Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Romantic Complete Novel Pdf

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Romantic Complete Novel Pdf 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Cousins Forced Marriage Based Novel Enjoy Reading...

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Complete Novel PDF

Novel Name: Nafrat  Se Barhi Ishq Ki Inteha

Writer Name: Madiha Shah

Category: Complete Novel 

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا 

تحریر ؛۔ مدیحہ شاہ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ساہیوال

 ارے اسلم شاہ  ۔۔۔۔ آو ۔۔۔۔ جمال بیٹا ۔۔۔۔۔ نادیہ کے والد اسلم شاہ کو اور جمال کو آتے دیکھ خوش دلی سے کھڑے ہوئے ؛۔

کیسے ہیں انکل ۔۔۔۔؟ وہ مسکراتے اسلم کے ملتے ان کے ساتھ ہی برجمان ہوا ؛۔

جبکے نظریں ادھر ادھر نادیہ کو تلاش کرنا شروع ہوئی تھی ، اس ایک ماہ میں وہ کافی نادیہ کو جان گیا تھا ۔ 

وہ نادیہ سے زیادہ اُسکے بیٹے کے قریب ہو چکا تھا ، کبھی بھی وہ بیمار ہوتا یا کوئی اور بات ہوتی بنا بولے ہی وہ حاضر ہو جاتا تھا ۔۔۔۔۔

کیا ہوا گیا ہے ( اذان ۔۔۔۔؟ ) بس میرے بی بے کو کس نے مارا ۔۔۔؟ نادیہ سڑھیوں سے نیچے آتے ساتھ ہی اذان کو اپنے ساتھ لگائے چپ کروانے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی ؛۔

وہ صبح سے ہی ایسے چیخ رہا تھا ۔ نادیہ صبح سے جاگ رہی تھی ۔ نیند اُسکی آنکھوں میں صاف دیکھی جا سکتی تھی 

کیا ہوا اس کو ۔۔۔۔جمال اذان کی آواز سن تیزی سے اٹھتے سڑھیوں کے قریب آیا ۔ 

اسلم شاہ اور طیفل شاہ نے ایک ساتھ دونوں کی طرف دیکھا تھا ؛۔

اسلم شاہ نے نوٹ کیا تھا ، جمال اکثر نادیہ کے گھر پایا جاتا ، وہ اذان کے کافی قریب ہو چکا تھا ۔ 

اُسکی ہر چیز کا بہت خیال رکھتا تھا ، اسلم شاہ اُسکو نادیہ سے بچہ لیتے دیکھ ایک فیصلے تک پہنچے تھے ؛۔

شکر ہوا آپ آ گئے ۔ دیکھے اس نے صبح سے میرے کان کھا لیے ہیں ۔ 

میں تو تنگ آ چکی ہوں ، نادیہ جو رونے ہی والی تھی ، جمال کو اذان پکڑتے ساتھ ہی روہانسی ہوتی بولی ۔ 

ابھی تو یہ صرف ڈیرہ ماہ کا ہوا ہے ۔ اور آپ ابھی تنگ آ گئی ۔۔۔؟ وہ مسکراتے اذان کو گود میں لیتے خاموش کروانا شروع ہوا تو وہ جمال کا مسکراتا چہرہ دیکھ موٹے موٹے آنسووں کی جگہ چھوٹے سے گلابی ہونٹوں پر مسکان پھیلا گیا ؛۔

کیا ہو رہا ہے بھئی ۔۔۔۔؟ ابھی جمال اور نادیہ وہی کھڑے تھے کہ مان نے انٹری مارتے دونوں کو اپنی طرف متوجہ کروایا ۔

اچھا ہوا توں آ گیا ۔ توں نے اتنی جلدی میں مجھے یہاں کیوں بلایا ۔۔؟ جمال مان کو آتے دیکھ اذان کو خود کے ساتھ لگائے مان سے مخاطب ہوا ۔

اس نے بلایا ۔۔۔؟ نادیہ نے اب سوالیہ نظروں سے مان کو دیکھا ۔

“ ریلکس گائز ۔۔۔۔۔” نادیہ ایسے کرو جلدی سے جا کر تم تیار ہو جاؤ ۔ اور اذان کو جمال تیار کر دے گا ۔ 

ہم لوگ باہر جا رہے ہیں ۔ یاد نہیں کیا تہ کیا تھا ۔۔۔؟ ہر اتوار کو ڈنر ہم لوگ اکٹھے باہر کریں گئے ۔۔۔؟ 

مان نادیہ کو اوپر واپس سے جانے کا اشارہ کرتے جمال کو بھی اذان کے کپڑوں کی طرف اشارہ کر گیا ۔ 

“ ہو ۔۔۔۔۔۔ اچھا ۔۔۔۔ جمال جس کو یاد آیا تھا تیزی سے اذان کو لیتے لاوئج میں گیا ۔ 

مان کپڑے یہاں لے آ ۔ جمال نے آواز لگائی تو مان نادیہ کے پیچھے ہی گیا ۔ 

پچھلے ایک ماہ میں جمال اور مان کی دوستی کافی گہری ہو چکی تھی ۔ دونوں ہی نادیہ کی زندگی کے ایک خوبصورت پھول اور دوست بن چکے تھے۔ 

جمال جان گیا تھا کہ نادیہ کی شادی پر جس لڑکی سے وہ انجانے میں اپنے دل کی بات کہہ گیا تھا وہ نادیہ تھی ۔ 

جمال سب کچھ جانتا تھا ۔ اسی لیے وہ نادیہ کی زندگی میں ایک خوبصورت احساس بنتے شامل ہوا تھا ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

“ گاوں “ 

ارم ۔۔۔۔ بیٹا کہاں ہو ۔۔۔؟؟ ارم کی ماں اُسکو مسلسل ہانک لگائے پکار رہی تھی ۔۔ 

لیکن ارم تو مووی دیکھنے میں اتنی مگن ہوئی تھی ، کہ اپنی ماں کی آواز کو فرمواش کیے بیٹھی تھی ؛۔ 

ارم ۔۔۔۔ اب کہ وہ اٹھتے سڑھیوں سے اوپر آتی اُسکے سر پر ناز ہوئی 

“ ہو ۔۔۔۔ہو ۔۔۔ امی ۔۔۔ میں بس آتی ہوں ، ابھی اتنی جلدی کیا ہے ۔۔؟ وہ دھاڑنے والے انداز میں بولی ؛۔ 

مان بیٹا آیا ہے : تمہیں لینے جلدی سے اپنا سامان باندھو اور جاؤ ۔ نسرین بیگم جان چھڑوانے والے انداز میں بولی تو ارم مان سن چونکی ۔ 

وہ یہاں اب کیا لینے آیا ہے ۔۔۔؟ پل میں غصہ چہرے پر چھایا ۔ 

“ پاگلوں والی باتیں کم کیا کر ۔ جتنا بولا ہے اُتنا کر ۔۔۔ اور جلدی سے نیچے آ کر چائے بنا کر لا ۔ 

نسرین ایک عدد چت لگاتے اُسکو ساتھ ہی گھور گئی تو وہ رونے والے انداز میں اٹھتی کھڑی ہوئی ؛۔

“ اماں ۔۔۔ میری بات سن لیں ۔۔۔۔ میں بالکل بھی واپس جانے والی نہیں ۔،جب میرا دل ہو گا میں خود چلی جاؤں گئی ۔۔۔۔۔۔

نادیہ نے نسرین کے قدم روم سے باہر جاتے دیکھ ہانک لگائی ۔ 

دماغ تو خراب نہیں ہو گیا تیرا ۔۔۔؟ کیسی باتیں لے کر بیٹھ گئی ہے توں ۔۔۔؟ مان تجھے خود لینے آیا ہے تجھے سمجھ نہیں آ رہا ۔۔؟ 

ویسے بھی گھر پر شادی کی تیاری ہو رہی ہے اور توں مہمان بن کر عین موقعے پر جانا چاہتی ہے ۔۔۔؟ 

جو بھی بکواس باتیں تیرے دماغ میں پک رہی ہیں وہ یہاں چھوڑ کر چپ چاپ مان کے ساتھ واپس گھر جا ۔ 

میرا سر مت کھا ۔ وہ دو ٹوک حکم سناتی نکلی تو ارم منہ کھولے اپنی ماں کو جاتے دیکھ گئی ۔۔۔۔۔

“ یہ لو چائے ۔۔۔۔۔ ارم چائے بناتے سیدھی ٹیبل پر پلیٹ رکھتے تنک کر بولی ۔ 

مان جو خاموشی سے اُسکو دیکھ رہا تھا ، غصے کو ضبط کرتے کھڑا ہوا ۔ 

جا کر اپنا سامان باندھو ۔۔۔۔ اور میرے ساتھ گھر چلو ۔ یہ تماشہ یہاں لگانے کی ضرورت نہیں ۔ 

وہ بھی کسی سے کم نہیں تھا ، دبی آواز میں غراتے اُسکو حکم سنایا ۔ 

میں خود گھر آ سکتی تھی ، تمییں میرے لیے اپنے ضروری کام چھوڑ کر آنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ وہ بھی جیسے اپنی تھوڑی سے انا دکھانا چاہتی تھی ۔

“ سوچ لو ۔۔۔۔۔ چلنا ہے یا ہمشیہ ہی یہاں رہنا ہے ۔۔۔؟ مان تو جیسے تہ کر کہ آیا تھا۔۔۔ 

آر یا پار ۔۔۔۔۔ ارم نے حیرانگی سے اُسکو دیکھا ۔

جواب دو ۔۔۔۔۔۔ وہ دو قدم اٹھاتے اسُکے بالکل سامنے ہوا ،

میں نے کہا نا ۔۔۔۔ میں خود آ جاؤں گئی ۔ ابھی میرا دل نئی۔۔۔۔۔۔

ایک فیصلہ کرو ۔ ابھی ساتھ واپس جانا ہے یا پھر ہمشیہ یہاں رہنا ہے ۔۔۔۔ ؟ وہ چباتے لفظوں میں پوچھتے ساتھ ہی بازو پر انگلیاں گاڑھ گیا ۔ 

ارم کئ آنکھیں بھری تھی ، چھوڑنے کا سوچ کر اگر آئے ہی ہو تو پوچھ کیوں رہے ہو ۔۔؟ 

نہیں جانا تمہارے ساتھ ۔۔۔۔۔ آخری فیصلہ ۔۔۔۔۔ ارم نے بھی جیسے تہ کر لیا تھا وہ اُسکو اک دم سے چھوڑتے سیدھا حویلی سے نکلا تھا ؛۔

“ جانتی ہوں تم مجھے چھوڑنے کے بہانے دھونڈ رہے ہو ۔ وہ روتے ساتھ ہی بازو کو دیکھنا شروع ہوئی ۔

وہ انجانے میں ہی مان کو اذیت دے رہی تھی ، وہ چاہتا تھا کہ یہ خود اُس پر یقین کریں۔

اور یہ ۔۔۔۔۔ اُسکو مسلسل نیچا دکھانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ مان بھی تہ کر گیا تھا کہ اب وہ اُسکو پوچھے گا  بھی نہیں ، 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ؔ٭

ساہیوال

میرے خیال سے اگر یہ رشتہ ہو جائے گا تو کچھ برا نئیں ہے ۔ ہاں ایک بار ۔۔۔ جمال اور نادیہ بیٹی سے پوچھ لینا ۔ 

اسلم شاہ نے طیفل سے بات کرتے ساتھ ہی سلطان شاہ کے پاس حاضری دی تھی ، آخر وہ بڑے تھے ۔ 

انہوں نے صاف رضا مندی تو ظاہر کر دی تھی ساتھ میں بچوں سے پوچھنے کا بھی سختی سے حکم دیا تھا ؛۔

اسلم شاہ نے جمال سے پوچھا تو وہ خاموشی سے فیصلہ لینے کا سوچنے کا وقت مانگ گیا ۔۔۔

وہ ایک بار نادیہ سے بات کرنا چاہتا تھا ۔ وہ جانتا تھا اُسکے دل میں صرف آیت ہے وہ نا چاہتے ہوئے بھی اُسکی محبت کو اپنے سینے میں محسوس کرتا تھا ؛۔

لیکن وہ نادیہ کے لیے بھی ایک احساس رکھتا تھا۔ اسی لیے وہ سوچنے کا وقت مانگتے نادیہ سے بات کرنے کا سوچ گیا ۔ 

اُسنے کھل کے نادیہ سے بات کی تھی ، کہ وہ اُسکا اور اُسکے بیٹے کا اچھے سے خیال رکھنے کے ساتھ پیار بھی دے گا 

جو اُسکا حق ہو گا وہ بھی پورا کرے گا اور اذان کو کبھی بھی یہ احساس ہونے نہیں دے گا کہ وہ اُسکا سگا باپ نئیں ؛۔

نادیہ نے بھی وقت مانگا تھا ، اور وہ مان سے مشورہ مانگ گئی ، تو مان نے اُسکو سمجھایا کہ جمال ایک اچھا لڑکا ہے 

تم اُسکو جانتی ہو ۔ وہ کافی اذان کے نزدیک بھی ہو چکا ہے تمہیں ایک موقعہ دینا چاہیے تو بس نادیہ نے فیصلہ لیتے جواب ہاں میں دیا تھا ۔۔۔۔

نادیہ کی خواہش تھی ، کہ اس بار نکاح بہت سادگی سے ہو تو بس سب بڑوں نے ایک ہفتے بعد نکاح کرنے کا فیصلہ سنایا تھا ۔

ایسے ہی ایک ہفتے بعد سب بڑوں کی دعاوں میں نکاح ہوتے نادیہ ہمشیہ کے لیے جمال کے نام کر دی گئی ۔ 

آیت بہت خوش تھی ، کہ جمال نے اُسکو بھول کر اپنی زندگی میں آگے قدم رکھا ۔ 

برہان بھی جمال کے ساتھ سب کچھ پرانہ وقت بھول دوستی کا ہاتھ بڑھا گیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اماں سائیں ۔۔۔۔۔ امی سرکار ۔۔۔۔ یہ کام چھوڑیں اور ہماری بات سنے ۔ 

برہان جو شاہوں حویلی  بلند آواز میں بولتے سر پر اٹھا چکا تھا ، اب کہ ناز بیگم کے سر پر کھڑے ہوتے ساتھ ہی اُن کو کام کرنے سے روک لیتے کیچن سے باہر نکلا ۔ 

“ ہو ۔۔۔۔ میرے شہزادے چھوٹے شاہ ۔۔۔ کیا ہوا ۔۔۔ ؟؟ وہ اُسکے ساتھ قدم اٹھاتی ساتھ ہی وجہ پوچھنا شروع ہوئی ۔ 

اپنی بہو کو سمجھائیں ، اُسکو بولیں ابھی گھر جانے کی کیا ضرورت ہے ۔ میں ہر روز سچی ۔۔ وہ ان کو صوفے پر بٹھاتے ساتھ ان کے قدموں میں بیٹھا ۔ 

ہر روز اسُکو وہاں لے کر جاؤں گا ، اور رات کو ہم واپس ۔۔۔ ابھی تو ساہیوال میں بھی رہنے چلا آیا ہوں۔ 

وہ کہہ رہی ہے کہ وہ شادی سے ایک ہفتہ پہلے گھر جا کر رہنے والی ہے ۔ 

آپ کی بہو کو میری بالکل بھی پرواہ نہیں ہے ، جب دیکھو مجھے چھوڑ اکیلی کہیں بھی جانے کے لیے تیار رہتی ہے ؛۔

وہ شکوہ آمیز لہجے میں روٹھے بچے کی طرح اپنی ماں سے جیسے شکایت لگانے بیٹھا تھا ۔

اتنا کیوں رو رہے ہو ۔۔۔؟ تم ہر روز خبر لینے شہزادی کی وہاں چکر لگایا آیا کرنا ۔ سرحان جو ابھی واک کر کر کہ آیا تھا ہاتھ میں اخبار پکڑے وہاں سے گزرتے ساتھ ہی ہانک لگا گیا ۔۔۔

دیکھا آپ نے ۔۔۔۔؟ یہ تو خوش ہو رہا ہو گا ۔ کاش اس کی شادی میری جان سے پہلے با ہوئی ہوتی ۔ قسم سے میں نے اُسکو وہ تڑپنا تھا 

کہ اس کے ہوش اڑ جانے تھے ۔ وہ ناز بیگم کو بولتے ساتھ ہی ان کی گود میں سر رکھ گیا ۔۔۔۔ 

ناز بیگم نے مسکراتے ملازمہ کو آواز دیتے تیل منگوایا تھا اور برہان کے سر کی مالش شروع کی تھی ۔ 

“ میرے شہزادے چھوٹے شاہ ۔۔۔۔۔ اگر تم چاہو تو ہم پری کو بھی آیت کے ساتھ بھیج دیتے ہیں ۔ 

پھر اس کی ہنسی کو بھی بریک لگ جائے گئی ، تمہیں اتنا سوچنے کی کیا ضرورت ہے ۔ 

ناز بیگم سرحان کو دائنٹگ ٹیبل پر بیٹھے دیکھ سرگوشی کرتے بولی تو وہ قہقہہ لگاتے دل سے مسکرایا ۔ 

“ کیا بات ہے ۔ ویسے آکیڈیا برا تو نہیں ہے ، عمل کیا جا سکتا ہے ۔ 

لیکن میرے خیال سے حور کا یہاں رہنا ہی بہتر ہے ، ایسے ہی وہاں یہ اچھل گود کرے گئی ۔،۔ 

اُسکا خیال رکھنا زیادہ ضروری ہے ، برہان جانتا تھا وہ کتنی لاپرواہ ہوئی پڑی ہے ۔ وہ بچوں کی طرح بے فکر رہتی تھی ۔ 

برہان اور سرحان ، آیت ہر پل اُسکے پیچھے پیچھے لگے رہتے تھے ، اسی لیے ابھی تک وہ اور بچہ ٹھیک تھے ۔

“ اماں سائیں ۔۔۔۔ آپ بولیں نا آیت کو ۔۔۔ ایسے مجھ سے دور جب بھی وہ جانے کی بات کرتی ہے ۔ 

میرا دل مچنا شروع ہو جاتا ہے ۔ وہ میرے دل کی حالت سے بے خبر رہنے کی کوشش کرتی ہے ۔

وہ واپس سے اپنے موضوع پر ناز بیگم کو کھینچ لایا تھا ۔ 

“ میرے لال ایسی باتیں کرنا چھوڑ دو ۔ ناز آپا آپ نے نوٹ کیا ہے ۔ آج کل آیت کتنی خوش رہتی ہے ۔۔۔؟ 

مجھے تو لگتا ہے جیسے اُسکا بچپن واپس آ گیا ہو ۔ حمیدہ بیگم تازہ آم کا جوس لاتی ایک عدد گلاس سرحان کو دیتی اب کہ برہان کے پکڑتے پاس ہی صوفے پر بیٹھی ۔ 

“ ٹھیک کہا ، آج کل جب بھی آیت کو ایسے دیکھتی ہوں تو لگتا ہے جیسے وہ پہلے والی آیت بن گئی ہو ۔ 

ہمشیہ خوش رہنا سب کو خوش کرنا اور تنگ ۔۔۔۔ وہ بولتی بولتی ساتھ ہی مسکرا گئی ۔ 

چلو اچھا ہی ۔ ناز بیگم ہنستے ساتھ ہی بولی تو برہان نے جوس ختم کرتے گلاس واپس سے اپنی ماں کو پکڑیا ۔ 

“ اتنا خوش نا ہوں ، آپ جانتی بھی ہیں کتنا تنگ کرنا شروع ہو گئی ہے ۔۔؟ 

جب دیکھو مذاق مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ وہ مجھے اتنا تڑپتی کیوں ہے ۔ وہ بولتے بولتے خاموش ہوا تھا ۔ 

بریک کیوں لگا لی زبان کو ۔۔؟ بولو ۔۔۔۔ کیا تنگ کرتی ہوں تمہیں ۔۔۔؟ 

سرحان جو برہان کی ویڈیو بناتے آیت کو سینڈ کر چکا تھا ۔،وہ کمر پر ہاتھ رکھے لڑنے کے موڑ میں تیار ہوتے اُسکے سر پر ناز ہوئی ۔ 

حمیدہ بیگم اور ناز بیگم نے مشکل سے ہنسی کو بریک لگائی ۔ 

اب دیکھو تم ۔۔۔۔ اب میں شادی کے بعد بھی آنے والی نہیں ۔ تم تو مجھ سے تنگ آ چکے ہو نا ۔۔؟ 

آیت نے انگلی اٹھاتے برہان کی جان پر بنائی تو وہ اک دم سے بیٹھے سے اٹھ کھڑا ہوا ؛۔

“ برجان سائیں۔۔۔۔ میری معصوم دنیا ۔۔۔،وہ پکارتے ساتھ ہی بھاگا تھا اور آیت تیزی سے سڑھیاں چڑھتے اوپر گئی ۔ 

ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔ 

“ کیسا لگا میرے بھائی ۔۔۔؟ سرحان قہقہہ لگاتے برہان کو اپنی طرف متوجہ کروا گیا ۔ 

اور لگاؤ ایسے بیٹھ کر بیوی کی شکایتیں ۔۔۔ وہ مسکراتے ساتھ ہی اٹھتے وہاں سے برہان کے قریب آیا ۔ 

یہ تم نے کیا ۔۔؟ وہ بے یقینی سے منہ کھولے سرحان کو دیکھ گیا ۔ 

تم میری شہزادی کی شکایتیں اُسکے شاہ کے سامنے لگا رہے تھے ، اور میں چپ رہتا ہے ۔ ہرگز نہیں ۔۔۔۔ 

وہ اپنا کالر جھاڑتے جیسے اپنی تعریف بھی ساتھ ہی کر گیا ۔ 

سنو ۔۔۔ اس غلط فہمی سے نکل آو ۔ تم اُسکے شاہ نہیں ۔۔۔۔ صرف میں ہوں اُسکا شاہ ۔۔۔۔

میری جگہ کوئی بھی اُسکا شاہ  نہیں بن سکتا ، وہ بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا ۔ 

یہ غلط فہمی میری نہیں تمہاری ہے ۔ تم خود کو اتنی امپوٹڈ سے کیوں دیتے ہو ۔۔؟ 

آیت کا شاہ میں ہوں، صرف میں ۔۔۔ سرحان نے بھی جیسے برہان کو تپنے کا تہ کیا تھا ۔

اچھا ۔۔۔۔۔ وہ طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر پھیلا گیا ۔ 

ذرا یاد کر کہ بتاؤ آیت نے آخری بار تمہیں شاہ کب کہا تھا ۔۔۔؟ وہ بھی جیسے اچھے سے حساب برابر کرنا جانتا تھا ؛۔

تبھی اُسکی بات سن سرحان خاموش ہوا ، جبکے اُسنے بھی نوٹ کیا تھا آیت اب اُسکو شاہ کبھی نہیں پکارتی تھی ۔ 

ابھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ سرحان اتنا کہتا سڑھیوں کی طرف بڑھا ۔ 

آیت ۔۔۔۔، وہ وہی کھڑے ہوتے اونچی آواز میں اُسکو پکار گیا ؛۔

آیت جلدی سے نیچے آو ۔ برہان بھی رعب دار آواز میں چیخا تو ناز بیگم اور حمیدہ مسکراتے کیچن کی طرف گئی کہ ان دونوں کا کچھ نہیں ہو سکتا ۔ 

کیا ہے ۔۔۔؟ وہ ان کی اتنی رعب دار آوازوں سے پریشان ہوتی غصے سے بھڑکتی تھی نیچے آئی ۔ 

تم مجھے شاہ کیوں نہیں پکارتی ۔۔۔؟ سرحان اُسکو خود کے سامنے کرتے سخت لہجے میں گویا ۔۔۔ 

جواب دو ۔۔۔ برہان نے بھی مسکراتے سینے پر ہاتھ باندھے آیت کی آنکھیں حیرانگی سے بڑی ہوئی ؛۔

کیا مصیبت ہے۔ وہ دل میں رونے جیسی ہوئی ۔ آیت جواب دو کہ تمہارا شاہ صرف میں ہوں ۔ برہان اُسکو کندھے سے پکڑتے خود کے سامنے کر گیا 

اس کا شاہ صرف میں ہوں ۔ سرحان نے بھی برہان کے سامنے ہوتے آیت کی مشکل کو مزید مشکل بنایا ۔ 

مر گئی ۔ آیت کا دل بیٹھنے کو ہوا ۔ جبکے تبھی وہ بھاگتی سلطان شاہ کی طرف گئی جو ابھی گھر میں داخل ہوئے تھے ؛۔

“ اچھا ہوا بابا سائیں آپ آ گئے ۔دیکھیں نہ کیسے یہ دونوں بچوں کی طرح شاہ کے لیے لڑ رہے ہیں ، 

ان کو بولیں مجھے تنگ مت کرے ، آیت نے جان چھڑوانے کے لیے سلطان شاہ کا سہارا لیا ۔ 

برہان نے نیلی آنکھیں گاڑھی تھی ، ابھی تو وہ خاموش ہو سکتا تھا لیکن بعد میں ۔۔؟

کیا ہو رہا ہے یہاں ۔۔۔؟ سلطان شاہ سرحان اور برہان کو سخت نظروں سے گھورتے دریافت کر گئے ،

کچھ نہیں بابا سائیں ۔۔۔ ہم تو ایسے ہی آیت کو تنگ کر رہے تھے ، سرحان نے جلدی سے بات بناتے برہان کے کندھے پر ہاتھ دھرا ۔۔۔۔

جواب دو ۔۔۔ تمہارا شاہ کون ہے ۔ برہان کی ضدی جیسے غصے میں بھری ، 

آیت کی سانس رکنے کو ہوئی ۔، جبکے وہ پیچھے سرحان کو بھی دیکھ رہی تھی ؛۔

میرا شاہ نا تم ہو اور نہ ہی سرحان ہے ، میرا شاہ تو اب نیا آنے والا مہمان بنے گا ۔ 

وہ بھی تیزی سے جواب دیتی حور کو دیکھ شکر کرتی بھاگی تو برہان خاموشی سے لب بھنچے اُسکو جاتے ہوئے دیکھنا شروع ہوا ؛۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“ میرے پیارے ضدی شاہ ۔۔۔ کیا ناراض ہو گئے ۔۔؟ 

آیت برہان جو خاموش بیٹھے دیکھ بیگ کی زیب بند کرتے سیدھا اُسکے ساتھ آتے صوفے پر براجمان ہوئی 

وہ اُسکے بیٹھتے ہی سیدھا اٹھتے بیڈ پر جاتے بیٹھا ۔ 

“ ایم سوری ۔۔۔۔۔ میرے ظالم شاہ ۔۔ وہ صوفے سے اٹھتی سیدھی بیڈ پر ساتھ آتے ہی اُسکے سینے سے لگی ؛۔

“ تم جانتے ہو ، میرے دل میں تمہارے لیے کیا احساس ہے ۔ پھر بھی سب کے سامنے ایسے بےہیو کیوں کر رہے تھے ۔۔؟ 

اچھا میں روٹ بےہیو کر رہا تھا ۔۔؟ تم نے مجھے چھوڑ شاہ کسی اور کو بنانے کا سوچ لیا ۔۔؟ 

وہ اُسکو خود سے الگ کرتا کھڑا ہوا تھا ، وہ اُسکے ایسے روٹھنے پر ہنسی تھی ۔

ویسے میں نے ابھی محسوس کیا کہ میرے تمہارے قریب آنے سے دل کی دھڑکیں تیز ہوتی ہے ۔

کیا میری قربت اتنی تم پر اثر کرتی ہے ۔۔؟ وہ اُسکا موڑ ٹھیک کرنے کے لیے پیار سے بولتی بیڈ پر پھیر کر بیٹھی 

یوں کہ دونوں ہاتھ وہ پیچھے رکھتے خود ان کے سہارے پر بیڈ سے نیچے پاؤں کو جھولنا شروع ہوئی ۔۔۔۔ 

زیادہ بنے کی ضرورت نہیں ، تمہاری دھڑکیں اس سے بھی زیادہ رفتا میں شور کرتی ہیں جب میں تمہارے چند قدم اٹھاتے قریب آتا ہوں ۔ 

وہ ناک سے مکھی اُڑتے ساتھ ہی اُسکی صفائی کر گیا ۔ 

چھوڑ یہ ہوائی باتیں ۔۔۔ وہ بھی فرضی کالر جھاڑ گئی ۔

اگر ایک سیکنڈ میں ۔۔۔ تیرے دل کی دھڑکنے تیز کر دی تو ۔۔۔؟ وہ سینے پر ہاتھ باندھے ہی بولا ۔

برہان میری دھڑکیں بڑھانا تمہارے بس کی بات نہیں ، وہ مسکراتے چہرے سے اُسکو چیلنج کرتے ساتھ ہی اٹھتے جانے کے لیے ڈور کی طرف بڑھی ۔ 

ریری ۔۔۔؟ وہ اُسکا اعتماد دیکھ ایک بھی منٹ ضائع لیے بنا آگے بڑھا تھا ۔ 

اور اُسکو ہاتھ سے پکڑتے خود کی طرف کھینچا ۔ وہ جو انجان تھی اُسکے اگلے عمل سے لرزتے مقابل کے سینے سے ٹکرائی ۔ 

اُسکی دھڑکنیں حد سے تیز دھڑکنا شروع ہوئی ۔ ان کا شور اس قدر تھا کہ وہ باآسانی سن سکتا تھا ؛۔

“ کیا ہوا ۔۔۔۔۔ دل سینے سے باہر نکلنے کو کر رہا ہے نا۔۔۔؟ وہ معنی خیز ہوتا اُسکے کانپتے ہونٹوں کو تکنا شروع ہوا ؛۔

آیت کی حالت مزید پتلی ہوئی تھی ، وہ کالی سیاہ گنی لمبی پلکیں کبھی اٹھاتی تو کبھی شرم سے لال ہوتی جھکاتی ؛۔

“ میں ۔۔۔۔۔ ہار ۔۔۔۔ گئی ۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔جانے دو ۔۔۔ آیت اُسکی قربت میں جھلسنا شروع ہوئی تھی ؛۔

“ ایسے کیسے جانے دوں ۔۔۔۔؟ ابھی تو تم خود مجھے موقعہ دے گئی ہو ۔ وہ گھبمیر لہجے میں شائستگی سا ہوتا کمر چھوڑ اُسکا شفاف چمکتا چہرہ ہاتھوں میں بھر گیا “

تبھی حور کی آواز سن دونوں ہی ہوش میں آئے تھے ۔ جبکے برہان واپس سے بیڈ پر جاتے گرا تھا ۔

آیت اُسکو ایسے جاتے دیکھ قہقہہ لگاتے ہنسی تھی ، کیا ہوا اتنی جلدی ڈر گئے ۔۔؟ وہ برہان کی حالت سے محفوظ ہوئی تھی ۔

تمہیں تو ۔۔۔۔ اس سے پہلے برہان آیت کی طرف آتا آیت بھاگتے روم سے نکلی تھی وہ اُسکے ایسے بھاگ کر جانے پر ڈمپل گہرے کرتے واپس سے لیٹا ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گاوں 

ارم ۔۔۔ تم ابھی بھی یہاں ہو ۔۔۔؟ واپس شہر نہیں گئی ۔۔۔؟ جمال جو آج گاوں آیا تھا نسرین سے ملنے کا سوچتے خان حویلی آیا تھا ؛۔

کہ ارم کو دیکھ وہ ٹھٹکا ۔ 

سلام بھائی وہ سر پر دوپٹہ لیتے جمال کے قریب آئی تو جمال نے سر پر ہاتھ پھیرتے اُسکے سلام کا جواب پاس کیا ؛۔

بھائی بس کل تک واپس جا رہی ہوں ، ایان بھائی کی ماشااللّہ شادی کی تیاری عروج پر ہیں ۔ 

وہ مسکراتے ساتھ ہی جمال کے بیٹھی ۔ 

ہممم۔۔۔ مان لینے آئے گا ۔۔۔؟ وہ اُسکا رنگ اڑا دیکھ غور سے چانحتی نظروں سے گویا ۔۔۔ 

نہیں ۔۔۔۔ وہ دراصل وہ مصروف ہے ۔ اس لیے میں خود ہی کل ڈرائیو کے ساتھ چلی جاؤں گئی ۔ 

ویسے بھی کل امی بھی میرے ساتھ ہی جانے والی ہیں ، شادی میں دن ہی کتنے رہ گئے ہیں ، وہ ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر لاتی بولی ۔ 

اچھا۔۔۔۔۔ چلو اچھی بات ہے ۔ اپنے گھر میں ایسے ہی آباد رہو ۔ 

مان بہت چاہنے والا اور اچھا انسان ہے ۔ خوش قسمت ہو اُس جیسا شوہر ملا ہے ۔ 

ویسے مجھے لگا تھا تم مان کے ساتھ میرے اور نادیہ کے نکاح میں شامل ہو گئی ۔ 

لیکن مان نے تب بتایا تھا تم گاوں نسرین خالہ کے پاس رہنے آئی ہوئی ہو ۔ 

آپ کی شادی ۔۔۔۔؟ نادیہ سے نکاح ۔۔؟ وہ تو سن اک دم سے ساکت ہوتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔ 

تم اتنا حیران کیوں ہو رہی ہو ۔۔؟ مان نے تمہیں بتایا نہیں ۔۔۔؟ وہ اُسکو واپس سے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ساتھ ہی پوچھ گیا ۔ 

نہیں ۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔ ارم کنفیوز ہوئی تھی اب کیا وجہ بتائے ۔ 

ارم ۔۔۔۔ رشتے بہت ناز دھاگے کی طرح ہوتے ہیں ۔ پیار سے ان رشتوں کو سمجھ کر چلو گئی تو کبھی بھی رشتے خراب نہیں ہوں گئے ۔۔۔۔ 

اگر تم دھاگہ زیادہ کھنچو گئی تو وہ ٹوٹ جائے گا ایسے ہی اگر یقین کی جگہ تم نے شک کو زیادہ اہمیت دی تو وہ تمہارے رشتے توڑ دے گا ۔۔۔ 

مان کو پچھلے ایک ماہ سے جانتا ہوں ، اُس سے پہلے تو میں نے کبھی اُسکو ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں تھا ۔ 

وہ نادیہ کا بہت اچھا دوست ہے ، ماضی میں چاہیے وہ کبھی اُسکو چاہتا تھا ۔ لیکن ابھی وہ جانتا ہے کہ اُسکی زندگی صرف تم ہو ۔ 

تمہیں ایسے حیران ہونے کی ضرورت نہیں ، نادیہ نے مجھے پہلے ہی سب کچھ بتا دیا تھا ۔۔۔ 

جمال اُسکو اتنا حیران ہوتے دیکھ مسکراتے بولا تو وہ شرمندگی سے نظریں جھکا گئی ۔ 

تم ایسا کرو ابھی میرے ساتھ چلو میں تمہیں گھر چھوڑ دوں گا ۔ 

جمال جو اٹھ کھڑا ہوا تھا ، اُسکو کہتے آگے بڑھا تو وہ معافی مانگنے کا سوچتی جلدی سے اپنا سامان لینے اوپر گئی ؛۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لاہور ۔۔۔۔۔۔

ویسے یار آج علی کو کام کرتے دیکھ دل میں بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے ۔ 

حسن علی کو نعمان کے اشاروں پہ ناچتے دیکھ زر لوگوں سے بولا جو خود فون پر پریشہ کی تصویریں لینے میں مصروف تھا ۔

زر نے اپنے دل کی بات سرحان برہان لوگوں سے کہہ دی تھی جس وجہ سے انہوں نے سلطان شاہ کے کانوں میں ڈالی۔ 

تو بس جمال سے اور داتا بخش سے بات کرتے یہ فیصلہ ہوا تھا کہ ابھی فحال صرف منگنی کرتے پریشہ زر کے نام کر دی جائے ۔۔۔ 

جیسے ہی وہ تھوڑا سا اور بہتر حالت میں آئی نکاح کر دیا جائے گا ۔ 

آج مہندی کا فنکشن تھا ۔ حیا اور ایان کا یہ فنکشن لاہور میں رکھا گیا تھا 

چونکہ حیا لاہور میں رہتی تھی ، اسی لیے ایان کے گھر والے یعنی سب لوگ لاہور ہی آ چکے تھے 

کہ ہوٹل میں رات گزر صبح کو بارات لیتے سیدھے واپس ساہیوال جایا جائے گا ۔ 

مہندی کا فنکشن ایک ساتھ ہی رکھا گیا تھا ، چونکہ صرف خاندان والوں کو ہی مہندی میں بلایا گیا تھا ۔ 

نعمان بہت خوش دلی سے کاموں میں لگا ہوا تھا آخر اُسکی اکلوتی بہن کی شادی ہونے والی تھی ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مکمل ناول پڑھنے کے لیے نیچے ڈوان لوڈ لنک پر جاو ۔  

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.


"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.


Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice


Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha Novel


Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Nafrat se barhi Ishq ki inteha written by Madiha Shah.  Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  by Madiha Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.


Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Cousins Forced  Marriage Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel ''Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1 to 10

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  By Madiha Shah Complete Novel   is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  Novel by Madiha Shah Complete  Novels ( Episodic PDF)

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  ناول    از مدیحہ شاہ  (مکمل پی  ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............


 Islamic Ture Stories 


سچی کہانی 


جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے


If You Read this STORY Click Link

LINK

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.


Previous Post Next Post