Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 76 Part 3 Online - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday 15 April 2022

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 76 Part 3 Online

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 76 Part 3 Online 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Cousins Forced Marriage Based Novel Enjoy Reading.......

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Epi 76 Part 3

Novel Name: Nafrat  Se Barhi Ishq Ki Inteha

Writer Name: Madiha Shah

Category: Episode Novel

Episode No: 76 Part 3

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا

تحریر ؛۔ مدیحہ شاہ 

قسط نمبر ؛۔ 76 پارٹ 3 ( عاشی شہریار نکاح اسپیشل )

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ساہیوال 

ویسے یہ مہندی کتنی بور ہے ۔ سمارٹ جوس کا گلاس منہ سے لگائے سب عورتوں کو زور زور سے ہنستے دیکھ گویا ۔ 

لڑکیوں کی شادی اکثر میڈل فیملی میں سادہ ہی ہوتی ہے ۔ اور اسپیشلی مہندی بس چند مہمانوں کے سامنے ہی خوشی کا اظہار کرنے کے لیے کی جاتی ہے ۔

ایان جو اپنے گروپ کے ساتھ ہی براجمان تھا ۔ گلاس ٹیبل پر رکھتے بہت سینجدگی سے جواب پاس کیا ۔ 

میرے خیال سے ہمیں عاشی کو تنگ کرنا چاہیے۔ آخر آ آج اُسکا دن ہے ۔ حسن شرارت سے بھرے انداز میں بولتے سب کی رائے مانگی ۔ 

ٹھیک بول رہے ہو ۔ سمارٹ فورا سے چہکا ۔ اسد بھی ہلکے سے مسکرایا تھا ۔ جیسے اپنی حامی بتائی ہو ۔ 

میرے خیال سے ابھی رہنا دینا چاہیے ۔ سب مہمان اسکے آس پاس موجود ہیں ۔ ایان سب اسٹیج پر عاشی کو سب کے ساتھ مصروف دیکھ سب دوستوں سے کہہ گیا ۔۔۔۔۔ 

کچھ نہیں ہوتا یار ۔۔۔۔ حسن فورا سے کھڑا ہوا تھا ۔مبادا سب ایان کی بات سے اتفاق نا کر دے ۔

ایسے ہی سب حسن کے پیچھے اٹھے تھے ۔ اور تمہیز باندھتے عاشی کی طرف رک کیا ۔۔۔۔

عاشی کوئی شرم ہونی چاہیے ۔ یار ہم سب کب سے وہاں منہ اٹھا کر بیٹھے ہیں ۔ 

مجال ہے اگر کسی نے جوس تک کا بھی پوچھا ہو ۔۔۔!! یہ قدر ہے تمہارے دوستوں کی ۔۔؟ حسن جو اسٹیج پر قدم رکھتے ہی نو اسٹاپ بولنا شروع ہوا تھا ۔ سب کو حیران کن کر گیا ۔۔۔۔ 

باقی سب بھی آرام سے اسٹیج پر پڑی سبھی چئیر کو اپنے قبضے میں کر گے ۔ 

عاشی جو نظریں جھکائے خود کے دل کی جنگ سے لڑ رہی تھی ۔ سوچ کو شہریار کے خیالوں سے نکال سامنے حسن اور اسکے ساتھ آئے قافلے کو دیکھا ۔

ارے ۔۔۔۔ 

ایسے کیا دیکھ رہی ہو ۔جاؤ ابھی تم خود جا کر ہم لوگوں کے لیے جوس اور کھانا لے کر آؤ ۔ حسن آرام سے ٹانگ پہ ٹانگ رکھتے ایان اور اسد کی آنکھیں حیرانگی سے بڑی کر گیا ۔۔۔

اللہ نے دو موٹے موٹے ہاتھ تمہیں دیے ہیں ، ان کو تھوڑی سے زحمت دو۔ اور جا کر کھانا لے آو۔ 

عاشی جو پہلے دولہن بنی بیٹھی کی لاج رکھے ہوئی تھی ۔ حسن کے ایسے بولنے پر تیکی تیز قیچی جیسے زبان چلا گئی ۔

ہاہاہاہاہ۔۔۔۔۔۔ 

تبھی ایک ساتھ اسٹیج پر کئی قہقہے گونجے ۔ حسن جو اپنا قافلہ بنا کر وہاں آیا تھا ۔ ابھی حیرانگی سے سب کو اُس پر ہی ہنستا دیکھ آنکھیں نکال گیا ۔

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کیا ۔۔۔؟ 

سب کی ایک ساتھ اونچی آواز میں کیا نکلی تھی ۔ جیسے ان کو آیت کی بات سن یقین نہیں آیا ہو ۔۔۔

آہستہ بولو ۔۔۔ کیا ہو گیا ہے ۔۔۔؟ میرے گھر والوں کو ڈرا کر اٹھاؤ گئے ۔۔۔؟؟ 

آیت سب کو ایک نظر گھورتے دھیمے سے رنج پر بولی ۔،

آیت تم نے بات ہی ایسی کی ۔ شہریار اور عاشی ایک دوسرے کو چاہتے ہیں ۔۔؟ ایان تو ابھی تک صدمے کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا ۔۔

جبکے اسد حیرانگی سے آیت کے سامنے ہوتے ایک بار پھر سے پوچھ گیا۔ 

حسن کا تو جیسے منہ ہی شاک سے بڑا ہوا تھا ۔ سمارٹ اور زر حیرانگی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔

مجھے ایسے کیوں لگ رہا ہے ۔ جیسے یہ پورا گروپ ہی ایک دوسرے سے محبت کرنے میں لگا ہوا ہے ۔۔؟ 

علی جو زر کے ساتھ ہی براجمان تھا ۔ دبی آواز میں زر کے کان میں سرگوشی نما انداز میں بولتے اسکو بھی سوچنے پر اکسا گیا ۔

مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا ۔ آمنہ نمی جو کبھی شاک سا سارا کا چہرہ دیکھتی تو کبھی نمی حیرانگی سے حسن کو دیکھتی ۔ 

سارا تم کچھ نہیں بولو گی ۔۔؟ آیت سارا کو خاموش بیٹھے دیکھ قریب آتے پاس ہی بیٹھی ۔ مجھے تو کچھ سمجھ نئیں آیا ۔ 

کیا سچ میں آیت ۔۔۔؟ بھائی عاشی کو چاہتے ہیں ۔۔؟ اگر ایسا ہے تو پھر عاشی کی شادی ۔۔؟ 

سارا بھی پوری طرح آیت کی طرف متوجہ ہوئی تھی ۔ بس یہ شادی ان کی انار کی وجہ سے آئی ہے ۔ 

تم سب کو بتانے کا مقصد یہی ہے ۔ کہ پلیز کسی طرح اس شادی کو ختم کروا و ۔ 

وہ دونوں تو پاگل ہو چکے ہیں ۔ دونوں ہی ایک دوسرے کو تکلیف دے رہے ہیں ۔ 

میرے خیال سے شہریار کو سمجھانا چاہیے ۔ ایان نے اپنی رائے رکھی ۔ 

ابھی اتنا ٹائم نہیں ہے ۔ کل کو بارات آنے والی ہے ۔ اور صبح ہونے میں صرف تین سے چار گھنٹے باقی ہیں۔ 

حیا جو عابش کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ۔ ایان کی بات کا جواب دیتے اسکو خود کو دیکھنے پر مجبور کر گئی ۔

حسن تم کوئی آئیڈیا دو ۔ اسد زر ایک ساتھ بولے تھے ۔ حسن جو ابھی تک شاک ہوا بیٹھا تھا ۔ 

تیزی سے اپنی سوچ کو جھٹکتے ایک لمبا سا سانس بھرا ۔ 

ایک طریقہ ہے ۔ ابھی حسن کچھ بولتا سمارٹ خود سے سوچتا تیزی سے بولا ۔۔۔۔۔

 سب اسکی طرف متوجہ ہوئے ۔ ہمیں عاشی کے ہونے والے دولہے کو کڈنیپ کر لینا چاہیے ۔۔۔ !!! 

وہ آرام سے بلبل چباتے سب کو سوچنے کا جیسے مشورہ دے گیا ۔

نہیں یہ ٹھیک نہیں ۔ اس سے پہلے سب حامی کا اظہار کرتے آیت فورا سے انکاری انداز میں بولی 

میرے پاس ایک راستہ ہے ۔ جس سے سیدھے سیدھے شہریار کا نکاح عاشی سے بھی ہو جائے گا 

اور عاشی کے گھر والوں کی دعائیں بھی دونوں کو مل جائے گئی ۔ 

حسن جو گہرا سوچ چکا تھا ۔ سینجدگی سے بولتے سب کو غور کرنے کا گویا ۔ 

حسن نے بولنا شروع کیا تھا ۔ اور سب نے غور سے کان لگاتے حسن کی بات سننی شروع کی ۔

یہ کچھ زیادہ ہی ۔۔۔۔۔

آیت اب اتنا تو رسک اٹھانا ہی پڑے گا ۔ اور میرے خیال سے یہ طریقہ زیادہ بہتر ہے ۔ اس سے سیدھے سیدھے دونوں کا نکاح ہو جائے گا ۔ 

تو دونوں کے جو دماغ خراب ہوئے ہیں ۔ اپنی جگہ خود ہی واپس لوٹ آئے گئے۔ اسد حسن کی بات سے اتفاق رکھتے استعداد کر گیا ۔۔۔ 

ٹھیک ہے ۔ آیت بھی بس یہی چاہتی تھی ۔ کسی طرح وہ دونوں ایک ساتھ آ جائیں ۔۔۔۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تمہیں کیا ہوا ہے ۔۔۔؟ تم ایسے اتنا خاموش اور پریشان کیوں لگ رہے ہو ۔۔۔؟ ایان شہریار کو بے چینی سے نظریں ادھر ادھر گھومتے دیکھ منصوعی حیرانگی سجاتے دریافت کر گیا ۔ 

کچھ نہیں بس ایسے ہی دل کچھ اداس اور بے چین سا ہوا پڑا ہے ۔ 

شہریار سرسری سا ایان کو دیکھتے واپس سے سامنے اسٹیج کی طرف دیکھ گیا ۔،

جہاں پر عاشی کا ہونے والا شوہر سہرا لگائے نکاح کا انتظار کر رہا تھا ۔ 

وہ شادی پر بالکل بھی آنا نہیں چاہتا تھا ۔ وہ اپنے دل کے حال سے اچھے سے واقف تھا ۔۔۔۔۔ 

مگر پھر بھی آخری بار دیکھنے چلا آیا تھا ، کہ وہ لڑکی جو محبت کا اظہار کر اپنا دل اسکے قدموں میں رکھ گئی تھی ۔ 

اتنی جلدی کیسے سارے راستے بدل گئی ۔ کیا محبت اتنی کم ظرف تھی ۔۔؟ اسکے دل میں یہ خیال جیسے اسکو مزید تکلیف دے گیا ۔۔۔۔

وہ اپنی جگہ سے اٹھا تھا ۔ اور لمبے لمبے ڈگ بڑھتے وہاں سیدھا بریڈ روم کی طرف گیا  ۔۔۔۔

ایان نے تبھی کال پر میسج سینڈ کیا ۔ تاکہ وہ لوگ اپنا پلان شروع کر سکیں ۔ 

بھائی صاحب یہ بھابھی کیا بول رہی ہیں ۔۔؟ عاشی کی ماں کی تو جیسے زمین ہی ہل چکی تھی ۔۔۔ 

ابھی ان کے ساتھ کیا ہونے والا تھا ۔ وہ سوچ کر ہی گھبرا چکی تھی ۔ 

اس کا تو دماغ خراب ہو گیا ہے ۔ تم اسکی بکواس باتوں کو زیادہ اہمیت مت دو ۔ 

عاشی کے ماموں نے بولتے اب کہ اپنی بیوی کو ایک تیکی نظر سے گھورا ۔ 

میں نے ایسا بھی کیا مانگ لیا ۔ جو آپ کو اتنا برا لگ گیا ۔ یہی تو کہا ہے ۔ شادی کے بعد اب ہمارا سب کچھ تمہاری بیٹی کا ہی تو ہونے والا ہے ۔ 

ہم نے کوئی جہیز مانگا ہے ۔۔؟ صرف اتنا کہا اپنی زمین کا وہ ٹکڑا جو لیے بیٹھی ہے ۔ اپنے ہونے والے داما کے نام کر دے ۔ 

اس میں اتنا برا ماننے والی کون سی بات ہے ۔ ۔۔؟ عاشی کی ممانی کھا جانے والی نظروں سے عاشی کی ماں کو گھورتے گرجی ۔

وہ زمین جب عاشی کے نام ہے ۔ تو ابھی اسکو  ایسے داما کے نام کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔۔۔؟

وہ بھی تو ایسے ہی ہمارے بیٹے کے پاس ہی ہے ۔ زیادہ دماغ مت کھاؤ ۔ 

جا کر باہر مہمانوں کو دیکھو ۔ جیسا تمہارا شہزادہ ہے نا شکر کرو ۔ عاشی بیٹی نے رشتے پر فورا سے ہاں کر دی ۔ 

نہیں تو ہمارا لڑکا کبھی بیایا نا جاتا ۔ عاشی کے ماموں نے قرار سا جواب جیسے اپنی بیوی کے منہ پہ مارا تھا ۔ 

دیکھیں ۔۔۔۔۔

تم آخری بار میری بات سن لو ۔ اس سے پہلے ممانی کچھ مزید کہتی عاشی کے ماموں اب کہ انگلی اٹھاتے ان کی زبان کو بریک لگا گے ۔۔۔ 

میرے ساتھ بحث کر کہ کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ۔ بہتر یہی ہوگا ۔ کہ منہ بند کرو اور آرام سے خوشی سے شادی کو مکمل ہونے دو ۔ 

وہ دو ٹوک بولتے آرام سے اپنی بہن کو عاشی کو اسٹیج پر لانے کا بولتے باہر گئے تھے ۔۔۔۔

مبارک ہو تمہیں ۔۔۔!! عاشی جو اپنے دھیان میں اپنی سوچوں میں گری بیٹھی تھی ۔ شہریار کی آواز سن تیزی سے آئینے میں پیچھے کھڑے وجود پر نظریں جما گئی ۔ 

شہریار کو وہ دولہن کے روپ میں قہر گرانے کو جیسے تیار سی نظر آئی تھی ۔ 

وہ پل بھر کے لیے جیسے اسکے وجود کو دیکھ بہک سا جانے لگا تھا۔ 

مقابل نے تیزی سے نگاہوں کا زاویہ بدلا تھا ۔جیسے اسکو احساس کروانا چاہا یہ روپ تمہارا زہر لگ رہا ہے ۔ 

 وہ جو بیٹھی ہوئی تھی ۔ زرد پڑتی آنکھوں سے مقابل کو دیکھتے دھیرے سے لہنگا اٹھاتے پلٹتے اُسکی آنکھوں میں ایک آخری بار خود کے لیے محبت کو دیکھنا چاہا ۔۔۔۔ 

اتنی اداس کیوں ہو ۔۔۔؟ تمہارا چہرہ تو آج میرے خیال سے بہت مسکراتا ہونا چاہیے ۔۔

وہ دانت چباتے دو سے چار قدم لیتے سبھی فاصلے سمٹ گیا ۔ عاشی جس کا دل شہریار کی ایک نگاہ سے ہی دھڑک اٹھتا تھا ۔ 

اُسکے آج پہلی بار ایسے قریب آنے سے جیسے سبھی دیواروں کے پردے توڑ باہر نکلنے کو بےقرار ہوا ۔ 

ویسے تو تمہاری زبان قیچی کی طرح بہت تیز چلتی ہے ۔ ابھی ایسے اتنی خاموش خود پر طاری کیوں کی ہوئی ہے ۔۔؟ 

وہ کھا جانے والے انداز میں اسکو گھورتے ساتھ ہی بازو سے دبوچتے خود کے قریب کر گیا ۔۔ 

عاشی جو پہلے ہی اسکے ایسے قریب آنے سے لرز چکی تھی ، مقابل کے اچانک سے اگلے عمل پر سانسیوں کو تیز تر کرتے دل کی دھڑکنوں کو بےقرار کر گئی ۔ 

اُس دن تو بہت محبت کے دعوے کرنے کو تیار ہوئی کھڑی تھی ۔ اتنی کم ظرف تمہاری محبت تھی ۔۔؟ 

کہ میرے ایک بار کہنے پر ہی خود کی محبت کو دفن کرتے آج دولہن بنے کسی اور کی ہونے کو تیار ہو گئی۔۔؟

شہریار آخری کے الفاظ ادا کرتے ساتھ ہی عاشی کی بازو پر سختی بڑھا گیا ۔ 

کیا ہوا ۔۔؟؟ ابھی تک وہ لوگ پہنچے کیوں نہیں ۔۔؟ 

مولوی بھی اسٹیج پر براجمان ہو گے ہیں ۔ آنٹی بول رہی ہے عاشی کو لے آؤ ۔ آیت ایمان کو عاشی کی محبت کی داستان سناتے سناتے سامنے سے آتے حسن کو دیکھ آہستہ سے سرگوشی نما انداز میں پوچھ گئی ۔

بے فکر رہو ۔ بس ابھی تم تماشہ دیکھنا ۔ حسن چہرے پر مسکراہٹ سجاتے آیت کو تھوڑا سا انتظار کرنے کا بول گیا ۔

پولیس ۔۔۔۔!!! 

ابھی عاشی کی ماں عاشی کو روم سے لینے جانے کا بولتے ساتھ ہی خود جانے لگی تھی ۔ کہ اچانک سے ہال میں پولیس کو آتے دیکھ ٹھٹھکی ۔۔۔۔

حسن لوگوں کے چہرے مسکرائے ۔ زر لوگ بھی اپنی جگہ سے اٹھتے آیت لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوئے ۔ 

یہاں پر احمد رفیق کون ہے ۔۔؟ پولیس پورے ہال پر نظریں ڈوراتے سامنے اسٹیج کی طرف دیکھ گئے ۔ 

جہاں پہ بیٹھے احمد کے پیسنے چھوٹتے تھے ۔ کیا ہوا ہے صاحب۔۔۔۔۔

احمد کے والد عاشی کے ماموں گھبرائے سے پولیس کے سامنے ہوئے تھے ۔

یہ احمد رفیق تم ہی ہو ۔۔؟ وہ اُن کی اسنی کرتے سیدھے اسٹیج پر کھڑے دولہے کو مخاطب کر گے ۔

جبکے ساتھ ہی اسٹیج پر چڑھے ۔ احمد گھبرایا سا سر ہاں میں ہلا گیا ۔ 

چل ہمارے ساتھ تیرے خلاف پرچہ درج ہوا ہے ۔ وہ اسکو کالر سے پکڑتے کھینچتے اسٹیج سے نیچے اتار گے 

صاحب ہوا کیا ہے ۔۔۔؟ آپ ایسے کیسے اس کو لے جا سکتے ہیں ۔۔؟ 

شادی ہے اس کی ۔ نکاح ہونے والا ہے ۔ احمد کا باپ ہاتھ جوڑے جیسے ان کو اپنی کیفیت بیاں کر گئے ۔

اچھا ۔۔۔ اس آوارہ شرابی کو اپنی لڑکی کس نے دے دی ۔۔؟ پولیس والا اب کہ احمد کے باپ کو دیکھتے گھورتے ادھر ادھر سب لوگوں کو ایک نظر دیکھ گیا ۔

مگر اس سے کیا کیا ہے ۔۔؟ حسن جو خاموش کھڑا تھا ۔ اک دم سے دوست ہونے کے نتے آگے ہوتے پوچھ گیا ۔

اُس نے یہ جان بوجھ پر سوال پوچھا تھا ۔ تاکہ سب لوگ اسکا سچ جان سکے ۔

یہ بہت کچھ غلط کرتا ہے ۔ کیا کیا بتائیں ۔۔؟ پولیس والے نے اب کہ بہت غور سے حسن کو دیکھا ۔

صاحب آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گئی ۔ میرا بیٹا اتنا بھی برا انسان نہیں ۔۔

مجھے اک بات بتا ۔ کیا توں چوبیس گھنٹے اپنے بیٹے کے ساتھ رہتا ہے ۔۔؟ اس سے پہلے احمد کا باپ اپنی بات پوری کرتا پولیس والا کاٹ دار لہجے میں گویا 

پوچھ اپنے بیٹے سے پرسوں رات یہ کہاں تھا۔۔؟ یہ ہیرونی کالج کے بچوں میں فروخت کرتا ہے 

ان کو نشے کرنے پر اکساتا ہے ۔ اور پرسوں رات تو یہ اپنے پورے آوارہ ساتھیوں کے ساتھ بس کے اڈاے پر تھا۔ 

سارے دوست اسکے جیل میں بند ہے ۔ یہ وہاں سے بھاگ نکلا تھا ۔

وہ تو کسی اسکے دوست نے مخبری کی ۔ کہ یہ یہاں چھپا بیٹھا ہے ۔ پولیس نے بہت اچھے سے سب کو وضاحت پیش کی ۔ 

احمد کا باپ اپنے بیٹے کا سچ سن بے یقینی سے وہی گرنے کو ہوا تو حسن نے ان کو پکڑتے آرام سے چئیر پر براجمان کیا ۔

بھائی ۔۔۔ عاشی کی ماں آنکھوں میں آنسو لیے ساتھ ہی بیٹھی ۔ 

 یہ سب جھوٹ بول رہے ہیں ۔ میرا بیٹا ایسا نہیں ہے ۔ عاشی کی ممانی جو ہال سے شور کی آواز سن سیدھی داخل ہوئی تھی ۔

پولیس کی باتیں سن روتے اپنے بیٹے کے ساتھ لگنے کی کوشش کی ۔

یہی سچ ہے ۔ بی بی ۔۔۔ پولیس نے اور مظبوطی سے احمد کو پکڑا ۔

عاشی باہر پولیس ۔۔۔۔آئی۔۔۔۔۔شہریار جس نے عاشی کو دبوچا ہوا تھا ۔

اچانک سے سارا کی آواز سن تیزی سے اسکو چھوڑ ایک نظر اپنی بہن کو دیکھ گیا ۔

عاشی جس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب بھرا تھا ۔ فورا سے منہ دوسری طرف پھیرتے آنکھوں کو رگڑھا ۔

شہریار بنا کچھ بولے آرام سے نکلا تھا ۔ سارا جو خاموش ہو چکی تھی ۔

خود کے دماغ میں آنے والی سوچ کو جھٹکتے عاشی کی طرف بڑھی ۔ 

جبکے اسکو پھر سے تیزی سے بتاتے ساتھ ہی لیتے روم سے نکلی ۔

شہریار جو ہال میں پولیس کو دیکھ گیا تھا ۔ حیرانگی سے ایان لوگوں سے دریافت کیا ۔ ایان نے بھی آرام سے سب کچھ شہریار کے گوش اتار ۔۔۔۔

بھائی کچھ کریں ۔ پولیس احمد کو لے کر جا رہی ہے ۔ کیا ہوگا اب ۔۔۔؟ میری بیٹی کا تو تماشہ بن جائے گا ۔ 

عاشی کی ماں کو کچھ سمجھ نہیں آیا تھا ۔ پولیس احمد کو پکڑے ہال سے باہر کی طرف بڑھی تو احمد کی ماں کبھی بیٹے کے پیچھے بھاگنے کی کوشش کرتی تو کبھی اپنے شوہر کو بیٹھے دیکھتی ۔۔۔

امی ۔۔۔۔یہ سب ۔۔۔۔؟ عاشی جو دولہن کے روپ میں تیار سی سب لوگوں کی نظروں کا مرکز بنی تھی ۔ 

اپنی ماں کو روتے دیکھ تیزی سے ان کے ساتھ لگی ۔ جبکے ساتھ ہی ان کو خاموش کروانا چاہا ۔

آیت کو یہ سب دیکھ بہت برا لگا تھا ۔ وہ تیزی سے عاشی کی ماں کے قریب ہوتے بیٹھی ۔۔۔

حسن ۔ اسد لوگ کے چہرے بھی اتارے تھے ۔ ہال میں موجود سبھی رشتوں داروں نے جیسے سرگوشیاں شروع کی ۔ 

کہ اب عاشی سے شادی کون کرے گا ۔ جب ایک بار ایسا کوئی داغ لگ جائے تو لڑکی کو رشتہ ملنا مشکل ہو جاتا ہے وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔

یہ شہریار بول کیوں نہیں رہا ۔۔؟ حسن کو غصہ آیا تھا ۔ جبکے غصے سے اب کہ اسد اور ایان کو دیکھا ۔

میرے خیال سے ساری محنت پانی میں ملنےوالی ہے ۔اسد بے مایوسی سے بولتے حسن کو جواب پاس کیا ۔

ایسے کبھی بھی نہیں ہونے دوں گا ۔ وہ تیزی سے بولتے شہریار کی طرف لپکا ۔

کتنا برا ہو عاشی کے ساتھ ۔۔۔۔ بچاری عاشی کی قسمت ۔۔۔ حسن چہرے پر لاچارگی سجائے افسوس سے بھرے لہجے میں گویا 

  شہریار جو عاشی کو دیکھ رہا تھا ۔ اچانک سے حسن کے الفاظ سن اسکی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔

میں ایسے عاشی کو اور آنٹی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا ، میں عاشی کا ہاتھ تھام لیتا ہوں۔ حسن دل پہ پتھر رکھتے مشکل سے یہ الفاظ زبان سے نکالتے شہریار کو ساکت کر گیا ۔۔۔

پاگل ہو ۔۔۔؟ وہ تیزی سے غصے سے دبی آواز میں بھڑکا ۔

اور تمہاری طرح یہاں کھڑے ہو کر تماشہ دیکھو ۔۔۔؟؟ 

تم تو نمی سے محبت کرتے ہو ۔۔؟ شہریار کو جیسے اسکی عقل پہ شوبہ ہوا ۔

بہت کرتا ہوں محبت لیکن میں عاشی اپنی دوست کے لیے محبت کو قربان کر دوں گا ۔ آج عاشی کو سخت ضرورت ہے ۔

حسن بھی شہریار کی طرح دبی آواز میں گرایا ۔

میں ابھی آنٹی کو بولتا ہوں ۔ کہ میں عاشی کا ہاتھ تھاموں گا ۔ حسن جو ڈر بھی رہا تھا ۔ پھر بھی شہریار کے سامنے مظبوط بنتے بولا ۔۔۔۔

حسن یہی خاموش ہو جاؤ ۔ تمہیں کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ۔ میں کروں گا عاشی سے نکاح ۔۔۔

وہ بھی ابھی اسی وقت ۔۔۔!! اس سے پہلے حسن آگے بڑھتا شہریار غصے سے اسکو بازو سے پکڑتے خود کی طرف موڑتے اونچی آواز میں دھاڑتے سب کو اپنی طرف متوجہ کر گیا ۔۔۔

عاشی جس کی آنکھیں کاجل کو گالوں پہ بہاتے لال ہو چکی تھی ۔ اچانک سے شہریار کے الفاظ سن حیرانگی سے بیٹھے سے اٹھتے کھڑی ہوئی ۔

آیت کا چہرہ جیسے مسکرایا تھا۔ آنٹی شہریار بہت اچھا لڑکا ہے۔ یہ عاشی کو ہمیشہ خوش رکھے گا ۔ 

آیت عاشی کی ماں اور ماموں کو حیرانگی سے شہریار کو دیکھتے دیکھ دھمیی سی آواز میں بولتے ان کو جیسے راضی کرنا چاہا ۔

میں کروں گا عاشی سے نکاح ۔ شہریار تیزی سے عاشی کی ماں کے سامنے ہوا تھا ۔ 

میں جانتا ہوں اچانک سے ایسے میرے بولنے سے آپ سب الجھ چکے ہونگے ۔

میں کوئی بہت بڑے وعدے تو نہیں کر سکتا ۔ لیکن ہاں آنٹی آپ کی بیٹی کی ذمہ داری بہت اچھے سے اٹھا سکتا ہوں۔

شہریار نے بنا عاشی کو دیکھے عاشی کی ماں اور ماموں کو دیکھا تھا ۔ جو ایک دوسرے کو ہی دیکھ رہے تھے ۔

حسن سب کے چہرے شہریار کو دیکھ جیسے مسکرائے تھے ۔ 

آیت جو عاشی کی ماں اور ماموں کے ساتھ بیٹھی تھی ۔ شہریار کے خاندان کے بارے میں اچھے سے وضاحت پیش کر گئی ۔

تبھی عاشی کی ماں اور ماموں نے راضی ہوتے شہریار اور عاشی کا نکاح پڑھانے کا مولوی جو کہا ۔ 

عاشی جو بے یقینی سے سب کچھ دیکھ رہی تھی ۔ نکاح کی مبارک بار لیتے حیرانگی سے ایک نظر شہریار کو دیکھ گئی 

جو اسد لوگوں کے گلے مبارک باد لے رہا تھا ۔ بھابھی ۔۔۔ اپنی نند کو بھی مل لو ۔ سارا تیزی سے عاشی کے گلے لگی تھی ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آیت توں بھی پلیز ساتھ میں چل ۔ میں نے عماد بھائی کو کال کر کہ سب کچھ بتا دیا ہے ۔ تاکہ وہ گھر پہ پہنچ جائیں ۔

اور ماما سے بات کر لیں ۔ ماما غصہ تو ہونگی ۔ سارا ایک نظر عاشی کو اپنی ماں کے گلے لگتے گاڑی میں بیٹھتے دیکھ گھبرائے سے انداز میں آیت کو بولی ۔

فکر نہیں کر ۔ سب ساتھ ہی تیرے گھر جانے والے ہیں ۔ آنٹی کو آرام سے ہم لوگ بیان کر دیں گے ۔

مجھے یقین ہے وہ ہمیں سمجھیں گئی ۔ آیت اسکو بے فکر کرتے اسکو گاڑی میں بیٹھنے کا بول گئی ۔

 ایسے کیسے نکاح ہو گیا ۔۔۔؟ شہریار مجھے یقین نہیں آ رہا ۔ میرا بیٹا شادی کر کہ آ گیا ۔۔۔؟ 

شہریار کی ماں قہر بھری نظر عاشی پہ ڈالتے اپنے بیٹے کو رعب سے پوچھ گئی ۔

سارا گھبراتے کبھی اپنے سبھی دوستوں کی طرف دیکھتی تو کبھی اپنے خاموش بھائی کی طرف ۔۔۔۔

عاشی کو جیسے خود کی قسمت پہ رونا آیا تھا ۔ جانے آج کا دن کہاں سے شروع ہوتے کہاں ختم ہو چکا تھا ۔ 

 ماما ایم سوری آئی نو میرے ایسے اچانک سے  شادی کرنے سے تکلیف دی ہے ۔ 

بٹ میری ۔۔۔۔ !! آنٹی پلیز ہمیں سمجھنے کی کوشش کریں۔ جو کچھ بھی بہت جلد بازی میں ہوا ۔ 

اس سے پہلے شہریار مجبوری کا نام لیتا آیت تیزی سے بولتے اسکی زبان کو جیسے بریک لگا گئی ۔

چونکہ وہ جانتی تھی ۔ شہریار کے منہ سے یہ الفاظ سن عاشی کو تکلیف ہوتی ۔ 

شہریار کی مام بنا کچھ بولے غصے سے روم کی طرف بڑھی تھی ۔ سارا نے جیسے سکون کا سانس لیا تھا ۔

شکر ہے ۔ ماما چلی گئی ۔ وہ تیزی سے عاشی کی طرف بڑھی تھی ۔ 

ماما صرف غصہ ہیں ۔ آخر ان کے بیٹے کی اچانک سے شادی ہو گئی ۔ کتنے ہی ارمان تھے ۔ 

لیکن دیکھنا ایک دن وہ بالکل ٹھیک ہو جائیں گئی ۔ سارا عاشی کو ہلکے پھلکے انداز میں بتاتے مسکراتے روم کی طرف بڑھی 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے 


This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha Novel

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Nafrat se barhi Ishq ki inteha written by Madiha Shah.  Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  by Madiha Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Cousins Forced  Marriage Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel ''Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1 to 10

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  By Madiha Shah Episode 31  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Online link

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  Novel by Madiha Shah Continue Novels ( Episodic PDF)

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  ناول    از مدیحہ شاہ  (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

 

Islamic True Stories

سچی کہانی 

جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک 

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے

If You Read this STORY Click Link

LINK

 

 

 

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

 

 

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages