Aseer E Hijar Novel By Wahiba Fatima new best novel sneak - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday, 9 November 2022

Aseer E Hijar Novel By Wahiba Fatima new best novel sneak

Aseer E Hijar Novel By Wahiba Fatima new best novel sneak 

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Aseer E Hijar By Wahiba Fatima New Novel Sneak


Novel Name: Aseer E Hijar 

Writer Name: Wahiba Fatima

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

وہ اپنے بستر پر نیم دراز کب سے کروٹ پر کروٹ بدل رہی تھی۔۔ اس کی ننھی پری ماں کی فکروں پریشانیوں سے بے خبر اس کے پہلو میں گہری نیند سو رہی تھی۔ اس نے سوہن کا معصوم چہرہ دیکھا۔ اور پھر سے گہری سوچ میں چلی گئی۔


حنا لاہور میں اپنے بھائی کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کی پیدائش سے پہلے اس کے بابا انتقال کر گئے تھے۔ اشرف اس سے بارہ سال بڑا تھا۔ اسی نے ہی اپنی ماں اور اپنی چھوٹی سی بہن کی کفالت کی۔ خود بس میٹرک ہی کر پایا۔ تعلیم کو خیر باد کہہ کر ایلومینیئم ورکس کا ہنر سیکھا اور پھر ہاتھ پیر چلا ک اپنی چھوٹی سی ورک شاپ بنا لی۔ ہاں مگر حنا کو کالج ضرور بھیجا تھا۔وہ حنا پر جان چھڑکتا تھا مگر اتنے برسوں کی اس کی خون پسینے کی محنت، قربانیوں اور بھائی کی محبت پر اچانک ایک اجنبی کی محبت بھاری پڑ گئی۔


کالج کا ہی دور تھا جب اسے سامنے بوائز کالج کے عبید سے دھواں دھار قسم کی محبت ہو گئی۔ وہ ایک نیلی آنکھوں والا پہاڑی شہزادہ تھا جسے دیکھ اکثر اس کے کالج کی لڑکیاں ٹھنڈی آہیں بھرتی تھیں۔ مگر عبید کا دل حنا پر فدا ہوا تھا۔ وہ دیوانوں کی طرح اس کا پیچھا کرنے لگا۔ کافی عرصہ لگا مگر حنا کا بھی دل اس کی جانب سے پسیجا اور دل میں محبت کی کونپل کھل کر کب تناور درخت بن گئی اسے پتا نا چلا۔ اس نے عبید کی محبت کو قبول کرتے اسے اپنے گھر رشتہ بھیجنے کو کہا۔۔مگر عبید نے یہ کہہ کر کہ اس کے گاؤں کے فرسودہ رسم و رواج کے تحت اس کے والدین کبھی کسی پنجابی لڑکی سے اس کی شادی نہیں کریں گے اس نے حنا کو کورٹ میرج کے لیے مجبور کیا۔ مگر حنا لاکھ اس کی محبت میں پاگل سہی پھر بھی اس نے عبید کو کورٹ میرج کے لیے منع کر دیا۔ عبید بہت سخت ناراض ہوا اور واپس ایبٹ آباد چلا گیا۔ تب حنا بہت بیمار پڑ گئی۔ وہ اتنا روتی کے اس کا سانس بند ہونے لگتا۔ اشرف اور ماں کو سمجھ نا آتی کہ آخر اس کی نازک جان کو کونسا روگ لگ گیا ہے۔ پھر ایک دن عبید بے دھڑک اس کے گھر چلا آیا۔ ماں اور اشرف حیران رہ گئے جبکہ اسے دیکھ حنا کے بےجان وجود میں جیسے کسی نے نئی جان پھونک دی تھی۔۔ عبید نے سیدھی طرح آ کر اشرف سے وہی بات کی جو وہ حنا سے کر چکا تھا کہ وہ حنا سے نکاح کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اپنے والدین کی مرضی کے بغیر (کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کے سر میں کیا چل رہا پے۔) تب اشرف نے صاف منع کر دیا۔یہ کہہ کر کہ وہ اپنے گھر کی عزت کو یوں چوروں کی طرح اس کے حوالے نہیں کرے گا۔ اگر اس کے والدین عزت سے ا کر حنا کا ہاتھ اس کے لیے مانگتے ہیں تو اسے کوئی اعتراض نہیں۔ اشرف نے منع کیا تو عبید کو خوب تڑکہ لگا۔ وہ پھر سے ناراض ہو کر چلا گیا اور حنا مرنے والی ہو گئی۔ اس نے بہت احتجاج کیا۔ کھانا کھانا چھوڑ دیا اور عبید کی محبت میں پوری طرح بغاوت پر اتر آئی۔ اشرف نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر اس وقت اس کی آنکھوں پر عبید کی محبت کی ایسی پٹی بندھی تھی کہ نا اسے کچھ دکھائی دیتا تھا نا سنائی دیتا تھا۔ اسے یاد ہے اس کے بھائی کے الفاظ آج تک اس کے کانوں میں گونجتے تھے۔


