Rang Dia Tere Ishq Ne Yun Romantic Novel By Dharkan Shah Complete Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Rang Dia Tere Ishq Ne Yun Romantic Novel By Dharkan Shah Complete Novel |
Novel Name: Rang Dia Tere Ishq Ne Yun
Writer Name: Dharkan Shah
Category: Complete Novel
پلیز مجھے چھوڑ دیں مجھے جانے دیں آپ کو اللہ کا واسطہ آہہہ ہہہہہہہہہہہہہہہ با۔ بابا پلیز سیو می نہہہ
نننننہیں پلیز لیو می ۔۔۔۔
میں مر جاؤں گی بابا پلیز مجھے بچا لیں بابا آجایں
پلیز سیو می
۔مجھے جانے دیں ننن نہیں کریں
آہہہہہہہہ
اللہ ہہہہ
_______________&&&_______________________
ڈاکٹر کیا ہوا ہے میری بیٹی کو، کب تک ہوش میں آئے گی یہ؟
۔دیکھیں مسٹر آفندی آپ کو صبر سے کام لینا ہوگا ،کیوں کہ آپ کی بیٹی کا ریپ ہوا ہے ۔
واٹ آپ کیا کہ رہی ہیں ؟
یس مسٹر آفندی ۔ایک تو اتنی کم عمر اوپر سے اتنا بڑا
حادثہ ۔انکے دماغ پر گہرا اثر ڈالا ہے جس کی وجہ سے انکا نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے
میری مانیے تو یہ ایک پولیس کیس ھے ۔آپ کو اس کے خلاف ایکشن لینا چاہیے۔
ایسے درندے کو سزا دلوانا بنتا ہے ۔آج یہ آپ کی بیٹی کےساتھ ہوا ہے کل کسی اور کی بیٹی ساتھ ہو سکتا ہے
اس بارے میں آپ سوچیے گا ضرور۔
اللہ حافظ ۔
ان کا خیال رکھیں ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
ہنی اٹھ جاؤ اب 8 بج چکے ہیں ۔ کم آن پرنسیز گیٹ اپ
ای ایم گیٹنگ لیٹ۔
اففف میرا بچہ اب اٹھ بھی جاؤ اور کتنا سونا ہے ؟آپ نے کالج نہی جانا ہے کیا؟
مجھے آفس کے لئے دیر ہو رہی ہے۔
یہ ایک کمرے کا منظر ھے جہاں کی ہر چیز سفید رنگ کی ہے۔
کمرے کی دیوار کھڑکیوں کے پردے فرنیچر یہاں تک کہ ہر چیز سفید رنگ کی ہے
کمرے کے وسط میں ایک گول بیڈ ہے جس پر سفید رنگت کی بیڈ شیٹ بچھی ہوئی ہے اور اس پر ایک گلابی رنگت کا حامل وجود نیند میں محو سفر ہے جس کے باریک ھونٹ ستواں ناک بڑی بڑی غلافی آنکھیں جو اس وقت پلکوں کی جھالر سے ڈھکی ہوئی تھیں سنہرے لمبےریشمی بال چہرے اور کمر کو ڈھانپنے ہوئے تھے
سفید رنگ کے شرٹ، ٹراو زر میں ملبوس یہ وجود باہوں میں سفید رنگ کے ٹیڈی بیر کو بھینچے ہونٹوں پر میٹھی سی مسکان سجاے نہ جانے کون سی دنیا کی سیر کو نکلا ہوا تھا۔
اوکے نہیں اٹھنا ہے تو ٹھیک ہے میں جا رہی ہوں آفس وہ بھی بھوکے پیٹ ۔یہ الگ بات ہے کہ میں نے رات کو بھی میں نے ٹھیک طرح سے کھایا نہیں تھا جس کی وجہ سے شاید میرے پیٹ میں درد ہو اور ہو سکتا ہے کہ میں بیمار بھی پڑ جاؤں پر کوئی نہیں آپ اپنی نیند پوری کرو اب میں آپ کے بنا بریک فاسٹ تو کر نہیں سکتی تو اسلیے مجھے کھالی پیٹ ہی جانا پڑ یگا ۔اس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے قدم دروازے کی طرف بڑھاے۔
وہ جو سونے کا ناٹک کر رہی تھی ایک ہی جست میں بیڈ سے اتری تھی ۔
آہہہہہہ دیدو وووو کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ کہ میں آپ کو کھالی پیٹ آفس جانے دونگی ۔آپ ڈاینگ ٹیبل پر چلو میں بس پانچ منٹ میں ای ۔اس نے جیسے ہی قدم دروازے کی طرف بڑھاے پیچھے سے اس نے زور سے ہگ کیا آی لو یو سو مچ دیدو وووو ۔آی لو یو ٹو ماے پرنسیز زززز اب جاؤ اور فریش ہو کر آؤ آی ایم ویٹنگ۔
اوکے دیدو ۔
کمرے سے باہر آتے ہی اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھا گئی جو اس کی طبیعت کا خاصہ تھی۔
اس کا ایسا روپ صرف اس کی بہن کے سامنے ہوتا تھا
جو اس کی جان تھی ۔اسکے چھوٹے سے چھوٹے درد پر تڑپ اٹھتی تھی۔
دنیا کی نظر میں وہ ایک ہارٹ لیس اور فیلنگ لیس لڑکی تھی جس کے کوئی ایموشن ہی نہ ہوں لیکن اس کی تو پوری دنیا ہی اپنی بہن کے گرد گھومتی تھی ۔
گڈ مارننگ میم۔
گڈ مارننگ جیا۔
بریک فاسٹ لگاؤ ہنی اٹھ گیں ہیں فریش ہو کر آ رہی ہیں۔
اوکے میم۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
ایک بلیک مرسڈیز ایس آر کے گروپ آف کمپنی کے سامنے رکتی ہے جس میں سے ایک وجیہہ اورخوبرو پرسنلٹی کا مالک شخص قدم باہر نکالتا ہے پیروں میں قیمتی شوز اور ہاتھوں میں قیمتی واچ ،آنکھوں پر بلیک گاگلز چڑاھائےبلیک تھری پیس میں ملبوس ایک ہاتھ سے ماتھے پر بکھرے براؤن سلکی بالوں کو سنوارتے ھوے باوقار چال چلتے ہوئے کمپنی میں انٹر ہوتا ہے ۔
ہیلو ہیلو باخبر ہوشیار سوئ ہوئ قوم ذرا اپنے خوابوں کی دنیا سے باہر نکلیں کیوں کہ ایس آر کے سر آفس میں تشریف لا چکے ہیں اسلئے جس جس کو اپنی جاب اور جان پیاری ہے اپنا اپنا بوتھا ٹھیک کریں اور کام سنبھالیں۔
اففففف گل کی بچی پہلے نہیں بتا سکتی تھی کب سے ادھر ادھر ناگن ڈانس کرتی پھر رہی ہے ۔
اوئے زرافے ناگن کس کو بولا تم نے ہاں اور یہ زرافے جیسی اونچی گردن کیا صرف لڑکیوں کو تاڑنے کے لئے
خود نہیں دیکھ سکتے تھے کیا ؟ ہہنہہہ 😏
یہ ہیں گل اور ساحل۔جو ایس آر کے کمپنی میں جاب کرتے ہیں انمیں ھمیشہ چھتیس کا آکڑہ رہتا ہے ۔
لسن گائز تم لوگ اپنی یہ لڑائی بعد کے لئے رکھو اور کام پر دھیان دو نہیں تو سر نے دوبارہ لڑ نے کے قابل نہیں چھوڑنا تم دونوں کو۔۔
تبھی وہ اپنی ڈیشنگ پرسنلٹی کے ساتھ انٹر ہوتا ہے
گڈ مارننگ سر۔سب نے ایک زبان کہا۔
گڈ مارننگ۔۔
شیرو کبیر گروپ آف کمپنی کی فائل ریڈی ھے
یس سر.
ہممم اور جو کل ہماری پارٹنرشپ ہے جس کمپنی کی
ساتھ اس کی فائل ریڈی ہے کیا؟؟
یس سر۔۔
ہممم گڈ ۔اب تم جا سکتے ہو ۔اور کوئی بھی اندر نہ آئے کچھ دیر تک ۔۔اس نے نہایت سرد آواز میں کہا۔
اوکے سر ۔
یہ ہے بزنس ٹائیکون شاہ ریز خان عرف یس آر کے بزنس کی دنیا کا بے تاج 👑 بادشاہ ۔جس کے چہرے پر ہمیشہ سنجیدگی اور سرد مہریچھایی رہتی ہے ۔جس کو لڑ کیوں سے خدا واسطے کا بیر ہے ۔
اس کی ڈیشنگ پرسنلٹی کو دیکھ کر نہ جانے کتنی لڑکیوں نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا لیکن سب کو ہی منہ کی کھانی پڑی ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ فیمس بزنس ٹائیکون شاہ ریز خان کی زندگی میں کوئی ایسا آتا ہے جو اس کی یہ نفرت ختم کر سکے یا اس کی یہ نفرت ایسی ہی برقرار رہنی ہے؟؟
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
ہنی ٹھیک طرح سے بریک فاسٹ کریں ابھی تک آپ کا ایک بریڈ ختم نہیں ہوا۔
دیدو میرا ہو گیا اب اور نہیں کھا سکتی اتتو سی تو جگہ ہوتی ہے میری ٹمی میں ۔اس نے اپنا ھونٹ باہر نکال کر کیوٹ سا فیس بنا کر کہا ایسا کرتے ہوئے بہت کیوٹ لگ رہی تھی
اوکے میری جان بٹ یہ جوس تو پینا پڑیگا نو اگر مگر اوکے اسنے وارن کیا تھا
اوکے دیدو۔۔
اب آپ جہاں داد کے ساتھ کالج جاییں میں بھی آفس
نکل رہی ہوں۔
اوکے باے دیدو ٹیک کیئر۔۔۔
ہممم باے ہنی اپنا دھیان رکھنا۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
اوے زرافے سن آج اتنی خاموشی کیوں ہے وہ بھی ہمارےکھڑوس باس کے ہوتے ہوئے ۔ مینو تو کچھ گڑ بڑ لگ رہی ہے
کہیں یہ طوفان کے آنے کے پہلے کی خاموشی تو نہیں
اری او باسی پھول۔۔۔
افففف ساحل کے بچے میں نے تجھے کتنی بار منع کیا ھے کہ تو مجھے الٹے سیدھے ناموں سے مت بلایا کر میرا نام گل ہے گل تو تو اسی نام سے بلایا کر آی سمجھ۔
ارے گل یہ سب چھوڑ ادھر دیکھ کون آرہی ہے فیشن کی دکان نتاشا عرف نتش
۔ کیا بولتی ہے؟
آج سر نے بھی صبح سے نہ کسی کو ڈانٹا ہے اور نہ کسی کو فائر کیا ہے میرے کو تومچمچی ہو رہی ہے اتنی خاموشی تو مجھ سے برداشت نہیں ہو رہی میں تو چلا بھائی دھماکہ کرنے۔
ارے زرافے اگر سر کو پتہ چلا نہ تو سب سے پہلے تجھےفایر کریں گے۔
مس نتاشا سنیں ۔سر آپ کا پوچھ رہے تھے
کیا سر میرے بارے میں پوچھ رہے تھے ؟
یس مس نتاشہ.
اوکے میں دیکھتی ہوں
وہ اٹھلاتے ہوئے وہاں سے چل دی۔
اب آیگا مزا ۔ہا ہا ہا ہا ہا وہ شیطانی ہنسی ہنستے ہوئے بولا۔
ارے او عقل کے اندھے اونچی گردن والے تم نے نتاشا کو کیوں اندر جانے دیا جب تمہیں معلوم ہے کہ سر نے منع
کیا تھا کسی کو بھی اندر جانے سے۔
ارے او باسی پھول تم بس کان لگا کر دھماکے کا انتظار کرو۔ساحل آنکھ ونگ کرتے ہوئے بولا ۔
وہ جیسے ہی ڈور اوپن کرکے اندر داخل ہوئ۔
واٹ دا ہیل ۔ یہ کیا بدتمیزی ہے جب میں نے منع کیا تھا۔
تو تمہاری ہممت کیسی ہوی اندر آنے کی۔
وہ اتنی زور سے دھاڑا کہ وہ اپنی جگہ سے ہل کر رہ گئی
سرررر س سس رر ر وہ۔۔۔۔۔۔۔
کیا سر سر لگا رکھا ہے ؟ وہ پوری شدت سے دہاڑا ۔
شیرووو ۔۔
اس کی ایک ہی دہاڑ پر شیرو فورن بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوا۔
یس سر۔
مس نتاشا یو آر فائر۔
اور شیرو تم مس نتاشا کے بل وغیرہ کلیر کر کے انہیں باہرکا راستہ دکھاو۔
اوکے سر۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
گڑیا میری جان اب اٹھ جاؤ اور کتنا ستاؤ گی اپنے بابا کو تم تو میری پیاری بیٹی ہو نا ،تو اپنے بابا کی بات نہیں مانو گی کیا ؟
بابا کی گڑیا تم بابا سے بات کیوں نہیں کر رہی ؟
وہ ادھیڑ عمر شخص اپنی بیٹی کے درد پر تڑپ کر روتے ہوئے۔اسے بار بار بلا رہا تھا ۔
اور وہ اپنے ساتھ ہوے ظلم کو نہ سہ پاتے ہوئے ہوش و
حواس بے گانا پڑی تھی ۔
نائرہ (اس نام کا مطلب ہے چمکتا ہوا تارا) جیسے ہی کالج میں پہونچی ایک لڑکیوں کے گروپ نے گھیر لیا
ارے ارے یہ دیکھو کون آیا ہے ؟ مس چھوئی موئی۔
وہ اس کے ارد گرد گھومتی مسلسل ہنستے ہوئے اس کا
مزاق اڑا رہی تھیں ۔
اور نائرہ جو ہلکی سی آواز سے ہی ڈر جاتی تھی
ان کے اس طرح سے ہنسنے اور مزاق اڑا نے پر بے آواز لگی ۔
کالج کے فرسٹ دن جب وہ انشاء کے ساتھ کالج آی تھی تو انشاء اسے کلاس روم میں چھوڑ کر پرنسپل آفس چلی گئی تھی ۔
جب کچھ دیر تک انشاء نہیں آی تو وہ اسے ڈھونڈنے کے لئے باہر نکل گئ ۔جبھی ان لڑکیوں کے گروپ سے ٹکرا گئی تھی ۔
توجب انہوں نے اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو نایرہ
نے روتے ہوئے کہا کہ م مم میری دیدو نہیں مل رہی و وہ م۔۔۔۔ مم مجھے ک ککلاس میں چ چھ چھوڑ کر پرنسپل آفس گیں تھیں ا اب تک ننن نہیں آی ۔
اس نے شدت سے روتے ہوئے ہچکیوں کے درمیان اپنی بات پوری کی ۔
اوے کیا تم کوئی چھوٹی سی بچی ہو جو گم جاؤ گی
چپ کرو یہ فالتو کا رونا ۔ان میں سے ایک نے ڈانتے ہوئے کہا ۔
نایرہ سہم کر اور زور زور سے رونے لگی۔
ارے یار یہ تو ایک دم سے چھوی موی ہے ذرا سے تیز بولنے پر رونے لگی ۔
ہا ہا ہا ہا ہا ہا ارے یہ تو mama' s' girl ہے۔
چلو کوئی نہیں اسے چھیڑنے میں بڑا مزا آ ئے گا ۔
تبھی وہاں پر سر آ گیے تو وہ فورن بھاگ گیں ۔
ارے بیٹا کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہو ؟
م مم مجھے دیدو کے پاس جانا ہے ۔رونے سے اسکا گلابی رنگت سرخ ہو گیی تھی ،وہ ہونٹوں کو باہر نکالے ،دونوں ہاتھوں سے آنکھوں کو میچتے مسلسل رویے جا رہی تھی ۔
ارے بیٹا اس میں رونے والی کونسی بات ہے ،چلیں میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں ۔
اس دن کے بعد سے اب جا کے کالج آی تھی اور انشاء کو بھی اس نے کچھ نہیں بتا یا تھا ۔
اور آج ان کے گروپ کو دیکھ کر اس کا دل سوکھے پتے کی طرح لرزنے لگا ۔
ارے یہ دیکھو آج پھر مس چھوئی موئی اکیلی آی ہیں
لگتا ہے پھر سے گم گیں ہیں بیبی گرل۔
چلو کوئی نہیں ہم چھوڑ دیں گے بتاو کہاں جانا ہے۔
وہ ان کے پچھلے برتاؤ کی وجہ سے کافی ڈری ہوئی تھی ۔
اسلیے ان پر یقین کر نا مشکل لگا
نن نہ نہیں میں چلی جاؤں گی ۔
ارے گلابو ہم نے کہا نہ کہ ہم چھوڑ دیں گے۔
ان میں سے ایک نے اس کی گلابی رنگت دیکھتے جملہ کسا ۔
ککک کلاس میں نایرہ نے اٹکتے ہوئے کہا ۔
ہاں تو چلو ہمارے ساتھ ۔ان میں سے ایک نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔
وہ بھی ان کے پیچھے ڈرتے ہوئے چل دی
یہ لو پہونچ گئیں۔
دروازے کے سامنے رکھتے ہوئے کہا ۔
اور نایرہ ڈر کے مارے یہ بھی نہ سمجھ پای یہ اس کی
کلاس نہیں کوئی اور جگہ ہے ۔
لیکن آپ نے تو کلاس روم کے بارے میں مجھ سے پوچھا ہی نہیں ۔
اوے مس چھوئی موئی تم چپ کرو ہمیں سب پتا ہے تم بس کلاس روم میں جاؤ ۔
وہ دھڑکتے دل سے جیسے ہی کلاس روم میں انٹر ہوئ
پیچھے سے کھڑاک سے دروازہ بند ہو گیا ۔
وہ دوڑ کر دروازے تک پہنچی ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
انشاء جیسے ہی آفس میں داخل ہوئ تو سارے ورکر جو خوش گپپیوں میں مصروف تھے ایک دم چوکنے ہو کر بیٹھ گئے پوری آفس میں سنا ٹا چھا گیا ۔ایسا لگا جیسے موت کا فرشتہ روح قبض کرنے آ گیا ہو۔
خیر موت کا فرشتہ تو نہیں لیکن موت کے فرشتے سے
بھی کم نہیں تھی وہ ان کے لئے ۔
بزنس کی دنیا کی جانی مانی فیمس بزنس اومین
انشاء میر ۔جس نے صرف ٢٣ سال کی عمر میں اپنی محنت اور لگن سے آئی،اینڈ، این ایمپائر کھڑا کر دیا تھا۔
گڈ مارننگ میم ۔
گڈ مارننگ ۔
روزی تم میرے کیبن میں آ و اور آج کا شیڈول چیک کر کے بتائو کہ ہماری کس کس کے ساتھ میٹنگ ھے ۔
اوکے میم ۔
یار میرا تو یہ خواب ہی رہا کہ کسی دن انشاء میم لیٹ
آئیں ۔ان میں سے ایک ورکر نے کہا ۔
بیٹا یہ تمہارا خواب خواب ہی رہے گا ۔ کیونکہ کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ انشاء میم کبھی لیٹ ہوں ۔
اس لئے خواب دیکھنا بند کرو اور کام پر دھیان دو
یہ ھیں روزینہ عرف روزی ۔انشاء میر کی سیکریٹری ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
یہ اسلاما باد کے پولس اسٹیشن کا منظر ۔
*********
ارے شیدے آج ہمارے نئے ڈی، ایس، پی آنے والے تھے ،پتا نہیں وہ کس نیچر کے ہونگے رشوت وغیرہ لیتے بھی ہونگے یا نہیں ۔
کیوں کہ جو پچھلے ڈی ، ایس ، پی صاحب تھے وہ تو بہت اچھے تھے ۔خود بھی مزے کرتے تھے اور ہمیں بھی
کراتے تھے ۔
ہا ہا ہا ہا ہا ہا صحیح بول رہے ہیں صاحب ۔شیدے نے
ہنستے ہوئے کہا ۔
(ہوتے ہیں نا کچھ بے ضمیر لوگ جنہیں اس تم پر سجی بیش قیمت وردی کا بھی احساس ہوتا ہے ۔جس سے نہ جانے کتنے لوگوں کی امیدیں جڑی ہوتی ہیں ۔ جو ان سے انصاف کی امید میں جی رہے ہوتے ہیں ۔
اور یہ بے ضمیر لوگ اپنے مفاد کے لیے لوگوں کی امیدیں توڑ دیتے ہیں ۔
*****************************************
پولیس اسٹیشن کے باہر ایک بلیک رنگ کی جیپ آ کر رکتی ہے جس میں سے ایک نہایت وجیہہ اور خوبرو نوجوان باہر نکلتا ہے ۔
اونچا لمبا قد ،کسرتی مضبوط بازو فوجی ہیئر کٹ عنابی ہونٹوں میں سگریٹ دبائے وہ ہالی وُڈ فلم کے ہیرو سے کم نہیں لگ رہا تھا ۔
جیپ کے بائیں جانب سے بھی ایک نوجوان باہر نکلتا ہے ۔
اندر داخل ہوتے ہی وہاں کا منظر دیکھ کر اس بھوری آنکھیں پل میں ہی سرخ انگارہ ہوئیں تھیں ۔
کیوں کہ اندر کا منظر کچھ یوں تھا کی ٹیبل پر جگہ جگہ فائلیں بکھری ہوئی تھیں ۔
کسی کے وردی کے بٹن کھلے ہوئے تھے تو کوئی بینچ پر بیٹھا کم اونگھ زیادہ رہا تھا تھا۔
اور وہاں کے انچارج صاحب چائے اور اس کے لوازمات نعت کے ساتھ بھرپور انصاف کر رہے تھے ۔
یہ دیکھ کر اس کا پارہ ہائی ہوا اور وہ ایک ہی جست میں ٹیبل تک پہنچا ،اور دہاڑتے ہوئے ٹیبل پر اتنی زور سے ہاتھ مارا کہ سب اپنی جگہ پر کانپ کر رہ گئے
واٹ دا ہیل ۔۔۔
یہ پولیس اسٹیشن ہے یا مچھلی بازار اس طرح سے تم عوام کی جان مال اور عزت کی حفاظت کروگے ۔
ایک سکنڈ کے اندر اپنا یہ پھیلایا ہوا گند سمیٹو ۔
اور تم ۔۔۔(جس کے وردی کے بٹن کھلے ہوئے تھے ) آج تو
میں نے اس وردی بے عزتی برداشت کر لی۔اگر پھر ایسا
ہوا تو یہ وردی تمہارے تن پر نظر نہیں آئے گی ۔
کیوں کہ جو اس کی عزت نہیں کر سکتا اسے یہ وردی پہننے کا کوئی حق نہیں۔۔
اس نے نہایت سرد آواز میں اسے باور کرایا ۔
سس سوری سر ۔۔
ہہہم گڈ ہونا بھی نہیں چاہیے ۔
اور ضمان تم اپنی نگرانی میں سب سیٹ کراو میں ابھی ایک کال کر کے آ رہا ہوں
اوکے ۔
ہیلو ۔۔
ہیلو ۔۔ ایس آر کے اسپیکنگ اسپیکر سے اس کی گمبھیر آواز گونجی ۔۔
خان کے بچے مجھے پتا ہے کہ تو ہی ہے ۔پہلے یہ بتا تو کہاں پے ہے ۔
میں تو آفس میں ہوں بڈی ۔تم کیوں پوچھ رہے ہو ؟
میں اسلام آباد آ چکا ہوں بڈی پولیس اسٹیشن آیا تھا جوائن کرنے ۔
ریلی ۔۔جگر کب آیا ہے تو ؟
آج ہی ۔
ٹھیک ہے تو پھر لنچ بریک میں ملتے ہیں ۔
اوکے بڈی ۔باے ٹیک کیئر۔
تو یہ ہیں شاہ ریز خان اور ڈی ایس پی ار شمان خان۔
بچپن کے یار اور دو جسم ایک جان ۔اور آپس میں کزن بھی ہیں ۔
یار آپ کی والے ڈی ایس پی سر تو بڑے ہی جلا د قسم کے لگتے ہیں۔ شیدے نے اپنے ساتھی کے کان میں کھسر پھسر کرتے ہوئے کہا۔
صحیح کہا شیدے تم نے ۔جلاد تو وہ ہیں لیکن دشمنوں کے لیے ۔
ڈی ایس پی عرشمان خان ۔
وردی ہے جن کی آن بان شان ۔
جس کےحفاظت کے لیے
وہ دے سکتے ہیں اپنی جان
اور اس وردی سے غداری کرنے والوں کی
لے لیتے ہیں جان ۔
زمان تم میری تعریفوں کے پل باندھنا بند کرو ۔اور اپنے کام پر دھیان دو ۔اور جب تک واپس آؤں تو میرے ٹیبل پر ہر چھوٹے سے بڑے کیس کی فائل موجود ہونے چاہیے
گوٹ اٹ۔
اوکے سر ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
ساحل اور گل جیسے ہی آفس سے گھر آئے
گل بھاگ کر دی جان کے پاس پہونچی ۔
گل ۔ دی جان آپ کو پتہ ہے آج ہمارے آفس کی ایک ورکر ساحل کی وجہ سے بے روزگار ہو گییی۔
نہیں دی جان یہ گل بکاؤلی جھوٹ بول رہی ہے ۔
ساحل کے بچے کیا تمہاری وجہ سے سر نے نتاشا کو جاب سے نہیں نکالا۔
گل صاحبہ اپنے الفاظ کی تصحیح کر لو۔وہ میری وجہ سے نہیں اپنی حرکتوں کی وجہ سے نکالی گئی ہے جب دیکھو سر پر لائن مارتے رہتی تھی۔
ارے بیٹا آپ لوگ پہنچتے ہی لڑنا شروع ہو گئے۔
ارے میری کیوٹ چاچی میں کہاں لڑتی ہو ں
یہ تو اس زرافے سے جو ہر وقت مجھ سے لڑتا رہتا ہے ۔
ہہہہہ😏تم تو جیسے بڑی دودھ کی دھلی ہو نہ ۔
وہ تو میں ہوں ۔
ارے چاچی آپ اپنے ہاتھ کی اسپیشل چائے تو پلا دیں ۔
باسی پھول آخر تمہیں کیا ملتا اسے پی کر ۔
جب دیکھو پیتی رہتی ہو ۔
ایک ☕کپ چائے کی قیمت تم کیا جانو ساحل بابو
ساحل ۔ ہی ہی ہی ویری فنی 😏
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
ہیلو ۔ اسسلام علیکم دی جان ۔
وعلیکم السلام ۔خان کیا تمہیں ہماری یاد نہیں آتی ہے کب تک یوں ہی ناراض ر ہو گے ۔واپس آ جاؤ خان مرنے سے پہلے ہم تم سے معافی مانگنا چاہتے ہیں بیٹا۔
پلیز دی جان آپ ایسا مت بولیں ۔وہ تڑپ اٹھا تھا ۔
تم شادی کر لو خان اور اپنی بوڑھی دی جان کو اس گلٹ سے باہر نکال دو ۔
دی جان میں آپ سے بعد میں بات کرتا ہوں ۔
ہ ہیلو ہیلو ۔۔۔۔۔۔
غصے سے اس نے کال کاٹ دی ۔
وہ شادی کی بات پر ایسے ہی غصہ ہو جایا کرتا تھا .
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
ھیلو انشاء میم میں کب سے کالج کے گیٹ پر کھڑا ہوں لیکن نائرہ بیبی ابھی تک باہر آئی ہی نہیں ۔
وااااٹ اور تم مجھے اب بتا رہے ہو فولش مین ۔۔
وہ اتنی زور سے دہاڑی کہ جہاں داد نے ڈر کے موبائل کان سے ہٹا لیا ۔
جہانداد اگر ہنی کو کچھ بھی ہوا نہ تو اپنی سزا کے لئے تیار رہنا۔
آئی ایم کمنگ۔ تم وہی رکو۔
اوکے میم۔
یہ ایک بیسمنٹ کا منظر ہے جہاں سے مسلسل کسی کے چیخنے کی آوازیں آرہی ہیں ۔
آہ ہ ہ س سس سوری سر غلطی ہو گئی معاف کر دیں آئندہ ایسا نہیں گا سر آہ ہ ہ
شششش۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم میرے ہی آفس رہ کر میرے ہی آفس کی خبریں لیک
کروگے ہممم وہ اس کی باڈی پے چاقو سے مسلسل کٹ لگا رہا تھا ۔
ا ا ب ا ا اے ایسا نہیں ہوگا سر۔۔۔ م مم معاف کر دیں س سر ۔۔۔۔۔
میری ڈکشنری میں معافی جیسے الفاظ نہیں ہوتے ہیں ۔
ایس آر کے اپنے ساتھ غداری کرنے والوں معاف نہیں کرتا سیدھے سزا دیتا ہے وہ اس کے بازوؤں پر گہرے کٹ لگاتے ہوئے بولا ۔
شیرو کھولتا ہوا پانی لا و ۔۔۔۔
نن ہ نہیں سر ر ۔ مم معاف کر دیں وہ روتے ہوئے معافی
مانگ رہا تھا ۔....
شیرو سنائی دیا ہے کیا ؟
وہ ہ ۔۔سر حو یلی سے کال ہے آپ کے لئے ۔
شیرو کتنی بار منع کیا ھے کہ کام کے بیچ ڈسٹرب نہ کیا کرو ۔وہ غصے سے دہاڑا تھا ۔
سر بار بار کال آرہی اور آپ کے بارے میں پوچھ رہے ہیں ۔
ھیلو ۔۔وہ شیرو کے ہاتھ سے موبائل چھین کر پھاڑ کھانے والے انداز میں بولا ۔
ہ ہ ہیلو ۔۔بھ بھ بھایی و وہ ۔۔۔۔۔
وہ ہچکیوں سے روتے ہوئے بولی ۔
گڑیا کیا ہوا ہے آپ رو کیوں رہی ہیں ؟ واٹ ہیپنڈ ؟
بھ بھایی دی جان ۔
کیا دی جان آگے بولو گل ۔ وہ دہاڑتے ہوئے بولا۔
بھای دی جان بیہوش ہو گیں تھیں ہم انہیں ہاسپٹل لائے ہیں ۔وہ ڈر کے مارے ایک ہی سانس میں پوری بات کر دی۔
وا اٹ دی جان بے ہوش ہو گیی ہیں ۔
اچھا آپ رونا بند کرو ۔میں آ رہا ہوں
پہلے تو وہ تیز پھر اسے روتے دیکھ نرم آواز میں بولا ۔
اوکے ۔
جی بھائی ۔
شیرو گاڑی نکالو۔ ہو سپٹل جانا ہے۔
اوکے سر ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
اس نے فاسٹ ڈرائیونگ کرتے ہوئے گاڑی کالج کے روز پر
ڈال دی ۔ نائرہ کے بارے میں سوچتے ہوئے اس کے
لب دعا گو تھے ۔ تبھی جھٹکا لگنے سے اس نے گاڑی روکی ۔
سامنے دیکھا تو اس کی گاڑی کسی گاڑی سے ٹکرا گئی تھی ۔
واٹ دا ہیل ۔۔۔اب یہ کون سی مصیبت ہے ۔وہ بڑبڑاتے ہوئے دروازہ کھول کر جیسے ہی باہر نکلی ۔۔
سامنے والا بھی غصے میں بھرا اس کی طرف بڑھا ۔
لیکن اس پر نظر پڑتے ہی اس کی نظر یں ساکت رہ گئیں۔
متناسب سراپہ ۔گوری رنگت جو غصے سے سرخ ہو گیی تھی ۔
بھورے گھنگر الے بال سیاہ گہری آنکھیں مانو اپنے اندر کوئی راز چھپا یے ہوئے ہوں باریک گلابی ہونٹ ۔
کچھ دیر کے لئے تو وہ اس کی خوبصورتی میں کھو گیا ۔
لیکن جب اپنی گاڑی کی حالت دیکھی تو آگ بگولہ ہو گیا ۔
مس آنکھیں ہیں یا ٹچ بٹن ۔۔ اگر ہیں تو کیا آپکو یہ نہیں پتا ؟ کہ ان کا استعمال کرنا ہوتا ہے ۔
اور یہ بڑی سی گاڑی کیا ٹکریں مارنے لے رکھی ہیں ۔
اور یہ سڑک آپ کی جاگیر نہیں ہے جو آپ یوں ٹکریں مارتی پھر رہی ہیں ۔اور کیا آپ کو ڈرایونگ رول نہیں معلوم ہے کیا ؟ اگر نہیں تو ۔۔
شٹ اپ۔۔۔۔ یو جسٹ شٹ اپ ۔۔
وہ آپے سے باہر ہوتے حلق کے بل چلائی۔
ایک تو نایرہ کی وجہ سے پہلے ہی پریشان تھی اور اوپر سے اس شخص کی سیخ پا کر دینے والی باتیں ۔
او بی بی یہ دہاڑنا کسی اور کے سامنے مجھے ایک منٹ نہیں لگے گا تمہیں سلاخوں کے پیچھے ڈالنے میں وہ سرد و سپاٹ آواز میں پھنکارا ۔
پہلی نظر کی پسندیدگی پل میں نا پسندیدگی میں بدلی تھی ۔
کیوں کہ آج تک اس نے کسی کو اجازت نہیں دی کہ کوئی اس سے اونچی آواز میں بات کرے ۔یہ تو پھر اس کی نظر میں چھٹانک بھر کی لڑکی تھی ۔
لیکن سامنے بھی کوئی دبو قسم کی لڑکی نہیں بلکہ اپنے نام کی ایک ۔۔۔دی انشاء میر تھی ۔
او ٹکے کے آفیسر اپنی یہ افسری کسی اور کے سامنے جھاڑنا تمہارے اس سستے ایٹیٹوڈ کا مجھ پر کوئی اثر
نہیں پڑنے والا ۔اور نہ ہی میں تمہاری اس کوڑی کی وردی کے روعب میں آنے والی ہوں ۔
ہاؤ ڈیر یو ۔۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے ٹکے کا آفیسر بولنے کی ۔اگر تم لڑکی نہ ہوتیں تو یہ زبان جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتا ۔جس نے میری وردی کے بارے میں نا زیبا الفاظ استعمال کئے ہیں ۔
ہہہنہ تم بھی اپنی زبان کو قابو میں رکھو نہیں تو اسے
لگام ڈالنا انشاء میر کو اچھے سے آتا ہے ۔
لڑکی تم اپنی حد میں رہو ۔ میں تم جیسی لڑکی کے منہ لگنا نہیں چاہتا ۔نظر آ رہا ہے کہ تم جیسی لڑکی کی زندگی کسی کی کیا عزت ہوگی جو اس وردی کی نہیں کر سکتی۔
تم ہوتے کو ن ہو میری زندگی پر تبصرہ کرنے وا لے؟
This is my life...
Don't interfere...
If you cross your limits
Then I w 'll show you!
Who ' am' I "?..
اس کے لہجے میں پولیس والوں سے ازلی نفرت عود کر آئی تھی ۔
اور اسے ان پولس والوں سے نفرت کیوں تھی یہ تو ابھی تک راز ہی ہے۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
وہ غصے سے کھولتی ہوئی گیٹ پر سے جہاں دا د لے کر
سیدھی پرنسپل آفس پہونچی ۔لیکن اندر داخل ہوتے ہی اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔
کیوں سامنے اس کی جان سے پیاری بہن بیہوشی کی حالت میں صوفے پر پڑی تھی ۔
وہ دوڑ کر اس تک پہونچی ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہنی ۔۔۔۔ میری جان کیا ہوا آپ کو آپ ایسے کیوں لیٹی ہوئی ہیں ۔۔ ۔ پلیز اٹھیں دیکھیں میں آگیی ہوں اپنی گڑیا کے پاس ۔
دیکھیں یہ بیہوش ہو گیں ہیں ۔ ہم نے ڈاکٹر کو کال کر دی ہے وہ آتا ۔۔۔۔
او شٹ اپ ۔۔۔۔ میں نے کہا تھا نا میری بہن کو یہاں پے کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیئے ۔ پھر میری بہن آپ لوگوں کے ہوتے ہوئے کیسے اس حال پہونچی ۔ہاں وہ اتنی سے زور سے دہاڑی کہ سب لوگ کانپ کر رہ گئے ۔
اگر میری بہن کو کچھ ہوا تو یہ آپ کا کالج آج کے بعد یہاں پے نظر نہیں آیے گا۔
اس نے پرنسپل کو وارن کرتے ہوئے کہا ۔
جہاں داد ۔۔۔ گاڑی گیٹ کے اندر لے کر آؤ
اوکے میم ۔۔
اور ہاں پرنسپل جن کی وجہ سے میری بہن اس حالت میں ہے ۔ ایک سکنڈ کے اندر انہیں اس کالج سے باہر نکالو نہیں
تو میں تمہاری جان نکال دونگی ۔ گوٹ۔ اٹ
نہیں میم میں ابھی پتا کرتا ہوں ان کے بارے میں ۔
ہم گڈ ۔
میم۔۔ گاڑی آ گئ ہے ۔
ہم چلو وہ بڑے ضبط سے بولی نہیں تو نائرہ کو اس حالت میں دیکھ کر اس کو سانس بھی رک رک کر آ رہی تھی ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
ہیلو عرش کہاں ہے تو ۔؟
بڈی میں تو تجھ سے ہی ملنے آ رہا تھا کیو ں؟
ایسا کر تو میرے آفس مت آ تو سیدھا ہاسپٹل آجا ۔
میں بھی وہیں ہوں ۔ دی جان بیہوش ہو گیں تھیں ۔تو وہ ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہیں ۔
وااااٹ ۔۔دی جان بیہوش ہو گیں لیکن کیسے ؟
اوکے آ ئی ایم کمنگ۔۔۔۔
********************************************
تیمور خان ایک جدی پشتی رئیس تھے ۔جن کی شادی ان کی پھوپھو کی بیٹی جنت بیگم سے ہوئی تھی ۔جن کو سب بچے دی جان بولتے ہیں ۔
ان کے تین بیٹے تھے ۔تیمور خان کو بیٹی کی بڑی خواہش تھی لیکن اللہ تعالیٰ کو جو منظور ۔۔
ان بڑے بیٹے کا نام ولی تیمور خان تھا اور ان کی بیوی کا نام مدیحہ ولی خان تھا جن کا ایک ہی بیٹا ہے۔
شاہ ریز ولی خان ۔ اور بیٹی گل خان ہے۔
انکی بیوی کا نام ارم جواد خان ہے کی صرف ایک ہی اولاد ہے ساحل جواد خان ہے۔۔
اور ان کے تیسرے بیٹے کا نام راحم تیمور خان ہے۔ ان کی شادی ان کی کلاس فیلو رومیصہ شیرازی سے ہوئی تھی۔
یہ ایک جولی قسم کی عورت تھیں ۔
اللہ تعالیٰ کی منشاء کہ ان کے یہاں کوئی اولاد نہ ہوئی تھی ۔ لیکن وہ دونو میاں بیوی اللہ کی رضا میں راضی تھے،۔
یہ خاندان آپس میں بڑے ہی پیار محبت سںے رہتے تھے۔
لیکن تین سال پہلے ہوئے حادثے نے ان کی ساری خوشیاں چھین لیں ۔ شاہ ریز اور گل نے جہاں اپنے ماں باپ کو کھویا تھا۔ تو دی جان نے بھی اس حادثے کی وجہ سے اپنے سر کا سائیں کھویا تھا ۔
اس حادثے کی وجہ سے شاہ ریز خان نے پچھلے تین سال سے جنت ولا میں قدم نہیں رکھا۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
وہ دونوں جب پہونچے تو دیکھا سبھی گھر والے وہاں
موجود تھے ۔
ارے بیٹا اچھا ہوا تم آگیے ۔ دیکھو نا ماں جی کو کیا ہو گیا ؟
اچانک سے وہ بے ہوش ہو گیی ۔
تبھی ڈاکٹر دروازہ کھول کر باہر آئیے ۔
ڈاکٹر کیا ہوا ہے میری دی جان کو ؟ وہ سپاٹ آواز میں بولا ۔
دیکھیں گھبرانے والی بات نہیں ہے اشٹر یس کی وجہ سے وہ بےہوش ہو گییں تھی اب وہ ٹھیک ہیں ۔
بس آپ ان کا خیال رکھیں جتنا ہو سکے انہیں ٹینش والی بات سے دور رکھیں ۔
کیا ہم ان سے مل سکتے ہیں ۔جواد صاحب نے پوچھا ۔
یس ۔۔ آپ مل سکتے ہیں ۔
سب لوگ دی جان کے کمرے میں داخل ہوئے ۔
گل تو بھاگ کر دی جان کے پاس پہونچی ۔
اور ان کا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی ۔دی جان آپ کو پتا ہے نا اس دنیا میں سب سے زیادہ محبت میں آپ سے کرتی ہوں۔
آپ کو میرا ذرا بھی خیال نہیں آیا ؟ جو یوں یہاں پر آگیں وہ ایک ہی سانس میں بولے گئ۔
گل میری جان میرا بچہ میں ٹھیک ہوں ۔انہوں نے اپنی کمزور آواز میں ۔اسے پچکارتے ہوئے سمجھایا ۔
سب کھڑے دادی پوتی کا پیار دیکھ رھے تھے ۔
لیکن ساحل سے یہ پیار زیادہ دیر برداشت نہیں ہوا تو فورن ٹپک پڑا ۔
دی جان یہ دیکھیں کون آیا ہے ؟
اس نے ان کی توجہ شاہ ریز کی طرف دلائی ۔ جو دروازے کے پاس کھڑا انہیں کی طرف دیکھ رہا تھا ۔
ایک پل کو تو ان کی بوڑھی آنکھوں کو یقین نہیں آیا۔
وہ پورے تین سال بعد اسے دیکھ رہی تھیں ۔
بٹن کے دیکھنے پر وہ مظبوط قدم اٹھاتا ان کے پاس آیا ۔
کیسی ہیں آپ دی جان ؟
خان میرے بچے مجھے معاف کر دے ۔ماضی میں جو کچھ میری وجہ سے سہنا پڑا ۔
انہوں نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔
دی جان آپ یہ کیا کر رہی ہیں؟ وہ فورن بدک کے پیچھے ہٹا ۔میں آپ سے ناراض نہیں ہوں ۔
اگر ناراض نہیں ہو تو واپس آ جاؤ بیٹا۔بھول جا ؤ ان یادوں ۔
دی جان ۔ کچھ بری یادیں پتھر کی لکیر کی طرح ہوتی ہیں جنہیں کوئی نہ تو کھرچ سکتا ہے اور نہ تو مٹا سکتا ہے ۔
وہ رہتی ہیں اور ہمیشہ کے لیے رہتی ہیں ۔یہ ٹھیک ہے کہ وقت اور حالات کے تقاضے انسان کو ان سے منہ موڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔لیکن ان کے ہونے سے انکار تو نہیں ہو سکتا۔
جب بھی ان کی طرف پلٹو، یہ تازہ ہو جاتی ہیں۔
اور دی جان میں وہاں جا کر ان بری یادوں کو دوبارہ
نہیں جینا چاہتا۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
ڈاکٹر ۔۔۔۔۔۔
دیکھیں میری بہن کو کیا ہو گیا ھے پلیز اسے بچا لیں ۔
ھٹیں آپ پیشنٹ کو چیک کرنے دیں ۔
یہ کڑوی گولی یہاں کیا کر رہی ہے ؟
عرشمان خان جو دی جان کی دوا لینے آیا تھا ۔انشاء میر کو دیکھ کر بولا.
ڈاکٹر ۔۔دیکھیں میری بہن کو کیا ہوا ہے ۔یہ کچھ بول نہیں رہی ہے ۔آ آ پ اسے چ چچ چیک کریں ۔
مس آپ پیچھے ہٹیں چیک کرنے دیں ہمیں ۔
پ پ پلیز ڈاکٹر آپ میری ہنی کو ٹھیک کر دیں ۔
مم م۔ میرا اس کے علاوہ کوئی نہیں ہے ۔وہ مسلسل روتے ہوئے ڈاکٹر سے فریاد کر رہی تھی ۔اگر اس کے آفس کا
کوئی شخص اسے دیکھ لیتا تو یقین نہیں کر پاتا کہ یہ
وہی انشاء میر ہے ۔ جس سے بات کرنے کے لئے سو بار سوچنا پڑتا تھا ۔
یہ تو کوئی اور انشاء میر تھی مکمل ٹوٹی بکھری ہوئی ۔
دیکھیں آپ ہمیں چیک کرنے دیں ۔آپ اللہ سے دعا کریں ۔
ارے یہ کڑوی گولی یہاں کیا کر رہی ہے ؟
عرشمان جو دی جان کی دوا لینے کے لئے باہر آیا تھا ۔چونکتے ہوئے بولا
عرش تم نے دی جان کی دوا لے لی ؟
اور تم یہاں کھڑے ہو کر کیا بڑبڑا رہے ہو ۔
شاہ ریز اس کے پاس آتے ہوئے گمبھیر آواز میں بولا ۔
ک کچھ نہیں خان ۔
ارے مس انشاء یہاں ؟
شاہ ریز نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا ۔
کون انشاء میر ؟
ارے وہ جو سامنے ڈاکٹر سے بات کر رہی ہے ۔
یہ کڑوی گولی ۔اس کے بارے میں بول رہے ہو تم ۔اور تم اس کو کیسے جانتے ہو خان ؟
عرشمان حیران ہوتے ہوئے بولا ۔کہ بھلا اس بدتمیز لڑکی کو خان کیسے جانتا ہے ۔
جاننا کیا ہے بس بزنس پارٹیز میں ایک دور بار ملاقات ہوئی تھی ۔ اور اس کے ساتھ میری دو دن بعد پاٹنر شپ ہونے والی ہے ۔
اور ایک سکنڈ تم کیسے جانتے ہو اسے ۔اس نے ابرو اچکا تے
ہوئے اس سے پوچھا ۔
میری کوئی جان پہچان نہیں ہے اس جیسی بدتمیز لڑکی سے۔وہ دانت پیستے ہوئے بولا ۔
پھر اسے سارہ واقعہ سنایا ۔لیکن خان تجھے پتا ہی جب
بات میری وردی کی ہو تو پھر مجھے اپنے آپ پہ کنٹرول نہیں رہتا ۔اسلیے میں نے بھی اچھی خاصی سنا دی ۔
ہممم ۔لیکن جہاں تک میں انشاء میر کو جانتا ہوں وہ ایک سنجیدہ اور روڈ قسم کی لڑکی ہے ۔لوگوں سے زیادہ بات کر نا پسند نہیں کرتی
سیدھے سیدھے بول۔ کہ وہ بھی تمہاری طرح ایک کھڑس
اور روڈ قسم کی انسان ہے ۔
اچھا چل اب دی جان کے پاس ۔ شاہ ریز نے اس کی بات کو اگنور کرتے ہوئے کہا ۔
خان یہ لے دی جان کی دوا تو چل میں ابھی آتا ہوں اس نے ایک نظر روتی ہوئی انشاء میر کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
اوکے۔جلدی آنا ۔
شاہ ریز کے جانے کے بعد وہ چلتا ہوا انشاء کے پاس آیا ۔
پتا نہیں کیوں اسے روتے ہوئے دیکھ بلکل اچھا نہیں لگا ۔
اینی پرابلم مس؟ وہ پاس جاتے ہوئے بولا ۔
و و وہ اندر مم م میری بہن ہے وہ ٹھیک ت تت تو ہو ج
جا یگی نہ؟ و ہ اٹک اٹک کر بولتے ہوئے اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہی تھی ۔
کپکپاتے ہوئے گلابی ہونٹ، رونے سے سرخ رنگ چہرا۔ ،آنسووں سے بھری کالی گہری آنکھیں ۔ وہ کوئی خوبصورتی کا مجسمہ لگ رہی تھی ۔
کہ ڈی ایس پی عرشمان خان جیسے انسان کا دل بھی ایک پل کو رک سا گیا ۔اسے اپنے سینے میں کچھ کھالی سا محسوس ہوا ۔اس کا ہاتھ فورن اپنے دل پر گیا ۔
(میاں تم تو ایسے میرے سینے بھاگ رہے ہو جیسے پنجرے میں سالوں سے قید پرندہ۔
اس نے اپنے دل کو ڈپٹتے ہوئے کہا ۔)
تبھی ڈاکٹر دروازہ کھول کر باہر آ یا ۔
ڈاکٹر اب کیسی ہیے میری بہن ؟
انہیں ہوش آگیا ہے ۔لیکن جیسا کہ آپ نے بتایا روم میں بند ہونے پر ڈر کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئی تھیں ۔
لیکن انہیں پینک اٹیک آیا ہے۔
ان کے ساتھ پاسٹ میں کوئی ٹریجڈی ہوئی تھی کیا ؟
نہ نہ نہیں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔اس نے گھبراتے
ہویے کہا ۔پاسٹ سے اسے کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا ۔
وہ نہیں چاہتی تھی کہ پاسٹ کا کوئی کالا سایہ اس کی بہن کی زندگی پر پڑے ۔
ڈاکٹر کیا میں اب اپنی بہن سے مل سکتی ہوں ۔اپنی ازلی حالت میں واپس آتے ہوئے بولی .
جی ہاں آپ مل سکتی ہیں ۔
وہ جیسے ہی آگے بڑھی اچانک لڑ کھڑا کر گر نے لگی تھی کہ عرشمان خان نے آگے بڑھ کر اس کی کمر میں ہاتھ ڈال
کر اسے گرنے سے بچانے کے لیے اپنی طرف کھینچا جس سے وہ اس کے سینے سے آ لگی یہ سب اچانک ہوا تھا ۔دونوں کو ایک دوسرے کی تیز دھڑکنیں صاف سنائی دے رہی تھیں ۔
انشاء کی نظر جب اس کے چہرے پر پڑی تو اس نے ایک جھٹکے سے اپنے آپ کو اس کی باہوں سے آزاد کرایا ۔ گویا وہ کوئی اچھوت ھو۔
عرشمان خان جو اس کی خوبصورتی میں کھو یا ہوا اسکے جھٹکنے پر ھوش میں آیا ۔
ہاؤ ڈیر یو ۔۔۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے ٹچ کرنے ہاں ۔
وہ اپنے ہاتھوں اور کمر کو رگڑتے ہوئے بولی گویا اپنے جسم سے اس کا لمس مٹانا چاہا ھو ۔
ایسا کر تے ہوئے وہ کوئی جنونی لگ رہی تھی ۔
ہ ہاؤ ۔۔چھوا کیسے تم نے مجھے وہ اس کے کالر کو مٹھیوں میں جکڑے غصے سے پھنکاری ۔۔
عرشمان خان کی آنکھیں پل میں لہو رنگ کی ہوئ تھیں ۔
اسنے اپنی کالر اس کے ہاتھ سے چھڑاتے غصے سے پھنکارا۔۔
ابھی تک کسی کی ہمت نہیں ہوی کہ وہ ڈی ایس پی عرشمان جو کے کا لر پر ہاتھ ڈالے۔
وہ۔ غصے سے سرخ آنکھیں اس کی آنکھوں میں ڈالے دہاڑا۔
لیکن اسکی آنکھوں میں دیکھتے اسے بے پناہ کرب نظر آیا
ایسا لگا جیسے اس کی آنکھوں میں کوئی ان کہی داستان
چھپی ہوئی ہو۔
او مسٹر ۔۔۔۔
میم آپ کے پیشنٹ آپ کو بلا رہی ہیں ۔نرس نے باہر آتے ہوئے کہا ۔
کیا نایرہ کو ھوش آ گیا ؟ چلیں میں آتی ہوں ۔
اور مسٹر تم ۔۔ کوشش کرنا کہ آج کے بعد میرے سے ٹکرانا مت۔وہ نفرت آمیز لہجے میں کہتے وہاں سے چلی گئی ۔
انشاء میر ۔۔۔آخر کیوں ہے تمہیں مردوں سے اتنی نفرت یہ
راز تو ڈی ایس پی عرشمان خان پتا کر ہی لےگا۔آخر کو تم اس دل کو جو بھا گئی ھو ۔
وہ آنکھوں پر گاگلز چڑاھاے وہاں سے چلا گیا ۔
**********************************************
دیدو وو۔ آ آپ ک ک کو پتا ہے ان نہوں نے مم مجھے ر روم میں ب بند ۔۔۔ ک کر د دیا ت تھا۔۔میں رر رو رہی تھی ۔
لل لیکن ان نں ہوں نے ڈور نہیں ڈور نن نہیں کھولا ۔
نایرہ جب سے گھر آی تھی انشاء کے گلے سے لگے مسلسل رویے جا رہی تھی ۔
بس میرا بچہ آپ کی دیدو ان سب کو سزا دیگی جنہوں نے میری گڑیا کو رلایا ہے او کے ۔۔۔اب آپ رونا بند کرو اور اپنی دیدو اسمایل کر کے دکھاو۔
وہ مسکرایی تو انشاء کو لگا کہ اس کی زندگی مسکرایی ہو۔
وہ مسکرایی تو اس کے دائیں گال پر ڈمپل بن گیا ۔
اب آپ آرام کرو اوکے۔ میں ابھی آیی ۔
نن ن نہیں دیدو آپ مم مت جاؤ مجھے ڈر لگے گا ۔
وہ ڈرتے ہوئے بولی ۔
ارے میری جان میں نہیں جا رہی ۔یہیں ہوں میں آپ کے پاس ۔اوکے ۔اب آپ سو جاؤ وہ اس کے بالو ں میں ہاتھ چلاتے ہوئے بولی ۔
اس کے چہرے پر گہری تشویش تھی اس ذہن ماضی میں ہوے واقعات میں گردش کرنے لگا۔۔۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
میر آفندی ایک یونی لیکچرار تھے ۔ان کی شادی ان کی خالہ زاد سے ہوئی تھی ۔جو ایک خوبصورت شخصیت کی
حامل خاتون تھی ۔شادی کے تین سال بعد خدا نے ان کو بیٹی سے نوازا ۔بچی کی پیدائش پر ان کی بیوی کا انتقال ہوگیا ۔جن کا انہیں بہت گہرا صدمہ پہنچا ۔
لوگوں نے کہا کہ دوسری شادی کر لو لیکن وہ نہیں مانے اور اکیلے ہی اپنی بیٹی کی پرورش کی ۔
ہیلو۔ اایک فوٹو بھیج رہی ھوں مجھے اس انسان کے بارے میں پل پل کی خبر چاہیے ۔
کہاں جاتا ہے کیا کرتا ہے ۔یہاں تک کہ اس کے کھانے پینے
سونے جاگنے اٹھنے بیٹھنے ہر چیز کی مجھے پوری انفارمیشن چاہیے ۔گوٹ اٹ۔
اور تمہیں تمہاری منہ مانگی قیمت مل جائے گی ۔
اوکے ۔
ہمم۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
چاچو میں نے ڈاکٹر سے بات کر لی ہے۔ اب آپ دی جان کو
گھر لے جا سکتے ہیں ۔شاہ ریز نے اندر داخل ہوتے ہوئے جواد صاحب سے کہا ۔
اوکے دی جان اب میں چلتا ہوں میری ایک اہم میٹنگ ھے ۔
اس نے اپنے ازلی مخصوص انداز کہا۔
تبھی دی جان کے چہرے پر اداسی چھا گئی ۔
خان گھر چلو بیٹا وہ بھی تمہارا گھر وہ بھی تمہارا گھر ہے ۔
کب تک یوں ماضی میں رہ میں حال کو برباد کرو گے۔
انہوں نے بے بسی سے منت کرتے ہوئے کہا ۔
جانتی تھی کی وہ اس بارے میں کسی کی بات نہیں مانے گا۔لیکن پھر بھی وہ کوشش کرنا چاہتی تھیں۔
ان کی بات سن کر اس کے چہرے پر سرد مہری چھا گئی ۔
وہ اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔
گل اور ساحل چپ چاپ ان کی باتیں سن رہے تھے تھے۔ساحل کی زبان میں کھجلی ہوئ تبھی ساحل بول پڑا۔
دی جان برو کی شادی کرادیں ۔بھائی بھاگ بھاگ کر گھر آئیں گے۔ ساحل نے ہنستے ہوئے کہا ۔
او ایس بھییو کی شادی کرادیں بڑا مزا آیگا گل نے بھی چہکتے ہوئے کہا ۔میں اپنی ساری فرینڈز کو بلاؤں گی۔
گل ساحل میں نے کتنی بار آپ لوگوں کو سمجھایا ہے کہ میری شادی کی بات کوئی نہیں کرے گا ۔
گل بچے آپ خاموش ہو جائیں دی جان نے شاہ ریز غصے سے سے سرخ ہوتا چہرہ دیکھ کر کہا۔
بھیو کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں؟
تو آفیس میں اتنا مجھے ڈانٹتے کیوں ہیں اور وہاں پر آپ مجھے گڑیا بھی نہیں بولتے ھیں ۔مس گل کہ کر کیوں
بلاتے ہیں ۔اور یہ آفس میں ظاہر نہیں کیا کہ ھم آپکے بہن بھائی ہیں۔
گل نے رونی صورت بنا کر ہوںٹ باہر نکال کر کہا
اوہ میرا بچہ میں آپ سے ناراض ہو ہی نہیں سکتا ۔آپ تو میری جان ہو۔
(شاہ ریز خان دو ہی لوگوں کے سامنے کھل کر بات کر تا اور اپنے جذبات ظاہر کرتا تھا۔ایک اس کی جان سے پیاری بہن اور دوسرا اس کا بھائی اور دوست ڈی ایس پی عرشمان خان ۔)
اور رہی بات ڈانٹنے کی اور آپ دونوں سے اپنا رشتہ ظاہر نہ کرنے کی ۔تو سوچو آپ لوگوں نے کیا کہا تھا کہ ہم اپنے
ٹیلنٹ کے دم پر کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
شاہ ریز نے انہیں ان کی بات یاد دلاتے ہوئے کہا۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ ساحل نے میں اچانک سے کرنے کی بات گھر میں کی ۔کہ وہ بننا چاہتا ہے اپنے دم پر اس لیے اسے جاب کرنے دی جائے ۔
سبھی گھر والوں نے کہا کہ فیملی بزنس ہے اس کام کر لے
یا پھر شاہ ریز کے ساتھ کام کرے تو اس نے کہا نہیں میں بغیر ملی سپورٹ کےنام اپنا بنانا چاہتا ہوں۔
یہ بات جب شاہ ریز کو پتہ چلی تو اس نے کہا کہ وہ اس کے آفس میں کام کرے بغیر فیملی سپورٹ اور نام کے ۔
تو وہ مان گیا۔ اور اس میں بھلا گل میڈم کیسے پیچھے رہ
جاتیں وہ بھی ساحل سے ۔
جواد صاحب نے منع کرنا چاہا تو شاہ ریز نے یہ کرکے روک دیا کہ چار دن کا بخار ھے کر لینے دیں انہیں اپنا شوق پورا ۔
شاہ ریز کے یاد دلانے پر وہ دونوں بوکھلا گئے ۔
بھائی ہم یہ ۔
ہیلو گائیز کیا ہو رہا ہے ۔تبھی عرشمان خان اندر آتا ہے ۔
یہ لو آگیے یہ جناب بھی ۔
مہینے دو مہینے کے بعد جاکر ان کی شکل
دیکھنے کو ملتی ہے ۔ کتنا آپ کی فیملی بزنس جوائن کر لو لیکن یہ نہیں مانا ۔انہیں تو بس اپنی جوب پیاری ہے۔
تبھی جواد صاحب نے باتوں کا رخ عرشمان خان کی طرف کیا ۔
ڈیڈ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ میری جاب کیسی ہے ۔
اور میں اپنی جاب کے لئے کتنا پوزیسیو ہوں ۔
میرے لئے پہلے میری جوب میری وردی ہے اس کے بعد ہی کچھ آتاھے ۔میں اس کے لئے اپنی جان اپنا سب کچھ قربان کر سکتا ہوں ۔
I regret I have only one life.
To give for my country..
وہ جذباتی آواز میں بولا ۔اسے بلکل پسند نہیں آیا تھا جواد صاحب کا ایسا کہنا ۔
ماحول کو سنجیدہ ہوتے دیکھ گل نے سب کا دھیان دی جان کی طرف متوجہ کروانا ۔
ارے دی کو گھر نہیں لے جانا کیا جو آپ لوگ باتوں میں لگے ہو ۔
اچھا دی جان میں چلتا ہوں آپ چاچو لوگ کے ساتھ جائیں ۔
دی جان کے ماتھے کا بوسہ لے کر سنجیدہ آواز میں بولتے ہوئے باہر جانے لگا ۔
ارے خان میں بھی چلتا ہوں مجھے پولس اسٹیشن جانا پڑےگا ۔زمان کی کال آی تھی ۔
ہممم چل ۔
ویسے خان تو بے جان کی بات مان کر شادی کیوں نہیں کر لیتا۔اس نے سنجیدگی سے پوچھا ۔
میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا ۔سو اس ٹاپک کو بند کرو ۔وہ سرد آواز میں بولا ۔
اگر تمہیں کسی سے عشق ہو گیا تو پھر کیا کروگے۔
عشق سے صرف وقت ضائع کرنے کا ذریعہ ہے ۔
عشق سے بھی زیادہ حسیں ہماری دنیا ہے۔
اس نے شیر پڑھتے ہوئے ا عرشمان کی بات کو ہوا میں کو اڑایا ۔
مان لو اگر تمہیں کبھی کسی لڑکی سے عشق ہو گیا تو کیا کروگے ۔ہہہم
پہلی بات تو ایسا کبھی نہیں ہوگا ۔
اور اگر ہو بھی گیا تو میں اس اس کو ساری دنیا سے چھپا کر اپنے پاس رکھ لونگا ۔اسے اپنے عشق کے حصار میں قید کر لونگا ۔کہ جس سے اس کو دنیا کی کوئی طاقت بھی الگ نہیں کر پایگی ۔
اور اگر وہ تمہاری نہ ہونا چاہیے تو ؟
تو میں اس کو اسی سے چھین لونگا ۔ کیوں کہ جو چیز ایس آر کے کو پسند آ جائے وہ اس کو چھین لیتا ہے ۔
لیکن وہ کو ی چیز تھوڑی ھو گی وہ تو ایس آر کے کی چاہت، اس کا عشق ہوگی ،اس کا جنون ھوگی ۔
جسے ساری دنیا کے سامنے ڈنکے کے چوٹ پر اپنا بنایگا ۔
وہ نہایت جنونی انداز میں بولا۔
اور میں اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ تجھے وہ لڑکی جلدی مل جائے جس سے تجھے جنون کی حد تک عشق ہو جائے ۔عرشمان آنکھ ونک کرتے ہوئے بولا ۔
اور تجھے پیار ہوا تو تم کیا کرو گے ۔ہمم
کرنا کیا ہے ۔سیدھے پرپوز کر دونگا اور کیا وہ آنکھوں میں انشاء لاتے ہوئے مسکرا کر بولا ۔
اور اگر تجھے تھپڑ پڑ گئے یا اسنے تجھے ریجیکٹ کر دیا تو شاہ ریز نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا ۔
ایسے کوئی ریجیکٹ کر دیگی ۔تیرا اتنا گیا گزرا نہیں کہ کوئی اسے ریجیکٹ کر دے ہنہہ 😏
اس نے کالر جھاڑتے ہوے کہا ۔
تبھی عرشمان کا موبائل بجنے لگا ۔
ھیلو۔ ہاں زمان بولو ۔
سر آپ جلدی سے پولیس اسٹیشن آ جائیں ۔خیریت زمان
تم اتنے ہڑبڑی میں کیوں ہو ۔
سر آپ آجائیں پھر آپ کو سب پتا چل جائے گا ۔
او کے۔ آی ایم کمنگ ۔۔
خان مجھے جانا ھوگا ۔
اوکے تو جا۔
اوکے باے ۔
ہمم ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
میر آفندی ایک یونی لیکچرار تھے اور ان کی شادی ان کی خالہ زاد سے ہوئی تھی جو کہ ایک خوبصورت شخصیت کی حامل خاتون تھیں ۔شادی کے تین سال بعد خدا نے ان کو بیٹی سے نوازا ۔ بچی کی پیدائش پر ان کی بیوی کا انتقال ہوگیا ۔
انہیں اس بات کا گہرا صدمہ پہنچا ۔
لیکن اپنی بیٹی کے لئے اپنے آپ کو سنبھال لیا ۔
لوگوں نے بہت کہا کہ دوسری شادی کر لو لیکن وہ نہیں مانے ۔وہ اپنی بیٹی کے لئے سوتیلی ماں نہیں لانا چاہتے تھے ۔
اسلیے اکیلے ہی اپنی بیٹی کو پالنے لگے۔
انہوں نے اپنی کو بہت ہی پیار سے پالا تھا ۔
اس طرح ان کی گڑیا پندرہ سال ھو گیی ۔
*******************************************
بابا آج آپ کے یونی میں فنکشن ھے نا تو آپ مجھے
بھی ساتھ لے چلے آج میرے کالج کی چھٹی بھی ھے ۔
اس نے چہکتے ہوئے کہا ۔
بابا میں وہ والی ڈریس پہنوںگی جو آپ پچھلے دفعہ لائے تھے میرے برتھ ڈے پر مجھے بہت پیاری لگتی ہے وہ ڈریس ۔وہ مسلسل کسی چڑیا کی طرح چہکتے ہوئے بولے جا رہی تھی ۔
بیٹا آپ وہاں جا کر کیا کروگی ،آپ تو اور ھو جاؤ گی ۔
پلیز بابا میرے پیارے بابا آپ مجھے لے چلو نہ اس نے کیوٹ کا منہ بناتے ہوئے کہا ۔
اوکے میری جان لیکن آپ ادھر ادھر مت جانا میرے پاس ہی رہنا ۔
اففف بابا میں کوئی بچی تھوڑی ہوں جو ادھر ادھر جانے سے کھو جاؤ گی ۔اوکے میری جان میں باتوں میں تم تھوڑی نہ جیت سکتا ہوں ۔انہوں نے ہار مانتے ہوئے کہا ۔
وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔وہ ہنستے ہوئے بہت پیاری لگ رہی تھی ۔
۔
انہوں نے دل ہی دل میں اس کی نظر اتاری ۔
آج یونی میں فنکشن ہونے کے وجہ سے کافی رش تھا ۔
وہ اپنے بابا۔ کا ہاتھ پکڑے بڑے اشتیاق سے ہر چیز کو دیکھ رہی تھی ۔
آفندی صاحب اسٹیج کے سامنے ایک سیٹ پر بیٹھا کر خود اسٹیج پر چلے گئے ۔
فنکشن شروع ہو گیا تھا ۔
وہ بیٹھے بیٹھے بور ہو گیی تو وہ واشروم کا بہانا کرکے وہاں۔ سے باہر آ گیی ۔ وہ جلدی جلدی چل رہی تھی کہ تبھی وہ کسی سے ٹکرا گئی ۔
اس نے گرنے سے بچنے کے لئے سامنے والے کے کندھے کو مظبوطی سے تھام لیا۔
تھینکس لوڈ کہ میں بچ گئی وہ خود میں مصروف تھی اور سامنے والا جو پچیس سال کا نوجوان تھا۔ اسے ہوس بھری نظروں سے گھور رہا تھا ۔
جب اس کی نظر پڑی تو اس کو کچھ عجیب سا محسوس ہوا ۔وہ وہاں سے جانے لگی کہ اس نے ایک جھٹکے سے اس کو قریب کیا ۔
اور اس کے چہرے کو اپنی انگلیوں سے سہلانے لگا ۔
وہ اپنے آپ کو چھڑانے کے لیے چھٹپٹانے لگی ۔
چھوڑو مجھے ۔مم۔ جانے دو ۔اس کا دل سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا ۔
ہاے ماے انوسینٹ بیوٹی کیسے جانے دو ں بغیر کوئی مزے کیے وہ اسے کھنچ کر کلاس روم میں لے جاتے ہوئے بولا ۔
اور اندر سے دروازہ بند کر دیا ۔
دیکھو مم م مجھے جانے دیں میرے بابا میرا انتظار کر رہے ہونگے۔
پلیز مجھے جانے دو ۔ پ پلیز آ اآپ کو اللہ کا واسطہ
بابا آپ آ جاییں
با با پلیز سیو می
آہ ہ نہیں کرو پلیز لیو می ۔
بابا مجھے بچا لیں ۔
آہ۔ ہ ہ
اللہہہ۔
اور پھر اس کی آہ و بکا کچھ بھی کام نہیں آیا وہ درندہ صفت انسان اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد اسے یو۔ ہی تڑپتا چھوڑ کر بھاگ گیا۔
***********************
میر آفندی صاحب جو کب سے اسے ڈھونڈ رہے تھے ایک کلاس روم کے باھر رش دیکھ کر وہاں چلے آئے ان کا دل انجانے خدشات سے لرز رہا تھا ۔
کچھ فی میل ٹیچر کسی کو گھیرے ہوئے کھڑی تھی
وہ جیسے ہی چل کر وہاں پہونچے سامنے نظر پڑتے ہی ان کا دل فورن اپنے دل پر گیا ۔وہ لڑکھڑا تے ہوئے اپنی بیٹی کے پاس پہونچیے ی یہ میری بیٹی ہے اا سے کیا ہوا ہے ۔
انہوں نے چادر سے ڈھکی اپنی بیٹی کو دیکھ کر کہا۔جس کے چہرے پر زخموں کے نشانات تھے،
آپ سب باھر نکلیں پلیز انہیں چیک کرنے دیں ایک ٹیچر نے سب کو باہر نکالتے ہوئے کہا ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸❤️
ڈاکٹر کیا ہوا ہے میری بیٹی کو یہ کب تک ہوش میں آ جائے گی ۔
دیکھیں مسٹر آفندی صاحب آپ کو صبر سے کام لینا ہوگا ۔آپ کی بیٹی کا ریپ ہوا ہے ۔
و واٹ آپ کیا کہ رہی ہیں وہ لڑکھڑا تے ہوئے بولے ۔
یس مسٹر آفندی ایک تو اتنی کم عمر اوپر سے اتنا بڑا حادثے نے ان کے دماغ پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کا نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے۔
میری مانیں تو یہ ایک پولیس کیس ھے آپ کو اس کے خلاف ایکشن لینا چاہیے ۔
آج آپ کی بیٹی کے ساتھ ہوا کل کسی اور کی بیٹی کے ساتھ ہوگا ۔
ایسے درندے کو سزا دلوانا چا ییے ۔
اوکے اب میں چلتی ھوں آپ ان کا خیال رکھیے گا ۔
خدا حافظ ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
وہ ایک دلخراش چیخ مار کراٹھ بیٹھی۔
تین دن پہلے ہوا حادثہ پورے جزیات کے ساتھ ذہن کے
پردے پر اجاگر ہوا اور وہ یوں چیخ چیخ کر روی کہ اپنے ساتھ اپنے باپ کو بھی رلا گیی وہ شخص جو تین دن سے اپنی بیٹی کی چپ ٹوٹنے انتظار کر رہا تھا اسکے یوں رونے پر اس کا دل خون خون ہو گیا ۔
ببب بابا ا اااسس نے آ آ آ پ کی بیٹی کو مم میلا کر دیا ۔
ب۔۔۔۔بابا ۔۔۔اس نن نے آ آ آ پ کی گڑیا کو بڑی بے رحمی سے توڑ دیا آپ تت تو ک ہ کہتے تھے نن نہ کہ میں آپ کی زندگی کا خوبصورت پھول ہوں ، تو دیکھیں بابا اس درندے نے آ آ آ پ کے پھول کو بڑی ہی بے دردی سے کچل دیا ۔
اس نے مم م مجھ سے میری ذات کا غرور چھین لیا بابا وہ مسلسل خود کو نوچ رہی تھی ،پیٹ رہی تھی اور اس کا باپ بے بسی کی انتہا پر تھا کیسے وہ اپنی گڑیا کو سمیٹے ۔
اس کی پندرہ سالہ بیٹی جو ہر وقت فرمائشیں کرتے،
کسی چڑیا کی طرح چہچہاتی پھرتی تھی
آج یوں ٹوٹ کر بکھر رہی تھی ۔
انشو میری جان تم میرا بہادر بچہ ہو ۔
ایسے روتے نہیں ہے میری جان
یہ وقت رونے کا نہیں ہے بلکہ اس درندے کو سزا دلوانے کا ہے۔
میں تمہارے ساتھ ہوں میرا بیٹا ۔
بتاو وہ کو ن تھا جس نے میری پھول سی بیٹی کو توڑ کر رکھ دیا ۔انہوں نے اپنے آپ کو مظبوط کرتے ہوئے اس سے سوال کیا ۔
ماضی۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے صاحب کہاں گھسے چلے آ رہے ہو ۔
آفندی صاحب کو حولدار نے روکتے ہوئے کہا ۔
مجھے انسپکٹر صاحب سے ملنا میرا ان سے ملنا بہت ضروری ہے ۔آپ مجھے اندر جانے دیجئے ۔انہوں نے اس سے
درخواست کرتے ہوئے کہا ۔
دیکھو صاحب ابھی ہمارے سر بہت بزی ہیں۔ تم ابھی اندر
نہیں جا سکتے ۔
دیکھیں میں کہ رہا ہوں نہ کہ میرا ان سے ملنا بہت ضروری ہے ۔تو پلیز آپ مجھے اندر جانے دیجئے ۔میری کی زندگی کا سوال ہے ۔وہ منت کرتے ہوئے بولے ۔
وہ صاب تم ہم سے بحث کرنا چھوڑو اگر ملنا چاہیے ھو تو یہاں پے بیٹھ کر انتظار کرو ۔جب وہ فری ہونگے تو مل لینگے۔
بے بسی سے انہوں نے آسمان کی طرف دیکھا اور جا کر بینچ پر بیٹھ گئے ۔
جب ایک گھنٹہ ہو گیا اور انسپکٹر اپنے کیبن سے باہر نہیں آیا تو انہیں بہت غصہ آیا ایک تو انکا سارا دھیان انشاء کی طرف لگا ہوا تھا جسے وہ ماسی کے بھروسے چھوڑ کر اے تھے ۔
وہ غصے سے اپنی جگہ سے اٹھے اور حولدار کے روکنے کے باوجود اندر گھس گئے ۔
حولدار ۔انہیں کس نے اندر آنے دیا جب میں نے منع کیا تھا ۔
انسپکٹر جو موبائل پہ کال کر نے میں مصروف تھا خلل پیدا ہونے پر غصے سے دہاڑا ۔
سر یہ زبردستی گھس آئے ہیں مینے روکا تھا ۔
اس نے دھیمی آواز میں منمناتے ہویے کہا ۔
اوکے تم باہر جاؤ ۔
بولیے کیا رپورٹ درج کرانی ہے آپ کو ۔میرے پاس زیادہ ٹایم نہیں ۔مجھے ایک ضروری کال کر نی ہے انسپکٹر نے بے زار لہجے میں کہا ۔
سر مجھے مقصود نیازی کے بیٹے آصف نیازی کے خلاف ایف آئی آر درج کرانی ہے ۔اس نے میری بیٹی کے ساتھ
زبر دستی کی ہے۔میری بیٹی کی زندگی برباد کر دی ۔
وہی مقصود نیازی جو مشہور ومعروف صنعت کار ہیں ۔
اور ان کا بڑا بیٹا پولیٹکس میں آنے والا ہے ۔
جی ہاں سر ۔کل وہ ہماری یونی کے فنکشن میں بطور چیف گیسٹ آیے تھے اور ساتھ میں ان کا بیٹا
بھی تھا ۔اس نے میری بیٹی کی آبرو ریزی کی ہے ۔
مجھے اس درندے کے خلاف رپورٹ درج کرانی ہے ۔
ارے صاحب کیا تم پاگل ہو یا تم جانتے نہیں کہ مقصود نیازی کتنی بڑی ہستی ہے ۔
جاؤ جاؤ صاحب ان کے خلاف رپورٹ درج کر کے ہمیں اپنی جاب سے ہاتھ تھوڑی نہ دھونا ہے۔
ویسے صاحب آپ کی بیٹی کیا بہت خوبصورت ہے ؟جو آصف نیازی جیسے بندے دل آ گیا آپ کی بیٹی پر ۔ وہ گھٹیا بات پر آفندی صاحب کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔
اگر آپ کو رپورٹ درج کرانی ہے تو میری ایک شرط ہے ۔
آپ پر رپورٹ درج کریں صاحب آپ جو بولیں گے میں کروں گا جتنے پیسے لگیں گے میں دونگا بس مجھے اس درندے کو سزا دلوانی ہے۔
ارے اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ بس آپ کو ایک کام کرنا ہے، بس اپنی بیٹی کو ایک رات کے لئے ہمارے پاس چھوڑ دو ۔
ارے جب اتنا جان جوکھم والا کام کرنا ہے تو قیمت تو لیں گے ہی نا ۔وہ اپنے ہوس ٹپکاتے لہجے میں بولا ۔
انسپکٹر تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری ایسے بات کرنے کی
وہ جو کب سے اس کی منتیں کر رہے تھے ۔اس کی گھٹیا بات پر غصے سے دہاڑے ۔
جاؤ جاؤ صاحب کیا پتہ صاحب تمہاری بیٹی نے ہی بہکایا ہو ۔ یا خود اجازت دی ہو اور اب معصومیت کا ڈھونگ رچا رہی ھے ۔ نہیں تو کیا ضرورت تھی اتنے بڑے آدمی کے بیٹے کو کسی لڑکی کے ساتھ زور زبردستی کرنے کی ۔
اللہ سے ڈرو انسپکٹر ۔تم میری معصوم بیٹی پر الزام عائد کر رہے ۔تمہاری بھی بیٹی ہوگی ۔
ڈرو تم مکافات عمل سے۔انہوں نے بھرایے ہوئے لہجے میں کہا ۔
اوے بڈھے تم مجھ سے زبان لڑا رہے ہو ۔
حولدار نکالو اسے باہر ۔
اس سے پہلے حوالدار انہیں دھکے دے کر نکالتا وہ جھکے ہوئے کندھوں کے ساتھ باہر نکل گئے ۔ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہ رہے تھے اور بغیر ارد گرد دیکھے ہوئے
وہ چلتے جا رہے تھے ۔ان کی ذہن میں بس ایک ھی بات گردش کر رہی تھی کہ کہ گھر جاکر اپنی بیٹی کو کیا منہ دکھائیں گے۔جس سے وہ وعدہ کرکے آے تھے کہ وہ اس کے مجرم کو سزا دلوائے گے ۔لیکن وہ اپنی گڑیا سے کیا وعدہ پورا نہیں کر پاے۔ ان کے سینے میں مسلسل درد ہو رہا تھا تھا لیکن وہ سب کچھ بھو لے اپنی بیٹی کے پاس جلد سے جلد پہنچنا چا ہتے تھے ۔
وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ جب گھر پہنچے مجھے تو دیکھا کہ ان کے گھر عورتیں آ جا رہی تھی ۔
وہ گھر کے اندر داخل ہوئے۔
یہ لو آگیے یہ میاں ۔بیٹی کے ساتھ اتنا بڑا حادثہ ہو گیا اور یہ میا ں کورٹ کچہری کےچکر لگائے جا رہے ہیں ۔یہ آفندی صاحب کی دور پرے کی رشتے دار خاتون تھیں ۔جو اسی محلے میں رہتی تھی ۔سے آج یہ ان کے گھر آئی تو انشاء کی حالت دیکھ کر سب پتا لگا لیا اور تھوڑا بہت کام والی ماسی نے نمک مرچ لگا کر بتایا ۔
تب سے یہ خاتون واویلا کیے جا رہی ہیں ۔کہ آفندی صاحب پولیس اسٹیشن کیوں گیے ۔ سماج میں بدنامی ہوگی ۔
سب عورتیں مسلسل بولے جا رہی تھی تے کوئی انشاء کو برا کہہ رہا تھا تھا تو کوئی اس درندے کو بد دعائیں دے رہا تھا ۔۔اور انشاء نڈھال سی حالت میں ان کی بیچ بیٹھی ہوئی تھی ۔
اچانک ان کی سینے میں درد اٹھا اور وہ وہیں لڑکھڑا کر گر گیے ۔
اپنا درد بھلائے دوڑ کر ان کے پاس آیی ۔
با بابا ککک کیا ہوا آپ کو ۔
مم میری جان میری گڑیا ا ا اپنے بابا ا ا کو م م معاف کر دو ۔ وہ ت تت تم سے ک کیا ہ ہوا و وعدہ پو را نہیں کر پایا ۔
مم میں گیا تھا پر پولیس اسٹیشن ۔ان لوگوں نے مم میری بات نہیں مم مانی ۔اور میری بیٹی کے بارے میں گھٹیا باتیں کی۔
یہ قانون کے محافظ ہی ج جب لو ٹیرے بن جائے تو کوئی قانون پر کیسے بھروسہ کرے۔
وہ مسلسل درد سے تڑپتے ہوئے بولے ۔
مم میرے خیال رکھنا اپنا ۔
نن نہیں بابا آپ کو کچھ نہیں ہوگا ۔وہ روتے ہوئے بولی ۔
انشو میری جان تم اپنے آنسوؤں روک لو انہیں اپنے سینے میں دفن کرلو ۔اور انہیں اپنی سینے میں دہکھتی آگ کو جلایے رکھنے کا ذریعہ بنا لو ۔اور خود کو اتنا مضبوط بنانا تا کہ تم آصف نیازی جیسے درندے کو سزائے موت دے سکو۔
مم میری اا یک بات تم یاد رکھنا قانون پر کبھی بھی بھروسہ ۔۔مم مت کرنا ۔تت تم خود سس سزا دینا ۔و و۔ وعدہ ک ۔۔۔کر وو۔
و و وعدہ کرو ۔۔ تت تم۔ ا ا اس د د درندے کو سزا دوگی
و و ع د۔ ہ۔۔۔۔۔۔۔ اچانک ان کا سر ایک طرف لڑھک گیا۔
ہا ہا ں ب ا بابا میں آ آپ کی سب بات مانو گی ۔لکن آپ پہلے اٹھیں ۔اس نے انہیں اٹھاتے ہوئے کہا ۔لیکن ان کے جس میں میں کوئی جنبش نہ ہوئی۔
با ۔۔۔با با ۔۔۔۔۔۔بابا ۔۔ بابا۔ اٹھیں ۔
صبر بیٹا تمہارے بابا اب نہیں رہے۔
نن نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔
وہ میرے۔۔۔۔ بابا ہیں۔۔۔ وہ ہ میری بات ضرور ۔۔ما ۔ن
اچانک وہ بےہوش ہو گیی۔
**************************************
عجیب ہے میرا اکیلا پن ۔
نہ خوش ہوں نہ اداس ہوں۔
بس کھالی ہوں ۔
اور خاموش ہوں۔
آج بابا کو گز رے ہوئے تین دن ہو گئے تھے اور اس پر خاموشی چھا گئی تھی ایک جامد خاموشی ۔
کو ن آرہا ہے کون جا رہا ہے اس سے کوئی خبر نہیں تھی۔
اچانک اسے اپنے بابا سے کیا وعدہ یاد آیا
بھائی پرومس بابا میں آپ کا وعدہ ضرور پورا کروں گی۔
چاہے اس کے لئے مجھے کسی بھی حد تک کیوں نہ جانا پڑے۔
یہ آپ کی بیٹی کا وعدہ ہے۔ اس نے ایک عزم کے ساتھ کہا ۔
اور یہاں سے شروع ہوا اس کی زندگی کا ایک نیا موڑ۔
اور یہاں سے وجود میں آئی ایک نیی انشاء میر ۔
اس نے اپنا سارا وقت اپنا کیریئر بنانے پر لگا دیا تاکہ وہ آصف نیازی جیسے درندے کو سزا دے سکے۔
آٹھ سال کی کڑی محنت اور جانفشانی جا کر اس نے آی اینڈ ایم امپائر کو کھڑا۔ کیا۔
یہ سب حاصل کرنے کے لیے اس نے راتوں کی نیند چین و سکون اپنا لڑکپن گنوا کر حاصل کیا تھا ۔
وہ اسٹڈی کے ساتھ ساتھ جوب بھی کرتی اور بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتی تھی۔
آٹھ سال پہلے کی بات ہے جب ایک دن وہ ایک ہوٹل میں گئی تھی جہاں پر وہ جوب نہ ملنے پر ویٹر کا کام کرنے گئی تھی
اس کی یونیفارم پر جوس گر گیا تھا جسے صاف کرنے کے لئے وہ قدرے سنسان ایریے کی طرف بنے واشروم میں گیی تھی ۔وہ وہاں سے پلٹ رہی تھی تبھی اس کے کانوں میں آواز پڑی ۔
ارے اس مصیبت کو ہم کب تک پا لیں گے۔اس کے ماں باپ خود تو مر گئے اور اس بوجھ کو ہمارے سر لاد گیے۔
ارے آپا غصہ کیوں ہو رہی ہیں ۔میں نے اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کا زبردست آیڈیا نکالا ہے ۔
ایک تو یہ رج کے خوبصورت ہے اوپر سے معصومیت ہاےےے۔
ایسے لڑکیوں کی نگار بایی کے کوٹھے پر بڑی مانگ ہے ۔
رقم بھی اچھی خاصی تعداد میں ملے گی ۔
بات تو تیری صحیح ہے ۔ انہوں نے قیمت کی بات سن کر کہا ۔
لیکن اگر بس گئے تو ؟
ارے آپا کچھ نہیں ہوگا میں نے ساری سیٹنگ کر لی ہے ۔
ان کے آدمی یہیں پر ہیں آتے ہوں گے ۔آتے ہوئے اشارہ کر دیا تھا میں نے ان کو ۔
ارے تو بڑا ہی کمینہ ہے اکیلے اکیلے ہی ساری پلینگ کر لی مجھے کانو کان خبر بھی نہیں ہونے دی ۔
بس آپا تیرا ہی بھائی ہوں۔وہ آنکھ مارتے ہوئے کمینے پن سے بولا۔
تبھی واش روم کا دروازہ کھول کر کر اگر ایک لگ بھگ دس سال کی خوبصورت بچی باہر نکلی۔جس نے سنہرے بالوں کی دو پو نیا بنائی ہوئی تھیں ۔بھرے بھرے گال گلابی ہونٹ کانچ سی نیلی آنکھیں ۔دیکھنے میں وہ کوئی معصوم سی اینجل لگ رہی تھی ۔
مامی ہو گیا اب چلیں ۔وہ معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولی ۔
اے لڑکی یہی روکو مجھے تھوڑا کام ہے۔ وہ اپنے بھائی کو اشارہ کرتے ہوئے بولیں ۔اور جانے لگیں ۔
مامی جلدی آنا مجھے ڈر لگے گا وہ معصوم سی آواز میں بولی ۔
ہاں ٹھیک ہے ٹھیک ہے ۔وہ عجلت میں بولتے ہوئے وہاں سے چلی گئی ۔
تبھی وہاں پر دو ہٹے کٹے آدمی آیے ۔
ہمم تو یہ ہے وہ لڑکی جس کا بایی سے سودا ھوا ہے ۔
ہاں یہی ہے تم لوگ پیسے دو اور لے جاؤ لڑکی ۔
اس کی مامی کے بھائی نے کہا ۔
یہ لو پیسے ۔وہ پیسے دیکر اسے کھینچ کر لے جانے لگے۔
نہیں مجھے کہیں نہیں جانا مامی مامی۔ وہ روتے ہوئے بولی ۔اور اپنے آپ کو چھوڑ آنے لگی۔
اور اندر ان کی باتیں سنتی انشاء کا دل لرز گیا اس معصوم سی بچی کے ساتھ ظلم ہوتے دیکھ کر ۔
وہ اس کی مدد کے لئے ترکیبیں سوچنے لگی۔ اچانک اس کا ہاتھ اپنے بیگ کے اندر گیا جس میں وہ اپنی سیفٹی کے لئے مرچ پاؤڈر رکھے رہتی تھی۔
وہ مٹھی میں مرچ پاؤڈر لئے آگے آئی اور ان تینوں کی آنکھوں میں مٹھی بھر کے پاؤڈر پھینکا اور بچی کا ہاتھ پکڑ کر بھاگنے لگی ۔
مرچ پاؤڈر آنکھوں میں پڑنے سے وہ تینوں آنکھوں پر ہاتھ رکھے گالیاں دینے لگے۔
سالی بھاگ رہی ہے پکڑ و اسے۔ وہ مسلسل اس کا ہاتھ پکڑے بھاگ رہی تھی ۔اور مڑ مڑ کر دیکھ رہی تھی کہ کہیں وہ ان کے پیچھے تو نہیں آرہے ۔
وہ اس کو ساتھ لیے پارکنگ ایریا میں آ کر گاڑیوں کے پیچھے چھپ گیی ۔
کچھ دیر بعد وہ ان کو ڈھونڈتے ہوئے باہر نکل گئے۔
جب کچھ دیر بعد تک وہ نہیں آیے تو وہ اس کو ساتھ لیے باہر نکلی ۔ بچی بہت زیادہ ڈری ہوئی تھی۔
بیٹا ڈرو نہیں اب لوگ چلے گئے ہیں۔
و وہ پ پ پھر آ گئے تو ۔
نہیں دینگے اور اگر آ بھی گئے تو میں ہوں نا ۔
اچھا وہ عورت کون تھی ؟
وہ میری مامی ہیں۔ میرے ماما بابا نہیں ہیں ۔نا تو میں ان کے ساتھ ہی رہتی ہوں ۔
اوکے ۔ بٹ آج کے بعد سے آپ میرے ساتھ رہوگی اوکے ۔
نہیں تو پھر سے تمہاری مامی سودا کر دیگی ۔
مامی نے ایسا کیوں کیا ۔میں تو اچھی بچی ہوں نا میں تو ان کی ساری باتیں مانتی تھی ۔ وہ معصوم سی بچی اس سے سوال کر رہی تھی ۔
اور وہ یہ سوچ کر لرز اٹھی اگر وہ اسے لے جاتے تو اس معصوم کی زندگی برباد ہو جاتی ۔
بیٹا میں بھی اکیلی ہوں میرا کوئی نہیں ہے اب سے ھم ساتھ رہینگے اوکے ۔
او ووو ۔یو مینس آپ ڈرتے ہو اکیلے رہتے ہوئے ۔وہ اپنے گال پر اپنی شہادت کی انگلی ٹپٹپاتے ہوئے معصومیت سے بولی ۔
اس کی معصومیت پر انشاء اپنے بابا کے جانے کے بعد آج پہلی بار مسکرایی تھی ۔
یش مجھے بہت ڈر لگتا ہے ہنی وہ مصنوعی بولی۔
تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔
اور اس طرح انشاء اس کو اپنے گھر لے آئی ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
جنت ولا میں اس وقت سب لاؤنج میں موجود خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
تبھی ساحل کی زبان میں کھجلی ہوئ ۔۔
اچھا دی جان کیا بڑے مما پاپا نے اس باسی پھول آی میں گل( اس نے دی جان کے گھورنے پر اپنے جملے کی تصحیح کر تے ہوئے کہا)کو کسی کچرے کے ڈھیر سے اٹھایا تھا ۔
نہیں مطلب کیا ہاں یہ کس اینگل سے ہماری فیملی میمبر لگتی ہے ۔وہ آنکھوں میں شرارتی چمک لئے خاموش بیٹھی گل کو چھیڑتے ہوے بولا ۔
ساحل کے بچےےےےےےےے۔ گل اس کی بات سن کر دانت پیستے ہوئے بولی ۔
ھیں ں ں ں ۔۔۔۔ کہاں ہے کدھر ہے کوی تو ڈھونڈ کر لادو ظالموں ۔۔وہ صوفے کے ارد گرد جھک کر دیکھتے ہوئے اداکاری کرتے ہوئے بولا۔
تبھی دی جان کی چھڑی کمر میں ڈھا کر کے بجی تو وہ بلبلا اٹھا ۔۔ ہاے ظالما مار ڈالا ۔۔
وہ کمر پر ہاتھ رکھے کراہا۔
اس کا مسخرا پن دیکھ کر جل بھن گیی ۔
ساحل تیرے لیے ایک شعر بولوں ۔
ارشاد ارشاد ۔۔
زندگی ایک سفر ہے سہانا ۔۔۔
اپنی یہ گندی شکل لے کر دفع ہو جا ۔۔ نا ۔۔
وہ دوسری لائن دانت پیستے ہوئے بولی ۔
ہا ہا ہا ہا ہا رومی چاچی کا بے ساختہ قہقہ گونجا تھا ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
انشاء نایرہ کو لے کر مال آی تھی تاکہ اس کا موڈ فریش ہو جائے ۔اس نے نایرہ کے لیے خوب ڈھیر ساری شاپنگ کی ۔آیس کریم کھلای انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ایک بھر پور دن گزارا۔
ہنی آپ یہیں روکو ایک شاپنگ بیگ میں اوپر ہی چھوڑ آی ۔
میں ابھی لے آتی ہوں ڈرنا نہیں اوکے ۔
وہ اسے وہیں چھوڑ کر اوپر چلی گئی ۔
نایرہ جو ادھر ادھر دیکھنے میں مگن تھی ۔ تبھی وہاں دو تین لڑکے آے اور اسے اکیلا دیکھ کر چھیڑنے لگے ۔
اوے ہوے کیا خوبصورت پیس ہے یار ر ان میں سے ایک نے چھیڑتے ہوے کہا ۔
نایرہ سہم کر دو قدم پیچھے ہو گیی ۔
بیبی ڈر کیوں رہی ہو ہم بس پیار کرینگے اور کچھ نہیں ۔
کیوں برو ایک نے دوسرے کے ہاتھ پر تالی مار کر ہنستے ہوئے کہا۔
ننہہی۔ مم مجھے جانے دو ۔
شاہ ریز جو شیرو کے ساتھ مال آیا تھا ۔دو تین لڑکوں کو کسی لڑکی کو چھیڑتے دیکھ غصے سے آگے بڑھا ۔
یو و باسٹرڑ تم لوگ نہیں آتی کسی لڑکی کو چھیڑتے ہوے وہ انہیں پے در پے مکے مارتے ہوئے دہاڑا ۔
تبھی وہاں پر سکیورٹی اہلکار بھی آگیے ۔
کیا ہوا سر ؟
اس لیے تم لوگوں کو جوب دی گئی ہے کہ ھر ایرے غیرے کو تم لوگ اندر داخل ہونے دو ۔وہ غراتے ہوئے بولا ۔
سس سوری سر آیندہ ایسا نہیں ہو گا ۔
ہمم لے جاؤ انہیں اور پولیس کے حوالے کرو ۔
اوکے سر ۔
تبھی اس کی نظر ڈری سہمی نایرہ پر پڑی اس نے بے ساختہ قدم اس کی طرف بڑھاے ۔
اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی ایسے لگا جیسے اس کے آس پاس کی ہر چیز ساکت
یہ تہمت سگریٹ پر ہی کیوں ۔۔
عشق بھی تو مضر صحت ہے۔۔
وہ کرسی کے پشت پر ٹیک لگائے سگریٹ نوشی کرتے ہوئے مسلسل انشاء میر کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔
اس کی کالی گہری آنکھیں ذہن کے پردے سے ہٹ ہی نہیں رہی تھیں ۔
اس کی آنکھیں کافی پرکشش تھیں لیکن ایسا لگتا تھا جیسے ان کے اندر کوئی ان کہا سا درد چھپا ہوا ہو ۔ ایسے لگتا تھا جیسے یہ آنکھیں سالوں سے مسکرایی نہ ہوں ۔
تبھی زمان دروازہ ناک کرکے اندر داخل ہوا ۔
ہاں زمان کچھ پتہ چلا اس گینگ کے بارے میں ۔
سر یہ ایک گینگ ہے جو لڑکیوں کی اسمگلنگ کر کے باہری ملکوں میں سپلائی کرتا ہے ۔ اور ان کا نٹ ورک کافی مضبوط ہے ۔ ان کے آدمی کالج، یونی ،کلب اور بہت سی جگہوں پر پھیلے ہوئے ہیں ۔ جو انہیں مس لیڈ کرکے باہری ملکوں میں سپلائی کرتے ہیں ۔
ہاں سر ایک اور بات یہ ینگ جنریشن کو ڈرگس جیسے مہلک زہر دے رہے ہیں ۔
ابھی ان سب کے لیڈر کا نام پتہ نہیں چلا ہے۔
اور یہ رہی اس کی فائل ۔۔
ہمم اب تم جا سکتے ہو۔
اوکے سر ۔۔۔
ایک منٹ زمان مجھے تم سے کچھ پوچھنا ہے ۔
اگر کسی کے ذہن، دل، دماغ پر کسی کا چہرہ بار بار آے اور وہ اس کی یاد کو ذہن سے کوشش کے بعد بھی نہیں نکال پائے تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟
سر اس کا ایک ہی مطلب ہوا کہ اسے اس انسان سے محبت ہو گئی ہے ۔
وا ا اٹ محبت ۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے ۔
کیا مجھے اس کڑوی گولی سے محبت ہو گئی ہے ؟
وہ اپنے آپ سے بڑبڑاتے ہوئے بولا ۔
سر اب میں جا وں ؟
ہاں جاؤ ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
شاہ ریز ان لڑکوں کو گارڈ کے حوالے کرنے کے بعد نائرہ کی طرف بڑھتا ہے ۔ اس کے حسین چہرے پر نظر پڑتے ہی اس کو اپنے اس پاس کی ہر چیز رکتی ہوئی محسوس ہوی۔
وہ ایک ٹک اس کے معصوم اور پرنور چہرے کو دیکھے گیا۔
فل بلیک رنگ کے فراک میں اس کی گلابی رنگت دمک رہی تھی ۔
شاہ ریز خان جو کسی بھی لڑکی کو نگا ہ اٹھا کر دیکھتا بھی نہیں تھا۔ جس کی زندگی میں حسین سے حسین لیکن لڑکی آی لیکن اس نے ان سب کو اگنور کر دیا ۔
لیکن اس چھوٹی سی لڑکی میں ایسا کیا تھا جو وہ یوں بے خود ہو کر اس کی طرف کھنچا چلا گیا ۔
تھ ۔۔تھینکیو پ۔۔۔ پرنس ۔ وہ اپنی خوبصورت کپکپاتی آواز میں بولی ۔
شاہ ریز جو بے خودی کی حالت میں اس کے پنک پنک گلابی گالوں کو چھونے جا رہا تھا ۔ اس کے بولنے پر ہوش کی دنیا میں واپس آیا ۔
ہیے لٹل گرل کیا کہا آپ نے ؟
و و وہ ۔۔ دیدووو نے جو اسٹوری بتایی تھی ۔ ا ا س میں ایسے ہی پرنس پرنسیز کو بچاتا ہے ۔
جیسے آپ نے ان بیڈ بواءیز کو ڈھشم ڈھشم کرکے مجھے بچا لیا ۔
وہ اپنے خوبصورت ہاتھوں کو ہوا میں گھماتے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے معصومیت سے بولی ۔ ایسا کرتے ہوئے اتنی کیوٹ لگ رہی تھی ، کہ شاہ ریز کا دل چاہا وہ اس کو ساری دنیا سے چھپا کر اپنے دل میں قید کر لے ۔
ہیے لٹل گرل آپ اکیلے ہی آیی ہو ۔ آپ کی فیملی کہاں ہے ۔
تبھی نایرہ کو ایک بار پھر سے رونا آنے لگا ۔
و و وہ مم میری دیدو اوپر چلی گئی ہیں وہ بیگز بھول گئیں تھیں ۔ تو لینے گیی ہیں ۔ابھی تک نہیں آییں ۔
لٹل گرل ۔تو اس میں اتنا رونے کی کیا بات ہے آپ بھی چلی جاؤ ان کے پاس ۔ شاہ کو اس کا رونا بلکل اچھا نہیں لگا ۔
نہ ن نہیں ۔۔ میں نہیں جا سکتی اس سے مجھے ڈر لگتا ہے اس نے الیکٹرک سیڑھیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
تو آپ جاتی کیسے ہو ۔
میں دیدو کا ہینڈس پکڑ کر جاتی تھی نا ۔ وہ ناک سکیڑ کر اس کو سمجھانے والے انداز میں بولی ۔
اس کے انداز پر شاہ ریز کے دل نے بیٹ مس کی۔
اوو۔ شاہ ریز نے بات سمجھ آنے پر سر ہلایا۔
اگر شاہ ریز خان کو کوئی اتنی نرمی سے بات کرتے ہوئے دیکھ لیتا تو یقیناً صدمے سے بیہوش ہو جاتا ۔
دی شاہ ریز خان ،گرل الرجک کسی لڑکی سے اتنی نرمی سے بات کر رہا ہے ۔
شیرو جاؤ فوراً ان سیڑھیوں کو بند کراو ۔ اس نے نایرہ کے ڈرے ہوئے چہرے کو دیکھ کر حکم صادر کیا ۔
اوکے سر ۔۔
لو ہو گیی بند اب چلو جاؤ اوپر ۔
وہ دو قدم آگے بڑھی ۔ پھر رک گیی۔
پرنس یہ لو آپ نے مجھے ان بیڈ بوایز سے بچایا اس کے لئے ۔۔
نایرہ نے اپنے بیگ سے ایک چوکلیٹ نکال کر دیتے ہوئے کہا ۔
جسے شاہ ریز نے فورن تھام لیا ۔
شیرو حیران و پریشان ہو کر کبھی اپنے سر کو دیکھتا اور کبھی اس چھوٹی سی لڑکی کو جس سے اس کے سر اتنے پولایٹ ہو کر بات کر رہے تھے ۔اور تو اور اس کے لئے ان الکٹرانک سیڑھیوں کو بھی بند کرا دیا۔۔
She is mine.۔
لٹل پرنسیز اب سے آپ میری ہیں اور میں آپ کو بہت جلد اپنی پاس لے آؤں گا ۔وہ نایرہ کو اوپر جاتے ہوئے دیکھ کر وہ خود سے بڑبڑایا ۔
شیروو۔۔
یس سر ۔۔
مجھے لٹل گرل کے بارے میں پوری انفارمیشن چاہیے ۔
اے ٹو زیڈ ۔گوٹ اٹ۔
اوکے سر ۔
نایرہ جیسے ہی اوپر آیی انشاء کو ایک شاپ سے نکلتے ہوئے دیکھ کر دوڑ کر اس کے پاس پہونچی اور اس سے لپٹ گئی ۔
ہنی میری جان کیا ہوا ۔
و و ہ دیدو۔ مجھے وہ بیڈ بوایز پریشان کر رہے تھے ۔
کون پریشان کر رہا تھا آپ کو ۔ اور آپ ٹھ ۔۔ٹھیک تو ہو نہ میری جان ۔
ایس دیدو میں میں بلکل ٹھیک ہوں ۔ آپ کو پتا ہے ۔ پرنس نے ان کی خوب پٹایی کی اور ان کو پولیس کے حوالے کر دیا ۔ وہ پرنس بہت اچھے تھے ۔
نایرہ نے مسلسل چہکتے ہوئے اسے پوری باتیں بتا دیں ۔
انشاء الجھ کر رہ گئی ۔
پہلے تو اگر وہ غلطی سے بھی نایرہ کو اگر ایک منٹ کے لئے بھی اکیلے چھوڑ دیتی تھی ۔ تو وہ واپسی میں اسے روتے ہوئے ملتی تھی ۔ اور پورا ایک گھنٹہ اسے چپ کرانے میں لگ جاتا تھا ۔
آج وہ اسے رویی ہوئی نہیں ملی تھی بلکہ وہ مسلسل اپنی باتوں میں کسی پرنس شاید کسی لڑکے کا ذکر بھی کر رہی تھی ۔
یہ بات انشاء کے لئے حیران کن تھی ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
ساحل جو شاہ ریز کے کسی کام سے آفس سے باہر گیا تھا ۔
آفس میں آیا تو دیکھا کہ گل کسی میل کولیگ سے مسلسل خوش گپیوں میں مصروف تھی یہ دیکھ کر وہ تن فن کرتا وہ اس کے پاس آیا ۔
واہ وا ۔۔۔۔ بہت اچھے ۔ وہ تالی بجاتے ہوئے تیز آواز میں بولا ۔
گل نے چونک کر سر اٹھا کے دیکھا تو ساحل تمتماے ہوئے سرخ چہرے لیے کھڑا تھا ۔
دوسرے سے بات کرتے ہوئے تمہارے منہ سے بڑے پھول جھڑتے ہیں ۔ اور مجھ سے بات کرتے ہوئے تو انگارے چبا یے ہوئے ہوتی ہو ۔ وہ سرد لہجے میں بولا ۔
گل بیچاری حیران اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی ۔ کیوں کہ پہلے کبھی اس نے ساحل کو اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا ۔ اور وجہ سمجھنے سے قاصر تھی۔
خیر سمجھ تو ساحل کو بھی نہیں آ رہا تھا ۔کہ وہ کیوں اس پر اتنا غصہ ہو رہا ہے ۔ اسے اپنے دل کی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا چاہتا ہے ۔
اوے زرافے میں چاہے جس سے بات کروں تمہیں اس سے فرق نہیں پڑنا چاہیے وہ بھی تیز آواز میں بولی ۔
گل مجھے غصہ مت دلاؤ ۔ تم آج کے بعد ایسے کسی سے بات نہیں کروگی تو مطلب نہیں کروگی۔ وہ تیز آواز میں دہاڑا۔
گل کو اس کی لہو رنگ آنکھوں سے بے پناہ خوف محسوس ہوا ۔
ٹ ۔۔ٹھیک ہے وہ اٹکتے ہوئے بولی ۔
ہہہم گڈ ۔۔وہ بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے اپنے غصے کو کم کرنے لگا ۔۔
وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس لڑکے سے گل کا مسکرا کر بات کرنا اسے کیوں اچھا نہیں لگا ۔
ادھر گل مسلسل اسے کوستے ہوئے دل ہی دل میں اس سے بدلہ لینے کی پلاننگ کر رہی تھی ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
آج انشا ء کی ایس آر کے گروپ آف کمپنی کے ساتھ میٹنگ تھی ۔
شاہ ریز خان کو آیی اینڈ این کمپنی کے پروجیکٹ اور پلان کافی پسند آئے تھے ۔
تھوڑی سی فرمالٹیز کے بعد دونوں کمپنیز کی پاٹنر شپ ہو گیی ۔۔
کانگریزولیش ۔ مس انشاء آج ہماری کمپنی ساتھ میں کام کریگی ۔
آپ کو بھی بہت بہت مبارک ہو ۔مسٹر ایس آر کے ۔
اوکے اب میں چلتی ھوں ۔
ہمم اوکے۔
انشاء کے جانے کے بعد شاہ ریز خان زمان کی طرف متوجہ ہوا۔
ہمم ۔زمان میں نے نوٹس کیا کہ تم میٹنگ کے دوران مجھ سے کچھ کہنے کی کوشش کر رہے تھے ۔
بولو کیا بات ہے ۔
سر میں آپ کو اس لڑکی کے بارے میں بتانا چاہ رہا تھا ۔
زمان آج سے انہیں لڑکی کہ کر نہیں میم کہ کر بلاؤگے آیی سمجھ ۔وہ اسے وارن کرتے ہوئے بولا ۔
ا ا وکے سس سر ۔
اب بولو ۔۔
سر ۔ مس انشاء میر جن کے ساتھ آپ کی میٹنگ تھی
میم ان کی بہن ہیں ۔ سگی بہن تو نہیں ہیں لیکن مس انشاء میر نے انہیں سگوں سے زیادہ محبت دی ہے ۔
مس انشاء میر جب سو لہ کی تھی اور میم کی عمر دس کی تھی ۔ انہوں نے میم کو ان کی مامی سے بچایا تھا ۔جس نے میم کا ایک کوٹھے پر سودا کر دیا تھا ۔
سودے کی بات سن کر شاہ ریز کی آنکھیں لہو چھلکانے لگی۔
مس انشاء نے میم کو ان کے چنگل سے بچایا ۔
تب سے میم ان کے پاس رہتی ہیں۔
ہمم اب تم جاؤ ۔
انشاء جو اپنی کار کی چابی شاہ ریز کے آفس میں ہی بھول گئی تھی ۔جسے لینے کے لئے وہ پارکنگ ایریا سے جلدی جلدی جا رہی تھی کہ وہ اندر داخل ہوتے عرشمان خان سے بری طرح سے ٹکرا گئی ۔
گرنے سے بچنے کے لئے وہ فوری طور پر عرشمان خان کے شرٹ کے کالر کو تھام گیی ۔
یہ جو بار بار آپ ہم سے ٹکراتے ہو ۔
کیا یہ پیار ہے جو ہم پہ لوٹاتے ہو ۔۔
عرشمان خان نے گرنے گرنے سے بچانے کے لیے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر نزدیک کرتے ہوئے شوخ آواز میں نہ جانے کس شعر کا بیڑا غرک کرتے ہوئے گنگنایا۔
جس کا چہرا اس کو دن رات چین نہیں لینے دیتا تھا اسے سامنے پا کر ایک دم کھل اٹھا ۔
بیہودہ انسان چھوڑو مجھے وہ اپنے آپ کو اس کی گرفت سے آزاد کرانے کی کوشش کرتے ہوئے دہاڑی ۔
ڈی ایس پی عرشمان خان کی گرفت سے آزاد ہونا اتنا بھی آسان نہیں ہے ماے ڈیر فیوچر وائف ۔وہ ایک آنکھ ونگ کرتے ہوئے بولا ۔
وا ا اٹ۔۔۔۔ وائف ۔ ۔۔ ٹکے کے آفیسر تمہارا دماغ تو اپنی جگہ پر ہے یا نہیں۔ جو یوں بکواس کیے جا رہے ہو ۔
اس کی بات پر وہ بھناتے ہوئے بولی ۔
ڈارلنگ میرا دل اپنی جگہ پر کیسے ہو سکتا ہے اسے تو تمہاری نشیلی آنکھوں نے چرا لیا ہے ۔
اب آپ ہی بتائیں میرے دلبر میں آپ پر کون سی دفع عائد کروں ۔وہ شوخ لہجے میں بولا جو انشاء کو آگ لگا گیا۔
یو ۔۔۔ پہلے تو تم صرف ٹکے کے آفیسر ہی تھے اب ٹھرکی بھی نکلے ۔ دفعہ ہو جاؤ میرے سامنے سے بیہودہ انسان نہیں تو میں تمہاری جان لے لوں گی۔
مجھے نفرت ہے اس دنیا کے ہر مرد سے بے انتہا اور بے حد جس کی کوئی حد نہیں ۔وہ آنکھوں میں بے پناہ کرب اور نفرت لئے چلائی۔
جب درد حد سے بڑھ جائے تو نفرتحدوں کو توڑ کر بے حد ہو جاتی ہے ۔
آج اس کے چیخنے چلانے اور نفرت کے اظہار پر پتا نہیں کیوں عرشمان خان کو غصہ نہیں آ رہا تھا ۔
انا کہتی ہے چھوڑد ے اسے۔
عشق کہتا ہے اس پہ سب قرباں
جب سے اس کو اپنے دل کا حال پتہ چلا تھا تب سے وہ اس کو بری نہیں لگ رہی تھی ۔
عشق کرنے کا ارادہ ہرگز نہ تھا ۔
بخدا ہو گیا دیکھتے دیکھتے ۔
اسے خود بھی پتا نہ چلا دوتین ملاقات میں اسے کیسے اس لڑکی سے اتنی زیادہ محبت ہو گئی ۔
کسی کی اونچی آواز نہ سننے والا کیسے اس کی کڑوی کسیلی باتیں سن لیں۔
انشاء دو تین دن سے کافی پریشان تھی کیوں کہ جہاں داد نے تین دن پہلے اسے بتایا تھا کہ جب بھی وہ نایرہ کو کالج لے کر جاتا ہے یا لے کر واپس آتا ہے تو کوئی انہیں مسلسل فالو کرتا ہے ایسے لگتا ہے ہماری روٹین چیک کر رہا ہے ۔
کہ میں کب نایرہ بیبی کو کالج لے کر جاتا ہوں اور کب انہیں کالج سے واپس لاتا ہوں ۔
جہاں داد کی بات سن کر وہ کافی پریشان ہو گئی تھی ۔
اگر اس دنیا میں اسے کسی بات سے ڈر لگتا تھا تو وہ تھا نایرہ کو کھونے کا ڈر۔
جہاں داد تم ایک کام کرو سی سی ٹی وی سے اس گاڑی کے نمبر کی فوٹیج نکلوا کر اس کی انفارمیشن نکالو اور پتہ کرو کہ کون ہے اور وہ کیا چاہتا ہے ۔
اوکے میم ۔۔
تبھی اس کے موبائل پر کال آنے لگی ۔
جہاں داد اب تم جاؤ اور جو میں نے کہا ہے وہ کام آج ہی ہو جانا چاہئے ۔
اوکے میم ۔
اس کے جاتے ہی اس نے یس کر کے موبائل کان سے لگا ۔
ہاں بولو کچھ پتا چلا اس کے بارے میں ۔
میم جس کے بارے میں آپ نے پتا کرنے کو کہا تھا وہ کوئی عام آدمی نہیں ہے ۔وہ ای۔۔
میں نے تعریفوں کے پل باندھنے کو نہیں کہا ہے ۔جو پوچھا ہے وہ بتاؤ وہ غصے میں پھنکاری۔
ج ۔۔ج۔۔ جی میم ۔
وہ ریپ ،ڈرگ اسمگلنگ اور لڑکیوں کی اسمگلنگ جیسے گھٹیا کاموں میں ملوث ہے۔
یہ سب تو مجھے بھی پتا ہے ۔ تم یہ بتاؤ کہ وہ پاکستان کب آ رہا ہے ۔
میم اس بارے میں ابھی پتا نہیں چل سکا ہے کیوں کہ وہ زیادہ تر اپنی اصلی شناخت کو چھپا کر رکھتا ہے ۔ہاں اتنا معلوم کیا ہے کہ اب کی بار پولیس بھی بڑے زور و شور اسے تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔اور یہ انفارمیشن بھی میں نے پولیس اسٹیشن سے اپنے ایک خاص بندے سے پتا کر ایی ہے ۔
اب کی بار جو نیا ڈی ایس پی آیا ہے وہ کافی ایماندار آفیسر ہے اس کے لئے اس کی وردی ہی اس کا سب کچھ ہے ۔ جس کے لئے وہ حد سے زیادہ جنونی ہے ۔
ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔انشاء نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔
یہ پولس والے کسی کے سگے نہیں ہوتے ہیں یہ بس اپنا فائدہ دیکھتے ہیں۔وہ نہایت ہی تلخ لہجے میں بولی ۔
میم وہ فایل بھی اس ڈی ایس پی عرشمان خان کے پاس ہے جس میں اس بندے کی ساری ڈیٹیلس موجود ہیں۔
ڈی ایس پی عرشمان خان کے نام پر انشاء ایک دم سے چونکی۔ اچانک اسے کچھ دن پہلے کا منظر پوری جزیات کے ساتھ یاد آیا جب وہ نایرہ کے کالج جاتے ہوئے ٹکارایی تھی ۔تو سرسری سی نظر اس کے نیم پلیٹ پر پڑی تھی ۔
تم کسی بھی طرح سے اس فائل سے انفارمیشن نکالنے کی کوشش کرو ۔ اوکے ۔
اوکے میم ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
گل جب گھر آئی تو غصے سے بھری ہوئی تھی ۔
سمجھتا کیا ہے اپنے آپ کو یہ زرافہ ۔
آج کے بعد تم ایسے کسی سے بات نہیں کروگی ۔ہونہہ
وہ ساحل کی نقل اتارتے ہوئے بولی ۔
ڈانٹ تو ایسے رہا تھا جیسے میرا ابا ھو ۔
جب سے وہ آیی تھی مسلسل بڑبڑایے جا رہی تھی ۔
ارے گل یہ تم اتنے غصے میں کیوں ہو ؟
رومیصہ بیگم اس کے پاس آتے ہوئے بولیں ۔
ارے رومی آپ کو نہیں پتہ اس زرافے نے میرے ساتھ کتنی بدتمیزی کی ہے ۔ کسی سے ہنس کر بات کیا کر لی یہ ساحل جاہل مجھ پر تو روب ہی جھاڑنے لگا ۔
ارے ہوا کیا ہے؟ آپ بتائیں گی تبھی تو مجھے معلوم ہوگا نا۔
اور کیا پھر کیا تھا محترمہ گل صاحبہ نے ایک کی چار لگا کر انہیں پوری بات بتائی ۔
یہ تو غلط بات ہے ساحل کو ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا ۔
انہوں نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا ۔ کیوں کہ جو بات گل نہیں سمجھ پا رہی تھی ۔ انہیں اچھی طرح سے سمجھ آ گئی تھی کہ ساحل صاحب گل کو پسند کرنے لگے ہیں تبھی وہ اس لڑکے سے جیلس ہو رہے تھے ۔
آنے دو اسے اس کی طبیعت تو میں تو میں صاف کروں گی ۔ انہوں نے متبسم لہجے میں کہا ۔
اور گل ساحل کی شکایتیں لگانے کے بعد مسکراتے ہوئے
اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
عرشمان جیسے ہی شاہ ریز کے آفس میں داخل ہوا تو دیکھا کہ وہ چیئر سے پشت ٹکائے نہ جانے کس کے خیال میں گم مسلسل مسکرایے جا رہا تھا ۔
کیا بات ہے بڈی کس کے خیالوں میں گم ہو جو میرے آنے کا بھی نوٹس نہیں لیا ۔
وہ اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولا ۔
ارے جگر کیسا ہے تو ۔وہ اس سے گلے ملتے ہوئے بولا ۔
میں تو ٹھیک ہوں ۔مجھے کیا ہونا ہے ۔وہ اپنی پر کشش مسکراہٹ کے ساتھ بولا ۔
یہ تم اکیلے اکیلے مسکرا رہے ہو ۔
کچھ تو ہے جسے ہم چھپا رہے ہو ۔
عرشمان نے شوخ لہجے میں گنگنایا۔
ارے جگر تیرے یار کو عشق ہو گیا ہے عشق ۔ وہ ہنوز مسکراتے ہوئے بولا ۔
وا اا ٹ۔ ۔۔ خان میرے یار تم ٹھیک تو ہو نہ ۔
یہ کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو تم ۔
ارے تو اتنا حیران کیوں ہو رہا ہے جگر۔؟
خان تو مزاق تو نہیں کر رہا نا ۔
عرش تجھے لگتا ہے کہ میں اتنی بڑی بات مزاق میں کروں گا ہمم ۔۔
وہ اپنے اجلی سرد آواز میں بولا ۔
افففف بڈی مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا ہے کہ تجھے محبت ہو گئی ہے ۔
اب کیا ارادہ ہے ؟
عرش میں نے تجھ سے کہا تھا نا کہ مجھے جب بھی محبت ہویی تو میں کسی عارضی رشتے کا سہارا نہیں لوں گا ۔سیدھے نکاح جیسا پاک رشتہ بناؤ ں گا ۔
تو کیا تم نکاح کرنے والے ہو ۔
جی ہاں اور کل ہی میں اس کی شروعات کرنے والا ہوں اس کے گھر رشتہ بھیج کر ۔
یار کون ہے وہ خوش نصیب جسے میرے یار نے چنا ہے؟
جگر خوش نصیب وہ نہیں تیرا بھائی ہے جسے اس جیسی لڑکی سے عشق ہوا ہے ۔
عرش کین یو امیجنگ ۔
۔مجھے محبت ہو گئی ہے وہ بھی پہلی نظر میں ۔
وہ کھوے کھوے لہجے میں بولا ۔
بڈی میں تیرے لئے بہت خوش ہوں۔
اوکے بڈی میں چلتا ہوں ۔وہ اس سے گلے ملتا ہوا واپس جانے لگا ۔
ویسے خان تو اکیلے ہی جائے گا کیا رشتے کی بات کرنے ہمم ۔لڑکی والے دروازے سے ہی لوٹا دیں گے ۔ وہ شرارت سے آنکھ ونگ کرتے ہوئے بولا ۔
کیا تمہیں لگتا ہے کہ کوئی دی ایس آر کے کو منع کر سکتا ہے ۔
وہ اپنی پر کشش گرے آنکھوں میں چمک لئے مسکرا کر بولا ۔
عرش نے دل ہی دل میں اس کے خوب رو چہرے کی مسکراہٹ قائم رہنے کی دعا کی۔
عرش کل تیار رہنا تو بھی چل رہا ہے میرے ساتھ ۔
نہیں خان میں نہیں جا سکوں گا ۔آج کل میں ایک بہت ہی اہم کیس پر کام کر رہا ہوں ۔
اوکے ۔ بات تیری ڈیوٹی کی ہے اس لیے جانے دے رہا ہوں ۔
ورنا تو جانتا ہے کہ تیرے بن میری ہر خوشی ادھوری ہے۔
وہ اپنے لہجے میں بے پناہ محبت لئے بولا ۔
تھینکس بڈی ۔
ویسے دی جان کو تونے یہ بات بتائی ہے کیا وہ بھی جا رہی ہیں ۔یا تو اب بھی ان سے۔۔
آفکورس وہ بھی جایں گی ۔ کیا میں اپنے بڑوں کے بغیر کوئی خوشی منا سکتا ہوں ۔وہ سوالیہ انداز میں بولا ۔
یس یو آر رایٹ ۔۔
عرش بہت زیادہ خوش تھا کہ اب اس کے یار کی زندگی میں بھی خوشیاں دستک دینے والی ہیں ۔
نیہں تو تین سال پہلے ہوئے حادثے کی وجہ سے وہ ایک روبوٹ بن کر رہ گیا تھا جس کی زندگی میں صرف کام اور کام کرنا ہی تھا ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
جب سے جنت ولا میں شاہ ریز نے کال کرکے بتایا تھا کہ وہ شادی کرنا چاہتا ہے ۔اس نے لڑکی بھی پسند کر لی ہے کل ان کے گھر رشتہ لے کر جانا ہے ۔
تب سے پورے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی ۔
سب سے زیادہ تو گل خوش تھی ۔وہ چہکتی پھر رہی تھی
کہ اس کے بھائی کی شادی ہے تو وہ بہت سارے ڈریسز لے گی اور اپنی ساری فرینڈز کو بھی انوایٹ کریگی۔
دی جان آج بہت خوش ہوئیں تھیں کہ ان کا لاڈلہ پوتا اب اپنے ماضی کو بھول کر آگے بڑھ رہا ہے ۔
ماضی
تیمور خان اور جنت بیگم کو بیٹی کا بڑا ارمان تھا لیکن جو اللہ منظور ۔
تین بیٹوں کے بعد ان کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔
تو انہوں نے یتیم خانے سے ایک بچی کو گود لے لیا ۔
اس کا نام انہوں نے ذنیرہ رکھا ۔
سب گھر والے اسے بہت زیادہ پیار کرتے تھے تینوں بھائیوں کی اس میں جان بستی تھی ۔
باہر کا کوئی انہیں دیکھ کر یہ نہیں کہ سکتا تھا کہ یہ اس گھر کا خون نہیں ہے۔
دیکھتے ہی دیکھتے سارے بچے بڑے ہو گئے ۔
تیمور خان نے اپنے سبھی بچوں کی شادیاں کر دیں ۔
اور ذنیرہ کی شادی انہوں نے اپنے جگری دوست کے بیٹے سے کرایی تھی ۔
جن کو اللہ نے ایک بیٹی سے نوازا ۔
جس کا نام فضا رکھا ۔
فضا اپنے ماں باپ سے زیادہ تیمور صاحب اور جنت بیگم کے پاس رہتی تھی ۔
ایک دن ذنیرہ بیگم اپنے ہسبینڈ کے ساتھ کسی پارٹی میں
گیی تھیں تو واپسی پر ان کا بہت بڑا ایکسڈنٹ ہو گیا ۔
ان کے ہسبینڈ تو وہیں پر انتقال کر گئے ۔
ذونیرہ بیگم کو ہاسپٹل لایا گیا ۔
جنت ولا جب خبر پہونچی تو سبھی دوڑے چلے آئے ۔
ڈاکٹر نے ان کی حالت کافی کرٹکل بتائی ۔
کافی جد وجہد کے بعد انہیں ہوش آیا لیکن ان کی حالت میں کوئی سدھار نہیں آیا ۔
وہ بار بار ایک ہی ضد کیے جا رہی تھیں کہ ان کو اپنی فیملی سے ملنا ہے ان کے پاس زیادہ ٹایم نہیں ہے ۔
ناچار ڈاکٹر کو ان کی بات ماننی پڑی ۔
اور ان سے ملنے کی اجازت دے دی ۔
انہیں اس حالت میں دیکھ کر سبھی کا دل کٹ کر رہ گیا ۔
ب ۔با ۔۔با۔ جان ۔ میرے ۔۔پ پاسس زیادہ ۔۔ و وقت نہیں ہے ۔
اآ پ نے مجھے ہر و و ہ چیز دی جو میں نے چاہی ۔۔
ہی ہے ۔بس ایک اور ۔خواہ ہش پوری ۔ ک ر دیں ۔
مییں ۔۔۔ چاہتی ہوں ک ۔۔کہ میری فضا اس گھر کی بہو بنے۔
جس گھر سے مجھے ا۔۔ اتنا پیار ملا ۔مم ۔میری بیٹی کو بھی م ملے۔ آپ وعدہ کریں کہ آپ میری بیٹی کو شاہ ریز کی ۔۔د ۔دلہن بناینگے ۔
تبھی ولی خان ان کی طرف آیے ۔
ذونی تم پریشان مت ہو میرے شاہ کی دلہن فضا ہی بنے گی ۔ یہ تم سے تمہارے بھائی کا وعدہ ہے۔
ان کی بات پر سبھی گھر والوں نے تاییدی انداز میں سر ہلایا ۔
ان کی بات پر ان کے ایک خوبصورت مسکراہٹ آیی اور انہوں نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
دھیرے دھیرے بچے بڑے ہوتے گئے لیکن گھر والوں نے فضا اور شاہ ریز کے رشتے کے بارے میں بچوں کو کچھ نہیں بتایا تاکہ ان کے ذہنوں پر کوئی برا اثر نہ پڑے ۔
شاہ ریز جب اپنی اسٹڈی کمپلیٹ کر کے پاکستان واپس آیا۔
تو تیمور صاحب نے گھر والوں کو فیصلہ سنایا کہ اب ذنیرہ سے کیا وعدہ پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے ۔
اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ شاہ ریز اور فضا کی شادی کرادیں ۔
سبھی گھر والے اس بات سے متفق تھے لیکن شاہ ریز کو یہ بات جیسے ہی پتہ چلی وہ آپے سے باہر ہو گیا ۔
اسے فضا سے اپنا رشتہ بلکل پسند نہیں آیا ۔
اس نے گھر والوں کو صاف منع کر دیا ۔
لیکن دی جان کی منت سماجت اور قسم دینے پر وہ اس رشتے کے لئے تیار ہو گیا ۔
فضا گھر والوں کے لاڈ پیار سے کافی بگڑ گئی تھی بن ماں باپ کے ہونے کی وجہ سے اسے کوئی روک ٹوک نہیں کرتا تھا ۔
شاہ ریز کو فضا کے بے جا ضد اور آزاد خیالات سے کافی چڑ تھی ۔
اور فضا کو شاہ ریز خان کی سنجیدہ طبعت پسند نہیں
لیکن گھر والوں کے نظر میں اچھا بننے کے لیے اس نے اس رشتے سے انکار نہیں کیا ۔
🌺🌺🌺🌺🌺
آج شاہ ریز اور فضا کا نکاح تھا سبھی گھر والے اس کی تیاری میں مصروف تھے ۔
شاہ ریز کو اس سب سے کافی الجھن ہو رہی تھی ۔
وہ لاکھ ڈھونڈنے کے بعد بھی اپنے دل میں فضا کے لئے اپنے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں ڈھونڈ پارہا تھا ۔
آج شاہ ریز خان اور فضا کا نکاح تھا سبھی گھر والے اس کی تیاری میں مصروف تھے ۔
شاہ ریز کو اس سب سے کافی اکتاہٹ ہو رہی تھی ۔
اوپر سے عرشمان ،ساحل اور گل اپنی بے سری آواز میں گانے گا گا کر مسلسل اسے تنگ کر رہے تھے ۔۔
اور آج کے دن ان پر شاہ ریز کا رعب اور غصہ بھی کام نہیں کر رہا تھا ۔
گل مسلسل اپنی پھٹی ہوئی آواز ( ساحل کے خیال سے )میں گا رہی تھی ۔
آج میرے بھیا کی شادی ہے ۔
آج میرے بھیا کی شادی ہے ۔
تبھی عرشمان نے بھی تان چھیڑی ۔
آج میرے یار کی شادی ہے ۔
اوو و آج میرے یار کی شادی ہے ۔۔
بھلا ساحل کیوں پیچھے رہتا وہ بھی بیچ میں کود پڑا۔
چھوٹے چھوٹے بھائیوں کے بڑے بھئیا۔
آج بنیں گے کسی کے سیاں ۔۔۔
ساحل۔۔ لل لل۔۔۔
بس شاہ ریز کے برداشت کی مدت یہں تک تھی ۔
وہ اتنی زور سے دہاڑا کہ اندر داخل ہوتی مدیحہ بیگم دہل کے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ گییں ۔
کیا ہوا خان آپ اتنے غصے میں کیوں ہو ۔۔
مام ان سے بولیں کہ ایک منٹ کے اندر میرے روم سے اپنی شکل گم کریں نہیں تو مجھے ایک پل بھی نہیں لگے گا ان کی شکلیں بگاڑنے میں ۔
وہ غصے سے دانت پیستے ہوئے بولا ۔
بیٹا آج تو غصہ نہ کرو آج تمہاری شادی ہے ۔
انہوں نے نرمی سے سمجھاتے ہوئے کہا ۔
اسی بات کا تو رونا ہے وہ ہلکی آواز میں بولا ۔
اچھا چلو بچو اب تم لوگ اسے تیار ہونے دو ۔
بڑی مام برو کوئی دلہن ہیں کیا جو انہیں تیار ہونے میں وقت لگے گا ۔وہ تو یوں تیار ہو جاینگے ۔۔۔
ساحل شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ چٹکی بجاتے ہوئے بولا۔
تیار ہونے میں وقت تو ہماری فضا آپی لینگی تاکہ وہ برو کے دل پر بجلیاں گرا سکیں ۔
وہ آنکھ ونگ کرتے ہوئے بولا ۔
سبھی کے چہروں پر دبی دبی مسکراہٹ دیکھ کر اسے اور زیادہ غصہ آنے لگا ۔
مام انہیں بولیں روم سے باہر جایں وہ ان تینوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ٹھنڈے لہجے بولا ۔
غصے سے اس کی آنکھیں لہو رنگ ہو گیی تھی ۔
ایک تو یہ تھوپی ہوئی شادی اور اوپر سے ان کے یہ چھیڑ چھاڑ جو شاہ ریز کو مزید غصہ دلا رہے تھے۔
چلو بچوں مہمان بھی آنے والے ھوں گے ان کا ویلکم کرنے کے لئے بھی تو کوئی ہونا چاہئے ۔
وہ شاہ ریز کا غصہ دیکھتے ہوئے انہیں باہر لے گیں ۔۔
یار مام یہ فضا آپی بھی کافی عجیب ہیں میں کتنی بار ان کے روم کے باھر سے آواز دی لیکن وہ روم ہی نہیں کھولتی ہیں ۔سترہ سالہ گل نے منھ بناتے ہوئے کہا ۔
بیٹا وہ تیار ہو رہی ہوگی ۔ وہ میک اپ آرٹسٹ ہے خود تیار ہو رہی ہے ٹایم تو لگے گا نہ۔
ہمم ۔۔
******************************★**************
سارے مہمان اور قاضی صاحب آ چکے تھے ۔بس دلہن کا انتظار کیا جا رہا تھا ۔
بڑی بہو جاؤ دیکھو فضا تیار ہو گیی ہے تو اسے لے آؤ ۔
ٹھیک ہے ماں جی۔
وہ فضا کے باہر کھڑی مسلسل دستک دے رہی تھیں لیکن نہ دروازہ کھل رہا تھا اور نہ اندر سے کوئی آواز آ رہی تھی ان کا دل انجانے خدشات سے لرزنے لگا ۔
تبھی عرشمان اندر کی طرف آتا دکھائی دیا ۔
بیٹا میں کب سے دروازہ کھول رہی ہوں لیکن فضا نہ ہی دروازہ کھول رہی ہے اور نہ کچھ بول رہی ہے ۔
آپ ہٹیں میں دیکھتا ہوں ۔۔
عرشمان نے روم کی ڈپلیکیٹ چابی لے کر دروازہ کھول دیا۔
لیکن اندر جا کر انہیں کافی زور کا جھٹکا لگا کیوں اندر
فضا کیا اس کا تو کوئی نام و نشان تک نہیں تھا ۔
عرشمان حیران سا چلتا ہوا کھڑکی کے پاس آیا جو کھلی ہوئی تھی ۔
کھڑکی کے نیچے سیڑھی رکھی تھی اسے سمجھنے میں میں دیر نہ لگی۔
تبھی شاہ ریز کی موم کی نظر ٹیبل پر رکھے لیٹر پر پڑی ۔
بھاگ کر گییں اور لیٹر اٹھا کر پڑھنے لگیں ۔
اسے پڑھتے ہی لیٹر ان کے سے چھوٹ کر نیچے گر گیا وہ لڑکھڑا کر گر نے لگی تھیں کہ عرشمان نے انہیں تھام لیا ۔
بڑی مام کیا ہوا کیا لکھا ہے اس میں وہ لیٹر ان کے ہاتھ سے لیتے ہوئے بولا ۔
ارے بھابھی کیا فضا ابھی تک تیار نہیں ہوی ۔
بابا جان کب سے کہ رہے ہیں اس کو لانے کے لئے
رومیصہ بیگم بیگم بولتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئیں ۔
کیا ہوا آپ دونوں چپ کیوں ہیں اور فضا کہاں ہے ۔
وہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولیں ۔
رومیصہ تم سب کو یہاں بلا کر لاؤ ۔ انہوں نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا ۔
وہ نا سمجھ تاثرات سے ان کو دیکھتے ہوئے باہر چلیں گیں۔
کیا بات ہے بڑی بہو آپ نے سب کو یہاں کیوں بلایا ہے ۔
وہ کچھ نہیں بولیں اور چپ چاپ لیٹر ان کی طرف بڑھا دیا ۔
کیا ہے وہ اسے تھامتے ہوئے بولے ۔
*************
پیارے نانو جان آپ نے اور سب گھر والوں نے مجھے بےتحاشہ پیار دیا ہے میرے مانگنے سے پہلے مجھے ہر چیز دی ہے ۔ اور میں آپ سب کے پیار کی دل سے شکر گزار ہوں ۔
لیکن شاہ ریز سے شادی کرنا یہ میرے لئے نا ممکن ہے کیوں کہ اس جیسے سنجیدہ، روڈ اور بور ٹایپ انسان سے میں شادی نہیں کر سکتی اس لئے میں یہاں سے جا رہی ہوں۔
اور ہاں میں اپنے کلاس فیلو میں انٹریسٹیڈ ہوں تو شادی بھی اسی سے کروں گی ۔
اور میں جانتی ہوں آپ مجھے معاف کر دیں گے۔
جیسا کہ آپ مجھے ہمیشہ میری غلطیوں پر معاف کر دیتے تھے ۔
آپ کی فضا۔۔☘️
خط پڑھتے ہی وہ لڑکھڑا کر گر پڑے اور فورا اپنے دل پر رکھ لیا ۔
سب بھاگ کر ان کے پاس آیے۔
بابا ۔۔جان ۔۔
بیک وقت سب ان کو پکارنے لگے ۔
ا ا س ۔۔ ن نے۔ ۔۔ ا ایسا کیوں کیا ۔۔ سب کے سامنے ۔ ۔ہ ہمیں ۔ ر سوا ۔۔ کر دیا ۔ وہ مسلسل دل میں ہوتے درد کو دباتے کراہتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بولے۔
بابا جان آپ پریشان مت ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا ۔
ک کک کچھ ٹھیک ۔۔ن ۔۔نہیں ہو گا اب ہم شاہ ریز کا سامنا کیسے کریں گے ۔۔ہ ہ ہماری ضد پر وہ اس شادی ۔۔ کے ۔ ۔۔لیے مانا تھا ۔۔
تبھی سب کو اس کا خیال آیا ۔
شاہ ریز جو سب کو اس طرح سے اٹھ کر اندر آتے دیکھ کر آیا تھا اس نے لیٹر میں لکھے ہر لفظ کو سنا تھا جب دادا جان پڑھ رہے تھے ۔ اور وہ غصے سے مٹھیاں بھینچے سرخ چہرے کے ساتھ واپس چلا گیا اسے جاتے ہوئے کسی نہیں دیکھا سواے عرشمان کے ۔
اس نے دادا جان کو گرتے نہیں دیکھا تھا ۔
شاہ ریز کو کیسے بتائیں اس بارے میں دی جان نے پریشان کن لہجے میں کہا ۔
اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہوگی کیوں کہ وہ سب سن چکا ہے اور کافی غصے میں لگ رہا تھا ۔
اس کی بات سن کر سب کے چہرے پر پریشانی چھا گئی ۔
کیوں کہ اس گھر میں سب سے زیادہ غصہ شاہ ریز کو آتا تھا ۔
ع۔۔عر۔۔ش۔م۔۔ان ت۔تم اس۔ے بلاؤ۔ہ۔۔ما۔۔ر۔ے
دادا جان کیا ہوا۔آپ کو آپ کیا کہ رہے تھے ۔
عرش ان کا ہاتھ پکڑے ہوئے روہانسے سے لہجے میں بولا ۔
سب کا دل کسی انہونی کے خیال سے لرز گیا ۔
تیمور صاحب بات کرتے ہوئے بے ہوش ہو گئے تھے ۔
عرش تم گاڑی نکالو ہمیں بابا جان کو ہاسپٹل لے جانا ہے
جلدی کرو جواد صاحب اپنے آپ کو مظبوط کرتے ہوئے بولے ۔
ہر کوئی تیمور صاحب کی حالت دیکھ کر ہڑ بڑایا ہوا تھا ۔
بھائی صاحب آپ اور بھابھی مہمانوں کو سنبھالیں ہم بابا جان کو ہاسپٹل لے کر جاتے ہیں ۔
آپ بعد میں آ جائیگا۔
ٹھیک ہے تم لوگ جاؤ ۔ ہم جلد آجائیں گے ۔
ڈاکٹر کیا ہوا ہے بابا جان کو ۔
دیکھیں خان صاحب انہیں ہارٹ اٹیک آیا ہے ۔اور ان کی حالت کافی کرٹکل ہے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے ۔
آپ ان کے لئے دعا کریں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ ریز کافی غصے میں اپنے فارم ہاؤس آیا تھا ۔اور جب سے آیا تھا مسلسل سگریٹ نوشی کر ر ہا تھا۔
اس کا غصہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا ۔
اسے فضا سے شادی نہ ہونے کا کوئی غصہ نہیں تھا ۔
اسے تو غصہ اس بات پر آ رہا تھا ۔اس لڑکی کی وجہ سے اس کے گھر والوں کی کتنی بے عزتی ہوئی ۔
اگر اسے شادی نہی کرنی تھی تو پہلے بتا دیتی ۔ویسے بھی اس کے گھر والے اس کی ہر بات کو سر آنکھوں پر رکھتے تھے ۔
تبھی اس کے موبائل پر کال آنے لگی ۔
ہیلو ۔وہ پھاڑ کھانے والے انداز میں بولا۔
ہ۔ ۔ہیلو خان دادا جان ہاسپٹل میں ہیں تو جلدی آ جا ۔
وا ا ٹ ۔۔ دا جی ہاسپٹل میں ہیں ۔
میں ابھی آ رہا ہوں ۔
وہ فورن باہر کی طرف بڑھا۔
سب لوگ مسلسل دعاؤں میں مصروف تھے۔ دی جا ن کا تو رو رو کر برا حال تھا ۔
ڈاکٹر کویی مثبت جواب نہیں دے رہے تھے۔
تبھی ولی خان کی جواد صاحب کے موبائل پر کال آنے لگی۔
جواد بابا جان کی طبیعت کیسی ہے اور ڈاکٹر نے کیا کہا۔
ہم لوگ گھر سے نکل گیے ہیں بس آ رہے ہیں۔
بھائی ابھی ڈاکٹر کوی خاطر خواہ جواب نہیں دے رہے۔
ڈاکٹر کا کہ۔۔۔
تبھی ڈاکٹر دروازہ کھول کر باہر آئے ۔
آئی ایم سوری خان صاحب ہم آپ کے والد کو نہیں بچا پائے ۔
ہی از نو مور۔
ان کی بات کال پر سنتے ولی خان پر بجلی بن کر گری
ان کا اسٹیرنگ پر رکھا ہاتھ کپکپا یا جس سے ان کی گاڑی ان بیلینس ہوئی اور سامنے سے آتے تیز رفتار ٹرک سے ٹکرا گئی ۔
اور موقع واردات پر ہی ولی خان اور ان کی بیوی کا انتقال ہوگیا ۔
شاہ ریز خان جب ہاسپٹل پہونچا تو اسے زندگی کی سب سے بھیانک خبر ملی۔
کہ اس کے دادا جان اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
اس کے سر سے شفقت کا سایہ چھین لیا ۔
اس سے اس کی جنت چھن گئی ۔
اس کا دل دہاڑے مار کر رونے کا کیا ۔
لیکن وہ کیسے رو سکتا تھا وہ تو مرد تھا نہ۔
گل اپنے ماں باپ کی لاش کو دیکھ کر بے ہوش ہو گئی ۔
اور تب سے وہ ہوش میں نہیں آ رہی تھی ۔
دی جان نے آج اپنے شوھر کے ساتھ ساتھ اپنے جوان بیٹے اور بہو کو بھی کھو دیا ۔
کل تک ہنستا کھلکھلاتا جنت ولا آج غم کا گہوارہ بن گیا تھا ۔
آج ان تینوں کو اس دنیا سے گیے ایک ہفتہ ہو گیا تھا ۔
گھر کے ہر فرد پر ایک گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔
سبھی گھر ر والے ڈائنگ ٹیبل پر موجود تھے لیکن کوئی کسی سے بات نہیں کر رہا تھا ۔
شاہ ریز سب کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔۔
میں کل کراچی جا رہا ہوں ۔
کیوں بیٹا کیا کوئی کام ہے آپ کو ۔
نہیں چھوٹے پاپا کام کے لئے نہیں میں ہمیشہ کے لیے وہاں جا رہا ہوں ۔
اب سے وہاں کی برانچ میں سنبھالوں گا۔
خان آپ یہ کیا کہ رہے ہیں بیٹا ؟
میں سہی کہ رہا ہوں دی جان اب میں یہاں نہیں رہ سکتا۔
وہ سنجیدہ آواز میں بولا۔
خان آپ مت جاؤ بیٹا اب ہم کسی کو کھو نہیں سکتے ۔
آپ ہماری بھی بات نہیں مانیں گے
دی جان پہلے بھی تو مانی تھی ۔ پھر کیا ہوا نتیجہ تو آپ نے دیکھ ہی لیا وہ سرد آواز میں بول کر اٹھ گیا ۔
اور سب کے لاکھ سمجھانے اور گل کے منتوں اور رونے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے وہ وہاں سے چلا گیا ۔
اور کراچی آکر یہاں کی برانچ سنبھال لی اور ڈھای سال اپنی محنت اور لگن سے اپنے بزنس کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا ۔
اس دوران جواد صاحب اور راحم صاحب نے کافی فورس کیا کہ وہ واپس آ جائے لیکن وہ نہیں مانا۔
ہاں لیکن گل کے مسلسل رونے دھونے اور ایموشنل بلیک میل کرنے پر وہ کراچی سے اسلام آباد شفٹ ہو گیا ۔
لیکن پھر بھی ان تین سال میں جنت ولا کبھی نہیں گیا ۔
وہ رہتا اسی شہر میں تھا لیکن گھر کبھی نہیں گیا ۔
ہاں بزنس پارٹیز میں چھوٹے پاپا اور چاچو اکثر ملاقات ہو جاتی تھی ۔
پھر ساحل اور گل بھی اس کی کمپنی میں آ گئے ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
حال
انشاء میم آپ کے لئے ایس آر کے سر کی کال آیی تھی
وہ کہ رہے تھے کہ وہ کل اپنی فیملی کے ساتھ آپ کے گھر آرہے ہیں ۔
ان کی بات سن کر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بتا نہیں رہے بلکہ آڈر دے رہے ہیں ۔
روزی جو شاہ ریز کا اکھڑ لہجہ سن کر کافی چڑی تھی
انشاء کو ساری بات بتاتے ہوئے بولی ۔
وا اٹ یہ مسٹر شاہ ریز خان میرے گھر کیوں آنا چاہ رہے ہیں وہ بھی اپنی فیملی کے ساتھ ۔
انشاء حیران ہوتے ہوئے بولی ۔
خیر ان کے آنے پر پتا چل ہی جائے گا ۔وہ اس بات کو دماغ سے جھٹکتے ہوئے بولی ۔
سبھی گھر والے انشاء کے گھر جانے کے لئے تیار کھڑے ۔
گل بیٹا آپ ساحل کی گاڑی میں آ جانا کیوں کہ میری گاڑی میں آپ کی دی جان ،چھوٹی ماما ،رومی چاچی اور آپ کے راحم چاچو اور میں جارہے ہیں ۔اور شاہ ریز تو اپنی گاڑی میں آیگا ۔
وا ا ٹ میں اس زرافے کی صابو دانی میں نو نیور ایور۔
ایسا کبھی نہیں ہوگا ۔
گل ناک چڑھا کر بولی ۔
او و مہارانی وکٹوریہ ۔میں بھی نہیں چاہتا کہ تم میری پیاری گاڑی میں بیٹھو ۔ کیوں تم جیسا باسی پھول اگر
میری گاڑی میں بیٹھے گی تو اس سے میری ہی گاڑی کی شان میں کمی آئےگی جو میں بلکل نہیں چاہتا۔
ساحل عرف زرافے تمہاری یہ ہ ۔۔
بیٹا اگر آپ دونوں اسی طرح لڑتے رہے نا تو ہم آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں گے ۔
پھر پڑھتے رہنا ایک دوسرے کی شان میں قصیدے ۔
جواد صاحب نے جھنجھلا تے ہوئے کہا ۔
ارے نہیں نہیں چھوٹے پاپا میں نہیں لڑ رہی وہ تو یہ ۔
گل بیٹا آپ ہمارے ساتھ چلیں اور رومیصہ تم ساحل کی گاڑی میں چلی جاؤ ساحل کی مام انکے جھگڑے کا نکالتے ہوئے کہا ۔
عرشمان تو تھا نہیں نہیں تو کوئی اس کی گاڑی میں چلا جاتا ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
میر مینشن کے باہر دو گاڑیاں آ کر رکتی ہیں جس میں سب لوگ نکل کر اندر داخل ہوتے ہیں .
ایک گاڑی اور آتی ہے جس میں سے تین ملازمین نکلتے ہیں جنہوں نے خوبصورتی سے سجے ٹوکرے اٹھا رکھے تھے
اسسلام علیکم ۔
انشاء جو لاؤنج میں موجود تھی انہیں اندر آتا دیکھ سلام کرتی ہے اور انہیں بیٹھنے کا کہتی ہے ۔
وعلیکم السلام بیٹا ۔
دی جان نرمی سے سلام کا جواب دیتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہیں ۔
انشاء کو دیکھ کر سبھی کی آنکھوں میں ستایش ابھری کیوں کہ انہیں لگا کہ انشاء ہی وہ لڑکی ہے جسے شاہ ریز نے پسند کیا ہے ۔
تبھی ایک کھنکتی ہوئی آواز لاؤنج میں گونجی
شاہ ریز نے ایک سکینڈ کی دیر کیے بنا اپنی نظریں آواز کی طرف موڑی ۔
دیدو و میری پیاری دیدو آپ بہت بہت اچھی ہیں میں نے آپ کو کیٹی لانے کا کہا تھا آپ لے آئیں ۔
یو آر شو شویٹ میری پیاری دیدو آی لو یو شو مچ ۔
وہ خوشی سے چہکتے ہوئے سیڑھیوں سے اترتے ہوئے آ رہی تھی
دیدو و و۔۔ یو آر دا بیسٹ ۔۔
وہ اوپر سے آکے انشاء کے گلے میں بانہیں ڈال کر بولی ۔
آپ کو پتہ ہے دیدو کیٹی اتنی پیاری ہے دل کرتا ہے میں اسے ڈھیر سارا پیار کروں ۔
( نایرہ کافی دنوں سے اس سے کہ رہی تھی اسے ایک سیٹ لا دو ۔ انشاء کل لے کر آئی تھی لیکن اسے نہیں بتایا تھا اور اس کے سونے کے بعد اس کے روم میں رکھ دی
تا کہ صبح اس کے چہرے پر سرپرایز ملنے پر اس کے چہرے پر آنے والی خوشی دیکھ سکے۔)
وہ اپنی بانہیں پھیلائے خوشی سے چہکتے ہوئے بولی ۔
لیکن میری ہنی سے زیادہ پیاری نہیں ہے ۔
انشاء نے پیار سے اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا ۔
لاؤنج میں موجود سبھی لوگ کافی دلچسپی سے ان دونوں بہنوں کا پیار دیکھ رھے تھے ۔
اور شاہ ریز تو بس ایک ٹک اپنی بٹر فلائی کو دیکھ رہا تھا ۔ جس کے آنے سے ایسا لگ رہا تھا کہ ہر طرف رنگ بکھر گئے ہوں ۔
نایرہ سفید رنگ کا گھیر دار فراک پہنے جس پر پنک کلر کے ریشم کے دھاگوں سے گلاب بنے ہوئے تھے ،فل آستین ،
اور پنک کلر کا دوپٹہ کندھوں پر ڈالے اور گولڈن کلر کے بالوں کو پشت پر بکھیرے وہ شاہ ریز خان کو وہ اس دن سے بھی زیادہ پیاری لگی۔
وہ بغیر پلکیں جھپکے ایک ٹک اسے دیکھے گیا ۔کہ اسے اپنے آس پاس کا بھی ہوش نہیں رہا۔
سبھی گھر والے اسے اس طرح نایرہ کو دیکھنے پر سمجھ گئے کہ وہ لڑکی نایرہ ہی ہے جسے شاہ ریز نے پسند کیا ہے ۔
انہیں اس کی پسند پر کوئی اعتراض نہیں تھا ۔کیوں کہ نایرہ بھی ان سب کو کافی پسند آئی تھی ۔
تبھی دی جان نے انشاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
بیٹا ہم یہاں ایک خاص مقصد کے لئے آیے تھے اب آپ کے گھر میں کوئی بڑا تو ہے نہیں اس لیے ہمیں آپ سے ہی بات کرنی ہوگی ۔
جی کہیے آپ کو کیا بات کرنی ہے انشاء اپنے مخصوص سنجیدہ آواز میں بولی ۔
پریٹی گرل آپ ہمیں اپنے خوبصورت مینشن کا دیدار تو کراؤ ۔
گل نے دی جان کے اشارہ کرنے پر نایرہ کو مخاطب کرتے ہوئے بولی۔
اووہ یہ تو نایرہ بھول گئی وہ ہونٹوں کو گول کرتے ہوئے کیوٹ سا فیس بناتے ہوئے بولی ۔ایسا کرتے ہوئے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی ۔
چلیں میں آپ کو دکھاتی ہوں اور ہاں میں آپ کو اپنی کیٹی سے بھی ملاؤں گی ۔
اوکے ۔ گل نے ساتھ چلتے ہوئے کہا ۔
نایرہ کے جاتے ہی شاہ ریز کو لگا کہ جیسے ہر منظر ویران ہو گیا ہو۔
بیٹا ہم اپنے پوتے شاہ ریز کے لئے آپ کی بہن ہاتھ مانگنے آییں ہیں اور اسے ہم اپنے گھر بنانا چاہتے ہیں ۔
دی جان کی بات سن کر انشاء کو کرنٹ سا لگا ۔
وا اا ٹ۔۔۔ آپ یہ کیا کہ رہی ہیں ۔
ابھی وہ چھوٹی سی بچی ہے ۔
معاف کیجئے آنٹی میں نے ابھی بہن کے بارے میں ایسا کچھ نہیں سوچا ہے ۔
ابھی تو اس کے کھیلنے کودنے کے دن ہیں ۔وہ تو ابھی سہی طرح سے اس دنیا سے متعارف بھی نہیں ہوی ھے ۔
اور میں چاہتی بھی نہیں کہ وہ اس دنیا کے تلخ حقائق سے روشناس ہو۔
ابھی تو وہ خود بچی ہے وہ شادی جیسی زمہ داری کیا نبھایگی ۔
انشاء نے فورن انکار کرتے ہوئے کہا۔
اس کی باتیں سن کر شاہ ریز کا غصے سے برا حال ہوگیا۔
آج تک اس نے جو چاہی تھی اسے حاصل کر کے ہی دم لیا تھا۔
یہ تو پھر اس کا عشق اور جنون تھی اس کی آتی جاتی سانسوں کی ضمانت تھی ۔
مس انشاء آپ کی یہ بودی دلیل کو میں نہیں مانتا
مجھے بس اتنا پتہ ہے کہ۔
آپ کی بہن سے مجھے جنون کی حد تک عشق ہو گیا ہے
اور میرے عشق کی نہ کوئی حد ہے اور نہ کوئی سر حد ۔
اور وہ میری اسی وقت ہو گیی تھیں جب ان پر میری پہلی نظر پڑی تھی اور وہ ازل سے ہی میرے لئے لکھی گئی ہیں ۔اور ابد تک میری ہی رہیں گیں
اور میرا عشق بے ریا اور پاک ہے اس لیے تو میں نے نکاح جیسا رشتہ بنانا چاہتا ہوں ۔
وہ اپنے لہجے میں جنون کی آنچ لئے گمبھیر آواز میں بولا ۔
انشاء کو پتا نہیں کیوں اس کی آنکھوں میں سچائی نظر آیی لیکن بات اس کی ہنی کی تھی جسکے لئے وہ ایسے کسی پر اعتبار نہیں کر سکتی تھی ۔
تبھی جواد صاحب اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے پاس آیے ۔
بیٹا آپ ہم پر بھروسہ کر سکتی ہیں ۔یقین مانیے وہ ہمارے لئے گل کی طرح ہیں انہیں ہمارے گھر میں کوئی پرابلم نہیں ہوگی ۔
وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھتے اسے سمجھاتے ہوئے نرم آواز میں بولے ۔
انہوں نے سر پر ہاتھ رکھا تو انشاء کو لگا جیسے اس کے بابا جان نے ہاتھ رکھا ہو ۔اس کی آنکھوں میں نمی سی چمکی ۔
اسے وہ لوگ کافی پسند آئے تھے لیکن اس کا ماضی اسے اتنی جلد کسی پر اعتبار نہیں کرنے دیتا تھا۔
نایرہ مسلسل گل سے باتیں اسے پورا مینشن دکھا رہی تھی ۔
اب یہ ھے نایرہ پرنسیز کا روم وہ کھلکھلا کر بولی ۔
اوہ تو یہ ایک پرنسیز کا روم ہے ۔ چلو پھر دکھاؤ مجھے بھی ۔
ہاں کیوں نہیں اور کیٹی بھی اندر ہے وہ گل کو اندر لاتے ہوئے بولی ۔
گل اندر داخل ہویی تو حیران رہ گئی کیونکہ کہ کمرے کی ہر چیز سفید رنگ کی تھی۔
گل کو روم کافی پسند آیا ۔
اب آپ میری کیٹی سے ملو ۔
کیٹی یہ ہیں میری فرینڈ گل چلو جلدی سے ان کو ہیلو بولو۔
میاؤں ۔۔میاوں ۔۔
واؤ نایرہ یہ تو مجھے ھیلو کر رہی ہے گل خوش ہوتے ہوئے بولی۔
پھر وہ دونوں کافی دیر تک اس سے کھیلتی رہیں ۔
اچانک انشاء کے موبائل پر کال آنے لگی وہ ان سب سے اسکیوز کرکے کال سننے باہر آ گئی ۔
ہاں جہاں داد بولو کیا بات ہے ؟
میم وہ جو نایرہ بیبی کو فالو کر رہے تھے ان کے بارے میں پتہ چل گیا ہے وہ کراے کے گنڈے ہیں انہیں ایسا کرنے کے لئے پیسے ملے تھے ۔
اور جس نے پیسے دیئے ہیں وہ سجاد نام کا آدمی ہے جو چوری ڈکیتی اور بہت سے برے کاموں میں ملوث ہے ۔
اور اس کا نام ایک کوٹھے سے بھی جڑا ہوا ہے جہاں وہ لڑکیوں کو ٹریپ کر کے بھیجتا ہے ۔
جہاں داد کی بات سن کر اس کے چہرے پر گہری تشویش نظر آنے لگی ۔
کیوں کہ یہ سجاد نام کا آدمی کوئی اور نہیں بلکہ نایرہ کے مامی کا بھائی ہے جس نے نایرہ کو کوٹھے پر بیچنے کی کوشش کی تھی ۔
اوکے جہاں داد میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں ۔
اور ہاں جہاں داد تم اس سجاد نامی شخص کے پیچھے آدمی لگا دو جو اس کے پل پل کی خبر دیں ۔
اوکے میم ۔۔
انشاء کے چہرے پر گہری پریشانی چھا گئی ۔
کافی سوچنے کے بعد اس نے وہ فیصلہ کیا جو عام حالات میں نہیں کرتی ۔
اس نے اس رشتے کو مثبت جواب دینے کا فیصلہ کیا ۔
اسے یہ فیملی کافی اچھی لگی تھی. اور شاہ ریز خان کو وہ پچھلے تین سالوں سے جانتی تھی
اور اس کے بارے میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں سنی تھی۔
اور سب سے بڑی وجہ اس رشتے کو ہاں کرنے کی تھی ۔
وہ نایرہ کی سیفٹی تھی۔
ایسا نہیں تھا کہ وہ اس کی حفاظت نہیں کر سکتی تھی ۔
اس نے اپنے لئے جو راہ چنی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا اثر نایرہ کی زندگی پر پڑے ۔
اندر آتے ہی اس نے انہیں ہاں میں جواب دے دیا ۔
جسے سن کر سب کے چہرے خوشی سے کھل گئے ۔
اور رہا شاہ ریز ۔تو اسے ایسا لگا کہ مانو اسے ہفت اقلیم مل گیا ہو ۔ اس نگاہیں بار بار دروازے کی طرف جاتی جہاں سے نایرہ گیی تھی ۔
تبھی گل نایرہ مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوییں ۔
نایرہ کی نظر جیسے ہی شاہ ریز خان پر پڑی تو اسے کافی حیرانی ہوئی ۔
ارے پرنس آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ۔
شاہ ریز کو اس کے منھ سے اپنے بارے میں سن کر بہت خوشی ہوئی کہ اس کی بٹر فلائی اسے یاد رکھے ہوئے ہے ۔
ہنی آپ انہیں جانتی ہو ؟
یس دیدو ۔میں نے آپ کو بتایا تھا نہ پرنس کے بارے میں ۔
انہوں نے بیڈ بوایز سے بچایا تھا مجھے ۔
وہ مال والی بات کا حوالہ دیتے ہوئے بولی ۔
تھینکس مسٹر شاہ ریز آپ نے میری بہن کی ہیلپ کی۔
ہمم اگر میں انہیں بچاتا نہیں تو پھر یہ مجھے ملتیں کیسے ۔
بیٹا ہم چاہتے ہیں کہ آج تین دن بعد جمعہ کے مبارک دن نکاح رکھ لیں ۔
ارے اتنی جلدی کیسے ؟
بیٹا میری زندگی ہی کتنی بچی ہے آج ہوں کل نہ رہوں اس لیے میں چاہتی ہوں کہ اپنے بچے کی خوشی دیکھ لوں ۔
دی جان کیسی باتیں کر رہی ہیں۔ آپ کو خدا لمبی عمر دے ابھی تو آپ کو بہت سارا وقت بتانا ہے ہمارے ساتھ ۔
اور پھر نکاح اور رخصتی کے بارے میں ساری باتیں طیے کرکے چلے گئے ۔
بابا کیا میں نے ٹھیک کیا نایرہ کے لئے یہ فیصلہ کرکے ؟
بابا میں نہیں چاہتی تھی کہ اس کے ساتھ کچھ بھی غلط ہو۔
میں جانتی ہوں بابا اس کے بغیر رہنا آسان نہیں ہوگا
لیکن مجھے رہنا ہوگا بابا اس کے لئے اس کی خوش حال زندگی کے لئے ۔
بابا آپ میری ہنی کے لئے دعا کرنا کہ وہ ہمیشہ خوش رہے ۔
اس کی زندگی پر کوئی غم کا سایہ بھی نہ پڑے ۔
انشاء اپنے بابا کے فوٹو فریم پر ہاتھ پھیرتے نم آواز میں بولی ۔اور پھر فریم کو چوم کر اٹھ گئی ۔
ابھی اسے نایرہ کو بھی اس کے بارے میں بتانا تھا ۔
پتا نہیں وہ کیسے ریکٹ کریگی کیوں نایرہ بھلے ہی انیس سال کی ہو گئی تھی لیکن اس کے اندر باقی لڑکیوں کی طرح ان سب باتوں کی سمجھ نہیں تھی ۔
کیوں کہ انشاء نے ہمیشہ اسے ایک بچی کی طرح ٹریٹ کیا تھا۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
آج کل عرشمان ایک کیس کے پیچھے کافی محنت کر رہا تھا ۔
اس لئے وہ گھر والوں کے ساتھ نہیں جا سکا تھا کوی اور وقت ہوتا تو وہ ہر کام کو پس پشت ڈال کر اپنے جان سے پیارے بھائی اور دوست کی اس خوشی میں ضرور شامل ہوتا ۔
لیکن یہاں بات اس کے فرض کی تھی جسکے سامنے اس کے لئے کوئی بھی رشتہ اور کوئی وجود یہاں تک کہ اس کی جان بھی کوئی معنی نہیں رکھتی تھی ۔
وہ اپنی جان کو ہم وقت اپنے وطن پر قربان کرنے کے لئے تیار رہتا تھا ۔
سر وہ پاکستان آ رہا ہے زمان نے اندر داخل ہوتے ہوئے اسے اطلاع دی۔
زمان تمہیں پکا یقین ہے کہ وہ آ رہا ہے ۔میرا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان شناخت تبدیل کرتا رہتا ہے کیوں کہ اسے بھی پتہ کہ پولیس اس کے پیچھے ہے۔
جس سے بچنے کے لئے وہ اپنی پہچان کو اور رہائش گاہ کو آخری حد تک چھپانے کی کوشش کریگا ۔
نہیں سر یہ خبر ہنڈریڈ پرسنٹ سچ ہے ۔اور وہ اس ویک کے اندر ہی پاکستان پہونچ جائے گا۔
ہہم اگر یہ خبر سچ ہے تو اس بار اس کا ڈی ایس پی عرشمان خان سے سامنا ہوگا جس کے شکنجے سے بچ پانا ممکن ہی نہیں نا ممکن ہے ۔
زمان تم مجھے اس کی پل پل کی خبر دیتے رہو اور ہاں اس کے اس پاک سرزمین پر قدم رکھتے ہی ہمیں اس کو کچھ ایسا بڑا جھٹکا دینا ہے تاکہ اس کو معلوم ہو جائے کہ اس وطن کے رکھوالے اپنے وطن کے دفاع کے لیے ہر آن تیار رہتے ہیں ۔
سر ایک بات اور پتہ چلی ہے کہ وہ یہاں بہت بڑی ڈیل کے لئے آ رہا ہے اور سر آپ تو سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ ڈیل کس چیز کی ہو گی ۔
اوکے اب تم جاؤ ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
دوسری طرف انشاء کو بھی انفارمیشن مل چکی تھی کہ وہ پاکستان آ رہا ہے ۔
اور اس خبر نے برسوں سے اس کے اندر جل رہی آگ کو اور بھڑکایا تھا ۔
بابا وہ آرہا ہے اور اس بار آپ کی بیٹی کمزور نہیں ہے بابا۔
آپ کی بیٹی نے اس پل کا شدت سے انتظار کیا ہے ۔
اب وہ اپنا انتقام لیگی ایک ایک ایسا انتقام جس سے پھر کسی کی ہمت نہیں ہوگی کسی اور کے ساتھ ایسا کر سکے۔
وہ خیالوں میں اپنے بابا کو مخاطب کرتے ہوئے مظبوط لہجے میں بولی تھی۔
اس لئے وہ اتنی جلدی نایرہ کے نکاح اور رخصتی کے لئے مان گئی تھی تاکہ وہ برسوں پہلے اپنے بابا سے کیے گئے وعدے کو پورا کر سکے ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
تین دن بعد ۔
آج شاہ ریز خان اور نایرہ کا نکاح تھا ۔
انشاء نے جب نایرہ کو نکاح کے بارے میں بتایا ۔۔۔
تین دن پہلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہنی میری جان میں نے آپ کے بارے میں ایک ڈسیزن لیا ہے
کیا آپ میری بات مانو گی ؟
دیدو یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے آپ جو بھی میرے لئے کرتی ہیں وہ بیسٹ ہوتا ہے۔ آ پ جو بھی کہیں گی میں مانوں گی۔
وہ اس کے گلے لگتے پیار سے بولی۔
ہنی میں نے آپ کی شادی کا فیصلہ کیا ہے اور تین دن بعد
آپ کی شادی ہے۔
دیدو میری شادی واوو دیدو کتنا مزا آیگا نہ میں پیارے پیارے ڈریس پہنوں گی اور اور جیولری بھی وہ جیسے موویز میں برایڈ پہنتی ہیں ۔اور ڈھیر سارے گیسٹ بھی آتے ہیں نا۔
ا ا اے ۔۔کتنا مزا آیگا وہ خوشی سے چہکتے گول گول گھومتی مسلسل بول رہی تھی ۔
اور انشاء تو سر پر ہاتھ رکھے اسے دیکھ رہی تھی ۔
کہاں اس نے اس کی شادی کا فیصلہ کر لیا ہے ۔
یہاں اس کی پیاری ہنی کی معصومیت اور بچپنا ہی نہیں ختم ہو رہا ہے ۔
کچھ بھی ہو لیکن اس کے چہرے پر یہ معصومیت اسے اور خوبصورت بناتی تھی ۔
دیدو و میں آپ کو بتا دوں کہ میں اپنی کیٹی کے لئے بہت ساری شاپنگ کروں گی اور آپ مجھے منع نہیں کریں گی ۔
شادی اس کی خود کی تھی اور وہ اپنی کیٹی کی شاپنگ کا سوچ رہی تھی۔
اوکے میری جان آپ جو چاہے لے لینا اپنی پیاری کیٹی کے لئے۔
دیدو یو آر دا بیسٹ۔۔
وہ انشاء کے گالوں پر کس کرتے ہوئے باہر بھاگ گیی ۔
کیوں ابھی یہ خبر اسے اپنی کیٹی کو بھی تو دینی تھی ۔
سارے گھر والے پچھلے تین دن سے خان ولا یعنی شاہ ریز کے گھر میں ہی موجود تھے ۔
پورے ولا کو برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا ۔
پورے ولا کو شاہ ریز اپنی نگرانی میں شہر کے سب سے بڑے ڈیکوریٹر ڈیکوریٹ کرایا تھا ۔
اس نے نکاح کا جوڑا اپنی پسند کا لیا تھا جو فل سفید رنگ کا گاؤن تھا جس کے بازو فل آستین کے تھے اور ان پر موتیوں کا کام کیا ہوا تھا ۔
سب لوگ تیار کھڑے گل کا انتظار کر رہے تھے جو نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔
آخر تنگ آکر دی جان نے کہا ۔
رومیصہ بہو تم یہیں روکو اور گل کو لے کر ساحل کی گاڑی میں آ جانا ۔کافی وقت لگ رہا ہے اور نیک کام میں دیر کرنا اچھی بات نہیں ہے ۔
دی جان کافی دیر سے شاہ ریز کی بے چینی محسوس کر رہی تھیں جسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کسی طرح جلد سے جلد اپنی بٹر فلائی کے پاس پہنچ جائے ۔
دی جان کی بات سب کو ٹھیک لگی اس لیے سب چلے گئے سواے رومیصہ بیگم اور گل ،ساحل کے ۔
ساحل کا تو منھ ہی بن گیا تھا ۔مطلب کہ اسے اس باسی پھول کا انتظار کرنا پڑے گا 🙄 یہ بھی دن آنا تھا ۔
تھوڑی دیر بعد تیار ہو کر سیڑھیوں سے اترتے نظر آیی
اس پر نظر پڑتے ہی ساحل کی نگاہیں تھم سی گیں اسے لگا وقت رک سا گیا ہے ۔ وہ ایک ٹک اسے دیکھے گیا ۔
تبھی رومی چاچی نے کھنکار تے ہوئے اسے اپنی طرف متوجہ کیا ۔
کیا ہوا بیٹا جانی ؟
کچھ کچھ ہو رہا ہے کیا دل میں وہ شرارتی آواز میں بولیں ۔
ان کی بات سن کر ساحل ایک دم سٹپٹایا۔
گل چلتے ہوئے ان کے پاس آی ۔
رومی میں کیسی لگ رہی ہوں وہ ان کے آگے گول گول گھومتے ہوئے بولی ۔
تبھی ساحل بول پڑا ۔
اہہہم اہہم ۔ آپ کی بار گاہ میں ایک شعر عرض ہے ۔
ارشاد فرمایئے۔
ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا ۔۔
جیسے کانٹوں کے جھاڑ ۔
جیسے زہر کے پہاڑ ۔
جیسے ڈینگو بخار ۔۔
جیسے بچھو کے ہار ۔۔
جیسے چڑیل کا روپ ۔۔
جیسے نیم کا سوپ۔۔
جیسے دشمن نے دی ہو کوئی بددعا ۔۔
گل جو سمجھی تھی شاید وہ اس کی خوبصورتی پر کوئی اچھا سا شعر کہے گا وہ اس کے شعر پر جل بھن گیی ۔
تبھی دانت پیستے ہوئے وہ اسے گھورتے ہوئے بولی ۔
تجھے پیٹنے کو دل کرتا ہے ۔۔
اوو زرافے تجھے پیٹنے کو دل کرتا ہے ۔۔۔
جو بھی منھ میں آیے وہ تو بکتا ہے ۔۔
ساحل۔ تیری آنکھوں کے ڈیلے بڑے بڑے ۔
تو گھورے مجھ کو کھڑے کھڑے ۔
ساحل اس کے گھور نے پر چوٹ کرتے ہوئے بولا ۔
اس کی بات سن کر گل کہاں پیچھے رہنے والی تھی ۔
گل۔۔ چین سے مجھ کو جینے نہیں دے
پنگے لے مجھ سے گھڑی گھڑی ۔۔
اچانک فضا میں رومی چاچی کا بے ساختہ قہقہ گونجا ۔
وہ جو کافی دیر سے اپنی امنڈنے والی ہنسی روک رہی تھیں جب برداشت نہیں کر پاییں تو بے ساختہ ہنس پڑیں ۔
اووہ میرے سوٹ کڈز آپ لوگ اپنی گولہ باری بند کرو اور فورن یہاں سے نکلو نہیں تو آپ دونوں اپنے جان سے پیارے بھائی کی شادی مس کر دوگے اور آپ دونوں کے ساتھ ساتھ میں بھی ۔
اووہ رمی اس زرافے کی وجہ سے ہم کافی لیٹ ہو گیے ہیں چلو نکلتے ہیں۔
اووہ ہیلو میری وجہ سے نہیں بلکہ تمہاری وجہ سے لیٹ ہوئے ہیں ۔
کیوں کہ تم نے اپنی چڑیل جیسی شکل کو انسانوں والی حالت میں لانے کے لئے اتنا وقت لیا ہے ۔۔
وہ دونوں پھر سے شروع ہو گئے ۔
رومی چاچی نے اپنا سر پکڑ لیا کہ یہ دونوں نہیں سدھرنے والے ۔
اب اگر تم دونوں نے اپنی یہ بحث بند نہیں کی تو میں نے شاہ ریز کو کال کر لینی ہے اور بیٹا ساحل تم تو اپنی خیر منانا کیوں کہ آج اگر تم نے کوئی ایسی ویسی حرکت کی تو وہاں پر تمہارے وہ پولیس آفیسر بھائی بھی موجود ہونگے جس سے تمہیں کوئی نہیں بچا سکتا ہے۔
شاہ ریز کی دھمکی پر وہ دونوں فورن تیر کی طرح سیدھے ہوتے دروازے کی طرف بھاگے۔۔
شاہ ریز کی طرف سے بھیجے گئے سفید گاؤن میں ہلکے پھلکے میک اپ میں تیار نایرہ معصوم سی پری لگ رہی تھی ۔اس کو اس طرح سے سجا سنورا دیکھ کر انشاء کی آنکھیں بار بار نم ہو رہی تھی ۔
اس کا دل چاہا کہ وہ اپنی ہنی کو سب سے چھپا لے اور
اسے کہیں نہ جانے دے ۔۔
انشاء نے آج فل ریڈ کلر کی میکسی پہنے ہوئے تھی اور کانوں میں خوبصورت ٹاپس ،ہاتھوں میں بریسٹ پہنے ،سمپل سی تیاری میں بھی بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی ۔
دیدو میں کیسی لگ رہی ہوں ۔
وہ خوشی سے چہکتے ہوئے بولی ۔
اس کے بولنے پر انشاء خیالوں کی دنیا سے باہر آئی ۔
میری ہنی اس دنیا کی سب سے خوبصورت دلہن لگ رہی ہے ۔
وہ اس کے چہرے کو ہاتھوں میں لیے محبت سے اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے بولی ۔
ریلی دیدو کیا میں ایک پرنسیز لگ رہی ہوں ۔
وہ گاؤن میں گول گول گھومتے ہوئے بولی ۔
ہاں ایک خوبصورت پرنسیز ،جس کو لینے اس کا پرنس آ گیا ہے ۔
رومی چاچی گل کے ساتھ آتے ہوئے بولیں ۔
واوو میرا پرنس بھی آ گیا تو میں اب باہر جاؤں ۔
اوہو لڑکی کچھ شرم کر لو آج شادی ہے تمہاری ۔
اور ویسے بھی آپ ابھی اپنے پرنس کے پاس نہیں جا سکتی ہیں ۔
کیوں ۔۔۔کیوں نہیں جا سکتی میں پرنس کے پاس ؟
کیوں کہ ابھی آپ کو اپنے پرنس کے پاس جانے کے لیئے کچھ فارملٹیز پوری کرنے ہوں گی
ا ااچھا ۔۔وہ ہونٹ باہر نکال کر بولی جیسے اسے یہ پسند نہیں آیا ہو ۔۔
تبھی ساحل مولوی صاحب کے ساتھ اندر داخل ہوا ۔
ان کے آتے ہی نکاح شروع ہو ا۔
نایرہ صدیقی بنت غفور صدیقی آپ کا نکاح شاہ ریز خان ولد ولی تیمور خان کے ساتھ بعوض ایک کروڑ سکہ رائج الوقت قرار پایا ہے ۔
کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟
نکاح کے بول سن کر نایرہ نے آنسو بھری آنکھوں سے انشاء کی طرف دیکھا
انشاء نے نم آنکھوں سے ہاں میں سر ہلایا ۔
تو نایرہ نے تین بار قبول کہ کر کانپتے ہاتھوں سے نکاح نامے پر دستخط کر دیئے ۔
مولوی صاحب کے جاتے ہی وہ دوڑ کر انشاء کے گلے لگی اور رونے لگی ۔
اسے لگا کہ جیسے وہ اب انشاء سے دور ہو جائے گی اور اس خیال سے ہی اس کی روح کانپ گیی کہ وہ اپنی دیدو سے دور ہو جائے گی ۔
💖💖💖💖💖💖
شاہ ریز خان ولد ولی تیمور خان آپ کا نکاح نایرہ صدیقی بنت غفور صدیقی کے ساتھ بعوض ایک کروڑ سکہ رائج الوقت قرار پایا ہے ۔
کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟
قبول ہے۔
قبول ہے ۔
قبول ہے ۔
مبارک ہو بڈی ۔
عرشمان شاہ ریز سے گلے ملتے ہوئے بولا ۔
باری باری سب اسے مبارک باد پیش کرنے لگے ۔
آج شاہ ریز خان کے نکاح پر شہر کے کافی بڑے بڑے لوگ ۔شامل تھے ۔
تبھی شاہ ریز کی نظر سامنے سے گل اور انشاء کے ساتھ آتی نایرہ پر پڑی جو دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی اس کی طرف آ رہی تھی ۔
شاہ ریز کو لگا اس پاس کی ہر چیز ساکت ہو گیی ہو اسے تو بس اپنی بٹر فلائی ہی نظر آ رہی تھی ۔جو پور پور اس کے لئے سجی تھی ۔
وہ بنا پلکیں جھپکے ایک ٹک اسے دیکھے گیا ۔
آج تو اس کے پاس اپنی بٹر فلائی کو دیکھنے کا جائز حق تھا تو کیوں نہ دیکھتا ۔
نگاہیں تو کسی اور کی بھی تھم گئی تھیں اور وہ کسی اور کی نہیں بلکہ ڈی ایس پی عرشمان خان کی تھیں ۔
جو انشاء میر کو دیکھ کر اسٹل ہو گیا تھا ۔
پھر لوگوں کی پرواہ کرتے ہوئے اس نے اپنی نظروں کو قابو میں کیا ۔
ادھر بیگم جواد دی جان اور جواد صاحب سے کہ رہی تھیں ۔
کاش ہم انشاء کو بھی اپنی بہو بنا سکتے ۔
مجھے تو بہت پیاری لگتی ہے کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم
اسے اپنے عرشمان کی دلہن بنا لیں ۔
وہ انشاء کو محبت سے دیکھتے ہوئے بولیں ۔
بیگم کیا آپ نہیں اپنے لاڈلے کو
وہ شادی نہیں کرنا چاہتا ابھی ۔اس نے یہ بات بہت پہلے ہی بتا دی تھی ۔ جواد صاحب نے اپنی بیگم کو سمجھاتے ہوئے کہا ۔
اب بیچارے جواد صاحب کو کیا معلوم کہ ان کے لاڈلے بیٹے نے لڑکی پسند کر لی ہے اور اس سے شادی کے شدید خواہش مند بھی ہیں ۔
یہ لڑکی ہے جو ان کو بھاؤ نہیں دے رہی ہے ۔
بیگ گراؤنڈ میں دھیمی آواز میں گانا چل رہا تھا ۔
تم جو آیے زندگی میں بات بن گئی ۔
عشق مذہب عشق میری ذات بن گئی ۔
نایرہ کے پاس آتے ہی شاہ ریز نے اسٹیج سے اتر کر اس کے سامنے ہاتھ پھیلایا جسے نایرہ نے کپکپاتے ہاتھوں سے تھام لیا ۔
اسے لا کر اسٹیج پر بٹھایا اور خود بھی ساتھ میں بیٹھ گیا ۔
انشاء جو نایرہ کو شاہ ریز کے پاس چھوڑنے کے بعد پلٹنے لگی تھی اچانک پیچھے کھڑے عرشمان سے ٹکرا گئی ۔
اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا ۔
وہ اس سے بحث سے بچنے کے لئے وہ کترا کر جانے لگی
وہ آج کے دن بحث نہیں کرنا چاہتی تھی ۔
اوہو کوئی تو آج بجلیاں گرا رہا ہے ۔
عرشمان نے اسے بولنے پر اکسانے کے لئے کہا ۔
دیکھو ٹھرکی آفیسر آج میری بہن کی شادی ہے تو میں تم سے بحث نہیں کرنا چاہتی سو پلیز تم مجھ سے دور رہو ۔
اور ہاں شادی میں شرکت کرنے آیے ہو تو کھاؤ پیو اور نکلتے بنو۔
وہ دانت پیستے ہوئے دھیمی آواز میں بولی ۔
اوہو۔ تمہاری بہن کی شادی ہے میرے بھائی سے اس کا مطلب ہم رشتے دار ہویے ،چلو پھر اسی بات پر ملاؤ ہاتھ ۔
وہ خوش ہوتے ہوئے بولا ۔
مطلب کہ اب اس کی دال گل سکتی ہے یہاں پے ۔
لیکن انشاء کو کوی خوشی نہیں ہویی تھی اس ٹھرکی آفیسر کو اپنے رشتے دار کے روپ میں دیکھ کر ۔
اس لئے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ گئی ۔
دلبر آنا تو آپ کو میرے ہی پاس ہے چاہے کتنا ہی راستہ کیوں نہ بدلیں ،وہ اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے بولا۔
اور پیچھے کھڑے ساحل اور گل کو تو شاک ہی لگ گیا
وہ کافی حیرانی سے ایک دوسرے کا منھ دیکھ رہے تھے ۔
نہیں مطلب کیا ہاں ،ان کا ایک بھائی جو گرل الرجک تھا اس کو عشق ہو گیا وہ بھی کوئی ایسا ویسا عشق نہیں بلکہ جنون سے بھرا عشق ۔ اور وہ شادی کر رہا ہے ۔
ایک ان کا دوسرا بھائی جو بولتا رہتا تھا کہ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی اس نے بھی لڑکی پسند کر لی ۔
بلکہ اسے بتانے کی بھرپور کوشش بھی جاری ہے ۔
اچھا بچو تو یہ سب ہو رہا ہے اب تو دی جان کو خبر دینی ہی پڑیگی۔
کیوں گل بکاؤلی ۔ اس نے گل کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے کہا ۔
ہاں سہی ک ہہ..
گل اس کی ہاں میں ہاں ملانے لگی تھی کہ اس کے لفظوں پر غور کرتے فورن اس کی طرف بھاگی لیکن وہ اس کے ہاتھ آنے سے پہلے ہی بھاگ گیا ۔
شاہ ریز کی نظریں بار بار اپنی بٹر فلائی کے خوبصورت سراپے سے الجھ رہی تھیں اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اپنی بٹر فلائی کو لے کر کہیں غائب ہو جایے۔
وہ اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ اس کا دل چاہا کہ وہ اس کو اپنے دل میں چھپا لے۔
نایرہ کو شاہ ریز کی نظروں سے عجیب سا محسوس ہو رہا تھا جسے وہ کوئی نام نہیں دے سکی ۔
وہ بار بار اپنے ہاتھ کی ہتھیلیاں مسلسل رہی تھی ۔
کہ اچانک شاہ ریز نے اس ہاتھوں کو اپنے مظبوط ہاتھوں کی قید میں لیا ۔
ہہے۔۔ بٹر فلائی آپ مجھ سے نرو س ہو رہیں ہیں کیا ؟
اس نے گمبھیر آواز میں اسکے کان کے پاس جھکتے سرگوشی کی تھی ۔
اس بوجھل سر گوشی پر نایرہ نے کھسک کر دور ہونے کی کوشش کی جس پر شاہ ریز نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر نزدیک کرتے ہوئے سرد آواز میں کہا ۔
پرنسیز آپ مجھ سے دور ہونے کی کوشش بھی مت کیجیے گا
کیوں کہ اب سے آپ میری ہیں ۔اور میں آپ کو اس بات کی بلکل اجازت نہیں دوں گا کہ آپ مجھ سے دور ہوں
سمجھ گییں آپ ؟
وہ اس کی کمر پر اپنے انگلیوں کی گرفت بڑھاتے ہوئے بولا۔
جس سے نایرہ کی سانس سینے میں اٹک گئی ۔
ج۔۔ جی ۔ وہ نم آنکھوں سے بولی
ہم گڈ ۔اینڈ سوری ماے انوسینٹ بیوٹی۔
تبھی اسٹیج پر دی جان گل اور ساحل کے ساتھ آییں تو شاہ ریز نے فورا اپنے اور نایرہ کے درمیان فاصلہ کرتے ہوئے بی جان کی طرف متوجہ ہوا ۔
تب جا کر نایرہ کی سانس میں سانس آیی ۔
شاہ ریز کے چھونے پر اس کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی تھی اور اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسے کیا ہو رہا ہے ؟
اس کے نزدیک آنے سے اس کے دل کی دھڑکنیں تیز کیوں ہو گیں تھیں ۔
ماشاءاللہ میری بیٹی تو بہت پیاری لگ رہی ہے ۔
دی جان نے اس کی نظر اتارتے ہوئے کہا ۔
ان کے تعریف کرنے پر وہ شرما گیی جس سے اس کا گلابی ہو گیا ۔
اوہو بھابھی تو ابھی سے شرما رہی ہیں ساحل شرارتی آواز میں بولا ۔
جس پر نایرہ نے ایک شرمیلی مسکان کے ساتھ سر جھکا لیا ۔
جس سے اس کے دائیں گال پر ڈمپل نمودار ہوا جس نے اس کی خوبصورتی میں اور چار چاند لگا دیا۔
شاہ ریز کا دل اس کی مسکراہٹ پر بے تحاشہ دھڑکا ۔
کافی دیر سے مہمان انہیں مبارکباد دینے آ رہے تھے ۔
نایرہ ایک ہی جگہ پر بیٹھے بیٹھے کافی تھی اور انشاء بھی اس کے پاس نہیں تھی کیوں کہ وہ مہمانوں کے ساتھ تھی گھر میں کوئی بڑا نہ ہونے کی وجہ سے اسے ہی سب دیکھنا پڑ رہا تھا ۔
تبھی شاہ ریز نے اس کی بے چینی محسوس کرتے ہوئے گل سے کہا کہ وہ نایرہ کو روم میں لے کر تاکہ وہ تھوڑا ریسٹ کر لے کیوں کہ رخصتی میں ابھی کافی وقت تھا ۔
ہاں میرا بچہ آپ جاؤ تھوڑا آرام کر لو کب سے ایک جگہ پر بیٹھی ہو تھک گئی ہو گی ۔
دی جان نے اس کی کیفیت محسوس کرتے ہوئے کہا ۔
شاہ ریز کا دل تو نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ اس کی نظر سے دور ہو لیکن اسے اس کے آرام کا بھی تو خیال تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرشمان کافی دیر ادھر ادھر نظر گھما رہا تھا لیکن انشاء اسے نظر نہیں آ رہی تھی ۔
جگر تو کسی ڈھونڈ رہا ہے ۔
اپنی دلبر کو ۔۔
کیا ۔۔۔
ارے میرا مطلب کہ یہ بھابھی کی بہن نظر نہیں آ رہی ہیں ۔
تجھے اس سے کیا کام ہے ؟
ارے اب سارے کام ان سے ہی تو ہیں ۔
اچانک ساحل وہاں ٹپکتے ہوئے بولا ۔
کیا مطلب یہ ہے بھائی کہ ہمارے آفیسر بھائی کو آپ کی طرح عشق کا بخار ہو گیا ہے وہ بھی ایک سو ایک ڈگری۔
اور وہ بھی آپ کی سالی صاحبہ سے ۔وہ مزے سے چٹخارہ لیتے ہوئے بولا کیوں کہ آج ہی تو اسے موقع ملا تھا اس کی ٹانگ کھینچنے کا ایسا موقع بار بار تھوڑی نہ ملنا تھا ۔
جگر یہ ساحل کیا بول رہا ہے
بڈی یہ صحیح کہ رہا ہے ۔
تیرے جگر کو دل کی بیماری ہو گیی جس کا علاج صرف ایک انسان کے پاس موجود ہے
عرشمان دانت نکالتے ہوئے بولا ۔
عرش کیا تجھے سچ میں پیار ہو گیا ہے وہ بھی انشاء میر سے۔
شاہ ریز حیران ہوتے ہوئے بولا ۔
خان تجھے کیا لگ رہا ہے کہ میں مزاق کر رہا ہوں ۔
نہیں یار میں تو صرف کنفرم کر رہا تھا کیوں کہ بڑی خطرناک جگہ تونے اپنا دل لگایا ہے ۔
ارے بڈی خطروں سے کھیلنا تیرے یار کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔اور ویسے بھی جہاں عشق ہو وہاں رسک نہ ہو یہ تو ممکن نہیں ۔
ویسے خان تیری شادی ہے اور کوئی جشن نہیں ہو رہا ہے
یہ کیا بات ہوئی ۔
سہی کہ رہے ہیں عرش بھائی مجھے بھی یہ سونی سونی شادی اچھی نہیں لگ رہی ہے ،آخر کو میرے پیارے بھائی کی شادی ہے گل نایرہ کو روم میں چھوڑ نے کے بعد ان کے پاس آتے ہوئے بولی ۔
گل میری جان آپ کو تو پتا ہے نا کہ مجھے یہ سب پسند نہیں ہے۔
ہاں اگر آپ لوگ کا دل ہے تو آپ اپنا یہ ارمان میرے ریسیپشن پر پورا کر لیجئے گا ۔
جو ابھی نہیں کچھ ٹایم بعد ہوگا ۔
اوکے بھائی ۔گل خوشی سے چہکتے ہوئے بولی ۔
ویسے بھائی اگر آپ چاہیں تو میں آپ کی پرائیویٹ ملاقات کرا سکتی ہوں اپنی پریٹی بھابھی سے ۔
گل شاہ ریز کے پاس جھکتے آہستہ آواز میں بولی ۔
گڑیا یہ کیا کھسر پھسر کر رہی ہو ہم بھی یہیں موجود ہیں ہمیں بھی بتاؤ ۔
عرش نے اسے سرگوشی کرتے ہوئے دیکھ کر پوچھا ۔
کچھ نہیں بھائی میں تو بھای سے بول رہی تھی کہ اگر انہیں بھابھی سے ملنا ہے تو بتا دیں میں ملوا دوں گی ۔
اور بدلے میں بھایی سے کیا لوگی ذرا یہ بھی ارشاد فرما دو ۔
ساحل نے دانت پیستے ہوئے کہا ۔
ہا ۔۔میں تمہیں اتنی لالچی لگتی ہوں زرافے ۔گل کا تو منھ ہی کھل گیا ساحل کی بات پر ۔
نا۔ نا ۔ڈیئر کزن مجھے تو تم اس سے بھی زیادہ لالچی لگتی ہو ،یاد نہیں پچھلی بار ۔۔۔
ساحل تم باز نہیں آؤگے ؟
عرشمان اسے ڈپٹتے ہوئے بولا ۔
گل جھٹ سے معصوم سی شکل بنا لی تاکہ اسے ڈانٹ نہ پڑے ۔
تبھی وہاں پر انشاء آ گئی اور عرشمان خان ساحل کو ڈانٹنا بھول کر اسے دیکھنے میں مصروف ہو گیا ۔
مسٹر خان مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ۔
جی بولیں ۔
یہاں نہیں کیا آپ میرے ساتھ چل سکتے ہیں ۔۔
وہ ایک اچٹتی نظر عرشمان پر ڈال کر بولی ۔
یا شیور ۔
مجھے نایرہ کے پاسٹ کے بارے میں آپ کو کچھ بتانا تھا ۔
میں آپ کو نکاح کے پہلے ہی بتانا چاہتی تھی جسکے لئے میں آپ کو کل کال بھی کی تھی لیکن آپ نے کہا جو بھی بات ہو نکاحِ کے بعد ہوگی ۔
کل انشاء نے کافی سوچنے کے بعد فیصلہ کیا کہ اسے شاہ ریز خان کو نایرہ کے پاسٹ کے بارے میں بتا دینا چاہیے تاکہ آگے چل کر نایرہ کی زندگی میں کوئی پرالم نہ ہو ۔
اس لئے کل اس نے کال بھی کی تھی لیکن شاہ ریز نے کہا کہ جو بھی بات ہے کل وہ آمنے سامنے کر لی جائے گی۔
جی بولیں کیا بتانا ہے ۔
اور پھر جیسے جیسے انشاء بتاتی گئی ،شاہ ریز خان کا چہرہ خون چھلکانے لگا ۔
اس کی آنکھوں سے شرارے پھوٹتے محسوس ہویے۔
غصہ ضبط کرنے کے لئے اس نے اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ لی ۔
اس کے چہرے کو دیکھ کر انشاء کو لگا کہ اسے یہ بات پہلے بتا دینی چاہئے تھی۔ اب تو نکاح بھی ہو گیا ہے ۔
اگر نایرہ کے ساتھ کچھ بھی غلط ہوا تو وہ خود کو کبھی
معاف نہیں کر پایے گی ۔
مس انشاء آپ مجھے اس انسان کی پوری انفارمیشن کل بھیج دیجئے گا ۔
اس نے سرد آواز میں کہا ۔
تو انشاء چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگی ۔
شاہ ریز نے اسے اپنی طرف تکتے دیکھا تو کہا ۔
انشاء آپ یہ ڈر اپنے ذہن سے نکال دیں کہ میں کبھی انہیں ان کے پاسٹ کی وجہ سے اپنی زندگی سے نکال دوں گا ۔
ایسا کبھی نہیں ہوگا ،وہ تاریک زندگی میں روشن ستارہ بن کر آئیں ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اپنی زندگی سے اس روشنی کو ختم کر دوں ۔
آپ ٹرسٹ کریں آج سے وہ میری ذمداری ہیں ،اور میں ان پر کوئی آنچ نہیں آنے دوں گا یہ میرا آپ سے وعدہ ہے ۔
چلیں اب رخصتی کا بھی وقت ہو گیا ہے ۔
وہ جو اس کی آنکھوں سے چھلکتی سچائی کو دیکھ رہی تھی کہ آیا وہ سچ ہیں یا۔ ۔۔
اس کے بلانے پر انشاء نے چونک کر اپنی نظروں کا زاویہ بدلہ ۔
ہہہم چلیں ۔
سچ بتانے کے بعد وہ کافی ہلکی پھلکی ہو گیی تھی ۔
شاہ ریز اور انشاء کے جانے کے بعد عرشمان خان کافی دیر سے پہلو بدل رہا تھا ۔
نجانے کیوں اسے تجسس ہو رہا تھا کہ کیا بات کرنے کے لئے وہ شاہ ریز کو لے گئی ہے ۔
تبھی وہ دونوں آتے ہوئے نظر آئے ۔
پھر تھوڑی ہی دیر بعد رخصتی کا شور ہونے لگا ۔
رخصتی کے وقت نایرہ انشاء سے ملتے ہوئے بہت زیادہ رو رہی تھی ۔
دیدوو ۔۔۔م۔۔مجھے ۔۔۔ک۔۔۔۔کہیں۔۔ن ۔۔ نہیں۔۔ج۔۔ جانا ،پلیزز دیدوو آپ مجھے اپنے پاس رکھ لو ۔
میں نے نہیں جانا کہیں بھی وہ بے تحاشہ روتے ہوئے ہچکیوں کے درمیان بولی ۔
ہنی میری جان ایسے روتے نہیں ہیں ،اور ویسے بھی تم دور کہاں جا رہی ہو آدھے گھنٹے کی ڈرائیو پر تو ہوگی جب دل کرے آجانا ملنے اور میں بھی تو آیا کروں گی اپنی ہنی سے ملنے ،بھلا میں رہ سکتی ہوں اپنی گڑیا کے بنا۔
وہ اپنے آپ کو مظبوط کرتے اسے سمجھاتے ہوئے بولی ،ورنہ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بھی اپنی ہنی سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رویے ۔آنسو ظبط کرنے سے اس کی آنکھیں سر خ ہو گیی تھیں۔
جب سے وہ ملی تھی پہلی بار وہ دونوں الگ ہو رہی تھیں۔
نایرہ کو روتے ہوئے دیکھ کر شاہ ریز کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس کی آنکھوں سے آنسو چرا کر خوشیوں کی چمک بھر دے ۔
نایرہ کی آنکھوں سے ٹپکتا ہر آنسو اس کے دل پر گر رہا تھا ۔
اس وقت وہ ضبط کی انتہا پر تھا ۔
نایرہ کو روتے ہوئے دیکھ کر گل بھی رونے لگی ۔
ساحل جو اس کے پاس کھڑا تھا بولا۔۔
باسی پھول تم دیکھ نہیں رہے کہ وہ کتنا رو رہی ہیں ،
تو مجھے بھی رونا آگیا نا ۔
وہ الٹے ہاتھ کی پشت سے آنکھیں رگڑتے ہوئے بولی ۔
ہہہنہ تم لڑکیوں کو سمجھنا مشکل ہے ہر چھوٹی بڑی بات پر رونے لگتی ہو۔
ہم تمہاری طرح پتھر دل نہیں ہوتی نا اس لیے ۔
اوے بچوں تم لوگ یہاں پے بھی شروع ہو گئے ۔
رومی چاچی ان کے پاس آ کر افسوس کرتے ہوئے بولیں ۔
گل اور رومی چاچی نے آگے بڑھ کر نایرہ کو انشاء سے کرتے ہوئے اسے گاڑی میں بیٹھایا ۔
دولہن کے بیٹھتے ہی سب گھر والے بھی اپنی گاڑی کی طرف بڑھے ۔
اس مرتبہ گل بھاگ کر عرشمان کی گاڑی میں بیٹھ گئی تاکہ اس کو ساحل کی صابو دانی میں نہ بیٹھنا پڑے ۔
ایسا نہیں تھا کہ اس کی گاڑی چھوٹی یا کم قیمت کی تھی ۔
شاہ ریز نے اس کی برتھ ڈے پر اسے کافی مہنگی ترین گاڑی گفٹ کی تھی ۔
یہ تو گل اسے ایویں ہی چڑھاتی تھی کیوں کہ صابو دانی بولنے ساحل کافی چڑھتا تھا ۔
سب گھر والے آگے بڑھ گئے ۔
شاہ ریز نے کہا کہ وہ خود گاڑی ڈرائیو کر کے آیے گا اس لئے نایرہ کو بھی آگے کی سیٹ پر بیٹھا یا تھا ۔
وہ چلتا ہوا آکے گاڑی میں بیٹھا تو اس کے کانوں میں نایرہ کی روتی ہوئی آواز پڑی ۔
ہیے ۔۔بٹر فلائی آپ اب بھی رو رہی ہو ؟
وہ اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ کی نرم گرفت میں لیتے ہوئے بولا ۔
مجھے رونا آ رہا ہے تو میں روونگی نا ۔وہ ہونٹ باہر نکال کر بولی ۔
وہ مسلسل اپنی دونوں آنکھوں کو مٹھیوں سے مسل رہی تھی ۔
پرنسیز آپ نے اپنی خوبصورت آنکھوں کی کیا حالت کر لی ۔وہ۔ اس کے ہاتھ ہٹاتے آنکھوں پر پھونک مار کر بولا ۔
اچھا اب رونا بند کریں ،آپ تو گڈ گرل ھو نا۔
نہیں میں آپ کی بات نہیں مانوں گی ۔
آپ اچھے نہیں ہو پرنس ،آپ نے مجھے میر ی دیدو سے دور کر دیا میں آپ سے بات نہیں کرونگی ۔
وہ اس کے ہاتھوں کو جھٹکتے ہوئے بولی ۔
اس کے ہاتھ جھٹکنے پر شاہ ریز کو بے پناہ غصہ آیا ۔
اس نے اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا اور اس کے کانوں میں سرد سی سرگوشی کی ۔
بٹر فلائی آج آپ نے یہ حرکت کر لی لیکن آیندہ کبھی مت کرنا ورنا مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔
سمجھ گییں آپ ۔
ج۔۔جی۔
اس کے لب مسلسل نایرہ کی کان کی لو سے مس ہو رہے تھے ،جس سے نایرہ کو کافی گھبراہٹ ہو رہی تھی ۔
اس کا دل مسلسل دھک دھک کر رہا تھا ۔
شاہ ریز بڑے غور سے اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا ۔
اس کا یہ سجا سنورا روپ اس کے جذبات بھڑکا رہا تھا ۔
کافی دیر سے وہ اس کے کپکپاتے ہونٹوں کو دیکھ رہا تھا ۔
اور پھر اچانک جھکتے ہوئے اس نے انہیں اپنے ہونٹوں کی گرفت میں لے لیا ،اور کافی دیر تک اپنے لبوں کی پیاس بجھاتا رہا ۔
نایرہ اس کی حرکت سے کانپ کر رہ گئی ۔اور اپنے آپکو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ پیچھے کرنے لگی ،
جب شاہ ریز کو لگا کہ اب وہ سانس نہیں لے پا رہی ہے تب جاکر اسے چھوڑا ۔
جس پر کھانستے ہوئے نایرہ نے اپنا سر اس کے کندھے پر رکھ دیا ،اس کا پورا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا ۔
افففف میری بٹر فلائی تم میری اتنی سی جسارت برداشت نہیں کر پارہی تو ساری زندگی کے لیے میرا جنون کیسے برداشت کر پاؤ گی ہہہم ۔۔
شاہ ریز اس کے نم لبوں پر انگوٹھا پھیرتے ہوئے بولا ۔
پھر پبلک پلیس کا خیال کرتے ہوئے اس نے گاڑی گھر کی طرف موڑی ۔
سارا راستہ نایرہ نے کوئی بات نہیں کی۔اس نے شرم کی وجہ سے اپنا چہرہ کھڑکی کی طرف کیے رکھا۔
شاہ ریز نے بھی اس کی شرم اور جھجھک سمجھتے ہوئے دوبارہ اس سےکوئی چھیڑ کھانی نہیں کی۔
شاہ ریز اور نایرہ جب خان ولا پہونچے تو ان کا بہت ہی شاندار طریقے سے ویکم کیا گیا ۔
نایرہ تو بڑی ہی دل چسپی سے ادھر ادھر نظریں گھما رہی تھی کیوں کہ خان ولا اسے بہت زیادہ پسند آیا تھا جو کہ
وہائٹ ماربل سے بنا ہوا تھا اور نایرہ کو تو سفید رنگ کی ہر چیز بھاتی تھی ۔
بیٹا آپ کو اپنا نیا گھر کیسا لگا ؟
دی جان نے نایرہ کو ادھر ادھر دیکھتے دیکھ کرکہا ۔
واو دی جان ۔۔ بہت خوبصورت ہے ۔
مجھے بہت اچھا لگا کیا میں پورا دیکھ سکتی ہوں ؟
وہ معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولی ۔
شاہ ریز تو اپنی بٹر فلائی کی کو دیکھتا رہ گیا ۔
مطلب کہ اس کی نئی نویلی دلہن شادی کی پہلی رات کو اپنا نیا گھر دیکھنا چاہتی ہے ۔
اسے اس وقت اپنے ولا سے کافی جیلسی فیل ہو رہی تھی۔
کیوں کہ اس کی بٹر فلائی اس کو دیکھنے کے بجائے اس کو اتنی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی ۔
گل آپ نایرہ کو روم میں لے جاؤ ،کیوں یہ کافی تھک گئی ہیں ۔
شاہ ریز نے اس کی توجہ ہٹانے کے لئے کہا ۔
ارے نہیں نہیں ۔میں ابھی پورا ولا دیکھوں گی پھر جاؤں گی ۔
نہیں آپ تھک گئی ہیں ۔اس لئے آپ روم میں جاؤ گی اور اب کوئی اگر مگر نہیں وہ اس خوبصورت چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔
شاہ ریز کو کافی مشکل لگ رہا تھا اپنے جذبات پر قابو پانا جو اس کو اس طرح سے سجا سنورا دیکھ کر بے قابو ہو گیے تھے ۔اس لئے اس نے تھوڑا روڈ لہجے میں کہا ۔
جس پر نایرہ منہ بسور کر گل کے ساتھ چلی گئی ۔
اسے منہ بناتا دیکھ کر شاہ ریز کے چہرے پر زندگی سے بھر پور مسکراہٹ آئی جسے اس نے اپنے دبا لیا ۔اور اسے دکھتا رہا جب تک وہ روم میں چلی نہیں گیی۔
ساحل اور عرشمان کافی معنی خیزی سے شاہ ریز کی طرف دیکھ رہے تھے ۔
کیا ہے ؟ تم دونوں مجھے گھور گھور کر کیوں دیکھ رہے ہو ۔
شاہ ریز انہیں اپنی طرف دیکھتے دیکھ کر بولا ۔
ہم تو بس یہ چیک کر رہے تھے کہ یہ ہمارا وہی شاہ ریز خان ہے نا جسے لڑکیوں سے سخت الرجک تھی ۔۔
اور کہاں اب۔۔۔۔۔۔۔۔
عرشمان شرارت سے بولتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی۔
ارے عرش بھائی سمجھا کرو نا یار یہ عشق چیز ہی ایسی ہے جو اچھے خاصے بندے کو بھی دیوانہ بنا دیتا ہے ۔
ساحل نے عرشمان کو آنکھ ونگ کرتے ہوئے کہا ۔
پھر دونوں ہاتھ پر تالی مار کر ہنسنے لگے ۔
ہہم یہ تم دونوں کچھ زیادہ نہیں بول رہے ہاں؟
وہ ان کی بات سن کر اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا۔
ارے بچوں آپ لوگ کو سونا نہیں ہے کیا جو اتنی دیر سے باتوں میں لگے ہوئے ہو ۔
دی جان جو انہیں باتیں کرتا دیکھ کر بولیں ۔
ارے دی جان سونا کیوں نہیں ہے ؟اتنا زیادہ تھک گیا ہوں میں تو سونے جا رہا ہوں ۔
ساحل نے ایک زبردست انگڑائی لیتے ہوئے کہا ۔
ارے سووگے کیوں نہیں سارا کچھ خود تم نے ہی تو کیا ہے۔
گل نے اس کی بات سن کر پاس آتے ہوئے بولی ۔
دیکھو گل بکاؤلی میں اس ٹایم تم سے بحث نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ میں کافی تھک گیا ہوں ۔
اوہ زرافے تم۔۔۔۔
ارے اب تم لوگ پھر سے شروع مت ہوجانا ۔
عرشمان انہیں ڈپٹتے ہوئے بولا ۔
سب لوگ اپنے روم میں جاؤ اور شاہ ریز بیٹا تم بھی جاؤ نایرہ اکیلی ہے روم میں ۔
دی جان نے ان سب کو کہا ۔
اوکے دی جان ۔شب بخیر ۔
سب لوگ ایک ایک کر کے اپنے روم میں جانے لگے کہ اچانک کچھ یاد آنے پر گل شاہ ریز کے پاس آیی ۔
بھائی میرا نیگ دیں ۔
ہیں یہ کیا ہوتا ہے ؟
جو تمہیں نہیں مل سکتا ۔
گل ساحل کو زبان دکھاتے ہوئے بولی ۔
گل بچے آپ کو کیا چاہیے بتاؤ جلدی ۔
ہاں گڑیا بتا دو کیوں کہ ہمارے دولہا صاحب کو کافی جلدی ہے روم میں جانے کی ۔
عرشمان شرارتی لہجے میں بولا ۔
یہ لو آپ رکھ لو شاہ ریز نے اپنا پورا والٹ گل کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا ۔
بھائی ناٹ فیر آپ نے اس گل کی بچی کو پورا والٹ دے دیا اور مجھے کچھ بھی نہیں ۔
ارے او کھوتے یہ بہنوں کا نیگ ہوتا ہے جو ہر بھائی اپنی بہن کو دیتا ہے ۔
جواد صاحب ان کے پاس آتے ہوئے بولے ۔
اور ساحل بے چارہ منہ بسور کر رہ گیا ۔
اور گل اسے والٹ دکھا کر جلاتے ہوئے اپنے روم میں چلی گئی ۔
چاچو آپ لوگ بھی روم میں جاییں میں دی جان کو ان کے کمرے میں چھوڑ دیتا ہوں ۔
اوکے بیٹا ۔
آن
خان میرے بچے میں بہت زیادہ خوش ہوں تمہارے لیے اب موت بھی آجائے تو کوئی غم نہیں ۔
دی جان میں نے کتنی بار منع کیا ہے کہ یہ مرنے کی باتیں مت کیا کریں ابھی تو آپ کو بہت سارا جینا ہے ۔
بیٹا موت تو برحق ہے ہر کسی کو آنی ہے اس میں اتنا دکھی ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟
دی جان جب آنی ہے آ جائے گی ،لیکن آپ یوں بار بار کہ کر ہمیں تکلیف مت دیا کریں ۔
وہ ان کے سامنے دو جانو بیٹھ کر ان کی گود میں رکھے ہاتھوں کو پکڑ کر بولا ۔
چلو نہیں کرتی میں کوئی ایسی ویسی بات ۔
ہہم گڈ ۔
ویسے دی جان مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ۔
ہاں بولو بیٹا ۔۔
میں چاہتا ہوں کہ آپ سب یہیں میرے خان ولا میں رہیں ۔
دی جان میں جان میں وہاں نہیں جا سکتا کیوں کہ وہاں پر میں نے بہت کچھ کھویا ہے اور جب جب میں وہاں پر جاؤں گا مجھے ہر بار اپنا نقصان یاد آیے گا ۔
اسلیے میں چاہتا ہوں آپ سب یہیں میرے ساتھ رہیں ۔
بیٹا میں کل جواد اور راحم سے بات کرتی ہوں ،اور اب تم اپنے روم میں جاؤ وہ بچی کب سے اکیلی ہے۔
نیی جگہ ہے اسے ڈر بھی لگ رہا ہوگا ۔
اوکے دی جان شب بخیر ۔
وہ ان کے پیشانی پر بوسہ دے چلا گیا ۔
وہ جیسے ہی روم میں داخل ہوا اسے نایرہ کی گھٹی گھٹی سسکیاں سنائی دی اس نے آواز کی سمت نظر کی تو دیکھا کہ نایرہ بیڈ کے سرہانے سکڑ سمٹ کر بیٹھی ہوئی رو رہی تھی اور اس کا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا ۔
وہ تڑپ کر اس کی طرف بھاگا ۔
میری جان کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں ؟
وہ اسے باہوں میں بھرے بے تاب لہجے میں بولا ۔
و۔ہ ۔۔وہ۔ م ۔۔جھ۔ے دیدو ۔۔کی یاد آ رہی ہے ۔
م۔ میں کبھی ان سے دور نہیں ہویی ۔لیکن ۔۔آ۔ج۔۔و۔ہ میرے پاس ن۔ہیں ۔۔تو مجھے ۔۔رونا آ رہا ہے ۔
وہ ہچکیاں لیتے ہوئے بولی ۔.
رونے سے کا چہرہ سرخ ہوگیا
اس میں اتنا رونے والی کیا بات میری جان ۔
صبح وہ آینگی تو آپ ان سے مل لینا ۔
وہ پیار سے اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے بولا ۔
پرنس ۔۔مجھے کیٹی کی بھی یاد آ رہی ہے نا۔۔اس نے اپنا ایک اور دکھ بتاتے ہوئے کہا ۔
اففف اب یہ کون سا رقیب ہے میرا ۔
پرنس رقیب نہیں کیٹی میری کیوٹ شی کیٹی ۔
وہ معصومیت سے بولی ۔
افف میری بٹر فلائی کو میرے علاوہ ہر کوئی یاد ہے یہاں تک کہ ایک بلی بھی ،واہ بیٹا شاہ ریز تمہاری تو خوب گزرے گی اپنی معصوم بیوی کے ساتھ ۔
وہ خود سے بڑبڑایا ۔
پرنس آپ صبح ہوتے ہی میری کیٹی لا دینا ۔وہ بھی مجھے مس کر رہی ہوگی نا۔
ویسے بٹر فلائی آپ نے تو مجھے اپنے بارے میں کچھ بتایا ہی نہیں اب تو دوست بھی بن گئے ہیں ۔
شاہ ریز اس کا دھیان بلی سے ہٹانے کے لئے بولا۔
اوہ یہ تو میں بھول گئ تھی ۔
پرنس مجھے ہر فلیور میں چاکلیٹ، آئس کریم بہت بہت بہت زیادہ پسند ہے ۔ مجھے بارش میں نہانا نہیں پسند مجھے بس بارش کی بوندوں کو اپنی مٹھیوں میں بند کرنا بہت اچھا لگتا ہے ۔۔مجھے دیدو سے روز رات کو کہانیاں سننا اچھا لگتا ہے ۔
اور مجھے باربی پرنسیز مووی دیکھنا اچھا لگتا ہے ۔
ہہم اور مجھے سنگنگ کرنا بہت اچھا لگتا ہے ۔
پرنس میں آپ کو بھی سناؤں گی۔ اوکے ۔
شاہ ریز خان تو اسے کہاں سن رہا تھا وہ تو اس کے ہونٹوں کو دیکھ رہا تھا جو ریڈ کلر کی لپسٹک سے سجے ہوئے اس کے جذبات بھڑکا رہے تھے ۔
پرنس آپ سن رہے ہو ۔
افف آپ کہاں کھو گئے ہو ۔وہ اسے جھنجھوڑتے ہوئے بولی ۔
آ۔۔کیا ہوا ۔ وہ ہوش میں آتے ہوئے بولا ۔
اچھا اب آپ چینج کر لو پھر سونا بھی تو ہے ۔
اوکے ۔
وہ بیڈ سے اٹھ کر جانے لگی تھی کہ اچانک پاؤں مڑا اور وہ لڑکھڑا کر شاہ ریز کے اوپر گر گیی ۔
انشاء کافی دیر سے سونے کی کوشش کر رہی تھی لیکن نیند تھی کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔
اسے رہ رہ کر نایرہ کا خیال آرہا تھا ۔
پتا نہیں کیسی ہوگی وہ ۔
کیا میں نے ٹھیک کیا نایرہ کی شادی کرکے ؟
اس نے اپنے آپ سے سوال کیا ۔
یا اللہ میری نایرہ بہت معصوم ہے آپ اس کی حفاظت کرنا ،اس کے ساتھ کبھی کچھ غلط نہ ہونے دینا ۔
اگر اس کے ساتھ کچھ بھی غلط ہوا تو وہ سہ نہیں پایے گی ۔
وہ بہت معصوم ہے وہ اس دنیا کے لوگوں سے واقف نہیں ہے ۔۔
یا اللہ تو ہر پل اس کے ساتھ رہنا ۔
انشاء اللہ سے دعا مانگ کر کافی بہتر محسوس کر رہی تھی ۔
وہ نایرہ کے ساتھ بتایے لمحوں کو یاد کرتے ہوئے لان میں چہل قدمی کر رہی تھی ۔
تبھی اچانک اس کا فون بجنے لگا ۔
ہیلو ۔۔وہ اپنے مخصوص لہجے میں بولی ۔
میم وہ پاکستان آ رہا ہے ۔
اور وہ یہاں کسی خاص مقصد کے لیے آ رہا ہے ۔
ہمم آنے دو اسے ۔
مجھے تکلیف دینے والے کو بھی تکلیف ہوگی کیوں کہ کچھ لوگ مجھ سے معاف نہیں کیے جاینگے ۔
اچھا تم ایک کام کرو اس کی فلائٹ ٹایم اور وہ کہاں اسٹے کرے گا یہ سب پتہ کرکے مجھے انفارم کرو ۔
اوکے۔۔۔
خود پہ کھلتی ہوں خود میں بند ہوں میں ۔
کچھ ایسی ہی خود پسند ہوں میں ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
شاہ ریز نے کروٹ لے کر اسے اپنے بازوؤں کے حصار میں قید کیا ۔
پتہ ہے بٹر فلائی ۔
نکاح نامے پر تمہاری سنگت کے اعتراف میں دستخط کرتے ہوئے میرے دل نے چپکے سے کہا ۔
فایالای ربی کما تکذبان۔
تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔
بٹر فلائی ۔
میرے لئے پیار محبت عاشقی یہ سب الفاظ تھے ۔
مگر جب سے تم سے ملا ہوں مجھے ان لفظوں کے معنی مل گئے ہیں۔
اگر میں زندگی میں تمہیں ایک چیز دے سکا تو میں تمہیں اپنی آنکھوں سے تمہیں دیکھنے کی صلاحیت دینا چاہوں گا ۔تاکہ تم محسوس کر سکو کہ تم میرے لئے کتنی خاص ہو ۔
شاہ ریز اس کے کانوں میں میٹھی سی سرگوشی کرتے ہوئے بولا ۔
نایرہ شاہ ریز کی سرگوشیاں سنتے کانپ رہی تھی
اچانک شاہ ریز نے اس کا رخ اپنی طرف کرتے ہوئے اس کے سرخ بھرے بھرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی گرفت میں لے لیا اور اس کی سانسوں کو قطرہ قطرہ پینے لگا پیاس تھی کہ بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔
نایرہ تو اس کے اس اقدام پر کانپ کر رہ گئی ۔اس کے بدن میں بجلی سی دوڑ گئی اور وہ اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی ۔
لیکن اسے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے شاہ ریز آج اس کی جان لے کر ہی رہے گا ۔
اسے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ا ور اس کا دم گھٹنے لگا تب جاکر شاہ ریز نے اسے آزاد کیا ۔
اس کے چھوڑتے ہی اس نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر رونا شروع کر دیا ۔
ہیے ۔بٹر فلائی آپ رو کیوں رہی ہو۔
شاہ۔۔۔ آپ۔۔ بہت۔۔ گندے ۔۔۔ہو۔۔۔ آپ نے ۔۔۔میرے۔۔۔۔ لپس پر کاٹی ۔۔۔کی۔۔۔ میں۔۔۔ آپ ۔۔۔۔سے ۔۔۔۔بات۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔کروں گی اور ۔۔۔۔اپنی ۔۔۔دیدو۔۔کے پاس چلی ۔۔۔جاوں گی۔۔اور انہیں سب بتاؤں گی۔
وہ روتے ہوئے ہچکیوں کے درمیان بولی ۔
افففف میرا سوری میں نے آپ کو ہرٹ کیا ۔
لیکن پرنسیز آپ ہم دونوں کی کویی بات کسی کو بھی نہیں بتایگی کسی کو بھی مطلب اپنی دیدوو کو بھی نہیں ۔۔
کیوں۔۔۔ کیوں ۔۔نہیں بتاؤں گی میں بتاؤں گی کہ آپ گندے پرنس ہو اور آپ نے میرے لپس پر کاٹی کی ہے ۔
وہ ضدی بچے کی طرح بولی۔۔
شاہ ریز کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسے کس طرح سمجھایے۔اسے نہیں پتہ تھا کہ اس کی بیوی اتنی معصوم ہوگی ۔عمر تو اس کی انیس سال کی تھی لیکن اس کے اندر بچوں جیسی معصومیت تھی جسے ان سب باتوں کی سمجھ نہیں تھی ۔
دیکھو بٹر فلائی آپ اور میں فرینڈ ھیں نا اور ہسبینڈ وائف بھی تو آپ ہم دونوں کی کویی بات کسی کو بھی نہیں بتایگی ۔
اگر آپ نے بتای تو اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاینگے ۔
اور آپ تو گڈ گرل ھو نا تو اللہ تعالیٰ کو ناراض نہیں کروگی ۔
ہاں میں گڈ گرل ہوں میں کسی کو نہیں بتاؤں گی ۔
ویری گڈ میری جان ۔اچھا اب آؤ چلو سوتے ہیں ۔
شاہ ریز نے سوچ لیا تھا کہ تک نایرہ کو اس رشتے کی سمجھ نہیں آ جاتی وہ اس رشتے کو آگے نہیں بڑھاے گا ۔
لیکن چھوٹی موٹی گستاخیاں کر ہی سکتا ہے ۔
اس نے نایرہ کو اپنے ساتھ لٹا کر اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا جس کی وجہ سے وہ بہت جلد سو گیی ۔
اس نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور خود بھی سونے کی کوشش کرنے لگا۔
تیری طلب کی حد نے کچھ ایسا جنون بخشا ہے
کہ ھم خود کو بھول بیٹھے ہیں تمہیں یاد کرتے کرتے ۔
عرشمان کافی دیر سے انشاء کے بارے میں سوچ رہا تھا وہ جب بھی اسے دیکھتا تھا اسے لگتا تھا کہ جیسے اس سے نئے سرے سے عشق ہو گیا ہو ۔
اس کے بارے میں وہ بے بس تھا ۔
لاکھ سمجھانے کے بعد بھی اس کا دل اسی کے نام کی مالا جپتا تھا ۔
من کو سمجھایا بہت یہ عشق وشق سے دور رہو ۔
پر یہ من ہی من میں اپنی منمانی کر بیٹھا ۔
مکمل عشق تب ہوتا ہے
جب عشق کی بانہوں میں خود عشق ہوتا ہے ۔
شاہ ریز کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ نایرہ پوری طرح اس کے اوپر پھیل کر سو رہی تھی اور اپنا چہرہ اس کے سینے میں چھپایا ہوا تھا ۔
شاہ ریز کے ہونٹوں پر ایک میٹھی سی مسکراہٹ چھا گئی ۔
اس نے آہستہ سے کروٹ لے کر اس کو آرام سے سیدھا کرکے سلایا اور دائیں بائیں طرف ہاتھ رکھ کر اس کے چہرے پر جھکا اور اس کی پیشانی پر نرمی سے بوسہ دیا ۔
مائی بٹرفلائی آپ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ میرے دل و دماغ پر چھاتی جا رہی ہو اورآپ کا عشق میری رگوں میں خون بن کر گردش کر رہا ہے ۔
آپ کے آنے سے پہلے میری زندگی میں سوائے اندھیروں کے کچھ نہیں تھا لیکن آپ کے آنے سے میری زندگی میں ہر طرف روشنی چھا گئی ۔آپ اپنے نام کی طرح ایک چمکتا ہوا ستارہ ہو ۔
آپ میری زندگی کا برائٹ اسٹار ہو جس نے میری زندگی اور دل کو روشن کر دیا ہے ۔
آپ مجھ سے کبھی دور مت جانا پرنسیز ورنہ یہ شاہ ریز خان جی نہیں پایگا۔
وہ اس کے چہرے پر اپنی محبت اور دیوانگی کے پھول کھلاتے ہوئے بولا ۔
نایرہ ابھی بھی سو رہی تھی ۔
اس کے چہرے پر بچوں جیسی معصومیت تھی ۔اس کے چہرے کو دیکھتے اچانک شاہ ریز کو انشاء کی باتیں یاد آییں جو اس نے نایرہ کے پاسٹ کے بارے میں بتاییں تھی ۔
اس کا چہرا غصے سے سرخ ہو گیا ۔
بٹر فلائی آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا اور اگرکسی نے پہونچانے کی کوشش کی تو پھر اسے شاہ ریز خان کے کہر سے اس دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا پائے گی۔
آپ میرا دل ہو آپ اس دل کی آتی جاتی سانسوں کی ضمانت ہو۔
وہ اس کے چہرے پر اپنی گرم سانسیں چھوڑتے ہوئے بولا ۔
اچانک نایرہ کسمسایی اور مندی آنکھوں سے دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولی ۔
گڈ مارننگ پرنس ۔۔
گڈ مارننگ پرنسیز ۔
جلدی سے آپ فریش ہو جاؤ کیوں کہ آپ کی دیدو آنے والی ہیں ۔
اوہ ۔۔ہ میں تو بھول گئی دیدوو آنے والی ہیں ۔
میں ابھی فریش ہو کر آتی ہوں وہ فورن واش روم کی طرف بھاگی ۔
لیکن دروازے پر ہی رک گیی ۔
پرنس آپ نے بولا تھا آپ صبح میرے اٹھنے سے پہلے کیٹی کو منگوا دیں گے ۔
لیکن کیٹی تو نہیں ہے یہاں ۔
نایرہ یاد آنے پر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی ۔
اور شاہ ریز خان تو اس کیٹی کو من ہی من کوسا جس وجہ سے اس کی بٹر فلائی کا دھیان اس سے زیادہ اس کیٹی طرف ہوتا تھا ۔
پرنسیز آپ تیار ہو جاؤ آپ کی کیٹی آپ کی دیدو لا رہی ہیں ۔
یاہو و و اب کیٹی بھی میرے ساتھ رہیگی ۔
وہ چہکتے ہوئے بولی ۔
اور بھاگ کر واش روم میں گھس گئی ۔
تاکہ جلدی سے تیار ہو سکے ۔
ماے انوسینٹ بیوٹی آپ اپنے ڈریس تو لے لیں ۔
اسے دروازہ بند کرتے ہوئے دیکھ شاہ ریز نے کہا ۔
اور پھر وارڈ روب سے ایک خوبصورت ڈریس جو لانگ کرتی اور پلازو جو کہ نیوی بلیو کلر کا تھا جس پر ہلکے پھلکے دھاگوں سے کڑھائی کی ہوئی تھی ۔
ڈریس کافی ہلکا تھا کیوں کہ کل شاہ ریز نے دیکھا کہ نایرہ ہیوی ڈریس ہونے کی وجہ کیری نہیں کر پا رہی تھی ۔
شاہ ریز ڈریس پکڑا کر وہیں صوفے پر بیٹھ کر انتظار کر نے لگا ۔
دس منٹ بعد ہی نایرہ باہر نکل آئی اور جلدی سےڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑی ہو کر بال بنانے لگی ۔
اس کے ہر انداز میں عجلت تھی ایسا لگتا تھا کہ وہ بہت جلدی میں ہے ۔
اور شاہ ریز کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ وہ اپنی جلدی میں کیوں ہے ۔
اور ایک بار پھر سے اسے غصہ آنے لگا ۔
مطلب کہ حد ہے اب ایک بلی کی وجہ سے اس کی بٹر فلائی اسے نظر انداز کر رہی ہے۔
اچانک اسے نایرہ کی سسکی سنائی دی۔
کیا ہوا بٹر فلائی آپ رو کیوں رہی ہیں۔وہ اس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے ہوئے بولا ۔
م۔۔مجھے ۔۔بال ۔۔بنانے ۔۔نہیں آتے ۔۔وہ سسکتی ہوئی بولی ۔
تو آپ بال کیسے بناتی تھی نا۔ وہ ہونٹ باہر نکال کر بولی ۔
اوہ اب کیا کریں ؟
اچھا میں کوشش کرتا ہوں ۔
پرنس آپ بال بھی بنا لیتے ہو ۔
وہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو اور بڑا کرتے بولی ۔
نہیں مای بیوٹی فل لیڈی مجھے بنانا نہیں آتا میں یوٹیوب پر دیکھ کر بناؤں گا ۔
وہ نرمی سے اس کے گالوں کو کھینچتے ہوئے بولا ۔
ا۔ی۔۔ی۔ی پرنس آپ میرے چکس مت کھینچو مجھے درد ہوتا ہے ۔
اووہ سوری بٹر فلائی ۔ کیا زیادہ درد ہو رہا ہے ؟
ہ۔ہ ہمم بہت زیادہ ۔وہ معصوم چہرا بنا کر بولی۔
شاہ ریز جھکا اور نرمی سے اس کے پھولے ہوئے گالوں پر پیار کیا ۔
اس کی حرکت پر نایرہ کا چہرہ پل سرخ ہوا تھا ۔
وہ شرما کر نظریں نیچے کر لیں ۔
اسے کل سے اپنی حالت سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔شاہ ریز جب بھی اس کے قریب آتا اس کی نظریں جھک جاتیں ،دھڑکنوں کا شور بڑھ جاتا اور سانسیں اتھل پتھل ہونے لگتی تھیں ۔
شاہ ریز نے اس کے چہرے پر گہری نظر ڈالی اور اپنے جذبات پر قابو پاتے بال بنانے کی کوشش کرنے لگا ۔
پہلے تو اس سے کافی بیکار چوٹی بنی جسے اس نے کھول دیا اور پھر تھوڑی بہت محنت کرنے کے بعد ایک سمپل ڈیزائن میں بالوں کا جوڑا بنا دیا ۔
اسے نایرہ کے کھلے بال پسند نہیں تھے کیوں کہ وہ بار بار اس کے خوبصورت چہرے پر آتے تھے اور شاہ ریز نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اس کے وہ اس کے چہرے کو چھو یے
چاہے اس کے بال ہی کیوں نہ ہو ۔
واؤ پرنس آپ کو تو بال بنانا بھی آتا ہے ۔
وہ خوشی سے اس کے گلے لگتے ہویی بولی اور جلدی سے اس کے گالوں پر کس کر دی۔
کرنے کے بعد احساس ہوا کہ وہ کیا کر چکی ہے ۔
وہ جلدی سے اس سے الگ ہوئی اور دونوں ہاتھوں سے چہرا چھپا لیا ۔
شاہ ریز تو اپنے گالوں پر ہاتھ رکھے اسٹل کھڑا رہ گیا ۔
تبھی نایرہ کی منمناتے آواز سنائی دی ۔
و۔۔ہہ میں ۔۔دیدو ۔۔۔کو ایسے ہی کرتی ہوں ۔تو۔
اوہو مای انوسینٹ بیوٹی یو آر دی بیسٹ ۔
آپ بس ایسی چھوٹی چھوٹی عنایتیں کرتی رہیں ۔
وہ خوش ہوتے ہوئے بولا ۔
ارے او لو برڈز اب باہر تشریف لے آئیں گھر میں ایک عدد کنوارہ اور شریف بچہ رہتا ہے کیوں اسے بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں ۔
اچانک ساحل دروازے پر جن کی طرح حاضر ہوا ۔
شاہ ریز گڑبڑا کر نایرہ کو اپنی بانہوں سے آزاد کیا اور غصے سے اس کی طرف بڑھا ۔
ساحل یہ کیا بدتمیزی ہے ؟ وہ اتنی زور سے دہاڑا کہ نایرہ اپنی جگہ پر کانپ کر رہ گئی ۔لیکن ساحل جیسے ڈھیٹ انسان پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔
ارے بڑے بھیا اس میں میری کوئی غلطی نہیں ہے وہ دی جان نے کہا کہ میں نیے نویلی دلہا دلہن کو بلا لاؤ ں۔
وہ اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے صفائی دیتے ہوئے بولا ۔
اور ایک شرارتی نظر نایرہ کی طرف ڈالی ۔
بھابھی آپ ذرا بچ کے رہنا یہ جو ہمارے بڑے بھیا ہیں نا ان کے اندر کبھی کبھی ہٹلر کی روح آ جاتی ہے اور پھر غصے میں بھول جاتے ہیں کہ ان کے سامنے کون ہے ؟
اور پھر ان کا وہ جلالی روپ سامنے آتا کہ بس ۔اللہ ہی بجایے ۔
آپ بھی ذرا ہوشیار رہنا ۔
ساحل تم یہاں سے جا رہے یا میں ۔۔۔
ارے بڑے بھیا غصہ کیوں ہو رہے ہیں میں تو بس جا رہا تھا ۔
وہ تیلی لگا کر فورن نو دو گیارہ ہو گیا ۔
یہ ساحل بھی نہ ۔۔اچانک اس کی نظر پے پڑی جو ڈری ہوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی ۔
کیا ہوا بٹر فلائی آپ مجھ سے ڈر رہی ہو کیا ؟
اسے ساحل پر بہت زیادہ غصہ آیا جس کی بے تکی باتوں کی وجہ سے اس کی بٹر فلائی اس سے ڈر رہی تھی ۔
ن۔۔نہ۔۔نہیں تو ۔۔
توپھر ۔۔
وہ ۔۔۔۔ساحل ۔۔۔بھائی نے۔۔۔ بولا۔۔۔ کہ۔۔ آپ ۔۔کے۔۔ اندر روح آ
جاتی ۔ہے ۔
پرنس مجھے تو ۔۔۔بھوت ۔۔سے بہت زیادہ ڈر لگتا ہے ۔۔
وہ اپنی آنکھوں میں نمی لئے بولی ۔
اوہ میرا بچہ یہ ساحل جاہل مذاق کر رہا تھا ۔ یہ بھوت وغیرہ کچھ نہیں ہوتا ہے ۔
اچھا چلو اب سب ہمارا انتظار کر رہے ہیں ۔
اوکے ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
آج صبح سے ہی میر مینشن میں کافی ہلچل مچی ہوئی تھی ۔
کیوں کہ انشاء نایرہ کے گھر پر ناشتہ لے کر جانے کی تیاری کرا رہی تھی اور سبھی نوکروں کی دوڈیں لگی ہوئی تھیں ۔
وہ کوئی کمی نہیں ہونے دینا چاہتی تھی ۔
اس نے اپنی نگرانی میں ہر چیز تیار کرایی تھی ۔
اب وہ جہاں داد کے ساتھ خان ولا کے لئے تیار ہو کر نکل رہی تھی کہ اچانک یاد آنے پر اس نے ایک سرونٹ کو آواز دی اور اسے نایرہ کی کیٹی لانے کو کہا ۔
اگر وہ کٹی کو بھول جاتی تو نایرہ نے رو رو کر سارا ولا سر پر اٹھا لینا تھا ۔
وہ کیٹی لیکر گاڑی میں بیٹھی اور خان ولا روانہ ہو گیی ۔
اس نے آج بلیک رنگ کی خوبصورت فراک پہنے ہوئے تھی ۔
جس کے گلے اور آستین پر ریشمی دھاگے سے خوبصورت کڑاھای کی گئی تھی ۔
وہ دونوں جیسے ہی نیچے آیے ۔
ساحل نے شوخ آواز میں گانا گانا شروع کر دیا ۔
اپنے کرم کی کر اداییں ۔
کر دے تو ہم بھی کچھ عنایتیں ۔
وہ گانے کی ٹانگ توڑتے ہوئے بولا ۔
شاہ ریز کو سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ وہ یہ کیوں گا ر ہا ہے ۔
اس نے شاید سن لیا تھا جب شاہ ریز نایرہ سے عنایتیں والی کی تھی ۔
شاہ ریز نے کافی غصے سے اس کی طرف دیکھا ۔
جو مسلسل اپنی شرارتی مسکراہٹ سے کافی ٹیز کر رہا تھا ۔
کیا ہوا ہے ؟تم صبح صبح گانا کیوں گا رہے ہو ۔
عرشمان ٹیبل پر آتے ہوئے بولا ۔
اور پھر ساحل نے اسے پوری بات بتائی جس پر وہ بھی دانت نکالتے ہوئے بولا ۔
بڈی کبھی کچھ نظر عنایت ہم پر بھی کر دیجئے ۔
اس نے لفظ عنایت جان بوجھ کر استعمال کیا ۔
شاہ ریز کافی غصے سے ان دونوں کی بے غیرتیاں دیکھ رہا تھا ۔ابھی وہ کچھ بولتا کہ اس کی نظر اندر داخل ہوتی انشاء پر پڑی ۔
دیدوو۔۔ نایرہ بھاگ کر انشاء گلے لگی ۔
آی ایم سو ہیپی دیدوو آپ آ گئیں مجھے آپ کی بہت یاد آ رہی تھی ۔
مجھے بھی اپنی ہنی کی بہت یاد آ رہی تھی اسلئے تو میں آ گیی آپ سے ملنے ۔
وہ اس کے چہرے کو ہاتھوں میں بھرے پیار سے بولی ۔
سارے گھر والے ان دونوں کو کافی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے ۔
عرشمان خان انشاء کو دیکھ کر کھل اٹھا آج اس نے ارادہ کرلیا تھا کہ وہ اسے پرپوز کر دے گا ۔پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا ۔
تبھی جہاں داد سامان سے لدا پھدا اندر داخل ہوا جو گاڑی سے سمان نکالنے گیا تھا ۔
ارے بیٹا اس سب کی ضرورت نہیں تھی آپ نے بے کار میں اتنی محنت کی ۔
عرشمان کی ماما نے اسے کہا ۔
ارے آنٹی ضرورت کیوں نہیں تھی میری جان سے پیاری بہن کا سسرال ہے اور میں نہیں جانتی تھی کہ کوئی کمی ہو اور مجھے زیادہ کچھ نہیں پتا ان سب کے بارے میں تو میں نے نیٹ پر سرچ کر کے یہ سب تیار کرایا ہے اگر کوئی کمی معاف کر دینا ۔
بیٹا کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ یہ بھی آپ کا نایرہ بیٹے کا گھر تو کوی تکف کی ضروت نہیں ہے آیندہ یہ سب مت کرنا بیٹا ۔
جواد صاحب نے کافی پیار سے کہا ۔
اوکے انکل ۔۔
دیدو و میری کیٹی کہاں ہے آپ بھول گئی کیا ؟ نایرہ منھ بناتے ہوئے بولی ۔
ارے نہیں گڑیا میں نہیں بھولی وہ دیکھو جہانداد لا رہا ہے ۔
اوہ ہ ماے شونو میری کیوٹ کیٹی میں نے آپ کو بہت مش کیا ۔
کیا آپ نے مجھے مش کیا ۔
میاؤں میاؤں ۔
ہاے کیٹی آپ نے بھی مش کیا ۔
ارے بھابھی آپ نے اپنی کیٹی کو منگوا لیا ۔یہ بہت اچھا کیا مجھے بھی اس کی یاد آرہی تھی ۔
یہ لو ایک نہ سہی دو دو اس بلی کے پیچھے پاگل ہیں ۔
شاہ ریز خان نے اپنی سرخ آنکھوں سے بلی کو گھورتے ہوئے سوچا ۔
کافی دیر تک انشاء گھر والوں سے بات کرتی رہی اسے گل اور ساحل بھی کافی پسند آئے تھے اور اگر کوئی پسند نہیں آیا تھا تو وہ تھا ڈی ایس پی عرشمان خان ۔
اس کے موبائل پر کال آ رہی تھی جسے سننے کے لئے وہ بیک ایریا کی طرف آیی تھی ۔
کال سن کر وہ پلٹ رہی تھی کہ اچانک پاؤں مڑا اور وہ گرنے لگی تھی کہ سامنے سے آتے ہوئے عرشمان نے اسے اپنی بانہوں میں بھر کر گرنے سے بچا لیا ۔
اس کی نظر انشاء کی آنکھوں پر ٹک گییں ۔
جس میں دیکھنے کے بعد اسے کسی چیز کا ہوش نہ رہا ۔
انشاء نے خخود کو اس کی بانہوں سے آزاد کرایا اور اندر کی طرف بڑھی ۔
کہ اچانک عرشمان اس کے سامنے آ گیا ۔
مس انشاء مجھے آپ سے بات کرنی ہے کیا آپ اپنا تھوڑا سا وقت مجھے دینگی ؟
مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی ہے ۔
پلیز صرف دو منٹ ۔۔
اوکے ۔۔
اس نایرہ کے بارے میں سوچ کر اجازت دے دی کہ وہ اس کی بہن کا دیور ہے ۔ دو منٹ کے لئے اس کی بات سن سکتی ہے ۔
دیکھیں میں زیادہ گھما پھرا کر بات کرنے کا عادی نہیں ہوں مجھے صاف ستھری بات کرنا پسند ہے.
اسلیے میں مدعے پر آتا ہوں ۔
مس انشاء میر آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں آپ کی اس سحر طراز (جادو کر دینے والی) آنکھوں نے اپنا دیوانہ بنا دیا ہے ۔ مجھے آپ سے عشق ہو گیا ہے ۔
تو کیا آپ میرے امی ابو کی بہو ،اور میری دی جان کی پر بہو ،اور میرے بہن بھائیوں کی بھابھی بننا پسند کریں گی .
انشاء جو اس کے عجیب وغریب پرپوزل پر شاک سی کھڑی تھی اچانک ہوش میں آئی اور کھینچ کر ایک تھپڑ اس کے گال پر رسید کر دیا ۔
عرشمان خان تو ہکا بکا رہ گیا کہ ایسا بھی اس نے کیا کر دیا۔ جو اس لڑکی نے اسے تھپڑ رسید کر دیا۔
اس کی آنکھیں لہو رنگ ہو گیں ۔اس نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچی ۔
آج تک کسی کی ہمت نہیں ہوی تھی وہ عرشمان خان سے اونچی آواز میں بات کرے کہاں اس لڑکی نے تھپڑ رسید کر دیا تھا.
آج تک کسی کی ہمت نہیں ہوی تھی عرشمان خان سے اونچی آواز میں بات کرسکے ۔اور کہا اس لڑکی نے اسے تھپڑ رسید کر دیا تھا ۔
غصے سے اس نے اپنی مٹھیاں بھینچی غصے کی زیادتی کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا اور آنکھیں لہو رنگ ہو گیی تھیں ۔
وہ ایک جست میں اندر کی طرف جاتی انشاء تک پہونچا اور اس کی نازک کلائیوں کو اپنی سخت پکڑ میں لیا ۔
اور کھینچ کر اپنے روبرو کیا ۔
واٹ دا ہیل ۔۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی ہاں۔
وہ اپنی پوری طاقت سے چلایا ۔
ایک پل کو تو انشاء بھی کانپ کر رہ گئی ۔
ت۔۔تو تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے ساتھ یہ گھٹیا بات کرنے کی ۔
کون سی گھٹیا بات کی ہے ہاں ؟ نکاح کرنے کا بولا ہے ۔
اور یہ کوئی مذاق نہیں ہے مس انشاء میر ۔
وہ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے بولا جیسے اسے یقین دلانا چاہتا ہو ۔
ہونہہ ۔۔
دنیا میں سب سے زیادہ ناقابل اعتبار ذات مرد کی ہے کیوں کہ یہ بڑے طریقے جانتا ہے یہ برباد کرنے کے ،پہلے پیچھے بھاگے گا ،محبت کے دعوے کرےگا وقت گزارے گا وقت کے ساتھ سب گزر جایگا ۔یقین پانے کے بعد تمہیں توڑے گا اور تم سے تمہارا غرور چھینے گا اور تمہاری روح پر گہری کڑوی ضربیں لگائے گا اور تمہاری روح چھلنی کر کے چلا جائے گا ۔
اور مجھے اس دنیا کے کسی مرد پر بھروسہ نہیں ہے اور نہ میں اس پیار محبت جیسے سستے لفظوں کے جال میں نہیں پھنسنے والی ۔
اس نے اپنی زندگی جو روپ مردوں کے دیکھے تھے ان کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ۔
پہلے تو اس کی بات پر عرشمان خان کوبہت زیادہ غصہ آیا لیکن جب نظر اس کی سیاہ خوبصورت آنکھوں پر پڑی تو اسے ان میں بے پناہ کرب اور درد نظر آیا اس کا دل بے چین ہو اٹھا ۔
ایسا کیا اس کی زندگی میں ہو گیا جو اس قدر مردوں سے نفرت کرتی ہے ؟
مس انشاء مجھے آپ سے عشق ہو گیا ہے اور میں آپ سے نکاح عشق کرنا چاہتا ہوں ۔عرشمان نے اس کی کڑوی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بار پھر سے اپنی بات دہرائی ۔
ہونہہ مرد عشق و عاشقی نہیں کرتا اسے تو صرف جسم کی بھوک ہوتی ہے ۔
وہ نفرت آمیز زہر خند لہجے میں بولی ۔
مس انشاء ۔۔۔
مرد نکاح کرتے ہیں ۔عیاشی اور ٹایم پاس تو درندے کرتے ہیں ۔
اور ماشاءاللہ آپ میں اتنی سمجھ تو ہوگی کہ آپ ایک مرد اور درندے میں فرق کر سکیں۔
وہ براہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا ۔
کچھ پل تو انشاء کچھ بول نہیں سکی بس خاموشی سے اس کی بھوری آنکھوں میں دیکھتی رہی ۔۔پھر بولی ۔
مسٹر عرشمان خان آپ اپنا وقت کسی اور پر ضائع کریں مجھے جانے دو وہ غصے سے کہتے وہاں سے چلی گئی ۔
اسے عرشمان خان پر بے تحاشہ غصہ آ رہا تھا لیکن وہ برداشت کر گئی کیوں کہ وہ یہاں پر کوئی تماشہ کرنا نہیں چاہتی تھی ۔
مس انشاء میر ایک بار تم میری دسترس میں آ جاؤ پھر تمہیں خود بخود میری محبت اور دیوانگی پر یقین آ جائے گا ۔
اب لگتا ہے مام ڈیڈ سے بات کرنی پڑےگی ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
اچھا نایرہ اب میں چلتی ھوں ،آپ اپنا خیال رکھنا اوکے ۔
دیدو آپ اتنی جلدی جا رہے ہو ۔
ہنی جانے پڑے گا آفس میں ایک میٹنگ ھے ۔
اور پھر انشاء سب سے مل کر واپس چلی گئی ۔
اس کے جانے سے نایرہ کے چہرے پر اداسی چھا گئ جسے سبھی گھر والوں نے محسوس کی ۔
گل آکر۔ نایرہ کے پاس بیٹھ گئ اور بولی ۔
بھابھی آپ کی دیدو کتنی پیاری ہیں کاش میری بھی کوئی بہن ہوتی !
ہاں میری دیدو بہت پیاری ہیں وہ ورلڈ کی بیسٹ دیدو ہیں ۔
وہ مسکراتے ہوئے بولی ۔
یہاں آؤ میری بچی دی جان نے اسے اپنے پاس بٹھایا ۔
بیٹا آپ اداس مت آپ کا جب دل کرے آپ اپنی دیدوو سے مل لینا یا پھر انہیں اپنے پاس لیا کرنا ۔
یس مجھے جب بھی دیدو کی یاد آ ے گی میں دیدوو کے پاس چلی جاؤں گی ۔ وہ خوش ہوتے ہوئے بولی ۔
بھابھی آپ کو وہاں جانے کی کیا ضرورت ہے ؟
عرشمان ان سب کے پاس آتے ہوئے سنجیدہ آواز میں بولا ۔
اوے کھوتے تو کیا بول رہا ہے کیوں نہیں ضروت جانے کی ایک ہی دن ہوا ہے بچی کو آیے اب وہ اپنے گھر بھی نہ جایے۔دی جان اس کو ڈپٹتے ہوئے کہا ۔
ہاں عرش کیوں نہیں جا سکتی نایرہ اور یہ تم کیوں اس کی ساس بن رہے ہو اس آنے جانے پر پابندی لگا کر ۔
رومی چاچی نے بھی اس کو لتاڑتے ہوئے کہا ۔
استغفراللہ ۔میں کیوں ساس بنوں گا 🙄
میں تو کہ رہا تھا کہ بھابھی کو کیا ضرورت جانے کی ہم انہیں ہی یہاں پے لے آتے ہیں ہمیشہ کے لیے ۔
ارے عرش تم کیسی بات کر رہے ہو کیسے ہم اسے یہاں پے بلا سکتے ہیں وہ بھی ہمیشہ کے لیے اس کی اپنی زندگی ہے آفس ہے جسے ہی سنبھالتی ہے ۔
اب کی عرشمان کی ماما نے ٹوکتے ہوئے کہا ۔
سب گھر والے اس کی بے تکی بات پر اسے دیکھ رہے تھے سواے شاہ ریز اور ساحل کے کیوں کہ انہیں پتہ تھا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے ۔
وہ گھر والوں کی بات سن عرشمان کافی جھنجھلا گیا وہ کیا کہنا چاہتا تھا اور اس کے گھر والے کیا سمجھ رہے تھے ۔
شاہ ریز اس کی حالت سے کافی لطف اندوز ہو رہا تھا ۔
کیوں صبح اس نے بھی ناک کر دیا تھا ۔
ارے ماما آپ سمجھو یار بچہ بڑا ہو گیا ہے کب سے وہ اپنے منہ سے شادی کی بات کر رہا ہے اور آپ لوگ بھی پتا نہیں کیا کیا سمجھ رہے ہو ۔
ساحل نے اس کی حالت سمجھتے گھر والوں کو بتایا ۔
کیا ۔۔؟
کیا۔؟
کیا۔؟
ارے تم شادی کے لیے مان گیے کمال نہیں ہوگیا ۔
رومی چاچی نے بے یقین لہجے میں کہا ۔
بیٹا تم سچ کہ رہے ہو ؟۔
یس مام میں سہی کہ رہا ہوں مجھے مس انشاء سے شادی کرنی ہیں ۔
یاہو و۔ و گل فوراً نایرہ کے گلے لگی ۔
بھابھی اب آپ اپنی دیدوو کو ہمیشہ کے لئے اپنے پاس رکھنے کی تیاری کرو ۔
واو کتنا مزا آیگا دیدو و بھی ہوں گی اب ۔
وہ خوشی سے چہکتے ہوئے بولی ۔
بیٹا کیا تم نے اس بارے میں بات کی ہے اس سے مطلب کہ تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو ۔
کرلی ہے اور اس کا اچھا خاصہ انعام بھی ملا ہے وہ اپنے گال پر ہاتھ رکھے آہستہ آواز میں بولا ۔
بیٹا میں ہم سب بہت خوش ہیں آپ کی چوائس سے اب ہم آپ کے بھی فرض سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں ۔
نہیں بابا ابھی نہیں ابھی میں ایک کیس میں الجھا ہوا ہوں جیسے ہی یہ کیس ختم ہوتا ہے اس کے بعد آپ بات کر لیجئے گا ۔
ہہم یہ بھی سہی ہے ۔
وہ کہ چلے گئے
نایرہ چلیں آپ روم میں آرام کر لیں صبح سے ہی اٹھیں ہوئیں ہیں آپ ۔
نہیں مجھے نیند نہیں آ رہی ہے مجھے گل سے باتیں کرنی ہے وہ جھٹ سے انکار کرتے ہوئے بولی اسے شاہ ریز سے ڈر لگ رہا تھا کیوں کہ صبح کی جسارت ابھی بھولی نہیں تھی جس کے بارے میں سوچتے اس کے گال دہک اٹھے ۔
شاہ ریز نے بڑے غور سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو دیکھا اور اسے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ اس کی بٹر فلائی اس سے ڈر رہی ہے اور شرما رہی ہے ۔
اسے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اس کی بٹر فلائی اس کے جذبات سمجھ رہی ہے ۔
دی جان تھوڑی سی نظر کرم مجھ معشوم پر بھی فرما دیں میری شادی وادی کرا دیں اب تو میں بھی کمانے لگا ہوں وہ نظروں کے حصار میں گل رکھ کر بولا ۔جو دی جان کی تیز نظروں سے چھپ نہیں سکا ۔
اوے زرافے تم سے شادی کے لیے مانیگی کون۔۔۔ ہنہہ۔۔
کیوں نہیں مانیگی گڈ لکنگ اور چارمنگ ہوں اچھا خاصا کما بھی لیتا ہوں ۔
ہر لڑکی یہ سب نہیں چاہتی ۔
تو پھر کیا چاہتی ہے ؟
کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جو چاہتی ہیں کہ ان کا شوہر ایسا ہو جو اس کی ہر خواہش پوری کرے ۔
اگر اس کا دل رات کو دو بجے آئس کریم کھانے کا کرے تو وہ بنا وقت کی پرواہ کیے اس کے لیے آئس کریم لائے ۔
اگر وہ کہے آج میرا دل برتن دھلنے کا نہیں کر رہا ہے آپ دھل دو تو دھل ۔
اگر وہ کہے کہ مجھے فلاں فلاں چیز کھانی ہے تو وہ فورن کچن میں گھس جائے اور اس کی پسند کی ہر چیز بنا کر کھلایے ۔
اگر وہ کہے کہ آج میرا دل باربی پرنسیز مووی دیکھنے کا کر رہا ہے تو وہ اس کے ساتھ بیٹھ کر بنا اگر مگر کیے پوری مووی دیکھے ۔
اگروہ کہے کہ ۔۔۔۔
ارے بس بس ۔۔یہ پیار ہے کہ ٹارچر اور کون سی لڑکی ہے وہ جو یہ سب فرمایش کریگی ہاں ؟
میری جیسی لڑکی اور کون ۔
کیا یہ سب تمہاری بھی خواہشات ہیں ؟
یس آف کورس ۔اور ابھی تو پوری سنی ہی نہیں ۔
بس بس مجھے سننے بھی نہیں ۔
ساحل بیٹا تیرا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔کیا تجھے یہی لڑکی پسند آنی تھی ۔وہ خود سے بڑبڑایا ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
عرشمان زمان کے کال کرنے پر پولیس اسٹیشن آیا تھا کیوں کہ اسے کوئی ضروری بات کرنی تھی۔
تبھی زمان اندر داخل ہوا ۔
ہاں زمان بولو کیا خبر ہے ؟
سر آج وہ پہونچ جائے گا ۔
ہہم۔گڈ اور اس کو ایر پورٹ پر وہ سرپرایز مل جانا چاہیے جو ہم نے اس کے لیے تیار کیا ہے ۔
اوکے سر ۔۔
تیاری مکمل ہے نا ۔اور جو میں نے ٹیم تیار کرنے کا بولا تھا وہ تیار ہے ۔
جی ہاں سر وہ سب تیار ہیں ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
آج کا سارا دن نایرہ نے گل کے ساتھ مل کر گزارا تھا ۔
اور اس نے پورا ولا بھی دیکھا ۔
سب سے زیادہ اسے لان میں لگا جھولا پسند آیا تھا ۔
دونوں نے کافی ساری باتیں کی تھیں ۔
شاہ ریز جب آفس سے واپس آیا تو گاڑی سے باہر نکلتے اس کی نظر نایرہ پر پڑی جو جھولے پر گل کے ساتھ اپنی کیٹی کو لے کر بیٹھی تھی ۔
بلی کو دیکھ کر شاہ ریز کا حلق تک کڑوا ہو گیا ۔
وہ چلتا ہوا دونوں کے پاس آیا ۔
ارے شاہ آپ آگیے ؟
پرنسیز آ گیا ہوں تبھی تو آپ کو دکھ رہا ہوں ۔
وہ گمبھیر آواز میں بولا ۔اس کی نظریں تو اس بلی پر ٹکی ہوئی تھی جو اس کی بٹر فلائی کی گود میں مزے سے بیٹھی اس کی طرف دیکھ رہی تھی ۔
اس کے آتے ہی گل اندر چلی گئی تھی ۔
بٹر فلائی آپ ہر وقت اس بلی کو اپنے ساتھ مت رکھا کریں ۔
کیوں ؟ ۔کیوں کہ مجھے یہ پسند نہیں ہے ۔
ہا ۔۔شاہ آپ کو میری کیٹی کیوں اچھی نہیں لگتی ہے ؟
سب کو تو اتنی پسند آئی ہے ۔
ہاں نہیں ہے پسند کیوں کہ یہ ہر وقت میری بٹر فلائی سے چپکی رہتی ہے اور میری بٹر فلائی بھی اس سے پیار کرتی ہے مجھ سے نہیں ۔
وہ اس کا ہاتھ پکڑے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا ۔
اور اسے بانہوں میں بھر لیا ۔
آی مس یو ماے انوسینٹ بیوٹی ۔
میں نے آپ کو بہت مس کیا میرا پورا دن اور گزرا ۔
اور آپ نے کیا کیا سارا دن ۔
ہہم میں پہلے تو پورا ولا دیکھا جو کہ مجھے بہت زیادہ پسند آیا ۔
اس کے بعد جھولے لیے ۔
ہمم اس کا مطلب آپ نے مجھے ذرا بھی مس نہیں کیا ۔
وہ اس کے بالوں میں منھ چھپائے ہوئے بولا ۔
اپنی گردن پر اس کی سانسیں مسوس کر کے نایرہ کانپ گیی ۔
اور خود کو اس کے حصار سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگی ۔
بٹر فلائی آپ کچھ دیر ایسے ہی کھڑی رہیں اور مجھے اپنے آپ کو محسوس کرنے دیں ۔
شاہ ۔۔۔۔ آپ ۔۔فریش ۔۔۔۔ہو جائیں نا ابھی باہر سے آیے ہیں اور شروع ہو گئے ۔۔۔
او۔وہ ۔۔اسٹرینج میری انوسینٹ بیوٹی کو بہانے بھی آ گیے مجھ سے بچنے کے ۔
وہ وہونٹوں کو گول کرتے ہوئے بولا ۔
ایرپورٹ۔۔۔
ایک پیتیس سالہ آدمی ایرپورٹ سے باہر نکلتا ہے جو دیکھنے میں اپنی عمر سے سات آٹھ سال کم ہی لگتا ہے ۔اس کے دائیں بائیں سات آٹھ گارڈ ہوتے ہیں ۔
وہ شاہانہ چال چلتے ہوئے گاڑی کی طرف آتا ہے ایک گارڈ
جھک کر دروازہ کھولتا ہے ابھی وہ بیٹھ ہی رہا تھا کہ اس کے موبائل پر کال آنے لگی ۔
ہیلو۔۔ آصف نیازی اسپیکنگ ۔وہ گمبھیر آواز میں بولا ۔
ہ۔ہ۔۔ہیلو سر ۔۔ایک بری خبر ہے سر ہمارا سارا مال پکڑا گیا ہے اور جو لڑکیاں آپ نے شیخ کو دینی آج رات ان کو بھی پولیس والوں نے چھڑا لیا ہے ۔
سر ایک بری خبر ہے وہ جو کراچی یونیورسٹی میں ہمارا گروہ ڈ۔ر۔گ۔س۔سپلای کرتا تھا اور لڑکیوں کو ٹریپ کر کے ہمارے پاس بھیجتا تھا اس کا لیڈر پکڑا گیا ہے ۔
کال کرنے والے ایک ہی سانس میں پوری خبر سنا دی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ پوری بات سنے بنا کال کاٹ دے اور بعد میں اس کو ہی سزا ملے کہ پوری بات کیوں نہیں بتائی ۔
کیوں کہ آصف نیازی جیسے درندے کے لئے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان لے لینا ایک مشغلہ تھا ۔
اس کی پوری بات سن کر اس کا غصہ ساتویں آسمان کو پہونچ گیا ۔
یو باسٹرڈ تم سب کہاں مرے ہوئے تھے ہاں ؟ کیا اس لئے میں تم لوگوں کو پیسے دیتا ہوں ۔
تم کو تو میں آکر دیکھتا ہوں تمہاری موت میرے ہی ہاتھوں سے لکھی ہے ۔
نیازی تو کسی کی معمولی سی غلطی بھی معاف کرتا اس بار تو میرا کروڑوں کا نقصان ہوا ہے ۔
اور سب سے پہلے سزا تمہیں ملےگی کیوں کہ میں تمہیں انچارج بنایا تھا کہ تم میری غیر موجودگی میں سب سنبھالو گے اور اگر کوئی گڑبڑ ہوتی ہے تو سب سے پہلے مجھے خبر دو گے ۔
اور تم نے تو مجھے یہ بھی نہیں بتایا کہ پولیس میرے بارے میں چھان بین کر رہی ہے ۔
میں پہونچ رہا ہوں اور فرار ہونے کی کوشش بھی مت کرنا کیوں کہ تم کہیں بھی چھپ جاؤ لیکن نیازی سے بچ نہیں سکتے ۔
وہ غصے سے دہاڑا ۔
اور موبائل کو غصے سے پھینکا اور خود ڈرائیونگ کرنے کے لئے گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا اس کے گارڈ نے اسے روکنے کی کوشش کی تو اس نے انہیں کہ اس کی ایک گھوری پر چپ کر گیے ۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ عرشمان خان کو جب آصف نیازی کے پاکستان آنے کی خبر ملی تھی تو اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کے سامنے آنے سے پہلے کچھ دھماکے دار سرپرایز اس نیازی کو دے تاکہ اسے بھی پتہ چلے کہ اس ملک کے رکھوالے اتنے بے خبر نہیں کہ کوئی بھی ان کے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرے اور انہیں کچھ خبر ہی نہ ہو ۔
اس لئے اس نے پہلے ہی سے تیاری کر لی تھی ۔
اتنے دنوں سے وہ اور اس کی ٹیم نے پوری پوری جاں نفشانی سے اس کیس پر کام کیا تھا اور اس کے بارے میں ایک ایک بات جانکاری حاصل کی تھی اسی دوران انہیں نیازی کے ڈ۔۔ر۔۔۔گ۔۔س ڈیل کے بارے میں پتہ چلا تھا جو آج کے دن ہونی تھی اور یہ ڈیل نیازی کے اسلام آباد کے باہر سنسان ایریے میں بنے فارم ہاؤس پر تھی ۔
عرشمان نے اس کیس کے لئے ایک ٹیم تیار کرایی تھی ۔
جس کے ساتھ وہ نیازی کے فارم ہاؤس پر پہونچا اور انہیں یہ یہاں آ کر یہ معلوم ہوا کہ نیازی نے آج ہی کچھ لڑکیوں کی کسی شیخ کے ساتھ ڈیلنگ کی ہے اور آج رات کو یہ بھی باہر بھیج دی جاینگی ۔
یہ سب جان کر عرشمان خان کا خون کھول اٹھا ۔
وہ تو شکر کہ وہ لوگ وقت سے پہلے آ گیے تھے اور فارم ہاؤس سے کچھ دور موجود جنگل میں چھپے ہوئے تھے تاکہ ان کی آمد کا نہیں پتہ نہ چل سکے ۔
فام ہاؤس میں جانے کے لئے دو راستے تھے ایک تو سامنے سے جانے والا اور ایک پیچھے سے تھا جو بہت کم استعمال ہوتا تھا۔
عرشمان نے پیچھے کے دروازے سے جانے کا پلان کیا ۔
یہاں تک اتنی آسانی سے پہونچ پانا ممکن نہیں ہوتا اگر اس کے بارے میں عرشمان خان آدمی جو ان لوگوں کے بیچ نوکر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا ۔انہیں پوری جان کاری دے رہا تھا۔
عرشمان نے اس سے کہا تھا کہ وہ موقع دیکھ کر ان کی چاے میں نشہ آور گولیاں ملا دے اور وہ آسانی سے پلان پر عمل کر سکے ۔
اس نے زمان اور ٹیم کے چار اور لوگ کو اپنے ساتھ لیا اور باقی آٹھ کو باہر موجود ٹرک کے پاس جانے کو کہا جس میں انہوں نے ڈ۔۔ ر۔۔گ۔۔س کا مال لوڈ کیا ہوا تھا ۔
عرشمان اپنے ساتھیوں کے ساتھ پیچھے کے دروازے سے اندر داخل ہوا اس کے آدمی نے اس کو اس راستے کے بارے میں کافی کچھ بتایا تھا اس لیے اسے کوئی دشواری پیش نہیں آئی وہ لوگ کافی احتیاط سے چل رہے تھے کہ کسی کو پتہ نہ چلے کیوں کہ لڑکیاں ان کے قبضے میں تھیں اس لیے وہ کوی رسک نہیں لینا چاہتا تھا ۔
وہ لوگ کافی سنبھل سنبھل کر تہ خانے تک پہونچے جہاں پر ان لڑکیوں کو رکھا گیا تھا ۔
اور وہاں پر دو تین گارڈ پہرا دے رہے تھے جسے دیکھ کر عرشمان اور اس کے ساتھیوں کے چہرے پر چمک آ گیی
کیوں کہ انہیں قابو کرنا ان کے باییں ہاتھ کا تھا ۔
ان گارڈ کو ان سب نے کافی آسانی سے زیر کر لیا ۔
عرشمان جب تہ خانے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ وہ ڈری سہمی دیوار سے لگ کر بیٹھی ہوئی تھیں ۔
وہ چلتا ہوا ان کے پاس آیا ۔
ڈرو نہیں ۔ہم تم سب کو بچانے آیے ہیں ۔ وہ انہیں تسلی دیتے ہوئے بولا ۔
ان سب کو اس نے بیک ایریا کی طرف لایا اور ان کے پاس اپنے دو ساتھیوں کو کھڑا کرکے کہا کہ تم دونوں ان کے ساتھ رہو اور اگر کوئی گڑبڑ لگےتو انہیں لیکر جنگل کی طرف جانا جہاں پر ہماری گاڑیاں ہیں ۔
تب تک ہم باہر والوں سے نمٹ لیں ۔
با ر ان کی تعداد زیادہ تھی لیکن نیند کی گولیوں کی وجہ سے وہ سب آدھی سوی جاگی کیفیت میں تھے اس لیے وہ ان کا مقابلہ نہیں کر سکے ۔
عرشمان خان نے ان لڑکیوں میں سے جو اپنے گھر جانا چاہتی تھیں اور یقین تھا کہ ان کے گھر والے قبول کر لیں گے انہیں ان کے گھر بھجوا دیا ۔
اور جنہیں ان کے گھر والوں نے قبول نہیں کیا انہیں شیلٹر ہوم بھیج دیا
اور وہاں سے ضبط کیا گیا ڈ۔۔۔۔۔ر۔۔۔گ۔۔س سرکار کے حوالے کر دیا ۔
(میں نے یہاں پے مار دھاڑ والے سین نہیں لکھے ہیں کیوں برگر چاچے کو نہ جانے کیا پرابلم ہے کہ وہ رائٹر کی آئی ڈی distroy کر رہے ہیں 🤣)
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
گل جلدی جلدی سیڑھیاں اتر کر آ رہی تھی وہ لڑکھڑا کر گرنے لگی تھی کہ سامنے سے آتے ساحل نے اسے تھام لیا اور اسے گرنے سے بچانے کے چکر میں اس نے اپنا ایک ہاتھ اس کی کمر میں ڈال کر نزدیک کر لیا ۔
اسے گل کی دھڑکنیں اپنی دھڑکن کے ساتھ سنای دینے لگی ۔
اوہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے گل کو اس کی آنکھوں میں آج کچھ الگ سا محسوس ہوا جسے وہ کوئی نام نہیں دے سکی ۔
ساحل تو اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کھو گیا کہ اسے چھوڑنا بھی بھول گیا ۔
زرافے چھوڑو مجھے اور یہ کیا مجھے چھچھوروں کی طرح گھورے جا رہے ہو۔
گل اس کی پکڑ میں کسمساتی ہوئ بولی ۔
تمہاری لولی آنکھوں نے ہمیں یوں اٹریکٹ کیا ۔
کہ سب کو نیگلیکٹ کر کے تمہیں ہی سلیکٹ کیا
ساحل نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پڑھا ۔
بدتمیز ٹھرکی زرافے یہ کیا بک رہے ہو تم ؟
ک۔کیا تعریف ہی تو کی ہے ۔
ہونہہ تعریف کی ہے گل اس کی نقل اتارتے ہوئے بولی ۔
آج کے بعد کی تو میں تمہارا منہ توڑ دوں گی ۔
میں تو کروں گا کیا کر لو گی تم ساحل اسے چڑھا تے ہوئے بولا ۔
تو میں نے تمہاری یہ زرافے جیسی گردن مروڑ دینی ہے ۔
گل نے دانت پیستے ہوئے کہا ۔
ویسے گل مجھے تم سے کچھ کہنا ہے وہ سیریس آواز میں بولا ۔
گل نے چونک کر اس کی طرف دیکھا کیوں کہ وہ اسے گل بہت کم کہتا تھا اسلیے و ہ اس کی طرف متوجہ ہو گیی ۔
گل ۔۔
میری ایک ہی ہے وش
کہ تمہیں بنو میری مس
ساحل شرارتی آواز میں کہ کر بھاگ گیا ۔
گل جو سیریس ہو کر بات سن رہی تھی اس بات سن کر اس کے پیچھے بھاگی لیکن تب تک وہ بھاگ چکا تھا ۔
وہ دانت پیس کر رہ گئی ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
شاہ ریز کمرے میں آنے بعد نایرہ کو اپنی بانہوں میں قید کیے اپنی دن بھر کی بےچینی اور بے قراریاں مٹا رہا تھا ۔
نایرہ اس کی بانہوں میں قید ہلکا ہلکا کانپ رہی تھی اور مسلسل اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی ۔
بٹر فلائی اب اگر آپ نے میری بانہوں سے نکلنے کی کوشش کی تو پھر سزا کے طور پر آپ صبح تک میری بانہوں میں قید رہیں گی ۔
اور میں وہ سب کر گزروں گا جس کے ابھی نہ کرنے کا میں نے خود سے وعدہ کیا ہے وہ اس کے بالوں میں منھ چھپائے ایک ہاتھ سے اس کی کمر جکڑے اور دوسرا ہاتھ اس کے بالوں میں الجھائے اس کے کانوں میں معنی خیز سرگوشیاں کرتے ہوئے بولا ۔
اس کے بولنے سے لب نایرہ کے کان سے ٹچ ہوئے جس سے اس کے پورے بدن میں بجلی سی دوڑ گئی ۔
اور اس کی معنی خیز سرگوشی پر اس کے گال تپنے لگے جس پر نایرہ نے اپنا چہرہ شاہ ریز کے سینے میں چھپا یا
اس کا ایسا کرنا شاہ ریز کے جزبات بھڑکا گیا
شاہ ریز نے اس کا چہرا اپنے سامنے کرنے کی کوشش کی تو نایرہ اور سختی سے اپنا چہرہ اس کے سینے میں چھپنے کی کوشش کرنے لگی۔
افففف ماے انوسینٹ بیوٹی ۔
اگر آپ ایسا کریں گی تو یہ خان اپنے آپ سے کیا ہر وعدہ توڑ دے گا پھر آپ کو ہی پرابلم ہو گی ۔
کیوں کہ پھر آپ کو ساری رات اپنے اوپر میری بے قراریاں اور بے تابیاں سہنی پڑیں گی جو آپ کی یہ نازک سی جان سہ نہیں پایے گی ۔
وہ گمبھیر لہجے میں اس کے کانوں میں جان لیوا سرگوشی کرتے ہوئے بولا ۔
نایرہ سے اپنا چہرہ اوپر اٹھانا مشکل ہو گی۔
اچانک شاہ ریز نے اسے ایک جھٹکے سے سامنے کیا اور اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی گرفت میں لے لیا ۔
نایرہ تو سمجھ ہی نہیں پایی کہ ہوا کیا ہے۔
شاہ ریز اس کے لبوں کو قید کیے اور ایک ہاتھ سے اس کی کمر کو سہلاتے وہ اس کی سانسوں کو قطرہ قطرہ پی رہا تھ۔
نایرہ کو اپنی سانس سینے میں اٹکتی ہوئی محسوس ہوی، وہ اس کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کرنے لگی لیکن ہو نہیں پایی ۔
شاہ ریز جب لگا کہ وہ سانس نہیں لے پا رہی تب جا کر اسے آزاد کیا ۔
اور اسے لے کر صوفے پر بیٹھ گیا اور آہستہ آہستہ اس کی رب کرنے لگا تاکہ وہ تھوڑا پر سکون ہو سکے ۔
ش۔۔ش۔شاہ ۔__آپ ۔۔ب۔۔ہت برے ہیں ۔__اگر میری سانس ۔۔رک ۔ج۔اتی تو ۔
وہ۔اس کی گردن میں ۔منہ چھپائے اٹک اٹک کر بولی۔
ایسے کیسے رک جاتی ۔ہہہم۔میں آپ کو کچھ ہونے دے سکتا ہوں کیا ۔
وہ اسے گلے سے لگایے محبت سے بولا ۔
آصف نیازی ایر پورٹ سے آنے کے بعد مسلسل غصے میں تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ڈی ایس پی عرشمان خان کو جان سے مار دے جس کی وجہ سے اس کا کروڑوں کا نقصان پہنچا ہے ۔
جب سے آیا تھا وہ بیگ پے پیگ چڑھائے جا رہا تھا اور مسلسل عرشمان کو گالیوں سے نوازے جا رہا تھا ۔
اس کے سارے نوکر مسلسل اس کے عتاب کا نشانہ بن رہے تھے ۔
اس کے بڑے بھائی جو کہ پولیٹکس میں تھے اور منسٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ اور پولیٹکس کی آڑ میں انہیں سب کاموں میں ملوس تھے اس سے اس کے غصے کی وجہ پوچھی تو اس نے سب کچھ بتا دیا اور کہا کہ میں چاہتا کہ اس ڈی ایس پی کو سسپینڈ کر دیا جائے ۔اور آپ پولیٹکس میں ہونے کی وجہ سے یہ کام اچھی طرح سے کر سکتے ہیں ۔
دیکھو آصف میں بھلے ہی پولیٹکس میں ہوں لیکن میں اسے سسپینڈ نہیں کرا سکتا کیوں کہ وہ کوئی چھوٹا پولیس انسپکٹر یا حولدار نہیں ہے ۔
وہ اس شہر کے ٹاپ بزنس مین جواد تیمور خان کا بیٹا اور ایس ،آر ،کے کا بھائی ہے جس کی کافی اونچی پہونچ ہے ۔اور صرف یہی بات نہیں ہے بلکہ یہ جو ڈی ایس پی عرشمان خان ہے اسنے یہ نوکری اپنے باپ بھائی کی مدد سے حاصل نہیں کی ہے بلکہ اپنی ایمان داری اور بہادری سے کمائی ہے ۔اب تو تم سمجھ گیے ہوگے کہ اس کی پوزیشن کتنی اسٹرانگ ہے اور ہم بنا کسی جرم کے اسے نوکری سے نہیں نکال سکتے ہیں ۔
بھائی میں نے آپ کو اس کی شان میں قصیدہ خوانی کرنے کو نہیں بولا ہے بلکہ اپنی پرابلم کا سلیوشن مانگا ہے ۔
وہ غصے سے تیز آواز میں بولا ۔
ارے میرے بھائی تم پریشان کیوں ہو رہے ہو اس کا بھی کوئی حل ڈھونڈ لیں گے ۔
اوکے بھائی لیکن اس ڈی ایس پی کو موت ملنی چاہیے کیونکہ آج تک کسی نے مجھے نہیں ہرایا لیکن اس ڈی ایس پی نے نہ صرف ہرایا ہے بلکہ ہمارا کروڑوں کا نقصان بھی پہونچایا ہے ۔
ارے میرے بھائی تم ابھی یہ سب چھوڑو اور وہاں پہونچو جہاں پر میں نے تمہاری رات رنگین کرنے کا سامان مہیا کیا ہے اس کا بڑا بھائی خباثت سے آنکھ ونگ کرتے ہوئے بولا ۔
او و۔ و مطب آپ نے میرے آنے کی خوشی میں نگار بایی کے کوٹھے پر کوئی مست کلی منگوائی ہے ۔
ہاں ۔اب تم جاؤ اور ان سب کے بارے میں بے فکر رہو تمہارا بھائی سب سنبھال لے گا جیسے سالوں پہلے سبنھالا
تھا وہ ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے بولا ۔
اوکے بھائی اینڈ تھینکس ۔۔
ہہم جاؤ لیکن صرف دل لگی کرنا دل نہ لگا لینا وہ پیچھے سے ہانک کر بولا ۔
افف اب میں اس عمر میں دل لگاؤں گا کیا، ویسے بھی میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بہت خوش ہوں ۔
یہ تو جسٹ فن ہے ۔
وہ عرشمان کو بھول بھال کر اپنی رات رنگین کرنے چلا گیا ۔
کہتے ہیں کہ انسان جب پہلی بار گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ بن جاتا ہے اور جیسے جیسے وہ گناہ کرتا جاتا ہے یہ نقطہ بھی بڑھتا جاتا ہے اور ایک دن ایسا آتا ہے جب اس کا پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور پھر وہ گناہ کیے جاتا ہے اور اس کا ضمیر بھی مردہ ہو جاتا ہے ۔
کچھ ایسا ہی حال ان دونوں بھائیوں کا بھی ہے جنہوں نے نا جانے کتنے گناہ کیے اور معصوم لوگوں کی بدعاییں لی ہیں کہ اب ان کا ضمیر بھی انہیں ملامت نہیں کرتا ہے ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
میم وہ پاکستان آ چکا ہے اور اسے بہت بڑی ہار کاسامنا کرنا پڑا ہے ۔
مطلب ؟
انشاء نے اس کی طرف ناسمجھی سے دیکھا ۔
میم نے آپ کو بتایا تھا کہ اس کے پیچھے پولیس بھی لگی ہے ۔اور اس کی ہر ایکٹویٹی کو فالو کر رہے تھے ۔
کل اس کو یہاں پہونچتے ہی یہ خبر ملی کہ اس کا سارا مال پکڑا گیا ہے اور جو لڑکیاں اسمگلنگ ہونے والی تھیں وہ پولیس نے ہاتھ لگ چکی ہیں ۔
ہہم یہ پولیس کب سے اتنی فاسٹ ہو گیی ۔
میم وہ جو نیے ڈی ایس پی سر آیے ہیں وہ بہت ہی ایماندار اور قابل آ فیسر ہیں ۔
کل انہوں نے اور ان کی ٹیم نے مل کر آصف نیازی کے فارم ہاؤس پر ریڈ ڈالی تھی جو کہ کامیاب ہوئی ۔
ہہم کچھ بھی ہو مگر پولیس قابلِ اعتماد نہیں ہے ۔
ویسے میں نے تم سے جو بولا تھا وہ کام ہوگیا کہ نہیں ؟
جی میم ہو گیا ہے ۔
اوکے ۔۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
آج شاہ ریز اور نایرہ کی شادی کو ایک ہفتہ ہو گیا۔
اس دوران وہ گھر والوں سے کافی گھل مل گئی تھی ۔
اس کی سب سے زیادہ گل اور رومی چاچی کے ساتھ بنتی تھی ۔
اسے اس گھر کے سبھی لوگ بہت اچھے لگے جنہوں نے اس ایک ہفتے اسے بہت زیادہ پیار دیا تھا کہ وہ بھی ہچکچانا چھوڑ کر ان کے ساتھ گھل مل گئی تھی ۔
اس کی انشاء سے روز بات ہوتی تھی لیکن وہ اب پہلے کی طرح اسے فورس نہیں کرتی تھی اپنے پاس بلانے کے لیے ۔
اس ایک ہفتے میں انشاء ایک ہی بار خان ولا آئی تھی کیوں کہ وہ کافی مصروف تھی وجہ آصف نیازی تھا جس کی وہ پل پل کی خبر حاصل کر رہی تھی وہ بس ایک موقعے کی تلاش میں تھی کہ وہ اسے اس کے کیے کی سزا دے سکے ۔
عرشمان بھی زیادہ تر باہر رہتا تھا کیس کے سلسلے میں ۔
فلحال وہ اپنے جذبات سائیڈ پر رکھے اس کیس کے لئے جی توڑ کوشش کر رہا تھا ۔
سبھی گھر والے اس وقت لاؤنج میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
تبھی عر شمان تھکا ہوا سا اندر داخل ہوا۔
میرا بچہ تھک گیے ہو جاؤ فریش ہو جاؤ میں تب چاے بنواتی ہوں ۔
جب ایسی جاب کرے گا تو تھکے گا ہی ۔میں نے کتنا بار منع کیا ۔۔۔۔۔
اففف۔۔۔۔ ناٹ اگین ڈیڈ میں اپنے جاب کے بارے میں کچھ نہیں سنوں گا وہ ان کی بات کاٹتے ہوئے بولا ۔
میں تمہاری جاب ۔۔۔
ارے جواد تم کیا بچے کے پیچھے پڑے ہو ابھی تو وہ باہر سے تھکا ہوا آیا ہے ۔
جا پتر تو فریش ہو کر آ ۔
دی جان نے پہلے جواد صاحب کو ڈپٹا اور عرشمان کو فریش ہونے کو کہا ۔
ویسے ماما بھائی کی جوب سے محبت دیکھ کر میرے دماغ میں ایک سوال آیا ہے کہیں تو عرض کروں ۔
ساحل نے انہیں اپنی طرف متوجہ کر تے ہوئے کہا۔
پوچھ تو ایسے رھے ہو جیسے منع کریں گی تو مان جاؤ گے۔
گل نے اسے چڑھاتے ہوئے کہا۔
باسی پھول تم چپ رہو۔
ہاں تو میں سوچ رہا تھا کہ اگر بھائی کے جوب کی وجہ سے باہر رہنے پر اگر بابا کو اتنی پریشانی ہے تو اگر ان کی بیوی آ گیی تو اس بیچاری کا کیا ہوگا ۔۔
جو بھی ہوگا تمہیں اس بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں۔
عرشمان اس کے بغل میں چیر پر بیٹھتے ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے بولا ۔
ساحل گڑبڑا کر رہ گیا ۔
تبھی رومی چاچی گرما گرم پکوڑے لے کر آئیں ۔
آج موسم ابر آلود تھا اور لگ رہا تھا کہ بارش ہونے والی ہے اس لیے انہوں نے موسم کی وجہ سے پکوڑے بنا لیے ۔
ساحل نے جھٹ سے پلیٹ آچکی اور جلدی جلدی کھانے لگا ۔
محبت کے پکوڑے کھا رہا ہوں ،
ذرا چاہت کی چٹنی ڈال دینا ۔
گرم چاے پکا کر بھی لے آؤ
کوئی آیے تو اس کو ٹال دینا ۔
ساحل پکوڑے کھاتے ہوئے گنگنا کر بولا ۔
رومی چاچی منہ پر ہاتھ رکھے ہنسے لگی
میں ہمیشہ چلا آؤں گا جلدی
اگر شامی تلو تو مس کال دینا ۔
عرشمان کو شامی کباب زیادہ پسند تھے اس لیے وہ بھی ساحل کی دیکھا دیکھی فرمایش کر دی۔
آج اس کا موڈ فریش تھا اسلیے اس نے بھی ایک چھوٹی شرارت کر دی ۔
انہیں سوکھی ہوئی روٹی کھلا دو
میری جاں بس مجھے تر مال دینا
میں کتنی دیر سے بھوکی ہوں بیٹھی ۔
اگر کچھ بھی نہیں تو دال دینا ۔
تیرے پکوان میں کیسے بھول جاؤں
مجھے پھر سے وہی کھانے کمال دینا ۔
گل کیسے ان سے پیچھے رہ جاتی اسلیے اس نے بھی شعر پڑھتے ہوئے کہا ۔
اچانک فضا میں ایک کھنکتا ہوا قہقہ گونجا ۔
سب نے چونک کر آ از کی طرف دیکھا ۔
تو نایرہ مسلسل پیٹ پکڑے ہنس رہی تھی ۔۔۔شاہ ریز جو اس کے بغل میں صوفے پر بیٹھا آفس کا کام کر رہا تھا
چونک کر اس کو دیکھنے لگا ۔
بھابھی آپ ہنس کیوں رہی ہیں ؟
م۔۔م۔۔یں ۔۔نہ۔۔یں ہنس رہی وہ اپنا پیٹ پکڑے ہوئے بولی ۔
ہنسنے سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا ۔
وہ آپ لوگ اتنی فنی شاعری کر رہے تھے نا اسلیے مجھے ہنسی آ گیی ۔
آی ایم سوری وہ اپنے کان پکڑے کیوٹ سا فیس بناتے ہوئے بولی ۔
ارے بھابھی کوی بات نہیں آپ جتنا دل چاہے ہنس سکتی ہیں ۔
شاہ ریز تو بس اپنی بٹر فلائی کے خوبصورت چہرے پر نظر یں ٹکاے ہوئے تھا ۔
اچانک عرشمان کا موبائل رنگ کرنے لگا ۔
جسے وہ کان سے لگایے باہر آ گیا ۔
ہاں زمان بولو کیا خبر ہے ۔
اور زمان کے بتانے پر اس نے ایک دو سوال کیے اور کال بند کر دی ۔
اور کل کے بارے میں سوچنے لگا۔
در اصل بات یہ تھی کہ آصف نیازی جسے ہفتے پہلے ہوئے ریڈ کی وجہ سے کافی نقصان پہنچا تھا اور تب سے وہ بپھرا ہوا تھا ۔
اور آج زمان نے خبر دی کہ ایک جگہ پر غریب لڑکیوں کا اجتماعی نکاح کرا یا جا رہا ہے جن کے ماں باپ ان کی شادی افورڈ نہیں کر سکتے یا پھر وہ لڑکیاں جو اکیلی ہیں اور کویی نہیں ہے ۔
اور ،ہ نکاح آصف نیازی کے بھائی کی طرف سے کرایا جا رہا تھا ۔
دنیا والوں کی نظر میں یہ ایک نیک کام تھا لیکن کسی کو پتہ نہیں تھا کہ اس نکاح کی آڑ میں کونسا گھناؤنا مقصد چھپا ہوا ہے ۔
یہ سب آصف نیازی اور اس کے بھائی کی چال تھی کہ وہ ان لڑکیوں کا نکاح ایسے لڑکوں سے کریں گے جو نکاح میں لےکر انہیں باہر ملک لے جانے کا بول کر بیچ دیں گے کیوں کہ یہ سب لڑکے بھی آصف نیازی اور اس کے بھائی کی طرف سے بھیجے گئے تھے ۔
اور جب سے ،یہ بات زمان نے اسے بتایی تھی وہ غصے سے بھرا ہوا تھا پھر اس نے اجتماعی نکاح میں جانے کا پلان کیا ۔
ادھر انشاء کو بھی اس بارے میں پتہ چل گیا تھا اور وہ وہاں جا نے کو تیار تھی ۔
اور اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ ان لڑکیوں کو کچھ نہیں ہونے دیگی ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
آج اجتماعی نکاح تھا اور اس جگہ پر انشاء اور عرشمان دونوں ایک دوسرے سے انجان وہیں پر موجود تھے ۔
ساری لڑکیاں تیار ہو رہی تھیں اور انشاء بھی وہاں تھی اچانک دو لڑکیاں چلتی ہوئی اس کے پاس آییں اور اسےاپنی ساتھ ایک کمرے کی طرف لے جانے لگیں
اوو ہیلو۔ آپ لوگ مجھے کہاں لے کر جا رہی ہیں ۔
تیار کرنے ،اس میں سے ایک نے مختصر سا جواب دیا ۔
کیوں ۔؟
نکاح کے لیے تیار کرنا پڑیگا نا اس لیے تو لے جا رہی ہوں ۔
وااااٹ کس کا نکاح وہ کافی پریشان ہوئی ۔
اور وہ لوگ اسے کمرے میں لے آییں اور اسے تیار کرنے لگیں ۔
اس نے بہت روکنے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانی اور ویسے بھی وہ یہاں اپنے مقصد کے لیے آئی تھی ۔
اسلیے وہ زیادہ کچھ کر بھیی نہیں سکتی تھی ۔
ادھر عرشمان خان کو بھی زبردستی دلہا بنا کر بٹھا دیا تھا ۔اور زیادہ مزاحمت بھی نہیں کر سکا ۔
کیوں کہ وہ زمان کا ویٹ کر رہا تھا جو ان نقلی دولہوں کے خلاف ثبوت لا نے والا تھا ۔
یہاں پر میڈیا والے بھی موجود تھے ۔
اس نے سوچا جب تک نکاح شروع ہوگا زمان آ جائے گا اور تب وہ یہ اجتماعی نکاح رکوا دیے گا ۔
لیکن شروع ہو گیا اور زمان تب تک نہیں آیا ۔
عرشمان کافی جھنجھلا گیا ۔
زمان اگر یہ نکاح ہو گیا نا تو پھر تمہیں مجھ سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔
وہ من ہی من میں دھمکیاں دیتے ہوئے بولا ۔
آخر کار جب نکاح ہوگیا تب جا کر زمان پہونچا
اور اس کے ساتھ پولیس اہلکار بھی تھے پولیس کو سب گھبرا گیے ۔
گھبرا تو آصف نیازی اور اس کا بھی گیا تھا ۔
میڈیا بھی یہاں موجود تھا ۔
عرشمان اپنی جگہ سے اٹھ کر سامنے آیا اور پھر اس نے ساری میڈیا کے سامنے ان نقلی دلہنوں کا پردہ فاش کیا ۔
اور ان سب کو پولیس کے حوالے کیا اور اس نے آصف نیازی کے بھائی پر الزام لگایا کہ یہ سب اس کے تھرو ہورہا تھا یہ بھی اس سب میں شامل ہے لیکن اس کے خلاف پختہ ثبوت نہیں ہونے پر وہ صاف بچ گیا ۔
عرشمان خان کا تو خون گیا کتنی محنت سے اس نے اور اس کی ٹیم نے ایک ایک دولہے کی اصل پہچان ڈھونڈ کر ان کو بے نقاب کیا لیکن پھر بھی یہ آصف نیازی اور اس کیا بھائی بچ گیا ۔
چلو کوئی نہیں آج نہیں تو کل میں تمہیں اور کالے کارنامے دنیا کے سامنے لا کر رہوں گا ۔
۔
ان سب کاموں سے نمٹ کر اس کا دھیان اپنی تھوڑی دیر پہلے بنی ہوئی بیوی کی طرف گیا وہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک کم رش والے ایریا کی طرف لے آیا
پہلے تو انشاء کچھ نہیں سمجھی اور ہوش میں آتے ہی زور سے چلایی
تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو بد تمیز انسان اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرا ہاتھ پکڑنے ۔
اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی ایسے ہی کسی کے بھی ساتھ نکاح میں بیٹھنے کی اگر میری جگہ کوئی اور ہوتا تو ؟
تو کیا ہوا اگر کوئی اور ہوتا مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اور ویسے اپنے مقصد کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہوں ۔
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے غرایی ۔
عرشمان کا دماغ یہ ہی سوچ کر خراب ہو گیا تھا کہ اگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ؟
اس کایہ کہنا کہ اس کی جگہ اگر کوئی اور ہوتا پھر بھی یہ نکاح کر لیتی ۔
اس کا یہ کہنا کہ اگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا پھر بھی وہ یہ نکاح کرتی ،عرشمان کے جسم چنگاریاں بھر گیا اس نے اس کی کلائیوں کو اپنی سخت پکڑ میں لیا اور اسے مروڑ کر کمر سے ٹکایا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے چہرے کو پکڑ کر اپنے سامنے کیا اور غصے سے دہاڑا ۔
تم ایسے کیسے کسی سے نکاح کر لیتی یہ ڈی ایس پی عرشمان خان تمہیں اپنی سوچ میں بھی کسی اور کا ہونا برداشت نہیں کر سکتا تو وہ حقیقت میں کیسے کسی اور کا ہونے دیتا ۔
تم میری تھیں میری ہو اور میری ہی رہو گی اسلیے تو میرے رب نے ہمیں ایک کرنے کے لئے یہ وسیلہ بنایا ہے
نہیں ہوں میں تمہاری اور نہ رہوں گی ابھی بہت جلد میں تم سے ڈایورس لے کر چھٹکارا پا لو ں گی۔
انشاء اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نفرت بھرے لہجے میں بولی ۔
ڈایورس کی بات پر عرشمان خان آپے باہر ہو گیا اس نے اس کے چہرے کو سختی سے جکڑا اور سرد آواز میں بولا
ایک بات یاد رکھنا انشاء میر ۔۔اپس انشاء میر نہیں بلکہ انشاء عرشمان خان بھلے ہی یہ نکاح چاہے جس سچویشن میں ہوا تم اپنے دماغ سے یہ خناس نکال دو کہ تم کبھی عرشمان خان کی زندگی سے نکل پاؤ گی ۔
تمہیں مجھ سے چھٹکارا پانا ناممکن ہے ۔
اب سے آج سے اور ابھی سےتم یہ بات ذہن نشین کر لو اب تم کبھی بھی عرشمان خان کے حصار سے نکل پاؤ گی ۔
وہ ایک ہاتھ سے اس کی کمر کو جکڑے اس کے کان میں سرد آواز میں سرگوشیاں کرتے ہوئے بولا ۔
او ٹکے کے آفیسر اپنی یہ افسری کہیں اور جھاڑنا اور چھوڑو مجھے وہ اپنے آپ کو چھڑاتے ہوئے بولی ۔
کہاں جانا ہےتمہیں ؟دلبر اب سے تم ہمیشہ میرے ساتھ رہوگی میرے وجود کا حصہ بن کر اور اب تم کہیں نہیں جاؤ گی اب سے تم میرے ساتھ میرے گھر پر رہو گی ۔
واٹ تم پاگل ہو گیے ہو آفیسر! جو اس شادی کو سچ مان بیٹھے ہو خوابوں کی دنیا سے باہر نکلو اور اس سچ کو قبول کرو ۔
میں نہیں مانتی اس شادی کو تو تمہارے ساتھ رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
کیوں نہیں مانتی اس شادی کو جب کہ تم نے خدا اور کو گواہ بنا کر اس رشتے کو قبول ہے ۔
کیا تمہارے لیے یہ سب مزاق ہے ہاں !
دیکھو میں نے تمہیں پہلے ہی بتایا تھا کہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں اور شادی کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔
اور میں نے بھی اپنا جواب بتا دیا تھا تو۔ کیوں میرے پیچھے پڑے ہو جانے دو وہ غصے سے چیخی
تمہیں تو میرے ساتھ چلنا ہی پڑے گا سیدھے طریقے سے نہیں تو زبردستی ہی سہی ۔
دیکھو میں تمہیں کب سے سمجھا رہا ہوں کہ مجھے محبت ہو گئی ہے تم سے ۔۔۔۔
مجھے تم سے محبت نہیں عشق ہے ،محبت تو کسی سے بھی ہو سکتی ہے !!!
کسی کے لہجوں سے ،ناول کے کردار سے ،زرد پتوں سے ،جنگلوں سے ،لمبی سڑکوں سے،کسی جھیل کنارے پڑے پتھروں سے ،مجھے عشق ہے تم سے ۔
عشق ہر کوئی ہر کسی سے نہیں کرتا،
عشق ایک سے ہوتا ہے ۔اسی سے شروع اسی پر ختم ۔
میری خواہش ہے کہ میں تمہاری زندگی میں وہ انسان بنوں
کہ اگر تمہیں کوئی دکھ یا پریشانی ہو تو وہ مجھ سے بانٹو میری دعاؤں پر یقین رکھو۔
تمہیں یقین ہو کہ اس دنیا میں کوئی ایسا ہے جس کی سانسیں میرے ہونے سے ہیں ،
اگر دنیا کبھی میرا ساتھ چھوڑ دے تو وہ میرے ساتھ ہمیشہ ہے۔
تم دنیا کے سامنے تو مظبوط رہو لیکن میرے کندھے پر سر رکھ اپنے سارے بہا دو اور سارے دکھ درد بھول جاؤ ۔
اور تمہیں یقین ہو یہ میری آواز ساری زندگی کے لیے سن سکتا ہے ۔
میں بس اتنا چاہتا ہوں ۔
وہ اسے اپنے نزدیک کیے سحر زدہ آواز میں سر گوشیاں کرتے ہوئے بولا ۔
انشاء تو کچھ پل کے لیے اس کی جادوئی آواز میں کھویی رہی ۔
پھر ہوش میں آتے ہی اپنے آپ کو اس سے چھڑایا اور جانے کے لیے مڑی تبھی آگے بڑھ کر عرشمان نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔
تم میرے ساتھ چل رہی ہو اور اب میں کوئی اگر مگر نہیں سنوں گا وہ سخت لہجے میں بولا ۔
ویسے بھابھی تمہیں وہاں دیکھ کر کافی خوش ہوں گی ۔
اچانک انشاء کے دماغ میں ایک خیال آیا جس کے تحت وہ وہاں جانے کےلیے تیار ہوگیی ۔
اس نے سوچا جو راستہ اس نے اپنے لیے چنا ہے اس کا انجام پتہ نہیں کیا ہوگا لیکن عرشمان کے ساتھ جا کر وہ اور وقت اپنی جان نایرہ کے ساتھ گزار سکتی ہے ۔اس لیے وہ جانے کے لئے تیار ہو گیی ۔
لیکن اس کے سامنے کچھ شرطیں رکھیں ۔
کہ وہ اس پر اپنے شوہر ہونے کا روب نہیں ڈالے گا اور نہ ہی اپنے شوہر ہونے کا حق جتانے گا ۔
اور نہ ہی اس کے کسی معاملے میں کچھ بولنے کا حق رکھے گا ۔
ایسے ہی دو تین شرطوں کے بعد وہ گھر جانے کے لئے تیار ہو گیی ۔
عرشمان کو اس کی ساری شرطیں منظور تھیں ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
خان ولا میں اس وقت سب رات کا کھانا کھا رہے تھے اور سبھی گھر والے موجود تھے سواے عرشمان خان کے ۔
ابھی سب کھا رہے تھے کہ باہر گاڑی کا ہارن سنائی دیا ۔
لو عرشمان بھی آ گیا اس کی ماما نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
دیدوو ۔۔۔۔۔۔
اچانک نایرہ چیختے ہوئے دروازے کی طرف بھاگی ۔تو سب نے دروازے کی طرف دیکھا جہاں انشاء عرشمان کے ساتھ کھڑی تھی ۔
وہ دونوں چلتے ہوئے ان کی طرف آیے ۔
عرشمان تو سیدھا دی جان کے پاس آیا اور ان کے پاس دو زانو بیٹھ گیا ۔
ارے عرش بیٹا آپ ایسے کیوں بیٹھ رہے ہو اوپر بیٹھو ۔
دی جان مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے ۔
ہاں بولو بیٹا ۔
اور پھر اس نے انھیں ساری باتیں بتائیں سوایے کچھ باتوں کے ۔
انشاء چپ چاپ بیٹھی تھی ۔
پہلے سب لوگ کچھ نہیں بولے اور چپ چاپ ان دونوں کو دیکھا ۔
عرشمان کو لگا کہ شاید یہ لوگ اچانک نکاح کرنے پر ناراض ہو گئے ہیں ۔
ابھی وہ اپنی صفائی میں کچھ کہتا کہ تبھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
گل کے چلانے کی آواز آئی ۔
او مای کوڈ اب میری دو دو بھابھی ہو گیی ہیں ۔۔
بھائی آپ نے اچانک سیے شادی کر لی ۔۔
ہاں گڑیا یہ سب ایک دم اچانک ہوا ۔
نایرہ تو بس اپنی دیدووو سے چپک کر بیٹھ گئ تھی جیسے کوئی اس سے چھین لےگا ۔
شاہ ریز کافی دیر سے عرشمان کو دیکھ رہا تھا عرشمان نے اس کی طرف دیکھ کر ایبرو اچکایی ۔کہ کیا ہوا ۔
شاہ ریز نے مسکرا کر نفی میں سر ہلایا ۔
اسے بہت خوشی ہوئی تھی کہ اس کے جگر کو اس کا پیار مل گیا اسے نہیں پتہ تھا کہ ان دونوں کا اچانک کیسے نکاح ہو گیا لیکن اسے اتنا پتہ تھا کہ وہ ہر حال میں اپنے یار کا ساتھ دے گا ۔
اسے اس بات کی بھی بہت خوشی تھی کہ اب نایرہ بار بار اپنی دیدو کے پاس جانے کی ضد نہیں کرے گی کیوں کہ اب تو وہ اس کے پاس ہوگی۔
وہ کب سے اس کے خوشی سے کھلکھلاتے چہرے کو دیکھ رہا تھا ۔
انشاء کب سے سوچ رہی تھی کیا دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ بیٹا اچانک شادی کر کے آ گیا اور ان لوگوں کے چہرے ذرا بھی شکن نہیں آیی ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
آصف نیازی جب سے گھر آیا تھا مسلسل غصے سے اپنے کمرے کی ہر چیز کو توڑ رہا تھا اور اس کا بھائی اسے کام ڈاؤن کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
میں نے آپ سے کہا تھا کہ اس ڈی ایس پی کو سسپینڈ کراییں لیکن آپ نے میری بات نہیں مانی پتہ نہیں کیا توپ چیز سمجھ ہے ہیں اس کو ،آپ کب اس کے خلاف ایکشن لینگے جب وہ ہمارا سارا کٹھا چٹھا کھول کر رکھ دے گا ۔
ایسا کچھ نہیں ہوگا میرے بھائی میں سب کچھ ٹھیک کر دوں گا ۔بس صحیح وقت کے انتظار میں ہوں کہ کب اس کی کوئی کمزوری ہاتھ آئے اور پھر ہم اس سے بدلہ لے سکیں ۔
آپ اس کی کمزوری کا انتظار کریں مجھے جو کرنا ہے میں کر کے رہوں گا ۔
کیا کرنے والے ہو تم آصف ؟
بھائی جو کرونگا آپ کو پتہ چل جائے گا۔
وہ چہرے پر ایک پر اسرار مسکراہٹ سجائے ہوئے بولا۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
بچوں اب بہت باتیں ہو گییں چلو اب سب اپنے کمرے میں جاؤ ۔
دی جان سب کو باتوں میں لگا دیکھ کر کہا ۔
گل اور نایرہ کا دل نہیں کر رہا تھا انشاء کےپاس سے جانے کا پتہ نہیں کون سی باتیں تھیں جو ان دونوں کی ختم نہیں ہو رہی تھیں ۔
اور شاہ ریز تو بس اپنی بٹر فلائی کو دیکھ رہا تھا جو کب سے پٹر پٹر باتوں میں لگی ہوئی تھی اس کے سامنے تو بس ہوں ہاں میں جواب دیتی تھی ۔
اچانک شاہ ریز کو انشاء سے جیلسی فیل ہوی کہ اس کی بٹر فلائی اس کے اتنے قریب ہے ۔
وہ اٹھ کر نایرہ کے پاس آیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا کیا ۔
دی جان بلکل ٹھیک کہ رہی ہیں کافی رات ہو گئی ہے اب سبھی کو سو جانا چاہیے ۔
چلو بٹر فلائی ھم روم میں چلتے ہیں وہ کہتے ہوئے بنا کچھ سنے اس کو اپنے ساتھ لے گیا ۔
انشاء کافی خوش تھی کہ شاہ ریز نایرہ کا بہت خیال رکھ رہا ہے کیوں کہ اس نے کھانا کھانے کے وقت بھی دیکھا تھا کہ کیسے وہ خود کھانے کے بجائے پہلے نایرہ کی پلیٹ میں کھانا سرو کر رہا تھا اور اسے ایک ایک ڈش اٹھا کر دے رہا تھا ۔
وہ ان دونوں کو دیکھتی رہی جب تک کہ وہ روم میں نہیں چلے گئے ۔
بیٹا اب آپ بھی جاؤ کافی تھک گئی ہوں گی ۔
انہوں نے انشاء سے کہا ۔
جاؤ عرش اسے اپنے روم میں جاؤ ۔
اوکے دی جان ۔
اور دونوں چلے گئے ۔
تبھی رومی چاچی کی نظر ساحل پر پڑی جو منھ سجایے بیٹھا تھا ۔
ارے تمہیں کیا ہوا ہے کیوں منھ بنایے بیٹھے ہو ۔
آپ مجھ سے بات نہیں کریں آپ کیا کویی بھی مجھ سے بات نہیں کرے ۔
وہ منہ بناتے ہوئے بولا ۔
ارے کیا ہو گیا ہے میرے شیر کو منہ کیوں بنا ہے ؟
راحم چاچو نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا ۔
ہونا کیا ہے چاچو سب کی شادیاں ہو گیی ہیں مجھے کنوارا مارنے کا ارادہ ہے کیا آپ سب کا ؟
کب سے بول رہا ہوں کہ مجھ معصوم کی بھی فریاد سن لی جایے اور میرا بھی ویاہ کرایا جائے ۔
وہ نادیدہ آنسو صاف کرتے ہوئے بولا ۔
اس کی بات سن کر راحم چاچو کا جاندار قہقہ گونجا ۔
جواد صاحب تو اپنے نوٹنکی بیٹے کو گھور کر رہ گئے ۔
تو بیٹا جی آپ ایک عدد خوبصورت اور پیاری لڑکی کا انتظام کرو ہم ویاہ کرا دیں گے ۔راحم صاحب نے اس کے مسلےکا حل نکالتے ہوئے کہا ۔
ڈھونڈنے کی کیا ضرورت جب لڑکی گھر میں موجود ہے وہ چمکتی آنکھوں کے ساتھ مسکرا کر بولا ۔
کیا مطلب کہ لڑکی موجود ہے ،تم کس کی بات کر رہے ہو ساحل ؟
بیگم جواد اس کی بات سن کر کہا ۔
ارے بھابھی یہ اپنی گل کی بات کر رہا ہے ۔
اچھا لیکن یہ دونوں تو ہر وقت لڑتے رہتے ہیں ۔
ارے مام او تو ایسے ہی میں اسے تنگ کرنے کے لئے لڑتا رہتا ہوں مجھے اس سے دشمنی تھوڑی ہے ۔
بس اب آپ لوگ میری بھی منگی وغیرہ کرادو نا پلیز زز
وہ منتوں پر اتر آیا ۔
برخوردار ذرا سوچ سمجھ کر فیصلہ کیجئے کیوں کہ ہماری بھتیجی سر پھاڑنے میں ماہر ہے اور آپ کو اس کا تجربہ بھی حاصل ہے ۔
جواد صاحب نے اسے بچپن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جب بچپن میں گل نے اس کا سر پھاڑا تھا ۔
وہ سب چھوڑیں بس آپ میری شادی کا فیصلہ کریں آپ کی بھتیجی کو تو میں سنبھال لوں گا وہ آنکھ ونگ کرتے ہوئے بولا ۔
بدتمیز نہ ہو تو ۔
اس کی مام نے اس کے سر پر چپت لگاتے ہوئے کہا ۔
اور وہ دانت نکالتے ہوئے اپنے روم چلا گیا کیوں کہ اس پتہ چل گیا تھا کہ اس کے گھر والے بھی چاہتے ہیں کہ اس شادی کے سے ہو ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
عرشمان انشاء کو سیدھے اپنے روم میں لایا تھا ۔
یہ لو مسز خان یہ رہا میرا روم جو کہ آج سے تمہارا بھی ہوگا۔
اور ہاں اگر اس روم کی کوی چیز تمہیں پسند نہیں آیے تو بتانا ہم اسے چینج کرادیں گے ۔
انشاء نے روم میں اپنی نظریں گھمائیں ۔
پورا روم گرے کلر کے لکڑی کے فرنیچر ڈیزائن سے ڈیزائن کیا گیا تھا ۔ روم بہت ہی سمپل طریقے سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا ۔
لیکن انشاء کو پہلی ہی نظر میں کافی پسند آیا تھا لیکن انشاء نے زبان سے اقرار کرنا ضروری نہیں سمجھا ۔
مسٹر آفیسر روم تک لانے کا شکریہ اب آپ اپنے تشریف کا ٹوکرا سنبھالے اور باہر تشریف لے جائیں ۔
انشاء نے کافی عزت سے باہر کا راستہ دکھاتے ہوئے کہا ۔
وا ا ٹ ۔۔۔کیا کہ رہی ہو تم ؟
تم ڈی ایس پی عرشمان کو تم اس کے کمرے سے باہر جانے کا بول رہی ہو !!
یس آفیسر میں آپ کو ہی بول رہی ہوں کہ آپ باہر تشریف لے جائیں ۔کیوں کہ مجھے اپنے روم کسی اور کی موجودگی برداشت نہیں ۔
ویٹ ۔۔ مسز خان یہ آپ کا نہیں میرا روم ہے اور اب شادی کے بعد آپ کا بھی ہے لیکن تم مجھے اس روم سے باہر نہیں نکال سکتی ۔
اوکے آفیسر اگر تم نہیں جا سکتے ہو تو میں چلی جاتی ہوں اس نے باہر کی طرف قدم بڑھائے ۔
عرشمان ایک ہی جست میں اس تک پہونچا ۔
تم کہیں نہیں جاؤ گی ۔کیوں تماشہ لگا چاہتی ہو ۔
اوکے ٹھیک ہے تم بیڈ پر سو جاؤ میں صوفے پر سو جاؤں گا ۔
ارے آفیسر یہ کوی ناول یا ڈراموں نہیں چل رہا ہے کہ تم صوفے پر سو جاؤگے اور میں بیڈ پر ۔
میں کہا کہ تم اس روم میں نہیں رہوگے مطلب نہیں رہوگے وہ ایک ہی بات دہراتے ہوئے بولی ۔
عرشمان کو بہت غصہ آیا اس کی ایک ہی رٹ پر جو شادی کے پہلی رات ہی اس کا تماشہ بنانا چاہتی تھی۔
اچانک اس کی آنکھوں میں چمک آ گیی اس نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر نزدیک کیا اور آنکھوں میں اپنی نظریں گاڑتے ہوئے بولا ۔
اوہ ہ۔ ۔۔ میری دلبر کو ڈر لگ رہا ہے کہ۔
اگر میں اس کمرے میں رہا تو تمہیں پیار ہو جائے گا ۔
وا ا اٹ مجھے کیوں ڈر لگے گا بدتمیز آفیسر ۔
وہ اپنے آپ کو چھڑاتے ہوئے بولی لیکن اس کی گرفت سے نکل نہیں پایی۔
تو تم کیوں مجھے باہر بھیج رہی ہو
کیوں کہ مجھے نہیں پسند کہ میں تمہارے ساتھ ایک روم شئیر کروں ۔
کیوں کہ مجھے دنیا کے کسی مرد پر بھروسہ نہیں ہے وہ زہر خند لہجے میں بولی ۔
لیکن میں تو چاہتا ہوں کہ تم مجھ پر بھروسہ کرو ۔
نہیں ہے مجھے بھروسہ نہیں ہے نہیں ہے وہ ہزیانی انداز میں چلایی ۔
عرشمان اس کا مردوں کے لیے یہ ریکشن دیکھ کر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر گیا ۔
کام ڈاؤن یار میں جا رہا ہوں اس روم سے باہر تم آرام سے سو جاؤ ۔
وہ اس کی حالت دیکھتے ہوئے بولا اور وہاں سے چلا گیا ۔
انشاء نے ایک لمبی سانس لے کر خود کو کمپوز کیا اور بیڈ پر لیٹ کر آج دن میں ہویے واقعے کو سوچتے نہ جانے کب سو گیی ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
شاہ ریز اور نایرہ جب سے روم میں آیے تھے نایرہ اس سے مسلسل اپنی خوشی کا اظہار کر رہی تھی کہ دیدو بھی اب یہیں رہیں گی تو وہ یہ کریگی وہ کریگی ۔ان کے ساتھ شاپنگ پر جائے گی ۔
شاہ ریز کب سے اسے سن رہا تھا اور انشاء کے لیے نایرہ کا پیار دیکھ کر جیلس بھی ہو رہا تھا پہلے نایرہ اس بلی کے پیچھے پڑی رہتی تھی یہ کیا کم تھا کہ وہ اب اپنا دیدو نامہ چالو کر لیا تھا ۔ایسا نہیں تھا کہ وہ انشاء کو نا پسند کرتا تھا بلکہ اسے تو اپنی بٹر فلائی کو کسی سے شئیر کرنا منظور نہیں تھا۔
اچانک شاہ ریز نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اس کے چہرے کو ہاتھوں میں لے کر محبت سے اس کی آنکھوں پر بوسہ دیا۔
بٹر فلائی آج تو آپ بہت خوش ہیں۔
ہاں پرنس میں بہت زیادہ خوش ہوں۔
اچھا تو اس خوشی کے موقع پر کچھ میٹھا تو بنتا ہے۔
ہاں ۔ لیکن اتنی رات کو سویٹ کہاں سے لائیں۔
لانے کی کیا ضرورت ہے ماے انوسینٹ بیوٹی جب وہ موجود ہے۔
کہا ہے پرن۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی وہ اپنی بات پوری کرتی کہ شاہ ریز نے جھکتے ہوئے اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے کر انہیں نرمی سے چھونے لگا ۔
اچانک ہویی اس افتاد پر نایرہ بوکھلا گئی اور شاہ ریز کی کالر کو مٹھیوں میں جکڑا ۔
شاہ ریز تو اس کے ہونٹوں کا نرم لمس پاتے ہی جیسے مدہوش ہو گیا۔
شاہ ریز نے اس کے ہونٹوں کو قید میں لیے ہی اسے اس کا سر تکیے سے لگایا اور اس کے ہونٹوں سے ہوتے ہوئے گردن پر آیا اور بیوٹی بون پر اپنے تپتے ہوئے ہونٹ رکھ دیئے۔
نایرہ اس کے لمس پر تڑپ کر کروٹ بدل لی اس کا دل زوروں سے دھڑک رہا تھا مانو پسلیاں توڑ کر باہر آجائے گا۔
شاہ ریز نے اس کے کندھے پر بوسہ دے کر اس کا رخ اپنی طرف کیا ۔
نایرہ ہلکا ہلکا کانپ رہی تھی اور اس نے بیڈ شیٹ کو مٹھیوں میں جکڑا ہوا تھا۔
شاہ ریز نے اس کو سیدھا کرتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر جھکنے لگا تھا کہ نایرہ کی نم آواز کانوں میں پڑی ۔
ش۔۔ش۔شاہ نہیں کریں میں مر جاؤں گی۔
وہ تڑپ کر اسے گلے لگا گیا ۔
ہے بٹر فلائی میں کچھ نہیں کر رہا ہوں۔ آپ میری طرف دیکھو۔
اس نے مینچی آنکھوں کو نرمی سے چومتے ہوئے بولا ۔
نایرہ نے دھیرے سے اپنی سرخ آنکھیں کھولیں جسے دیکھ کر شاہ ریز تو تڑپ ہی گیا ۔
میری جان آپ رو کیوں رہی ہیں کیا آپ کو میرا قریب آنا برا لگتا ہے ؟
ن۔نہیں شاہ ایسا نہیں ہے وہ ہکلاتے ہوئے بولی،۔
جب سے انشاء نے اسے ہسبینڈ وائف کے ریلیشن کے بارے میں اسے سمجھایا تھا وہ اپنے اور شاہ ریز کے رشتے کو کافی سمجھنے لگی تھی لیکن ابھی بھی اس کے اندر ڈر اور ہچکچاہٹ موجود تھی وہ ابھی یہ سب نہیں چاہتی تھی ۔
کیا ہوا ہے بٹر فلائی کیا آپ کو میں برا لگتا ہوں ۔
شاہ ریز نرمی سے اس کا چہرہ اوپر کرتے ہوئے بولا ۔
نہیں شاہ آپ بہت اچھے ہو ۔وہ جلدی سے بولی ۔
پھر ؟
و۔۔ہ شاہ۔ میں ۔اتنی جلدی ۔کیسے ۔۔
وہ جھجھک کر بات ادھوری چھوڑ گئی ۔
لیکن شاہ ریز کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی ۔
اففف بٹر فلائی آپ اس لیے اتنا پریشان ہو رہیں تھیں ۔
کوئی بات نہیں اگر آپ نہیں چاہتی کہ ہمارا ریلیشن آگے بڑھے تو کوئی بات نہیں میں انتظار کر لوں گا ۔
لیکن یہ چھوٹی چھوٹی عنایتیں تو میں آپ پر کرتا رہوں گا وہ شرارت سے بولتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر جھک کر ایک چھوٹی سی شرارت کی ۔
آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں میں آپ سے ناراض نہیں ہوں اور نہ ہو سکتا ہوں ۔
وہ اسے اسی طرح بیٹھا دیکھ کر بولا اور کھینچ کر اسے اپنے نزدیک کیا اور اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا تھوڑی ہی دیر میں دونوں ہی نیند کی آغوش میں چلے گئے ۔
انشاء جو گہری نیند میں تھی اچانک کھٹکے کی آواز سے اس کی آنکھ کھل گئی اس نے مندی آنکھوں سے دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے عرشمان اندر داخل ہو رہا تھا ۔
ناجانے کس خیال کے تحت اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔
اس کے کان اس کے قدموں کے آہٹ کی طرف ہی متوجہ تھے ۔
اچانک واش روم کا دروازہ بند ہونے کی آواز آئی انشاء نے اپنا موبائل اٹھا کر ٹایم دیکھا تو صبح کے چار بج رہے تھے
مطلب کہ وہ تہجد کی نماز پڑھنے کے لئے اٹھا تھا ۔
تھوڑی دیر بعد عرشمان گیلے چہرے کے ساتھ باہر آیا اور
الماری میں سے جاء نماز نکال کر بچھایی اور نماز پڑھنے لگا ۔
انشاء کروٹ کے بل لیٹی ادھ کھلی آنکھوں سے عرشمان کی ساری کارروائی دیکھ رہی تھی اور منہ ہی منہ سوچ رہی تھی کہ کیا یہ سچ میں دنیا کے باقی مردوں سے الگ ہے ۔
اس کی نظریں بار بار عرشمان کے وضو سے تر چہرے کی طرف جا رہیں تھیں ۔
نہیں ایسا نہیں ہو سکتا یہ بھی باقی مردوں کی طرح ہے جسے صرف عورت کے جسم سے محبت ہوتی ہے اسے اس کے جذبات اور احساسات کی کوئی فکر نہیں ہوتی ہے ۔
مجھے نہیں کرنا اعتبار کسی پر کیوں کہ میں نے مرد فطرت کو بہت ہی اچھے سے پہچان لیا ہے۔
وہ اپنے دل کو ڈپٹتے ہوئے من ہی من بولی۔
وہ عرشمان کو دیکھنے میں اس قدر بزی تھی کہ اس کی نماز ختم ہونے کا بھی احساس نہیں ہوا ۔
ہوش تو تب آیا جب آیا جب وہ چلتا ہوا اس کے قریب آیا انشاء نے سختی سے آنکھیں مینچ لیں تاکہ اسے پتہ نہیں چلے کہ وہ جاگ رہی ہے ۔
عرشمان جھکا اور کچھ پڑھ کر اس پر پھونک ماری اور نرمی سے اس کی پیشانی پر اپنی محبت کی پہلی نشانی چھوڑی ۔
انشاء تو اس کی حرکت پر کچھ پل کے لیے ہل بھی نہ سکی ۔
میرے دلبر مجھے پتہ ہے کہ آپ جاگ رہی ہو اسلیے اب اپنی آنکھیں کھول لو ۔
انشاء اپنے آپ سے جی بھر کر شرمندہ ہویی کہ کیا ضروت تھی سونے کی اداکاری کرنے کی کونسا جاگنے پر یہ آفیسر گولی سے اڑا دیتا ۔
ہاں پتہ ہے کہ میں جاگ رہی ہوں تمہیں بتانے کی کوئی ضرورت نہیں وہ اپنی شرمندگی چھپانے کے لئے اس پر چڑھ دوڑی ۔
گڈ میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ تم مجھ سے ڈرو نہیں بلکہ مجھ سے لڑو جھگڑ و فرمایشیں کرو۔
ویٹ آفیسر ۔۔ میرا تم سے ایسا کوئی رستہ نہیں ہے کہ میں تم سے فرمائشیں کروں اور ویسے بھی یہ رشتہ زیادہ ٹایم تک نہیں رہنے والا ۔
وہ تڑخ کر بولی ۔
صبح ہی صبح اس کی رشتہ ختم کرنے والی بات نے عرشمان کو انگاروں پر گھسیٹ لیا اور پل میں ہی اس کا میٹر شارٹ ہوا تھا ۔
اور لپک کر اس تک آیا جو آدھی لیٹی اور بیٹھی کیفیت میں تھی اسے کھینچ کر اپنے روبرو کیا۔
مسز خان میں نے تمہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ میری دسترس سے رہائی پانا ناممکن ہے تو کیوں بار بار ایک ہی بات کرکے اپنے آپ کو تھکاتی ہو ۔
عرشمان کافی حد تک اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے سرد
آواز میں بولا ۔
لیکن میں پھر بھی پوری کوشش کروں گی اس رشتے سے آزاد ہونے کی چاہے کچھ بھی ہو جائے اور تم مجھ پر اس روب نہیں ڈال سکتے میں اسی شرط پہ آیی تھی۔
وہ بھی دو بدو بولی ۔
دیکھو صبح صبح میرا دماغ مت گھماؤ ورنہ تمہارے لئے ہی مشکل ہوگی ۔
ہونہہ ۔۔آفیسر میں تم سے ڈرتی نہیں ہوں ۔
او ریئلی تمہیں مجھ سے ڈر نہیں لگتا ؟
وہ اس کے چہرے پر گہری نظر ڈالتے ہوئے بولا ۔
ہاں میں نہیں ڈرتی تم سے ٹکے کے آفیسر وہ نڈر انداز میں بولی ۔
اچانک عرشمان نے اس کے چہرے پر جھکتے اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی گرفت لیا اور اس کے بالوں میں اپنی انگلیاں الجھائیں اور خود کو سیراب کرنے لگا ۔
پہلے تو انشاء کو کچھ سمجھ نہیں آیا پھر ہوش میں آتے ہی اس نے عرشمان کے بالوں کو اپنی مٹھی میں لے کر زور سے کھینچا جس سے عرشمان بلبلا کر پیچھے ہٹ گیا ۔
یہ کیا کیا تھا جنگلی بلی ؟
عرشمان نے بدمزہ ہوتے ہوئے کہا لیکن جب نظر اس کے چہرے پر پڑی تو ٹھٹھک گیا ۔
کیوں کہ انشاء کا چہرہ خطرناک حد تک سرخ ہو گیا تھا ا رور اس کی آنکھیں اس حد تک سرخ تھیں کہ مانو ابھی خون چھلک پڑے گا ۔
ت۔۔ت تمہاری ہمت کیسے ہوئی ۔۔م۔میرے ساتھ یہ گھٹیا حرکت کرنے کی ہاں ۔
وہ غصے سے اتنی زور دہاڑی کہ ایک پل کو عرشمان بھی ڈر گیا کہ کہیں اس کی آواز باہر نہ چلی جایے۔
لسن ۔میری بات سنو تم ایسا کچھ نہیں کیا میں نے جو تم اتنا ہائپر ہو رہی ہو ۔
انشاء نے ایک زخمی نظر اس پر ڈالی اور واشروم کی طرف جانے لگی ۔
عرشمان نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا ۔
سوری یار یہ میری غلطی ہے کہ میں نے بغیر تمہاری اجازت کے یہ سب کیا ۔
غلطی نہیں گناہ ہے وہ اپنے ہونٹوں کو مسلسل رگڑتے ہوئے بولی ۔
عرشمان کو ایک بار پھر سے غصہ آنے لگا کہ وہ اس کے پیار اور چاہت کو گناہ کا نام دے رہی تھی ۔
تم بار بار ایسا کیوں بہیو کر رہی ہو جیسے میں کوئی لٹیرہ ہوں وہ اس کے چہرے کو ہاتھوں میں جکڑے غصے سے دہاڑا ۔
وہ جتنا اس سے نرمی سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا یہ لڑکی اسے اتنا ہی غصہ دلا رہی تھی ۔
وہ بار بار اس کے سامنے بے بس ہو رہا تھا کیوں کہ وہ اس پر اپنا غصہ نہیں اتارنا چاہتا تھا ۔
عرشمان نے اس کی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکایی
اور اپنی گمبھیر اور ساحرانہ آواز میں بولا ۔
تم میرے لئے بہت خاص ہو ۔
تم وہ واحد ہستی ہو جس کے لئے مجھے نیند سے محروم رہنے میں کوئی اعتراض نہیں صرف تم ہو جس سے بات کرتے ہوئے میں کبھی تھک نہیں سکتا تمہارا خیال ہی میرے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے ۔
تم وہ واحد ہستی ہو جسے کھو دینے کا ڈر میری جان نکالنے کے لیے کافی ہے۔
تم وہ ہوجس کے ساتھ مجھے آخری آرام گاہ تک سفر کرنے کی خواہش ہے ۔
میں نہیں جانتا کہ تمہاری زندگی میں ایسا کیا ہوا کہ تمہیں دنیا کے ہر مرد سے نفرت ہو گیی ہے لیکن میں اتنا ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ میں ہر مشکل ہر پریشانی میں تمہارے ساتھ ہوں ایک بار مجھ پر اعتبار کر کے دیکھو میں تمہاری زندگی سے ان تکلیف دہ لمحوں کو اپنی محبت سے یوں مٹا دوں گا کہ جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں ۔
میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ دنیا کے سارے رنگ تمہاری ان بے رنگ آنکھوں میں بھر دوں ۔
تمہاری ان کہی باتوں کو بھی غور سنوں اپنی ساری محبت تم پر قربان کر دوں اور اپنی چا ہت کا تمہیں اکلوتا وارث بنا لوں۔
وہ اس کے کانوں میں میٹھی سی سرگوشیاں کرتے ہوئے بولا ۔
انشاء اس کے سحر کر دینے والے الفاظ میں کھویی رہی
اور اچانک اس نے اپنی نم پلکیں اٹھاییں اور زخمی لہجے میں بولی ۔۔۔
میں نہیں اعتبار کر سکتی کسی پر کیوں کہ زندگی نے مجھ سے صرف چھینا ہی ہے چاہے وہ میرا مخلص رشتہ یا پسندیدہ چیز، میری عزت نفس میرا غرور ہی کیوں نہ ہو ۔
اس لئے اب مجھے ہر ایک چیز سے نفرت ہے چاہے وہ انسان ہو یا چیزیں ہوں ،میرا نصیب ہو یا پھر میرے آنسو ہوں ۔
اتنی سی عمر میں زندگی نے مجھے بے حس بنا دیا ہے ۔
نہ جانے کیسے وہ اپنے دل چھپے درد کو عرشمان کے سامنے باہر نکالنے لگی اور اسے احساس بھی نہیں ہوا کہ وہ کیا اور کس سے بول رہی ہے ہوش میں تب آیی جب عرشمان نے اس کے گرد اپنے بازوؤں کا گھیرا تنگ کر کے اسے اپنے نزدیک کیا اور اس کے بالوں کو سہلانے لگا جیسے اسے ایک طرح کی تسلی دے رہا ہو ۔
انشاء نے نکلنے کی کوشش کی تو اس نے گھیرا اور تنگ کر دیا اور اس کے کانوں کے پاس چہرہ کرکے گنگنایا ۔
کبھی سایہ بن کے میرے قریب رہنا
کبھی مجھ سے لڑ کر میرے رقیب رہنا
میں نے خدا سے دولت مانگی کب ہے
بس دعا ہے کہ فقط تو میرا نصیب رہنا۔
عرشمان نے شعر پڑھ کر اس کے ماتھے کو چوما اور گنگ کے لیے چلا گیا ۔
انشاء بت بنی کھڑی رہی اس نے اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر اس کے لمس کو محسوس کیا ۔
اس کا دل ایک عجیب لے پر دھڑک اٹھا ۔
عرشمان جب بھی اس کے قریب آتا اور اپنی محبت کا اظہار کرتا انشاء کا دل چیخ چیخ کر اس پر اعتبار کرنے کو کہتا لیکن وہ نظر انداز کر دیتی تھی ۔
انشاء کو اپنے بابا کے بعد عرشمان ہی ایسا لگا جس پر اعتبار کیا جا سکے لیکن پھر وہ ہر بار اسے جھڑک دیتی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ جب اسے سچ پتا لگے تو وہ اس سے نفرت کرے ۔
اسلیے وہ اسے خود سے دور رکھنا چاہتی تھی۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
نایرہ کی آنکھ آج شاہ سے پہلے کھل گئی تھی اسلیے وہ جلدی ہو کر انشاء کے پاس جانا چاہتی تھی تاکہ اس سے ڈھیر ساری باتیں کر سکے ۔
وہ جلدی سے اٹھی اور فریش ہونے کے لیے واشروم میں گیی ۔
شاہ ریز کی آنکھ کھلی تو اس نے نایرہ کو اپنے قریب نہیں پایا تو وہ پریشان ہو گیا کیوں کہ نایرہ اس کے ساتھ ہی جاتی تھی نیچے وہ اس کے بنا نہیں جاتی تھی ۔
ابھی وہ اٹھ کر اسے ڈھونڈنے کے لیے باہر جاتا کہ تبھی کلک کی آواز کے ساتھ نایرہ دروازہ کھول کر باہر آئی ۔
اور مرر کے سامنے آ کر اپنے بال سلجھانے لگی ۔
اس نے پیچ کلر کی خوبصورت کلیوں والی فراک پہنی ہوئی تھی جس میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی ۔
شاہ ریز بیڈ سے اٹھ کر اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا ۔
مجھے قبول یہ بھی نہیں کہ تجھے آئینہ دیکھے
تجھے تو میں دیکھوں یا میرا خدا دیکھے ۔
شاہ ریز نے اس کے کندھے پر اپنا چہرہ ٹکراتے ہوئے شعر پڑھا۔
میں نے سنا ہے کہ رب کی اس کائنات میں ایک سے بڑھ کر ایک حسین چہرے موجود ہیں لیکن میری نظروں کو تو آپ کے سوا کوئی بھاتا ہی نہیں ہے ۔
شاہ ریز نے اس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر اس کی پیشانی پر نرمی سے بوسہ دیا ۔
نایرہ کی پلکیں حیا سے جھک گییں اور پل میں ہی اس کا چہرہ سرخ ہوگیا ۔
شاہ ریز نے کافی دلچسپی سے اس کے رنگ بدلتے چہرے کو دیکھا اسے یہ منظر بہت پیارا لگا ۔
ابھی وہ کوئی شوخ جسارت کرتا کہ تبھی اس کے رومانس کا دشمن ساحل ٹپک پڑا ۔
ارے او لو برڈز اب باہر تشریف لے آئیں شادی تو ان دونوں کی ہوئی ہے لیکن یہ آپ لوگ کس خوشی ابھی تک اندر موجود ہیں ۔
وہ ہمیشہ کی طرح نان اسٹاپ بولتا چلا گیا ۔
شاہ ریز کو اس وقت جتنا غصہ ساحل پر آرہا تھا کہ وہ بتا نہیں سکتا تھا ۔
ہم چاہے جس خوشی میں اندر موجود ہوں یہ تمہارا کنسرن نہیں ہے اور اب تم جاؤ ہم آ رہے ہیں ۔
شاہ ریز اسے جلدی سے بھگاتے ہوئے کہا ۔
لیکن ساحل بھی اپنے نام کا ایک ۔
اس نے جلدی سے نایرہ کا ہاتھ پکڑا اور چلا گیا اور جاتے ہوئے بولا کہ بھابھی تو تیار ہیں اسلیے میں انہیں لے کر جا رہا ہوں تب تک آپ تیار ہو کر آجاییں ۔
یہ کہ کر بنا اس کی سنے یہ جا وہ جا ۔
شاہ ریز تو دانت پیس کر رہ گیا ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸❣️❣️❣️❣️❣️
کھانے کی میز پر سبھی موجود تھے تبھی دی جان سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ۔
جیسا کہ آپ سب کو پتہ کہ دونوں شادیاں جلدی میں ہوئیں ہیں اور کوئی بڑا فنکشن بھی نہیں ہوا ہے اسلیے ہم چاہتے ہیں کہ شاہ ریز اور عرشمان دونوں کا ولیمہ ایک ساتھ رکھیں ۔
اس بات پر کسی کو کوئی اعتراض تو نہیں۔
سب نے نفی میں سر ہلایا سوایے شاہ ریز کے۔
کیا ہوا بیٹا آپ کو ہمارے فیصلے پر اعتراض ہے ؟
ارے نہیں دی جان مجھے کوئی اعتراض نہیں میں تو بس نایرہ کے وجہ سے پریشان ہوں کیوں کہ نایرہ نے اپنی شادی کے لیے کافی چھٹیاں کی تھیں اور اب بھی وہ کالج نہیں جا رہی ہے اس کی پڑھائی کا نقصان ہو گا اور کچھ نہیں
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
ہیلو میں تمہیں ایک کام دے رہا ہوں کرنا یہ ہے کہ ایک شخص کو گاڑی سے ٹککر مارنی ہے جان سے نہیں مرنا چاہیے کیوں کہ اس کی طرف میرے کافی حساب نکلتے ہیں ۔
ایکسڈنٹ کافی سیریس ہونا چاہیے ۔
اوکے سر ہو جائے گا.
ہمم اوکے
دی جان کی بات پر شاہ ریز نے جب پڑھائی کا ذکر کیا تو نایرہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا ۔
وہ جو خوش تھی کہ اب پڑھائی سے جان چھوٹی اور اب اسے کالج نہیں جانا پڑے گا اور نہ ہی وہاں کی گندی لڑکیوں سے سامنا ہوگا جنہوں نے اس کو اتنا تنگ کیا اور روم میں بھی بند کر دیا تھا ۔
لیکن شاہ ریز کی بات سن کر اسے بلکل اچھا نہیں لگا نایرہ نے ایک غصیلی نظر شاہ ریز پر ڈالی اور اٹھ کر اپنے روم میں چلی گئی اس نے ناشتہ بھی پورا نہیں کیا ۔
شاہ ریز تو پریشان ہو گیا کہ اس کی بٹر فلائی اس سے ناراض کیوں ہو گیی اؤر ناشتہ بھی چھوڑ دیا ۔
انشاء نے جب شاہ ریز کو مسلسل اسی طرف دیکھتے دیکھا جہاں سے نایرہ گیی تھی تو وہ بولی کہ ۔۔
نایرہ اس طرح سے اٹھ کر اس لئے گیی ہے کیوں کہ اس کو آپ کی پڑھائی والی بات پسند نہیں آیی ہے ۔۔
جب سے ان لڑکیوں نے اس کے ساتھ وہ روم میں بند کر نے والا پرینک کیا ہے وہ دوبارہ کالج نہیں گیی ہے اور نہ ہی اب جاییگی اس نے مجھے پہلے ہی بتا دیا تھا ۔
اور پھر سب کے پوچھنے پر اس نے کالج والا واقعہ بتایا تو سبھی کو بے حد افسوس ہوا شاہ ریز کو تو بے پناہ غصہ آیا کہ کسی کی ہمت کیسے ہوئی اس کی بٹر فلائی کو تکلیف دینے کی ۔
وہ اٹھ کر نایرہ کے پاس جانے لگا تاکہ اس کی ناراضگی دور کر سکے ۔
انشاء اپنا ناشتہ مکمل کرکے اٹھی اور اپنا آفس بیگ لے باہر جانے لگی ، اس نے اپنی ضرورت کا ہر سامان رات کو ہی جہاں داد سے منگوا لیا تھا ۔
اسے باہر جاتا دیکھ کر عرشمان کی ماما نے اسے پکارا ۔
بیٹا آپ آج کے دن آفس جاؤ گی ؟؛
آج تو آپ کی شادی کا پہلا دن ہے ان کی بات پر انشاء رک گئی اور کنکھیوں سے عرشمان کی طرف دیکھا جو کھانا کھانے میں اس طرح مگن تھا جیسے صدیوں سے بھوکا ہو۔
اففف اب میں انہیں کیا جواب دوں ؟
ہماری شادی کوئی نارمل شادی تو ہے نہیں جو اس طرح کے چونچلے کریں ۔
وہ من ہی من بولی اسے عرشمان پر بے تحاشہ غصہ آ رہا تھا جو ارد گرد سے بے نیاز کھانے میں مگن تھا ۔
آنٹی میں نہیں جاتی لیکن میری ایک بہت ضروری میٹنگ ھے اس لئے مجھے جانا ہوگا ۔
پلیز آپ مائنڈ مت کرنا وہ نرم لہجے میں بولی ۔
عرشمان نے چونک کر اس کی طرف دیکھا ۔مجھ سے بات کرتے ہوئے انگارے چبائے رہتی ہے اور اب دیکھو کیسے بات کر رہی ہے ۔۔
بیٹا آپ مجھے آنٹی نہیں ماما بولو جیسے یہ تینوں بولتے ہیں کیوں کہ میں تمہاری بھی ماما ہوں ۔
ان کی بات پر اس کی آنکھوں میں نمی چمکی جسے وہ بڑی مہارت سے چھپا گیی۔
اوکے آنٹ۔۔۔۔آی۔مین ماما ۔
ہہم گڈ گرل ۔ انہوں نے پیار سے کہا ۔
اچھا بیٹا آپ جاؤ آپ کو دیر ہو رہی ہوگی۔
اور پھر انشاء ان سے ملتے ہوئے آفس چلی گئی ۔
اس کے جانے کے تھوڑی دیر بعد عرشمان بھی چلا گیا ۔
___________________________________
شاہ ریز جب روم میں آیا تو نایرہ کو بیڈ پر لیٹا ہوا پایا ۔
اسے حیرانی ہوئی کہ نایرہ اتنی جلدی پھر کیسے سو گیی ۔
اچانک خاموش کمرے میں اس کی سسکیاں سنائی دی ۔
شاہ ریز تڑپ کر اس کے پاس آیا ۔
بٹر فلائی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہو ؟
وہ اسے اٹھاتے ہوئے بولا ۔لیکن نایرہ نے اس کی طرف سے چہرہ پھیر لیا اور سوں سوں کرکے رونے لگی ۔
شاہ ریز سے اس کا منہ موڑنا برداشت نہیں ہوا اس نے سختی سے اس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور سرد آواز میں بولا ۔
بٹر فلائی میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں لیکن میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ آپ مجھ سے منہ پھیریں چاہے وہ ناراضگی کے اظہار کے لیے ہی کیوں نہ ہو آج تو بتا رہا رہوں لیکن اگر آپ نے آئندہ آپ نے ایسا کیا تو میں آپ کو بہت بری سزا دوں گا وہ جنونی انداز میں بولا اس کی سرخ آنکھیں اس کے غصے کا پتہ دے رہی تھیں ۔
نایرہ اس کی سخت پکڑ میں کپکپا کر رہ گئی اس کے ہاتھوں میں شدید درد ہو رہا تھا جسے شاہ ریز نے سختی سے جکڑا ہوا تھا ۔
شا۔۔ہ ۔م۔۔میں آپ سے ناراض ہوں اور ۔غ۔غصہ آپ کر رہے ہیں ۔۔
نایرہ دھیمی آواز میں منمناتے ہویے بولی ۔
اس کی بات سن کر شاہ ریز کو اس کی ناراضگی یاد آیی۔
اور میری بٹر فلائی مجھ سے کیوں ناراض ہے ۔ہہہمم۔
وہ آپ مجھے کالج جانے کے لئے بول رہے تھے اس لیے ۔
شاہ۔ مجھے کالج نہیں جانا پلیز ۔۔۔
اور آپ کو کالج کیوں نہیں جانا ؟
شاہ وہاں پر بیڈ گرل ہیں انہوں نے مجھے روم میں بند کر دیا تھا ۔
میں بہت روئی لیکن انہوں نے نہیں کھولا ۔۔
اور وہ مجھے بہت تنگ کرتی تھیں ۔
اور اب مجھے وہاں نہیں جانا ہے شاہ پلیزززز
اچانک نایرہ شاہ کے گلے لگ کر روتے ہوئے بولی ۔
ہے بٹر فلائی آپ رونا بند کریں ۔میں کہیں نہیں بھیج رہا آپ کو اوکے ۔
وہ اس کا سر سینے سے اٹھاتے ہوئے بولا ۔
اس نے رو رو کر اپنی نیلی آنکھوں کا ستیاناس کر دیا تھا ۔
شاہ ریز نے نرمی سے اس کی آنکھوں کو سہلایا اور نرم آواز میں بولا ۔
آپ کو پتا ہے بٹر فلائی میں آپ کو کیوں کالج بھیجنا چاہتا ہوں ؟
اسلیے کیوں کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ پڑھ لکھ ایک قابل اور پر اعتماد لڑکی بنیں تاکہ کوئی آپ کا فائدہ نہ اٹھا سکے اور آپ اس دنیا کا مقابلہ کر سکیں ۔
کیوں کہ یہ دنیا ایسی ہی ہے یہ ڈرے ہوئے کو اور ڈراتی ہے ۔
اور رہی بات کالج کی تومیں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ کوئی بھی پریشان نہیں کرے گا ۔
شاہ ریز اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے اسے پر سکون کرتے ہوئے بولا ۔
ٹھیک ہے میں جاؤں گی کالج لیکن آپ مجھے چھوڑنے اور لینے آئیں گے اوکے ۔
وہ اس سے وعدہ لیتے ہوئے بولی ۔
ٹھیک ہے جیسا میری بٹر فلائی بولے ۔
اچھا پرنسز اب آپ مجھ سے ناراض نہیں ہو تو چلو ایک اچھی سی کس دے کر گڈ بائی بولو مجھے ۔
نہ۔۔نہیں کس نہیں میں ایسے ہی آپ کو باے بول دیتی ہوں نا پلیزز
نہیں بٹر فلائی آپ نے میرا اتنا وقت برباد کرایا ہے تو سزا تو بنتی ہے ۔
شاہ آپ اپنی بٹر فلائی کو سزا دوگے۔۔۔
نایرہ کیوٹ سا فیس بنا کر بولی ۔۔
ہاں ماے لو میں آپ کو سزا دوں گا ایک پیاری اور میٹھی سی سزا وہ بولتے ہوئے جھکا اور اس کے ہونٹوں پر جھک کر ایک چھوٹی سی شرارت کی اور اٹھ گیا کیوں کے بہت لیٹ ہو گیا تھا ۔
بٹر فلائی ایسے باے بولتے ہیں اگلی بار آپ مجھے ایسے ہی باے کریں گی اوکے ۔
میں بلکل بھی ایسا نہیں کروں گی ۔
شاہ آپ بہت گندے ہوتے جا رہے ہیں وہ شرمایی لجای سی بولی ۔
شاہ ریز اس کے سرخ حیا سے لبریز چہرے کو دیکھ کر بے خود ہوا اور اس کے چہرے پر جھک کر اس کے ایک ایک نقش کو اپنے ہونٹوں سے چوما اور اس کی پیشانی پر ایک محبت بھرا لمس چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا ۔
پرنسیز کے ہم آپ کے کالج جاینگے آپ تیار رہنا اور اب اس بارے میں میں نا نہیں سنوں گا ۔
اس نے نایرہ کو کہا اور پھر آفس چلا گیا ۔
نایرہ چلتی ہوئی مرر کے پاس آیی اور اس میں اپنے چہرے کو دیکھا جو شاہ ریز کی شدتوں سے سرخ ہوا پڑا اس نے شرما کر اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا ۔
وہ دن بدن شاہ ریز کے قریب ہو رہی تھی اور اس کی شدتوں کی عادی ہو رہی تھی ۔
اسے شاہ ریز کے چھونے پر برا نہیں لگتا تھا بلکہ اس کے قریب آنے سے اس کا دل ایک الگ انداز میں دھڑکنے لگتا تھا اور اس پر حیا آمیز کیفیت طاری ہو جاتی تھی ۔
خیر جو بھی تھا اب وہ ان سب کی عادی ہو رہی تھی ۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
آصف نیازی مسلسل ملنے والی ہار سے پاگل ہو اٹھا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ عرشمان کو جان سے مار دے ۔
اسے اپنے بھائی پر بھی غصہ تھا کہ اس نے اسے سسپینڈ نہیں کرایا ۔
اس نے سوچ لیا تھا کہ اب جو بھی کرنا ہے اسے ہی کرنا ہے
اسنے کسی کو کال ملایی اور اس سے بات کرنے لگا ۔
ہیلو میں تمہیں ایک کام دے رہا ہوں کرنا یہ ہے کہ ایک شخص کی گاڑی کو ٹککر مارنی ہے اور ہاں وہ جان سے نہیں مرنا چاہیے کیوں کہ اس کی طرف میرے کافی حساب نکلتے ہیں ۔
اوکے سر کام ہو جایے گا ۔۔۔اوکے ۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
عرشمان اپنی کیبن میں بیٹھا مسلسل انشاء کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ ایسا کیا ہوا ہے اس کے پاسٹ میں کہ وہ ایسی ہو گیی ہے ۔
اس کے ذہن کے پردے پر بار بار اس کی کالی گہری آنکھیں
ظاہر ہوتیں ۔
جو ہمیشہ ویران رہتی تھیں عرشمان نے مصمم ارادہ کیا کہ وہ اس راز حل کرکے ہی دم لے گا ۔
ابھی وہ اور کچھ سوچتا کہ تبھی اس کی کیبن میں بغیر اجازت کے آصف نیازی داخل ہوا ۔
اسے دیکھتے ہی عرشمان کا پارہ ہائی ہوگیا ۔
مسٹر نیازی کیا آپ کو نہیں معلوم کہ کسی کے کمرے میں بغیر اس کی اجازت داخل نہیں ہوتے ۔
آفیسر تم یہ سب چھوڑو اور ہماری بات سنو ۔
تم ہمارے معاملے سے دور رہو نہیں تو تمہاری صحت کے لئے اچھا نہیں ہوگا ۔تمہارا وہ حال ہوگا جو تم نے کبھی سوچا نہیں ہوگا تم آصف نیازی کو ابھی جانتے نہیں ہو
اس لیے اتنا ایمانداری کاگاناگا رہے ہو ۔
مسٹر آصف نیازی تم یہ فضول کی دھمکیاں دینا بند کریں کیوں کہ کتوں کے بھونکنے سے شیر نہیں ڈرا کرتے ۔
آفیسر تم میری بات نہ مان کر بہت پچھتاؤ گے ۔
اور مسٹر نیازی تم مجھے یہ فضول کی دھمکیاں دے کر پچھتاؤ گے ۔
اور پھر تن فن کرتا ہوا وہ چلا گیا ۔
سر یہ بہت خطرناک آدمی ہے کچھ بھی کر سکتا ہے
کچھ نہیں کر سکتا یہ بس گیدڈ بھبھکیاں ہیں ۔
عرشمان زمان کہتے ہوئے ایک بار پھر سے ان فایلوں میں بزی ہوگیا ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
رات کا کھانا کھا کر سب لوگ لاؤ نج میں بیٹھے تھے جب دی جان عرشمان اور شاہ ریز کے ریسیپشن تین دن بعد کا بتایا ۔
سب لوگ یریشان ہو گیے کہاتے کم ٹایم اتنی ساری تیاری کیسے ہوگی ۔
سب سے زیادہ پریشان تو گل تھی کہ اس نے اپنی اتنی ساری شاپنگ کرنی تھی وہ کیسے ہو گی ۔
دی جان نے کہا کہ کل سارے گھر اپنی اپنی شاپنگ کر لیں ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
آج عرشمان کمرے میں ہی سویا تھا پتا بکیا سوچ کر انشاء نے اسے بیڈ پر سونے کی اجازت دے دی تھی شاید گھر والوں کا سوچ کر ۔
ابھی عرشمان کو سوے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ تبھی اسے انشاء کی کراہتے ہوئی آواز سنائی دی ۔
وہ اٹھ کر بیٹھ گیا
اور ایک ہی جست میں بیڈ پر لیٹی انشاء کے پاس آیا جو مسلسل ہاتھ پیر پٹکتے ہوئے کچھ بڑبڑا رہی تھی ۔
ب۔بابا۔۔و۔ہ۔۔پھر۔آ گیا ۔۔۔وہ پھر۔۔کچھ غلط۔ک۔رےگا۔
بابا آپ واپس آ ۔جاو۔آپ کی انشو کو آپ۔۔کی۔ضرورت ہے
وہ مسلسل بڑبڑا رہی تھی ۔
عرشمان نے جب ہاتھ رکھ کر اس کی پیشانی چیک کی تو وہ بخار سے جل رہی تھی عرشمان اس کی حالت دیکھ کر گھبرا گیا ۔
اس نے اپنے فیملی ڈاکٹر کو کال کی وہ آجائے لیکن اس نے کہا کہ وہ آؤٹ آف سٹی ہے ۔
ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ اس کے سر پر ٹھنڈے پٹیاں رکھے
اس سے افاقہ ہو گا ۔
اور پھر عرشمان پوری رات اس کے سر پر پٹیاں اور صبح جاکر اسے کچھ افاقہ ہوا تھا ۔
صبح جب انشاء کی آنکھ کھلی تو اس نے عرشمان کو اپنے سرہانے بیٹھا پایا ۔
جس کے ایک ہاتھ میں پٹی تھی اور دوسرا ہاتھ انشاء کے بالوں میں تھا
تو کیا یہ پوری نہیں سویا
انشاء کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ عرشمان اس کے سرہانے بیٹھا تھا اور اس کے ایک ہاتھ میں پٹی تھی اور دوسرا ہاتھ اس کے بالوں میں تھا ۔
وہ ایک ٹک اسے دیکھے گئی ۔
کیا تھا یہ شخص اس کی اتنی بے رخی کے باوجود اس سے پیار کرتا تھا وہ اس سے اونچی آواز میں بات نہیں کرتا تھا وہ اس کی کڑوی باتوں پر بھی اپنے غصے کو کنٹرول کر لیتا تھا ۔
بچپن میں اس کے بابا اس سے کہا کرتے تھے کہ ان کی شہزادی کے لئے ایک شہزادہ آیے گا ۔
جو اسے اپنی پلکوں پہ بٹھا کر رکھے گا اور اس کی حفاظت کرے گا ۔
پہلے وہ بھی اپنے بابا کی باتوں پر خوش ہو جایا کرتی تھی لیکن پھر اس کی زندگی میں ہویے واقعے نے اسے اپنے بابا کے دکھائے ہر خواب بھلا دیے اب نہ وہ خواب تھے اور نہ اسے دکھانے والے اس کے بابا ۔
اب اسے دنیا کا ہر مرد درندہ لگتا تھا ۔
لیکن جب جب وہ عرشمان کو دیکھتی تو اسے اپنے بابا کے دکھائے خواب کی تعبیر نظر آتی ۔
اسے اس بات پر یقین آ گیا تھا کہ اس دنیا میں آصف نیازی کے علاوہ اس کے بابا اور عرشمان جیسے لوگ بھی ہوتے ہیں ۔
اس نے کہیں پڑھا تھا کہ ۔اپنی زندگی میں سب چھوڑ دینا
لیکن ایسے شخص کو ہر گز مت چھوڑنا جو آپ سے محبت کرتا ہو جو ہر اچھے برے وقت میں آپ کے ساتھ رہے۔
جو بہت سارا لڑنے کے بعد بھی آپ کو منانے کا ہنر رکھتا ہو۔
اور ہر وقت آپ کا خیال رکھے۔
وہ اپنے خیالات میں اس قدر بزی تھی کہ اسے عرشمان کے جاگنے کا بھی نوٹس نہیں لیا ۔
چونکی تب جب شاہ ریز نے جھک کر اس کی پیشانی چیک کی کہیں ابھی تک بخار تو نہیں ۔
انشاء اٹھنے لگی تو نقاہت کی وجہ سے اٹھ نہ سکی۔
عرشمان نے فورن اس کی کمر کے پیچھے پلو لگایا اور اس کو آرام سے بیٹھا دیا اس کے ہر انداز میں اس کے لیے فکر تھی ۔
انشاء ایک ٹک اسے دیکھے گئی ۔
کیا بات ہے ؟ آج ہمارے دلبر کے انداز بدلے بدلے لگ رہے ہیں کیا ہم اس کرم نوازی کی وجہ جان سکتے ہیں ۔
عرشمان کب سے انشاء کی نظریں اپنے اطراف محسوس کر رہا تھا اس لیے شرارتی آواز میں بولا ۔
م۔۔میں تمہیں ۔تھوڑی نہ دیکھ رہی تھی میں تو اس کو دیکھ رہی تھی ۔
وہ گڑبڑا کر عرشمان کے بغل میں ٹیبل لیمپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ۔
او و و تو تم اس لیمپ کو دیکھ رہی تھیں ۔
ہاں میں اسے ہی دیکھ رہی تھی کیوں کہ پہلے کبھی دیکھا نہیں تھا ۔
اچھا تم نے اسے ابھی تک دیکھا نہیں تھا ؟
لیکن مسز خان جہاں تک مجھے پتہ ہے اس بیڈ پر آپ ہی سوتی ہیں اور ظاہر سی بات اسے آن اور آف بھی آپ ہی کرتی ہیں پھر بھی آپ نے اسے نہیں دیکھا اسٹرینج۔
عرشمان نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا ۔
اسے بڑا مزا آرہا تھا انشاء کو اس طرح بہانے بناتے دیکھ کر ۔
کیوں کہ وہ جلدی کسی کے سامنے کنفیوژ نہیں ہوتی تھی ۔
ہونہہ۔ یہ خوش فہمی ہے تمہاری کہ میں تمہیں دیکھ رہی تھی ۔
آفیسر حد سے زیادہ خوش فہمی بھی صحت کے لئے اچھی نہیں ہوتی ہے ۔
انشاء فورن اپنے اجلی انداز میں آتے ہوئے بولی ۔
اس کی بات سن کر عرشمان اس طرف جھکا اور اس کے کانوں میں مدھم سی سرگوشی کی ۔
اگر خدا مجھے تم پر اختیار دے نا تو میں اپنے لئے تمہارے ذہن سے یہ ساری لاپرواہیاں نکال کر تمہاری رگ رگ میں اپنا خیال دوڑا دوں۔
بولتے ہوئے اچانک عرشمان نے اس کے چہرے کو ہاتھوں میں لے کر اس کے ہونٹوں کو نرمی سے چھو کر پیچھے ہٹ گیا ۔
اس کی بوجھل سرگوشی اور لمس پر انشاء کو اپنے جسم میں سرسراہٹ سی محسوس ہویی۔
اس کا دل دھک دھک کرنے لگا مانو ابھی باہر نکل آئے گا ۔
وہ جلدی سے اٹھی اور بغیر عرشمان کی طرف دیکھے
فورن واشروم کی طرف بھاگی اس کے جاتے ہی عرشمان کا چھت پھاڑ قہقہ پورے کمرے میں گونجا۔
اففف میرے دلبر آپ تو میری اتنی سی نزدیکی برداشت نہیں کر سکتی تو پھر میرے جذبوں کا طوفان کیسے برداشت کر پاینگی۔ اور ابھی تک تو میں نے کوئی ایسی ویسی حرکت بھی نہیں کی ۔وہ واشروم کے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔
انشاء واشروم میں آکر اپنی بے ترتیب دھڑکنوں کو سنبھالنے لگی ۔
اففف یہ ٹکے کا آفیسر کتنا بے شرم ہے وہ شیشے میں اپنے چہرے کو دیکھتے ہوئے بولی جو عرشمان کی ایک چھوٹی سی شرارت پر پورا سرخ ہو گیا تھا ۔
وہ فریش ہو کر باہر آئی تو عرشمان نہ جانے کس خیال میں گم مسلسل مسکرایے جا رہا تھا ۔
وہ دبے پاؤں باہر جانے لگی تبھی عرشمان کی مسکراتی آواز کانوں میں پڑی ۔
اوہو ہماری دلبر شرما رہی ہیں اے تو گڈ ہو گیا جی ۔
ٹکے کے آفیسر تم کب سے اتنی ٹھرکی ہو گیے وہ دانت پیستے ہوئے بولی ۔
ہاےے دلبر اب آپ ہمارے سچے جذبوں کو ٹھرک کا نام دیں گی ۔
مرو تم ٹھرکی آفیسر میں جا رہی ہوں نیچے ۔
ارے مسز خان سنو تو ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن وہ جلدی سے نیچے چلی گئی ۔
آج عرشمان نے اس کے اندر ایک بدلاؤ محسوس کیا تھا ۔
انشاء نے آج اس رشتے کو لے کوئی کڑوی بات نہیں کی تھی جس سے عرشمان کا دل ٹوٹے ۔
اس کے پیچھے ہی عرشمان بھی نیچے آیا تو گل اور ساحل کو ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے پایا ۔
اور انشاء ایک طرف حیران پریشان کھڑی ان کی لڑائی دیکھ رہی تھی ۔
عرشمان چلتا ہوا اس کے پاس آیا ۔
مسز خان پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے یہ ان کا روز کا ہے ۔
لیکن مان یہ لڑ کیوں رہے ہیں ؟
اور عرشمان کو لگا کہ اس کے کانوں نے کوئی خوبصورت ساز سن لیا ہو ۔
ایک تو انشاء نے آج پہلی بار اس کا نام لیا تھا اور وہ بھی اتنے خوبصورت انداز میں اس کا دل چاہا ان ہونٹوں کو چوم لے ۔وہ مسرور سا بے خود ہو کر اسے دیکھے گیا ۔
اچانک گل کی تیز آواز گونجی ۔
ساحل کے بچے میں کب سے کہ رہی ہوں ڈریس تھیم ریڈ کلر کی ہوگی تو ریڈ ہی ہوگی ۔
باسی پھول میں بھی کب سے تمہیں یہ ہی سمجھا رہا ہوں کہ بلیک تھیم زیادہ صحیح ہے لیکن میری بات تمہارے اس بھوسہ بھرے دماغ میں آیے تب نا ۔
گل اور ساحل کی لڑائی ابھی جاری رہتی کہ وہاں پر شاہ ریز آ گیا ۔
تم نے اتنا شور کیوں ڈالا ہوا ہے ؟
وہ میں کب سے رہی ہوں کہ تھیم ریڈ کلر کی رکھتے ہیں لیکن یہ زرافہ مان ہی نہیں رہا ہے ۔
کوئی ضرورت نہیں ہے اس کی کیوں کہ ریسپشن کی پوری تھیم وائٹ کلر ہوگی اب اس پر کوئی بحث ہوگی ۔
شاہ ریز کی سنجیدہ آواز پر وہ دونوں چپ ہو گیے ۔
سب لوگ کھانے کی میز پر بیٹھے تو بی جان نے نایرہ کے بارے میں پوچھا۔
تبھی نایرہ سامنے آتی ہوئی نظر آیی ۔
وہ سیدھے جا کر انشاء کے بغل میں چیر پر بیٹھ گئی ۔
سب نے کافی حیرانی سے اس کی طرف دیکھا ۔
کیوں کہ جب سے اس گھر میں آئی تھی وہ شاہ ریز کے پاس ہی بیٹھتی تھی ۔
سب نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا جس پر ناراضگی چھای ہوئی تھی ۔
وہ غصے سے منھ پھلائے بیٹھی تھی اور شاہ ریز کی طرف دیکھ بھی نہیں رہی تھی ۔
سب کو کافی حیرانی ہوئی کہ ایسا کیا ہوا ہے جو بٹر فلائی اپنے پرنس سے ناراض ہے ۔
بیٹا کیا ہوا ہے آپ ناراض کیوں ہیں ۔
ساحل کی ماما نے پیار سے اس کے پھولے گالوں کو چھو کر پوچھا جو غصے سے پھولے ہوئے بہت پیارے لگ رہے تھے ۔
چھوٹی ماما آپ بول دو ان سے میں اب ان سے بات نہیں کروں گی ۔ اور ان کی بات مان کالج نہیں جاؤں گی ۔
وہ چھوٹی ناک سیکوڑتے ہوئے بولی ۔
لیکن بیٹا ہوا کیا ہے ۔
چھوٹی ماما انہوں نے مجھے کیٹی سے کھیلنے سے منع کیا اور میری کیٹی کو گندی بھی بولا ۔
وہ خود ہی ہیں گندے پرنس ۔
سب کافی دلچسپی سے ان کی بات سن رہے تھے ۔
اور شاہ ریز تو اپنی بٹر فلائی کی گل افشانیاں سن رہا تھا۔
کیسے مزے سے بول رہی تھی کہ بات نہیں کرے گی ۔
بھلا شاہ ریز ایسا ہونے دے سکتا تھا ۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ صبح جب شاہ ریز کی آنکھ کھلی تو اس نے نایرہ بیڈ پر نہیں پایا ۔
وہ اٹھ کر دکھنے جا رہا تھا کہ تبھی اسے نایرہ کی آواز سنائی دی جو بالکنی سے آ رہی تھی ۔
وہ اسے دیکھنے کے لئے وہاں جانے لگا لیکن وہاں پہونچ کر اس کا خون کھول اٹھا کیوں کہ اس کی بٹر فلائی چئیر پر اپنی کیٹی کو لے کر بیٹھی ہوئی تھی اور اس سے لاڈیاں کر رہی تھی کبھی اسے گلے لگاتی کبھی اس کے گالوں پر کس کرتی اور اس کے گال سے اپنا گال رگڑتی ۔
یہ لاڈ پیار دیکھ کر اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا ۔
مطلب حد ہے اس کی بٹر فلائی ایک بلی کو اتنا لاڈ کر رہی ہے اور اپنے معصوم (توبہ توبہ معصوم وہ بھی شاہ ریز خان 🤭😁)
شوہر کا ذرا خیال نہیں ہے ۔
کہاں شاہ ریز کو وہ ہوا بھی منظور نہیں ہے جو اس کی بٹر فلائی کو چھو کر گزرے
اور کہاں یہ بلی اس کی بٹر فلائی پر قبضہ جمایے بیٹھی ہے ۔
اس نے جھٹکے سے اس کی گود سے بلی کو نکالا اور اس کو روم کے باھر کر کے دروازہ بند کر دیا ۔۔۔اور چلتا ہوا نایرہ کے پاس آیا جو ہکا بکا ہوکر چئیر پر بیٹھی تھی ۔
اس نے چئیر کے دونوں اطراف ہاتھ رکھ کر سرد آواز میں بولا۔
بٹر فلائی یہ آپ کیا کر رہی تھیں ؟ آپ کیسے اس بلی کو اپنے اتنے قریب کر سکتی ہیں جب آپ جانتی ہیں کہ کسی کا آپ کے اس قدر قریب رہنا مجھے پسند نہیں پھر چاہے وہ کوئی جان دار ہو یا پھر بے جان شیے۔
مجھے تو یہ ہوائیں بھی اپنی رقیب لگتی ہیں جو آپ کو چھو کر گزرتی ہیں ۔
تو پھر کیسے آپ اس گندی سی کیٹ کو اپنے اس قدر قریب رکھ سکتی ہیں ۔
مجھے ہر وہ چیز نہیں پسند جو آپ کو میری طرف سے غافل کر دے ۔
میں آپ کے دل ،دماغ ،روح اور آپ کی تمام حسسیات پر قابض رہنا اور خواب و خیال میں بسا رہنا چاہتا ہوں تاکہ آپ صرف اور صرف میرے بارے میں سوچیں اور مجھے اپنے قریب تر محسوس کریں ۔
شاہ ریز ایک ہاتھ سے اس کے چہرے کو اوپر کر کے اس کی نیلی آنکھوں میں اپنی گرے آنکھوں کو گاڑے جنونی انداز میں بولا ۔
نایرہ تو اس کا یہ جنونی روپ دیکھ کر کانپ کر رہ گئی ۔
اس کی خوبصورت آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر گرے جسے شاہ ریز نے نرمی سے اپنے ہونٹوں سے چن لیے۔
اور اسے گود میں اٹھا کر بیڈ پر لیٹا دیا اور اس کے چہرے پر جھک کر نرمی سے اس کے ایک ایک نقش کو اپنے ہونٹوں سے چھونے لگا۔
نایرہ اسٹل لیٹی ہوئی تھی اس کے کانوں میں ابھی بھی شاہ ریز کی جنونی سرگوشیاں گونج رہی تھیں۔
شاہ ریز اس کی آنکھوں کو نرمی سے چومتے ہوئے اس کے ہونٹوں کے پاس آیا اور انہیں اپنے ہونٹوں کی دسترس میں لے لیا اس کے اس عمل سے نایرہ کانپ کر رہ گئی اور اس کی کالر کو مٹھیوں میں جکڑا ۔
شاہ ریز ہونٹوں کو چومتے ہوئے گردن پر آیا اور اس کی بیوٹی بون پر اپنے تپتے ہوئے ہونٹ رکھ دیے جس سے نایرہ کانپ گیی ۔
شا۔ہ۔۔آپ۔۔ک۔۔کیا۔۔۔۔۔ک۔۔۔ر ۔۔ہے۔رہے۔ہیں ۔نایرہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بولی ۔
ہہہم ڈسٹرب نہ کرو میں اپنی بٹر فلائی کو پیار کر رہا ہوں ۔
وہ اس کے کندھے پر بوسہ دیتے ہوئے بولا ۔
نہ۔نہیں۔۔۔شاہ۔۔اب۔۔۔ہمیں۔۔۔۔ن۔۔نیچے جانا۔۔۔چ۔۔چاھیے۔۔
سب ۔۔ا۔نتظار۔۔کر۔۔۔ رہے ھو۔ںگے۔کل کی تیاری بھی کرنی ہے ۔۔
نایرہ نے اس کا دھیان ہٹانے کے لئے کہا ۔۔۔
ہہم۔چلو ابھی تو چھوڑ رہا ہوں لیکن کل آپ کی کویی مزاحمت نہیں چلے گی میں اب اور انتظار نہیں کر سکتا ۔
کل میں آپ کے پور پور کو اپنی محبت سے مہکاوں گا ۔
وہ اس کے اوپر سے اٹھتے ہوئے بولا ۔
اس کی بات پر نایرہ کے جسم میں سنسناہٹ ہوئی اس کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا ۔
شاہ ریز نے کافی دلچسپی سے اس کے رنگ بدلتے چہرے کو دیکھا۔
اچھا اب میں فریش ہو جاؤں میرے ساتھ نیچے چلنا ۔
اور ہاں اس گندی کیٹ کو زیادہ اپنے سے چپکانا مت ورنہ تم جانتی ہو کہ میں غلطی پر کس طرح کی سزائیں دیتا ہوں ۔
شاہ ریز ابھی تھوڑی دیر پہلے ہوئے واقعے کو یاد دلاتے ہوئے بولا ۔
جس پر نایرہ نے شرم اور غصے سے چہرہ موڑ لیا اور شاہ ریز کے واشروم میں جاتے ہی وہ بالکنی میں آ کر چھپ گیی یہ اس کی ناراضگی کا اظہار تھا ۔
شاہ ریز جب باہر آیا تو نایرہ اسے کہیں نہیں دکھی تو اسے لگا کہ وہ نیچے چلی گئی ہے تو وہ بھی نیچے چلا آیا ۔۔
یہاں آکر پتا چلا کہ نایرہ یہاں نہیں ہے ابھی وہ دی جان کو کچھ بتاتا کہ نایرہ آ گیی۔
ارے بڈی تو کہاں گم ہے ہم کب سے تجھے بلا رہے ہیں ۔
عرشمان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا ۔
شاہ ریز جو روم میں ہویے واقعے کے بارے میں سوچ رہا تھا چونک کر عرش کی طرف دیکھا ۔
آ۔۔۔۔کہیں نہیں بس میں کچھ سوچ رہا تھا ۔
ہہم سہی ہے۔
بیٹا آپ سب آج ہی شاپنگ کر لو ساحل کی ماما نے انشاء اور نایرہ سے کہا ۔
ارے شاپنگ پر جانے کی ضرورت ہے جب سب کچھ آن لائن ملتا ہے ۔
میں ہمیشہ اپنی اور نایرہ کی شاپنگ آن لائن ہی کرتی ہوں آپ پریشان مت ہوں میں آن لائن کر لوں گی ۔
باقی آپ لوگ کیسے کرنا چاہتے ہیں ۔
مال سے کرنا چاہتے ہیں ۔
ارے واہ آن لائن شاپنگ ۔
اس بار ہم بھی آن لائن شاپنگ کر لیتے ہیں کیوں بھابھی رومی چاچی نے کہا ۔۔
ہاں مجھے بھی صحیح لگ رہا ہے کیوں کہ وقت بھی ہے ۔
ٹھیک بیٹا جیسے آپ لوگ کو صحیح لگے ۔
دی جان نے فیصلہ ان سب پر چھوڑتے ہوئے کہا ۔۔
عرشمان تھوڑی دیر بعد پولس اسٹیشن چلا گیا۔
شاہ ریز نے پہلے ہی بتا دیا کہ وہ نایرہ کی شاپنگ خود کرنے کو کہا ۔
جس پر کسی کو اعتراض نہیں تھا سوائے نایرہ کے کیوں کہ وہ ناراض تھی شاہ ریز سے ۔❤️
کچھ گھنٹے بعد ❣️❣️
سب لوگ ہال میں بیٹھے کل کے بارے میں ڈسکس کر رہے تھے اور سامنے ہی ٹی وی چالو تھا ۔
اچانک اس پر نیوز آنے لگی کہ ڈی ایس پی عرشمان خان کی گاڑی کا ایکسڈنٹ ہو گیا ہے اور اس میں یہ بھی بتایا جا رہا تھا کہ گاڑی کو جان بوجھ کر ٹکر ماری گیی ہے ۔
یہ خبر سن کر سب گھر والے پریشان ہو گئے اور فورن ہوسپٹل کے لئے جانے لگے ۔
انشاء تو بت بنی کھڑی رہی ۔اس کے ذہن میں بار بار اس کا صبح والا چہرا آ رہا تھا جب وہ اس سے شرارت کر رہا تھا ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
انشاء تم سمجھ کیوں نہیں رہی میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں ۔
آفیسر تم کیا یہ بار بار ایک ہی بات کی رٹ لگا یے رہتے ہو ۔
یہ پیار ویار کچھ نہیں ہوتا ہے ۔
اور ویسے بھی تم کیا جانتے ہو میرے بارے میں کچھ بھی تو نہیں ۔اور جان گیے تو سب سے پہلے تمہارے سر سے یہ پیار کا بخار اترے گا وہ سخت لہجے میں بولی تھی۔
مسز خان یہ کویی وقتی بخار نہیں ہے جو تھوڑے عرصے بعد اتر جائے گا ۔
اور یہ جاننا جاننا کیا لگا رکھا ہے تم نے میں کب سے پوچھ رہا ہوں تم سے کہ ایسا کیا ہوا ہے تمہارے پاسٹ میں جو تم مردوں سے اتنی نفرت کرتی ہو ۔
لیکن تم مجھے اس لائق ہی نہیں سمجھتی تم میرے ساتھ اپنا دکھ درد بانٹ سکو وہ یاسیت سے بولا ۔
آفیسر جاننا چاہتے ہو نا تم بہت شوق ہے نا میرا پاسٹ جاننے ک تو سنو ریپ ہوا ہے میرے ساتھ میری عزت کو روندا گیا ہے مجھے نوچا گھسوٹا گیا ہے مجھ سے میری خودداری اور ذات کا غرور چھین لیا گیا ہے ۔
وہ غصے اور دکھ درد کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا چلایی۔
تو کیا اب بھی تمہارا پیار زندہ ہے تو کیا اب بھی تم مجھے اپناؤ گے ؟بولو کیا تم ایک برتی گئی لڑکی کو اپنی زندگی کا حصہ بناؤ گے ؟
وہ مسلسل روتے ہوئے چیخ چیخ کر بول رہی تھی.
عرشمان تو اس کی باتوں کو سن کر پتھر کا ہو گیا تھا۔
عرشمان کے ایکسڈنٹ کا سن کر سبھی کے ہوش اڑ گئے تھے ۔
سب سے زیادہ برا حال تو اس کی ماما کا تھا جنہوں نے رو رو کر برا حال کیا ہوا تھا ۔
اور انشاء تو گم صم سی کھڑی تھی۔ اسے اپنے دل میں ایک انجانی سی تکلیف محسوس ہو رہی تھی اس کے سامنے صبح کے تمام مناظر گھوم گیے کہ کیسے وہ صبح اسے پریشان کر رہا تھا ۔
اور اس کا وہ لمس انشاء کو اب بھی اپنی پیشانی پر محسوس ہو رہا تھا جو پولیس اسٹیشن جاتے ہوئے عرشمان نے اس کی پیشانی پر نرمی اور عقیدت سے پر چھوڑا تھا ۔
شاہ ریز نے نایرہ اور گل کو گھر پے دی جان کے پاس چھوڑا اور باقی گھر والوں کے ساتھ ہوسپٹل کے لئے نکل گیا ۔
وہاں پہونچ کر اس نے ریسپشن پر موجود سے اس نے عرشمان کے بارے میں پوچھا ۔۔
سر یہاں پے عرشمان خان نام کے کوئی پیشنٹ موجود نہیں ۔
اس کی بات سن کر شاہ ریز کو غصہ آیا۔
وا اٹ آپ کیا بول رہی ہیں؟
ہمیں تو یہی خبر ملی ہے کہ ڈی ایس پی عرشمان خان کی گاڑی کا ایکسڈنٹ ہو گیا ہے اور ان کو اسی ہاسپٹل میں لایا گیا ہے اور آپ کہ رہی ہیں کہ اس نام کا کوئی پیشنٹ یہاں موجود نہیں ۔
وہ غصے میں اس لڑکی پر دہاڑا ۔
ایک تو وہ پہلے ہی عرشمان کو لے کر پریشان تھا اور اوپر سے اس لڑکی کی باتیں ۔
عرشمان اس کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا تھا وہ اس کا بھائی دوست ہمراز سب کچھ تھا ۔
اس کی ذرا سی تکلیف شاہ ریز کو اپنے دل پر محسوس ہوتی تھی ۔
دیکھیں سر اس نام کا کوئی شخص آج ایڈمٹ نہیں ہوا ہے
ہاں آج تھوڑی دیر پہلے ایک ایکسڈنٹ کیس آیا ہے لیکن اس پیشنٹ کا نام زمان ہے ۔
سارے گھر والے کافی پریشانی سے اس کی باتیں سن رہے تھے اور بیگم جواد کا رو رو کر برا حال تھا ۔
رومی چاچی انہیں سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھیں ۔
زمان نام سن کر اچانک شاہ ریز کو جھٹکا لگا ۔
کیا آپ مجھے اس پیشنٹ کا روم نمبر بتا سکتی ہیں ۔
ہاں کیوں نہیں آپ روم نمبر ١٢ میں چلے جائیں ۔
اوکے تھینکس ۔
اور پھر گھر والوں کو وہیں پر بٹھا کر شاہ ریز روم نمبر بارہ میں آیا۔ وہاں پہونچتے ہی اچانک شاہ ریز کسی سے ٹکرا گیا ۔
اوہ۔۔سوری مسٹر میں تھوڑا جلدی میں ہوں اسل۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بولتے ہوئے اس کی نظر سامنے والے پر پڑی تو اس کی بات ادھوری رہ گئی ۔
جگر تو ۔۔ٹھیک ہے تجھے کچھ ہوا تو نہیں نا ۔۔۔
شاہ ریز عرشمان کو سامنے پا کر اس سے پے در پے سوال کر دیا ۔
ہاں میں ٹھیک ہوں بڈی عرشمان اس سے گلے ملتے ہوئے بولا ۔اس کے ماتھے پر بینڈز لگی ہوئی تھی اور ہاتھوں پر بھی ہلکی سی خراشیں آیی تھیں ۔
تو پھر عرش وہ نیوز ۔۔۔۔۔۔
ہاں وہ نیوز صحیح تھی کیوں کہ گاڑی میری تھی لیکن اسے زمان چلا رہا تھا اس لیے اس کو کافی چوٹیں آئیں ہیں کیوں کہ ان لوگوں نے گاڑی کو ڈرائیونگ سائیڈ سے ہٹ کیا تھا ۔
ڈاکٹر نے اس کی حالت چوبیس گھنٹے کافی کرٹکل بتایی ہے۔
تو ٹھیک ہے نا ؟
ہاں میں ٹھیک ہوں ۔
تجھے پتا ہے نیوز سن ہم کتنا پریشان ہو گئے تھے اور چھوٹی ماما نے رو رو کر اپنی حالت خراب کر لی ہے ۔
اوہ۔ سوری بڈی ریلی سوری مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ تم لوگوں کو انفارم کر دوں ۔
کیوں کہ اس طرف میرا دھیان ہی نہیں گیا کہ ایکسڈنٹ کی خبر نیوز میں بھی آ سکتی ہے اور وہ سب کو پتا چل جائے گی ۔
اچھا چل اب گھر والوں سے مل لے تاکہ سب کو تسلی ہو خاص کر چھوٹی ماما کو ۔
ہمم چل ۔
وہ دونوں وہاں پہونچے تو سب عرشمان کو سہی سلامت دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔
عرشمان کی ماما تو بار بار اس کے نقوش کو چھو کر یقین کر رہی تھیں کہ وہ صحیح سلامت ان کے سامنے ہے ۔
سب سے ملتے ہوئے عرشمان کی نظر انشاء پر پڑی جو کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی اور اس کے دیکھنے پر فورن اپنی نظریں پھیر لیں ۔
انشاء اسے صحیح سلامت دیکھ کر دل میں کافی خوش ہویی لیکن اس اپنے چہرے پر کوئی تأثر نہیں آنے دیا ۔
عرشمان کی بے تاب نگاہیں بار بار اس کی طرف جا رہی تھیں جس سے انشاء کافی پزل ہو رہی تھی ۔
اچانک شاہ ریز کا موبائل بجنے لگا ۔
اس نے جیسے ہی کال اٹھایی دوسری طرف سے انشاء کی پریشان آواز گونجی ۔
ہیلو ۔۔ شاہ ۔ عرش بھائی کیسے ہیں اور آپ سب کب آ رہے ہیں ؟
دی جان بار بار عرش بھائی کے بارے میں پوچھ رہی ہیں ۔
وہ ٹھیک ہے اور ہم تھوڑی دیر بعد ہم سب آ رہے ہیں اوکے اور آپ سب پریشان نہ ہو ۔
ٹھیک ہے شاہ جلدی آییں ۔
خان تم سب کو لے کر گھر جاؤ میں ابھی گھر نہیں آ سکتا زمان کو اس حالت میں چھوڑ کر وہ میرے لئے بہت خاص ہے ۔
ہمم تم ٹھیک کہ رہے ہو ۔بٹ میں بھی تمہارے ساتھ رک جاتا ہوں چھوٹے پاپا اور چاچو لوگ گھر چلے جائیں ۔
ٹھیک ہے بیٹا ہم چلتے ہیں دی جان پریشان ہو رہی ہوں گی ۔
اور سارے گھر والے چلے گئے ۔
ویسے جگر یہ حملہ کس نے کروایا ہے تجھ پر ۔
تو ایک بار نام بتا پھر میں ان لوگوں کی وہ حالت کروں گا کہ وہ اپنے پیدا ہونے پر افسوس کریں گے ۔
کیوں کہ ایس آر کے کی فیملی کو نقصان پہونچانا مطلب اپنی موت کو آواز دینا ہے ۔
اوہ میرے شیر ان کے لیے تمہارا یہ چیتا ہی کافی ہے سو چل پل ۔
اوہ میں کیسے بھول گیا کہ ہمارے ڈی ایس پی صاحب ایک سچے پکے پولیس افسر ھیں اور وہ بلکل نہیں چاہیں گے کہ کوئی قانون کو ہاتھ میں لے ۔
شاہ ریز کی بات سن کر عرشمان مسکرایا ۔
تبھی نرس نے آکر بتایا کہ پیشنٹ کو ہوش آ گیا ہے اور یہ خدا کا کوئی کرشمہ ہے کہ اتنی جلدی ہوش آ گیا نہیں تو ان کی حالت کافی کرٹکل تھی ۔
عرشمان چلتا ہوا زمان کے بیڈ کے پاس آیا ۔
اور اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا ۔
ایم سوری زمان تمہیں میری وجہ سے اتنی تکلیف اٹھانی پڑی اگر میں تمہیں فورس نہ کرتا کہ تم میری گاڑی میں چلو میں چھوڑ دوں گا تو شاید تم اس حال میں نہیں ہوتے ۔
سر آپ سوری مت بولیں اس میں آپ کی کویی غلطی نہیں ہے اور ویسے بھی گاڑی چلانے میں نے خود کہا تھا ۔
وہ ہلکی سی آواز میں بولا
اسے کہاں منظور تھا کہ اس کے سر اسے سوری بولیں ۔
وہ عرشمان کو آئیڈیالائیز کرتا تھا اور اس کے جیسا ایماندار آفیسر بننا چاہتا تھا ۔
ارے تم دونوں سوری اور اٹس اوکے کرنا بند کرو اور تم بتاؤ کہ کیا کل تم آ رہے ہو اپنے سر کے ریسیپشن پر ۔۔
کیا سر کا ریسیپشن ہے ؟ وہ بھی کل
زمان حیران ہوتے ہوئے بولا ۔
اوہ ۔ہ اس کا مطلب ہے تمہارے اس کھڑوس سر نے نہیں بتایا کہ کل اس کا ریسیپشن ہے ۔کوی بات نہیں میں بتا رہا ہوں کل تم ضرور آنا اور ہاں میرا بھی ھے ۔
شاہ ریز عرشمان کے توسط سے جانتا تھا اس لیے اس سے اتنا فرینکلی بات کر رہا تھا ۔
شاہ ریز کی بات سن کر زمان نے ناراضگی سے عرشمان کی طرف دیکھا ۔
اارے زمان میں تمہیں بتانے والا تھا پھر بھول گیا ۔
تم ضرور آنا مجھے بہت اچھا لگے گا ۔
جی سر میں ضرور آؤں گا آپ نہ کہتے پھر بھی ۔
زمان دانت نکالتے ہوئے بولا ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
آج عرشمان اور شاہ ریز کا ریسیپشن تھا ہر کوئی تیاریوں میں مصروف تھا ۔
انشاء ،نایرہ اور گل پارلر گیی ہوئی تھیں ۔
ریسیپشن کے لیے کوئی ہال بک نہیں کیا گیا تھا کیوں کہ ریسیپشن پارٹی خان ولا میں ہی تھی ۔
جسے کافی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا ۔
پورے ولا کو برقی قمقموں سے تھا ۔
آج کے دن سب نے سفید رنگ کی ڈریس پہنی ہوئی تھی کیوں کہ یہ آج کی تھیم تھی ۔
مردوں کے لیے سفید تھری پیس سوٹ اور ریڈ ٹایز اور گرل کے لیے سفید رنگ کا گاؤن تھا ۔
پارلر سے لڑکیوں کو لانے کے لئے دی جان نے ساحل کو بھیجا تھا ۔
جس پر عرشمان اور شاہ ریز دل مسوس کر رہ گئے کیوں کہ ان بے چاروں نے کل سے اپنی بیویوں کو دیکھا نہیں تھا ۔
ہاسپٹل سے آنے کے بعد انہیں یہ خبر ملی کہ کل تک کے لیے ان کی بیویوں کو ان سے دور کیا جاتا ہے سو براے مہربانی وہ ان سے دور رہیں ۔
اس خبر پر ان دونوں کے منہ دیکھنے لائق تھے ۔
انہوں نے بہت کوشش کی ان سے ملنے کی لیکن گل اور رومی چاچی کی پہرےداری کی وجہ سے مل نہیں پایے۔
اب وہ ان کے آنے کا انتظار کر رہے تھے ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
وہ تینوں تیار ہو کر کب سے انتظار کر رہی تھیں کہ گھر سے کوئی لینے کیوں نہیں آ رہا ہے ۔
تینوں نے سفید رنگ کے ایک جیسے گاؤن پہنے ہوئے تھے جس میں وہ تینوں خوبصورت پریاں لگ رہی تھیں ۔
دیدو یہ شادی ریسیپشن پر اتنا سارا میک اپ اور جویلری پہننا ضروری ہے کیا ؟
میں تو کافی تھک گئی ہوں افففففففف۔
نایرہ نے بے زاری سے کہا ۔
انشاء مسکرا کر نایرہ کو دیکھنے لگی اچانک اس کے ذہن میں کچھ خیال آیا ۔
گل تم ذرا باہر چیک کر کے آؤ کہیں کوئی آیا۔ نہ ہو اور ہمارا انتظار کر رہا ہو ۔
ٹھیک ہے بھابھی میں چیک کر کے آتی ہوں۔
اس کے جانے کے بعد انشاء نایرہ کی طرف متوجہ ہوئی ۔
دیکھو ہنی اب آپ کی شادی ہو گئی ہے تو اب بچکانی حرکت نہ کرنا ،شاہ ریز کی ہر بات ماننا کیوں کہ اب وہ تمہارا شوہر ہے
وہ کافی دیر تک نایرہ کو اس رشتے کے بارے میں سمجھاتی رہی جسے نایرہ سرخ چہرے کے ساتھ ہوں ہاں کر کے سن رہی تھی ۔
کل صبح انشاء نے نایرہ کا بلی والا واقعہ سنا تو وہ کافی پریشان ہو گئی تھی ۔
مطلب نایرہ ایک بلی کو لے کر شاہ ریز سے ناراض ہو گئی تھی ۔
اس لئے اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ نایرہ کو اس رشتے کی اونچ نیچ کے بارے میں سمجھاےگی تاکہ وہ اپنی بچکانی حرکت چھوڑ دے ۔
اسے ڈر تھا کہ کہیں نایرہ اپنی معصومیت اور بچکانی حرکتوں کی وجہ سے اپنا نقصان نہ کر لے ۔
بھابھی باہر آئیں گاڑی آ گیی ہے ۔
گل کے بلانے پر وہ دونوں باہر آ گیں جہاں ساحل گاڑی کی پست سے ٹیک لگایے ان کا انتظار کر رہا تھا ۔
انشاء نے عرشمان کے نہ آنے پر دل ہی دل میں خوش ہویی کیوں کہ وہ اس سے کترا رہی تھی ۔
نایرہ اور انشاء جا کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئیں ۔
ہیں یہ کیا ؟ آپ دونوں پیچھے بیٹھ گئیں اب مجھے اس زرافے کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا ؟
تو نہ بیٹھو میں کون سا میں تمہیں بٹھانے کیلیے مرا جا رہا ہوں ۔ہونہہ 😏
ارے آپ دونوں یہاں بھی لڑنا نہ شروع کریں ۔گھر چلیں کافی لیٹ ہوگیا ہے۔
اوہو دیکھو تو باسی پھول ہماری بھابھی عرش بھائی سے ملنے کے لئے کتنی پریشان ہیں اسلیے اتنی مچا رہی ہیں
وہ شرارت سے آنکھ ونگ کرتے ہوئے بولا۔
ارے ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ اپنا چہرا موڑتے ہویے بولی ۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
جیسے ہی یہ تینوں خان ولا پہونچے ہر کسی کی نگاہیں ان کی طرف اثھ گییں وہ تینوں لگ ہی رہی تھیں اتنی پیاری ۔
عرش کی ماما اور رومی چاچی ان کی طرف آییں اور دونوں کو داییں باییں سے پکڑ کر اسٹیج کی طرف لے جانے لگیں ۔
اسٹیج کے پاس پہونچتے ہی عرشمان اور شاہ ریز نے ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے پہلو میں بٹھایا ۔
ہر کوئی ان کی جوڑی کو سراہ رہا تھا ۔
ایک ساتھ بیٹھے وہ اتنے پیارے لگ رہے تھے کہ دی جان نے من ہی من ان پر دعائیں پڑھ کر پھونکی تاکہ انہیں نظر نہ لگے ۔
اس پارٹی میں شمولیت کے لیے کافی بڑے بڑے بزنس مین آیے تھے ۔
مہمانوں کے ملنے کے بعد فوٹوگرافر نے ان کی ڈھیر ساری وڈیوز اور تصاویر بنائیں تھیں
اسٹیج پر بیٹھے بیٹھے ان دونوں کا برا ہحال ہو گیا تھا ۔
اور اوپرسے اس فوٹو گرافر نے پوز بنوا بنوا کر کافی تھکا ڈالا تھا ۔
شاہ ریز ور ارشمان اسٹیج سے نیچے اتر کر اپنے دوستوں سے مل رہے تھے ۔
تبھی ایک لڑکی چلتی ہوئی آیی اور شاہ ریز کے گلے لگ کر اسے مبارک باد دینے لگی ۔
اسے گلے لگا دیکھ کر نایرہ کا غصے سے برا حال ہوگیا ۔
اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ نیچے جا کر اس لڑکی کے بال نوچ لے جو اس کے شاہ سے چمٹ گئی ہے ۔
شاہ ریز کو بھی اس کے گلے سے بہت زیادہ غصہ آیا لیکن وہ مہمانوں کی وجہ سے چپ رہا ۔۔۔۔
اس آہستہ سے اس لڑکی کو خود سے الگ کیا اور اس کے کانوں میں سرد سی سرگوشی کی ۔
خوش قسمت ہو جو ان مہمانوں کی وجہ سے بچ گیی نہیں تو تمہاری اس حرکت پر تمہارا وہ حال کرتا کہ دوبارہ یہ حرکت کرنے سے پہلے سو بار سوچتی۔
وہ دھیمی آواز میں گرایا ۔
اچانک اس کی نظر نایرہ پر پڑی جو دونوں ہاتھوں میں
گاؤن کو جکڑے غصے سے اسی طرف دیکھ رہی تھی ۔
شاہ ریز کو بہت زیادہ خوشی ہوئی کہ اس کی بٹر فلائی کو بھی اس سے پیار ہو گیا ہے اور وہ بھی اس کو کسی کے ساتھ شیر نہیں کر سکتی ۔
سارے مہمانوں کے جانے کے بعد نایرہ کو گل اس کے کمرے میں چھوڑ کر چلی گئی ۔
آج نایرہ کو بہت ڈر لگ رہا تھا کیوں کہ شاہ ریز کی بہکی نگاہیں اسے بہت کچھ سمجھا رہی تھیں ۔
وہ جلدی سے کپڑے چینج کر کے سونا چاہتی تھی اس لیے گل کے جاتے ہی وہ چینج کرنے کے لئے اٹھی تبھی اسے شاہ ریز کی مدھم سرگوشی یاد آیی اس نے کہا تھا کہ وہ اس کے آنے سے پہلے چینج نہ کرے کیوں کہ آج وہ اس کے حسن کو خراج پیش کرنا چاہتا ہے۔
نایرہ اس کے بات نہیں مانتی لیکن اسے انشاء کی بات یاد آیی کہ شوہر کی ہر بات ماننی چاہئے ۔
وہ بیڈ پر بیٹھ کر شاہ ریز کا انتظار کر رہی تھی کہ تبھی در واژہ کھلا اور وہ اندر داخل ہوا اور دروازہ لاک کر کے چلتا ہوا اس کے پاس آیا ۔
ہمم آج میری بٹر فلائی اتنی خاموش کیوں ہے وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہونٹوں سے چھوتے ہوئے بولا اس کے اس عمل پر نایرہ سمٹ گیی۔
بٹر فلائی آج میں آپ کو اپنے لفظوں سے نہیں اپنے عمل سے بتاؤں گا کہ میں آپ سے کتنا پیار کرتا ہوں ۔
شاہ ریز اس کے خوبصورت چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے ہوئے بولا ۔
جو آج اس طرح سج دھج کر اس کے جذباتوں کو بے لگام کر رہی تھی ۔
شاہ میں سو جاؤں مجھے بہت نیند آ رہی ہے ۔
انشاء اس کی معنی خیز سرگوشیاں سن کر اس سے بچنے کے لئے 😝 بولی ۔
نہیں مای لو آج آپ کو سونے کی اجازت دے کر میں اپنے جذبات کے ساتھ ناانصافی نہیں کر سکتا ۔
آج میں آپ کی سانسوں میں اتر کر روح میں بسنا چاہتا ہوں آج میں آپ پر اپنے عشق اور جنون کا رنگ چڑھانا چاہتا ہوں ۔
وہ اس کے سر سے دوپٹہ اتار تے ہوئے بہکی بہکی سرگوشیاں کرتے ہوئے بولا ۔
جسے سن کر نایرہ سر تا پیر سرخ ہو گیی ۔
شاہ ریز نے دوپٹہ اتار کر اس کے کانوں سے آویزے نکالے اور اس کے کان کی سرخ لو کو انگوٹھے سے سہلایا اور جھک کر اسے اپنے لبوں سے چوم لیا ۔
اس کے لمس پر نایرہ کپکپا کر رہ گئی ۔
شاہ ریز نے جھک کر اسے لٹایا اور خود اس کے اوپر سایہ فگن ہوا ۔
پرنسیز کیا اجازت ہے کہ میں آپ کی روح کو چھو لوں اس کی بات پر نایرہ اپنا سرخ چہرہ اس کے سینے میں چھپا گیی۔
شاہ ریز نے اس کا چہرہ سامنے کرنا چاہا تو اس نے اور سختی سے اس کے سینے میں چھپنے کی کوشش کی ۔
کوئی فائدہ نہیں پرنسز چھپنے کا کیوں کہ اب میرے بے لگام جذبات پر بند باندھنا نا ممکن ہے ۔
وہ اس کا چہرہ سامنے کرتے ہوئے بولا اور اس کے ہونٹوں پر جھک گیا اور ان سے اپنی پیاس بجھانے لگا ۔
اس کے عمل پر نایرہ نے سختی سے اس کے کندھے پر ناخن دھنساے جس کا شاہ ریز پر کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ اپنے عمل میں لگا رہا ۔
نایرہ کو سانس لینا مشکل ہو گیا ۔
اسے لگا کہ اب وہ مر جائے گی تب جا کر اس کے ہونٹوں کو آزاد کیا ۔
وہ مسلسل کھانستے ہوئے اس کے کندھے پر سر رکھ دی ۔
اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا ۔
شاہ ریز نے اس کو کروٹ کے بل لٹایا اور گاؤن میں لگی ڈوریاں کھلنے لگا جس کا گلا کافی ڈیپ تھا اس کی انگلیوں کا محسوس کر کے نایرہ کے جسم میں سنسناہٹ سی ہوئی ۔
ڈوریاں کھلنے کے بعد شاہ ریز نے وہاں پر اپنے دھکتے لب رکھ دیے۔
نایرہ نے بیڈ شیٹ کو مٹھیوں میں جکڑا ہوا تھا ۔
وہاں سے ہٹ کر شاہ ریز نے اس کے کندھے پر لب رکھے اور یوں ہی رکھے اس کا رخ اپنی طرف کیا ۔نایرہ نے آنکھیں بند کی ہوئی تھی اس کی بند آنکھوں کو دیکھ کر زیر لب مسکرایا۔
اور اس گلے میں جھک کر اپنی محبت پھول کھلانے لگا اس کے ہر عمل نایرہ سمٹ کر اس میں پناہ لیتی ۔
شاہ ریز نے گاؤن کو کندھے سے سر کایا اور وہاں پر بوسہ دیا اور پھر سائیڈ لیمپ آف کر کے اس پر سایہ فگن ہوا ۔
اور اس پر اپنی محبت اور دیوانگی رقم کرنے لگا اس کے ہر عمل پر نایرہ سمٹ کر اسی میں پناہ لیتی ۔
شاہ ریز اسے چھوتا جیسے وہ کوئی کانچ کی گڑیا ہو جسے ذرا سا سخت پکڑنے پر ٹوٹ جانے کا ڈر ہو۔
پوری رات شاہ ریز اس پر اپنی محبت کی بارش کرتا رہا ۔
اس نے اسے ایک پل کے لیے بھی سونے نہیں دیا ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
عرشمان روم میں آیا تو دیکھا کہ انشاء نے چینج کر لیا تھا ۔
اس کا کتنا من تھا کہ انشاء کو اس روپ میں جی بھر کر دیکھے ۔
وہ بیچارہ دل مسوس کر رہ گیا کیوں کہ اس کے دلبر کو دل رکھنا آتا ہے نہیں تھا ۔
وہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا ۔
دلبر یہ تو نا انصافی ہے میں نے تو ابھی آپ کو جی بھر کر دیکھا بھی نہیں تھا اور آپ نے چینج کر لیا ۔
مجھے ایسے کپڑے پہننے کی عادت نہیں ہے اس لیے میں نے چینج کر لیے وہ کندھے اچکا کر بولی ۔
اس کی بات عرشمان کو بری لگی کیا تھا اگر وہ اس کا دل رکھ لیتی ۔
انشاء میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں کیا تم میرے پیار پر یقین نہیں کر سکتیں ایک بار کر کے تو دیکھو ۔
انشاء نے ہاتھ جھٹک کر رخ بدل لیا ۔اس کا ہاتھ جھٹکنا اسے بہت بڑا لگا ۔
انشاء تم سمجھتی کیوں نہیں میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں ۔
آفیسر یہ کیا بار بار ایک ہی بات کی رٹ لگاے رہتے ہو
یہ پیار ویار کچھ نہیں ہے ۔
اور ویسے بھی تم جانتے کیا ہو میرے بارے میں کچھ بھی تو نہیں ۔
اور جان گئے تو سب سے پہلے تمہارے سر سے یہ پیار کا بخار اترے گا ۔وہ سخت لہجے میں بولی ۔
مسز خان یہ کویی وقتی بخار نہیں جو تھوڑے عرصے بعد اتر جائے گا ۔
اور یہ جاننا جاننا کیا لگا رکھا ہے تم نے،میں کب سے پوچھ رہا ہوں تم سے کہ ایسا کیا ہوا ہے تمہارے پاسٹ میں جو تمہیں مردوں سے اتنی نفرت ہو گیی ہے ۔
لیکن تم مجھے اس لائق ہی نہیں سمجھتی کہ مجھ سے اپنے دکھ درد بانٹ سکو وہ یاسیت سے بولا ۔
آفیسر جاننا چاہتے ہو نا تم بہت شوق ہے نا میرا پاسٹ جاننے کا ۔
تو سنو ریپ ہوا ہے میرے ساتھ میری عزت کو روندا گیا ہے مجھے نوچا گھسوٹا گیا ہے مجھ سے میری خودداری اور ذات کا غرور چھین لیا ہے ۔
وہ غصے دکھ درد کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا ہو کر چلایی۔
تو کیا اب بھی تمہارا پیار زندہ ہے کیا اب بھی تم مجھے اپناؤ گے ۔
بولو کیا تم ایک برتی ہوئی لڑکی کو اپنی زندگی کا حصہ بناؤ گے ۔
وہ مسلسل روتے ہوئے چیخ چیخ کر بول رہی تھی ۔
عرشمان تو اس کی باتیں سن کر پتھر کا ہو گیا تھا ۔
انشاء کی بات سن کر عرشمان تو گویا پتھر کا ہو گیا ۔
اس نے پتھرائی آنکھوں سے انشاء کی طرف دیکھا ۔
اس کی خاموشی کو انشاء نے غلط انداز میں لیا اسے لگا کہ سچ جان کر عرشمان کو اس سے گھن آ رہی ہے اسے اس سے نفرت ہو گیی ہے تبھی تو وہ خاموش ہے اور اس نے اس کی تسلی کے لئے ایک لفظ نہیں بولا ۔
کیا ہوا آفیسر سچ سنتے ہی آپ کے سر سے عشق کا بھوت اتر گیا ۔اب خاموش کیوں ہیں ہاں یا اب آپ کو مجھ سے نفرت محسوس ہو رہی ہے ۔
کہا تھا میں نے کہ یہ پیار محبت کچھ نہیں ہوتا ہے ۔
اب آپ کو سمجھ آ رہا ہوگا اور آپ پچھتا رہے ہیں ۔
وہ بغیر اس کی سنے نان اسٹاپ بولے جا رہی تھی ۔
سچ تو یہ تھا کہ عرشمان کو اس کے ساتھ ہویے حادثے کا بہت دکھ ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ کچھ پل بول ہی نہیں سکا ۔
انشاء سب کچھ بتا کر لمبے لمبے سانس لینے لگی اس کے سامنے پھر سے وہ تکلیف دہ لمحے آنے لگے ۔
اس نے خود کو پر سکون کرتے ہوئے لمبی لمبی سانس لی ۔
عرشمان اس کی حالت دیکھ کر فوراً اس کی طرف بڑھا ۔
لیکن انشاء نے اسے آگے بڑھنے روک دیا اور بولی ۔۔
مسٹر عرشمان خان مجھے آپ کی جھوٹی ہمدردی کی کویی ضرورت نہیں ۔
وہ سخت لہجے میں بولی ۔
لیکن عرشمان نے اس کی بات نہیں سنی اور اسے کھینچ کر گلے لگا اور اسے سینے میں بھینچ لیا ۔
اس کے درد کا سوچ کر دو آنسو اس کی آنکھوں سے ٹوٹ کر انشاء کے بالوں میں جذب ہو گیے۔
آی ایم سوری ریلی سوری مسز خان ۔
اگر مجھے پتا ہوتا کہ تمہارا ماضی اتنے درد اور تکلیف سے بھرا ہے تو بخدا میں تا عمر میں اس بارے میں تم سے کوئی سوال نہیں کرتا ۔
میں تو صرف اسلیے پوچھا تھا تاکہ میں تمہاری تکلیف کا مداوا کر سکوں۔
وہ اس کی پشت کو نرمی سے سہلاتے ہوئے بولا ۔
تمہیں گتا ہے کہ میں تمہارا ماضی جان کر تمہیں چھوڑ دونگا اور تم سے نفرت کروں گا ۔
میرا عشق اتنا کم ظرف نہیں ہے مسز خان ۔
میں نے تمہارے جسم سے نہیں تمہاری روح سے محبت کی ہے ۔
مجھے تمہارے خوبصورت چہرے سے محبت نہیں ہویی تھی بلکہ مجھے تو تمہاری ان آنکھوں میں موجود درد نے اپنی طرف اٹریکٹ کیا تھا۔
میں جب جب تم سے ملتا تھا تمہاری آنکھیں مجھے اپنی طرف کھینچتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں ۔
پہلے مجھے لگا کہ یہ وقتی اٹریکشن ہے لیکن پھر تمہاری آنکھیں میری ذہن پر سوار ر ہنے لگیں ۔
اور پھر میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں ان درد بھری آنکھوں کو خوشیوں سے بھر دوں گا ۔
عرشمان اس کی پشت کو سہلاتے ہوئے اسے اپنے ہر راز سے واقف کرتے ہوئے اسے پرسکون کرنے لگا ۔
اور پھر اچانک سے اس کا چہرا ا پر کرتے ہوئے اس کی آنکھوں پر محبت سے بوسہ دیا اور اس کی بھیگی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا ۔
مسز خان اگر میرے بس میں ہو نا تو میں تمہیں گلے لگا کر چاروں طرف محبت کی ایک لکیر کھینچ دیتا تاکہ کوئی غم تمہارے تک نہ پہنچ سکے ۔
میں چاہتا ہوں کہ تمہارے سارے خواب حقیقتوں میں بدل دوں۔
تمہارے دن رات صبح شام محبتوں سے سجا دوں
عرشمان اس کے چہرے پر جھکا محبت بھری سرگوشیاں کرتے ہوئے بولا ۔
انشاء ایک ٹک اس کی آنکھوں میں دیکھے گئی ۔
اسے لگا وہ کوئی ساحر ہے جو اپنے لفظوں سے اسے اسیر کر رہا ہے ۔
اس کا دل اس کے ہر لفظ پر کھنچا جا رہا تھا ۔
اچانک عرشمان نے اسے اپنی بانہوں میں اٹھا لیا اور اسے لا کر بیڈ پر لیٹا دیا اور اس کے اوپر چادر پھیلایی اور اس کے سرہانے بیٹھ کر اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا ۔
انشاء اس کو بغیر پلکیں جھپکے ایک ٹک اسے دیکھے گئی۔
عرشمان ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کہ وہ پر سکون ہو سکے۔
اسی خود کو تکتا پاکر عرشمان کی آنکھیں شرارت سے چمکی ۔
کیا بات ہے دلبر آپ ہمیں اس طرح کیوں گھورے جا رہی ہیں کیا بہت ہینڈسم لگ رہا ہوں ۔
میں تم سے پیار نہیں کرتی۔ انشاء اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے بولی ۔
کوئی بات نہیں دلبر ہم ہیں نا ہمارا پیار ہی ہم دونوں کے لئے کافی ہوگا ۔
ابھی آپ مجھ سے پیار سے انکاری ہیں ہوسکتا ہے کل کو آپ پوری دنیا کے سامنے میرے پیار کا اظہار کر دیں
ہونہہ خوش فہمی ہے جناب وہ غنودگی میں جاتے ہوئے بولی۔
اور تھوڑی ہی دیر میں سو گیی ۔
اس کے سونے کے بعد عرشمان کافی دیر تک جاگتا رہا ۔
اور اس بارے میں سوچتا رہا کہ کون ہے انشاء کا مجرم ۔
اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ کل صبح پولیس اسٹیشن جاتے ہی انشاء کے مجرم کے بارے میں پتا کرے گا اور اسے کڑی سے کڑی سزا دلوا کر رہے گا ۔
یہ سب سوچتے ہوئے ناجانے کب وہ بھی سو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح شاہ ریز کی آنکھ کھلی تو نایرہ کو اپنی بانہوں میں سوتا پایا جو کاری رات اس کی شدتیں سونے کے بعد ٹوٹی بکھری حالت میں اس کی بانہوں میں سو رہی تھی ۔
سوتے ہوئے بھی اس کے چہرے پر شرم و حیا کے رنگ بکھرے ہوئے تھے ۔
نایرہ اس کی قربت کے رنگوں میں رنگی بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی ۔
شاہ ریز نے اسے دو تین بار آواز دی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی ۔
اچانک شاہ ریز کو شرارت سوجھی وہ جھکا اور اس نے نایرہ کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی گرفت میں لے لیا اور اس کی سانسوں کو قطرہ پینے لگا۔
سانس بند ہونے پر نایرہ کسمسایی اور اپنے دونوں ہاتھوں سے شاہ ریز کو پیچھے کرنے لگی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا ۔
اور کافی دیر تک اپنے لبوں کی پیاس بجھاتا رہا ۔
جب اسے لگا کہ وہ سانس نہیں لے پا رہی ہے تب جاکر اسے چھوڑا ۔
سونے نہیں دیا
اس کے چھوڑے کے بعد نایرہ نے اس کے سینے پر مکے مارنے شروع کر دیے ۔
شاہ آپ بہت برے ہیں ۔ایک تو آپ نے مجھے ساری رات سونے نہیں دیا اور اب صبح ہی صبح پھر سے شروع ہو گئے ہیں وہ شرمایی لجای سی بولی ۔
افففف بٹر فلائی اس میں میری کوئی غلطی نہیں ہے آپ ہیں ہی اتنی پیاری کہ میرا دل آپ کو پیار کرنے کو مچل اٹھتا ہے ۔
شاہ ریز اس کے کانوں کے پاس لب کیے بولا ۔
جس پر سمٹ کر رہ گئی ۔
شاہ ریز کی گرفت ڈھیلی ہونے پر وہ اس کی بانہوں سے نکل کر بھاگی اور واش روم میں بند ہو گئی ۔
اس کےاس طرح بھاگنے پر شاہ ریز کا قہقہ پورے کمرے میں گونجا ۔
جسے سن کر نایرہ بے طرح شرمایی ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
عرشمان اور انشاء سو رہے تھے کہ اچانک انشاء کے موبائل پر کال آنے لگی۔
پورے دو بار پوری گھنٹی بجنے کے بعد جاکر کہیں انشاء کی آنکھ کھلی اس نے نمبر دیکھتے ہی اس نے فورن کال پک کر لی ۔
اور دوسری طرف سے نا جانے کیا کہا گیا کہ وہ غصے سے کھول اٹھی ۔
اور اس نے یہ کہ کر کال کاٹ دی کہ وہ آ رہی ہے سارے تیاری کر کے رکھو ۔
اس نے عرشمان کی طرف دیکھا جو ہنوز سو رہا تھا ۔
اس نے الماری سے کچھ کپڑے لے کر واشروم گئی اور ٹھیک پندرہ منٹ بعد باہر آئی تو اس کے جسم پر بلیک کلر کی پینٹ اور شرٹ موجود تھی اور اس نے اپنے چہرے کو کور کرنے کے لئے بلیک کی ہڈی لے رکھی تھی ۔
وہ چلتے ہوئے عرشمان کے پاس آیی اور جھک کر اس کی پیشانی پر عقیدت اور محبت سے بوسہ دیا ۔
ایم سوری مان ۔میں جو کرنے جا رہی ہوں اس سے تم بہت غصہ ہوگے لیکن میرا یہ کرنا بہت ضروری ہے ۔
شاید اب ہم اس طرح ساتھ نہ رہ سکیں ۔
ہوسکے تو اپنی مسز خان کو معاف کر دینا ۔
وہ اس کے ہاتھوں کو چوم کر وہاں سے چلی گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک تاریک کمرے کا منظر ہے جہاں ایک شخص کرسی سے بندھا ہوا تھا ۔
انشاء چلتی ہوئی اس کے پاس آیی اور اس کے چہرے کو پکڑ کر اوپر اٹھایا
اور اس کی آنکھوں میں اپنی سرخ کالی آنکھیں گاڑی ۔
اور بولی تو اس کے لہجے میں نفرت کی آگ تھی ۔
ہیلو مسٹر نیازی ۔۔۔
پہچانا مجھے ؟ ارے کیسے پہچانو گے مجھے میں نے تو اب۔پنا نام پتا بتایا ہی نہیں ۔۔
انشاء عرشمان کو سارا سچ بتانے کے بعد کافی پرسکون ہو گیی تھی ۔
اور عرشمان نے بھی اس کے ماضی کو جان کر اسے دھتکارا نہیں بلکہ اسے اپنی محبت اور چاہت کا یقین دلایا تھا ۔
انشاء مطمئن ہو کر عرشمان کی بانہوں میں پرسکون سی سو رہی تھی جب اس کے موبائل پر کال آنے لگی ۔
جس کی آواز سے انشاء کی آنکھ کھلی ۔
نمبر دیکھا تو اس کے ہائیر کیے ہوئے بندے کی کال تھی جسے انشاء نے آصف نیازی کے ہر ایکٹویٹی پر نظر رکھنے کے لئے کہا تھا یہ ایک شارپ فائٹر ہے ۔
اس نے فوراً موبائل کان سے لگایا۔
ہیلو میم آصف نیازی آج اپنے فارم ہاؤس پر آنے والا ہے
اور اس کے آدمیوں نے کوئی لڑکی اس کے لئے کڈنیپ کر کے فارم ہاؤس پہونچایی ہے۔
اور اس کے باپ کو دھمکیاں بھی دی ہیں کہ اگر اس نے پولیس کو اطلاع دی تو وہ اس کی دوسری بیٹی کو بھی اٹھوا لیں گے ۔
اس کی بات سن کر انشاء کا خون کھول اٹھا ۔
علی تم ایک کام کرو۔
جیسا کہ تم نے بتایا کہ آصف نیازی اپنے فارم ہاؤس پر اکیلا ہوگا اس لڑکی کے ساتھ تو تم اس آصف نیازی کو اسی کے فارم ہاؤس پر قید کر کے رکھو اور اس لڑکی کو اس کے گھر پہونچاؤ ۔
کیسے بھی کر کے تم یہ کام کرو ۔
اوکے میم کام ہو جائے گا بس اس کے لئے مجھے ایک دو بندے کو ساتھ لینا پڑے گا ۔
ہہہم ٹھیک ہے میں کچھ دیر میں پہونچتے ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک تاریک کمرے کا منظر ہے جہاں ایک شخص کرسی سے بندھا ہوا تھا ۔
انشاء چلتی ہوئی اس کے پاس آیی اور اس کے چہرے کو پکڑ کر اوپر اٹھایا
اور اس کی آنکھوں میں اپنی سرخ کالی آنکھیں گاڑی ۔
اور بولی تو اس کے لہجے میں نفرت کی آگ تھی ۔
ہیلو مسٹر نیازی ۔۔۔
پہچانا مجھے ؟ اپسس کیسے پہچانو گے مجھے میں نے تو ابھی اپنا نام پتا بتایا ہی نہیں ۔۔
کون ہو تم ؟ اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے یہاں بند کرنے کی ۔
شاید تم مجھے جانتی نہیں ہو لڑکی ورنہ تم ایسا کرنے کی ہمت نہیں کرتیں ۔
وہ منہ کھلنے پر غصے سے دہاڑا ۔
ہاں بتاؤ ذرا کون ہو تم ؟ میں بھی تو جانوں ۔
آصف نیازی ایک ریپسٹ ،ڈرگس اسمگلر ،لڑکیو ں کی عزت سے کھیلنے والا ۔
باہر کے ملکوں میں اپنے ہی ملک کی بہو بیٹیوں کا سودا کرنے والا ۔
بتاو اور کیا جاننا چاہئیے مجھے تمہارے بارے میں جس سے میں تم سے ڈر جاؤں وہ آنکھوں میں نفرت لئے غصے سے دہاڑی ۔
مجھ سے زیادہ اچھے طریقے سے تمہیں کون جان سکتا ہے ۔جس نے تمہارے پل پل کی خبر رکھی ہو۔
ک۔۔ کو۔ن ہو تم اور تم میرے بارے میں اتنا سب کچھ کیسے جانتی ہو؟ وہ اس کے وحشت زدہ چہرے کو دیکھ کر ہکلاتے ہوئے بولا جو اس کے سارے کالے کارنامے جانتی تھی ۔
میں تمہاری موت ہوں آصف نیازی وہ سرد لہجے میں بولی ۔
د۔۔ی۔کھو۔میں تمہیں نہیں جانتا اور میں تمہارا کیا بگاڑا ہے جو تم میرے پیچھے پڑ ی ہو ؟
تم نے میری زندگی برباد کر دی ،تم نے مجھ سے میری خودداری اور میری ذات کا غرور اور میری عزت چھین لی ۔
اور تمہاری وجہ سے میری کل کاینات میرے بابا مجھ سے دور ہو گیے
اور تم پوچھ رہے ہو کہ تم نے میرا کیا بگاڑا ہے
باسٹرڈ ۔۔۔۔۔
وہ چئیر کو ٹھوکر مارتے ہوئے دہاڑی
اس کی دہاڑ پر آصف نیازی جیسا درندہ بھی کانپ کر رہ گیا ۔
کوئی بات نہیں اگر تم بھول گئے میں تمہیں یاد دلاتی ہوں ۔
وہ سرد آواز میں بولی ۔
علی کھولتا ہوا پانی لاؤ ۔۔۔
ی۔۔یہ تم پانی کیوں منگوا رہی ۔ہو۔
اسلیے مسٹر نیازی تاکہ جو تمہاری یاداشت پر دھول جم گئی ہے اسے پگھلا سکوں ۔
د۔۔یکھو لڑکی تم ا۔۔یسا ۔۔کچھ ۔نہیں کروگی ۔۔
تم جانتی نہیں ہو ۔میرا بھائی منسٹر ہے اگر تم نے کچھ کیا تو اپنے انجام کی خود زمہ دار ہو گی۔
انجام کی پرواہ وہ لوگ کرتے ہیں جن کے پاس کھونے کے لئے کچھ ہو ۔
میرے پاس تو کھونے کے لئے کچھ نہیں بچا ہے تو تم مجھے میرے انجام سے ڈرانے کی کوشش مت کرو ۔
یہ لیں میم گرم پانی ۔
ہممم گڈ ۔علی تم چاہو تو باہر جا سکتے ہو ۔
نہیں میم میں یہیں رہوں گا اور اس جیسے درندے کو تڑپتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں ۔
ہہم تو مسٹر نیازی کیا کچھ یاد آ رہا ہے ؟
کیا تم بھول گئے آج سے دس سال پہلے تم نے کیا تھا اور کس کی زندگی برباد کی تھی
بھول گئے وہ فیسٹیول کی رات جب تم کسی کی زندگی بھی رات کی طرح سیاہ کر دی تھی ۔
ارے یاد بھی کیسے ہوگا تم جیسے بے ضمیر انسان نے نا جانے کتنی لڑکیوں کی زندگی برباد کر رکھی ہوگی جو تمہیں یاد بھی نہیں ہوںگی ۔
لیکن میں نہیں بھولی اور آج میں تم سے اپنے ہر درد ہر تکلیف کا حساب لوں گی ۔
وہ شولے برساتے لہجے میں بولی اور کھولتے ہوئے پانی میں اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر ڈال دیا جس پر اس درندے کی چنگھاڑتی ہوئی آواز پورے فام ہاؤس میں گونجی ۔
انہیں غلیظ ہاتھوں سے تم لڑکیوں کی عزت تار تار کرتے ہو نا اب یہ ہاتھ ہی نہیں رہیں گے ۔
وہ اس کے بلبلانے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مسلسل اس کے ہاتھوں کو پانی میں ڈالے رکھا ۔
وہ کرسی پر بندھا بے بسی سے روتے منتیں کرتے ہوئے چھٹپٹا رہا تھا ٹھیک اسی طرح جیسے لڑکیاں اس کے سامنے اپنی عزت کے لیے رہتی اور منتیں کرتی تھیں ۔
لیکن اسے رحم نہیں آتا تھا ۔
اور آج انشاء بھی اس پر رحم نہیں کر رہی تھی ۔
اور پھر انشاء نے اس کی انگلیوں پر کٹ لگانا شروع کر دیا جس پر وہ چلانے اور چیخنے لگا ۔
انشاء نے اس کی ساری انگلیوں کو کاٹنے کے بعد اس کی آنکھوں پر چ۔۔ا۔۔ق۔و پھیرا۔
تم لڑکیوں کو اپنی انہیں آلودہ نگاہوں سے دیکھتے ہو نا آج کے بعد یہ گندی نظر کسی پر نہیں اٹھیں گی ۔
اور پھر انشاء نے اس کی آنکھوں کو بے دردی سے باہر نکال دیا ۔
علی نے دہل کر چہرہ موڑ کے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا ۔
اور پھر انشاء آصف نیازی جیسے درندے کو ایسی دردناک موت دی کہ اگر کوئی اس جیسا گنہگار انسان دیکھتا تو پھر تا عمر کسی لڑکی کی طرف غلط نگاہ ڈالنے کی ہمت نہ کرتا ۔
انشاء نے اس کی لاش کو وہیں چھوڑا اور گھر جانے لگی ۔
میم یہ لاش یہیں رہے گی۔
علی اس آصف نیازی جیسے درندے کو بے کفن ہی رہنا چاہیے کیوں کہ اس نے نا جانے کتنے لڑکیوں کو بے لباس کیا ہے ۔
اور وہ وہاں سے نکلتی چلی گئی ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
گھر آکر وہ سیدھا اپنے روم میں آیی اور واشروم میں جا کر شاور کے نیچے کھڑی ہو گئی ۔
اس کی آنکھوں سے بے تحاشہ آنسو بہ رہے تھے ۔
جو شاور کے پانی کے ساتھ بے مول ہو کر بہ رہے تھے ۔
آج اس نے اپنے آنسوؤں کو بہ جانے دیا ۔
سالوں سے انہیں اپنی پلکوں کی باڑھ سے بہنے کی اجازت نہیں دی تھی کیوں کہ اس نے اپنے بابا سے وعدہ کیا تھا کہ جب تک اپنے مجرم کو سزا نہیں دے دیتی وہ روئے گی نہیں ۔
کافی دیر تک آنسو بہانے کے بعد وہ چینج کر کے باہر آئی اور چلتے ہوئے عرشمان کے پاس آیی جو ایک پرسکون نیند سو رہا تھا ۔
وہ اس کے سرہانے بیٹھ گئی اور اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔
میں نہیں جانتی کہ کل کو سچ جان کر تم کیسا ریکٹ کروگے میں بس اتنا جانتی ہوں نایرہ کے بعد تم وہ پہلے شخص ہو جسے کھونے کے ڈر سے میرا دل کانپ اٹھتا ہے ۔
تم بہت اچھے ہو مان ۔میں نے ہمیشہ پولیس والوں سے نفرت کی ہے لیکن تم سے نہ کر سکی ۔
تم وہ واحد شخص ہو جس سے میرا دل کبھی نفرت نہ کر سکا ۔میں اپنے دل کو تم سے نفرت کی ہزار دلیلیں دیتی تھی پھر بھی میرا دل ہمیشہ تمہارا ہی ہمنوا رہتا ۔
انشاء نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو سوتے ہوئے بہت پیارا لگ رہا تھا ۔
اس نے جھک کر اس کی پیشانی چومی اور اس کے بغل میں دراز ہ گیی آج اسے پر سکون نیند آنی تھی کیوں کہ آج اس نے اپنے مجرم کو سزا دے دی تھی ۔
وہ عرشمان کو دیکھتے ہوئے نا جانے کب نیند کی آغوش میں چلی گئی ۔
صبح اس کی آنکھ کھلی تو اس نے عرشمان کو جاء نماز پر دعا مانگتے ہوئے پایا ۔
سفید ٹوپی اُس کے چہرے پر کافی بھلی لگ رہی تھی ۔
وہ بے خود ہو کر چلتی ہوئی اس کے پاس آیی اور اس کے سامنے بیٹھ گئی ۔
عرشمان نے دعا مانگ کر اپنے ہاتھ کو انشاء کے چہرے پر پھیرا اور اپنی مانگی ہوئی ساری دعائیں اس کے چہرے پر پھونک دی ۔
انشاء اس کے اس عمل پر سن رہ گئی ۔
اس نے عرشمان کے چہرے کو ہاتھوں میں لے کر دھیمی آواز میں پوچھا ۔
کیا مانگا دعا میں ؟
عرشمان بنا اس کی بات کا جواب دیے مسکرایا اور بولا ۔
جانتی ہو محبت کیا ہے ؟
میرا بار بار تمہیں رب سے مانگنا۔
اس کی بات پر انشاء نے اس کی گہری آنکھوں میں دیکھا ۔
انشاء کافی دیر تک اس کی آنکھوں میں دیکھتی رہی اور پھر دھیرے سے اس کی آنکھوں پر جھک کر بوسہ دیا ۔
مجھے تنہا مت کرنا
تجھ میں بسی ہے میری دنیا ساری ۔
اس کے کانوں میں مدھم سرگوشی کرتے ہوئے وہ وہاں سے چلی گئی ۔
عرشمان تو کافی دیر تک اپنی جگہ سے ہل بھی نہ سکا ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
سارے گھر والے ایک ساتھ بیٹھے ناشتہ کرہے تھے اور ان سب کے بیچ نایرہ کافی گھبرای،اور شرمایی سی بیٹھی تھی ۔
اور شاہ ریز خان تو بس اپنی بٹر فلائی گھبرانا اور شرمانا کافی انجوائے کر رہا تھا ۔
اس کی نظریں مسلسل نایرہ کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں ۔
انشاء نے نایرہ کے شرمگیں چہرے پر نظر ڈالے دل سے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس کو ہمیشہ ایسے ہی خوش رہے ۔
سب خوش گپیوں میں مصروف ناشتہ کر رہے تھے جب اچانک ہی پولیس آیی تھی ۔
جو بغیر اجازت ہی اندر گھس آئی تھی ۔
سب پولیس کو دیکھ کر حیران رہ گئے سواے انشاء کے ۔
ساری ہی لیڈس پولیس تھیں ۔
آپ لوگوں کی ہمت کیسے ہوئی اس طرح گھر میں گھسنے ہاں ۔۔۔
شاہ ریز آگے بڑھتے ہوئے غصے سے دہاڑا ۔
دیکھیں سر ہمیں یہاں بھیجا گیا ہے اور ہمیں مس انشاء میر کی گرفتاری کا آرڈر دیا گیا ہے ۔
وا ا ا ٹ یہ کیا بکواس ہے ؟
اب کی بار عرشمان چلایا تھا کیوں کہ بات اس کے دلبر کی تھی ۔
دیکھیں آپ بھی ایک پولیس آفیسر ہیں سو پلیز ہمارے ساتھ کوآپریٹ کریں ۔
اور ہمیں ہماری ڈیوٹی پوری کرنے دیں ۔
ایسے کیسے پوری کرنے دوں آپ لوگ بولیں کہ آپ کی وائف کو اریسٹ کرنا ہے اور میں چپ چاپ آپ کی بات مان لو ۔
وہ سرد آواز میں بولا ۔
دیکھیں آفیسر آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے اور شاید آپ غلط جگہ پر آ گئی ہیں سو آپ یہاں سے تشریف لے جائیں ۔
شاہ ریز اپنے غصے کو دباتے ہوئے سنجیدہ آواز میں بولا ۔
دیکھیں ہمیں کوئی غلط فہمی نہیں ہویی ہے ہم صحیح جگہ پر آیے ہیں ۔
دیکھ۔۔۔۔۔
عرشمان جو کچھ بولنے لگا تھا کہ انشاء نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روک با ر بولی ۔
یہ صحیح کہ رہی ہیں مجھے ان کے ساتھ جانا پڑے گا ۔
وا ا اٹ تم پاگل ہو گیی ہو انشاء ۔۔تم کیوں ان کے ساتھ جاؤ گی ؟
کیوں کہ مرڈر کیا ہے میں نے کسی کی جان لی ہے میں نے وہ زور سے چلایی ۔
اس کی بات سن کر سب اپنی جگہ پر فریز ہو گیے ۔
عرشمان کے تو کان سائیں سائیں کرنے لگے ۔
اسے تو اپنی سماعت پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔
اس سارے واقعے کے دوران سب نایرہ کو بھول ہی گیے جو سینے پر ہاتھ رکھے ڈبڈبایی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہی تھی
وا ا اٹ پاگل ہو گیی ہو انشاء تم کیوں جاؤ گی ان کے ساتھ ۔
کیوں کہ مرڈر کیا ہے۔۔ میں نے کسی کی جان لی ہے ۔
وہ چیخ کر بولی ۔
سب گھر والے اپنی جگہ پر فریز ہو گیے ۔
عرشمان کے تو کان سائیں سائیں کرنے لگے ۔
اسے اپنی سماعت پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
وہ لیڈی پولیس آفیسرز کے ساتھ آگے بڑھنے لگی تھی کہ عرشمان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا۔
ت۔۔۔تم جھوٹ بول رہی ہو نا مزاق کر رہی ہو میرے ساتھ ۔
نہیں میں کوئی مزاق نہیں کر رہی ہوں یہ ایک حقیقت ہے
جسے تم جتنی جلدی قبول کرو گے اتنا ہی تمہارے لئے اچھا ہوگا ۔
تم مجھ سے میرے مجرم کے بارے میں پوچھ رہے تھے نا تو سن لو یہی شخص میرا مجرم تھا جسے مار کر میں نے اپنا انتقام لے لیا ۔
انشاء نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا ۔
اور عرشمان تو اس کے لہجے سے جھلکتی ٹھوس سچایی کو محسوس کر کے اپنی جگہ پر فریز ہو گیا ۔
اور اسے پولیس وین کی طرف جاتا دیکھنے لگا ۔
جب ایک لیڈی آفیسر اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑی پہنانے لگی تو وہ ایک ہی جست میں اس تک پہونچا ۔
ہاؤ ڈیر یو ۔۔آپ کی ہمت کیسے ہوئی میری وایف کو ہتھکڑی پہنانے کی ۔وہ اتنی زور سے دہاڑا کہ ایک پل کو انشاء بھی کانپ گیی ۔
دیکھیں سر یہ ایک مجرم ہیں اور انہوں نے خود اپنا جرم قبول کیا ہے اسلیے ہمیں ان کو ہتھکڑی پہنانی ہی پڑے گی۔
میری بیوی مجرم ہے یا نہیں اس کا فیصلہ کرنے والی آپ کون ہوتی ہیں ۔
جب تک میری بیوی کا جرم کورٹ میں ثابت نہیں ہوجاتا اسے مجرم کہنے کا کسی کو حق نہیں ہے ۔
وہ اپنی لہو رنگ آنکھوں کے ساتھ بولا ۔
انشاء پولیس وین میں بیٹھنے لگی تھی کہ اچانک مڑ کے جواد صاحب کے پاس آیی تو انہوں نے اپنا چہرہ موڑ لیا انشاء کو ان ایسا کرنے سے بہت تکلیف ہوئی ۔
انکل میں جانتی ہوں کہ آپ کو بہت زیادہ تکلیف پہونچی ہے میرے اس عمل سے ۔
لیکن مجھے کوئی افسوس نہیں ہے اپنے اس عمل پر ۔
آپ کو میں نے ہمیشہ اپنے بابا کی طرح سمجھا ہے اور آج آپ کی آنکھوں میں یہ ناراضگی اور بے رخی دیکھ کر میرا اندر ہی اندر کٹ رہا ایسا لگ رہا ہے جیسے ایک بار پھر سے میرے بابا مجھ سے دور ہو رہے ہیں ۔
وہ آنکھوں میں نمی لئے بولی ۔
انکل اگر آپ کی کویی بیٹی ہوتی اور خدانخواستہ اگر اس کے ساتھ ایسا کچھ ہوتا تو یقین مانیے انکل آپ وہ خود کرتے جو آج میں نے کیا۔
وہ نم لہجے میں بول کر وین میں بیٹھ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی وہاں سے اوجھل ہو گیی ۔
عرشمان مسلسل اسی رستے پر اپنی سرخ انگارہ آنکھیں جمایے کھڑا تھا ۔
جب اچانک اس کے کندھے پر شاہ ریز نے ہاتھ رکھا ۔
وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوا ۔
جگر چلی گئی ہے وہ کب تک اس طرف دیکھتے رہوگے ۔
دیکھنے سے کام نہیں چلے گا کچھ کرنا ہو گا اسے باہر لانے کے لئے ۔
تم اتنے مطمئن کیوں کھڑے ہو کیا تم اس سے بے زار ہو گیے ہو اس کا پاسٹ جان کر ۔
اس کی بات سن کر عرشمان نے چہرہ موڑ کر شاہ ریز کو دیکھا تو اس کی آنکھیں دیکھ کر شاہ ریز حیران رہ گیا کیوں کہ اس کی آنکھیں اتنی سرخ تھیں مانو ان سے ابھی خون ٹپک پڑے گا ۔وہ ضبط کی انتہا پر تھا ۔
عرش۔۔۔۔۔۔۔
ابھی اس کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ اچانک دھپ کی آواز آیی سب نے مڑ کر دیکھا تو نایرہ زمین پر گری ہوئی تھی ۔
شاہ ریز تڑپ کر اس کی طرف بھاگا ۔
اس سارے حادثے میں کسی کا دھیان انشاء کی طرف نہیں گیا تھا ۔
جو انشاء کو پولیس کے ساتھ جاتا دیکھ برداشت نہیں کر پایی اور ہوش و حواس کھو کر گر پڑی ۔۔
شاہ ریز نے اس کا سر اپنی گود میں رکھے اسے بلانے لگا ۔
ہے بٹر فلائی آپ کو کیا ہوا ؟ ادھر دکھیں میری طرف ۔
آپ مجھ سے بات کریں آپ جانتی ہیں نا کہ آپ کی ذرا سی تکلیف مجھے پاگل کر دیتی ہے تو پھر آپ یہ مزاق کیوں کر رہی ہیں چلے اٹھیں جلدی ورنہ آپ کو پتہ ہے کہ میری بات نہ ماننے پر میں آپ کو سزا بھی دے سکتا ہوں ۔
وہ مسلسل اس کے گالوں کو سہلاتے دیوانہ وار بول رہا تھا ۔
خان یہ بے ہوش ہو گئیں ہیں ہمیں ڈاکٹر کو کال کرنی چاہیے ۔
ساحل تم جلدی کال کرو ڈاکٹر کو اور بولو کہ دس منٹ کے اندر یہاں پہونچے ۔
جی بھائی۔
سب لوگ کافی پریشان ہو گئے تھے اور اس پریشانی میں انشاء کو بھی بھول گیے تھے ۔
تھوڑی ہی دیر ڈاکٹر آگیا ۔
اور نایرہ کا چیک اپ کرنے لگا ۔
ڈاکٹر کیا ہوا ہے میری بٹر فلائی کو ؟
دکھیں مسٹر خان آپ کی وائف کو ماینر اٹیک آیا ہے شاید ان کو کوئی بہت بڑا صدمہ پہنچا ہے جس کی وجہ سے وہ اس حال میں ہیں ۔
اس کی تکلیف کا سن کر شاہ ریز کی آنکھیں سرخ ہو گییں ۔
سارے گھر والے بھی بہت پریشان تھے کیوں کہ وہ انشاء سے نایرہ کا لگاؤ جانتے تھے اور اچھی طرح اس کا درد محسوس کر رہے تھے کہ کس طرح نایرہ برداشت کر پایگی اس تکلیف کو ۔
جب سے ڈاکٹر چیک کر کے گیا تھا شاہ ریز نایرہ کا ہاتھ پکڑ کر اس کے سرہانے بیٹھا تھا ۔
اچانک یاد آنے پر وہ عرشمان کی طرف مڑا ۔
جگر تو پولیس اسٹیشن جا انشاء کو تیری ضرورت ہوگی میں یہاں ہو ں
تو جا اور کوشش کر کہ انشاء کو کسی طرح بیل مل جائے اور اسے رات پولیس اسٹیشن میں نہ گزارنی پڑے ۔
اور عرشمان وہاں سے چلا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرشمان پولیس اسٹیشن پہونچا تو وہاں پر میڈیا پہلے سے ہی موجود تھی اور مسلسل اندر جانے کی کوشش میں تھی ۔
وہ سنجیدگی سے چلتا ہوا اندر جانے لگا کہ تبھی میڈیا کے ایک نمایندے نے روک لیا اور اس سے دھڑا دھڑ سوال کرنے لگا ۔
سر ہمیں بتا چلا ہے کہ منسٹر کے بھائی کا مرڈر کرنے والی لڑکی آپ کی وائف ھے ۔
سر اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے ؟
کیا آپ بھی اپنی وایف کو مجرم مانتے ہیں ؟
کیا آپ ایک ایماندار پولیس افسر ہونے کے ناتے اپنی وایف کو کڑی سے کڑی سزا دلوا ینگے ۔
اس کی بات سن کر ایک منٹ میں ہی عرشمان کا پارہ ہائی ہوا تھا ۔
تم ہوتے کون ہو مجھ سے سوال کرنے اور میری بیوی کو مجرم کہنے والے ایک منٹ کے اندر تم اپنی اس پلٹن لو اور یہاں سے چلتے پھرتے نظر آؤ سمجھے ۔
وہ ایک منٹ میں اس کی طبیعت صاف کرتے ہوئے بولا ۔
اور اندر کی طرف بڑھ گیا
وہ چلتا ہوا اس جگہ پر آیا جہاں انشاء کو رکھا گیا تھا ۔
وہ سلاخوں کے اس پار بیٹھی نا جانے کیا اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں تلاش کر رہی تھی ۔
ہاتھوں کی لکیروں میں مقدر نہیں ہوتا ۔
تقدیر تو ان کی بھی ہوتی ہے جن کے ہاتھ نہیں ہوتے ۔
عرشمان کے سنجیدہ آواز میں شعر پڑھنے پر اس نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا ۔
جو چہرے پر چٹانوں جیسی سختی سجایے اس کی طرف دیکھ کر رہا تھا ۔
انشاء کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ محسوس ہویی
شادی کے بعد عرشمان نے کبھی اس سے سخت لہجے میں بات نہیں کی تھی لیکن آج اس کے چہرے پر اتنی اجنبیت تھی کہ انشاء کو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس عرشمان کو جانتی ہے نہیں ہے ۔
چلو باہر آؤ میرا وکیل بیل کے پیپر لے کر آتا ہوگا ۔
انشاء اس کی سنجیدہ آواز پر سیل کے کھلے دروازے سے دھیرے باہر نکل آئی ۔
تھوڑی دیر بعد ہی وکیل بیل کے پیپر لے کر آ گیا ۔
اور سگنیچر وغیرہ کر کے وہ لوگ باہر نکل رہے تھے جب آصف نیازی کا منسٹر بھائی وہاں ٹپک پڑا اس نے بہت کوشش کی کہ انشاء باہر نا نکل سکے اور آج رات تک تو سیل میں ہی رہے لیکن اسے دیر ہو گئی تھی
آفیسر آج تو تم اپنی بیوی کو یہاں سے بچا کر لے جا رہے ہو لیکن کل عدالت میں بچا نہیں پاؤ گے
۔
اس نے میرے بھائی کی جان لی ہے چھوڑوں گا تو میں کسی حال میں بھی نہیں ۔
اس کی دھمکی کا بغیر کوئی نوٹس لیے عرشمان اس کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے چلا گیا ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
وہ لوگ گھر پہونچیے تو سبھی لوگ ہال میں بیٹھے ہوئے تھے ۔
سواے شاہ ریز اور نایرہ کے ۔
نایرہ کی کمی محسوس کر کے انشاء نے فوراً اس کے بارے میں پوچھا ۔
جس پر گل کی زبان سے اچانک پھسل گیا کہ وہ بے ہوش ہو گئی تھیں ڈاکٹر نے دوا دی اب سو رہی ہیں ۔
جس پر انشاء کا دل دھک سے رہ گیا اس نے تو یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ نایرہ اس کے بارے میں سن کیسا ریکٹ کریگی۔
وہ فوراً اس کے کمرے کی طرف بھاگی ۔
اور اسے پکارتے ہوئے اندر داخل ہویی تو دیکھا کہ نایرہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی اور شاہ ریز اس کے سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھ رہا تھا ۔
ا
وہ دوڑ کر اس تک پہنچنی ۔
کیا ہوا ہے میری ہنی کو ؟ وہ اس طرح کیوں لیٹی ہے ؟
اسے شاک لگا تھا تمہیں پولیس کے ساتھ جاتے دیکھ کر ۔
ڈاکٹر نے چیک کر کے دوا دی ہے اب گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے ۔
تم جاؤ آرام کرو میں ہوں ان کے ساتھ ۔
پہلے تو وہ جانے کے لئے تیار نہیں ہوی لیکن پھر شاہ ریز کے فورس کرنے پر چلی گئی ۔
وہ روم میں آیی تو عرشمان کو الماری میں کچھ ڈھونڈتے بتایا۔
وہ پتہ نہیں کیا ڈھونڈ رہا تھا کہ ساری چیزیں ادھر ادھر کر دی تھیں ۔
وہ دھیمے قدم اٹھاتی اس کے پیچھے آ کھڑی ہوئی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔
مان کیا ڈھونڈ رہے ہو ؟
اس کے لمس پر عرشمان کے اندر ہلچل مچی لیکن اس نے اپنے چہرے پر سرد مہری سجدے رکھی ۔
تم سے مطلب میں کچھ بھی کروں ۔اور ویسے بھی میں تمہیں کچھ کیوں بتاؤں تم کون سا اپنی کوئی بات بتاتی ہو۔
اس کی اس قدر بے رخی پر انشاء کی آنکھیں جل اٹھیں وہ تو اس کے نرم لہجے کی عادی تھی اس سے کہاں عرشمان کا یہ سخت لہجہ برداشت ہورہا تھا ۔
عرشمان بنا اس پر کوئی نظر ڈالے واشروم میں چلا گیا اور فریش ہو کر بیڈ پر آکے دوسری طرف رخ کر کے لیٹ گیا ۔
انشاء نے نم آنکھوں سے اس کی پشت کو گھورا اور دوسری طرف لیٹ کر سوں سوں کرکے رونے لگی ۔
اس کی رونے کی آواز پر عرشمان کو کافی حیرانی ہوئی کہ انشاء جیسی مظبوط لڑکی اتنی چھوٹی بات پر رو سکتی ہے ۔
کیا وہ اس کی زندگی میں اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ اس کی ناراضگی کے احساس سے رو پڑے ۔
یہ سوچ کر ہی کہ انشاء اس کی ناراضگی کی وجہ سے رو رہی ہے عرشمان کے دل میں گدگدی ہوئی اور اس نے ٹھان لیا کہ اتنی جلدی وہ انشاء کو معاف نہیں کرے گا ۔
آخر کو اس نے بھی اسے اتنا تڑپایا ہے ۔
تم یہ اپنا رونا دھونا بند کرو میں ڈسٹرب ہو رہا ہوں اس نے اپنے لہجے کو کھردرا کرتے ہوئے کہا ۔
جس پر انشاء نے بمشکل اپنی سسکیوں کو روکا ۔
اسے عرشمان کی ناراضگی برداشت نہیں ہو رہی تھی ۔
لیکن وہ اس کو منا بھی نہیں پا رہی تھی کیوں کہ اسے کسی کو ۔منانا آتا ہی نہیں تھا ۔
وہ کافی دیر تک رونے کے بعد سو گیی تھی ۔
اس کے سونے کے بعد عرشمان نے اس کی طرف کروٹ بدلیاور کے ماتھے پر محبت بھرا لمس چھوڑا ۔
ہہم تو دلبر آپ سے ہماری ناراضگی برداشت نہیں ہو رہی تو سوچیں میں نے کیسے اتنے دنوں سے آپ کی بے رخی برداشت کی ہے ۔
میں اتنی جلدی ماننے والا نہیں آپ کو بڑی محنت کرنی پڑے گی ۔
وہ اس کے حسین چہرے کو ایک ٹک دیکھتے ہوئے بولا ۔
دلبر تم فکر مت کرو کل سب اچھا ہی ہوگا میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں ۔
اور ہاں یہ چھوٹی سی ناراضگی ایسے ہی رہے گی جب تک تم مجھے منا نہیں لیتی ۔
وہ متبسم لہجے میں بولا ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
صبح سب لوگ ناشتے کی میز پر بیٹھے تھے اور کوئی بھی ناشتہ نہیں کر رہا تھا کیونکہ آج کورٹ میں انشاء کی پیشی تھی ۔
نایرہ کو انشاء نے دوا کھلا کر اسے سلا دیا تھا ۔
تبھی عرشمان تیار ہو کر آ گیا اور انشاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا چلیں ہمیں لیٹ ہو رہا ہے ۔
ان کے ساتھ شاہ ریز بھی جانا چاہ رہا تھا لیکن انشاء اور عرشمان دونوں نے منع کر دیا ۔
کہ وہ نایرہ کے پاس رہے اسے ضروت ہے اس کی اور جب وہ اٹھیگی تو ضرور انشاء کے بارے میں پوچھے گی جسے صرف شاہ ریز سنبھال سکتا ہے ۔
وہ دونوں جانے لگے تو عرشمان کی ماما نے ان پر ڈھیر ساری دعائیں پڑھ کر پھونکی اور ان کے کامیاب لوٹنے کی دعا دی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ جیسے ہی کورٹ کے باہر گاڑی سے اترے رپورٹر نے انہیں گھیر لیا اور انشاء سے سوال پر سوال کرنے لگے ۔
جیسے کہ اس نے سچ میں آصف نیازی کا مرڈر کیا ہے ؟
اور اگر ہاں تو اس نے ایسا کیا کیا تھا کہ آپ نے اسے جان سے مار دیا وغیرہ وغیرہ ۔۔
جس جواب انشاء نے صرف دیا کہ ہر ایک کے سوال کا جواب انہیں کورٹ روم میں ملے گا اور وہ چاہتی ہے اس کیس کا فیصلہ پوری دنیا کے سامنے ہو مطلب کہ ہر چینل کے لوگ ہوں اور اس کا یہ کیس پوری دنیا کے سامنے لائیو آیے ۔
وہ انہیں جواب دیتی آگے بڑھ گیی ۔
عرشمان اس کے اس فیصلے پر کافی حیران ہوا ۔
کیا انشاء نہیں جانتی کیا کہ وہاں پر کیسے کیسے سوال ہوتے ہیں ۔
وہ سںوچتے ہوئے اس کے پیچھے گیا ۔۔
جب وہ کورٹ میں پہونچے تو وہاں پر منسٹر اپنے باڈی گارڈ کے ساتھ پہلے سے ہی موجود تھا ۔
انہیں دیکھ کر اس نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیا ۔
گویا اشارہ دیا کہ وہ اس سے نہیں جیت سکتے ہیں
سب اپنی جگہ پر بیٹھ گئے اور جج صاحب کے آتے ہی ہی کاروائی شروع ہو گئی ۔
آصف نیازی کے وکیل نے عدالت میں انشاء کے خلاف بولنا شروع کیا اور اس پر الزام لگایا کہ وہ ایک غلط لڑکی ہے جو لڑکوں کو دولت مند لڑکوں کو اپنے پیار کے جال میں پھنساتی ہے اور ان سے اپنا مطلب پورا کرتی ہے ۔
اس نے میرے مؤکل آصف نیازی کے ساتھ بھی پیار کا ناٹک کیا لیکن آصف نیازی کے سامنے اس کی سچائی آ گیی جس پر اس نے اس کا مرڈر کر دیا ۔
اس کی بات پر عرشمان نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچی جس اس کے ہاتھ کی نسیں ظاہر ہو گییں۔
جج نے اس کی بات غور سے سنیں اور سوال کیا کہ کیا اس کے پاس ثبوت ہے کہ انہوں نے ہی مارا ہے ۔
یس یور آنر میرے پاس ثبوت کے طور پر گواہ ہے جس کو میں عدالت میں پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ سب کے سامنے سچ آ سکے ۔
گواہ کو پیش کیا جائے ۔
اور پھر وکٹم باکس میں ایک آدمی آیا جسے دیکھ کر انشاء مسکرا دی ۔
اور وہیں عدالت میں موجود علی نے بھی کافی حیرانی سے اس آدمی کو دیکھا ۔
یہ آدمی آصف نیازی کا خاص ملازم تھا ۔
جب انشاء اور علی آصف نیازی کا کام تمام کر کے نکل رہے تھے تو ان کی نظر اس پر پڑی تھی ۔
جو پتہ نہیں کب آیا اور چھپ کر سب دیکھ رہا تھا ۔
اور ان کے دیکھنے پر ڈر گیا اور ہاتھ پیر جوڑنے لگا کہ وہ اسے معاف کر دیں وہ کسی کو کچھ نہیں بتایے گا اور ویسے بھی انشاء کسی بے گناہ کو نہیں مارتی اسلیے اسے چھوڑ دیا ۔
لیکن یہی شخص دولت کے حصول کے لیے اپنے وعدے سے پھر گیا اور ان کے خلاف گواہی دینے آ گیا ۔
اس نے پوری بات کھول جج صاحب کو بتا دی اور ثبوت کے طور پر وڈیو بھی دکھائی جو اس نے چھپ کر بنایی تھی ۔
اب شک کی کوئی گنجائش نہیں تھی ۔
مس انشاء میر کیا یہ سچ ہے کہ آپ نے ہی آصف نیازی کا قتل کیا ہے ۔..........
یس یور آنر۔ میں نے ہی قتل کیا ہے آصف نیازی کا اور مجھے اس کا کوئی گلٹ نہی ہے اور نہ کوئی افسوس۔ اگر آصف۔ نیازی جیسے درندے کو قتل کرنا جرم ہے ۔تو ہاں ہوں میں مجرم۔
اگر اس آصف نیازی جیسے ناسور کو اس دنیا سے مٹانا جرم ہے تو ہوں میں ایک مجرم ۔
ہاں مارا میں نے اسے تاکہ یہ پھر سے کسی لڑکی کی نسوانیت کا غرور نہ چھین پاے ۔
اس کی روح کو زخمی نہ کر سکے ۔
ہاں مارا مینے اُسے تاکہ یہ پھر سے کسی بابا کی گڑیا کو نہ توڑے۔
وہ عدالت کے کٹگھرے میں بے خوف و خطر کھڑی اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے دہاڑی تھی ۔
اس کیس کی ساری کارروائی ہر نیوز چینل پر آرہی تھی ۔
اور آج پاکستان کے گھر گھر میں سب ٹی وی کے سامنے بیٹھے انشاء میر کا بیان سن رہے تھے ۔
میں آپ سب سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں ؟
کیا آپ سب امیجن کر سکتے ہیں کہ جب ایک لڑکی کی
عصمت دری کی جاتی ہے تو اس کے اوپر کیا بیتی
ہے ؟
کیا آپ اس باپ کی بے بسی محسوس کر سکتے ہیں کہ
جس باپ کی بیٹی کی عصمت دری کی گئی ہو اور وہ
انصاف کی امید لے کر قانون کے پاس جایے اور وہی
قانون کے محافظ لٹیرے بن جائیں ۔
اور یہ معاشرہ کیا میرے درد محسوس کر سکتا ہے
جس نے سب سے پہلے مجھے ہی اپنی زبان پر تالے
لگانے کو کہا اور مجھے ہی قصوروار ٹھہرایا۔
جب کہ گنہگار کوئی اور تھا ۔
نہیں کویی نہیں محسوس کر سکتا نہ میرا درد اور نہ ہی میری تکلیف۔
وہ وکٹم باکس میں کھڑی اپنی کرب ناک آواز میں
کورٹ روم میں موجود ہر شخص سے سوال کر رہی
تھی جس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا ۔
پورے کورٹ روم میں خاموشی چھا گئی تھی اور وہاں صرف انشاء کی آواز گونج رہی تھی ۔
اور ٹی وی کے سامنے بیٹھی عوام کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔
یور آنر اگر میں گنہگار ہوں تو آصف نیازی بھی میرا گنہگار تھا جسے مار کر میں نے اپنا انتقام لے لیا ۔
اگر میں گنہگار ہوں تو یہ قانون بھی میرا گنہگار ہے جس سے انصاف مانگنے میرے بابا گیے تھے اور انہوں نے انصاف تو نہیں کیا لیکن ایک باپ سے اس کی ہی بیٹی کو ایک رات کے لئے مانگا ۔آپ سب اس بات کی تکلیف کر سکتے ہیں ۔
اگر میں گنہگار ہوں تو یہ معاشرہ بھی میرا گنہگار ہے جس نے ہمیں مدد کرنے کے بجائے ہم پر بدچلنی کے الزام عائد کیے۔
مجھے تو سزا یہ قانون دے دےگا لیکن آپ سب کو کون سزا دے گا بتاییں مجھے ۔
وہ بول نہیں رہی تھی بلکہ چنگھاڑ رہی تھی اور ہر مجرم کو سزا سنانے والی یہ عدالت بھی خاموش تھی ۔
خان ولا میں سارے گھر والے ٹی وی کے سامنے بیٹھے یہ نیوز دیکھ رہے تھے ۔
اب جا کر انہیں صحیح معنوں میں انشاء کی تکلیف کا اندازہ ہوا تھا ۔
جج صاحب نے اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا کہ کیس کا فیصلہ کل سنایا جائےگا ۔
اور وہ اپنی کرسی سے اٹھ گئے ۔۔
عرشمان دوڑ کر انشاء کے پاس آیا جو وکٹم باکس میں بیٹھی گہری گہری سانس لے رہی تھی ۔
وہ اسے لے کر گاڑی تک آیا وہ بیٹھنے لگے تھے کہ میڈیا والے آ گیے اور اس سے سوال کرنے لگے ۔
عرشمان نے جلدی سے اسے سیٹ پر بیٹھا یا اور دروازہ کھول کر خود بھی بیٹھا اور گاڑی بگھا لے گیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ہر جگہ بس انشاء ہی چھایی ہوئی تھی چاہے وہ فیس بک ہو انسٹا ہو ٹوٹر ہو یا پھر کوئی بھی نیوز چینل ہو
ہر جگہ بس انشاء کی خبر آ رہی تھی ۔
اور پبلک تو روڈ پر اتر گئی تھی اور مسلسل ایک ہی رٹ تھی ان کی انشاء کو رہا کیا جائے ۔
وہ اس ملک کی بہادر بیٹی ہے ۔
آج ہر جگہ بس انشاء ہی چھایی ہوئی تھی چاہے وہ ٹی وی چینلز ہوں، اخبار ہو ،انسٹا ،فیس بک ،ٹویٹر کوئی بھی ایسی جگہ نہیں جہاں پر انشاء کی نیوز نہ آرہی ہو۔
کو رٹ کا فیصلہ کل پر ملتوی کیے جانے سے عوام غم وغصے کا اظہار کر رہی تھی ۔
کہ جب سب کچھ صاف صاف ظاہر ہوگیا ہے کہ آصف نیازی ہی مجرم تھا جس نے اس ملک کی ناجانے کتنی بیٹیوں کو بے آبرو کیا تھا ۔
تو ایسے میں انشاء نے اسے مار کر کچھ غلط نہیں کیا ۔
تو پھر عدالت نے اسے آج ہی رہا کیوں نہیں کیا ۔
اس لیے وہ اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے روڈ پر نکل آئے تھے ۔
آدمی تو آدمی کالج اور یونی کے لڑکے اور لڑکیاں بھی بھر پور احتجاج کر رہی تھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرشمان نے سیدھے گھر آ کر گاڑی روکی اور بنا اس کی طرف دیکھے اندر داخل ہو گیا ۔
انشاء اور عرشمان جب گھر پہونچے تو سارے گھر والے لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے ۔
انہیں آتا دیکھ کر سب سے پہلے بیگم جواد اپنی جگہ سے اٹھیں اور جلدی سے جا کر انشاء کو گلے لگا لیا ۔
میرا بچہ تم اتنے بڑا دکھ لے کر جی رہی تھی اور ہمیں بھنک نہیں لگنے دی کیسے تم اتنا کچھ سہ رہی تھیں ۔
اور ہمیں دیکھو اتنے دن سے ہمارے ساتھ رہ رہی ہو اور ہمیں ذرا بھی پتہ نہ چل سکا۔
وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولیں ۔
انشاء کو لگا تھا کہ سب اس سے نفرت کریں گے کیوں کہ اس کی وجہ سے اس خاندان کا نام بھی میڈیا میں کافی اچھلا تھا کیوں کہ وہ اس گھر کی بہو تھی اور ڈی ایس پی عرشمان خان کی بیوی اس لیے میڈیا جسے سچ پتا نہیں تھا انہوں نے پبلسٹی کے لئے کافی بدنام کیا تھا کہ اتنے بڑے گھر کی بہو ایک قاتل ہے اور بھی بہت کچھ ۔
ان کے اس طرح معافی مانگنے پر انشاء کی آنکھیں بھر آئیں تھیں ۔
اس نے انہیں زور سے گلے لگایا اسے محسوس ہوا جیسے کہ اس کی ماں نے گلے لگا کر اس کے سارے غم مٹانے کی کوشش کی ہو ۔
آنٹی آپ معافی مت مانگیں اس میں آپ سب کی کیا غلطی ۔انفیکٹ غلطی تو میری ہے جو میں نے آپ سب سے سچ چھپایا ۔
ارے نہیں میری جان تم نے کچھ غلط نہیں کیا تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو یہی کرتا ۔
اور ویسے تم مجھے آنٹی نہیں ماما بولو کتنا بار کہا ہے ۔
تم مجھے بری ساس بننے پر مجبور مت کرو ۔
ورنہ تم میرا غصہ جانتی نہیں ہو ۔
انہوں نے ماحول کی سنجیدگی کم کرنے کے لئے مزاحیہ انداز میں کہا ۔
اوکے ماما ۔
وہ ان کے گالوں کو پیار سے چھوتے ہوئے بولی ۔
ساحل اور گل آج کافی خاموش تھے اور وہ کوئی لڑائی اور مزاق بھی نہیں کر رہے تھے ۔
اچانک انشاء کی نظر ان پر پڑی تو وہ دو قدم چل کر ان کے پاس آیی ۔
کیا بات ہے آپ دونوں اپنے خاموش کیوں ہیں ؟
کچھ نہیں بھابھی بس ایسے ہی ۔
آپ لوگ میری وجہ سے کافی ڈسٹرب ہو گیے ہیں نا ۔
ارے نہیں بھابھی ایسا کچھ نہیں ہے اور آپ سے یہ کسنے کہ دیا ۔۔
ساحل فوراً اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا ۔
۔ہاں بھابھی یہ زرافہ سہی کہہ رہا ہے اور میں تو اس لیے خاموش ہوں کیونکہ میں کچھ سوچ رہی تھی ۔
ارے واہ باسی پھول تم سوچتی بھی ہو دماغ ہے تمہارے پاس سوچنے کے لئے ۔
تم چپ کرو زرافے میں تم سے بات نہیں کر رہی ۔
اور تم سے کرنا کون چاہتا ہے سزا ہوا پھول ہو تم ۔
ساحل کے بچے میں تمہیں گنجا کر دوں گی ۔
ہاےے اننا وڈا ظلم میرے معصوم بچوں پر ہاےے اننی وی ظالم نہ بنو گل بکاؤلی۔
میں تمہارا سر پھاڑ دوں گی زرافے دفہ ہو جاؤ منحوس۔۔
گل آپے سے باہر ہوتے ہوئے چلایی
گھر والے بھی ان کی نوک جھونک سے محفوظ ہو رہے تھے کیوں کہ دو دن سے گھر میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی اس حادثے کی وجہ سے گل اور ساحل بھی خاموش ہو گیے تھے ۔
چھوٹے پاپا آپ دیکھیں اس زرافے کو ہمیشہ مجھے پریشان کرتا ہے ۔
اور ہاں جیسے تم نہیں کرتی مجھے ۔
وہ بھی دو بدو بولا ۔
ساحل خاموش ہو جاؤ نہیں تو جو تم نے اپیل کی ہے کینسل کر دی جائے گی ۔
انہوں نے رشتے والی بات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ۔
کون سی اپیل چھوٹے پاپا ؟
ک۔۔۔ک۔۔چھ نہیں تم جاؤ تمہارے جاننے کی بات نہیں ہے ۔
کیوں نہیں ہے میں بھی جانوں کی ۔
بڑے پاپا ۔۔۔۔۔۔
گل جاؤ دیکھو نایرہ اٹھی کی نہیں ۔۔
مدیحہ بیگم نے اسے وہاں سے بھیجنا چاہا ۔۔
اور وہ منہ بناتے ہوئے چلی گئی ۔
بیٹا آپ بھی فریش ہو جاؤ تھک گئی ہو گی ۔
ان کی بات پر اس نے اثبات میں سر ہلایا اور دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی اپنے روم کی طرف بڑھ گئی ۔
اسے عرشمان کی خاموشی کافی کھل رہی تھی ۔
ایک تو اسے منانا نہیں آتا تھا اوپر سے عرشمان پہلی بار ناراض ہوا تھا وہ بھی اتنی سخت والی ناراضگی ۔
وہ کمرے میں آ تو گئ لیکن سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے بات کرے ۔
وہ زندگی میں پہلی بار اتنی کنفیوژ ہوئی تھی ۔
عرشمان بیڈ پر بیٹھ کر کوئی فائل ریڈ کر رہا تھا اس اس کے آنے کا کوئی نوٹس نہیں لیا ۔
وہ چلتی ہوئی بیڈ کے قریب آیی اور اس کے چہرے پر نظریں جمائے اسے مخاطب کرنے کی کوشش کرنے لگی ۔
و۔۔ہ۔۔مجھے تم سے ب۔۔بات کرنی ہے ۔۔
ہہہم بولو کیا بات کرنی ہے وہ بغیر اس کی طرف دیکھے اور بنا کر اٹھایے بولا ۔
انشاء کو اس کی یہ بے اعتنائی کافی کھلی تھی اس کی آنکھیں پل میں نم ہویی تھی ۔
عرشمان اس کا ہر انداز نوٹ کر رہا تھا لیکن وہ اتنی جلدی ماننا نہیں چاہتا تھا اور اوپر سے مزا بھی آ رہا تھا ۔
اس اپنی مسکراہٹ ہونٹوں میں سمیٹی اور سنجیدہ آواز میں بولا ۔
اگر کچھ بولنا نہیں ہے تو یہاں کیوں کھڑی ہو جاؤ مجھے کام کرنے دو بے وجہ ڈسٹرب کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
وہ ترش لہجے بولا ۔
اس کے اتنے سخت لہجے پر انشاء کی آنکھ پل میں نم ہویی تھی ۔
جا رہی ہوں میں یہاں سے کرو اپنا کام نہیں کر رہی میں ڈسٹرب ۔
وہ نم لہجے میں بولی اور جانے لگی ۔
ہونہہ ٹکے کا آفیسر سمجھتا کیا ہے اپنے آپ کو مجھے کام کرنے دو ہنہہ جیسے ساری دنیا کا بوجھ اسی پر ہے ۔
دو منٹ بات نہیں سن سکتا تھا اپنی بیوی کی ۔
وہ مسلسل بڑبڑاتے ہوئے جا رہی تھی لیکن اسکی بڑبڑا ٹ اتنی بھی کم نہیں تھی کہ وہ سن نہ سکے ۔
اس کا خود کا بیوی کو اس کی بیوی کہنا عرشمان کو بہت زیادہ اچھا لگا تھا وہ اپنی خوشی کا اظہار بھی کر دیتا لیکن وہ تو ناراض تھا ۔
وہ گرے کلر کی لانگ کرتی پہنے بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی جس وجہ سے اس کا دھیان بار بار اس کی طرف جا رہا تھا اسے اپنے آپ پر کنٹرول کرنا مشکل لگ رہا تھا اس لیے اس نے اس سے اتنی روڈلی بات کی تھی ۔
لیکن اسے ڈانٹ کر خود بھی پچھتایا کیوں کہ اس کی آنکھوں میں نمی اسے بلکل بھی پسند نہیں تھی ۔
اس کے جانے کے اس کا دل اچاٹ ہو گیا ۔
اسے پتا تھا وہ نایرہ کے کمرے میں گئی ہوگی اور اس کا جلدی آنا ممکن نہیں تھا ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
وہ نایرہ کے کمرے کی طرف آیی اور دستک دے کر اندر داخل ہویی تو دیکھا کہ نایرہ بیڈ پر مزے سے بیٹھی ہوئی تھی اور شاہ ریز موبائل میں دیکھ کر اس کے بالوں کی پونیاں بنا رہا تھا ۔
انشاء کو دیکھ کر وہ گڑبڑا گیا اور جلدی سے اس کے بالوں کی پونی بنا کر اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
و۔۔وہ نایرہ ۔سے ۔نہیں ہو رہا تھا اس لیے میں بنا رہا تھا ۔
اس کی بات سن کر انشاء کے چہرے پر مسکراہٹ آ گیی جسے اس نے فوراً چھپا لیا ۔
اس میں گھبرانے والی کوئی بات نہیں ۔
نہیں تو میں کیوں گھبراؤں گا ۔آپ لوگ بات کریں میں ابھی آتا ہوں ۔
انشاء کو ہنسی آ رہی تھی۔
اگر کوئی شخص دیکھتا تو یقین نہیں آتا کہ یہ بزنس ٹائیکون شاہ ریز خان ہے جس نے جھجھکنا اور گھبرانا سیکھا ہی نہیں۔
انشاء بہت خوش تھی کہ اس کی بہن کو اتنا چونے والا شوہر ملا ہے۔
دیدوو میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی نا اس لیے شاہ نے میری پونی بنایی ہے۔
اس نے انشاء کو مسکراتے دیکھ کر فوراً اپنے شاہ کی سایڈ لی۔۔
اوو و میری ہنی کب سے اتنی بڑی ہوگیی انشاء نے اس کے گالوں کو کھینچتے ہوئے کہا ۔
مطلب وہ اپنے شوہر کی صفائی دینے کی ناکام سی کوشش کر رہی تھی ۔
دیدو میرے گال مت کھینچیں درد ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔
اچانک سے وہ رک گیی ۔
کیا ہوا نایرہ۔ کیا کہنے جا رہی تھی ۔
اس نے اس کا چہرہ سامنے کرتے ہوئے کہا جب اس کی آنکھوں پر نظر پڑی تو دیکھا کہ اس کی کانچ سی آنکھوں
میں آنسوں چمک رہے تھے۔
کیا ہوا میری جان آپ رو کیوں رہی ہیں۔
د۔۔۔د۔۔دیدو آپ ۔ا۔اتنی تکلیف میں تھیں اور مجھے کچھ پتا ہی نہیں تھا ۔۔وہہچکیوں کے ساتھ روتے ہوئے بولی ۔
او ہ میرا بچہ آپ نے اتنی سی بات کے لیے اپنے آپ کو بیمار کر لیا ۔
دیدو اتنی ۔۔۔س۔ی ۔۔بات نہیں ہے ۔میں نے سب ٹیوی پر سب دیکھا تھا ۔۔
کیا تم نے کب دیکھ لیا اور تم تو کمرے میں تھی نا ۔۔
اسے حیرانی ہوئی کیوں کہ شاہ ریز نے کہا تھا کہ وہ روم میں اس کے ساتھ ہی رہے گا تو اس نے کب دیکھا
۔
شاہ۔ روم سے باہر گیے تھے تب میں نے دیکھا ٹیوی میں ۔۔
دیدو آپ پھر جاؤ گی کل وہاں اور پھر وہ گندہ وکیل آپ کے بارے میں برا برا بولے گا ۔۔
اس نے آصف نیازی کے وکیل کے بارے میں کہا جس نے انشاء پر الزام لگایا تھا ۔۔
اووہ میری جان کچھ نہیں ہوگا آپ پریشان مت ہو اور آرام کرو ۔انشاء نے اس کے گالوں پر کس کی اور وہاں سے چلی گئی ۔
اپنے روم میں آیی تو عرشمان سو چکا تھا ۔
وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی اس کے پاس آیی اور بیڈ پر اس کے بگل میں لیٹ گئی
عرشمان جو جاگ رہا تھا اسے بغل میں لیٹتے دیکھ کر فورن کروٹ بدلی اور انشاء کو اپنے حصار میں لے لیا ۔
اس اچانک ہوئی افتاد پر وہ بوکھلا گئی اور اس کے بانہوں سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی ۔
انہوں چپ چاپ لیٹی رہو ۔۔
ابھی تو قید۔ ہیں جذبوں کی آندھیاں دل میں
ہمارا ضبط جو ٹوٹا قیامت برپا کر دیں گے ۔
عرشمان نے اسے بانہوں میں قید کیے گمبھیر سرگوشی کرتے ہوئے بولا ۔
جس پر انشاء کے بدن سنسناہٹ ہوئی اور وہ اپنا سانس روک کر اس کی قید میں بی حس و حرکت پڑی رہی ۔
عرشمان نے کروٹ بدل کر اسے اپنے اوپر جھکایا۔
ت۔۔تم تو۔۔ ناراض تھے نا ۔۔تو اب۔۔
۔۔ششش۔۔اس نے اس کے گلابی ہونٹوں پر انگلی رکھی اور مدھم آواز میں بولا ۔۔
ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ میں اپنے پسندیدہ انسان سے لا تعلقی اختیار کر لوں
میں کچھ پل ناراض رہ سکتا ہوں مگر پھر بھی نظر انداز نہیں کر سکتا
میں یہ بھی جانتا ہوں کہ زیادہ مخلصی بھی بعض اوقات آپ پر ہی بھاری پڑتی ہے
لیکن پھر بھی تعلق کو قائم رکھنے کے لیے انا کو ہرانا گوارا کرتا ہوں۔۔
دلبر تمہیں پتہ ہونا چاہیئے کہ تمہارے ساتھ ہی میں مکمل ہوں اور جب تم دور ہوتی ہو مجھے یوں لگتا ہے جیسے میری زندگی بے فضول گزر رہی ہے ۔
تم میری روح ہو ۔میری روح کا سکون ہو۔
میں اپنے زندگی کےہر سانس اور دل کی ہر دھڑکن کے ساتھ تمہارا رہنا چاہتا ہوں اور تمہارا رہوں گا ۔
وہ اس کے کانوں میں میٹھی سی سرگوشی کرتے ہوئے بولا ۔
انشاء اس کے لفظوں کے سحر می کھو گئی جیسے وہ کوئی جادو گر ہو او ر اس پر سحر پھونک رہا ہو۔
عرشمان نے آہستہ سے جھک کر اس کے نرم وملائم پنکھڑیوں جیسے لب کو اپنے ہونٹوں کی گرفت میں لے لیا ۔
اوراپنے لبوں کی پیاس بھجانے لگا۔انشاء جو اس کے لفظوں کے سحر میں کھو گئ تھی اچانک ہوش میں آئی اور اس کے کندھوں پر ناخن دھنسا کر اس کی قید سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی لیکن عرشمان کے فولادی قید سے آزاد نہ ہوسکی ۔
عرشمان کو جب لگا کہ اس کا سانس بند ہو جائے گا تو آہستہ سے اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ جدا کیے ۔
آزاد ہوتے ہی انشاء لمبے لمبے سانس لینے لگی ۔
ہمم دلبر یہ تو صرف ٹریلر تھا باقی کی پکچر کل رات آپ کے منانے کے بعد ۔عرشمان اپنے بھیگے ہوئے نچلے ہونٹ کو اپنے انگوٹھے سے صاف کرتے ہوئے بولا اور ایک آنکھ ونک کی ۔
انشاء تو اس کی اتنی بے شرمی پر کڑھ کے رہ گیی ۔
ہونہہ کیسا منانا تم ناراض کہاں ہو اب تو مان گیے ہو نا۔۔
نہیں دلبر میں ابھی بھی ناراض ہوں یہ تو بس آپ کو ٹریلر دکھایا ہے باقی کا کل آپ کو پتا چل جائے گا ۔
اس کی بات پر انشاء نے جھٹ سے اپنا چہرہ بلینکٹ میں چھپایا ۔
وہی گھبرای شرمایی سی سیدھا عرشمان کے دل میں اتر رہی تھی ۔
عرشمان نے بڑی مشکل سے اپنے جذبات پر قابو پایا ورنہ دل تو اس کی قربت کا طلب گار تھا ۔
وہ بھی کروٹ بدل کر سو گی
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
صبح سب ناشتے سے فارغ ہو انشاء کے ساتھ جانے کے لئے تیار کھڑے تھے۔
کیوں کہ آج کورٹ کا فیصلہ کیا جانا تھا اس لیے سب اس کے جا رہے تھے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورٹ میں پہونچے تو سب وہاں موجود تھے۔
ان کے پہونچتے ہی کاروائی شروع ہو گئی ۔
ایک بار پھر سے انشاء کو وکٹم باکس میں بلایا گیا اور آصف نیازی کے وکیل نے اس سے جرح شروع کی ۔
اور اس سے سوال کرنے لگا اور اس میں سے اس آخر سوال یہ پوچھا گیا کہ اس ٹایم تو کوئی مدد نہ مل سکی تھی لیکن اس بار آپ کے پاس تو بہت بڑ ا ذریعہ تھا قانون کی مدد لینے کا تو پھر آپ نے اپنے شوہر جو ایک قابل بھروسہ آفیسر ہیں ۔
آپ نے ان سے مدد کیوں نہیں لی کیا آپ کو اپنے شوہر پر اعتماد نہیں تھا ؟
نہیں ایسے بات نہیں ہے مجھے اپنے شوہر پر اللہ کےبعد سب سے زیادہ اعتماد ہے ۔
میں ان پر خود سے بھی زیادہ اعتماد کرتے ہوں ۔
تو پھر کیا وجہ تھی کہ آپ نے انہیں انفارم کیے بنا اتنا بڑا قدم اٹھایا ۔
میرے اس قدم کی وجہ یہ قانون خود ھے ۔
اگر میں ایک بار پھر قانون کی مدد لیتی اور اپنے شوہر کو بتاتی تو۔۔
زیادہ سے زیادہ کیا ہو تا میرے شوہر اس کے خلاف ثبوت اکٹھا کرتے اور اسے سلاخوں کے پیچھے ڈالتے اور پھر کیا ہوتا اوپر سے آرڈر آتا اور اسے رہا کر دیا جاتا ۔
اس لئے یہ قدم اٹھایا اور میرے اس قدم کے پیچھے زیادہ ہاتھ اس قانون کا ہے ۔
اس لیے یہ قانون بھی میرا مجرم ہے۔ ۔
اس کی ساری باتیں جج صاحب نے غور سے سنیں اور پھر فیصلہ کیا ۔۔۔۔۔
مس انشاء نے آصف نیازی کا مرڈر کیا جو کہ ایک جرم ہے لیکن انہیں مجرم بنانے والا یہ معاشرہ اور قانون ہے ۔
انشاء میر کو قانون سے انصاف نہ ملنے کی وجہ سے یہ قدم اٹھانا پڑا ۔
اسلیے یہ عدالت انہیں باعزت طریقے سے بری کرتی ہے اور قانون ان سے بہت شرمندہ ہے کہ قانون سے انصاف نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے یہ قدم اٹھایا ۔
ہم سب آپ سے شرمندہ ہیں ۔
عرشمان کی خوشی دکھنے لائق تھی وہ بہت خوش تھا سارے گھر والے ہی بت خوش تھے ۔
وہ لوگ جیسے کورٹ کے باہر آئے لوگوں نے اسے گھر لیا اور اس سے سوال کرنے لگے ۔
لیکن انشاء نے اس ایک ہی بات بولی ۔
آپ لوگ جو یہ جوش و خروش دکھا ر ہو یہی اس ٹایم دکھاؤ تو لڑکی کو اتنا خوار ہونے کی ضرورت نہیں پڑے
انشاء اور عرشمان کورٹ سے سیدھا گھر آیے تھے انشاء جیسے ہی گاڑی کا دروازہ کھولنے لگی جانے کےلیے ۔ عرشمان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا اور اس کے کانوں میں دھیمی سی سرگوشی کی ۔
دلبر میں آپ سے اب بھی ناراض ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ آج آپ مجھے مناییں ۔
اور وہ بھی اسپیشل انداز میں ۔
تو کیا میں امید رکھوں ایک بیوٹیفل سرپرایز کی ۔
اس کی سرگوشی پر انشاء کو اپنے گال دھکتے ہوئے محسوس ہویے ۔
بات کرتے ہوئے عرشمان کے لب اس کے کان کی لو سے ٹچ ہو رہے تھے ۔
عرشمان اچانک اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور ہلکے سے اس کے ہونٹوں کو چھو کر پیچھے ہو گیا ۔
انشاء تو اس کی اس کھلے عام بے شرمی پر شرم سے پانی پانی ہو گیی ۔
اور جدی سے دروازہ کھول کر اندر بھاگی ۔
اس کی جلد بازی پر عرشمان نے زوردار قہقہہ لگایا ۔
جسے سن کر انشاء دانت پیستے ہوئے اندر چلی گئی ۔
اندر آتے ہوئے وہ رومی چاچی سے ٹکرا گئی ۔
ارے کہاں سے بھاگی آ رہی ہو لڑکی کیا پیچھے کتے لگے ہوئے ہیں جو اس طرح سے بھاگی آ رہی ہو۔
وہ۔ہ جو میرے پیچھے ہے کتے سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔
اس نے اپنی پھولی ہوئی سانسوں کو بحال کرتے ہوئے جواب دیا ۔
ہیں ہیں لڑکی تم کیا بولے جا رہی ہو اور تمہارا چہرہ اتنا لال پیلا کیوں ہو رہا ہے ۔
و ہ ہ ۔۔۔ کچھ نہیں چاچی۔۔
ہاں ہاں بتاؤ کیوں بھاگی آ رہی تھیں اور کون خطرناک ہے؟
پیچھے سے آتے عرشمان نے شرارت سے کہا ۔
اس کی بات پر انشاء جل بھن گیی ۔
یہ تو خودہی حرکت ایسے کی اور اب سوال بھی کر رہا تھا ۔
مجھے کچھ نہیں پتہ تم خود ہی پتہ کر لو آخر پولیس والے جو ہو ۔
وہ تنک کر کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئی ۔
ہیں یہ کیا بول کر گئی ہے ؟
اور بیٹا جی یہ آپ دونوں کیا کوڈ ورڈ میں بات کر رہے تھے ۔
کچھ نہیں چاچی بس ایسے ہی اسے تنگ کر رہا تھا ۔
عرشمان مسکرا کر بولا اور وہاں سے چلا گیا ۔
کچھ تو گڑ بڑ ضرور ہے بیٹا جی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انشاء جب سے اندر آیی تھی گل اور نایرہ اسے گھیر کر بیٹھی ہوئی تھیں ۔
سارے گھر والے بہت خوش تھے انشاء کے رہا ہو جانے سے ۔
دی جان نے تو باقاعدہ اس کا صدقہ نکلوایا تھا ۔
جواد صاحب نے بھی اس سے سوری بولا کہ وہ اس سے نا حق ناراض ہو گئے تھے ۔
انہوں نے کل پارٹی رکھی تھی انشاء کے باعزت طریقے سے بری ہونے پر ۔
اور انہوں نے کل ایک اناؤس مینٹ بھی کرنے کا بولا تھا ۔جو سرپرایز تھا ۔
گل تب سے پوچھے جا رہی تھی کہ چھوٹے پاپا کیسا سرپرایز ہے لیکن انہوں نے کہا کل آپ کو پتا چل جائے گا ۔
یہ آپ کے لئے ہی ہے ۔
عرشمان کب سے انشاء کو اشارے کیے جا رہا تھا کہ وہ روم میں آیے لیکن وہ اگنور کر رہی تھی ۔
اچانک عرشمان انشاء پر ایک سرد نظر ڈال کر اپنی جگہ سے اٹھا اور گاڑی کی چابی لے کر باہر چلا گیا ۔
انشاء کو لگا وہ ناراض ہوگیا ہے اس خیال کے آتے ہی اس کے اندر بے چینی پھیل گئی ۔
کیا وہ ناراض ہو کر گیا ہے ؟
انشاء نے پریشانی سے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا ۔
دیدو آپ کہاں غائب ہو ؟ نایرہ نے اس کے کندھے کو ہلاتے ہوئے پوچھا ۔
آ۔ہاں۔۔ کچھ نہیں یہیں ہو ۔۔
اچھا نایرہ میں تھوڑی دیر کے لئے روم میں جا رہی ہوں پھر آ کر کل کی پارٹی کے بارے میں ڈسکس کریں گے اوکے ۔
اوکے دیدو ۔
وہ روم میں آ کر بھیجے چین رہی ۔
اسے خود پر غصہ آ رہا تھا کہ کیا تھا اگر وہ اس کی بات مان کر روم میں آ جاتی ۔
وہ مسلسل ادھر ادھر چکر لگا رہی تھی تبھی روم کا دروازہ کھول کر رومی چاچی نایرہ اور گل داخل ہوییں ۔
ارے آپ لوگ یہاں کیوں آ گییں ۔میں آرہی تھی ۔
وہ اس لیے بہو رانی کیوں کہ ہمیں دال میں کچھ کالا نظر آ رہا تھا ۔
ک۔۔کالا ۔۔کیا مطلب چاچی۔۔
بہو رانی ہم تو بس یہ پوچھنے آییں ہیں کہ تمہارے اور عرشمان کے بیچ کون سی کھچڑی پک رہی ہے ؟
ک۔۔ کچھ بھی تو نہیں ۔۔
ناجی ہم کویی اندھے تھوڑی ہیں ہمیں سب نظر آ رہا ہے ۔
اب جلدی سے بتاؤ کیا بات ہے ۔
وہ۔۔۔۔۔ انشاء نے بتاتے ہوئے گل اور نایرہ کی طرف دیکھا ۔
ارے ان کی طرف کیا دیکھ رہی ہو تم بس بتاؤ کیا چل رہا ہے دونوں کے درمیان ۔
وہ مان مجھ سے ناراض ہے اور اس نے مجھے منانے کا بولا ہے کہ جب تک میں اسے مناؤں گی نہیں وہ نہیں مانے گا ۔
اور اب بھی ناراض ہو کر باہر چلا گیا ہے ۔
انشاء پوری بات ایک ہی سانس میں بتا دی ۔
او و و تو یہ بات ہے 🤔
کچھ کرنا پڑے گا ڈی ایس پی صاحب کو منانے کے لئے ۔
کیا کرنا پڑے گا چاچی ؟
گل نے دلچسپی سے پوچھا ۔
اوہ دیدو اتنا سیڈ ہونے کی ضرورت بس آپ ان کو سوری بول دو اور جیسے مجھے ہگ اور کس کر کے منا لیتی تھیں ویسے ہی عرش بھائی کو بھی منا لیں ۔
نا بچہ نا اب یہ مسلہ کس اور ہگ سے نہ سلجھے گا اس کے لئے کچھ بڑا کرنا پڑے گا ۔
چاچی آپ کیا کرنا چاہتی ہیں ؟
صبر رکھو بہو رانی سب پتہ چل جائے گا ۔
کچھ ڈھنگ کے کپڑے تو ہونے نہیں ہیں تمہارے پاس ۔
گل تم میرے روم میں جاؤ اور کبڑ کے اوپری حصے میں ایک بڑا بوکس ہوگا وہ لے آؤ ۔
اوکے چاچی ۔۔
آپ کرنا کیا چاہتی ہیں چاچی۔
انشاء نے الجھ کر سوال کیا ۔
تم تو رہنے دو نکمی بہو تمہیں تو شوہر کو منانا نہیں آتا ہے ۔
کرنا ہی کیا ہوتا ہے بس تھوڑا سا سجنا سنورنا دو چار میٹھے بول بس پھر شوہر آپ کے قدموں میں ۔۔
آپ ایسے ہی چاچو کو مناتے ہیں کیا ؟
اندر آتے گل نے سوال کیا ۔
ہاےےے تمہارے چاچو روٹھتے ہی کب ہیں جو انہیں منانا پڑے ۔
او ہوے اننا پیار ۔۔۔۔۔
گل نے سیٹی بجایی۔
یہ آپ لوگ کیا باتیں کر رہی ہیں ۔؟
اوہ بچا باتیں نہیں شوہر کو پٹانے کے طریقے سکھا رہی ہوں میں ذرا تم بھی دھیان دو آگے چل کر کام آنے والے ھیں ۔
لیکن شاہ تو کبھی مجھ سے ناراض نہیں ہوتے ۔
اچھی بات ہے لیکن سیکھنے میں کیا حرج ۔
اچھا بہو رانی ذرا تم یہ ساڑی پہن کر آؤ ۔
چاچی یہ کیا آپ نے۔ بہو رانی بہو رانی لگا رکھا ہے جیسے کوئی فلم شوٹنگ چل رہی ہے ۔
انشاء جھنجھلا کر بولی ۔
اور یہ ساڑی میں کیوں پہنو ؟
مجھ سے نہیں پہنی جایے گی ۔
پہننا تو پڑےگا کیوں کہ ہمارے عرشمان کو ساڑی بہت پسند ہے وہ بچپن میں کہتا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو ساڑیاں لا کر دیا کرے گا ۔
لڑکی اب پہن بھی لو ہمارے ڈی ایس پی صاحب آتے ہو گے ۔
گل اور نایرہ تم لوگ باہر جاؤ ۔
اوکے چاچی۔۔
وہ دونوں چلی گئیں ۔
انشاء نے ساڑی لا کر واشروم میں دیکھی تو شرم سے اس کے گال لال ہو گیے ۔
کیوں کہ ساڑی کا اگلا پچھلا گلا بہت ڈیپ تھا۔
انشاء نے اس طرح کے کپڑے کبھی نہیں پہنے تھے ۔
کیوں کہ ہمیشہ وہ فارمل کپڑوں میں ملبوس رہتے تھی ۔۔
چاچی میں یہ نہیں پہن سکتی
پہننا پڑے گا بیٹا جی ہر حال میں ۔
اور پھر انشاء کے لاکھ منع کرنے کے باوجود چاچی نے اسے ساڑی پہنا کر ہی دم لیا ۔
اور پھر نہایت ہی خوبصورتی سے اسے تیار کیا ۔
چاچی تو اس کا سجا سنورا روپ دیکھ کر مبہوت ہو گییں ۔
حیران تو انشاء بھی ہوگیی تھی اپنا یہ روپ دیکھ کر ۔
کیوں کہ زیادہ تر وہ آفس پینٹ اور شرٹ میں رہتی تھی اور گھر پر بھی سمپل ڈریسنگ میں رہتی تھی ۔
لیکن آج اس نے آءینے میں اپنے آپ کو اس طرح سجا سنورا دیکھ کر ایک پل کو مبہوت رہ گئی ۔
ہاےےے آج ہمارا ڈی ایس پی گیا کا م سے ۔
چاچی نے اس کی نظر اتارتے ہوئے کہا ۔
جس پر انشاء جھینپ گیی ۔
اچھا اب میں چلتی ھوں اور تم وہی کرنا جو میں نے بتایا ہے ۔
اگر نہیں مانی میری بات تو میں تم سے ناراض ہو جاؤں گی ۔
لیکن۔۔۔۔۔اچھا ٹھیک ہے وہ کچھ کہتے ہوئے رک گیی ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
شاہ ریز کب سے نایرہ کو دیکھ رہا تھا جو چاکلیٹ کھاتے ہوئے اسے مکمل اگنور کیے ہوئے تھی۔
بٹر فلائی اب بس بھی کر دیں اور کتنا کھانا ہے ۔
چلیں اب فیس واش کرکے آییں ۔
نہیں نا شاہ یہ بہت اچھی ہے مجھے ابھی اور کھانی ہے ڈھیر ساری ۔
مجھے چاکلیٹ بہت بہت بہت اچھی لگتی ہے ۔
وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی۔ ۔
اس کے ہونٹ جو شاہ ریز کو کافی دیر سے اٹریکٹ کر ہے تھے اس کی اس حرکت پر اسے اپنے گلے میں کانٹے چبھتے ہوئے محسوس ہویے ۔
اچانک شاہ ریز جھکا اور اس کے کریم لگے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی دسترس میں لے لیا اور اس کی سانسوں سے اپنی سانسیں الجھا دیں ۔
اس کی اس اچانک پیش رفت پر نایرہ کو اپنی سانس سینے میں اٹھتی ہوئی محسوس ہویی۔
اس نے شاہ ریز کی شرٹ کو مٹھیوں میں جکڑا ۔
سانس بند ہونے پر نایرہ نے شاہ کی کالر کو جھٹکا ۔
شاہ ریز پانچ منٹ بعد اس کے ہونٹوں کو آزادی بخشی ۔
نایرہ نے گہری سانس لے کر اپنا چہرہ اس کے سینے میں چھپایا ۔
ہہہم یو آر رایٹ بٹر فلائی آپ ٹھیک کہ رہی تھیں واقعی میں چاکلیٹ بہت بہت اچھی تھی ۔
اب سے میں روز یہی فلیور والی چاکلیٹ لاؤں گا آپ کے لئے ۔
آپ کو چاکلیٹ پسند ہیں اور مجھے آپ کے ہونٹوں پر لگی یہ چاشنی ۔
اس کی بات پر نایرہ کانوں تک سرخ ہو گیی اس نے اپنے چہرے کو اس کے سینے میں تیزی سے چھپایا ۔
اوہو ں پرنسیسز آج رہائی ملنا ناممکن ہے ۔
آج آپ کو پوری رات میری شدتیں سہنی ہیں کچھ دنوں سے کافی چھوٹ ملی ہوئی تھی لیکن آج آپ کو میری میری دیوانگی برداشت کرنی ہوگی ۔
اس نے نایرہ کو گود میں اٹھا کر لایا اور بیڈ پر لیٹا دیا ۔
اور سایٔڈ لیمپ آف کر دیا ۔
اور اس کے گلے سے دوپٹہ اتار کر وہاں پر اپنے سلگتے ہوئے لمس چھوڑنے لگا ۔
نایرہ چپ چاپ اس کی ۔منمانیاں برداشت کر رہی تھی کیوں کہ اس کی قید سے رہائی پانا ناممکن تھا ۔
اور نایرہ بھی اس کے حصار میں قید رہنا چاہتی تھی تاعمر ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
عرشمان گھر آیا تو پورے گھر میں خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔
وہ سیدھا اپنے روم کی طرف آیا اس نے جیسے ہی دروازہ کھولا ایک مسحور کن خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی۔
اس نے دروازہ کھول کر قدم اندر رکھا تو حیران رہ گیا ۔
پورے کمرے کو خوبصورتی سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا ۔
اسٹینڈ میں مون بتیاں روشن تھیں اور کمرے کی لائٹ آف تھی ۔موم بتیوں کی وجہ سے کمرے میں ہلکہ ہلکہ اجالا پھیلا ہوا تھا ۔
اس نے انشاء کی تلاش میں نظر گھمائی تو وہ بیڈ کے دوسرے سایٔڈ پر موم بتیاں جلاتی ہوئی نظر آیی۔
کینڈل کی روشنی میں اس کا چہرہ ایک الگ ہی منظر پیش کر رہا تھا۔
وہ بے خود ہو کر ایک ٹک اسے دیکھےگیاجو بلیک رنگ کی ساڑھی پہنے بالوں کا میسی جوڑا باندھے بے تحاشہ حسین لگ رہی تھی۔ وہ بھول گیا کہ وہ اس سے ناراض تھا ۔
اس کے قدم بے ساختہ اس کی طرف اٹھے ۔
اس کے ہر قدم پر انشاء کو اپنی دھڑکنیں تیز ہوتی محسوس ہو رہی تھیں ۔
وہ کینڈل جلانے کے لئے جھکی تو اس کا بیک گلا جو کافی ڈیپ تھا اس پر ۔موتیوں کی ڈوریاں بنی ہوئی تھیں
اس کے جھکنے پر نظر آنے لگا عرشمان بے خود سا اس کی طرف بڑھا اور ایک جھٹکے میں اسے اپنے نزدیک کیا اور اسے بیک سے گلے لگا کر اس کے کندھے پر سر ٹکایا ۔
اتنی تیاری کس لیے ہے دلبر سائیں کیا یہ سچایی ہے یا پھر وہم کہ ہمارے دلبر نے یہ سجا سنورا روپ ہمارے لئے اپنایا ہے ۔
وہ اس کے کانوں میں مدھم سرگوشی کرتے ہوئے بولا ۔
مان تم کھانا کھاؤ گے انشاء اس کے بپھرے ہوئے جذبات سے بچنے کے لئے بات بدلتے ہوئے بولی ۔
جب سامنے ہمارے دلبر ہو تو بھوک کمبخت کہاں لگ سکتی ہے ۔
وہ اس کا رخ اپنی طرف کرتے ہوئے ۔
اور آہستہ سے اس کے پنک لپسٹک سے سجے ہوئے ہونٹوں پر جھک گیا ۔
اور اس کی سانسوں سے اپنی سانسیں الجھا دیں ۔
اس کے دہکتے ہوئے لمس پر انشاء کانپ کر رہ گئی اس نے عرشمان کے کندھے کو مظبوطی سے تھام لیا ۔
عرشمان اپنی پیاس بجھانے میں لگا رہا ۔
انشاء کو لگا اب اس کی سانسیں تھم جائیں گی تو اس نے عرشمان کے کندھے پر اپنے ناخن دھنسا دیے ۔
لیکن عرشمان پیچھے نہیں ہوا اور اپنی پیاس بجھا کر ہی ہٹا لیکن اسے ایسا لگا کہ جیسے تشنگی اور بڑھ گئی ہے ۔
پوچھا کسی نے کون سی خوشبو پسند ہے ۔
میں نے تمہاری سانس کا قصہ سنا دیا۔۔
اس کے شعر پر انشاء کا چہرہ سرخ ہوگیا اس نے اپنے آپ کو اس کی بانہوں کے حصار سے آزاد ہونا چاہا ۔
کوشش بے کار ہے دلبر آپ اس حصار سے تاعمر نہیں نکل سکتی ہیں کیوں کہ یہ میرے عشق کا حصار ہے ۔
عرشمان نے اس کے گلے منہ چھپایا اس کی گرم سانسوں سے انشاء کو اپنا آپ جلتا ہوا محسوس ہوا ۔
مان تمہیں تو کوی بھی مل سکتی تھی تم نے مجھے ہی کیوں چنا ۔
نہیں دلبر کوی بھی نہیں ہو سکتی تھی کیوں آپ کو میرے دل نے چنا ہے ۔
تم مجھے سب سے آخر میں ملی اب تو کسی اور کی گنجائش ہی نہیں بچی ذرا سی بھی نہیں میں چاہوں تو بھی کسی اور سے محبت نہیں کر سکتا اب تو میری وفا کا عروج ہے میرا عشق تم پر تمام شد۔
میں تمہیں مرتے دم تک نہیں بھول سکتا
اور میں چاہتا ہوں کہ تم مرتے دم تک میرے دل میں رہو ۔
کہانی ختم ہونے والی ہے اور تم میری آخری محبت ہو ۔
انت الحیاۃ ۔💖۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو بھائی آپ جلدی سے مال آ جائیں ۔۔۔
شاہ ریز کو گل کی روتی ہوئی آواز سنائی دی ۔
کیا ہوا بچہ آپ رو کیوں رہی ہیں ؟
ب۔۔ب۔بھای ۔۔نایرہ۔۔بھابھی کو کچھ لوگ۔ لے گئے ہیں ۔۔۔
وا اا ٹ کون لوگ۔ اور کس کی ہمت ہوئی کہ وہ ایس آر کے سے پنگا لے ۔۔۔
جس نے بھی میری بٹر فلائی کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کی ہے اب وہ اپنی موت کا انتظار کرے ۔
بچہ آپ پریشان مت ہوں ۔۔
آی ایم کمنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایس آر کے اپنے دشمنوں کو چھوڑتا نہیں بلکہ انہیں دنیا چھوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے
عرشمان اس کے کانوں میں میٹھی سرگوشیاں کرتے ہوئے اسے کسی اور جہاں میں لے گیا ۔
عرشمان نے اپنے موبائل پر میوزک پلیئر آن کر دیا اور ایک ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ کر اور دوسرا ہاتھ اس کی کمر
میں ڈالے گانوں کے بول پر ہلکہ ہلکہ اسٹیپ لینے لگا ۔۔
کمرے میں پھیلی پرفیوم کی خوشبو اور رومانٹک سونگ نے ایک الگ ہی ماحول بنا دیا تھا ۔
میوزک پلیئر میں ہلکے سروں میں گانا چل رہا تھا ۔
آج پھر تم پے پیار آیا ہے ۔
بے حد اور بے شمار آیا ہے
ٹوٹے تو ٹوٹے تیرے بانہوں میں ایسے
شاخوں سے پتے جیسے بے حیا ۔
انشاء تو گانے کے بول سن کر شرم سے لال ہو گیی ۔
عرشمان نے اسے ٹرن کر کے گھمایا اور اس کی پشت سینے سے لگا کہ اس کے پیٹ پر اپنے دونوں ہاتھ لپیٹ لیے ۔
اور کندھے سے بال ہٹا کر وہاں پر اپنے جلتے لبوں کا لمس چھوڑا۔
اس کے لمس پر انشاء خود میں ہی سمٹ گیی ۔
عرشمان نے اس کا رخ اپنی طرف موڑا اس کے گلابی ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی گرفت میں لے لیا ۔
اس کے سلگتے ہوئے لمس پر انشاء کی جان لبوں پر آ گئی ۔
اس نے کس کر اس کی شرٹ کو مٹھیوں میں جکڑا
سانس بند ہونے پر انشاء اسے پیچھے ہٹانا چاہا لیکن وہ تو آج جیسے اس کی جان لینا چاہتا تھا ۔
آخر اس پر رحم کرتے ہوئے اس نے اس کے ہونٹوں کو آزاد کیا ۔۔
ما۔۔۔۔۔مان ۔ت۔م بہت برے ہو ۔
وہ مسلسل کھانستے ہوئے بولی ۔
دلبر میں بہت برا ہوں آپ کی سوچ سے بھی زیادہ جس کا ثبوت میں آپ کو آج دوں گا ۔
عرشمان نے اسے اپنی بانہوں میں اٹھا کر کہا اور اسے لا کر بیڈ پر لیٹا دیا ۔
اور گھوم کر اس کے طرف آیا اور اسے اپنی بانہوں میں قید کر لیا ۔
اور اس کے بیک پر ہاتھ لے جا کر جھٹکے سے اس کے پیچھے گلے پر لگی ڈوریاں تو ڑ دیں جس سے گھبرا کر انشاء نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن عرشمان نے اس کی کوشش ناکام بنا دی ۔۔
اور اس کے گہرے گلے میں اپنا چہرہ چھپا لیا ۔
اس کی گرم سانسوں کی تپش سے اسے اپنا آپ جلتا ہوا محسوس ہوا ۔
مان۔۔۔۔مجھے نیند آ رہی ہے ۔م۔میں سو جاؤں ۔۔
انہوں۔ دلبر آج کوی بہانہ نہیں چلے گا ۔
آج میں آپ کو اپنی محبت کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہوں ۔
تو کیا مجھے اجازت ہے کہ میں تمہارے پور پور کو اپنی محبت سے مہکا دوں۔
خدا نے جس قدر محبت میرے دل میں تمہارے لئے جمع کر رکھی ہے
میں چاہتا ہوں کہ وہ تمام محبتیں میں تم پر لٹا دوں
روز ایک نئے انداز سے تم پر اپنی محبت آشکار کروں
اور میری یہ محبت کبھی کم نہیں ہوگی یہ یوں ہی بڑھتی جایے گی۔
اس کے لفظوں کے سحر میں کھوئی انشاء اپنا ہر دکھ درد اور یہاں تک کہ اپنا ماضی بھی بھول گئ اور اس کی محبت کی بارش میں بھیگتی چلی گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح انشاء کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو عرشمان کی مظبوط گرفت میں قید پایا ۔
وہ عرشمان کے چہرے کو ایک ٹک دکھے گیی ۔
وہ سوتے ہوئے اتنا پیارا لگ رہا تھا کہ انشاء بے اختیار اسے دیکھے گئی ۔
کتنا غصہ کرتی تھی وہ اس پر ۔اسے تو پتہ بھی نہیں تھا کہ ایک دن یہی انسان اس کی خوشیوں کی وجہ بن جائے گا ۔
وہ آہستہ سے جھکی اور اس کی پیشانی پر نرمی سے بوسہ دیتے ہوئے جلدی سے پیچھے ہٹ گیی ۔
تاکہ عرشمان کو کچھ پتہ نہ چل سکے ۔
عرشمان جو کافی دیر سے اٹھا ہوا تھا اور اپنے چہرے پر اس کی نرم نگاہوں کی تپش محسوس کر رہا تھا اس کے پیچھے ہٹنے پر جلدی سے اس کو اپنی بانہوں کے حصار میں لیا ۔
انہوں دلبر کہا چل دیں ابھی تو مجھے آپ کے چہرے پر اپنی محبتوں کے رنگ دیکھنے ہیں ۔
مان جانے دو کافی لیٹ ہو گیے ہیں ہم ۔
کوی لیٹ نہیں ہویے ہیں ۔
ابھی مجھے تمہارے منھ سے محبت کا اظہار سننا ہے
چلو جلدی سے بولو ۔
کیا ؟
ارے وہی تھری میزکل ورڈ ۔۔۔
اس کی بات پر انشاء نے گھبراتے ہوئے بولی ۔
م۔مان کیا یہ ضروری ہے
ہاں بلکل ضروری ہے ۔
اس کی بات پر انشاء نے اپنے جذبات کو الفاظ دینے کی کوشش کی ۔۔
مجھے تم سے کتنی محبت ہے میں نہیں جانتی
میں جانتی ہوں دل پر اختیار نہیں
مگر میں جتنی عمر گزاروں گی تمہاری وفا دار بن کر رہوں گی
یہ میرے اختیار میں ہے
۔تم وہ ہاتھ ہو جو اگر ہاتھوں میں ہو تو عمر کی محرومیاں ساری عمر کے لئے مٹ جائیں۔
تم وہ آنکھ ہو جس میں بد سے بدتر رشتے کی خوبصورتی دیکھی جا سکتی ہے۔
تم وہ دل ہو جس میں دنیا کی ساری خوبصورتی دیکھی جا سکتی ہے۔
تم وہ جان ہو جو صرف میری ہے ۔
انشاء نے اپنی بات کرکے جلدی سے واشروم میں بھاگ گیی۔
کیوں کہ جانتی تھی اس کے اظہار کے بعد اس کی شدت بھرا پیار برداشت کرنا پڑتا ۔
ناٹ فیر انشو تم ایسے کیسے چلی گئیں ۔
اچھا نہیں کیا تم نے اس کا بدلہ تو بعد میں لوں گا ۔
دیکھ لینا ایس پی صاحب ۔
وہ مسکراتی آواز میں بولی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب گھر والے بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے جب دی جان نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔
ہم ایک نے فیصلہ کیا جس میں آپ سب کی رائے لینا چاہتے ہیں ۔
جی دی جان بولیں ۔ہمیں آپ کا ہر فیصلہ منظور ہے ۔
شاہ ریز نایرہ کے سامنے بوائل انڈا اور جوس رکھتے ہوئے بولا اور اسے فنش کرنے کا اشارہ کیا ۔
جس پر نایرہ برے برے منہ بناتے ہوئے کھانے لگی ۔
ہم فیصلہ کیا ہے کہ آج رات کی پارٹی میں ساحل اور گل کی منگنی کر دی جائے اور گل پر ہم سب سے زیادہ تمہارا حق ہے اس لئے ہم تمہاری رایے لینا چاہتے ہیں ۔
ان کی بات پر گل کو پھندا لگا اور وہ بری طرح کھانسنے لگی ۔۔
مجھے کوئی اعتراز نہیں ہے دی جان لیکن میں ایک بار گل سے اس بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں ۔
شاہ ریز نے گل کی طرف دیکھ کر کہا جو آنسو بھری آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
ہاں ہاں کیوں نہیں بیٹا تم اس سے پوچھ لو ۔۔
گل وہاں سے بھاگ کر اپنے روم میں چلی گئی۔
ساحل جو دی جان کی بات پر خوش ہو گیا تھا لیکن گل کے اس طرح سے اٹھ کر جانے پر پریشان ہو گیا۔
عرشمان اور شاہ ریز وغیرہ اسکی پیچھے آیے ۔
کیا ہوا گڑیا آپ اس طرح سے اٹھ کر کیوں آ گیں ؟
بھائی مجھے کوئی منگنی وگنی نہیں کرنی ہے وہ شاہ ریز کے گلے لگ کر روتے ہوئے بولی ۔
ارے کیا ہوا میرا بچہ ؟
آپ اس منگنی سے کیوں انکار کر رہی ہیں ۔
بھائی مجھے اس زرافے سے شادی نہیں کرنی ہے ؟
ٹھیک ہے بیٹا لیکن کوئی تو وجہ ہوگی ۔
و۔۔ووہ مجھے باسی پھول بولتا ہے اور مجھ سے لڑتا رہتا ہے ۔
بس اتنی سی بات ۔
بھائی اتنی سی نہیں ہے یہ۔گل ناراضگی سے منہ پھلا کر بولی ۔
شاہ ریز اور عرشمان نے سکون کی سانس لی انہیں لگا تھا کہ کوئی بڑی بات ہے جو گل یوں روتے ہوئے انکار کر رہی ٹ۔
تبھی انشاء اور نایرہ بھی اندر داخل ہوییں ۔
گل تم رو کیوں رہی ہو ۔
انشاء نے پاس آتے ہوئے کہا ۔
پھر گل نے اسے بھی انکار کی وجہ بتا دی جس پر انشاء کو ہنسی آئی لیکن وہ چھپا گیی۔
اوہ گل تم اتنی چھوٹی سی بات پر رونے لگی ۔
ذرا تم یہ تو سوچو کہ تم ساحل سے شادی کر کے اسی گھر میں رہوگی ۔
دوسری بات تم اس سے اپنے سارے بدلے لے سکتی ہو ۔
ہاےےےسچی بھابھی ۔۔گل چہکتے ہوئے بولی ۔
مچی میری جان ۔۔۔
ہاےےے اب تو میں اس زرافے سے سارے بدلے لوں گی
گل منصوبے بناتی ہوئی بولی ۔
عرشمان اور شاہ ریز تو حیران رہ گئے کہ کیسے انشاء نے پل میں گل کا فیصلہ چینج کرا دیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کو پارٹی تھی جس میں ساحل اور گل کی انگیجمنٹ بھی تھی ۔۔
انشاء نایرہ اور گل ڈرائیور کے ساتھ مال آیی ہوئی تھیں پارٹی کے لئے ڈریس لینے ۔۔
وہ لوگ ساری چیزیں لے چکی تھیں اور اب کینٹین میں کافی پینے آیی تھیں ۔
گل اور نایرہ آپ لوگ یہیں پر رہو میں ڈرائیور کے ساتھ مل کر سامان گاڑی میں رکھا دوں ۔۔
اوکے دیدو ۔
انشاء کی جانے کے تھوڑی دیر بعد ان کے ٹیبل کے پاس ایک ویٹر آیا اور اس نے نایرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ جو آپ کے ساتھ تھیں وہبلا رہی ہیں آپ کو گیٹ پر ۔
کیا دیدو۔ مجھے بلا رہی ہیں ؟
اچھا گل تم یہیں رہو میں ابھی آیی ۔
اس سے پہلے کہ گل اسے روکتی وہ وہاں سے چلی گئی ۔
تھوڑی دیر بعد انشاء آیی تو نایرہ کو نا پاکر پریشان ہو گئی ۔
گل کے بتانے پر وہ گیٹ کی طرف بھاگی اس کے پیچھے گل بھی گیی ۔
لیکن وہاں نایرہ نہیں تھی ۔
آس پاس سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ کچھ لوگ اسے گاڑی میں لے گیے ہیں ۔
ان کی بات سن کر انشاء کو اپنی جان نکلتی محسوس ہویی۔
گل کو ہی کال کرنے کا خیال آیا ۔
ہیلو بھائی آپ جلدی سے مال آ جائیں ۔۔۔
شاہ ریز کو گل کی روتی ہوئی آواز سنائی دی ۔
کیا ہوا بچہ آپ رو کیوں رہی ہیں ؟
ب۔۔ب۔بھای ۔۔نایرہ۔۔بھابھی کو کچھ لوگ۔ لے گئے ہیں ۔۔۔
وا اا ٹ کون لوگ۔ اور کس کی ہمت ہوئی کہ وہ ایس آر کے سے پنگا لے ۔۔۔
جس نے بھی میری بٹر فلائی کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کی ہے اب وہ اپنی موت کا انتظار کرے ۔
بچہ آپ پریشان مت ہوں ۔۔
آی ایم کمنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایس آر کے اپنے دشمنوں کو چھوڑتا نہیں بلکہ انہیں دنیا چھوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیرو میں تمہیں ایک مال کا ایڈریس دے رہا ہوں تم فوراً وہاں کے گیٹ کی سی سی ٹی وی کیمرے سے وڈیو نکلواو
اور اس گاڑی کا نمبر بتا کرو جس نے میری زندگی کی طرف آنکھ اٹھانے کی کوشش کی ہے ۔
اوکے سر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ ریز نے گاڑی فل اسپیڈ پر مال والے روڈ پر ڈالی اور کانوں میں بلوٹوتھ لگایے عرشمان سے بات کرنے لگا ۔
ہیلو عرش جس مال میں نایرہ لوگ گییں تھیں مجھے اس سایٔڈ کا روڈ بلاک چاہیے ابھی کے ابھی اور کویی بھی گاڑی بغیر چیک کے جانے نا پائے ۔۔
کیا ہوا ہے بڈی تو اتنا پریشان کیوں ہے ۔
نایرہ کڈنیپ ہوگیی ھے ۔وہ ایک ہی لفظ بولا لیکن اس کے ایک ہی لفظ سے اس کا کرب جھلک رہا تھا ۔
عرشمان سمجھ سکتا تھا کہ نایرہ اس کے لئے کیا ہے ۔
خان تو بلکل فکر مت کر مل جائے گی نایرہ ۔
میں ابھی روڈ بلاک کراتا ہوں ۔۔
ہہم ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گندے بھائی آپ لوگ مجھے کہاں لے جا رہے ہیں ؟
اگر میرے شاہ کو پتہ چلا نا تو پھر دیکھنا وہ کیا حال کرتے ہیں ۔
او چھٹانک بھر کی لڑکی تم اپنی چھوٹی سی زبان بند کرو اور ہاں تمہارا شاہ تم تک پہونچ پائے گا تب نا ۔۔
وہ ضرور آینگے دیکھ لینا ۔وہ میرے شاہ ہیں ۔
ابے یہ لڑکی کڈنیپ ہوئی ہے پھر بھی اتنا بول رہی ہے ۔
ہاں تو میں کڈنیپ ہوئی ہوں میری زبان تھوڑی نا ۔
وہ انہیں پٹر پٹر جواب دے رہی تھی ۔
اسے ڈر لگ رہا تھا لیکن وہ ان کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی ۔۔
وہ بلیک جینز پر وایٹ شرٹ پہنے کانوں میں اییر پیس بلوٹوتھ لگایے کال پر شیرو سے بات کرتے آنکھوں میں سرد تأثر لیے باہر کی طرف بڑھ رہا تھا ۔
شیرو تم مال کی سی سی ٹی وی فوٹیج نکلواو۔ اور وہاں سے نمبر نکال کر ان کی لوکیشن ٹریس کرو ۔
اور ذرا سی بھی کوتاہی پر تمہاری جان بھی جا سکتی ہے سو بی کیئر فل ۔
وہ گاڑی کی اسپیڈ بڑھاتے ہوئے بولا ۔۔
یس سر ۔۔اور میں اسی کام پر لگا ہوں مال پہونچ چکا ہوں ۔
ہہہم گڈ ۔۔۔
شاہ ریز نے عرشمان کو بھی کال کرکے بتا دیا تھا اور اس سے روڈ بلاک کرانے کا کہا ۔
اس نے پانچ منٹ کے اندر اندر روڈ بلاک کرا دیے تھے ۔۔
ابھی وہ راستے میں تھا جب اسے شیرو کی کال آیی کہ وہ لوگ نایرہ کو ایک زیر تعمیر عمارت میں لے گیے ہیں ۔کیوں کہ انہیں پتہ چل گیا تھا کہ پولیس ان کے پیچھے لگ چکی ہے ۔
اس لئے ان سے بچنے کے لئے وہ یہاں پر لے آئے تھے لیکن ان کو نہیں پتا تھا کہ وہ ٹریس ھو چکے ھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان لوگوں نے نایرہ کو لا کر ایک کرسی پر بٹھا کر باندھ دیا ۔
نایرہ اندر سے کافی ڈری ہوئی تھی ۔
اس کے حواس کھو رہے تھے لیکن وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی ۔
آج اسے انشاء کی بتائی ہوئی باتیں یاد آ رہی تھیں کہ اگر آپ کسی مشکل میں پڑ جاتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے حواس کو قابو میں رکھنا چاہیے ۔
جب آپ کا دماغ پر سکون رہے گا تو آپ اس مشکل سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈ لیں گے ۔
گندے بھائی آپ میرا ہاتھ کیوں باندھ رہے ہیں ؟
میں نے کون سا بھاگ جانا ہے ویسے بھی مجھے تو راستے بھی نہیں پتہ ۔
اے لڑکی چپ کر پورا راستہ دماغ کھاتے ہوئے آیی ہے اور اب پھر شروع ہو گئی ۔
اگر تو اب چپ نہ ہویی تو ایک گھما کر لگاؤں گا پھر تیری ساری ٹر ٹر بند ہو جائے گی ۔
اس کے اتنے سخت لہجے میں کی گئی بات پر نایرہ کانپ کر رہ گئی ۔
اس سے تو کبھی کسی نے اونچی آواز میں بات تک نہیں کی تھی ۔ انشاء کبھی اسے ڈانٹتی نہیں اور رہی بات شاہ ریز کی تو وہ تو اسے پلکوں پہ بٹھا کر رکھتا تھا ۔
اور کہاں اس کرایے کے گنڈے نے اسے اتنی سخت آواز میں ڈانٹا تھا ۔
پل میں نایرہ کی نیلگوں آنکھیں آنسوؤں سے جل تھل ہوئی تھی ۔
آ۔۔۔آآپ نے مجھے ڈانٹا ۔۔۔۔م۔۔مم۔میرے شاہ کو پتہ چلا نہ تو آ۔۔۔آپ کو ۔۔چ۔۔چھوڑیں گے ۔۔۔نہی۔ں۔۔۔۔۔۔
وہ ہچکیوں کے درمیان بولی ۔۔
اوہو ۔اگر تمہارے شاہ کو پتہ چلا تب نہ اس کے پتہ چلنے سے پہلے تم پتہ نہیں کہاں پہونچا دی جاوگی۔
وہ اپنے ساتھی کے ہاتھ پر تالی مار کر ہنسنے ہوئے بولا ۔
ان کی بات سن کر نایرہ کا دل کانپا ۔۔
نہیں آپ لوگ جھوٹ بول رہے ہو وہ آینگے دیکھ لینا ۔
دیکھ لیں گے بیبی ابھی تو تم اپنا منہ بند کرو کب سے بول بول کر دماغ کی دہی کر دی ہے ۔
ن۔۔۔۔نہیں میں بولوں گی ۔
وہ غصے سے اس کی طرف دیکھ کر بولی ۔
تو تم منہ بند نہیں کروگی ؟ ۔۔۔
ٹھیک ہے پھر ہم ہی کر دیتے ہیں ۔
ایک آگے بڑھتے ہوئے بولا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انشاء اور گل کا برا حال تھا نایرہ نہیں مل رہی تھی ۔
اور انشاء کو اپنی سانسیں تھمتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں ۔
وہ بار بار ایک ہی بات کرے جا رہی تھی کہ نایرہ اس کی وجہ سے کڈنیپ ہوئی ہے ۔
نہ وہ اسے چھوڑ کر جاتی نہ یہ سب کچھ ہوتا ۔
گل اسے بار بار سمجھا رہی تھی کہ اس کی وجہ سے کچھ بھی نہیں ہوا ایسا ہونا لکھا تھا ۔
لیکن وہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہو رہی تھی ۔
تبھی انہیں عرشمان پولیس وردی میں ان کی طرف آتا ہوا دکھائی دیا ۔
انشاء دوڑ کر اس کے گلے لگ کر ساری باتیں بتانے لگی ۔۔
م۔۔۔۔۔ماان۔۔ت۔۔م ۔۔میری ۔۔ن۔نایرہ لا دو ۔۔۔وہ مجھ سے ۔کھو ۔۔گیی۔ہے ۔
پلیززززز مان ۔۔مم۔میں اس کے بنا مر جاؤں گی ۔۔
وہ۔۔میرے وجود کا حصہ ہے ۔۔بسے کچھ ہو تو ۔۔۔یہ دل دھڑکنا بھول جائے گا ۔۔۔
وہ عرشمان کی شرٹ کو مٹھیوں میں جکڑے روتے ہوئے التجا کرنے لگی
ہےےے انشاء کچھ نہیں ہوگا ہماری نایرہ کو ۔۔
تم رونا بند کرو ہم اسے ڈھونڈ لیں گے
عرشمان سے اس کا رونا برداشت نہیں ہو رہا تھا اس لیے چپ کرانے ہوئے بولا ۔
پھر کافی دیر تسلی دی اور اپنی ٹیم کے آ جانے پر وہ ان کو لے کر سی سی ٹی وی کیمراز کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔۔
ابھی وہ کوئی کاروائی شروع کرتا کہ اسے شاہ ریز کی کال آگیی کہ فلاں جگہ پر پہونچے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ ریز آندھی طوفان بنا اس عمارت کے پاس پہونچا اور اس کے پیچھے ہی عرشمان بھی اپنی ٹیم کے ساتھ پہونچ گیا ۔۔
وہ سب ہاتھوں میں گ+۔ن لیے اندر کی طرف بڑھے ۔۔
شاہ ریز طیش کی حالت میں آگے بڑھا اور ایک زور دار طریقے سے پاؤں درازے پر مارا جس سے وہ زور دار آواز کے ساتھ ٹوٹ کر نیچے گر گیا ۔۔
وہ اندر داخل ہوا تو اس کی نظر کرسی سے بندھی نایرہ پر پڑی جو ڈری سہمی ہوئی سی آنکھوں میں آنسو لیے مسلسل نفی میں سر ہلا رہی تھی ۔
اور اس کے سامنے ایک آدمی کھڑا اس کے چہرے کو ہاتھوں میں دبوچے کچھ کہ رہا تھا ۔
یہ سب دیکھ کر شاہ ریز کی آنکھوں میں خون اتر آیا وہ ایک جھٹکے میں اس تک پہونچا اور پیچھے سے اس کی کالر کو کھینچ کر اسے اپنے سامنے کیا اور اس کے چہرے پر پے در پے تھپڑوں کی برسات کر دی ۔۔
وہ اسے مارتے ہوئے اتنا جنونی ہو گیا تھا کہ اسے نایرہ کی حالت نظر نہیں آیی ۔۔
عرشمان اور اس کی ٹیم نے آگے بڑھ کر اس چھڑایا اور اس کا دھیان نایرہ کی طرف دلایا کہ اس کی حالت بگڑ رہی تھی ۔۔
شاہ ریز نے اس کو ایک جھٹکے میں چھوڑا اور نایرہ کی طرف بڑھ گیا ۔
جو اب بے ہوشی میں جا رہی تھی ۔
شاہ ریز نے آگے بڑھ کر اسے اپنی بانہوں میں کسی متاع کی طرح سمیٹا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا لیکن جاتے ہوئے عرشمان سے کہنا نہیں بھولا کہ یہ آدمی اس کا مجرم ہے اور اسے سزا میں خود دو ں گا ۔ویسے بھی اس کی طرف میرے پہلے ہی حساب نکلتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارے گھر والے لاؤنج میں بیٹھے مسلسل نایرہ کے لئے دعا کر رہے تھے جب شاہ ریز نایرہ کو بانہوں میں اٹھا یے اندر داخل ہوا ۔
سب لوگ نایرہ کو ایسے بے ہوش دیکھ کر کافی پریشان ہو گئے ۔
شاہ ریز اسے سیدھا اسے اپنے روم میں لا کر بیڈ پر لیٹا دیا اور ڈاکٹر کو کال کی ۔تھوڑی دیر میں ڈاکٹر آ گیا جس نے چیک اپ کرنے کے بعد بتایا کہ وہ ڈر اور خوف سے بے ہوش ہو گئی ہے ۔
انشاء تو اس کے پاس چپک کر بیٹھ گئی اور اسے ایک ٹک دیکھ رہی تھی ۔۔
کافی دیر تک سب نایرہ کے پاس بیٹھے رہے اور پھر سب ایک ایک کر کے باہر جانے لگے ۔
انشاء نے اس کے ماتھے پر بوسہ لیا اور وہاں سے چلی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نایرہ سو رہی تھی کہ اچانک سے چیخنے لگی ۔
مم۔۔مجھے ۔۔۔۔چھوڑ دوو۔۔۔شاہ ۔مجھے بچا لیں ۔۔
کیا ہوا میری جان ۔۔۔
ش۔۔۔شاہ وہ۔۔مجھے ۔۔لے جایے گا اور ۔۔۔۔۔
کشش ۔۔۔میرے ہوتے ہوئے کسی میں ہمت نہیں کہ وہ شاہ ریز خان کی بیوی کو آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے ۔میں اس کی آنکھیں نوچ لوں گا ۔
اور جس نے میری سانسوں کو چھننے کی کوشش کی ہے اسے میں پل پل تڑپاوں گا ۔
اتنا کہ وہ اپنی موت کی بھیک مانگے گا ۔
وہ جنونی انداز میں بولا ۔
آپ میری دھڑکن ہیں میری سانسیں ہیں اور میری سانسیں روکنے والے کا نام میں اس ہستی سے مٹا دوں گا ۔
وہ اس کی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکایے ایک جزب کے عالم میں بولا ۔
اور پھر آہستہ سے اسے لٹا کر خود اٹھ کر اس کے لئے کچھ کھانے کے لیے لانا چاہا کہ نایرہ نے ڈر اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا وہ اسے چھوڑ کر نہ جائے ۔۔
شاہ ریز اس کی حالت سمجھتے اس کے پاس لیٹ گیا اور اسے اپنے حصار میں لے کر اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا جس پر وہ بہت جلد نیند کی آغوش میں چلی گئی ۔
شاہ ریز تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے نہیں تھک رہا تھا جس نے اس کی بٹر فلائی کی حفاظت کی تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح سب ڈاینگ ٹیبل پر موجود تھے لیکن کافی خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔
گل اور ساحل بھی کافی دیر سے نایرہ سے بات کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے لیکن کر نہیں پا رہے تھے ۔
نایرہ کافی خاموش سی بیٹھی ہوئی تھی سب کی باتوں کا بس ہوں ہاں میں جواب دے رہی تھی ۔۔
اس کی خاموشی سب کو کافی کھل رہی تھی ۔
اچانک شاہ ریز نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ آج شام کو پارٹی رکھ رہا ہے جس میں گل اور ساحل کی انگیجمنٹ سرمنی بھی کر دی جائے گی ۔
اس نے یہ فیصلہ نایرہ دھیان ہٹانے کے لئے کیا تھا ۔
فلا گھر والوں کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا ۔
وہ فوراً راضی ہو گئے ۔
اور چٹ پٹ تیاری کے لئے لسٹ بھی بنا لی ۔
گل تو گھر والوں کی پھر تیاں دیکھ کر رہ گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارٹی سپیٹ بہت خوبصورت کیا گیا تھا ۔
کیوں کہ اس گھر کی اکلوتی بیٹی کی انگیجمنٹ سرمنی تھی ۔
ہر طرف رنگ و بو سیلاب امڈا ہوا تھا ۔
اس پارٹی میں شامل ہونے کے لیے کافی بڑے بڑے بزنس مین اپنی فیملی کے ساتھ انوایٹ تھے ۔
گل تیار ہو کر اپنے روم میں بیٹھی ہوئی تھی ۔
جب انشاء اور نایرہ اسے باہر لے جانے کے لئے اس کے پاس آیی ۔۔
گل نے آج ریڈ کلر کا گاؤن پہنا ہوا تھا جس پر گولڈن تاروں سے خوبصورتی سے کڑاہی کی گئی تھی ۔
اس نے بالوں کو کرلی کرکے آگے ڈالے گانوں میں بڑے بڑے جھمکے پہنے اور ماتھے پر ٹیکا سجایے سفید دوپٹہ اوڑھے۔ کویی حور لگ رہی ٹ۔
اسے دیکھ کر نایرہ نے سیٹی ماری۔
واو گل آپ بہت پیاری لگ رہی ہو ساحل آپ کو دیکھ کہیں بے ہوش نہ ہو جایے۔۔
اس کی بات سن کر گل کے چہرے پر سرخی چھا گئی ۔
نایرہ کی شرارت پر انشاء مسکرا دی ۔۔
ارے لڑکیوں کتنا وقت لگاؤ گی جلدی چلو منگیتر صاحب سے صبر نہیں ہو رہا ہے ۔
ہاں چلیں ہم بھی بس آنے ہی والے تھے ۔
انشاء نے اپنا دوپٹہ کندھوں پر سیٹ کرتے ہوئے بولی ۔۔آج نایرہ اور انشاء نے سیم ڈریسنگ کی تھی ۔۔
دونوں نے آج پیچ کلر کا کرارا پہنا ہوا تھا جس میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھیں ۔
گل کو اسٹیج پر ساحل کے بغل میں بٹھایا دیا گیا ۔۔
بیگ گراؤنڈ میں دھیمی آواز میں گانا چل رہا تھا ۔۔
ملے ہو تم ہم کو بڑے نصیبوں سے ۔
چرایا ہے میں نے تمہیں قسمت کی لکیروں سے ۔
تیری محبت سے سانسیں ملی ۔
سدا ہی رہنا تم میرے قریب ہوکے۔
رومی چاچی نے ساحل کو پہنانے کے لیے رنگ دی تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ گیا ۔
سب کافی حیران ہویے ۔
ساحل اٹھ کر گل کے سامنے آیا اسے کھڑا کرکے اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا اور بکے میں سے ایک پھول نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا ۔
مس گل کیا آپ میری زندگی کی بہار گل بننا پسند کریں گی ۔
گل نے اپنے دونوں کو ہونٹوں۔ پر جما لیا اور خوشی سے گنگ اس کی طرف دیکھے گئ۔
اس کی خواہش تھی کہ اس کا ہونے والا شوہر فلمی اسٹائل میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر پرپوز کرے اور آج یہ خواہش پوری ہو گئی ۔
ہر طرف سے یس یس کی آوازیں آ رہی تھیں ۔
گل نے اپنے بھائیوں کی طرف دیکھا ان کے ہاں کے اشارے پر اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا ۔
ساحل نے خوشی سے کھل کر اس کے ہاتھوں میں رنگ پہنا دی ۔
اور پھر انشاء نے گل کو رنگ دی جسے گل نے پہنا دی ۔
دی جان نے اور باقی گھر والوں نے ان کا ماتھا چوم کر دعائیں دیں
شاہ ریز نے گل کو گلے لگایا اور کچھ دیر ایسے ہی نم آنکھوں سے کھڑا رہا ۔
عرشمان نے بھی انہیں مبارکباد پیش کی اور ساحل کا کان پکڑ کر وارن کیا کہ اگر اس کی بہن کو ذرا بھی پریشان کیا تو اس کی خیر نہیں ۔
جس پر اس نے فورن وعدہ کر لیا۔
سارے مہمان مبارک باد دے کر چلے گئے اب صرف گھ والے ہی تھے ۔
شاہ ریز کسی کام کا بول کر باہر چلا گیا اور نایرہ سے کہ دیا لیٹ آیے گا وہ آرام سے سو جایے ۔
عرشمان کو پتہ یہ کام کیا ہے ۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ جس نے نایرہ کو کڈنیپ کیا تھا وہ کوئی اور نہیں نایرہ کے ممانی کا بھائی تھا ۔
شاہ ریز تو اسے جان سے مار دینا چاہتا تھا لیکن عرشمان نے کہا قانون ہاتھ میں نہ لے ۔
جس پر شاہ ریز اس بات پر مانا کہ وہ خود اسے ہر روز سیل میں جاکر ٹارچر کرے گا ۔
اور اس بات پر وہ کوئی اگر مگر نہیں سنوں گا ۔
عرشمان کو ہاں کہتے ہی بنا ۔۔
اس لئے شاہ ریز کام کا بول کر آتا تھا ا ور کے جیل اندر جا کر اسے ٹارچر کرتا تھا ۔
بہت شوق تھا نہ اسے لڑکیو کو کوٹھے پر بیچنے کا اب اچھی طرح اپنا کیا بھگت رہا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرشمان روم میں آیا تو دیکھا کہ انشاء ڈریسنگ ٹیبل پر بیٹھی اپنی اتار رہی تھی اب اس کا ارادہ کپڑے چینج کرنے کا تھا ۔
عرشمان چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا ۔۔
آج آپ ہمیں اگنور کر رہی تھیں دلبر ۔
جانتی ہیں نا کہ ہم آپ کے ایک نظر کرم کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔
اور آپ ہیں کہ ہمیں اگنور کرتی ہیں ۔
عرشمان نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر نزدیک کرتے ہوئے بولا ۔
عرشمان کی بات پر انشاء کے چہرے پر مسکراہٹ آ گیی جسے اس نے فوراً چھپا لیا ۔
اب آپ ایک اور ظلم کرنے جا رہی تھیں اپنے یہ سجے سنورے روپ کو بنا ہمیں دکھائے ۔
وہ اس کے کندھے پر اپنا چہرہ ٹکاے ہوئے بولا ۔
انشاء اپنے چہرے پر اس کی گرم سانسوں کو محسوس کرتے ہوئے کانپ گیی۔۔
اچانک عرشمان اسے بانہوں میں بھر کر بیڈ کی طرف بڑھ گیا اور اسے وہاں لٹا کر خود بھی اس کے بغل میں دراز ہوا ۔
اب ہمارے دلبر نے جب اتنی محنت کر ہی لی ہے تو ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم ان کی خوبصورتی کو خراج تحسین پیش کریں ۔
وہ اس کے کانوں کو بھاری جھمکوں سے آزاد کرتے ہوئے بولا اور وہاں پر اپنے سلگتے ہوئے لمس چھوڑنے لگا اںمور وہاں سے ہوتے ہوئے وہ اس کے گلے میں اپنے ہونٹوں سے محبت کے پھول کھلانے لگا ۔
اس کے سفر کرتے ہونٹوں کے لمس پر انشاء نے اپنی دھڑکنوں کو سست پڑتے محسوس کیا ۔
اس کےلبوں کی گستاخیوں پر انشاء کو اپنی جان نکلتی محسوس ہوی۔
اس نے کروٹ بدل کر رخ دوسری طرف کر لیا۔
عرشمان نے اس کے گہرے گلے سے نظر آتی کمر کو اپنے ہونٹوں سے چھونے لگا۔
اور پھر اس کا رخ اپنی طرف کرتے ہوئے اس کے ہونٹوں کو اپنی دسترس میں لیا اور سایڈ لیمپ آف کر کے اس پر اپنی محبت نچھاور کرنے لگا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
شاہ ریز واپس آیا تو دیکھا کہ نایرہ بیڈ پر لیٹی بانہوں میں ٹیڈی بیر کو قید کیے چہرے پر بچوں جیسی معصومیت لیے سو رہی تھی۔
شاہ ریز کو اس پر بے تحاشہ پیار آیا لیکن جب نظر ٹیڈی پر پڑی تو وہ تن فن کرتا ہوا اس کے پاس آیا اور جھک کر اس کی بانہوں سے سے ٹیڈی کو نکال کر پھینک دیا ۔
بٹر فلائ کتنی بار آپ سمجھاؤں کہ آپ کے اتنے قریب آنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں پھر چاہے وہ انسان ہو یا پھر بے جان چیز۔
وہ اس کے پاس لیٹتے اسے بانہوں میں قید کر تے ہوئے بولا ۔
اس کی سخت پکڑ پر نایرہ کی آنکھ کھل گئی اس نے اپنی خمار بھری آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا
شاہ آپ آگیے ۔۔
ہہہ۔ مم ۔۔۔جانم وہ اس کے گلے میں چہرا چھپا کر بولا ۔شاہ سونے دیں ۔۔
ایسے کیسے سونے دوں اور ویسے بھی ابھی تو سزا بھی دینی ہے کیوں کہ آپ نے ہمارے آنے سے پہلے اپنا خوبصورت سنگھار بھی اتار دیا ۔۔۔۔
وہ اس کے گالوں کو چومتے ہوئے بولا اور اسے اپنے سنگ محبتوں کے جہاں میں لے گیآ۔
اب ان کی زندگی میں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں ۔
آنے والا کل نہایت ہی خوشیوں سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔۔۔
💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Rang Dia Tere Ishq Ne Yun Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Rang Dia Tere Ishq Ne Yun written by Dharkan Shah Rang Dia Tere Ishq Ne Yun by Dharkan Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment