Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 76 Part 1 Online - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 4 April 2022

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 76 Part 1 Online

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 76 Part 1 Online 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Cousins Forced Marriage Based Novel Enjoy Reading

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Epi 76 Part 1

Novel Name: Nafrat  Se Barhi Ishq Ki Inteha

Writer Name: Madiha Shah

Category: Episode Novel

Episode No: 76 Part 1

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا

تحریر ؛۔ مدیحہ شاہ

قسط نمبر ؛۔ 76 پارٹ 1

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ماضی

داتا بھائی ۔۔۔!! آئمہ جو چہکتے بھاگتی آئی تھی ۔ داتا بخش کو دیکھ ان کے ساتھ لگی ۔

کیسی ہے ہماری بہن ۔۔؟ داتا بخش اُسکو خود میں بھنچتے محبت سے دریافت کر گے ۔۔۔۔

میں ٹھیک ہوں۔ اس بار آپ نے آنے میں بہت دیر کی ۔ آئمہ کا شکوہ زبان پر آیا۔

معافی ۔۔۔۔ میں مصروف بہت تھا ۔ داتا بخش نے کانوں کو ہاتھ لگاتے آئمہ سے معافی مانگنی تو آئمہ ہلکے سے مسکراتے داتا بخش کے پھر سے ساتھ لگی ۔

داتا بھائی کتنی بار کہا ہے ، ایسے مجھ سے معافی مت مانگا کرے ۔

آئمہ محبت سے اب کہ داتا بخش کے ساتھ صوفے پر بیٹھتے بولی ۔

آئمہ توں نے سوچا ۔۔۔؟؟ داتا بخش نے فورا سے آئمہ سے جاننا چاہا ۔

داتا بھائی آپ جانتے ہیں اماں کو ۔۔۔! اور ویسے بھی میں نے سمجھوتا کر لیا ہے ۔ آئمہ نے بہت آرام سے کہتے داتا بخش کو ساکت کیا ۔۔۔

 

کیسے آنا ہوا داتا بخش ۔۔؟ روشن بیگم اک دم سے بیٹھک میں داخل ہوتے داتا بخش کے سامنے بیٹھی ۔۔۔

جبکے آئمہ جو داتا بخش کے ساتھ جڑے بیٹھی تھی ۔ کھڑی ہوئی ۔

میں آپ کے لیے کچھ لاتی ہوں ۔ آئمہ ایک نظر داتا بخش کو دیکھتے وہاں سے گئی ۔

سکون مل گیا خالہ ۔۔۔۔؟؟ اپنی بیٹی کو بھی وہی راستہ دکھا کر ۔۔؟ 

جس پر تم خود گزر گئی ہو ۔۔؟ داتا بخش کی آواز اونچی ہوئی تھی ۔

روشن نے منہ بورستے داتا بخش کو دیکھا ۔ جب تمہیں پتا ہے ۔ تو کیوں بار بار میرا سر کھانے چلے آتے ہو ۔۔؟

روشن نے اب کہ اپنی خاص ملازمہ کو پان لانے کا اشارہ کیا تھا ۔

وہ ہاتھ میں پڑی ڈبی تیزی سے روشن بیگم کے سامنے کر گئی ۔

خالہ خدا سے ڈرو ۔ مت آئمہ کو دوزخ کی آگ میں پھینکو ۔ رحم کھاؤ اُس بچی پر ۔۔۔

کیا مل جائے گا اُسکی زندگی کو برباد کر کہ ۔۔۔؟ داتا بخش اپنے غصے کو ضبط کرتے دھیمے سے بولے ۔

روشن بیگم نے پان لیتے اپنے منہ میں رکھا ۔ داتا بخش میں اپنی بیٹی کی زندگی بنا رہی ہوں ۔۔۔

تم فکر نہیں کرو ۔ وہ اس گندی سے نکل جائے گی ۔ روشن بیگم نے اب کر پان چباتے داتا بخش کو تاسف سے دیکھا ۔

خالہ ایک بار صرف آئمہ میرے ساتھ جانے کی حامی بھر دے ۔ خدا کی قسم کھاتا ہوں اُسکو یہاں سے تمہارے سامنے سے لے کر جاؤں گا ۔

داتا بخش دو ٹوک بولتے اک دم سے کھڑا ہوا تھا ۔

کوشش کر لے توں ۔۔۔ میں تجھے نہیں روکوں گی ۔ تیرا حق بنتا ہے ۔ آخر ایک توں ہی ہمارا بھلا سوچنے والا ہے ۔

روشن بیگم نے طنزیہ تیر پھینکا تھا ۔ داتا بخش کھا جانے والی نظر روشن بیگم پر ڈالتے جانے کے لیے ڈور کی طرف بڑھا ۔

بھائی اتنی جلدی مت جائیں ۔۔۔آئمہ جو چائے لیتے آئی تھی ۔ داتا بخش کے سامنے ہوئی ۔

جس دن تم میرے ساتھ جانے کی حامی بھرو گی آئمہ اُس دن میں خوشی سے تمہارے ہاتھ کی چائے پیؤں گا ۔

داتا بخش نے اسکے سر پر پیار دیا تھا اور واک آوٹ کر گیا ۔

آئمہ اُسکو جاتے دیکھ غصے سے اپنی اماں کو دیکھ گئی ، وہ جانتی تھی داتا کے جانے کی وجہ ۔

ایک طرف فیصل شاہ وقار شیزاری کے ساتھ مل چکا تھا مراد کو ختم کرنے کے لیے ۔

تو دوسری طرف مراد نے سلطان شاہ سے کہہ دیا تھا ۔ کہ جلد سے جلد جنت کی رخصتی کر کہ اُسکو فارغ کر دیا جائے ۔

جیسے ہی مراد نے اپنی خواہش ظاہر کی ۔ سب بڑوں نے تیاریاں شروع کر دی ۔

وقت تیزی سے پنگ لگانے بھاگنا شروع ہوا تھا ۔ فیصل شاہ مراد سے اپنی محبت چھنینا چاہتا تھا ۔۔

اسکے ساتھ ہی وہ سب کی نظروں میں اچھا بھی بننا چاہتا تھا ۔

اسی لیے فیصل شاہ نے اسماء کے ساتھ شادی کرنے کے لیے ہاں کر دی

کچھ ہی دنوں بعد فیصل شاہ اور اسماء کی شادی ہوگئی ۔فیصل شاہ نے بہت جلد بازی میں یہ قدم اٹھایا تھا ۔

بہت سادگی سے سب کچھ کیا گیا تھا ۔ وہ مراد سے پہلے شادی کرنا چاہتا تھا ۔

فیصل شاہ نے جائیداد کے لیے اسماء سے شادی کی تاکہ شادی کے بعد وہ اچھے سے اپنا کاروبار اور زمینیں بنا سکے ۔

فیصل شاہ کے دل میں شاہوں کے لیے نفرت بھر چکی تھی ۔ وہ کسی بھی طرح مراد سے دو گنا امیر ہونا چاہتا تھا۔

مگر افسوس یہ اسکے مرنے کے لیے بھی خواب پورا نا ہو سکا ۔۔۔

ایک طرف وہ خاندان میں اسماء کی زندگی سے کھیلنا شروع ہوا تھا تو دوسری طرف جنت کے لیے وہ پاگل سا جنت کوٹھہ بناتے اُس میں روشن سے اُسکی بیٹی کے لیے کتنے ہی وعدے کر گیا تھا ۔

آئمہ کو اپنی زندگی میں شامل کرنے اور اُسکو کوٹھے کی زندگی سے نکال حویلی میں لے جانے کے خواب دکھا گیا تھا ۔

لیکن کہتے ہیں ایک طوائف کی زندگی طوائف سے شروع ہوتے طوائف پر ہی ختم ہوتی ہے ۔۔۔

ایسے ہی آئمہ کا انجام ہونے والا تھا۔ اور اس کی سب سے  بڑی وجہ اُسکی اپنی ماں بننے والی تھی ۔۔۔

فیصل شاہ کی شادی کو دو ہفتے ہوئے تھے ۔ کہ مراد کی شاہ شادی عالی شان طریقے سے سلطان نے شاہ نے کی ۔

ہر طرف خوشی کا سما بھرا تھا۔ آخر میرپور میں مراد کی سب سے بڑی شادی کی تقریب رکھی گئی تھی ۔

مراد کے سنگ صفدد نے اپنی پیاری بہن جنت کو رخصت کیا تھا ۔

وہ دولہن کے روپ میں ایک حور ہی نظر آ رہی تھی ۔ ناز بیگم جنت کو پیار سے لاتے مراد کی بیڈ پر بٹھا گئی ۔

یااللہ “ اس دل کی رفتا کو ذرا کم کر دیں ۔ میں کہاں جاؤں ۔۔۔؟

جیسے ہی ناز بیگم اُسکو کمرے میں چھوڑ واپس گئی تھی ۔ جنت گھونٹ خود سے اٹھاتے بیڈ سے نیچے اتری ۔۔

بھابھی کی باتوں کا مطلب کیا تھا ۔ ابھی میرے ساتھ ۔۔۔۔؟؟؟ وہ ٹینشن سے کبھی ادھر تو اُدھر چکر لانا شروع ہوئی

کیا مصیبت ہے ۔ اس سے پہلے وہ اپنے لہنگے میں پھنس گرتی غصے سے لہنگے کو اٹھاتے گھبرائی ۔۔۔

جنت اتنا مت سوچ کہیں ایسا نا ہو شبانہ کی بات درست ثابت ہو جائے ۔ جنت کو اچانک سے شبانہ کے الفاظ یاد آئے تھے ۔۔۔

جب اُسنے کہا تھا ۔ جنت کہیں ایسا نا ہو مراد بھائی کے شدتوں کو سہتے سہتے توں بہوش ہی ہو جائے ۔

کچھ نہیں ہوتا ۔ میں بہادر ہوں میں مراد سے بالکل بھی ڈروں گی نہیں ۔۔۔

جنت جو روم میں اکیلی تھی ۔ خود سے بڑبڑاتے بہادر بننے کا عزم جیسے یاد کیا تھا ۔۔۔

روم میں پول کون بنتا ہے ۔۔؟ جنت کو جو اپنی سوچوں سے باہر نکلنا چاہتی تھی ۔

یہ لائٹس کو کیا ہو گیا ۔۔۔؟ جنت جو ابھی ویسے ہی کھڑی ہوئی تھی ۔

اچانک سے سب لائٹس کے آف ہونے پر گھبرائی ۔ ناز۔۔۔بھا۔۔۔!!!

شش۔۔۔۔۔۔

اس سے پہلے جنت ڈرتے ناز بھابھی کو زوروں سے آواز دیتے بلاتی ۔

مراد جو لائٹس کے آف ہوتے ہی روم میں داخل ہوا تھا ۔

اُسکا آواز اسکے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھتے منہ میں دبا گیا ۔

جنت نے ڈرتے مراد کی قمیض کو جکڑا ۔ خاموش آواز مت کرنا ۔ مراد نے بہت آرام سے جنت کے چہرے پر فون کی ٹارچ کرتے ٹکائی۔۔۔۔

آرام سے میرے ساتھ چلو ۔ مراد نے مظبوطی سے جنت کا ہاتھ تھاما تھا ۔

اور اُسکو لیتے ڈور کی طرف بڑھا ۔ جنت جو اندھیرے کی وجہ سے بہت ڈری چکی تھی ۔

ڈر سے مراد کو پوری طرح جکڑے مقابل کے سنگ گاڑی تک کا سفر تہ کیا ۔

ابھی وہ لوگ گاڑی تک پہنچے تھے ۔ کہ پوری حویلی میں اک دم سے روشنیاں بھری ۔

مراد نے جنت کے گاڑی کا ڈور کھولا تھا ۔ اور اُسکو بہت پیار سے گاڑی میں سوار ہونے کا کہا ۔

ہم کہاں جا رہے ہیں ۔۔۔؟ جنت جو گاڑی میں بیٹھ چکی تھی ، حویلی کی لائٹس اون دیکھ حیرانگی سے مراد کو پوچھا ۔

سرپرائز ہے ۔ وہ دو ٹوک گویا تھا ۔ اور آرام سے گاڑی کو آگے بڑھایا ۔ 

۔۔۔۔ ۔۔۔۔

یہ کون سی جگہ ہے ۔۔؟ مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔ مجھے کوئی سرپرائز نہیں دیکھنا ۔ واپس حویلی  چلو ۔۔۔

جنت جو مراد کے کہنے پر گاڑی سے نکل باہر کھڑی ہوئی تھی ۔

ڈرتے واپس سے گاڑی میں بیٹھنے کی کوشش کی ۔

جنت مراد شاہ ۔۔۔ مقابل نے اک دم سے اُسکو بازو سے پکڑتے خود کے سامنے کیا ۔

اب تم مراد شاہ کی بیوی ہو ۔ میر مراد شاہ کی ۔۔۔ وہ عنابی لبوں پر میر پر زور ڈالتے گھورنے پر مجبور کر گیا ۔

تمہارے چہرے پر یہ خوف طاری بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے ۔

چلو ۔۔۔۔ مراد نے محبت سے اُسکا ہاتھ پکڑتے اُسکو اپنی سنگ چلنے کا گویا ۔

وہ ڈرتی مرتی خوف کو ایک طرف دل میں دبائے مراد کے سنگ آگے بڑھی ۔

یہ ہمارا فام ہاوس ہے ، مراد اب کے ڈور کھولے جنت کو آگے بڑھنے کو بولتے ساتھ ہی بتا گیا ۔۔۔۔

ایسے ہی سیدھے چلتی جاؤ اور آگے سڑھیوں کو عبور کرتے سامنے والے روم میں جا کر آرام سے بیٹھو ۔۔۔

میں آتا ہوں ۔ مراد داتا بخش کو آتے دیکھ جنت کے کان میں سرگوشی نما انداز میں بولتے گیا ۔۔۔

جنت جو بولنا چاہتی تھی ۔ خاموشی سے لب بھنچ اندر گئی ۔

جنت جو مشکل سے اپنا بھاری لہنگا سنبھلتے روم تک پہنچی تھی ۔

کیا مصیبت ۔۔۔۔جنت نے پورے غصے سے روم کا ڈور کھولا

جبکے ساتھ ہی بولتے بولتے شاک سی روم کو دیکھ منہ کھول گئی ۔

( یہ وہی فام ہاوس تھا ۔ جہاں برہان آیت اور ان کے دوستوں کو اپنے ساتھ لایا تھا اور آیت لوگوں نے نشانے لگانے کا مقابلہ کیا تھا )

جنت کا چہرہ ہلکے سے مسکرایا تھا ۔ وہ دھیرے سے اپنے قدم اٹھاتے روم میں داخل ہوئی ۔

ہر طرف پھولوں کی ایک الگ سی خوشبو پھیلی اُسکی سانسوں کو مہکا گئی ۔

وہ اب کہ چلتے بیڈ کے قریب آئی تھی ۔ بڑی سے عالی شان گول بیڈ چاروں اطراف جالی دار پردے لال اور وائٹ گلابوں سے سجی بیڈ اسکا دل دھڑکا گئی ۔

اُسکی سانسیں خود سے ہی الجھی تھی ۔ نظروں کو بیڈ سے ہٹاتے اب کہ چمکتے پانی کو دیکھا ۔

اتنا بڑا پول ۔۔۔۔!! پول دیکھتے ہی منہ سے پھسلا جبکے آنکھیں بھی بڑی ہوئی تھی ۔

مجھے تو یہ ابھی چھوٹا لگتا ہے ۔ مراد جو جنت کے پیچھے ہی آیا تھا ۔ دروازے سے ٹیک لگائے جنت کے انداز کو دیکھ اونچی آواز میں بولتے اُسکی الجھی سانسیوں کو مزید الجھا گیا ۔،۔

جنت پلٹی تھی ۔ تبھی مقابل نے روم میں داخل ہوتے ڈور لاک کیا ۔

جنت کے ہاتھ جیسے کانپے ۔ وہ تیزی سے واپس سے پول کی طرف منہ پھیر گئی۔

ابھی کیا ہو گیا ۔۔۔؟ وہ خود سے ہی سوال پوچھ گئی ۔ جبکے دل کیا تھا یہاں سے بھاگ جاؤں ۔۔۔

ایسے نظریں کیوں چرائی جا رہی ہیں۔۔۔؟  مراد جو اُسکی طرف ہی قدم اٹھا چکا تھا ۔

پاس آتے اُسکو بازو سے پکڑے خود کے حصار میں قید کیا ۔

جنت کی سانسیں تیزی سے دل کی دھڑکنوں کو دھڑکا گئی ۔،

مراد اچھے سے اُسکی حالت کو سمجھ گیا تھا ۔ جبکے وہ اُسکی سانسیں کو بھی سن سکتا تھا ۔۔۔۔

ماشااللّہ “ میری دنیا تو آج جیسے اس دنیا سے کئی زیادہ خوبصورت ہو گئی۔

مراد نے محبت سے چور لہجے میں بولتے جنت کا جھکا چہرہ انگلی کی مدر سے اوپر اٹھایا تھا ۔۔۔

جنت نے اٹھتی گرتی پلکوں سے مقابل کو سرسری سا دیکھا تھا ۔

کمرے میں پول کون بناتا ہے ۔۔؟؟ جنت جو مراد کی قید سے آزاد ہو جانا چاہتی تھی ۔ تھوڑا سا کسماتے مقابل کو خود کو چھوڑنے کی جیسے درخواست کی گئی تھی ۔

جان نثار آپ کے شوہر کو پول سے ایک الگ ہی قسم کی محبت ہے ۔

مراد اُسکو دھیرے سے آزاد کرتے اب کہ پول کے چمکتے پانی کو دیکھ مسکرایا ۔

پول سے بھی محبت ۔۔۔؟ جنت کی آنکھیں حیرانگی سے پھیلی ۔

ہاں کیوں نہیں ۔۔۔! مراد اسکے انداز کو دیکھ ہلکے سے مسکراہٹ  گہری کر گیا ۔

تم ایسے مت ہنسا کرو ۔ جنت نے تھوڑے گھورتے مقابل کے گالوں کو چھونے کی کوشش کی تھی ۔

مراد اسکے انداز کو دیکھ خود سے قریب ہوا تھا ۔ کیا اردہ ہے ۔۔۔؟ وہ معنی خیز انداز میں پوچھ گیا ۔

جنت گھبرائی سی حیرت سے آنکھیں پھیر گئی۔ ابھی وہ کیا جواب پاس کرتی ۔

مجھے یہ بتاؤ ۔ تم اتنے بڑے پول میں اکیلے نہاو گے ۔۔۔۔؟ ایسے نہانے سے کیا فائدہ ہوگا ۔۔؟

ایسے تو تم سب کو نظر آؤ گے ۔ جو بھی کوئی روم میں ہوا ۔۔۔

جنت مقابل کے بالکل بھی قریب ہونا نہیں چاہتی تھی ۔ جو سبق اُسکو بھابھی نے پڑھایا تھا وہ اُسکی جان نکال رہا تھا ۔

یہاں نہاتے نہیں ۔ مراد کو جنت کی بات سن ہنسی چھوٹی تھی ۔

یہاں میں سُوئمنگ کروں گا ۔ لندن میں بھی میرے روم میں ایسے ہی تھا ۔

میں اکثر لندن میں رات کو سونے سے پہلے سوئمنگ کرتا تھا ۔

اسی لیے بابا کو کہا تھا ۔ کہ شاہوں حویلی میں ایسے کر دیں ۔ مگر انہوں نے وہاں تو کچھ نہیں کیا ۔

چونکہ وہ حویلی پرانی تھی ، وہ تو بابا کے آنے سے پہلے تعمیر کی گئی تھی ۔ 

جب یہ فام ہاوس بنایا تب یہاں میری مرضی  جیسا سب کچھ کیا گیا ۔

مراد پورے روم کی طرف اشارہ کرتا جنت کو اچھے سے وضاحت دے گیا ۔

میرے خیال سے کافی روم کی باتیں ہو گئی ہے ۔ تمہیں صرف یہ پول ہی نظر آ رہا ہے ۔۔؟

اُس عالی شان سجی بیڈ پر بھی تھوڑا سا تبصرہ کر لو ۔۔۔ مراد کو جانے کیسے احساس ہوا تھا ۔ کہ جنت اُسطرف جانے سے اور دیکھنے سے گریز کر رہی ہے ۔

جنت مقابل کے اچانک سے بیڈ کی طرف اشارہ کرنے پر گھبراتے نیلی آنکھیں مراد کے چہرے پر ٹکائی ۔

چلو ۔۔۔ مراد اُسکی حالت غیر ہوتے دیکھ محبت سے ہاتھ تھامے بیڈ کی طرف بڑھنے کا گویا ۔۔۔

مجھے ۔۔۔۔نہیں جانا ۔۔۔ جنت نے اک دم سے ڈرتے اپنا ہاتھ مقابل کے ہاتھ سے کھینچا ۔

 مطلب ۔۔۔۔؟؟ مراد حیران سا شاک ہوا ۔

وہ۔۔۔۔مجھے ۔۔۔ جنت الجھی تھی ۔ شاید اُس کو احساس ہوا تھا وہ غلط بول گئی ہے۔۔۔۔

کپڑے چینج کرنے ہیں ۔ وہ تیزی سے بولی تھی ۔ اتنی سی بات ۔۔۔ مرادنے تیزی سے کہتے اُسکو ایک بار پھر سے حصار میں قید کیا ۔۔۔

جانتی ہو ۔ آج کی رات ہم دونوں کی اسپیشل بنانے کے لیے تمہیں حویلی سے نکال یہاں لایا ہوں ۔

آج کی رات صرف ہماری محبت کی بھری رات ہونے والی ہے ،

مجھے انداز نہیں تھا ۔ کہ رب مجھ پر اتنا مہربان ہو جائے گا ۔

مراد نے محبت سے اُسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرتے جنت کو کھونے پر مجبور کیا ۔

جنت شاہ مراد شاہ کی بیوی بن چکی ہے ۔ تم پر صرف میرا حق ہے ، یہ احساس مجھے کس قدر خوشی دیتا ہے ۔

میں تمہیں بتا نہیں سکتا ۔ مراد نے اب کہ بولتے محبت سے چور ہونٹ جنت کے ماتھے پر رکھے ،

جنت نے نیلی آنکھیں دھڑکتے دل سے بند کی تھی ۔ اُسکا دل ایک الگ ہی رفتا پر دھڑکنا شروع ہوا تھا ۔

ویسے میں تمہیں آج کی رات بالکل بھی سونے دینے والا نہیں۔ مراد شرارت سے بھرے انداز اپنائے معنی خیز ہوا ۔

جنت کے چہرے پر جیسے خوف طاری ہوا تھا۔ جبکے شکوے سے بھرے انداز میں مقابل کو گھورا ۔

مجھے نہیں تمہارے ساتھ رہنا ۔۔ جنت کی آنکھیں بھری تھی ۔

جبکے وہ مراد سے بھاگنے کے لیے تیار ہوئی ۔

ایسے کیسے تمہیں میرے ساتھ نہیں رہنا ۔ اس سے پہلے جنت بھاگتی یا مقابل سے دور ہو پاتی ۔ مراد نے اُسکو بے ساخت اپنی گود میں بھرا تھا ۔

جبکے محبت سے بھرے انداز میں بیڈ کی اوڑھ گیا ۔ جنت جس کی آنکھیں بھر چکی تھی ۔

مقابل کے بیڈ پر لیٹنے پر جلدی سے اٹھنے کی ناکام سی کوشش کی ۔

وہ سارے راستے جیسے بند کر گیا تھا ۔ محبت سے اُسکی آنکھوں سے ٹوٹے موتی چن گیا ۔ ۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حال

ساہیوال

کیا مطلب ہے ۔۔؟ تم نے اُسکو سمجھایا نہیں ۔۔؟ شہریار آیت کا جواب سن حیران سا بھنویں اچکائے بولا ۔

سمجھایا تھا ۔ لیکن وہ سمجھنا نہیں چاہتی ۔ آیت نے اب کہ سرسری سی نگاہ شہریار کے سرد پڑتے چہرے پر ڈالی ۔

وہ پاگل ہو چکی ہے ۔ اُسکا دماغ ٹکانے لگانے کی ضرورت ہے ۔

شہریار سپاٹ ہوتے پورے غصے سے آگ بھگولہ ہوا ۔

آیت تم ایسے خاموش کیوں ہو گئی۔۔۔؟ شہریار کو آیت جیسے کچھ چھپاتی نظر آئی تھی ۔۔۔

مجھے خاموش ہی رہنے دو ۔ آیت دو ٹوک بولی تھی ۔ شہریار نے حیرانگی سے آیت کا چہرہ دیکھا ۔

کیا ہوا ہے ۔۔۔۔؟ شہریار نے بھی جانے کی جیسے ضدی کی تھی ۔

عاشی نے تمہیں اپنے دل کی بات بولی تھی ۔ کیا کیا تم نے۔۔۔؟

شہریار تمہاری آنکھوں میں صاف عاشی کے لیے احساسِ محبت نظر آتا ہے ۔

آخر تم نے اُسکی محبت کو ٹکرایا کیسے ۔۔؟ آیت کھل کر شہریار کے سامنے آئی تھی ۔ تاکہ دو ٹوک بات کر لی جائے ۔

تمہیں اُسنے۔۔۔۔!!!

مجھے عاشی نے یہ ابھی نہیں بتایا ۔ اس سے پہلے شہریار آگے مزید بولتا آیت نے درمیاں ہی کاٹ گویا۔

جب سے ہم لوگ دوست بنے ہیں ۔ تب جب پہلی بار عاشی نے تمہیں دیکھا تھا ۔ اپنا دل تمہارے نام کر گئی تھی ۔

وہ جس احساس سے گزر رہی تھی ۔ اُسنے تبھی مجھ پر اپنا دل عیاں کر دیا تھا ۔

میں پہلے سے جانتی ہوں کہ عاشی تمہیں چاہتی ہے ۔

ابھی تم مجھے صرف میرے سوال کا جواب دو ۔ تم نے آخر اُسکو وئلنٹائن ڈے والے دن ذلیل کیوں کیا ۔۔۔؟

آیت بھنویں اچکائے شہریار کو سخت لہجے میں پوچھ گئی ۔

شہریار نے آیت کی سب باتیں سن سرد سانس بھرا تھا ۔

آیت یہ مکمن نہیں تھا ۔ میں کیسے اُسکی محبت کو قبول کر لیتا ۔۔۔؟

میں اپنی ذمہ داریوں میں بہت الجھا پڑا ہوں ۔ میرا سارا کاروبار تمہارے سامنے ہے ۔ میں ایسے میں کیسے ۔۔۔!!

اُسنے شادی تو نہیں بولا تھا ۔۔۔! وہ صرف تمہارے دل کا جواب سننا چاہتی تھی ۔ شہریار وہ تمہارا انتظار کر سکتی تھی ۔

لیکن افسوس تم نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی محبت کو ختم کر دیا ۔،

آیت نے افسردگی سے بولتے شہریار کو جیسے ڈرایا تھا ۔

 آیت میری بات سنو پلیز ۔۔۔ شہریار نے آیت کو روکنا چاہا۔

ابھی کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ شہریار وہ بہت آگے نکل چکی ہے ۔

شادی سر پر آ پہنچی ہے ۔ کوئی راستہ نہیں رہا ، آیت اتنا کہتے آرام سے گئی تھی ۔

شہریار نے کرب سے اُسکو جاتے دیکھ آنکھیں موندی ۔۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لاہور

کیا چل رہا ہے ۔۔۔؟؟ نعمان سلام پیش کرتے عماد اور سرحان کے ساتھ ہاتھ ملاتے سامنے ہی چئیر پر بیٹھا ۔

آج یہاں کیسے آ گے ۔۔۔؟؟ اس سے پہلے سرحان یا عماد کوئی سوال پوچھتے ادیان روم میں۔ داخل ہوتے نعمان سے پوچھ گیا ۔۔۔۔

جبکے ساتھ ہی خوشی سے اُسکو ملتے براجمان ہوا ۔

مجھے تو چلو کبھی کبھی تم لوگوں کا خیال آ ہی جاتا ہے ، لیکن تم لوگ اپنی بات کرو ۔ تم لوگوں کو تو کبھی دل کرتا ہی نہیں مجھ سے ملنے کا ۔۔۔

نعمان ادیان کو دیکھتے شکوہ بھرا لہجا اپناتے سب کو ایک ساتھ  گھیسٹ گیا ،

عماد ہلکے سے مسکرایا تھا ۔ سرحان بھی ادیان کو دیکھ نعمان کا چہرہ دیکھ گیا ۔

چلو ناراض مت ہو ۔ یار بزی بہت ہیں کام میں ،۔۔ اس لیے ٹائم نہیں ملتا ۔

سرحان اُسکو گھورتے دیکھ آرام سے گویا ۔ تبھی کاؤنٹر پر کال ملاتے کافی لانے کا کہا۔

اوکے گائز ۔۔۔

تم سب لوگ باتیں کرو ، مجھے شام کو میرپور نکلنا ہے ۔ عماد کال پر ہاشم کا فون آتے دیکھ اپنی چئیر سے اٹھتے کھڑا ہوا ،

اچانک میرپور ۔۔۔؟؟ تینوں نے ایک ساتھ پوچھا۔۔۔

عماد ان کے انداز پر ہلکے سے مسکرایا ۔ اب تم نے یہاں آ کر ان سے شکوہ کیا ہے ، تو میں نے سوچا میں بھی میرپور جا کر اپنے جگر سے شکوہ کر لوں ۔

عماد آنکھ دباتے سب کو بولتے قہقہہ لگانے پر اُکسا گیا ۔،

وہ سب ہی دل سے مسکرائے ۔ عماد اجازت لیتا وہاں گیا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ایک ماہ بعد

میرے خیال سے سر آپ کو اس تقریب میں جانا چاہیے ۔

برہان جو گھڑی پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ اپنے پی اے کے اچانک سے بولنے پر نیلی آنکھیں پورے ہال میں ڈروائی ۔۔۔

وہ اس وقت پارٹی کے لوگوں کے ساتھ بیٹھا میرپور میں ہونے والے کاموں کی بریفنگ لے رہا تھا ۔۔۔

مجھے بھی یہی لگتا ہے س۔۔۔۔ر

شش۔۔۔۔۔ اس سے پہلے دوسرا اپنی رائے دیتا برہان انگلی لبوں پر رکھتے اُسکو خاموش کروا گیا ۔

اذان کو سنوں اور جواب دو ۔ وہ دو ٹوک گویا تھا ۔ سب ہی خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھنا شروع ہوئے ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے ۔

رمضان مبارک پیارے پیارے دوستوں ۔ سو ۔۔۔۔ سوری گائز میں بہت مصروف تھی ۔

اس لیے ایپی دے نہیں پائی انشااللہ پھر آگے ایسا نئیں ہوگا۔۔۔

کوشش کروں گی کہ جیسے ہر روز ایپی دینا شروع کیا تھا آگے بھی دوں ۔

باقی سب کو بہت بہت رمضان مبارک ہو ۔ اللہ سب کے لیے یہ رمضان رحمتوں برکتوں سے بھرا لائے ، اپنی دعائیں میں مجھے لازمی یار رکھے ،

باقی امید کرتی ہوں ایپی اچھی ہو گی ۔ مراد  کا ماضی بھی جلدی ہی مکمل ہونے والا ہے ۔

اگلا پارٹ انشااللہ کل کو پوسٹ ہوگا ۔ تب تک اُس پر سو سے اوپر 150 لائکس آنے چاہیے ۔۔۔

تاکہ میں دن میں کوئی بڑا سا اچھا سا سرپرائز دے سکوں ۔۔۔۔

 

 

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha Novel

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Nafrat se barhi Ishq ki inteha written by Madiha Shah.  Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  by Madiha Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Cousins Forced  Marriage Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel ''Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1 to 10

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  By Madiha Shah Episode 31  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Online link

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  Novel by Madiha Shah Continue Novels ( Episodic PDF)

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  ناول    از مدیحہ شاہ  (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

 

Islamic True Stories

سچی کہانی 

جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک 

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے

If You Read this STORY Click Link

LINK

 

 

 

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

 

 

 

1 comment:

Post Bottom Ad

Pages