"یہ اس آدمی کی کیسی محبت ہے دھی رانی جو تمھیں عزت دینے کی بجائے بےعزت کرنے پر تلی ہوئی ہے،،، کیا کہیں کہ اس کے گاؤں کے لوگ کہ جانے کسے بھگا کر لایا ہے،، لڑکی کا کوئی والی وارث نہیں تھا جو بھگا کر رخصت کر دیا،،، اس شخص کے ماں باپ نے تمھیں اپنایا تو وہ بھی تمھاری عزت اور قدر کرے گا،، نہیں تو یہ چار دن کی محبت کا بھوت جب سر سے اترے گا تو وہ تو آزاد ہوگا ، شتر بے مہار جو چاہے گا تم سے سلوک کرے گا،، کوئی کہنے سننے والا نہیں ہوگا،، میری بچی میری بات کو سمجھو،،، خود کی قدر اور عزت کرواؤ،، اگر وہ اتنی ہی تم سے محبت کرتا ہے تو اپنے ماں باپ کو لائے ل،، اور عزت سے تمھیں بیاہ کر لے جائے،، نہیں تو اس خود غرضی اور رسوائی والی محبت سے تو صبر اچھا،،،


اشرف نے اسے ہر طرح سے سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر وہ نا مانی۔ موت کے منہ میں پہنچی تب اشرف کو اپنی ضد سے دستبردار ہونا پڑا۔ اشرف نے اپنے گھر میں چار رشتے دار بلا کر خاموشی سے اسے عبید کے نکاح میں دے دیا۔ وہ دو تین دن ان کے پاس رہے پھر جانے اس آدمی کو کیا سوجھا کہ وہ اسے لئے ایبٹ آباد جانے کی رٹ لگانے لگا۔ اشرف کو اس کا رویہ ، اس کی عادتیں اس کی فطرت بہت مشکوک اور عجیب لگیں تھیں۔ وہ حنا کی جانب سے عجیب طرح سے دھرنوں اور وسوسوں کا شکار ہی رہا۔


بہرحال با امر مجبوری ہی سہی اسے حنا کو اس کے ساتھ رخصت کرنا ہی پڑا۔ کافی خوش کن خیالات کے ساتھ حنا نے ایبٹ آباد کی پتھریلی سرزمین پر اس خیال سے قدم رکھا کہ وہ اپنے خلوص اور خدمت گزاری سے اپنے سسرال والوں کا دل جیت لے گی۔ عبید نے اس کا ہاتھ تھاما ہوا تھا اور اب اپنے گھر میں اپنے والدین کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے ساس سسر، دو نندیں اور ایک جیٹھ اان کے سامنے کھڑے حنا کو بغور دیکھ رہے تھے جبکہ حنا کو اپنے جیٹھ کی لپلپاتی نگاہوں سے کراہیت سی محسوس ہوئی۔


عبید کے بتانے کی دیر تھی کہ وہ حنا کو یہاں کیوں اور کس حثیت سے لایا ہے۔ مغلظات اور گند کا ایسا طوفان اٹھا کہ حنا کو سب کے سامنے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھنا پڑا۔


"کہاں سے اٹھا کر لائے ہو اس بدذات، حرافہ کو،، کونسے بازار کے گٹر سے اٹھا کر لائے ہو ،، شکل سے ہی بازارو لگ رہی ہے،،


یہ اس کی کنواری نند کا فرمان تھا اور خود کے لیے ایسے الفاظ سن حنا کا دل کیا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے جبکہ اس نے دیکھا عبید اطمینان سے یوں کھڑا تھا جیسے یہ سب گالم گلوچ سننا اس کے لیے روز مرہ کی روٹین کی یا عام سی بات ہو۔ حنا نے بے تحاشا روتے اس کی پشت پر چھپ کر اس کی شرٹ مٹھیوں میں جکڑ لی۔ عبید اس کا خوف سمجھ گیا۔


"آخر کیا تکلیف ہے آپ لوگوں کو،، نکاح کیا ہے میں نے اس سے،، شریف گھرانے کی لڑکی ہے یہ،، (گالی) اب مجھے میرے کمرے میں جانے دینا ہے آپ لوگوں نے کہ یہیں عدالت لگائے رکھنی ہے،،


عبید چلایا تھا۔ حنا کو ایک مرتبہ پھر اس کا لہجہ اور زبان سن کر صدمہ لگا۔ مگر اس وقت کچھ زیادہ سوچنے کا موقع کب ملا۔ عبید کے گھر والوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ اور گہری رات میں ان کو گھر سے نکال دیا۔ وہ اسے لئے وقتی طور پر اپنے ایک دوست کے گھر چلا آیا۔ حنا سہمی سہمی سی تھی۔ وقت ہاتھ سے بھربھری ریت کی طرح پھسل گیا تھا۔ لگتا تھا وہ زندگی کے اس قدر اہم معاملے میں کچھ غلط انتخاب کر بیٹھی تھی۔ اب بھی وہ اس پسماندہ اور عجیب سی سیلن کی بدبو زدہ بیٹھک میں سر ہاتھوں میں گرائے بری طرح رو رہی تھی۔ جب عبید اندر داخل ہوا۔ آتے ساتھ ہی اس کا رونا دھونا دیکھ عبید کے ماتھے پر بل آئے تھے۔ وہ دروازا بند کر کے بڑی بے تکلفی سے اس کے قریب چارپائی پر ا کر بیٹھا تھا۔۔ حنا بے اختیار ہی گھبرا کر اس سے دور ہوتی فاصلہ قائم کر گئی۔ عبید کے ماتھے کے بلوں میں مزید اضافہ ہوا۔


"اب تجھے کیا ہوا،،؟؟ کیوں آنسو بہا رہی ہے؟؟ گھر سے ہی نکالا ناں تو کیا ہوا؟؟ میرے ہاتھ پیر ٹوٹے ہوئے ہیں کہ تیرے لیے ایک مکان کا بندوست بھی نہیں کر سکوں گا؟ میں مر گیا ہوں کیا؟؟ وہ اس کے آنسوؤں سے چڑ کر بولا۔


"ایسے تو مت بولیں آپ،،، عبید مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے،،،؟؟ وہ اب بھی سہمی ہوئی تھی۔ عبید کی لال انگارا آنکھیں اور ڈگمگاتے قدم دیکھ وہ مزید خوفزدہ ہوئی تھی۔


"بہت اچھی بات ہے، تیرا ڈرنا آج مجھے بہت اچھا لگے گا،، ویسے بھی اس خاص رات میں ہر شریف لڑکی خوفزدہ ہی رہتی ہے،، وہ چارپائی پر نیم دراز ہو کر اسے کھینچ کر اپنے کشادہ سینے پر گراتا ہوا معنی خیزی اور گھمبیرتا سے بولا۔ "چل اب رونا بند کر، مجھے ان خاص اور قیمتی لمحات میں یہ آنسو نہیں چاہیں،،،


عبید نے نرمی سے اس کے گالوں سے آنسو صاف کیے اور اس کے گداز وجود کو خود میں سمیٹنے لگا۔


"عبید،، پلیز،، رکیں ناں، یہ ہمارا گھر نہیں،، مجھے اچھا نہیں لگ رہا،، میں کمفرٹیبل نہیں ہوں،، پلیز،، اسے ناقابلِ برداشت گستاخیوں اور بے باکیوں پر اترتے دیکھ وہ گھٹی گھٹی آواز میں کہتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔


"حنا کیا تکلیف ہے تجھے؟؟ کیوں فضول کے نخرے کر کے میرا موڈ برباد کر رہی ہو،، کیوں کمفرٹیبل نہیں ہو،، کہا تو ہے کل کو بندوبست کر دوں گا اپنے گھر کا،، وہ دھیمے مگر گرجدار آواز میں غرایا گرفت میں اس قدر سختی آئی کہ حنا مچل گئی۔


"عبید،، مجھے لگ رہا ہے جیسے ہمیں کوئی دیکھ رہا ہے،، پلیز کل تک کا انتظار کر لیں ناں،، میں آپ کی ہی تو ہوں کل آپ جیسے چاہیں مجھے اپنا بنا لیجئے گا،،،، حنا اب منتوں ترلوں پر اتر آئی۔ مگر نہیں جانتی تھی کہ وہ ایک خود غرض انسان ہے جسے اپنی غرض کے سامنے کچھ نظر نہیں آتا۔


"تیرا دماغ خراب ہو گیا ہے،، فضول کے وہم پال رہی ہے،، عبید نے اٹھ کر زیرو پاور کی لائٹ بھی آف کر دی اور پاس پڑی اون کی بڑی چادر اپنے اور حنا کے اوپر درست کی۔


"اب تو کوئی اعتراض نہیں ناں،، اب تیری آواز آئی تو سوچ بھی نہیں سکتی میں کیا حشر کروں گا تمھارا،، عبید دھیمی آواز میں اس کے کان میں غرایا۔ اس کی گرفت میں چٹانوں سی سختی تھی۔ وہ غرض کا پجاری ساری رات اپنی غرض مٹاتا رہا جس پر حنا کی آہوں، سسکیوں کا زرا برابر بھی فرق نا پڑا۔ یہ اذیتوں اور روح کو چھلنی کرنے والی وہ رات تھی جب عبید کا اصلی چہرہ اس کے سامنے کھل کر عیاں ہوا تھا اور اس کے ہر غیر انسانی عمل نے اسے حنا کے دل سے پوری طرح اتار دیا تھا۔


اگلے دن ہی وہ اسے لے کر اپنے گھر میں شفٹ ہوا تھا۔ یہ چھوٹا سا مکان عبید کا ہی تھا مگر اس میں ضرورت کا کوئی سامان نہیں تھا۔ اگلے دن جب وہ اسے اس گھر لایا تو ضرورت کا سامان بھی لے آیا تھا۔ حنا کے اس گھر میں آنے کے بعد اشرف نے کافی سارا سامان دہیج کے طور پر اپنی جانب سے اسے بجھوایا تھا۔ جسے لینے میں عبید نے شرمندگی کے بجائے فخر محسوس کیا تھا۔


شروع کے چند ماہ سکون سے گزرے۔ مگر حنا کے حاملہ ہونے کے تین چار ماہ بعد وہ اپنا اصلی رنگ دکھانے لگا۔ اس کی صحبت بہت بری تھی۔ جوا کھیل کر نشے میں دھت گھر واپس لوٹتا اور پھر حنا کے وجود کو تختہ مشق بنا لیتا۔ وہ اس پر ہاتھ نہیں اٹھاتا تھا۔ مگر جس طرح درندوں کی طرح اپنی طلب پوری کرتا حنا کی روح تک کانپ جاتی تھی۔


وہ برداشت کرتی رہی۔ اسے برداشت کرنا تھا۔ یہ زندگی اس نے خود اپنے ہاتھوں سے چنی تھی۔ یہ انتخاب اس کا اپنا تھا۔ اپنے بھائی اور ماں کی قربانیوں، بے لوث محبتوں کا صلہ اس نے انتہائی خود غرضی اور کم ظرفی سے دیا تھا جس کے لیے وہ خود کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اسی لئے اس نے اپنے لئے یہی سزا منتخب کی تھی کہ وہ اب ہمیشہ اسی درندے کے پاس رہے گی۔ پریوں جیسی بیٹی کی پیدائش پر بھی اس آدمی نے اپنا وطیرہ نہیں بدلا تھا۔ بیٹی کی زمہ داری بھی اسے جانور سے انسان نا بنا سکی۔۔


حنا اپنی ماں اور اپنے بھائی کی خوشیوں پر اپنی تاریک زندگی کا منحوس سایہ بھی نہیں پڑنے دے گی۔ اشرف کی بھی شادی ہوچکی تھی۔ وہ اب اکثر دو تین ماہ بعد حنا کے پاس چکر لگا لیتا۔ کم از کم حنا کو اس جانب سے تسلی تھی کہ وہ درندہ صفت آدمی اس کے بھائی کے سامنے انسان بن کر رہتا تھا۔ حنا اسی میں صبر کرتی رہی۔ اور آج وہ ساری رات یہ دعا مانگتی رہی کہ عبید اشرف بھا کی اچانک آمد سے بے خبر کہیں پھر سے نشے میں دھت ہو کر گھر لوٹ کر کوئی ہنگامہ نا مچائے۔ وہ ساری رات گھر نا لوٹا تو حنا نے سکھ کا سانس لیا۔ مگر کسے معلوم تھا کہ اس رات کے بعد حنا کی زندگی میں ایک ایسا طوفان آئے گا کہ اس کا سکھ ،چین نیند آرام سب کچھ برباد کر کے اپنے ساتھ لے جائے گا۔


_____________________________


بیگ صاحب آپ کا شک بلکل ٹھیک نکلا وہ مراد خانزادہ کی حویلی میں ہی ہے،،، وہ زنان خانے سے تو باہر نہیں نکلی ہے،، مگر بچیوں کو لان میں دیکھا گیا ہے،، حارث بیگ کے خاص آدمی بالے نے اسے ایک ایسی خبر سنائی جس سے اس کی آنکھوں سے شیطانیت بھری مکاری جھلکنے لگی۔


ٹھیک ہے اس کی اتنی جرات،، پنچائیت بلواؤ،، میں بھی دیکھو وہ کیسے اسے اپنی حویلی میں پناہ دے کر رکھے گا،،مجھے وہ عورت اور اس کی بچیاں زندہ سلامت اپنے پاس چاہیں،، آخر کو میرے چھوٹے بھائی کی محبت کی نشانیاں ہیں،، کوئی انھیں ان کے خاندان سے کیسے چھین سکتا ہے جبکہ اس کا معصوم اور عزت دار جیٹھ اس پر ترس کھا کر اس بیوہ سے نکاح کر کے اسے اپنی عزت بنانا چاہتا ہے اس کی بیٹیوں کو بھی اپنانا چاہتا ہے،،، وہ خباثت سے مسکرایا۔


مگر بیگ صاحب وہ اتنی ضروری کیوں ہو گئی کہ آپ مراد خانزادہ سے الجھنا چاہتے ہیں،، بازار حسن بھرا پڑا ہے عورتوں سے،، پھر وہی کیوں،، اور اس کی بیٹیاں آپ کو زندہ سلامت کیوں چاہیں،، بالا الجھا تھا جبکہ وہ اپنے مکرہ عزائم پر دیر تک وہی شیطانیت سے بھرپور مسکراہٹ چہرے پر سجائے رہا۔۔


"نفرت تھی مجھے بچپن سے وارث بیگ سے،، میرا باپ بھی ہمیشہ اس کی حمایت کرتا اور پھر جوان ہونے پر ناصرف گاؤں کا سرپنج اسے بنا دیا،، بلکہ جائیداد کا ستر فیصد اسے کے نام کر دیا،،، کیا برائی تھی مجھ میں،، بس کالج کے زمانے میں ایک لڑکی سے زبردستی ہی تو کی تھی،، اب جوانی میں ایسی غلطیاں تو ہو جاتیں ہیں ناں،،، یہی نہیں میں نے اسے ایک باغ میں دیکھا تھا تو بری طرح اس پر فریفتہ ہوا،، کیا کچھ نہیں کیا میں نے اسے پانے کو،، اپنے کزن کو ہتھیار بنا کر اس کے بھائی کو اشتعال دلا کر اسکے ہاتھ سے قتل کروایا،،، وہ گولی اس کے بھائی کی بندوق سے نہیں میری بندوق سے نکلی تھی مگر وہ ثابت نہیں کر سکا،، پنچایت بیٹھی،، نایاب گل کی بڑی بہنوں کی تو شادی ہو ہی چکی تھی آخر میں قربانی کی بکری وہ بنی،، اسے ونی ہو کر ہمارے گھر آنا تھا،، مجھے لگا میں نے اسے پا ہی لیا،، مگر میرے سینے پر سانپ اس وقت لوٹے جب میرے باپ نے اسے مجھے ونی کرنے کی بجائے وارث کے نکاح میں دے دیا،،، اس بڈھے کو جانے کیسے بھنک لگ گئی تھی کہ یہ سب اسے اپنی رکھ*یل بنانے کو میں نے سازش کی تھی،، وہ وارث کی بن گئی،، اس کے اسی نوخیز حسن کی وجہ سے وارث اس کے محبت میں پاگل ہوگیا،، میں نے ایک دو مرتبہ اس کو وارث سے چھیننے کی کوشش کی مگر وہ بچ نکلی،، اور اس نے جرات کا مظاہرہ کرتے وارث کو بھی بتا دیا،،، کیونکہ حویلی وارث کے نام تھی تو اس نے مجھے حویلی سے نکلال دیا،، تب میں نے قسم کھائی تھی کہ اس سے اس کی ہر چیز چھین لوں گا،، اسے میں نے اپنے ہاتھوں سے گولیوں سے چھلنی کر کے موت کے گھاٹ اتارا تھا،، تب مجھے کتنا سکون ملا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا،، لیکن میرا یہ سکون تب غارت ہوا جب مجھے پتہ چلا کہ اس کمینے نے ساری زمینیں اور جائیداد اپنی ان سوکھی سڑی بیٹیوں کے نام کر دی ہے،، اس کی وصیت کے مطابق وہ اکیس کی ہو کر ہی یہ جائیداد کسی کے نام منتقل کر سکتی ہیں اس سے پہلے نہیں،، اکیس سے پہلے مر گئیں تو بھی جائیداد ایدھی سینٹر کے نام منتقل ہو جائے گی،، مجھے ہر قیمت پر وہ عورت اور اس کی بیٹیاں چاہیں،، میں اسے اپنی رکھ*یل بناؤں گا،، اس کی بیٹیاں کو بھی جوان ہونے پر زلیل و رسوا کروں گا،، وہ میری جیت کی نشانی بن کر ہمیشہ میری جوتی کے نیچے رہے گی،، میں اس کا وہ حشر کروں گا کہ قبر میں بھی اس کے شوہر کی روح تک پھڑپھڑائے گی،،،


اس نے اپنے غیر انسانی منصوبے اپنے خاص آدمی کو سنائے تو ایک مرتبہ تو اس کی سفاکیت اور شیطانیت پر بالے کو بھی جھرجھری سی محسوس ہوئی۔


اب میرا منہ مت دیکھو جا کر پنچایت بلاؤ،، اسے حاصل کرنے کو مجھے ان خانزادوں کی بھی نسل مٹانا پڑی تو مٹا ڈالوں گا،،


وہ نفرت سے بولا۔


ٹھیک ہے بیگ کی میں آج ہی پنچایت بلاتا ہوں،،،


وہ کہتا باہر نکل گیا جبکہ حارث بیگ پھر سے اپنے شیطانی دماغ کو نئی مکروہ سازشیں بننے کو تیزی سے چلانے لگا۔


وہ سٹڈی روم میں اپنی کتاب کی جانب متوجہ تھا جب اسے مخصوص بھونپو کی آواز نے بری طرح ڈسٹرب کیا۔ سٹڈی روم کی ایک کھڑکی پچھلے لان کی جانب کھلتی تھی اور آواز ادھر سے ہی آ رہی تھی۔


اففففففففففف اووو،،، اوزگل کی بچی،،لگتا ہے بس رونے کے لیے پیدا ہوئی ہے،،


وہ دانت پیس کر اٹھا۔ مگر اس کے ساتھ ہی ویرا کی بھی چیخ چلا کر رونے کی آواز سے وہ اب پریشان ہوا تھا۔ "کہیں گر ور تو نہیں گئیں دونوں،،، وہ تیزی سے سٹڈی روم کے پچھلے دروازے سے پیچھے لان میں نکل آیا۔ مگر سامنے کا منظر انتہائی غیر متوقع اور غصے سے پاگل کر دینے والا تھا۔ وہ دونوں الگ الگ کیری میں موجود تھیں اور پاس کھڑا انیل انھیں اپنے بلیک ٹیڈی بئیر سے ڈرا رہا تھا۔ وہ ٹیڈی بئیر ان کے سامنے کرتا تو وہ چلا چلا کر رونے لگتیں۔ تب وہ قہقہ لگا کر وہ ٹیڈی بئیر اپنی پشت پر چھپا لیتا۔ اریب طیش و اشتعال میں آگے بڑھا۔ انیل نے اسے اپنی جانب آتا دیکھ تو چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ تب ایک عدد تھپڑ انیل کے چہرے پر رسید ہوا تھا۔ وہ رونے لگا۔


انیل،، شیم آن یو،، کس قدر بدتمیز اور بے حس انسان ہو تم،، وہ لوگ اتنا رو رہی ہیں،،خوفزدہ ہو رہی ہیں تم انسان ہی یا جانور،،، شیم آن یو،،


اریب نے اسے اچھا خاصا بے عزت کیا وہ روتا ہوا اندر بھاگ گیا تب وہ ان ننھی پریوں کی جانب متوجہ ہوا۔ ویرا تو انیل کے اندر جانے سے خود ہی چپ ہو گئی جب کہ اوزگل اب تک رو رہی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر اسے گود میں اٹھایا۔


ادھر ادھر چکر لگا کر وہ اسے بہلانے لگا۔


او پلیززز،، اوزگل،، شٹ یور ماؤتھ،،، وہ اس کو چوں چوں سے تنگ آ چکا تھا۔ تبھی عاجز آ کر بولا۔ وہ یہاں آ کر کچھ کچھ ٹھیک ہو رہی تھی۔ سفید و گلابی نیلی آنکھوں والی گڑیا یوں تو اریب کو بہت پسند تھی۔ مگر اس کی ریں ریں اسے بہت بری لگتی تھی۔


اوکے رائٹ،،، اریب نے اسے کین کی کرسی پر بٹھایا۔ اور خود دوسری کین کی کرسی کے پیچھے چھپ گیا۔ وہ حیرت سے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔


اریب اچانک کرسی سے باہر نکلا۔ "پکڑ لیا" وہ اچانک بولا ۔ اوزگل قہقہ لگا کر ہنس پڑی۔ اریب نے حیرت سے یہ دلکش نظارا دیکھا۔ اتنے میں یشم وہاں چلا آیا اور اریب کو اوزگل کو ہنسانے کی خاطر یہ حرکتیں کرتے دیکھ مسکرا اٹھا۔ کلاس میں وہ جس قدر باوقار اور سنجیدہ تھا کوئی کلاس فیلو اسے یہاں یوں کرتے دیکھ لیتا تو اسے تو غش ہی پڑ جاتا۔


اوزگل اب کھلکھلا کر ہنس رہی تھی۔ "شکر ہے میمی گل ہنسی تو سہی،، اریب نے سرد سی سانس کھینچی۔


کیا ہو رہا ہے،، یشم سامنے آیا تو اریب نے اسے آج کی انیل کی کارستانی اس کے گوش گزار کی۔


افسوس کی بات ہے،، پہلے تو وہ اپنی انٹرٹیمنٹ کے لیے اپنے pets کو ٹارچر کرتا تھا تب بابا نے اسے پیٹ رکھنے سے سختی سے منا کر دیا اب وہ ان حرکتوں پر اتر آیا ہے،، اس کا مزاج درست کرنا ہی پڑے گا،، یشم نے جز بز ہوتے کہا۔


تو اور کیا دن با دن بدتمیز اور بے حس ہوتا جا رہا ہے،،، اریب نے بھی متفکر انداز میں کہا۔


خیر چلو،، تمھیں بلانے آیا تھا،، یو نو واٹ،، پھپھو اور پریہا آئیں ہیں،، خانم بلا رہی ہیں تمھیں،،


یشم نے عائمہ بیگم کا پیغام دینے کے ساتھ ساتھ پھپھو کی آمد کا بتایا تو اریب نے برا سا منہ بنایا۔


آ گئی سڑیل چھچوندری،، ہمیں بور کرنے،، اب زبردستی رو دھو کر ہمیں کھیل کھیلنے پر مجبور کیا کرے گی،، تمھیں زبردستی دلہا بنائے گی اور خود تمھاری دلہن بنا کرے گی،، ایڈیٹ،،


اریب نے پریہا خانزادہ کی دھونس جمانے والی عادت کا سوچ کر گندا سا منہ بنایا۔ یشم قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔ اریب مزید بدمزہ ہوا۔


تم جانے کس مٹی کے بنے ہو یشم،، جو اسے اتنے صبر سے جھیل لیتے ہو،، میں تو کبھی نا جھیلوں،،


چھوڑو یار جانے بھی دو،، دل رکھ لیتا ہوں بس اور کچھ نہیں،، وہ تو ہے ہی مینٹل کیس،، اب کیا ہم بھی بن جائیں،، یشم نے مسکراتے ہوئے کہا۔


چلو اب،، نہیں تو تمھارے پیچھے یہیں آن دھمکے گی چڑیل،، اریب کی گوہر افشانی پر وہ پھر سے ہنس دیا۔ یشم نے اوزگل کو گود میں اٹھایا۔ اریب نے ویرا کو اٹھایا اور دونوں اندر کی جانب چل پڑے۔


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Aseer E Hijar Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Aseer E Hijar  written by Wahiba Fatima . Aseer E Hij   by Wahiba Fatima is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  


Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages