خاموشی سے اسکےساتھ لفٹ اور پھر پارکنگ ميں موجود اسکی گاڑی ميں بيٹھ چکی تھی۔ 

"اگر آپ پيچھے بيٹھنا چاہئيں تو مجھے کوئ اعتراض نہيں" رئيد نے ايک بار پھر اسکے چہرے پر رقم تحرير پڑھ لی تھی۔ 

وہ شکريہ کہتی پيچھے بيٹھ گئ۔

رئيد نے مطيبہ کی جانب کا دروازہ بند ہوتے ساتھ ہی گاڑی سٹارٹ کرکے مين روڈ پر دوڑانی شروع کی۔ 

"آپ نے مجھے گائيڈ کرتے جاناہے کیونکہ ميں اوبر يا کريم کا ڈرائيور نہيں اورنہ ہی آپ نے کوئ لوکيشن ميرے موبائل ميں بھيجی ہے" چند منٹ اسے خاموش ديکھ کر رئيد کو اسے احساس دلانا پڑا کہ وہ اسکے گھر کے راستوں سے ناواقف ہے۔ 

"اوہ سوری سر۔يہ سامنے والے چوک سے آپ سيدھر ہاتھ موڑ لی جئيے گا" مطيبہ کو واقعی ذہن ميں نہيں رہا تھا کہ رئيد تو اسکے گھر کے راستوں سے انجان ہے۔ 

وہ اپنی ہی سوچوں ميں غلطاں تھی۔ يہ اہم بات اسکے ذہن سے نکل چکی تھی۔

"اٹس اوکے" رئيد نے اسے شرمندہ ہونے سے بچايا۔

"آپکے فادر کيا کرتے ہيں" رئيد نے گاڑی اسکی مطلوبہ سمت ميں موڑتے ہوۓ کہا۔ 

"کچھ نہيں" رئيد کے سوال پر ايک تاريک سايہ اسکے چہرے پر لہرايا۔

'جن بيٹيوں کے باپ کچھ کرتے ہوں انہيں یوں در در کی ٹھوکريں نہیں کھانا پڑتيں' اس نے دل ميں سوچا مگر اسکی سوچ سے محسوس ہونے والی تکليف رئيد نے بيک ويو مرر سے جھانکتے اسکے چہرے پر بآسانی پڑھ لی۔

اسکے بعد رئيد نے اس سے کوئ سوال نہ کيا۔ 

گھر کے قريب گاڑی پہنچ چکی تھی مگر گلی اتنی تنگ تھی کہ رئيد کی گاڑی اس ميں داخل نہيں ہوسکتی تھی۔

"سر آپ بس مجھے يہيں اتار ديں يہ الٹے ہاتھ پر گلی ہے۔ آپکی گاڑی اس ميں نہيں جاۓ گی" اس نے صاف گوئ سے کہا۔ 

اسکے لہجے ميں اپنی حيثيت کو لے کے کوئ شرمندگی يا شرمساری نہيں تھی بہت سادہ سا لہجہ تھا۔ 

رئيد کو اسکی يہ حقيقت پسندی بے حد اچھی لگتی تھی۔

"اوکے۔۔ آپ چليں ميں آپکو گھر تک چھوڑ آتا ہوں" رئيد گاڑی روک کر انجن بند کرتے ہوۓ درازہ کھول کر اترنے لگا۔

"سر پليز اس سے زيادہ احسان کی ميں متحمل نہيں۔ آپ نے اتنا کيا اسکے لئے بھی بہت شکريہ۔ ويسے بھی گلی ميں داخل ہوتے سيدھے ہاتھ پر پانچواں گھر ميرا ہے اور مجھے اکثر اس وقت گھر سے نکلنے اور گھر آنے کی عادت ہے۔" مطيبہ نے اسے سہولت سے منع کيا۔ اسکا خوددار لہجہ ايسا قطيعت بھرا ہوتا تھا کہ اگلے کو اسکی بات ماننے پر مجبور کرديتا تھا۔ 

"آر يو شيور" رئيد کو ابھی بھی اسے يوں بھيجنا عجيب لگ رہا تھا۔

"يس سر۔ تھينک يو ۔۔ اللہ حافظ" اس سے پہلے کہ رئيد بات کو طول دے کر اسے قائل کرنے کی کوشش کرتا۔ وہ تيزی سے جيسے اپنا فيصلہ سناتی گاڑی کا دروازہ کھول کر نکل گئ۔ 

اپنے گھر کی جانب جاتے اسے کوئ شرمندگی نہيں تھی کہ اسکے باس نے اسکا تنگ اور کسی قدر پسماندہ علاقہ ديکھ ليا ہے۔ 

'اگر ميں اتنی ہی امير ہوتی تو شايد آج سر ميرے ملازم ہوتے' اپنی ہی سوچ پر اسے ہنسی آئ۔ 

گھر ميں داخل ہونے سے پہلے اس نے يوں ہی مڑ کر گلی کے آخر ميں ديکھا جہاں رئيڈ کی گاڑی ابھی بھی موجود تھی۔ اسکے گھر ميں داخل ہوتے ہی اسےرئيد کی گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز آئ۔ 

رئيد کے بارے ميں مغرور ہونے کا جو ايک خاکہ اس نے پہلے دن بنايا تھا آج وہ ہوا ميں مکمل طور پر تحليل ہوچکا تھا۔

____________________

"يار ميں بری تو نہيں لگ رہی" حريم نے ايک ہی سوال کوئ دسويں بار پوچھا۔ 

دلہن بنی ڈيپ ريڈ اور گرے کلر کے لہنگے ميں سر پر دوپٹہ خوبصورتی سے سيٹ کئيے وہ بے حد پياری لگ رہی تھی۔ مگر اسے تسلی نہيں ہورہی تھی کہ اچھی لگ رہی ہے کہ نہيں۔ 

آج حريم کی بارات تھی۔ مہندی ايک دن پہلے بخيرو خوبی ہوگئ تھی۔ مطيبہ کو نہ صرف حريم نے بلکہ اسکے گھر والوں نے بھی ہر کام ميں آگے آگے رکھا تھا۔ 

وہ تو سب کی محبتيں ديکھ کر حيران ہونے سے زيادہ شرمندہ ہوۓ جارہی تھی۔ 

"بہت بری لگ رہی ہو۔ اتنی بری کہ مجھے بھی خوف آرہا ہے" مطيبہ اسکے سوال پر چڑ کر اسے آنکھيں نکالتے ہوۓ غصے سے بولی۔ 

"اب يقين ہوگيا ہے کہ ميں بہت اچھی لگ رہی ہوں" حريم اسکے چڑنے پر مسکراتے ہوۓ اسے اور چڑانے لگی۔ گرے اور لائٹ پنک ميکسی ميں مطيبہ ہلکا سا ميک اپ کئيے بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔ 

يہ ڈريس حريم نے زبردستی اسے گفٹ کيا تھا۔ اور اسکے بے حد اصرار پر مطيبہ کو پہننا ہی پڑا۔

پہلی بار اس نے ہلکا سا بھی ميک اپ کيا تھا۔ جہاں کھانے کے لالے پڑے ہوں وہاں ايسی چيزيں لگژری ہی تصور ہوتی ہيں۔ اور مطيبہ يہ لگژری افورڈ نہيں کرسکتی تھی۔ 

تھوڑی ہی دير ميں فوٹو گرافر وہاں آچکا تھا۔ 

"مطيبہ بيٹا باہر آؤ۔ تمہيں کچھ فرينڈز سے ملوانا ہے" ابھی شوٹ شروع ہوا تھا کہ حريم کی امی اپنی خوبصورت سی فون کلر کی ساڑھی کا پلو سنبھالتی برائيڈل روم ميں آکر مطيبہ سے مخاطب ہوئيں۔ 

"جی آنٹی" وہ بھی اعتماد سے چلتی انکے ساتھ باہر آگئ۔ 

کل سے اب تک وہ نجانے کس کس سے اسے ملوا رہی تھيں۔ حريم کی کوئ اور بہن نہ ہونے کی وجہ سے جس طرح مطيبہ نے اسکی بہن ہونے کا ثبوت ديا تھا۔ شايد يہ بات اسکے گھر والوں کے دلوں ميں گھر کر گئ تھی۔ 

مطيبہ بہت سے لوگوں سے ملتی ملاتی ہال ميں موجود اکويريم کے قريب کھڑی ہوگئ۔ اتنی بڑی بڑی مچھليوں کو اتنے قريب سے ديکھنے کا اتفاق پہلی بار ہوا تھا۔ اسے خبر ہی نہ ہوئ۔ کہ اکويريم کے دوسری جانب کھڑا کوئ اسے حيرت سے ٹکٹکی باندھے ديکھ رہا ہے۔ جيسے پہچان رہا ہو کہ يہ وہی لڑکی ہے جو اسکے آفس ميں وہی چند سوٹ پہن کر آتی ہے۔ جس کے ڈيزائن بھی شايد اب رئيد کو ياد ہو چکے ہيں۔ اور چادر تو اسکی ايک ہی ہوتی ہے اسکن سی۔ 

اپنا شک دور کرنے کے لئے وہ ايکويريم کے اس جانب آيا جہاں مطيبہ کھڑی تھی۔ 

وہ بہت معمولی شکل و صورت رکھ کر بھی پتہ نہيں اسے اس لمحے بے حد خاص لگی۔ 

کيا سب کو لگ رہی تھی؟ اس بات سے وہ انجان تھا وہ تو بس دل پر ہونے والی واردات کو ديکھ رہا تھا اور حيران ہورہا تھا۔

"ہممم" اس نے گلا کھنکھار کر گويا مطيبہ کی محويت توڑی۔ 

اس نے چونک کر بائيں جانب ديکھا۔ رئيد کو ديکھ کر حيرت اسکی آنکھوں ميں در آئ۔ 

"سر آپ"حيرت کو الفاظ دئيے۔ 

"جی ۔۔تو آپ ان دوست کی شادی ميں آئ ہيں؟" 

"جی مگر آپ يہاں کيسے" اس نے دوبارہ پوچھا۔ 

"دولہا کا بھائ ميرا بہت اچھا دوست ہے تو بس اسکے اصرار پر آيا ہوں" رئيد نے اپنی وہاں موجودگی کی وجہ بتائ۔ 

"اوہ اچھا ۔۔کل آپ نہيں آۓ" مطيبہ نے ايک اور سوال کيا۔ 

"کل ميں انوائيٹڈ نہيں تھا" رئيد نے ہولے سے مسکراتے سچ بتايا۔ 

"اوہ اچھا" مطيبہ کے چہرے سے حيرت مفقود ہوئ۔ 

نظريں پھر سے ادھر ادھر دوڑا رہی تھی۔ 

جبکہ رئيد نے بھی نظروں کی بے اختياری پر قابو پاليا تھا۔ 

"ايکسکيوزمی سر" کچھ سمجھ نہ آيا تو وہاں کھڑا رہنا اسے اچھا نہيں لگا۔ ايکسکيوز کرکے وہ پھر سے برائيڈل روم کی جانب چل دی۔

باقی تمام وقت نہ رئيد نے اسے مخاطب کيا نہ اس نے۔نہ ہی مطيبہ نے حريم کو رئيد کے بارے ميں بتايا۔ 

مگر آخر تک وہ اسکی نظروں سے الجھتی رہی۔ جھنجھلاتی رہی۔

__________________________

آج فائق رات ميں جلدی گھر آگيا تھا۔ تھا بھی تھوڑا ہوش ميں۔ 

"مطيبہ کہاں ہے" نجانے بيٹی کا خيال کيسے آيا تھا۔ اپنے اور مطيبہ کے کمرے کی جانب جاتے ہوۓ رفيعہ ٹھٹھک کر رکيں۔ 

حيران سی مڑيں۔ 

"تجھے آج بيٹی کی ياد کيسے آئ" طنز کيا۔ 

"اولاد ہے ميری۔ ديکھ رہاہوں دو دن سے غائب ہے" رفيعہ اسکی اس توجہ پر اب پريشان ہوئيں۔ يقينا يہ عنايت اسکی جاب ملنے کی وجہ سے ہورہی تھی۔ 

"کہاں گئ ہے وہ۔۔ " اب کی بار وہ کچھ غصے سے بولا۔ 

"جہاں بھی گئ ہے تجھے ہمارے معاملات سے کوئ سروکار نہيں ہونا چاہئيے"وہ اسے چپ کرانے کے سے لہجے ميں بوليں۔مگر وہ تو بھڑک اٹھا۔ تيزی سے آگے بڑھتے انہيں بالوں سے پکڑا۔ 

"بکواس کرتی ہے" ايک زوردار تھپڑ رفيعہ کے منہ پر دے مارا۔ 

"اپنی دوست کے گھر ہے۔ اور اگر گئ بھی ہے تو تو کيوں اتنا آگ بگولا ہورہا ہے آج آجاۓ گی وہ۔" رفيعہ نے منہ پر ہاتھ رکھتے بھی چلا کر کہا۔ 

"ارے شرم نہيں تم ماں بيٹی کو ميں اگر گھر کے معاملات ميں دخل نہيں ديتا تو اسکا مطلب ہے کہ جو مرضی بے غيرتياں کرو" نجانے وہ آج کيوں اتنا بھڑکا ہوا تھا۔ 

"بے غيرت ہم ہيں کہ تو جو بيوی اور بيٹی کو نوچ کر کھانا چاہتا ہے۔ تيرے منہ سے يہ باتيں اچھی نہيں لگتيں۔ اور ايک بات کان کھول کر سن لے" وہ ہاتھ اٹھا کر وارننگ دينے والے انداز ميں بوليں۔

"اگر تيری نظر اسکے پيسوں اور اسکی نوکری پر ہے تو يہ خيال اپنے ذہن سے نکال دے۔۔ ميں ايک پھوٹی کوڑی اسکے حلال پیسوں ميں سے تيرے حرام کاموں کے لئے تجھے نہیں دوں گی" وہ آنکھيں نکال کر بوليں۔

"کرتی جا بکواس ميں بھی ديکھتا ہوں کہ کون مجھے يہاں اپنی من مانی نہيں کرنے ديتا" وہ رفيعہ کے اندازوں پر کھسيا کر بولا۔ اور پھر خاموشی سے اندر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گيا۔ 

رفيعہ نے غصے سے سر جھٹکا۔

_________________

"ديکھ فائق ابھی بھی تيرے پاس آخری چانس ہے تو خود ہی مان جا کہ تو يہ گيم بھی ہار چکا ہے" شوکت فائق کو مسلسل اکسا رہا تھا۔ 

آج پھر سے وہ اپنے اوباش دوستوں کے اڈے پر بيٹھا جوا کھيلنے ميں مگن تھا۔ اس مہينے ميں وہ اتنی بار جوا ہارا تھا کہ اب قيمت پچاس ہزار تک پہنچ چکی تھی مگر وہ بھی اپنے نام کا ايک تھا ہر بار شرطيں لگا کر بھی جوا ہار جاتا تھا۔ 

"ديکھ يہ پيسے ميں نے بڑی مشکل سے آج اپنی بيوی سے نکلواۓ ہيں۔ تو ان پيسوں کو رہنے دے ميرے پاس" صبح ميں مطيبہ کے آفس جاتے ہی رفيعہ کو مار پيٹ کر اس نے پانچ ہزار اس سے نکلوا لئے تھے۔ اگر اب يہ پيسے بھی اسکے پاس نہيں رہتے تو وہ اگلے دنوں ميں اپنا لئيے نشہ آور ادويات کيسے ليتا اور ان کے بغير تو اسکا جسم ٹوٹنے لگتا تھا۔ 

"ٹھيک ہے ميں تمہيں يہ پانچ ہزار بخشتا ہوں اگر تم مجھے ميری مطلب کی چيز دے دو" شہاب نے اپنی کھردری ٹھوڑی کو چھو کر آنکھوں ميں خباثت لئے اس سے پوچھا۔ 

"ميرے پاس ايسا ہے ہی کيا جو ميں تمہيں دوں" فائق نے مايوس لہجے ميں کہا۔

"ہے تو بہت کچھ" سگريٹ سلگاتے لمبا سا کش لگا کر اس نے بڑے اطمينان سے دھواں فائق کے منہ پر اڑايا۔

"کہو جو کہو گے حاضر کردوں گا" فائق کو اس لمحے اپنے نشے کے آگے کچھ سجھائ نہيں دے رہا تھا۔ 

"اپنی بيٹی دے دے۔۔۔ اور يہ پانچ ہزار لے جا" پيسوں کو اپنی مٹھی ميں جکڑتے ہوۓ اس نے گويا فائق کو مزيد بھڑکايا۔ 

"مم۔۔ميری بيٹی" وہ چند پل ہکلايا۔

"اب ديکھ نا تو نے اسکی شادی کہيں تو کرنی ہے نا تو ميں کيوں نہيں۔ شريف ہوں اور کيا چاہئيے تجھے" بھری ہوئ سگريٹ کے نشے ميں لال آنکھيں پہلی بار کسی شريف کی ديکھی تھيں۔ 

فائق چند لمحوں کے لئے سوچ ميں پڑ گيا۔ 

بيوی اور بيٹی اسے ہميشہ بوجھ لگے تھے سواۓ اس بات کے کہ انکا کمايا ہوا وہ چھينا جھپٹی کرکے اپنی نشے کی لت کو پورا کرليتا تھا۔ 

"ٹھيک ہے" پانچ ہزار کے عوض آج اس نے واقعی اپنی غيرت بيچ دی تھی۔ 

"آج ہی ابھی اور اسی وقت تيرے گھر چلتے ہيں" وہ تو جيسے پہلے سے تيار بيٹھا تھا۔ 

"اب ابھی تو وہ کام پہ گئ ہوگی" فائق نے نظريں چرائيں۔ 

"اب کہاں کام کرتی ہے پتہ تو ہوگا ہی وہيں سے لے آتے ہيں" اس کی بے قراری بڑھتی جارہی تھی۔ 

"نہيں مجھے نہيں معلوم ہاں اسکی ماں کو پتہ ہے چلو پھر" فائق نشے کا ترسا فورا مان کر اسے گھر لے گيا۔

____________________

اگلے دن وہ معمول کے مطابق آفس آچکی تھی۔ رئيد نے شادی سے متعلق کوئ بات نہ کی اور نہ اس نے۔ اگر وہ اپنے خول ميں سيمٹی ہوئ تھی تو رئيد بھی ويسا ہی تھا۔ اور يہی بات اسے رئيد کی پسند تھی وہ بے جا بے تکلف نہيں ہوتا تھا۔ فرينک تھا مگر بلاوجہ کی بے تکليفياں نہيں دکھاتا تھا۔ 

رئيد اس دن شام سے پہلے ہی جا چکا تھا۔ کسی کلائنٹ سے ميٹنگ تھی لہذا باقی ورکرز سے پہلے ہی وہ چلا گيا تھا۔

وہ اپنا کام ختم کرچکی تھی۔ دو دن کی چھٹی کے باعث آج کام کافی زيادہ تھا۔ اور اس کا ارادہ اسے کل پر لٹکانے کا ہر گز نہيں تھا۔ 

جس وقت وہ اپنے کيبن سے اٹھی بس اکا دکا لوگ موجود تھے۔ زيادہ تر جاچکے تھے۔ 

بيگ اٹھاۓ جيسے ہی وہ سيڑھيوں کے قريب پہنچی ايک انجان نمبر سے فون آنے لگا۔ 

اگنور کرنے کا سوچا پھر نہ جانے دل ميں کيا سمائ کے فون پک کرليا۔ 

"ہيلو" فون اٹھاتے ہی وہ اجنبی لہجے ميں بولی۔ 

"ہيلو ۔۔۔ مطيبہ ميں رفيعہ بات کررہی ہوں" فون کے دوسری جانب سے ماں کی خوفزدہ سی آتی آواز پر وہ چونکی۔ 

"اماں کيا ہوا؟" 

"مطيبہ تو نے ابھی گھر نہيں آنا بلکہ ابھی کچھ عرصہ تو۔۔ تو کہيں اور چلی جا مگر گھر نہ آئيں" وہ روتے ہوۓ بول رہی تھيں۔

"کيا ہوگيا ہے اماں کيسی باتيں کررہی ہيں۔اور اور آپ ہيں کہاں۔ ہوا کيا ہے؟" وہ پريشان ہو اٹھی۔ صبح تک تو سب ٹھيک تھا۔ 

"بس ميں کہہ رہی ہوں نا" وہ آنسوؤں پر بند باندھ کر اسے جھڑک کر بوليں۔

"اماں ميں بس ابھی گھر آرہی ہوں۔ آپ پريشان نہ ہوں۔ آکر بات کرتے ہيں" اس کا بس نہيں چل رہا تھا کہ پر لگا کر ماں کے پاس پہنچ جاۓ۔ 

"ميں تجھے کچھ بکواس کررہی ہوں۔ تو نے گھر نہيں جانا ميں نے بھی ساتھ والوں کے گھر پناہ لی ہوئ ہے۔ تيرا بات آج جوے ميں تجھے دان کر آيا ہے۔ اپنے جواری دوستوں کے آگے۔اب وہ کتوں کی طرح تيری بو سونگھتے پھر رہے ہيں۔ تيرے آفس کا پتہ پوچھا ميں نے نہيں بتايا مجھے مارا پيٹا۔ ميں گھر سے بھاگ کر ساتھ والوں کے گھر آگئ ہوں۔ اللہ شميم باجی کا بھلا کرے انہوں نے مجھے يہاں چھپا ليا ہے۔ مگر وہ کمينے وہيں گھر پر بيٹھے ہيں تيری تاک لگاۓ۔اسی لئے تو نے گھر نہيں جانا" وہ چلا اٹھيں پھر پھوٹ پھوٹ کر رو ديں۔

"اماں" مطيبہ کو لگا اسکی آواز کسی گہرے کنويں ميں سے آرہی ہوں۔ 

يہ ديکھنا رہ گيا تھا۔

"مگر اماں ميں کہاں جاؤں" وہ بے بسی سے رونے والی ہوگئ۔ رات کے ساۓ پھيل رہے تھے۔ حريم بھی شادی شدہ تھی۔ آخر وہ کس کے پاس جاتی يہ کيسی بے بسی در آئ تھی۔ وہ آج اپنے دو کمروں کے گھر سے بھی بے گھر ہوگئ تھی۔ آفس کے احاطے ميں پہنچ کر وہ پريشانی سے ادھر ادھر ديکھنے لگی سوچنے لگی۔ جو دوچار ملازم تھے اب وہ بھی جا چکے تھے۔ صرف چوکيدار بابا کھڑے تھے۔ پورا آفس بھائيں بھائيں کررہا تھا۔ 

تھوڑی دير ميں چوکيدار بھی جانے والا تھا.

جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Main Hari  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Ishq Main Hari  written by Ana Ilyas . Ishq Mian Hari  by Ana Ilyas is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link



  

 


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages