Iblis By Zoe Rajpoot Complete Afsana - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday 14 May 2022

Iblis By Zoe Rajpoot Complete Afsana

Iblis By Zoe Rajpoot Complete Afsana

Zoe Rajpoot Writes: Urdu Novel Stories

Iblis Afsana By Zoe Rajpoot

Name: Iblis 

Writer Name: Zoe Rajpoot 

Category: Copmlete Afsana 

افسانہ

                                ابلیس

                           زوئی راجپوت

                      بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم 

کہانیاں شروع سے آخر تک ایک ایسا سحر پھونکتی ہیں اپنے قارئین پر  کہ وہ سب بھولے انت کے انتظار میں ہوتے ہیں۔۔۔

 کہانی کا انت ۔۔۔

ہمم سوچنے والی بات ہے کہ کہانی کا انت کیسے ہوتا ہے زندگی کا انت تو موت ہے تو کہانی کا انت خوشنما کیوں ؟؟

سوگوار انت کہانی کو بدمزا کیوں کرتا ہے ؟؟

کہانی بھی تو کسی کردار کو زندہ دیکھاتی ہے چاہے فرضی ہی  ہو پر زندہ ہوتا ہے پھر ان کا آخر موت کیوں نہیں ۔۔۔

وہ ڈائس پر رکھے مائک میں بولتی اپنی جادوئی آواز کا سحر سب پر پھونک رہی تھی ۔۔ 

ہر کوئی اس کے لفظوں کا دیوانہ تھا۔۔۔

وہ نقاب کے حالے میں قید مکھڑے سے سب پر اپنی آواز کا جادو چلاتی تھی ۔۔۔

وہ اپنے نام کی طرح تھی ۔۔۔

سحر پھونکنے والی "ساحرہ"

کیا آپ میں سے مجھے کوئی بتائے گا کے کہانی کا انت سوگوار کیوں نہیں ہو سکتا ۔۔۔

وہ وسیع ہال میں ہر ایک پر اک نظر ڈالتی جواب کے انتظار میں تھی جب دور آخر میں لگی کرسیوں سے دوسری قطار میں لگی کرسی سے ایک ہاتھ کھڑا ہوا ۔۔۔۔

ساحرہ کے لبوں پر تبسم کھلا ۔۔۔

ہاتھ کھڑا کرنے والے وجود تک مائک پہنچا دیا گیا تھا کیونکہ ہال بہت بڑا تھا اس لیے بغیر مائک آواز ڈائس تک پہنچ پانا مشکل تھی ۔۔۔

وہ وجود ہاتھ میں مائک پکڑ ایک ہاتھ اپنے لونگ کوٹ( جو سردی سے بچنے کے لیے پہنا گیا تھا) کی  جیب میں ڈالتی سنجیدہ چہرے آپس میں پیوست لبوں کے قریب مائک لائی ۔۔۔

اہممم۔۔

کہانی اور حقیقت  یہ دو چیزیں جو آج  زیر بحث ہیں مختلف ہیں انکا آپس میں کوئی تعلق نہیں پر پھر بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہیں جہاں کہانی کا ذکر ہو گا وہی حقیقت کا بھی ۔۔۔

گلا کھنکار کر بات  کا آغاز دھیمی آواز میں کیا گیا جب لمحے بھر کو وہ رکی ۔۔۔

آپ نے ابھی سوال کیا کہانی کا انت سوگوار کیوں نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔

 میرا جواب ہے ہونے کو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے اگر آپ  کی اپنی رضا اس میں شامل ہو  تو ۔۔۔

ایک لکھنے والا کہانی کو جو چاہے رنگ دے یہ اس کی مرضی ہے اس میں کسی تیسرے کا دخل نہیں پر وہ کہانی اس کے قارئین پسند کرتے ہیں یا نہیں یہ اس کے بس میں نہیں ۔۔۔

اب ہر کوئی ایک دوسرے کی پسند پر چلنے سے رہا ۔۔۔

لہجہ بے شک دھیمہ تھا پر اس میں بلا کی بے نیازی تھی ۔۔۔

ہال میں مکمل خاموشی تھی وہ لڑکی اپنا جواب دے کر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔۔

ساحرہ ایک دفعہ پھر بولنا شروع کیا ۔۔۔

آپ کا جواب قابلِ داد ہے بہت خوب ۔۔۔

چلیں آپکی بات سے ہی آج کے موضوع پر آتی ہوں ۔۔۔

کہانی لکھنے والا کچھ بھی لکھ سکتا ہے اب وہ لکھا قارئین کو پسند آتا ہے یا نہیں یہ اس کے بس میں نہیں  ۔۔۔۔

شیطان کے بارے تو آپ سب جانتے ہو نگے ۔۔۔

بیک وقت" ہاں جی " کی صدا ہال میں بلند ہوئی ۔۔۔۔

شیطان کیسے بہکاتا ہے کسی کو پتہ ہے ؟؟

سب خاموش رہے کیونکہ کوئی جواب نہیں جانتا تھا ۔۔۔۔

 جھوٹی کہانیوں سے ۔۔۔۔

ساحرہ کی بات سب کے لیے حیران کن تھی ۔۔۔

 جی بلکل ایسی کہانی جس میں حقیقت کا عکس نہ ہو وہ کہانی جو اخلاق کے دائرے سے کوسوو دور ہو ۔۔۔

 جس کے کردار آپ ہو اور حاکمِ وقت ہو ایسی کہانیاں جو آپ کو آپ کی ذات سے دور کریں یا آپ کی اندر موجود کمیوں کو مرچ مصالحہ لگا کر آپ کے سامنے پیش کریں  ۔۔۔

ایسی کہانیاں سناتا ہے" ابلیس " 

 اور جب آپ اس کہانی کے سحر میں جکڑے خود کی ذات کو اذیت دیتے ہیں اور اپنی کمیوں کی شکایت دنیا سے کرتے ہیں تو آپ اپنے رب سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور یہ ہی تو شیطان چاہتا ہے ۔۔۔۔

ہم لکھاری ہو یا قاری جب تک مرضی کی چیز نہ ملے ہمیں وہ سرور نہیں آتا نہ لکھنے میں نہ پڑھنے میں جو مرضی کے لکھے پڑھے میں اتا ہے ۔۔۔۔۔

وہ لمحہ بھر کو رکی اور ڈائس پر رکھا پانی کا گلاس منہ کو لگایا ۔۔۔۔

آخری قطار پر بیٹھی وہ لڑکی جو سوال کا جواب دے چکی تھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے سامنے موجود ہستی کو دیکھے گئی اسے یہ لگا کے یہ اس  سے ہی بات کی گئی ہے اس کا ذکر بھری محفل ہو رہا ہے پر نہیں وہ تو کہیں تھی ہی نہیں ان باتوں میں۔۔۔۔

وہ دور ماضی میں اک منظر میں کھو گئی جیسے ۔۔۔۔

ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا یہ مفرا بھی نہ پتہ نہیں کیا کیا کرتی رہتی ہے ۔۔۔۔

وہ صحن میں لگے جھولے پر بیٹھی خود سے ہی قہقہے لگا رہی تھی جب عقبی دروازے سے مفرا اندر آئی ۔۔۔

اچھا میں کیا کیا ۔؟؟

ارے تم کب آئی ابھی تمہیں ہی یاد کر رہی تھی میں ۔۔۔

شائستہ حیران تھی پر خوش بھی ۔۔۔

بات مت گھماؤ شائس بتاؤ کیا کیا میں نے ۔۔۔۔

ارے وہی بات یاد آ گئی تھی وہ دکان والی جو تم کہہ رہی تھی چچا گندہ ہے ارے یار وہ تو پانچ وقت کا نمازی ہے کیوں بزرگوں کی بدعائیں لینی ہیں ۔۔۔

شائس بات بوڑھے یا جوان کی نہیں بات نیت کی ہے اور اب ہم بچیاں نہیں جو اچھی اور بڑی نظر نہ پہچان سکیں ۔۔۔

مفرا کو برا لگا تھا کے اس کی بچپن کی دوست اس کی اتنی اہم بات کو غیر سنجیدہ لے گئی تھی پر شائستہ اب بھی قہقہ لگا کر ہنس پڑی تھی ۔۔۔۔

یار تم خامخواہ پریشان ہو رہی ہو  ایسا کچھ نہیں اور ویسے بھی اتنے امیر کبیر ہو تم لوگ ایک آدھ گارڈ رکھ لو اگر پریشانی ہے تو ۔۔۔۔

شائستہ نے بات کو اب بھی مذاق کا رخ دیا تھا شاید عمر کچی ہونے کے سبب تھا یہ سب ۔۔۔

مفرا کچھ نہیں کہتی جب اچانک شائستہ کی نظر اس کے ہاتھ میں موجود سونے کی باریک چوڑیوں پر گئی ۔۔۔

ہائےے اللّٰہ جی یہ کتنی پیاری ہیں مجھے بھی دو۔۔۔

 ایک تیری ایک میری ۔۔۔

شائستہ جلدی سے ہاتھ اگے کرتی اس سے ایک چوڑی مانگی ۔۔۔

ارے نہیں نہیں یہ نہیں دینی یہ تو تمہیں دیکھانے آئی ہوں وہ نا میری لندن والی خالہ ہیں نا وہ آئی ہیں وہ پہلے بھی پیار کرتی تھیں مجھ سے پر آج تو الگ ہی صدقے واری جا رہی تھی  پہلے چوڑیاں پہنائی پھر پچاس ہزار روپے دیے میں تو حیران ہی رہ گئی پر سب کچھ اماں کے پاس ہے یہ بھی تمہیں دیکھانی لائی تھی تبھی  تو اماں اجازت دی پہنی رکھنے کی ۔۔۔۔

مفرا کی بات سن  شائستہ کو رشک سا آیا اس کی قسمت پر۔۔

 پر اپنی حالتِ زار پر رونا بھی ۔۔۔۔

ساری رات وہ خود سے اپنے رب سے شکوے شکایتوں میں گزار دی کے اس کی زندگی ایسی کیوں نہیں وہ آسائشیں جو مفرا کی قسمت میں ہیں اس کی قسمت میں کیوں نہیں پر ابلیس کی کہانی تو ازل سے جھوٹ ہے جس کا کوئی انت نہیں جس کا کوئی حاصل نہیں ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ حسد اس کا حاصل ہے اور کفر اس کا انت ۔۔۔

اس کے شکوے اس وقت انتہا پر پہنچے جب دل و دماغ میں چھڑی ایک جنگ کو ختم کچھ لفظوں نے کیا ۔۔۔

اللّٰہ کرے اس کے پاس کچھ بھی نہ رہے اگر میرے پاس نہیں تو جو یہ دیکھانے آ جاتی ہے اپنی قیمتی چیزیں خون جلانے تب میں بھی دیکھوں گی کیسے دیکھاتی ہنہ۔۔۔

بزرگ کہتے ہیں" بتیس گھڑیوں میں ایک گھڑی قبولیت کی ہوتی ہے سو جو بولو سوچ سمجھ کے بولو "

شاید وہ وقت بھی قبولیت کا تھا جو کس انداز میں قبول ہونا تھا یہ اللّٰہ جانتا ہے ۔۔۔

اگلے دن مفرا اور شائستہ دونوں کالج جا رہی تھی چونکہ مفرا کے والد ایک تاجر تھے اس لیے ان کی آمدنی ہوا کی دوش کی طرح کم یا اضافی ہوتی رہتی تھی جس کو اپنی عقل و شعور سے سنبھال کر آج وہ بھی امیروں کی صف میں شامل ہوئے تھے ۔۔۔

مفرا کے گھر کے پیچھے شائستہ کا گھر تھا چونکہ کالج نزدیک تھا اس لیے وہ پیدل آتی جاتی تھی مفرا کے والد اتنا پیسا ہونے کے بعد بھی اپنا آبائی گھر چھوڑنے کے حق میں نہیں تھے ۔۔۔

وہ دونوں جس رستے سے جاتی تھی وہ ایک گلی سے ہو کر گزرتا تھا معمول کے مطابق وہاں صبح کو سناٹے کا راج ہوتا اور دن گزرتے وہ مچھلی بازار کا منظر پیش کرتی ۔۔۔

آج وہ دونوں جب گزر رہی تھی تو وہی دکان والا  جس کی شکایت مفرا کو تھی سامنے آیا ساتھ میں ایک جنا جوان بھی تھا ۔۔۔

مفرا  اور شائستہ کو اپنے اردگرد خطرے کی گھنٹیاں بجتی سنائی دی ۔۔۔

وہ ابھی کچھ سمجھ پاتی اس سے پہلے ہی ان دونوں کے سروں پر ڈنڈے سے وار کیا گیا جو ان کو بے ہوش کرنے کو کافی تھا ۔۔۔۔

شائستہ کی جب انکھ کھلی تو سر میں درد کی ٹھیسیں اٹھی ہوش تو مفرا کی چیخوں پکار سے بحال ہوئے جب نگاہ اطراف میں دوڑائی تو آنکھیں ابل کر باہر آنے کو بے تاب تھی ۔۔۔

درندے کو حقیقت میں اس وقت شائستہ نے دیکھا تھا ۔۔۔

مفرا کی چیخوں پکار اگر کوئی اور سن لیتا تو شاید اپنے کانوں سے کچھ بھی کبھی بھی نہ سننے کی دعا کرتا جو شائستہ کر بھی رہی تھی پر اس درندے کو خود کی تسکین کے علاؤہ کچھ نہ دکھا  ۔۔۔۔

مفرا تکلیف برداشت نہ کرتی ہوئی حواس کھو بیٹھی اسے  کو بے ہوش دیکھ وہ درندہ جیسے بدمزہ ہوا ایک ٹھوکر اس کے زخمی وجود پر ڈال وہ اب شائستہ کی طرف قدم بڑھا رہا تھا ۔۔۔

اس شیطان کو اپنے قریب آتا دیکھ شائستہ شدت سے موت کی دعا کر رہی تھی  جب وہ درندہ اس پر حاوی ہوا ۔۔۔

 کب وہ حوش سے بیگانہ ہوئی پتہ نہ تھا جب آنکھ کھلی تو مفرا کو قریب پایا جس کی آنکھیں الٹی تھی اور منہ کھلا جیسے سانس لینے میں تکلیف ہو رہی تھی جان کنی کا ازیت ناک مرحلہ تھا شاید شائستہ نے اپنے زخمی وجود کو سمیٹا اور مفرا کے مزید قریب ہوئی۔ اس کی آنکھیں اشکبار تھی اور بے نام سا شکوہ تھا جیسے کہہ رہی ہو دیکھا میں نے کہا تھا نہ وہ گندہ ہے ۔۔۔

شائستہ نظریں پھیر گئی آس پاس نظر دورائی جب کچھ دور اسے کانچ کا ٹکڑا ملا ۔۔۔

مفرا کی تکلیف شائستہ سے ناقابل برداشت تھی اس نے وہ ٹکڑا اٹھایا اور پوری شدت سے مفرا کے گلے پر پھیر دیا لمحوں کا کھیل تھا اور مفرا کی روح پرواز کر چکی تھی ۔۔۔

شائستہ اس کے مرنے کے بعد حرام موت کو گلے لگانے ہی والی ہوتی ہے جب وہ درندے اندر آتے مفرا کی لاش دیکھ وہ دونوں تو جیسے پاگل ہو گئے تھے اس پاگل پن  کو شائستہ نے اپنے وجود پر جھیلا جب اس کی سانس مدھم ہوگئی جیسے نہ ہونے کے برابر تو وہ اسے اس کے گھر کے پاس موجود کوڑے دان میں پھینک گئے ۔۔۔

کتنے دن مہینے سال وہ بستر پر رہی کوئی نہیں جانتا تھا پر اکلوتی اولاد کا دکھ ماں باپ کی سوا کوئی نہیں جانتا ۔۔

مفرا اور شائستہ دونوں ہی اکلوتی اولادیں تھیں  ایک تو دنیا چھوڑ گئی اور دوسری ابلیس کی کہانی پر عمل کا خمیازہ بھگت چکی تھی کتنا وقت لگا  تھا زخم بھرنے میں اپنے ماں باپ کے لیے جینے میں  ۔۔۔۔۔

ساحرہ کی آواز اسے حال میں واپس لائی  ۔۔۔۔

سیمینار ابھی بھی چل رہا تھا جہاں مہمان خصوصی ساحرہ محمود (جو بہت بڑی مصنفہ تھی اور اسلامی سکالر بھی ) تشریف لائیں تھی ۔۔۔

اللّٰہ اور بندے کا تعلق نماز نہیں ہے  ہاں یہ ایک ذریعہ ہے تعلق رکھنے کا ۔۔۔

اللّٰہ اور بندے کا تعلق تو دل سے ہے ۔۔۔

جب آپ کوئی چیز دل سے مانگتے ہیں تو میرا رب اسے آپ تک ضرور پہنچاتا ہے ۔۔۔

پر ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے سوائے میرے رب کی رحمت کے ۔۔۔۔

ابلیس کا  پہلا نام عزازیل تھا  (عملی ، حیثیت پسند ، طاقت پسند ، مادیت پسند ، منصفانہ ، خود کفیل   ، قلیل مزاج ) پھر یہ ابلیس ہوا (خدا کی رحمت سے مایوس،شیطان، خبیث) وجہ کیا تھی حکم عدولی اور بغاوت ۔۔۔

کیا اللّٰہ سے بغاوت کبھی کامیابی دے سکی ہے ۔۔۔

نہیں بلکل نہیں بلکہ وہ دنیا آخرت میں رسوائی کا ذریعہ بنی ہے ۔۔۔

ابلیس کی کہانیاں بے انتہا خوبصورت ہوتی ہیں ان کے بول ایسے جیسے میٹھا شہد ہو اس کے کردار دودھ سے غسل کر چکے ہوں جیسے اس کا آغاز سارے جہاں کی محبت سموئے ہوگا اور اس کا انت ایک بھیانک آگ جو پوشیدہ رکھی جائے گی ہم سے ۔۔۔۔

یہاں بیٹھا کوئی بھی شخص ایسا نہیں جو اس کی کہانیاں سن نہ چکا ہو میں بھی نہیں پر ہم سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو ان کہانیوں کے انت کو دنیا میں دیکھ چکے ہیں اور کچھ ایسے جو آغاز سے ہی پلٹ گے ۔۔۔۔

جو دیکھ چکے ہے ان کے لیے یہ اشارہ ہے میرے رب کا کے بے شک تو میری رحمت سے مایوس ہوا پر میں تیرا رب ہوں میری رحمت کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں بس دستک تجھے دینی ہو گی ۔۔۔

ساحرہ محمود کی آخری بات سے بے ساختہ شائستہ کے آشک رواں ہوئے اور وہ وہی اپنا سر دونوں ہاتھوں میں گرائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی وہاں بہت سی آنکھیں نم تھی سو کسی نے دھیان نہ دیا ۔۔۔

ویسے بھی جب آنسو انسانوں کی جگہ رب کو پانے لیے گرے تو شرمندہ نہیں کرتے بلکہ سرخرو کرتے ہیں ۔۔۔

اس سیمینار کا اختتام میں اپنے شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ کی خوبصورت کتاب بانگِ درا کی شکوہ جوابِ شکوہ نظم سے کرنا چاہوں گی ۔۔۔ 

’’ شکوہ ‘‘

کیوں زیاں کار بنوں ، سود فراموش رہوں

فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں

نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں

ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

جرأت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو

شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو

ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم

قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

ساز خاموش ہیں ، فریاد سے معمور ہیں ہم

نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم

اے خدا! شکوۂ ارباب وفا بھی سن لے

خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے

تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم

پھول تھا زیب چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم

شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عمیم

بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم

ہم کو جمعیت خاطر یہ پریشانی تھی

ورنہ امت ترے محبوب کی دیوانی تھی؟

ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر

کہیں مسجود تھے پتھر ، کہیں معبود شجر

خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر

مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر

تجھ کو معلوم ہے ، لیتا تھا کوئی نام ترا؟

قوت بازوئے مسلم نے کیا کام ترا

بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی، تورانی بھی

اہل چیں چین میں ، ایران میں ساسانی بھی

اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی

اسی دنیا میں یہودی بھی تھے ، نصرانی بھی

پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے

بات جو بگڑی ہوئی تھی ، وہ بنائی کس نے

تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں

خشکیوں میں کبھی لڑتے ، کبھی دریاؤں میں

دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں

کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی

کلمہ جب پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی

ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کے مصیبت کے لیے

اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے

تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے

سربکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے؟

قوم اپنی جو زر و مال جہاں پر مرتی

بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی!

ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے

پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے

تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے

تیغ کیا چیز ہے ، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے

زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے

تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا در خیبر کس نے

شہر قیصر کا جو تھا ، اس کو کیا سر کس نے

توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے

کاٹ کر رکھ دیے کفار کے لشکر کس نے

کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدۂ ایراں کو؟

کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو؟

کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی

اور تیرے لیے زحمت کش پیکار ہوئی

کس کی شمشیر جہاں گیر ، جہاں دار ہوئی

کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی

کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے

منہ کے بل گر کے ‘ھو اللہ احد’ کہتے تھے

آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز

قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

محفل کون و مکاں میں سحر و شام پھرے

مے توحید کو لے کر صفت جام پھرے

کوہ میں ، دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے

اور معلوم ہے تجھ کو ، کبھی ناکام پھرے!

دشت تو دشت ہیں ، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے

بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے

نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے

تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے

تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے

پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں

ہم وفادار نہیں ، تو بھی تو دلدار نہیں!

امتیں اور بھی ہیں ، ان میں گنہ گار بھی ہیں

عجز والے بھی ہیں ، مست مۓ پندار بھی ہیں

ان میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں، ہشیار بھی ہیں

سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر

برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر

بت صنم خانوں میں کہتے ہیں ، مسلمان گئے

ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے

منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے

اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے

خندہ زن کفر ہے ، احساس تجھے ہے کہ نہیں

اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں

یہ شکایت نہیں ، ہیں ان کے خزانے معمور

نہیں محفل میں جنھیں بات بھی کرنے کا شعور

قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور

اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور

اب وہ الطاف نہیں ، ہم پہ عنایات نہیں

بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں

کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب

تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب

تو جو چاہے تو اٹھے سینۂ صحرا سے حباب

رہرو دشت ہو سیلی زدۂ موج سراب

طعن اغیار ہے ، رسوائی ہے ، ناداری ہے

کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے؟

بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا

رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا

ہم تو رخصت ہوئے ، اوروں نے سنبھالی دنیا

پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا

ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے

کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے ، جام رہے!

تیری محفل بھی گئی ، چاہنے والے بھی گئے

شب کے آہیں بھی گئیں ، صبح کے نالے بھی گئے

دل تجھے دے بھی گئے ، اپنا صلا لے بھی گئے

آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے

آئے عشاق ، گئے وعدۂ فردا لے کر

اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

درد لیلی بھی وہی ، قیس کا پہلو بھی وہی

نجد کے دشت و جبل میں رم آہو بھی وہی

عشق کا دل بھی وہی ، حسن کا جادو بھی وہی

امت احمد مرسل بھی وہی ، تو بھی وہی

پھر یہ آزردگی غیر سبب کیا معنی

اپنے شیداؤں پہ یہ چشم غضب کیا معنی

تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربی کو چھوڑا؟

بت گری پیشہ کیا ، بت شکنی کو چھوڑا؟

عشق کو ، عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟

رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا؟

آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں

زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں

عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی

جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی

مضطرب دل صفت قبلہ نما بھی نہ سہی

اور پابندی آئین وفا بھی نہ سہی

کبھی ہم سے ، کبھی غیروں سے شناسائی ہے

بات کہنے کی نہیں ، تو بھی تو ہرجائی ہے !

سر فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے

اک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تو نے

آتش اندوز کیا عشق کا حاصل تو نے

پھونک دی گرمی رخسار سے محفل تو نے

آج کیوں سینے ہمارے شرر آباد نہیں

ہم وہی سوختہ ساماں ہیں ، تجھے یاد نہیں؟

وادی نجد میں وہ شور سلاسل نہ رہا

قیس دیوانۂ نظارۂ محمل نہ رہا

حوصلے وہ نہ رہے ، ہم نہ رہے ، دل نہ رہا

گھر یہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا

اے خوش آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی

بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئی

بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے

سنتے ہیں جام بکف نغمۂ کو کو بیٹھے

دور ہنگامۂ گلزار سے یک سو بیٹھے

تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر ‘ھو’ بیٹھے

اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افروزی دے

برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے

قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز

لے اڑا بلبل بے پر کو مذاق پرواز

مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز

تو ذرا چھیڑ تو دے، تشنۂ مضراب ہے ساز

نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے

طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لیے

مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے

مور بے مایہ کو ہمدوش سلیماں کر دے

جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے

ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے

جوئے خوں می چکد از حسرت دیرینۂ ما

می تپد نالہ بہ نشتر کدۂ سینۂ ما

بوئے گل لے گئی بیرون چمن راز چمن

کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غماز چمن !

عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن

اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرواز چمن

ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک

اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک

قمریاں شاخ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں

پتّیاں پھول کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں

وہ پرانی روشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں

ڈالیاں پیرہن برگ سے عریاں بھی ہوئیں

قید موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی

کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی!

لطف مرنے میں ہے باقی ، نہ مزا جینے میں

کچھ مزا ہے تو یہی خون جگر پینے میں

کتنے بے تاب ہیں جوہر مرے آئینے میں

کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں

اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں

داغ جو سینے میں رکھتے ہوں ، وہ لالے ہی نہیں

چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں

جاگنے والے اسی بانگ درا سے دل ہوں

یعنی پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں

پھر اسی بادۂ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں

عجمی خم ہے تو کیا ، مے تو حجازی ہے مری

نغمہ ہندی ہے تو کیا ، لے تو حجازی ہے مری!

’’ جواب ِ شکوہ ‘‘

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے

خاک سے اُٹھتی ہے ، گردُوں پہ گذر رکھتی ہے

عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا

آسماں چیرگیا نالۂ فریاد مرا

پیر گردُوں نے کہا سُن کے ، کہیں ہے کوئی !

بولے سیارے ، سرِ عرشِ بریں ہے کوئی !

چاند کہتا تھا ، نہیں اہلِ زمیں ہے کوئی !

کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی !

کُچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا

مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا !

عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا !

تا سرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا ؟

آگئی خاک کی چُٹکی کو بھی پرواز ہے کیا ؟

غافل آداب سے سُکانِ زمیں کیسے ہیں !

شوخ و گُستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں !

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے

تھا جو مسجودِ ملائک یہ وہی آدم ہے ؟

عالمِ کیف ہے دانائے رموزِکم ہے

ہاں ، مگر عجز کے اسرار سے نا محرم ہے

ناز ہے طاقتِ گُفتار پہ انسانوں کو

بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا

اشکِ بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا

آسماں گیر ہوا نعرۂ مستانہ ترا

کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا

شکر شکوے کو کیا حُسنِ ادا سے تُو نے

ہم سُخن کر دیا بندوں کو خدا سے تُو نے

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں

تربیت عام تو ہے ، جوہرِ قابل ہی نہیں

جس سے تعمیر ہو آدم کی ، یہ وہ گِل ہی نہیں

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں

ڈُھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں

ہاتھ بے زور ہیں ، الحاد سے دل خُوگر ہیں

اُمتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں

بُت شکن اُٹھ گئے ، باقی جو رہے بُت گر ہیں

تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں

بادہ آشام نئے ، بادہ نیا ، خم بھی نئے

حرمِ کعبہ نیا ، بُت بھی نئے ، تم بھی نئے

وہ بھی دِن تھے کہ یہی مایۂ رعنائی تھا !

نازشِ موسمِ گُل ، لالۂ صحرائی تھا !

جو مُسلمان تھا اللہ کا سَودائی تھا !

کبھی محبُوب تمہارا یہی ہرجائی تھا !

کسی یکجائی سے اَب عہدِ غُلامی کر لو

ملتِ احمدِ مُرسل کو مقامی کر لو

کِس قدر تُم پہ گراں صُبح کی بیداری ہے !

ہم سے کب پیار ہے ؟ ہاں نیند تُمہیں پیاری ہے

طبع آذاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے

تمہیں کہہ دو یہی آئینِ وفا داری ہے ؟

قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں

جذبِ باہم جو نہیں ، محفلِ انجم بھی نہیں

جن کو آتا نہیں دُنیا میں کوئی فن ، تُم ہو

نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن ، تُم ہو

بِجلیاں جِس میں ہوں آسُودہ وہ خرمن ، تُم ہو

بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن ، تُم ہو

ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے

کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے ؟

صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے ؟

نوعِ انساں کو غلامی سے چُھڑایا کس نے ؟

میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے ؟

میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے ؟

تھے تو آباء وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو ؟

ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو !

کیا گیا ؟ بہرِ مُسلماں ہے فقط وعدۂ حُور

شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور !

عدل ہے فاطرِ ہستی کا اَزل سے دستور

مُسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حُور و قصور

تُم میں حُوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں

جلوۂ طُور تو موجُود ہے مُوسٰی ہی نہیں

منفعت ایک ہے اِس قوم کی ، نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک

حرمِ پاک بھی ، اللہ بھی ، قُرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مُسلمان بھی ایک؟

فرقہ بندی ہے کہیں ، اور کہیں ذاتیں ہیں !

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟

کون ہے تارک آئینِ رسول مختار؟

مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟

کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟

ہو گئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟

قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں

کچھ بھی پیغام محمد ﷺ کا تمہیں پاس نہیں

جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آراء تو غریب

زحمتِ روزہ جو کرتے ہیں گوارا، تو غریب

نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا، تو غریب

پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا، تو غریب

امراء نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے

زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے

واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی

برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی

رہ گئی رسم اذاں، روح ہلالی نہ رہی

فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی

مسجدیں مرثیہ خوان ہیں کہ نمازی نہ رہے

یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود

ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو!

دم تقریر تھی مسلم کی صداقت بے باک

عدل اس کا تھا قوی، لوث مراعات سے پاک

شجر فطرت مسلم تھا حیا سے نم ناک

تھا شجاعت میں وہ اک ہستیِ فوق الادراک

خود گدازی نم کیفیت صہبایش بود

خالی از خویش شدن صورت مینایش بود

ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا

اس کے آئینۂ ہستی میں عملِ جوہر تھا

جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا

ہے تمہیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو

پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو!

ہر کوئی مست مۓ ذوق تن آسانی ہے

تم مسلماں ہو! یہ انداز مسلمانی ہے؟

حیدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے

تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم

تم خطاکار و خطابیں، وہ خطا پوش و کریم

چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم

پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم

تختِ فغفور بھی ان کا تھا، سریرِ کَے بھی

یونہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟

خود کشی شیوہ تمہارا، وہ غیور و خوددار

تم اخوت سے گریزاں، وہ اخوت پہ نثار

تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار

تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار

اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی

نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی

مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے

بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے

شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے

بے عمل تھے ہی جواں، دین سے بدظن بھی ہوئے

ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا

لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا

قیس زحمت کش تنہائ صحرا نہ رہے

شہر کی کھائے ہوا، بادیہ پیمانہ نہ رہے

وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے

یہ ضروری ہے حجاب رُخ لیلا نہ رہے

گلۂ جور نہ ہو، شکوۂ بیداد نہ ہو

عشق آزاد ہے، کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو!

عہد نو برق ہے، آتش زن ہرخرمن ہے

ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے

اس نئی آگ کا اقوام کہیں ایندھن ہے

ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا

آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی

کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی

خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی

گل بر انداز ہے خون شہداء کی لالی

رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے

یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے

امتیں گلشن ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں

اور محروم ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں

سینکڑوں نخل ہیں ، کاہیدہ بھی ، بالیدہ بھی ہیں

سینکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں

نخل اسلام نمونہ ہے بردمندی کا

پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا

پاک ہے گرد وطن سے سرِ داماں تیرا

تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا

قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا

غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا

نخل شمع استی و در شعلہ دود ریشۂ تو

عاقبت سوز بود سایۂ اندیشۂ تو

تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے

نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کشتیِ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے

عصر نو رات ہے، دھندلا سا تارا تو ہے

ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا

غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا

تو سمجھتا ہے یہ سامان ہے دل آزاری کا

امتحاں ہے ترے ایثار کا، خود داری کا

کیوں ہراساں ہے صہیل فرس اعدا سے

نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے

چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری

ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری

زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری

کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تیری

وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے

نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

مثل بوٗ قید ہے غنچے میں، پریشاں ہو جا

رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہو جا

ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا

نغمۂ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہو جا!

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے

ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو

چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو

یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو

بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے

نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

دشت میں، دامن کہسار میں، میدان میں ہے

بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے

چین کے شہر، مراکش کے بیاباں میں ہے

اور پوشیدہ مسلماں کے ایمان میں ہے

چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے

رفعت شان رَفعَنَا لَکَ ذِکرَک دیکھے

مردم چشم زمین یعنی وہ کالی دنیا

وہ تمہارے شہداء پالنے والی دنیا

گرمیِ مہر کی پروردہ ہلالی دنیا

عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا

تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح

غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری

میرے درویش! خلافت ہے جہاں گیر تری

ماسوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری

تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

امتیں گلشنِ ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں

اور محروم ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں

سینکڑوں نخل ہیں ، کاہیدہ بھی ، بالیدہ بھی ہیں

سینکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں

نخلِ اسلام نمونہ ہے بردمندی کا

پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا

(علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ)

کلام کے آخر میں دیر تلک تالیوں کی گونج رہی اور شائستہ کو اپنے دل میں ٹھنڈک اترتی محسوس ہوئی بے شک رب کی رحمت کی کوئی قیمت نہیں پر اسے پانے کا طریقہ ضرور ہے جسے اپناتے ہوئے اس کی رحمت پا سکتے ہیں ہم ۔۔

ختم شد۔۔

ٱلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ ٱللَّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ

 امید ہے سب خیریت سے ہونگے انشاللہ امید ہے میری یہ کاوش کسی کو ابلیس کی کہانیوں سے بچا لے گی اللّٰہ ہم سب کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے ہمیں حفظ و امان میں رکھے اور شیطان کے جھال میں پھنسے سے بچائے آمین ثم آمین یارب العالمین ۔۔۔

دعاؤں کی طلبگار زوئی راجپوت 🖤

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 Iblis Afsana

Madiha Shah presents a new urdu social Afsana   Iblis written by Zoe Rajpoot.Iblis byZoe Rajpoot  is a special Afsana , many social evils have been represented in this Afsana . She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Cousins Forced  Marriage Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel ''Iblis '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1 to 10

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Iblis  By Zoe Rajpoot Complete Afsana  is available here to download in pdf from and online reading .

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

 

Iblis Afsana by Zoe Rajpoot  ( PDF)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

 

Islamic True Stories

سچی کہانی 

جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک 

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے

If You Read this STORY Click Link

LINK

 

 

 

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages