Siyah Ishq By Hifsa Javed Urdu Novel Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading..
Siyah Ishq By Hifsa Javed Urdu Novel Complete Romantic Novel |
Novel Name: Siyah Ishq
Writer Name: Hifsa Javed
Category: Complete Novel
پریام آج گائوں واپس آئی تھی۔اس کی تعلیم ختم ہوگئی تھی اور بابا سائیں نے اسے گائوں بلالیا تھا۔پریام کی نانی سائیں شروع سے اپنے بیٹے کے پاس باہر رہتی تھی تو پریام کی والدہ کی شادی انہوں نے بڑی چاہ سے اپنے بھائی کے بیٹے سے کی جو گائوں میں رہتے تھے۔اس گائوں میں رئیس ذادے مرتضی خان کی چلتی تھی۔یہاں بہت کم آتی تھی پریام۔پریام بہت خوبصورت تھی۔اسے جو بھی دیکھتا یہی گمان کرتا کہ یہ باہر سے آئی ہے۔اس کی شکل اپنے نانا پر تھی جن کی والدہ باہر سے تھی یعنی پریام کی والدہ کی دادی جان۔پریام اپنے گھر کے کھلے صحن میں بیٹھی ہوئی تھی اور ماروی اس سے تیل لگوا رہی تھی سر میں ۔پریام اس وقت 22 برس کی تھی جبکہ۔ماروی 13 برس کی تھی۔ماروی پریام سے بھی گئی زیادہ خوبصورت تھی۔دونوں بہنوں کی آنکھوں کا رنگ نیلا تھا۔پریام کے بال ہلکے بھورے تھے جبکہ ماروی کے بال مکمل کالے تھے سیاہ رات جیسے۔
"ارے تم دونوں یہاں ہی بیٹھی رہو گی یا باہر بھی جائو گی۔مجھے تو سمجھ نہیں آتی یہ تم دونوں کے بابا کو کیا ہوگیا ہے۔جوان جہاں لڑکیاں ہو بھلا کیا ضرورت تھی رئیس زادے کے سامنے ذکر کرنے کی کہ میری بیٹی شہر سے پڑھ کر آئی ہے۔"
"امی کچھ نہیں ہوتا رئیس ذادے شادی شدہ ہیں انہیں کیا لگے خود سے 16 برس چھوٹی لڑکی سے۔میں ان سے بہت چھوٹی ہوں ان کا بیٹا بھی تو 18 سال کا ہے دیکھیں ۔"
"ارے تو کیا جانے اپنی خوبصورتی کے بارے میں۔یہ گائوں ہے بیٹا شہر نہیں جہاں لوگ تجھ جیسی خوبصورت لڑکیوں کو چھوڑ دیں۔خیر وہاں جائے گی نہ تو سر ڈھک کر جانا۔مجھے رئیس ذادے پر اعتبار نہیں ہے۔"
"امی کچھ نہیں ہوگا۔ماروی چلو جائو جلدی سے میری چادر لے آئو پھر چلتے ہیں۔بابا انتظار کر رہے ہوں گے۔"
ماروی فورا سے اندر کی طرف بھاگی اور بہن کی چادر لے آئی۔ماروی کو پریام ساتھ نہیں لے کر گئی تھی۔یہ اکیلے ہی جانا چاہتی تھی۔گائوں میں ان کے ہمسائے تھے جو ان کا چھوٹا بیٹا اسے چھوڑنے کے لیئے گیا۔ابھی یہ لوگ راستے میں ہی تھے کہ تین چار گاڑیاں دھول اڑاتی پاس سے گزری۔یہ ایسا علاقہ تھا جہاں ریت اور مٹی بہت ہوتی تھی۔ایک گاڑی رک گئی جس کے پیچھے سب گاڑیاں رک گئی۔
"وقاص یہ کون ہیں۔"
"آپا فورا سے گزریں یہ رئیس ذادے کی گاڑی ہے۔انہوں نے ہمیں دیکھ لیا تو روک لیں گے اور سوال کریں گے۔مجھے ماں بہت ماریں گی یہاں آنے پر۔"
گاڑی سے 36 سالہ مرتضی رئیس ذادی اترا۔انہوں نے شانوں کے اردگرد نے کالی چادر کر رکھی تھی جبکہ پیروں میں پشاوری چپل تھی۔اونچے لمبے قد کے ساتھ رئیس ذادے کی اپنی ایک الگ ہی پہچان تھی۔اس کے پیچھے اس کے گارڈ تھے۔
"رئیس ذادے گاڑی خراب ہوگئی ہے۔آپ پیچھے والی گاڑی میں چلے جائیں کچھ وقت لگے گا ابھی۔"
"ٹھیک ہے تم ایسا کرو دو لوگوں کو ساتھ رکھ لو اگر ضرورت پڑی تو فون کر دینا محل سے کوئی آجائے گا۔"
"جی رئیس زادے۔"
پریام انہیں کھڑا دیکھ رہی تھی ۔تیز ہوا کی وجہ سے پریام کا نقاب اتر گیا اور اس کا چہرہ واضح ہوگیا۔رئیس ذادہ جو جارہا تھا اس کی نظر پریام پر پڑ گئی۔یہ دو لمحے کے لیئے سکت ہوگیا۔پریام بلکل گڑیا کی مانند تھی۔اس کی آنکھیں کسی کو بھی اپنا دیوانہ کرسکتی تھی۔پریام نے فورا سے اپنا نقاب کیا اور اپنا رخ موڑ لیا۔رئیس ذادہ چلتا ہوا آگے آیا اور پریام کے نزدیک کھڑا ہوا۔اس کا ہاتھ پریام کے کندھے پر گیا جس سے اس نے پریام کو پیچھے گیا اپنی طرف۔
"سائیں معافی چاہتی ہوں غلطی سے آپ کے راستے میں آگئی ہوں۔"
ساتھ کھڑا بچہ بھی ہاتھ باندھے کھڑا ہوگیا۔مرتضی نے پریام کا نقاب اپنے ہاتھ سے اتارا۔
"سائیں معافی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
پریام کا خوف سے برا حال ہوگیا۔
"کس کی بیٹی ہو۔"
سائیں ماسٹر منور کی۔"
"اچھا تو تم ہو وہ شہر کی لڑکی جو ہمارے گائوں سے شہر پڑھنے گئی تھی۔"
مرتضی نے پریام کے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔پریام کو مرتضی کا ہاتھ ایک سانپ کی مانند لگا جو اس کے چہرے پر رینگ رہا تھا۔پریام نے غصے سے مرتضی کا ہاتھ جھٹکا۔یہ پہلی بار تھا کہ کسی نے مرتضی کا ہاتھ جھٹکا تھا۔
"حسن بھی ہے اور ادا بھی۔ویسے کافی خوبصورت ہو تم بلکل چاند کی طرح۔تمہیں دیکھ کر مجھے یہی لگا کہ شاید کوئی گڑیا دیکھ لی ہے میں نے۔"
"سائیں معاف کیجیئے گا آپ کو شرم آنی چاہیے ایسی باتیں کرتے ہوئے۔آپ کے اپنے گھر میں بھی تو بیٹیاں ہوں گی نہ۔کسی کی بیٹی کو پیچ راستے میں کھڑا کرکے یہ سب کرنا کیا زیب دیتا پے آپ کو۔"
"اچھا بول لیتی ہو تم۔چلو کیا یاد کرو گی تم ہم جانے دیتے ہیں تمہیں۔مگر ایک بات یاد رکھو جس چیز پر رئیس ذادے کی نظر پڑ جائے وہ اس کی ہوتی ہے۔بہت جلد ملاقات ہوگی۔افضل افضل گاڑی تیار کرو ہم محل جارہے ہیں۔"
مرتضی اپنی آنکھ پر چشمہ لگائے گاڑی میں بیٹھ گیا جبکہ پریام کو یقین نہیں آیا اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔
________________________________
حال
ماروی بہت زیادہ خوش تھی۔آج اسے ایک ہوٹل میں جاب مل گئی ویٹر کے طور پر نہیں بلکہ کھانے بنانے کے لیئے۔یہ پندرہ برس کی عمر سے ہوٹلز پر ویٹر کے طور پر کام کر رہی تھی۔کچھ عرصہ اس نے حمزہ کے بابا کے ساتھ ان کے ہوٹل پر کام کیا پھر اپنی ایک کلاس فیلو کے ساتھ ۔یہاں ترکی میں یہ اپنے ماموں کے ساتھ رہتی تھی۔نانی جان اس سے بہت محبت کرتی تھی اور ماموں بھی۔مگر ایک انسان کی یاد اسے ہمیشہ آتی تھی جسے یہ بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی۔نانی جان اس کے لیئے جوس کا گلاس لے کر کمرے میں آئی ۔ماموں کی بیوی تو بہت پہلے فوت ہوگئی تھی اور ان کا ایک بیٹا تھا جو انگلینڈ میں پڑھ رہا تھا۔اس لیئے ماموں جان نے ماروی کو بلکل بیٹی بنا کر رکھا۔اس کا خرچ ہر ماہ پاکستان سے آتا تھا مگر ماروی اتنی لائک تھی کہ یہ سکالر شپ پر پڑھ رہی تھی اور اس نے ہوٹلز میں کام کر کے بچپن سے اپنا خرچ خود اٹھایا تھا۔اب یہ ایک شیف بننا چاہتی تھی اور اسے سلسلے میں یہ پڑھ بھی رہی تھی۔
"بیٹا جوس پی لے آج تیرا پہلا دن ہے۔میں چاہتی ہواں تجھے کسی بھی چیز میں مسئلہ نہ ہو۔"
"میری پیاری نانی جان مجھے کسی چیز میں مسئلہ ہوسکتا ہے بھلا جب آپ موجود ہوں میرے لیئے ہر لمحہ۔"
"ارے میں تو تجھے بہت چاہتی ہوں میرا بچہ۔میری بیٹی کی آخری نشانی ہے تو۔کاش تیری ماں تجھے دیکھ پاتی کتنی پیاری ہے تو ۔بلکل میری ساس جیسی ہے تو۔"
"یہی امی بھی کہہ کرتی تھی کہ میں ان کی دادی جیسی تھی۔اچھا نانی جان میرے لیئے دعا کریئے گا کہ میرا دن بہت اچھا جائے۔آپ کو پتا تو ہے میں نے اس دن کا کتنا انتظار کیا تھا۔"
"ارے بچا تیرے لیئے دعا نہیں کروں گی تو کس کے لیئے کروں گی۔اچھا سن دھیان سے جانا اور اپنا بہت خیال رکھنا۔"
"آپ فکر مت کریں۔چلیں میں چلتی ہوں دیر ہوجائے گی۔"
ماروی اپنے بالوں کو ہونی کی صورت میں قید کیئے جلدی سے اس چھوٹے سے کمرے سے باہر آئی جس میں ایک بیڈ مشکل سے آیا ہوا تھا۔یہ گھر چھوٹا تھا مگر اس گھر کے مکینوں کے دل بہت بڑے تھے۔ماروی جلدی سے دروازے سے باہر آئی۔اس کی نانی نے اس کے پیچھے پانی پھینکا کہ اس کا دن اچھا گزرے۔یہ اپنی کھڑی سہی کرتے ہوئے سڑک پر چل رہی تھی۔آج 21 سال کی عمر میں اسے اپنا گھر بہت یاد آرہا تھا۔وہ گائوں کی گلیاں وہ خوبصورت منظر۔امی بابا کے ساتھ اپنے کھیتوں میں جانا۔اس کے بابا گائوں کے ماسٹر تھے تو بچپن سے یہ بچوں کو ٹیچر بن کر پڑھانے کی کوشش کرتی رہتی تھی۔کسی کو معلوم تھا یہ اپنے ہی گھر سے اتنے دور چلی آئے گی۔جو کھڑی اس نے پہن رکھی تھی یہ سونے کی تھی اور یہ وہ واحد نشانی تھی جو اس کی ماں کی تھی اس کے پاس۔بس میں سوار ہوتے ہوئے اسے اپنا گھر بار بار یاد آرہا تھا۔وہ محبت جو ماں باپ اسے دیتے تھے اس کا کوئی نعم و البدل نہیں تھا۔ہوٹل کے پاس آکر اس نے دو لمحے کے لیئے آنکھیں بند کی پھر یہ اندر اگئی۔یہ ہوٹل بھی ایک پاکستانی خاندان کا ہی تھا مگر کافی مشہور تھا۔حمزہ اس کے ماموں کے دوست کا بیٹا تھا وہی اسے یہاں لایا تھا حمزہ کے والد کا ہوٹل بھی تھا مگر ماروی اب یہاں کام کرنا چاہتی تھی تو اسے یہاں نوکری مل گئی ۔باس سے ملاقات کے بعد یہ اندر کچن میں چلی گئی اور کیک بنانے لگی جو اس کی خاصیت تھی۔دن بھر کام کرنے کے بعد باس اس کے پاس آیا اور اس کے کام کی بہت تعریف کی۔یہ بہت خوش تھی۔اس کی نیلی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھی۔یہ یہاں کی ہی ایک باشندہ لگتی تھی۔کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا یہ پاکستان سے ہے۔بلیو جینز پر اس نے کالا ٹاپ پہنا تھا جو گھٹنوں تک آتا تھا۔گلے میں مفرل تھا جبکہ بال ہونی کی صورت میں قید تھی۔
"چلو چلو چلتی سے سب باہر آجائو ہم بند کر رہے ہیں ہوٹل۔"
ماروی بھی اپنا اپرین اتار کر باہر جارہی رہی تھی کہ اس کے باس نے اسے روک لیا۔
"ماروی رک جائو ہمارے ہوٹل کے ایک بہت خاص کسٹمر آگئے ہیں اس وقت۔انہیں کھانا دینا ہوگا۔تم ایسا کرو کچن میں جائو اور وہاں کچھ اچھا سا بنا دو۔"
ماروی باس کی بات سن کر کچن میں واپس چلی گئی اور پینتالیس منٹ کے اندر پیزا تیار کیا۔ماروی نے باس کو کچن کے باہر سے بلایا کہ وہ سرو کریں مگر باس نے اسے سرو کرنے کا اشارہ کیا۔ماروی نے ہر چیز سیٹ کی اور یہ باہر آئی۔سامنے ٹیبل پر بیٹھے ہوئے آدمی کو دیکھ کر یہ ڈر گئی۔اونچا لمبا قد لیئے یہ آدمی بلکل مختلف سا تھا۔اس نے اس وقت مہنگا ترین تھری پیس سوٹ پہن رکھا تھا اور ہاتھ میں خوبصورت کھڑی تھی۔بالوں کو جیل سے سیٹ کیا گیا تھا جبکہ آنکھیں اس کی گہری کالی اور پراسرار سی تھی۔ماروی کی طرف اس شخص نے دیکھا اور اس کے ہونٹوں کے کنارے مسکرائے۔ماروی نے جلدی سے پیزا اس کے آگے رکھا اور پانی کی بوتل بھی۔
"میں نے سنا ہے یہاں کے کیک بہت اچھے ہوتے ہیں جمال۔"
"جی سر یہ ہماری نئی شیف ہے اور بہت اچھے کیک بناتی ہے۔اس نے آج سب سے زیادہ کیک سیل کیئے ہیں۔"
"میں وہ کھانا چاہوں گا جمال۔"
"جی سر۔ماروی جائو جلدی سے کیک لے کر آئو۔"
ماروی کی نظر اس شخص پر ہی تھی جو اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ماروی کا دل کیا اس شخص کے چہرے سے یہ ہنسی مٹا دے جو اسے بہت عجیب لگ رہی تھی۔ماروی نے کیک فریج سے نکالا اور باہر لایا۔باس نے اسے جانے کی اجازت دے دی تھی۔اس نے اپنا کوٹ اٹھایا اور پہنا۔باہر سردی بڑھ گئی تھی۔اندر بیٹھا شخص بہت مزے سے ماروی کی بنائی ہوئی چیزیں کھا رہا تھا۔
"میں روز آئوں گا یہاں جمال ۔مجھے اسی لڑکی کے ہاتھوں کا کھانا چاہیے۔"
"جی سر۔۔۔۔"
ماروی باہر کھڑی کسی کی منتظر تھی۔سامنے سے بائیک آیا اور اس کو چلانے والے نے بائیک ماروی کے پاس روکا۔
"نہ سدھرنا کبھی تم ابھی مجھے بائیگ لگ جاتا۔"
"مائے لیڈی آپ حمزہ کے ساتھ ہیں ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ میں آپ کو یہ لگنے دیتا۔"
حمزہ نے ڈرامائی انداز میں ماروی کے آگے اپنا سر کیا۔"
"اچھا ڈرامے بند کرو مجھے گھر پہنچائو۔پہلے ہی بہت دیر ہوگئی ہے۔نانی جان پریشان ہورہی ہوں گی۔"
"چلو پھر آجائو بیٹھو پیچھے۔"
حمزہ نے ایک ہیلمٹ ماروی کو دیا جسے پہن کر ماروی حمزہ کے پیچھے بیٹھ گئی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ہوٹل میں بیٹھے ہوئے شخص نے اپنے ہاتھ میں اٹھائی ہوئی پلاسٹک کی بوتل ہاتھ میں ہی توڑ دی۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا یہ حمزہ کو کچھ کر دے جس کے اتنے قریب ماروی تھی۔نجانے نے ماضی کیا اثر کرنے والا تھا حال پر۔
ماضی
پریام گھر آئی تو اس کے ساتھ گئے ہوئے بچے نے جلدی سے اس کی والدہ کو سب کچھ بتا دیا۔
"میں نہ کہتی تھی تیرے بابا کو یہ رئیس لوگ ہم جیسے لوگوں کے رشتوں کا کہاں خیال کرتے ہیں۔ارے میں نے کتنی بار کہا تھا کہ بچی بہت خوبصورت ہے ہماری مت ملاقات کروانے لے جائو اسے رئیس سے۔"
"امی کہاں ملاقات ہوئی میری ان سے۔سڑک پر ان کی گاڑی خراب ہوگئی تھی تو انہوں نے مجھے وہاں دیکھ لیا۔"
"تجھے کتنی بار کہا تھا کہ نقاب مت اتارنا کبھی بھی یہاں گائوں میں۔دیکھ تو کیسے لوگ ہیں یہاں گائوں کے۔بیٹا یہ شہر نہیں ہے۔"
"امی کچھ نہیں ہوگا آپ۔پریشان مت ہوں۔بابا آتے ہیں نہ تو ان کو بتائوں گی میں۔رئیس سب لوگوں کے ہوتے ہوئے کیا کر پائیں گے۔میں نے ان کے گھر سے بڑا کوئی چیز چرا لی ہے۔"
"بیٹا تو اپنے بابا کو کچھ مت بتانا۔مرد ہے نہ فورا لڑنے چلے جائے گا۔تو ایسا کر کچھ دن کے لیئے گھر سے باہر ہی مت جا۔میں بات کرتی ہوں تیری نانی سے جلدی سے تیرے لیئے کوئی رشتہ دیکھیں اور تجھے اس جگہ سے بھیجتی ہوں میں۔"
پریام کی والدہ نے بہت برا کیا اس وقت اگر وہ پریام کے والد کو بتا دیتی تو شاید وہ سب نہ ہوتا جو ہونا تھا۔
______________________________
رئیس ذادی کرسی پر بیٹھے ہوئی سامنے ہاشم کے ساتھ کھیلتے رئیس ذادے کو دیکھ رہی تھی۔کتنا مکمل منظر لگتا تھا نہ یہ ایک باپ کا بیٹے کے ساتھ پیار۔ہاشم ہمیشہ سے ہی رئیس کے لیئے خاص رہا تھا۔ہاشم کی عمر 18 تھی ۔رئیس اور شہانہ خود 18 کے تھے تو ہاشم پیدا ہوا تھا۔ہاشم کے دادا یعنی رئیس کے والد کو بہت جلدی تھی پوتے کی۔رئیس ذادی ان کی بہن کی بیٹی تھی۔رئیس ذادی کی ملازمہ شبو ان کے پاس جوس کا گلاس لے کر آئی۔
"رئیس ذادی آپ کو ایک خبر دینی ہے۔"
"ہاں بولو شبو۔"
"رئیس ذادے کو ایک لڑکی پسند آگئی ہے گائوں میں۔"
رئیس ذادی نے جوس کا گلاس واپس ٹیبل پر رکھا۔اتنی جلدی رئیس نے اپنی زندگی میں کسی اور کو لانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
"کون ہے۔کیا بہت پیاری ہے۔"
"وہ جی ماسٹر منور ہے نہ اس کی بیٹی ہے۔سنا ہے چاند کا ٹکڑا ہے بلکل پریوں جیسی۔نیلی آنکھیں ہیں جی اس کی بلکل پری جیسی۔"
"کیا رئیس کے معیار کے مطابق ہے وہ۔"
"رئیس ذادی پڑھ کر آئی ہے شہر سے۔ماں باپ بھی پڑھے لکھے ہیں۔بس ایک بہن ہے اس کی ۔"
"چلو دیکھتے ہیں تمہارے رئیس اس کے ساتھ وقت گزاری کرتے ہیں یا ہمیشہ کے لیئے محل لاتے ہیں۔"
شہانہ ابھی اور بات کرتی مگر ہاشم ان کے پاس آگیا۔
"مام دیکھیں ڈیڈ جیت گئے آج بھی۔آپ کو تو پتا ہے نہ ڈیڈ بلکل جوان ہیں ۔مجھے تو لگتا ہی نہیں ہے یہ میرے ڈیڈ ہیں-"
ہاشم نے اپنی ماں سے جوس کا گلاس لیا اور ان کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔مرتضی بھی ان کے ساتھ ہی آکر بیٹھے۔
"ہاشم آگے تمہارا کس یونورسٹی میں جانے کا ارادہ ہے بیٹا۔"
"بابا آپ جس میں بھی بھیج دیں۔بس میں مام سے ملنے آسکوں یہ دیکھتے رہیئے گا۔"
"ٹھیک ہے کہتا ہوں افضل کو میں کہ وہ تمہارے لیئے اچھی یونیورسٹی دیکھے ورنہ تمہیں باہر بھیج دوں گا میں کسی اچھی جگہ پڑھنے کو۔ابھی تم اندر جائو مجھے تمہاری ماں سے بات کرنی ہے۔"
"جی ڈیڈ۔"
ہاشم اٹھ کر اندر اپنے کمرے میں چلا گیا۔پیچھے شہانہ اور مرتضی ہی باقی رہ گئے تھے۔
"شہانہ مجھے ایک لڑکی پسند آگئی ہے۔"
شہانہ کو یقین نہیں تھا کہ مرتضی اتنی جلدی اس سے بات کر لیں گے۔یہ اپنی حیثیت سے واقف تھی مگر پھر بھی انہیں لگتا تھا کہ ہاشم کی وجہ سے مرتضی کبھی بھی شادی نہیں کریں گے۔
"مرتضی کیا وہ آپ کی وقتی پسند ہے میرا مطلب ہے صرف دل لگی کے لیئے۔۔۔۔۔۔"
ابھی شہانہ نے پورا جملہ نہیں بولا تھا کہ مرتضی نے اپنے سامنے اٹھایا ہوا جوس کا گلاس پٹخ دیا۔
"آپ کے باپ کی طرح نہیں ہوں میں شہانہ جو گائوں کی عورتوں کو اپنی وقت گزاری کے لیئے استعمال کرے۔اپنی رانی بنائوں گا میں اپنی بیوی کو اور وہی مجھ پر سارا حق رکھے گی۔آپ کے لیئے یہی بہتر ہے کہ اپنے دماغ میں بٹھا لیں، بہت جلد اس محل میں پریام ایک پری اترے گی۔مجھے کمزور مت سمجھنا شہانہ رئیس ذادی میں وہ ہوں جسے آپ کبھی جان نہیں پائی۔"
شہانہ کا چہرہ دھواں دھواں ہوگیا۔مرتضی یہاں سے اٹھ کر ہی چلے گئے۔انیس برس کی شادی میں یہ بہت بار ہوچکا تھا جب رئیس نے انہیں ان کی اوقات یاد دلائی تھی کہ یہ کس شخص کی بیٹی ہیں۔اپنی آنکھ سے آنسو کے قطرے کو صاف کرتے ہوئے یہ بھی اندر چلی گئی جو ایک بہت بڑا محل تھا مگر ان پتھر کی دیواروں میں بھی کبھی کوئی جذبات ہوئے۔
___________________________
پریام کی سہیلی کی شادی تھی گائوں میں۔یہ بہت عرصے سے گھر سے باہر نہیں نکل تھی جیسا اس کی والدہ نے کہا تھا مگر جیسا کہ ہمسائے گھر میں ہی شادی تھی تو یہ تیار ہو رہی تھی۔اس نے اپنے بالوں میں گجرے لگائے اور انہیں پرانڈے کی صورت میں بند کیا۔چوڑی دار پیچامے پر پیلے رنگ کی گوٹے والی قمیض اس نے زیب تن کی۔ہاتھوں میں سبز اور پیلی چوڑیاں تھی۔وقاص اسے بلانے آیا۔اس کی سہیلی اسے یاد کر رہی تھی۔یہ جلدی سے پائوں میں گھوسا پہن کر باہر نکلی اور ساتھ والے گھر میں گھس گئی۔اپنی سہیلی کے پاس بیٹھ کر اس نے اسے تیار کیا ۔ایک بچی اسے باہر سے بلانے آئی کہ آپ کی والدہ آپ کو بلا رہی ہیں۔یہ دروازے تک آئی مگر یہاں کوئی نہیں تھا۔مہندی سامنے والوں کے گھر تھی لہذا سب وہاں موجود تھے ان کے گھر۔کسی نے اس کا ہاتھ کھینچا۔اس کی چیخ نکلتی اس سے پہلے ہی مقابلے نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔
"کیا ادا حسن ہے یہ۔کتنی پیاری لگ رہی ہو تم بلکل پری جیسی۔"
مرتضی نے پریام کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا۔پریام نے مرتضی کاہاتھ ہٹانا چاہا مگر مرتضی نے اپنی گرفت اور مضبوط کر لی ۔
"ایک بات بتانی تھی۔ جلدی ہی تمہارے بابا سے تمہارا ہاتھ مانگنے آئوں گا میں اور میرے ساتھ تمہاری سوتن شہانہ رئیس ذادی بھی آئیں گی۔"
پریام کی آنکھوں سے آنسو مرضی کے ہاتھ پر گرے۔
"رو نہیں۔تم اس لیئے پریشان ہو نہ کہ میں شادی شدہ ہوں تو جاناں میری بیوی میرے لیئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔وہ صرف اپنے خاندانی نام کی وجہ سے رئیس ذادی ہے میری اصل اور حقیقی بیوی تم ہوگی رانی رئیس ذادی۔بلکل بھی فکر مت کرنا تمہاری اہمیت کبھی کم نہیں ہوگی میرے محل میں اور میرے دل میں۔"
پریام کے آنسو صاف کرتے ہوئے مرتضی نے اس کے کان کے پاس ایک سرگوشی کی۔
"تمہارے منہ سے ہاتھ ہٹا رہا ہوں مگر چیخنے کی غلطی مت کرنا اس میں تمہاری ہی بدنامی ہے۔"
پریام نے اپنا منہ آزاد ہوتے ہی مرتضی سے دوری اختیار کی۔
"آپ کیا سمجھتے ہیں آپ جیسے شخص کو میں پسند کر سکتی ہوں۔آپ اپنی بیوی کے وفادار نہ ہوئے میرے کیا ہوں گے۔"
اس بات پر مرتضی کو بہت غصہ آیا۔
"میری زندگی کے بہت سے پہلو ہیں جن سے بہت لوگ واقف نہیں اس لیئے تمہارے لیئے بہتر ہے کہ خاموشی سے چپ چاپ شادی کے لیئے مان جانا ورنہ مجھے اور بھی بہت سے طریقے آتے ہیں۔"
"ڈرتی نہیں ہوں میں آپ سے۔ سمجھ گئے نہ۔پڑھی لکھی ہوں اور مجھے اپنے حقوق کا اچھے سے پتا ہے۔آپ جیسے لوگ میرے لیئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔"
"بہت جلدی میں ہی تمہاری زندگی میں خاص اہمیت رکھوں گا۔جائو اندر تمہاری دوست تمہیں ڈھونڈ رہی ہے مگر سمجھ لو خود کو میرا ورنہ تمہیں اچھے سے سمجھا سکتا ہوں میں۔"پریام فورا سے اندر بھاگ گئی جبکہ مرتضی نے اپنے ہاتھ کو دیکھا جہاں پر پریام کی لب سٹک کا نشان بن گیا تھا ۔مرتضی کے ہونٹ مسکرائے اور مستقبل اسے روشن نظر آیا۔
_______________________________
حال
حمزہ نے اپنے ہوٹل کے آگے بائیک روکی۔
"یہاں کیوں روک دی بائیک تم نے۔"
"یار آئو نہ تمہارا پہلا دن تھا کام پر آج تو میری طرف سے تمہارے لیئے ٹریٹ ہے وہ لے لو۔"
"حمزہ نانو گھر میں پریشان ہوں گی۔وقت دیکھو دس بج رہے ہیں۔"
"نانو سے میں نے بات کر لی ہے ان کی طرف سے مکمل اجازت ہے کہ تمہیں آج رات کا ڈنر کروا دوں۔"
ماروی بائیک سے اتری اور حمزہ کے ساتھ ہوٹل میں داخل ہوئی جو تقریبا خالی تھا۔ایک ٹیبل کو سجایا گیا تھا پھول پٹیوں کے ساتھ۔حمزہ کے ساتھ ماروی کا ساتھ بہت پرانا تھا ۔یہ جب یہاں آئی تو اس کی عمر 14 برس تھی۔حمزہ اور اس نے ایک ہی سکول میں پڑھا تھا اور ان کی پہلی ملاقات سائیکل کی۔وجہ سے ہوئی تھی جب حمزہ نے اسے سائیکل سے بچایا تھا ۔
ماروی ماضی میں چلی گئی۔یہ بہت زیادہ ڈری ہوئی تھی۔یہ ایک نیا ملک تھا۔یہاں کوئی اپنا نہیں تھا۔اس کو ماموں سکول چھوڑ کر گئے تھے۔ابھی یہ سکول کے گیٹ کے اندر جانے ہی والی تھی کہ ایک بچہ سائیکل چلاتا ہوا تیزی میں آیا۔ماروی نے اس کی سائیکل کی تیزی دیکھی تو اسے سمجھ نہیں آیا یہ کس طرف ہو اور ڈر کے مارے یہ سائیکل کے سامنے آگئی ۔حمزہ نے اسی لمحے کٹ لگایا اور یہ سائیکل سمیٹ نیچے گرا۔حمزہ کو لگا کہ یہ لڑکی شاید ترکی کی ہے اس لیئے اس نے اپنی اردو زبان میں بات کی۔
"پاگل ہوگئی ہے کیا۔دیکھ نہیں سکتی تھی ساری شرٹ پھٹ گئی ہے میری نئی۔"
ماروی جس نے اپنے بیگ کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا اس نے خوف زدہ ہوکر اردو میں جواب دیا۔
"سوری مجھے پتا نہیں چلا۔"
حمزہ نے غور سے اس لڑکی کو دیکھا جو دیکھنے سے ہرگز اردو بولنے والی نہیں لگتی تھی۔
"پاکستانی ہو۔"
ماروی نے سر ہلایا ۔
"یار حد ہے ویسے اپنے ہی بندے کو بھلا کوئی پہلے ہی دن یوں ٹریٹ کرتا ہے۔"
حمزہ زمین سے اٹھا اور اپنے کپڑے جھاڑے۔اس چھوٹی سے لڑکی کے پاس یہ چلتا ہوا آیا جو بہت زیادہ ڈر گئی تھی۔
"میں حمزہ ہوں اور تم۔"
"ماروی۔۔۔۔"
"ارے یار اتنا ڈر کیوں رہی ہو مجھے بتائو کون سی کلاس ہے تمہاری میں وہاں کے کر جاتا ہوں تمہیں۔"
حمزہ نے ماروی کا ہاتھ تھاما اور یہ ان کی دوستی کا آغاز تھا۔ماروی حمزہ کی ہی کلاس میں تھی۔حمزہ نے ماروی کی بہت مدد کی پھر ماروی کے ماموں اور حمزہ کے والد دوست نکلے۔یوں ان کی دوستی بہت گہری ہوگئی۔ماروی ماضی یاد کر رہی تھی جب حمزہ اس کے قریب آیا اور اسے ٹیبل پر جانے کا کہا۔
"آجائو جلدی سے کھاتے ہیں کھانا۔تمہیں تو پتا ہے مجھ سے بھوک برداشت نہیں ہوتی۔"
ماروی اور حمزہ آمنے سامنے بیٹھ گئے۔کھانے کے دوران حمزہ نے ماروی سے سوال کیا۔
"ماروی تمہارا پاکستان جانے کا ارادہ ہے کیا۔"
"نہیں حمزہ ابھی کچھ عرصے میں یہاں ہی رہنا چاہتی ہوں۔کچھ کر لوں اپنی زندگی میں پہلے۔"
"آگے کا کیا ارداہ ہے میرا مطلب ہے شادی وغیرہ کا۔"
"ابھی اس بارے میں کچھ سوچا نہیں مگر بہت جلدی کچھ ضرور سوچوں گی۔بے فکر رہو تم وہ پہلے انسان ہوگے جسے میں اپنے ہمسفر کو دیکھائوں گی۔تم میرے بہترین دوست ہو جس نے ہر سرد گرم میں میرا ساتھ دیا ہے۔"
ماروی تمہیں نہیں لگتا کہ تمہاری نانی جان بہت زیادہ پریشان رہنے لگی ہیں تمہاری وجہ سے۔پاکستان سے تمہیں پیسے آتے ہیں پھر تم انہیں استعمال کیوں نہیں کرتی۔"
"وہ پیسے میرے نہیں ہیں نہ ہی ان پر میرا حق ہے۔بہت جلدی میں وہ سب اس کے حقدار کو لوٹا دوں گی۔مجھے محتاجی اچھی نہیں لگتی۔کم کھا لو مگر اپنا ہو تو پھر زندہ رہنے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔"
"تمہاری باتیں نہ مجھے کبھی سمجھ نہیں آئیں گی۔جلدی سے کھانا ختم کرو پھر چلتے ہیں گھر ۔نانی کی کال آئی تھی تھوڑی دیر پہلے کہ گھر جلدی آنا۔"
حمزہ ماروی کے چہرے کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔یہ ماروی کو آج تک نہیں بتا پایا تھا کہ یہ اس سے کتنی محبت کرتا ہے کئی سالوں سے اور اس کی خاطر ہی یہ اپنی زندگی میں کچھ کرنا چاہتا ہے۔مگر کچھ محبتیں ظاہر نہیں کی جاتی وہ خود ہی محسوس ہوجاتی ہیں۔"
ماضی
پریام اپنے گھر کے صحن میں بیٹھی ہوئی ماروی کو پڑھا رہی تھی۔پریام کو اکثر اس کی سہیلیاں کہہ کرتی تھی کہ تم اپنا ہاتھ دیکھائو کسی کو تمہاری قسمت کیسی ہے مگر یہ ہمیشہ سب کی بات مذاق میں اڑا دیتی تھی۔اسے ویسے بھی ان باتوں پر یقین نہیں تھا۔دروازے پر ایک عورت آئی۔ماروی نے جاکر دروازہ کھولا۔یہ عورت اکثر ہی آیا کرتی تھی مگر پریام کی اس سے ملاقات آج ہوئی تھی۔یہ عورت ہاتھ دیکھا کرتی تھی۔پریام اپنی امی اور اس عورت کے لیئے چائے لے کر آئی۔پریام کی امی نے پریام کو بٹھایا اور اس کے ہاتھ کو سامنے کیا سامنے بیٹھی عورت کے۔
"ارے تمہاری بیٹی کی قسمت بہت عجیب ہے۔اس کی شادی ایک شادی شدہ بندے سے ہوگی۔"
"ہائے بہن کیسی باتیں کر رہی ہو۔میری بیٹی مجھ پر اب اتنی بھی بھاری نہیں ہے کہ اس کا ہاتھ کسی شادی شدہ بندے کے ہاتھ میں دے دوں۔"
"ارے میں کہاں یہ سب کہہ رہی ہوں ۔اس کی قسمت میں لکھا ہے۔تیری ایک اور بھی بیٹی ہے نہ۔اس کی زندگی متاثر ہوگی تیری اس بیٹی کی بدولت۔"
پریام نے فورا اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔
"امی ایسی باتوں پر یقین نہیں ہے مجھے۔آپ بھی نہ پتا نہیں کیا لے کر بیٹھ جاتی ہیں ۔جو ہوگا ہوگا وہ ہوجائے گا۔"
"ارے پری بیٹا میں اکثر جو باتیں بتاتی ہوں وہ سچ ہوتی ہیں پھر چاہے تم یقین کرو یا نہ کرو۔خیر وہ جو ساتھ والی ہمسائی ہے نہ تم لوگوں کی اس کی بیٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
پریام اور باتیں سننے کے بجائے اٹھ گئی۔اس کے کانوں میں یہی بات گونج رہی تھی شادی شدہ۔رئیس ذادے کا خیال اس کے ذہن میں آیا۔
"نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔میں کبھی کسی ایسے شخص کو قبول نہیں کروں گی جو بٹا ہوا ہو۔"
پریام اپنے خیالات جھٹک کر کاموں میں لگ گئی۔ماموں نے دو ماہ بعد آنا تھا تو امی کا خیال تھا ماروی کو ان کے ساتھ بھیج دیا جائے۔ماروی باہر نانی کے پاس اچھا پڑھ لیتی اور پریام کا اچھا رشتہ بھی کر جاتے اس کے ماموں جان۔
_________________________
رئیس ذادی اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھئ۔ان کے ہاتھ میں ایک کپڑا تھا جس پر یہ کڑھائی کررہی تھی۔دروازے کھول اور اندر والے مرتضی تھے۔
"تیار ہوجائیں آپ۔ ہم پریام کے گھر جارہے ہیں رشتے کے لیئے۔"
شہانہ نے اپنے ہاتھ سے کڑھائی والا کپڑا دور پھینکا۔
"رئیس وہ لڑکی کسی بھی طریقے سے آپ کے قابل نہیں ہے۔نہ اس کا باپ امیر ہے نہ خاندان۔وہ ہمارے خاندان کے لیئے بالکل بھی اچھی نہیں ہے۔آپ کہتے ہیں تو میں آپ کے لیئے خود کوئی اچھی سی لڑکی دیکھ لیتی ہوں۔"
مرتضی شہانہ کی بات پر بے تحاشا ہنسے۔
"جو بلکل آپ جیسی ہو شہانہ رئیس زادی۔میری زندگی کو جہنم بنانے والی۔مجھے نہیں چاہیے آپ جیسی کوئی اپنی زندگی میں۔پریام میری پسند ہے اگر اس کے خاندان کا ذکر دوبارہ آپ کے منہ سے سنا نہ میں نے تو۔۔۔۔۔۔۔اسی لمحے ہاتھ پکڑ کر اس گھر چھوڑ آئوں گا جہاں سے لایا تھا۔پریام کے والد ایک عزت دار آدمی ہے آپ کے والد جیسے گھٹیا اور نیچ نہیں۔جاکر تیار ہوں میرے ساتھ جانا ہے آپ نے ۔"
"نہیں رئیس میں نہیں ۔۔۔۔۔۔"
مرتضی نے ان کے ہونٹوں پر انگلی رکھی۔
"کیا بکواس کی ہے۔۔۔۔۔۔ میں نے کتنی بار کہا ہے میرے کہے کو چپ چاپ مان لیا کریں ورنہ اس محل میں تو کیا اپنے بیٹے کی زندگی میں بھی آپ کو کوئی جگہ نہیں ملے گی۔"
مرتضی نے شہانہ کو پیچھے کیا۔
"میں منتظر ہوں جلدی آئیں باہر۔میں اسی مہینے پریام کو رانی بنا کر یہاں لانا چاہتا ہوں۔اس کے ماں باپ کو کہہ دینا کہ آپ انہیں بہن مانیں گی اور کوئی تکلیف نہیں دیں گی انہیں۔امید ہے ایسا ہی کہیں گی آپ رئیس زادی۔"
مرتضی اپنی بات کہہ کر رکے نہیں تھے۔شبو پیچھے سے کمرے میں آئی۔شہانہ رونے لگ گئی تھی۔
"بی بی بہتر یہی ہے آپ چلی جائیں رئیس کے ساتھ۔آپ کا بھرم تو رہ جائے گا۔جب وہ لڑکی اس محل میں آئے گی تو دیکھا جائے گا۔آپ تیار ہوں۔جانتی تو ہیں نہ آپ رئیس کو انتظار کرنا پسند نہیں۔"
"میں کیسے رئیس کے لیئے خود دلہن لائوں گی شبو۔میرے دل کے ہزار ٹکڑے ہورہے ہیں۔"
"حوصلہ کریں رئیس زادی۔سب ٹھیک ہوگا۔"
شبو شہانہ کو حوصلہ ہی دے سکتی اور کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔تیار ہوکر شہانہ کو جانا ہی پڑا مرتضی کے ساتھ۔
______________________________
شہانہ مرتضی کے ساتھ پریام کے گھر کے باہر کھڑی تھی۔افضل نے دروازہ بجایا۔
"سلام ۔۔۔۔۔۔۔"
پریام کے والد نے سامنے کھڑے رئیس ذادے کو دیکھا تو فورا ان کے پاس آئے۔
"رئیس ذادے آپ کیسے آج ہمارے غریب خانے پر ۔"
ماسٹر منور کا خوشی سے برا حال تھا۔
"آپ اندر نہیں آنے دیں گے ہمیں ماسٹر جی۔"
"کیوں نہیں۔سائیں آپ کا اپنا ہی تو گھر ہے۔"
منور نے انہیں راستہ دیا ۔شہانہ یہ گھر دیکھ رہی تھی۔ان کے محل کے آگے یہ گھر کیا چیز تھا۔مگر اس گھر کی بہت اہمیت تھی کیونکہ یہاں اس محل کی رانی رہتی تھی جو شہانہ کبھی بھی نہیں ہوسکتی تھی۔پریام جو بابا کے لیئے پانی لانے اندر گئی تھی وہ صحن میں آئی جہاں افضل سب نوکروں سے مٹھائی اور زیورات،پھل وغیرہ رکھا رہا تھا۔پریام کے گلے میں ڈوپتا تھا اور اس کے بال اس وقت چوٹی کی صورت میں بندھے میں ہوئے تھے۔کچے مٹی کے فرش پر پریام نے قیمتی ٹوکریاں دیکھی۔اس کی نظر پھر سامنے پڑی۔چادر لیئے ایک خوبصورت سی عورت تھی۔ان کے ساتھ مرتضی کھڑے تھے۔پریام نے فورا سے ڈوپتا سر پر لیا۔
"سائیں بیٹھیں آپ بی بی سائیں کے ساتھ۔"
پریام اندر جانے لگی تھی جب منور نے اسے آواز دے کر روک لیا۔
"ارے پریام بیٹا رک جائو۔یہاں آئو جلدی سے تمہیں رئیس ذادے سے ملواتا ہوں۔"
شہانہ نے پریام نام پر سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا۔ان کی آنکھوں کو اتنی پیاری لڑکی دیکھ کر یقین ہوگیا کہ مرتضی نے اس لڑکی کی خوبصورتی دیکھی ہے ورنہ وہ اتنے غریب گھر میں کبھی نہ آتے۔مگر یہ ان کی غلط فہمی تھی مرتضی نے تو پریام سے پہلی ہی نظر میں محبت کی تھی جو وہ شہانہ سے کبھی نہیں کرتے تھے۔
"سلام سائیں۔سلام رئیس ذادی سائیں۔"
شہانہ نے سر ہلا کر ہی اسے جواب دیا۔پریام اپنی والدہ کو اندر بلانے چلی گئی۔پریام کی والدہ نے جب رئیس مرتضی کو اپنت گھر میں دیکھا تو انہیں سمجھ آگئی تھی کہ یہ کیوں آئے ہیں۔
"ماسٹر منور آپ ہمیشہ سے ہمارے لیئے قابل احترام رہے ہیں کیونکہ آپ کے والد نے ہمیں پڑھایا ہے۔آپ کا کا خاندان شروع سے اس گائوں کے لیئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔مجھے لمبی باتیں نہیں کرنا آتی۔میرے والدین نہیں ہیں تو میں آج شہانہ کے ساتھ خود ہی ضروری بات کرنے آگیا ہوں۔"
"سائیں آپ بولیں تو سہی میں آپ کے لیئے کچھ بھی کر سکتا ہوں۔"
"آپ کی بیٹی پریام مجھے پسند ہے۔میں آج اس کے لیئے اپنا رشتہ لایا ہوں۔شہانہ میری پہلی بیوی ہیں اس لیئے انہیں بھی میں ساتھ لایا ہوں کہ یہ آپ کو اعتماد میں لے سکیں۔"
ماسٹر منور اور ان کی بیوی کا حال یہ بات سن کر خراب ہوگیا ۔
"سائیں جی معافی چاہتا ہوں مگر آپ کی اور میری بیٹی کی عمر میں بہت فرق ہے۔آپ اس سے پندرہ برس بڑے ہیں اور پھر ہاشم سائیں بھی پریام کی عمر کے آس پاس ہی ہیں۔میں کبھی بھی نہیں چاہوں گا کہ اپنی بیٹی کی شادی ایک شادی شدہ آدمی سے کر دوں۔"
ماسٹر منور پڑھے لکھے تھے اس لیئے انہوں نے بہت تحمل سے مرتضی سے بات کی۔شہانہ کا دل اندر سے بے پناہ خوش ہوگیا یہ سب سن کر۔
"آپ کو اس بات پر اعتراض ہے کہ میری شادی پہلے سے ہوچکی ہے تو ماسٹر صاحب میں پریام کو رانی رئیس ذادی بنا کر لے جائوں گا۔آپ جانتے ہیں نہ رانی رئیس زدی کون ہوتی ہے۔اسی کی اولاد میں سے آگے رئیس بنتا ہے اس گائوں گا۔"
شہانہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔ہاشم کو اس کے دادا رئیس بنا کر گئے تھے اس گائوں کا رئیس۔ تو کیسے اتنی آسانی سے کہہ سکتے تھے مرتضی یہ۔ ہر چیز پر ہاشم کا حق تھا۔
"سائیں بڑے رئیس ذادے نے خود اپنے ہاتھوں سے ہاشم سائیں کو اس گائوں کا اگلا رئیس بنایا تھا۔"
ماسٹر منور مگر میرے بچے میری مرضی کے مطابق اس گائوں کے رئیس بنیں گے۔ہاشم سنبھال لے اپنے دادا کی گدی مگر میری جگہ پر صرف میرا بیٹا ہوگا جسے میں چاہوں گا۔گائوں کے دو رئیس بھی رہ چکے ہیں یہ آپ جانتے ہیں ماسٹر منور۔"
شہانہ سمجھ گئی تھی کہ ان کے بیٹے کی اب وہ اہمیت نہیں ہے جو ہونے چاہیے تھی۔
"معاف کیجیئے گا سائیں جی مگر جو بھی ہو ۔ہم اپنی بیٹی کی شادی آپ سے نہیں کرسکتے۔ہم میں اور آپ میں بہت فرق ہے۔"
"ماسٹر منور میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں۔میں یہاں آپ سے رشتے کا کہنے آیا ہوں صرف۔مجھے اس بات سے ہرگز فرق نہیں پڑتا کہ آپ اس رشتے سے راضی ہیں یا نہیں۔یہ گائوں میرا ہے اور میں یہاں کا رئیس ہوں۔مجھے آپ کی بیٹی پسند ہے اور آپ کو اپنی بیٹی مجھے دینے ہی ہوگی رانی رئیس ذادی کے طور پر۔اگلے مہینے کی دو تاریخ کو بارات کے ساتھ آجائوں گا میں۔امید ہے اپنی بیٹی کو اس وقت تک اس رشتے کے لیئے آپ تیار کر لیں گے۔سب تیاری میرے لوگ کر لیں گے آپ بس مجھے پریام دے دینا۔اب چلتا ہوں میں۔چلیں شہانہ۔"
شہانہ خاموشی سے مرتضی کے پیچھے اٹھ گئی۔پریام اپنے باپ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی مرتضی کے جانے کے بعد۔اس نے اپنے ساتھ گزری ہوئی ہر بات بابا کو بتا دی تھی۔
"کتنا غلط کیا ہے تم نے پری کی امی مجھے سب نہ بتا کر۔اگر مجھے پہلے سب بتا دیتی تم تو میں پری کو شہر بھیج دیتا۔"
"مجھے کیا بتا تھا جی کہ یہ لوگ یہاں تک آجائیں گے ۔میں بھائی صاحب سے آج ہی بات کرتی ہوں کوئی اچھا سا رشتہ دیکھیں جلدی جلدی۔ہم پریام کو جلدی اس گھر سے رخصت کر دیتے ہیں۔"
"ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔میں بھی بات کرتا ہوں ان سے کہ جلد از جلد کچھ کریں۔"
گھر میں ایک خاموشی سی چھائی تھی جو آنے والے طوفان کا پتا دے رہی تھی۔
_________________________________
حال
ماروی نانی امی کے ساتھ بیٹھی ہوئی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔یہ ٹی وی بہت کم دیکھا کرتی تھی۔اس نے کبھی فارغ وقت میں سوائے سونے کے اور کچھ نہیں کیا تھا۔ٹی وی پر ایک سنگر آرہا تھا جس کی آواز بہت اچھی تھی۔اس کی نظر جیسے ہی ٹی وہ پر پڑی یہ حیران ہوگئی۔
"نانو اس کو میں نے آج دیکھا تھا۔اپنے ہوٹل میں یہ کھانا کھانے آیا تھا۔"
"ارے تو اسے جانتی ہے یہ بہت بڑا سنگر ہے۔اس کے گانے تو بہت مشہور ہیں۔"
"مگر میں اسے نہیں جانتی نانی سائیں۔"
"ارے پاکستان میں ہوتا ہے یہ۔اپنے کسی شو کے لیئے آیا ہوگا۔تو اس سے ملی کیسا ہے حقیقت میں یہ۔"
"ٹھیک ہے مگر عجیب سا ہے۔اس کی نظریں بہت عجیب سی تھی ۔"
"ارے ایک زمانہ اس پر مرتا ہے۔یہ۔اتنا مغروی ہے کسی سے بات نہیں کرتا۔لاکھوں دلوں کی ڈھڑکن ہے یہ۔"
"رہنے دیں نانی جان اتنا بھی پیارا نہیں ہے۔"
"تم تو بس ہی کر دو ماروی بیٹا۔پتا نہیں تمہیں کون پسند آئے گا۔میں کرتی ہوں تمہارے ماموں سے بات جلدی سے تمہاری شادی کریں تاکہ میں تمہارے فرض سے فارغ ہوجائوں۔"
"نانی جان فضول کی باتیں مت سوچا کریں۔میرے ابھی بہت سے خواب ہیں جو میں نے پورے کرنے ہیں اس کے بعد آزادی کا کچھ سوچوں گی۔چلیں میں ذرا ماموں کو دیکھ لوں ۔"
ماروی نہیں جانتی تھی کبھی کبھی قسمت آپ کے لیئے پر فیصلہ لے چکی ہے۔ہم نے صرف اس پر عمل کرنا ہوتا ہے۔"
____________________________
مایا منتظر تھی ارمان کی کہ وہ کب باہر آئے گا۔اس کا ایک شو تھا جس کی وجہ سے وہ صبح سے مصروف تھا اور مایا کو وقت ہی نہیں مل پاریا تھا اس سے بات کرنے کا۔ارمان کمرے میں آیا۔مایا نے شراب کا گلاس اٹھا رکھا تھا۔
"ارے مان ڈرالنگ کب سے تمہاری منتظر ہوں میں۔کتنی دیر کر دی نہ تم نے۔"
"مایا پلیز آج میرا موٹ نہیں ہے۔میں بہت زیادہ تھکا ہوا ہوں کچھ دیر سونا چاہتا ہوں۔"
مایا نے شراب کا گلاس بنا کر ارمان کو دیا۔
"کیا ہوا کسی بات سے پریشان ہو۔"
نہیں بس کچھ تھکا ہوا ہوں۔سنو میں کچھ دن اور ترکی میں رہوں گا۔تم واپس چلی جائو۔ آجائوں گا میں۔"
"مان کیا ضروری کام ہے۔"
مایا نے ارمان کی شرٹ پر ہاتھ پھیرے۔ارمان نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
"میں ہر چیز تمہیں بتانے کا پابند نہیں ہوں۔جاسکتی ہو تم یہاں سے۔آج ہیں اکیلا رہوں گا۔"
"جیسے تمہری مرضی مگر کل کا تمہارا سارا دن میرا ۔"
مایا اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔ارمان نے ہاتھ میں اٹھایا ہوا شراب کا گلاس پھینک دیا۔آج اسے اس سے بھی سکون حاصل نہیں ہونا تھا۔
ریڈرز اب حال اور ماضی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔کیا خیال ہے ماروی کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔اچھے اچھے کمنٹ کریں جلدی سے۔
پریام کے ماموں جان تو نہیں آپائے مگر انہوں نے اپنے ایک دوست سے بات کی۔ان کے دوست نے اپنے بیٹے کا رشتہ کرنا تھا۔پریام سے اچھی لڑکی انہیں مل ہی نہیں سکتی تھی۔پریام کا رشتہ طے ہوگیا اور جلدی ہی شادی ہونا طے پاگئی۔کسی کو بھی پریام کی شادی کا پتا نہیں تھا۔پریام کی امی نہیں چاہتی تھی کہ کسی کو بھی پتا چلے پریام کی شادی کا۔پریام کی صرف ایک ہمسائی دوست کو پتا تھا کہ پریام کی شادی ہے۔پریام کے ہاتھوں پر اس کی دوست نے ہی مہندی لگائی تھی۔پریام اس وقت ماروی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی جو سو رہی تھی۔
"پری تجھے ڈر نہیں لگتا کہ اگر رئیس زادے تیری شادی پر آگئے تو۔"
"کچھ نہیں ہوگا کیونکہ وہ نہیں جانتے میری شادی اتنی جلدی ہورہی ہے۔تمہیں پتا ہے کہ بابا نے میرے لیئے کتنے خواب دیکھے تھے۔میری بہت خواہش تھی کہ میں اپنے گائوں کے لیئے کچھ کر پائوں مگر یہاں آکر مجھے علم ہوگیا ہے کہ یہاں مرتضی رئیس کی چلتی ہے۔ہم کچھ نہیں کرسکتے۔"
"میری بات سن پری مجھے تو بہت ہی زیادہ ڈر لگ رہا ہے کہ کل کہ دن نجانے کیا ہوگا۔رئیس ذادے ایسے نہیں بیٹھیں گے۔"
"شبانا مجھے مت ڈرائو۔مجھے یقین ہے سب ٹھیک رہے گا۔"
"اچھا چل چھوڑ دیکھ تیرے ہاتھوں کی مہندی۔کتنا گہرا رنگ آیا ہے نہ۔تیرا شوہر تجھ سے بہت محبت کرے گا۔ویسے رئیس زادے کو شرم نہیں آتی اتنے بڑے بیٹے کے ہوتے ہوئے ایک جوان لڑکی پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔"
"ان کی بیوی اتنی پیاری ہے شبانا پتا نہیں انہیں کیا سوجی کہ وہ میرے پیچھے آگئے۔ویسے ان لوگوں کا کام ہی اور کیا ہے زیادہ بیویوں کے علاوہ۔"
"بس تو کل کے لیئے دعا کر پریام۔جلدی سے سو جاتے ہیں۔صبح جلدی اٹھنا ہے۔دوپہر میں تیرے سسرال والے آجائیں گے نکاح کے لیئے۔"
شبانا اور پریام اس رات باتیں ہی کرتی رہی۔پریام کی رات گئے آنکھ لگی۔اسے ایک خواب آیا۔ایک خوبصورت لڑکی نظر آئی جس کی آنکھیں بلکل اسی کی طرح تھی۔پریام اس لڑکی کو غور سے دیکھ رہی تھی۔یہ بہت خوبصورت تھی اور اس لمحے بہت خوبصورت لباس میں تھی۔یہ پریام کی طرف دیکھ کر رو رہی تھی۔پریام نے اس کے ہاتھ دیکھے جہاں سونے کی زنجیریں تھی۔لڑکی پریام کو کچھ کہنا چاہتی تھی مگر اچانک ہی اس کی ایک زنجیر میں کھینچائو پیدا ہوا اور یہ لڑکی اس طرف جانے لگی۔پریام اسے روکنا چاہتی تھی مگر اس کی آنکھ کھل گئی۔پریام کا پورا وجود اس وقت پیسنے میں ڈوبا ہوا تھا۔پریام کی نظر ماروی اور شبانا پر پڑی۔دونوں گہری نیند سو رہی تھی۔پریام کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔یہ اپنے کمرے کی بنی لکڑی کی کھڑکی کی طرف آئی۔باہر آج چاند کا نام و نشان نہیں تھا۔ایسے ہی پریام کی زندگی میں بھی خوبصورت رات آنے والی تھی مگر چاند کے بغیر۔
____________________________
صبح کے وقت منور تیاری میں لگے ہوئے تھے۔کچھ قریبی ہی دوست انہوں نے بلائے تھے شادی میں۔گھر میں بلکل بھی شور نہیں تھا تاکہ کسی کو پتا نہ چلے کہ گھر میں شادی ہے۔پریام نے اپنی ماں کی شادی کا غرارہ پہنا جو سرخ رنگ کا تھا اور بہت خوبصورت۔پریام بہت سادگی سے تیار ہوئی تھی۔یہ تیار ہوچکی تھی اور ابھی اس کی والدہ اسے بتا کر گئی تھی کہ اس کے سسرال والے آگئے ہیں۔تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ پریام کو باہر سے شور کی آواز آنے لگ گئی۔
باہر رئیس زادے آچکے تھے۔افضل نے پریام کے ہونے والے سسرال والوں کو پکڑ لیا۔منور کی جان نکل گئی جب اس نے رئیس زادے کو دیکھا۔مرتضی سامنے صوفے پر بیٹھ گئے تھے۔
"ماسٹر منور آپ نے کیا سب لوگوں کو اپنے ہونے والے داماد کے بارے میں نہیں بتایا۔"
منور کے ماتھے سے پسینہ گرا۔
"رئیس زادے ہماری بیٹی کی عزت کا سوال ہے ایسا مت کریں۔"
"عزت یہاں بات اگر عزت کی آتی ہے تو آپ کی بیٹی میری عزت ہے۔کیا ان لوگوں کو آپ نے نہیں بتایا کہ میں رئیس زادہ مرتضی ہوں اور آپ کی بیٹی اب رانی ہے میری۔"
ہر طرف باتیں شروع ہوگئی۔پریام اندر سے باہر آئی ۔مرتضی نے جب دیکھا کہ پریام کو ان کے لیئے تیار نہیں کیا گیا تو ان کا خون کھول اٹھا۔کوئی کیوں پریام کو اس طرح دیکھ پاتا ان کے بغیر۔
"ماسٹر صاحب ایک کام کرتے ہیں۔میں سب کچھ بھول جاتا ہوں آپ ایک کام کریں ابھی کے ابھی مجھے پریام دے دیں۔"
"ہمیں معاف کر دیں آپ سائیں۔کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتے ہم آپ سے۔"
پریام کی والدہ کی بات سنتے ہی مرتضی کھڑے ہوگئے اور ان کا رخ ماسٹر منور کی طرف تھا۔پریام نے سامنے کھڑے رئیس مرتضی کو دیکھا جنہوں نے گن اس کے باپ کے سر پر رکھی ہوئی تھی۔
"نہیں رئیس ذادے میرے بابا کو کچھ مت کہیں۔"
"کچھ مت کیوں ہاں رانی۔میں جب کہہ کر گیا تھا کہ تم میری ہو تو ان کی ہمت کیسے ہوئی تمہارا نکاح کسی اور سے کرنے کا سوچنے کی بھی۔رئیس نے اپنی گن کا رخ سامنے کھڑے لڑکے کی طرف گیا اور ان کی گن سے ایک فائر ہوا۔پریام کا دل بیٹھ گیا۔سامنے اس کا دلہا گرا تھا۔
"یہی چاہتی تھی نہ تم مجھ سے۔لو کر دیا میں نے رانی پریام۔تم اگر چاہتی ہو میں یہ اگلی گولی تمہارے بابا کے سر میں نہ ماروں تو شرافت سے سائن کر دو۔ابھی سامنے کھڑے لڑکے کی ٹانگ زخمی کی ہے نہ اگر تم نکاح نہیں کرتی تو تمہارے باپ سمیٹ یہ اگلی سانس نہیں لے پائے گا۔"
پریام فورا سے اٹھی اور بھاگتے ہوئے آگے آئی۔
"میں۔۔۔۔۔میں نکاح کے لیئے تیار ہوں آپ میرے گھر والوں کو کچھ نہیں کہیں گے ۔ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔"
"قصور رانی پریام۔ان کا سب سے بڑا قصور ہی آپ کی شادی کے بارے میں سوچنا ہے۔مولوی صاحب نکاح شروع کریں۔"
نکاح ہوگیا۔پریام کے ہاتھ اس لمحے خالی تھے۔پریام کی امی اس کے ساتھ بیٹھی رو رہی تھی۔سارا گائوں ان کے گھر کے باہر جمع تھا۔
"سائیں میری بیٹی کو چھوڑ دیں اس کی کوئی غلطی نہیں ہے۔"
"ماسٹر منور آپ کی بیٹی اب میری بیوی ہے۔یہ اسی وقت میرے ساتھ محل جا رہی ہے ۔ہاں ہمارے ولیمے پر کل ضرور آنا۔"
پریام کے اوپر مرتضی نے اپنی چادر دی ۔جس سے اس کا چہرہ چھپایا تھا انہوں نے۔پریام کا ہاتھ تھامے یہ باہر لے کر آئے جہاں سب گائوں والے جمع تھے۔
"گائوں والو سن لو سب یہ تمہاری رانی پریام مرتضی خان ہیں میری بیوی۔اب سے ان کا ہر حکم ماننا سب پر فرض ہے۔کل پورے گائوں کو ہمارے ولیمے پر آنے کی دعوت دیتا ہوں میں۔"
مرتضی نے افضل کو اشارہ کیا جس نے دروازہ کھولا اور پریام اپنی ایک نئی منزل کی طرف روانہ ہوگئی۔پیچھے ماروی اپنے ماں باپ کے ساتھ دروازے پر رو رہی تھی پریام بھی گاڑی میں بیٹھی رو رہی تھی جبکہ مرتضی گاڑی کے باہر دیکھ رہے تھے۔
"اپنے آنسو بچا کر رکھو رئیس ذادی تمہیں سزا ملے گی مجھ سے بے وفائی کی۔"
"میں نے ایسا کچھ نہیں کیا رئیس زادے کے آپ مجھے سزا دیں۔"
"کسی اور کے لیئے خود کو سجا کر رانی تم نے جو کیا ہے میرے دل کے ہزار ٹکڑے کیئے ہیں تم نے۔تمہیں جب تک میں اپنا نہ بنا لوں مجھے سکون نہیں ملے گا۔"
"میں کوئی چیز نہیں ہوں ایک جیتی جاگتی انسان ہوں۔"
"معلوم ہے مجھے اور تمہیں بھی بہت جلدی علم ہوجائے گا کہ تمہارے کیا اہمیت ہے میری زندگی میں۔"گاڑی محل کے قریب رکی۔یہ بہت خوبصورت جگہ تھی۔محل کا ایک بڑا سا دروازہ تھا۔اندر خوبصورت سا لان تھا جو بہت بڑا تھا۔اس میں سائیٹ پر درخت تھے جبکہ درمیان میں بہت خوبصورت جگہ تھی ۔شہانا ان کے استقبال کو نہیں آئی تھی مگر محل کے بہت سارے نوکر اور لوگ ان کے استقبال کو آئے تھے۔پریام کا ہاتھ تھامے مرتضی اسے اپنے کمرے میں لے گئے جس کو سجایا گیا تھا۔شاید مرتضی نے سب پہلے سے ہی طے کر لیا تھا۔زیبا جو اندر کھڑی تھی مرتضی نے اس کے ہاتھ میں پریام کا ہاتھ دیا۔
"میں جب واپس آئوں تو مجھے میری دلہن تیار چاہیئے۔الماری میں کپڑے رکھے ہیں اور زیورات ۔"
مرتضی باہر چلے گئے جبکہ پریام نے رو رو کر اپنا حال برا کر لیا تھا۔
____________________________
پریام اس وقت بیڈ پر بیٹھی رو رہی تھی ۔اس پھولوں والی سیج پر اسے کوئی خوشی نہیں ملی تھی۔یہ ایک ان چاہے رشتے میں بندھ چکی تھی۔دروازہ کھلا اور ملازمہ کے ساتھ اس کی سوتن اندر آئی شہانہ بیگم۔
"بڑی رئیس ذادی میری التجا سن لیں آپ۔یہاں کسی نے میری نہیں سنی مجھے آزاد کر دیں ۔آپ کو دکھ نہیں ہورہا آپ کے شوہر کی شادی کسی اور کے ساتھ ہوگئی ہے۔جو حق آپ کا ہے وہ مجھے دیا جا رہا ہے۔میں ساری زندگی آپ کی غلام بننے کو تیار ہوں مجھے آزاد کر دیں اس قید سے ۔میرا منتظر ہے میرا گائوں۔میرے بابا میری بہن میری ماں اور میرا منگیتر ۔میری شادی تھی آج۔"
رئیس ذادی جو یہ دیکھنے آئی تھی کہ ان کی سوتن کیسی لگ رہی ہیں یہاں آکر ان کا دل ہی دکھ گیا۔اکیس بائیس سال کی خوبصورت لڑکی جسے یہاں زبردستی لایا گیا تھا۔نیلی گہری آنکھوں والی یہ گڑیا کسی کو بھی اپنا دیوانہ کرسکتی تھی اور شاید رئیس ذادے مرتضی خان کو بھی یہ حسن بھا گیا تھا کہ اٹھارہ سالہ بیٹے کے ہوتے ہوئے انہوں نے اس لڑکی کو ان کی جگہ دے دی تھی۔شہانہ رئیس ذادی شروع سے جانتی تھی رانی بیگم یعنی رئیس ذادے کی پسندیدہ اور محبوب بیوی یہ کبھی نہیں تھی انہیں تو اپنے بیٹے کی وجہ سے رئیس ذادے مرتضی نے اپنی زندگی میں ایک مقام دیا تھا۔
"بی بی میں آپکے گائوں کی عام سی لڑکی ہوں آپ تو اس خاندان کا خون ہیں نہ۔سب فیصلہ لے سکتی ہیں میرے ماں باپ برداشت نہیں کر پائیں گے میری جدائی ۔"
شہانہ آگے آئی اور پریام کے چہرے پر ہاتھ رکھا۔
"رانی بیگم ایسے نہیں روتے۔آپ اب رئیس زادے کی بیوی ہیں یوں روئیں گی تو زندگی کیسے گزرے گی ۔جو آپ کا خاندان ہے بھول جائیں اسے آپ کے لیئے یہی محل اب آپ کا گھر ہے۔مجھے اپنا دوست سمجھیں ۔میں آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتی۔"
"نہیں رئیس ذادی ایسا مت کریں دیکھیں میں آپکی سوتن بن جائوں گی آپ کو مجھ سے نفرت ہونی چاہئیے ۔میں رئیس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی پلیز مجھ پر رحم کریں ۔"
شہانہ اپنی ملازمہ کی طرف مڑی۔
"سنو رانی کو جوس پلا دو ابھی رئیس آتے ہوں گے انہیں اچھا نہیں لگے گا کہ ان کی دلہن یوں رو رہی ہو ۔تمہاری بی بی ہیں یہ اور مجھ سے اونچا مقام ہے ان کا کیونکہ یہ رئیس کی رانی ہیں ان کو کوئی تکلیف نہ ہو۔"
شہانہ رئیس ذادی روتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔انہیں 19 سال کی شادی میں رئیس ذادے کے اس کمرے میں آنے کا حق نہیں ملا تھا جہاں آج پریام تھی۔ان کی شادی رئیس سے 17 برس کی عمر میں ہوئی تھی اور رئیس ذادے مرتضی بھی تو اس وقت 17 برس کے تھے مگر شروع سے ہی انہیں اپنی حیثیت معلوم کہ رئیس ذادے مرتضی کی رانی نہیں ہیں یہ۔ہاشم اپنی ماں کو باپ کے کمرے سے روتے ہوئے جاتا دیکھ رہا تھا ۔اس کمرے میں جانے کی اجازت کبھی اس کی ماں کو نہیں ملی تھی اور آج اس کی سوتیلی ماں جو اسے مذاق لگتا تھا وہ اس سے چند برس ہی بڑی تھی وہ اس کمرے کی مالک بن بیٹھی تھی۔اس کے دل میں نفرت کچھ اور بڑھ گئی۔بہت سے لوگوں سے اس نے کہتے سنا تھا کہ پریام نے اس کے والد کو اپنے حسن کے جال میں پھنسا لیا ہے۔ہاشم کا بس نہیں چل رہا تھا پریام کو کمرے سے اٹھا کر باہر پھینک دے۔یہ غصے میں اس جگہ سے ہی چلا گیا۔
_____________________
ماروی اپنی امی کے آنسو صاف کر رہی تھی۔دلہے کے ماں باپ نے بہت ساری باتیں کی تھی کہ ایک شادی شدہ بندے کو پھنسا لیا تھا ان کی بیٹی نے۔یہ سب باتیں منور کے دل پر لگ رہی تھی۔
"منور سائیں کیا ہوگا ہماری دوسری بیٹی کا۔ایک کو تو رئیس زادے لے گئے مگر میری اس بیٹی سے کون شادی کرے گا۔اس کی بہن کا ماضی اس کے پیچھے آئے گا۔"
"میری بیٹی کا کوئی قصور نہیں تھا اور ماروی کی زندگی میں بھی سب اچھا ہوگا۔تم اس لمحے اچھا سوچو میں کل اپنی بیٹی سے ملوں گا۔وہ میری لاڈلی بیٹی تھی نجانے اس محل میں کیسے رہے گی۔"
"میں نہ کہتی تھی منور سائیں آپ کو۔ شادی کر دیتے پہلے ہی پریام کی تو آج یہ نوبت نہ آتی۔"
"جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا۔ہم روک نہیں پاتے قسمت کو۔اب دعا کرو ہماری بیٹی وہاں خوش رہے۔"
ماسٹر منور نے اپنی آنکھوں سے اشک صاف کیئے اور یہ اندر کمرے میں چلے گئے۔اس گھر میں ابھی اور بھی طوفان آنا باقی تھے۔
حال
ارمان کا ایک شو تھا جس کو دیکھنے کے لیئے بہت دور دور سے لوگ آرہے تھے۔حمزہ کو ارمان بہت پسند تھا۔آج ارمان شو میں سے ایک فین لڑکی کو ڈیٹ پر لے جانے والا تھا۔حمزہ شو کے ٹکٹ لے کر آیا تھا۔حمزہ کا ارادہ تھا کہ ماروی کے ساتھ شو پر جائے مگر رات دیر ہو جانی تھی۔حمزہ نے ماروی کے ماموں سے اجازت لی تھی کہ وہ ماروی کو ساتھ لے کر چلا جائے۔انہوں نے اجازت دے دی تھی۔کام کے بعد حمزہ ماروی کو زبردستی اپنے ساتھ لے کر آگیا تھا۔آج تو ماروی بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔اس نے سفید رنگ کا کرتا پہن رکھا تھا جینز پر۔گلے میں مفرل تھا اور بال اس کے پونی کی صورت میں قید تھے۔چہرہ پر اس نے میک اپ نہیں کیا تھا۔سارے دن کی تھکی ہوئی تھی یہ۔صبح یہ یونیورسٹی بھی گئی تھی اور آج اس کا کہیں بھی جانے کا دل نہیں تھا۔حمزہ کو دیکھ کر اس نے منا کرنا چاہا مگر وہ کہاں کسی کی سنتا تھا۔بائیک پر حمزہ نے ماروی کو گئی بار کہا کہ اس کا کندھا پکڑ لے مگر ماروی نے منع کر دیا۔حمزہ نے راستے میں جان کے بائیک کو ایک جگہ پر مارا۔ماروی نے ایک تھپڑ حمزہ کے کندھے پر مارا۔
"شرم نہیں آتی تمہیں کیا۔تمہارے ساتھ تو آنا ہی نہیں چاہیے۔آنے تو مجھے تمہارے گھر آنٹی کو بتائوں گی سمجھائیں اپنے بیٹے کو۔ہر وقت تمہارا کام مجھے تنگ کرنا ہی ہے۔"
"بس بس میں نے ذرا سا جھٹکا ہی مارا ہے۔"
"جھٹکا اسے جھٹکا کہتے ہیں۔"
ماروی نے حمزہ کو غصے سے دیکھا جو اس کی طرف پیچھے گردن موڑ کر ہنس رہا تھا۔
"شرافت سے چلو جہاں جارہے ہو۔مجھے گھر بھی جانا ہے۔"
حمزہ نے دوبارہ سے بائیک شروع کی۔شو شروع ہوا۔ماروی کو لے کر حمزہ پہلے ہی آگیا تھا اس لیئے اس نے آگے کی کرسیوں میں سے دو کرسیاں لی۔ماروی کو جب پتا چلا کہ یہ ارمان کا شو ہے تو اسے بہت زیادہ غصہ آیا۔
"تم مجھے یہ کیا دیکھانے لائے ہو۔"
"یار یہ مشہور زمانہ سنگر ہے۔لوگ اس کے شو میں آنے کے لیئے گھنٹوں ٹکٹ کے لیئے کھڑے ہوتے ہیں۔"
"میں کیا کروں پھر اس بات کا۔مجھے تو سمجھ نہیں آتا کہ لوگ اس پر کیوں مرتے ہیں۔آئے دن تو ایک نئی لڑکی کے ساتھ اس کا افئیر ہوتا ہے۔"
"یار وہ جس فیلڈ میں ہے نہ ماروی وہاں یہ چلتا ہی رہتا ہے۔"
"بس کرو حمزہ۔اب ایسا بھی نہیں ہے کہ اس چکر میں وہ آئے دن افئیر ہی چلاتا رہے۔پتا نہیں کیوں میرا وقت ضائع کیا تم نے۔اچھا خاصا سو جاتی میں گھر میں۔"
"اچھا اب چپ کرو۔مایا آرہی ہے پہلے وہ پرفارمنس دے گی پھر ارمان آئے گا۔"
"تو سیدھے سے کہو نہ کہ تم مایا کے لیئے آئے ہو۔ ساتھ مجھے بھی لے آگئے ہو۔"
ماروی غصے سے اپنی جگہ پر خاموشی سے بیٹھ گئی۔مایا سٹیج پر آئی ۔یہ بہت خوبصورت تھی اور اس وقت اس نے اپنے چہرے پر بہت مہارت سے میک اپ کیا تھا۔اس کے کپڑے چھوٹے تھے۔ماروی کو تو اسے دیکھ کر ہی غصہ آرہا تھا۔اس نے گانا شروع کیا اور ساتھ ساتھ ڈانس کرنا بھی۔یہ ارمان کے ساتھ کی ہی سنگر تھی۔تھوڑی ہی دیر میں پورا حال شور سے گونج اٹھا۔ماروی نے سب لوگوں کو اتنے شور کرتے سن کر سامنے دیکھا۔تھوڑی ہی دیر بعد ارمان سٹیج پر آگیا۔اس کے سٹیج پر آتے ہی ہر طرف شور اور بڑھ گیا۔کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ماروی نے ارمان کو مایا کے ساتھ ڈانس کرتے دیکھا۔انہیں دیکھ کر اسے غصہ آرہا تھا اور یہ حمزہ کو بھی بار بار جانے کا کہہ رہی تھی۔ماروی کو شور شرابا پسند نہیں تھا مگر حمزہ تھا کو ابھی کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔بہت دیر بعد ارمان کی پرفارمنس ختم ہوئی۔ہر لڑکی کو اس پل کا انتظار تھا کیونکہ ارمان سٹیج سے نیچے آکر اپنی ایک فین کو چننے والا تھا اپنے ساتھ لنچ پر لے جانے کو۔ارمان نے مائیک پکڑا اور یہ سٹیج سے نیچے آیا۔ہر طرف شور ہی شور تھا۔ارمان کے گارڈ اس کے ساتھ تھے۔ارمان مائیک پر گاتے ہوئے ماروی کےسامنے آیا۔حمزہ کو بھی یقین نہیں آیا کہ یہ ماروی کے پاس آئے گا۔ماروی کی تو آنکھیں کھلی رہ گئی۔
ارمان نے ایک پھول ماروی کے آگے کیا۔ماروی نے بہت سی لڑکیوں کو دیکھا جن کی آنکھوں میں اشتیاق تھا۔ماروی کو حمزہ نے اشارہ کیا کہ پھول لے۔اس وقت سب لائٹیں ماروی پر تھی۔ماروی نے سب کی نظروں سے بچنے کے لیئے پھول تو لے لیا مگر پھر ارمان کی بات پر اس کا دل چاہا کہ یہ اس پھول کو پھینک دے۔
"کل کا میرا پورا دن ان کے نام۔ویسے آپ کا نام کیا ہے۔"
"ماروی ۔۔۔۔۔۔۔"
"تو مس ماروی کل ہوگی آپ سے ملاقات۔"
ارمان سٹیج پر واپس چلا گیا۔اس نے اپنے ہاتھ سے مائیک مایا کو دیا اور سب لوگوں کو بائے کرتا چلا گیا۔ایک گارڈ نے اسی ہوٹل پر ماروی کو ارمان سے ملنے کو کہا جہاں ماروی شیف کے طور پر کام کرتی تھی۔ماروی حمزہ کے ساتھ باہر چلی گئی۔حمزہ جانتا تھا کہ ماروی کو کتنا سخت غصہ ہے۔
"دیکھ لیا تم نے کیا ہوا ہے۔مجھے یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی۔"
"کچھ نہیں ہوتا ماروی صرف ایک لنچ ہی کرنا ہے ۔دیکھو کتنی لڑکیاں اس کے ساتھ لنچ کرنا چاہتی تھی۔"
"مگر میں وہ نہیں ہوں تم جانتے ہو حمزہ۔میں نہیں کر رہی اس کے ساتھ لنچ۔"
"میں تمہارے آگے پیچھے ہی ہوں گا میرا وعدہ ہے ۔اگر اب تم نہیں جاتی تو سب دیکھ رہے تھے یہ تمہیں اچھا ظاہر نہیں کریں گے ۔اس کے گئی فین ہیں اور سب تمہارے خلاف ہوجائیں گے۔"
ماروی نے غصے سے ہاتھ میں اٹھایا ہیلمنٹ حمزہ کو مارنا چاہا پھر رک گئی۔
"تمہیں تو میں بعد میں اچھے سے پوچھوں گی۔چلو اب گھر۔"
ماروی بائیک پر بیٹھی۔حمزہ بھی اس کے ساتھ آگیا اور ان کا رخ اب گھر کی طرف تھا۔
_______________________________
ارمان مایا کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔
"یار ویسے کیا ضرورت تھی یہ کسی لڑکی کے ساتھ لنچ کرنے کی۔"
"تمہیں جیلسی ہو رہی ہے۔دیکھو میں سنگر ہوں تو میرا فرض بنتا ہے کہ میں اپنے فینز کے لیئے کچھ کروں۔"
مایا نے ارمان کا ہاتھ تھام کر اپنے ہاتھ میں رکھ لیا۔
"میری بات سن لو تم۔صرف میرے ہو چاہے جو بھی ہوجائے خبردار جو تم نے کسی بھی لڑکی کی طرف دیکھنے کی بھی کوشش کی۔"
ارمان اس کی بات پر ہسنے لگ گیا اور اسے خود سے قریب کیا۔
"تمہارے علاوہ میں بھلا کسی کو دیکھ بھی سکتا ہوں۔تم تو میری زندگی ہوں۔تم سے ہی میں نے زندگی گزارنے کا دھنگ سیکھا ہے۔"
ارمان نے اپنے لب مایا کے گال پر رکھے۔مایا بھی بہت بے باک عورت تھی۔اس نے اپنی بازو ارمان کے اردگرد پھیلائیں۔
"کل بھی تم نے مجھے وقت نہیں دیا تھا۔آج کی رات تمہارا سارا وقت میرا ہے۔میں بھی تو دیکھوں وہ لڑکی کیسے تمہارے ساتھ کل لنچ کو اینجوائے کرتی ہے۔"
ارمان مایا کو اٹھائے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔سیاہ رات اپنا سیاہ رنگ لے کر ارمان کے کمرے میں بھی گئی جو شاید بھول گیا تھا کہ مایا سے اس کا کیا رشتہ ہے اور یہ کس راستے کی طرف جارہا ہے۔
_____________________
ماضی
مرتضی رات کو اپنے کمرے میں آئے ۔پریام کو زیبا نے تیار کر دیا تھا۔پریام نے اس وقت گہرے سرخ رنگ کا فراک پہنا تھا جس پر زیبا نے اسے سونے کی جیولری پہنائی تھی۔زیبا بار بار اس کے آنسو صاف کرتی تھی جو گالوں پر آجاتے تھے۔ابھی بھی اس سیج پر بیٹھ کر پریام رونے کے سوا کچھ نہیں کر پا رہی تھی۔مرتضی نے پریام کا چہرہ اس کے سامنے بیٹھ کر اوپر کیا۔
"رونے سے کچھ بھی نہیں ہوتا رانی۔اپنے مقام کو پہچانو جو میں نے تمہیں دیا ہے ۔یہ میرا کمرہ ہے جہاں میں نے اپنے بیٹے کی ماں کو بھی آنے کی اجازت نہیں تھی، مگر تم یہاں آئی ہو۔تم میرے دل میں بستی ہو اس لیئے تمہیں اتنا اعلی مقام ملا پے۔"
پریام نے اپنے گال سے مرتضی کا ہاتھ جھٹکا۔
"مجھے ہاتھ مت لگائیں۔مجھے بلکل نہیں پسند کہ ایک شادی شدہ مرد مجھے ہاتھ لگائے جو اپنے دل کے سارے ارمان پہلے ہی پورے کرچکا ہے۔میری کوئی مجبوری نہیں تھی آپ جیسے انسان کے پاس آنا۔آپ کیا سمجھتے ہیں آپ کی یہ شان و شوکت دیکھ کر میرے دل میں آپ کے لیئے پیار آجائے گا تو غلط ہیں آپ۔میں نے آج تک کبھی کوئی پرانی چیز اپنے لیئے پسند نہیں کی تو آپ شادی شدہ ہوکر مجھ سے کیا امید لگائے بیٹھے ہیں کہ میں آپ کو چاہوں گی۔نہیں ہرگز نہیں۔میں آپ کو کبھی پسند نہیں کرسکتی۔"
مرتضی کا تو دماغ ہی گھوم گیا پریام کی باتیں سن کر۔پریام نے مرتضی کے منہ پر ہی اس کی اچھی خاصی بے عزتی کر دی تھی اس کے مطابق۔مرتضی نے پریام کے سر کے بال پکڑے۔
"آئیندہ اگر تمہاری یہ زبان میرے سامنے چلی نہ تو کاٹ دوں گا اسے میں۔تمہیں اپنی رانی بنایا ہے نہ تو ساتھ رکھنا بھی جانتا ہوں۔شہانا سے تمہیں کوئی بھی مسئلہ نہیں ہونا چاییے وہ تمہیں نہیں ستائے گی۔مجھے تمہارے پیار کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔میں خود تمہارے لیئے کافی ہوں رانی پریام مرتضی خان۔"
پریام نے اپنے بال چھڑانے چاہے۔مرتضی نے اس کے بال چھوڑ کر جب اسے تھاما تو پریام کو آنے والے وقت سے بہت خوف آیا۔
"خبردار جو مجھے ہاتھ لگایا آپ نے۔جائیں اپنی پہلی بیوی کے پاس۔نہیں رہنا مجھے آپ کے ساتھ۔"
پریام کو بازو سے تھام کر مرتضی نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔
"یہ لفظ کہہ دیا ہے آئیندہ مت کہنا ۔مجھ سے آزاد تم صرف میری موت کے بعد ہی ہوگی رانی پریام۔"
مرتضی نے پریام کے جذبات کا کوئی خیال نہ کیا۔یہ رات پریام نے اپنی آنکھوں میں ہی کاٹی تھی۔
__________________________
صبح صبح زیبا کمرے میں آئی۔مرتضی کمرے سے جاچکے تھا۔شہانا کو نجانے کیا ہوا وہ بھی کمرے میں آئی۔ان کی پوری رات جاگ کر گزری تھی۔سامنے ہی انہیں بستر پر سوجی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اپنی سوتن نظر آئی جس کی گلائیوں میں سرخ چوڑیاں ٹوٹی ہوئی تھی۔کچھ بستر پر پڑی تھی اور کچھ فرش پر۔شہانا کو سمجھ آگیا تھا کہ پریام کے ساتھ مرتضی نے کیا کیا ہے۔
"رئیس ذادی آپ جائیں یہاں سے۔رئیس زادے نے دیکھ لیا تو بہت غصہ کریں گے۔آپ جانتی ہیں وہ ہرگز پسند نہیں کریں گے کہ آپ ان کی رانی کے قریب بھی آئیں۔"
"میں دشمن نہیں ہوں اس کی زیبا۔سوتن کے ناطے نہ سہی کم از کم عمر میں ہی بڑی ہوں اس سے۔میرا فرص بنتا ہے اس کے پاس آنا۔"
"رئیس زادی سب غلط سمجھیں گے۔"
"مجھے کبھی کسی کی فکر ہوئی جو اب ہوگی۔تم باہر جائو میں اس سے کچھ باتیں کرلوں۔"
زیبا کو بہت مشکل سے شہانا نے باہر بھیجا۔شہانا پریام کے قریب آئی اور اسے اٹھایا۔پریام کی گلائیوں پر نشان تھے۔
"مرتضی نے اچھا نہیں کیا تمہارے ساتھ پریام رانی۔"
پریام نے خالی خالی نظریں اٹھا کر اوپر دیکھا۔سامنے ہی اس کی سوتن کھڑی تھی۔
"تم مجھے بلکل بھی پسند نہیں تھی ۔معلوم ہے کیوں۔تم مرتضی کی پسند ہو۔مگر آج تمہیں دیکھ کر مجھے احساس ہوگیا ہے کہ تم پسند ہونے کے باوجود بھی یوں رہو گی تو میرا مرتضی کے لیئے ناپسند ہونا ہی بہتر ہے۔"
"رئیس زادی مجھے لے جائیں نہ واپس یہاں سے۔مرتضی اچھے نہیں ہیں۔ بہت برے ہیں وہ۔آپ تو اس محل کا خون بھی ہیں۔مجھے آزاد کر دیں نہ۔میں اپنے ماں باپ کو لے کر ہمیشہ کے لیئے چلی جائوں گی پھر کبھی نہیں دیکھوں گی اس گائوں کو مڑ کر بھی۔"
شہانا پریام کی چوڑیاں اتارتے ہوئے ہنسنے لگ گئی۔
"پاگل تم سمجھتی ہو میں مرتضی کی زندگی میں کوئی مقام رکھتی ہوں، تو یہ تمہاری بھول ہے۔تم آزاد نہیں ہوگی یہاں سے۔باہر دیکھو یہاں ہزاروں لوگ ہیں جو تمہیں دیکھتے ہی مرتضی کے پاس چھوڑ دیں گے۔پھر کیا ہوگا تمہارے ماں باپ کا۔سوچا ہے کبھی اپنی بہن کے بارے میں۔آج ولیمہ ہے تمہارا ۔لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔اگر تم سب کے سامنے رانی کے طور پر نہیں جائو گی تو سب یہی کہیں گے کہ تم نے ایک شادی شدہ مرد کو پھنسا لیا کہ اس نے اپنی خاندانی رئیس ذادی کو چھوڑا کر تمہیں رانی بنایا۔تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ تم مرتضی کو قبول کر لو۔آج سب کے سامنے ان کے ساتھ بیٹھو تو یقین کرو یہی لوگ کبھی تم پر سوال نہیں اٹھا پائیں گے۔"
"آپ کو برا نہیں لگ رہا ہے میں آپ کی سوتن ہوں۔آپ کے شوہر کو بانٹنے آگئی ہوں میں۔"
شہانا بہت زور سی ہنسی۔
"یقین جانو اگر تم یہاں زبردستی نہ آتی تو تم مجھے اپنے لیئے بہت برا پاتی۔مگر تم خود ایک قیدی ہو تو میں تمہیں تکلیف دے کر کیا کروں گی۔میرا تمہیں صرف یہی مشورہ ہے اس محل میں رہنا سیکھ جائو زندگی آسان ہوگی۔"
دروازہ کھلا اور مرتضی اندر آئے ۔شہانا کو دیکھ کو ان کا خون کھول اٹھا۔
"کیوں آئی ہیں آپ میرے کمرے میں ۔"
"میں صرف پریام رانی۔۔۔۔۔۔"
"خبردار جو میری اجازت کے بغیر رانی سے ملنے کی جرات کی۔جائیں یہاں سے اور آئیندہ بلا اجازت میرے اور رانی کے کمرے میں مت آنا۔"
پریام کا ہاتھ شہانا نے چھوڑ دیا اور کمرے سے باہر چلی گئی ۔ان کی آنکھوں میں آنسو تھے جو ان کی ملازمہ نے صاف کیئے۔
مرتضی پریام کے پاس آئے۔
"اٹھو پریام رانی اور جائو کپڑے بدلو۔ناشتہ کریں گے مل کر پھر۔"
"مجھے آپ کے ساتھ ہرگز ناشتہ نہیں کرنا ۔"
"کل رات کیا کہا تھا میں نے زبان نہ چلے بلکل آپ کی محترمہ۔اگر نہیں اٹھانا تو تمہیں خود اٹھا سکتا ہوں میں۔اپنے ماں باپ سے اگر تم ملنا چاہتی ہو تو اٹھ جائو ورنہ کبھی نہیں ملنے دوں گا ان سے تمہیں۔"
پریام بستر سے اٹھی اور واش روم کی طرف جانے لگی۔
"میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی مرتضی۔آپ سے برا کوئی نہیں ہوسکتا۔"
پریام باتھ روم میں چلی گئی جبکہ مرتضی نے زیبا کو بلایا کہ وہ صفائی کرے۔
حال
ماروی کو آج کے دن پر ہی غصہ آرہا تھا۔آج کا دن بہت زیادہ عجیب تھا۔ماروی صبح صبح اٹھی۔حمزہ پہلے ہی آچکا تھا۔نانی نے حمزہ کو اس کے روم میں آنے کی اجازت دے دی۔
"یار تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی۔"
"حمزہ میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ ان فضول سے کاموں کے لیئے ضائع کروں۔یونیورسٹی سے چھٹی ہے آج مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجھے ہوٹل نہیں جانا۔"
"ویسے بھی دو ہفتوں میں تو تم یونیورسٹی سے فارغ ہونے والی ہو محترمہ۔پھر تم نے سارا وقت ہوٹل کو ہی دینا ہے۔میری مانو چلو ابھی ایسے موقعے کہاں ملتے ہیں بار بار۔"
"تم جیسا فضول انسان کہاں ملے گا۔"
"تمہارے ہوٹل کے منیجر کا فون تھا۔تمہارے باس کا اچھا دوست ہے ارمان اور اس نے سختی سے کہا ہے کہ آج دن کا لنچ تم ارمان کے ساتھ ان کے ہی ہوٹل میں کرو گی۔وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ہوٹل کا ایک اچھا نام ہو اور ہر کوئی ان کے ہوٹل کو پہچانے۔"
"کس مصیبت میں پھنسا دیا ہے تم نے مجھے حمزہ۔"
حمزہ ماروی کی الماری کھول کر کپڑے دیکھنے لگا پھر ایک خوبصورت باربی سٹائل کا فراک نکالا۔
"جلدی سے جائو اور یہ پہن کر آئو۔"
"یہ فراک میں ہرگز نہیں پہنوں گی۔میں بچی ہوں کوئی بھلا۔"
"اوہو کچھ نہیں ہوتا۔ تم جائو تو سہی۔اچھا ایک بات سنو تمہیں مجھ پر اعتبار ہے نہ تو پھر یہ سب کرنا ہوگا تمہیں۔تم اگر یہ لنچ نہیں کرتی تو تمہارے باس نے تمہیں نوکری سے نکال دینا ہے۔وہ بہت لالچی انسان ہے جانتی تو ہو۔"
"یار کیا کروں میں۔"
ماروی نے فراک حمزہ کے ہاتھ سے لیا اور کپڑے تبدیل کرنے چلی گئی۔حمزہ کمرے سے باہر چلا گیا۔اسے ماروی کا انتظار تھا۔ماروی کو ایک گھنٹا لگ گیا تیار ہونے میں۔مگر جب وہ باہر آئی تو نانی اور حمزہ دونوں نے نظریں سامنے کی اور حیران رہ گئے۔پیروں تک آتی فراک اور نیچے چوڑی دار پاچما۔گلے میں ماروی نے ڈوپتا ڈال رکھا تھا جبکہ بالوں کو گرل کیا تھا اس نے۔آنکھوں میں اس نے کاجل لگایا تھا اور لبوں پر لنک لپ سٹک۔ماروی کے لیے بال اور نیلی آنکھیں اس نیلے فراک کے رنگ کے ساتھ اسے بلکل سنو فائٹ بنا رہے تھے۔
"بہت پیاری لگ رہی ہے میری بچی۔بس نظر نہ لگے کسی کی۔"
نانی نے ماروی کے سر پر پیار دیا اور نظر اتاری۔
"ارے واہ بھئی آج تو کچھ لوگ بہت ہی زیادہ خوبصورت لگ رہے ہیں۔"
"بس کیا کریں دیکھ لو۔"
ماروی نانی سے اجازت لے کر حمزہ کے ساتھ باہر آئی۔آج حمزہ نے بائیک نہیں لایا تھا۔یہ لوگ حمزہ کے بابا کی گاڑی میں ہوٹل کی طرف گئے۔راستے میں ماروی خاموش ہی رہی۔ہوٹل پہنچ کر انہیں پتا چلا کہ پہلے سے ہی ارمان یہاں آچکا ہے۔ماروی نے حمزہ کا ہاتھ تھاما۔
"میرے آس پاس ہی رہنا۔مجھے ہرگز اس شخص کے ساتھ اکیلے نہیں بیٹھنا۔مجھے اس پر بلکل اعتبار نہیں ہے۔"
"میں آس پاس ہی ہوں۔تم جائو اور پریشان بلکل مت ہونا.
ماروی کا ہاتھ تھام کر حمزہ کے یقین دلایا ۔ماروی حمزہ کو بائے کرتے ہی اندر چلی گئی۔ماروی کے ہاتھ اس وقت کانپ رہے تھے۔اگر اس کی جاب کا معاملہ نہ ہوتا تو یہ۔کبھی بھی ارمان جیسے انسان سے ملنے نہ آتی۔ماروی جب ہوٹل کے اندر آئی تو اسے یہ خالی ملا۔ایک سائیڈ پر اسے ویٹر نے کہا کہ یہ چلی جائے۔ ماروی ہوٹل کے پچھلے کونے میں آئی تو یہاں خوبصورت ڈیکوریشن کی گئی تھی۔ہر طرف بہت پیارے پھول لگائے تھے جو کسی پارٹی کے لیئے ہی لگائے جاتے تھے۔ماروی آگے آئی تو اسے میوزک کی آواز آئی۔سامنے ہی ارمان کھڑا تھا۔اس نے کوٹ پینٹ پہن رکھا تھا جو کالے رنگ کا تھا۔یہ ماروی کے لیئے آگے آیا اور اپنا ہاتھ آگے کیا کہ ماروی اسے ہاتھ دے۔ماروی نے اسے ہاتھ نہیں دیا۔
"سوری مسٹر ارمان مجھے یوں انجان لوگوں کے ہاتھ میں ہاتھ دینا پسند نہیں ہے۔یہاں آنا میری مجبوری تھی اور مجھے یقین ہے کہ آپ میری مجبوری کا فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔"
ارمان نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا اور چہرے پر مسکراہٹ لے آیا۔
"چلیں کوئی بات نہیں۔اگر آپ مجھے ہاتھ نہیں دینا چاہتی مگر یقین کریں مس ماروی میں ویسا انسان ہرگز نہیں ہوں جیسا مجھے ظاہر کیا جاتا ہے۔"
ماروی کو ٹیبل کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے ارمان نے اس کے لیئے چیئر پیچھے کی۔ماروی چیئر پر بیٹھ گئی۔میوزک بجانے والے کو ارمان نے اشارہ کیا کہ وہ چلا جائے۔ارمان نے ویٹر کو کھانا کچھ دیر بعد لانے کا اشارہ کیا۔
"تو ماروی کیا کرتی ہیں آپ۔میرا مطلب ہے آپ کیا کرتی ہیں یہاں جاب کے علاوہ۔"
"یہ بہت پرسنل سوال نہیں ہے۔"
"دیکھیں مس ماروی میں اگر کسی اور لڑکی کے ساتھ یہاں پر آتا تب بھی میرا یہی سوال ہوتا۔آپ کوایسا ہرگز نہیں لگنا چاہیئے کہ میں آپ کو تنگ کرنے کے لیئے یہاں لایا ہوں۔میرا ایک امیچ ہے اور مجھے اس قائم رکھنا ہے لوگوں کے سامنے۔آج کل کی لڑکیاں یہ خیال نہیں کرتی کہ وہ جس کے پیچھے جارہی ہے وہ اچھا انسان ہے یا نہیں۔میری مجبوری ہے کہ مجھے یہ لنچ اپنی کسی فین کے ساتھ ارینج کرنا پڑا۔یقین کریں مجھے بلکل بھی اچھا نہیں لگتا کسی بھی انجان لڑکی کے ساتھ یہاں بیٹھنا۔"
ارمان نے اپنے شائستہ انداز میں ماروی کی اپنے بارے میں غلط فہمی دور کرنا چاہی۔
"سب سے پہلی بات تو مسٹر ارمان میں آپ کی فین نہیں ہوں۔میرے دوست کی وجہ سے میں آپ کے کنسرٹ پر آگئی اور وہاں پر پھنس گئی۔مجھے میوزک سے کوئی بھی دلچسپی نہیں ہے۔"
"چلیں کوئی نہیں مجھے یقین ہے کہ آپ کو کسی نہ کسی دن تو میرا میوزک پسند آئے گا۔ویسے مس ماروی آپ سیدھے سیدھے ہی مجھے کہہ رہی ہیں کہ آپ کو میرے گانے نہیں اچھے لگتے۔مجھے برا بھی لگ سکتا ہے۔"
ماروی اور ارمان آمنے سامنے بیٹھے تھے اور ارمان اس سے سوال بھی اس کی نیلی آنکھوں میں دیکھ کر کر رہا تھا۔
"میں نے کبھی آپ کا میوزک سنا ہی نہیں۔اس لیئے میں یہ نہیں کہہ رہی کہ آپ کا میوزک مجھے پسند نہیں۔"
ارمان اس کی بات پر ہسنے لگ گیا۔اس کی ہنسی بہت پیاری تھی۔ماروی کی کچھ لمحوں کے لیئے اس کی طرف دیکھ کر عجیب سا احساس ہوا۔اس کی آنکھیں بہت سے راز لے کر پرسرار سی تھی۔
"چلیں مس ماروی۔کچھ بتائیں اپنے بارے میں اب۔"
"میں سٹوڈنٹ بھی ہو ان اور یہاں جاب کرتی ہوں۔دو ہفتوں بعد میں پڑھائی سے فارغ ہوجائوں گی پھر جاب کروں گی۔مستقبل میں اپنا ہوٹل کھولنے کا ارادہ ہے میرا۔"
"یہ تو اچھی بات ہے مس ماروی
ویٹر کو کہنا چاہیئے کہ وہ کھانا لے آئے پھر تھوڑی دیر کے لیئے سمندر پر چلتے ہیں۔آپ کو گھر چھوڑ دوں گا میں پھر۔"
ارمان نے ویٹر کو۔اشارہ کیا۔کھانا ٹیبل پر لگا دیا گیا۔
"ویسے ماروی آپکے ہاتھ کا کھانا میں نے یہاں کھایا ہے۔مجھے بہت پسند آیا وہ آپ کو کیا کھانے بنانے کا شوق شروع سے تھا۔"
ماروی نے پہلے ارمان کو دیکھا پھر اپنی پلیٹ میں تھوڑے سے چاول نکالے۔
"یہی سوال میں آپ سے کرتی ہوں کیا آپ کو بھی شوق تھا بچپن سے میوزک کا۔"
"نہیں اگر مجھ سے پوچھا جائے تو بلکل بھی نہیں۔میں نے اپنی زندگی بہت مشکلات میں گزاری ہے۔یہ میوزک میرے لیئے زندگی کو تبدیل کرنے کا ذریعہ تھا
مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں لوگوں کے درمیان اپنا اتنا بڑا نام بنا لوں گا۔"
"زندگی میں کبھی کبھی انسان جس چیز کی خواہش نہیں کرتا وہ ہوجاتی ہے۔میرا خیال ہے کہ ہماری قسمت ہی ہمارے سارے فیصلے کرتی ہے۔کبھی کبھی ہم جس چیز سے میلوں دور بھاگنا چاہتے ہیں نہ وہ ہمارا مقدر بن جاتی ہے۔ہم لوگ کوشش بھی کرلیں مگر قسمت نہیں بدل سکتے۔"
"شاید آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ماروی مگر میرا خیال ہے انسان جب کسی چیز کو اپنانے کی خواہش کرتا ہے نہ بہت شدد سے تو قسمت کے اورق خود ہی بدل جاتے ہیں۔"
"قسمت کے اورق کو صرف دعا بدل سکتی ہے اور کوئی چیز نہیں۔میرا خیال ہے کہ ہمیں یقین رکھنا چایئے اچھے وقت کا۔"
ارمان نے ماروی کی طرف دیکھا ۔اس کے چہرہ پر ایک عجیب سی چمک تھی۔ارمان ماضی کے کسی خالی کونے میں چلا گیا جہاں اسے کسی کی آواز آئی اور ایک ٹوٹا بکھرا سا جھولہ جس کے سامنے ایک بچی رو رہی تھی۔
"سر کیا آپ مجھے آٹو گراف دے سکتے ہیں۔"
کوئی لڑکا جو ہوٹل میں آیا تھا وہ ارمان سے آٹو گراف لینے آگیا ۔ارمان اپنے خیالات سے باہر آیا۔کھانے کے بعد ماروی نے دیکھا حمزہ اسی ہوٹل میں تھا اس کے ساتھ ساتھ۔ماروی کو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اس کا دوست اسے کسی بھی جگہ پر اکیلا نہیں چھوڑتا۔ماروی اور ارمان دونوں ٹیبل سے اٹھے۔
"کیا آپ میرے ساتھ سمندر پر جانا پسند کریں گی ماروی۔"
"چلیں مگر مجھے 4 بجے سے پہلے گھر جانا ہوگا۔"
"میں چھوڑ دوں گا آپ کو کہا ہے نہ۔چلیں آجائیں۔"
ارمان اور ماروی، ارمان کی گاڑی میں بیٹھے۔ماروی کو ارمان لے ساتھ آگے بیٹھنا پڑا۔سارا راستہ خاموشی سے ہی گزرا۔سمندر کے پاس آکر ارمان نے تھوڑے دور گاڑی روکی۔اس لمحے بارش کا موسم بن چکا تھا اور ماروی نے کوئی سویٹر نہیں پہن رکھی تھی۔ارمان نے اپنا کوٹ اتار اور ماروی کو دینا چاہا۔
"نہیں شکریہ مجھے عادت ہے یہاں کی سردی کی۔"
ماروی اور ارمان سمندر کے کنارے پر کھڑے تھے۔
"آج کا لنچ بہت اچھا گیا ماروی۔امید ہے یہ ہماری زندگی میں ایک اچھی یاد بن کے رہے گا۔"
"مجھے دراصل اپنی زندگی میں ماضی کو یاد رکھنے کی عادت نہیں ہے۔"
"ماروی آپ باقی لڑکیوں سے بہت مختلف ہیں۔یہاں شاید اگر کوئی اور لڑکی ہوتی تو شاید وہ پاگل ہورہی ہوتی میرے ساتھ کے لیئے۔"
ماروی اس بات پر ہنسنے لگ گئی۔ارمان نے ماروی کو بہت دیر بعد ہنستے ہوئے دیکھا۔ماروی بلکل گڑیا کی طرح تھی جس کی ہنسی گونجتی تھی۔
"لڑکیاں بھی نہ پتا نہیں کیا کیا کرتی رہتی ہیں۔میرا خیال ہے ہمیں بجائے کسی کے ساتھ کے لیئے پاگل ہونے کے اس شخص کو پانے کی خواہش کر لینی چاہئے صرف۔اس شخص کے سامنے اگر ہم اپنی خواہش کا اظہار کر دیتے ہیں نہ تو ہم اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں۔اپنی خواہشات کو دل میں ہی رکھنا زیادہ بہتر ہوتا ہے ۔"
"ماروی کبھی کبھی خواہش کے اظہار سے ہمارے دل کی بات دوسرے لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔کبھی کبھی انسان کو وہ چیز کرنی پڑ جاتی ہے زندگی میں جو اس کی زندگی کے اصولوں کے خلاف ہوتی ہے۔"
"چلیں چھوڑیں اس بات کو مسٹر ارمان میرا نہیں خیال کہ اس بات کو لمبا کھینچا جائے۔آپ کے لیئے زندگی کی سب سے خوبصورت یاد کیا ہے۔"
"میرے لیئے زندگی کی سب سے خوبصورت یاد میرا بچپن ہے مگر اب یہ لگنے لگا ہے کہ اس وقت میں نے اپنی زندگی میں بہت سی چیزوں پر کبھی غور ہی نہیں کیا تھا۔اگر ان پر غور کر لیا ہوتا تو شاید آج میں یہاں نہ ہوتا۔"
"میرے لیئے تو بچپن کا وقت سب سے اچھا تھا۔میری فیملی کے ساتھ بہت خوبصورت یادیں ہیں۔ہر ایک یاد بہت خوبصورت ہے۔کاش وہ وقت واپس آجائے اور میں دوبارہ سے اس وقت میں چلی جائوں۔"
"گزرا وقت سچ میں واپس نہیں آتا۔میرا خیال ہے ہر انسان ہی اپنے ماضی میں جانا چاہتا ہے ۔ہمارے اپنے جو کبھی ہمارے ساتھ ہوتے ہیں انہیں ہمارے پاس سے جانا پڑتا ہے۔ماروی پتا ہے سب سے خوف ناک لمحہ زندگی کا کیا ہوتا ہے۔ہم جس انسان سے محبت کرتے ہیں ہمیں لگتا ہے اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں ہوگی وہ ایک دن چلا جاتا ہے۔مگر زندگی گزر جاتی ہے۔آج جو اپنے ہمارے ساتھ ہیں کل وہ نہیں ہوں گے مگر ہم زندہ رہتے ہیں۔جب واپس دیکھتے ہیں نہ ہم تو پتا چلتا ہے کہ ہم کہاں آگئے ہیں۔ماروی اس کی بات پر سنجیدہ ہوگئی۔ماروی نے اپنا ڈوپتا سیٹ کرنے لے لیئے ہاتھ آگے کیا اس کی ہتھیلی پر ایک دل کا نشان بنا ہوا تھا جو شاید چاقو سے بنا تھا۔اس کے اندر H لکھا ہوا تھا۔یہ ماروی کی ہتھیلی پر نظر آتا تھا۔
"ماروی یہ آپ کی ہتھیلی پر کس قسم کا نشان ہے ۔"
ماروی نے اپنی ہتھیلی پر نشان دیکھا تو اسے ماضی کا کچھ وقت یاد آیا۔اسے اپنے ہاتھ سے خون نکلتا ہوا نظر آیا۔
"یاد رکھنا یہ نشان تمہیں ہمیشہ میری یاد دلائے گا۔میں واپس آئوں گا اور اس دن تمہیں مجھ سے کوئی بھی نہیں بچا پائے گا۔تمہارے ہاتھ پر یہ نشان ہمیشہ تمہیں میری یاد دلائے گا۔" ماروی کو ارمان خیالات سے باہر لایا۔
"ماروی کیا ہوا۔"
"کچھ نہیں بچپن میں ایک حادثہ ہوا تھا اس کا نشان ہے یہ۔"
"کیا سچ میں کوئی حادثہ ہوا تھا۔"
ماروی نے اپنا ڈوپتا ٹھیک کیا۔
"میں نے کہہ دیا نہ مسٹر ارمان ایک حادثہ تھا۔میرا دوست مجھے لینے آگیا ہے۔مجھے گھر جانا ہوگا۔آپ سے مل کر اچھا لگا مسٹر ارمان۔"
ماروی جلدی سے سامنے کی طرف جانے لگی جہاں حمزہ گاڑی کے ساتھ اس کا انتظار کر رہا تھا۔ماروی پیچھے بہت سے راز اور ماضی کی یادیں چھوڑ گئی تھی جو بہت تکلیف دہ تھی۔ارمان اسے جاتا ہوا دیکھ رہا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ اب اسے اپنی زندگی میں مستقبل میں کیا چایئے۔
ماضی
پریام ولیمے کے لیئے تیار ہوکر بیٹھ گئی تھی ۔زیبا اس کی ملازمہ نے اسے بتایا کہ اس کے ماں باپ آگئے ہیں اور اس سے ملنے کے لیئے آنا چاہتے ہیں۔پریام نے فورا سے اپنی ماں اور ماروی کو اندر بلایا۔ماروی کی والدہ جب اندر آئی تو اپنی بیٹی کا کمرہ دیکھ کر حیران رہ گئی جو بہت خوبصورت تھا۔ان کا شاید پورا گھر ہی اس کمرے میں سما جاتا تھا۔ماروی جو تیرہ چودہ سال کے درمیان تھی یہ بھی ماں کے ساتھ تھی۔اس نے اس وقت کالے رنگ کا فراک پہنا ہوا تھا اور ڈوپتا اس کے گلے میں جھول رہا تھا۔
"میری بچی۔"
پریام اپنی ماں کے گلے لگ کر رونے لگ گئی۔
"رانی صاحبہ مت رویئے۔سائیں کو پتا چل گیا تو بہت زیادہ غصہ کریں گے۔آپ سمجھ رہیں ہیں نہ۔"پریام نے اپنے آنسو صاف کیئے اور زیبا کو اپنے پاس بلایا ۔
"زیبا کچھ دیر کے لیئے باہر چلی جائو میں اپنی والدہ کے ساتھ اکیلے رہنا چاہتی ہوں۔
ماروی کو بھی باہر لے جائو اسے محل دیکھائو۔"
زیبا ماروی کو لے کر باہر چلی گئی۔پریام اپنی والدہ کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی۔پریام کی والدہ کو اپنی بیٹی کا وہ دکھ نظر آگیا جو کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔
"تو ٹھیک تو ہے نہ میری بیٹی۔سائیں نے کچھ کیا تو نہیں نہ تیرے ساتھ مطلب تو سمجھ رہی ہے نہ"
"میری وجود پر وہ اب پر قسم کا اختیار رکھتے ہیں امی۔رات انہوں نے مجھے یہ بات بہت اچھے سے سمجھا دی ہے۔اب یہی محل میری قید بن گیاہے امی۔آپ ٹھیک کہتی تھی کہ کبھی کبھی خوبصورتی ہمارے لیئے قاتل بن جاتی ہے۔میں ایک شادی شدہ مرد کے ساتھ اپنی زندگی کا سفر ہرگز شروع نہیں کرنا چاہتی تھی مگر دیکھیں آج اسی شخص کے محل کے رانی بن کر بیٹھی ہوں۔سائیں سے مجھے کوئی بھی امید نہیں ہے وہ ایک ظالم انسان ہیں۔آپ بس ماروی کو اس محل سے دور رکھنا ۔آپ سمجھ رہی ہیں نہ۔ہوسکے تو اسے نانی اور ماموں جان کے پاس بھیج دیں۔"
"وہ ابھی بہت چھوٹی ہے پریام ہمیں اس کی فکر نہیں ہے۔فکر ہے تو تیری ۔دیکھ تو کیسے مرجھا گئی ہے تو۔"
"آپ کے داماد مجھے کبھی مرجھانے نہیں دیں گے۔آپ بے فکر رہیں بس ماروی کی فکر کریں امی اب ۔وہی آپ کے لیئے سب کچھ ہے۔وہ بہت معصوم ہے اسے دنیا کے طور طریقے سیکھائیں۔آپ مجھ سے ملنے آئیں گی نہ تو اسے کبھی یہاں مت لانا۔میں خود اس سے مل لیا کروں گی۔"
"بیٹا اپنے ماں باپ کو۔معاف کر دے۔ہم تیرے لیئے کچھ بھی نہیں کر سکے۔"
"بس امی آپ نے اب ساری باتیں بھول جانی ہیں۔"
پریام نے ماں کو اور بھی بہت سی باتیں کہی۔پھر زیبا اسے بلانے کے لیئے آئی کہ باہر سب پریام کو دیکھنا چاہتے ہیں۔
________________________
ماروی کو چھوڑ کر زیبا اندر کسی کو بلانے کے لیئے چلی گئی ۔ماروی اس وقت اس محل کے گارڈن میں تھی جو بہت خوبصورت تھا۔کوئی اس کے پیچھے کھڑا رو رہا تھا۔ماروی نے پیچھے ہوکر دیکھا تو پلر کے ساتھ ہاشم کھڑا تھا جس کی آنکھوں میں نمی تھی ۔ماروی اس پلر کے پاس آئی۔
"آپ رو رہے ہیں۔"
ماروی کے سوال پر ہاشم نے سامنے نظر اٹھائی تو اسے ایک گڑیا ملی جو بہت ہی زیادہ خوبصورت تھی، ماروی۔ہاشم نے اس لڑکی کو پہلے اس محل میں کبھی نہیں دیکھا تھا اور اس کے لباس سے بھی پتا نہیں چلتا تھا کہ یہ کون ہے۔ماروی نے ہاتھ میں اٹھایا ہوا رومال ہاشم کو دیا۔
"آپ اس سے آنسو صاف کر لیں۔آپی کہتی ہیں رونے والے لوگ اچھے نہیں لگتے۔آپ بھی مت رو۔"
ماروی نے رومال ہاشم کو پکڑایا۔
"کون ہو تم اور یوں ہمارے گارڈن میں کیا کر رہی ہو۔"
""مجھے زیبا یہاں چھوڑ کر گئی ہے۔پتا ہے مجھے آپ کا گارڈن بہت پسند آیا پے۔کتنا خوبصورت ہے نہ یہ۔مجھے یہاں کے پھول بہت پسند آئے ہیں۔"
ماروی اشتیاق سے یہاں لگے پھولوں کو دیکھتے ہوئے بول رہی تھی۔ہاشم نہیں جانتا تھا کہ جس عورت سے یہ سخت نفرت کرتا ہے اسی کی بہن ہے یہ۔ہاشم نے اپنے آنسو اسی رومال سے صاف کیئے اور ماروی کی طرف دیکھنے لگا۔
"تمہیں اچھا لگا یہ گارڈن۔"
"ہیں بہت پیارا ہے۔پتا ہے مجھے بہت اچھے لگتے ہیں پھول اور گلاب کے پھول تو میرے سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں۔"
ماروی نے سامنے لگے گلاب کے پھولوں کو دیکھتے ہوئے اشتیاق سے کہا۔
"مجھے پھول اچھے لگتے ہیں مگر آج نجانے میرا دل کیوں اداس ہے۔میرے بابا آج ہمیشہ کے لیے اس لڑکی کے ہورہے ہیں جس سے مجھے سخت نفرت ہوگئی ہے۔"
کیوں نفرت ہے آپ کو اپنے بابا سے۔"
"مجھے میرے بابا سے نفرت نہیں بلکہ اس لڑکی سے نفرت ہے جس نے میرے بابا کو مجھ سے چھین لیا۔مگر میں بھی پیچھے نہیں ہوں گا۔میری مام کا حق میں کسی کو لینے نہیں دوں گا۔"ماروی ہاشم کی بات پر حیران ہورہی تھی۔اس نے آج تک ایسی باتیں کہیں نہیں سنی تھی اور اسے ان باتوں کا مفہوم بھی کچھ خاص معلوم نہیں تھا۔
"تم کون ہو۔نام کیا ہے تمہارا۔"
"میرا نام ماروی ہے ۔۔۔۔۔۔۔میں ۔۔۔۔"
کوئی ماروی کو اتنے میں بلانے کے لیئے آگیا تھا۔ماروی ہاشم سے دور ہوگئی تھی مگر ہاشم کو اس لڑکی سے بات کر کے بہت اچھا لگا تجا۔ماروی بہت زیادہ پیاری اور معصوم سی تھی۔ہاشم اپنی ماں کے پاس چلا گیا جو شاید اس کے باپ کے ولیمے میں جانے کے لیئے تیار ہورہی تھی۔
ہاشم جیسے ہی ماں کے کمرے میں آیا اسے شہانا باہر جانے کے لیئے تیار ملی۔
"مام آپ جا رہی ہیں کیا باہر۔آپ مت جائیں۔آپ نہیں جانتی کیا کہ اس بدزات عورت نے۔۔۔۔۔۔"
"بس ہاشم آگے ایک لفظ بھی مت کہنا۔وہ تمہاری چھوٹی ماں ہے اب اور اس محل کی رانی ۔مجھے اپنے باپ کے سامنے شرمندہ مت کرنا جو کل کو میری تربیت پر سوال اٹھائیں۔"
"آپ اس لڑکی کی حمایت کر رہی ہیں جس نے اپنی عمر سے اتنی بڑے آدمی سے شادی کر لی۔آپ کبھی بابا کے کمرے میں نہیں گئی۔مگر آج وہ اس کمرے پر حق جما کر بیٹھ گئی ہے۔"
"جو ہوا ہے نہ وہ قسمت میں لکھا تھا۔میں ہرگز نہ سنوں ک تم نے اس لڑکی سے بدتمیزی کی ہے۔تمہارے بابا تمہیں اور مجھے دونوں کو اس محل سے باہر نکال دیں گے اگر انہیں نے تمہارا یہ رویہ دیکھ لیا۔میری عزت رکھ لینا آج کے دن تمہاری بہت مہربانی ہوگی رئیس زادے۔"
شہانا ہاشم کو سمجھانے کے بعد باہر چلی گئی جبکہ ہاشم محل سے ہی دور نکل گیا۔یہ اپنے باپ کو کسی اور عورت کے پہلو میں ہرگز نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
__________________________
شہانا باہر آئی تو انہیں پریام عورتوں کے درمیان بیٹھی ہوئی نظر آئی ۔بہت سے لوگ پریام کے بارے میں عجیب عجیب باتیں کر رہے تھے۔شہانا آکر پریام کے ساتھ بیٹھ گئی۔
"ہائے ہائے دیکھو تو کیسا جگرا ہے رئیس زادی کا اپنی ہی سوتن کے ساتھ بیٹھی ہیں۔خیر اب وہ کریں بھی تو کیا کریں ان کی مجبوری ہے رانی جو ہے ان کی سوتن ۔"
پریام یہ ساری باتیں سن کر رونے والی ہوگئی تھی۔
"ارے سنا ہے رئیس زادے گھر سے اٹھا لائے تھے رانی کو۔ہے بھی تو اتنی پیاری اس پر شہر سے پڑھ کر آئی تھی۔لو بھلا اسے اس گائوں میں آنے کی ضرورت ہی لیا تھی ۔اتنا بڑا بیٹا ہے رئیس کا ویسے رانی کو نکاح کے لیئے ہی ہاں نہیں کرنی تھی ۔"
شہانا نے پریام کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔
"رونا نہیں لوگ تمہیں کمزور سمجھیں گے۔ابھی رونے لگ گئی تو آگے ان سب لوگوں کا مقابلہ کیسے کرو گی۔"
پریام نے اپنی آنکھ سے نکلنے والا آنسو صاف کیا۔شہانا کو معلوم ہورہا تھا کہ پریام کے ساتھ زبردستی ہوئی ہے اور یہ بلکل بھی یہاں رہنا نہیں چاہتی مگر اگر شہانا کچھ بھی کہتی پریام کو ایسا ویسا تو اسی لمحے مرتضی انہیں اس محل سے باہر کر دیتے۔
"کھانا کھایا ہے تم نے۔"
شہانا نے پریام سے پوچھا۔
"بی بی وہ سائیں نے کہا تھا کہ رانی انہیں کے ساتھ کھانا کھائیں گی۔"
زیبا نے شہانا کو منع کر دیا کہ وہ پریام سے کھانا کا نہ ہی پوچھے۔شہانا کچھ لوگوں سے ملنے کے لیئے اٹھ گئی۔زیبا پریام کے قریب آئی۔
"رانی میں نوکر ہوں آپ کی مگر ایک بات آپ وہ کہوں کہ شہانا بیگم سے بچ کر رہنا۔یہ اس خاندان کی بیٹی ہیں اور یقین کریں کسی سانپ سے کم نہیں۔آپ کو ڈس جائیں گی اور پتا بھی نہیں چلے گا۔ان سے دور ہی رہیں تو زیادہ بہتر ہے۔سائیں کی کوئی بھی بات انہیں بلکل بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے"
"زیبا تم مجھے کمرے میں لے جائو یہاں بیٹھ بیٹھ کر مجھے چکر آرہے ہیں۔امی اور ماروی تو ویسے بھی جاچکے ہیں۔مجھ سے نہیں بیٹھا جائے گا۔"
"رانی صاحبہ میں بات کر کے آتی ہوں سائیں سے وہ اجازت دیتے ہیں تو آپ کو لے جائوں گی اندر ۔"
زیبا مرتضی سے بات کرنے لیئے چلی گئی جبکہ پریام کی نظر شہانا پر ہی تھی۔پریام بھی جان گئی تھی کہ شہانا کوئی عام عورت نہیں ہے۔ یہ بھی دماغ کہ بہت تیز ہے اور اب اس محل میں رہنے کے لیئے اسے ہر قسم کی چیز کے لیئے تیار رہنا ہوگا۔پریام کمرے میں بیٹھی ہوئی مرتضی کی منتظر تھی۔مرتضی اپنے ساتھ زیبا کو بھی لائے تھے جو کھانا لگا کر چلی گئی تھی۔
"طبیعت ٹھیک ہے رانی۔"
مرتضی نے پریام کے سامنے بیٹھتے ہوئے اس سے پوچھا ۔پریام نے اثباہت میں سر ہلایا۔مرتضی نے کھانا نکالا اور پریام کے سامنے پلیٹ رکھی۔پریام اپنے ہاتھ سے کھانا کھانے لگی مگر مرتضی نے اسے روک دیا۔
"میرے ہاتھ سے کھا لو تمہیں اچھا لگے گا۔"
مرتضی نے نوالہ بنا کر پریام کے منہ میں ڈالا ۔پریام اس وقت سخت بے بس ہوچکی تھی۔مرتضی بہت خوبصورت تھے اور ان کو دیکھ کر نہیں پتا چلتا تھا کہ ہاشم ان کا بیٹا ہے۔پریام کو کھانا کھلانے کے بعد مرتضی نے زیبا سے سارے برتن اٹھاوائے۔کمرے کا دروازہ بند کر کے زیبا جاچکی تھی۔پریام نے ابھی تک اپنا عروسی جوڑا نہیں اترا تھا۔
"پریام تم جائو کپڑے تبدیل کرلو ۔تنگ کر رہے ہوں گے تمہیں۔"
پریام شاید اسی بات کی منتظر تھی یہ فورا سے اٹھی اور واش روم میں جاکر بند ہوگئی۔پریام نے باہر آنے میں بہت دیر لگا دی۔
"پری کب تمہارا ارادہ ہے باہر آنے کا۔"
پریام جو دروازے کے پاس ہی کھڑی تھی یہ فورا پیچھے ہوئی۔اسے معلوم تھا کہ مرتضی کیوں اس کا منتظر ہے۔شاید یہی اب اس کی زندگی تھی۔مرتضی سے اگر اس کی شادی عام حالات میں ہوتی تو شاید یہ اپنی قسمت پر رشک کرتی یا اگر مرتضی شادی شدہ نہ ہوتے تو۔پریام آج کے دن بہت زیادہ روئی تھی ۔مرتضی نے اس کا خیال ایک کانچ کی نازک گڑیا کی طرح رکھا تھا مگر اسے گڑیا نہیں بننا تھا۔پریام نے اپنی آنکھیں بند کی اور ایک گہرا سانس لیا۔اس نے دروازہ کھولا اور یہ باہر آگئی۔مرتضی اسی کے منتظر تھے شاید۔
"ارے اتنی دیر لگا تم نے۔ میں کب سے تمہارا منتظر تھا۔آئو بیٹھو بیڈ پر۔"
پریام بیڈ پر بیٹھ گئی۔مرتضی نے اپنی الماری سے ایک تاج نکالا جو شاید سونے کا تھا۔
"یہ تاج ہمارے خاندان میں رانی بیگم کو ملتا ہے۔شہانا سے جب میری شادی ہوئی تھی تو میرے بابا سائیں نے مجھے کہا تھا کہ یہ تاج تم شہانا کو دو مگر میں جانتا تھا وہ اس تاج کی حقدار نہیں ہے۔تم اس تاج کی حقدار ہو۔تم رانی ہو اس خاندان کی اور آج سے ہر خاص موقع پر یہ تاج تمہارے سر پر ہونا چاہیئے۔"
مرتضی نے پریام کے بالوں میں یہ تاج لگایا۔
"آپ کی پہلی بیوی تو شہانا ہیں نہ آپ انہیں کیوں نہیں دیتے یہ تاج سائیں۔لوگ پہلے ہی طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں میرے بارے میں۔اب تو انہیں اور موقع مل جائے گا۔میں لوگوں کی نظریں برداشت نہیں کرسکتی۔"
"تم رانی ہو اس محل میں کی۔جو بات کرے اسے سبق سیکھانا تمہارا کام ہے اور ہاں شہانا کے آس پاس بلکل بھی نظر نہ آئو مجھے تم۔میں جب تک تمہیں اجازت نہ دوں شہانا کے پاس بلکل مت جانا ۔"
"آپ شہانا بیگم کے پاس نہیں جائیں گے کیا۔"
"میں اس کے پاس 16 سالوں سے نہیں گیا پریام۔"
"کیوں سائیں۔"
"پہلی بات مجھے سائیں مت کہا کرو۔مرتضی نام ہے میرا اور کچھ باتیں ہیں جن کے بارے میں، میں کسی کو بتانا نہیں چاہتا ۔تم نے بھی بس شہانا سے دور رہنا ہے۔میرا اور شہانا کا صرف ایک کاغذی تعلق ہے جو کسی وعدے کی بنیاد ہر قائم ہے اور میں وہ وعدہ توڑ نہیں سکتا۔"
"ان کے ساتھ تو یہ زیادتی نہیں ہے کیا مرتضی۔"
"میں نے تمہیں کیا کہا ہے پری مجھے نہیں پسند کہ شہانا کی بات ہمارے درمیان میں کی جائے۔اپنے محل کی طرف دھیان دو اب اور سب سے بڑی بات میری طرف۔"
"آپ جانتے ہیں مرتضی میں کبھی آپ کو پسند نہیں کرسکتی ۔آپ نے جو میرے ساتھ کیا ہے وہ ناقابل معافی ہے۔"
"تمہارے معاف کرنے یا نہ کرنے سے مجھے فرق بھی نہیں پڑتا۔مرتضی نے جیسے ہی پریام کے بال اس کے گردن سے ہٹائے پریام فورا سے پیچھے ہوئی۔
"پریام میرے ساتھ یہ رویہ مت رکھو۔مجھے ہرگز اچھا نہیں لگتا کہ میں تمہارے ساتھ سختی کروں۔شوہر ہوں میں تمہارا اور یوں مجھ سے دور نہیں جاسکتی تم سمجھی۔"
پریام کو مرتضی نے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔پریام کی آنکھوں سے آنسو نکلے تھے جہنیں اس نے صاف بھی نہ کیا ۔یہ جانتی تھی یہی سب کچھ اب اس کی قسمت ہے ۔
"ماروی بیٹا آپ اب فارغ ہوگئے ہو نہ یونیورسٹی سے تو آگے کا کیا ارادہ ہے۔"
"ماموں میر ابھی ایسا خاص ارادہ تو نہیں مگر آپ کو پتا ہے نہ میں نے کچھ پیسے جمع کیئے تھے تو میرا خیال ہے کہ میں اپنا ایک ہوٹل کھلوں۔"
"وہ بات تو ٹھیک ہے بیٹا مگر آپ نے کیا اپنے گھر نہیں جانا ۔آپ کے اپنے آپ کے منتظر ہیں۔"
"نہیں ماموں جان مجھے واپس بلکل بھی نہیں جانا۔میرا کوئی اپنا نہیں ہے پیچھے جو میرا منتظر ہے۔میرا یہی گھر ہے اور میرا سب کچھ یہاں ہی ہے۔آپ جانتے ہیں جب میں آپ کے پاس آئی تھی نہ تو پیچھے سب کچھ ختم کر آئی تھی ۔وہاں بھیانک یادیں ہیں جن کو میں کبھی یاد نہیں کرنا چاہتی۔"
"بیٹا ہم اپنوں کو بھول تو نہیں سکتے نہ۔اپنوں کے ساتھ ہی تو زندگی ہے نہ۔تم جتنا عرصہ چاہے یہاں رہ لو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔تمہاری شادی کا وعدہ میں نے تمہاری ماں سے کیا تھا اور تم بے فکر رہو میں تمہاری شادی ایک بہت اچھے لڑکے سے کروں گا۔"
"ماموں ابھی میں شادی کی باتوں میں نہیں پڑنا چاہتی۔کچھ عرصے کے لیئے مجھے میری جاب کو دیکھنا ہے۔"
"اچھا ایسا کرو تم اپنے بھائی سے بات کر لینا ہر وقت مجھے تنگ کرتا رہتا ہے کہ ماروی تو بات ہی نہیں کرتی۔"
یہ ماموں اپنے بیٹے کی بات کر رہے تھے جو ماروی سے بلکل بہنوں جیسے ہی محبت کرتا تھا اور ہمیشہ اس کے لیئے وہی سب کرتا تھا جو ایک بھائی کر سکتا تھا ۔
"میں کال کروں گی انہیں ماموں۔اچھا نانی جان میں نے کچھ شاپنگ کرنی ہے۔میں جائوں کیا۔"
"ہاں ہاں بیٹا جائو مگر شام سے پہلے واپس آجانا اور پھر کل تم نے ہوٹل بھی تو جانا ہے نہ۔"
"چلیں نانی جان میں چلتی ہوں۔"
ماروی اپنے کمرے میں چلی گئی اور جلدی سے تیار ہوئی۔اسے اپنے لیئے کچھ چیزیں لینی تھی۔حمزہ کچھ مصروف تھا اس لیئے اس نے فیصلہ کیا تھا کہ یہ خود ہی سب کچھ لے آئے گی۔
______________________________
ارمان اس وقت مایا کے ساتھ تھا جو واپس جارہی تھی۔مایا نے اس وقت جو لباس پہن رکھا تھا وہ بہت قابل اعتراض تھا۔ارمان کو تو شاید فرق ہی نہیں پڑتا تھا۔یہ بھی اب ایک عجیب ہی دنیا کا باسی بن گیا تھا جہاں کسی بھی چیز کی کوئی تمیز نہیں تھی۔
"مان تم جانتے ہو نہ کہ تم میرے ہو صرف۔میں تمہیں یہاں چھوڑ کر تو جارہی ہوں مگر یہ بات یاد رکھنا کسی بھی لڑکی کی طرف بلکل بھی مت دیکھنا۔اگر تم تے کسی بھی لڑکی کی طرف دیکھنے کی ہمت کی نہ تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔"
مایا کی بات پر ارمان نے اسے اپنی طرف کھینچا اور اس کے لبوں پر جھکا۔ارمان نے اپنی زندگی میں مایا کو ہر مقام پر ساتھ رکھا تھا اور یہ دونوں ایک حرام زندگی جی رہے تھے۔شاید ارمان کو معلوم نہیں تھا کہ اس نے خود کو کس قدر برباد کر دیا ہے۔
"اب تو یقین کر لو۔میں جتنی مرضی لڑکیوں کو دیکھ لوں تمہارا مقام بھلا کبھی کوئی میری زندگی میں لے سکتا ہے۔اچھا اب جلدی سے جائو تمہاری فلائٹ لیٹ ہورہی ہے۔"
مایا مطمن سے یہاں سے واپس چلی گئی۔ارمان کے موبائل پر میسج آیا اور اسے پتا چلا کہ ماروی اس وقت مال میں ہے۔اس نے ماروی سے ملاقات کرنی تھی جلدی ہی۔
___________________________
ماروی مال میں آئی ۔اسے ہمیشہ سے عادت تھی حمزہ کے ساتھ آنے کی۔حمزہ اور اس کی دوستی بہت پکی تھی کچھ بات یہ بھی تھی کہ یہ ہی ایک ہی ملک سے تھے۔ماروی نے اپنے ہاتھ پر دیکھا تو یہ نشان اسے ماضی میں لے گیا۔اس کی بہن کو اس نے ایک دن بہت غصہ کرتے ہوئے دیکھا تھا جب یہ اس سے ملنے گئی تھی۔
ماضی
ماروی محل آئی تھی پریام سے ملنے۔ماروی کی والدہ کو نہیں پتا تھا ورنہ شاید وہ اسے کبھی بھی نہ آنے دیتی۔
"ماروی کیوں آئی ہو تم یہاں۔"
پریام نے ماروی کو دیکھا تو سختی سے اس سے سوال کیا۔پریام نے اس لمحے مہارانی سٹائل کا فراک پہنا ہوا تھا اور اس پر ڈھیر سارے زیور۔یہ سچ میں رانی ہی لگتی تھی۔ماروی اس وقت پیلے رنگ کے فراک کو پہنے ہوئی تھی۔اس نے اپنے بال بینڈ کی صورت میں قید کر رکھے تھے۔
"مجھے آپ کی یاد آرہی تھی آپی اس لیئے میں یہاں آگئی۔"
ماروی بہن کے ساتھ چپکے ہوئے بولی۔پریام نے ماروی کو خود سے دور کیا۔ماروی کو بہن کا رویہ سمجھ نہیں آیا۔
"آئیندہ میری اجازت کے بغیر اس محل ہرگز مت آنا۔"
"مگر آپ مجھے بہت یاد آتی ہیں۔بابا کہہ رہے تھے کہ میں آپ سے کبھی بھی مل سکتی ہوں۔آپ اب ہمارے گائوں کی رئیس ذادی بن گئی ہیں نہ تو کیا میں اپ سے ملنے آجایا کروں۔"
پریام نے ماروی کے نازک گال پر زور سے تھپڑ مارا۔
"سمجھ نہیں آئی تمہیں کیا کہہ رہی ہوں میں۔اس محل میں مت آنا آئیندہ۔زیبا اسے چھوڑ کر آئو بابا کے پاس اور ان سے کہنا اسے واپس یہاں کبھی مت لائیں۔"
پریام نے غصے سے ماروی کو دیکھا اور واپس چلی گئی۔ماروی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کی بہن اتنی جلدی کیسے بدل گئی ہے۔اس کے پیچھے کچھ عورتیں کھڑی تھی ۔
"رانی صاحبہ اب کہاں اپنے غریب ماں باپ یا بہن کو پوچھیں گی۔ان لوگوں کے آنے سے انہیں اپنا ماضی یاد آئے گا تو وہ ان لوگوں کو دیکھنا بھی نہیں چاہتی ہوں گی۔"
ماروی نے جب یہ سنا کہ اس کی بہن بہت امیر ہوگئی ہے اور اب انہیں منہ نہیں لگائے گی تو بے عزتی کے احساس سے یہ فورا سے وہاں سے باہر چلی گئی۔زیبا اس کے پیچھے آئی مگر ماروی نے اسے منع کردیا۔ماسٹر منور نے ماروی کو آتے دیکھا تو پوچھا کہ کیا ہوا ہے مگر یہ ٹال گئی۔یہ اپنی بہن کی باتیں بابا کو نہیں بتانا چاہتی تھی۔ماروی کو یاد تھا یہ نشان جو اس کے ہاتھ پر ہے اس کی بہن کی بدولت ہی۔پریام کی بدولت پی اس کی زندگی میں بھی طوفان آیا تھا ۔ ماروی سب کچھ نہیں بھول سکتی تھی۔ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ ارمان پیچھے سے آگیا۔
"ارے ماروی آپ یہاں۔آپ بھی شاپنگ کے لیئے آئی ہیں"ارمان وہ انسان تھا جس کو ماروی ہرگز دیکھنا نہیں چاہتی تھی اس وقت۔ماروی کی آنکھوں کے کوشے اس وقت نم تھے۔
"کیا ہوا آپ رو رہی ہیں۔"
ارمان آگے بڑھا اور ماروی کی آنکھ سے نکلنے والا آنسو اپنے ہاتھ میں لیا۔
"نہیں وہ بس ویسے ہی کچھ چلا گیا تھا آنکھوں میں۔آپ بتائیں یہاں کیسے۔"
"بس میرا دل کر رہا تھا تو میں یہاں آگیا۔آپ بتائیں شاپنگ ہورہی ہے۔چلیں اچھا پے ہم مل کر کر لیتے ہیں ساپنگ۔آپ مجھے بھی کائیڈ کر دینا تھوڑا۔"
"سوری مسٹر ارمان دراصل میں اکیلی آئی ہوں اور اس وقت میرا یہی دل ہے کہ میں اکیلے ہی یہاں گھموں۔"
"دیکھیں ماروی میں نے آپ کے ساتھ لنچ کیا تھا تو آپکو اپنے بارے میں بہت کچھ بتایا ۔میں نے آپ سے کہا تھا کہ میں ویسا بلکل بھی نہیں ہوں جیسا آپ سمجھتی ہیں۔آپ میرے ساتھ تھوڑی سی شاپنگ تو کر ہی سکتی ہیں نہ۔ہم دونوں ایک ہی ملک سے ہیں اسی ناطے میری مدد کر دیں میں یہاں کے راستوں سے واقف نہیں۔"
ماروی کو مجبور ارمان کو ساتھ ساتھ لے کر شاپنگ کرنی پڑی۔ماروی ایک دکان کے آگے رکی۔یہاں ایک بہت خوبصورت سنڈریلا سٹائل کا پنک رنگ کا فراک لگا ہوا تھا۔ماروی کو یہ بہت پسند آیا تھا مگر اس کی قیمت دیکھ کر ہی ماروی پیچھے ہٹ گئی۔یہ بہت مہنگا تھا اور ماروی اتنی مہنگی چیزیں نہیں لیتی تھی۔
"ارے ماروی آپ رک کیوں گئی۔"
"بس ویسے ہی وہ میں تھک گئی ہوں۔اس وقت میرا کچھ پینے کو دل کر رہا ہے۔کافی دیر ہوگئی ہے مجھے یہاں آئے ہوئے۔میرا خیال ہے مجھے چلنا چاہیئے۔میری نانی جان بھی پریشان ہورہی ہوں گی۔"
"ماروی کچھ نہیں ہوتا۔آپ آئیں ہم لوگ کافی پیتے ہیں۔کافی سردی بھی ہے۔یہاں قریب ہی ایک ہوٹل ہے وہاں چلتے ہیں میں نے سنا ہے کہ بہت اچھا ہے وہ۔"
ماروی نے ارمان کی یہ آفت قبول کر لی کیونکہ سچ میں اسے اس وقت کافی پینی تھی۔ماروی ارمان کے ساتھ ہی ایک خوبصورت سے ہوٹل میں آئی جو اوپن تھا۔یہ لوگ باہر ایک میز پر بیٹھے۔کافی آرڈر کر دینے کے بعد ماروی تو خاموش تھی مگر ارمان نے بات شروع کی۔
"آپ یہاں کیوں آگئی میرا مطلب ہے ترکی۔"
"میرے ماموں جان رہتے ہیں یہاں تو میری فیملی نے مجھے یہاں بھیجا تھا پڑھنے کے لیئے ماموں کے پاس۔"
"اچھا آپ کو آپ کی فیملی یاد آتی ہے ماروی۔"
"مجھے۔۔۔۔۔۔۔کبھی کبھی ۔۔۔۔۔۔نانی جان اتنی اچھی ہیں میری کہ مجھے کبھی کمی محسوس نہیں ہوئی کسی چیز کی بھی۔آپ بتائیں ارمان آپ کی فیملی کہاں ہے۔نیوز میں کبھی آپ کی فیملی کا نہیں سنا۔"
ارمان اس بات پر چونک گیا۔
"میری فیملی وہ یہاں ہی ہے۔بس وہ مجھ سے ملتے کم ہیں۔آپ یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں کیا۔"
"جی مگر اب فارغ ہوئی ہوں اسی ہفتے۔"
ماروی نے کافی کا کپ ٹیبل پر رکھا۔پیچھے ایک بندہ گانا گا رہا تھا ۔ماروی نے پیچھے دیکھا اور ارمان نے بھی۔
"رکیں میں آتا ہوں۔"
ارمان اس آدمی کے پاس گیا اور اس سے گٹار لیا۔
"ماروی آپ کو کون سا گانا پسند ہے۔"
"مجھے۔۔۔۔۔میں نے کبھی گانے سننے ہی نہیں۔"
"پھر بھی آپ کو پسند تو ہوگا نہ۔"
"آپ اپنی مرضی سے گا لیں کوئی سا بھی گانا۔"
ماروی بھی ارمان کو آزمانا چاہتی تھی کہ یہ کتنا اچھا گانا گاتا ہے۔ارمان نے گٹار اٹھایا اور مدہم سا بجانا شروع کیا۔
دہلیز پہ میرے دل کی
جو رکھے ہیں تونے قدم
تیرے نام پہ میری زندگی لکھ دی میرے ہمدم
سچی سی ہیں یہ تعریفیں
دل سے جو میں نے کری ہیں
جو تو ملا تو سجی ہے
دنیا میری ہمدم
او آسمان ملا زمین کو میری
آدھے آدھے پورے ہیں ہم
تیرے نام پہ میری زندگی لکھ دی ہمدم
ہیں سیکھا میں نے جینا ہاں سیکھا جینا میرے ہم دم
ماروی بہت غور سے ارمان کو دیکھ رہی تھی۔اس لمحے ارمان کو دیکھ کر ماروی کو نجانے کیوں عجیب سا لگا۔ارمان کی نظر بھی ماروی پر ہی تھی ۔ماروی نے دو پل کے لیئے نظریں نیچے کر دی پھر اپنی پلکوں کو اوپر اٹھایا۔یہ لمحہ ارمان اور ماروی دونوں کے لیئے بہت خاص تھا۔ارمان نے گٹار واپس کیا اور ماروی کے پاس آیا۔
"آپ کو میرا گانا پسند آیا۔میرا سب سے پسندیدہ گانا ہے یہ۔جب ریلز ہوا تھا تو میں روز اسے سنتا تھا۔مجھے لگتا تھا میں یہ گا پائوں گا پھر ایک دن کالج میں اسے گایا تھا میں نے۔سب کو بہت اچھا لگا تھا۔"
"آپ اپنا کوئی گانا کیوں نہیں گاتے مسٹر ارمان۔"
"آپ کہتی ہیں تو ضرور گائوں گا مگر ابھی اسی کو سن لیں۔ماروی آپ کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے آپ بہت زیادہ خاص ہو۔آپ کے اندر ایک عجیب سی کشش ہے جو مجھے اپنی طرف کھینچتی ہے۔"
"مسٹر ارمان آپ نے خود ہی کہا تھا کہ آپ عام مردوں کی طرح نہیں ہیں یا آپ نے وہ بھی ڈائلاگ بولا تھا۔"
"ایسا نہیں ہے ماروی۔میں نے صرف آپ کو اپنے دل کی بات کہی ہے۔ارے بارش شروع ہوگئی ہے۔جلدی سے اٹھیں۔"
ارمان نے بل پے کیا اور یہ دونوں وہاں سے جانے لگے۔دونوں کے پاس چھتری نہیں تھی اور دونوں ہی گاڑی کے بغیر آئے تھے۔بس سٹاپ دور تھا ۔ارمان کی گاڑی بھی وہاں ہی کھڑی تھی۔ماروی کو محسوس ہوا اس کے اوپر کسی نے کچھ رکھا ہے۔ارمان نے اپنے اوپر سے جیکٹ اتاری اور اپنے اور ماروی کے اوپر دی۔ماروی ارمان کے قریب ہوگئی تھی۔
"ارمان آپ پلیز اسی پہن لیں۔"
ماروی بارش ہورہی ہے اس لمحے آپ یہ مت دیکھیں کون مدد کر رہا ہے آپ کی۔آپ صرف مدد لیں۔"
ارمان اور ماروی بھاگتے ہوئے بس سٹاپ کی طرف جانے لگے۔ماروی راستے میں گرنے لگی تھی جب ایک ہاتھ سے ارمان نے اسے تھام لیا۔ارمان نے زور سے آنکھیں بند کر لی۔
"آپ نہیں گری ماروی میں نے آپ کو تھام لیا ہے۔"
ماروی نے ارمان کی آنکھوں میں جھانکا جہاں ایک جہاں آباد تھا روشنیوں کا۔دونوں کچھ وقت کے لیئے سٹل ہوئے پھر ماروی نے ارمان کو چھوڑا۔یہ بس سٹاپ پر آگئے تھے۔ماروی نے اپنے شاپنگ بیگ ارمان سے لیئے۔یہ بس میں بیٹھ گئی۔ارمان اپنی گاڑی سے ٹیک لگائے اسے دیکھ رہا تھا اور ماروی بس کے اندر بیٹھے۔نجانے وقت کے ان دو مسافروں کی قسمت میں کیا لکھا تھا ۔
ماضی
مرتضی نے آفس جانا شروع کر دیا تھا۔پریام اور شہانا اب دونوں ہی محل میں اکیلے ہوتی تھی۔پریام زیادہ تر کمرے میں ہی رہتی تھی مگر آج کے دن یہ باہر نکلی ہوئی تھی اور لان میں تھی۔اسے معلوم تھا کہ ہاشم مرتضی کا بیٹا ہے مگر اس کی ملاقات کبھی ہاشم سے نہیں ہوئی تھی۔آج باہر بیٹھے ہوئے اس نے زیبا سے پوچھ لیا تھا کہ وہ کہاں ہوتا ہے۔
"ہائے رانی صاحبہ ان کا ذکر نہ ہی کیا کریں۔بہت عجیب سے انسان ہیں وہ۔آپکو معلوم ہے ان کے دادا جان کی وفات آٹھ سال پہلے ہوئی تھی۔انہوں نے تو ہاشم سائیں کو اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ہاشم سائیں کے دادا نے اپنی آدھی جائیداد کو ان کے نام کر دیا تھا۔"
"اچھا مگر مرتضی کا رشتہ رئیس ذادی سے ٹھیک نہیں ہے۔کیا میرے آنے سے پہلے بھی یہی سب کچھ ہوتا آیا ہے اس محل میں۔"
"چھوٹی منہ بڑی بات رانی صاحبہ ۔شہانا بی بی نے اپنے میکے کو ہی ہمیشہ اہمیت دی ہے۔اب سائیں کو ان کے میکے والے بڑے ہی برے لگتے ہیں جی۔سائیں کی معصوم سے پندرہ سال کی بہن کو شہانا کے بھائی کو دے دیا تھا شادی میں۔پھر جی کچھ ہی عرصے بعد ان کی وفات ہوگی۔سنا ہے شہنانا بیگم گھر والوں کو بہت جھوٹی باتیں بتاتی تھی مرتضی کے بارے میں۔سائیں کی بہن کو ان کے شوہر بہت مارتے تھے اور پھر ایک دن وہ امید سے تھی تو ان کی وفات ہوگئی مار کھاتے ہوئے ۔وہ بہت خوبصورت تھی نجانے کیوں ان کی شادی شہانا بیگم کے بھائی سے ہوگئی۔سائیں تو دیکھنا نہیں چاہتے اس خاندان کو، مگر شہانا بیگم جاتی ہیں ان سے ملنے۔شہانا ایک عجیب عورت ہیں بی بی۔ہاشم سائیں ان کے ہی بیٹے ہیں تو آپ سوچ سکتی ہیں وہ کس قسم کے ہوں گے۔"
پریام زیبا کی باتیں سنتے ہوئے ہاشم کو گیٹ سے اندر جاتا دیکھ رہی تھی۔
"ہاشم کیسے کو۔"
ہاشم نے پیچھے ہوکر دیکھا۔یہ عورت اس کی سوتیلی ماں تھی۔ہاشم نے اپنی اور اس کی عمر کا فرق دیکھا۔ محض چار سال کا فرق تھا۔اس کے باپ کو نجانے کیا سوجی تھی کے اس لڑکی کو اس محل میں لے آیا تھا۔
"مجھے ہاشم کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔میں رئیس ذادہ ہوں۔تم جیسی کمی کی اولاد مجھے میرے نام سے بلانے کا حق نہیں رکھتی۔"
پریام کا چہرہ اپنی بے عزتی پر سرخ ہوگیا۔اسے امید نہیں تھی کہ ہاشم اتنے برے طریقے سے اسے بلائے گا۔
"میں کسی گرے پڑے انسان کی اولاد نہیں ہوں ہاشم۔میں ایک استاد کی اولاد ہوں، جس کے خاندان نے تمہارے بڑوں کو پڑھایا ہے۔میں تمہاری سوتیلی ماں ہوں، ماں کے درجے پر فائز۔تمیز کا دامن چھوڑ کر تم مجھے کیا بتانا چاہتے ہو کہ تمہاری تربیت ہی غلط ہوئی ہے کہ بڑوں سے بات کرنی کی تمیز نہیں ہے تمہیں۔"
ہاشم نے جب اپنی تربیت پر سوال سنا تو اس کا دماغ گھوم گیا تھا۔
"تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی میری تربیت پر سوال اٹھانے کی۔میری ماں نے میری بہت اچھی تربیت کی ہے۔"
"مجھے معلوم ہے کوئی بھی ماں اپنے بیٹے کو غلط نہی سیکھاتی۔یہ شاید تم خود ہی ہو جسے یہ نہیں معلوم کہ اپنے بابا کی بیوی سے کیسے بات کرتے ہیں۔"
ہاشم پریام کے قریب آیا اور انگلی اٹھا کر اس کی طرف اشارہ کیا۔
"تم اور میرے بابا کی بیوی۔جب دل بھر جائے گا نہ ان کا تو تمہیں چھوڑ دیں گے۔ہم رئیس لوگوں کی عادت ہوتی ہے تم جیسی لڑکیوں سے اپنا دل بہلانے کی۔تمہاری اوقات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
ہاشم نے ابھی اپنی بات مکمل نہیں کی تھی کہ پریام نے زور کا تھپڑ اسے مارا تھا۔
"رانی سے یہ بات کرنے کی تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی۔بھول گئے ہو تم میں تمہاری رانی ہوں۔تم نے آج مجھے یہ بات بہت اچھے سے بتا دی ہے کہ تم کیا ہو۔گند بھرا ہے تمہارے اس دماغ میں بلکل اپنے باپ کی طرح۔انہیں تو اتنا بھی خیال نہ آیا کہ جس لڑکی سے وہ شادی کر رہے ہیں وہ ان کے بیٹے کی عمر کے برابر ہے۔"
"تم نے مجھے تھپڑ مارا ہے ۔یاد رکھنا میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔اس محل سے تھکے مار کر نکال دوں گا باہر۔"
پریام اس کی بات پر ہنسنے لگ گئی۔
"جس محل پر تمہیں بہت فخر ہے نہ، تمہاری اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ میں نے اس محل کا آدھا حصہ اپنے نام کروا لیا ہے۔آدھا چاہے تمہارا ہو مگر آدھا میرا ہے۔تمہارے باپ کی جائیداد میری ہے۔تمہیں اس محل سے باہر کر سکتی ہوں میں بہت آسانی سے۔آئیندہ مجھ سے بدتمیزی کرنے سے پہلے یہ سوچ لینا کہ آج تو تھپڑ مارا ہے کل کو تھکے دے کر یہاں سے نکلوا دوں گی۔"
"تم مجھے یہاں سے باہر کرو گی۔تمہاری اتنی ہمت ہے۔"
ہاشم نے پریام کے بازو کو وحشیانہ طریقے سے پکڑا اور اسے زور کا دھکا دیا۔پریام کو تو سمجھ نہیں آئی کہ کیا ہوا ہے۔شہانا کو ان کی ملازمہ نے بتایا کہ باہر پریام اور ہاشم کی لڑائی ہورہی ہے۔پریام کو پکا فرش بڑے زور سے لگا تھا کمر پر۔پریام تھی بھی نازک سی۔زیبا نے فورا سے پریام کو اٹھایا تھا۔ہاشم خاموش ہوگیا تھا اور پریام کو نفرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
"ہاشم کیا کر رہے ہو تم۔چھوٹی ماں ہیں تمہاری وہ۔ابھی کے ابھی معافی مانگو تم۔"
"اس سے تو میں کبھی بھی معافی نہیں مانگوں گا چاہے جو بھی ہوجائے۔"
ہاشم کیوں کر رہے ہو تم سب یہ۔"
شہانا پریام کی طرف آتے ہوئے ہاشم کو ملامت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔
"آپ سمجھا لیں اپنے بیٹے کو رئیس زادی۔میں برداشت نہیں کروں گی اپنی ذات پر سوال یا میرے خاندان پر۔اپنے ہاتھوں کو قابو میں رکھے یہ ورنہ اپنے ہاتھ اور زبان مجھے بھی چلانا آتا ہے۔"
پریام غصے سے اندر چلی گئی۔شہانا ہاشم کے پاس آئی جو غصے میں کھڑا ہوا تھا۔
"کیوں کیا ہے تم نے اس کے ساتھ ایسے۔"
"مجھے تھپڑ مارا تھا اس گھٹیا لڑکی نے۔"
"خاموش ہو جائو۔میں نہیں جانتی کہ تم نے اس کے خاندان کے بارے میں کیا کہا تھا۔شبو نے مجھے بتایا کہ تم نے اسے کیا کہا تھا، جس کی وجہ سے تمہیں تھپڑ پڑا ہے۔میں اگر اس کی جگہ ہوتی تو تھپڑ کی جگہ تمہیں اچھا والا سبق سیکھاتی۔"
"آپ اپنی سوتن کی حمایت کر رہی ہیں۔"
شہانا اب بیٹے کو کیا سمجھاتی کہ مرتضی ہاشم کے ساتھ کیا کر سکتے تھے پریام کے لیئے۔
"اپنے باپ کی نظر میں اگر اپنا مقام نہیں گنوانا چاہتے تو اسے برداشت کرو۔اس خاندان کی ہر چیز پر تمہارا حق ہے ۔اگر اس نے تمہارے باپ کو مکمل اپنے بس میں کر لیا نہ تو کچھ ہاتھ میں نہیں آئے گا۔سڑک پر چلے جائو گے تم۔"
"مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔میری اپنی جائیداد ہے۔"
ہاشم غصے سے اندر چلا گیا۔شبو نے شہانا کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"بی بی سائیں سمجھ نہیں رہے کہ اگر پریام کی اولاد ہوگئی تو ان کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔سائیں تو اپنی محبوب بیوی کی اولاد سے ہی محبت کریں گے۔"
"تمہیں جو بات کہی تھی میں نے کیا وہ پوری کی ہے تم نے۔"
"جی بی بی جی میں نے پوری کر لی ہے وہ بات۔آپ پریشان مت ہونا آپ کا مقام اس خاندان میں کوئی بھی نہیں لے سکتا۔"
شہانا سکون سے محل کے اندر چلی گئی مگر یہ نہیں جانتی تھی کی پریام صرف نام کی ہی نہیں حقیقت میں بھی رانی ہے۔یہ اپنی اچھی شخصیت ظاہر کر کے اسے قابو نہیں کر سکتی۔
___________________________
پریام بیڈ پر لیٹ ہوئی تھی۔گرنے سے اسے اچھی خاصی چوٹ لگی تھی۔زیبا اس کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی۔زیبا کی والدہ نے کچھ عرصہ شہانا کے ساتھ کام کیا تھا اس لیئے وہ شہانا کو اچھے سے جانتی تھی۔
"زیبا آئیندہ شہانا بیگم کو میرے کمرے میں آنے کی اجازت مت دینا۔انہیں یہ معلوم مت ہو کہ میرے اور سائیں کے درمیان میں کیسے تعلقات ہیں اور مجھے یہ بتاتی رہنا کہ ان سے کون ملنے آتا ہے۔"
"رانی میں نے آپ کو پہلے بھی کہا تھا کہ وہ بہت تیز ہیں۔ہاشم سائیں کو انہوں نے آپ کے خلاف کیا ہے۔"
"ہاشم کا رویہ میں نے آج اپنے ساتھ دیکھ لیا ہے زیبا اور مجھے کوئی امید بھی نہیں ہے کہ وہ مستقبل میں میرے ساتھ کوئی اچھا رویہ رکھے گا۔وہ میرا سوتیلا بیٹا ہے اور سوتیلے بیٹے کبھی اپنی ماں کے زندہ ہوئے کسی پرائی عورت کو ماں نہیں مانتے۔آئیندہ اس سے بھی نہیں ملوں گی میں۔یہ محل بہت عجیب ہے زیبا۔"
"رانی اگر آپ کو اس محل میں زندہ رہنا ہے نہ تو آپ کو اس محل کے اصول سیکھنے ہوں گے۔یہاں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی جو خاموشی سے اپنے حق کے لیئے لڑے بغیر پیچھے ہوجاتا ہے۔"
"میں کمزور ہرگز نہیں ہوں زیبا۔مجھے معلوم ہے اس محل میں کیا چل رہا ہے۔میں بچی نہیں ہوں۔پورے سات سال میں نے شہر میں اکیلے گزارے ہیں۔شہانا بیگم کی آنکھوں کو اچھے سے میں سمجھتی ہوں کہ وہ کیا چاہ رہی ہیں۔زیبا میرا کھانا محل کے عام شیف سے مت بنوانا۔جو بھی میرا کھانا بنائے وہ شہانا بیگم کو نہ جانتا ہو۔بلکہ ایسا کرو میری ایک جاننے والی عورت ہے گائوں میں بہت اچھی ۔تمام اسے بلا لائو میرا اور سائیں کا کھانا وہی تیار کرے گی۔میں خود کھانا کی ہر چیز اسے دوں گی اور میرے لیئے ایک اور ملازمہ کا انتظام کرو تاکہ وہ ہر چیز پر نظر رکھ سکے۔"
"جی رانی صاحبہ۔یہ بہت اچھی بات ہے آپ بھی اپنی ہر ذمہ داری لیں۔آپ کو پتا چلے گا کہ لوگ کیسے ہیں یہاں کے۔لوگوں کے دلوں پر راج کرنا ہے آپ نے۔"
ٹ"ھیک ہے زیبا اب جائو۔سائیں آئیں تو مجھے بتا دینا۔ان سے مجھے کوئی بات کرنی ہے۔"
زیبا پریام کے اوپر کمبل ٹھیک کر کے چلی گئی۔زیبا پریام کے لیئے سچ میں بہت وفادار تھی۔پریام سوگئی تھی۔اس کی کمر میں بہت تکلیف تھی۔
__________________________
مرتضی شام کے وقت محل آئے تو شہانا ان سے پہلے ملنا چاہتی تھی مگر زیبا نے انہیں پہلے ہی فون پر بتا دیا کہ پریام کی طبیعت ٹھیک نہیں۔پریام اس وقت کرسی رکھ کر کھڑکی کے آگے بیٹھی ہوئی تھی۔مرتضی کمرے میں آئے۔
"میری رانی پریام کیسی ہیں۔"
مرتضی نے پریام کو سینے سے لگایا چاہا۔پریام کی پہلے تو سسکی نکلی پھر اس نے کرسی پر بیٹھے ہی مرتضی کے ہاتھ جھٹک دیئے۔
"ہاتھ مت لگائیں مجھے۔باپ مرہم لگانے آجاتا ہے اور بیٹا تکلیف دیتا ہے۔"
مرتضی نے پریام کو فورا سے تھاما۔
"کہیں درد ہورہا ہے پریام۔"
پریام کے چہرے کو مرتضی نے اپنے ہاتھوں سے آگے پیچھے کر کے دیکھا۔
"ہو بھی رہا ہوا تو آپ کو اس سے کیا غرض ہے۔جانتے ہیں سارا دن مجھے یہ بات سونے نہیں دے رہی تھی کہ میرے بابا کو آج آپ کے بیٹے نے کمی کہا ہے ۔اگر وہ اتنے ہی کم حیثیت تھے اس خاندان کے لیئے تو مجھے کیوں بیاہ لائے آپ۔میری زندگی عذاب کرنے کے لیئے صرف۔آپ کے بیٹے نے مجھے نہ صرف میری روح پر چوٹ دی ہے بلکہ مجھے کسی بے وقعت چیز کی طرح زمین پر بھی گرایا ہے۔"
ہاشم کے بارے میں سب سن کر بہت غصہ آیا تھا مرتضی کو۔محل کے نوکروں نے انہیں سب پہلے ہی بتا دیا تھا کہ کیسے ہاشم نے پہلے بدتمیزی اور پریام نے اسے تھپڑ لگایا۔پھر ہاشم نے پریام کو گرایا تھا۔
"میری تو کوئی بھی عزت نہیں ہے یہاں۔بقول آپ کے بیٹے کے دل بہلانے کا سامان ہوں میں۔"
مرتضی کا یہ سب سن کر دماغ ہی گھوم گیا۔
"بس پریام یہ الفاظ اپنے لیئے استعمال مت کرو۔اٹھو میرے ساتھ اب ہاشم پورے محل کے سامنے تم سے معافی مانگے گا۔"
پریام کو مرتضی نے اپنے سہارے سے اٹھایا۔پریام بھی ہاشم کو آج یہ بتا دینا چاہتی تھی کہ اس کا کیا مقام ہے۔مرتضی نے پریام کو لیونگ روم میں صوفے پر بٹھایا۔ہاشم اور شہانا کو بلایا تھا مرتضی نے۔شہانا کا دل دھڑک رہا تھا۔انہیں معلوم تھا کہ مرتضی اب اپنے بیٹے سے حساب مانگیں گے۔ہاشم باپ کے سامنے کھڑا تھا ۔
"ہاشم کیا کہا ہے تم نے رانی کو آج۔"
ہاشم کی آنکھوں میں نفرتوں کا سیلاب تھا۔
"جو ان کی اوقات ہے وہ ظاہر کر دی ہے ان پر۔میری ماں کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والی ناگن ہیں یہ۔"
مرتضی نے اس بات پر الٹے ہاتھ کا طمانچہ مارا تھا ہاشم کو۔یہ پہلی بار تھا کہ ہاشم کو پورے محل کے نوکروں کے سامنے مرتضی سے تھپڑ پڑا تھا۔
"بن گئے ہو تم اپنی ماں کی طرح ۔یہ تربیت کی ہے شہانا آپ نے میرے بیٹے کی کہ یہ رشتوں کا احترام بھول گیا ہے۔تمہارے بابا کی بیوی ہے جسے تم اتنے غلط لفظ کہہ رہے ہو۔شرم کر جائو تم۔اگر تمہاری ماں کو کوئی یہ کہے تو کیسا لگے گا۔"
"پلیز بابا میری مام ۔۔۔۔۔۔"
"بس ۔۔۔۔۔ایک لفظ اور نہیں۔ابھی کے ابھی معافی مانگو اپنی چھوٹی ماں سے۔"
"نہیں کبھی نہیں۔میں اس عورت سے کبھی معافی نہیں مانگوں گا۔"
شہانا فورا سے آگے آئی اور بیٹے کا کندھا پکڑ لیا۔
"پلیز ہاشم اپنی مام کی خاطر یہ کرلو بیٹا۔تمہاری مام تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہیں ۔"
شہانا نے ہاشم کے سامنے ہاتھ جوڑ لیئے۔
"ماما پلیز۔۔۔۔"
ہاشم کو مجبورا پریام کی طرف دیکھنا پڑا جس کی آنکھوں میں چیلنج تھا کہ تم نےجو کیا ہے وہ میں نے واپس کر دیا۔
"سوری رانی صاحبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
ہاشم اپنی بات کر کے روکا نہیں تھا بلکہ چلا گیا تھا محل سے ہی باہر۔شہانا بات کرنا چاہتی تھی مگر مرتضی نے انہیں روک دیا۔اس لمحے وہ اپنی رانی کے ساتھ اکیلے رہنا چاہتے تھے۔
ماضی
پریام کو معلوم ہوگیا تھا کہ محل میں اگر یہ خاموشی سے رہے گی تو اسے کچھ حاصل میں ہوگا۔اس کی شادی اب ویسے بھی مرتضی سے ہوگئی تھی تو رہنا اسے یہاں ہی تھا۔مرتضی اس سے بہت محبت کرتے تھے اور کوئی ایسا راض تھا کہ وہ شہانا کی صورت بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔وہ مجبور تھے اپنے بیٹے کی وجہ سے۔پریام اپنی ماں سے ملنے کے لیئے جانا چاہتی تھی۔مرتضی سے پوچھنے پر انہوں نے اجازت دے دی مگر وہ اسے خود چھوڑ کر آئے تھے۔
"میری بیٹی آئی ہے میری شہزادی ۔"
پریام ماں کے گلے لگ کر رونے لگ گئی تھی مگر پھر جلد ہی اس نے اپنے جذبات پر قابو پالیا تھا۔ماروی کو جب سے پریام نے تھپڑ مارا تھا، اس کے بعد ماروی اس کے سامنے ہی نہیں آتی تھی۔پریام ماروی کو اپنے محل سے دور رکھنا چاہتی تھی کیونکہ وہاں یہ خود جس طریقے سے رہ رہی تھی وہ اسے پتا تھا۔اپنی بہن کے لیئے یہ کوئی نیا طوفان نہیں لانا چاہتی تھی۔
"امی ماروی کہاں ہے ۔میں نے جب بھی فون کیا بابا کو ماروی نے مجھ سے کبھی بات ہی نہیں کی۔"
"دھی رانی وہ تیرے جانے کے بعد بہت بدل گئی ہے۔کہتی ہے امی مجھے بہت بڑا انسان بننا ہے۔"
"پاگل ہے وہ۔اسے بلائیں میں نے اسے ملنا ہے۔"
پریام اپنے ہاتھوں میں ماروی کے لیئے لائے ہوئے تحفے سائیڈ پر رکھتے ہوئے بولی۔ماروی کو ماں نے بلایا۔یہ آتو گئی تھی مگر اس نے اپنی بہن کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔ماروی کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ اس کی بہن اب بہت بڑے گھر میں جاچکی ہے اور یہ اب پریام کے آگے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
"میری شہزادی کیسی ہو تم۔کتنی بڑی ہوگئی ہو۔دیکھو میں تمہارے لیئے کتنا کچھ لائی ہوں۔"
ماروی کو ہاتھ سے پکڑ کر پریام نے اپنے پاس بٹھایا اور تحفے اس کی گود میں رکھے۔
"رانی صاحبہ ہمیں ان تحفوں کی ضرورت نہیں ہے۔آپ ہمارے گھر آگئی یہی ہمارے لیئے بہت ہے۔"
ماروی کے منہ سے اپنے لیئے رانی لفظ سن کر پریام کو دکھ ہوا۔شاید ماروی اس دن والے رویے کی وجہ سے ناراض تھی۔
"ماروی میری جان آپ کی آپی ہوں میں۔ایسے تو نہیں نہ کرتے اپنی آپی کے ساتھ ۔"
"سوری رانی صاحبہ میں آپ کے محل آئی تو مجھے خیال رکھنا چاہیے تھا کہ اب آپ رانی ہیں۔ہم جیسے غریب لوگوں کی وجہ سے آپ کی عزت کم ہوتی ہے۔آئیندہ میں آپ کے محل میں نہیں آئوں گی۔ان تحفوں کے لیئے شکریہ مگر آپ یہ ساتھ والی بچی کو دے دیں اسے زیادہ ضرورت ہے ۔میں چلتی ہوں رانی صاحبہ اجازت دیں۔"
ماروی فورا سے اٹھی اور کمرے سے بھاگتے ہوئے نکلی۔پریام تو بہن کے الفاظ ہی سوچتی رہ گئی۔
"ارے پریام اس کی فکر مت کر یہ بچی ہے نہ اس لیئے یہ سب کر رہی ہے۔کچھ دن بعد دیکھنا آپی آپی کرتے ہوئے تیرے پاس آجائے گی۔"
پریام نے تحفے ماں کو دیئے مگر یہ نہیں جانتی تھیں کہ ماروی اس سے کتنا دور ہوگئی ہے۔اب ماروی اس کے قریب نہیں آنے والی تھی۔
__________________________
ماروی ساتھ والے گھر کی بچی کے ساتھ ان کے کھیت پر آئی تھی۔اس کھیت کے پاس ہی ایک نہر تھی۔ماروی نہر کے بلکل نیچے جاکر بیٹھ گئی۔اس کے اوپر ایک ڈھلوانی راستہ تھا جہاں سے لوگ نیچے نہر پر آکر کپڑے وغیرہ دھوتے تھے۔ماروی نے اس وقت کالے رنگ کا سادہ سا فراک پہنا ہوا تھا اور بالوں کو دو پونیوں میں بند کر رکھا تھا۔یہ یچے ہی بیٹھی تھی جب اسے محسوس ہوا کہ نہر میں کوئی پتھر پھینک رہا ہے ۔اس نے اوپر ہوکر دیکھا تو ہاشم یہاں آیا ہوا تھا۔
"ارے تم یہاں۔"
ہاشم نے اسے دیکھ لیا تھا۔ماروی بھی مٹی سے اٹھی۔کافی ساری مٹی اس کے کپڑوں پر بھی لگ گی تھی۔ہاشم نیچے آیا۔
"تم یہاں کھیتوں کے پاس کیا کر رہی ہو۔"
"میں اپنی دوست کے ساتھ یہاں آئی ہوں۔"
ہاشم نیچے کچی مٹی پر بیٹھ گیا۔اس نے ماروی کو اشارہ کیا کہ یہ بھی نیچے بیٹھ جائے۔
"میں کسی اجنبی پر کیوں یقین کروں۔امی کہتی ہیں کسی اجنبی پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔"
"ماروی میں کچھ بھی نہیں کر ریا۔ایک رئیس زادہ ہوں میں اور میری بلکل بھی کوئی ایسی عادت نہیں کہ اپنے ہی لوگوں کو تنگ کروں۔تم یہاں بیٹھی ہوئی تھی نہ دوبارہ بیٹھ جائو۔"
ہاشم سامنے سورج کی روشنی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ماروی ہاشم سے قدرے فاصلے پر بیٹھ گئی۔
"تم یہاں کیوں آئی ہو۔"
"بتایا نہ اپنی دوست کے ساتھ آئی تھی۔آپ یہاں کیوں آئے ہو رئیس زادے۔"
"میرا دل بہت اداس تھا۔پتا ہے مجھے ایک لڑکی وجہ سے بہت غصہ ہے۔میرے ڈیڈ نے کبھی مجھ پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا مگر انہوں نے دو دن پہلے مجھ پر ہاتھ اٹھایا وہ بھی ایک لڑکی کی وجہ سے۔"
"کوئی بات نہیں۔مجھے بھی میری آپی نے تھپڑ مارا تھا۔یہ سب باتیں تو چلتی رہتی ہیں۔مجھے نہ وہ جھولا لینا ہے کتنا پیارا ہے وہ۔" ماروی نے نہر کے دوسری طرف لگے جھولے کو دیکھتے ہوئے ہاشم کو بتایا۔ماروی کو وہاں جانا مشکل لگتا تھا کیونکہ وہ نہر کی دوسری سائیڈ تھی۔ہاشم اٹھ گیا۔
"آئو میں تمہیں وہاں لے کر جاتا ہوں۔"
"مگر وہاں جانا بہت زیادہ مشکل ہے۔"
ہاشم نے سامنے نہر کے اندر پڑے پتھر دیکھے جس کی وجہ سے ماروی کے لیئے مشکل تھا وہاں جانا،مگر ہاشم کے لیئے بلکل بھی نہیں۔
"تم آئو تو سہی کچھ نہیں ہوگا۔میں ہوں نہ ساتھ۔"
ہاشم نے ماروی کو زبردستی اٹھایا۔ماروی کا سچ میں وہ جھولا لینے کا بہت دل تھا جو دوسرے گائوں کے لوگوں نے اس درخت پر لگایا تھا۔وہ دوسرا گائوں تھا جن سے اس گائوں والوں کے اچھے تعلقات تھے۔ہاشم پتھر پر کھڑا ہوا۔
"میں گر جائوں گی۔"
ماروی نے بچوں کی طرح منہ بسورا۔ہاشم اس کی حرکت پر ہنسنے لگ گیا۔
"تم میرا ہاتھ پکڑو۔کچھ بھی نہیں ہوگا۔"
ہاشم نے ماروی کا ہاتھ پکڑا۔ماروی کا ہاتھ تھامے یہ ان پتھروں سے گزرتے ہوئے جھولے والے درخت تک پہنچ گئے تھے۔ماروی تو یہاں پہنچتے ہی ان پتھروں پر بیٹھ گئی۔پاس ہی کچھ عورتیں اس گائوں کی کپڑے دھو رہی تھی۔ہاشم کھڑے ہوکر ماروی کو دیکھنے لگ گیا جو جھولے کو جھلانے کی کوشش کر رہی تھی۔
"رئیس ایسے مت دیکھیں اور یہاں آکر ایک لمبا سا جھولا دیں مجھے۔"
ہاشم ماروی کی بات پر ہنستا ہوا آگے آیا اور اسے سچ میں ایک لمبا سا جھولا دیا۔ماروی بہت زیادہ خوش تھی اور اسے دیکھتے ہوئے ہاشم کے چہرے پر بھی ہنسی آگئی۔ماروی وہ واحد انسان تھی جو ہاشم سے اتنی فری ہوکر بات کر رہی تھی اور ہاشم اس کی ہر بات مان بھی رہا تھا۔ہاشم اس کے چمکتے ہوئے چہرے کو دیکھ رہا تھا مگر مستقبل نجانے ان دونوں کے لیئے کیا فیصلہ کر چکا تھا۔
__________________________
پریام سونے کے لیے کمرے میں آئی۔مرتضی اس کے منتظر تھے۔پریام نے ان کی طرف دیکھا پھر چینچ کرنے چلی گئی۔جب یہ کمرے میں آئی تو مرتضی نے فورا اس پکڑا۔
"کب تک مجھ سے ہوں ناراض رہو گی رانی۔"
پریام نے اپنا آپ مرتضی سے چھڑانا چاہا۔
"آپ کو کس بات کی فکر ہے۔آپ تو اپنی من مانی کریں نہ جو بھی دل میں آتا ہے ۔"
"کیسی باتیں کر رہی ہو پریام۔اتنے دن میرے ساتھ رہ کر کیا تمہیں یہ احساس نہیں ہوا کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں۔"
مرتضی نے پریام کا رخ اپنی طرف کیا اور اس کے لبوں پر جھکے۔پریام نے اپنا چہرہ پیچھے کر کیا۔
"پلیز مرتضی آپ جب بھی میرے قریب آتے ہیں تو مجھے وہ الفاظ یاد آجاتے ہیں کہ میں تو صرف دل بہلانے کا سامان ہوں نہ آپ کے لیئے۔آپ کی خاندانی بیوی تو شہانا ہیں جن سے سب ہی محبت کرتے ہیں۔"
مرتضی نے پریام کے لبوں پر انگلی رکھی۔
"اگر وہ میرے لیئے اہمیت رکھتی تو آج تمہاری جگہ وہ اس کمرے میں ہوتی۔میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا پریام کہ اس کی میری زندگی میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔سب کچھ میرا تمہارے لیئے ہے۔"
"مگر وہ آپ کی بیوی ہیں اور میں یہ بات کبھی بھول نہیں سکتی۔"
"تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ تمہارا شوہر تمہارے قابو میں ہے صرف۔کیا میں نے تمہاری اہمیت میں کبھی کوئی کمی کی ہے۔پریام میری جان چھوڑ دو ان سب باتوں کو اور صرف یہ سوچو کہ میں تمہارا شوہر ہوں اور تمہارے لیئے صرف میری اہمیت ہونی چاہیے اور کسی کی نہیں۔"
مرتضی نے پریام کو اپنی بانہوں میں اٹھایا اور اسے بیڈ پر لے کر آئے۔پریام کو بیڈ پر لٹا کر مرتضی نے لائٹ آف کی اور یہ پریام کے پاس آئے
پریام کو معلوم تھا کہ شہانا کو سخت برا لگتا ہے جب مرتضی اس کے پاس ہوتے ہیں۔پریام کو یہ بھی معلوم تھا کہ شہانا کو آج کل کس بات کا ڈر لگا رہتا تھا۔مرتضی نے پریام کا چہرہ اپنی طرف کیا۔
"میری جان میری طرف دیکھو ۔تمہیں احساس ہوگا کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں۔پر چیز کو اپنے ذہن سے نکال لو۔اس وقت یاد رکھو تو صرف یہ کہ تم میرے ساتھ ہو۔"
مرتضی نے پریام کی پیشانی پر پیار دیا۔پریام نے آنکھیں بند کر لی تھی۔اسے اب بھی مرتضی کا قریب آنا عجیب لگتا تھا مگر اگر اسے اس محل میں رہنا تھا تو مرتضی کے ساتھ ہی رہنا تھا۔اس لیئے اس نے مرتضی کے ساتھ ایک خوش حال شادی شدہ جوڑے کہ طرح رہنے کا فیصلہ لر لیا تھا۔
_________________________
مرتضی نے صبح آفس جانا تھا۔پریام ابھی ابھی نہا کر نکلی تھی۔یہ سوئے ہوئے مرتضی کے پاس آئی۔مرتضی اپنی عمر سے بہت کم لگتے تھے۔انہوں نے پریام کو یہی بتایا تھا کہ ان کی شادی بہت چھوٹی عمر میں ہوئی تھی تو انہوں نے ہمیشہ یہی تصور کیا تھا کہ ان کی بیوی شہانا ان کے لیئے بہت اچھی ثابت ہوگی مگر ایسا نہیں ہوا تھا۔شہانا کو صرف دولت سے غرض تھی ان کے نزدیک یہ مقام اور رتبہ اہم تھا،مرتضی کے جذبات نہیں۔ مرتضی کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پریام سب کچھ یاد کر رہی تھی۔اس لمحے پریام نے نوٹ نہیں کیا کہ مرتضی جاگ گئے ہیں۔مرتضی نے پریام کا ہاتھ تھام لیا تھا۔
"آپ جاگ گئے مرتضی ۔ "
"جی ہاں محترمہ میں تو کب سے دیکھ رہا ہوں تمہیں۔خیر ہے آج بندہ ناچیز پر بہت پیار آرہا ہے۔"
جی نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔آپ آرام سے اٹھ جائیں پھر مل کر ناشتہ کرتے ہیں۔میری طبیعت بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے۔آپ میرے ساتھ ڈاکٹر کے ساتھ چلیں گے شہر۔"
"کیوں نہیں میں ابھی ہی لے جاتا ہوں۔کیا ہوا ہے میری جان کو۔"
مرتضی نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے پریام کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیلے میں بھرا۔
"مرتضی۔۔۔۔۔مرتضی مجھے لگتا ہے میں امید سے ہوں۔"
مرتضی کو پریام کی بات پر بہت زیادہ حیرت ہوئی پھر یہ خوشی سے پریام کو گلے لگا گئے۔
"کب سے پتا ہے تمہیں یہ بات۔تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔"
"ابھی یہ بات کنفرم نہیں ہے مجھے خود بھی۔آپ مجھے لے چلیں نہ کسی اچھی سی ڈاکٹر کے پاس۔"
"چلو ابھی ہی اٹھتا ہوں میں۔"
"مرتضی کسی کو بھی مت بتانا محل میں۔"
"کیوں پریام یہ تو بہت خوشی کی بات ہے۔"
"آپ سمجھا کریں نہ ابھی نہیں۔پہلے ڈاکٹر کے پاس سے آجاتے ہیں پھر بتائیں گے ۔"
مرتضی نے اس کی بات مان لی اور وہ تیار ہونے چلے گئے۔پریام جانتی تھی کہ اس خبر سے کس کس کو تکلیف ہونے والی ہے اس لیئے اس نے فیصلہ کیا تھا کہ یہ تب ہی سب کو بتائے گی جب خود اپنی حفاظت کا انتظام کر لے گی۔
ماضی
ماروی پریام سے بھی ناراض تھی۔ماروی کے نزدیک پریام نے اسے بہن سمجھنا چھوڑ دیا تھا۔ماروی آج کل اپنے بابا کے ساتھ سکول میں بہت دیر تک رہتی تھی۔ماروی نے آج اپنے بابا کے ساتھ ایک کلاس میں جانا تھا۔یہ بہت بور ہورہی تھی ۔کافی دنوں سے اسے لگتا تھا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ماروی کے بابا کو کوئی کام پڑ گیا تھا تو وہ اسے بچوں کے ساتھ باہر کھیلنے کے لیے چھوڑ کر اندر چلے گئے۔ماروی ایک کونے میں بیٹھے ہوئے ڈرائینگ کر رہی تھی جب اس کے نزدیک کوئی آکر بیٹھا۔ماروی ڈر گئی تھی اچانک یوں کسی کے آنے پر۔ماروی نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک بچہ جو اسی کی عمر کا تھا اس نے چہرے پر کارٹوں ماسک لگا رہا تھا وہ اس کے ساتھ بیٹھا تھا۔
"ماروی۔۔۔۔۔۔"
اپنے نام کے بلائے جانے پر ماروی نے اس بچے کو دوبارہ دیکھا۔بچے کی آواز بہت مختلف لگ رہی تھی۔
"تم میرا نام کیسے جانتے ہو۔"
"میں تو تمہارا نام اب سے نہیں بہت عرصے سے جانتا ہوں۔تم بہت پیاری ہو بلکل گڑیا جیسی۔"
ماروی اتنی بڑی تھی کہ اسے معلوم تھا کہ ایسے لوگوں کو کیا جواب دینا ہے ۔
"دیکھو جائو اپنا کام کرو میں نے بابا کو تمہاری شکایت کرنی ہے۔مجھے ہرگز نہیں پسند کہ میرے ساتھ کوئی آکر ایسے بیٹھے۔"
اس بچے نے ماروی کا ہاتھ تھاما ۔اس کے ہاتھ سرد سے تھے اس گرمی میں بھی۔ماروی نے فورا سے اپنا ہاتھ چھڑوا لیا۔
"میری دوست بن جائو دیکھو میرا کوئی بھی دوست نہیں ہے۔تم میری دوست بن جائو گی تو مجھے بہت خوشی ہوگی۔"
"میں لڑکوں سے دوستی نہیں کرتی۔"
"میں تمہیں بلکل تنگ نہیں کروں گا پلیز مجھ سے دوستی کرلو۔تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو۔ایسا لگتا ہے ان سب لوگوں میں تم ہی میری ایک دوست ہو۔"
"چلو سب باتیں سائیڈ پر رکھو اپنے چہرے سے یہ ماسک تو ہٹائو۔"
"میں یہ نہیں ہٹا سکتا۔یہ۔بہت ضروری ہے جب میں کسی کے سامنے جاتا ہوں۔"
"کیا سکول میں بھی تم ماسک ہی پہنتے ہو۔"
"میں کبھی کبھی سکول آتا ہو اور مجھے سب بچوں کے ساتھ نہیں پڑھنے دیا جاتا۔"
ماروی نے اس بچے کے ہاتھ دیکھے جن پر ایک خوبصورت سی چاندی کی انگھوٹی تھی۔ایسی انگھوٹی اس گائوں میں کوئی بھی نہیں پہنتا تھا۔ماروی نے اس طرح کی انگھوٹی مرتضی کے ہاتھوں میں دیکھی تھی جب وہ پریام کے ساتھ آئے تھے۔
"کیا تم رئیس خاندان کو جانتے ہو۔"
بچہ اس کی بات پر فورا سے اٹھ گیا۔
"نہیں میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔میں جانے لگا ہوں مگر میں پھر آئوں گا۔مجھے امید ہے تم مجھے اپنا دوست قبول کرلو گی۔"
یہ پندرہ سالہ بچہ فورا سے بھاگ گیا۔ماروی اسے بلاتی ہی رہ گئی۔
_____________________________
پریام امید سے تھی سب کو یہ بات ابھی نہیں پتا تھی۔گائوں میں کوئی میلا تھا جس میں رئیس خاندان کی عورتیں بھی جاتی تھی۔پریام نے اپنا تاج آج اپنے سر پر پہنا تھا۔یہ تاج بہت اہم تھا اور پریام اس کی اہمیت جان چکی تھی۔پریام کے پاس ایک ملازمہ جوس کا گلاس لے کر آئی ۔
"زیبا کہاں ہے۔"
"باہر ہیں وہ رانی۔صاحبہ۔انہوں نے مجھے یہ جوس آپ تک لے جانے کو کہا ہے۔"
پریام نے ملازمہ کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔پریام نے جوس کا گلاس اٹھایا مگر اس کے اندر پریام کو کچھ ذرے نظر آئے۔پریام بہت سمجھدار تھی ۔اس کی والدہ نے اسے خاص طور پر تاکید کی تھی کہ جو کچھ بھی کھائے دیکھ بھال کر کھائے ۔یہ اس محل کی رانی تو تھی مگر اس کے شوہر کی پہلی بیوی بھی اسے محل میں رہتی تھی جس سے کچھ بھی امید لگائی جاسکتی تھی ۔پریام نے جوس کا کلاس واپس رکھا۔زیبا کمرے میں ائی۔
"زیبا تم نے یہ جوس بھجوایا ہے۔"
"نہیں رانی صاحبہ کیا ہوا۔"
پریام نے جوس زیبا کے آگے کیا جو اس نے سونگھا۔
"اس میں کوئی جڑی بوٹی ہے۔اسے میں اماں کے پاس لے کر جاتی ہوں اس محل کی بہت پرانی ملازمہ ہیں۔"
"کسی کو کچھ مت بتانا۔مجھے ذرا واپس آکر پھر بتائو۔"
زیبا جوس لے کر چلی گئی ۔کچھ دیر بعد ایک بوڑھی عورت اندر آئی ۔زیبا اس کے ساتھ تھی۔
"رانی صاحبہ آپ کو یہ کس نے دیا ہے۔"
بوڑھی کا اشارہ جوس کی طرف تھا۔
"ایک ملازمہ دے کر گئی ہے۔اماں کیا ہے اس میں۔"
"رانی صاحبہ مجھے بہت سالوں کا تجربہ ہے اس لیئے میں آپ کو بتا دوں یہ اس لیئے دیا جارہا تھا آپ کو کے آپ ماں نہ بن پائیں۔"
"کیا آپ کو یقین ہے اماں۔"
جی رانی صاحبہ۔میرا تجربہ کبھی غلط ہو نہیں ہوسکتا۔آپ ماں نہ بن پائیں اس لیئے دی گئی تھی آپ کو یہ۔"
"زیبا جائو اس ملازمہ کو بلا کر لائو۔"
زیبا باہر گئی اور اس ملازمہ کو ڈھونڈنے لگ گئی۔ملازمہ شہانہ کے کمرے سے نکل رہی تھی۔زیبا کو سب بات سمجھ آگئی تھی۔زیبا اسے اپنے ساتھ پریام کے کمرے میں لے کر گئی۔پریام اس وقت کھڑکی کے آگے کھڑی تھی۔پریام نے زیبا کو اشارہ کیا کہ ملازمہ سے پوچھے کون تھا جس نے یہ جوس بھیجا تھا۔ملازمہ ماننے کو تیار نہیں تھی آخرکار زیبا نے اسے خوب ڈرایا دھمکایا۔
"رانی صاحبہ میرے بچوں کو کچھ مت کہنا۔شہانہ رئیس ذادی کی ملازمہ آپ کے کھانے میں یہ ملانے کے لیئے دیتی تھی۔آج میں نے جوس میں ملا دیا۔"
پریام نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور پھر زیبا کو اشارہ کیا کہ اسے اس محل سے نکال دے۔اب پریام نے زیبا کو ساتھ لیا اور شہانہ کے کمرے کی طرف آئی۔
"ارے رانی کیسے آنا ہوا آج میرے کمرے میں۔"
"سوچا آج جاکر اپنی سوتن سے اس کا حال وال پوچھ لوں۔"
پریام نے اس لمحے اپنے سر پر مرتضی کا دیا ہوا تاج پہن رکھا تھا۔یہ تاج سمیت ہی شہانہ کے کمرے میں آئی۔
"میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا پریام کہ میں نے تمہیں کبھی سوتن نہیں مانا۔تم میری لیئے۔۔۔۔۔"
"شہانہ رئیس ذادی میں آپ کے لیئے جو مرضی ہوں مگر آپ میرے لیئے کسی آستین کے سانپ سے کم نہیں ہیں۔مجھے بچی سمجھتی ہیں آپ جسے کچھ علم نہیں۔سات سال میں نے شہر میں اپنے ماں باپ کے بغیر گزارے ہیں اور یقین کریں میں اتنی تیز ہوں کہ آپ جیسے گھریلو سازش کرنے والی عورتوں کو دو منٹ میں ان کے ٹھکانے لگا سکتی ہوں۔"
شہنانہ اور اس کی ملازمہ کو گڑبڑ محسوس ہوئی۔
"کہنا کیا چاہتی ہیں آپ ہم پر الزام لگا رہی ہیں۔"
"الزام تو دور کی بات شہانا بیگم مجھے پہلے سے یقین تھا کہ آپ اتنا میٹھا بول ہی نہیں سکتی۔کیا میں نہیں جانتی اس خاندان کو کہ اس خاندان کی عورتیں کیسی ہوتی ہیں۔اپنے مفاد کے لیئے کچھ بھی کر گزرنے سے نہیں ڈرتی وہ۔میں نے نہ تو آپ کے بنوائے کھانے سے کبھی کچھ کھایا اور نہ مستقبل میں کچھ کھائوں گی۔آپ کی خواہش تھی کہ میرا وارث پیدا نہ کو تو یہ بھول ہے آپ کی۔میں امید سے ہوں اور میری مرتضی سے شادی کی شرط بھی یہی تھی کہ ہاشم چاہے اپنی زمین کا مالک ہو مگر راج اس گائوں پر میرے بچے کریں گے۔سمجھ گئی نہ آپ ورنہ رانی کے عہدے کو استعمال کرتے ہو میں وہ کروں کی آپ کے ساتھ کہ کوئی سوچ نہیں سکتا۔"
"تم اتنی جرات کرسکتی ہو کہ اس کا خاندان کی بیٹی کے ساتھ یہ سب کرو۔میں خاندانی رئیس ذادی ہوں اور تم گھٹیا۔۔۔۔۔۔"
"بلکل خاموش ہوجائیں مجھے اپنے سامنے زبان چلانے والی عورتیں بلکل نہیں پسند۔اگر آئندہ کوئی سازش کرنے کی کوشش کی گئی میرے خلاف تو بیٹا آپ کا بھی ہے۔زیبا اس حویلی سے رئیس ذادی کے سارے ملازمہ فارغ کرو۔"
"ایسا نہیں کرسکتی تم۔"
"میں کرسکتی ہوں اور کر رہی ہوں۔مرتضی کو میں یہ سب ضرور بتائوں گی اور یقین کریں پھر شاید آپ کے لیئے اس محل میں بھی جگہ نہ ملے۔چلو ل زیبا مجھے مرتضی کے پاس جانا ہے۔"
شہانا غصے سے لال ہوگئی تھی۔ان کی ملازمہ نے انہیں پکڑا۔
"تم نے دیکھا کیسے یہ کل کی آئی لڑکی مجھے میرے مقام کے بارے میں بتائے گی۔"
"بس رئیس ذادی حوصلہ کریں آپ کا وقت بھی آئے گا۔کچھ وقت پھر سب کچھ آپ کا ہی ہے۔"
شہانا غصے میں تھی مگر انہیں اب اپنے بیٹے کو ذریعہ بننا تھا رانی کو تکلیف پہچانے کے لیئے۔
________________________________
وقت کو کوئی روک نہیں سکتا۔شہانا نے بہت کوشش کی کہ مرتضی کی کوئی اور اولاد پریام سے پیدا نہ ہو مگر قسمت کو جو منظور ہو۔پریام نے ایک سردی کی شام دو جڑواں بیٹوں کو جنم دیا۔دونوں بہت خوبصورت تھے اپنی ماں کی طرح اور باپ کی طرح بھی۔شہانا جو کمرے میں پریام کے ہاں بیٹے نہ ہونے کی دعا کر رہی تھی ان کی ملازمہ دوڑتی ہوئی کمرے میں آئی۔
"رئیس آزادی غضب ہوگیا رانی نے دو بیٹوں کو جنم دیا ہے۔"
شہانا کے ہاتھ میں اٹھایا ہوا پانی نیچے گر گیا۔ملازمہ فورا سے ان کے پاس آئی۔
"بی بی صبر کریں آپ اب بھی اس خاندان کی بیٹی ہیں ۔اس خاندان پر حکومت آپ کی ہی ہوگی۔"
"نہیں شبو میرا سب کچھ ختم ہوگیا۔رئیس تو ویسے بھی اس کے دیوانے ہیں اب تو میری طرف دیکھیں گے بھی نہیں۔"
"آپ کے پاس آپ کے بیٹے ہیں ہاشم رئیس ذادے وہ آپ کو ہر پریشانی سے بچا لیں گے۔"
"کب تک میں اس جھوٹ کے سہارے زندہ رہوں گی کہ مرتضی میری طرف لوٹ کر آئیں گے مگر وہ کبھی میری طرف نہیں آئیں گے۔میری ایک غلطی نے میرا سن کچھ مجھ سے چھین لیا۔کاش میں وقت کو واپس لے کر جاسکتی ۔"
"جو ہوگیا بی بی اسے بھول جائیں اور اب آگے کا سوچیں۔"
"تم جائو میں کچھ دیر اکیلے رہنا چاہتی ہوں۔"
شبو کو باہر بھیج کر شہانا نے اپنے ہاتھوں کی لکیروں دیکھی جن میں انہوں نے خود اپنے لیئے بدنصیبی لکھی تھی۔
___________________________
ماروی کا سامنا اس ماسک والے بچے سے بہت بار ہوا۔آخر کار ماروی کو اس سے بات کرنا ہی پڑتی تھی وہ عجیب سا بچہ تھا۔ماروی نے ایک بات اس سے پوچھا تھا کہ اس کے والدین کہاں پر ہیں تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ہاشم کو جب معلوم ہوا تھا کہ جس لڑکی کو وہ روز دیکھنے گائوں آتا ہے وہ اور کوئی نہیں اس عورت کی بہن ہے جس نے اس کی ماں کے حق پر قبضہ کیا ہے۔اس دن کے بعد ماروی نے ہاشم کو نہیں دیکھا تھا مگر یہ لڑکا روز اس ملنے آتا۔آج تک ماروی نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا تھا۔ماروی اسی لڑکے ساتھ بیٹھی تھی جب ماروی کے بابا کا کوئی جاننے والا بچا اس سے کتابیں لینے کے لیئے آیا۔ماروی کی اور اس کی اچھی خاصی بنتی تھی۔ماروی اس سے بہت دیر تک باتیں کرتی رہی۔یہ ماسک والا لڑکا سب کچھ دیکھتا ریا۔ماروی جھولے پر آکر بیٹھی تو اس ماسک والے لڑکے نے ماروی کی نازک سی کلائی پکڑ لی۔
"تم آئیندہ کسی سے بھی بات مت کرنا۔"
"کیوں نہ میں کسی سے بات کروں۔تم ہوتے کون ہو مجھے روکنے والے۔آج تک تم نے مجھے اپنا چہرہ بھی نہیں دیکھایا اور مجھ پر حکم چلاتے ہو تم۔"
"سنو میں نے تمہارے علاوہ آج تک کسی سے دوستی نہیں کی تو یہ تمہارا بھی فرض بنتا ہے کہ میرے علاوہ تم کسی سے بھی دوستی مت کرو۔میں ہوں نہ تمہارے لیئے تمہیں جو بھی بات کرنی ہے تم مجھ سے کرو۔"
"عجیب ہو یار تم بھی جان چھوڑو میری۔بابا کو تمہاری شکایت کرو گی میں۔"
14 سالہ ماروی نے اس کو غصہ دیکھایا۔
"تم نے جسے بھی شکایت کرنی ہے کر لو مگر یاد رکھو تم صرف میری دوست ہو صرف میری۔"
ماروی فورا یہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔
"عجیب پاگل انسان ہیں میں اس سے بلکل بات نہیں کروں گی۔"
ماروی اپنی سہیلی کے ساتھ گھر واپس آگئی۔پریام کے بچے پیدا ہوئے تو ماروی کی والدہ پریام کے پاس ہی تھی۔وہ ویسے بھی آج کل اپنی بڑی بیٹی کے پاس ہی رک جاتی اور ماروی کو بہت غصہ آتا تھا۔پریام نے اسے تھپڑ لگایا تھا کہ یہ اس محل نہ جائے اور اپنی ماں کو وہ اپنے پاس رکھتی تھی۔ ماروی سب کچھ سمجھ سکتی تھی پریام نہیں چاہتی تھی کہ ماروی اس کی وہ عیش و عشرت بھری زندگی دیکھے۔یہ ماکان اس محل سے بہت چھوٹا تھا مگر ماروی کو معلوم تھا یہی اس کی جنت ہے۔
_____________________________
حال
ہاتھوں میں خوبصورت چاندی کی انگھوٹی پہنے یہ کالی سحر آنکھوں والا شخص اس وقت اپنے سامنے چلتی سکرین کو دیکھ رہا تھا۔ماروی ہوٹل پر کام کر رہی تھی۔ہاتھوں میں جوس کا کلاس تھامے اس شخص نے سیکرین پر انگلیاں پھیری جیسے یہ ماروی کو چھو رہا ہو۔اس بازو نظر آرہے تھے اس لمحے جن پر زخموں کے نشان تھے۔
"بہت جلد تم میرے پاس ہوگی تم ۔جانتی ہو سالوں سے تمہارا منتظر ہوں میں۔اب وہ وقت آگیا ہے کہ تم اور میں ایک ہوجائیں۔"
کمرے میں اندھیرا تھا جو اس شخص کی شخصیت کو ظاہر کررہا تھا۔ماضی میں ایک گہرا راض دفن تھا جس کے کھانے پر سب کچھ ختم ہوجانا تھا۔
_________________________
ماضی
ماروی آج بابا کے ساتھ پریام کی طرف آئی تھی۔پریام کے پاس ہی اس کی والدہ رہ رہی تھی۔ماروی کو بابا زبردستی لے گئے کہ تمہارے بھانجے پیدا ہوئے ہیں تم نے ان کو دیکھا نہیں اب تک۔ماروی بہت بے دلی سے بابا کے ساتھ اس بڑے محل چلی گئی جہاں انسانوں کو بہت حقیر سمجھا جاتا تھا۔ماروی لان میں جانے لگی تو اس کا سامنا ہاشم سے ہوا جو شاید کہیں جارہا تھا۔
"سہے نصیب آج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہیں ہمارے گھر۔"
ماروی کو نہیں پتا تھا کہ ہاشم محل میں رہتا ہے۔
"آپ یہاں ہاشم ۔۔۔۔۔"
"ہیں میں یہاں۔کیا تمہاری بہن نے تمہیں نہیں بتایا کہ سوتیلا بیٹا ہوں اس کا میں۔"
ماروی حیران ہوگئی کہ اسے کیسے پتا نہیں چلا کہ یہ ہاشم رئیس سے دوستی کر بیٹھی تھی ۔
"چلو میں ہی بتاتا ہوں۔تمہاری بہن کا مقصد مین کبھی کامیاب میاں ہونے دوں گا جو تمہارے ذریعے اب مجھے قابو کرنا چاہتی ہے ۔یہ تمہاری بھول ہوگی کہ ہاشم رئیس زادہ کبھی تم جیسی لڑکی سے دوستی رکھے گا۔میرا معیار بہت اونچا ہے جو تم جیسے کمی لوگوں کے ساتھ میچ نہیں کرتا۔"
"جسے شٹ اب اپنی حد میں رہیں آپ۔معیار میرا میں آپ کا گرا ہوا ہے۔نہیں شاید آپ کو کسی نے سیکھایا ہی نہیں کہ کسی سے بات کیسے کرتے ہیں۔"
ہاشم اسے کوئی اور سخت لفظ کہتا مگر اس سے پہلے ہی پریام پیچھے سے اگئی۔
"ماروی ۔۔۔۔۔۔ماروی میرے پاس آئو۔۔"
ماروی فورا سے بہن کے پاس چلی گئی۔
"اپنی بہن کو قابو میں رکھیں رانی ورنہ اتنی سے عمر سے یہ وہ کام کرنے لگے گی جو آپ نے اس عمر میں کیا ہے۔"
"اپنی زبان کو لگام دو تم۔خبردار میری بہن کے بارے میں تم نے ایک لفظ بھی کہا تو۔چلے جائو جہاں جارہے ہو ۔"
پریام ہاشم کو کوئی بھی جواب دیتے بغیر ماروی کو لے کر اپنے کمرے میں آئی۔پریام کو جس بات کا ڈر تھا وہ اسے ہوتا ہوا نظر آرہا تھا۔
"ماروی تم کیسے جانتی ہو ہاشم کو۔"
"میری ملاقات ہوئی تھی ان سے ایک سال پہلے۔مجھے نہیں پتا تھا وہ آپ کے سوتیلے بیٹے ہیں۔ان سے دوستی ہوگئی تھی میری اور۔۔۔۔۔۔"
ایک زور کا تھپڑ پریام نے ماروی کھ منہ پر مارا۔ماروی تو کتنی دیر ہل ہی نہی سکی۔
"عمر دیکھی ہے اپنی۔ابھی 14 سال کی ہو اور یہ حرکتیں ہیں تمہاری۔۔۔۔۔۔اس محل میں آنے کی خواہش ہے تمہیں کیا۔جانتی بھی ہو تم ہاشم رئیس ذادہ کو۔۔۔۔۔"
پریام کو بس نہیں چل رہا تھا یہ ماروی کے ساتھ کیا کر دے۔ماروی کے تو بدن میں جان ہی نہیں رہی تھی کہ یہ ہل بھی پاتی۔
"میرا ایسا کوئی ارادہ۔۔۔"
"بس آئیندہ کے بعد اس کا خاندان کے کسی بھی فرد سے تمہارا کوئی تعلق مجھے نظر آیا یا میں نے کچھ سنا تو بھول جائوں گی میں کہ تم میری بہن ہو۔۔۔۔۔"
پریام ماروی پر دھیمی آواز میں غرائی۔ماروی کو جتنی ذلت آج کے دن محسوس ہوئی تھی اس نے کبھی محسوس نہیں کی گھی۔اسے معلوم تھا بات یہاں اس کے کردار کی ہورہی ہے۔اس کی والدہ بھی کمرے میں آگئی جن کے ہاتھ میں اپنا ایک نواسہ تھا۔ماروی نے ایک نظر ماں کو دیکھا پھر پریام۔
"آج کے بعد میں آپ کے اس محل کبھی نہیں آئوں گی۔میں صرف بابا کے کہنے پر آپ کے بیٹوں کو دیکھنے آگئی مگر آج کے بعد میرے لیئے کوئی بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔"
ماروی روتے ہوئے ہوئے اس کمرے سے باہر چلی گئی اس کی والدہ نے اس کے پیچھے جانا چاہا۔
"رک جائیں امی خود ہی ٹھیک ہوجائے گی۔اس کو سبق سیکھانا ضروری تھا۔مجھے یقین میں آتا اس کی جان پہچان ہاشم سے کیسے ہوگئی۔"
"بیٹا یہ گائوں ہے یہاں سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔کبھی ملاقات ہوگئی ہوگی ۔تمہیں اسے تھپڑ نہیں لگانا چاہئے تھا پہلے ہی اتنی مشکل سے تمہارے بابا سے تمہارے پاس لائیں ہیں۔"
"امی اس کے لیئے یہ سب ضروری ہے تاکہ وہ ایسی زندگی ہرگز نہ گزارے جو میں گزار رہی ہوں۔اس کی خوبصورتی اس کے لیئے عذاب بن جائے گی۔"
پریام یہ نہیں جانتی تھی جو بات پیار سے سمجھانے کے بجائے یہ ماروی کو تھپڑ سے سمجھانا جارہی تھی اس میں ماروی کے لیئے کوئی بھلائی نہیں تھی۔ ۔یہاں سے ہی بہن بھائیوں میں خلش آتی ہے جو بہت سال چلتی ہے اور اکثر ہم کسی اپنے کو کھو کرہی سب کچھ سمجھ پاتے ہیں۔
_____________________________
ماروی پریام کے گھر سے نکلنے کے بعد بلکل خاموش ہوگئی تھی ۔وہ ماسک والا لڑکا ایک دن اس کے قریب بیٹھا تھا۔اس شاید چہرے پڑھنا آتا تھے۔
"اداس ہو کسی بات پر۔"
"میں نے اداس ہونا چھوڑدیا پے۔"
"مجھے معلوم ہے تمہیں کوئی پریشانی ہے۔"
"بس ایسے ہی۔پتا ہے دولت انسان کو بلکل بدل کر رکھ دیتی ہے ۔میں سمجھتی تھی کہ زندگی بہت آسان ہے مگر اتنی سے عمر میں مجھے سمجھ لگ گئی ہے آپ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے چاہے آپ کسی بھی عمر کے ہوں۔ایک لڑکی کا کردار تو کانچ کی طرح ہوتا ہے بے حد نازک جس پر ایک ٹھوکر بھی لگ جائے تو وہ دنیا کے لیئے ناقابل قبول بن جاتی ہے۔"
ماسک وہاں لڑکا ہنسنے لگ گیا۔
"ابھی تمہارے اتنی عمر نہیں ہے جتنی بڑی تم باتیں کر رہی ہو۔کھائو پیئو اور اپنی زندگی کو جی لو۔"
"عمر سے سمجھداری کا کوئی تعلق نہیں ہوتا مسٹر۔"
"یہ۔۔مجھے مسٹر کیوں بلاتی ہو۔"
"اپنا نام بتانے کی زحمت کی آپ نے۔"
"تمہارے لیئے میرا نام اہم نہیں ہونا چایئے۔ویسے تم مجھے کچھ بھی بلا سکتی ہو۔"
"مجھے تو تم کوئی بدروح لگتے ہو ۔ہر وقت ماسک لگائے ہوئے۔"
"یہ ماسک میری مجبوری ہے مگر جلد ہی تمہیں اس ماسک کی حقیقت بتا دوں گا میں۔میرے ساتھ رہو گی نہ تم ہمیشہ۔"
"کیا پتا زندگی ہمیں آگے کس موڑ پر لے جائے۔ویسے بھی مجھے بہت جلد ماموں کے پاس جانا ہے۔میرا دل نہیں لگتا اب یہاں ۔امی کے پاس فرصت ہی نہیں اپنی بیٹی سے۔وہ ان کے پاس زیادہ رہتی ہیں اور بابا کو میری کوئی بات سمجھ نہیں آتی۔میرا یہاں سے چلے جانا ہی بہتر ہے ۔"
"یہاں سے جانے کے بعد مجھے کبھی مت بھولنا ماروی۔میں تمہارے آس پاس رہوں گا ہمیشہ اور پھر ہم دوبارہ ملیں گے۔"
"تمہیں برا نہیں لگے گا میرا یہاں سے جانا۔"
"نہیں تمہارے لیئے اس جگہ سے جانا ہی بہتر ہے۔اپنے گھر کو کوئی نہیں بھول سکتا مگر کبھی کبھی انسان کو بہتری کے لیئے کچھ اچھے فیصلے لینے ہوتے ہیں۔تمہاری ابھی اتنی عمر نہیں یہ سب سمجھنے کی۔"
"عمر تو تمہاری بھی نہیں ہے۔"
"عمر کا سمجھداری سے کوئی تعلق نہیں یہ تم نے ہی کہا تھا نہ۔میں تو بچپن میں ہی سمجھدار ہوگیا تھا۔مین نے جان لیا تھا کہ اگر اس جگہ رہنا ہے تو کیسے رہنا ہے۔خیر چھوڑو یہ سب کچھ مجھے اپنی ڈرائنگ دیکھائو نہ۔"
ماروی نے اپنا سکول بیگ کھولا اور اسے کاپیاں دیکھانے لگی۔وقت ماروی کے لیئے بہت بھاری ہونے والا تھااور اپنی زندگی میں قسمت کے ہاتھوں بہت کچھ دیکھنے والی تھی ماروی جس کا کسی نے گمان بھی نہیں کیا تھا۔سمندر کہ اس کنارے جیسی ہونے والی تھی ماروی کی زندگی جس کی کوئی منزل نہیں تھی۔
_______________________
پریام چاہتی تھی اس کے اور ہاشم کے درمیان جو غلط فہمی ہے وہ دور ہو ۔ پریام ہاتھ میں خوبصورت سی مردانہ چادر لیئے ہاشم کے کمرے کی طرف آئی۔ہاشم سے اس کی زیادہ بات نہیں ہوتی تھی۔ان دونوں کی عمروں میں فرق بہت کم تھا۔ہاشم خود بھی پریام سے دور دور ہی رہتا تھا ۔پریام۔ہاشم اس وقت 18 سال کا تھا۔پریام بھی دو بچوں کی ماں بن چکی تھی۔اس وقت پریام نے اپنے بچوں کے لیئے شاپنگ کی تھی تو اس نے ہاشم کے لیئے بھی شاپنگ کر لی تھی۔
"ہاشم۔۔۔۔۔۔۔۔"
"تم یہاں۔۔۔۔۔میرے کمرے میں کیوں آئی ہو۔"
"ہاشم میں چاہتی ہوں کہ ہمارے درمیان جو ناراضگی ہے وہ دور ہوجائے ۔میں نے کبھی نہیں چاہا تھا ہاشم کے میں تمہاری ماں کی جگہ لوں۔"
ہاشم کو پریام سے سخت نفرت تھی۔اس نے نہایت نفرت سے اسے دیکھا۔
"مجھے کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔میری ماں کے حق پر ڈاکہ ڈال کر میرے باپ کو مجھ سے دور کر کے کیا سمجھتی ہو کہ میں تمہیں اپنی چھوٹی ماں مانوں گا۔تمہیں پیسے کی بہت چاہت تھی نہ اسی خاطر ایک شادی شدہ آدمی کو بھی نہیں چھوڑا ۔کتنا پیسا چاہیے تمہیں لاکھوں یا کروڑوں مجھے بتائو میں تمہیں سب دینے کو تیار ہوں اپنے بچوں کو لو اور اس حویلی سے دفعہ ہوجائو۔"
"ایسا نہیں ہے ہاشم تم غلط سمجھ رہے ہو۔دیکھو میں نے تمہاری ماں کا کوئی مقام نہیں لیا اوہ آج بھی اپنی جگہ پر ہی ہیں میرے بچے کبھی تمہاری جگہ نہیں لیں گے۔"
پریام ہاشم کا بازو پکڑا کر بولی ۔ہاشم کو اس وقت بہت غصہ تھا۔اس نے زور سے پریام کو دھکا دیا۔پیچھے پڑے شیشے کے ٹیبل پر پریام گری تھی اس لمحے پریام کو سمجھ نہیں آئی کہ کیا ہوا ہے۔پریام کی چیخ سن کر سب اکٹھے ہوگئے۔پریام کی ملازمہ اس کے ساتھ ہی تھی ۔
"رانی بی بی۔۔۔۔۔۔"
شہانہ بھی ساتھ ہی آگئی۔پریام کو فرش پر زخمی حالت میں پڑے دیکھ کر ان کی سانس حلق میں اٹک گئی۔انہوں نے ہاشم کو دیکھا جس کی نظر میں کوئی شرم باقی نہیں تھی کہ اس نے کیا کیا ہے۔اب تو مرتضی ان دونوں کو نہیں چھوڑنے والے تھے۔مرتضی جو اپنے کمرے میں تھی وہ بھی بھاگتے ہوئے آئے۔پریام کو خون میں لت پت پڑے دیکھ کر ان کا خون کھول اٹھا ۔انہیں ایک لمحہ نہ لگا سب سمجھنے میں کہ پریام کو کس نے گرایا ہے۔پریام جو چادر لائی تھی وہ سائٹ پر پڑی تھی۔
"رئیس ذادی میری رانی کو اگر کچھ ہوا تو اپنے بیٹے سمیت اپنا سب کچھ اس حویلی سے لے کر پہلے ہی چلی جائیے گا۔"
پریام کو اٹھاتے ہوئے مرتضی نے سرد لہجے میں شہانہ کو سنایا ۔ہاشم کو بھی سمجھ نہیں آیا تھا کہ کیا ہوا ہے مگر اسے ہرگز دکھ نہیں تھا کہ اس نے پریام کو گرایا ہے۔
"یہ کیا گیا چھوٹے رئیس زادے۔وہ امید سے تھی اگر اس کے بچے کو کچھ ہوگیا تو ۔"پہلے بچوں کے آٹھ ماہ بعد پریام کو دوبارہ امید سے ہونے کی خبر ملی تھی۔
شہانہ کی بات سن کر ہاشم کا دل ایک لمحے کو ڈھڑکا۔اسے پریام سے کوئی غرض نہیں تھی وہ زندہ رہتی ہے یا نہیں مگر کسی بچے کو یہ ہرگز نہیں مارنا چاہتا تھا۔شہانہ کی ملازمہ بھی ان کے ساتھ رو رہی تھی کیونکہ پریام کی صحت یابی ہی شہانہ اور مرتضی کا رشتہ قائم رکھ سکتی تھی۔
_________________________
پریام کو مرتضی حویلی لے آئے تھے۔ان کے دو جڑواں بچے اپنی ماں کو دیکھ کر اس کی طرف آنے کو بے تاب تھے مگر پریام کو آرام کی ضرورت تھی۔
"زیبا بچوں کو دیکھ لو پریام کو کوئی تنگ نہ کرے۔"
"جی سائیں جی۔"
مرتضی کمرے کا دروازہ بند کر کے باہر چلے گئے۔ان کا رخ ہاشم کے کمرے کی طرف تھا۔یہ جیسے ہی اندر آئے انہیں شہانہ بیٹے کے پاس بیٹھی نظر آئی۔
"سائیں پریام۔۔۔۔۔"
"خاموش ہوجائیں رئیس ذادی مجھے اس سے بات کرنے دیں۔اس کے پاس اس قدر اختیار آگیا کہ اس نے رانی رئیس ذادی کو دھکا دیا۔میں نے اپنا بچہ کھو دیا ہے اس کی وجہ سے ۔میری پریام کو تکلیف دے کر اس کی روح کو کون سے ٹھنڈک ملی ہے ہاں۔"
شہانہ کے ہاتھ پیر کانپ گئے تھے۔ہاشم کو دکھ تھا کہ اس کی وجہ سے کسی معصوم کی جان چلی گئی مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ پریام امید سے ہے۔
"سائیں بچہ ہے یہ غلطی ہوگئی اس سے معاف کر دیں اسے۔"
شہانہ مرتضی کے آگے ہاتھ باندھنے لگی۔
"بس رئیس ذادی اس نے رانی کو نقصان پہنچایا ہے ۔یہ چھوٹا نہیں ہے اس کے جتنے تھے نہ ہم تو ہمارے دادا نے ہماری اور آپ کی شادی کروائی تھی۔یہ کیا سمجھتا ہے کہ اس کے اس رویے کے بعد بھی میں اسے اس حویلی میں رہنے دوں گا۔ہرگز نہیں میرے دو بیٹے اور بھی ہیں ان کا بھی اس حویلی پر اتنا ہی حق ہے جتنا اس کا۔ابھی کے ابھی یہ اپنانا سامان اٹھائے اور اس حویلی سے نکل جائے۔"
"یہ مت بھولیں ڈیڈ کہ دادا نے آپ کی آدھی جائیداد میرے نام پہلے سے کر رکھی ہے۔"
"میں جانتا تھا کہ رئیس ذادی کی ہی تربیت ہے کہ تم آج میرے آگے زبان چلاتے ہو۔جائو اس جائیداد سے اپنا بزنس کرو اپنی تعلیم کا خرچ اٹھائو مگر اس حویلی کے دروازے تم پر آج سے بند ہیں ۔"
"سائیں یہ ظلم مت کریں۔میرا ایک ہی بیٹا ہے۔"
"بس شہانہ میرا بھی بچہ مرا ہے ابھی ۔میری پریام بستر پر ہے صرف اس کی وجہ سے۔اگر آپ کو بیٹا اتنا ہی عزیز ہے تو آپ جا سکتی ہیں اس کے ساتھ میں نہیں رکوں گا آپکو۔"
مرتضی دروازے سے باہر چلے گئے۔ہاشم نے اپنا سامان نکالنا شروع کیا۔
"ہاشم ایسا مت کرو۔اپنی چھوٹی ماں سے معافی مانگ لو۔"
"خبردار جو آپ نے اس گھٹیا عورت کو میری ماں کہا تو۔آپ نے جانا ہے میرے ساتھ یا نہیں ۔"
شہانہ خاموشی سے کھڑی ہوگئی۔یہ کبھی بھی مرتضی کو نہیں چھوڑ سکتی تھی۔
"میں جواب جانتا ہوں آپ کا۔دعا کریں جہاں رہوں ٹھیک رہوں اس حویلی میں نہیں آئوں گا اب میں۔"
شہانہ اپنے ٹوٹے آشیانے کو دیکھ رہی تھی۔باپ بیٹے کی جنگ ان کی زندگی خراب کر گئی تھی۔
__________________________
پریام کمرے میں تھی۔اس کی آنکھ ایک نرم احساس سے کھلی۔اس کا بیٹا قاسم اس کے چہرے پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔
"ماما۔۔۔۔۔"
قاسم اور احمد ابھی بول نہیں پاتے تھی
"ماما کی جان۔۔۔۔"
پریام نے تھکے ہوئے انداز میں اپنے بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرا۔آج اس نے ہاشم کی بدولت اپنی اولاد کھو دی تھی۔ہاشم کے دل میں اس کے لیئے کس قدر نفرت تھی کہ اس نے اپنے اور اس کے مابین رشتے کا لحاظ بھی نہ کیا ۔اسے تکلیف پہچانتے ہوئے اس کی آنکھ میں بلکل دکھ نہیں تھا۔پریام ایک ایسے بھنور میں پھنس گئی تھی جہاں سے واپسی ممکن نہیں تھی۔
"رانی پریام ۔"
مرتضی اپنے دوسرے بیٹے کو ہاتھوں میں اٹھائے اندر آئے جس کے پاس اس کا فیڈر اٹھایا ہوا تھا۔
"آپ جاگ گئی ہیں تو کچھ کھا لیں ۔"
"میرا دل نہیں ہے مرتضی۔آپ کھانا واپس لے کر چلے جائیں ۔"
"رانی پریام اگر آپ اپنا خیال نہیں رکھیں گی تو اس سے کسی کا نقصان نہیں ہے سوائے آپ کے۔آج جو ہوا اس کی سزا میں نے ہاشم کو دے دی ہے اور مجھے امید ہے مستقبل میں وہ ایسی حرکت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا۔"
"اس کی اس شخصیت کا ذمہ دار اور کوئی نہیں آپ ہیں مرتضی۔مجھے اس محل میں قید رکھ کر اپنی بیوی بنا کر آپ نے اپنے بیٹے کو اپنا دشمن بنا لیا ہے۔آج اس نے مجھے نقصان پہنچایا ہے کل وہ میرے بچوں کو نقصان پہنچائے گا ایک بچہ اپنا کھو چکی ہوں اس کی وجہ سے ۔کیا ساری عمر مجھے یہی سب سہنا ہوگا۔"
"بس رانی پریام ایسا کبھی نہیں ہوگا۔میں اسے اس حویلی سے بے دخل کر چکا ہوں۔وہ اپنے لیئے کے سزا پائے گا۔آپ اس محل کی رانی ہیں میرے بچوں کے لیئے میں نے اپنا سب کچھ چھوڑا ہے۔"
"ہاشم اس کا کیا مرتضی وہ بھی تو آپ کا بیٹا ہے نہ۔اس کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔"
" اس کا حصہ اس کے دادا جب وہ پیدا ہوا تھا اس کو دے گئے تھے۔میں نے اس کو اور اس کی ماں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑا اور مستقبل میں بھی نہیں چھوڑوں گا۔آپ اپنی صحت پر دھیان دیں۔قاسم کو آپ کی بہت ضرورت ہے یہ کسی کے پاس نہیں جاتا ۔"
"آپ کا بیٹا ہے آپ سنبھالیں ۔میں تنگ آگئی ہوں انہیں سنبھالتے ہوئے۔مجھے کچھ دن میرے بچے کا غم تو منا لینے دیں۔"
مرتضی پریام کے پاس بیٹھے اور اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔
"ہم دونوں کا غم ایک جیسا ہے پریام اگر آپ چاہتی ہیں کہ بچے میرے پاس رہیں تو میں انہیں رکھ لوں گا۔مگر آپ بھی تو میری ذمہ داری ہیں نہ پریام۔چلیں کچھ کھا لیں پھر سو جانا۔"
پریام نے گہری سانس لی اور مرتضی کے ہاتھ سے کھانا کھالیا۔ہاشم جو باپ کے پاس آیا تھا وہ دروازے سے ہی واپس چلا گیا۔
"تم عزت کے قابل نہیں ہو پریام رئیس ذادی ۔میں تم سے وہ بدلہ لوں گا جس کے بعد تم اس حویلی کی شان و شوکت سے پناہ مانگو گی۔"
یہ آغاز تھا ایک انتقام کا جس سے بہت سے لوگوں کی زندگی برباد ہو جانی تھی۔
_____________________
ماضی
ماروی کو ماموں کی طرف جانا تھا کچھ ہی عرصے بعد۔پریام سے ماروی بہت دور ہوگئی تھی۔نہ اس نے پریام کے بچوں کو دیکھا نہ ہی اسے خواہش تھی۔اس کی والدہ نے فیصلہ کیا تھا کہ یہ ماروی کے جانے کے بعد دن کے وقت یہ اپنی بیٹی کے پاس رہا کریں گی۔ماسٹر منور کو تو ویسے بھی فری نہیں ہوتے تھے شام تک سکول سے ہی۔ماروی نے ماموں جان سے بات کر لی تھی۔ایک دن یہاپنے گھر میں بیٹھی ہوئی تھی جب بابا اس کے پاس آئے وہ کچھ پریشان لگ رہے تھے۔
"کیا ہوا بابا۔"
"میرا بیٹا میں نے تم سے ایک بات کرنی ہے۔میں جو بھی کرنے لگا ہوں تمہاری حفاظت کے لیئے کرنا لگا ہوں۔تم جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھو گی تو میرا یہ اٹھایا ہوا قدم تمہیں سمجھ آجائے گا۔"
"کیوں کیا ہوگیا بابا جان۔"
"تمہیں میرے ساتھ کہیں جانا ہے۔"
ماروی اپنے بابا کے ساتھ جانے کے لیئے تیار ہوگئی۔ماروی کو نہیں پتا تھا کہ ماسٹر منور کیا کرنے والے ہیں۔یہ ایک عام سا گھر تھا۔ایک عورت اس کے پاس آئی۔
"بیٹا یہ ڈوپٹا کرلو ابھی مولوی صاحب آتے والے ہوں گے۔"
"مولوی صاحب مگر کیوں۔"
"بیٹا کیونکہ تمہارا نکاح ہے۔"
"میرا نکاح مگر کس سے۔"
"یہ تو میں بھی نہیں جانتی مگر تمہارے بابا کے ساتھ کچھ لوگ باہر آئے ہوئے ہیں۔"
ماروی کو معلوم تھا کہ نکاح کا کیا مطلب ہوتا ہے۔اس نے ان آنٹی سے کہا کہ اس کے بابا کو بلا دیں۔ماسٹر منور اندر آئے تو انہوں نے ماروی کے سر پر ہاتھ رکھا۔
"میرا بچہ میں جو بھی کر رہا ہوں تمہاری بھلائی کے لیئے کر رہا ہوں۔"
"مگر بابا کسی کو نہیں معلوم آپ کیا کر رہے ہیں۔میں ابھی بہت چھوٹی ہوں آپ کو پتا ہونا چایئے۔"
"بیٹا میں تمہیں ابھی ہرگز رخصت نہیں کر رہا مگر تم نے یہاں میری عزت رکھنی ہے اب۔کہا تھا نہ میں نے تمہیں۔ بہت جلد تمہیں پتا چل جائے گا کہ میں نے سب کچھ کیوں کیا ہے ۔بس نکاح نامے پر سائین کر دینا۔"
ماروی کو تو کچھ سمجھ نہ آیا۔مگر کچھ دیر بعد اس کا نکاح ہوگیا۔یہ اپنے شوہر کا نام سن نہیں پائی کیونکہ اس نے غائب دماغی سے ہاں کیا تھا۔ماروی ابھی اندر ہی بیٹھی تھی جب چہرے پر نقاب لیئے وہی ماسک والا لڑکا اندر آیا جو اس سے ملا کرتا تھا۔
"تم۔۔۔۔تم یہاں کیسے۔۔۔۔۔"
"میں نے تمہیں کہا تھا کہ میں تم سے کبھی الگ نہیں ہوں گا۔اب تم میری ہو ہمیشہ کے لیئے مجھے کوئی ڈر نہیں ہے کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے"
اس ماسک والے لڑکے نے ماروی کا ہاتھ تھاما اور اپنی انگلی میں پہنی انگھوٹی کو کھولا ۔یہ کھل جاتی تھی اس کے اندر ایک h کا نشان تھا۔ماروی کو اس انسان سے ڈر لگا۔اس نے ماروی کا ہاتھ تھاما اور اس کی ہتھیلی پر زور سے اپنی انگھوٹی رکھی۔اس کے ہاتھوں اتنی جان تھی جان تھی کہ انگھوٹی ماروی کی ہتھیلی کے اندر چلی گئی۔ماروی کی چیخیں نکل گئی اور اس کی ہتھیلی خون سے بھر گئی۔ماروی کو لگا کہ اس کی انگھوٹی کے ساتھ کوئی تیز دھار چیز تھی۔ماروی کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس نے ماروی کے کان میں سرگوشی کی۔
"یہ نشان ہمیشہ تمہیں میری یاد دلائے گا۔تم جہاں بھی جائو گی یہ تمہارے ساتھ رہے گا۔میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں آج سے۔"
اس نے ماروی کے منہ سے ہاتھ ہٹایا اور اس کے چہرے سے اس کے آنسو صاف کیئے۔
"مجھے تمہارے پاس سے جانا ہوگا ابھی مگر یاد رکھا میں تمہارے بہت پاس رہوں گا اتنے پاس کہ تم مجھے کبھی جان نہیں پائو گی۔" ماروی کے آنسو صاف کرنے کے بعد یہ باہر چلا گیا۔ماسٹر بیٹی سے نظر نہیں ملا رہے تھے ور اسی شام ماسٹر منور نے ماروی کو اس کی ماں اور پریام سے ملے بغیر ہی اس کے ماموں کے پاس بھیج دیا جہاں ماروی نے اپنے ماں باپ سے کوئی رابطہ نہیں رکھا۔پریام سے تو اس کی کبھی بات ہی نہیں ہوئی تھی۔یہ شاید بھول گئی تھی کہ کبھی اس کا نکاح ہوا تھا یا اس کے اپنے پیچھے اس کے منتظر تھے۔
___________________
حال
ماروی اپنے خیالوں سے باہر آئی تو اسے محسوس ہوا اس کے ساتھ کوئی کھڑا ہے۔ماروی کے ساتھ حمزہ کھڑا ہوا تھا جس نے اس متوجہ نہ پاکر اس کے ماتھے کر چٹکی بجائی۔
"آہ۔۔۔۔جنگلی یہ کیا طریقہ ہے۔۔۔۔۔"
"میں بھی تم سے یہی بات پوچھ سکتا ہوں۔تم کن خیالوں میں ہو۔مجھے تو سمجھ نہیں آتی یہ کام کے دوران تمہیں کیا یاد آجاتا ہے۔"
"کچھ نہیں بس ایسے ہی آج امی بابا کی یاد آرہی تھی۔"
حمزہ اس کی بات پر متوجہ ہوا۔
"تمہارا کیا ارادہ ہے۔جانا ہے واپس تم نے یا یہاں ہی رہنا ہے۔"
"پہلے میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔اب دل کرتا ہے ایک بار جائوں اور بابا امی سے ملوں۔"
"اچھی بات ہے تمہیں جانا چایئے واپس۔انسان اپنے اصل سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔"
"تم بتائو آگے کا کیا ارادہ ہے۔"
"میرا ابھی کچھ خاص نہیں۔"
حمزہ ماروی کو کچھ بتانے والا تھا جب ارمان ہوٹل کے اندر آیا۔
"ارے مسٹر ارمان آپ یہاں کیسے۔"
حمزہ اپنی کرسی سے کھڑا ہوگیا۔حمزہ کا حلیہ اس وقت بلکل عام سا تھا اور اس نے جیسے ہی ارمان سے ہاتھ ملانے کے لیئے اپنا ہاتھ آگے کیا ارمان نے غرور سے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا۔
"میں ٹھیک ہوں مسٹر حمزہ آپ یہاں کیسے۔"
"میں ماروی سے ملنے آیا تھا۔"
"ماروی سے کیوں ہیں آپ اتنے کلوز۔میرا مطلب ہے میں نے نوٹ کیا ہے ہر جگہ آپ لوگ ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔"
"مجھے ماروی اچھی لگتی ہے۔ہم اب سے نہیں آٹھ سال سے دوست ہیں جب سے ماروی یہاں آئی تھی۔ماروی اور میں نے سکول اکٹھا ہی ختم کیا۔"
"والد کیا کرتے ہیں آپکے مسٹر حمزہ۔"
"ہوٹل ہے چھوٹا سا ان کا۔"
"اچھا ہے بس کچھ لوگ محنت کرتے رہتے ہیں پھر بھی کچھ نہیں بنا پاتے۔آپ کے بابا نے تو اپنا ہوٹل بنا لیا ہے یہ بہت بڑی بات ہے۔"
ارمان نے سیدھے سیدھے اس پر طنز لیا۔حمزہ کا چہرہ اب بھی پہلے جیسا ہی تھا جیسے اسے ارمان کے کچھ بھی کہنے سے کوئی فرق نہ پڑا ہو۔
"بات دراصل گیا ہے نہ مسٹر ارمان۔اگر کسی کا حق کھا کر ہم آگے آجاتے ہیں تو ہمیں یہ بات یاد رکھنے چایئے ہماری وہ کامیابی بہت دیر ہمارے ساتھ نہیں رہتی۔اصل حقدار بہت جلدی اپنی منزل تک چلے جاتے ہیں۔"
"یہ سب فلسفے کی باتیں ہیں جو زندگی میں بس جینے کا سہارا دیتی ہیں حمزہ۔اگر آپ دیکھیں تو فلسفوں پر یقین رکھنے والے لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوئے۔"
"یہ تو وقت ہی بتاتا ہے کون کامیاب ہوگا اور کون ناکام۔ہمیں اس سب کے لیئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔"
ماروی ان دونوں کے پاس آئی۔
"کیا باتیں کر رہے ہیں آپ لوگ۔"
"کچھ نہیں زندگی کے بارے میں۔تم نے گھر جانا تھا نہ واپس میں لے جاتا ہوں چلو ۔"
حمزہ ماروی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا۔
"میں کچھ دیر ہوٹل پر رکوں گا تو مجھے ماروی کے ہاتھ کا کھانا چاہیے انہیں تھوڑی دیر یہاں رکنے دو۔"
میں نے کھانا بنادیا ہے مسٹر ارمان۔مجھے دراصل جلدی گھر جانا ہے نانی جان میری منتظر ہیں۔"
ماروی کو سچ میں آج گھر جانے کی بہت جلدی تھی۔حمزہ ماروی کو باہر آنے کا کہہ کر چلا گیا ۔ارمان ماروی کو جانے کے لیئے تیار ہوتا دیکھ کر اس کے پاس آیا ۔
"حمزہ سے دور رہا کریں ماروی۔وہ اس قابل نہیں ہے اس سے دوستی کی جائے میرا مطلب ہے اس کے پاس نہ اپنی نوکری ہے نہ گھر۔"
ماروی ارمان کے خیالات پر حیران رہ گئی۔
"وہ میرا دوست ہے اب سے نہیں بہت سالوں سے۔اس سے میری دوستی کو آپ یوں نہیں کہہ سکتے۔آپ کیا جانے دوست کیا ہوتے ہیں۔"
"یہ سب ایموشنل باتیں ہیں ماروی۔آپ کو نہیں پتا پیسا ہی زندگی میں سب کچھ ہوتا ہے۔آپ کو اپنی زندگی میں ایسے لوگوں سے تعلق رکھنا چاہیے جو آپ کے لیئے بہتر ہوں۔"
"مجھے آپ کے مشورے کی ضرورت نہیں۔آپ اندر جائیں میں جارہی ہوں ."
"ماروی میں تم سے بات کرنے کے لیئے آیا ہوں۔تم جانتی ہو نہ کہمیں تم سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔"
دیکھیں مسٹر ارمان میں نے بہت سوچا ہے۔دوست حقیقت میں وہی ہوتا ہے جو آپ کا ساتھ دے۔آپ کےخیالات حمزہ کے بارے میں جان کر مجھے اندازہ ہوگیا ہے کہ آپ کس قسم کے انسان ہیں۔ویسے بھی میری زندگی میں میں نے ابھی بہت کچھ کرنا ہے میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ دوستی کرتی رہوں سب سے۔آپ جہاں سے آئے ہیں وہاں ہی چلے جائیں۔ویسے بھی میں کسی کی امانت ہوں۔میرا نکاح ہوچکا ہے۔"
یہ بات ارمان کے لیئے نئی تھی۔
"کب کیسے کون ہے وہ۔"
"وہ جو بھی ہو مگر میرا شوہر ہے۔بہت جلد میں اس کے پاس ہوں گی اس لیئے آپ اپنے راستے میں اپنے راستے۔"
ماروی نے اپنا سامان اٹھایا اور یہ ارمان کو دیکھنے بغیر باہر چلی گئی۔آج اس رشتے کا حوالہ اسے بہت اچھا لگا جس کو اس نے اپنی نانی سے بھی چھپا رکھا تھا۔کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کا نکاح ہوچکا ہے حالنکہ اس کے ماموں بھی نہیں۔
ماروی باہر آئی تو حمزہ اپنی ہیوی بائیک کے پاس کھڑا تھا۔
"بہت دیر کر دی۔"
ماروی نے ہنستے ہوئے اسے جواب دیا۔
"دوستوں کے لیئے کبھی میں نے دیر نہیں کی۔میں ہمیشہ اپنے دوستوں کے لیئے موجود ہوں۔"
ماروی حمزہ کے پیچھے بہت آرام سے بیٹھ گئی۔حمزہ نے بھی ہنسنے ہوئے بائیک چلانا شروع کر دی۔ارمان جو اندر تھا اس نے اپنے سامنے پڑی ہوئی کانچ کی بوتل ہاتھوں میں ہی توڑ دی۔
"اتنے سال میں نے اس موقع کا انتظار کیا ہے۔میں تمہیں آسانی سے جانے نہیں دوں گا۔ابھی تو تمہاری بہن کو وہ تکلیف دینی پے جو میں نے اپنے گھر سے دور برداشت کی ہے۔باپ کے ہوتے ہوئے یتیم کی زندگی گزاری ہے میں نے۔ہاشم رئیس ذادہ کبھی اپنا انتقام نہیں بھولتا یاد رکھنا ماروی۔تمہارے ساتھ میں وہ کروں گا کہ تمہاری بہن اپنے انجام سے کانپ جائے گی۔"
ہاشم نہیں جانتا تھا کہ کبھی کبھی آپ جتنی بھی کوشش کرلیں آپ اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے جہاں پہلے سے کوئی موجود ہو۔
___________________________
ماروی نانی سے مل کر آج جلدی سونے کے لیئے چلی گئی۔ابھی رات کے آٹھ بجے تھے کہ اسے موبائل پر ماموں کا میسج آیا جو اسے گھر سے باہر آنے کو کہہ رہے تھے۔
"ماموں جان کو کیا ہوگیا ہے۔"
ماروی آنکھیں ملتے ہوئے باہر چلی گئی۔یہ جیسے ہی باہر آئی کوئی اس کے سامنے آیا۔ ایک ماسک والا اس کے سامنے آیا۔ماروی کو پہچاننے میں بلکل وقت نہیں لگا تھا کہ یہ کون ہے۔
"تم۔۔۔۔۔تم کون ہو۔"
"رانی رئیس ذادی ماروی کا شوہر۔"
ماروی کے ہاتھ کانپے تھے ۔اس نے پیچھے بھاگنا چاہا تھا۔ماسک والے نے فورا اسے بڑھ کر تھام لیا۔
"نہ نہ میری جان یہ غلطی مت کرنا ۔آٹھ سال کے طویل انتظار کے بعد تم ہاتھ آئی ہو۔اپنے لوگوں میں جانے کا وقت آگیا ہے۔آج تمہاری رخصتی ہے ماروی۔"
ماروی نے اپنے ماموں اور نانی جان کو پیچھے کھڑے دیکھا جہنوں نے سر جھکایا ہوا تھا۔
"ماموں جان آپ یہ سب جانتے تھے۔۔۔۔۔"
"بیٹا ہمیں معاف کردینا ۔۔۔۔۔۔"
ماروی نے اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کیئے۔ماروی نے بھاگنا چاہا جب اس ماسک والے نے اسے تھام لیا۔
"تمہارا پرسکون رہنا بہتر ہے۔اب تم جب اپنی یہ خوبصورت آنکھیں کھولو گی پرنسس تو اپنے محل میں۔"
اس کے ساتھ ہی ماسک والے نے ماروی کے چہرے پر رومال رکھا۔ماروی تھوڑی ہی دیر میں اپنے ہوش میں نہیں رہی تھی۔
"رئیس زادے۔۔۔۔۔ہماری بیٹی کاخیال رکھنا۔۔۔۔۔"
"جانتا ہوں میں جو میری تھی وہ ہمیشہ سے میری تھی ۔سسر صاحب کو بتا دیا ہے۔ہمارے ولیمے پر ضرور آنا سب۔چلتے ہیں ہم۔"
اس نے ماروی کو کسی گڑیا کی طرح اٹھایا اور پھر اس کا رخ ایک شاندار گاڑی کی طرف تھا جہاں گارڈز نے فورا دروازے کھولے۔ماروی کو لیئے یہ اپنے اصل گھر کی طرف چلا گیا۔
_____________________________
ماروی کی آنکھ ایک نرم سے احساس سے کھلی۔اس کے اوپر ایک ہلکا سا کمبل تھا۔کمرے میں اے سی کی ٹھنڈک تھی۔ماروی کا سر چکرا رہا تھا۔یہ اپنے وطن واپس آچکی تھی۔اس کی آنکھیں نہیں کھل رہی تھی۔کچھ دیر تک یہ یاد کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ کیا ہوا ہے۔اپنے حواس میں آتے ہی یہ فورا اٹھ گئی۔یہ کمرہ خوبصورت تھا مگر ایسا لگتا تھا کوئی فارم ہائوس ہے۔ماروی چکراتے سر کے اٹھ بستر سے اٹھی اور کمرے کو دیکھے بغیر ہی باہر جانا چاہا۔مگر اپنے سامنے ایک ایسی شخصیت کو دیکھ کر جس سے اس کی بہت انیست تھی اس کے حواس سلب ہوگئے۔
"تم۔۔۔۔۔۔۔۔"
سنا تھا کہ آئینہ سب کی حقیقت بتا دیتا ہے مگر ایسا نہیں ہے۔کچھ باتیں ہمیشہ کے لیئے راض رہ جاتی ہیں جن کو بہت کوشش کے باوجود بھی ہم جان نہیں پاتے۔کیا کوئی اس معصوم چہرے کے پیچھے چھپے انسان کو جان پایا ہے اب تک۔"
تاج پہنے شیشے کے سامنے کھڑی پریام نے اپنا خوبصورت سراپا آئینے میں دیکھا پھر سامنے ہی آئینے کے قریب پڑا ایک گلدان اٹھایا اور آئینے پر دے مارا ۔آئینہ ٹوٹ گیا۔
"لو ختم ہوگئی میری پہچان ۔آج سے میں صرف اس محل کی رئیس ذادی نہیں رانی بھی ہوں۔میں اپنے راستے میں آنے والی ہر اس چیز کو اپنے راستے سے ہٹانا جانتی یوں جس سے میرے مقصد میں رکاوٹ آئے گی۔"
پریام نے آئینے کے ٹکڑے اپنے ہاتھوں سے اٹھائے۔اپنی محبت قربان کرنا آسان تھا کیا۔سالوں سے یہ جس لمحے کی منتظر تھی وہ آج آگیا تھا۔آج اسے وہ موقع ملا تھا جب یہ اس محل میں بسنے والوں کو بتاتا کہ درد کیانپے جو اس نے سالوں سے برداشت کیا ہے۔پریام کی ہنسی عجیب تھی۔کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آنے والا انسان فورا اس کے پاس آیا۔
"رانی یہ کیا گیا۔میری جان ۔۔۔۔۔"
رانی کی آنکھوں میں آنسو کے بجائے ہنسی چمکنے لگی۔
"میرے اشاروں پر چلنے والے میرے پیارے شوہر تمہیں کیا معلوم میرے دل میں تمہارے لیئے ذرا بھی محبت نہیں۔میرا دل کرتا ہے تمہارا یہ خوب صورت چہرہ خراب کر دوں مگر کیا کروں مجھے ابھی جینا ہے تمہارے ساتھ اور اس محل کو وہ سب سود کے ساتھ واپس کرنا ہے جو سالوں پہلے مجھے ملا تھا۔"
مرتضی نے پریام کو گلے کو گلے لگا لیا۔
"آئیندہ خود کو کبھی تکلیف مت دینا۔مجھے امید ہے تم میری بات کو اہمیت دو گی۔"
پریام نے اپنا زخمی ہاتھ مرتضی کے چہرے پر رکھا۔یہ۔جانتی تھی کب کس وقت اس نے اپنے شوہر کو اپنے فائدے کے لیئے منانا ہے۔وہ وقت قریب تھا جب یہ اس رئیس خاندان سے سالوں کا بدلہ لینے والی تھی۔
_________________________
ہاشم واش روم سے نکل کر آیا۔اس نے اس وقت کالی پینٹ پہن رکھی تھی جبکہ شرٹ بیڈ پر پڑی تھی۔اس کے مضبوط جسم سے پانی کی بوندیں ٹپک رہی تھی۔ہاشم نے اپنے سر میں ہاتھ پھیرا اور بال سنوارے۔بیڈ پر سویا ہوا ایک وجود موجود نہیں تھا۔اس نے کمرے میں اردگرد دیکھا تو اسے صوفے کے ساتھ نیچے کالین پر اپنی بیوی نظر آئی۔یہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور نیچے بیٹھ گیا۔
"میری ماروی کیوں رو رہی ہے کیا اس کا عمر کہیں کھو گیا ہے۔"
ماروی نے اپنی نیلی آنکھیں اوپر اٹھائی ۔ہاشم رئیس زادہ کی آنکھیں جو اسے کبھی بے انتہا پسند تھی اب ان سے نفرت ہورہی تھی۔اس نے ہاشم کا ہاتھ پیچھے جھٹکا ۔ہاشم ہنسنے لگ گیا اور ماروی کو نیچے سے اٹھایا ۔
"لیو می۔تم ایک غنڈے ہو جسے رشتوں کا کوئی علم نہیں ۔اس لمحے سے نفرت ہوتی ہے مجھے جب تمہارا ہاتھ تھاما تھا میں نے۔"
ہاشم کا ہاتھ جھٹک کر ماروی نم آواز میں بولی۔ہاشم پیچھے ہوا اور بیڈ کے سائیڈ دراز سے اپنا پستول نکالا ۔
"اگر میں تمہیں پسند نہیں ہوں تو لو یہ پستول اور مار دو مجھے گولی ۔میں اچھا نہیں لگتا نہ تمہیں ۔میرا چھونا تمہیں برا لگتا ہے نہ۔"
ماروی کے ہاتھ میں ہاشم نے پستول پکڑایا ۔خود یہ پیچھے ہوا۔
"بے بی کیا سوچ رہی ہو مارو مجھے ۔تمہارے سامنے ہوں میں یقین کرو کوئی کچھ نہیں کہے گا تمہیں ۔"ماروی نے ہاتھ میں پستول دیکھا پھر کانپتے ہاتھوں سے اسے سامنے کیا۔اس نے ہاشم کی طرف دیکھے بغیر ٹریگر دبایا مگر پستول خالی تھا۔ہاشم کا فلک شفاف قہقہ بلند ہوا۔یہ فورا سے آگے آیا اور ماروی سے پستول لے کر بیڈ پر پھینکی۔ماروی کو اس نے دیوار سے لگایا ۔
"اتنا برا لگتا ہوں تمہیں کہ میرے ساتھ رہنے کے بجائے مجھے مارنا چاہتی ہوں تم۔مت بھولو تم میری بیوی ہو ہاشم رئیس ذادہ کی۔میں تمہیں رئیس زادی بنا چکا ہوں اور یقین کرو میں تمہیں چھوڑ نہیں سکتا ہاں اگر کہتی ہو کہ میں تمہیں پسند نہیں تو اسی کمرے کے نیچے ایک تہ خانہ ہے وہاں دلوا دیتا وہاں تمہیں ۔مجھے میرا حکم نہ مانے والے لوگ بہت برے لگتے ہیں رئیس زادی ماروی ۔تم میری دسترس میں آچکی ہو اور یقین کرو تم اب میرے ساتھ ہی رہو گی۔اگر نکلنا چاہو تو اس محل کی مضبوط دیواروں سے نکل جائو۔تم جہاں جائو گی میری مہر تمہارے ساتھ ہے ۔"
"تمہارے لیئے نہ میرے دل میں نفرت بھی نہیں ہاشم رئیس زادہ۔"
ہاشم نے ماروی کے جبڑے کو سختی سے پکڑا۔ہاشم کی آنکھیں اپنے رنگ کی طرح سرد تھی ۔
"تمہیں اتنا بولنے کی اجازت اس لیئے ملی کہ تم میری بیوی ہو ورنہ تمہاری زبان کاٹ دیتا میں ۔ویسے زبان کے بغیر تمہارا بہت فائدہ ہوگا خاموشی سے میری ہر بات سن لیا کرو گی اور مجھے تمہاری یہ چک چک برداشت نہیں کرنی پڑی گی۔"
ہاشم کا ٹھنڈا اندازہ ماروی کو سپٹانے پر مجبور کر گیا۔ہاشم نے اپنی دو انگلیاں ماروی کی کن پٹی پر رکھی۔
"اس دماغ میں بٹھا لو کہ تم میری بیوی ہو اور یقین کرو اگر مجھے تمہاری دونوں ٹانگیں توڑ کر ہمشیہ کے لیئے اس کمرے میں بند کرنا پڑا تو میں وہ بھی کر دوں گا۔میں ہاشم رئیس زداہ ہوں مجھے دیکھ چکی ہوں تم۔اگر میں نے تمہارے ساتھ وہ سلوک شروع کیا جو دوسروں کے ساتھ کرتا ہوں تو شاید تم نہ سہہ پائو۔شرافت سے جائو کپڑے تبدیل کرو اور ناشتے کی ٹیبل پر ملو مجھے۔"
ہاشم پیچھے مڑا۔مگر پھر کچھ یاد آنے پر یہ دوبارہ ماروی کے پاس آیا ۔ماروی ابھی بھی سیدھی کھڑی تھی۔ہاشم نے جھک کر اس کے لبوں پر اپنی مہر لگائی۔
"گڈ مارننگ بے بی ڈول۔جائو اب جلدی سے تیار ہو ورنہ میں شاید پھر پورے ہفتے کے لیئے تمہیں اسی کمرے میں رکھ لوں ۔"
ماروی اس سر پھرے کی باتیں سنتے ہی واش روم کی طرف بھاگی۔پیچھے ہاشم ہنس کر اسے جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔یہ محل اس نے اپنے پیسوں کا بنایاتھا۔باپ کے محل سے نکل جانے کے بعد اسے کہیں ٹھکانا نہیں مل رہا تھا۔اس نے اپنی جائیداد کا استعمال اپنے ایک دادا کے ملازم کی مدد سے کیا تھا۔اس نے اپنا نام سب کو ارمان بتایا اور پھر یہ پڑھنے باہر چلا گیا جہاں یہ سنگر بنا۔اس کا روپ رنگ بدل گیا اور پھر اس نے ایسی کامیابی پائی کی دنیا دیکھتی رہ گئی۔ماروی کے سامنے یہ اس کی ہی عمر کا بن کر اپنا چہرہ چھپا کر آیا کیونکہ یہ نہیں چاہتا کہ ماروی کے سامنے اس کی پہچان آئے۔ماروی کے ہر کام پر نظر تھی اس کی۔ماروی کے والد کو دھمکانا مشکل تو نہ تھا۔انہوں ان کی بیٹی کی عزت کی خاطر اس کا نکاح ہاشم سے کرنا پڑا اور پھر ماروی کی پڑھائی تک اس نے ماروی کو اپنانے کا سوچا۔اس نے خود کو اپنے باپ کی ضد میں ہر غلط کام میں شامل کر لیا ۔ساریہ کے ساتھ بھی اس کے تعلقات صرف ماروی کو تکلیف دینے کے لیئے تھے۔ماروی کو یہ کبھی نہیں چھوڑنے والا تھا۔اس نے سوچ لیا تھا کہا کی بہن کے سامنے اسے تکلیف سے گا تاکہ وہ تڑپے جیسے اس کی ماں ٹرپی ہے۔ماروی کو یہ اپنے بنائے ہوئے محل میں قید رکھنا چاہتا تھا اور پھر اولاد ہو جانے کے بعد تو ماروی نے ویسے بھی اس محل میں رہ جانا تھا۔اولاد کے خیال پر ہاشم کے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی۔ابھی اس کا ولیمہ ہونا تھا اور ساریہ کو بھی ماننا تھا۔ماروی کا رویہ اس کے ساتھ سپاٹ تھا۔ہاشم جانتا تھا اسے کیسے قابو کرنا ہے۔کل پریام کے چہرے کو یاد کرکے اس کے چہرے پر انتہائی خوشی آگئی۔اپنی بہن کو دیکھ کر کتنا ٹرپی تھی وہ۔
ماروی کو ہوش آرہا تھا۔اس کے ساتھ کوئی بیٹھا ہوا تھا اور یہ شاید گاڑی میں تھی ۔ماروی نے اپنے ذہن کو پرانی باتیں یاد کرنے پر لگایا اور جب اس سب کچھ یاد آیا تو یہ فورا اچھل پڑی۔ساتھ بیٹھا ہاشم بد مزہ ہوا۔
"تم ارمان۔۔۔۔۔۔۔"
"ہیں میں ارمان جسے تم بتا رہی تھی کہ تم کسی کے نکاح میں ہو۔ہاشم رئیس ذادہ یاد ہے نہ میں وہی ہوں۔"
ہاشم کی آنکھیں کا رنگ اپنی اصلی حالت میں تھا ورنہ ماروی کے سامنے یہ لینز لگاتا تھا۔
"تم ۔۔۔۔۔کیسے۔۔۔۔۔"
"تمہارے بابا نے تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں آج سے آٹھ سال پہلے دیا تھا ۔یقین کرو تم یہ نہیں پہنچان پائی کہ پندرہ سال کا لڑکا ایک اٹھارہ سال کے لڑکے کے برابر کیسے ہوسکتا ہے۔میں ہی وہ ماسک والا لڑکا تمہارا ہاشم خان۔"
ہاشم نے اس کے چہرے پر پھونک ماری۔
"میں نہیں مانتی اس سب کو۔بابا میرے ساتھ اتنا بڑا ظلم نہیں کرسکتے۔"
"تم کیا سمجھتی ہو وہ مان جاتے ہماری شادی کو ارے انہیں تو صرف رانی پریام کی خوشی عزیز تھی جن کو مجھ سے خطرہ تھا۔میں نے تمہیں مانگا اور انہوں نے بڑے آرام سے تمہیں مجھے دے دیا کہ ان کی بڑی بیٹی کی زندگی خراب نہ ہو۔"
ماروی کی آنکھوں سے اس وقت بے تحاشا آنسو نکل رہے تھے۔گاڑی محل کے اندر داخل ہوئی جو رئیس زادہ خان کا تھا۔ماروی کی آنکھوں سے یہ منظر چھپا نہیں رہ سکتا تھا۔ہاشم نے ایک چادر سائیڈ سے اٹھا کر ماروی کے اردگرد پہنائی۔یہ اس کی اپنی چادر دی۔یہ اس بات کی نشانی تھی کہ یہ ہاشم رئیس ذادہ کی رانی ہے رانی ماروی ہاشم خان۔ہاشم نے ماروی کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر نکالا۔لان میں تین بچے کھیل رہے تھے۔احمد اور قاسم آٹھ برس کے تھے جبکہ ارسلان پانچ سال کا تھا۔یہ تینوں پریام کے بچے تھے۔شہانہ لان میں ہی بیٹھے انہیں انہیں دیکھنے لگی ہوئی تھی"مام۔۔۔۔۔۔۔۔"
شہانہ یہ آواز لمحوں میں پہچان گئی۔یہ ان کا بیٹا تھا ہاشم تھا۔
"ہاشم میرے بیٹے ۔۔۔۔۔۔"
یہ فورا سے کرسی سے کھڑی ہوئی اور ہاشم کے سینے سے لگ گئی۔پریام بھی مرتضی کے ساتھ باہر آئی کیونکہ محل میں ہل چل سی تھی۔ہاشم کے ساتھ نیلی آنکھوں والی لڑکی دیکھ کر انہیں حیرانی ہوئی۔یہ پریام سے بھی گئی گنا خوب صورت تھی کہ اس ہاتھ لگانے سے ڈر لگتا تھا کہیں کوئی نشان نہ پڑ جائے۔
"مام۔۔۔۔۔میں آپ کو آپ کی بہو سے ملوانے لایا ہوں۔ملیں رانی ماروی ہاشم خان سے۔"
پریام نے مرتضی کے بازو کا سہارا لیا کیونکہ یہ پہچان گئی تھی کہ ان کی بہن ہے ماروی ہاشم کے ساتھ۔ماروی نے بہن کو دیکھا تو سب کچھ بھول کر اس نے جانا چاہا اس کی طرف۔
"نہیں ماروی رانی تم نہیں جاسکتی۔میری بیوی ہو تم اور یہ عورت میری سب سے بڑی دشمن ہے۔"
ہاشم نے ماروی کا ہاتھ پکڑ لیا۔شہانہ کو تو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے۔مرتضی آگے آئے۔
"ارے رئیس ذادہ صاحب کیسے ہیں آپ۔میں آپ کا بیٹا یاد ہے یا بھول گئے۔خیر اپنے ولیمے کے لیئے بلانے آیا تھا آپ لوگوں کو۔کل ہمارا ولیمہ ہے سارا گائوں آئے گا آپ بھی آنا۔ہاں ایک اور بات میں نے اپنی جائیداد سب الگ کر لیا ہے اور میرا اپنا علاقہ ہوگا جہاں پر آپ کا کوئی اختیار نہیں۔وہاں کا رئیس میں ہوں۔"
"تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی ہاشم اس بچی کے ساتھ یہ سب کرنے کی۔"
مرتضی نے ہاشم سے سخت لہجے میں سوال کیا۔پریام کی والدہ بھی اندر سے آگئی اور اپنی بیٹی کو دیکھ کر ان کے بھی آنسو بےاختیار نکلے۔منور نے جو غلطی کی تجی یہ وہ جان چکی تھی ۔ان کی بیٹی ان کی نہیں تھی اب ۔
"میں کوئی دودھ پیتا بچہ نہیں کوئی ڈیڈ جو جان نہ پائوں میرے لیئے کیا اچھا پے اور کیا برا۔جیسے آپ نے رانی پریام کو پسند کیا اسی طرح میں نے رانی ماروی کو پسند کیا۔فرق یہ ہے رانی ماروی کی سوتن نہیں۔"
پریام غصے سے اگے آئی اور آتے ہی ہاشم کو دھکا دینا چاہا۔
"گھٹیا ذلیل انسان میری بہن سے بدلہ لینا چاہتے ہو تم۔۔۔۔کیا تمہارا دل نہیں بھرا تھا میرا بچے کا خون کرکے کہ میری بہن کو اب تم نے اپنے چال میں پھنسا دیا۔
"رانی صاحبہ ذرا آرام سے۔میری چھوٹی ماں ہیں آپ بھالا کوئی اپنے بیٹے کو ایسا کہتا ہے۔"
"خاموش ہوجائو ہاشم۔تم نے بلکل اچھا نہیں کیا ماروی کو ابھی کے ابھی چھوڑو۔"
مرتضی کی بات پر ہاشم ہنسنے لگ گیا۔
"جس کو رانی بلاتے ہیں اسے چھوڑے نہیں کیا بھول گئے ہمارے خاندان کے اصول۔خیر مام آپ اگر چاہیں تو میرے محل آسکتی ہیں۔ آپ میری ماں ہیں اور میرا محل ہمیشہ منتظر رہے گا آپ کا۔کل سب ضرور ولیمے پر آنا۔"
ہاشم نے ماروی کی طرف دیکھا جو اس سب کو برداشت نہیں کرپائی۔یہ گرتی اس سے پہلے ہاشم نے اس تھام لیا۔
"چھوڑو میری بہن کو ۔۔۔۔"
مرتضی نے پریام کو تھاما جو ماروی کی طرف جانا چاہتی تھی مگر اس سے پہلے ہی ہاشم اسے اندھیری دنیا میں لے کر جا چکا تھا۔
پریام زیبا کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ ہوئی تھی۔زیبا نے اس محل میں اس کا بہت ساتھ دیا تھا ایک بہن کی طرح۔جب بھی اسے مدد کی ضرورت ہوتی وہ پہلے سے موجود ہوتی۔
"میں نہیں چھوڑوں گی ہاشم کو۔میری بہن کو میرے خلاف ایک مہرے کے طور پر استعمال کیا ہے اس نے۔میں اس کے باپ کو بھی کبھی معاف نہیں کروں گی جس کی بدولت میں آج اس قید میں ہوں۔میں جیسے اپنی اولاد کی خاطر مجبور ہوگئی ویسے ہی میری بہن بھی ہوجائے گی زیبا۔زیبا تم اس کے پاس چلی جائو میں نے اتنے سالوں میں اس محل میں رہنے کے اصول سیکھ لیئے ہیں مگر وہ ابھی بچی ہے۔تم جائو اس کے پاس اس کی مدد کرو۔وہ بہت معصوم ہے اس نے اتنے سال گھر سے دور گزارے ہیں۔"
"رانی میں چلی جائوں گی تو آپ کا کیا ہوگا۔ماروی رانی اتنی بہادر ہیں کہ ہر ایک چیز کا مقابلہ بڑے اچھے سے کرسکتی ہیں۔"
"نہیں وہ بہت معصوم ہے۔میری بات مان جائو اس کے پاس چلی جائو۔"
"میں اماں کو بھیج رہی ہوں۔وہ بوڑھی ہیں بہت اور ہاشم سائیں ان سے بڑی محبت بھی کرتے ہیں۔وہ ضرور انہیں اپنے محل میں رکھیں گے۔"
"زیبا میری ہمت ٹوٹ گئی ہے۔باپ بیٹا دونوں نے مجھے اور میری بہن کو کس بات کی سزا دی ہے۔انہیں محبت نہیں ہوتی صرف اپنی انا کی تسکین کے لیئے میری اور میری بہن کی زندگی برباد کی ہے ان لوگوں نے"
دروازے پر کھڑے مرتضی نے پریام کی ساری باتیں سنی تھی ۔اتنے سالوں میں انہیں کبھی محسوس نہیں ہوا تھا کہ پریام کو ان سے کوئی شکایت ہے یا یہ محسوس ہی نہیں کرنا چاہتے تھے۔
زیبا خود ہی اٹھ کر باہر چلی گئی۔پریام نے بھی باہر جانے کے لیئے زیبا کے پیچھے ہی جانا چاہا ۔مرتضی نے اس کا ہاتھ تھام کر اس اپنے نزدیک لیا اور سینے سے لگایا۔
"میں معافی چاہتا ہوں پریام جو کچھ میرے بیٹے نے کیا ہے ماروی کے ساتھ۔مجھے یقین ہے وہ تمہاری بہن کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کرے گا۔"
پریام نے مرتضی کی بانہوں کا حصار توڑا ۔
"قاتل ہے وہ میرے بچے کا آپ بھول گئے یا یاد رکھنا نہیں چاہتے ۔اس کی ماں چاہتی نہیں تھی میں اس محل میں زندہ رہوں تو میں کیسے یقین کرلوں کہ اس عورت کا بیٹا میری بہن کو خوش رکھے گا۔میں مجبور تھی مگر اپنی بہن کو مجبور نہیں ہونے دوں گی۔میری اولاد میرے پیروں کی بیڑیاں ہیں مگر ۔۔۔۔۔"
مرتضی کو پریام کی آنکھوں میں اپنے لیئے کوئی بھی جذبہ نظر نہیں آیا۔
"کیا تم صرف ہمارے بچوں کہ وجہ سے میرے ساتھ ہو۔"
"آپ کو کیا لگتا ہے کہ جس شخص نے مجھے میری شادی والے دن بھرے زمانے کے سامنے اٹھایا تھا ۔میرے ہی گھر سے میں اس سے محبت کروں گی۔کیا سمجھا ہے آپ باپ بیٹے نے میرے خاندان کو۔میں آپ کو مل گئی آپ کی آنا کی تسکین کے لیئے اور میری بہن آپ کے بیٹے کے بدلے کی نظر ہوگئی مگر مت بھولیں میرے لیئے لڑنے والا کوئی نہیں تھا مگر ماروی کے لیئے میں لڑوں گی۔اس کی بہن زندہ ہے ابھی۔"
پریام نے اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کیئے۔مرتضی نے پریام کو اپنے نزدیک کیا اور اس کے چہرے سے آنسو اپنے لبوں سے صاف کیئے ۔ یہ اس شخص سے کیسے جان چھڑا پاتی۔اس کے بچوں کا باپ تھا یہ جو ایک پل بھی اپنے باپ کے بغیر نہیں رہتے تجے۔ماں کی اہمیت شاید ان کی زندگی میں اتنی نہیں تھی جتنی باپ کی تھی۔پریام کا دل چاہ رہا تھا کسی ایسی جگہ چھپ جائے جہاں اس محل اور اس محل کے میکنوں کا سایہ بھی نہ ہو۔مگر پریام کی یہ خواہش خواہش ہی رہی کیونکہ سب خود غرض تھے۔مرتضی پریام کے انکار ناراضگی کے باوجود وہ پریام کو خود سے دور نہیں جانے دیتے تھے۔
__________________________
ولیمے پر سٹیج پر بیٹھی ماروی کی آنکھیں بلکل خالی تھی ۔اسے مہارانی کی طرح تیار کیا گیا تھا۔شہانہ اپنے بیٹے کے ولیمے میں بہت پہلے ہی آگئی تھی ۔پعرا گائوں جمع تھا۔ ہر کوئی یہی کہہ رہا تھا رانی پریام نے اپنے سوتیلے بیٹے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ماروی کی والدہ اس کے ساتھ آکر بیٹھ گئی تھی۔ماروی نے ان کی طرف دیکھا بھی نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی اپنے والد کی طرف۔پریام بھی آئی تھی مگر ماروی نے اس سے بھی کوئی بات نہ کی کیوں کہ اسے لگتا تھا کہ سب پریام کی بدولت ہوا ہے۔ہاشم نجانے کہاں غائب تھا۔ ساریہ آئی تھی اور اسے سمجھنا ہاشم کے لیئے مشکل ہورہا تھا۔پھر نجانے کب رات ختم ہوئی اور ماروی اسی انسان کی اسی محل میں واپس آگئی جس سے وہ بھاگنا چاہتی تھی ۔ماروی اس وقت اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو دیکھ رہی تھی جب ہاشم کمرے میں آیا۔
"تو کیسا لگا میرے نام کے ساتھ اس معاشرے میں جانے جانے پر۔"
ماروی نے نظر اوپر اٹھا کر حقارت سے دیکھا ۔
"ایسا لگتا ہے ایک گھٹیا اور غلیظ سانپ میرے وجود سے چپک گیا ہے جس کو اتارنا میرے لیئے مشکل ہے مگر ناممکن بلکل بھی نہیں۔"
ہاشم نے اس بات پر رکھ کر ماروی کے چہرے پر ایک تھپڑ لگایا۔ماروی پوری ہل گئی تھی۔
"یہ تمہاری بدتمیزی کا جواب ہے۔مجھے اپنے سامنے تمہاری زبان بلکل بند چایئے ۔سن رہی ہو نہ۔"
ہاشم نے ماروی کو بالوں سے پکڑا۔نیلی آنکھوں والی یہ گڑیا اپنے ہی آنسوئوں سے بھیگ گئی۔
"جانتی ہو تمہیں کسی پیار محبت کی خاطر نہیں لایا میں۔میرا مقصد صرف تمہاری بہن کی آنکھوں میں وہ درددیکھنا ہے جو کبھی میری ماں نے سہا ہے۔"
ماروی نے اپنے بال ہاشم کے شکنجے سے چھڑانے چاہے۔
"اپنے باپ کو روکتے نہ تم۔جو تمہاری طرح ہی گھٹیا اور نیچ انسان ہے۔گھٹیا انسان کی گھٹیا اولاد۔۔۔۔۔۔۔"
ہاشم نے ماروی کو زور سے بیڈ پر پھینکا۔
"گھٹیا پن میں بتاتا ہوں تمہیں ذرا گھٹیا کیا ہوتا ہے۔تمہیں اور تمہاری بہن کو عزت بلکل بھی راض نہیں اور نہ کبھی ہوگی۔"
ہاشم ماروی کے اوپر جھکا۔ماروی کو اس وقت اپنا سانس بند ہوتا ہوا محسوس ہوا۔اس نے اپنی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو ان کی بھی کروا نہ کی۔
"گھٹیا غلیظ انسان ۔۔۔۔۔"
ہاشم نے ماروی کو زور سے اپنی گرفت میں پکڑ لیا۔ماروی کی مزاحمت کچھ بھی اس لمحے کام نہیں آرہا تھا کیونکہ اس کے سامنے اس وقت ایک ایسا انسان تھا جو جانور بنا ہوا تھا۔ماروی کو سچ میں آج احساس ہوا کہ اس کی بہن نے اسے کیوں محل سے دور رکھنے کے لیئے ہاتھ کا استعمال بھی کیا۔اس وحشی جانور سے بچانے کے لیئے ۔وہ شاید سب کچھ سمجھ چکی تھی اس لیئے۔رات ماروی کے لیئے ایک بھیانک اور سیاہ رات تھی۔سیاہ عشق نے پر چیز پر پردہ ڈال دیا تھا جس کو ہٹنے میں شاید ساری زندگی لگ جاتی۔ماروی کھڑکی سے آتی صبح کی کرنوں کو دیکھ رہی تھی۔ہاشم نے اس دبوچ رکھا تھا نیند میں بھی جیسے یہ بھاگ جائے گی۔ماروی نے یہی سوچا تھا کہ جیسے ہی موقع ملے گا یہ سچ میں بھاگ جائے گی اس جہنم سے کہیں بہت دور۔ہاشم کے سینے سے لگے ماروی نے اپنی آنکھیں بند کرلیں کیونکہ روشنی اسے اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ہاشم نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔رات رونے کی وجہ سے ماروی کی آنکھیں سوجی ہوئی تھی۔ہونٹ گئی جگہ سے پھٹ گیا تھا۔چہرے ہر ہاشم کی بے درد انگلیوں کے نشان تھے اور وجود کا ہر ایک حصہ درد میں تھا۔ہاشم بیڈ سے اٹھا اور ماروی کی طرف جھک کر بولا۔
"رات تمہارے ساتھ کچھ انوکھا نہیں ہوا۔شوہر ہوں میں تمہارا اور یاد رکھو تمہارے دور جانے سے میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں کبھی بھی۔اسی محل اور میرے کمرے میں میرے ساتھ رہو گی تم ہمیشہ۔"
ماروی نے ہاشم کی بات پر کچھ بھی نہ کہا۔ہاشم نے اسے غصے سے تھام کر اٹھایا جس سے ماروی کی سسکی نکل گئی۔
"کیا کہہ رہا ہوں سمجھ آئی یا نہیں۔جب مجھے جواب چایئے ہو تو جواب دیا کرو ورنہ تمہاری یہ زبان خود اپنے ہاتھوں سے کاٹوں گا میں۔تمہاری بہن نے ایک بار مجھ پر ہاتھ اٹھایا تھا۔اسے پتا چل گیا ہوگا کہ اس کی بہن کے ساتھ میں کیا کروں گا۔"
ماروی نے اب بھی کوئی جواب نہ دیا۔ہاشم نے سے واپس چھوڑا تو یہ بیڈ پر دوبارہ لیٹ گئی۔تھوڑی دیر بعد ہاشم تیار ہوکر ماروی کے قریب آیا۔
"میرے ساتھ ایک فنکشن میں چلو گی تم۔سب کو میری شادی کا پتا چل گیا ہے ۔وہاں مجھے ایسے لباس میں نظر آنا جس کی وجہ سے کوئی تمہیں نظر بھر کر نہ دیکھ پائے۔سب کو یہی ظاہر کرنا کہ تم بے انتہا خوش ہو ورنہ تمہاری بہن اور اس کے بچوں کے لیئے بہت مشکل ہوجائے گی۔جارہا ہوں میں چاہو تو اپنی ماں کو محل بلا لینا ۔اس محل سے قدم باہر رکھنے کی ضرورت نہیں بلکل۔ناشتہ نوکرانی دے جائے گی کر لینا۔"
ہاشم بے رحمی سے اسے سنتا کمرے سے چلا گیا۔ماروی کے پاس اتنی ہمت نہیں تھی کہ اس ظالم اور بے حس شخص کا چہرہ دیکھتی۔یہ بستر سے اٹھی اور اپنے کمرے میں لگے دیوار گیر شیشے کے سامنے آئی۔خود کو آئینے میں دیکھ کر اسے ایسا لگا جیسے اسے کسی بچھو نے اسے کاٹ لیا ہے۔یہ چیخ کر روئی اور فرش پر بیٹھ گئی۔کوئی اس کی آواز سننے والا نہیں تھا ۔یہ کمرہ سائونڈ پروف تھا۔ماروی کو یاد نہیں تھا کہ کب ملازمہ آئی تھی کمرے میں اور اسے ناشتہ دیا تھا۔اس نے ناشتے کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔یہ سارا دن بیڈ پر ہی لیٹی رہی۔شام میں اسے ہاشم کے ساتھ جانا تھا مگر اسے شاید یاد بھی نہیں تھا۔ماروی آنکھیں بند کیئے سوئی ہوئی تھی جب اسے کسی نے جھنجوڑ ڈالا۔
"کیا کہا تھا میں نے تمہیں۔ میری کسی بات کی اہمیت ہے تمہاری نظر میں یا نہیں۔"
ہاشم نے ماروی کو بہت برے طریقے سے بیڈ سے اٹھایا ۔ماروی اس وقت بخار میں تپ رہی تھی ۔اس کی آنکھیں بمشکل کھلی ہوئی تھی۔
"کیا بکواس کی تھی میں نے کہ تیار رہنا۔"
"مجھے میں ہمت نہیں ہے۔"
ماروی نے ہلکی آواز میں اسے کہا مگر ہاشم کی آنکھوں پر اس وقت جنوں کی پٹی سوار تھی۔ماروی چپ چاپ اس کی باتیں سن رہی تھی۔بہت مشکل سے ماروی تیار ہوئی تھی۔بخار میں تپتے ہوئے یہ ہاشم کے ساتھ آئی تھی ایک پارٹی میں۔یہاں آتے ہی اس پر بہت سے کیمروں کی روشنی پڑی۔بخار کی وجہ سے اس کی طبیعت بہت خراب تھی۔اپنے اردگرد شال کو اس نے اور مضبوطی سے تھام لیا۔ساریہ جو ہاشم کو دیکھ رہی تھی فورا سے س کے پاس آئی۔
"۔ ڈرالنگ تم نے اتنی دیر کیوں لگا دی۔"
ساریہ نے ہاشم کے چہرے پر اپنے لبوں کا نشان چھوڑا۔ہاشم نے ہنس کر ساریہ کو جواب دیا جس سے ماروی کا دل کیا کہ یہ اس بندے کو یہاں سے غائب کردے۔
"کیا کریں ایک نکمی عورت سے واسطہ پڑ گیا ہے جسے بس دولت کی چاہ ہے اور یہ نہیں پتا کہ شوہر جب کچھ کہہ کر جائے تو اس کی بات پر عمل کرتے ہیں۔"
"ارے یہ ہے وہ تمہاری دیہاتی بیوی تمہارے باپ کی بیوی کی بہن۔"
ماروی کو اوپر سے نیچے تک دیکھ کر ساریہ نے ہاشم کی طرف دیکھا۔
"ہیں یہ وہی ہے دیہاتی۔اب دیکھو نہ تم نے کیسے ماڈرن کپڑے پہن رکھے ہیں اور اسے تمیز بھی نہیں کہ ایسی پارٹی میں کیسے آتے ہیں۔"
ہاشم کی بات کا جواب دینے سے پہلے ہی کیمرا مین نے فلیش ہاشم اور ساریہ کی طرف کیا ۔ساریہ بڑی بے باکی سے ہاشم کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر کھڑی تھی۔ماروی ان سے دور ہوگئی۔ہاشم ماروی کا لاتعلق انداز نوٹ کررہا تھا۔یہ چاہتا تھا کہ ماروی کو ساریہ کی طرف دیکھ کر آگ لگے۔اس نے ماروی کو اس پارٹی میں لاکر چھوڑ دیا تھا۔ماروی ٹیبل پر بیٹھی ہوئی تھی ۔سامنے ڈانس فلور پر بہت سے کپل ڈانس کر رہے تھے۔ان میں ہاشم کے ساتھ ساریہ بھی تھی اور اتنی بے باکی سے وہ ڈانس کر رہی تھی کہ ماروی کو معلوم ہوگیا تھا اس کے شوہر اور ساریہ کے درمیان کیا رشتہ ہے۔کافی دیر ہاشم ماروی کی طرف دیکھتا رہا۔کوئی لڑکا ماروی کے قریب آکر اس سے کچھ پوچھنے لگا ۔ہاشم نے یہ سب دیکھا تو یہ فورا ماروی کی طرف آیا۔
"ارے ماروی بے بی تم نہیں آئوں گی ڈانس کرنے میرے ساتھ۔"
"آپ اسے ساتھ رکھیں جو آپ کی طرح ہی گھٹیا ہے۔مجھے اپنی نمائش کرنے کا بلکل شوق نہیں۔"
"زیادہ اڑو مت یاد رکھو تم نے میرے ساتھ گھر ہی واپس جانا ہے۔"
"ایسا کرنا آج کی رات آپ اپنی اس دوست کی طرف گزرا دینا۔وہ کیا ہے نہ آپ میں اور اس میں رتی برابا بھی فرق نہیں۔بس اس جیسی عورتوں کے لیئے معاشرے نے ایک نام مقرر کیا ہے اور آپ جیسے مردوں کے لیئے نہیں۔"
ماروی کا ٹھنڈا لہجہ ہاشم کو آگ لگا گیا تھا اس نے ہاشم کو اس کی اصلیت دیکھائی تھی۔
"تمہیں میں گھر جاکر بتائوں گا کہ میں کون ہوں۔ ہم ابھی کہ ابھی یہاں سے جائیں گے۔"
ہاشم کسی سے ملنے چلا گیا۔پیچھے ماروی کو معلوم تھا ابھی محل جاکر اسے اس انسان سے اور بھی بہت کچھ سہنے کو ملے گا۔
پریام اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔اس کی زندگی جیسے رک سی گئی تھی جو کچھ ماروی کے ساتھ ہوا اس کا ذمہ دار اس نے خود کو تصور کرنا شروع کر دیا تھا۔آج یہ اس محل میں تھی اور اس کی وجہ سے ہی اس کی بہن کو سب کو برداشت کرنا پڑتا تھا۔ماروی سے پریام کو اپنی اولاد سے بھی گئی زیادہ بڑھ کر محبت تھی۔ماروی کے لیئے پریام کچھ بھی کرسکتی تھی ۔شہانا بیگم بھی لان میں آگئی اور پریام کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔
"بیٹا آپ اندر جائو مجھے کچھ بات کرنی آپ کی ماما سے۔"
پریام کا بیٹا اندر چلا گیا۔
"کیا بات کرنی ہے آپ کو شہانا بیگم مجھ سے۔سب باتیں تو آپ کا بیٹا کر ہی چکا ہے۔میرا نہیں خیال ہے کہ آپ لاعلم رہی ہیں اپنے بیٹے کے کارناموں سے۔"
"دیکھو پریام ہماری آپس میں جتنی مرضی ضد رہ چکی ہو مگر میں نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ ماروی کی زندگی خراب ہو۔ہاشم نے بلکل اچھا نہیں کیا اس کے ساتھ میں یہ بھی جانتی ہوں مگر تم یہ بھی دیکھو کہ جو مرتضی نے ایک نوجوان بیٹے کے ساتھ کیا تھا کیا اس کے بعد اس سے کوئی اچھی امید کی جاسکتی ہے۔"
پریام شہانا کی بات پر ہنسنے لگ گئی۔
"جو میرے اور میرے خاندان کے ساتھ ہوا کیا وہ ٹھیک تھا شہانا بیگم۔آپ کو معلوم ہے میں نے شروع سے یہ بات چاہی تھی کہ میری بہن آپ کے بیٹے سے بچ جائے۔نجانے کیوں اس کی آنکھوں سے مجھے شروع سے خوف آتا تھا اور میرا خوف درست ثابت ہوا کیونکہ آپ کا بیٹا ایک وحشی درندہ ہے جس نے نہ صرف میرے بچے کو مارا بلکہ میری بہن کو بھی قید کرلیا۔"
"پریام میں تمہیں کوئی تسلی نہیں دوں گی کیونکہ ہاشم کے ساتھ جو ہوچکا ہے وہ ہر طرح کا بدلہ لے گا ماروی سے ۔"
پریام غصے سے اپنی کرسی سے اٹھی اور کرسی کو دور پھینکا۔
"جانتی تھی میں کہ ہر چیز میں شامل ہیں آپ۔اپنی سوتن کی بہن کو تکلیف میں دیکھ کر تو آپ کے دل میں لڈو پھوٹ رہے ہوں گے نہ مگر یاد رکھیں میں نے کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلی۔اس محل میں رہتے ہوئے مجھے دس برس ہوگئے ہیں اور یقین جانیئے کہ میں نے آپ کا اور آپ کے بیٹے کا ہر طرح کا روپ دیکھ لیا ہے۔اب آپ کا بیٹا دیکھے گا کہ اس کے ساتھ رانی پریام کیا کرے گی۔"
"کوئی بھی غلط قدم اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچ لینا کہ تمہاری بہن اس کے پاس ہے۔"
"جانتی ہوں اور اپنی بہن کو اس سے بہت جلد چھڑوا لوں گی آپ کو فکر کی بلکل ضرورت نہیں۔اگر چاہتی ہیں آپ تو اپنے بیٹے کے پاس چلی جائیں ویسے بھی اس محل میں برائی کے علاوہ آپ نے کچھ نہیں کیا۔"
پریام محل کے اندر چل گئی۔شہانا خاموشی سے لان میں ہی بیٹھی تھی۔یہ اگر محل کو چھوڑ جاتی تو پھر کبھی ان کو محل میں دوبارہ آنے کی اجازت نہ مل پاتی اس لیئے انہیں اسی محل میں رہنا تھا۔جو کام یہ پریام کو تکلیف دے کر نہیں کر پائی وہ ان کا بیٹا اس کی بہن کو استعمال کرکے دے رہا تھا۔انہیں پریام سے نفرت تھی مگر شاید یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ خود کتنے غلیظ اور گھٹیا کردار کی مالک ہیں اور جن لوگوں کے دل صاف نہیں ہوتے وقت ان کے لیئے کبھی کبھی نہ بازی پلٹ دیتا ہے۔
__________________________
ماروی کا وجود بخار میں تپ رہا تھا۔اسے ایک پل بھی چین نہیں تھا۔پارٹی سے واپسی ہر اس ظالم انسان نے اسے رات دوائی بھی کھانے نہیں دی تھی جس سے اس کی طبیعت بہتر ہوتی۔ساریہ سے ساری رات اس کے سراہنے بیٹھا کر باتیں کرنے کے بعد ہاشم صبح ہی گھر سے نکل گیا تھا۔ماروی اپنے سر کو تھامے اٹھ گئی تھی۔اس کی طبیعت اب بھی خراب تھی۔یہ کچن میں آئی اور ملازمہ کو کچھ کھانا بنانے کے لیئے کہا۔
"بیگم صاحبہ آپ کو اپنا کھانا خود بنا کر کھانا ہے۔ہاشم سائیں کہہ کر گئے ہیں کہ وہ واپس آئے تو آپ نے ان کے لیئے کھانا تیار کر کے رکھا ہو اور آپ آج سے اس چھوٹے محل کے سب کام کریں گی۔آپ اپنا کھانا بھی خود بنائیں گی۔"
ماروی یہ سب سن کر خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئی۔اس کی ہمت نہیں تھی کہ یہ کچھ بھی کر سکے۔
"اچھا ایک مہربانی کر دو کوئی بریڈ کا پیس ہے تو وہ دے دو۔"
ملازمہ کو شاید اس پر ترس آگیا تھا تو اسے نے بریڈ اور ایک دودھ کا گلاس ماروی کو لا کر دے دیا۔ماروی نے بمشکل دو ٹکڑے ہی کھائے اور دودھ کے ساتھ اپنی گولیوں لی۔اس کا رخ اپنے کمرے می طرف تھا جب ملازمہ نے اسے آواز دی۔
"بیگم صاحبہ وہ سائیں نے آپ کو آج کچھ خاص بنانے کو کہا ہے ان کی کوئی خاص سہیلی آئے گی گھر میں۔"
ماروی کے چہرے پر خاص سہیلی کا سن کر حیرت آگئی۔
"محل میں سب ملازمین کو بتا دو کہ جو خاص سہیلی تمہارے سائیں کی ہے نہ وہ دراصل ان کے لیئے رات گزارنے کا سامان ہے۔ایسی عورتوں کے لیئے خاص اہتمام نہیں کرتے اور وہ جب اس محل میں آئے تو ایسا ہی سلوک بھی اس کے ساتھ کیا جائے۔میں نوکر نہیں ہوں تمہارے سائیں کی جو کھانے بنائوں گی اس کے لیئے۔کمرے میں سورہی ہوں میں کوئی مجھے تنگ نہ کرے۔"
ماروی اپنے کمرے میں چلی گئی۔پیچھے سب لوگ ساریہ اور ہاشم کے بارے میں باتیں کرنے لگ گئے۔ماروی کمرے میں آئی تو اسے سامنے ہی ہاشم کی بڑی سے تصویر نظر آئی جس سے غرور صاف چھلکتا تھا۔ماروی اس تصویر کے پاس آئی اور اسے اتار کر باہر لان میں پھینک دیا۔
"تم کیا سمجھتے ہو کہ تمہارے یہ سب کرنے سے میں ہار جائوں گی۔میں وہ بے وقوف عورت نہیں جو تمہیں کسی غیر عورت کے ساتھ تعلقات بناتے دیکھ کر بھی تمہاری چاہ کروں۔لعنت بھیجتی ہوں میں تم پر اور تمہاری سہیلی پر۔جس دنیا کے سامنے شرافت کا لبادہ اوڑھ کر بیٹھے ہو نہ تم دونوں اسی کے سامنے تمہاری اس نام نہاد عزت کے دھجیاں اڑا دوں گی میں۔"
ماروی نے کمرے کی کھڑکی بند کر دی اور آکر سو گئی۔اسے کوئی غرض نہیں تھی کہ کون آتا ہے یا کون جاتا ہے اس کے لیئے اس وقت صرف اپنی طبیعت اہم تھی۔
____________________________
ہاشم شام کو گھر واپس آیا تو ملازمہ نے اسے سب کچھ بتا دیا۔ساریہ آج اس کے ساتھ نہیں آسکی تھی کیونکہ اسے کہیں بہت ضروری جانا تھا۔ماروی ابھی اپنے کمرے میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھ رہی تھی ۔ہاشم غصے سے کمرے میں آیا اور آتے ہی کوٹ اٹھا کر بیڈ پر پھینکا۔
"یہ کیا حرکت کر کے آئی ہو تم باہر۔ملازم ہیں سب میرے ان سے کیا کہا تم نے کہ میں کسی عورت کو اپنے ساتھ رات گزارنے کے لیئے لے کر آئوں گا۔"
ماروی جو ٹی وی دیکھ رہی رہی تھی اس نے ٹی وی سے کی آواز کم کی۔
"تو کیا یہ حقیقت نہیں ہے۔غلیظ ہو تم جو بغیر کسی رشتے کے کسی عورت کو چھوٹا ہے۔یہ خوبصورت وجود نہ اندر سے اتنا ہی بد صورت اور کالا ہے۔جو دنیا والے تم پر مرتے ہیں نہ وہ تمہارے کردار سامنے آنے کے بعد تم پر تھوک کر جائیں گے۔"
ہاشم ماروی کے پاس آیا اور اسے کھینچ کر بیڈ سے اتارا۔ماروی کے بالوں کو سختی سے تھام کر اس سے چیخ کر پوچھا۔
"مجھے بدنام کرو گی۔ان سب لوگوں کے سامنے جن کو میں پیسے دیتا ہوں کام کے۔مجھے دنیا کے سامنے لائو گی تم ہاں۔" ماروی نے ہاشم کی گرفت سے اپنے بال چھڑوانے چاہے۔
"چھوڑو مجھے اور اپنی یہ نام نہاد مردانگی جاکر کسی ایسے پر دیکھائو جو تمہارے برابر کا ہو۔میرے ساتھ مقابلہ کر کے تم کر بھی کیا لو گے۔میں نے تم جیسے گھٹیا بے غیرت انسان کی خواہش کبھی نہیں کی تھی۔"
ہاشم نے ماروی کو زور کا دھکا دیا جس سے یہ پیچھے کی طرف گری ۔اس کے منہ پر ہاشم نے تین چار اکٹھے تھپڑ مارے۔ان کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ماروی کو کچھ سمجھ نہ آئی کہ یہ کیا جواب دے۔
"مجھے غلیظ کہو گی تم ہاں۔۔۔۔۔
۔اپنی بہن کو دیکھا ہے کبھی غلاظت کا ڈھیر جس نے ایک شادی شدہ مرد کی زندگی برباد کر دی۔اسے اس کے بیٹے سے دور کر دیا ۔ارے غلیظ تو وہ ہے جس کی تم بہن ہو۔"
ماروی نے اپنے آنسو بے دردی سے صاف کیئے ۔
"میری بہن نہیں تمہارا باپ تمہاری ماں اور تمہارا پورا خاندان غلیظ ہے جس نے نجانے کتنے لوگوں کی زندگی برباد کی ہے۔"
ہاشم نے اس کے بعد ماروی پر کئی بار ہاتھ اٹھایا۔ماروی نے اس سے بچنے کی بہت کوشش کی مگر یہ کمزور سے تھی سامنے والے کا مقابلہ نہ کر پائی۔اس رات اس نے اپنے وجود پر بہت سارے زخم برداشت کیئے اور پھر اس ظالم شخض
نے اپنا غصہ اس پر اتار کر یہ بھی نہ دیکھا کہ یہ کیسی ہے۔وہ باہر چلا گیا۔ماروی اپنے ٹوٹے ہوئے چور وجود کے ساتھ بیڈ پر لیٹی ہوئی یہ سوچ رہی تھی کہ اس کی بہن نے اسے بچپن میں دو تھپڑ لگائے تھے۔اس وقت یہ اتنی سمجھدار نہیں تھی کہ اپنی بہن کی نیت جان پاتی۔اسی یہی لگا تھا کہ اس کی بہن اسے بھول گئی ہے مگر حقیقت میں تو اس کی بہن نے اس انجام سے اسے بچانا تھا۔یہ سب شاید وہ جانتی تھی کہ اس کے ساتھ ہوجائے گا مستقبل میں تبھی اس نے محل سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی ماروی کو۔ماروی نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا جو سوج گیا تھا اور بال شاید کہیں آس پاس بکھر گئے تھے۔
"میں یہ سب ظلم برداشت نہیں کروں گی۔اس محل سے نکلنے کا میرے پاس واحد ایک ہی راستہ ہے واپس ماموں کے پاس جانا۔نہیں یہ انسان وہاں بھی آجائے گا۔مجھے حمزہ سے مدد لینی ہے۔وہ میری مدد کرے گا۔اس شخص کو جاتے ہوئے میں اتنا برباد کر جائوں گی کہ اسے چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے ھی۔آج اپنے وجود پر ان زخموں کو میں نے برداشت کر لیا ہے مگر آئیندہ نہیں کروں گی۔میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی ہاشم رئیس ذادہ کبھی نہیں۔"
ماروی اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی اور اپنے بچائو کے لیئے کوئی چیز سوچنے لگ گئی ۔
____________________
ہاشم کی اس وقت اپنی حالت بھی بہت خراب تھی۔اس نے نہیں چاہا تھا کہ ماروی پر ہاتھ اٹھائے مگر جو حقیقت کا آئینہ ماروی اسے دیکھاتی تھی اس سے اسے سخت نفرت تھی۔ساریہ سے اس کے تعلقات تھے مگر اس نے کبھی ان کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ماروی نے اسے غلاظت کا ڈھیر کہا تھا یہ اس بات کو برداشت نہیں کر پایا تھا۔اس نے ماروی کو بہت مارا تھا۔اب یہ خود بھی بہت زیادہ بے چین تھا۔ہاتھ میں شراب کا گلاس لیئے یہ اس خاموش کمرے میں بیٹھا تھا۔کوئی اندازہ لگا سکتا تھا اٹھارہ سال کی عمر میں گھر سے نکل جانے کے بعد اس نے کیسی کیسی راتیں گزاری تھی۔یہ اتنا بڑا تو نہ تھا کہ اسے اتنی بڑی سزا دی جاتی۔اگر دادا جان نے اس کے لیئے اپنی جائیداد نہ چھوڑی کو تو اس کا مستقبل کیا ہوتا۔
"میں کچھ نہیں کر سکتا ماروی میں تمہیں جب بھی دیکھتا ہوں نہ مجھے وہ پریام یاد آجاتی ہے۔وہ عورت جس نے میری ماں کو بے انتہا تکلیف دی ہے۔پہلے بھی میرا باپ میری ماں سے محبت نہیں کرتا تھا مگر ایک خوشحال گھرانا تھا ہمارا کیونکہ میرا باپ صرف میری ماں کا تھا۔تمہاری بہن نے میری ماں سے سب کچھ چھین لیا کچھ بھی نہیں چھوڑا ان کے پاس۔مجھے میرے باپ سے دور کرنے والی وہ ہے میں تمہیں چھوڑ دوں۔ہرگز نہیں ماروی رئیس زادی۔تمہیں بھی اسی آگ میں جلنا ہے جس میں میں جل رہا ہوں۔تم اتنا ہی ٹرپو گی جتنا میں ٹرپتا ہوں۔تمہیں ہرگز نہیں چھوڑوں گا میں۔ساری زندگی تمہاری لیئے سزا ہوگی صرف سزا۔۔۔۔۔۔۔۔"
بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ ہاشم یہ سب کچھ بول رہا تھا مگر شاید یہ بھول گیا تھا کہ یہ کسی جیتی جاگتی انسان کو تکلیف دے گا تو اس کا انجام بہت بھیانک ہوگا۔اس کا ماں کا وہ روپ جو سب دنیا سے چھپا تھا اگر وہ اس کے سامنے آجاتا تو شاید یہ خود سے بھی نظریں نہ ملا پاتا۔
______________
ماروی صبح کے وقت باہر آئی تو ملازمہ نے اس مخاطب کرنا چاہا۔
"مجھے اس وقت کسی سے بھی بات نہیں کرنی ۔جس کے وفادار ہو اسی کے پاس واپس چلے جائو۔"
ماروی کچن میں آئی اور اپنے لیئے ناشتہ بنایا۔اس کا سوجا ہوا چہرہ ہر کوئی دیکھ سکتا تھا۔ابھی یہ کھانا بناتی اس سے پہلے ہی اسے محسوس ہوا جیسے اماں آئی ہیں جو پریام کے محل میں ہوتی تھی۔
"ارے ماروی بی بی آپ نے تو مجھے پہچانا ہی نہیں۔"
ماروی نے چائے کا کپ نیچے رکھا اور یہ اماں کی طرف مڑی۔اسے لگا جیسے اس تپتی دھوپ میں کوئی اپنا آگیا ہے۔
"اماں۔۔۔۔۔۔۔"
ماروی ان کے سینے سے لگ کر رونے لگ گئی۔اماں کو اس کا چہرہ دیکھ کر ہی معلوم ہوگیا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔
"ماروی بی بی جی یہ سب۔۔۔۔۔کیا ہاشم سائیں نے۔۔۔۔۔۔۔"
ماروی نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔
"مجھے اسی لیئے پریام رانی نے یہاں پیچھا ہے۔میں نے ہاشم سائیں سے بات کی تھی کہ اب میں بوڑھی ہوچکی ہوں تو میں چاہتی ہوں کہ اپنے آخری دن میں ان کے ساتھ گزاروں ان کے گھر میں۔رانی صاحبہ کی بات بلکل ٹھیک تھی کہ ہاشم سائیں مجھے منع نہیں کریں گے۔میں ان کی آیا تھی جس کی وجہ سے وہ میری بہت عزت کرتے ہیں۔ماروی بی بی آپ پریشان مت ہوں میں آگئی ہوں نہ اب سب ٹھیک ہوجائے گا۔آپ بس حوصلہ رکھیں۔میرے پاس آپ کے لیئے کچھ چیزیں ہیں۔وہ سب آپ نے لینی ہیں سمجھ گئی ہیں نہ۔" ماروی نے آنکھ کے اشارے سے ہاں کی۔ یوں بھی اماں بہت آہستہ بول رہی تھی کہ پاس کھڑی ملازمہ کو بھی آواز نہیں جارہی تھی۔
ہاشم بکھرے حولیے میں کچن میں آگیا۔
"ارے اماں آپ آگئی ہیں۔"
ماروی نے ہاشم کو جیسے ہی دیکھا یہ پیچھے مڑ گئی اور اپنا ناشتہ بنانے لگ گئی۔
"ہاں پتر اب اس محل میں ہی اپنی زندگی کے باقی دن گزارنا چاہوں گی میں۔"
"چلیں یہ تو اچھا ہے۔اچھا آپ سب لوگ ذرا باہر جائیں مجھے رانی ماروی سے کچھ بات کرنی ہے۔"
ملازمہ اور اماں دونوں باہر چلی گئی جبکہ ماروی نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔" رات جو ہوا اس میں سب سے زیادہ قصور تمہارا اپنا تھا۔مجھے آئیندہ کے بعد تمہارے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا کھانا ہے۔میں تمہاری طرف سے کوئی بھی اعتراض نہ سنوں کے تم کھانا نہیں بنائو گی۔میں شوہر ہوں تمہارا اور تمہاری یہ زمہ داری ہے کہ تم اپنے شوہر کا خیال رکھو۔"
"شوہر۔۔۔۔۔۔۔میں نے تمہیں شوہر کبھی قبول ہی نہیں کیا ہاشم رئیس زادہ۔اپنی اس سہیلی سے کہنا جس سے قدموں کے میں بیٹھتے ہو وہی تمہارے سارے کام کرے۔رکھیل ہے جب تمہارے پاس تو بیوی کو کسی بھی کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔"
"ماروی۔۔۔۔۔۔رات کی مار کے بعد بھی تم میں عقل نہیں آئی۔"
ماروی نے گرم چائے پیچھے مڑ کر ہاشم کے ہاتھوں پر پھینک دی۔ہاشم کو دو منٹ کے لیئے بلکل سمجھ نہ آیا کہ ہوا کیا ہے۔ پھر اسے جلن کا شدد سے احساس ہوا کیونکہ ماروی نے چائے سیدھی چولہے سے سے اتار کر پھینکی تھی۔
"یہ رہا تمہارا جواب۔رات میرے پاس ایسی کوئی چیز نہیں تھی جو میں تمہیں مار سکتی۔تم جیسے بزدل مرد سے مقابلہ مجھے اچھے سے آتا ہے۔اپنی زور آزمائی اس پر کرنا جس کے ساتھ تم اپنی راتیں رنگین کرتے ہو۔میں نہ اس گھر کی نوکر ہوں نہ تم میرے حکمران۔آئیندہ مجھ پر ہاتھ اٹھانے سے پہلے سوچ لینا آج تو ہاتھ جلائے ہیں کل کو تمہارا یہ غلیظ چہرہ ہی خراب کر دوں گی۔"
ماروی بغیر کچھ کہے سنے کچن سے چلی گئی جبکہ ہاشم اپنے ہاتھوں کو دیکھتا رہ گیا جن کی جلد اکھڑ گئی تھی۔
"تمہیں میں چھوڑوں گا نہیں ماروی تم نے اپنے حق میں بلکل بھی اچھا نہیں کیا بلکل بھی۔۔۔۔۔۔"
ہاشم اپنے ہاتھوں کو تھامے باہر کی طرف چلا گیا جہاں سے اس کا ارادہ ڈاکٹر کے پاس جانے کا تھا۔ماروی نے رات کو ہی سوچ لیا تھا کہ یہ مظلوم نہیں بنے گی۔پتھر کا جواب یہ اینٹ سے دے گی۔
______________________
ہاشم کے چلے جانے کے بعد ماروی نے اماں کو اپنے پاس بلایا۔اماں نے چھپا کر ایک فون لایا تھا اور کچھ چیزیں۔ماروی نے فون آن کیا تو اس میں پریام کا نمبر پہلے سے محفوظ تھا۔اماں ماروی کو سب چیزیں دے کر باہر چلی گئی۔ماروی باتھ روم میں چلی گئی اور پریام کو کال ملائی۔پریام شاید اسی کے فون کی منتظر تھی اسی لیئے اس نے فورا ہی فون اٹھا لیا۔
"آپی۔۔۔۔۔۔"
"ماروی کیسی ہو میری شہزادی ۔۔۔۔۔ٹھیک تو ہو نہ سب تمہارے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔"
"آپی یہاں پر کچھ بھی اچھا نہیں ہے۔ہاشم ایک بہت ظالم انسان ہے اس نے رات کو۔۔۔۔مجھے بہت مارا ہے۔۔۔۔۔۔"
پریام کا دوسری طرف غصے سے شدید برا حال تھا۔
"تم نے اس سے آرام سے مار کھا لی۔اسے جواب کیوں نہیں دیا تم نے اس سب کا"
"میں نے اسے بہت اچھا جواب دیا ہے آپی صبح کو۔آپ جانتی ہیں اس کی ایک سہیلی بھی ہے جس کے ساتھ وہ اپنی راتیں رنگین کرتا ہے۔"
"تم پریشان مت ہوں میں ابھی زندہ ہوں۔اس کی ماں کا جو حال کروں گی وہ دنیا دیکھے گی۔بہت زیادہ خوش ہے وہ کہ اس کا بیٹا اس کے بدلے لے رہا ہے۔تم میری ایک بات غور سے سنو۔میں نے اماں کے ہاتھ بہت اہم چیزیں بھجوائی ہیں۔تمہیں وہ سب لینی ہیں۔یاد رکھو میرے پیروں میں میری اولاد کی زنجیر بندھ گئی تھی مگر تم نے ایسا ہونے نہیں دینا۔تم نے اپنے پیروں میں کوئی زنجیر نہیں آنے دینی۔بہت جلد تمہیں وہاں سے نکال لوں گی میں اور اگر اب وہ تم پر ہاتھ اٹھائے تو جو بھی پاس پڑا ہو دیکھے بغیر مار دینا اس کے سر پر۔میں دیکھ لوں گی سب۔ظلم برداشت کرنے والا بھی ظالم ہوتا ہے یہ یاد رکھنا۔تم بہت مضبوط ہو کیونکہ تم میری بہن ہو سمجھ رہی ہو نہ۔"
"ہاں میں سمجھ رہی ہوں آپی۔آپ نے مجھ سے رابطہ رکھنا ہے۔ہاشم کو میں کبھی جیتنے کی خوشی نہیں دوں گی۔وہ کیا سمجھتا ہے کہ مجھے ہرا دے گا ایسا ممکن نہیں۔میں وہ نہیں جو ہار جائوں۔آپ ٹھیک ہیں اور بچے بھی۔"
"سب ٹھیک ہیں تم میرے لیئے بلکل پریشان مت ہونا۔سب سے پہلے میں شہانا بیگم کو ان کے بیٹے کے کارناموں کی سزا دوں گی۔دیکھتی ہوں کیسے وہ خوش ہوتی ہیں میری بہن کو تکلیف میں دیکھ کر۔تم فون چھپا کر رکھنا اور اپنا بہت خیال رکھنا۔کھانا وقت پر کھانا اور کسی چیز کی فکر مت کرنا۔میں ہر دفعہ تمہارے لیئے کھڑی ہوں گی پھر چاہے جو بھی ہوجائے۔"
ماروی نے فون بند کیا اور یہ کمرے سے باہر آئی۔آج صبح اس نے سوچا نہیں تھا کہ یہ ہاشم کے ساتھ کیا کرنے جارہی ہے مگر یہ کمزور نہیں تھی اور نہ ہی اسے کمزور رہنا تھا۔اب اسے حمزہ سے بات کرنی تھی جس کے ذریعے یہ یہاں سے نکل جاتی۔
_________________________
پریام نے شہانا بیگم کے پاس جو ماہانہ کی بنیاد پر اخراجات جاتے تھے وہ روک دیئے۔مرتضی پریام اور شہنانہ کو الگ الگ اخراجات دیتے تھے جبکہ پریام ہر ماہ خود شہنانہ کے حصے کے اخراجات نکالتی تھی کیونکہ سارے محل کی ہر چیز انہوں نے اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔پریام شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر تیار ہورہی تھی کہ مرتضی آگئے ۔مرتضی سے کافی دنوں سے پریام کی بات چیت بند تھی۔بچے اپنے بابا کے ساتھ بہت محبت کرتے تھے اسی لیئے پریام کو مجبوری سے مرتضی کو بلا لینا پڑتا تھا ورنہ اس نے مرتضی سے بلکل لاتعلقی رکھی ہوئی تھی۔مرتضی نے آئینے میں پریام کا عکس دیکھا جس کی عمر 32 سال تھی اور یہ بلکل جوان تھی۔ایسا لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ تین بچوں کی ماں ہے اور پھر اس کی خوبصورتی نے کبھی اس کے چہرے سے چاندنی کے علاوہ کچھ ظاہر نہ ہونے دیا۔
"پری ہم کب تک ایسے رہیں گے۔میرے دل کی ڈھرکن مجھے چین نہیں ملتا تمہارے بغیر دو پل کے لیئے بھی۔"
مرتضی نے پریام کے کندھے تھامے اور جھک کر اس کے کندھے پر پیار دیا۔
"میں نے آپ کو کبھی اپنے قریب آنے سے نہیں روکا مرتضی مگر آپ جانتے ہیں آپ کا بیٹا میری بہن کو مارتا ہے۔اماں بتا رہی تھی کہ ماروی کا پورا منہ سوجا ہوا تھا اسے ہاشم نے اتنا مارا ہے۔میں کیسے سکون سے رہ لوں۔پتا ہے کل شہانا بیگم کہہ رہی تھی کہ انہیں بہت خوشی ہے کہ ان کا بیٹا ان کا بدلہ لے رہا ہے۔ایسی عورت کو میں اس محل میں کیسے برداشت کروں اور میری بہن اس کے پاگل بیٹے کو۔"
"شہانا کو اس محل میں رکھنا میری مجبوری ہے پریام تم یہ بات جانتی کو۔اگر بابا نے مجھ سے وعدہ نہ لیا ہوتا تو وہ آج میری بیوی نہ ہوتی۔اسے یہاں رکھنا میری مجبوری ہے مگر میں تمہیں اجازت دیتا ہوں تم جیسے چاہے اس کے ساتھ رہو۔ہاشم کو بگاڑے میں اس کا ہاتھ ہے۔وہ اپنے بیٹے کی وجہ سے اس محل میں تھی اب جب میرا بیٹا ہی میرا اپنا نہیں ہے تو اس عورت کا بھی حق نہیں بنتا کہ وہ میرے محل میں رہ سکے۔"
پریام مرتضی کی طرف مڑی اور ان کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کر بولی۔
"پھر میں جو بھی کروں آپ منع نہیں کریں گے۔وہ آپ کو جو بھی کہے ۔سن رہے ہیں نہ آپ۔"
"مگر اتنا کرنا کہ جو وہ برداشت کر پائے۔"
"آپ بہت اچھے ہیں مرتضی بہت اچھے۔"
پریام نے اپنا سر مرتضی کے سینے سے ٹکا دیا تھا۔پریام کی آنکھوں سے ٹوٹ کر ایک آنسو گرا تھا۔اس شخص کی وجہ سے ہی اس محل میں اس کا نام تھا اور اگر اسے اپنے قابو میں رکھنا تھا تبھی سب کچھ اپنا تھا۔پریام یہ جان گئی تھی اور اسے موقع سے فائدہ اٹھانا تھا۔
________________________
پریام زیبا کے ساتھ کہیں باہر جارہی تھی جب شہانہ اپنی کسی ملازم کے ساتھ آئی۔
"تم نے کیا حرکت کی ہے رانی۔میرے اکاوئنٹ کو بند کروا دیا ہے تم نے۔تمہاری اتنی جرات میں اس خاندان کی بیٹی ہوں اور تم ایک بیکاری کی۔"
"شہانا بیگم۔اتنا مت خود کو نیچے گرائیں کے پھر بچ جانے کا کوئی راستہ نہ ہو۔آپ شاید جانتی نہیں ہیں میرے بابا بہت معزز ہیں لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں مگر آپ کے باپ بھائی کیا ہیں لوگوں کی عزتوں کو خراب کرنے والے۔"
"بس میں اس خاندان کی بیٹی ہوں اور تمہارا وہ حشر کروا سکتی ہوں کہ۔۔۔۔۔۔"
"کیا کر سکتی ہیں آپ شہنانا بیگم جس کو آج سے 18 سال پہلے مرتضی نے دو طلاق دے دی تھی۔اگر میرے سسر صاحب انہیں اپنی قسم نہ دیتے تو آپ اس لمحے اپنے گھر ہوتی اور یہ جو اتنا اترا رہی ہیں نہ آپ پہلے اپنے کردار کو دیکھ لیں۔آپ کی ہر ایک حقیقت سے واقف ہوں میں۔کس خوش فہمی میں ہیں آپ کہ میں چپ بیٹھ جائوں گی میری بہن سب برداشت کرے گی۔نہیں شہنانا بیگم میں رانی پریام ہوں جس نے آپ جیسی عورتوں کو بہت دیکھا ہے۔اس سے پہلے کہ جو راز آج سے سالوں پہلے دفن ہوگیا تھا وہ میں سب کے سامنے کھول دوں۔مرتضی آپ کو کبھی نہیں چھوڑیں گے مگر آپ کا بیٹا ضرور آپ سے نفرت کرے گا اور بے انتہا کرے گا۔خیر زیبا انہیں آج کے بعد خرچ میں بجھوا دوں دوں گی اور اتنا ہی جتنا ضرورت ہوگا۔یہ اپنے خاندان پر میرے شوہر کی حلال کی کمائی لوٹائیں یہ مجھے برداشت نہیں۔یہ اپنے بیٹے سے مانگ سکتی ہیں اب اگر ان کا پیٹ اس محل کے پیسوں سے نہ بھرے تو۔جائو زیبا جا کر ڈرئیوار چچا سے کہو گاڑی نکلا لیں مجھے ہاشم کی طرف جانا ہے آخر کو میرا بھی سوتیلا بیٹا ہے۔ بہن ہے میری اس کے پاس ملاقات تو بنتی ہے۔"
پریام اپنی آنکھوں پر سن گلاسز لگا کر باہر کی طرف چلی گئی۔اس کے ساتھ اس کا بڑا بیٹا تھا۔شہانا سن کھڑی تھی۔جس راز کا علم صرف انہیں یا مرتضی کو تھا وہ کیسے پریام کو معلوم ہوگیا تھا۔اگر ان کے بیٹے کو یہ سب پتا چل جاتا تو شاید ۔۔۔۔۔۔۔نہیں یہ ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گی انہوں نے سوچ لیا تھا چاہے اس کے لیئے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے۔
______________________
پریام زیبا کے ساتھ گائوں کی ایک عورت کے گھر آئی ہوئی تھی جس کی بیٹی کی شادی تھی اور اسے کچھ پیسوں کی ضرورت تھی۔
"رانی صاحبہ آپ نے تو ہم جیسوں غریب لوگوں کو اپنا سمجھ کر ہم پر جو احسان کیا ہے اس کا بدلہ ہم کبھی آپ کو واپس کر ہی نہیں سکتے۔"
"دیکھو میں نے کبھی کسی پر کوئی احسان نہیں کیا یہ جو سب کچھ ہے یہ تم لوگوں کی قسمت ہے اور میں صرف ایک ذریعہ ہوں۔"
"رانی صاحبہ آپ سے اچھی کوئی عورت نہیں رئیس خاندان کی۔رئیس خاندان کی عورتوں نے ہمیشہ ہم جیسے لوگوں کو کمی کمین سمجھا ہے۔وہ شہانا بی بی جی تو کبھی گائوں والوں سے نہیں ملتی تھی۔ان کی اپنی ہی ایک دنیا تھی۔"
"بس پھر ایسے لوگ کبھی کامیاب نہیں ہو پاتے جو کسی کے غم میں شریک نہیں ہوتے۔آپ نے صرف میرے لیئے دعا کرنی ہے۔میرے جانے کا وقت ہوگیا ہے۔"پریام اس عورت کے کچے ماکان سے نکلی۔پریام نے پچھلے کئی سال اپنے گائوں والوں کے لیئے بہت کام کیا تھا۔پہلے رئیس خاندان کی عورتیں ان غریب لوگوں کی کوئی بات نہیں سنتی تھی مگر اب پریام نے باقاعدہ ہفتے میں ایک دن رکھا ہوا تھا جب یہ گائوں کی عورتوں سے ملتی تھی اور ان سے بات کرتی تھی۔شہانا کو گائوں کی کوئی بھی عورت پسند نہیں کرتی تھی جبکہ پریام کو گائوں کی ساری عورتیں ہی پسند کرتی تھی۔
"زیبا تم اب ڈرائیور سے کہو گاڑی ہاشم کے محل کی طرف موڑیں۔"
"رانی جی کیا یہ ٹھیک ہے جو آپ کرنے جارہی ہیں۔۔۔۔میرا مطلب ہے ماروی جی کے لیئے کوئی مصیبت نہ بن جائے۔"
"تم نے مجھے بے وقوف سمجھا ہوا ہے کیا۔میں کوئی بھی کام فضول میں نہیں کرتی۔آج میرا ایک مقصد ہے اس سے ملنے کا۔"
"جیسے آپ کو اچھا لگے رانی صاحبہ۔"
پریام کی گاڑی ہاشم کے محل کے اندر رکی۔یہ محل ان کے محل کے مقابلے میں چھوٹا ضرور تھا مگر بے حد خوبصورت تھا۔زیبا پریام کے ساتھ ہی اس محل کے اندر داخل ہوئی۔آج اتوار کا دن تھا اور پریام جانتی تھی کہ ہاشم گھر ہی ہوگا۔یہ جیسے ہی محل میں آئی بہت سے لوگوں نے اسے پہچان لیا جو یہاں کام کرتے تھے۔
"رانی پریام آپ یہاں کیسے۔"
وہی ملازمہ جو ہر وقت ماروی کے ساتھ رہتی تھی وہ پریام کے قریب آئی اور اس سے پوچھنے لگ گئی۔پریام نے اپنے آنکھوں سے سن گاسز اتاری اور اس ملازمہ کو گھور کر دیکھا۔
"تمہیں کس نے اتنا حق دیا کہ تم رانی پریام سے سوال کرو۔اگر تم ہاشم رئیس ذادہ کے محل میں کھڑی ہو تو یہ مت بھولو اس کی سوتیلی والدہ ہوں میں اور اس کے باپ کی بیوی۔تم جیسے لوگوں کا کوئی حق نہیں جو مجھے رانی پریام کو کسی بات کے لیئے پوچھے۔"
"رانی پریام معاف کریئے گا مگر چھوٹے رئیس کا حکم ہے کہ بڑے محل سے سوائے ان کی اپنی والدہ کے جو بھی آئیں ان سے یہاں آنے کا مقصد پوچھا جائے۔"
"میں نے تمہیں جو جواب دینا تھا وہ دے دیا ہے اب جاسکتی ہو تم یہاں سے۔اماں جہاں بھی ہیں انہیں کہو کہ ماروی کو لے کر آئیں مجھے اس سے ملنا ہے۔"
پریاں صوفے پر بیٹھ گئی ۔زیبا اس کے ساتھ ہی تھی وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ یہ کیا کرنا چاہ رہی ہے۔
ماروی اس وقت کمرے میں تھی۔اماں نے جیسے ہی ماروی کو بتایا کہ اس سے ملنے پریام آئی ہے یہ فورا سے نیچے کی طرف جانے لگی۔
"رانی ماروی میں نے تمہیں منع کیا ہے تھا نہ کہ تم پریام رانی سے نہیں ملو گی۔"
ماروی نے غصے سے ہاشم کا ہاتھ جھٹک دیا۔
"تمہیں بھی یاد ہوگا رئیس ذادے میں نے تمہیں کہا تھا کہ میں کسی کے حکم کی غلام نہیں ہوں۔ تمہارے حکم کی تو بلکل بھی نہیں اس لیئے اپنے دماغ سے یہ بات نکال دو کہ میں تمہاری بات مانوں گی ۔"
ماروی فورا سے اماں کے ساتھ نیچے چلی گئی ۔ہاشم بھی اس کے ساتھ ہی گیا۔
پریام نے ماروی کو دیکھا تو فورا سے صوفے سے اٹھی اور اسے سینے سے لگا لیا۔
"میری جان میرا بچہ ٹھیک تو ہو نہ تم۔"
"میں بلکل ٹھیک ہوں آپی۔میرا بھانجا کیوں نہیں ہے آپ کے ساتھ۔"
"امی کی طرف چھوڑا ہے اسے۔مل لے گا وہ کسی دن تم سے آکر۔"
"آج تو بڑے بڑے لوگ آگئے ہیں ہمارے محل۔کیسے آنا ہوا رانی پریام میرے محل۔کیا آپ کو آپ کے اپنے گھر سکون نہیں ہے جو آپ یہاں میرے محل آگئی ہیں میرا سکون برباد کرنے کے لیئے۔"
پریام ہاشم کی بات پر ہنسنے گئی۔
"ہاشم تم شاید بھول رہے ہو میری حیشیت اس خاندان میں کیا ہے جہاں سے تم تعلق رکھتے ہو۔مجھے کوئی بھی روک ٹوک نہیں ہے میں جیسے مرضی آئوں جہاں مرضی جائوں ۔سوچا آج کیوں نہ رئیس خاندان کی اگلی رانی کو دیکھ آئوں کیسی لگ رہی ہیں وہ۔"
"اپنی یہ باتیں وہاں جا کرنا جن کو یہ سب پتا نہ ہو۔تم وہ عورت ہو جس نے میری ماں کو اتنے سال خون کے آنسو رلایا ہے۔"
پریام ہاشم کی بات پر زور سے ہنسنے لگ گئی۔
"کبھی اپنے ماں کے ہاتھ بھی دیکھ لینا کہ کہیں ان ہاتھوں نے کسی معصوم کے ساتھ زیادتی تو نہیں کی۔خیر میں ان سب باتوں کے لیئے نہیں آئی۔میں تمہیں صرف یہ بتانے آئی ہوں کہ تم مجھے ایک ایسی عورت سمجھتے ہو جس نے تمہارے باپ کو قابو کیا ہے تمہاری ماں سے اس کا حق چھینا ہے تو یہی سوال کبھی اپنے باپ سے بھی کر لینا۔وہ بہت اچھے سے تمہیں ان سب کا جواب دے دیں گے۔رہی بات میری بہن کی تم نے میری بہن پر ہاتھ اٹھایا ہے۔میں تمہیں یہ بتانے آئی ہوں کہ تم نے ایک بار تو میری بہن پر ہاتھ اٹھا لیا اگر اگلی بار مجھے یہ خبر ملی کہ تم نے میری بہن کو تکلیف دی ہے تو تمہارے یہ ہاتھ ہی نہیں بچیں گے۔"
"تم مجھے میرے گھر میں ہی کھڑے ہوکر دھمکی دو گی اور میں یہ سب ہونے دوں گا یہ ناممکن ہے۔"
"یہ ممکن ہے رئیس زادے۔کبھی اس گائوں میں نکل کر رانی پریام کا نام لینا لوگ کیسے سامنے آئیں گے اس سے تمہیں تمہاری اوقات پتا چلے گی۔اپنی ماں کے بارے میں بھی ضرور ایک بار سب لوگوں سے پوچھنا تمہیں معلوم ہوگا کہ تمہاری ماں کیا چیز ہے ۔"
"شٹ اب۔۔۔۔"
"یو شٹ اب۔۔۔۔تم اگر خود کو رئیس زادہ کہتے ہو تو تمہارے باپ کی بیوی ہوں میں رانی پریام۔میری بہن کو اپنے قبضے میں کر کے کیا سمجھتے ہو میں چپ بیٹھوں گی۔یہ تمہاری سب سے بڑی بھول ہے میں نہ کبھی ہاری تھی اور نہ ہاروں گی۔"
"وہ تو میں دیکھ لوں گا۔چھوڑو میری بیوی کا ہاتھ تم اور میرے محل سے نکل جائو۔"
"ہاشم رئیس ذادہ مت بھولو جس سے تم بات کر رہے ہو وہ میری بہن ہے۔تم اگر میری بہن کے ساتھ یہ سلوک کرو گے تو میں ابھی کے ابھی اس محل سے دور چلی جائوں گی۔"
ماروی نے پریام کا بازو تھام کر کہا۔
"تم مجھے چھوڑ کر اس کے ساتھ جائو گی۔دیکھتا ہوں میں بھی کیسے جاتی ہو تم۔"۔ ہاشم نے ماروی کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے قریب کر لیا۔
"آج تو تم میری بہن کو اپنے پاس لے گئے ہو مگر یہ بات یاد رکھو کہ کچھ دن بس کچھ دن پھر میں خود اپنی بہن کو تمہارے پاس سے لینے آئوں گی اور اس لمحے تم کچھ بھی نہیں کر پائو گے۔"
پریام ماروی کے قریب آئی اور اس کا چہرہ تھپتھپا کر باہر چلی گئی۔اس کا مقصد رئیس ذادے کو خبردار کرنا تھا کہ وہ جو بھی کر رہا ہے وہ پریام کو کمزور مت سمجھے۔پریام ہر لحاظ سے اس کے پیچھے ہے اور یہ بات وہ کبھی جان نہیں پائے گا۔پریام کے جانے کے بعد ہاشم ماروی کے لے کر کمرے میں آیا۔اس نے ماروی کو بیڈ پر پھینکا۔پریام کے زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اسے سخت زہر لگ رہے تھے۔
"کیوں گئی تھی تم اس عورت کے پاس۔تم جانتی ہو اس عورت سے مجھے سخت نفرت پے اسے دیکھ کر مجھے میرے باپ کے مارے ہوئے تھپڑ یاد آجائے ہیں۔"
ہاشم ماروی کے قریب آیا ور اسے اٹھا کر جھنجوڑ ڈالا۔
"میں نے اپنے گھر سے دور بہت عجیب دن گزارے ہیں۔معلوم ہے مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی تھی اس کالے فلیٹ کے کمرے میں۔میں نے بہت سرد راتوں مین اپنے باپ کو یاد کیا ہے ۔وہ عورت ذمہ دار تھی ہر ایک چیز کی جو میرے ساتھ ہوئی ہے۔تم جانتی ہو تم وہ پہلی لڑکی تھی جو مجھے پسند آئی تھی مگر میری قسمت دیکھو تم بھی اس کی بہن نکلی۔"
ہاشم ماروی کو چھوڑ کر دور ہوا اور اپنے بال نوچنے لگ گیا۔
"تم کیا سمجھتی ہو میں نے اس نفرت کے سفر میں خود کو نہیں گنوایا۔میں نے خود کو برباد کر لیا ہے اس سب میں۔میری راتوں کا حساب وہ عورت کبھی نہیں دے سکتی جو میں نے ڈرتے ہوئے گزاری ہیں۔کیا عمر تھی میری جب میں اس محل سے نکلا تھا صرف اٹھارہ سال۔کیا سوچ سکتی ہو ایک اٹھارہ سال کا بچہ کیا ہوا ہوگا اس کے ساتھ اس محل سے جانے کے بعد۔کتنی مشکل سے میں نے زندگی گزاری تھی ہاں۔۔۔۔۔۔۔"
ہاشم نے ماروی کو تھاما۔
"تم نہیں مجھے سمجھو گی تو کون سمجھے گا ماروی ۔۔۔۔۔میری ماروی ہو نہ تم تو۔۔۔۔۔۔"
ہاشم نے ماروی کا چہرہ تھاما اور اس کے لبوں پر جھکا۔ماروی نے مزاحمت کی کوشش لی مگر یہ ہاشم کی گرفت سے خود کو چھڑوا نہیں پائی۔
"تم تو میری زندگی کے ہر غم سے واقف ہوجائو۔مجھے میرے اندھیروں سے نکال لو تم ماروی۔۔۔۔۔۔"
ہاشم کے لبوں کا لمس ماروی اپنے وجود پر برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔ہاشم نے ایک ہاتھ سے ماروی کے چہرے کا تھاما ہوا تھا اور دوسرے سے کمر کو۔ماروی کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔
"تم ۔۔۔۔میرے قریب مت آئو مجھے تم سے گھن آتی ہے رئیس زادے۔۔۔۔اس عورت کے پاس کیوں نہیں جانتے تم ۔۔۔۔۔"
ہاشم ماروی کی آنکھوں میں دیکھنے لگ گیا پھر اس کی آنکھوں پر جھکا۔
"تم مجھ سے نفرت کرو میں یہی چاہتا ہوں میں۔مجھے نفرت کے قابل بنانے والا اور کوئی نہیں میرا اپنا باپ ہے۔تم بھی مجھ سے نفرت کرو جیسے سب کرتے ہیں۔"
ہاشم نے ماروی کو پیچھے بڑے بیڈ پر لٹا دیا۔ ماروی اس شخص سے جان چھڑانا چاہتی تھی مگر یہ کچھ نہیں کر پا رہی تھی۔ہاشم ماروی پر جھکا۔ماروی نے اپنا چہرہ پھیر لیا۔
"تم مجھ سے کبھی پیچھا نہیں چھڑوا سکتی۔"
ہاشم ماروی پر جھک گیا۔ماروی کچھ بھی نہیں کر پائی تھی اسے اس شخص کی قربت سے وحشت ہوتی تھی۔
_____________________
پریام محل واپس آئی۔اس نے آج خود کو مرتضی کے لیئے بہت خوبصورتی سے تیار کیا تھا۔سفید رنگ کا خوبصورت فراک پہنے یہ اپنے کمرے میں مرتضی کا انتظار کر رہی تھی۔کل مرتضی کی سالگرہ تھی اور مرتضی کی سالگرہ ہر سال پریام ایسے ہی ماناتی تھی۔مرتضی جیسے ہی کمرے میں آئے پریام نے ان پر پھولوں کی بارش کی۔
"ہیپی برٹھ دے مرتضی۔"
پریام فورا سے مرتضی کے سینے سے لگ گئی۔مرتضی نے پریام کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور اس کا چہرہ اپنے قریب کرکے پیار دیا۔
"آپ اولڈ مین ہوگئے ہیں اب۔"
"میری پیاری سی ملکہ آپ تو میری جان جہان ہیں چلیں آئیں اندر۔"
مرتضی نے دروازہ بند کیا اور یہ پریام کو لے کر اندر آگئے۔پریام نے سامنے ہی کیک رکھا ہوا تھا اور ہر طرف پھولوں سے سجاوٹ کی تھی۔
"کیک کاٹیں جلدی سے میں کب سے آپ کا انتظار کر رہی ہوں۔"
مرتضی نے کیک کاٹا اور پریام کو کھلایا۔پریام نے کیک کا تھوڑ حصہ کاٹ کر مرتضی کو کھلایا۔
"کتنے سال ہوگئے ہیں مجھے آپ کے ساتھ رہتے ہوئے۔"
"ابھی تمہیں میرے ساتھ بہت سال رہنا ہے میری جان۔"
مرتضی نے پریام کے چہرے پر اپنی محبت کی مہر ثبت کی۔پریام مرتضی کے ساتھ بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔
"مرتضی کبھی کبھی میں سوچتی ہوں ہماری شادی کیسی ہوئی تھی۔مرتضی آپ کاش میرے ساتھ وہ سب نہ کرتے تو ماروی کے ساتھ وہ سب نہ ہوتا۔ہاشم نے اپنی زندگی کے بہت سال آپ کے بغیر گزارے ہیں۔آپ باپ تھے اس کے اس نے آپ کی کمی کو ہمیشہ بہت محسوس کیا ہے۔"
"تم کیا سمجھتی ہو میری جان کہ میں نے اپنے بیٹے کی کوئی نگرانی نہیں کی کیا۔میں نے اس کے لیئے ہر وہ چیز کی ہے جو ایک باپ کرسکتا ہے۔وہ آج اگر اس مقام پر ہے تو اس میں اس کے باپ کا اتنا ہی ہاتھ ہے۔میں نے کبھی اسے اکیلا نہیں چھوڑا۔"
"مرتضی ۔۔۔۔۔۔آپ ہاشم سے بات کریں اسے کہیں کہ محل واپس آئے۔میں چاہتی ہوں کہ میری بہن میری نظروں کے سامنے رہے۔"
"میں جائوں گا اس کے پاس اس سے ملنے کے لیئے۔تم پریشان مت ہو۔یہ وقت ہمارا ہے اس وقت کو ہمارا ہی رہنے دو پریام۔"
پریام جانتی تھی کہ یہ ماروی کو اگر اپنے قریب لے آئی تو پھر سب چیزیں اس کے لیئے آسان ہوجائیں گی ۔
ریڈرز ہاشم سب کو کیسا لگ رہا ہے۔آپ کو کون غلط لگ رہا ہے پریام یا ہاشم
ماروی نے وقت دیکھا رات کا ایک بج رہا تھا۔ہاشم ابھی تک نہیں آیا تھا اور جب تک وہ نہیں آتا تھا رات کا کھانا ماروی نہیں کھاتی تھی۔یہ صوفے پر بیٹھی منتظر تھی جب اسے کمرے کے باہر آوازیں سنائی دی۔یہ ڈوپٹہ گلے میں ڈالے اٹھ کر باہر گئی مگر آگے کا منظر دیکھ کر اس کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ہاشم نے کسی لڑکی کو تھام رکھ تھا اور صاف پتا چل رہا تھا اس وقت ہاشم نے شراب پی رکھی ہے
"ارے ساریہ بے بی۔دیکھو میری پیاری سی معصوم سی بیوی ۔"
ساریہ جس نے کپڑے ہی ایسے ہی پہنے تھے کہ ماروی کی ہمت ہی نہیں ہوئی اس کی طرف دیکھنے وہ ماروی کو غصے سے دیکھنے لگی جیسے ماروی نے اس سے بہت کچھ چھینا ہو۔
"او تو یہ ہے وہ جسے تم نے اپنی بیوی بنایا ہے۔ویسے یہ بیوی بننے کے قابل نہیں تھی۔دیکھا تو اسے پہلے بھی تھا مگر اب دیکھ کر بتا چلتا ہے یہ صرف ایک مہرہ ہے تمہارے لیئے۔"
"ارے ساریہ بے بی کیا کرسکتے ہیں اب۔ڈیڈ کی خواہش تھی کہ کوئی اچھی سی لڑکی مجھ سے شادی کرے اور میرے بچے اس سے پیدا ہوں۔اسے تو میں ان کی خواہش پر بیا لایا ۔میری زندگی میں تمہاری جگہ بھلا کوئی لے سکتا ہے کیا۔اسے تو اس محل میں قید رہنے دو بچے پالنا ہی کام ہے اس کا۔'"
"شرم آنی چاہیے آپ کو رئیس زادے۔اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے باہر کی عورتیں سے تعلقات رکھتے ہیں ۔"
"شٹ اب مجھے زبان چلانے والی لڑکیاں ہرگز پسند نہیں ۔مجھ سے مت ہی بلوانا تم اسی لڑکی کی بہن ہو نہ جس نے تو شادی شدہ آدمی کو بھی نہیں چھوڑا دولت اور رتبے کی خاطر۔جائو نیچے والے روم میں جائو آج میرے ساتھ ساریہ اس روم میں رکے گی اور ہاں رات مجھے کوئی ڈسٹرب نہ کرے میں بہت عرصے سے ساریہ بے بی کو وقت ہی نہیں دے پایا ۔"
ساریہ کو لیئے ہاشم اپنے اور ماروی کے بیڈ روم میں چلا گیا۔ماروی کو اس وقت اپنے شوہر سے شدید گھن آرہی تھی۔یہ سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی اور باہر لان میں چلی گئی۔اس نے محل میں آنے کی خواہش تو کبھی نہیں کی تھی۔یہ نہیں جانتی تھی کہ ہاشم رئیس ذادہ کون ہے ورنہ شاید یہ کبھی اس شخص کی طرف دیکھتی بھی نہ۔ رات بہت گہرے راض لے کر دفن ہوئی۔ماروی اس وقت گہرے سانس لے رہی تھی۔اسے لگ رہا تھا جتنا یہ اس جہنم سے بچنے کی کوشش کرتی ہے اتنا ہی یہ اس میں دھنستی جاتی ہے۔
"ہاشم رئیس ذادہ تم کیا سمجھتے ہو اس دو ٹکے کی لڑکی کے آگے میں ہار جائوں گی۔نہیں صبح جو تمہارے ساتھ ہوگا وہ دنیا دیکھے گی اور سب کوئی اور نہیں میں خود کروں گی۔"
ماروی اپنی آنکھ سے آنسو صاف کرتے ہوئے اندر چلی گئی۔رات جو ماروی نے کیا وہ ہاشم اور ساریہ کو صبح بتا چلنا تھا۔
______________________
ہاشم کی آنکھ موبائل کی آواز سے کھلی تھی۔اس نے اپنے سینے پر سر رکھ سوئی ہوئی ساریہ کو دیکھا۔یہ فورا اس سے دور ہوا۔رات زیادہ شراب پی لینے کی وجہ سے اسے کچھ یاد بھی نہیں تھا۔
"ارے بے بی کیا ہوگیا ہے ایک تو اتنے دن بعد ملے ہیں اور تم یہ سب کر رہے ہو۔ رات بھی تم اپنے حواس میں نہیں تھے۔
"ہیلو ۔۔۔۔۔"
ہاشم نے ساریہ کی بات سنے بغیر فون کان کے ساتھ لگایا جو اس کے منیجر کا تھا۔
"تم نے صبح کی نیوز دیکھی ہے۔۔۔۔۔۔"
"کیوں کیا ہوا۔"
"کل رات تم گھر میں ساریہ کے ساتھ تھے۔اپنی تصویریں دیکھ لینا جو اس وقت تمہارے ساتھ ہورہا ہے بلکل ٹھیک ہورہا ہے۔تم نے میری بات نہیں مانی تھی اب خود اس کا انجام دیکھ لو۔"
منیجر نے کال بند کی۔ہاشم نے فورا سے موبائل پر نیوز دیکھی۔اس کی اور ساریہ کی کچھ ایسی تصویریں تھی جو انتہائی عجیب تھی۔نیچے بتایا گیا تھا کہ مشہور زمانہ سنگر ارمان کا افئیر ہے ساریہ کے ساتھ۔بہت کچھ تھا نیچے ۔لوگوں نے ارمان کو بہت برا بھلا کہا تھا کہ اتنی پیاری بیوی کے ہوتے ہوئے یہ شخص کسی لڑکی سے افئیر چلا رہا پے۔
"شٹ۔۔۔۔۔۔"
ہاشم فورا سے اٹھا اور واش روم میں چلا گیا۔ساریہ بھی خبر پڑھ چکی تھی۔ماروی نیچے بیٹھے ہوئے ناشتہ کر رہی تھی۔ہاشم نیچے آیا تو ماروی کو اسے دیکھتے ہی گھن آئی۔
"یہ کیا حرکت کی ہے تم نے ہیں۔ہمت کیسے ہوئی تمہاری میری اور ساریہ کی تصویریں لوگوں کو دیکھانے کی۔"
ہاشم نے ماروی کو بازو سے پکڑا اور اپنے مقابل کیا۔سب نوکر کھڑے ہوگئے یہ سب دیکھنے کے لیئے۔
"تمہارا مطلب ہے تمہاری رکھیل اور تمہاری تصویریں کیوں دی ہیں میں نے لوگوں کو۔"
ہاشم کو ماروی کہ بات پر سخت طیش آیا اس نے ماروی پر ہاتھ اٹھانا چاہا۔ماروی نے جواب میں پاس پڑی خالی پیالی اٹھا کر ماری اسے۔
خبردار جو مجھے کچھ بھی کہنے کی ہمت کی۔یہ سب لوگ دیکھ رہے ہو نہ ان کے سامنے تمہاری دو کوڑی کی بھی عزت نہیں ہے اب۔سب دیکھ چکے ہیں تم ایک غلیظ انسان ہو جو اپنے کمرے میں اس جیسی کو عورت کو رات گئے لے کر گیا تھا۔"
کچھ ملازم اونچا اونچا بولنے لگ گئے۔
"ہائے ہائے چھوٹے رئیس کو شرم نہیں آتی اور یہ عورت کیسی ہے ایسی عورتوں کو
تو۔۔۔۔"
ہاشم ملازم کی طرف مڑا۔
"بکواس کرتے ہوئے میرے بارے میں سب۔۔۔۔۔"
"تمہیں میں نے کہا تھا نہ ہاشم رئیس ذادہ تمہاری یہ نام نہاد جو عزت ہے اس کے ساتھ میں جو کروں گی تمہاری نسلیں یاد رکھیں گی۔"
"تمہیں تو میں چھوڑوں گا نہیں تم نے جو کیا ہے میرے ساتھ۔"
ساریہ بھی آتے ہی ماروی کو مارنے کے لیئے بڑھی۔اس سے پہلے ہی بہت سارے کیمرے اس پر پڑے۔میڈیا کو اندر آنے کی اجازت دے دی تھی ماروی نے۔ان کے پیچھے پریام اور مرتضی تھے ۔
"سر کیا یہ سچ ہے کہ مس ماروی کو دھوکا دیا ہے آپ نے اور ساریہ جیسی عورت کے ساتھ تعلقات ہیں آپ کے۔۔۔۔"
"اور ہم نے سنا ہے آپ کی کوئی بیٹی۔۔۔۔۔۔۔"
ہر طرف سے سوالات شروع ہوگئے۔ہاشم کو تو سمجھ نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے۔مرتضی سب سے پہلے آگے آئے اور گارڈز کو سب کو باہر ے جانے کا کہا۔ہاشم کا چہرہ بے عزتی کی وجہ سے سرخ ہوگیا تھا۔ساریہ کی تو زمین ہل گئی تھی۔اس کا کیرئیر برباد ہوگیا تھا۔مرتضی نے ہاشم کو زور کا تھپڑ مارا۔
"یہ تھپڑ کاش کے تمہاری ماں کو مارتا میں تب جب وہ اپنے عاشق کے ساتھ چلی گئی تھی تمہارے ہوتے ہوئے۔تین راتیں اس کے ساتھ گزار آنے کے بعد بھی وہ واپس آئی تھی تب اسے مجھے محل سے بے دخل کر دینا چاہیئے تھا۔آج میرا خون تو اپنی ماں والی حرکتیں نہ کرتا۔"
"میری ماں کے بارے میں۔۔۔۔۔۔۔۔"
"کیا ہیں۔۔۔۔اسی غلیظ عورت کے بیٹے ہو تم جس نے میری بہن پر الزام لگایا تھا۔چھوٹی سی عمر میں اس کے بھائی نے میری بہن کو موت کے منہ میں دے دیا تھا۔کبھی اپنی ماں سے پوچھنا اس کے عشق کی داستان۔پریام ماروی کو ساتھ لو ہم اسے ہرگز یہاں نہیں چھوڑیں گے۔میری طرف سے یہ آج سے میرا بیٹا نہیں ہے۔ماروی کو اس سے کیسے آزاد کروانا ہے میں جانتا ہوں اچھے سے۔"
"بیوی ہے وہ میری خبردار جو آپ نے اسے ساتھ لے جانے کی ہمت کی۔"
"خبردار تمہارا باپ ہوں میں۔اس کے ساتھ رہو جس کے ساتھ اپنی راتیں رنگین کرتے ہو۔میرے راستے میں مت آنا تمہارا وہ حال کروں گا کہ تمہیں پتا چل جائے گا مرتضی کون ہے ۔چلو پریام ماروی کو لے کر۔"
ماروی کے چہرے پر ہنسی تھی۔
"میں جیت گئی ہاشم رئیس ذادہ۔میں کمزور عورت نہیں ہوں۔میں اپنا کام کر چکی ہوں اب اگلا کام دنیا کرے گی۔تم نے کیا سوچا تمہارے تھپڑ کھا کر میں خاموشی سے رہ لوں گی اور تمہارے غلیظ وجود کو برداشت کروں گی ہرگز نہیں۔میں ماروی ہوں ماروی کبھی تم جیسوں کو منہ نہ لگائوں میں۔چلیں آپی ۔۔۔۔"
ماروی کو لیئے پریام باہر چلی گئی۔پیچھے ساریہ کو اپنی فکر تھی کہ اس کا کیا ہوگا اور ہاشم وہ سمجھ نہیں پاریا تھا اس کے ساتھ یہ سب کیا ہوا ہے۔
_______________________
پریام ماروی کو لے کر اپنے محل آگئی تھی۔شہانا کو سب کچھ پتا چل چکا تھا جو کچھ اس کے بیٹے کے ساتھ ہوا تھا۔یہ غصے میں بھری ہوئی پریام اور ماروی کے پاس آئی۔
"کیا کیا ہے تم نے میرے بیٹے کے ساتھ۔اس کے سالوں کی محنت برباد کر دی تم نے۔گھٹیا لڑکی میرے بیٹے کی زندگی میں آکر تم نے اس کا سکون اور چین سب کچھ برباد کر دیا۔"
شہانا ماروی کو مارنے کے لیئے آگے بڑھ رہی تھی۔پریام نے شہانا کو دور پھینکا۔
"اپنا یہ غلیظ وجود لے کر تم بھی چلی جائو اس محل سے۔میری بہن کی زندگی برباد کی ہے تمہارے بارے بیٹے نے اور تمہیں سب کچھ پتا تھا۔تم کیا سمجھتی ہو میں چھوڑ دیتی تمہارے بیٹے کو۔اس محل سے اگر جانا نہیں چاہتی تم تو چپ کر کے رہو یہاں۔"
شہانا تو پریام کا یہ روپ دیکھ کر ہی طیش میں آئی۔
"تم نیچ ذات کی عورت مجھے بتائو گی کہ میں نے اس محل میں رہنا ہے یا نہیں۔"
"نیچ ذات میں نہیں تم ہو شہانا بیگم۔اس خاندان کے نام پر دھبہ ہو جو شوہر کے ہوتے ہوئے کسی اور کے ساتھ چلی گئی تھی۔تمہارے بیٹے کو تمہاری حقیقت بتا آئے ہیں مرتضی۔اسے جواب دینا اب جاکر۔میں دیکھتی ہوں کیسے تم میری بہن کو ہاتھ لگاتی ہو۔"
پریام ماروی کے لے کر اندر چلی گئی۔شہانا کی دنیا ہل گئی تھی۔اگر ہاشم نے اس سے ماضی کو پوچھ لیا تو کیا ہوگا۔
_______________________
ہاشم نے سارا معاملہ بہت مشکل سے ہینڈل کیا تھا۔ساریہ کو اس نے باہر بھیج دیا تھا کہ وہ منظر عام سے ہٹ جائے۔
"میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا ماروی۔تم کیا سمجھتی ہو مجھے برباد کر کے تم خوش رہ پائو گی۔ہرگز نہیں تمہیں اسی غلیظ شخص کے ساتھ رہنا ہے۔ تمہیں مجبور کر دوں گا میں میرے ساتھ رہنے پر۔"
ہاشم نے گاڑی محل کی طرف موڑی۔ماروی کو اب اس نے اس منظر سے لے کر دور جانا تھا۔پریام محل میں ماروی کو دوائی دے کر سلا چکی تھی۔ہاشم نے اپنے ایک ملازم سے جو محل میں تھا دودھ میں ماروی کو بے ہوشی کی دوا دی تھی۔رات کا وقت تھا پر طرف سناٹا تھا۔ماروی سو رہی تھی جب ہاشم کھڑکی سے اندر آیا۔
"تم کیا سمجھتی ہو میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔یہ تمہاری بھول ہے اب میں تمہارے ساتھ وہ کروں گا کہ تم بھول جائو گی تم کون ہو۔یاد رہے گا تو صرف اتنا کہ تم ماروی ہاشم خان ہو۔"
ریڈرز کیا ہونے والا ہے آگے۔شہانا بیگم کا ماضی کھلنے والا ہے ۔جلدی سے بتائیں آج کی قسط کیسے لگی۔
ماروی کی آنکھ کھلی تو اسے احساس ہوا کہ اس کے سر میں شدید درد ہے۔ماروی کی آنکھیں زیادہ دیر تک سو جانے کی وجہ سے سوجی ہوئی تھی۔ماروی نے کافی دیر بعد اپنے دماغ پر زور ڈالا۔ماروی کو محسوس ہوا کہ یہ ایک بیڈ پر ہے اور یہ کمرہ۔۔۔۔یہ کمرہ تو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔کمرے میں نائٹ کلب آن تھا جس کی وجہ سے روشنی بہت مدہم تھی۔
"جاگ گئی تم۔"
یہ پرسرار سی آواز اسے ماروی کیسے نہ پہچان پاتی۔ماروی فورا سے بیڈ سے اٹھی۔
"تم۔۔۔۔۔۔۔"
ہاشم ہنستے ہوئے لائٹ آن کرتے بیڈ پر آیا۔
"تم نے کیا سوچا تھا میرے ساتھ اتنا برا کرکے میں تمہیں جانے کی اجازت دوں گا۔میری بیوی ہوکر تک نے مجھے دنیا کے سامنے ذلیل کیا۔۔۔۔"
ہاشم نے ماروی کے بالوں کو اپنی سخت گرفت میں لے کر اسکا چہرہ اوپر کیا۔
"تم مجھے کسی بھی چیز کے لیئے الزام نہیں دے سکتے۔خود کو دیکھا ہے کیا تم نے۔اپنی گھٹیا حرکت تمہیں یاد نہیں بس نام نہاد عزت بہت عزیز ہے"
"میں جو بھی کروں تمہیں اس کیا ہاں۔میں پھر بھی تمہاری بہن سے سو گنا بہتر ہوں۔"
ہاشم نے ماروی کو چھوڑا۔ماروی نے ہاشم کی آنکھیں دیکھی جو اس وقت سرخ تھی یعنی اس وقت ہاشم بہت زیادہ غصے میں تھا۔
"یہ گھر تمہارے لیئے قید خانہ خانہ ہے آج سے ماروی۔تم اس گھر میں پل پل سسک کر رہو گی مگر تمہارے پاس کوئی فرار کا راستہ نہیں ہوگا۔میں تمہیں اور تمہاری بہن کو بتا دوں گا کہ جب میں بدلہ لیتا ہوں تو کیسے لیتا ہوں۔"
ماروی باہر جاتے ہوئے ہاشم کے پیچھے آئی۔
"تم مجھے یہاں قید نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔"
ہاشم نے پیچھے مڑ کر ماروی کے چہرے پر تھپڑ مارا جس سے ماروی گر گئی۔
"آئیندہ میرے پیچھے آنے سے پہلے سوچ لینا تمہارا وہ حال کرسکتا ہوں میں کہ تم شاید اپنا چہرہ بھی بھول جائو گی۔میری قیدی ہو تم بس اب اور کچھ نہیں۔"
ماروی فرش پر گرے ہاشم کو باہر جاتا دیکھ رہی تھی۔یہ گھر آبادی سے بہت دور تھا۔ماروی اپنا درد بھول کر باہر کی طرف آئی جہاں سے اسے چھوٹا سا صحن نظر آیا۔ہاشم دور کھڑا اس کی یہ ساری حرکتیں دیکھ رہا تھا۔ماروی نے دروازہ کھولا جو اس صحن میں تھا اور باہر کی طرف جاتا تھا۔مگر باہر کیا تھا کچھ بھی نہیں۔دور دور تک کوئی گھر نہیں تھا اور آگے گھمنا جنگل تھا۔ماروی کو معلوم ہوچکا تھا کہ ہاشم اسے کسی ایسی جگہ لے آیا ہے جہاں سے یہ کہیں نہیں جا سکتی۔ہاشم اندر کسی کمرے میں چلا گیا جبکہ ماروی باہر ہی بیٹھ کر رونے لگ گئی۔اس کے پاس کوئی بھی راستہ میں تھا کہیں بھی یہاں سے جانے کا۔
_________________________
پریام ماروی کو لینے اس کے کمرے میں آئی تو وہاں کوئی نہیں تھا۔پریام نے ہر جگہ دیکھا مگر کہیں کوئی بھی نہیں تھا۔ایک ملازم سے اسے معلوم ہوا کہ رات کے وقت کوئی محل میں آیا تھا ماروی کے کمرے میں۔پریام نے ماروی کے بیڈ کےپاس ایک نوٹ دیکھا۔
"رانی پریام۔آپ نے کیا سمجھا کہ میں ماروی کو چھوڑ دوں گا۔کبھی نہیں۔بیوی ہے یہ میری اور جو کچھ یہ کر چکی ہے یقین کریں اسے ایسی سزا دوں گا میں کہ یہ خود بھی اپنے آپ کو بھول جائے گی۔یہ رانی صاحبہ آپ کے لیئے اب ایک مشکل کام ہے مجھے ڈھونڈنا۔اگر آپ نے مجھے ڈھونڈ لیا تو ماروی آپ کی ورنہ شاید ساری زندگی کے لیئے اس کی شکل آپ نہیں دے سکیں گی۔"
پریام نے غصے سے یہ کاغذ پھاڑ دیا۔یہ باہر نکلی اور شہانا کے کمرے کی طرف آئی۔شہانا شاید اپنے کسی ملازم سے بات کر رہی تھی۔
"تم نے غائب کیا ہے نہ میری بہن کو اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر۔"
شہانا نے پریام کو دیکھا۔
"خیر ہے رانی صبح صبح کیوں تمہارا بی بی ہائی ہے۔"
"تم کتنی غلیظ عورت ہو مجھے اور میری بہن کو زندہ کیوں نہیں رہنے دیتی ہو۔تمہارا بیٹا میری بہن کو رات اس کے کمرے سے لے گیا ہے۔یاد رکھنا اب کی بار جب مجھے تمہارا بیٹا ملے گا تو اس بار میں اسے چھوڑوں گی نہیں۔"
"مجھے پر الزام تراشی مت کرو۔۔۔۔تمہاری بہن ہی اپنے کسی یار کے ساتھ۔۔۔۔"
پریام نے اس بات پر شہانا کو ایک زور کا تھپڑ مارا۔
"جیسے تم اپنے یار کے ساتھ گئی تھی اور تین راتیں اس کے ساتھ گزار کر آئی تھی گھٹیا عورت۔"
"تم۔۔۔۔تمہاری اتنی ہمت تم مجھے۔۔۔۔۔"
پریام نے اپنی طرف آتی شہانا کو پیچھے پھینکا ۔
"میری طرف آنے سے پہلے ہزار بار سوچ لینا ۔تمہارا میں انتظام کرتی ہوں۔تمہارا بیٹا اگر میری بہن کو تکلیف دے گا نہ تو تم بھی اس محل میں نہیں رہو گے۔"
پریام اپنے چہرے سے آنسو صاف کرتی ہو چلی گئی۔
______________________
ماروی صحن میں ہی بیٹھی ہوئی تھی جب ہاشم اس کے پاس آیا۔
"رونا دھونا کرلیا ہے نہ۔اٹھو اب اور کچن میں جاکر کچھ بنائو۔"
"نہیں بنائوں گی میں۔"
ہاشم نے ماروی کے بال پکڑ لیئے۔ماروی کو لگ رہا تھا اس کے بال اس کے سر سے الگ ہوگئے ہیں۔
"نہیں بنائو گی کھانا تو بھوکی رہنا۔تمہارا یہ خوبصورت چہرہ مجھے آنسوئوں سے بھرا چاہئے۔تمہیں یہاں سے رہائی نہیں ملے گی۔کیا کہا تھا میں نے یہاں پر تم صرف میری قیدی ہو۔مجھ پر کوئی چیز پھینکنے سے پہلے سوچ لینا میں اس کے بعد تمہارا بہت برا حال کروں گا۔یہ بہت ویران جگہ ہے یہاں دور دور تک کوئی نہیں آئے گا تمہیں لینے یا بچانے۔"
ماروی کو ضد تھی یہ پھر بھی نہیں اٹھی۔
"تو تم میرے ساتھ ضد لگائو گی ہاشم رئیس زادہ کے ساتھ ہاں۔۔۔۔"ہاشم نے ماروی کو اٹھایا اور گھسیٹتے ہوئے باہر لے گیا۔یہ ویران علاقہ تھا۔سامنے گھنا جنگل تھا۔ہاشم نے ماروی کو باہر پھینکا اور اندر آکر دروازہ بند کر لیا۔رات ہونے والی تھی۔ماروی کو شدید خوف آیا۔
"رہنا اب یہاں ہی رات ساری۔جب تمہارا دماغ ٹھکانے آجائے گا تو اندر لے آئوں گا تمہیں۔"
ماروی فورا دروازے کے پاس آئی۔فضا میں عجیب سا سکوت تھا جیسے کوئی طوفان آنے والا ہے۔
"ہاشم دروازہ کھولو۔میں کھانا بنا دوں گی۔"
ماروی نے بہت بار دروازہ بجایا مگر ہاشم اندر جاچکا تھا۔اندھیرا آہستہ آہستہ بڑھنے لگا۔ہاشم کمرے میں جاکر لیٹ گیا۔ماروی کو آج اپنی بے بسی کا احساس ہوا۔بچپن سے یہ اپنے ماں باپ کی بہت لاڈلی تھی پھر اپنی بہن کی شادی کے بعد اس نے زندگی کا ایک بہت بھیانک روپ دیکھا تھا۔اپنے گھر سے بہت سال دور رہی تھی یہ۔اس کے ماں باپ جو اس سے بے تحاشا محبت کرتے تھے وہ ایک بار بھی اس سے ملنے نہ آئے ۔کیا یہ ان کی بیٹی نہیں تھی کہ وہ آکر اس سے پوچھتے کہ یہ کیسی ہے۔
پریام کی زندگی آسان تھی اس سے زیادہ کیونکہ مرتضی اس سے بہت محبت کرتے تھے۔زندگی جس کی برباد ہوئی تھی وہ ماروی تھی۔ماروی کو اندھیرے سے وحشت ہونے لگی تھی۔اس وقت ماروی کے پاس ڈوپٹا بھی نہیں تھا۔اسے جنگل سے جانوروں کی آوازیں آنے لگ گئی۔
"پلیز ہاشم دروازہ کھول دو۔"
ہاشم کچھ سن ہی نہیں رہا تھا۔آج رات بارش کا موسم تھا اور اسی لمحے ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی۔ماروی کو کوئی بھی جگہ چھپنے کی نظر نہ آئی۔بارش تیز ہوگئی اور پھر اتنی تیز ہوگئی کہ ماروی کو لگا یہ یہاں ہی گر جائے گی۔ماروی کو بارش بہت پسند تھی مگر یہ بارش اس کے لیئے اچھی ثابت نہیں ہوئی تھوڑی دیر تک یہ دروازہ بجاتی رہی پھر نیچے ہی بیٹھ گئی۔رات کے اندھیرے میں اس نے آج ایسا محسوس کیا تھا کہ اس رات کی صبح شاید یہ نہ دیکھ پاتی۔
_______________________
ہاشم رات کے کسی پہر اٹھا۔باہر بارش رک چکی تھی۔اسے یاد تھا یہ ماروی کو باہر چھوڑ کر آیا تھا۔ہاشم کو جنگل کا خیال آیا یہ باہر آیا اور دروازہ کھولا۔ماروی سامنے ہی بے ہوش پڑی تھی۔اس کے کپڑے اس کے وجود کے ساتھ چپکے ہوئے تھے اور یہ غنودگی میں بھی کسی کو بلاتی تھی۔ہاشم آگے آیا اور اسے زمین سے اٹھا کر اندر لے آیا۔الماری سے کپڑے نکال لینے کے بعد اس نے ماروی کے کپڑے تبدیل کیئے۔کچن سے دودھ کا گلاس لے آنے کے بعد اس نے یہ ماروی کو پلانے کی کوشش کی۔
ماروی غنودگی میں بھی اسے پیچھے کر رہی تھی۔
"چپ چاپ یہ پی لو۔میں یہاں تمہاری خدمت کرنے نہیں آیا۔صبح اٹھ کر تم نے خود ہی کھانا بنانا ہے ۔"
ہاشم نے زبردستی ماروی کو دوا دی۔اس وقت ہاشم ایک بہت ظالم انسان بنا ہوا تھا۔اس کو غرور تھا مگر کہتے ہیں نہ غرور کو ٹوٹنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔
_______________________
مرتضی پریام کی وجہ سے پریشان تھی جس نے کھانا پینا چھوڑا ہوا تھا۔
"پریام تھوڑا سا کھا لو۔میں کہہ رہا ہوں نہ میں ہاشم اور ماروی کو جلدی ڈھونڈ لوں گا۔"
پریام نے مرتضی کے ہاتھوں کو پیچھے کیا۔
"میرا ساتھ بات مت کریں۔میری بہن وہاں کچھ کھا پی نہیں رہی اور میں یہاں کھا پی لوں۔آپ کے بیٹے کی وجہ سے میری بہن کی زندگی تنہا ہوگئی ہے۔میری زندگی اور میرے خاندان کی زندگی تباہ کرنے والا اور کوئی نہیں آپ ہیں۔نہ آپ مجھ سے شادی کرتے نہ میری بہن آپ کے بیٹے کے انتقام کی نذر ہوتی۔ساری غلطی آپ کی ہے مرتضی۔میرے ہاتھوں میں کچھ نہیں رہا کچھ بھی نہیں۔"
پریام چیخ کر رو رہی تھی ۔
"مجھے معاف کر دو پریام۔میں نہیں جانتا تھا میرا بیٹا یہ سب کر دے گا۔تم خود کو پریشان مت کرو ہمارے بچے کے لیئے ٹھیک نہیں۔"
مرتضی کو آج ہی معلوم ہوا تھا کہ پریام امید سے ہے ۔پریام نے اپنا جو حال بنا رکھا تھا مرتضی بہت پریشان تھے کہ کہیں بچے کو کوئی نقصان نہ ہو۔
"میری بہن ۔۔۔۔۔۔میں اس وقت اور کچھ بھی نہیں سوچ سکتی۔مجھے صرف اپنی بہن چایئے صرف میری بہن۔"
پریام روتے ہوئے مرتضی کو ہی شکایت کر رہی تھی جن کے سالوں پہلے کیئے گئے اقدام کے باعث آج یہ یہاں موجود تھی۔
_______________
آٹھ ماہ بعد
آٹھ ماہ کا عرصہ کیسے گزرا کچھ پتا نہیں چلا۔ہاشم کی آنکھ کھلی تو اس کے ساتھ بستر پر ماروی نہیں تھی۔یہ فورا اٹھ گیا۔اس کا رخ باہر لاوئنج کی طرف تھا۔اس کی توقع کے عین مطابق ماروی کچن میں تھی اور شاید اپنے لیئے ناشتہ بنا رہی تھی۔اس علاقے کا موسم اب بہت بہتر تھا۔ایک ملازمہ آتی تھی جو سارے گھر کی صفائی بھی کرتی تھی اور دیگر کام بھی۔ماروی کو تو اب کچھ یاد بھی نہیں تھا۔یہ آٹھ ماہ اس کی زندگی کے لیئے بہت بدترین ثابت ہوئے تھے۔ہاشم نے اسے اس ویرانے میں قید کر کے اپنا عادی بنا لیا تھا۔ماروی کو بہت ساری چیزیں بھول چکی تھی جن میں سر فہرست ہاشم کا اپنے ساتھ سلوک اور اپنا ماضی۔یہ امید سے تھی اور ڈاکٹر کے مطابق اس کے دماغ پر تنہائی نے گہرا اثر دیکھایا تھا۔ہاشم جیسا خود تھا اس نے ایسا ہی ماروی کو بھی بنا لیا تھا۔
"تم ناشتہ کیوں بنا رہی ہو۔چھوڑو طبیعت ٹھیک نہیں تھی تمہاری رات کو بھی۔"
ہاشم نے ماروی کو ہاتھ سے تھام کر کرسی پر بٹھایا۔اس کے سوجے ہوئے ہاتھوں پر ہاشم نے پیار دیا۔
"پتا نہیں نیند نہیں آرہی تھی۔مجھے لگا بھوک لگی ہے مجھے تو کچھ کھا لوں۔"
"فریج سے نکال لیتی کچھ یوں کچن میں آنے کی کیا ضرورت تھی۔چلو جائو کمرے میں۔ناشتہ لے آتا ہوں میں۔"
ماروی چپ چاپ اٹھ گئی اور کمرے میں چلی گئی۔یہ آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی۔سبز رنگ کے شفون کے سوٹ میں بالوں کو رف سا باندھے ہوئے ماروی کو اپنا آپ اجنبی سا لگا۔اسے یاد تھا ہاشم نے اس بتایا تھا اس کی پسند کی شادی ہے مگر یہاں اس ویرانے میں کیوں رہتے تھے یہ لوگ۔اسے کیا سب بھول گیا تھا۔ماروی آئینے پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔اس کے ذہن میں بہت ساری باتیں اکٹھی آئی جس سے اس کے سر میں شدید درد اٹھا۔ماروی بیڈ پر بیٹھ گئی اور پھر ہمیشہ کی طرح سر جھٹک کر لیٹ گئی۔ہاشم نے اسے تنہائی ہی ایسی دی تھی کہ اسے سب کچھ ہی بھول گیا تھا۔پھر جس حالت میں تھی یہ بہت زیادہ سنجیدہ اور عجیب سی شخصیت کی مالک ہوگئی تھی۔لیٹے ہوئے ماروی کو کچھ آوازیں آئی۔اسے ایک لڑکی نظر آئی جو بلکل اس جیسی تھی مگر اس کا حلیہ مختلف تھا۔اس کے منہ سے چیخ نکلی جسے سن کر ہاشم اندر آیا۔
"کیا ہوا۔"
ہاشم نے پانی کا گلاس اس کے منہ کے ساتھ لگایا۔
"وہ۔۔۔۔وہ وہاں ایک لڑکی تھی۔"
ہاشم نے اس کے سر میں ہاتھ پھیرا۔
"کچھ نہیں ہے ایسا۔سب تمہارا وہم ہے۔چلو جلدی سے ناشتہ کے لیئے آئو۔"
"ہاشم نہیں نہ وہاں کوئی تھا۔آپ مان جائیں۔میں نے خود ایک لڑکی کو دیکھا ہے۔اس کی نیلی آنکھیں تھی میری طرح۔"
"بس کچھ نہیں ہے ماروی۔ایسا کرو گی تو ہمارے بے بی کے لیئے سب ٹھیک نہیں ہے نہ۔تم کہہ رہی تھی نہ کہ تمہیں بھوک لگی ہے چلو میں کمرے میں ہی ناشتہ لے آتا ہوں۔آج ملازمہ آئے تو اس سے تمہاری پسند کا کھانا بناوتے ہیں۔چھٹی ہے تو ویسے بھی ہے میں نے کہیں نہیں جانا۔آج کا سارا دن میں تمہارے ساتھ گزاروں گا۔"
ہاشم ماروی کو ناشتہ کروانے کے بعد کچن میں آیا تو اس کے موبائل پر کال آنے لگی جو ساریہ کی تھی جسے یہ شاید اپنی زندگی سے نکال چکا تھا۔ہاشم نے فون اٹھایا۔یہ نمبر صرف ساریہ کے پاس تھا۔
"ہاشم کہاں ہو تم۔کتنا عرصہ ہوگیا تم مجھے بلکل ہی بھول گئے ہو۔کیا تمہیں یاد نہیں میں تم سے کتنی محبت کرتی ہوں اور تمہاری منتظر ہوں میں۔"
ہاشم نے گہرا سانس لیا اور پھر اپنی بات شروع کی۔
" میں تم سے معافی چاہتا ہوں ساریہ مگر اب میں تم سے کوئی بھی تعلق نہیں رکھنا چاہتا۔میری زندگی بہت آگے بڑھ چکی ہے۔میں اپنی بیوی کے ساتھ بہت زیادہ خوش ہوں اور تم سے صرف میری دوستی تھی اور کچھ نہیں۔"
"سچ میں ہاشم کیا تم سے صرف میری دوستی تھی۔ہاشم سے ارمان تک کا سفر تم نے میرے ساتھ طے کیا تھا ۔یاد ہے تم نے کہا تھا چاہے جو بھی ہوجائے تم مجھے نہیں چھوڑو گے تو پھر کیسے اس لڑکی کی خاطر تم مجھے چھوڑنے کا کہہ رہے ہو، جس کی بدولت میرا کیرئیر برباد ہوگیا۔"
"تم تو ایسی باتیں کر رہی ہو جیسے میری ذات سے تم نے کوئی بھی فائدہ حاصل نہیں کیا۔تمہیں بھی بہت فائدہ ہوا ہے میرے ساتھ رہنے سے۔اب میں سارے تعلق ختم کرنا چاہتا ہوں۔امید ہے تم دوبارہ مجھے تنگ نہیں کرو گی۔" ہاشم نے فون رکھ دیا۔یہ نمبر صرف ساریہ اور اس کے کچھ جاننے والوں کے پاس تھا جو ہاشم کا بزنس دیکھ رہے تھے اور اس کے وفادار تھے۔ساریہ نے فون بند ہوتے ہی فون پھینک دیا۔
"تم کیا سمجھتے ہو ہاشم رئیس ذادہ میں تمہارا پیچھا چھوڑ دوں گی۔یہ کبھی ممکن نہیں۔تم نے ابھی مجھے جانا ہی نہیں ہے۔میں تمہارا وہ حال کروں گی کہ تم خود کو بھی بھول جائو گے۔"
ساریہ نے ہاشم سے انتقام لینے کا سوچا جس کا مہرہ یہ ماروی کو بناتی۔
__________________________
ماروی اور ہاشم دونوں واک کر رہے تھے۔اس علاقے میں دور دور تک جنگل تھا پھر آگے سے شہر جانے والی سڑک لگتی تھی۔ہاشم کا ارادہ تھا کہ اب انہیں واپس چلے جانا چاہئے کیونکہ ماروی کو تو ویسے بھی سب کچھ بھول چکا تھا۔پریام اب اس کا کچھ بھی نہیں کرسکتی تھی اور سب سے بڑی بات کہ ہاشم نے ماروی سے محبت کرنا سیکھ لی تھی۔جب سے ماروی کو کچھ بھی یاد نہیں رہا تھا تب سے ہاشم نے کوشش بھی نہیں کی تھی کہ اسے کچھ یاد آئے۔اسے تو بس اپنی اولاد کا انتظار تھا جسے گود میں لے کر یہ اپنے دل کے تمام ارمان پورے کرلیتا۔
"ماروی ہم کل یہاں سے جانے والے ہیں اپنے گھر اپنے محل۔"
ماروی نے نہ سمجھی سے ہاشم کو دیکھا۔
"مگر ہمارا گھر تو یہ نہیں ہے کیا۔"
"نہیں ہم یہاں کچھ عرصے کے لیئے آئے تھے اور اب ہمیں واپس جانا ہے۔تم بھی اب ٹھیک ہو تو میں چاہتا ہوں ہمارا بچہ ہمارے محل میں پیدا ہو۔"
ماروی کے پیٹ پر ہاتھ رہتے ہوئے ہاشم نے اپنے بچے کو محسوس کیا۔
"کیا وہاں کوئی اور بھی رہتا ہے۔ہاشم آپ مجھے کیوں نہیں بتاتے کہ ہماری فیملی میں کون کون ہے۔کیا ہم دونوں نے بھاگ کر شادی کی تھی کہ کوئی بھی ہم سے بات نہیں کرتا۔"
"ایسا کچھ بھی نہیں ہے ماروی۔پریام رانی میری سوتیلی والدہ تمہاری بہن ہیں جن سے میرے کچھ اختلافات تھے۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ ہماری شادی ہو مگر تم نے اور میں نے ان کے خلاف جاکر شادی کر لی اور میں تمہیں کچھ عرصے کے لیئے لے کر یہاں آگیا۔اب ہم واپس جائیں گے نہ تو سب ٹھیک ہوچکا ہوگا۔"
"ہاشم مجھے،مجھے کچھ باتیں یاد آتی ہیں۔ایسا کیا ہوا تھا کہ مجھے سب کچھ بھول گیا ہے۔"
"کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔تم سیڑھیوں سے گر گئی تھی اور سر پر چوٹ لگی تھی تمہارے۔مگر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ تم جلدی ہی ٹھیک ہوجائو گی۔"
یہ حقیقت تھی کہ ڈپریشن کی وجہ سے بھی ماروی کی یاداشت جاچکی تھی مگر شروع کے دنوں میں جب یہ لوگ یہاں آئے تھے تو ماروی سیڑھیوں سے گری تھی اور چوٹ صرف اس کے سر پر آئی تھی۔ڈاکٹرز کے مطابق ماروی نے صدمہ لیا تھا اپنی زندگی میں جس کی وجہ سے یہ خود بھی کچھ یاد نہیں رکھنا چاہتی۔ہاشم نے ملازمہ سے کھانا بناویا تھا جو وہ لے کر آئی اور ماروی کھانا کھانے کے بعد اندر چلی گئی۔ہاشم کی کوشش تھی کہ اب یہ پریام کو اپنی زندگی میں نہ آنے دے۔ویسے بھی ماروی کو اب کچھ یاد نہیں تھا اور بچے کے آجانے کے بعد ہاشم اسے مصروف کردیتا۔ماروی سونے کے لیئے چلی گئی جبکہ ہاشم مختلف چیزیں پیک کرنے لگ گیا جو اسے کل ماروی اور اپنے ساتھ لے کے جانی تھی۔
________________________
پریام اپنی بیٹی کو گود میں لیئے بیٹھی تھی جو پندرہ دن کی تھی اور بلکل اپنے باپ پر۔مرتضی کھڑکی کے پاس اپنے چھوٹے بیٹے کو گود میں لیئے بیٹھے تھے جو سو گیا تھا۔یہ بہت ضدی تھا اور جب سے اس کی بہن پیدا ہوئی تھی یہ ماں کو بہت تنگ کرتا تھا۔اس لیئے پریام نے مرتضی کو اسے سلانے کے لیئے کہا اور یہ سو بھی گیا۔مرتضی اسے اس کے روم میں چھوڑ کر آئے اور اپنی بیٹی کو پریام سے لے کر بے بی کاٹ میں لٹا دیا۔انہیں اپنی بیٹی سے بہت محبت تھی جو سالوں بعد پیدا ہوئی تھی۔اس خاندان کی اب تک کی اکلوتی بیٹی تھی یہ۔مرتضی نے اس کا نام گل بہار رکھا تھا جو ان کی بہن کا مکمل نام تھا۔مرتضی بہت دیر تک اپنی بیٹی کے نقوش دیکھتے رہے۔"مرتضی کیا ہوا بے بی کو ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں۔"
مرتضی واپس بیڈ پر پریام کے پاس آکر بیٹھے۔
"میری بہن بہار واپس آگئی ہے۔تم جانتی ہو پری میری گل بہار بہت خوبصورت تھی۔اس کی خوبصورتی کے بارے میں میری ماما جان کہہ کرتی تھی کہ جو لوگ بہت خوبصورت ہوتے ہیں نہ اکثر انہیں نظر بھی کھا جانتی ہے اور میں ان کی بات کا مذاق بناتا تھا۔مگر دیکھو نہ میری گل بہار کتنی چھوٹی سے عمر میں یہ دنیا ہی چھوڑ کر چلی گئی۔"
مرتضی کی آنکھوں سے آنسو نیچے گرے۔پریام نے ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔
"کیا ہوا تھا اسے۔"
"تم جانتی ہو جس عورت کو میں نے اپنے محل میں اتنے عرصے جگہ دی ہے وہی تو ذمہ دار ہے میری بہن کی موت کی۔"
مرتضی ماضی میں کہیں کھو گئے۔
مرتضی اپنے ماں باپ کے اکلوتے بیٹے تھے اور ان کی بہن اکلوتی بیٹی۔ان کے کا خاندان میں باہر شادیاں کرنے کا رواج نہیں تھا۔شہانا کی والدہ مرتضی کے دادا جان کی بیٹی تھی یعنی مرتضی کی پھوپھو۔ان کے شوہر بھی دادا جان کے بھائی کے بیٹے تھے یعنی ان کے چچا زاد اور مرتضی کے سسر تھے بعد میں وہ۔سترہ برس کے ہوتے ہی مرتضی کی شادی شہانا سے کر دی گئی جو مطلب پرست عورت تھے۔چھوٹی سے عمر سے ہی ان کے دماغ میں حکمرانی سیکھائی گئی تھی۔ہاشم ان دونوں کی شادی کے ایک سال بعد ان کی گود میں تھا۔مرتضی شہانا سے بہت اچھا رویہ رکھتے تھے۔ان کا بیٹا ان کی اور ان کے دادا جان کی جان تھا۔مرتضی کے والد تو جب یہ چھوٹے تھے گل بہار کے پیدا ہوتے ہی فوت ہوگئے جبکہ والدہ بھی بیمار رہتی تھی۔دادا ہی ان کے سرپرست تھے۔شہانا کو دوسرے گائوں میں ایک لڑکا پسند تھا شادی سے پہلے۔یہ بات کسی کو پتا نہیں تھی۔ایک رات ایسا ہوا کہ وہ شہانا سے ملنے آیا تو مرتضی اس دن شہر میں تھے۔رات کو کسی ملازم نے حویلی کی عورت کو ایک غیر مرد کی بانہوں میں دیکھا ۔یہ بات دادا جان تک پہنچی۔وہ رات محل کے لیئے بہت مشکل تھی۔شہانا تو شادی شدہ تھی ان پر شک نہیں جاسکتا تھا اس لیئے انہوں نے بہت طریقے سے سارا الزام معصوم سی پندرہ برس کی گل بہار پر لگا دیا۔شہانا کے گھر والے بھی آگئے۔خاندان میں بہت ہنگامہ ہوا اور گل بہار کو خود سے 10 سال بڑے شرابی اور جواری شہانا کے بھائی کے ساتھ چپ چاپ رخصت کر دیا گیا۔مرتضی جب شہر سے واپس آئے تو ان کے ماں نے انہیں بتایا کہ گل بہار کی دنیا لٹ گئی ہے۔مرتضی بہت کوشش کے باوجود بھی اپنی بہن کو بے گناہ ثابت نہ کرپائے۔وہ امید سے تھی اور ان کا شوہر انہیں بہت مارتا تھا پھوپھو سمیت۔شہانا بھی میکے جاکر سسرال کی جھوٹی باتیں بتاتی۔وہ مرتضی سے طلاق چاہتی تھی۔پھر ایک دن ایسا ہوا کہ شہانا رات گئے اپنے عاشق کے ساتھ حویلی سے چلی گی اور اس کے سارا الزام بھی گل بہار کے سر دیا اس کے شوہر نے اور اسے اتنا مارا کہ وہ اپنے بچے سمیت ہی اس دنیا سے چلی گئی۔وہ بد بخت خود اسی رات ایک گاڑی کے آگے آکر مر گیا۔شہانا کے عاشق نے تین دن ان کے ساتھ اپنی راتیں رنگین کر کے انہیں اسی محل کے آگے چھوڑ دیا۔سب کو معلوم ہوچکا تھا کہ معصوم گل بہار تو بے قصور تھی۔شہانا جب محل میں آئی تو دادا جان اور مرتضی سفیر کپڑوں میں ہاشم کو لیئے بیٹھے تھے۔دادا جان کے کندھے جھکے ہوئے تھے۔شہانا کو دیکھتے ہی مرتضی نے انہیں اٹھ کر تھپڑوں سے خوب مارا۔"دادا جان اس عورت کو میں ایک لمحے بھی اپنی زندگی میں برداشت نہیں کروں گا۔میری بہن کی قاتل ہے یہ۔کہیں اس سے اپنا یہ غلیظ وجود لے کر یہاں سے چلی جائے۔"
مرتضی کے دادا نے اپنے خاندان کی عزت کو بہت اہم سمجھا۔اگر یہ بات باہر نکل جاتی کہ رئیس خاندان کی بہو کسی کے ساتھ رہ کر آئی ہے تو گائوں میں ان کا روب ختم ہوجاتا اور یہ کسی بھی کام کے نہ رہتے۔
"میں اسے چھوڑ دوں گا۔"
دادا نے مرتضی کے منہ کے آگے ہاتھ رکھ لیا۔اپنی قسمیں دے کر دادا نے مرتضی کو ہمیشہ کے لیئے شہانا کو نہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا مگر مرتضی نے ان جیسی غلیظ عورت سے اپنا ہر تعلق توڑ لیا۔یہ صرف اپنے بیٹے سے محبت کرتے تھے جسے مہرے کے طور پر اس کی ماں استعمال کرتی۔کوئی مرد اتنا ظرف نہیں رکھتا کہ بھاگی ہوئی عورت کو دوبارہ اپنی زندگی میں جگہ دے۔شہانا نے مستقبل میں بھی مرتضی کی زندگی خراب ہی کی اور پریام کو بھی بہت بار نقصان پہنچایا اور سب سے زیادہ برا ہاشم کے ساتھ ہوا جس کی تربیت ان جیسی عورت نے خراب کی۔مرتضی کی آنکھ سے نکلنے والا آنسو پریام کی ہتھیلی پر تھا۔"زندگی ہمارے لیئے کبھی کبھی سکون بھی رکھتی ہے اتنی ساری مشکلات کے بعد ۔میری بھی تو بہن آپ کے بیٹے کے پاس ہے جس کا کوئی اتا پتا نہیں۔میری زندگی کے پیچھے وہ برباد ہوئی ہے۔اس کو ہر کسی نے مہرہ بنا کر استعمال کیا ہے مرتضی۔بہت معصوم ہے وہ بلکل چھوٹی بچی جیسی۔"
"میں کوشش کر رہا ہوں پریام۔وہ جیسے ہی ملے گی میں ہاشم کے پاس نہیں رہنے دوں گا اسے۔تم پریشان مت ہو۔سو جائو تم اب رات کو بہار جاگے گی تو سونے نہیں دے گی پھر ہم دونوں کو۔"
پریام کو لیٹا کر مرتضی نے لیمپ بند کیا۔پریام کی آنکھوں سے بھی آنسو نکل رہے تھے۔جس انسان کی زندگی اس سب میں برباد ہوئی تھی وہ اور کوئی نہیں ماروی تھی ۔
ہاشم ماروی کو لیئے واپس اپنے محل آگیا تھا۔اماں نے تو جیسے ہی ماروی کو دیکھا انہیں یقین نہیں آیا کہ ماروی واپس آگئی ہے۔ماروی بہت زیادہ کمزور ہوگئی تھی۔ماروی کو دیکھ کر تو پہلے تو اماں کو یقین ہی نہیں آیا پھر انہوں نے آگے بڑھ کر ماروی کو سینے سے لگا لیا۔ماروی نے نہ سمجھی سے انہیں دیکھا کیونکہ اس کی یاداشت میں اماں کا تصور کہیں بھی نہیں تھا۔
"کہاں لے گئے تھے تم میری بچی کو ہاشم سائیں۔دیکھو تو کتنی کمزور سے ہوگئی ہے۔اسے تو شاید تم نے انسان سمجھا ہی نہیں۔"
"ایسا نہیں ہے اماں۔ماروی ماں بننے والی ہے اس لیئے وہ کمزور ہے تھوڑی۔آپ جلدی سے ماروی کے لیئے جوس لے آئیں۔یہ بہت لمبا سفر طے کر کے آئی ہے،اسے تھکن ہے بہت زیادہ۔"
ہاشم نے اماں کے سامنے ظاہر کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ہاشم ماروی کے لے کر اپنے پرانے کمرے میں آیا۔ماروی کو دیکھ کر ایسا گمان ہوتا تھا کہ یہ چابی سے چلنے والی گڑیا ہے۔ماروی کو لٹا کر ہاشم باہر آیا۔اماں نے پریام کو ماروی کے آجانے کی خبر دی۔پریام تو فورا سے اپنی بیٹی کو لیئے محل آگئی۔ماروی کو اب یہ اس درندے کے پاس کبھی بھی رہنے نہیں دینا چاہتی تھی۔ہاشم ماروی کو کھانا کھلا رہا تھا جس لمحے کمرے کا دروازہ کھلا۔گل بہار اماں کی گود میں تھی۔ماروی نے اندر آنے والی عورت کو دیکھا۔یہ لڑکی ماروی جیسی ہی تھی مگر اس وقت اس نے چادر کر رکھی تھی جس سے اس کا چہرہ نہیں نظر آرہا تھا۔چادر پریام کے چہرے سے ہٹی تو ماروی کو یاد آیا کہ یہ اس کی کوئی اپنی ہے۔
"میری ماروی۔کیا حال ہوگیا ہے تمہارا۔"
ہاشم نے سوپ کا پیالا ٹیبل پر رکھا۔پریام نے ماروی کو اپنے سینے سے لگایا مگر پریام نے محسوس کیا کہ ماروی اب اکیلی نہیں ہے اس کے ساتھ ایک اور جان بھی جڑ چکی ہے۔پریام نے ماروی کا چہرہ چوما پھر اس کے وجود کو دیکھا جو بھرا بھرا تھا۔جس بات کا پریام کو سب سے زیادہ ڈر رہتا تھا وہی بات ہوچکی تھی۔
"آپی۔۔۔۔۔"
"ہیں میری جان تمہاری آپی۔تمہارا کیا حال کر دیا ہے اس درندے نے۔اسے میں نہیں چھوڑوں گی۔"
پریام ماروی کو چھوڑ کر ہاشم کی طرف جانے لگ گئی۔ماروی نے پریام کا بازو تھام لیا۔
"آپی آپ غصہ ہیں۔"
پریام نے اپنی بہن کی آنکھیں دیکھی۔ان میں ایک عجیب سا خالی پن تھا جیسے ماروی کو کچھ یاد ہی نہیں۔
"ماروی تمہیں کیا ہوگیا ہے۔پتا ہے یہ شخص،اس نے تمہاری زندگی برباد کر دی اور تمہیں یاد ہے کیسے یہ تمہیں اپنے ساتھ لے گیا تھا ہم سب سے دور۔"
پریام نے ماروی کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔
"آپی پلیز آپ ہاشم سے کچھ مت کہیں۔آپ کے اور ہاشم کے درمیان اختلافات تھے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ مجھے ہاشم کے بارے میں ایسی باتیں کہیں۔ہاشم نے میرے ساتھ کبھی برا نہیں کیا۔یہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں اور میرے ہونے والے بچے کے باپ ہیں یہ۔"
پریام کی آنکھوں میں سرد پن آگیا۔
"کیا تمہیں کچھ بھی یاد نہیں ماروی۔یہی وہی شخص ہے نہ جس نے تمہاری زندگی برباد کی تھی۔تمہاری بہن کی زندگی برباد کرنے والی اس کی ماں اور اس کا باپ ہے۔ہم دونوں کی زندگی برباد کی ہے اس نے۔"
پریام ماروی کو چھوڑ کر ہاشم کی طرف آئی اور اس کے پاس جتنی ہمت تھی اس نے اتنے تھپڑ مارے ہاشم کے چہرے پر۔ہاشم ضبط سے اس کے تھپڑ برداشت کر رہا تھا۔
"گھٹیا انسان کیا کیا ہے تم نے میری بہن کے ساتھ۔اسے کچھ یاد کیوں نہیں۔"
ماروی اٹھی اور پریام کا ہاتھ تھام لیا۔
"آپی پلیز آپ ہاشم کے ساتھ ایسا مت کریں۔ہاشم ۔۔۔۔۔"
ماروی نے ہاشم کا ہاتھ تھاما جسے پریام نے کھینچا۔
"خبردار جو تم نے اس غلیظ انسان کو ہاتھ بھی لگایا۔چلو میرے ساتھ ابھی کے ابھی۔"
پریام ماروی کو اپنے ساتھ لے کر جانے لگ گئی۔ہاشم نے اس لمحے پریام کا ہاتھ تھام لیا۔
"ماروی کہیں نہیں جائے گی۔یہ میری بیوی ہے اور میں تمہیں اجازت نہیں دیتا پریام رانی کے میری بیوی کو ہاتھ بھی لگائو۔"
"بہن ہے یہ میری۔دیکھتی ہوں کیسے رکتے ہو تم مجھے۔"
"آپی پلیز آپ جائیں۔میں ہاشم کے بغیر کہیں نہیں جائوں گی۔مجھے پتا ہے آپ ہاشم سے نفرت کرتی ہیں مگر پلیز ایسا مت کریں ہاشم کے ساتھ۔ہم دونوں بہت زیادہ خوش ہیں۔"
پریام کی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔پریام نے اپنی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو صاف کیئے ۔یہ کچھ کہتی اس سے پہلے ہی دروازے سے اندر والی لڑکی نے سب کو حیران کر دیا۔یہ اور کوئی نہیں ساریہ تھی۔ماروی کو یہ لڑکی کچھ کچھ یاد تھی۔
"ارے واہ رئیس ذادہ صاحب۔آخر کو واپس آگئے ہیں آپ۔ "
ہاشم نے نفرت سے ساریہ کو دیکھا۔یہ لڑکی اس کی زندگی میں ایک عذاب جیسی تھی۔ہاشم نہیں جانتا تھا کہ اس نے خود ہی اپنی زندگی تباہ کی ہے۔
"ارے مس ماروی تمہیں تو شاید یاد ہوگا نہ کہ میں کون ہوں۔"
ہاشم کی طرف ماروی نے نظر اٹھا کر دیکھا۔
"چلو یہ نہیں بتاتا تو میں بتا دیتی ہوں۔تمہارے میاں کے ساتھ میرے تعلقات تھے۔اسی کمرے میں تمہاری جگہ اس نے مجھے دی تھی۔تمہارا حق اس نے میری جھولی میں ڈالا تھا۔"
"بند کرو اپنی بکواس تم۔کہا تھا نہ میں نے کہ میری زندگی میں دخل اندازی بند کردو۔"
"ایسے کیسے رئیس ذادی صاحب میں آپ کو چھوڑ دوں۔ہمارے ایسے بھی اب تعلقات نہیں تھے جو کچھ وقت میں ختم ہوجائیں۔"
ساریہ نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تصویریں نیچے پھینکی۔ان میں یہ ہاشم کے ساتھ تھی اور کچھ ایسے کے ماروی نے جیسے ہی یہ سب دیکھا اس کے دماغ میں ایک پرانی یاد آئی۔ماروی نے اپنا سر تھاما۔پریام نے ماروی کو پکڑا۔ماروی کی طبیعت پہلے بھی بہتر نہیں رہتی تھی۔اس لمحے پریام نے محسوس کیا کہ ماروی کے ناک سے خون آرہا ہے۔
"میری جان کیا ہورہا ہے تمہیں۔"
پریام نے ماروی کا چہرہ ہلایا۔
"امی ۔۔۔۔۔۔"
ماروی بہن کی گود میں ہی بے ہوش ہوگئی۔ہاشم کو بھی کچھ سمجھ نہ آیا۔ساریہ جس مقصد کے لیئے آئی تھی وہ پورا ہوچکا تھا اس لیئے یہ بڑے اطمینان سے واپس مڑ گئی۔ہاشم نے ماروی کو پریام سے لیا اور فورا باہر کی طرف بھاگا۔گزر جانے والے وقت کو کوئی روک نہیں سکتا تھا۔ہسپتال جاتے ہوئے ماروی کو ایک بار ہوش آیا اور اس نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا۔اسے شادی تکلیف تھی۔پریام کی گود میں اس کا سر تھا۔
"میرا بچہ۔۔۔۔۔۔"
"کچھ نہیں ہوا ماروی۔سب ٹھیک ہوگا۔"
پریام اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔ہسپتال پہنچتے ہی ماروی کو ڈاکٹر فورا سے آپریشن کے لیئے لے گئے۔ماروی کے دماغ پر گہرا اثر پڑا تھا اور یہی اثر اس کے بچے پر بھی پڑا تھا۔پریام اور ہاشم اس وقت دو الگ الگ سمت میں کھڑے تھے۔دو لوگوں کی نفرت ایک معصوم وجود کو کس مقام پر لے آئی تھی کوئی جانتا نہیں تھا۔ڈاکٹر تین کے بعد باہر آئی اور اس نے ہاشم کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"سوری ہم آپ کی بیٹی کو نہیں بچا پائے۔آپ کی مسز گہرے صدمے ہیں ہیں اور شاید اب انہیں کچھ یاد آئے بھی نہ ہمیشہ کے لیئے۔"
ہاشم فرش پر بیٹھ گیا تھا۔اس کے کانوں میں ماروی کے کہے ہوئے کچھ لفظ گونج رہے تھے۔
"مجھے اتنی تکلیف دو جتنی کل تم برداشت کر سکو۔کل کو ایسا نہ ہو کہ سارا بدلہ تمہاری اپنی اولاد سے اترے۔تم جیسے لوگوں کے ہاں بیٹی نہیں آتی کیونکہ تم جیسے لوگ ان کی پرورش کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔"
ہاشم آج رویا تھا اور شدید رویا تھا۔پریام نے اسے پہلی بار روتے ہوئے دیکھا تھا۔ڈاکٹر نے اسے اس کی بیٹی کی ایک جھلک دیکھائی تھی جو اس کی طرح کی ہی تھی۔
مرتضی اور شہانا بھی آگئے۔ہاشم ایک طرف خاموشی سے بیٹھا ہوا تھا۔پریام بھی دیوار کے ساتھ ہی کھڑی ہوئی اپنی بہن سے ملنے کی منتظر تھی۔انہیں اپنی بہن کی اولاد کی فکر نہیں تھی کیونکہ ان کے مطابق وہ ہاشم کی اولاد تھی مگر یہ غلط تھی۔اولاد ماروی کی تھی۔ماروی شاید ان کی بے حسی کے لیئے کبھی بھی ان سے بات نہ کرتی۔مرتضی نے ہاشم کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"ڈیڈ میری بچی نہیں رہی،میری بچی مجھے چھوڑ گئی۔"
اپنے باپ کے سینے سے لگ کر ہاشم بہت زیادہ رویا۔پریام کو یہ سب ایک ڈرامہ لگ رہا تھا۔شہانا کی بھی آنکھوں میں آنسو آگئے۔اس لمحے مرتضی نے ہاشم سے نہیں پوچھا تھا کہ یہ ماروی کو کہاں لے کر گیا تھا۔ان کے نزدیک ان کے بیٹے کا غم اس وقت بہت بڑا تھا۔پریام نے دونوں باپ بیٹے کو دیکھتے ہوئے اپنا چہرہ موڑ لیا۔تھوڑی دیر بعد کمرے سے ڈاکٹر باہر آئی اور اس نے ایک انسان کو اندر جانے کی اجازت دی۔پریام جانا چاہتی تھی مگر مرتضی نے انہیں روک لیا۔
"مرتضی آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔وہ میری بہن ہے۔"
"میرے بیٹے کی بیوی ہے وہ پریام ۔اس لمحے ان دونوں نے اپنی اولاد کھوئی ہے۔انہوں ایک دوسرے کا ساتھ چایئے اس وقت۔"
"بس کردیں مرتضی آپ۔اتنے بے حس مت بنیں۔میری بہن کی یہ حالت آپ کے بیٹے کی وجہ سے ہی ہے۔"
"پلیز پریام اس لمحے خاموش ہوجائو۔تم اپنا غصہ کسی اور دن کے لیئے رکھ لو۔"
ہاشم ماروی کے پاس اندر گیا جو سب کچھ بھول چکی تھی مگر اپنے وجود میں پلنے والے بچے کو نہیں۔
"میری بچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاشم میری بچی۔۔۔۔۔"
ہاشم نے ماروی کو سینے سے لگا لیا۔دونوں اس لمحے شدد سے روئے تھے۔اس لمحے دونوں کا غم ایک جیسا تھا۔اگر ہاشم غلط تھا تو اسے غلط بنانے والے بہت سارے لوگ جس میں سر فہرست اس کی ماں اور باپ تھے۔ماروی کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی اور اس لمحے دونوں کا غم ایک جیسا ہی تھا۔
"ماروی ہم نے اپنی بیٹی کھو دی۔میری پیاری بیٹی میں نے اپنے ہاتھوں سے کھو دی۔مجھے میرے گناہوں کی سزا ملی ہے۔مجھے میری بیٹی کو اٹھانا بھی نصیب نہیں ہوا۔"
نرس اندر آئی۔
"مسٹر ہاشم آپ کی وائف کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ان کی دماغی حالت بہت خراب ہے آپ سمجھ سکتے ہیں نہ۔انہیں تھوڑی دیر کے لیئے آرام کرنے دیں۔" ہاشم نے ماروی کو واپس لٹایا۔ماروی بلکل ایک بے جان سا مجسمہ تھی۔یہ شاید اب کچھ یاد بھی نہیں رکھنا چاہتی تھی۔پریام اتنی دیر میں اندر آگئی۔ہاشم نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"کس بات کو سوگ منا رہی ہو تم ہاں۔اس انسان کی اولاد کے چلے جانے کا۔اچھا ہی ہوا وہ پیدا ہوتے ہی مر گئی ورنہ ساری عمر تمہارے پائوں کی زنجیر بن جاتی۔"
"بس کر دیں ۔۔۔۔۔میری بیٹی تھی وہ۔اپنے وجود کا حصہ بنا کر محسوس کیا تھا میں نے اسے۔جس شخص کی اولاد کہہ رہی ہیں آپ اسے اس نے بھی ہر لمحے اس کا انتظار کیا ہے۔میرے ساتھ ہر رات جاگ کر اس نے اپنی بیٹی کا انتظار کیا ہے۔آپ چاہے کسی سے جتنی مرضی بھی نفرت کریں مگر ایک بچے کے بارے میں ایسا مت کہیں۔آپ کے اپنے بھی تو بچے ہوں گے نہ اگر میں ان کے بارے میں ایسا کہوں۔میری بچی میرے وجود کا حصہ تھی۔میں آپ سے بات نہیں کرنا چاہتی رانی پریام ۔"
ماروی نے روتے ہوئے اپنی بہن کی سفاکی پر آنسو بہائے۔
"بہا لو اپنے آنسو۔بہت جلد تمہیں یہاں سے لے جائوں گی میں۔"
پریام دروازے سے واپس چلی گئی۔اس لمحے ماروی کو اپنی بہن یا ماں کی صورت تھی جو دونوں ہی اس کے پاس نہیں تھے۔اسے سب کچھ بھول گیا تھا مگر اپنی ماں اور بہن یاد تھی۔خونی رشتے بھی بھلا کسی کو بھول جاتے ہیں کیا۔وقت کو کوئی واپس نہیں لا سکتا اور شاید گزرا ہوا وقت کبھی واپس آتا بھی نہ۔
ہاشم ماروی کے پاس ہی کمرے میں رہا جب تک یہ ہسپتال سے ڈسچارج نہیں ہوئی۔پریام اسے لینے کے لیئے آئی مگر ماروی نے ہی اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔پریام نے جو کچھ بھی ماروی کے بچے کے لیئے کہا تھا ماروی کو وہ سب کچھ برداشت نہیں تھا۔محل میں ماروی کا ہر طریقے سے خیال رکھ تھا ہاشم نے۔وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ایک دن اماں ہاشم کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔
"اماں آپ مجھے بتائیں میری ماں کا ماضی کیا تھا جس کی بدولت میرے ڈیڈ نے انہیں چھوڑ دیا۔"
اماں تو بڑے محل میں اپنے بچپن سے تھی۔انہوں نے بڑے محل کے ہر راز کو اپنے اندر دفن کر دیا تھا۔اماں نے ہاشم کو گل بہار اور اس کی ماں کے مطلق ہر چیز بتا دی۔ہاشم کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کی ماں ایسی بھی ہوسکتی ہیں۔
"بیٹا تو شاید مجھ پر یقین نہ کرے مگر یہی سچائی ہے۔معصوم سی گل بہار بی بی کو تمہاری ماں نے بلاوجہ سزا دی اور یاد رکھو بیٹا کوئی مرد ایسی عورت کو قبول نہیں کرتا جو کسی آدمی کے ساتھ بھاگ جائے۔یہ تمہارے باپ کا احسان تھا کہ تمہاری ماں کو اس نے گھر سے نہیں نکالا اور نہ ہی اسے تم سے الگ کیا۔"
ہاشم کچھ بھی کہنے سنے کے قابل نہیں رہا تھا۔اماں سب باتیں کرکے اٹھ گئی تھی۔ہاشم اپنی جگہ پر سن بیٹھا تھا۔اس کی ماں نے یہ سب کیا تھا۔بچپن سے شہانا بیٹے کو یہی کہتی آئی تھی کہ اس کا باپ ان سے محبت نہیں کرتا۔ہاشم کی دادی کے بارے میں شہانا نے بہت زیادہ بری باتیں ہاشم کے ذہن میں ڈالی ہوئی تھی۔ہاشم کے دماغ میں سب کے خلاف زہر بھرنے والی اس کی ماں تھی۔پریام سے اس کے باپ نے شادی کی تو شہانا بیٹے کے سامنے بار بار روتی تھی۔پریام کے خلاف باتیں کرتی اور پھر ہاشم کے ذہن میں شہانا نے یہ بات ڈالنا شروع کر دی کہ تمہارا باپ تمہیں کچھ نہیں دے گا۔سب کچھ پریام اور اس کی اولاد کا ہوگا اب۔مرتضی نے بھی ہاشم کے ساتھ بہت غلط کیا تھا۔انہوں نے بھی شاید ہاشم کو شہانا کی اولاد سمجھا تھا جو اٹھارہ برس کی عمر میں اس سے قطع تعلق کر لیا تھا۔محل سے نکالنے جانے کے بعد ہاشم کی زندگی کتنی مشکل تھی یہ یہی جانتا تھا۔گناہ کی طرف اسے لانے والی ساریہ تھی جس کے باپ کے اس پر بہت احسان تھے۔آخر میں ہاشم نے کیا پایا تھا۔پریام سے اگر اس کے باپ نے شادی کی تھی تو وہ ان کا حق تھا۔کیا کوئی مرد ایسی عورت کے ساتھ رہ سکتا ہے جس نے اس کی بہن کے ساتھ یہ سب کیا ہو اور جو اپنے چھوٹے سے بچے کو چھوڑ کر چلی گئی ہو اپنے عاشق کے ساتھ۔ہاشم کی چیخیں اس دن اس چھوٹے محل کی دیواروں نے سنی تھی۔یہ اٹھا اور اپنی گاڑی لے کر سیدھا بڑے محل چلا گیا۔لان میں اسے اپنے سوتیلے بھائی نظر آئے۔یہ سیدھا اندر گیا۔شہانا اپنے کمرے میں تھی۔ہاشم نے ان کے کمرے کا دروازہ کھولا۔وہ اپنی ملازمہ کے ساتھ باتیں کر رہی تھی ۔
"ہاشم میرے بیٹے۔۔۔۔۔۔۔"
"مت کہیں مجھے اپنا بیٹا۔آج آپ کا حقیقی روپ دیکھ کر مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی نے میرے جسم سے میری روح کھینچ لی ہے۔کیوں کیا ہے آپ نے ایسا میرے ساتھ مام۔کیوں کیا آپ نے سب۔"
شہانا گڑبڑ گئی۔
"میرے بیٹا میں نے کچھ نہیں کیا۔تمہیں کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔"
"غلط فہمی ہوئی ہے تو مجھے بتائیں ڈیڈ نے اتنے سال آپ کے کمرے کا رخ کیوں نہیں کیا۔ان کے کمرے میں جانے کا حق کیوں نہیں تھا آپ کو۔ایسا کیا ہوا تھا جو آپ سے اتنی نفرت کرتے تھے وہ اور گل بہار پھوپھو یاد تو ہوں گی نہ آپ کو۔جن کو اپنے شرابی بھائی کے ساتھ چھوٹی سی عمر میں بیاہ دیا تھا آپ نے۔"
"بیٹا تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔پریام نے میرے خلاف سازش کی ہے۔میرے بھائی نے تو تمہاری پھوپھو کو بہت خوش رکھا تھا۔تمہارے باپ نے ہمیشہ مجھ سے اپنی بہن کا بدلہ۔۔۔۔۔"
ہاشم رونے لگ گیا تھا۔اس کی آنکھوں سے آنسو ہی نہیں رک رہے تھے۔
"بس کر دیں نہ مام۔آپ کی محبت کو جانتا ہوں میں۔جس کی تصویر آپ کے پاس ہے اور آپ اسے دیکھ کر آج تک آنسو بہاتی آئی ہیں اور مجھے یہی کہتی رہی کہ وہ آپ کے کزن تھے جو جوانی میں مرگئے۔حقیقت میں ان کا آپ سے بہت غلیظ رشتہ تھا۔مجھے سوچ کر ہی گھن آتی ہے کہ شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی آپ نے سب کیا۔آپ کے نانا جان کی ہمت تھی کہ انہیں نے ڈیڈ کو آپ کو چھوڑنے سے روک دیا ورنہ اگر سب آپ کو یہ چہرہ دیکھ لیتے تو جانتی ہیں میری کیا عزت ہوتی معاشرے میں۔آپ کی بدولت میرے باپ نے مجھے کبھی اپنا بیٹا نہیں سمجھا۔میں نے بہت سے غلط کام کیئے مگر اس سب کا اگر میں ذمہ دار ہوں تو ذمہ دار آپ سب بھی ہیں۔اس محل کا ہر ایک فرد میری بربادی کا ذمہ دار ہے جس میں سر فہرست آپ اور ڈیڈ ہیں۔آئیندہ کے بعد شاید میں کبھی آپ کو ماں والا مقام دے ہی نہ پائوں۔"
ہاشم واپس مڑ گیا۔اس نے اپنی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو صاف نہیں کیئے۔اپنی زندگی کے گناہ یاد کر کے اسے ایسا لگتا تھا کہ یہ سانس نہیں لے پائے گا۔اس کا رخ سیدھا مسجد کی طرف تھا۔وہاں سجدے میں گر کر اس نے رو کر خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی تھی۔اس نے انجانے میں پریام کو دھکا دیا تھا جس کی وجہ سے اس نے اپنا بچہ کھو دیا تھا۔آج اس کی بیٹی بھی زندہ نہیں تھی۔ساریہ سے اس کے غلط تعلقات تھے وہ سب سے بڑا گناہ تھا۔ماروی کے ساتھ اس نے جو کیا شاید یہ کبھی زندہ ہی نہ رہ پاتا۔
یہ پوری رات ہاشم نے مسجد میں گزاری تھی۔ساریہ سے اس نے معافی مانگنے کا سوچا تھا۔یہ ساریہ سے معافی مانگنے اس کے گھر گیا مگر ملازمہ نے بتایا کہ میڈیم سے ملنے کوئی آیا ہوا ہے۔یہ ساریہ کے کمرے میں گیا مگر وہاں ساریہ کو ایک آدمی کے ساتھ جس حالت میں اس نے دیکھا اسے خود ہی شرم آگئی۔آج سچ میں اسے خود سے بھی گھن آرہی تھی کہ یہ ساریہ جیسی عورت کے ساتھ تھا۔اپنی بیوی ماروی کو چھوڑ کر اس نے ساریہ جیسی عورت کو اہمیت دی تھی۔اس گھر سے واپس جاتے ہوئے ہاشم کو ایسے لگ رہا تھا جیسے سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ماروی کی یاداشت واپس نہیں آئی تھی اور اگر ایسا ہوا جاتا تو۔پچھلے تین ماہ سے ماروی اس کے ساتھ رہ رہی تھی۔بیٹی کا غم بہت بڑا تھا۔ہاشم نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ ماروی اس سب کو جلدی ہی بھول جائے مگر ماروی ماں تھی اور اتنی جلدی یہ اپنی بیٹی کا غم نہیں بھولنے والی تھی۔ہاشم نے سوچ لیا تھا کہ یہ ارمان نامی اپنی پہچان ہمیشہ کے لیئے ختم کر دے گا اور ماروی کو لے کر اس ملک سے ہی چلا جائے گا جہاں کوئی نہیں ہوگا ان کے درمیان۔یہ محل آیا اور سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا مگر یہاں ماروی کہیں نہیں تھی۔ان تین ماہ میں ہاشم نے ایک پل کے لیئے بھی ماروی کو اکیلا نہیں چھوڑا تھا مگر اب ماروی کہیں نہیں تھی۔ہاشم نے اس بہت ڈھونڈا مگر وہ کہیں بھی نہیں تھی مگر ایک خط ضرور بیڈ پر پڑا ہوا تھا۔
"ہاشم آپ کو جب یہ خط ملے گا تو میں آپ سے بہت دور جاچکی ہوں گی۔مجھے کچھ بھی یاد نہیں تھا یہ حقیقت ہے مگر پچھلے تین چار دن سے مجھے وہ سب یاد آگیا جو میری زندگی کی حقیقت تھی۔آپ نے میرے ساتھ بہت غلط کیا۔میں نے بہت سوچا اور پھر یہ نتیجہ نکلا کہ ہر انسان جو بن جاتا ہے اس کے پیچھے کوئی وجہ بھی ہوتی ہے۔آپ جو تھے اس کی پیچھے وجہ آپ کے والد تھے۔وہ پریام آپی سے شادی نہ کرتے تو شاید یہ سب نہ ہوتا۔میرے والدین اور آپی سے مجھے شکایت ہے۔وہ ایک بار بھی مجھ سے ملنے نہیں آئے۔میری بچی چلی گئی مگر کسی نے میرے ساتھ اس کا افسوس بھی نہیں کیا۔مجھے ہمیشہ اس بات کا دکھ رہے گا۔آپ نے مجھے مارا،مجھ سے ہر قسم کا بدلہ لیا۔پچھلے آٹھ ماہ میں آپ کو شاید مجھ پر رحم آگیا یا آپ کو اپنی اولاد عزیز تھی کہ آپ نے مجھ سے محبت شروع کی مگر اس محبت کا کوئی فائدہ ہی نہیں جس میں عزت نہ ہو۔پریام آپی کی زندگی برباد نہیں ہوئی مگر میری ہوئی ہے ۔شاید کبھی زندگی کے کسی موڑ پر میں آپ کو معاف کر دیتی مگر میرے سامنے آپ نے ساریہ کو جو میرا حق دیا اس کے لیئے میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔اپنا تعلق میں آپ سے ختم نہیں کر رہی مگر جارہی ہوں میں اس وقت تک کے لیئے جب تک میرا دل مجھے آپ کی طرف لوٹ آنے پر مجبور نہ کردے۔شاید کوئی معجزہ ہوجائے اور میں واپس آنے پر مجبور ہوجائوں مگر تب تک کے لیئے آپ اپنی زندگی کو سنوار لینا۔اپنی زندگی میں کیئے گئے غلط کاموں کا ذمہ دار آپ دوسروں کو ٹہرانے کے بجائے خود کو ٹھہرانا۔میری بچی کی قبر پر روز جانا اور اس بتانا کہ ماما اس سے بہت پیار کرتی ہیں اور کرتی رہیں گی۔اپنا خیال رکھنا۔"
ماروی کے خط کو ہاشم نے اپنی آنکھوں سے لگا لیا۔اسے اپنی زندگی بلکل خالی لگنے لگی تھی۔کاش یہ وقت کو واپس لاسکتا۔ماروی کے ساتھ سب سے برا ہوا تھا۔کسی نے اس کا نہیں سوچا تھا۔سب اپنی زندگی میں خوش تھے بس ایک وہ ہی نہیں تھی۔ہاشم نے اب بہت سال تنہائی میں گزارنے تھے۔
__________________________
پانچ سال بعد
زندگی سب کے لیئے بہت بدل گئی تھی۔ہاشم کی زندگی بہت ویران تھی ۔اس کی ہر رات اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے گزر جاتی۔یہ اپنی ماں سے بھی ملنے آتا جو آج بھی اس کے باپ کے محل میں ہی رہ رہی تھی۔ان کی فطرت آج بھی ویسی ہی تھی۔ہاشم جب بھی پریام کو دیکھتا اسے سچ میں لگتا کہ اس نے ماروی کی زندگی خراب کر دی۔پریام تو اس کے والد کے ساتھ بہت خوش تھی اور جس نے سزا پائی تھی وہ ماروی تھی۔گل بہار کھیل رہی تھی۔ہاشم نے گل بہار کو دیکھا تو فورا سے اسے اٹھا لیا۔گل بہار کو دیکھ کر ہاشم کو اپنی بیٹی یاد آجاتی تھی جو شاید اگر زندہ ہوتی تو گل بہار سے تھوڑی سی چھوٹی ہوتی۔پریام گل بہار کو ڈھونڈتے ہوئے آگئی اور ہاشم کی گود میں گل بہار کو دیکھ کر اس سے فورا گل بہار کو چھین لیا۔
"خبردار جو میرے بچوں کو ہاتھ بھی لگایا تو۔"
"میں آپ سے معافی مانگ چکا ہوں اپنے ہر رویے کی۔آپ مجھے معاف کیوں نہیں کر دیتی پریام رانی۔"
"میں تمہیں ساری زندگی معاف نہ کروں۔صرف مرتضی کی وجہ سے تم یہاں ہو ورنہ میں تمہیں اس محل میں بھی برداشت نہ کروں۔میرے بچوں کے نزدیک مت آیا کرو۔مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تم میرے بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا دو۔"
"میں اتنا بے حس نہیں ہوں۔"
"شہانا جیسی عورت کے بیٹے ہو تم تو اسی جیسے زہریلے ہوگے۔"
"رانی پریام چھوٹے رئیس ذادے سے ایسے بات مت کریں۔"
مرتضی کی آواز پر پریام غصے سے بیٹی کو لیئے اندر چلی گئی۔مرتضی نے اپنے بیٹے کی آنکھوں میں ویرانی دیکھی۔ان کا دل کٹ جاتا تھا اپنے بیٹے کے خالی پن کو دیکھ کر۔کاش انہوں نے اپنے بیٹے کو خود سے دور نہ کیا ہوتا تو ان کا بیٹا آج ایسا نہ ہوتا۔ہاشم باہر جانے کے لیئے اٹھا۔
"بیٹا۔۔۔۔۔"
"پلیز ڈیڈ میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔پریام رانی کو پسند نہیں میرا یہاں آنا میں نہیں آئوں گا۔میری ماں یہاں رہتی ہیں جن کی بدولت میں مجبور ہوں ورنہ میں اس محل میں کبھی نہ آئوں۔میں جانتا ہوں میرا یہاں کوئی حق نہیں۔سب کچھ آپ کے اور ان کے بچوں کا ہے۔"
"میرے بیٹے ایسا کچھ مت کہو۔۔۔۔۔"
"نہیں بابا میرا سچ میں کسی بھی چیز پر کوئی حق نہیں۔آپ نے مجھے معاف کر دیا ہے میرے لیئے یہی کافی ہے۔میں چلتا ہوں۔"
ہاشم باہر نکل گیا مگر اس کے بابا کی نظروں سے اپنے بیٹے کی آنکھوں کی نمی نہ چھپ پائی۔یہ اپنے بیٹے کو روکنا چاہتے تھے مگر نہیں روک پائے کیونکہ وقت بہت آگے آچکا تھا اور پیچھے کچھ بھی نہیں بچا تھا۔
___________________
ایان کہ انگلی تھامے ماروی اسے سکول سے واپس لے کر آئی تھی۔پانچ سال پہلے یہ ہاشم کو کہہ کر آئی تھی کہ اسے کسی معجزے کا انتظار کرنا چائے کہ شاید کبھی اس کا دل ہاشم کی طرف لوٹنے کو کرجائے۔ماروی کے دل میں ہاشم کے لیئے کوئی جگہ نہیں تھی کیونکہ یہ اسے ہر چیز کے لیئے معاف کر سکتی تھی مگر ساریہ سے تعلقات پر نہیں۔مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔اس کی جھولی میں ایک ننھا سا پھول آگیا جو اپنے باپ جیسا ہی تھا۔اسی کے میں نقوش والا کہ اگر کوئی دیکھتا تو لمحوں میں پہچان لیتا کہ یہ ہاشم رئیس ذادہ کا بیٹا ہے۔حمزہ جس کو ماروی شاید بھول چکی تھی مگر پانچ سال پہلے اس سے رابطے کے بعد ماروی باہر ملک چلی گئی۔حمزہ آج بھی اس کا منتظر تھا کہ یہ ہاشم سے طلاق لے اور حمزہ سے شادی کرے۔ایان سے حمزہ کو کوئی خاص لگائو نہیں تھا۔بس کبھی کبھی وہ اسے پیار کر دیتا وہ بھی ماروی کے سامنے۔ماروی جاب کرتی تھی ایک ہوٹل میں شف کے طور پر۔حمزہ کے سامنے ہی اس نے ایک چھوٹا سا فلیٹ لیا تھا۔ایان حمزہ سے بہت ڈرتا تھا اور اکثر اپنی ماں سے ہاشم کے بارے میں سوال کرتا۔ماروی کی ایک دوست بن گئی تھی یہاں جس نام نائلہ تھا۔نائلہ کا ایک بیٹا تھا جسے اپنے شوہر کی وفات کے بعد یہ ماں کے گھر لے آئی۔ماں باپ نے دوسری شادی کر دی مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کے بیٹے کے ساتھ سوتیلے باپ کا رویہ بہت برا تھا۔ماروی حقیقی دنیا میں رہتی تھی۔یہ بہت عرصے سے اپنے بیٹے کو باپ کے لیئے منتظر دیکھ رہی تھی۔
"ماروی میرے پاس بیٹھو۔"
ماروی نائلہ کے پاس بیٹھ گئی۔
"تم جانتی ہو ماروی دنیا کی حقیقت کیا ہے۔جس شخص کو تم اپنے بیٹے کے لیئے مخلص سمجھ رہی ہو نہ وہ تمہارے بیٹے کے لیئے ہرگز مخلص نہیں ہے۔سوتیلا باپ کبھی کسی دوسرے کے بچے کو پیار نہیں دے سکتا۔میں سب کو غلط نہیں کہتی۔کچھ لوگ اپنے سوتیلے بچوں سے بہت محبت کرتے ہیں مگر ایان جس شخص کا بیٹا ہے اسے اسی انسان کے نام سے یاد کرے گا زمانہ۔"
نائلہ ماروی کا ہاتھ تھامے اسے بڑی بہن کی طرح سمجھا رہی تھی۔وہ اپنے بیٹے کو اپنی ماں کے پاس واپس بھیج چکی تھی۔نہ یہ اپنے دوسرے شوہر کو چھوڑ سکتی تھی نہ اپنے بیٹے کو رکھ سکتی تھی۔
"تم نے مجھے بتایا نہ کہ تمہاری بیٹی کے چلے جانے پر تمہاری بہن نے بہت برا سلوک کیا تمہارے ساتھ۔ہاشم کو جیسے اس کے باپ نے ساری زندگی شہانا بیگم کا بیٹا سمجھا ایسے ہی تمہارے بیٹے کو بھی تمہارا خاندان اور یہ معاشرہ ہاشم کی اولاد ہی کہے گا۔سوچو تمہاری ماں اور باپ تم سے ملنے نہیں آئے، وہ تمہارے بیٹے کو پناہ دیں گے۔"
"میں کیا کروں نائلہ میں کیسے اس شخص کے پاس چلی جائوں جس نے میرے سامنے ایک عورت کو میرا حق دیا۔میں سب بھول جاتی مگر وہ نہیں بھول پائوں گی۔"
ماروی کے آنسو نائلہ نے اپنے ہاتھوں سے صاف کیئے۔
"یہ معاشرہ کبھی عورت کو جینے نہیں دیتا میری بہن۔تم جانتی ہو آج تم دوسری شادی کر لیتی ہو تو کل کو تمہارا یہی بیٹا تم سے سوال کرے گا کہ میرے باپ کو معاف کر دیتی آپ۔اس لمحے اس کے سامنے اس کی ماں نہیں ایک ایسی عورت ہوگی جس نے اپنے بیٹے کے لیئے تھوڑی سے بھی قربانی نہیں دی۔یہ قربانی تھوڑی نہیں ہے مگر تمہارے بیٹے کو بہت چھوٹی لگے گی۔یہ معاشرہ اسے اپنے انداز سے چلائے گا۔یہی حقیقت ہے۔"
"میں کیا کروں نائلہ۔۔۔۔۔"
"جو حمزہ تم سے پیار کرتا ہے،کیا کبھی اس نے تمہارے بیٹے سے پیار کیا۔وہ تمہیں یہی کہتا ہے نہ کہ ایان کو اس کے باپ کے پاس چھوڑ دو۔ہمارے اپنے بچے ہوجائیں گے تو تم بھول جائو گی۔اپنے بیٹے کو ایک اور ہاشم بننے کے لیئے چھوڑ دو گی کیا۔"
"میں ہی کیوں قربانی دوں نائلہ۔"
"تم اس وقت سب بھول جائو میری بہن۔یاد رکھو تو اتنا،ایک ماں ہو تم اور ماں اپنی اولاد کے لیئے کچھ بھی کر جاتی ہے۔تم ساری عمر ہاشم کو معاف مت کرنا،مگر تمہارے بیٹے کو جو عزت باپ کے پہلو میں ملے گی، دنیا کا کوئی انسان اسے وہ عزت نہیں دلا سکتا۔اپنے بیٹے کی خاطر لوٹ جائو۔"
نائلہ اسے سمجھا کر چلی گئی۔ماروی کے لیئے کوئی بھی فیصلہ لینا بہت مشکل تھا۔اماں سے ماروی کا رابطہ تھا جو کسی کو بھی نہیں بتاتی تھی کہ ماروی کہاں ہے۔ان کے مطابق ہاشم نے سب چھوڑ دیا تھا۔ ہر رات وہ سجدوں میں اپنے گناہ یاد کر کے روتا۔اپنی بیٹی کی قبر پر بہت دیر تک بیٹھا رہتا اور اسے یاد کرتا۔پریام اپنی زندگی میں خوش تھی۔ماروی کو یاد بھی کرتی اگر وہ تو ایسے نہیں کہ جس کی خاطر وہ اپنا بسا بسایا گھر چھوڑ دیں۔سب کچھ ان کی اور مرتضی کی وجہ سے ہوا تھا اور ہاشم اور ماروی اس کی سزا بھگت رہے تھے۔اماں سے ماروی کو ہر بات پتا چلتی تھی۔ساریہ پانچ سال سے کہیں نہیں تھی۔ماروی واپس نہیں جانا چاہتی تھی۔ اس نے حمزہ سے بات کرنے کا سوچا۔ایان کو اس نے حمزہ کے پاس چھوڑا تھا ۔یہ حمزہ کے فلیٹ میں گئی اپنے بیٹے کو لینے کے لیئے۔ایان بہت معصوم تھا۔ماروی نے دروازہ کھلا دیکھا تو بنا اجازت
کمرے میں جانے لگی مگر اندر سے آتی آوازوں نے اس کے پیر جگڑ لیئے ۔
"غلیظ باپ کے غلیظ بیٹے۔میرا سارا لیپ ٹاپ خراب کر دیا۔اس کے پیسے تمہارے باپ نے دینے ہیں کیا۔دور ہوجائو نکلو میرے کمرے سے۔"
حمزہ نے ایان کے معصوم سے گال پر تھپڑ لگائے۔ماروی ٹرپ گئی اور بھاگ کر اپنے بیٹے کو اٹھا لیا۔حمزہ ماروی کو دیکھ کر گڑبڑا گیا۔
"اس نے میرے لیب ٹاپ کو توڑ دیا۔"
ماروی کچھ بھی کہے بغیر اپنے بیٹے کو لیئے اپنے فلیٹ چلی گئی۔ایان بہت زیادہ رو رہا تھا ۔
"ماما مجھے بابا کے پاس جانا ہے۔سب کہتے ہیں کہ میرے بابا گندے ہیں مگر میرے بابا ایسے نہیں ہیں۔حمزہ انکل بہت ڈانٹتے ہیں مجھے ان کے پاس نہیں جانا۔"
ماروی نے اپنے بیٹے کے گال چومے۔
"میرا بچہ میں آپ کو آپ کے بابا کے پاس لے جائوں گی۔وہ بہت اچھے ہیں اور بے بی کو دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔آپ جلدی سے جائو اور اپنا بیگ تیار کرو۔میں حمزہ انکل کو بائے بول کر آتی ہیں۔"
ایان خوشی خوشی بھاگ گیا۔ایک ماں جیت گئی تھی اور ایک عورت اپنی انا ہار گئی تھی ۔ماروی جان چکی تھی کہ یہ اگر ہاشم سے طلاق بھی لے لیتی اور اپنی زندگی سنوار لیتی تو بیٹے کا کیا کرتی۔اپنے وجود کے حصے کو ایسے کبھی یہ ٹھکروں میں نہیں رہنے دینا چاہتی تھی۔اگر ہاشم کا ماضی تاریک تھا تو ایان کا کوئی قصور نہیں تھا اس میں۔ماروی نے اپنے دل کے دروازوں کو ہمیشہ کے لیئے بند کر دیا۔ایک عورت نے اپنی انا اپنا غرور توڑ دیا اور اپنے بیٹے کے لیئے خود کو جھکا لیا۔جو پیار اور عزت ہاشم ایان کو دیتا کوئی کبھی نہیں دے سکتا تھا۔نہ اس کے دادا دادی نہ نانا نانی اور نہ ہی حمزہ۔ماروی روتے ہوئے حمزہ کے فلیٹ پر آئی۔
"یار ماروی تم برا منا گئی ہو۔ تم جانتی ہو بچے شرارتی ہوتے ہیں۔اسے منع کر رہا ہے تھا میں۔ وہ میری بات نہیں مان رہا تھا تو غصے میں اسے کہہ دیا میں نے۔ویسے بھی اس کے باپ کےپاس بھیجو اسے اور اپنی زندگی سنواروں۔"
"نہیں حمزہ ،اپنی ممتا کو کبھی ویران نہیں کروں گی میں۔تم نے میرے چھوٹے سے معصوم بیٹے کو غلیظ کہا۔اس کے باپ نے غلطیاں کی مگر میرا بیٹا قصوروار نہیں ہے۔میں تم سے محبت نہیں کرتی تھی مگر تمہیں اپنا دوست مانتی تھی۔تم نے ثابت کر دیا کہ ضروری نہیں ہم جس کو جیسا سمجھیں وہ انسان ویسا ہی ہو۔میں تم سے آخری بار ملنے آئی ہوں اور اب شاید کبھی زندگی میں ہماری ملاقات ہو۔میں دوبارہ لوٹ کر نہیں آئوں گی۔میرا بیٹا میری زندگی ہے۔میں نے ایک بیٹی کھو دی ہے اب دوسرا بیٹا کبھی نہیں کنوا سکتی۔تمہارا احسان ہے مجھ پر جو تم نے میری اتنی مدد کی۔مگر ایک بات یاد رکھو حمزہ میں عورت بعد میں ہوں اب مگر پہلے ایک ماں ہوں اور میری ممتا آج جیت گئی ہے۔اپنے بیٹے کے چھوٹے چھوٹے گالوں پر تمہارے ہاتھوں کے نشان دیکھ کر۔اپنا خیال رکھنا۔شاید کبھی زندگی میں ملاقات ہو۔"
ماروی آنسو صاف کرتے ہوئے واپس مڑ گئی۔حمزہ نے اسے روکنے کی کوشش کی مگر ماروی نہ رکی۔اس نے حقیقی زندگی اختیار کی تھی۔شاید جس معجزے کا انتظار ہاشم کو تھا وہ اس کے بیٹے کی صورت میں ہوا تھا،جس نے اپنی ماں کو پلٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔
____________________________
پریام اپنے بڑے بیٹے کو نانی سے ملنے بھیج رہی تھی۔پریام نے بیتے سالوں میں اس خاندان پر پوری طرح قبضہ جما لیا تھا۔مرتضی نے ایک دن پریام سے ماروی کے بارے میں سوال کیا تھا۔
"مرتضی مجھے ماروی سے آج بھی بہت محبت ہے۔مگر اس نے ہاشم جیسے شخص کو مجھ پر فوقیت دی۔میں اس کی شادی کسی اچھی جگہ پر کرسکتی تھی مگر اس نے مجھے آپ کے بیٹے کے سامنے شرمندہ کر دیا۔ساری زندگی میں اس کی سائیڈ لیتی رہی مگر وہ مجھے چھوڑ گئی۔اب رہے اس کے ساتھ ہی۔مجھے معلوم ہے وہ واپس آئے گی اور ہاشم کے ساتھ ہی رہے گی۔ایک دن اسے اپنے فیصلے پر شرمندگی ہوگی اور وہ واپس میرے پاس ہی آئے گی۔"
"پریام تمہیں نہیں لگتا یہ ماروی کے ساتھ زیادتی ہے۔"
"زیادتی تو میرے ساتھ بھی ہوئی تھی نہ۔ایک شادی سادہ مرد سے شادی نہیں کرنی تھی میں نے مگر مجھے کرنی پڑی۔اب کیا چاہتے ہیں آپ مجھ سے۔"
مرتضی اس بات پر خاموش ہوگئے۔ان کی غلطی تھی پریام کو غلط طریقے سے اپنانا مگر اس کے بعد انہوں نے پریام کی خاطر اپنے بیٹے،اپنے خون کو بھی چھوڑ دیا۔یہ پریام سے کیا کہتے جو ان کی محبوب بیوی تھی ان کے چار بچوں کی ماں۔ہاشم کے لیئے ان کا دل بہت دکھتا تھا مگر وہ یہاں اس محل میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتا تھا۔کہا جاتا تو مرتضی اپنی پرسکون زندگی میں اسے لاکر اپنی زندگی کا سکون برباد نہیں کر سکتے تھے۔ہاشم کا سوچا نہیں تھا کسی نے۔شہانا محل اس لیئے نہیں چھوڑتی تھی کہ مرتضی کے نام سے ان کے بہت عزت تھی اور وہ عزت کبھی گنوا نہیں سکتی تھی شہانا۔شاید کبھی وقت بدل جاتا اور سب کچھ ٹھیک ہوگیا مگر حقیقی زندگی میں ایسا ممکن نہ تھا۔ماروی کے ماں باپ بھی بیٹی سے ناراض تھے اور اس کا پتا بھی نہ کیا۔وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ہاشم سے ماروی کی شادی کروانے والے بھی تو وہی تھے۔
_______________________
ہاشم یتیم خانے آیا ہوا تھا جہاں یہ بہت سے بچوں میں تحفے بانٹ رہا تھا۔کچھ لوگ اسے آج بھی دیکھ کر ارمان کہتے مگر یہ اپنی وہ پہچان چھپا کر رکھنا چاہتا تھا جسے یہ سالوں پہلے ختم کر چکا تھا۔ساریہ آج بھی ویسی ہی تھی جیسے سالوں پہلے تھی۔ہاشم نے اس سے بھی معافی مانگی اور یہ روز اپنے اس گناہ پر نادم ہوتا۔ایک بات اس نے ماروی سے چھپائی تھی کہ جس رات یہ ماروی کے سامنے ساریہ کو کمرے میں لے کر گیا تھا اس کے اور ساریہ کے پیچ کچھ نہیں ہوا تھا۔شادی کے بعد یہ ساریہ کے قریب نہیں گیا تھا۔اس دن بھی صرف ماروی کو دیکھانے کے لیئے یہ ساریہ کو لایا تھا،ورنہ شادی کے بعد اس نے اپنے تعلقات ساریہ سے چھوڑ دیئے تھے۔ماروی یہ نہیں جانتی تھی۔یتیم خانے میں ایک پندرہ برس کا بچا تھا جسے ایک گانا بہت پسند تھا۔اس نے ہاشم سے بہت منت کی اور آخر میں ہاشم راضی ہوگیا گانے پر۔بچے نے گانا اپنی فیملی کے لیئے کہا تھا جو اب اس دنیا میں نہیں تھے۔
میں رہوں یا نہ رہوں
تم مجھ بھی باقی رہنا
بس اتنا ہے تم سے کہنا
بس اتنا ہے تم سے کہنا۔۔۔۔۔۔
ہاشم کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے ۔اس لمحے ایک چار سال کا بچہ بیگ اپنے کندھے سے لگائے بھاگتے ہوئے اس کے پاس آیا۔
"بابا۔۔۔۔۔۔۔"
ہاشم نے نظر اٹھا کر اوپر دیکھا تو اسے ایسا لگا جیسے دنیا تھم گئی ہے۔اپنا چہرہ اپنے سامنے اپنا بچپن دیکھ کر ہاشم کے ہاتھ سے guitar کرگیا تھا۔اس بچے کو دیکھ کر ہی پتا چلتا تھا کہ یہ اس کا بیٹا ہے۔
"جس معجزے کے تم منتظر تھے وہ تمہارے سامنے ہے ۔تمہارے دعا قبول ہوئی ہے۔"
ہاشم نے سب کچھ چھوڑ کر اس نازک سے بچے کو سینے میں چھپا لیا۔پیچھے ماروی کھڑی سب دیکھ رہی تھی۔قسمت ان دونوں کو دیکھ کر ہنس رہی تھی۔
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Siyah Ishq Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Siyah Ishq written by Hifsa Javed .Siyah Ishq by Hifsa Javed is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment