Abr E Gurezaan Novel By Kanwal Akram Complete Short Novel Story 2 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday 27 October 2022

Abr E Gurezaan Novel By Kanwal Akram Complete Short Novel Story 2

Abr E Gurezaan Novel By Kanwal Akram Complete Short  Novel Story 2

 Read ONLINE Free Famous Urdu Novel 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading

Abr E Gurezaan 2 By Kanwal Akram

عید کو گُزرے چار دِن ہو گئے تھے اور آج وہ دونوں شاپنگ کرنے شہر آئے تھے۔ اُن کے کِسی رِشتے دار کی شادی تھی جو اُن کے قریبی تھے اور شادی بھی گاوں میں ہی تھی تبھی وہ سبھی لوگ شِرکت کرنے والے تھے اور اِسی مقصد کے لیے آج رانا جعفر اپنی زوجہ دُرفشاں عُرف درّے کو شہر لے آیا تھا تا کہ وہ اپنی پسند سے خریداری کر سکے ورنہ اُس کی زیادہ تر شاپنگ رانا جعفر ہی کرتا تھا۔ اِس وقت شام کے پانچ بج رہے تھے اور وہ دونوں ایک دوسرے کے ہمقدم مال میں مُختلف دُکانوں میں گھومتے جیولری خرید رہے تھے۔ کپڑے وہ لوگ خرید چُکے تھے جِس میں دُرّے نے اپنے اور رانا جعفر کے میچنگ کلر میں سارے جوڑے لیے تھے۔

"یہ والا کیسا ہے؟" وہ ابھی ایک گلو بند دیکھ رہی تھی جب رانا جعفر نے ایک کیس نِکال کر اُس میں سے ایک ائیر رنِگ باہِر نِکالا۔ سفید رنگ کے نگینوں سے مُزین وہ ائیر رِنگز بہت پیارے تھے۔

"بہت پیارا ہے یہ۔" دُرّے نے وہ ائیر رِنگ اُس کے ہاتھ سے اپنے ہاتھ میں تھامتے تعریفی انداز میں کہا۔

"ٹرائی کر کے دیکھو۔" جعفر نے اُس کے ہاتھ سے وہ ائیر رِنگ لیتے کہا تو وہ تذبذب کی سی حالت میں اُسے دیکھنے لگی۔ رانا جعفر اُس کی مُشکِل سمجھ گیا تھا۔ اِس وقت وہ کاٹن کا پرِنٹڈ سوٹ پہنے ہوئے تھی۔ چادر کو اچھی طرح اوڑھ رکھا تھا کہ چادر کا گھونٹ اُسبکے ماتھے تک آ رہا تھا جبکہ دونوں گال بھی چادر کے کِنارے میں چُھپے ہوئے تھے۔

"اِدھر آو۔" اُسے بازو سے پکڑ کر رخ اپنی طرف کرتے اپنے قریب کیا۔ دُکان میں رش نا ہونے کے برابر تھا۔ صِرف ایک دو خواتین تھیں جو جیولری دیکھ رہی تھیں جبکہ دو سیلز مین تھے جِن میں سے ایک اُن خواتین کو جیولری دِکھا رہا تھا جبکہ دوسرا اُنہی کی طرف متوجّہ تھا۔ وہ یُوں کھڑے تھے کہ دُرّے کے پیچھے شوکیس تھا اور جعفر کے پیچھے دیوار میں لگے شیشے کے ریکس تھے جِن میں مُختلف ڈیزائن رکھے ہوئے تھے۔ دائیں طرف کوئی نہیں تھا جبکہ بائیں طرف وہی خواتین کھڑی تھیں۔

"اپنے کام پر توجّہ دو۔" جعفر نے ایک سیلز مین کو اپنی طرف متوجّہ پا کر سخت لہجے میں کہا تو وہ ہڑبڑا کر خواتین کی طرف متوجّہ ہو گیا۔

رانا جعفر نے ایک ہاتھ میں ائیر رِنگ لے کر دوسرے ہاتھ سے دُرّے کی چادر ماتھے سے ذرا سی کِھسکائی اور پیچھے کو کی کہ اُس کا چہرہ آدھی پیشانی تک نظر آنے لگا۔ جعفر نے ایک نظر سیلز مین کو دیکھا مگر وہ مصروف تھے۔ مُطمئن ہوتے اُس نے دُرّے کو قریب کیا جبکہ دُرّے اُس کی حرکت پر سٹپٹا کر اُسے دیکھنے لگی۔

"یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟ پبلِک پلیس میں ہیں ہم!" اُس نے جعفر کو یاد دِلایا۔

"پبلِک پلیس میں ہیں تو پبلِک کی پراپرٹی تھوڑی اِستمعال کر رہا ہوں؟ میری پرسنل پراپرٹی ہو تُم جِس پر مُجھے ہر حق حاصِل ہے اور ہِل کیوں رہی ہو سیدھی کھڑی رہو۔" ایک نظر اُس کے سُرخ ہوتے حسین مُکھڑے پر ڈال کر بے نیازی سے کہا تو وہ اُسے دیکھ کر رہ گئی۔ جعفر اب اُس کے کان کی لو کو چھو رہا تھا۔

"کان میں ائیر رِنگ ڈال رہے ہیں یا ائیر رِنگ میں کان ڈالنے کا اِرادہ ہے؟" اُس کی اُنگلیاں اپنے کان کی لو سے ٹھوڑی پر سِرکتی دیکھ کر اُس نے جعفر کے ہاتھ پر چپت لگائی تو جعفر نے اُس کی کمر میں ہاتھ ڈالتے مزید قریب کیا۔

"تُمہیں پتہ ہے ایک بات؟" بوجھل سے لہجے میں کہتا وہ دُرّے کے کان میں جُھکا تھا۔ اُس کی حرکت پر دُرّے کی جان نِکلی تھی۔ جب سے اُسے دُرّے سے معافی مِلی تھی تب سے اُس نے رومانس کرنے میں عِمران ہاشمی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا ایسا دُرّے کا خیال تھا۔

"کیا؟" کپکپاتے لہجے میں یک لفظی جواب میں سوال کیا۔

"یہی کہ پبلِک پلیس میں رومانس کرنے میں زیادہ مزہ آتا ہے؟" جعفر نے شرارت سے اُس کے چہرے پر پھونک مارتے کہا تو وہ ہونق ہوتی اُسے دیکھنے لگی۔

"رانا جی!" وہ دبا دبا سی چِلائی تھی جِس پر وہ دِلکشی سے مُسکرا کر اب اُس کا کان دیکھنے لگا تھا جِس میں اُس کا پہنایا ائیر رِنگ بہت خُوبصورت لگ رہا تھا۔

"جانِ جعفر! ہاٹ لگ رہی ہو۔" ایک آنکھ دبا کر کہتا وہ دُرّے کو جھینپنے پر مجبور کر گیا تھا۔ دونوں سیلز مین اب کن اکھیوں سے اُن کو دیکھتے ہنسی دبانے کی کوشش کر رہے تھے جِس پر دُرّے مزید خجل ہوئی تھی۔

"گھر چلیں ایک دفعہ پھر بتاتی ہوں میں آپ کو۔" اُسے پہچھے دھکیل کر اُس کی چادر کو پھر سے پہلے کی حالت دی تھی کہ اُس کا چہرہ پھر سے چُھپ گیا تھا۔

"مطلب آج رات میری ہوئی!" جعفر نے آنکھوں میں چمک لیے ہوچھا تو وہ اُسے گھورتی دُکان سے باہِر نِکل گئی۔ جعفر نے مُسکراتے ہوئے بِل ادا کیا اور وہ جُھمکے اور اُس کے ساتھ کا گلو بند خرید کر باہِر کی جانِب بڑھا۔

"آہستہ چلو۔" قریب جا کر اُس کا بازو تھامتے کہا تو وہ اپنی رفتار سُست کر گئی۔

"جعفر؟" وہ دونوں باتیں کرتے، ہاتھ می شاپنگ بیگز تھامے چل رہے تھے جب اپنے پیچھے کِسی کی نسوانی آواز سُن کر وہ دونوں ٹھٹک کر رُکے۔ دُرّے نے نسوانی آواز پر پیچھے دیکھنے کی بجائے جعفر کو شِکوہ کناں نِگاہوں سے دیکھا جِس پر وہ اپنی شہ رگ پہ ہاتھ رکھتا نفی میں سر ہلا گئی۔ اُس آواز کو دونوں نے ہی نہیں پہچانا تھا۔

"تُمہارے عِلاوہ کِسی اور کا خیال تک نہیں۔" جعفر نے صفائی دی تھی۔ وہ اپنی بیگم کو خُود سے بد گُمان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ بیگم بھی وہ جِس کی مُحبّت میں وہ گوڈے گوڈے ڈوب گیا تھا۔

"یہ چڑیل کون ہے پھر؟" وہ خفگی سے کہتی ہلٹی تھی اور سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھنے لگی جو اب اُن کے قریب آ چُکی تھی مگر اُس لڑکی کو دیکھ کر اُسے حیرت کا جھٹکا لگا تھا اور اُسے دیکھ تو جعفر بھی چُکا تھا لیکن سامنے کھڑی لڑکی اُس لڑکی سے بالکُل مُختلف تھی جِسے وہ پہلے جانتا تھا۔

"کیسے ہو جعفر؟" وہ خُوش دِلی سے آ کر اُس کے بازو پر پنچ مارتی ایک ادا سے بولی تھی جبکہ اُس کی یہ ادا دُرّے کو زہر لگی تھی۔ حُلیہ بدل گیا تھا لیکن فِطرت اب بھی ویسی ہی تھی۔

"تُم یہاں کیسے نتاشہ؟" جعفر نے دُرّے کی کھا جانے والی نظروں سے سٹپٹا کر رخ نتاشہ کی طرف کرتے نا محسوس انداز میں اُس کا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹایا۔ شلوار قمیض میں ملبوس دوپٹے کو ایک کندھے پر لٹکائے، چہرے پر ہمیشہ کی طرح میک اپ سجائے اور لبوں کو گہری سُرخ لِپ سِٹک سے مزین کیے وہ جعفر کے سامنے کھڑی تھی۔ وہ پہلے جیسی ہی تھی بس حُلیہ بدلہ تھا اور چہرے پر دانوں کا اِضافہ ہو گیا تھا شاید زیادہ کاسمیٹکس اِستعمال کرنے کی وجہ سے۔

"شاپنگ کرنے آئی ہوں چلو ساتھ میں کرتے ہیں؟" نتاشہ نے بے تکلّفی سے کہا تھا۔ وہ تو جیسے بھول ہی گئی تھی کہ چند سال پہلے اُن کے درمیان کِس نہج پر آ کر تعلق ختم ہوا تھا۔ یہ بھی بھول گئی تھی کہ جعفر کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا اور نا صِرف احساس ہوا تھا بلکہ اُسے اپنی بیوی سے مُحبّت بھی ہو گئی تھی۔

نتاشہ کی بات پر دُرّے نے سانس روک کر جعفر کو دیکھا جیسے ڈر ہو کہ وہ آج بھی اُسے چھوڑ کر چلا جائے گا۔

"نہیں میں اپنی بیوی کے ساتھ ہی شاپنگ کروں گا۔" جعفر نے سہولت سے اِنکار کیا تو نتاشہ نے چونک کر جعفر کے ساتھ چادر میں چُھپی کھڑی دُرّے کو دیکھا۔

"اوہ! یہ بہن جی اب بھی تُمہارے ساتھ ہے؟ مُجھے تو لگا تھا کہ دِل بھر گیا ہو گا آخر کو ہو تو ایک وڈیرے ہی کا؟ لیکن تُم تو اب تک اِس دیہاتن کو خُود سے چِپکائے گھوم رہے ہو؟" نتاشہ نے دُرّے کو دیکھتے ناگواری سے کہا۔

"وہ تُم جیسی لڑکیوں کے شوہر ہوتے ہیں جو ایک سے دِل بھر جائے تو دوسری کی تلاش میں جا نِکلتے ہیں۔ میرے جعفر صِرف اپنی جائز بیوی سے مُحبّت کرتے ہیں اور جائز رِشتوں میں کبھی بھی کِسی کا دِل نہیں بھرتا۔ جائز رِشتوں کا ساتھ دائمی ہوتا ہے اور رانا جعفر اپنی جائز بیوی کی مُحبّت سے بندھے ہیں وہ تُم جیسی لڑکیوں کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے جو تِتلی کی مانِند ہر پھول کے گِرد منڈلانے لگتی ہیں۔" دُرّے نے غصیلے لہجے میں کہا تو وہ ناک سکوڑ کر اُسے دیکھنے لگی۔

"بھولو مت کہ تُمہارا یہ رانا جعفر میری مُحبّت میں گِرفتار تھا اور میرے لیے تُمہیں بے تحاشا ذلیل بھی کیا تھا۔ نتاشہ نے اُسے ماضی کا حوالہ دیا۔ رانا جعفر ایک بار پھر اپنی ہی نظروں میں شرمِندہ ہوا تھا۔

"وہ جو بھی تھا گُزر گیا۔ اُنہیں تُم سے وقتی کشش تھی اور نا محرم سے تعلقات میں ایسی کشش ہو جایا کرتی ہے اِس کوئی مُحبّت کا نام نہیں دے سکتا۔ وہ کشش تبھی ختم ہو گئی جب وہ ایک پاکیزہ بندھن میں بندھے اور اُنہیں مُحبّت بھی ہوئی وہ بھی اپنی بیوی سے نا کہ کِسی غیر عورت سے۔ اب تُمہیں میرے شوہر کو بہکانے کی ضرورت نہیں۔ وہ کل بھی میرے تھے اور وہ آج بھی میرے ہیں اِس بات کا ثبوت اُنہیں میرے ساتھ دیکھ کر تُمہیں مِل گیا ہو گا۔ ایک اور بات! دوسروں کے شوہر پر نظر رکھنے کی بجائے اپنی شادی پر دھیان دو۔" دُرّے نے طیش سے اُنگلی اُٹھا کر کہتے اگلا پِچھلا سارا حِساب برابر کیا تھا۔ جعفر تو بس اُس کے انداز ملاحظہ کرتا رہ گیا تھا۔

"میری شادی ہو چُکی ہے سمجھی تُم! بہت امیر ہے میرا شوہر۔" نتاشہ تیکھے لہجے میں کہتی اِترائی تھی۔

"ظاہِر ہے دولت کے لیے ہی تو تُم نے اُس سے شادی کی ہو گی اور اگر کر ہی لی ہے تو نا محرموں سے ذرا فاصلے پر رہنا سیکھو ورنہ تُمہارے خُود کے لے اچھا نہیں ہو گا۔" اُسے وارن کرتی وہ مُڑی تھی۔

"میرے کہنے کے لیے کُچھ بچا ہی نہیں لیکن ایک بات یاد رکھنا نتاشہ! میں اپنے ماضی میں جو کُچھ کر چُکا ہوں اُس کے لیےا ب تک پچھتاتا ہوں۔ دُرّے کا ظرف ہے جو اُس نے مُجھے معاف کر کے قبول کر لیا ورنہ۔۔۔۔۔۔۔ خیر آئندہ اگر مُجھے دیکھو بھی تو یُوں انجان بن کر گُزر جانا جیسے میں تُمہیں جانتا ہی نہیں۔ تُمہیں دیکھ کر میرا پچھتاوا بڑھتا ہے اور میں وہ سب بھولنا چاہتا ہوں۔ اُمید ہے کہ تُم میری بات پر عمل کرو گی۔ اپنے شویر کے ساتھ خُوش رہو۔" رانا جعفر سنجیدگی سے کہہ کر پلٹا تھا۔

"کیا تُمہیں ایک پل کے لیے بھی مُجھ سے مُحبّت نہیں ہوئی تھی؟" نتاشہ نے نجانے کیا سوچ کر پوچھا تھا۔

"مُجھے تُمہاری ماڈرن نیچر نے اٹریکٹ کیا تھا نتاشہ! عاشِق اپنے محبوب پر کِسی غیر کی نظریں بھی برداشت نہیں کرتا اور مُجھے اگر تُم سے مُحبّت ہوتی تو میں تُمہیں شروع میں ہی تُمہارے پہناوے پر ٹوک دیتا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا نا ہی مُجھے تُمہاری شادی کا سُن کو کُچھ فیل ہوا۔ ہاں مگر میں دُرّے پر کِسی کی نظر برداشت نہیں کر سکتا نا ہی اُسے سب کے سامنے شو پیس بنا کر پیش کر سکتا ہوں۔ اگر کوئی اُسے مُجھ سے الگ کرنے یا اُس کے نام کے ساتھ کِسی کا نام لینے کء کوشش بھی کرے تو شاید میں اُس اِنسان کی جان لے لوں اور یہی مُحبّت ہے اور یہ مُحبّت میں دُرّے سے کرتا ہوں۔" جعفر نے ٹھہر ٹھہر کر اپنی بات مُکمّل کی تھی۔ اُس کے لہجے میں ہی نہیں آنکھوں میں بھی دُرّے کی مُحبّت نظر آ رہی تھی۔

"رانا جعفر!" دُرّے جو اکیلی چلتی جا رہی تھی اپنے ساتھ جعفر کو نا پا کر وہ زور سے کُڑتی چِلائی تھی جِس پر ڈاڑھی کُھجاتا سیٹی پر کوئی دمھر سی دُھن بجاتا اُس کی جانِب بڑھا تھا۔ نتاشہ نے گہرا سانس بھرتے قدرے حسرت سے اُن کو دیکھا تھا اور پھر واپسی کو مُڑی تھی۔

"کیا کہہ رہی تھی آپ کی بہن آپ سے؟" اُس کے قریب پہنچنے پر دُرّے نے تیکھے انداز میں پوچھا۔

"کہہ رہی تھی کہ میرے پھوپھو بننے کے چانسز کب تک ہیں تو میں نے اُمید دِلائی کہ اگلے سال تک وہ دو بچوں کی پھوپھو بن چُکی ہو گی۔" جعفر نے اُس کے کان کی طرف جُھکتے میٹھی سی سرگوشی کی تو وہ سُرخ پڑتی چادر کو مزید چہرے پر کِھسکاتی تیز قدم اُٹھاتی اُس کی ہنچ سے دور ہونے لگی لیکن وہ بھی اُس کی رفتار سے اپنی رفتار مِلاتا مزید مُحبّت بھری سرگوشیاں کرتا اُسے گُلال ہونے پر مجبور کر رہا تھا


Abr E Gurezaan By Kanwal Akram


آج عید تھی اور وہ صُبح صُبح تیار ہو کر سب کے ساتھ ناشتہ کر کے کمرے میں آ چُکی تھی۔ مرد حضرات عید کی نماز پڑھنے جا چُکے تھے اور خواتین اپنے باقی کے کاموں میں شغول ہو چُکی تھیں جِن میں سرفہرست اپنی تیاری تھی۔

اُس کا اِرادہ اپنے شوہر نامدار کبیر حیدر کو فون کرنے کا تھا جو آج صُبح صُبح آنے کا کہہ کر اب تک نا آیا تھا۔ اُس کو شہر میں کُچھ کام تھا جِس کی وجہ سے وہ پِچھلے ایک ہفتے سے شہر میں رُکا ہوا تھا جبکہ باقی سب حویلی میں ہی موجود تھے۔ کئی دفعہ فون ٹرائی کرنے کے بعد بھی حیدر نے فون نہیں اُٹھایا تو وہ ناک سکوڑتی الماری کی جانِب بڑھ گئی۔ اُس نے عید پہ تین جوڑے سِلوائے تھے جِس میں سے ایک آج زیب تن کیا تھا۔ تینوں جوڑے حیدر کی پسند کے تھے لیکن تینوں میں سے اُسے وہ جوڑا زیادہ پسند تھا جو اِس وقت حمود نے زیب تن کر رکھا تھا۔ یہ سُرخ رنگ کا خُوبصورت سا لان کا سوٹ تھا جِس کے دامن ایک جانِب، گلے اور آستینوں پر کڑھائی کی گئی تھی۔ دوپٹہ سُنہرے رنگ کا تھا جِس میں سُرخ رنگ کے پھول اور بیلیں بنی ہوئی تھی۔ ہلکے پُھلکے میک اپ اور ناک میں ہیرے کی چمکتی لونگ پہنے وہ بے اِنتہا خُوبصورت لگ رہی تھی۔ شادی کے بعد وہ پہلے سے صحت مند ہو گئی تھی اور اُس کی پُرکشش گندمی رنگت میں اپنی صحت اور پھر حیدر کی مُحبّت کی سُرخیاں گُھلنے لگی تھیں۔

حیدر کی ساتھ اُس کی زِندگی بہت پُرسکون گُزری تھی۔ اُن گُزرے دو سالوں میں اُس نے حمود کو اِتنی مُحبّت دی تھی کہ وہ خُدا کا شُکر ادا کرتے نا تھکتی تھی۔

صُبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام ہو گئی لیکن حمود کا اِنتظار اِنتظار ہی رہا۔ نا حیدر کو آنا تھا نا ہی وہ آیا تھا۔ اب تو حمود کا ضبط بھی چھلکنے لگا تھا۔ وہ ڈھیر سارا رونا چاہتی تھی لیکن اُس نے خُود پر ضبط کے جڑے پہرے بِٹھا رکھے تھے کہ وہ کمزور تو ہرگِز نہیں تھی۔ عبّاس کو نین گُل کے ساتھ، جعفر کو دُرِفشاں کے ساتھ اور باقِر کو دُرِ شہوار کے ساتھ دیکھ کر اُسے باقی سب کی قِسمت پر رشک اور حیدر پر مزید غُصّہ آیا تھا۔

وہ حیدر کی یہاں پوسٹنگ کے بعد حویلی میں ہی شِفٹ ہو گئی تھی اور حیدر کئی کئی دِن اور راتیں گھر سے غائب رہتا تھا لیکن اُسے کبھی اِتنا محسوس نہیں ہوا تھا جِتنا آج ہو رہا تھا۔ آج عید تھی اور آج کے دِن وہ گھر میں اُس کے ساتھ نہیں تھا بس اِسی بات پہ اُسے مزید غُصّہ آرہا تھا کہ عید کے دِن بھی کونسا ضروری کام آن پڑا تھا جو وہ آج کا دِن اپنی بیوی اور بیٹیوں کے ساتھ نہیں گُزار سکتا تھا۔

الماری میں آج کی سب کی طرف سے دی گئی عیدی رکھ کر وہ پلٹی اور واپس بیڈ پر جا بیٹھی۔ سب سے چھوٹی بہو ہونے اور اِس حویلی کے سب سے لاڈلے اور چھوٹے سپوت کی بیوی ہونے کی وجہ سے اُسے سب سے ہی عیدی مِلی تھی جو ایک لاکھ سے اوپر تو ہو ہی گئی تھی۔

اپنی سوچوں میں حیدر سے لڑتے لڑتے وہ رات کے گیارہ بجے بیڈ پر آڑی تِرچھی ہی سو چُکی تھی۔ اُس کی دونوں جُڑواں بیٹیاں ہر وقت حماس کے اِردگِِرد پائی جاتی تھیں تبھی وہ بے فِکر تھی کہ اب بھی وہ اُس کے پاس ہی سو گئی ہوں گی۔

ساڑھے گیارہ بجے کا وقت تھا جب حیدر بالکونی کے راستے اندر داخِل ہوا۔ ایک ندامتی نِگاہ حمود کے خوابیدہ وجود پر ڈالتے وہ دبے قدموں الماری سے کپڑے لے کر باتھ روم کی جانِب بڑھا۔ دس مِنٹ بعد وہ فریش ہو کر باہِر آیا تو حمود اب بھی سو رہی تھی۔

اپنے پسندیدہ سُرخ جوڑے میں ملبوس، مِٹے مِٹے سے میک اپ اور دوپٹے سے ندادر حمود کے وجود کو دیکھتے وہ بے خُودی میں اُس کی طرف بڑھا۔

"میری ڈیول کوئین۔" اُسے اپنے حِصار میں لیتے حیدر نے نرم سی سرگوشی کی تھی۔

"حیدر!" چہرے پر جانا پہچانا لمس محسوس کرتے حمود نے مُندی مُندی سی آنکھیں کھول کر اُسے دیکھا تو وہ مُسکرایا۔

"حیدر کی جان! عید مُبارک!" حیدر نے اُس کے نقوش کو والہانہ چھوتے اُسے عید کی مُبارک باد دی تو وہ جو نیند میں کھوئی تھی، کی ساری حِسیں بیدار ہوئیں اور وہ جھٹکے سے اُس کا حِصار توڑ کر اُس کا کالر دبوچ گئی۔

"کہاں تھے دو نمبر پولیسیے؟" اُس کا کالر سختی سے دبوچتے وہ شیرنی کی طرح غُرّائی تو حیدر نے لب دباتے اُس کی پُشت سہلائی۔

"ریلیکس میری شیرنی! اِدھر پاس ہی تو ہوں میں۔" حیدر نے اُسے پُچکارا تو حمود نے کالر پر گرفت بڑھائی۔

"اِدھر کِدھر ہاں؟ نوکری کو چھوکری بنا لیا ہے جو ہر وقت اُسی کے ساتھ چِپکے رہتے ہیں۔ سوتن لگنے لگی ہے اب مُجھے آپ کی یہ پولیس کی نوکری! ذرا خیال ہے کہ گھر پہ کوئی آپ کا اِنتظار کر رہا تھا؟" حمود تو جیسے سارا غُصّہ آج ہی نِکال دینا چاہتی تھی۔

"تُم اِنتظار کر رہی تھی میرا؟" حیدر نے خُوشی سے پوچھا۔

"ہننہ! میں کیوں کرنے لگی اِنتظار؟ آپ کی شہزادیاں ہی صُبح سے سر کھائے جا رہی تھیں کہ بابا پاس جانا ہے بابا پاس جانا ہے۔ میں نے تو ہزار دفعہ کہا کہ وہ آج آپ کی دوسری امّی کے پاس ہیں مگر وہ کُچھ سمجھیں تو نا؟ بِیٹیاں تو پھر آپ کی ہی ہیں۔" حمود تو آج فُل جلالی موڈ میں تھی جہاں وہ اُس کی باتوں پر مُسکراہٹ دبا رہا تھا وہیں دِل اُسے خُود میں قید کرنے کا چاہ رہا تھا لیکن فی الحال اُسے قید میں کر کے وہ مزید اُسے ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔

"میرے خیال سے وہ تُمہاری بھی کُچھ لگتی ہیں؟" حیدر نے مُسکراہٹ دباتے سوالیہ انداز میں اُسے دیکھا۔

"تُم اِنتظار کر رہی تھی میرا؟" حیدر نے خُوشی سے پوچھا۔

"ہننہ! میں کیوں کرنے لگی اِنتظار؟ آپ کی شہزادیاں ہی صُبح سے سر کھائے جا رہی تھیں کہ بابا پاس جانا ہے بابا پاس جانا ہے۔ میں نے تو ہزار دفعہ کہا کہ وہ آج آپ کی دوسری امّی کے پاس ہیں مگر وہ کُچھ سمجھیں تو نا؟ بِیٹیاں تو پھر آپ کی ہی ہیں۔" حمود تو آج فُل جلالی موڈ میں تھی جہاں وہ اُس کی باتوں پر مُسکراہٹ دبا رہا تھا وہیں دِل اُسے خُود میں قید کرنے کا چاہ رہا تھا لیکن فی الحال اُسے قید میں کر کے وہ مزید اُسے ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔

"میرے خیال سے وہ تُمہاری بھی کُچھ لگتی ہیں؟" حیدر نے مُسکراہٹ دباتے سوالیہ انداز میں اُسے دیکھا۔

"ہاں میرے شوہر کی اولاد ہیں وہ!" دانت پیس کر کہتی وہ اُس کا کالر چھوڑ کر واپس بِستر پر لیٹ گئی۔

"شوہر کِس کا ہے؟" حیدر نے گھمبیر لہجے میں پوچھا۔

"پتہ نہیں کِس کا ہے۔" بڑبڑا کر وہ آنکھیں بند کر گئی۔

"چلو یہ بتا دو یہ ڈیول کوئین کِس کی ہے؟" حیدر نے سوال بدلا۔

"میں کِسی ڈیول کوئین کو نہیں جانتی۔" وہ اِنکار کرتی سختی سے اُس کا ہاتھ جھٹک گئی جو اُس کی کمر پہ گھوم رہا تھا۔

"میں بتا دیتا ہوں وہی جو شہر میں میرے گھر میں مُلازمہ ہوتی تھی اور پتہ ہے وہ چور بھی تھی۔ اِتنی کوئی چالاک تھی میری اِتنی قیمتی چیز چُرالی اورابھی تک واپس بھی نہیں کی اور جب پوچھوں آگے سے کہتی ہے میں نے کُچھ نہیں چُرایا۔" حیدر نے آنکھیں اُس کے چہرے پر گاڑھے معنی خیزی سے کہا تو وہ اُس کی طرف پلٹی۔

"میں نے کُچھ بھی نہیں چُرایا حیدر!" وہ غُصّے سے بولی تو وہ اچھنبے سے اُسے دیکھنے لگا۔

"مگر تُم تو ڈیول کوئین نہیں ہو نا؟ تُم تو اُسے جانتی بھی نہیں۔ میں سوچ رہا ہوں اُس پہ میری اِتنی قیمتی چیز چُرانے پر مُقدّمہ کر دوں۔ وٹ یُو سے؟" حیدر نے اُس کے چہرے پہ آئے بالوں کو کان کے پیچھے اڑستے ہوئے پُرسوچ انداز میں کہا۔

ہنہ! کیا ثبوت ہے کہ اُس نے آپ کا کُچھ چُرایا ہے؟" ہُنکارا بھرتی وہ سر جھٹک گئی۔

"ثبوت تو میری یہ بے قراریاں، بے چینیاں، بے تابیاں اور بے سکونیاں ہیں جانِ جاں! میرا قیمتی دِل چُرایا ہے اُس نے! وہ دِل جو ہر ایک کے پاس ایک ہی ہوتا ہے جِس کے ذریعے وہ سانس لیتا ہے۔ زِندہ رہتا ہے اور میرا وہ انمول رتن چُرا کر وہ جانے کہاں فرار ہو گئی ہے؟ ایک بار ہاتھ آ جائے سزا دوں گا اُسے!" جذباتی انداز میں کہتے آخر میں معنی خیزی سے حمود کو دیکھا جو اُس کی آنکھوں میں پنپتے جذبوں کو دیکھ کر نظریں چُرا گئی۔

"کیا۔۔۔۔ کیا سزا دیں گے؟" حمود نے اٹک کر پوچھا۔ حیدر کی نظروں سے وہ گھبراہٹ محسوس کرنے لگی تھی جو بے باکی سے اُس کے سراپے ک جائزہ لے رہا تھا۔

"عُمر قید کی سزا دوں گا۔" حیدر نے جُھک کر اُس کے بالوں سے اُٹھتی مسحور کن مہک کو سانسوں کے راستے اندر اُتارا۔

"قید کر کے کہاں رکھیں گے؟" حمود نے اُس کے دِل کے مُقام پہ ہاتھ رکھے اُس کی تیز ہوتی دھڑکنوں کو محسوساپنے دِل میں!" حیدر نے بے خود ہوتے کہا تھا۔ اُس کی سانسیں حمود کو اب اپنی گردن پر محسوس ہو رہی تھیں۔

"مگر آپ کا دِل تو چوری ہو گیا نا؟" حمود نے معصومیت سے کہتے اُس کے بالوں کو مُٹھی میں بھر کر کھینچتے سامنے کیا۔ حیدر کراہ کر رہ گیا تھا۔

"اُس کا دِل تو میرے پاس ہے نا اُس میں رکھ لوں گا اور اب میں تُم پہ ایک پولیس والے پہ تشدّد کرنے کے جُرم میں مُقدمّہ بھی کروں گا۔" حیدر نے ایک اور اِلزام لگایا تو وہ اُس کے چہرے کے بِگڑتے زاویے دیکھ کر کِھلکِھلائی۔

"پولیس والا بھی میرا ہے، اُس کا تھانہ بھی میرا ہے اور اُس کے دِل و دماغ پر بھی میرا قبضہ ہے۔ وہ ایسا کُچھ سوچے گا بھی نا تو دماغ ٹھِکانے لگا دوں گی۔" حمود نے دِلکش انداز میں مُسکراتے آخر میں دھمکی دی تو وہ سمجھتا سر ہلا گیا۔

"جی دار ہو گئی ہو۔" اُس کو اپنی گرفت میں لیتے وہ خُماری میں بولا۔

"حح۔۔۔۔ حیدر! میں ناراض ہوں آپ سے۔" اُس نے حلق تر کرتے کہا۔

"منا ہی تو رہا ہوں میری شہزادیوں کی امّاں!" ایک آنکھ وِنک کرتا وہ قہقہہ لگا گیا تھا جِس پر ناچاہتے ہوئے بھی خجل سی ہوتی اُسی کی پناہوں میں چُھپنے لگی تھی۔"منا ہی تو رہا ہوں میری شہزادیوں کی امّاں!" ایک آنکھ وِنک کرتا وہ قہقہہ لگا گیا تھا جِس پر ناچاہتے ہوئے بھی خجل سی ہوتی اُسی کی پناہوں میں چُھپنے لگی تھی۔ ناراضگی تو جیسے اُڑن چھو ہو گئی تھی ویسے بھی یہ پیارا سا شخص اُسے ناراض رہنے کب دیتا تھا؟


Hum Bare Gira Tehre By Kanwal Akram 

تو میں کون ہوں عباد عالم؟ اگر یہ تُمہاری بیوی ہے تو میں کون ہوں؟" اُس کا کالر دبوچتے وہ ایک مرتبہ پھر چیخی تھی جہاں وہ اُس کے منہ سے اپنا نام سُن کر چونکا تھا وہیں اُس کے انداز پر عباد عالم کا غُصّہ عود آیا تھا۔ اپنے کالر سے اُس کے ہاتھ بُری طرح سے جھٹکے تھے کہ وہ نیچے جا گِری تھی۔


درد کی ایک شدید لہر اُس کے سر میں اُٹھی تھی۔ چوٹ کا اثر تھا کہ اُس سر اب بھی زرا سے جھٹکے اور پریشانی پر دُکھنے لگتا تھا۔ سُرمئی آنکھوں سے آنسو بہتے اُس کے گالوں سے ہوتے حِجاب میں جذب ہو رہے تھے جِنہیں وہ بار بار صاف کر رہی تھی مگر آج وہ بے لگام ہو گئے تھے۔


"میں نہیں جانتا کون ہو تُم؟ جو بِلاوجہ میرا اور اپنا تماشہ بنا رہی ہو۔ دوسرے مردوں کی اٹیشن سیک کرنے کا اچھا طریقہ ہے مگر میں اُن مردوں میں سے نہیں ہوں جو ایک کے ہوتے باہِر منہ ماریں!" اُنگلی اُٹھا کر اُسے وارن کرتا وہ غُرّایا تھا۔ لوگ اب بھی وہاں کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ اُس کے لفظوں نے عفاف کو آنکھیں میچنے پر مجبور کیا تھا۔


"اچھا؟ ایک عورت پر اِنحصار کرنے والے مرد ہو تُم؟ تو عفاف رضا گردیزی کے متعلق کیا خیال ہے تُمہارا؟ جِسے نِکاح کی زنجیر میں باندھ کر مُڑ کر نہیں دیکھا اور آج دوسری بیوی پہلو میں لیے کھڑے یہاں اپنے آپ کو بہت نیک ظاہِر کر رہے ہو؟"

سر ہاتھوں میں تھامتی وہ ایک بار چیخ اُٹھی تھی جبکہ اُس کے منہ سے عفاف رضا گردیزی کا نام سُن کر عباد لڑکھڑایا تھا۔ اُس کے ساتھ کھڑی مہرالنِساء کا رنگ بھی پھیکا پڑا تھا۔


*********************


"کیا ہو رہا ہے یہ؟ " اُس نے دھاڑ کر پوچھا تھا۔ وہ کیوں اُس کے کمرے کی تلاشی لے رہی تھی۔ کہیں اُس کا شک درُست تو نہیں کہ وہ کوئی جاسوس ہو اور معصومیت کا ڈرامہ کرتے یہاں اُس تک پہنچ گئی ہو۔ وہ آگے بڑھا اور بازو سے پکڑ کر کھینچتا ہوا باہر لایا۔

"گگ گُڑیا ڈھونڈ رہی تھی۔ نن نہیں مِلی! " اُس نے اپنا بازو چُھڑوانے کی کوشش کرتے کہا تھا اِس سب میں اُس کا وہ داغ واضح ہو رہا تھا جو اُس کے چاند سے مُکھڑے پر تھا۔

"بکواس بند کرو۔ اب میرے کمرے میں مت آنا ورنہ ایک چماٹ لگاؤں گا۔ " بمُشکِل خُود پہ ضبط کرتے اُنگلی اُٹھا کر بولا تھا۔

"چچ چماٹ کیا؟" اُس نے پوچھا تو وہب نے دانت پیسے جیسے دانتوں کے نیچے روحانی کی گردن ہو۔

"تھپڑ کو کہتے ہیں۔ لگا کے دِکھاؤں؟ جاؤ یہاں سے۔" اُس نے تھپڑ کی طرح اپنا ہاتھ اُس کی طرف بڑھاتے کہا تو وہ اپنا ہاتھ گال پر رکھتی آنکھیں میچ گئی۔ 

"روئی کیوں؟" اُس نے نرمی سے اِستفسار کیا۔


"میری مرضی!"وہ خفا ہوئی۔ اُسے دیکھنے سے اِجتناب برتا تھا۔

"میں باس ہوں تُمہارا!" وہ مصنوعی رُعب دِکھاتے ہوئے بولا۔


"اِس وقت آفس میں نہیں ہوں میں!!!" وہ اُسے لاجواب کر گئی مگر صِرف ایک پل کو۔


"میری اسِسٹنٹ ہو تُم! جب چاہے کام لے سکتا ہوں تُم سے!!!" وہ جتاتے ہوئے بولا تو ایک بار پھر اُس کی آنکھیں بھر آئیں۔ وہ سٹپٹا کر رہ گیا۔


"مُلازمہ سمجھ لیا ہے مُجھے!! بِلا وجہ رُعب جھاڑتے ہیں اور مُلازماوں کی طرح چائے کافی بنواتے ہیں۔" وہ ایک بار پھر سوں سوں کرتی ہوں بولی تھی۔ ارمان کا دِل کیا اُسے بتائے کہ اِس وقت شِکوے کرتی ہوئی اِتنی کیوٹ لگ رہی ہے کہ اُس کا بس چلے تو وہ اُسے دُنیا سے چُرا لے۔

"اچھا رونا بند کرو پھر بتاتا ہوں کہ کیوں ڈانٹا تھا۔" وہ مفاہمتانہ انداز میں گویا ہوا تو وہ ایک بار چشمہ اُتار کر اپنے آنسو صاف کرنے لگی۔


Teri Arzoo Main Khaak Howe By Kanwal Akram

"کیا آپ کو مُجھ سے مُحبّت ہے؟" شانزے نے جانے کیا سوچ کر پوچھا تھا مگر جواباً افراسیاب نے اُسے جِن نظروں سے دیکھا وہ سِمٹ سی گئی۔ وہ اُس کے سِمٹنے پر مُسکرایا۔

"تھوڑی تھوڑی ہے اور زیادہ زیادہ وقت کے ساتھ ہو جائے گی۔" افراسیاب اُس کے قریب ہی لیٹتا اُسے اپنے حِصار میں لے گیا وہ کسمسائی تھی۔

"اب اِتنا حق تو دو کہ یہ محسوس کر سکوں میں بھی اب شادی شُدہ ہوں۔" افراسیاب نے مُسکراتے لہجے میں کہا تو وہ مزاحمت ترک کر گئی۔

"جانتا ہوں تُم ناراض ہو مُجھ سے! جو کُچھ ہوا اُس سے تُم واقِف ہو اِسی لیے یہ ناراضگی ختم کر دو۔" عرشمان نے نرمی سے اُسے سمجھانا چاہا تھا۔

"میں کیوں ناراض ہونے لگی؟ ناراض اُن سے ہوا جاتا ہے جِن پہ مان ہو کہ وہ ہمیں منا لیں گے مگر یہاں ایسا کوئی سین نہیں ہے نا ہی میرا آپ سے ناراضگی کا کوئی رِشتہ ہے۔" مِرحا کا لہجہ تلخ سا تھا۔

"تُمہیں مُجھ سے نفرت نہیں ہو رہی؟ میری حقیقت جان کر اور جو میں نے عرشمان کے ساتھ کیا؟" اِرحا نے اُس کے لہجے کی نرمی پر اُس کی طرف پلٹتے ہوئے پوچھا تھا۔ لہجے میں حیرت نمایاں تھی۔

"نفرت کیوں؟ آپ اِنسان ہیں اور آپ کو بھی جینے کا حق ہے۔ کم ظرف ہوتا ہے وہ شخص جو تیسری جِنس والوں سے کراہیت محسوس کرے یا اُن سے نفرت کرے اور میں کم ظرف نہیں ہوں۔ آپ مُجھے اُتنی ہی عزیز ہیں جِتنی مِرحا بھابھی اور رہی بات عرشمان بھائی کی تو جو ہوا وہ اُن کی قِسمت میں لِکھا تھا۔ آپ نے جو کیا عرشمان بھائی اور مِرحا بھابھی کی خُوشی کے لیے کیا تو میں اِس بات کے لیے آپ سے ناراض کیوں ہووں؟ مُجھے آپ سے کوئی گِلہ نہیں نا ہی آپ سے نفرت ہے کیونکہ آپ کو اُسی خُدا نے بنایا ہے جِس نے مُجھے بلکہ میرے دِل میں آپ کے لیے عِزّت پہلے سے بھی مزید بڑھ گئی ہے کیونکہ مُجھے اندازہ ہے آپ بہت کُچھ سہہ کر یہاں تک پہنچی ہیں جو ہر کِسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔" شانزے نے اُس کے ہاتھ تھام کر مُحبّت و عقیدت سے کہا تھا اور آخر میں اُس کے ہاتھ کو چوم لیا تھا۔

Dehekta Sehra By Sara Shah

دفتا لفٹ کا دروازہ کھلا جہاں سے وہ باہر آیا۔۔۔۔۔۔ڈارک بلیو شرٹ اور بلیک کوٹ میں ٹائی ندارد تھی۔۔۔بلیک پینٹ جس کے پائینچے ٹحنوں تک فولڈ تھے۔۔۔۔۔۔بلیک ٹسلز شوز میں اپنی چھا جانے والی پرسنالٹی سمیت وہ وہیل چئیر پر بیٹھا " ذوالنون جبیل " تھا جبیل اینڈ سنز کا اونر جس نے اپنی محتاجی کے باوجود اس ایمپائر کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔۔۔۔۔


کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ شہزادوں کی آن بان لیے وہ شخص اپاہج تھا۔۔۔۔لیکن اس محتاجی نے بھی اسکی شخصیت میں کوئی کمی نہیں پیدا کی تھی۔۔۔وہ آج بھی ویسا ہی پروقار اور شاندار تھا۔۔۔جسکی مثالیں دنیا دیتی تھی۔۔۔۔۔جیسے آج تک اسکی زات کو کوئی سمجھ نہیں پایا تھا۔۔۔ویسے گہری آنکھوں میں چھایا خزن بھی اسکی زات کی مانند پراسرار تھا۔۔۔۔۔


اپنی زات کے ادھورے پن سمیت وہ شخص ایک پہیلی تھا۔۔۔جیسے سمجھنا ناممکن تھا۔۔۔۔ایسے کم ہی موقع آئے تھے جب اسے مسکراتے دیکھا گیا ہوا۔۔۔۔گزرے 6 سالوں میں وہ ایک مختلف شخصیت بن کر ابھرا تھا۔۔۔۔

ٹ دا ہیل اندھی ہو کیا؟؟؟۔۔۔یا یہ کوئی سٹنٹ ہے لوگوں کی اٹینشن حاصل کرنے کا؟؟۔۔۔۔ہنہ مڈل کلاس اٹینشن سٹنٹس۔۔۔۔"


حقارت اور تندہی سے اسکی زات کے پرخچے اڑاتے وہ اپنے فون کو نظرانداز کرتا مڑ گیا۔۔۔جبکہ وہ اسکے لفظوں سے خود کو زمین میں گھڑتا محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔بھوری آنکھیں پل میں بھر آئیں۔۔۔۔۔۔


" سٹاپ۔۔آئی سیڈ سٹاپ مسٹر۔۔۔"


تیزی سے کھڑے ہوتے وہ غم وغصہ کی شدت سے کانپتی آواز میں بولی۔۔۔اسکی آواز پر مقابل نا چاہتے ہوئے بھی رک گیا۔۔۔۔مڑا نہیں محض گردن موڑ کر اسکی طرف دیکھا جو بری طرح روتی اسکی طرف متوجہ تھی۔۔۔۔اسکی حالت نے اسے چونکایا۔۔۔۔نظر ٹھٹھک کر اسکی بھیگی بھوری آنکھوں پر جا ٹھہری۔۔۔۔


" کیا سوچ کر آپ مجھ پر یہ گھٹیا الزام لگا رہے ہیں؟؟؟۔۔۔۔۔"


وہ مٹھیاں بھینچ کر سنجیدگی سے بولی۔۔لہجے کے برعکس آواز کی لرزش نے مقابل کو مخظوظ کیا۔۔۔


" جو سچ ہے وہی بولا ہے۔۔۔۔اور اپنے ایسے حربے کسی اور پر آزمائو مجھ پر بے اثر ہیں۔۔۔۔سو ڈونٹ ویسٹ مائی ٹائم"


قدرے بے زاری سے بولتے وہ آگے بڑھا۔۔۔


" آپ سچ کیا بولیں گے؟۔۔۔۔آپ جیسوں کو میں بہت اچھی جانتی ہوں ۔۔۔۔بگڑے امیر زادے جھنیں عزت لفظ کے ہجے بھی معلوم نہیں ہوتے۔۔۔"


اپنے گال رگڑتے وہ سلگتے لہجے میں بولتی مقابل کی کنپٹیاں سلگا گئی۔۔ ۔وہ تپ کر پلٹا اور اسے گھورا جو جھک کر اپنی کتابیں سمیٹ رہی تھی۔۔۔۔


" ہئے یو کیا بولا؟؟؟۔۔۔۔۔۔ مجھ جیسوں سے کیا مراد ہے تمہاری ہاں؟۔۔۔۔"


وہ بھڑک کر بولتا اسکے نزدیک آیا۔۔۔۔اسنے نظر بھر کر اسے دیکھا جو بلیک جینز پر بلیو شرٹ اور بلیک لیدر جیکٹ میں ملبوس بالوں کے سپائیکس بنائے بلیو ٹسلز شوز میں اپنے ٹھٹھکا دینے والے نقوش اور ہائیٹ سے ماحول پر چھایا ہوا تھا۔۔۔۔ ارد گرد موجود سٹوڈنٹس اس نئے تماشے کے لیے رک گئے تھے۔۔۔۔


اسے یوں اپنے مقابل دیکھ کر اسکی سانس اٹکی۔۔۔۔اسکی خوبصورت آنکھیں اسے گھور رہی تھیں جس نے اسکا سارا اعتماد ہوا کر دیا۔۔۔۔۔


" کیا مطلب کیا بولا ؟؟۔۔۔۔ جو بھی بولا ہے سچ بولا ہے ۔۔۔اگر آپکو عزت کا پتا ہوتا تو مجھ سے ایسے بات نہیں کرتے۔۔۔مینرز بھی کسی چیز کا نام ہے۔۔۔۔۔"


دو قدم پیچھے ہٹتے وہ مظبوطی سے بولی۔۔۔


" او یو شٹ اپ۔ٹو ہیل ود یور مینرز۔۔ہمت بھی کیسے ہوئی تمہاری مجھ سے یوں بات کرنے کی ہاں۔۔۔۔آج تک کسی کے باپ کی اتنی جرآت نہیں ہوئی مجھ سے ایسے لہجے میں بات کرے۔ ۔۔اور تم دو ٹکے کی لڑکی مجھے عزت کی ڈیفینیشن بتا رہی ہو۔۔۔۔"


جھپٹ کر اسکا بازو دوبوچتے وہ غصے کی شدت سے غرایا۔۔اسکا لہجہ آگ برسا رہا تھا اور احساس توہین سے چہرہ سرخ تھا۔۔۔اسے اپنے بازو میں اسکی انگلیاں گھڑتی محسوس ہوئیں تھیں۔۔۔ اسکی سلگتی سانسوں نے دل کی دھڑکنیں روکیں۔۔مگر لفظوں میں موجود حقارت نے اسے پوری ہستی سمیت منہ کے بل گرا دیا۔۔۔زلت کے احساس سے پل میں چہرہ متغیر ہوا۔۔۔آنکھیں سمندر بن گئیں۔۔اتنی زلت کا اسنے تصور بھی نہیں کیا تھا۔۔مگر وہ شخص اسے دو منٹ میں اسکی اوقات باور کروا گیا تھا۔۔۔۔


" بکواس بند کریں اپنی اور چھوڑیں میرا بازو۔۔۔۔۔" لب بھینچ کر خود پر قابو پاتے وہ بھرائی آواز میں مزاحمت کرتے ہوئے بولی مگر مقابل نے اسکا دوسرا بازو بھی جکڑتے اسکی ساری مزاحمت ناکام کر دی۔۔۔۔انکے درمیان فاصلہ ناہونے کے برابر رہ گیا جس نے اسے خوفزدہ کر دیا تھا۔۔۔۔اردگرد موجود سٹوڈنٹس کی دبی دبی ہنسی دیکھتے وہ زمین میں دفن ہونے کی دعائیں کررہی تھی۔۔۔۔۔۔


" سے سوری۔۔۔۔ آئی سیڈ سے سوری رائیٹ نائو۔۔ڈیم اٹ۔۔۔۔۔۔"


اسے مزید اپنے قریب کرتے وہ سرخ آنکھوں سے غرایا ۔۔۔اسکی قربت نے اسکا پورا وجود دہکا دیا۔ ارد گرد کے ماحول اور اسکی ڈھٹائی نے اسکی ساری مصلحت کی کوششیں ناکام کر دیں۔۔۔۔


اپنی پوری جان سے اسے دھکا دیتے وہ خود کو آزاد کروا گئی۔۔۔پیچھے ہٹتے کھینچ کر دائیں ہاتھ کے تھپڑ سے اسکا گال سلگا دیا۔۔۔۔ اور اسکے دھکے پر وہ ابھی سنبھلا بھی نہیں تھا کہ اسکے تھپڑ نے اسکے چودہ طبق روشن کر دیے۔۔۔۔۔اپنے گال پر ہاتھ رکھے وہ ہلکا سا جھکا۔۔۔۔۔


" ڈونٹ یو ڈئر۔۔۔۔"


انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتے وہ بھیگی آنکھوں سے مظبوط لہجے میں بولی۔۔۔۔۔بدن کپکپا رہا تھا مگر لہجہ مظبوط تھا۔۔۔۔


"ہائو ڈئیر یو۔۔۔۔۔۔ یو ول پے فار اٹ ۔۔۔۔آئی ول نیور فارگیو یو فار دس۔۔۔۔۔"


اسکے قریب ہوتے وہ قدرے جھک کر سرسراتے لہجے میں بولا۔۔۔۔احساس توہین سے بایاں گال سلگ رہا تھا۔۔۔اور آنکھیں ضبط کی شدت سے دہکتیں سرخ ہو چکیں تھیں۔۔۔۔اسکے لہجے میں موجود غراہٹوں نے اسکی ریڑھ کی ہڈی سنسنا دی۔۔لمحے کے ہزارویں حصے میں اسے اپنی فاش غلطی کا ادارک ہوا تھا۔۔۔۔


" اسامہ سٹاپ یار۔۔۔۔چھوڑ دے اسے ۔۔۔۔"

اس سے پہلے وہ غصے کی شدت سے پاگل ہو کر اسکا گلا دبوچ لیتا پیچھے سے بھاگ کر آتے حیدر نے سرعت سے اسے تھام لیا۔۔۔۔۔


" چھوڑ مجھے ۔۔۔۔۔چھوڑ مجھے اسے بتانے دے اسنے کیا کیا ہے۔۔۔۔۔۔لیٹ می گو حیدر۔۔۔۔۔"


اسکی گرفت میں مچلتے وہ اسے سرخ آنکھوں سے گھورتا کسی زخمی شیر کی مانند غرایا تھا۔۔۔۔۔۔


اسکی آنکھوں میں جنون کا طوفان اٹھتے دیکھ زری صیحح معنوں میں گھبرائی تھی۔۔۔۔


" نو اسامہ لسن سٹاپ دس نانسنس۔۔۔۔سٹاپ اٹ۔۔۔۔لیو ہر۔۔۔۔"


اسامہ کو مزید آپے سے باہر ہوتے دیکھ حیدر بھی غصے سے غرایا تھا۔۔۔مگر وہ تھا کہ کسی طور اسکے شکنجے سے نکل کر زری کی گردن دبوچنا چاہتا تھا۔۔۔۔سرخ آنکھیں زری کو دیکھتیں سلگ رہیں تھیں۔۔۔اور اسکی طرف دیکھتی زری کا رواں رواں کانپ رہا تھا۔۔۔۔۔


" پل۔۔۔پلیز۔۔۔۔مم۔۔میں نے جا۔۔جان بوجھ کر نہیں کیا۔۔۔۔۔۔"


بہتے اشکوں سمیت وہ بڑی مشکل سے بول پائی۔۔۔۔۔حیدر کی گرفت میں مچلتا اسامہ اسکی بھیگی آواز سن کر پل میں ساکت ہوا تھا۔۔۔۔۔


" وہاٹ یو مین ہاں۔۔۔۔سرے عام اسے تھپڑ مار کر تم کہہ رہی ہو کہ تم نے جان بوجھ کہ نہیں کیا۔۔۔۔۔"


حیدر اسکے روئے روئے چہرے کو دیکھتا تنک کر چیخا ۔۔جبکہ اسامہ ہنوز ساکت تھا۔۔۔۔۔۔

بھیگی بھوری آنکھیں،سانولی رنگت عام سے نقوش کچھ بھی تو خاص نہیں تھا۔۔۔مگر کچھ تھا۔۔۔۔۔کچھ تو تھا۔۔۔۔غور سے اسے دیکھتے حیدر کو پیچھے جھٹک کر وہ جھٹکے سے خود کو آزاد کرواتے مڑ کر نکلتا چلا گیا۔۔۔زری کو ملامتی نظروں سے دیکھتے حیدر بھی اسکے پیچھے بھاگا تھا۔۔۔۔۔۔اور پیچھے اپنی ٹانگوں کو بے جان محسوس کرتے زری بیٹھتی چلی گئی آنسو بھل بھل بہہ رہے تھے۔۔۔۔ارد گرد موجود سٹوڈنٹس بھی نکلنے لگے ۔۔۔آخر تماشہ ختم جو ہو چکا تھا۔۔۔۔مگر زری جانتی تھی کہ تماشہ ختم نہیں ہوا تھا۔۔۔۔۔۔





"اپنی جان بچانے کا حق ہر انسان کے پاس ہے۔۔۔۔ ہر کوئی تمہاری طرح سرپھرا نہیں ہوتا۔۔۔ تم تو دوسروں کی جانیں چھیننے کے عادی ہونا۔۔۔ تو پھر تم نے کیوں اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر مجھے بچایا۔۔۔ وہ اتنے سارے لوگ تھے آسانی سے تمہیں مار سکتے تھے۔۔۔؟؟"

سفیان اُسے ڈھونڈتے آگے نکل گیا تھا۔۔۔۔ جب پریسا نے اُس سے فاصلہ برقرار رکھتے اپنی حالت نارمل رکھنے کی کوشش کرتے یہ سوال کیا تھا۔۔۔ اُسے اب نجانے کیوں اِس شخص سے خوف محسوس نہیں ہورہا تھا۔۔۔ جو اُس کی خاطر اپنی جان مشکل میں ڈال سکتا تھا۔۔۔ وہ بھلا اُسے کیسے نقصان پہنچا سکتا تھا۔۔۔

"اپنی جان ہی کو بچایا ہے۔۔۔۔"





Janoon E Ulfat Novel Famous By Mehwish Ali 


نگار میری بات۔۔۔۔"آآ۔۔آپ شش۔۔شاہو۔۔ماما سے بات کیوں نہیں کرتے وہ رو رہی ہیں آپکے لئے۔" خوف سے زرد پڑتی ہاتھ مسلتی ہوئی وہ روتی جانے کیسے ڈرتے اسکے روم میں قدم رکھتی خسامنے بیڈ پر بیٹھے ساحل شاہ کو دیکھتی منت بھرے لہجے میں گویا ہوا۔


اپنے روم میں اچانک سے سسکتی آواز پر اسنے سرخ غصے سے لہو ہوتی آنکھیں اس سمیت اٹھائیں جہاں سے یہ آواز ابھری تھی۔ پر دوسرے پل سامنے کھڑے وجود کو دیکھتے اسکی آنکھوں میں جیسے دنیا جہاں کی نفرت کا ابال امڈ آیا۔


"شاہو۔۔۔"

وہ شاکڈ کیفیت میں اس چھوٹی کانپتی تیز تیز سانسیں لیتی لڑکی کو دیکھتا بڑبڑایا۔


لبوں سے نام ادا ہوتے ہی سامنے چھناک سے مہکار کا سراپا لہرایا، ساتھ ایک پرانی یاد جب وہ کبھی موڈ میں ہوتی اسے "شاہو" کہہ کر بلاتی تھی۔

اور آج اسکی ہی پالی ہوئی بیٹی اسکے سامنے کھڑی اسے شاہو بلا رہی تھی یہ جانے بنا کہ اسے کس قدم نفرت ہے اس نام سے اور ان دونوں کے وجود سے۔

اسکا بس چلے تو بھڑکی بھٹی نذر کردے انکے وجود کو اور یہ لڑکی التجائیں کرنے آئی تھی کہ "اسکی مام کو بچالو۔۔۔"


اس ساحل شاہ سے جسکی اول وآخر خواہش تھی کہ وہ عورت تڑپے تاکہ اسکے وجود کو اسکی روح کو سکون ملے۔ جس طرح وہ تڑپا تھا پل پل اسکے لئے پر وہ نفس کی پوجارن، کبھی اسکی طرف پلٹ کر نہیں دیکھتی تھی آج اسکی زندگی کی بھیک کیلئے سب بار بار اسکے در پر آرہے تھے تو کیا ساحل شاہ یہ موقعہ جانے دیتا۔


"دفع ہوجاؤ مریضہ!"دفعتاً اسے دیکھتے اسکا ضبط جواب دے گیا وہ غصے حقارت سے غرایا ساتھ ہی سائیڈ ٹیبل پر رکھا ٹائم پیس اٹھا کر ٹھا کے ساتھ ہی دیوار پر دے مارا۔۔

وہ جو پہلے ہی اس کے خوف سے تھرتھر کانپ رہی تھی دیوار پر اس اچانک حملے سے اٹھتی ٹھاہ کی آواز سے اسکی چیخ وحشتناک تھی۔۔۔


"ماما۔۔۔!!!" وہ روتی چیختی سہم کر دروازے سے لگی۔

"جاؤ دفع ہوجاؤ ورنہ یہ اب ٹیبل اٹھا کر تمہارے سر پر دے ماروں گا۔۔ شکل دفع کرو اپنی نفرت ہے مجھے تم دونوں ماں بیٹی سے۔" بیڈ سے اتر کر وہ اسکی طرف بڑھتا ساتھ آپے سے باہر غرا رہا تھا۔


حقیقت یہی تھی کہ انکے بارے میں سوچتے سنتے وہ آپے سے باہر ہوجاتا تھا۔ اسکا غصہ اسکی نفرت اسکے کنٹرول سے باہر ہوجاتی تھی۔

اور اب تو وہ بالکل سامنے آکر اس وجود کی اس سے بھیک مانگ رہی تھی جو کہ دنیا کا سب سے ناگوار وجود تھا اسکے لئے۔

"مم۔۔مممیں۔۔جا۔جاتی۔۔ہوں۔۔شش۔شاہو۔۔م۔مجھے۔۔مت۔۔ما۔مارو۔۔۔" اسکی سانسیں پھولنے لگیں حد سے زیادہ اسکا نازک سراپا لرزتا ہوا ابھی زمین بوس ہونے لگا تھا۔

جیسے جیسے اسکے قدم اپنی طرف بڑھتے دیکھ رہی تھی ویسے ہی اسے اپنی موت اپنی سمیت چلتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ اسے اندازہ ہوگیا کہ اسنے کتنی بڑی غلطی کردی اسکے روم میں اسکے پیچھے آکر۔۔


پر وہ تو اسے بتانا چاہتی تھی کہ مام ہم دونوں سے بہت پیار کرتی ہیں بلکہ روحا سے زیادہ وہ ساحل شاہ سے پیار کرتی ہیں۔ اپنے شاہو کو وہ نہیں بھول پارہی۔ پر مقابل چلتا آرہا اسکی مام کے "شاہو" کا انداز دیکھتے اسکی آنکھوں کے سامنے موت ناچ رہی تھی۔


"مم۔۔میں۔۔نہیں۔کہتی۔۔کچھ۔۔ وو۔۔وہ۔۔ص۔۔صرف۔۔آپکی۔۔ہیں۔۔مم۔۔مام۔۔۔" اسنے روتے اسے اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر نفی کرتی سامنے ہاتھ جوڑ گئی۔۔


"نفرت کرتا ہوں میں تم سے سمجھی بےتحاشہ نفرت کرتا ہوں بےانتہا تم دونوں سے۔۔" وہ اسکے سر پر پہنچ کر حلق کے بل غرایا۔۔

"آہ۔۔۔مام۔۔۔"اسکی غراہٹ پر روحا چیخ کر اچھل پڑی


"شٹ اپ نہیں وہ تمہاری مام سمجھی۔۔" اسکا منہ دبوچ کر وہ چیخا اس پر۔

"وہ۔۔۔وہ۔۔ہماری۔۔مام۔۔ہیں۔۔" اسنے روتے اپنا چہرہ چھڑوانے کی کوشش کرتے نڈھال ہوکر سمجھانا چاہا۔

چٹاخ۔۔۔ اچانک اسکے گال پر پڑنے والا تھپڑ اس قدر زوردار تھا کہ اسے لگا اسکا دماغ گھوم گیا ہے۔۔پل کیلئے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔

سینت سینت مہکار شاہ کی آغوش میں پلتی آئی وہ نازک کمزور سی روحا شاہ آج انکے پےھر دل بیٹے کی نفرت کی آگ میں جل رہی تھی۔


"نہیں وہ ہماری مام! نا میری نا ہی تمہاری۔۔ اگر تمنے آئندہ اسے مام کہا تو میں تمہاری جان لے لوں گا۔۔ مٹھی میں تنہاری زبان نوچ لوں گا۔ دور رہو اس سے۔ تڑپنے دو اسے مرنے دو اسے جس طرح اسنے مجھے مارا ہے۔۔۔" وہ زور سے اسے دروازے سے لگاتا پاگل بنا غرا رہا تھا۔۔۔


"نہیں۔۔و۔۔۔وہ۔۔۔میری مام۔۔ہیں۔۔۔شاہو۔۔۔" وہ خوف سے تھر تھر کانپنے کے باوجود اس پر چیخی جس سے مقابل کی آنکھوں خون اتر آیا۔

اسکی دہشت کے خوف سے اس چھوٹی سی لڑکی کا استھما بڑھ گیا اور وہ بری طرح کھانستی اسکی پکڑ میں مچلتی اپنی مام کو چیخ چیخ کر بلانے لگی۔


"ممم۔۔مم۔۔میرا۔۔انہیلر۔۔۔۔" اسنے ہاتھ دروازے پر مارے اسکے کندھوں پر مارے۔۔

اسے بری طرح انہیلر کیلئے تڑپتے مچلتے دیکھ کر مقابل کے لبوں پر گہری مسکراہٹ بکھر گئی۔


پر اس حالت کے باوجود اسے پھر سے مام کی رٹ لگاتے، اپنے حکم کی نفی کرتے دیکھ کر بالکل پاگل ہوتا اسکی پتلی سی گردن کو دبوچ گیا۔۔


"اگر آج تم مرگئی تو تمہارے ساتھ وہ بھی ہمیشہ کیلئے اس اذیت میں دبوچ لی جائے گی ایسے تڑپے گی جس طرح میں تڑپا ہوں جس طرح مجھے تکلیف ہوتی تھی۔" اسکی پکڑ مضبوط ہوگئی اسکے نازک سی گردن پر۔۔


"تمنے اپنی موت خود چنی ہے میرے راستے آکر۔ تمہیں موت بھی میں اپنی مرضی کی دوں گا روحا حیدر شاہ۔۔"


"میں شاہو نہیں تمہارا دشمن ہوں۔۔"

اسکے کان میں سرگوشی کے انداز میں سور پھونکتے اسنے ہاتھ کا دباؤ بری طرح سے بڑھا دیا اسکی گردن پر کہ وہ پھڑپھڑا اٹھی کسی ذبح بےقصور ہرنی کی مانند۔


"نن۔۔نہیں۔۔شش۔۔شاہو۔۔نن۔نہیں۔۔" پھولتی دبتی ہوئی سانس، اسکے منہ سے سفید جاگ کے ساتھ جانے کیسے یہ التجا لبوں سے آزاد ہوئی۔۔


"کہاں لے جارہے ہو مجھے؟؟" زخموں سے چور بدن لیے وہ بازو میں سخت گرفت ہونے کی وجہ سے مزاحمت کے سارے راستے بند دیکھ کر مقابل کے ساتھ تقریباً گھسیٹتا ہوا جارہا تھا۔

اسکے سوجے حلق سے بمشکل نکلے سوال کو بری طرح نظرانداز کیا گیا تھا۔


"کہاں لے جار۔۔۔ر۔رہے ہو۔۔چھ۔۔چھوڑو۔۔مجھے۔۔جانے۔۔دو۔۔" وہ سخت مزاحمت کی کوشش کرنے لگا پر اسے بازو کو زوردار جھٹکا دیا گیا جسکے ساتھ ہی اسکے وجود میں درد کی ایک خطرناک لہر اٹھی جو پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ ساتھ ہی حلق سے ایک دلخراش چیخ ابل پڑی۔۔


"چپ کرکے چلو ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔" مقابل اسکی مزاحمت دیکھا ایک زوردار تھپڑ اسکے پہلے سے زخمی پھٹے گال پر مارتے ہوئے جھٹکا دیکر بولا۔۔

"آہہہ۔۔" اسکی درد بھری سسکی فضا میں گونج اٹھی۔ سب نے اپنی سانسیں حلق میں دبا لی کہیں انکی موجودگی کا احساس کرتے اس کو چھوڑ کر انہیں نا اٹھالیں۔۔


پر یہ بھی جانتے تھے اسکے ساتھ کوئی دشمنی ضرور تھی جسکی بنا پر وہ اس پر اس قدر بےرحمانہ تشدد کر رہے تھے۔ وہ جانے کیسے برداشت کر رہا تھا اگر اسکی جگہ کوئی اور ہوتا تو کب کا اپنی سانسیں ہار چکا ہوتا۔

افسوس یہ کہ وہ یتیم تھا اسکے اپنوں میں کوئی نہیں تھا نا ہی اسے یہاں جہنم سے بچانے والے تھے۔ سیکنڈ سیکنڈ میں اسکے وجود کو بڑی طرح زخمی کیا جاتا، جگہ جگہ سے چیر کر اس میں نمک مرچ بھرتے اسے اذیت سے چیختے دیکھ کر اسکی ویڈیو بنائی جاتی۔ وہ جانے کس روح کو سکون پہنچا رہے تھے۔


جانے کیسی دشمنی تھی اس معصوم کے ساتھ کہ اسکا پور پور لہولہان کردیا تھا۔ اسکے منہ پر مکے مارنے سے اب مسلسل تھوک کی جگہ لہو ٹپک رہا تھا۔ ناک سے بھی ٹپک ٹپک کر بہہ رہا تھا۔ وجود پر ایک لہو سے نم پھٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی اور آنکھیں مسلسل درد پر رونے سے دھندلی ہوچکی تھیں کہ اسے احساس نہیں تھا رات ہے یا صبح۔۔


کچھ دیر پہلے وہ اس اندھیرے میں ڈوبے روم میں پڑے کراہ رہا تھا جہاں سے اب اسے نکال کر باہر گھسیٹتے ہوئے کسی اور جگہ منتقل کرنے کیلئے جارہے تھے۔

اسکی مزاحمت بےکار تھی کیونکہ اب اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ کسی بچے سے بھی لڑ سکے۔ اسکا پور پور لہو سے نہایا ہوا درد سے سن تھا۔

اسکا دماغ کام کرنے سے انکاری تھا وہ جتنی اذیت برداشت کرچکا تھا وہ بھی اسکے لئے داد کی بات تھی۔ پر اب وہ ناکام تھا۔ اپنے وجود کے ہرعضوے سے۔

وہ کسی بھی طرح کی مزاحمت نہیں کر پارہا تھا۔

جانے کتنی مسافت طے کرکے آیا تھا پر اسے احساس نہیں تھا۔ اسے لاکر ایک جگہ ہر بری طرح زور سے زمین پر مارا گیا۔


"آہہہ۔۔۔۔" ایکدم سر یخ بستہ فرش پر لگنے سے وہ خود میں سمٹ کر زوردار چیخ مارنے لگا۔

"چپ کر **** ورنہ ابھی ہاتھ منہ میں ڈال کر حلق نوچ لیں گے۔" اسکی چیخ پر ایک زوردار بوٹ میں مقید پاؤن کی بھاری ٹھوکر مارتے وہ آدمی غرایا۔

پر فرش پر بہتے خون، سر کو گھومتے زوں زوں کی آواز کانوں میں محسوس کرتے وہ چیخنے رونے لگا زمین پر ایسے جیسے کوئی بن پانی کی مچھلی تڑپے۔


"تجھے سمجھ نہیں آئی *** چپ کر ورنہ گلا ابھی کاٹ دوں گا۔" اپنی غراہٹ کا اس پر اثر نا دیکھتے مقابل نے غیظ وغضب میں اسکے وجود پر در پے در لاتیں ٹھوکریں مارنا شروع کردی۔

ساتھ ہی غلیظ گالیاں بکتے اسکے پھٹے خون سے نم بالوں کو مٹھی میں جکڑلیا۔

"درد ہورہا؟؟؟ بہت درد ہورہا ہے نا تمہیں؟؟ پر درد اسے نہیں کہتے۔۔۔ درد سے تو تجھے اب روشنا کروائیں گے کہ درد اصل میں ہوتا کیا ہے۔۔۔"

وہ اسکے مٹھی میں جکڑے بالوں سے اسے گھسیٹ کر کچھ آگے آئے۔۔۔

فضا میں اسکے ساتھ ہی دردناک چیخیں بلند ہوگئیں، اسکے وجود کی ساری رگیں درد سے سکڑ گئی تھیں جس سے اسے بےحد تکلیف ہورہی تھی۔ نا صرف ہاتھوں پاؤں کی رگیں بلکہ چہرے ماتھے سر کی رگیں بھی درد سے اسکی روح کو نوچنے لگی۔۔


"ماما۔۔۔مم۔۔۔ما۔۔ماما۔۔۔" فرش کو نوچنے کی کوشش کرتا وہ چیخ کر مدد کیلئے اپنی ماں کو بلانے لگا۔۔ "پپ۔۔پاپا۔۔۔۔" اسکی دردناک چیخیں مزید بلند ہوئیں ساتھ مقابل کے قہقہے بھی۔


"کوئی نہیں آئے گا نا ماما نا ہی پاپا۔۔ تجھ جیسے حیوان وحشی سے وہ رشتہ ختم کر چکے ہیں۔ تجھے ہمارے حوالے کردیا ہے۔۔۔ انہوں نے تجھ سے جڑے ہر انسان نے رشتہ ختم کردیا ہے بلکہ تجھے ایسی موت مارنے کا حکم دیا ہے تمہارے باپ نے کہ وہ آنے والی نسل کیلئے ایک عبرتناک مثال بن جائے۔۔"

پیشانے سے اوپر اسکے بال مٹھی میں جکڑ کر جھٹکا دیتے سر اونچا کیا اور بڑے خوفناک انداز میں قہقہہ لگاتے اسکے کانوں میں سور پھونکا۔۔

جسے سنتے ہی وہ وجود درد کراہ آہ سب بھول کر خاموش ہوگیا۔۔


"تجھے مار کر تمہارے وجود کو ٹکڑوں میں کاٹ کر کتوں کے حوالے کریں گے۔ یا تجھے پاگل کرکے ایسی موت دیں گے جس سے ہم پر کوئی الزام نا آئے بلکہ یہ خودکشی قرار دی جائے ہاہاہاہا۔۔"

وہ اسے اپنے ارادوں سے آگاہ کرنے لگا۔۔


"جھوٹ بولتے ہو تم بکواس کرتے ہو تم میرا باپ ایسا نہیں کرسکتا میری ماں مجھ سے بہت پیار کرتی ہے۔۔" وہ حلق بل چلایا۔۔ بس نہیں تھا ساری دنیا تہس نہس کردیتا۔


بھلا کوئی ماں باپ کیسے اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کو جہنم میں پھینک سکتے ہیں۔ ماں باپ تو وہ ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کی غلطی کے باوجود اسے سات پردوں کے پیچھے چھپا لیتے ہیں تو بھلا کیسے ممکن تھا اسکے ماں باپ خود اجازت دیتے کے اسکے وجود کا پور پور کاٹ کر اس میں کانچ کے ٹکڑے بھرے جائیں۔۔

ایک معصوم کم سن دماغ رکھنے والے کو ٹارچر کیا جائے۔ اسکے زخموں پر نمک مرچیں ڈال دی جائیں اسکے اوپر کبھی گرم تو کبھی یخ پانی ڈالا جائے۔ اسے دنیا کی ہر اذیت دینے کی بھرپور کوشش کی جائے بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ کوئی ماں باپ ایسے کریں۔۔


"حیوان **** وحشی تجھے ابھی امید ہے تمہارے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے؟؟" زوردار بوٹ کی ٹھوکر اسکے دائیں سائیڈ مارتے اس وجود کو زندہ قیامت کی سیر کروا کر آئے۔۔

"تجھ میں رحم ہے جو تو رحم کی بھیک مانگ رہا ہے؟؟؟"


"آہہہہہ۔۔۔" ایک درد میں ڈوبی دھاڑ اس زیرو پاور بلب کی روشنی والی کوٹھڑی کے در دیوار سے ٹکرا کر پورے روم میں گونجتی دم توڑ گئیں۔۔


"چیخے گا؟؟ اور چیخ دیکھتا ہوں کتنا چیخ سکتا ہے۔۔" مسلسل اسے غلیظ گالیوں سے نوازتے وہ بھاری بوٹ سیدھا اسکے چہرے پر رکھتے اسے زوردیکر کچلنے مسلنے لگا۔ اور اس بوٹ کی بےدردی تلے وہ نیچے اپنے پورے وجود سمیت تڑپنے لگا چیخنے لگا تھا۔


"میرے ماں بات ایسا نہیں کرسکتے بکواس کر رہے ہو تم۔۔" وہ اٹکتے درد کرتے گلے کے ساتھ مشکل سے یہ الفاظ ادا کرپایا۔۔۔


"بکواس بند کرو **** تمنے جو کیا ہے اس معصوم کے ساتھ اسکی سزا تمہارے لئے بھیانک ہوگی بہت بھیانک کہ آئندہ کوئی یہ سوچے تو اسکی روح کانپ جائے گی۔۔

یقین نہیں نا تمہیں کہ تمہارے ماں باپ نے تمہیں اس جہنم میں بھیجا ہے تو سنو اپنے کانوں سے۔" اسے غلیظ گالے دیتے ایک دماغ والی ٹھوکر رسید کرتے ہوئے وہ پوری کوشش میں تھا کہ دماغی توازن بگڑ جائے اسکا تاکہ اسے مارنا آسان ہوجائے۔۔


ایک نہیں بہت سے لوگوں کا پریشر تھا اس پر کہ ایسی سزا ملنی چاہیے اسے کہ وہ زندہ ہوکر بھی زندہ نا رہے بار بار موت کی دہلیز سے لوٹ کر آئے۔ اور ایسی ایسی اذیتیں ملنی چاہیے کہ انکے دیئے ہوئے پیسے فضول ضائع نا ہوں۔

وہ کراہیں آہیں بھر رہا تھا کہ دفعتاً موبائل سے گونجتی اس بھاری آواز کو پہچان کر تھم گیا سانس بھی مٹھی میں جکڑلیں۔۔ "ہیلو!"


"آپکا بیٹا آپ سے ملنا چاہتا ہے۔" زمین پر پڑا اپنی کراہیں گھونٹ کر، سانسیں دبائے بےحس وحرکت پڑا اپنے تمام کمزور حواسات، موبائل کے اس پار بیٹھے شخص کی چلتی سانسوں سے جوڑ چکا تھا۔ اسکے اگلے جواب سے جوڑ چکا تھا۔

نا جینے کی چاہ تھی نا مرنے کی بیچ میں سولی پر لٹکا وہ وجود ابھی ایک آس میں تھا۔ اس ممتا بھری چھاؤں کی آس میں تھا جسے سوچتے گزرے وقت اسکے آنچل میں منہ چھپائے سوتے یاد کرکے وہ بےآواز بےحرکت رونے لگا۔۔

وہ بےتحاشہ رونے لگا، جب خود کو اس مضبوط حصار گھنے درخت کی چھاؤں کے بجائے ممتا کی چھاؤں رحمتوں کے بجائے یخ بستہ فرش پر پھٹے کپڑوں لہولہان وجود سمیت پایا۔۔۔

دل کیا دھاڑیں مارے چیخے اتنا چیخے کہ اسکا حلق پھٹ جائے پر اسکی دھاڑے عرش الہٰی تک جا پہنچیں۔۔۔


"کس بیٹے کی بات کر رہے ہو؟" دوسری طرف سپاٹ سرد انداز میں انجان ہوکر پوچھا گیا۔ زمین پر اس وجود کے سینے میں جیسے خنجر پیوست ہوگیا۔ زخم گہرا پڑا تھا ادا ہوئے الفاظ سے پر نہیں ابھی ہمت نہیں ہارنی تھی۔ کیونکہ ابھی تو وہ استفسار کر رہا تھا۔

ضرور وہ اسے پیچان جائے گا۔


"وہ آپکا بیٹا جو ہمارے پاس ہے۔۔" مقابل نے نام لیکر اس سے آگاہ کیا۔۔

"معذرت آپ لوگوں کو غلط فہمی ہوگئی ہے میرا اس نام سے کوئی بیٹا نہیں۔" دوسری طرف نام سن کر بھی صاف اور بری طرح جھڑک کر انکار کردیا گیا جیسے حقیقت میں وہ اس سے واقف نا تھے۔


کیسے واقف نا ہوں گے وہ انکی بانہوں انکے کندھوں پر کھیلا ہے۔ سالوں ساتھ گزارے ہیں، اپنوں نے ہی تو نام رکھا تھا پسند سے آج اسی نام کو پہچاننے سے وہ انکاری تھے۔۔


"سر پلیز وہ آپ سے بات کرنا چاہتا ہے وہ پاگل ہورہا ہے اپنے ماں باپ کیلئے مسلسل چیخ چلا رہا ہے۔ سب کو پیٹ مار رہا ہے۔۔ زخمی ہوگیا ہے۔۔ اپنے ماں باپ سے بات کرنے کیلئے تڑپ رہا ہے ہمیں ہماری ڈیوٹی نہیں کرنے دے رہا" وہ آدمی اسکے پاس بیٹھا ہرممکن کوشش کرتا کہہ رہا تھا جس سے ممکن ہو مقابل اس سے بات کرلے۔


"یہ تم لوگوں کا سر درد ہے جب میں کہہ رہا ہوں میرا اس نام سے کوئی بیٹا نہیں تو کیوں تنگ کر رہے ہو؟ ہم دونوں میاں بیوی اس نام کے کسی بیٹے کو نہیں جانتے نا ہی ہمارا اس نام سے کوئی بیٹا تھا یا ہے۔

اب اگر ہمیں دوبارہ کال کرکے ڈسٹرب کیا گیا یا میری غیرموجودگی میری بیوی کو تنگ کیا تو اگلی بار میں کال لگاؤں اور ایسی جگہ لگاؤں گا کہ تمہیں دوبارہ یہ ایرے غیرے کی ہمدردی کا بخار نہیں چڑھے گا۔" غراتے نفرت سے کہہ کر ٹوں ٹوں کرتی آواز سے موبائل آف ہوگیا تھا۔


موبائل آف ہوتے ہی کوٹھڑی میں گہرا سکوت چھا گیا۔

"نا ماں نا باپ، نا اپنے نا ہی پرائے ہاہاہاہا۔۔۔"

ایک زوردار مکروہ قہقہہ فضا میں گونجا اور اسکے ساتھ ہی اسکے بال مٹھی میں جکڑ لیے گئے۔۔


"اب تمہیں معلوم ہوگی اذیت کیا ہوتی ہے۔"

دفعتاً کسی جنگلی جانور کی طرح غراتے ہوئے بالوں کو جھٹکا دیا ساتھ کوئی سخت چیز اسکے منہ میں ڈال کر اسکی آواز کو حلق میں دبا دیا گیا۔ اور اسکے ساتھ ہاتھ باندھتے ہوئے اسکے وجود پر قہری ستم برپا کیا گیا کہ کوٹھڑی کے یخ بستہ فرش پر وہ کسی بن پانی کی مچھلی کی طرف تڑپتا اس زیادتی پر چیختا چلاتا کی مزاحمت کر رہا تھا۔

اسکی روح کانپ رہی تھی اسکا وجود نوچا جارہا تھا کیسا ظلم کیسا ستم تھا اپنے ہوکر بھی کوئی اپنا نہیں تھا۔ وہ تن تنہا حیوانوں کے بیچ آگیا تھا۔ جہاں اس سے اذیت پر چیخ چلانے کا بھی حق چھین لیا گیا تھا۔

وہ نوچا جارہا تھا، اسکا پور پور جیسے کتوں کے منہ میں تھا، نا کوئی اپنا تھا نا ہی اسے بچانے کیلئے پرایا۔

اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا پر اس اندھیرے میں جانے سے پہلے اسکے سامنے ایک ایک کرکے سارے چہرے لہراتے گئے۔

جوکہ اس سے اپنے ہونے کا احساس منٹوں سیکنڈوں پلوں میں چھین کر اس پر ہر قسم کے ظلم کی اجازت دے چکے تھے۔

درندہ اپنی دردنگی میں لگا ہوا تھا، دیکھتے دیکھتے اسکے حلق کی غوں غرر دب گئی اور مزاحمت بےدم ہوکر دم توڑ چکی تھی۔

ہرسوں مکمل اندھیرا چھا گیا۔ اسکی زندگی میں بھی اور آنکھوں میں بھی۔۔

☆☆☆☆☆☆☆


"کیا ہوا طبیعت ٹھیک ہے سائیں کی جان؟" تلاوت کے بعد اسے واپس بیڈ پر لیٹتے دیکھ کر صائم پریشان اسکے پاس آگئے۔ عموماً وہ تلاوت کرنے کے بعد ناشتہ تیار کرنے چلی جاتی تھیں۔


"جی ٹھیک ہوں سائیں آپ پریشان نا ہوں۔ بس کل ایک سیرئیس کیس میں ساری رات دن جاگنے سے ہلکا سا سر درد ہورہا ہے۔" لبوں پر مسکراہٹ سجاتے سامنے پریشان کھڑے اپنے شریک حیات کو مطمئن کرنا چاہا۔۔

پر جانتی تھیں سامنے کوئی عام نہیں جسے ٹالا جاسکے بلکہ اسکا سائیں تھا جو اسکی رگ روح سے واقف تھا۔


"یہ ہلکا سر درد ہے تمہاری آنکھیں پوری سرخ ہورہی ہیں! تمہیں اتنا تیز سر درد ہے اور تمنے مجھے بتانا ضروری نہیں سمجھا تقویٰ؟؟؟" اسکی لاپرواہی پر وہ غصے سے بولتے سر سے ٹوپی اتار کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتے فوراً سے پاس آکر بیٹھ گئے۔


"آپ خوامخواہ پریشان ہورہے ہیں سائیں میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔ آپ کو خود ابھی ہاسپٹل جانا ہے میں ٹھیک ہوں جاتی ہوں ناشتہ ت۔۔۔۔" وہ ابھی کہہ ہی رہی تھیں کہ ایکدم صائم نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔


"تم زیادہ نہیں بولنے لگی مولانی؟ جب کہہ رہا ہوں چپ تو کیوں مزید بحث کر رہی ہو؟ خاموش رہو اور مجھے اپنا کام کرنے دو اگر ذرا سی مزاحمت کی تو مجھے سے سائیں کے روپ کی توقع مت رکھنا۔۔" انہوں نے غصے سے وارن کرتے تقویٰ کا سر اٹھا کر اپنی گود میں رکھ دیا۔۔


شدید سر درد ہونے کے باوجود اپنا سر انکی گود میں دیکھ کر شروع کے دنوں کی طرح آج بھی تقویٰ کے چہرے کے خدوخال میں سرخی دوڑ گئی۔

جسے چھپانا اسکے لئے بےحد مشکل تھا۔ "آپ تو ایسے ری ایکٹ کر رہے ہیں سائیں جیسے جوان ہوں۔" وہ کہہ کر منہ بنا گئی۔

"بھول رہے ہیں آپ کے بچے جوان ہیں یہ انکی عمر ہے اپنی بیویوں کے لاڈ اٹھانے کی ناکہ آپکی۔۔"


سر دباتے صائم نے گھور کر اسکی بھوری آنکھوں میں دیکھا۔ یہ کیا بونگا لاجیک تھا۔


"تم یہ جو مجھے بڑھاپے کے طعنے دینے لگی ہو میں بتا رہا ہوں مولانی سر پھرا سا آدمی ہوں اسکا ری ایکشن دیکھو گی تو منہ چھپاتی اس عمر میں پھرو گی۔" وہ غصہ دباتے بولے۔


"ویٹ ویٹ آپکا "اس عمر" سے کیا مراد ہے؟ اور یہ میں کیوں منہ چھپانے لگی؟" وہ اٹھنے لگیں پر صائم نے اسکی کوشش نا کام کردی واپس گرا لیا سر گود میں۔


انکے لبوں پر گہری مسکراہٹ آ گئی جسے دیکھتے تقویٰ الجھی۔


"اس عمر سے مراد یہی ہے کہ تم ابھی وہ پہلے والی مولانی تو نہیں رہی نا میرے ساتھ تو تمہاری بھی عمر بڑھ رہی ہے۔اور منہ چھپانے کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنی جوانی کا ثبوت دوں گا تمہیں تو ضرور نتیجہ بھی نکلے گا نا منے منی کی روپ میں سائیں کی جان۔" انکی وضاحت نے تقویٰ کا حیا سے چہرہ سرخ کردیا۔


"وہ دراصل مجھے ایسا فیل ہورہا ہے توقیع کافی اکیلی ہوگئی ہے۔ اب دیکھ لو ہم دونوں کبھی گاؤں چلے جاتے ہیں جاب کیلئے تو کبھی ادھر ہاسپٹل میں، صام کو تو فرصت نہیں اپنی میٹنگز بزنس سے، کبھی ایک سٹی تو کبھی ایک کنٹری۔

صارم تو ہی ہے تمہاری کاپی اگر جاب نہیں تو کتاب میں منہ گھسائے بیٹھا ہوتا ہے ایسے میں میری پرنسس بالکل تنہا ہوگئی ہے۔ میں چاہتا ہوں اسے اسکی کوئی دوست ایز اے گفٹ دی جائے۔ تمہارا کیا خیال ہے اس بارے میں؟؟" بڑی سی تمہید باندھتے ہوئے وہ آخر میں معصومیت سے اپنے مطلب پر آیا۔


"دور رہیں نہیں چاہیے کیئر۔۔ کوئی نہیں وہ اکیلی عرشیہ ہے اسے ساتھ آپکو تو بس موقعہ چاہیے نا عمر کا لحاظ نا ہی وقت کا۔" وہ شرم خفگی سے جھڑکتی انہیں پیچھے دھکیلنے لگیں جس پر صائم کا قہقہہ زوردار تھا۔


"کیوں یار؟؟ میں کون سا ابھی ہی ثبوت دے رہا ہوں جو تم یوں بھاگ رہی ہو ابھی تو میں اپنی جان کا سر دبا رہا ہوں۔ کوئی جلدی نہیں فرصت سے سوچ کر جواب دینا۔۔ پر اس پہر کوئی بہانہ کیا تو ڈبل ثبوت دوں گا پھر دیتی رہنا اپنے بچوں کو جواب۔" وہ اپنی نیلی پرشوق شرارت بھری نظریں اسکے اناری رنگ چہرے پر ٹکائے بولتے لب دبا گئے۔


"سائیں قسم سے بہت۔۔۔۔۔" وہ کہتی کہتی خاموش ہوگئیں اور اپنے ہاتھ کا مکا سیدھا صائم کے سینے پر مارا جس سے ایک بار پھر جاندار قہقہہ روم کی فضا میں گونج اٹھا۔


عمر کے ساتھ ہی وہ کافی شریر ہوگئے تھے، جس سے تقویٰ کی جان ہلکان رہتی چوبیس گھنٹے۔ ہاسپٹل میں تنہائی ملتی تو وہاں چھیڑ چھاڑ اگر گھر میں ہوتے تو یہاں بھی۔


اور موقعہ پاتے ہی بس اس اسرار میں ہوتے کہ "کچھ غور وفکر کرو توقیع اکیلی ہوگئی ہے کافی"


"یہی کہنا چاہتی ہو نا سائیں قسم سے بہت رومینٹک ہیں۔" انہوں نے کہنے کے ساتھ جھک کر اسکے ماتھے پر لب رکھے جنکی نرماہٹ تقویٰ کی رگ وروح میں سکون بن کر اتر گئی۔

وہی اسخنکے بےباک جملے سے وہ جھینپ گئی۔


"نہیں یہ کہہ رہی تھی کہ صمصام کی شادی کروادیں اسکے بچے آئیں گے تو سب کا اکیلا پن ختم ہوجائے گا۔" وہ ہنس کر بولیں۔ صائم کا اسکے مشورے پر منہ اتر گیا۔


"یار میں اتنی جلدی داد نہیں بننا چاہتا ابھی تو مجھے باپ کی بڑی منزلیں طے کرنی ہیں۔" انہوں نے جھٹ سے انکار کردیا۔ جوکہ تقویٰ کیلئے کسی شاک سے کم نہیں تھا۔


"سائیں؟؟؟" اسنے صدمے سے پکارا۔۔۔

"سائیں کی جان اپنی بات کرو!" انہوں نے نثار ہوتی نظروں سے اسکے چہرے کو حصار میں لیتے کہا کہ وہ پور پور سرخ ہوگئی۔


وہ خوش بخت عورت تھی جو تلاوت اللہ کی رحمت کے بعد اپنے شوہر کی محبت پاتی تھی۔ اس پر اللہ کی رحمت اور اسکے شریک حیات کی عنایتیں تھیں۔ وہ خود پر جتنا ناز کرتی کم تھا۔ اللہ سے ہمہ وقت دعا گو تھیں کہ انکی اولاد کے ہمسفر بھی یونہی چاہنے والے ہوں

جیسے ابھی وہ تقویٰ کا سر گود میں رکھے تیل میں انگلیاں ڈبو کر اسکے بالوں کی جڑوں میں مالش کرکے اسے سکون پہنچا رہے تھے۔


اسکی ذرا سی تکلیف پر آج بھی خود بےچین وبےقرار ہوجاتے تھے۔ وہ اپنی مولانی، سائیں کی جان سے خود سے زیادہ محبت کرتے تھے۔ اسے یوں لگتا یہ دنیا کم پڑ جائے گی اگر تقویٰ کیلئے اسکی محبت کو ماپا جائے۔


"بس کریں سائیں بچے آجائیں گے کیا کہیں گے۔" تقویٰ کو شرمندگی ہونے لگی۔

"کیا مطلب کیا کہیں گے؟ کیا انہیں معلوم نہیں انکا ڈیڈ انکی مام سے کتنا پیار کرتا ہے؟" انہوں نے خوشمگیں نظروں سے تقویٰ کو گھورا وہ سٹپٹا گئیں۔


"معلوم ہے انہیں بلکہ سب کو معلوم ہے آپکا۔ بس اب چھوڑیں مجھے ناشتہ بنانا ہے۔"

"کوئی ضرورت نہیں ناشتہ بنانے کی صارم آنے ہی والا ہوگا آ کر بنا لے گا۔ تم یہاں آرام کرو خبردار ایک بھی قدم نیچے رکھا پھر مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔" اسے بال بنا کر اٹھتے دیکھتے ہی صائم نے غصے سے پھر وارن کرتے اسکا سر واپس اپنی گود میں گرالیا اور سختی سے کہنے لگے پر اس پر الٹا ہی اثر ہوا وہ ڈرنے کے بجائے انہیں گھورنے لگیں۔۔


"کیا ہوا؟ بلی جیسی آنکھوں سے کیوں ایسے گھور کر دیکھ رہی ہو؟" اسکی سکڑی آنکھیں دیکھ کر انہوں نے ابرو اچکائی


"آپ یہ جو میرے سر درد سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اسکا خوب معلوم ہے مجھے ہٹیں پیچھیں۔۔" اسنے بار بار اسکے قریب آنے اور سر گود میں رکھ کر ماتھا چومنے پر چوٹ کی۔

اور صائم اپنی چوری پکڑنے پر شرمندہ ہوئے بغیر قہقہہ لگاتے ایک بار پھر اسکا ماتھا چومتے اسکے گرد حصار باندھ گئے۔۔


"غلط سمجھ رہی ہو سائیں کی جان میں تو بس اپنی مولانی کو سکون دینا چاہتا ہوں۔" انہوں نے ہنستے ہوئے کہا تقویٰ نے بھی مسکراہٹ چھپائی۔


"یہ کون سا طریقہ ہے سائیں سکون دینے کا؟ یہ سکون دے رہے ہیں یا لے رہے ہیں؟" اپنا اسے انکے سینے پر رکھے ہونے کی طرف اشارہ دیتیں وہ ابرو اچکا گئیں۔


"یار تم خوامخواہ شک کر رہی ہو تم جانتی ہو ہم دونوں کا سکون ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔۔ بس چھوڑو سب کچھ اور آنکھیں موند لو ورنہ میں نے اپنے طریقے سے سلایا تو پریشانی ہوجائے گی تمہارے لئے۔۔"

انکی دھمکی کارآمد ثابت ہوئی بوکھلا کر تقویٰ فوراً سے آنکھیں میچ گئیں جسے دیکھتے صائم کا قہقہہ زوردار تھا۔

"ایسے ہی تو یہ سائیں اب تک تمہارا دیوانہ نہیں۔" اسکی فرمانبرداری پر وہ نثار ہوئے اور حصار تنگ کرتے خود بھی لیٹ گئے۔


"ناشتہ؟؟؟" تقویٰ منمنائی۔


"وہ دیکھ لیں گے۔۔ بلکہ بوڑھے ماں باپ کو بھی کھلا دیں گے اگر نیک صالح اولاد ہوئی تو۔" وہ مسکینی چہرے پر طاری کرکے بولے تقویٰ کو ہنسی آگئی اسنے ہنستے انکے کندھے پر مکا مارا۔


"بہت ناانصافی کر رہے ہیں سائیں۔ صارم بالکل تھکا ہوا ہوگا۔ میرا بچہ ساری ساری رات جاب کرکے آیا ہے۔" اسے نیند نہیں آرہی تھی ایسے پریشانی ممتا سے بےچین ہوگئیں۔


"چپ کرو مولانی مجھے غصہ مت دلاؤ! یہ جو اپنے بچوں کی فکر میں لگتی رہتی ہو اٹھا کر پھر سے یہاں سے بھاگ جاؤں بعد میں روتی رہنا۔" انکی غصے بھری دھمکی اس عمر میں تقویٰ کا منہ کھول گئی۔

"آپ مجھے اغوا کریں گے سائیں؟؟؟ حالاں کہ میں تو اپنے بچے کا صرف تھکے ہونے کا احساس کر رہی ہوں۔۔۔" شاک ہی شاک تھا۔۔


اغوا کرے گا اسے اس عمر میں جہاں اسکی اولاد شادی کی لائق فائق تھی۔ "کچھ زیادہ ہی جوان نہیں ہوگئے تھے" وہ انہیں شرم دلانے کیلئے گھورنے لگی۔

پر وہ صائم زیدی ہی کیا جسے شرم آجائے۔


"ہاں تو ہوں گے تھکے ہوئے میری بیوی خود تھکی ہوئی ہے اور میں یہ گوارہ نہیں کرتا اس حالت میں میری بیوی خدمت میں لگی ہو۔

اور اغوا کرنا کوئی بڑی بات نہیں تمہیں۔ یہاں سے ہاسپٹل جاتی ہو بس اپنے جوانی کے یاروں کو بلا کر ایک بار پھر یہ کارنامہ انجام دیں گے پھر سکون ہی سکون ہوگا ہماری لائیف میں۔ بچوں کا خیال میں رکھ لوں گا اور وہاں تم صرف میرا خیال رکھنا اور میں تمہارا" خوبصورت خیالی دنیا میں وہ اپنی بیوی کے پاس اکیلا تھا۔ نا اسے جلانے کیلئے اسکی اولاد پاس تھی نا ہی اسکی بیوی کی توجہ اس سے ہٹ کر کہیں اور جاسکتی تھی۔


تقویٰ حیرت سکتے میں انہیں دیکھتی رہ گئیں جانتی تھیں کہ وہ کسی طور بھی اسے جانے نہیں دیں گے اس حالت میں۔ اور اسکے ساتھ لیٹنا بھی انہیں کا ایک پلان تھا تاکہ وہ بھاگ نا سکے۔

اوپر سے اس عمر میں اسکے نادر خیالات اگر کسی کو معلوم پڑ گئے تو بڑی درگت بنتی اسکی عائشہ اور زریش کے ہاتھوں۔۔


مجبوراً وہ خاموش پڑی اپنے بچوں کا سوچنے لگی پر بالوں میں سرسراہتی ہوئی انگلیوں نے اسکے وجود میں تھکن بیدار کردی اور وہ جمائی روکتی کسمسا کر انکے کندھے پر سر رکھتے آنکھیں موند گئیں۔


صائم دیکھتے مسکرائے اپنے پلان کی کامیابی پر۔

وہ سوگئی تھی اور جب اٹھے گی تو قدرے بہتر ہوگی تب وہ اسے دوائی دیں گے۔ ابھی سکون دینا چاہتے تھے جسکی اسے ضرورت تھی۔


اپنی مولانی کے سامنے تو ویسے بھی کسی کی نہیں سنتے تھے۔ اب جبکہ وہ بیمار تھیں انکی نظر میں تو کہاں اسے بیڈ سے ہلنے بھی دیتے۔ جب تک وہ پوری نیند کرکے نا اٹھے۔

☆☆☆☆☆☆☆


"گڈ مارننگ بیوٹیفل لیڈی۔" کچن میں قدم رکھتے اسنے سامنے کھڑی ناشتہ بناتی اپنی ماں کو محبت کے حصار میں لیتے سر پر بوسہ دیتے کہا۔


عائشہ کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔

"اٹھ گئے نواب! ہوگئی نیند پوری تمہاری؟" انہوں نے کلائی میں وقت دیکھتے طنزیہ کہا تو وہ کھل کر ہنس پڑا۔


"جی اٹھ گیا آپکا نواب۔ اب جلدی سے گرما گرم ناشتہ دیں پر اس سے پہلے ہلکی پھلکی گھر کی تازہ باسی نیوز بھی سنا دیں کیا حال ہے؟ ڈیڈ کہاں ہیں اور عشی آگئی؟" وہ وہیں کچن میں رکھی چیئر کھسکا کر ٹیبل کے پاس بیٹھ گیا۔


"تمہارے ڈیڈ ابھی ناشتہ کرکے آفس کیلئے نکلے ہیں اور تمہیں بھی جلدی پہنچنے کا آرڈر ہے۔ پر عرشیہ کا مجھ سے مت پوچھو۔" وہ کہتیں آگے غصے سے خاموش ہوگئیں دریاب ٹھٹھکا۔


"کیوں کیا ہوا خیریت؟ اسکی طبیعت ٹھیک ہے؟" وہ پریشان ہوگیا۔

"خاک معلوم ہوگا جب وہ ہوگی یہاں یا اسکا حال احوال معلوم ہوگا تب نا" ناشتہ ٹیبل پر رکھتے انہوں نے غصے سے دریاب کو گھورا۔۔


"اوہ گاڈ مینز وہ ابھی دبئی سے نہیں آئی؟" وہ حیرت کے جھٹکے سے سیدھا ہوا۔"وہ تو کل شام کو آنے والی تھی نا؟"


"اتنا حیران کیوں ہورہے ہو؟ کیا تمہیں نہیں معلوم تھا وہ ضدی لڑکی اپنی مرضی ہی کرے گی ہماری سنتی کب ہے اور تمنے اسکی بےجا ضد مانتے اسے بھیج دیا اکیلے ہی۔ تمہارے ڈیڈ سخت خفا ہیں تم سے اگر اسے کچھ ہوا تو اسکے ذمہ دار وہ تمہیں ٹھہرائیں گے۔" انہیں سخت غصہ تھا اپنی نافرمان بچی پر۔


"ڈونٹ وری مام میں آج ہی جاتا ہوں بلکہ ناشتے کے بعد میں فوراً سے جاتا ہوں اسے لینے بس بہت ہوگئی اسکی برتھ ڈے پارٹی۔۔" ناشتے کے بعد وہ فوراً سے دبئی کی فلائیٹ بک کروانے کا سوچ رہا تھا۔


"ہونہہ! تم کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے وہ آجائے گی تمہارے ساتھ۔ نا وہ اپنے ڈیڈ کی کال اٹھا رہی ہے نا ہی میری۔۔ میں رات سے ٹرائی کر رہی ہوں بلکہ اب تو تمہارے ڈیڈ سخت غصے میں ہیں۔۔

وہ کہہ رہے تھے جب صمصام نے توقیع کو جانے نہیں دیا تو کیا ضرورت تھی دریاب کو اسکی اتنی فیور کرنے کی۔ اب دیکھ لو پرسوں سے گئی ہے ایک کال کے علاوہ نا میسج نا حال احوال۔۔

مجھے سخت تنگ کردیا ہے اس لڑکی نے۔۔ بار بار خان کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا ہے اسکے کرتوت کی وجہ سے۔" وہ پریشانی سے سر تھام کر چیئر پر بیٹھ گئی۔۔


"مام!! میری بیوٹیفل مام پلیز کول ڈاؤن!! میں پکا اسے لے آؤں گا بلکہ آئندہ اسے اجازت نہیں دیں گے اس طرح کی، بس آپ پریشان نا ہوں میں ابھی ناشتہ بھی کیئے بغیر جا رہا ہوں اور اسے لے آکر ہی ناشتہ کروں گا۔" وہ چیئر کھسکا کر انکے پاس آگیا۔


"اور آپ پلیز صمصام سے ہر بات نا جوڑا کریں مام اسکی لائیف اسکا رہن سہن الگ ہے ہمارا الگ۔ وہ اپنی بہن پر بےجا اپنی ضد پابندیاں لگاتا ہے میں ایسے گھٹن زدہ ماحول اپنی بہن کو نہیں دینا چاہتا وہ ایک آزاد خیال لڑکی ہے میں چاہتا ہوں وہ اپنی زندگی جئے کھل کر سانس لے، یہ اتنی پراپرٹی پیسہ ہے سب اسکے لئے اور اسکا استعمال کرے نا کہ اتنی امیر کبیر ہونے کے بعد بھی ایک تھرڈ کلاس زندگی جئے۔ اور ایسا قدم اٹھالے جس سے ہمیں آخر میں پچھتاوے ہوں۔" اسنے عاجزانہ اپنا نظریہ خیال پیش کیا اور اپنی ماں کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھیں


"تمہیں کیوں لگتا ہے دریاب کہ توقیع گھٹن زدہ ماحول میں رہتی ہے؟ یا صمصام کی ضد پابندیاں ہیں اس پر؟"


"کیوں مام آپکو نہیں دکھ رہا یہ سب؟ جس طرح عشی کی دوست تھی ماہین جسکی برتھڈے پارٹی اسنے دبئی میں اپنے کاٹیج میں ارینج کی تھی صمصام سے توقیع کے اجازت لینے پر ہی اسنے سخت پابندی لگا دی کہ کوئی ضرورت نہیں اکیلی اتنا دور نکلنے کی۔ شاپنگ پر جائے تو بھائیوں کے ساتھ یونی جائے تو گاڑی بالکل لاک اور کہیں اپنے کیلئے بھی رکنے کی اجازت نہیں اسے۔

اب آپ ہی بتائیں کہ یہ پابندیاں نہیں؟ خود بزنس مین ہے، چھوٹا بھائی ماں باپ ڈاکٹر ہیں اتنی اعلیٰ پڑھی لکھی فیملی کی وہ واحد بیٹی ہے۔۔۔۔۔


"بس کرو دریاب بہت ہوگیا ایک کے میں آزاد خیال کا نتیجہ بھگت چکی ہوں اب تم شروع ہوجاؤ۔" اچانک بیچ میں ہی عائشہ غصے سے چیخ اٹھی جس پر دریاب کے لبوں پر قفل پڑ گئے۔۔

کیونکہ سامنے ہی وہ بےآواز رو رہی تھیں۔


"س۔۔سوری مام میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا پلیز میں آپکو ہرٹ نہیں کرنا چاہتا تھا مجھے تو بس توقیع کا رہن سہن اچھا نہیں لگتا۔۔۔" وہ چل کر شرمندہ لب بھینچے انکی چیئر اپنی طرف گھماتے انکے قدموں میں آکر بیٹھ گیا۔

"آپ جانتی ہیں آپکا بیٹا آپکو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا پلیز مام روئیں نا۔" وہ انکے ہاتھ تھام کر لبوں سے لگاتا انہیں چپ کروانے لگا۔


جاری ہے۔











"آپ سب نے اتنا بڑا جھوٹ بولا۔۔۔۔ وہ سب دھوکا تھا

۔۔۔۔ وہ بابا پر قتل کا الزام۔۔۔۔ میرا ونی کی بھینٹ چڑنا۔۔۔۔ وہہہ۔۔۔ وہ سب۔۔۔۔ میں اتنا وقت اتنی اذیت میں رہی۔۔۔۔ آپ نے اچھا نہیں کیا سائیں۔۔۔۔ "

نگار آنکھوں میں آنسو بھرے دکھ سے بولتی حیدر کو بے چین کر گئی تھی۔۔۔۔ باقی سب بھی فکرمندی سے معاملے کو بگڑتا دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ کسی نے اِس حوالے سے تو سوچا ہی نہیں تھا کہ اِس انکشاف کے بعد نگار کیسا ری ایکٹ کرسکتی ہے۔۔۔۔ اُسے کس قدر بُرا لگ سکتا ہے۔۔۔۔

"نگار میری بات۔۔۔۔"

پ کو کیا لگتا ہے یوں اغوا کرکے رکھیں گے تو میں ڈر جاؤں گی؟ پیچھے ہٹ جاؤں گی۔۔۔ ۔۔۔۔ مجھے کمزور سمجھنے کی غلطی مت کیجیے گا وڈیرا سائیں۔۔۔ اپنے صبر اور حوصلے سے آپ اور آپ کے خاندان کے سب انا پرست ظالم وڈیروں کو منہ کے بل گرنے پر مجبور نہ کردیا تو میرا نام بھی سمائرہ کاظمی نہیں۔۔۔۔۔۔"

اردشیر کا گریبان مُٹھی میں سختی سے دبوچے سوکھے لبوں سے بامشکل لفظ ادا کرتی وہ اُسے اِس وقت کسی زخمی شیرنی سے کم نہیں لگی تھی۔۔۔۔

"مجھے چیلنج مت کرو۔۔۔۔ ہار جاؤ گی۔۔۔۔۔ مجھے پانچ سال پہلے والا اردشیر نواز مگسی سمجھنے کی غلطی مت کرو۔۔۔۔۔ اِن گزرے دو دنوں میں میری بے رحمی دیکھ اتنا تو اندازہ ہو ہی گیا ہوگا تمہیں۔۔۔۔"

اردشیر کی دیوانہ وار نگاہیں اُس کے ایک ایک نقوش کا جائزہ لیتیں۔۔۔۔ اُسے بُری طرح پزل کررہی تھیں۔۔

.حیدر نے اُسے کچھ کہنا چاہا تھا جب وہ نفی میں سر ہلاتی وہاں سے نکلتی چلی گئی تھی۔۔۔











" آپ کو کیا لگتا ہے یوں اغوا کرکے رکھیں گے تو میں ڈر جاؤں گی؟ پیچھے ہٹ جاؤں گی۔۔۔ ۔۔۔۔ مجھے کمزور سمجھنے کی غلطی مت کیجیے گا وڈیرا سائیں۔۔۔ اپنے صبر اور حوصلے سے آپ اور آپ کے خاندان کے سب انا پرست ظالم وڈیروں کو منہ کے بل گرنے پر مجبور نہ کردیا تو میرا نام بھی سمائرہ کاظمی نہیں۔۔۔۔۔۔"

اردشیر کا گریبان مُٹھی میں سختی سے دبوچے سوکھے لبوں سے بامشکل لفظ ادا کرتی وہ اُسے اِس وقت کسی زخمی شیرنی سے کم نہیں لگی تھی۔۔۔۔

"مجھے چیلنج مت کرو۔۔۔۔ ہار جاؤ گی۔۔۔۔۔ مجھے پانچ سال پہلے والا اردشیر نواز مگسی سمجھنے کی غلطی مت کرو۔۔۔۔۔ اِن گزرے دو دنوں میں میری بے رحمی دیکھ اتنا تو اندازہ ہو ہی گیا ہوگا تمہیں۔۔۔۔"

اردشیر کی دیوانہ وار نگاہیں اُس کے ایک ایک نقوش کا جائزہ لیتیں۔۔۔۔ اُسے بُری طرح پزل کررہی تھیں۔۔

سمائرہ نے گھبرا کر اُس کا گریبان آزاد کرتے نگاہیں اس کی جانب سے پھیر لی تھیں۔۔۔۔ اُس کے یوں نظریں چرانے پر اردشیر ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ سجائے اُس کا چہرا اپنی گرفت میں لیتا اُس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھ گیا تھا۔۔۔۔

"نگاہیں چرانے اور دھوکا دہی کے سوا کچھ نہیں آتا نا تمہیں۔۔۔۔۔ پانچ سال پہلے بھی ایسے ہی نگاہیں چرائی تھیں تم نے۔۔۔۔۔ "

اردشیر کی گرم سانسیں سمائرہ کی سانسوں سے ٹکراتیں اُس کے اوسان خطا کررہی تھیں۔۔۔ اُس نے دو دن سے پانی کا گھونٹ تک اپنے حلق سے نہیں اُتارا تھا۔۔۔ اُس میں لڑنے کی مزید سکت نہیں تھی۔۔۔۔

"پانی۔۔۔۔۔"

وہ اس شخص سے کوئی مدد نہیں مانگنا چاہتی تھی۔۔۔ مگر اِس وقت اُس لگا تھا پانی کے چند گھونٹ اُس کے اندر نہ گئے تو وہ مزید کچھ سیکنڈز ہی زندہ رہ پائے گی۔۔۔۔

اُس کی بند ہوتی آنکھیں دیکھ اردشیر نے جلدی سے پانی گلاس میں اُنڈلیتے اُس کے گرد بازو کا حصار قائم کرتے اُسے سیدھے بیٹھایا تھا۔۔۔ سمائرہ پوری طرح اُس کے سہارے پر تھی۔۔۔۔

اُسے پانی پلاتے وہ یک ٹک اُسے دیکھے گیا تھا۔۔۔ یہ معصوم چہرا اُسے دھوکا دینے کا قصوروار تھا۔۔۔۔۔ مگر کہیں نہ کہیں یہ بھی سچ تھا کہ اِسی چہرے کو کبھی اُس نے ٹوٹ کر چاہا تھا۔۔۔۔

"مجھے جانے دیں۔۔۔۔"

سمائرہ پانی پینے کے بعد کچھ بولنے کے قابل ہوئی تھی۔۔۔

جبکہ اُس کی بات سن کر اردشیر کا طلسم ٹوٹا تھا۔۔۔ وہ فوراً اُس کے گرد سے بازو ہٹاتا دور ہوا تھا۔۔۔۔

"میرے گاؤں سے چلی جاؤ۔۔۔۔ اور دوبارہ کبھی مُڑ کر اِس طرف مت دیکھنا۔۔۔۔ "

اردشیر نے اُسی کی بات واپس اُسی پر لوٹائی تھی۔۔۔۔

"میں جو مقصد لے کر آئی ہوں۔۔۔ وہ پورا کیے بغیر یہاں سے نہیں جاؤں گی۔۔۔۔"

سمائرہ نے بنا اُس سے خوف کھائے اُس کی چوڑی پشت کو گھورتے جواب دیا تھا۔۔۔۔

وہ پہلے سے کہیں زیادہ وجیہہ اور بارعب پرسنیلٹی کا مالک بن چکا تھا۔۔۔۔ جس سے بات کرنے سے پہلے مقابل کو لمحہ بھر کو ضرور سوچنا پڑتا تھا۔۔۔۔

"تو پھر یہیں رہو۔۔۔۔ کیونکہ تمہارا مقصد تو میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔"

اردشیر نے پلٹ کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو اپنے چکراتے سر کی پرواہ کیے بغیر بیڈ سے اُٹھتی لڑکھڑائی تھی۔۔۔۔

مگر اِس بار اردشیر نے اُسے سنبھالنے کی زحمت نہیں کی تھی۔۔۔ وہ اپنا سر پکڑ کر بے بسی سے وہیں بیڈ پر ڈھے گئی تھی۔۔۔۔

"تمہاری یہ ڈرامے بازیاں اب نہیں چلیں گی میرے آگے۔۔۔ خاموشی سے یہ کھانا کھاؤ۔۔۔۔ اگر دوبارہ بے ہوش ہوئی تو میں اُٹھانے نہیں آؤں گا۔۔۔ اپنی زمہ دار تم خود ہوگی۔۔۔۔"

اردشیر اُس کے سامنے بیڈ پر سکینہ کی لائی کھانے کی ٹرے رکھتا دھمکی آمیز لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔ مگر اُس کے ایک ایک انداز سے سمائرہ کی فکر کی جھلک نمایاں تھی۔۔۔ جو سمائرہ تو شدید غصے میں نوٹ نہیں کرپائی تھی۔۔۔ لیکن ٹیبل پر پانی کا جگ رکھ کر مُڑتی سکینہ اپنے وڈیرے کو کسی کے آگے کھانا پیش کرتا دیکھ بے ہوش ہونے کے قریب ہوئی تھی۔۔۔۔

اُسے ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت لگا تھا یہ جاننے میں کہ یہ لڑکی اُن کے وڈیرے کو کس قدر عزیز تھی۔۔۔۔

"میں اچھے سے جانتی ہوں کہ آپ مجھے اذیت دے کر مارنا چاہتے ہو۔۔۔۔ کیونکہ آپ جیسے کم ظرف اور انا پرست مرد کو یہ گوارہ نہیں ہے کہ کوئی عورت سر اُٹھا کر آپ کے مقابل کھڑی ہو۔۔۔۔۔۔ لیکن مجھے کمزور سمجھنا آپ کی زندگی کی سب سے بڑی بھول ہوگی۔۔۔۔۔"

سمائرہ نے دو بدو جواب دیتے اُس پر ثابت کردیا تھا کہ وہ اُس سے ڈرنے والی نہیں ہے۔۔۔۔

"میں کیا چاہتا ہوں تم یہ کبھی جان پائی ہی نہیں اور نہ کبھی آگے جان پاؤ گی۔۔۔۔ رہی بات ہار جیت کی تو اب ہارنا صرف اور صرف تمہارے مقدر میں ہی لکھا ہے۔۔۔۔ اِسی لیے کہہ رہا ہوں۔۔۔۔ بہتری اِسی میں ہے کہ خاموشی سے یہاں سے چلی جاؤ۔۔۔ ہار کا بوجھ نہیں سہہ پاؤ گی۔۔۔۔۔"

اردشیر اُس کے مقابل آن کھڑے ہوتے طنزیا مسکراہٹ سے اُسے دیکھتا سمائرہ کا دل زور سے دھڑکا گیا تھا۔۔۔۔ یہ ساحر پھر سے اُس پر اپنا سحر پھونکنا شروع ہوچکا تھا۔۔۔۔۔۔۔

"مجھے جس طرح یہاں سے بھیجنے پر تُلے ہوئے ہیں وڈیرا سائیں آپ۔۔۔ اُس سے تو صاف ظاہر ہے کہ کون ہارنے سے ڈر رہا ہے۔۔۔۔"

سمائرہ نے اُس کے وجیہہ سراپے سے نگاہیں ہٹالی تھیں۔۔۔ اردشیر کو یہاں ہر کوئی وڈیرا سائیں کہہ کر ہی بلاتا تھا۔۔۔ اُسے اپنے لیے یہ طرزِ تخاطب کچھ خاص پسند نہیں تھا۔۔۔ مگر اِس وقت سمائرہ کے منہ سے بار بار اِسی نام کی پکار اُسے بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔

"ٹھیک ہے مت جاؤ یہاں سے۔۔۔۔ مگر تمہاری اصلیت جان کر یہ لوگ تمہارا جو حال کریں گے۔۔۔ اُس کے بعد مدد مانگنے کے لیے میرے پاس مت آنا۔۔۔۔"

اردشیر بکھرے بکھرے رف حلیے میں بیٹھی سمائرہ کو گھورتے بولا تھا۔۔۔۔ سیاہ بالوں کی لٹیں چٹیا سے نکل کر اُس کے گندمی پرکشش چہرے کے گرد بکھری ہوئی اِس حال میں بھی مقابل کے ہوش اُڑانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ جو نہیں جانتی تھی کہ وہ خود کو کتنی بڑی مصیبت میں ڈالنے والی تھی۔۔۔۔


Muhabbat Ky Moti By Rimsha Hayat



” تمہیں کیا لگتا ہے؟ میں تمھاری محبت میں پاگل تھا اس لیے تم سے نکاح کیا؟

تمھارے ساتھ نکاح میں نے صرف تمھارے باپ کی وجہ سے کیا ہے ورنہ میں جس لڑکی کو پسند کرتا ہوں بہت سال پہلے میرا نکاح اُس سے ہو چکا ہے۔

اور یہ بچہ؟ یہ بچہ کس کا ہے؟ صنان نے سختی سے زائشہ کو کندھوں سے پکڑتے غرا کر پوچھا۔“


یہ آپ کا بچہ ہے زائشہ نے آنکھیں بند کیے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔


جھوٹ!!! جھوٹ بول رہی ہو تم اور کیا بکواس کی تم نے میری فیملی کے سامنے کہ یہ میرا بچہ ہے جبکہ تم بھی اچھی طرح جانتی ہو نکاح سے پہلے تو کیا نکاح کے بعد بھی میں نے تمہیں ہاتھ تک نہیں لگایا تو یہ بچہ میرا کیسے ہو سکتا ہے؟


جواب دو؟ میرے نکاح میں ہوتے ہوئے تمہیں یہ سب کرتے زرا بھی شرم نہیں آئی آج تمھارے جھوٹ کی وجہ سے میری بیوی کی آنکھوں میں میں نے پہلی بار بے اعتباری دیکھی تمھاری وجہ سے پورے خاندان کے سامنے مجھے جھوٹا بننا پڑا۔کیوں کیا تم نے ایسا جواب دو؟ صنان نے زائشہ کو مزید اپنے قریب کرتے کہا۔


زائشہ کو لگ رہا تھا صنان کے ہاتھ کی انگلیاں اس کے بازو میں دھنستی جارہی ہیں۔


میں آپ سے محبت کرنے لگی ہوں صنان !!! زائشہ نے آنکھیں بند کیے بےبسی سے کہا جبکہ آنسو نا چاہتے ہوئے بھی اس کے گال بھگو گئے تھے۔

کیا؟؟ محبت صنان نے منہ میں بڑبڑایا

تھوڑی دیر تک زائشہ صنان کے ردعمل کا انتظار کرتی رہی پھر آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولی جو بے یقینی سے سنایہ کو دیکھ رہا تھا۔


میں جانتی ہو صنان مجھ سے غلطی ہوئی ہے میں معافی مانگتی ہوں آپ سے میں خود نہیں جانتی میں کیسے آپ کی محبت میں گرفتار ہو گئی پلیز مجھے معاف کر دیں۔پلیز مجھے اپنا لیں ذائشہ نے گڑگڑاتے ہوئے صنان کو دیکھتے کہا۔


غلطی؟ غلطی نہیں زائشہ تم نے گناہ کیا ہے۔اور جانتی ہو ہمارے مزہب میں اس کی کیا سزا ہے؟ میں غلط تھا میں نے سوچا تھا کہ جس طرح بھی تم میری زندگی میں آئی لیکن تمہیں اللہ نے میرے نصیب میں لکھا ہے اور میں تمھارے سارے حقوق پورے کرنے کی کوشش کروں گا لیکن تم نے کیا کیا؟

صنان نے زائشہ کے بازوں سے ہاتھ پیچھے کرتے سر نفی میں ہلاتے کہا۔

آنکھیں اس کی سرخ ہو رہی تھیں۔آج اس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا دل دکھا تھا۔

کوشش کرنا کہ میری نظروں کے سامنے مت آؤ ورنہ اپنے ہاتھوں سے تمھارا گلہ دبا دوں گا۔

صنان نے زائشہ کو دیکھتے سرد لہجے میں کہا اور پھر ایک سیکنڈ بھی وہاں نہیں رکا تھا۔


پیچھے زائشہ وہی زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔پورا چہرا آنسو سے تر ہو چکا تھا۔

” میں آپ سے محبت کرتی ہوں صنان میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی زائشہ نے بےبسی سے اپنے بالوں کو دبوچتے کہا۔

صنان کا اس سے دور جانے کا سوچ کر ہی اسے اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔

کیا چاہتے ہو تم؟ دادا جان نے صنان کو دیکھتے پوچھا۔

رخصتی اور وہ بھی کل صنان نے اپنا فیصلہ سنایا۔

کیا میں وجہ جان سکتا ہوں؟ دادا جان نے سنجیدگی سے پوچھا۔

نوال میری بیوی ہے اور ہمارے نکاح کو اتنے اسال ہو گئے ہیں تو اب بھی آپ رخصتی نہیں کرنا چاہتے؟ صنان نے الٹا سوال کرتے کہا۔


بیٹا جی عید کے دوسرے دن تمھارا اور نوال کا ولیمہ ہے کچھ دنوں کی بات ہے تھوڑا صبر کر لو اتنی جلدی رخصتی نہیں ہو سکتی تم بھی سمجھنے کی کوشش کرو اور اچانک تمہیں کیا ہو گیا ہے جو تم نے رخصتی کی رٹ لگا لی ہے؟

دادا جان نے نے نا سمجھی سے صنان کو دیکھتے پوچھا۔جس کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا۔


دادا جان آپ کی نواسی کا دماغ خراب ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر الگ ہونے کی بات کرتی ہے۔

اور جتنا میرا صبر یہ لڑکی آزماتی ہے اتنا کسی نے نہیں آزمایا اور اب میری بس ہو چکی ہے۔

آپ ہماری رخصتی کر وا دیں کم از کم اُسکے چھوٹے سے دماغ سے یہ خیال تو نکل جائے کہ وہ مجھ سے الگ ہو سکتی ہے۔صنان نے غصے سے کہا۔جس پر دادا جان مسکرا پڑے تھے۔


Sitam Ki Janjeer By Rimsha Hayat



" سردار شجاعت آپ خون بہا کے بدلے ہم سے کچھ اور مانگ لیں۔ہم آپ کو نا تو اپنی بیٹی دے سکتے ہیں اور ناہی کسی کی جان

Sitam Ki Zanjeer By Rimsha Hayat Urdu Complete Novel 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading…

Sitam Ki Janjeer By Rimsha Hayat



" سردار شجاعت آپ خون بہا کے بدلے ہم سے کچھ اور مانگ لیں۔ہم آپ کو نا تو اپنی بیٹی دے سکتے ہیں اور ناہی کسی کی جان

جرگے میں۔۔۔۔ " دوسرے قبیلے کے سردار زارون کی کرخت آواز گونجی تھی۔۔۔


آج جرگہ دو قبیلوں کے درمیان لگا تھا اور دونوں ہی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے اور دونوں طرف کے لوگ یہاں پر بیٹھے تھے۔آج پھر ایک معصوم قربان ہونے جا رہی تھی۔


حیرت ہے ایک قبیلے کے سردار کی زبان سے ایسی باتیں زیب نہیں دیتی جو اپنی روایات کو اپنے خاندان کی خاطر بھول گیا ہے۔۔۔۔


" تھو ایسے سردار پر تمھارے بیٹے نے ہمارے بیٹے کی جان لی ہے اور خون کا بدلے خون ہوتا ہے اور یہ ہی روایات چلتی آرہی ہیں۔اگر تم خون کے بدلے خون نہیں دے سکتے تو سوچ لو کہ تمہارے پاس اور دوسرا کون سا راستہ ہے؟؟؟؟ اگر تمہیں اپنا بیٹا اتنا ہی عزیز ہے تو تمہیں اپنی بیٹی ہمیں ونی کرنی ہو گی۔۔۔ " سردار شجاعت نے اپنا فیصلہ سناتے اپنی مونچھوں کو بل دیا۔۔۔۔

یہ سب سنتے ہی کچھ پل کے لیے وہاں سناٹا چھا گیا تھا۔۔۔۔


" ٹھیک ہے میں اپنی بیٹی کا نکاح کرنے کے لیے تیار ہوں۔۔۔ " زارون نے شجاعت کے دائیں جانب بیٹھے شخص کو دیکھتے ہامی بڑھی۔


" تو ٹھیک ہے مولوی صاحب میرے بھائی کا نکاح شروع کروایا جائے۔۔۔۔۔ " اس کی بھی سنی گئی شجاعت نے اپنے بائیں جانب بیٹھے اپنے بھائی کو دیکھتے کہا جو خوشی سے اٹھ کر بھنگڑے ڈالنے لگا تھا۔


" واہ جی واہ میری شادی ہونے والی ہے میرا بھائی بہت اچھا ہے میرے لیے ایک خوبصورت دلہن لائے گا۔۔۔۔۔ " شجاعت کے بھائی نے اونچی آواز میں کہا اور ساتھ ہنستا بھی جا رہا تھا اس کا دماضی توازن کچھ ٹھیک نہیں تھا اور یہ بات گاؤں میں ہر ایک کو معلوم تھی۔


شجاعت کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی لیکن زارون سمیت سب کو سانپ سونگ گیا تھا۔وہ تو کچھ اور سوچ کر بیٹھا تھا۔۔۔۔۔

وہ جو پردے کے پار کھڑی اپنی زندگی کا فیصلہ ہوتے سن رہی تھی۔سامنے اچھل کود کرتے انسان کو دیکھتے اسے اپنے قدموں میں سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔سامنے اچھل کود کرتا انسان لگ بھگ اس کے باپ کی عمر کا تھا۔


اسے کس بات کی سزا مل رہی تھی؟؟ شاید لڑکی ہونے کی؟؟ یہی سوال اس کے دماغ میں چل رہے تھے کہ اچانک اسے اپنا دماغ ماؤف ہوتا محسوس ہوا اور وہ وہی دھڑام سے گر گئی۔۔۔۔


اس کے گرنے کی آواز پر وہاں بیٹھے سردار شجاعت کے دائیں جانب شخص نے اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں پیوست کیے اپنے اندر کھولتے لاوے کو برداشت کیا تھا۔۔۔۔اسکی آنکھیں خون کی مانند سرخ ہو رہی تھی۔۔۔۔ اور چہرے پر سرد تاثرات تھے۔۔۔۔۔

"آپ کون ہیں؟" زارا نے سامنے کھڑے زوحان کو دیکھتے حیرانگی سے پوچھا۔

"جس سے تھوڑی دیر پہلے تمھارا نکاح ہوا ہے۔"

زوحان نے اپنے قدم زارا کی طرف بڑھاتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔

یہ چھوٹا سا کمرہ اسے سونے کے لیے ملا تھا لیکن زوحان یہاں کیا لینے آیا تھا وہ اس بات سے انجان تھی۔

زوحان نے زارا کی اُسی کلائی کو پکڑتے اسے اپنے سامنے کھڑا کیا جہاں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔تکلیف سے زارا کراہ اُٹھی تھی لیکن زوحان نے اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا اور اسے خود کے سامنے کھڑا کیا۔


"چاہے تم ونی ہو کر آئی ہو لیکن نکاح تو میرا تمھارا ساتھ ہی ہوا ہے"۔


زوحان نے ذومعنی الفاظ میں زارا کے پیلے پڑتے چہرے کو دیکھتے مزید کہا۔

"اتنا گھبرا کیوں رہی ہو؟ شوہر ہوں تمھارا پورا حق رکھتا ہوں تم پر اور وہی لینے تو آیا ہوں۔"زوحان نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے زارا کے بالوں کو کان کے پیچھے کرتے گہرے لہجے میں کہا۔

جو بت بنی زوحان کو دیکھ رہی تھی۔اس نے تو نکاح کے وقت نام پر دھیان ہی نہیں دیا تھا کہ اس کا نکاح کس کے ساتھ ہو رہا ہے۔

"تمہیں ایک حقیقت بتا دیتا ہوں"۔

زوحان نے زارا کے دونوں ہاتھوں کو کمر کے پیچھے لے جا کر اپنی گرفت میں لیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا اس وقت وہ پوری طرح زوحان کی قید میں تھی۔


"جس سے تمھارا نکاح ہوا ہے وہ میں نہیں ہوں

زارا نے نفی میں سر ہلا کر زوحان کو روکنے کی ناکام کوشش کی تھی۔

آنسو تو شاید پہلے ہی باہر نکلنے کو تیار تھے۔


اس سے اچھا تو تھا کہ وہ مر جاتی کم از کم اس کی عزت تو محفوظ ہوتی۔

💜💜💜💜

” میں بہت جلد آپ کو چھوڑ کر چلی جاؤ گی کیونکہ میں ایسے انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتی جس نے مجھ جیسی ناجانے کتنی لڑکیوں کی زندگی خراب کی ہے زبور کہتے ہی وہاں سے جانے لگی جب عماد نے اس بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔


فکر مت کرو جس لڑکی کی زندگی عماد خراب کرے گا وہ صرف ایک ہی اور وہ ہو تم عماد نے سرد لہجے میں زبور کی کمر پر اپنی گرفت مضبوط کرتے مزید کہا۔زبور کو عماد کی انگلیاں اپنی کمر میں دھنستی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔

سب سے پہلے تو میں تمھارا مجھ سے دور جانے کا بھوت اتارا ہوں۔اُس کے بعد

تمھارے باپ کو بھی دیکھ لوں گا“۔چلو میرے ساتھ عماد کہتے ہی اسے بازو سے پکڑا اور کھنچتے ہوئے کمرے سے باہر لے گیا۔

عماد آپ میرے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے زبور نے چیختے ہوئے کہا۔

بلکل کرسکتا ہوں مسز عماد نے مڑ کر زبور کو دیکھتے طنزیہ لہجے میں کہا۔



Sanso Me Basa Tere Naam By Farwa Khalid


تھپڑ کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ آزفہ منہ کے بل زمین پر جاگری تھی۔۔۔

"دیکھو میرے قریب مت آنا۔۔۔۔"

فرش پر ہی پیچھے کی جانب سرکتی وہ بے بسی بھرے لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔۔ مگر ہاشم کی ہوس اب مزید بڑھ چکی تھی۔۔۔ وہ اِس لڑکی کو کسی صورت چھوڑنے والا نہیں تھا اب۔۔۔۔

وہ آزفہ کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے جھکا تھا۔۔۔۔

آزفہ نے آنکھیں سختی سے میچتے اپنے اللہ کو پکارتے اُس سے مدد مانگی تھی۔۔۔۔ اُس کی اب ساری اُمیدیں اپنے رب سے وابستہ تھیں۔۔۔ جو ہمیشہ ہر جگہ اُس کی مدد کرتا آیا تھا۔۔۔۔

جب اُسی لمحے دروازے پر باہر سے زور دار ضرب رسید کی گئی تھی۔۔۔ ہاشم نے گھبرا کے دروازے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔چند سیکنڈز کی لگاتار ضربوں کے بعد دروازے کا لاک ٹوٹا تھا۔۔۔۔

اندر داخل ہونے والے شخص کو دیکھ آزفہ کے کئی آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر گالوں پر لڑھک آئے تھے۔۔۔۔۔

چوہدری ہاشم کو ہناد محتشم موت کی صورت اپنے قریب آتا دیکھائی دیا تھا۔۔۔۔

ہناد نے ایک خون آشام نگاہ فرش پر گری آزفہ پر ڈالی تھی۔۔۔ جس کو صحیح سلامت دیکھ اُس کے جلتے دل میں سکون اُتر گیا تھا۔۔۔ اُسے آنے میں دیر نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔

مگر اُس کی وحشت ناک غصے بھری نگاہیں دیکھ آزفہ اندر تک لرز اُٹھی تھی۔۔۔ ہناد نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر آزفہ کو اُٹھایا تھا۔۔۔۔ اپنے بازو پر موجود سخت گرفت سے آزفہ اُس کے غصے کا اندازہ اچھے سے لگا پارہی تھی۔۔۔ اُسے اپنے بازو کی ہڈیاں ٹوٹتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔

وہیں اُس کے نازک گال پر پڑے اُنگلیوں کے نشان دیکھ ہناد تو جیسے پاگل ہو اُٹھا تھا۔۔۔۔

اُسے انسان سے حیوان بننے میں ایک پل نہیں لگا تھا۔۔۔۔

وہ واپس پلٹا تھا اور موبائل نکال کر اپنے گارڈز کو کال ملاتے ہاشم پر بُری طرح اپنا قہر توڑتا چلا گیا تھا۔۔۔۔۔

ہناد کے بھاری ہاتھ کے پڑنے والے مکے ہاشم کو کچھ ہی لمحوں میں ہاتھ موا کر گئے تھے۔۔۔۔

اُس کا پورا چہرا لہولہان ہوچکا تھا۔۔۔۔ ہناد اندر صرف اکیلا ہی آیا تھا۔۔۔ باقی سب لوگ باہر موجود تھے۔۔۔ اِس لیے ہناد کو کوئی روکنے والا بھی نہیں تھا۔۔۔

آزفہ تو ہناد کو اتنے غصے میں دیکھ سہم کر دیوار سے لگی چوہدری ہاشم کی حالت دیکھ خوف کے عالم میں چہرے پر ہاتھ رکھ گئی تھی۔


Diltang Tawam Jana By Farwa Khalid



تجھ سے بڑی بے وقوف لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ اتنی بڑی اینکر بنی پھرتی ہے۔ میں نے ایک بار کہہ دیا تو اُس التمش غیدان کے خلاف رپورٹ لکھوانے چل پڑی۔ تجھے اغوا اُس نے نہیں ۔۔۔۔"
وہ بولتے بولتے ماہ رو کے قریب جارہا تھا۔ اِس سے پہلے کے ہاتھ بڑھا کر وہ ماہِ رو کو چھوتا جب دائیں جانب سے چہرے پر ایک زوردار ٹھوکر رسید کی گئی تھی۔ وہ اتنے شدید حملے پر بلبلاتا دور جاگرا تھا۔ بھاری بوٹ کا وار اتنا سخت تھا کہ اُسے اپنا جبڑا ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
ماہ رو نے بھیگی پلکیں اُٹھا کر اچانک نازل ہونے والے اُس فرشتے کو دیکھا تھا۔ مگر مقابل پر نظر پڑتے اُس کی نگاہوں کے ساتھ ساتھ دل کی دھڑکنیں ساکت ہوئی تھیں۔ وہ سانس روکے اُس پتھریلی زمین پر جوں کی توں بیٹھی رہ گئی تھی۔
آف وائٹ قمیض شلوار پر براؤن شال اوڑھے وہ کسی بپھرے زخمی شیر کی طرح اُس نقاب پوش کو بُری طرح پیٹنا شروع کرچکاتھا۔ جسے ایک دو بار ہی زمین پر پٹخنے پر اُس شخص کی جان حلق تک آچکی تھی۔
اُسے پاگلوں کی طرح پیٹتے دیکھ ماہِ رو کا سکتہ ٹوٹا تھا۔ وہ بہت مشکل سے اپنی جگہ سے اُٹھی تھی۔ جب اُس کی نظر کچھ فاصلے پر سرجھکائے فیروز پر پڑی تھی۔
"روکو اُنہیں وہ مرجائے گا۔"
ماہِ رو فیروز کی جانب دیکھ چلائی تھی۔ مگر فیروز نے اپنا جھکا سر اُٹھانے کی گستاخی نہیں کی تھی۔ وہ ہنوز سر جھکائے ساکت و جامد اپنے باس کے نئے حکم کا منتظر تھا۔
"ایڈیٹ۔۔۔۔"
ماہِ رو اُس التمش غیدان کے روبوٹ پر ایک غصے بھری نظر ڈالتی خود ہی التمش کی جانب بڑھی تھی۔ جسے دوبارہ زندگی میں کبھی مخاطب نہ کرنے کی قسم کھا رکھی تھی اُس نے۔
"چھوڑیں اُسے۔۔۔۔وہ مرجائے گا۔"
ماہِ رو التمش کے قریب آتی چلائی تھی۔ مگر وہ غضبناکی کی حدود کو چھوتا کچھ بھی سننے سمجھنے سے قاصر بس اُس شخص کو پیٹی جارہا تھا۔ جس نے ماہِ رو آبنوس پر بُری نظر ڈال کر التمش غیدان کے قہر کو آواز دی تھی۔
"التمش میں نے کہا چھوڑیں اُسے۔۔۔۔ وہ مر جائے گا۔"
اُس شخص کے لہولہان وجود کی جانب ایک نظر ڈال کر ہی ماہِ رو خوف سے کانپ اُٹھی تھی۔
جبکہ دوسری جانب اتنے سال بعد اپنے نام کی پکار اُن نازک ہونٹوں سے سنتے التمش غیدان کے ہاتھ وہیں ساکت ہوئے تھے۔ اتنے سالوں سے ساکت پڑے دل میں ہلچل سی پیدا ہوئی تھی۔
"جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔۔"
التمش اُس پر نگاہِ غلط ڈالے بغیر اُس کی جانب سے رُخ موڑکر کھڑے ہوتے بولا تھا۔
"اُسے اُس کی غلطی کی سزا مل چکی ہے۔ اب مزید اپنے اندر کا گلٹ ختم کرنے کے لیے ایک اور قتل مت لکھوا لیجیئے گا اپنے سر۔"
ماہِ رو اُس پر گہرا طنز کرتے پلٹی تھی۔ جبکہ اُس کا جملہ التمش غیدان کے پہلے سے جلتے سینے میں مزید آگ بھڑکا گیا تھا۔
اُس نے ایک جھٹکے سے مڑتے واپس پلٹتی ماہِ رو کا بازو اپنے آہنی شکنجے میں لیتے اُسے اپنی جانب کھینچا تھا۔ وہ اِس جارحانہ عمل کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔ سیدھی التمش کے سینے سے ٹکراتے اُس کے ہونٹوں سے ہلکی سی چیخ برآمد ہوئی تھی۔
اُس نے فوراً التمش کے سینے پر دونوں ہتھیلیاں جماتے بیچ میں فاصلہ برقرار رکھنے کی کوشش کی تھی۔ مگر التمش کی لال انگارہ خود پر جمی آنکھیں دیکھ ماہِ رو کا خون رگوں میں منجمد ہوا تھا۔
اُس کے دھکتے لمس اور چہرے پر پڑتی گرم سانسوں کی تپیش پر ماہِ رو کو اپنا وجود کپکپاتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ جس کے خلاف وہ سوشل میڈیا اور نیوز چینل پر نجانے کیا کیا پروپیگنڈے کرتی پھر رہی تھی۔ اُس کے سامنے آتے ہیں سانسیں حلق میں اٹک چکی تھیں۔
وہ بنا ہلے اُس کے حصار میں ساکت کھڑی تھی۔ جب کان کی لوح پر دھکتی گرم سانسوں کی تپیش محسوس کرتے اُس سے اپنے قدموں پر کھڑا رہنا محال ہوا تھا۔ اگر التمش نے اُسے تھام نہ رکھا ہوتا تو وہ کب کا زمین بوس ہوچکی ہوتی۔
"میں وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہوں۔ جس سے اُلجھ کر تم جل کر راکھ ہوجاؤ گی۔ مگر پھر بھی مجھے بجھا نہیں پاؤ گی۔ اور نہ میرے اندر دھکتے شعلوں کی شدت کم کرپاؤ گی۔ اِس لیے تمہارے لیے یہی بہتر ہے میری دنیا میں گھسنے کی کوشش نہ کرو۔ ورنہ تمہارا انجام بہت عبرت ناک بنا دوں گا میں۔"
اُس کے کان میں سفاکیت بھرے لہجے میں سرگوشی کرتا وہ ماہِ رو کے کب سے رُکے آنسوؤں کو باہر کا راستہ دیکھا گیا تھا۔
ماہِ رو نے ایک اذیت بھری نگاہ اُس بے رحم انسان پر ڈالتے اُسے خود سے دور دھکیلنا چاہا تھا۔ مگر التمش کی مضبوط گرفت نے اُسے زرا سا ہلنے بھی نہیں دیا تھا۔
"التمش غیدان اتنی آسانی سے نہیں چھوڑوں گی میں تمہیں۔ میرا سب کچھ چھین لیا تم نے مجھے سے۔ میں بھی تم سے تمہارا سب کچھ چیھن لینا چاہتی ہوں۔ تمہیں بھی ویسی اذیت کا شکار کرنا چاہتی ہوں جیسا تم نے میرا حال کیا تھا۔ تم مجھے اپنی طاقت سے روکنے کی چاہے جتنی مرضی کوشش کر لو۔
میں اپنی آخری سانس تک تم سے نفرت کرتی رہوں گی. اور اپنا انتقام پورا کروں گی۔"
ماہِ رو بہتی آنکھوں کے ساتھ اُنگلی اُٹھا کر وارن کرتے بولی تھی۔
اُس کے ہر بہتے آنسو کے ساتھ التمش کی گرفت اُس کے بازو پر مزید مضبوط ہوتی جارہی تھی۔ التمش کا بس نہیں چل رہا تھا۔ ہر چیز تہس نہس کردے۔ کیوں ہر بار یہ لڑکی اُس کے سینے میں آگ دہکا دیتی تھی۔ کیوں اُسے سکون سے جینے نہیں دیتی تھی۔ ۔اتنی نفرت کے باوجود اُس کی آنکھوں سے بہتے آنسو التمش غیدان کو اپنے دل پر گرتے محسوس ہورہے تھے۔
اِس سے پہلے کے وہ کمزور پڑتا اُس نے ماہِ رو کو اپنے شکنجے سے آزاد کرتے اپنا رُخ موڑ لیا تھا۔
"جاؤ۔۔۔۔۔جو کرنا چاہتی ہو میرے خلاف کرو۔۔مگر میری ایک بات یاد رکھنا التمش غیدان ایک ایسی چٹان ہے جسے تم چاہ کر بھی توڑ نہیں پاؤ گی۔ اور جب مجھے لگا تم اِس چٹان سے ٹکراتی ہار رہی ہو تو پھر جواباً میرا وار سہنے کے لیے تیار ہوجانا۔ جس سے بچنا تمہاری نازک جان کے لیے ناممکن ہوگا۔ اِس لیے ابھی بھی وقت ہے سنبھل جاؤ اور پیچھے ہٹ جاؤ۔ ورنہ مجھے ہرانے میں ناکامی پر جو سزا میں تمہیں دوں گا، وہ تمہیں شاید پسند نہ آئے۔"

التمش کی بات میں چھپا معنی خیز مفہوم وہ اچھی طرح سمجھ گئی تھی۔ اتنی سنگین سچویشن کے باوجود ماہِ رو کا چہرا سُرخ ہوا تھا اور کانوں کی لوحیں دہک اُٹھی تھیں۔


Jaan E Bewafa By Rimsha Hayat


پلیز میں تم سے معافی مانگتی ہوں۔جو بھی میں نے تمھارے ساتھ بدتمیزی کی اُس کے لیے مجھے معاف کر دو سیرت نے شفیق کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔


تجھے کیا لگتا ہے اب میں تجھے یہاں سے جانے دوں گا؟

شیر کے سامنے شکار ہو اور وہ اُسے نا کھائے تو ایسا تو نہیں ہو سکتا نا اور تمھارے جیسی حسین لڑکی کو میں جانے دوں ایسا تو بلکل بھی نہیں ہو سکتا شفیق نے خباثت سے کہتے اپنے قدم سیرت کی طرف بڑھائے۔


سیرت وہاں سے اُٹھ کر دروازے کی طرف بھاگنے لگی شفیق نے اس کو بازو سے پکڑنا چاہا تو وہاں سے کچھ کپڑے کا ٹکرا پھٹ کر شفیق کے ہاتھ میں آگیا۔

شفیق نے اسے دوبارہ بازو سے پکڑ کر اس کے منہ پر زور دار تھپڑ دے مارا جو دیوار کے ساتھ لگنی کی وجہ سے زمین پر جا گری اور ماتھے سے بھی اسکے خون نکلنے لگا تھا۔


سیرت نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھے سامنے سے آتے درندے کو دیکھا اس نے ارد گرد نظریں دوڑائی اس سے پہلے شفیق سیرت کی طرف آتا اس نے پاس پڑا گلدان پکڑا اور زور سے کھڑے ہوتے شفیق کے سر پر دے مارا۔

ابھی وہ اسی حملے سے سنبھلا نہیں تھا کہ سیرت نے دوبارہ گلدان اس کے سر پر دے مارا جو وہی اپنے سر پر ہاتھ رکھے زمین پر بیٹھ گیا تھا خون زیادہ نکل رہا تھا۔


تجھے میں چھوڑوں گا نہیں شفیق نے گالی دیتے دروازہ کھولتی سیرت کو دیکھتے کہا۔

جس نے شفیق کی بات کو اگنور کیا اور باہر بھاگ گئی اس وقت اس کا مقصد یہاں سے باہر نکلنا تھا۔

باہر چوھدری کے آدمی کھڑے تھے۔

سیرت ابھی یہی سوچ رہی تھی کہ کیسے یہاں سے باہر جائے ایک آدمی نے آکر کہا کہ چوھدری صاحب سب کو اندر بلا رہے ہیں چھوٹے چودھری بےہوش ہو گئے ہیں یہ کہتے ہی سب لوگ اندر چلے گئے اور سیرت کو یہی موقع بہتر لگا اور چوھدری کے گھر سے باہر نکل گئی۔


اس وقت وہ جس حلیے میں تھی کوئی بھی دیکھتا تو غلط ہی سمجھتا ایک بازو پھٹا ہوا تھا بکھرے بال چہرہ سوچا ہوا اور ڈوپٹہ تو شاید کہی گر گیا تھا بس وہ یہاں سے بھاگنا چاہتی تھی۔

Dildaar Masiahye Dil By Faiza Sheikh


ماہا دروازہ کھولو یار۔۔۔۔" صنم اور صالح کے جانے کے بعد وہ کب سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا مگر ماہا ناں تو دروازہ کھول رہی تھی ناں ہی کچھ بول رہی تھی۔۔ جسکی وجہ سے ابتہاج زیادہ پریشان تھا۔۔
ماہا اگر ابکی بار دروازہ ناں کھولا تو میں پھر سے چلا جاؤں گا اور تم چاہے جو مرضی کر لو میں واپس نہیں آؤں گا۔۔۔
ابتہاج نے آخری پینترا آزمایا اسے یقین تھا کہ ابکی بار وہ دروازہ کھول دے گی ۔ اور ایسا ہی ہوا تھا۔۔
ابتہاج نے لب بھینجتے ماہا کے چہرے پر مٹے مٹے آنسوں کے نشانات دیکھے۔۔
روئی کیوں تم۔۔۔۔۔" اپنے بھاری قدم اٹھائے وہ گھبیر بھاری لہجے میں بولتا ماہا کے قریب ہوا تو ماہا نے قدم پیچھے لیتے اسے دیکھا۔۔۔
کیوں بتاؤں ویسے ہی دل چاہ رہا تھا رونے کو اسی وجہ سے روئی ۔۔۔۔۔ وہ ناک چڑھائے بولی تو اسکے انداز اور یوں روٹھنے پر ابتہاج کے چہرے پر مسکان آئی، وہ قدم بڑھائے اسکے قریب ہونے لگا۔ کہ ماہا نے اسکی کوشش بھانپتے قدم پیچھے کو لیے۔۔۔۔۔ ابتہاج نے ایک دم سے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے اسے تھامنا چاہا مگر ماہا اسکی کوشش کو بھانپتے تیزی سے الٹے قدم چلتی پیچھے کو ہونے لگی کہ معا اسکے پاؤں بری طرح سے مُڑا تھا ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ گرتی ابتہاج کا بھاری ہاتھ اسکی کمر کے گرد حائل ہوتے اسے گرنے سے بچا گیا۔۔۔
ابببب ابتہاج۔۔۔۔۔۔" وہ ڈرتے ابتہاج کے کندھوں کو تھامے حراساں سی بولی تو ابتہاج نے اسکی کمر کو سہلاتے اسے پرسکون کیا، جو اس وقت بالکل ڈری ہوئی تھی۔۔
اشششش کچھ بھی نہیں تم ٹھیک ہو ماہا کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔" اسکا ڈر بھانپتے ابتہاج نے نرمی اسکے معصوم چہرے کو ہاتھوں میں بھرتے کہا تھا جبکہ ماہا نے فورا سے کپکپاتے ہوئے سر نفی میں ہلا دیا۔۔۔
نننن نہیں اگر میں گر جاتی تو میرا ببب بچہ ۔۔۔۔۔ابب ابتہاج ممم مجھے کک نن نہیں یہ ہوتا مم مگر ممم میرا بب بے بی۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ ایک بار پہلے بھی اپنے بچے کو کھو چکی تھی ۔۔۔ اسکا دماغ بالکل سن سا پڑ گیا تھا اسکے دل و دماغ میں صرف ایک بات گھوم رہی تھی کہ وہ پھر سے اپنے بچے کو کھو دیتی۔۔۔۔ "
ماہا میری جان کچھ بھی نہیں ہوا ریلیکس رہو میری جان میری زندگی۔۔۔۔" اس وقت ماہا کو سنبھالنا بہت مشکل ہو رہا تھا ابتہاج کیلئے وہ جانتا تھا کہ وہ کس خوف ڈر کے تحت یہ سب کچھ کہہ رہی تھی۔۔ جبھی تو وہ اسے پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔
ماہا اپنے سینے میں اترتی ابتہاج کی دہکا دینے والی سانسوں کو محسوس کرتے پل بھر میں آسکی قربت میں ی۔۔۔۔ ابتہاج کے لمس میں نرمی تھی وہ اسے محبت سے چھوتے اسکا سارا ڈر خوف نکالنا چاہتا تھا جس میں وہ کامیاب بھی ہوا تھا۔۔

ماہا ابتہاج کی قربت میں سب کچھ بھلائے اسکی محبت کو محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔ ابتہاج اسے پرسکون ہوتا دیکھ نرمی سے اسکے ہونٹوں کو آزادی دیے پیچھے ہوا اور ماہا کے سرخ پڑتے چہرے پر آنسوں کے نشانات دیکھتے ابتہاج نے اپنے ہاتھ کی پشت سے ماہا کے رخسار کو سہلایا۔۔۔ ماہا ابتہاج کے ہاتھ کے سخت لمس کو محسوس کرتے بےچین سی ہوتے اسے دیکھنے لگی جو اسکی آنکھوں میں دیکھتا اپنے ہونٹ ماہا کے رخسار پر رکھتے اسکے انسںوں کے نشانات کو چھونے لگا۔

Shiddat E Lams By Faiza Sheikh


ہنیزہ فریش ہو کر باہر نکلی اور اپنے گیلے بال تولیے سے آزاد کیے پنک فراک وائٹ چوڑی دار پاجامے میں اس وقت وہ مہکتا گلاب لگ رہی تھی اس کے وجود کی دلفریب مہک ،نم بالوں سے گرتی پانی کی بوندیں ایک الگ ہی سما باندھ رہیں تھیں

ہنیزہ نے کوفت سے برش ہاتھ میں پکڑے اپنے بالوں کو دیکھا جو اس سے سلجھتے ہی نہیں تھے اسے رونا آنے لگا


"گنننندےےےے ہو ۔۔۔ ککککیوں نیییی ٹھیکک ہوتے ۔۔۔۔ میںنن عاشو ووو ککو بووولنگی ۔۔۔۔ وہ کٹ کرینگے تمممہیں "

وہ بڑے مصروف انداز میں بالوں کو سلجھاتی رازدارانہ گفتگو کر رہی تھی ۔۔۔۔ جہاں اس کی گفتگو پر کسی کے پتھریلے تعصرات ۔۔۔۔ میں نرمی آئی تھی ۔۔۔ وہیں عاشو کا نام سن کر ماتھے پر لاتعداد بلو ں کا اضافہ ہواتھا اسے محسوس ہوا تھا کہ کسی نے کھولتا ہوا پانی اس کے وجود پر ڈال دیاہو وہ سرخ نظروں۔سے بلیک روم میں بیٹھا اسکرین کو گھور رہا تھا

اور پھر ایک ہی جھٹکے سے اس نے لیپ ٹاپ دیوار پر دے مارا

"ہنیزہ میکال ایک بار پھر اس کی انا پر کاری وار کر چکی تھی جسکا اسے اندازہ بھی نہیں تھا ۔۔۔۔


ہنیزہ کی جدو جہد بالوں سے جاری تھی جب اپنے پیچھے آہٹ محسوس کرکے وہ پیچھے مڑی

اور اپنے بلکل سامنے کھڑے ''عابس سلطان"کو دیکھ اس کی آنکھیں پھٹنے کے قریب تھیں ۔۔۔۔ جسم کھڑے کھڑے کانپنے لگا تھا


وہ پلکیں بار بار جھپکتی اپنی اوشن نیلی آنکھوں سے اس کی سرد ہیزل گرین آنکھوں میں دیکھ رہی تھی پر ایک لمحےسے زیادہ نہ دیکھ پائی ۔۔۔۔ اس تعصر کو جس نے اس کا معصوم سا وجود لرزا دیا تھا ۔۔۔

عابس قدم قدم بڑھتا اس کے قریب آنے لگا ۔۔۔۔. جبکہ اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ ہنیزہ کا سانس اوپر کا اوپر ہی رہ گیا وہ ہونٹوں پر اپنی مخروطی انگلیاں جمائے گہرے سانس بھرنے لگی ۔۔۔

عابس نے اسے دور جاتا دیکھ تمسخرانہ انداز میں لبوں کو مسکراہٹ میں۔ڈھالا

"کیاہوا 'ہنیزہ میکال 'میرے بھائی کی باہوں میں بڑے آرام سے نیند کے مزے لوٹ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔ اور مجھ سے اس قدر دوری ۔۔۔ یہ تو نا انصافی ہے نا ۔۔۔۔ بابا کی ہنییییییی "

عابس کا لہجہ مکمل بہکا ہوا تھا ۔۔۔۔ ایک جنون بے معنی سا تھا جس کی رو میں بہکتا وہ سب فراموش کر بیٹھا تھا ۔۔۔۔ اس کی نفرت اس کا پاگل۔پن سب کچھ صرف ہنیزہ میکال۔سے منسوب تھا ۔۔۔۔


اس کے جواب نا دینے پر عابس نے آنکھیں سکیڑیں ۔۔۔.

اور ایک ہی جست میں اسے خود کے قریب کرتا بیڈ پر بٹھا گیا یہ سب ایک پل میں ہوا تھا ہنیزہ پلک جھپکتے بیڈ پر تھی

اسے محسوس ہوا کہ ہوا کا کوئی جھونکا اسے چھو کر گزرا ہے عابس سلطان نے اسے ایسے چھوا تھا کہ وہ محسو س تک نہ کر سکی ۔۔۔۔۔


بس آنکھیں بند کیے گہرے سانس بھرتی اپنی موت کی دعاِئیں مانگنے لگی


Shanasay E Yaar By Zainab Faiza


ععع عععاللللمم_____" اصلال عالم کی آنکھوں میں چھائی خمار کی سرخی عبادت کو لرزنے پر مجبور کر گئی وہ سہمی حراساں سے اسکے کشادہ سینے پر اپنے نازک ہاتھوں سے دباؤ ڈالتی اسے خود سے دور کرنے لگی جو کسی سائے کی طرح عبادت پر جھکا اسکی سہمی نظروں میں دیکھ اسے مزید خوفزدہ کر گیا۔۔۔

اب بولو میں کیا ہوں۔۔۔۔۔" وہ اطمینان سے اپنے دونوں ہاتھ عبادت کے دائیں بائیں تکیے پر ٹکائے انہماک سے اسے دیکھ استفار کرنے لگا ۔۔۔ عبادت نے تھوک نگلتے خود کو بچانے کا کوئی بہانہ ڈھونڈنا چاہا مگر برا ہو قسمت کا جو عین وقت پر اسے کوئی بھی بہانہ نہیں ملتا تھا۔۔

آپ ایک اچھے شریف بہت سمجھدار انسان ہیں۔۔۔۔۔!" اپنی سنہری آنکھیں اصلال عالم کی سیاہ آنکھوں میں گاڑھتے وہ معصومیت سے اسکی تعریف کرتی اصلال کو کوئی چالاک لومڑی لگی تھی۔۔۔

اچھا تو میں شریف ہوں۔۔۔"اپنے بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی عبادت کے دائیں گال پر پھیرتے وہ اسکے رونگٹے کھڑے کر گیا۔۔۔ بولیں مسزز عالم کیا میں شریف ہوں۔۔۔وہ لفظوں پر زور دیتا تیز لہجے میں تصدیق کرنا چاہ رہا تھا ۔۔۔ وہ سنتی اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے سر ہاں میں ہلا گئی۔۔۔

اہا سمجھدار بھی ہوں۔۔۔۔۔۔" وہ ائبرو اچکاتے انگلی اسکی ناک پر لے جاتے پوچھنے لگا۔۔۔وہ سرخ چہرے سے لرزتے وجود سے اصلال کے بھاری وجود کے نیچے دبی سی پڑی تھی۔۔۔۔ دھڑکنوں کا شور الگ سے طوفان مچا رہا تھا رہی سہی کسر اصلال عالم کی قربت نے نکال دی تھی۔۔

عبادت  مرتی کیا ناں کرتی کی مصداق کے تحت سنتی سر ہاں میں ہلا گئی۔۔۔تو پھر میں جو بھی کہوں گا وہ بھی ٹھیک ہو گا۔۔۔" وہ گہرے لہجے میں معنی خیز سا پوچھ رہا تھا۔ عبادت تو اسکے خوف سے اسکے لہجے کی وارننگ کو سمجھ تک ناں سکی۔۔ وہ پھر سے تابعداری کا مظاہرہ کرتی گردن ہاں میں ہلا گئی۔۔

دھین کس می ناؤ_____" وہ مخمور نگاہوں سے انگلی سرکاتے عبادت کے سرخ ہونٹوں پر رکھتے گھبیر لہجے میں سرگوشی کرتے بولا عبادت سنتی دہل سی گئی۔۔۔وجود جیسے جھٹکوں کی ضد میں تھا۔۔۔اسے لگا کہ شاید اسے سننے میںں غلطی ہوئی تھی کیونکہ وہ ہر طرح کی حرکت کا سوچ سکتی تھی مگر اسے اندازہ نہیں تھا کہ اصلال عالم اسے ایسا ویسا کچھ بھی کہے گا۔۔۔

وہ تھوک نگلتے اپنی آنکھوں  میں ڈھیروں آنسوں لائے اسے بے یقینی سے دیکھنے لگی۔۔اشششش روؤ مت یہ۔صرف مجھے تڑپانے کی سزا ہے۔۔۔۔!" عبادت کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ وہ جھکتے اسکے کان میں سرگوشی کیے اپنے دہکتے ہونٹوں سے اسکی گردن کو چومتا مدہوش سا ہو گیا۔۔۔۔

عبادت کا پورا وجود ہلکا ہلکا لرز رہا تھا۔۔۔۔ اسے شدید افسوس ہوا کاش کہ وہ چلی جاتی تو اس وقت اسے اس مگرمچھ کے اس قدر بھیانک روپ کا سامنا ناں کرنا پڑتا۔۔۔۔۔

پپپ پلیز ععععع عععاللممم۔۔۔۔۔۔وہ آنکھوں میں ڈھیروں آنسوں لائے منت کرتی سوں سوں کرنے لگی۔۔۔ اصلال نے ناک سکیڑتے اسے گھورا۔۔۔ اچھا تمہارے پاس دو آپشن ہیں اگر منظور ہے تو بتاؤں۔۔۔۔۔"

وہ انگلی پر اسکے سنہری لٹوں کو لپیٹتا بہکی نگاہوں سے اسکے سراپے کو دیکھے پوچھنے لگا۔۔۔۔ ہہہ۔ہاں۔۔۔۔۔ عبادت بنا سنے فورا سے حامی بھر گئی۔۔۔۔ خود سے کس کرنے سے بہتر تھا کہ وہ اسکی کوئی بھی شرط مان۔لیتی۔۔۔۔ ویری گڈ بہت سمجھدار ہو۔۔۔۔۔؛ "میں ابھی تمہیں فورس نہیں کروں گا مگر شادی کے بعد تم خود مجھے کس کرو گی منظور ہے۔۔۔۔"

عبادت کی گردن پر جابجا اپنا۔لمس چھوڑتے وہ لب دبائے پوچھنے لگا۔۔۔۔

عبادت نے آنکھیں میچتے سر ہاں میں ہلا دیا۔۔اصلال عالم کا شدت بھرا لمس اپنی گردن پر سرکتا محسوس کرتی وہ لرزتی کپکپاتی بھاری سانس لیتے خود کو مضبوط بنا رہی تھی۔۔ اور دوسری یہ کہ تم ابھی اپنی بانہیں میری گردن میں ڈالے مجھے خود سے نزدیک کرو گی کہ میں تمہیں تمہاری غلطی کی سزا دے سکوں۔۔۔۔" وہ مسکراتا عبادت کی تھوڑی کو چومتے بولا۔۔

عبادت نے جھٹکے سے اسکے سینے پر ہاتھ رکھتے اسے پیچھے کرنا چاہا مگر اصلال نے جھٹ سے اسکے بازوؤں تھامے اپنی گردن میں حائل کیے ، اور ایک دم سے اسکے ہونٹوں پر جھکتا وہ شدت سے اسکی دہکتی سانسوں اسکے نرم و ملائم ہونٹوں کے لمس کو محسوس کرتا مدہوش سا ہو گیا۔۔

************

وہ کب سے گیٹ کے پاس کھڑی اصلال کا ویٹ کر رہی تھی۔۔۔۔ اب تو کھڑے ہو کر بھی اسکی ٹانگوں میں درد سا ہو رہا تھا۔۔۔۔۔ کل رات کو اصلال کی شدتوں کی وجہ سے وہ کافی خفا تھی اس سے۔۔۔۔۔ جو اچھے طریقے سے اسکا دماغ ٹھکانے لگائے اسے جاتے وقت یہ بتا گیا تھا کہ کل وہ کسی میٹنگ کیلئے لاہور جا رہا ہے اور اسے جلدی نکلنا تھا جبھی اسے حکم دیا تھا کہ جاتے وقت آنش کے ساتھ جائے مگر واپسی پر وہ خود اسے پک کرے گا۔۔۔

عبادت ساری رات اسے بدعائیں دیتے سوئی تھی اور پھر صبح اسنے انش کو بھی لینے آنے سے منع کر دیا تھا اور اب لاڈ صاحب خود ہی غائب تھے۔۔۔سارا کالج حالی تھا مگر کالج کی۔پرنسپل اور ٹیچرز ابھی تک یہیں تھے کسی میٹنگ کے سلسلے میں ۔۔۔۔ عبادت نے سوچ لیا تھا کہ اگر تو وہ میٹنگ ختم ہونے تک آ گیا تو ٹھیک نہیں تو وہ پرنسپل سے سیل لیتے وہ آنش یا پھر پاپا کو کال کرے گی اور اصلال عالم کو خوب ڈانٹ بھی پڑوائے گی۔۔۔۔

وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی جب چوکیدار چلتا اسکے قریب آتے اسے مخاطب کرنے لگا۔۔۔ عبادت جھٹکے سے ہوش میں آتی اسے دیکھنے لگی۔۔ جج جی۔۔۔۔۔!" وہ سہمی سی پوچھنے لگی۔۔۔ بیٹا باہر کوئی آیا ہے آپ کو بلا رہے ہیں___!"

عبادت کے چہرے پر سنتے ہی خوشی کی۔لہر دوڑی تھی وہ خجاب ٹھیک کرتے بیگ اٹھائے کندھے پر ڈالے باہر نکلی مگر سامنے ہی کسی اور مرد کی پشت کو دیکھ وہ پہچان چکی تھی کہ وہ اصلال نہیں تھا۔۔۔۔

اپپ کک کون۔۔۔۔؟" وہ چونکتے حیرانگی سے پوچھنے لگی۔۔۔۔۔ السلام علیکم عبادت میں تمہارا کزن قاسم بیگ۔۔۔۔۔۔" عبادت کی دھیمی باریک آواز سنتے قاسم کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑی تھی وہ رخ موڑتے سنجیدہ سا ہوتے اسے آگاہ کرنے لگا۔۔۔

وعلیکم السلام۔۔۔۔۔!"بھائی میں پہچان گئی ہوں آپ کو،مگر آپ یہاں۔۔۔۔۔"ہمیشہ کی طرح اپنے سخت لہجے میں کہتے وہ اسے دیکھتے پوچھنے لگی___ عبادت کے بھائی کہنے پر وہ لب بھنجتے اپنے اشتعال کو دبائے عبادت کے حسین چہرے کو دیکھتا خود کو ریلکس کرنے لگا۔۔۔

ہاں یہاں سے گزرا تو مجھے ایسا لگا کہ تم یہیں کالج میں ہو پھر واچ مین سے پوچھا تو اسنے میرے شک کی تصدیق کر دی آؤ گھر چھوڑ دوں۔۔۔" وہ مسکراتا۔ہلکے پھلکے انداز میں بتاتا مسکرا رہا تھا۔۔

عبادت کو اسکا بہانہ بے تکا لگا بھلا اسے کیسے شک پڑا کہ وہ اندر ہے۔۔۔۔

نہیں آپ زخمت مت کریں عالم آتے ہوں گے میں انکے ساتھ چلی جاؤں گی۔۔۔۔۔" قاسم کی نظروں سے حائف وہ دانت پیستے ہوئے بولی تو قاسم نے سنتے گہرا سانس بھرا۔۔۔

میں لاہور سے ہی آ رہا ہوں عبادت میٹنگ کب کی ختم ہو چکی ہے عبادت کسی دوست کی پارٹی میں انجوائے کر رہا ہے میں نے کہا بھی کہ چلو ایک ساتھ چلتے ہیں مگر وہ نہیں مانا مجھے ماما کو ہاسپٹل لے کر جانا تھا تو میں جلدی سے واپس آ گیا ویسے بھی مجھے ایسی پارٹیز پسند نہیں۔۔۔۔"

عبادت کے جھکے چہرے اسکے پھیلی آنکھوں میں بے یقینی غصہ دیکھ وہ مسکراہٹ روکنے لگا۔۔۔اگر تمہیں انتظار کرنا ہے تو کر لو۔۔۔میں نے اس لئے کہا تھا کیونکہ میں گھر ہی جا رہا ہوں۔۔۔۔" وہ کہتا دوبارہ سے گاڑی کی جانب بڑھا ۔۔۔

جبکہ عبادت کی آنکھیں ایسی تھیں جیسے کسی نے سلگتے سیسے لگا دیے ہوں ۔۔۔ اصلال عالم کی نظروں میں اپنی اہمیت جان کر اسکا روم روم دکھی تھا۔۔۔ رکیں بھائی مجھے ڈراپ کر دیں۔۔۔۔"

وہ فورا سے فیصلہ لیتے مضبوط لہجے میں بولی قاسم نے مسکراتے اپنی چال کامیاب ہونے پر خود کو داد دی۔۔۔اور پھر مسکراتے اسکے لئے فرنٹ ڈور کھولا۔۔۔۔ میرے سوا کسی کے ساتھ فرنٹ سیٹ شئیر مت کرنا کبھی۔۔" اصلال عالم کی رات کو کی مدہوش سی مگر سخت سرگوشی اسکے دماغ میں گھومی مگر غصہ اس وقت اس قدر تھا کہ وہ بنا سوچے سمجھے جھٹ سے بیٹھی تھی۔۔۔

اپنی کامیابی پر سامنے ہی دوسری گاڑی میں بیٹھی امل نے مسکراتے ساتھ موجود پروفیشنل فوٹو گرافر کو اشارہ کیا جس نے بہت اچھے سے قاسم اور عبادت کا مسکراتا ایک دوسرے کا دیکھتا چہرہ قید کیا تھا۔۔۔۔

آئسکریم کھاؤ گی۔۔۔۔" اسنے جان بوجھ کر گاڑی آئسکریم پارلر کے سامنے روکے مسکراتے پوچھا۔۔۔ ننن نہیں گے گھر لے چلیں۔۔۔۔ اصلال عالم کو اگر بھنک بھی پڑی تو اسکا کیا حال ہو گا یہ سوچ سوچ کر ہی اسکا چہرہ پسینے سے تر تھا۔۔

وہ جلدی سے اس گھٹن سے نکلتے اپنے گھر جانا چاہتی تھی۔۔۔۔ ارے یار پہلی بار آئی ہو ایسے تو نہیں جانے دوں گا۔۔۔۔" وہ مسکراتا عبادت کے سراپے کو گہری نظروں سے دیکھتا سٹاربری فلیور منگوا گیا۔۔۔۔

عبادت بری طرح سے ڈری انگلیاں چٹخاتے گھر جانے کو بےچین تھی مگر وہ قاسم سے بدتمیزی بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔

قاسم نے ائیسکریم لیتے اسے خیال میں کھویا دیکھ سامنے امل کی گاڑی کو دیکھا اور پھر جان بوجھ کر اسکے ناک پر مسکراتے ائیسکریم لگا دی۔۔۔۔ییی یہ کیا آپ نے۔۔۔۔.!" وہ جو اصلال عالم کو سوچ رہی تھی اچانک سے قاسم کی اس حرکت پر حیرت زدہ سی اسے دیکھتے سخت لہجے میں پوچھنے لگی۔۔۔

سوری یار پتہ نہیں کیسے ہو گیا۔۔۔۔؟" وہ شرمندگی چہرے پر سجائے مظلومیت طاری کرتے بولا تو عبادت جل بھن کر رہ گئی۔۔۔ مجھے گھر لے چلیں پلیز مجھے نہیں کھانی۔۔۔۔۔" وہ کھردرے لہجے میں کہتے رخ موڑتے بیٹھ گئی۔۔۔

تو قاسم نے کندھے اچکاتے اسکی پشت کو اور پھر آئسکریم کو دیکھا وہ مسکراتا ائیسکریم کے اس حصے سے بائٹ لینے لگا جسے عبادت کی ناک سے مس کیا تھا۔۔

آنکھیں موندے وہ ٹیسٹ کرتا باقی کی ائیسکریم باہر پھینک گیا۔۔۔۔ شکریہ بھائی آپ کا ۔۔۔۔۔" گیٹ پر پہنچتے ہی وہ تشکر بھرا سانس لیتے باہر نکلی۔۔ قاسم بھی اسکے ساتھ ہی نکلا تھا ۔۔۔۔

عبادت اسے شکریہ ادا کرتے تیزی سے اندر جانے لگی کہ معا قاسم نے پاؤں اسکے سامنے کیا۔۔۔جس سے وہ بیلنس کھوتے چیختے نیچے گرنے لگی کہ قاسم نے آگے ہوتے اسے بانہوں میں بھرتے اسکی کمر کو مضبوطی سے تھاما۔۔۔۔۔

عبادت کا پورا وجود قاسم کے لمس پر سن سا۔پڑ گیا وہ حواس بافتہ سے اسے دھکہ دیے ایک دم سے سرخ چہرے سے پیچھے ہوتی اندر بھاگی تھی۔۔۔ جبکہ اسکے جانے کے بعد وہ بالوں میں ہاتھ چلاتا سیٹی کی دھن پر امل کی گاڑی کو آنکھ دبا گیا۔۔۔۔

فضا میں امل کا معنی خیز قہہقہ بلند ہوا تھا۔۔۔

***********                    

Baab Ik Aur Muhabbat Ka By Afshan Kanwal


"بہنام صاحب! یہ شریفوں کے طور طریقے نہیں ہوتے جو آپ نے اپناۓ ہیں ۔ رات کے اس پہر کسی لڑکی سے اس کی مرضی جاننا یقیناً غیر اخلاقی حرکت کے زمرے میں آتا ہے۔۔“ وہ غصے اور طنز کے ملے جلے انداز میں بولی ۔ کچی نیند کے باعث اس کی آنکھوں میں تیرتی سرخی بہنام سومرو کے دل میں قیامت برپا کررہی تھی لیکن ایمل کے لہجے سے چھلکتا غصہ اسے کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا۔

”پہلی بات یہ کہ میں شریف بلکل نہیں ہوں ۔دوسری بات جب میں نے کہا تھا کہ گاٶں سے آنے کے بعد میں تمہارا جواب چاہوں گا تو تمہیں کیا ضرورت تھی یہاں آنے کی؟ تیسری اور اہم بات۔۔۔ میری اور اخلاق کی بہت کم بنتی ہے تو وہ زیادہ تر میرے پاس رکتا نہیں ہے ۔ ہاں! تمہارے زندگی میں آنے کے بعد ہوسکتا ہے وہ حضرت بھی مستقل میرے ہاں مکیں ہوجاٸیں ۔۔“ ٹھہر ٹھہر کر وہ اپنے بھاری گھمبیر لہجے میں بولتا اسے گھبراہٹ میں مبتلا کرگیا تھا۔

”بہنام۔۔“ کسی میٹھے جھرنے کی صورت یہ نام اس کے لبوں سے نکلا تو بہنام عالم مدہوشی سے باہر آتا اپنے نام کو جھک کر معتبر کرگیا۔ وہ تو پہلے ہی اپنی بےباک باتوں سے اسے بوکھلاٸے رکھتا تھا اور اب تو اسے اختیارات بھی حاصل ہوچکے تھے۔ وہ پل پل اپنی جان لیوا نزدیکیوں سے اس کا دم خشک کٸے جارہا تھا۔


”میں آپ سے ناراض ہوں۔۔“ اس کی بڑھتی جسارتوں پر ایمل نے باندھ باندھے کی سعی کی تھی۔ وہ اس کی بات سن کر یوں مسکرایا جیسے کوٸ نادان بچے کی بات سن کر مسکراتا ہے۔


”میں آپ کو راضی کرنے کی ہی کوشش کررہا ہوں۔ اب تو مکمل اختیارات حاصل ہے نا دلبرا۔۔۔“ مدہوش کن لہجے میں کہتے اس نے ایمل کی نتھ کو دھیرے سے اس کی ناک سے احتیاط کے ساتھ الگ کیا۔ وہ اس کی دسترس میں دم سادھے پڑی رہی۔ یوں لگ رہا تھا کہ سارا وجود گویا منجمد ہوگیا ہے۔

Ye Ishq Hai Pera Kara By Afshan Khan 

"میں نے تمہیں رشتہ لانے سے منع کیا تھا لیکن تم بہت ہی ڈھیٹ نکلے۔“


"اسے ڈھیٹ پن نہیں مستقل مزاجی کہتے ہیں خیر ایک دفعہ میری دسترس میں آجاؤ میں سارے مطلب سیاہ و سباق کے ساتھ تمہیں سیکھادوں گا۔“ اس کے کڑوے لہجے کا اثر لئے بغیر وہ شریں لہجے میں گویا ہوا۔


"میں لعنت بھیجتی ہوں تم پر اور تمہاری محبت پر۔“ وہ ایک دم پھنکاری تھی۔


"اریکہ خانزادہ! میرا ضبط مت آزماؤ۔۔ پہلے بھی کہا ہے کہ میری محبت کو محبت رہنے دو ضد نا بناؤ۔ ورنہ تم چودھری کی ضد سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجاؤں گی۔ محبت میں میں انا کا قائل نہیں ہوں۔ ورنہ چودھریوں کی انا خانوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔

 میرے سارا معاملہ بڑوں کے سپرد کرچکا ہوں تو بہتر ہوگا تم بھی اپنے اختیارات انہی کے تابع کرلو۔“ وہ چاہ کر بھی اس سے سخت رویہ نہیں اپناسکا تھا۔ ورنہ اس کی محبت کو گالی دینے والے کو وہ زمین میں گاڑ دیتا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ محبت کو گالی دینے والی ہی اس کی محبت تھی۔ اسے تو وہ پھولوں سے بھی چھونے سے ڈرتا تھا تو پھر غصے سے کیسے چھوسکتا تھا۔


پورے ہوتے نہیں پھر بھی دیکھے بہت خواب آنکھوں پے حیران ہیں "

نور اس انسان کو چاہنے لگ گئی تھی بہت بغیر یہ سوچے سمجھے کہ وہ اس کا ھو گا یا نہیں اور محبت میں سوچ سمجھ کہاں ہوتی ہے ۔یہی تو ایک جذبہ ہے جو سب سے زیادہ شفا ف ہوتا ہے اور انسان خود کو کسی ذات سے منسلک کر لیتا ہے نور کا بھی کچھ یہی حال تھا یہ جانتے ہوے بھی کے وہ شخص اس طرح کے ہر جذبے سے عاری ہے نور اس سے محبت کی جنگ لڑنے کے لئے تیار ھو گئی ۔اور اگر دل سے کسی کو چاہو تو انسان کبھی ہار نہیں سکتا کبھی بھی نہیں ۔اور نور نے فیصلہ کر لیا تھا جو بھی ھو وہ علیم سے بات کرے گی

آج نور کو یونی سے اوف تھا اس لئے وہ زیادہ تر گھر کے کاموں میں مصروف رہی ۔نور بیٹا سمن نے نور کو آواز دی جی ماما نور بولی بیٹا فارغ ھو کر آ جاؤ میں مارکیٹ جا رہی ہوں تھوڑا کام ہے تم بھی آ جاؤ اپنے لئے پارٹی کا ڈریس لے لینا ۔نور کی نیکسٹ ویک پارٹی تھی اور نور نے مما کو پہلے ہی بتا دیا تھا ۔

نور جلدی سے تیار ہوئی اور مارکیٹ کے لئے نکل گئی ۔نور بیٹا یہ بلیو فراک دیکھو تو کافی دلکش لگ رہا ہے سمن نور سے مخاطب ہوئی ۔

نور نے کندھے اوچکا ئے اور بولی ٹھیک ہے لیکن کچھ سوچتے ہی اسکی آنکھوں میں خوشی کی چمک اٹھی اور اس نے وہ بلیو ڈریس لینے کا فیصلہ کیا ۔اس نے علیم کو زیادہ تر بلیو شرٹ میں دیکھا تھا اور وہ اس میں خاصا ہینڈ سم لگتا تھا ویسے تو نور کو وہ ہر انداز میں ہی اچھا لگتا تھا ۔اور مشی کا بھی ڈریس کلر سیم تھا تو اس نے بلیو ڈریس لے لیا ۔

"وہ آ ئے ہیں محفل میں کچھ تو خاص ہونا چاہئے بتائے؟؟؟؟

جان پیش کریں یا کچھ اور ہونا چاہیے "

آج نور کی پارٹی تھی اور وہ بلیو ڈریس میں کافی دلکش لگ رہی تھی ۔وہ حجاب ہی کرتی تھی ہمیشہ اس لئے آج بھی حجاب میں تھی ۔تیار ھو کر وہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر مشی کا انتظار کرنے لگی ۔ارے واہ آج تو میڈم پہچانی نہیں جا رہی مشی اس سے آتے ہی مخاطب ہوئی کسے مارنے کا ارادہ ہے مشی یہ پوچتھے ہی زور زور سے ہنسنے لگ گئی اور نور بھی ساتھ میں ہی ہنسنے لگ گئی ۔

انکے ڈیپارٹمنٹ کی ویلکم تھی لیکن پھر بھی یونی میں کافی رش تھا ۔venue پہنچ کر وہ پارٹی ہا ل کی جانب بڑھنے لگی ۔نور کی نظر ساتھ گزرنے والے شخص پر پڑی جو کے نیوی بلیو تھری پیس ڈریس میں بہت ہینڈسم لگ رہا تھا اس نے نور کی جانب نہیں دیکھا اور نور اس شخص سے اپنی نظریں ہی نا ہٹا سکی نور ابھی گم تھی خیال میں کے مشی نے اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی نور میڈم کہاں کھو گئی ۔کچھ نہیں بس ایسے ہی نور ُبڑ ُبڑ ا ئی چلو اندر ہا ل میں چلتے ہیں نور اسے اندر لے آئی ہال بہت خوبصورت انداز میں سجا یا ہوا تھا اور کافی اچھا لگ رہا تھا ۔

فنکشن کا آغاز ھو چکا تھا سپیچ اور باقی سب بھی قابل تعریف تھا ۔نور کی نظریں ہر لمحہ کسی کو تلاش کر رہی تھی ۔۔لیکن اس نے فنکشن کو بھی خوب انجوائے کیا ۔فنکشن ختم ہوتے ہی سب لوگ اسٹاپ کی جانب بڑھنے لگے ۔نور اور مشی نے بھی اسٹاپ کا رخ اختیار کر لیا ۔

مشی اپنے پاپا کے ساتھ چلی گئی لیکن نور ابھی انتظار کر رہی تھی روحیل بھائی کو شاید کوئی کام تھا اس لئے وہ لیٹ ھو گئے ۔نور نظریں جما ئے انکا انتظار کر رہی تھی ۔اچانک اس نے اپنی جانب ایک شخص کو بڑھتے دیکھا پتہ نہیں وہ کون تھا لیکن نور کو یہ اندازہ ھو گیا کے وہ اسکی جانب آ رہا ہے ۔کیا بات ہے میڈم بہت حسین لگ رہی ہیں ۔

نور یہ بات سن کر حواس کھو بیٹھی اور غصے سے لال پیلی ہونے لگی ۔کون ھو تم اور کیا بکواس کر رہے ھو تمہیں تمیز نہیں ہے کے کسی لڑکی سے کیسے بات کی جاتی ہے نور ۔ہاں نہیں ہے تمیز اس لئے تو آپ کے پاس آیا ہوں آپ سیکھا دو ۔اسکی یہ بات سنتے ہی نور طیش میں آ گئی آؤ دیکھا نا تاؤ ایک تھپڑ اسکی گال پر رسید کر دیا اور مسکراتے ہوئے کہا کے اب تمہیں ہمیشہ یاد رہے گا کے کیسے کسی عورت سے بات کی جاتی ہے ۔وہ آدمی غصے میں آ گیا اور نور کی جانب بڑھنے لگا نور کی دھڑکنوں کی رفتار تیز ھو رہی تھی ۔اسے کوئی ارد گرد نظر بھی نہیں آیا وہ پریشان ھو گئی ۔۔


-------------#######------------


ہر وقت وہ شخص اندھیرے میں بیٹھا رہتا ۔جیسے دنیا سے اسے کوئی لگاؤ ہی نہیں رہا تھا ۔ہر چیز اسکے لئے تکلیف کا با عث تھی ۔اب اسے احساس ہوتا تھا کے اپنی محبت کو کھو دینا کس قدر تکلیف دیتا ہے زندگی میں کسی کا ساتھ پا کر بھی دل میں ایک خلا ہمیشہ رہتا ہے اور وہ محبت کو پا کر ہی پورا ھو سکتا ہے


------------######--------------


نور خوف کے مارے قدم پیچھے ہٹا رہی تھی اور اسے اپنے جسم سے جان نکلتی ہوئی محسوس ھو رہی تھی ۔وہ آدمی آگے بڑھ کر اسے غصے سے پکڑنے لگا نور خود کو چھڑا نے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ناکام رہی ۔اتنے میں اسے زنا ٹ سے تھپڑ کی آواز آئ اس نے فورا آنکھیں کھولی تو وہ دنگ رہ گئی تھی ۔اس شخص نے اسسے تھپڑ مار کر زمین بوس کر دیا اور بولا کے آج کے بعد تجھے یاد رہے گا کے عورت کی عزت کیسے کرتے ہیں ۔وہ آدمی اٹھا اور بھاگ گیا وہاں سے نور اس سب کو بہت زیادہ حیران پریشان ھو کر دیکھ رہی تھی ۔۔

اب علیم اسے سبق سیکھا کر نور کی جانب بڑھ رہا تھا ۔ہمیشہ کی طرح نور اسے بنا پلک جھپکے دیکھتی رہی ۔۔اور اس شخص کا چہرہ بالکل بے تاثر تھا ۔نور آپ کہاں گم رہتی ھو کچھ ہوش بھی ہوتا ہے کے نہیں وہ غصے میں اسے بول رہا تھا لیکن نور کو اسکا یوں غصہ کرنا برا نا لگتا کیوں کے وہ ہر مشکل میں اس کا محسن بن کر سامنے آ جاتا اور نور کے حواس اڑا دیتا ۔نور نے سر جھٹکا اور بولی جی میں سمجھی نہیں ؟؟؟میڈم ہوش میں رہا کرے اسکو غصے سے دیکھا اور اسکا ہاتھ کھینچ کر آگے کیا یہ رہا آپکا کارڈ نیکسٹ ٹائم خیال کرئے گا ۔

یہ کہ کے وہ ساتھ کھڑا ھو گیا نور کو اچھا لگا لیکن وہ خاموش ہی رہی ۔اتنی دیر میں نور کے بھائی بھی آ گئے نور انکی طرف بڑھی اور وہ شخص واپس چلا گیا نور نے اسے پلٹ کر دیکھا لیکن اس نے نہیں دیکھا اور وہ چلی گئی ۔کیا بھائی اتنی دیر کب سے انتظار کر رہی ہوں نور بولی ۔ہاں بس تھوڑا بزی تھا سوری ۔کوئی بات نہیں بھائی نور ہلکا سا مسکرائی ۔نور نے گھر آتے ہی چینج کیا اور ماما سے حال چال پوچھا اور نماز پڑھ کر رب کا شکر ادا کیا کے اسکی وجہ سے وہ بچ گئی آج اس کے لبوں پے انجانی سی دعا آئ

"یارب جسے میرے محسن بنا کر بھیجا ہے اس کو ساری زندگی کے لئے میرا کر دے "

اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئ اور وہ سونے کے لئے چلی گئی ۔موبائل فون پر میسج رنگ ہوئی ۔وہ دیکھ کر مسکرائی ۔۔اور میسج پڑھنے لگ گئی ۔آپکا ہاتھ کیسا ہے؟؟؟؟ نور کو یہ میسج پڑھ کر یقین نہیں آیا کے اسے کیسے پتہ چلا کہ اس کے ہاتھ پے چوٹ لگی ہے ۔نور کو کارڈ دیتے وقت علیم نے اس کا ہاتھ دیکھ لیا تھا شاید چوڑی ٹوٹ جانے کی وجہ سے کٹ لگ گیا تھا ۔جی اب بہتر ہے نور نے رپلائے کیا ۔سوری نور میں کچھ زیادہ ہی غصہ کر گیا لیکن میں کیا کروں میں اسا ہی ہوں روڈ ٹائپ انسان ۔جی کوئی بات نہیں نور نے جواب دیا اس سے پہلے کے وہ مزید بات کرتی اسکا میسج آ گیا اپنا خیال رکھیے گا خدا حافظ ۔نور مسکرائی اور سونے کے لئے لیٹ گئی ۔۔۔۔دماغ میں وہی منظر اور چہرہ بار بار گردش کر رہا تھا



سویرا اس کا غصہ دیکھ کر چپ چاپ ہو گئی اب شہریار نے اس کا پیر تھام کر جوتا اتارا  اس کا پیر سوج رہا تھا اس نے تاسف سے اس کے سوجے ہوئے پیر کو دیکھا اور فرسٹ ایڈ باکس سے مرہم نکلا۔

وہ غور سے سلپ کو پڑھتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی جب اس کا پیر غلط طریقے سے سیڑھی پر پڑا اس سے پہلے وہ لڑھک کر نیچے گرتی جب سامنے سے ایک ینگ گڈ لکنگ سا بمشکل بیس سال کا بندہ تیزی سے تین تین سیڑھیاں ایک ساتھ پھلانگتا ہوا اس کی طرف بڑھا اور اس کا بازو تھام کر اسے گرنے سے روکا ۔۔۔ 

سویرا گھبرا گئی تھی اس کے ہاتھ سے کتابیں چھوٹ کر نیچے جا گری تھیں ۔۔

 مزید ناولز کے لئے نیچے جائیں ، یہاں مکمل اور قسط وار سبھی ناولز کے لنکس دئیے گئے ہیں۔

آپ مزید ناول کی پکس دیکھنے کے لیے نیچے جائیں ، اور ہماری ویب سائٹ کو وزٹ کریں ، اگر آپ نے ابھی تک مدیحہ شاہ کے مکمل اور قسط وار ناولز نہیں پڑھے ۔ تو جلدی سے مدیحہ شاہ کے سبھی ناولز کو پڑھیں اور اپنا فیٹ بائک دیں ۔

 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about


 

Sitam Ki Zanjeer Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel    Sitam Ki Zanjeer  written Rimsha Hayat . Sitam Ki Zanjeer   by  Rimsha  is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Forced Marriage Based Novel Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Mahra Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Mahra Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 


  


آج جرگہ دو قبیلوں کے درمیان لگا تھا اور دونوں ہی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے اور دونوں طرف کے لوگ یہاں پر بیٹھے تھے۔آج پھر ایک معصوم قربان ہونے جا رہی تھی۔


حیرت ہے ایک قبیلے کے سردار کی زبان سے ایسی باتیں زیب نہیں دیتی جو اپنی روایات کو اپنے خاندان کی خاطر بھول گیا ہے۔۔۔۔


" تھو ایسے سردار پر تمھارے بیٹے نے ہمارے بیٹے کی جان لی ہے اور خون کا بدلے خون ہوتا ہے اور یہ ہی روایات چلتی آرہی ہیں۔اگر تم خون کے بدلے خون نہیں دے سکتے تو سوچ لو کہ تمہارے پاس اور دوسرا کون سا راستہ ہے؟؟؟؟ اگر تمہیں اپنا بیٹا اتنا ہی عزیز ہے تو تمہیں اپنی بیٹی ہمیں ونی کرنی ہو گی۔۔۔ " سردار شجاعت نے اپنا فیصلہ سناتے اپنی مونچھوں کو بل دیا۔۔۔۔

یہ سب سنتے ہی کچھ پل کے لیے وہاں سناٹا چھا گیا تھا۔۔۔۔


" ٹھیک ہے میں اپنی بیٹی کا نکاح کرنے کے لیے تیار ہوں۔۔۔ " زارون نے شجاعت کے دائیں جانب بیٹھے شخص کو دیکھتے ہامی بڑھی۔


" تو ٹھیک ہے مولوی صاحب میرے بھائی کا نکاح شروع کروایا جائے۔۔۔۔۔ " اس کی بھی سنی گئی شجاعت نے اپنے بائیں جانب بیٹھے اپنے بھائی کو دیکھتے کہا جو خوشی سے اٹھ کر بھنگڑے ڈالنے لگا تھا۔


" واہ جی واہ میری شادی ہونے والی ہے میرا بھائی بہت اچھا ہے میرے لیے ایک خوبصورت دلہن لائے گا۔۔۔۔۔ " شجاعت کے بھائی نے اونچی آواز میں کہا اور ساتھ ہنستا بھی جا رہا تھا اس کا دماضی توازن کچھ ٹھیک نہیں تھا اور یہ بات گاؤں میں ہر ایک کو معلوم تھی۔


شجاعت کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی لیکن زارون سمیت سب کو سانپ سونگ گیا تھا۔وہ تو کچھ اور سوچ کر بیٹھا تھا۔۔۔۔۔

وہ جو پردے کے پار کھڑی اپنی زندگی کا فیصلہ ہوتے سن رہی تھی۔سامنے اچھل کود کرتے انسان کو دیکھتے اسے اپنے قدموں میں سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔سامنے اچھل کود کرتا انسان لگ بھگ اس کے باپ کی عمر کا تھا۔


اسے کس بات کی سزا مل رہی تھی؟؟ شاید لڑکی ہونے کی؟؟ یہی سوال اس کے دماغ میں چل رہے تھے کہ اچانک اسے اپنا دماغ ماؤف ہوتا محسوس ہوا اور وہ وہی دھڑام سے گر گئی۔۔۔۔


اس کے گرنے کی آواز پر وہاں بیٹھے سردار شجاعت کے دائیں جانب شخص نے اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں پیوست کیے اپنے اندر کھولتے لاوے کو برداشت کیا تھا۔۔۔۔اسکی آنکھیں خون کی مانند سرخ ہو رہی تھی۔۔۔۔ اور چہرے پر سرد تاثرات تھے۔۔۔۔۔

"آپ کون ہیں؟" زارا نے سامنے کھڑے زوحان کو دیکھتے حیرانگی سے پوچھا۔

"جس سے تھوڑی دیر پہلے تمھارا نکاح ہوا ہے۔"

زوحان نے اپنے قدم زارا کی طرف بڑھاتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔

یہ چھوٹا سا کمرہ اسے سونے کے لیے ملا تھا لیکن زوحان یہاں کیا لینے آیا تھا وہ اس بات سے انجان تھی۔

زوحان نے زارا کی اُسی کلائی کو پکڑتے اسے اپنے سامنے کھڑا کیا جہاں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔تکلیف سے زارا کراہ اُٹھی تھی لیکن زوحان نے اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا اور اسے خود کے سامنے کھڑا کیا۔


"چاہے تم ونی ہو کر آئی ہو لیکن نکاح تو میرا تمھارا ساتھ ہی ہوا ہے"۔


زوحان نے ذومعنی الفاظ میں زارا کے پیلے پڑتے چہرے کو دیکھتے مزید کہا۔

"اتنا گھبرا کیوں رہی ہو؟ شوہر ہوں تمھارا پورا حق رکھتا ہوں تم پر اور وہی لینے تو آیا ہوں۔"زوحان نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے زارا کے بالوں کو کان کے پیچھے کرتے گہرے لہجے میں کہا۔

جو بت بنی زوحان کو دیکھ رہی تھی۔اس نے تو نکاح کے وقت نام پر دھیان ہی نہیں دیا تھا کہ اس کا نکاح کس کے ساتھ ہو رہا ہے۔

"تمہیں ایک حقیقت بتا دیتا ہوں"۔

زوحان نے زارا کے دونوں ہاتھوں کو کمر کے پیچھے لے جا کر اپنی گرفت میں لیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا اس وقت وہ پوری طرح زوحان کی قید میں تھی۔


"جس سے تمھارا نکاح ہوا ہے وہ میں نہیں ہوں

زارا نے نفی میں سر ہلا کر زوحان کو روکنے کی ناکام کوشش کی تھی۔

آنسو تو شاید پہلے ہی باہر نکلنے کو تیار تھے۔


اس سے اچھا تو تھا کہ وہ مر جاتی کم از کم اس کی عزت تو محفوظ ہوتی۔

💜💜💜💜

” میں بہت جلد آپ کو چھوڑ کر چلی جاؤ گی کیونکہ میں ایسے انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتی جس نے مجھ جیسی ناجانے کتنی لڑکیوں کی زندگی خراب کی ہے زبور کہتے ہی وہاں سے جانے لگی جب عماد نے اس بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔


فکر مت کرو جس لڑکی کی زندگی عماد خراب کرے گا وہ صرف ایک ہی اور وہ ہو تم عماد نے سرد لہجے میں زبور کی کمر پر اپنی گرفت مضبوط کرتے مزید کہا۔زبور کو عماد کی انگلیاں اپنی کمر میں دھنستی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔

سب سے پہلے تو میں تمھارا مجھ سے دور جانے کا بھوت اتارا ہوں۔اُس کے بعد

تمھارے باپ کو بھی دیکھ لوں گا“۔چلو میرے ساتھ عماد کہتے ہی اسے بازو سے پکڑا اور کھنچتے ہوئے کمرے سے باہر لے گیا۔

عماد آپ میرے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے زبور نے چیختے ہوئے کہا۔

بلکل کرسکتا ہوں مسز عماد نے مڑ کر زبور کو دیکھتے طنزیہ لہجے میں کہا۔



Sanso Me Basa Tere Naam By Farwa Khalid


تھپڑ کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ آزفہ منہ کے بل زمین پر جاگری تھی۔۔۔

"دیکھو میرے قریب مت آنا۔۔۔۔"

فرش پر ہی پیچھے کی جانب سرکتی وہ بے بسی بھرے لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔۔ مگر ہاشم کی ہوس اب مزید بڑھ چکی تھی۔۔۔ وہ اِس لڑکی کو کسی صورت چھوڑنے والا نہیں تھا اب۔۔۔۔

وہ آزفہ کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے جھکا تھا۔۔۔۔

آزفہ نے آنکھیں سختی سے میچتے اپنے اللہ کو پکارتے اُس سے مدد مانگی تھی۔۔۔۔ اُس کی اب ساری اُمیدیں اپنے رب سے وابستہ تھیں۔۔۔ جو ہمیشہ ہر جگہ اُس کی مدد کرتا آیا تھا۔۔۔۔

جب اُسی لمحے دروازے پر باہر سے زور دار ضرب رسید کی گئی تھی۔۔۔ ہاشم نے گھبرا کے دروازے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔چند سیکنڈز کی لگاتار ضربوں کے بعد دروازے کا لاک ٹوٹا تھا۔۔۔۔

اندر داخل ہونے والے شخص کو دیکھ آزفہ کے کئی آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر گالوں پر لڑھک آئے تھے۔۔۔۔۔

چوہدری ہاشم کو ہناد محتشم موت کی صورت اپنے قریب آتا دیکھائی دیا تھا۔۔۔۔

ہناد نے ایک خون آشام نگاہ فرش پر گری آزفہ پر ڈالی تھی۔۔۔ جس کو صحیح سلامت دیکھ اُس کے جلتے دل میں سکون اُتر گیا تھا۔۔۔ اُسے آنے میں دیر نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔

مگر اُس کی وحشت ناک غصے بھری نگاہیں دیکھ آزفہ اندر تک لرز اُٹھی تھی۔۔۔ ہناد نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر آزفہ کو اُٹھایا تھا۔۔۔۔ اپنے بازو پر موجود سخت گرفت سے آزفہ اُس کے غصے کا اندازہ اچھے سے لگا پارہی تھی۔۔۔ اُسے اپنے بازو کی ہڈیاں ٹوٹتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔

وہیں اُس کے نازک گال پر پڑے اُنگلیوں کے نشان دیکھ ہناد تو جیسے پاگل ہو اُٹھا تھا۔۔۔۔

اُسے انسان سے حیوان بننے میں ایک پل نہیں لگا تھا۔۔۔۔

وہ واپس پلٹا تھا اور موبائل نکال کر اپنے گارڈز کو کال ملاتے ہاشم پر بُری طرح اپنا قہر توڑتا چلا گیا تھا۔۔۔۔۔

ہناد کے بھاری ہاتھ کے پڑنے والے مکے ہاشم کو کچھ ہی لمحوں میں ہاتھ موا کر گئے تھے۔۔۔۔

اُس کا پورا چہرا لہولہان ہوچکا تھا۔۔۔۔ ہناد اندر صرف اکیلا ہی آیا تھا۔۔۔ باقی سب لوگ باہر موجود تھے۔۔۔ اِس لیے ہناد کو کوئی روکنے والا بھی نہیں تھا۔۔۔

آزفہ تو ہناد کو اتنے غصے میں دیکھ سہم کر دیوار سے لگی چوہدری ہاشم کی حالت دیکھ خوف کے عالم میں چہرے پر ہاتھ رکھ گئی تھی۔


Diltang Tawam Jana By Farwa Khalid



تجھ سے بڑی بے وقوف لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ اتنی بڑی اینکر بنی پھرتی ہے۔ میں نے ایک بار کہہ دیا تو اُس التمش غیدان کے خلاف رپورٹ لکھوانے چل پڑی۔ تجھے اغوا اُس نے نہیں ۔۔۔۔"
وہ بولتے بولتے ماہ رو کے قریب جارہا تھا۔ اِس سے پہلے کے ہاتھ بڑھا کر وہ ماہِ رو کو چھوتا جب دائیں جانب سے چہرے پر ایک زوردار ٹھوکر رسید کی گئی تھی۔ وہ اتنے شدید حملے پر بلبلاتا دور جاگرا تھا۔ بھاری بوٹ کا وار اتنا سخت تھا کہ اُسے اپنا جبڑا ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
ماہ رو نے بھیگی پلکیں اُٹھا کر اچانک نازل ہونے والے اُس فرشتے کو دیکھا تھا۔ مگر مقابل پر نظر پڑتے اُس کی نگاہوں کے ساتھ ساتھ دل کی دھڑکنیں ساکت ہوئی تھیں۔ وہ سانس روکے اُس پتھریلی زمین پر جوں کی توں بیٹھی رہ گئی تھی۔
آف وائٹ قمیض شلوار پر براؤن شال اوڑھے وہ کسی بپھرے زخمی شیر کی طرح اُس نقاب پوش کو بُری طرح پیٹنا شروع کرچکاتھا۔ جسے ایک دو بار ہی زمین پر پٹخنے پر اُس شخص کی جان حلق تک آچکی تھی۔
اُسے پاگلوں کی طرح پیٹتے دیکھ ماہِ رو کا سکتہ ٹوٹا تھا۔ وہ بہت مشکل سے اپنی جگہ سے اُٹھی تھی۔ جب اُس کی نظر کچھ فاصلے پر سرجھکائے فیروز پر پڑی تھی۔
"روکو اُنہیں وہ مرجائے گا۔"
ماہِ رو فیروز کی جانب دیکھ چلائی تھی۔ مگر فیروز نے اپنا جھکا سر اُٹھانے کی گستاخی نہیں کی تھی۔ وہ ہنوز سر جھکائے ساکت و جامد اپنے باس کے نئے حکم کا منتظر تھا۔
"ایڈیٹ۔۔۔۔"
ماہِ رو اُس التمش غیدان کے روبوٹ پر ایک غصے بھری نظر ڈالتی خود ہی التمش کی جانب بڑھی تھی۔ جسے دوبارہ زندگی میں کبھی مخاطب نہ کرنے کی قسم کھا رکھی تھی اُس نے۔
"چھوڑیں اُسے۔۔۔۔وہ مرجائے گا۔"
ماہِ رو التمش کے قریب آتی چلائی تھی۔ مگر وہ غضبناکی کی حدود کو چھوتا کچھ بھی سننے سمجھنے سے قاصر بس اُس شخص کو پیٹی جارہا تھا۔ جس نے ماہِ رو آبنوس پر بُری نظر ڈال کر التمش غیدان کے قہر کو آواز دی تھی۔
"التمش میں نے کہا چھوڑیں اُسے۔۔۔۔ وہ مر جائے گا۔"
اُس شخص کے لہولہان وجود کی جانب ایک نظر ڈال کر ہی ماہِ رو خوف سے کانپ اُٹھی تھی۔
جبکہ دوسری جانب اتنے سال بعد اپنے نام کی پکار اُن نازک ہونٹوں سے سنتے التمش غیدان کے ہاتھ وہیں ساکت ہوئے تھے۔ اتنے سالوں سے ساکت پڑے دل میں ہلچل سی پیدا ہوئی تھی۔
"جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔۔"
التمش اُس پر نگاہِ غلط ڈالے بغیر اُس کی جانب سے رُخ موڑکر کھڑے ہوتے بولا تھا۔
"اُسے اُس کی غلطی کی سزا مل چکی ہے۔ اب مزید اپنے اندر کا گلٹ ختم کرنے کے لیے ایک اور قتل مت لکھوا لیجیئے گا اپنے سر۔"
ماہِ رو اُس پر گہرا طنز کرتے پلٹی تھی۔ جبکہ اُس کا جملہ التمش غیدان کے پہلے سے جلتے سینے میں مزید آگ بھڑکا گیا تھا۔
اُس نے ایک جھٹکے سے مڑتے واپس پلٹتی ماہِ رو کا بازو اپنے آہنی شکنجے میں لیتے اُسے اپنی جانب کھینچا تھا۔ وہ اِس جارحانہ عمل کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔ سیدھی التمش کے سینے سے ٹکراتے اُس کے ہونٹوں سے ہلکی سی چیخ برآمد ہوئی تھی۔
اُس نے فوراً التمش کے سینے پر دونوں ہتھیلیاں جماتے بیچ میں فاصلہ برقرار رکھنے کی کوشش کی تھی۔ مگر التمش کی لال انگارہ خود پر جمی آنکھیں دیکھ ماہِ رو کا خون رگوں میں منجمد ہوا تھا۔
اُس کے دھکتے لمس اور چہرے پر پڑتی گرم سانسوں کی تپیش پر ماہِ رو کو اپنا وجود کپکپاتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ جس کے خلاف وہ سوشل میڈیا اور نیوز چینل پر نجانے کیا کیا پروپیگنڈے کرتی پھر رہی تھی۔ اُس کے سامنے آتے ہیں سانسیں حلق میں اٹک چکی تھیں۔
وہ بنا ہلے اُس کے حصار میں ساکت کھڑی تھی۔ جب کان کی لوح پر دھکتی گرم سانسوں کی تپیش محسوس کرتے اُس سے اپنے قدموں پر کھڑا رہنا محال ہوا تھا۔ اگر التمش نے اُسے تھام نہ رکھا ہوتا تو وہ کب کا زمین بوس ہوچکی ہوتی۔
"میں وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہوں۔ جس سے اُلجھ کر تم جل کر راکھ ہوجاؤ گی۔ مگر پھر بھی مجھے بجھا نہیں پاؤ گی۔ اور نہ میرے اندر دھکتے شعلوں کی شدت کم کرپاؤ گی۔ اِس لیے تمہارے لیے یہی بہتر ہے میری دنیا میں گھسنے کی کوشش نہ کرو۔ ورنہ تمہارا انجام بہت عبرت ناک بنا دوں گا میں۔"
اُس کے کان میں سفاکیت بھرے لہجے میں سرگوشی کرتا وہ ماہِ رو کے کب سے رُکے آنسوؤں کو باہر کا راستہ دیکھا گیا تھا۔
ماہِ رو نے ایک اذیت بھری نگاہ اُس بے رحم انسان پر ڈالتے اُسے خود سے دور دھکیلنا چاہا تھا۔ مگر التمش کی مضبوط گرفت نے اُسے زرا سا ہلنے بھی نہیں دیا تھا۔
"التمش غیدان اتنی آسانی سے نہیں چھوڑوں گی میں تمہیں۔ میرا سب کچھ چھین لیا تم نے مجھے سے۔ میں بھی تم سے تمہارا سب کچھ چیھن لینا چاہتی ہوں۔ تمہیں بھی ویسی اذیت کا شکار کرنا چاہتی ہوں جیسا تم نے میرا حال کیا تھا۔ تم مجھے اپنی طاقت سے روکنے کی چاہے جتنی مرضی کوشش کر لو۔
میں اپنی آخری سانس تک تم سے نفرت کرتی رہوں گی. اور اپنا انتقام پورا کروں گی۔"
ماہِ رو بہتی آنکھوں کے ساتھ اُنگلی اُٹھا کر وارن کرتے بولی تھی۔
اُس کے ہر بہتے آنسو کے ساتھ التمش کی گرفت اُس کے بازو پر مزید مضبوط ہوتی جارہی تھی۔ التمش کا بس نہیں چل رہا تھا۔ ہر چیز تہس نہس کردے۔ کیوں ہر بار یہ لڑکی اُس کے سینے میں آگ دہکا دیتی تھی۔ کیوں اُسے سکون سے جینے نہیں دیتی تھی۔ ۔اتنی نفرت کے باوجود اُس کی آنکھوں سے بہتے آنسو التمش غیدان کو اپنے دل پر گرتے محسوس ہورہے تھے۔
اِس سے پہلے کے وہ کمزور پڑتا اُس نے ماہِ رو کو اپنے شکنجے سے آزاد کرتے اپنا رُخ موڑ لیا تھا۔
"جاؤ۔۔۔۔۔جو کرنا چاہتی ہو میرے خلاف کرو۔۔مگر میری ایک بات یاد رکھنا التمش غیدان ایک ایسی چٹان ہے جسے تم چاہ کر بھی توڑ نہیں پاؤ گی۔ اور جب مجھے لگا تم اِس چٹان سے ٹکراتی ہار رہی ہو تو پھر جواباً میرا وار سہنے کے لیے تیار ہوجانا۔ جس سے بچنا تمہاری نازک جان کے لیے ناممکن ہوگا۔ اِس لیے ابھی بھی وقت ہے سنبھل جاؤ اور پیچھے ہٹ جاؤ۔ ورنہ مجھے ہرانے میں ناکامی پر جو سزا میں تمہیں دوں گا، وہ تمہیں شاید پسند نہ آئے۔"

التمش کی بات میں چھپا معنی خیز مفہوم وہ اچھی طرح سمجھ گئی تھی۔ اتنی سنگین سچویشن کے باوجود ماہِ رو کا چہرا سُرخ ہوا تھا اور کانوں کی لوحیں دہک اُٹھی تھیں۔


Jaan E Bewafa By Rimsha Hayat


پلیز میں تم سے معافی مانگتی ہوں۔جو بھی میں نے تمھارے ساتھ بدتمیزی کی اُس کے لیے مجھے معاف کر دو سیرت نے شفیق کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔


تجھے کیا لگتا ہے اب میں تجھے یہاں سے جانے دوں گا؟

شیر کے سامنے شکار ہو اور وہ اُسے نا کھائے تو ایسا تو نہیں ہو سکتا نا اور تمھارے جیسی حسین لڑکی کو میں جانے دوں ایسا تو بلکل بھی نہیں ہو سکتا شفیق نے خباثت سے کہتے اپنے قدم سیرت کی طرف بڑھائے۔


سیرت وہاں سے اُٹھ کر دروازے کی طرف بھاگنے لگی شفیق نے اس کو بازو سے پکڑنا چاہا تو وہاں سے کچھ کپڑے کا ٹکرا پھٹ کر شفیق کے ہاتھ میں آگیا۔

شفیق نے اسے دوبارہ بازو سے پکڑ کر اس کے منہ پر زور دار تھپڑ دے مارا جو دیوار کے ساتھ لگنی کی وجہ سے زمین پر جا گری اور ماتھے سے بھی اسکے خون نکلنے لگا تھا۔


سیرت نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھے سامنے سے آتے درندے کو دیکھا اس نے ارد گرد نظریں دوڑائی اس سے پہلے شفیق سیرت کی طرف آتا اس نے پاس پڑا گلدان پکڑا اور زور سے کھڑے ہوتے شفیق کے سر پر دے مارا۔

ابھی وہ اسی حملے سے سنبھلا نہیں تھا کہ سیرت نے دوبارہ گلدان اس کے سر پر دے مارا جو وہی اپنے سر پر ہاتھ رکھے زمین پر بیٹھ گیا تھا خون زیادہ نکل رہا تھا۔


تجھے میں چھوڑوں گا نہیں شفیق نے گالی دیتے دروازہ کھولتی سیرت کو دیکھتے کہا۔

جس نے شفیق کی بات کو اگنور کیا اور باہر بھاگ گئی اس وقت اس کا مقصد یہاں سے باہر نکلنا تھا۔

باہر چوھدری کے آدمی کھڑے تھے۔

سیرت ابھی یہی سوچ رہی تھی کہ کیسے یہاں سے باہر جائے ایک آدمی نے آکر کہا کہ چوھدری صاحب سب کو اندر بلا رہے ہیں چھوٹے چودھری بےہوش ہو گئے ہیں یہ کہتے ہی سب لوگ اندر چلے گئے اور سیرت کو یہی موقع بہتر لگا اور چوھدری کے گھر سے باہر نکل گئی۔


اس وقت وہ جس حلیے میں تھی کوئی بھی دیکھتا تو غلط ہی سمجھتا ایک بازو پھٹا ہوا تھا بکھرے بال چہرہ سوچا ہوا اور ڈوپٹہ تو شاید کہی گر گیا تھا بس وہ یہاں سے بھاگنا چاہتی تھی۔

Dildaar Masiahye Dil By Faiza Sheikh


ماہا دروازہ کھولو یار۔۔۔۔" صنم اور صالح کے جانے کے بعد وہ کب سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا مگر ماہا ناں تو دروازہ کھول رہی تھی ناں ہی کچھ بول رہی تھی۔۔ جسکی وجہ سے ابتہاج زیادہ پریشان تھا۔۔
ماہا اگر ابکی بار دروازہ ناں کھولا تو میں پھر سے چلا جاؤں گا اور تم چاہے جو مرضی کر لو میں واپس نہیں آؤں گا۔۔۔
ابتہاج نے آخری پینترا آزمایا اسے یقین تھا کہ ابکی بار وہ دروازہ کھول دے گی ۔ اور ایسا ہی ہوا تھا۔۔
ابتہاج نے لب بھینجتے ماہا کے چہرے پر مٹے مٹے آنسوں کے نشانات دیکھے۔۔
روئی کیوں تم۔۔۔۔۔" اپنے بھاری قدم اٹھائے وہ گھبیر بھاری لہجے میں بولتا ماہا کے قریب ہوا تو ماہا نے قدم پیچھے لیتے اسے دیکھا۔۔۔
کیوں بتاؤں ویسے ہی دل چاہ رہا تھا رونے کو اسی وجہ سے روئی ۔۔۔۔۔ وہ ناک چڑھائے بولی تو اسکے انداز اور یوں روٹھنے پر ابتہاج کے چہرے پر مسکان آئی، وہ قدم بڑھائے اسکے قریب ہونے لگا۔ کہ ماہا نے اسکی کوشش بھانپتے قدم پیچھے کو لیے۔۔۔۔۔ ابتہاج نے ایک دم سے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے اسے تھامنا چاہا مگر ماہا اسکی کوشش کو بھانپتے تیزی سے الٹے قدم چلتی پیچھے کو ہونے لگی کہ معا اسکے پاؤں بری طرح سے مُڑا تھا ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ گرتی ابتہاج کا بھاری ہاتھ اسکی کمر کے گرد حائل ہوتے اسے گرنے سے بچا گیا۔۔۔
ابببب ابتہاج۔۔۔۔۔۔" وہ ڈرتے ابتہاج کے کندھوں کو تھامے حراساں سی بولی تو ابتہاج نے اسکی کمر کو سہلاتے اسے پرسکون کیا، جو اس وقت بالکل ڈری ہوئی تھی۔۔
اشششش کچھ بھی نہیں تم ٹھیک ہو ماہا کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔" اسکا ڈر بھانپتے ابتہاج نے نرمی اسکے معصوم چہرے کو ہاتھوں میں بھرتے کہا تھا جبکہ ماہا نے فورا سے کپکپاتے ہوئے سر نفی میں ہلا دیا۔۔۔
نننن نہیں اگر میں گر جاتی تو میرا ببب بچہ ۔۔۔۔۔ابب ابتہاج ممم مجھے کک نن نہیں یہ ہوتا مم مگر ممم میرا بب بے بی۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ ایک بار پہلے بھی اپنے بچے کو کھو چکی تھی ۔۔۔ اسکا دماغ بالکل سن سا پڑ گیا تھا اسکے دل و دماغ میں صرف ایک بات گھوم رہی تھی کہ وہ پھر سے اپنے بچے کو کھو دیتی۔۔۔۔ "
ماہا میری جان کچھ بھی نہیں ہوا ریلیکس رہو میری جان میری زندگی۔۔۔۔" اس وقت ماہا کو سنبھالنا بہت مشکل ہو رہا تھا ابتہاج کیلئے وہ جانتا تھا کہ وہ کس خوف ڈر کے تحت یہ سب کچھ کہہ رہی تھی۔۔ جبھی تو وہ اسے پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔
ماہا اپنے سینے میں اترتی ابتہاج کی دہکا دینے والی سانسوں کو محسوس کرتے پل بھر میں آسکی قربت میں ی۔۔۔۔ ابتہاج کے لمس میں نرمی تھی وہ اسے محبت سے چھوتے اسکا سارا ڈر خوف نکالنا چاہتا تھا جس میں وہ کامیاب بھی ہوا تھا۔۔

ماہا ابتہاج کی قربت میں سب کچھ بھلائے اسکی محبت کو محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔ ابتہاج اسے پرسکون ہوتا دیکھ نرمی سے اسکے ہونٹوں کو آزادی دیے پیچھے ہوا اور ماہا کے سرخ پڑتے چہرے پر آنسوں کے نشانات دیکھتے ابتہاج نے اپنے ہاتھ کی پشت سے ماہا کے رخسار کو سہلایا۔۔۔ ماہا ابتہاج کے ہاتھ کے سخت لمس کو محسوس کرتے بےچین سی ہوتے اسے دیکھنے لگی جو اسکی آنکھوں میں دیکھتا اپنے ہونٹ ماہا کے رخسار پر رکھتے اسکے انسںوں کے نشانات کو چھونے لگا۔

Shiddat E Lams By Faiza Sheikh


ہنیزہ فریش ہو کر باہر نکلی اور اپنے گیلے بال تولیے سے آزاد کیے پنک فراک وائٹ چوڑی دار پاجامے میں اس وقت وہ مہکتا گلاب لگ رہی تھی اس کے وجود کی دلفریب مہک ،نم بالوں سے گرتی پانی کی بوندیں ایک الگ ہی سما باندھ رہیں تھیں

ہنیزہ نے کوفت سے برش ہاتھ میں پکڑے اپنے بالوں کو دیکھا جو اس سے سلجھتے ہی نہیں تھے اسے رونا آنے لگا


"گنننندےےےے ہو ۔۔۔ ککککیوں نیییی ٹھیکک ہوتے ۔۔۔۔ میںنن عاشو ووو ککو بووولنگی ۔۔۔۔ وہ کٹ کرینگے تمممہیں "

وہ بڑے مصروف انداز میں بالوں کو سلجھاتی رازدارانہ گفتگو کر رہی تھی ۔۔۔۔ جہاں اس کی گفتگو پر کسی کے پتھریلے تعصرات ۔۔۔۔ میں نرمی آئی تھی ۔۔۔ وہیں عاشو کا نام سن کر ماتھے پر لاتعداد بلو ں کا اضافہ ہواتھا اسے محسوس ہوا تھا کہ کسی نے کھولتا ہوا پانی اس کے وجود پر ڈال دیاہو وہ سرخ نظروں۔سے بلیک روم میں بیٹھا اسکرین کو گھور رہا تھا

اور پھر ایک ہی جھٹکے سے اس نے لیپ ٹاپ دیوار پر دے مارا

"ہنیزہ میکال ایک بار پھر اس کی انا پر کاری وار کر چکی تھی جسکا اسے اندازہ بھی نہیں تھا ۔۔۔۔


ہنیزہ کی جدو جہد بالوں سے جاری تھی جب اپنے پیچھے آہٹ محسوس کرکے وہ پیچھے مڑی

اور اپنے بلکل سامنے کھڑے ''عابس سلطان"کو دیکھ اس کی آنکھیں پھٹنے کے قریب تھیں ۔۔۔۔ جسم کھڑے کھڑے کانپنے لگا تھا


وہ پلکیں بار بار جھپکتی اپنی اوشن نیلی آنکھوں سے اس کی سرد ہیزل گرین آنکھوں میں دیکھ رہی تھی پر ایک لمحےسے زیادہ نہ دیکھ پائی ۔۔۔۔ اس تعصر کو جس نے اس کا معصوم سا وجود لرزا دیا تھا ۔۔۔

عابس قدم قدم بڑھتا اس کے قریب آنے لگا ۔۔۔۔. جبکہ اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ ہنیزہ کا سانس اوپر کا اوپر ہی رہ گیا وہ ہونٹوں پر اپنی مخروطی انگلیاں جمائے گہرے سانس بھرنے لگی ۔۔۔

عابس نے اسے دور جاتا دیکھ تمسخرانہ انداز میں لبوں کو مسکراہٹ میں۔ڈھالا

"کیاہوا 'ہنیزہ میکال 'میرے بھائی کی باہوں میں بڑے آرام سے نیند کے مزے لوٹ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔ اور مجھ سے اس قدر دوری ۔۔۔ یہ تو نا انصافی ہے نا ۔۔۔۔ بابا کی ہنییییییی "

عابس کا لہجہ مکمل بہکا ہوا تھا ۔۔۔۔ ایک جنون بے معنی سا تھا جس کی رو میں بہکتا وہ سب فراموش کر بیٹھا تھا ۔۔۔۔ اس کی نفرت اس کا پاگل۔پن سب کچھ صرف ہنیزہ میکال۔سے منسوب تھا ۔۔۔۔


اس کے جواب نا دینے پر عابس نے آنکھیں سکیڑیں ۔۔۔.

اور ایک ہی جست میں اسے خود کے قریب کرتا بیڈ پر بٹھا گیا یہ سب ایک پل میں ہوا تھا ہنیزہ پلک جھپکتے بیڈ پر تھی

اسے محسوس ہوا کہ ہوا کا کوئی جھونکا اسے چھو کر گزرا ہے عابس سلطان نے اسے ایسے چھوا تھا کہ وہ محسو س تک نہ کر سکی ۔۔۔۔۔


بس آنکھیں بند کیے گہرے سانس بھرتی اپنی موت کی دعاِئیں مانگنے لگی

             

 مزید ناولز کے لئے نیچے جائیں ، یہاں مکمل اور قسط وار سبھی ناولز کے لنکس دئیے گئے ہیں۔

آپ مزید ناول کی پکس دیکھنے کے لیے نیچے جائیں ، اور ہماری ویب سائٹ کو وزٹ کریں ، اگر آپ نے ابھی تک مدیحہ شاہ کے مکمل اور قسط وار ناولز نہیں پڑھے ۔ تو جلدی سے مدیحہ شاہ کے سبھی ناولز کو پڑھیں اور اپنا فیٹ بائک دیں ۔

 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about


 

 Abr E Gurezaan  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel     Abr E Gurezaan   written Kanwal Akram .  Abr E Gurezaan   by  Kanwal Akram is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Forced Marriage Based Novel Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Mahra Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Mahra Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 


  




No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages