Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 66to70
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Storiesa
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 66to70 |
Novel Name: Hum Mi Gaye Yuhi
Writer Name: Ismah Qureshi
Category: Continue Novel
"Dil E Janam , Bhoot ki bhootni, Muhammad Zaviyar, Amber shah, Soni sahib G, من عاجزم, Samreen Sallahuddin Ahmed, Paris Malik, Shehla Rizwan, Mehak Asghar, میاں موبائل بلگن, Shahid Abdullah, Dani Rajpoot, No Wat, Noreen Noreen, Nene Qureshi"
(اس بات پر ناراض نہ ہونا اب کہ میرا نام بعد میں کیوں آیا مجھے کمنٹ سیکشن میں جس ترتیب سے کمنٹ شو ہوۓ اسی ترتیب سے نام لکھے ہیں ۔۔۔!!🤭)
Aap sab top fans Hain novel Kay.Kiyu Kay Writing mushkil Kam hai pereray kehnay per aap nay ye bhi Kiya ...!!!!!💞
Officially page per results bhi jaldi dai Doo gi mai.❤️
(Time Pura honay kay baad walay comments count nahi huay jo us post Kay ilawa thay🤐 yehi rule tha.)
✦•·············••·············•✦
" استغفرُللہ۔۔۔!!! خوف خدا تو ختم ہوگیا ہے لوگوں سے۔ ان زمینی خداؤں نے کیا حال کردیا اس معصوم کا۔ علی مجھے نہیں لگتا اس کے گھر والے اس قابل ہوں گے کہ انہیں یہ لڑکی اس حال میں ملے اور وہ قبول کرلیں۔ یقینا غیرت کے نام پر مار دیں گے وہ اسے۔
جو رات کے اگلے پہر سڑکوں پر ماری ماری پھررہی تھی مجھے نہیں لگتا اس کا کوئ پیچھے ٹھکانہ ہوگا۔ پتہ نہیں کتنی مجبور ہوگی یہ۔ یااللہ کیسے لوگ تھے وہ جنہیں ترس نہیں آیا اس پر۔۔۔!!! "
علی کے شانے پر ہاتھ رکھ کر لائبہ کچھ سوچتے ہوئے اسی کے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گئ۔
" ایک کام کریں آپ۔ صبح تک آپ کسی بھی طریقے سے پتہ لگوائیں کہ جہاں سے ہمیں یہ ملی ہے وہاں اس پاس تک کوئ لڑکی لاپتہ ہوئ ہے۔۔۔۔!!!
اگر ہے تو ہم اس کے گھر والوں سے بات کرکے اسے ابراڈ لے جائیں گے علاج کے لیے۔ اگر نہیں ملا کوئ سراغ تو ہم اسے مرنے نہیں دیں گے ہمیں خدا نے اس کی مدد کے لیے چنا ہے ہم بچائیں گے اسے ۔ ۔!!!"
اس نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا تو علی نے سر ہاں میں ہلاکر یہاں اپنے ساتھ آۓ اہنے گارڈ کو میسج کیا۔
کہ اس علاقے کے آس پاس کوئ لڑکی لاپتہ ہے تو اسے فورا بتائیں۔
دوسری جانب روحیہ بھاگ چکی تھی تو ان کمینوں نے کسی ہاسپٹل سے ایک لاوارث لاش کا بندوبست کرکے اس کی صورت بگاڑ کر ان طلاق کے کاغذات کے ساتھ اسے وہیں پھینک دیا۔ جو واپس سے روح کو ڈھونڈتے انہیں خون میں رنگے ملے تھے۔ روحیہ نے بھی ہاسپٹل کے کپڑے پہن رکھے تھے اور اس لاوارث لاش نے بھی۔
تو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی وہ لاوارث لاش روحیہ نہیں تھی۔
پھر دلاور خان سے اپنا انعام وصول کرکے ان سب نے فجر کے وقت وہ لاش بہراور درانی کے گھر بھجوادی۔
دلاور کا کام ختم ہوچکا تھا۔
کہتے ہیں جسے اللہ بچاۓ اسے کوئ مار نہیں سکتا۔
روح جیتی جاگری مثال تھی اس کی۔ سب کو لگا وہ مرگئ۔ جبکہ اگلے دن جب اس کے آدمیوں نے اسے بتایا آس پاس کوئ لڑکی اغواہ نہیں ہوئ تو علی نے ارجنٹ بیسز پر پرائیویٹ جیٹ کے زریعے روح کو آسٹریلیا یعنی اپنے موجودہ وطن میں منتقل کیا۔
جہاں دنیا کے ٹاپ نیورو سرجنز بلاکر اس نے روح کا علاج کروانا شروع کردیا ۔ ہر تکلیف دہ نشان مٹاکر سکن سرجنز اسے ان تکلیف بھری یادوں سے چھٹکارہ دلانے کو پرامید تھے۔ جو شاید سرجری کے بغیر روح کبھی نہ بولتی۔ مار کے نشان اب پختہ ہوچکے تھے اس کے وجود پر۔۔۔!!!
ان نشانوں کی چھاپ سرجری سے ہی مٹ سکتی تھی۔ انشارٹ علی نے بس یہ سب اس لیے کروایا تاکہ مستقبل میں کبھی روح ان نشانوں سے ماضی میں نہ کھوۓ۔ ڈاکٹرز نے ہی سرجری سجیسٹ کی تھی۔ روح کے ہوش میں آنے سے پہلے یہ پروسیجر انہوں نے کرلیا۔ ورنہ اسے زیادہ تکلیف ہوتی۔
صرف اتنا نہیں روح جب گری تھی تب اس کا دایاں رخسار پھٹ گیا تھا اور وہ نشان گہرا نہ سہی ہلکا تھا۔ سرجری ضروری تھی مکمل نہیں پر روحیہ کی صورت تھوڑی ہی سہی بدلنے کا فیصلہ کیا گیا سواۓ اس کی ٹھوڑی اور رخسار پر پھر ان دونوں کے بیچ موجود تل، اور آنکھوں کے رنگ کے۔ وہ روحیہ کا ہی عکس بن چکی تھی۔
اس کی نئ شکل روحیہ سے ملتی جلتی تھی۔ روح کے چہرے پر بھی تھپڑوں کے مستقل نشان تھے جو یقینا راسم کی ماں کا دیا گیا تحفہ تھا اس کے لیے۔ وہ ان نشانوں کے سہارے زندہ نہ رہتی تو لائبہ کے کہنے پر ڈاکٹرز نے روح کو روحیہ کی شکل دے دی۔ پر تل مٹانے کی اجازت علی نے نہ دی۔ وہ خود غرض نہیں تھا۔ روح سے اس کی مکمل شناخت چھیننا اسے گناہ لگا۔
علی نے پیسہ پانی کی طرح بہایا پر شرط یہی تھی وہ زندہ بچنی چاہیے۔۔۔!!!
روح کی حالت بہت نازک تھی تب دو ہی حل تھے علی کے سامنے۔
ایک تو یہ کہ وہ بس اتنا علاج کروالے اس کے برین کے ڈیمج پارٹ کا کہ روح زندہ رہے۔ اس صورت میں روح کی زندگی کو بڑا تو نہیں پر ہمیشہ خطرہ رہتا۔ کسی بھی لمحے شاید اسے کچھ بھی ہوجاۓ۔
اور دوسری صورت تھی میجر آپریٹ۔۔۔!!
جس میں اس کے بچنے کے بس دس فیصد چانس تھے۔
لیکن خطرہ ٹل جاتا۔
علی نے اس لمحے بس یہی سوچا تھا کہ وہ روح کو اس کی پوری زندگی میں اب کوئی تکلیف ملنے نہیں دے گا نا اس کی طبیعت بگڑے گی نا ہی کوئ مسئلہ ہوگا۔ تو اس نے پہلا طریقہ چن لیا۔
پھر چند مہینوں بعد آخر کار اس کے دماغ کے ڈیمج پارٹ نے کام کرنا شروع کیا تو وہ ہوش میں آگئ۔
پر اسے قسمت کا لکھا ہی کہہ سکتے ہیں اس کی کنڈیشن اتنی بری تھی کہ اسے سب بھول گیا۔ اس کے دماغ میں سکت نہیں تھی کہ وہ کچھ بھی برا جاننے کی کوشش کرے۔
پھر کون ذکیہ ۔۔۔؟؟ کون باران ۔۔۔؟؟؟
________________________
وہ سب بھول گئ۔ اس نے ہوش میں آتے ہی اپنی شناخت پوچھنا چاہی۔
" تم روحیہ زہرہ ہو۔۔!! علی کی بہن اور میری نند۔۔!! میں لائبہ ہوں تمہاری بھابھی ۔۔۔!! شکر ہے میری جان تمہیں ہوش تو آگیا۔ ورنہ تمہارے بھائ نے تمہارے بعد رو رو کر مظلوم عورتوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا ۔۔!!"
اسے روحیہ بنانے والی لائبہ تھی۔ علی کی بیوی ۔۔۔!!!
جس نے اس لمحے بس روح کے سکون کا سوچا۔ کیونکہ اگر وہ اسے بغیر شناخت بتاۓ خود سے لڑنے کے لیے چھوڑ دیتے تو وہ بس چند دن سروائیو کر پاتی۔ وہیں علی کو بھی روحیہ کی یادیں زندہ نہیں رہنے دے رہی تھیں۔
اس صورت میں دولوگ بچ گۓ۔
روح اور علی۔۔۔!!!
روحیہ چند دن تو یہ ہی سمجھتی رہی کہ ہو کیا رہا ہے اس کے ساتھ۔ پھر علی کا شفقت بھرا سایہ اور لائبہ کی بے لوث محبت اسے زندگی کی جانب لے آۓ۔
علی نے اپنی پہنچ سے ناصرف اپنی اصل بہن کے سرٹیفیکیٹ بدل دیے تھے بلکہ سکول کالج ہر جگہ اس نے روح کو روحیہ بنانے میں ہر ممکن محنت کی تھی۔ اس کی شکل بھی اصل روحیہ سے سرجری کے بعد میچ کرنے لگی تھی سواۓ ان تلوں کے جو اسے روح کی نشانی میں ملے تھے۔ تو زیادہ مشکل نہیں تھا روح کو روحیہ بنایا۔
علی نے اپنی رہائش بھی اس کی خاطر بدل دی۔ کیونکہ پرانے شہر میں لوگ روحیہ کے سامنے کوئ نہ کوئ الٹی بات کردیتے۔
ان دونوں نے روحیہ کو دماغی طور پر اتنا سکون دیا کہ ایک سال میں وہ بھی مان گئ کہ وہ روحیہ زہرہ ہی ہے۔ اس شناخت سے روح کو اتنا عشق ہوگیا کہ اس نے پھر کوشش ہی نہ کی واپس اپنے ماضی میں جھانکنے کی۔
علی نے اس کا ایڈمیشن حسن کی یونی میں کروادیا۔ وہ ذکیہ کا ایج فیلو ہونے کے ساتھ ساتھ لائبہ کا چھوٹا بھائی تھا۔ جس پر لائبہ اور علی دونوں کو آنکھ بند کرنے یقین تھا۔
وہ مغربی معاشرے کے رہنے والے تھے جہاں ہر قسم کی بے حیائ عام تھی۔ علی کو ڈر تھا کہیں روح کے ساتھ پھر سے کچھ برا نہ ہو۔ تو اس سیچوئیشن میں حسن نے اس کی مدد کی۔ وہ روح کا بہترین دوست بن گیا۔ سایے کی طرح اس کے ساتھ رہنے لگا۔ وہ نیچر وائز بھی کول مائنڈڈ انسان تھا۔
یعنی روحیہ کے لیے انتہا کا اچھا اور اس کی طرف اٹھنے والی نظروں کے لیے عقاب ۔۔۔!!! جو پل میں آنکھیں نوچ دے۔ ناجانے کتنوں کے ہاتھ پیر اس نے توڑ دیے صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے روحیہ کو باقی لڑکیوں کی طرح اپنے ساتھ فرینک کرنے کی کوشش کی تھی۔
روح بھی اپنی فرینڈلی نیچر کی وجہ سے حسن کو بھاگئ۔ کہہ سکتے ہیں روح حسن کا عشق تھی۔۔۔۔۔!!!! جنون بھرا نہیں عقیدت بھرا عشق۔ لائبہ ڈاکٹر تھی تو روح کو بھی ڈاکٹر ہی بننا تھا۔ یہ اس کی نئ ضد تھی۔ جو علی پر ماننا فرض تھی۔
" بگ بی ۔۔۔!! دیکھ لینا آپ آپ کی وائف سے بڑی ڈاکٹر بنوں گی میں۔ ایسی ڈاکٹر کہ آپ کی وائف بھی میرا آٹو گراف مانگا کریں گی۔بڑے بڑے ایوارڈ ملیں گے مجھے۔ میں فیمس ہوجاؤں گی ۔۔۔!!"
روح نے خیالوں میں کھوتے ہوۓ کہا۔ اس نے پوچھا تھا کہ وہ بیمار کیوں ہوئ تھی۔ تب انہوں نے اسے بس یہ کہہ دیا کہ اس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ وہ ضدی ہی بہت ہے ان کے قابو میں نہیں آتی۔
یادداشت کھونے کے بعد وہ سچ میں جنونی ہوچکی تھی اتنا کہ موت کے کنویں میں اسے کودنا بھی پڑتا تو وہ باخوشی کود جاتی۔ شاید نام کا اثر تھا یہ ۔۔۔!!!
روحیہ زہرہ بھی ایسی ہی تھی ۔۔۔!!!
" پرنسس۔۔۔!!! آپ نے جس دن کسی پیشنٹ کو انجیکشن لگا دیا اپنی بھابھی سے تو اسی دن آگے نکل جائیں گی آپ۔ یہ بس نام کی ڈاکٹر ہیں ویسے انہیں کچھ نہیں آتا جاتا ۔۔۔!!!"
علی نے اسے چھیڑا جس نے غصے سے اپنا دو سال کا بیٹا اس کی گود میں رکھ دیا۔ روحیہ کے آنے کے بعد لائبہ کو اللہ نے بیٹے سے نواز دیا تھا۔ وہ لکی ثابت ہوئ ان دونوں کے لیے۔ پہلے تو علی بزنس کی دنیا میں آگے ہی نکلتا گیا پھر لائبہ کی گود بھر گئ۔ جو ڈاکٹرز کے نزدیک کسی نیکی کا صلہ یا پھر معجزہ تھا۔ ان دونوں کو روح سے اب مزید عشق ہوگیا۔
روحیہ کو ان کے ساتھ رہتے چار سال ہوچکے تھے۔ اس کے آتے ہی جیسے علی اور لائبہ کی سونی زندگی میں بہار آگئ۔
" اگر کچھ نہیں آتا مجھے تو آج سے اس کے ڈائپرز آپ چینج کیا کریں گے۔ اور فیڈر بھی آپ ہی بنایا کریں گے اس کا۔ میں تو بیوقوف ہوں نذ تو سنبھالیں اسے اپنی بہن کے ساتھ مل کر۔ دونوں بہن بھائ مجھے ہی تنگ کرتے ہیں بس۔ آلینے دیں میرے بھائ کو میں اب یہاں سے چلی ہی جاؤں گی ۔۔۔!!!"
غصے سے پیر پٹخ کر وہ چلی گئ جب اس کے جاتے ہی علی نے مسکین صورت بناکر اپنے بیٹے کو دیکھا۔ جو ماں کے دور جاتے ہی اب دھاڑیں مار مار رونے لگا تھا۔ حسن اور لائبہ کے والدین کا انتقال چھ سال پہلے ہوا تھا اس کے بعد سے حسن علی کے انسسٹ کرنے پر مستقل آسٹریلیا شفٹ ہوگیا تھا۔
" بگ بی کیا کھلاتے ہیں آپ اس گندے سے بےبی کو۔۔۔!! بہت روتا ہے یہ باسکٹ بال۔ آپی کا حوصلہ ہے جو اسے ہر وقت اٹھاۓ رکھتی ہیں۔ صحیح کہتے ہیں ماؤں کے پیروں کے نیچے جنت ہے۔ ایسے فٹ بال بھی جو بیچاریاں ہنسی خوشی اٹھا کر گھومتی رہتی ہیں۔ آپ اسے سنبھالیں میں جارہی ہوں روم میں۔ "
موقع دیکھ کر وہ وہاں سے بھاگ گئ اب قاسم تھا اور اس کے رونے کی آواز تھی۔
اور بیچارا علی تھا جو اسے چپ کروانے کی کوششوں میں لگاہوا تھا۔
_________________________
یوں سال گزرتے گۓ۔ جلد ہی روحیہ زہرہ ڈاکٹر بھی بن گئ۔ وہ پورے چھبیس سال کی تھی جب علی نے اس کی شادی کروانے کی بات کی۔ اس رات اس نے پیپرز دیکھے تھے روح طلاق یافتہ تھی اسے پتہ تھا۔
" مجھے مسئلہ نہیں یے بھائ۔۔!! وہ طلاق یافتہ ہے یا نہیں ہے۔ میں ایسی سوچ نہیں رکھتا جو اسے اس وجہ سے جج کروں۔ میں اسے اس وقت سے جانتا ہوں جب اسے آپ آسٹریلیا لاۓ تھے۔ وہ سالوں میرے ساتھ رہی ہے۔ اور مجھے بھی اس سے محبت ہے۔ میں اپنانا چاہتا ہوں اسے۔ میری طرف سے ہاں ہے۔ آپ روحیہ سے پوچھ لیں وہ جو چاہے گی وہی ہوگا۔ پر آپ بالکل یہ طلاق والی بات نہ سوچنا۔ میرے لیے روحیہ کا حال معنی رکھتا ہے اس کا مستقبل میری ذمہ داری ہوگا۔ نا کہ ماضی ۔۔۔!!!"
حسن نے سر اونچا کردیا اس لمحے علی کا۔ جس نے ہچکچاتے ہوئے یہ موضوع چھیڑا تھا۔ اسے کہاں خبر تھی حسن تو روح کا دیوانہ ہے۔ اس کی حرکتیں اس کا نڈر انداز معصوم سی صورت اسے سب سے عشق ہے۔ اتنا عشق کہ اس کا ماضی جاننے کے باجود بھی وہ اسے وہی مقام دے گا جو اس کی بیوی ڈیزرو کرتی۔
جبکہ روح کی ابتدائی حالت زخموں سے چور وجود وہ ان سے بھی واقف تھا۔
ہر مرد کا اتنا جگرا نہیں ہوتا عورت کو طلاق کے داغ کے ساتھ قبول کرلے۔ پر حسن میں اتنی ہمت تھی۔
" میرا کونسا چکر چل رہا ہے کسی کے ساتھ برو جو میں انکار کروں گی۔۔۔!!! میرے پیچھے تو شروع سے ہی آپ نے وہ باڈی گارڈ لگاکر رکھا تھا۔ اب اسی باڈی گارڈ سے بیاہ دیں مجھے۔ گارڈ کی تنخواہ بچ جاۓ گی۔ اچھی بھلی صورت ہے اس کی۔ میں گزارہ کرلوں گی اس کے ساتھ ۔۔۔!!!
اب اپنے بگ بی کی بات میں ٹالوں گی تو نہیں نا ۔۔۔!!!"
دانتوں کی نمائش کرواتے ہوئے روح نے ہاں کی تو علی نے اس کے انوکھے انداز پر اسے گھورا ہی بس۔
وہ خوش تھا کہ یہ دونوں خوش ہیں۔
منگنی تک سب سیٹ تھا۔ وہ خوش تھی انتہا سے زیادہ۔ یہ بھی سچ ہے اس دوران اسے بھول کر بھی باران یاد نہیں آیا۔ کیونکہ اس کے دماغ میں اب اتنی طاقت نہیں تھی کہ ماضی میں جانے کی زرا سی کوشش کرتا۔ اسے حال میں ہی جینا تھا۔
اور علی کی ہدایت پر وہ کبھی کوشش بھی نہیں کرتی تھی ماضی کے بارے میں جاننے کی۔ جب علی جیسا بھائ اور لائبہ جیسی دوست پلس بھابھی پھر حسن جیسا ہمسفر اور کیوٹ سے دو پھپھو پر جان دینے والے بھتیجے تھے تو وہ کیوں آخر اس درد کی دنیا میں ڈوبتی جہاں اسے سواۓ ذلالت کے کچھ نہیں ملا تھا۔
____________________________
پر وہ شادی والا دن ہی منحوس ثابت ہوا۔ ساری تیاریاں مکمل تھیں۔ آسٹریلیا میں رہنے کے باوجود علی نے ساری ارینجننٹس ایسٹرن ڈیزائنر سے کروائی تھیں۔ علی کا اس دنیا میں سواۓ ان چند لوگوں کے کوئ رشتے دار نہیں تھا تو شادی میں زیادہ تر مہمان لائبہ کی فیملی سے ہی تھے۔
حسن کو آنے میں وقت تھا ابھی اسی لیے روحیہ کو پہلے ہی سٹیج پر بٹھادیا گیا۔ وائٹ اور سلور کلر کے کلاسی برائیڈل ڈریس میں، سمپل سے میک اپ کے ساتھ روحیہ حد سے زیادہ حسین لگ رہی تھی۔ چہرے پر الوہی سی چمک تھی حسن کو پانے کی چمک اور اپنے بھائ کے ساتھ ہمیشہ رہنے کی خوشی۔۔۔!!!
لائبہ اسے سٹیج پر اکیلا چھوڑ کر مہمانوں کے پاس چلی گئ۔
" ایسا کرتی ہوں اپنا میک اپ ہی فریش کرلیتی ہوں۔ نہیں تو حسن کے انتظار میں میں پگھلی ہوئی آئس کریم بن جاؤں گی۔ میرا میک اپ خراب ہوگیا تو تصویریں بھی بری ہی آئیں گی۔ یہی اچھا آئیڈیا ہے ۔۔ !!!"
اپنا ڈریس سنبھال کر روحیہ لائبہ کی نظروں سے بچتے بچاتے ہال کے دوسرے طرف جانے لگی۔ سب اپنے دھیان میں مگن تھے۔ جب کسی کی آواز روحیہ نے سنی۔
" نہیں بہن یہ لڑکی علی کی سگھی بہن تھوڑی ہے۔ اس کی سگھی بہن تو مرگئ تھی نا اسی ملک میں۔ اس کے بعد بیچارہ پورا سال اس کی یادوں میں روتا رہا تھا۔ بیچاری بڑی ہی پیاری سی بچی تھی۔ لائبہ کے ساتھ ایک دفعہ پاکستان آئ تھی۔ اللہ مغفرت فرماۓ اس کی حوروں والا حسن تھا اس کا ۔۔۔!!!"
روحیہ نے ٹھٹھک کر اس سمت دیکھا جہاں سے آواز آئ تھی۔ اس کا دل انجانے خوف سے دھڑکنے لگا۔ علی کی بہن تو وہ تھی پھر کوئ ایسی فضول باتیں کیوں کررہا تھا۔
" تو پھر یہ لڑکی کون ہے۔ شکل سے تو مجھے علی جیسی ہی لگی۔ مجھے لگا یہی روحیہ ہے۔ اور تم کہہ رہی ہو روحیہ مرچکی ہے۔ یہ چکر کیا ہے آخر۔ یہاں کے سارے مہمان تو اس لڑکی کو علی کی بہن سمجھ رہے ہیں۔۔۔!!!!"
اس کا حلق خشک ہونے لگا۔ ہمت کرکے سائیڈ پر کھڑے ہوکر اس نے ان لوگوں کی باتیں سننا شروع کیں۔ جو بالکل عجیب طریقے سے اسے مخاطب کررہے تھے۔
" شکل کا کیا ہے بہن۔ آج کے دور میں کیا چیز مشکل ہے بتاؤ تو ذرا۔ سرجری کروا کر اپنی روحیہ واپس لی ہے بس اس بچے نے۔ کیا کرتا بیچارا باپ بن کر پالا تھا اس نے اپنی بہن کو مر گئ تو زندہ رہنا مشکل تھا اس کا۔ کافی سال پہلے اسے یہ لڑکی پاکستان میں ملی تھی۔
سنا ہے کہ بڑی ہی بری حالت تھی اس کی۔ تبھی تو ناجانے کتنی سرجریز کروائیں علی نے اس کی۔ پیسہ پانی کی طرح بہایا تاکہ اس کے اوپر سے ظلم کا ایک ایک نشان مٹ جاۓ۔ کسی نے بدفعلی کرنے کی کوشش کی پھر سڑک پر پھینک گیا اللہ جانے کیسی آوارہ لڑکی تھی یہ۔ "
وہ بولتی جارہی تھی اور روح کے لیے تو دنیا ہی ختم ہورہی تھی۔ اسے تو لگتا تھا وہ علی کی بہن ہے پر وہ تو لاوارث تھی۔ آنکھوں سے موتی بہنے لگے۔ کتنے ارمان سجاۓ تھے اس نے اس دن کے لیے اور اس دن اس کی دنیا ہی اجاڑ دی لوگوں کی چہ مگوئیاں کرنے کی عادت نے۔
افسوس ہے ایسے لوگوں پر جو کسی کے کردار کے چیتھڑے اڑاتے وقت یہ بھی نہیں سوچتے کہ اگر اس نے سن لیا تو وہ جیتے جی مرجاۓ گا۔ تبھی تو غیبت اسلام میں اتنا بڑا گناہ ہے۔ اور تہمت اور بہتان اس سے بھی بڑا گناہ۔ جن کی معافی اس وقت تک آخرت میں بھی نہیں ملے گی جب تک وہ شخص معاف نہ کردے جس کے بارے میں باتیں کی تھی لوگوں نے۔
" لائبہ کو کیا سوجھی جو اپنا ہیرے جیسا بھائ اس لڑکی کو دے دیا۔ ایک سے ایک اچھی لڑکی میں نے دکھائ تھی اسے۔ ہمارا اپنا خاندان بھرا پڑا ہے خوبصورت اور سلجھی لڑکیوں سے۔ پر اسے تو اپنے شوہر کی طرح یہی فالتو لڑکی پسند تھی۔جس کے بارے میں یہ بھی نہیں پتہ کہ جائز ہے بھی کہ نہیں۔
اچھا ہوا تم نے مجھے بتادیا ورنہ مجھے تو اس کی حقیقت پتہ ہی نہ لگتی۔ پتہ نہیں کس کا گندہ خون ہوگی یہ۔ کیا ہوا ہوگا اس کے ساتھ۔۔۔۔!!! یہ آجکل کے بچے بھی کہاں ان باتوں کو سیریس لیتے ہیں۔ بس ہر سڑک چھاپ کو سر پر بٹھانا ہے انہیں بس ۔۔۔!!!"
دوسری عورت نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوۓ بیزاریت سے دوسری عورت کی تائید کی۔
روحیہ نے مٹھیاں بھیچیں۔ وہ علی کی بہن تھی تو کیوں یہ اسے یہ سب کہہ رہے تھے۔
پاس سے گرتے ویٹر کے ہاتھ سے پوری کی پوری ٹرے پکڑی روحیہ نے جوس کے گلاسز کی۔ پھر غصے سے ان دونوں کے سروں پر پہنچ کر انہیں نفرت سے دیکھا۔ اسے اپنے سر میں شدید درد محسوس ہوا۔ یوں جیسے کسی نے ہتھوڑے سے ضربیں لگائی ہوں اس کے سر پر۔
" میرے بارے میں باتیں کرنے والی تم دونوں ہوتی کون ہو۔ میں بگ بی کی بہن ہوں۔ لائبہ آپی کی نند ہوں میں۔ کیسے مجھے گندا کہا تم دونوں نے ۔۔۔!!!"
ایک گلاس اٹھا کر روح نے جوس اس عورت کے منہ پر پھینکا جو اب منہ کھول کر اسے دیکھ رہی تھی۔ پھر دوسرا گلاس تیسرا گلاس اور ساری کی ساری ٹرے ہی پھینک دی اس نے ان دونوں پر۔
شور سن کر علی بھاگتا ہوا وہاں تک آیا۔ سامنے پسینے سے بھیگا روح کا چہرہ اور ان دونوں عورتوں کی حالت دیکھ کر اسے تعجب ہوا۔ روح بدتمیز نہیں تھی۔ اسے پتہ تھا۔
" روحیہ ۔۔۔!!! از ایوری تھنگ اوکے۔۔۔!!! کیا کررہی ہو یہ آپ ۔۔!!"
اس نے آگے بڑھ کر اسے شانوں سے تھاما جس کی آنکھیں درد کی شدت سے بھیگ چکی تھیں۔
" ب۔بھای ۔۔۔!!! ان دونوں نے کہا میں گندی ہوں۔ ناجائز ہوں۔ پتہ نہیں کس کا گندا خون ہوں میں۔ آپ نے مجھے خدا ترسی میں اپنے پاس رکھا ہے۔ آپ کی روحیہ تو مرچکی ہے۔ کیا یہ سچ ہے بھائ ۔۔۔!!! مجھے جواب دیں کیا میں آپ کی پرنسس نہیں ہوں۔۔۔!!!"
درد سے ہلقان ہوتے ہوۓ روحیہ نے شرلے برساتی نظریں ان دونوں عورتوں پر ڈالیں جو اپنی حالت پر کڑھ رہی تھیں۔
" توکیا غلط کہا ہے ہم نے۔ صحیح ہی تو کہا ہے تم نہیں ہو اس کی بہن۔۔۔۔۔!!! علی بیٹا یہ کس جاہل کو اپنے پاس رکھا ہے تم نے۔ کوئ تمیز یا لحاظ نہیں ہے اس میں۔۔۔!!!"
لائبہ بھی بھاگتے ہوۓ وہاں آچکی تھی۔ اب سب کی نظریں روحیہ اور علی پر تھیں۔ اس پہلی عورت نے جل کر کہا۔
" بکواس بند رکھو ورنہ زبان کتوں کے آگے پھینک دوں گا میں تمہاری ۔۔۔!!!!! ارتضیٰ علی کی بہن ہے یہ۔ کوئ عام انسان نہیں یے۔۔۔!!! اپنے کہے گۓ لفظوں پر پچھتاؤ گی تم ۔۔۔!!!"
اس نے دانت پیسے۔ یہ عورتیں اپنی موت کو دعوت دے رہی تھیں۔
" میں جان سے مار دوں گی تمہیں۔ اگر پھر سے یہی سب کہا تو۔ لائبہ آپی سمجھائیں اسے۔ کیا بول رہی ہے یہ ۔۔۔!! میں لحاظ نہیں کروں گی اس کا ۔۔۔!!!"
علی نے اسے مشکل سے قابو کیا ورنہ وہ آج ان دونوں کا قتل کرنے کے موڈ میں تھی۔
" لائبہ ان دونوں کو تم یہاں سے دفع ہونے کو کہو گی یا میں گارڈز بلاؤ۔۔۔۔!!!"
وہ مسلسل بکواس کررہی تھیں جب علی نے دھاڑتے ہوۓ کہا۔ لائبہ جانتی تھی اس کے بعد ان دونوں کی لاشیں بھی کسی کو نہیں ملیں گی۔
تو اسنے گارڈز کو انہیں یہاں سے باہر نکالنے کو کہا جو بےعزتی ہونے پر مزید بھی بہت کچھ سناکر گئ تھیں روح کو۔
" میرے بچے ۔۔۔!!! تم میری ہی بہن ہو۔ مت سنو ان فضول لوگوں کی بکواس کو۔ تم نے جو کیا ٹھیک کیا۔ بس ریلیکس رہو۔ لائبہ پانی لاؤ اس کے لیے۔۔۔!!! اور حسن کہا ہے اسے بلاؤ نکاح نہیں کرنا کیا اس نے۔ نہیں کرنا تو بتا دے۔ میری بہن بوجھ نہیں مجھ پر۔
بس پرنسس بھائ پر یقین رکھو۔ روحیہ۔ ۔۔!!!"
لائبہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی یہاں اچانک ہوکیا گیا علی کے دھاڑنے کی آواز سن کر وہ اچھلی اور پانی لینے چلی گئ۔ پیچھے حسن کا ابھی بھی کوئ اتہ پتہ نہیں تھا۔
روحیہ بےیقینی سے علی کو تکتی رہی۔ ذہن کے پردوں پر بس یہی سوار تھا کہ وہ عورتیں کیوں اتنی بکواس کرکے گئ ہیں اس کے بارے میں۔
کیوں ۔۔۔؟؟؟؟؟
علی کوشش کررہا تھا کہ وہ کچھ بھی فضول نہ سوچے۔ وہ روحیہ کو ایک بار پھر کھونے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ پر روحیہ کے ذہن کو جاننا تھا وہ کون ہے آخر ۔۔۔!!!
" اچھا سوری روح ۔۔!! معاف کر دو اپنے باران کو۔میں بھول گیا تھا تمہارا برتھ ڈے ۔۔۔!!! پر گفٹ لایا ہوں۔ دیکھو تو سہی ۔۔۔!!!"
روحیہ جھٹکے سے علی سے دور ہوئ اس نے گھوم کر آس پاس دیکھا۔ اسے جانی پہچانی آواز سنائ دی تھی۔
" مجھے محبت نہیں عشق ہوگا جب بھی ہوا۔ یہ محبت ہم پٹھانوں کے سامنے ہلکی سی شے ہے۔ ہم تو عشق کرتے ہیں اور انتہا کا کرتے ہیں ۔۔۔!!"
دماغ نے ماضی میں جانے کی کوشش کی۔ وہاں سفید برف پوش علاقے میں اسے ہنستا مسکراتا کوئ شخص دکھا تھا۔
" مجھے تو محبت بھی نہیں ہونی باران۔ تمہارے اس منہ پر میں تم سے منگنی کرچکی ہوں یہی بہت ہے زیادہ امید نہ لگاؤ ۔!!!"
اس نے کانوں پر ہاتھ جماۓ۔ آوازیں بڑھتی جارہی تھیں۔ وہیں علی اس کے ہاتھ ہٹانا چاہتا تھا۔ ابھی ہی اس نے ڈاکٹر کو کال کی تھی کہ روحیہ ان کی بات سن کر رسپانس نہیں کررہی۔ وہ اپنے ہی خیالوں میں الجھ گئ ہے۔ اس نے سارے مہمان بھی واپس بھیج دیے یہ کہہ کر کہ اس کے لیے روح کی زندگی سے اہم کچھ نہیں۔
" ب۔باران ۔۔۔!!! ب۔باران ۔۔۔!!! چپ کر جاؤ ۔۔۔!!! "
لب ہلے سن دماغ نے ماضی سے پہلا نام نکالا بھی تو کس کا۔ اسی دشمنِ جان کا ۔۔۔!!!
اور اگلے ہی پل خود سے لڑتے اس کے دماغ کی نس پھٹ گئ۔ ڈاکٹر نے کہا تھا وہ ماضی میں جانا چاہے گی تو اس کی جان کو خطرہ ہے اور وہ علی کے سامنے زمین بوس ہوئ تھی۔
__________________________
علی نے اسے اٹھایا دلہن کے لباس میں ملبوس یہ لڑکی ہاسپٹل پہنچ گئ۔ جہاں اب پھر سے علی اپنے ہاتھ دیکھ رہا تھا جہاں اس کا خون لگا تھا۔ ناک کے رستے ہوتی بلیڈنگ اس کی شرٹ اور ہاتھوں کو خون سے رنگ چکی تھی۔
لائبہ سر جھکاۓ اس کے پاس کھڑی تھی۔ قاسم اور محسن ( علی اور لائبہ کے بیٹے ) ملازمہ کے ساتھ گھر میں موجود تھے۔
" کیا ہوا ہے بھائ روحیہ کو ۔۔!! وہ ہاسپٹل میں کیا کررہی ہے۔ میں ہال گیا پر وہاں کوئ تھا ہی نہیں۔ آپ کے گارڈز کو فون کیا جنہوں نے ہاسپٹل کا پتہ بتایا۔ آپی آپ بتائیں کیا ہوا ہے اسے ۔۔۔!!"
حسن ابھی ہی پہنچا تھا وہاں۔ لائبہ نے اشارے سے چپ ہونے کو کہ دیا۔ ابھی علی کی وجہ سے وہ بھی چپ ہی تھی۔
صبح تک ڈاکٹرز نے علی کو اس کی رپورٹس تھمادیں۔ کہ اس کے دماغ کی نس پھٹ چکی ہے۔ پہلے بھی وہ رسک پر ہی زندہ تھی اب آگے جو اللہ کی مرضی۔
علی نے پوری دنیا سے ٹاپ ڈاکٹرز بلواۓ ارجنٹ بیسز پر جو اس کی بہن کو بچالیں۔ وہ کیسے رہے گا اس کے بغیر۔
بھلے وہ روح کا سگا بھائ نہیں تھا لیکن ان نام نہاد سگوں سے کروڑ درجے اچھا تھا جنہوں نے روح کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔
علی نے اپنا بیسٹ دیا۔ جو جو اس کے بس میں تھا سب کرگزرا وہ۔ لائبہ دعاؤں کے سوا کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ کیونکہ علی اپنی سگی بہن کی ناگہانی موت کے بعد جتنا ٹوٹا تھا اسے تب اسنے ہی روح میں روحیہ کو تلاش کرنے کو کہا تھا اب روحیہ سے وہ اس قدر اٹیچ ہوچکا تھا اگر روحیہ کو کچھ ہوتا وہ بھی زندہ نہ رہتا۔
یہاں تک کہ ان دو عورتوں کو بھی علی نے بعد میں کچھ بولنے لائق نہیں چھوڑا۔ ان دونوں کو یہ سزا سنائی گئی کہ جب تک روحیہ ٹھیک نہیں ہوگی وہ دونوں اسی کی قید میں رہیں گی۔ اگر روحیہ کو کچھ ہوا تو ان دونوں پر اگلی سانس بھی حرام ۔۔۔!!!
ٹھیک ایک سال بعد روحیہ کو ہوش آیا۔ تب ایک سال بعد علی نے سکون کا سانس لیا۔ لائبہ تو علی کی خوشی میں خوش تھی۔
" یہ بات کیوں نہیں کرتی ڈاکٹر ۔۔!!! بالکل چپ ہوگئ ہے یہ۔ جو دو کھالیتی ہے۔ گھنٹوں ایک ہی جگہ بیٹھی رہی ہے۔ کسی بات پر ضد نہیں کرتی۔ لڑتی نہیں ہم سے۔دن میں دو تین لفظوں کے سوا کچھ نہیں کہتی۔۔!!! آپ بتائیں کہاں اس کا علاج ممکن ہے میں اسے وہاں لے کر جاؤں گا۔ پر مجھے میری بہن پہلے کی طرح چاہیے ۔۔۔!!!"
علی آج اس کی حالت سے تنگ آکر ڈاکٹر کے پاس آیا۔ جس نے سر کو نفی میں جنبش دی۔
" یہ ماضی کے کسی سرے میں اٹکی ہیں اس رات سے جب انہیں ماضی کا راستہ دکھایا گیا تھا۔ ان کا دماغ ماضی یاد کرنا چاہتا ہے اب۔ سوری اب ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ آپ کوشش کریں ان سے بات کریں۔ جو انہیں اچھا لگتا تھا وہ سب کریں۔ انہیں واپس سے حال میں لےکر آئیں۔ دنیا کا کوئ ڈاکٹر اس سٹیج پر ان کا علاج نہیں کرسکتا۔۔!!!"
روح کو جھٹکے لگتے تھے وہ چیختی تھی۔ چلاتی تھی۔ سارا سارا دن ویسے تو چپ ہی رہتی پر جب اسے ماضی یاد آنے لگتا تو وہ اس درد سے بے ہوش جاتی۔ لائبہ سارا دن اس کے ساتھ ہی گزارنے لگی۔ اس سے باتیں کرنا چاہتی پر افسوس اسے حال میں نہیں ماضی میں دلچسپی تھی۔
یوں ہی وقت گزرتا گیا۔ حسن کی زندگی بھی اسی کے ساتھ ہی رک گئ۔ اس نے بھی روح کے علاؤہ کسی اور کے بارے میں سوچنے کی کوشش نہ کی۔ لائبہ کے ساتھ وہ بھی اسے حال میں لانا چاہتا تھا۔
ایک دن قاسم اس کے ساتھ بیٹھا معمول کی باتیں کررہا تھا سارے دن کا احوال اسے سنارہا تھا۔ ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر سکرولنگ کرتے اپنی طرف سے اسے دنیا میں ہورہی تبدیلیاں بتاکر اس کی معلومات میں اصافہ کررہا تھا۔ جب اچانک روح کے دماغ میں باران کا نام گونجا۔
" قاسم ۔۔۔!!! تم باران آفریدی لکھ کر سرچ کرسکتے ہو۔ "
سالوں بعد اس کے منہ سے اتنا لمبا جملہ سن کر قاسم کی آنکھیں پھیلیں اس وقت گھر میں کوئ نہیں تھا۔ سب باہر گۓ تھے۔ وہ اکیلا ہی تھا۔ وہ خوشی سے چیخ اٹھا کہ اس کی پھپھو ٹھیک ہوگئ۔
اس نے فورا باران آفریدی لکھ کر آئ ڈیز سرچ کیں۔
روح کو امید تھی باران اسے دکھ جاۓ گا۔ اور دکھ بھی گیا۔ دا بزنس ٹائیکون باران آفریدی کونسا کوئ معمولی انسان تھا جو ڈھونڈنے پر نہ ملتا۔
روحیہ نے اس کے ہاتھ سے فون پکڑ اور باران کی تصویر دیکھنے لگی۔ قاسم نے بھی دوسرے فون سے اپنے ماں باپ اور ماموں کو گھر بلالیا۔ کہ روحیہ اس سے خود بات کررہی تھی۔
روحیہ نے گھنٹوں بیٹھ کر باران کی تصویر دیکھی۔ وہ تصویر میں بھی سنجیدہ ہی لگا اسے۔ کتنا بدل گیا تھا وہ۔ روحیہ نے اسے اس کی نیلی آنکھوں سے پہنچانا تھا۔ اور باران کی شکل اب بھی پہلی لک سے ملتی تھی تو وہ پہچان گئ اسے۔
اسے آہستہ آہستہ سب یاد آگیا۔ وہ کون ہے۔ ؟ باران کون ہے ؟ کیا ہوا اس کے ساتھ ؟ اس کے گھر والوں کی خود غرضی ...!!! وہ تھپڑ جو بے حیائ کا طعنہ بن کر پڑا..!!! اس کا ونی ہونا ..!! سارے ظلم ..!!!
سب یاد آگیا اسے۔۔!!! پھر باران کی شادی ( جو جھوٹ شنایہ نے بولا تھا ) وہ یاد آتے ہی وہ رونے لگی۔
قاسم اسے سنبھال نہیں پایا تھا تب تک علی اور لائبہ آگۓ۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کرکے بتادیا وہ ٹھیک ہورہی ہے اب۔ علی نے اس خوشی میں پورے ملک کے ہر یتیم خانے اور اولڈ ہاؤس میں تخائف اور مٹھائ بٹوائ کہ اللہ نے اسے اس کی بہن آج پھر واپس کردی۔
روحیہ نے بعد میں علی کو بھی سب بتادیا جو جو اس کے ساتھ ہوا۔ باران کے ذکر سمیت ۔۔۔!!!
" میرے بچے ۔۔!! تمہیں وہ اچھا لگتا ہے تو بتاؤ ایک دفعہ بس حکم کرو۔میں آخری حد تک کوشش کروں گا اسے تمہارے پاس لانے کی۔ بس رونا نہیں ہے تم نے۔ میرے شہزادے بھائ کی جان بھی قربان تم پر۔ بھلے ہم خون کی وجہ سے دنیا کو بہن بھائ نہ لگیں پر خدا جانتا ہے پچھلے بارہ سال سے میں نے تمہیں اپنی اولاد کی طرح پالا ہے۔ تم چھوٹی سی تھی جب مجھے ملی تھی۔ میں نے تب سے اب تک تمہاری حفاظت کی ہے۔ تم پر مجھے جان بھی دینی پڑے تو کوئ غم نہیں۔ بس بتاؤ کیا چاہتی ہو تم ۔۔!!!"
علی کی بات اور محبت بھرا انداز سن کر روح اداس دل سے بھی مسکرا اٹھی۔ وہ سچ ہی تو کہہ رہا تھا جب وہ اسے ملی تھی تب سے اب تک اس کی وجہ سے کوئ دکھ اسے نہیں جھیلنا پڑا۔ وہ تو اپنے سگوں سے زیادہ مان دیتا تھا اسے۔
اس کے سگے بھائ سے زیادہ پیار دیا تھا علی نے اسے۔ ان کا تعلق ہی جدا تھا۔ کون کسی غیر کے لیے اپنی نیندیں حرام کرتا ہے، جان دینے کو بھی تیار ہوجاتا ہے، علی تیار تھا اس پر جان دینے کو بھی۔
" شادی ہوچکی ہے اس کی بگ بی ۔۔۔!!! میں اتنی خودغرض نہیں ہوں جو اس کی خوشیاں چھینوں۔ جیسے وہ رہنا چاہتا ہے رہنے دیں۔ میرا نصیب اس سے کبھی جڑا ہی نہیں تھا۔میں نے بہت تنگ کیا نا اپنے بھائ کو۔ سوری ۔۔!! اچھی بہن نہیں ہوں میں۔ گندی بہن بن گئ ہوں جو اپنے بھائ کو تنگ کررہی ہوں۔"
دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے اپنے رخساروں پر بہتے موتی رگڑ کر روح نے مسکراتے ہوۓ علی کے ہاتھ تھامے۔ جو اس کے درد سے باخبر تھا۔ پر چاہتا تھا ہو وہی جو وہ چاہے۔
"سب بھول جائیں اب۔ اب سے ہم پہلے کی طرح خوش رہیں گے۔ کوئ دکھ نہیں کوئ ٹینشن نہیں۔ میں آپ، لائبہ آپی، قاسم اور محسن بس ۔۔۔!!!"
روحیہ نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ لیا تھا۔ جب باران سے وہ تھی ہی بدگمان تو کیوں اس کے پاس جانے کا سوچتی۔ علی نے سر جھکا کر حسن کا سوچا۔
" تم حسن سے شادی کرلو۔۔۔!!! بہت خوش رکھے گا وہ تمہیں۔اتنا خوش کہ تم سب بھول جاؤ گی۔ میری پرنسس بھیا کی بات مان لو اور اپنا لو اسے۔ اپنا نہیں سکتی تو بس ہاتھ تھامنے کی اجازت دو اسے۔ سچ میں وہ تمہارے سارے غم سمیٹ لے گا۔۔۔!!!"
بےتابی سے علی جواب کا منتظر تھا جب اپنے ہاتھ علی کے ہاتھوں سے نکال کر روحیہ نے سنجیدہ ہوتے ہوۓ حلق سے تھوک اتارا۔ وہ کیسے اس اب اس شخص سے نکاح کرنے کو تیار ہو جاتی جس کے وہ قابل ہی نہیں تھی۔
اسے سب یاد آگیا تھا کہ کیا کیا ہوا ہے اس کے ساتھ۔ اس وجہ سے اب اسے حسن اور اپنے بیچ کے فاصلے زمین اور آسمان جتنے لگے۔ سب جانتے بوجھتے حسن کے سر پر مسلط ہونے کو اس کا دل راضی نہ ہوا۔
" بھیا میں سب مان لوں گی بس حسن سے شادی نہیں۔بس یہ شادی کا لفظ میرے سامنے آپ کبھی نہ دہرانا بگ بی۔ مجھ میں خود سے لڑنے کی ہمت نہیں ہے ۔۔!!! بہت برا تجربہ ہے اس کا۔ اس کے علاؤہ مجھے سب منظور ہے۔ پر پلیز ٹراۓ ٹو انڈرسٹینڈ می۔ میں حسن سے شادی نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔!!!"
علی اس کی آنکھوں کا درد پڑھ رہا تھا۔ کتنی جلدیں تھیں اس درد کی کہ پڑھنے والے کا اپنا دل بھی کٹ جاۓ۔ پھر اس کے سامنے وہ اسی کی بات کو رد کرے ناممکن ۔۔۔!!!
وہ راضی ہوگیا۔ روحیہ کی خوشی سے زیادہ اسے کچھ عزیز نہیں تھا۔ حسن کو سب کچھ علی نے بتادیا۔ جس نے فقط اتنا کہا " وہ زندہ ریے اس کے علاؤہ اس کی کوئ خواہش نہیں۔۔۔۔!!!"
وہ ساری زندگی بھی انتظار کرے گا اس کا۔ بس ایک بار وہ بلاۓ وہ حاضر ہوگا۔
باقی اس شادی والی رات ہنگامہ مچانے والی عورت کو ساری انفارمیشن روح کے بارے میں اس گھر کی ملازمہ نے بتائ تھی۔ بس باتوں باتوں میں ۔۔!!!
اور اس ملازمہ کو اذیت ناک سزا دے کر روح کی ساری تکلیفوں کا بدلہ لے کر علی نے گھر سے باہر پھینکوا دیا تھا بہت پہلے ہی۔ جو جہاں کا کھائیں وہی کے لوگوں کی غیبتیں دوسروں سے کریں۔ایسے نمک حرام لوگ اس کے نزدیک ایسی ہی سزا کے حقدار تھے۔۔۔!!!!
۔باقی وہ دونوں عورتیں اب اس قابل نہیں تھی کہ کسی سے کچھ کہہ پاتیں۔ بول روح نہیں پاتی تھی تو الفاظ ان عورتوں کے سگے بھی نہیں تھے اب۔ رہی بات لائبہ کی تو اس نے ان لوگوں سے تعلقات محدود کرلیے۔ جو کسی بےقصور پر الزام تراشی کرسکتے ہیں ایسے سانپوں سے بروقت فاصلہ اختیار کرنا ہی مناسب ہوتا یے۔ کہیں وہ آپ کو ہی نہ ڈس لیں۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
وقت کو پر لگ گۓ۔ روح واپس سے روحیہ بن گئ۔ وہی جنونی روحیہ۔۔۔۔!!!! انسین لیڈی ۔۔۔!!!!
الٹے سیدھے ایڈونچرز کرنا اس کا شوق بنتا گیا ۔ وہ ماضی یاد آنے کے بعد اب ہر وقت مصروف رہتی تھی۔ اتنی مصروفیت اس کی صحت کے لیے نقصان دہ تھی پر اسے کہاں کسی کی انٹرفیرنس اپنی زندگی میں قبول تھی سواۓ لائبہ اور علی کے ۔۔۔!!!!
وہ دن بدن خود سے لاپرواہ ہوتی گئ۔ کھانا کب آخری بار کھایا اسے اب بھی یاد نہیں ہوتا تھا۔ کبھی تو دن گزر جاتے اور کبھی کئ کئ راتوں تک وہ سوتی ہی نا۔ ذہن کو مصروف کرنے کی اسے اس حد تک عادت تھی کہ ایک منٹ فرصت کا اس کے نزدیک آدھا گھنٹہ تھا۔
وہ علی کی ڈانٹ کھاکر کبھی ان کے ساتھ ٹرپ پر چلی جاتی تو کبھی حسن کے لیے رشتے ڈھونڈتی رہتی۔ یہ اس کا مشغلہ تھا ۔۔۔!!!
وہ خوش نہیں تھی۔ اسے پاکستان جانا تھا۔ تب علی نے باران کی انفو نکلوانا شروع کی۔ باران سیکرٹ ایجنٹ ہونے کی وجہ سے اس کی نظروں میں جلدی نہ آیا۔ پر آج سے چار سال پہلے جب اس کی فلائیٹ پاکستان کی سر زمین پر اتری تھی وہ انفو علی کے کام آگئ۔
اس نے روحیہ کے علاقے میں اس وادی کے آس پاس ہر جگہ اسے ڈھونڈا پر معلومات کے مطابق وہ پاکستان میں ہی تھا پر کہاں تھا کسی کو خبر نہیں تھی۔
پھر علی کا ٹارگٹ وہ دلاور تھا۔ جس نے روحیہ کو مارنے کی کوشش کی۔ وہ اسے مروانا چاہتا تھا۔ اسنے اس کی خفیہ فورس میں اپنے بندے شامل کیے۔ جہاں سے اسے بادل خان کا پتہ چلا۔
دونوں کے کام کرنے کا طریقہ ایک سا تھا تو باران ہی بادل ہے علی نے پتہ لگوالیا۔
اس کی مکمل انفو اکٹھی کرکے علی نے اپنی بہن کے سامنے رکھ دی۔ کہ یہ ہے تمہارا باران ۔۔ !!! سیکرٹ ایجنسی میں کام کرتا ہے۔ اور دلاور نامی مشن پر پچھلے چار سال سے پاکستان میں ہی ہے۔ اس نے کسی سے شادی کی ہے یا نہیں وہ نہیں جانتا۔ نا یہ جانتا ہے کہ یہ شخص اسے یاد بھی کرتا ہے یا نہیں۔
کیونکہ اسے اس کے دماغ تک رسائ نہیں ملی۔ لیکن وہ چاہتا ہے اس کی بہن کوئ فیصلہ لے۔
اب وہ سوچ لے کیا کرنا ہے اسے۔ کیونکہ علی کی بہن ہونے کے ناطے اسے اس شخص کو آزاد چھوڑنا زیب نہیں دے گا۔
روحیہ نے ساری انفو دیکھی باران کی۔ تب اس کا دل کیا اپنے اس بھائ پر خود کو ہی وار دے۔ کیا شخص تھا یہ ۔۔۔!! جو بن کہے ہی اس کے دل کی باتیں تک جان لیتا تھا۔ اگر کوئ روحیہ سے کہتا تمہارا تو نصیب ہی سیاہ ہے۔ نااولاد کا کچھ اتہ پتہ نا محبت کی کوئ اطلاع ۔۔!! نا سگوں کو کوئ فکر نہ کوئ جانتا ہے کہ تم زندہ ہو۔ تو کیا دیا اس زندگی نے تمہیں ۔۔!!!
تب وہ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں بتاسکتی تھی کہ اس زندگی نے اسے علی جیسا بھائ دیا۔ لائبہ جیسی بہن دی۔پیاری سی وہ فیملی دی جو اس کی تکلیفوں کا صلہ تھے۔۔۔!!!!
پھر روحیہ نے اپنا پلان بنایا۔ خطروں سے کھیلنے کا شوق تو اسے تھا ہی۔ تو اس نے سوچا کیوں نہ اب اپنے گھر والوں کو بھی بتادیا جاۓ وہ مری نہیں ذندہ ہے۔
اپنے مجرموں کی سانسیں بھی چھینی جائیں۔ اور باران بھلے شادی شدہ ہو پر اس محبت کی سزا اسے شادی کی صورت میں دی جائے جس نے روح کو برباد کیا تھا۔ وہ کیوں اس محبت کو لاحاصل رکھے۔جب قسمت نے موقع دیا ہے تو اسے باران چاہیے۔۔۔!!!
پورے حق کے ساتھ ۔۔۔!!!!
وہ مسکرائ۔ پورے دل سے ۔۔۔!!!
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
لائبہ کے پیر تک پکڑ لیے اس نے منت کرتے ہوئے کہ وہ اس کی سفارش کرے علی سے کہ اسے اکیلے جانے کی اجازت دی جاۓ۔ جو راضی تو نہیں تھی۔ جانتی جو تھی وہ ایک دفعہ طے کرنے کے بعد باران کو حاصل کرلے گی۔ اور حسن کی خوشیاں اس سے ہی جڑی ہیں۔ اپنا بھائ اسے پیارا تھا۔ پر خودغرض نہیں تھی وہ تو اس نے بہت فورس کرنے کے بعد علی کو منالیا۔
" صرف ایک شرط پر اسے اجازت دوں گا میں یہاں سے جانے کی۔ اگر یہ اپنی حفاظت کرے گی تو۔ میرے گارڈز، بھروسے مند لوگ سب ہمہ وقت اس کے ساتھ رہیں گے۔ اسے خراش بھی آئ تو سب چھوڑ کر واپس آنا ہوگا اسے۔ ورنہ میں اسے تکلیف دینے والے کی شکل بگاڑنے میں ایک لمحے کی دیر نہیں کروں گا ۔۔۔!!!"
علی نے سختی سے کہا۔ تو مسکراتے ہوئے روحیہ اس کے گلے لگ گئ۔ جو خفا تھا پر راضی ہوجاتا بعد میں۔
" میں اپنا بہت خیال رکھوں گی بگ بی ۔۔۔!!! اتنا خیال رکھوں گی کہ گرم ہوا بھی مجھے نہیں چھوۓ گی۔۔۔!!! بس جلدی آپ کے فیوچر برادر ان لاء کو ذلیل کرکے اسے دن میں تارے دکھا کر اپنے ساتھ یہاں لاؤں گی۔ بھلے مجھے اس کی طلاق ہی کیوں نہ کروانی پڑے۔ پھر ہم بڑی سی دعوت رکھیں گے۔ اور سب کو بتائیں گے یہ ہے روح کا شکار ۔!!!'
فخر سے فرضی کالر جھاڑتے ہوۓ روحیہ نے بے نیازی دکھائ۔
علی نے بس ہممم پر اکتفا کیا۔ ورنہ روح کو بھیجنے پر اس کا دل راضی نہیں تھا۔ علی نے اس کے ڈاکومنٹس آفیشلی چینج کروادیے۔ کیونکہ اسے پتہ تھا کوئ بھی اس کی انفو ضرور نکلوانے کی کوشش کرے گا۔
پاکستان میں اس کی جاب اور رہاہش کا انتظام کرکے اس نے بالآخر اسے اجازت دے دی۔
ایک مہینہ پہلے روح نے اسی سر زمین پر قدم رکھے جہاں سواۓ درد کے کچھ نہیں ملا تھا اسے۔ اچھی یادیں تو تکلیفوں کی نظر ہوچکی تھیں۔ یہاں آکر اس نے اپنی فیملی کی ڈیٹیل نکلوائ۔ اپنے بھتیجے اور بھتیجی کو دیکھ کر اس کا دل خوشی سے نہال ہوگیا۔
بہت چھوٹے تھے یہ دونوں جب اس نے انہیں چھوڑا تھا اب تو ماشاءاللہ سے دونوں کی شادی ہوچکی تھی۔
پر شنایہ اس کے دونوں بچوں کی ساس ہے یہ بات اسے کڑوی لگی۔ بس نہ چلا اس شنایہ کا قتل کردے وہ۔ راسم کے گھر والوں کا جان کر زرا افسوس نہیں ہوا تھا اسے۔
بس زمین کا بوجھ ہی کم ہوا تھا وہ کیوں آنسو بہاتی۔ جتنا درد اسے ان لوگوں نے دیا تھا اس کے دل نے خواہش کی کاش انہیں اس سے بھی بری موت ملتی۔
ایک دن ہسپتال کے راستے پر اسے دلاور خان مل گیا۔ جسے دل کا دورا پڑا تھا اور اس کی گاڑی بھی خراب تھی۔ ہمدردی میں ہی سہی روح نے اس کی جان بچالی۔ پر بعد میں پتہ چلا وہ ہے کون۔
تب افسوس ہوا اسے کہ اس نے اسے مرنے کیوں نہیں دیا۔۔۔۔!!!
اس دن حویلی وہ اسے مارنے کے ارادے سے ہی گئ تھی تب اس نے سوچا جب اس کا یہ کام بادل کررہا ہے تو وہ کیوں اپنے سر پر خون کا الزام لے تو اسے بس کاکروچ مارنے والی دوا دے کر بادل سے بات کرکے وہ واپس چلی گئ۔ کیمراز ڈیٹیکٹنگ ڈیوائس تھی اسکے پاس وہ جہاں سے گزرتی وہاں کے سیکرٹ کیمراز اس کی ڈیوائس سے کنیکٹ ہوجاتے تھے۔ تو یونہی ایک کیمرے میں اپنے بادل کو دھمکی دے کر وہ اپنا کام ختم کر آئ۔ اب اسے ایک ہفتہ پورا ہونے کا انتظار تھا نکاح کے لیے۔۔۔!!!!
جو ہوکر ہی رہتا۔۔۔۔!!!!!!! ہر قیمت پر۔۔۔!!!!!!
بس یہ تھا اس کا ماضی ۔۔۔!!!
روح سے روحیہ بننے کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
آنکھوں سے پانی کے قطرے نکل کر اس کے ماسک میں جذب ہونے لگے۔ بس چند لمحوں میں اسے اپنی پوری زندگی یاد آگئ تھی۔
علی کی مسلسل آتی کال کی رنگ ٹیون نے اس خیالوں سے نکالا۔ تو کانپتے ہاتھوں سے روحیہ نے سٹیرنگ پکڑنے کی کوشش کی۔
" بی بریو روحیہ ۔۔۔!!! تم خود سے قابو نہیں کھوسکتی۔ باران کے پاس پہنچ کر تم کیسے پیچھے ہٹ سکتی ہو۔۔۔!!!"
اپنی آنکھیں بند کرکے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں میں سانس لینے کی ناممکن سی کوشش کرکے روحیہ نے خود کو فورس کیا کہ وہ ہوش میں رہے۔
دائیں ہاتھ کی پشت سے اس نے اپنی پیشانی پر آئ نمی پونچھی پھر اچانک ہی سٹیرنگ گھماکر اس نے زہر لب آیت الکرسی کا ورد کرتے ہوۓ گاڑی کو زور سے بریک لگائی۔ اتنی زور سے کہ پوری گاڑی سمیت اس کا اپنا وجود بھی آگے کی سمت اٹھا پھر جھٹکے سے پیچھے گرا۔
سڑک پر دھول گہرے بادل کی طرح چھاگئ۔ سامنے کھڑے بادل نے اچھنبے سے اس گاڑی کو دیکھا۔ اسے چلانے والے پر اسے پاگل ہونے کا گمان ہوا۔ بھلا یہ کوئ جگہ تھی سٹنٹ کرنے کی۔
نچلے دانتوں پر بالائ دانت سیدھ میں جماکر بادل نے اس گاڑی سے تین انچ دور ختم ہوتی سڑک کو غصے سے دیکھا۔
" پاگل ہو یا پھر جان بوجھ کر یہ حرکت کی ہے تم نے۔ابھی گاڑی کھائی میں گرجاتی۔ کوئ ہوش ہے تمھیں۔۔۔!!!"
"تیرے ہر غم کو اپنی روح میں اتار لوں
زندگی اپنی تیری چاہت میں سنوار لوں
ملاقات ہو تجھ سے کچھ اس طرح میری
ساری عمر بس اک ملاقات میں گزار لوں۔۔۔!!!!!"
بادل نے آگے بڑھ کر گاڑی میں بیٹھی اس لڑکی پر اپنی غصے سے سرخ آنکھیں گاڑ دیں۔ جو کب سے بےیقینی کے عالم میں تھی کہ وہ زندہ ہے یا مر چکی ہے۔
اس آواز کا سننا تھا جب روحیہ نے دائیں طرف غصے سے جوالہ مکھی بنے بادل کو دیکھا۔ اس وقت بادل اپنے گیٹ اپ میں تھا پر روحیہ تو اس کے ہر انداز سے واقف تھی۔ دل رکا پھر دھڑکا۔
سالوں بعد وہ یوں اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کی وہ نیلی آنکھیں۔۔۔!!! روحیہ کو لگا سارا جہاں انہی آنکھوں میں بستا ہو۔
" ہوش ہی تو نہیں یے کسی بھی چیز کا بادل۔ تم بن زندگی پہلے ہی موت ہے۔ تو کھائ میں گرکر کیا بنا ہوجاتا۔ میں پاگل ہی ہوں جان بوجھ کر کچھ نہیں کرتی۔۔۔!!! "
سب بھول کر اچانک روحیہ نارمل ہوگئ یا یوں کہیں کہ نارمل ہونا پڑا اسے۔ وہ اس شخص کے سامنے کمزور پڑنا نہیں چاہتی تھی۔ باران اس کی آنکھیں ٹھیک سے نہ دیکھ سکا۔ پر اس کا یہ لہجہ پھر ماسک پر بنی بٹر فلاۓ اسے سمجھاگۓ یہ انسین لیڈی ہے۔۔۔!!!
" مجھے پتہ ہوتا کھائ میں گرکر مرنے کے ارادے سے تم مجھے ملو گے تو قسم لے لو میں سالوں پہلے خود کو اس کھائ کے حوالے کردیتی۔ ویلکم بیک ان ماۓ لائف بادل۔ فیوچر ہبی اپنی اس پاگل منگ کو شرف ملاقات بخشنے کا شکریہ ۔۔۔!!! 2024 کی پہلی ملاقات مبارک ہو ۔۔۔!!!"
آگے بڑھ کر گاڑی کے دروازے کے سہارے اٹھ کر روحیہ نے جلادینے والے انداز میں کہا۔
یہ لڑکی اور اس کی شرم و لحاظ سے عاری باتیں بادل نے ضبط سے دایاں ہاتھ مٹھی کی صورت میں بھینچ لیا۔
" کون سا فیوچر ۔۔۔!!! کون سا شوہر ۔۔۔!!! کیوں مرنا چاہتی ہوں میرے ہاتھوں سے۔ کھائ سے تو بچ گئ مجھ سے نہیں بچو گی۔ اچھا ہوا یہ شرف ملاقات تم نے مجھے بخش دیا۔ میں بھی ڈھونڈ رہا تھا تمہیں اس دنیا سے باہر پھینکنے کے لیے۔ کیوں میرے پیچھے پڑی ہو ۔۔ !!!"
اسے سمجھنے کا موقع دیے بغیر باران نے خون آشام آنکھوں سے اسے گھورتے اس کی گردن اپنی فولادی ہاتھوں کی گرفت میں لی۔ اسے عورت ذات پر ہاتھ اٹھانا نہیں پسند تھا پر اس وقت تک جب تک وہ عورت اس کی روح کی جگہ نہ لینا چاہے۔ سامنے کھڑی روحیہ پہلے تو اس افتادہ پر ساکت رہ گئ پھر زخمی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر رینگنے لگی۔
" تم میرا فیوچر ہو ۔۔!! تم ہی میرے شوہر ہو۔ کھائ نے تو اپنی آغوش میں نہیں لیا تم نہ چھوڑنا۔ میں ہاتھ منہ دھو کر پیچھے پڑی ہو تمہارے۔ ٹرسٹ می موت کے علاؤہ اب مجھے تم سے کوئ جدا نہیں کرسکتا۔ میں چڑیل سے بھی چار ہاتھ آگے ہوں۔۔۔!!!"
گردن پر گرفت ابھی ہلکی تھی تبھی روحیہ نے مضبوط لہجے میں اسے جواب دیا جب اچانک ہی گردن پر بادل کی انگلیوں کی مضبوط ہوتی گرفت پر اس کی مسکراہٹ بھی گہری ہوتی گئ۔ بادل کے ذہن میں روح کی یادیں گھومیں۔ کوئ لڑکی کیسے اس سے شادی کی بات کرسکتی تھی ۔۔۔!!!!
" بکواس بند کرو اپنی۔۔۔!!! ورنہ میں یہیں مار کر پھینک دوں گا تمہیں۔ کیا چاہتی ہو مجھ سے۔ کس کے کہنے پر میرے پیچھے آئ ہو۔ بتاؤ مجھے ۔۔۔!!!"
روحیہ کا چہرہ تکلیف سے سرخ پڑنے لگا۔ باران اپنے ہوش میں نہیں تھا۔ جبکہ روحیہ تو اسی کی آنکھوں میں گم تھی۔ پاگل تھی وہ سچ میں پاگل ۔۔۔!!!
" ت۔تمہارے ہاتھ سے موت قبول ہے مجھے پر ابھی نہ مارو۔ ہمارے فیوچر کے بچوں کا کیا ہوگا اگر میں ہی نہ رہی تو۔ ان کے بابا ذرا ان کی ماں پر رحم کرو۔ میں تمہیں چاہتی ہوں۔ دل کے کہنے پر تمہارے پیچھے آئ ہوں۔۔!!"
سانسیں کم پڑ رہی تھیں۔ پر اس سے ملاقات کی خوشی ہی اتنی تھی روحیہ کا بس نہ چلا ہواؤں میں پرواز کرکے اس ملاقات پر جھوم اٹھے۔
باران نے گرفت آخری حد تک سخت کی۔ اتنی سخت کہ اب اسے بھی محسوس ہوا اگر چند سیکنڈز اس نے روحیہ کو نہ چھوڑا تو وہ مرجاۓ گی۔ اوپر سے روحیہ کا سکون جلتی پر تیل کا کام کررہا تھا۔
" ب۔بادل بڑے ہی ظالم ہو تم۔پہلی ملاقات میں تو نہ مارو۔ ورنہ بعد میں روتے پھرو گے۔ م۔میرے جیسا کوئ نہیں ملنا تمہیں۔۔۔!!!"
گردن میں اٹھتے درد کی وجہ سے ہنستے ہوۓ روحیہ نے شرارت سے کہا تو اس بار خود ہی اس پاگل سے تنگ آکر باران نے اسے چھوڑ دیا جو اپنی سیٹ پر پیچھے کی طرف گری۔ چہرہ تو باران سے چھپا تھا۔ پر باران سمجھ نہ پایا اسے ہاتھ لگانے کے بعد اسے اپنے ہاتھ سے کراحت کیوں محسوس نہ ہوئ۔ ورنہ تو اسے اصولا اپنے ہاتھ دھونے کی فکر کرنی چاہیے تھی۔ یہ کونسا اس کی روح تھی۔
پر ہاتھ پر چھائ سرخی دیکھ کر یوں لگا جیسے روحیہ کو چھو کر یہ کھل اٹھا ہو۔ اس نے جیسے اس کا نام لیا تھا باران کے دل کی دنیا میں زلزلے آگۓ۔ وہ خود پر قابو نہیں رکھ پارہا تھا۔
اس نے فورا خود کو احساس دلایا کہ اس کے دل کی ملکہ بس روح ہے بس روح ۔۔۔!!!
فون کی بیل مسلسل بج رہی تھی دوسری طرف بیٹھے علی کی سانسیں اس وقت ناہموار تھیں کہ اس کی بہن اس کا فون کیوں پک نہیں کررہی۔ روحیہ نے کانپتے ہاتھوں سے پانی کی بوتل اٹھائ پھر اپنا ماسک اتارا۔ اسے وہ اتارنا تو نہیں تھا پر ابھی مجبوری تھی۔
کیپ اتار کر اس نے سامنے رکھ دی اور کانپتے ہاتھوں سے پانی کی بوتل منہ کو لگا کر پینے لگی۔ باران کی نظریں پھر سے بھٹکیں۔ اب اس نے روحیہ کے رخسار اور تھوری تک چمکتے تل دیکھے۔ وہ ششدر رہ گیا۔ سانسیں چلنے سے انکار کرنے لگیں۔ یہ تل تو اس کی روح کے چہرے پر تھے۔
باران کا لرزتا دل اور ان تلوں پر جمی آنکھیں اسے محسوس ہوا یہی روح ہے ۔۔۔!!!
دماغ نے کہا وہ مرچکی ہے پر وہ تو سامنے تھی۔ تبھی سرجری کے باوجود روح نے اپنی شکل چند لوگوں سے چھپائ تھی اسے پتہ تھا یہ اسے پہچان جائیں گے۔
باران فورا اس کا رخ اپنی طرف کرکے ان تلوں کو دیکھنے لگا۔ اس دوران روح کی سسکی اس نے سنی تھی۔ جس کو محسوس ہوا گردن کی ہڈی چٹخ گئ ہو۔یہ تین تل ۔۔۔!!!! اسے کسی قابل نہ چھوڑ گۓ۔ وہیں پیشانی پر ہلکی سی خون کی لکیر بھی جمی ہوئی تھی جو سٹیرنگ لگنے سے نکلا تھا۔
روحیہ نے گھبرا کر اسکی آنکھوں میں موجود انگنت رنگ دیکھے۔ جہاں انسیت کی چمک تھی۔
" اوۓ بےصبرے انسان ۔۔۔!!! میں نامحرم ہوں تم پر۔ دور رہو کیوں نظر لگارہے ہو ان تلوں کو۔ کبھی مجھ جیسی حسین لڑکی نہیں دیکھی کیا۔ پاگل انسان پہلے گلا دبا رہا تھا اب آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھ رہا ہے۔۔ !!! پہلے نکاح ہونے دو پھر دیکھ لینا جی بھر کر۔۔۔۔!!!"
اپنے رخسار سے اس کا ہاتھ جھٹک کر روحیہ نے پانی کی بوتل ایک سانس میں ختم کرکے سائیڈ پر رکھی اور جھک کر اپنا فون اٹھایا۔
باران نے حلق تر کیا۔ یہ اس کی روح نہیں ہوگی۔ اس کے دماغ نے کہا۔۔!!! ہو بھی سکتی ہے ۔۔!! دل نے بھی وہم ڈالا۔
" وہ جاچکی ہے اس دنیا سے۔ محض تل اس جیسے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ لڑکی وہی ہے۔ دکھنے میں بھی پچیس چھبیس سال کی ہی لگ رہی ہے لیکن میری روح اس عمر کی نہ ہوتی اگر ہوتی تو ۔۔۔!!! اس کی باتیں اور انداز میری روح کا نہیں یے۔ یہ نہیں ہے میری روح ۔۔۔!!!"
چہرے پر آیا پسینہ صاف کرتے مارے اضطراب کے وہ خود کو دلیلیں دینے لگا۔
" اوۓ تمہارے سالے صاحب کا فون آیا ہے اس وقت۔ منہ بند ہی رکھنا۔ نہیں تو میرا گلہ دبانے کی گستاخی پر ہاتھ کٹوا دیں گے وہ تمہارے۔ بڑی پہنچی ہوئ چیز ہیں وہ۔ بڑے غلط بندے کی بہن نے دل ہارا ہے تم پر۔ اب صبر کرنا ہوگا تمہیں۔!!!"
خیالوں میں الجھتے باران نے اس لڑکی کی ہدایت پر دانت کچکچاۓ۔ یہ روح نہیں تھی۔۔۔۔!!!
پھر اپنی پیشانی پر جما خون سامنے رکھے ٹشوز سے رگڑ کر روحیہ نے صاف کیا۔ جیسے وہ خون نہیں کیچپ ہو۔ اسے درد نہیں ہوا تھا زرا بھی نہیں۔
اپنا دوپٹہ مفلر کی صورت میں گردن کے گرد لپیٹ کر روحیہ نے جلدی سے فرنٹ مرر سے دیکھتے اپنی حالت درست کی۔
سر پر کیپ لگاکر اس نے اپنا زخم بھی چھپالیا۔
باران دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ کیا عجیب مخلوق تھی وہ۔ کوئ اور لڑکی ہوتی تو اس چوٹ اور گردن پر بنے نشانوں پر رو رو کر مردے بھی جگادیتی۔ درد سے اس وقت بلبلا رہی ہوتی۔پر یہاں انسین لیڈی تھی۔ جسے چھوٹے موٹے زخم محسوس ہی نہیں ہوتے تھے۔
" بگ بی ۔۔۔!!! سوری لیٹ کال پک کرنے کے لیے ایکچوئیلی فون سائیلنٹ پر تھا۔ تو میں نے کال نہیں دیکھی۔ پھر آپ کا دشمن نمبر ایک بھی راستے میں مل گیا تو اس کی وجہ سے میں دھیان ہی نہ دے پائ۔ آپ بتائیں سب حیریت تو ہے نا لائبہ آپی کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا اور قاسم اور محسن بھی ٹھیک ہیں نا ۔۔۔!!! آپ کو تو کچھ نہیں ہوا نا ۔۔۔!!!"
کال پک کرتے روحیہ کا لہجہ نارمل تھا۔ بالکل نارمل جیسے کچھ دیر پہلے جو ہوا اس کا وجود ہی نہ ہو۔
علی نے پہلے تو اس کی شکل بغور دیکھی جہاں درد کا نشان بھی نہ تھا پھر سکون کا سانس لیا اس نے کہ وہ ٹھیک ہے۔
" روحیہ ۔۔۔!!! پاکستان جانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تم مجھے بھول جاؤ۔ یا سیکنڈ آپشن بنادو۔ یہاں تو سب ٹھیک ہے پر تم نے جان نکالنے میں حد کرتی آج۔ اتنی دیر سے میں کال کررہا ہوں کوئ احساس ہے تمہیں اپنے بھائ کا ۔۔۔!!!"
علی کی شکایت سن کر روحیہ کے لبوں پر جاندار سی مسکراہٹ آئ۔ وہیں اس کا نام روحیہ ہے سن کر بادل نے دل کو سمجھایا کہ فضول میں وہم نہ پالا کرے۔ مر کر کوئ واپس نہیں آتا۔
" اوووو ماۓ پرنس ۔۔!! آپ جیلس ہورہے ہیں۔ کیا ہوگیا ہے آپ کو بھائ۔ آپ کی پرنسس کی فرسٹ ایور چوائس آپ ہو۔ آپ کے سامنے تو کسی کی بھی کوئ ویلیو نہیں۔ پھر وہ میرا فیوچر ہبی ہی کیوں نہ ہو۔ آپ تو جان ہیں میری ۔۔۔!!!"
آنکھیں ترچھی کرکے روحیہ نے باران پر نظر ڈالی جسے اس لمحے روحیہ زہر لگ رہی تھی۔
آخر زہر ہی تو نس نس میں اتر کر تباہی مچاتا ہے۔ وہ تباہ کرگئ محض چند منٹوں میں اسے اس کے ضبط سمیت۔۔۔۔۔۔۔!!!!!
" میرے شہزادے۔۔!!! ابھی بھی وقت ہے حسن کے بارے میں سوچ لو۔ وہ سچ میں محبت کرتا ہے تم سے۔ انتہا کی محبت۔ تبھی تو ایک دفعہ اف نہیں کی اس نے اور دستبردار ہوگیا تم سے ۔۔۔!!! اس کی محبت کے سامنے یقین جانو تم ساری دنیا بھول جاؤ گی۔ ماۓ پرنسس ایک دفعہ ٹھنڈے دل سے سوچو جو تم سے عقیدت بھرا عشق کرتا ہے وہ بعد میں کیا رہ پاۓ گا تمہارے بغیر ۔۔۔!!! پلیز بیٹا ۔۔۔!!! چھوڑ دو سیراب کے پیچھے بھاگنا۔۔۔۔!!!!"
علی کے سامنے لائبہ بیٹھی تھی جس کی آنکھوں میں اس وقت آنسو ہی آنسو تھے۔ وجہ وہی حسن والی بات تھی۔ وہ چپ ہوگیا تھا روحیہ کے جانے کے بعد اور اس کی چپ ایک بہن برداشت نہیں کرپارہی تھی۔ روحیہ نے گہرا سانس بھرا۔ گاڑی کے باہر کھڑا بادل یکسر انجان تھا کہ وہ کیوں یہاں کھڑا اسکی باتیں سن رہا ہے۔۔۔!!!
پر وہ چاہ کر بھی وہاں سے جا نہ سکا۔
" چار دن دے دیں مجھے۔ اگر سیراب سیراب ہی نکلا تو وعدہ رہا پانچویں دن خود آکر نکاح نامے پر دستحط کروں گی۔ لیکن اگر سیراب حاصل ہوگیا تو پانچویں دن حسن سمیت آپ سب اس حقیقت کو قبول کریں گے کہ میں حسن کے قابل نہیں تھی۔ اوکے بھیا۔۔۔۔!!! چار دن آزادی کے ہیں اب بس بعد میں قید ہی ملنی ہے ۔۔۔!!!"
روحیہ کی بات سن کر کسی حد تک ہی سہی علی اور لائبہ پرسکون ہوگۓ. علی کو اب بھی لگتا تھا کہ باران اس رشتے سے راضی نہیں ہوگا۔ بھلا جس لڑکی کو اس نے چھوڑا تھا وہ کیوں اب نکاح کرے گا اس سے۔ قبائیلی سوچ رکھنے والے لوگ اس کے نزدیک ایسے ہی تھے۔
" ٹھیک ہے بیٹا ۔۔!!! ابھی تم اپنا خیال رکھنا۔ یاد ہے نا اپنا وعدہ تم خود کو حراش بھی نہیں پہنچنے دو گی۔ اللہ حافظ ۔۔۔!!!"
نرم سے انداز میں اسے اس کا وعدہ یاد دلاتے ہوۓ علی نے کال کاٹ کر فون سامنے رکھ دیا۔ دوسری طرف روحیہ نے بھی اپنی چوری پکڑی نہ جانے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔
" کونسا ڈرامہ ہورہا ہے یہاں۔۔۔!!! یہ کس کو بے وقوف بنارہی ہو تم ۔۔۔!!!! مس روحیہ زہرہ ۔۔۔!!! شرافت سے جہاں سے آئ ہو وہاں ہی چلی جاؤ واپس۔ ورنہ اگر میں نے بھیجا تو سیدھا قبرستان لینڈ کرو گی۔۔۔!!!"
اس کی جانب جھک کر اپنی لال انگارہ آنکھیں اس کی بے خوف آنکھوں میں گاڑھ کر بادل نے دبی دبی غراہٹ سمیٹ اسے وارن کرنا چاہا۔ جو اسی سکون سے مسکرائی تھی۔
" جہاں آنا تھا وہیں آئ ہوں میں۔۔۔!!! ہمت ہے تو بھیج دو جہاں دل کرے تمہارا۔ ابھی مجھے ٹھیک سے جانتے نہیں ہو تم۔ روحیہ زہرہ ہوں میں۔ تمہیں وہاں لے جاکر بےبس کروں گی کہ تم بھی کانپ اٹھو گے۔ ابھی قرض باقی ہے تم پر توجان بخش دی میں نے تمہاری۔۔۔!!! بس چار دن پھر تم بتانا ہم دونوں میں سے زیادہ طاقت ور کون ہے۔۔۔۔!!!! بادل خان یا انسین لیڈی ۔۔۔!!!! "
اس کے سینے پر دباؤ بڑھا کر اس نے اسے دور کرتے بےخوف انداز اپناکر وہ جواب دیا جو باران کے تن بدن میں آگ لگاگیا۔
وہ اس وقت سلگ رہا تھا کہ یہ ڈر کیوں نہیں رہی اس سے۔ کس مٹی کی بنی ہے یہ۔ بالکل پاگل ہے یہ ۔۔۔!!!!
باران اسے گھورنے میں مصروف تھا جب اچانک روحیہ نے گاڑی سٹارٹ کی اور یہ جا وہ جا ۔۔۔!!!!!
باران پر رعب جھاڑ کر روحیہ کو اتنا سکون ملا تھا کہ باقی کے راستے اب وہ کوئ الٹی سیدھی حرکت نہ کرتی۔
وہیں باران تو اب غصے سے پھٹنے والا تھا۔ اس نے اپنا فون نکال کر کسی کو کال ملائ جو ایک سیکنڈ سے پہلے پک کرلی گئ۔
دل اور دماغ کی اس جنگ میں بادل الجھ گیا۔ دل کہہ رہا تھا یہ تمہیں حاصل کرکے چھوڑے گی اور دماغ کہہ رہا تھا باران تم تو عاشق تھے کسی اور کے ہوۓ تو روح کو کیا صورت دکھاؤ گے؟
" یہ پاگل لڑکی جان بوجھ کر مجھے میری روح کی نظروں میں گرانا چاہتی ہے یہ نہیں جانتی کہ اس کا انجام اس کی موت کی صورت سامنے آۓ گا۔ بس بہت ہوگیا میرے راستے میں آنے کی سزا ملے گی اسے۔ اسے مرنا ہوگا ۔۔۔۔"
وہ پاگل ہونے لگا تھا اس جنگ میں۔ اتنا کہ ایک لمحے میں آج اس نے ایک بے قصور کو مارنے کا ارادہ کرلیا۔
وہ محسوس کررہا تھا ایک دفعہ اسے چھونے پر ہی سالوں سے بےچین روح میں قرار اتر گیا۔ ایسا قرار کہ کب سے اس کی روح کا دیا ہوا وہ 'پر' زمین پر گرا تھا اور باران کو اسے اٹھانے کی بھی ہوش نہیں تھی۔ وہ لڑکی باران کا ایمان ڈگمگا گئ تھی۔ عشق خطرے میں پڑگیا تھا۔
ہاں وہ جنونی تھا۔ سائیکو تھا ۔۔۔!!!!!! اس نے اپنی ہی روح کو مارنے کا فیصلہ کرلیا۔ روح کی وجہ سے ۔۔۔!!!
" گاڑی نمبر P-3426-x اس وقت میری لوکیشن سے دور مین شاہراہ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اسے شاہراہ سے آگے جانے کی اجازت نہیں۔۔۔!!!! کچھ بھی کرو اس میں جو بھی بیٹھا ہے مجھے یہ زندہ نہیں چاہیے۔ مار دو اسے ۔۔۔!!! یاد رکھو اسے مارنا ہے تمہیں ۔۔۔!!!"
اس نے کرختگی سے کہتے ہی اپنا فون آف کرکے اس پر کو اٹھایا۔
" روح آۓ ایم سوری ۔۔۔!!! میں نہیں مارنا چاہتا اسے۔ جانتا ہوں اس کے بعد جنت میں بھی میں تمہارے پاس نہیں آسکوں گا۔ پر مجھے جہنم قبول ہے لیکن تمہارے سامنے شرمندہ ہونا قبول نہیں۔ یہ پہلا ناحق قتل ہوگا میرے ہاتھوں۔ معاف کردینا مجھے۔۔۔!!!"
اس پر کو واپس سے اپنی پاکٹ میں رکھ کر باران وہیں گاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔ دل کہہ رہا تھا پاگل مت بنو۔۔۔!!!
ہو سکتا ہے وہ مزاق کررہی ہو۔ کیوں اللہ کے سامنے اپنی ساری زندگی کے اعمال ضائع کروانا چاہتے ہو۔
پر دماغ نے کہا ٹھیک کررہے ہو تم یہ بادل ۔۔۔!!! مار دو اسے۔ وہ اسی کے ہی قابل ہے ۔۔۔!!!
اور بس دس سیکنڈز کا الٹا کاؤنٹ ڈاون دیا اس نے۔ اور اگلے ہی لمحے میسج اسے موصول ہوگیا وہ لوگ گاڑی اڑاچکے تھے ۔۔۔!!!
جس روح کے انتظار میں باران نے سالوں گزارے آج دل میں بسی روح کی خاطر اسے مار دیا۔ اس نے اپنی ہی محبت کا گلا اپنے ہاتھوں سے گھونٹ دیا۔
وہ ڈر گیا تھا روحیہ کے ارادوں سے۔ اگر وہ اس کی روح ہوتی تو اب حالات مختلف ہوتے۔
پر باران نے سب ختم کردیا۔۔۔۔!!!!! سب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!
جس سے بچ پائیں نہ وہ گھات بنا لیتے ہیں
ہم تخیل میں تری ذات بنا لیتے ہیں
میسج پڑھنے کے بعد باران کا سانس اٹکنے لگا۔ ایک دم سے اسے خیال آیا کہ اس نے کیا کردیا اس لڑکی کے ساتھ۔ وہ قاتل بن چکا ہے۔
جب بھی تنہائی کے عفریت سے ڈر لگتا ہے
اپنے ہاتھوں میں ترا ہاتھ بنا لیتے ہیں
اس نے وہ پر نکالا پر اگلے ہی پل وہ اس کے ہاتھوں سے جیسے نکلنے کی سعی کررہا تھا۔ ایسا محسوس ہوا باران کو۔
تیرے آنے پہ بھی جیسی نہیں ممکن ہوتی
بن ترے ایسی ملاقات بنا لیتے ہیں
باران کی آنکھوں کے سامنے ابھی یہاں سے گئ اس لڑکی کا چہرہ لہرایا۔ پھر جسم سے جیسے جان نکلی تھی۔ اتنا تو روح کے مرنے پر دل نہیں ڈوبا تھا جیسے اب ڈوب رہا تھا۔ وہ طوفانوں کی زد میں تھا کہ ایسا کیا جادو کیا اس لڑکی نے چند منٹ میں کہ اسے مار کر بھی وہ سکون میں نہیں ۔۔۔!!!!
تم نے آنا تھا، نہیں آئے، کوئی بات نہیں
خود سے ہر بار کوئی بات بنا لیتے ہیں
وہ زمین بوس ہوجاتا اہنے ہی کیے کو قبول نہ کرتے ہوۓ اگر اگلے ہی لمحے اس کے فون پر کسی کا میسج نہ آتا تو۔
اس نے بند ہوتے دل کے ساتھ میسج اوپن کیا۔
"اوۓ پاگل مجھے مارنے کے دکھ میں خود نہ مرجانا اب۔ تمہیں تم سے زیادہ جانتی ہوں میں۔ تو گاڑی مین روڈ پر لانے سے پہلے ہی میں اتر گئ تھی اس سے۔ وہ آٹو میٹک موڈ پر چل رہی تھی۔ تو میری گاڑی کا جو پچاس لاکھ کا نقصان ہوا ہے نا اسے حق مہر میں ڈال دینا۔ میرے بھائ کے پیسے حق حلال کے ہیں۔ حرام کے نہیں۔ اور آئندہ ایسی فضول حرکت نہ کرنا۔ پاگل کہیں کا ۔۔۔!!!"
میسج کرکے روحیہ سکون کے ساتھ کیب روک کر ہاسپٹل کی طرف چلی گئ۔ اس شخص نے اسے مارنے کی کوشش کی تھی آج پہلی ہی ملاقات میں دو دفعہ اور اسے بالکل برا نہ لگا۔
انسین لیڈی بننا آسان تھوڑی ہے ۔۔۔!!!!
اپنا پیشہ ہے محبت سو محبت کے لئے
جیت اپنی بہ خوشی مات بنا لیتے ہیں۔۔۔!!!
" بھاڑ میں جاؤ۔۔۔!!!"
غصے سے باران نے فون کھائ میں پھینک دیا۔ اب اللہ جانے یہ غصہ روح کے بچنے کا تھا یا روح کے اس نڈر انداز پر تھا۔
پر دل نے ضرور سکون لیا کہ روح زندہ ہے۔ باقی دماغ جاتا بھاڑ میں ۔۔۔!!!
لوگ حالات کو روتے ہیں تو روئیں ابرک
ہم موافق سبھی حالات بنا لیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔اتباف ابرک
" زرلش میری جان۔۔!!! اگر تم اپنے اس بھولے بھٹکے شوہر کے ساتھ کمفرٹیبل نہیں ہو تو تم ہمارے ساتھ واپس اپنے گھر جاسکتی ہو۔ بقول تمہارے تمہیں یہ شخص یاد نہیں اور ڈاکٹر نے بھی سٹریس لینے سے منع کیا ہے تمہیں تو میرا سوہنا بچہ پیکنگ کرکے اپنے لالہ جان کے ساتھ چلے۔۔۔!!! ہم خوب فن کریں گے اور نیو گیمز بھی کھیلیں گے۔۔۔۔!!!"
اس وقت دیار، وشہ، فدیان اور معصومہ دعوت پر درمان اور زرلشتہ کے گھر آۓ ہوۓ تھے یہ ایک حساب سے معصومہ کو دی جانے والی ٹریٹ تھی ہاسپٹل سے واپس آنے پر۔ پر ناجانے کیسی ٹریٹ تھی یہ جس میں اسے پینے کو یخنی ملی اور باقی سب کو فاسٹ فوڈ ۔۔۔!!!
اس وقت ٹیبل مختلف انواع کے پاستہ، میکرونی، پیزا، نوڈلز ، موموز، فرائیز، ٹاکوز، ناچوز، اور ناجانے کس کس چیز سے سجا ہوا تھا۔ ایک بھی ایشین ڈش اس میں موجود نہیں تھی۔ زرلشتہ کا کہنا تھا یہاں سب نیو جنریشن آنے والی ہے۔ نا کہ انکل آنٹی وغیرہ۔۔!!
تو چیزیں بھی وہ ہونی چاہییں جو سب کو کھانے میں مزہ آۓ۔ درمان نے احتجاج کیا کہ فاسٹ فوڈ اس کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں پر زرلشتہ کی معصوم سی وہ آنکھیں ۔۔۔!! جن میں اس کا اپنا آپ ڈوبنے لگتا تھا۔ ان مین چھپی ریکوئسٹ پر وہ اسے نہ نہیں کہہ پایا۔
دیار نے بغور درمان کی صورت دیکھتے ہوۓ زرلشتہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی تھی جس کے ہاتھ میں پکڑا فورک ایک جگہ تھم گیا۔ سب کے چہروں پر دبی دبی مسکراہٹ تھی۔
" وشہ بچے ۔۔۔!!!! میں کہہ رہا تھا کہ زرلش کی طبیعت آج کل ویسے ہی ڈاؤن رہتی ہے۔ ۔ اور اسے میں خود سے دور نہیں کرسکتا۔ ورنہ شریکوں کا بس چلا تو اس کے ذہن میں جو بچا کچا میں ہوں وہ بھی نکال دیں گے۔
اوپر سے یہاں کوئ خیال رکھنے والا بھی نہیں ہے اور یہ اپنا خیال رکھ لے ایسی خوش فہمی سے اچھا ہے میں بکری پال لوں۔ جو میں نے پالی بھی ہوئ ہے۔ یہ بکری ہی تو ہے چھوٹی سی۔ اپنی بھابھی کا خیال رکھنا چاہیے آپ کو۔ تو بچے آپ سال ڈیڑھ سال کے لیے یہاں ہی آجائیں۔ میرے پاس۔۔۔!!! "
فورک پلیٹ میں رکھتے ہوۓ ایک جتاتی نظر درمان نے دیار کے چہرے کے تاثرات پر ڈالی اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگاکر بیٹھ گیا۔ دیار ہر بار بھول جاتا تھا اس کی کمزوری بھی درمان کے ہاتھ میں ہے۔ جو اکٹھا ہی ایک دو سال کا سن کر بت کی طرح اسی جگہ جم چکا تھا۔
زرلشتہ تو اپنے لیے بکری کا نام سن کر سامنے رکھی کولڈ ڈرنک اس بےعزتی پر پینے لگی۔ سب نے اسے ہی موضوع بحث بنایا تھا اور ان کی باتیں اسے سمجھ ہی نہیں آتی تھیں۔
"زرلشتہ کے ساتھ رہو اس کا خیال رکھو۔ دیار اپنی بہن سے بہت پیار کرتا ہے مجھے نہیں لگتا اسے کوئ مسئلہ ہوگا۔ کیوں دیار ۔۔۔!!! آج یہیں چھوڑ جاؤ اسے۔ کل سامان بھیج دینا پھر ایک سال بعد میں سوچوں گا اسے واپس بھیجوں یا یہیں رکھ لوں ۔۔۔!!!!
کیوں فدیان میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا ہماری بہن کافی عرصے سے دور ہے ہم سے۔ اسے یہیں رکھ لیتے ہیں۔۔۔!!!"
دیار کے چہرے پر چھاۓ رنگ اڑنے لگے وہیں درمان نے مزید لقمہ دیا۔ فدیان جو اس وقت معصومہ کو گلاس میں پانی نکال کر دے رہا تھا اس نے کندھے اچکاۓ۔
" جو آپ کی مرضی۔ بھائ بہنوں کا مان ہوتے ہیں جیسے دیار لالہ کا دل بار بار اپنی بہن کو ساتھ لے جانے کا کررہا ہے ویسے ہی ہمارا بھی تو دل کرتا ہے اپنی بہن کو ساتھ رکھنے کا۔ کیوں وشہ تمہیں کوئ اعتراض تو نہیں ہمارے ساتھ یہاں دو سال رہنے میں۔۔۔!!!!
دیار لالہ تو راضی ہیں۔ دیکھو تو سہی اف نہیں کہا انہوں نے تو آجاؤ۔ ہم بھی فن کرنے کو بے تاب ہیں۔"
پانی کا گلاس معصومہ کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوۓ وہاں بیٹھی زرلشتہ کو یہ دونوں بہت کیوٹ لگے۔ درمان بھی اتنا ہی کیرنگ تھا زرلشتہ کے کھانے پینے کا بھی خیال رکھتے والا ۔ فدیان نے درمان کا ساتھ دیا تو بے ساختہ دیار نے اپنی گردن ہاتھ کی پشت سے سہلانا شروع کی۔ یہ دونوں بھائ ہی نمونے تھے۔ بھلا اس کی وشہ کا ذکر کیوں آگیا بیچ۔
" ہمیں کیوں کوئ اعتراض ہوگا لالہ ۔۔!!! ہم یہیں رک جاتے ہیں جب تک زرلش ٹھیک نہیں ہوجاتیں ۔۔!!!"
پلیٹ میں چمچ چلاتے ہوئے اس نے عام سے انداز میں کہا تو دیار کا ہاتھ اپنے دل تک جاتا جاتا رہا گیا۔
یہاں تو وہ خود جانے کو تیار تھی تو وہ کہاں سر مارتا۔ خالی پلیٹ میں اسے چمچ ہلاتے دیکھ کر دیار نے سامنے سے میکرونی اس کی پلیٹ میں ڈالی۔
" وشہ آپ کی پڑھائ کا ہرج ہوگا اس طرح تو۔۔!! ویسے بھی پہلے ہی کافی چھٹیاں کر لی ہیں آپ نے اب مزید نہیں ۔ اور مما کو بھی عادت ہوگئ ہے آپ کی وہ کیسے رہیں گی آکے بغیر۔ وہ بھی سال پورا ۔۔!!!
ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیں مجھ بیچارے کا کیا بنے گا جسے آپ کی موجودگی کی عادت ہوگئ ہے اب۔ خالی کمرہ مجھے منہ چڑانے گا کہ سالے سے ملنے گۓ تھے بیوی ہی چھوڑ آۓ۔ جانم رحم ۔۔۔!!!"
اس کی صورت دیکھتے ہوۓ اس کا لہجہ خاصہ سمجھانے والا تھا۔ لیکن دوسری بات اس نے زرا سا اس کی اور جھک کر منت بھرے انداز میں کی تھی۔ جیسے ابھی ہاتھ بھی جوڑ کے گا۔
وہ بات سب نے نہ سنی پر اس کے ایکسپریشن سے لطف ضرور اٹھایا سب نے۔ فدیان نے مسکراہٹ دباتے ہوئے رخ موڑ لیا۔ اور درمان نے زرلشتہ کے سامنے سے کولڈ ڈرنک اٹھا کر فریش جوس کا گلاس رکھ دیا۔
" طبیعت خراب ہوئ نا تمہاری تو سچ میں آج انجیکشن لگے گا۔ ہوسکتا ہے ڈریپ پی لگوادوں میں تمہیں۔ میرے صبر کا امتحان نہ لو اور ڈھنگ کی چیز کھاؤ۔ جیسے معصومہ سوپ پی رہی ہے تم بھی وہ پیو ۔۔۔!!!"
زرلشتہ نے منہ بسورتے ہؤے گلاس واپس سے لینا چاہا جب درمان نے تنبیہی نگاہوں سے اسے گھورا۔ تو وہ سواۓ سب کی موجودگی کی وجہ سے رونی صورت بنانے کے کچھ نہ کرسکی۔
" میں لالہ جان کو کہتی ہوں اپنے ساتھ لے جائیں مجھے وہ۔ آپ گندے ہیں بس ڈانٹتے ہیں۔ پیار نہیں کرتے مجھ سے تو میں چلی جاؤں گی ۔۔!!!"
آخری حربہ اس نے آزمایا۔ درمان نے لاپرواہی سے کندھے اچکادیے۔
" شوق سے جاؤ ۔۔!!!" اس کی بات سن کر زرلشتہ کی آنکھیں پھیلیں کہ وہ آسانی سے کیسے مان گیا۔ پر ابھی اس کی بات پوری نہیں ہوئی تھی۔
" اغواہ کرلوں گا میں تمہیں تمہارے اس بھائ کے گھر سے۔ پھر کسی سے ملنے بھی نہیں دوں گا۔اور ساری دنیا سے دور کردوں گا تمہیں۔ سب سمجھیں گے تم اغواہ ہوگئ ہو جب کہ اصل میں تو تم میرے پاس ہوگی۔ میرا جنونی انداز تمہاری چھوٹی سی جان کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔ کیونکہ میں بےرحم بھی ہوں۔ مجھ سے دور جانا چاہو گی تو اپنے سوا سب سے دور کردوں گا۔۔!!!"
اتنے آرام سے وہ کہہ رہا تھا اغواہ کرلوں گا جیسے اس کا جدی پشتی کام ہو یہ۔ جدی پشتی کام تو تھا ویسے اغواہ کرنا۔ اس کی ماں بھی تو اغواہ ہوئ تھی۔ اور وہ یہ سب کر بھی سکتا تھا۔ اگر وہ اس سے دور جانا چاہتی تو۔ زرلشتہ کا منہ اب تک کھلا ہوا تھا۔
"آرام سے یہ جوس پیو ابھی کے لیے نو کولڈ ڈرنک ۔۔!!!! پھر آئس کریم کھالینا بعد میں۔ دونوں میں سے ایک چیز ملے گی۔ چوائس از یورز۔۔۔!!!"
اسے ساکت دیکھ کر درمان نے سخت لہجے میں کہا تو چار و ناچار وہ جوس ایک ہی سانس میں پی گئ۔ دل نے کہا تھا کیا فایدہ اتنی دولت کا اگر کچھ کھا پی بھی نہ سکو۔ پھر شوہر کے ڈر سے اس نیک خیال کو خود تک محدود رکھ کر وہ اب اپنی پلیٹ میں موجود سلاد کھانے لگی۔
یہ بھی درمان نے خاص اسی کے لیے رکھا تھا یہاں۔ ڈاکٹر نے شوگر کی بیماری کی وجہ سے اسے بد پرہیزی سے بچنے کو کہا تھا اور زرلشتہ میڈم کھانے کے معاملے میں ہاتھ روکتی ہی نہیں تھیں۔ جب تک کھانے کے ساتھ دھمکیاں نہ کھانی پڑیں۔
" کچھ اور تو نہیں چاہیے نا ۔۔!!!"
اسے سوپ میں چمچ چلا کر کھیلتے دیکھ کر فدیان نے اپنائیت سے چور انداز میں پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلادیا۔
" آپی تو سچ میں سب ہی بھول گئ ہیں پر سویٹ اب بھی اتنی ہی ہیں۔ اچھا ہوا آپ نے یہاں ساتھ والے گھر میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ میں بھی بور نہیں ہوں گی انہیں بھی کمپنی مل جاۓ گی۔۔۔!!!"
وہ اس بات کی وجہ سے بہت خوش تھی تبھی فدیان بھی دل سے مسکرایا۔ یہ تو سچ تھا سب بھول کر بھی زرلشتہ معصومہ سے اچھے انداز میں ملی تھی پھر اس کی اکسائٹمنت بھی عروج پر تھی کہ یہ لڑکی اس کی دیورانی ہے۔ جس پر اسے حکم چلانا ہے دل کھول کر۔۔۔!!!
" طوفان کے نزدیک گھر لیا ہے اب دعا ہے کہ کوئ زلزلہ نہ آجاۓ ۔ زرلش کے ارادے ہمیشہ سے ہی ہر کام کو لے کر خطرناک ہوتے ہیں تو ذرا بچ کر رہنا اس سے۔ خیال تو وہ رکھ لے گی اپنا بھی اور تمہارا بھی پر احتیاط پچھتاوے سے بہتر ہے ۔۔۔!!!"
اپنا برگر ختم کرکے فدیان نے سامنے سے ٹشو اٹھا کر ہاتھ پونچھے۔ معصومہ نے اس تنبیہ کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال باہر کیا اسے زرلشتہ ایسے ہی پنسد تھی۔
" کیا ہوجاتا ہے آپ کو دیار۔۔۔!!! ہم کونسا سچ میں جارہے ہیں۔ لالہ بس آپ کو تنگ کررہے تھے اور کچھ نہیں اور اگر وہ ہمیں یہاں رکھ بھی لیں تو کیا ہوجاۓ گا زرلش کو ضرورت ہے کسی کی۔۔۔!!! "
اس کی التجا کے جواب میں وشہ نے اسے گھور کر دیکھا۔
" تو اس کے بھائ کو بھی آپ کی ضرورت ہے۔ اور شوہر کو مزاق میں بھی اکیلا چھوڑنے کی بات نہیں کرتے گناہ ہوتا یے ۔۔۔!!!"
تھوڑا سا سکون ملا اسے وشہ کی بات سن کر کہ وہ واپس نہیں جارہی تبھی اپنا فون اٹھا کر اس نے وقت دیکھا۔ رات ہوچکی تھی۔ اور واپس جانے میں اب تقریبا دو سے اڑھائی گھنٹے لگتے۔
" ان کے بھائ کو ہماری نہیں فلحال کچھ کھانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہم واپس جاکر کچھ نہیں بنائیں گے۔ یہاں سے ہی کھاکر جائیں جو کھانا ہے ۔۔!!!"
بات ختم کرنے کی خاطر اس نے بھی توجہ کھانے پر ڈالی۔ اور دیار بھی واپس سے کھانے میں مصروف ہوگیا۔ اس دوران بھی ہلکی ہلکی نوک جھوک جاری تھی۔
اس حادثے کے بعد وشہ ویسے تو کافی چپ چپ رہتی تھی پر دیار کی الٹی سیدھی باتیں اسے بولنے پر مجبور کردیتی تھیں۔وہ اب مزاج میں شائستگی لاچلی تھی پر بقول اس کے دیار اب بھی ٹھرکی تھا۔
بیچارا ٹھرک کہاں جھاڑتا تھا وہ تو پیار سے بات کرتا تھا پر وشہ کو پیار ہی ٹھرک لگتا تھا۔ اب کیا کرتی وہ ۔۔۔!!!!
کھانے کے بعد آئس کریم کھاکر کچھ دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرکے دیار اور وشہ واپسی کے لیے روانہ ہوگۓ۔ جاتے وقت رسما ہی سہی دیار نے بہت سے گفٹس بھی زرلشتہ کو دیے جو ہر بار کی طرح گفٹس کے نام پر کھل اٹھی تھی۔ وہیں دیار اور وشہ معصومہ کے لیے بھی گفٹس لاۓ تھے جس نے لینے سے انکار کیا تو دیار نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بتایا وہ بھی اس کا بڑا بھائ ہی ہے۔ بھلے خون کا رشتہ نہ ہو پر اسے معصومہ اپنی بہن ہی لگی ہے جب سے ملی ہے اس سے۔
اسے کہاں پتہ تھا یہ اس کی جان سے پیاری پھپھو کی جان ہے۔ اس کی اکلوتی بیٹی ہے تبھی تو زرلشتہ اور دیار کو اس سے انسیت محسوس ہوتی تھی۔ انہیں وہ اپنی بہن ہی لگتی تھی۔ بچھڑی ہوئی بہن۔۔۔!!
خون بھی مخلص لوگوں میں ہی کشش دکھاتا ہے ورنہ بعض شنایہ بیگم جیسے لوگ بھی ہوتے ہیں اپنے ہی خون سے نفرت کرنے والے ۔۔۔!!!
فدیان بھی معصومہ کو لے کر رات میں واپس چلا گیا۔ اور زرلشتہ بھی تھک گئ تھی تو درمان نے اسے سلاکر اپنا لیپ ٹاپ نکالا اور آفس کا کام کرنے لگا۔
آج کا دن سب کے لیے خوشی بھرا دن تھا۔ سکون سے بھرا دن۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
رات کے دس بجے کے قریب باران دلاور خان کے گھر آیا۔ راسم کے کام کو نپٹانے کے لیے۔ اسے آج کسی بھی صورت میں دلاور کو طلاق پر آمادہ کرنا تھا۔
جب اسے دلاور خان کو سوپ دے کر آتی سبریبہ دکھی۔ تو اس نے اس سے یہ ٹاپک ڈسکس کر لیا۔
" بادل اس وخشی درندے سے مجھے پہلے دن سے آزادی چاہیے تھی پر افسوس تب رہنے کا نہ کوئ ٹھکانہ تھا نہ ہی یہ شخص مجھے چھوڑنے والا تھا آخر مجھے اس نے اپنے کڑوروں کے نقصان کے عوض جو خریدا ہے۔ تو کیسے یہ چھوڑ دے گا مجھے۔ پر اب مجھے آزادی چاہیے اس سے۔ اس قاتل اور عیاش شخص کے ساتھ رہتے اب مجھے اپنے آپ سے گھن آتی ہے۔ اب تو معصومہ بھی اپنے گھر کی ہوچکی ہے تو مجھے مزید اس کے ساتھ نہیں رہنا ۔۔۔!!!"
انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا۔ سمجھ کر اس نے اس بندے دروازے پر نظریں ٹکادیں۔ جہاں اس وقت وہ شخص موجود تھا۔
" آپ کل تک اپنی پیکنگ مکمل کرو۔ ہم آپ کے رہنے کا بندوبست کردے گا۔ ساتھ ہی طلاق کے کاغذات بھی مل جائیں گے آپ کو۔ اس کو سمجھانا ہمارا کام ہے اب۔ آپ جاؤ یہاں سے ۔۔۔!!!"
گہرا سانس بھر کر باران نے اس بند دروازے کو کھولا اور اندر داخل ہوگیا پیچھے سبرینہ بیگم نے کندھے اچکادیے انہیں بس اس شخص سے آزادی چاہیے تھی اب جیسے بھی ملتی۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
" خانہ خرابا۔۔!! دلاور تم تو مچھر کا پر جتنا ہوگیا ہے اس بیماری سے۔ دل کا مرض تم کو تو نچوڑ گیا ہے۔ ہم سچ بتاۓ تو ہم کو تو یقین ہی نہیں آتا تم کو تین تین ہارٹ اٹیک ہوا ہے وہ بھی سچ مچ والے۔ ورنہ تمہارا پاس تو دل ہی نہیں تو ہارٹ اٹیک کدھر ہوا۔ ویسے ایک بات ہم کو جاننا ہے کیا تمہارا سینہ میں بھی دل ہے۔ پر آج تک کدھر چھپایا ہوا تھا تم نے اسے۔۔۔!!!"
ہمیشہ کی طرح اس کے الفاظ سیدھا دلاور کے دل پر لگے تو وہ دل پر ہاتھ رکھ کر کراہ اٹھا۔ وہ بھلے ٹھیک ہو یا مر رہا ہو پر باران اسے زلیل کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔
" بادل تین ہارٹ اٹیک تو مجھے ہوگۓ انجانے میں پر چوتھا والا جب بھی ہوا تمہاری ہی وجہ سے ہوگا۔ کہاں سے لاتے ہو ایسی فضول بکواس۔ یہ عنایت کیا صرف میرے لیے ہے یا سب سے یونہی بات کرتے ہو تم۔ چار سال سے اتنا ذلیل کیا تم نے مجھے کہ اب اپنی شکل دیکھنے کو دل نہیں کرتا۔۔۔۔!!! لگتا ہے میری موت تمہارے ہاتھوں ہی لکھی ہے ۔۔۔!!!"
کراہتے ہوۓ دلاور خان نے اپنی میڈیسن اٹھا کر پھانکی پھر پانی کا گلاس اٹھا کر ایک ہی سانس میں پی گیا۔ وہ اس وقت کوئ نازک حسینہ ہی لگا باران کو۔ جس کے نخرے ہی ختم نہیں ہوتے۔
دو تین ننھے سے ہارٹ اٹیک اور تھوڑا سا زہر ہی ملا ہے اسے۔تو اتنے نخرے کیوں۔ تب اچانک اسے انسین لیڈی یاد آئ۔ جب اس نے اپنا زخم بے خوفی سے ٹشو سے صاف کرکے اس کے ظالمانہ انداز پر بھی مسکراہٹ دکھائ تھی اسے ناچاہتے ہوۓ بھی یاد آیا سب۔ وہ حد سے زیادہ بہادر تھی ۔۔۔!!!! دل نے گواہی دی۔ وہ چند سانچے اس کی یادوں میں ڈوبا۔ اس کے وہ تل۔۔۔!!!
وہ آنکھیں ۔۔۔!!! وہ روح ہے اسے جانے مت دو۔ دل نے ضد کی۔
" ہاں وہ روح ہی ہے ۔۔۔!!!"
باران کی آنکھوں میں چمک ابھری۔ پر یہ دماغ محبت کا دشمن ہے۔ حقیقت میں ۔۔۔!!! جس نے فورا کہا۔
" روح مرچکی ہے۔ نہ سوچو روحیہ کے بارے میں۔ جو کرنے آۓ ہو کرو اور جان چھڑواؤ اس معاملے سے۔ روح تمہیں موت کے بعد ملے گی۔ یہی سچ ہے ۔۔۔۔!!!"
دل کو ڈانٹ کر دماغ نے اپنی کہی۔ اور باران نے روحیہ کے بارے میں دل کی نہیں دماغ کی سنی۔
پھر سر جھٹک کر اس نے اس کی یادوں کو دور پھینکا اپنے دماغ سے۔
" یارا ہم کو تو لگتا ہے سبرینہ آپی کا آہ لگ گیا ہے تم جیسے دیو کو۔ تم ہے بھی تو کتا کمینہ۔۔!!! ہوسکتا ہے تم کو بددعا لگ گیا ہو۔ یارا ان بد دعاؤں میں بڑا طاقت ہوتا ہے ہم کو لگتا ہے سبرینہ آپی کا دعائیں اللہ کی بارگاہ میں پہنچ گیا ہے تبھی تو تم برباد ہوۓ جارہا ہے بالکل ۔۔!!!"
ہمدردای اور شک کے ملے جلے تاثرات سنگ باران نے بغور اس کی غیر ہوتی حالت سے حظ اٹھایا۔ جس نے یہ سن کر سر نفی میں ہلایا تھا پر دل میں تو ڈر بیٹھ گیا ۔
" اس کی دعائیں یا بددعائیں قبول ہوتی ہوتی نا تو آج کوئ شخص مجھے ختم کرنے اتر گیا ہوتا اس زمین پر۔ تمہارا وہم ہے یہ۔۔۔!!! یہ بددعائیں ، آخرت ان پر میرا یقین نہیں ہے ۔۔!!!"
بیزاریت دکھائ دلاور خان نے اس وقت۔ اسے کہاں پتہ تھا اس کی موت اس کے سامنے بیٹھی ہے۔ یہ شخص جو اس کی جڑیں کھوکھلی کرکے اسے زندہ رکھ رہا ہے۔ یہی تو اسے اپنے ہاتھوں سے مارنا چاہتا ہے۔ جب باران کا دل اس کا منہ ہی توڑنے کو کیا۔ پھر چہرے پر پریشانی سجا کر وہ اس کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
" کالا جادو وغیرہ تو ہوتا ہے نا۔ ہمارا جو دور کا ماسی تھا نا اس کا شوہر اسے مارتا پیٹتا تھا۔ گالم گلوچ کرتا تھا۔ بڑا ہی گھٹیا مردود تھا اس کا شوہر۔ تمہاری طرح۔ وہ بیچارا ماسی چپ کرکے سب سہتا رہا کہ ایک دن سچ ٹھیک ہوجاۓ گا پر نہیں ہوا کچھ بھی ٹھیک۔ ایک دن ماسی کا بیٹی اس شخص نے اپنے گناہ کو چھپانے کو دے دیا تو پھر کچھ عرصہ بعد اس شخص کا لاش ملا تھا۔ پراسرار سے درخت کے نیچے سے۔ ادھ جلا ہوا ۔۔۔!!!"
اس کی جانب جھکتے ہوئے اس نے ڈرنے کی ایکٹنگ کی البتہ اس کی آنکھوں میں پراسرار سی چمک تھی۔ اس کے الفاظ سیدھا دلاور کے کانوں سے دماغ تک گۓ تو اس نے تھوک نگلا۔
" مجھے نہیں لگتا سبریبہ یہ سب کرے گی۔ وہ اتنی بہادر نہیں ہے جو تعویز کروادے مجھ پر۔ چھوڑو اس بات کو ۔۔!! کیا کیا سوچتے ہو تم بھی ۔۔!!"
کانپتے ہاتھ کو اٹھاتے اپنی کنپٹی کی پھڑکتی نس اس نے دبائ۔ جب باران نے فورا سر کو نفی میں ہلایا۔
" تم غور تو کرو ذرا پہلے تمہارا ساتھ کبھی کچھ غلط نہیں ہوا تھا۔ہم گواہ ہے سارے کالے کرتوتوں کے بعد بھی تم سکون میں تھا۔ لیکن جب سے معصومہ کا نکاح ہوا ہے۔ تب سے تمہارا کتنا نقصان ہوا ہے زرا سوچو۔ اربوں کھربوں تک تو ہم کو گنتی آتی ہے ہم جانتا ہے نقصان اس سے بھی زیادہ ہوا ہے تم کو۔
اور یہ دل کا دورا بھی تم کو تب سے ہی پڑنے لگا ہے۔ بڑے پکے زرائع ہم کو بتایا کہ ہمارا یار ملک کا غدار ایک نمبر کا لعنتی انسان یعنی دلاور حبیث کا جان کو ایک عورت سے خطرہ ہے"
عقلمندی دکھاتے ہوۓ لب بھینچ کر باران نے آنکھیں سکیڑیں۔ وہ اس وقت وہ عورت لگ رہا تھا جو پھپھے کٹنی کا کام کرتے ہوۓ لوگوں کے گھروں میں دراڑ ڈالتی ہے پھر سیمنٹ اور بجری بھی وہ دراڑ بھر نہیں پاتے۔
بات بنتی دیکھ کر باران نے اپنی آواز مزید پراسرا کی۔
" ہم تم کو چھوڑ کر نہیں گیا تھا۔ ہم تو بابا پہاڑی والے کے پاس گیا تھا۔ ہنزہ کا گہری وادی میں۔۔۔!!! ہم تم کو بولا ہم جارہا ہے پر ہم جاننے گیا تھا سب کیوں ہورہا ہے یہ۔ تب پتہ ہے وہ پہاڑی والا بابا نے کیا کہا ۔۔!!!"
بغیر آنکھیں جھپکے اس نے روانی سے بتایا۔
" کیا کہا ۔۔۔!!!"
دلاور خان نے حلق تر کرکے تجسس سے پوچھا۔ جواب میں باران نے اتنی ہی سنجیدگی سے آس پاس نادیدہ وجود دیکھے۔
" وہ کہنے لگا بڑا ہی خطرناک تعویز ہوا ہے اس پر۔ کروانے والا اس کے ساتھ کسی رشتے میں بندھا ہے جب تک رشتہ نہ ٹوٹا۔ کچھ ٹھیک نہیں ہوگا۔ کسی عورت کا کام ہے یہ۔ وہ اس کو مارنا چاہتا ہے ۔!!!"
یہاں باران کا کام آدھا تو تکمیل کے قریب پہنچ گیا۔ اسے بس اس کے دماغ سے مزید کھیلنے کی ضرورت تھی۔ اپنے ہاتھوں کی انگلیاں باہم الجھاکر مشکوک نگاہوں سے دلاور نے کچھ یاد کیا۔
" کل میں نے بھی دیکھا تھا وہ کمرے میں بیٹھ کر کچھ پڑھ رہی تھی۔ آدھی رات کو۔ ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر۔ وہ تسبیح لے کر کمرے سے باہر نگل گئ تھی۔ مجھے لگا میرے لیے دعا کررہی ہوگی پر میں نے تو سوچا ہی نہیں بھلا اپنے دشمن کو کون دعا دیتا یے۔ یعنی یہ عورت میرے پاس رہ کر یہ سب کررہی تھی۔ بس بہت ہوگیا بادل اسے تو آج میں مار ہی دوں گا۔ وہ حشر کروں گا واپس سے مجھ پہ کوی تعویز کرنے لائق نہیں رہے گی ۔ !!"
وہ اٹھنے لگا تو بادل نے فورا اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے واپس بٹھایا۔ جب کوئ آپ کے دماغ سے کھیل رہا ہو اور آپ کو کچھ ایسا سمجھا رہا ہو جس کا وجود ہی نہیں ۔
اگر وہ کامیاب ہوجاۓ تو آپ کا دماغ یونہی تانے بانے بن کر اسے سچا ثابت کردیتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں آنکھوں دیکھے پر بھی یقین نہ کرو وہ بھی جھوٹا ہوسکتا ہے کجا کانوں کا سنا ہوا ۔۔۔!!!!!!
ورنہ آپ میں اور دلاور میں کوئ فرق نہیں رہے گا ۔۔۔!!!
" پہاڑی والا بابا نے کہا کہ تم کو چاند کا سترہ ہونے کے دس گھنٹے سے پہلے پہلے اس عورت کو چھوڑنے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ فیصلہ کیا طلاق کا کاغذ اس کے ہاتھ پر رکھنا ہوگا۔ورنہ تم مارا جاۓ گا۔ کیونکہ اس وقت اس عورت کا طاقتیں اتنا زیادہ ہے کہ تم چاہ کر بھی اسے کچھ نہیں کہہ پاۓ گا۔"
دلاور خان کے رونگھٹے کھڑے ہوۓ۔ سبرینہ اتنی تیز ہوگی اسے تو پہلے ہی شک تھا۔
" چاند تو سترہ کا ہی ہے آج۔ جلدی کرو کچھ ل۔اس فتنہ صفت عورت کو چھوڑنے کو تیار ہوں میں۔ ابھی طلاق اس کے منہ پر ماروں گا اور اٹھا کر باہر پھینکوں گا اسے۔ اس فتنی سے یہی امید تھی مجھے۔ جہاں رہی وہیں دشمنی کی اس نے ۔۔۔!!!"
اسے اچانک یاد آیا چاند تو سترہ کا ہی ہے جبکہ چاند کی تاریخ ابھی بارہ تھی۔ جلدی میں باران بھول گیا اور اس کی زبان پھسل گئ پر وہ سکون میں تھا کیونکہ جانتا تھا اس شخص کو تاریخ یاد نہیں ہوگی۔ ہوا بھی وہی ۔۔۔!!!
اپنے پٹھانوں والے سٹائل کے کوٹ سے اس نے طلاق کے کاغذ نکال کر اس کے سامنے رکھ دیے پھر کان کے اوپر لگایا ہوا پین بھی نکالا۔
" ہم کو تم عزیز یے کیونکہ اپنا کچڑا بھی اپنا ہوتا ہے۔ ہم طلاق کا کاغذ لایا ہے ابھی تم سائن کرو ادھر۔ ہم بچالے گا تمہیں۔ اور باجی کل تک تم کو یہاں نہیں دکھے گا۔ ہم انہیں کالا پہاڑی پر بھیج دے گا تاکہ جادو کا توڑ نکل آۓ ۔۔۔!!!"
دلاور خان نے جلدی سے سائن کیے اور وہیں باران کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔ بس وہ اس دلاور خان کو اس مقام تک لے آیا تھا جہاں اس کی چھوٹی سی بات بھی دلاور کو حد سے اہم لگتی تھی۔
" اب تم بچ جاۓ گا ( خوابوں میں ) اچھا فیصلہ لیا ہے تم نے خاموشی سے سائن کرکے ( ورنہ الٹا طریقہ تمہیں درخت سے باندھ کر کوڑھے مار کے سائن کروانا تھا ) اب ہم چلتا ہے قانونی کاروائی بھی تو کرنا ہے نا۔ تم آرام سے سو ادھر ( مرنا مت تجھے خود ماروں گا اپنے ہاتھوں سے ) ہم جارہا ہے "
سبرینہ اس وقت اپنے کمرے میں تھیں جبکہ دلاور خان سٹڈی روم میں بیٹھا تھا۔ باران نے اس کے کندھے پر دباؤ بڑھایا اور سکون سے آدھی باتیں دل میں اسے سنا کر یہاں سے چلا گیا۔ پیچھے دلاور خان نے اپنی پیشانی پر ابھرتا پسینہ صاف کرنے کے ساتھ وہیں صوفے سے ٹیک لگاکر آنکھیں بند کیں۔
" لگتا ہے اب اس پری پیکر کو حاصل کرنے کا وقت آگیا ہے۔ سبرینہ نامی کانٹا دیکھ کر شاید وہ انکار کردیتی لیکن اب اسے میرا ہونا ہی ہوگا۔۔۔!!!
جس پر دلاور خان کی نظر پڑجاۓ اسے دنیا کی کوئ طاقت اس کا ہونے سے نہیں روک سکتی۔۔۔۔!!!!
بس روحیہ میڈم تیاری پکڑ لیں۔ جلد اس گھر میں آنے والی ہیں آپ ۔۔۔!!!"
آنکھیں بند کرکے وہ پراسرار سا مسکرایا۔ آنکھوں کے سامنے روحیہ کا مسکراتا چہرہ گھوم رہا تھا۔ دلاور خان جیسے گھمنڈی انسان کے لیے تو دنیا کے سارے لوگ ہی ارزاں تھے تو روحیہ کیوں اہمیت رکھتی۔ کاش باران واقف ہوتا ایک بار پھر یہی شخص اسے روحیہ سے دور کرنا چاہتا ہے تو اس کی گردن ہی اکھاڑ کر پھینک دیتا۔
پر افسوس اسے روحیہ میں زرا دلچسپی نہیں تھی کہ وہ اس کی کوئ خبر رکھتا۔
اہنے پہلو میں گرا اپنا فون دلاور خان نے اٹھایا۔ پھر کسی کا نمبر ملاتے ہوۓ اس نے اسے کان سے لگاتے آنکھیں واپس سے بند کیں۔
" سنو ۔۔!!! جس لڑکی کی معلومات تم نے نکالی تھی تیاری پکڑ لو کل یا پرسوں اسی کے گھر مہمان بن کر جائیں گے ہم لوگ ۔۔۔!!! پوری تیاری کے ساتھ۔۔۔۔!!! یہ راز بادل تک نہ پہنچے بڑی مشکل سے وہ واپس آیا ہے۔ میں اس جیسے مخلص دوست کو کھونا نہیں چاہتا۔ پر میں اس لڑکی کو بھی چھوڑنا نہیں چاہتا۔ تیاری پوری رکھو۔ ہمیں پرسوں تک جانا ہے وہاں ۔۔۔!!!"
ہنستے ہوۓ کال کٹ کرکے اس نے فون سائیڈ پر ہی وہاں رکھ دیا۔ وہ گھٹیا پن کی حدوں سے بھی آگے نکل چکا تھا۔ نا اسے یہ احساس تھا روح اس کے بیٹے کی عمر کی ہے۔ وہ تیس کا ہے تو وہ چونتیس کی۔ نا ہی یہ احساس تھا اس کے دونوں پیر قبر میں لٹکے ہیں۔ اسے تو بس اپنی ضد پوری کرنی تھی۔
" پیاری تو وہ تھی۔ ایسا حسن میں نے پہلے کیوں نہیں دیکھا آخر۔ یہ پری دیر سے کیوں آئ آخر۔ کاش پہلے آجاتی ۔۔!!! سبرینہ کے جانے کا دکھ تو رہے گا پر روحیہ کے آنے سے دکھ منانا جائز تو نہیں ۔۔۔!!!"
وہ ہنستا گیا۔ مقروع ہنسی تھی اس کی۔ اس آواز سے ہر طرف وحشت چھانے لگی۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
سبرینہ کو باران نے خوش خبری دے دی تھی کہ دلاور اسے چھوڑنے پر راضی ہے اور وہ اسی خوشی میں آج اس نام نہاد رشتے سے آزادی پر اپنے رب کے حضور جھکی تھی۔ وہیں روح اس وقت اپنے کمرے کی بالکنی میں کھڑے ہوکر سامنے چمکتے اس چاند میں محو تھی۔
" تم نے مجھے جان سے مارنے کی کوشش کی باران۔۔۔!!! اپنی روح کو ۔۔۔!!! پر کیوں۔۔!!!"
دعوے عشق کے تھے تو وہ کیوں اس قدر جنونی ہوگیا تھا کہ اپنی ہی محبت کو قتل کرنے کا سوچتے اس کا سانس لمحے کو بھی نہ تھما۔
ریلنگ پر ہاتھ مضبوطی سے جماکر روحیہ نے اس ٹھندی ہوا کو خود میں اتارا۔
آنکھوں کے سامنے وہ منظر گھوما جب سڑک پر پہنچتے ہی گردن میں ہونے والے درد سے تنگ آکر وہ اپنی گاڑی سے اتر گئی تھی۔ سڑک پر چلتی تیز ہوائیں اسے اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔ گاڑی سے دور آکر ابھی اس نے سڑکوں کی روانی دیکھی ہی تھی جب اچانک دھماکے کی آواز سن کر اس نے پیچھے دیکھا تو پوری گاڑی دھواں بن چکی تھی۔
اگر وہ اس گاڑی سے نہ اترتی تو شاید علی اس وقت اسے آنسو کے سنگ دفنارہا ہوتا۔ اسے اپنی فکر نہیں تھی ورنہ موت تو بس ایک فارمیلٹی تھی اتنے دردوں کے بعد اس کے لیے۔ اسے تو خود سے جڑے لوگوں کی فکر تھی جو اس کے نہ ہونے پر تڑپ جاتے ۔
گردن پر باران کی انگلیوں کے نشان اب تک واضح تھے اور درد کی شدت بھی آخری حد تک تھی۔ اس نے اپنی گردن سکین کروائ تو پتہ چلا کچھ نسیں ٹھیک سے کام نہیں کر رہیں۔ باران نے پہلی ملاقات کا تحفہ ہی اتنا پیارا دیا ہے کہ ان نروز کے ایکٹو ہونے تک درد برقرار رہے گا۔
آہنی گردن کو ہلکے ہاتھ سے چھوکر روحیہ نے چمکتے چاند سے نظریں پھیریں۔
" تم میرے باران نہیں رہے اب۔ برے ہوگۓ ہو۔ تم نے کہا تھا میں کڑوروں لوگوں کے بیچ میں بھی کھوجاؤں۔ کوئ بھی مجھے نہ پہچانے مگر تم مجھے پہچان لو گے۔ مجھے ڈھونڈ لو گے۔
پر سب جھوٹ تھا۔۔۔۔!!!!
سوچا تھا نکاح کا ریسپشن تمہاری مرضی سے ہوجاۓ پر اب لگ رہا ہے اس درد کا حساب لینا ہوگا تم سے۔ میں فالتو نہیں ہوں جس کی تم نے جان نکالنا چاہی۔ ٹرسٹ می باران روحیہ زہرہ کیا ہے۔ تم نے جان لیا تو جان سے جاؤ گے۔۔۔!!! "
باران کا خیال آتے ہی روحیہ نے غصے سے اپنی آنکھوں میں شرارے پھوٹتے محسوس کیے ساتھ اپنی گردن پر اس کی گرفت نرم سے سخت ہوگئ۔ ابھی کچھ دیر پہلے وہ گردن ہلا بھی نہیں پارہی تھی اور اب اس کا بس نہ چلا خود کی ہی جان نکال لے۔
" تمہاری ایسی کی تیسی باران ۔۔۔!!! جن ہاتھوں سے مجھے درد دیا ہے وعدہ رہا تم سے یہی ہاتھ بچانا چاہیں گے مجھے۔ اب جب خود کو میں تڑپاؤں گی تو تمہاری ان نیلی آنکھوں کا خوف مجھے سکون دے گا۔ مجھے مارنا تھا نا تمہیں۔ تو ڈیئر دونوں مل کر مارتے ہیں۔
تم روح کا غصہ روحیہ پر نکالو میں روح کو روحیہ بن کر اذیت دوں گی۔ تم سے زیادہ نفرت ہے مجھے خود سے تو اب اسی بہانے تھوڑا غصہ خود پر نکال لوں گی اور تھوڑی مرمت تمہاری بھی کردوں گی۔ مزہ آۓ گا ۔۔۔!!!"
اپنی گردن پر رکھا ہاتھ دبا کر چھوڑ دیا روح نے پھر بیزاریت سے اپنے سامنے رکھا کافی کا مگ ٹیرس سے نیچے الٹا کرنے اس نے وہیں سائیڈ پر پھینکا اور سونے کے لیے کمرے میں چلی گئ۔ اس کے اندر کے پاگل انسان کو دعوت دی تھی باران نے۔ اب ناجانے کیا کرتی وہ اس کے ساتھ۔
پر باران کی جان تو وہ اب ضرور نکالتی۔ جسے لمحے میں روح کو قتل کرنے کی ترکیب سوجھی تھی۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
دیار آۓ ایم سوری ۔۔۔!!! جیسا رویہ ہم نے آپ کے ساتھ رکھا ہمیں نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ ہمیں احساس ہوگیا ہے اب۔ معاف کردیں ہمیں۔۔۔!!!"
وہ دونوں گھر واپس پہنچ چکے تھے۔دیار صوفے پر سونے کے لیے تکیہ اٹھا رہا تھا جب ہمت کرکے وشہ اس کے راستے میں حائل ہوئ۔ اول تو دیار کو یقین نہ آیا وہ اسے سوری کہہ رہی ہے پر یقین آتے ہی وہ مدھم سا مسکرایا۔ اتنے دنوں سے وشہ ہمت پکڑ رہی تھی سوری کرنے کی پر سوری کرنا بھی مشکل کام تھا ۔۔۔!!!
" اٹس اوکے جانم ۔۔!! میں نے کونسا آپ کو کم تنگ کیا ہے۔ میاں بیوی کے بیچ سوری یا تھینکس جیسے تکلفات سے مجھے چڑ ہے۔ تو نو سوری نو تھینکس۔۔۔!! اوکے۔ آپ مجھے یوں سر جھکاۓ اچھی نہیں لگتی آپ کے اسی دبنگ انداز سے عشق ہے مجھے۔۔۔!!!"
وشہ سر جھکا کر انگلیاں چٹخا رہی تھی جب دیار نے اس کے ہاتھ آزاد کیے۔ وشہ کے پاس مزید الفاظ نہیں تھے سوری کرنے کو۔ وہ بتانا چاہتی تھی دیار کو کہ وہ کتنا اہم ہے اس کے لیے پر ابھی ہمت ہی نہیں تھی۔ اس سے اپنا ہاتھ چھڑ واکر روتے ہوئے وہ اس کے ساتھ لگ گئ۔ دیار لمحے کو سٹل ہوا پھر اگلے ہی پل نرمی سے حصار باندھ کر اس نے وشہ کا سر سہلایا۔
" رو کیوں رہی ہیں جانم ۔۔۔!! میں نے کونسے ظلم کردیے آپ پر جو آپ رونے لگ گئ۔ کچھ ہوا ہے میری جان کو تو مجھے بتاسکتی ہیں آپ۔ میں ہوں نا آپ کے پاس۔ ایسے کریں گی تو میں بھی رونے لگوں گا ۔۔۔!!!"
دیار نے اسے چپ کروانا چاہا۔ جو روتے ہوۓ اس سے الگ ہوکر سامنے کھڑی ہوئ۔
" آپ بھول جائیں ہمارا رویہ جو پہلے دن سے آپ کے ساتھ تھا۔ اب سے ہم نیا آغاز کرتے ہیں۔ دوستی کرلیتے ہیں۔ پلیز۔ ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ پچھلی باتوں کی وجہ سے آپ اب تک خفا ہیں ہم سے ۔۔!!!"
اپنے آنسو رگڑ کر وشہ نے اپنا دایاں ہاتھ دوستی کے لیے اس کے سامنے کیا تو ہنستے ہوۓ دیار نے اسی ہاتھ کو تھام کر اس پر عقیدت بھرا لمس چھوڑا جب وشہ نے آنکھیں میچیں۔
" لیں مسز دیار ۔۔!! کرلی دوستی۔ اب آپ خوش ہیں۔ اور میں کہاں خفا ہوں آپ سے۔ بھلا دیار اپنی ملکہ سے ناراض رہ سکتا ہے۔ کبھی نہیں ۔۔!!! "
وشہ نے آنکھیں کھول کر اس کے چہرے پر ذرا سی نگاہ ڈال کر سر ہاں میں ہلایا تو دیار نے اسے واپس سے اپنے حصار میں قید کرکے سکون بھرا سانس لیا۔
" اتنی سی بات تھی اور آپ نے اپنے انمول آنسو ضائع کردیے۔ آئندہ نہیں رونا۔ میں ہوں نا غصہ آۓ تو لڑنا ہے۔ مار بھی سکتی ہیں پر رونا نہیں ہے۔ جو پہلے دن سے ہوا سب بھول جائیں۔ نکاح حقیقت ہے ہم دونوں کے درمیان اسے بس یاد رکھیں۔ آپ بیوی ہیں میری آپ کی یہ حیثیت ہمیشہ قائم رکھے گی۔ ۔!!"
فائنلی آج وشہ نے اتنے دنوں بعد حوصلہ کرکے دیار کو راضی کرہی لیا۔ وہ اب خود سے لڑتے لڑتے تھک چکی تھی تو معافی مانگ کر اپنی غلطی سدھارنا ہی ضروری سمجھا اس نے۔
اگلی صبح کا سورج بہت سی زندگیوں میں خوشیوں کی پھیلی خوشبو محسوس کرکے جیسے کھل اٹھا۔اس کی سنہری اور دلفریب کرنوں کی چمک دور دور تک سایہ فگن ہوئ جیسے عرصے بعد کچھ زندگیوں میں چھایا اندھیرا مکمل چھٹ گیا ہو۔ سیاہی کسی حد تک ختم ہوئ ہو اور اب سویرے کا قبضہ ہو۔۔۔!!!
اندھیرا چھٹ ہی تو گیا تھا۔ سبرینہ بیگم خان حویلی سے جاچکی تھیں۔ سالوں تک اذیت ناک قید برداشت کرکے اب وہ رہا ہوچکی تھیں۔ تین طلاقیں مکمل ہونے تک اگر دلاور خان چاہتا تو وہ یہاں ہی عدت پوری کرتیں۔ ان کا دلاور خان کی مرضی کے بغیر جانا ممکن نہیں تھا۔پر دلاور خان کے ذہن پر تو اب روحیہ سوار تھی تو اسے سبرینہ اس گھر میں نظر آۓ اسے قبول نہیں تھا۔ دلاور نے رات کے اگلے پہر ہی روبرو انہیں اپنا فیصلہ سنا کر ان کے مردہ جسم میں روح پھونک دی تھی۔
تو وہیں سبرینہ کی رہائ پر راسم بھی انتہا کا خوش تھا۔ تبھی تو رات جونہی باران نے اسے اس دیو کی قید سے سبرینہ کی آزادی کی خبر دی۔ اس نے اسی لمحے شکرانے کے نفل ادا کرنے کے ساتھ ساتھ تہجد میں ایک بار پھر اسے ہی مانگ لیا۔ اب راستے آسان تھے کیونکہ عدت ختم ہوتے ہی راسم کا نکاح سبرینہ سے باران خود کروادیتا۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
" آپ نے نوز پن نہیں پہنی کبھی۔۔۔!!! نہ کانوں میں بالیاں نا ہی ہاتھوں میں چوڑیاں۔ ہماری شادی کو وقت ہی کتنا ہوا ہے ابھی۔ اور ایک آپ ہیں سادگی میں ہی گھومتی رہتی ہیں۔۔۔!!! "
وشہ کے ہونٹوں پر تبسم بکھرا۔ آج کا سورج اسے ہر گلٹ سے آزاد کردیا گیا۔ وہ گلٹ جو دیار کو تنگ کرنے کی وجہ سے اسے روز ستاتا تھا۔ آج فائنلی وہ عرصے بعد اس گلٹ سے آزادی پر دل سے مسکرائی تھی۔
دیار نے اس کی مسکراہٹ غور سے دیکھی۔ دل میں ہلچل سی مچنے لگی۔ یہ لڑکی ساحرہ تھی ۔۔۔!!! سحر طاری کرنے والی۔ کہ اچانک دیار کو یوں محسوس ہوا بےشمار پھولوں کی تازگی اس کے گرد پھیل گئ ہو۔
" ہمیں درد ہوگا نا تو ہم نے نوز پائیریسنگ نہیں کروائی۔ ڈر لگتا ہے ہمیں۔ اور کانوں میں بالیاں ہم کبھی کبھی پہنتے ہیں ورنہ بالوں میں اٹک جاتی ہیں یہ۔ باقی چوڑیاں ہم سے نہیں سنبھالی جاتی صبح کو پہنے تو رات تک ساری ٹوٹ جاتی ہیں۔ تبھی ہم نہیں پہنتے یہ سب ۔۔۔!! مشکل کام ہے ان چیزوں کو سنبھالنا۔ پتہ نہیں لڑکیاں کیسے مینج کرتی ہیں ۔۔۔!!!"
کف لنکس اٹھا کر دیار کے سامنے کھڑے ہوتے ہوۓ وشہ نے ساری توجہ اس کی آستینوں پر رکھی تھی۔ جبکہ دیار کی توجہ اس کے گلاب جیسے کھلے کھلے سے چہرے پر تھی۔ دل نے فورا اس کی خوشی کا صدقہ اتارنے کا فیصلہ کیا۔ وہیں نارمل لڑکیوں والے سارے شوق میں سے ڈر نکالتے ہوۓ وہ اسے بہت کیوٹ لگی۔
" وشہ دیار درانی کو درد بھی ہوتا ہے۔ حیرت ہوئ ہے مجھے تو یہ جان کر کہ میری شیرنی چھوٹی سی نوز پن سے ڈرتی ہے۔۔۔!! کوئ نہیں میرے ساتھ چلیے گا
میں پاس ہوا تو درد چھو کر بھی نہیں گزرے گا۔ "
دوسری آستین دیار نے وشہ کے سامنے کردی نظریں اسی کے چہرے پر جمی تھیں جس نے اب رونی صورت بنائی۔
" ہم سے نہیں ہوتا نا یہ سب ۔۔۔!!! ہمیں یہ سب نہیں پسند ۔۔۔!!!"
بیچارگی سے وشہ نے سر جھکایا۔ تب دیار نے اس کی ٹھوڑی دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں سے اوپر کی جانب اٹھائ۔ اس کی آنکھوں میں بچوں جیسا ڈر تھا۔ کہ نہیں پہنے گی وہ یہ سب۔
" پہلے تو آپ ان چیزوں سے دور بھاگتی تھیں پر اب نہیں۔ میری خواہش ہے کہ میری بیوی ہمیشہ سج سنور کر رہے۔ نا اس کے کان ویران ہوں نا ہی نوز رنگ سے خالی چہرہ ہو۔ نا چوڑیوں اور پائل کے بغیر وہ چلے۔۔۔!!!
نا ہی پھیکے رنگوں کو وہ دیکھے۔۔۔!!
کم از کم اپنی زندگی میں تو اپنی بیوی کو سر آنکھوں پر بٹھانا ہے مجھے۔ اتنا پیار دینا ہے کہ میری بیوی کو میرے علاؤہ کوئ یاد نہ رہے۔ تو کریں نا میری یہ خواہش بھی پوری۔ "
نرم اور رس گھولتی آواز سن کر وشہ کی پلکیں عارضوں پر خود بخود جھک گئیں۔ عارضوں پر چھائ سرخی دیکھ کر دیار دلفریب انداز سے مسکرایا ایسی مسکراہٹ کہ وشہ اگر دیکھتی تو دل اپنا نہ رہتا اس کا۔
" اچھا کریں گے ہم کوشش۔ بس کوشش اوکے ۔۔!! اگر کچھ بھی گڑبڑ ہوئ تو ذمہ دار آپ ہوں گے ۔۔!!"
" کوشش تو کریں اس کوشش کو پایہ تکمیل تک پہنچانا میرا کام ۔۔!!!"
جھک کر اس کی پیشانی پر بوسہ دے کر دیار نے مزید اسے تنگ کرنے کا ارادہ بعد کے لیے چھوڑ دیا۔ اور اپنا پرفیوم اٹھاکر خود پر اور اس پر سپرے کیا۔ جو اب بھی سر جھکاۓ ہلکا سا مسکرا رہی تھی۔
دیار کی خوشبو خود پر محسوس کرکے اس نے آنکھیں بند کیں۔ پھر دیار نے دوسرا پرفیوم جو وشہ استعمال کرتی تھی وہ بھی اپنے اور اس پر چھڑکا۔
دونوں پرفیومز کی خوشبوئیں مل کر ایک الگ ہی روح کی گہرائیوں تک اثر چھوڑنے والی مہک تخلیق کرگئیں۔
واپس سے اس کی طرف مڑ کر دیار نے اس کے سر پر لیا ہوا دوپٹہ ہاتھ سے سیٹ کیا۔ بس یہ کوشش تھی کچھ دیر مزید اس کے پاس رکنے کی۔
" جانمِ دار۔۔۔!!! پرسوں آپ کو میرے ساتھ کہیں جانا ہے۔ سرپرائز ہے وہاں جاکر دیکھ لیجۓ گا۔ تو اس وقت تک عبایا پہن کر تیار ہوجائیے گا۔پہلے تو آپ عبایا نہیں پہنتی تھیں۔ نہ میں نے حکم چلانا چاہا آپ پر۔ کیونکہ جب تک آپ خود مجھے اپنا محافظ نہ بناتیں میں آپ پر زور زبردستی کرنے کو غلط سمجھتا تھا۔
لیکن اب جب آپ مجھے خود قبول کرچکی ہیں اور میری جانم دل سے بن چکی ہیں تو اب سے آپ باہر نکلنے سے پہلے عبایا لازمی پہنیں گی۔ میں چاہتا ہوں میری جان کو اس کے محرم رشتوں کے علاؤہ کوئ آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ پلیز انکار نہ کیجۓ گا مجھے پہلے بھی پسند نہیں تھا کوئ یونی میں بھی آپ کو دیکھے۔ پر تب میں نے برداشت کیا۔ میں فورس نہیں کرسکا آپ کو پر اب تو بات مانیں گی نا میری ۔۔۔!!! پہنیں گی نا عبایا ۔۔۔!!!"
اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر دیار نے جیسے اس کی رضامندی جاننا چاہی تھی۔ جس نے فورا سر کو اوپر سے نیچے ہلادیا۔ اسے کوئ اعتراض نہیں تھا۔ اتنے پیار سے وہ جان بھی مانگتا تو اگلے لمحے پیش تھی۔
" سچ پوچھیں تو عباۓ کا ہمیں بھی شوق ہے پر سنبھال نہیں پاتے ہم۔ پھر ہماری یونی میں کوئ لڑکی دوپٹہ بھی نہیں اوڑھتی تو ہمیں عجیب لگتا تھا۔ لیکن اب آپ نے کہا ہے نا تو ہم مانیں گے۔آپ کی ساری خواہشیں ہم پوری کریں گے۔
چاہے وہ عبایا پہننے کی ہو یا نوز رنگ ۔۔۔!! آپ حکم دیا کریں بس۔ ہم غلط تھے جو آپ کو برا سمجھتے رہے۔ پر اب ہم ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ ہم ہوجائیں گے تیار ۔۔۔!!!"
اس کے ہاتھ تھام کر وشہ نے اسے مان بخشا تبھی دیار نے ایک گہرا سانس بھرا۔اس کی خوشبو میں۔
" آپ کو میں سنبھال لوں گا۔ میں ہوں نا آپ کے پاس تو سہارے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے آپ کو میرے علاؤہ۔ اگر آپ کی کوئ خواہش ہو تو میں بھی پوری کردوں گا۔ بلا جھجھک کہہ دیجۓ گا۔۔۔!!!"
اس کے رخسار تھپتھپاکر دیار نے اس کے ہاتھ اپنی ٹائ کی ناٹ پر رکھ دیے۔ اس کا اشارہ سمجھ کر وشہ بھی ایڑھی کے سہارے اونچی ہوکر ٹائ باندھنے لگی۔
" ہم ابھی کیسے بتائیں۔ ہمیں تو خود بھی یاد نہیں ساری باتیں۔ ماسواۓ اس کے کہ آپ ہمیشہ ہمیں میسر رہیں۔ "
ٹائ سیٹ کرتے وشہ نے جھجھک کر کہا دیار انہماک سے اس کے الفاظ سن رہا تھا۔
"جب بھی ہمیں آپ کی ضرورت ہو آپ ہماری ایک آواز پر حاضر ہوجائیں۔ اس کے علاؤہ آپ اپنا خیال رکھیں۔ پہلے ہی پچھلے چند دنوں میں بہت کچھ برا ہوگیا ہے۔ دار ہم مزید کچھ نہیں سہہ سکیں گے۔۔۔!!!
آپ سمجھ رہے ہیں نا ہمیں.آپ رکھیں گے نا اپنا خیال۔ آپ ڈاکٹر کے پاس بھی جائیں گے اور میڈیسن بھی لیں گے اس زخم کی جو بھر ہی نہیں رہا آپ کے کندھے پر۔پلیز ۔۔!!!"
ٹائی کی ناٹ سیٹ کرکے شہد رنگ آنکھوں میں نمی چمکی۔ وہ التجا ہی کررہی تھی اس سے ورنہ دیار جتنا لاپرواہ تھا خود سے وہ بھی واقف تھی۔
اس سے پہلے اس کی ملکہ پھر سے رونے لگتی دیار نے اسے اپنے حصار میں کسی نازک شے کی طرح بھرا۔
" میں سب باتیں مانوں گا آپ کی۔ میری ذات سے مستقبل میں آپ کو کبھی تکلیف نہیں ملے گی۔ بلکہ خوشیاں ملیں گی بہت زیادہ۔۔۔!!! میں پرسوں ڈاکٹر سے کنسلٹ کرلوں گا۔ یہ زخم معمولی ہی ہے ٹھیک ہوجاۓ گا ۔۔۔!!!
ٹھیک ہے جانم۔ اب مجھے دیر ہورہی ہے شام میں ملاقات ہوگی۔ اپنا خیال رکھیے گا۔ میں جلدی آجاؤں گا ۔۔!!!"
اسے خود سے الگ کرکے دیار نے اس کے رخسار تھپتھپاۓ اور اللہ حافظ کہہ کر چلا گیا آفس۔
اس کے جاتے ہی وشہ نے مسکراتے ہوۓ اپنا چہرہ ڈریسنگ مرر میں دیکھا۔ آج پہلی دفعہ اپنی پوری زندگی میں اسے اپنا آپ اتنا قیمتی لگا تھا۔ کیونکہ وہ اپنے دار کی جانم جو بن گئ تھی۔
جتنی خوشبو یہاں بکھری تھی وہ وشہ کو ایک الگ جہاں میں لے گئ۔ مسکراتے ہوۓ اپنا آنچل پھیلا کر وہ گول گھومی پھر ہنستے ہوۓ اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپاکر اس نے آیت الکرسی پڑھ کر غائبانہ طریقے سے دیار پر پھونکی۔
بہت وقت اس انا کے چکر میں برباد کیا تھا اس نے۔ کل دیار کو سوری کہتے اسے احساس ہوا دیار میں انا تھی ہی نہیں۔ اس کے معاملے میں وہ جھکا ہوا تھا پوری طرح۔ بس وہی تھی جس نے انا کی دیواریں گرانے میں دیر کردی۔
دیار جیسا مخلص ہمسفر جو ناپسندیدہ رشتے کو پہلے ہی دن سے اپنی زندگی کا مقصد بناکر اپنی بیوی کی ہزار کڑوی باتوں کو ہنس کر سہہ لے اور اس کی ایک معافی پر سب بھول جاۓ قسمت والوں کو ملتا ہے۔ وہ سچ میں کمال ظرف کا انسان تھا۔ جس نے کبھی وشہ کو جنون بناکر اذیت نہیں دی۔
اس کی ذات کا مزاق نہیں بنایا۔ اسے روندنے کی یا اپنے سامنے جھکانے کی خواہش نہیں کی۔ بلکہ اسے مقدس وجود سمجھ کر اس کی عزت کرنے کو خود پر فرض کرلیا۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
" کہاں غائب تھے تم اتنے دنوں سے ۔ میں ہفتوں سے ڈھونڈ رہا ہوں تمہیں۔ پر تم تو جیسے پاتال میں چلے گۓ تھے۔ بات کرنی تھی مجھے تم سے ایک موضوع پر ۔۔!! قرضہ نہیں مانگنا تھا۔۔۔!!"
ناشتے کے وقت یشاور نے دوبارہ بادل کے نمبر پر کال کی۔ اسے پتہ چل گیا تھا وہ واپس آگیا ہے۔ پھر کال پک ہوتے ہی اس نے بولنا شروع کردیا۔ باران ابھی معمول کے برعکس کچی نیند میں تھا روحیہ سے ایک دفعہ کی چند منٹ کی ملاقات کے بعد تو نیند بھی باران پر مہربان ہوچکی تھی۔
" علی بابا مووی کا جو نیا سیزن بن رہا ہے نا ابھی میں اسی کی شوٹنگ پر مصروف ہوں۔ بہت کام ہے یار سونے کا وقت بھی نہیں مل رہا۔
ابھی ٹام کروز سے تھوڑی دیر میں ملاقات ہے میری کہہ رہا تھا میرا بہت بڑا فین ہے وہ۔ مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔ میں نے بھی کہہ دیا وقت تو نہیں یے میرے پاس بس اس کی خاطر تھوڑا سا نکال لوں گا۔ پھر ٹرمپ کو کچھ مشورے چاہییں مجھ سے سیاست کے بارے میں اسے وہ دوں گا۔ اوباما اچھے سے ہیئر سیلون کا ایڈریس پوچھ رہا تھا اسے وہاں ڈراپ کرنا ہے۔
اقوام متحدہ کے اجلاس کی صدارت بھی کرنی ہے۔ اور سوچ رہا ہوں چاند پر بھی چلاجاؤں اگلے راکٹ میں بیٹھ کر۔ زمین سے تو کچھ ملا نہیں چاند پر ٹراۓ کروں کیا پتہ کوئ ایلین ہی آجاۓ میری زندگی میں۔ اچھا تم بتاؤں کیا کہنا ہے تمہیں ۔۔۔!!!"
جمائ روکتے ہوۓ باران نے سائیڈ سے تکیہ اٹھاکر اپنے منہ پر رکھ لیا۔ اسے شدید نیند آئ ہوئ تھی۔ سالوں بعد سکون کی نیند مل رہی تھی تو اس نیند سے دور ہونا مشکل تھا اس کے لیے۔
یشاور نے فون کان سے ہٹاکر دیکھا کہ یہ کسے فون کردیا اسے نے۔ پہلے تو یہ آواز بادل کی نہیں تھی پھر یہ لہجہ بھی اس کا نہیں تھا البتہ انداز اسی کا تھا۔
" کیا بول رہے ہو تم بادل۔۔۔!!! پاگل واگل تو نہیں ہوگۓ تم۔ مطلب کچھ بھی ۔۔۔ !!!"
باران نے تکیہ چہرے سے ہٹا کر ذرا سی آنکھیں کھولیں۔ اور منہ کے زاویے بگاڑے۔
" ہوش میں ہوں میں۔ تم نے پوچھا تھا میں کہاں غائب ہوں تو میں نے بس بتایا ہے خیالوں میں غائب ہوں۔ اب تم ہی کوڑھ مغز ہوتو میرا کیا قصور۔
جلدی بولو کام کیا ہے۔ اچھا بھلا خواب دیکھ رہا تھا میں اٹھا دیا تم نے۔ بیوی لگتا ہے منہ نہیں لگاتی تمہیں تبھی تو میرے پیچھے خوار ہورہے ہو۔
جیسا باپ ویسا بیٹا۔ نا اس کی جان کو چین ہے میرے بنا نہ تم رہ سکتے ہو۔ ایک باران دو دیوانے۔۔۔!!!
دونوں ہی مرد۔ فٹے منہ اس دیوانگی پر ۔۔۔!!!"
کہنی کے سہارے اٹھ کر باران نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائ۔ اور بیزاریت سے دانت پیستے ہوۓ دلاور خان کا چہرہ یاد کیا تو حلق تک کڑوا ہوگیا۔ صبح صبح اس حبیث کا ذکر کرنے کے بعد اب اس کا دل کیا خود کو شوٹ کرلے۔
یشاور نے بیچارگی طاری کی اپنے چہرے پر۔ صبح صبح کس پاگل کو فون کردیا تھا اس نے۔ یہ بہروپیا ہے وہ اچھے سے جانتا تھا۔ اور حیرت انگیز طور پر اسے اس کے مقصد کو جاننے میں دلچسپی نہیں تھی۔
" بہار کے گھر والوں کے ریلیٹڈ بات کرنی ہے مجھے تم سے۔ کہ کیا ہوا ہے ان کے ساتھ آخر ۔۔۔!!! جتنی تم پہنچی ہوئ چیز ہو میں جانتا ہوں یہ مسئلہ صرف تم ہی حل کرسکتے ہو۔ پلیز بادل تمہیں مدد کرنی ہوگی میری۔ میں بہار کو اس اذیت میں نہیں دیکھ سکتا اب مزید۔ اس کے مجرم اس کی آنکھوں کے سامنے مرنے چاہییں۔ تم سمجھ رہے ہونا میری بات ۔۔۔!!!"
آس پاس دیکھتے ہوۓ جب نظر کمرے سے نکلتی ہوئ بہار پر پڑی تو اس نے لب باہم پیوست کرلیے۔ وہ نارمل ہونے کی کوشش کرتی تھی پر یشاور جانتا تھا وہ تکلیف میں یے۔ جب سے وہ اس کے پاس آئ تھی اس کے کمرے میں۔ اس نے اسے آدھی رات کو نیند میں روتے دیکھا تھا۔ وہ نیند سے اٹھ جاتی تھی۔ یا کسی بھی لمحے آہٹ سے ڈر جاتی تھی۔
یشاور نے اسے سنبھالنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ اسے تسلی تھی کہ اب وہ اس کے پاس ہے وہ ڈرے گی تو وہ اسے سنبھال لے گا۔ پر اسے اس کا ڈر مکمل ختم کرنا تھا۔ مکمل طور پر ۔۔۔!!
اور یہ اسی صورت ممکن تھا جب اس کے مجرم اس کے پیروں میں گرے ہوں۔ وہ اپنے گھر والوں کی قبروں پر جاۓ۔ جی بھر کے روۓ۔ اسی صورت اسے سکون مل سکتا تھا۔
اس کی سنجیدہ بات سن کر بادل نے آنکھیں پوری طرح کھولیں۔
" تو دلاور اب وقت آگیا ہے تمہارا اصل چہرہ تمہارے بیٹے کو دکھانے کا۔ تم کتنے بڑے کمینے ہو تمہاری اولاد کا بھی حق ہے یہ جاننا۔ تمہاری کمینگی کی حدوں سے واقف ہونا چاہییے تمہاری اولاد کو۔۔۔!!!
اور بس اب تمہیں مکمل تنہا کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ صرف یشاور تھا انجانے میں ہی سہی تمہارے پاس۔ اب وہ بھی نہیں رہے گا۔ "
پراسرار سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے دل میں خود سے ہی مخاطب ہوتے ہوئے اس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
" ٹھیک ہے میں پتہ کرواتا ہوں۔ کچھ دنوں میں میں خود ملنے آؤں گا تم سے آفس تو بتادوں گا جو پتہ چلا۔ خود میں ہمت پیدا کرلینا۔ کہیں سچ تم سے برداشت نہ ہو۔ بس اتنا یاد رکھنا سچ جو بھی ہو بہار کا واحد سہارا تم ہی ہو۔ اسے تمہیں ہر قیمت پر اپنے پاس رکھنا ہے۔ سچ جو بھی ہو وہ بیوی ہے تمہاری۔
اسے خود سے قریب رکھنا۔۔۔!!!! رشتہ اتنا مضبوط ضرور رکھو اس کے ساتھ کہ کوئ بھی تیسرا تم دونوں
کے درمیان نہ آۓ۔۔۔!!! سمجھ رہے ہو نا مجھے ۔۔۔!!!"
یشاور نے اس کی باتیں سمجھنے کی کوشش کی تو یہ آڑی ترچھی باتیں سلجھانا مشکل ہوگیا۔ اس نے بس ہمم کہا۔
باقی سب بعد میں دیکھا جاتا پھر اللہ حافظ کہہ کر فون دوسری طرف رکھ کے اس نے اپنے پاس آکر کھڑی ہوتی بہار کو دیکھا۔ جو مصروف سے انداز میں اب برتن سمیٹنے لگی تھی۔
اس کا کھلا کھلا سا چہرہ دیکھ کر جیسے روح میں تازگی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ناشتہ وہ کرچکا تھا۔ تو اپنا فون پاکٹ میں رکھتے ہی ٹیبل کے سرے پر ہاتھ رکھ کر وہ وہاں سے اٹھ گیا۔
" آپ کی فائلز ڈھونڈ کر میں نے آپ کے بریف کیس میں رکھ دی ہیں۔ اور کچھ ضروری چیزیں بھی ہیں جو گھر میں ختم ہوگئ ہیں وہ بھی ٹیکسٹ کردوں گی میں آپ کو۔ لازمی لے آئیے گا۔ جانا تو مجھے خود تھا باہر لیکن میڈ آج دوپہر تک چلی جاۓ گی تو اس کے بغیر میں کہیں نہیں جاستکی۔ آپ واپسی پر سب لے آئیے گا۔۔۔!!!"
مصروف سے انداز میں جلدی جلدی بہار نے اسے سب بتایا اور جانے لگی۔ پر اگلے ہی لمحے پشاور کے اس کا ہاتھ نرمی سے پکڑا۔ تو اس نے پلٹ کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
" تیار ہوجانا شام میں۔ ہم ڈنر باہر ہی کریں گے۔ آؤٹنگ کا پلان بنایا ہے میں نے۔ امید ہے مسز کو اعتراض نہیں ہوگا۔ بلیک کلر سوٹ کرتا ہے تم پر وہی پہننا۔۔۔۔۔!!!! "
مسکراتے ہوۓ اس کا ہاتھ یشاور نے دونوں ہاتھوں سے تھاما تو لمحے کے لیے بہار کے چہرے پر پیاری سی مسکراہٹ پھیل گئ۔ دوسرے ہاتھ سے اس نے اپنے بال کان کے پیچھے کیے۔
" اچھا جو آپ کہیں ۔۔۔!! پھر آپ بھی جلدی آنا واپس۔ میں اکیلی ہوں گی تو ڈر لگے گا ۔۔!!!"
ہنوز نظریں جھکی تھیں۔ پر دل کلام میں مصروف تھے۔ دھڑکنوں کے شورسے۔۔۔!!!
"آجاؤں گا میں بھی جلدی واپس۔ ملازمہ کے جاتے ہی دروازہ اچھے سے بند کرلینا۔ اور آرام کرنا۔ کوئ کام کرنے کی ضرورت نہیں۔
اللہ حافظ ۔۔۔!!!!"
اس کی پیشانی پر عقیدت بھرا لمس چھوڑ کر یشاور نے اپنی چیزیں اٹھائیں اور آفس کے لیے نکل گیا۔ بہار اس کے ساتھ دروازے تک گئ تھی جہاں اس پر آیت الکرسی پھونک کر اسے اللہ کی امان میں دیا تب کہیں جاکر اسے سکون ملا۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا یشاور کے لیے دعائیں کرنا۔ اس کی موجودگی میں بھی اور غیر موجودگی میں بھی۔
اس کا واحد رشتہ وہی تھا جو اسے جان سے زیادہ پیارا تھا۔
" یاالٰہی ۔۔۔!! میرے پاس واحد رشتہ اب بس یہی ہیں۔ جب میری آنکھوں کے سامنے میرے اپنے قتل کیے گۓ تھے تب لگا تھا میں بھی زندہ نہیں رہوں گی۔ بھلا اس ظالم دنیا میں ایک اکیلی لڑکی کیسے سروائیو کرسکتی ہے پھر تونے مجھے ان سے ملوایا۔ جو دنیا کو کیسے لگتے ہیں مجھے اس کی پرواہ نہیں پر میرے لیے یہ اچھے محافظ ثابت ہوۓ ہیں۔ میں شکر گزار ہوں تیری۔ بس پنجتن پاک علیہم السلام کے صدقے میں اس خوشی کو میری زندگی سے کہیں جانے نہ دینا۔ "
دعا مانگتے ہوئے بہار نے دروازہ بند کردیا۔
مگر ابھی تو سچ کھلنا باقی تھا۔ تب ناجانے اس کی دعائیں یشاور کے حق میں رہتی یا نہ رہتیں۔
جیسے سیلاب ہر خشک و تر کو بہالے جاتا ہے ویسے ہی ناجانے ان کی زندگی میں عنقریب آنے والا طوفان کیسے الٹتا ان کی زندگی کو۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
مزید ایک دن گزر گیا خاموشی سے بغیر آواز پیدا کیے۔ یہ خاموشی یقینا کسی طوفان کا پیش خیمہ تھی۔
روحیہ معمول کے برعکس آج گھر پر ہی تھی رات نائٹ شفٹ کے بعد آج صبح ہی وہ تھکی ہاری گھر واپس آئ تھی۔
گردن کا درد اب کچھ حد تک بہتر تھا۔ ہمت تھی اس لڑکی کی جس نے اتنے درد کے باوجود ہسپتال میں ایک منٹ کے لیے بھی اپنے فرض سے کوتاہی نہیں برتی تھی۔ وہ جنونی تھی اس معاملے میں بھی ۔۔۔۔!!!!!
گھر آتے ہی شاور لے کر ڈھیلی سی آف وائٹ لیونڈر کلر کی شرٹ اور جینز پہن کر اپنے کھلے بالوں کو ٹاول سے رگڑ کر وہ اپنی گردن دائیں بائیں گھماتے ہوۓ اسے دباکر خود کو سکون دینے لگی۔
باران سے اس نے پرسوں کے بعد رابطہ نہیں کیا تھا۔ ابھی موڈ نہیں تھا اس کا۔ آتے ہی وہ لاونج میں صوفے پر لیٹ گئ۔ پھر کب اسے نیند آئ اسے بھی پتہ نہ چلا۔ گھر میں سکون ہی سکون تھا۔
گھنٹے گزرتے گۓ۔ اب دوپہر ہونے والی تھی۔ اور روح سکون سے سورہی تھی جب اچانک اسے محسوس ہوا کسی نے اس کے چہرے پر بکھرے بال ہاتھ سے پیچھے کیے ہوں۔ نیند کے غلبے کی وجہ سے اس نے دھیان نہ دیا۔ پر عجیب لگا تھا اسے۔
وہ کسمسا بھی نہ سکی۔ تب کچھ دیر بعد دوبارہ ایسا ہی محسوس ہوا اسے جیسے کوئ اسے دیکھ رہا ہو کسی کی نظروں کی تپش ہو اس کے چہرے پر اور کوئ فرصت سے اس کے چہرے پر جھکا اس کے نقوش ہاتھ کی پوروں سے چھو رہا ہو۔
پر کون ہوسکتا تھا یہ ۔۔۔!!! نیند میں دماغ بیدار نہ ہوسکا مکمل طور پر۔ کسمسا کر روح نے رخ موڑنا چاہا جب اچانک اس کی آنکھیں بھک سے کھلیں اس کا ہاتھ کسی نے پکڑا تھا۔ سخت گرفت میں۔اور لمس ایسا تھا جیسے کسی نے اسے تپتی آگ میں پھینک دیا ہو۔ آنکھیں اچانک کھولنے سے اسے آنکھوں کی پتلیوں میں درد محسوس ہوا پر سامنے آنکھوں نے جو دیکھا روحیہ کی جان لبوں پر آئ۔
سامنے کوئ اور نہیں شیطان بیٹھا تھا یعنی دلاور خان ۔۔۔!!!
جو چہرے پر حباثت لیے روح کو سکین کرنے میں اور ہنسنے میں مصروف تھا۔ وہ جھٹکے سے اٹھی ہاتھ اب بھی اسی کی گرفت میں تھا۔ اسے سمجھ نہ آیا وہ اس وقت یہاں کیا کررہا ہے۔ وہ اندر کیسے آیا اتنی سکیورٹی کے باوجود ۔۔۔!!!
دلاور خان جو تقریبا پانچ منٹ سے اسے تک رہا تھا اسکے اس ری ایکشن پر حباثت سے مسکرایا۔ روح کی آنکھوں کی بے یقینی اسے لطف دے رہی تھی۔
گھر میں آتے ہی صوفے کے سامنے رکھا ٹیبل ہٹا کر وہ وہاں کرسی رکھواکر روح کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ روح نے اپنا ہاتھ کھینچا پر دلاور خان جیسے حبیث لوگ کچے کھلاڑی نہیں ہوتے۔
" تم کیا کررہے ہو میرے گھر میں۔ کیسے آۓ ہو تم یہاں۔ اور مجھے چھونے کی ہمت کیسے کی تم نے۔ ہاتھ چھوڑو میرا۔ میں نے کہا دور ہو مجھ سے۔۔!!"
روحیہ کبھی اپنے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی تو کبھی اس کی کمینگی کو ایک دم غصے کی لپیٹ میں آکر روحیہ اس صوفے سے کھڑی ہوگئ اور اپنے ہاتھ کی مٹھی بناکر زور لگاکر اپنا ہاتھ چھڑوانا چاہا۔تب جھٹکے سے اسے اپنی جانب کھینچ کر دلاور خان اس کے غصے سے سرخ ہوتے چہرے سے حظ اٹھانے لگا۔
اس وقت گھر میں ان دونوں کے سوا کوئ نہیں تھا ملازم روحیہ نے ہی واپس بھیجے تھے تاکہ علی کو کوی بھی اس کی خبر نہ دے۔ باقی دلاور خان کے گارڈز گھر کے باہر موجود تھے۔
" تمہارے اس لہجے سے ہی تو عشق ہوا ہے مجھے۔ کبھی کسی نے دلاور خان کو اتنا متاثر نہیں کیا جتنا تم نے کردیا۔ بڑی ہی پہنچی شے ہو تم۔ جب تم بولتی ہو تو میرے اندر کا شیطان جاگ اٹھتا ہے۔ چیخنے لگتا ہے کہ اسے یہی چاہیے۔ اتنی اکڑ اتنا غصہ، اتنی ایگو وہ بھی عورت ذات میں مجھ سے برداشت نہیں ہوری۔ دل کررہا ہے روند دوں تمہارے اس مان کو۔ "
روحیہ کی آنکھوں میں مرچیں لگنے لگیں۔ اس کے دونوں ہاتھ دلاور کی پکڑ میں تھے ۔ وہ لڑسکتی تھی اگر یہ شخص اس کے ماضی کا خوف نہ ہوتا۔ اس کی بربادی کی وجہ تھا یہ۔ تو دماغ میں سائیںں سائیںں کی آوازیں گونجیں۔
ہاتھ چھڑوانے کی انتہا کوشش کرنے کے باوجود سواۓ ناکامی کے اسے کچھ نہیں ملا وہیں دلاور خان نے دوسرے ہاتھ سے اس کی ٹھوڑی پر چمکتے تل کو بےدردی سے رگڑا۔تو روحیہ کی جان فنا ہونے لگی۔ اس نے شدت سے چاہا وہ غائب ہوجاۓ آخر کیوں ہربار رسوائ اسی کا مقدر بنتی ہے۔ دلاور اپنا غصہ نکالنے لگا اس پر اور روحیہ سواۓ درد سے چیخنے کے علاؤہ کچھ نہ کرسکی۔
" یو باسٹرڈ ۔۔۔۔!!!! دکھا دی نا اپنی اوقات تم نے۔ کمینے انسان مجھے توڑنا تمہارے بس کی بات نہیں۔ ہاتھ چھوڑو میرے اور دور رہو ورنہ اپنے ساتھ ساتھ تمہیں بھی مار دوں گی۔۔۔۔!!!! چھوڑو مجھے ۔۔۔!!!!"
روحیہ نے غراتے ہوۓ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں تو اس کے اس انداز پر اس کی کمینگی بڑھی۔ اس کی آنکھیں، بال ، وہ تل دلاور خان کے اندر کے شیطان کو جگارہے تھے۔ اس کی چلتی زبان روکنے کے لیے دلاور خان نے اس کا جبڑا دبوچا تو درد سے وہ کراہ اٹھی۔ سر میں درد بڑھتا گیا۔
" تمہاری اس خوب صورت شکل کو داغدار کردوں یہی دل کررہا ہے میرا۔اتنا برا حشر کروں تمہارا کہ یہ دنیا تمہیں قبول ہی نہ کرے اور مجبورا ساری بچی کچی سانسیں تم میرے پاس میرے نزدیک ہی لو۔ اور خود تمہیں موت کے حوالے کرکے پھر اپنے ہاتھوں سے تمہیں دفناؤں۔۔۔!!! یہ دل کررہا ہے۔۔۔!!!"
اس کے چہرے کو مزید سختی سے دبوچتے ہوۓ اس نے اس کی میچی ہوئ آنکھیں دیکھیں پھر غرایا۔ روحیہ کو اپنا جبڑا ٹوٹتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
" کبھی نہیں سوچا تھا تم جیسی حسین پری بھی میری دسترس میں آۓ گی۔ "
اسے صوفے پر دھکیل کر دلاور نے اس کا جبڑا چھوڑ دیا۔ پھر اس کی آنکھوں سے نکلتے آنسو بےدردی سے رگڑے۔ روحیہ اب چپ تھی ذہن میں راسم گھوم رہا تھا۔ وہ بھی تو اسے محض کھلونے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا۔ وہ بےبس ہونے لگی۔
انسین لیڈی سب کرسکتی تھی سواۓ اچانک ذہن پر جھٹکہ لگنے کے بعد بغیر کسی سپورٹ کے نارمل ہونے کے۔ برین ہیمبرج کے بعد وہ زندہ تھی یہ معجزہ تھا۔ وہ ہمیشہ غلط وقت پر ہارنے لگتی تھی۔
" ڈیئر روحیہ تمہیں چند دن استعمال کرکے پھینکنا ہوگا اب مجھے۔کسی کچڑے کے ڈھیر پر۔ لاوارثوں کی طرح ۔۔۔!!! سوچا تھا تمہیں عزت سے اپنالوں۔ اپنی ملکہ بناؤں پر جو میرے ملازم نے مجھے بتایا تمہارے بارے میں کہ تم دا ارتضیٰ علی کی بہن ہو۔ اس شخص کی جس کی وجہ سے میرا کروڑوں ڈالرز کا نقصان ہوا ایک سیکنڈ میں۔
جسے میری اصلیت پتہ چلتے ہی تمام تعلقات ختم کرنے تھے۔ وہ ساری دنیا میں سب سے بڑا حیاء دار انسان ۔۔!! اس کی اکلوتی جان سے پیاری بہن کی لاش کم از کم اسے اس حال میں ملنی چاہیے کہ وہ بھی مرجاۓ اسی کے ساتھ ہی۔ کسی کو شکل نہ دکھاسکے۔۔۔!!! "
اسے ہارتا دیکھ کر اس کمینے نے اس کے ہاتھ چھوڑ دیے چہرہ پورا سرخ ہوگیا روحیہ کا۔ دلاور کو اس کی بےبسی کا تماشہ دیکھنا تھا اب۔ روحیہ زور زور سے سانس لینے لگی۔ ہاتھ کانپ رہے تھے اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھارہا تھا۔ وہ علی کی بہن تھی یہاں آتے ہوئے راستے میں بتایا دلاور کے آدمی نے۔ وہ چمچا تھا اس کا۔
تو باران اسے خرید نہیں پایا تھا۔ یہ سب محض دلاور کا سگا بننے کو اس نے کیا۔ دلاور نے چند سال پہلے علی کے ساتھ کام کیا تھا۔ ایک دن علی کو اس کے کارنامے زیادہ نہیں بس ایک دو ہی پتہ چلے تو اس نے کام ختم کرکے واپسی کی راہ لے لی۔ نقصان اسے بھی ہوا تھا پر حرام اسے قبول نہیں تھا۔ اسی بات کا بدلہ آج دلاور اس کی بہن سے لینے والا تھا۔
" اٹھو نا لڑو اب ۔۔۔!!! اس شیر کی بہن شیرنی ہوگی جانتا ہوں میں۔ پر شیرنی دو منٹ بھی نہیں لڑسکے گی یہ نہیں پتہ تھا مجھے۔۔۔!!! علی کی بہن ہو تم۔ اٹھو نا اور مارو مجھے۔۔۔!!!"
روحیہ مکمل ہمت ہار گئ۔ وہ سیاہ یادیں اس کی ہمت لے گئیں۔ دلاور نے غصے کی شدت سے الٹے ہاتھ کا تھپڑ اس کے نازک رخسار پر مارا تو وہ صوفے پر اوندھے منہ گرگئ۔ دلاور قہقہہ لگاکر ہنسنے لگا۔ آنکھوں میں نفرت تھی۔
اسے بالوں سے دبوچ کر وہ اس کے چہرے کے قریب ہوا۔ ہونٹوں سے نکلتی خون کی لکیر اس نے دلچسپی سے دیکھی۔ پھر اس کے دوسرے رخسار پر بھی تھپڑ مارتے ہوۓ اس نے اسے وہیں غصے سے دھکیل دیا۔
" باران ہیلپ۔۔۔!!! پلیز سیو می ...!!!"
سلب حواس جتنے بیدار تھے انہوں نے باران کو پکارا۔ وہ اسے آج مار دیتا۔ اس کی ذات کو روند دیتا۔ اور شاید کوئ اسے بچانے نہ آتا۔ وہ پھر سے مشکل میں پھنس گئ تھی۔
سانس بھاری ہوتا گیا۔ جب اچانک دلاور خان پھر سے اس کے قریب ہوتے ہوۓ کمینگی دکھانے کی کوشش کی۔ روحیہ نے زیر لب کلمہ پڑھا۔ اسے اب موت چاہیے تھی۔ آنکھوں سے آنسو بہتے گۓ۔
" وہ ہم کہہ رہا تھا یہاں آتے ہم تمہارا گاڑی دیکھا کسی الگ ہی راستے پر تم چل رہا تھا ہم کو بتاۓ بغیر۔ ہم کو بالکل اچھا نہیں لگا تو ہم تجسس کا مارے یہاں آگیا۔ ویسے یہ گھر کیا تم ہم سے چھپاکر لیا۔بہت غلط بات ہے یہ مارا۔ ہم سے کیوں چھپایا یہ گھر تم نے ۔۔۔!!!
پر تم ادھر آیا کیوں ہے ۔۔۔!!!"
تڑپتے کانوں نے مسیحا کی آواز سنی وہیں باران کی آواز اس جگہ سن کر دلاور خان جھٹکے سے روحیہ سے دور ہوا۔ پیچھے باران حیرت کے مارے صوفے پر گری اس شیرنی کو دیکھ رہا تھا جو کل تک اس کے ہوش اڑا رہی تھی۔
اپنی کار کی کیز جسے وہ انگلی پر گھمارہا تھا وہ نیچے گر گئ۔ قدم تھم گۓ۔ ہوائیں جیسے رک گئیں۔ اسے اس حال میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا وہ۔ وہ انجان تھی پر روح کا عکس تھی ۔۔۔!!!
وہ تو اسے نکاح کی دھمکیاں دے کر للکار رہی تھی اس ابلیس نے اسے کیوں تکلیف دی۔
پھر اس نے پھٹی آنکھوں سے اس کمینے کو دیکھا جو اس وقت گڑبڑا گیا تھا۔ اسے امید نہیں تھی اس وقت اپنے آدمیوں کے بلانے پر وہ جس لڑکی کو بچانے آیا ہے وہ روحیہ ہے۔ اس کے آدمی نے بتایا تھا کہ دلاور آج کسی معصوم کو تباہ کرنے کے ارادے سے گیا ہے اور باران آندھی طوفان بنا اس جگہ آیا تھا۔ دلاور کے گارڈز بھی تو اسی کے ہی ماتحت کام کرتے تھے تو اسے ساری خبر رہتی تھی اس شخص کی ۔۔۔۔۔!!!!
اوپر سے جیسی اس بیچاری کی حالت تھی باران کا دل لرزا۔ دھڑکنیں ساکت ہوئیں۔
اپنی روح کو باران نے نہیں بچایا تھا اس سفاک دنیا سے اسے آج تک ملال تھا اس بات کا۔ پر سامنے بےسدھ پڑی یہ لڑکی اسے جھنجھوڑ گئ کہ دیکھو تم تو آج بھی کسی مظلوم کو نہیں بچارہے۔ تم کیسے روح کا سامنا کرو گے کیسے ۔۔ ۔!!!
آج باران کا پارا ہائ ہوگیا۔ ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گۓ۔ روح کی بے سی یاد کرکے اس نے بھوکے شیر کی طرح سارے لحاظ سارے ڈرامے ایک جانب کرکے وار کیا ایسا وار کہ دلاور زمین پر اوندھے منہ گرگیا۔
" کتے ۔۔۔!!! کمینے ۔۔۔!!! ابلیس ۔۔۔!!! حرامی تیری ہمت کیسے ہوئی روحیہ کو چھونے کی۔ بےغیرت انسان۔۔۔!!! تونے اسے چھوا کیسے۔۔۔!!! میں تیرے ہاتھ کاٹ دوں گا ۔۔۔!!!!"
اس کا گریبان دبوچ کر باران نے غراتے ہوۓ کئ مکے اس ابلیس نما شخص کے منہ پر مارے کہ وہ چیخنے لگا۔
باران کا یہ انداز اسے جھٹکے کی طرح لگا تھا۔پر باران پر جنون سوار تھا اس وقت ۔ شدید جنون ۔۔۔!!!
" میری ہے وہ حرام حور ۔۔۔!!! میری ہے جسے تونے چھوا۔ میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔۔۔!!!"
اسے مارتے ہوئے باران نے لہولہان کردیا اور وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوکر ڈھے گیا۔
" گارڈز ۔۔۔!!! اس (گالی ) کو لے جاؤ اور کال کوٹھری میں پھینک آؤ۔ اس کا زوال آگیا ہے۔ تباہ تو یہ ہوگیا تھا بس اب سزا باقی ہے۔ راسم کو کہو میرے آنے تک وقفے وقفے سے اس ابلیس کو اس کی اوقات یاد دلائیں۔ ہری اپ۔۔۔!!!"
نفرت سے بھرے لہجے میں پھنکارتے ہوۓ دلاور خان کے بےسدھ جسم کو اس نے ٹھوکر ماری اور اپنے گارڈز کو اسے گھسیٹ کر لے جانے کو کہا۔ اس کے کہنے کی دیر تھی گارڈز سر جھکاکر بھاگتے ہوۓ آۓ اور اسے گھسیٹ کر لے گۓ۔ نظریں انہوں نے جھکاکر رکھیں ورنہ باران ان کی آنکھیں نوچ لیتا۔ اگر کوئ روح کو دیکھتا تو ۔۔۔!!!
بس اتنا ہی صبر تھا باران کا ۔۔۔!!!!
اس کے جاتے ہی آگے بڑھ کر باران نے نیم بےہوشی کی حالت میں جاتی ہوئ روحیہ کی جانب قدم بڑھائے اور جھک کر اس کے چہرے کو دیکھا۔
" سو سوری روح ۔۔۔!!! لٹریلی سوری ۔۔۔!! میں لیٹ ہوگیا ۔۔۔!! پر مزید دیر نہیں کروں گا۔۔۔!! سلمان ۔۔۔!!! یہاں آؤ۔۔۔!!!"
اس نے روح کے زخم کو چھونے کی ہمت کی پر حق نہیں تھا کوئ اس پر۔ بے دھیانی میں اس نے اسے روح کہا۔ خبر اسے بھی نہیں تھی۔
ہاتھوں کی مٹھیاں بناکر پیچھے مڑتے ہوئے وہ دھارا۔ اس کے سارے آدمی باہر موجود تھے۔
سلمان بوتل کے جن کی طرح سامنے موجود تھا اگلے لمحے۔
" نکاح حوان کو بلاؤ اسی وقت ۔۔۔!!! اور کسی لیڈی نرس یا ڈاکٹر کو بھی بھیجو یہاں فورا سے پہلے ۔۔۔!!!"
کرختگی سے کہتے اس نے دانت بھینچ لیے۔ ملازم حکم کی تکمیل میں سر خم کرگیا۔
کہاں روحیہ کی جان لینے کی کوشش اس نے کی تھی اور کہاں وہ آج خود نکاح کرنے کی بات کررہا تھا۔ اس وقت باران کا دل لرز رہا تھا روحیہ کو اپنے نام کرنے کی ضد کی اس نے اور یوں محسوس ہوا باران کو اگر اس نے مزید دیر کی تو روح کی حالت پر اس کا دل پھٹ جاۓ گا۔
روحیہ نے کہا تھا جن ہاتھوں سے وہ اسے اذیت دے رہا ہے انہی ہاتھوں سے اسے بچاۓ گا۔ اس کی نیلی آنکھوں میں اس کی تکلیف پر خوف پھیلے گا اور خوف پھیل رہا تھا۔
پانچ منٹ میں لیڈی ڈاکٹر باران کے سامنے آ کھڑی ہوئ۔ تب تک باران نے اپنا بادل والا فیس ماسک اتار دیا۔ اب اپنی پوری وجاہت سمیت وہ یہاں موجود تھا۔ ایک لمحے کو تو ڈاکٹر بھی اس شخص کے اصل چہرے کو دیکھ کر سٹل رہ گئ یہ شخص اتنا حسین ہوگا کوئ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ پر نظروں کو قابو میں کرنا پڑا اسے چھوٹی سی غلطی بھاری پڑ سکتی تھی اسے۔
باران نے اس لڑکی کو روحیہ کا فیس واش کرواکر اسے بغیر تکلیف پہنچاۓ کسی میڈیسن کے ذریعے ہوش میں لانے کا حکم دیا۔ اگلے دس منٹ کے اندر اندر۔
ڈاکٹر چونکہ باران کی ٹیم کا ہی حصہ تھی تو بغیر کچھ بھی کہے روحیہ کو سہارا دے کر یہیں قریب ایک کمرے میں لے گئ۔ جہاں چند کیمیکلز اس کے جسم میں انجیکٹ کرکے ڈاکٹر نے ہوش دلایا۔ پھر اس کا فیس واش کرواکر اس نے اسے وہیں بیڈ کراؤن سے ٹیک لگوا کر بٹھادیا۔
وہ اب بھی اسی شاک میں تھی جب اس سیاہ رات ہاتھ میں طلاق کے کاغذات تھامے وہ بےقصور ہونے کے باوجود دردر کی ٹھوکریں کھاتی پھری تھی۔ کچھ یادیں ناسور ہوتی ہیں جب انہیں کریدا جاۓ تو زخم پھر سے تازہ ہوجاتا ہے۔ اس کے زخم بھی تازہ ہوگۓ تھے۔
کیمیکلز کے اثر کی وجہ سے وہ کچھ منٹ کے لیے اٹھی۔ پانچ منٹ بعد نکاح خواں اور چند گواہان بھی وہاں آگۓ۔ روحیہ کی انفارمیشن اس نے پہلے ہی نکلوائ تھی تبھی نکاح نامہ فل کرواکر آج باران نے چند منٹوں کے اندر روحیہ کو قبول کرلیا۔
( روحیہ کا نام اور انفارمیشن آفیشلی چینج ہوچکی ہے۔ جیسے نام بدلا جاتا ہے کسی کا ویسے ہی۔ تو اب اس کا نکاح اس کے نۓ نام پر ہوگا۔ یعنی روحیہ زہرہ کے نام پر ۔۔۔۔!!! لیگلی وہ اب روحیہ ہی ہے۔)
نکاح جلد بازی میں ہونے کی وجہ سے روحیہ کو سمجھ کچھ بھی نہ آئ بس اتنا سمجھ آیا کسی عورت نے اسے دستحط کرنے کو کہا تھا اور رضامندی پوچھی تھی اس کی جب اس نے کسی اور کے کہنے پر رضامندی ظاہر کردی۔ دستحط ہوتے ہی نکاح نامہ رجسٹریشن کے لیے چلا گیا۔
کہاں روحیہ نے سوچا تھا یہ نکاح باران کی مرضی سے نہیں ہوگا وہ اس سے بدلہ لے گی اور کہاں وہ اب اس کی بیوی تھی۔
نکاح کی کاروائ ختم کرنے کے بعد باران نے سلمان کو روحیہ کا ضرورت کا سامان کسی ملازمہ کے ہاتھوں پیک کرواکر اس کے گھر بھیجنے کا حکم سنایا۔ روحیہ پھر سے سوگئ۔ اسے نیند کے جھٹکے لگ رہے تھے۔ تھوڑا وقت لگتا اب ٹھیک ہونے میں۔ وقت ضائع کیے بغیر اپنی چند منٹ پہلے بنی بیوی کو اٹھا کر باران نے گاڑی میں بٹھایا پھر اپنی منزل کی جانب چلا گیا۔
اسے حیرت ہوئ خود پر کہ وہ کیا کررہا ہے۔ کیا وہ پاگل ہوگیا ہے جو کسی غیر کے پیچھے پاگل ہورہا ہے۔کیا وہ اپنی روح کو بھول گیا ہے۔ پر وہ کررہا تھا یہ سب۔۔۔!!!
اپنے گھر میں لاتے اس نے اسے اپنے روم میں نرمی سے بیڈ پر لٹایا اور خود اسکے پاس بیٹھ کر اس کے چہرے پر لگے زخم دیکھے۔ اور بلا ارادہ ہی ان زخموں کو لمسِ مسیحائی بخش کر اس نے ان زخموں کو ہاتھ سے سہلایا۔ چند آنسو آج اس لڑکی کی بےبسی پر بہے۔ ہاں وہ رویا ۔۔۔!!!
اور کیوں رویا اس لمحے اسے بھی پتہ نہیں تھا۔
" بے فکر رہو اس حبیث کے ہاتھ نہ توڑ دیے تو میرا نام بھی باران نہیں۔ تمہیں مارنے یا سزا دینے کا حق میرا ہے۔ کیونکہ تم میرے پاس آئ تھی میں نظروں میں تھا تمہاری۔ تم روح جیسی تھی تو روح پر تو ہمیشہ سے باران کا حق تھا۔ پھر اس دلاور کمینے کو بیچ میں آنے کی کیا ضرورت تھی۔ میری چیز پر نظر کیسے ڈالی اس نے۔۔!!!"
اس کی آنکھوں میں جنون اترنے لگا۔ وہ بار بار روحیہ کو اپنا کہہ رہا تھا اور حیرت انگیز طور پر اسے بالکل بھی برا نہیں لگا بلکہ احساس ملکیت نے اسے فورس کیا وہ اسے اپنا کہہ کر ہی بلاۓ۔
اس کے تل کو دیکھنے کی دیر تھی باران کے اندر لاوا پھوٹنے لگا تل پر سرخی چھائ تھی۔ یہاں اس حیوان کی حیوانیت کا نشان تھا۔ نرمی سے اسے چھو کر باران نے آنکھیں میچ لیں۔
" تم میرے پاس ہی رہو گی اب چاہے تو میرا ضمیر مجھے پاگل کرے یا تم اٹھ کر کوئ واویلا مچاؤ۔ چاہے اب اس فیصلے پر مجھے پچھتاوا ہو یا تم راضی نہ ہو۔۔۔!!! ہم دونوں میں سے کوئ اب کچھ بھی کہے یا کرے تمہیں یہاں سے جانے کی اجازت نہیں ہے ۔ تمہارے نام کے ساتھ صرف نام نہیں جوڑا میں نے تمہیں قید کیا ہے اور میری قید سے تو موت بھی رہائ نہیں دے گی نا تمہیں نا مجھے ۔۔!!!"
اس کے بکھرے بال سمیٹ کر باران نے کمفرٹر اس کے گرد ٹھیک سے پھیلادیا۔ ڈاکٹر نے بس سرسری سا چیک اپ کیا تھا روحیہ کا تو اسے یہی لگا وہ ڈر کے مارے بےہوش ہوئ ہے۔ صبح تک اٹھ جاۓ گی۔ باران نے بھی مزید ٹیسٹ کروانا ضروری نہیں سمجھے۔ ابھی اس کی توجہ اس مسئلے کو اچھے سے سلجھانے پر تھی۔
" دلاور کمینے تجھے اب تڑپا تڑپا کر نہ مارا تو میرا نام بھی باران آفریدی نہیں ۔۔۔!!! تونے روحیہ کو ہاتھ لگانے کا گناہ کیا ہے۔ میں تیرے ہاتھوں کو اب کسی قابل نہیں چھوڑوں گا۔۔۔!!! یہ چپ ہوئ اس بات کا حساب بھی تو دے گا ۔۔۔!!!"
اپنی آنکھیں مسلتے ہوۓ وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔ تاکہ روح کے لیے یہاں رہنے کا بندوبست کرسکے۔ اس کا سامان اپنے کمرے میں سیٹ کرواکر وہ سکون کا سانس لیتا۔
اسی لیے کہتے ہیں وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ دوپہر تک جس لڑکی کو مارنے کا ارادہ پھر سے باران نے کیا تھا اسے دلاور خان کے پاس دیکھ کر اسے اتنا غصہ آیا۔ کہ اس نے سالوں پرانا ڈرامہ بھی ختم کردیا اور نکاح کرکے اس لڑکی کو اپنے گھر اپنے کمرے میں لے آیا ۔۔۔!!!
قسمت نے ٹھیک پلٹا کھایا تھا جسے باران مڑ کر دیکھتا بھی نہ پاکستان میں باران کے ڈیٹا کے مطابق وہ اس کی بیوی تھی۔ جلد آسٹریلیا کے اس کے ریکارڈ میں بھی یہ نکاح درج ہوجاتا۔ قانونی اور شرعی بیوی ۔۔۔!!
جسے اپنے پورے ہوش و حواس میں قبول کیا تھا اس نے۔
روحیہ ابھی تک بے ہوش ہی تھی اور ذہن جس جگہ اٹکا تھا وہ وہاں سے نکلنے کی کوشش کررہی تھی۔
باران نے فیصلہ جلد بازی میں کیوں کیا حیرت تو ہوتی ہے یہ سوچ کر۔ پر وہ عاشق تھا روح کا۔ سالوں اسی کی یاد میں گزارے تھے اس نے۔ بھلے اب وہ اس کے لیے روحیہ تھی پر عشق دل سے دل تک سفر کرتا ہے۔
محبوب کی صورت بدل جاۓ پر اس کی دل میں موجود جگہ نہیں بدلتی۔
باران بھی تڑپ گیا تھا۔ اتنا کہ اب ہوش میں آنے کے بعد بھی اس لڑکی کو دور نہ کرتا خود سے ۔۔!!
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
" کیا سوچ رہی ہو تم ۔۔۔!!!"
گیسٹ روم کے کھلے دروازے کو دیکھ کر دراب آفریدی کمرے میں داخل ہوۓ۔ سامنے ان کی بیوی کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ رہی تھی۔
قدموں کی آہٹ سے سحرش کو اندازا ہوگیا کہ کون آیا ہوگا۔ آخر اس گھر میں اب اس شخص کے سوا اپنا تھا ہی کون ۔۔۔!!!
اس سوال کو سننے کی دیر تھی ان کے چہرے پر اداسی نے ڈیرے ڈالے۔
" سوچ رہی ہوں کہ ایسا کونسا گناہ کیا تھا میں نے کہ آج میرے واپس آنے کے بعد بھی میرے بچوں نے میری شکل بھی نہیں دیکھی۔ کیا میں اس قابل بھی نہیں تھی کہ وہ ایک بار میرے سامنے ہی آجاتے۔ایک بار تو ماں کہتے مجھے ۔!!! اتنی بری تو نہیں تھی میں ۔۔۔!!!"
ان کے لہجے میں غم گھلنے لگا۔ آواز آنسوں روکنے کی کوشش میں بھیگ گئ۔ وہ کافی دنوں سے اپنے بیٹوں کی منتظر تھیں جو جانے کے بعد پلٹ کر دیکھنا بھی گناہ سمجھتے تھے اب شاید۔
قصور شنایہ نے کیا بھگتنا اب انہیں تھا۔ دراب آفریدی نے ان کے چہرے پر سالوں کی تھکن دیکھی تو دل ڈوبنے لگا۔ ایک ماں بےبسی کی حدوں پر کھڑی تھی اس وقت ۔۔۔!!! جو اولاد کے لیے روتی رہی پہلے اور اب اولاد کی وجہ سے رورہی تھی۔ نظروں کا زاویہ لان میں جگمگارہی روشنیوں کی جانب بدل کر انہوں نے گہرا سانس بھرا۔ جیسے خود کو سکون دینے کی کوشش کی ہو۔
"قصور ان کا نہیں ہے۔ ٹوٹنے کے بعد جڑنا زیادہ تکلیف دہ عمل ہے۔ وہ ابھی تکلیف میں ہیں۔ قصور تمہارا تو کبھی تھا ہی نہیں۔ تم تو خود حاسدوں کے شر کی نظر ہوئ ہو۔شاید قصور مقدر کا بھی نہیں۔ یہ تو ہمیں آزمانے کے لیے ہی لکھا جاتا ہے۔ قصور جس کا تھا اس نے تو حرام موت کو گلے لگالیا۔
اب ہم سواۓ صبر کرنے کے کچھ نہیں کرسکتے۔۔۔!!!"
ایک ٹھنڈا ہوا کا جھونکا کھڑکی کے راستے ان کے وجود سے ٹکرایا تو آنکھیں موند کر انہوں نے لب پیوست کرلیے۔ سحرش کی آنکھیں اب کی بار نم ہوئیں۔ وہ ہی کیوں ہمیشہ صبر کرتی رہیں۔
" دراب تم نے صبر کی تلقین کے سوا پچھلے اتنے دونوں میں مجھے دیا ہی کیا ہے۔ خوشیاں مانگوں تو کہتے ہو صبر کرو۔ اولاد سے ملاقات مانگوں تو کہتے ہو صبر کرو۔ بےبسی سے رہائ مانگوں تو کہتے ہو صبر کرو۔ اب تو مجھے لگنے لگا ہے مجھے اسی قید میں مر جانا چاہیے تھا کم از کم امتحان تو ختم ہو جاتا نا میرا۔ اگر صبر ہی کرنا تھا تو میں تمہارے پاس آئ ہی کیوں۔۔۔۔!!!"
ان کی جانب چہرہ موڑ کر سحرش نے دانت بھینچے۔ اب بس ہوگئ تھی ان کی۔ دراب آفریدی نے آنکھیں کھولیں۔ ان کے پاس بھی تو کرنے کو صبر ہی تھا۔
" سحرش ۔۔۔!!!! میں زور زبردستی نہیں کرسکتا ان دونوں پر۔ جو شنایہ نے اس گھر کی بہوؤں کے ساتھ کیا یے اس کے بعد میں سامنے جاتے ہوۓ ڈرتا ہوں ان کے۔ اس عورت نے تو اس گھر کے وارث کو مارنے کی کوشش کی اب بتاؤں میں درمان کو کس منہ سے تمہارے پاس لاؤں ۔۔ !!!"
انداز میں اب بھی بےبسی تھی۔ وہ تلخ سا مسکرائیں۔
" واہ جناب واہ۔۔۔!!! نکاح اس سے آپ نے کیا۔ میری جگہ اسے آپ نے دی۔ میرے بچوں کے ذہنوں سے مجھے آپ نے نکالا۔ اب اس کے کیے گۓ عملوں کی سزا مجھے ہی ملے گی۔ سردار صاحب ۔۔۔!!!! تف ہے آپ کے انصاف پر۔ بیوی شنایہ ہو تو اسے سات خون بھی معاف اور اگر مظلوم سحرش اپنا جائز حق بھیک میں مانگے تو اس کے منہ پر رکھ کے حویلی کے دروازے چٹاخ سے بند کرو کہ تاکہ ڈر کر دروازے سے ہی دور ہو جاۓ وہ ۔۔۔!!! "
مزید ایک قدم ان کی اور اٹھا کر تیکھے لہجے میں اپنے اندر کا لاوا ان کی سماعتوں میں انڈیلتے سحرش نے اپنی آنسوؤں سے تر آنکھیں جھپکیں تو کئ آنسو زمین پر دراب آفریدی کے قدموں میں گرے۔ ایک ماں کی تڑپ تھی ان آنسوؤں میں جو بےمول ہورہے تھے یہاں۔
دایاں ہاتھ ان کے رخسار تک لے جاکر کر دراب آفریدی نے ایک موتی صاف کرنا چاہا۔تو غصے سے سحرش نے ان کا ہاتھ زور سے جھٹک دیا۔
" ہاتھ نہ لگایا کرو مجھے تم۔ غصہ آتا ہے تم پر کہ تم نے میرے جانے کے بعد کسی اور سے نکاح کیا تھا۔ کسی اور سے کیا اس شنایہ سے نکاح کیا تھا جو ڈائن تھی ڈائن ۔۔۔!!! "
چیختے ہوۓ اپنی لال ہوتی آنکھوں سے انہوں نے دراب آفریدی کو گھورا۔ پھر ہاتھ ان کے گریبان پر لے جاکر اسے زور سے دبوچ لیا۔ ان کی رسائ اس گریبان پر تھی جس کی طرف دیکھنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔
جواب میں انہوں نے سر جھکایا۔
" سارے علاقے کو اپنے اشاروں پر نچاتے ہو پر اپنی اولاد تمہارے قابو میں نہیں ہے۔ تم باپ ہو ان کے یا وہ باپ ہیں تمہارے۔ مجھے میرے بچے نہیں واپس دے سکتے تم۔ تو کس منہ سے روز میرے پاس آتے ہو۔ میری بےبسی کا تماشہ دیکھنے آتے ہو نا۔
مزہ آتا یے نا تمہیں میری تکلیف دیکھ کر ۔ جاؤ دراب آفریدی جس دن ایک شرمسار باپ کی بجاۓ میرے شوہر بن گۓ نا تم تب صورت دکھانا مجھے تم اپنی۔ ورنہ زبر دے کر مار دینا مجھے۔ ایسے زندگی سے تو موت ہی اچھی ہوگی ۔۔!!!"
طنزیہ انداز میں کہتے سحرش نے ان کا گریبان چھوڑ دیا پھر واپس اسی کھڑکی سے ٹیک لگاکر کھڑی ہوگئ۔ وہ اپنا گریبان ٹھیک کرنے کی بجاۓ تڑپ کر اس کی طرف ہوۓ جو سالوں بعد واپس آنے کے بعد اب پھر سے مرنے کی بات کررہی تھی۔
" مرنے کی بات نہ کرو سحرش ۔ بہت مشکل سے ملی ہو تک مجھے۔ میں اب نہیں رہ سکوں گا تمہارے بغیر۔ زندگی کے جو چند سال رہ گۓ ہیں وہ مجھے تمہارے ساتھ ہی گزارنے ہیں۔ پلیز جتنا لڑنا ہے لڑلو پر اب ایسی کوئ بات نہ کرنا۔۔۔!!!"
ان کے ہاتھ تھامنے کی کوشش کی دراب آفریدی نے جب اپنے ہاتھ کھڑے کرکے سپاٹ چہرے کے ساتھ انہوں نے وارننگ دینے والے انداز میں انہیں روک دیا۔
" مجھ سے اب اچھے کی امید نہ رکھنا تم۔ اب یا تو تم مجھے دفناؤ گے یا اپنے بچے میں واپس لے کر آؤں گی۔ چاہے روایتی ماں ہی کیوں نہ بننا پڑا مجھے۔ اور تم اب بس چپ رہو گے۔ دعا کرنا اس کوشش میں میں ہار نہ جاؤں۔ زندگی کا کوئ بھروسہ نہیں ہے اب ۔۔۔!!!
آدھی تو خوار ہوتے گزر گئ باقی کی بچی کچی لگتا ہے اولاد کے پیر پکڑتے گزر جاۓ گی ۔۔۔!!! "
استیزائیہ انداز اپناتے ہوئے خیالوں میں انہوں نے اب شنایہ بیگم کا گلا دبایا جو سب کی زمہدار تھی۔ چہرے پر ٹھیک ماؤں والا غصہ تھا۔ دراب آفریدی تو چپ رہنے کے سوا کچھ کر بھی نہ پاۓ۔
" جنت میرے پیروں تلے تھی اکڑ میری اولاد دکھارہی ہے۔۔۔!!! ہاں جی ان کے پیروں تلے برینڈڈ جوتے جو ہوۓ۔ اب جنت تو انہیں سستی ہی لگے گی نا ۔۔۔!!!"
دانت کچکچا کر منہ بسورتے ہوۓ سحرش نے قدم اپنے بیڈ کی جانب لیے۔ ان کے نیک خیالات ان کے شوہر نے بھی سنے تھے۔
" فٹے منہ اس جدید دور پر جس نے اولاد کو دو پر لگادیے۔ اور اڑنے کا موقع دے دیا ہے اور ہم مجبور ماں باپ اس کے پیچھے بھاگنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ وہ اڑتی رہتی ہے ہواؤں میں اور ہم نیچے بھاگتے رہتے ہیں اسے روکنے کے لیے۔ اور بتانے کے لیے ہم بھی اسی دنیا میں اس کے پاس ہیں دیکھ لے وہ ہمیں۔لیکن اولاد پر پرواز کا نشہ ہی اتنا گہرا ہوتا ہے کہ وہ نہیں دیکھتی ہمیں۔
پھر بھاگتے بھاگتے ٹھوکر کھاکر ہم گر ہی کیوں نہ پڑے اور پیچھے ہی کیوں نہ رہ جائیں۔ اولاد کبھی نیچے ہمیں نہیں دیکھے گی۔ اسے بس اڑنا ہے۔ جب تک طاقت ختم نہ ہوجاۓ۔ تھک کر گر نہ جاۓ۔ جب گرجاتی ہے یہ اولاد تب اسے یاد آتا یے کوئ بوڑھے ماں باپ بھی تھے جو کب کے پیچھے چھوٹ گۓ ۔۔۔!!!"
بڑبڑاتے ہوۓ وہ بیڈ پر لیٹتے کمفرٹر اپنے اوپر ٹھیک کرنے لگیں۔ وہ پچھلے وقت کی سوچ رکھنے والی ماں تھیں جب اولاد ماں کو ماں سمجھتی تھی۔ احترام کرتی تھی ان کا۔ نہ کہ انہیں ہی جھاڑ کر رکھ دیتی تھی۔
دراب آفریدی نے سب سن کر تھکے ہوۓ قدم کمرے سے باہر کی سمت لیے۔ بےبسی کے سوا ان کے پاس اب کچھ رہا ہی نہیں تھا۔ جب اچانک انہیں پیچھے سے سحرش کی آواز آئ۔
" کیوں بجلی کا بل لاکھوں میں لے کر جاؤ گے اپنے کمرے کی لائٹس، ہیٹر اور باقی کی چیزیں چلا کر۔ ویسے ہی ہمارے ملک میں بجلی کی کمی ہے۔ بجلی بچاؤ اب۔۔! میری مانو تو یہیں سوجاؤ یا مجھے وہاں لے جاؤ۔ ایک کمرے کی لائٹس تو بند ہوں گی نا۔ بجلی کا بل کم آۓ گا ۔۔۔!!!"
کمفرٹر چہرے سے ہٹاکر سحرش نے مخلصانہ مشورہ دیا تو وہ کچھ لمحے ان باتوں کے جال میں ہی الجھے رہے۔ جب تنگ آکر سحرش نے سائیڈ سے تکیہ اٹھاکر ان کے منہ کی جانب اچھال دیا۔جو سیدھا ان کی ناک پر لگا تھا۔ وہ کراہ اٹھے۔
" اتنا سوچ کیا رہے ہو اب میں زہر لگتی ہوں کیا جو میرے پاس رہنے کے خیال نے خون چوس لیا تمہارا۔ جناب۔۔!! مانا میں شنایہ جیسی حور پری نہیں ہوں پر چڑیل بھی نہیں ہوں جو خون چوس لوں گی تمہارا۔ وہ کیا مرگئ ان کے تو رنگ ہی چھن گۓ۔ جیسی بیوی تھی ویسا ہی یہ خود ہے۔۔۔!!!"
بیویوں والے انداز میں آنے کی دیر تھی جب دوسرا تکیہ بھی دراب آفریدی کے منہ کو سوجا گیا۔ وہ شاکڈ تھے کہ سحرش کو اچانک کیا ہوجاتا ہے کبھی انہیں خود بھیجتی ہے کہ دور رہو مجھ سے کبھی مار کر روکتی ہے تو جواب تھا کہ جس عورت نے ساری زندگی ہی ایک حساب سے قید میں گزاری ہو اسے بھی خوشیاں چاہیے ہوتی ہیں۔ چاہے وہ شوہر سے لڑنے کی خوشی ہی کیوں نہ ہو۔
اپنے ارمان پورے کررہی تھیں وہ۔ اس سے پہلے وہ جگ ہی مار دیتیں ان کے سر پر وہ بیڈ کے دوسری جانب بیٹھ گئے۔
" تو معاف کردیا تم نے مجھے۔۔۔۔!!!!"
کسی آس سے پوچھا گیا۔
" بالکل بھی نہیں۔ لائٹ بند کرکے سوجانا۔ خراٹے نہ لینا۔ ورنہ میں تکیے سے منہ دبادوں گی تمہارا۔ گڈ نائٹ ۔۔۔!!!"
جواب بےنیازی سے آیا۔ اور اگلے ہی لمحے وہ سوگئیں اپنی جگہ پر۔جبکہ دراب آفریدی کو نیند کہاں آنی تھی اب وہ تو ان کی صورت ہی دیکھتے رہتے دل بھر جانے تک۔ جو اب قیامت تک بھی نہ بھرتا۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
" درمان۔۔۔!!! میرا سسرال کہاں ہے۔ دیور اور دیورانی تو دیکھ لیے میں نے نند پلس بھابھی سے بھی مل لیا۔کیا کوئ اور بھی ہے میرے سسرال میں؟"
صوفے پر بیٹھے ہوۓ درمان کے پاس بیٹھ کر زرلشتہ نے عام سے انداز میں پوچھا لیکن درمان کی لیپ ٹاپ پر گردش کرتی انگلیاں ضرور تھم گئیں۔ گلے میں گلٹی ابھر کر معدوم ہوئ۔ پر خود کو سنبھالنا آتا تھا اسے۔
" تم نے جان کر کیا کرنا ہے۔ کوئ نئ فلاسفی کری ایٹ کرنی ہے یا نیا کارنامہ کرنے کا سوچا ہے۔ دیکھو ادھر ادھر کی باتوں میں دماغ کھپانے سے اچھا ہے اپنا دھیان مجھ پر لگاؤ۔ میرے کام کرو اور مجھے ہی سوچو بس ۔۔۔!!"
انداز لبا دبا سا تھا۔انگلیوں کی حرکت اب بھی تیز تھی آنکھیں اٹھا کر اس نے زرا سی دیر کے لئے زرلشتہ کو دیکھا جو معصوم سی صورت بناۓ دونوں کہنیاں گھٹنوں پر اور سر ان ہتھیلیوں پر گراکر اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ اسے یہ جواب پسند نہ آیا۔
" آپ کو سوچ سوچ کر بور ہوگئ ہوں میں۔ یاد ہی نہیں آرہے آپ۔ اس لیے اب میں نے سوچا ہے آپ کے گھروالوں کو سوچوں گی جیسے آپ کے مما، بابا وغیرہ ۔۔۔!! پھر وہ اس دن والی حویلی دیکھنی ہے مجھے پھر سے اور اس گھر کے سب لوگوں سے بھی ملنا ہے۔ آپ نے تو ملوایا ہی نہیں بس میں اب خود ملوں گی کل جاکر ۔۔۔!!!"
ہاتھ چہرے سے ہٹا کر اس نے فورا اپنا فیصلہ سنایا۔ تو اب کی بار درمان کی ہاتھوں کی گردش پھر سے تھم گئ۔ وہ اسے جتنا ان یادوں سے دور رکھنا چاہتا تھا یہ اتنا ہی انہیں کریدتی تھی۔ لیپ ٹاپ بند کرکے درمان نے سائیڈ پر رکھ دیا۔
" کوئ ضرورت نہیں ہے ایسے فضول ارادے پالنے کی۔ تمہارا گھر یہ ہے وہ نہیں۔ اس حویلی میں جانے کی بات مزاق میں بھی نہ کرنا۔ اچھے بچوں کی طرح جاکر سوجاؤ۔ میں کام ختم کرلوں اپنا۔ مجھے تنگ نہ کرو۔ میرے علاؤہ تمہیں کچھ یاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے سمجھ گئ۔۔!!!"
نیلی آنکھوں نے نرمی سے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ جو منہ بسور کر اسے گھورنے لگی۔ اسے جاننا تھا سب۔
" آپ تو بس نہ نہ ہی کرتے رہتے ہیں۔ کبھی ہاں بھی کہہ دیا کریں۔ اچھا نہ بتائیں حویلی کا۔ یہی بتادیں میں گری کیسے تھی سیڑھیوں سے۔ اتنی اونچائی سے اپنی غلطی کی وجہ سے میں نہیں گرسکتی۔ کہیں کسی نے ڈرامے والوں کی طرح دھکا تو نہیں تھا دیا "
پچھلا سوال چھوڑ کر اس نے اگلا سوال داغ دیا تو درمان نے ایک ہاتھ اپنے چہرے پر پھر کر خود کو نارمل رکھا۔ بہت ضدی تھی یہ۔۔۔!!! جب وہ کچھ یاد کرنا ہی نہیں چاہتا تو کیوں پیچھے پڑگئ تھی ایک بات کے۔
" زری ۔۔!!! بس کرو عجیب سوال پوچھنا۔ کچھ جاننے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔ لیو اٹ ۔۔۔!!!"
بامشکل غصہ دباتے ہوۓ درمان نے ہاتھ کی مٹھی بنائ۔ اسے وہ دن یاد آیا تھا جب اپنی ماں کی اصلیت اس نے دیکھی تھی۔ زرلشتہ نے ایک کان سے سن کر اس تنبیہ کو دوسرے سے نکال دیا۔
" لالہ نے صحیح سے بتایا نہیں۔ بس اتنا کہا میں بھاگ رہی تھی گھر میں اور پاؤں سلپ ہوگیا۔ لیکن میں تو سیڑھیوں پر بھاگنے میں ایکسپرٹ ہوں بچپن سے ۔۔۔!!! آنکھیں بند کرکے بھی چڑھ سکتی ہوں میں سیڑھیاں۔ تو پھر میں گر کیسے گئ اس دن۔ اور میرے سسرال سے کوئ ہاسپٹل کیوں نہیں آیا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی ۔۔۔!!!"
سوچنے کی کوشش کرتے ہوۓ الجھ کر زرلشتہ نے منہ کے زاویے بناۓ۔ درمان کو اپنے آس پاس اس وقت آکسیجن کی کمی محسوس ہوئی۔ اپنی ماں کا چہرہ یاد کرکے تکلیف ہوئ تھی اسے۔
" زری ۔۔۔!! جاکر سوجاؤ۔ دماغ خراب نہیں کرو میرا۔ خوامخواہ اپنی جان کی دشمن بن رہی ہو تم۔ نہیں تنگ کرو مجھے۔۔۔!!!"
وارننگ دی گئ اس وقت اور اسی کے ساتھ ہی اس نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگاکر اپنی شرٹ کا اوپری بٹن کھول دیا۔ اسے غصہ آرہا تھا نۓ سرے سے۔
" آپ کا دماغ ہے یا دہی جو میں خراب کردوں گی۔ میں نے بس یہ پوچھا کہ میرے سسرال میں کون کون ہے؟ سمپل ۔۔۔!!! آپ اپنی فیملی کے بارے میں تھوڑا سا بتائیں تاکہ اپنے ماضی کو یاد کرنے میں آسانی ہو مجھے۔ ویسے کیا وہ حویلی جہاں ہم گۓ تھے۔ کیا ہم پہلے وہاں رہتے تھے۔
ہاں یاد آیا اس دن وہ آپ کی مما تھیں نا جن کی ڈیتھ ہوئ اور ہم حویلی گۓ تھے۔ "
شرارت سے زرلشتہ نے پہلی بات مزاق میں کی پر اگلی بات کی بار وہ سرے سے سرا جوڑ رہی تھی۔
درمان کی برداشت اس وقت ختم ہوئ جب اس نے شنایہ بیگم کو اس کی ماں کہا اسے یوں لگا جیسے جرموں میں ڈوبی اس گناہ گار عورت کے نام کا طمانچہ مارا ہو کسی نے اس کے منہ پر۔ وہ عورت جو اس کی چھوٹی بہن کی بھی دشمن تھی۔
گردن کی نسیں خطرناک حد تک پھول گئیں جیسے ابھی پھٹ جائیں گی۔ زرلشتہ کو بالکل اندازا نہیں تھا وہ کیا کررہی ہے اس وقت۔
" بتائیں نا درمان ۔۔۔!!! آپ کی مما تھیں نا وہ۔ کیا ہوا تھا انہیں۔ اور آپ کے بابا بھی تو وہیں تھے نا۔ ہم واپس وہاں کیوں نہیں گۓ۔ آپ کی مما ۔۔۔!!!!!!"
صوفے پر ضبط سے بیٹھے درمان کا ضبط ٹوٹا اور اگلے ہی لمحے اپنی خون آشام آنکھیں زرلشتہ کے معصوم سے چہرے پر گاڑھ کر وہ اس کا منہ دبوچ گیا۔ کہ باقی کے الفاظ اس کے منہ میں ہی دم توڑ گۓ۔
" نہیں ہے وہ میری ماں۔ وہ عورت ماں ہوہی نہیں سکتی میری۔ بار بار گالی نہ دو مجھے۔ گالی دی ہے اس عورت کو میری ماں کہہ کر تم نے ۔۔۔!!! "
غراتے ہوۓ درمان اس کے انتہا کے نزدیک ہوا کہ وہ ڈر کر پیچھے ہونے کی کوشش کرنے لگی۔ اچانک درمان کی غراہٹ دیکھ کر اسے دھچکا لگا تھا۔ پھر اپنے جبڑے میں اسے اس کی انگلیاں دھنستی ہوئ محسوس ہوئی۔
" اس زبان سے اس عورت کو میری ماں کہا نا تم سے۔"
جبڑے پر گرفت مزید سخت ہوئ۔ لہجہ آگ اگلتا تھا۔زرلشتہ نے کانپتے ہاتھوں سے اس کے ہاتھ ہٹانا چاہے۔ پر وہ کچھ بھی نہیں تھی اس کے سامنے۔
" اس زبان کو میرے حکم کے خلاف جانے کی بڑی بری عادت ہے نا۔ جب کہہ رہا ہوں میں چپ کرجاؤ تو تم چپ ہو ہی نہیں سکتی۔ ورنہ تمہیں زرلشتہ کیوں کہا جاۓ گا۔ لگتا ہے بھول گئ ہے یہ زبان کہ میرے سامنے بولنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔اب دیکھو کیا کرتا ہوں میں تمہارے ساتھ۔ آج تمہیں یاد دلادیتا ہوں میں کون ہوں۔۔۔!!!"
زرلشتہ نے چیخنا چاہا۔ درمان نے اسے خوف آیا تھا۔ بھلا اس نے ایسا کیا پوچھ لیا کہ یہ شخص غصے سے پاگل ہوجاۓ۔ نا وہ سچ جانتی تھی نا اسے کسی نے کچھ بتانے کی کوشش کی۔ اب جب یادداشت ہی نہیں تو وہ کوشش تو کرتی کہ کسی بھی طریقے سے کچھ تو جان لے۔ پر یہ کوشش اس کی جان کو آگئ۔
اس کا جبڑا چھوڑتے ہی درمان نے کمرے میں نگاہ دوڑائی اور اگلے ہی پل سامنے رکھی فروٹ باسکٹ سے پتلی دھاڑ والی چھری اٹھاکر واپس سے اس کا جبڑا پکڑا۔
" بہت بولتی ہو نا تم۔ آج زبان ہی کاٹ دیتے ہیں۔ منہ کھولو اور زبان باہر نکالو۔ ٹرسمٹ می آج سارے سوالوں کے جواب دوں گا تمہیں۔ پر یہ زبان اس ڈسٹ بن میں پھینکوں گا اس کے بعد تاکہ ساری زندگی کے لیے تم گونگی ہوجاؤ اور کبھی کچھ نہ پوچھو ۔۔۔!!!"
اس کا منہ سامنے سے جھکڑا تھا اس نے تبھی پاؤچ کی شکل میں اس کے ہونٹ ہلکے سے وا تھے۔ چھری دیکھتے ہی اس کی آنکھیں خوف سے پھٹنے لگیں۔ اس نے پہلی وہ چھری دیکھی پھر درمان کی سرخ انگارہ آنکھیں اور نفی میں سر ہلایا۔
اور کچھ بولنا چاہا پر الفاظ ساتھ چھوڑ گۓ۔ آنسو نکلتے جارہے تھے اور درمان کو بالکل بھی پرواہ نہیں تھی۔
" زبان باہر نکالو ورنہ ہونٹ بھی کاٹ پھینکوں گا۔۔!!! تم نے اس عورت کا ذکر چھیڑا ہی کیوں؟ اچھا تو تمہیں جاننا ہے نا تم کیسے گری تھی تو سنو اس عورت نے دھکا دیا تھا تمہیں۔ میری ماں نہیں ہے وہ بلکہ میری زندگی میں لگا سب سے بڑا دھبہ ہے اس کا وجود۔ مر چکی ہے وہ عورت پر میری ماں وہ نہیں ہے۔ میری ماں کوئ اور ہے ۔۔۔!!!
نفرت کرتا ہوں میں اس دھوکے باز عورت سے شدید نفرت جس نے میری ماں کو مجھ سے دور کیا۔۔۔۔!!!"
پھنکارتے ہوۓ درمان اس وقت غصے کی حدوں کو چھو رہا تھا۔اور زرلشتہ کو اپنی موت سامنے دکھ رہی تھی۔ چمکتی چھری کی تیز دھار دیکھتے اس کے دل نے سپیڈ پکڑ لی۔
درمان نے زبردستی ہی اس کا منہ کھولا اور اگلے ہی پل وہ چھری اس کے ہونٹوں سے مس ہونے لگی۔ زرلشتہ کو کچھ سمجھ نہ آیا اس نے کیا کہا ہے پر اسے یہ چھری ضرور محسوس ہوئی جو اسے مارنے والی تھی۔
" اور جاننا ہے کیا تمہیں کچھ ۔۔!!! یا اتنا تعارف بہت ہے اس کا۔ "
چھری کا دباؤ اس کے ہونٹوں پر ہلکا سا سخت ہوا۔ تو وہ شدت سے رونے لگی۔ سانس اس نے روک لیا کہیں سانس لینے کی وجہ سے ہونٹوں میں ہوتی جنبش اسے لہولہان نہ کردے۔
" میں ہر اس انسان سے نفرت کرتا ہوں اب جو اس کا تعارف میرے ریفرنس سے کرے۔ یعنی کہ تم اس وقت اس فہرست میں صف اول پر ہو۔۔۔!!! زبان باہر نکالو۔۔۔!!! یا سیدھا گردن کاٹ دوں تمہاری ۔۔۔!!!"
اس کا وہ غصہ جو اس کا اپنا دشمن تھا آج پھر سے جاگ گیا تھا اور ناجانے کیا ہوتا آج زرلشتہ کے ساتھ جو پیچھے کھسکنے کی کوششوں میں تھی جب چھری درمان نے اس کی شہہ رگ پر رکھ کر دباؤ ہلکا سا بڑھایا۔ اتنا دباؤ تھا کہ وہ درد میں بھی تھی اور خون بھی نہ بہا۔
اتنی تو غلطی اس کی نہیں تھی جتنی اسے سزا مل گئ۔ درمان کا یہ روپ دیکھ کر زرلشتہ مرنے والی تھی۔ کہاں وہ اسے بچوں کی طرح خود ہاتھ سے کھانا کھلاتا تھا اس کے بال بناتا تھا۔ اسے کہانیاں سناتا تھا۔ اور کہاں آج اس کی جان نکال رہا تھا۔
اسے سانس روکا دیکھ کر وہ زخمی سا مسکرایا۔ بس اتنی ہی یہ بہادر تھی۔ آج بھی نہیں بدلی تھی۔ اس نے سوچا۔ ساتھ ہی چھری تھوڑی سی پیچھے کرکے اس نے اس کا جبڑا چھوڑ دیا۔ جو بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی جسے اب جینے کی امید ہی نہ ہو۔
" سسسسس۔ سسسوررررری۔۔!! چھھھھھھھوڑڑڑڑڑڑڑ دیں۔۔!! آآآآآآآآآئندہ۔۔۔!!!"
آنسو لڑھکتے گۓ گالوں پر اور صوفے کی ہتھی پر ہاتھ زور سے جماکر زرلشتہ نے سانس لینے کی کوشش کرتے ہوۓ مشکل سے کہا۔
اس کی حالت کا لحاظ کرتے ہوۓ درمان نے وہ چھری دور پھینک دی اور آگے بڑھ کر اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرا۔ پھر پیشانی پر لگی پٹی دیکھ کر اسے احساس ہوا وہ پہلے ہی تکلیف میں تھی۔ یا وہ ہمیشہ تکلیف میں ہی رہتی تھی اس کے زندگی سے جڑنے کے بعد سے ۔۔۔!!!
" بس بس بس میرا بچہ۔۔۔!!! کچھ نہیں کررہا میں دیکھو میرے ہاتھ خالی ہیں۔ بس میری جان۔۔۔!!! سب ٹھیک ہے۔ بس بس بس ۔۔۔!!!"
وہ کانپ رہی تھی پوری طرح جب اس کے آنسو صاف کرکے اس نے اس کے گالوں پر لمس چھوڑا تو محسوس کیا وہ سانس نہیں لے پارہی۔ اپنی اس حرکت پر درمان کو جی بھر کر غصہ آیا۔ بس یہ غصہ ہی تو کمزوری تھی اس کی۔
زرلشتہ اس کے قریب آنے پر مزید ڈر کر جو تھوڑا بہت سانس آرہا تھا وہ بھی روک گئ۔
" سسسس۔ سسوری ۔۔۔!!!!"
کانپتے لب پھر سے معافی کے طلبگار تھے۔ درمان نے سامنے سے پانی کا گلاس اٹھاکر اس کے لبوں سے لگایا پھر خود ہی اس کی پشت سہلاکر اسے نارمل کرنے لگا۔
" سانس لو زری ۔۔۔!!! کچھ نہیں ہوا میری جان۔ بس سانس لو۔۔۔!!!"
آدھا پانی تو اس کے کپڑوں پر گرگیا بس ایک گھونٹ وہ پی سکی۔ اس کا چہرہ ہاتھوں سے صاف کرکے اس نے اسے اپنے حصار میں لیا جو اتنا ڈری تھی
کہ مزاحمت بھی نہ کی اس نے اس شخص کے آگے۔
" مت دلایا کرو مجھے غصہ زرلشتہ ۔۔۔!!! جب سہنے کی ہمت نہیں ہے۔ میں ٹوٹ چکا ہوں اندر سے تو میری کرچیوں سے دور رہا کرو کیوں خود کو زخمی کرنا چاہتی ہو تم۔۔۔!!! میں نہیں دینا چاہتا تمہیں یہ تکلیف پر آج ضروری تھا۔ ورنہ تم روز میرے بچے کچے دل کو اپنی باتوں سے توڑتی۔ اب امید ہے یہ سوال پھر کبھی نہیں پوچھو گی تم ۔۔۔!!!"
خود سے مخاطب ہوتے ہوۓ درمان نے اس کے سر پر بوسہ دیا۔ اور اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا۔ زرلشتہ کانپ رہی تھی ابھی تک ل۔ وہ شخص عجیب تھا پل میں تولہ پل ماشہ آگے اسے ڈرا رہا تھا اور اب اسے بہلارہا تھا ۔۔۔۔!!
پر جو لوگ اپنوں کے ہاتھوں ستاۓ ہوۓ ہوں وہ ایسے ہی ہوتے ہیں دنیا کی نظروں میں پاگل۔۔۔!!!
زرلشتہ کی پشت مسلسل سہلاتا رہا وہ تب تک جب تک اس کا اٹکا سانس بحال نہ ہوگیا۔ پھر اگلے ہی لمحے کمرے میں دبی دبی ہچکیوں کی آواز تھی۔ درمان نے کوئ تلخ بات نہ کی اس کے بعد۔ بس وہی درمان بن گیا جس کے نزدیک وہ بچی تھی جس کا خیال اسے ہر حال میں رکھنا تھا ۔۔۔۔!!!
وہ بھی اتنا ڈری تھی کہ اس نے کوئ شکوہ نہ کیا نہ اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کی وہ اپنی زبان کٹوانا نہیں چاہتی تھی۔ باتیں کرتے رہنا تو عادت تھی اس کی۔ پر اس عادت نے بری سزا دی تھی اسے۔
" میری جان ۔۔۔!!! میرا سکون ۔۔۔!! میری زندگی آۓ ایم ریلی ویری سوری میرا بچہ ۔۔۔!!! بس ریلیکس دلم ۔۔۔!! سب ٹھیک ہے ۔۔۔!!!"
ایک گھنٹہ گزر گیا تھا پر وہ مسلسل رو رہی تھی اور کوشش میں تھی کہ ہچکیوں کی آواز بھی باہر نہ نکلے تنگ آکر درمان نے اس کا چہرہ سامنے کیا اور آنسو صاف کرتے ہوۓ پیار سے کہا۔ اب اپنے رویے پر شرمندہ تھا وہ۔ بھلا اسے ڈرانے کی کیا ضرورت تھی۔
اس کی دھندلی ہوتی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئ تھیں۔ لب بھینچ کر درمان نے اسے واپس سے خود میں بھینچ لیا۔
" میری دھڑکن معاف کر دو مجھے۔ میں ہوں ہی ظالم۔ ٹھیک کہتی ہو تم۔ بس آج چپ ہوجاؤں آئندہ کچھ نہیں کروں گا۔۔۔!!!"
مسلسل اسے بہلانے کی کوشش کرتے ہوۓ وہ اب خود بھی تکلیف میں تھا۔جب ناجانے رات کے کونسے پہر وہ نیم بےغنودگی کی حالت میں چلی گئ تو اسے اٹھاکر اس نے بیڈ پر لٹا دیا پھر خود اسکے پاس بیٹھ کر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا۔
آج پھر اپنے غصے کی وجہ سے اس نے اسے تکلیف دی تھی۔ اور اب شرمندہ بھی تھا۔ جبکہ وہ نیند میں بھی مسلسل کانپ رہی تھی جیسے اب بھی رورہی ہو۔
دیکھا جاۓ تو غلط دونوں میں سے کوئ نہیں تھا۔ زرلشتہ تو تجسس کے مارے سوال کررہی تھی اسے کیا پتہ تھا مقابل کی دکھتی رگ دبادی ہے اس نے۔ اور درمان کا غصہ تو تھا ہی برا ۔۔۔!!!
حالات ہی خراب تھے کیا کرتے وہ دونوں ۔۔۔!!!!
جاری ہے۔۔۔
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Hum Mi Gaye Yuhi Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Hum Mi Gaye Yuhi written by Ismah Qureshi Hum Mi Gaye Yuhi by Ismah Qureshi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment