Marz E Ishq Ki Dawa Tum Ho By Husny Kanwal Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Marz E Ishq Ki Dawa Tum Ho By Husny Kanwal Complete Romantic Novel |
Novel Name: Marz E Ishq Ki Dawa Tum Ho
Writer Name: Husny Kanwal
Category: Complete Novel
وه لحاف اوڑھے مزے سے خواب خرگوشی کے ساتھ سو رھی تھی کے اچانک اسے اپنے کان میں ھلکی سی سرگوشی کی آواز آئی ...یه آواز اس کی نیند کو خراب کر رھی تھی ...پھر اس آواز نے زور پکڑ لیا ..اسے دو لمحوں بعد محسوس ھوا جیسے اس کا لحاف کھینچ رھا ھے....اس نے لحاف کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور نیند میں ھی بڑ بڑانے لگی
:” شاه نزیب جاٶ یار....تھوڑی دیر اور سولینے دو“
پھر اسے اپنا لحاف اترتا ھوا محسوس ھوا ....اس پروه مضبوطی سے لحاف کو پکڑ کر کھینچتی ھوئی اپنے حسین چھرے پر ڈالتے ھوےؔ بولی:” جاٶ ناں پلیز....تھوڑی دیر اور سولینے دو“ یه کھنے کے بعد اس نے خود کو نیند کی آغوش میں دے دیا ....
ابھی دو منٹ ھی گزرے تھے کے اس پر پانی سے بھرا جگ انڈیل دیا گیا تھا...وه چونک کر اٹھی اور پانی کا خالی جگ پکڑے شاهنزیب کو دیکھ کر تلملانے لگی:”تھوڑی دیر اور سو لینے دیتے تو کیا چلا جاتا تمھارا“وه نھایت خفگی بھرے لھجے سے بول رھی تھی....
شاه نزیب نے اس پر ڈپٹتے ھوےؔ کھا:” کالج مس ھوجاتا میرا....چلو اٹھو اب....روز کا معمول ھے تمھارا ...جب تک پانی نه ڈالو اٹھتی ھی نھیں ھو تم...ایک دن مجھے بتادو کے جس دن تم خود اپنی فکر سے اٹھ کر آئی ھو...کمرے سے باھر“ اس کی ناراضگی اس کے چھرے پر عیا تھی....:”اچھا بابا....ناراض کیوں ھوتے ھو....تم تیار ھو....میں بھی تیار ھوکر آتی ھوں“ اس نے اتنے ٹھنڈے انداز سے کھا کے اس کا غصه سارا روزانه کی طرح چھومنتر ھوگیا...
شاه نزیب:”ٹھیک ھے میں تیار ھونے جارھا ھوں....دس منٹ ھیں تمھارے پاس جلدی تیار ھوکر نیچے ڈائينگ ٹیبل پر پھنچو“ وه حکم صادر کرتے ھوےؔ کمرے سے نیکل گیا...وه دوبارا بیڈ پر لیٹ گیؔ ....
ابھی اس نے آنکھیں موندی بھی نھیں تھیں کے وه دوبارا آپھنچا تھا...:”پتا تھا مجھے...دوبارا لیٹ گیںؔ ھوگیںؔ میڈم“ وه زور سے بولنے لگا...اس کی آواز سنتے ھی وه فورا اٹھ بیٹھی :”بس ...میں تو جاھی رھی تھی“ اور کھتے ھوےؔ بیڈ سے اتر کر الماری کی طرح لپکی....
شاه نزیب :”تمھارا کچھ نھیں ھوسکتا لڑکی“ وه کھتے ھوےؔ وھاں سے چلا گیا...
ماه نور نے اس کے جاتے ھی جلدی جلدی تیاری شروع کردی :”اگر دوبارا آگیا اور مجھے تیار نه پایا...تو پھر سے ڈانٹنا شروع کردے گا...یه بھی لحاظ نھیں رکھے گا کے میں اس سے عمر میں بڑی ھوں....یه لڑکے بھی ناں ...بڑے ھوں یا چھوٹے ...رعب ان کا ایک جیسا ھی ھوتا ھے“ وه تیار ھوتی گیؔ اور اپنے آپ سے باتیں کرتی گیؔ....
ماه نور ایک امیر و کبیر خاندان کی لڑکی تھی...
رومیسا ٖ علی ٖ کامران اس کے چاچا کے بچے تھے...
راحیل ٖ اسماء اس کے دوسرے نمبر کے چاچا کے اور
شازیه آپا ٖ شھزاد اور {شاه نزیب} اس کے سب سے چھوٹے چاچا کے بچے تھے...اس کے ابو پورے خاندان کے سب سے بڑے بیٹے تھے...مگر شادی کے بیس سال بعد تک وه اولاد کی خوشی سے محروم تھے...بھت منت و مرادوں سے ملی تھی انھیں {ماه نور} .... یہی وجه تھی کے سب سے بڑے تایا کی بیٹی ھوتے ھوےؔ شاه نزیب کے علاوه وه اپنے سارے کزن سے چھوٹی تھی....
وه شاه نزیب سے صرف دوسال بڑی تھی...وه B.A کی طالبه تھی...اور شاه نزیب انجئيرنگ میں انٹر کر رھا تھا..
.وه جب نیچے ڈائينگ ٹیبل پر آئی تو شاه نزیب ناشته کر چکا تھا:”چلو تم بھی جلدی سے ناشته کرلو ...مانو“ وه کھتا ھوا اٹھ کھڑا ھوا تھا ...اس نے جوابا اثبات میں سر ھلادیا....
وه ناشته کرنے بیٹھی تو دودھ کا گلاس منه سے لگا کر دل ھی دل میں بڑ بڑانے لگی:” کیا ضرورت تھی ...ڈیڈ کو اس کو میرا چوکیدار بناکر جانے کی.... ایک ھفته ھونے کو آیا ھے ...مگر اس نے مجھے کھل کر سانس بھی نھیں لینے دیا ھے...میں تو اتنا خوش گمان تھی کے اس بار ڈیڈ علی بھئيا کی جگه اس کو میری حفاظت سونپ کر جارھے ھیں ...پر مجھے کیا خبر تھی کے یه علی بھئيا کا بھی ریکارڈ توڑ دے گا سختی کرنے میں“.......ابھی وه انھیں سوچوں میں گم سم تھی کے راحیل آکر اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا
راحیل:” کن سوچوں میں گم ھو محترمه ....جو خالی گلاس منه سے لگاےؔ بیٹھی ھو“ وه جیسے ھستے ھوےؔ کھ رھے تھے...وه ان کی بات سن کر منه سے گلاس ھٹا کر دیکھنے لگی ....وه گلاس واقعی خالی تھا...
ماه نور خالی گلاس تکتے ھوےؔ:” یه شاه نزیب مجھے پاگل کردے گا“ وه یه سن مسکرانے لگے....:”اسے ھو کیا گیا ھے؟؟؟ ......ایک ھفتے سے ٹھیک طرح بات بھی نھیں کی ھے اس نے مجھ سے...اس سخت مزاجی میں وه یه تو بھولاےؔ بیٹھا ھے کے صرف وھی تو میرا دوست ھے....ھٹلر بن چکا ھے وه پورا کا پورا....آج تو بات کر کے رھوں گی اس سے“ اس نے شکوه کرتے ھوےؔ پکا عزم بھی کرلیا تھا کے آج شاه نزیب کا دماغ ٹھیک کر ٖ کر رھے گی......:”وه بیچارا تو اپنی ڈیوٹی نیبھارھا ھے....بڑے ابو نے میرے سامنے سخت تاکید کی تھی اس کو ..... کے اگر اس نے تمھیں ٹائم ٹیبل پر نھیں چلایا تو پھر کبھی اس کو نھیں سونپے گے تمھاری ذمهداری “ وه اسے سمجھانے کی غرض سے بتارھے تھے....
پھر ھورن کی آواز نے اسے بتادیا تھا کے باھر آجاٶ.... وه فورا اپنا بسته اٹھاتے ھوےؔ:” چلیں اب کالج سے آکر بات کریں گے“ کھتے ھوےؔ ھول سے باھر چلی گی ؔ ....
راحیل اسے تب تک دیکھتا رھا جب تک وه اس کی نگاه سے اوجھل نه ھوگیؔ:”بھت ھمت ھے اس میں....جو بڑے ابو سے خود کھا جاکر کے اس بار وه تمھاری ذمھداری سمبھالنا چاھتا ھے....ورنه یه ھمت میرے اندر تو کبھی پیدا ھی نھیں ھوئی“راحیل خود کو جیسے کوس رھا ھو کے وه یه ھمت کیوں نه کرسکا....
شاه نزیب کار اسٹارٹ کر چکا تھا ...ماه نور کار میں آکر بیٹھ گیؔ... وه مرر صاف کرنے لگا....ماه نور کے منه سے بےساخته نیکلا:” اب دیر نھیں ھورھی تمھیں؟؟؟......جو صاف مرر کو بھی صاف کیےؔ جارھے ھو...“ وه اس بات پر الجھی نگاه سے اسے دیکھنے لگا....وه اچھی طرح اس کے مزاج سے واقف تھا....وه جانتا تھا کے اس کا موڈ بری طرح اُف ھے
شاه نزیب:” یار میں یه سب تمھارے لیےؔ کر رھا ھوں....تاکے بڑے ابو آئينده تمھاری ذمهداری علی بھئيا کی جگه مجھے دے کر جائيں“ وه جیسے اسے بڑے اطمینان سے سمجھا رھا ھو.....مگر وه تو جلی بھونی بیٹھی تھی...:”مجھے ایک ھٹلر کی قید سے نکل کر دوسرے ھٹلر کی قید میں آکر پھنس جانا بلکل پسند نھیں آرھا ھے....یه بتادوں میں تمھیں“ وه اسے دیکھ کر غصے سے بولی تھی...:”اب پلیز دوبارا شروع مت ھوجانا...“ وه جیسے اس کی ناراضگی کو خاطر میں ھی نه لارھا تھا.....:”اچھا اب تمھیں میری باتیں بھی بےمطلب کی لگ رھی ھیں....تمھارا یه بدلا بدلا رویه محسوس کر رھی ھوں میں.....مجھے سمجھ آرھا ھے کے یه سعدیه کا غصه ھے جو تم ایک ھفتے سے مجھ پر اتار اتار کر اپنے دل کو سکون و تسکین دے رھے ھو“ وه اس کے چھرے کو گھورتی ھوئی بولی تھی...وه اس بات پر اس کا چھره تکنے لگا:”کیا کھ رھی ھو؟؟؟“ وه انجان بن کر بولا :”اب اتنے بھی انجان مت بنو.....سب جانتی ھوں میں“ وه برھمی انداز سے کھ رھی تھی
”سعدیه کا غصه میں تم پر کیوں اتارٶں گا ؟؟؟.....تم خود سوچو“ اس نے مانو کے چھرے پر سنجیده سی نظر ڈالتے ھوےؔ کھا:”کیونکے وه تمھاری منگیتر ھے....تمھارا اس پر تو زور چلتا نھیں ....اس لیےؔ ایک ھفتے سے میری زندگی اجیرن بنارکھی ھے“انگلیوں پر بستے کی اسٹیپس لپیٹتی اور کھولتے ھوےؔ کھنے لگی
شاه نزیب نے ایک گھرا سانس لیا اور کھنے لگا:” وه میری کزن ھے....میری خاله کی بیٹی ھے وه.....صرف بچپن میں سرسری سی بات ھوگیؔ تھی ......باقاعده منگنی نھیں ھوئی ھے ھماری ....اس لیےؔ اسے میری منگیتر مت کھو....اس کے علاوه اگر اسماء ٖ رومیسا یا کوئی بھی لڑکی ھوتی تو میں اس کی بھلائی کے لیےؔ اسے ضرور روکتا....پر وه تو جیسے خودغرضی ٖ خودمزاجی ٖ ضدی اور خود سری میں سب کو پیچھے چھوڑ چکی ھے....خاله کے بے پناه لاڈ پیار نے اسے بری طرح بیگاڑ دیا ھے.....اتنا منع کیا کے مت جاٶ اپنے میل دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے.....پر اس نے تو قسم کھارکھی ھے میری بات اَن سنی کرنے کی ....اب میری طرف سے بھی وه بھاڑ میں جاےؔ....اس کا دل کرےؔ رات کے ایک بجے یا دو بجے یا پوری رات باھر گزارے ....مجھے اس کی کوئی پرواه نھیں....وه جانے اس کے ماں باپ جانیں“ اس کا چھره جیسے غصے کے مارے زرد پڑگیا ھو.....
بچپن سے ھی وه بھت ذھین و ھوشیار تھا ....اس کا ذھن بھت حد تک عورتوں کی آذادی کے خلاف تھا...وه عورتوں کے حد سے زیاده آزادانه رویه کو ناپسند کرتا تھا اس لیےؔ اسے اپنی بچپن کی منگیتر سعدیه سے اپنا نام جوڑنا بھی پسند نه آتا تھا....اس کی ناک غصے کے مارے لال ٹماٹر کی طرح ھوچکی تھی....
اس کی ناک کو لال ھوتا دیکھ وه مسکرانے لگی :”اچھا بابا.....اب نھیں کھو گی اسے تمھاری منگیتر ....پر چاچی کا کیا؟؟؟“ ماه نور اسے چھیڑتے ھوےؔ پوچھنے لگی...:”مانو .....تم چپ ھونے کا کیا لوگی؟؟؟“ وه جیسے بری طرح اس کے اس سوال پر جل گیا ھو.....ماه نور مسکراتے ھوےؔ:” آذادی......تم سے اور تمھارے اس ھٹلر پنے سے....تمھیں پتا ھے ناں جب ڈیڈ ھوتے ھیں تو میں ایک ھفتے میں صرف چار دن کالج آٹینڈ کرتی ھوں....علی بھئيا کی نگرانی میں صرف 3دن اور ڈیڈ اس میں بھی علی بھئيا کے احسان مند ھوتے ھیں....اور تم....تم نے تو حد ھی ....مطلب“ وه اور زور دیتے ھوےؔ بولی :”مطلب حد ھی پارکردی ھے....پورے ھفتے کالج آٹینڈ کیا ھے میں نے زندگی میں پہلی بار.....تم نے تو میرے ڈیڈ کو خوشی کے مارے ھارٹ آٹیک ھی دلا دینا ھے“ وه کھ کر چپ بھی نھیں ھوئی تھی کے اس نے کار روک دی.....:”آپ کا کالج آگیا ھے.....باقی باتیں بلکے شکوے اور شکایت کھوں تو بھتر ھے بعد میں کرلیں گے...ٹھیک ھے“ اس نے ایک بار پھر شاه نزیب کو غصے بھری نگاه سے گھورا اور پھر کار سے اتر کر چلی گیؔ.....وه اسے بیک ویو مرر سے جاتا ھوا دیکھنے لگا.....اس کی نگاھیں تب تک اسے دیکھتی رھیں جب تک وه کالج کے دروازے کے اندر نھیں چلی گیؔ...
اس نے کار اسٹارٹ کی مرر میں اپنے بال سوارے اور پھر کار پارک کر کے اتر گیا..اور پیدل اپنے کالج کی طرف قدم بڑھانے لگا....ماه نور کا کالج اور شاه نزیب کے کالج بھت قریب قریب تھے....اس لیےؔ وه ماه نور کے کالج کے قریب کار پارک کر کے روزانه پیدل ھی اپنے کالج جانا پسند کرتا تھا۔
دادو جان اپنے کمرے میں بیڈ پر لیٹی ھوئی تھیں کے شاه نزیب کمرے میں سلام کرتے ھوےؔ داخل ھوا...دادو اسے دیکھتے ھی اٹھ بیٹھیں تھیں...وه آکر ان کے برابر میں بیٹھ گیا...
شاه نزیب کی دادو کوئی آسی نوے سال کی عمر رسیده خاتون نھیں تھیں بلکے بھت جوان اور ھشاش بشاش محترمه تھیں...ان کی شادی بھت کم عمری میں ھونے کی وجه سے وه صرف پچاس سال کی عمر میں دادی ٖ نانی سب بن بیٹھی تھیں....وه نھایت ھی حسین و جمیل تھیں اور ساتھ شوخ مزاج کی مالکن بھی...دبلی پتلی ھونے کی وجه سے وه اپنی بھوں کی طرح لگتی تھیں ...کوئی دیکھ کر کھ ھی نھیں سکتا تھا کے وه ان کی ساس ھیں.....
انھوں نے اپنے بیٹوں کو ایک عادت ڈالی تھی کے روزانه آکر تھوڑی دیر ھی صحیح ان کے پاس بیٹھیں اور کوئی بھی کیسا بھی مسئله ٖ پریشانی ٖ خوشی ٖ خواھش ان کے ساتھ شیئر کریں.....اور اب یه عادت زور پکڑ چکی تھی....اب صرف ان کے بیٹے ھی نھیں ان کے سارے پوتے اور پوتیاں بھی آکر ان سے اپنی زندگی کا ہر سکھ دوکھ باٹتے تھے..... وه خوبصورت ھونے کے ساتھ ساتھ بھت ذھین بھی تھیں ...ان کے دل میں بھت سے راز دفن تھے اور بھت سے دفن ھونے والے تھے
شاه نزیب:” دادو.....وه مانو مجھ سے خفاء خفاء سی رھنے لگی ھے....مجھے لگتا ھے میں ضرورت سے زیاده سختی کر رھا ھوں اس پر “
دادو یه سن اس کا چھره دیکھنے لگیں۔۔۔ وه بھت پریشان معلوم ھورھا تھا اس کی پریشانی اس کے چھرے پر صاف جھلک رھی تھی
دادو:”اگر سختی نھیں کرو گے تو اس کے باپ کا دل کیسے جیتو گے“ وه مسکراتے ھوےؔ آھسته سے بولیں....
شاه نزیب:” کھیں ایسا نه ھو کے بڑے ابو کا دل جیتنے کے چکر میں ٖ میں مانو کو کھو بیٹھوں....ویسے بھی اس سخت مزاج بنے کے چکر میں ایک ھفتے سے اس سے ٹھیک طرح بات نھیں کی ھے میں نے....اگر مزید میں نے اس پر سختی کی تو آپ تو اسے جانتی ھی ھیں ...ایسی ناراض ھوگی کے تین چار ھفتوں تک بات نھیں کرے گی“
گمبیھر لھجے میں اسے بولتا ھوا دیکھ دادو کا بےساخته قہقہہ بلند ھوگیا
شاه نزیب:” دادو یھاں میں اتنا پریشان ھوں اور آپ ھس رھی ھیں“ وه شکوه کرنے لگا ...
”اچھا بھئی معافی...اب اگر ھسی آئی بھی ناں تو منه پر انگلی رکھ لوں گی “ وه مسکراتے ھوےؔ بولیں
”دادو آپ بھی ناں“ کھ کر خود بھی مسکراء دیا...
دادو:” کیوں پریشان ھوتے ھو....ایک بار میرے بڑے بیٹے کو یقین ھوجانے دو کے تم اس کی بیٹی کے ھر طرح سے قابل ھو....تم اتنے بڑے ھو کے تمھارے ھاتھوں میں اپنی بیٹی کا ھاتھ دے کر وه اپنی ذمهداری سے سبکادوش ھوسکتا ھے....اور یه صرف تبھی ممکن ھے جب اسے تم پر پوری طرح سے بھروسه ھوجاےؔ“ وه اس کے گالوں کو سھلاتے ھوےؔ کھنے لگیں....
اس کے دل کو دادو کی بات سن کر یقین ھوچلا تھا کے وه جوکر رھا ھے صحیح کر رھا ھے....اس کے جانے کے تھوڑی دیر بعد ھی ماه نور آکر دادو کے پاس بیٹھ گیؔ....اور دادو کے پاٶں دبانا شروع کردیےؔ
دادو:”کیا ھوا ؟؟؟ ....منه کیوں اترا ھوا ھے میری مانو کا؟؟؟“وه ماه نور کی تھوڑی کو اپنے ایک ھاتھ سے ھلکا سه دباتے ھوےؔ بولیں تھیں
ماه نور:”میں بھت پریشان ھوں دادو“اداس سے لھجے میں بولی....
”اچھا میرے پاٶں دبانا چھوڑو“ وه حکم دیتے ھوےؔ بولیں ...
”کیوں دادو؟؟“ وه دادو کے چھرے پر نظر ڈال کر سوالیه انداز میں پوچھنے لگی
”میں تھوڑی کوئی آسی نوے سال کی بوڑھیاں ھوں ...میں تو ابھی جوان ھوں ...آج کل کے نوجوانوں کی طرح میرا جسم کمزور نھیں ھے...یه تو تم لوگ ھو جن کے کبھی ھاتھوں میں درد ھوتا ھے ...کبھی پاٶں میں درد ھوتا .....اور چلنے کا کھ دو ذرا دور تک تو جان نیکل جاتی ھے سن کر ھی...اصل میں اس میں تم نوجوانوں کی غلطی نھیں ھے...کہاں ھم اصلی گھی مکھن اور لسی پینے والے....اور کہاں تم لوگ بازار کے ڈبے کا دودھ اور جوس پینے والے“ یه کھ کر چپ ھو گیںؔ ....پھر مانو سے بڑے پیار سے:” پریشانی کیا ھے مانو....اپنی دادو کو بتاٶ“
”دادو...وه....میں نے وعده کیا تھا شاه نزیب سے کے اس کو ذرا سه بھی تنگ نھیں کروں گی وه جو کھے گا وه چپ چاپ مانو گی.....پر.....“ یه کھ کر وه چپ ھوگیؔ
دادو اسے دیکھنے لگیں:” پر کیا ؟؟؟“ ....دادو نے دوبارا پوچھا
”پر اب مجھ سے اور نھیں ھوتا....وه کچھ زیاده ھی سخت مزاج بن رھا ھے...اتنا تو ڈیڈ اور علی بھئيا بھی نھیں کرتے ...جتنا وه مجھے ٹوچر کر رھا ھے....مجھے پتا ھے وه علی بھئیا سے میری ذمهداری ھمیشه کے لیےؔ لے لینا چاھتا ھے ....پر اب سھا نھیں جاتا.....میں نے کتنے خواب دیکھے تھے....کے خوب پارٹیاں کریں گے...لیٹ نائيڈ تک فلم دیکھیں گے....دوپھر کو آرام سے سو کر اٹھو گی...کوئی روک ٹوک لگانے والا نھیں ھوگا...جو دل میں آےؔ گا...وه کروں گی ...پر شاه نزیب نے تو جیسے میرے سارے ارمانو پر پانی ہی پھیر دیا“ وه جھنجھلا کر اپنی انگلیاں مسلتے ھوےؔ کھ رھی تھی...
”یه تو کوئی پریشانی ھے ہی نھیں“ دادو نے مسکراء کر کھا تو ماه نور الجھی نگاھوں سے ھونے دیکھنے لگی...
دادو:”ھاں ...مانو تم اس کا سارا کام کرو ...جو وه کھ رھا ھے ...وعدے کے مطابق ...مگر وعده یه تھا کے تم اس کو تنگ نھیں کرو گی .......یه نھیں تھا کے اسکے ساتھ شرارت نھیں کرو گی“ دادو کی آنکھوں میں شرارت جھلک اٹھی تھی اور وھی شرارت اب یه سنتے ھی ماه نور کی آنکھوں میں نمایا دیکھی جاسکتی تھی...
”شکریه“ کھتے ھوےؔ وه دادو کے گلے لگ گیؔ.....اور مسکراتی ھوئی کمرے سے باھر آگیؔ۔۔۔۔۔
*******-------*********
رات کے دس بجتے ھی وه واقعی ھٹلروں کی طرح دروازے پر آن پھچا تھا....ماه نور بیڈ کے سرھانے سے ٹیک لگاےؔ ڈائجسٹ پڑھنے میں مصروف تھی دروازه نوک ھوا وه فورا بول اٹھی :”آجاٶ ....شاه“ وه اندر داخل ھوا تو اس کے بلکل سر کے پاس آکر کھڑا ھوگیا اور اسے گھورنے لگا...وه یه جانتے ھوےؔ بھی کے وه اس کے سر پر آکر کھڑا ھوگیا ھے ....ڈائجسٹ سے نظریں نھیں ھٹارھی تھی تھوڑی دیر تک تو وه اسے ایسے ھی گھورتا رھا مگر جب اس نے دیکھا کے اس کی نظروں کا ماه نور پر کوئی اثر ھی نھیں پڑھ رھا ھے....
”میڈم دس بج چکے ھیں یه آپ کے سونے کا وقت ھے“ گھورتے ھوےؔ کھنے لگا...اس نے ڈائجسٹ سے نظر ھٹاتے ھوےؔ ایک بار اپنے سامنے کھڑے شاه نزیب کو دیکھا .....پھر اس سے بڑے التجائی انداز میں کھنے لگی ؛”دیکھو شاه...کہانی بس اپنے اختتام پر ھے ...اگر میں نے پوری نھیں پڑھی تو رات بھر سکون سے سو نھیں پاٶں گی...تم تو جانتے ھو ناں میں ڈائجسٹوں کی کس قدر دیوانی ھوں....سچ کھ رھی ھوں ....نیند نھیں آےؔ گی رات بھر مجھے....بس یہی سوچوں گی رات بھر بیڈ پر کروٹ بدلتے بدلتے کے آخر ھیروین کی شادی ھوئی کس سے....ھیرو سے یا اس کے تایا کے بڑے بیٹے سے جو بھت برے کردار کا مالک ھے....سمجھاکرو ناں شاه“ وه اس قدر التجائی نظروں سے کھ رھی تھی کے وه چاه کر بھی اسے منع نه کر سکا
”اچھا ٹھیک ھے لیکن صرف آدھا گھنٹه ھے تمھارے پاس...پھر اگر کہانی ختم نه ھوئی تو بھی میں تم سے ڈائجسٹ چھین لوں گا سمجھیں مانو“ وه جتاتے ھوےؔ بول کر سامنے صوفے پر جاکر لیٹ گیا....اور اپنا موبائل جیب سے نیکال کر اس میں مصروف ھوگیا...ماه نور خوش ھوکر واپس ڈائجسٹ پڑھنے لگی...تھوڑی دیر بعد اس نے ڈائجسٹ میں ھیرو کا تصوری خاکه پڑھا تو حیران ھوکر اچھل پڑی ....پھر اس نے اپنے بلکل سامنے لیٹے ھوےؔ شاه نزیب کو دیکھا اور ایک بار پھر سے ڈائجسٹ کے ھیرو کا تصوری خاکه پڑھنے لگی
ڈائجسٹ میں لکھا تھا :”بال لہلہاتے گھنے سیاه“ اس نے ڈائجسٹ ھٹا کر ایک بار شاه نزیب کے بالوں کو دیکھا اور مسکرانے لگی...بھر ڈائجسٹ پر نگاه ڈالی اس میں لکھا تھا:”آنکھیں بڑی بڑی ٖ کالی کالی جھیل جیسی گہری“ اس نے شاه کو دیکھا اور اس کے ھونٹوں پر تبسم آگیا...پھر ڈائجسٹ کی آگے کی لائن پڑھی :”ناک بلکل کھڑی ...ھونٹ جیسے گلاب کی پنکھڑیوں کی مانند گلابی گلابی“ یه پڑھنے کے بعد اس نے شاه کو دیکھا اور بےساخته بول اٹھی”نھیں بلکے گلاب بھی شرماء جاےؔ اتنے گلابی“
پھر ڈائجسٹ پر نظر دوڑائی:” رنگ جیسے سفید برف کے گالوں کی طرح....قد لمباء ....روشن پیشانی ٖ اچھی جسمانیت کا مالک“ پھر ڈائجسٹ ھٹاکر اسے دیکھ کر مسکراتے ھوےؔ ہلکے سے بولی:” ھینڈم سم ٖ ڈیشنگ اور اسمارٹ لکھنا تو رائٹر بھول گیؔ ھے شاید...پھر سیدھے بیٹھتے ھوےؔ:” ارے اس کہانی کے ھیرو سے زیاده حسین و جمیل نوجوانوں شخص تو میرے سامنے موجود ھے“اس نے اس بار بھی ہلکے ھی کھا تھا مگر اس کی نظریں جو شاه نزیب پر ٹکیں تھیں اسے محسوس کرا رھی تھیں کے کوئی اس کے موجود کو گھور رھا ھے
”کیا ھوا ؟؟....ایسے کیوں دیکھ رھی ھو؟؟؟“ وه آبرو اچکاتے ھوےؔ پوچھنے لگا....
”تمھیں دیکھنا منع ھوگیا ھے کیا؟؟؟...“ اس نے ڈائجسٹ بند کر کے اسے دیکھتے ھوےؔ کھا
”منع نھیں ھوا ....مگر پھر بھی ایسے کیوں اتنی دیر سے مجھے دیکھے جارھی ھو؟؟؟“ وه موبائل اپنی جیب میں ڈال کر سیدھا ھوکر بیٹھ گیا...
”ایسے ھی“ وه بات ختم کرنا چاھتی تھی...کیونکے وه جانتی تھی کے اگر اس نے شاهنزیب کے حسن کی تعریف کی تو وه سر چڑھ جاےؔ گا
”اچھا تمھاری کہانی کا اختتام کیا ھوا؟؟..مل گیؔ تمھاری کہانی کے ھیرو کو ھیروین ؟؟؟“ وه اس سے پوچھنے لگا...
”ھاں ...مل گیؔ....اور پتا ھے اس کہانی کی سب سے اہم بات کیا تھی؟؟“ شاه کو اس نے دیکھ کر دلچسپی سے پوچھا تو اس نے اپنی لاعلمی کا اظھار کندھے اچکاتے ھوےؔ کیا
”ھیرو اور ھیروین کی بچپن میں ھی منگنی ھوگیؔ تھی ...دونوں ایک دوسرے سے بھت پیار کرتے تھے مگر اس لڑکی کا تایا کا بیٹا بھی اسے پسند کر بیٹھا تھا ....دونوں کے بیچ آنے کی اس نے بھرپور کوشش کی....مگر آ نه سکا....ھیرو نے آنے ھی نھیں دیا اور آخر میں دونوں کی خوب دھوم دھام سے شادی ھوگیؔ ....ھے ناں مزے دار اسٹوری“ یه ساری کہانی کیونکے وه ایک ھی سانس میں جلدی جلدی سنا چکی تھی تو اب روک کر ایک گھرا سانس لینے لگی.....”مجھے تو سخت نفرت ھے ان لوگوں سے جو بچپن کی منگنی میں دیوار بنے کا کردار ادا کرتے ھیں...“وه اپنی راےؔ دیتے ھوےؔ بولی....
”ضروری تو نھیں کے بچپن کی منگیتر سے ھی محبت ھو لڑکے کو یا لڑکی کو.....محبت تھوڑی منگنی کی داسی ھوتی ھے کے جھاں منگنی ھوئی وھیں محبت ھوگیؔ.....محبت تو خود مختار ھوتی ھے“ اس نے اس قدر فلسفی جھاڑتے ھوےؔ کھا کے وه اسے حیران نظروں سے تکنے لگی
”تم تو ایسے بول رھے ھو جیسے واقعی کسی سے محبت کر بیٹھے ھو.....اگر اتنا ھی جانتے ھو محبت کے بارے میں تو بتاٶ....محبت نام ھے کس کا؟؟؟؟.....شروع کہاں سے ھوتی ھے؟؟؟.....کیا کس نے اسے پیدا؟؟؟....اور ختم کہاں ھوتی ھے؟؟“ وه آبرٶ اچکاتے ھوےؔ اس سے سوال کرنے لگی....
”محبت نام ھے جذبے کا.....شروع آنکھوں سے ھوتی ھے....کیا دل نے اسے پیدا....اور ختم سانسوں پر ھوتی ھے“وه گمبیھر لھجے میں اسے دیکھ کر کھنے لگا
”تمھیں یه سب کیسے پتا ؟؟.....کھیں سعدیه سے محبت تو نھیں کر بیٹھے؟؟؟“وه شرارتی پن سے بولی
”تم ھر بات میں سعدیه کو کہاں سے لے آتی ھو.....اگر میں ایک بار کھ چکا ھوں کے اس میں انٹرس نھیں ھے مجھے یعنی نھیں ھے“ وه یه کھتا ھوا اٹھ کھڑا ھوا....اس کے چھرے پر خفگی پڑھ لی تھی اس نے...
”اچھا بابا بیٹھو تو.....ناراض کیوں ھوتے ھو....ویسے بھی اگر تم اس میں اپنا انٹرس شو بھی کرٶ تو بھی وه تمھیں گھانس نھیں ڈالے گی“ اس کی آنکھوں میں شرارت چھائی تھی وه پھر اسے چھیڑتے ھوےؔ کھنے لگی
”تمھارے کھنے کا مطلب کیا ھے محترمه....میں گدھا ھوں جو وه مجھے گھانس ڈالے گی“ وه جو صرف ابھی دو قدم ھی چلا تھا مانو کی شرارت پر تلملاتا ھوا اس کے پاس آگیا اور اس کے سر پر کھڑا ھوکر اسے اپنی آنکھوں کے غصے سے ڈرانے لگا
”اسے دیکھ کر تو تمھارے دل کے سارے بلب جل اٹھتے ھیں خود دیکھا ھے میں نے....شاهزیه آپا کی شادی میں....کیسے پیچھے پیچھے گھوم رھے تھے تم اس کے....اب اپنی آنکھوں سے ڈرانے کی کوشش مت کرو مجھے....میں ڈرنے والی نھیں ھوں...میرے ڈیڈ کھتے ھیں کھو حق کی .....چاھے ھٹ جاےؔ سب کی“ وه بھی برھمی سے اس کے سامنے ڈٹ گیؔ تھی...
”تم سو جاٶ ....چلو“ وه لائٹ اف کراتے ھوےؔ بولا....اور پھر وھاں سے تیز تیز قدم بڑھاتا ھوا چلا گیا
”غصه تو جناب کی ناک پر رکھا ھے ذرا سی مزاج کے خلاف بات ھوئی نھیں کے غصے کے مارے پاگل ھوجاتا ھے“ وه لیٹتے ھوےؔ بڑبڑانے لگی تھی
پھر اسے یاد آیا کے اسے تو شاه نزیب کے صبح کمرے میں آنے کی تیاری بھی تو کرنی ھے...یه خیال آتے ھی فورا اٹھ بیٹھی...تین چار کشن اپنی جگه بستر پر سجادیےؔ...اور ان پر لحاف اوڑھا دیا تاکے جب پانچ منٹ بعد شاه نزیب چکر لگاےؔ تو سمجھے کے وه سو چکی ھے...اور خود وه اسٹوروم میں جا پھنچی....
شاه نزیب نے ھلکے سے دروازه کھولا ....کمرے میں ھلکا سه جھانک کر دیکھا ...وه کشن کو مانو سمجھ کر چلا گیا....وه اپنے کمرے میں آیا تو گٹار سامنے رکھا دیکھ دل میں خیال آیا کچھ گنگناےؔ....گٹار ھاتھ میں پکڑا اور بیڈ پر آکر بجانے لگا....تھوڑی دیر تک کوشش کرتا رھا مگر کوئی خوبصورت سی دھن نه بجاسکا....پھر گٹار بیڈ پر رکھ کر اپنے سائيڈ ٹیبل پر رکھی ھوئی تصویر دیکھی اور اسے ھاتھ میں اٹھا لیا...وه شاهزیه آپا کی شادی کے دن کی تصویر تھی...جس میں مانو ڈاک نیلے رنگ کی کلیوں والی فراک میں ملبوس تھی...شاه نزیب بیچ میں کھڑا تھا...اور ماه نور اس کے دائيں اور سعدیه اس کے بائيں کھڑی تھی....اور تینوں مسکراء رھے تھے...
”کاش میں تمھیں سمجھا پاتا کے منگنی کا تعلق محبت سے نھیں ھوتا...منگنی والا جوڑا لوگ بناتے ھیں اور نکاح جیسے مقدس رشتے کا جوڑا آسمانوں پر بنتا ھے...محبت تو دل سے ھوتی ھے....ھمیں تو خود پتا نھیں چلتا کے کب ھوگیؔ....تم نے یه تو دیکھ لیا کے میں شاہزیه آپا کی شادی والے دن سعدیه کے پیچھے پیچھے گھوم رھا تھا ...پر یه نھیں دیکھا کے گھوم کیوں رھا تھا....تمھیں جو پازیب اپنی جان سے پیاری ھے ...جو تمھاری ماں کی نشانی ھے ...جیسے تم پھن کر مور کی طرح ناچتی ھو....وه سعدیه کی بے جا ضد پر امی نے تمھارے پاٶں سے اتر والی تھی....اور تم نے بھی مجبور ھوکر سعدیه کو دے دی تھی....بس وه واپس لینے کے لیےؔ گھوم رھا تھا اس کے پیچھے...بڑی مشکل سے مانی تھی وه تمھاری پازیب واپس کرنے کے لیےؔ....اس کے بدلے ٹریٹ لی تھی اس نے مجھ سے....اور میں نے ہی اسے منع کر دیا تھا کے تمھیں نه بتاےؔ....کے میں نے کھا ھے اس سے کے تمھاری پایل واپس کرےؔ.....اس وقت جو تمھارے خوبصورت چھرے پر تبسم بکھری تھی وه آج بھی یاد ھے مجھے....لگتا ھے دل اسی مسکراھٹ پر ھارا تھا میں...جانیں کب تک تم میرے نظروں کے تقاضوں سے بےخبر رھو گی....کب جانو گی آخر کے میری محبت سعدیه نھیں۔۔۔۔ تم ھو....
تم ھو میری منزل ....تم ھو میری زندگی....بس تم ہی تو ھو...“ یه کھ کر اس نے تصویر تھوڑی دیر اپنے سینے سے لگا لی....اور پھر تصویر واپس اس کی جگه رکھ کر گٹار اٹھا لیا....اور مانو کا حسنِ سراپا تصور میں لاکر گانے لگا....
”تو مجھے سوچ کبھی....
یہی چاھت ھے میری....
میں تجھے جان کھوں....
یہی حسرت ھے میری...
میں تیرے پیار کا ارمان لیےؔ بیٹھا ھوں....
تو کسی اور کو چاھے ...کبھی یه خدا نه کرے
تو کسی اور کو چاھے....کبھی یه خدا نه کرے
اس کے سنھرے سنھرے بال .....لمبے کمر تک ...اس کی کمر کو ڈاھنپے ھوےؔ....اس کی آنکھیں ذرا سی کتھی اور تھوڑی سرمے بھری جن میں ھے شرارت کا پھرا.....چلچل سه مکھڑا....نزاکت کی چادر اوڑھے....جیسے اسے اور حسین بناتا ھو....ناک چونچ والی کھڑی چمکدار....ھونٹ گلابی گلابی....پتلا سه چھرا ....نازک سه سراپا....سنگ ِ مرمر سے تراشه ھوا مجسمه ھو جیسے ....رنگ و وروپ کی رانی ھے وه....سچ پوچھوں تو مجھ سے تو جھاں تبسم بھرا چھره اس کا آنکھوں کے رستے دل میں اترتا ھے....وھین اس کا غصه اسے اور دلکش بنادیتا ھے....شوخیوں میں ڈوبی ادائيں...لھراتا آنچل ھے جیسے بادل........وه سر سے پاٶں تک سراپاےؔ حسن ھے“
اسے خبر بھی نھیں ھوتی کے ماهنور رسی اسٹور سے لانے کے بعد وھاں سے گزر رھی ھوتی ھے ....اس کا گانا سن تھم جاتی ھے...کمرے کا دروازه ہلکے سے کھولتی ھے....مگر کم بخت پھر بھی چرچراھی جاتا ھے...مگر وه اتنا مگن ھوتا ھے کے ماه نور کی موجودگی کا اسے پتا نھیں چلتا....ماه نور کمرے میں جھانک کر دیکھتی ھے....تو شاه کو تصویر کو دیکھ کر گانا گاتا دیکھ مسکرانے لگتی ھے
”سب سے کہتا ھے مت کھو اسے میری منگیتر....اور اکیلے میں بیٹھ کر اس کی تصویر کو دیکھ کر محبت کا اظھار کر رھا ھے....ویسے اس میں اس بیچارے کی کیا غلطی....اس سعدیه کا تو مزاج ہی نھیں ملتا ....پتا نھیں خود کو کہاں کی شھزادی سمجھتی ھے ....اتنی محبت کرنے والا منگیتر ملا ھے اسے....مگر اسے تو کوئی قدر ھی نھیں ھے...ایک تو یه بات مجھے سمجھ نھیں آتی...ہمیشہ اسی انسان کو وه چیز کیوں ملتی ھے جیسے اس کی قدر نھیں ھوتی“ وه منه لٹکاےؔ ابھی انھیں سوچوں میں گم ھوتی ہے کے سامنے سے اسے کسی کے آنے کی آھٹ سنائی دیتی ھے....وه فورا بھاگ کر پلر کے پیچھے چھپ جاتی ھے....پھر تھوڑی دیر بعد وه پلر کے پیچھے سے نیکل کر واپس شاه کے کمرے میں جھانکتی ھے...علی بھئيا اور شاه باتیں کر رھے ھوتے ھیں...
”گانا تو بھت اچھا گاه رھے ھو ....پر یه بتاٶ کس کے لیےؔ گاه رھے ھو؟؟؟“ علی بھئيا اشتیاق سے پوچھنے لگے....
”ایسے ہی دل چاھ رھا تھا...آپ سنائيں کوئی کام تھا کیا؟؟“ وه بات ٹالتے ھوےؔ پوچھنے لگا....
”نھیں...ایسے ہی...آج کل بڑی خاموشی ھے گھر میں...اس لیےؔ سوچا آکر تمھارا شکریه ادا کردوں“وه شاه کے کندھے پر ھاتھ رکھ کر بولے تھے....
”کس بات کا شکریه؟؟...“ وه انجان نظروں سے انھیں دیکھتے ھوےؔ کھنے لگا...پر باہر کھڑی ماهنور ان کی بات سمجھ چکی تھی...
”یار...ماه نور کی ذمہداری کا“ وه قہقہہ لگاتے ھوےؔ بولے...ان کی بات سن شاه مسکراء دیا....
”ناک میں دم کر کے رکھتی ھے وه لڑکی ...مگر تم نے تو جیسے اس شیرنی کو سولا ہی دیا ھو...ایک ہفتے سے اس نے کسی کو تنگ نھیں کیا....میں..... نھیں ....بلکے سب بھت خوش ھیں....سکون چھایا ھوا ھے پورے گھر میں....اب جب بھی بڑے ابو کھیں جائيں گے تو میں خود ان سے کھوں گا کے مانو کی ذمھداری شاه کو دیں....سچ میں تم نے دل جیت لیا ھے “ وه داد دیتے ھوےؔ بولے...
ماهنور کا دل تو چاھ رھا تھا کے ابھی کچھ ایسا کرےؔ کے ٹھیک کردے سب کو....مگر وه دانت پیستی ھوئی آکر اپنے کمرے میں بیٹھ گیؔ....”اچھا بچو.....ایک ھفتے سے میں اپنا وعده پورا کر رھی ھوں....تم جو کھ رھے ھو وه چپ چاپ کر رھی ھوں...اور تم بیٹھ کر علی بھئيا کے ساتھ میرا مزاق اڑا رھے ھو....اب بتاتی ھوں تمھیں...شاه نزیب افتخار....کے کس سے پالا پڑا ھے تمھارا...نانی یاد نه دلادی...تو میرا نام بھی ماه نور نھیں“ وه اپنا دوپٹه شانوں سے اتار کر کمر پر باندھتے ھوےؔ بولی...اس کا عزم پکا تھا کے اب شاه نزیب کو چھوڑنا نھیں ھے...اسے تو چھٹی کا دودھ یاد دلانا ھے....
”نھیں...اس میں میرا کوئی کمال نھیں ھے...وه بھت اچھی ھے ...بس تھوڑی شرارتی مزاج ھے...مانتا ھوں اس کی شرارتوں سے سب پریشان ھوتے ھیں ...مگر اس کا اراده کسی کو تکلیف پہچانے کا نھیں ھوتا...اور وه وعده کر کے پھنس گیؔ ھے مجھ سے بیچاری....آپ نے دیکھا نھیں ھے اسے....اس کا کھلتا گلاب سه چھره آج کل مرجھایا مرجھایا سہ ھے“ شاہنزیب علی بھئيا کی بات کا جواب دیتے ھوےؔ ماه نور کے بھولے پن کے قصیدے سنانے لگا۔...
ماه نور نے رسی سے پانی کی آدھی بھری بالٹی کو باندھ دیا اور اسے دروازے پر تکتہ رکھ کر اس کے اوپر رکھ دیا...دروازه تھوڑا کھولا چھوڑ دیا اور آرام سے آکر بیڈ پر چت ھو گیؔ....من ھی من مسکرانے لگی....اور صبح کا بےصبری سے انتظار کرنے لگی...اسے پورا یقین تھا کے سب سے پہلے شاه نزیب ھی روزانه کی طرح اس کے کمرے کا دروازه کھولے گا...
روزانه کی طرح آج بھی اندھیرے کو چیرتا ھوا سورج نیکل آیا....اس کی زرد کرنیں پورے آسمان میں پھیل گیںؔ....چڑیوں نے گنگنانا شروع کر دیا...کویل کی کو کو بھت مدھم مدھم سنائی دے رھی تھی... ھواٶں نے پتوں کو پودوں کو بدمست سہ کردیا تھا...
وه ابھی لحاف اوڑھے نیند کے مزے میں گم تھی کے ایک زواردار چیخ کانوں میں گونج اٹھی..... وه فورا اٹھ بیٹھی چونکے بھت گہری نیند سے اچانک آنکھ کھولی تھی ...اس لیےؔ کچھ دیر کے لیےؔ تو دماغ ھی کام نه کیا...اس لیےؔ آنکھیں مسلنے لگی کے جو وه دیکھ رھی ھے وه سچ ھے یا جھوٹ ....ھوش تو تب آیا جب بڑی چچی جان نے القابات سے نوازنا شروع کردیا...
شاه نزیب بھاگتا ھوا آیا تو بڑی چچی جان کو سر پکڑا دیکھ اور پورا پانی میں بھیگا دیکھ کر حیران رھ گیا...
”ارے آنے دے تیرے باپ کو...بتاتی ھوں انھیں میں تیری اس حرکت کے بارے میں...بھلا کوئی ایسا کرتا ھے کیا....سر پر پھلے اتنا زوردار تکته آن پڑا اور پھر بےموسم برسات نے پورا بھیگو دیا....سب کو عقل آجاےؔ گی مگر اس لڑکی کو کبھی نھیں آےؔ گی“ بڑی چچی جان سر پکڑے غصے میں آگ بگوله ھوکر خوب سناکر ماه نور کو وھاں سے چلی گیںؔ....
شاه نزیب بھی اسے غصے بھری نگاه سے تک رھا تھا...
ماه نور :”تم ...کہاں تھے تم آج...روز سب سے پہلے آجاتے ھو...آج کہاں مرگےؔ تھے...یه سب تمھاری وجه سے ھوا ھے“ وه برھمی سے بیڈ سے اتر کر اس کے پاس آکر آنکھوں میں آنکھیں ڈال بولی
”تمھیں شرم نھیں آتی اپنا وعده توڑتے ھوےؔ...اور اوپر سے مجھے کھتی ھو سب میری وجه سے ھوا ھے “ وه بھی شیر کی طرح دھاڑ اٹھا تھا....
”اگر تم دروازه کھولتے ....تو بڑی چچی جان کے ساتھ یه سب نه ھوتا“ وه اسے دھاڑتا ھوا دیکھ جھم گیؔ تھی اور جھمے جھمے لھجے میں بول رھی تھی...
شاهنزیب:”پتا ھے میں نے صرف سنا تھا کے جو ھوتا ھے اچھے کے لیےؔ ھوتا ھے ....آج دیکھ بھی لیا...بڑی چچی جان نے مجھ سے کہا وه میری جگه تمھیں اٹھانے آجائيں گی اور میں ان کی تیار کرده چاےؔ دادو کے کمرے میں رکھ آٶں“ اسے اداس ھوتا دیکھ وه ساری بات بیان کر چکا تھا....”چلو اب اداس مت ھو میں بڑی چچی جان سے منع کردوں گا کے تمھاری شکایت نہ لگائيں“وه اسے دلاسه دیتے ھوےؔ کھنے لگا....”اچھا ویسے تم نے تکتہ اور پانی بھری بالٹی کا انتظام میرے لیےؔ ھی کر رکھا تھا ناں؟؟؟؟“ وه بھت پیار سے استفسار کرنے لگا...
ماهنور نے بھی بڑا بھولا سه چھره بناےؔ اثبات میں سر ھلادیا....اثبات میں سر ھلتا ھوا دیکھ وه فورا اپنا دھیما لھجه بدل گیا اور زور سے ”تمھاری تو میں....“ ایک دم گرج کر بولنے لگا...اس کا لہجہ بدلتا ھوا دیکھ وه ڈر کے مارے بھاگتے ھوےؔ باتھ روم میں جاگھسی اور دروازه اندر سے بند کر کے ایک بار پھر سے اس پورے ھونے والے واقعے کو یاد کر کے مسکرانے لگی۔...
****------*****
شام کا سھانه سہ موسم تھا وه آرام سے ڈائينگ ٹیبل پر بیٹھی چاےؔ کا کپ ہاتھ میں لیےؔ سامنے کی طرف دیکھ رھی تھی...اسے شاه نزیب کے آنے کا انتظار تھا
شاهنزیب:” تم یھاں اندر بیٹھ کر چاےؔ کیوں پی رھی ھو...باھر گارڈن میں بیٹھ کر پی لو موسم بھی اچھا ھے اور ھوا بھی بڑی ٹھنڈی ٹھنڈی چل رھی ھے“ وه سیڑھیوں سے اترکر آیا اور ماه نور کی برابر والی کرسی پر بیٹھنے لگا....
”پہلے جاٶ ..میرے لیےؔ اندر کچن سے بسکٹ لے آٶ....پھر بیٹھ جانا“ وه حکمرانه انداز اختیار کرتے ھوےؔ بولی
”خود چلی جاٶ....بلکے آتے ھوےؔ میرے لیےؔ تھوڑا سه نمکو لے آنا“ وه بیٹھ کر الٹا اسی پر حکم چلانے لگا...
”میں تم سے بڑی ھوں ...اور تم مجھ سے کام کروا رھے ھو“ وه بگڑتے ھوےؔ بولی....
”صرف عمر میں بڑی ھو ...عقل و شعور میں نھیں ...چلو جاٶ بھی ...میری چاےؔ ٹھنڈی ھوجاےؔ گی ورنه...پھر تم سے ھی دوبارا گرم کروالو گا سوچ لو“ وه آنکھیں دیکھاتے ھوےؔ اسے تڑی لگانے لگا...
”یار چلے جاٶ ناں پلیز....میں تھک کر بیٹھی ھوں ابھی ابھی “ وه التجائی لھجے میں عرس گزار ھوئی
”کیوں تم نے کون سے پھاڑ کے پتھر دھوئيں ھیں صبح سے؟؟؟؟.......“وه بھوئيں اچکاےؔ پوچھنے لگا...
”ٹھیک ھے ....بیٹھے رھو تم ...میں خود جارھی ھوں“ وه ناراض ھوتے ھوےؔ اٹھنے ھی والی تھی کے
”اچھا بیٹھو تم....میں لاتا ھوں“ وه کھتے ھوےؔ اٹھ کھڑا ھوا
”اچھا سنو ...بسکٹ ناں پستے والے لانا ...جو بڑے چاچا جان لاےؔ تھے...انھیں ناں رومیسا آپا نے اوپر والی ڈرور کے اندر چھوپاکر رکھا ھے“ کھتے ھوےؔ مسکرانے لگی....
”اگر آپا نے اسے چھوپاکر رکھے ھیں تو تمھیں وھی کیوں کھانے ھیں ....کوئی دوسرے کھالو“ وه اسے سمجھانے لگا...
”یار .....اب لابھی دو....ساری چاےؔ ٹھنڈی ھورھی ھے میری ....تمھاری اس بحث کے چکر میں“وه اسے سمجھانے سے قاصر تھا اس لیےؔ چپ چاپ وھاں سے چلا گیا...
اس کے جاتے ھی مانو نے پہلے ایک بار پورے ھال میں نظر دوڑائی ...جب دیکھا کوئی نھیں ھے تو نیچے جھک کر سمر بونڈ کا ڈبه نیکالا...جو اس نے کرسی کے نیچے بھت دیر پہلے سے چھوپاکر رکھا تھا....اور ڈبه کھول کر جلدی سے شاه نزیب کی کرسی پر لگا دیا.....لگایا بھی اتنا سارا کے اگر وه بیٹھ جاےؔ ایک بار تو پھر اٹھ نه سکے....اور پھر ڈبه واپس اپنی کرسی کے نیچے رکھ لیا....چاےؔ کا کپ اٹھایا اور سیپ لگاتے ھوےؔ:” بیٹا کل تو تم بچ گےؔ تھے میرے وار سے....پر آج کیسے بچو گے“ وه یه سوچ کر دل ھی دل مسکراےؔ جارھی تھی...اسے پورا یقین تھا کے وه بےدیھانی میں آکر فورا بیٹھ جاےؔ گا...اور پھر چاه کر بھی اٹھ نه سکے گا....
ابھی وه اسی خوش گمانی میں مسرور تھی کے اسے محسوس ھوا کے اس کی برابر والی کرسی پر کوئی آکر بیٹھ گیا....مسکراتے ھوےؔ ایک اور سیپ لگایا چاےؔ کا...
”تم چاےؔ پیتے ھوےؔ مسکراء کیوں رھی ھو؟؟؟“ یه آواز سنتے ھی اس نے فورا علی بھئيا کی طرف دیکھا جو بے دیھانی میں آکر شاهنزیب کی کرسی پر بیٹھ گےؔ تھے....
شاهنزیب:”یه لو تمھارے پستے والے بسکٹ“ وه بسکٹ کی پلیٹ ٹیبل پر رکھتے ھوےؔ بولا ...اس کی نظر ایک بار ماهنور پر گیؔ ...جو کبھی علی بھئيا کو ...اور کبھی اُسے گھبراےؔ گھبراےؔ دیکھ رھی تھی...
”کیا ھوا مانو؟؟؟؟.....اتنا گھبرائی ھوئی کیوں ھو“ شاهنزیب بےچین ھوکر فورا پوچھنے لگا...
”ھاں کیا ھوا؟؟؟.....“ علی بھئيا بھی اس کا گھبرایا ھوا چھره دیکھ کر چپ نه رھ سکے تھے...
ماهنور نے چاےؔ کا کپ ٹیبل پر رکھا ...مسکراھٹ تو اس کی علی بھئيا کو دیکھ کر ھی غائب ھوچکی تھی...”اگر علی بھئيا کو پتا چل گیا کے وه سمر بونڈ لگی کرسی پر بیٹھ گےؔ ھیں تو وه تو مجھے چھوڑیں گے نھیں...اچھا یہی ھے میرے لیےؔ کے میں یہاں سے چھومنتر ھوجاٶں....اس سے پہلے کے ان دونوں کو پتا چلے“ یه سوچ کر ماهنور نے ایک بار علی کو دیکھا اور پھر وھاں سے ایسے تیزی سے بھاگی جیسے اس کے پیچھے کسی نے کتے چھوڑ دیےؔ ھوں....
علی کیونکے بھت موٹی والی جینز پھنے ھوےؔ تھے اس لیےؔ تھوڑی دیر بعد انھیں احساس ھوا کے وه کسی چپکی چپکی سی چیز پر بیٹھ گےؔ ھیں...
”اسے کیا ھوا؟؟؟....بھاگ کیوں گیؔ....اتنی دیر سے تو مجھ سے لڑائی کر رھی تھی کے بسکٹ لادو مجھے....میری چاےؔ ٹھنڈی ھوجاےؔ گی....پھر اب کیا ھوگیا اسے“شاه ابھی یه بات کھ کر چپ ہی ہوا تھا کے اس کی نظر ماهنور کی کرسی پر گیؔ ....جس کے نیچے سمربونڈ کا پورا ڈبه رکھا تھا....
”پر پتا نھیں کیوں...ایسا لگ رھا ھے میں کسی چپکی چپکی چیز پر بیٹھ گیا ھوں“ علی بھائی پریشان ھوتے ھوےؔ بولے......اور پھر کھڑے ھونے کی کوشش کی مگر وه ھو ہی نه سکے....
انھیں کھڑا ھونے میں پریشان ھوتا دیکھ وه سمجھ گیا تھا کے ماهنور کیوں بھاگ گیؔ
”یار میں اٹھ کیوں نھیں پارھا“ علی بھئيا پھر سے اٹھنے کی کوشش کرتے ھوےؔ بولے...
شاهنزیب نے اس پر اپنا سر پکڑ لیا اور غصے سے چیخ کر بولا:”مانو کی بچی“
علی:”کیا ھوا؟؟“ وه الجھ کر شاه کو دیکھ پوچھنے لگے....
”بھئيا وه ایسے ھی نھیں بھاگی....وه کرسی پر سمربونڈ لگا کر بھاگی ھے“ وه انھیں بتانے لگا...یه سنتے ھی ایک زوردار چیخ اس بار علی بھئيا کی بلند ھوئی پورے ھال میں :”ماه نور“😤۔۔۔
بڑے سے ھال صحن میں صرف ان ہی کی آواز گونج رھی تھی...”کہاں ھو سب؟؟؟“بڑی پھوپھو اپنی دونوں بیٹیوں کے ھمراه سامان سے بھرا بیگ ھاتھ میں لیےؔ کھڑی تھیں ...ایک دم سڑھیوں سے نیچے بھاگتی ھوئی ماهنور نظر آئی ...وه فورا آکر پھوپھو کے گلے لگ گیؔ....اسکے پیچھے پیچھے شھزاد بھائی بھاگتے ھوےؔ آن پھنچے تھے...پھوپھو ان کی حالت دیکھ حیران جبکے وه پھوپھو اور ان کی دونوں بیٹیوں کو اچانک دیکھ کر جھیپ گےؔ....
”تم یه آٹے کی کان بن کر کیوں پھر رھے ھو؟؟؟“ پھوپھو انھیں آٹے میں لت پت دیکھ کر بےساختہ پوچھ اٹھی تھیں....ماهنور نے اس سوال پر بڑی مشکل سے اپنی ھسی کو روکا تھا....شھزاد بھائی تو بیچارے شرم کے مارے پانی پانی ھورھے تھے...کیونکے پھوپھو کی بڑی بیٹی {صباء} ان کی بچپن کی منگیتر تھی.....وه تو اپنی نظریں تک نھیں اٹھا پارھے تھے صباء باجی کے سامنے....
{شھزاد} شاهنزیب کا بڑا بھائی .....
شھزاد بھائی اور ان کی منگیتر دونوں ہی بھت شرمیلے مزاج کے مالک ھیں....بچپن کی منگیتر ھونے کے باوجود شھزاد بھائی آج تک صباء باجی سے کوئی بات نه کرسکے تھے....وه اپنا حالِ دل سننا تو دور ان کی طبعیت ِ حال بھی نه پوچھ پاتے تھے....صباء نے بھی شھزاد کو آٹے کی کان بنادیکھ بڑی مشکل سے اپنی مسکراھٹ کو چھپایا تھا.....
”میں نھاء کر آتا ھوں “ شھزاد کہ کر فورا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا...
”باقی سب کھاں ھیں؟؟؟؟“ پھوپھو نے مانو کو دیکھتے ھوےؔ پوچھا تھا....
”بڑی چاچی جان ٖ اور چھوٹی چاچی جان ٖ رومیسا آپا اور راحیل بھائی بازار گےؔ ھیں....اسماء اپنے سر کے گھر گیؔ ھے اسے کچھ نوٹس بنوانے تھے اس لیےؔ....شاهنزیب اس وقت کوچینگ میں ھے....بس میں اور شھزاد بھائی تھے گھر میں ....اب تو وه بھی نھانے چلے گےؔ“ اس نے ساری بات ایک ھی سانس میں جلدی جلدی بول دی تھی...
”سانس تو لے لیا کرٶ ....مانو“ بھوپھو اسے ٹوکتے ہوئے کھنے لگیں..”دیکھو ذرا شادی کا گھر ھے....رونق ھونا تو دور کوئی انسان تک نظر نھیں آرھا ھے...“ وه طنز کرتے ھوےؔ بول اٹھی....
”پھوپھو آپ آگیؔ ھیں ناں....بس اب رونق خود به خود لگ جاےؔ گی....آپ لوگ تھک گےؔ ھوں گے...اتنی دور سے جو آےؔ ھیں ....آپ لوگ گیسٹ روم میں چل کر فریش وغیره ھوں ...میں کھانا لگوا دیتی ھوں“ ماه نور مھمان نوازی کرتے ھوےؔ بولی....
پھوپھو اور ان کی چھوٹی بیٹی ریشم دونوں گیسٹ روم کی طرف چل دیےؔ جبکے صباء باجی میرے ساتھ کچن میں کام کروانے لگیں....ماهنور نے چاےؔ چھولے پر چڑادی....اور بسکٹ ٖ نمکو ٖ چپس کا سامان پلیٹ پر سجانے لگی....
”پہلے میں چاےؔ لے جاتی ھوں...اتنی دور کا سفر طے کر کے آےؔ ھو آپ لوگ....جتنی تھکن ھو گی ساری چاےؔ پینے سے اتر جاےؔ گی....پھر میں تھوڑی دیر بعد کھانا لگوادو گی....ویسے بھی چاول میں نے ابھی پانچ منٹ پہلے ھی دم پر رکھے ھیں“ ماه نور صباء کی صلاح لیتے ھوےؔ....
”ھاں ٹھیک ھے...پر یه چاول تم نے پکائيں ھیں مانو“ وه حیران نظروں سے اسے دیکھتے ھوےؔ پوچھنے لگیں....
”ھاں....اب میں بھی کھانا بنانا سیکھ رھی ھوں“ وه مسکراتے ھوےؔ کھنے لگی....
”ارے واه“ وه اس کا حوصله بڑھا رھی تھیں...”اچھا ایک سوال کروں؟؟؟“ وه اسے دیکھ کر پوچھنے لگیں...اس نے اثبات میں سر ھلادیا...:”شھزاد ...مطلب وه.....پورے سر سے پاٶں تک آٹے میں کیوں ھورھے تھے؟؟؟“ یه سوال صباء کرےؔ گی وه پہلے سے جانتی تھی وه زور زور سے ہسنے لگی...
”میں نے ان کے ساتھ شرارت کی تھی...میں کچن میں کام کرتے کرتے بور ھوگیؔ تھی...تب یاد آیا کے گھر میں میرے علاوه شھزاد بھائی بھی موجود ھیں....
بس یه خیال آتے ھی میں نے آٹے کے کنستر میں سے پورا ایک باول بھرکے آٹا نیکالا اور سلپ پر چھپ کر کھڑی ھوگیؔ اور زور سے آواز لگائی :”شھزاد بھائی جلدی آئيں“ وه میری آواز سن کر پریشانی میں بھاگے چلے آےؔ تھے...میں سلپ کے اوپر کھڑی ھوں انھیں نھیں پتا تھا وه جیسے ھی کچن کے اندر داخل ھوےؔ ...میں نے سارا آٹا ان پر الٹ دیا اور وھاں سے بھاگتے ھوےؔ باھر آگیؔ...بیچارے مجھ سے بدلا لینے کے لیےؔ میرے پیچھے بھاگ رھے تھے...اور جیسے ھی سامنے آپ کو کھڑا دیکھا مارے شرم کے پانی پانی ھوگےؔ“ ماهنور کا تو یه پورا واقعه سناتے ھوےؔ ھس ھس کر براحال تھا یه سننے کے بعد صباء بھی خوب پیٹ پکڑ کر ھسنے لگی۔۔۔۔
*****-------******
رات میں آج سب کا گارڈن میں محفل جمانے کا پورا پروگرام تھا...چونکے سردیوں کی راتیں تھیں اس لیےؔ گارڈن کے بیچ میں ایک ساتھ بھت ساری لکڑیاں جمع کر کے اس میں آگ بھڑکادی گیؔ تھی...سردی کی وجه سے سب گرم لباس زیب تن کیےؔ ھوےؔ تھے...اور سب آگ کے اردگرگول دائره بناکر بیٹھ گےؔ تھے...
ماہنور کی نظر اٹھی تو سامنے سے اسے اسماء صباء باجی کو پکڑ کر زبردستی لاتے ھوےؔ دیکھائی دی....اس نے پہلے دیکھا کے شھزاد بھائی کھاں بیٹھے ھوےؔ ھیں...شھزاد کے برابر والی جگه خالی دیکھ کر اسماء نے زبردستی صباء کو ان کے پھلو میں بیٹھادیا...ان دونوں کو ایک ساتھ بیٹھا دیکھ سب نے انھیں چھیڑنے کے لیےؔ :”اُو....اُو“ کی آوازیں نیکالنا شروع کردیں...
دونوں ہی کیونکے شرمیلے مزاج کے مالک تھے اس لیےؔ جھیپ گےؔ...اور ان دونوں کے گلابی گال مزید گلابی ھوگےؔ....ماهنور کی نظر تو ان کے کےجوڑے سے ھٹ ھی نھیں رھی تھی...دونوں ھی شرماتے ھوےؔ بڑے ھی پیارے لگ رھے تھے...
”ویسے رومیسا آپا جب علی بھئيا کی دولھن آئيں گی اور ھم انھیں بھی ایسے ھی چھیڑیں گے تو آپ کو کیا لگتا ھے ....علی بھئيا بھی شھزاد بھائی کی طرح شرمائيں گے؟؟؟؟...اور جس طرح چوری چوری نظروں سے ابھی شھزاد بھائی صباء باجی کو دیکھ رھے ھیں اسی طرح علی بھئيا بھی مہرین بھابھی کو دیکھیں گے؟؟؟“ ماه نور نے بڑے بھولے پن سے یه سوالات رومیسا سے کیےؔ...اور وه اس کے جواب میں مسکرانے لگیں...
پھر اچانک ان کی آنکھیں ماه نور کو گھورنے لگیں
”کیا ھوا؟؟؟“ وه رومیساء آپا کو گھورتا ھوا دیکھ پوچھنے لگی...جبکے رومیساء اسے آنکھوں کے اشارے سے بتارھی تھی کے اس کے پیچھے علی بھئيا آکر بیٹھ گےؔ ھیں...پر وه ان کے اشارے سمجھ نه سکی...پتا تو تب چلا ...جب علی بھئيا نے زور سے آکر کان پکڑ کر موڑ دیا...
”آه....آ ....آه“ وه چیخنے لگی...
”ارے چھوڑو اس کے کان“ رومیساء آپا بےتاب ھوکر بولنے لگیں...
”آه....آ....چھوڑیں ...علی بھئيا تکلیف ھورھی ھے مجھے“ ماه نور زور زور سے بولنے لگی...
”کیوں بچا؟؟؟....میری کرسی پر سمربونڈ لگا کر کون بھاگا تھا؟؟؟“وه کان موڑتے ھوےؔ پوچھنے لگے...
”ارے چھوڑو اس کو....اسے تکلیف ھورھی ھوگی“ رومیساء آپا اس بار چیخ کر بولی تھیں...ماهنور کی ماں کا انتقال تو اس کی پیدائش کے ایک گھنٹے بعد ھی ھوگیا تھا...اس کے بعد سے اس کی پرورش کی ذمہ داری رومیساء نے اپنے نازک سے کندھوں پر لے لی تھی...اس وقت جتنی تکلیف ماهنور کو ھورھی تھی اس سے کھیں زیاده رومیساء کو تڑپا رھی تھی...
”چھوڑنا مت....بلکے میں تو کھتا ھوں اور زور سے موڑو....اس کو بھی پتا چلے کے کتنا تنگ کرتی ھے یه ھمیں“ شھزاد جو دل جلا بیٹھا تھا وه فورا کھ اٹھا...
”الله اب نھیں کرٶں گی ...معاف کردیں“ ماهنور التجائی لھجے میں بولنے لگی ...وه اس قدر بھولا سه چھره بناکر بولی کے ان کو اس پر ترس آگیا....
”ٹھیک ھے ...مگر آئينده کوئی بھی شرارت کی ناں میرے ساتھ تو سوچ لینا“ کھتے ھوےؔ چھوڑ کر اس کے برابر میں بیٹھ گےؔ....
”تمھیں تکلیف تو نھیں ھورھی ناں؟؟“ رومیساء فکر مند ھوکر پوچھنے لگی...
”آپ کے ھی بےجا لاڈ پیار نے بیگاڑا ھے اسے“ کامران خفگی نگاھوں سے دیکھتے ھوےؔ کھنے لگا...
”اف....ھم یھاں مانو کی کھینچائی کرنے نھیں بیٹھے...ھم تو یھاں رومیسا آپا اور علی بھئيا کی شادی کی تیاریاں کیسے کرنی ھیں اس کا سوچنے بیٹھے ھیں“ اسماء سب کو اصل موضوع پر لاتے ھوےؔ بولی....
”روکو پہلے شاهنزیب کو آنے دو....پھر بات شروع کریں گے“ ریشم سب کو کھنے لگی...
”ارے یه رھ کہاں گیا؟؟“ کامران پوچھنے لگا....
”یہاں ھوں“ کھتا ھوا ریشم اور ماهنور کے بیچ میں آبیٹھا
”اب شروع کریں“ کامران سب کی طرف دیکھ کر پوچھنے لگا...
”بھئی دیکھو سب سے پہلے اس بات کا فیصله کرو کے انگلی پکڑائی کی رسم کون سی سالی ادا کرے گی“ اسماء منه بناتے ھوےؔ پوچھنے لگی....
”یار ابھی مایوں ٖ مھندی ٖ رججگاه ٖ سنگیت کا تو کوئی پروگرام بنا نھیں ....تم پہلے بررات کی رسموں پر پھنچ گیںؔ“ علی بھئيا طنز کرتے ھوےؔ کھنے لگے...
”اس لیےؔ کیونکے شاہزیه آپا {شاهزیه آپا شاهنزیب کی بڑی بھن} کی شادی پر چاچی نے ھم میں سے کسی کو کوئی رسم ادا نھیں کرنے دی تھی....ساری رسمیں سعدیه نے ادا کی تھیں...انگلی پکڑائی تو سعدیه ٖ جوتا چھپائی تو سعدیه ٖ مھندی کون لگاےؔ گا دولھن کے تو وه بھی سعدیه...سنگیت میں سب سے پہلے ڈانس کون کرے گا تو وه بھی سعدیه ...جیسے ھم تو کچھ ھو ھی ناں شاهزیه آپا کے...چاچی نے تو ھم سب کو پرایا کردیا تھا“اسماء کی آنکھوں میں آنسوں آگےؔ تھے یه شکوه کرتے ھوےؔ....وه اپنی آنکھیں صاف کرتے ھوےؔ بولی تھی... ”سب کے ارمانوں پر انھوں نے پانی پھیر دیا تھا...خاندان کی پہلی شادی تھی“ وه شکوه کرکے چپ ھوگیؔ....
”اچھا جی....اس لیےؔ تمھیں لگا کے شاید اس بار بھی ایسا ھو....پر بےفکر ھوجاٶ...ایسا کچھ نھیں ھوگا....میری شادی کی ساری رسمیں میری بھنیں ادا کریں گی“ رومیسا آپا مسکراء کر اسماء کے سر پر ھاتھ رکھتے ھوےؔ بولیں...”انگلی پکڑائی کی رسم اسماء ادا کرے گی“رومیسا آپا نے سب میں اعلان کردیا...
”جوتا چھپائی کی رسم میں ادا کرنا چاھتی ھوں“ ماهنور بولی
”میں بھی جوتا چھپائی کی رسم ادا کرنا چاھتی ھوں“ ریشم ماهنور کی بات سن کر فورا ھی بول اٹھی تھی....
”یار دیکھو اب لڑائی کرنے مت بیٹھ جانا....تم دونوں مل کر جوتا چھپائی کی رسم ادا کرلے ناں .....ٹھیک ھے“کامران ان دونوں کو سمجھاتے ھوےؔ کھنے لگا...
”علی بھئيا کی بررات والے دن کی ساری ذمھداری میں سمبھالنا چاھتا ھوں “ شاهنزیب علی کو دیکھ کر اپنی خواھش کا اظھار کرنے لگا....
”یه بھت بڑی ذمھداری مانگ رھے ھو تم....“ علی اسے سمجھانے لگا....
”آپ مجھ پر یقین کریں ....ذرا سی بھی شکایت کا موقع نھیں دوں گا....ویسے بھی بڑے ابو ھوں گے میرے ساتھ“ شاهنزیب سب کو یقین دیھانی کرانے لگا....
”پر تم ابھی چھوٹے ھو.....اتنی بڑی ذمھداری تمھیں نھیں سونپ سکتے ھم“ شھزاد علی کی بات کی تائيد کرنے لگا...
”میں چھوٹا نھیں ھوں....میں خود کو اس قابل سمجھتا ھوں تبھی مانگ رھا ھوں....ورنه پاگل تھوڑی ھوں جو اتنی بڑی ذمھداری اپنے سر لوں“ وه اپنی بات پر ڈٹ گیا تھا....علی ٖ کامران ٖ شھزاد تینوں سوچنے لگے.....
”اگر شاه نزیب کھ رھا ھے کے وه پوری کرلے گا اپنی ذمھداری .....تو مجھے یقین ھے بلکے پورا یقین ھے کے وه ضرور کرلے گا“ راحیل اس کی حمایت لینے لگا.....
”او۔کے....یه ذمھداری ھم نے تمھیں دی.....اور رومیساء کی بارات اور میرے ولیمے والے دن کی ساری ذمھدای میری خود کی.....اور راحیل تم میرے ساتھ رھو گے“ علی راحیل کو دیکھ کر بتانے لگا.....
”دولھن کی مھندی لگانے کی رسم میں ادا کروں گی“ صباء باجی جو کب سے خاموش بیٹھی تھیں اپنی خواھش کا اظھار کرنے لگیں.......
”ھاں ٹھیک ھے....اور جب آپ دولھن بنیں گی تو میں یه رسم ادا کرنا چاھوں گی...تاکے آپ کے ھاتھ کی مھندی مجھے بھی لگ جاےؔ اور مجھے بھی آپ کی طرح لائف پارٹنر مل جاےؔ“ ماهنور شرارت سے کھنے لگی....اس پر شاهنزیب اسے حسرت بھری نگاه سے دیکھنے لگا.....
”مایوں مھندی سنگیت تینوں پروگرام ایک ھی دن تو ھوں گے تو میں لیتا ھوں اس کی پوری ذمھداری ” شھزاد اپنے حصے کی ذمھداری لیتے ھوےؔ کھنے لگا...
”یار میں سوچ رھا ھوں اس بار رججگاه نه کریں“ شاهنزیب نے کھا تو سب اسے احتجاجی نظروں سے گھورنے لگے”یار میں ٹھیک کھ رھا ھوں ...یاد ھے شاهزیه آپا کی شادی میں رججگاه کیا تھا تو بارات والے دن سب کی حالت کتنی خراب تھی ....سب کی آنکھیں لال ھورھی تھیں مارے نیند کے....سنگیت والے دن ھی دھوم مچالیں گے...اور رججگاه والی رات آرام سے سوئيں گے تاکے بارات والے دن سب کے چھرے اک دم فریش ھوں“ شاهنزیب سب کو اپنی راےؔ سے آگاه کرنے لگا....
”ھاں آئيڈیا تو اچھا ھے“ رومیساء آپا اس کی راےؔ سے متفق ھو گیںؔ....
”ٹھیک ھے پر میں بتادوں اگر رججگاه نھیں ھورھا تو پھر سنگیت بڑے پیمانے پر کریں گے...میں اپنے سارے دوستوں کو بلاٶں گا“ کامران سب کو کھنے لگا ...تو سب نے اس کی ھاں میں ھاں ملادی
”سب سن لیں ....سب ایک دوسرے کی بڑھ چڑھ کر مدد کریں گے...کسی کی کوئی شکایت میرے کانوں تک نھیں پھنچنی چاھیےؔ....“علی بھئيا سخت تاکید کرتے ھوےؔ کھ رھے تھے....
”مانو گیاره بج رھے ھیں...جاٶ اپنے کمرے میں سونے“ شاهنزیب ماهنور کے کان کے پاس ھلکے سے بولنے لگا...
”میں نھیں جارھی...تمھیں جانا ھے تم جاٶ“ ماهنور نے بھی شاهنزیب کے کان میں ھلکے سے کھا...تو وه اسے سخت غصے والی نگاه سے گھورنا لگا....ماهنور نے اپنا منه علی کی طرف کرلیا....اس نے تین چار لمحوں کے بعد پھر شاهنزیب کو دیکھا تو وه اب بھی اسے ھی گھور رھا تھا....خان بابا آےؔ اور جوسوں سے بھرے گلاس سب کو پکڑا دیےؔ.....ماهنور نے ان سے آنکھوں ھی آنکھوں میں کوئی بات کی....اور پھر وہ وھاں سے چلے گےؔ...ماهنور کو خان بابا سے بات کرتا دیکھ رومیساء آپا سمجھ گیںؔ تھیں کے ضرور دال میں کچھ کالا ھے....
”خان بابا بھی ناں...اتنی سردی میں جوس لے آےؔ“ کامران منه بتاتے ھوےؔ بولا....
”ارے یھی تو مزا ھے ...سردیوں میں ٹھنڈا ٹھنڈا جوس پینے کا “ ریشم جھرجھرئی لیتے ھوےؔ بولی....
”کیوں ناں ھم سب مقابله کریں جوس پینے کا...جو ایک ھی سانس میں پورا جوس پی جاےؔ گا ....وه بھی سب سے پہلے....وه ھی جیتے گا“ ماهنور نے مسکراتے ھوےؔ کھا...
”وه ھی نھیں...بولو....کامران جیتے گا“ کامران فورا اپنی جیت کی نوعید سنانے لگا...مقابلے سے پہلے ھی...
”کیوں ھم نے کیا چوڑیاں پھن رکھی ھیں ؟؟“ علی بھئيا اور شھزاد ایک ساتھ ھی بول اٹھے تھے...
”کیا مطلب ھے کے چوڑیاں پھن رکھی ھیں....ھم لڑکیوں کو آپ کسی سے کم نه سمجھیں“ اسماء برسوں سے چلی آرھی جنگ کو آج اس معمولی سے جوس پینے کے مقابلے میں کھینچ لائی تھی...اور جب کوئی مقابله لڑکوں اور لڑکیوں کی عزت پر آجاےؔ تو پھر اس مقابلے کی عزت دوبالا ھوجاتی ھے....اب تو جیسے لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں نے بھی کمر کس لی تھی...
رومیساء آپا تو صرف ماهنور کی آنکھوں کو دیکھ رھی تھیں جن میں شرارت و شوخی مچل رھی تھی...وه مسکراےؔ جارھی تھی سب کی باتیں سن سن کے...”کچھ تو گڑبڑ ھے “ رومیساء آپا اپنے دل میں بولیں....
ماهنور نے دیکھا کے شاهنزیب اٹھ کر جارھا ھے...”کہاں جارھے ھو؟؟؟....جوس تو پیتے جاٶ“ شاه ابھی دو قدم آگے بڑھا بھی نھیں تھا کے ماهنور نے پیچھے سے آواز لگادی تھی...
”میں جارھا ھوں سونے....تم بیٹھی رھو یہاں“ وه خفگی سے کھتا ھوا وھاں سے چلا گیا....
”چھوڑو جانے دو اس کو.....اسے صبح جلدی اٹھنا ھوتا ھے“ شھزاد ماهنور سے کھنے لگا....
”دل تو چاھتا ھے شوٹ کردوں اسے....جب سے ڈیڈ گےؔ ھیں اس کا تو دماغ خراب ھوگیا ھے...الله کا شکر ھے کل ڈیڈ آجائيں گے“مانو الله کا شکر ادا کرتے ھوےؔ بولی...
”چلو شروع کریں مقابله؟؟؟“راحیل پوچھنے لگا....سب نے اپنے جوس بھرے گلاس ٹرے سے اٹھا لیےؔ.....سب نے پہلے ایک دوسرے سے اپنے گلاس ٹکرا کر کھا....”چیس “
”روکو ....روکو....پہلے میں تین تک کی گنتی گنو گا ...پھر سب ایک ساتھ پینا شروع کریں گے“ کامران نے کھا تو سب اپنے جوس کو ایک ھی سانس میں گٹگ جانے اور جیت کا سھرا پہننے کے لیےؔ تیار ھوگےؔ
”ایک ٖ دو اور تین “ کامران کے کھتے ھی سوائے ماہنور اور رومیساء کے سب نے جوس کا گلاس منه سے لگا لیا...اور ایک ھی سانس میں جتنا بڑا گٹ پی سکتے تھے پی لیا....
بس پینا کیا تھا سب کی زبانیں مارے مرچوں کے منه سے باھر آگئيں اور کانوں سے دھوا نیکلنے لگا...پھر کیا تھا ....سب اپنا جوس کا گلاس پھینک کر پانی کی تلاش میں بھاگے....
ماهنور کے تو یه دیکھ کر ھس ھس کے پیٹ میں درد ھوگیا....
”تم کب بڑی ھوگی مانو؟؟“ رومیسا آپا اس سے بڑی سنجیدگی سے پوچھنے لگیں....
”آپا آپ پی لیتی جوس ...آپ کے گلاس میں مرچی کا پاٶڈر نھیں ڈالا تھا میں نے“ رومیسا آپا کے سوال کے جواب میں اس نے جب یه کھا تو وه مسکرانے لگیں....ماهنور نے شاهنزیب والا جوس کا گلاس اٹھایا :”اچھا آپا ....میرا ایک شیکار مقابلے میں شرکت نھیں کرسکا....تو سوچ رھی ھوں تو کیا ھوا کے شیکار شیکاری کے پاس نھیں آیا ....شیکاری تو شیکار کے پاس جاسکتا ھے ناں“ آنکھ مار کر مسکراتی ھوئی وھاں سے چلی گیؔ....
ماهنور شاهنزیب کے کمرے میں بغیر نوک کیےؔ ھی آجاتی ھے:”تمھیں گٹار بجاےؔ بغیر اور سعدیه کا مبارک رخسار دیکھیے بغیر نیند نھیں آتی کیا؟؟؟“ وه مسکراتی ھوئی آکر اس کے بیڈ پر بیٹھ گیؔ اور شاهنزیب کی طرف جوس کا گلاس بڑھا دیا...
”کسی کے کمرے میں منه اٹھاےؔ نھیں چلے آتے“ شاهنزیب نے اسے دیکھتے ھوےؔ ذرا سرد لہجے میں کھا....
”اچھا بابا.....تم ناراض ھو میں جانتی ھوں...پر اس جوس کا اس ناراضگی سے کیا تعلق ....اسے کس بات کی سزا دے رھے ھو....یه تو پی لو“ وه اسے دیکھ کر بڑے پیار سے بولی تھی....
”مجھے نھیں پینا ....تم جاٶ یھاں سے....تمھیں تو میں ھٹلر لگتا ھوں ناں....تو لو آذاد کردیا میں نے تمھیں....اب جاٶ پوری رات بیٹھی رھو وھاں“ وه بےحد خفاء تھا اس سے...
”مجھے تمھاری سمجھ نھیں آتی....ھو کیا گیا ھے تمھیں.....تم وه شاهنزیب نھیں ھو جس کو میں جانتی تھی ...تم کوئی اور ھو....صرف ایک ڈیڈ کی خوشنودی کی خاطر تم اتنا بدل رھے ھو اپنے آپ کو.....آخر کیوں ؟؟؟؟؟..........زیاده سے زیاده کیا دے سکتے ھیں تمھیں ڈیڈ ..
شاباشی دیں گے....پیٹھ تھپ تھپائيں گے تمھاری...بس....
اس کے لیےؔ اتنا بدل رھے ھو اپنے آپ کو ؟؟؟....پندره دن گزر گےؔ ھیں اور تم نے تو مجھ سے ٹھیک طرح بات تک نھیں کی ھے“ وه بھت شکوه لیےؔ آنکھوں میں اس سے اپنے دل کی بات صاف گوئی سے کر رھی تھی.....
”ھمیشه سے تمھیں رومیسا آپا سمبھالتی آئی ھیں...ان کی شادی کی وجه سے ھی ان سے سب نے کھا کے اب وه تمھیں خود مختار بنادیں....جو ٹھیک بھی تھا....پر تمھیں ضرورت تھی کسی ایسے کی جو تمھاری ھر بات سمجھ سکے....تمھاری فکر کرے.....تمھارا خیال رکھے.....کیونکے بڑے ابو تو یه کام نھیں کرسکتے باقاعدگی سے...
انھیں تو اپنے بزنس کی وجه سے اپنے لیےؔ وقت نیکالنے کا موقع بڑی مشکل سے ملتا ھے ...تمھارے لیےؔ کیا نیکالتے.....وه تمھاری ذمھداری علی بھئيا کو سونپ کر جانے لگے...
پر میں چاھتا ھوں وه مجھے دیں تمھاری ذمھداری...بڑے ابو اس بار بڑی مشکل سے مجھ پر بھروسه کر سکے ھیں....میں چاھتا ھوں کے میں ان کا بھروسه قائم رکھوں....میرا عمر میں چھوٹا ھونا ھر بار بیچ میں آجاتا ھے پر اس بار نھیں...
میں اس بار بڑے ابو کو ثابت کرنا چاھتا ھوں کے میں بڑا ھوں....عقل و شعور رکھتا ھوں....اپنی ذمھداریوں کا احساس ابھی سے ھے مجھے“ اس نے اپنا گٹار بیٹھ پر رکھ دیا....اور ماهنور کو ساری بات بیان کردی.....
”پر تم نے بڑے ھوکر کرنا کیا ھے آخر ؟؟؟؟.....ایسا کیا ھے جو تمھیں چھوٹے ھوکر نھیں مل سکتا“ وه سوالیه نظروں سے پوچھنے لگی....
تھوڑی دیر تک تو وه خاموش رھا .....پھر ایک گھرا سانس لیتے ھوےؔ:”تم “ وه اپنا حالِ دل بیان کر گیا تھا....
ماهنور یه سنتے ھی سٹپٹاکر رھ گیؔ....”کیا؟؟؟“ سوائے کیا کے اس کے منه سے کچھ نیکل ھی نھیں سکا تھا....
”تم کو کیوں بتاٶں......کے کیا چاھیےؔ مجھے....تم اپنے کام سے کام رکھو.....تمھیں جو چاھیےؔ تھا مل چکا ھے ....اس لیےؔ جاٶ یھاں سے “ وه فورا بات بدل گیا تھا.....ماهنور اسے تکتی سی رھ گیؔ ......جوس کا گلاس بیڈ کے کانر پر رکھا....اور چپ چاپ وھاں سے چلی آئی“
شاهنزیب اس کے جانے کے بعد ”اُف“ ...کہہ کر ایک گہری سانس منہ سے خارج کی ۔۔
صبح ھوئی تو آج نه وه سر پر جگ لیےؔ کھڑا تھا نه کمرے میں موجود تھا .....”تم آج کالج نھیں گیںؔ؟؟“ چاچی جان نے پوچھا تھا اسے پیلے رنگ کے پھول پکڑ کر گارڈن میں اکیلا کھڑا دیکھ...
”چاچی جان وه....آج مجھے کسی نے اٹھایا ہی نھیں“ وه کہ کر خاموش ھوگیؔ....وه چاچی جان کو اداس معلوم ھورھی تھی....چھرے پر چلبلی سی مسکراھٹ آج غائب تھی....
”شاهنزیب سے جھگڑا ھوا ھے کیا؟؟“ چاچی جان اس کا اترا ھوا منه دیکھ کر بات بھاپ گیںؔ تھیں....
”ہاں کل رات...پر جھگڑا نھیں ھوا....صرف وه تھوڑا سه ناراض ھے مجھ سے ...میں نے کل اس کی بات نھیں مانی تھی اس لیےؔ“وه چاچی جان کو بتا کر پھولوں کو لے کر چلی گیؔ....
”عجیب ھے یه لڑگی“ اسے جاتا ھوا دیکھ چاچی کھنے لگیں....
شام کو جب اس کے ڈیڈ واپس آےؔ تو سارا موڈ انھیں دیکھتے ھی بدل گیا....خوشی کے مارے اس کا صبح سے مرجھایا ھوا چھره واپس کھل اٹھا تھا ....
رات کو دونوں باپ بیٹی گارڈن میں کرسی لگا کر بیٹھ گےؔ اور گرما گرم کافی پیتے ھوےؔ باتیں کرنے لگے.....
”پتا ھے ڈیڈ شاه نے اپنی ذمہداری بھت اچھی طرح نیبھائی ھے...پندره دنوں میں سے دو اتوار نیکال دیں اور ایک آج کا دن ....باقی سارے دن کالج لے کر گیا ھے مجھے زبردستی“ ماہنور جو کل رات جس بات پر شاہنزیب سے شکوه و شکایت کر رھی تھی اب انھیں ساری باتوں کو فخرانہ بیان کر رہی تھی....کے شاہنزیب نے اس کا کس قدر خیال رکہا...سب باتیں سننے کے بعد ڈیڈ بھت خوش ھوےؔ
”یقین نھیں آرھا ...پہلے نھیں لگا تھا کے وه تمھاری ذمہداری سمبھالنے کے قابل ھے ....پر تم سے پہلے علی نے فون پر مجھے بتایا تھا کے کس طرح اس نے تمھارا خیال رکھا....تمھاری شرارتوں پر کنٹرول رکھا...تمھیں ٹائم ٹیب کا پابند بناکر رکھا....میں بتا نھیں سکتا کتنا سکون ملا تھا مجھے یه جان کر کے میری شرارتی بیٹی رومیسا کے علاوه بھی کسی کے کنٹرول میں آسکتی ھے“وه مسکراتے ھوےؔ کافی پینے لگے....
ماهنور کافی کا گٹ گلے میں اتارتے ھوےؔ کھنے لگی”بس ان سب میں میرا شاهنزیب کہیں کہو گیا.....وه بھت بدل گیا ان پندره دنوں میں...پر شکر ....اب آپ آگےؔ ھیں ناں ...اب سب واپس ٹھیک ھوجاےؔ گا “ وه اپنے ڈیڈ کو دیکھ کر پرسکون انداز میں کہ رھی تھی...
”مس وس بھی کیا اپنے ڈیڈ کو یا نھیں؟؟؟“ ڈیڈ کافی کا خالی کپ ٹیبل پر رکھتے ھوےؔ پوچھ رھے تھے....
”آپ کو کیا لگتا ھے؟؟“ وه انہیں محبت بھری نگاه سے دیکھتے ہوےؔ پوچھنے لگی...
”لگتا ھے شاید “اور آدھی بات کہ کر خاموش ھوگےؔ....ماهنور کے ری ایکٹ کا انتظار کرنے لگے
”شاید ؟؟؟.....کیا شاید؟؟؟؟......آپ کو یقین نہیں ہے میرے پیار پر....اس دنیا میں اگر میں نے سب سے زیاده پیار ماں کے بعد کسی کو کیا ھے تو وه آپ کو...اور آپ کہتے ھیں کے شاید میں نے آپ کو مس وس کیا ھو“ وه خفاء ہوکر ہاتھ فولٹ کر کے بیٹھ گیؔ......اس کے ڈیڈ اس کی بات سن کر مسکرانے لگے...
”میں نے کب کھا کے شاید یاد کیا ھو؟؟؟؟......“وه مانو کو دیکھ کر پوچھنے لگے....وه الجھی نگاه سے دیکھ رہی تھی...”میں تو کہنے والا تھا کے شاید ہی ایسا کوئی لمحہ گزرا ھو جو میری بیٹی نے مجھے یاد نه کیا ہو“ یه سنتے ہی وه مسکرانے لگی....”آئی لو یو ....ڈیڈ“وه اپنی محبت کا اظھار کر رہی تھی....
”آئی لو یو ٹو ...میری جان.....میری شھزادیِ حسن“ ۔....
*****-------*******
راحیل ٹی۔وی لان میں صوفے پر بیٹھا مہمانوں کی لسٹ بنارھا تھا......کامران وھاں سے گزر رھا ھوتا ھے ...راحیل اسے باھر جاتا دیکھ:”کامران روکو“ پیچھے سے آواز لگاتا ھے ....کامران مڑ کر وھیں سے اشاروں میں پوچھتا ھے:”کوئی کام ھے کیا؟؟؟“ .......راحیل اثبات میں سر ھلاتا ھے ....
وه چلتا ھوا آتا ھے اور اس کے پاس آکر کھڑا ھوجاتا ھے....”جلدی بولو“ وه ہر بار کی طرح جلدی میں ہی تھا....
”بیٹھ جاٶ....کام ہے مجھے....تم ہر وقت ہوا کے گھوڑے پر کیوں سوار رھتے ھو ؟؟“ وه اسے دیکھ کر اپنے برابر میں بیٹھنے کا اشاره کرنے لگا.....اس سے پہلے کامران راحیل کے برابر میں بیٹھتا....ماہنور نه جانے کہاں سے آکر راحیل کے برابر میں سیب کھاتی ھوئی بیٹھ گیؔ......دونوں اسے گھورنے لگے.....سیب کھانے میں وه اتنا مگن تھی کے اسے محسوس ہی نھیں ھوا کے وه دونوں کھڑے ھوکر اسے گھور رھے ھیں
”کیا ھوا؟؟؟....ایسے کیوں دیکھ رھے ھیں آپ دونوں؟؟؟....اگر سیب کھانا ھے تو جاٶ خود ٹیبل سے اٹھا کر لاٶ...میں لاکر نھیں دینے والی “ اس نے دوسرے ھی لمحے نظریں اٹھاکر ان دونوں سے کھا
”آپ تھوڑا خیال رکھا کریں.....ایسے ھی ھر جگه آکر مت بیٹھ جایا کریں“ راحیل بڑے احترام سے اسے کھنے لگا....{راحیل}ماهنور کے دوسرے نمبر کے چاچا کا بیٹا تھا.....راحیل کے والد کا نام امتیاز تھا....
امتیاز نے اپنی شادی کے چند سال بعد ہی اپنے باپ یعنی راحیل کے دادا سے جائيداد میں حصہ مانگ لیا تھا....اور حصہ لے کر الگ بھی ھوگےؔ تھے....برے دوستوں میں بیٹھنے کی وجہ سے بری عادات کے عادی ھوگےؔ تھے...شراب اور جوےؔ کی لت لگ گیؔ تھی انھیں...جس میں انھوں نے اپنی ساری جائيداد اڑا دی....اور پھر خالی ہاتھ ماں باپ کے گھر چلے آےؔ....سوچا تھا کے اپنے ماں باپ کو ان کے پوتا پوتی کی شکل دیکھا کر واپس گھر میں اپنی جگه بنالیں گے....
مگر دادا سخت مزاج ٖ اصول پسند اور ضد کے پکے انسان تھے .....انھوں نے امیتاز کے بچوں اور بیوی کو تو گھر پر رکھ لیا ....پر امتیاز کو گھر کی دھلیز پر قدم تک نه رکھنے دیا....وه سڑکوں پر مارے مارے پھرتے رھے.....جن دوستوں نے شراب اور جوےؔ کی عادت ڈالی تھی انھوں نے چوری چکاری بھی سیکھادی.....اور دو سال بعد خبر ملی کے پولیس مقابلے میں ان کی موت ھوگیؔ ھے.....
دادا کے انتقال کے بعد سے آج تک راحیل ٖ اسماء اور ان کی ماں کے سارے اخراجات ماہنور کے والد اٹھا رھے ھیں....راحیل دل ہی دل میں نا جانے کب سے ماہنور کو لیےؔ بیٹھا ھے .....پر وه جانتا ھے وه اسے نھیں مل سکتی....راحیل بھت خودار اور شریف لڑکا ھے.....بھت احسان مند رھتا ھے وه اس بات کا کے اس نے ساری زندگی ماہنور کے باپ کے احسانات تلے گزاری ھے.....وه خود کو اور کزنوں کے مقابلے بھت کمتر محسوس کرتا ھے....اس لیےؔ زیاده بولتا بھی نھیں......
”آپ؟؟.....کون آپ؟؟؟؟؟؟.......راحیل پاجی میرا نام ماہنور ھے“وه راحیل کا مزاق اڑاتے ھوےؔ بولی....
”ٹھیک تو کہ رھا ھے وه......تم کیا ھر جگہ کالی بلی کی طرح راسته کاٹ جاتی ھو.....ھم دونوں بھت ضروری بات کرنے والے تھے.....تم ھماری جگه آکر بیٹھ گیںؔ“ کامران اسے جتاتے ھوےؔ کہ رھا تھا...
”پہلی بات ....مجھے کالی بلی مت بولیں....دوسری بات اتنا بڑا صوفہ ہے کہیں بھی بیٹھ جائيں....آپ دونوں کو میری ہی جگه پر کیوں بیٹھنا ھے؟؟؟“ وه اپنا حق جتانے لگی.....
”راحیل یھاں بھت دیر سے آکر بیٹھا ھوا ھے.....اور میں بس بیٹھنے ہی والا تھا کے تم نه جانے کھاں سے آگیںؔ“کامران منه بسور کر کھنے لگا.....
”نام نھیں لکھا ھے آپ دونوں کا یھاں...اس لیےؔ پلیز مجھے آرام سے بیٹھ کر سیب نوش فرمانے دیں.....اور زحمت نه ھو تو براےؔ مھربانی میرے سامنے سے ھٹ جائيں ....مجھے ٹی۔وی دیکھنا ھے....پہلے ہی آپ دونوں حضرات میرا پانچ منٹ کا ڈرامہ مس کراچکے ھیں“ماہنور ریموٹ ہاتھ میں لیتے ہوےؔ بولی....کامران دانت پیستے ھوےؔ وھاں سے چلا گیا...جبکے راحیل اس سے تھوڑے سے فاصلے پر بیٹھ کر اپنی لسٹ مکمل کرنے لگا...اور اسے ٹی۔وی دیکھتا ھوا دیکھ ھلکا سه مسکرانے لگا...دل کو ایک عجیب سی خوشی تھی کے وه اتنی پاس آکر خود ہی بیٹھ گیؔ ھے۔....
سب ڈائينگ ٹیبل پر بیٹھ کر ناشته کر رھے تھے....کے راحیل کمرے سے نیکل کر ڈائينگ ٹیبل تک آیا....ماہنور روزانہ کی طرح شاہنزیب کے برابر والی کرسی پر بیٹھی تھی....خدا جانے من کو کیا سوجھی کے آکر ماہنور کے برابر میں رومیسا آپا کی کرسی پر بیٹھ گیا.....
رومیسا آپا کچن سے نیکلیں تو راحیل کو اپنی جگہ پر بیٹھا دیکھ :”راحیل تم غلطی سے میری جگہ بیٹھ گےؔ ھو“وه اسے دیکھتے ھوےؔ بولیں....
”ایم۔سوری....میں بےدیھانی میں آکر بیٹھ گیا شاید“ وه فورا کھڑا ھوتے ھوےؔ بولا
”ارے بیٹھے رھو....رومسیا تو بھی حد کرتی ھی....اگر وه تیری جگه بیٹھ گیا تو کیا ھوگیا؟؟.....تم اس کی جگه جاکر بیٹھ جاٶ“بڑی پھوپھو ڈپٹتے ھوےؔ بولیں
راحیل اپنے دل میں:”مجھے ضرورت کیا تھی ماهنور کے برابر میں آکر بیٹھنے کی“ وه اپنی اس حرکت سے خود ھی ناراض ھوگیا تھا....وه خالی پلیٹ میں چمچہ چلا رھا تھا یه دیکھ ماہنور مسکرانے لگی....
”کچھ پلیٹ میں ڈال تو لیں....کب تک خالی چمچہ چلاتے رھیں گے“ وه انھیں کھویا کھویا دیکھ اپنے ہاتھ میں پکڑا ھوا چمچہ راحیل کے ہاتھ پر مارتے ھوےؔ کھنے لگی....
”ہاں بیٹا کچھ تو لو“راحیل کی بڑی امی اس کی خالی پلیٹ دیکھ کر کھنے لگیں....راحیل اٹھ کھڑا ھوا یه کہتے ھوےؔ کے بھوک نھیں ھے ....شاهنزیب بھی اس کے پیچھے ھو لیا....
”آپ ائيرپورٹ چلے جائيں گے ثانیه کو لینے ؟؟“ شاهنزیب نے راحیل سے پوچھا تھا...
”یار میں بھول کیسے گیؔ.....“ریشم نے اپنے سر پر خود ھلکی سی دھپ رسید کی...سب اسے دیکھنے لگے ”خالا نے کہا تھا کے وه تو نھیں آسکتیں ڈاکڑ نے انھیں سفر کرنے سے منع کیا ھے مگر وه ثانیه کو بھیج دیں گی....اور ثانیه کی فلائيٹ انھوں نے آج رات 9 بجے کے بجاےؔ شام پانچ بجے کی کروادی ھے ....مجھے کہا تھا میں آپ لوگوں کو بتادوں تاکے کوئی بھی لڑکا چلا جاےؔ اسے لینے.....پر میں بھول گیؔ بتانا“ ریشم نے جب اپنی بھولی ھوئی بات سب کو بتائی تو سب بھت خوش ھوےؔ....
{ثانیہ} ماہنور کی چھوٹی پھوپھو کی بیٹی تھی...پر سب نے اسے آخری بار دادا کے انتقال پر دیکھا تھا....شاہزیہ آپا کی شادی پر اس کے امتحان ھورھے تھے اس لیےؔ نه آسکی تھی ....وه اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی....ثانیہ نه صرف بےتحاشہ خوبصورت تھی بلکے اپنے ماں باپ کی وسیع و عریض جائيداد کی تنھا مالکن بھی....
”آپ نے جواب نھیں دیا“ شاهنزیب نے دوبارا پوچھا
”چلا جاٶں گا“ راحیل کہ کر وھاں سے چلا گیا...بڑی پھوپھو کو بڑی خوشی تھی ثانیہ کے آنے کی...ان کو ارمان تھا کے اگر ان کا کوئی بیٹا ھوتا تو وه اس کی شادی ضرور ثانیہ سے کرواتیں
راحیل ائيرپورٹ پھنچ تو جاتا ھے ثانیه کو لینے ....پر اسے ثانیه کا خاکہ ذرا سہ بھی یاد نھیں ھوتا...وه بورڈ ہاتھ میں لیےؔ کھڑا رھتا ھے ....ایک نھایت حسین لڑکی پینٹ شرٹ میں ٖ کالا چشمه لگاےؔ ....بال کھولے ھوےؔ....بھت سارے بیگ ھاتھ میں پکڑے اس کے پاس آکر کھڑی ھوجاتی ھے....ثانیه کو بتایا گیا تھا کے اسے لینے شاهنزیب آنے والا ھے....شاهنزیب کو وه اپنا چھوٹا بھائی مانتی تھی...اس لیےؔ آتے ھی اس کے گلے لگ جاتی ھے...
راحیل تو جیسے حقا بقا سہ ھی رھ جاتا ھے....اُس کی اِس حرکت پر....فورا اسے اپنے آپ سے دور ھٹاتا ھے....
”اُو....شُونو... مونو....کتنے بڑے ھوگےؔ ھو تم.....پھنچان میں بھی نھیں آرھے....آخری بار جب دیکھا تھا ....تب تم صرف دس سال کے تھے“ وه راحیل کے گالوں کو سھلاتے ھوےؔ بولتی ھے...
”میں کوئی شونو...مونو نھیں ھوں ....سمجھیں آپ“ راحیل اس کا ھاتھ جھٹک کر بولا....اس کی آنکھوں سے اس کا غصه عیاں تھا...
”تم اتنا غصه کیوں کر رھے ھو شاهنزیب؟؟؟“ وه بولی اسے الجھی نگاه سے تکتے ھوےؔ....وه شاهنزیب کا نام سن سمجھ گیا تھا کے ثانیه اسے شاهنزیب سمجھ رھی ھے...دل میں پہلے تو خیال آیا کے اسے بتادے....کے وه راحیل ھے...پر اگلے ھی لمحے اسے لگا کے نھیں اسے نه بتانا ھی بھتر ھے ابھی....گھر چل کر اسے خود پتا چل جاےؔ گا....یه سوچ کر اس نے بیگ کندھے پر ٹانگ لیا اور سوٹ کیس ھاتھ میں لیےؔ ...کار پارکنگ کی طرف چل دیا...وه اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی....اس نے سارا سامان ڈگی میں رکھا ....اور کار کا دروازه کھول کر کھڑا ھوگیا....وه آکر مسکراتی ھوئی بیٹھ گیؔ....اس نے کار کا دروازه بند کیا اور دوسری طرف سے آکر کار میں بیٹھ گیا...
”تمھیں برا لگا کیا میرا تمھیں شونو....مونو کھنا ؟؟؟....میں بھی ناں پاگل ھوں“ ثانیہ نے کھا تو راحیل اپنے دل میں:” ہاں یه تو ٹھیک کہا واقعی پوری پاگل ھے“سوچتے ھوےؔ کار اسٹارٹ کرتا ھے ...جب وه اس طرف دیکھتی ھے ....یه گمان کر کے .....کے وه جواب دے گا اس کی بات کا...تو وه دیکھتی ھے کے وه تو اس کی بات میں انٹرس ھی نھیں لے رھا یه دیکھ کر وه بھی چپ ھوجاتی ھے ....
جب وه کار سے اترتی ھے تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھیکانا ھی نھیں رھتا یه دیکھ کر کے اس کا پورا ننیال اس کا ویل۔کم کرنے کے لیےؔ کھڑا ھے...وه سب سے بڑے خوش ھوکر گلے ملتی ھے....سب سے ملنے کے بعد وه پیچھے مڑ کر راحیل کی طرف دیکھتی ھے جو سارا سامان ڈگی سے نیکالنے میں مشغول ھوتا ھے.....صباء اس کا ھاتھ مضبوطی سے پکڑ کر :”چلو نانو سے مل لو....کب سے تمھارا انتظار کر رھی ھیں وه“ کھینچتے ھوےؔ اپنے ساتھ اندر لے جاتی ھے....وه بھی اپنی نانو سے ملنے کے لیےؔ بےتاب تھی....
کچھ دیر بعد.....
ثانیه اپنے کپڑے نیکال کر بیگ سے الماری میں رکھ رھی ھوتی ھے کے ماهنور اس کا ایک سوٹ دیکھ کر کھتی ھے :”یه تو بھت خوبصورت ھے ثانیہ باجی ....آپ کس تقریب میں پھنو گی ایسے؟؟؟“ اس سوٹ پر ہاتھ پھیرتے ھوےؔ کھتی ھے....
”اگر تمھیں پسند آرھا ھے تو تم لے لو.....ویسے بھی مجھے تحفه تو دینا تھا تمھیں....اس سے اچھی کیا بات ھے کے وه تحفه تمھاری پسند کا ھو“ وه ماهنور کو وه سوٹ تحفہ تن پیش کردیتی ھے.....
”تمھاری عادت گیؔ نھیں“ ریشم بول اٹھی تھی اس کی اس حرکت پر....
”کون سی عادت؟؟“ثانیہ انجان انداز سے پوچھتی ھے....
”دینے والی عادت....بچپن میں بھی جب بھی کسی کو تمھاری چیز پسند آتی تھی وه چاھے پھر تمھیں کتنی ھی عزیز ھو ....تم فورا اسے دیتیں تھیں....اور آج بھی یھی کر رھی ھو“ ریشم نے اس کی پرانی عادت پر روشنی ڈالی تو وه مسکراء دی....
”نھیں یه آپ کا ھے....اسے آپ ھی پھنیے گا.....مجھے آپ کوئی اور تحفه اپنی پسند کا لاکر دیجیےؔ گا....مانا میں نے...آپ کو دینے کی عادت ھے...پر مجھے خدا کا شکر ھے لینے کی عادت نھیں...جو چیزیں میرے پاس ھیں میں انھیں سے اتفاق کرنا پسند کرتی ھوں“ماهنور نے سوٹ فولٹ کرتے ھوےؔ بولا.....
”تم ایسا کیوں بول رھی ھو؟؟؟......میں تو تمھیں اپنی چھوٹی بھن سمجھ کردے رھی تھی...تمھیں اگر پسند نھیں آیا میرا تمھیں اپنا سوٹ دینا تو معاف کرنا.....پہلے ہی مجھ سے شاهنزیب خفاء ھوگیا ھے .....اور اب تم بھی“.....ثانیه نے وه سوٹ الماری میں رکھ کر ماهنور کی طرف دیکھتے ھوےؔ معافی طلب کی.....
”میں کیوں بھلا آپ سے خفاء ھوں گی؟؟.....یه بھی کوئی بات ھے ناراض ھونے کی“ ماهنور نے مسکراء کر کہا تو ثانیه کو تسلی ملی کے وه اس سے ناراض نھیں ھے...
”پر شاه آپ سے کیوں ناراض ھے؟؟؟“ ریشم نے آبرٶ اچکاتے ھوےؔ پوچھا
”مجھے تو خود سمجھ نھیں آیا تمھیں کیا بتاٶں....بھئی جب کوئی دور سے آتا ھے اور وه بھی برسوں بعد.....تو وه آتے ھی اپنے چھوٹے بھائی سے گلے تو ملتا ھے ناں ؟؟؟“اس نے دونوں کو دیکھتے ھوےؔ سوال کیا ....تو جوابا دونوں نے ”ھاں“ کہا....اپنی بات کی وه تصدیق کرواتے ھوےؔ:” بس میں بھی گلے ملی....پھر میں نے اس کے گال سھلاتے ھوےؔ کھا شونو مونو.....تم کتنے بڑے ھوگےؔ ھو....اس میں ٖ میں نے ایسا کیا کردیا یا بول دیا کے وه غصه سہ ھوگیا اور خفاء ھوکر وھاں سے چلاگیا .....بعد میں ٖ میں نے اس سے معافی بھی مانگی پر وه کچھ بولا ھی نھیں“ وه ان دونوں کو بتاکر چپ ہی ہوئی تھی کے کمرے میں شاهنزیب چلا آیا....وہ تینوں تو بیڈ پر بیٹھ کر باتیں کر رھی تھیں وه صوفے پر آکر ٹک گیا
”ثانیه کیسی ھو؟؟؟“اس نے حال دریافت کیا مسکراتے ھوےؔ
”میں تو ٹھیک ھوں .....تم کیسے ھو؟؟؟.....تم کبھی کینڈا کیوں نھیں آےؔ؟؟؟“ اس نے بھی شاه کے سوال کے جواب میں اپناحال بتاتے ھی شکوه کر ڈالا تھا کبھی کینڈا نه آنے کا......
ماهنور اور ریشم دونوں حیرت سے ایک دوسرے کا منه تکنے لگیں ....انھیں کچھ سمجھ نھیں آرھا تھا....ابھی ثانیه شاهنزیب کے آنے سے پہلے تو بتارھی تھی کے وه اس سے ناراض ھوگیا تھا....شاهنزیب کے مزاج سے تو سب واقف تھے کے وه کس قدر ضدی مزاج ھے....جب وه ایک بار کسی سے ناراض ھوجاتا ھے تو ھفتے گزر جاتے ھیں پر خود سے پہل نھیں کرتا بات کرنے کی....پھر آج سورج کیا مشرق کی جگه مغرب سے نیکل آیا ھے ....جو وه صبح ثانیہ سے ناراض ھوا اور شام میں مسکراء مسکراء کر اس سے باتیں کر رھا ھے......
ایک ھفتے پہلے ماهنور نے صرف اس کی معمولی سی بات نھیں مانی تھی تو وه ناراض ھوا تھا اور ابھی تک ٹھیک طرح اس سے باتیں نھیں کر رھا تھا......ماهنور کو شاه کی یه حرکت بھت بری لگی.....
”تم تو ثانیه سے ناراض ھوگےؔ تھے.....پھر اتنی جلدی تمھاری یه ٹماٹر جیسی لال ناک واپس سفید کیسے ھوگیؔ......اور تمھارے جیسا غرور والا شخص اپنی ناک نیچے کر کے صلح کرنے کیسے آگیا؟؟؟“ مانو بےتاب ھوکر شاهنزیب سے پوچھ بیٹھی......
”میں کب ناراض ھوا ثانیه سے؟؟؟؟“ وه حیران لھجے میں پوچھنے لگا....
”ارے نھیں...یه مجھ سے تھوڑی ناراض ھوا ھے“ ثانیه بھی اس کی بات کی تصدیق کرنے لگی.....
مانو ریشم سے :”تم نے سنا تھا ناں ثانیه نے کھا تھا کے شاهنزیب اس سے ناراض ھوگیا ھے ...کیونکے وه اس کے گلے لگی اور اسےشونو مونو جیسے القابات سے نوازا“
ریشم نے ھاں میں گردن ھلا دی......
”پر میں نے کھا تھا شاهنزیب سے“ ثانیه نے اپنی بات پر زور دیا تھا.....
”پر میں آپ سے کب ناراض ھوگیا؟؟؟؟....“ شاه نے ثانیه کو دیکھ پھر وھی سوال کیا تھا....
”تم نھیں راحیل.....شاهنزیب مجھ سے ناراض ھوگیا ھے“ اس نے پھر سے اپنی بات ان تینوں کے سامنے پیش کی......
”اووووو........ووووو“ ریشم اور مانو ایک دوسرے کو دیکھ کر بولیں....”تو شاهنزیب تم سے ناراض ھے“ یه کھ کر دونوں نے زور دار تالی ماری .....اور خوب زور زور سے قہقہے لگانا شروع کردیئے......
انھیں قہقہے لگاتا دیکھ ثانیہ شاهنزیب سے مخاطب ھوکر:”انھیں کیا ھوگیا ھے راحیل ؟؟؟؟.......یه اتنا ہس کیوں رھی ھیں؟؟“
”کیونکے ان دونوں کو پوری بات سمجھ آگیؔ ھے“ وه بڑے اطمینان سے بولا.....
”کیا بات؟؟؟؟“ وه بڑی جستجو سے پوچھنے لگی....
”یہی بات کے جیسے آپ راحیل سمجھ کر بات کر رھی ھیں ابھی ....وه شاهنزیب ھے.....اور جو آپ سے ناراض ھوا ھے .....جیسے آپ نے شاهنزیب سمجھا وه دراصل راحیل ھے“ یه سمجھا کر وه چپ ھوا تو ثانیه دو دو فٹ بیڈ سے اوچھل پڑی.....دونوں ہاتھ منه پر رکھ لیےؔ مارے شاکٹ کے....
”تو کیا میں شاهنزیب کو سمجھ کر راحیل کے گلے لگ گیؔ؟؟؟“ وه مارے شاکٹ کے شاه سے پوچھنے لگی.....اس نے اثبات میں گردن ھلائی تو ثانیه نے اپنے ناخن چبانا شروع کردیےؔ......وه بھت شرمنده سی ھوگیؔ تھی ....اسے اب سمجھ آیا تھا شاهنزیب کا غصه ......او سوری......راحیل کا غصه
”آپ نے تو کمال کردیا ثانیه باجی.....آتے ھی ڈائرک گلے لگ گیںؔ“ ماهنور ہستے ھوےؔ کھ رھی تھی....
”ہاں اور لگی بھی تو کس کے ....راحیل پاجی کے.....وه بیچارے اتنے شریف اتنے بھولے.....وه تو ائيرپورٹ پر جب آپ ان کے گلے لگیںؔ ھوں گی .....بددعا کرنے لگ گےؔ ھوں گے اپنے لیےؔ کے یه زمین پھٹے اور وه اس میں سماء جائيں“ ریشم بھی چپ کہاں رھنے والی تھی .....خوب مزاق اڑانے لگی ثانیه کا......
”پر ریشم تم نے ہی تو کہا تھا کے مجھے لینے شاہنزیب آنے والا ھے...میں نے تو نه کبھی شاهنزیب کو دیکھا تھا نه کبھی راحیل کو...مجھے کیا خبر تھی وه راحیل ھے...یه سب تمھاری وجه سے ہوا ہے...ریشم“...ثانیه نے کشن اٹھا کر ایک دو اس کی طرف مارے...
”ثانیه تم فکر مت کرٶ....راحیل بھت اچھا لڑکا ھے ...وه سمجھ جاےؔ گا کے تم نے یه حرکت انجانے میں کی ھے...“شاهنزیب نے اسے تسلی دی...
”ہاں یه تو ھے...وه بھت اچھے ھیں...سب کے لیےؔ ھمیشه اچھا ھی سوچتے ھیں ...ان کو غصه آتا ھے ناں تو وه بجاےؔ سامنے والے کے خود پر ھی اتار لیتے ھیں...“ماهنور راحیل کی بڑھائی بیان کرتے ھوےؔ ثانیه کو سمجھانے لگی....
”اب میں راحیل کے سامنے کون سه منه لے کر جاٶں گی“ وه مارے ندامت کے بول رھی تھی....
”ایک ہی تو منه ھے آپ کے پاس ...وه بھی اتنا پیارا سه....وه ہی لے کر چلی جائیے گا راحیل پاجی کے سامنے“ریشم کشن کو ہاتھ میں پکڑ کر مسکراتے ھوئے بول رھی تھی....
ماهنور نے اپنا دوپٹہ شانوں سے اُتار کر ثانیه کے سر پر اڑھا کر بڑے پیار سے کہا:”دوپٹا اوڑھ کر جایےؔ گا ...ذرا سه شرمائيے گا...ذرا سه گھبرایےؔگا...اور پھر اپنی دل چورا لینے والی مسکراھٹ کے ساتھ اس سے معافی مانگ لیجیےؔ گا..... دیکھیےؔگا ناراضگی سب بھول بھال فدا ھو جائيں گے آپ پر “ماهنور بڑی شوخی سے انھیں آنکھ مار کر کھ رھی تھی...جس پر ریشم خوب ہسنے لگی..اور شاهنزیب بھی مسکراء دیا۔۔۔۔۔
******-----------*********
رات کے دس بجے کے قریب کامران لاونچ میں آیا تو ماهنور اکیلے بیٹھی کرسی پر کچھ گم سم سی تھی....وه چلتا ھوا کب اس کے پاس آکر کھڑا ھوگیا اسے خبر ھی نه ھوئی ...وه رومیسا آپا کی وداعی کا سوچ کر دل ہی دل رو رھی تھی ...کے ان کے جانے کے بعد ۔۔۔وه اتنے بڑے گھر میں۔ ۔۔۔ اتنے سارے لوگوں کے بیچ تنھاء سی ھوجاےؔ گی....رومیسا آپا کا نکاح جمعه کے دن کا رکھا گیا تھا....نکاح کے بعد وه پرائی ھوجائيں گی یه سوچ اس کا دل ابھی سے غمگین تھا...وه یه ساری باتیں کس سے کھے شاهنزیب کی تو ناراضگی ہی ختم ھوکر نھیں دے رھی تھی...
”کہاں گم ھو مانو؟؟؟“کامران نے اس کے سر پر ھلکا سه ھاتھ مارتے ھوےؔ کہا تو وه اپنے حواسوں میں لوٹ آئی
”یہی تو سمجھ نھیں آرھا کے کہاں گم ھوں“ ماهنور نے بڑا عجیب سه جواب دیا تھا اداس ھوکر
کامران نے میز کے برابر والی کرسی کو گھسیٹا اور بلکل ماهنور کے برابر میں لگا کر بیٹھ گیا...”اتنی اداس کیوں ھو مانو؟؟....سب ٹھیک تو ھے؟؟....کسی نے کچھ کھا کیا؟؟؟“ وه اسے اداس دیکھ کر بےچین ھوگیا تھا ....وه جانتا تھا کے ماهنور کی اداسی کی وجه کہیں ناں کہیں رومیسا آپا کی شادی ھے
”نہیں تو....میں تو اداس نھیں ھوں...میں تو بھت خوش ھوں...آخر میری آپا کی شادی ھے...آج سے ٹھیک دس دن بعد میری آپا کی رخصتی ھے“ وه مسکراء دی یه کہ کر ...پر ایسا لگ رھا تھا کے وه زبردستی مسکراء رھی ھے....اسکی مسکراھٹ تو اسکے چھرے کو کھلتا ھوا گلاب بنادیتی ھے ...پر آج وه ھی مسکراھٹ اس کے چھرے کو مرجھا ھوا کر رھی تھی...
”ویسے میں تمھیں ہی ڈھونڈ رھا تھا...تمھیں بھت شوق ھے ناں میرے ساتھ بائيک ریس میں حصہ لینے کا“ کامران ابھی بول ھی رھا تھا کے وه مارے خوشی کے اچھل پڑی...”سچ؟؟....آپ مجھے واقعی بائيک ریس میں لے جائيں گے؟؟ “وه بے حد مسرت سے پوچھ رھی تھی...
”ھاں کیوں نھیں...ضرور...چلو....جلدی اٹھو...گیاره بجے ریس شروع ھوگی“ کامران نے اس سے کہا تو وه فورا اٹھ کر سیڑھیوں کی طرف لپکی
”کھیں جارھی ھو کیا؟؟؟“ شاهنزیب اسی وقت وھاں آیا تھا....جب ماهنور بلکل تیار ھوکر تیزی سے ایک دو سیڑھیاں پھیلانگتی ھوئی نیچے اتری...
”وه میں .....“ماهنور کچھ بولتی اس سے پہلے کامران جو شاهنزیب کے پیچھے کرسی پر بیٹھا تھا کھڑا ھوکر ”ھاں میرے ساتھ جارھی ھے....بائيک ریس میں....میری پارٹنر بننے کے لیےؔ...“ بول کر ماهنور کو چلنے کا اشاره کیا
”ماهنور کھیں نھیں جاےؔ گی اور بائيک ریس میں تو بلکل نھیں“ شاهنزیب نے مڑ کر کامران کو دیکھتے ھوےؔ دوٹوک انداز میں کھا
”مانو کہاں جاےؔ گی اور کہاں نھیں یه بتانے والے تم کون ھوتے ھو؟؟“ کامران کو شاهنزیب کا انکار کرنا غصه دلایا گیا تھا....وه مارے طیش میں بول رھا تھا...
”میں اس کا کزن ھوں اور اس کی بھلائی کے لیےؔ بول رھا ھوں ...آپ کو خود سوچنا چاھیےؔ کے دس دن بعد گھر میں شادی ھے...گھر میں مہمان آرھے ھیں....کچھ تو آبھی گےؔ ھیں...ان سب کے باوجود کیا آپ کا مانو کو بائيک ریس میں لے کر جانا ٹھیک ھے؟؟؟....وه لڑکی ھے کامران....بائيک ریس میں حادثات ھوجانا کوئی بڑی بات نھیں ھے...اگر ماهنور کو کچھ ھوگیا تو“ شاهنزیب نے کامران کو آئينه دیکھایا تھا ...جو دیکھنے کے لیےؔ وه تیار نھیں نه تھا...
”شاهنزیب بھت چھوٹے ھو تم مجھ سے...جتنی تمھاری عمر ھے اتنا تجربه ھے میرا .....سمجھے بچے“ اس نے طنزیه مسکراھٹ کے ساتھ شاهنزیب کی بات کا جواب دیا تو....شاهنزیب غصے سے لبریز ھوکر:وه تو نظر آ ھی رھا ھے...کامران بھائی“ کھتے ھوےؔ ماهنور کی طرف بڑھ گیا اور اس کا ھاتھ مضبوطی سے اپنی گرفت میں لے کر ابھی ایک قدم بھی نه چلا تھا کے کامران غصے سے آگے بڑھا تھا...
مگر راه میں رکھی کرسی سے ٹھوکر کھاکر لرکھڑا گیا تو مارے جلال کے کرسی کو ایک لات مار کر دور پھینک دیا...کرسی کی آواز سن کر راحیل دوڑا چلا آیا....
کامران نے شاهنزیب کے دائيں کندھے پر ھاتھ رکھ بڑے برھم سے کھا:”مانو میرے ساتھ جاےؔ گی“
راحیل وھاں ٹھیک وقت پر پھنچ گیا تھا ....شاهنزیب نے ماهنور کا ھاتھ چھوڑا اور پلٹ کر :”وه نھیں جاےؔ گی “ صاف الفاظوں میں کامران کے منه پر کھ دیا....کامران غصے سے پاگل ھوےؔ جارھا تھا کے شاهنزیب کی ھمت کیسے ھوئی ماهنور کو اس کے ساتھ جانے سے روکنے کی...پر وه بھی ڈرنے والا تھوڑی تھا نیڈر بن کر چٹان کی طرح کھڑا رھا.....
”شاهنزیب اپنی حد میں رھو....مت بھولو....کے تم بھت چھوٹے ھو مجھ سے“ شاهنزیب کے کندھے پر اپنے بھاری ھاتھ سے تھپکتے ھوےؔ لال سرخ آنکھوں سے اسے گھورتے ھوےؔ کھ رھا تھا....
”چلو مانو“ کامران ماهنور کی طرف دیکھ کر بولا
”چھوڑیں کامران بھائی ....ھم پھر کبھی چلیں گے“ماهنور دونوں کی بحث سے ڈر گیؔ تھی .....اس لیےؔ بات ختم کردینا چاھتی تھی....
”سن لیا آپ نے...اب جائيں آپ“ شاهنزیب نے اپنا غصه ضبط کرتے ھوےؔ کھا تھا کامران سے...لیکن جوابا اس نے شاهنزیب کا کالر پکڑ لیا....
اسی وقت راحیل وھاں پھنچا ....اس نے آکر سب سے پہلے کامران سے شاهنزیب کا کالر چھڑوایا....راحیل کو دیکھ ماهنور پرسکون ھوگیؔ....
”پاگل ھوگےؔ ھو کیا تم دونوں ....یه ھی خیال کرلو کے گھر میں مہمان آےؔ ھوےؔ ھیں“ راحیل دونوں کو ہی ڈانٹتے ھوےؔ بولا ....اسی وقت ثانیہ اپنے کمرے سے نیکل آئی....
”شاهنزیب بدتمیزی کر رھا تھا میرے ساتھ“ کامران اپنی صفائی میں بول کر چپ ھوا تو شاهنزیب بول پڑا ”کیا بدتمیزی کی میں نے؟؟....“پھر راحیل سے مخاطب ھوکر:” آپ خود بتائيں راحیل ...کیا اس وقت مانو کا کامران کے ساتھ بائيک ریس پر جانا ٹھیک ھے ؟؟؟“
”تم دونوں پہلے تو خاموش ھوجاٶ....بھت بحث کرلی تم دونوں نے...نه کامران تمھیں اپنے بڑے ھونے کا خیال آیا نه شاهنزیب تم نے اپنے چھوٹے ھونے کا پاس رکھا.....اب تم دونوں چپ چاپ اپنے کمرے میں چلے جاٶ....یہی تم دونوں کے لیےؔ بھتر ھے....کوئی ضرورت نھیں ھے اس بات کو اور طول دینے کی....یه بات یہیں ختم کردو ....صبح میں تم دونوں کے رویوں میں روز معمول جیسی مسکراھٹ دیکھنا چاھتا ھوں تلخی نھیں ....سمجھے تم دونوں....اب جاٶ“ راحیل ویسے تو حسن اخلاق کا مالک تھا لیکن اس وقت وه بے انتھاء غصے میں دونوں کو ڈانٹتے ھوےؔ کھ رھا تھا.....راحیل ان دونوں کو غصے بھری نگاه سے دیکھ رھا تھا کامران پاٶں پٹختے ھوےؔ چل دیا ...جبکے شاهنزیب نے ماهنور کا ھاتھ دوبارا مضبوطی سے پکڑا اور اسے وھاں سے کھینچتا ھوا لے گیا....راحیل پلٹا تو اسے اپنے سامنے گھبرائی ھوئی سی ثانیه نظر آئی....وه راحیل سے خوفزده سی ھوگیؔ تھی....راحیل اسے دیکھتا رھا ...یھاں تک کے وه بھاگتی ھوئی کمرے میں چلی گیؔ....اور اندر جاکر اس نے دروازه لوک کرلیا....”سب تو کھ رھے تھے کے راحیل بلکل بھی غصه نھیں کرتا...پھر یه کیا تھا؟؟؟...وه تو اس قدر ڈانٹ رھا تھا شاهنزیب اور کامران کو.....اب میرا کیا ھوگا“ وه دروازے سے لگ کر چھت کی طرف دیکھتے ھوےؔ خود سے ھی ھم کلامی کر رھی تھی....
”یه لڑکی مجھے دیکھ کر بھاگ کیوں گیؔ؟؟؟“راحیل یه سوچتا ھوا وھاں سے چلا گیا....
شاهنزیب ماهنور کا ھاتھ پکڑ کر اسے اپنے کمرے میں لاکر اس پر برسنے لگا...”تمھیں ضرورت کیا تھی کامران کے ساتھ بائيک ریس پر جانے کے لیےؔ کھنے کی؟؟؟“
ماهنور نے اپنا ہاتھ اس سے چھوڑا کر اسے بغور دیکھتے ھوےؔ؛” میں نے نھیں کہا تھا ان سے....وه خود آےؔ تھے مجھے ڈھونڈتے ھوےؔ....انھوں نے مجھ سے پوچھا تو میں نے ھاں کردی...“ یه کھ کر وه مڑ کر جانے لگی....تو شاهنزیب نے فورا اس کی نازک کلائی مضبوطی سے پکڑ لی:” رومیسا آپا تمھیں کبھی بھی کامران کے ساتھ جانے نھیں دیتیں تھیں ...کیا کامران کو ھاں کرنے سے پہلے بھول گیںںؔ تھیں تم ؟؟؟...... رومیسا آپا کی مجبوری ھے تم سے دور جانا....پر اب تم اتنی چھوٹی نھیں رھی ھو کے اپنا خود خیال نه رکھ سکو...تمھارے پاس اپنی عقل ھے یا نھیں؟؟؟....“ وه اس قدر غصے میں تھا کے ماهنور خاموش ھوگیؔ....اور کوئی جواب ھی نه دیا ....شاهنزیب کو اپنا یوں اگنور ھونا برداشت نه ھوا تو بھپر اٹھا”کامران جب بھی ریس پر جاتا ھے کچھ نه کچھ ٹوٹوا کر ھی آتا ھے....کبھی پاٶں کی ھڈی کبھی ھاتھ کی.....اور ایک بار تو مرتے مرتے بچا تھا....یاد ھے ناں تمھیں مانو؟؟؟؟.....وه شخص جسے اپنی جان کی کوئی قدر نھیں تم اس شخص کو اپنی جان سوپنے چلی تھیں....تم اتنی بڑی بےوقوف نیکلو گی سوچا نھیں تھا میں نے کبھی“ شاهنزیب نے اس کے پکڑے ھوےؔ نازک سے ھاتھ کو جب جھنجھوڑتے ھوےؔ کھا تو اس کی آنکھوں میں آنسوں آگےؔ.....دل تو چاھا پھوٹ پھوٹ کر روےؔ....پر پھر خود کو سمبھالتے ھوےؔ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ھوےؔ کھنے لگی :”ھاں ھوں میں بےوقوف....اور صرف بےوقوف ھی کیوں...پاگل ٖ احمق ٖ الو ٖ دماغی مریض یه سب جو تم کھ نھیں پارھے ھو....وه میں خود ھی کہ دیتی ھوں ....ہاں ھوں میں.....پر تم تو بھت ذھین ھو ناں .....تو صرف میرے ایک سوال کا جواب دے دو...“ یه کہ کر وه تھوڑی دیر خاموش ھوگیؔ.....اپنی آنکھوں کے آنسوں جو موتی بن کر بہ رھے تھے ان کو صاف کرتے ھوےؔ ”رومیسا آپا کی مجبوری ھے مجھ سے دور جانا ....یه سمجھ سکتی ھوں میں....پر تم کیوں مجھ سے دور جارھے ھو؟؟....تمھیں کیا مجبوری لاحق ھوگیؔ ھے....بس یه سمجھا دو مجھے“ وه بڑی جستجو سے اس سے سوال کر رھی تھی...شاهنزیب نے اس کا سوال سن ...ھاتھ چھوڑ دیا تھا...
”میں نے کچھ نھیں کیا....تمھیں ھی آذادی چاھیےؔ تھی مجھ سے...جو میں نے تمھیں دے دی....اب تمھیں تمھاری من پسند چیز دے دی ھے میں نے ۔۔۔۔تو بھی تمھیں سکون نھیں ھے“ اس نے ماهنور سے اپنا منه موڑ کر کہا تو اس بار ماهنور نے اس کا پیچھے سے ھاتھ مضبوطی سے تھامتے ھوےؔ کھا:”سکون تو تب آےؔ گا جب اس آذادی میں میرا شاه میرے ساتھ ھوگا....اس کے بغیر اس آذادی میں کوئی مزا نھیں...“ ماهنور نے اتنی محبت سے کھا کے وه اپنی ساری ناراضگی بھول گیا....غصه سارا دھرا کا دھرا رھ گیا....
”سوچ لو ....پھر مت کھنا کے میں ھٹلر ھوں“ اس نے مسکراء کر کھا....
” بس ایک معافی ھماری توبه جو اب ھم ستائيں تم کو“ اس نے ایک ھاتھ سے کان پکڑا اور ھلکا سه اس کے چھرے کی طرف دیکھ کر مسکراء دی....
”ڈائيلاگ بازی تو کوئی تم سے سیکھے....“ کھتا ھوا بیڈ پر جا بیٹھا....
”ویسے۔۔۔۔ میں بھت اداس تھی ...رومیسا آپا کی شادی کو لے کر...میری ماں تو مجھے پیدا ھوتے ھی چھوڑ گیؔ....اور اب میری وه ماں جس نے مجھے بچپن سے بڑے لاڈ پیار سے پالا ھے وه بھی چھوڑ کر جارھی ھیں“ماهنور کی آنکھوں میں نمی تھی ....اور اس نے شاه کو اپنے دل کی کیفیت سے آگاه کیا...وھی کیفیت جو وه کامران کو نھیں بتاپا رھی تھی....شاهنزیب کو بلاھچکچاھٹ بتارھی تھی....
شاهنزیب بیڈ پر بیٹھا ھوا تھا اس نے اپنا ھاتھ ماهنور کی طرف بڑھایا؛”آٶ بیٹھو“
ماهنور نے اس کی آنکھوں میں اپنی اداسی کی جھلک دیکھی تھی....اس نے فورا اپنا ھاتھ اس کے ھاتھ میں دے دیا....اور اس کے برابر میں بیٹھ گیؔ....
”یه تو دستور ھے دنیا ھے مانو....ہر بیٹی کو اپنا گھر چھوڑ کر دوسرے گھر جانا ھوتا ھے....اپنی نئی دنیا بسانی ھوتی ھے....پر اس کا مطلب یه نھیں کے وه اپنے پرانے رشتے بھول جاتی ھے...عورت بھت مضبوط ھوتی ھے ....بڑا ضبط کرنے کی طاقت دی ھے خدا نے اسے...وھی تو ھے جو دو خاندانوں کو آپس میں جوڑ کر رکھتی ھے...میں نے مانا تمھارے کیس میں سب الٹا ھے....لوگوں کی بیٹیاں اپنی ماں سے وداع لیتی ھیں اور تمھارے کیس میں تمھاری ماں { رومیسا آپا} لے رھی ھیں.... پر ان کی محبت وھاں جانے سے تمھارے لیےؔ کم تھوڑی ھوجاےؔ گی“وه اتنے پیار و محبت سے اسے سمجھا رھا تھا کے ماهنور دو تین لمحوں کے لیےؔ تو اسے تکتی سی رھ گیؔ....اسے لگ ہی نھیں رھا تھا کے شاهنزیب اس سے عمر میں چھوٹا ھے.....اس نے اتنے پیار سے اپنی بات سمجھائی کے وه اپنی ساری اداسی بھول بیٹھی....اور اسے دیکھ کر مسکرانے لگی۔
ماهنور صوفے پر بیٹھی پاٶں سیدھے کرےؔ ریلکس فیل کر رھی تھی...کے واپس رومیسا آپا کی آواز اس کے کانوں میں گونجی ”ماهنور پکوڑے دیکھو...مجھے لگ رھا ھے تم چولھا تیز آنچ پر کر کے یھاں بیٹھنے چلی آئی ھو“ماهنور آواز سنتے ہی کچن کی طرف دوڑئی....
رومیسا آپا اپنے جانے سے پہلے ماہنور کو بلکل ٹرین کردینا چاھتی تھیں....ماهنور کچن میں پہنچی تو رومیسا آپا کو پہلے سے چولھے کی آنچ ہلکا کرتا پایا”کہاں چلی گیںؔ تم؟؟؟....چولھے کی آنچ کو اتنا تیز کر کے....اگر میں وقت پر نه آتی تو جل جاتے یه...پھر کیا سب کو جلے ھوےؔ پکوڑے کھلاتی تم ؟؟؟“ رومیسا آپا چولھے کی آنچ کم کرتے ھی پلٹی اور ماهنور کو خوب سننا شروع کردیا....
”آپا کھڑے کھڑے کمر تختہ سی ھوگیؔ تھی میری....سوچا لان میں صوفے پر بیٹھ کر تھوڑی کمر ہی سیدھی کرلوں “ماهنور نے اپنی کمر پر ہاتھ رکھ تھکن کا اظھار کیا تو رومیسا آپا برس پڑیں....
”اچھا جی ...ایک پکوڑے پکانے میں تمھاری کمر تختہ ھوگیؔ....مانو بڑی ھوگی ھو تم.....سب ٹھیک کھتے ھیں میرے پیار نے بیگاڑ دیا ھے تمھیں....ارے ابھی کوئی سن لے....کوئی کیا بڑی پھوپھو ہی سن لیں کے تمھاری نازک کمر صرف پکوڑے بنانے میں ہی دھک جاتی ھے تو سو سو باتیں سنائيں گی مجھے...کے کیا سیکھایا ھے میں نے تمھیں....مانو کیوں بدنام کرنے پر تولی ھو اپنی آپا کو...ٹھیک کھتی تھیں دادو میڑک کرتے ھی تمھیں کچن میں لگا دینا چاھیےؔ تھا مجھے....کم از کم تمھیں آج کچھ تو آتا“ آپا اپنا سر پکڑ کر اسے سنارھی تھیں...
”آپا ابھی ایک ھفتے پہلے ہی اتنے اچھے چاول پکاکر کھلائيں ھیں آپ کو....اور سب گھر والوں کو....جب آپ بازار گیںؔ ھوئی تھیں یاد کریں“ ماهنور نے انھیں یاد داشت پر زور دینے کو کھا تو آپا غصے سے لال ھوگیںؔ
”مانو زیاده بحث مت کرٶ مجھ سے....زبان قینچی کی طرح چلنے لگی ھے تمھاری ....دیکھ رھی ھوں میں“آپا ابھی چپ بھی نه ھوئيں تھیں کے کامران فریج سے پانی کی بوتل لینے آیا ...اور ماهنور کی بات وه سن چکا تھا تو بیچ میں ٹانگ اڑےؔ بغیر وه رھ سکے یه کھاں ممکن تھا.....آخر اس کو بھی ماهنور سے بھت سے حساب کتاب پورے کرنے تھے...اور اس سے اچھا موقع اور کہاں ملتا جب آپا غصے میں تھیں...
”اچھے چاول؟؟؟...اور تم نے پکاےؔ.....بس رھنے دو مانو....یار ایک سال سے یه لڑکی چاول پکا رھی ھے...پر جب بھی بناتی ھے کچھ نه کچھ گڑبڑ کر یی ڈالتی ھے...کبھی چاول میں نمک زیاده ھوتا ھے کبھی مرچیں...اور کبھی تو سمجھ ہی نھیں آتا کے چاول ھیں یا کیچھڑی....اب ایسے میں اگر اتفاق سے محض اس سے ٹھیک چاول بن جائيں تو ھم تو اسے اچھا ھی کھیں گے“کامران نے ماهنور کو مسکراء کر دیکھایا اور آپا کے کان بھر دیےؔ....وه اس وقت گھس میں چونگی ڈال جمالو دوڑ کھڑی کا کام کر رھا تھا....ماهنور کا دل تو چاھا کے اِس گرم کُھولتے ھوےؔ تیل میں اِن پکوڑوں کے ساتھ کامران کو بھی تل دے.....
کامران آگ لگا کر ماهنور کو منه چڑاتا ھوا پانی کی بوتل لے کر چل دیا....اس بار ماهنور دانت پیستی سی رھ گیؔ تھی....پھر تو رومیسا آپا نے خوب ڈانٹ پلائی...ماهنور بیچاری چپ چاپ کھڑے ھوکر سنتی رھی...مگر دل میں تو بس یھی چل رھا تھا کے اب کامران کو چھوڑنا نھیں ھے۔۔۔۔۔
******---------*******
سب رات کا کھانا تناول فرما رھے ھوتے ھیں...کے ماهنور راحیل کو دیکھ کر شوخی سے بولتی ھے:”شو...مونو“ اور کھتے ہی اپنی آنکھیں راحیل سے چورا لیتی ھے...راحیل کے کان ماہنور کی آواز سنتے ہی کھڑے ھوجاتے ھیں...ثانیه ٖ ریشم اور شاهنزیب ماهنور کو دیکھنے لگتے ھیں....راحیل کی سرخ لال آنکھیں ثانیه کو گھور رھی ھوتی ھیں....
”لگتا ھے ثانیه نے سب کو بتادیا کے ائيرپورٹ پر کیا ھوا تھا“ یه سوچتے ھوےؔ مارے غصے کے ھاتھ میں پکڑا کانٹا پلیٹ میں پٹختے ھوےؔ وھاں سے اٹھ کر چلا جاتا ھے....ان کے جاتے ہی سب کی نظریں ماهنور پر ٹک جاتی ھیں...
”تم نے اور رومیسا نے قسم کھالی ھے کیا کے راحیل کو کھانا کھانے نھیں دینا؟؟“ بڑی پھوپھو نے ماهنور کو بغور دیکھتے ھوےؔ غصے سے پوچھا...ماهنور کہاں جانتی تھی کے راحیل کا اس قدر سخت ردِعمل اسے دیکھنے کو مل جاےؔ گا...وه جان چکی تھی کے اب بھت ڈانٹ پڑنے والی ھے اسے بڑی پھوپھو سے....
اگر بڑی پھوپھو ایک بار ڈانٹنا شروع کردیں تو وه ایسا ھوتا ھے جیسے کسی نے ٹیب ریکوڈر کا بٹن اُون کردیا ھو...اور بند کرنے کا بٹن ھو ہی نه.....وه سرجھکاےؔ آرام سے ان کی ڈانٹ سنتی رھی....
”پھوپھو ابھی بچی ہے یه...ایسے نھیں پتا کے کِس سے کِس طرح بات کرنی چاھیےؔ ....پر میں اِسے سمجھا دوں گی“ بس رومیساء کا ماهنور کی طرف داری کے لیےؔ کہنا گناه ھوگیا تھا....
بڑی پھوپھو اپنی ساری طوپوں کا منہ ماهنور کی جگہ رومیساء پر کردیا ”یه سب تمھارا ہی سیکھایا ھوا ھے بی۔بی.....جو یہ بول رہی ھے...بڑی ماں بنی پھرتی ھو اِس کی....اک تمیز و احترام تو تم سے سیکھایا نه گیا“ رومیساء یه ساری باتیں سن جھنجھلا رھی تھی ....پھر بھی سر نیچے کیےؔ احترام سے پھوپھو کی بات سنتی رھیں
”کاش خدارا...اِن کا ٹیب ریکاڈر بن کرنے کا ایک بٹن ھوتا تو میں اب تب دبا چکی ھوتی....بیچاری میری بھولی بھالی آپا...میری وجه سے پھوپھو کی جلی کٹی سن رھی ھیں“ ماهنور بڑی پھوپھو کو دیکھتے ھوےؔ ہلکے سے بولنے لگی.....بڑی پھوپھو کے کان اتنے تیز نیکلیں گے ماهنور کو اس کا اندازه نہ تھا...
”ریشم ماهنور کی آگے کی پلیٹ اٹھا لو“ بڑی پھوپھو اس کی بات سن تلملا اٹھی تھیں....ماهنور ان کی یه بات سن انھیں حیرت سے دیکھنے لگی...
”اب اِسے بھی کھانا تب ملے گا جب راحیل کھانا کھاےؔ گا“ پھوپھو نے اپنا سارا غصه ماهنور کے کھانے پر اتارا تھا....
ریشم احتجاجاً:”پر امی“
”سننا نھیں تم نے؟؟؟....“وه پھر سے غصے سے ریشم کو کھتی ھیں...تو ریشم نه چاھتے ھوےؔ بھی ماهنور کی کھانے کی پلیٹ اٹھا لیتی ھے....
”پھوپھو راحیل نے کھانا نھیں کھایا یه اُن کی مرضی....اس سے ماهنور کے کھانے کا کیا تعلق ھے ؟؟؟....یه تو کوئی بات نھیں ھوئی....نہ کوئی انصاف کا فیصلہ“ شاهنزیب پھوپھو سے مخاطب ھوکر کھنے لگا....جس پر شاهنزیب کی ماں فورا اسے آنکھیں دیکھاتے ھوےؔ خاموش رھنے کا اشاره کرنے لگیں....
ثانیه اپنے دل میں سوچتی ھے :” یه الفاظ ماهنور کے نھیں میرے ھیں اگر خالا کو پتا چل جاےؔ ...تو نه جانے ان کا میرے ساتھ کیسا طرزِعمل ھوگا“ وه چپ چاپ وھاں سے اٹھ کر چلی جاتی ھے....
”ٹھیک ھے اگر ماهنور کھانا نھیں کھاےؔ گی تو میں بھی نھیں کھاٶں گا“شاہنزیب غصے سے اعلان کرتا ھوا چلا گیا تھا....
”دیکھ رھے ھو تم ....تمھارے گھر میں تو تمیز و تھذیب نام کی کوئی چیز نھیں رھی ھے....کل کا بچہ مجھے باتیں سنناکر چلا گیا....“پھوپھو اپنے آنچل سے اپنی آنکھیں مسلتے ماهنور کے والد ملک صاحب سے مخاطب ھوکر بول رھی تھیں....
”میری تو کوئی عزت ہی نھیں ھے اس گھر میں....مجھے یہاں آنا ہی نھیں چاھیےؔ تھا“وه اپنے آنسوں جو کسی کو جھلکتے ھوےؔ نظر ہی نھیں آرھے تھے صاف کرتے ھوےؔ بولیں....
”الله جانے کس نے رسم نیکالی ہے شادی میں سب رشتے داروں کو بلانے کی....صرف ان کے بچوں کو بلوالینا چاھیےؔ....جب سے آئيں ھیں فساد برپا کر رکھا ھے“ ماهنور اپنے دل میں کڑکڑا رھی تھی
”آپ بھی ناں باجی....اتنی سی بات پر اتنا غصہ کرنے اور بچوں کو سزائيں سنانے کی کیا ضرورت ھے...جاٶ مانو راحیل کے لیےؔ کھانا لے جاٶ....اُسے منا کر کھانا کھلادو“ ملک صاحب نے بڑے پیار سے کھا تو وه ”جی ڈیڈ“ کھتے ھوےؔ کھڑی ھوئی راحیل کی پلیٹ اٹھاکر سیڑیوں پر چڑھتی ھوئی راحیل کے کمرے کی جانب بڑھ گیؔ.....
دروازه کھول لیتی اگر یاد نه آتا کے راحیل ناراض ھوکر گیا ھے اس لیےؔ دروازه نوک کرنے لگی....دو تین بار نوک کرنے کے باوجود اندر سے کوئی جواب موصول نه ھوا تو ہلکا سہ دروازه کھول کر جھانکا اندر ....جب اندر کوئی نظر نه آیا تو خاموشی سے دروازه پورا کھول کر اندر داخل ہوگیؔ....کمرے میں سادگی کا حسن جھلک رھا تھا....سفید رنگ کا بلب پورے کمرے میں چمک سی پھیلا رھا تھا....پہلے تو اُس نے ہلکے سے واش روم کے پاس کھڑے ھوکر آواز لگائی....”راحیل .....راحیل پاجی“لیکن کوئی آواز نہ لوٹی.....اِدھر اُدھر دیکھنے لگی....راحیل کمرے میں موجود نھیں ھے یہ دیکھ جانے لگی...تو کھلی کھڑکی سے ٹھنڈک کا احساس اندر آیا تو اُس نے جھرجھری لیتے ھوےؔ کھانے کی پلیٹ سامنے رکھی میز پر رکہ کر کھڑکی بند کی.... پھر واپس آکر پلیٹ اٹھاکر ابھی ایک قدم بھی نه چلی تھی کے اس ڈائری کو پلٹ کر دیکھا جو میز پر قلم کے ساتھ رکھی تھی..
”واو....ڈائری ....ضرور پرسنل ھوگی ...پڑھوں“ کھتے ھوےؔ ڈائری کو بےتابی سے اٹھالیا....پر پھر رومیسا آپا کی کھی بات دماغ میں گھومنے لگی....”کسی کی پرسنل ڈائری نھیں پڑھتے“ یه خیال آتے ہی ڈائری میز پر بےدلی سے پٹک دی....لیکن دل کے ہاتھوں مجبور تھی بیچاری....دل تو بےمان ھوگیا تھا ....تجسس بڑھ رھا تھا کے آخر اندر راحیل پاجی نے کیا لکھ رہا ہے.... اس لمحے بس ڈائری کھول کر پڑھ لینا چاھتی تھی..جاننے کا بڑا اشتیاق تھا کے راحیل پاجی اِس میں کیا لکھتے رھتے ھیں....
بس اِسی چاھ میں ایک بار پھر اُس ھری رنگ کی ڈائری کو اٹھانے کی نیت سے ھاتھ بڑایا تھا....
لیکن کمبخت ضمیر تھا کے پڑھنے ہی نہیں دے رہا تھا...:” نہیں....راحیل پاجی پہلے ہی مجھ سے ناراض ھوکر گےؔ تھے...میں نے ایسے پڑھا تو وه مزید خفاء ہو جائيں گے....
کیا کروں؟؟؟....اب تو مجھے رات بھر نیند نھیں آےؔ گی....بس دماغ میں یہ ڈائری ہی چلتی رہے گی....کوئی بھی تو نہیں ھے یہاں...میں پڑھ کر واپس رکہ دوں گی...کسی کو پتا نھیں چلے گا“
دوسری طرف راحیل فریج کھول کر کول ڈرینگ کا کین نیکال کر پینے لگتا ھے...کے اُسے یاد آتا ھے کے اُس کا ضروری فون آنا تھا...اور وه اپنا فون کمرے میں ہی بھول آیا ھے...وه تیزی سے کین لے کر اپنے کمرے کی جانب بڑھا تھا....
ماهنور یه سوچ کر کے اُسےکوئی نھیں دیکھ رہا ڈائری کھول ہی رھی ہوتی ھے....کے کسی کے آنے کی آھٹ کانوں کی سماعت سے ٹکرائی....”ضرور راحیل پاجی ہوں گے“یه بولتے ہی جھٹ پٹ وه ڈائری لے کر کھڑکی کی جانب بڑھی....کھڑکی کھول کر ڈائری باھر پھینک دی....سوچا گارڈن سے جاکر اٹھالے گی بعد میں....
”ماهنور آپ یہاں؟؟“ راحیل ماهنور کو اپنے کمرے میں کھڑکی کے پاس کھڑا دیکھ پوچھنے لگتا ھے....ماهنور کھڑکی بند کر کے ان کی طرف پلٹتی ھے ”ٹھنڈی ٹھنڈی ھوائيں آرھی تھی....مجھے سردی محسوس ہوئی تو سوچا کھڑکی بند کردوں“وه بڑے اطمینان انذاز میں ان سے کہنے لگی...
”اچھا کیا“کہ کر سب سے پہلے اپنا موبائل چیک کرتا ہے....اور کین بیڈ کے سائيڈ ٹیبل پر رکھ دیتا ھے...
”آپ کھانا چھوڑ کر چلے گےؔ تھے اس لیےؔ میں کھانا لائی ھوں“ کھانے کی پلیٹ اُن کے پاس لاتے ھوےؔ بڑے پیار سے بولی
”مجھے بھوک نھیں ھے“ کہ کر انھوں نے کین منه سے لگایا اور سارا ایک سانس میں پی لیا...خالی کین ٹیبل پر رکھ کر ماهنور کو دیکھنے لگے....وه کھانے کی پلیٹ لے کر بیڈ پر بیٹھتے ھوےؔ:”پر مجھے تو بھت لگ رھی ھے....آپ کیا گےؔ پھوپھو نے میرا کھانا بھی حرام کردیا...اور میرے کھانے پر فل بینڈ لگا ڈالا....آجائيں کھالیں ناں کھانا“ اُس نے چمچہ راحیل کی جانب بڑھاتے ہوےؔ بڑا بھولا سہ چھره بنایا....
اِس لمحے راحیل کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی...وه اُسے بھلا کیسے منع کرسکتا تھا....یه تو ناجانے کب سے خواھش تھی اُس کی....اُس نے مسکراھٹ کے ساتھ اس کا بڑھایا ھوا چمچہ پکڑ لیا....اور چاول کھانا شروع کردیئے...دو لقمے کھانے کے بعد اسے محسوس ھوا کے ماهنور اسے گھور رھی ھے...”جی ...کیا ھوا؟؟؟ .....آپ مجھے ایسے کیوں دیکھ رھی ھیں“
”کیونکے میں نے آپ کو بتایا ھے کے مجھے بھوک لگ رھی ھے...اور پھوپھو نے ایک ھی چمچہ دیا ھے ...آپ تو اکیلے اکیلے کھا رھے ھیں....“وه منه بسور کر کہ رھی تھی...
”آپ میرے چمچے سے کھالیں گی؟؟؟“ اُس نے پوچھا تو ماهنور نے ہاں کردی...یه دیکھ وه دل ہی دل بھت خوش ھوا اور اپنا چمچہ ماهنور کی جانب بڑھا دیا....ماهنور نے بغیر کسی دیکت کے اُس چمچے سے کھانا شروع کردیا....
کھانا کھانے کے بعد ان کے کمرے سے نیکل کر ....کھانے کا سامان کچن میں رکہ فورا گارڈن کی طرف دوڑی تھی...لیکن یه دیکھ اُس کا سر چکرایا تھا کے ۔۔۔۔گارڈن کو پورا چھانے کے کےباوجود اُسے ڈائری نه ملی....
”کہاں جاسکتی ہے؟؟؟....میں نے تو خود کھڑکی سے یہاں پھینکی تھی....“وه اپنا سر پکڑ کر تھوڑی دیر وھیں بیٹھ جاتی ھے....”ایک بار اور ڈھونڈتی ہوں“ سوچ کر اس نے پھر سے ڈھونڈنا شروع کردیا تھا...جب وه ناامید ہوگیؔ تو پریشان ہوکر:” اب کیا کروں؟؟؟....راحیل پاجی کو پتا چلا تو وه مجھے چھوڑیں گے نھیں...الله...ماهنور یه کَیا ٖ کِیا تم نے“ وه خود کو کوس رھی تھی...اُاس نے مالی بابا سے بھی استفسار کیا ....مگر انھیں بھی کچھ معلوم نه تھا....”اچھا آپ کسی کو بتایےؔ گا نھیں کے میں نے آپ سے ڈائری کے بارے میں پوچھا ھے ....او۔کے“ کہ کر اپنے کمرے میں آگیؔ تھی...
پوری رات ماهنور بستر پر کروٹیں بدلتی رھی....اسے سمجھ نھیں آرھا تھا کے ڈائری کہاں غائب ھوگیؔ اچانک سے....اُسے آسمان کھا گیا.....یا زمین نیگل گیؔ۔....
راحیل نے پورا کمرا اوتھر پوتھر کر ڈالا تھا اپنی ڈائری کی خاطر....اسے سمجھ نھیں آرہا تھا کے ڈائری آخر گیؔ کہاں....وه نھایت صفائی پسند شخص ہے...اور اُس کا کمرے میں کوئی اگر ایک معمولی سی سوئی بھی رکہ جاےؔ....تو وه واپسی پر اسے وھیں پاےؔ گا تو پھر اتنی بڑی ڈائری کیسے غائب ھوگیؔ....اُسے اپنی رسوائی کا خوف ستارھا ہوتا ھے ....سرد موسم اور کمرے میں چلتا ھوا اے ۔سی بھی اس کو ٹھنڈا نھیں کر پارہے ہوتے....اُس کے ماتھے پر پسینہ بہہ رھا تھا....
جب وه سب جگہ دیکھ کر تھک جاتا ھے اور اسے یه اطمینان ہو چلا تھا کے کمرے میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں اس نے ڈائری کو تلاش نہ کیا ھو تو مارے تھکن اور پچھتاوے کے زمین پر ہی بیٹھ جاتا ھے”اگر وه ڈائری کسی کے ہاتھ لگ گیؔ تو....اگر....“وه پسینوں سے شرابور ہورہا تھا ....اک دم اچانک یاد آتا ھے کے ماہنور کل کمرے میں آئی تھی”اگر ماہنور نے اُس ڈائری کو پڑھ لیا تو.....تو کیا ھوگا.....یاالله....میری چھپی محبت کا پرده رکھ لے....یاالله مدد کر میری“ وه اپنے آپ سے کہتا ہوا کھڑا ہوجاتا ہے”اگر ڈائری ماہنور لے کر گیؔ ھے تو وه اب تک تو اسے پڑھ چکی ھوگی ....اور جان چکی ھوگی کے میں اس کے بارے میں کیسے خیال رکھتا ہوں ....اور بڑے ابو انھیں پتا چل گیا تو.....انھیں لگے گا میں آستین کا سانپ ھوں.....جس تھالی میں کھا رہا ہوں اسی میں چھید کر رہا ھوں.....وه تو مجھے گھر سے نیکال دیں گے....پھر میری ماں اور بھن کا کیا ھوگا.....یاالله مدد کر ....تو اس بات کا گواه ہے کے میں نے کبھی ماہنور کے بارے میں غلط نھیں سوچا....مجھے تو خود پتا نھیں چلا کے کب مجھے اُس سے محبت ھوئی....مجھے تو خبر ھی نه ھوئی کے کب اس کا حسین سراپا میرے دل میں گھر کر گیا“ وه بھت ٹینشن میں تھا....اس کی ھمت جواب دے چکی تھی یه سوچ ٖ سوچ کر.... کے اگر ماہنور نے ڈائری پڑھ لی ....تو کیا ھوگا اُس کا ردِعمل......
ماہنور بھی بےچین سی کیفیت میں مبتلا تھی....وه جوس کا گلاس ٹرے میں رکھ کر راحیل کے کمرے کا دروازه باھر سے نوک کرتی ھے...جواب نہ ملنے پر وه خود ھی دروازه کھول کر اندر آجاتی ھے...پورا کمرا جو کل رات تک سادگی کا حُسن جھلکا رھا تھا اب ایسا لگ رھا تھا جیسے یہاں کوئی بڑا طوفان آکر گزر گیا ھو....ساری چیزیں بکھری ھوئی تھیں...اور راحیل سر جھکاےؔ ٹیبل کے پاس کھڑا تھا ....ماهنور یھی سوچ رھی ھوتی ھے کے نه جانے وه کن سوچوں میں گم سُم کھڑا ھے...
وه جوس کا گلاس ٹرے سے اٹھاکر بیڈ کے سائٹ کونر ٹیبل پر رکھ دیتی ھے اور ٹرے لیےؔ خاموشی سے واپس جانے لگتی ھے....”اگر میں بغیر کوئی سوال کیےؔ چلی گیؔ اِس کمرے سے تو راحیل پاجی ضرور شک کریں گے“ یه خیال آتے ہی وه پلٹ کر راحیل کی طرف دیکھنے لگتی ھے....وه نھایت پریشان معلوم ھورھا تھا....ماہنور ٹرے بھی ٹیبل پر رکھ کر راحیل کی طرف قدم بڑھاتی ھے”کچھ کھو گیا ھے کیا؟؟“وه راحیل سے تین چار قدم کے فاصلے پر کھڑے ھوکر اپنی نظروں کا ڈر چھپاتے ھوےؔ پوچھ رھی ھوتی ھے....راحیل ماهنور کی آواز سن چونک جاتا ھے....گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ جاتا ھے اُس کے سامنے....
”یه آپ نیچے فرش پر کیوں بیٹھ گےؔ؟؟؟“وه پریشان ھوکر سوال کرنے لگی....راحیل کوئی جواب ہی نھیں دیتا....
”بولیں....کچھ کھو گیا آپ کا.....جو آپ نے اپنے کمرے کی یه حالت بنادی ھے....“ وه اُس کے پاس آکر کھڑے کھڑے پوچھتی ھے....
”ہاں میری عزت ٖ میری زندگی ٖ میری محبت ٖ میرا رتبه ٖ میری وفاداری غرض کے ہر چیز کھو گیؔ ھے“وه نیچے نظریں کرےؔ بڑے غمزاده انداز میں بول کر خاموش ھوجاتا ھے...
ماهنور کو ذرا سه بھی اندازه نھیں تھا کے اُس کی ایک بےوقوفی کسی کی زندگی میں طوفان برپا کرسکتی ھے....وه اسے اتنی بری کیفیت میں دیکھ گھبرا جاتی ھے...”میں ابھی چاچی جان کو بلا کر لاتی ھوں“ ماہنور کہتے ہوےؔ وھاں سے تیزی سے چلی جاتی ھے....
وه سیڑھیوں سے بھاگتی ھوئی نیچے آتی ھے....ریشم اسے بھاگتا ھوا دیکھ :”ایسے کیوں بھاگ رھی ھو؟؟؟.....جیسے کوئی تلوار لے کر تمھارے پیچھے پڑا ھے“ وه کہ کر پالک کاٹنے لگتی ھے....
”چاچی جان کھاں ھیں؟؟؟“وه بھوکھلاھٹ سے کھتی ھے تو ریشم اسے بتاتی ھے کے راحیل کی والده تو ھسپتال جاچکی ھیں....ماہنور یه سن دادو کے کمرے کی طرف بڑھ جاتی ھے....
دادو راحیل کے کمرے میں آتی ھیں وه ابھی بھی ویسے ھی گم سم سہ بیٹھا ھوتا ھے” دیکھا دادو.....یه کیسے زمین پر بیٹھے ھیں...کچھ بول بھی نھیں رھے ٹھیک سے....آپ دیکھیں ناں راحیل پاجی ایسے کیوں بیٹھے ھیں“ وه دادو کا ھاتھ پکڑ کر راحیل کی جانب دیکھ کر کھتی ھے....یہ ماہنور کی شرم ساری ھی تو ھے جو لمحہ لمحہ راحیل کی خاموشی کے ساتھ بڑھ رھی ھے.....”اچھا تم پانی لاکر دو“ دادو اسے وھاں سے بھیجنے کے لیےؔ پانی کا سھارا لیتی ھیں....
جی دادو کہتی ھوئی وه وھاں سے چلی جاتی ھے....دادو راحیل کے پاس آکر بڑے پیار و شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیتی ھیں....راحیل اپنا چھرا اوپر کرتا ھے تو اس کے چھرے کا پسینہ سورج کی روشنی میں چمک رھا ھوتا ھے....وه دادو کو اپنی نظروں کے سامنے پاکر بےساختہ اٹھ کر دادو کے گلے لگ جاتا ھے....
”میرا بچا ....کیا ھوا تجھے؟؟؟.....میرے بچے بول....تیری دادو کی جان نیکلے جارھی ھے تجھے ایسے حال میں دیکھ کر“ دادو اُس کی کمر پر سھلاتے ھوےؔ باربار بول رھی تھیں....دادو اسے اپنے گلے سے ھٹاکر بیڈ کے پاس لے کر جاتی ھیں اور وھاں اپنے ساتھ بیٹھا کر اس کے چھرے سے پسینے صاف کرتی ھیں.....اسی لمحے کوئی دروازے پر آکر کھڑا ھوتا ھے....”کیا ھوا ھے میرے بچے؟؟؟“ وه اپنے آنچل کو راحیل کے چھرے پر ملتے ھوےؔ کھتی ھیں....”بول میرے بچے اپنی دادو سے کیسا پرده“ وه جب اتنے پیار سے کہتی ھیں تو راحیل اپنی خاموشی توڑتا ھے ....اور دادو کا ہاتھ پکڑ کر:” دادو غضب ھوگیا.....سب ختم ھوگیا....میری زندگی تباه ھوگیؔ....دادو میری .....میری ڈائری کھو گیؔ ھے....اور آخر بار میرے کمرے میں ماہنور آئی تھی....اور مجھے لگتا ھے وه اسی کے پاس ھے“ کہ کر خاموش ھوا تو دادو :”پر تمھیں کیسے یقین ھے کے ماہنور کے پاس ہی ڈائری ھے .....اگر اس نے پڑھا ھوتا اس ڈائری کو....تو ابھی وه تمھارے لیےؔ اتنا پریشان نہ ہو رہی ہوتی“ دادو اسے اطمینان بخشش انداز میں سمجھاتی ھیں تو وه ہاتھ چھوڑ کر کھڑا ھوجاتا ھے....
”دادو مجھے پورا یقین ھے کے ڈائری اسی کے پاس ھے....شاید اُس نے ابھی اسے پڑھا نھیں ھے.....پر میں دعوے سے کہ سکتا ھوں کے ڈائری وه ہی لے کر گیؔ ھے“ وه اپنا ہاتھ اپنی روشن پیشانی پر مسلتے ھوےؔ بولتا ھے....
”پر تم دعوی کیسے کرسکتے ھو ؟؟؟“ دادو پوچھ اٹھتی ھیں....
”کیونکے رات کو میں ڈائری لکھ کر سامنے ٹیبل پر ہی رکھ کر نیچے کھانا کھانے آیا تھا....اور جب میں واپس کمرے میں آیا تو ماہنور وھیں کھڑی تھی کھڑکی کے پاس ...میں ماھنور کو اچھی طرح جانتا ھوں....اس نے ڈائری یه سوچ کر کھڑکی سے باھر پھینکی ھوگی کے بعد میں جاکر گارڈن سے باآسانی اٹھالے گی“
دادو اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دیتی ھیں:” اچھا ہی ھوگا اگر وه پڑھ لے....اسے پتا چل جاےؔ کے کس حد تک تم دیوانے ھو اس کے پیچھے“
ان کے کہتے ہی وه حیران نظروں سے دیکھنے لگتا ھے:” دادو .....خدا کے لیےؔ ایسی باتیں مت کریں....آپ تو سب جانتی ھیں پھر بھی“وه بڑے غمگین لہجے میں بول رھا تھا....باھر کھڑے ھوےؔ شخص کو ماہنور آتی نظر آئی تو وه اُس کی نظر سے بچ کر اوپر چھت کی جانب چلا گیا.....
ماہنور کمرے میں پانی کا گلاس لے کر داخل ھوتی ھے...راحیل اور دادو دونوں کی نظریں ماہنور پر جمی ہوتی ہیں....
”ماہنور سچ بتاٶ.....کیا آپ نے میری ڈائری لی ھے؟؟؟“ راحیل کے استفسار پر وه نفی میں گردن ھلا دیتی ھے فوراً......
راحیل کو معلوم تھا کے اگر وه اس سے پوچھے گا تو وه صاف منع کردے گی....وه تو اُس کی رگ رگ سے واقفیت رکھتا تھا.....اُس کا ھاتھ پکڑ کر زبردستی اپنے سر پر رکھ لیتا ھے”قسم کھاٶ میری......تمھارے پاس میری ڈائری نھیں ھے ....کھو“ راحیل کے باربار زور دینے پر بھی ماهنور کی خاموشی چیخ چیخ کر کہ رھی تھی کے ڈائری غائب اسی نے کی ھے.....
”میں نے کہا .....کھاٶ قسم میری “ اُس نے اِس بار بڑے غصے سے کہا تو ماہنور سھم گیؔ.....ھاتھ اس کے سر سے ھٹانا چاھا پر راحیل کی پکڑ بڑی مضبوط تھی....
”بولو مانو......کچھ پوچھ رھا ھے راحیل تم سے...“دادو نے بھی زور دیا تو ماہنور مجبور ھوگیؔ....
”میں قسم کھاتی ہوں میرے پاس آپ کی ڈائری نھیں ھے“ اس کے اعلان کرتے ھی راحیل اُس کا ہاتھ ڈھیلا چھوڑ یہی سوچنے لگتا ھے کے ڈائری گیؔ کہاں......ماهنور اس کی پکڑ ڈھیلے ہوتے ہی پانی کا گلاس دادو کے ہاتھ میں پکڑا کر وھاں سے چلی جاتی ھے....دادو ماهنور کی بھت دیر تک خاموش رھنے پر اندازه لگا بیٹھتی ھیں کے ڈائری واقعی ماهنور نے غائب کی ھے....پر اس کا راحیل کی قسم کھا لینا انھیں حیران کر گیا تھا.....
”تمھیں لگتا ھے مانو نے سچی قسم کھائی ھے؟؟؟“ دادو نے بڑے تجسس سے اس کی راےؔ جاننی چاھی تھی.....پر راحیل کی سچی محبت اُسے ماهنور پر شک کرنے کی اجازت نھیں دے رھی تھی اب.....
”مجھے یقین ھے کے میں اُس کی زندگی میں اتنا مقام و اھمیت تو رکھتا ھوں کے وه کبھی میری جھوٹی قسم نھیں کھاےؔ گی“
”اگر ڈائری ماهنور کے پاس نھیں تو کھاں ھے؟؟؟“ دادو بھی تشویش میں پڑھ جاتی ھیں....
ماهنور شاهنزیب کے کمرے میں بےدھڑک اندر گھسی چلی آتی ھے........شاهنزیب کالج کے جوتے اتارتے ھوےؔ اُسے اندر آتا دیکھتا ھے.....
”تم آج کالج کیوں نھیں گیںؔ؟؟؟.....جب سے بڑے ابو آےؔ ھیں تمھیں تو خوب آذادی مل گیؔ ھے .....شاید یہی وجہ ھے تمھارے انٹر میں فیل ہوجانے کی ....اور ایک سال برباد ھونے کی “وه ماہنور سے کہ کر اپنے جوتے اٹھاکر جوتوں کی دراز میں رکہ کر آتا ھے....
ماهنور چپ چاپ آکر بیڈ پر بیٹھ کر پورا پورا ھلنے لگتی ھے....شاهنزیب اپنی ٹائی اتار کر ھینگر کرتے ھوےؔ؛”ویسے تم میں تمیز کب تک آجاےؔ گی مانو؟؟؟....جب دیکھو منه اٹھاےؔ کمرے میں گھس آتی ھو...کبھی میری پرائيویسی کا خیال نھیں رکھتی“یه کھنے کے بعد جب وه ماهنور کی طرف دیکھتا ھے تو وه گھبرائی ھوئی معلوم ھوتی ھے...اُس کے برابر میں آکر بیٹھ :”سب ٹھیک تو ھے ناں؟؟؟......اتنی دیر سے تمھیں لڑائی کے لیےؔ اُکسا رھا ھوں پر تم ھو کے کوئی توجه ھی نھیں دے رھی....کچھ گڑبڑ کر کے آئی ھو مانو؟؟؟......جو اتنا پریشان ھو؟؟“ اُس نے جب ماهنور کا پریشان چھره دیکھتے ھوےؔ پوچھا تو جوابا اُس نے اثبات میں سر ھلایا....مگر اُس کا مارے گھبراھٹ کے ھلنا بند ھی نھیں ھو رھا تھا...
”ھلنا بند کرٶ.....اس وقت تم مجھے مسجد میں قرآن پاک پڑھنے والے بچوں کی یاد دلا رھی ھو....جو پڑھتے کم ....اور ھلتے زیاده ھیں“ وه اُس کے دونوں بازو پکڑ کر اسے روکتے ھوےؔ بولتا ھے:”کیا کِیا ھے تم نے ....مجھے بتاٶ....شاید میں تمھاری کوئی مدد کرسکوں “
”ق.....قس.....“اس کے منہ سے کچھ بولا ہی نھیں جارھا ھوتا مارے گھبراھٹ کے....پھر بڑی ہمت کر :”قسم کھا کر آئی ھوں میں“وه ابھی اتنا ہی کہتی ھے کے شاهنزیب بول اٹھتا ھے:”قسم ہی تو کھائی ھے ...اِس میں اتنا گھبرانے والی کیا بات ھے؟؟“وه سوالیه نظروں سے تکتے ھوےؔ .....
”گھبرانے کی بات ھے....کیونکے میں نے جھوٹی قسم کھائی ھے.....وه بھی راحیل پاجی کی“ اُس کی آنکھوں میں آنسوں آجاتے ھیں یه کہتے ہی....
”کیا؟؟؟؟....پر کیوں؟؟؟؟“وه الجھی نگاه سے پوچھ رہا تھا.....
ماہنور نے اسے کل رات ہونے والا واقعہ سچ سچ بیان کردیا تھا....”تو کہاں گیؔ ڈائری ؟؟؟“شاهنزیب اُس سے استفسار کرنے لگا....
”مجھے واقعی نھیں پتا کے کہاں گیؔ....میں نے بھت ڈھونڈی ....پر ملی ہی نھیں.....راحیل پاجی پھنچان گےؔ کے ان کی ڈائری کے غائب ھونے میں میرا ہاتھ ھے....اس لیےؔ مجھ سے قسم کھانے کو کہا....میں ڈر گیؔ تھی ان کے باربار اصرار کرنے پر...تو میں نے قسم کھا لی.....“ اُس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسوں موتیوں کی مانند بھنے لگے تھے.....جنھیں وه اپنے ہاتھ سے صاف کر رھی تھی....شاهنزیب نے دراز کی طرف مڑکر دراز کھولی ....ٹیشو پیپر نیکالا اور ماهنور کی جانب بڑھا دیا....
ماهنور کو بس یه فکر لاحق تھی کے اُس کی جھوٹی قسم راحیل پر بھاری نه پڑجاےؔ.....”اگر راحیل پاجی کو میری جھوٹی قسم کھانے کی وجه سے کچھ ھوگیا تو ......تو میں خود کو کبھی معاف نھیں کرٶں گی“ اب تو آنسوں کے ساتھ ھچکیاں بھی لگ گیںؔ تھیں....ناک بلکل سرخ ھوگیؔ تھی اُس دشمنِ جان کی رونے کے سبب ....اُس کا یه روتا ھوا چھره بھی اِس قدر دلکش تھا کے وه اسے دیکھ کر مسکراء دیا...
اُس کا پہلا ٹیشو پیپر پورا آنسوں سے بھیگ گیا تھا ...اس لیےؔ شاهنزیب نے اپنے ھاتھ میں پکڑا ھوا دوسرا ٹیشو پیپر اس کی طرف بڑھاتے ھوےؔ کہا ”مانو تم تو بلکل بچی لگ رھی ھو روتے ھوےؔ.....کچھ نھیں ھوگا راحیل کو.....تم نے جھوٹی قسم نھیں کھائی.....“
اُس کے کھنے پر وه ناسمجھی بھری نگاه سے :”کیا؟؟؟....پر ان کی ڈائری میں نے ہی پھینکی تھی کھڑکی سے...“
”راحیل نے تم سے یه نھیں پوچھا کے ....کیا تم نے اُس کی ڈائری غائب کی ھے....اُس کا سوال یاد کرٶ....اس نے پوچھا {تمھارے پاس اس کی ڈائری ھے} ....اب مجھے سچ بتاٶ....کیا تمھارے پاس راحیل کی ڈائری ھے؟؟؟“
ماهنور نفی میں گردن ھلاتے ھوےؔ؛”نھیں....مجھے تو وه ملی ہی نھیں....“
”بس تو پھر جھوٹ کہاں ھوا.....تم نے جو قسم کھائی وه سچ ھے ....تمھارے پاس واقعی راحیل کی ڈائری نھیں ھے.... اِس لیےؔ فکر نه کرٶ راحیل کی “ وه اسے تسلی بخشش کلمات کہ کر چپ کرالیتا ھے...
ماہنور ہاتھ میں پکڑا ٹیشو پیپر پھینکنے لگتی ھے کے شاهنزیب اس کے ہاتھ سے جھپٹ لیتا ھے:”مانو صفائی نصف ایمان ھے۔۔۔۔ کبھی پڑھا ھے؟؟؟“ وه طنز کرتے ہوئے اُسے گھورتا ھے...
”اچھا لاٶ ....میں خود پھینک دیتی ھوں“ وه کہ کر اس کے آگے ہاتھ بڑھاتی ھے....
”چھوڑو میں پھینک دوں گا“ وه کہ کر ٹیشو کو اپنی مٹھی میں بند کرلیتا ھے....
”ایک بات مجھے پریشان کر رھی ھے....اگر ڈائری میرے پاس نھیں....راحیل پاجی کے پاس بھی نھیں....تو پھر ڈائری ھے کس کے پاس“ ماهنور شاهنزیب کو دیکھ کر الجھی سی نظروں سے پوچھتی ھے ....تو شاهنزیب جواب میں کندھے اچکادیتا ھے....
ماهنور کے کمرے سے جانے کے بعد وه کھڑے ھوکر الماری کے پاس آتا ھے ....الماری کا وه حصه جو ہمیشہ لاک رھتا ھے ....اور اُس کی چابی شاهنزیب کی جیب میں....
چابی نیکال کر اسے کھولتا ھے....اور ماہنور کے آنسوں سے بھیگا ھوا ٹیشو پیپر اس میں سمبھال کر رکھ لیتا ھے....جس میں ماہنور سے منسلک پہلے سے ہی بھت سی چیزیں موجود ہوتی ہیں۔
یه چاھت ہی کافی ہے میرے لیےؔ کے
تمھارے نام کے کچھ حروف میرے نام میں ہیں
*ماہنور*
{ا ٖ ر }
*راحیل*
ڈائری نه ملنے کے سبب اُس نے اب نئی ڈائری کا صفحہ کھولا ....اُس میں وہی شعر لکھا جو پرانی ڈائری کے پہلے صفحے پر تحریر تھا....جسے پڑھ کر وه اکثر مسکراتا تھا.... راحیل اپنے قلم سے ابھی لکھ ہی رہا تھا کے ماہنور دروازه نوک کرتی ھے....”آجاٶ“وه پیچھے مڑتے ہوےؔ کہتا ہے
”کھانا لگ گیا ہے راحیل پاجی“ وه نظریں جھکاےؔ کہتی ہے....اور واپس پلٹ کر جانے لگتی ھے....
”مجھے آپ سے قسم کھانے کو نھیں کہنا چاھیےؔ تھا....میں جانتا ہوں کے آپ تھوڑی شوخ مزاج ھو پر ...جھوٹ....مطلب ....میں شاید پاگل سہ ھوگیا تھا اپنی ڈائری نہ ملنے کے سبب....اور اس کا سارا غصه اور الزام آپ پر لگا بیٹھا“ وه ماہنور پر نظر ڈالتے ہوےؔ اپنی شرمندگی کا اقرار کر رھا ھوتا ھے ....پر ماہنور اُس کی بات سن کر بھی خاموشی سے جانے لگتی ھے...راحیل اُس کی خاموشی کو خفگی سمجھ کر :”میں واقعی اپنی غلطی پر شرمسار ھوں تم مانو یا نہ مانو“ وه پھر سے معافی مانگ رھا تھا.....پر وه نظریں جھکاےؔ وھاں سے بغیر کچھ کہے چلی جاتی ھے.....
زمانه کہتا ھے بڑی دلکش ہیں میری آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔❤
اُنھیں کیا معلوم میرا یار بسا ھے اِن میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔❤
کہنے کے بعد ہلکا سہ مسکراتا ھے اسے جاتا ھوا دیکھ....اور ڈائری بند کر کے اسے الماری کھول کر کپڑوں کے پاس تھوڑی جگہ خالی ہوتی ہے وھاں رکھ دیتا ہے....
*****--------*********
دادو ٹی۔وی لان میں سوفے پر بیٹھی تھیں اور باقی سب ان کے اردگرد ھجوم لگاےؔ بیٹھے باتیں کر رہے تھے....بیگم شمسہ{شاهنزیب کی والده} دادو سے مخاطب ھوکر ”یه بتائیں امی.....کون جاےؔ گا شاہزیه کو لینے امریکہ؟؟“ اُن کے کہتے ہی ریشم انھیں چاےؔ کا کپ پکڑاتے ھوےؔ:”شھزاد کو بھیج دیں گے ....اس میں فکر کرنے والی کیا بات ھے...مامی“ ریشم کہ کر ابھی پلٹی ہی تھی
”بدتمیز ....اتنا بڑا ھے تجھ سے شھزاد....اور تو اِس کا نام لے رہی ہے....بڑے بھئيا بول“ بڑی پھوپھو نے اسے ڈپٹتے ھوےؔ کہ کر چاےؔ کا کپ خود ہی ٹرے سے اٹھا لیا اور جاکر سامنے سوفے پر بیٹھ گیںؔ
”السلام علیکم“ کہتے ہوےؔ کامران ماہنور کے برابر میں بیٹھ گیا....”واه بھئی پوری محفل جمعی ہوئی ہے “ اُس نے سب پر نظر دوڑاتے ھوےؔ کہا
”ہاں.....بس محفل خراب کرنے والے کی کمی تھی جو آپ کے آنے سے پوری ہوگیؔ“ماہنور نے چڑاتے ھوےؔ کہا تو کامران اسے دیکھ کر برے برے منه بنانے لگا....
”میں کچھ پوچھ رھی ھوں ....تم لوگوں کی باتوں میں وه مسئلہ تو رھ ہی گیا بتائيں ناں امی کون جاےؔ گا“ بیگم شمسہ نے پوری محفل کی توجه واپس اسی مسئلے کی جانب مبذول کی...
”ریشم ٹھیک تو کہ رھی ہے چاچی .....شھزاد کو بھیج دیتے ہیں شاہزیه کو لینے“ علی نے اپنی راےؔ دیتے ھوےؔ کہا تو پیچھے سے ماہنور نے شرارت سے کہا ”او اگر چاچی اِن کے اکیلے جانے سے آپ کو اعتراض ہے تو صباء باجی کو بھیج دیں گے ان کے ساتھ“ تو سب ہسنا شروع ھوگےؔ.....صباء باجی سے زیاده تو شھزاد بھائی کا چھره سرخ ھوگیا تھا......سب انھیں کی طرف دیکھ کر ھس رہے تھے تو دونوں ہی جھیپ گےؔ تھے....
”ہاں چلو شھزاد کو بھیج دو“ ابھی دادو بول ہی رھی تھیں کے ”کیا واقعی دادو....ہم صباء باجی کو شھزاد بھائی کے ساتھ بھیجیں گے“ اسماء نے انجان بنے کی اداکاری کرتے ہوےؔ سوال کیا تو مارے شرم صباء اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنی نانو کے برابر میں آکر ان کے شانوں پر اپنا رخسار رکھ کر بیٹھ گیؔ....اس کا پیارا سہ چھره جو سرخ ہورھا تھا وه دوپٹے کے پلو سے چھپ گیا تھا.....سب خوب لطف لے رہے تھے اس خوبصورت منظر کا....
”اُو.....ھو.....تم لوگ بھی ناں....میری بچی کو تنگ کرتے رھتے ہو....میں تو کھ رھی تھی ...شھزاد چلا جاےؔ گا اکیلے“دادو نے صباء کے سر پر ہاتھ رکھ کر بڑے پیار سے کہا....
”ٹھیک ھے ....تو میں کل ہی فلائيٹ کی بکنگ کرواتا ھوں“ شھزاد نے دادو سے مخاطب ہوکر کہا....
”کیا ٹھیک رہے گا شھزاد کا جانا؟؟؟؟.....میں تو علی کے حق میں ہوں ....وه بڑا ھے..“ بیگم شمسہ گویا ھوئيں.....
”وه کون سہ ساس نندوں کے ساتھ رہتی ہے ...جو تم اتنی فکر کر رہی ہو...“بڑی امی نے کہ کر بیگم شمسہ کی فکر کو ختم کیا
راحیل گھر میں اسی وقت داخل ھوا تو سب کو سلام کیا....سب نے جواب میں ”وعلیکم السلام“ کہا....
”تھے کہاں تم؟؟؟......صبح سے تمھارا کوئی اتا پتا ہی نھیں ہے“ کامران نے اسے دیکھ کر پوچھا.....تو وه آکر کامران کے برابر میں بیٹھتے ہوےؔ:”مت پوچھو.....کام کرتے کرتے کمر دوکھ گیؔ ھے....بس ٹھنڈا ٹھنڈا پانی پیلادو“ اس نے صوفے سے ٹیک لگاتے ہوےؔ کہا .......سب اسی کو دیکھ رہے تھے ....اس کے چھرے پر تھکن صاف جھلک رہی تھی
”میرا بچہ کتنی محنت کرتا ھے....اتنی سی عمر میں اتنا محنتی ھے“ دادو نے دور بیٹھے بیٹھے ہی آنکھوں آنکھوں میں راحیل کی بلائيں لیں......
”آپ چاےؔ پی لیں....ساری تھکن اتر جاےؔ گی“ ریشم چاےؔ کا کپ راحیل کی جانب بڑھاتے ھوےؔ بولی تھی....
”نھیں .....تم مجھے ٹھنڈا پانی لادو“ راحیل نے ریشم کو دیکھتے ہوےؔ کہا....
”تم نے سارے مہمانوں کی لسٹ تیار کرلی؟؟“علی بھئيا نے کامران سے مخاطب ہوکر پوچھا
”ہاں کرلی ہے....میرے کمرے میں ہے ابھی لاتا ہوں“ کامران نے پانی کا گلاس راحیل کو بڑھاتے ہوےؔ علی کی بات کا جواب دیا....وه اٹھ کر چلا گیا لسٹ لینے تو صوفے پر صرف راحیل اور ماہنور ہی رھ گےؔ..... بیچ میں کافی فاصلہ تھا.....پر پھر بھی بڑے ابو {ملک صاحب ماہنور کے والد} کی آنکھیں اُن دونوں کو ساتھ دیکھ کر چمک سی اٹھی تھیں....اور اِس چمک کو محسوس کیا تھا شاهنزیب نے....
”رانی شاهنزیب کی ہوئی ہمیشہ کی طرح“ شاهنزیب نے کیرم کھیلتے ھوےؔ زور سے اعلان کیا تھا...بڑے ابو نے تو اپنی ساری توجہ راحیل اور ماهنور کی جانب کر رکھی تھی....شاهنزیب کی اِس آواز پر چونک کر کیرم کی گوٹ دیکھنے لگے .....واقعی شاهنزیب نے رانی اپنے نام کر لی تھی...
”تم پھر رانی لے اڑےؔ“ بڑے ابو نے مسکراتے ہوےؔ شاهنزیب کو دیکھ کر کہا....
”رانی بھلے ہی آپ کے پاس تھی پر تھی تو میری ہی ناں“ شاهنزیب نے بڑے سنجیده انداز میں کہا....
”راحیل تم بھی آجاٶ.....کام سے کبھی چھٹی بھی لے لینی چاھیےؔ...آجاٶ.....ساری تھکن کھیلتے کھیلتے ہی ختم ھوجاےؔ گی“ بڑے ابو نے راحیل کو کھیل کی آفر کرتے ھوےؔ کہا......تو راحیل مسکراء دیا.....
”بڑے ابو کوئی فائده ہی نھیں ہے میرے کھیلنے کا....ہر بار شاهنزیب رانی اُڑالے جاتا ھے اور میں دیکھتا سہ رھ جاتا ھوں....اس لیےؔ آپ ہی کھیلیں“ راحیل نے کھیلنے سے پہلے ہی ھار مانتے ھوےؔ کہ رہا تھا....
”دراصل آپ ہمیشہ پیار سے کھیلتے ہیں......اور میں....میں پیار پانے کے جنون سے.....اس لیےؔ آپ رانی نھیں لے پاتے“ شاهنزیب نے اپنی جیت کا راز بتاتے ہوےؔ ایک خوبصورت شاٹ لگایا تھا....
راحیل کی باتیں صرف گیم کی حدود تک تھیں پر شاهنزیب کی نھیں....اور یہ بات وہاں بیٹھی دادو سمجھ چکی تھیں”شاه راحیل سے ایسے کیوں کہ رھا ہے....میرے علاوه تو کوئی نھیں جانتا کے راحیل ماہنور کو پسند کرتا ہے ....پھر شاه یہ بول کر کیا ثابت کرنا چاھتا ھے ؟؟؟....کھیں راحیل کی ڈائری شاهنزیب کے ہاتھ تو نھیں لگ گیؔ...... خدا نه کرےؔ ایسا ہو.....کے راحیل کی ڈائری شاه کے ہاتھ لگے“ وه دل ہی دل دعاگو ہوئيں شاهنزیب کو حیرت بھری نگاه سے دیکھتے ہوےؔ....
شاهنزیب نے اُن کی آنکھوں کی حیرت پڑھ لی تھی ....پر کوئی ری ایکٹ نھیں کیا.....
”لسٹ مل نھیں رھی“ کامران نے پریشان ھوتے ھوےؔ علی سے کہا تو ماہنور نے بڑی مشکل سے اپنی مسکراھٹ کو بکھر جانے سے روکا......
”کیا مطلب نھیں مل رہی ہے؟؟؟؟“ علی بھئيا غصه سے سوال کرنے لگے.....
”میں نے خود اپنے ہاتھ سے اپنے بیڈ کے سائٹ ڈراٶر میں رکھا تھا لسٹ کا پیپر....پر اب وه وھاں نھیں ھے......میں نے سب جگہ دیکھا پر وه کہیں نھیں مل رہا“ کامران نہایت پریشان ہوکر اپنے چھرے پر ہاتھ مسلنے لگا.....
”کامران تمہیں ایک کام دیا تھا تم وه بھی ٹھیک سے نھیں کرسکے....اب بہانے مت بناٶ.....لسٹ کھو جانے کے“ علی بھئيا غصے میں لال پیلے ہوکر کامران پر بھڑک اٹھے تھے.....
”پتا ہے علی بھئيا یه تو کل اپنے دوستوں کے ساتھ بائيک ریس کے لیےؔ گےؔ تھے.....جب کے آپ نے منع کیا تھا کے کامران جب تک گھر میں شادی ہے تب تک تم بائيک ریس میں حصہ نھیں لو گے.....میں نے خود اپنی آنکھوں سے انھیں چھپکے سے جاتا دیکھا ہے“ ماہنور نے جلتے پر نمک کا کام دیکھایا تھا.....
”تم چپ رہو مانو“ کامران نے ماہنور کو گھورتے ہوےؔ کہا.......دانت پیستے ہوئے
”اسے چپ ہونے کی کیا کہ رہے ہو......پہلے مجھ سے بات کرٶ“ علی نے غصے سے کامران کے شانوں پر اپنا وزندار ہاتھ زور سے مارتے ہوےؔ کہا تھا.....
”میں واقعی جھوٹ نھیں بول رھا.....میں نے لسٹ تیار کرلی تھی“ کامران اپنی بات پر ڈٹ گیا تھا.....
راحیل نے اس لمحے ماہنور کی جانب دیکھا.....وه اسماء کو آنکھ مار رھی تھی .....اب وه سمجھ چکا تھا کے کامران جھوٹ نھیں کہ رہا....
”علی بھئيا میں نے بھی ایک لسٹ تیار کی ہے پر پتا نھیں وه ٹھیک ہے یا نھیں .....آپ کہیں تو میں آپ کو دیکھانے لاٶں“ اسماء نے علی سے پوچھا تو وه راضی ہوگےؔ....اسماء لسٹ لے کر آئی تو کامران اسے دیکھتے ہی بول پڑا ”ارے.....یہ تو میری بنائی ہوئی لسٹ ہے بھئيا “
”کامران بھائی اب میری محنت پر اپنا حق مت جمائيں“اسماء نے اسے ٹوکتے ہوےؔ کہا ....
”میں سچ کہ رہا ہوں....“کامران دوبارا اپنی صفائی پیش کرنے لگا....پر علی بھئيا نے اُس کی ایک نہ سنی اور اسماء کے سر پر ہلکا سہ تھپ تھپا کر شاباشی دے دی....کامران نے ماہنور کی جانب دیکھا جو مسکراء رھی تھی ....اور پھر اسے دیکھ آنکھ مارتی ہے....”بدلا پورا ھوا“اُس نے آنکھوں کے اشارے سے کہا....جس کے جواب میں وه اسے کھاجانے والی نظروں سے گھورنے لگا.....
”شاهنزیب تم نے سعدیه کو فون کردیا ناں....نکاح سے پہلے آنا ھے اسے یہاں“ بیگم شمسہ نے شاہنزیب سے مخاطب ہوکر پوچھا....
”جی امی ...فون تو کردیا تھا....کہ رھی تھی کے تم لینے آٶ گے تو آٶں گی ورنه نھیں“ شاهنزیب نے پیچھے مڑ کر اپنی ماں کے سوال کا جواب دیا....
”تو تم نے کیا کہا اُس سے؟؟؟“
”میں نے کہ دیا میڈم سے....اگر وقت ملا تو لینے آجاٶں گا....ورنه اپنے ڈرائيور کو بھیج دوں گا....اِس پر میڈم ناراض ھوگیںؔ...اور کہنے لگیں اگر تم نے ڈرائيور کو بھیجا تو میں اس کے ساتھ اپنے گھر کی نوکرانی کو بھیج دوں گی....اور خود تب تک نھیں آٶں گی جب تک تم خود مجھے لینے نہیں آتے....اس بات پر ہم دونوں کی بحث شروع ہوگیؔ.....اور میں نے فون کاٹ دیا“شاہنزیب نے جب یه پوری بات سب کے سامنے بتائی تو سب ہسنا شروع ہوگےؔ....
”تم کیوں اُس بیچاری سے لڑتے رہتے ہو؟؟“بیگم شمسہ شاہنزیب کو آنکھیں دیکھاتے ہوےؔ گھور کر کہ رہی تھیں....
”امی میں اس سے نہیں ....وه مجھ سے لڑتی رہتی ہے....ہر بات کو اُس نے اپنی انا کا مسئلہ بنانے کا شوق ہے....اسے تو لڑائی کا بھانا چاھیےؔ ہوتا ہے....جو وه ڈھونڈ ہی لیتی ہے.... “شاہنزیب نے اپنی ماں کے سامنے اپنے آپ کو بیچارا ظاھر کیا تھا....
”تم تو اس کے پیچھے لگے رہتے ہو.....یہ تک خیال نہیں کرتے کے بچپن کی منگیتر ہے تمھاری....اب صبح ہی جانا اسے لینے“ امی نے حکم سناتے ہوےؔ کہا
”امی صبح کالج ہے میرا....اور میں نے ویسے بھی جمعہ سے کالج کی چھٹیاں کرنی ہیں....اب کل کی بھی چھٹی کرلوں گا تو پڑھائی کا حرج ہوجاےؔ گا“ شاہنزیب نے آہستگی سے انہیں اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی ....
”ایک دن کالج نہیں جاٶ گے تو کوئی آسمان ٹوٹ کر نہیں گرجاےؔ گا....بس میں نے کہ دیا کل ہی جارہے ہو تم سعدیہ کو لینے“والده کے زور دینے پر وه نه چاھتے ہوےؔ بھی اثبات میں سرھلانے لگا.....
کامران اسماء کے کمرے کے سامنے سے گزر رھا تھا کے خوب ٹھاٹھوں کی آواز اس کے کانوں کی سماعت سے ٹکرائی....اس نے دروازه کھولا تو ماہنور اسماء دونوں مل کر ثانیہ کو بتارہی تھیں کے کیسے انھوں نے مل کر لسٹ غائب کی اور کامران کو ڈانٹ کا مزا چکایا....ثانیه بھی سن کر خوب ہسنے لگی....کامران انہیں اپنا مزاق اڑاتا دیکھ کمرے میں گھس آیا تھا....
”ماہنور کی بچی....اب دیکھو میں تمھارے ساتھ کیا کرتا ہوں ....اِس بےعزتی کا جواب میں دے کر ہی رہوگا.....سمجھیں مانو“وه ماہنور کو اپنی انگلی دیکھا کر دھمکا کر ڈرا رہا تھا.....
”جائيں جائيں ھوا آنے دیں.....ماہنور کسی سے ڈرتی نھیں ہے کامران بھائی“ ماہنور نے خوب اتراتے ہوےؔ اپنے ہاتھوں کا تصوری پنکھا بناکر اپنے چھرے کے آگے اداٶں سے ہلاتے ھوےؔ کہا....کامران نے بیڈ پر رکھے دو تین کشن ماہنور اور اسماء کی طرف پھینکے ....ماہنور تو بچ گیؔ پر اسماء کی ناک پر لگا آٰکر کشن.....
اسماء اپنی ناک سہلاتے ہوےؔ:”الله ...اتنی زور سے لگا ہے میرے....ناک توڑنے کا اراده ہے کیا میری؟؟؟“ وه کامران کو دیکھ منہ بسور سوال کر رہی تھی....
”اراده تو ناک توڑنے کا ہی تھا پر تمھاری نھیں ....اِس مانو بلی کی“ کامران ماہنور کو کھاجانے والی نظروں سے گھورتے ھوا وہاں سے چلا گیا....ماہنور اور اسماء واپس ہسنا شروع ہوگےؔ۔۔۔۔
شاہنزیب جلدی میں باھر کی طرف جارہا تھا کے آواز آئی ”شاہنزیب تمھیں دادو بلا رہی ہیں....“ شاہنزیب نے اس آواز پر پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسماء اسے کہیں نظر نه آئی ...وه اِدھر اُدھر دیکھ کر وھاں سے باھر کی طرف چل دیا.....اپنی کار اسٹارٹ کی اور خالہ کے گھر کی جانب بڑھ گیا....
سعدیہ کے گھر کے باھر دروازے پر کار روکی اور سعدیہ کو فون لگایا ”ہیلو....میں گھر کے باھر کھڑا ہوں جلدی آجاٶ“ شاہنزیب نے فون کان سے لگا کر سعدیہ سے کہا:”جھوٹے....ابھی تک تو تمھاری کار کا دروازه نھیں کھلا ہے اور تم کہ رہے ہو کے گھر کے باھر کھڑے ہو....جھوٹ بولنا تو کوئی تم سے سیکھیےؔ“
سعدیہ ٹیرس پر کھڑے ہوےؔ اسی کی کار کو دیکھتے ہوےؔ کہ رہی تھی:”ابھی میرے پاس سیکھانے کا وقت نہیں ہے اس لیےؔ پلیز جلدی آجاٶ“شاہنزیب نے جھنجھلا کر کہا:”اپنی خالہ سے نہیں ملو گے؟؟؟....باھر سے باھر ہی ان کی بیٹی کو اٹھالے جاٶ گے“ سعدیہ نے مسکراتے ہوےؔ شاہنزیب کو چھیڑا تھا....
”سعدیہ تمھیں اٹھانا میرے بس کی بات نہیں....اتنا کھاتی جو ہو تم ....کھانا پینا کم کرٶ تو شاید میں ایک بار کوشش کرنے کی سوچوں“شاہنزیب کار کا دروازه کھول کر باھر نیکل آیا اور ٹیرس کی طرف سعدیہ کو دیکھتے ہوےؔ طنزیہ مسکراہٹ اس کے نام کردی....وه پیلے رنگ کی ھوڈی ٖ نیلے رنگ کی جنیز ٖ چھرے پر ماسک لگاےؔ بھت ھینڈسم لگ رہا تھا...
”کوئی نھیں تم سے تو کم ہی کھاتی ہوں میں....آےؔ بڑے ....مجھے کھانے کا طعنہ دینے والے“ سعدیہ نے منہ چڑا کر شاہنزیب سے کہا ...
”اچھا چلو....باقی لڑائی کار میں بیٹھ کرلینا....جلدی آجاٶ“ شاہنزیب نے سنجیدگی سے کہا....اپنے چھرے پر سے ماسک اتراتے ہوےؔ...
”تو کیا واقعی تم امی سے نہیں ملو گے؟؟؟“ سعدیہ
حیرت سے سوال کرنے لگی....
”یار سچ کہ رہا ہوں وقت نہیں ہے میرے پاس ....خالہ سے تو میں بعد میں بھی مل سکتا ہوں ....پر ابھی میرا کہیں اور پھنچنا بھت ضروری ہے“شاہنزیب نے کہا تو سعدیہ دو تین لمحوں کے لیےؔ سوچ میں پڑھ گیؔ.....
”پر امی کو برا لگے گا....کے تم اتنی قریب آکر بھی اُن سے ملے نہیں“ سعدیہ نے اس پر زور دیا تھا
”تم مجھے شرمنده کر رہی ہو اب.....میں ٖ بعد میں مل لوں گا ناں....منع تھوڑی کر رہا ہوں“شاہنزیب نے اسے اپنی بات سمجھاتے ہوےؔ کہا تھا....
”ٹھیک ہے ...تم جانو اور تمھاری خالہ جانیں مجھے کیا“ اسے شاہنزیب کا اپنی ماں سے نہ ملنا برا لگا تھا وه چند سالوں سے اس میں بھت بدلاٶں محسوس کر رہی تھی....پر سمجھ نھیں پارہی تھی کے یہ بدلاٶ کیوں آرہا ہے...یہ پہلی بار نہیں تھا کے وه اپنی خالہ سے نہیں مل رہا....اس نے اپنی خالہ سے کافی دوری بڑھا لی تھی....
سعدیہ اپنا ھینڈ بیگ لے کر آئی....شاہنزیب نے کار کا دروازه کھولا اور وه بیٹھ گیؔ....شاہنزیب دروازه بند کر کے کار کی دوسری جانب آیا اور کار کا دروازه کھول کر اندر سیٹ پر بیٹھ کر کار کا دروازه بند کر لیا....کار اسٹارٹ کی...
”تم رھنے جارہی ہو؟؟....یا آج رات ہی واپسی کا پروگرام ہے؟؟“
”یہ کیسا سوال ہے ....ظاھر سی بات ہے رھنے جارہی ہوں...تم کیا چاھتے ہو .....نہ رہوں؟؟“سعدیہ نے چڑچڑے انداز میں اس سے پوچھا تھا....
”نہیں..میں نے ایسا کب کہا.....وه تم کوئی سامان نھیں لائيں اس لیےؔ پوچھ رہا تھا....تم اتنا چڑچڑی کیوں ہورہی ہو؟؟“ اس نے کار ڈرائیف کرتے ہوےؔ اس سے پوچھا...
”تم کیا چاھتے ہو میں پہنے ھوےؔ کپڑے اور جیولری دوبارا پہنوں...no way....میں ماہنور کے ساتھ جاکر شادی کی شاپنگ کروں گی...اور تمھیں بھی چلنا پڑے گا میرے ساتھ “سعدیہ نے شاہنزیب پر اپنا حق جماتے ہوےؔ کہا تھا....
”ہاں.......میرے پاس اور تو کوئی کام ہے ہی نہیں...سواےؔ تمھیں شاپنگ کرانے کے“ شاہنزیب نے اس کی جانب دیکھ طنز کیا تھا....
”تمھاری منگیتر ہوں میں ....اگر تم مجھے شاپنگ نہیں کراٶ گے تو کون کراےؔ گا“ سعدیہ سوال کر اٹھی تھی اُس کی بےرخی کو دیکھ....
”پہلی بات یار..... کتنی بار کہا ہے کے تم میری منگیتر نہیں ہو“ شاہنزیب نے صاف گوئی سے کام لیا تھا وه نہیں چاھتا تھا کے بعد میں سعدیہ کو دوکھ ہو....
”پھر وہی بات.....کیوں نہیں ہوں میں تمھاری منگیتر....آخر خالہ نے خود مانگا تھا میرا ہاتھ تمھارے لیےؔ....وه بھی سب کےسامنے....جب میں صرف چھ سال کی تھی“ اس کی بات پر سعدیہ کے تن بدن میں آگ لگ گیؔ تھی....
”وه امی نے مانگا تھا میں نے نہیں“ شاهنزیب نے یه جملا بول کر خاموشی اختیار کرلی تھی...
”اچھا ....اور کچھ کہنا لے“ سعدیہ نے اسے دیکھ کر سوال کیا تھا پر وه اس کے سوال کو نظرانداز کر گیا ....”سچ بتاٶ ...کیا کوئی اور لڑکی پسند کرلی ہے تم نے؟؟؟.....جو مجھے منگیتر ماننے سے انکار کر رہے ہو.....بولو“وه شاہنزیب کو بڑی گہری نگاہوں سے تکتے ہوےؔ پوچھ رہی تھی...پر وه خاموشی کا دامن تھامے رہا.....یہ خاموشی سعدیہ کو بےصبر بنارہی تھی.....”میں کچھ پوچھ رہی ہوں شاه....جواب دو مجھے....کیا کوئی اور پسند ہے تمہیں؟؟؟“اُس نے پھر سے اپنا سوال دوھرایا تھا....
”گھر آگیا ہے اترو“اُسنے کار کا دروازه کھولتے ھوےؔ کہا....باھر نیکل کر وه دوسری سائٹ بڑھ گیا دروازه کھولنے کی نیت سے ....پر سعدیہ غصے میں تھی اس لیےؔ خود ہی دروازه کھول باھر نیکل آئی.....دروازه زور سے بند کیا....جیسے سارا غصه اسی پر اتار دیا ہو.....اُس کی سرخ آنکھیں اُس کے غصے کا پتا دے رہی تھیں .....پہلے تو وه ایک دو قدم آگے بڑھ گیؔ....پھر اچانک سے پلٹ کر شاہنزیب کی جانب چلتی ہوئی آئی...آنکھوں میں آنکھیں ڈال :”اگر واقعی اس منگنی کو نہیں مانتے ....تو یه بات مجھ سے نہیں جاکر خاله سے کہو.....میری ماں سے کہو....میرے بابا سے کہو....کہ دو ان سب سے جو تمھارا ہم سفر مجھے چن بیٹھے ہیں...... کے .....کوئی اور پسند ہے تمھیں....میں بھی دیکھنا چاھتی ہوں کے جو شخص مجھ سے باربار کہتا ہے کے مجھے اپنی منگیتر نہیں مانتا ....وه سب کے سامنے کہنے کی کتنی ھمت رکھتا ہے.....جاٶ شاہنزیب افتخار کہ دو سب سے...وعده ھے میرا تم سے شاہنزیب افتخار .....ایک آنسوں نه بھاوں گی اس منگنی کے ٹوٹنے پر“ سعدیه نے بڑی برھمی سے اس سے پوری بات کہ ڈالی تھی...اور شاہنزیب صرف اسے دیکھتا سه رھ گیا تھا....
وه اپنی آنکھوں میں نمی کو چھپارھی تھی....پر اِن کمبخت آنسوں پر کسی کا زور چلا ہے جو اس دل جلی کا چلتا .....آنسوں جھلک آےؔ تھے آنکھوں میں.....وه آنکھوں سے آنسوں صاف کرتے ہوےؔ وہاں سے چلی گیؔ....
گھر میں سعدیہ کا چھره مرجھایا یوا دیکھ سب سمجھ گےؔ تھے کے ضرور دونوں کی پھر سے لڑائی ہوئی ہے....ماہنور اسے کمرے تک چھوڑنے آئی تھی....تھوڑی دیر گزری تو احساس ھوا کے کیا کہ آئی ہے غصے میں شاہنزیب سے....
دل کو خوف سه ستارھا تھا کے کہیں وه واقعی منگنی توڑ نه دے....مانا کے بھت خفگی تھی شاہنزیب سے...پر وه خفگی اس کی محبت پر فتح حاصل نھیں کرسکتی تھی....
”کچھ ہوا ہے کیا؟؟؟“ ماہنور نے اسے کھڑکی کے پاس کھویا کھویا کھڑا دیکھ ....استفسار کیا تھا....
”وه بدل گیا ہے....لگتا ہی نہیں وه وہی شاہنزیب ہے جیسے میں جانتی تھی...اِس قدر بےرخی ہے اُس کے انداز میں....اِس قدر عجنبیت ہے اُس کی باتوں میں.....کے مجھے لگتا ھے وه میرا شاہنزیب ہے ہی نہیں“ سعدیه نے روتے ھوےؔ کہا .....اِس بات پر وه مسکراء دی....
”تم بھی ناں پاگل ہو پوری“ اس نے مسکراتے ہوےؔ اُس کا ہاتھ پکڑا کر اپنے ساتھ بیڈ پر بیٹھالیا تھا....وه ماهنور کی مسکراہٹ پر الجھ کر رھ گیؔ تھی....
”وه تمھارا ہی شاہنزیب ہے ....بدلا نھیں ہے بس غصے کا اور تیز ھوگیا ھے....میں تمھیں بتا نہیں سکتی کے کیا اہمیت ھے اُس کی زندگی میں تمھاری “ ماہنور نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا تو وه نفی میں گردن ہلاتے ہوےؔ :”تم مجھے جھوٹے دلاسے مت دو.....کوئی اہمیت نہیں ہے اس کی زندگی میں میری ...وه تو ہماری منگنی کو بھی نہیں مانتا“ سعدیه نے ماہنور کی بات سے نااتفاقی ظاھر کی.....
”وه تو پاگل ہے....اپنے دل کی بات سے خود ہی غافل ھے...پتا ہے میں نے اسے خود راتوں کو تمھاری تصویر کے سامنے بیٹھ کر گھٹنوں گانا گاتے سنا ہے....کتنی محبت سے بھرپور ھوتی ھے اُس کی گائيکی ....میں تمھیں بیان نہیں کرسکتی....وه ٹوٹ کر چاھنے والوں میں سے ھے...تم اس کا گانا سنو تو تمھیں پتا چلے کے کتنی محبت ھے اُسے تم سے.... میں جھوٹے دلاسے نہیں دے رہی....اگر مجھ پر یقین نه آےؔ .....تو جاکے گھر میں کسی سے بھی پوچھ لو.....سب نے سنا ہے وه گیت اُس کا....جس میں وه روز تم سے اپنی محبت کا اظھار کرتا ہے....“ماہنور نے بڑی محبت سے اسے اپنی چھوٹی بھن سمجھ کر شاهنزیب کی محبت کا احساس دلایا تھا....پر پھر بھی وه ماهنور کی بات پر متفق نه تھی....
”پر وه خود کہتا ھے ....کے نہیں مانتا ھے مجھے اپنی منگیتر“ سعدیه کی آنکھوں میں ابھی بھی وه الجھاپن قائم تھا.....
”اُو.....ھو....اب تمھیں کیسے سمجھاٶں“اُس نے اپنا سرپکڑ کر کہا :”اگر اُسے منگنی توڑنی ہوتی تو کب کی توڑ چکا ہوتا....پر اُس نے ایسا کچھ نھیں کیا....صرف تم سے ہی کہتا ہے وه یه....
پتا ہے ہر کسی کے محبت کرنے کا انداز الگ ہوتا ہے ....کوئی ظاھر کرتا ہے....تو کوئی چھپاتا ہے.....کوئی شرمیلی طبیعت کا مالک بنتا ہے تو کوئی شوخ طبعیت .... کوئی ہر لمحہ اپنی محبت کا احساس دلاتا ہے اور کوئی سخت میر بن کر غصے میں جھلک دیکھاتا ہے ...بس آخری والا شاہنزیب کا حال ہے....وه غصے میں جھلکا رہا ہے....اپنی محبت کو...“
”کیا واقعی اس کی ناراضگی ٖ اس کا غصه ٖ اُس کی بےرخی یه محبت ہے اُس کی“ سعدیه نے سوال کیا تو ماہنور نے اثبات میں سر ھلادیا....
اسماء رومیسا آپا کے ساتھ الماری صاف کروا رہی تھی...کے بچپن کی فوٹوں کا ایلبم اسماء کے ہاتھ لگا....وه اسے لاکر صوفے پر بیٹھ گیؔ....اور کھول کر ایک ایک بچپن کی تصویر دیکھ کر مسکرانے لگی....سارا بچپن جیسے قید ہو ان تصویروں میں....ہر ایک تصویر ایک کھانی یاد دلا رھی تھی بیتے ہوےؔ پل شدت سے یاد آرہے تھے....اسماء تصویروں کو دیکھتے دیکھتے بچپن کی سنہری یادوں میں کھوگیؔ تھی...آپا کے تین چار بار آواز دینے کے باوجود اس نے کوئی جواب نه دیا تھا....تو انھوں نے پلٹ کر دیکھا تو اسماء کو تصویروں کو دیکھتے ہوےؔ مسکراتے چہرے کے ساتھ پایا تھا....
”آپا دیکھیں ....اِس میں علی بھئيا کتنے پیارے لگ رہے ہیں گولو....مولو سے“ اسماء نے تصویر پر ہاتھ رکھ کر کہا....
”ہاں علی تو بچپن سے ہی گولو ....مولو سہ تھا....اتنا پیارا لگتا تھا موٹا سہ..یه تب کی فوٹو ہے جب یه چلنا بھی نه سیکھا تھا“ آپا کے چھرے پر بھی مسکراھٹ بکھر آئی تھی....اس تصویر کو دیکھ....
”آپا یه والی تصویر دیکھیں....جب ہم نے مانو کو بچپن میں دولہن بنایا تھا کتنی خوبصورت لگ رہی ہے دیکھیں“ اسماء نے بےتابی سے تصویر آپا کو دیکھائی تھی....آپا اپنی الماری چھوڑ اسماء کے برابر آکر بیٹھ گیںؔ تھیں تصویر دیکھ کر ایک حسین مسکراھٹ اُن کے چھرے پر تھی....
”ہاں ....واقعی کتنی پیاری لگ رہی ہے مانو دولہن بنے ...اور دیکھو یه دوسری والی تصویر جس میں شاهنزیب بڑے ابو کی پگڑی جو اتنی بھاری ھے ...سر پر پہنے دولہا بننے کی ضد کر رہا ہے“ آپا نے دوسری والی تصویر پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا....
”ہاں آپا بچپن میں تو شاهنزیب بھت ضدی تھا ...ماهنور کو کبھی کسی کی دولھن بنے ہی نہیں دیتا تھا“ اسماء بچپن کی یادوں میں کھوسی گیؔ تھی....
”ضدی تو وه اب بھی بھت ہے...پر واقعی کتنے اچھے لگ رھے ہیں یه دونوں دولہن دولہا بنے ہوےؔ.....میری مانو بلی تو ھے ہی خوبصورت اور شاهنزیب بھی کچھ کم نھیں لگ رھا....پتا ھے جب یہ تصویر امی بنارھی تھیں تو شاهنزیب کی پگڑی اس سے بھاری ہونے کی وجه سے سمبھل ہی نہیں رھی تھی....اِس لیےؔ دیکھو پیچھے سے علی نے ہاتھ رکھا ھوا ہے پگڑی پر کے گرےؔ ناں“ اسماء اور آپا دونوں ہسنے لگے۔۔۔۔۔
*****-----******
ماہنور کچن میں داخل ہوئی تو صباء کھانے کا بڑا والا چمچہ دھوکر دیگچی میں سالن چلانے کے لیےؔ ڈالنے ہی والی تھی کے ”آپ یہاں ہیں صباء باجی...میں آپ کو پورے گھر میں ڈھونڈ رہی ہوں“ماهنور نے جلدی جلدی جذباتی ھوکر کہا تھا اس کے کہتے ہی صباء اُس کی طرف پلٹی تھی....”کیوں؟؟“وه آنکھوں کے اشاروں سے پوچھ رہی تھی....
”ارے شھزاد بھائی جارھے ہیں...شاہزیه آپا کو لینے...سب اُن کو الوداع کر رہے ہیں...میں تو الله حافظ کہ کر آئی ہوں....جلدی کریں ورنه وه چلیں جائيں گے....اور آپ اُن کی ایک جھلک بھی نھیں دیکھ پائيں گی...جلدی کریں“ ماهنور بےصبری ہوکر جلدی مچارھی تھی....صباء کی آنکھوں میں شھزاد کے جانے کا سن ایک بےتابی چھاگیؔ تھی....
”پر اُن کی فلائيٹ تو رات کی تھی ناں....پھر.....“ صباء نے پریشان ھوکر ماهنور کی جانب دیکھ بڑبڑایا تھا....
”اُو...ھو“ ماهنور نے اپنا ہاتھ اپنی پیشانی پر مارتے ھوےؔ کہا:” آپ یہاں سوچتی رھ جائيں گی اور وھاں وه چلے جائيں گے....اب جائيں بھی“ ماهنور نے اس بار اصرار کرتے ہوےؔ صباه سے کہا تھا....
وه بغیر کچھ سوچے سمجھے صرف شھزاد کی جانے سے قبل ایک جھلک دیکھنے کے لیےؔ دیوانوں کی طرح چمچہ ہاتھ میں پکڑے ہی تیزی سے کچن سے نیکل جاتی ہے....بھاگتے ہوےؔ باھر دروازے پر پھنچتی ہے...
نه وہاں شھزاد نظر آتا ھے نه کوئی اور گھر کا ممبر....چونکے وه بھاگتے ہوےؔ آئی تھی اس لیےؔ اس کی سانس پھول رھی تھی....ابھی وه پریشان اور الجھی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھ ہی رہی تھی....کے پیچھے سے خوب ہسنے کی آواز آتی ہے...صباء سمجھ جاتی ھے کے اسے ماهنور نے الو بنایا ہے...وه مڑ کر دیکھتی ھے تو ماهنور اسے خوب ھستے ھوےؔ کہتی ہے....
”صباء باجی آپ کی سادگیِ محبت پر قربان جانے کو دل کرتا ہے....صرف ایک جھلک دیکھنے کے لیےؔ اِس قدر دیوانہ پن۔۔۔۔اففففف.۔۔۔۔۔ ماننا پڑے گا“ ابھی ماهنور بول ہی رہی تھی کے صباء نے اُس کے پیچھے دوڑ لگادی تھی....ماهنور تیزی سے بھاگتے ہوےؔ گھر میں داخل ھوئی....وه آگے آگے ....صباء چمچہ لے کر اس کے پیچھے پیچھے....ماهنور نے پورے ھال کمرے کے دو چکر لگوا ڈالے تھے پر صباء کے ہاتھ نھیں آئی تھی...
”مانو بلی .....تجھے چھوڑو گی نھیں آج میں“صباه اس کے پیچھے بھاگتے ہوےؔ بول رہی تھی....
”پہلے پکڑ کر تو دیکھائيں صباء باجی“ ماهنور نے سیڑھیوں پر تیزی سے اوپر کی جانب جاتے ہوےؔ چیلنج دیا تھا....صباء بھی سیڑھیاں پھیلانگتی ہوئی اوپر چڑھ کر جیسے ہی بائيں جانب تیزی سے دوڑی ....اچانک شھزاد سے بری طرح ٹکرا گیؔ....صباء کے یوں اچانک ٹکرانے کے سبب شھزاد اپنا بیلنس برقرار نہ رکھ سکا....اور زمین پر گرا...اب وه زمین پر تھا اور صباء اس کے اوپر...ایک دو لمحوں کے لیےؔ تو جیسے دونوں ہی پتھر کے بن گےؔ ہوں مارے شاکٹ کے....ماهنور وھیں رکھی ٹیبل کے پیچھے چھپ کر یه منظر دیکھ مسکراء رہی تھی....اگلے ہی لمحے صباء شھزاد کے ساتھ خود کو اِس حالتِ غیر میں پاکر فورا خود کو سمبھال کر اٹھی تھی....اور وہاں سے نیچے کی جانب بھاگتی ہوئی چلی گیؔ تھی....اس کے ہاتھ میں پکڑا چمچہ شھزاد سے اچانک ٹکرانے کی وجه سے وھیں گرگیا تھا....
صباء برتن دھوےؔ جارھی تھی اور شھزاد کے ساتھ ہوئی ٹکر کو یاد کر کے مسکراےؔ جارھی تھی...
”ارے یه سالن چلانے کا چمچہ کہاں چلاگیا ؟؟؟“ رومیساء آپا نے برتن کی دراز کو پورا چھانے کے بعد پوچھا تھا...وه اِس سوال پر جھیپ گیؔ تھی....وه آپا کو کیا بتاتی کے کہاں ہے چمچہ...
شھزاد کچن میں چمچہ لے کر داخل ھوا تو آپا حیرت سے آبرٶ اچکاےؔ پوچھنے لگیں....کے یه چمچہ اُسکے پاس کہاں سے آیا...صباء نے یه سوال سن بڑی مشکل سے اپنی مسکراھٹ کو لبوں پر آنے سے روکا تھا...
شھزاد چمچہ وہاں سلیپ پر رکھ کر سوالوں سے بچنے کے لیےؔ وہاں سے تیزی سے نیکل جاتا ھے...
”لائيں میرا کمیشن دیں“ماهنور نے شھزاد کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوےؔ کہا....
”یه لو پورے پانچ ہزار ہیں...سمبھال کر خرچ کرنا“
شھزاذ نے پچاس پچاس کے نوٹوں کی گڈی اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوےؔ کہا...
”یار عیدی تھوڑی دے رہے ہیں جو پچاس پچاس کے نوٹوں کی گڈی پکڑا دی ہے...کمیشن دے رہے ہیں کم از کم بندھا ہوا نوٹ ہی دے دیتے.......ویسے بڑے کنجوس ہیں آپ...صرف پانچ ہزار دے رہے ہیں...مجھے تو لگا تھا خوش ھوکر دس ہزار تو خود ھی میرے ہاتھ میں تھمادیں گے...“ ماهنور منه بسور شکوه کر رہی تھی....
”ایک تو تمھاری وجہ سے وه بیچاری اس قدر امبیرس ھوئی ہے...میں نے صرف اوپر لانے کے لیےؔ کہا تھا تاکے اسے دیکھ سکوں.....پر تم نے سب بیگاڑ دیا“ اُس نے گھورتے ھوےؔ کہا...
”الله اس میں میری کیا غلطی...آپ نے کہا تھا آپ انھیں مسکراتا ھوا دیکھنا چاھتے ہیں...وه میں نے آپ کو دیکھا دیا...اب اِس میں میری کیا خطاء کے وه اِس قدر تیزی سے پیچھے بھاگ رہی تھیں کے اچانک سے آپ کو دیکھ رک ہی نه سکیں...اور آپ سے ٹکرا گیںؔ....ھاےؔ.....کتنا دلکش نظارا تھا....آنکھوں کو ٹھنڈک پھنچانے والا“ وه شرارت بھری نگاھوں سے اسے دیکھتے ہوےؔ کہ رہی تھی...
”شرم کرلو تھوڑی مانو....بھائی ہوں تمھارا بڑا“ وه روپ دیکھاتے ہوےؔ
”یه سارے بسکٹ آپ اکیلے چاےؔ میں ڈبو ڈبو کر کھانے والے ہیں؟؟“ شھزاد کے پاس ٹیبل پر چاےؔ کے ساتھ بسکٹ سے بھری پلیٹ رکھی دیکھ ۔۔۔ماہنور نے استفسار کیا تھا...
”اگر تمھیں بھی کھانے ہیں تو بیٹھ جاٶ آرام سے...اور اپنے لیےؔ چاےؔ نیکالو...اُس میں ڈبو ڈبو کر کھالو...میری چاےؔ میں ڈبونے کی اجازت نہیں دوں گا میں تمھیں“شھزاد کی آفر سن:”پر مجھے تو چاےؔ نھیں پینی ...صرف بسکٹ کھانے ہیں...ایک کام کریں...آپ میرے بدلے کی چاےؔ پی لیں...اور میں آپ کے بدلے کے بسکٹ کھالیتی ہوں“کہتے ہوےؔ اس نے بسکٹ کی پلیٹ ہاتھوں میں اٹھالی......
”آپا مجھے بھت ڈانٹیں گی اگر انھیں پتا چلا کے میں ...“ وه ابھی بول ہی رھا تھا کے وه اس کی بات مکمل اگنور کر کے جانے لگی ....”ارے....کم از کم ایک بسکٹ تو دے جاٶ مانو“وه پیچھے سے آواز لگا رھا تھا پر وه وہاں سے جاچکی تھی...
”مجھے مانو کو دیکھتے ہی بسکٹ چھپادینے چاھیےؔ تھے...بسکٹ کی دشمن...“ مسکراتے ہوےؔ چاےؔ کا کپ منه سے لگالیتا ہے۔۔۔۔۔
****------******
نکاح کی چھوٹی سی تقریب منعقد ہونے کے بعد رومیساء آپا ماهنور کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہیں....”چھوڑو اسے.....کیوں رو رہی ہو....رومیساء“ بڑی امی ان کی کمر پر ہاتھ رکہتے ہوےؔ بول رھی تھیں....ماهنور کی کیفیت بھی کرب سے بھری تھی پر اس نے آپا کی خاطر اپنا دوکھ چھپالیا تھا...پر جب آپا نے اپنے گلے لگایا تو وه ضبط کھو بیٹھی ...اور زور زور سے رونے لگی....
”ابھی صرف نکاح ہوا ہے...رخصتی تھوڑی ہورہی ھے....جو تم دونوں روےؔ جارہی ہو....رومیساء سمبھالو خود کو....تم اگر ایسے ھلکان ہوجاٶ گی رو رو کر تو ماهنور کو کون سمبھالے گا....“دادو نے رومیساء آپا کے سر پر ہاتھ رکھ کر صبر کی تلقین کی....رومیساء یه بات سن سمبھل گیؔ تھی...اس نے اپنے آنسوں کو اپنے ہاتھ سے صاف کیا اور ماهنور کے گلے سے ھٹ اسے پیار سے چپ کروانے لگی.....
”منع کیا تھا ناں مانو ....رونا مت “ آپا اسے پیار کرتے ھوےؔ بول رھی تھیں...
”آپا پہلے آپ نے رونا شروع کیا....آپ کی وجہ سے میں بھی اپنا کنٹرول کھو بیٹھی...“ ماهنور نے آپا کے آنسوں جو ابھی بھی ان کی آنکھوں سے بھ رہے تھے صاف کرتے ھوےؔ بولا تھا....
راحیل گارڈن میں کھڑا گارڈن کی دیواروں پر پھولوں کی سجاوٹ کروارہا تھا کے اس پر اچانک گلاب کے پھول برسنے لگے....اُس کے چھرے پر ان کھلتے گلابوں کی طرح مسکان تھی....راحیل نے سر اٹھا کر چھت کی طرف دیکھا ....چھت پر کوئی کھڑا تھا ...جو مسلسل اُس پر پھول برسا رہا تھا....پر سورج کی کرنیں اِس طرح اُس کی آنکھوں میں پڑھ رہی تھیں کے چاھ کر بھی وه اُسے دیکھ نہیں پارہا تھا....اُس نے اپنا دائيا ہاتھ اپنے ماتھے پر رکھ کر چھاٶں کر کے اس دیکھنے کی کوشش کی تو ماہنور کا مسکراتا چھره اس پر پھول کی برسات کرتا پایا....
”یہ آپ کیا کر رہی ہیں ماهنور؟؟؟“ راحیل نے حیرت سے سوال کیا تھا....
”نظر نہیں آرہا کیا....آپ پر پھولوں کی برسات کر رہے ہیں“ ماهنور نے مسکراء کر جواب دیا تھا...
”پر کیوں؟؟....یه سارے پھول آپ ہم پر برسا کر ضائع کیوں کر رہی ہیں؟؟؟“ راحیل اسے آبرو اچکا کر پوچھ رہا تھا....
”اُو ....ہو .....اِسے پھول ضائع کرنا نہیں ....اِس کا اچھی طرح استعمال کرنا کہتے ہیں...اور مجھے لگتا ہے کے آپ کی مسکان نے آپ کا جواب دے دیا“ ماہنور نے چھت سے نیچے راحیل کو دیکھتے ہوےؔ بڑے بھولے انداز سے کہا
”کون سہ جواب؟؟“ راحیل نے دوبارا سوال کیا تھا...
”آپ مجھ سے ناراض تھے ناں....اِس لیےؔ آپ کو منارہی تھی ...اِن خوبصورت پھولوں سے....اور آپ کی مسکان نے مجھے بتادیا کے آپ نے مجھے معاف کردیا ہے....ہے ناں“ ماهنور نے بڑے پیار سے مسکراتے ھوےؔ کہا تھا....
”میں آپ سے ناراض نہیں تھا....البتہ مجھے آپ تھوڑا ناراض ناراض سی لگ رہی تھیں“ انہوں نے ماهنور کی خفگی اسے گویا کے یاد دلائی تھی ....اسی وقت ایک آدمی آکر پوچھنے لگا کے پھول دیکھاتے ہوےؔ کے انھیں کہاں لگاےؔ....جس پر راحیل اسے سمجھانے لگا..پھر اس کے ساتھ ہی چلا گیا ....
گھر میں ایک دم شور برپا ھوا....”امی ٖ ابو ٖ دادو....کہاں ہیں آپ سب ؟؟.....“ شاهزیہ نے گھر میں گھستے ہی صدا لگائی تھی “ماہنور اپنے کمرے میں تھی جب یه آواز اُس کے کان میں گونجی....وه تیزی سے قدم بڑھاتی کمرے سے باھر آئی....سیڑھیوں کی طرح بڑھی تو سامنے شاہزیه آپا کو کھڑا پایا...
ماہنور خوشی سے پھولے نه سمائی اور سیڑھیوں سے پھرتی سے اتر کر آپا کے گلے لگ گیؔ ....آپا نے بھی بڑھ کر اسے اپنے سینے لگا لیا...آپا کی آنکھوں میں نمی آگیؔ تھی...اتنے سالوں بعد اپنے وطن اور اپنے گھر لوٹی تھیں....
”آپا کیسی ہیں آپ؟؟.....جنید اور جمشید کہاں ہیں؟؟....آپ نے نکاح کی تقریب مس کیوں کردی“ ماهنور نے گلے سے ہٹتے ہی سوالوں کا پہاڑ شاہزیه کے سامنے کھڑا کردیا تھا...شاهزیه پہلے تو مسکراء دی یه دیکھ کے ماهنور بلکل بھی نہیں بدلی....وہی شوخی بھری نگاھیں ٖ وہی چنچل ادائيں ...وہی مسکراتا پیارا سہ چھره اور وہی بچپنا
”آنی....مانو .....آنی“جنید اور جمشید دونوں نے ایک ساتھ آواز لگائی تھی....اِن میں سے ایک تو راحیل کی گود میں تھا اور دوسرا بھاگتا ھوا آکر ماهنور کی گود میں چڑھ گیا....ماهنور نے اُس کے گالوں کو چوما....اور دوسرے والے کو دیکھ کر :”آپ کو بھی کروں کِس ؟؟“ ماهنور نے توتلی زبان میں بڑے پیار سے جمشید کو دیکھ کر پوچھا تھا....
جمشید نے یه سن اپنے منه پر ہاتھ رکھ لیا”اُو....آپ راحیل ماما کو کِس دینے کا پوچھ رہی ہو“جمشید نے کہا تو ماهنور ٖ راحیل اور شاهزیه تینوں حیرت بھری نظروں سے جمشید کو دیکھنے لگے....
”اُف ....بُدو ....وه راحیل ماما سے نہیں تجھ سے پوچھ رھی ہیں...“جنید نے اپنے چھوٹے ہاتھ سے خودی کے ماتھے پر دھپ لگائی ....
” آپا یه تو کتنے پیارے اور شرارتی ہیں...مجھ سے بھی زیاده“ ماهنور نے اُن دونوں کو دیکھ کر مسکراتے ہوےؔ کہا....اُن دونوں بچوں کی بات سن راحیل جھیپ گیا تھا...اور اُس کے چھرے پر بھی مسکراھٹ بکھر آئی تھی...
”آپا آپ کی ھمت کو تو شاباش ہے....ہم سے تو ایک مانو نھیں سمبھلتی .... اور آپ ایک ساتھ دو دو ماهنور کو سمبھال رہی ہیں“ راحیل نے آپا کو داد دی تھی.....”مانو اِن سے بچ کر رہنا ...یه تمھارے بھی باپ ہیں شرارتوں میں“ اُس نے ماهنور کو چھیڑتے ہوےؔ کہا تھا تو شاہزیه آپا ہس دیں.....
”آپا آپ اِن دونوں میں سے پھچان لیتی ھو؟؟؟...کے کون سہ جنید ہے اور کون سہ جمشید ...یه تو بلکل ایک جیسے دیکھتے ہیں“ ماہنور نے استفسار کیا...
”مجھے آسانی سے پہچان میں آجاتے ہیں...میں ماں ہوں ناں“ آپا نے پاس رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوےؔ کہا....”اچھا یه بتاٶ ....باقی سب کہاں ھیں؟؟“ آپا پورے گھر کا جائزا لیتے بولیں....
”آپا یه سوال تو چھوڑ ہی دیں....ساری گھر کی خواتیں پارلر گیںؔ ہیں...سواےؔ چاچی جان کو چھوڑ کر وه اپنی ڈیوٹی پر گیؔ ہیں ہسپتال...باقی سب مرد حضرات اُن سب کا مجھے پتا نہیں...وه ویسے بھی دن میں کون سه گھر میں ٹک کر رہتے ہیں“ماهنور نے آپا کو بتایا....
”راحیل چھوٹی امی نے چھٹی نھیں لی؟؟“ آپا راحیل سے مخاطب ہوکر پوچھنے لگیں....
”ہاں...وه آپا کچھ دنوں پہلے امی کی طبعیت خراب ھوگیؔ تھی اُن دنوں بھی چھٹی لے لی تھی اس لیےؔ اب چھٹی نہیں مل رہی“راحیل نے تھوڑے غمگین انداز میں کہا....جیسے اُسے دوکھ ہو کے گھر کی اور خواتیں کی طرح اُس کی والده شاپنگ ٖ پارلر وغیره نہیں جاپارھی ہیں...بلکے اِس عمر میں بھی محنت و مزدوری میں لگی ہوئی ہیں...
آپا راحیل کو اداس دیکھ :”بھئی تمھارے یہاں مہمانوں کو کھانا کھلانے کا رواج ہے یا نہیں؟؟“ انھوں نے راچیل کو دیکھ کہا...جس پر وه مسکراتے ہوےؔ:”جاٶ مانو...کھانا لگاٶ “ وه سنتے ہی اثبات میں سر ھلا کر کچن کی جانب بڑھ گیؔ.....
آپا اور اُن کے دونوں بچے ایک ساتھ بیٹھ گےؔ اور راحیل ماهنور ایک ساتھ...وه دونوں آپا کی میزبانی میں کوئی کمی نہیں چھوڑنا چاھتے تھے....
”آپ بھی کھانا کھالیں....صبح سے کام میں لگے ہوےؔ ہیں“ ماهنور نے راحیل کی پلیٹ میں مزید سالن ڈالتے ہوےؔ کہا...
ًمیں خود لے لوں گا...تم آپا کو دو“ راحیل نے فورا اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا تھا مزید اور سالن ڈالنے سے...شاهزیه آپا ان دونوں کو باتیں کرتا دیکھ مسکرانے لگیں تھیں....دونوں کا جوڑا نھایت ہی حسین لگ رہا تھا....آپا کی آنکھیں دونوں کو دیکھ چمکنے لگی تھیں....یه چمک صرف شاهزیه کی آنکھوں میں ہی نھیں تھی اُن دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر.... گھر کے مزید کچھ افراد اسی خواھش کو دل میں چھپاےؔ بیٹھے تھے....جن میں خود راحیل سرفہرست تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راحیل باھر کی جانب جانے لگا تو ماهنور پیچھے ہاتھ باندھ کر اسے مسکراتے ہوےؔ دیکھنے لگی...
”کیا؟؟“ وه ماهنور کی مسکراھٹ کی وجه پوچھنے لگا...
”کچھ نہیں...“نفی میں گردن ہلاکر مسکراتی ہوئی چلی جاتی ہے...وه الجھا تھا اُس کی مسکراھٹ کے سبب...
راحیل اپنی ماں کے گھٹنوں پر ہاتھ ٹیکاےؔ زمین پر بیٹھا تھا”امی ...میں بھت برا ہوں...ایک دم نالائق ہوں...آج تک آپ کے لیےؔ کچھ نہیں کرسکا...ساری گھر کی خواتیں آج پارلر گیںؔ تھیں....ویسے شاپنگ پر جاتی رھتی ہیں...آپ صرف ہماری خاطر کتنی محنت و مشقت کرتی ہیں“راحیل کی آنکھیں نم تھیں جب اس نے اپنے جذبات کا اظھار کیا....
”میرے بچے ...میرے جگر کے ٹکرے....ایسا کچھ نہیں ہے ....تم تو بہت پیارے ہو....میرے آنکھوں کے تارے ھو تم ....تم نے بڑے ھوتے ہی اپنی ساری ذمہداری بڑی اچھی طرح سمبھال لی ہیں....مجھے تو ویسے بھی یه پارلر ٖ شاپنگ اور پارٹیوں وغیره میں جانا پسند ھے ہی نہیں شروع سے...تم فکر مت کرو....تم بس محنت کرتے رھو....خدا محنت کرنے والوں کے ساتھ ھے....پھر میری دعاٶں کے حصار میں رہتے ہو تم پورے دن....ایک دن سب ٹھیک ھوجاےؔ گا....دیکھ لے ناں تم“فرح بیگم نے راحیل کے ماتھے پر بوسہ لیتے ھوےؔ اسے یقین دھانی کرائی تھی ایک روشن مستقبل کی....
”یه سب اُس شخص کی وجہ سے ہوا ہے....اچھا ھوا ...وه پولیس مقابلے میں مارا گیا ...ورنه اُس کا خون میں خود اپنے ان دو ہاتھوں سے کرتا“ راحیل اپنے ہاتھوں کو دیکھ غصے سے سرخ ھورھا تھا ...اُس کے تصور میں اس کا باپ گھوم رھا تھا....جس سے اُس کی نفرت دن بہ دن بڑھ رہی تھی....
”ایسا نہیں بولتے بیٹا....وه جیسا بھی تھا تمھارا باپ تھا“ انھوں نے راحیل کو ادب کا درس دیا تھا....
”نہیں ھے وه میرا باپ....وه صرف ایک چور اور ایک دھوکےباز آدمی تھا....بس ....اس سے زیاده اس سے میرا کوئی تعلق نہیں... اوروں کے باپ تو اپنے بچے کو نام دیتے ہیں انہیں اچھے اسکول میں پڑھاتے ھیں....اسے اچھے اور برے کی تمیز سیکھاتے ہیں....جب بچہ چھوٹا ھوتا ھے تو اسے کھلونے لاکردیتے ہیں...اس کی اچھی پرورش کرتے ھیں ٖ تعلیم و تربیت پر اپنا سب کچھ صَرف کر ڈالتے ھیں پر اُس شخص نے کیا کِیا.....مجھے ایک چور کے بیٹے کا خطاب دے دیا....اسکول جانے سے خوف آتا تھا مجھے کیونکے وھاں سارے بچے مجھے چور کا بیٹا....چور کا بیٹا کہ کر چڑاتے تھے....کسی رشتےدار کے گھر جاتا تھا تو ایک عجیب حقارت پاتا تھا....لوگ مجھ سے کھینچے کھینچے رھتے تھے بلکے ابھی تک رھتے ھیں....کدورت رکھتے ھیں لوگ اپنے دل میں میرے لیےؔ.....
جب تک اپنے گھر میں ہوتا ہوں ایسا لگتا ھے ایک خوبصورت حصار میں ہوں...جہاں سب مجھ سے پیار کرتے ھیں ...میری عزت کرتے ہیں....میری پرواه کرتے ہیں پر جیسے ہی گھر سے باھر قدم نیکالتا ہوں حقیقت کی دنیا میں....تو لوگ میرا دل زخمی کر ڈالتے ہیں اپنے طعنوں سے....جس کی وجه سے آج میں ۔۔۔۔اسماء اور آپ اس حالت میں ھیں آپ کہتی ہیں کے اس کو اپنا باپ کہوں ....اس کی عزت کروں“راحیل یه کہتے ھوےؔ اٹھ کھڑا ھوتا ھے....وه اپنی ماں کے سامنے رونا نہیں چاھتا اس لیےؔ وہاں سے چلا جاتا ھے....
”بھت کچھ سہا ھے میرے بچے نے یاخدا....اتنی سی عمر میں ہی اپنے دل پر بڑے بڑے زخم لیےؔ بیٹھا ھے...اب تو اس کے زخموں پر مرھم پٹی کردے....اسے سکون دے میرے مالک....اس کو وٖه عزت و احترام عطا کردے جس کے وه قابل ھے“فرحا بیگم ہاتھ اٹھاکر خدا سے دعا کرنے لگتی ھیں....ان کا دامن آنسوں کے موتیوں سے بھر جاتا ھے....
راحیل ٹیرس پر جاکر اکیلے کھڑا ھوجاتا ھے....آنسوں اس کی آنکھوں سے ابھی بھی روا ھوتے ھیں....پورے گھر میں شورشرابا ہورہا ہے.....سب شادی کی تیاریوں میں مگن ھیں....اور وہ سب سے الگ تھلگ ٹیرس پر کھڑا اپنے آنسوں صاف کر رہا ہے... ”کچھ زخموں پر مرھم وقت بھی نھیں لگا پاتا“وه خود ہی کی بات پر مسکراء دیا تھا...
”اوھم....اوھم“ کسی نے پیچھے سے کھنکارا تھا ....اپنے آنسوں کو صاف کرتے پلٹا تو ثانیه کو اپنے پیچھے دیکھ وہاں سے جانے لگا....
”کزن نه صحیح....دوست ہی سمجھ لیجیےؔ...اتنی بری بھی نہیں ہوں میں....جتنا آپ گمان لگاےؔ بیٹھے ھیں....“ثانیه نے اسے جاتا دیکھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا
”مجھے دوست کی ضرورت نہیں“وه بےرخی سے کہ کر چل دیا....
”مجھے تو ھے“ ثانیه نے مڑ کر راحیل کو جاتا ھوا دیکھ بڑے پیار سے کہا....راحیل کے قدم ثانیه کی آنکھوں کی کشش سے وہیں تھم گےؔ تھے....وه چلتے ھوےؔ اُس کے آگے آکر”فرینڈز ؟؟ “ اُس نے اپنا ہاتھ راحیل کے آگے بڑھاتے ھوےؔ بولا تھا....پہلے تو راحیل سوچنے لگا....اس نے کبھی کسی کو دوست نہیں بنایا تھا ....یه اس کے لیےؔ بڑا فیصله تھا....پر ثانیه کی آنکھوں کی صداقت نے اسے مجبور کردیا تھا اپنا ہاتھ بڑھانے کے لیےؔ”فرینڈز " اس نے بھی کہ دیا تو ثانیه کی آنکھیں جھلملانے لگی تھیں.....خوشی اس کی آنکھوں سے جھلک رھی تھی....اس نے مضبوطی سے راحیل کے ہاتھ کو تھام لیا....
”ارے تم دونوں یہاں کیا کر رھے ھو.....چلو نیچے لان میں چلو.....سب انتظار کر رھے ھیں تم دونوں کا....“ کامران نے آتے ھی جلدبازی مچادی تھی....دونوں اس کے ساتھ ھی لان کی طرف چل دیےؔ....لان میں راحیل پھنچا تو جیسے عید کا سماں تھا....جنید اور جمشید ایک پلر سے دوسرے پلر تک ریس لگا رھے تھے....
سعدیه ٖ ماهنور ٖ اسماء .....شاهزیه آپا کو ڈانس کے اسٹیپ سیکھا رھی تھیں....پیچھے زور دار بیگ گرٶانڈ میوزک چل رھا تھا......ریشم ٖ صباءٖ دادو ٖ بڑی امی بیٹھے کپڑے ڈیسائٹ کر رھے تھے کے کون سے بَری میں رکھیں جائيں اور کون سے رومیساء آپا کے جھیز میں....
”ارے لڑکیوں .....خیال کرو کچھ ہمارا ....جاٶ کھیں اور جاکے اپنے ڈانس کی پرکٹس کرلو“میوزک کی زوردار آواز کی وجه سے بڑی پھوپھو اپنا سر پکڑے بےزار ھوکر بول رھی تھیں....
”ہاں لڑکیوں ....کہیں اور چلی جاٶ“دادو نے بھی ان کی بات کی تائيد کردی تھی....
”اچھا چلو....اوپر والے فلور پر چلتے ھیں“اسماء نے کہا تو راحیل نے فورا منع کردیا یه کہ کر کے امی ھسپتال سے آکر ابھی آرام کر رہی ھیں....ان کی نیند خراب ھوگیؔ اِس میوزک کے شور سے...." تم لوگ چھت پر چلے جاٶ".....
”ہاں یه اچھا آئيڈیا ھے....چلو چھت پر چلتے ھیں....وھاں بڑی پھوپھو بھی نہیں ہوگی ٹوکم ٹاکی کرنے کے لیےؔ“ ماهنور نے راحیل کی راےؔ سے اتفاق کیا تھا
تھوڑی دیر بعد شاهنزیب اور شھزاد بھی چھت پر آگے....وه مارکیٹ گےؔ ھوےؔ تھے...
”یه دیکھو راحیل اچھی ہے ناں گھڑی میں سب کے لیےؔ ایک جیسی لایا ھوں “ شھزاد نے راحیل کو دیکھاتے ہوےؔ کہا....
”واقعی بڑی اچھی ھے...پر مہنگی ھوگی ...میں“ ابھی راحیل آگے کچھ بولتا اس سے پہلے کامران نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا....”اف میرے بھائی....فکر نه کر پیسے کی....میں نے شھزاد سے کہ دیا تھا کے راحیل کی گھڑی میری طرف سے تحفه ھوگی....عید کا تحفه اس بار کہاں دیا تھا میں نے تجھے تو سوچا اب دے دیتا ھوں“ کامران نے کہا تو راحیل کے چھرے پر اطمینانی چھاگیؔ....”اتنی دیر سے تم دونوں گےؔ ھوےؔ ھو اور لاےؔ صرف گھڑی ھو....واه یار...“ کامران نے استھزائيه ہسی ہستے ہوےؔ کہا...
”بیٹا جانی زبان چلانا بھت آسان ھے....مارکیٹ جاٶ تو پتا چلے“ شھزاد نے کامران کی بات کا جواب دیا تھا ....علی بھئيا گھر میں داخل ھوےؔ تو حیران تھے یه دیکھ کر کے پورا گھر خالی ھے....انھوں نے دادو کے کمرے کا رخ کیا....وه بغیر دروازه نوک کیےؔ گلا کنھکارتے ھوےؔ اندر آگےؔ تھے....وھاں صباء بیٹھی بیڈ پر جنید جمشید کو تھپک تھپک کر سولا رھی تھی...
”سب کہاں ھیں؟؟“ علی نے ھلکی آواز میں صباء سے مخاطب ھوکر پوچھا تھا....
”وه سب اوپر چھت پر ھیں“صباء کچھ بولے اس سے پہلے ھی جنید نے اٹھ کر علی کی بات کا جواب دے دیا تھا...
”جنید بیٹا آپ ابھی تک سوےؔ نھیں؟؟؟“ صباه نے اپنا ہاتھ اپنے ماتھے پر مارتے ھوےؔ ھلکی آواز میں کہا تھا وه نھیں چاھتی تھی کے اس کی آواز سے جمشید بھی اٹھ جاےؔ
”نھیں مجھے نیند نھیں آرھی“ جنید نے نفی میں گردن ھلاتے ھوےؔ کہا تھا ”اگر نیند نہیں آرھی جنید کو تو پھر زبردستی کیوں سولا رھی ھو؟؟“ علی کی آنکھوں میں اعتراض تھا....
”آپا کہ کر گیںؔ ھیں“ صباء نے جمشید کو تھپکتے ھوےؔ دبی آواز میں کہا....
”جب اسے نیند آ ہی نہیں رھی تو کیا زبردستی سولاٶ گی؟؟؟....ویسے بھی شادی کا گھر ھے اور گھر کی رونق تو یه دونوں ھیں...جاٶ جنید آپ بھی چھت پر جاکر سب کے ساتھ انجواےؔ کرو“ علی نے جنید کے چھرے کو سھلاتے ھوےؔ بولا تو وه خوشی کے مارے اُچھل پڑا....
”میں بھی جاٶں“ جمشید بھی یه کھتا اٹھ بیٹھا تھا....
”آپ بھی ابھی تک جاگ رھے ھو“ صباء نے حیرانی سے جمشید کو تکتے ھوےؔ پوچھا....
”ہاں جاٶ“ علی کی اجازت پر دونوں خوشی خوشی وھاں سے چلے گےؔ....علی بھئيا جانے لگے تو صباء کا خیال آیا...مڑ کر اس سے آبرٶ اچکا کر کھنے لگے:”تم نھیں چل رھیں اوپر؟؟“علی کے سوال پر پہلے تو صباء خاموش رھی....
”سب مزاق اڑاتے ھیں ھمارا ...اس لیےؔ میں نہیں جارھی اوپر “ صباء نے نیچھے نظریں کرےؔ کہا...
”یاالله....تم دونوں منگیتر بعد میں ھو پہلے کزن ھو...سمجھی....“پھر دل میں ”سب کے مزاق اڑانے کے ڈر سے اُس بیچارے کو سزا نه دو....مجھے یقین ھے سیڑھیوں پر ھی ٹیک لگاےؔ کھڑا ھوگا ....تمھارا انتظار کرتے ھوےؔ....میرا بیچارا بھائی بھت شرمیلا ھے ....اِس لیےؔ تم سے کچھ کھ نہیں پاتا...بس چوری چوری تمھیں دیکھتا ھے...میں نھیں چاھتا اس بیچارے سے یه حق بھی چھینا جاےؔ“پھر مسکراء کر :”چلو اوپر میرے ساتھ“ علی اسے کہ کر ابھی دو قدم ھی چلا کے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وه ابھی بھی بیڈ پر بیٹھی سوچوں میں گم تھی....
”چلو صباء“ علی کے پھر آواز لگانے پر وه بیڈ سے اتر کر چپل پھن کر ان کے پیچھے پیچھے چھت پر چل دی....اس کے دل میں ھلچل مچی تھی ...اُس دن کے واقعے کے بعد سے اس نے ایک بار بھی شھزاد کو نہیں دیکھا تھا....اور جتنا ممکن تھا اُس کی نظروں سے دور رھ رھی تھی....
علی چھت کے اوپر پھنچا تو وه دیوانا واقعی سیڑھیوں سے ٹیک لگاےؔ نیچے دیکھ رھا تھا...علی کو دیکھتے ھی سیدھا کھڑا ھوکر سیڑھیوں کی طرف سے منه پھیر لیا...
”یہاں کیا کر رھے ہو؟؟“ علی نے شھزاد سے انجان لہجے میں سوال کیا
”وه...وه .........میں “ اس سے جواب ھی نہیں بن پارھا تھا ...علی یه دیکھ مسکراء دیا اور اس کے کان میں سرگوشی کی:”ڈرو مت ....جس کا تم انتظار کر رھے ھو اسے ساتھ لایا ھوں“ یه کھتے ھوےؔ وه وھاں سے چلے گےؔ....
صباء چھت پر پھنچی تو اسے اپنا منتظر دیکھ حیاء کے زیور سے اپنی آنکھوں کو سجالیا.....شھزاد اسے دیکھ مسکرانے لگا.....صباء بھت امبیرس تھی یه جانتے ھوےؔ بھی اپنا ہاتھ اس کی راه میں آڑا کر کھڑا ھوگیا....صباء اپنے چھرے پر اسکی نظروں کی تپش محسوس کر کے نروس ھوگیؔ تھی....
”اُس دن کے لیےؔ آپ خود کو قصوروار مت ٹھرائيں....غلطی میری تھی ....آپ کی نہیں....مجھے معاف کردیں....آئينده ایسی گستاخی نہیں ھوگی...“ شھزاد نے بڑے پیار و اطمینان سے اسے دیکھتے ھوےؔ معافی طلب کی تھی....
”ارے دیکھو دیکھو....وہاں کیا چل رہا ھے“ سعدیه نے ماهنور ٖ اسماء ٖ رومیسا آپا ٖ ریشم سب کی توجه شھزاد اور صباء کی جانب مبذول کی تھی....صباء نے شھزاد کی بات سنے کے بعد اپنی نظریں ھلکی سی اٹھائيں ....یه بتانے کے لیےؔ کے وه اسے معاف کرچکی ھے....شھزاد نے اُس کی آنکھوں کو پڑھ لیا تھا....وه لمحه نھایت حسین تھا ....دو دل بن کہے باتیں کر رھے تھے...شھزاد نے اپنا ہاتھ نیچے کیا ھی تھا کے سب نے ”اُو....اُو....اُو“ کی صدائيں لگانا شروع کئیں...صباء مزید جھیپ گیؔ....شاهزیه آپا چلتی ھوئی اُن دونوں کی جانب آئيں تو صباء ان کے گلے لگ گیؔ....
”شھزاد میں تو تمھیں بڑا شریف سمجھتی تھی...تم تو بڑے ھی شریر نیکلے“آپا نے اسے چھیڑا تو وه نظریں نیچے کر کے مسکرانے لگا....اُس کا سرخ چھره مزید سرخ ھوگیا تھا....
سعدیه ثانیه سے مخاطب ھوکر پوچھنے لگی کے اسے ڈانس آتا ھے...ثانیه جب سے آئی تھی اس نے ایسا کوئی عمل نه کیا تھا جس سے وه سب سے منفرد نظر آےؔ....نه اُس کے کپڑوں یا بول چال کو دیکھ کر کوئی اندازه لگا سکتا تھا کے وه پاکستان کی رہنے والی نہیں ھے....ثانیه نے اثبات میں سر ھلایا تو سب کا یہی گمان تھا کے جیسے سب کو ھلکا پھلکا ڈانس آتا ھے ویسے ھی اسے آتا ھوگا....
”اگر آتا ھے تو کچھ کر کے بھی تو دیکھائيں ....آپ تو جب سے آئيں ھیں ...آپ نے اس متعلق نه کوئی بات کی نه ھی انٹرس شوکیا ھے“ اسماء بیچ میں مداخلت کرتے ھوےؔ کہا....
”کبھی موقع ھی نہیں ملا اس بارے میں بات کرنے کا“ثانیه نے کندھے اچکاتے ھوےؔ کہا...
”اب موقع بھی ھے اور محفل بھی ....چلیں اب کر کے دیکھائيں“ ماهنور نے خوش ھوتے ھوےؔ ثانیه کو دیکھ کر کہا....
”ہاں میں تو کرلو گی...پر مجھے ایک پارٹنر کی ضرورت ھے“ ثانیه نے سارے لڑکوں کی طرف نظر ڈالتے ھوےؔ کہا...
”راحیل تم آجاٶ“ سب ابھی سوچ ہی رھے تھے کے اس کا ڈانس پارٹنر کس کو بنائيں کے ثانیه نے راحیل کو خود بلایا...
”میں؟؟؟“وه کنفیوس ھوکر اس سے دوبارا پوچھنے لگا....
”ہاں“ اس نے بھی ہاں کہ کر گردن ھلادی ....
”پر مجھے ڈانس واس کرنا نہیں آتا...سوری“ راحیل یٖه کہ کر جان چھڑالیتا پر وه مانی ھی نھیں....
”تمھیں کچھ نھیں کرنا ھوگا....بس کھڑے رھنا بیچ میں“ اس نے راحیل سے اصرار کیا تو سب بھی راحیل پر زور ڈالنے لگے....وه نه چاھتے ھوےؔ بھی آکر اس کی بتائی ھوئی جگه پر کھڑا ھوگیا ہاتھ باندھ کر.....
”تم ہاتھ کیوں باندھ رہے ھو ...ہاتھ ڈھیلے چھوڑو“ثانیه نے اس کے ہاتھ سیدھے کروا کر...”میوزک اُون کرٶ“ کہا...تو سعدیه پوچھ بیٹھی:”کون سه گانا؟؟؟“ اس کے جواب میں ثانیه نے کھلی چھوٹ دی کے جو چاھے گانا لگادو.....
ثانیه سفید رنگ کی فراک اور سفید ھی رنگ کی اس پر کوٹی پہنی ھوتی ھے پیلے رنگ کا چوڑی دار پاجامه اور پیلے ھی رنگ کا دوپٹه جسے وه شانوں سے ڈال کر کمر تک مضبوطی سے باندھ لیتی ھے....بال آدھے کیچر ھوےؔ اور باقی پوری کمر پر پھیلے ھوےؔ....کانوں میں سفید رنگ کے بالے...وه تو سادگی میں بھی حسن ٹپکارھی تھی....ثانیه کے اسٹارٹ کا اشاره ملتے ھی سعدیه گانا اُون کردیتی ھے....
ٹوں ٹوں ٹوں ٹوں........
ھے ھے اُو اُو.........
من واه لاگے او من واه لاگے...........
لاگے رے ساورے لاگے رے ساورے.........
لے تیرا ھوا کاجیاں کاجیاں یه گاورے.......
من واه لاگے او من واه لاگے.............
لاگے رے ساورے لاگے رے ساورے.........
لے کھیلا میں نے جیا کا جیا کا جیا کا ھے داٶ رے.....
مسافر ھوں میں دور کا....
دیوانا ھوں میں دھوپ کا....
مجھے نه باھے نه باھے نه باھے چھاٶ رے.......
من واه لاگے... من واه لاگے............
لاگے رے ساورے لاگے رے ساورے
لے تیرا ھوا جیا کا جیا کا جیاکا یه باورے....
گانا چلتے ہی پورے ماحول پر خاموشی طاری ھوجاتی ھے....صرف گانے اور ثانیه کے پاٶں میں پھنی پازیب کی آواز ھر طرف گونجتی ھے....گانا شروع ھوتے ہی وه جنگل میں مور کی طرح ناچنے لگتی ھے....ناچتے ھوےؔ اس پر حسن کی جیسے بارش ہورھی ہو ....کوئی اُس پر سے ایک لمحه کے لیےؔ بھی نگاه نھیں ھٹا پاتا.....سب تو دور بیٹھے دیوانوں کی طرح دیکھ رھے تھے پر راحیل جس کے ارگرد وه مور کی طرح ناچ رھی ھے ....اُس کی تو جیسے سانسیں ہی تھم جاتی ھیں اسے ناچتا ھوا دیکھ کر.....اِس سے پہلے اُس نے کبھی کسی کو اتنا خوبصورت ناچتے ھوےؔ نہیں دیکھا تھا....اس کے قدموں کے رقص میں اسے ہر چیز جھومتی محسوس ھورھی تھی.....دوپٹے سے بے نیاز اپنی دھن میں مگن....وه یک ٹک اسے دیکھتا چلا گیا ....اس کے اندر جذبوں کا الاٶ سه دھکنے لگا تھا.....مانو آج آسمان کا چاند زمین پر اتر آیا ھو....وه سر سے پاٶں تک ایک قیامت لگ رھی تھی....
ایسی ویسی بولی تیرے نینوں نے بولی
جانے کیوں میں ڈولی...ایسے لگے تیری ھولی میں...
تو میرا....ھوں.....ھوں....
تو نے باتیں کھولیں ....کچے دھاگوں میں پرولیں....
باتوں کی رنگولی سے نه کھیلو ایسے ھولی میں....
نه تیرا....او....کسی کا تو ھوگا ھی تو.....
کیوں ناں تجھے میں ھی جیتوں.....
کھلے خوابوں میں جیتے ھیں جیتے ھیں باورے....
ثانیه ناچتی ھوئی اس کے سینے سے آلگتی ھے...دونوں کی آنکھیں ملتی ھیں....راحیل پہلی بار ثانیه کی سبز آنکھیں دیکھتا ھے....اس کی نشیلی آنکھیں اسے اجازت ھی نہیں دیتیں اپنے سے ھٹنے کی.....وه اتنا تیز گھومی ھوتی ھے کے اس کا کیچر کب بالوں سے نیکل کر زمین پر گر جاتا ھے اسے خبر ھی نہیں ھوتی....اور ساری زلفیں اس کے چھرے پر بکھر آتی ھیں...
”کسی کا تو ھوگا ھی تو.....کیوں ناں تجھے میں ہی جیتوں“ اِس لائن پر راحیل کے کندھوں میں اپنی باھیں ڈال کر اتنے پیار سے اسے دیکھتی ھے کے جیسے واقعی یه لائن اس کے دل کی ترجمانی ھو......
گانا بند ھوتے ھی سب خوب تالیاں بجانے لگتے ھیں....ثانیه راحیل کے کندھوں سے ہاتھ ھٹاکر تھوڑا سه جھک کر سب کی داد وصول کرتی ھے....ماهنور ٖ اسماء ٖ ریشم ٖ رومیسا ٖ شاهزیه سب آکر اس کے ارگرد ھجوم بناکر کھڑے ھوجاتے ھیں اور خوب تعریفیں کرنے لگتے ھیں...راحیل وھاں اکیلا کھڑا ھوتا ھے ...جب اس کی نظر ثانیه کے گرےؔ ھوےؔ کیچر پر پڑتی ھے....وه اسے اٹھاکر اپنی جیب میں ڈال لیتا ھے
....
انڈے سے ایلرجی ھونے کے باوجود ماهنور جنید اور جمشید کے ساتھ بیٹھ کر بسکٹ کھا رھی تھی...کے پیچھے سے رومیسا آپا نے اسے بسکٹ کھاتا ھوا پکڑ لیا....انھوں نے اسے خوب ڈانٹا....آپا نے محفل کا لحاظ بھی نھیں رکھا تھا...اس وجه سے ماهنور کا منه اتر گیا تھا....آپا اور باقی سب جانتے تھے کے اگر وه انڈا یا انڈے سے بنی کوئی چیز زیاده مقدار میں کھالے تو اس کی طبعیت خراب ھوجاتی ھے....
”مانو“ شاهنزیب نے مانور کو مخاطب کرنے کے لیےؔ اس کا نام لیا ...
”کیا؟؟؟“ ماهنور پیچھے مڑ کر آبرٶ اچکاےؔ پوچھ رھی تھی....
”اگر رات میں طبعیت ذرا سی بھی خراب محسوس ھو تو مجھے فون کردینا“ شاهنزیب نے فکر مند ھوکر اس سے کہا پر وه سمجھی کے وه جلے پر نمک چھیڑک رھا ھے....
”انسان کا اگر منه اچھا نه ھو تو بات ھی اچھی کرلیتا ھے“ اُس نے منه بسور کر شاهنزیب کو دیکھ کر کہا....
”پر....“شاهنزیب بول ہی رہا تھا کے وه منه چڑا کر اس کے منه پر ھی دروازه بند کردیتی ھے....شاهنزیب سمجھ نہیں پایا کے وه اس کی ھمدردی اور فکر کرنے سے چڑھ کیوں رہی ہے...کندھے اچکاکر نہ سمجھی میں وه بھی اپنے کمرے میں چلا جاتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔
وه سرد کپکپاتی ٹھٹھرتی صبح میں مسجدوں میں فجر کی آذانوں کی آواز کے ساتھ اٹھنا اسے ہمیشہ بےحد مشکل لگتا تھا....پر آج بات کچھ اور تھی...موبائل ہاتھ میں لیےؔ رکھا ....خبر ہی نه ھوئی نیند نے کب اپنی آغوش میں لے لیا تھا....اٹھتے ہی سب سے پہلے موبائل پر نظر ڈالی کے کھیں ماهنور کی کال تو نہیں آئی....اپنے موبائل پر کوئی کال نه پاکر اس نے سکون کا سانس لیا....منه پر ہاتھ مسلا....نیند کے اثار اب بھی چھرے پر نمایا تھے....وضو کر کے ماهنور کے کمرے کے سامنے سے گزر کر مسجد چلا گیا....نماز میں خیال آیا کے کہیں اس نے اپنی ناراضگی کی وجه سے کال نه کی ھو تو.....یه خیال آنا تھا کے دل بےچین ھوگیا...نماز پڑھ کر تیزی سے قدم بڑھاتا گھر چلا آیا....
ماهنور کے کمرے کے باہر آکر رک گیا ذھن میں ایک اور بات گھوم رہی تھی کے اگر وه ٹھیک ھوئی تو اس طرح صبح ہی صبح جگا دینے پر مزید ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا....
پر ماهنور کی ناراضگی اسے منظور تھی اک بار اسے دیکھ کر اطمینان کر لینا چاھتا تھا کے وه ٹھیک ہے....دروازه نوک کیا دو تین بار......جب کوئی جواب نه ملا تو خود ہی دروازه کھول کر اندر داخل ھوگیا....
کمرے میں داخل ھوتے ہی اُس کی چیخ نیکلی:”مانو“ ماهنور بیڈ پر بن پانی کی مچھلی کی طرح پیٹ پکڑے بری طرح تڑپ رہی تھی....”تم سے کہا تھا ناں کے ذرا سی بھی طبعیت خراب محسوس ہو تو کال کرلینا....پھر کیوں نہیں کی؟؟؟؟“شاهزیب نے ماهنور کو بستر سے ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوےؔ پریشان ہوکر کہا تھا.....
اس کے اجڑے ہوےؔ بال۔۔۔۔ ذرد چھره۔۔۔ آنکھوں میں موٹے موٹے آنسوں ۔۔۔اس کی تکلیف کا پتا دے رھے تھے...جنھیں دیکھ کر شاهنزیب ماهنور سے بھی زیاده تڑپ اٹھا تھا....
”چلو ڈاکڑ کے چلو“ شاهنزیب نے اسے سیدھا کھڑا کرتے ھوےؔ بولا تو وه منع کرنے لگی....”مانو بچی نه بنو....چلو چپل پہنو “ ماهنور نے اس کے سخت لہجے کی وجه سے چپل تو پھن لی تھی پر اب بھی ڈاکڑ کے جانے کے لیےؔ اماده نہیں ہورہی تھی...”دوپٹا کہاں ہے تمہارا ....جلدی بتاٶ“شاهنزیب نے اِدھر اُدھر نظر دوڑاتے ہوےؔ پوچھا تو ماهنور اس قدر تکلیف میں تھی کے جواب نه دے سکی....اسے خود ہی بیڈ کے دوسرے سائٹ زمین پر پڑا ھوا نظر آگیا وه تیزی سے دوپٹا لے کر آیا اور ماهنور کے شانوں پر ڈال کر اس کی ایک نه سنتے ھوےؔ اسے کار میں زبردستی بیٹھا کر ڈاکڑ کے پھنچ گیا....
فیملی ڈاکڑ نه موجود ھونے کے سبب جو ڈاکڑنی موجود تھیں اُن سے ہی ماهنور کا چیک۔اپ کرایا....
ڈاکڑنی نے بتایا کے :”انڈا کھانے کے سبب ماهنور کے کلیجے میں درد ہورھا تھا...ہم نے دوائی دے دی ہے جس سے ان کو تھوڑا آرام ملے گا....باقی دوائی وقت پر دینے سے آپ کی وائف بہتر محسوس کریں گی“ڈاکڑنی نے شاهنزیب سے کہا تو اس کے چھرے پر جو پریشانی جھلک رہی تھی اب اطمینان و سکون میں بدلی تھی
”شکریه ڈاکڑ“ ابھی وه کہ کر خاموش ہی ہوا تھا کے نرس نے آکر شکایت کی ماهنور انجکشن نہیں لگوا رہی ہے....شاهنزیب اٹھ کر جاتا ھے اور پرده کھسکا کر ماهنور کو دیکھنے لگا جو آرام سے لیٹی تھی....
”انجکیشن کیوں نہیں لگوا رھی؟؟؟؟“ شاهنزیب کے سوال پر اس نے آنکھیں کھولیں...اور شاهنزیب کو دیکھ برے برے منه بنانا شروع کردیےؔ.....وه اسی جانب چلتا ھوا آیا تو وه اٹھ کر بیٹھ گیؔ.....شاهنزیب اسی سے لگ کر بیٹھ گیا تھا بیڈ پر ....”تمھیں انجکیشن تو لگوانا پڑے گا ورنه“ شاهنزیب نے اپنی بات دھمکی امیز لہجے میں کہ کر ادھوری چھوڑ دی تھی....
”ورنه کیا؟؟؟......کیا کرلو گے تم“ ماهنور کی ناراضگی ابھی بھی برقرار تھی....جبکے شاهنزیب اس بات سے ناواقف تھا کے آخر وه ناراض ھے کیوں....ماهنور نے ڈاکڑنی اور نرس کے سامنے ہی شاهنزیب پر چڑھائی کرڈالی تھی....
”ورنه میں آپا کو فون کر کے سب بتادوں گا“اس نے بڑے پیار سے ماهنور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال اسے بلیک۔میل کردیا تھا اسے پتا تھا ماهنور پر اِس کا اثر ضرور ہوگا....
”اچھا“ ماهنور کی آواز اس بار بھت مدھم سی نیکلی تھی اس پر شاهنزیب مسکراء دیا.....
”پر مجھے ڈر لگتا ھے...کتنی تکلیف ہوتی ھے انجکیشن سے“ ماهنور نے نه لگوانے کا جواز پیش کیا تھا...
”ذرا سی بھی تکلیف نہیں ہوگی ....تم میرا ہاتھ تھام لینا“ اس نے اتنے پیار اور جذبوں کی سچائی سے اس سے کہا کے وه راضی ھوگیؔ.....
”لگا دیں“ اس نے خود ہی اجازت دے کر انجکیشن کی لمبی سی سوئيں کو دیکھ کر ڈر کے مارے شاهنزیب کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا تھا....اور آنکھیں زور سے بند کرلی تھیں....شاهنزیب کے اشارے پر نرس نے آکر انجکیشن لگا دیا....اس کے چھرے پر ماهنور کا بھولاپن دیکھ مسکراھٹ بکھر آئی تھی....
*خواھش اٹھی تھی کے وه ہمیشہ ایسے ہی اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے بیٹھی رہے اور وه اسے یوں ہی دیوانوں کی طرح دیکھتا رہے*
”بس ھوگیا“ نرس کی آواز پر ماهنور نے حیرت سے آنکھیں کھول کر روئی کو پکڑا تھا....
”انجکشن لگ گیا؟؟؟“ اس کی آواز میں ہی حیرت نمایا تھی....
”جی“ نرس نے کہ کر ماهنور کے سامنے ھی انجکشن کو ڈسبین میں ڈالا تھا....
”مجھے تو اتنی سی بھی تکلیف نہیں ھوئی“اس کے لبوں پر مسکراہٹ تھی کہتے ہوےؔ.....
”میں نے تو کہا تھا....ذرا بھی تکلیف نہیں ھوگی“
ماهنور اس پر شاهنزیب سے اپنے خفگی والے تعلقات کو بھول گیؔ تھی...”ہاں یه تو ہے....جب تم ساتھ ہوتے ہو دل کو ایک عجیب سه سکون و اطمینان رہتا ہے....کے ھے کوئی جو میری پرواه مجھ سے زیاده کرتا ھے...تم مجھے کبھی کسی تکلیف میں اکیلا مت چھوڑنا“ماهنور نے مسکراتے ھوےؔ کہا....
”پکا ....کبھی نہیں چھوڑوں گا“ شاهنزیب نے یه کہ کر اپنا ماتھا اس کی روشن پیشانی سے ٹکرا کر وعده کرلیا....
کار کے اندر سکون سے بیٹھے ھوےؔ ماهنور کو ایک بات یاد آئی ”تم نے اس ڈاکڑ کو بتایا کیوں نہیں کے میں تمھاری وائف نہیں بڑی بھن ہوں“ ماهنور نے آبرٶ اچکاکر الجھی نگاه سے دیکھتے ھوےؔ شاهنزیب سے سوال کیا....
”اس وقت دماغ ہی کام نہیں کیا تھا ....تمھاری طبعیت دیکھ کر نروس ھوگیا تھا“ اس نے ماهنور کے مزید سوالات سے بچنے کے لیےؔ ایسا کہ کر جان چھڑانی چاھی......
”تم جھوٹ بول رہے ہو.....پاگل سمجھتے ھوکیا مجھے؟؟؟؟.....بھت اچھی طرح جانتی ھوں تمھیں میں....میری اتنی طبعیت خراب ھونے کے باوجود تمھاری حیاء نے یه گوارا نه کیا کے مجھے بغیر دوپٹے کے لے آٶ......سچ بتاٶ کیا چل رہا ہے تمھارے اس خرافاتی دماغ میں؟؟؟“ ماهنور نے گھری بولتیں نظریں اس پر ڈال کر آبرٶ اچکاتے ہوےؔ پوچھا.....تو وه خاموش ھوگیا....باربار اصرار کرنے کے بعد بھی جب اس نے کوئی جواب نه دیا تو ماهنور منه پھولا کر بیٹھ گیؔ......
تھوڑی دیر میں کار کی خاموشی سے اسے بےزاری محسوس ھونے لگی....وه یه بھی جانتی تھی کے شاهنزیب صرف ناراض ھونا جانتا ھے ماننا نہیں....اِس لیےؔ اپنی ناک نیچے کر کے خود ہی دوبارا بات کرنا شروع کردی....”شاهزیه آپا کتنا بدل گیںؔ ہیں ناں......مجھے تو انھیں دیکھ کر یقین ھی نہیں آرھا تھا کے وه وہی شاهزیه آپا ہیں جنہیں میں جانتی تھی......اُن کا وه غروری مزاج ٖ وه نخریلا انداز وه بات بات پر چڑھ جانا....جیسے سب بدل گیا ھو....اب وه مجھ سے اتنے پیار سے بات کر رہی ہیں کے مارے حیرت کے میں تو مر ہی جاٶں“ ماهنور نے اپنے جذبات اس سے شیئر کرے....
”کہ تو تم ٹھیک رہی ہو....وه واقعی کافی بدل گیںؔ ہیں.....شادی کی بھاگ دوڑ میں میرا دیھان اس طرف گیا ہی نہیں....ہوسکتا ہے اتنے سالوں بعد گھر واپس آئيں ہیں .....اپنوں سے ملی ہیں....اس لیےؔ اپنوں کی قدر دل میں پیدا ہوگیؔ ہو“ شاهنزیب نے اپنی راےؔ دیتے ہوےؔ اپنی گاڑی سگنل پر روکی تھی....
”ایک سوال پوچھوں؟؟؟“ ماہنور نے ڈرتے ڈرتے اس سے مخاطب ہوکر سوال پوچھنے کی اجازت طلب کی تھی.....
”ہاں پوچھو“ اس نے سیگنل کی بتی ہری ہوتے دیکھ کار کو آگے بڑھاتے ھوےؔ ماهنور کو دیکھ کر کہا....
”وه.....وه“ ماهنور ہچکچارہی تھی .....”تم نے سعدیه سے یه کیوں کہا کے تم اسے اپنی منگیتر نہیں مانتے....کتنا رورہی تھی وه.....کچھ خبر ہے تمھیں....تم کتنے سنگدل ھو اُس لمحے محسوس ھوا مجھے جب وه تمھاری محبت میں پھوٹ پھوٹ کر رو رھی تھی.....مجھے لگتا ھے اگر تم اس سے ایک بار ٹھیک طرح بات کرلو.....کے تمھیں کیا پسند ھے اور کیا ناپسند ۔۔۔تو مجھے امید ہے کے وه اپنا لائف اسٹائل تمھاری خاطر ضرور چینج کرے گی.....
پر میں نے تو تمھیں کبھی اُس سے....بلکے اس سے کیا کسی سے بھی دل کھول کر بات کرتے نہیں دیکھا“وه شاهنزیب کو دیکھ کہ رہی تھی ....جس نے پوری بات سنے کے بعد صرف اتنا کہا کھا:”گھر آگیا ہے اترو“ شاهنزیب نے گندم کا جواب چنا دیا تھا ......جس کا مطلب صاف تھا کے وه اس بارے میں کوئی بات کرنا ہی نہیں چاھتا ....
”میں دیکھ رہی ہوں تم آھستہ آھستہ اپنا دامن سب سے چھڑا رہے ہو.....پہلے سعدیه ٖ پھر راحیل پاجی اور اب دادو.....آخر تم بتاتے کیوں نہیں چل کیا رھا ہے تمھارے دماغ میں؟؟؟......کیوں سب سے آھستہ آھستہ دور ھوتے جارھے ہو؟؟؟؟“ وه تو اس سے ھمدردی کر رہی تھی اسے احساس دلا رہی تھی کے اس کی یه بےرخی اُسے اُس کے اپنوں سے دور کر رہی ہے....
”ماهنور“ وه زور سے دھاڑا....اس کی آنکھیں ایک دم دھک اٹھی تھی....”تم میری جاسوسی کرنا بند کردو.....مجھے کس کے ساتھ کیسے تعلوقات رکھنے ہیں یه مجھے تم سے پوچھنے کی ضرورت نہیں.....خاص طور پر سعدیه اور میرے معاملے سے دور رہو“ اتنی زور سے چنگھاڑتے ہوےؔ کہا کے وه سہم کر کار سے اتر کر بھاگ گیؔ۔۔۔۔
******-------******
وائيٹ کاٹن کا کلف شده کرتا شلوار ٖ فریش شیو اور آرمی کٹ ھیراسٹائل چھ فٹ سے بھی نیکلتی ہوئی قامت اور غضب کی اسمارٹنس لیےؔ مضبوط سراپا.....جب وه سیڑھیوں سے اترا تو سب لڑکیوں کی نگاه کا مرکز بن گیا....کسی کو اجازت ہی نه تھی اس کے خوبصورت سے چھرے سے نظریں ہٹانے کی.....ثانیه کی آنکھوں میں تو اسے دیکھ کر جگنو جگمگاےؔ تھے....یه اس کی آنکھوں کی کشش ہی تھی کے وه سیڑھیوں سے اتر کر اس ہی سمت بڑھا تھا...
”آج تو کوئی بڑا اچھا لگ رہا ھے“ ثانیه نے اسے سر سے پاٶں تک دیکھنے کے بعد کہا تھا...
”کاش یه بات میں بھی آپ کے لیےؔ کہ پاتا“ راحیل نے اس کا سر سے پاٶں تک کا جائزه لیتے ھوےؔ ہلکا سہ مسکراتے کہا...
”کیوں میں اچھی نہیں لگ رھی؟؟؟“ ثانیه آئينے میں اچھی طرح اپنا جائزه لینے کے بعد جب گرین سیگنل ملا تو باھر نیکل کر آئی تھی...اور اُس کے حساب سے تو وه اچھی لگ رہی تھی...پر راحیل کے اس جملے پر وه اپنا پلو سیدھا کرتے ھوےؔ بولی....
”میں نے کب کہا کے آپ اچھی نہیں لگ رہی ہیں؟؟؟“اس نے ثانیه کو دیکھتے ہوےؔ مسکراء کر اس سے پوچھا تھا....وه انجان بنے کھڑی رہی....اسے سمجھ نہیں آیا تھا کے راحیل اس کی تعریف کر رھا ھے یا برائی....اس کے چھرے پر الجھاپن تھا....
”میرا مطلب تھا آپ تو ہمیشہ ہی اچھی لگتی ہیں ....صرف آج تھوڑی“ وه مسکراتا ھوا کہ کر آگے بڑھ گیا تھا....یه سن کر ثانیه کے دل میں لڈو پھوٹ رھے تھے...وه مڑ کر اسے لان کی سمت جاتا دیکھتی رہی۔
بڑے ابو پیچھے سے کب اس کے قریب آگےؔ اسے پتا ہی نه چلا....”راحیل“ انھوں نے جب کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو وه چونک کر مڑا...”آپ نے بلایا تھا؟؟“ راحیل نے بڑے احترام سے ہاتھ باندھ کر بڑے ابو سے پوچھا...
”ہاں بلایا تھا...آٶ بیٹھ کر اطمینان سے بات کرتے ہیں“ وه خود صوفے پر بیٹھ کر سامنے والے صوفے پر راحیل کو بیٹھنے کا اشاره کرتے ہوےؔ بولے تھے....
”دیکھو بیٹا....میرا دوست ھے امریکہ میں رہتا ھے...اچھا خاندان ہے...اسکے دل میں خواھش جگی ھے کے کیوں ناں ہم اپنی دوستی کو رشتےداری میں بدل لیں....مجھے اس کا خیال ٹھیک لگا...چاھتا تو میں بھی یہی ہوں کے ماهنور کے ہاتھ جلد سے جلد پیلے کردوں ...میری زندگی کا کیا بھروسہ...آج ہوں ....کل رہوں یا نہ رہوں“ ان کی بات پر راحیل نے بےساخته کہا:”الله نه کرےؔ.....الله آپ کو دراز عمر بل خیر عطا فرماےؔ....آپ کا سایہ ہم پر تادیر و قائم و دائم رکھے“راحیل نے بڑے ابو کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوےؔ انھیں دعا دی....
”بیٹا آج نہیں تو کل....جانا تو سب نے ہی ھے“ انھوں نے مسکراتے ہوےؔ اس کا سر تھپکتے ھوےؔ کہا
”بڑے ابو ...پھر وہی بات....خدا آپ کو میری عمر بھی لگادے...“ راحیل کی آنکھوں میں اس بار محبت سے بھری خفگی تھی....
”اچھا بابا ....نہیں بولتا بس“ اُن کی بات سن راحیل مسکراء دیا....
”ارے دیکھو ذرا....بات تو وھیں رھ گیؔ....تو سوچ رہا ہوں کے ایک بار پہلے تم سے پوچھ لوں ....اگر تمھارے دل میں کوئی خواہش ہو تو تم مجھے بتا سکتے ھو....تم میرے لیےؔ میرے بیٹے جیسے ھو“ بڑے ابو یه کہ کر خاموش ھوگےؔ....اور راحیل کا چھره دیکھنے لگے....
راحیل تو جیسے کسی اور ہی دنیا میں چلا گیا ھو....ایک طرف تو اُس کی محبت باآسانی ملتی نظر آرھی تھی....پر دوسری طرف بھت سے مسائل تھے جو اس کے دماغ میں یکے بعد دیگر گھوم رھے تھے....بھت دیر تک خاموش رھنے کے بعد اس نے کہا:” بڑے ابو ...ماهنور آپ کی بیٹی ھے... آپ اس کے لیےؔ جو فیصله کریں گے وه اس کے لیےؔ اور ہم سب کے لیےؔ بھتر ہوگا یقین ہے مجھے“ وه نظر نیچے جھکاکر کہ رہا تھا....اس نے لفظوں کی بناوٹ تو بچپن سے ھی سیکھ رکھی تھی....کے غمزاده ھوکر بھی خوش نماکیسے دیکھا جاتا ھے....یه ھنر تو وه بچپن سے جانتا تھا....اس لیےؔ تو اس کے لفظوں کے پیچھے چھپاھوا کرب بڑے ابو سمجھ ہی نه سکے....
”شاهنزیب نے ٹھیک کہا تھا ....اچھا ہوا میں نے راحیل سے خود پوچھ لیا....زبردستی کرنا ہر گز مناسب نه ھوتا....دل میں خواھش تو بھت تھی کے میری مانو کا دولہا میرے مرحوم بھائی کا بیٹا راحیل بنے....پر اس کے ساتھ کسی بھی قسم کی زبردستی ماهنور کے لیےؔ آگے چل کر مشکلات پیدا کرسکتیں ہیں....میں اپنی عارضو راحیل پر نہیں تھوپ سکتا....کہیں شاهنزیب کی بات ٹھیک نه ھوجاےؔ کے میرے احسانات میں دبے ہونے کے سبب نه چاھتے ہوےؔ بھی ماهنور سے شادی کے لیےؔ ہاں کردے“ وه اپنے دل میں خود گُو ھوےؔ تھے....
”میں جاٶں بڑے ابو؟؟؟“راحیل نے اجازت طلب کی تو وه اثبات میں سرھلا کر اسے جاتا دیکھنے لگے...
”اچھا سنو....شاهنزیب کو بھیج دینا میرے کمرے میں...“انھوں نے پیچھے سے آواز لگائی تو وه مڑ کر ”جی بھتر“کہ کر چلا گیا....دروازه نوک ھوا تو انھوں نے اندر بلالیا....
”آپ نے بلایا ....بڑے ابو؟؟“ شاهنزیب کھڑے کھڑے پوچھ رہا تھا...
”آٶ بیٹھو“ انھوں نے اسے بیٹھنے کا اشاره کیا تو وه فورا بیٹھ گیا....شیشے کی میز پر ایک تصویر مڑی ہوئی رکھی تھی...انھوں نے اٹھاکر شاهنزیب کو پکڑائی....شاهنزیب تصویر دیکھ:”یه کس لڑکے کی تصویر ہے؟؟؟“
”یه میرے دوست کا بیٹا ھے ....{ولید} ....آج سنگیت میں شرکت کرنے اور پوری شادی میں ھمارے گھر میں رھ کر ماهنور کو جاننے کے لیےؔ آرہا ھے“بس یه سنا تھا کے شاهنزیب پتھر کا بن جاتا ھے....تصویر خود به خود ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرجاتی ھے....آنکھوں کی نمی حالِ دل بیان کرنے لگتی ھے....اُؐس کے آنسوں موتی کی طرح بھنے لگتے ہیں...”پر بڑے ابو“ اس سے بڑی مشکل سے صرف یه تین الفاظ ادا ہوپاتے ہیں....
”بیٹا دیکھو....لڑکا بھت اچھا ہے....امریکه میں پلا بڑا ھے...کاروباری بندا ھے....کاروبار کے سلسلے میں دو تین بار ملاقعات ھوئی ھے میری اِس سے....مجھے تو اچھا لگا ہے ....یقین ھے تمھیں بھی اچھا لگے گا....تم بس اسے آج ماهنور سے ملوا دینا“ بڑے ابو اسکے آنسوں دیکھنے کے باوجود اپنی بات کہ کر اٹھ کھڑے ہوےؔ تھے.....
”بڑے ابو....میں نے آپ کو سب کچھ بتایا ھے پھر بھی....“ شاهنزیب انہیں دیکھ کر خود بھی اٹھ کھڑا ھوکر بھری بھری آواز میں شکوه کر رہا تھا....
”دیکھو برخردار....میں تمھارے جذبات کی قدر کرتا ہوں....پر تم ابھی بھت چھوٹے ھو....جب تم بڑے ھوگے تو تمھاری پسند ناپسند تبدیل ھوگی.....پھر تم خود ایک دن کھو گے کے بڑے ابو کا فیصله بلکل درست تھا....ماهنور تم سے بڑی ھے...اپنی اور ماهنور کی زندگی تباه مت کرٶ اس طرح......تمھارے نام پر میں اُسے دس پندره سال تک نہیں بیٹھا سکتا....ابھی تو تمھیں اپنا مستقبل بنانا ھے .....کچھ بننا ھے.....نام کمانا ھے اِس دنیا میں.....تم اِن چکرو میں کہاں پڑھ گےؔ.....بھت ذھین ہو تم“ انھوں نے شاهنزیب کے کندھوں پر پیار بھری تھپکی لگاتے ہوےؔ اسے سمجھایا تھا....وه گم سم سہ ھوکر جانے لگا.....
”شاهنزیب تصویر تو لے جاٶ....ماهنور تمھاری بات مجھ سے زیاده مانتی ہے...تم اسے سمجھاٶ گے تو وه ضرور مان جاےؔ گی“ بڑے ابو نے تصویر نیچے سے جھک کر اٹھاتے ہوےؔ اس کی طرف بڑھائی تھی....وه تو پتھر کا بت بنے کھڑا تھا....بڑے ابو نے اس پر جیسے بم پھوڑا ہو....اُسے اپنے ارگرد اندھیرا چھایا ہوا دیکھائی دے رہا تھا....فوٹو ہاتھ میں بےدلی سے لے کر کمرے سے چلا آیا۔۔۔۔۔۔
****-----*****
راحیل ٹیرس پر اکیلے کھڑے چاند کو تک رہا تھا چاند کی مدھم مدھم سی روشنی اس کے رخسار پر پڑھ رہی تھی....دل تو جیسے ڈوب رہا تھا غم کے سمندر میں....آج پہلی بار وه زندگی میں اپنے آپ کو اکیلا محسوس کر رہا تھا....
”مانو تم میرے لیےؔ اِس چاند کی مانند ہو...جیسے میں دیکھ تو سکتا ہوں حاصل کرنے کی خواھش بھی رکہ سکتا ھوں پر چھو نہیں سکتا ....میری سیلف رسپکٹ مجھے اِس بات کی اجازت نہیں دیتی کے بغیر کچھ بنے ...بغیر اپنے پاٶں پر کھڑے ھوےؔ....میں تم سے شادی کرلوں....زندگی بھر تمھارے ہی باپ کے پیسوں پر پلتا آیا ہوں....اور شادی کے بعد اپنی بیوی کو بھی بڑے ابو کے پیسوں سے پالوں....ہرگز نہیں ....اتنا بےغیرت نہیں ہوں میں....اور نه ہی میں تم جیسی شھزادی کو محلوں سے نیکال کر ایک معمولی سے دو کمروں کے گھر میں رکہ سکتا ہوں....مجھ پر تو ابھی بھت ذمہداریاں ہیں....اسماء کی شادی ...امی کے لیےؔ ایک اپنے نام کی چھت...جس میں وه پرسکون زندگی بسر کر سکیں....میں اُن کے سارے اخراجات اٹھا سکوں ....میں اپنی بےواه ماں اور کنواری بھن کو چھوڑ کر اپنے سر پر سیرا کیسے سجا سکتا ھوں....اگر میں کچھ سالوں کا وقت مانگ لوں تو کون سه تمھیں پاسکتا ھوں....بڑے ابو جتنا امیر تو میں پچیس ٖ پچاس سالوں میں بھی نہیں ہوسکتا....پھر لوگ....لوگ تو یہی کہیں گے کے میں نے تم سے شادی جائيداد کے چکر میں کی....لوگوں کو تو ایک اور موقع مل جاےؔ گا مجھے طعنے سنانے کا“ وه اپنے آپ سے ہی کلام کر کے خاموش ہوا تھا....یه سوچ کر اپنی آنکھیں اس نے کچھ لمحوں کے لیےؔ بند کرلیں....اُس کی نگاھوں میں ماهنور کا خوبصورت سراپا لھرایا تھا....پہلی محبت ادھوری رھ جانے کا غم اب دل برداشت نہیں کرپارہا تھا....خود چھوڑ کر آیا تھا وه....اسے یه خیال مزید تڑپا رہا تھا....آنکھوں سے موتی جھلک گےؔ تھے اور ہاتھوں کی پشت پر آکر گرے تھے...جس سے وه گریل پکڑے کھڑا تھا....جب یه کرب بھرے موتی دوبارا گرے تو اِس بار کسی نے اس کی ہاتھ کی
ہتھیلیوں کو مضبوطی سے تھام لیا تھا اور وه موتی اس کے ہاتھ کی پشت پر آکر ٹھر گیا تھا...آنکھیں کھولیں تو وه سامنے کھڑی اسے محبت بھری نگاه سے دیکھ رھی تھی...راحیل نے ہاتھ نیچے سے نیکال کر اُس کے سامنے ہی جو آنکھیں اشک بار تھیں صاف کرکے چلا تھا....
پر اِس بار ثانیه نے اُسے جانے نہ دیا ....فورا ہی اُس کے ہاتھ کو دوبارا تھاما تھا....”اتنا کرب کیوں ہے اِن آنکھوں میں؟؟؟“ اُس کا ہمدردی میں کیا ہوا سوال اسی کے لیےؔ حماقت ثابت ہوگا کہاں جانتی تھی وه....
”تم مجھے اکیلا چھوڑ دو“ راحیل کی آنکھیں سرخ تھیں....سارا غم و غصه اسی ہمدرد دل پر اتار دیا تھا اُس نے....اتنی زور سے دھاڑا تھا کے پورے ٹیرس پر آواز گونجی تھی اُس کی...ثانیه کا ہاتھ سخت بےرخی و بے مروتی سے پٹخ کر چلا گیا تھا وه.....اُس کے لیےؔ راحیل کا رویہ برداشت کرنا بھت مشکل تھا...جس لہجے میں اُس نے ڈپٹا تھا ....اُس طرح تو کبھی کسی نے اس سے کلام نه کیا تھا....وه بت بن کر ہی رھ گیؔ تھی....
شاهنزیب اپنے کمرے میں آکر بیڈ پر بیٹھ گیا....آنکھوں سے آنسوں اب بھی روا تھے...بیڈ پر اچھلتے جنید جمشید کی نظر جب اپنے ماموں پر پڑی تو دونوں اس کے شانوں سے لٹک گےؔ.....
”ماما....آپ رو رہے و؟؟؟“ جنید جمشید نے ہم آواز ھوکر پوچھا تھا...شاهنزیب نے جواب نه دیا تو جنید بیڈ سے اتر کر اپنے ننے منے ہاتھوں سے آنسوں صاف کرنے لگا....
”ماما آپ کیوں رو رھے ھو؟؟؟“ جنید نے پھر بڑے پیار سے پوچھا تھا....شھزاد اسی وقت کمرے میں داخل ھوا تھا.....”لڑکے روتے نہیں ھیں“ شھزاد نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ھوےؔ کہا تھا....
”جب زخم دل پر لگتے ہیں....تو آنسوں خود به خود آنکھوں سے بھتے ھیں....اُن آنسوں کو روکنا میرے بس میں نہیں....“ شاهنزیب نے نظریں نیچے کیےؔ کھوےؔ کھوےؔ انداز میں کہا تو شھزاد نے جنید کو گود میں لیا....اور جمشید کو شاهنزیب کے شانوں سے ھٹاکر بولا:”چلو بچو ....مما نیچے کب سے آپ دونوں کو بلا رہی ہیں....جاٶ....جلدی نیچے جاٶ...سنگیت شروع ہونے والا ھے....تیار نہیں ہونا کیا“ یه سنتے ہی جنید نے گود سے نیچے اترنے کی ضد کی تھی جب شھزاد نے اتارا تو وه دونوں بھاگتے ہوےؔ چلے گےؔ.....شھزاد بھی جانے لگا بغیر کوئی وجه پوچھے....
”لائٹ اُف کردیں بھائی ....دروازه بند کرتے ھوےؔ جائيے گا“ شاهنزیب نے کہا تو شھزاد پلٹ کر :”اتنا تیار کیا سونے کے لیےؔ ھوےؔ ہو؟؟؟؟.....سنگیت شروع ھونے والا ہے“ شھزاد نے مسکراتے ھوےؔ کہا....
”مجھے کچھ دیر اکیلے رہنا ہے“ شاهنزیب نے اپنے ہاتھ کو زور سے بیڈ پر مارتے ھوےؔ کہا....
”سنگیت میں شرکت کرنا تو ضروری ہے....کبھی کبھار انسان اپنے لیےؔ نہیں دوسروں کی خوشی کے لیےؔ جیتا ھے....آج علی بھئيا اور رومیسا آپا کی زندگی کا اتنا بڑا دن ھے اور ہم صرف اپنے غموں کو اہمیت دیتے ہوےؔ اُس میں شرکت نه کریں کیا یه درست ہوگا؟؟؟.....تم ایک کام کرٶ.....تیسری منزل پر لائبریری میں جاکر تھوڑی دیر اکیلے ٹائم اسپینڈ کرلو“ شھزاد ابھی بات کر ہی رہا تھا کے اُس کی نظر شاهنزیب کے ہاتھ میں پکڑی تصویر پر گیؔ.....:”یه کس کی تصویر ہے؟؟؟“ شھزاد نے اسے دیکھتے ہوےؔ پوچھا...
”ولید“ وه تصویر شاهنزیب شھزاد کو بےدلی سے پکڑاتے ہوےؔ کمرے سے چلا گیا....
”ولید؟؟؟....یه ولید کون ھے؟؟؟“اُس نے تصویر پر نظر ڈالتے ہوےؔ پوچھا تھا....
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک طوفان تھا جو اندر ہی اندر امٹ رہا تھا ....کچھ باتیں تھیں جو اَن کہی رہ گیںؔ تھیں....ھوا جیسے سرسر پتوں کو ھلا رہی تھی....کالی سیاه رات میں وه اکیلے کرسی پر گم سم سہ بیٹھا تھا......خفگی تھی مگر کس سے ....یه نہیں جانتا تھا وه دیوانا.....بڑے ابو سے ....ماهنور کے عمر میں بڑے ہونے سے....یا خود کے چھوٹے ھونے سے.....
آج تک جس لڑکی کو اس نے کھیل یا مزاق میں بھی کسی اور کا جوڑی دار نه بنے دیا تھا اب وه خود جاکر اُسے کسی اور کی تصویر دیکھا کے شادی کرنے کا کیسے بول سکتا تھا.....اک ٹھوکر سی لگی تھی دل کو.....سارے ارمان جیسے چور چور ہوگےؔ تھے....ہر طرف سوگ کا سماں تھا اُس کے لیےؔ..... تڑپ تڑپ کر اِس دل سے آه نیکل رہی تھی...”مقابلهِ عمر جو لگایا ہے میں نے.....اب دیکھنا ھے کے جیت کس کی ھوتی ھے.....لوگوں کی سوچ کی یا میری محبت کی....غم تو اِس بات کا ہے میں تمھیں کبھی بتا بھی نه سکا کے کیا ھو تم میرے لیےؔ.....
عقیدت ہو میری تم.....جان ہو میری.....منزل ہو میری....ارمان ہو میرا....غرور ھے مجھے اپنی اِس عاشقی پر.....اک تمھارے لیےؔ ....ماهنور .....میں سب کچھ چھوڑ سکتا ہوں....جان دے سکتا ہوں اپنی....پر تمھیں نہیں دے سکتا....تم صرف میری ہو....صرف میری“یه کہتے کہتے اُس کی آنکھوں میں جنون اتر آیا تھا....اُس نے مضبوطی سے اپنی مٹھی کو بند کرلیا....
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”اُو۔نو....کامران بھائی نے سیڑھیاں ھٹادیں....اب میں کیا کروں؟؟؟؟“اسماء نے اپنا سر پکڑتے ھوےؔ صباء سے پریشان لہجے میں کہا تھا....
”جانے کا اراده ترک کردو.....مجھے ویسے بھی بھت ڈر لگ رہا ھے....کہیں کسی کو پتا چل گیا تو“صباء نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اسماء کے دونوں ہاتھ پکڑ کر سمجھاتے ھوےؔ بولا تھا....
”ایک تو آپ ڈرتی بھت ہیں“وه جھنجھلاتے ھوےؔ بولی.....”مجھے تو جانا ہی ہے...وه میری سب سے اچھی دوست ھے....میری ساری دوستیں آتیں ہی ھوگیںؔ مجھے لینے....میں نے اُن سے کہ دیا کے ائيرپورٹ ہم سب ساتھ چلیں گے شگفته کو چھوڑنے.....اب آپ ڈرنا چھوڑیں اور کوئی اچھا سه آئيڈیا سوچیں“ اسماء نے صباء سے اپنا ہاتھ چھوڑوا کر اپنی لٹوں کو جو چھرے پر آرھی تھیں اسے پیچھے کرتے ہوےؔ بولا تھا....
”بھئی....مجھے تو تم معاف ہی کرو“ وه ڈر کے مارے اپنا دوپٹا دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں پکڑ کر مسل رہی تھی....
”اف۔.....مجھے ماہنور کو ملا لینا چاھیےؔ تھا....کہاں آپ کو ملا بیٹھی....ابھی ماهنور ہوتی ناں تو اتنے اچھے اچھے آئيڈے دے رھی ھوتی ....اُس کا خرافاتی دماغ اِن چیزوں میں بھت تیز چلتا ھے“ وه اپنا ہاتھ ماتھے پر مارتے ھوےؔ بول کر ماهنور کو یاد کر رھی تھی....کے اچانک موبائل کی گھنٹی بجی....اس کی دوستوں کا ایس ایم ایس تھا کے وه پہنچنے والی ہیں ....اسماء میسج پڑھ کر مزید پریشان ھوگیؔ....مین گیٹ سے جانا تو ممکن نه تھا....کیونکے سارے مہمان آچکے تھے...اور سب ھال میں جانے کی تیاری کر رھے تھے....راحیل تو پہلے ھی صاف منع کرچکا تھا....اور راحیل کے منع کرنے کے بعد اب کسی اور کی اجازت کسی کام کی نه تھی....اسی لیےؔ اُس نے چھپ کر پیچھے کے گیٹ سے جانے کا پروگرام بنایا تھا....پر آخری وقت میں کامران نے وه سیڑھی ہی ھٹادی.....جس سے اتر کر وه باھر جانے والی تھی....”کیا کروں؟؟“وه پریشان ھوکر اِدھر اُدھر ٹیل رہی تھی....”آئيڈیا“ وه زور سے چلائی تھی خوشی کے جوش سے....وه اپنی الماری سے بہت سارے دوپٹے نیکال لائی....
”تم یه کیا کررہی ہو؟؟؟؟“ صباء نے الجھ کر پوچھا....
”میں یه دوپٹے ایک دوسرے سے باندھ کر یہاں سے اِن کی مدد سے گارڈن میں اتر جاٶں گی...اور پھر وھاں سے چھپ کر آسانی سے پیچھے کے دروازے سے نیکل جاٶں گی“ وه دو دوپٹوں کی گرھیں لگاتے ھوےؔ اپنا پلین بتارھی تھی.... اُس نے دوپٹے کا ایک سرھا اپنے کمرے کی کھڑکی کے لاک سے مضبوطی سے باندھ دیا تھا....اور اب اُس پر لٹکنے کو تیار تھی...
”الله ایسا مت کرٶ....کہیں تم گرور گیںؔ تو...یاکسی نے مجھ سے پوچھا کے تم کہاں ھو تو میں کیا جواب دوں گی“ صباء نے گھبراےؔ ھوےؔ انداز میں کہا....
”آپ فکر نه کریں....میں بلکل تیار ھوکر جارھی ھوں...صرف آدھے گھنٹے کی تو بات ھے....میں ڈائرک ھال میں پھنچ جاٶں گی....کسی کو کچھ پتا نہیں چلے گا....آپ بس گھبرانا بند کریں....کوئی بھی میرا پوچھے تو کوئی بھی بھانا بنا دیجیےؔ گا....ٹھیک ھے“ اسماء کھ کر دوپٹے سے لٹک گیؔ....
ڈر تو بھت لگ رھا تھا پر اپنی دوست سے وعده کرا تھا.... جیسے نیھانے کے لیےؔ اس خطرے کو پار کرنا ضروری تھا....صباء اوپر سے دیکھ رھی تھی...
”اسماء کچھ بھی ھوجاےؔ...نیچے مت دیکھنا ......بس الله الله کرتی رہ“ اسماء خلاء میں لٹکے ھوےؔ دوپٹے سے جب نیچے کی دوری دیکھ کر ڈری تو خود کو ہی صلاح دینے لگی....اور الله الله کرنا شروع کردیا.....
”آرام سے اترو“صباء اوپر سے کہ رھی تھی....
”یاالله المدد“وه زور زور سے بول کر آہستہ آہستہ اتر رھی تھی....بھادری سے وه لٹک تو گیؔ تھی دوپٹے سے پر دو منزلہ کھڑکی سے گارڈن تک کے سفر نے اسے نانی یاد دلادی تھی...
”صباء تم یہاں کھڑکی کے پاس کھڑی کیا کر رھی ھو؟؟؟“جب چھوٹی مامی نے سوال کیا تو صباء چونک کر مڑی تھی....
”کچھ کچھ .....کچھ نہیں“ بڑی مشکل سے لفظوں نے زبان کا ساتھ دیا تھا....
”تمھیں کب سے تمھاری والده ڈھونڈ رھی ھیں...کہ رہی ھیں کے ان کا سلما ستاره والا پیلے رنگ کا جوڑا تم نے رکھا ھے“ مامی نے کہا تو وه ہاں میں سر ھلاتے ھوےؔ ان کے ساتھ چل دی....اسماء کو خدا کے حوالے کرکے....
”الله ریشم کے دوپٹے په تو ہاتھ پھسل رھے ھیں...یاخدا مدد کر“ اس کے دل سے صدائيں بلند ہورہی تھیں...”جانے وه کون سه منحوس وقت تھا جو یه آئيڈیا میرے ذھن میں آیا تھا“ وه خود ہی کوس رھی تھی اب....جب بلکل تھوڑا سه فاصله رھ جاتا ھے....اُس کے اور گارڈن کی زمین کے درمیان....تو اس کے ہاتھ سے دوپٹے کی پکڑ چھوٹ جاتی ھے اور وه منه کے بل دھڑم کر کے کسی کے قدموں میں آکر گرتی ھے....ایک دو لمحوں کے لیےؔ تو وه اُس عجنبی کے جوتوں پر ھی سر رکھے لیٹی رھتی ھے...ھوش پاکر جیسے ھی سراٹھاتی ھے ایک خوبصورت عجنبی اُسے حیرت بھری نگاه سے دیکھ رھا ھوتا ھے....خود کو جلدی سے سمبھال کر اٹھ کھڑی ھوتی ھے.......
گارڈن کی مٹی اسکے کپڑوں پر لگ جانے کی وجه سے وه اُسے صاف کرنے لگتی ھے....اپنے کپڑوں پر لگی مٹی جھاڑنے کے بعد جب وه اُس عجنبی پر نظر ڈالتی ہے تو وه اسے الجھی نگاه سے تک رہا ھوتا ھے....
وه عجنبی اپنی انگلی سے اس کی ناک کی طرف اشاره کرتا ھے...وه اس کے اشارے پر اپنی ناک مسلنے لگتی ھے...پھر اُس کے کانوں کی سماعتوں سے جب کار کے ھورن کی آواز ٹکراتی ھے...تو وه چل پڑتی ھے...
”میں نے آج تک صرف سنا تھا کے آسمانوں سے پریاں اترتی ھیں....آج ایک پری کو تشریف لاتے دیکھ بھی لیا... پر لگتا ھے لینڈنگ میں خرابی ہوگیؔ...“ اُس عجنبی نے اسماء کی طرف پلٹ کر شرارت بھرے انداز اور نگاھوں کے الفت بھرے جال پھینکتے ھوےؔ کہا تھا.... اسماء نے اس بات پر مڑ کر اسے گھور کر ایک بار دیکھا....وه پیلے رنگ کی قمیض و شلوار اور ہرے رنگ کا دوپٹا شانوں په ڈالی ھوتی ھے....آواره لٹیں اس کے چھرے کو چوم رھی تھیں....
اس عجنبی نے اسماء کا سر تا پاٶں پورا جائزه لینے کے بعد ھی اسے پری کا خطاب دیا تھا....وه بولنا چاھتی تھی اس کی بات کے جواب میں ....پر وقت نه تھا اِس لیےؔ خاموشی سے بھاگتی ھوئی چلی گیؔ....اس عجنبی کی نظروں نے اسے پیچھے کے دروازے سے باھر جاتے ہوےؔ الوداع کیا تھا.....
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”میں نے سواےؔ تمھارے کبھی کسی کو نہیں چاھا...جب سے ہوش سمبھالا صرف تمھیں ہی اپنی منزل مانا....سعدیه سے منگنی توڑ دینا چاھتا ھوں پر صرف اِس لیےؔ نہیں توڑتا...کے چاھتا ھوں کے وه خود توڑ دے....ورنه لوگ اس بیچاری کو غلط سمجھیں گے....سمجھیں گے اس میں کوئی عیب ھے...جو سگے خاله کے بیٹے نے چھوڑ دیا اسے.....آگے چل کر اُس کی زندگی میں میری وجه سے مشکل پیدا ھوجاےؔ گی....ماهنور تم کہتی ھو ناں کے میں کھل کر اس سے بات کروں تو وه میرے لیےؔ اپنا لائف اسٹائل ضرور بدلے گی....یه تو میں بھی جانتا ھوں کے میری خاطر وه خود کو ضرور بدلے گی....کیونکے میں نے اس کی آنکھوں میں اپنے لیےؔ محبت دیکھی ھے....بچپن کی منگنی کی وجه سے سچی الفت رکھتی ھے وه مجھ سے...
مانا تھوڑی ضدی اور غروری مزاج ھے پر یه تو اس کا حق ھے....خدا جب حسن دیتا ھے تو نزاکت آھی جاتی ھے....“اس کی نگاھوں میں سعدیه کا خوبصورت سراپا لہرایا تھا....جس پر اُس نے ایک ٹھنڈی آه بھری تھی....”خدا کرے تمھیں ایسا کوئی ملے جو تمھاری قدر کرے.......مجھے معاف کرنا سعدیه....میں تمھارے قابل نھیں....ہر ممکن کوشش کروں گا کے تم یه منگنی خود توڑ دو.....میں تو اپنی خالا سے بھی صرف اِس لیےؔ نہیں ملتا کے ان کے خلوص و محبت میںٖ ٖ مجھے اپنا آپ مجرم محسوس ھوتا ھے“ یه سوچتے ھوےؔ وه کھڑا ھوگیا تھا....چلتا ھوا تھکے قدموں سے ایک کتاب جو وھاں کھلی میز پر رکھی تھی اسے بند کر کے بُک کے شیل میں رکہ کر کھڑکی کو کھول کر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کا لطف لیتے ھوےؔ : ( اُس رات کو یاد کرنے لگا جب وه گارڈن میں اکیلا ٹیل لگا رھا تھا اور اچانک اس کے سر پر آکر ایک ڈائری گرئی ....اس نے اوپر دیکھا تو وه راحیل کے کمرے کی کھڑکی سے گرئی تھی پر اسے کھڑکی بند نظر آئی.....اِس لیےؔ سوچا صبح واپس کردے گا....اور آرام سے جاکر اپنے کمرے میں الماری کھول کر آگے رکہ دی)
”شاید میں تو کبھی راحیل کی محبت کے بارے میں جانتا ہی نہیں.....اگر اس ڈائری کو تمھارے کمرے میں دینے نه آتا.... اور تمھاری اور دادو کی باتیں اپنے کانوں سے نہیں سنتا....میں کبھی تمھاری ڈائری نه پڑھتا راحیل....اگر مجھے ماهنور کو کھونے کا خوف نه ھوتا.....میں تمھاری محبت کی عزت کرتا ہوں راحیل پر ماهنور کو میں صرف اُسی کو دوں گا جس کے ساتھ وه ہمیشہ خوش رہے گی....یه یقین ہو مجھے.......
اور وه شخص جس کے ساتھ وه ہمیشہ خوش رہ سکتی ہے وه میں خود ہوں“ ابھی شاهنزیب دل میں سوچ ہی رہا تھا کے دروازه نوک ھوا اور وه خودی اندر آگیؔ.....
”اگر اکیلے رہتے رہتے دل بھر گیا ہو تو چلو سب بلا رھے ہیں“ سعدیه کی آواز سے ہی ناراضگی جھلک رہی تھی....کہ کر وه ایک لمحے بھی وہاں نه رکی ۔۔۔۔۔
ھال پورا برقی قمقوں سے روشن تھا....ہر طرف رنگین آنچل ٖ چوڑیاں کی کھنک مھندی ابٹن کی خوشبو تھی...گیندے کے پھولوں سے سجے خوبصورت دو جھولے جو اسٹیج کے دائيں بائيں رکھے تھے کتنے دلکش لگ رہے تھے....ایک جھولے پر رومیساء آپا اور ایک پر علی بھئيا کو بیٹھایا گیا تھا....وه خاموش کھڑی آپا کو محبت بھری نگاه سے دیکھ رہی تھی....
”اتنا اداس چہره کیوں بنایا ہوا ہے؟؟....اب تھوڑا مسکراء بھی دو.....دیکھو آپا کی نظر تم پر ہے“ ریشم نے ماهنور کے کان میں ہلکے سے کہا تھا جس کے بعد وه صرف آپا کی خوشی کے لیےؔ اپنے چہرے پر مصنوعی مسکراھٹ بکھیرنے پر مجبور تھی....اسی وقت ڈھم ڈھم بجتے ڈھول اور آتش بازی کی آوازیں اس کی سماعتوں سے ٹکرائيں....
”لگتا ہے وه لوگ مھندی لے کر آگےؔ“ ریشم تیزی سے باہر کی طرف دوڑی تھی....سب باھر ویلکم کرنے گےؔ تو ماهنور آکر آپا کے برابر میں جھولے پر بیٹھ گیؔ....آپا پیلے جوڑے میں زرد گلاب کی طرح لگ رہی تھیں....
”منہ کیوں اترا ہوا ہے تمھارا؟؟؟“ آپا نے ھلکے سے اس کے کان میں سرگوشی کی تھی...اس نے مسکراتے ہوےؔ خوش ھونے کی اداکاری کی....”نہیں تو آپا....آپ کو وھم ہوا ہے“ کہ کر وہاں سے اٹھ کھڑی ھوئی اس سے پہلے کے آپا کچھ اور پوچھیں...
سب سے پہلے مایوں کی رسم ادا کی گیؔ....بڑی پھوپھو نے پہلے علی بھئيا کو لال دوپٹا اڑایا جو ان کی سسرال سے آیا تھا...سب ہجوم بناکر ان کے اردگرد ہی کھڑے ساری رسمیں دیکھ رہے تھے....
”ارے یار....ہمارے گھر میں تو سب ہی اتنے بڑے ہیں....اگر یه اپٹن لگاتے رھے تو مجھ بیچارے بچے کی باری کب آےؔ گی“کامران نے اپنی باری کا انتظار کرتے ہوےؔ احتجاج کردیا تھا....
”آےؔ گی ....آےؔ گی ....تیری باری بھی آےؔ گی....صبر رکھو“ بڑی پھوپھو نے صبر کی تلقین کی تھی...
”امی جان ہم لڑکیوں کو موقع ملے گا؟؟“ ریشم نے بھولا سه چہره بناکر پوچھا...
”سن لو بھئی ....اگر اِن لڑکیوں نے علی بھئيا کو اپٹن لگایا ....تو ہم بھی آپا کو اپٹن لگائيں گے“ شھزاد نے کھلا اعلان کیا تھا....
” ہاں ہاں ضرور لگانا....تم لڑکے رومیساء کو اور تم لڑکیاں علی کو“ دادو نے مسکراتے ھوےؔ کھلی چھوٹ دی تھی....سب تو علی بھئيا کے ہاتھ رکھے پتے پر ہلکی سی مھندی اور چہرے پر ہلکا سه اپٹن لگاکر جارھے تھے...
پر جب باری آئی کامران کی تو وه آستین چڑھا کر ان کے برابر میں پہلے تو اطمینان سے بیٹھ گیا...”آج آیا ھے ناں....اونٹ پھاڑ کے نیچے“ اُس نے منه ہی منه میں خوشی سے بڑبڑایا تو علی اسے کہا جانے والی نظر سے گھورنے لگا....
”تم نے ہی صرف یه رسم ادا نہیں کرنی ہم سب بھی لائن میں لگے ہیں جلدی لگاٶ“سعدیه نے کامران کے کندھے پر ہاتھ مارتے ھوےؔ کہا تھا...پر کامران نے اُس کی بات مکمل اگنور کی تھی...اس نے پورا پنجا لے کر اپٹن کی تھال میں ڈال دیا...اور جتنا ہاتھوں میں آسکتا تھا ...اٹھاکر علی بھئيا کے منه پر مسل ڈالا....سب خوب لطف لینے لگے....
”الله کامران....رسم ادا کرنی تھی ....بدلا تھوڑی لینا تھا“ بڑی امی نے مسکراتے ھوےؔ کہا....
”امی یه موقع باربار تھوڑی ملے گا“ کامران نے ہاتھوں پر اپٹن مسلتے ہوےؔ کہا تھا....
”کامران“ علی بھئیا نے اسے گھورتے ھوےؔ کہا تھا...اِس کے بعد آپا کی رسمیں بھی بڑی پھوپھو نے ادا کی....جب اپٹن لگانے کی باری آئی تو آپا نے سب سے گذارش کی سب سے پہلے یه رسم ماهنور کو ادا کرنے دی جاےؔ....
آپا کی گزارش پر سب سے پہلے ماهنور نے اپٹن لگایا ...ماهنور نے جب آپا کو کیک کھلانے کی رسم ادا کی تو ان کی آنکھیں نم ہو گیںؔ...وه محبت و شفقت بھری نگاه سے اُسے دیکھتے ہوےؔ پیار سے گال سہلانے لگیں.....
مایوں کی رسم کے بعد سنگیت اور مھندی کی رسم شروع کردی گیںؔ....
”کہاں گیںؔ تھیں تم؟؟راحیل نے اسماء کا ہاتھ پکڑ کر اسے سائٹ میں لے کر پوچھا تھا....جس کے جواب میں وه بوکھلاھٹ کا شکار تھی...
”کچھ پوچھ رہا ہوں میں؟؟“ راحیل نے اِس پر سخت لہجے میں اپنا سوال دوبارا دوہرایا تھا....
”وه .....وه .....میں.....وه“ وه ڈر گیؔ تھی اس لیےؔ کچھ بول ہی نہیں پارہی تھی....
”اسماء تم یہاں کھڑے باتیں کر رہی ہو ...میں نے تمھیں پرس لینے کار میں بھیجا تھا....اور تم پرس لاکر مجھے دینے کے بجاےؔ یہاں کھڑی راحیل سے باتیں بھگار رہی ھو....شرم کرٶ تھوڑی....اب چلو میرے ساتھ کام ہے مجھے“ صباء راحیل کے سامنے اسے ڈانٹ کر ہاتھ پکڑ کر کھینچتی ھوئی لے گیؔ تھی.....
”شکریه صباء باجی....آج تو آپ نے کمال کردیا....مجھے تو لگا تھا کے اب میں بھائی کی ڈانٹ سے نہیں بچوگی....پر شکر ہے خدا کا کے اُس نے آپ کو بھیج دیا“ اسماء نے صباء کا شکریه ادا کیا تو وه مسکرانے لگی....
”ویسے میں نے اداکاری اچھی کی ناں؟؟؟“ صباء نے شرارت سے اسماء سے پوچھا تھا جس پر وه مسکراء کر خوب داد دینے لگی....
سنگیت شروع ہوا تو سب سے پہلا پرفارمینس ریشم نے کیا....مھندی ہے رچنے والی ....ریشم کے ڈانس پر سب خوب تالیاں بجانے لگے....ریشم چونکے لڑکیوں کی ٹیم میں سے تھی اِس لیےؔ اس کے مقابلے پر کامران کو اتارا گیا....
مھندی لگا کے رکھنا .....
ڈولی سجا کے رکھنا...
کامران کے لیےؔ سب زور زور سے ”اُو...او“کہ رھے تھے...پھر سعدیه اسٹیج پر اتری....سب کو پتا تھا کے اب سعدیه آئی ہے اب تو ڈانس ایسا ہونا ھے کے کسی کی نظریں نہیں ھٹنی....
ملنڑ ماےؔ کارے یاں بھگارے مھندی....
لی ملنڑ ماےؔ کارے یاں بھگارے مھندی...
آلڑ جوانی روپ یه میرا....
گوپی بن بن بیٹھی....
نه میں دیوانی ....نه مستانی.....
نه میں دیوانی....نه مستانی...
لگ گیؔ عشق کہانی...
.نی مھندی ماےؔ کارے یاں بھگارے مھندی....
سعدیه شاهنزیب کی طرف دیکھ کر ڈانس کرتی ھے...جیسے اسے آنکھوں سے بتارہی ہو کے یه الفاظ خاص اس کے لیےؔ ہیں....وه محبت کے دیب آنکھوں میں لیےؔ شاهنزیب کے وجود کو تک رہی تھی....سب نے تالیاں بجائيں تو شور سے وه اپنے حواس میں واپس لوٹی....
”جا شاهنزیب اب تیری باری....ایسا جواب دینا ان لڑکیوں کو ....کے انہیں اِن کی نانی یاد آجاےؔ.....چل پکڑ گیٹار اور چڑھ جا اسٹیج پر“ کامران نے شاهنزیب کی پیٹھ تھپ تھپاتے ہوےؔ اسے گیٹار پکڑایا....وه گیٹار پکڑ کر اسٹیج پر پھنچ گیا.....اس کے لیےؔ ایک کرسی رکہ دی گیؔ....جس پر وه آرام سے بیٹھ گیا....تھوڑی دیر کے لیےؔ تو آنکھیں بند کرلیں....
”پتا نہیں آگے کیا ہونے والا ھے...پر میں یه افسوس نہیں رکھنا چاھتا کے میں نے تم سے اپنے دل کی بات کبھی کھی ہی نہیں....صرف ماهنور یه تمھارے لیےؔ“ شاهنزیب نے خود سے کلام کیا اور خود پر ہی مسکراء دیا....آنکھیں کھولیں....تو سب اسی پر نظر ٹیکاےؔکھڑے تھے...مائيک والا آکر اس کے چھرے پر مائيک کی سیٹینگ کردیتا ھے...
”ماهنور یه گانا صرف تمھارے لیےؔ“ شاهنزیب مائيک پر بول کر ماهنور کی طرف انگلی سے اشاره کرتا ھے....وه عجنبی اور باقی سب ماهنور کو دیکھنے لگتے ہیں
”او....یه ہیں ماهنور “ وه عجنبی بولتا ھے....
” یه تو وہی لڑکا ھے جس کی تصویر شاهنزیب کے پاس تھی....کیا نام تھا..“وه ذھن پر زور دیتے ہوےؔ:”ہاں ولید“ شھزاد کی نظر ولید پر پڑی تھی....
پورے ھال کی ساری لائٹس آف کردی گیںؔ تھیں....صرف ایک سفید رنگ کی لائٹ شاهنزیب پر روشنی کر رہی تھی....اُؐسکے آنکھیں بند کرتے ہی ماهنور کا خوبصورت سراپا چھم سے اس کی نظروں کے سامنے آجاتا ھے....وه بھولا سه چھره ٖ وه چمکتی شرارت بھری آنکھیں....وه شوخی بھری ادائيں....وه چنچل مکھڑا ....اس کا خوبصورت سراپا جب آنکھوں میں اتر آتا ھے....وه گیٹار پر جادو خود به خود بکھیرنے لگتا ہے.....ہر طرف صرف اُس کی دھن بجتی سنائی دے رہی تھی.....
ٹن ....ٹن.....ٹن.....ٹن......
او....اوھو.....او....ھو....او.....
تومجھے سوچ کبھی....
یھی چاھت ھے میری....
میں تجھے جان کھوں....
یھی حسرت ھے میری....
میں تیرے پیار کا ارمان لیےؔ بیٹھا ھوں....
تو کسی اور کو چاہے کبھی یه خدا نه کرےؔ....
سب گیٹار بجتے ہی دونوں ہاتھوں سے چٹکیاں بجاتے ھوےؔ خوبصورت اور مدھر دھن لطف لیتے ہیں....جبکے ماهنور حیرت بھری نگاه سے اسے دیکھ رہی ھوتی ھے....اس کے دماغ الجھ گیا تھا....وه سمجھ نہیں پارہی تھی کے یه گانا تو وه روزانه سعدیه کے لیےؔ گاتا ھے تو پھر آج اسٹیج پر جب سعدیه اس کے سامنے موجود ھے تو اُس کے بجاےؔ ماهنور کو کیوں ڈیڈیکٹ کر رہا ہے....شاهنزیب آنکھیں کھول کر سب سے پہلے ماهنور کو دیکھتا ھے....اور پورا شعر اسے ھی دیکھ کر محبت بھری نگاه سے گاه رہا ھوتا ھے.....
ٹن.....ٹن.....او.....او....
ٹن....آ....آ......ھو......
میری محروم محبت کا سہارا تو ھے....
میں جو جیتا ھوں تو جینے اشاره تو ھے....
اپنے دل په تیرا احسان لیےؔ بیٹھا ھوں....
میں تیرے پیار ارمان لیےؔلیے بیٹھا ھوں.....
تو کسی اور کو چاھے کبھی یه خدا نه کرےؔ....
اِس بار وه کرسی سے اٹھ کر چلتا ہوا آتا ھے....اور اسٹیج کی تین سیڑھیاں اتر کر سعدیه کے پاس سے گزر کر ماهنور کے پاس آکر اس کے آگے اپنا ہاتھ بڑھاتا ھے....سب کی نگاھیں ماهنور سے کہ رھی تھیں کے ہاتھ پکڑ لو شاهنزیب کا....جبکے اُسکی نگاه خفگی بھری ھوتی ھے....وه صبح والا واقعه بھولی نہیں تھی اب تک.....پر صباء اسے کندھا مار کر ہاتھ پکڑنے کا اشاره کرتی ھے تو وه اس کے خوبصورت ہاتھ میں اپنا نرم و نازک ہاتھ پکڑادیتی ھے....
یه لمحه جہاں ہزاروں لوگوں کی آنکھوں کی دلکشی کا سبب بنا ھوا تھا....وھیں دو پیار کرنے والوں پر بڑا سخت معلوم ہورہا تھا.....
راحیل تو منه پھیر کر وھاں سے چلا جاتا ھے....اور سعدیه وھاں کھڑی نه جانے کس دل سے یه منظر دیکھ رھی ھوتی ھے.... سینے میں جیسے آگ لگی ھو...پر بس میں کچھ نه تھا....
شاهنزیب ماهنور کو اپنے ساتھ اسٹیج پر لے جاتا ھے....اب سفید روشنی صرف شاهنزیب اور ماهنور کے اردگرد طواف کرنے لگتی ھے....وه اسے بیچ اسٹیج پر لاکر کھڑا کردیتا ھے.....
ٹن.....ٹن.....
say you love me baby.....
i wait him for you......
ھےؔ.......ھیو.......
وه اسکی جانب الفت بھری نگاه سے دیکھتے ھوےؔ اُسکے وجود کے اردگرد چکر لگاتے ہوےؔ بول رھا تھا....ماهنور کو پہلی بار اسکی آنکھوں کی تپش اپنے چہرے پر محسوس ہوتی ھے....زندگی میں پہلی بار اسے شاهنزیب کی آنکھوں سے آنکھیں ملانے میں جھیپ محسوس ہورھی تھی....وه پھر بھی اسے دیکھ کر اپنے لبوں پر مصنوعی مسکراھٹ سجالیتی ھے........
پیار میں شرط کوئی ہو تو بتادے مجھ کو.....
گر خطاء مجھ سے ھوئی ھو تو بتادے مجھ کو....
جان ہتھیلی په میری جان لیےؔ بیٹھا ھوں....
میں تیرے پیار کا ارمان لیےؔ بیٹھا ھوں.....
وه اِس بار بلکل اُس کے سامنے آکر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کے وجود کو تکتے ہوےؔ گاه رھا تھا....پھر اُس کے آگے اپنا ہاتھ دوبارا بڑھاتا ھے....ماهنور نروس ہوجاتی ھے....اُس کے اِس بدلے بدلے رویے کو دیکھ.....جھیپتے ھوےؔ اُسکے ہاتھ میں اپنا ہاتھ پکڑا دیتی ھے..... وه ہلکا سه مسکراتا ہے......اُسکی مسکراھٹ ماهنور کے دل کو تھوڑا اطمینان بخشتی ھے.....ورنه اتنی دیر سے اُس کی جنونی آنکھوں سے اسے عجیب سہ خوف محسوس ہورہا تھا...........
تو کسی اور کو چاہے کبھی یه خدا نه کرےؔ.....
وه اُس کی شہادت کی انگلی پکڑ کر اُسے گول گول گھومانے لگتا ہے......
”صباء باجی....شاهنزیب تو صرف گانا گانے والا تھا ناں پھر یه ڈانس وه بھی ماهنور کےساتھ .....حیرت ہے“ اسماء نے بغیر صباء کو دیکھے کہا تو اس عجنبی کو کھڑا پایا....عجنبی یعنی ولید.......ولید کو دیکھ کر اُس نے دوسری طرف نظر دوڑائی کیونکے اس کے برابر میں تو صباء کھڑی تھی....یه ولید کہاں سے اسکے برابر میں آکر کھڑا ھوگیا....وه الجھی نگاه سے تک رہی تھی....پھر فورا اسکے پاس سے ھٹ گیؔ.....وه اسماء کو خود سے دور ھٹتا دیکھ مسکرایا تھا.....
”واو.......انٹرس لینے والی بات تو ہے“ ولید کی نگاھیں شاهنزیب اور ماهنور پر ٹیکی تھیں.....
شاهنزیب اتنی تیز تیز گھوما رہا تھا کے ماهنور گرنے لگتی ہے.....اس کا پاٶں سلپ ہوتا ھے....... تو شاهنزیب فورا اسے اپنی باھوں کے حصار میں لے لیتا ہے.....ماهنور کی آنکھیں شاهنزیب کو خود بتارہی تھیں کے وه ابھی حیرت کے غوطے کہارہی ہے......جس کے جواب میں وه فقط مسکراء دیتا ھے۔۔۔
پھر صباء اسٹیج پر آکر ڈانس کرتی ھے
ہاتھوں میں....ہاتھوں میں....تو میرے ہاتھوں میں....
لکھ کے مھندی سے سجنا کا نام...
”سمجھ نہیں آرھا ....صباء باجی یه رومیسا آپا کی طرف سے گاه رہی ہیں یا اپنا حالِ دل بیان کر رہی ہیں“ ریشم نے کہ کر شھزاد کو چھیڑا تھا....سب یه سن مسکرانے لگے.....صباء کے بعد شھزاد اور اُس کے بعد اسماء اسٹیج کی زینت بنی تھی....
مھندی لگاٶ گی میں سجنا کے نام کی.....
کچھ نه خبر مجھے....اب صبح شام کی....
ولید کی نظریں ایک لمحے کے لیےؔ بھی اسماء سے نہیں ھٹیں ...اسماء بھی ڈانس کرتے وقت ولید کا خود کو مسکراء مسکراء کر دیکھنا بھاپ لیتی ہے....
راحیل ایک کونے میں کھڑا اداس چھره لیےؔ ماهنور کو دور سے دیکھ رہا ھوتا ہے....
”آپا کی رخصتی میں ابھی وقت ہے اور تم ابھی سے رو رھے ہو“ شھزاد نے اسے روتا ہوا دیکھ کر کہا تھا...تو وه مسکرانے لگا....بڑی مشکل سے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائی تھی....”رو تھوڑی رہا ہوں“ راحیل نے اپنا رخ اس کی سمت کرتے ھوےؔ کہا...
”پر چہره اور آنکھیں تو مجھے چیخ چیخ کر اسی کا پتا دے رہی ہیں.....چلو خیر....چلو تمھاری باری ہے“ شھزاد نے اس کے زخم کو کریدنے کے بجاےؔ مسکراء کر اسے اسٹیج کی طرف خیر مقدم کیا تھا....ثانیه آپا کے ساتھ بیٹھی تھی جھولے پر....چہرے پر مسکراھٹ اُس کے بھی تھی پر اسی قدر مصنوعی جتنی راحیل کے چہرے پر تھی....وه خود چل کر اُس کے پاس آیا تھا....اُس کے آگے اپنا ہاتھ بڑھا کر اُس کی مدد چاھی تھی....مگر وه راحیل کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے بجاےؔ اٹھ کر چلی گیؔ تھی.....
رومیسا آپا ثانیه کی اِس حرکت پر تیمور چڑھاےؔ آنکھوں کے اشاروں سے پوچھ رہی تھیں کے ہوا کیا ھے؟؟؟.......راحیل نے نفی میں گردن ہلادی.....اور ثانیه کے پیچھے چل دیا....وه چل کر سب کے ساتھ جاکر کھڑے ھونے کی غرض سے اٹھی تھی ....پر راھداری سے گزرتے ھوےؔ اُس کی کلائی کسی مضبوط گرفت میں آگیؔ تھی وه بوکھلا کر پلٹی....”تم نے کمیٹمینٹ کیا تھا میرا ساتھ دینے کا“ راحیل اسے دیکھ کر بولا تھا....
”مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی چھوڑو میرا ہاتھ“ اُس نے اپنی کلائی چھوڑوانے کی کوشش کرتے ھوےؔ کہا تھا....کوشش ناکام تھی وه جانتے ہوےؔ بھی زور لگارھی تھی....
”چلو میرے ساتھ“ وه اسے کہ کر زبردستی اسٹیج پر چڑھ گیا تھا.....اسٹیج پر پہنچنے کے بعد بھی اس نے اس کا ہاتھ نه چھوڑا تھا...گانا شروع ہوا تو وه ہلکے سے اُس کے کان میں سرگوشی کرنے لگی :”تم میرے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے“یه سن راحیل مسکراء دیا....اُس کی بےوقت مسکراھٹ اسے زخم پر مرھم جیسی تو ہر گز معلوم نه ہورہی تھی.....
”دوست ہو میری....اتنا تو حق ہے میرا تم پر“ اُس نے بھی ہلکے سے کان میں کہ کر اپنا الٹا ہاتھ اس کی کمر پر رکھا تھا....اُس نے اس کے ساتھ بیلی ڈانس کرنا شروع کیا تو اس نے خود ہی اپنا دوسرا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ دیا.....
”الله .....کتنے پیارے لگ رھے ہیں یه دونوں ایک دوسرے کے ساتھ“صباء نے ان دونوں کو دیکھ کر بڑے مسرت بھرے انداز میں کہا....
”ہاں....واقعی اِن دونوں کی جوڑی تو کمال ھے “ شھزاد نے اس کی بات کی تائيد کی....شھزاد کی آواز سن صباء حیرت سے پیچھے مڑی تھی...شھزاد اسے دیکھ مسکرایا تھا.....
”میں دیکھ لوگی تمھیں“ثانیه نے پھر سے کان کے پاس آکر دھمکی آمیز لہجے میں کہا تھا....
”دیکھ لینا...ویسے بھی لوگ کہتے ہیں بھت خوبصورت ھوں میں....“اُس نے مزید چڑانے کے لیےؔ کہا تو وه اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگی....جس میں اسے ھلکی سی خوشی محسوس ھوئی تھی... جبکے راحیل کو تو صرف اس کے آنکھوں میں ناراضگی کے اثار نظر آرھے تھے....
”بھائی دیکھیں تو یه لڑکا کون ہے.....نه یه ھماری طرف سے ھے....نه علی بھئيا کی سسرال والوں کی طرف سے تھا نه رومیسا آپا کی....تو آخر ھے کس کی طرف سے یه“ اسماء نے راحیل کو ولید کی طرف نشاندھی کرتے ہوےؔ کہا....تو راحیل نے اثبات میں سر ھلایا اور جاکر علی سے بات کی....
علی ٖ شھزاد ٖ کامران اور راحیل سب آکر ایک ساتھ ولید کے اردگرد گول دائره بناکر کھڑے ہوگےؔ.....
”جی آپ کی تعریف“ کامران نے اس سے مخاطب ہوکر پوچھا...
”اب اپنی تعریف اپنے منه سے کیسے کروں“ولید نے جھیپتے ھوےؔ کہا....
”میرا مطلب تھا کون ہو تم؟؟“ کامران نے آبرٶ اچکاکر پوچھا تھا....
”آپ لوگ مجھے نہیں جانتے؟؟؟“ اُس نے حیرت سے اُن سب کو دیکھتے ھوےؔ بڑے خوش اخلاق لہجے میں پوچھا تھا....
”اگر جانتے تو یوں سوال نه کرتے....اب سیدھے سیدھے بتاٶ کون ہو تم؟؟؟“ علی نے اپنی روپ دار آواز میں پوچھا.....
”تم شاهنزیب کے دوست ھو؟؟“ شھزاد نے استفسار کیا تھا....تو وه نفی میں گردن ھلانے لگا.....”کون شاهنزیب؟؟؟....میں تو وه ھوں“ وه ذرا جھیپ کر کہ رھا تھا....اس کی بات سن سب پریشان ھوگےؔ....علی کو تو غصه آنے لگا تھا....وه بس اسکا کالر پکڑنے والا تھا کے بڑے ابو نے آکر اس سب کو بتایا کے وه اُن کے دوست کا بیٹا ھے اور شادی میں شرکت کرنے آیا ھے......
”یه تو ٹھیک ھے کے وه بڑے ابو کے دوست کا بیٹا ھے....پر پھر وه اتنا شرما کیوں رھا تھا....“ شھزاد نے ولید کی اِس حرکت کے متعلق تجسسی انداز میں بولا....
”پتا نہیں....نٹ ڈھیلا لگتا ھے سالے کا.....کاش بڑے ابو تھوڑی دیر بعد آتے.....تو اچھا خاصا موقع مل جاتا ہاتھ صاف کرنے کا....“ کامران نے اپنے ہاتھوں پر کھجلی مچاتے ھوےؔ کہا تھا....باتیں کرتے کرتے شھزاد کی نظر شاهزیه آپا پر پڑی جو سب سے الگ تھلگ گم سم سی بیٹھی تھی....شھزاد نے محسوس کیا تھا کے وه بھت اداس ھے...
جنید جمشید بھت دیر سے ضد کر رہے تھے کے شاهزیه مھندی لگواےؔ....پر وه مان نہیں رہی تھی...یه بات شاهنزیب نے بھی نوٹ کرئی تھی کے وه پہلے سے کافی بدل گیؔ ہے...اور اُس کے چہرے کی رونق بلکل غائب ھے....شاهنزیب فکرمند ہوا تھا شاهزیه کو یوں اداس بیٹھا دیکھ۔۔۔۔
****------******
نیند سعدیه کی آنکھوں سے کوسوں دور کھڑی اس کی بےقراری کا مزا لے رہی تھی.... اتنی بےقراری کے رگ جان کو کاٹ رہی ہو پور پور میں چبھ رہی ھو تو بھلا نیند کہاں آتی ہے....وه کروٹ بدلتی رہی...بدلتی رھی یہاں تک کے جنھجھلاکر اٹھ بیٹھی....محسوس ہورھا تھا جیسے دم گھٹ رہا ہو....آہستگی سے اٹھ کر بستر سے کھڑکی کے قریب چلی آئی........باھر گھپ اندھیرا اور گھرے سناٹے تھے...آج گگن پر چاند نه تھا اور ستاروں کی لو مدھم تھی بالکل ایک ہوا میں سرسراتے دیے کی مانند ...وه گم سم اداس کھڑکی کے پٹ سے ٹیک لگاکر کھڑی ہوگیؔ....”کیوں ؟؟؟...کیوں کر رھے ھو میرے ساتھ ایسا سلوک تم؟؟....کیا خطاء ہے میری“ اُس کا دماغ سوچ سوچ کر مفلوج ھوا جارھا تھا....لگ رھا تھا ایک زوردار قسمت نے تماچه مارا ہے گالوں پر....اور آگ پورے جسم میں لگی ھے....
باربار شاهنزیب کا ماهنور کا ہاتھ پکڑ کر اسٹیج پر لے جانا اسکے گرد طواف کرنا اسے اپنی باھوں میں تھام لینا یاد آرھا تھا....دل میں جلن کی آگ بڑھتی جارھی تھی”وه میرا ھے ماهنور.....صرف میرا.....میں شاهنزیب کسی کو نہیں دوں گی....سمجھی تم.....سعدیه اپنی چیزیں کسی کو نہیں دیتی تو پھر یه تو میرا بچپن کا منگیتر ھے“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماء کو روز صبح جاگنگ کرنے کی عادت تھی ....آج بھی وه معمول کی طرح جاگنگ پر نیکلی....نزدیک پارک کے پورے تین چکر لگانے کے بعد جب وه بینچ پر آکر بیٹھی:”ہیلو“ اُس نے آواز سن کر منه مڑ کر پیچھے کی جانب دیکھا....ولید اسے مسکراتے چہرے کے ساتھ دیکھ رھا تھا...
اسماء نے کوئی جواب نه دیا اور منه مڑ کر پرٹین شیک کی بوتل کو منه سے لگالیا...وه اس کے برابر میں ہی آکر بیٹھ گیا....
”کمال ہیں یه پاکستانی....سیدھے منه بات ھی نہیں کرتے“ اُس نے اسماء کو دیکھ شکوه کیا تھا جس پر اس نے کوئی ری۔ایکٹ ہی نہیں کیا اور ٹاول سے اپنا منه پہنچنے لگی....
”سنیں آپ مجھ سے ناراض ھیں کیا؟؟“اُس نے پھر اسماء سے بات کرنے کی کوشش کی تھی...پر وه سخت میر بنی رھی....
”آپ بولتی نہیں ہیں کیا؟؟.....نہیں نہیں بولتی تو ھیں آپ پر ...شاید عجنبیوں سے بات نہیں کرتی...پر میں آپ کو بتادوں...میں آپ کے بڑے ابو کے دوست کا بیٹا ہوں ....امریکه سے آیا ھوں....ولید نام ہے میرا“ اُس نے اپنا دوستی کا ہاتھ اسماء کے آگے بڑھاتے ھوےؔ اپنی پوری ڈیٹیل دے ڈالی تھی....پر اسماء نے اسے ذرا بھی بھاٶ نه دیا....اور جاگنگ کرنے کے لیےؔ دوبارا کھڑی ھوگیؔ....
”اوروں جیسی تو بلکل نہیں ہے ....i love it“ وه اسے جاتا ھوا پیچھے سے دیکھ کر بول رہا تھا....
اسماء سفید رنگ کی ٹیشٹ ٖ بلیک رنگ کی پینٹ اور بالوں کو سفید رنگ کے پونی سے زینت دی ہوئی تھی.....ولید وہاں جاگنگ کرنے نہیں بلکے اسی کے چکر میں آیا تھا....پر بھرپور کوشش کرنے کے باوجود بھی اس کی توجه اپنی جانب مبذول نه کراسکا تھا..
وه بھاگتے ہوےؔ کمرے میں داخل ہوئی تھی....چہرے پر خوف کے بادل چھاےؔ تھے....وه کمرے میں بےتاب نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی....پر شاهنزیب کو نه پایا....چھرے پر سرد موسم کے باوجود پسینا چمک رہا تھا....دل زور زور سے دھڑک رہا تھا آنکھوں میں شاهنزیب کو کمرے میں نه پاکر نمی سی اتر آئی تھی وه خواب دیکھ کر ڈر گیؔ تھی اور آنکھ کھلنے کے باوجود اپنے حواس خواب کے اندر ھہی چھوڑ آئی تھی....اُس کا ذھن مفلوج ہوکر رہ گیا تھا....
”مانو تم سے کتنی بار کہا ھے کے کمره نوک کر کے آیا کرو.....جب دیکھو منه اٹھاےؔ کمرے میں گھسی چلی آتی ہو“ شاهنزیب واش روم سے سفید رنگ کی جینز اور کندھوں پر ٹاول ڈالے نھاء کر نکلا تو ماهنور کو اپنے کمرے میں دیکھ کر ہربار کی طرح اسے تمیز کا سبق پڑھانے لگا....
”تم ٹھیک ھو ناں؟؟؟“ ماهنور نے اسے دیکھ کر ایک سکھ کا سانس لیتے ہوےؔ بڑے پیار و جذبات بھرے انداز اور آنکھوں کی نمی کے ساتھ اسے ٹک لگاےؔ دیکھتے ھوےؔ استفسار کیا تھا
”مجھے کیا ہوا ہے؟؟؟“ وه الجھی نگاه سے پوچھ رھا تھا...
تو ماهنور نے نفی میں گردن کو جمبش دی اور وہیں بیڈ پر بیٹھ گیؔ.....وه سہمی سہمی سی معلوم ہورہی تھی....شاهنزیب پوری بات اس کے بغیر کہے ہی سمجھ گیا تھا....وه ٹاول کو بالوں میں مسلتا ھوا آکر اس کے نزدیک ہی بیٹھ گیا.....ماهنور تو اب بھی گم سم سی بیٹھی تھی.....شاید اب تک اس خواب کے خوف کی جگڑ میں پھنسی ھوئی تھی....
”میں ٹھیک ھوں....تم اِن خوابوں پر زیاده توجه مت دیا کرو“ وه سمجھانے کی غرض سے بول رھا تھا پر ماهنور تو اب بھی سرجھکاےؔ اپنی آنکھوں میں آنے والی نمی صاف کر رہی تھی....
”یار کچھ نہیں ھوا مجھے....دیکھو میری طرف....بلکل ٹھیک ٹھاک تمھارے سامنے بیٹھا ھوں“ شاهنزیب نے اس کے توجه اپنی جانب مبذول کرائی تو وه نظر اٹھاکر اس کی جانب دیکھنے لگی....
”مجھے تمھارے متعلق ہمیشہ ایسے خواب کیوں آتے ہیں؟؟؟....کیوں خوابوں میں تم مجھ سے بچھڑ جاتے ھو؟؟؟....کچھ لوگ تمھیں بری طرح مار رھے ھوتے ہیں...میں چیخ چیخ کر کہ رہی ہوتی ہوں مت مارو.....مت مارو.....پر وه میری سنتے ہی نہیں“ وه کہ کر رونے لگی تھی....روکا ھوا سانس تو اسے دیکھ کر باحال ھوچکا تھا پر دل ابھی تک خوابوں کے بسیرے میں تھا....
”کیونکے وه محض خواب ہوتے ہیں...“ شاهنزیب نے ماهنور کے سیدھے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ھوےؔ اسے اطمینان دلایا تھا....”ویسے ایک وجه یه بھی ہوسکتی ھے“ اس نے جب سوچتے ھوےؔ کہا تو وه تجسوسی نگاھوں سے اسے دیکھنے لگی کے ناں جانے کیا وجه ھے جو اسے سمجھ آگیؔ ھے اس کے خوابوں کے متعلق.....
”تم مجھ سے لڑتی جو ھو اتنا.....ضرور یہی وجه ہوگی“ وه اسے دیکھ کر سنجیده سه چہره بناےؔ بول رھا تھا.....بس پھر کیا تھا وه اپنا سارا خوف بھول بیٹھی اور لڑائی پر آماده ھوگیؔ.....جس کا اعلان شاهنزیب نے ابھی اپنا آخری جملا ادا کر کے کیا تھا....
”میں تم سے لڑتی ھوں؟؟...جھوٹے.....مکار آدمی....ھر وقت تم لڑائی شروع کرتے ھو....کل بھی میں تم سے کتنے پیار سے بات کر رہی تھی گاڑی میں....پر تم...تم تو اتنے خودغرض...کمینے ....کتے قِسم کے انسان ہو کے بجاےؔ میری بات تسلی سے سنے کے مجھ ہی پرچڑھائی کرڈالی“اُس نے پاس رکھا کشن اپنے ہاتھ میں اٹھاتے ھوےؔ زوردار احتجاج بلند کیا تھا.....
”پہلی بات مانو ...میں آدمی نہیں لڑکا ھوں...وه بھی بھت ہینڈسم سه....دوسری بات ....میں کتنا بھی بڑا جھوٹا مکار ھوجاٶں پر تمھاری بادشاھت اِس معاملے میں نہیں چھین سکتا....اور تیسری بات .....اگر تمھیں اتنا ہی لوگوں کے معاملات میں بیچ میں ٹانگ اڑانے کا شوق ھے توجاکے فلاحی بھود کا اداره جوائنٹ کرٶ.....گھر میں بیٹھ کر میرا سر مت کھاٶ“ اُس نے اپنی بات کہنے کے بعد فورا اپنا منه پاس رکھے تکیے سے ڈھک لیا تھا....کیونکے وه جانتا تھا کے اب وه ماهنور کے ہاتھوں سے نہیں بچنے والا .....
ماهنور نے دو تین بار کشن زور زور سے اس کے سر پر ٹیکاےؔ تھے....وه فورا خود کو بچاتے ہوےؔ وھاں سے اٹھ کھڑا ھوا....پر ماهنور نے وار کرنا نه چھوڑا وه جاکر جلدی سے واپس واش روم میں گھس گیا اور اندر سے لاک کرلیا خود کو....
”باہر آٶ بزدل....چھوڑوں گی نہیں میں تمھیں آج....باہر آٶ ....شاه“ ماهنور نے دروازه زور زور سے بجاتے ھوےؔ کہا تھا....”باہر آٶ ڈرپوک“اس نے پھر سے دروازه بجاکر کہا پر وه اس کے جانے کا انتظار کرنے لگا....”تم کیا ہمیشہ اندر چھپے بیٹھے رھو گے؟؟؟.....باہر تو آٶ گے ناں.....دیکھ لوگی تمھیں اک تو تمھارے ساتھ بھلائی کرو....اوپر سے تم مجھے“ ابھی وه بول ہی رہی تھی کے سعدیه اسے حیران نظروں سے اپنی طرف دیکھتی ھوئی نظر آئی ....وه ناجانے کب اندر آگیؔ تھی....
”وه...میں“ ماهنور کچھ بول پاتی اس سے پہلے سعدیه نے اس کے بات کاٹ دی ...”ناشته کرنے نیچے آجاٶ.....سب بلا رھے ہیں“ وه کہ کر ذرا بھی دیر وہاں نه رکی....ماهنور بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دی....
”کہاں رھ گےؔ تھے تم؟؟؟؟.....سب کب سے تمھارا انتظار کر رہے ہیں“ شاهنزیب کے آتے ہی شھزاد نے پوچھا تھا
”وه میرے کمرے میں ایک بلی آگیؔ تھی“ شاهنزیب نے صرف اتنا ھی کہا ...کے ماهنور اسے گھور گھور کر دیکھنے لگی اور باقی سب حیرت سے....
”بلی ....بلی کیسے آگیؔ تمھارے کمرے میں؟؟؟“ کامران نے حیران لہجے میں پوچھا تھا.....
”مجھے نہیں پتا ......کمرے کا دروازه کھلا تھا ...جب میں نھاء کر نکلا شاید دروازے سے ہی آئی ھو....بڑی ہی خطرناک تھی....“شاهنزیب اتنی سنجیدگی سے کہ رہا تھا کے سب اس کا یقین کر بیٹھے....
”بیٹا کہیں کوئی پنجا ونجه تو نہیں مار دیا اس نے تمھیں؟؟؟“ شاهنزیب کی ماں فکرمند ھوکر پوچھنے لگیں....
”نہیں...میں واپس واش روم میں جاکر لاک ھوگیا ...جب تھوڑی دیر بعد نکلا تو وه کمرے میں موجود نہیں تھی“شاهنزیب نے اپنی ماں کو دلاسه دیا تھا....
”پر تم کب سے بلی سے ڈرنے لگے؟؟؟“راحیل نے حیرت بھرے انداز میں استفسار کیا تھا....
”وه“شاهنزیب جھٹ پٹا گیا تھا کے اب کیا جواب دے....
”او....ھو.....کیا تم نے تفتیش شروع کردی ھے .....میرے بیٹے کو بیٹھ تو جانے دو....بیٹھ جاٶ شاه“ دادو نے سب کے سوالوں پر فول اسٹاپ لگایا تھا اور اسے بیٹھنے کا اشاره کیا تھا....وه ماهنور کی برابر والی کرسی پر بیٹھا تو سعدیه اور ولید کی نظریں اُسی پر جم گیںؔ.....
ماهنور نے شاهنزیب کے بیٹھتے ہی اس کے پاٶں پر اپنی سینڈل رکھ کر مسلا....
”الله“ شاهنزیب کے منه سے زور سے بےاختیار نیکلا....تو سب اس کی طرف متوجه ھوگےؔ....
”کیا ھوا شاه؟؟؟“سب سے پہلے خود ماهنور نے ہی انجان بنتے ھوےؔ آبرٶ اچکاکر سوال کیا تھا....شاهنزیب نے نظر اِدھر اُدھر گھومائی تو سب اسے ہی دیکھ رہے تھے
”نہیں کچھ نہیں....گرما گرم پرھاٹا توڑا تو ہاتھ جل گیا“ شاهنزیب نے اپنے ہاتھ پر پھونکنے کی اداکاری کی.....تو سب مسکراء کر اپنے ناشتے میں مشغول ھوگےؔ.....ماهنور اسے اب بھی بیٹھی گھورے جارھی تھی....شاهنزیب نے چاےؔ کا کپ اٹھایا اور منه سے لگالیا.....
ولید کا دل تو مسرت سے بھر گیا تھا پاکستانی فیملی کے بیچ رھ کر.....اس نے ایسا ماحول نه کبھی دیکھا ٖ نه سنا تھا...... اسے اتنی بڑی فیملی کا پیار و محبت سے ساتھ رھنا بڑا متاثر کرگیا تھا....
”ماما کیا وه بلی بڑی خطرناک تھی؟؟؟“جنید نے بڑے بھولے انداز میں سوال کیا تو جمشید بھی بول پڑا....”اور کیا ماما اسکے بڑے بڑے ناخن بھی تھے...“اس کے سوال پر شاهنزیب اور سعدیه دونوں نے ہی اپنی مسکراھٹ کو ھونٹوں میں بیچا تھا....کیونکے سعدیه جانتی تھی کے شاهنزیب کی خطرناک بلی ماهنور ہے.......
”ولید بھائی آپ اگر کافی نہیں پی رھے تو جوس پی لیں“ ماهنور نے جوس کا گلاس ولید کے آگے بڑھایا تھا....ماھنور کے منه سے”بھائی“ کا لفظ سن ولید کو بری طرح دھانس لگ گیؔ.....اسے اتنی شدت کا پھندا لگا کے کامران اس کی پیٹھ پر ہاتھ مار کر سہلانے لگا......شاهنزیب کے لبوں پر گہری مسکراھٹ بکھر آئی تھی....
*****------******
وه کچن میں اکیلے کھڑی برتن دھو رہی تھی کے خان بابا پیچھے سے آکر بولے کے شھزاد بابا بول رہے ہیں کے میرے لیےؔ بیسن کے پرھاٹے اور ٹماٹر کی چٹنی بنادو....آج رات کے کھانے میں....وه تو کھ کر چل دیےؔ پر وه کھڑی سوچنے لگی کے اب کیا کرے....”اچھا ہوا مامی جان آپ آگیںؔ.....وه....وه...وه ہیں ناں ....وه بیسن کے پرھاٹے اور ٹماٹر کی چٹنی کی فرمائش کر رہے ہیں رات کے کھانے میں“صباء نے شھزاد کی ماں سے کہا تو وه مسکرادیں.....
”اگر وه فرمائش کر رہا ہے تو بنادو“ مامی جان کھ کر جانے لگیں تھیں....
”پر...وه...ان“ وه گھبرا رھی تھی پہلی بار شھزاد کے لیےؔ کچھ بناتے ھوےؔ....مامی اُس کے چھرے پر آنے والے تاثرات کو پڑھ چکی تھیں....
”گھبراٶ مت.....اگر اچھا لگے گا تو شوق سے کھالے گا اور اگر اچھا نه لگا تو میں اسے بتادوں گی کے صباء نے بنایا ھے پھر تو مزید شوق سے کھالے گا“وه شوخی سے اس سے کہ کر مسکراتی ہوئی کچن سے چلی گیؔ تھیں.....
”واو ......بیسن کے پرھاٹے“اسماء نے آتے ہی پرھاٹے کا لقمه توڑ کر گرماگرم منه میں ڈالتے ھوےؔ کہا تھا.....
”روکو....اس کے ساتھ کھاٶ....اور بتاٶ کیسا لگا“ صباء ٹماٹر کی چٹنی اور اچار بھی لے کر آئی تھی....اسماء کو چکانے کے لیےؔ....
”زبردست صباء باجی....دل تو چاھ رہا ھے آپ کے ہاتھ چوم لوں“ اسماء نے کھاتے ہی کھانے کی تعریف کی تو اس کے دل کو ذرا ڈھرس بنی کے شاید اب شھزاد کو بھی پسند آجاےؔ...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”شاهزیب“ بڑے ابو نے باہر جاتے ھوےؔ اسے پیچھے سے آواز لگاکر روکا تو وه مڑ کر ان کے پاس گارڈن میں چلا آیا ...”بیٹھو کھڑے کیوں ھو“ بڑے ابو نے بیٹھنے کا اشاره کیا تو وه کرسی پر بیٹھتے ھوےؔ؛”بڑے ابو اس سے پہلے آپ کچھ بولیں میں آپ کو بتادوں میں مانو کو بتانے ہی والا تھا ولید کے بارے میں پر کل موقع ہی نه ملا....پر آج پکا بتادوں گا“ شاهزیب نے بڑے ابو کے پوچھنے سے پہلے ہی جواز پیش کردیا تھا ماهنور کو نه بتانے کا ولید کے بارے میں اب تک...
”میں بھی یہی سوچ رہا تھا کے ایسا کیسے ھوسکتا ھے کے میں شاهنزیب کو کوئی کام دوں اور وه نه کرے“ انھوں نے اس کے جواز پر اپنے بھروسے کی مھر لگائی تھی جس سے وه تھوڑا شرمنده سہ محسوس کر رہا تھا....
سعدیه اپنی والده کو فون کرتی ہے اور رو رو کے شاهنزیب کی ساری شکایت بتاتی ہے....سعدیه کے جذبات اب ماهنور کے لیےؔ بدل رہے تھے جو آگ دل میں لگی تھی اسے وه ماهنور کی زندگی میں لگا کر خاکستر کر دینا چاھتی تھی....
”میری جان اک بات کہوں....مجھے لگتا ھے کے وه چاھتا ھے کے تم اس کے پیچھے بھاگو....ہوتی ہے کچھ لڑکوں میں عادت“اس کی ماں نے اپنے اندازے کے مطابق شاهنزیب کی شخصیت کا جائزه لیا تھا....
”تو امی آپ کیا کہنا چاہتی ہیں میں خود کو اس کے قدموں میں گرالوں.....اپنی سیلف رسپکٹ کو چھوڑ اس کے پیچھے پاگلوں کی طرح بھاگنا شروع کردوں....نہیں امی مجھ سے یه نہیں ھوگا“ سعدیه کو وه بھت پیارا تھا پر اس سے بھی زیاده پیار تھا خود سے...اپنی سیلف رسپکٹ سے...
”میں نے ایسا کب کہا بیٹا....میں تم کو سمجھانا چاھتی ھو...کے پہلے اسے اپنا دیوانا بناٶ....خود کو اُس کے آگے تھوڑا سه جھکالو تاکے بعد میں اسے پورا جھکا سکو.....سمجھ رہی ھو ناں“ سعدیه کی ماں نے اسے تشویش میں ڈال دیا تھا....
”امی آپ جانتی تو ہیں کتنا تنگ نظر شخص ھے وه....اسے تو میری ہر چیز سے ہی پریشانی ھے....60z .....70z....کی سوچ ھے اسکی...کے لڑکی کو ہمیشہ گھر میں بند رھنا چاھیے....سر پر دوپٹا ھو ہر وقت اور کوئی بھی لڑکا دوست نه ھو....رات ھونے سے پہلے پہلے گھر آجاٶں ....یه تو ہمیشہ سے اس کی مجھ سے ڈیمانٹ رہی ہے.....وه مجھے شروع سے بھن جی ٹائپ لڑکی بنانا چاھتا ھے جو میں کبھی بھی نہیں بن سکتی....میری اپنی ایک معاشرے میں پرنسیلٹی ھے جیسے میں خراب ھونے نہیں دے سکتی....پلیز امی اور کوئی حل بتائيں“ سعدیه نے اپنی ماں کو صاف منع کرڈالا تھا .....
”میری جان ....میری بات سمجھنے کی کوشش تو کرٶ......پہلے تم اس کے رنگ میں رنگ جاٶ بعد میں اسے ہمیشہ کے لیےؔ اپنے رنگ میں رنگ لینا.....ورنه یه منگنی توٹ جاےؔ گی....اگر تم نه بھی توڑو ....شاهنزیب ضرور توڑ دے گا....اور جیت اُس ماهنور کی ھوجاےؔ گی...تم کیا چاھتی ھو وه ماهنور شاهنزیب کی آئيڈیل لڑکی بن کر تم سے اسے جیت کرلے جاےؔ.....وه بلکل ویسی ہی بن کر رھتی ھے جیسی شاهنزیب کو پسند ھے اگر تم بھی تھوڑا خود کو بدل لو...... تو دیکھنا شاهزیب تمھاری طرف خود به خود مائل ھوگا .....آخر بچپن کی منگیتر ھو تم اس کی.....“ سعدیه کی والده نے .....ماهنور اور سعدیه کے درمیان مقابله رکہ دیا تھا.....اور انعام شاهنزیب مقرر ہوا تھا....
”اگر یه بات ہے تو اب آپ دیکھیےؔ گا میں کیسے اسے اپنی طرف مائل کرتی ھوں....آج تک سعدیه شیخ کسی سے ھاری نہیں اور نه ھارے گی“سعدیه نے اپنے آنسوں صاف کرلیےؔ تھے....اور ساتھ ساتھ پکا عزم کیا تھا....ماهنور کو شاهنزیب کی زندگی سے نیکالنے کا......
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شھزاد کھانے کے لیےؔ جب کرسی پر آکر بیٹھا تو سب اسے ہی دیکھنے لگے:”کیا؟؟؟“اس نے سب کی توجه اپنی جانب دیکھ الجھ کر پوچھا تھا...اس کے سوال پر سب نے اُس پر سے نگاه ھٹالی....صباء شھزاد سے کافی دور بیٹھی تھی....پر پھر بھی اس کی نگاه صرف شھزاد پر ٹکی تھی....اُس نے پرھاٹے کا پہلا لقمہ توڑا اور ٹماٹر کی چٹنی کے ساتھ لگاکر منه میں ڈالنے کے لیےؔ منه کھولا تو سب واپس اسے بےصبری نگاه سے دیکھنے لگے....
”آپ سب لوگوں کو ہوکیا گیا ھے ؟؟....ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں مجھے“شھزاد نے سب کو دیکھ کر پریشان ھوتے ہوےؔ پوچھا....سب نے پھر سے اپنی نگاھیں اس پر سے ھٹالیں...
”کھانا کھاٶ سب ....کیوں اسے گھور رہے ہو“ شھزاد کی والده نے سب کو یکساں حکم دیا تھا.....
ماهنور اسے مسکراء مسکراء کر دیکھے جارھی تھی....شھزاد نے اسے مسکراتا دیکھ آبرٶ اچکاےؔ اشاروں سے پوچھا تھا کے آخر ماجره ہے کیا.....کیوں سب کی نگاھیں اس پر ٹکی ہیں.....ماهنور نے ھلکا سه آنکھوں کے اشاروں سے بتایا”صباء باجی نے بنایا ہے“ ......
شھزاد نے صباء کی جانب دیکھا تو وه بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی....پر شھزاد کی نظر پڑتے ہی اس نے اپنی نگاه چورا لی تھی.....وه ھلکا سه مسکرایا اور پرھاٹے کا لقمہ واپس پلیٹ پر رکھ کر دوسری پلیٹ میں چاول نیکال لیےؔ.....وه تھوڑا صباء کو تنگ کرکے اس کی بےصبری کا مزا لینا چاھتا تھا.....
”یه کھاتے کھاتے رک کیوں گےؔ؟؟؟“ ریشم نے اسماء کے کان میں ھلکے سے پوچھا....جس کے جواب میں اس نے شانے اچکادیےؔ.....
”صباء آپا آپ تو کھانا ٖ کھانا شروع کریں....کیا شھزاد بھائی کو کھاتا دیکھ کر ہی پیٹ بھرلیں گی آج“ ریشم نے صباء سے ھلکے سے کہا تو وه پانی گلاس میں بھر کر منه سے لگا کر سوچنے لگی”پرھاٹے کیوں نہیں کھارہے ہیں؟؟؟.....کیا سارا پیٹ چاول کھا کھا کر بھرلیں گے.....کم از کم ایک بار چک ہی لیں....یہی سوچ کر کے کسی نے اتنے پیار سے بنایا ھے ان کے لیےؔ“
سب ایک ایک کر کے شھزاد سے پرھاٹے کھانے کی بول رھے تھے پر شھزاد :”ابھی کھالوں گا....ابھی یه کھالوں پھر کھالوں گا “ کھ کر سب کو ٹال رہا تھا....
”بھائی سارا پیٹ چاولوں سے ہی بھر لیں گے تو پھر یه پرھاٹے کس پیٹ سے کھائيں گے؟؟؟؟....ویسے بھی یه آپ کی فرمائش پر بنیں ہیں“ اب تو شاهنزیب بھی بول پڑا تھا.....
”یار کھالوں گا....مجھے بھی پتا ھے میری فرمائش پر بنیں ہیں...“وه جتاتے ہوےؔ بولا.....
ماهنور نے نوٹ کیا کے شھزاد صرف سوکھے سوکھے چاول کھارہا ہے....نه پانی نه رایتا نه سلاد ....”اگر ایک انسان صرف سوکھے چاول کھاےؔ تو وه باآسانی چار یا پانچ پلیٹ کھاسکتا ہے....پھر یه تو شھزاد بھائی کی پہلی پلیٹ ہے.....واو......یعنی مزا لے رہے ہیں جناب ....صباء باجی کے صبر کا“وه من ہی من مسکرانے لگی تھی.....
صباء کی نظریں صرف شھزاد پر ٹکی تھیں سب کے پیٹ بھرنے والے تھے اس کے صبر کا بھت امتحان ھوچکا تھا .....اتنی محنت و محبت سے اس نے صرف شھزاد کی خاطر پہلی بار بیسن کے پرھاٹے اور ٹماٹر کی چٹنی بنائی تھی اور وه سخت میر شخص چک بھی نه رھا تھا.....”کھالیں نا.......تھوڑا سه....میں نے بھت....“صباء کے منه سے بےساخته نکلا تو سب بڑی حیرت سے اس کی جانب دیکھنے لگے....سب کے دیکھنے پر وه کنفیوس ھوکر بولتے بولتے روکی تھی......
”جی.......... میں ابھی کھالیتا ھوں“ شھزاد نے اسے دیکھ کر مسکراتے ہوےؔ شرارت بھرے انداز میں کھ کر پہلا لقمہ منه میں ڈالا......
”کیسا لگا؟؟؟؟“ماهنور نے سب سے پہلے پوچھا تھا....
”ہاں بتائيں ناں جلدی کیسا لگا؟؟؟“ اِس بار ریشم اور اسماء پوچھنے لگیں.....
”لگ رہا ھے کسی نے بھت پیار سے بناےؔ ہیں ...بھت مزے دار ہیں“ شھزاد کی تعریف سن سب صباء کو مسکراء مسکراء کر دیکھنے لگے....
”پتا ہے کس نے بناےؔ ہیں؟؟“بڑی پھوپھو نے بڑے تجسسی لہجے میں استفسار کیا....جس کے جواب میں اس نے مسکراتے ھوےؔ سر اثبات میں ھلا دیا.....
”چلو بھئی مبارک ہو صباء تمھیں....شھزاد کا دل تمھارا ہوا....کیونکے مرد کے دل کا راسته تو اس کے پیٹ سے ھوکر گزرتا ھے....“شھزاد کی والده نے صباء کو سب کے سامنے چھیڑتے ھوےؔ کہا تو وه جھیپ گیؔ.....اور اٹھ کر وھاں سے جلدی سے چلی گیؔ.....
”اگر تمھیں پتا تھا کے صباء نے بناےؔ ہیں .....تو پھر تم کھا کیوں نہیں رہے تھے؟؟؟“کامران نے تفتیشی افسران کی طرح تیور چڑھاےؔ پوچھا.....
”لطف لے رہا تھا آپ سب کے صبر کا“ وه کہ کر مسکرایا تھا...
آج سب ایسے ہی بیٹھے پرانی یادیں یاد کررہے تھے....کبھی کامران کوئی بچپن کا قصه سناتا تو کبھی دادو.....اور سب خوب لطف و مزے لے کر سن رہے تھے....کامران کے دل میں خیال آیا کے شاعری کا مقابله رکھا جاےؔ...
ماهنور کے دل میں خیال آیا کے کل آپا کی رخصتی ھے ....یه خیال آیا تو اس نے آپا کی باھوں میں اپنی باھیں ڈال دیں اور اپنا خوبصورت سه چھره آپا کے کندھے پر ٹیکا دیا....آپا بھی پیار سے اس کے بالوں پر سھلانے لگیں....
”چلو بھئی گول دائره بناکر بیٹھو ....اسپین دا بوٹل کھیلتے ہیں....پر رول تھوڑے الگ ہوں گے ...بوتل کے آگے کا حصه جس پر روکا وه شعر پڑھے گا ....اٰور جس پر بوتل کا پیچھے کا حصه ھوگا اُس کے لیےؔ وه شعر پڑھا جاےؔ گا...سب بیٹھ کر کھیلنے لگے....
بوتل صباء نے گھومائی اور وه آکر راحیل پر رکی....اور اسے پڑھنا ثانیه کے لیےؔ تھا...پہلے تو وه خوب سوچنے لگا....اُس کی ناراضگی بھی پیشِ نظر تھی ایک لمبی سانس لی....
نه کوئی صبح نه کوئی شام دیتے ہو....
دل دکھڑانے کو محبت کا نام دیتے ہو...
روز چلے آتے پو تم خواب میں میرے...
ان آنکھوں کو نه اک پل تم آرام دیتے ہو...
تم نه پوچھو گے میرا کبھی حالِ دل اور...
غیروں کو ہرروز سلام دیتے ہو.........
ہم نے یاد رکھا اس لیےؔ مجرم ٹھرے....
شاید بھول جانے پہ تم انعام دیتے ہو....
راحیل نے پورا شعر ثانیه کی آنکھوں میں جھانکتے ہوےؔ کہا تھا...سب نے اسے خوب داد دی مگر ثانیه اسے اب بھی گھور رہی تھی....اِس گھورنے کے جواب میں اس کی آنکھیں شوخی سی بھری معلوم ہورہی تھیں ...لگ رہا تھا کے اب اسے مزا آنے لگا ہے اُسے ناراض کر کے منانے میں....ثانیه نے منہ کا رخ اس سے موڑ لیا تھا....پر راحیل اسے اب بھی مسکراتے ہوےؔ دیکھے جارہا تھا....
ولید کی باری آئی اسے شعر اسماء کے لیےؔ پڑھنا تھا...اس نے شعر پڑھا
اتنا سنگین نہیں جرم عشق مگر....
سزاِ عشق اتنی سنگین کیوں ہے....
مجھ کو دیوانگی کا نہ الزام دو....
پوچھو میرے محبوب سے...........
وه اتنا حسین کیوں ہے........
ولید کی آنکھوں میں کشش سی جاگ اٹھی تھی یه شعر اسماء کے لیےؔ پڑھتے ہوےؔ......جبکے اسماء نے اسے مکمل اگنور کیا تھا....
”نه جانے کیوں مجھے نظر اٹھاکر دیکھتی تک نہیں ہے“ولید خود سے ہی اس کی نگاه تک نه اٹھانے کا شکوه کر رہا تھا....
راحیل کا فون بجا تو وه گارڈن کی جانب اٹھ کر چلا گیا....اُس کے جاتے ہی باری ثانیه کی آئی تھی اور پڑھنا کامران کے لیےؔ تھا....
”بھئی مجھے شعر نہیں آتا ...پر ایک غزل آتی ھے وه سناٶں“ ثانیه نے پوچھا تو سب نے اثبات میں سر ھلا دیا.....
نه آےؔ وه شب وعده ستارو تم گواه رھنا....
کئٹی ہے رات آنکھوں میں ستارو تم گواه رھنا...
تمھی اک رازداں اِن مری بےچین راتوں کے....
کہیں نه تم بدل جانا ستارو تم گواه رھنا.....
سحر ہونے کو ہے لیکن ابھی تک وه نہیں آےؔ...
بھاےؔ کتنے ہی آنسو ستارو تم گواه رھنا.......
کسی کی یاد نے آکر مری نیندیں اڑا دی ہیں....
مسلسل جاگیؔ ہوں میں ستارو تم گواه رھنا...
ہم ہو کے مضطرب کھوےؔ رھے ہیں اُنکی یادوں میں....
نہیں ہم رات بھر سوےؔ ستارو تم گواه رھنا.....
سب نے اس غزل کے ختم ھوتے ہی خوب تالیاء اور واه واه کی صدائيں لگائیں جبکے شاهنزیب کو شاکٹ لگا تھا.....”یه تو محمد فہیم کی غزل ہے ...جو راحیل کی ڈائری میں تھی جو اس نے ماهنور کے لیےؔ لکھی تھی...پر ثانیه آپا کو یه غزل کیسے آتی؟؟؟.....یه محض ایک اتفاق ہے یا وه ڈائری ثانیه آپا کے ہاتھ لگ گیؔ ھے....پر وه ڈائری تو میں نے خود اسٹور روم میں پورانے صندوق کے اندر چھپائی تھی....نہیں خدا نه کرےؔ ایسا ہوا ہو....اگر ڈائری انہوں نے پڑھ لی....تو انھیں پتا چل جاےؔ گا کے راحیل کے جذبات کے بارے میں ....اگر انھوں نے بڑے ابو کو بتا دیا تو......نہیں اتنی مشکل سے تو میں نے بڑے ابو کا دماغ بنایا ھے کے راحیل ماهنور سے شادی نہیں کرنا چاھتا.....سارا بنا بنایا کھیل بیگڑ جاےؔ گا“ شاهنزیب ابھی انھی سوچوں میں گم سم تھا کے ثانیه نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا.....تو وه اپنے حواسوں میں لوٹ آیا.....
”کہاں کھوےؔ ہو.....تمھاری باری ہے....بوتل تم پر رکی ہے.....ماهنور کے لیےؔ شعر سناٶ“ ثانیه نے مسکراء کر کہا تو اس نے اثبات میں سر ھلانے لگا....
”کوئی اچھا سه سنانا“ماهنور سیدھے بیٹھتے ہوےؔ بولی تھی مسکراء کر.....
ماهنور کی خوبصورت مسکراھٹ نے اُس کا دل چھو لیا تھا....وه کھوےؔ کھوےؔ انداز میں شعر سنانے لگا....
بس اک معافی ہماری توبه
جو اب ہم ستائيں تم کو
لو ہاتھ جوڑے لو کان پکڑے
اور اب کیسے منائيں تم کو
سچ پوچھو تو غصے نے
اور بھی دلکش بنادیا ہے تمھیں
من کو تو سوجھتی ہے کے
اور غصه دلائيں تم کو ......
شاهنزیب اچانک سے خاموش ہوجاتا ہے....
”کیا ہوا چپ کیوں ھوگےؔ؟؟؟“ماهنور نے آبرٶ اچکاےؔ پوچھا....
”ہاں ...آگے سناٶ“ ریشم بھی بول رہی تھی ....سب بےصبر تھے اس شعر کو پورا سنے کے لیےؔ.....
”سوری ...میں بھول گیا آگے کا“ شاهنزیب یه کہ کر اٹھ کر چل دیا....سب اُسے آوازیں دینے لگے مگر اس نے کسی کی نہیں سنی.....
سب لاونچ میں بیٹھے تھے اس لیےؔ موقع اچھا تھا اسٹور میں جانے کے لیےؔ....وه اس موقعے سے فائده اٹھانا چاھتا تھا اس لیےؔ شعر ادھورا چھوڑے چلا آیا تھا ....دل میں بس یھی دعا چل رہی تھی صندوق کھولتے وقت کے وه محض ایک اتفاق ثابت ہو....
مگر ہر بار وه نہیں ہوتا جو انسان چاھتا ہے....ڈائری وہاں واقعی موجود نہیں تھی ...وه تھوڑی دیر سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا....خود کو کوسنے کے سواء اب کوئی اور چارا بھی نه تھا...
”کاش میں نے وه ڈائری یہاں نه رکھی ہوتی....میرے خدا .....اب میں کیا کروں“اس کا دماغ سوچ سوچ کر پاگل ہوےؔ جارہا تھا....وه اسٹور سے باہر آگیا اور چھت پر اکیلے جاکر کھڑا ہوگیا....
”تم اتنا کیوں بدلتے جارہے ہو شاه....سب کے سامنے تم گیم ادھورا چھوڑ کر کیوں چلے آےؔ...پتا ہے ثانیه آپا تو نئی آئيں ہیں انہیں تمھارے مزاج کی کیا خبر....وه مجھ سے پوچھنے لگیں کیا شاهنزیب ایسا ہی ہے بدمزاج ٖ بداخلاق اور غصے والا....میں نے کہا نہیں“ماهنور ابھی بول ہی رہی تھی کے شاهنزیب خوشی سے اچھل پڑا پیچھے مڑکر ماهنور کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر :”تم تو کمال ہو یار....تم نے تو سارا مسئله ہی حل کردیا....ٹھیکنس مانو....اور سوری شعر ادھورا چھوڑنے کے لیےؔ....“ماهنور کو شاهنزیب کے ایک دم بدلتے رویے پر سخت حیرت تھی.....
”تم ٹھیک تو ہو ناں؟؟؟“ وه ہچکچاتے ہوےؔ بولی تھی جس پر وه مسکراء دیا.... ”بلکل ٹھیک ھوں“ وه اسکی ہچکچاھٹ کو محسوس کر چکا تھا....پھر وه آسمان کی طرف دیکھ کر:”آج تو آسمان پر کتنے سارے ستارے ہیں...ہیں ناں“ ماهنور نے اس کی بات پر اثبات میں سر ھلادیا مگر آسمان کی جانب نه دیکھا بلکے اس کی نگاه تو رویے بدلتے شاهنزیب پر ٹکی تھی.....شاهنزیب کو سمجھنا دن به دن مشکل ہوتا جارہا تھا....
آخر ایسا کیا کمال تھا جو وه انجانے میں کربیٹھی تھی وه پوچھنا تو بھت چاھتی تھی پر لب اس کے آگے کھلے ہی نہیں.....منه سے نیکلا تو بھی کچھ اور:”تم سے ایک بات پوچھوں؟؟؟“ماهنور کی آواز میں تھوڑا سه ڈر محسوس ہورہا تھا....
”ہاں پوچھو“ وه مسرت بھری نگاه سے دیکھتے ہوےؔ بولا تھا...
”یه ولید کون ہے؟؟“اس نے پوچھا تو شاهنزیب ھسی میں بات ٹال دینا چاھتا تھا...”لڑکا ہے اور کیا“ اُس نے ماهنور کا ہاتھ چھوڑ اپنا رخ اس سے مڑتے ہوےؔ جواب دیا تھا....
”یه تو میں بھی جانتی ہوں پر وه ویسے کون ھے؟؟“ ماهنور کے سوال پر وه مسکراتے ہوےؔ؛”تمھارے ڈیڈ کے دوست کا بیٹا ھے...شادی میں شرکت کے لیےؔ آیا ھے...“ اس نے کہا تو وه اطمینان نه پائی تھی اس کے جواب سے....
”تم مجھے بےوقوف سمجھتے ہوکیا؟؟.....جب میں نے اس ولید کو بھائی کہا تو اسے بری طرح دھانس کیوں لگ گیؔ تھی اور ڈیڈ تمھیں آنکھوں ہی آنکھوں میں کیا بول رہے تھے؟؟؟...سب سچ سچ بتاٶ مجھے“
شاهنزیب کو ذرا بھی اندازه نہیں تھا کے اسے اور بڑے ابو کو آنکھوں ھی آنکھوں میں بات کرتے ہوےؔ ماهنور نے دیکھ لیا تھا ناشتے کی میز پر....وه ولید کے یوں اچانک چلے آنے کو بھاپ چکی تھی بس شاهنزیب سے تصدیق چاہتی تھی.....
”اف الله...ایک مصیبت حل ہوتی نہیں ہے کے دوسری آجاتی ہے...کیا ساری مصیبتوں کو کسی نے میرا ہی پتہ بتا دیا ہے“شاهنزیب دل ہی دل بڑبڑا رہا تھا....ماهنور تیمور چڑھاےؔ اسے گھورتے ہوےؔ جواب کے انتظار میں کھڑی تھی....
”دیکھو یار جو تم ھو ....وه مجھے سمجھنے کی کیا ضرورت.....“شاهنزیب طنزیه اسے بےقوف کہ کر مسکرایا....”رہی بات اس ولید کی....تو بھئی وه امریکہ جیسے آذادانا ماحول کا باشنده ہے....وہاں تو جان ٖ جانِ من ٖ سوئيٹی ٖ ڈارلنگ جیسے لفظوں کا استعمال ہوتا ہے نه کے بھائی.....تبھی اس بیچارے کو خود کے لیےؔ بھائی کا لفظ سن دھانس لگ گیؔ ہو گی.....“وه کہ کر خاموش ہوا تو بھی وه اس کی بات سے اتفاق نہیں کر رھی تھی.....
”اور ڈیڈ .....وه تم سے کیا بول رھے تھے؟؟؟“ماهنور کے سوال پر شاهنزیب آنکھیں چوراتے ہوےؔ؛”اک تو تم بھت بڑی جاسوس ہو....پڑھائی کے سواء ہر چیز میں دماغ چلتا ھے تمھارا....میں اس کا مزاق اڑا رہا تھا تو بڑے ابو مجھے آنکھوں کے اشارے منع کر رہے تھے....“ یه جواز دینے کے بعد اس نے سکھ کا سانس لیا تھا کیونکے اب تک ماہنور کا کوئی نیا سوال اس کے کانوں کی سماعتوں سے نہیں ٹکرایا تھا....
”ھمم.....ویسے واقعی بھت فلرٹو ہے یه سالا ولید“ ماهنور نے ھستے ھوےؔ کہا...شاهنزیب سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ کر :”کیوں ....کَیا کِیا اس نے؟؟؟؟ “
”میرے ساتھ تو کچھ نہیں کیا پر جب سے آیا ھے....اسماء کے پیچھے لگا ھوا ھے.... شام کے وقت جب اسماء چاےؔ پکارہی تھی تو اتنی مسرت بھری نگاه سے اسے تکتے ھوےؔ بولا...اُو.....ہو.....آپ کو چاےؔ پکانا بھی آتی ہے....مجھے اتنی ہسی آئی اس کی بات پر....لو اب چاےؔ بنانا بھی کوئی کمال ہوگیا ہے کیا....ہر وقت اسماء سے فلرٹ کرنے کی کوشش کرتا رھتا ھے....پر اسماء تو اسماء ھے وه اسے منه ہی نہیں لگاتی“کھ کر ماهنور خوب ولید کا مزاق اڑانے لگی....
”زبردست ....ولید صاحب اسماء میں انٹرس لے رہے ہیں بجاےؔ ماهنور میں لینے کے....واه......اس سے اچھی کیا بات ہے....میرے خدا تیری شان نیرالی ھے...کہاں کوئی راسته نظر نہیں آرھا تھا اور کہاں دو دو ایک ساتھ نظر آگےؔ....ولید ھے تو اچھا لڑکا...اچھے خاندان کا بھی ھے... اچھے لڑکے ویسے بھی کہاں ملتے ہیں آج کل....کیوں ناں اسماء اور ولید کی جوڑی بنادی جاےؔ.....ہاں یه اچھا آئيڈیا ھے ...واه شاهنزیب کیا دماغ پایا ہے تو نے“وه الٹے ہاتھ سے سیدھے شانے پر تھپک کر خود کو ہی شاباشی دے رہا تھا....
”تم مسکراء کر اپنے کندھے کو کیوں تھپک رہے ہو؟؟؟“ ماهنور اسے حیرت سے دیکھتے ہوےؔ کھڑے کھڑے اُس کی اِس حرکت پر نظر جماےؔ پوچھ رہی تھی.....پر وه کوئی جواب نہیں دینا چاھتا تھا اس لیےؔ اس کے گال پیار سے سہلاتے ہوےؔ وہاں سے چل دیا.....وه اسے جاتا دیکھنے لگی۔
”کب تک ناراض رھنے کا اراده ہے تمھارا“ راحیل نے ثانیه کی طرف کافی کا کپ بڑھاتے ہوےؔ پوچھا تو وه کافی لینے کے بجاےؔ منه ماهنور کی سمت موڑ کر کہنے لگی:” مانو مجھے بھی کافی لادو“.....راحیل اس کی بات سن سمجھ گیا کے ابھی کھلا اظھار ہے ناراضگی کا...وه ثانیه کی اس حرکت پر مسکراء کر وہاں سے چل دیا...
”ٹھیک ہے میں لاتی ہوں کچن سے“ ماهنور کہ کر خالی ٹرے اٹھاےؔ کچن کی جانب چل دی....ابھی کچن کے دروازے تک ہی پھنچی تھی کے شاهزیه آپا اور چھوٹی چاچی جان کی باتیں سن کر وه وہیں کان لگاےؔ کھڑی ھوگیؔ...
”امی مجھے تو ماهنور اور راحیل کی جوڑی بھت پسند ہے...ابھی بھی جب دونوں برابر میں بیٹھے تھے تو اتنے پیارے لگ رہے تھے...میرا تو بس نہیں چلتا کے شادی کرادوں دونوں کی پکڑ کر“شاهزیه کی آواز میں خوشیوں کی کھنک تھی....ان کا لہجه مسرت بھرا تھا اور وه اپنے دل کی خواھش اپنی ماں کو بتارھی تھیں....
”واقعی دو ہنسوں کا جوڑا لگتا ھے ان دونوں کا....تمھارے بڑے ابو ماجی سے کہ تو رہے تھے کے وه راحیل سے بات کریں گے اِس بارے میں....پتا نہیں انھوں نے بات کی یا نہیں ابھی راحیل سے “ چھوٹی چاچی جان کی بات سن کر تو تھوڑی دیر کے لیےؔ تو ماهنور ھل سی گیؔ تھی.....دل میں جیسے لڈو پھوٹ رھے تھے.... دل میں کلیاں سی کھل رہی تھیں...
”راحیل پاجی اور میری شادی“ وه خود سے کلام کر کے جھیپ سی گیؔ .....چہرے پر ایک شرمیلی سی مسکراھٹ بکھر آئی تھی....
”لگتا ہے انھوں نے بات نہیں کی ابھی تک“شاهزیه آپا اندازا بولیں
”ھوسکتا ھے علی اور رومیسا کی شادی کے بعد بات کریں وه راحیل سے“ چھوٹی چاچی گویا ھوئيں....
”الله کرے راحیل ہاں کردے“شاهزیه آپا دعاگو ھوئی تھیں....
”منع کرنے کا سوال تو ویسے بھی نہیں اٹھتا....وه ھاں ہی کرے گا....اپنے بڑے ابو کا فیصله تھوڑی ٹال سکتا وه“ چھوٹی چاچی جان کی بات سن ماهنور بلش کرنے لگی تھی...وه بھاگتے ہوےؔ اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہی تھی....
”آرام سے مانو“ راحیل نے اسے روکنے کا اشاره کیا تھا....ورنه وه تو اس سے ٹکرا ہی جاتی.....آج تو جیسے دل کی دنیا بدلی بدلی معلوم ہورہی تھی....ناجانے یه کیسا احساس تھا جو پورے وجود میں سرایت کر رھا تھا....راحیل کو دیکھ کر گلابی گال مزید گلابی ھوگےؔ تھے....نظریں جھکاےؔ اسی کے سامنے کھڑی تھی ...سمجھ نہیں آرھا تھا کے کیا بات کرے اس سے....اس لیےؔ بغیر کوئی بات کرے شرماتی ھوئی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیؔ....
”یه مانو کو کیا ہوا؟؟؟....وه مجھے دیکھ کر اس طرح شرماتی ہوئی کیوں بھاگ گیؔ؟؟؟“ وه اپنے آپ سے کلام کر رھا تھا....کے سامنے اسے ثانیه کھڑی نظر آئی جو اسے ہی دیکھ رہی تھی....راحیل نے آبرٶ اچکاےؔ پوچھا تھا کے کیا ھوا؟؟.....تو جواب میں وہی خفگی تھی.....اور وه منه موڑ کر ٹیرس کی جانب چل دی....اسے منانا تو تھا آخر دوستی جو کی تھی.....اس کے پیچھے پیچھے خود بھی ٹیرس کی جانب بڑھ گیا....
”کب تک ناراض رھنے کا اراده ھے میڈم....کب تک نظروں میں خفگی رہے گی ھمارے لیےؔ....“ وه گریل کو پکڑے چاند کی چاندنی کو دیکھ رہی تھی....بھیگی بھیگی چاندنی کے سحر نے اسے اپنے حصار میں جکڑ لیا تھا...وه بےاختیار جامن کی شاخوں سے جھانکتے مہتاب کو دیکھتی چلی گیؔ.....جس کی روشنی نے پورے ٹیرس کو جگمگا ڈالا تھا....اس نے اچانک آکر ثانیه کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر پوچھا تھا....
”مجھے بھی اکیلا چھوڑ دو“ ثانیه نے بھی اسی بےرخی سے ہاتھ چھڑوایا تھا جیسے اس ظالم نے چھڑوایا تھا....
”یار .....معافی مانگ تو رہا ہوں“
”احسان کر رھے ھو مجھ پر....معافی مانگ کر؟؟؟“ وه منه بسور کر دونوں ہاتھوں کو فولٹ کر کے بےنیازی سے کھڑی ہوگیؔ تھی....
”اچھا بابا...سوری....کہو گی تو اٹھک بیٹھک بھی کرلوں گا“ راحیل نے اپنے دونوں کانوں کو پکڑتے ھوےؔ بھولا سه چھره بناکر معافی طلب کی تھی....
اب وه اِس قدر سنگدل بھی نه تھی کے اتنا بھوله چہره دیکھ اور پیاری سی معافی کو رد کردیتی....
”وعده کرٶ....اگر اب غصه بھی آےؔ گا تو بھی مجھ پر چیخ کر نہیں بولو گے“ اس نے اپنا ہاتھ راحیل کی جانب بڑھاتے ہوےؔ وعده مانگا تھا....جس پر اس نے مسکراتے ھوےؔ اس کے ہاتھ کو مضبوطی سے تھام کر وعده کیا تھا....
”چلو اب دوستی کی خاطر ہی صحیح...میرے ساتھ کافی تو پی لو“اس نے کہا تو وه جواب میں مسکراء دی....”ٹھیک ھے میں لے کر آتی ھوں“ وه کہ کر کافی لینے چلی گیؔ.....
”میں اپنی محبت کھوچکا ہوں ثانیه......اب دوست نہیں کھونا چاھتا“ وه خود ہی کلام کر رہا تھا۔....
*****-----*****
شاهنزیب ایک صفحے پر راحیل کی رائٹنگ کی نقل کرنے کی کوشش کر رہا تھا...پر اس بار بھی ناکام تھا اٹھا کر وه سفید کاغذ اس نے پیچھے کوڑےدان کی جانب بغیر منه موڑے پھینکا تھا جو کوڑےدان سے ٹکرا کر وہیں زمین پر گر گیا تھا...کوڑا دان پورا فل ھوچکا تھا کاغذوں سے....اور اب تو کوڑے دان کے اردگرد بھی کاغذوں کا ڈھیر لگ گیا تھا...اس نے ایک نیا کاغذ نیکالا....تھوڑی دیر کے لیےؔ آنکھیں بند کرلیں...کیونکے تھکن سے چور چور ہورہا تھا اس کا پورا جسم رات کے 3 بج چکے تھے پر ابھی تک وه راحیل کے رائٹنگ کی نقل نه کرسکا تھا...
”خدا تیرا شکر ھے...کے میں نے راحیل کی ڈائری سے ماهنور کی فوٹو پہلے ہی نیکال لی تھی....جس کے مجھے دو فائدے ہوےؔ ہیں....ایک تو فوٹو کے پیچھے لکھی ھوئی شاعری میں راحیل کی ہینڈ رائٹنگ ہے ....اور دوسری بات مجھے مانو نے باور کروائی کے ثانیه تو یہاں نئی ھے...اسے تو کسی کے بارے میں کچھ خاص پتا ہی نہیں....وه راحیل کی ڈائری پڑھ کر ہرگز بغیر اس فوٹو کو دیکھے صرف شاعری اور غزلیں پڑھ کر ماهنور تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی....اور مجھے اِس بات سے فائده اٹھانا ھے ....اگر میں آخر میں اس پوری ڈائری میں جس لڑکی کا ذکر ھے اسے تصوری دنیا کی خوبصورت سی لڑکی کا لباده دے دوں تو ثانیه آپا کبھی بھی ماهنور تک نہیں پھنچ سکے گی...پر میں کیا کروں....اتنی کوشش کررہا ہوں پر کامیابی مجھے جیسے منه چڑھا رہی ہے“ اُس نے پھر سے کاغذ کی گڑمڑی بناکر پیچھے پھینکا تھا....
رات کے 4بج جاتے ہیں.....اب تو جیسے ہاتھ بھی جواب دے گےؔ تھے....وه وہیں کرسی پر بیٹھا ٹیبل پر سر رکھ کر سوجاتا ھے....آنکھ کھلتی ھے تو فجر کی آذان سنائی دیتی ھے....دل میں عارضو پیدا ھوتی ھے کے خدا سے دعا کرے......بس اس لمحے جب کے آنکھوں میں نیند کا قمار ھے....آنکھیں ٹھیک طرح کھل بھی نہیں رہی ہیں...پھر بھی دیوانا دعا میں ہاتھ اٹھا دیتا ھے.....
”یاخدا میں بھت گناھگار بشر ہوں.....میں مانتا ھوں کے میں راحیل کے ساتھ ناانصافی کر رہا ہوں....میں جانتا ھوں نه چاھتے ھوےؔ بھی میں نے سعدیه کا دل دوکھایا ہے....مجرم ہوں میں اُن دونوں کی محبت کا....پر مالک یه میں نہیں تھا جس نے ماهنور کو اِس دل میں جگه دی....یه تو نے کیا ھے....تو نے اُس کی محبت اِس قدر میرے دل میں بھر دی ہے کے میرا خود پر کوئی اختیار نہیں رھا.... “اُس کی آنکھوں میں آنسوں آنے لگے تھے....وه گڑگڑاتے ھوےؔ:”مالک تو گواه ھے ہر لمحه دل نے صرف اسی کی عارضو کی ھے....صرف اسی کو چاھا ھے....یه سانسیں اسی سے ہیں مالک....تو اسے مجھے عطا کردے....وه میری سچی محبت ھے مالک.....تو اسے مجھے عطا کرے“ اس کی آنکھوں میں صداقت اور لفظ سچائی و خلوص و محبت سے لبریز تھے....دعا کرنے کے بعد اٹھ کر نماز پڑھنے چلا جاتا ہے....
واپس آکر بیڈ پر لیٹنے لگتا ہے کے دل میں ایک بار پھر کوشش کرنے کی امنگ اٹھتی ھے....واپس رائٹنگ ٹیبل پر آکر کوشش کرنا شروع کردیتا ھے....خوشی کی انتھا نہیں رھتی جب پہلی بار میں کامیابی قدم چومتی نظر آتی ہے....مارے خوشی کے اچھل پڑتا ھے....
آج چونکے علی کی بارات کا دن ھے اس لیےؔ صبح سے ہی پورے گھر میں شور و غل مچا ھے ...کوئی کہیں جارھا ھے تو کوئی کہیں....بس ثانیه ہی اکیلے لان میں بیٹھی فون کا انتظار کررھی تھی....اس کا سیل پانی میں گرجانے کی وجه سے خراب ھوگیا تھا جیسے اس نے راحیل کو دیا ھے ٹھیک کروانے کے لیےؔ....جنید آکر اس کے پاس کھڑا ھوکر التجاء کرنے لگتا ھے ”آنی اس کاغذ کا جھاز بنادو.....میں اڑاٶں گا“ ثانیه جیسے ہی وه کاغذ ہاتھ میں پکڑ کر کھولتی ھے....اس میں راحیل کی رائٹنگ دیکھ حیران ھوکر جنید سے پوچھتی ھے:”یه کاغذ تمھیں کہاں سے ملا؟؟؟.....“وه اس کے گالوں کو سہلاتے ہوےؔ اس کے جواب کی منتظر ہوتی ھے...
”وه نانی جان ناں اسٹور روم کی صفائی کروارہی تھیں....میں وہیں اُن کے ساتھ کھڑا تھا .....وہاں ایک پورانا سه صندوق تھا ....اس صندوق کے پاس پڑا ملا مجھے یه“ اُس نے بھولے پن سے پوری بات بیان کردی تھی.....
”یعنی یه راحیل کی ڈائری کا ھے...شاید مجھ سے وھیں گرگیا ھوگا....اس سے پہلے راحیل موبائل لے کر آےؔ میں اسے کمرے میں رکھ آتی ھوں....وه کھ کر اُس کاغذ کو لے کر چل دی...جنید نے پیچھے سے آوازیں بھی لگائيں پر وه جلدی میں تھی اِس لیےؔ کوئی جواب نه دیا....
ؐجنید سیڑھیوں کو پھیلانگتا ھوا اوپر آیا ”کام ہوگیا؟؟؟“شاهنزیب نے مسکراتے ہوےؔ پوچھا تھا...
”جی ماما....ہوگیا....جو آپ نے بولنے کو کہا تھا بلکل وھی بولا میں نے....اب لائيں میرا انعام“جنید نے بڑی اچھی طرح کام انجام دیا تھا اس لیےؔ انعام تو بنتا تھا...اس نے چاکلیٹ اپنی جیب سے نیکال کر انعام کے طور جنید کو دی....جنید چاکلیٹ لے کر خوشی خوشی چلا گیا....
”ہوگیا کام....راحیل میں نے تم سے تمھاری محبت چھینی ھے ....اس کے بدلے میں تمھیں ثانیه کی محبت دے رھا ھوں....ثانیه آپا بھت اچھی ھیں....ویسے بھے کسی دانشور نے کیا خوب کہا ھے ....کبھی اس سے شادی نه کرٶ جیسے تم محبت کرتے ھو ....شادی ہمیشہ اُس سے کرو جو تم سے محبت کرتا ھو...مجھے یقین ھے ثانیه کی محبت بھت جلدی تمھیں اپنی جانب راغب کرلے گی....“شاهنزیب دل میں سوچ کر مسکراتے ھوےؔ وہاں سے چل دیا...
ثانیه نے موقع پاتے ہی کمرے کا رخ کیا تھا....اس کے دل میں بڑا اشتیاق تھا اس صفحے کو پڑھنے کی خاطر....دروازه اندر سے لوک کیا....اور بیڈ پر جاکر بیٹھ گیؔ....وه صفحه اس نے بیڈ کے سائيڈ کونر پر رکھا تھا ....اب نیکال کر پڑھنا شروع کیا تھا....
میرے تصور میں ہے جس کا تصور
وه خیال تم ہی ہو.........................
آنکھیں جس کا گہرا سمندر
ڈوب کے جس میں مر مر جاٶں میں اُس پر....
وه شوخ چنچل مزاج اُس کا
وه ناز و نداکت سے بھری ادائيں......
وه معصوم لہجه وه شرارتیں
ہوا ہے دل بےساخته قربان اس پر....
وه جس کو دیکھ کے ہوجاٶں میں بےقابو
خوبصورتی په اس کی دل لکھے میرا غزل ....
میرے تصور میں ھے جس کا تصور
وه خیال تم ہی ہو.........................
{ا ر سی}
یه غزل پڑھتے ہی وه صفحے کو خوشی سے اپنے سینے سے لگالیتی ھے....پھر آنکھوں سے چومتی ہے اور اپنے ہونٹوں سے لگا کر بیڈ پر بےجان گڑیا کی طرح گرجاتی ھے....
”تمھاری ڈائری پڑھنے کے بعد بس یہی غم تھا دل کو....کے اتنے حسین جذبات رکھنے والا....اتنے حسن اخلاق والا....اتنے پیارے سے چہرے والا....اتنے سنھرے دل کا مالک میرا نہیں ھوسکتا...مگر اب مجھے پتا چلا ھے کے یه تو صرف تمھاری محبوبه کے تصوری خیال تھے ...تمھیں ایسی لڑکی چاھیےؔ....تو اب میں کوئی قصر نہیں چھوڑو گی تمھیں اپنے رنگ میں رنگنے میں.....اب تو تم بس دیکھتے جاٶ راحیل ...کب خود اپنا دل مجھے دے بیٹھو گے تم کو خود خبر نه ہوگی....خود شمع بن کر تمھیں پروانے کی طرح اپنا دیوانا نا بنادیا تو میرا نام بھی ثانیه اقبال نہیں....“ثانیه کی آنکھوں میں جگنو چمک رھے تھے....دل کی دنیا رنگوں سے پُر تھی ....
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رومیسا آپا کی رخصتی کا وقت آپہنچا تھا ....سب رخصتی کے وقت آکر ایک ایک کر کے گلے مل کر جارھے تھے...سب سے آخر میں ماهنور آئی تھی گلے ملنے...جب وه گلے لگی مانو وقت تھم گیا....ایک سال سے دونوں سن رھی تھیں کے جدا ھونا ھے...بچھڑنا ھے...آپا کی رخصتی ہونی ھے....پر پھر بھی اِس بےقرار دل کو قرار کہاں آتا ھے ....کہاں یه باولا کسی کی سنتا ھے ....بس سینے سے لگنے کی دیر تھی....آپا کسی سے مل کر نہیں روئی تھیں پارلر والی کی سخت تاکید تھی کے رونا نہیں میک۔اپ خراب ھوجاےؔ گا ....پر ایک ماں کا دل تھا بےقرار تو ھونا ہی تھا....ممتا آنکھوں کے راستے جھلک رھی تھی....ماهنور کا حال بھی کچھ جدا نه تھا بھت سوچا تھا کے نه روےؔ گی آپا کی رخصتی پر....مسکراتے ھوےؔ وداع کرے گی انھیں....پر تھی تو بچی ہی ناں....اپنی انوکھی ماں کی جدائی میں پھوٹ پھوٹ کررونے لگی....سب الگ کررھے تھے....پر وه دونوں ہی جدا ھونے کے لیےؔ تیار نه تھیں....{شارق : رومیسا آپا کا اکلوتا دیور } سامنے بیٹھا سب کی طرح حیرت سے یه منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا....
”آخر یه بھابھی کی کزن اتنا کیوں رو رھی ھے....“شارق اپنے دل میں سوچتے ھوےؔ.....
”رومیسا سمبھالو خود کو ....شاهنزیب ماهنور کو لے کر جاٶ یہاں سے“ شاهنزیب کی والده نے زبردستی اسے رومیسا کے سینے سے ھٹاتے ہوےؔ بولا تھا...
شاهنزیب اسے ہاتھ پکڑ کر اسٹیج سے اتار کر نیچے لے آیا تھا....اسے بیٹھا کر صوفے پر...پانی کا گلاس دیا تھا اس کے ہاتھ میں....کامران ٖ اسماء ٖ ریشم اور صباء سب اسے چپ کرانے آپہنچے تھے....
”بس کردو یار ....سیلاب لانا ہے کیا تمھیں؟؟“کامران نے اسے چپ کرانے کے لیےؔ مصنوعی بےزاری کا رویه اپنایا تھا....
”کامران بھائی مت کریں ناں“اس نے اپنے آنسوں صاف کرتے ہوےؔ کہا تھا....شارق کی نظر ابھی بھی ماهنور پر ٹکی تھی....
”ڈیڈ میں باندھو آپ کے ٹائی؟؟“ ماهنور نے دوائیاں اور پانی کا گلاس ڈریسنگ پر رکھتے ہوےؔ بڑی محبت سے ان کی ٹائی جو ڈریسنگ پر رکھی تھی ہاتھ میں اٹھاتے ہوےؔ مڑ کر پوچھا تھا...وه شرٹ میں بٹن لگارہے تھے....
”نیکی اور پوچھ پوچھ....ضرور میری شھزادیِ ِحُسن“انھوں نے بٹن لگانے کے بعد اتنی پیار سے جواب دیا تھا جتنی محبت سے سوال کیا گیا تھا....
وه ٹائی لاکر اُن کے سامنے کھڑی ہوگیؔ:”آپ مجھے شھزادیِ حُسن کیوں کہتے ہیں؟؟؟.....اب میں اتنی بھی خوبصورت نہیں ہوں“اُس نے ٹائی کو گلے میں ڈالتے ہوےؔ کالر کے نیچے سیٹ کرتے ہوےؔ کہا تھا....
”آپ کتنی خوبصورت ہیں کوئی میرے دل سے پوچھے....میرے لیےؔ تو دنیا میں آپ سے زیاده حسین کوئی ہے ہی نہیں....آپ کو پتا ہے جب آپ پیدا ہوئيں تو زنده تھیں آپ کی ماں....صرف آپ کی ایک جھلک دیکھنا چاھتی تھیں مرنے سے پہلے....جب انھوں نے آپ کو دیکھا تو خوشی سے جھومتے ہوےؔ ماتھا چوما تھا آپ کا ....بڑے مسرور لہجے میں بول رہی تھیں....حُسن کی شھزادی معلوم ھوتی ھے کوئی....یه نام میں نے نہیں آپ کی ماں نے تحفہ دیا ھے آپ کو....پر آپ ایسا سوال کیوں کررہی ہیں کسی نے کچھ بولا ہے کیا؟؟؟“انھوں نے ماهنور کے چھرے کی اداسی کو پڑھ کر ہی سوال کیا تھا....وه جانتے تھے کے کوئی بات ھے جو ماهنور بول نہیں پارہی ان سے....
وه ٹائی باندھ چکی تھی ...بیڈ پر بچھا ہوا کوٹ اٹھاکر لائی ...اور اپنے ڈیڈ کو پھنانے لگی....”کوئی بات ہے جو آپ بولنا چاھتی ہیں؟؟؟؟“...ماهنور کوٹ پھناکر جانے لگی تو انھوں نے ہاتھ پکڑ کر استفسار کیا تھا:”ڈیڈ ....وه“ ماهنور ہچکچا رہی تھی
”ایسی کیا بات ہے جو ھماری شھزادی ہم سے نہیں کرپارہی....آپ بےہچکچاھٹ بولیں“انہوں نے ماهنور کو اپنے ساتھ بیڈ پر بیٹھاتے ہوےؔ بولا تو وه تھوڑی دیر سوچنے کے بعد:”ڈیڈ....ثانیه آپا راحیل پاجی کو پسند کرتی ہیں...مجھے نہیں پتا کے مجھے یه بات آپ کو بتانی چاھیےؔ یا نہیں ...میں نے یه بات پہلے شاهنزیب سے ڈسکس کی تھی اُس نے کہا کے مجھے یه بات آپ کو بتانی چاھیےؔ....اور مجھے لگتا ہے راحیل پاجی بھی انہیں پسند کرتے ہیں“ راحیل کا نام لیتے ہی اُس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی...
”آپ کو یه بات کس نے بتائی؟؟؟“وه حیران ھوکر پوچھنے لگے....
”خود ثانیه آپا نے...انھوں نے یہ بھی کہا کے انہیں لگتا ھے راحیل بھی انہیں پسند کرتا ھے“وه روپڑی تھی یه کہتے ہی....
”اِس میں رونے کی کیا بات ھے ....اگر وه ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں؟؟؟“ ماهنور کے باپ کا دل تڑپ اٹھا تھا اپنی چاند سی بیٹی کو روتا ھوا دیکھ....
”میں نے شاهزیه آپا اور چاچی جان کو بات کرتے سنا تھا کے آپ میرے رشتے کی بات راحیل پاجی سے کرنے والے ہیں....پر دوسرے ہی دن صبح میں جب میں نے یه بات شاهنزیب کو بتائی تو اُس نے مجھے بتایا کے راحیل پاجی تو مجھے ریجیکٹ کرچکے ہیں پہلے ہی....کیا میں خوبصورت نہیں ہوں ...یا اِس قابل نہیں ھوں کے وه مجھے پسند کرتے....انھوں نے مجھے ریجیکٹ کردیا ڈیڈ“ کھ کر وه روتے ھوےؔ اپنے باپ کے سینے سے لگ گیؔ تھی....
”تو یه وجه تھی کے راحیل نے ماهنور سے شادی کی بات پر ذرا سی بھی خواھش ظاھر نہیں کی تھی“انھوں نے دل میں سوچا تھا....
”دیکھو بیٹا....سب کی اپنی اپنی پسند ھوتی ھے....اس کا مطلب یه تھوڑی ھے جو چیز ہمیں پسند نه آےؔ وه خوبصورت نہیں...راحیل اور تمھارا مزاج ویسے بھی بھت الگ ھے...اور تمھیں کوئی ریجیکٹ نہیں کیا ھے اُس نے....بس اُس کے دل میں کوئی اور تھی اِس لیےؔ وه تم سے شادی کے لیےؔ راضی نه ھوا...اور تمھاری ماں کہتی تھی کے جوڑے تو آسمانوں پر بنتے ہیں ...زمین پر تو صرف انھیں ملایا جاتا ھے“انھوں نے ماهنور کو بھت سمجھایا تو وه آخر میں جاتے ہوےؔ کہ گیؔ؛”پتا ھے ڈیڈ ....شاهنزیب بھی بلکل آپ جیسی باتیں کرتا ہے“
اُس کے جانے کے بعد انھوں نے ذرا بھی دیر نه کی تھی شاهنزیب کو اپنے کمرے میں بلانے میں....سب ولیمے کے لیےؔ نیکل گےۭؔ تھے سوائے شاهنزیب کے.... بڑے ابو نے اسے اپنے ساتھ گاڑی میں بیٹھایا تھا....شاهنزیب کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے ہی رھ گیا تھا...کیونکے وه جانتا تھا کے اب اُس سے ولید کے متعلق بات ہونے والی ہے....وه شام سے بڑے ابو کے بلاوے کو اگنور کررھا تھا...پر اب کہاں بھاگتا جب انھوں نے گاڑی میں ہی اپنے ساتھ بیٹھا لیا تھا....”کہاں پھنس گیا ھوں....بڑے ابو پھر سے پوچھے گے کے شاه تم نے ولید کے بارے میں ماهنور کو بتادیا...اور میرا انکار میں جواب سن....خدا ہی جانے اِن کا کیا ری۔ایکشن ھوگا“
”شاهنزیب تم نے ماهنور کو بتادیا ولید کے بارے میں؟؟“ شاهنزیب کھڑکی سے باھر جھانک رھا تھا کے بڑے ابو نے وہی سوال کرڈالا جس کا اسے اندیشا تھا.....بڑے ابو کے انداز سے فکر کا عنصر ظاھر ہورہا تھا....
”نہیں وه موقع ہی نہیں ملا“ اُس نے وھی تین چار بار کہا بھانا دوھرایا تھا....اسکے جواب پر بڑے ابو نے سکھ کا سانس لیا تھا...اُن کے چھرے پر اطمینانی سی چھائی نظر آنے لگی تھی....شاهنزیب ابھی اُن کے بدلتے تاثر کو ہی بغور دیکھ رھا تھا کے ”اچھا ھوا ....خدا جو کرتا ھے اچھے کے لیےؔ ہی کرتا ھے ....اب ماهنور کو کچھ بتانے کی ضرورت ھے بھی نہیں“ شاهنزیب نے یه بات سنی تو خوشی سے جھوم اٹھا تھا اک لمحے کے لیےؔ تو دل میں خیال آیا کے شاید رشتہ منع ہوگیا ھے....یه سوچ کر چھره کھل اٹھا تھا اُس کا....
”راحیل کی انکار کا مانو کو تم سے پتا چلا تو اُس کا ننھا سه دل ٹوٹ کر بکھر گیا....اسے لگ رہا ھے کے راحیل نے اسے ریجیکٹ کردیا ھے....بڑی مشکل سے اسے سمجھایا میں نے...کے جیسا وه سوچ رہی ھے ایسا نہیں ہے.....میری مانو کا دل بھت نازک ھے ....خدا جانے آگے کیا ہونے والا ھے...اگر ولید کو ماهنور پسند نه آئی تو.....ویسے تو میری بیٹی بھت خوبصورت اور نیک سیرت ھے مگر ہم کسی کے دل میں تھوڑی بیٹھے ہیں...جیسے راحیل کو ثانیه پسند آگیؔ..اسطرح ولید کو بھی کوئی اور پسند ہوئی یا بلفرض ماهنور پسند نه آئی تو میری بچی یه برداشت نه کرسکے گی....اس لیےؔ پہلے ولید کا جواب آنے دو.....
اگر جواب ہاں میں ھوا جس کی مجھے پوری امید ھے تو ماهنور کو اس رشتے کے بارے میں بتائيں گے ورنه تم اور میں دونوں اس بات کو ایسے بھول جائيں گے جیسے یه کبھی ھوئی ہی نہیں....تم سمجھ رھے ہونا ....میں کیا کہ رہا ھوں“انھوں نے اپنی آخری لائن پر خاصه زور دیا تھا اور شاهنزیب نے اثبات میں سر ھلاکر ان کے دل کو تسلی دی تھی کے یه بات ان کے اور شاهنزیب کے درمیان ہی رہے گی....شاهنزیب دل ہی دل خدا کا شکر ادا کررپا تھا...
”ڈیڈ نے تمھیں کیوں روک لیا تھا؟؟؟“شاهنزیب کو اکیلا پاتے ہی ماهنور نے آبرٶ اچکاےؔ پوچھا تھا....
”مانو تمہیں کوئی پیسے دیتا ہے کیا میری جاسوسی کرنے کے....جب دیکھو میرے پیچھے لگی رہتی ہو“اس نے ماهنور کی بات ٹالنے کے لیےؔ بدمزگی سے کہا :”اب جاٶ مجھے بھت کام ہیں“اُس کی بات سن منه چڑاکر جانے لگی...
”شاهنزیب سب کے تحفے کہاں ہیں؟؟؟“کامران اور باقی سب نے آتے ہی سوال کیا تھا...
”میں نے خان بابا سے کہا ہے وه لارہے ہیں“ شاهنزیب نے پیچھے مڑتے ھوےؔ کہا تھا....خان بابا آےؔ تو سب نے اپنے اپنے نام کے تحفے اٹھالیےؔ....
”شاه .....اِس میں وہی بریسٹ واچ ھے ناں ....جو میں نے تم سے کہا تھا لانے کے لیےؔ؟؟؟“ریشم نے اپنا گفٹ ہاتھ میں لیتے ھوےؔ پوچھا تھا....
”ھاں ....بڑی مشکل سے ملی ھے...صرف ایک دوکاندار کے پاس تھی پورے مال میں....جیسی تم نے کھی ویسی ہی لگی مجھے اس لیےؔ میں لے آیا.....ویسے تم سب نے بڑے چن چن کر گفٹ لکھے تھے ....حالت خراب ھوگیؔ میری ان سب کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے.....پر ذمہداری لی تھی اس لیےؔ بھرپور ایمانداری سے پوری کی ہے میں نے“ شاهنزیب نے مسکراتے ھوےؔ کہا تو سب نے اس کا شکریه ادا کیا ....سب خوشی خوشی تحفے لے کر آپا کو دینے چل دیےؔ.......
”شاهنزیب کیمرا مین کہاں ھے؟؟؟“علی نے آکر پوچھا تو وه اِدھر اُدھر دیکھنے لگا...” ابھی تو اسٹیج پر کھڑا تھا...میں دیکھ کر لاتا ھوں“ شاهنزیب کھ کر آگے بڑھ گیا....
فوٹو گرافر کو ساری لڑکیاں گہرے ہوئی تھیں”چل بھائی اسٹیج پر“شاهنزیب نے ہلکے سے اس کے کان میں کہا اور اسے اسٹیج پر لے کر آیا.....
شادی کی تقریبات میں ولید نے بڑھ چڑھ کر حصه لیا تھا وه بلکل گھر کا ممبر بن گیا تھا کچھ ہی دنوں میں....”اسماء تمھیں دادو بولا رہی ہیں کب سے“ ولید نے اس سے کہا تو وه چونکی تھی...
”کون دادو؟؟؟؟“وه آبرٶ اچکاےؔ پوچھ رہی تھی....
”یار ہماری دادو....اور کون“وه مسکراء کر کلام کر رھا تھا...جس پر وه بےزاری کا اظھار کرتے ہوےؔ بول اٹھی:”سنو امریکہ والے....زیاده گھر والے بنے کی کوشش نه کرٶ.....مہمان ہو....مہمان بن کر رھو....آےؔ بڑے ھماری دادو کہنے والے“وه طنز کرتے ہوےؔ وھاں سے چلی گیؔ.....جبکے ولید کا منه اتر سه گیا تھا....
”سمجھ نہیں آتا کیوں اتنے غرور والی ھے یه لڑکی....کچھ زیاده ہی گھمنڈی ہے یه....جب سے آیا ھوں تب سے بات کرنے کوشش کررہا ہوں...پر مجال ھے کبھی ٹھیک طرح سے بات کرلے“ ولید منه ہی منه بڑبڑایا تھا....
”کتنے پیارے لگ رہے ہیں ناں یه دونوں ایک ساتھ“ شاهزیه آپا نے شاهنزیب اور سعدیه کو اکیلے ایک ٹیبل پر بیٹھے دیکھ ماهنور سے کہا تھا.....ان کی بات سن کر اس نے بھی وه دلکش منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کے شاهنزیب سعدیه کا ہاتھ پکڑے بیٹھا ھے اور دونوں ناجانے کس بات پر خوب ھس رہے ہیں۔۔۔۔
”ہاں واقعی اچھے لگ رہے ہیں“ماهنور نے بھی ان کی بات سے اتفاق کیا تھا”سب ک سامنے تو ھر وقت کتے بلی کی طرح لڑتے رھتے ہیں....ایسا لگتا ھے زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی آن دونوں کی منگنی کرانا....پر اب دیکھو کیسے کھلم کھلا بیٹھ کر نین لڑا رھے ہیں...خوب ہیں یه دونوں بھی“ماهنور کہ کر مسکرائی تھی....تو آپا بھی اس کی بات سن مسکراء دیں....
”ویسے تم نے ایک بات نوٹ کی؟؟“آپا نے مصالحے دار خبر سنانے والے انداز میں کہا تھا تو ماهنور فورا پوچھ بیٹھی:”کیا؟؟؟“
”یہی کے سعدیه جو ڈریسنگ کی ہوئی ہے وه پوری شاهنزیب کی پسند کی ہے“شاهزیه آپا نے سنجیدگی سے کہا تھا اس لیےؔ اِسے مزاق ماننے کا تو سوال ہی نه اٹھتا تھا....یه سن کر اس کا منه موڑا تھا سعدیه کو بغور دیکھنے کے لیےؔ....اس نے اپنی جگه بیٹھے بیٹھے ہی سعدیه کا سر تا پاٶں جائزه لیا تھا....
”ہاں سعدیه نے تو دوپٹا شانوں پر ڈالا ہوا ھے آج....ورنه عموما تو سعدیه دوپٹا لیتی ہی نہیں...ڈریسنگ بھی شاه جیسی پسند کرتا ہے ویسی ہی ہے....پر شاه تو ہم دونوں کو ساتھ ہی مارکیٹ لے کر گیا تھا ...تب تو سعدیه نے کوئی ڈریس پسند نہیں کیا جبکے میں نے اسے کتنے سارے سوٹ دیکھاےؔ تھے...پھر کیا شاه اِسے الگ سے لے کر گیا ھے شاپنگ کرانے؟؟؟؟“ماهنور بڑی حیرت سے بولی تھی
”گیا تو ہے ....تبھی تو ڈریس آیا ہے....پر کب گیا سعدیه کو لے کر ....یه پتا نہیں....بھئی مجھ سے پوچھو تو مجھے لگتا ہے کے یه لڑائی یه جھگڑے یه سب اِن دونوں کی ملی جھلی سیاست ہے“آپا کی نظریں بھی شاهنزیب اور سعدیه پر ٹکی تھیں جو ایک دوسرے میں اِس قدر گُم تھے کے انہیں اپنا تعاقب کیےؔ لوگوں کی بھی کوئی پرواه نه تھی..
”کیسی سیاست آپا؟؟؟“ماهنور بھولا سه چھره بناٰکر انجان لہجے میں پوچھا تھا....
”اُو ....ہو ....مانو.....کتنی بےوقوف ہوں تم.....تمہیں تو ہر بات کھول کھول کر سمجھانی پڑتی ہے...یه دونوں ہر وقت لڑتے رھتے ہیں اِس لیےؔ جب کبھی یه دونوں ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں تو کوئی انہیں روکتا ٹوکتا نہیں....جبکے بیچارے شھزاد اور صباء کا کیا قصور ھے ....وه دونوں بھی تو کزن ہیں ناں....پر کبھی انہیں دیکھا ہے یوں ایسے محفل میں بیٹھ کر سب کے سامنے ہاتھ پکڑے ھوےؔ...“آپا نے اس کے سر پر ہلکی سی دھپ لگاتے ہوےؔ کہا ....آپا کے نظریے سے ماهنور نے اتفاق کیا تھا .....اب اسے بھی یقین ہوچلا تھا کے شاهنزیب اور سعدیه بس سب کے سامنے اُپری اُپری لڑائی کرتے ہیں ویسے تو دونوں ہی ایک دوسرے پر جی جان سے مرتے ہیں....
”میں واقعی کتنی پاگل ہوں ...ٹھیک کہ رہی ہیں شاهزیه آپا....میں تو شاه سے اپنے دل کی ہر بات شیئر کرتی ہوں...پر اِس نے مجھے کیوں نہیں بتایا اپنے اور سعدیه کے بارے میں...اگر اسے اکیلے سعدیه کے ساتھ شاپنگ پر جانا تھا تو مجھے بول دیتا ...اگر شاه نہیں چاھتا کے اُس کا صباء باجی اور شھزاد بھائی کی طرح ریکارڈ لگے تو مجھے ایک بار بول کر تو دیکھتا...میں کسی کو نہیں بتاتی...پر اس نے مجھے اِس قابل بھی نہیں سمجھا ...کے اپنے ریلیشن شیپ کے بارے میں مجھے بتاےؔ..شاید تبھی کہتا ھے کے میرے معاملوں سے دور رہو“آپا کو تو جنید جمشید کھینچ کرلے گےؔ تھے فوٹو بنوانے....ماهنور ہی اکیلے بیٹھی رھ گیؔ تھی....اور اُس کا دماغ صرف شاهنزیب اور سعدیه کے گرد گھوم رہا تھا....اسے سخت رنج پہنچا تھا شاهنزیب کی اِس حرکت پر....
”چلو مانو گروپ فوٹو بنوانے...جلدی چلو“ اسماء نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا تھا...
”میرا دل نہیں چاھ رہا....تم جاٶ...“اُس نے بےدلی سے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ھوےؔ کہا تھا....
”بس میڈم زیاده اتراٶ مت....اور چلو“ ابھی اسماء بول ہی رہی تھی کے نه جانے وه کب چلا آیا تھا ؛”چلو مانو“اس نے ہاتھ تھامتے ہوےؔ کہا تھا....
”مجھے نہیں جانا“ماهنور نے شاهنزیب کو دیکھ ٹکا سه جواب دے ڈالا تھا....
”منه کیوں بیگڑا ہوا ہے تمھارا؟؟؟....کیا ہوا؟؟؟.....کسی نے کچھ کہا ہے؟؟؟“شاهنزیب نے اس کا اداس چہره پڑھ لیا تھا...اِس لیےؔ فکرمند ہوکر پوچھنے لگا....
”کہا ناں....نہیں جانا....اب جاٶ یہاں سے تم دونوں“ اس کے الفاظ رنج میں ڈوبے ڈوبے معلوم ہورہے تھے...کے اگر ایک بار اور کہا جاتا تو وه رو دیتی.....پر شاهنزیب کب اس کی ناراضگی کو خاطر میں لاتا تھا جو آج لاتا.....”تمھارے تو ڈرامے ہی ختم نہیں ہوتے....چلو میرے ساتھ....تمھیں اکیلا چھوڑوں گا .....یه بھول ہے تمھاری“وه کہ کر ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوےؔ اسٹیج تک لانے میں کامیاب ہوا تھا....وه مسلسل ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کررہی تھی پر شاهنزیب کی پکڑ بھت مضبوط تھی....
رومیساء آپا اور جی۔جاجی ایک ساتھ بیٹھے تھے....آپا کے برابر والی جگہ ثانیه نے لی ....اور جی۔جاجی کے برابر والی راحیل نے....اس صوفے سے تھوڑا سه ہٹ کر بھی دونوں طرف صوفے تھے....جس پر ایک طرف علی اور دوسری طرف{ نوشین بھابھی:علی کی بیوی } بیٹھی تھیں....رومیسا آپا کے بلکل پیچھے ماهنور اور جی۔جاجی کے بلکل پیچھے شاهنزیب زبردستی اس کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیےؔ کھڑا تھا....شاهنزیب کے برابر میں سعدیہ ٖ ریشم ٖ اسماء کھڑے تھے ....ولید بھی آکر اسماء کے برابر میں ہی کھڑا ہوگیا تھا....
ماهنور کے برابر میں صباء ٖ شھزاد ٖ کامران ٖ شاهزیه آپا.....جنید جمشید کو ثانیه اور راحیل نے اپنی اپنی گودوں میں بیٹھالیا تھا....
”چھوڑو میرا ہاتھ“وه غصے سے دانت پستے ہوےؔ شاهنزیب سے کہ رہی تھی...
”ٹھیک ہے“ شاهنزیب نے کہ کر ہاتھ چھوڑا تو وه گھورتے ہوےؔ جانے لگی ...بغیر گروپ فوٹو بنواےؔ....ابھی ایک قدم بھی نه چلی تھی کے شاهنزیب نے ہاتھ چھوڑ تے ہی اگلے لمحے اس کا دوپٹا پکڑ لیا تھا...ولید یه سب دیکھ مسکراء رہا تھا...اور باقی سب نے خاص توجه نه دی...شاهنزیب نے دوپٹا پکڑ اس کے کان کے پاس آکر ہلکے سے سرگوشی کی....جس کے بعد وه نه چاھتے ہوےؔ بھی مسکراتے ہوےؔ فوٹو بنوانے لگی....
”شاهنزیب میں تمھیں چھوڑوں گی نہیں“ اس نے بھی شاهنزیب کے کان میں ھلکے سے کہا...تو وه مسکراء دیا...شاهنزیب نے ہر بار کی طرح اپنی ضد پوری کی تھی اور ماهنور دانت پستی رھ گیؔ تھی....
”ماهنور“ سب نیچے اتر کر چلے گےؔ تھے اسٹیج سے صرف ماهنور رھ گیؔ تھی ...وه بھی اترنے ہی والی تھی کے پیچھے سے اپنا نام پکارنے کی آواز اس کے کانوں کی سماعتوں سے ٹکرائی وه مڑی تو شارق کھڑا اسے اپنی طرف متوجه کررھا تھا...
”جی“ ماهنور نے اس سے آبرٶ اچکاےؔ پوچھا تھا...
”میرے ساتھ ایک فوٹو بنوایں گی؟؟؟“شارق تھوڑا ہچکچاھٹ سے کھ رہا تھا دل میں ڈر بھی تھا کے کہیں وه منع نه کردے پر پھر بھی ہمت کی تھی اس نے....
”وه .....وه میں“ ماهنور منع تو نہیں کررہی تھی پر اس نے ہاں بھی نہیں کہا تھا....یہی وجه تھی کے شارق دوبارا اس پر زور ڈالنے لگا....”پلیز....آپ بھابھی کی بھن ہیں اور میں آپ کے جی۔جاجی کا بھائی ...تو اِس رشتے سے ہم رشتےدار ھوےؔ....تو میرے ساتھ فوٹو بنوالیں پلیز“ وه مسکراتے ھوےؔ امید بھری نگاه سے ماهنور کی ہاں کا منتظر تھا...رومیسا آپا اور جی۔جاجی کھانا کھانے کے لیےؔ اسٹیج سے نیچے جاچکے تھے....اسٹیج پر صرف ماهنور اور شارق ہی تھے...وه کنفیوس تھی کے کیا جواب دے ....اُس کا دل مایوسی بھرا تھا شاهنزیب کی وجه سے....نه چاھتے ہوےؔ بھی صرف شارق کے باربار اصرار کرنے پر وه جاکر صوفے پر بیٹھ گیؔ.....وه مسرور ہوتا ہوا اس کے بلکل برابر میں آکر بیٹھ گیا....فوٹو گرافر کے کہنے پر وه مصنوعی مسکراھٹ اپنے لبوں پر تھوڑی دیر کے لیےؔ سجا بیٹھی.....
جیسے ہی فوٹو بنی وه اٹھ کر ابھی ایک قدم بھی آگے نه بڑھی تھی کے شارق نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا ...وه اِس انجان گرفت پر چونک کر شارق کی طرف مڑی تھی....فوٹو گرافر نے اس لمحے کو بھی قید کرلیا تھا.....”ٹھینکس“ شارق نے کھ کر مسکراتے ہوےؔ ہاتھ چھوڑا تھا....
ماهنور کو شارق کا یوں ہاتھ پکڑ لینا بھت ناگوار گزرا تھا....پر وه آپا کا دیور ہے یه سوچ کر غصه پی لیا تھا اُس نے....بغیر جواب کے وه اسٹیج سے اتر کر ریشم کے پاس چلی آئی تھی۔۔۔۔۔۔
ثانیه اپنے ڈیڈ کو راحیل سے ملوانے لائی...”ڈیڈ یه ہے راحیل“ثانیه کی آنکھوں میں راحیل کو اپنے ڈیڈ سے ملواتے ھوےؔ جگنو چمک رھے تھے....ثانیه کو کسی نے پیچھے سے آواز دی تو وه ان دونوں کو باتیں کرنے کے لیےؔ چھوڑ کر چلی گیؔ...
”السلام و علیکم“ راحیل نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوےؔ سلام پیش کیا تھا...راحیل کی آنکھیں احترام سے لبریز تھیں...کیونکے وه اُس کی دوست کے والد تھے...
”وعلیکم اسلام“ انھوں نے راحیل کا ہاتھ مضبوطی سے دباتے ہوےؔ حقارت بھری نظروں سے کہا تو راحیل سمجھ نه سکا کے وه اِس نظروں سے کیوں اسے نواز رھے ہیں....”پتا نھیں کیوں ثانیه کھتی ھے کے راحیل بھت اچھا ھے ...جبکے میں نے اسے بھت سمجھایا تھا کے بیٹی باپ کا اثر بیٹے میں ضرور آتا ھے...آخر دیکھادی ناں تم نے اپنی اصلیت....سوچا ھوگا بڑے باپ کی بیٹی سے شادی کرلو...تو زندگی بھر اس کے باپ کے پیسوں پر عیش کروں گا....تمھارا باپ تو جوےؔ میں اپنا سب کچھ لوٹا بیٹھا ...پر تم...ماننا پڑے گا اس سے دوقدم آگے نیکلے ہو....اتنا بھولا چھره اور اتنی گھٹیا نیت...تو کب کرنا چاھتے ھو شادی....مالدار پارٹی پھانسی ھے تم نے یه تو ماننا پڑے گا....تمھارے بڑے ابو بتارھے تھے مجھے کے کتنے ذھین ٖ ھوشیار ٖ نیک سیرت بچے ھو تم....تم نے جو بازی کھیلی ھے میں تو اسے دیکھتے ہی سمجھ گیا کے کیا ھو تم“ وه مسلسل ہاتھ پکڑ کر راحیل کی تذلیل اس کے منه پر ھی کیےؔ جارھے تھے....
راحیگ کا دل تو کررھا تھا مارے کرب کے ٖ کے زمین پھٹ جاےؔ اور وه اس میں سماء جاےؔ.....اس سے پہلے اتنی ذلت اس کی کبھی نه ھوئی تھی....وه تو جیسے بھیگو بھیگو کر جوتے مارے ہی جارھے تھے....راحیل نظریں نیچے کیےؔ ان کی طنزبازی دل کو خاکستر کردینے والے الفاظ سنتا رہا....
”اور سناٶ بیٹا آج کل کیا کررھے ھو...ثانیه بتارھی تھی کے نوکری کررھے ھو کسی کمپنی میں“ اچانک ان کا لہجہ محبت بھرا ھوا اور الفاظ بدلے تو وه حیرت سے انھیں دیکھنے لگا ...ثانیه برابر میں آکر کھڑی ھوگیؔ تھی اس لیےؔ انھوں نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلا ٹھا...”بیٹا تم دونوں باتیں کرٶ ....مجھے ذرا افتخار صاحب سے کام ھے“اقیال صاحب نے راحیل کا ھاتھ زور سے سےجھٹکا تھا ...جیسے ثانیه نے محسوس نه کیا کیونکے وه تو اپنی ھی دھن میں تھی....
”ڈیڈ کیا کھ رھے تھے تم سے؟؟“ثانیه نے خوش مزاجی سے پوچھا ....
”کچھ نہیں...بس تعریفیں کررہے تھے“ اس نے منه بسور کر کہا اور وھاں سے چلا گیا....
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماهنور تھکن سے چور چور ھوکر اپنے کمرے کی جانب جارھی تھی کے راستے میں انجانی گرفت میں اپنا ہاتھ اسے کھینچتا ھوا محسوس ھوا....شاهنزیب نے اس کا ہاتھ کھینچ کر اسے زور سے دیوار سے چپکا ڈالا تھا....اچانک ھوےؔ حملے کی وجه سے اس نے اپنا ہاتھ اپنے دل پر رکھ لیا تھا...
”یه کیا بدتمیزی ھے؟؟؟“وه شاهنزیب سے غصے سے بولی تو شاهنزیب جواب میں بجاےؔ بولنے کے اپنا ہاتھ زور سے دیوار پر مارتا ھے...ماهنور شاهنزیب کے اِس رویے پر ڈر جاتی ھے...وه ایک ہاتھ دیوار پر رکھا ھوتا ھے ماهنور کا راسته روکے....
ماهنور پہلے تو سہم سی جاتی ھے پر ناراضگی تو اُس کے دل میں بھی بھری تھی...
”اس حرکت کا کیا مطلب ھے؟؟“شاهنزیب اس کے بلکل قریب کھڑا دھتکی آنکھوں سے اس کی جانب دیکھتے ھوےؔ سوال کرتا ھے...
ماهنور اور اس کے درمیان دو قدم کا فاصله تھا پر یه سوال پوچھنے کے بعد وه ایک قدم اور آگے بڑھ جاتا ھے ...تو ماهنور کی سانسیں تھم سی جاتی ھیں...دل زور زور سے دھڑکنے لگتا ھے...
”کون سی حرکت؟؟...کس بارے میں بات کررھے ھو تم....مجھے نہیں پتا ...مجھے جانے دو“ وه کھ کر بائيں جانب سے نیکلنے کی کوشش کرتی ھے...تو وه فورا ھی اپنا دوسرا ہاپھ بھی اس کے راستے میں رکاوٹ کے لیےؔ حائل کردیتا ھے...وه اسے اپنے حصار میں لیےؔ....دیوار سے لگاےؔ.....دھتکی ھوئی آنکھوں سے گھورتا ھوا سوال کر رھا تھا.....ماهنور کے پاس سوائے اس کے سوالوں کے جواب دینے کے کوئی اور چارا نہیں ھوتا...”شارق کے ساتھ فوٹو کیوں بنوائی؟؟؟“شاهنزیب اب صاف صاف بات کررھا تھا اس کی آنکھیں غصے کے مارے سرخ ہورھی تھیں...
”میں کچھ پوچھ رہا ھوں؟؟؟“ماهنور نے جب کوئی جواب نه دیا تو وه غصے سے دھاڑا تھا...
”میری مرضی...میں جس کے ساتھ چاھے فوٹو بنواٶں...تم کون ہوتے ھو ؟؟؟....مجھ سے سوال کرنے والے“وه ڈری ھوئی ضرور تھی پر پھر بھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال جواب دے رھی تھی...
”میں کون ھوتا ھوں؟؟....تم یه مجھ سے کھ رہی ھو؟؟؟“شاهنزیب کے دل میں نشترکی کی طرح چبی تھی اس کی آخری لائن...وه تیمور چڑھاےؔ کھ رھا تھا....
”ھاں تم سے کہ رھی ھوں...اور کوئی ھے یہاں جس سے بولوں...میری مرضی...میں جس سے بات کرٶں...جس سے چاھے دوستی کروں...اور جس کے ساتھ چاھے تصویریں بنواٶں...تم حاکم بن کر میری زندگی پر اور مجھ پر حکومت کرنا بند کرٶ....یه حق صرف میری رومیسا آپا کو حاصل ھے...آپا کے جانے کے بعد اب میں خودمختار ھوں....اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کے لیےؔ....سمجھے تم....چھوٹے ھو....تو چھوٹے بن کر رھو.....میری زندگی میں بےجاں دخل دینے کی ضرورت نھیں ھے تمھیں...“پورا جسم کپکپارھا تھا شاهنزیب سے بولتے ھوےؔ....زندگی میں پہلی بار جو لڑرھی تھی اس سے.... ساری طاقت سمیٹ کر اپنے وجود کی اس نے دل کی بھڑاس شاهنزیب پر اتار دی تھی...
”ٹھیک ھے....اگر تم یھی چاھتی ھو....یہی صحیح“ ماهنور کے سخت الفاظوں نے ڈائرک شاهنزیب کے دل پر اثر کیا تھا...اس کا چہره ھی اس کے دل کا آئينه تھا...چھرے پر دوکھ کے اثار صاف جھلک رھے تھے...اس نے کھتے ھوےؔ دونوں ہاتھوں کو دیوار سے ھٹایا اور دو تین قدم اس کی آنکھوں میں جھانکتے ھوےؔ پیچھے کی جانب لیےؔ....مڑ کر اپنے کمرے کے بجاےؔ باھر گارڈن کی جانب بڑھ گیا....
ماهنور اپنے کمرے کی جانب روتے ھوےؔ قدم بڑھانے لگی....شاهنزیب کے دل کو امید تھی کے شاید وه روکے...شاید کچھ کھے...اپنے الفاظ واپس لے....وه مڑ کر ماهنور کو دیکھتا ھے...وه اپنے کمرے کا دروازه کھول رھی تھی...”میرا دل بھی تو کتنا پاگل ھے....یه اس سے وفا کی امید باندھے ھے...جو نہیں جانتا کے وفا کیا ھے“ وه دل میں سوچ کر خود ھی مسکراء دیتا ھے...اور واپس مڑ کر جانے لگتا ھے...
امید تو ماهنور کے دل کو بھی گہرے ھوتی ھے...”یه امید واقعی بھت عجیب شہ ھے...پتا ھے اِس دل کو ...وه روٹھنا جانتا ھے ماننا نہیں....پر پھر بھی آس لگاےؔ ھے کے شاید وه پلٹ کر دیکھے“ماهنور نے بھی مڑ کر شاهنزیب کی جانب دیکھا تھا....پر شاهنزیب اس کی جانب مڑا ھی نہیں...وه دل میں بڑبڑاتی رھ گیؔ تھی.....اسے جاتا دیکھ .....
سب مزے سے نیند کی آغوش میں تھے سوائے تین دوکھی دلوں کے ...جن کے دلوں کو سکون نه تھا..
راحیل چھت پر اکیلا کھڑا ثانیه کے باپ اقبال کی باتیں یاد کر کے دل ھی دل پھوٹ پھوٹ کر رو رھا تھا....”اچھا ھی ھوا میں نے ماهنور سے شای کے لیےؔ منع کردیا....ورنه آج صرف اقبال پھوپھا کھ رھے ھیں کل کو ساری دنیا مجھے اس بات کے طعنے دے رھی ھوتی.....میں نے تو کبھی ماهنور کو اس کے باپ کی دولت کی وجه سے نه چاھا تھا....پھر کیوں الزام دیتے ھیں اقبال پھوپھا میری محبت کو....میرا قصور ھے کے میرا باپ ایک خودغرض آدمی تھا...جس نے صرف اپنے لیےؔ سوچا....خود تو مر گیا پر مجھے پل پل مارتا ھے....میں کتنا بدنصیب ھوں....میں چاھ کر بھی اس سے شادی نہیں کرسکتا....جس کو دل و جان سے چاھنے کی گستاخی کی ھے...پر میں نے تو منع کردیا تھا .....یه بات بڑے ابو نے اقبال پھوپھا کو کیوں نھیں بتائی...شاید لڑکے کی طرف سے لڑکی کو انکار اچھی بات نہیں سمجھی جاتی معاشرے میں اِس لیےؔ......ویسے بھی وه تو اک شھزادی ھے میری کیا حیثیت جو اسے انکار کروں.....میری تو قسمت ھی میرے ساتھ کھیل ٖ کھیل رہی ھے....
اِس عاشق کو معاشق بنے سے پہلے سوچنا چاھیےؔ تھا کے کس کو پانے کی چاھ کر رھا ھے...“راحیل رنج و غم کی کیفیت سے دوچار تھا...
کبھی اپنی محبت کی بغیر کسی غرض کے ھونے کی دلیل خود کو دے کر اپنے دل کو تسکین دیتا ھے تو کبھی خود کو کوستا ھے کیونکر دل لگا بیٹھا۔۔۔۔۔
”تم چھت سے مسکراتے ہوےؔ کیوں آرہی ہو؟؟“اسماء نے ماهنور کو مسکراتا دیکھ پوچھا تھا...
”کیوں اب مسکرانے پر بھی پابندی ہے؟؟؟ماهنور نے منه بیگاڑتے ہوےؔ کہا تھا اور آکر بڑی امی کے برابر میں کرسی پر ٹک گیؔ تھی...”کیا پک رہا ہے آج کچن میں؟؟“وه خوش اخلاقی سے پوچھ رہی تھی...بڑی امی بھی کافی مونڈ میں تھیں اس لیےؔ فرمائش پوچھنے لگیں کے کیا کھانا پسند کرٶ گی تم....اک دم ان تینوں کو کسی کے چیخنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں..
بڑی امی تو دل پر ہاتھ رکھے الله خیر الله خیر کے نعرے لگاتی اوپر چل پڑیں اسماء بھی ساتھ ساتھ ہولی...
”اب آےؔ گا مزا اِس شاهنزیب کو....اِس کو تو میں ٹھیک کرکے رہوں گی... بڑی اکڑ ہے اِس میں....چیخ بیٹا....اور چیخ“ وه منه میں ھلکے سے بولتے ھوےؔ مسکراء رہی تھی....
”تم کیا یہاں بیٹھی مسکراء رہی ھو“اس نے پیچھے سے آکر ٹوکا تو ماهنور کا منه اسے دیکھ کھلا کا کھلا رھ گیا تھا...شاهنزیب کو اپنے سامنے کھڑا دیکھ وه بری طرح چونک کر کھڑی ہوئی تھی...
”اوپر سے چیخنے کی آوازیں آرہی ھیں اور تم مزے لے رہی ہو....حد ہے تم سے“وه ماهنور کے مسکرانے پر اسے ڈپٹ کر تیزی سے منه موڑتا ھوا ابھی ایک قدم ہی آگے بڑھا تھا...
”تم یہاں نیچے...تو واش روم میں کون ھے؟؟“ماهنور نے شاکٹ کے مارے اپنے ناخن منه میں چباتے ہوےؔ پوچھا...
”ڈیڈ ھیں“شاهنزیب نے فورا اس کی بات کا جواب دیا تو منه پر لاتھ رکھ ”اووووو ....اوووو“ کرنے لگی...
”کَیا کِیا ہے تم نے؟؟؟“شاهنزیب تیمور چڑھاےؔ غصے سے استفسار کیا ...وه بغیر جواب دیےؔ اوپر کی جانب بھاگنے لگی ...شاهنزیب بھی پیچھے پیچھے تھا...چھت پر آکر اس نے پانی کی سپلائی جو شاهنزیب کے باتھ روم کی تھی بحال کی تو شاهنزیب اسے غصے سے گھورنے لگا...
”کیا؟؟ایسے کیوں دیکھ رہے ہو....کھانے کا اراده ہے کیا؟؟؟“وه ڈھٹائی سے بولتی ہوئی اس کے پاس سے گزر کر چلی گیؔ...اور وه اس کی ڈھٹائی پر نفی میں گردن ھلانے لگا....”اِس لڑکی کا کچھ نہیں ھوسکتا“وه سوچتے ھوےؔ باہر ٹیرس پر جاکر کھڑا ھوگیا...
سورج اپنے آب و تاب سے چمک رھا تھا....دھوپ اسکے حسین چھرے پر پڑھ رھی تھی... ھوا کا ایک ھی جھوکا جسم و روح کو تازگی دے رھا تھا....وه حدِنگاه تک کا نظرا دیکھنے لگا:”مجھے ماهنور پر شارق کا غصه نہیں اتارنا چاھیےؔ تھا....اور لڑائی تو ہرگز نہیں کرنی چاھیےؔ تھی....وه بھی تب جب میرے سر پر ولید بیٹھا ھوا ھے....پہلے اس ولید کو نمٹ لوں پھر اِس شارق کو دیکھتا ھوں“ اس نے ولید کو فارغ کرنے کا منصوبه دل ھی دل تیار کرلیا تھا...شاید یہی وجه تھی کے وه خود کو بھت پرسکون محسوس کر رھا تھا....درختوں کے پتے چاندنی کی پایل پھنے جھوم رھے تھے....اور وه سب بھول بھال ان کا رخص سے پرلطف ہورھا تھا...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولید کمرے میں اکیلا لیٹا موبائل پر گیم کھیلنے میں مصروف تھا کے ایک انجانے نمبر سے کال آئی ...اس نے آٹینڈ کی..”ولید“ کسی مرد کی بھاری آواز معلوم ہورہی تھی...اس نے ڈائرک نام لے کر مخاطب کیا تو وه چونک کر اٹھ بیٹھا...” ۔ولید اسپیکنگ“اُس نے مخاطب کرنے والے کو جواب دیا تھا...”آپ کون؟؟“وه دوسرے ہی لمحے سوال کرنے لگا...تو دوسری جانب صرف خاموشی تھی ....کچھ لمحوں بعد خاموشی ٹوٹی :”ماهنور سے شادی کرنے آےؔ ھو؟؟؟“اس انجانی آواز نے ولید سے پوچھا تو وه ھاں کرنے لگا...پر ساتھ ساتھ مطالبه کرتا رہا کے وه اپنا نام بتاےؔ....
”میرے نام سے تمھیں مطلب نہیں ھونا چاھیےؔ....بس میری بات توجه سے سنو....کل ہی اپنے ملک لوٹ جاٶ....ماهنور سے شادی کا خیال اپنے دل و دماغ سے نیکال دو...ورنه“اُس آواز میں غصه بھی تھا اور دھمکی آمیز لہجہ بھی...
”ورنه ...ورنه کیا کرلو گے تم؟؟؟“ولید نے اس دھمکی پر سنجیدگی سے جواب طلب کیا تھا...
”زنده واپس نہیں جانے دوں گا ...یه تو قسم کھاتا ھوں...اگر میری بات نہیں مانی تو آج سے تیرا خراب وقت شروع....پھر شکوه نه کرنا میں نے خبردار نہیں کیا...”وه جو کوئی بھی تھا اس کے حوصلے بھت بلند اور اراده پکا معلوم ھورہا تھا...
”تم ہو کون؟؟؟....ماهنور اور میری شادی سے تیرا کیا لینا دینا...بول“جب کوئی جواب موصول نه ھوا تو وه اس دھمکی دینے والے کی تذلیل پر اتر آیا تاکے وه طیش میں آجاےؔ..”چھپ کر وار تو کاہل کرتے ھیں...ڈرپوک آدمی....اگر مرد کا بچه ھے تو سامنے آکر بول کے زنده نہیں جانے دے گا مجھے...بھت دیکھے تجھ جیسے“وه اپنے مقصد میں کامیاب ھوگیا اِس بات کا اندازه اسے تب ھوا جب اس پُرسرار شخص نے جواب دیا:”شکر کر چھپ کر وار کررہا ھوں....ورنه“وه کہتے کہتے خاموش ھوا اور پھر کال کٹ گیؔ....
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افتخار چاچا کو سامنے دیکھ ماهنور چپ چاپ دبے پاٶں اٹھ کر کچن کی جانب بڑھ گیؔ تھی...”بیٹا مانو“چاچا جان نے پیچھے سے آواز لگائی تو اس نے اپنی دونوں آنکھیں زور سے میچ لیں...”بیٹا“انھوں نے پھر سے آواز لگائی تو نه چاھتے ہوےؔ بھی مڑ کر انہیں دیکھنا پڑا...”آٶ مانو... چاچا کے پاس آکر بیٹھو“ چاچا صوفے پر ہاتھ رکہتے ھوےؔ اپنے پاس آکر بیٹھنے کا اشاره کررہے تھے...
”سب بیٹھے ھوےؔ ھیں...اگر چاچا نے ڈانٹا تو بھت بےعزتی ھوجاےؔ گی ...پر کیا کروں وه بلا رھے ہیں جانا تو پڑے گا...“وه گھبرائی ھوئی منه میں بڑبڑاتی اُن کے پاس آٰکر سب کے بیچ میں بیٹھ گیؔ....
”ڈیڈ یه ہی ھے وه ...جس نے پانی کی سپلائی بند کی تھی“شاهنزیب نے اس کے بیٹھتے ہی شکایت لگائی تھی...”ڈھیٹ تو اتنی ہے کے بیان نہیں کیا جاسکتا....چوری اوپر سے سینه زوری والی مثال ھے اس کی تو“ اس نے ماهنور کے وجود کو گھورتے ھوےؔ اُس کی شان میں قصیدے پڑھے تھے...جس بات پر سب کو اتفاق تھا...
”تم تو چپ ہی رہو....اگر بند میں نے کی تھی تو واپس بحال بھی میں نے ہی کی تھی“ماهنور نے شاهنزیب سے لڑتے ھوےؔ خود ھی اپنے جرم کا اعتراف کرڈالا تھا....
”ڈیڈ ...دیکھا آپ نے....خود اعتراف کیا ھے اِس نے“وه تو جیسے ٹھانے بیٹھا تھا کے آج تو ماهنور کی ٹھیک ٹھاک کلاس لگوانی ھے..
.چاچا جان سب سن کر مسکرانے لگے...انھیں ماهنور پر پیار آیا تھا...”میری جان....آئينده اگر پانی کی سپلائی بند کرنی ھو....تو پلیز مجھے بتادینا....میں صابن لگانے کی غلطی نہیں کرٶں گا“انھوں نے بجاےؔ ڈانٹنے کے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کہا تھا...
”بس آپ لوگوں کے ہی لاڈ پیار نے بگاڑ رکھا ھے اسے...کچھ کرنے سے پہلے سوچتی ہی نہیں ھے“شاهنزیب اپنا سر پکڑ ٰکر بول رہا تھا...وه بےزاری دیکھا رہا تھا ماهنور کی اِن بےجا شرارتوں سے...ولید یه سب دیکھ کر مسکرانے لگا..”ماهنور تو بلکل بچوں کی طرح ہے بھولی بھالی نادان....عمر میں بھلے ہی شاهنزیب چھوٹا ھے ....پر عقل و شعور ٖ تھذیب ٖ افعال و حرکات اور ہر لحاظ سے ماهنور چھوٹی ہے .... فقط عمر میں ہی بڑی ھے شاه سے.... شاید یہی وجه ھے کے یه نظروں کے تقاضوں سے بےخبر ھے“ولید مسکراےؔ جارھا تھا دل میں یه بات سوچ سوچ کر....وه راتوں رات خاموشی سے اپنے ملک لوٹ گیا۔۔۔۔
****-------*****
سعدیه نے اپنی والده کو بڑے مسرت بھرے لہجے میں بتایا کے اس نے اب شاهنزیب سے دوستی کا نیا رشته جوڑا ھے...یه سن اس کی والده کافی خوش ہوکر اسے شاباشی دینے لگیں....
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولید آرام سے صوفے پر بیٹھا اپنے لائنچ میں لیپ ٹائپ پر کام کررھا تھا...کے اس کے والد نے لیپ ٹائپ بند کرتے ھوےؔ غصیلی نگاه سے اسے گھورا تھا ”جب سے پاکستان سے آےؔ ھو کہاں گم رھتے ھو؟؟؟....اور اب تک تم نے میرے سوال کا جواب کیوں نہیں دیا“ وه پندره یا بیس بار کا رٹا رٹایا جمله بول رھے تھے...
”کہا تو ہے آپ سے مجھے انٹرس نہیں ھے ماهنور سے شادی میں...دے دیں اس کے باپ کو جواب“ولید بری طرح جنھجھلایا تھا...
”آخر وجه بھی تو ھوگی نه شادی کرنے کی...تمھیں پتا بھی ھے کے تمھاری ایک ہاں میرے بزنس کو آسمانوں کی بلندیوں تک پہنچا سکتی ھے....اور ایک نه میرا کتنا لوس کرسکتی ھے ....اندازه ھے تمھیں؟؟؟“وه جتاتے ہوےؔ پوچھ رھے تھے...”آخر برائی کیا ھے ماهنور میں ؟؟؟“وه غصے سے دھک کر سوال کررھے تھے...
”میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا...میں شادی کرنے میں ابھی کوئی انٹرس نہیں رکھتا....پر صرف آپ کے اصرار پر گیا تھا پاکستان ماهنور کو دیکھنے“ولید نے لیپ ٹائپ شیشے کی میز پر سے اٹھاتے ہوےؔ کہا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاهنزیب کچن میں پانی کی بوتل لینے داخل ھوا تو نوشین بھابھی اسے دیکھ کر مسکرانے لگیں....ماهنور بھی کچن میں ہی تھی وه دھولے ہوےؔ برتنوں کو سوکھا کر ان کی جگاٶں پر رکھ رہی تھی...
”آپ مجھے دیکھ مسکراء کیوں رہی ھیں بھابھی؟؟؟“شاهنزیب نوشین سے پوچھ کر پاس رکھا گلاس اٹھانے لگا....
”تمھاری اور سعدیه کی جوڑی بھت پیاری ھے اور ایک ساتھ گیٹار بجاتے ھوےؔ تو تم دونوں میٹ فور ایچ ادر لگ رھے تھے...اور یه صرف میں نہیں تمھارے علی بھئيا بھی کھ رھے تھے...میری نظر تو تم دونوں سے ھٹ ھی نہیں رہی تھی“بھابھی کی آنکھوں میں وہی گارڈن کا تصور گھوم رھا تھا ابھی تک...جس میں سعدیه نیلے رنگ کے ڈھیلی ڈھالی شرٹ اور اوربلیک پینٹ ٖ شاهنزیب سفید رنگ کی شرٹ اور بلیک جینز میں ملبوس سعدیه کا ہاتھ پکڑ کر اسے گیٹار بجانا سیکھاء رہا تھا...
”بھابھی ایسا کچھ نہیں ھے جیسا آپ سوچ رھی ھیں ...سعدیه میرے کمرے سے گیٹار نیکال کر گارڈن میں لے بیٹھ گیؔ اور بجانے لگی...اسے بجانا نہیں آرھا تھا تو میں اسے بجانا سیکھا رہا تھا...اور کچھ نہیں“وه مسکراتے ھوےؔ بھابھی کی غلط فھمی کو دور کررھا تھا..پر وه تھی کے پھر بھی اسے شوخ نظروں سے دیکھے جارھی تھیں..
شاهنزیب کے جانے کے بعد ”باتیں بنا رہا ھے...نادان ھے ابھی...“بھابھی نے مسکراتے ھوےؔ ماهنور کو دیکھ کھا تھا...جس پر وه بھی مصنوعی مسکراھٹ اپنے لبوں پر سجا کر جواب دینے لگی....”جی“
”لگتا ھے شاه سعدیه سے بھت محبت کرتا ھے ....تبھی تو اِن کی محبت کی مھک سب محسوس کررھے ہیں“ ماهنور اپنے دل میں سوچنے لگی..
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کو جیسے پنکھ لگے تھے ...شھزاد بھائی گھر میں داخل ھی ہوےؔ تھے کے چاچا جان جو تین چار دنوں سے بھرے بیٹھے تھے انہیں دیکھتے ہی کھڑے ھوگےؔ:”تم سے زیاده بےقوف لڑکا میں نے زندگی میں نہیں دیکھا ھے شھزاد...جب تمھاری بکنگ ہوٹل میں تھی تو تم اپنی بھن کی سسرال میں ایک مہینے سے کیوں رھ رھے تھے؟؟....اگر وه صرف تمھاری بہن کا گھر ھوتا تو میں برداشت کربھی لیتا پر وه اس حرامی فرحان کا بھی گھر ھے...بھول گےؔ تم؟؟؟“چاچا جان کے آنکھوں میں غصه اور لہجے میں سختی تھی....
انھیں کیا ...کسی کو بھی شھزاد کا ایک ماه کا قیام وه بھی شاهزیه آپا کے گھر کرنا پسند نه آیا تھا...
{فرحان:شاهزیه کا شوھر} ....شاهزیه اور فرحان نے میڑک کرتے ہی لو میرج کی تھی ...شاهزیه کے گھر والے فرحان کو اور اس کی فیملی کو بلکل پسند نہیں کرتے تھے صرف آپا کی ضد تھی تو سب بڑے راضی ھوگےؔ تھے...چونکے شادی بھت چھوٹی عمری میں ہوئی تھی اس لیےؔ آپا اپنی پڑھائی بھی مکمل نه کرسکیں...فرحان شادی کے فورا بعد ھی انھیں اپنے ملک لے گیا تھا....اس نے آپا کو بھت سالوں تک روکے رکھا اور گھر والوں سے ملنے تک نه دیا....خدا جانے دادو ٖ بڑی امی ٖ چاچی جان کی اور سب گھر والوں کی دعائيں تھیں یا کچھ اور کے فرحان کے دل میں رحم آیا اور اس نے اتنے سالوں بعد آپا کو اور ساتھ ساتھ جنید جمشید کو بھی شادی میں شرکت کے لیےؔ بھیجا پر وه خود نه آیا...اور نه ہی کسی نے اس کے شرکت نه کرنے کو اھمیت دی...
”وه ....میں“شھزاد بھائی گھبرا رھے تھے...نظریں نیچے تھیں پر اپنے چھرے پر چاچا جان کے غصے سے گھورنے کی تپش محسوس کررھے تھے...
”ڈیڈ ..... چھوڑیں ناں...بھائی سے غلطی ھوگیؔ“شاهنزیب نے آکر شھزاد کے کندھے پر ہاتھ رکھ اپنے والد سے سفارش کی تھی...
”بیٹا ایک ماه بھت ھوتا ھے....میں تو پہلے ہی پریشان تھی کے شادی کی دعوت کے لیےؔ تمھیں بھیجوں یا علی کو....کیونکے وه بڑا ھے....زیاده اچھی طرح سمجھتا ھے ھر بات کو.....تم جانتے تو ھو کتنا نازک معاملا ھے یه.....پھر بھی....کیا سوچ رھا ھوگا وه فرحان....کے ویسے تو اتنی ناک والے بنتے ھیں اور اب میرے ہی گھر چلے آےؔ....تمھیں سوچنا چاھیےؔ تھا ناں“بیگم شمسہ شھزاد کی بےوقوفی پر ماتم کرنے لگیں تھیں...
”کوئی کہے گا جو لڑکا اتنا بڑا بزنس سمبھال رھا ھے اس نے اتنی بڑی احمقانہ حرکت کی .....تمھیں وھاں میٹنگ کرنے بھیجا تھا فرحان کے سامنے ھماری ناک کٹوانے نہیں“چاچا بھت غصے میں تھے تو ملک صاحب نے انھیں شانت کروایا....شاهنزیب سب کے سامنے ہی شھزاد کو اپنے ساتھ لے گیا تھا۔۔۔
شاهنزیب کے پیپر ختم ہوےؔ تو دوسرے ہی دن اس نے ضد پکڑ لی....چونکے وه خاندان کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا اس لیےؔ کسی نے اس کی نے بھی اس کی بات پر خاص توجہ نه دی....سب کا ماننا تھا کے وه خود ہی اپنی ضد چھوڑ دے گا...نه جانے سب یہ بات کیسے بھول گےؔ کے وه کتنا ضدی مزاج شخصیت کا مالک ہے...وه جو ایک بار ٹھان لیتا ھے وه کر کے رہتا ہے....وه اپنے ارادوں کا شروع سے ہی پکا تھا ...
بھت ہی شدید طوفان تھا آسمان سے ٹوٹتی بجلیاں بادلوں کی خوفناک گڑگڑاھٹ اور موسلا دھار طریقے سے برستی بارش....اسی طوفان کی وجه سے بجلی بھی پچھلے آدھے گھنٹے سے بند تھی کمرے میں ایمرجنسی لائٹ روشی کررہی تھی....
اِس تاریک کمرے میں جب بجلی چمکتی تو پورے ماحول کو سفید و دھیا روشنی سے بھردیتی....سر پٹختی ہواٶں سے کھڑکی کے پٹ مسلسل زور زور سے بج رہے تھے...کھلتی بند ہوتی کھڑکیوں سے بارش کی بوچھاڑ ہوا کے دوش پر آندر آتی اور دیوار کے ساتھ لگی کرسی پر بیٹھی ماهنور کو بھیگو جاتی....بدلتے موسم کی یه طوفانی بارش جسم میں کپکپی دوڑا رہی تھی...مگر وه تو جیسے اس پل ہر احساس سے عاری تھی.....
شام کے وقت گھر میں ہونے والے ہنگامے نے اسے سہما کے رکھ دیا تھا..”شاهمزیب ضد بند کرٶ...بچوں کی طرح ضد پکڑ کر بیٹھ گےؔ ہو....ایک بار کہ دیا ناں....تم سنگر نہیں بن سکتے...اپنی انجئيرنگ کی پڑھائی پر دھیان دو“چاچا جان کی غصیلی آواز اس کے کان سے ٹکرائی تو وه ٹی۔وی بند کر کے چاچا کے کمرے کی جانب بڑھ گیؔ تھی...کمرے کے دروازے پر ہی وه رک گیؔ....کمرے کا ماحول بھت گرماگرمی کا تھا....
”مجھے انجئيرنگ میں کوئی انٹرس نہیں ہے....مجھے سنگر بنا ہے...آپ مجھے جانے دیں رزاق کے ساتھ....بڑی مشکل سے موقع ملتا ہے اِس فیلڈ میں جانے کا....پر صرف رزاق کے چاچا کی وجہ سے مجھے یه موقع باآسانی مل رھا ھے...مجھے مت روکیں ...جانے دیں پلیز“ وه شاهنزیب تھا وه اگر چاھتی بھی تو یقین نہ کرپاتی....اپنے والدین کا کہنا ماننے والا....سب کی عزت و احترام کرنے والا شاهنزیب نہیں لگ رھا تھا وه....یه تو کوئی بدلحاظ سرکش اور ھٹ دھرم سالڑکا تھا جیسے نه روتی ہوئی اپنی ماں کی پرواه تھی نه سامنے کھڑے اپنے بڑے بھائی کا لحاظ .....
”شاهنزیب اِس سے پہلے تو تم نے کبھی اپنے اس رزاق دوست کا ذکر نہیں کیا ہمارے سامنے...اور پھر تم نے خود چنا تھا اِس فیلڈ کو ....میں تو تمھارے لیےؔ بینک اکاٶنڈس کی پڑھائی کی خواہش رکھتا تھا...پر تم نے کہا نہیں ڈیڈ میں انجئيرنگ کرنا چاھتا ہوں....پھر اب یوں اچانک کیا ہوگیا؟؟؟“شاهنزیب کو دیکھ کر وه غصے سے استفسار کررہے تھے....چاچا جان بلڈ پریشر کے مریض ہیں یه جانتے ہوےؔ بھی وه اپنی ضد پر ڈٹا ہوا تھا
”میں آپ سے کہ چکا ہوں ...میں انڈیا جاٶں گا...تو ضرور جاٶں گا“اس کی نگاہوں کی ضد نے سب کو خوفزداه کردیا تھا...آندھی طوفان کی طرح راه میں آتی ہر شے کو ٹھوکر مارتا ھوا جب وه کمرے سے باھر نیکلا تو ماهنور اسے ہی روتی ہوئی آنکھوں سے تک رہی تھی...ماهنور کی ھراساں آنکھوں میں لرزتے آنسوٶں کو دیکھ اس نے جانے کیوں لبوں کو سختی سے بھینچ لیا تھا اور اگلے ہی لمحے وه گھر سے باھر چلا گیا..ماهنور اسے جاتا دیکھتی رھ گیؔ نم آنکھیں لیےؔ
”مانو جنیڑ تو چل رہا ہے پھر تم نے ایمرجنسی لائٹ کیوں اون کررکھی ہے؟؟؟“بڑی امی نے آبرٶ اچکاےؔ پوچھا تو وه اٹھ کر سیدھے آکر ان کے گلے لگ گیؔ :”بڑی چاچی جان کیا شاهنزیب واقعی چلا جاےؔ گا ہم سب کو چھوڑ کر...وه تو ابھی بھت چھوٹا ہے“ماهنور کی آنکھوں میں آنسوں کی جھڑی لگی تھی۔۔۔۔
سب نے اک اک کر کے شاهنزیب کو سمجھانے کی کوشش کی مگر اس کی ضد بجاےؔ کم ہونے کے اور پکی ہوتی جارہی تھی...آج دادو کمرے میں خود ہی چلی آئيں ...وه انھیں اپنے کمرے میں پاکر چونکا تھا ...دادو سر پر بڑے شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوےؔ شکوه کررہی تھیں ...”تم تو اپنی دادو کو بھول ہی گےؔ ہو....“
”ایسی بات نہیں ہے“شاهنزیب نظریں جھکاےؔ بول رہا تھا...
”تو پھر کیسی بات ہے؟؟“ وه کہ کر خاموش ہو گیںؔ....شاهنزیب نے بھی اپنی خاموشی برقرار رکھی تھی ...”یا پھر ڈر گےؔ تھے یا تمھیں لگا کے تمھاری بوڑھی دادو تمھاری آنکھوں میں چھپے ڈر کو بھاپ جائيں گی“ دادو کا ہاتھ جو وه مسلسل سر پر پھیر رہی تھی یکدم اس بات کو کہ کر روکا تھا...شاهنزیب کے چہرے پر اک لمحے کے لیےؔ طنزیه مسکراہٹ بکھر آئی تھی...”آپ کو لگتا ہے میں ڈر رہا ہوں“وه بھی صرف اس بات سے کے آپ میری آنکھوں میں چھپی باتوں کو بھاپ نہ لیں...“شاهنزیب کی اس بات پر دادو اسے حیرت بھری نگاه سے دیکھنے لگیں وه شاهنزیب کی اس طنزیہ مسکراہٹ پر الجھ کر رھ گیںؔ تھیں....
”دادو ...آخر آپ مجھے اتنا بےوقوف و کم عقل کیسے سمجھ سکتی ہیں....میں اِس سارے ماجرے میں یه نہیں سمجھ سکا بس“شاهنزیب گول گول باتیں کررہا تھا....
”شاه کیا کہنا چاھتے ہو ....صاف صاف کھو“دادو الجھی نگاه سے تکتے ہوےؔ کھ رہی تھیں...
”ٹھیک ہے صاف صاف بات کرتے ہیں...کیونکے ہم دونوں کے درمیان کسی بات کا پرده نہیں رہا...مجھے بھت دوکھ دیا ہے آپ نے دادو....یقین مانیں دل توڑا ہے آپ نے میرا....میں اب مزید آپ سے اپنے دل کے راز شیئر نہیں کرنا چاھتا ...اس لیےؔ آپ سے دور رھنے لگا“یه کہنے کے بعد وه کچھ سانس لینے کے لیےؔ چپ ہوا تھا....پورے کمرے میں خاموشی طاری تھی...وه اٹھ کر دروازه اندر سے لوک کر کے واپس دادو سے لگ کر بیٹھ گیا....
ایک گہری سانس بھر کر:”آپ کا اندازه بلکل درست ہے راحیل کی ڈائری میرے ہی پاس تھی“شاهنزیب نے انہیں دیکھتے ہوےؔ کہا تھا ...پر ان کے چہرے پر کوئی تاثر نہ تھا...”میں نے اسے پورا پڑھا ہے....اور میں نے ہی اسے چھپایا تھا...میں یه بھی جانتا ہوں کے راحیل کی محبت کے بارے میں آپ سب جانتی تھیں...
پر......
آپ جو نہیں جانتیں وه یہ ہے کے میں نے بڑے ابو کے دماغ میں اِس بات کو ڈالا تھا کے راحیل ماهنور سے شادی کرنے میں انڑس نہیں رکھتا اور اگر وه زیاده کریں گے تو وه بیچاره زبردستی شادی کے لیےؔ تیار تو ہوجاےؔ گا کیونکے وه تو بچپن سے ہی بھت حساس ہے۔۔۔ اسے اس بات کا بھت احساس ہے کے وه آپ کے پیسوں پر پرورش پایا ہے...لیکن دل سے خوش نہ ہوگا...بڑے ابو تو ڈائرک راحیل اور ماهنور کی منگنی کردینا چاھتے تھے کیونکے بیٹا بھی اُن کا تھا اور بیٹی بھی....
لیکن میری اِس بات کے بعد انھوں نے راحیل سے پوچھا اور جیسا کے میں اس کی ڈائری پڑھنے کے بعد جانتا تھا کے وه منع کردے گا ویسا ہی ہوا....پر مجھے بڑا دوکھ ہوا جب میں نے دیکھا کے آپ بڑے ابو کو دوبارا راحیل سے پوچھنے پر اکسا رہی ہیں....بڑے ابو تو آپ کی بات مان ہی گےؔ تھے کے میں نے آپجان کر راحیل کے انکار کرنے والی بات ماهنور کو بتادی....میں جانتا تھا کے اسے بھت دوکھ ہوگا یه سن....میں اسے کبھی نه بتاتا اگر مجھے اپنا بنا بنایا گیم بگڑتے ہوا نظر نه آتا“ شاهنزیب کی آنکھوں میں جنون تھا جیسے دیکھ دادو حیرت کے غوطے کھارہی تھیں...
”آپ صرف راحیل کی دادو ہیں میری نہیں...آپ نے ایک بار بھی بڑے ابو سے میرے بارے میں بات نہیں کی...اور جب بڑے ابو میرے متعلق آپ سے بات کرنے لگے تو آپ نے یه بات کھ کر ختم کردی کے وه ابھی بچہ ہے“شاهنزیب کی آنکھوں میں شکوه تھا اور لبوں پر شکایت...دادو کو پہلی بار احساس ہوا اس کی جنونی محبت کا....وه تو ابھی تک حقاء بقاء نگاھوں سے شاهنزیب کو تک رہی تھیں..وه سمجھ نہیں پارہی تھیں....اس کی ذھانت و ہوشیاری کی وه داد دیں یا اس کے جنونی محبت دیکھ وه پریشان ہوں ”تمھیں سب پتا تھا؟؟“ وه حیرت سے پوچھ رہی تھیں...
”بتایا تو ہے۔۔۔۔۔۔ ہاں....چلیں چھوڑیں اِن باتوں کو ...یه ماضی ہے .....اور میں حال میں جینے والا بندا ہوں....راحیل سے ہمدردی ہے مجھے پر اتنی نہیں کے اپنی زندگی اسے سونپ دوں.....میں نے حالات اِس قدر خراب کردیےؔ ہیں کے اب راحیل بڑے ابو سے کہے گا بھی ناں...تو بھی بڑے ابو اس کے ہاتھ میں ماهنور کا ہاتھ نہیں دیں گے ...یه تو آپ بھی جانتی ہیں...اب بچا کون؟؟؟“ وه یه پوچھنے کے بعد خودی جواب دیتا ہے:”میں.....اور میں بھی آپ ہی کا پوتا ہوں دادو....راحیل کے لیےؔ تو آپ نے کافی راہیں ہموار کرنے کی کوشش کیں...اور آپ کامیاب بھی ہوجاتیں اگر میں نه ہوتا...اب میرے لیےؔ بھی راہیں ہموار کردیں...پلیز“وه دادو کو التجائی نظروں سے دیکھتے ہوےؔ بولا...
”تمھیں میری مدد کی کیا ضرورت“ دادو نے دامن چھوڑاتے ہوےؔ کہا تھا...
”مجھے ہے دادو۔۔۔آپ کو صرف اتنا کرنا ہے کے جب تک ماهنور اپنی پڑھائی مکمل نه کرلے ....اس کی نه منگنی ہونے دیجیےؔ گا نہ شادی“
”پر کیوں؟؟“وه جان کر بھی انجان بنے پوچھ رہی تھیں...
”تاکے مجھے وقت ملے...وعده کریں ...آپ بڑے ابو کو سمجھائيں گی....کے ماهنور کی پڑھائی مکمل کرنے دیں...کریں وعده“ شاهنزیب نے ہاتھ بڑھایا تو دادو نے فورا تھام لیا...
”ٹھیک ھے...پر اب میرے سوال کا جواب دو....کہاں جارہے ہو؟؟؟.....اور کیوں؟؟؟“اُن کا سوال سن اس نے اثبات میں سر ھلاکر سارا معاملا بیان کردیا...
”ماهنور میری امانت ہے آپ کے پاس دادو...“پوری بات بیان کرنے کے بعد آخر میں اُس نے کہا ...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ھفتے کے اندر اندر اس کی ضد نے زور پکڑ لیا تھا...آج صبح سے تو اس نے بھوک ہڑتال کردی تھی...
کامران کے کمرے میں بیٹھ کر سب کزن دماغ لڑا رہے تھے کے وه کیا کریں کے شاهزیب ضد چھوڑ دے....راحیل نے سعدیہ سے بات کرنے کا مشوره دیا...سب کا خیال تھا کے سعدیه موقعے کی نزاکت کو سمجھتے ہوےؔ شاهنزیب سے بات کرے گی...
”بھئی مجھے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے کے وه انجئيرنگ چھوڑ چھاڑ سنگر بنے چلا ہے....میری راےؔ پوچھو تو اُس کا فیصلہ ٹھیک ہے...اس کی آواز کا جادو تو سب نے ہی دیکھ رکھا ہے وه واقعی ایک کامیاب سنگر بن جاےؔ گا مجھے پوری امید ہے....پلیز اب فکر کرنا بند کرٶ..وه بچا نہیں ہے“سعدیه نے یہ کھ کر کال کاٹ دی تھی....
کیونکے فون لاوڈ اسپیکر پر تھا ...... سعدیہ کی ساری بات کمرے میں موجود ہر شخص نے سنی تھی...”لو میڈم جی کی بات سن لو ....مجھے لگتا ہے کے یہ شاهزیب سے ملی ہوئی ہے....آخر منگیتر ہے اس کی ....اسی کی زبان بولے گی“کامران غصے میں بڑبڑا رہا تھا....
دوسرا دن ہوچلا تھا پر مجال ہے اس ضدی لڑکے نے اپنی ضد چھوڑی ہو....رات ہوگیؔ.....پر وه کمرے سے باہر نہیں نیکلا....اب تو بیگم شمسہ کا رو رو کر برا حال تھا....
”ہیلو“اُس نے کمرے میں جھانکتے ہوےؔ کہا تو شاهنزیب کو بیڈ پر لیٹا پایا....وه اندر خود ہی چلی آئی ...شاهنزیب کے بلکل برابر میں آکر بیٹھ گیؔ....بال اوجڑے ہوےؔ....چہرے کی شادابی و رونق غائب ...وه بے ست سہ بستر پر پڑا تھا....ماهنور کی آنکھوں میں آنسوں آگےؔ تھے اسے اِس حالت میں دیکھ.....”کتنا ظلم کرٶ گے خود پر“وه روتے ہوےؔ گویا تھی...
انسان کھانے کے بغیر تو زنده رھ سکتا ہے مگر پانی کے بغیر نہیں ....پر اُس ظالم نے ظلم کی انتھاء کردی تھی خود پر....پانی کی ایک بوند تک گلے سے نہ اتاری تھی...شکر ہے خدا کا کے سردی کا موسم تھا ورنہ پیاس سے جان نیکل جاتی..وه اِس قدر نڈھال تھا بھوک پیاس سے کے ہوش میں ہوکر بھی ہوش میں نہ تھا...ہونٹوں پر وه مارے پیاس کے باربار زبان پھیر رہا تھا... ”تم ٹھیک تو ہو ناں شاه؟؟“ وه بڑے پیار سے اسے دیکھ پوچھ رہی تھی....
”ٹھیک ہوں“وه لیٹے لیٹے ہی بول رہا تھا۔۔۔۔
❤
افتخار صاحب نے زبردستی کمرے میں آکر اسے کھانا کھلایا تھا...کھانا کھانے کے بعد تھوڑی طاقت آئی تھی جسم میں....حالت تھوڑی بھتر محسوس ہورہی تھی....”اب تمھارے منه سے جانے کا نہ سنوں“ افتخار صاحب تنبیہہ کررہے تھے..وه یه سن اپنی ماں کے ہاتھ کے سہارے سے کھڑا ہوگیا
”میں نے کھانا صرف آپ کے کہنے پر کھایا...اِس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کے میں اپنا جانے کا اراده ترک کرچکا ہوں....میں جاٶں گا“ شاهنزیب نظریں جھکاےؔ بڑے احترام سے کہ رہا تھا....
”تم سے زیاده بدتمیز لڑکا میں نے آج تک اپنی زندگی میں نہیں دیکھا....میں نے کہا ہے ناں...تم نہیں جاٶ گے...سمجھ نہیں آتا تمھیں پیار سے...“افتخار صاحب غصے سے لال پیلے ہوکر بولے تھے...
”شاهنزیب کو میں سمجھادوں گی چاچا جان....آپ اسے تھوڑا وقت تو دیں“ماهنور نے بیڈ پر بیٹھے ہوےؔ شاهنزیب کا ہاتھ پکڑ کر افتخار صاحب سے مخاطب ہوکر کہا...
”مانو ہاتھ چھوڑو....میں جاٶں گا ڈیڈ“اِس بار اُسنے نظریں اٹھاکر اپنے ڈیڈ کی جانب دیکھتے ہوےؔ اپنے پکے عزم کا اظھار کیا تو بدلے میں غصے سے ایک زور دار تھپڑ افتخار صاحب نے شاهنزیب کے خوبصورت چہرے پر رسید کیا تھا...سب حقاء بقاء نگاھوں سے دیکھنے لگے...زندگی میں پہلی بار کسی نے چہرے پر تھپڑ مارا تھا یه قابل قبول نہ تھا نفس کو....پر جانے کی ضد اس قدر پکی تھی کے تھپڑ کھانے کے باوجود بھی وه وہی دھن گاه رہا تھا کے وه جاےؔ گا....تھپڑ تو شاهنزیب کے چہرے پر لگا تھا پر سچ پوچھوں تو سارے چاھنے والوں کے دل دھل گےؔ تھے اسے مار کھاتے دیکھ....تھپڑ اس قدر زوردار تھا کے اس کی آواز سب کے کانوں میں ابھی تک گونج رہی تھی....چاچا جان کو بڑے ابو پکڑ کر لے گے تاکے وه غصے میں کچھ اور نا کر بیٹھیں.....سب ایک ایک کر کے کمرے سے چلے جاتے ہیں...
”چلو مانو“ اسماء کھڑے کھڑے بول رہی تھی پر اسے تو جیسے کسی نے اسٹیچو کردیا ہو.....وه کوئی جواب نہیں دیتی....
”اسے یہاں رہنے دو ...مجھے یقین ہے یه سمجھا لے گی“کامران نے ھلکے سے اسماء کے کان میں سرگوشی کی...پھر وه دونوں بھی کمرے سے چلے گےؔ....
”کیا کریں کچھ سمجھ نہیں آرہا....اگر ضد پوری کردی...تو ہر بار اسی طرح ہمیں بلیک میل کرے گا...اور اگر نہیں کرتے تو جوان خون ہے...کھیں کچھ کر کرا نا لے“افتخار صاحب پریشانی کے عالم میں اپنے بڑے بھائی سے مشوره کررہے تھے...
”شاهنزیب اتنا ضدی مزاج نکلے گا مجھے ذرا بھی اندازه نہ تھا....میں نے سوچ لیا کے اب کرنا کیا ہے...اسے گھر سے نیکال دیتے ہیں“ملک صاحب نے بھت سوچ سمجھ کر فیصله کیا تھا....
”پر کیا یه ٹھیک ہوگا بھائی صاحب؟؟؟.....ابا نے بھائی کو گھر سے نیکال دیا تھا اس کا انجام کس قدر خوف ناک ھہوا...میرا دل نہیں مانتا ...میرے دو ہی تو بیٹے ہیں....جان بستی ہے میری ان دونوں میں...میں کیسے اپنے بیٹے کو گھر سے نیکال دوں؟؟؟....وه بھی یه جانتے ہوےؔ کے باھر کا ماحول کس قدر گندا ہے“ افتخار صاحب نے اس فیصلے پر صاف منع کردیا....شاهنزیب نے انہیں عجیب الجھن میں ڈال دیا تھا...وه کھڑے کھڑے یہی سوچ رہے تھے کے کسطرح وه اپنے جگر کے ٹکڑے کو جس کے زندگی بھر نازنخرے اٹھاےؔ ہیں گھر سے باہر نیکال دیں....
”میں تمھاری پریشانی سمجھ سکتا ہوں...بھت مشکل فیصله ہے یه .....پر اس کے علاوه اب کوئی اور چاره بھی تو نہیں چھوڑا اس ضدی لڑکے نے....اگر اسے روکا تو وه کچھ کر کرا نا لے یه ڈر دل کو گٰہرے ہوےؔ ہے....اور اگر جس طرح وه چاہتا ہے کے ہسی خوشی اسے جانے دیں تو اسطرح وه مزید ضدی ہوجاےؔ گا...اور پھر گھر کے دوسرے لڑکوں نے بھی یہی روش اپنالی تو خود سوچو کیا ہوگا....ایک مچھلی پورے تلاب کو گندا کرتی ہے ....تو بہتر یہی ہے اس مچھلی کو تلاب سے نیکال دیا جاےؔ....ہم اسے نیکال ضرور رہے ہیں ابا کی طرح....کے جب {چھوٹا :راحیل کے والد کو پیار سے ملک صاحب چھوٹا کہتے تھے}واپس آیا تھا تو ابا نے اسے معاف نہیں کیا تھا ...جس کے بعد جو انجام ہوا وه سب جانتے ہیں...
ہم شاهنزیب کو گھر سے نیکال دیں گے پر اس امید کے ساتھ کے جب وه واپس آےؔ گا اپنی غلطی پر پچتاتا ہوا تو ہم اسے معاف کردیں گے....باہر کی دنیا سب کو آٹے دال کا بھاٶ سمجھادیتی ہے...شاه کو بھی پتا لگ جاےؔ گا اسے آرام داه بستر اور گرماگرم روٹی کھانے کی عادت ہے...نوکر چاکر کی عادت ہے ٖ گاڑیوں کی عادت ہے...کیسے رہے گا ان سب کے بغیر ....تم دیکھنا خود آےؔ گا ناک رگڑتے ہوےؔ اور اس سے دوسروں کو بھی عبرت ہوجاےؔ گی“ملک صاحب نے اپنے بھائی کی پریشانی کو کم کرنے کی اور انہیں حوصلہ دینے کی پوری کوشش کی ....
”ٹھیک ہے بھائی صاحب ...پر یہ کام آپ کیجیےؔ گا...مجھ میں تو اتنی ھمت نہیں“افتخار صاحب راضی ہوکر بولے....
شاهنزیب بھت دیر تک اسی حالت میں کھڑا رہا....”یاخدا مدد کر میری....تو جانتا ہے میں غلط نہیں ہوں...میں تھک چکا ہوں ضد کرتے کرتے...تو ہی کچھ کر مولی! “شاهنزیب جب دل ہی دل دعا کرتے ہوےؔ اپنے بیڈ کی جانب پلٹا تو زور دار چیخ بےساختہ منہ سے نکلی...”مانو“وه بے ہوش بیڈ پر پڑی ہوئی تھی....
شاهنزیب اسکے چہرے پر تھپکتے ہوےؔ:”مانو ....مانو....“ماهنور کے ہاتھ پکڑے تو وه برف کی طرح ٹھنڈے ہورہے تھے....یه دیکھ وه بری طرح گھبرایا ....فورا اسے اپنی باھوں میں بھر کر اٹھا لیتا ہے...وه گود میں اٹھاےؔ ہی اسے ھسپتال لے کر جاتا ہے...”ڈاکڑ اچانک سے بےہوش ہوگیؔ.....ہاتھ پاٶں بھی بلکل ٹھنڈے ہورہے ہیں ....آپ جلدی چیک کریں ناں“ اس نے ڈاکڑ کے بیڈ پر لیٹاتے ہوےؔ ماهنور کو ....ڈاکڑ سے مخاطب ہوکر پریشان لہجے میں کہا تھا...اس کے چہرے پر ہوائياں اڑ رہی تھیں...
”اچھا ...آپ فکر نہ کریں....میں چیک کرتا ہوں آپ باہر جائيں“ ڈاکڑ نے شاهنزیب کو باہر جانے کا کہا تو وه ماهنور کے چہرے کو تکتے ہوےؔ باہر آگیا...اس کی جان اٹکی تھی ماهنور میں....بڑے ابو اور افتخار صاحب آتے ہی اس بیچارے پر برس پڑے....یه تک نه دیکھا کے اسکی حالت اس قابل ہے بھی یا نہیں کے وه یہ سب سھ سکے....
”تمھاری وجه سے اگر مانو کو کچھ ہوا تو میں تمھیں کبھی معاف نہیں کروں گا....سمجھے تم .....دفاع ہوجاٶ میری نظروں کے آگے سے....تم نے یہ سب اپنے جانے کی خاطر کیا ناں؟؟؟؟.....اب جاٶ....چلے جاٶ ....جہاں جانا چاھتے ہو....آج سے تمھارا اور ہمارا کوئی رشتہ نہیں....اپنا سامان اٹھاٶ ....اور دفاع ہوجاٶ ہماری زندگیوں سے“بڑے ابو اتنا سخت فیصله سنائيں اُس نے یه خوابوں میں بھی نه سوچا تھا.......ایسا لگا جیسے کسی نے پاٶں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہو....وه روتا رھا باربار کہتا رہا کے ایسا نہ کریں...مجھ پر رحم کریں...پر سب خاموش رہے میرے ڈیڈ کے فیصلے کے آگے....اسے مجھ سے ملنا تھا ...کہا اُس نے....پر کسی نے ملنے نہ دیا....یہی بتایا گیا تھا مجھے جب میں ہوش میں آئی۔۔۔۔۔۔
*****------******
شھزاد بھت پریشان تھا شاهنزیب کو لے کر...اُس کے لاڈلے بھائی کو گھر سے نیکالے ایک ہفتہ ہوگیا ہے...پر کوئی بھی اس کے اتنے اصرار کرنے کے باوجود شاهنزیب کو گھر لانا تو دور اسے جیب خرچی تک دینے کے لیےؔ تیار نہیں ہے....
”ماهنور کا چہره کتنا مرجھایا ہوا رھ رہا ہے ...اس کی تو ساری شرارتیں بھی شاهنزیب کے دم سے تھیں ایسا لگ رہا ہے“بڑی چاچی جان نے ماهنور کو سامنے صوفے پر لیٹا ہوا دیکھ دوکھ کیا....
شادی کی تصویریں آئيں تو اس میں شاهنزیب کی تصویر دیکھ ماهنور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی...
بیگم شمسہ کے کان ان کی بہن اور سعدیہ نے ماهنور کے خلاف بھر دیےؔ....اور وه بہن اور بھانجی کے اکھسانے پر اپنے شوہر سے لڑائی کرنے لگیں...
افتخار صاحب اپنے کمرے میں بیٹھے لیپ ٹائپ پر آفس کا کام کررہے تھے...کے بیگم شمسہ سر پر آکر کھڑی ہوگیںؔ....”آپ کے بڑے بھائی نے ناانصافی کی ہے ہمارے ساتھ...یہ گھر صرف اُن باپ بیٹی ہے کیا؟؟؟....ہمارا اور ہمارے بچوں کا نہیں...ان کی بیٹی ذرا سہ بےہوش کیا ہوگیؔ...میرے بیٹے کو انھوں نے طیش میں آکر گھر سے یی نیکال دیا...ارے مری تھوڑی تھی صرف بےہوش ہی ہوئی تھی“بیگم شمسہ کو روش آیا تھا یه دیکھ کے وه بولے جارہی تھیں مگر افتخار صاحب کے کان پر تو جیسے جوں تک نه رینگ رہی ہو...پر جب انھوں نے غصے میں آکر آخری جملہ اتنا سخت ادا کیا ماهنور کے حوالے سے تو افتخار صاحب خاموش نه رھ سکے...کیونکے ماهنور کو انھوں نے ہمیشہ اپنی بیٹی کی طرح مانا تھا...
”زبان کو لگام دو شمسہ....جانتی بھی ہو کیا کھ رہی ہو؟؟؟...تم اِس وقت مانو کے بارے میں بات کررہی ہو...ہماری مانو...ہماری بچی...مجھے تو یقین نہیں آرہا جو شمسہ ہر وقت ماهنور کو میری بچی میری بچی کرتی تھی اس کے دل میں یوں اچانک اتنا زہر کہا سے آگیا“انھوں نے کام چھوڑ غصے سے کھڑے ہوکر کہا تو جوابا وه طنزیہ مسکراء دیں...”ہماری بچی...ارے میں تو اس میں اور شاهزیہ میں کبھی فرق بھی نہ کرتی تھی...شاهزیه کی شادی اتنی کم عمری میں ہوئی اور اوپر سے اس کے شوھر نے اسے روک لیا...تو میں نے ماهنور کو اپنی سگی اولاد کی طرح سمجھا اگر کہو شاهزیه سے زیاده محبت ماهنور کو دی تو غلط نه ہوگا...
پر آپ کے بڑے بھائی نے فرق کیا ہے بچوں میں...میرے شاه کی زبان نہیں تھکتی تھی انہیں بڑے ابو ٖ بڑے ابو کرتے ہوےؔ..اک بار انھوں نے نہ سوچا کے میرا بیٹا کہاں جاےؔ گا“بیگم شمسہ اپنے بیٹے کی جدائی پاگل سی ہوگیںؔ تھیں...یه اُن کے بیٹے کی محبت ہی تھی کے وه اپنے شوہر سے لڑ رہی تھیں...افتخار صاحب نے انہیں سمجھاتے ہوےؔ بولے:”کتنی بار بتایا ہے تمھیں شمسہ ....یہ میرا فیصله تھا ...اسے گھر سے نیکالنے کا...بھائی نے تو صرف الفاظ ادا کیےؔ ہیں...“وه افتخار صاحب کی بات پر ”میں مان ہی نہیں سکتی...یہ آپ کا فیصلہ تھا...“وه روہانسه آواز میں کھ کر چلی گیںؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”جب میرا نروس بریک ڈاون ہوا تھا...تب وه رو رہا تھا؟؟؟....وه چاھتا تھا ناں مجھ سے ملنا؟؟“ماهنور دس یا باره بار رٹا رٹایا سوال پھر سے ایک بار اسماء سے کررہی تھی
”ہاں بتایا تو ہے ...میں ھسپتال میں نہیں تھی ...مجھے تو راحیل پاجی نے بتایا ....وه تو یہی تھا...اب پلیز مانو ...جاٶ کرسی پر جاکر بیٹھو...مجھے تنگ نہ کرٶ....چھوٹے بچے ابھی بھت کام ہیں اسماء آپا کے پاس“اُس نے ماهنور کا گال پیار سے سہلاتے ہوےؔ کہا”رومیساء آپا کے جانے کے بعد سارا کام مجھ پر پڑھ گیا ہے...اتنے دنوں سے بول رہی ہوں ایک نیا سروینڈ رکھ لو ....کسی کے پاس فرصت ہی نہیں ہے میرے بات سنے کی...بڑی امی اپنے کلب چلی جاتی ہیں...امی ھسپتال ...اور چاچی جان تو کمرے سے ہی نیکلتی جب سے شاه گیا ھے...اف“وه ایک گہرا ساؐنس بھر کے بولی:”سارا کام مجھ پر آگیا ہے اب....اک ننھی سی جان اور اتنے کام...بہت ناانصافی ہے“اسماء نے ماهنور کا ہاتھ پکڑ کر اسے کچن سے نیکالا تھا....اور سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کا اشاره کیا تھا تاکے وه کچن کا نیچے کا فرش آرام سے دھو سکے...
“تم بھت چٹڈالن ہو....میری رومیساء آپا سارے کام کرتی تھیں پھر بھی ان کے پاس میرے لیےؔ ٹائم ہوتا تھا...اور تم ....تم تو ہر وقت ڈانٹتی رہتی ہو....دفاع ہو.....مرٶ کچن میں“ وه جھنجھلاکر کہتی ہوئی باہر آکر اداس منه بناےؔ کرسی پر بیٹھ گیؔ......
وقت کا پتا ہی نہ چلا کے کب اتنا گزر گیا کے سب اپنے اپنے کاموں سے فارغ ہوکر کمروں میں چلے گےؔ.....اسماء نے آواز بھی لگائی تھی پر وه اِس قدر کھوئی ہوئی تھی کے آواز سن ہی نہ سکی....اسماء سمجھی کے ماهنور جاچکی ہے تو وه ساری لائٹس آف کر کے چلی گیؔ..
راحیل لیٹ نائڈ ڈیوٹی کی وجه سے تھک کر گھر لوٹا تھا....اپنے کمرے کی جانب جاتے ہوےؔ اس کی نظر اندھیرے میں اداس بیٹھی ماهنور پر پڑی....اک مجنوں کا دل تھا...جلن تو ہونی ہی تھی...جب سے شاهنزیب گیا تھا وہ ہر وقت مرجھاےؔ پھول کی طرح نظر آتی تھی..اب یه بات راحیل کو کھٹکنے لگی تھی...دل میں اِس قدر جلن محسوس ہوئی کے آج اُس کے سامنے جاکر پوچھ ہی لیا:”اک حسرت ہے دل میں...کیا جس طرح شاه کے ساتھ ہوا اسطرح میرے ساتھ ہوتا تو کیا تم تب بھی اتنا ہی اداس ہوتیں؟؟؟“ماهنور تب نظریں نیچے جھکاےؔ ہوےؔ تھی جیسے ہی راحیل کی بات کانوں کی سماعت سے ٹکرائی اُس نے نظریں اٹھاکر بغور راحیل کو دیکھا....آنکھوں میں نفرت اور بھت سے سوال تھے جنھیں دیکھ راحیل حواسوں میں لوٹا تھا...اس نے خود منع کیا ہے ماهنور کے رشتے سے ...یه یاد آتے ہی:” چھوڑو....مجھے اِس کا جواب نہیں جاننا.....ناجانے کیوں دل یہ سوال کر بیٹھا“ وه خودی کو ملامت کر....نظریں چورا کر جانے لگا...ابھی پہلی ھی سیڑھی چڑھی تھی
”اک حسرت میرے دل کو بھی گہرے ہوےؔ ہے...جو سکون سے جینے نہیں دیتی...کے آخر ثانیه آپا میں ایسا کیا ہے جو مجھ میں نہیں....اتنی بری تھی کیا میں؟؟؟....جو آپ نے فورا ریجیکٹ کر ڈالا“ وه بھی جلے دل سے سوال رہی تھی...راحیل اس کا سوال سن حیرت سے پیچھے مڑا تھا...
راحیل اس کے پاس آکر :”تم غلط سمجھ رہی ہو...ثانیه صرف میری دوست ہے...ہمارے بیچ ایسا کچھ نہیں ہے جیسا تم سوچ رہی ہو...میں نے منع صرف......“ابھی وه اپنی صفائی پیش کرپاتا کے وه اُس کی بات کاٹ گیؔ....
”مجھے اب فرق نہیں پڑتا کے آپ نے کیوں منع کیا....آپ سارے لڑکے ایک جیسے ہوتے ہو دل میں کچھ زبان پر کچھ....مجھے اِن آنکھوں میں اپنے لیےؔ محبت نظر آیا کرتی تھی...میں پاگل ان فریبی آنکھوں کے جال میں پھنس گیؔ...پر بعد میں علم ہوا کے آپ کی آنکھیں تو نا جانے کتنوں کو اس فریب میں مبتلا کیےؔ ہوےؔ ہیں....مجھے نفرت ہے آپ سے....سنا آپ نے...صرف نفرت....اور اگر آپ دنیا کے آخری مرد بھی ہوں تو بھی آپ سے شادی نہ کرٶں“ماهنور حقارت بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوےؔ اپنی نفرت کا اظھار کررہی تھی....بتا رہی تھی اُس سنگ دل کو کیسے توڑا ہے اس نے ....اسکا ننھا سہ دل...جس نے ابھی خواب سجانا شروع ہی کیا تھا...
”میں دھوکے باز نہیں...بس اتنا یی کھوں گا اپنی صفائی میں...“راحیل نے بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال بات کی تھی...وه اسے یقین دلانا چاھتا تھا کے جو اس نے آنکھوں میں پڑھا وه کوئی فریب نہیں ...اس کی سچی محبت ہے.....
”ماهنور اس کی بات سن طنزیہ بولی:”ٹھیک کہا آپ نے ...آپ صرف دوکھے باز نہیں...ظالم ٖ فریبی ٖ ....“ابھی وه بول ہی رہی تھی کے کسی کے آنے کی آہٹ محسوس ہوئی ....سامنے دیکھا دونوں نے تو دادو کھڑی تھیں...ماهنور انہیں دیکھ کر وہاں سے تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گیؔ....
”کہا تھا ناں...بتادو اس کو....وه سمجھ جاےؔ گی تمھاری نہ کی وجہ ..بلکے انتظار بھی کرے گی...پر تم نے میری نه سنی...تمھارے حق میں میری ہر کوشش ناکام ہے...تم نے واقعی میری بچی کے ساتھ ظلم کیا ہے....جتنی محبت ان آنکھوں میں لیےؔ پھرتے ہو اتنی لفظوں میں بیان کردیتے تو یه سب نہ ھوتا....اب بھی زیاده دیر نہیں ہوئی ہے....تم کہو تو پھر سے بات کرٶں...بولو؟؟؟؟“ دادو بڑی محبت و شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوےؔ پوچھ رہی تھیں....راحیل بغیر کوئی جواب دیےؔ چلا جاتا ہے...
”میں تمھاری دادو ہوں .....وه بھی جانتی ہوں جو تم کہتے ہو اور وه بھی جو تم نہیں کہ پاتے...میں ایک بار پھر ملک سے بات کرٶں گی“ دادو نے دل میں ٹھان لی تھی کے وه راحیل کے لیےؔ پھر سے راہیں ہموار کریں گی۔۔۔
ماهنور اپنے کمرے سے نیکلی تو شاهنزیب کے کمرے میں لائٹ اُون نظر آئی...دل میں خوشی کی لہر دوڑ اٹھی یه سوچ کے شاید وه واپس آگیا ہے...وه بھاگتے ہوےؔ کمرے کی جانب بڑھی...پر قدم رکے یه دیکھ کے شھزاد کسی سے وہاں کمرے میں کھڑا بات کررہا ہے:”تم فکر مت کرٶ..پیسے مل جائیں گے تمھیں وقت پر....آپا کو کمزور مت پڑنے دینا...میں یہاں سب سمبھال لوں گا“ شھزاد کو فون پر بات کرتے دیکھ وه سمجھ گیؔ تھی کے وه شاهنزیب سے مسلسل رابطے میں ہیں...پر اگر وه شاهنزیب کے بارے میں جانتے تھے کے وه کہاں ہے اور کیسا ہے تو یہ بات انہوں نے چھوٹی چچی جان کو کیوں نہیں بتائی ....اور آپا کے بارے میں کیا بات چل رہی تھی؟؟؟....وه تو انڈیا گیا تھا سنگر بنے پھر آپا کے پاس کیسے پہنچ گیا؟؟؟....اتنے سوال دماغ کو گھیر رہے تھے پر ان کا جواب صرف شھزاد یا خود شاهنزیب کے پاس تھا..
شھزاد شاهنزیب کے ہی موبائل سے جو وه یہاں گھر چھوڑ کر گیا تھا بات کررہا تھا...شھزاد بھائی کمرے سے باہر آنے لگے تو وه دیوار سے بلکل چپک کر کھڑی ہوگیؔ...وه بھی ناجانے کن سوچوں میں گم تھے کے ماهنور کی موجودگی کو محسوس نہ کرسکے...ان کے جاتے ہی وه کمرے میں چلی آئی...سیل اٹھاکر کال ملا دی...آخری ڈائل نمبر پر...وه باربار باہر کی جانب بھی دیکھ رہی تھی اسے ڈر تھا کے کوئی آ نا جاےؔ ....
دوسری جانب کال آٹینڈ ہوئی ”ہیلو“۔۔۔لمحہ بھر کے لیےؔ تو مانو ماہنور کی سانس تھم گیؔ....یہ واقعی شاهنزیب کی آواز تھی...
”ماهنور“وه فورا پہچان گیا تھا...بےساختہ نام منہ سے نکلا...خوشی و غم کی کیفیت اتنی ملی جھلی تھی کے الفاظ زبان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے
”میں جانتا ہوں تم ماهنور ہو....بات تو کرٶ مجھ سے دو ہفتے ہوگےؔ تمھاری آواز سنے“اس کی آواز میں بےتابی تھی جو اس کے الفاظ میں جھلک رہی تھی...ماهنور زور زور سے رونے لگی...دو ہفتوں کی جدائی نے کتنا ستایا تھا یه بس اس کا دل ہی جانتا تھا...
”یار....رونا تو بند کرٶ....مانو بلی....پلیز رونا بند کرٶ پلیز میرے خاطر“وه بولے جارہا تھا ...اسے چپ کرانے کے لیےؔ پر اس کے آنسوں تھے کے تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے...
تجھ سے دل کا رشتہ جوڑا
پل دو پل میں ٹوٹتا نہیں...
بندھن دلوں کا چھوٹتا نہیں...
میرے دل کا تیرے دل سے رشتہ پرانا ہے.....
”مجھے پہلے ہی بھت گلڈ ہے یار....اب اور شرمنده مت کرٶ....مجھ سے بات کرٶ پلیز...میں تمھارے منه سے سنا چاھتا ہوں ۔۔۔کیسی ہے۔۔۔ تمھاری طبعیت اب؟؟؟“اس نے خود کو سمبھالا تھا.... اپنے آنسوں صاف کر :”میں ٹھیک ہوں...تم کیسے ہو؟؟“ماهنور نے بڑی ہمت جوٹائی تھی..شاهنزیب نے ماهنور کی آواز سنتے ہی اپنی آنکھیں سکون سے بند کرلیں...پر اک آنسو محبت بھرا خود ہی آنکھوں سے جھلک گیا تھا...”میں بھی ٹھیک ہوں...اچھا میری بات سنو...مجھے کام ہے“شاهنزیب کے پیچھے سے مسلسل شور کی آوازیں آرہی تھیں..
”پر“ماهنور ابھی بات کرنا چاھتی تھی....
”مجھے جانا ہے میری بات غور سے سنو...کسی کو بھی میرے بارے میں کچھ بھی نہیں بتانا...یہاں تک کے شھزاد بھائی کو بھی نہیں...یه سیل وہیں رکھ دو جہاں سے تم نے اٹھایا ہے..اور اس کے بعد مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش مت کرنا...میں خود تمھیں فون کرلوں گا مناسب وقت دیکھ کر...تم صرف میرے فون کا انتظار کرنا....او۔کے“شاهنزیب نے کہا تو وه اثبات میں سر ہلانے لگی...وه الله حافظ کہتی اس سے پہلے ہی کال کٹ گیؔ....کتنے سوال تھے جو اس سے پوچھنے تھے....اس نے کچھ بھی تو نہیں بتایا تھا کے کب کرےؔ گا کال.....کس وقت ....کس دن ....اور کس نمبر پر....وه یہی سوچتی ہوئی کمرے سے باہر آگیؔ۔۔۔۔۔۔
*****-----_*******
تین دن گزر گےؔ تھے انتظار کرتے کرتے...پر کوئی فون نہیں آیا...گھر کی لین لانڈ پر بھی کال آتی تو وه بھاگتی ہوئی آگر فون اٹھاتی..ماهنور تو وه تھی کے سامنے بیٹھی ہو اور فون بجتا رہے پھر بھی ذرا سی زحمت نہ دیتی تھی اپنے ہاتھ پاٶں کو....پھر یه اچانک کیا ہوا ہے اِس لڑکی کو ...یه سوال اسماء کو تنگ کررہا تھا.....آخر کار انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئيں ...وه بیٹھی اپنے کمرے میں ڈائجسٹ پڑھ رہی تھی کے فون کی گھنٹی بجی...:”ہیلو“ ماهنور نے ڈائجسٹ چھوڑ جھٹ سے فون آٹینڈ کیا تھا...
”السلام و علیکم!“ شاهنزیب نے کہا تو وه خوشی سے اوچھل پڑی...
””وعلیکم اسلام....اتنے دن لگادیےؔ فون کرنے میں“ وه شکوه کرنے لگی...
”وقت ہی نہیں مل رہا تھا ...تم سناٶ کیسی ہو؟؟..کیا کررہی ہو آج کل؟؟؟....سب گھر والے کیسے ہیں؟؟؟...امی کیسی ہیں ؟؟ زیاده روتی تو نہیں ہیں ناں؟؟“ شاهنزیب نے ایک ہی سانس میں اتنے سارے سوال کیےؔ تو وه مسکرانے لگی...
”جلدی جلدی اور ایک سانس میں سوال کرنا ماهنور کا اسٹائل ہے۔۔۔ تم کاپی مت کرٶ“ وه اتراتے ہوےؔ ذرا نزاکت سے بولی تو وه جواب سن مسکراء دیا...بھت دیر باتیں کرنے کے بعد ”تم نے مجھے شھزاد بھائی کو بتانے سے کیوں منع کیا؟؟“
”کیونکے مجھے ایک جاسوس کی ضرورت تھی ...اور یہ کام تم سے اچھا کوئی نہیں کرسکتا“وه سنجیدگی سے کہ رہا تھا...
”جاسوسی ؟؟...توبہ توبہ ...میں یہ غلط کام نہیں کرتی“وه کانوں کو ہاتھ لگاےؔ شرافت کا مظاہره کرنے لگی...
”اف....دیکھو ذرا بول کون رہا ہے یہ....“اس نے کھلا طنز کیا تھا...
”اچھا کرنی کس کی ہے ؟؟؟“دوسرے ہی لمحے وه شرافت بھول تجسس سے پوچھنے لگی...
”ابھی کچھ لمحوں پہلے تو کوئی بڑا پارسہ بن رہا تھا...“کہ کر وه مزاق اڑانے لگا..
”بتا رہے ہو یا میں فون رکھوں؟؟“وه اکڑ کر استفسار کرنے لگی...
” اچھا بابا ....فون مت رکھنا۔۔۔۔ بتارہا ہوں...بس تم اپنی آنکھ ناک کان کھلے رکھنا....گھر میں کوئی بھی بات ہو فورا مجھے بتانا“ یہ سن وه جھنجھلا کر :” یه کس طرح کی جاسوسی ہوئی.....مجھے لگا کسی خاص بندے کی ہو گی“وه منہ بسور بولی...”اچھا یه فضول بات چھوڑو...میرے سوالات کا سچ سچ جواب دو...کہاں ہو تم ...شھزاد بھائی کس بارے میں بات کررہے تھے تم سے؟؟...اور ہاں جھوٹ بول کر بچنے کی کوشش مت کرنا“ماهنور نے برھمی سے کہا تو وه تھوڑی دیر خاموش ہوگیا...
اس نے بتایا کے وه کوئی سنگر بنے نہیں بلکے جنید جمشید کی کسٹڈی کا کوٹ میں کیس چل رہا ہے وه لڑنے میں شاهزیه آپا کی مدد کرنے گیا ہے.....شادی میں دونوں بھائيوں نے محسوس کرلیا تھا کے شاهزیه بھت دوکھی ہے..جب موقع پاکر بات کرئی تو معلوم ہوا فرحان سے ان کی طلاق ہوچکی ہے ...اور اتنا ہی نہیں انھوں نے عاشر نامی لڑکے سے دوسری شادی بھی کرلی ہے....وه سب کو بتانا چاھتی تھیں پر ہمت نہ کرسکیں...انھوں نے سوچا کے جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلنے دیا جاےؔ....وه اپنی نئی زندگی میں بھت خوش تھیں کے اچانک فرحان نے کیس کردیا کوٹ میں ...جس کی وجہ سے وه بھت پریشان تھیں...شاهنزیب کے لہجے میں بھت درد تھا ...غصه تھا فرحان کو لے کر...ماهنور کو یه سب سن شاکٹ لگا تھا...
شاهنزیب نے مزید بتایا کے عاشر ایک محنتی و ایماندار شخص ہے ...پر غریب ہے ...اس بیچارے کے پاس تو اتنا پیسہ بھی نہیں کے ایک اچھا وکیل کرسکے...اور پھر دونوں میاں بیوی کوٹ کچیری کے معاملات سے بلکل ناآشنا تھے ....اوپر سے فرحان دو تین گنڈوں کے ساتھ آپا کو ڈرانے و دھمکانے آرہا تھا باربار ...اس لیےؔ شاهنزیب اُن کی مدد کرنے انڈیا چلا آیا تھا...
”پر اُس نے آپا کو طلاق دی کیوں؟؟“
”سب کو پتا تھا کے فرحان اور اس کی فیملی نہایت ہی گھٹیا لوگ ہیں...پر صرف آپا کی ضد کے آگے سب خاموش ہوگےؔ....شادی کے صرف چند ماه بعد ہی وه جاہل پن پر اتر آیا..ناجانے اس پر یہ بھوت کہاں سے سوار ہوا کے آپا اس سے عمر میں بڑھی ہیں...بس پھر کیا تھا ہر وقت طعنے دینے لگا...آپا سہتی رہیں یه سوچ کر کے شاید بچے ہوجانے کے بعد سب ٹھیک ہوجاےؔ....پر بچے ہونے کے بعد مزید صورتحال خراب ہی ہوئی...وه مار پیٹ پر اتر آیا گھٹیا آدمی...پھر ایک رات شراب کے نشے میں اُس نے طلاق ہی دے ڈالی....
****-----*****
کہتے ہیں وقت ریت کی طرح ہاتھ سے پھیسل جاتا ہے...کچھ یوں ہی شاهنزیب کے ساتھ ہوا...وه کمرے کی کھڑکی سے لگ کر کھڑا باہر بارش دیکھ رہا تھا...آج تو بادل باولے ہوےؔ جارہے تھے ...صبح سے برسنے کے باوجود تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے...بارش سے باہر کا جہاں حسین ترین ہوگیا تھا...پر اس کی آنکھیں تو کچھ اور ہی تلاش کررہی تھیں...شاید دیوانا تھا ناں اس لیےؔ محبوب کو تلاش کرنا تو حق تھا اس کا...آنکھوں میں اس خوبصورت لڑکی کا سراپا اتر آیا تھا....کے کیسے وه سفید قمیض پیلے رنگ کا چوڑیدار پاجامه اور سفید نیٹ کا دوبٹا شانوں پر ڈالے ٖ بال کھولے سادگی کا حسن لیےؔ اس کے کمرے میں بغیر دروازه نوک کیےؔ اندر چلی آئی تھی...
”تم یہاں کمرے میں بیٹھے ہو اور باہر اتنی تیز بارش ہورہی ہے..جلدی چلو میرے ساتھ گارڈن میں...“کہتے ہوےؔ ماهنور نے اس کے ہاتھ سے قلم چھینا تھا..اور زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ کہینچا
”روکو میں چھتری لے لوں“ اس نے چھتری ہاتھ میں لیتے ہوےؔ کہا تو وه منہ بسور بولی:”تم تو بوڑھی روح ہو شاه...“
وه بارش کو دیکھ جھوم اٹھی ...کچھ ہی لمحوں میں بارش نے پورا بھیگا دیا اسے...پوری بھیگی بھیگی سی ہوگیؔ تھی وه ...وه مسلسل شاهنزیب سے کچھ بول رہی تھی پر اسے تو کوئی لفظ سنائی ہی نہیں دے رہا تھا...وه تو اس لمحے محو ہوکر رھ گیا تھا.....اسکا خوبصورت سراپا خود سے نظر ہٹانے کی اجازت ہی نہیں دے رہا تھا...شاهنزیب کے پاٶں خود بہ خود اس کی جانب بڑھنے لگے تھے...ماهنور طاق میں بیٹھی تھی جیسے ہی وه قریب آیا..اس کی چھتری پر جھپٹ کر اسے دور پھینکا تھا...اور خوب ہسنے لگی تھی...”بارش کا مزا لو بوڑھی روح ....دیکھو بارش میں سب کتنا حسین ہوگیا ہے...“اس نے مسکراتے ہوےؔ ہاتھ پکڑ کہا ...شاهنزیب نے اس کے وجود کو تکتے ہوےؔ کہا :”ہاں...بھت حسین“
اور آج ایک سال گزر جانے کے باوجود یہی لفظ اس کے لبوں پر تھے :”ہاں ...بھت حسین“ اس نے کھڑکی سے باہر ہاتھ نیکالتے ہوےؔ کھوےؔ کھوےؔ انداز میں کہا
”کیا چیز بھت حسین ہے؟؟؟“ شاهزیه آپا اس کی بات سن پوچھ بیٹھیں...
”بارش اور کیا“کہتا ہوا وه اپنی اداسی آنکھوں میں چھپاےؔ بیڈ پر آکر بیٹھا تھا...”آج بھت بڑا دن ہے ...مجھے بھت خوشی ہے کے ہم کیس جیت گےؔ...اب آپ کے بچوں کو آپ سے کوئی جدا نہیں کرسکتا... اوپر سے کل بھائی لندن کی ٹکٹ بھیج دیں گے...اس کمینے فرحان کا کوئی خوف باقی نہ رہے گا آپ لوگوں کے لندن شفٹ ہوجانے کے بعد“ مسکراتے ہوےؔ اس نے گرم جوشی سے آپا کا ہاتھ پکڑ کہا ..
”ہم تو چلیں جائيں گے پر تم..تمھارا کیا ہوگا؟؟؟“ وه پریشان ہوکر بولیں...
”اُوووو۔ہووووو۔۔۔..میرے لیےؔ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں...آپ لوگ یہاں سے چلے جاٶ تو میں بھی گھر لوٹ جاٶں گا....مجھے یقین ہے کے میں معافی مانگوں گا تو سب ٹھیک ہوجاےؔ گا...آخر کوئی کیسے اتنے ہینڈسم لڑکے سے ناراض رھ سکتا ہے؟؟“وه تھوڑا اتراتے ہوےؔ بولا تو آپا مسکراء دیں...پر اگلے ہی لمحے وه پریشان ہوکر بولیں:” پر سب بھت غصه ہیں تم پر ...انہوں نے ماهنور تک کو تم سے رابطے میں نہیں رہنے دیا....تمھیں لگتا ہے کے وه تمھیں اتنی آسانی سے معاف کردیں گے؟؟“ آپا کے چہرے پر فکر عیا تھی...
”میں کہ رہا ہوں ناں...سب ٹھیک ہوجاےؔ گا...مجھے دیکھ سب کے دل خود بہ خود پیگل جائيں گے..“اس نے آپا کو مسکراتے ہوےؔ کہ تو دیا تھا پر اسے خود اپنی کہی بات پر اعتبار نہ تھا...
ایک سال کے اندر بھت بار اسے بلایا گیا ...بڑے ابو اسے لینے انڈیا بھی آےؔ....پر وه نہیں ماننا...اس لیےؔ سب گھر والوں کی ناراضگی عروج پر پہنچ چکی تھی...پر وه مجبور تھا آپا کو اس نازک وقت میں اکیلے نہیں چھوڑ سکتا تھا.....شاهنزیب نے اِس ایک سال میں دوست کم مگر دشمن زیاده بنالیےؔ تھے...جو اس کی جان کے درپے تھے ...ان میں سرفہرست فرحان تھا...جو اس کے خون سے اپنی ہار کا بدلا لینا چاھتا تھا...
آپا کو لندن بھیج کر شاهنزیب اور شھزاد ائيرپورٹ پر بیٹھے تھے...”اب کیا کرنا ہے؟؟“شھزاد نے شاهنزیب کو دیکھ سوال کیا..
”میں خود نہیں جانتا...سوچ رہا ہوں پاکستان جاکر کہیں چھپ کر کچھ ماه گزار لوں...جب تک اس فرحان کا دماغ بھی ذرا ٹھنڈا ہوجاےؔ گا... اگر میں گھر آیا تو کہیں وه گھر والوں کو میری وجہ سے نقصان نہ پہنچاےؔ“اس نے شھزاد کو دیکھ معنی خیز انداز میں کہا...
”ٹھیک کہ رہے ہو...مجھے بھی اُس نفسیاتی آدمی سے کسی قسم کی بھلائی کی امید نہیں...اور ہاں تمھاری منگنی ٹوٹ رہی ہے“انھوں نے خبر دینے والے انداز میں کہا:”خاله نے کہ دیا کے اگر تم دو ماه کے اندر اندر واپس نه لوٹے تو تمھاری منگنی سعدیہ سے توڑ دیں گے...یہ ایک اچھا موقع ہے منگنی ختم کرنے کا...اب جو حالات ہیں اس میں اگر منگنی ٹوٹ جاےؔ تو سعدیه کی زندگی پر اس کا کوئی برا اثر نہیں پڑے گا...کیونکے سب قریبی رشتےدار اس حقیقت سے واقفیت رکھتے ہیں کے تمھاری وجہ سے منگنی توڑنی پڑھ رہی ہے...البته لڑکی میں کوئی خامی نہیں ....مزمل سعدیہ سے شادی کرنا چاہتا ہے...اگر تم دو ماه تک گھر نہ آےؔ تو سعدیہ کی شادی مزمل سے طے ہوجاےؔ گی...جو تمھارے فائده کی بات ہے“شھزاد نے اس کے کندھے پر اپنا بھاری ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو یه سن شاهنزیب کے چہرے پر گہری مسکراھٹ بکھر آئی...
”یہ تو میں شروع سے جانتا ہوں کے تم سعدیه سے منگنی نہیں رکھنا چاہتے تھے...پر یه نہیں جانتا کیوں؟؟...ایسی کیا بات ہے جو تمھیں سعدیہ جیسی خوبصورت لڑکی پسند نہیں؟؟؟...کیا کوئی اور لڑکی پسند ہے؟؟؟“شھزاد نے سنجیدگی سے استفسار کیا...
”ابھی وه وقت نہیں آیا بھائی کے میں آپ کو کچھ بتاسکوں...پر جب وقت آےؔ گا تو یقین مانیں اپنی خوشی سب سے پہلے آپ سے شیئر کروں گا“ شاهنزیب نے مسکراتے ہوےؔ شھزاد کا ہاتھ جو کندے پر رکھا تھا اپنے ہاتھ میں گرم جوشی سے پکڑتے ہوےؔ کہا...دونوں بھائی واپس پاکستان لوٹ آےؔ....
اپنی زمین اپنی مٹی اپنی درھتی یه الفاظ بھت سنے تھے بچپن سے...مگر احساس اور اِن الفاظوں کا مول آج ہوا تھا...جب ایک سال کسی اور ملک میں گزار کر آیا تھا....دل مٹی کی سوڑی و میٹھی خوشبوں سے بھر آیا تھا....پر اِک اور احساس تھا جو جھگڑ رہا تھا اسے...اس کا دل اس کے قابو میں نہ رہا تھا...دل میں انجانی خواہش جنم لے رہی تھی...کے کہیں سے ماہنور مسکراتی ہوئی چھم سے سامنے آجاےؔ....اُس لمحہ بس دل یہی چاھ رہا تھا کے کہیں سے وه آجاےؔ....اور سامنے مسکراتی ہوئی کھڑی ہوجاےؔ جیسے بچپن سے ہمیشہ ہاتھ بڑھاکر کہتی ہے کے ”چلو شاه ...جلدی چلو“ ویسے ہی آج کہے....ہر بار تو میں اس کا ہاتھ تھامنے میں تھوڑے نخرے دیکھاتا ہوں پر اِس بار جھٹ سے پکڑ لوں گا...ائیرپورٹ سے نیکلتے ہی اس نے ایک گہری لمبی سانس لی۔۔۔۔
شاهنزیب نے واپس آکر فلیٹ میں تیسرے فلور پر خالی پورشن لے لیا تھا کچھ ماه رھنے کے لیےؔ...
کیفے ھاوس میں بیٹھی وه اکیلے کافی انجواےؔ کررہی تھی..کھوئی کھوئی معلوم ہورہی تھی دیکھنے میں..”میں کب تک امید باندھے بیٹھی رہوں شاه...مجھے پورا یقین ہے کے تم میری شادی اور ہماری منگنی ٹوٹنے کی خبر سن ...ضرور دوڑے چلے آٶ گے...“ وه سیل میں شاهنزیب کی تصویر کو دیکھ کلام کررہی تھی....
”سر آپ کے لیےؔ کیا لاٶں؟؟؟“ویڑ نے سوال کیا تھا شاهنزیب سے جو ابھی ابھی ٹھیک سعدیہ کی پیچھے والی ٹیبل پر آکر بیٹھا تھا...”ون کپ کولڈ کافی“شاهنزیب نے جیسے ہی ویڑ سے کہا سعدیه کے کان کھڑے ہوگےؔ....آواز سن وه فورا پیچھے پلٹی تھی ...
”شاه“اس کا دل جھوم اٹھا تھا شاهنزیب کو دیکھ ..سعدیه آنکھوں میں نمی لیےؔ مسکراتے ہوےؔ اس کے وجود کو تکتے ہوےؔ بولی...البته شاهنزیب سعدیہ کو دیکھ چونکا تھا...اسے سعدیه سے یوں ملنے کی ہرگز امید نہ تھی...شاهنزیب اسے دیکھ اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا تھا...سعدیہ بھاگتے ہوےؔ آکر اُس کے گلے لگی تھی...
”مجھے پتا تھا تم ضرور آٶ گے“ سعدیہ خوشی کے مارے ہوش ہی کھو بیٹھی تھی...جبکے شاهنزیب ابھی تک شاکٹ میں تھا...کافی ھاوس میں موجود ہر شخص کی نگاه کا مرکز بنے ہوےؔ تھے دونوں...
”سعدیہ سب دیکھ رہے ہیں ہٹو“ سعدیہ نے شاهنزیب کی بات سن ہوش کیا تھا...اور دھیرےؔ سے اس کے سینے سے ہٹ کر اس کا چہره ترسی نگاھوں سے تکنے لگی....شاهنزیب اسکے ھٹتے ہی تیزی سے باہر کی جانب بڑھا تھا تو سعدیه بھی پھرتی سے اپنی ٹیبل سے سیل اور پاٶچ اٹھاکر اس کے پیچھے چل دی...
”کہاں جارہے ہو؟؟؟“سعدیہ اس کے پیچھے چلتے ہوےؔ استفسار کرنے لگی..شاهنزیب اسے اگنور کر بائیک پر بیٹھا ہی تھا کے وه برق کی تیزی دیکھاتے ہوےؔ اس کے پیچھے بیٹھ گیؔ...
”سعدیه بائيک سے اترو“شاهنزیب نے ھلکی سی گردن اس کی جانب موڑ سنجیدگی سے کہا...
”میں کیوں اترٶں؟؟؟...مجھے سمجھ نہیں آرہا تم مجھے دیکھ بھاگ کیوں رہے ہو؟؟؟“سعدیه کنفیوس تھی جو اس کے چہرے پر عیا تھا...
”میں نے کہا بائيک سے اترو“وه غصے سے بولا...
”میں نے بھی کہا ناں...میں نہیں اتروں گی“وه پیچھے سے شاهنزیب کو اپنے یاتھوں کے حصار میں جگڑ بولی تھی...
”ہاتھ ھٹاٶ....اور اترو“شاهنزیب اب غصے سے بھپر کر بولا تو وه مسکراتے ہوےؔ اس کی کمر سے اپنی پیشانی لگا کر :”تم مجھے اپنے اِس غصے سے ڈرا نہیں سکتے..مجھے بات کرنی ہے تم سے“آخری جملہ اس نے التجائی انداز میں ادا کیا تھا جیسے سن
وه مجبور ہوا تھا ...وه غصے سے اس کا ہاتھ کا حصار کھول بائيک سے اترا تھا...”چلو...“وه واپس کیفے ھاوس میں جاتے ہوےؔ بولا تو وه مسکراتی ہوئی ساتھ ہولی...
”کیسے ہو؟؟“سعدیہ کی آنکھوں میں جگنو جگمگا رہے تھے وه بھت پیار سے سوالیہ ہوئی...جواب نه ملنے پر اتنی ہی محبت سے دوبارا سوال دہرایا تھا ”کیسے ہو تم؟؟...اتنا ناراض کیوں ہو مجھ سے؟؟...میری خاطر پاکستان چلے آےؔ ہو اور مجھ ہی سے منه مڑ کر بھاگ رہے ہو“سعدیہ نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ بڑے پیار سے پوچھا...
”ٹھیک ہوں میں...اور یه غلط فہمی نیکال دو ...کے تمھارے لیےؔ پاکستان آیا لوں“وه بےرخی سے گویا ہوا...مگر وه اتنی خوش و پرسکون تھی کے اس کا بےرخی بھرا جواب سن بھی مسکراء دی...جس پر وه تعجب سے سعدیه کو دیکھنے لگا...
”مسکراء کیوں رہی ہوں یہی سوچ رہے ہو ناں؟؟“سعدیه نے اس کی تعجب بھری نگاه پڑھ جوابا کہا:”تم اگر پیار بھری باتیں کرتے یا کوئی رومینٹک ڈائلوگ بولتے تو مجھے افوٹ فیل ہوتا....لگتا یہ شاه کو کیا ہوگیا ہے؟؟...یه تو میرا شاه نہیں...مگر تم نہیں بدلے یہ دیکھ خوشی ہورہی ہے...اپناپن محسوس ہورہا ھے کے ہاں یہی میرا شاه ھے...آنکھوں میں غصه ٖ ہونٹوں پر انکار پر دل میں میرے لیےؔ بھت سارا پیار“سعدیه کی آنکھیں لب و لہجہ پیار برسا رہا تھا...وه شاهنزیب کی بےرخی کو خاطر میں لاہی نہیں رہی تھی...
”سعدیہ پلیز...خوابوں کی دنیا سے باہر نیکلو...کس زبان میں تمھیں سمجھاٶں کے تمھاری خاطر نہیں آیا“ شاهنزیب نے پھر سے اپنی کہی بات دوھرائی تھی...
”اچھا جی ...چلو مان لیتے ہیں کے تم میرے لیےؔ واپس نہیں آےؔ تو پھر کس کے لیےؔ آےؔ ھو؟؟؟“ وه مسکراتے ہوےؔ آئبرو اچکاےؔ پوچھنے لگی...”اگر تمھاری بات ختم ہوگیؔ تو مجھے اجازت ہے جانے کی؟؟“شاهنزیب نے سخت میری سے سوال کیا..
”بس کردو ...کتنا غصه ہوگے؟؟...میں تو پہلے ہی سب سے کہ رہی تھی کے مت کرٶ...وه واپس آکر مجھ سے بھت ناراض ھوگا...پر کوئی مانا ہی نہیں ...سب کو یہی طریقہ نظر آرھا تھا تمھیں واپس بلانے کا...اور پھر میں بھی پریشان ھوگیؔ تمھارے لیےؔ...بس اِس لیےؔ سب کا ساتھ دے دیا...ایک مزے کی بات بتاٶں “وه مصالحے دار نیوز سنانے کے انداز میں گویا ہوئی:”ماهنور کو یقین تھا تم نہیں آٶ گے....میں نے بڑے بھرم سے کہا اس سے۔۔۔ کے بات میری ہورہی ہے اب ...وه دوڑا چلا آےؔ گا منگنی ٹوٹنے کی خبر سن....دیکھو تم نے واپس آکر اسے غلط اور مجھے صحیح ثابت کردیا...“
اس کی بات سن شاهنزیب الجھا تھا:”کیا مطلب؟؟...یہ منگنی ٹوٹنے والی نہیں تھی؟؟“
”نہیں بھئی....ہرگز نہیں...تمھیں لگتا ہے میں تمھارے علاوه کسی سے شادی کرنے کی سوچ بھی سکتی ہوں؟؟.“ پھر شھادت کی انگلی اپنی جانب کر ”یہ دیوانی مر نا جاےؔ گی تمھاری“وه شاهنزیب کے وجود کو گھری بولتی نظروں سے دیکھتے ہوےؔ استفسار کرنے لگی...”ارے یہ تو تمھیں واپس بلانے کے لیےؔ جال پھینکا تھا...اور اس کے لیےؔ بس تھوڑا سہ شھزاد بھائی کا استعمال کیا...جو بیچارے اتنے سیدھے ہیں کے سمجھ ہی نہ سکے ...کے ہم سب ان کے ذریعے تم تک بات پہنچانا چاہتے ہیں“
سعدیه کی باتیں اسے مزید الجھارہی تھیں:”تم لوگ جانتے تھے کے میں شھزاد بھائی سے رابطے میں ہوں؟؟؟“وه حیرت سے پوچھنے لگا...جواب میں سعدیہ نے مثبت میں سر ھلادیا...شاهنزیب یه سن پریشان ہوا تھا...
”ویسے ...ماهنور کی منگنی والے دن تم نے نہ آکر میرے سارے برے خیالات جو ذھن میں ہر وقت گردش کرتے تھے انھیں اسٹاپ لگادیا ہے...تم...“وه ابھی بول ہی رہی تھی کے شاهنزیب بیچ میں ہی بول پڑا :”کیا ٖ کیا کہا تم نے؟؟؟..کس کی منگنی؟؟؟“شاهنزیب کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا اس لیےؔ دوبارا سوال کرنے لگا...
”ماهنور کی منگنی....اور کس کی منگنی ہوئی ہے اِس ایک سال میں“سعدیہ کے کہتے ہی اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑھ گیا...حواس تو کام کرنا ہی بند ہوگےؔ تھے...ایسا لگ رھا تھا جیسے کسی نے جسم سے روح نیکال لی ہو....شاهنزیب کا منہ مارے شاکٹ کے کھولا کا کھولا رھ گیا تھا...ویٹر شاهنزیب کا آرڈر لے کر آیا مگر وه اٹھ کر بغیر کچھ کھے چلا گیا...
وه اکیلا کھڑا بالغنی میں سوچوں میں گم سم تھا...فون اتنی دیر سے بج رہا تھا مگر وه اپنے خیالوں کی دنیا میں اِس قدر کھویا ہوا تھا...کے اسے فون کے بجنے کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی...ہر وه لمحہ جو اس نے ماهنور کے ساتھ گزارا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا..ابھی تک دل ماننے کے لیےؔ تیار نہ تھا کے اس کی منگنی ہوچکی ہے اور اسے کسی اور کے نام سے منسوب کردیا گیا ہے...سمجھ نہیں پارہا تھا کے کہاں غلطی ہوئی اس سے جو اتنی بڑی قیامت آئی اس کی زندگی میں اور وه بےخبر رہا...”وه میری ہے صرف میری...اسے مجھ سے کوئی جدا نہیں کرسکتا..منگنی ہوگیؔ تو کیا...شادی تو نہیں ہوئی ...ابھی بھت کچھ بدلا جاسکتا ہے...“ یه سوچ وه کمرے میں آکر اپنا سامان پیک کرنے لگا...
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کے دروازه نوک ہوا ...”تم؟؟؟.تم یہاں کیا کررہی ہو؟؟“وه سعدیه کو اپنے دروازے پر کھڑا دیکھ حیران ہوا تھا..
”ہاں میں“کہتے ہوےؔ سعدیه اندر گھسی چلی آئی تھی ..سامان پیک دیکھ:”کہیں جارہے ہو کیا؟؟“
”ہاں..اپنے گھر“وه سیل اپنی جیب میں ڈالتے ہوےؔ بولا...
”او گڈ....پھر میں خالا کو فون کرکے بتادیتی ہوں“خوش ہوکر اس نے اپنے سیل میں بیگم شمسہ کا نمبر ملایا تھا..
”اِس کی ضرورت نہیں...“کہتے ہوےؔ شاهنزیب نے اس کے ہاتھ سے سیل چھینا تھا...
وه سامان لے کر بائيک پر بیٹھا تو سعدیہ :”سامان میری کار میں رکھ دو“ اس نے منت والے لہجے میں کہا تو وه مان گیا...سعدیہ اسی کے ساتھ بائيک پر بیٹھ گیؔ تھی..اپنا ہاتھ شاهنزیب کے کندھے پر رکھا اس نے ..
”مضبوطی سے پکڑٶ مجھے...کہیں گِر ور مت جانا“شاهنزیب اچھی طرح سعدیہ کے ضدی مزاج سے واقفیت رکھتا تھا ..وه جانتا تھا کے اگر وه اسے اترنے کا کہے گا تو یه صرف الفاظوں کا ضیاء ہوگا...ماننا تو اس نے ہے نہیں..اِس لیےؔ اسے مڑ کر دیکھتے ہوےؔ نرمی سے کہا..
شاهنزیب نے کہتے ہوےؔ بائيک اسٹارٹ کی ...تو اس نے پیچھے سے شاهنزیب کو مضبوطی سے پکڑ لیا..اور مسکرانے لگی...سعدیه کے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے خوشی کے مارے...وه شاهنزیب کے قرب کو۔۔۔ اس کی مہک کو محسوس کر خوشی سے پھولے نہیں سماء رہی تھی...آج اسے لگ رہا تھا کے بائيک دنیا کی سب سے خوبصورت سواری ہے...جو آپ کو آپ کے ہم سفر کے اتنے قریب لے آتی ہے کے وه خود مجبور ہوجاےؔ کہنے پر :”مجھے مضبوطی سے تھام لو“ شاهنزیب اپنے سادھے سے کپڑوں میں بھی کافی ہینڈسم لگ رہا تھا...براون رنگ کی جیکٹ اور بلیک رنگ کی پینٹ اس کے سفید رنگ پر قیامت ڈاھ رہی تھی...سعدیہ سو سو جان فدا ہورہی تھی اُس پر....
وه اکیلے ٹیرس پر بیٹھی تھی اداس سی...کے اچانک ایک انجانی خوشی نے اس کے دل میں جنم لیا...اس کا دل کہنے لگا کے شاهنزیب واپس آرہا ہے...دل کی اس انجانی خوشی کی لہر نے اسے کھڑا کردیا وه دروازے پر بےصبروں کی طرح دیکھنے لگی...نا جانے کیوں دل امید باندھ رہا تھا کے وه آج آےؔ گا...
”مانو تم یہاں ہو میں تمھیں کب سے ڈھونڈ رہی ہوں...چلو میرے ساتھ نیچے“ اسماء نے پیچھے سے زوردار آواز میں کھڑے ہوکر کہا تھا..
”پتا نہیں کیوں دل کہ رہا ہے آج شاه آےؔ گا“ وه اسماء کی جانب مڑ پرامید نظروں سے بولی...
”جو تمھاری منگنی میں نہیں آیا...تمھاری زندگی کے اتنے خاص دن....تم کیوں پھر اس کا ہر روز انتظار کرتی ہو...اگر وه ابھی واپس آیا۔۔۔۔ صرف سعدیه کے لیےؔ تو واقعی... میں اسے معاف نہیں کروں گی“اسماء نے دوکھی لہجے میں کہا...
”میں نہیں جانتی کیوں پر آج بھت اسٹرونگ فیلنگ آرہی ہے ...کے شاه آج آےؔ گا“ ماهنور پینک رنگ کے ساده سے سوٹ میں کھلتے ہوےؔ گلاب کی مانند لگ رہی تھی...حاف بال کیچر کیےؔ ہوےؔ وه تو سادگی میں بھی حسن جھلکا رہی تھی...ماهنور ہوا کی وجہ سے اڑتے ہوےؔ بالوں کو جو اس کے چہرے پر آرہے تھے کانوں کے پیچھے کرتے ہوےؔ بولی تھی...”پتا ہے میں تو روز دعا کرتی ہوں بس وه آجاےؔ....سعدیه کے لیےؔ ہی صحیح ...ہاں دوکھ ہوا تھا جب وه دادو کے خود جاکر اسے بلانے پر بھی نہیں آیا تھا...“ماهنور ابھی بول ہی رہی تھی کے بائيک کے ھورن کی آواز آئی ...اسماء ماهنور دونوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا...
ماهنور شاهنزیب کو دیکھ خوشی کے مارے جھوم اٹھی ...اسے صرف بائيک پر بیٹھا شاهنزیب نظر آیا تھا ..وه شاهنزیب کو دیکھنے میں ہی اس قدر منگن ہوئی کے اس نے پیچھے بیٹھی سعدیه کو دیکھا ہی نہیں...جبکے اسماء نے دونوں کو دیکھا تھا..
وه دیوانوں کی طرح بھاگتی اور اعلان کرتی ہوئی اتری...”شاه آگیا...شاه آگیا....بڑی امی کہاں ہیں آپ دیکھیں شاهنزیب آگیا ہے...چاچی جان دیکھیں آپ کا بیٹا آیا ہے....علی بھیئا دیکھیں شاهنزیب آیا ہے...او۔ہو میں پاگل ہوگیؔ ہوں علی بھیئا کہاں سے آئيں گے وه تو عمرے پر گےؔ ہوےؔ ہیں“ وه اپنے ہی سر پر ہلکی سی دھپ لگاتے ہوےؔ بولی...ماهنور بھاگتی ہوئی سیڑھیوں سے اترتی ہوئی آرہی تھی...پورے گھر میں اسی کی خوشی سے کھنکتی ہوئی آواز گونج رہی تھی...سب لاونج میں جمع ہوگےؔ تھے....
ماهنور کا دوپٹہ کارنر پر رکھے ہوےؔ گل دستے میں الجھ گیا ...پر وه اتنی خوش اور شاهنزیب کی ایک جھلک دیکھنے کے لیےؔ بےتاب کے دوپٹے کی پرواه ہی نہ کی ....دوپٹے کو وہیں چھوڑ تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگی...
جب دروازه کھلا تو ماهنور بلکل سامنے آخری سیڑھی پر کھڑی تھی...بےتابی کا عالم اپنے عروج پر تھا....جیسے دیکھے بغیر ایک دن نہیں گزرتا تھا اسے دیکھے پورا ایک سال گزر گیا تھا...
شمسہ بیگم کچن سے تیز قدم بڑھاتی ہوئی نیکل آئيں تھیں ...کامران اور راحیل وہیں صوفے پر بیٹھے تھے جو ماهنور کی بات سن کھڑے ہوےؔ تھے....شھزاد نے جب ماهنور کی آواز سنی تو اسے لگا کے ماهنور مزاق کررہی ہے...اس لیےؔ وه اپنے کمرے میں ہی بیٹھا رہا...راحیل کی والده بھی اپنا کام چھوڑ دوڑی چلی آئيں تھیں...
”ماهنور کی بچی...مزاق کی ایک حد ہوتی...سب کو پاگل بنادیا“کامران نے ماهنور کو گھورتے ہوےؔ کہا جب دروازے سے شاهنزیب کے بجاےؔ سعدیه کو اندر آتے دیکھا...ماهنور وہیں کھڑی سوچ میں پڑھ گیؔ تھی..کے اس نے تو شاهنزیب کو دیکھا تھا یہ سعدیہ کہاں سے آگیؔ....
”وه آیا ہے ماہنور ....ٹھیک دیکھا تھا تم نے...وه اپنی منگیتر کی خاطر واپس چلا آیا ہے...گرگیا ہے شاهنزیب آج میری نظروں سے...خودغرضی کی انتہاء کی ہے اس نے..“ اسماء نے بھری بھری آواز میں اس کی آنکھوں کی الجھن کو پڑھ جواب دیا تھا...جس پر ماهنور اس کا چہره تکنے لگی...
”دیکھیں میں اپنے ساتھ کیسے لائيں ہوں؟؟؟“سعدیه کے کہتے ہی شاهنزیب گھر میں داخل ہوا تھا...سب گھر والوں کی آنکھیں اسے دیکھ چمک اٹھی تھیں...ماهنور اسے دیکھ بُت سی بن کے کھڑی ہوگیؔ...یه ترستی آنکھیں اس کے دیدار سے سیراب ہوئيں تھیں...وه اپنی جگہ کھڑی سر تا پاٶں شاہنزیب کو دیکھ رہی تھی....آنکھیں نم ہوگیںؔ تھی اسے دیکھ کر ...
”میرا بیٹا...میرا بچا“ شاهنزیب کی والده کہتے ہوےؔ اپنے بیٹے سے سینے سے آلگی تھیں....کامران راحیل دونوں ہی تیزقدم بڑھاتے ہوےؔ اس کے پاس پہنچ گےؔ تھے...کامران نے تو چاچی کے گلے سے ہٹنے کا بھی انتظار نه کیا تھا وه بھی ساتھ ہی گلے لگ گیا تھا....جبکے راحیل اس کے برابر کھڑا ہوکر اس کے بالوں پر پیار سے ہاتھ پھیر رہا تھا...ماں ہٹی تو دونوں بڑی امییوں نے اسے ممتا کی آغوش میں لیا تھا...وه تو پورے خاندان کی آنکھ کا تارا تھا...سب نے اپنے دلوں پر جو ناراضگی کے بڑے بڑے پھتر رکھ لیےؔ تھے وه تو اسے دیکھتے ہی پگھل گےؔ....
”تو آگےؔ لاڈ صاحب آپ؟؟“ شاهنزیب اپنی دونوں بڑی امییوں کے گلے لگا ہوا تھا..بھت افسرده تھا وه ....مجبوریوں نے اس کے پاٶں جگڑ رکھے تھے ورنه دل تو اس کا بھی مچلتا تھا سب گھر والوں سے ملنے کے لیےؔ....آج جب وه ماهنور کی خاطر پھر سے چلا آیا تھا تو اس کے باپ نے غصے سے آکر اس پر سامنے کھڑے ہوکر طنزیہ کہا تھا...افتخار صاحب کی آواز سن وه اپنے والد کے روبرو آکر کھڑا ہوا ...پر نظریں جھکاےؔ ادب کے ساتھ...
”کیسے آنا ہوا؟؟؟...پیسے ختم ہوگےؔ؟؟....یا تمھارے بھائی نے بھیجنا چھوڑ دیےؔ؟؟..یا تمھارے اس دوست نے تمھیں دھوکا دے دیا؟؟؟...یا اب جائيداد میں حصہ لینے چلے آےؔ ہو اپنا؟؟...بولو“افتخار صاحب غصلی آواز میں استفسار کررھے تھے...”بولو خاموش کیوں ہو؟؟“ شاهنزیب کے جواب نه دینے پر انھوں نے پھر سے غصے سے پوچھا تھا...
”تمھیں کیا لگتا ہے تم چپ کھڑے رہو گے تو سب ٹھیک ہوجاےؔ گا...ہم معاف کردیں گے تمھیں؟؟...اگر تم ایسا سوچ رہے ہو تو بھول ہے تمھاری...جواب تو تمھیں دینا پڑے گا..کیوں آےؔ ہو واپس؟؟؟“ شاهنزیب بھت چھوٹا تھا ابھی عمر میں...بھت غمزداده تھا ...جو اس پر بیتی کسی کو بتا بھی نہیں سکتا تھا...دو مرتبہ تو موت کے منه میں جاتے جاتے بچا تھا...پر اتنی چھوٹی عمر میں بھت بڑی جنگ فتح کرکے اکیلا آیا تھا وه...رونا چاھتا تھا ....اپنے باپ کے سینے سے لگ کر....آنسوں اتنے یادوں میں بھاےؔ تھے کے اب تو خشک ہوچکے تھے...بس خاموش کھڑا ڈانٹ سنتا رہا کیونکے کان بھت ترسے تھے اِس ڈانٹ کو سنے کے لیےؔ...
شاهنزیب نے ماهنور کی طرف نگاه تک نہ اٹھائی... جانتا تھا وه بلکل سامنے کھڑی ہے...
”شاهنزیب“شھزاد اپنے والد کی آواز سن اپنے کمرے سے نیکل آیا تھا...وه شاهنزیب کو اچانک دیکھ چونکا تھا...ماهنور زیاده تو نہیں جانتی تھی کے کیا ہوا ہے شاهنزیب کے ساتھ ...کیونکے شروع کے صرف چار ماه ہی وه رابطے میں رھ سکی تھی....
”شاهنزیب معافی مانگ لو ڈیڈ سے“شھزاد نے شاهنزیب کا ہاتھ پکڑ کر کہا تھا...سب جانتے تھے بس معافی مانگنی کی دیر ہے ...سارا غصہ جو افتخار صاحب کی آنکھوں میں ہے غائب ہوجاےؔ گا...اور وه محبت جو اس غصے کے پیچھے چھپی ہے ظاہر ہوجاےؔ گی..
شاهنزیب نے کچھ نه کہا بس سینے سے جالگا... سب کی آنکھیں نم تھیں یه منظر دیکھ....
”ہٹو شاهنزیب“افتخار صاحب بغیر ہاتھ لگاےؔ ذرا سخت لہجے میں ہٹنے کا کہ رہے تھے....مگر وه تو اتنی مضبوطی سے چمٹا تھا کے وه پہلے تو دو تین بار کمزور سی کوشش کرتے رہے اسے ہٹانے کی... مگر باپ کا دل تھا اور لختِ جگر اس سے چمٹا تھا ...کیسے ہٹاتے اسے...شاهنزیب رونے لگا تھا
”تمھیں کیا لگتا ہے ...تم رو گے اور میرے گلے لگ جاٶ گے تو میں تمھیں معاف کردوں گا؟؟“اِس بار افتخار صاحب کی آواز بھر آئی تھی...شھزاد نے آنکھوں ہی آنکھوں میں” معاف کردیں“ التجاء کی تھی..
”معاف کردیں چاچا جان...شاه رو رہا ہے“ماهنور افتخار صاحب کے پیچھے کھڑی تھی...کیونکے شاهنزیب کا منه اس کی طرف تھا اس لیےؔ وه روتا ہوا دیکھ پارہی تھی اسے....اسے روتا دیکھ وه بھی رونے لگی تھی...
”میں جانتا ہوں شاهنزیب کے تم سنگر بنے نہیں گےؔ تھے...“یه سنتے ہی شھزاد ماهنور اور شاھنزیب تینوں چونکے تھے...شاهنزیب گلے سے ہٹ کر اپنے والد کو حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگا...
”ہندوستان کیوں گےؔ تھے تم؟؟؟...کَیا کِیا تم نے ایک سال وہاں...میں نے تمھیں لاوارث نہیں چھوڑا تھا ...تم پر شھزاد کو نظر رکھنے کو کہا تھا...پر میں نے بھت جلد محسوس کرلیا تھا کے شھزاد جھوٹ بولتا ہے تمھارے متعلق مجھ سے...اب تم دونوں بھائی سچ سچ بتاٶ کیا چل رہا ہے “ افتخار صاحب نے رعب دار آواز میں پوچھا تو دونوں بھائی پریشان نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے...
”ٹھیک ہے مت بتاٶ تم دونوں...پر شاهنزیب ...میں تمھیں تب تک معاف نہیں کروں گا جب تک تم خود آکر مجھے نہیں بتادیتے“ وه یہ کھ کر جانے لگے تھے...
”میرا بیٹا یہاں سے کہیں نہیں جاےؔ گا“شاهنزیب کی ماں نے زور سے اعلان کیا تھا تاکے افتخار صاحب کے کانوں تک یه بات پہنچ جاےؔ....
”ٹھیک ہے...رکھ لو اپنے بیٹے کو ...اس گھر میں...مگر مجھ سے کوئی امید مت رکھنا“ وه خفگی سے کہ کر وہاں سے چلے گےؔ....
”بیٹا تو تھک گیا ہوگا ...اپنے کمرے میں جاکر آرام کرلے“راحیل کی والده نے شاهنزیب کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوےؔ شفقت سے کہا...
ماهنور اور اسماء برابر برابر میں کھڑیں تھیں...اسماء منه موڑ واپس سیڑھیاں چڑھ گیؔ وه شاهنزیب سے بات تک نہیں کرنا چاھتی تھی...پر ماهنور وہیں کھڑی رہی...اسے امید تھی کے اب وه چلتا ہوا خود اسکے پاس آےؔ گا
”چلو شاهنزیب“ شھزاد نے اس سے کہا تو وه نظریں نیچے کیےؔ سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگا...ماهنور مسکراء رہی تھی اسے اپنی جانب آتا دیکھ....مگر وه یه دیکھتی رھ گیؔ کے شاهنزیب اس کے برابر سے گزر کر سیڑھیا چڑھ گیا مگر اس سے بات کرنا تو دور دیکھا تک نہیں ظالم نے....ماهنور مڑ کر حیرت سے شاهنزیب کو اوپر جاتا دیکھنے لگی...یه بات سعدیه نے بھی محسوس کی تھی...
”ہوسکتا لے اسے میں نظر نہ آئی ہوں...ویسے بھی وه رو رہا تھا بیچاره...“ماهنور نے اپنے دل میں آنے والے برے خیالات کو اک دم جھٹک دیا تھا...اور اس سے بات کرنے خود ہی اس کے کمرے کی طرف چل دی...
شھزاد نے کمرے میں جاتے ہی سوالات پوچھنا شروع کردیے تھے...”تم کیوں آگےؔ؟؟“
شاهنزیب نہایت سنجیده ہوکر:”اپنی امانت لینے“...ماهنور نے جب شاهنزیب کے الفاظ سنے تو اسے صدمه لگا اور وه خاموشی سے پلٹ گیؔ...
شاهنزیب نے شھزاد کو سعدیه کی کہی پوری بات بتائی ....
”کیا یہ صرف پلین تھا تمھیں واپس بلانے کا...تمھاری منگنی ٹوٹنے والی نہیں ہے؟؟؟“ شھزاد حیران و پریشان ہوکر سوالیہ انداز میں...
”جی...“شاهنزیب نے اثبات میں سر ہلایا ...”بھائی آپ نے مجھے ماهنور کی منگنی کے بارے میں کچھ کیوں نہیں بتایا؟؟؟ “
جس پر شھزاد نے اسے بتایا کے چھ ماه پہلے ماهنور کی ضد پر دادو خود اسے منانے گیںؔ تھیں انڈیا ..تاکے وه ماهنور کی منگنی آٹینڈ کرنے آےؔ.... یه سن شاهنزیب فورا بول پڑا کے دادو تو اس سے ملنے کبھی انڈیا آئی ہی نہیں...جس پر شھزاد تعجب سے
”ارے انھوں نے تو خود مجھ سے آکر کہا تھا کے شاهنزیب نے منع کردیا آنے سے...اور وه بیچارا آتا بھی کیسے...کیس اتنے نازک موڑ پر جو چل رہا ہے...انھوں نے ہی مجھ سے کہا تھا کے ماهنور کی منگنی کے بارے میں تم سے دوبارا بات نه کروں...تمھیں دوکھ پہنچے گا منگنی آٹینڈ نہ کرپانے کا...انھوں نے شاہزیه آپا کو بھی منع کردیا تھا۔۔۔۔۔۔۔..تم سے اِس بارے میں بات کرنے سے۔۔۔۔تمھیں بھت دوکھ ہوگا آخر ہو تو تم بچے ہی ناں“شھزاد نے دادو کی کہی پوری بات شاهنزیب کو بتائی تو وه طنزیہ مسکرانے لگا...اسے اب سب سمجھ آگیا تھا...
”دادو کہاں ہیں بھائی؟؟؟“شاهنزیب گہری سوچوں میں ڈوبے ہوےؔ سوال کررہا تھا...
”وه تو عمرے پر گیؔ ہوئی ہیں“ شھزاد خاموش بھی نه ہوا تھا بتاکر ”سعدیہ اور میری منگنی کے ٹوٹنے کا آپ کو کس نے بتایا تھا؟؟“
”ہم....یاد پڑتا ہے میں نے دادو اور امی کو بات کرتے سنا تھا“شھزاد نے اپنی یادداشت پر زور ڈالتے ہوےؔ جواب دیا....
”وه کب لوٹیں گی عمرے سے؟؟؟“وه بیڈ پر بیٹھتے ہوےؔ
”ایک ہفتہ رھ گیا ہے اُن کے آنے میں...ویسے ایک ماه رھ گیا ہے مانو کی شادی میں“ شھزاد بھی اسی کے برابر میں بیٹھتے ہوےؔ اسے بتانے لگا...”ویسے تم نے بتایا نہیں...کون سی امانت لینے آےؔ ہو یہاں؟؟؟“شھزاد نے تجسس سے دوبارا وه بات پوچھی تھی جو شاهنزیب نے ادھوری چھوڑئی تھی...
”ارے واه...تم دونوں بھائی خوب رہے...اکیلے بیٹھ کر باتیں کررہے ہو...اور ہمارا کیا؟؟؟...ہمیں بھول گےؔ“ کامران کمرے میں کہتا داخل ہوا تھا...
”کامران تو بھولنے کی چیز نہیں ہے“شھزاد نے مزاحیه انداز میں کہا تھا...
”میرا کمرا اتنا صاف ستھرا کیسے؟؟ کیسے ایک سال بعد بھی ہر چیز وہیں رکہی ہے جہاں میں چھوڑ کر گیا تھا؟؟؟“ شاهنزیب نے اپنے کمرے کا پورا جائزه لینے کے بعد بڑی حیرت سے پوچھا تھا...
”تمھارے جانے کے بعد ماهنور نے کبھی اس کمرے کو خالی رہنے ہی نہیں دیا....سب کے منع کرنے کے باوجود وه روز کمرے کی صفائی اپنے ہاتھوں سے کرتی تھی....نا جانے کتنے کتنے گھنٹے یہاں بیٹھ کر رویا کرتی تھی“ شھزاد نے مسکراتے ہوےؔ اسے بتایا ....
”یہ تو ماننے والی بات ہے ...پاگل ہے وه ....سب سے کتنا لڑئی ہے تمھاری خاطر وه...اس کے سامنے کسی کی مجال نہیں تھی تمھارے بارے بھی کچھ غلط کہ دے“کامران بھی شاهنزیب کو بتانے لگا کے کس طرح اس کے پیچھے سب سے لڑتی رہی ہے...یه سنے کے باوجود شاهنزیب کے چہرے پر کوئی مثبت یا منفی تاثر نظر نہیں آرہا تھا..۔۔۔۔
رات ہوچکی تھی پر نیند کے دور دور تک اثار نہ تھے وه بستر پر کروٹ بدلتے بدلتے بھی تھک چکی تھی ...سونے کی بھت کوشش کرتی رہی ...پھر آخر فیصلہ کیا کے پہلے اس سے بات کرے گی...اس سے خود جاکر پوچھے گی کے کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ...اور وه منگنی پر کیوں نہ آیا؟؟؟”کیا اس کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے میری..سعدیه کے لیےؔ سب چھوڑ چھاڑ چلا آیا ہے اور میرے لیےؔ صرف دو دن کے لیےؔ نہیں آسکتا تھا“ ماهنور کی آنکھوں میں آنسوں بھر آےؔ تھے...وه آنسوں صاف کرتے ہوےؔ بستر سے اٹھی تھی....اس کی دودھیارنگت پر پینک سوٹ نہایت جج رہا تھا اوپر سے اس حسینا نے بال بھی کھلے ہی چھوڑ دیےؔ تھے...
ماهنور نے دو تین بار شاهنزیب کا دروازه نوک کیا مگر کوئی جواب نہ ملا...تو وه ٹیرس کی جانب آہستہ قدم بڑھاتی ہوئی چل دی..
چاندنی رات تھی ہر طرف چاندنی ہی چاندنی بکھری ہوئی تھی ..ہر چیز کا رنگ چاندنی میں نکھر آیا تھا...وه پہلے سے شاهنزیب کو وہاں کھڑا دیکھ حیران ہوئی تھی...شاهنزیب کو بھی اس کی پایل کی چھن چھن نے خبر کردی تھی کے ماهنور آئی ہے...پر وه پیچھے نہ مڑا...اوپر آسمان میں چاندن کو دیکھتا رہا...
”مجھے بات کرنی ہے تم سے“ماهنور نے کچھ دیر خاموش رھنے کے بعد گویا ہوئی...شاهنزیب کی بےرخی عروج پر تھی ...ماهنور کے کہنے پر بھی اس کا کوئی ردِعمل نظر نہ آیا...”شاهنزیب میں نے کہا بات کرنی ہے تم سے“اس نے پھر اپنی بات دوھرائی تھی...مگر اس بار بھی ایسا لگ رہا تھا کے اس نے سنا ہی نہیں...”شاهنزیب کیا ہوا ہے ؟؟؟...کچھ بولو گے؟؟؟...کیوں کررہے ہو میرے ساتھ ایسا ...میری بات کا جواب کیوں نہیں دے رہے“ماهنور نے اس کی طرف دیکھتے ہوےؔ بولا مگر اسے محسوس ہوا وه ہواٶں میں باتیں کررہی ہے...شاهنزیب تو ابھی بھی چاند کو ہی دیکھے جارہا تھا...”شاهنزیب میں جانتی ہوں تم میری بات سن رہے ہو...“اس بار ماهنور نے جذباتی لہجے میں کہا تھا ...اس کا اگنور کرنا ماهنور سے اب برداشت نہیں ہورہا تھا آنکھوں میں آنسوں کی لڑئی لگ گیؔ تھی....مگر شاهنزیب سخت میر بنے کھڑا رہا...”غلطی کیا ہے میری ...یہی بتادو کم از کم“ شاهنزیب منہ مڑ کر جانے لگا تھا کے اسے جاتا یکھ وه پیچھے سے بولی...
”میں بات کرنے کی کیفیت میں نہیں ہوں ابھی...مجھے دھوکا میرے اپنوں نے ہی دیا ہے...میری روح کو مجھ سے جدا کردیا گیا ہے...میں نے جیسے ہمیشہ اپنے وجود کا حصہ سمجھا اپنی جان مانا ...اسے کیسی اور کی امانت کیسے مان لوں؟؟؟؟۔۔۔۔۔.میں تم سے نہیں بھاگ رہا ...میں تو خود سے بھاگ رہا ہوں ....مجھے ڈر ہے مانو تم میری آنکھوں میں چھپا غم پڑھ نا لو“ ماهنور شاهنزیب کو جاتا دیکھ منه موڑ کر کھڑی ہوگیؔ تھی اسی لمحے شاهنزیب نے مڑ کر اس کی جانب دیکھ اپنے دل میں سوچا....ماهنور کو شاهنزیب کی آنکھوں کی تپش اپنے وجود پر محسوس ہوئی تو وه شاهنزیب کی جانب مڑی ...مگر شاهنزیب نے تیزی سے اپنا منہ مڑ لیا ..اور وہاں سے چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشتے کی ٹیبل پر شاهنزیب آیا تو ماهنور کے برابر والی کرسی آج بھی اسی طرح خالی تھی جس طرح ایک سال پہلے رہتی تھی مگر وه کامران کے برابر والی کرسی کی جانب بڑھ گیا...
”ارے شاه ...اپنی جگہ پر بیٹھو بیٹا...تمھارے خاطر ایک سال سے یہ کرسی خالی ہے“بڑی امی نے اسے دوسری کرسی پر بیٹھتا دیکھ بولا...
”میں یہاں بیٹھ جاتا ہوں ..وہاں کوئی اور بیٹھ جاےؔ گا“شاهنزیب بیٹھتے ہوےؔ بولا...ماهنور شاهنزیب کو کھاجانے والی نگاه سے گھور رہی تھی البته شاهنزیب نے اس سے نگاه چورالی تھی....
”کسی کو جنگلی بلی سے دانت ٹوٹوانے ہیں کیا؟؟؟.جو تمھاری جگہ پر بیٹھے...کوئی ہاتھ تک تو رکھ نہیں سکتا تمھاری کرسی پر ...بیٹھنا تو بھت دور کی بات ہے“ کامران نے ماهنور کو منہ چڑھاتے ھوےؔ شاهنزیب کو مزاحیہ انداز میں بتایا تھا جسے سن سب گھر والے ہسنے لگے...
”بیٹا اپنی جگہ پر بیٹھ جاٶ..اس پاگل کو بھی سکون آجاےؔ گا...دیکھو کیسے تمھیں گھور رہی ہے“راحیل کی والده نے چاےؔ کا کپ ہاتھ میں اٹھاتے ہوےؔ کہا تھا...سب کے اصرار پر وه اپنی کرسی پر آکر بیٹھا تو ماهنور مسکراتے ہوےؔ اسے دیکھنے لگی:”کب تک ناراض رہوگے...اپنی مانو سے؟؟“ وه شاهنزیب کے کان میں سرگوشی کرنے لگی..
”شاهنزیب تم چلو گے ہمارے ساتھ گاٶں؟؟“شھزاد نے سلائس پر مکھن لگاتے ہوےؔ استفسار کیا...
”ارے بھئی....تم سے بات کررہے ہیں جواب تو دو“ شاهنزیب نے جواب نہ دیا تو کامران نے چمچہ ٹیبل پر مارتے ہوےؔ کہا...وه اپنی سوچوں سے باہر نیکل آیا”کیا ٖ کیا کہا آپ نے؟؟؟“شاهنزیب نے چمچے کی آواز پر چونک کر پوچھا تھا...
”تم ٹھیک تو ہو؟؟؟....بخار تو نہیں چڑھ رہا تمھیں؟؟“کامران نے اسے پریشان اور ڈرا ڈرا محسوس کیا تھا اس لیےؔ فکر کرتے ہوےؔ پوچھا...
”بخار“ماهنور نے کہتے ہوےؔ اس کی روشن چمکتی ہوئی پیشانی پر اپنا نازک سه ہاتھ رکھا تھا...شاهنزیب نے اپنی نگاھیں نیچے جھکالیں تھیں اسے ایک نظر دیکھ... ماهنور یہ دیکھ مسکرائی...
”ماهنور بخار ہے کیا؟؟“شمسه بیگم پریشان ہوکر
”نہیں تو...“کہتے ہوےؔ ماهنور نے ہاتھ ھٹایا تھا اسکی پیشانی سے ...
”تو بتاٶ شاه چلو گے گاٶں؟؟“راحیل نے آئبرو اچکاتے ہوےؔ پوچھا...
”مجھے ابھی پتا نہیں“کھ کر شاهنزیب نے جوس کا گلاس منہ سے لگایا...
”اُو سارے کزن جارہے ہیں ...بھت مزا آےؔ گا...چل لے یار“شاهنزیب کے کندھے پر ہاتھ ڈال کامران منتی انداز میں بولا...
”کب جارہے ہیں؟؟“شاهنزیب سوالیه انداز میں...
”بس دادو وغیره آجائيں ان سے مل کر رات کو نیکل جائیں گے...ایک ہفتے رہیں گے اپنی پورانی حویلی میں...یاد تو ہوگی تمھیں؟؟؟...بچپن میں تو تم بھی گےؔ ہو وہاں؟؟؟“راحیل نے مسکراتے ہوےؔ اسے یادداشت پر زور ڈالنے کو کہا...
”نہیں مجھے اتنی خاص یاد نہیں“کھ کر اس نے جوس پی کر گلاس ٹیبل پر رکھا...
بڑے ابو کے جاتے ہی :”ماهنور کے تو خوب مزے آئيں گے...یہاں تو وه اپنے منگیتر کو ٹھیک سے دیکھ ہی نہیں پاتی پر وہاں تو خوب.......“کامران نے بات ادھوری خود ہی چھوڑ دی تھی اور خوب ماهنور کو چھیڑنے لگا ...
”ایسا کچھ نہیں ہے کامران بھائی“ ماهنور نے زبان چڑاتے ہوےؔ کامران سے کہا...
”چل جھوٹی .....دل ہی دل تو لڈو پھوٹ رہے ہوں گے اس کے“بڑی امی نے مزید ماهنور کو چھیڑا تھا...
شاهنزیب کے دل میں آگ لگی تھی بڑی امی اور کامران کی بات سن....اِس قدر شدید کرب محسوس ہوا کے لگا دل ہی پھٹ جاےؔ گا...یہ دیکھنا ناقابل برداشت تھا کے ماهنور کو لوگ آج کسی اور لڑکے کے ساتھ منسوب کر کے چھیڑ رہے ہیں...مارے غصه سے آنکھیں دھک اٹھی تھیں...
” ماهنور کے تو واقعی خوب مزے ہیں...دونوں خوب انجواےؔ کرےؔ گے وہاں.....اور کوئی روکنے والا بھی نہیں ہوگا“ اسماء بھی اب ماهنور کو مسکراتے ہوےؔ چھیڑنے لگی تھی...
”ٹھس“شاهنزیب نے جوس کا کلاس جو ٹیبل پر رکھا تھا اسے یہ ساری باتیں سن مارے غم و غصے کے عالم میں اتنی مضبوطی سے پکڑا کے وه شیشے کا گلاس صرف شاهنزیب کی پکڑ کی مضبوطی کے سبب اسی کے ہاتھ میں ٹوٹ گیا....کانچ کے ٹکرے شاهنزیب کے ہاتھ میں گھس گےؔ تھے...ماهنور کی زوردار چیخ بلند ہوئی تھی یه دیکھ کر...شاهنزیب کا دل یه سب سن تڑپ اٹھا تھا ...دل کی تڑب کے آگے ہاتھوں میں لگی چوٹ اسے محسوس ہی نہیں ہوئی...جبکے باقی سب پریشان ہوگےؔ تھے اس کے ہاتھوں سے خون نیکلتا دیکھ.....ماهنور نے جھٹ سے اس کا ہاتھ پکڑا تھا...”کتنا خون نیکل رہا ہے “وه پریشان ہوکر روہانسہ آواز میں بولی...
”یہ کیسے ہوا؟؟؟؟“شھزاد حیرت سے سوال کررہا تھا....پر شاهنزیب کھویا کھویا تھا کوئی جواب ہی نہیں دے رہا تھا....
”سب کو میرے ہاتھوں پر لگی معمولی چوٹ نظر آرہی ہے مگر کسی کو میری روح پر لگے زخم نظر نہیں آتے“وه خودی سے دل ہی دل ہمکلام ہوا...
شھزاد نے شاهنزیب کے ہاتھ کی پٹی باندھی...اس کی پٹی بنتے وقت ماهنور تکلیف کے مارے آنکھیں میچ رہی تھی...گویا اس کی تکلیف ودرد محوس کرپارہی ہو...مگر وه بت بنے بیٹھا رہا۔۔۔۔۔۔
”آپ نے دیکھا نہیں ہے میرے بیٹے کو...اس کی حالت کو...ایسا لگتا ہے گویا کسی نے اس کے جسم سے روح نیکال لی ہو...نہ کچھ کھاتا ٹھیک طرح نہ بولتا ہے...ہر وقت بس خاموش رہتا ہے...مجھے بھت فکر ہورہی پے اس کی...خدا جانے اس کے ساتھ کیا ہوا ہے جو وه اتنا بدل گیا ہے“شمسہ بیگم گارڈن میں کرسی پر بیٹھی اپنے شوہر کو شاهنزیب کی حالت سے آگاه کررہی تھیں..وه بھت فکرمند تھیں شاهنزیب کو لے کر...
”تم تو ہر چھوٹی چھوٹی بات پر فکر کرنے لگتی ہو...وه بھت چھوٹا ہے...ایک سال وه غربت و بےروزگاری کی زندگی گزار کر آرہا ہے بغیر پیسوں ٖ عیش و آرام کی زندگی گزاری ہے اس نے...ہمیں تو یل بھی نہیں پتا کے وه اچانک سے واپس کیوں لوٹا ہے...لیکن دل یہ سوچ کر مطمین ہے کے اگر کوئی بڑی بات ہوتی تو شھزاد ہمیں ضرور بتادیتا...ابھی شاهنزیب کو آےؔ دن ہی کتنے ہوےؔ ہیں..کچھ دن گزر جانے دو دیکھ لینا وہی پرانا والا شاهنزیب نظر آےؔ گا تمھیں“افتخار صاحب نے دلاسہ دیتے ہوےؔ کہا...جس پر وه اثبات میں سر ہلانے لگیں....
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وه لیپ ٹائپ پر کام کررہا تھا ...سب اس کے اردگرد بیٹھے باتیں کررہے تھے...”شاهنزیب تم جانتے ہو ماهنور کی منگنی کس سے ہوئی ہے؟؟“کامران نے سیب کھاتے ہوےؔ سوال کیا...
”تو اِسے کیوں نہیں پتا ہوگا ...دادو بلانے گیںؔ تھیں اِسے ...انھوں نے ضرور بتایا ہوگا..پر اِسے کوئی فرق نہیں پڑتا ....وه اور بات ہے“اسماء نے کھلا طنز کیا تھا شاهنزیب پر...شاهنزیب کسی کی بات کا کوئی جواب نہیں دے رہا تھا...وه اپنے کام میں مگن رہا...
”سیب کھاٶ گے؟؟؟“ ماهنور بلکل اس کے برابر میں آکر بیٹھتے ہوےؔ سیب کی پھانک اسے آفر کر ۔۔۔۔۔استفسار کرنے لگی..ہر بار کی طرح جواب نہ ملا تو اس کے لیپ ٹائپ کو پھرتی سے بند کر اپنا پیارا سہ چھره اس کے چھرے کے آگے جھکاتے ہوےؔ:”تھوڑا سہ کھالو ...تم نے دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا ہے“شاهنزیب چاھتے ہوےؔ بھی اس سنہری گڑیا کے خوبصورت و بھولے چہرے سے نظر نہیں ھٹاپارہا تھا...اوپر سے اس حیسنہ کا مسکرانا...اگنور کرنا بھت مشکل ہوتا جارہا تھا...
”چھوڑ دو مانو ...اسے کھانا ہوگا تو خود کھالے گا...تمھیں اس کی پرواه کرنے کی ضرورت نہیں“اسماء نے ماهنور کو زوردار آواز میں ڈپٹتے ہوےؔ کہا تاکے شاهنزیب جو بہرا بنا ہوا ہے وه سن لے اور اس بات کا احساس کرےؔ کے کیسے ماهنور ہر وقت اس کی فکر کرتی ہے...اس کا خیال رکھتی ہے ...اس کے آگے پیچھے گھومتی ہے...
”تم نے میری ہر چیز کی خیال رکھا....میری چھوٹی سے چھوٹی چیز جس کی مجھے امید تک نہ تھی اس کی حفاظت کی....مگر ان سب کی جگہ کاش صرف تم نے میری جان کی حفاظت کرلی ہوتی“شاهنزیب دل میں دوکھی ہوکر ...
”ویسے شاهنزیب میں مزاق سے ھٹ کر پوچھ رہا ہوں تم جانتے ہو ماهنور کی منگنی کس سے ہوئی لے؟؟؟“کامران نے دوبارا تجسس سے پوچھا...
”کسی سے بھی ہوئی ہو...مجھ سے تو نہیں ہوئی نا .....اور جس سے ہوئی ہے میں اس کے ساتھ زیاده دن رہنے دوں گا نہیں...بس ایک بار دادو آجائيں“شاهنزیب اپنے دل ہی دل میں ہمکلام ہوا ...
”تم نے کچھ کہا؟؟؟“ماهنور نے پوچھا...اسے لگا شاهنزیب کچھ بول رہا ہے....وه بغیر جواب دیےؔ لیپ ٹائپ اٹھاکر چلا جاتا ہے...
”اک تو ہر بات پر اٹھ کر چلا جاتا ہے“ ماهنور شاهنزیب کے جانے پر دل ہی دل کڑکڑائی تھی۔....
******------***********
جب عمرے سے علی ٖ بھابھی ٖ تاےؔ ابو اور دادو آےؔ تو وه نہیں جانتے تھے کے شاهنزیب واپس آچکا ہے...شاهنزیب نے منع کیا تھا وه دادو کو سرپرائز دینا چاہتا تھا یہ کہ کر اس نے سب کو منع کیا تھا بتانے سے....
”شاهنزیب“ دادو کو گھر میں داخل ہوتے ہی اسے مسکراتا کھڑا دیکھ ایک زوردار شاکٹ لگا تھا...شاهنزیب ان کے آتے ہی سیدھا ان کے گلے لگا تھا...انھیں یقین نہیں آرہا تھا کے شاهنزیب واپس آگیا...
”بھت بےچینی سے انتظار کررہا ہوں آپ کا“شاهنزیب نے گلے لگ کر کان میں ھلکے سے کہا...وقت ملتے ہی شاهنزیب ان کے کمرے میں پہنچ گیا تھا...
”تم کب ؟؟؟مطلب“دادو شاهنزیب سے بات نہیں کرپارہی تھیں..الفاظ بھی ان کا ساتھ چھوڑ رھے تھے..
”سرپرائز ...ایک آپ نے مجھے دیا...تو میں نے سوچا ایک میرا بھی دینا بنتا ہے“وه مسکراتے ہوےؔ مفاھمانہ انداز میں کھتا ہوا سامنے رکھی کرسی پر بیٹھا تھا...اس کی آنکھیں اس کے جنون کا پتا دے رہی تھیں...اور اس کی مسکراہٹ بتارھی تھی کے سب سمجھ چکا ہے وه ....
”خوشی ہوئی ...میرے بچے تمھیں واپس یہاں دیکھ کر“دادو نے بڑے پیار سے کہا...
”آپ کو خوشی ہوئی؟؟؟....مجھے آپ سے اس جھوٹ کی امید نہ تھی....صاف کھیں برا لگا ہے آپ کو“شاهنزیب طنزیہ لہجے میں بولا...وه بدتمیزی نہیں کرنا چاھتا تھا مگر تمیز کا دامن پکڑنا بھی تو مشکل تھا اس کے لیےؔ...پھر بھی لہجہ دھیما تھا اس کا ...نظروں میں عزت و احترام اتنا ہی تھا جتنا روزمره میں ہوا کرتا تھا....
”مجھے کیوں برا لگے گا ؟؟؟پوتے ہو تم میرے“ابھی وه اپنی محبت کا یقین دلانا شروع ہی ہوئی تھیں کے وه کھڑا ہوگیا...”وه الفاظ نہ بولیں جو تکلیف دیتے ہیں میری روح کو...میں بھی تو یہی سوچ ٖ سوچ کر پاگل ہوا جارہا ہوں کے پوتا ہوں آپ کا...پھر کیوں ؟؟؟...کیوں کیا میرے ساتھ ایسا؟؟؟“شاهنزیب نے سوالیہ انداز میں۔۔۔۔۔ غمزاده لہجے میں پوچھا تھا...
”مجھے واقعی تم سے بھت محبت ہے شاه ....پوتے ہو تم میرے....میرے سب سے چھوٹے اور لاڈلے پوتے...تمھیں لگتا ہے مجھے تمھیں تکلیف پہنچا کر خوشی ہورہی ہے ...تو کیا واقعی تم میرے بارے میں ایسا سوچتے ہو؟؟“دادو نے جذباتی ہوکر استفسار کیا...
”سچ کہوں تو مجھے پتا ہی نہیں چلتا کے آپ کب سچ کھتی ہیں اور کب جھوٹ....کب میری رھنمائی کرتی ہیں اور کب گمراه ...واقعی کہتا ہوں ...میں سمجھ نہیں پاتا آپ کو ...ایک پوتے سے تو آپ کو اتنی محبت ہے کے اس کی خاطر آپ نے کتنے جتن کیےؔ....اور میرے خاطر.؟؟؟....میرے خاطر آپ نے مجھے ہی گھر سے باہر نیکلوا دیا“شاهنزیب یہ شکوه بھری نگاھوں سے کہا...
”میں نے؟؟“وه اپنے سینے پر ہاتھ رکھ ۔۔۔۔۔انجان بن کر بولیں...
”آپ نے بڑے ابو کو مشوره دیا تھا کے مجھے گھر سے نیکال دیں...پھر بڑے ابو نے جاکر ڈیڈ سے بات کی تھی...وه آپ تھیں جنھوں نے بڑے ابو کو اس طرح سمجھایا تھا کے وه کنوینس ہوگےؔ تھے مجھے نیکالنے کے لیےؔ...آپ نے ہی ان کے ذھن میں یہ بات ڈال دی تھی کے یہی سب سے اچھا طریقہ ہے میری عقل کو ٹھیکانے لگانے کا....آپ اور بڑے ابو دونوں جانتے ہیں کے مجھے ماهنور سے کتنی محبت ہے...بقول آپ کے..میں جنونی ہوں....آپ نے بڑے ابو سے کہا کے شاهنزیب کو اس عیش و آرام کی زندگی سے باہر نیکالو ..تاکے وه دنیا کی حقیقت کو جانے...جانے کے غربت کیا چیز لوتی ہے...جانے کے ہر چیز جو آپ کو پسند آجاےؔ آپ کو نہیں مل سکتی ...“شاهنزیب دادو کے برابر میں آکر بیٹھا تھا کہتے ہوےؔ....دادو کے چہرے سے حیرت صاف جھلک رہی تھی...
”تمھیں کیسے پتا؟؟؟“دادو حیرت سے...
”میں نے مانو سے جاسوسی کروائی تھی آپ کی...اس نے آپ کو یہ کہتا سن لیا تھا“وه ہلکے سے راز فاش کرتے ہوےؔ دادو کو دیکھ بولا... ”اب بھی آپ کہیں گی کے آپ کی محبت پر یقین کروں؟؟“وه طنزیہ پوچھنے لگا...
”میں نے یہ سب تمھارے اور مانو کے بھلے کے لیےؔ ہی کیا ہے...تم ابھی چھوٹے ہو تم نہیں سمجھو گے...میں بڑی ہونے کے ناطے اپنا فرض ادا کر رہی ہوں ...اب تم جاٶ مجھے آرام کرنا ہے“وه یہ کھ کر منہ مڑ کر سائٹ ٹیبل پر رکھا گلاس جو پانی سے بھرا تھا اٹھانے لگیں تھیں...
”آپ اس طرح منہ مڑ کر بات ختم نہیں کرسکتیں...مجھ سے جھوٹ بول کر مجھے دھوکے میں رکھ کر آپ کون سہ فرض ادا کررہی تھیں؟؟“دادو نے شاهنزیب کے سوال کو اَن سنی کردیا تھا...”آپ جانتی تھیں کے میں ماهنور کی منگنی کا سن سب چھوڑ چھاڑ دوڑا چلا آٶں گا اس لیےؔ آپ نے من گھڑت کہانی بنادی کے آپ مجھے بلانے انڈیا گیںؔ ہیں لیکن میں اپنی ضدی مزاجی میں واپس نہ آیا...یہاں تک کے آپ نے شھزاد بھائی اور شاهزیه آپا کو بھی منع کردیا مجھے بتانے سے...یہ کھ کر کے مجھے دوکھ ہوگا..کیونکے آخر ہوں تو میں بچہ ہی ناں“شاهنزیب دادو کی خاموشی پر بےصبرا ہوکر ان کا ہاتھ پکڑ نہایت رنجیده ہوکر گویا ہوا ....”آپ بھت اچھی طرح جانتی تھیں کے کیس ختم ہوگیا ہے اب میں واپس گھر آٶں گا...اس لیےؔ آپ نے سعدیه اور میری منگنی توڑنے کی افواه پھیلادی...لوگوں کی نظر میں ٖ میں یه سن دوڑا چلا آتا ...پر آپ جانتی تھیں یه سچ نہیں ...یه سن اگر میں آتا بھی ہوں گا تو رک جاٶں گا ...آپ بس مجھے مانو کی شادی سے رور رکھ رہی تھیں...جو دو مہینے بعد تھی....ایک مہینے تک تو آپ کامیاب بھی رہیں اپنے اس پلین میں ٖ وه تو میرا نصیب اچھا تھا کے کیفے ھاٶس میں سعدیہ سے میرا ٹکراٶ ہوگیا...اور اس نے مجھے ماهنور کی منگنی کا بتادیا...ورنہ میں تو سعدیه سے منگنی ٹوٹنے کے انتظار میں فلیٹ میں ہی چھپا بیٹھا رہتا...اور بعد میں مجھے سعدیہ کی جگہ ماهنور کی شادی کی خبر ملتی ...
مجھ سے دھوکے سے میری محبت چھین کر کون سہ فرض ادا کررہی ہیں آپ؟؟؟“شاهنزیب ان کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ اپنی بات کا جواب مانگ رہا تھا...
دادو اس سے ہاتھ چھڑواکر بیڈ پر بیٹھ :”میں نے کہا ناں شاه مجھے آرام کرنا ہے...ابھی جاٶ یہاں سے...ہم بعد میں بات کریں گے“
”ٹھیک ہے مت دیں جواب...آپ کو پتا ہے میں ایک ہفتے سے آیا ہوا ہوں پر مانو کو ایک نظر اٹھا کر دیکھا تک نہیں ہے میں نے...وه مجھ سے اتنی معافیاں مانگ رہی ہے ...مجھ سے بات کرنا چاھ رہی ہے مگر میں خاموش ہوں...پتا ہے کیوں ؟؟؟...کیونکے میں آپ کا انتظار کررہا تھا ....جاننا چاھتا تھا کے کیوں کیا آپ نے یہ سب ...میں جانتا ہوں اگر نظریں اٹھاکر دیکھا میں نے اسے...تو وه میری آنکھوں کی ساری تکلیفیں پڑھ لے گی...اور اگر بات کی تو وه ضرور پوچھے گی کے میں اس کی منگنی میں کیوں نہیں آیا“شاهنزیب زمین پر بیٹھ....دادو کے پاٶں جو زمین پر لٹک رہے تھے ان پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ ”بتادیں ..کیوں کررہی ہیں آپ میرے ساتھ ایسا؟؟؟.....میں نہیں مقابلہ کرسکتا آپ کا....تھک گیا ہوں میں“ اس کی آنکھیں سرخ لال اور چہره روہانسہ تھا...اس نے دادو کی آنکھوں میں جھانکتے ہوےؔ التجائی انداز میں کہا...شاهنزیب کے دل کی تڑپ اس کی آنکھوں میں جھلک رہی تھی...۔۔۔
"میں یہ بات تمہیں کیسے سمجھاؤں شاہ ۔۔۔۔کہ یہ سب میں نے تمہارے لیے اور ماہ نور کے لیے ہی کیا ہے ۔۔۔تم ابھی بچے ہو جوان خون ہے جو ابھی جوش مار رہا ہے مگر اگر تمہاری شادی مانو سے ہوگی تو تم بھی کہیں ماہ نور کی زندگی تباہ نہ کر دو جیسے فرحان نے شاہزیہ کی ۔۔۔کی ہے ۔۔۔۔میری ایک پوتی اس درد سے گزر رہی ہے میں آپ جان کر دوسری پوتی کو اس دریا میں نہیں پھینک سکتی ۔۔۔۔جو ایک لمحے بڑا ہو وہ زندگی بھر بڑا ہی کہلاتا ہے ۔۔۔۔پھر ماہ نور تو تم سے دو سال بڑی ہے ۔۔۔میں کیسے تم دونوں کی شادی ہونے دوں ۔۔۔کل کو اگر تمہاری محبت کا بھوت اتر گیا تو میری ماہ نور کا کیا ہوگا ۔۔۔۔وہ بن ماں کی بچی ہے ۔۔۔میں اس کے ساتھ کچھ برا نہیں ہونے دوں گی ۔۔۔۔۔ایک بار بس ماہ نور کی شادی ہو جائے پھر میں تمہیں سنبھالوں گی ۔۔۔۔اور دیکھنا ایک دن ایسا آئے گا تم خود کہو گے کہ دادو آپ نے ہمارے لیے ٹھیک فیصلہ کیا ۔۔۔۔ابھی تمہیں سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔ابھی تم میری بات سمجھنے سے قاصر ہو ۔۔۔"دادو نے شاہنزیب کے بالوں کو پیار سے سہلاتے ہوئے دل میں سوچا تھا ۔۔۔وہ اپنے تجربے کے مطابق فیصلہ کر رہی تھیں
"تو یہی آپ کا آخری فیصلہ ہے ۔۔۔۔۔ٹھیک ہے ۔۔۔۔اب مجھ سے کوئی امید نہ رکھئے گا ۔۔۔۔آپ اچھی طرح جانتی ہیں اگر میں نے مانو سے کہا کے دادو نے مجھے تمہاری منگنی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا تو وہ ضرور یقین کرے گی ۔۔۔پھر دیجئے گا اس کے سوالات کے جوابات "شاہ نزیب کہتا ہوا کھڑا ہوا تھا اور ان کی خاموشی کے سبب اب جانے لگا ۔۔۔۔
"ٹھیک ہے کرلو من مانی ۔۔۔بتا دو اسے ۔۔۔پھر جب وہ میرے پاس آئے گی تو میں بھی اسے ہر بات بتا دوں گی کیوں کیا میں نے یہ سب ۔۔۔۔اور ہاں تم تو جانتے ہو اپنی دادو کو ۔۔۔بڑھاپے کے سبب زبان پھسل جاتی ہے میری ۔۔۔اگر میرے منہ سے نکل گیا کہ تم نے ولید کو بھگایا تھا یا تم نے ہی راحیل کی ڈائری چھپائی تھی ۔۔۔اور بہت ساری باتیں جو کچھ ہم دونوں کے بیچ میں ہیں اب تک ۔۔۔۔تم نے سوچا ہے اگر یہ سن مانو کو غصہ آگیا ۔۔۔۔مانور کتنی جذباتی ہے یہ بات تم اور میں بہت اچھی طرح جانتے ہیں اس نے جذبات میں آ کر شاهزیہ کے کیس والی بات سب کو بتا دی تو ؟؟؟۔۔۔۔سوچ لو ۔۔۔پھر کیا ہوگا ۔۔۔مجھے تو پھر معاف کردے گی پر تمہاری تو شکل سے بھی نفرت کرنے لگے گی ۔۔۔کیونکہ تم ہی وہ ہو جس نے اس کی محبت سے اسے دور کیا ہے ۔۔۔اس نے خواب دیکھنا شروع بھی نہ کیے تھے کہ تم نے اس کا ننھا سا دل توڑ دیا "دادو نے اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے ہی شاہنزیب کو سر سے پاؤں تک ھلا دیا تھا اس نے یہ سن کر شاکٹ ہو کر واپس دادو کی طرف رخ کیا تھا ۔۔۔اسے دادو کی اس دھمکی کا گمان ہرگز نہ تھا ۔۔۔وہ بری طرح ھل گیا تھا اب اس بات کو سن کر
"آپ مجھے بلیک میل کر رہی ہیں ۔۔۔۔یقین نہیں آتا مجھے ۔۔۔۔جو مجھے ابھی تھوڑی دیر پہلے اپنی محبت کا یقین دلا رہی تھیی وہ اب مجھے دھمکی دے رہی ہیں ۔۔۔۔آپ سے مجھے اس کی توقع نہیں تھی "اس کے کہنے پر وہ کھڑی ہوگیںؔ
"میں دھمکی نہیں دے رہی بلکہ تمہیں احساس دلا رھی ہوں کے اگر ایک موتی کو مالا سےتوڑو گے تو سارے موتی خود بہ خود بکھر جائیں گے ۔۔۔۔ اگر تم نے ماہنور کو کچھ بھی بتایا تو تم صرف میرا ہی نہیں اپنا پردہ بھی چاک کر ڈالو گے"دادو نے بڑے شفقت بھرے انداز میں اسے سمجھایا تھا
"ایک بات میں آپ کو صاف بتا دوں مانو راحیل سے محبت نہیں کرتی تھی وہ خوش ضرور ہوئی تھی یہ سن کر کہ راحیل اور اس کا رشتہ ہو رہا ہے ۔۔۔مگر محبت ۔۔۔۔۔۔ایسا کوئی جذبہ نہیں تھا اس کے دل میں "شاھنزیب ابھی بول ہی رہا تھا کے اسماء نے دروازے پر نوک کر کے "چلیں بھئی اگر دادی پوتے کی باتیں ختم ہو گئیں ہو تو آ جائیں کھانا لگ گیا ہے"اسماء نے تھوڑا کمرے میں جھانک کر کہا ۔۔۔۔
"ہم آتے ہیں تم جاؤ اور دروازہ بند کر جانا "دادو نے اسماء کو دیکھ کر کہا۔۔۔۔وہ سمجھ گئی کہ ضرور کوئی اہم بات ہو رہی ہے ۔۔وہ اثبات میں سر ہلا کر دروازہ بند کر کے چلی گئی ۔۔۔۔۔
"تم نے ماہنور کی آنکھوں میں وہ آنسو نہیں دیکھے جو میں نے دیکھے ہیں میں نے خود سنا ہے اسے راحیل سے بات کرتے ہوئے ۔۔۔۔تم مانو کی محبت کا دم بھرتے ہو مگر یہ بھی نہیں دیکھ پائے کہ وہ خوش نہیں ہے اس شادی سے ۔۔۔۔۔وہ نہیں چاہتی یہ شادی کرنا اور جس سے وہ کرنا چاہتی ہے اس کے بیچ میں تم نے غلط فہمیاں پیدا کر دی ہیں ۔۔۔۔۔۔تم نے کبھی اس کی آنکھوں میں پڑھا ہی نہیں کہ کیا جذبات رکھتی ہے وہ راحیل کو لے کر "دادو نے کہا تو وہ الجھی نگاھ سے انہیں دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔۔
"ایسا کچھ نہیں ہے اور نہ کبھی تھا "وہ یہ کہتا ہوا منہ موڑ کر کمرے سے باہر نکل آیا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"علی نہیں جا رہا تم بچوں کے ساتھ اس لیے فکر ہو رہی ہے مجھے "بڑی امی نے کہا تو سب علی بھائی کو دیکھنے لگے ۔۔
"تم لوگوں سے صبر نہیں ہوا نا ۔۔۔۔۔میرے لیے دو دن رُک جاتے تو میں بھی آرام سے چل لیتا"علی نے شہزاد اور کامران کی طرف دیکھتے ہوئے شکوہ کیا تھا ۔۔۔
"بھائی میری تو اس میں کوئی غلطی نہیں ہے یہ مانو کی بچی ہے نہ اسے صبر نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔بے صبری ہوئی جا رہی ہے۔۔۔۔جب سے امی سے اس حویلی ، مزار اور کنویں کے بارے میں سنا ہے"کامران نے علی سے ماہنور کی شکایت لگائی تھی اور مانو کو مسکرا کر دکھا رہا تھا کہ اب اس کو ڈانٹ پڑے گی علی بھائی سے ۔۔۔۔۔۔
"مانور تو بڑی امی کی بات کو کچھ زیادہ ہی سیریس لے رہی ہے اسے لگ رہا ہے کہ واقعی وہاں وہ سب کچھ ہو گا جو بڑی امی نے بتایا ہے۔۔۔۔ پاگل لڑکی "شہزاد نے کہتے ہوئے ماہ نور کے سر پر ہلکی سی دھپ لگائی تھی ۔۔۔۔۔۔مانو صوفے پر شہزاد کے بالکل برابر میں ہی بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔۔
"میں بھی جانا چاہتی ہوں ۔۔۔۔میں کبھی گاؤں نہیں گئی مجھے بہت شوق ہے گاؤں دیکھنے کا چلو نا۔۔۔۔ہم بھی چلتے ہیں پھر پتا نہیں ایسا موقع ملے یا نہ ملے "بھابی نے چائے کا کب علی کو دیتے ہوئے منت والے لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔
"میں تھک گیا ہوں آج صبح ہی ہم عمر سے لوٹے ہیں اور اب تم چاہتی ہو کہ ان لوگوں کے ساتھ گاؤں چلیں ناممکن "علی نے چائے لیتے ہوئے اپنی تھکن کا اظہار کیا تھا
" چلتے ہیں نہ بہت مزہ آئے گا اور رہی تھکن کی بات تو وہاں جاکر سکون سے سو جانا ہم میں سے کوئی آپ کو تنگ نہیں کرے گا ۔۔۔۔۔۔پلیز چلیں نا"بھابھی اور باقی سب گھر والوں کے اصرار پر علی مان گیا ۔۔۔
"ابھی تک سعدیہ نہیں آئی اسے فون کرو شاہ ساڑھے نو بجے نکلنا ہے ہمیں ثانیہ کو ایئرپورٹ سے بھی لینا ہے ۔۔۔۔۔اگر دیر ہوگئی تو وہ بیچاری پریشان ہو جائے گی "راحیل نے شاہنزیب کو کہا تو سب "او۔۔۔او" کا شور مچانے لگے ۔۔۔۔۔۔
"سعدیہ کا تو بہانہ ہے اصل میں تو راحیل پاجی ثانیہ کی فکر کر رہے ہیں کہیں بیچاری فکر نہ کرے"اسماء نے خوب راحیل کی نقل اتارتے ہوئے سب کے سامنے کہا تو سب ہنسنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔
"فون کی ضرورت نہیں ہے میں آ چکی ہوں"سعدیہ نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔۔
سب جانے کے لیے تیاریوں میں لگے ہوئے تھے سوائے شاہنزیب کے جو آرام سے بیٹھا تھا صوفے پر اس نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے وہ جائے گا یا نہیں
"السلام علیکم "ولید نےشاہنزیب کے رو برو آکر سلام کیا۔۔۔۔۔وہ ولید کو دیکھ حیران ہو کر کھڑا ہوا تھا "تمہیں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی مجھے یقین تھا کہ تم ضرور آؤ گے مانو کی شادی ہو اور تم نہ آؤ یہ تو ممکن نہیں "ولید نے مسکراتے ہوئے شاہنزیب کی طرف مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا ۔۔۔۔۔۔
"تم یہاں ؟؟؟؟؟"شاہنزیب نے ہاتھ تو نہیں بڑھایا پر حیرت سے دو لفظ ہی کہہ سکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ولید اس کی نگاہوں کی حیرت کو پڑھ کر مسکرانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہاں ۔۔۔۔۔میں ۔۔۔۔۔یہی سوچ رہے ہو نا ۔۔۔۔کہ میں یہاں واپس کیسے ؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔جب کہ تم نے مجھے بھگا دیا تھا دھمکی دے کر "ولید نے مسکراتے ہوئے کہا تو شاہنزیب اسے الجھی نگاہ سے تکنے لگا "اب یہ مت کہنا کہ وہ دھمکی آمیز فون تم نے نہیں کیا تھا ورنہ مجھے دکھ ہوگا کیونکہ میری نظر میں تمہاری بڑی عزت ہے وہ لڑکا جو سب گھر والوں کے سامنے ماہنور کا ہاتھ پکڑ سکتا ہے اسے سب کے سامنے بتا سکتا ہے کہ کتنی محبت کرتا ہے اس سے ۔۔۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔"ابھی وہ بول بھی رہا تھا کہ شاہنزیب نے اس کا ہاتھ جو مصافحے کے لئے آگے بڑھا ہوا تھا مضبوطی سے دباتے ہوئے کہا "یہ سب بولنے کی ضرورت نہیں ہے اگر تم اُس وقت بھی آ کر صاف الفاظوں میں پوچھتے تو بھی میرا جواب یہی ھوتا جو آج ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں میں نے کیا تھا ۔۔۔۔اور تیرے سامنے بولتا ہوں ۔۔۔وہ میری ہے صرف میری "شاہنزیب کی آنکھوں میں جنون اتر آیا تھا محبت کا ۔۔۔۔۔۔وہ محبت کا دریا جو وہ چھپائے پھرتا تھا اپنی آنکھوں میں آج وہ ولید کے سامنے جھلک رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تو میں نے کب کہا وہ میری ہے ۔۔۔میں تو خود یہی کہتا ہوں وہ شاہنزیب کی ہے" ولید نے کہا تو شاہنزیب اسے نہ سمجھی نگاہوں سے دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔۔"میں وہ نہیں ہوں جس سے ماہ نور کی منگنی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔میں تو تمہارا خیر خواہ ہوں ۔۔۔۔میں ہی وہ ہوں جس نے شادی رکوا رکھی ہے "ولید نے اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے کہا
"کیا مطلب ؟؟؟؟"شانزیب آئبرو اچکا کر سوال کرنے لگا
"مطلب یہ کہ اگر میں چاہتا تو سب کو بتا دیتا کہ تم مانو سے پیار کرتے ہو اور تم نے ہی مجھے دھمکایا تھا۔۔۔۔۔پر میں نے ایسا نہیں کیا "ولید نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال مسکرا کر کہا ۔۔۔۔
"لگتا ہے میرا وقت خراب چل رہا ہے ۔۔۔جسے دیکھو مجھے بلیک میل کر رہا ہے آج ۔۔"پھر شاھنزیب دونوں ہاتھ فولٹ کر بڑے بھرم سے کہنے لگا "جا بتا دے سب کو تیری خیر خواہی کی ضرورت نہیں ہے مجھے "وہ لاپرواہی سے بول کر جانے لگا۔۔
"ارے یار تم تو لڑائی کر رہے ہو میں لڑنے نہیں دوستی کرنے آیا ہوں تمہارے پاس "ولید اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا۔۔۔۔
"مجھے دوستوں کی ضرورت نہیں پڑتی "اس نے بھرم سے کھ کر ولید کا ہاتھ جھٹکا تھا ۔۔۔۔۔
"منگنی ٹوٹوانا آسان تھا پر شادی ٹوٹوانا نہیں ہوگا تمہیں ایک دوست کی ضرورت پڑے گی دیکھ لینا" ولید کے کہنے پر شاہنزیب نے اسے لاپرواہی سے دیکھا ۔۔۔"تم مجھے دوست مانو یا نہ مانو ۔۔۔میں تو مانتا ہوں ۔۔اس لئے مشورہ دیتا ہوں اس ٹریپ پر ضرور چلو ۔۔۔تاکہ وہاں جاکے معلوم کر سکو کہ مانو تم سے پیار کرتی ہے بھی یا نہیں؟؟؟۔۔۔۔سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرو شاہ کے ماہ نور کیا چاہتی ہے وہ تمہارے بارے میں کیا سوچتی ہے ۔۔جس نظر سے تم اسے دیکھتے ہو وہ تمہیں دیکھتی ہے یا نہیں ؟؟؟؟ ۔۔۔کہیں ایسا نہ ہو ہم دونوں شادی ٹوٹوانے چلیں اور بعد میں پتہ چلے کہ مانو تو اپنے منگیتر کو دل دے چکی ہے پھر یہ سب بیکار ہو جائے گا "ولی مشورہ دے کر ہلکےسے شاھنزیب کی پیٹ تھپتھپاتے ہوئے جانے لگا ۔۔۔۔
"مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی شادی سے خوش نہیں اسکا چہرہ مرجھایا مرجھایا سا رہتا ہے "شاھنزیب نے کہا ۔۔۔۔
"تو پھر ٹھیک ہے پتہ کرو وہ خوش کیوں نہیں ہے ۔۔۔کیونکہ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں پہلی اسے لڑکا پسند نہیں دوسری اسے کوئی اور بہت زیادہ پسند ہے "مفاہمانہ انداز میں ولید کھ کر چلا گیا۔۔۔
”شاهنزیب “ ماهنور کی آواز کانوں کی سماعت سے ٹکرائی وه بھت ہلکی آواز میں مخاطب کررہی تھی...اس کی نگاه جب ماهنور کے پاٶں پر پڑی ...بلیک رنگ کی اونچی ھیل والی سینڈل ...بلینک رنگ کی پینٹ اور تھوڑا اوپر نظر اٹھائی تو سفید رنگ کی اسکرٹ میں ملبوس اسے ماهنور نظر آئی...وه کالے رنگ کی موٹے موتیوں کی مالا پہنی ہوئی تھی...بال کھلے ہوےؔ بلکل اسٹیٹ ...آدھی زلفیں آگے سینے پر اور آدھی کمر کو ڈھانکیں ہوئيں...اس کی دودھیارنگت پر لال رنگ کی ڈاک لپ۔اسٹک قیامت ڈاھ رہی تھی....آنکھوں کے اوپر موٹا موٹا مچھلی والا لائينر لگاےؔ ہوےؔ....ماهنور اس قدر حسین لگ رہی تھی کے شاهنزیب دیکھتا کا دیکھتا ہی رھ گیا...وه تو پہلے ہی اس کے دل پر چھائی ہوئی تھی پر اس لمحہ وه اس کے حواس پر بھی چھاگیؔ تھی...وه آنکھیں جھپکانا تک بھول گیا تھا...سانسیں تھم گیںؔ...ٹک ٹکی لگاےؔ اسے دیوانوں کی طرح تکنے لگا...ماهنور کوئی آسمانوں سے اتری پری معلوم ہورہی تھی...”کیسی لگ رپی ہوں؟؟؟“ ماهنور نے اسے کھویا کھویا دیکھا تو اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجاتے ہوےؔ پوچھا تھا...اس نے اگلے ہی لمحے نظریں چرالیں تھیں اس سے
”کپڑے بدلو جاکر“ شاهنزیب نے نظریں نیچے جھکاکر کہا
”کیوں؟؟؟....میں کیوں چینج کروں؟؟“ماهنور نے اس کے خلاف احتجاج کیا...
”کیونکے میں کہ رہا ہوں چینج کرو....جاٶ اوپر“ شاهنزیب نے غصے میں مگر نظریں جھکاےؔ ہی کہا تھا...
”میں نہیں کرو گی“ ماهنور نے صاف الفاظ میں منع کردیا تھا...
”میں نے کہا نا....جاٶ اوپر چینج کرٶ.....تمھیں سمجھ نہیں آتی پیار سے“ شاهنزیب نے اس بار غصے سے اس کی طرف دیکھا تھا..
”میں تو نہیں کرٶ گی چینج....جو کرسکتے ہو کرلو“ وه نیڈر بن کہتے ہوئے۔۔۔۔۔ منه بسور کر جانے لگی...شاهنزیب نے اسی لمحے اس کا سیدھا ہاتھ زور سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچا ...اس نے اتنی زور سے کھینچا تھا کے وه بےجان گڑیا کی مانند اس کی جانب کھینچی چلی آئی اور آکر اس کے سینے سے لگی...
”میں بھی تمھیں ایسے کپڑوں میں کسی کے سامنے جانے نہیں دوں گا....اس سے پہلے کوئی آےؔ.....تم جاکے کپڑے بدلو“شاهنزیب اس کا بازو مضبوطی سے پکڑ ...کھاجانے والی نظروں سے اسے گھورتے ہوےؔ کہ کر اسے سیڑھیوں کی جانب کھینچتا ہوا لے آیا اور اسے وہاں چھوڑ کر آنکھیں سے اوپر جانے کا اشاره کیا....
”میں نے کہ دیا نا...میں نہیں بدلو گی...یعنی نہیں بدلو گی....میری مرضی ...جس طرح کے چاھے کپڑے پہنوں ....تم ہوتے کون ہو مجھے روکنے والے“وه غصے سے کہتی ہوئی منہ مڑ کر وہیں کھڑی رہی...ضدی مزاج تو وه بچپن سے ہے....مگر شاهنزیب کے سامنے اس کی یہ ضدی مزاجی چل نہیں پاتی شاید ایک سال میں بھول گیؔ تھی وه....شاهنزیب تو سعدیه کو منع کرتا تھا کے وه ایسے کپڑے نہ پہنے....صرف کزن کی حیثیت سے تو پھر وه ماهنور کو ....جیسے وه اپنی ملکیت سمجھتا ہے اسے کیسے یه کپڑے پہنے دیتا......یہ تو اس کی غیرت کو ہرگز گوارا نہ تھا...”چلو اوپر “شاهنزیب نے اس کا بازو مضبوطی سے پکڑا اور اسے غصے سے زبردستی اوپر لے جانے لگا...
”چھوڑو میرا ہاتھ شاه .....مجھے ررد ہورہا ہے“ماهنور شاهنزیب سے ہاتھ چھوڑانے کی بھرپور کوشش کرتے ہوےؔ کہ رہی تھی..
”کرو جاکر کپڑے چینج“ وه ماهنور کے کمرے کا دروازه کھول کر اندر گھسا تھا اور اسے زبردستی کھینچ لایا تھا...
”اُو ۔۔یہ کیا ہورہا ہے؟؟؟“وه دونوں کو لڑتا ہوا اور ساتھ ساتھ ماهنور کو مغربی لباس زبِ تن کیےؔ ہوےؔ دیکھ آنکھیں پھاڑ حیرت سے استفسار کررہی تھی...
”اچھا ہوا تم آئيں...اس کے کپڑے چینج کرواٶ....پیار سے کہ رہا ہوں تو اسے سمجھ نہیں آرہا....اور سختی میں اس کے ساتھ کرنا نہیں چاھتا“ شاهنزیب نے ماهنور کا بازو چھوڑ اسماء سے مخاطب ہوکر کہا...
”مانو تم نے سعدیہ جیسے کپڑے کیوں پہن رکھے ہیں؟؟؟“اسماء ماهنور سے الجھی نگاه سے تکتے ہوےؔ بولی...
”میری مرضی...میں جس طرح کے چاھے کپڑے پہنوں....یه لڑکا ہوتا کون ہے مجھے کچھ بولنے والا؟؟؟“ماهنور نے شاهنزیب کو منه چڑھاتے ہوےؔ اسماء سے بڑے بھرم سے کہا...
”یہ لڑکا.....تم مجھے یه لڑکا بول رہی ہو....بتاٶں ابھی تمھیں کے کون ہوں میں“شاهنزیب کو ماهنور کا کہا جملا سخت ناگوار گزرا تھا....اس نے اسماء کا بھی لحاظ نہ رکھا...اور ماهنور کے بازو کو مضبوطی سے اپنی گرفت میں لے کر اپنی طرف کھینچا....وه خوبصورت سی گڑیا آکر اس کے سینے سے لگی...اس نے ماهنور پر دھاڑتے ہوےؔ کہا...ماهنور اسے غصے سے آگ بگولہ ہوتا ہوا دیکھنے کے باوجود ذرا سہ بھی نہ ڈری ...وه شاهنزیب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال بےخوفی سے بولی:”او.....تو آپ کو تکلیف ہورہی ہے....میرے آپ کو لڑکا کہ کر مخاطب کرنے سے....اور جو تم مجھے ایک ہفتے سے اذیت دے رہے ہو..مجھے ایک اعجنبی لڑکی کی طرح ٹریٹ کررہے ہو اس کا کیا؟؟؟......میں نے تمھیں اعجنبی کی طرح ٹریٹ کیا تو غصے سے تلملا اٹھے....اور مجھ پرحکم چلانے چلے آےؔ.....جو کرنا چاہے کرلو....میں تو یہی کپڑے پہنوں گی...تم تو مجھے دیکھ کر نظریں چورالیتے ہو...تو اب بھی یہی کرٶ...شاباش بچے“کہ کر ماهنور نے شاهنزیب کے چہرے پر ہلکا سہ تھپتھپایا تھا...طنزیہ مسکرھٹ اپنے لبوں پر سجاتے ہوےؔ کہا تو شاهنزیب کے تن بدن میں آگ لگ گیؔ...
”مانو لڑائی کو اور طول مت دو ....جاٶ کپڑے بدلو“اسماء نے شاهنزیب سے ماهنور کا بازو چھوڑوایا اور دونوں کے بیچ میں کھڑی ہوکر ماهنور پر غصہ کرتے ہوےؔ بولی...
”نہیں بدلو گی کہ دیا میں نے....جو کرنا چاہے کرلے یہ ...ڈرتی تو میں اپنے باپ سے بھی نہیں ہوں“ماهنور نے غرور سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال نیڈر لہجے میں کہا اور مڑ کر واپس باہر جانے لگی...
”ماهنور“ شاهنزیب نے زوردار آواز میں کہا مگر وه نہ روکی....”قسم ہے تمھیں میری....یہ کپڑے پہن کر تم کسی کے سامنے نہیں آٶ گی“جب ماهنور شاهنزیب کی آوازوں کو اگنور کرتے ہوےؔ دروازه کھولنے لگی تو اس لمحہ شاهنزیب نے اپنی قسم دے دی....ماهنور کے پاٶں وہیں جم گےؔ تھے...لوک پر سے ہاتھ ہٹالیا اس نے....
”میں جارہا ہوں ...آگے تمھاری مرضی“ شاهنزیب چلتا ہوا آیا لوک کھولا اور بڑے پراعتماد ہوکر باہر چلا گیا....ماهنور اپنے دونوں ہاتھوں کو مسل رہی تھی مانو اپنا غصہ پی رہی ہو....اسماء جانتی تھی شاهنزیب کی قسم ماھنور کے لیےؔ کیا اہمیت رکھتی ہے...”اب تو میرے کچھ کہنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی....نیچے ملتے ہیں جلدی آجاٶ“اسماء اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوےؔ کہ کر چلی گیؔ....
”یہ ٹھیک ہے ...اگر غصے سے کام نہیں بنا تو محبت سے ھارا دیا...اپنی منگیتر تو اسے انھیں کپڑوں میں اچھی لگتی ہے اور میں نے پہن لیےؔ تو اتنا غصه ہوگیا.....سعدیه ہی اچھی رہی ...منگیتر اس کا ہے مگر رعب مجھ پر چلا رہا ہے کمینا“ ماهنور دل ہی دل کڑکڑاےؔ جارہی تھی. ۔۔۔۔۔۔۔.
”یہ آپ لوگوں کے ساتھ کیوں جارہا ہے؟؟؟“شاهنزیب نے بس میں ولید کا سامان رکھتے ہوےؔ شھزاد سے پوچھا تھا....
”بڑے ابو کے دوست کے بیٹے کی حیثیت سے“شھزاد نے جواب دیا...
”شھزاد بھائی یہ بیگ تو رھ گیا...یہ بھی بس میں رکھ دیں“ماهنور نے کالے رنگ کا بیگ پکڑا ہوا تھا ...شھزاد جب سب کے بیگ رکھ کر بس کے دروازے پر آیا تو ماهنور نے کہا...
”یہ تو میرا بیگ ہے....یه تمھیں کہاں سے ملا؟؟؟“شاهنزیب بھی بس سے باہر نیکلا تو اس کی نظر پہلے ماهنور پر پڑی...جو جامنی رنگ کی چولی والی فراک ٖ چوڑیدارپاجامہ اور دوپٹہ پہنے ہوےؔ بالوں میں پونی باندھے کھڑی تھی...شاهنزیب نے حیرت سے اس سے پوچھا تھا....
”شھزاد بھائی اسے بس میں رکھوادیں“ماهنور نے شاهنزیب کی بات اَن سنی کر کے شھزاد سے متوجہ ہوکر بولا....
”تمھیں سمجھ نہیں آرہا کیا؟؟؟......یہ میرا بیگ ہے...اس میں کوئی کپڑے یا سامان نہیں ہے ....لاٶ دو مجھے واپس“شاهنزیب نے ماهنور کے آگے ہاتھ بڑھایا بیگ لینے کے لیےؔ....
”پہلے اسے رکھ دیں...جلدی سے“ ماهنور نے شاهنزیب کی بات ہوا میں غل کردی تھی اور شھزاد کی جانب بڑھ گیؔ تھی جو بس کی سیڑھیوں پر کھڑا تھا.....
”تمھیں سمجھ نہیں آتی....یا بہری ہوگیؔ ہو؟؟؟..یہ میرا بیگ ہے لاٶ دو مجھے واپس“شاهنزیب نے ماهنور سے بیگ چھینا تھا...”یہ اتنا بھاری کیوں ہورہا ہے؟؟؟؟“بیگ کا وزن شاهنزیب کو بتارہا تھا کے اس میں سامان موجود ہے...
”اس میں کپڑے ہیں اس لیےؔ بھاری ہورہا ہے....اور اب یہ نہ پوچھنا بےوقوفوں کی طرح کے کس کا سامان ہے اس کے اندر“ماهنور نے مسکراتے ہوےؔ طنز کا تیر چلایا تھا.....
”جب میں جا ہی نہیں رہا تو سامان پیک کرنے کی کیا ضرورت تھی؟؟؟اور میڈم آپ کس کی اجازت سے میری الماری میں گھسی ہیں؟؟؟“شاهنزیب کی ناک مارے غصے کے لال ہورہی تھی...ماهنور اس پر مزید اسے مسکراء مسکراء کر جلا رہی تھی...
”مسکرانا بند کرٶ....اور میری بات کا جواب دو ....تم میرے بغیر پوچھے میری الماری میں کیوں گھسیں؟؟؟؟“ شاهنزیب تیور چڑھاےؔ غصے سے پوچھ رہا تھا....
”شھزاد بھائی آپ کیا چپ چاپ مزے لے رہے ہیں ہماری لڑائی کے....چلیں جلدی سے یہ بیگ اندر رکھ دیں“ماهنور شاهنزیب کے غصے کو خاطر میں نہ لاتے ہوےؔ اس سے بیگ چھین۔۔۔ شھزاد کی جانب بڑھاتی ہوئی بولی....
”لاٶ دو“شھزاد نے کہتے ہوےؔ بیگ لیا تھا....
”بھائی میں نہیں جارہا“ شاهنزیب نے شھزاد کو بیگ رکھنے جاتے دیکھا تو پیچھے سے جتاتے ہوئے کہا....
”دیکھو یار مجھے اور بھی بھت کام ہیں....تم دونوں آرام سے لڑٶ....جو جیتے وه مجھے بعد میں بتادے....ابھی میرا کام بیگ رکھنا ہے وه مجھے کرنے دو ....تم دونوں لڑٶ“شھزاد مسکراتا ہوا کہ کر چلا گیا تھا دونوں کو لڑنے کی کھلی چھوٹ دے کر.....
”تم ہوتی کون ہو؟؟؟میرا سامان بغیر میری اجازت کے لانے والی؟؟؟“شاهنزیب ماهنور کو گھورتے ہوےؔ استفسار کرنے لگا....
”اتنی جلدی بھول گےؔ مجھے؟؟؟.. بھت کچی یادداشت ہے تمھاری.....بادم کھایا کرٶ سخت ضرورت ہے تمھیں....میں ....میں وہی ہوں شاه .....جسے قسم دے کر آرہے ہو تم اپنی...جس حق سے تم نے مجھے قسم دی تھی نا.....اسی حق سے میں کہ رہی ہوں ......چلو ہمارے ساتھ“ اس نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال اپنا حق جماتے ہوےؔ کہا...
سب بس کے پاس تیار کھڑے تھے...”شاهنزیب کہاں ہے؟؟۔۔۔۔وه جارہا ہے یا نہیں؟؟؟“علی نے سب کو دیکھ کر پوچھا تھا...
”نہیں...وه نہیں جارہا“ سعدیه نے اداس لہجے میں کہا....
”وه جارہا ہے ...تیار ہونے گیا ہے آتا ہی ہوگا“ماهنور نے مسکراتے ہوےؔ مسرت بھرے لہجے میں کہا...
”لو آگیا وه“ ریشم نے کہا تو سب مڑ کر گھر کے دروازے سے اسے نیکلتا ہوا دیکھنے لگے....وه کالے رنگ کی ھائی نیک ٖ لال رنگ کا مفلر گردن میں باندھے ٖ نیلے رنگ کی جینز پہنے ہوےؔ ...وه پروقار انداز میں چلتا ہوا آرھا تھا جیسے کوئی شھزاده ہو...سب کی نظروں کا مرکز بنا ہوا تھا وه....
”آج تو لڑکیوں پر تمھارا جادو سرچڑھ بول رہا ہے....خاص طور پر سعدیہ کے....دیکھو ابھی تک منہ کھولے کھڑی ہے“کامران نے سعدیہ کو ٹکٹکی باندھے شاهنزیب کو دیکھتے ہوےؔ دیکھ چھیڑنے کی نیت سے کہا...
”کوئی نہیں...منہ کب کھلا میرا...“سعدیہ منہ بسور کر کامران کی بات کا جواب دے کر من ہی من مسکرانے لگی...
”چلو گاڑی میں بیٹھو....دیر ہورہی ہے“راحیل نے سب کو بیٹھنے کا کہا...
”او سوری....آنے میں لیٹ ہوگیا..میں تو آفس سے ٹھیک ٹائم پر نیکل گیا تھا پر راستے میں ٹریفک بھت تھا....سوری آپ لوگوں کو میری وجہ سے تکلیف ہوئی“شارق نے آتے ہی سب سے پہلے اپنے دیر سے آنے کی معافی مانگی تھی....ماهنور بلکل اس کے سامنے کھڑی تھی تو ریشم نے اسے کونے مار کر چھیڑا تھا...
”اتنی دیر نہیں ہوئی ہے تمھیں...لاٶ اپنا سامان دو“ راحیل نے شارق کا سامان لیا اور بس میں رکھوانے لگا....
”شاهنزیب تم کب آےؔ؟؟؟“شارق نے شاهنزیب کو بس کے پاس کھڑا دیکھ بڑی مسرت بھرے لہجے سے استفسار کیا...شاهنزیب اس کی چہرے کی خوشی دیکھ الجھ گیا تھا...”میں تو اسے اتنا خاص جانتا بھی نہیں ہوں پھر یہ مجھے دیکھ اتنا خوش کیوں ہورہا ہے“وه دل میں سوچ....چہرے پر مسکراہٹ سجاےؔ:”بس کچھ دنوں پہلے....رومیساء آپا نہیں آئيں؟؟؟“شاهنزیب نے ہاتھ ملاتے ہوےؔ پوچھا...
”رباب کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے ...اس لیےؔ بھابھی نہیں آسکیں...پر انھوں نے مجھ سے کہا ہے کے ہر وقت گردن میں کیمرا ٹانگے رہوں...اور ہر لمحہ اس میں قید کرلوں ...تاکے جب وه ان تصویروں کو دیکھیں تو انھیں لگے کے وه ہمارے ساتھ ہی تھیں“شارق محبت سے لبریز گفتگو کررہا تھا...وه شاهنزیب سے اس طرح باتیں کررہا تھا جیسے اس کا بیچھڑا ہوا یار ہو...یہ دیکھ سامنے کھڑا ولید مسکراء رہا تھا...شارق شاهنزیب سے بات کرکے ھٹا تو ولید فورا ہی شاهنزیب کے پاس چلا آیا...”مجھے توقع تھی تم تو اس شخص کو چیر پھاڑ دو گے اگر وه تمھارے سامنے آگیا جس نے تمھاری ماهنور کو تم سے لیا ہے...مگر تم تو اس سے مسکراء مسکراء کر باتیں کررہے ہو“ولید کے کہتے ہی شاهنزیب کے کان کھڑے ہوےؔ تھے....”تو وه شارق ہے؟؟؟“شاهنزیب نے غصے کے مارے اپنے دونوں ہاتھوں کی مھٹی بنالی تھی مانو اپنا غصہ پی رہا ہو....
”ہاں“ بس ولید کا یه کہنا تھا کے شاهنزیب کے سامنے رومیساء آپا کے ولیمے میں ماهنور کا اس کے ساتھ تصویر بنوانے والا سین نظروں میں گھوم گیا تھا...ولید تو کہ کر بس میں چڑھ گیا...
”چلو شاهنزیب“کہتا ہوا شارق بھی بس میں چڑھ گیا پر وه وہیں سوچوں میں گم سم کھڑا رہا...
”چلو شاه...چلنا نہیں ہے کیا؟؟؟“ماهنور فکر مند ہوکر بس کی کھڑکی سے جھانکتے ہوےؔ بولی...ماهنور کی آواز پر پلٹ کر اس نے ماهنور کی جانب شکوے بھری نگاه سے دیکھا...اس کی آنکھوں میں جو ردد تھا وه ماهنور نے ایک لمحے میں ہی محسوس کرلیا...شاهنزیب کا دل پارے پارے ہوگیا تھا....شاهنزیب نے ایک گہری سانس لی اپنا چہره مسلتا ہوا بس میں چڑھ گیا...بس کی ساری سیٹیں فل تھیں سواےؔ ماهنور اور سعدیہ کے برابر والی....پہلے ماهنور کی سیٹ تھی جیسے چھوڑ کر وه پیچھے سعدیہ کی سیٹ کی جانب بڑھ گیا....سعدیه مسکراتے ہوےؔ اسکا خیرمخدم کررہی تھی
”شاه ...تم ماہنور کے پاس بیٹھو....میں اس پورے سفر میں تم سب کی ماسٹر ہوں سمجھ لو....امی نے مجھے تم سب کی ذمہداری سوپی ہے اور ان کا آوڈر ہے کے سب پر خوب نظر رکھی جاےؔ..خاص طور پر ان منگیتر والوں اور والیوں پر ...اس لیےؔ تم سعدیہ کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے“بھابھی نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوکر پوری بس میں اعلان کیا تھا...
”پر بھابھی ہم تو چھوٹے ہیں ناں....ہم تو سب کے سامنے بھی ساتھ بیٹھ جاتے ہیں“سعدیہ نے کھڑے ہوکر پیچھے منہ کیا تھا جھاں بھابھی کھڑیں تھیں...بھولا سہ چہره بناکر احتجاج کرنے لگی...
”ہاں بھابھی یہ دونوں تو بچے ہیں...اِن پر یہ رول لاگو نہیں ہوتا“شھزاد نے سعدیہ کی بات کی حمایت کی....
”نہیں یہ رول سب پر لاگو ہوگا....چلو شاه ....مانو کے پاس جاکر بیٹھو“بھابھی حکم صادر کرتے ہوےؔ علی کے برابر والی سیٹ پر بیٹھیں...شاهنزیب اداس چہره بناےؔ...ماهنور کے برابر میں بیٹھ گیا....ماهنور کو برا لگا تھا کے وه اس کے پاس بیٹھنے میں اتنے نخرے کیوں دیکھا رہا ہے...بس میں اب صرف ایک سیٹ خالی تھی وه تھی سعدیہ کی ....
”چلو جی سب آگےؔ؟؟...کوئی رھ تو نہیں گیا“کامران نے اپنی جگہ پر کھڑے ہوتے ہوےؔ سوالیہ انداز میں اعلان کیا تھا...
”ہاں“ اسماء فکرمند ہوتے ہوےؔ بولی تھی...
”کیا؟؟...کیا رھ گیا ...افراد تو سارے ہیں؟؟؟“کامران نے سب پر نظر دوڑاتے ہوےؔ سیرس لہجے میں پوچھا...
”ہاں...........وه.......تمھاری عقل.....وه تو ہم دادو کے صندوق میں ہی چھوڑ آےؔ“اسماء نے مزاحیہ انداز میں کہا تو سب ہسنے لگے...سواےؔ ماهنور اور شاهنزیب کے....
بس ائيرپورٹ پر جاکر رکی....راحیل اور علی اترےؔ ثانیہ کو لینے کے لیےؔ....آج ڈیڑھ سال بعد ملنے والا تھا راحیل ثانیہ سے...وه ثانیه کو اپنی اچھی دوست سمجھتا تھا....مگر ثانیه اس بار پکاعزم لے کر لوٹی تھی کے ماهنور کی شادی تک وه راحیل کے دل میں بھی اپنی محبت کے دیب جلانے میں کامیاب ہوکر اسے اپنے رنگ میں رنگ لے گی....وه ویٹینگ روم میں آدھے گھنٹے سے انتظار کررہی تھی...نظریں دروازے پر ٹکیں تھیں....پہلے علی آتے ہوےؔ نظر آیا....ویٹینگ روم میں علی نے آکر ثانیہ کا سامان اٹھایا...راحیل ڈاک آتشی رنگ کا کرتہ جس کا کالر سفید رنگ کی کڑاھی ہوا واه تھا اور سفید رنگ کی گہر والی شلوار میں ملبوس تھا....بھت خوبصورت لگ رہا تھا اس کی رعبدار شخصیت پر یہ رنگ .....ثانیہ ویٹینگ روم سے باہر آئی تو راحیل مسکراتا ہوا ویلکم کررہا تھا....علی بھئيا آگے آگے تھے اور وه دونوں پیچھے پیچھے....
”ایک سوال کروں؟؟“وه چلتے ہوےؔ راحیل کو دیکھ پوچھ رہی تھی...”ہاں ضرور“راحیل نے مسکراتے ہوےؔ جواب دیا...
”تم ویٹینگ روم میں اندر کیوں نہیں آےؔ؟؟؟....باہر کھڑے انتظار کیوں کرتے رہے“ثانیه نے تجسس سے پوچھا
”پچھلی بار جب میں لینے آیا تو تم گلے لگ گیؔ تھیں...وه تو شکر ہے خدا کا کے کوئی اس وقت میرے ساتھ نہ تھا...ورنہ تم نے تو پورے خاندان میں ہمارا ریکارڈ لگوادینا تھا....اس بار علی بھئيا ساتھ تھے اس لیےؔ میں کوئی رکس نہیں لینا چاھتا تھا“راحیل ثانیه کے سامنے نہایت سنجیدگی سے کہ کر آگے تیز قدم بڑھاتا ہوا علی کے ساتھ چلنے لگا وه اپنی ہسی بڑی مشکل سے کنڑول کررہا تھا...
”شاهنزیب تم لندن سے کب لوٹے؟؟؟....ضرور ماهنور کی شادی میں شرکت کے لیےؔ آےؔ ہوگے“ثانیه نے بس میں شاهنزیب کو دیکھتے ہی پوچھا
”ایک ہفتے پہلے ہی لوٹا ہے...اور اب شادی میں شرکت کر کے ہی واپس جاےؔ گا“ ثانیہ کے سوال پر شاهنزیب تو خاموش رہا پر سعدیہ نے اپنی سیٹ سے کھڑے ہوکر جواب دیا تھا.....
”اچھا بھابھی ...منگیتر ساتھ نہیں بیٹھ سکتے ...مگر راحیل پاجی اور ثانیه تو منگیتر نہیں ہیں....یہ تو ساتھ بیٹھ سکتے ہیں ناں“سعدیہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوکر باہر نیکل آئی تھی ...اور راحیل ثانیه کے لیےؔ جگہ خالی چھوڑ دی تھی.....تاکے وه دونوں ساتھ بیٹھ سکیں...
”ہاں ...بھابھی بولیں...بیٹھ سکتے ہیں یا نہیں؟؟؟“اسماء بھی مسکراتے ہوےؔ پوچھ رہی تھی...راحیل نے اسے گھور کر دیکھا تو فورا نظریں چورالیں...جس پر ولید دبی دبی ہسنی ہسنے لگا....
”سعدیه تم راحیل کی جگه پر آجاٶ“کامران نے اپنی برابر والی سیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوےؔ سعدیه کو بلایا تھا...ثانیه ٖ راحیل اور سعدیه تینوں کھڑے تھے....راحیل سعدیه کو رستے سے ھٹنے کا اشاره بھی کررہا تھا تاکے اپنی جگہ پر بیٹھے....مگر سب سعدیه کو آنکھوں کے اشارے سے وہیں کھڑا رھنے کا اشاره کررہے تھے...
”بولیں ناں ....بھابھی“کامران بھی بےتابی سے پوچھ رہا تھا...اس کے جواب میں بھابھی مسکراء دیں....تو سب سمجھ گےؔ کے بھابھی کی رضامندی ہے....سعدیه فورا جاکر پیچھے کامران کے برابر میں بیٹھ گیؔ....ثانیه کھڑکی کے پاس والی سیٹ پر اور راحیل اس کی برابر والی سیٹ پر جیسے ہی بیٹھا پوری بس :”اُوووووو.....ھوووووو...“کے شور سے گونج اٹھی....کامران نے تو ایک دو سیٹیاں بھی ماریں....سب خوب مزے لے رہے تھے دونوں کو چھیڑکر....راحیل نے منه پیچھے موڑ کر غصے سے ایک بار سب کی طرف دیکھا تو سب نظریں پھیرگےؔ....منه چھپا چھپاکر مسکرانے لگے....
شارق بلکل پیچھے بیٹھا تھا ولید کے ساتھ....اسے ماهنور بلکل بھی نظر نہیں آرہی تھی....”کیا بورینگ سفر ہے....میں نے کیا کیا ارمان سجاےؔ تھے اس سفر کے....کے برابر میں نه صحیح ایسی جگہ پر بیٹھ جاٶں گا کے اسے آرام سے دیکھتا رہوں...مگر یہاں تو اس کا کوئی چانس ہی نظر نہیں آرہا ایک جھلک دیکھنے کے لیےؔ اتنا ترسنا پڑھ رہا ہے“شارق دل ہی دل کڑکڑا رہا تھا....
ثانیه ائيرپورٹ والی بات کا جواب دینا چاہتی تھی پر بس میں دینا اسے ٹھیک نہ لگا کیونکے سب کے کان اور آنکھیں انھیں دونوں پر ٹکیں تھیں.....
”میں بیٹھ جاٶں؟؟“اسماء کے برابر سے شھزاد اٹھ کر آگے بس والے کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا تو ولید فورا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور چلتا ہوا آیا اسماء کے پاس...ولید نے پرامید نظروں سے اجازت طلب کی تھی...
”اگر منع کروں گی تو نہیں بیٹھو گے؟؟؟“اسماء منہ بسور تیمور چڑھاےؔ استفسار کرنے لگی...
”پہلے جواب دو پھر سوچوں گا کے کیا کرنا ہے “ولید ابھی بھی پرامید نظروں سے تکتے ہوےؔ...
”نہیں“اسماء صاف منه پر ہی انکار کر ڈالا تھا ...وه پہلے سے جانتا تھا کے جواب یہی ملے گا اس لیےؔ ”شکریه“ کہ کر مسکراتے ہوےؔ بیٹھ گیا...
”کان میں میل بھرا ہے کیا؟؟؟...سنائی کم دیتا ہے کیا؟؟؟میں نے منع کیا ہے بیٹھنے سے....“اسماء خفگی بھرے لہجے سے ابھی بول ہی رہی تھی کے ولید نے اپنا کان اس کے چہرے کے قریب کر کہا:”خود دیکھ لو کتنا میل بھرا ہے..ھوسکے تو اپنے پیارے پیارے ہاتھوں سے صاف بھی کردو“وه شرارت بھرے انداز میں گویا ہوا...
”بس نہیں چلتا ...تمھیں ہی صاف کردوں“اسماء دانت پیستے ہوےؔ بولی..”اٹھو یہاں سے ...میں نے منع کیا “وه بول ہی رہی تھی کے ولید مسکراتے ہوےؔ :”تمھارے لبوں پر کچھ اور تمھارے دل میں کچھ اور ہوتا ہے...اور میں تو سوچ کر آیا ہوں ...کے اب سے وہی سنو گا اور کروں گا جو تم دل سے کہنا چاھتی ہو مجھ سے“ولید مسکراتے ہوےؔ کہ رہا تھا
”تمھاری غلط فہمی ہے ..میں جو کہتی ہوں وه دل سے ہی کہتی ہوں...اور تم میرا پیچھا چھوڑ دو ....جاکر کسی اور لڑکی کے ساتھ فلرٹ کرٶ....کیونکے مجھ پر تو تم صرف اپنا وقت ضائع کررہے ہو“اسماء نے محبت کا جواب سخت بےرخی سے دیا...
”ٹھیک ہے...ویسے یہ دیکھ کر خوشی بھت ہوئی کے تمھیں میرے وقت کی کتنی فکر ہے“ وه گہری نظٰروں سے اسماء کے وجود کو تکتے ہوےؔ بولا...
”تمھارے وقت کی فکر اور مجھے...دل کو بھلانے کے لیےؔ خیال اچھا ہے...میری طرف سے بھاڑ میں جاٶ تم“اسماء نے منہ بسور کہا تو وه اسماء کی اس قدر بےرخی پر بھی بڑے پیار سے ”ہم بھاڑ میں کیوں جانے لگے....ہم تو وه ہیں جن کے قدموں میں پریاں آکر خود گرتی ہیں“اس نے شوخی سے کہا تو اسماء اسے کھاجانے والی نگاه سے گھورنے لگی...
بس چاےؔ کے ڈھابے پر رکی....سب تھک گےؔ تھے دو گھنٹے سے بیٹھے بیٹھے ...سب اتر گےؔ صرف شاهنزیب کے علاوه...ماهنور اترنا چاھتی تھی مگر شاهنزیب باہر کی جانب تھا اور ماهنور اندر ...وه شاهنزیب سے کوئی بات نہیں کرنا چاھتی تھی اس لیےؔ خاموش بیٹھی رہی...
”تم دونوں کے لیےؔ چاےؔ یہیں لادوں؟؟“شھزاد نے دونوں سے پوچھا..
”میری لادیں“ماهنور نے فورا شھزاد سے کہا...
”اور تمھیں شاه؟؟؟“شھزاد شاهنزیب سے مخاطب ہوکر ...
”نہیں بھائی“شاهنزیب نے اپنا سر مسلتے ہوےؔ منع کردیا...
”ناراض ہوکیا؟؟؟...کے تمھیں سعدیه کے ساتھ بیٹھنے نہیں دیا؟؟؟“شھزاد شاهنزیب کو اداس دیکھ پوچھ رہا تھا...کیونکے وه شاهنزیب کو دو گھنٹے سے بت بنے بیٹھا دیکھ رہا تھا تو سمجھا شاید وه برا مان گیا ہے...
”نہیں بھائی...ایسی کوئی بات نہیں“شاهنزیب نے صاف منع کیا...پر شاهنزیب کا چہره کچھ اور الفاظ کچھ اور کہ رہے تھے....جو برابر میں بیٹھی ماهنور بھی دیکھ رہی تھی...
”یار بھابھی بڑی ہیں....ان کی بات کا برا مت مانو....میں بات کرتا ہوں ان سے“شھزاد اپنا بھاری بات شاهنزیب کے کندھے پر رکھ کر اسے سمجھانے لگا...ماهنور کے تن بدن میں آگ لگ رہی تھی یه دیکھ...مگر وه غصٖه پی رہی تھی اپنا...
”ایسی کوئی بات نہیں ہے“شاهنزیب نے پھر اپنی بات دوھرائی تھی...مگر شھزاد مسکراتا ہوا چلا گیا...
”مجنوں کی اولاد“شھزاد کے جاتے ہی ماهنور نے دانت پستے ہوےؔ شاهنزیب کو دیکھ ہلکے سے بڑبڑایا...
”کیا کہا تم نے مجھے؟؟؟“شاهنزیب غصے سے پوچھنے لگا...
”جو تم نے سنا....ڈرتی تھوڑی ہوں تم سے....جو اپنے الفاظ بدل لوں گی..پھر سے سن لو اگر تمھارے کانوں میں ہڑتال ہے تو ...مجنوں کی اولاد“ماهنور تو لڑائی کے پکے ارادے میں معلوم ہورہی تھی...
”مجنوں کی اولاد میں....اور تم..تم کیا ہو؟؟؟....بڑا شوق تھا ناں تمھیں لوگوں کے ساتھ تصویریں بنوانے کا“شاهنزیب نے اس پر چڑھائی کرنا شروع ہی کی تھی کے اسکی نظر شارق پر پڑی...جیسے دیکھ وه خاموش ہوا تھا...
”آپ کی چاےؔ“شارق ماهنور کی چاےؔ لایا ہے یه دیکھ کر تو شاهنزیب کا خون ہی کھول گیا تھا....دل چاہا یه گرما گرم چاےؔ اسی پر الٹ دے....
”شکریه“ماهنور نے چاےؔ کا کپ لینے کے لیےؔ ہاتھ آگے بڑھایا ہی تھا کے بڑی پھرتی سے شارق کے ہاتھ سے شاهنزیب نے چاےؔ کا کپ لے لیا...شارق اور ماهنور دونوں حیرت سے اس کی شکل دیکھنے لگے...”ہم دونوں شیئر کرلیں گے شکریہ“شاهنزیب نے مصنوعی مسکراھٹ لبوں پر سجاتے ہوےؔ کہا...شارق ماهنور سے باتیں کرنے کے ارادے سے آیا تھا...مگر شاهنزیب تو ھٹنے کے لیےؔ تیار ہی نہ تھا...وه شاهنزیب کی وجہ سے کوئی بات کرہی نہیں پایا..تو دل ہی دل شاهنزیب کو گالیاں دیتا ہوا ...مصنوعی مسکراھٹ لبوں پر سجاےؔ ماهنور کو دیوانوں کی طرح تکتا ہوا چلا گیا...
اس کے جاتے ہی شاهنزیب ماهنور کو گھور کر دیکھنے لگا...
”کیا؟؟؟“وه آئبرو اچکاےؔ انجان نگاھوں سے پوچھنے لگی...
”بھاڑ میں جاٶ“شاهنزیب نے غصے سے تلملاتے ہوےؔ کہا...”تم خود چلے جاٶ“ماهنور نے بھی اتنے ہی غصے سے جواب دیا....اپنی چاےؔ اس کے ہاتھ سے لے کر پینے لگی...
”شاهنزیب ابھی بچہ ہے...شاید اس لیےؔ وه خود نہیں سمجھ پاتا کے وه چاھتا کیا ہے....کہتا ہے اپنی امانت لینے آیا ہے یہاں...سعدیه کے علاوه ہمارے گھر میں اس کی امانت اور کون ہوسکتی ہے...ویسے بھی سعدیه کے علاوه سب ہی عمر میں شاهنزیب سے بڑی ہیں...“شھزاد چاےؔ پیتا جارہا تھا اور شاهنزیب کے متعلق سوچتا جارہا تھا....
”ویسے بھابھی....آپ نے تو سب کا دل توڑ دیا....خاص طور پر شاهنزیب کا...دیکھیں کیسے منه لٹکاےؔ بس میں بیٹھا ہے“شھزاد کچھ بولے اس سے پہلے کامران نے بھابھی سے شاهنزیب کے لیےؔ سفارش کی تھی....
”شاهنزیب کی محبت اتنی الجھی ہوئی کیوں ہے سمجھ نہیں آتا مجھے....میرے لیےؔ اس بات پر یقین کرنا اتنا مشکل کیوں ہے کے وه میری خاطر منہ لٹکاےؔ بیٹھا ہے بس میں...“سعدیه خودی سے کلام کررہی تھی الجھ کر...
”اچھا بھئی....کہو اس سے جاکر بیٹھ جاےؔ اپنی منگیتر کے پاس....اور تم سب بھی بیٹھ جاٶ....ورنه کہو گے کے بھابھی کو نہ لاتے تو ہی اچھا تھا...بھابھی نے تو ساری ٹریپ ہی خراب کرڈالی“بھابھی نے وہیں بیٹھے بیٹھے کہا تو سب ان کی بات سن مسکرانے لگے....
”چلیں شھزاد بھائی...آپ کے تو مزے آگےؔ....اب آپ کو بھانے بھانے سے بس والے کے پاس جاکر کھڑا نہیں ہونا پڑے گا ...صباء باجی کو دیکھنے کے لیےؔ“ریشم نے شھزاد کے کندھے سے اپنا کندھا ٹکرا کر اسے چیھڑتے ہوےؔ کہا تو شھزاد کے گال گلابی ہوگےؔ....مانو ان کی چوری پکڑی گیؔ ہو.....صباء بھی جھیپ گیؔ تھی یہ سن.....
راحیل نے ثانیہ کے آگے چاےؔ کا کپ پیش کیا...”میں نے پی لی“وه ناراضگی سے کہنے لگی...
”آپ کو برا لگا...میرا آپ سے مزاق کرنا....تو چلیں ہم توبه کرتے ہیں آج سے آپ کے ساتھ مزاق نہیں کریں گے...اب تو ناراضگی چھوڑیں“راحیل بھت پیار سے آنکھوں میں امید بھرے اسے دیکھتے ہوےؔ کہ رہا تھا...
”اب آپ کو ڈر نہیں لگ رہا کے سب ہمارا ریکارڈ بنائيں گے“ثانیه نے خفگی بھرے لہجے میں پوچھا...
”میں واقعی مزاق کررہا تھا...اب اتنا تو حق ہوتا ہے ناں...دوستوں کا..یا آپ کی سرکار میں دوستوں کو مزاق کرنے کی اجازت نہیں...“راحیل ائبرٶ اچکاےؔ سوالیہ انداز میں...
”دوستی کی بات آپ کے منه سے زیب نہیں دیتی“سعدیه کان لگاےؔ راحیل اور ثانیه کی باتیں سن رہی تھی...اسے خاص آواز تو نہیں آرہی تھی مگر چہرے کے زاویوں اور گفتگو کے انداز سے وه اندازه لگارہی تھی کے ثانیہ روٹھی ہوئی ہے اور راحیل اسے منارہا ہے....اسی وقت سعدیه کے برابر میں کامران آکر بیٹھ گیا......
ثانیه کی راحیل سے خفگی کی اصل وجہ اس کا ڈیڑھ سال میں ایک بار بھی رابطه نه کرنا تھا...راحیل پہلی ملاقعات میں ہی ثانیه کے والد سے مل کر سمجھ گیا تھا کے انھیں ان دونوں کی دوستی بلکل پسند نہیں...”دوستی زبردستی کا سودا نہیں ہوتی راحیل“ثانیه نے اسے دیکھ مفاھمانہ انداز میں کہا...جس کے جواب میں وه خاموش ہوگیا تھا تھوڑی دیر کے لیےؔ...
”زبردستی کا سودا تو مجھے بھی پسند نہیں...مگر میں چاھتا ہوں تم سے دوستی رکھنا...میرے پاس ٹائم نہیں تھا تم سے رابطہ کرنے کا..سوری“وه سنجیدگی سے کہ کر چلا گیا...
”تم کیا کررہی ہو؟؟“کامران نے سعدیه سے بلند آواز میں پوچھا تھا جبکے وه جانتا تھا کے وه کان لگاکر ثانیه اور راحیل کی باتیں سنے کی کوشش کررہی ہے...”کچھ بھی تو نہیں...چاےؔ پیؔ رہی ہوں...نظر کم آتا ہے کیا؟؟؟“سعدیه چوری پکڑے جانے پر بھی بڑے بھرم سے کہ رہی تھی...
”ہاں نظر آرہا ہے مجھے...کے تم کتنی چاےؔ پی رہی ہو“کامران اس کے ہاتھ سے چاےؔ کا کپ چھین الٹا کر کے اسے دیکھاتے ہوےؔ طنزیه مسکراتے ہوےؔ بولا....”یه خالی ہے میڈم...“کہ کر چاےؔ کا خالی کپ اس کے ہاتھ میں پکڑا کر چلتا بنا...
”مجنوں کی اولاد....کیا میں یہ گستاخی کرسکتی ہوں پوچھنے کی کے تم اپنی پیاری سی منگیتر کے پاس بیٹھنے کے لیےؔ مرے کیوں جارہے ہو؟؟؟؟“ماهنور سے اپنا غصه اب ضبط کرنا مشکل ہوتا جارہا تھا اس لیےؔ اب وه شاهنزیب پر چڑھائی کرنے لگی...
”کیونکے مجھے تمھارے ساتھ نہیں بیٹھنا “وه منه بسور گویا ہوا...
”کیوں میں نے تمھاری سیٹ کے نیچے کانٹے لگادیےؔ ہیں“ماهنور کھڑے ہوکر دونوں ہاتھ نچا نچا کر استفسار کرنے لگی...
”تم میں اتنی ہمت ہے کے میری سیٹ کے نیچے کاٹنے لگاٶ؟؟؟“وه اکڑ کر سیدھے بیٹھتے ہوےؔ تیمور چڑھاےؔ پوچھنے لگا...
”میری ہمت کی تو بات ہی نہ کرٶ.....تمھاری طرح روتڑو اور بزدل نہیں ہوں میں...اتنی سی بات پر اتنا بڑا منہ پھولاےؔ بیٹھے ہو“ماهنور شاهنزیب کی نقل اتار منہ پھولاتے ہوےؔ بولی....اس نے بےدیھانی میں اپنا چاےؔ کا کپ آگے والی کرسی پر رکھ دیا تھا...
”تمھیں کبھی کچھ سمجھ آےؔ گا ہی نہیں ....کم عقل جو ہو“ شاهنزیب نے ناراضگی سے کھتے ہوےؔ منه دوسری طرف پھیر لیا تھا...
”ہاں ..ہاں...دنیا کی ساری عقل تو تمھارے پاس ہی ہے۔۔۔البرٹ آئن سٹائن کی اولاد “وه طنزیه کہ کر واپس بیٹھی تھی...
جسے جھاں جگہ مل رہی تھی بس میں ..وه وہیں بیٹھتا جارہا تھا...
”الله...آه“کامران زور سے چلایا تو سب اسے دیکھنے لگے...کامران جلدی جلدی میں چاےؔ کے کپ پر بیٹھ گیا تھا جیسے ماهنور نے بےدیھانی میں رکھا تھا...وه اپنے ھپ سھلاتے ہوےؔ واپس کھڑا ہوا تھا...”یه چاےؔ کا کپ کس بےوقوف نے یہاں رکھا ہے؟؟؟“چاےؔ کا کپ مٹی کا تھا اس لیےؔ کامران کے بیٹھنے سے ٹوٹ گیا تھا...ماهنور نے کامران کو جب زور سے دھاڑتا ہوا دیکھا تو اپنی سیدھی انگلی اپنے دانتوں میں زور سے دبائی...شاهنزیب اسے دیکھنے لگا وه اتنی بھولی سی لگ رہی تھی اس لمحے کے شاهنزیب سب کچھ بھول بھال بس اس کے چہرے کو پیار سے تکتنے لگا...
”شاهنزیب میں نے منع کیا تھا ناں...یہاں مت رکھو...دیکھو بیچارے کامران بھائی کے لگ گیؔ....وه تو شکر ہے کے کپ کانچ کا نہیں تھا ...ورنہ کیا ہوتا“ماهنور نے بڑی ہی چلاکی کا مظاہره کرتے ہوےؔ اپنی غلطی کا سہرا شاهنزیب کے سر ڈال دیا تھا ...
”کیا؟؟؟“۔۔۔پہلے شاہنزیب شاکٹ کے مارے تیمور چڑھاےؔ چیخا .....پھر نفی میں گردن ھلاتے ہوےؔ ”اس لڑکی کا کچھ نہیں ہوسکتا“
ماهنور شاهنزیب کا ری۔ایکشن دیکھنے کے باوجود :”کیا،کیا؟؟؟...ایک تو تمھاری وجه سے کامران بھائی کے لگ گیؔ ...اب چلو معافی مانگو اِن سے“ وه آوڈر چلاتے ہوےؔ شاهنزیب پر ...اس کے لہجے میں اتنا بھرم تھا کے مانو واقعی غلطی شاهنزیب نے کی ہو....شاهنزیب اسے گھورنے لگا تھا...دونوں ہاتھ بےنیازی سے فولٹ کرکے..ماهنور اسے یوں بیٹھتا دیکھ اپنے چہرے پر ھلکا سه ہاتھ رکھ اسے التجائی آنکھوں سے دیکھتے ہوےؔ:”پلیز“۔۔۔۔۔
سب اچھی طرح جانتے تھے کے یه کارنامه ماهنور نے ہی انجام دیا ہے...”آ.....آه.....آ“کامران نے ماهنور کا کان پکڑ موڑا تھا.. ”الله چھوڑیں کامران بھائی“ ماهنور کامران کے ہاتھ سے اپنا کان چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوےؔ کہ رہی تھی...شارق بس والے کے پاس کھڑا یه دیکھ مسکراء رہا تھا...یہی سب دیکھ کر تو وه ماهنور پر فدا ہوا تھا...انھی شرارتوں کے بارے میں تو سنا تھا اس نے اپنی بھابھی سے....
”تمھاری وجه سے میری پینٹ خراب ہوگیؔ...اب چینج کرنی پڑے گی“کامران نے اس کا کان قص کے موڑتے ہوےؔ کہا...
”کامران اس کا کان چھوڑو ...تکلیف ہورہی ہوگی اسے“شاهنزیب نے کھڑے ہوکر کامران کا ہاتھ ماهنور کے کان سے ھٹایا تھا....
”اب جلدی جاٶ پینٹ چینج کرٶ....اسے بعد میں آکر ڈانٹ لینا....اور چاےؔ والے سے کہو یه سیٹ آکر صاف کرےؔ“علی نے اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے کامران سے کہا....کامران گیا تو شاهنزیب اور ماهنور کی نگاه شارق پر پڑی ....جو ماهنور کو مسکراء مسکراء کر دیکھ رہا تھا...گویا فدا ھوےؔ جارہا ہو اس پر...
سفر دوبارا شروع ہوا....سردی کا موسم تھا...سب شال اوڑھے سورہے تھے صرف شھزاد ٖ ولید ٖ اسماء ٖ ماهنور اور صباء کے...شاهنزیب اپنی سیٹ پر ٹیک لگا کر سورہا تھا ...مگر کھڑکی سے آتی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اس کے خوبصورت رخسار پر لگ رہی تھی ....جس کے سبب اسے مزید سردی لگ رہی تھی...”کھڑکی بند کردو مانو“ شاهنزیب نے نیند میں ہی ماهنور سے کہا...پر اس نے اَن سنی کردی....اور کھڑکی سے آنے والی فرفر ہوا کے مزے لینے لگی...شبنم گررہی تھی....ہر طرف دھن چھائی نظر آرہی تھی...آسمان پر ستاروں کی بارات کا سماں تھا....
ماهنور نے کھڑکی سے باہر ہاتھ نیکالا تھا....ہوا کی تازگی اسے تازه دم کررھی تھی....شاهنزیب ٹھنڈ کے مارے دونوں ھاتھ فولٹ کیےؔ ہوےؔ تھا...ماهنور اس کے ساتھ تھی یه احساس ہی ساری پریشانیوں کو دور کرنے کے لیےؔ کافی تھا...اسے بڑے سکون کی میٹھی میٹھی نیند آرہی تھی...وه پرسکون تھا کے وه آج اس کے ساتھ ہے....اور یہی سکون اس کے چہرے پر عیا تھا...نیند میں اس کی گردن سیٹ کا سپوٹ نہ ہونے کی وجہ سے لٹک گیؔ تھی...ماهنور کو لگا کے اس کی گردن میں درد ہوجاےؔ گا اس طرح سونے سے....تو وه خود شاهنزیب سے لگ کر بیٹھ گیؔ اور اس کا خوبصورت رخسار اپنے کندھے پر رکھ لیا...
حویلی کے بارے میں جتنا سنا تھا وه سب آج کم لگ رہا تھا ...حویلی باہر سے دیکھنے میں بھت حسین تھیں....کسی بادشاه کا محل ہو جیسے...شاهنزیب ٖ ماهنور ٖ بھابھی ٖ ریشم ٖ ولید ٖ شارق اور ثانیه پہلی بار حویلی کو دیکھ رہے تھے....شھزاد بس سے سامان اتار رہا تھا اس لیےؔ سب آپ جان کر صباء کو شھزاد کی مدد کرنے کے لیےؔ چھوڑ آےؔ تھے...
”یہ تو بھت خوبصورت ہے“ولید اور ثانیہ نے ایک آواز ہوکر تعریف کی تھی...تو سب ان کی بات سے اتفاق کررہے تھے...
”الله...کتنی بڑی ہے یہ۔۔۔...اگر میں اس میں کھو گیؔ تو؟؟؟“سب حویلی کے اندر داخل ہوےؔ تو جہاں وه باہر سے حسین تھی اتنی ہی اندر سے اسے حسین پایا....حویلی کی چھت گویا آسمان سے باتیں کررہی تھی....بڑے بڑے جھومر لگے تھے ...دیواروں پر بڑے بڑھوں کی پرانی تصویریں....حد نگاه تک وسیع نظر آرہی تھی ...دیکھنے میں ایسا معلوم ہورہا تھا کے گویا ایک دن تو صرف حویلی دیکھنے میں ہی گزر جاےؔ گا....ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی...ماهنور حویلی کو دیکھ بےساختہ کہ اٹھی تھی....
”اچھا ہی ہوگا ...آفت ٹلے گی....میں تو شکرانے کے نوافل ادا کروں گا“کامران نے ماهنور کی بات کا جواب منہ چڑھاتے ہوےؔ دیا...
”میں مزاق نہیں کررہی ...اگر میں واقعی کھو گیؔ تو؟؟؟“ماهنور بھولا سہ چہره بناےؔ دوبارا پوچھ رہی تھی....
”میں آپ کو ڈھونڈ لوں گا ...ڈریں مت....میں ہوں ناں...“شارق ماهنور کے کان میں ہلکے سے سرگوشی کرتے ہوےؔ آگے بڑھ گیا تھا مسکراتے ہوےؔ.....اس کی کہی بات شاهنزیب نے بھی سن لی تھی...”میں تمھیں کبھی کھونے ہی نہیں دوں گا ...ڈھونڈنے کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا“شاهنزیب نے سنجیدگی سے کہ کر ماهنور کا ہاتھ تھام لیا تھا....ماهنور نے ہاتھ چھڑانا چاہا پر اس کی پکڑ کافی مضبوط تھی....
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حویلی کے سیدھے ہاتھ پر دور جاکر ایک مزار تھا.... جسکے بارے میں مشھور واقعات کی وجہ سے ہی ماهنور حویلی آنا چاھتی تھی....وه ایسی ہی نہیں چلی آئی تھی اتنی دور...بھت بڑی خواہش دل میں دبا کر لائی تھی....حویلی میں سب کو اپنے اپنے کمرے میں مل گےؔ تھے سواےؔ شاهنزیب کے....حویلی کے اندر سیدھے ہاتھ پر صرف ایک کمره تھا...جو نھایت وسیع و حسین تھا....وه پوری حویلی کا سب بڑا اور خوبصورت کمرا تھا...اِس قدر وسیع کے چار کمروں کو ملا کر بنا ہو .....اس کی بناوٹ بھی اور کمروں سے کافی الگ تھی....وه دیکھنے سے کسی شھزادے کا کمرا معلوم ہوتا تھا...کمرے میں بڑا سہ گول بیڈ تھا ٖ تھا بھی بلکل کمرے کے بیچ و بیچ....بیڈ کے فلور کا حصه اونچا تھا پورے کمرے سے...تین عدد سیڑھیاں بیڈ کے ارگرد بھت نفاست ٖ خوبصوتی و گولائی سے ڈیزائن کی گیںؔ تھیں کے وه بیڈ کی خوبصورتی میں مزید چار چاند لگارہی تھیں....
”بھابھی یہ کمرا مجھے چاھیےؔ....اس شاهنزیب کو آپ اوپر والا کوئی کمرا دے دیں“ماهنور نے کمرے کو دیکھا تو اس کے منہ سے رال ٹپکنے لگی تھی....
”تم یہاں نہیں رھ سکتیں...یہ کمرا سارے کمروں سے الگ تھلگ ہے....تم ڈر جاٶ گی...تمھارا اسماء کے ساتھ رہنا ہی بہتر ہے“بھابھی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ اسے سمجھایا تھا....
”الله ....تو ....شاه تو مجھ سے بھی چھوٹا ہے ....اسے مجھ سے زیاده ڈر لگے گا یہاں“ماهنور شاهنزیب کی فکر کرنے کی اداکاری کرتے ہوےؔ بولی...ماهنور کا دل اٹک گیا تھا اس کمرے پر ....
”اُس کی فکر نه کرٶ وه لڑکا ہے ....تم چلو یہاں سے...شاهنزیب تم اپنا سامان سیٹ کرلو “ بھابھی نے ماهنور کو پیار سے سمجھایا اور اسے چلنے کا اشاره کرتے ہوےؔ جانے لگیں...”چلو“ بھابھی نے دو ہی قدم آگے بڑھاےؔ تھے کے انھوں نے محسوس کیا کے ماهنور اپنی جگہ ہی کھڑی ہے منہ پھولاےؔ....”چلو مانو“ انھوں نے پھر اسے دیکھتے ہوےؔ کہا...
”آپ چلیں میں آتی ہوں“ماهنور نے بھابھی سے کہا تو وه چلی گیںؔ....”مجنوں کی اولاد....تمھارے تو مزے آگےؔ....سب سے خوبصورت کمرا پوری حویلی کا تمھیں مل گیا“وه سیڑھیوں پر چڑھتی ہوئی بیڈ پر آبیٹھی تھی....شاهنزیب اپنا سامان بیگ سے نیکال رہا تھا اور بیڈ پر بچھا رہا تھا تاکے سیٹنگ سے الماری میں لگا سکے....
”مانو بھابھی ٹھیک کہ رہی ہیں....تم اکیلے اس کمرے میں نہیں رھ سکتیں...اب کم از کم مجھے یہ ناراضگی مت دیکھاٶ....نه میں یہاں آنا چاھتا تھا اور نہ رہنا....تم نے ہی میرا سامان پیک کیا تھا ....اب بھگتو“شاهنزیب نے ماهنور کا ناراضگی والا چہره دیکھ فورا اس پر چڑھائی کرڈالی...اس سے پہلے کے ماهنور کو موقع ملے....
”ہاں ...ہاں ساری غلطی میری ہے.......بس“وه بڑا جتاتے ہوےؔ کہ کر منه بسورنے لگی...
شاهنزیب کپڑے ھینگر میں کرکے سیڑھیوں سے نیچے اتر کر الماری میں جاکر ٹنگا رہا تھا ...ماهنور کی نظر شاهنزیب پر ہی ٹکی ہوئی تھی...شاهنزیب باربار سیڑھیوں پر چڑھ اور اتر رہا تھا سامان سیٹ کرنے کے لیےؔ....اس دوران اس کے بال ہوا میں لہرانے لگے...جو اس کے حسن میں مزید اضافه کررہے تھے..”کچھ لوگوں کو تو خدا ہر چیز ہی دے دیتا ہے....خوبصورت چہره ٖ حسین بال ٖ عیش و عشرت سے بھرپور زندگی ٖ من چاھی منگیتر اور اب یہ خوبصورت کمرا بھی“ماهنور اس کی زندگی پر عش عش کررہی تھی....”اچھا سنو ...تمھیں کیا سچی میں ڈر نہیں لگتا؟؟؟....کیونکے میں نے بڑی امی سے سنا ہے رات کے وقت حویلی میں چڑیلیں گھومتی ہیں....جن کے پاٶں الٹے ہوتے ہیں...وه چھن چھن کرتی ہوئی آتی ہیں....ان کے بال کھلے ہوےؔ اور ان کی آنکھیں بڑی بڑی بلکل سفید“شاهنزیب نے سارا سامان سیٹ کرلیا تو بیڈ کے پاس آکر کھڑا ہوا اور اپنا کمرا دیکھنے لگا تب ماهنور بیڈ پر گھٹنوں کے بل چلتی ہوئی اس کے بلکل پاس آکر اسے ڈرانے لگی....
”مانو چڑیل کی آنکھیں لال ہوتی ہیں سفید نہیں“وه شاهنزیب کو ڈرانے کے لیےؔ چڑیل کا تصور بنارہی تھی اس کے ذھن میں ...تاکے وه ڈر کر کمرا خودی ہی چھوڑ دے....شاهنزیب نے چڑیل کی آنکھوں کا سنا تو اسے ٹوکا ....
”ہاں تو ہوتی ہوں گیؔں...مجھے کیا پتا....میں نے تھوڑی دیکھا ...دیکھنے تو تم والے ہو“ماهنور نے خوف پھیلانے والے انداز میں شاهنزیب کو دیکھتے ہوےؔ کہا...
میں دیکھنے والا ہوں ؟؟“وه تعجب سے ...
”ہاں تو ....تم نے ہی سب سے الگ تھلگ کمرا لیا ہے....اور چڑیلیں ان پر ضرور وار کرتی ہیں جو لڑکے خوبصورت اور اکیلے ہوں....اب سوچ لو ...فیصلہ تمھارا ....پھر مت کہنا .....مانو نے بڑے ہونے کے ناطے سمجھایا نہیں “ ماهنور نے اچھا خاصہ خوف و حراس والا تصور شاهنزیب کے سامنے پیش کیا ...خود بھی خوفزده ہونے کی اچھی خاصی اداکاری کرتے ہوےؔ گویا تھی.....شاهنزیب اس کی بات بڑی سنجیدگی سے سن بھی رہا تھا...
”سمجھا لیا؟؟؟..“شاهنزیب نے بڑے اطمینان سے پوچھا....”کرلیا اپنا فرض پورا ....اب جاٶ ...کمرے کا دروازه سامنے ہے“شاهنزیب نے ہاتھ کے اشارے سے اسے کمرے کا دروازه دیکھایا تھا....
”اگر واقعی چڑیل آگیؔ تو؟؟؟“ماهنور نے جاتے جاتے پھر ایک بار پیچھے مڑ کر اسے ڈرانے کی کوشش کی ...
”مانو ....جو تمھارے ساتھ رھنا کا عادی ہو ناں....وه اِن چھوٹی موٹی چڑیلوں سے نہیں ڈرتا...تم خود کسی چڑیل سے کم ہو کیا.....جاکے آئینے میں اپنا چہره دیکھو.....پھر مجھے آکر ڈرانا....اب جاٶ“شاهنزیب نے اس کی باتوں سے پیچھا چھڑانے کے لیےؔ کہا تو وه زبان سے چڑھاتے ہوےؔ چلی گیؔ.....
”پاگل “شاهنزیب اس کے بھولے پن پر مسکرایا تھا....
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولید حویلی کے گارڈن میں اکیلا بیٹھا ہوا تھا ”مجھے تم سے بات کرنی ہے“شاهنزیب کہتا ہوا اس کے سامنے والی کرسی پر ٹک گیا....
”ہاں کرٶ“
”تم نے یہ کیوں کہا تھا کے تم نے یه شادی روک رکھی ہے؟؟؟“شاهنزیب کے ذھن میں یہ سوال ابھی بھی گردش کررہا تھا...جس کا جواب لینے وه خود ولید کے پاس چلا آیا....
”اگر میں تمھیں اس بات کا جواب دے دوں.....تو بدلے میں مجھے کیا دو گے؟؟؟“ولید نے اپنا الٹا پاٶں اپنے سیدھے پاٶں پر رکھ ...کرسی سے ٹیک لگا کر استفسار کیا...
”تم بولو .....تمھیں کیا چاھیےؔ؟؟؟“شاهنزیب نے بڑے سنجیدگی سے کہا....
”جو لینے آیا ہوں ....وه لے جانے میں مدد....بس .....اس سے زیاده مجھے کسی سے کچھ نہیں چاھیےؔ“ولید کے جواب میں شاهنزیب الجھا تھا...
”تم یہاں مقصد سے آےؔ ہو؟؟؟“شاهنزیب الجھی نگاه سے سوال کررہا تھا....
”اور نہیں تو کیا.....تمھیں کیا لگا تمھاری پریم کہانی کا سپوٹر بن کر آیا ہوں“ولید نے طنزیہ کہا تو شاهنزیب مسکرانے لگا.....
”گول گول باتیں مت کرٶ....مقصد بولو اپنا“شاهنزیب صاف صاف بات کرنے کا عادی تھا اس لیےؔ وه صاف بات کرنا چاھتا تھا....
”اسماء“ولید نے ابھی صرف اسماء کہا ہی تھا کے شاهنزیب کی آنکھیں غصے سے لال ہوگیںؔ”تیرا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا....وه بہن ہے میری“
”دماغ میرا نہیں شاید اس کا خراب ہے.....تبھی تو میرے رشتے سے انکار کردیا.....کیا خرابی ہے مجھ میں....جو تمھاری بہن راضی ہی نہیں ہورہی شادی کے لیےؔ“ولید نے افسردگی سے کہا....
”تم اسماء کا رشته لاےؔ تھے؟؟؟؟“شاهنزیب حیرت سے پوچھ رہا تھا....ولید نے اسے بتایا کے وه اپنے گھر والوں کے ساتھ اسماء کا رشته لایا تھا سب راضی تھے ...صرف اسماء نے انکار کردیا....ولید کے لہجے میں غم جھلک رہا تھا.....
”مجھے یقین نہیں آرہا....سب بڑوں کے راضی ہونے کے باوجود صرف اسماء کے انکار پر تمھارا رشتہ نہیں ہوسکا....ہمارے یہاں تو شروع سے بڑے فیصلہ کرتے آئيں ہیں...لڑکیوں سے تو کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے....یہ اسماء نے کون سی نئی ریت قائم کردی....“شاهنزیب حیرت سے کہنے لگا....
”تبھی تو کہ رہا ہوں مدد کردو میری....بس تھوڑی سی....وه تو سیدھے منه بات ہی نہیں کرتی.....تم اس کے بھائی ہو ....تم بات کرٶ اس سے....پوچھو اس سے ایسی کیا برائی دیکھی ہے اس نے مجھ میں جو مجھ سے شادی نہیں کرنا چاھتی....تاکے میں اس برائی کو دور کرسکوں“ولید بھت سنجیده تھا اسماء کو لے کر.....اس کی باتیں اس کا حالِ دل بیان کررہی تھیں....
”میں دیکھتا ہوں....کیا مدد کرسکتا ہوں تمھاری اس معاملے میں“شاهنزیب نے گہری سوچ میں ڈوبے ہوےؔ کہا.....”سنو کہاں جارہے ہو.....اپنے سوال کا جواب نہیں لوگے؟؟؟“شاهنزیب سوچوں میں گم سم ہوکر اٹھ کھڑا ہوا ....
شاهنزیب کو ولید کی بات نے چونکا دیا تھا...اسے حیرت تھی کے اب اس کے خاندان میں لڑکیوں کی بھی چلنی لگی ہے...اس وجہ سے وه اور فکرمند ہوگیا تھا...ایک طرف تو پورے خاندان کو منانا ...کیا یہ مشکل کام کم تھا جو اب ماهنور کو بھی رشتے کے لیےؔ راضی کرنا پڑے گا...ماهنور تو مجھے اپنا چھوٹا بھائی سمجھتی ہے...شاهنزیب انھی سوچوں میں گم سم کھڑا ہوکر چلنے لگا تھا کے ولید کی آواز پر اپنی سوچوں سے نکل آیا اور واپس بیٹھ گیا...”ہاں میری بات کا جواب تو رھ ہی گیا...بولو ...کیسے مدد کی ہے تم نے میری“شاهنزیب ائبرٶ اچکاےؔ پوچھ رہا تھا...
”جب شارق کا رشتہ آیا ماهنور کے لیےؔ تو ملک صاحب اسماء کو لے کر پریشان ہوگےؔ...اور یہی پریشانی انھوں نے میرے ڈیڈ سے شیئر کی...گھر میں بات نکلی تو مجھے پتا چلا کے اسماء کے لیےؔ رشته ڈھونڈا جاریا ہے...جب سے میں نے اسے دیکھا ہے وه میرے دل میں بسی ہوئی ہے...مجھے لگا کھیں میں اسے کھو نا دوں...اس لیےؔ میں نے اسی رات ڈیڈ سے بات کی...ڈیڈ کو اسماء کے والد کے متعلق پہلے ہی سب پتا تھا اس لیےؔ انھیں راضی کرنے میں بھت مشکل ہوئی...جیسے تیسے مناکر انھیں رشته لینے آےؔ تو تمھاری سرپھری بہن نے صاف منع کردیا...ڈیڈ کو بھت برا لگا...وه صرف میری خاطر اسماء سے خود بات کرنا چاھتے تھے پر اسماء اس پر بھی راضی نہ ہوئی...مطلب سمجھو ٹھیک ٹھاک ذلیل کروایا تمھاری بہن نے مجھے ..میرے گھر والوں کے سامنے...
اوپر سے ملک صاحب ...وه ماھنور کی شادی اسماء سے پہلے نہیں کرنا چاھتے...پر ساتھ ساتھ وه شارق جیسا اچھا رشتہ ہاتھ سے جانے بھی نہیں دینا چاھتے تھے....شروع میں جہاں تک میں نے سنا ماهنور بھی راضی نہیں تھی ..پھر اچانک خبر ملی کے وه مان گیؔ ہے...ملک صاحب دونوں کی ایک ساتھ کرنے کی خواھش رکھتے ہیں...بھت فکرمند تھے وه دونوں کی شادی کو لے کر...میں نے خود محسوس کیا تھا ان کی باتوں سے...جب وه آفس میں میرے ڈیڈ سے اپنی پربلم شیئر کررہے تھے....میرے ڈیڈ نے انھیں سمجھایا جو راضی ہے اس کی پہلے شادی کردیں...ویسے بھی آج کل کون دیکھتا ہے....بڑی بہن کی پہلی ہورہی ہے یا چھوٹی کی......ماهنور کی شادی چار ماه بعد کی طے ہوئی ...پر میں نے صرف تمھاری خاطر ملک صاحب سے بات کی...اور ان سے دو ماه کی اور مہلت مانگ لی...اگر میں اس چھ ماه کے عرصے میں اسماء کو مناپایا شادی کے لیےؔ تو ٹھیک ورنہ وه ماهنور کی شادی تو کرہی رہے ہیں...چار ماه کی جگہ چھ ماه بعد صحیح...ملک صاحب دونوں بیٹیوں کی شادی ایک ساتھ اور جلد از جلد کرنے کے خواھش مند تھے اس لیےؔ فورا مان گےؔ“ولید نے شاهنزیب کو سارا معاملا بیان کردیا....
”تم نے جو میرے خاطر کیا اس کے لیےؔ میں تمھارا جتنا شکر ادا کروں کم ہے...میرا کوئی اپنا میرا ساتھ نہیں دے رہا....جیسے بتاتا ہوں وه مدد کرنا تو دور مخالفت پر اتر آتا ہے...اس لیےؔ تم سے بھی لڑائی کرنے پر آماده ہوگیا....بغیر کچھ سوچے سمجھے“شاهنزیب ندامت سے کہنے لگا....
”تو دوستی پکی سمجھوں....یا اب بھی کہو گے کے دوست نہیں بناتے“ولید مسکراتے ہوےؔ پوچھنے لگا....اس نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا آگے...”انکار کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا...ہمیں تو زندگی بھر ساتھ رھنا ہے سالا بھنوئی بن کر ....“شاهنزیب کہ کر مسکراتے ہوےؔ گرم جوشی سے ہاتھ ملانے لگا....
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سردی کا موسم تھا....رات کا پیچھلا پھر....سب آرام سے اپنے اپنے بستر پر مزے سے سورھے تھے....شاهنزیب کالے رنگ کا بلیان اور سفید رنگ کا ٹراٶزر پہنے بغیر کمبل کے اپنے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا...ابھی بھی ولید کی باتیں اس کے ذھن میں گھوم رہی تھیں....وه لیٹے لیٹے بھی بستر پر تھک گیا تھا...”مجھے اب سو جانا چاھیےؔ....کل سے مجھے ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا ہے...کسی کی سوچ کو تبدیل کرنا دنیا کا سب سے مشکل ترین کام ہے....وہی کام مجھے کرنا ہے...مجھے نہ صرف خاندان کی بلکے ماهنور کی سوچ کو بھی بدلنا ہے....اسے ایک نئے رُخ سے متعارف کرانا ہے ہمارے رشتے کے....یا الله میری مدد کرنا“شاهنزیب نے دل ہی دل دعا کی اور آنکھیں بند کرلیں.....اسے جلد ہی نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا....وه ابھی کچی پکی ہی نیند میں تھا کے چھن چھن کی آواز اس کے کانوں کی سماعت سے ٹکرائيں....نیند کا غلبہ تھا اس لیےؔ آواز تو سنائی دے رہی تھی مگر ذھن کام نہیں کررہا تھا....چھن چھن کرتی آواز قریب آتی جارہی تھی....وه بلکل تھوڑی ہی دیر پہلے سویا تھا اس لیےؔ آنکھیں کھل ہی نہیں رہی تھیں....چھن چھن کی آواز اب مزید قریب آگیؔ تھی..”شاهنزیب“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”شاهنزیب“کوئی بھت پیار سے اسے پکار رہا تھا....شاهنزیب کے کانوں کی سماعتوں سے اپنا نام پکارنے کی آوازیں ٹکرارہی تھیں....پر آنکھیں کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں....
”شاهنزیب“اس بار کان کے بلکل قریب آکر کسی نے کہا تھا....تو اس کی آنکھیں کھولیں....اس نے اپنے سامنے سفید لباس میں ملبوس ایک لڑکی کو کھڑا دیکھا جس کے ہاتھ میں موم بتی تھی..... بال کھلے اور چہرے پر دونوں طرف سے ڈلے ہوےؔ.....موم بتی کی روشنی میں جو ہلکا سہ چہره نظر آرہا تھا وه بلکل سفید تھا....ہونٹوں پر لال رنگ کا خون لگا ہوا ...جو مدھم سی روشنی میں چمک رہا تھا گیلا گیلا ...مانو تازه تازه خون پی کر آئی ہو...”شاهنزیب“وه مسکراتے ہوےؔ بولی تو اس کے دانت موتیوں کی طرح چمکنے لگے....”شاهنزیب“اس بار اس خوفناک لڑکی کے لہجے میں سختی تھی....شاهنزیب یہی سوچ کر سویا تھا کے ماهنور کی سوچ بدلنی ہے...اسے اپنی محبت دیکھانی ہے ...”میں تم سے بھت محبت کرتا ہوں“شاهنزیب نے نیند میں آنکھیں کھولیں تھیں.. اسکا ذھن ابھی بھی کام نہیں کررہا تھا....اس نے نیند میں ہی لڑکی کا ہاتھ پکڑ بڑی محبت سے کہا جو چڑیل بنی کھڑی تھی...اس کے یوں اچانک سے ہاتھ پکڑنے کے سبب لڑکی کے ہاتھ موم بتی زمین گرگیؔ....شاهنزیب نے اگلے ہی لمحے اس کا پکڑا ہوا ہاتھ اِس طرح کھینچاکے وه کوئی گڑیا ہو بےجان سی...وه بھی شاهنزیب کے یوں اچانک حملے پر کچھ نہ کرسکی اور بےجان گڑیا کی مانند کھینچی چلی آئی.....شاهنزیب نے مضبوطی سے اسے کھینچا اور اپنے بیڈ پر گرالیا....اس چڑیل نما لڑکی نے اِس اچانک حملے پر اپنی آنکھیں بند کرلیں تھیں...اگلے لمحے آنکھ کھولی تو اس نے خود کو بیڈ پر پایا...اور شاهنزیب کو اپنے اوپر....وه چڑیل نما لڑکی اور کوئی اور نہیں ماهنور تھی جو شاهنزیب کو ڈرانے کے ارادے سے آئی تھی ....پر وه کیا جانتی تھی کے شاهنزیب الٹا اسی کی جان نیکال دے گا....ماهنور کی آنکھیں شاهنزیب کی آنکھوں سے ملیں....شاهنزیب اسے نیند کے خمار میں ہونے کے باوجود پہنچان گیا....وه ماهنور کے اس قدر قریب تھا کے اس کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کرپارہا تھا...ماهنور بھی شاهنزیب کی سانسیں اپنے حسین چہرے پر محسوس کررہی تھی...اس لمحے مانو شاهنزیب کے قرب نے ماهنور پر جادو چلایا تھا...وه بس بےجان گڑیا کی طرح اس کی آنکھوں کی صداقت و محبت میں محو ہوکر رھ گیؔ تھی....شاهنزیب نے اس کے حسین چہرے پر آتی ہوئی آوارا لٹوں کو اپنے ہاتھوں سے کان کے پیچھے کیا تھا....”کہتے ہیں محبت نظروں میں چھپی ہوتی ہے...پھر تم کیوں نہیں پڑھ پاتیں“شاهنزیب اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوےؔ مدھم مدھم لہجے میں گویا ہوا تھا....شاهنزیب نے اسے اپنی محبت میں گرفتار کرلیا تھا....بس اس ایک ہی لمحے میں...دل کی دنیا ہی بدل دی تھی اس نے ماهنور کی....ماهنور کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا...محبت کا جام اس نے اپنی آنکھوں سے اسے پلادیا تھا....ماهنور اس سے پہلے کبھی شاهنزیب کے اِس قدر نزدیک نہیں آئی تھی...شاهنزیب بس اسے محبت سے دیکھے جارہا تھا...ماهنور اس کی آنکھوں کی محبت میں محو ہوگیؔ تھی...
ہم ہیں اس پل یہاں ....
جانے ہوں کل کہاں....
ہم ملیں نہ ملیں........
ہم رہیں نه رہیں......
رہے گی صدا یہاں .....
پیار کی یہ داستاں.....
سنے گے صدا جیسے......
یہ زمین آسماں.......
کسی کے گانے کی آواز دونوں کے کانوں کی سماعت سے ٹکرائی تھی....آواز کا آنا تھا کے دونوں حواس میں واپس لوٹے تھے.... شاهنزیب بوکھلا کر اس کے اوپر سے ہٹا اور سیدھے ہوکر بیٹھ گیا.....ماهنور بھی اسی کیفیت میں مبتلا تھی وه بھی اٹھ کر بیٹھ گیؔ تھی...تھوڑی دیر تک تو ماہنور کا دل اس کے قابو میں ہی نہیں آرہا تھا....اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کے ماهنور نے اپنا دل پر ہاتھ رکھ لیا تھا....وه شاهنزیب سے بات کرنا تو دور اسے نظر اٹھاکر دیکھ بھی نہیں پارہی تھی...شاهنزیب کا حال بھی کچھ جدا نہ تھا...”نا جانے نیند میں کیا ٖ کیا کہ دیا میں نے مانو کو .....اب کیا کروں....“شاهنزیب ہچکچارہا تھا ماهنور سے بات کرنے میں....” یہ گانا کون گاه رہا ہے ....اتنی رات کو؟؟؟؟“شاهنزیب سوالیه انداز میں کہنے لگا...
”وه ....وه“ماهنور جواب دینا چاھتی تھی پر الفاظ ساتھ نہیں دے رہے تھے...”وه ولید بھائی گاه رہے ہوں گے“ماهنور نے بڑی مشکل سے جواب دیا...
”ویسے تم اتنی رات کو میرے کمرے میں کر کیا رہی ہو؟؟؟؟“شاهنزیب نے سختی سے پوچھا.....
”وه ....میں .....میں تو تمھیں ڈرانے آئی تھی....مجھے کیا خبر تھی کے تم تو چڑیلوں کو بھی نہیں چھوڑتے.....ان کے ساتھ بھی رومانس شروع کردیتے ہو“ماهنور نے صفائی دی تھی اور ساتھ ساتھ کھلا طنز بھی کیا تھا.....
”اب چڑیل اتنی حسین ہو .....تو انسان کیا کرے“ شاهنزیب نے اپنی انگلی اس کے گال پر مَس کرتے ہوےؔ مسکراء کر کہا....اس کی انگلی پر بھی اتنا سارا آٹا لگ گیا تھا...”کہاں سے آتے ہیں تمھارے دماغ میں ایسے آئيڈیے....تمھیں پتا ہے ناں دنیا کا اٹھواں عجوبہ ہو تم“شاهنزیب اسے دیکھتے ہوےؔ اس کی شان میں قصیدے پڑھ رہا تھا....وه شاهنزیب کے کمرے سے نکلی تو اس کے گال گلابی ہورہے تھے....اپنے کمرے میں آکر لیٹ گیؔ اتنی سردی کے باوجود اسے سردی کا احساس تک نہیں ہورہا تھا....وه ابھی بھی کھوئی کھوئی سی تھی اس لمحہ کی یاد میں....ایک جادوئی احساس تھا جو وه اپنے ساتھ لے آئی تھی۔۔۔۔
”ارے واه ! لگتا ہے آج سورج مشرق سے نہیں مغرب سے نکلا ہے...جو ماهنور ملک صبح 9 بجے جاگ رہی ہیں“ اسماء حیرت کے مارے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ماهنور کو جاگتے ہوےؔ دیکھ بولی تھی...ماهنور تو پوری رات سو ہی نہیں سکی تھی...وه نیچے ناشتے کی ٹیبل پر آئی تو سب اسے حیرت سے دیکھنے لگے..”ماهنور ...تم ...تم اتنی جلدی کیسے اٹھ گیںؔ“ بھابھی ٹیبل پر ناشته لگاتے ہوےؔ اسے دیکھ حیرت سے بولیں...
”ویسے آج تو کمال ہی ہوگیا ...ماهنور صاحبہ کی صبح دو بجے کے بجاےؔ صبح کے دس بجے ہوگیؔ“ کامران نے طنز کا تیر ماهنور پر چلا کر کرسی پر بیٹھتے ہوےؔ کہا تو جوابا ماهنور نے پھرتی سے اس کے پیچھے سے کرسی کھینچ لی...”الله......آه ....مانو کی بچی“ کامران کو ماهنور کے جوابی حملے کی بلکل امید نہ تھی ..وه تو آرام سے کرسی پر بیٹھنے لگا تھا...پر ماهنور نے اس کے پیچھے سے کرسی ھٹادی تھی وه بیٹھا تو دھڑام کرکے زمین پر گر پڑا....وه اپنی کونی پکڑ چیختے ہوےؔ ماهنور کو ملامت کر رہا تھا...
”ماهنور“بھابھی نے اسے گھور کر دیکھا تھا کامران کو گرانے کے سبب....
”بھابھی ان کو بھی تو کچھ بولیں ...جب دیکھو مجھے کچھ نه کچھ بولتے رہتے ہیں“ماهنور نے بھولا سہ چہره بناےؔ اپنی حمایت کی درخواست کی تھی...اسماء نے کامران کو اٹھانے کے لیےؔ ہاتھ بڑھایا تھا..
”تمھیں تو دیکھ لوں گا مانو “کامران اسماء کا ہاتھ پکڑ سہارے سے کھڑا ہوتے ہوےؔ ماهنور کو کھاجانے والی نگاه سے گھورتے ہوےؔ بولا...پر ماهنور نے اس کی دھمکی کو اگنور کیا....
”اچھا جاٶ مانو......شاهنزیب کو ناشتے کے لیےؔ بلا لاٶ...اور جاٶ اسماء تم باقی سب کو بھی بلا لو“بھابھی نے دونوں سے کہا اور کچن میں چلی گیںؔ...اسماء تو فورا ہی بھابھی کے کہتے ہی سب کو بلانے چلی گیؔ....پر ماهنور نے یه سن کر کرسی کو مضبوطی سے پکڑ لیا...اسے شرم آرہی تھی..گال گلابی ہوےؔ جارہے تھے ...دل میں انجانی ہچکچاھٹ محسوس کررہی تھی وه .....چہرے پر مسکراھٹ بکھر آئی تھی...”کب تک ایسے بتوں کی طرح کھڑی ، شرماتی رہوگی....بھابھی نے شاهنزیب کو بلانے کے لیےؔ کہا ہے شارق کو نہیں“ کامران ماهنور کو شرماتا دیکھ ٹوکنے لگا....ماهنور کی ہمت ہی نہیں ہورہی تھی شاهنزیب کو بلانے جانے کی....رات کو جو ہوا وه ابھی بھی اس کی نگاھوں میں گھوم رہا تھا...
”لو ...وه خود ہی آگیا“ کامران نے ماهنور کے پیچھے دیکھتے ہوےؔ بولا تھا...”آٶ شاه ...ناشتہ کرلو“ کامران نے شاهنزیب کو دیکھتے ہوےؔ بولا تھا....وه سفید رنگ کی چیک والی شرٹ اور نیلی جینز پہنے مسکراتا ہوا آرہا تھا....وه بلکل ماهنور کے برابر میں ہی آکر کھڑا ہوگیا تھا....ماهنور کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا ...سانسیں رکنے لگیں...ہاتھ ٹھنڈے پڑھ رہے تھے...”یہ کیا ہورہا ہے مجھے؟؟؟....میں اتنا نروس کیوں ہورہی ہوں شاه کے آتے ہی...اس سے پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا“ماهنور نے دل میں کہ کر ھلکی سی نظریں اٹھاکر شاهنزیب کو دیکھا تھا پر جیسے ہی شاهنزیب نے اسے دیکھا ..ماهنور نے تیزی سے نظریں چورا لیں....
”تم اتنی جلدی کیسے جاگ گیںؔ؟؟“شاهنزیب کے لبوں پر بھی وہی سوال تھا جو سب کے تھا...شاهنزیب کرسی پر بیٹھنے لگا تھا....
”ارے رکو .......پہلے اس آفت کی پڑیا کو بیٹھنے دو ...ورنه پتا چلا تمھارے پیچھے سے بھی کرسی کھینچ لے...کیونکے آج کل اس کی تمھارے سے بھی نہیں بن رہی ہے ...جس کے پیچھے ماهنور جیسی آفت لگی ہو اسے ہرقدم پھونک پھونک کر رکھنا چاھیےؔ“ کامران نے شاهنزیب کو نصیحت کی تھی اپنے تجربے کے مطابق....جیسے سن شاهنزیب بیٹھتے بیٹھتے رکا اور فورا سیدھا کھڑا ہوگیا...”ہاں ...کہ تو ٹھیک رہے ہو...بیٹھو میری پیاری چڑیل ...پہلے تم بیٹھو“شاهنزیب نے کامران کی بات سے اتفاق کیا اور ڈرنے کی اداکاری کرتے ہوےؔ پہلے ماهنور کے لیےؔ کرسی پیچھے کی...
یہ دیکھ دونوں چونکے تھے کے واقعی ماهنور نے بغیر کوئی بحث یا جوابی کاروائی کے شاهنزیب کی بات مان کر.... کرسی پر شرافت سے بیٹھ گیؔ تھی...اس کی یہ شرافت دونوں کو ہضم نہیں ہورہی تھی....
”تمھاری طبعیت تو ٹھیک ہے نا مانو؟؟“شاهنزیب نے اپنی ہتھیلی کی پشت ماهنور کی روشن پیشانی پر رکھ فکرمند لہجے میں پوچھا...بس اس کا ہتھلی رکھنا تھا کے ماهنور کی حالت غیر ہوگیؔ تھی...ایسا لگا دل باہر ہی نیکل آےؔ گا اس کے چھوتے ہی...ماهنور پھٹی پھٹی نظروں سے شاهنزیب کو دیکھنے لگی...سانس تو رک سی گیؔ تھی شاهنزیب کا ہاتھ پیشانی سے مَس ہوتے ہی...اچانک سے شدید گرمی کا احساس ہونے لگا...”تمھیں اتنی ٹھنڈ میں پسینے کیوں آرہے ہیں؟؟؟“شاهنزیب ماهنور کی پیشانی پر چمکتا ہوا پسینا دیکھ پریشان ہوا تھا....
”می...میں ...ٹھ....ٹھیک ہوں“ماهنور نے بامشکل یه الفاظ خود کو سمبھالتے ہوےؔ ادا کر اس کا ہاتھ اپنی پیشانی سے ھٹایا اور پانی سے بھرا گلاس اٹھاکر بےتابی سے منہ سے لگا لیا .....شاهنزیب اور کامران اسے الجھی نگاه سے تک رہے تھے...
”پکا؟؟؟“شاهنزیب نے اس کے چہرے کے آگے اپنا چہره جھکاتے ہوےؔ بڑے پیار سے استفسار کیا...
ماهنور اثبات میں سر ہلانے لگی...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماء سب کو بلاتے ہوےؔ آخر میں ولید کے کمرے میں پہنچی تو اسے بستر پر سویا ہوا پایا....”لو ...یہ جناب ابھی تک سورہے ہیں...اف کتنا آلسی ہے یہ....کیا کروں جگاٶں یا چھوڑ دوں“اسماء تھوڑی دیر کھڑی یہی سوچتی رہی...”ولید....ولید“ اسماء نے سوچا اٹھاہی دے....پھر سوچنے لگی کے کیسے جگاےؔ....تو آوازیں دینے لگی...”ولید اٹھو”...وه اسے آوازیں دیےؔ جارہی تھی اس کے سر پر کھڑے ہوکر....جب اسے اٹھتا ہوا نہ پایا تو منہ بیگاڑ کر جانے لگی....
”کبھی تو پیار سے بات کرٶ.....ہر وقت اُکھڑی اُکھڑی....تھکتی نہیں ہو ہر وقت ایسے رہنے میں“ولید نے اسے جاتا ہوا محسوس کیا تو فورا اس کا ہاتھ تھام لیا...اور محبت سے لبریز انداز میں کہنے لگا..
”تو تم جاگ رہے ہو“اسماء اسے جاگتا ہوا دیکھ منہ بسور بولی.....
”جی ہاں....میں تو جاگ ہی رہا تھا....آپ کو اس طرف آتے دیکھ لیا تھا میں نے....اس لیےؔ بیڈ پر لیٹ گیا....خوش فہمی تھی مجھے کے شاید نیند میں دیکھ کر ہی صحیح تم مجھے پیار سے اٹھاٶ گی....پر تم تو“ولید افسرده لہجے میں شکوه کرنے لگا....
”ہاتھ چھوڑو میرا“اسماء نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی تھی پر وه مسکراتے ہوےؔ اسے دیکھے ہی جارہا تھا.....مانو اسماء کو زور آزمائی کرتے دیکھ اسے مزا آرہا ہے...
”تمھاری ایسی حرکتوں سے مجھے سخت نفرت ہے“ اسماء نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر غصے سے گھورتے ہوےؔ کہا....ولید اس کی بات سن مسکراتے ہوےؔ اٹھ کر بیٹھ گیا تھا...
”تمھاری پروبلم پتا ہے کیا ہے....تمھیں پتا ہی نہیں ہے نفرت اور محبت میں فرق ...کہو تو تمھیں سمجھا دوں“وه گہری بولتی نظروں سے اس کے وجود کو دیکھتے ہوےؔ گویا ہوا....
”تم اپنی حد میں رہو....سمجھے....چھوڑو میرا ہاتھ“ اسماء نے نہایت سخت لہجے میں کہا ....
”پیار سے کہو ...پہلے“ ولید اسماء کی اس بےرخی کو دیکھ کر بھی مسکراےؔ جارہا تھا...وه تو عادی ہوگیا تھا اِن دل جلی باتوں کا....
”چھوڑتے ہو یا بلاٶں سب کو“ اسماء نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی مگر جب کامیاب نہ ہوئی تو اسے تڑی لگانے لگی...
”بلالو...ہاتھ تو اب تبھی چھوڑوں گا جب پیار سے بولو گی“ اسماء کی تڑی سن وه کھڑا ہوگیا اس بار.... اس کے بلکل نزدیک آکر بڑے بھرم سے کہنے لگا......
”میں واقعی بلا لوں گی“ اسماء بھی بڑے بھرم سے بولی...
”میں نے کب منع کیا ....بلاٶ“وه مزید قریب آکر پراعتماد انداز میں کہنے لگا...
”آه“اسماء نے جب دیکھا کے وه ہاتھ چھوڑنے کے لیےؔ کسی طرح تیار نہیں ...تو اسے کچھ سمجھ نہیں آیا....اس نے تیزی سے ولید کے ہاتھ پر زور سے کاٹ لیا.....ولید زور سے ”آه“ کہ کر ہاتھ چھوڑ بیٹھا....وه ہاتھ چھوڑتے ہی بھاگ گیؔ......اسماء کو بھاگتا ہوا دیکھ مسکرانے لگا...جس ہاتھ پر اس نے کاٹا تھا اسے محبت میں خوشی سے چومنے لگا....”دولہن تو میں لے کر جاٶں گا اپنی....اسماء تیار ہوجاٶ اب ولید اپنی پر اتر آیا ہے“وه خودی سے ہمکلام ہوا.....
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب نشانہ بازی کے لیےؔ حویلی کے گارڈن میں جمع ہوےؔ.....سب لڑکیاں ایک طرف ہوکر سارے لڑکوں کی نشانہ بازی دیکھنے لگی تھیں....ایک تار سے بلندی پر پانچ خالی کانچ کی بوتل باندھ دی گیںؔ تھیں تھوڑے تھوڑے فاصلے سے....سب ایک ایک کر کے نشانے لگارہے تھے....پر کوئی بھی پانچوں بوتلوں پر نشانہ لگانے پر کامیاب نہیں ہوسکا تھا....شارق نے سب سے زیاده چار بوتلوں پر نشانہ لگا کر فتح حاصل کی تھی....شاهنزیب کی باری ابھی تک نہیں آئی تھی...ماهنور کو بھی شوق اٹھا تھا نشانہ بازی کرنے کا ....اس لیےؔ وه بھی اپنی جگہ سے اٹھ کر سارے لڑکوں کے بیچ میں آکر کامران سے گن مانگنے لگی ......کامران نے پہلے تو بھت منع کیا پر جب وه نہ مانی تو خود اس کے ہاتھ میں پکڑا کر غصے سے چلا گیا.....گن بھت بھاری تھی.....ماهنور تو اسے اٹھاتک نہیں پارہی تھی....چلانا تو بھت دور کی بات تھی.....پھر بھی وه کوشش کرنے لگی....ناجانے کہاں سے شاهنزیب آکر اس کے پیچھے کھڑا ہوگیا....اس کے آتے ہی ماهنور کے ہاتھوں سے گن چھوٹ گیؔ.....شاهنزیب نے اسے گرنے سے پہلے پکڑلیا :”چلو میں سیکھاتا ہوں تمھیں...“شاهنزیب نے مسکراتے ہوےؔ کہ کر اسے گن پکڑنا سیکھانے لگا.....
ایک جادوئی فضاء تھی جو ہر طرف چھاگیؔ تھی...شاهنزیب کے قریب آتے ہی....شاهنزیب اسے نشانہ لگانا سیکھا رہا تھا پر وه اتنا قریب تھا کے ماهنور کی سانس رک رہی تھی...مارے شرمگیں کے اس کے گال گلابی ہوےؔ جارہے تھے ...وه گن کو دیکھنے کے بجاےؔ شاهنزیب کو دیکھ رہی تھی...
”مانو کیا کررہی ہو....ٹھیک سے پکڑو گن کو“ شاهنزیب نے ماهنور کو ٹھیک سے گن پکڑواکر جیسے ہی اس کے پیارے سے رخسار کی طرف دیکھا تو وه اسے ہی دیوانگنی بھری نگاه سے تک رہی تھی....دونوں ایک دوسرے کی خوشبو محسوس کرنے لگے تھے....اب تو ماهنور کی نظروں نے شاهنزیب کو بھی نروس کردیا تھا.... دونوں بس ایک دوسرے میں محو ہوکر رھ گےؔ تھے...
”ماهنور ....میں آپ کو سیکھاوں؟؟؟؟...مجھے لگتا ہے میں شاهنزیب سے زیاده اچھا آپ کو سیکھا سکتا ہوں“شارق کو ناگوار گزرا تھا دونوں کا اس قدر قریب ہونا....وه دونوں تو ایک دوسرے کی آنکھوں میں ہی کھوےؔ کھوےؔ تھے کے شارق کی بات سن شاهنزیب حواس میں لوٹا تھا....شارق کی آفر نے شاهنزیب کا خون کھولا دیا تھا....مارے طیش کے شاهنزیب نے ماهنور کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا اور نشانه لگایا....”ٹھس....ٹھس...ٹھس....ٹھس....ٹھس“آوازیں پورے گارڈن میں گونجی تھیں.....سب حیران تھے ...شارق کے تو ہوش اڑگےؔ تھے یہ دیکھ کر کے شاهنزیب کا ایک بھی نشانه نہیں چونکا......وه اس کھیل کا مردِ میدان ٹھرا تھا....سب خوب تالیاں بجانے لگے....”واه“ماهنور نے حیرت سے شاهنزیب پر سو جان فدا ہوتے ہوےؔ۔۔۔۔ داد دی ......
”اب میری باری“ثانیه نے کہا تو سب دبی دبی ہنسی ہسنے لگے...”کیا؟؟...ہنس کیوں رہے ہو؟؟؟“
”آپ سے بھی ماهنور کی طرح گن سمبھالی نہیں جاےؔ گی...“راحیل نے مسکراتے ہوےؔ اس کی بات کا جواب دیا تھا...
”مجھے نازک سی لڑکی سمجھنے کی غلطی نہ کیجیےؔ گا“ ثانیہ نے اتراتے ہوےؔ جواب دیا....”اُو“ سب خوب شور مچارہے تھے ثانیہ کی بات سن ....
”لیں“ راحیل نے خود ثانیه کے ہاتھ میں گن پکڑائی تھی...سب دور سے بیٹھ کر دیکھنے لگے...کسی کو کوئی توقع نہ تھی کے ثانیہ ایک بھی بوتل پر صحیح نشانا لگاسکے گی....پر پھر سب نے دیکھا کے وه لڑکی جس نے ڈانس کیا تھا تو سب ہل گےؔ تھے ...اسی نازک سی لڑکی نے جب گن ہاتھ میں اٹھائی تو سب کے ہوش اڑا دیےؔ....اس بار سب کے منہ کھولے کے کھولے رھ گےؔ تھے...”ٹھس ....ٹھس....ٹھس...ٹھس....ٹھس“ ثانیہ نے نشانہ لگایا تو پورے گارڈن میں آواز گونجی...اور یه آواز ہی اس کی فتح تھی..ایک بھی نشانہ مِس نہیں ہوا تھا... سب لڑکیاں خوب داد دینے لگیں....مجبورا لڑکوں کو بھی دینی پڑی ...”سمجھ نہیں آتا برا زیاده کیا ہے....ہارنا یا ایک لڑکی سے ہارنا“ کامران نے اداس سہ چہره بناےؔ بولا تو سب ہسنے لگے....
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”میں شاهنزیب کو بتادوں“شاهنزیب اپنے کمرے سے پانی کا جگ لے کر کچن کی جانب بڑھا تھا ...کے اچانک ماهنور کی آواز راحیل کے کمرے سے آتی سنائی دی...کمرے کے پاس پہنچا تو ماهنور کے کہے الفاظ سماعتوں سے ٹکراےؔ تو اس نے راحیل کے کمرے میں ھلکا سہ جھانک کر دیکھا کے معاملا کیا ہے..ماهنور بیڈ پر بیٹھی تھی اور راحیل کھڑکی کی دیوار سے ٹیک لگاےؔ کھڑا تھا...
”یہ غلطی مت کرنا ...یہ بات کسی کو نہ پتا چلے یہی ہم دونوں کے لیےؔ اچھا ہے“ راحیل کے کہتے ہی شاهنزیب کے کان کھڑے ہوےؔ تھے....
”تو پھر کیا کریں...ایسے ہی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھیں رہیں...بولیں“ماهنور روتے ہوےؔ بولی...شاهنزیب الجھ گیا تھا یہ دیکھ....
”ہم اور کر بھی کیا سکتے ہیں...میں نے بڑے ابو سے بات کی تھی ...پر وه نہیں مانیں...اس لیےؔ تم سے بات کی....پر اب لگتا ہے کاش تمھیں نہ بتایا ہوتا....تمھیں بتاکر اس درد و تکلیف میں شریک کرلیا میں نے“راحیل نے غمزاده لہجے میں کہا تو ماهنور سن کر غصے سے کھڑہوگیؔ....
”آپ مجھے نہیں بتاتے ....اتنی بڑی بات آپ اپنے اندر ہی اندر پیتے رہتے وه بھی اکیلے....آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں“ماهنور روتے ہوےؔ راحیل کو دیکھ گویا ہوئی...
”تو اور کیا کہوں....میں کچھ بھی تو نہیں کرپارہا...اوپر سے تم ہم سب کو یہاں لے آئيں ...شاید وہاں رھ کر میں بڑے ابو کو منالیتا“راحیل نے سارا الزام ماهنور پر ڈالا تھا...
”ڈیڈ کو اگر آپ کی بات ماننی ہوتی تو وه پہلے ہی مان چکے ہوتے....آج ایسے حالات پیدا نہیں ہوےؔ ہوتے کے مجھے شارق سے زبردستی شادی کرنی پڑے....میں اتنی دور ایسے ہی نہیں آئی...یہی دعا لے کر آئی ہوں ...میں مزار جاٶ گی...وہاں جاکر دعا کروں گی ...بڑی امی نے مجھے بتایا ہے وہاں سے کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا“ماهنور ابھی کھ کر چپ بھی نہ ہوئی تھی ”تمھیں لگتا ہے تم مزار پر جاکر دعا مانگو گی اور سب ٹھیک ہوجاےؔ گا....اف مانو ....پلیز ان قصے ٖ کہانیوں کی دنیا سے باہر نیکلو...حالات کی نزاکت کو سمجھو...یہاں سے جب ہم واپس لوٹیں گے تو صرف تمھاری شادی میں ایک ماه رھ جاےؔ گا...کیسے روکے گے ہم......مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا....کیسے مناٶں بڑے ابو کو....کیسے روکوں تمھاری شادی“راحیل اپنا سر پکڑے بھت غمگین و فکرمند لہجے میں روہانسہ آواز میں کہنے لگا...شاهنزیب تو ھل کر رھ گیا تھا یه سن کر .....اس کا ذھن کام نہیں کررہا تھا..
”شادی تو آپ کو روکنی پڑے گی....میں یہ شادی نہیں کرنے والی....میں نے صرف آپ کے کہنے پر اس شادی کے لیےؔ ہاں کہا تھا....آپ کو جلد از جلد کچھ کرنا ہوگا....ورنہ میں مرجاٶں گی“ ماهنور بلکل راحیل کے روبرو ہوکر اسکا ہاتھ پکڑ جھنجھوڑتے ہوےؔ بول رہی تھی....شاهنزیب ان دونوں کے چہرے تو نہیں دیکھ پارہا تھا پر ان کی باتیں سن اسے دادو کی باتیں یاد آگیںؔ تھیں....شاهنزیب مزید وہاں نہ رکا ...آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا ہوا وه اپنے کمرے میں آپہنچا....کمرے میں آتے ہی تھوڑی دیر تو وه چپ چاپ مارے صدمے کے بیٹھا رہا...زندگی میں کسی کو ٹوٹ کر چاہو اور وه کسی اور سے جاملے تو جو خالی پن و تکلیف ہوتی ہے آج شاهنزیب اس کا مزا چک رہا تھا...وه زور زور سے چیخنا چاہتا تھا ...رونا چاہتا تھا....جو ستم قسمت نے اس پر ڈھایا ہے وه بیان کرنا چاہتا تھا...وه وہاں سے کھڑا ہوا اور حویلی سے چلتا ہوا باہر نیکل آیا.....نگے پاٶں تھا وه مگر اسے راستے میں آنے والے کنکر اور پتھر محسوس ہی نہیں ہورہے تھے....آنکھیں مارے غم و غصے کے لال ہورہی تھیں دیوانے کی...وه ایسے ہی چلتا چلتا مزار کی سیڑھیوں پر پہنچ گیا...
مزار کافی جنگل میں تھا وہاں اردگرد کوئی انسان نظر نہیں آرہا تھا....مزار کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا وه اوپر چلا آیا....دل پر جو بیتی تھی وه بتانا چاہتا تھا....پر کیسے بتاتا؟؟؟.......وه سیڑھیاں چڑھتے ہی زمین پر ہی گرگیا......تڑپ تڑپ کر آه نکل رہی تھی....اس نے وہیں زور زور سے رونا شروع کردیا....بس روےؔ جارہا تھا ....تڑپے جارہا تھا.....
وہیں قریب میں ایک بوڑھے شخص بیٹھے تھے ان کی نگاه زمین پر پڑے ہوےؔ شاهنزیب پر پڑی....شاهنزیب کا چہره چاند کی طرح چمک رہا تھا اور آنکھوں سے آنسوں موتی بن بن کر مزار کی زمین پر گررہے تھے....”میں نے بچپن میں ایک لڑکے سے اس کی سائيکل چھین لی تھی...تو اس کے بدلے میں ڈیڈ نے میری سائيکل بھی اس لڑکے کو دے دی تھی....صرف سزا کے طور پر ....اس کے بعد میں نے زندگی میں کبھی کسی سے کوئی چیز نہیں چھینی....مگر ماهنور وه تو میری تھی ناں......میں نے راحیل سے اسے چھینا تھوڑی تھا ...پھر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟؟؟؟.....میرے کانوں میں آج بھی اس کی پازیب کی آواز گونجتی ہے جس پر میں دل ہارا تھا....میں نے اس کے علاوه کبھی کسی کو دیکھا تک نہیں....سوچا نہیں...صرف اسے چاہا اسے مانگا......پھر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟؟؟......کاش وه مجھ سے بڑی نہ ہوتی....کاش دادو نے مجھے یہاں سے بھیجا نہ ہوتا....کاش میں ماهنور کو بتا پاتا کے کتنی محبت کرتا ہوں اس سے....میں اسے کسی اور کا ہوتے نہیں دیکھ سکتا.....میری زندگی کا مقصد ہے وه......میں اس کے بغیر نہیں جی سکتا...میں مرجاٶں گا“ وه روتے ہوےؔ اپنا حالِ دل بیان کررہا تھا.....
وه بوڑھے شخص آکر شاهنزیب کو تسلی دینے لگے....اس وقت شاهنزیب کو سمبھال پانا مشکل تھا....بوڑھے شخص نے اسے کھڑا کیا اور اپنے ساتھ مزار کے اندر لے گےؔ....بوڑھے شخص نے شاهنزیب کو چٹائی پر بیٹھایا....اور پانی لاکر پیلانے لگے....
”کسی اچھے گھر کے معلوم ہوتے ہو....یہاں کیوں آےؔ ہو اتنی رات میں....ایسی کیا حاجت ہے تمھاری؟؟؟....جو تمھیں اتنی رات کو یہاں کھینچ لائی“ شاهمزیب کوئی جواب دینے کی کیفیت میں نہ تھا....اس بوڑھے شخص کے چہرے پر بڑا نور تھا...ایک عجیب سی کشش...”کیوں رو رہے ہو اس قدر؟؟؟“وه بوڑھے شخص شاهنزیب کو یوں تڑپتا دیکھ بھت فکرمندانداز میں پیار سے استفسار کرنے لگے....
”شاید مجھے سزا مل رہی ہے.....میں نے اپنے کزن کی ڈائری چھپادی تھی ...اس کی مجبوری کا فائده اٹھایا تھا....اسے اس لڑکی سے دور کردیا تھا جس سے وه شادی کرنے کی خواہش رکھتا تھا.... پر یہ شاید میری سزا ہی ہے کے مجھے میرے ہی اپنوں نے گھر سے نیکال دیا....اور میرے اُس کزن کو موقع دیا قسمت نے کے وه اپنے دل کی بات اس لڑکی کو بتاسکے.....آج قسمت نے مجھے اس قدر مجبور کردیا ہے کے میں کچھ نہیں کرسکتا....کیونکے جس لڑکی کی خاطر میں نے یہ سب کیا تھا وه لڑکی تو.............“کہتے کہتے رونے لگا....اسے جب سے ماهنور سے محبت ہوئی تھی ....تب سے اس کا بچپن چھین گیا تھا.....اس کے حواسوں پر بس وہی چھائی رہی تا عمر.....وه بڑی تھی اور شاهنزیب چھوٹا اس لیےؔ شاهنزیب اپنی جوانی ....جس میں اور لڑکے زندگی کی دوسری سرگرمیوں میں مگن ہوکر انجواےؔ کرتے ہیں وہیں اس نے ذمہداریاں سمبھالیں......پڑھنا چاہتا تھا تاکے جلدازجلد اس قابل بنے کے اس کا رشتہ مانگ سکے....مگر آج جب اس کے منہ سے سن آیا کے وه راحیل کو پسند کرتی ہے تو اب زندگی میں کیا باقی رھ گیا تھا.......
”تم صبر کرٶ اور دعا کرٶ“ بوڑھے شخص شاهنزیب کو تسلی دیتے ہوےؔ صبر و دعا کی تلقین کررہے تھے...
”دعا .....کیا دعاکروں؟؟؟جیسے زندگی بھر دعاٶں میں مانگتا آیا ہوں ....آج اسے مانگنے کا حق نہیں رکھتا میں .....اب کیا مانگوں“شاهنزیب نڈھال ہوچکا تھا رو رو کر.....
ولید شاہنزیب کے کمرے میں داخل ہوا تو اسے اپنا سامان پیک کرتے ہوئے پایا :"تم کہیں جا رہے ہو ؟؟"ولید پوچھنے لگا
"ہاں واپس گھر اور وہاں سے لندن چلا جاؤں گا اپنی پڑھائی پوری کرنے ایک سال ضائع کر چکا ہوں اپنا اب اور نہیں کرنا چاہتا "شاہنزیب ہینگر سے جلدی جلدی کپڑے نکال کر طےکر رہا تھا اور پورا پلین اس نے اپنی آنے والی زندگی کا ولید کو بتا دیا
"تم لندن جا رہے ہو ؟؟؟۔۔۔۔۔۔یہ کیا کہہ رہے ہو تم ؟؟؟۔۔۔۔دماغ تو خراب نہیں ہوگیا تمہارا ؟؟"ولید نے اس کے ہاتھ سے لال رنگ کی شرٹ چھینتے ہوئے حیرت سے بولا تھا جو وہ طے کر کے بیگ میں رکھنے لگا تھا ۔۔۔۔۔
"پہلے خراب تھا اب ٹھیک ہوا ہے۔۔۔۔۔ واپس دو "شاہنزیب ولید سے نظریں نہیں ملا رہا تھا اپنی شرٹ واپس لے کر اس نے بے دلی سے بیگ میں ڈال دی۔۔۔۔۔۔
"کل تک تو سب ٹھیک تھا پھر اچانک ایسا کیا ہو گیا ہے جو تم اتنا بڑا فیصلہ لے رہے ہو ؟؟؟؟"ولید نے حیرت سے پوچھا ۔۔۔۔شاہنزیب بیگ کی دونوں طرف سے زیب بند کرتے ہوئے بولا :"میری زندگی ہے جو چاہے کروں تمہیں اس سے کیا ؟؟؟تم اپنے کام سے کام رکھو میری زندگی میں انٹر فیر کرنا بند کر دو "شاہنزیب نے صاف الفاظ میں ولید کو کہا اور بیگ اٹھا کر جانے لگا ۔۔۔۔۔
"تم میرے دوست ہو میرا حق ہے یہ جاننا کہ ہوا کیا ہے ؟؟؟"ولید نے اسے جاتا دیکھا تو اسے دوستی کا واسطہ دے کر روکنا چاہا
"مرا ہوا انسان کسی کا دوست نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔سمجھ لو آج سے میں مر گیا "اس نے ایسے سخت الفاظ اتنی آسانی سے بول دیے کہ مانو اسے اپنے جینے کا یقین ہی نہ رہا ہوں ۔۔۔
"تم ایسے نہیں جا سکتے تم نے مجھ سے کہا تھا کہ تم میری مدد کرو گے میں جس شاہنزیب افتخار کو جانتا ہوں وہ اپنے وعدے کا پکا ہے تم میری مدد کیے بغیر نہیں جاسکتے "ولید اسے روکنے کی نیت سے اس کا وعدہ یاد دلا رہا تھا ۔۔۔۔
"تم سمجھتے کیوں نہیں اگر میں یہاں رہا تو خود بھی تکلیف میں رہوں گا اور ماہ نور کو بھی خوش رہنے نہیں دوں گا میرا یہاں سے چلے جانا ہی اچھا ہے ۔۔۔۔۔میں اگر یہاں رہا تو اس کی شادی کسی اور سے نہیں ہونے دوں گا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شاہنزیب ولید کی بات کا جواب دیتے دیتے رک گیا تھا
"اور کیا ؟؟؟"ولید تجسس سے اس ادھوری بات کو پورا کرنے کا کہہ رہا تھا
"تمہاری مدد کوئی اور کر دے گا ۔۔۔۔مجھے جانے دو "شاہنزیب اپنی بات کا پکا تھا وہ جو کہہ دے اسے ضرور کرتا تھا یہ بات اس کی شان کے خلاف تھی کہ کسی سے وعدہ کرے اور پورا نہ کرے پر آج وہ اس جگہ سے دور چلا جانا چاہتا تھا ۔۔۔۔
"نہیں ۔۔۔۔جب تم خود غرض بن رہے ہو تو میں کیوں نہ بنوں ۔۔۔۔۔پہلے میری مدد کرو پھر چلے جانا "ولید کہتا ہوا اس کے برابر سے گزر کر چلا گیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوپہر کا وقت تھا دھوپ اپنی آب و تاب سے نکلی ہوئی تھی سب گاؤں کی سیر کرنے نکلے تھے "تمہارا دل نہیں اکتا جاتا ان لڑکیوں کو دیکھتے دیکھتے اور فلرٹ کرتے کرتے "سعدیہ نے کامران کو گاؤں کی لڑکیوں سے باتیں کرتے ہوئے اور ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے دیکھا تو اسے ٹوکتے ہوئے منہ بسور کربول رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
"نہیں ۔۔۔۔۔۔۔سنگل ہونے کا یہی تو مزا ہے "کامران مسکراتے ہوئے بول کر ایک گاؤں کی لڑکی کو ٹاٹا کر رہا تھا تو وہ شرماتی ہوئی سعدیہ کے سامنے سے گزر گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اس میں کیا مزہ ہے؟؟؟؟ میری صلاح مانو ۔۔۔۔۔۔یہ فلرٹ ولٹ کرنا بند کر دو اور شادی کر لو کسی پیاری سی لڑکی سے ویسے بھی علی بھائی کے بعد اب تمہاری باری ہے کہو تو میں تمہارے لیے کوئی لڑکی دیکھوں؟؟؟؟"سعدیہ نے پرجوش لہجے میں پوچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جی نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے میں اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کروں گا "کامران نے صاف انکار کیا ولید نے ان دونوں کی باتیں سنیں تو مسکراتا ہوا آ کر ان کے پاس کھڑا ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
"تو کب پسند کر رہے ہو اپنے لیے لڑکی ویسے بھی میں نے آنٹی کو بولتے ہوئے سنا تھا کہ تمہارے لئے لڑکیاں ڈھونڈی جا رہے ہیں مگر تم ہو کہ تمہیں کوئی پسند ہی نہیں آتی ....ہر لڑکی کی تصویر میں تمہیں کوئی نہ کوئی عیب نظر آ ہی جاتا ہے ۔۔۔۔۔"ولید آئبرو اچکاۓ کر اسے دیکھتے ہوئے سوالیہ انداز میں پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
"یار مجھے نہیں پتا کب آئے گی پر یہ پکا ہے کہ کروں گا اس سے جو پہلے ہی نگاہ میں میرے دل میں اتر جائے جسے دیکھتے ہی میرا فلرٹ کا نہیں شادی کا دل کرے "کامران اپنے خوابوں کی شہزادی کے بارے میں بتا رہا تھا تو سعدیہ"اُو اُو "کرنے لگی ۔۔۔"بس جیسے ہی وہ ملے گی میں اور لڑکوں کی طرح وقت ضائع نہیں کروں گا اس کا ہاتھ پکڑ کر اسی لمحے پوچھوں گا شادی کرو گی مجھ سے ؟؟"ولید سعدیہ دونوں یہ سن کر ہنسنے لگے ..........
"اگر اسے تم پسند نہ آئے تو ؟؟؟؟؟"سعدیہ نے اسے تصویر کا الٹ پہلو دکھایا تھا
"تو میں اس کے پیچھے پڑ جاؤں گا "کامران نے کہا تو ولید بول پڑا :"اس میں کون سی بڑی بات ہے میں بھی تو یہی کر رہا ہوں کوئی نئی بات بتاؤ "ولید نے آسماء کو ان کی طرف آتے ہوئے دیکھ لیا تھا اس لیے اسے سنانے کی غرض سے مسکراتے ہوئے بول کر اسماء کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ایسا مت کرنا ۔۔۔۔تمہاری جو بچی کچھی عزت ہو گی نہ اس لڑکی کی نظر میں وہ بھی گر جائے گی "اسماء نے کامران کو دیکھتے ہوئے ولید کی بات کا منہ توڑ جواب دیا تھا
"دیکھو یار میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ ابھی تک ملی نہیں ہے جب ملے گی تب کی تب دیکھیں گے "کامران نے بات ختم کر دی تھی اس سے پہلے ولید اور اسماء بحث کرنا شروع کریں
.......................
لہلہاتے ہوئے کھیت ہر طرف ہریالی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اور ڈوبتا ہوا سورج بہت حسین لگ رہا تھا شارق خوبصورت تصویریں بنا رہا تھا ۔۔۔اس نے ماہ نور کی لمحہ لمحہ کی تصویریں قید کر لی تھیں پھر بھی اس کا دل بھر نہیں رہا تھا۔۔۔۔۔بس نہیں چلتا تھا کہ اسے اپنے سامنے بیٹھا لے شارق محسوس کر پا رہا تھا کہ ماھنور خوش نہیں ہے جتنا اسے ہونا چاہیے تھا اِس شادی سے یہ بات اسے فکر مند کر رہی تھی اس نے یہی بات اپنی بھابھی کو فون پر بتائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔رومیسا یہ سن پریشان ہوئی تھی لیکن اس نے اپنی پریشانی شارق پر ظاہر نہیں ہونے دی۔۔۔۔۔انہوں نے شارق کو اس بات پر قائل کر لیا اپنی باتوں سے کے ماہنور بس گھبرا رہی ہے شادی سے۔۔۔۔۔۔۔جب سے رومیساء کی شادی ہوئی تھی رومیسا کے لبوں پر بس صبح شام ایک ہی نام رہتا تھا ۔۔۔۔۔۔وہ تھا ماہنور۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے رومیسا سے ماہنور کے بارے میں اتنا سننا تھا کہ اسے ماہ نور سے محبت ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے دل ہی دل پکا ارادہ کرلیا تھا کہ ماہنور ھی اس کی جیون ساتھی بنے گی ۔۔۔۔۔
.......................
سب صبح ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھ کر ناشتہ کر رہے تھے "شاہ کچھ کھاؤ نہ۔۔۔۔۔۔۔۔ آج کل کچھ کھاتے کیوں نہیں ہو؟؟؟؟"اسماء دو تین دنوں سے شاہنزیب کے کھانے پینے کو لے کر فکر مند ہو گئی تھی مانا کے ناراض تھی اپنے بھائی سے پر محبت ناراضگی پر غالب آ گئی تھی۔....
"راحیل کہا ہے کوئی اسے بلاکر کیوں نہیں لایا ؟؟؟"علی نے آتے ہی سوال کیا تھا
"وہ تو چلے گئے "ماہ نور نے علی کی بات کا جواب دیا تو شاہنزیب سمجھ گیا کہ وہ واپس لوٹ گیا ہے بڑے ابو کو منانے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کہاں چلا گیا ؟؟؟"علی نے استفسار کیا "وہ رات کو ان کے آفیس سے فون آیا تھا ان کے باس کا کسی ضروری کام سے انہیں واپس بلایا ہے " ماہ نور نے جو سب کو کہا تھا وہی بہانا علی کو بتا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کمال ہے یار۔۔۔۔۔۔ اس کا باس بھی نہ ۔۔۔۔۔۔۔بیچارہ پکنک بھی آرام سے انجوائے نہ کر سکا "علی بھائی بھی سب کی طرح راحیل کے یو اچانک چلے جانے پر اداس ہو رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
"آج موقع پاکر آسماء سے بات کر لیتا ہوں ۔۔۔۔۔ولید سے کیا ہوا وعدہ پورا کر کے یھاں چلا جاؤں گا "شاہنزیب نے اپنے دل میں پکا عزم کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِسی سوچ میں شاہنزیب نے پانی کے گلاس کو پکڑا تو اسی لمحے ماہنور نے بھی پکڑ لیا۔۔۔سب کو لگا اب مزیدار لڑائی دیکھنے کو ملنے والی ہے ۔۔۔۔۔۔پر ماہنور اور شاہنزیب دونوں نے ہی اپنا ہاتھ گلاس سے ہٹا لیا۔۔۔۔۔۔سب یہ دیکھ کر حیرت زدہ تھے ۔۔۔۔۔۔ماہنور اٹھ کر جاتی اس سے پہلے شاہنزیب اٹھ کر چلا گیا ۔۔۔۔
"اسماء مجھے تم سے بات کرنی ہے ؟؟"شاہنزیب خود اسماء کے کمرے میں آیا تھا۔۔۔۔
"اُو ۔۔۔مجھے لگا تھا کہ تم تو مجھے بھول ہی گئے ۔۔۔۔دیکھ کر اچھا لگا کہ دیر سے ہی صحیح تمہیں اپنی منگیتر کے علاوہ کوئی نظر تو آیا "اسماء اپنے بیڈ کی چادر ٹھیک کرتے ہوئے اسے دیکھ کھلا طنز کرنے لگی۔۔۔
"تمہارا حق بنتا ہے جتنا چاہے مجھے برا بھلا کہو "شاہنزیب نے اپنے دونوں ہاتھ فولٹ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
"تمہیں کیا لگتا ہے تم معافی مانگو گے اور سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔ہم جو ایک سال تک تمہاری فکر کرتے رہے تمہاری خیریت کی دعا کرتے رہے جاکر دیکھو ایک بار اپنے ماں باپ کے چہرے تو پتہ چلے تمہیں کس طرح کاٹے ہیں انہوں نے یہ شب روز تمہارے بغیر ۔۔۔۔تمہیں تو کسی کی پرواہ ہی نہیں تھی تمہارے خواب تمہاری خواہشات یہ اہم تھیں ۔۔۔۔ہم تھوڑی ۔۔۔تم تو واپس بھی صرف اپنی منگیتر کے لیے آئے ہو ہم میں سے کسی کی خاطر نہیں ۔۔۔تم جیسے انسان پر مجھے اپنا کوئی حق نہیں جتانا" آسماء کی آنکھیں نم ہو گئی تھی شکوہ کرتے ہوئے پر وہ اپنے آپ پر قابو کر رہی تھی کہ شاہنزیب کے سامنے نہ روئے ۔۔۔پر جب دل بھر آتا ہے تو کمبخت یہ آنکھیں سب سے پہلے بھر آتی ہیں ۔۔۔وہ نہ چاہتے ہوئے بھی رونے لگی تھی
"تم ٹھیک کہہ رہی ھو ۔۔۔۔۔میں بہت برا ہوں ۔۔۔تبھی تو یہ سب ہورہا ہے میرے ساتھ ۔۔۔میں اسی قابل ہوں "شاہنزیب تو پہلے ہی بہت غمزدہ اور افسردہ تھا اس کے شکوے سن خود کو ملامت کرنے لگا ۔۔۔اس کی آواز روہانسا تھی ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی رونا شروع کر دے گا ۔۔۔شاہنزیب کا خود کو یوں ملامت کرنا آسماء سے برداشت نہ ہو سکا ۔۔۔
"چپ ہو جاؤ اتنے بھی برے نہیں ہو تم بس تھوڑے سے ضدی اور بیوقوف ہو ۔۔۔۔پر تم جیسے بھی ہو , ہو تو میرے چھوٹے بھائی نہ اب یہ ملامت کرنا بند کرو خود کو "اسماء نے اپنے آنسو صاف کیے اور شاہنزیب کا ہاتھ پکڑ کر اسے بیڈ پر اپنے ساتھ بیٹھا لیا ۔۔۔اس کی آنکھیں بہت سُنی سُنی لگ رہی تھیں ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی رو کر آیا ہو ۔۔۔اس کا چہرہ بھی مرجھایا ہوا معلوم ہو رہا تھا ۔۔۔"اب کچھ بولو بھی یا ایسے ہی چپ چاپ بیٹھے رہو گے ؟؟"اسماء کو اس کی خاموشی ذرا بھی اچھی نہیں لگ رہی تھی ۔۔
"میں واقعی بہت برا ہوں ۔۔۔میں نے زندگی میں کبھی کوئی اچھا کام کیا ہی نہیں شاید تبھی آج خالی ہاتھ ہوں "شاہنزیب بس خود کو ملامت کئے جا رہا تھا ۔۔۔
ماہ نور نہاء کر واش روم سے نکلی تو دونوں کو ساتھ بیٹھا دیکھ واپس واش روم میں جا کر خاموش کھڑی ہو گیؔ تاکہ دونوں کی باتیں سن سکے ..."آخر ایسا کیا ہوا ہے جو شاہنزیب ایسی غمگین باتیں کر رہا ہے ۔۔کیوں خود کو ملامت کر رہا ہے اس نے تو اپنی زندگی اپنی بہن اور اس کے بچوں پر قربان کر دی تھی اور اپنی بہن پر ایک آنچ تک نہ آنے دی۔ُ۔ پھر وہ کیوں ایسی باتیں کر رہا ہے ؟؟"ماہ نور دل میں سوچنے لگی وہ الجھی تھی شاہنزیب کی باتیں سن ۔۔۔
"تم نے ولید کے رشتے کے لئے منع کیوں کیا ؟؟شاھنزیب کافی دیر باتیں کرنے کے بعد اسماء کو اصل موضوع پر لے آیا تھا ۔۔
"میں بڑے ابو سے بات کر چکی ہوں اور وہ راضی ہیں تو پھر دوبارہ وہی موضوع کیوں شروع کرنا "اسماء جھنجھلاتے ہوئے بات ٹال رہی تھی ۔۔۔
"میں تمہارا بھائی ہوں یار ۔۔۔پلیز مجھے بتاؤ میں تمہارے اور بڑے ابو کے درمیان ہونے والی باتوں کو نہیں جانتا "شاہنزیب کے اصرار پر آخر کار اسماء نے اسے بتا دیا کہ وہ شادی کیوں نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔
"پکا یہی بات ہے ؟؟؟" شاہنزیب نے کھڑے ہوتے ہوئے دوبارہ تصدیق کی تھی تو اس نے اثبات میں سر ہلادیا شانزیب کے جاتے ہی ماہنور واش روم سے باہر نکل آئی اور اسماء کے سامنے ایسی اداکاری کرنے لگی کے مانو اسے پتا ہی نہ ہو کہ شاہنزیب کمرے میں آیا بھی تھا ۔۔۔۔۔
لید حویلی کے بیچ صحن میں ٹیل لگا رہا تھا اس کا ذہن ابھی بھی شاہنزیب میں الجھا ہوا تھا کہ اسے شاہنزیب آتا ہوا نظر آیا ۔۔۔۔وہ آکر کھڑا ہی ہوا تھا "تم آسماء سے بات کر کے آ رہے ہو نا؟ ؟؟"ولید نے سوال کیا تھا ۔۔۔۔۔
"ہاں اس نے شادی سے انکار تمہاری وجہ سے نہیں کیا " شاہنزیب کے بتاتے ہی وہ چونکا تھا ۔۔۔"تو پھر کس لئے کیا تھا "ولید کے منہ سے بے ساختہ سوال نکلا ۔۔۔۔
"دیکھو ولید تم اس کے والد کے بارے میں سب کچھ جانتے ہو اور تمہارے گھر والے بھی ۔۔۔۔تم یہ بھی جانتے ہوجو کچھ تمھارے پاس ھے وہ اس کے پاس نہیں ہے "شاہنزیب ابھی بول ہی رہا تھا
"مطلب "ولید الجھ کر بیچ میں بول پڑا
"مطلب مکان گاڑی پیسہ عیش و عشرت کی زندگی بڑا نام وغیرہ "شاہنزیب نے اسے سمجھایا ۔۔
"پر مجھے ان سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا میں یہ سب جانتا ہوں اور ان سب کے باوجود اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں "ولید نے سنجیدگی سے کہا ۔۔
"میں نے بھی اس سے یہی کہا تھا پر وہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی تم سے کیا کسی سے بھی نہیں وہ پہلے خود کچھ بننا چاہتی ہے۔۔۔۔نام کماناچاہتی ہے اچھی نوکری اور خوبصورت گھر کی مالکن بننا چاہتی ہےاپنی والدہ کو ان کے نام کی چھت دینا چاہتی ہے اور جب تک وہ یہ سب حاصل نہیں کر لیتی وہ شادی کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی "شاہنزیب نے ولید کو اسماء کے انکار کی اصل وجوہات بیان کر دیں ۔۔۔
"پر یار اس کا بھائی ہے تو یہ سب کرنے کے لئے اس کو کیا ضرورت ہے "ولید منہ بسورتے ہوئےاحتجاجا کہہ رہا تھا ۔۔۔
"میں اب تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا تمہیں تو پتا بھی نہیں ہوگا جو کچھ اسماء نے بچپن سے سہا ہے تمہاری جیسی آئیڈیل لائف نہیں گزاری اس نے اپنے باپ کی وجہ سے اس نے زندگی بھر سر جھکا کر رکھا ہے پر اب وہ ایسا نہیں چاہتی ہے ۔۔۔۔وہ اب اپنےباپ کے نام سے نہیں اپنے نام سے پہچانے جانا چاہتی ہے یہ اس کی زندگی کا مقصد ہے اور میں کسی سے اس کی زندگی کا مقصد نہیں چھین سکتا شاید یہی وجہ تھی کہ بڑے ابو بھی اس کی بات مان گئے میں تمہاری جتنی مدد کرسکتا تھا کردی میرا وعدہ پورا ہوا اب میں چلتا ہوں "وہ یہ کہہ کر ولید کے کندھے پر تھپتھپاتے ہوئے چل دیا ۔۔۔۔۔ولید انہی سوچوں میں چلتا ہوا باہر گارڈن میں آیا تو اسے ماہنور چوکیدار سے بات کرتی ہوئی نظر آئی وہ اسے ڈانٹ رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ آج سے روزانہ حویلی کے مین دروازے پر تالا لگایا جائے گا جس کی چابی اس کے پاس رہے گی۔۔۔۔"ماہ نور اور شاہنزیب بھی خوب ہیں ۔۔۔۔ایک جانے کی تیاری کر رہا ہے اور ایک روکنے کی اب دیکھنا یہ ہے کہ جیت کس کی ہوتی ہے "ولید نے ہلکے سے خود ہی کلام کیا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بستر پر لیٹی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ شاہنزیب کو ہوا کیا ہے "کون "وہ سوچوں میں گم تھی کہ کمرے کا دروازہ بجا آسماء تو گہری نیند میں تھی ماہ نور نے دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔۔
"شاہنزیب" اس نے نام لیا تو ماہ نور نے فورا دروازہ کھول دیا ۔۔۔"مین گیٹ پر تالا تم نے لگوایا ہے ؟؟؟؟"شاہنزیب نے ماہ نور کو دیکھتے ہی سوال کیا تھا مانو سفید رنگ کا ڈھیلا ڈھالا کرتا اور سفید رنگ کی شلوار میں ملبوس تھی بال ھاف کیچر کیے ہوئے تھے اور دو تین آوارہ لٹیں اس کے چہرے پر بکھری ہوئی تھیں سفید رنگ میں وہ کوئی حور سی معلوم ہو رہی تھی ۔۔۔۔"ہاں "ماہ نور نے جواب دیا ۔۔۔۔"پر کیوں چابی دو لا کر "شاہنزیب نے چابی لانے کا حکم دیا تھا
"چابی پر کیوں؟؟؟ اتنی رات ہو رہی ہے تمہیں کہاں جانا ہے اتنی رات کو ؟؟"ماہ نور فکر مند انداز میں پوچھنے لگی ۔۔۔
"میں نے کہا چابی لا کر دو "شاہنزیب نے اس بار سختی سے کہا آسماء اٹھ نہ جائے اس لئے ماہ نور باہر نکل آئی کمرے سے " چلو" ماہ نور نے کہا تو شاہنزیب کو لگا کہ اس نے جہاں چابی رکھی ہے وہاں لے کر جا رہی ہے تاکہ چابی دے سکے اور کمرے کا دروازہ ماہ نور نے ہلکے سے بند کر دیا ۔۔۔۔
"تم آگے چلو مجھے تھوڑی پتا کہ چابی کہاں ہے "ماہ نور آنکھوں کے اشاروں سے شاہنزیب کو آگے چلنے کا اشارہ کر رہی تھی تو وہ سختی سے بولنے لگا ...اس کے کہتے ہی ماہ نور آگے آگے چلنے لگی وہ اسے گھما پھرا کر اسی کے کمرے کے آگے لے آئی تھی ۔۔۔۔۔"چابی کہاں ہے ؟؟؟"ماہ نور اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر جاکر آرام سے صوفے پر چڑھ کر بیٹھ گئ۔ ۔۔ شاہنزیب کو اس کی اس حرکت پر بہت غصہ آیا وہ اب اس سے سخت لہجے میں پوچھنے گا ۔۔۔۔۔شاہنزیب سفید رنگ کا ہائی نیک اور بلیک جنیز پہنے ہوئے تھا بال بھی بنے ہوئے نظر آرہے تھے چہرے کا چمکنا بتا رہا تھا کہ منہ ہاتھ دھویا ہے اس نے اتنے دنوں بعد ۔۔۔۔وہ پرفیوم بھی لگایا ہوا تھا ۔۔۔یہ دیکھ وہ سمجھ چکی تھی کہ کہیں جانے کی پوری تیاری ہے ۔۔۔۔
"شاہ مجھے نہیں بتاؤ گے کہ کہاں جا رہے ہو" وہ بہت محبت بھری نگاہوں سے تکتے ہوئے اس کے وجود کو پوچھ رہی تھی ۔۔
"مانو چابی کہاں ہے "وہ سخت لہجے میں پھر وہی رٹی رٹائی بات کر رہا تھا ۔۔۔۔
"شاہ مجھ سے ناراض ہو کوئی غلطی ہو گئی ہے مجھ سے" وہ ابھی بھی اسے امید بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے بول رہی تھی کہ شاہنزیب نہایت سرد لہجے میں "چابی دو "
"تم کوئی طوطے ھو کیا ؟؟؟جو ایک ہی بات رٹے جارہے ہو چابی دو چابی دو "ماہ نور اس کی نقل اتنے پیارے انداز میں اتار رہی تھی کہ وہ دو لمحوں کے لئے سب کچھ بھول بیٹھا اور اسے دیوانوں کی طرح دیکھنے لگا وہ سفید رنگ میں بہت حسین لگ رہی تھی ۔۔۔بلا خیز حسن اسے مزید دیوانہ بنا رہا تھا مگر دو لمحے بعد ہی اسے ساری حقیقت یاد آ گئ اور اسے یاد آگیا کہ وہ آج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے دور جا رہا ہے ۔۔۔۔
"تم میرے صبر کا اور امتحان مت لو میں نے کہا چابی دو دیر ہورہی ہے مجھے "اس نے سرد لہجے میں کہا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی صوفی سے ۔۔۔"کوئی ڈیٹ ویٹ مارنے جا رہے ہو کیا کسی گاؤں کی گوری کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ ہیں ۔۔۔۔ھممم۔ ۔۔بولو "وہ شوخی سے مسکراتے ہوئے اپنا کندھا اس کے کندھے سے ٹکراتے ہوئے چھیڑ رہی تھی ۔۔
"بس کر دو مانو مجھے دیر ہو رہی ہے سمجھ نہیں آتی تمہیں "اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا اور وقت بھی نکلے جا رہا تھا وہ اس پر غصے سے دھاڑا تھا مگر آج ماہ نور پر اس کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا تھا ۔۔۔۔
"یہی تو میں کہہ رہی ہوں بس کردو شاہ بس کر دو "ماہ نور کا لہجہ دھیما تھا مگر غصہ اس کا بھی آسمان سے باتیں کر رہا تھا ۔۔۔"کیا ،کیا ہے میں نے ؟؟؟قصور کیا ہے میرا جو مجھے اتنی بڑی سزا دے رہے ہو کیوں اپنے آپ کو مجھ سے دور کر رہے ہو ؟؟؟؟ہم دوست ہیں بھول گئے کیا ؟؟"ماہ نور کی آنکھیں آنسوں سے اور الفاظ جذبات و غصے سے لبریز تھے۔۔۔
"چابی دو ماہ نور ۔۔۔بند کرو یہ ڈرامہ " شاہنزیب ماہ نور سے نظریں چراتے ہوئے ایسے سخت الفاظ اپنے دل پر پتھر رکھ کر بولنے پر مجبور تھا ۔۔۔۔
"ڈرامہ تو تمہیں میرے جذبات ڈرامہ لگ رہے ہیں ؟؟؟"ماہ نور کو پہلے تو اپنی سماعتوں پر یقین نہ آیا کہ شاہنزیب اس سے اتنے سخت الفاظ بھی بول سکتا ہے ۔۔
"ہاں ڈرامہ ۔۔۔میں تمہیں بہت اچھی طرح جانتا ہوں مانو۔۔۔اس لئے بند کرو یہ رونا دھونا اور جاکر چابی لا کر دو "
شاہنزیب کو لگا کے وہ یہ الفاظ کہہ کر باآسانی یہاں سے چلا جائے گا ۔۔۔شاہنزیب کو گمان تھا کہ ماہ نور غصے میں آ کر اسے چابی پکڑا دے گی ۔۔۔
"تمہیں میرے یہ آنسو ڈرامہ لگ رہے ہیں تم واقعی بدل گئے ہو ۔۔۔اسماء ٹھیک رائے رکھتی ہے تمہارے بارے میں تم ایک نمبر کے خود غرض ہو تمہیں اپنے سوا کسی کی کوئی پروا نہیں ہے میں پاگل ہوں جو تمہارے خاطر ایک عرصے سے سکون سے سوئی نہیں تمہاری فکر کرتی رہی کس حالت میں ہو گے کیا کر رہے ہو گے کھانا کھایا ہوگا یا نہیں اس فکر میں خود کو گھلاتی رہی اور تمہیں یہ سب ڈرامہ لگ رہا ہے شاہنزیب افتخار تمہیں صرف اپنی ہی فکر ہے تم اپنی بہن کی خاطر گئے تھے اور واپس بھی اپنی غرض سے لوٹے اپنی منگیتر کی خاطر "وہ اتنے غصے میں تھی کہ آج وہ سارے شکوے کر ڈالے تھے جو دل میں چھپائے ہوئے تھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر روتے ہوئے شکوے کر رہی تھی ۔۔۔اب تو روتے روتے ہچکیاں بن گیںؔ تھیں اس کی ۔۔شاہنزیب خاموش کھڑا اس کے شکوے سن رہا تھا ۔۔۔
"سب ٹھیک کہتے ہیں بیوقوف ہو میں۔۔۔۔۔۔۔۔جو میں تمہیں مناتی رہی جبکہ غلطی تو ساری تمہاری تھی تم میری منگنی میں نہیں آئے ۔۔۔۔اپنی منگنی ٹوٹنے کی خبر سنی تو کیسے دوڑے چلے آئے۔۔۔۔ مجھ سے کہتے تھے کہ میں سعدیہ سے محبت نہیں کرتا مجھے اس میں کوئی انٹرسٹ نہیں پھر کیوں آئے اس کی خاطر ؟؟؟ کیوں شاہ؟؟ مجھے بھی اوروں کی صف میں لا کر کھڑا کر دیا تم نے۔۔۔ میں نے زندگی میں ہر بات تم سے شیر کی مگر تم ۔۔۔۔۔۔تم نے تو مجھے کبھی اپنا دوست تک نہیں سمجھا ۔۔۔کسی بھی رشتے یا دوستی کے لائق ہی نہیں ہو تم ۔۔۔تم صرف ایک خود غرض مطلبی انسان ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑے جھوٹے بھی ہو نفرت کرتی ہو میں تم سے ۔۔۔سنا تم نے ۔۔۔نفرت "ماہ نور روتے ہوئے زمین پر بیٹھ گئی تھی شاہنزیب تو پہلے ہی اپنے غموں سے چور چور تھا اب ماہ نور کا یو رونا اس سے دیکھا نہیں جا رہا تھا ۔۔۔
فرش برف کی طرح ٹھنڈا تھا جس کا احساس ماہ نور کو تو نہیں مگر شاہ نزیب کو بہت شدت سے محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔۔فرش کی ٹھنڈک اس کے نازک پاؤں میں درد نہ کردے سب سے پہلے یہ خیال دل کو ستایا تھا ۔۔۔وہ جانا چاہتا تھا پر ماہ نور کو اس طرح روتا بلکتا چھوڑ کر نہیں ۔۔۔
"اٹھو ۔۔۔۔اٹھو اوپر بیٹھو ۔۔۔رونا بند کرو ۔۔۔پانی لاتا ہوں تمہارے لیے "اس نے ماہ نور کو شانوں سے پکڑ کر بیٹھ پر بٹھایا تھا ماہ نور کا چہرہ رونے کے سبب لال ہو گیا تھا اور آنکھیں ابھی بھی موتی برسا رہی تھی "اچھا چپ کرو میں کہیں نہیں جا رہا ۔۔۔تمہارے پاس ہوں "شاہنزیب نے اسے اپنے ہاتھوں سے پانی پلاتے ہوئے کہا
"تمہیں جانا ہے چلے جاؤ مجھے تم سے کوئی مطلب نہیں چابی چاہیے نہ۔۔۔ تمہیں ابھی لا کر دیتی ہوں "وہ یہ کہتے ہوئے اٹھ کر جانے لگی "اور ہاں ۔۔۔تمہیں ایک بات بتانی تھی پر جب تمہیں میری ہر بات ڈرامہ لگتی ہے تو پھر تمہیں بتانے کا کوئی فائدہ نہیں میں تو اپنا دوست سمجھ کر تم سے مدد چاہتی تھی تم جیسے خود غرض انسان کی مجھے کوئی ضرورت نہیں تمہیں کیا فرق پڑتا ہے کہ میں خوش ہوں یا غمزدا۔۔۔ میں جیوں یا مروں " وہ کہہ کر تھوڑی دیر بعد واپس آئی اور چابی پکڑا کر چلی گئی ...ماہ نور کی ہر بات اس کے دل پر لگی تھی
"کیا میں واقعی خود غرض ہوں ؟؟؟کیا میں نے کبھی اپنے علاوہ کسی اور کے بارے میں نہیں سوچا ۔۔۔میں نے کبھی اس بات کی فکر نہیں کی کہ ماہ نور کیا چاہتی ہے وہ کس کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہے" یہ سوچتے ہوئے خود کو مزید ملامت کرنے لگا۔۔۔دل چور چور ہو گیا تھا ۔۔۔ماہنور کی باتوں نے اس کے غمگین دل کو اور بھی زخم لگا دیے تھے ماہ نور بھی پوری رات بیٹھ کر روتی رہی شاہنزیب کہ کہے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے اس کا ننھا سا دل چھلی کر دیا تھا اس ستم گر نے ۔۔۔۔۔۔
...........
صبح ناشتے کی ٹیبل پر وہ صرف اس لیے آ کر بیٹھی تاکہ پتہ چلے کہ وہ جا چکا ہے یا نہیں ذہن تو چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ وہ چلا گیا ہوگا پر دل نادان ابھی بھی امید رکھتا تھا کہ شاید نہ گیا ہو ۔۔۔۔
"شاہنزیب تو اپنے کمرے میں نہیں ہے ؟؟؟"اسماء نے آکر کہا تو ماہنور کا دل ٹوٹ گیا نا امیدی سی چھا گئی ۔۔۔۔۔
"ہاں وہ تو صحن میں ٹیل لگا رہا ہے میں نے کہا آکر ناشتہ کرلو تو کہہ رہا ہے بھوک نہیں ہے"کامران نے اسماء کی بات کا جواب دیا تو ماھنور کے کان کھڑے ہوگئے وہ تیزی سے اپنی کرسی سے اٹھ کر دوڑی۔۔۔۔"مانو ناشتہ تو کر لو "ریشم نے کہا مگر ماہنور تیز قدم بڑھاتی ہوئی اسے دیکھنے گئی تھی ۔۔۔صحن میں پہنچی تو واقعی وہ پلر سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔۔۔۔۔
شاہنزیب نے اسے مسکراتا ہوا دیکھ"میں اب اتنا بھی خود غرض نہیں ہوں "وہ نرم لہجے میں دھیمے سے بولا ۔۔ماہ نور نے اسے دیکھتے ہی سنجیدگی اختیار کر لی تھی ۔۔۔۔۔ پر اس سے قبل شاہنزیب اس کا مسکراتے ہوئے آنا اور اس کے چہرے پر جھلکتی خوشی کو پڑھ چکا تھا ۔۔۔
"اس کا فیصلہ میں کرونگی کہ تم کس حد تک خود غرض ہو "اس نے بے نیازی سے دونوں ہاتھ فولٹ کیے تھے ۔۔۔
"ٹھیک ہے "شاھنزیب نے اس کے چہرے پر سرسری سی نظر ڈالتے ہوئے کہا۔۔
"سچ بولنا سعدیہ سے محبت کرتے ہو ؟؟"ماہ نور نے سیدھے ہاتھ سے شاہنزیب کا کالر پکڑ کر برہمی سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال سوال کیا تھا شاہنزیب اس کا سوال سن چونکا تھا۔۔۔۔۔
"تمہیں اس سے کیا مطلب ؟؟"اس نے نظریں چراتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔
"یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے "ماہ نور ابھی بھی اس کا ایک ہاتھ سے کالر پکڑے ہوئے پوچھ رہی تھی پر جب اس کی طرف سے جواب خاموشی ملا :"بچپن سے تمہارے ساتھ رہی ہوں ہر بات جو میری زندگی میں ہوئی تمہیں اس کی خبر ہے پر مجھے تو آج تک یہ بھی نہیں پتا چلا کہ تمہاری زندگی میں میری کوئی حیثیت ہے یا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔سچ بولو محبت کرتے ہو سعدیہ سے؟؟؟"اس بار ماہ نور تھوڑا سا اور قریب آ کر بڑے جذباتی انداز میں پوچھ رہی تھی شاہنزیب کا جواب نہ دینا اسے بے قرار کر رہا تھا۔۔۔۔۔
"اگر بات تمہاری حیثیت کی ہے ۔۔۔وہ بھی میری زندگی میں ۔۔تو "یہ کہہ کر اس نے ماہنور کا الٹا ہاتھ پکڑ کر کہا "اس ہاتھ سے بھی میرا کالر پکڑو اور پوچھو نہیں۔۔۔۔ حکم کرو کہ میں جواب دوں تمہاری بات کا "شاہنزیب کے الفاظ آج اس کی محبت کو جھلکا رہے تھے ۔۔
"میں حکم کرتی ہوں۔۔۔۔۔ جواب دو شاہ کرتے ہو ؟؟؟ "ماہ نور نے اب دونوں ہاتھوں سے اس کی شرٹ کے دونوں سائیڈوں کے کالر پکڑ لئے تھے اور اس کے مزید قریب آکر بے صبری سے پوچھ رہی تھی ۔۔۔
"نہیں کرتا ۔۔۔۔۔کبھی نہیں کرتا تھا ۔۔۔۔۔اور نہ کبھی کروں گا " شاہنزیب نے بالکل صاف الفاظ میں اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے جواب دیا ۔۔ماہ نور کے چہرے پر ایک طرح کی آسودگی سی چھا گئی اس کا چہرہ کھل اٹھا تھا "تو پھر کل واقعی ڈیٹ مارنے جا رہے تھے کیا ؟؟؟ کسی گاؤں کی گوری کے ساتھ "ماہ نور ساری خفگی بھول چکی تھی اس کا کالر چھوڑ اسے شوخی سے آئبرو اچکاتے ہوئے سوال کر رہی تھی ۔۔۔
"گھر جا رہا تھا "اس نے جواب دیا
" پر کیوں ؟؟؟دو دن بعد سب ویسے بھی جا رہے ہیں دو دن اور رک جاؤ... "ماہنور نے کہا۔ ۔۔
"مجھے یہاں سکون نہیں ملتا" شاہنزیب نے دل کا حال آسان لفظوں میں بیان کر دیا تھا ۔۔
"ایک سوال اور پوچھوں جواب دو گے " جس کے جواب میں شاہنزیب نے اثبات میں سر ہلا دیا "تم واپس کیوں آئے اگر تم سعدیہ سے محبت نہیں کرتے ؟؟"ماہ نور کے ذہن کو ابھی بھی یہ بات پریشان کر رہی تھی
" مانو اور شاہ دونوں چلو بھابھی بلا رہی ہیں "ریشم آئی تھی دونوں کو بلانے ۔۔.شاہنزیب جواب دینا نہیں چاہتا تھا اس لیے فوراً ریشم کے بلانے پر اس کے پیچھے چل دیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب بائیک لیے تیار کھڑے تھے ۔۔بائیک ریس کا آئیڈیا کامران کا تھا ۔۔سب لڑکوں نے بلیک جیکٹ اور بلیک پینٹ پہنی ہوئی تھی سب کے سروں پر ہیلمٹ تھا ۔۔۔لڑکیاں آئی روڈ پر تو سب پریشان ہوگیںؔ ۔۔سب لڑکے بالکل ایک جیسے لگ رہے تھے پہچان پانا مشکل تھا کہ کون کون ہے ۔۔"یہ سب تو بالکل ایک جیسے لگ رہے ہیں ان میں علی کو کیسے پہچانوں "بھابھی پریشان ہوتے ہوئے بولیں ۔۔
"کہیں میں ولید کے پیچھے جا کر نہ بیٹھ جاؤں "اسماء دل ہی دل فکرمند ہوئی تھی ۔۔بھابھی نے کہا بھی کہ ہیلمٹ اتارو تاکہ ہم دیکھ سکیں پر کوئی لڑکا اس کے لیے راضی نہ ہوا کیونکہ لڑکوں میں ڈیسائیڈ ہوا تھا کہ کوئی اپنی پہچان نہیں بتائے گا اور یہ فیصلہ صرف شہزاد کے لئے کیا گیا تھا تاکہ صباء اور اسے تھوڑا وقت ساتھ گزارنے کا موقع مل سکے
"چلیں صباء باجی میں بتاتی ہوں آپ کس کے ساتھ بیٹھیں "ماہ نور نے مسکراتے ہوئے صبح کا ہاتھ پکڑا اور اسے لا کر تیسرے نمبر کے بائیکر کے پیچھے بیٹھا دیا ۔۔صباء بیٹھ تو گئی تھی پر وہ نروس تھی ماہنور کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ کچھ نہ کچھ تو گڑبڑ ہے ۔۔۔سعدیہ سب سے پہلے والے بائیکر کے ساتھ بیٹھ گئی ۔۔۔ماہ نور صباء کو بیٹھا کر جانے لگی تھی کہ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا وہ مسکراتے ہوئے چوتھے بائیکر کے پیچھے بیٹھ گئی ۔۔۔سب لڑکیاں اپنی اپنی مرضی سے بیٹھ گئیں
"صاحب اسٹارٹ کروں ؟؟"چوکیدار کو اس گیم کا انچارج بنایا گیا تھا اس نے پوچھا تو پہلے بائیکر نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔
"مضبوطی سے پکڑ لو مجھے آج اس گیم میں ہی سہی پر چنا تم نے مجھے ہی ہے "ولید نے آسماء کی طرف منہ کر ہیلمٹ کا شیشہ اوپر کرتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا ۔۔"تم آف اللہ "اسماء نے اسے دیکھ منہ بسورتے ہوئے کہا تو بھی وہ جوابا مسکرانے لگا ۔۔۔
"میرے آگے کون بیٹھا ہے ؟؟"سعدیہ نے بائیکر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔"گیم کا ونر"کامران نے خود اعتمادی سے جواب دیا ۔۔۔"کامران ....مجھے لگا تھا شاہنزیب ہے "سعدیہ تھوڑا اداس ہو گئی تھی ۔۔۔
"شاہنزیب یاد ہے نا کیا کرنا ہے ؟؟"ماہ نور نے ہلکے سے اپنے آگے والے بائیکر سے کہا ۔۔"تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں ہوں کوئی اور بھی تو ہو سکتا تھا "شاہنزیب نے ماہ نور کو دیکھتے ہوئے حیرت زدہ انداز میں پوچھا ۔۔۔"کہا تو تھا میں پہچان جاؤں گی "ماہ نور نے پیاری سی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے جواب دیا ۔۔"پر کیسے ؟؟؟"شاہنزیب تجسس سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔سوال کے جواب میں ماہ نور دل پر ہاتھ رکھ فقط مسکرا دی۔۔۔
چوکیدار نے ہوا میں فائر کی اور ریس اسٹارٹ ہو گئی ۔۔۔علی کے پیچھے ریشم بیٹھی تھی شارق کے پیچھے بھابھی ثانیہ کے ساتھ کوئی نہیں تھا اس لئے وہ چوکیدار کے ساتھ کھڑی ہوگی وہ خود بھی اس میں حصہ نہیں لینا چاہتی تھی کیونکہ اس کے گیم کا پارٹنر تو تھا ہی نہیں ۔۔۔
"اچھی لگ رہی ہو آج بہت "شہزاد نے ریس میں حصہ ضرور لیا تھا پر صرف اس لئے تاکہ صباء کے ساتھ تھوڑا وقت گزار سکے اس نے کہا تو صباء نے اس کی آواز سنتے ہی اس کے کندھے سے اپنا ہاتھ ہٹا لیا "ہاتھ کیوں ہٹا لیا کوئی نہیں دیکھ رہا ہمیں اور نہ ہی کسی کو پتا ہے کہ ہم ساتھ ہیں ہاتھ رکھ لیں "شہزاد مسکراتے ہوئے بول رہا تھا صباء کے گال گلابی ہو گئے تھے مارے شرم کے اس نے شرماتے ہوئے واپس کندھے پہ ہاتھ رکھ لیا ۔۔"میں نے ماہ نور سے کہا تھا کہ وہ ایسا کچھ کرے کہ میں آپ کے ساتھ تھوڑا وقت گزار سکوں اس نے جو یہ آئیڈیا دیا ہیلمٹ والا اس پر سلام پیش کرنے کا دل کرتا ہے "شہزاد دل سے ماہ نور کو دعائیں دے رہا تھا اس کے ہیلمٹ والے آئیڈے پر ۔۔۔
"شاہ جلدی گاڑی موڑو کہیں کوئی آ نہ جائے "ماہ نور نے شاہنزیب سے فکر مند ہوتے ہوئے کہا ۔۔
"رک جاؤ ابھی ایک بائیک پیچھے ہے اسے آگے جانے دو پھر موڑوں گا "شاہنزیب نے جواب دیا ۔۔
"ضرورت کیا تھی اتنی تیز بائیک چلانے کی آرام آرام سے چلاتے "ماہ نور ٹوکتے ہوئے بولی ۔۔
"گھر والے اندھے نہیں ہیں ہر کام پلینگ سے کرنا پڑتا ہے پر یہ بات تم نہیں سمجھو گی "وہ سرد لہجے میں بولا تو ماہنور چپ ہو کر بیٹھ گئی ۔۔جیسے ہی شاہنزیب نے دیکھا کہ آخری بائیکر بھی اس سے آگے نکل گیا ہے اس نے گاڑی گھما لی اور مزار کی جانب کر لی بہت تیز گاڑی چلا رہا تھا دوسرے راستے سے ماہ نور کو مزا لے جانے کے لیے ۔۔۔ راستے میں آنے والی جم دور سے اندھیرے کے سبب اسے نظر ہی نہیں آئی ۔۔۔نظر تو تب پڑی جب بالکل قریب پہنچ گیا اس نے فورا بریک مارا تھا ۔۔۔بریک اتنی زوردار لگا تھا کہ ماہ نور پیچھے سے آ کر اس سے لپٹ گئی تھی ۔۔۔اس نے دونوں ہاتھوں سے کس کے شاہنزیب کو پکڑ لیا تھا ۔۔۔ماہ نور شاہنزیب کے اتنے قریب آنے پر نروس ہو گئی تھی اس کی یہ نزدیکی شاہنزیب کے سوئے ہوئے جذبات کو بھی ابھار رہی تھی"ٹھیک ہو؟؟"شاہنزیب نے پوچھا تھا تو اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس سے دور ہٹ گی ۔۔۔اس کا دل اس کے قابو میں نہ تھا سے زور زور سے دھڑک رہا تھا وہ شاہنزیب سے شرما رہی تھی شاہنزیب نے گاڑی اسٹارٹ کرنا چاہی پر گاڑی اسٹارٹ ہی نہیں ہوئی ۔۔"اترو" اس نے کہا ۔۔
"کیوں کیا ہوا ؟؟"ماہ نور نے استفسار کیا ۔۔
"پتا نہیں یار چل نہیں رہی اُو۔۔۔نو"شاہنزیب نے کہا تو ماہ نور فکر مند ہو کر اسے دیکھنے لگی ۔۔۔"گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا ہے" شاہنزیب نے پریشان ہوتے ہوئے کہا تو وہ ہنسنے لگی :"اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے ؟؟"شاہنزیب نے اسے ہنستا ہوا دیکھا تو الجھ کر پوچھنے لگا ۔۔۔۔۔
"ہیلمٹ توا تارو شاہ تمہارا چہرہ دیکھنا چاہتی ہوں میں تمہاری ناک کا تصور بنا رہی ہوں کیسے لال ہو رہی ہوگی اس وقت مارے غصے کہ "ماہ نور ہنستے ہوئے کہہ رہی تھی اس نے ہیلمٹ اتار کر ماہ نور کو ھی پکڑا دیا ۔۔۔
"اب یہاں تو کوئی دور دور تک پنچر بنانے والا بھی نہیں ملے گا کیا کریں "وہ ادھر ادھر دیکھ پریشان ہوتے ہوئے بول رہا تھا
"پیدل چلتے ہیں یہاں کھڑے رہنے سے تو کچھ نہیں ہوگا نا" وہ کہہ کر چلنے کا اشارہ کرنے لگی ۔۔۔
"کہہ تو ٹھیک رہی ہو یھاں کھڑے رہنے سے تو کچھ نہیں ہوگا چلو گھر چلتے ہیں "وہ کہہ کر بائیک کو موڑنے لگا۔۔۔۔
"جی نہیں ہم مزار جائیں گے گھر نہیں "ماہنور بھرم سے کہنے لگی دونوں بہت دیر تک بحث کرتے رہے "ٹھیک ہے تم جاؤ گھر میں اکیلے جا رہی ہوں مزار" کہہ کر اکیلے ہی چل دی
"تم اتنی ضدی کیوں ہو "وہ جھنجلاہٹ سے کہہ رہا تھا اسے اکیلے جاتا دیکھ "مانو ایک بار دماغ سے کام لو ہم کل آ جائیں گے ابھی بائیک کا ٹائر پنچر ہے کتنی دور پیدل چل کر اس سنسان جنگل میں جانا پڑے گا سمجھا کرو سب گھر والے بھی فکر کریں گے یار سب کو پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں غائب ہیں اس بات کو سمجھتی کیوں نہیں ہو تم "وہ رک نہیں رہی تھی تو شاہنزیب بھی مجبورا پیدل چلتا ہوا اس کے پیچھے جا رہا تھا بائیک کو اپنے ساتھ ساتھ گھسیٹتے ہوئے ۔۔۔
"ڈر لگ رہا ہے مجھے پر شاہنزیب کو بتاؤں گی تو اور چڑھائی کر ڈالے گا مجھ پر "ماہ نور کو سنسان جنگل سے خوف آنے لگا تھا وہ فوراً بھاگتی ہوئی واپس شاہنزیب کے پاس آکر کھڑی ہو گئی "ڈر لگ رہا ہے نہ تمہیں ؟؟؟۔۔۔۔"ماہ نور شاہنزیب کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بڑے پیار سے پوچھنے لگی ۔۔۔"مجھے ؟؟؟"شاہنزیب اس کی جانب حیرت سے دیکھتے ہوئے ۔۔۔
مجھے پتا ہے۔۔۔۔تمہیں ڈر لگ رہا ہے ڈرو مت میں تمہارے ساتھ ہوں "ماہ نور نے بڑے بھرم سے شاہنزیب سے کہا ۔۔۔جس کے جواب میں اس نے اپنی ہنسی کو بمشکل روکا تھا اور اثبات میں سر ہلا دیا وہ جانتا تھا کہ ماہنور ڈر رہی ہے اپنی بات نیچے نہیں کرنا چاہتی اسی لئے بہادر بننے کی اداکاری کر رہی ہے اور وہ اس کا بھرم توڑنا نہیں چاہتا تھا اس لیے کچھ نہیں کہا ۔۔۔بس خاموشی سے قدم سے قدم ملا کر اس کے چلتا رہا ۔۔۔"شاہنزیب یہاں اگر بھوت اور چڑیل ہوئی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ہم کیا کریں گے؟؟" ماہ نور خوفزدہ ہوتی جارہی تھی جنگل سے طرح طرح کے جانوروں کی آوازیں آتی سن۔۔۔ جو اس کے خوف میں مزید اضافہ کر رہی تھیں اب وہ شاہنزیب کے بالکل قریب آگئی تھی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگی تھی ادھر ادھر خوفزدہ نگاہوں سے تکتے ہوئے سنسان جنگل کو ۔۔۔
"بھوتوں کا تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا البتہ چڑیلوں سے کافی اچھی جان پہچان ہے میری" اس نے اتنی سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا کہ وہ حیرت سے تکنے لگی" ان میں سے ایک تو میرے ساتھ ہی ھے" وہ کہہ کر مسکرایا تو ماہنور اسے جوابا گھورنے لگی ۔۔۔شاہنزیب مسکراتا ہوا بہت حسین لگ رہا تھا۔۔۔ماہ نور اسے ایک دو لمحوں کے لئے تو دیوانوں کی طرح دیکھنے لگی ۔۔۔"کیا؟؟؟"وہ انجان نگاہوں سے ۔۔۔
"کچھ نہیں "ماہ نور نے کہتے ہوئے فورا اپنی نظریں نیچے کی تھیں۔۔۔ چلتے چلتے دونوں تھک چکے تھے اور منزل تھی کہ نظر ہی نہیں آ رہی تھی مجھے تمہیں ایک بات بتانی ہے۔۔۔ سمجھ نہیں آرہا کہاں سے شروع کروں ۔۔۔۔۔۔پر بتانا بھی بہت ضروری ہے ...تمہارے جانے کے بعد ایک دن راحیل پاجی ۔۔"ماہ نور نے اسے پریشانی بتانا شروع ہی کی تھی اپنی۔۔۔
" تم مزار پر مجھے کیوں لائی ہو
۔۔۔۔ہم سب گھر والوں کے ساتھ بھی تو آ سکتے تھے واپسی پر اتنے سوالوں کے جوابات دینے پڑیں گے "شاہنزیب نےایک نئی بات شروع کر دی تھی وہ ماہ نور کی بات سننا ہی نہیں چاہتا تھا ۔۔۔
"شاہ میں تم سے اتنی ضروری بات کر رہی ہوں تم سن بھی رہے ہو؟؟ "جب شاہنزیب نے اس کے بیچ میں بات کاٹ کر نہیں بات شروع کی تو وہ اسے ٹوکتے ہوئے واپس پرانے موضوع پر لے ائی۔۔۔"شاہ ایک دن راحیل پاجی میرے کمرے میں آئے اس وقت میں ڈائجسٹ پڑھ رہی تھی شارق کا رشتہ آیا ہوا تھا اور میں نےصاف الفاظ میں منع کر دیا تھا ۔۔۔"
"لو آ گیا مزار ...شکر ہے خدا کا۔۔۔ چلتے چلتے پاؤں چور چور ہو گئے ہیں میرے" وہ بات سننا ہی نہیں چاہتا تھا اس لیۓ مزار کو سامنے دیکھ بہت خوش ہو کر بولا تھا
"میں تم سے بہت ضروری بات کر رہی ہوں "ماہ نور کو محسوس ہو چکا تھا کہ وہ سننا ہی نہیں چاھ رھا اس کی بات۔ ۔۔
"پہلے تم مزار پر جا کر دعا مانگو جس کے لئے تو مجھے اتنی دور لائی ہو۔۔۔۔۔ میں کونسا کہیں بھاگے جا رہا ہوں یہ بات مجھے بعد میں بتا دینا" وہ بائیک کو سائٹ میں کھڑا کر دیتا ہے ۔۔۔ماہ نور اس کی بات پر اثبات میں سر ہلانے لگتی ہے۔۔۔۔۔
"یا خدا ! اتنی ساری سیڑھیاں چڑھنا پڑیں گی ہمیں" ماہ نور نے سیڑھیاں دیکھیں تو بے ساختہ بول پڑی مزار کافی اونچائی پر تھا پتھر سے بنی اونچی نیچی سیڑھیاں ساٹھ ستر تو ہوگئیں یہ دیکھنے سے اندازہ ہو رہا تھا ۔۔۔۔
"میں تو اس دن اتنی ساری سیڑھیاں یو ہی چڑھ گیا تھا اس دن تو مجھے کسی تکلیف یا تھکن کا احساس ہی نہیں ہوا"شاہنزیب نے سیڑھیاں دیکھی تو سوچنے لگا ۔۔۔۔۔"چلیں "وہ کہتے ہوئے سیڑھی پر اپنا قدم رکھنے ہی والا تھا "شاہ روکو" ماہ نور نے اسے روکا
"کیا چلنا نہیں ہے؟؟؟" اس کے روکنے پر سوالیہ نظروں سے اسے تک رہا تھا ۔۔۔۔
"چلنا تو ہے۔۔۔ مگر ننگے پاؤں ۔۔۔جوتے پہن کر نہیں "ماہ نور نے کہتے ہوئے اپنی سینڈل اتار دی تھی ۔۔
"پاگل ہو گئی ہو کیا ان پتھروں پر وہ بھی ننگے پاؤں ۔۔۔۔۔چھالے ہو جائیں گے پاؤں میں ۔۔۔چلو واپس سینڈل پہنو " شاہنزیب نے اسے ننگے پاؤں دیکھ فکر مند لہجے میں کہا..۔
"مزار پر جوتے یا سینڈل پہن کر نہیں جاتے بڑی امی میں نے کہا تھا یہاں کے بہت آداب ہیں اور کوئی بھی بے ادبی نہیں ہونی چاہیے" وہ یہ کہہ کر دوپٹہ سر پر تمیز سے اوڑھ کر سیڑھیاں چڑھنا شروع ہوگئ...اپنے جوتے اتار شاہنزیب بھی سیڑھیاں چڑھنا شروع ہوا ۔۔۔دونوں کافی دور سے پیدل چلتے ہوئے آ رہے تھے اس لئے دونوں ہی کے لیے سیڑھیاں چڑھنا پھاڑ چڑھنے کے مترادف تھا ۔۔۔شاہنزیب سے برداشت نہیں ہو رہا تھا ماہ نور کے خوبصورت و نازک پاؤں کا۔۔۔ ان سیڑھیوں پر ننگے پاؤں چلنا ۔۔۔۔۔۔
"یہ سب کرنا ضروری ہے کیا چلو واپس چلتے ہیں " بہت مشکل سے دونوں نے آدھی سیڑھیاں چڑھی تھی دونوں تھکن سے چور چور ہو گئے تھے
" اللہ" ماہ نور نے اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ زور سے کہا ۔۔۔
"دعا تو کہیں سے بھی مانگی جا سکتی ہے ۔۔۔پھر اتنی تکلیف کیوں اٹھا رہی ہو۔۔۔ یار تمہیں ننگے پاؤں چلنے کی عادت نہیں ہے چھوڑو یہ سب واپس چلو "شاہنزیب نے اسے تکلیف میں دیکھا تو تڑپ اٹھا تھا ۔۔۔
"صرف آدھی تو رہ گئی ہیں ۔۔۔۔میں اتنی دور آ کر واپس نہیں جانا چاہتی ہوں "وہ یہ کہہ کر ایک لمبی سانس لینے لگی اور پھر سے سیڑھیاں چڑھنا شروع کر دیں ۔۔۔۔۔
"وہ تو آرام سے سو رہا ہوگا اور یہاں ماہ نور اس کی خاطر اتنی تکلیف برداشت کر رہی ہے ۔۔۔۔حد ہے"شاہنزیب دل ہی دل کڑ رھا تھا راحیل سے۔۔۔
"آہ "ماہ نور زور سے چیخی۔۔۔ وہ مزار کے صحن میں بس پہنچنے ہی والے تھے کہ ماہ نور کے پاؤں میں کانچ کا ٹکڑا گھس گیا اس کی تکلیف میں شاہنزیب اس سے بھی زیادہ تڑپ اٹھا "بیٹھو ۔۔۔ میں دیکھتا ہوں" اس نے ماہ نور کو سیڑھیوں پر بٹھایا ۔۔۔ اس کے پاؤں سے کانچ کا ٹکڑا نکالا۔۔۔ تکلیف و کرب کے سبب اس کے منہ سے "آہ " نکلی ۔۔۔۔اس کے پاؤں سنگ مرمر سے تراشے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔۔۔ ان حسین پاؤں سے خون نکلنے لگا تھا ۔۔۔"اب میں تمہیں ایک قدم بھی نہیں چلنے دوں گا "شاہنزیب اسے تکلیف میں مبتلا دیکھ پریشان ہو کر گویا ہوا ۔۔۔
"اوہو بس دو تین سیڑھیاں تو بچی ہیں ۔۔۔میں یہاں بہت بڑی مراد لے کر آئی ہوں میں اتنی سی تکلیف سے گھبرا کر واپس نہیں جاؤں گی "وہ پرعزم لہجے سے کہہ کر کھڑی ہو گئی
"پاگل مت بنو "تکلیف میں ماہ نور تھی تڑپ وہ دیوانہ رہا تھا ۔۔۔شاہنزیب کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنی پلکیں اس کی راہ میں بچھا دے۔۔۔ ماہ نور کا تکلیف برداشت کرکے اس مزار پر آنا شاہنزیب کے دل پر بڑا گہرا اثر کر گیا تھا ۔۔۔شاہنزیب ماہ نور دونوں وہیں کھڑے تھے جہاں اس دن وہ آکر روتے روتے گر گیا تھا ۔۔۔۔اس دن شاہنزیب کے آنسو اس زمین نے پیے تھے آج وہ ماہ نور کے پاؤں سے نکلنے والے خون کو جذب کر رہی تھی ....."جاؤ مانگو دعا۔۔۔ جو مانگنے آئی ہو " شاہنزیب باہر رک ماہ نور سے کہنے لگا ۔۔۔
"یہاں دیا جلانا پڑتا ہے "ماہ نور نے اسے پریشان لہجے میں بتایا ان دونوں کے علاوہ کوئی نظر نہیں آرہا تھا مزار کے اندر کا حصہ بہت صاف ستھرا تھا اس بات پر شاہنزیب تھوڑا حیران ہوا ۔۔۔
"اب اس سنسان جگہ پر دیا کہاں سے ڈھونڈوں "وہ بے رخی سے بولا ۔۔۔ادھر ادھر دیکھتے ہوئے۔۔۔
"اچھا رکو یہاں ۔۔۔میں دیکھتا ہوں "وہ یہ کہہ کر چلتا ہوا صحن میں آ کر دیکھنے لگا۔۔۔کہیں اسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا "مانو بھی نا پہلے بتا دیتی ۔۔۔تو میں گھر ہی سے لے آتا ۔۔۔اب کہاں سے لاؤں " وہ اسی پریشانی میں تھا ۔۔۔
" یہ لو "پیچھے سے کسی شخص کی مدھم سی آواز سنائی دی ۔۔شاہنزیب پیچھے مڑا تو وہی بوڑھے شخص سامنے کھڑے تھے جنہوں نے اس دن شاہنزیب کو سنبھالا تھا ۔۔۔
"تھینکس "اس نے جھٹ سے دونوں ہاتھوں سے دیے لیے ۔۔۔ان کا شکریہ ادا کر اندر چلا آیا ۔۔
"ارے واہ تم لے آئے "ماہ نور بہت خوش ہو کر کہنے لگی ۔۔۔شاہنزیب کے ہاتھ سے دیا لیتے ہوئے اسے بتایا کہ یہاں دیا جلا کر دعا مانگی جاتی ہے ۔۔۔اس نے اصرار کیا کہ شاہنزیب بھی دعا مانگ لے لیکن اس نے صاف منع کر دیا ۔۔"تم واقعی کوئی دعا نہیں مانگنا چاہتے ؟؟؟"وہ حیرت سے پوچھ رہی تھی تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا اور وھیں تھوڑا سه دور جا کر جالیوں کے پاس کھڑا ہو گیا تاکہ ماہ نور جس طرح چاہے دعا مانگ سکے ۔۔۔اس کی موجودگی ماہنور کو پریشان نہ کرے وہ دور تھی پر صاف نظر آرہی تھی وہ رو رہی تھی اس کے آنسو زمین پر موتی بن کر گر رہے تھے ۔۔۔
"تم نے کچھ نہیں مانگنا؟؟؟" وہی بوڑھے شخص نہ جانیں کہاں سے آ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ بڑے پیار سے پوچھنے لگے ۔۔۔
"ہم دونوں میں سے ایک کی دعا قبول ہوسکتی ہے یا تو اس کی یا میری ۔۔۔۔اگر میری محبت خود غرض ہوتی جیسا کہ وہ سمجھتی ہے تو ضرور مانگتا اسے۔۔۔۔ پر میری محبت صرف اس کی خوشیاں چاہتی ہے۔۔۔اُس سے میں کیا کہوں ۔۔۔ وہی میرا سکون ۔۔۔ وہی میری عاشقی ۔۔۔وہی میری زندگی ۔۔۔پر ستم نہ جانے کس نے ڈھایا ہے کہ جتنا میں نے اُسے چاہا وہ بھی اُتنی ہی شدت سے کسی اور کو چاھ رہی ہے " شاہنزیب کا ایک ایک لفظ جذبات کی صداقت سے بھرا تھا وہ بوڑھے شخص یہ سن کر مسکرانے لگے۔۔۔
اس دن تو وہ اِس حالت میں نہ تھا کہ انھیں دیکھے پر آج وہ انہیں حیرت سے دیکھ رہا تھا وہ سفید رنگ کے کرتے شلوار میں ملبوس تھے داڑھی بھی پوری سفید تھی سر پر سفید رنگ کی ٹوپی۔۔۔روشن چمکتا ہوا چہرہ دراز قد ۔۔۔چوڑی پیشانی اور اس پر نماز کی پہچان کالے رنگ کا نشان جس پر نور برس رہا تھا ۔۔۔رنگ سرخ و سفید تھا ۔۔۔"آپ اتنے سنسان جنگل میں اس مزار پر کیسے رہتے ہیں؟؟ یہاں تو دور دور تک مجھے کوئی انسان نظر نہیں آتا"شاہنزیب حیرت سے سوال کر رہا تھا ۔۔
"تمہیں کس نے کہا میں یہاں اکیلے رہتا ہوں میرا خدا میرے ساتھ ہے اور پھر تم جیسے بھی یہاں آتے رہتے ہیں" وہ مسکراتے ہوئے جواب دے رہے تھے ان کے لب و لہجے میں شیرنی جیسی میٹھاس تھی ۔۔۔
"مزار کے اندر کا حصہ اتنا صاف ستھرا اور باہر کا اتنا ہی گندا کیوں ؟؟ آپ برا مت مانیے گا مگر آپ سیڑھیوں کی لگتا ہے صفائی نہیں کرتے ۔۔۔۔سیڑھیوں پر نہ صرف گندگی ہے بلکہ دھول مٹی کے ساتھ ساتھ کانچ کے ٹکڑے بکھرے پڑیں ہیں اوپر سے آنا بھی ننگے پاؤں پڑتا ہے" شاہنزیب نے شکایت کی تو جوابا مسکراء کر: "یہ دھول مٹی پتھر کنکر کانچ کے ٹکڑے یہ میں نے نہیں بکھیرے ۔۔۔یہ تو شروع سے ہی عاشق کی راہ میں رہے ہیں اب جب عشق کا مزہ چکا ہے تو یہ سب تو بہت معمولی سی چیزیں ہیں اُس کے آگے یاد رکھنا
"عشق نے ہمیشہ اسی کی جان لی ہے جس نے اسے جانا ہے"وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہے تھے ان کی باتوں میں ایک الگ طرح کی کشش تھی جو شاہنزیب کو بہت متاثر کر گئی تھی وہ کم گو تھے مگر جو بات کہہ رہے تھے ان کا اثر دل پر ہو رہا تھا ۔۔۔
"ٹھیک کہا آپ نے میں تو یہاں سے دور جانے کی سوچ رہا تھا مگر جب ماہ نور کے پاؤں میں وہ کانچ کا ٹکڑا گھسا تو مجھے احساس ہوا کہ میں نے بھی اس کی راہ میں ایسے ہی کانچ کے ٹکڑے بچھا دیے ہیں اور انہیں بغیر ہٹائے جا رہا ہوں بہت تکلیف میں ھے وہ .... آج اسےتکلیف میں دیکھا تو احساس ہوا ۔۔"اس نے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔ اس کا رنج اس کے چہرے پر عیا تھا اس کی آنکھوں میں نمی تھی ۔۔۔
"خدا نیت دیکھتا ہے اور تمہاری نیت صاف ہے "وہ بوڑھے شخص یہ کہہ کر جانے لگے ۔۔
"خدا مجھے معاف کردے گا نا ؟؟ میں نے صرف ماہ نور کی نہیں راحیل ثانیہ ان دونوں کی زندگیوں کو بھی خراب کیا ہے "وہ شرم ساری سے کہنے لگا
"سچے دل کی توبہ ضرور قبول ہوتی ہے اور ہاں تم بہت خوش نصیب ہو تم تڑپے بعد میں ہو۔۔۔۔ تمہیں نوازا پہلے گیا ہے "وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے تو شاہنزیب طنزیہ لہجے میں "خوش نصیب" ۔۔۔۔" میں"بے یقینی سے کہتا ہوا مسکرایا ۔۔۔
"ہاں بہت خوش نصیب۔۔۔ یہاں دوبارہ ضرور آنا شاہنزیب" وہ مسکراتے ہوئے بولے ۔۔۔۔ان کے منہ سے اپنا نام سن کر وہ چونکا ۔۔۔
"اپ کو میرا نام کیسے پتا؟؟"شاہنزیب ائبرواچکاۓ تجسس سے پوچھنے لگا۔ ۔
"شاہنزیب کس سے بات کرھے ھو؟؟؟"ماہنور کی اواز پیچھے سے آئی تو اس کی طرف مڑ کر ان بزرگ کی جانب اشارہ کرنے لگا "اِن سے "وہ ماہ نور کی جانب متوجہ ہو کر کہنے لگا ۔۔۔۔
"وہاں تو کوئی نہیں ہے" ماہ نور اس کے آگے دیکھتے ہوئے متلاشی نظر سے بولی۔۔۔
"یہ وہ شخص ہیں جن سے میں دیے لایا تھا ۔۔۔یہ تو رھے"وہ کہتا ہوا پلٹا تو وہاں کوئی موجود نہ تھا ۔۔۔
"پر یہاں تو ہم دونوں کے علاوہ کوئی ہے ہی نہیں پھر کس شخص کے بارے بات کر رہے ہو؟؟؟" ماہنور حیرت سے ۔۔
"میں سچ کہہ رہا ہوں یہاں ایک بوڑھے سے بزرگ تھے وہ میرا نام بھی جانتے تھے" وہ پریشانی کے عالم میں حیرت سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولا
"شاہ تم مجھے ڈرانے کے لئے بول رہے ہو نہ یہ سب؟؟" ماہ نور تیمور چڑھائے پوچھنے لگی تھی ۔۔۔
"میں تمہیں کیوں ڈراؤں گا یقین کرو میرا یہاں تھے ایک بزرگ" وہ واپس اپنی بات دہرا رہا تھا ۔۔۔
"تمہیں یہاں کے بارے میں کچھ نہیں پتا ۔۔۔پر میں سب جانتی ہوں او۔کے اس لئے تم مجھے ڈرا نہیں سکتے نہ بے وقوف بنا سکتے ہو میں نے سنا تھا بڑی امی سے یہاں سچے عاشقوں کو ایک لڑکا نظر آتا ہے پر ایک بزرگ نظر آتے ہیں ایسا تو بڑی امی نے کچھ نہیں کہا تھا اس لئے بند کرو مجھے پاگل بنانا ۔۔۔اور اب یہ سوچو کہ واپس کیسے جائیں گے "ماہ نور اس کی بات مذاق میں اڑا کر چل دی ۔۔۔۔شاہنزیب کے پورے جسم میں جھرجھری سی دوڑی۔۔۔ اس کے جسم کا رواں رواں کھڑا ہوگیا تھا یہ سن ۔۔۔"وہ کون تھے جن سے میں ملا ؟؟؟"شاہنزیب بے یقینی سی کیفیت میں مبتلا ہوکر خودی سے سوال کر رہا تھا ۔۔۔"وہ مجھے خوش نصیب کیوں کہہ رہے تھے کیوں کہا انہوں نے میں تڑپا بعد میں ہوں مجھے نوازا پہلے گیا ہے۔ ۔۔ کیا مطلب ہے ان سب باتوں کا؟؟؟"وہ ان باتوں میں الجھ کر اپنا سر کھجانے لگا ۔۔۔"چلو "مانو نے آواز دی تو ساتھ چل دیا پر یہ واقعہ اس کی زندگی میں ناقابل فراموش تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب رات کے کھانے کے بعد اپنے کمرے میں جانے لگے تھے مجھے ضروری اعلان کرنا ہے سب دس بجے لاونچ میں ملیں ۔۔۔۔۔افتخار صاحب نے سب گھر والوں کے واپس آنے کے بعد یہ اعلان کیا تھا ۔۔۔"کیا ضروری بات ہو سکتی ہے ؟؟؟"ماہ نور اسماء کو دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی اس نے نفی میں کندھے اچکا دیے ۔۔۔۔سب لاونچ میں جمع ہوگئے تھے افتخار صاحب پھر بھی خاموش تھے ۔۔۔"کیا بات ہے چاچا جان ؟؟"ماہ نور ان کے برابر میں آ کر بیٹھ گئی تھی پوچھتے ہوئے ۔۔"بتا دوں گا صبر کرو پہلے سعدیہ کے گھر والوں کو آنے دو "افتخار صاحب مسکراتے ہوئے کہہ رہے تھے
شاہنزیب سوچ میں پڑ گیا تھا یہ سن کر "ایسی کیا بات ہو سکتی ہے جو سعدیہ کے گھر والوں کے آنے کے بعد ہی ہوگی "ماہ نور دل میں سوچنے لگی تھی سب بے صبری سے انتظار کر رہے تھے دس منٹ کے انتظار کے بعد سعدیہ کی فیملی بھی آگئی سب بڑے کھڑے ہوکر ان سے گلے مل کر ان کا استقبال کرنے لگے ۔۔۔
"کیا چل رہا ہے ؟؟"ماہ نور اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر سعدیہ کے پاس آکر بڑے اشتیاق سے پوچھ رہی تھی ۔۔۔
"مجھے خود نہیں پتا امی نے کہا ہے کہ میرے لیے سرپرائز ہے "سعدیہ نے لاعلمی کا اظہار کیا ۔۔
"اب تو بتا دیں کیا بات ہے چاچا جان ؟؟"علی بھائی بھی تجسس سے پوچھ رہے تھے ۔۔۔
"آپ سب کے لئے ایک ساتھ دو دو خوشخبریاں ہیں "افتخار صاحب کے لب و لہجے میں مسرت جھلک رہی تھی ۔۔
"اُو ہو چاچا جان جلدی بتا دیں اب صبر نہیں ہو رہا کیا خوشخبری ہے ؟؟"عمران بے صبر ہو کر ۔۔
"پہلی خوشخبری تو یہ ہے کہ ایک ہفتے بعد ہمارے گھر میں دو نکاح منعقد ہو رہے ہیں "سب یہ سن بہت خوش ہوئے ...جبکہ ماہنور شاہنزیب راحیل اسماء والید یہ سن کرحیران و پریشان تھے ۔۔۔سب نے اندازہ لگا لیا تھا کہ دونوں نکاح کس کس کے ہیں ایک ماہ نور اور شارق دوسرا اسماء اور ولید ۔۔۔۔
"پر چاچا جان میں نے تو بڑے ابو سے بات کر لی تھی پھر میرا نکاح کیسے۔۔۔۔۔ بڑے ابو آپ نے تو وعدہ کیا تھا نا میرا نکاح تب تک نہیں ہوگا جب تک میری مرضی شامل نہیں ہوگی "اسماء شاکٹ ہوئی تھی یہ خبر سن کر ۔۔۔
"یہ لوگ اسماء کی مرضی کے بغیر مجھ سے نکاح کیسے کر سکتے ہیں"ولید زبردستی کا قائل نہیں تھا ۔۔۔۔۔اسے یہ بات نا گوار گزری تھی ۔۔
ماہ نور کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے تھے جیسے وہ بمشکل روک رہی تھی۔۔۔پہلے دل کو ڈھارس تھی کے ایک ماہ ھے شادی روکنے کے لئے ۔۔۔پر یہ اچانک ایک ہفتے بعد کا نکاح شاہنزیب ماہنور اور راحیل تینوں کو سر سے پاؤں تک ہلا گیا تھا ۔۔۔
"ارے ارے تم سے کس نے کہا کہ تمہارا نکاح ہو رہا ہے "بڑے ابو اپنی جگہ سے کھڑے ہوکر اسماء کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ کر بولے۔۔۔
"اگر آسماء کا نہیں تو پھر کس کا ہو رہا ہے ؟؟"شہزاد بھی سب کی طرح الجھا ہوا تھا اس کے لبوں پر بھی وہی سوال تھا جو سب کےلبوں پر تھا ۔۔۔۔
"بھئ ایک نکاح تو سب جانتے ہیں مانو اور شارق کا ۔۔مگر ہم بڑوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس مقدس رشتے میں ایک اور جوڑے کو باندھ دیں اور وہ شاہنزیب اور سعدیہ کا ہے ۔۔ہے ناں خوشخبری "افتخار صاحب نے مانو شاہنزیب کے سر پر بم پھوڑا تھا ۔۔۔سب سے پہلے کامران گلے لگا اس کے مبارک باد دینے کے لیے ۔۔۔وہ اس قدر شاکٹ میں تھا کہ بس اپنے والد کو ہی تکتا سہ رھ گیا ۔۔۔۔
"شاہ بہت بہت مبارک ہو "ماہ نور خود اس کے پاس چلتی ہوئی آئی اپنے دل پر پتھر رکھ کر مبارکباد دینے ۔۔اس نے اپنا خوبصورت ھاتھ آگے بھی بڑھایا "ہاتھ تو ملا ہی سکتے ہو"دل میں طوفان برپا تھا پر لبوں پر مسکراہٹ سجا کر بولی ۔۔"اچھا مجھے ہی مبارک باد دے دو "اس کی خاموشی کے جواب میں خود اس کا ہاتھ تھام مسکراتے ہوئے بولی ۔۔
"مجھے تو یقین نہیں آرہا شاہ ہمارا نکاح ہو رہا ہے "سعدیہ کے آنے پر ماہ نور ہاتھ چھوڑ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گئی ۔۔سعدیہ کے چہرے پر خوشی جھلک رہی تھی ۔۔۔وہ بے یقینی والے انداز میں گویا ہوئی ۔۔۔
"آپ لوگ اتنا بڑا فیصلہ بغیر میری مرضی جانیں کیسے کر سکتے ہیں ؟؟؟"شاہنزیب بت بنے کھڑا رہا مٹھائی بٹی ۔۔۔۔سب اصرار بھی کر رہے تھے کھانے کے لئے پر اس نے صاف منع کر دیا وہ صرف سعدیہ کے گھر والوں کے جانے کا انتظار کرنے لگا جیسے ہی وہ گئے ۔۔۔شاہنزیب نے جذباتی ہو کر اپنے گھر والوں سے پوچھا تھا ۔۔
"کیا مطلب کیسے کر سکتے ہیں ہم تمہارے والدین ہیں۔۔۔ تم ہمارے نہیں۔۔۔ جو ہمیں تمہاری مرضی جانیں کی ضرورت پڑے "افتخار صاحب کے لہجے میں سختی آ گئی تھی۔۔
"ڈیڈ ایسا مت کریں میں سعدیہ سے نکاح نہیں کرنا چاہتا آپ لوگ میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے"شاہنزیب نے کسی کا لحاظ نہیں رکھا وہ سب بڑوں کے سامنے ڈٹ کر کہنے لگا ۔۔ماہ نور اپنے کمرے میں جاکر دروازے سے لگ کر رونے لگی تھی پر شاہنزیب کے بولنے کی آواز سن کر وہ آنسو صاف کر۔۔۔ دوڑتے ہوئے واپس چلی آئی نیچے...
"اس میں زبردستی کی کیا بات ہے بچپن کی منگیتر ہے وہ تمہاری ایک نہ ایک دن تو یہ نکاح ہونا ہی ہے ہم سب نے بہت سوچ کر فیصلہ کیا ہے کہ ایک سال تم پہلے ہی اپنی من مانی کر چکے ہو تم نے پورا ایک سال ضائع کیا ہے اپنی زندگی کا ۔۔۔۔ اب اور نہیں ۔۔۔سعدیہ کے ساتھ تمارا نکاح کرکے لندن بھیج دیں گے اسٹڈی پوری کرنے ۔۔۔۔۔تم چار سال بعد لوٹو گے تو سعدیہ کی رخصتی لیں گے اب اس موضوع پر اور بحث نہیں"افتخار صاحب سرد لہجے میں کہہ کر چل دیئے ۔۔۔
"آپ لوگ بغیر میری مرضی کے میرا نکاح نہیں کروا سکتے اور رہی بات میری لندن جا کر پڑھنے کی تو آپ مجھے بھیج دیں میں تیار ہوں۔ ۔۔ میں خود بھی چاہتا ہوں اپنی پڑھائی مکمل کرنا" شاھنزیب نکاح سے صاف الفاظ میں منع کر اپنی پڑھائی مکمل کرنے کی تائید کرتے ہوئے بولا ۔۔۔
"یہ بات ہمیں مت بتاؤ کہ تم کیا کر سکتے ہو اور کیا نہیں یہ تو ایک سال میں ہم دیکھ چکے ہیں۔۔۔۔۔ تمہارا ضدی پن بھولے نہیں ہیں ہم ابھی تک اور نہ ہی معاف کیا ہے "افتخار صاحب غصے سے کہہ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھا گئے ۔۔۔ شاہنزیب نے غم و غصے میں آکر اپنے سیدھے ہاتھ کی مٹھی بنا کر زور سے صوفے کے اوپر والے حصے پر دے مارا۔ ۔ وہ اپنے اندر کا سارا غصہ اس بے جان صوفے پر نکال رہا تھا ۔۔
"سب ٹھیک ہو جائے گا "سب جانتے تھے کہ شاہنزیب نکاح کے لیے ابھی چھوٹا ہے ۔۔۔پر افتخار صاحب کے فیصلے کے آگے سب خاموش تھے ۔۔۔ماہ نور نے دھیمی آواز میں اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا ۔۔۔وہ مارے غصے کے صوفے کو پاؤں سے ٹھوکر مارتا ہوا باہر نکل گیا ۔۔۔
"شاہ تم خوش نصیب ہو تم کم ازکم سب سے لڑ تو پارہے ہو اپنے حق کے لیے ۔۔غصہ تو دکھا سکتے ہو جو تمہارے دل میں ہے ۔۔مگر میرے حصے میں تو یہ دونوں ہی نہیں ۔۔"ماہ نور دل ہی دل میں اپنی بے بسی پر روئی.۔۔۔۔
شاہنزیب گارڈن میں آیا تو اس کی نظر ماہنور پر پڑی جو بری طرح گارڈن میں گھٹنوں پر سر چھپائے رو رہی تھی راحیل بھی کافی غمزدہ تھا شاہنزیب کو دونوں کی حالت پر ترس آ رہا تھا وہ خود کو ملامت کرتا ہوا واپس پلٹ آیا ۔۔۔۔صبح میں راحیل کو گلاب کے پھولوں کے ھار لاتے دیکھا۔۔"تم نکاح روکنے کے لیے کچھ کرنے والے ہو بھی یا نہیں ؟؟؟"شاہنزیب صبح سے راحیل کو بھاگ دوڑ کرتا ہوا دیکھ رہا تھا اب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا اس نے آخر اسے روک پوچھ لیا ۔۔۔۔
"تم کیا کہہ رہے ہو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا "وہ انجان بننے کی اداکاری کرتے ہوےؔ شاہنزیب کو ٹال کر جانے لگا ۔۔۔
"میں سب جانتا ہوں اس لئے مجھ سے چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں "شاہنزیب نے اسے جاتے دیکھا تو بلند آواز میں کہا ۔۔
"کمرے میں چل کر بات کریں یہاں کوئی سن لے گا "راحیل کو لگا کے ماہ نور نے اسے سب بتا دیا ہے اس لئے وہ شاہنزیب کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے کمرے کی طرف لے کر چل دیا ۔۔۔۔
"بولو کیا کرنے والے ہو تم۔؟؟۔۔کیا آئیڈیا ہے تمہارا ؟؟"شاہنزیب نے کمرے میں گھستے ہی سوال کیا تھا وہ بہت پریشان تھا آج ظہر کی نماز کے بعد نکاح تھا ان دونوں کا اور شاہنزیب راحیل سے امید لگائے بیٹھا تھا کہ وہ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرے گا اس نکاح کو روکنے کے لیے آخر اسی کے کہنے پر تو ماہنور نے اِس شادی کی رضامندی دی تھی ۔۔۔
"میں کچھ نہیں کرنے والا یہ بات میں نے کل رات ماہنور کو بتا دی تھی" راحیل کے ہاتھوں میں کچھ نہ تھا ۔۔وہ خود بہت بے بس تھا اس کے لہجے میں مایوسی جھلک رہی تھی ۔۔۔
"کیا کہا تم نے تم کچھ نہیں کرنے والے راحیل تم ہوش میں تو ہو ؟؟"شاہنزیب اس کی بات سن کر غصے سے بھپر اٹھا اسے راحیل کی بات حیران کر گئی تھی ۔۔۔
"میں اسے سمجھا چکا ہوں اب تم ان سب باتوں کو چھوڑو اور جاکر تیار ہو آج تمہارا بھی نکاح ہے" راحیل یہ کہہ کر پیٹ موڑ کر کھڑا ہو گیا تھا ۔۔۔
"وہ تمہارے بھروسے پر تھی ۔۔۔تم آخری وقت میں پیچھے ہٹ گئے اور کہتے ہو سمجھا دیا اسے۔۔ سمجھتے کیا خود کو تم ؟؟وہ رو رو کر نڈھال ہو گئی ہے کل سے کچھ کھایا پیا نہیں ہے اس نے "شاہنزیب راحیل کی بات سن کر غصے کے مارے تلملا اٹھا تھا اس نے راحیل کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف موڑا تھا ۔۔
"دیکھو شاہ تم ابھی بچے ہو اس لیے تم ماہنور کا ساتھ دے رہے ہو بڑے ابو دشمن تھوڑی ہیں اس کے وہ تم سے ۔۔۔مجھ سے۔۔۔ سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں اس سے اور اگر ان کو لگتا ہے کہ ماہ نور کے لیے شارق بہتر ہے تو شارق ضرور ماہ نور کے لیے اچھا جیون ساتھی ثابت ہوگا "راحیل دھیمے لہجے میں سمجھانے لگا اس کا لب و لہجہ بیان کر رہا تھا کہ وہ تو بہت پہلے ہی ہار مان چکا ہے ۔۔۔
"میں یہ سب نہیں جانتا میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ ماہ نور اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی اور تم نے اس سے وعدہ کیا تھا اور آج تم آخری موقع پر اپنی بات سے پلٹ رہے ہو اسے اکیلا چھوڑ رہے ہو "شاہنزیب کافی دیر تک راحیل کو اس کا وعدہ یاد دلاتا رہا "تم کچھ نہیں کرنے والے نا تو ٹھیک ہے کم از کم میرا پلین تو سن سکتے ہو نا ؟؟"شاہنزیب اپنی پیشانی مسلتے ہوئے راحیل کو دیکھ بولا ۔۔وہ پہلے ہی اس بات کے لئے ذہنی طور پر تیار تھا وہ جانتا تھا کہ راحیل اس قدر بہادر نہیں ہے کہ اکیلا ماہ نور کی شادی کو رکواسکے ۔۔۔ اس لیے اس نے کل رات ہی سارا پلین بنا لیا تھا مگر راحیل پلین پر عمل کرنے کے لیے راضی ہونا تو دور سننے کے لئے بھی تیار نہ تھا ۔۔۔
"دیکھو شاہ شادی بیاہ بچوں کا کھیل نہیں ہے جو میں پلین بنا کر توڑ دوں ۔۔۔۔بڑوں کے فیصلے سے ہو رہا ہے سب کچھ اور عقل مندی اسی میں ہے کہ ہم سب بڑوں کی رضامندی میں راضی رہیں۔۔۔۔۔ اب جاؤ تیار ہو بہت کم وقت رہ گیا ہے "راحیل نے اس سے کہہ کر اپنی آنکھیں چرا لیں تھیں ۔۔۔
"تم سے بڑا کمینہ دھوکےباز اور بزدل انسان میں نے آج تک اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ۔۔۔ماہنور پاگل ہے تم جیسے دھوکے باز پر یقین کر کے اتنے آگے آگئی تمہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ غصے سے دھاڑ رہا تھا پر راحیل بت بن کر بیڈ پر بیٹھ گیا ۔۔۔اس سے بات کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف تھا یہ دیکھ وہ پاؤں پٹکتا ہوا باہر آگیا ۔۔
"کیا کروں ؟؟ماہ نور کو بھی پوری دنیا میں راحیل جیسا بزدل ہی ملا تھا۔۔۔۔۔ اب میں کیا کروں ؟؟"شاہنزیب پریشانی میں ٹیل لگاتے ہوئے خودی سے ہم کلام ہوا ۔۔۔
"کتنی عجیب بات ہے نا آج تمہارا اور ماہنور دونوں کا نکاح ہے مگر دو الگ الگ لوگوں سے "ولید کی بات سن کر وہ بیڈ پر بیٹھ گیا تھا اس کا چہرہ افسردہ تھا ۔۔۔"کیا کرنے کا ارادہ ہے میرے بھائی کا ؟؟؟"ولید نے اس کے برابر میں بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔
"میں کیا کروں یہی تو سمجھ نہیں پا رہا۔۔۔۔۔ کیسے روکوں ماہ نور کا نکاح "
"بھاگ جاؤ اسے لے کر "ولید نے سنجیدگی سے کہا
"پاگل ہو گئے ہو کیا میں اسے لے کر کیوں بھاگوں" شاہنزیب اس کا مشورہ سن جھنجھلا کر بولا۔۔
"کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تم ایک ہفتے سے اپنے گھر والوں کو سمجھا رہے ہو پر مجال ہے کوئی تمہاری بات سننے ۔۔۔ تمہارے ساتھ تمہارے گھر والوں کا سلوک اتنا عجیب ہے ایسا لگ رہا ہے پڑھ کر نہیں ایک سال ضائع کر کے آ رہے ہو کہیں سے۔ویسے ہاں۔۔۔ ایک سوال میرے ذہن میں بھی ہے اُس دن تم جا رہے تھے تو تم نے یہ کیوں کہا کہ تم ایک سال پہلے بھی ضائع کر چکے ہو ؟؟؟"ولید الجھا ہوا تھا اس لئے پوچھنے لگا ۔۔۔
"یہ باتیں میں تمہیں کبھی فرصت میں بتا دوں گا ابھی یہ سوچو کہ نکاح کیسے روکیں" وہ اسے اصل موضوع پر لے آیا تھا ۔۔۔
"تم ایک کام کرو۔۔۔ تم نکاح سے پہلے پہلے یہاں سے بھاگ جاؤ پھر جب تو یہاں ہوگے ہی نہیں تو تمہارے نکاح کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا" ولید نے مشورہ دیا۔ ۔
"اُو بھائی سارے مشورے بھاگ جانے کیوں دے رہے ہو ؟؟"شاہنزیب اسے گھورتے ہوئے دیکھ جنجھلا کر بولنے لگا ۔۔
"ایک تو تم مجھے اپنی پریشانی نہیں بتا رہے پھر مجھ سے کہہ رہے ہو میں علاج بھی کر دوں۔۔۔۔ واہ بھئی"ولید اسے دیکھ بولا ۔۔۔
"میں خود اس لیے نہیں بھاگ سکتا کیونکہ مجھے پتا ہے میں اپنا نکاح روک سکتا ہوں یہ لوگ میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے مجھے ڈر صرف ماہنور کے نکاح کا ہے میں اسے بھگا کر بھی نہیں لے جاسکتا کیونکہ وہ راحیل کے ساتھ جانا چاہتی ہے میرے ساتھ نہیں "اس نے مسئلہ بیان کیا تو ولید حیرت سے:" کیا کہہ رہے ہو تم ۔۔۔۔۔سچ میں۔۔۔ راحیل کے ساتھ؟؟"شاہنزیب نے اسے ساری باتیں بتا دیں ڈائری والی ۔۔۔راحیل کے منع کرنے والی ۔۔۔۔۔ماہ نور اور راحیل کی باتوں والی۔۔
"تم دونوں ابھی تک تیار نہیں ہوئے شاہنزیب یہ تو فالتو انسان ہے مگر تمہارا تو آج نکاح ہے تم جلدی سے تیار ہو "اسماء کمرے میں داخل ہو کر بولی تھی اور ساتھ ساتھ ولید کو دیکھ منہ بسور طنز بھی کر ڈالا تھا ۔۔۔
"تم جاؤ ہم آتے ہیں "ولید نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔۔۔
"تمہارے گھر والے تمہاری بات سننے والے نہیں ۔۔۔۔راحیل شادی روکنے والا نہیں ۔۔۔۔۔۔ماہنور تمہارے ساتھ بھاگنے والی نہیں ۔۔۔اب ان سب الجھنوں میں خدا ہی تمہاری مدد کرسکتا ہے“ ولید بھی پریشان ہو کر اپنا سر پکڑتے ہوۓ بولا ۔۔۔
آج جمعہ کا دن ہے۔۔۔۔ کہتے ہیں جمعہ کے دن ایک ایسی ساعت آتی ہے کہ اس میں جو مانگا جائے مل جاتا ہے وہ نماز پڑھنے چلا گیا۔۔۔۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے دیوانہ دعا مانگنے بیٹھا تو آنسو جاری ہوگئے بس ہر سانس سے یہی دعا نکل رہی تھی کہ کچھ بھی ہو بس ماہنور کا نکاح رک جائے۔۔۔"میں نے زندگی بھر اسے مانگا پر آج صرف اس کی خوشیاں مانگتا ہوں"
نکاح کا وقت آ گیا تھا جان نکلے جا رہی تھی ماں کی ضد پر سفید رنگ کی شیروانی جس میں گولڈن کام ہوا تھا پہن کر لاونچ میں کھڑا تھا اس کی نگاہ سیڑھیوں پر پڑی تو بت بن کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔ماھنور مہرون رنگ کے لباس میں ملبوس تھی سر پر ادب سے دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا آگے کے بالوں میں بیک کومنگ کی گئی تھی ۔۔اس کی روشن پیشانی پر سونے کی بندیہ سجائی گئ تھی اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔۔۔"شاہنزیب آ کر بیٹھ جاؤ صوفے پر ۔۔۔کب تک کھڑے رہو گے "پیچھے سے شارق نے آواز دے کر اسے بلایا تھا وہ شاہنزیب کو ماہ نور کو یوں ٹکٹکی باندھے دیکھنا برداشت نہیں کر پا رہا تھا اس لیے ہٹائے کی نیت سے گویا ہوا ۔۔۔
ماہ نور قاضی کے سیدھے ہاتھ اور شارق الٹے ہاتھ پر بیٹھا ۔۔۔شاہنزیب کی سانس رُکنے لگی تھی دل تڑپ اُٹھا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ بس وہ نکاح کے تین بول بولے گی اور یہ جان جو اس کے نام کی ہے جسم سے نکل جائے گی تڑپ کر۔۔۔ ماہ نور کی کیفیت بھی کچھ جدا نہ تھی ہاتھ پاؤں بالکل ٹھنڈے پڑ چکے تھے رو رو کر اس نے اپنی آنکھیں سوجھالی تھیں۔۔۔ ماہنور صرف اپنے والد کی عزت کی خاطر آئی تھی اس نکاح کے لئے۔۔۔شاہنزیب بالکل اس کے سامنے بیٹھا ہوا تھا صرف سعدیہ کا انتظار ہو رہا تھا۔۔
"شاہنزیب کب سے تمہارا موبائل بج رہا ہے اٹھاتے کیوں نہیں "شہزاد نےاس کا ہاتھ پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے کہا تو اس نے جیب سے موبائل نکال کر کال اٹینڈ کی ۔۔۔"ہیلو "شاہنزیب نے تھکی تھکی آواز میں کہا ۔۔
"ہیلو پہچانا سالے صاحب "شاہنزیب نے فرحان کی آواز سنی تو حیرت سے شہزاد کو دیکھنے لگا وہ فورا وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور سائیڈ میں جا کر بات سننے لگا
"سنا ہے نکاح ہو رہا ہے تمہارا سالے صاحب۔۔۔۔۔ ہمیں نہیں بلایا آپ نے ۔۔آپ تو ہمیں لگتا ہے بھول گئے اپنے گھر والوں سے ملنے کے بعد۔۔ پر میں تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں تمہارے خاطر تو میں پاکستان چلا آیا ہوں.. ویسے کمینے بہت خوبصورت ہے تیری منگیتر ۔۔۔ سچی دیکھتے ہی دل مچل گیا مجھے تو تم لوگوں نے دو سال بڑی چپکادی تھی اور خود کی اتنی خوبصورت لڑکی سے۔۔ "فرحان کی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ "کمینے زبان سنبھال کر بات کر "شاہنزیب نے دانت پیستے ہوئے غصے سے کہا ۔۔سب شاہنزیب کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ رھے تھے اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑیں ہوئیں تھیں۔۔ یہ دیکھ شہزاد پریشان ہوا تھا ۔۔۔
"آج تیرا دن ہے ۔۔۔بول لے جتنا بولنا ہے اور ہاں تجھے بہت شوق ہے لوگوں کی زندگی میں انٹرفیر کرنے کا۔۔۔تو اب تیری باری ہے تو نے مجھ سے میرے بچے چھینے ہیں نا میں تجھے کیسے خوش رہے دوں ۔۔۔ سنا ہے جان بستی ہے تیری ٖ تیری منگیتر میں ۔۔اس وقت بالکل سامنے کھڑی ہے میرے۔۔ کار پارکنگ میں ۔۔۔اب اگر کوئی آجائے اور اسے گولی مار دے تو ؟؟؟"فرحان نے کہہ کر بلند آواز میں قہقہ لگایا تھا ۔۔۔
شاہنزیب واقفیت رکھتا تھا کہ وہ اس کی دشمنی میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہے کسی کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے اس کے ماتھے پر پسینے آنے لگے تھے ۔۔۔"کیا ہوا شاہ ؟؟"شہزاد اور باقی سب گھر والے اسے اتنا پریشان حالت میں دیکھ پوچھنے لگے ۔۔
"خالہ جان سعدیہ کون سہ پارلر گئ ہے ؟؟"شاہنزیب نے گھبرا کر ان سے پوچھا تو انہوں نے فورا بتا دیا وہ سنتے ہی باہر کی جانب دوڑا ۔۔"کیا ہوا شاھ ؟؟"سب اسے یوں بھاگتا دیکھ پوچھ رہے تھے سعدیہ کی ماں کا دل ہل گیا تھا شاہنزیب کے یوں پوچھنے پر سب نکاح چھوڑ شاہنزیب کے پیچھے چل دیے تھے۔۔
"آخر ہو کیا رہا ہے؟؟" بڑے ابو راحیل کو دیکھ کر پوچھ رہے تھے جس کے جواب میں اس نے کندھے اچکا دیے۔۔۔
"کہاں جا رہے ہو کچھ بتاؤ گے بھی ؟؟"کامران بھاگتا ہوا آیا تھا اس کے ساتھ
"گاڑی میں بیٹھو جلدی "شاہنزیب نے کہہ کر گاڑی اسٹارٹ کی تھی وہ بھی اس کے ساتھ ہڑبڑی میں بیٹھ گیا ۔۔۔شاہنزیب تیزی سے گاڑی دوڑاتے ہوئے اس پارلر کی کار پارکنگ میں پہنچ گیا تھا اسے سامنے ہی لوگوں کا ہجوم نظر آگیا ۔۔۔ہجوم دیکھ وہ خوفزدہ ہوا ۔۔۔ دل میں طرح طرح کے وسوسے آرھے تھے کامران کو اس نے کچھ نہیں بتایا تھا۔۔ بھاگتے ہوۓ ہجوم کے اندر گھس گیا اور ساتھ ساتھ کامران بھی۔۔۔ اس نے دیکھا کہ سعدیہ روڈ پر پڑی ہوئی ہے اس کے ہاتھوں سے خون نکل رہا ہے ۔۔۔"سعدیہ سعدیہ اٹھو "وہ بے جان سے پڑھی تھی شاہنزیب اسے اپنی باہوں میں بھر کر کہہ رہا تھا ۔۔۔اس کا دماغ تو مفلوج ہو گیا تھا سعدیہ کو اس حال میں دیکھ ۔۔۔
"شاہ یہ رونے کا وقت نہیں ہے جلدی ھسپتال لے کر چلو اسے "شاہنزیب رونے لگا تھا سعدیہ کو اس حالت میں دیکھ تو کامران نے اسے سنبھالا ۔۔۔
ھسپتال پہنچ کر کامران نے سب کو فون کر دیا سب گھر والے دوڑے چلے آئے ۔۔۔کامران نے سب کو بتایا کہ دو لڑکے بائیک پر سوار ہو کر آئے اور سعدیہ کو گولی مار کر فرار ہوگئے ۔۔۔کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کوئی بھلا کیوں سعدیہ کو مارنا چاہے گا ۔۔سعدیہ کی والدہ رو رو کر نڈھال ہوئے جا رہی تھیں ۔۔۔
"دیکھو سعدیہ میرے سر پر ویسے بھی بہت گناہوں کا بوجھ ہے اب ایک اور نہ ڈالو اٹھ جاؤ پلیز ہوش میں آ جاؤ "شاہنزیب اپنا سر بینچ سے لگائے آنکھیں بند کر دعاگو تھا ۔۔۔سعدیہ کی گولی نکالی جا رہے تھی۔ ۔ آپریشن جاری تھا سب آپریشن تھیٹر کے باہر کھڑے تھے تھوڑی دیر بعد ہی ڈاکٹر نے آکر بتایا کہ سعدیہ ٹھیک ہے گولی اس کے بازو کو چھو کر نیکل گئی تھی اور دوسری گولی کندھا میں لگی تھی جیسے آپریشن کر کے نیکال لیا گیا....
"ہیلو سالے صاحب سوچ رہے ہو کہ قسمت اچھی تھی تمہاری منگیتر پر دو فائر ہوئی اور وہ بچ گئی ۔۔۔ایسا نہیں ہے میں نے ہی اسے چھوڑ دیا ۔۔بہت حسین ہے یار دل آگیا ہے اس پر ۔۔۔ تیرے خاطر سچ بولتا ہوں آج تو تیری منگیتر کو خود چھوڑ دیا میں نے ۔۔یہ صرف ٹریلر تھا فلم تو ابھی باقی ہے سالے صاحب۔۔ تو نے مجھ سے میری فیملی چھینی ہے۔ ۔ میرے بچے میری جان۔۔ میں تجھ سے تیری جان چھین لوں گا ۔۔یقین مان جس دن وہ تیری دلہن بنے گی وہی اس بیچاری کی زندگی کا آخری دن ہوگا ۔۔۔سمجھا "فرحان نے شاہنزیب کو دھمکی دی تھی فون کرکے ۔۔اس کے عزائم شیطانی تھے ۔۔وہ بدلے کی آگ میں پاگل ہو چکا تھا ۔۔
"تو میرے سامنے آ۔۔۔جان سے مار دوں گا تجھے بزدل انسان لڑکی پر حملہ کرکے اپنی مردانگی دیکھاتا ہے۔۔۔ ہمت ہے تو مجھ سے آکر لڑ" شاہنزیب شیر کی طرح دھاڑا تھا اس پر ۔۔۔
"دیکھو سالے صاحب اتنا مت تڑپو ۔۔۔ورنہ مجھے دکھ ہوگا اس بات کہ میں تجھے تڑپتے ہوئے دیکھنے کا چانس مس کر رہا ہوں ۔۔۔ "وہ اس کی بے بسی پر مانو خوش ہو رہا تھا "اگر اپنی منگیتر پیاری ہے تو دور رھ اس سے ۔۔۔ورنہ ڈولی نہیں جنازہ اٹھے گا ۔۔۔تجھے اتنا ہی تڑپاؤں گا جتنا میں تڑپ رہا ہوں ۔۔تو نے مجھے میرے بچوں سے دور کیا ہے میں تجھے تیری محبوبہ سے دور کر دوں گا "فرحان فرعونیت پر اتر آیا تھا کھلے عام دھمکی دے رہا تھا ۔۔۔
"میں تجھے آخری بار وان کر رہا ہوں میرے گھر والوں سے دور رھ ورنہ میں بھول جاؤں گا کہ قتل کرنا حرام ہے "شاہنزیب نے اسے کھلی دھمکی دی اور موبائل جیب میں ڈال لیا۔ ۔۔
سعدیہ کی والدہ کی طبیعت خراب ہوگئی تھی اس لیے ماہ نور سعدیہ کے ساتھ رات میں ہسپتال میں رکی۔۔۔"کیا ہوا تھا کس کا فون آیا تھا تمہیں ؟؟"شہزاد ماہ نور دونوں شاہنزیب سے سوال کررھے تھے سعدیہ دوائی کی وجہ سے نیند میں تھی مگر اسے وہاں ہونے والی ساری باتیں سنائی دے رہی تھیں ۔۔۔شاہنزیب نے فرحان کی ساری باتیں دونوں کو بتادیں۔ ۔۔۔ماہ نور کا نکاح رخصتی کے ساتھ ہی ہو گا یہ فیصلہ ہو گیا تھا جسے سن کر شاہنزیب ماھنور دونوں نے سکھ کا سانس لیا تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماء خوشی خوشی گھر لوٹی تو سب اسے مسکراتا دیکھ کر حیران ہوے ورنہ مزاجا تو وہ سر پھری لڑکی تھی جو ہواؤں سے بھی لڑ پڑے ۔۔۔۔"کیا بات ہے آج تو بڑا مسکرا رہی ہو ؟؟؟"ولید ٹی وی دیکھ رہا تھا جب اس کی نگاہ آسماء پر پڑی تو بے ساختہ پوچھ بیٹھا ۔۔۔
"کوئی خوشخبری ہے کیا نوکری پکی ہو گئی تمہاری ؟؟"ماہ نور نے سیڑھیوں سے اترتے ہوئے اندازہ لگایا تھا اس کی خوشی دیکھ ۔۔۔
"پہلے مٹھائ کھاؤ پھر بتاتی ہوں "اسماء نے ماہ نور کے منہ سے گلاب جامن لگائی تھی ۔۔۔
"امی امی امی امی امی "اسماء نے مٹھائی کا ڈبہ ماہ نور کو پکڑآیا اور اپنی ماں کو دیکھ کر خوشی سے ان کے گلے لگی۔۔۔ شاہنزیب اور راحیل ساتھ ہی نماز پڑھ کر لوٹے تھے ۔۔۔
"کیا بات ہے بہت خوش نظر آ رہی ہو؟؟" راحیل بھی پوچھ اٹھا تھا۔ ۔۔
"مجھے نوکری مل گئی ہے وہ بھی ۔۔۔اتنی بڑی کمپنی میں اور پتہ ہے بھائی وہ مجھے تنخواہ کتنی دے رہے ہیں ایک ماہ کی ۔۔۔"وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی اس لئے خود ہی سوال کر بغیر جواب کا انتظار کیے تھریلڈ ہو کر بتانے لگی ۔۔۔"پورے دو لاکھ "وہ جتاتے ہوئے بولی ۔۔"مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا مانو میری قسمت کھل گئی مجھے تو ابھی تک یہ خواب لگ رہا ہے" اس نے مسرت بھرے لہجے میں کہا تو سب حیران تھے ۔۔۔پر شاہنزیب نے ولید کو گھور کر دیکھا تھا جس کے جواب میں اس نے مسکراتے ہوئے آنکھ ماری تھی ۔۔۔۔
"ہائے یہ محبت کیا کیا کرواتی ہے انسان سے "شاہنزیب دل میں سوچتے ہوئے مسکرایا تھا۔۔۔
"تم مذاق کر رہی ہو نا ؟؟"راحیل بے یقینی سے پوچھنے لگا ۔۔۔
"نہیں بھائی انہوں نے تو یہ بھی کہا ہے کہ اگر انہیں میرا کام پسند آیا تو کمپنی کی طرف سے مجھے گھر اور کار بہی دیں گے۔۔۔۔۔"اسماء کے پیر تو خوشی کے مارے زمین پر ہی نہیں ٹک رہے تھے ۔۔۔۔
"تمہیں کسی کی سفارش پر ملی ہے یہ نوکری ؟؟"راحیل تفتیشی انداز میں پوچھنے لگا ۔۔
"نہیں صرف بڑے ابو کا حوالہ دیا تھا "
"کہیں وہ اس نوکری کے ذریعے تم سے ملک کمپنی کی ضروری معلومات نا نیکلوالیں۔۔ورنہ کون دیتا ہے اتنی بڑی نوکری گھر اور کار مجھے کوئی گڑبڑ لگ رہی ہے تمہارے پاس تو تجربہ بھی نہیں ہے "راحیل کی بات سنتے ہی اس کا منہ اترا تھا ۔۔
"او ہو تم تو ہر بات میں فکر کرتے ہو ایسا کچھ نہیں ہوگا میری بیٹی بہت ذہین ہے اسے اپنی قابلیت پر ملی ہیں یہ نوکری "اسماء کی والدہ نے اس کا چہرہ مرجھاتا ہوا دیکھ فور راحیل سے کہا ۔۔
"اللہ کرے ایسا ہی ہو "وہ مبارک باد دیتا ہوا اس کے سر پر ہاتھ رکھ ۔۔۔۔۔دادو کے کمرے کی جانب چل دیا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچن میں سے مزیدار کھانوں کی خوشبو آ رہی تھی ۔۔"مامی کیا بنا رہی ہیں آپ ؟؟؟"ثانیہ نے راحیل کی والدہ سے پوچھا تھا انہیں کھانا بناتا دیکھا ۔۔۔
"راحیل کی من پسند ڈش مکئ کی روٹی اور سرسوں کا ساگ "وہ مسکراتے ہوئے بول کر فریج کی جانب بڑھی تھیں۔ ۔۔
"اور راحیل کو کھانے میں کیا پسند ہے ؟؟"ثانیہ ہچکچا رہی تھی پوچھنے میں اور یہ بات اس کی مامی نے محسوس کر لی تھی ۔۔۔
"ویسے تو صبر شکر کر کے سب کھالیتا ہے ۔۔۔پر یہ جو ڈش میں ابھی بنا رہی ہوں اس کا تو دیوانہ ہے جس دن بھی میری چھٹی ہوتی ہے بس اس دن راحیل کی یہی فرمائش ہوتی ہے امی اپنے ہاتھوں سے بنا کر کھلائیں مجھے"وہ یہ کہ کر مسکراتے ہوئے ثانیہ کو دیکھ رہی تھیں۔ ۔۔
"میں بنانا سیکھنا چاہتی ہوں آپ سیکھائیں گی مجھے ؟؟"ثانیہ شرماتے ہوئے نظریں نیچے کیے بڑے ادب سے پوچھ رہی تھی ۔۔۔
"ایک شرط پر سیکھاؤں گی۔۔ پہلے میری بات کا جواب دو "وہ خوش تھی بہت ثانیہ کے چہرے پر چمک دیکھ کر۔۔۔۔۔ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا ۔۔۔
"سچ بتاؤ پسند کرتی ہو میرے بیٹے کو ؟؟"ان کے جواب میں ثانیہ نے نظریں شرمگیں سے جھکا لیں ۔۔۔وہ اس کا جواب سمجھ چکی تھیں خوشی کے مارے اس کے ماتھے کا بوسہ لیا ۔۔۔"اب تو سکھانا ہی پڑے گا اچھا یہ بتاؤ میرا بیٹا کرتا ہے؟؟؟"
"پتہ نہیں "ثانیہ نے نہایت دھیمے لہجے میں جواب دیا ۔۔۔۔
"چلو میں خود پوچھ لوں گی اس سے ۔۔۔مجھے یقین ہے اس کا جواب ہاں ہی ہوگا "انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا انہیں ثانیہ اپنے بیٹے کے لئے بالکل پرفیکٹ جیون ساتھی محسوس ہوئی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کا وقت تھا سورج اپنی کرنے سمیٹ رہا تھا تیز ہوا چل رہی تھی جو پورے جسم کو تروتازہ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔وه دونوں سمندر کے کنارے کھڑے تھے ۔۔۔۔شاہنزیب سمندر کی لہروں کو دیکھ رہا تھا "کیا کرنے کا ارادہ ہے اور پلیز مجھ سے سچ کہنا "ولید منتی لہجے میں پوچھنے لگا ۔۔۔
"بتا تو چکا ہوں کیا کرنا ہے "سنجیدگی سے شاہنزیب نے جواب دیا ۔۔۔
"یار یا تو، تو پاگل ہے یا مجھے بنا رہا ہے۔۔۔ اتنا آسان لگتا ہے تجھے یہ سب ؟؟شارق ایک جاگیردار کا بیٹا ہے رومیساء کی شادی میں شاید تم نے دیکھا نہیں تھا کتنے سارے گارڈز تھے اس کے آگے پیچھے اور کتنی بڑی بڑی تو گانیں پکڑے ہوئے تھے دیکھ یار مجھے پتا ہے ۔۔۔تجھے تو تیری زندگی محبوب نہیں رہی ۔۔۔۔پر مجھے ہے "ولید آخری لائن جتاتے ہوئے بولا "ابھی تک تو منگنی بھی نہیں ہوئی ہے میری "وہ بے چارگی والا چہرہ بنائے بولا ۔۔۔ولید الجھا ہوا تھا اور ساتھ ساتھ خوفزدہ بھی تھا شاہنزیب کا پلین سننے کے بعد ۔۔۔
"میں نے نہیں کہا تھا کہ میرے دوست بنو ۔۔۔اب دوستی کی ہے تو نبھانی تو پڑے گی ۔۔۔میں اپنا پلین چینج نہیں کرنے والا اور تم خواہ مخواہ اتنا ڈر رہے ہو بس تمہیں شارق کو اغواہ ہی تو کرنا ہے وہ بھی برات سے صحیح آدھے گھنٹے پہلے۔۔۔اور اسی کے موبائل سے سب گھر والوں کو میسج کرنا ہے کہ وہ ماھنور سے شادی نہیں کرنا چاہتا اس لئے جا رہا ہے "شاہنزیب نے اتنا ایزی ہو کر یہ پلین سمجھایا کہ ولید اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے "اغوا کرنا تو تم اتنا آسان سمجھ رہے ہو جیسے برابر والی دکان سے مٹھائی لانا ہو ۔۔۔۔اُو۔۔۔۔۔۔۔ بھائی اغواہ کر رہے ہیں ہم۔۔۔۔ اغواہ ۔۔۔۔وہ بھی ایک جاگیردار کے بیٹے کو "ولید اپنا سر پیٹتے ہوئے بولا ۔۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنا سر کہیں جا کر پھوڑ لے ۔۔"اور کیا لکھوں کہاں جا رہا ہے؟؟"ولید نے آئبرو اچکاتے ہوئے پوچھا۔۔۔
"ارے یار کچھ بھی لکھ دینا اب یہ بھی میں ہی بتاؤں خود بھی کچھ کر لو "شاہنزیب نے اسے سرسری سا دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
"اچھا سن میرے مرنے کے بعد اسماء کو بتا دینا کہ میں سچ میں اس سے بہت پیار کرتا تھا ۔۔۔۔اور میرے والدین کو بھی "ولید غمگین لہجے میں اداس چہرہ بنائے بول رہا تھا ۔۔۔دل ہی دل میں وہ اس وقت کو کوس رہا تھا جب اس نے شاہنزیب سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا ۔۔"اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری ہے میں نے "ولید شاہنزیب کو دیکھ منہ میں بڑبڑایا ۔۔۔۔۔
"بس کر ڈرامے باز کچھ نہیں ہوگا تجھے ایک ہفتے سے نظر رکھ رہا ہوں اس پر۔۔ میں کبھی ہوا میں تیر نہیں چلاتا ۔۔۔انجینئرنگ کا اسٹوڈنٹ ہوں ۔۔ہر کام پورے منصوبہ بندی سے کرنے پر یقین رکھتا ہوں اور گھبرا مت اگر بعد میں بات کھلی۔۔۔ جو مجھے پتا ہے ضرور کھلے گی تو ساری ذمہ داری میں اپنے سر لوں گا تم پر انچ تک نہیں آنے دوں گا " شاہنزیب نے ولید کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے اسے دلاسا دیا تھا ۔۔۔
"اور راحیل کا کیا ؟؟؟وہ تو کچھ نہیں کرنے والا "ولید پریشان ہو کر پوچھنے لگا ۔۔
"میں جانتا ہوں وہ صرف بڑے ابو کی وجہ سے خاموش ہے ۔۔لیکن جب دولہا ہی غائب ہوجائے گا تو بات عزت پر آ جائے گی اور ہمارے یہاں جان سے بڑھ کر عزت ہوتی ہے ۔۔اس وقت راحیل کھڑا ہو جائے گا ماہ نور سے شادی کرنے اور بڑے ابو وقت کی نزاکت کے ہاتھوں مجبور ہو کر خاموشی سے نکاح ہونے دیں گے "شاہنزیب نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر یہ پلین بنایا تھا صرف ماہنور کی خاطر۔۔۔۔
"تم اپنے آپ پر رحم کھاؤ اور یہاں سے چلے جاؤ کل سے شادی کی رسمیں شروع ہو جائیں گی میں سب سنبھال لوں گا ۔۔۔ہم فون پر ہر وقت رابطے میں رہیں گے "ولید نے اس کی حالت پر ترس کھایا تھا وہ جانتا تھا یہ سب شاہنزیب کے لیے آسان نہیں ہے ۔۔
"نہیں بگاڑا میں نے ہے تو ٹھیک بھی میں ہی کروں گا اور وہ مجھے یہاں سے جانے نہیں دے گی اس کی نظروں کے سامنے رہوں گا تو وہ بھی سکون سے رہے گی "شاہنزیب کھوئی کھوئ مسکراہٹ لبوں پہ سجاتے ہوئے گویا ہوا ۔۔۔
"تو لندن جانا کینسل ؟؟"
"نہیں۔۔۔۔ صرف صحیح وقت کا انتظار کروں گا "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورا گھر دلہن کی طرح سجا ہوا تھا آج مایوں مہندی کی رسم تھی۔۔ ۔۔سعدیہ کو گولی لگنے کی وجہ سے اس کا بازو اب بھی تکلیف میں تھا اس لئے ابھی شاہنزیب اور سعدیہ کا نکاح بھی رک گیا تھا۔۔"شاہنزیب تمہارے لیے " کالے رنگ کا کرتا سفید رنگ کی شلوار وہ ہینگر میں پکڑے ہوئے تھی ۔۔
"یہ" وہ کُرتے کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔کُرتا کافی مہنگا معلوم ہو رہا تھا جس پر گولڈن کڑھائی کا باریک اور نفاست سے کام ہوا وا تھا ۔۔۔
"میری طرف سے تحفہ سمجھ لو "سعدیہ مسکراتے ہوئے دے رہی تھی ۔۔شاہنزیب اس کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا اسی لئے اس کا تحفہ مسکراتے ہوئے قبول کرلیا ۔۔۔
"میں تو ابھی سے تصور کر پارہی ہوں تم کتنے خوبصورت لگو گے اس میں آج میری دوستیں آ رہی ہیں کالج کی میری خاطر اگر تم ان سے مل لو" سعدیہ تھوڑا ہچکچاہٹ سے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔اس نے جواب میں اثبات میں سر ہلا دیا تو اس کا چہرہ کھل اٹھا ۔۔۔وہ کُرتا بیڈ پر بچھا کر جانے لگی تھی شاہنزیب بالکل اس کے پیچھے کھڑا تھا ۔۔۔"اچھا ایک اور بات جلدی ۔۔۔۔۔"سعدیہ یہ کہتے ہوئے واپس مڑی تھی۔۔۔ ابھی وہ اتنا ہی کہہ سکی تھی کہ اس کا پاؤں سلپ ہو گیا اور وہ آکر شاہنزیب پر گری۔۔شاہنزیب سنبھل پاتا اتنا موقع ہی نہیں ملا وہ بیڈ پر گر پڑا اور سعدیہ اس پر
"شاہنزیب "ماہ نور دروازہ کھول اندر گھسی تھی ۔۔۔وہ ان دونوں کو اس قدر قریب دیکھ بھول بیٹھی کے کیا کہنے آئی ہے۔۔۔سعدیہ ماہ نور کو دیکھ کر فورا خود کو سنبھالتی ہوئی سیدھے کھڑی ہوئی۔ ۔۔
"سوری آئندہ نوک کر کے آؤں گی "ماہ نور کھ کر واپس تیزی سے قدم بڑھاتی ہوئی جانے لگی۔۔۔شاہنزیب فورا سنبھل گیا اور ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ہی بھاگتا ہوا ماہنور کے پیچھے آیا ۔۔۔
"جو تم سمجھ رہی ہو ایسا کچھ نہیں تھا "شاہنزیب نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسکی غلط فہمی دور کرنی چاہی ۔۔۔
"میں نے کہا نہ سوری آئندہ نوک کروں گی تمہارا دروازہ اب چھوڑو میرا ہاتھ "ماہنور شاہنزیب کی طرف پلٹی تو اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے موتی جیسے آنسو تھے یہ دیکھ شاہ زیب نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا ۔۔۔وہ حیرت سے اس کی آنکھیں دیکھ رہا تھا جن آنکھوں میں آج ایک الگ طرح کی خفگی تھی ماہ نور کی آنکھوں میں جو جذبات تھے وہ پہلے جیسے نہ تھے ۔۔۔شاہنزیب الجھ گیا تھا انہیں دیکھ ۔۔
"سعدیہ کا پاؤں سلپ ہو گیا تھا اور وہ مجھ پر گر گئی اور میں بیٹھ پر ....اس کے علاوہ کچھ نہیں ہو رہا تھا یقین کرنا ہے تو کرو ورنہ جو چاہے سوچ سکتی ہو "شاہنزیب کی بات سن وہ آنسو صاف کرتی بغیر کچھ کہے چلی گئی ۔۔۔ماہ نور کی آنکھوں نے آج اسے الجھا کر رکھ دیا تھا ۔۔۔جو اس نے سنا وہ سچ تھا یا جو وہ کچھ دنوں سے ماہنور کی آنکھوں میں محسوس کر رہا ہے ....وہ سچ ہے ۔
ہ سیڑھیوں سے اتر کر آیا تو ہر کسی کی نگاہ کا مرکز بن گیا ۔۔سعدیہ نے اپنے ساری دوستوں سے شاہنزیب کو ملوایا۔۔۔وہ اس قدر حسین تھا ہر لڑکی اس پر فدا ہو رہی تھی۔۔اس میں ایک عجیب سا چام تھا کہ جو اسے ایک بار دیکھتا وہ اسے مڑ کر دوبارہ ضرور دیکھتا۔۔۔۔کالے رنگ کے کپڑوں میں وہ قیامت ڈھ رہا تھا ۔۔
راحیل اپنے کمرے کو اندر سے لوک کیے بیٹھا تھا ۔۔ آنکھوں میں رنج و غم جھلک رہا تھا ۔۔ماہ نور کی تصویر اس کی آنکھوں کے آگے گھوم رہی تھی ۔۔"میں بزدل نہیں ہوں ۔۔۔بس حالات نے مجھے مجبور کر دیا ہے ماہنور۔۔۔میں بڑے ابو کی دی ہوئی قسم میں بندھ گیا ہوں ۔۔۔میں چاہ کر بھی یہ شادی نہیں روک سکتا ۔۔کاش میں تمہیں بتا پاتا کہ کتنا تڑپ رہا ہوں تمہاری محبت میں ۔۔یہ دل بھی بڑا ظالم ہے اتنا تڑپتا ہے پر پھر بھی اس کی تڑپ ختم نہیں ہوتی۔۔۔"وہ روتے ہوئے ماہ نور کا تصور کر اسے حالِ دل بیان کر رہا تھا ۔۔۔
ماہ نور کو سیڑھیوں سے نیچے لال دوپٹے کی چھاؤں میں لایا جا رہا تھا ۔۔۔ شارق اور باقی سب مہمان بھی آ چکے تھے ۔۔۔ماہ نور پیلے کپڑوں میں ملبوس حسن سادگی کا نمونہ لگ رہی تھی۔۔اس کا چہرہ کھلتے گلاب کی طرح ہو رہا تھا ۔۔شاہنزیب کی نگاہیں اسی پر ٹک گئیں تھیں۔۔"آنکھیں تو جھپکو "اسماء کے مسکراتے ہوئے اسے ٹوٹکنے کے باوجود بس ماہ نور کو دیوانوں کی طرح دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔وہ آ کر اسٹیج پر رکھی چیئر پر بیٹھ گئی تھی ۔۔رومیساء آپا لڑکوں والوں کی طرف سے پھولوں سے بنا زیور لائیں تھیں۔۔انہوں نے ماہ نور کے ہاتھوں میں گیندے کے پھول کے کڑھے پہنائے ۔۔۔ماتھے پر بندیا ۔۔اس کی لمبی چوٹی پر گجرے ۔۔اور کانوں میں بالے ۔۔شاہنزیب دور کھڑا ہو کر ساری رسمیں دیکھ رہا تھا ۔۔۔قوال کے آتے ہی ماہ نور کے سامنے ایک اور اسٹیج جلدی سے بنا دیا گیا ۔۔۔وہاں سارے قوال بیٹھ گئے ۔۔پہلے تو قوال قوالیاں پڑھتے رہے ۔۔۔"شاہ چلو مانو کے اپٹن لگاؤ "کامران نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا اور اسے اپنے ساتھ اس کے منع کرنے کے باوجود زبردستی لے آیا ۔۔۔
اپٹن لگانا وہ بھی اُس لڑکی کو جسے بچپن سے اپنی دلہن مانتا تھا ۔۔۔آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے ۔۔۔"شاہ پہلے کیک کھلاؤ "سعدیہ نے اس سے کہا ۔۔۔شاہنزیب کے ہاتھ کپکپا رہے تھے ۔۔اس نے کیک کا ٹکڑا بامشکل چمچے میں بھرا اور ماہ نور کے منہ کے پاس لے گیا ۔۔۔ماہ نور کو تنگ کرنے کی نیت سے کامران نے وہ اٹھا کر ہاتھوں سے ہی کھا لیا ۔۔سب یہ دیکھ ہنسنے لگے ۔۔بس شاہنزیب کا اپٹن لگانا تھا ماہ نور کے ہاتھوں پر ۔۔۔وہ زور زور سے رونا شروع ہوگیؔ ۔۔۔
"ارے یار رو مت ابھی رخصتی میں دو دن ہیں" کامران اس کے سر پر ہاتھ رکھ دلاسہ دیتے ہوئے بولا ۔۔آپا نے بڑی مشکل سے اسے چپ کرایا۔۔۔
"اِسے شاہ نے رولایا ہے اب اِسے رولانے کی سزا ملے گی "ریشم نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔
"اٹھو شاہنزیب چلو قوالوں کے پاس جا کر بیٹھو اور کوئی قوالی سناؤ یہی تمہاری سزا ہے "علی بھیا نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
وہ سب کے اصرار پر قوالوں کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔۔۔شاہنزیب نگاہوں میں بس ماہ نور کا چہرہ گھوم رہا تھا اس نے گہری بولتی نگاہوں سے اسے تکتے ہوئے گانا شروع کیا ۔۔۔
یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے
یہ تیری نظر کا قصور ہے
کی شراب پینا سکھا دیا
کے شراب پینا سکھا دیا
اس کی آواز سریلی تو پہلے ہی تھی پر آج اس میں رنج و غم و فکر بھی جھلک رہے تھے ۔۔اس قدر درد تھا اس کی آواز میں کے اس کے گانا شروع کرتے ہی ہر طرف خاموشی چھا گئی ۔۔ماہ نور جو بس روئے جا رہی تھی اس کی آواز سن نظر اٹھائے اسے دیکھنے لگی۔ ۔۔سارے قوال تالیاں بجانے لگے تھے ۔۔ماہ نور اور ولید اس کی آنکھوں کے درد کو محسوس کر رہے تھے ۔۔۔ولید کو اُس کی حالت پر ترس آ گیا ولید چلتا ہوا اس کے پاس آکر اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں منع کرنے لگا پر اب دیر ہو چکی تھی دل کے سارے تار چھڑ گئے تھے گانا شروع کرتے ہی اب پیچھے ہٹنے والا کہاں تھا وہ۔۔۔۔ نفی میں گردن ہلا کر۔۔
یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے
یہ تیری نظر کا قصور ہے
کے شراب پینا سکھا دیا
تیرے پیار نے تیری چاہ نے
تیری بہکی بہکی نگاہ نے
مجھے اک شرابی بنا دیا
کے شراب پینا سکھا دیا
وہ دنیاوی شراب کی بات نہیں کر رہا تھا وہ تو اپنے محبوبہ کی نگاہوں سے جو شراب پیتا ہے اس کی بات کر رہا تھا آج۔۔آج اسے دیکھ کر۔۔۔۔۔ اسے ہی بتا رہا تھا کہ اس کی نگاہیں کتنا ظلم ڈھاتی ہیں اس پر ۔۔۔اب وہ اس شراب کا عادی بن چکا ہے اب کیسے چھوڑ دے اسے ۔۔۔بچپن سے آج تک اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس کی شرارتیں اس کا مذاق اس کا رونا اس کا مسکرانا اس کا غلطی کرکے اپنے ہونٹوں کو دبا لینا بھول ہونے پر اپنی انگلی اپنے منھ میں رکھ لینا بارش ہونے پر مور کی طرح مست ہو کر ناچنا اور اس کا پیار سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا حق جتانا ایک ایک لمحہ اس کی نگاہوں میں گھوم رہا تھا ۔۔۔اس نے ایک عجیب سہ سماں باندھا تھا ۔۔۔ہر کوئی اس کی سریلی آواز کے نشے میں مست تھا مگر وہ صرف ماہ نور کو دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔اس کا کہا ایک ایک لفظ اس کے دل کی سچی ترجمانی کر رہا تھا ۔۔۔
تیرا پیار ہے میری زندگی
بس میری زندگی تیرا پیار
میرے بعد کس کو ستاؤ گے
مجھے کس طرح سے مٹاؤ گے
مجھ کو تو برباد کیا ہے
اور کسے برباد کرو گے
رو رو کے فریاد کرو گے
اور کسے برباد کرو گے
تیری یہ ادا یہ بے رخی
کہہ رہی ہے ہم سے کہ اور پی
کیوں شراب پینا سکھا دیا
مجھے اک شرابی بنا دیا
شاہنزیب ایک لائن بولتا اور وہی لائن دوبارہ سارے قوال گاتے ۔۔۔اسے ماہ نور کا چڑیل بن کر اس کے کمرے میں آنا۔۔۔۔ اِس قدر نزدیک آ جانا کے سانسوں کی خوشبو کو محسوس کر سکیں ایک دوسرے کی۔۔۔نظروں میں گھومنے لگا تھا وہ لمحہ ۔۔۔۔وہ زیر لب مسکرایا ۔۔۔۔پر اگلے ہی لمحے اسے ماہنور کے پاؤں میں کانچ کے ٹکڑے کا گھسنا یاد آیا ۔۔جو اس کے چہرے کو غم سے زرد کر گیا تھا ۔۔۔ماہ نور اس کا گانا سن مزید رونے لگی تھی ۔۔۔جب کہ وہ صرف ماہ نور کو شکوے بھری نگاہ سے تک رہا تھا۔۔اس کا گانا اور اس کی نگاہوں نے شارق اور رومیساء پر یہ انکشاف کر دیا تھا کہ وہ ماہ نور سے بہت محبت کرتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میرے ہاتھ پر شاہنزیب کا نام لکھ دیں "سعدیہ نے مہندی والی سے کہا تو ماہ نور کے کان کھڑے ہوگئے اور وہ سن حسرت بھری نگاہوں سے سعدیہ کے ہاتھوں پر شاہنزیب کا نام لکھتے ہوئے دیکھنے لگی ۔۔
"اللہ یہ کیا ۔۔کیا تم نے ماہ نور ؟؟"سعدیہ نے زور سے بولا تھا جھنجھلا کر کیونکہ ماہ نور سعدیہ کے بالکل برابر میں بیٹھی ہوئی تھی ۔۔اس کا دوپٹہ سر سے اترا ہوا تھا ۔۔اسماء ماہ نور کا دوپٹہ واپس اس کے سر پر ڈالنے لگی تھی کہ ماہ نو نے اسماء کو آپ جان کر دھکا مار کر سعدیہ پر گرا دیا ۔۔سعدیہ حملے کے لیے تیار نہ تھی اس لیے زمین پر گرنے سے خود کو بچانے کی کوشش میں زمین پر ہاتھ کا سہارا رکھ کر خود کو گرنے سے روکا ۔۔۔اِس سبب سے اُس کے دونوں ہاتھوں کی مہندی خراب ہوگئی ۔۔
"سوری ۔۔یہ دوپٹا نہ میرے چب رہا ہے ۔۔میرے منع کرنے کے باوجود اسماء کی بچی مان ہی نہیں رہی اس لیے میں نے اسے دھکا دیا۔۔۔۔پر مجھے نہیں خبر تھی کہ یہ تم پر گر پڑے گی سوری سعدیہ "ماہ نور نے اتنا بھولا سا چہرہ بنا کر اداس لہجے میں کہا کہ سب کو یقین ہوگیا کہ واقعی غلطی سے ہوا ہے ۔۔ رومیساء آپا دیکھ چکی تھی کہ ماہ نور نے آپ جان کر سعدیہ کی مہندی خراب کی ہے ۔۔انہوں نے ماہ نور کو گھور کر دیکھا جس پر اس نے نظریں چرا لیں ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"شاہ مجھے تم سے کچھ پوچھنا ہے "ماہ نور تیزی سے چلتی ہوئی شاہزیب کے کمرے میں آ گئی اس کے پیچھے پیچھے رومیساء آپا بھی آئیں تھیں ۔۔شاہزیب بیڈ پر بیٹھا ہوا تھا کہ وہ بھی اس کے برابر میں آ کر بیٹھ گئی
"پوچھو "شاہنزیب نے ان دونوں کے چہرے دیکھے ایسا لگ رہا تھا کے ان دونوں کے درمیان کسی بات پر گرماگرمی چل رہی ہے۔۔۔
"شاہ "ماہ نور نے بولنا شروع ہی کیا تھا کہ آپا بات کاٹتے ہوئے "میں پوچھتی ہوں ۔۔۔"پھر شاہنزیب سے مخاطب ہو کر "تم بتاؤ ۔۔۔تم لڑکے ہو ۔۔۔کیا کوئی لڑکا اپنے سے بڑی عمر کی لڑکی سے محبت کر سکتا ہے ؟؟۔۔۔خاص طور پر تب جب اس کی ایک حسین منگیتر بھی ہو۔۔۔اور وہ خود بھی بہت حسین و جمیل ہو۔۔۔ بولو "ان کا سوال سن وہ بری طرح چونکا
" ولید نے انہیں میرے بارے میں سب کچھ بتا دیا کیا" شاہنزیب دل میں سوچ کر پریشان ہوا ۔۔۔اس کی چوڑی پیشانی پر بل پڑھ گےؔ تھے
"شاہ جواب دو کیا نہیں کرسکتا محبت ؟؟"اس کی خاموشی ماہنور کو ستا رہی تھی ۔۔
"اس سوال میں تو میری پوری زندگی الجھی ہے "وہ طنزیہ دل میں سوچ زیر لب مسکرا یا ۔۔۔
"جواب دو ۔۔"آپا اصرار کر رہی تھیں۔ ۔۔
"پہلے آپ بتائیں آپ یہ سوال کیوں کر رہی ہیں ؟؟"شاہنزیب نے آئبرو اچکا کر تجسس سے پوچھا ۔۔۔
"سوال پر سوال مت کرو ۔۔۔جواب دو ۔۔"ماہ نور امید باندھے نظر آ رہی تھی جب کہ آپا کے ماتھے پر اتنی سردی میں بھی پسینہ تھا ۔۔
"مجھے نہیں پتا ۔۔اور میرے نظریہ کے مطابق تو لڑکے کو ہمیشہ ۔۔۔“شاہنزیب ابھی بول ہی رہا تھا
"میں تمہارا نظریہ نہیں پوچھ رہی صاف الفاظ میں بولو کر سکتا ہے یا نہیں ؟؟"ماہ نور نے پھر سے وہی سوال دہرایا تھا ۔۔
"میری چھوڑو اپنی بتاؤ ۔۔۔تم ایک لڑکی ہو کیا تم اپنے سے چھوٹی عمر کے لڑکے سے محبت کر سکتی ہو ؟؟؟"شاہزیب نے سوال الٹ دیا تھا وہ سنجیدگی سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال ماہ نور سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔
"ہاں کر سکتی ہے بالکل کر سکتی ہے ۔۔مجھے اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی "ماہ نو نے صاف الفاظ میں جواب دیا اس کے لفظوں اور نظروں دونوں میں صداقت تھی ۔۔۔"اب اپنا جواب دو "ماہ نور دوبارہ سوال پوچھنے لگی امید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے
رومیساء دونوں کی آنکھیں پڑھ چکی تھی انہوں نے شاہنزیب کو گانا گاتے ہوئے بھی سنا تھا وہ اس بات سے واقفیت رکھتی تھیں کہ ماہ نور کی ہاں سننے کے بعد شاہنزیب بھی ہاں ہی کہے گا ۔۔جبکہ دو دن بعد ماہ نور کی شادی تھی وہ بھی انہی کے دیور سے ۔۔۔"ماہ نور ڈائجسٹ کی کہانیوں کو اصل زندگی سے کمپئر مت کرو ۔۔اس میں تو سب کچھ ہو سکتا ہے پر یہ اصل زندگی ہے ۔۔ہمارے یہاں بڑی عمر کی لڑکیوں کی شادی چوٹی عمر کے لڑکوں سے نہیں ہوتی "آپا نے شاہنزیب کو بولنے کا موقع ہی نہ دیا ۔۔جب شاہنزیب نے سنا کہ وہ صرف ڈائجسٹ کی کہانی کے متعلق بات کر رہی ہے تو وہ ماہ نور کو غصے سے گہورنے لگا ۔۔
"ماہ نور "وہ سر جھٹک بولا ۔۔
"پر آپا" وہ حیرت سے رومیساء کو دیکھ رہی تھی ۔۔
"چلو ماہ نور چلو رات کافی ہو گئی ہے پھر کل رجگہ بھی ہے تم تھک جاؤ گی "وہ ماہ نور کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی اسے کھینچتی ہوئی لے گی ۔۔۔
"کاش مانو تمھارا اصل زندگی میں بھی یہی فیصلہ ہوتا"وہ ایک گہری ٹھنڈی آه بھرتے ہوئے گویا ہوا ۔۔۔۔
وہ آفس میں بیٹھے انتظار کر رہے تھے "بھائی صاحب آج گھر میں شادی ہے اور آپ ہیں کہ زمین کے تنازعے میں الجھے ہوئے ہیں ۔۔۔شادی کے بعد فرصت سے اس مسئلے کو حل کرلیں گے "ملک صاحب سے افتخار صاحب کہنے لگے ۔۔
"ہاں بھائی صاحب وہ زمین کونسا بھاگے جا رہی ہے "علی کے والد نے بھی افتخار صاحب کی تائید کی تھی ۔۔
"
نہیں میں اپنی وصیت میں ماہ نور کے نام کر کے جانا چاہتا ہوں وہ زمین ۔۔وہ زمین ماہنور کی ماں کی ہے جس پر قانونا صرف ماہ نور کا حق ہے ۔۔۔وہ لالچی لوگ میری بیٹی کا حق کھا جائیں گے ۔۔۔اس لئے میں یہ مسئلہ جلد از جلد حل کرنا چاہتا ہوں "ملک صاحب فکر مند لہجے میں پیشانی پر بل ڈالتے ہوئے بولے ۔۔۔وہ اپنی وصیت بھی تیار کروا چکے تھے مگر ماہ نور کی ماں کی ایک زمین جو کافی مہنگی اور نایاب تھی اسے بھی ماہ نور کے نام کروانا چاہتے تھے جس پر ماہ نور کے ماموں نے قبضہ کر رکھا تھا اس مسئلہ کے لئے انہوں نے ایک وکیل سے رابطہ کیا ۔۔
ایک خوبصورت سی خاتون تھوڑی دیر بعد کمرے میں داخل ہوئیں ۔۔۔وہ وکیل کے لباس میں تھیں ۔۔تینوں بھائی انہیں کا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔وہ شہر کی سب سے اچھی وکیل تھیں جنہوں نے آج تک اپنی زندگی کا کوئی کیس نہیں ہارا ۔۔۔وہ سارے معاملات طے کرنے کے بعد جانے لگیں تھیں کہ ان کی نظر دیوار پر فریم ہوئی تصویر پر پڑی ۔۔
"یہ لڑکا ؟؟"وہ تصویر کے پاس ہی رک گئیں تھیں اور شاہنزیب کی تصویر پر انگلی کا اشاره کرتے ہوےؔ پوچھنے لگیں ۔۔
"یہ میرا بیٹا ہے "افتخار صاحب کے کہتے ہی وہ بے یقینی سے انہیں دیکھنے لگیں ۔۔
"شاہنزیب آپ کا بیٹا ہے ؟؟"ان کی آنکھوں کی حیرت بتا رہی تھی کہ وہ چونکی تھیں یہ سن ۔۔۔
"ہاں وکیل صاحبہ یہ انہی کا بیٹا ہے پر آپ اس کا نام کیسے جانتیں ہیں؟؟"علی کے والد تجسس سے پوچھنے لگے ۔۔
"یہ میرا کلائینٹ ہے ۔۔اور یہ لڑکی جو تصویر میں ہے یہ بھی آپ کی بیٹی ہے ؟؟"وہ اب ماہنور کی تصویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھ رہی تھیں ۔۔
"نہیں وہ میری بھتیجی ہے۔۔۔ آپ کا کلائینٹ ۔۔۔یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟؟"افتخار صاحب حیرت سے استفسار کر رہے تھے ۔۔
"جی ہاں یہ میرے کلائنٹ ہیں ۔۔ان کی بہن کے بچوں کی کسٹڈی کا مقدمہ ۔۔۔میں انڈیا میں لڑ کر آرہی ہوں کچھ ماہ پہلے "بس وکیل صاحبہ کا بتانا تھا وہ تینوں بھائی سر سے پاؤں تک ھل گئے ۔۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ کسی نے زور دار بم پھوڑا ہو ان کے سر پر ۔۔۔
"کیا کہا آپ نے اس کی بہن کا مقدمہ ؟؟"افتخار صاحب کو سب سے بڑا جھٹکا لگا تھا
"جی۔۔۔۔ میں نہیں جانتی تھی کہ وہ لڑکی جو بظاہر مظلوم غریب اور پیسے پیسے کی محتاج نظر آتی تھی وہ آپ جیسے اتنے بڑے بزنس مین کی بیٹی ہے "وکیل صاحبه خود بھی حیرت زدہ تھیں۔ ۔
"اور آپ ماہ نور کو کیسے جانتی ہیں؟؟؟"ملک صاحب تجسس سے پوچھ بیٹھے ۔۔۔
"یہی تو وہ لڑکی ہے جس نے میری پیمنٹ کی تھی ۔۔اس نے ہی مجھے ہائر کیا تھا ۔۔یہ بضد تھی کہ میں انڈیا جا کر کیس لڑوں اس چکر میں اس نے مجھے ڈبل فیس بھی آفر کی تھی ۔۔صرف اس کے بار بار اصرار پر ہی میں کیس لڑنے کے لیے راضی ہوئی تھی "جب وکیل صاحبہ نے بتایا تو تینوں بھائی حقا بقا تھے۔۔۔کے اُن کو کانوں کان کسی نے خبر تک نہ ہونے دی اور اتنا کچھ ہو گیا گھر میں۔۔
"یہ میرا بیٹا ہے میں جاننا چاہتا ہوں ساری بات پلیز مجھے بتائیں " افتخار صاحب کا دل تڑپ گیا تھا وہ التجائی لہجے میں گذارش کر رہے تھے ۔۔۔
"افتخار صاحب آپ کی بیٹی کی طلاق ہو چکی تھی جب میں وہاں پہنچی بلکہ وہ دوسری شادی بھی کر چکی تھی اس کے پہلے شوہر نے مقدمہ کیا تھا اپنے بچوں کو وہ صرف ایک جائیداد کی طرح سمجھ رہا تھا کہ بس کسی طرح حاصل کر لے۔ ۔۔جب میں وہاں گئی تو حالات کافی خراب تھے آپ کی بیٹی تو ہار مان چکی تھی پر شاھنزیب اور اس کے شوہر نے اس کی ہمت بنائی ۔۔۔اس کا پہلا شوہر بہت ظالم تھا اتنا تشدد کیا کرتا تھا وہ آپ کی بیٹی پر اور آپ کے نواسوں پر ۔۔۔کیس کے دوران شاہنزیب پر دو بار جان لیوا حملا بھی کرایا گیا ۔۔مجھے بھی دھمکیاں دی گئیں کہ یہ کیس چھوڑ دوں۔ ۔۔ پر یہ لڑکا بہت بہادر اور عقلمند ہے ۔۔۔یہ ہار نہیں مانا اتنا سب کچھ ہوجانے کے باوجود یہ ڈرا نہیں ۔۔۔بلکہ مقدمہ جیت کر ہی اس نے سکھ کا سانس لیا ۔۔ "وکیل صاحبہ کی ساری بات سننے کے بعد افتخار صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گئے ۔۔۔
"میری بیٹی اور نواسے اتنی مشکل میں تھے اور مجھے خبر تک نہ تھی ۔۔۔میرا چھوٹا بیٹا اتنی بڑی جنگ لڑ آیا اور آکر ایسے بن گیا کہ مانو اس نے کچھ کیا ہی نہیں بلکہ سب کی گالیاں سنتا رہا "افتخار صاحب نہایت غمگین لہجے میں گویا ہوئے ۔۔
"اس نے ضرور تمہاری طبیعت کا خیال کرتے ہوئے ہم سب سے چھپایا ہوگا "علی کے والد اپنے اندازے کے مطابق گویا ہوئے ۔۔۔
"نہ جانے بچوں نے کیا کیا سہا ہے میں تو کچھ نہیں جانتا ۔۔میرا بچہ اتنی مشکلوں سے لڑ رہا تھا اور وہ بھی اکیلے ۔۔میری بیٹی اور نواسے ایک ایک پیسے کے محتاج تھے ۔۔یہاں سے ماہنور اور شہزاد پیسے بھیج رہے تھے اور مجھے کبھی کچھ پتا ہی نہیں چلا " افتخار صاحب بہت ملامت کر رہے تھے خود کو۔۔۔ غم و غصے کی کیفیت میں مبتلا تھے وہ ۔۔۔
"شاہنزیب بچہ ہے یہی سمجھتا رہا میں ۔۔وہ ضدی اکڑو بدتمیز خود سر ہے یہی سوچتا رہا بس ۔۔پر وہ تو بہت ذہین اور اپنوں پر جان قربان کرنے والا ہوشیار لڑکا نکلا "ملک صاحب داد دے رہے تھے اس کی اعلی ظرفی کی ۔۔۔
وہ سب واپس گھر آئے تو شاہزیہ کو اپنے بچوں کے ساتھ گارڈن میں کھیلتا ہوا دیکھ بہت خوش ہوئے ۔۔
"شاہنزیب" ملک صاحب کی آواز پر وہ کھڑا ہوا تھا صوفے سے ۔۔آج ان کی آواز میں غصہ نہ تھا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ پیار جھلک رہا تھا ۔۔"جی بڑے ابو "وہ کہہ کر دو قدم ہی چلا تھا کہ بڑے ابو آ کر اس کے گلے لگ گئے۔۔شاہنزِب ان کے گلے لگتے ہی خوشی و حیرت کی ملی جھولی کیفیت میں مبتلا ہوگیا ۔۔۔"تم واقعی بہت پیارے بیٹے ہو جس گھر میں تمہارے جیسا بیٹا ہو اس گھر کی طرف غم آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتے "انہوں نے گلے لگے ہوئے ہی بڑی محبت سے کہا ۔۔۔اسماء ماہنور کامران شہزاد چاروں حیرت سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔آج شاہنزیب نے ملک صاحب کا دل جیت لیا تھا ۔۔جس کے لیے نہ جانے وہ کتنے سالوں سے کوشش کر رہا تھا ۔۔
"آپ مجھ سے ناراض نہیں ہیں ؟؟"شاہنزیب حیرت سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔"نہیں "وہ یہ کہہ کر اس کے ماتھے کو چوم کر مسکراتے ہوئے چلے گئے ۔۔علی کے والد نے آ کر اس کی پیٹھ تھپتھپائی اور بغیر کچھ کہے وہ بھی چلے گئے ۔۔۔البتہ افتخار صاحب کی آنکھوں میں نمی تھی ۔۔وہ دور کھڑے اسے دیکھ رہے تھے ان کی نگاہوں کی خفگی آج غائب تھی ۔۔۔۔ وہ بغیر کچھ بولے اپنے کمرے کی جانب بڑھا گئے ۔۔
"کیا ہوا ہے ؟؟"شہزاد اور ماہ نور دونوں تیزی سے اس کے پاس آکر پوچھنے لگے ۔۔
"مجھے خود نہیں پتا "شاہنزیب نے لاعلمی کے اظہار میں کندھے اچکا دیے ۔۔۔
"کہیں شاہزیہ آپا والی بات ----"ماہ نور ابھی آہستگی سے بول ہی رہی تھی ۔۔۔
"نہیں ۔۔۔وہ بات پتا چل جاتی تو وبال کھڑا ہوتا یہاں ۔۔۔یو پیار سے گلے نہیں لگایا جارہا ہوتا "شہزاد نے اپنے اندازے کے مطابق جواب دیا ۔۔
"ھمم۔ ۔ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ۔۔ تو پھر کیا بات ہو سکتی ہے؟؟"شاہنزیب بھی الجھا ہوا تھا اس لئے ذہن پر زور ڈالتے ہوئے بول رہا تھا ۔۔۔
تینوں بھائیوں نے شادی کا گھر ہونے کے سبب عیبوں کا پردہ چاک کرنا درست نہ سمجھا ۔۔۔تینوں بھائیوں نے شادی ختم ہونے کے بعد بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہی دلہن کا لباس ۔۔وہی سنسان میدان ۔۔۔وہی چیخنے کی آوازیں۔ وہی شاہنزیب کو مارتے ہوئے لوگ ۔۔۔"چھوڑو شاہنزیب کو چھوڑو ۔۔۔خدا کا واسطہ چھوڑ دو اسے ۔۔اسے مت مارو پلیز چھوڑ دو اسے "وہ روتے ہوئے نیند میں بول رہی تھی ۔۔۔اسماء نے ماہنور کو نیند میں روتے ہوئے کہتے سنا تو وہ سمجھ گئی کہ ماہنور وہی خوفزدہ کرنے والا خواب آج پھر دیکھ رہی ہے ۔۔۔۔جسے دیکھنے کے بعد وہ بری طرح ڈر جاتی ہے اور بے چین ہو کر شاہنزیب کے کمرے کی جانب بھاگتی ہے "شاہنزیب" وہ چیختی ہوئی اٹھی۔۔۔۔
"سب ٹھیک ہے " اسماء نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر کہا ۔۔۔وہ اپنے حواسوں میں نہ تھی ۔اسماء کا ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ سے ہٹا کر دوپٹے سے بے نیاز ہو کر شاہنزیب کے کمرے کی جانب تیزی سے بڑھ گئی ۔۔۔
"تمہیں آج بھی میرے متعلق خواب نظر آتے ہیں ؟؟"ماہ نور کمرے میں گھوسی چلی آئی تھی اپنی ریت برقرار رکھتے ہوئے ۔۔شاہنزیب بالکل تیار کھڑا تھا اس کے سامنے ۔۔آج ماہ نور کی شادی تھی اس لیے شاہنزیب کے ذمہ ماہ نور کو پارلر لے کر جانا اور پھر شادی ہال لانے کی ذمہ داری عائد کی گئی تھی ۔۔۔وہ آسمانی رنگ کی شیروانی پہنے ہوئے تھا ماہ نور کے چہرے کی ہوائیاں اڑی دیکھ مسکراتے ہوئے پوچھنے لگا ۔۔
"تم ٹھیک ہو ؟؟"وہ بے تابی سے اسے دیکھ پوچھنے لگی ۔۔اس کی آنکھوں میں ابھی بھی خوف چھایا نظر آرہا تھا۔۔
"ہاں میں بالکل ٹھیک ہوں تم جاؤ جلدی تیار ہو کر نیچے آ جاؤں "وہ اطمینان بخش جواب دے کر اپنے بال بنانے لگا ۔۔
"ایک تو تم بے وقت شام میں سو گئیں اوپر سے اب یہاں چلی آئی ہو ۔۔۔تمہیں پارلر نہیں جانا؟؟"رومیسا آپا نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا اور اپنے ساتھ لے گئیں۔۔۔۔
ساری تیاری ہوگئی ؟؟"شاہنزیب پارلرکے باہر کھڑا فون پر ولید سے پوچھ رہا تھا ۔۔
"ہاں میں تیار بیٹھا ہوں تیرا بھائی ہے ناں سب سنبھال لے گا بس تو اپنی تیاری مکمل رکھ ۔۔۔سامان تو سارا لے لیا نا ؟؟"ولید نے استفسار کیا ۔۔
"ہاں ۔۔کار کی ڈگی میں ہے۔۔ماہ نور کو ھال میں چھوڑ دوں۔ ۔پھر سب کو اپنا چہرہ دکھا کر چلا جاؤں گا ۔۔بس دکھ ہے کہ تم سے نہیں مل سکوں گا جاتے وقت ۔۔پر شکریہ ۔۔جو کچھ بھی تم نے میرے لئے کیا اس کے لئے "شاہنزیب مسکراتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کر رہا تھا ۔۔اسے واقعی ولید سے مل کر ایک سچا دوست مل گیا تھا۔ ۔۔
"چل کوئی نہیں ۔۔۔مجھ کو یہ شکریہ وکریہ کہنے کی ضرورت نہیں۔۔اور رہی ملنے کی بات تو میں خود آ جاؤں گا لندن تجھ سے ملنے۔۔۔"وہ یہ کہہ کر سلون کی طرف دیکھنے لگا جہاں اسے شارق نکلتا ہوا نظر آیا ۔۔۔"چل بعد میں بات کرتے ہیں ۔۔۔ولید نے کہہ کر فون بند کیا تھا ۔۔ولید شارق کی کار کے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا ۔۔اس نے ڈوبلیکیٹ چابی سے کار کا دروازہ کھولا تھا ۔۔بے ہوشی کی دوا رومال میں لگا کر تیار بیٹھا تھا حملے کے لیے ۔۔پھر کیا تھا جیسے ہی شارق کار میں بیٹھا ولید نے پیچھے سے اس پر حملہ کردیا ۔۔کیونکہ وہ اس حملے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھا ۔۔تو ولید کو نہ روک سکا ۔۔ولید نے اس کے منہ پر رومال لگا کر اسے بےہوش کر دیا تھا ۔۔۔پھر بے ہوشی کی حالت میں اسے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھا دیا ۔۔"کام ہو گیا "اس نے شاہنزیب کو ایس ایم ایس کیا ۔۔
"یار ابھی بھی وقت ہے سوچ لے ۔۔۔کیا واقعی تجھے یہ کرنا ہے ؟؟؟۔۔۔کیونکہ اگر تو چاہے تو راحیل کی جگہ کھڑا ہو سکتا ہے ۔۔ہم جس طرح کے حالات بنا رہے ہیں اس میں صرف راحیل ہی نہیں تو بھی ماہ نور سے شادی کر سکتا ہے"ولید سلون سے دور نکل آیا تھا اس نے پھر شاہنزیب کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کے لیے کہا ۔۔
"یار ۔۔۔تیرے بھائی کا دل پہلے ہی بے ایمان ہے۔ ۔۔بڑی مشکل سے اسے سمجھایا ہے ۔۔۔یا یوں کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ماہ نور کے آنسو نے اسے طاقت دی ہے کہ اس کی خوشیوں کی خاطر پیچھے ہٹ جائے ۔۔سچ کہوں تو دل ابھی بھی بے ایمان ہے اس کو لے کر۔۔۔ تبھی یہاں سے جا رہا ہوں اس کے نکاح سے پہلے پہلے کیونکہ میں جانتا ہوں اگر میں یہاں رہا تو پھر اپنے آپ کو روک نہیں پاؤں گا "شاہنزیب نےکھ کر سیل سوئچ آف کیا ۔۔۔اور جیب میں بے دلی سے ڈال لیا ۔۔۔پھر کار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا "کیا واقعی۔۔۔ میں ماہ نور کی شادی راحیل سے کروا رہا ہوں ؟؟"وہ بے یقینی سی کیفیت میں خود ہی سے ہم کلام ہو کر پوچھ رہا تھا ۔۔۔"یقین نہیں آتا مجھے ۔۔۔میرا دل کیوں کہتا ہے کہ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے ۔۔۔اے دل نادان اپنی خوش گمانیوں سے باہر آجا۔۔۔میں جانتا ہوں ایسا نہیں ہے ۔۔اس دن جب ماہ نور نے مجھے سعدیہ کے نزدیک دیکھا تو اگر اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا تو وہ روئی کیوں ؟؟۔۔۔جس ماہ نور کو میں جانتا تھا وہ ہوتی تو پورے گھر میں ریکارڈ لگا دیتی میرا اور سعدیہ کا ۔۔پر وہ تو رو گیؔ ۔۔۔جب حویلی میں ، میں اسے گن پکڑنا سیکھا رہا تھا تو وہ مجھے گہری بولتی نظروں سے کیوں دیکھ رہی تھی ؟؟اور کل رات کیا ماہ نور واقعی کسی ڈائجسٹ کی کہانی کے متعلق بات کر رہی تھی ۔۔۔کہیں میں کچھ غلط تو نہیں کر رہا ۔۔۔نہیں نہیں میں شاید کچھ زیادہ ہی سوچ رہا ہوں ۔۔۔میرا دل مجھے بہکا رہا ہے ۔۔اور پھر وہ دونوں یوں چھپ چھپ کر راتوں میں کیوں ملتے ۔۔۔راحیل بڑے ابو کو منانے بھی تو گیا تھا ۔۔وہ کیسے بھول سکتا ہوں میں "شاہنزیب خود ہی کو یقین دہانی کرا رہا تھا ۔۔۔ماہ نور کی نظروں اور باتوں نے اسے الجھا دیا تھا بری طرح ۔۔۔وہ انہی سوچوں میں گم سم کھڑا تھا کہ اس کے کانوں کی سماعت سے چھن چھن کی آواز ٹکرائی ۔۔اس پازیب کی چھن چھن کو اس کا دل بہت اچھے سے پہچانتا تھا ۔۔اس نے نظر اٹھائیں تو وہ شرارہ سنبھالے اکیلے چلی آ رہی تھی ۔۔۔
ماہ نور کو اس سے پہلے بھی لال رنگ میں بہت بار دیکھا تھا اس نے ۔۔۔پر آج کوئی اور بات تھی ۔۔وہ لال رنگ کے شرارے میں چلتی ہوئی اسی کی جانب آ رہی تھی شاہنزیب اسے اپنی جانب آتا دیکھ بچپن کی یادوں میں کہیں کھو گیا ۔۔اسی طرح جب وہ بچپن میں شادی والا کھیلا کرتے تھے تو وہ ہمیشہ اس کا دولہا بنتا تھا ۔۔یہ یاد آتے ہی اس کا دل ریزہ ریزہ ہوگیا تھا ۔۔وہ پاس آ کر کھڑی ہوئی تو وہ دیوانوں کی طرح حسرت سے تکنے گا ماہ نور کے بالوں میں آگے کاجل چوٹی پیچھے بیک کومنگ اور جوڑا باندھا ہوا ۔۔آگے ماتھے پر سونے کی ماتھا پٹی ۔۔اس کا میک اپ بالکل اس کی جلد کے مطابق ہوا تھا ۔۔وہ سونے کا بالا ناک میں پہنی ہوئی تھی اور گلے میں ہار ۔۔اس کی آنکھوں پر لال گولڈن اور کالے رنگ کے آئی شیڈ لگائے گئے تھے اور آنکھوں کے نیچے باریک سہ کاجل ۔۔۔لال رنگ کی لپ اسٹک اور ناخنوں پر لال رنگ کا نیل پینٹ ۔۔وہ حسین تو بہت لگ رہی تھی پر اس کے چہرے پر مایوسی چھائی تھی ۔۔۔وہ چہک چلبلاپن آج غائب تھا۔۔جو اس کے حسن کو مزید دوبالا کرتا تھا ۔۔
"تم نے بینک سے پیسے نکالے ہیں ؟؟"اس نے آتے ہی تیمور چڑھائے سوال کیا ۔۔۔
"ہاں "شاہنزیب کہہ کر اسے کار میں بیٹھانے لگا اور خود بھی بیٹھ گیا
"پر کیوں وہ بھی اتنی بڑی رقم تمہیں ایسی کیا ضرورت پڑ گئی ؟؟کیا میں پوچھ سکتا ہوں " ماہ نور تفتیشی افسران کی طرح اس سے تفتیش کرنے لگی۔ ۔شاہنزیب ماہ نور کا ایک جوائنٹ اکاؤنٹ تھا جسے شاہنزیب نے خالی کر دیا تھا اس لیے بینک والوں نے ماہ نور کو یہ خبر دے دی ۔۔۔جسے جاننے کے بعد وہ پریشان ہو گئی تھی ۔۔۔
"میں تمہیں بعد میں لوٹا دوں گا "شاہنزیب نے لاپرواہی سے کہہ کر کار اسٹارٹ کی ۔۔
"تم جانتے ہو بات پیسوں کی نہیں ہے میں پوچھ رہی ہوں کہ تم نے نکالے کیوں ہیں ؟؟۔۔وہ بھی اتنی بڑی رقم "مانو فکر مند تھی کہ کہیں وہ کسی پریشانی میں تو مبتلا نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ اتنے پیسے نکال رہا ہے
"ہم پھر کبھی بات کریں گے اس موضوع پر "وہ جھنجھلا کر کہنے لگا
"پر آج کیوں نہیں " وہ جانتی تھی کہ وہ جھنجھلا کر صرف بات ٹالنے کی کوشش رہا ہے ۔۔لیکن بار بار پوچھنے کے باوجود اس نے جواب نہیں دیا ۔۔
کار میں کافی دیر سے خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔۔نہ جانے کیوں شاہنزیب کا دل ماہ نور کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پرس پر اٹک گیا ۔۔۔اس نے کار سائٹ میں لگائی۔۔"پرس دیکھانا "شاہنزیب نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے پرس کی جانب کہا۔۔۔
"کیوں ؟؟"وہ ہڑبڑا کر بولی ۔۔
"ایسے ہی۔۔۔ نہ جانے کیوں میرا دل عجیب سا محسوس کر رہا ہے ۔۔"شاہنزیب کہہ کر اس کا پرس لینے لگا ۔۔ایک انجانی سی الجھن ہو رہی تھی اسے ۔۔ماہ نور کے پرس سے۔ ۔۔
"شاہ اس میں کچھ نہیں ہے " وہ گھبرا گئی تھی ۔۔۔اس نے جھٹ سے پرس اپنی کمر کی طرف رکھ لیا تھا ۔۔۔
"میں تو صرف دیکھنا چاہتا ہوں اگر اس میں کچھ نہیں ہے تو دیکھا دو ناں۔۔۔۔۔۔ لاؤ "وہ ماہ نور کی جانب جھک کر پرس والا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا۔ ۔۔
"ہر بات کے پیچھے کیوں پڑ جاتے ہو ؟؟۔۔میں نے کہا نہ ۔۔اس میں کچھ نہیں ہے" ماہ نور نے اس کا ہاتھ فورا ہٹایا تھا پرس سے ۔۔۔ اور اپنی کمر کے پیچھے چھپا کر غصے سے بولی تھی ۔۔
"پہلے تو میں صرف سرسری سا دیکھنا چاہتا تھا پر اب مجھے شک ہو رہا ہے کے ضرور کچھ گڑبڑ ہے ۔۔دیکھاؤ "ماہ نور نے اسے روکنا چاہا مگر شاہنزیب نے اس کا بازو مضبوطی سے دبوچ کر اپنی جانب کھینچا اور دوسرے ہاتھ سے اس کی کمر کے پیچھے رکھا ہوا پرس نکال لیا ۔۔۔ماہ نور نے پر زور احتجاج کیا شاہنزیب کی اس حرکت پر ۔۔۔پر وہ خاطر میں نہ لایا اور پرس کھولنے لگا ۔۔۔ماہ نور نے روکنا چاہا پر وہ کامیاب نہ ہو سکی ۔۔پرس کے اندر زہر کی بوتل دیکھ شاہنزیب کا دل ھل گیا ۔۔"تم خود کشی کرنے والی تھی؟؟ "اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا مارے حیرت کے ۔۔"میں کچھ پوچھ رہا ہوں ؟؟"جب ماہ نور نے جواب نہ دیا تو وہ اس کا بازو جھنجھوڑتے ہوئے دھاڑا ۔۔۔اس کی آنکھیں بے تحاشا سرخ ہو گئی تھیں مانو خون اتر آیا ہو۔۔۔"تمہارے ذہن میں یہ گھٹیا آئیڈیا آیا کہاں سے ؟؟۔۔۔کیا تمہیں معلوم نہیں خودکشی کرنا ہمارے اسلام میں حرام ہے؟ ؟"شاہنزیب کی آنکھیں ماہ نور کی آنکھوں میں گڑی تھیں جو برسنے کو بے تاب تھیں لیکن مقابل پر کوئی اثر نہ ہوا ۔۔"مانو تم نے اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے ایک بار بھی بڑے ابو یا رومیساء آپا یا میرے بارے میں نہیں سوچا ؟؟۔۔تم مجھے خود غرض کہتی ہو ناں ؟؟۔۔اور تم جو کر رہی ہو وہ کیا ہے ۔۔بتاؤں گی مجھے ؟؟"ماہ نور کی آنکھوں میں آنسوؤں کی لڑی بن گئی تھی ۔۔۔
”تم کچھ بولو گی بھی؟؟“شاهنزیب غصے سے تلملاتے ہوےؔ استفسار کررہا تھا...”ٹھیک ہے رہو چپ...کچھ مت بولو“وه غصے میں کہ کر اس کے سامنے زہر کی شیشی کھولنے لگا...
”کیا ، کیا کررہے ہو؟؟؟“وه شیشی کھولتے ہوےؔ دیکھ بےساختہ پوچھ اٹھی تھی...
”وہی جو تم کرنے والی تھیں...مانو اگر تم نے یہ زہر پینے کا پکا اراده کرلیا ہے تو تم اکیلے نہیں مرٶ گی...میں بھی تمھارے ساتھ...نھیں...بلکے تم سے پھلے جاٶں گا“شاهنزیب شیشی کا ڈھکن کھول اسے دیکھ بولا...
ماهنور جانتی تھی وه سرپھرا ہے ..وه ڈرا نہیں رہا ۔۔۔وه واقعی پی جاےؔ گا۔۔۔۔بغیر انجام کی پرواه کیےؔ۔۔
”شاهنزیب پاگل ہوگےؔ ہوکیا؟؟۔۔۔۔چھوڑو اِسے“اس نے شیشی منہ سے لگانے کے لیےؔ اپنے منہ کی جانب بڑھائی تو اس نے جھٹ سے جھپٹتے ہوےؔ اس کے اتھ سے شیشی چھین لی۔۔۔
”واپس دو مانو.....مرنا ہے ناں تمھیں....ٹھیک ہے مرٶ۔۔۔۔۔۔۔پر اب تم اکیلے نہیں مرٶ گی ۔۔۔۔میں تمھارے ساتھ ہی مروں گا۔۔۔۔۔۔دو مجھے بوتل“شاهنزیب کی آنکھوں میں غم و غصہ دونوں ہی جھلک رہے تھے...اس نے ماهنور سے واپس شیشی چھینے کی کوشش بھی کی۔۔۔۔۔مگر ماهنور نے شیشی شاهنزیب سے دور رکھنے کی کوشش کی ۔۔۔۔جب اس نے دیکھا کے وه اس میں کامیاب نہیں ہوپارہی ۔۔۔اس نے شیشی کار سے باہر پھینک دی۔۔۔۔۔
”یہ کیا۔۔۔کیا تم نے؟؟۔۔۔۔۔۔پھینک کیوں دی؟؟؟“وه نہایت سرد لہجے میں پوچھنے لگا.....
”آپا اور ڈیڈ مجھے جینے نہیں دے رہے۔۔۔۔۔۔تم مجھے مرنے نہیں دے رہے...میں جاٶں تو جاٶں کہاں۔۔۔۔۔۔۔میری زندگی تباه کردی ہے تم لوگوں نے۔۔۔۔۔۔بچپن سے اتنا لاڈ پیار کرنے کی کیا ضرورت تھی جب ایک دن اِس طرح جان مانگنی تھی۔۔۔۔۔۔لمحہ لمحہ مر رہی ہوں میں تمھیں نظر نہیں آتا۔۔۔۔۔۔سوچا تھا کے نکاح سے پہلے پی کر آرام سے مرجاٶں گی۔۔۔پر تم نے وه بھی منصوبہ خراب کردیا۔۔۔۔۔۔سکون سے جینے نہیں دے رہے کم از کم مرنے تو دو۔۔۔۔۔۔۔۔میں تھک گیؔ ہوں اپنے آپ کو سمجھاتے سمجھاتے اپنے آپ سے لڑتے لڑتے ۔۔۔۔۔۔۔۔پر میں نہیں کرپارہی۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں دیکھ پاتی شارق کو میں اپنے لائف پارٹنر کے طور پر ۔۔۔۔۔۔۔تو اس میں میری کیا خطاء ہے ۔۔۔۔۔۔وه راحیل کا بچہ ، کمینا ، گھٹیا ، کتے کی اولاد آخر وقت میں پلٹ گیا۔۔۔۔۔اور اس سے بھی زیاده گھٹیا ہو تم ۔۔۔۔۔۔جو مجھے مرنے تک نہیں دے رہے۔۔۔۔۔میری زہر کی بوتل بھی توڑ دی ظالم“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وه بری طرح رونے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔روتے روتے اپنے دل کی بھڑاس نیکال رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”اور گالیاں دو۔۔۔۔۔ مجھے بھی دو ۔۔۔۔۔۔راحیل کو بھی دو اور اگر دل پھر بھی سکون نہ پاےؔ تو میں تو کہتا ہوں ایک دو بڑے ابو اور رومیسا آپا کو بھی دے ڈالو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بےفکر ہوکر دو میں کسی کو کچھ نہیں بتاٶں گا ۔۔۔دو “ اس نے اپنا لہجہ اب بدل لیا جو چند لمحوں پہلے غصے سے پاگل ہوےؔ جارہا تھا اب اس کو روتا دیکھ محبت سے اسے سمجھانے لگا تھا...وه جانتا تھا کے ماهنور صرف اس سے عمر میں ہی بڑی ہے ۔۔۔۔۔وه مسکراتے ہوےؔ اسے دیکھنے لگا تھا۔۔۔۔وه روتے ہوےؔ بولتی ہوئی بھت بھولی بھالی سی لڑکی معلوم ہورہی تھی۔۔۔
”تم مجھ پر ہنس رہے ہو۔۔۔۔۔۔دفاع ہو تم۔۔۔۔۔۔مجھے تمھارے ساتھ نہیں جانا۔۔۔۔۔۔۔پیدل چلی جاٶں گی میں۔۔۔۔اور ہاں راستے میں اپنے لیےؔ ایک نئی شیشی بھی خرید لوں گی۔۔۔“وه یہ روتے ہوےؔ کہ کر مارے غصے کے کار کا دروازه کھولنے لگی تھی۔۔۔۔۔۔
”مانو“اس نے بڑے پیار سے کہ کر ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔”چلو اب غصہ چھوڑو۔۔۔۔اور میری بات غور سے سنو“شاهنزیب نے الٹے ہاتھ سے ماهنور کے چہرے پر آنے والے بال اس کے کان کے پیچھے کیےؔ۔۔۔اس کے خوبصورت و گلابی گال پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے پیار سے سمجھانے لگا۔۔۔”ہم سب تم سے بھت پیار کرتے ہیں۔۔۔۔۔اور یہ خودکشی مسئلوں کا حل نہیں ہے ۔۔۔۔بڑے ابو اور رومیسا آپا کبھی بھی تمھارا برا نہیں چاہیں گے۔۔۔۔وه دونوں ہی تم پر جان نیچھاور کرتے ہیں اور رہی راحیل کی بات تو وه بیچاره مجبور ہے۔۔۔۔وه کیا خاندان کا کوئی بھی فرد بڑے ابو کے فیصلے کے خلاف نہیں جاسکتا“وه نہایت نرم لہجے میں سمجھا کر دوبارا کار اسٹارٹ کرنے لگا
”بس اتنا ہی کہو گے؟؟“وه امید بھری نگاه سے تک رہی تھی۔۔۔۔۔شاید اس کے کان کچھ اور سننا چاھتے تھے
”میں نے سیل آف کر رکھا ہے پر مجھے یقین ہے گھر والے ہمارا انتظار کررہے ہوں گے“وه کار ڈرائف کرتے ہوےؔ بول رہا تھا۔۔۔۔
”میں یہ شادی نہیں کرنا چاھتی“ماهنور پرامید نظروں سے شاهنزیب کو دیکھ حالِ دل بیان کرنے لگی۔۔۔۔۔۔
”بےفکر ہوجاٶ“شاهنزیب نے بےنیازی سے جواب دیا تھا جیسے اس کی نظر میں سب پہلے سے ہی انڈر کنٹرول ہو۔۔
”بےفکر ہوجاٶں ؟؟کیسے؟؟؟“ماهنور نے اس کی جانب دیکھ بےصبری سے پوچھا۔۔۔
”میں وعدٖه کرتا ہوں تمھارا نکاح اسی سے ہوگا جس سے تم چاہو گی۔۔یقین رکھو مانو مجھ پر“وه اسے ٹشو آفر کرتے ہوےؔ پراعتماد انداز میں دلاسہ دیتے ہوےؔ بولا.....
”یقین رکھو مانو مجھ پر۔۔۔بڑے آےؔ شاہرخ خان۔۔۔“وه اس کی نقل اتارتے ہوےؔ منہ بسور بولی...”ایسے وعدے مت کرٶ جو پورے نہیں کرسکتے“یہ کہ کر ٹشو لے کر واپس اسی کے سامنے ٹشو باکس پر زور سے پٹکا۔۔۔۔گویا شاهنزیب کا غصہ اس بےجان ٹشو باکس پر نیکال رہی ہو۔۔۔۔اور غصہ سے منہ پھولا کر باہر کی جانب منہ موڑ کر بیٹھ گیؔ
”میں کبھی ایسا وعده نہیں کرتا جو پورا نہ کرسکوں ...میرا وعده ہے تم سے ماهنور افتخار .........“شاهنزیب بولتے بولتے رکا تھا ....اس نے غلطی سے اپنا سرنیم ماهنور کے نام کے ساتھ جوڑ دیا تھا....ماهنور بھی اس کے کہتے ہی چونک کر اس کی جانب پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگی۔۔۔
”سوری ۔۔۔میرا مطلب تھا ماهنور ملک“وه شرمنده سہ ہوگیا تھا اپنی زبان کے پھسل جانے پر ۔۔۔ماهنور کے چہرے پر یہ سن پراسرار سی مسکراھٹ بکھر آئی تھی۔۔۔۔
”کیا ؟؟؟ایسے کیوں مسکراء رہی ہو؟؟؟“ماهنور بھت دنوں بعد پھر سے مسکرائی تھی....اس کی مسکراھٹ کے سبب وه الجھی نگاه سے دیکھ پوچھنے لگا۔۔۔۔
”اس مسکراھٹ کی دو وجوہات ہیں۔۔۔ایک تو تم نے میرا نام ملک کی جگہ افتخار کردیا۔۔۔۔اور دوسری“۔۔۔اس نے {دوسری}کا لفظ کافی کھینچ کرادا کیا۔۔۔”جس کا میں تصور بھی نہیں کرسکتی تھی ۔۔تم نے مجھے زندگی میں پہلی بار سوری کہا۔۔اُو مجھے تو اپنے ان گناھگار کانوں پر یقین ہی نہیں آرہا۔۔۔۔ایک بار ذرا دوبارا بول دو ۔۔۔۔یہ میرے بیچارے کان بھت ترسے ہیں تمھارے منہ سے یہ لفظ سننے کے لیےؔ“ماهنور نے بڑی شوخی سے اپنا ایک کان اس کے منہ کے قریب کر بولا تھا...
”میرے منہ سے سلپ ہوگیا“وه ذرا بھرم سے بولا جبکے ماهنور صرف مسکراےؔ جارہی تھی۔۔۔
وہ دونوں شادی ہال سے پہلے ہی راستے میں رک گئے ۔۔کیونکہ وہاں کامران شہزاد راحیل علی چاروں ڈولی بینڈ باجے والوں کے ساتھ تیار کھڑے تھے ماہ نور کو ڈولی میں بٹھا یا دیا گیا ۔۔ڈولی لال رنگ کی نیٹ سے بنی ہوئی تھی ۔۔جس پر سفید رنگ کے پھولوں والے کارنر بنے ہوئے تھے ۔۔علی اور کامران نے پیچھے سے اٹھایا اور شہزاد نے آگے والا اٹھایا ۔۔۔اب راحیل اور شاہنزیب بچے تھے۔۔دونوں میں سے ایک کو تو آنا ہی تھا اپنی محبوبہ کی ڈولی کو کندھا دینے ۔۔دونوں ہی دور ہٹ کر کھڑے ہوگئے ۔۔
"آو راحیل" شہزاد نے کہا ۔۔
"شاہ تم پکڑ لو "راحیل شاہنزیب سے کہتا ہوا ایک قدم پیچھے ہٹا ۔۔
"اگر میں نہیں اٹھاؤں گا ۔۔تو راحیل کو اٹھانا پڑے گی۔ ۔اور اس سے ماہ نور کی تکلیف میں مزید اضافہ ہوجائے گا "اپنے دل پر پتھر رکھ صرف یہ سوچ کر وہ آگے آگیا ۔۔
"آٶ راحیل تم یہ والا پکڑ لو "شہزاد نے اپنا حصہ چھوڑ راحیل کو پکڑنے کو کہا ۔۔راحیل نے صاف منع کیا ۔۔شاہنزیب نے اسے بچانے کی نیت سے کار ڈرائف کر کے دوسرے راستے سے شادی ہال آنے کو کہا اور راحیل چابی لے کر جانے بھی لگا تھا پر شہزاد کو لگا کے وہ کہیں برا نہ مان ۔۔۔اس لیے راحیل کو زبردستی ڈولی کا ڈنڈا پکڑا کر خود کار کی چابی لے کر چلا گیا ۔۔راستہ صرف پانچ منٹ کا تھا پر لگ سالوں کا رہا تھا ۔۔روڈ پر رکھتے ہوئے قدم گویا یوں گمان ہوتے تھے تپتی ہوئی ریت پر رکھ رہے ہوں۔ ۔۔ہر ایک قدم رنج و تکلیف میں اضافہ کر رہا تھا ۔۔راحیل نے تو پہلے ہی اپنا دماغ بنا رکھا تھا کہ وہ شہزادی اس کی نہیں ہو سکتی پر شاہنزیب۔۔ اس کے لئے یہ سب بہت مشکل تھا ۔۔وہ پہلا عاشق تھا جو خود اپنی محبوبہ کی ڈولی اٹھائے چل رہا تھا ۔۔ماہ نور کی کیفیت بھی کچھ الگ نہ تھی وہ بھی ہر لمحہ تڑپ رہی تھی "کیا قسمت ہے میری ۔۔۔میں جس کی دلہن بننے کا ارمان رکھتی ہوں آج وہی میری ڈولی اٹھائے چل رہا ہے "
ماہ نور کو اسٹیج پر بیٹھا دیا گیا تھا ۔۔رومیساء اور باقی گھر کی ساری خواتین پہلے ہی سے شادی ہال میں موجود تھیں۔ ۔راحیل اور شاہنزیب دونوں ہی دور کھڑے ہو کر ماهنور کو اسٹیج پر بیٹھا دیکھ رہے تھے ۔۔شاہنزیب اسے آنکھوں میں بھر کر لے جانا چاہتا تھا تاکہ زندگی بھر اس کی یہ چھبئی اپنے دل میں بسا کر رکھے ۔۔"الوداع "منہ سے آہستگی سے ادا کیا اور باہر آگیا ہال سے۔۔۔"ہاں ولید ۔۔آدھے گھنٹے بعد ایس ایم ایس کر دینا سب کو ۔۔ابھی تو مہمان آنا شروع ہوئے ہیں ۔۔اور ہاں کوئی رابعہ نام کی لڑکی ہے جس سے شارق کا امریکہ میں افیئر تھا ۔۔اس کے بارے میں لکھ دینا۔۔۔ ٹھیک ہے الوداع دوست "الوداع کھ کر شاہنزیب کار میں بیٹھ گیا ۔۔پہلے تو ساحل سمندر پہنچ گیا ۔۔۔دل بری طرح تڑپ رہا تھا۔۔۔ لگا تھا کہ سانسیں تھم جائیں گی اگر اس کا نکاح کسی اور سے ہو گیا ۔۔بس خاموشی سے کھڑا روتا رہا ۔۔یہ تصور ہی جان نکال رہا تھا کہ آج وہ کسی اور کی ہو جائے گی ۔۔اسے ماہ نور کے ساتھ گزارا ہوا ایک ایک لمحہ یاد آ رہا تھا ۔۔۔نہ جانے کتنی دیر وہاں کھڑا اکیلا روتا رہا ۔۔اپنے سینے پر مکھے مار رہا تھا ۔۔مارے تکلیف کے ایسا لگ رہا تھا سینہ پھٹ جائے گا ۔۔موبائل آف کر رکھا تھا اس نے ۔۔گھڑی پر نظر پڑی "شادی مبارک ہو "وہ ایڈوانس میں مبارک باد دے کر کار میں بیٹھ گیا ۔۔ ایئرپورٹ پہنچا تو اس کی نظر کار سے اترتے وقت ایک چمکیلی چیز پر پڑی ۔۔۔" او۔ نو ۔۔یہ تو ماہ نور کی پائل ہے ۔۔"اس چمکتی چیز کو اٹھا کر دیکھا تو الجھن میں پڑ کر بولنے لگا ۔۔"میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے میں جا کیوں نہیں پارہا۔ ۔۔پہلے ولید نے پھر ماہ نور نے اور آج ماہ نور کی پازیب نے روک لیا ۔۔۔اب کیا کروں ؟؟۔۔۔اسے اپنے ساتھ بھی نہیں لے جا سکتا ۔۔بڑی امی کی آخری نشانی ہے یہ ۔۔۔ماہ نور کی زندگی میں یہ بہت اہمیت رکھتی ہے ۔۔اور آج تو اس کی زندگی کا سب سے بڑا دن ہے وہ ضرور اپنی ماں کو یاد کرے گی ۔۔۔کیا کروں ؟؟؟۔۔۔اب واپس نہیں جا سکتا بہت دیر ہو چکی ہے ۔۔ہو سکتا ہے وہاں نکاح چل رہا ہو۔۔نہیں میں کمزور پڑ جاؤں گا اس کا نکاح ہوتے دیکھ۔ ۔۔پہلے ہی بڑی مشکل سے صرف اسی کی خاطر اسے چھوڑ کر جا رہا ہوں ۔۔۔یہ نہیں ہوگا مجھ سے ۔۔اور اگر ساتھ لے گیا ۔۔تو ماہ نور رو رو کر آسمان و زمین ایک کر دے گی ۔۔۔یہ صرف پایل تھوڑی ہے اس کی نظر میں ۔۔۔یہ تو اس کی ماں کی دعا ہے "۔۔۔۔
وہ کار میں بیٹھا سوچتا رہا کہ اب کیا کرنا چاہیے واپسی بھی نہیں جانا چاہتا تھا اور اس پازیب کو ماہ نور سے جدا بھی نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔آخر کار فیصلہ کیا کہ پازیب کو دینے واپس جائے گا ۔۔ شادی ہال سے باہر ہی کسی کو پکڑا کر لوٹ آئے گا ۔۔ویسے بھی فلائٹ 4 گھنٹے بعد کی تھی۔۔کار اسٹارٹ کی اور بھگاتا ہوا شادی ہال واپس آ گیا ۔۔پورے راستے بس یہی ذہن میں چل رہا تھا کہ اب تو اس کا نکاح ہوچکا ہوگا ۔۔ساتھ ساتھ یہ خوف بھی لاحق تھا کے کہیں کوئی آ کر مجھے زبردستی اندر نہ لے جائے ۔۔واپس لوٹا تو لوگ ھال سے واپس جاتے نظر آئے ۔۔"لگتا ہے سب کچھ ختم ہو گیا ہے ۔۔شاہنزیب سنبھالو خود کو ۔۔بس ولید کو فون کرو اسے پازیب دو اور چلو یہاں سے " اس لمحے شاہنزیب کو لگا کے دل پھٹ رہا ہے ۔۔وہ دل پر ہاتھ رکھ خود کو دلاسہ دیتے ہوئے بولا ۔۔۔"ولید میں باہر کھڑا ہوں جلدی باہر آجاؤ "شاہنزیب نے ولید سے فون پر کہا ۔۔
"میں باہر نہیں آرہا تم جلدی اندر آؤ ۔۔یہاں بہت بڑی گڑ بڑ ہو گئی ہے "ولید گھبراتے ہوئے بولا ۔۔۔
"کیا ، کیا ہوا ہے ؟؟"وہ پریشان ہو گیا تھا ۔۔
"پہلے جلدی سے اندر آؤ "ولید پریشانی کے عالم میں گویا ہوا ۔۔
شاہنزیب نے پازیب جیب میں ڈالی اور تیز قدم بڑھاتا ہوا اندر آیا ۔۔اندر کا ماحول اس کے گمان سے بالکل برعکس تھا ۔۔ہر طرف رونا دھونا مچا ہوا نظر آ رہا تھا ۔۔اس کی نگاہ سب سے پہلے اسٹیج پر بت بنے بیٹھی ماہنور پر پڑی ۔۔۔
"ارے ضرور لڑکی میں کوئی خرابی ہوگی ورنہ اس طرح کون سا لڑکا شادی سے بھاگتا ہے "دو عورتوں کو اسنے باتیں بناتے ہوئے سنا تھا ۔۔کامران سائڈ میں سر پکڑے ہوئے بیٹھا نظر آیا ۔۔
"میں جا رہا ہوں اس کمینے کو ڈھونڈ کر قتل کرنے ۔۔آج وہ زندہ نہیں بچے گا "علی بھائی غصے کے مارے زور سے دھاڑتے ہوئے کھڑے ہوئے تھے ۔۔شاہنزیب کہ یہ دیکھ پسینے چھوٹے تھے ۔۔۔"علی سنبھالو اپنے آپ کو "افتخار صاحب علی کے والد اور شہزاد بڑی مشکل سے اسے روک رہے تھے ۔۔
"یہ سب میری غلطی ہے ۔۔۔میں ہی رشتہ لائی تھی ماہ نور کا ۔۔آج یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے ۔۔۔بڑا مان سے میں خود کو ماہ نور کی ماں کہتی تھی ۔۔آج میں نے ہی اس کی زندگی تباہ کر ڈالی"رومیسا سر پیٹ پیٹ کر رو رہی تھی ۔۔شاہنزیب کا دل ھل گیا تھا یہ سب دیکھ ۔۔۔
"ہائے میری بچی دلہن بنی بیٹھی رہ گئی "بڑی پھوپھو سینہ پیٹ کر روتے ہوئے چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں۔ ۔
"اب کون کرے گا ماہ نور سے شادی ؟؟بیچاری بن ماں کی بچی دلہن بنی اسٹیج پر بیٹھی رہ گئی ۔۔۔ہائے شارق تجھے اللہ اٹھالے ۔۔"شمسہ بیگم روتے ہوئے ماہنور کے سر پر ہاتھ رکھ شارق کو کوسے دے رہی تھیں۔۔۔دادو پر نظر پڑی تو وہ منہ چھپائے رو رہی تھیں۔ ۔۔
"بڑے ابو "ملک صاحب کو کرسی پر بے جان ہوتے ہوئے گرتا دیکھ سب چیختے ہوئے آئے ۔۔۔جن میں شاہنزیب بھی شامل تھا ۔۔۔"بڑے ابو سمبھالیں خود کو۔۔۔ پانی لاؤ کوئی"شہزاد انہیں چئیر پر بٹھاتے ہوئے بولا ۔۔پہلی بار زندگی میں شاہنزیب نے ملک صاحب کو روتے ہوئے دیکھا۔۔اب اس کی نگاہیں راحیل کو ڈھونڈ رہی تھیں۔۔
" سنا ہے کل خود دلہن اپنے منگیتر کی پارٹی میں گئی تھی ۔۔۔ہو سکتا ہے وہاں کچھ ایسا ویسا کر لیا ہو۔۔تبھی تو اب لڑکا شادی کرنے سے پہلے ہی بھاگ گیا ہے ۔۔۔ویسے بھی آج کل پارٹیوں کے نام پر سب کچھ ہو رہا ہے "شاہنزیب کی سماعت سے ایک عورت کی آواز ٹکرائی تھی اور یہ سن کر اس کا خون کھول گیا تھا ۔۔بڑی مشکل سے اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا وہ ۔۔۔اسماء اس عورت کی بات سنتے ہی غصے کے مارے اس کا منہ نوچھنے چلی آئی تھی ۔۔اسماء کو بڑی مشکل سے صبا ریشم اور اس کی والدہ نے ہاتھ پکڑ روکا تھا ۔۔۔"میں جان سے مار دوں گی اس عورت کو ۔۔۔اس کی یہ مجال کہ میری پاکیزہ بہن کے بارے میں ایسی باتیں کرے۔ ۔چھوڑ دیں مجھے"اسماء بس کوشش میں لگی تھی کہ یہ تینوں اسے چھوڑ دیں اور وہ جا کر اس عورت کا منہ نوچھ لے۔۔۔
"آپ یہاں بیٹھی ہوئی کیوں ہیں پلیز جائیں "صبا نے اس عورت کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے منتی انداز میں کہا تو وہ عورت یہ کہہ کر چل دی "سچ تو کڑوا ہی ہوتا ہے "
شاہنزیب کے حواس اس کا ساتھ چھوڑ رہے تھے ۔۔سارے مہمان تقریبا تقریبا جا چکے تھے ۔۔اس کا سر چکرانے لگا تھا مارے ٹینشن کے ۔۔اس نے تین چار بار راحیل کے سیل پر کال کیں۔ ۔۔پر اس کا فون سوئچ آف تھا ۔۔۔اس نے گھر پر بھی کال کی لیکن راحیل وہاں بھی موجود نہ تھا ۔۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے ۔۔۔۔کیونکے اب بات عزت پر آگئی تھی ۔۔
"اب کون کرے گا ایسی لڑکی سے شادی جس کا دولہا عین برات والے دن بھاگ گیا ہو"چھوٹی پھوپھو بار بار روتے ہوئے ایک ہی جملہ بولے جا رہی تھیں۔ ۔۔جنہیں سن کر شاہنزیب کا دماغ مفلوج ہونے لگا تھا ۔۔
"ولید راحیل کہاں ہے؟؟؟ میں تو اسے یہیں چھوڑ کر گیا تھا "ولید پریشانی کے عالم میں چلتا ہوا شاہزیب کے پاس آیا تھا ۔۔اس سے پہلے وہ شانزیب سے پوچھے۔ ۔۔ الٹا وہی سوال شانزیب نے کر ڈالا تھا ۔۔۔
"یہی بتانے کے لئے تو کب سے فون کر رہا تھا تمہیں ۔۔۔پر تمہارا فون سوئچ آف بتا رہا تھا ۔۔جب میں کار پارکنگ میں تھا تو راحیل کو جاتے دیکھا اس کے پیچھے پیچھے تمہاری کزن ثانیہ کو بھی ۔۔۔مجھے لگا شاید کچھ لینے گیا ہو ابھی تھوڑی دیر میں واپس آجائے ۔۔پر وہ تو واپس آیا ہی نہیں "یہ سن شاہنزیب سر پکڑ کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔
"اچھا اب مجھے اجازت دیں ۔۔میں چلتا ہوں "مولوی صاحب اجازت طلب کر رہے تھے جانے کی ۔۔ان کی بات سن شاہنزیب کے پاؤں سے زمین کھسک گئی تھی ۔۔۔مجرم تھا وہ سب گھر والوں کا ۔۔۔بار بار بس ذہن میں یہی بات آ رہی تھی ۔۔۔
"نہیں مولوی صاحب ۔۔۔آپ یہاں نکاح کرانے آئے ہیں اور نکاح کرا کر ہی جائیں گے "آخر کار نہ جانے کہاں سے اس میں یہ ہمت آ گئی تھی کہ وہ ماہنور کا ہاتھ سب کے سامنے تھامنے کے لیے تیار کھڑا ہوا ۔۔اس نے مولوی صاحب سے کہا تو سب حیرت زدہ ہو کر اسے دیکھنے لگے ۔۔وہ اسٹیج پر بڑے بھرم سے چلتا ہوا گیا اور ماہنور کا ہاتھ پکڑ اسے اپنے ساتھ بڑے ابو کے سامنے لے آیا ۔۔سب شاہنزیب کے اس فیصلے پر ہل کر رہ گئے تھے اس نے کسی کی پروا نہ کی ۔۔۔"بڑے ابو میں جانتا ہوں کہ میں آپ کی بیٹی کے قابل نہیں ہوں ۔۔۔پر میں ماہ نور سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔۔کیا آپ کی اجازت ہے ؟؟"شاہنزیب نے بڑے ادب سے کھڑے ہوکر اجازت طلب کی تو سعدیہ اسے دیکھ رونے لگی۔۔
"شاہ یہ کیا کہہ رہے ہو ؟؟"شمسہ بیگم اس کی بات سن دوڑے چلی آئیں تھیں"تم ابھی بچے ہو اتنا بڑا فیصلہ کیسے لے سکتے ہو "شمسہ بیگم نے شاہنزیب کے ہاتھ سے ماہ نور کا ہاتھ چھڑانا چاہا تھا
"نہیں امی میں اب اتنا بھی بچہ نہیں ہوں ۔۔کہ یہ نہ جانتا ہوں کہ کیا فیصلہ کرنے لگا ہوں۔۔۔سو پلیز "شاہنزیب نے نہایت ادب سے جواب دے کر ان کا ہاتھ ماہ نور اور اپنے ہاتھ سے ہٹا دیا ۔۔۔
"بھائی صاحب میں آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگتا ہوں اپنے بیٹے شاہنزیب کے لیے"افتخار صاحب اپنے بیٹے کے فیصلے پر بالکل راضی تھے ۔۔۔ملک صاحب کا دل تو وہ پہلے ہی جیت چکا تھا ۔۔
"مجھے بڑی خوشی ہوگی اگر تم میرے دمات بنو گے ۔۔میری ماہ نور کے لیے تم سے بڑھ کر اچھا جیون ساتھی اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔مجھے یہ رشتہ منظور ہے "ملک صاحب اٹھنا چاہتے تھے پر آٹھ نہیں پا رہے تھے تو شہزاد اور کامران نے انہیں سہارا دے کر اٹھایا ۔۔وہ مسرت بھرے لہجے میں بول کر شاہنزیب کے گلے لگ گئے تھے ۔۔پر دونوں ماہ نور کو لے کر فکر مند تھے کہ کیا وہ راضی ہے اس رشتے کے لیے"
سعدیہ کے والدین ایک ہفتے سے ملک سے باہر گئے ہوئے تھے۔۔۔ وہ اکیلی کھڑی تھی ۔۔دل ہی دل دعاگو تھی کہ ماہ نور منع کر دے ۔۔پر ساتھ ساتھ اسے علم تھا کہ ماہ نور جس سچویشن میں ہے وہ ہاں ہی کرے گی ۔۔
"بولو مانو شادی کرو گی میرے اس نالائق بیٹے سے ؟؟"افتخار صاحب نے ماہ نور کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھ کر پوچھا تھا ۔۔ماہ نور کی آنکھوں سے آنسو موتیوں کی طرح گرنے لگے اس نے سر جھکا لیا ۔۔
"اسماء ماہ نور کا شرارہ پکڑو اور اسٹیج پر بیٹھاو" کامران بہت خوش ہوا تھا اس نے مسرت بھرے لہجے میں اسماء سے کہا ۔۔
"بچپن میں اپنے باپ کی پگڑی پہن کر شادی کرتا تھا ناں میری پوتی سے ؟؟۔۔۔آج پھر وہی ریت دوبارہ دوہرا دے۔ ۔میرے پیارے بچے "بڑے پیار سے کہتے ہوئے دادو نے اس کا ماتھا چومتا تھا ۔۔آج انہیں بھی وقت و قسمت کے آگے مجبور ہونا پڑا تھا ۔۔شاہنزیب کو افتخار صاحب نے اپنی پگڑی اتار کر پہنا دی۔ ۔
آج زندگی کا وہ حسین لمحہ آ پہنچا تھا جب وہ صرف اس کی دلہن تھی ۔۔سعدیہ اس کے یوں ظلم پر آج شکوہ بھی نہ کر سکتی تھی کیونکہ حالات ہی کچھ ایسے تھے وہ چپ چاپ اسٹیج کے سامنے کرسی کو مضبوطی سے پکڑے ان دونوں کا نکاح ہوتے دیکھتی رہی ۔۔
"قبول ہے قبول ہے قبول ہے "دونوں نکاح کے مقدس رشتے میں بن گئے تھے ۔۔سعدیہ کو روتا دیکھ شاہنزیب نے کامران کو اشارے سے بلایا "کامران سعدیہ کو اکیلے مت چھوڑنا۔۔اس کا خیال رکھو" اس نے کامران کے کان میں پریشانی کے عالم میں ہلکے سے سرگوشی کی ۔۔
"تم بے فکر ہو جاؤ میں خیال رکھوں گا اس کا "کامران کہہ کر سعدیہ کے بالکل پاس جا کر کھڑا ہو گیا تھا ۔۔نکاح ہو چکا تھا وہ اس کے نام کی ہو گئی تھی ۔۔اب شریک سفر تھی وہ ۔۔پر دونوں ہی گم سم سے تھے ۔۔اگر یہ نارمل شادی ہوتی تو آج شاہنزیب کے پاؤں زمین پر نہ ٹک رہے ہوتے ۔۔
سعدیہ کا دل بری طرح ٹوٹا تھا ۔۔بچپن سے اس کے نام پر منگی ہوئی تھی اور آج اس ظالم نے ایک ہی لمحے میں اتنا پرایا کردیا کہ وہ بکھر گئی۔۔طوفان مچا تھا دل میں پر لب خاموش تھے ۔۔آنکھوں سے آنسو بہے جارہے تھے شاہنزیب کو یوں کسی اور کے ساتھ بیٹھا دیکھ۔ ۔وہ منہ موڑ کر چلی گئی ۔۔شاہنزیب کی ماں ہاتھ ملتے رہ گئیں تھیں ان کی کسی نے ایک نہ چلنے دی تھی ۔۔پر ماہ نور کو اپنی بہو مان لینا یہ تو ان کے لیے ناممکن تھا ۔۔
ولید رومیساء افتخار صاحب ملک صاحب شاهزیہ یہ سب اس نکاح سے بے انتہا خوش تھے ۔۔اور باقی سب اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر مسکراء رہے تھے۔
احیل تم یہاں ہو؟؟"میں تمہیں کب سے ڈھونڈ رہی تھی "ثانیہ نے راحیل کو ساحل سمندر کے کنارے بیٹھا ہوا پایا تو فکر مند انداز میں بولنے لگی ۔۔۔وہ دونوں ہی ماہ نور کے ساتھ ہونے والے واقعہ سے انجان تھے ۔۔۔ثانیہ کل صبح اپنے والدین کے ساتھ واپس جانے والی تھی ۔۔اس لیے اس نے پکا ارادہ کر رکھا تھا کہ آج اسے کچھ بھی کر کے اپنے دل کی بات بتا دے گی ۔۔راحیل شادی ہال سے نکلا تو وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے نکل پڑی ۔۔مگر راحیل کی گاڑی ہواؤں سے باتیں کرتے ہوئے ثانیہ کی نظروں سے اوجھل ہوگئی ۔۔۔وہ اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں سے گزر رہی تھی کہ اس کی نظر راحیل کی کار پر پڑی۔۔۔وہ پیچھے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگی ۔۔۔"تم شادی چھوڑ کر کیوں چلے آئے اور یہاں کیا کر رہے ہو ؟؟؟"ثانیہ کھڑے کھڑے اس سے استفسار کرنے لگی ۔۔وہ سر جھکائے بیٹھا ہوا تھا ۔۔وہ بس خاموش تھا۔ ۔۔ثانیہ کی نظر راحیل کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی بوتل پر پڑی ۔۔وہ شراب کی بوتل تھی ۔۔۔"تم نے شراب پی ہے ؟؟؟"ثانیہ حیرت زدہ ہو کر اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔
"شراب نہیں تو ۔۔۔میں نے بس غم ختم کرنے کی دوا مانگی تھی۔۔۔ اس شخص نے مجھے یہ بوتل دے دی ۔۔۔شاید بہت نیک آدمی تھا وہ" راحیل نےزندگی میں کبھی شراب نہ پی تھی بلکہ وہ تو اتنا شریف تھا کہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ بلائے شراب دیکھتی کیسی ہے ۔۔۔وہ یہاں بیٹھ کر بہت دیر سے رو رہا تھا تڑپ رہا تھا تو ایک شرابی اس کے سامنے سے گزرا راحیل کی حالت پر اسے ترس آیا اور وہ راحیل کو شراب کی بوتل پکڑا کر چل دیا یہ کہہ کر کہ یہ ہر غم کی دوا ہے ۔۔۔
"راحیل تم نشے میں ہو تم نے شراب کیوں پی؟ ؟"وہ غصے سے پوچھنے لگی تھی ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اسے راحیل کے علاوہ دور دور تک کوئی نظر نہیں آرہا تھا ۔۔۔
"کہا نا میں نے شراب نہیں پی ۔۔۔میں نے تو دوا پی ہے۔۔۔وہ دواء جو میرے درد کو ختم کر دے ۔۔۔مجھے سکون دے دے ۔۔جو میری جان نکل رہی ہے وہ ایک ہی بار میں نکل جائے ۔۔۔میں یوں بار بار نہ تڑپوں۔ ۔۔پر لگتا ہے صرف ایک دوا کی بوتل سے میرا کچھ نہیں ہونے والا ۔۔۔میں اس آدمی سے کہتا ہوں مجھے ایک اور دے دے " راحیل یہ کہتا ہوا نشے میں جھومتا کھڑا ہوا ۔۔۔ثانیہ کو اس کے منہ سے شراب کی بو آرہی تھی ۔۔وہ کھڑا ہو کر لڑکھڑاتے ہوئے اس شرابی کو ڈھونڈنے چل دیا۔۔۔
"کیا ہو گیا ہے راحیل تمہیں ؟؟۔۔تمہیں ایسا کونسا غم لاحق ہے کہ شراب جیسی حرام چیز سے اسے مٹانا چاہتے ہو "وہ رونے لگی تھی اس کی یہ حالت دیکھ کر ۔۔راحیل ایک قدم بھی آگے نہ چلا تھا کے لڑکھڑا کر گرنے لگا ۔۔ثانیہ نے فورا اسے تھاما تھا گرنے سے بچانے کے لیے ۔۔۔
"بہت ظالم ہو تم ۔۔۔تمہیں پتا ہے کتنا ۔۔۔۔۔۔کتنا پیار کرتا ہوں میں تمہیں ۔۔۔پر تمہیں نظر ہی نہیں آتا ۔۔۔تمہیں لگتا ہے میں دھوکے باز ہوں۔ ۔۔فریبی ہوں جو صرف تمہارے جذبات سے کھیل رہا ہے ۔۔پر ایسا نہیں ہے ۔۔۔میں تم سے بہت بہت محبت کرتا ہوں ۔۔۔ماہ نور "وہ ثانیہ کو نشے میں ماہ نور سمجھنے لگا تھا ۔۔۔اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی محبت کا یقین دلانے لگا ۔۔ثانیہ کا ننھا سا دل ٹوٹ گیا تھا راحیل کے منہ سے ماہ نور کا نام سن ۔۔۔
"پتا ہے کتنا چاہتا ہوں تمہیں ؟؟۔۔۔نہیں ۔۔نہیں تم نہیں جانتیں۔ ۔۔۔اگر جانتیں تو مجھے یوں چھوڑ کر تھوڑی جاتیں۔ ۔یہ تھوڑی کہتی مجھ سے کہ مجھ سے نفرت کرتی ہو ۔۔تمہیں پتا ہے تم بہت ظالم ہو "وہ یہ کہ کر ثانیہ کا ہاتھ چھوڑ کر ریت پر گرگیا اور روتے ہوئے بولنے لگا ۔۔اس کی حالت پر اب تو ثانیہ کو بھی ترس آنے لگا تھا ۔۔اپنے محبوب کو یوں اس طرح کسی اور کے لیے تڑپتا ہوا دیکھ کر اس کا دل پارے پارے ہوا تھا ۔۔
"راحیل سنبھالو خود کو "ثانیہ نے اسے اٹھانے کے لئے ہاتھ پکڑ کر کہا ۔۔۔جیسے ہی اس نے ہاتھ پکڑ کر راحیل کو اٹھانا چاہا راحیل نے اسے اپنی جانب پکڑ کر کھینچ لیا ۔۔۔وہ پوری اس کے سینے سے آ کر لگی تھی ۔۔۔ثانیہ نے خود کو با مشکل سنبھالا تھا ۔۔اور اس سے دور ہٹنے لگی تھی ۔۔ مگر راحیل نے اسے دور ہٹنے ہی نہ دیا خود سے ۔۔اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے مزید اپنے قریب کر لیا تھا ۔۔۔"میں نے تمہیں پہلے بھی لال لباس میں دیکھا تھا ماہ نور ۔۔پر آج جب تم دلہن کے لباس پہنیں میرے سامنے کار سے اتریں تو پتہ ہے میرا دل رک گیا تھا۔ ۔۔تمہیں ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا تھا میں ۔۔پر تمہاری نظروں میں جو شکوہ تھا نہ ۔۔۔مجھے دیکھتے وقت اس نے میرا دل توڑ ڈالا ۔۔میں تمہیں کتنی بار بتا چکا ہوں میں نے کوشش کی تھی بڑی ابو کو منانے کی ۔۔ان سے کہا تھا کہ تم شادی نہیں کرنا چاہتی ۔۔پر وہ مانے ہی نہیں تو اس میں میرا کیا قصور۔۔بولو "وہ ثانیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال محبت سے لبریز گفتگو کر رہا تھا ۔۔اس نے نشے میں ثانیہ پر وہ انکشافات کر ڈالے تھے جو اپنی زندگی میں ہوش میں رہ کر وہ کبھی نہ کرتا ۔۔۔بہت درد تھا اس کی آواز میں ۔۔۔ثانیہ مسلسل اپنے آپ کو اس سے دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ وہ جان چکی تھی کہ راحیل نشے میں اسے ماہ نور سمجھ رہا ہے ۔۔۔ثانیہ اس کا ہاتھ اپنی کمر سے ہٹانے لگی تو راحیل نے اس کا وہ ہاتھ بھی اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا ۔۔۔
"دیکھو راحیل تم نشے میں ہو اور مجھے تم سے ڈر لگ رہا ہے پلیز میرے ہاتھوں کو چھوڑو اور گھر چلو "ثانیہ اس سے گھبراتے ہوئے بولی تھی۔۔راحیل اتنے نشے میں تھا کہ اسے کوئی خبر نہ تھی کہ وہ کیا کر رہا ہے ۔۔۔
"تمہیں مجھ سے ڈر لگ رہا ہے ماہ نور ؟؟؟"راحیل نے اتنی محبت سے کہا کہ ثانیہ روپڑی ۔۔۔اس نے اثبات میں سر ہلا دیا تو وہ دونوں ہاتھوں کو چھوڑ کر کہنے لگا "میں تمہیں ڈرانا نہیں چاہتا تھا ۔۔میں تو تمہیں بتا رہا تھا کہ میں بہت مجبور تھا ۔۔۔مجھے بڑے ابو نے اپنی قسم دی تھی "کہہ کر اس نے پھر سے رونا شروع کر دیا تھا ۔۔۔ثانیہ نے اسے بڑی مشکل سے اٹھایا اور اپنی کار میں بیٹھا لیا ۔۔۔وہ روتے روتے ہی کار میں سو گیا تھا ۔۔جبکہ ثانیہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اب وہ کیا کرے ۔۔
"تو وہ ساری شاعری اور غزلیں راحیل ماہ نور کے لیے کیا کرتا تھا ۔۔۔پر اس میں تو لکھا تھا کہ وہ صرف تصوری لڑکی ہے ۔۔یا خدا !!!۔۔۔اب میں کیا کروں ۔۔راحیل کو اس حالت میں گھر بھی نہیں لے جا سکتی "وہ یہ سوچ کر ریت پر بے جان گڑیا کی مانند گر پڑی ۔۔۔دل بری طرح ٹوٹ گیا تھا اس کا ۔۔۔وہ راحیل کے سامنے ہی روتی رہی مگر وہ ستمگر آرام سے نشے میں مست ہو کر سوتا رہا ۔۔۔
🌺*****----------*******🌺
شاہنزیب ماہ نور کا صرف نکاح ہوا تھا ۔۔رخصتی نہیں ۔۔اور ہو بھی کیسے سکتی تھی وہ پورے خاندان کی نظر میں بچہ تھا ۔۔۔اس نے جذباتی ہو کر نکاح تو کر لیا تھا ۔۔پر رخصتی سے خود ہی انکار کر دیا تھا ۔۔۔اگر وہ ہاں کرتا تو گھر والے اس کی بات مان لیتے یہ جانتا تھا وہ ۔۔۔پر صرف ماہنور کی خاطر تاکہ وہ اپنا ذہن بنا سکے اسے اپنے شوہر کے روپ میں قبول کرسکے اس کے لیے وقت دینا چاہتا تھا وہ ۔۔۔گھر واپس آئے تو ماہ نور گھر کی دہلیز پر رک گئی ۔۔۔"یہاں سے بیٹی بن کر گئی تھی تم پر آج واپس بہو بن کر لوٹی ہو"دادو نے پیار سے کہا اور اس کو اندر لے آئیں ۔۔۔شاہنزیب ماہ نور دونوں کو ہی صوفے پر بیٹھا دیا گیا تھا ۔۔۔ماہ نور کے چہرے پر ابھی بھی کوئی تاثر نہ تھا ۔۔شاہنزیب اسے بت بنے بیٹھے دل ہی دل اپنے آپ کو ملامت کرنے لگا تھا۔۔۔
"بیٹا آج سے یہی تمہارا میکا ہے اور یہی سسرال ۔۔۔میں بہت خوش ہوں تمہارے لیے ۔۔خدا تمہاری جوڑی کو سلامت رکھے "علی کے والد نے دونوں کے سر پر ایک ساتھ ہاتھ رکھ کر دعا دی تھی ۔۔
"جاؤ لڑکیوں اپنی چھوٹی بھابھی کو ان کے کمرے میں چھوڑ دو ۔۔۔جاؤ ماہنور آج تمہارے لئے بہت مشکلات بھرا دن تھا پر وہ کٹ گیا۔۔۔ ٹھیک ہے میری بچی۔۔۔ اب آرام کرو "چھوٹی پھوپھو نے ساری لڑکیوں سے کہا اور ماہ نور کو پیار سے اٹھانے لگیں۔ ۔۔ ماہنور کو اس کے کمرے میں بھیج دیا تھا انہوں نے ۔۔۔
"تم بھی جا کر آرام کر لو شاہ "دادو نے اسے اکیلے صوفے پر بیٹھا دیکھا تو کہا ۔۔۔وہ پگڑی اتار کر سر سے ۔۔۔۔ہاتھوں میں پکڑے اپنے کمرے میں آگیا ۔۔۔کمرے میں آتے ہی دروازہ اندر سے لوک کیا ۔۔۔۔پگڑی بیڈ پر رکھی۔۔۔سب سے پہلے جا کر آئینے کے سامنے کھڑا ہو گیا ۔۔۔تھوڑی دیر تک تو خود کو ہی گھورتا رہا ۔۔۔"آج رات ۔۔۔۔میری خوف میں نہیں گزرے گی کے کوئی اسے مجھ سے چھین لے گا ۔۔۔زندگی میں پہلی بار اب مجھے کوئی ڈر باقی نہیں رہا ۔۔وہ میری ہے ۔۔ہاں ہاں۔ ۔۔وہ میری ہے ۔۔۔ماہ نور صرف میری ہے "وہ آئینے کے سامنے خود سے ہی کلام کر رہا تھا ۔۔۔اس کے چہرے پر آج خوشی ہی خوشی جھلک رہی تھی ۔۔۔"ہاں وہ میری ہے ۔۔۔آج سے اس کا نام میرے نام کے ساتھ جوڑ گیا ہے ۔۔۔ماہ نور افتخار ۔۔آئی لو دیس۔۔۔"اس لمحے اس دیوانے کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ۔۔۔سب بھول گیا تھا اس کی نگاہوں میں ماہنور گھوم رہی تھی اس کا قبول ہے کہنا بار بار کانوں کی سماعت سے ٹکرا رہا تھا ۔۔۔"مانو تو بہت غمزدہ ہے ۔۔۔میں نے اس سے اس کی محبت چھین لی ہے ۔۔۔نہیں مجھے خوش نہیں ہونا چاہیے ۔۔بلکہ غمگین ہونا چاہیے کیونکہ وہ غمگین ہے ۔۔۔پر میں خوش ہونا چاہتا ہوں ۔۔چاہتا ہوں چیخ چیخ کر سب کو بتا دوں کہ وہ میری ہے ۔۔صرف میری "شاہنزیب الجھ گیا تھا کہ وہ کون سی کیفیت میں مبتلا ہو اس لمحے ۔۔۔"ایک کام کرتا ہوں ۔۔۔آج رات میرے نام کیونکہ اسے قسمت نے مجھے دیا ہے اور کل سے ماہ نور کے ساتھ اس کے غم میں شریک ہو جاؤں گا "۔۔۔کہتے ہی سب سے پہلے شکرانے کے دو نوافل ادا کیے۔۔۔
پھر گٹار لے کر بیٹھ گیا اپنا ۔۔
تو مجھے سوچ کبھی ۔۔۔
یہی چاہت ہے میری۔۔۔
میں تجھے جان کہوں ۔۔
یہی حسرت ہے میری ۔۔
میں تیرے پیار کا ۔۔
ارمان لیے بیٹھا ہوں ۔۔
تو کسی اور کو چاہے کبھی یہ خدا نہ کرے ۔۔۔
وہ مسکراتے ہوئے گٹار بجا رہا تھا ۔۔۔شاہنزیب پاؤں خوشی کے مارے زمین پر نہیں ٹک رہے تھے ۔۔۔اس نے گانا گایا تو سب سے پہلے آواز ماہنور کی سماعتوں سے ٹکرائی ۔۔
"یہ تو وہی گانا ہے جو شاہ سعدیہ کے لیے گاتا ہے روزانہ"اسماء ماہ نور کے کمرے میں ہی تھی اور باقی لڑکیاں بھی ۔۔۔جب ماہ نور نے روہانسہ آواز میں یہ کہا۔۔۔۔ماہ نور کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے ۔۔آپا اسے چپ کرانے لگی :"ماہ نور شاہ بہت دوکھی ہے ۔۔۔سعدیہ بچپن کی منگیتر ہے اس کی۔۔۔اتنی آسانی سے ایک رات میں تھوڑی بھول سکتا ۔۔تم صبر کرو اللہ سب ٹھیک کرے گا "رومیسا آپا نے ماہ نور کو روتے ہوئے دیکھا تو اس کو پیار سے سمجھانے لگیں ۔۔۔وہ کچھ بولنا چاہتی تھی رومیسا آپا سے پر سب لڑکیاں تھیں وہاں اس لیے خاموش رہی
"نہیں یار ۔۔۔یہ گانا تو میں تب گاتا تھا جب وہ میری نہیں تھی ۔۔۔آج تو پارٹی ٹائم ہے ۔۔ڈیگ چلاتا ہوں "وہ یہ کہ کر بیڈ پر گٹار رکھ کر زور دار آواز میں ڈیگ چلانے لگا ۔۔اسے آج کسی کی کوئی فکر نہ تھی وہ تو اپنی خوشی کا جشن منا رہا تھا ۔۔۔
"اتنی زور زور سے گانے کون بجا رہا ہے ؟؟؟" دادو اپنے کمرے سے نکل آئی تھیں گانے کی آواز سن کر ۔۔۔
"میرا بیٹا اور کون ۔۔۔۔"شمسه بیگم دل جلے انداز میں بولیں ۔۔"دل ٹوٹا ہے اس کا ۔۔۔آپ لوگوں نے ماہ نور پر میرا بیٹا قربان کردیا۔۔۔ایک بار یہ نہ سوچا کہ وہ یہ سب صرف جذباتی ہوکر کر رہا ہے ۔۔۔بچہ ہے وہ ابھی کم عقل ہے ۔۔۔اس نے کہا اور سب فورا مان گئے ۔۔۔میرے بیٹے کو بلی کا بکرا بنا دیا آپ سب نے ۔۔۔سنیں یہ گانیں جو بتا رہے ہیں کہ بری طرح تڑپ تڑپ کر رو رہا ہے وہ ۔۔۔رونے کی آواز کسی کو سنائی نہ دے اس لیے ڈیگ چلا لیا ہے اس نے"شمشہ بیگم اپنے بیٹے کو لے کر بہت پریشان تھیں انہوں نے بہت غصے سے دادو سے کہا تو وہ خاموش ہو کر واپس اپنے کمرے میں چلی گئیں اور باقی سب بھی ۔۔۔سب کا یہی گمان تھا کہ وہ ڈیگ چلا کر اپنے دکھ چھپا رہا ہے ۔۔۔جبکہ شاہنزیب خوشی کے مارے بیڈ پر بچوں کی طرح کودنے لگا تھا ۔۔۔وہ اچھلتے اچھلتے بیڈ پر ہی لیٹ گیا ۔۔۔
"کب سے فون ملا رہا ہوں اٹھا کیوں نہیں رہے ہو ؟؟؟۔۔۔۔پہلے میرے ساتھ نیچے چلو شارق ابھی بھی میری کار کی ڈیگی میں ہے ۔۔۔ویسے تو میں اکیلے جانے والا تھا اسے چھوڑنے پر سوچا۔۔۔ جب تم ہو۔۔۔ تو تم مجھے کمپنی ہی دے دو "ولید نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا تھا جیسے ہی شاہنزیب نے دروازہ کھولا ۔۔
"چلو "وہ یہ کہہ کر اس کے ساتھ چل دیا تھا ۔۔۔دونوں بالکل خاموشی سے گھر سے باہر نکل آئے تھے " ویسے تم مسکراتے بھی ہو؟؟؟۔۔۔دیکھ کر اچھا لگا ۔۔۔مسکراتے ہوئے تو بڑے پیارے لگتے ہو "ولید نے اسے مسکراتا دیکھ کر حیرت سے کہا۔ ۔۔۔
" تھینکس ۔۔۔میری تعریف چھوڑو اور یہ بتاؤ بے ہوشی کا اثر کب تک رہے گا ؟؟؟"شاہنزیب فکر مند ہو کر گویا ہوا ۔۔۔
"میڈیکل والے نے تو چوبیس گھنٹے کا کہا تھا ۔۔اس لیے فکر مت کرو ابھی تو پکا بے ہوش ہو گا "وہ دونوں گارڈن میں کھڑے ہو کر باتیں کر رہے تھے
"کسی سنسان سڑک پر پھینک دیں گے اسے "شاہنزیب نے سوچتے ہوئے کہا
"ہاں ٹھیک ہے "ولید اثبات میں سر ہلا کر ہاں کرنے لگا۔ ۔۔دونوں ولید کی کار کی جانب بڑھ گئے تھے ولید نے اپنی کار گھر کے پیچھے والی سائیڈ کے دروازے کے پاس پارک کی تھی ۔۔۔
"کار کہاں ہے؟؟"شاہنزیب پریشان ہوتے ہوئے استفسار کرنے لگا ۔۔۔"میں نے تو یہی پارک کی تھی "ولید بھی پریشان ہو کر بولا ۔۔۔شاہنزیب کار کو ڈھونڈنے کے لئے مین گیٹ سے باہر چلا گیا ۔۔۔اسے کہیں ولید کی کار نظر نہیں آرہی تھی جبکہ ولید گھر کے آگے والے دروازے کی جانب آیا تھا ۔۔۔اسے وھاں اپنی کار کھڑی نظر آ گئی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ شہزاد بھی ۔۔۔"کمینے گھٹیا انسان ہم نے تجھے اپنے گھر میں مہمانوں کی طرح رکھا اور تو نے ہمارے ساتھ اتنا بڑا دھوکا کیا "شہزاد اس قدر آگ بگولا ہو رہا تھا کہ ولید بری طرح گھبرا گیا ۔۔اس نے شہزاد کا یہ روپ پہلے کبھی نہ دیکھا تھا ۔۔۔ڈیگی کھلی ہوئی تھی ۔۔ولید اسے دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ شہزاد نے شارق کو رسیوں سے بندہ ہوا بے ہوش ڈیگی میں پڑا دیکھ لیا ہے۔ ۔"آج تو زندہ یہاں سے واپس نہیں جائے گا "شہزاد یہ کہتا ہوا غصے سے اس کی جانب آیا تھا ۔۔۔ولید گھبرا کر آہستہ آہستہ قدم پیچھے لے رہا تھا اس کا دماغ مفلوج ہو گیا تھا اچانک شہزاد کے حملے سے ۔۔۔"آج تو میں گیا ۔۔۔لیکن یہ کتنا بھی مارے میں شاہ کا نام نہیں لوں گا ۔۔اس بیچارے کو اتنی مشکل سے ماہنور ملی ہے "ولید نے دل ہی دل پکا ارادہ کرلیا تھا کہ وہ کچھ نہ بولے گا ۔۔۔شہزاد نے اس کے منہ پر اتنا زوردار مکا مارا کہ فورا ہی منہ سے خون نکل آیا تھا ۔۔۔شہزاد نے دوسرا وار کرنے کے لیے جیسے ہی اس کی جانب ہاتھ بڑھایا اسی لمحے شاہنزیب بیچ میں آ گیا ۔۔۔
"ہٹ جاؤ شاہ ۔۔۔ تم اسے مت بچاؤ ۔۔۔تم نہیں جانتے اس نے کیا ،کیا ہے "شہزاد کا ہاتھ شاہنزیب نے پکڑ لیا تھا ۔۔۔تو وہ اسے اپنے اور ولید کے بیج سے ہٹا رہا تھا کہ کر ۔۔
"بھائی ۔۔ولید بے قصور ہے ۔۔شارق کی یہ حالت میں نے کی ہے "شاہنزیب نے اپنا وعدہ نبھایا تھا جو اس نے ولید سے کیا تھا ۔۔۔شارق کو اس نے اغواء کیا ہے یہ سن کر شہزاد کو یقین ہی نہیں آیا ۔۔۔"تم جانتے بھی ہو ؟؟؟۔۔تم کیا کہہ رہے ہو "شہزاد اسے بے یقینی کی کیفیت میں دیکھ غصے سے بولا تھا
"مجھ سے غلطی ہوگئی بھائی "شاہنزیب نے شرمندگی سے جواب دیا.....
"غلطی ۔۔۔تم اسے غلطی کے رہے ہو "شہزاد کا سر چکرا گیا تھا پہلے تو اپنا سر پکڑ تھوڑی دیر کھڑا ہو گیا ۔۔ولید کو لگا کہ اب وہ کچھ نہیں کرے گا پر شاہنزیب اچھی طرح واقف تھا کہ یہ صرف طوفان سے پہلے کی خاموشی ہے ۔۔۔
"غلطی ۔۔تمہیں یہ غلطی لگ رہی ہے صرف "وہ یہ کہتا ہوا شاہنزیب کے روبرو آکر کھڑا ہوگیا تھا ۔۔۔آنکھوں سے آگ نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ۔۔شہزاد نے ولید سے زیادہ زور دار وار شاہنزیب پر کیا وہ بیچارہ زمین پر گرنے لگا ابھی خود کو ٹھیک طرح سنبھالا بھی نہ تھا کہ شہزاد نے مارے غصے کے دوسرا وار کر ڈالا تھا ۔۔۔ولید تو ھل گیا تھا یہ دیکھ کر ۔۔۔اس بار شہزاد نے اتنا زوردار وار کیا تھا گریبان پکڑ کر کے اگلے لمحے وہ زمین پر چت پڑا تھا۔۔۔شاہنزیب کی ناک منہ دونوں سے خون نکلنے لگا تھا ۔۔۔وہ اس قدر غصے میں تھا کہ ولید کو لگا کہ وہ شاہنزیب کو جان سے مار دے گا بغیر یہ پوچھے کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔۔۔۔شاہنزیب نے خود کو بچانے کی کوئی کوشش نہ کی۔ ۔۔شہزاد اس کا گریبان پکڑ زمین سے اٹھاتے ہوئے پھر مارنے لگا تھا ۔۔۔
"کیا جان سے مار دو گے اسے؟؟؟۔۔۔ چھوڑو اسے۔۔۔ پاگل ہو گئے ہو کیا ؟؟؟بھائی ہے یہ تمہارا چھوٹا "ولید نے اس بار شہزاد کا ہاتھ پکڑ لیا تھا اور اسے سمجھانے لگا ۔۔۔
"ہاں مار دوں گا ۔۔۔کیا سمجھتا ہے یہ کہ یہ میرا چھوٹا بھائی ہے اس لئے جو چاھے کرے گا اور میں اس کی غلطیوں پر پردہ ڈالوں گا "شہزاد یہ کہہ کر ولید سے ہاتھ چھڑا کر پھر سے شاہنزیب کی جانب بڑھا ۔۔۔اس بار اپنی پوری طاقت لگاتے ہوئے پیٹ پر مکا دے مارا تھا ۔۔۔۔
"بھائی میری بات تو سن لیں "شاہنزیب نے درد کی شدت سے کراتے ہوئے شہزاد سے کہا ۔۔
"کیا سنو ۔۔۔جب میں پہلے سے ہی جانتا ہوں ۔۔۔میں جانتا ہوں تم نے یہ ساری گھٹیا چالیں ماہ نور کو پانے کے لیے چلی ہیں ۔۔۔بیوقوف سمجھتے ہو مجھے ؟؟؟۔۔۔اس دن جب تم قوالی سنا رہے تھے تب میں سمجھ گیا تھا کہ وہ امانت جس کی تم بات کر رہے ہو وہ سعدیہ نہیں ماہ نور ہے ۔۔۔۔تم اسے لینے آئے تھے ۔۔۔پر مجھے تم سے اس گری ہوئی حرکت کی توقع نہ تھی "شہزاد گریبان پکڑ کر شاہنزیب کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔
"بس کر دو ۔۔۔۔اس نے جو کیا سو کیا ۔۔۔تم تو عقلمندی کا ثبوت دو شہزاد ۔۔۔۔اسے جان سے مار دو گے تو کیا سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔خود سوچو ۔۔۔اگر یہ مر گیا تو ماہ نور کا کیا ہوگا یہ سوچا ہے تم نے ۔۔۔تمہارے بڑے ابو جو خوشی خوشی اس لڑکے کو اپنا دمات بنا کر بیٹھ گئے ہیں ان کا سوچا تم نے "شہزاد نے اسے مارنے کے لیے گریبان پکڑا ہی تھا۔۔۔کہ ولید بیچ میں آ کر اس کا گریبان چڑھاتے ہوئے شہزاد کو روکنے لگا ۔۔۔"خود سوچو ۔۔۔ابھی وہ دونوں باپ بیٹی اتنے بڑے صدمے سے گزرے ہیں ۔۔۔دیکھی تھی نہ تم نے ملک صاحب کی حالت ؟؟۔۔۔تمہیں لگتا ہے وہ اس نئے صدمے کے لئے تیار ہیں جو تم انہیں دینے لگے ہو ۔۔۔میری مانو ۔۔۔پلیز پہلے ان بیچاروں کو سنبھلنے کا موقع تو دو ۔۔۔ابھی تو ان کے غصے کا نشانہ شارق ہے۔ ۔۔مگر جب تم ان کو شاہ کا کارنامہ بتاؤ گے تو تم نے سوچا ہے کہ کیا ہوگا ؟؟؟۔۔۔میں بتاتا ہوں تمہیں کہ کیا ہوگا۔۔۔ابھی جو لوگ شارق کو برا بھلا کہہ رہے ہیں وہ حقیقت جاننے کے بعد اس لڑکے (شاہنزیب) کو تو برا کہیں گے پر ساتھ ساتھ ماہ نور کے کردار پر سوال اٹھائیں گے ۔۔۔"ولید شہزاد کو بڑے جذباتی لہجے میں سمجھا رہا تھا ۔۔۔وہ بس اسے روکنا چاہتا تھا کسی بھی طرح۔ ۔۔۔جس طرح وہ مار رہا تھا ولید تو ڈر گیا تھا کہ کہیں شاہنزیب کو جان سے ہی نہ مار دے ۔۔۔۔
"تو کیا چاہتے ہو تم ؟؟؟۔۔۔۔اسے ۔۔۔اس کے منصوبے میں کامیاب ہو جانے دوں۔ ۔۔بولو ؟؟؟"شہزاد ولید سے غصے کے مارے پوچھنے لگا تھا ۔۔
"نہیں ۔۔۔۔پر ابھی صبر کرو ۔۔۔ابھی سب پہلے ہی اتنے بڑے صدمے میں ہیں ۔۔۔اگر تم جا کر کہو گے سب سے کہ یہ سب شاہ نے کیا ہے تو جو اس وقت درد و تکلیف و غصہ تم محسوس کر رہے ہو وہ سب کریں گے۔۔۔اور لوگوں کا تو سوچو انہیں تو موقع مل جائے گا اس خاندان کی بےعزتی کرنے کا ۔۔۔ماہ نور کا جینا مشکل کر دے گا یہ معاشرہ ۔۔۔آج دیکھا تھا نہ تم نے کیسے وہ عورتیں منہ پر بول کر گئیں تھیں بیچاری ماہ نور کو ۔۔۔جب کہ اس بیچاری کا تو ان سب میں کوئی قصور بھی نہیں ہے "ولید نے شہزاد کو سمجھا دیا تھا اور وہ شہزاد کا دماغ بنانے میں کامیاب بھی ہو گیا تھا ۔۔۔
"اسے سزا تو ابھی ملنی چاہیے ورنہ اسے احساس کیسے ہوگا کہ اس نے غلطی نہیں گناہ کیا ہے "شہزاد یہ کہہ کر سوچنے لگا "میں دادو کو بلا کر لاتا ہوں وہی فیصلہ کریں گی کہ اسے کیا سزا دیں اور آگے کیا کرنا ہے "شہزاد یہ کہہ کر دادو کو بلانے اندر چلا گیا
"تم ٹھیک تو ہو ۔۔۔اف کتنا خون نکل رہا ہے ۔۔۔مجھے امید نہیں تھی کہ وہ تمہیں اتنی بری طرح مار مار کر لہولہان کر ڈالے گا "ولید نے اسے سہارا دے کر اٹھاتے ہوئے کہا ۔۔شہزاد نے اسے کافی لہولہان کر ڈالا تھا ۔۔ولید اسے گارڈن میں لے گیا اور جا کر اسے بینچ پر بیٹھا دیا "یہ روپ تو میں نے بھی کبھی ان کا نہیں دیکھا تھا آج یقین آ گیا وہ میرے ہی بڑے بھائی ہیں ۔۔۔ورنہ میں یہی سوچا کرتا تھا کہ ہم میں کوئی بات تو ایسی ھو جو کومن ہو "شاہنزیب اتنی مار کھا چکا تھا پھر بھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی یہ دیکھ ولید حیران تھا۔۔۔
"کیا مارا ہے سالے نے ۔۔۔ایک مکے میں ہی میرا سارا منہ بگاڑ دیا "وہ جیب سے رومال نکال کر شاہنزیب کے برابر میں بیٹھتے ہوئے اپنے منہ سے نکلنے والا خون صاف کرتے ہوئے بولا
"ہاں ۔۔۔سوری ۔۔۔میں بتانا بھول گیا تمہیں ۔۔۔بھائی کالج کے زمانے میں بہت بڑے باکسنگ چیمپئن تھے ۔۔"شاہنزیب نے بتایا تو ولید یہ سن طنزیہ مسکراتے ہوئے بولا "بڑی جلدی بتا دیا ۔۔۔اندازہ تو اس کا مجھے تب ہی ہو گیا تھا جب اس نے مجھے پہلا مکہ مارا تھا ۔۔ "ولید کو منہ بسورتے دیکھ وہ مسکرانے لگا ۔۔
"اچھا وعدہ کرو ۔۔۔تم راحیل کا ذکر کبھی نہیں کرو گے ۔۔۔یہ سب میں نے میرے لئے کیا ہے ایسا ہی کہو گے سب سے ۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ میری بیوی کا نام کسی اور لڑکے کے ساتھ لیا جائے "شاہنزیب نے وعدہ طلب کیا تو وہ مسکراتا ہوا وعدہ کرنے کو تیار ہوگیا ۔۔"بے فکر ہو جاؤ ۔۔۔راحیل کی کہانی آج سے ختم "۔۔۔۔
دادو آئیں تو دونوں کھڑے ہوگئے ۔۔۔انہوں نے بھی آتے ہی شاہنزیب کے منہ پر زور دار طمانچہ مارا ۔۔بہت دیر تک کھڑی کوٹھی سناتی رہیں شاہنزیب کو ۔۔۔اور وہ بیچارا خاموشی سے سنتا رہا ۔۔۔دادو نے فیصلہ سنایا ولید اور شہزاد کی ساری باتیں سننے کے بعد کے ابھی سب خاموش رہیں گے پہلے ملک صاحب اور ماہ نور کو اس صدمے سے نکلنے دیا جائے ۔۔۔پھر انہیں شاھنزیب کے کارنامے کا بتایا جائے گا ۔۔۔۔۔پھر جو ملک صاحب اپنی بیٹی کے لیے فیصلہ کرنا چاہیے ۔۔ان کی مرضی ۔۔۔"جاؤ جا کر دونوں اپنے اپنے منہ دھو لو اور شارق کو کہیں چھوڑ آؤ "دادو یہ کہہ کر واپس چلی گئیں تھیں۔ ۔۔ولید اور شہزاد مل کر شارق کو کہیں دور سنسان سڑک پر ڈالنے چلے گئے تھے ۔۔اور شاہنزیب اپنے کمرے میں آ کر منہ دھونے لگا ۔۔۔
"شاہ ۔۔۔سعدیہ نے خودکشی کی کوشش کی ہے "کامران کا فون آیا تھا جیسے ہی وہ منہ ہاتھ دھو کر واش روم سے نکلا ۔۔۔اس کا دل ھل گیا تھا یہ سن ۔۔۔سعدیہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی ہے وہ ان دونوں کے جینے کا واحد سہارا ہے۔ ۔۔شاہنزیب کو سعدیہ کی محبت کا احساس آج ہوا تھا ۔۔وہ بری طرح بھاگتا ہوا اسپتال پہنچا "کیا ہوا ہے کامران اسے؟؟؟" شاہنزیب نے گھبراتے ہوئے اس سے پوچھا
"ہاتھ کی نص کاٹ لی تھی اس نے ۔۔۔خون بہت بہے چکا ہے ڈاکٹر کے مطابق ۔۔۔ دعا کرو اس کے لیے "کامران بہت فکر مند لہجے میں اسے بتانے لگا ۔۔۔
شاہنزیب کا ضمیر بار بار اسے کہہ رہا تھا کہ اگر آج سعدیہ کو کچھ ہوگیا تو اس کا ذمہ دار صرف اور صرف وہ ہوگا ۔۔۔ وہ دل ہی دل دعائیں کرنے لگا کہ سعدیہ بچ جائے ۔۔۔بہت گہرا اثر ہوا تھا شاہنزیب کے دل پر سعدیہ کی خودکشی کا ۔۔۔اس کا مسکراتا ہوا چہرہ شاہنزیب کی نگاہوں کے سامنے گھومنے لگا تھا ۔۔۔تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر نے آ کر بتایا کہ سعدیہ خطرے سے باہر ہے ۔۔۔۔
"تم پاگل ہو سعدیہ ؟؟؟؟۔۔۔۔تم خود کشی کیسے کر سکتی ہو ؟؟؟۔۔۔کیا یہ زندگی جسے تم ختم کرنے چلی تھیں اس پر صرف تمہارا حق ہے ۔۔۔تمہارے ماں باپ کا نہیں ۔۔۔بولو ۔۔۔صرف میرے خاطر تم نے اپنی زندگی ختم کرنا چاھی" شاہنزیب اسے ڈانٹ رہا تھا ۔۔۔اسے اپنی کزن سے جو محبت تھی وہ آج اس کی نگاہوں میں جھلک رہی تھی ۔۔۔
"دیکھو سعودیہ ۔۔۔۔۔زندگی بار بار نہیں ملے گی اسے میرے خاطر تباہ نہ کرو ۔۔۔۔۔اگر آج تمہیں کچھ ہوجاتا تو میں اپنی ہی نظروں میں گر جاتا یار ۔۔۔یار زندگی خدا کا انمول تحفہ ہے اسے یوں ضائع مت کرو "وہ شرمساری میں ڈوبا ہوا سعدیہ کو پیار سے سمجھانے لگا ۔۔۔
"کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا ؟؟۔۔۔اتنا بڑا فیصلہ کرتے وقت تمہیں میری یاد نہیں آئی ۔۔۔اپنے بچپن کی منگیتر ۔۔۔بالکل سامنے کھڑی تھی میں تمہارے ۔۔۔تم نے مجھے دیکھا تک نہیں ۔۔۔یوں اندیکھا کر ڈالا مانو میں وھاں ہوں ہی نہیں۔۔۔۔۔۔کیسے کر سکتے ہو تو تم ایسا ؟؟؟۔۔۔۔تمہیں لگتا ہے میری خودکشی کی خبر میرے ماں باپ پر گرا گزرے گی ۔۔۔پر تمہاری ۔۔۔۔تمہاری تو انہیں توڑ ڈالے گی یہ نہیں سوچا تم نے اتنا بڑا فیصلہ لیتے وقت ۔۔۔۔کیسے ملاؤگے میری ماں سے نظریں ؟؟۔۔۔۔جن کی زبان نہیں تھکتی تھی تمہیں بیٹا بیٹا کرتے کرتے" سعدیہ اس کا گریبان پکڑ کر آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سوال کر رہی تھی ۔۔شہزاد نے مار مار کر لہولہان کر ڈالا تھا پر اس کا دل پر کوئی اثر نہ ہوا تھا ۔۔۔البتہ سعدیہ کے صرف چند جملے ہی دل کو گھائل کر گئے تھے ۔۔۔اس کی نظریں جھک گئیں سعدیہ اس کے سینے سے ہی سر لگا کر رونے لگی تھی ۔۔اور وہ اس کا مجرم بنا بیٹھا رہا ۔۔
"میں نے تم سے کبھی محبت نہیں کی ۔۔۔نہ کرتا تھا نہ کروں گا ۔۔۔نہ ہی کوئی جھوٹا وعدہ کیا ۔۔میں تو تم سے ہمیشہ یہی کہتا رہا کہ مجھے تم میں کوئی دلچسپی نہیں ہے "شاہنزیب نے کامران کو کمرے میں آتے دیکھ لیا تھا اس نے یہ کہہ کر سعدیہ کو سینے سے ہٹاکر جانے لگا ۔۔
"ایک بار مجھ پر بھروسہ تو کر کے دیکھتے ۔۔۔میں جانتی ہوں تم جھوٹ بول رہے ہو ۔۔۔تم مجھ سے بہت محبت کرتے ہو ۔۔۔صرف اس فرحان کے ڈر سے ایسا بول رہے ہو ۔۔۔ پر میں تمہارے خاطر جان دینے تک کے لیے تیار تھی ۔۔۔مجھے اس فرحان کی دھمکیوں سے کوئی ڈر نہیں لگتا ۔۔۔پر تم نے مجھ سے بات کی ہی نہیں ۔۔۔میں انتظار کرتی رہی کہ تم خود مجھ سے آکر کہو گے "سعدیہ کو لگ رہا تھا کہ وہ صرف جھوٹ بول رہا ہے وہ شاہنزیب کی ندامت کو محبت سمجھ رہی تھی ۔۔۔۔۔اسے لگ رہا تھا کہ شاہنزیب نے اس فرحان کی دھمکیوں سے ڈر کر یہ قدم اٹھا لیا ہے تاکہ فرحان اسے کوئی نقصان نہ پہنچائے ۔۔۔کامران کے کان کھڑے ہوگئے تھے سعدیہ کی بات سنتے ہی۔۔۔شاہنزیب حیرت سے واپس مڑا تھا سعدیہ کی طرف ۔۔کہ وہ کیسے جانتی ہے فرحان کے بارے میں ۔۔۔پر ساتھ ساتھ وہ کامران کی موجودگی سے ڈر گیا تھا کہ کہیں اسے شاہزیہ آپا کے بارے میں پتہ نہ چل جائے ۔۔۔"سعدیہ پلیز "شاہنزیب اسے آنکھیں دکھاتے ہوئے خاموش کرانے لگا ۔۔۔کامران تو جس دن سعدیہ کو گولی لگی تھی اسی دن اتنے سوال کر رہا تھا آج تو وہ بغیر پوری بات جانے چھوڑنے والا نہیں یہ سمجھ گیا تھا شاہنزیب ۔۔۔۔
"شاہ تم سمجھو ۔۔۔اس زندگی کا کیا فائدہ جو تمہارے بغیر جینی پڑے۔ ۔۔شاہنزیب تم نے میری زندگی کو چنا ہے میں جانتی ہوں پر تم نہیں جانتے کہ تمہارے بغیر تو میں ویسے بھی مر جاؤں گی ۔۔۔میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں "وہ روتے روتے کہہ رہی تھی ۔۔۔ نرس نے اسے نیند کی دوائی دے کر سولا دیا تھا۔۔۔۔۔اس کی حالت پر کامران اور شاہنزیب دونوں ہی افسردہ تھے ۔۔۔
"کہاں چلے ؟؟۔۔۔پہلے بتاؤ سعدیہ کیا بول رہی تھی ؟؟؟"صبح ہونے کو تھی وہ کامران کے سوالات سے بچنا چاہتا تھا اس لئے ہسپتال سے جانے لگا تھا کامران کو چھوڑ کر ۔۔مگر اس نے پھرتی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔۔
"وہ ۔۔۔فرحان سے میں انڈیا میں ملا تھا ۔۔وہاں وہ مجھے دیکھ کر گھر والوں کو گالیاں دینے لگا تو مجھ سے برداشت نہ ہوا اور میں نے اسے مارنا شروع کر دیا اسے بچانے کے لیے اس کے دوست بھی آگئے۔ ۔انہیں بھی میں نے دھول چٹا دی ۔۔۔بس اسی کا بدلہ لینے آیا ہے وہ۔ ۔۔تمہیں تو پتہ ہی ہے وہ گنڈوں کے خاندان سے ہے ۔۔۔نہ جانے کیوں میرے پیچھے پڑا ہے اور نقصان سعدیہ کو پہچانا چاہتا ہے مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ میری بجائے اچانک سے سعدیہ کے پیچھے کیوں پڑ گیا ۔۔اس دن سعدیہ پر گولی بھی اسی کے ساتھیوں نے چلائی تھی "شاہنزیب نے سچ ضرور بیان کیا تھا لیکن آدھا ادھورا ۔۔۔کامران نے جب یہ سنا تو غصے سے تلملا اٹھا
"بزدل عورتوں پر وار کرکے اپنی مردانگی دیکھا رہا ہے ۔۔۔اب تم بے فکر ہو جاؤ ۔۔دیکھو میں کیسے فرحان کے چھکے چھڑاتا ہوں۔۔۔تم بس دیکھتے جاٶ ۔۔۔اب وہ سعدیہ کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکے گا "کامران نے سعدیہ کی ذمہ داری لے لی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج کی کرنیں اس کے منہ پر پڑھ رہی تھیں ۔۔۔آنکھ کھولی تو خود کو کار میں پایا سر بھی بھاری بھاری سا محسوس ہو رہا تھا ۔۔ہلکے سے چکر آ رہے تھے وہ آنکھیں مسلنے لگا اسے رات کے بارے میں کچھ یاد نہ تھا ۔۔"شادی مبارک ہو ماہ نور "اس کے ھوش بحال ہوئے تو یاد آیا کہ ماہ نور کی شادی کی رات گزر چکی ہے ۔۔اس کی نظر اپنے برابر میں سوتی ہوئی ثانیہ پر پڑی وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی سو رہی تھی ۔۔۔۔"ثانیہ "اس کی پہلی آواز پر ہی اٹھ گئی تھی ۔۔۔۔آج ثانیہ کو راحیل ایک اجنبی لڑکا لگ رہا تھا ۔۔"تم یہاں کیسے اور میں تمہاری کار میں کیسے سو گیا ؟؟؟"راحیل نے الجھ کر سوالیہ انداز میں پوچھا تو وہ سمجھ گئی کہ اسے کل رات کے بارے میں کچھ یاد نہیں ۔۔۔
"وہ۔۔۔۔ تم کل شاری چھوڑ کر اچانک چلے گئے تھے۔۔۔۔۔ تو میں تمہیں ڈھونڈتی ہوئی یہاں چلی آئی ۔۔۔ تمہیں سمندر کے کنارے سوتا ہوا دیکھا تو اٹھا کر اپنی کار میں لیٹا دیا ۔۔۔"ثانیہ کی زبان میں لکنت محسوس ہو رہی تھی جیسے وہ بڑی مشکل سے بول پا رہی ہو ۔۔۔۔۔
راحیل نے اور سوال کیے ہی نہیں وہ گھر جانا چاہتا تھا اسے اپنی ماں کی فکر ستا رہی تھی کہ کل رات انکی نہ جانے کیسے کٹی ہوگی وہ تو فکر کر کر کے آدھی ہو گئیں ہوں گی ۔۔۔ثانیہ نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔
ثانیہ راحیل شاہنزیب تینوں ایک ساتھ ہی گھر پہنچے ۔۔شاہنزیب نے ان دونوں سے کوئی سوال نہ کیا ۔۔گھر میں گھستے ہی انہیں بہت سارے لوگ نظر آئے۔۔۔وہ تینوں حیرت سے ایک دوسرے کے منہ تکنے لگے ۔۔۔گارڈن میں اتنے سارے آدمی کھڑے باتیں کرتے ہوئے نظر آ رہے تھے ۔۔آفس کے ایک ورکر نے آکر شاہنزیب کے کندھے کو تھپتھپایا اور صبر کرنے کی تلقین کرنے لگا ۔۔
"کیا ہوا ہے ؟؟؟کہیں ماہ نور نے خود کو کچھ کر تو نہیں لیا ۔۔"ہر کوئی اُسے ہی صبر کی تلقین کر رہا تھا ۔۔شاہنزیب بری طرح گھبرا گیا تھا یہ خیال آتے ہی۔۔۔تیز قدم بڑھاتا ہوا وہ گھر میں داخل ہوا اس کے پیچھے پیچھے ثانیہ اور راحیل بھی ۔۔۔گھر کے لانچ میں پہنچتے ہی جہاں اکثر صوفے رکھے ہوتے تھے وہاں آج صوفے نہیں تھے بلکہ ایک جنازہ رکھا ہوا تھا ۔۔۔جنازہ دیکھ تینوں کے پسینے چھوٹے تھے "یہ کس کا جنازہ ہے ؟؟؟"ثانیہ کی آواز سے ہی خوف جھلک رہا تھا ۔۔۔شاہنزیب نے سب سے پہلے نظریں گھر کی سبھی خواتین پر دوڑائیں تھی ۔۔۔۔دل کو سکون آیا یہ دیکھ کر کہ ماہ نور صحیح سلامت سامنے بیٹھی ہوئی ہے ۔۔۔وہ سفید رنگ کے کپڑوں میں ملبوس تھی بال کھلے ہوئے اور بے جان سی گڑیا بنے جنازہ کے پاس بیٹھی تھی ۔۔۔ساری گھر کی خواتین کا رو رو کر برا حال تھا ۔۔۔"شاہ۔۔۔۔بڑے ابو نھیں رھے ۔۔۔۔" یہ کہتے ہوئے اسماء آکر روتے ہوئے اس کے گلے لگ گئی تھی ۔۔۔یہ سننا تھا کہ راحیل مارے غم کے زمین پر گیا تھا جبکہ شاہنزیب یہ سن سر سے پاؤں تک ھل کر رہ گیا تھا۔۔۔۔یہ صدمہ اس کے لئے ناقابل برداشت تھا ۔۔۔۔راحیل کے لئے تو بڑے ابو ہی اس کے والد تھے ۔۔۔اس کے سر سے آج باپ کا سایہ اٹھ گیا تھا ۔۔۔
"بہت خود دار اور عزت والے شخص تھے ملک صاحب ۔۔۔بیٹی کی کل برات نہ آنے کا صدمہ ان کی جان لے گیا "وہاں بیٹھی عورتیں تبصرے کر رہی تھیں۔۔۔۔" ارے بیٹی کا غم لے گیا ان کی جان" وہاں بیٹھی ایک عورت بولی۔۔۔۔۔
"شارق میں تجھے جب تک خون کے آنسو نہ رولا دوں ۔۔۔تب تک سکون سے نہیں بیٹھوں گا "علی بھائی روہانسا آواز میں بولے ۔۔۔ہر کوئی رو رہا تھا چیخ رہا تھا پر جانے والا تو چلا گیا تھا اس فانی دنیا سے ۔۔۔
آج جب باپ کا شفقت و محبت بھرا سایہ اٹھا سر سے تو پوری دنیا انجان لگنے لگی۔۔۔۔۔آج ماہ نور کو دل کی دنیا اجڑی اجڑی معلوم ہو رہی تھی ۔۔۔شہزاد کی نگاہیں مسلسل شاہنزیب کے وجود پر ٹکی ہوئی تھیں۔ ۔۔۔گویا کہ کہہ رہی ہوں کہ تم نے مارا ہے بڑے ابو کو ۔۔شاہنزیب کی حالت ماہنور سے بھی زیادہ خراب تھی ۔۔۔پہلے سعدیہ کی خودکشی کی کوشش اور اب ملک صاحب کی موت ۔۔۔اسماء شاہنزیب کا ہاتھ پکڑ کر اسے ماہ نور کے پاس لے آئی تھی ۔۔"شاہ میری بات سنو ۔۔۔ہم جانتے ہیں تم اس وقت بڑی مشکل وقت سے گزر رہے ہو ۔۔۔پر ماہنور اب تمہاری ذمہ داری ہے ۔۔۔سکتے کی کیفیت میں ہے صبح سے ۔۔۔تم اسے سمبھالو ۔۔۔سن رہے ہو نا " رومیسا آپا نے شاہنزیب کو اس کی ذمہ داری یاد دلائی تھی ۔۔۔شاہنزیب کا ضمیر بار بار اسے ملامت کر رہا تھا کے بڑے ابو اس کی وجہ سے دنیا سے چلے گئے ۔۔اس نے خود کو بڑی مشکل سے سنبھالا اور ماہ نور کا ہاتھ پکڑ لیا "مانو ۔۔۔بڑے ابو کا انتقال ہو گیا ہے ۔۔پتا ہے تمہیں ؟؟"اس نے دو تین بار ایک ہی بات کہی ۔۔۔جب شاہنزیب نے دیکھا کہ اس کے بولنے کا ماہنور پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تو اسے اپنے سینے سے لگا لیا ۔۔اور خود اوپر چھت کی جانب دیکھنے لگا تاکہ آنسو نہ نکلیں" تم کہتی ہو نا ۔۔۔ہر بات شیئر کرتی ہو مجھ سے ۔۔تو آج نہیں کرو گی ؟؟۔۔۔میں تمہارے پاس ہوں مانو ۔۔۔مجھ سے کچھ نہیں بولو گی "اس نے بڑے پیار سے ماہنور سے کہا تو وہ زور زور سے اس کے سینے سے لگے رونے لگی ۔۔۔وہ اتنا تڑپ رہی تھی کہ وہاں بیٹھے لوگوں کا کلیجہ منہ کو آ رہا تھا اسے یوں روتا ہوا دیکھ۔۔۔شاہنزیب خود بکھر گیا تھا پر اسے نہیں بکھرنے دے رہا تھا ۔۔۔اسے سینے سے لگائے رکھا یہاں تک کہ وہ روتے روتے بے ہوش ہوگئ۔ ۔۔۔شاہنزیب نے اسے سینے سے لگایا ہوا تھا کہ اچانک اسے محسوس ہوا کہ ماہنور بالکل خاموش ہوگئی ہے ۔۔اس نے اپنے سینے سے ہٹایا تو وہ بے جان گڑیا کی طرح اس کی باہوں میں گر گئی ۔۔۔"مانو۔۔۔۔۔ مانو"شاہنزیب اس کے چہرے پر تھپ تھپا رہا تھا ۔۔۔
"پانی لاؤ "رومیسا کی چیخ بلند ہوئی ۔۔اسماء نے شاہنزیب کو پانی کا گلاس دیا ۔۔
"ایک کام کرو اسے کمرے میں لے جاؤ ۔۔اسے یہاں نہ بیٹھے رہنے دو ۔۔اپنے باپ کا جنازہ اٹھتے دیکھ نہیں پائے گی یہ" شاہنزیب اس سے پہلے ماہ نور کے منہ پر پانی چھڑکتا بڑی پھوپھو نے اسے روکتے ہوئے کہا
"ہاں اسے اندر لے جاؤ شاہ "رومیسا نے بھی ان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ۔۔اسماء اور ریشم بھی اسے یہی کہنے لگیں کہ بس اندر لے جاو ماہ نور کو ۔۔
"نہیں ۔۔۔اس کا حق ہے اپنے والد کا آخری دیدار کرنا ۔۔۔اگر میں اسے یہاں سے لے گیا ۔۔تو مانو مجھے کبھی معاف نہیں کرے گی۔۔۔اس نے خود اپنے آپ کو میرے حوالے کر دیا ہے ۔۔مجھے یقین ہے یہ سوچ کر ہی کیا ہوگا کہ میں اس کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہونے دوں گا "یہ کہتے ہوئے اس نے ماہ نور پر پانی کا چھڑکاؤ کیا ۔۔۔وہ ہوش میں آئی تو اس بار پہلے سے بھی زیادہ زور زور سے رونے لگی ۔۔۔کامران کے آتے ہی اسے آخری دیدار کرایا گیا ۔۔وہ روتے روتے راحیل کے گلے لگ گیا
"مانو صبر کرو "اسماء نے اس بار اسے سنبھالتے ہوئے کہا تھا ۔۔وہ خود بھی رو رو کر نڈھال ہو رہی تھی ۔۔
۔جنازہ اٹھایا گیا تو شہزاد نے شاہنزیب کے کان کے پاس آ کر کہا "دیکھ رہے ہو ناں تم ؟؟۔آج تمہاری خودغرضی نے ماہ نور کو یتیم بنا دیا ہے ۔۔۔میرا بس نہیں چل رہا ورنہ میں تو تمہیں بڑے ابو کے جنازے کے پاس تک نہ آنے دوں۔ ۔۔لوگ سمجھ رہے ہیں کہ بڑے ابو کی موت کی وجہ ان کی بیٹی کی بارات نہ آنا ہے ۔۔۔پر میں اور تم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی موت کی وجہ صرف تم ہو ۔۔۔"شہزاد کہتا ہوا آگے بڑھ گیا تھا ۔۔اس کے یہ سخت الفاظ شاہنزیب کے دل کو چھلی کر گئے تھے ۔۔۔
راحیل کو لوگوں کی باتوں سے کل رات کا سارا علم ہوا ۔۔۔وہ بری طرح تڑپ اٹھا یہ سن کر کہ شاہنزیب کی ماہنور سے شادی ہوگئی ہے ۔۔ایک طرف باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے کا غم تھا تو دوسری طرف محبوب کی جدائی کا ۔۔۔وہ غموں سے چور چور ہوا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک صاحب کے مرنے کے بعد شاہنزیب نے خود کو کمرے میں بند کرلیا ۔۔شہزاد کے الفاظ اس کے ضمیر کو ہر لمحہ جھنجھوڑ رہے تھے ۔۔ایک ہفتہ گزر گیا تھا ۔۔۔دادو اور شہزاد دونوں اس کے کمرے میں آئے تھے۔ ۔۔دادو نے سوچ لیا تھا کہ اب انھیں شاہنزیب کے ساتھ کیا کرنا ہے ۔۔۔"تم خود سب سے کہو کہ تم یہاں سے چلے جانا چاہتے ہو "ان کی بات سن کر وہ روہانسا آواز میں کہنے لگا ۔۔"مانو کو میں یوں چھوڑ کر نہیں جا سکتا ۔۔۔میں آپ کی ہر سزا ماننے کے لئے تیار ہوں پر یہ نہیں "شاہنزیب التجائی لہجے میں بول رہا تھا
"یہی سزا ہے تمہاری ۔۔۔جب تم پڑھ کر واپس لوٹ آؤ گے تب ہم پہلے ماہ نور کو ساری سچائی بتائیں گے پھر مانو فیصلہ کرے گی کہ اسے تمہارے ساتھ اپنا نکاح رکھنا ہے یا نہیں ۔۔۔تب وہ بھی اتنی سمجھ دار ہو جائے گی کے اپنے فیصلے خود لے سکے "دادو نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا ۔۔۔دادو یہ کہنے کے بعد ایک لمحہ بھی اس کمرے میں نہ روکیں
"کل صبح تک کا وقت ہے تمہارے پاس ۔۔۔سمجھے ۔۔۔اور ہاں ان چار سالوں میں ماہ نور سے کوئی رابطہ نہیں رکھو گے تم ۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ تم اس پر دباؤ ڈالو ۔۔۔"شہزاد نے شرٹ کا کالر پکڑ دھمکاتے ہوئے کہہ کر جانے لگا ۔۔۔
"مجھے کچھ دن اور رہنے دیں پلیز ۔۔۔۔وہ ابھی صدمے میں ہے۔ ۔میں کچھ دن اس کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں ۔۔۔اسے ضرورت ہے میری "شاہنزیب وہاں سے ابھی نہیں جانا چاہتا تھا ۔۔۔ماہ نور کو یوں روتا ہوا چھوڑ کر ۔۔اس لیے اس نے شہزاد سے ابھی کچھ دنوں کی مہلت مانگی۔۔۔پر دادو کی طرح وہ بھی ایک سننے کے لئے تیار نہ تھا
" تمہاری محتاج نہیں ہے وہ ۔۔پورا خاندان اس کے ساتھ ہے اس مشکل گھڑی میں ۔۔۔خود کو اتنی اہمیت مت دو شاہ ۔۔۔دیکھ لینا 4 سال بعد جب تم لوٹو گے تو وہ تمہیں بھول چکی ہوگی ۔۔۔اور یہی میں چاہتا ہوں ۔۔۔سچائی جاننے کے بعد تو وہ تمہارے چہرے تک سے نفرت کرے گی ۔۔۔نکاح قائم رکھنا تو بہت دور کی بات ہے ۔۔۔اس لیے دماغ تیار کر کے جانا جب واپس لوٹو گے تو یہاں کچھ نہ پاؤ گے"شہزاد نہایت سخت الفاظ بہت آسانی سے بول کر چلا گیا۔۔اس دیوانے کا دل تڑپ اُٹھا تھا یہ سب سن۔ ۔۔۔۔۔۔
"بھائی میں آپ کو کیسے سمجھاؤں ۔۔۔میں نے بڑے ابو کو نہیں مارا ۔۔۔میں تو ایسا کرنے کی کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔۔۔یہ تو میری قسمت کا لکھا تھا ۔۔۔کیا واقعی بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں چار سال بعد ماہنور مجھے بھول جائے گی ۔۔کیا واقعی وہ میرے چہرے سے بھی نفرت کرے گی "وہ خود سے کلام کرتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گیا تھا اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک آئے تھے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح ناشتے کی ٹیبل پر آج سب موجود تھے سوائے ماہ نور کے ۔۔۔شہزاد بار بار شاہنزیب کو اشاروں میں کہہ رہا تھا کہ وہ سب سے بولے پر وہ نظریں چورانے لگا۔۔۔
"چھوڑو مجھے ۔۔۔میں ماہ نور سے بات کئے بغیر نہیں جاؤں گا "باہر سے کسی کے چیخنے کی آوازیں آ رہی تھیں ۔۔۔سب ناشتہ چھوڑ تیزی سے باہر کی جانب گئے ۔۔۔شارق کو دیکھ سب حیران ہوئے تھے ۔۔۔گھر کے دونوں چوکیدار اسے روکنے میں لگے تھے پر وہ ان سے ہاتھ چھڑا کر گھر میں گھسے چلا آرہا تھا ۔۔۔"ماہ نور ۔۔۔۔ماہ نور " شارق زور زور سے ماہنور کا نام پکار رہا تھا ۔۔۔
"آج تو خود یہاں نہیں آیا تیری موت لے آئی ہے "علی بھائی کہتے ہی مارنے کی نیت سے شارق پر جھپٹے ۔۔۔کامران نے بھی اس پر حملہ کر ڈالا تھا۔۔۔جبکہ شاہنزیب اور شہزاد علی اور کامران کو ہٹانے کی کوشش کرنے لگے ۔۔۔
علی کو ہٹانا اکیلے شہزاد کے بس میں نہ تھا راحیل نے بھی علی کو ہٹانے کی خاطر اپنی پوری جان لگاتے ہوئے ان کے دونوں ہاتھ پکڑ لیئے۔ ۔۔دوسری طرف شاہنزیب نے کامران کو ہٹایا ۔۔۔تو کامران غصے میں گارڈن میں رکھی کرسی اٹھا لایا اور شارق کے سر پر دے ماری ۔۔۔یہ شور سن کر اسماء اور ماہ نور دونوں بھاگے چلی آئیں تھیں۔ ۔۔جب ماہ نور کی نظر شارق پر پڑی تو اس کے کپڑے پھٹے ہوئے اور اس کا چہرہ لہو لہان تھا ۔۔۔۔
"ماہ نور میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں "شارق اتنا مار کھا چکا تھا پھر بھی ماہ نور کو دیکھتے ہی بولنے لگا اس کا لہجہ انتہائی منتی تھا۔ ۔۔
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد ہمارے گھر آکر ماہ نور سے ملنے کی ؟؟؟"اس بار تو راحیل کا غصہ بھی امٹ آیا تھا ۔۔۔اس نے غصے سے پوچھتے ہی شارق کو اتنا زور دار مکا مارا کہ وہ زمین پر گرا ۔۔۔اس بیچارے کے گرتے ہی راحیل اس پر چڑھ بیٹھا اور اس کے منہ پر مکے ہی مکے برسانا شروع کر دیئے ۔۔۔
"مار دو گے کیا اسے؟؟؟"شاہنزیب اسے بچانے کے لئے آگے آیا تھا ۔۔ اسے ہٹا کر شارق کو اپنے پیچھے کھڑا کر لیا تھا ۔۔۔سارے گھر کے مردوں کے سامنے شاہنزیب دیوار بن کر کھڑا ہو گیا تھا شارق کے لئے ۔۔۔
"ہاں مار دوں گا اسے "راحیل ماہ نور کو یوں صدمے میں دیکھ تڑپ رہا تھا ۔۔۔ماہ نور کی شادی صرف شارق کی وجہ سے زبردستی شاہنزیب سے کرنی پڑی تھی اس بات کا جتنا غصہ تھا اسے شارق پر آج اتار دینا چاہتا تھا ۔۔۔وہ غصے سے دھاڑتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔زندگی میں پہلی بار سب گھر والوں نے راحیل کو اتنا غصہ دیکھا تھا ۔۔۔ثانیہ سہم گئی تھی اس کا یہ روپ دیکھ ۔۔۔اس نے مضبوطی سے اسماء کا ہاتھ پکڑ لیا تھا ۔۔
"مانو پلیز مجھ سے ایک بار بات کر لو پلیز "شارق اتنی مار کھانے کے باوجود اپنی بات پر قائم تھا اور ماہ نور کو دیکھ التجا کرنے لگا ۔۔۔
"تو رک یہاں ۔۔۔میں ابھی آتا ہوں "علی بھائی کہتے ہوئے غصے سے گھر کے اندر گئے تھے ۔۔۔شہزاد بڑی امی اور بھابھی ان کے پیچھے بھاگے تھے تیزی سے۔۔۔کیونکہ سب جانتے تھے کہ وہ گن لینے گئے تھے۔ ۔۔
شاہنزیب کا ضمیر اسے جھنجھوڑنے لگا تھا ۔۔۔اس نے یہ پورا منصوبہ بناتے وقت شارق کے بارے میں تو کچھ سوچا ہی نہ تھا ۔۔اس بے قصور شخص کو لوگ مارنے کے درپے تھے ۔۔۔شاہنزیب راحیل اور کامران کو ایک ساتھ نہیں روک پا رہا تھا ۔۔۔وہ راحیل کو روکتا تو کامران اسے مارنے لگتا ۔۔۔۔وہ کامران کو روکتا تو راحیل اس پر مکے برسانے لگتا ۔۔۔"ڈیڈ ۔۔۔۔تایا ابو ۔۔۔آپ لوگ روک کیوں نہیں رہے ہیں انھیں؟؟؟۔۔۔اس طرح تو یہ شارق کی جان لے لیں گے "شاہنزیب وہیں کھڑے ہو کر تماشہ دیکھتے ہوئے اپنے والد اور تایا کے پاس آیا تھا ۔۔پر انہوں نے منہ موڑ لیا مانو وہ سننا ہی نہ چاہتے ہوں اس کی بات ۔۔۔
"مانو تم چلو۔۔۔ روکو سب کو "شاہنزیب کو ماہ نور سب کی طرح خاموش تماشائی بنتی ہوئی نظر آئی تو وہ اس کے پاس آیا اور ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچنے لگا ۔۔۔اس امید پر کہ ماہ نور یہ سب روک دے گی۔۔۔
"نہیں ۔۔۔وہ نہیں جائے گی۔۔شارق نے اپنے گھر والوں کو نہ جانے کون سی کہانی سنائی ہے کہ انھوں نے اسے معاف کر دیا ۔۔۔مجھے یقین ہے وہی جھوٹی کہانی سنا کر ماہنور سے معافی لینے آیا ہے ۔۔۔اور تمہیں کیا ہوگیا ہے شاہ ؟؟؟"رومیسا شاہنزیب سے مخاطب ہو کر "تم اس کی سائیڈ کیوں لے رہے ہو ؟؟؟۔۔۔کیوں بچا رہے ہو اسے سب سے ؟؟؟۔۔۔مرتا ہے تو مر جانے دو اسے " رومیسا نے ماہ نور کا دوسرا ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا تھا ۔۔۔
سب غصے کے مارے پاگل ہو رہے تھے کہ کسی کو شارق کا مر جانا کوئی بڑی بات معلوم ہی نہیں ہو رہی تھی ۔۔"اسے مارنے سے پہلے آپ مجھے مار دیں" علی کو سب روکتے رہ گئے پر وہ گن لے آیا تھا اس نے آکر جب گن شارق پر چلانا چاہی تو شاہنزیب بھاگتا ہوا آیا اور شارق کے آگے سینہ تان کھڑا ہوگیا ۔۔۔
"تم ہٹ جاؤ شاہ " علی سرخ انگارے بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔وہ بھی ڈرنے والا نہ تھا ۔۔۔"ایک بار سن تو لیں کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے"شاہنزیب شارق کے حق میں بول رہا تھا
"ہٹ جاؤ تم "علی غصے سے بھپر کر اپنی بات دہرانے لگا ۔۔۔
"پہلے مجھے مار دیں پھر اسے ماریئے گا "شاہنزیب ڈٹ کر کھڑا ہو کر بولا ۔۔۔
"پلیز بند کریں یہ مار پیٹ۔ ۔۔۔ میرے ڈیڈ کو لڑائی جھگڑا بالکل پسند نہیں تھا ۔۔۔علی بھائی آپ کو گن چلانی ہے نا اس پر ۔۔۔تو چلائیں ۔۔۔پر اس سے پہلے مجھے مار ڈالیں۔ ۔۔کیونکہ اس کو مارنے کے بعد پتہ ہے کیا ہوگا آپ کو جیل ہو جائے گی اور اس کا گناہ میرے سر ہوگا ۔۔۔یہ سب یہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ میری وجہ سے ہی تو ہو رہا ہے"ماہ نور بھاگتی ہوئی آگئی تھی شاہنزیب کے پاس ۔۔۔وہ واقف تھی کے اگر علی بھائی کہہ رہے ہیں کہ وہ مار دیں گے تو وہ واقعی مار دیں گے ۔۔۔اور اگر شاہنزیب کہہ رہا ہے کہ وہ اسے مرنے نہیں دے گا بھلے خود کیوں نہ مر جائے تو واقعی ایسا ہی کرے گا ۔۔۔
"چلے جاؤ یہاں سے ۔۔۔مجھے نا تمہاری کوئی بات سنی ہے نہ سنو گی اب جاؤ یہاں سے ۔۔۔پلیز جاؤ "ماہ نور اب شارق کی طرف مڑی تھی اور اسے ہاتھ جوڑ کر کہہ رہی تھی ۔۔۔پر وہ بتانے کے ارادے سے آیا تھا ۔۔۔
بتائے بغیر کہاں ہلنے والا تھا وہ ۔۔۔"میں تیار تھا بالکل تیار تم چاہو تو سلون جا کر پوچھ سکتی ہو ۔۔میں کار میں بیٹھا تو اچانک کسی نے پیچھے سے میرے منہ پر رومال رکھ دیا ۔۔۔ اور میں بے ہوش ہوگیا۔۔۔پھر جب ہوش آیا تو میں ایک میدان میں پڑا تھا۔۔۔تم چاھے تو وہاں جاکر اس چائے والے سے پوچھ سکتی ہو جس نے مجھے وہاں سے اٹھایا اور اپنے ہوٹل میں لے گیا ۔۔۔یقین کرو مجھے نہیں پتا کہ میرے موبائل سے ایس ایم ایس کس نے کیا اور کیوں "وہ سب باتیں سچ سچ بتا کر چلا گیا ۔۔۔پر کسی نے اس کی بات کا اعتبار نہ کیا ۔۔۔
۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمینیں اور فیکٹریاں اور جو کچھ بھی ملک صاحب کا تھا وہ سب ماہ نور کے نام ہے یہ بات تو سب جانتے ہی تھے۔۔۔ پر وصیت میں ملک صاحب نے اسماء کے نام بھی دو فیکٹریاں کی تھیں اور راحیل کو اپنا پورا امریکہ والا کاروبار سونپ گئے تھے ۔۔۔وہ صرف کہتے نہیں تھے وہ واقعی اسماء اور راحیل کو اپنے بچوں کی طرح مانتے تھے ۔۔۔یہ بات ان کی وصیت نے ثابت کر دی تھی ۔۔۔۔ثانیہ راحیل کی ڈائری اس کے کمرے میں رکھ کر چلی گئی تھی اپنے والدین کے ساتھ واپس اپنے ملک ۔۔۔
شاہنزیب بھی شہزاد کہ دباؤ میں آ کر سب گھر والوں سے اپنی پڑھائی مکمل کرنے کی خواہش کر چکا تھا ۔۔اور اس کی خواہش کا سب نے احترام کیا ۔۔وہ پڑھنے کے لئے لندن چلا گیا ۔۔
علی کے والد نے گھر کے نزدیک ہی ایک نیا بنگلہ خرید لیا ان کی پوری فیملی وہاں شفٹ ہوگی ۔۔۔دادو ان کے ساتھ چلی گئیں کیونکے علی کے والد کی بڑی چاہت تھی کے وہ ان کے ساتھ رھیں ۔۔۔اب گھر میں صرف افتخار صاحب ان کی بیوی ۔۔۔شھزاد ۔۔۔ماهنور ۔۔۔اسماء اور ان کی والده رھنے لگے ۔۔۔راحیل امریکه چلا گیا تھا اپنا کاروبار سمبھالنے۔۔۔۔۔
*****----*******
ایک سال گزر گیا تھا ۔۔۔ایک دن شاهنزیب کے پاس ولید کا فون آیا ۔۔۔وه بڑے مسرت بھرے لہجے میں اسے اپنی شادی میں بلا رھا تھا ۔۔۔
”یہ تو بتاٶ دولھن کون ہے تمھاری؟؟؟“شاهنزیب نے بڑے تجسس سے پوچھا ۔۔۔
”میرے خوابوں کی شھزادی ۔۔یعنی سالے صاحب آپ کی نک چڑھی بہن ۔۔۔“ولید نے خوش ہوکر بتایا ۔۔”سب سے پہلے تجھے خبر دے رہا ہوں سالے “
”شکریہ ۔۔۔عین نوازش آپ کی۔۔۔۔کے آپ نے ہم ناچیز کو اس قابل سمجھا۔۔۔“کہ کر شاهنزیب زور سے ھسنا تھا ۔۔۔دوسری طرف ولید بھی ھسنے لگا۔۔۔”کمینے۔۔۔۔سالے۔۔بھت یاد آتا ہے تو“ولید اداس ہوکر بولا تو جوابا شاهنزیب مسکراء دیا ۔۔۔”تو بھی ۔۔۔میرے ہونے والے جیجا“اس نے بڑے پیار سے کہا ۔۔۔شاهنزیب بھت خوش تھا ولید کے لیےؔ......پر وه شادی میں شرکت نہیں کرسکتا تھا اس لیےؔ معذرت طلب کرلی تھی ۔۔۔۔البتہ شادی پر تحفہ بھیجنے کا وعده کیا تھا ۔۔۔ولید اس کی مجبوری سے اچھی طرح واقفیت رکھتا تھا ۔۔۔
اسماء کی شادی کے بعد تو ماہنور بالکل اکیلی ہو گئی تھی ۔۔۔اتنا بڑا گھر پر ہر وقت سنسان۔ ۔۔۔کبھی ایک وقت تھا یہاں ہنسنے کی آوازیں گونجا کرتی تھیں۔ ۔۔یہاں کی ہر ایک دیوار پر خوشیوں کے رنگ تھے ۔۔ماہ نور اکثر یہی سوچ کر بے انتہا رونے لگتی تھی ۔۔۔"بی بی جی آپ یہاں میڈم صاحبہ کب سے آپ کو بلا رہی ہیں "نوکرانی نے آ کر کہا تو وہ آنسو صاف کرتی ہوئی کھڑی ہو گئی ۔۔اس نے چائے پکائی بسکٹ سموسے چپس نمکو پلیٹوں میں سجائے اور مہمانوں کے سامنے پیش کیے ۔۔۔
"یہ ماہ نور ہے میری جیٹ کی بیٹی ۔۔وہ جن کا ایک سال پہلے انتقال ہوا تھا "ایسا کون سا مہمان تھا جنھیں وہ پکڑ کر یہ نہ بتاتی ہوں کہ ماہنور انکی کون ہے ۔۔۔ماہ نور ادب سے ان مہمانوں کے سامنے کھڑی ہو گئی سلام کرنے کے بعد ۔۔ ۔۔
"وھی ناں جس کی بارات نہیں آئی تھی"وہ عورتیں جو شاہنزیب کی ماں کے دوستی تھیں ان میں سے ایک منہ پھٹ ہو کر بولی تھی۔۔ماہ نور کے کانوں کو تو عادت سی ہوگئی تھی یہ بات سننے کی ۔۔۔دل بری طرح تلملا جاتا تھا شروع شروع میں پر اب تو مانو کوئی فرق ہی نہ پڑتا ہو
"ہاں… وہی ۔۔۔۔میرا بیٹا چھوٹا والا بہت رحم دل اور محبت کرنے والا هے۔۔۔اس کی بیوی ہے یہ "شاہنزیب کی ماں نے اپنے دوستوں سے کہا تھا مسکراتے ہوئے ۔۔ماہ نور یہ بات سن کر کاٹوں پر لوٹی تھی ۔۔۔
"پر شاہنزیب تو ابھی پڑھنے گیا ہے ۔۔۔اور ہم نے تو سنا تھا کہ اس کی منگنی بچپن سے ہوئی وی ہے "ان میں سے ایک جو نیلی ساڑھی والی تھی وہ ماہ نور کو دیکھ منہ بسور بولی۔ ۔۔
"ہاں ۔۔۔جی۔ ۔۔بس قسمت کی بات ہے۔ ۔۔وہ میرا بیٹا ذرا جذباتی ہے اس نے جب دیکھا کہ برات نہیں آئی تو اپنے بڑے ابو سے ماہ نور کا ہاتھ مانگا اور حالات بھی ایسے تھے کہ انہوں نے بھی جھٹ سے ہاں کر دی ۔۔۔سعدیہ تو ابھی چھوٹی ہے شاہنزیب کی طرح وہ بھی پڑھ رہی ہے "انہوں نے مسکراتے ہوئے ماہنور کے جلے پر نمک لگایا تھا ۔۔۔ماہ نور بس خاموش کھڑی رہی سر جھکائے ۔۔
"پر ماہنور تو عمر میں شاہنزیب سے بڑی ہے نا؟؟؟"وہ نیلی ساڑھی والی ماہ نور کو دیکھ برا سا منہ بناتے ہوئے پھر بولی تھی ۔۔یہ بات سن ماہ نور کا دل چاہا کہ اس کے چائے میں زہر ملا دے۔۔۔
"ہاں ۔۔۔وہ بھی پورے دو سال "شمسه بیگم کافی جتاتے ہوئے بولیں۔ ۔"پر بھئی وہ جذباتی فیصلہ تھا۔۔اب اتنے بڑے فیصلے جذباتی ہو کر تھوڑی کیے جاتے اس لئے ہم سب اس کے پڑھ کر واپس آنے کا انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔پھر ابھی رخصتی تھوڑی ہوئی ہے صرف نکاح ہی تو ہوا ہے "انہوں نے اپنی آخری لائن پر خاصا زور دیا تھا ۔۔ساتھ ساتھ نکاح کا لفظ اس لاپرواہی سے ادا کر رہی تھیں کہ مانو وہ کوئی حیثیت ہی نہ رکھتا ہو ۔۔
"ہاں ۔۔۔کہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں ۔۔پھر ویسے بھی لندن جیسے ملک سے آنے کے بعد وہ سمجھدار بھی ہو چکا ہو گا اور اپنے فیصلے میں خود مختار بھی ۔۔۔پھر اگر وہ ماہ نور کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو؟؟؟ "اس بار وہ عورت بولی تھی جو کب سے بیٹھی بسکٹ پر بسکٹ منہ میں ٹوسے جا رہی تھی۔۔۔
" اس کا بسکٹ ٹھوسنا۔ ۔۔بولنے سے بہتر ہے ۔۔۔"ماہنور دل ہی دل کو کڑکڑائی تھی اس کی بات سن کر ۔۔۔۔
"دیکھیں یہ بھی میری بیٹی ہے اور شاہنزیب میرا بیٹا ہے ۔۔۔نکاح جو ہوا تھا وہ تو صرف جذباتی ہوکر اور وقت کی نزاکت کی وجہ سے ۔۔۔اگر یہ دونوں ساتھ نہ رہنا چاہیں گے تو ہم پھر کیا کرسکتا ہیں ۔۔۔۔طلاق کروا دیں گے ان کی"شمسه بیگم اتنی بڑی بات اتنی آسانی سے بول جاتی تھیں کہ مانو ان کے نزدیک ماہ نور اور شاہنزیب کا نکاح محض ایک کاغذ کے ٹکڑے پر کیے ہوئے دستخط ہوں۔۔۔۔"آٶ ماہ نور میرے پاس بیٹھو "انہوں نے ماہ نور کو بڑے پیار سے اپنے پاس بلایا تھا بیٹھنے کے لیے
"نہیں چاچی جان کچن میں بہت کام ہیں" ماہ نور میں اور ہمت نہ تھی ان کی کڑوی باتیں سننے کی ۔۔۔اس لیے وہاں سے جانے لگی "چھپکلی چھپکلی "ماہ نور زور سے چیخی تھی اس نیلی ساڑی والی عورت کو دیکھ کر ۔۔۔بس اس کا چیخنا تھا کہ وہ چاروں کے چاروں پاگلوں کی طرح اٹھ کر صوفے سے بھاگنے لگیں ۔۔۔اس بھاگمدوڑی میں جو عورت اتنی دیر سے بیٹھ کر بسکٹ کھا رہی تھی اس پر گرما گرم چائے گر گئی تھی ۔۔۔اور وہ نیلی ساڑھی والی چھپکلی کے ڈر سے ایسی بھاگی کہ اسے راستے میں رکھا سائیڈ ٹیبل نظر ہی نہیں آیا ۔۔۔وہ اس سے ٹکرا کر زمین پر گر پڑی تیسری والی اسے گرتا ہوا دیکھ چکی تھی پر پھر بھی خود کو سنبھال نہ سکی وہ کافی بھاری بھرکم نظر آ رہی تھی ۔۔جبکہ نیلی ساڑھی والی دبلی پتلی تھی ۔۔جب وہ اس دبلی پتلی پر گرئی تو ماہنور کی بے ساختہ ہنسی بلند ہو گئی تھی۔۔۔شمسه بیگم ماہ نور کو غصے بھری نگاہ سے گھورنے لگیں۔ ۔۔
"سوری مجھے لگا چھپکلی ہے "ماہ نور نے اپنی ہنسی کو بڑی مشکل سے کنٹرول کیا تھا شمسه بیگم کو گھورتا ہوا دیکھ۔۔۔وہ نظریں جھکائے ان عورتوں کو منہ چڑا کر چلی گئی تھی
" زبردست بی بی جی ۔۔۔آپ کے پاس آتے کہاں سے ہیں ایسے آئیڈیے ؟؟؟۔۔ہر بار آپ میڈم جی کی بولتی بند کروا ہی دیتی ہیں" ستارہ جو ان کے گھر کی نوکرانی تھی برتن دھوتی جارہی تھی اور خوب ہنستے ہوئے داد دیے جا رہی تھی ۔۔۔
"چپ ہو جاؤ سن لیں گئی وہ۔۔۔پھر میرا غصہ تم پر نکالیں گی "ماہ نور نے ستارہ کو خاموش کرایا تھا ۔۔۔۔
"مجھے سمجھ نہیں آتا ان کو آپ سے مسئلہ کیا ہے ۔۔۔جب کوئی مہمان آتا ہے اس کے سامنے شروع ہوجاتی ہیں ۔۔۔کتنی بےعزتی کرتی ہیں آپ کی ۔۔۔آپ کیسے سہتی ہیں یہ سب ؟؟؟۔۔۔آپ چلیں کیوں نہیں جاتی یہاں سے اپنے تایا کے گھر ۔۔وہ تو آپ سے کتنی محبت کرتے ہیں ۔۔ہر بار آپ سے ضد کرتے ہیں کہ آپ ان کے ساتھ چلیں۔۔۔۔ پھر کیوں رہ رہی ہیں یہاں؟؟؟"ستارہ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا شمشہ بیگم کا بار بار ماہنور کو ذلیل کرنا وہ بھی لوگوں کے سامنے۔۔اس لیے وہ پوچھ بیٹھی تھی
"کیونکہ یہ میرے شاہ کا گھر ہے ۔۔۔اور وہ جاتے وقت کھ کر گیا تھا کہ میں اس کی امانت ہوں ۔۔اور میں چاہتی ہوں جب وہ واپس آئے تو اپنی امانت کو اسی طرح پائے جس طرح چھوڑ کر گیا تھا "ماہ نور کے الفاظ اس کے دل کی سچی ترجمانی کررہے تھے وہ اپنی چاچی کے اتنا ذلیل کرنے پر بھی شاہنزیب کا گھر چھوڑ کر جانے کے لیے تیار نہ تھی ۔۔
"ماہ نور ۔۔۔۔ماہ نور "چاچی جان لان میں کھڑی کھڑی چیخ رہی تھیں۔ "لو جی آگیا آپ کا بلاوا۔۔ اب خوب ڈانٹ پڑهے گی" ستارہ برتن دھوتے ہوئے منہ بسور کہہ رہی تھی
" آئی چاچی جان "وہ اپنا کام چھوڑ مسکراتے ہوئے کچن سے باہر آ گئی تھی ۔۔۔چاچی جان کو غصے سے آگ بگولا ہوتے دیکھا تو سنجیدگی اختیار کر لی ۔۔۔
"تم نے میرے مہمانوں کی بےعزتی کی ہے میں تمہیں اپنی بیٹی مانتی ہوں اور تم ہو کہ میری ناک سب کے سامنے کٹوانے پر تُلی رہتی ہو "وہ کہتے ہوئے اس کے رو برو آکر کھڑی ہو گئیں تھیں۔ ۔شمسہ بیگم نے ماہ نور کو بہت ڈانٹا اور وہ بالکل خاموش رہی ۔۔رومیسا اسے سمجھا کر گئی تھی کہ کچھ بھی ہو جائے چاچی جان سے بدتمیزی مت کرنا اور نہ ہی ان کے سامنے ذرا سی بھی کوئی غلط بات کرنا ۔۔۔ورنہ وہ ایک کی دو لگا کر تمہیں پورے خاندان میں بدنام کریں گی وہ الگ اور ساتھ ساتھ شاہنزیب کے کان بھی بھریں گی ۔۔۔ماہ نور نے یہ بات گرہ سے باندھ لی تھی ۔۔ایک سال گزر چکا تھا شاہنزیب کا فون آتا تو چاچی کبھی بھی ماہ نور کی اس سے بات نہیں کرواتی تھیں ۔۔۔ماہ نور کے دل میں یہ شکوہ تھا کہ وہ خود کبھی کیوں نہیں کہتا کہ مجھے ماہنور سے بات کرنی ہے۔۔۔
"آپ کو بھی لگتا ہے چاچی جان کہ وہ مجھے چھوڑ دے گا ؟؟؟"ماهنور نھایت اداس ھوکر پوچھنے لگی۔۔۔۔ماہ نور راحیل کی والدہ کے پہلوں میں بیٹھی ہوئی تھی وہ اس کے سر پر تیل ڈال کر مالش کرتے ہوئے بولیں :"میں تو بس یہ چاہتی ہوں کہ میری بیٹی کا گھر بس جائے ۔۔۔ہر لمحے بس یہی دعا کرتی ہوں کہ شاہ جب واپس لوٹے تو میری پیاری سی بیٹی کا ہاتھ تھام کر کہے سب کے سامنے کے مجھے رخصتی چاہیے "وہ بڑے پیار سے بول رہی تھیں۔ ۔
"کیا ایسا واقعی ہوگا ؟؟؟"ماہ نور نے فورا منہ موڑا تھا ان کی جانب اور پرامید نظروں سے جھانکتے ہوئے ان کی آنکھوں میں پوچھنے لگی ۔۔۔
" انشاءاللہ۔۔۔میری بیٹی اتنی خوبصورت ہے کیسے دل کو نہ بھائے گی اس کے ۔۔۔دیکھنا آتے ہی کہے گا رخصتی چاہیے مجھے فورا ۔۔۔"انہوں نے اس کی امید باندھی تھی ۔۔۔یہ بات سن ماہنور مسکرا دی ۔۔۔
"پتا ہے کل راحیل آرہا ہے۔۔۔اس بار تو پکا ارادہ کر لیا ہے میں نے اس سے ثانیہ کے بارے میں بات کر کے رہوں گی "انہوں نے ماہ نور کو بتایا تو وہ خوشی سے اچھل پڑی "سچ ۔۔۔اللہ کرے راحیل باجی مان جائیں ۔۔۔آپ جلد سے جلد ان کی دلہن بنا کر ثانیہ باجی کو لے آئیے گا ۔۔۔اچھا ہے اس ویران گھر میں بھی تھوڑی رونق ہو جائے گی"۔۔۔۔۔
********🌺🌺🌺🌺🌺🌺***********
شام ہونے کو تھی نظریں دروازے پر ٹکی تھیں وہ دو گھنٹوں سے ٹی وی لاون میں ٹہل لگا رہی تھیں۔ ۔۔"چاچی جان بیٹھ جائیں ان کی فلائٹ لیٹ ہوگئی ہوگی۔۔ اس میں اتنی فکر کی کیا بات ہے آپ کب تک ان کا انتظار کرتی رہیں گی ۔۔"ماہ نور نے سیڑھیوں سے اتر کر ان کو پریشان دیکھا تو انھیں کہتے ہوئے صوفے پر بیٹھانے لگی تھی ۔۔۔
"لو آگیا میرا بچہ "ماہ نور نے پکڑ کر انہیں صوفے پر بٹھایا ہی تھا کہ راحیل گھر میں سلام کرتا ہوا داخل ہوا ۔۔۔چچی جان راحیل کے گلے لگ گئیں۔۔۔
"مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب میں گھر آتا ہوں اور آپ مجھے میرا انتظار کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔۔۔آپ میرے ساتھ چلیں نا ۔۔۔یہاں اکیلے کیوں رہ رہی ہیں "راحیل بہت محبت سے اپنی ماں کے گلے لگا اور انہیں اپنا بےصبری سے انتظار کرتا ہوا دیکھ خوش ہو کر کہہ رہا تھا۔۔۔
"کیسے ہیں آپ؟؟؟"ماہ نور نے مسکراتے ہوئے راحیل کا حال پوچھا تھا ۔۔۔"اللہ کا شکر "وہ صوفے پر گرتے ہوئے بولے تھے ۔۔۔رات کا کھانا سب نے ساتھ کھایا ۔۔۔آج بہت دنوں بعد شہزاد اور راحیل ملے تھے اس لیے ان دونوں کی کاروباری باتیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔۔۔۔ ماہ نور کے کان سنتے سنتے پک چکے تھے۔۔"اف اللہ۔۔"وہ بیزاری سے بولی " باہر کی باتیں باہر ہی چھوڑ کر آیا کریں ۔۔۔میں تھک چکی ہوں ۔۔یہ ساری باتیں چھوڑیں اور یہ بتائیں کہ کوئی لڑکی وڑکی پسند ہے آپ کو ۔۔۔یا نظر میں ہے تو مجھے بتا دیں میں چچی جان کو آپ کا پیغام پہنچا دوں گی ۔۔۔بولیں" ماہ نور من چلی بن کر راحیل سے مسکراتے ہوئے بولی تھی۔۔۔
"جو پسند تھی اس کی تو شادی ہو گئی "راحیل نے یوں صاف الفاظ میں جواب دیا کہ ماہنور چونک گئی۔ ۔۔شہزاد بھی راحیل کو حیرت سے دیکھنے لگا ۔۔۔"اگر میں ایسا کہوں تو شاید جھوٹ ہوگا سچ بولوں تو ابھی شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔۔بڑے ابو نے بہت بڑی ذمہ داری سونپی ہے مجھے میں اسے پوری ایمانداری سے پورا کرنا چاہتا ہوں "راحیل نے ان کے چہروں کے ری ۔ایکشن دیکھ بات پلٹ دی تھی ۔۔۔ماہ نور اور شہزاد دونوں مسکرانے لگے تھے ۔۔
"ایک تو مجھے اپنے خاندان کے لڑکوں کی سمجھ نہیں آتی ۔۔شادی سے بھاگتے کیوں ہیں؟؟؟۔۔۔ ایک آپ اور ایک کامران بھائی ۔۔ان کو لاکھوں لڑکیاں تو دیکھا ہی چکے ہوں گے ہم اب تک ۔۔پر نہ جانے کیوں انہیں کوئی لڑکی پسند نہیں آتی پتہ نہیں کونسی حور پری کا انتظار کر رہے ہیں"ماہ نور نے کہا تو وہ دونوں مسکرانے لگے ۔۔
"میری کرا دو ۔۔۔میں منع نہیں کروں گا۔۔۔ ایک بار مجھ غریب پر بھی نظر ڈال لو" شہزاد نے ماہنور کو اپنے کان قریب لانے کا اشارہ کیا ۔۔۔وہ جب قریب لائی تو ہلکے سے کان میں سرگوشی کرنے لگے ۔۔۔
"آپ اور غریب ۔۔۔۔بس رھنے دیں" وہ بڑی بی کی طرح ہاتھ نچاتے ہوئے بولی ۔۔۔"آپ جھوٹی بھی بولیں تو چاچی جان سچی میں کروا ڈالیں آپ کی "وہ مسکراتے ہوئے کھ کر سامان اٹھانے لگی تھی کھانے کی میز پر سے ۔۔ستارہ بھی اس کی مدد کرنے آ گئی تھی ۔۔راحیل کو دیکھ کر ستارہ مسکراتی رہتی تھی اور آج بھی وہ سامان اٹھانے کے بجائے یہی کر رہی تھی ۔۔۔
"ستارہ سامان اٹھالو" ماہ نور شہزاد راحیل تینوں اسے یوں مسکرا مسکرا کر راحیل کو دیکھتا ہوا دیکھ رہے تھے ۔۔ماهنور نے اسے ٹوکا تو وه سامان اٹھا کر مسکراتے ھوےؔ جانے لگی۔۔۔
”بیٹا اگر تمھیں کوئی پسند ھے تو بتادو۔۔ورنه پھر جو ھماری پسند ھے اسے قبول کرلو“۔۔۔راحیل کی ماں ۔۔۔افتخار صاحب ۔۔۔شمسه بیگم ۔۔۔۔شھزاد سب صوفے پر بیٹھے ھوےؔ تھے لان میں ۔۔۔اور ماهنور افتخار صاحب کے پیچھے کھڑی ھوئی تھی ۔۔۔راحیل کے بلکل سامنے ۔۔۔۔افتخار صاحب نے راحیل سے استفسار کیا
”میں کوئی جلدبازی نھیں کرنا چاھتا ۔۔۔۔مجھے پتا ھے شاهنزیب سعدیه سے محبت کرتا ھے ۔۔۔اس نے صرف جذباتی ھوکر ماهنور کا ھاتھ تھاما تھا ۔۔۔اور مجھے یقین ھے جب وه واپس لوٹے گا تو وه رخصتی ھرگز نھیں مانگے گا ۔۔۔۔۔بلکے طلاق کا مطالبه کرے گا ۔۔۔۔تب میں ماهنور کا ھاتھ تھام لوں گا۔۔۔صرف تین سال تو رھ گےؔ ھیں شاهنزیب کے واپس آنے میں۔۔۔میں ماهنور کے لیےؔ پوری زندگی انتظار کرسکتا ھوں تو یه تین سال کون سی بڑی بات ھے“ راحیل دل ھی دل پکا اراده کرچکا تھا کے وه ماهنور کی شاهنزیب سے علیدگی کا انتظار کرےؔ گا۔۔۔۔۔
”راحیل بولو بیٹا“ راحیل کی ماں پوچھنے لگی تھیں۔۔۔۔
”میں واقعی ابھی شادی کا کوئی اراده نھیں رکھتا“راحیل نےصاف منع کردیا تھا پر اس کی ماں کے دل کو قرار نھیں آتا تھا کے وه دوسرے ملک میں اکیلا اپنی زندگی بسر کررھا ھے۔۔۔
”کوئی نظر میں ھے تمھارے“راحیل کی ماں نے سوال کیا اس بار ان کا لھجه تھوڑا سخت تھا ۔۔۔۔
”ایسا کچھ نھیں ھے امی۔۔۔۔ یقین مانیں جب کرنی ھوگی تو سب سے پھلے آپ کو بتادوں گا۔۔۔۔۔“راحیل نے بات ختم کرنا چاھی تھی۔۔۔۔
”تو پھر میری پسند کی لڑکی سے کرلو“انھوں نے پرامید نظروں سے دیکھتے ھوےؔ کھا۔۔۔۔
”پلیز مجھے فارس مت کریں ۔۔۔۔۔“وه جھنجھلاتا ھوا کھ کر چلا گیا۔۔۔۔۔راحیل کے منع کرنے کے باوجود اس کی والده شمسه بیگم سے ”بھابھی یه تو کام کے چکر میں اپنا خیال ھی نھیں رکھ رھا ۔۔۔کم از کم اس کی بیوی اس کے ساتھ ھوگی تو وه اس کا خیال رکھا کرےؔ گی۔۔۔۔بھابھی آپ چلیں گی ناں میرے ساتھ ثانیه کا ھاتھ مانگنے“ انہوں نے پکا ارادہ کیا تھا اور ساتھ ساتھ شمسہ بیگم کو بھی ساتھ ملانے لگیں۔ ۔۔۔۔۔وہ بھی ایک ماں تھیں ان کی پریشانی کو سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ جانے کے لئے راضی ہو گئیں۔ ۔۔
********-----*--------* ***********
وہ لائبریری میں بیٹھا کتابوں کے مطالعے میں مصروف تھا ۔۔اس پر اردگرد کی ہر لڑکی نظر ٹیکائے بیٹھی تھی ۔۔پر وہ ان نظروں سے بے نیاز کتابوں میں مگن تھا ۔۔"تو بھی خوب ہے ۔۔تو بیٹھے بیٹھے یہاں کتابوں کو دیکھتا رہتا ہے اور یہ لڑکیاں تجھے ۔۔۔تیری وجہ سے لائبریری ہر وقت لڑکیوں سے بھری رہتی ہے "شاہنزیب کو کتابوں میں نوٹس بناتا ہوا دیکھا تو عباس طنز کرنے لگا ۔۔۔دیکھنے میں کافی ہینڈسم تھا پر اس میں وہ چام کہاں جو شاہنزیب میں تھا۔۔پوری یونیورسٹی میں وہ مشہور تھا کہ وہ کسی لڑکی کو نظر تک اٹھا کر نہیں دیکھتا ۔۔۔ یونیورسٹی کی تقریبا تقریبا ہر لڑکی اس کی دیوانی تھی ۔۔وہ تھا ہی اتنا حسین ۔۔ہر لڑکی اس سے دوستی کی خواہشمند تھی مگر وہ کتابوں کے سوا کسی کو دوست نہ رکھتا تھا ۔۔
"اب میں اسے کیا سمجھوں تعریف یا طنز ؟؟"شاہنزیب نے کتاب پر سے نظریں ہٹائیں اور اسے دیکھتے ہوئے ابرو اچکاتے ہوئے پوچھ رہا تھا ۔۔۔
"تعریف سمجھ لے۔ ۔۔تیرا بھائی ہر کسی کی تعریف نہیں کرتا تو خوش نصیب ہے "وہ اتراتے ہوئے کالر اٹھا کر بولا ۔۔۔
"او ہو ۔۔۔عباس تو یہاں ہے سنا ہے یونیورسٹی میں نئی پٹاکا آئی ہے ۔۔۔اتنی حسین ہے کہ میں تجھے کیا بتاؤں۔۔۔چل جلدی چل "عالیان آکر اسے چٹ پٹی خبر سنا رہا تھا ۔۔وہ بھی بے تاب ہو کر اس کے ساتھ جانے لگا ۔۔"تم چلو گے ؟؟؟"وہ دو قدم واپس مڑ کر آیا تھا شاہنزیب سے پوچھنے۔۔
"مجھے کوئی انٹرس نہیں ہے لڑکیوں کو دیکھنے میں"شاہنزیب بے رخی سے کہتا ہوا کتاب اٹھا کر چل دیا ۔۔
********--------------***********
دو ہفتے بعد راحیل کو فون آیا اس کی والدہ کا کہ وہ اس کا رشتہ لے کر ثانیہ کے گھر جا رہی ہیں۔ ۔راحیل ثانیہ کے والد کو ایک ملاقات میں ہی اچھی طرح جان چکا تھا اور پھر وہ رشتہ کرنا ہی نہیں چاہتا تھا اس نے اپنی والدہ سے صاف منع کردیا ۔۔۔اس بار راحیل کی والدہ اس کی ایک سننے کے لئے تیار نہ تھیں ۔۔۔انہیں لگ رہا تھا کہ وہ اپنی پوری زندگی پیسے کمانے میں ہی نکال دے گا ۔۔"میں نے کہہ دیا ہے میں جارہی ہوں ثانیہ کا رشتہ لینے۔ ۔۔تم بیوقوف ہو جو اتنی اچھی لڑکی کی قدر نہیں کر رہے ۔۔پر میں تمہیں یہ بیوقوفی کرنے نہیں دوں گی ۔۔سمجھے" کہہ کر انہوں نے غصے سے فون کاٹ دیا تھا ۔۔ راحیل کو اپنی بات کہنے کا موقع تک نہ دیا ۔۔۔راحیل پریشان ہو گیا تھا ۔۔۔وہ جانتا تھا کہ ثانیہ کا باپ اسے کبھی اپنی بیٹی کا ہاتھ نہیں دے گا ۔۔ان کی نظروں کی حقارت اسے آج بھی یاد تھی ۔۔"میں خود گھر جا کر انھیں سمجھاؤں گا "اس نے پکا ارادہ کیا تھا ۔۔
*******------*****
راحیل کے منع کرنے کے باوجود اس کی والدہ چاچی دادو اور اسماء امریکا ثانیہ کا رشتہ مانگنے پہنچ گئی تھیں۔ ۔۔ثانیہ کا گھر کافی حسین اور بڑا تھا وہ لوگ اندر آئے تو سروینٹ انہیں صوفے پر بٹھا کر چلی گئی ۔۔
"امی جان آپ یہاں ؟؟؟"ثانیہ کی والدہ کمرے سے نکل کر بڑے خوش ہوتے ہوئے آئیں اپنی والدہ اور باقی خواتین سے ملنیں ۔۔۔ "واٹس ا پلیسنٹ سرپرائز "وہ خوش ہوتے ہوئے راحیل کی والدہ سے گلے لگیں ۔۔۔اسماء تو ان کا لباس دیکھ کر چونکی وہ پینٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی۔۔کافی ہیوی ہونے کے باوجود ان کا لباس ان پر سوٹ کر رہا تھا ۔۔ورنہ جب بھی وہ پاکستان آتی تھیں قمیض شلوار میں ملبوس ہوتی تھیں۔ ۔"پلیز سٹ " وہ بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولیں۔ ۔
اقبال صاحب گھر میں داخل ہوئے تو اپنی ساس اور باقی خواتین کو بیٹھا ہوا دیکھ ان کا دماغ کھٹکا تھا ۔۔۔سلام دعا کر کے وہ اپنے کمرے میں چلے گئے ۔۔انہوں نے اپنی بیوی سے کہا "یہ لوگ یہاں کیوں آئے ہیں ؟؟؟"
"مجھے پتہ نہیں۔۔۔۔ پر شاید ملنے"انھوں نے اندازہ لگایا تھا
"دعا کرو ایسا ہی ہو ۔۔ورنہ اچھا نہیں ہوگا ۔۔میں اپنی بیٹی کو لے کر کسی قسم کا کوئی کمپرومائز نہیں کرنے والا ۔۔۔اگر وہ خیرات میں پلنے والے لڑکے کا رشتہ لے کر آئیں ہو گیں نا یہاں۔۔۔ تو پھر تم دیکھنا ۔۔میں کیسے انہیں یہاں سے ثانیہ کے آنے سے پہلے پہلے چلتا کرتا ہوں "ان کی نظروں میں حقارت تھی اور لہجہ بالکل سخت
"ڈانٹ ڈو ڈیٹ ۔۔آفٹر اول ایٹز مائے فیملی "وہ التجائی لہجے میں گویا ہوئیں۔۔
"تمہاری فیملی ہے اسی لیے خاموش ہوں ابھی تک "وہ یہ کہہ کر دانت پیستے ہوئے وہاں سے چلے گئے انہوں نے ثانیہ کو فون کرکے کہہ دیا کہ آج رات اپنی دوست کے گھر ہی رہے ۔۔ثانیہ کو ذرا سا بھی علم نہ تھا کہ راحیل کا رشتہ اس کے گھر آیا ہوا ہے ۔۔۔
"اور کیسے آنا ہوا ۔۔مجھے یقین ہے کسی ضروری کام کی وجہ سے ہی آئیں ہوں گے ۔۔ورنہ آپ لوگ اور ہمارے غریب خانے میں ؟؟" اقبال صاحب مہمان نوازی کر رہے تھے دادو کے سامنے والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے ۔۔
"جی امی ۔۔۔ آپ بولیں آپ بڑی ہیں "راحیل کی ماں نے دادو کو بڑا بنا یا تھا اور ان سے کہہ رہی تھیں کہ وہ رشتہ مانگیں۔ ۔
"بھئی ہم ثانیہ کا رشتہ لینے آئے ہیں "۔۔دادو ابھی مسکراتے ہوئے بول ہی رہی تھیں۔۔۔
"کامران کے لئیے؟؟؟۔۔۔پر یہ تو غلط بات ہے کامران کی ماں توآئی ہی نہیں ۔۔۔اگر وہ خود آکر مانگتیں تو ہمیں زیادہ خوشی ہوتی ۔۔اقبال صاحب انجان بننے کی اداکاری کرتے ہوئے گویا ہوئے ۔۔۔کامران کا نام لے کر انہوں نے بےعزتی کر دی تھی پر انکی انجان بننے کی اداکاری اتنی اچھی تھی کہ دادو جیسی عقلمند خاتون بھی دھوکا کھا گئیں۔ ۔
"نہیں نہیں کامران کا نہیں ہم تو راحیل کا رشتہ لے کر آئے ہیں "وہ سب حقاء بقاء ہوئے تھے ثانیہ کے والد کی بات سن کر ۔۔راحیل کی ماں نے نفی کی اور راحیل کے لئے ثانیہ کا رشتہ مانگا ان کا رشتہ مانگا تھا کے اقبال صاحب کے چہرے کے تو رنگ ہی بدل گئے ۔۔وہ جو اتنی دیر سے مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہے تھے منہ بسورنے لگے یہ سنتے ہی ۔۔چھوٹی پھوپھو کے چہرے کے تاثرات بھی بدل گئے تھے ان کی نظروں کی حقارت اسماء کو محسوس ہو گئی تھی ۔۔
"راحیل کا رشتہ وہ بھی میری بیٹی ثانیہ کے لئے مذاق کر رہے ہیں آپ لوگ ؟؟؟"انہوں نے اچانک سے ہنسنا شروع کر دیا تھا مانو مذاق اڑا رہے ہوں بری طرح ۔۔۔
"ہم مذاق نہیں کر رہے ہیں "دادو نے اس بار سخت لہجے میں بات کی تھی ۔۔۔
"یہ مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟؟۔۔۔ آپ لوگوں نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں اپنی شہزادی جیسی بیٹی راحیل جیسے لڑکے کو دوں گا "انہوں نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلا تھا لگ نہیں رہا تھا کہ یہ وہی اقبال صاحب ہیں جنھیں یہ لوگ سالوں سے جانتے ہیں ۔۔چھوٹی پھوپھو اقبال صاحب کی بات سن نظریں جھکائیں کھڑی ہو گئیں۔ ۔۔
"راحیل جیسے لڑکے سے کیا مراد ہے تمہاری؟؟؟۔۔۔ میرا پوتا ہے وہ نہایت سمجھدار ایماندار اور سلجھے ہوئے دماغ کا مالک "دادو نے راحیل کی تعریف بیان کی ۔۔۔۔اقبال صاحب کی بات ان کے دل پر لگی تھی ۔۔۔
راحیل کی ماں کا دل تو گھایل ہو گیا تھا وہ تو بڑے ارمان سے ثانیہ کا رشتہ مانگنے آئی تھیں ۔۔ اقبال صاحب کا مذاق اڑانا ان کے دل کو چھلی کر گیا تھا ۔۔
"آپ کا تو پوتا ہے ناں۔۔۔۔ آپ کو تو اچھا ہی لگے گا اور سمجھ دار ہے اس بات کو تو میں بھی مانتا ہوں ورنہ میری بیٹی کو اپنے جھوٹی محبت کے جال میں کیسے پھساتا ۔۔۔سمجھدار تو وہ واقعی بہت ہے "انہوں نے اپنی آخری لائن پر خاصا زور دیا تھا ان کا لہجہ نھایت بد تہذیب اور نظروں میں حقارت بھری معلوم ہو رہی تھی۔۔۔۔
"تم ہماری بےعزتی کر رہے ہو" ۔۔۔۔دادو نے غصے سے کہا
"جی نہیں میں صرف سچ بیان کر رہا ہوں ۔۔۔آپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں خیرات میں پلنے والے لڑکے کو اپنی شہزادی جیسی بیٹی دے دوں گا اگر آپ کامران کا رشتہ لاتیں تو شاید میں سوچتا بھی ۔۔۔۔پر راحیل ۔۔۔ہرگز نہیں۔۔۔ چور کا بیٹا ہے وہ" ابھی وہ اپنے اندر کی کڑواہٹ نیکال رہے تھے کہ دادو کھڑی ہوگئیں اور باقی خواتین بھی۔ ۔۔۔اسماء کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی یہ باتیں سن ۔۔۔
"تم شاید بھول رہے ہو راحیل کروڑوں کا مالک ہے آج۔۔۔اسے رشتوں کی کمی نہیں ہے "۔۔دادو نے فخرانا بولا ۔۔۔
"کتنا بھی امیر ہو جائے۔۔ رہے گا تو چور کا بیٹا ہی نہ۔۔ اس جیسے لڑکے کو تو میں اپنی نوکرانی کا رشتہ نہ دوں۔۔۔ میری بیٹی کا رشتہ تو بہت دور کی بات ہے ۔۔۔اس کا اپنا ہے کیا ؟؟؟۔۔۔۔سب تو ملک صاحب کی مہربانی ہے۔ ۔۔اگر ملک صاحب اسے جائیداد میں امریکہ کی کمپنیاں نہ دیتے تو آج بھی بسوں کے دھکے کھا رہا ہوتا "اقبال صاحب نے سخت لفظوں میں راحیل کی بےعزتی کی ۔۔۔ راحیل کی ماں اپنے دل و جان سے عزیز بیٹے کی یوں بےعزتی برداشت نہیں کر پا رہی تھیں۔۔۔۔ اسماء نے ان کا ہاتھ تھام لیا تھا ۔۔۔وہ تو مانو کانٹوں پر لوٹ رہی ہو ۔۔۔ اپنی آنکھوں میں آنے والے آنسو صاف کیے تھے ۔۔۔
"اب ہم یہاں ایک لمحہ بھی نہیں رکیں گے۔۔۔ تم نے ہماری بےعزتی کی ہے ۔۔وہ بھی اپنے گھر میں ۔۔ہم یہ بات کبھی نہیں بھولیں گے اور نہ تمہیں بھولنے دیں گے ۔۔"دادو نے غصے سے کہ کر چلتی ہوئی باہر آ گئیں ۔۔۔راحیل کی ماں بھی ان کے پیچھے جانے لگیں۔ ۔۔۔اب وہاں بات کرنے کے لیے بچا ہی کیا تھا ۔۔۔
"میرا بھائی ایک دن آپ کی ان ساری باتوں اور بےعزتی کا ضرور جواب دے گا" اسماء اقبال صاحب کے روبرو کھڑے ہو کر بڑے بھرم سے فخرانا کہا اور ایک بار اپنی چھوٹی پھوپھو کو دیکھنے لگی جو ان ساری باتوں میں ہونٹ سئیے کھڑی رھیں۔ ۔۔اسماء سب کو اپنے گھر لے گئی تھی ۔۔
"کیا کیا ہوا؟؟؟؟۔۔۔۔ ایک ایک بات بتاؤ ۔۔۔ثانیہ باجی کیسی لگ رہی تھیں؟؟؟۔۔ان کے چہرے کے ایکسپریشن کیا تھے جب تم نے رشتہ مانگا ؟؟؟۔۔۔وہ تو ضرور خوشی سے اچھل پڑی ہوگیں؟ ؟۔۔۔ اور پھوپھو ان کا کیا ری ایکشن تھا ؟؟" ماہنور کا فون آیا تھا وہ بے صبری ہوکر بس سوال پہ سوال کئے جا رہی تھی اور اسماء کی ہمت ہی نہ تھی کہ اس کے کسی سوال کا جواب دے ۔۔۔
" میں بعد میں بات کرتی ہوں" اسماء نے ایک لمبی سانس لی تھی اور فون کاٹ دیا تھا ۔۔
"بتاؤ بتاؤ کیا ہوا وہاں؟؟۔۔ سب کچھ بتانا ۔۔۔مجھے ہر چیز کی ڈیٹیل چاھئیے "ماہ نور کا فون بند کیا تو ریشم کا آگیا۔۔۔ ریشم اور صباء دونوں بھی بے صبری ہوئے جا رہی تھیں ۔۔۔کہ وہاں کیا ہوا یہ جاننے کے لیے ۔۔
"انہوں نے منع کر دیا "اسماء کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے اس نے یہ کہہ کر موبائل سوئچ اف کر دیا ۔۔۔
"اسماء" ولید کمرے میں آیا تھا نیچے سے ۔۔۔"کیا ہوا ؟؟؟۔۔دادو اتنے غصے میں کیوں ھیں ؟؟۔۔کیا ہوا ہے وھاں؟ ؟" ولید کے منہ پر بہت سارے سوال تھے پر اسماء کوئی بھی جواب دینے سے قاصر تھی۔۔۔بس روتے ہوئے اس کے گلے لگ گئی تھی پہلی بار۔۔۔پہلی بار اسماء نے اسے اپنا سمجھا تھا۔۔۔ ورنہ وہ تو ایک مجسمے کے ساتھ رہتا تھا جسے وہ پسند کر کے اس کی خواہشات پوری کر کے گھر لے آیا تھا پر دل و جان سے پیار کرنے والی بیوی کیا ہوتی ہے وہ نہیں جانتا تھا۔ ۔۔آج زندگی میں پہلی بار وہ خود سے اس کے گلے لگی تھی ۔۔ولید کی خوشی و حیرت کے مارے سانس روک دی تھی اسماء نے۔ ۔"لوگ اتنے ظالم کیوں ہوتے ہیں ولید؟؟ مجھے لگتا تھا کہ اگر ہم دولت کمالیں۔ ۔۔ تو لوگ ہمیں تنگ کرنا چھوڑ دیں گے پر ایسا نہیں ہے ۔۔لوگ پھر بھی ہمیں اتنا ہی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ ہمارا وجود جیسے کوئی ذلیل چیز ہو جیسے وہ دیکھنا تک نہیں چاہتے ہوں۔ ۔۔"اسماء روتے روتے بول رہی تھی ۔۔۔آج اسماء خود ایک بہت بڑی کمپنی کی مالکن تھی وہ بھی امریکہ جیسے ملک میں۔ ۔۔اور ایک کامیاب بزنس مین کی بیوی اور بہن بھی۔۔ دو فیکٹریاں تھیں اس کی پا کستان میں۔ ۔۔اس کے باوجود اقبال صاحب کی حقارت بھری نظروں نے اسے توڑ ڈالا تھا ۔۔
"چپ ہو جاؤ۔۔۔۔ یہاں بیٹھو "ولید نے اسے گلے سے ہٹا کر بیڈ پر بٹھایا تھا بڑے پیار سے۔۔۔خود اس کے پاس زمین پر ہی بیٹھ گیا تھا ۔۔۔اسماء کی آنکھوں کے موٹے موٹے آنسوں اپنے ہاتھوں سے بڑے پیار سے صاف کرنے لگا ۔۔"جو خود برے ہوتے ہیں ناں۔ ۔۔انہیں دوسرا بھی ویسا ہی نظر آتا ہے۔۔۔ کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں ان کی بات کو دل پر لینے کی۔۔۔ کوئی پیسے سے چھوٹا بڑا نہیں ہوتا اس کا اخلاق اسے چھوٹا بڑا بناتا ہے اور میری اسماء مانا غرور والی ہے ۔۔۔تھوڑی نک چڑھی ہے ۔۔۔مجھے تو منہ ہی نہیں لگاتی پر اس کا اخلاق بہت اچھا ہے سب کے ساتھ ۔۔۔وہ صرف اپنے میکے والوں کو ہی عزت نہیں دیتی وہ میرے گھر والوں کو بھی عزت دیتی ہے جسے دیکھ کر میں اس کا مزید دیوانہ ہوتا ہوں" اس نے اسماء کی ناک پر انگلی ماری تھی اور بڑے پیار سے اسے سمجھاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔
"نہیں۔۔۔۔ تم بہت اچھے ہو ۔۔تمہارے گھر والے بہت اچھے ہیں جنہوں نے چور کی بیٹی کو اپنی بہو بنایا "اسماء سے بڑی مشکل سے یہ (چور) کا لفظ ادا ہوا تھا ۔۔۔وہ خود کو بہت حقیر محسوس کر رہی تھی ۔۔
"دوبارا ایسا مت کہنا۔۔۔ تم صرف ولید کی بیوی ہو۔۔۔ راحیل کی بہن اور شریف خاندان کی بیٹی اور بہو ہو۔ ۔۔ ایسا مت کہنا آئندہ "اس بار اس کا انداز ڈاٹنے والا تھا اور اس کی ڈانٹ بھی پیار برسا رہی تھی۔۔
"تم ہمیشہ کہتے ہو نا کہ میں تم سے کبھی اپنے دل کی بات کھل کر نہیں کرتی ۔۔تمہاری بیوی ہونے کے باوجود تم سے پیار نہیں کرتی۔۔۔ پر ایسا نہیں ہے۔۔۔ میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں۔۔۔۔ بہت زیادہ ۔۔۔اتنا کے تمہارے چھوڑ کر جانے کے خیال سے بھی مجھے خوف آتا ہے "وہ پہلی بار محبت کا اظہار کر رہی تھی ولید تو خوشی سے کھل اٹھا آج اسے سچ میں اسماء مل گئی تھی۔۔۔ وہ زمین پر بے جان ہو کر گیا
"ولید۔۔ ولید" وہ گھبرا کر اس کے پاس آکر بیٹھ گئی اور اسے ہلانے لگی
"مجھے تو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا کہ اسماء۔۔۔۔ اسماء جیسی لڑکی مجھ سے کہہ رہی ہے کہ وہ مجھ سے پیار کرتی ہے لگتا ہے خوشی سے میری تو جان نکل جائے گی "اس نے اسماء کا ہاتھ پکڑ کر اسے خود پر گرا لیا تھا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال جذبات کی صداقت سے بول رہا تھا ۔۔۔اس کی نگاہیں اسماء کے خوبصورت وجود پر ٹکیں تھیں ۔۔کچھ لمحوں پہلے جو فضا سوگوار تھی وہ اس نے اپنی محبت سے رومانی بنا دی تھی ۔۔۔
*******--------* *******
رات کا وقت تھا ۔۔۔پورا خاندان علی کے گھر پر جمع تھا۔۔۔ سب کے باہم فیصلے سے چھوٹی پھوپھو اور ان کی فیملی سے رشتہ توڑ دیا گیا۔۔۔۔ دادو کو کافی دوکھ پہنچا تھا اقبال کی باتوں کا ۔۔۔"میں نے منع کیا تھا نا پھر کیوں گئے آپ لوگ وہاں؟ ؟؟"راحیل غصے سے بھڑک کر پوچھنے لگا ۔۔۔
"ہمیں کیا خبر تھی کہ وہ یوں بےعزتی کر ڈالے گا تمہارے رشتے کا سنتے ہی"(شاہنزیب کی والدہ )شمسہ بیگم بہت غمگین تھیں۔۔۔۔انھیں بہت افسوس تھا جو کچھ اقبال کے گھر پر ہوا ۔۔۔
"مجھے پتہ تھا ایسا ہی ہوگا "راحیل افسردہ بھی تھا اور غصہ بھی ۔۔۔وہ دل ہی دل کڑ رہا تھا اس کی والدہ بالکل خاموش بیٹھی سب کی باتیں سنتی رہیں ان کو بہت گھرا رنج پہنچا تھا ۔۔۔
"جاو مانو تو اپنی چاچی کو کمرے میں لے جاؤ اور ریشم تم جاؤ باہر سے کامران کو بلاؤ" علی کی والدہ نے جب کہا تو دونوں اثبات میں سر ہلا کر اپنے اپنے کام کرنے لگیں۔۔ ماہنور راحیل کی والدہ کو اوپر کمرے میں لے گئی۔۔وہ بھابھی کا کمرہ تھا ۔۔۔وہاں انہیں بیڈ پر لیٹا دیا اور انہیں کمبل اوڑھا کر وھیں سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔
"ایک چور کا بیٹا ہے وہ۔۔۔ کتنا بھی امیر ہو جائے۔۔۔ رہے گا تو چور کا ہی بیٹا ناں ۔۔۔۔ خیرات میں پلنے والے لڑکے کو میں اپنی شہزادی جیسی بیٹی دے دوں گا آپ نے سوچا بھی کیسے ؟؟؟"ان کے ذہن میں ایک ایک لفظ اقبال کا کہا گھوم رہا تھا۔۔۔ انہیں ثانیہ اپنی بہو کے روپ میں بہت پسند تھی۔۔ ثانیہ کی آنکھوں میں راحیل کے لئیے سچا پیار دیکھا تھا انہوں نے ۔۔ دونوں کی جوڑی ان کی نگاہوں میں گھومنے لگی تھی اب ان کا سانس اکھڑنے لگا تھا۔۔۔۔ ان کا بیٹا ۔۔بیٹی ۔۔ثانیہ ۔۔ماہنور۔۔ ان کی نگاہوں گھومنے لگے تھے۔۔۔اچانک انہیں اپنا بیٹا دلہا بنا ہوا نظر آنے لگا ۔۔وہ سانس نہیں لے پا رہی تھیں۔ ۔ انہوں نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔۔ ان کا دل اقبال کے کہے الفاظ سے زخمی ہو گیا تھا ۔۔انہیں بہت گہرا صدمہ پہنچا تھا
"چاچی جان ۔۔۔چاچی جان "ماہ نور کو ان کے گہرے گہرے سانس لینے کی آواز آنے لگی تھی وہ بھاگتی ہوئی ان کے پاس آئی۔۔۔ وہ غشی کی کیفیت میں تھیں ۔۔۔ ان کے دل میں اب زوردار درد اٹھا تھا ۔۔۔ماہ نور کو محسوس ہو رہا تھا کہ وہ سانس نہیں لے پا رہیں ۔۔۔"راحیل ثانیہ" انہوں نے اسی کیفیت میں بمشکل دو نام ہی ادا کیے تھے
"بڑی امی۔۔ راحی پاجی۔۔۔ اسماء۔ ۔ریشم ۔۔چاچاجان۔۔۔ علی بھئیا "ماہنور نے ایک سانس میں سارے نام پکارے تھے بلند آواز میں۔۔"جلدی آئیں دیکھیں۔۔۔ چاچی جان کو کیا ہوا ہے دادو "ماہ نور ان کا ہاتھ سہلانے لگی تھی۔۔ راحیل نے آکر دیکھا اور باقی سب جب تک بھاگتے ہوئے اوپر آئے ان کا دم نکل چکا تھا۔۔۔ دادو نے آکر ان کے ہاتھ کی نبض پکڑی تو وہ انتقال کر چکی تھیں۔ ۔ ماہنور کے ڈیڈ کے مرنے کے ایک سال اور چار ماہ بعد ہی اب اس کی ماں جیسی چاچی بھی انتقال کر گئی تھیں ۔۔۔راحیل پوری طرح ٹوٹ گیا تھا ۔۔۔بدلے کی آگ دل میں سلگ رہی تھی اس نے اپنی ماں کی موت پر ایک آنسو نہ بہایا۔ ۔وہ دل ہی دل پکا ارادہ کر چکا تھا کہ اب وہ نہیں اقبال خون کے آنسو روئے گا جتنا وہ تڑپ رہا ہے اس سے کہیں زیادہ اقبال تڑپے گا اس کی ماں کے سوا اس کا سگا تھا ہی کون۔۔۔ آج دنیا اجڑ گئی تھی اس کی۔۔ مانا سارے چاچا دادو کزنز جان چھڑکتے تھے پر ماں کا پیار کون دے سکتا تھا۔۔ آج پوری دنیا ویران لگ رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ وہ نہیں گئیں دنیا کے سارے رنگوں کی خوشیاں ہی لے گئیں۔ ۔شاہنزیب اپنی تائی کے جنازے کو مسجد سے ہی دیکھ کر ان کا آخری دیدار کرکے واپس لوٹ گیا ۔۔
*******-------*****
وقت ہر زخم بھر دیتا ہے یہ سنا تھا اس نے بہت بار ۔۔۔پر نہ جانے کیوں اسے یقین نہ تھا دو سال گزر چکے تھے اس کی ماں کی موت کو پر آج بھی ان کی موت کا بدلہ لینے کے لئے دل اتنا ہی بے قرار رہتا تھا جتنا اس لمحہ تھا جب ان کا جنازہ وہ قبر میں اتار رہا تھا۔۔ آج شان و شوکت بنگلہ گاڑی نام پیسہ ہر چیز تھی اس کے پاس بس اگر نہیں تھی تو وہ (ماں) جس کے سر پر چھت اس کے اپنے نام کی ہو یہ ارمان رکھتا تھا وہ۔۔
"سر مئے آئ کامنگ ؟؟"دروازے سے اندر جھانکتے ہوئے راحیل کے مینیجر نے پوچھا تھا۔۔۔
"یس پلیز " راحیل اپنی ماں کی تربیت نہیں بھولا تھا آج بھی وہ اتنا شریف تمیز دار بڑوں کا احترام کرنے والا چھوٹوں سے محبت سے پیش آنے والا ۔۔۔اعلی اخلاق کا مالک بلند حوصلے لئے ہوئے تھا ۔۔۔وہ اپنے اسٹاف سے بھی بہت نرمی سے پیش آتا تھا ہر کوئی اس کی تعریف کرتے کرتے تھکتا نہیں تھا ۔۔"کیسے ھیں آپ؟؟ ۔۔چھٹیاں کیسی گزریں؟ ؟“ مینجر صاحب عمر رسیده شخص تھے ۔۔۔راحیل ان کی خاص طور پر بھت عزت کرتا تھا ۔۔۔۔۔اور ان کے دیے ھوےؔ مشوروں پر عمل بھی ۔۔۔۔
”مزےدار پر تھوڑی بورنگ بھی۔۔کام کرنے کی عادت ھوگیؔ ھے مجھے ۔۔۔۔اب کام نه کروں تو خالی خالی پن محسوس کرتا ھوں اپنی زندگی میں“وه مسکراتے ھوےؔ جواب دے رھے تھے۔۔۔۔راحیل کو بھت اچھا لگتا تھا ان سے باتیں کرنا ۔۔۔۔
”راحیل پاجی۔۔۔۔ثانیه“ مینجر کے جانے کے بعد اسماء کا فون آیا تھا۔۔۔وه بول ھی رھی تھی ۔۔۔”نام نہ لینا اس لڑکی کا میرے سامنے "راحیل تو ثانیہ کے نام سے بھی نفرت کرنے لگا تھا ثانیہ کا نام سنتے ہی اسے اپنی ماں کا جنازہ یاد آجاتا تھا ۔۔
"میری بات تو سن لیں۔۔۔ امی کی آخری خواہش تھی کہ ثانیہ آپ کی بیوی بنے ۔۔۔ماہنور نے مجھے خود بتایا ہے کہ اس نے امی کو مرتے وقت آپ کا اور ثانیہ کا نام لیتے سنا تھا ۔"۔۔۔اسماء یہ بات اسے نہ جانے کتنی بار بتا چکی تھی وہ چاہتی تھی کہ راحیل کچھ بھی کرے پر ثانیہ سے شادی کر لے کیونکہ یہی اس کی ماں کی آخری خواہش تھی ۔۔۔شاید راحیل کی ماں کی بد دعا لگی تھی اقبال کو۔۔۔ اس کا سارا بزنس تباہ ہوگیا تھا اس کی فیکٹری میں اچانک آگ لگنے کی وجہ سے۔۔۔وہ دن بدن برے سے برے حالات کا شکار ہوتے جارہے تھے ان کے سارے شیئرز کسی R.l کمپنی نے خرید لیے تھے ان کے حالات اتنے برے ہو گئے تھے کہ انہیں واپس پاکستان آنا پڑا اسماء چاہتی تھی کہ اب وہ پھر سے جا کر---- ثانیہ کا ہاتھ مانگ لے اسے یقین تھا کہ اقبال صاحب منع نہیں کریں گے پر راحیل تو کچھ اور ہی سوچے بیٹھا تھا ۔۔۔
**********-------*******
نیند سے بیدار ہوئی تو ایک ناامیدی سے دل پر چھائی ہوئی محسوس ہوئی وہ بستر پر پڑی رہی۔۔۔ آج اس کی یاد دل کو گہرے ہوئی تھی۔۔۔ تین سال گزر چکے تھے پر وہ دشمن جان نے ایک بار میں بات نہ کی تھی۔۔وہ بے ست سی لیٹی رھی ۔۔۔اپنی ہی سوچوں میں گم سم "ماہ نور بی بی ۔۔۔اٹھ جائیں یونیورسٹی نہیں جائیں گی کیا ؟؟؟"ستارہ کمرے کا دروازہ نوک کرکے جگا رہی تھی ۔۔۔ماہنور نے لوگوں اور ان کی باتوں سے تنگ آکر واپس پڑھائی کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔۔وہ M.A...میں داخلہ لے چکی تھی۔۔" میں اٹھی ہوئی ہوں۔ ۔۔تم جا کر ناشتہ تیار کرو "اس نے لیٹے لیٹے ہی آواز لگائی تو ستارہ چلی گئی ۔۔۔بستر چھوڑنے کا ذرا بھی دل نہ تھا اس کا ۔۔۔انگڑائیاں لیتی ہوئی اٹھ بیٹھی :"آج کیوں شاہ کی اتنی یاد آرہی ہے ؟؟؟۔۔کیا ہو گیا ہے اے دل تجھے؟ ؟"ماہ نور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوال کرنے لگی نہایت دکھی ہو کر۔۔۔۔
ماہ نور یونیورسٹی سے آتے ہوئے اپنے بڑے چچا کے گھر چلی گئی "مانو اوپر جا کر میرے کمرے میں آرام سے سو جاؤ ورنہ یہاں تو ابھی تھوڑی دیر میں کامران آ جائے گا اور تم تو اسے جانتی ہی ہو وہ تمہیں چھیڑے بغیر رہ ہی نہیں سکتا "بھابھی نے ماہ نور سے کہا تو وہ اوپر چلی گئی سونے۔۔
"کامران ایک بار سوچو تو صحیح ۔۔ تم نہیں چاہتے کہ ماہ نور کا گھر بسے وہ تمہاری بہن ہے آخر "ماہ نور گھر میں ہی موجود ہے اس بات سے بڑی چاچی کامران رومیسا سب انجان تھے۔ ۔۔ وہ آرام سے چائے پیتے ہوئے گارڈن میں بات کر رہے تھے ماہ نور بھی ان کے ساتھ بیٹھنے ہی آرہی تھی کہ اس کے قدم بڑی چچی کی بات سن کر دروازے پر ہی رک گئے تھے ۔۔
"امی میں ایسا کیسے کر سکتا ہوں یہ؟ ؟؟ میں نے سعدیہ کو کبھی اس نظریے سے نہیں دیکھا "کامران جھنجھلا کر بولا تھا ۔۔۔ماہنور خاموش کھڑی ان کی باتیں سننے لگی وہ اپنی بحث میں اتنا مگن تھے کہ انہیں قریب کھڑی ماہ نور کی موجودگی کا احساس ہی نہ ہوا ۔۔۔
"تو اب دیکھ لو۔۔۔ پلیز کامران مان جاؤ ۔۔۔ماہنور کی خاطر۔۔وہ بہن ہے تمہاری چھوٹی تم اس کے خاطر اتنا نہیں کر سکتے "رومیسا آپا نے کامران پر دباؤ ڈالا تھا کسی بات پر جس سے ماہ نور انجان تھی۔۔۔
"آپ سمجھ کیوں نہیں رہی ہیں ۔۔۔میں سعدیہ سے شادی نہیں کر سکتا ۔۔وہ میرے چھوٹے بھائی کی منگیتر رہی ہے بچپن سے۔۔۔ میں نے اسے کبھی اس نظریے سے نہیں دیکھا اور پھر خود سوچیں میں شاہنزیب کو کیا منہ دیکھاؤں گا۔۔۔ وہ کیا سوچے گا میرے بارے میں "کامران پرزور احتجاج کر رہا تھا
"تم چاہتے ہو نا کہ ماہ نور کا گھر بس جائے تو تمہیں یہ کرنا پڑے گا ۔۔۔دیکھو ہم سب جانتے ہیں کہ شاہنزیب واپس آنے کے بعد ماہ نور کو صرف سعدیہ کی خاطر چھوڑ دے گا کیونکہ اس نے جذباتی ہو کر فیصلہ کیا تھا نکاح کا۔ ۔۔پر اب واپس آتے ہی طلاق کا مطالبہ کر ڈالے گا۔۔ میں نہیں چاہتی کہ ایسا ہو۔ ۔۔ ماہ نور کو دیکھا ہے نہ تم نے کتنی اداس رہتی ہے پہلے والی ماہ نور تو وہ رہی ہی نہیں ۔۔۔مجھے ترس آتا ہے اسے دیکھ کر ۔۔۔نہ ماں ہے نہ باپ اور اب شاہنزیب بھی چھوڑ دے گا۔۔۔ پلیز کامران میری بچی ہے وہ۔۔اسکا گھر بس جائے گا اگر تم ہماری بات مان جاؤ "آپا نے خاصا دباؤ ڈالا تھا کامران پر ۔۔
"دیکھ کامران اگر وہ تیری منگیتر یا بیوی ہوگی تو شاہنزیب کبھی اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھےگا "بڑی چاچی نے کامران کو ماہ نور پر قربان کرنے کی سوچ لی تھی۔
"چلیں فرض کریں میں مان جاتا ہوں ۔۔۔۔پر سعدیہ کا کیا؟؟؟۔۔۔ وہ مان جائے گی مجھ سے شادی کے لیے جیسے آپ سب جانتے ہیں کہ شاہنزیب ماہنور کو طلاق دے گا ویسے وہ بھی تو جانتی ہے ۔۔پھر وہ مجھ سے شادی کیوں کرے گی "کامران نے جب یہ کہا تو ماہنور کا دل کانچ کے ٹکڑوں کی مانند بکھر گیا تھا کیونکہ صرف کامران ہی تھا جو اس کی ہمت بناتا تھا کہ شاہنزیب واپس آ کر اس کا ہاتھ تھام لے گا ۔۔آج جب وہی کہہ رہا تھا۔۔۔کے شاہنزیب طلاق دے گا واپس آتے ہی۔۔۔۔تو ماہ نور کے ننھے سے دل کی بچی کچی سی امید بھی ٹوٹ گئی تھی ۔۔۔
"تم راضی ہو ؟؟؟؟۔۔۔اپنی بتاؤ ۔۔۔میں اس شاخ کو ہی کاٹ ڈالوں گی جس پر آکر الو بیٹھے گا۔۔ سمجھے "آپا نے اس سے ابرو اچکاتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔۔
"ہاں۔ ۔۔اگر میری مانو بلی کا گھر بستہ ہے تو میں راضی ہوں۔۔میری مانو کے لئے میں جان دے سکتا ہوں ۔۔پھر شادی تو بہت معمولی سی چیز ہے ۔۔اگر اس کی خوشی اسی میں چھپی ہوئی ہے تو میں سعدیہ سے شادی کرنے کے لئے بالکل تیار ہوں" کامران بالکل تیار ہوگیا تھا سعدیہ سے شادی کے لیے ۔۔۔ ماہ نور روتے ہوئے وہاں سے بھاگتی ہوئے اندر آ گئی واپس ۔۔۔وہ واش روم میں جا کر تھوڑی دیر تک روتی رہی ۔۔اس کا چہرہ سرخ لال ہو گیا تھا رو رو کر ۔۔
"مانو تم یہاں؟؟؟؟ تم کب آئیں ؟؟؟"ماہ نور واپس گھر جانے لگی گارڈن سے گزرتے ہوئے تو وہ تینوں اسے دیکھ کر چونکے۔۔۔ کامران نے اسے دیکھ کر سوال بھی کیا۔۔۔پر اس نے کوئی جواب نہ دیا اور کار خود ڈرائیوف کرکے واپس گھر آگئی۔۔گھر آ کر اس نے خود کو اپنے کمرے میں بند کر لیا ۔۔
"کیا کروں ؟؟؟۔۔کچھ سمجھ نہیں آتا "ماہ نور زور زور سے رو رہی تھی ۔۔۔ستارہ نے اس کے رونے کی آواز سنی تو دوڑی چلی آئی۔۔۔ اس کے بہت اصرار پر ماہ نور نے اس کے لئے دروازہ کھول دیا ۔۔۔"مجھے سمجھ نہیں آتا میں کیا کروں پتہ ہے میں نے سب جگہ آنا جانا چھوڑ دیا کیونکہ لوگ مجھے دیکھ کر مجھ پر تبصرے کرنا شروع کر دیتے تھے ہنستی تھیں عورتیں مجھے دیکھ۔ ۔لیکن اب جب میرے اپنے ہی یہ باتیں کر رہے ہیں تو بتاؤ میں کہاں جاؤں ؟؟؟"وہ یہ کہہ کر روتے ہوئے ستارہ کے گلے لگی تھی۔۔ ماہ نور کو اپنی بڑی پھوپھو سے کی ہوئی بحث آج بہت یاد آ رہی تھی اور اسے یاد کر کے وہ اور زیادہ تڑپ کر رونے لگی تھی ۔۔
("میں کہہ رہی ہوں امی۔۔۔ ابھی ایک سال ہی ہوا ہے نکاح کو۔۔ ہم خلاں لے لیتے ہیں ماہ نور کی طرف سے اور پھر سب جانتے ہیں کہ صرف نکاح ہوا ہے رخصتی نہیں "بڑی پھوپھو نے دادو کو اپنی رائے دی تھی اس جذباتی نکاح کے متعلق ماہ نور چائے رکھنے آئی تو اس نے بڑی پھوپھو کی بات سن لی۔۔
"بڑی پھوپھو انسان کو ہمیشہ اچھا بولنا چاہیے میں بھی آپ کی بیٹی جیسی ہوں" ماہ نور نے ان کے منہ پر ہی جواب دے ڈالا تھا
"ارے لڑکی تم تو بڑی بدتمیز ہو۔۔۔ تمہیں بیٹی سمجھتی ہوں تبھی تو بول رہی ہوں ۔۔"وہ ماہ نور کو دیکھ غصے سے بولیں۔۔پھر دادو سے مخاطب ہو کر " امی آپ بولیں کیا غلط کہا میں نے؟؟؟ ۔۔۔ارے وہ لندن جیسے ملک گیا ہے۔۔ وہاں اتنی حسین حسین لڑکیاں وہ بھی آدھے کپڑے پہنے ہوئے دیکھے گا تو تمہیں لگتا ہے تم اس کی نگاہوں کو بھاؤ گی؟؟؟ ۔۔۔اوپر سے اگر ہم عمر ہوتیں تو ہم سوچ بھی سکتے تھے۔۔ پر تم تو اس سے پورے دو سال بڑی ہو۔۔ میرا تجربہ ہے آج نہیں تو کل وہ تمہیں چھوڑ دے گا پھر رو گی بیٹھ کر۔۔ چار سال بعد رونا دھونا مچاؤ گی ۔۔اس سے اچھا ہے ابھی مچا لو ۔۔لمحہ لمحہ مرنے سے اچھا ہے لڑکی ایک بار ہی مر جاؤ۔۔ ختم کرو یہ معاملہ۔۔۔ پھر لوگ بھی باتیں بنا رہے ہیں "بڑی پھوپھو کڑوا کہتی تھیں پر کتنا سچ ۔۔آج اسے احساس ہو رہا تھا یہ یاد کرکے )ہر دن ماہ نور کا اسی خوف میں گزرتا تھا کے ایک دن آئے گا جب وہ اسے طلاق دے دے گا۔۔
*****"------*****
وہ خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا کہ اچانک اسے کسی کے زور زور سے رونے کی آوازیں آنے لگیں بہت دیر سے اس کی سماعتوں سے رونے کی آواز ٹکرارہیں تھیں پر نیند کے غلبے کی وجہ سے وہ اٹھ نہیں پا رہا تھا۔۔۔۔۔ آخر کار وہ نیند سے بیدار ہوا” یہ تو ماہنور کے رونے کی آواز ہے“ شہزاد کو ہوش آیا تو اسے محسوس ہوا کہ یہ رونے کی آواز تو ماہ نور کی ہے وہ بھاگتا ہوا بستر چھوڑ کر کمرے سے نکلا تھا سیڑھیاں چڑھ کر جیسے ہی ماہنور کے کمرے کی جانب بڑھا اس کے قدم رک گئے یہ دیکھ کر کہ ماہنور شاہنزیب کے کمرے کے دروازے سے لگ کر رو رہی ہے شہزاد سمجھ گیا تھا کہ وہ خواب سے ڈر کر اٹھی ہے اور اب وہ سکون نہ پائے گی جب تک شاہنزیب کے کمرے میں جا کر اس کی چیزوں کو نہ دیکھ لے اور اس کی اچھی صحت کے لیے صلوۃ الحاجات نہ پڑھ لے۔۔۔ شہزاد کا دل اپنی بہن کو یوں روتا ہوا دیکھ بری طرح سے تڑپ اٹھا تھا ۔۔۔ اسے اچھی طرح علم تھا کے وہ اس وقت ماہنور کو قابو نہیں کر سکتا۔۔۔وہ بےقرار رہے گی جب تک اسے شاہنزیب کے کمرے میں نہ جانے دیا جائے۔۔۔۔ پر وہ اپنی ماں سے بھی تو نہیں لڑ سکتا ہے۔۔۔ جنہوں نے ماہ نور سے صرف چوپ میں آکر شاہنزیب کمرہ کو لاک کردیا تھا ۔۔۔ شمس بیگم آج سعدیہ کی ماں سے ملی تھیں انہوں نے بتایا کہ کامران کا رشتہ آیا ہوا ہے سعدیہ کے لیے ۔۔۔انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا سعدیہ اپنی پڑھائی مکمل کر لے پھر وہ اس بات کا جواب دیں گی۔۔۔ شمسہ بیگم نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ شاہنزیب ماہنور کو چھوڑ دے گا اور سعدیہ سے ہی نکاح کرے گا واپس آ کر۔۔۔ یہ بات ماہنور نے سن لی اور دونوں کے درمیان بحث ہوگی۔۔۔ ماہ نور بس یہی بول رہی تھی کہ وہ شاہنزیب کے آنے سے پہلے کیوں وعدہ کر رہی ہیں اپنی بہن سے ۔۔۔پہلے اسے آ تو جانے دیں۔۔۔ جس کی وجہ سے غصے میں آ کر انہوں نے شاہنزیب کا کمرا لاک کروا دیا تین چار دنوں سے ۔۔شہزاد بہت بے بس محسوس کر رہا تھا خود کو ۔۔۔ وہ ماہ نور کو یوں ہی تڑپتا ہوا شاہنزیب کے کمرے کے باہر چھوڑ چلا گیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بالکل تیار کھڑا تھا فون بجا تو ریسو کیا” ہیلو سالے صاحب۔۔۔ بھول گئے کیا ہمھیں“ آواز سے ہی پتہ چل گیا تھا کہ یہ فرحان کا فون ہے ۔۔۔۔شاہنزیب کو اس نے سعدیہ کو گولی مارنے کے واقعے کے بعد آج فون کیا تھا۔۔۔” تم بھولنے کی چیز نہیں ہو فی الحال کیا میں جان سکتا ہوں اتنے سال بعد تمہیں میری یاد کیوں آئی ہے ؟؟۔۔شاہنزیب کو یونیورسٹی جانا تھا اسے دیر ہو رہی تھی اس نے فالتو باتوں سے گریز کیا تھا۔۔۔۔” بتانا تھا کہ کل جیل سے آزاد ہو رہا ہوں“ اس نے کہا تو شاہنزیب الجھ گیا ”کیا جیل سے؟؟؟“
” اب اتنے بھولے مت بنو میں جانتا ہوں تم نے چوری کے جھوٹے مقدمے میں مجھے پھنسا کر جیل میں ڈلوایا ہے“اس نے کہا۔۔۔
” کیا بکواس کر رہے ہو ؟؟؟۔۔میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔ مجھ پر جھوٹے الزام مت لگاٶ۔۔۔۔“شاہنزیب اس کی بات پر غصے سے بولنے لگا تھا۔۔۔
” مجھے نہیں پتہ تھا کہ تو جھوٹ بھی بولتا ہے "وہ حیرت سے کہنے لگا۔۔۔"اور ہاں یار ایک ضروری بات تو بھول ہی گیا ۔۔۔۔ مبارک ہو سالے صاحب دو سال بڑی عمر کی لڑکی سے شادی ۔۔۔بہت خوشی ہوئی یہ خبر سن کر دل کو۔۔۔ بڑے بول بچن تھے جناب کے۔۔۔ اب خود پر پڑی ہے ۔۔اب آۓ گا مزہ۔۔۔ کیسی ہیں ہماری بھابھی؟؟؟۔۔۔ تو سوچ بھی نہیں سکتا کتنا سکون ملا ہے دل کو یہ خبر سن کر ۔۔۔۔اب کر کے دیکھا تو دو سال بڑی عمر کی لڑکی سے عشق ۔۔پھر مانوں گا تجھے ۔۔۔بڑا بولتا تھا تو۔۔۔ کہ محبت عمر نہیں دیکھتی“وہ بول ہی رہا تھا۔۔۔
” منہ بند کر اپنا اگر میں تجھے جیل میں ڈلواتا تو ضرورت نہیں تھی مجھے تجھ سے ڈرنے کی۔۔۔۔ اب فون بند کر۔۔۔ تیری بکواس کے لیے حکومت نے جیلوں میں فون نہیں لگوائے “شاہنزیب فون کاٹنے لگا تھا۔۔
” ارے ارے ۔۔رک۔۔۔۔ایک خوشخبری تو سن لے ۔۔۔میں اب تیری زندگی میں انٹر فیٸر نہیں کروں گا کیونکہ اب اس کی ضرورت یی نہیں پڑے گی۔۔۔۔ تیری زندگی تو تیری قسمت ھی تباہ کر چکی ہے۔۔۔۔ بچے کی بیوی دو سال بڑی ہے۔۔۔۔اووووو۔۔آلےےےےےے“ یہ کہہ کر فرحان نے زوردار قہقہہ لگایا تھا۔۔۔۔
” ہیلو السلام علیکم“شاہنزیب نے اپنے ذہن پر زور ڈالا تھا۔۔۔ کے آخر کون ہو سکتا ہے فرحان کو جیل میں ڈلوانے والا۔۔۔۔اسے کامران یاد آیا تھا ۔۔۔اس نے کامران کو کال ملائی
” وعلیکم اسلام کیسے ہو؟؟؟“ کامران نے حال دریافت کیا تھا۔۔
” ٹھیک ہوں ۔۔۔تم سے کچھ پوچھنا تھا“ اس نے تیز لہجے میں کھا۔۔۔
” ہاں پوچھو“
” تم نے فرحان کو جیل کروائی تھی؟؟؟“ اس نے تجسس سے پوچھا تھا۔۔۔
” ہاں ۔۔۔۔ پر تمہیں کیسے پتا؟؟؟۔۔“ اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔۔۔
” اس کا فون آیا تھا تھا“
” او اچھا“ کامران نے سر اثبات میں ہلا یا ۔۔۔” تم فکر مت کرو سعدیہ ٹھیک ہے“ کامران کو محسوس ہوا کے شاہنزیب کچھ پوچھنا چاہ رہا ہے ہے مگر بول نہیں پا رہا ۔۔۔
” ہاں مجھے بہت فکر تھی اس کی۔۔۔ اس کے بارے میں کسی اور گھر والے سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔ تم سمجھ رہے ہو نہ میں ایسا کیوں بول رہا ہوں“ وہ مفاہیمانہ انداز میں کہنے لگا۔۔۔” سعدیہ کو فرحان سے خطرہ ہے ۔۔۔ میں مانتا ہوں کہ وہ کہہ رہا ہے کہ سعدیہ کو اب تکلیف نہیں دے گا پر مجھے اس پر ذرا سہ بھی یقین نہیں ۔۔۔اس لیے اس کا خیال رکھنا کامران “ اس نے التجاٸی لہجے میں میں کامران سے کہا ۔۔
کامران کو بہت احساس ہوا کہ وہ تین سال بعد بھی صرف سعدیہ کے لئے فکر مند ہے اس نے جھوٹے منہ بھی ماہ نور کے بارے میں نہیں پوچھا
******----------********
وہ گھر میں داخل ہوئی تو حیران رہ گئی ۔۔۔پولیس والے اس کے باپ کا گریبان پکڑے انہیں کھینچ رہے تھے ۔۔۔” چھوڑیں میرے ڈیڈ کو“ ثانیہ روتے ہوئے اپنے باپ کا ہاتھ پکڑ کر بولی تھی ۔۔۔پولیس والوں نے ایک نہ سنی اور اس کے والد کو اس کی آنکھوں کے سامنے ہی گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔۔” امی۔۔۔۔ امی کیا ہوگیا ؟؟؟“ ثانیہ کی ماں روتے روتے زمین پر گر گئی تھی۔۔۔ ثانیہ نے انہیں بامشکل سنبھالا تھا اور روتے ہوئے استفسار کرنے لگی۔۔۔۔اس کی ماں نے بتایا کہ R.l کمپنی کے مالک نے اس کے باپ پر دھوکہ دہی کا مقدمہ کر دیا ہے ۔۔۔۔
” پر اس کمپنی کا مالک تو امریکہ میں ہے۔۔۔۔ پھر وہ پاکستان میں کیوں مقدمہ کر رہا ہے ڈیڈ پر ؟؟؟۔۔۔ آخر ہے کون یہ ؟؟؟۔۔۔۔جو ہمارے بری طرح پیچھے پڑ گیا ہے سب تو چھین لیا اس نے ہمارا۔۔۔ اب کیا جان لینا چاہتا ہے ہماری؟؟؟“ ثانیہ روتے روتے بول رہی تھی۔۔۔۔ تین چار دن گزر چکے تھے۔۔۔ وہ اور اس کی ماں تھک چکے تھے پولیس تھانے کے چکر کاٹ کاٹ کر ۔۔۔ جس پولیس تھانے میں وہ جاتیں پتہ چلتا کہ اس کے والد کو یہاں نہیں لایا گیا۔۔۔۔
ثانیہ کو راحیل کا خیال آیا تھا وہ جانتی تھی کہ راحیل کی والدہ کا انتقال ہو چکا ہے اور وہ ان کی موت کا ذمہ دار ثانیہ کے والدین کو ٹھہراتا ہے لیکن اس مشکل وقت میں میں اسے راحیل کے سوا کوئی دوسرا سہارا نظر نہیں آیا تھا وہ راحیل کے گھر جا پہنچی۔۔۔
”تم؟؟؟“ دروازہ شہزاد نے کھولا تو ثانیہ کو دیکھ کر حیرت سے پوچھنے لگا ۔۔۔۔ ان دنوں راحیل بھی گھر آیا ہوا تھا ثانیہ ہربڑاٸی ہوئی تھی۔۔۔ شہزاد نے اسے صوفے پر بیٹھا دیا۔۔۔” میں تمہارے لئے پانی لاتا ہوں“ شہزاد کہ کر پانی لینے جانے لگا تو ثانیہ نے پیچھے سے ہاتھ پکڑ کر روکا۔۔
” نہیں مجھے راحیل سے بات کرنی ہے۔۔ وہ گھر پر موجود ہے؟؟؟“ ثانیہ کی آواز روہانسہ تھی۔۔۔ شہزاد نے اثبات میں سر ہلایا
”لیکن ثانیہ وہ تم سے ملنا نہیں چاہے گا اور اس کی وجہ تم جانتی ہو“ شہزاد نہایت نرم لہجے میں اسے سمجھانے لگا
” آخر وہ مجھے کیوں معاف نہیں کرتا؟؟؟۔۔۔ اتنی بار تو معافی مانگ چکی ہوں اس سے۔۔۔“ اس نے روہانسہ آواز میں شہزاد کو دیکھ کہا تو شہزاد خاموش ہو گیا۔۔۔
” تم اوپر جا کر خود ہی بات کرلو اس سے“ شہزاد یہ کہہ کر چلا گیا تھا ۔۔۔
”تم؟؟؟“ ثانیہ نے کمرے کا دروازہ نوک کیا تو راحیل اسے دیکھ کر حیرت سے گویا ہوا۔۔۔۔۔
” اندر آجاؤں؟؟“ اس نے نظریں جھکائے اجازت طلب کی تھی اندر آنے کی
راحیل تو اس کے نام سے بھی نفرت کرنے لگا تھا۔۔ جب وہ سامنے آئی تو منہ موڑ کر کھڑا ہوگیا۔۔۔ لہجے میں بلا کی بےرخی بھرے ۔۔۔سوال کرنے لگا۔۔۔”کیا کام ہے ؟؟؟“
” اتنے ناراض ہو کہ اندر بھی نہیں بلاؤ گے ؟؟“ ثانیہ روہانسہ آواز میں اسے دیکھ حسرت سے پوچھنے لگی۔۔۔
”ناراض اور تم سے“ وہ طنزیہ بولا۔۔۔” ناراضگی اپنوں سے کی جاتی ہے اور تم کون ہو ؟؟؟ میں تو تمہیں نہیں جانتا میری نظر میں تم صرف اقبال کی شہزادی بیٹی ثانیہ ہو۔۔“ اس کا لہجہ اس کی نفرت کا پتہ دے رہا تھا۔۔۔ مانو دنیا جہان کی سختی سمیٹ لی تھی اس نے اپنے لہجے میں ۔۔۔۔ ثانیہ کا ننھا سا دل اس کی بات سن کر پارے پارے ہوا تھا۔۔
” ہمم۔۔۔۔ ٹھیک کہا تم نے۔۔۔میں صرف اقبال کی بیٹی ہوں۔۔۔ تمہاری دوست تھوڑی۔۔“ وہ نہایت غمگین لہجے میں گویا ہوئی تھی۔۔۔” کیا تم انسانیت کی خاطر میری مدد کر سکتے ہو مجھے اس وقت مدد کی سخت ضرورت ہے“ وہ خودی کمرے میں ایک قدم رکھ کر اسے دیکھ استفسار کرنے لگی پُرامید نظروں کے ساتھ۔۔۔
” کاش تمہارے ڈیڈ نے بھی تھوڑی انسانیت دیکھا دی ہوتی اس دن تو آج میری ماں زندہ ہوتی“ وہ ثانیہ کی طرف مڑ کر غصے سے کہنے لگا۔۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں بھری نفرت ثانیہ کو دل میں چبتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔۔۔
” اب تو اتنے سال گزر چکے ہیں۔۔۔ اب تو معاف کر دو راحیل میں کتنی بار معافی مانگوں۔۔۔ آخر کیوں معاف نہیں کرتے تم مجھے۔۔۔۔ جو کچھ ہوا ان سب میں میرا کیا قصور تھا؟؟ مجھے واقعی نہیں پتا تھا کہ چاچی میرا رشتہ لے کر آئیں ہیں اور نہ ہی مجھے یہ خبر تھی کہ ڈیڈ انہیں منع کر دیں گے۔۔۔۔ تم اتنی سی بات کیوں نہیں سمجھتے؟؟“ بس ثانیہ کا کہنا تھا کہ وہ غصے سے بھڑک اٹھا۔۔۔”اتنی سی بات ؟؟“ وہ خاصہ جتاتے ہوۓ گویا ہوا۔۔۔” میرے سر سے میری ماں کا سایہ اٹھ گیا اور تم اسے اتنی سی بات کہہ رہی ہو“ راحیل کی آنکھیں سرخ انگاروں کی طرح لال ہو گئیں تھیں۔۔۔۔وہ ثانیہ کی طرف تیزی سے چلتا ہوا آیا اور اس کا بازو جھنجھوڑتے ہوئے کہنے لگا۔۔
” تو تم ھی بتا دو کہ میں کیا کروں ؟؟؟۔۔۔مجھے اس گیلڈ سے نکالو راحیل۔۔۔“وہ روتے ہوٸے اسی کے سینے سے لگ گٸی تھی ۔۔۔۔۔بس اس کا سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونا تھا ۔۔۔کے راحیل کا دل نرما گیا ۔۔۔اس نے بازو پر پکڑ ڈھیلی چھوڑ دی۔۔۔ خیال آیا دل میں۔۔ کے اسے ہٹائے۔۔۔ پر وہ اس طرح رو رہی تھی کے ہٹانے کی ہمت ہی نہ ھوسکی ۔۔۔وہ بس روۓ جارہی تھی ۔۔۔اب تو اس نے راحیل کی کمر پر ہاتھ بھی رکھ لیا تھا۔۔۔وہ بت بنے کھڑا رہا۔۔۔۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ ثانیہ خاموش ہوٸی ھے ۔۔ وہ سمجھ گیا کہ وہ بے ہوش ہو گئی ہے ۔۔۔اس نے فورا اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے گرنے سے پہلے ہی تھام لیا۔۔۔۔۔اسے اپنی باہوں میں اٹھا کر اپنے بیڈ پر لیٹا دیا۔۔۔۔پہلے تو تھوڑی دیر تک اس کے خوبصورت چہرے کو تکتا رہا۔۔۔” کاش تم اقبال کی بیٹی نہ ہوتیں۔۔۔تمھارا قصور صرف اقبال کی بیٹی ہونا ہے جیسے میرا چور کا بیٹا ہونا تھا۔۔۔۔“ راحیل نے نہایت دیھمے لہجے میں اسے دیکھ کر کہا۔۔۔۔
” ماہ نور پانی لانا“ اس نے زور سے آواز لگائی تھی سیڑھیوں سے نیچے جھانکتے ہوئے ۔۔۔۔ماہ نور نے سنا تو فوراً اثبات میں سر ہلا کر پانی لینے چلی گئی ۔۔وہ پانی لے کر اوپر آئی تو ثانیہ کو بے ہوش دیکھ حیران ہو گئی۔۔۔
” ثانیہ باجی کو کیا ہوا؟؟“ وہ فکر مند ہو کر راحیل کو دیکھ کر پوچھنے لگی۔۔
” کچھ نہیں۔۔۔۔ بس بے ہوش ہو گئی روتے روتے“ راحیل نے لاپرواہی سے جواب دیا۔۔۔۔
” آپ کتنا بدل گئے راحیل پاجی“ ماہ نور کو بہت دکھ ہوا تھا جب راحیل نے اس قدر لاپرواہی سے ثانیہ کو دیکھ یہ جملہ ادا کیا۔۔۔
” وقت بدل دیتا ہے مانو“ وہ سنجیدگی سے مامنور کو دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔۔
” وقت پر الزام مت ڈالیں راحیل پاجی۔۔۔ آپ بدلنا چاھتے تھے تو بدل گۓ ورنہ ثانیہ باجی تو نہیں بدلیں۔۔۔۔ وہ اس دن بھی معافی مانگ رہی تھیں جب چاچی کا انتقال ہوا تھا اور وہ آج بھی معافی مانگ رہی ہیں آپ سے۔۔۔ بس آپ ہی ہیں جو اتنی سی بات سمجھ نہیں پا رہے کہ یہ سب قسمت میں لکھا تھا۔۔۔۔ جو اقبال نے آپ کے ساتھ کیا وہی تو آپ ثانیہ باجی کے ساتھ کر رہے ہیں ۔۔۔ آپ بھی تو ثانیہ باجی کو صرف اقبال کی بیٹی ہونے کی سزا دے رہے ہیں۔۔ جیسے وہ آپ کو چور کا بیٹا ہونے کی دے رہا تھا ۔۔ سوری الفاظ ذرا سخت ادا کر دیئے ۔۔مگر آپ کو سمجھانے کے لیے یہ ضروری تھا “ماہنور راحیل کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سمجھانے والے انداز میں کہہ کر پانی کا گلاس رکھ کر چلی جاتی ہے۔۔۔۔
راحیل خود اس کے چہرے پر پانی کا چھڑکاؤ کرتا ہے جس سے ثانیہ ہوش میں آ جاتی ہے۔۔۔۔ ماہ نور کے الفاظ سخت تھے پر دل پر وار کر گۓ تھے ڈاٸرک۔۔۔۔۔
”سوری۔۔۔“ ثانیہ ہوش میں آتے ہی اٹھ کر بیٹھی اور راحیل سے معافی مانگنے لگی اپنے نا کردہ گناہ کی۔۔۔ وہ برابر میں ہی بیٹھا ہوا تھا
” کس کام سے آئیں تھیں تم۔ ۔۔ یہ بتاؤ؟؟؟۔“ وہ ثانیہ کو ڈائرک موضوع پر لاتے ہوئے بولا ۔۔۔ اس بار اس کا لہجہ کافی بدلہ بدلہ معلوم ہو رہا تھا۔۔۔
” میرے ڈیڈ کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے پلیز مدد کر دو کسی R . L کمپنی کے مالک نے میرے ڈیڈ پر دھوکہ دہی کا مقدمہ کر دیا ہے“ ثانیہ اس بات سے ناواقف تھی کہ R .L کمپنی کا مالک تو خود راحیل ہے۔۔۔
” او ۔۔۔۔ تو اس لئے آئی ہو۔۔۔ ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں میں کیا کر سکتا ہوں“ وہ لاپرواہی سے کہتا ہوا کھڑا ہی ہوا تھا کہ ثانیہ نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔
” پلیز راحیل ۔۔۔۔پلیز میرے ڈیڈ کو بچا لو۔۔۔بدلے میں تم جو کہو گے میں وہ کروں گی۔۔۔ پلیز“ ثانیہ کے یہ کہتے ہی راحیل کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ لبوں پر دوڑ گئی۔۔۔
” جو میں کہوں گا وہ کرو گی؟؟۔۔۔۔ وہ آئبرو اچکاتے ہوئے پوچھنے لگا۔۔۔۔۔” اگر تم بعد میں پیچھیں ہٹیں۔۔۔۔ تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا“ وہ ورن کرتے ہوئے گویا ہوا۔۔۔ اس کا لہجہ بتا رہا تھا کہ شرط کوئی خطرناک ہی رکھے گا وہ لیکن ثانیہ کے پاس اس کی مدد لینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔۔۔” مجھے منظور ہے جو بھی تم کہو گے میں کروں گی بس میرے ڈیڈ کو اس قید سے آزاد کرواو“ وہ التجائی لہجے میں گویا ہوئی تھی۔۔۔
” سوچ لو میں پھر ایک بار کہہ رہا ہوں اگر ایک بار میں نے اقبال کو آزاد کروا دیا تو میں تمہیں پیچھے نہیں ہٹے دوں گا تمہارے اس قول سے“ وہ ڈر گئی تھی اس کا دھمکی آمیز لہجہ دیکھ ۔۔۔۔ لیکن دوسرے ہی لمحے وہ فورا تیار ہوگی اپنے ڈیڈ کی خاطر۔۔۔۔۔” مجھے منظور ہے“ ثانیہ نے روہانسہ آواز میں کہہ کر سر اثبات میں ہلا دیا۔۔۔۔ وہ یہ سنتے ہی مسکراتا ہوا اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔۔۔۔ اس کی مسکراہٹ کافی مفاہمانہ تھی۔۔۔۔۔
” ٹھیک ہے تو پھر تیار ہو جاؤ“ وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کھنے لگا۔۔۔۔۔۔
” کس چیز کے لیے؟؟؟“ وہ الجھ کر پوچھنے لگی۔۔
” نکاح کے لیے۔۔۔۔ یہاں تم مجھ سے نکاح کرو گی وہاں تمہارے باپ کو پولیس چھوڑ دے گٸی ۔۔۔اور وہ گھر پہنچ جائے گا لیکن پھر تمہیں کبھی اجازت نہیں ہو گی دوبارا اس سے ملنے کی۔۔۔۔۔ سمجھ لو میری بیوی بنتے ہی تمہارا اس سے تعلق ختم ہو جائے گا“ راحیل نے ثانیہ کے سر پر بم پھوڑا تھا۔۔۔۔۔ وہ حیرت سے راحیل کا چہرہ تکنے لگی۔۔
” یہ کیا بول رہے ہو تم ؟؟؟۔۔۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اپنے والدین سے نہ ملوں۔۔۔ تمہاری بات سن کر مجھے شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ میں نے غلطی کی تم سے مدد مانگ کر۔۔۔۔ تم وہ راحیل نہیں ہو جسے میں جانتی تھی۔۔۔“ کہتے ہوئے وہ غصے سے دانت پیستے ہوئے کھڑی ہوئی تھی۔۔
” ٹھیک ہے ۔۔۔جیسی تمہاری مرضی۔۔"وہ لاپرواہی سے بولا "پر میں تمہاری معلومات میں اضافہ کردوں کہ جس مقدمہ میں تمہارا باپ اندر ہے اس مقدمے سے رہائی تبھی ممکن ہے جب مجھ جیسا کوئی پاور فل بزنس مین اس کے حق میں گواہی دیے۔۔۔ آگے تمہاری مرضی۔۔۔“ راحیل کھڑا ہوتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانک کر مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ آج پہلی بار راحیل کی مسکراہٹ اس کا دل جلا رہی تھی۔۔۔۔
” تم واحد پاورفل بزنس مین نہیں ہو پوری دنیا میں ۔۔۔سمجھے۔۔۔۔۔میں کسی اور سے مدد لے لوں گی ۔۔۔شکریہ تمہاری اس آفر کا“ وہ طنزیہ لہجے میں اسے دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں نہایت نفرت سے بھرپور تھیں ۔۔۔ جو راحیل کے دل کو نہ جانے کیوں گہرا صدمہ دے گئی تھیں۔۔۔۔ وہ تو کہہ کر چلی گئی لیکن راحیل انجانی کشمکش میں
چاچی جان اپنا سارا زیور ٹی وی لان میں سجائے بیٹھی تھیں۔۔۔ کچھ وہ صباء کے لٸے رکھ رہی تھی اور کچھ سعدیہ کے لیے ۔۔۔ماہ نور اپنا کام ختم کر کے اوپر جانے لگی تھی کہ ان کی آواز دینے پر رکی ۔۔۔۔"بتا مانو۔۔۔ کونسا سیٹ صباء پر سوٹ کرے گا ؟؟“ وہ ماہنور سے بڑے پیار سے پوچھ رہی تھیں۔۔۔۔ ماہ نور سیڑھیوں کے پاس کھڑی تھی اسے اتنی دور سے کچھ صحیح سمجھ نہیں آرہا تھا اس لیے وہ ان کے برابر میں ہی آ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔ ان کی بات چیت کافی دنوں سے بندھ تھی ۔۔ کیونکے چاچی جان نے ابھی تک شاہنزیب کا کمرہ نہیں کھولا تھا اور وہ ان کی شکایت چاچا جان اور شہزاد سے کہنے میں بھی ھچکچا رہی تھی پر جب آج انہوں نے خود پہل کی تو ماہنور ان کی آواز پر فورا آگٸی۔۔۔
” یہ اچھا ہے ۔۔۔ بلکہ بہت خوبصورت ہے یہ سوٹ کرے گا صباء بھابھی پر“ ماہنور نے ایک سیٹ کا باکس ہاتھ میں اٹھا کر کہا تھا۔۔۔
” میں سوچ رہی ہوں کہ صباء کے لیے اور سعدیہ کے لئے سونے کے سارے سیٹ ایک جیسے بناؤں۔۔۔ بعد میں کہیں اس بات پر میری دونوں بہوئیں لڑائی نہ کریں کہ امی نے مجھے پرایا سمجھا اور دوسری کو سگا ۔۔۔۔ھٸی میرے دو ھی تو بیٹے ہیں ۔۔۔میں تو ان کی بیویوں کو بیٹی بنا کر رکھوں گی ۔۔۔ یہ والا دیکھو مانو ۔۔۔۔یہ سعدیہ پر کیسا لگے گا“ انہوں نے نے پیار ہی پیار میں ماہنور کے مرچیں لگا دی تھیں ۔۔ وہ برداشت کرتے کرتے تھک چکی تھی مگر چاچی کے ظلم کی کوئی انتہائی نہ تھی کہ وہ اسی سے پوچھ رہی تھیں کہ اس کے دولھے کی بچپن کی منگیتر کے لیے کونسا سیٹ اچھا رہے گا۔۔۔۔
” چاچی جان یہ والا بالکل بھی اچھا نہیں ہے سعدیہ کے لئے۔۔۔ یہ والا دیکھیں۔۔۔۔یہ زیادہ اچھا لگے گا۔۔۔ پھر ویسے بھی میں اور صباء بھابھی سعدیہ سے کیوں جلنے لگے وہ تو ہماری نند ہے“ ماہ نور نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا تھا سعدیہ کو نند بناکر شاہنزیب کی بہن ہی بنا ڈالا تھا ۔۔۔۔وہ طنزیہ مسکراہٹ لبوں پر سجاۓ کھ رھی تھی۔۔۔۔۔
” وہ کوئی تمہاری نند وند نہیں ہے اور خوابوں کی دنیا سے نکل آؤ مانو اور یہ جو رومیسا تمھیں سبق پڑھا پڑھا کر جاتی ہے اس سے بھی کہو کہ باز آ جائے میرا بیٹا سعدیہ کو پسند کرتا تھا وہ جذباتی ہو گیا تھا ۔۔۔۔ تمہاری برات نہ آتی دیکھ ۔۔ اس لیے تم سے نکاح کر لیا اور تم اتنی بے وقوف نہیں ہو جو یہ نہ جانتی ہو کہ سوچے سمجھے فیصلے اور جذباتی فیصلے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔۔۔۔وہ واپس آتے ہی تمھیں چھوڑ دے گا پھر پچھتاٶ گی ۔۔۔اس سے اچھا ہے اپنی بڑی پھوپھو کی بات مان لو بہت خوبصورت ہو تم ۔۔۔کیوں گھر میں بیٹھ کر شاہنزیب کے انتظار میں اپنی خوبصورتی کو داغ لگا رہی ہو۔۔۔۔ میری مانو میں ماں جیسی ہوں تمہاری۔۔۔۔ تمہارا برا نھیں چاھوں گی کبھی۔۔۔ خلاء لے لو اس سے ابھی ۔۔۔شاہ کے آنے میں پورا ایک سال ہے ۔۔۔“ شمسہ بیگم اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بڑے پیار و جذباتی انداز میں اسے سمجھانے لگیں۔۔ ماہ نور کو ان کے خلوص پر جو وہ اس لمحہ دیکھا رہی تھیں ذرہ برابر بھی یقین نہ تھا۔۔
”جہاں اتنے سال انتظار کر چکی ہوں وہاں ایک اور صحیح “ماہنور بھرم سے کہتے ہوۓ وھاں سے اٹھ کر چل دی۔۔۔۔ چاچی جان کے سامنے تو بھرم سے کھ آئی تھی۔۔۔پر اپنے کمرے میں آتے ہی زمین پر بیٹھ کر رونے لگی وہ سب سے سن ۔۔۔سن کر یہ بات بالکل ناامید ہو چکی تھی۔۔ بہت غصہ آرہا تھا اسے شاہنزیب پر ۔۔۔کے آخر اس نے شادی کی ہی کیوں؟؟؟۔۔۔۔۔ اس سے تو بہتر تھا کہ نہ کرتا۔۔۔۔ آج کم از کم پورے زمانے میں مذاق کا نشانہ تو نہ بنی ہوتی ۔۔۔۔سیل سامنے دیکھ ہر بار کی طرح دل چاہا کہ فون کرکے اپنے دل کی ساری بھڑاس اتار دے ۔۔۔ ایسی کھری کھری سنائے کہ دل خوش ہوجائے شاہنزیب کا ۔۔۔ چودہ طبق روشن کر دے اس کے ۔۔۔پھر یہ خیال ہاتھ روک دیتا ہے۔۔۔کے وہ بھی تو فون کر سکتا ہے پر تین سال سے نہیں کر رہا ۔۔۔نہ ہی اس کے متعلق کسی سے پوچھتا ہے۔۔۔۔ تو پھر وہ کس حق سے اسے فون کرے۔۔۔۔” اسے کہیں ایسا نہ لگے کہ میں اس کے گلے پڑھ رہی ہوں کہ مجھے اپنا لے “ماہ نور موبائل ہاتھ میں اٹھا کر خودہی سے ہم کلام ہوئی اور ہر بار کی طرح موبائل واپس بیڈ پر پٹک دیا۔۔۔۔
******-----------********
ثانیہ مدد لینے شہزاد کے آفس آئی تھی۔۔۔ شہزاد پہلے ہی واقف تھا کے ثانیہ آنے والی ہے۔۔۔۔ اس کی راحیل سے بات ہو چکی تھی۔۔۔ ”سوری ثانیہ پر میں تمہاری اس معاملے میں کوئی مدد نہیں کر سکتا ۔۔۔تم ایک بار راحیل سے پھر بات کرکے دیکھو مجھے یقین ہے وہ تمھاری اس معاملے میں مدد کرسکتا ہے ۔۔۔“ ثانیہ پاکستان میں نٸی تھی ۔۔وہ کسی کو نہیں جانتی تھی سوائے اپنے ننھیال والوں کے۔۔۔ اس لیے وہ اپنے ماموں اور ان کے بیٹوں سے مدد مانگ رہی تھی لیکن راحیل کی طرح شہزاد نے بھی مدد کرنے سے صاف انکار کیا ساتھ ساتھ اسے راحیل کی مدد لینے کا مشورہ دیا جسے سن کر وہ اداس ہو کر وہاں سے چلی گئی۔۔۔ اس کے جاتے ہی شہزاد نے کامران کو فون کیا تھا یہ انفارم کرنے کے لئے کے ثانیہ اب مدد مانگنے اس کے پاس آئے گی۔۔۔۔
” یاد رکھنا کامران اسے اتنا ناامید کرنا کہ اسے سواۓ راحیل کے اور کوئی مددگار اپنا نظر نہ آئے“ کامران شہزاد کی بات سن مسکراتے ہوئے کہنے لگا ”تم فکر مت کرو میں اسے اتنا ناامید کروں گا کہ اسے سوائے راحیل کی بات ماننے کے کوئی اور راستہ نظر ہی نہیں آئے گا ۔۔۔۔۔ اقبال کو تو بدلہ چکانا ہی پڑے گا ۔۔۔بہت غرور تھا ناں سالے کو ۔۔۔اب نیکلے گٸی سالے کمینے کی اکڑ۔۔۔۔جب اس کی شہزاری جیسی بیٹی خود التجاء کرے گی راحیل کے سامنے کے میری مدد کردو ۔۔۔۔“ کامران اور شہزاد کے دل میں بھی راحیل کی طرح اقبال سے بدلہ لینے کی آنکھ سلگھ رہی تھی۔۔۔تینوں نے مل کر ہی اقبال کو آج پاٸی پاٸی کا محتاج بنایا تھا۔۔۔۔
*****----------*******
راحیل گارڈن میں ٹیل لگا رھا تھا کے سامنے سے ثانیہ آتی نظر آٸی ۔۔۔وہ گہری مسکراہٹ لبوں پر سجاۓ اسے اپنی جانب آتا دیکھنے لگا۔۔۔۔”میں تیار ہوں۔۔۔تم سے نکاح کے لیے“ثانیہ نے روہانسہ آواز میں کھا ۔۔۔
”پوری شرط کے ساتھ؟؟“ وہ آئبرو اچکاکر پوچھنے لگا۔۔۔
”ھممم“ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔ اس کا خوبصورت چہرہ نہایت مرجھایا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔۔۔۔راحیل نے اپنے پلین کے مطابق اسے مجبور کر ہی دیا تھا ۔۔۔ شرط قبول کرنے کے لیے۔۔۔وہ بہت مجبور ہوکر صرف اپنے والد کی خاطر راحیل کی شرط ماننے کے لئے تیار ہو گئی تھی۔۔۔ راحیل نے اس کا مرجھایا ہوا چہرہ دیکھ ایک لمبی سانس لی۔۔
” تم تو ایسے چہرہ بنا رہی ہو جیسے مجبور کر رہا ہوں تمھیں۔۔۔ تم اپنی مرضی سے آئی ہو کسی نے مجبور نہیں کیا تمہیں۔۔۔۔سو پلیز منہ ٹھیک کرو اور اندر میرے ساتھ چلو“ راحیل اس کی غم سے نڈھال حالت دیکھنے کے باوجود نہایت ہی لاپرواہی سے اسے دیکھ گویا ہوا۔۔۔۔
” اندر کیوں؟؟“وہ فورا پوچھنے لگی
” سب سے یہ کہنے کے ہم دونوں نکاح کرنا چاہتے ہیں اور یہ ہم دونوں کی خواہش ہے ۔۔۔کے ہمارا جلد سے جلد نکاح کروایا جائے“ راحیل یہ کہہ کر ایک قدم آگے چلا ہی تھا۔۔” تم واقعی نکاح کرو گے مجھ سے؟؟؟“ ثانیہ واقف تھی کے راحیل ماہ نور سے محبت کرتا ہے ۔۔۔ اس سبب سے پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔۔۔ ساتھ ساتھ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی راحیل ہے جو پہلے کبھی بہت نرم دل اور نیک شخص ہوا کرتا تھا۔۔۔
”جی بلکل۔۔۔۔ کوئی شک ۔۔۔میرا بس چلے تو میں آج ہی کرلوں۔۔۔“ اس کے لبوں پر نہایت پرسرار مسکراہٹ بکھر آئی تھی۔۔۔
”مجھے یقین نہیں آتا کہ تم میرے دوست راحیل ہو“ وہ بے یقینی سی کیفیت میں اسے دیکھتے ہوئے گویا ہوئی۔۔۔ اسے ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کہ راحیل اس کی مجبوری کا اس طرح فائدہ اٹھا رہا ہے۔۔۔”تو مت کرٶ“ وہ مسکراتے ہوئے کہتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔۔۔۔
راحیل ثانیہ کا نکاح جمعہ کے دن سب گھر والے کی موجودگی میں منعقد ہوا۔۔ راحیل نے اپنے وعدے کے مطابق ثانیہ کے والد کو رہا کروادیا۔۔۔ لیکن وہ انہیں ملنے تک نہیں جا سکتی تھی۔۔
ھر لڑکی کے بڑے ارمان ھوتے ھیں شادی کی پھلی رات کے۔۔۔پر اس کی آنکھوں میں سواے غم و غصے کے کچھ نه تھا۔۔۔وه مارے غصے کے راحیل کے کمرے میں دولھن بن کر آتے ھی اپنا بال پینوں سے سیٹ ھوا دوپٹا بیڈ پر غصے سے پھینک دیتی ھے۔۔۔خود کو بھت بےبس محسوس کررھی تھی وه ۔۔۔راحیل کمرے میں آتا ھے تو اسے روتا ھوا دیکھ اپنی شیروانی اتار کر بیڈ پر رکھ دیتا ھے ۔۔۔”کب تک ماتم کا اراده ھے؟؟؟“وه ثانیه کو روتا دیکھ جھنجھلاکر پوچھنے لگا ۔۔۔۔
”پلیز راحیل مجھے میرے ڈیڈ سے ملوادو۔۔۔۔۔صرف ایک بار ۔۔۔ میں پھر کبھی تم سے نھیں کھوں گی ۔۔پلیز“وه راحیل کے پاس تیزی سے چلتی ھوی آئی ۔۔۔اور منتی انداز میں گویا ھوئی۔۔۔۔
”یار ۔۔۔اس منحوس کا ذکر آج رات کرنا ضروری ہے کیا؟؟؟“راحیل نے ثانیہ کی آنکھوں سے بھتے ہوےؔ آنسوں اپنے ہاتھ سے صاف کرتے ہوےؔ منہ بسور کہا۔۔۔ثانیه اپنے والد کے لیےؔ توھین آمیز لفظ سن غصے سے تلملا اٹھی ۔۔۔۔
(منحوس) کا لفظ سن ثانیہ خاموش نہ رھ سکی ۔۔۔راحیل کا ہاتھ بڑی بےرخی سے اپنے چہرے سے ھٹاکر غصے سے بولی:”تم بڑوں کی عزت کرنا بھول گے ہو کیا؟؟؟۔۔۔۔۔میں مانتی ہوں ان سے غلطی ہوئی پر ۔۔۔۔“ثانیہ کا جملا ابھی مکمل بھی نہ ہوا تھا کے راحیل تیزی سے بولا”بڑے؟؟؟۔۔۔کون سے بڑے؟؟؟؟۔۔۔۔ہمارے معاشرے میں بڑا صرف پیسے والا ہوتا ہے ۔۔۔اور پیسہ آج میرے پاس ہے۔۔۔تمھارے باپ کے پاس نہیں۔۔۔فلحال میں اپنا مونڈ خراب نہیں کرنا چاھتا خاص طور پر آج کی رات ۔۔ھمم۔۔۔“راحیل اپنی آنکھوں میں رومانس لیے ثانیہ کے قریب آکر اس کے خوبصورت گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹوں پر اپنی انگلی پھیرتے ہوےؔ گویا ہوا۔۔۔۔۔
راحیل کی رومانس بھری نظریں ثانیه کو خوفزده کررہی تھیں ۔۔وه اس کا ہاتھ بےرخی سے جھٹکتے ہوےؔ:”شرط صرف نکاح کی تھی ۔۔۔۔اور میرے والدین سے نہ ملنے کی۔۔۔۔۔میاں بیوی کا رشتہ نیبھانے والی کوئی بات نہیں ہوئی تھی ہمارے درمیان ۔۔۔۔تم بھی جانتے ہو۔۔۔ تم نے میری مجبوری کا فائده اٹھایا ہے ۔۔اس لیے پلیز خامخواه کا ناٹک مت کرو میرا شوہر بننے کا ۔۔۔“وه ایک قدم اس سے دور ھٹ غصے سے بولی۔۔۔۔
”تم بچی ہو ؟؟؟۔۔۔جو تمھیں بتانا پڑتا کے نکاح کے بعد کیا ہوگا ۔۔۔پاگلوں والی باتیں بند کرٶ ۔۔بیوی ہو تم میری ۔۔۔میرا قانونا اور شرعا پورا حق ہے تم پر ۔۔۔۔اور یہ حق مجھ سے تم بھی نہیں چھین سکتیں۔۔۔“کہتے ہی اس نے ثانیه کو اپنی باھوں میں جکڑ لیا تھا ۔۔۔۔۔وه اس کے نزدیک آنے کی کوشش کررہا تھا ۔۔۔ثانیه کو ذرا سہ بھی یقین نہیں آرہا تھا کے راحیل اس کے ساتھ زبردستی کررہا ہے ۔۔۔
”تم زبردستی کررہے ہو میرے ساتھ “وه رونے لگی ۔۔۔اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے موتی بھنا شروع ہوگے تھے ۔۔۔وه تو ویسے بھی بہت پیاری و نازک سی گڑیا تھی روتے ہوےؔ تو اس کی سرمائی آنکھیں قیامت ڈاھ رہی تھیں ۔۔۔راحیل چاھ کر بھی اسے مزید تنگ نہ کرسکا ۔۔۔۔وه پھر سے خودی سینے سے لگ گیؔ تھی ۔۔۔
”ایک تو سمجھ نہیں آتا یہ میرے ہی سینے سے لگ کر کیوں رونے لگتی ہے “راحیل دل ہی دل کڑا تھا اس کی معصومیت دیکھ ۔۔۔۔۔وه اتنی زور زور سے رونے لگی کے راحیل کو خوف لاحق ہوگیا کے باہر موجود گھر والے اس کے رونے کی آواز نہ سن لیں۔۔۔۔۔
”اچھا بابا ۔۔۔۔چپ ہو میں تو صرف تنگ کررہا تھا تمھیں ۔۔۔۔جب تک تمھاری مرضی شامل نہیں ہوگی ہاتھ بھی نہیں لگواٶ گا تمھیں ۔۔۔“راحیل نے اسے اپنی باھوں میں جکڑے ہوےؔ ہی نہایت پیار سے کہا تاکے وه خاموش ہوجاےؔ ۔۔۔۔۔
”نہیں تم جھوٹ بول رہے ہو ۔۔۔۔تم زبردستی کرٶ گے میرے ساتھ “وه روتے ہوےؔ اس کے سینے سے منہ ھٹاکر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوےؔ کہنے لگی۔۔۔۔وه تو پہلے ہی پیاری لگتی تھی پر نکاح کے بعد کچھ زیاده ہی پیاری لگ رہی تھی راحیل کی آنکھوں کو ۔۔۔۔نہ جانے کیوں اس کا روتے ہوےؔ یه کہنا سو سو جان فدا کرگیا تھا راحیل کو ۔۔۔
”کہا ناں ۔۔نہیں کروں گا تو نہیں کروں گا۔۔اب کیا لکھ کر دوں ؟؟“وه جھنجھلاتے ہوےؔ کہنے لگا ۔
”اچھا جاٶ کپڑے بدلو ۔۔۔اور منه ہاتھ دھو لو ۔۔۔میک اپ کا نقشه تو تمھارا پہلے ہی کافی خوف صورت ۔۔شکل اختیار کرگیا ہے۔۔۔“اس نے (خوف صورت) کا لفظ کافی جتاتے ہوےؔ کہا تاکے اسے احساس ہو کے اس کی آنکھوں سے بھتا کاجل اور ہونٹوں پر لگی لپ۔اسٹک رونے کے سبب جو منہ پر پھیل گیؔ ہے وه کوئی عجیب ہی منظر پیش کررہی ہے۔۔۔۔ثانیہ بس اسے بےیقینی سی نگاہوں سے تکتی رہی تو وه اسے چھوڑ کر بیڈ پر لیٹ کر :”ایسے کیوں دیکھ رہی ہو ؟؟؟۔۔۔جاٶ چینج کرٶ“وه نرمی سے کہنے لگا ۔۔۔
******------*****
” دادو آب گھر چلیں۔۔۔ مجھ سے ماہنور کی حالت نہیں دیکھی جاتی امی اچھا رویہ نہیں رکھتیں مانو کے ساتھ۔۔۔ انھوں نے شاہ کا کمرہ بھی لاک کر دیا ہے“ شہزاد کرسی پر بیٹھتے ہوئے بتا رہا تھا۔۔۔
” آپ کچھ کر کیوں نہیں رہی ہیں۔۔میں آپ سے دو تین بار یہ بات کہہ چکا ہوں... پھر آپ ڈیڈ سے بات کیوں نہیں کر رہیں؟؟؟۔۔۔۔ میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں کیونکے وہ میری ماں ھیں ۔۔۔پر غلط تو غلط ہی ہوتا ہے وہ اچھا نہیں کر رہی مانو کے ساتھ۔۔۔ اوپر سے مجھے شاہ کی سمجھ نہیں آتی ویسے تو محبت میں شارق کو اٹھا لیا عین برات والےدن اور اب ایک بار بھی مانو کا حال تک نہیں پوچھتا۔۔۔۔ ویسے تو کبھی کسی کی نہیں سنتا تھا ۔۔۔۔ جو بھی کہتے رہو کرتا وہی تھاجو اس کا دل کرۓ۔۔۔۔پھر اس بار کیوں اتنا فرماں بردار بن رہا ہے میرا۔۔۔۔ مانا میں نے ہی کہا تھا کہ نام تک نہ لینا مانو کا۔۔پر یہ تھوڑی کہا تھا کہ وہ ماہنور کو بھول ہی جائے ۔۔۔شاہ کا مانو سے یوں لاپرواہ ہو جانا امی کو یقین دلاتا ہے کہ وہ نکاح ختم کر دے گا۔۔۔۔۔ تبھی تو خالا سے وعدے کر رہی ہیں سعدیہ کو اپنی بہو بنانے کے۔۔۔۔ آپ کو پتہ ہے ماہنور کے سامنے سعدیہ کو بہو بلاتی ہیں اپنی ۔۔۔ مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا ۔۔۔ آپ پلیز گھر چلیں“ شہزاد نے دادو کو دیکھ نہایت روہانسا آواز میں کہا وہ بہت پریشان معلوم ہو رہا تھا ماہ نور کے لیے۔۔۔
” کیا بولوں ۔۔۔۔میں تو پہلے سے ان سب کا اندازہ لگا چکی تھی ۔۔۔شاہنزیب کو بچپن سے ماہ نور کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ایک جذباتی لگاؤ تھا جسے وہ محبت کا نام دے رہا تھا ۔۔۔پر اب ماہ نور سے دور رہنے کے سبب وہ لگاؤ ختم ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔ اس نے اب صحیح معنوں میں دنیا دیکھی ہے کون سی محبت؟؟؟۔۔۔ کہاں کی محبت؟؟؟۔۔۔ یہ کہے گا واپس آ کر۔۔۔ کہے گا میرا بچپنہ تھا وہ سب ۔۔مجھے کوئی ماہنور سے محبت نہیں ۔۔۔“ دادو نے اپنے دل پر پتھر رکھتے ہوۓ کہا بڑے سخت لہجے میں ۔۔۔۔
” ایسا نہ بولیں خدارا ۔۔۔مانو ٹوٹ گئی ہے وہ پہلے جیسی بالکل نہیں رہی ۔۔“ شہزاد دعاگو تھا کہ ایسا کبھی نہ ہو
” دل مضبوط رکھو شہزاد ۔۔۔اگر ہم کمزور پڑ گئے تو مانو کو کون سنبھالے گا ۔۔۔جو ہونا ہے وہ تو ہو کر رہے گا۔۔۔ رہی بات کمرے کی تو اچھا ہی کر رہی ہے تمہاری ماں۔۔۔۔ ماہنور کا دماغ بنا رہی ہے اور یہی بہتر ہے “ دادو نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے شہزاد کو دیکھ کہا۔۔۔۔۔
” یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ شاہ واپس آنے کے بعد ماہنور کو اپنالے۔۔۔۔ ہم سب صرف یھی کیوں سوچ رہے ہیں کہ وہ واپس آکر مانو کو چھوڑ دے گا“ وہ احتجاج کرتے ہوئے گویا ہوا
” کیونکہ ایسا ہی ہو گا “دادو نے اپنی لائن پر خاصا جماٶ دیا تھا۔۔۔۔
” چلیں فرض کریں کہ وہ آیا اور اس نے کہا کہ اسے رخصتی چاہیے ۔۔۔۔تو ہم کیا کریں گے ؟؟؟۔۔۔کیونکہ ہم نے تو اس سے کہا تھا کے آخری فیصلہ ماہ نور کرے گی۔۔ اور اگر ماہ نور پہلے سے ہی اس رشتے سے جلی بیٹھی ہوگی ۔۔۔جو مجھے نظر آرہا ہے کہ ہوگا ۔۔۔۔تو وہ سب جاننے کے بعد شاہ کی محبت کو اپنائے گی؟؟؟۔۔۔۔ میرا بھائی ٹوٹ جائے گا اگر وہ واپس آنے کے بعد بھی محبت کرتا ہے ماہنور سے ۔۔۔تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ جذباتی لگاؤ نہیں رکھتا تھا وہ واقعی محبت کرتا تھا ۔۔۔۔اگر مانو سچ جاننے کے بعد اسے نہ اپناۓ تو۔۔۔۔۔ میری کچھ سمجھ نہیں آتا ۔۔۔۔“ شہزاد اپنا سر پکڑتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔۔۔” میرے لیے تو دونوں ہی بہت عزیز ہیں۔۔۔ مجھے دونوں کی فکر ہے۔۔ یہ سب جو ہو رہا ہے اس کی وجہ سے مانو شاہ سے دور ہو رہی ہے۔۔۔
اگر واپس آنے کے بعد شاہ نہ مانا تو ماہنور ٹوٹ جائے گی اور اگر شاہ تیار ہوا اور سچائی سننے کے بعد ماہنور نہ مانی تو میرا چھوٹا بھائی ٹوٹ جائے گا دونوں طرف سے تکلیف تو مجھے ہی ہوگی“ شہزاد کی آنکھوں میں نمی آ گئی تھی وہ بہت پریشان تھا دونوں کو ہی لے کر۔۔۔۔
*******----------********
رات کو راحیل کام کرتے کرتے ہی سو گیا تھا اس لٸے جب صبح دیر سے اٹھا تو ثانیہ اسے فائلوں کے پاس کھڑی ہوئی نظر آئی۔۔۔۔ اس کی آنکھوں کی حیرت راحیل نے پڑھ لی تھی۔۔۔” تو R.L کمپنی تمہاری ہے“ وہ پھٹی پھٹی نظروں سے راحیل کو دیکھ استفسار کرنے لگی۔۔۔۔
”اف۔۔۔۔ تو تمہیں پتہ چل گیا۔۔۔ ہاں یہ کمپنی میری ہے“ وہ لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہا تھا
” تو تم نے ہمیں پھنسایا وہ بھی آپ جان کر ۔۔۔ تم ہی وہ R.L کمپنی کے مالک ہو ۔۔۔جس نے ڈیڈ پر کیس کر رکھا ہے ۔۔۔کتنے ظالم ہو تم ۔۔۔ تم اتنے گھٹیا نکلو گے میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔۔۔“ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔۔۔ وہ شکوے بھری نگاہ سے راحیل کو دیکھ بولی۔۔۔۔۔۔” میں یہ تو جانتی تھی کہ تم مجھ سے بدلہ لے رہے ہو جو کچھ مامی کے ساتھ ہوا اس کی وجہ سے۔۔۔۔ تم مجبوری کا فائدہ اٹھا رہے ہو میری اور میرے والد کی ۔۔۔پر میں یہ نہیں جانتی تھی کے تم اس قدر گر جاٶ گے ۔۔۔بدلے کی آگ تمہارے اندر سے انسانیت ہی ختم کر دے گی۔۔۔۔۔“ ثانیہ رنجیدہ ہو کر راحیل کو دیکھ بولی۔۔۔۔ ثانیہ پر آج انکشاف ہوا تھا کہ اس کے باپ کی بربادی کے پیچھے راحیل ہی تھا۔۔۔۔
”ہوگیا ؟؟؟۔۔۔۔ اب جاؤ۔۔۔ جا کر میرے لئے ناشتہ تیار کرو“اس نے ثانیہ کی بات کو ان سنی کرتے ہوئے ناشتہ تیار کرنے کا حکم صادر کیا ۔۔۔ پر ثانیہ ایک قدم بھی نہ ہٹی اپنی جگہ سے ۔۔۔بلکے غصے سے اس کی جانب دیکھنے لگی ” تو تم تھے وہ۔۔۔۔جس نے ہمارا سب چھین لیا۔۔۔ تم تھے جو پاکستان میں بھی ڈیڈ کو جھوٹے مقدمے میں پھنسا رہے تھے ۔۔۔۔میں پاگل تمہاری مدد لینے آٸی۔۔۔ جبکہ تم نے ہی تو سب کچھ کیا تھا۔۔۔۔...“ وہ روتے روتے جذباتی ہوکر بولنے لگی تھی۔۔۔
” ہاں ۔۔۔میں نے کیا ۔۔۔ اور ہاں ابھی تم پوری طرح برباد نہیں ہوٸی ہو۔۔۔ ابھی ایک مقدمہ جیتنا باقی ہے ۔۔۔تمہارے باپ نے مقدمہ کیا ہے مجھ پر دھوکہ دہی کا کہ میں نے اس کے شیئرز خریدے اور اس کے بندوں کو بھی۔۔۔ اگر وہ یہ مقدمہ جیت گیا تو تمہارے باپ کی ساری جائیداد مجھے واپس دینی پڑے گی اور وہ ہار گیا تو اس مقدمے کے لیے اس نے جو اپنا بچا کچا لگا دیا ہے وہ بھی ھار جاۓ گا۔۔۔۔۔ سڑک پر آجائے گا تمہارا باپ “یہ کہ کر راحیل مسکرانے لگا۔۔۔۔۔
” تم سے شدید نفرت ہو رہی ہے مجھے آج اور اس سے بھی زیادہ خود سے۔۔۔۔کے تمہیں کبھی اپنا دوست سمجھا“ یہ کہہ کر وہ غصے سے جانے لگی تو راحیل پیچھے سے ” دعا کرو گی میرے لئے؟؟؟۔۔۔ کیونکے کہتے ہیں انسان جس کا کھاتا ہے اسی کا گاتا ہے اور تم تو میرا کھاتی ہو۔۔۔۔ بولو“ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر سوالیہ نظروں سے پوچھنے لگا
”یہ بڑی بھول ہے تمہاری۔۔۔ میں اپنے نصیب کا کھاتی ہوں تمہارا نہیں۔۔۔۔“ وہ جتاتے ہوئے گویا ہوئی۔۔۔۔
” پر ذریعہ تو میں ہی بنتا ہو ناں۔۔۔۔تو دعا کرو گی میرے لیے؟؟؟؟“ وہ ابرو اچکاۓ سوال کرنے لگا۔۔۔
” ہاں ضرور کروں گی ۔۔۔۔ پتہ ہے کیا ؟؟؟۔۔۔خدا کرے تم برباد ہو جاؤ“ اس نے قریب آکر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑی کدورت بھری نظروں سے اس کے وجود کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
” میں آباد ہوں ہی کب ۔۔۔۔جو برباد ہو سکوں“ ثانیہ تو کہہ کر چلی گئی پر اس کے الفاظ دل کو لگے تھے وہ خود سے ہی کہہ کر اپنا دل ہلکا کر رہا تھا۔۔۔
*******--------------********
ایک ھفته گزر چکا تھا نکاح کو ۔۔۔وه سامنے صوفے پر بیٹھی ھاتھوں پر لوشن لگارھی تھی ۔۔۔راحیل کام سے فارغ ھوکر لیپ ٹاٸپ بیڈ کے ساٸیڈ ٹیبل پر رکھتے ھوےؔ ثانیه کو دیکھ دوکھی ھونے لگتا ھے ۔۔۔اسے شدید رنج و غم اس لمحے گہیر لیتا ھے ۔۔۔”یه کیا کررھا ھوں میں۔۔۔۔اپنے بدلے کے چکر میں ۔۔میں نے ماهنور کو ھمیشه کے لیےؔ کھو دیا۔۔۔جب شاهنزیب آکر اسے طلاق دے گا تو میں چاھ کر بھی اس کا ھاتھ نھیں تھام سکوں گا۔۔۔۔یه کیا کردیا تم نے راحیل ؟؟؟؟“وه خودی کو ملامت کررھا تھا ۔۔۔بھت پچھتا رھا تھا ثانیه سے نکاح کر کے ۔۔۔وه دل سے ابھی بھی ثانیه کو صرف اچھی دوست ھی مانتا تھا۔۔۔۔”کیا ھوا ؟؟؟۔۔۔کھاں جارھے ھو اتنی رات میں؟؟“راحیل اٹھ کر باھر کی جانب جانے لگا تو ثانیه نے ٹوکتے ھوےؔ تجسس سے استفسار کیا۔۔۔
”کیوں تمھیں فکر ھورھی ھے میری؟؟؟؟“وه ابرو اچکاےؔ اسے دیکھ پوچھنے لگا ۔۔۔
”مجھے کیوں فکر ھونے لگی تمھاری۔۔۔میری طرف سے بھاڑ میں جاٶ“وه نفرت بھرے لھجے سے گویا ھوی۔۔۔جیسے سن راحیل زیر لب مسکرا دیا۔۔۔
”اگر میں بھاڑ میں جاٶں گا تو تمھیں ساتھ ھی لے کر جاٶں گا ۔۔یه سمجھ لو ثانیه بیگم“راحیل اس کی بات سن اسے تنگ کرنے کی نیت سے اس کی جانب چلتا ھوا آیا ۔۔ثانیه اسے اپنی جانب آتا دیکھ تھوک منه میں نیگلنے لگی ۔۔۔وه ثانیه کے چھرے پر جھکتے ھوےؔ بڑی شوخ نگاھوں سے گویا ھوا تھا ۔۔۔وه راحیل کی نزدیکی سے گھبرا کر تیزی سے سر پیچھے لینے لگی۔۔۔وه راحیل کی شوخ نگاھوں کے خوف سے پیچھے دیوار کو بھول ھی گیؔ تھی ۔۔۔اس کا سر زور سے پھوٹنے ھی والا تھا کے راحیل نے اس کے سر کو دیوار سے لگنے سے بچانے کے لیےؔ فورا دیوار پر اپنے ھاتھ کی ہتھیلی رکھ لی ۔۔۔جس سے اس کا سر پھوٹنے سے بچ گیا ۔۔۔۔۔اس کا سر راحیل کے ھاتھ سے ٹکرایا تھا ۔۔۔”دیکھ کر یار“اس کے منه سے بےساخته نیکلا تھا ۔۔راحیل کو آج بھی اپنی اتنی فکر کرتا دیکھ ثانیه چونکی تھی ۔۔۔۔”ھمم“اس نے آھستگی سے کھا ۔۔۔۔
”یار ۔۔۔ایک ھفته ھوچکا ھے ھمارے نکاح کو۔۔۔۔۔۔ تو ۔۔۔تمھیں نھیں لگتا مجھے میرا حق ملنا چاھیےؔ“وه ثانیه سے بلکل لگ کر ھی بیٹھ گیا تھا صوفے پر ۔۔۔اس کے بیٹھتے ھی وه فورا کھڑی ھوگیؔ۔۔۔تو راحیل نے دوستانه انداز میں اس کا ھاتھ پکڑ بڑے پیار سے کھا ۔۔۔۔”ٹھیک کھا تم نے ۔۔۔تمھارا حق ھے مجھ پر۔۔۔۔“وه رنجیده ھوکر کھنے لگی ۔۔۔اور اس کے برابر میں بت بن کر ددوبارا بیٹھ گیؔ۔۔۔۔۔۔۔”لو اپنا حق ۔۔۔۔کس بات کا انتظار ھے ؟؟؟“راحیل اس کے چھرے کو حیرت سے تک رھا تھا ۔۔۔وه صرف ثانیه کو تنگ کرنے کی نیت سے بول رھا تھا ۔۔۔لیکن پھر بھی اس کا یوں بت بن کر برابر میں بےجان گڑیا کی مانند بیٹھ جانا ۔۔۔راحیل کا دل تڑپا گیا تھا ۔۔۔۔ثانیه نے جب آنکھوں میں جھانکتے ھوےؔ انتظار کا سبب پوچھا تو کوٸی جواب ھی نه تھا اس کے پاس ۔۔۔۔”کیا؟؟؟۔۔۔ایسے کیوں دیکھ رھے ھو؟؟؟۔۔۔۔اگر چاھتے ھو تمھارے لیےؔ سج سور کر آٶں تو بھول جاٶ۔۔۔تمھارے لیےؔ تیار ھوتی ھے میری جوتی“وه غصے سے دانت پیستے ھوےؔ راحیل کو دیکھ بولی۔۔۔”اپنا حق لو اور دفاع ھو“وه شعلا بار نگاھوں سے راحیل کو نفرت سے دیکھتے ھوےؔ بولی۔۔۔۔
پھلے تو راحیل خاموشی سے اس کا چھره دیکھتا رھا ۔۔۔اس کی آنکھوں کی کدورت پڑھتا رھا ۔۔اس کا آخری جملا اسے طیش دلا گیا تھا۔۔۔۔لیکن اپنے چھرے پر اس نے کوٸی تاثر ظاھر نه ھونے دیا ۔۔۔بس اسے دیکھ گہری مسکان لبوں پر سجاےؔ ”ٹھیک ھے ۔۔۔یاد رکھنا زبردستی نھیں کی میں نے تمھارے ساتھ ۔۔۔تم راضی تھیں بلکے باربار آفر دے رھی تھیں مجھے ۔۔۔۔پھر میں تو مرد ھوں ۔۔تمھاری آفر چھوڑ دوں اتنا بھی الو کا پٹھا نھیں۔۔۔۔چلیں بیگم صاحبه بیڈ آپ کا انتظار کر رھا ھے “اس کے کھتے ھی ثانیه کی آنکھوں میں آنسوں بھر آےؔ۔۔۔۔۔”او ۔۔۔۔میم۔۔۔پلیز ۔۔۔پھر سے سینے سے لگ کر رونا شروع مت کردینا “وه فورا ھی اس کے آنسوں صاف کرتے ھوےؔ بولا ۔۔۔اور مسکرایا ۔۔۔ثانیه نے اپنے دل میں جو راحیل کے لیےؔ محبت تھی وه دل کے کسی کونے میں دفنا دی تھی ۔۔۔۔۔لیکن جب بھی ذرا سی بھی تکلیف میں مبتلا ھوتی ناجانے کیوں وھی ستمگر سب سے پھلے یاد آتا۔۔۔۔۔شاید محبت کو فناء ھے ھی نھیں جب تک عاشق زنده ھے ۔۔۔۔وه ایک لمحه ضاٸع کیےؔ بغیر سینے سے خودی لگ گیؔ۔۔۔۔راحیل اب تو واقف ھوچکا تھا کے یه اس کا ھتیار ھے اپنی ھر بات اس سے منوانے کا ۔۔۔۔ایک پرسرار مسکراھٹ راحیل کے لبوں پر دوڑ گیؔ۔۔۔۔۔”سوری یار ۔۔۔اس اقبال کے سبب میں تمھیں اتنا رولا رھا ھوں ۔۔۔مانو ٹھیک کھ رھی تھی میں بھی تو اقبال والی گھٹیا حرکت ھی دہرا رھا ھوں ۔۔۔۔۔۔تمھیں اقبال کی بیٹی ھونے کے سبب میرا تکلیف دینا ناانصافی ھے ۔۔۔۔غلطی اس نے کی ھے تو سزا بھی وھی بھوکتے گا۔۔۔تم نھیں ۔۔۔۔میری ماں کی آخری خواھش ھو تم ۔۔۔۔بڑے ارمان تھے ان کے تمھیں لے کر ۔۔۔۔اگر آج وه ھوتیں تو مجھے یقین ھے تمھاری سپوٹر بن کر مجھ سے ھر وقت لڑتیں۔۔۔۔۔چلو ۔۔۔کوٸی نھیں۔۔۔۔ابھی تو زندگی شروع ھوٸی ھے ۔۔میں تمھیں ویسا ھی رکھوں گا جیسا میری ماں کا ارمان تھا تمھیں رکھنے کا۔۔۔۔۔۔“راحیل اپنے دل میں سوچ مسکراتے ھوےؔ اس کی کمر سھلانے لگا۔۔۔۔۔۔وه ابھی بھی رو رھی تھی ۔۔۔۔۔”یار یه اچھا طریقه ھے تمھارا ۔۔۔۔مجھی سے لڑتی ھو ۔۔۔۔مجھے بددعاٸیں دیتی ھو اور آخر میں میرے ھی سینے سے لگ کر روتی ھو۔۔اچھا چپ تو ھو ۔۔۔میم ۔۔۔۔“اس نے کھتے ھوےؔ اسے اپنے سینے سے ھٹایا اور مسکراتے ھوےؔ اس کی پیشانی چومنے لگا ۔ ۔۔۔۔”چلو ۔۔۔آٸس کریم کھاکر آتے ھیں۔۔۔تمھارا مونڈ بھی اچھا ھوجاےؔ گا ۔۔۔۔“آٸس کریم ثانیه کی کمزوری تھی اسی بات کا فاٸده اٹھارھا تھا راحیل۔۔۔۔۔۔پھلے تو ثانیه نے ھلکا سه احتجاج کیا پر پھر اس کی بات مان آٸس کریم کھانے چلی گیؔ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راحیل ثانیه کو بھت خوش رکھنے لگا ۔۔۔۔اس نے صرف کچھ ھی دنوں میں ثانیه کو صوفے سے بیڈ تک کا سفر طے کرا دیا تھا ۔۔۔۔۔وه ثانیه کو نکاح کے دو ھفتوں بعد اپنے ساتھ ھی امریکه لے گیا ۔۔۔۔۔تاکے اس کے والدین سے دور اور اپنے قریب رکھ سکے۔۔۔
*****------*******
فون کی گھنٹی کب سے رنگ ہو رہی تھی ”او۔۔۔ نو ۔۔اس گھر میں تو سارے کام مجھے ہی کرنے پڑتے ہیں “چاچی جان نے کہتے ہوئے فون اٹھایا تھا ۔۔”ماہ نور۔۔۔ ماہ نور “انہوں نے آواز لگائی تھی ۔۔۔”جی چاچی جان“ وہ کہتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی تھی۔۔۔” باہر کیا کررھی تھیں اتنی دھوپ میں؟؟“ چاچی جان نے اس سے پوچھا تھا
”وہ میں نے کامران بھائی سے کہ کر جھولا باہر رکھوا دیا ہے بس اسی پر بیٹھی ہوئی تھی "۔۔۔ماہنور نے جواب دیا ۔۔۔
”اچھا یہ سب چھوڑو۔۔۔۔ تمہارے لئے کسی لڑکے کا فون آیا ہے“ انہوں نے منہ بسور ماہ نور کو فون پکڑاتے ہوئے کہا
”لڑکے کا “وہ حیران تھی یہ سن کر ۔۔۔
”کہہ رہا ہے ۔۔۔تمہارا دوست ہے“ چاچی کے چہرے کے زاویے بتا رہے تھے کے انھیں اچھا نہیں لگا ہے ماہنور کے لیٸے کسی لڑکے کا فون آنا۔۔۔۔
” ہیلو ہیلو ہیلو“ آج پھر خاموشی تھی جواب میں۔۔۔۔ماہنور کا دل کہہ رہا تھا کہ یہ شاہنزیب ہے ۔۔۔”ہیلو“ وہ بولتی رہی پر فون کٹ گیا۔۔۔۔پھر فون رنگ ہوا ۔۔۔اس نے پھر اٹھایا پر اس بار بھی صرف خاموشی ہی خاموشی چھائی رھی دوسری طرف ۔۔۔پھر فون وھیں سے کٹ گیا۔۔۔۔
ستارہ وہاں آکر ماہنور کے پاس کھڑی ہو گئی۔۔” کس کا فون آرہا ہے ؟؟؟؟“ ستارہ نے پوچھا تو ماہنور پہلے تو تھوڑی دیر خاموش رہی۔۔“S.M کا“ستارہ کو شاہنزیب کا نام کافی مشکل لگتا تھا اس لیے وہ صرف” S .M“ بولتی تھی۔۔۔ ماہنور نے بولا تو وہ خوش ہو گئی ”کیا واقعی S.M آپ کو فون کرنے لگے ہیں اور آپ نے مجھے بتایا بھی نہیں “وہ شکوے کرنے لگی تھی ۔۔۔
” پکا نہیں کہہ سکتی پر دل کہتا ہے کہ شاہ کا ہے ۔۔۔۔پر اگر اس کا ہے تو کچھ بولتا کیوں نہیں؟؟؟؟“ وہ الجھی ہوئی تھی اسی سوال میں۔۔۔
” وہ خاموش رہتے ہیں کچھ بولتے نہیں؟؟؟“ اس نے حیران ہو کر پوچھا تو ماہ نور نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔
” کہیں وہ بھی آپ کے ساتھ ویسا تو نہیں کرنے کی سوچ رہے جیسا میرے چچازاد بہن کے میاں نے کیا ہے“ اس نے کہا تو ماہنور اسے الجھی نگاہوں سے دیکھنے لگی ”کیا۔۔ کیا ہے؟؟؟“ وہ بے ساختہ پوچھنے لگی تھی۔۔۔
”ارے میری بھن اپنے میاں سے لڑ کر آئی اپنے میکے ۔۔۔پھر پھلے تو کچھ دن تک اس کے میاں کا فون آتا رھا پر وه کچھ بولتا ھی نھیں تھا۔۔۔۔پھر ایک دن اس نے فون پر ھی تین طلاق دے ڈالیں ۔۔۔۔سب کھتے ھیں کے لڑکا اپنی ماں بھن کے کھنے میں تھا ۔۔بیوی سے پیار کرتا تھا پر ان کے بھڑکانے پر اس کو یوں فون پر ھی طلاق دے کر چھوڑ دیا ۔۔۔۔“اس نے قصه سنایا تو ماهنور نے منه پر ھاتھ رکھ لیا۔۔۔۔
”کیا فون پر طلاق ھوجاتی ھے؟؟؟“ماهنور نے پوچھا تھا ۔۔۔
”ھاں جی ۔۔۔ھوجاتی ھے“اس کا کھنا تھا کے فون دوبارا بجا اب تو ماهنور کی جان نیکل رھی تھی فون کی گھنٹی بجتی دیکھ ۔۔۔
”فون مت اٹھانا ۔۔۔بجنے دو“ستاره فون اٹھانے لگی تو ماهنور گھبرا کر بولی تھی ۔۔۔”کھیں شاهنزیب نے بھی تو مجھے طلاق دینے کے لیےؔ تو فون نھیں کیا؟؟؟؟۔۔۔۔پھلے تو تین سال تک فون نھیں کیا اب اچانک اس کا یوں فون آنا ۔۔۔ھاں ضرور وه بھی ایسا ھی کرنے والا ھے۔۔۔۔ نھیں ۔۔۔نھیں شاه میرے ساتھ ایسا نھیں کرے گا۔۔۔۔۔کیوں۔۔ کیوں نھیں کرے گا ۔۔۔اس نے صرف جذباتی ھوکر شادی کی تھی وه تھوڑی مجھ سے پیار کرتا ھے ۔۔۔ھوسکتا ھے کے وه ھمت جمع کررھا ھو۔۔۔۔اور ایک دن جب میں فون اٹھاٶں تو وه ھیلو کے جواب میں طلاق دے دے“وه اپنے دل میں سوچنے لگی۔۔۔ماهنور کو ستاره کی باتوں نے اتنا خوفزده کردیا تھا کے پھر فون بجتا رھا پر نه ماهنور نے خود اٹھایا نه اسے اٹھانے دیا
*******-----------**********
وقت ریت کی طرح مٹھی سے پھیسل رھا تھا ۔۔کل کا سورج بھت اھمیت کا حامل تھا کیونکے کل اس پردیسی کو لوٹ کر آنا تھا جس کے آنے سے پھلے ھی نه جانے کیوں سب یه فیصله کربیٹھے تھے کے وه آکر چھوڑ دے گا اسے۔۔۔پر دل نادان جانتا نھیں ھے دنیا کو ۔۔وه تو جانتا ھے بس اپنے محبوب کی نظروں کو ۔۔۔۔شاید کوٸی وعده تھا ان نظروں میں۔۔۔جو جانتے بوجھتے ھوۓ بھی یہ ماننے کو تیار نہ تھا کہ سب جو کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے ۔۔۔۔دل صحیح غلط کے فیصلے نہیں کیا کرتا یہ تو دماغ کا کام ہے ۔۔۔دل تو محبوب کی ایک جھلک کا منتظر ہوا کرتا ہے اور یہی حال ماہنور کا تھا ۔۔۔شہزاد نے شادی کا فیصلہ کیا تو سب بہت خوش ہوئے یہی وجہ تھی کہ وہ تین ماہ پہلے ہی واپس آ رہا تھا گھر میں شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں۔۔۔ سارے مہمان آ چکے تھے ۔۔۔اس کی آمد کے سب ہی منتظر تھے۔۔ ثانیہ راحیل ۔۔۔۔اسماء ولید ۔۔۔۔ رومیسا اور ان کے شوہر ۔۔۔۔ شاہزیہ آپا اور ان کے دونوں بیٹے سب آ چکے تھے رہنے اور سب ہی کل کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے سوائے شہزاد کے ۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں وہ بےصبری نظر نہ آتی تھی جو باقی سب کی آنکھوں میں تھی۔۔۔۔
کامران نے سعدیہ کو فون کیا تھا تو اس نے کہا کہ وہ ابھی نہیں آ سکتی ۔۔۔۔ہو سکتا ہے برات یا اس سے ایک دو دن پہلے آجاۓ۔۔۔ یہ سن کر کامران کو اور باقی سارے کزنوں کو بہت خوشی ملی تھی کہ سعدیہ نہیں آرہی پہلے سے
” خاندان کے سارے ہی لڑکے بہت خوبصورت ہیں پر سب سے زیادہ خوبصورت راحیل پاجی ہیں۔۔۔“ باتوں ہی باتوں میں جب خوبصورتی کا ذکر نکلا تو اسماء نے خوبصورتی کا تاج راحیل کے سر پر پہنایا تھا۔۔۔ اور سب اس کی بات سے متفق تھے۔۔۔۔
” نہیں۔۔۔اب نھیں ۔۔۔ میں ابھی شاہ سے مل لے کر آیا ہوں کچھ دنوں پہلے اور اب میری رائے مختلف ہے تم سب سے۔۔۔ اس خاندان کا سب سے حسین لڑکا شاہنزیب ہے ۔۔۔وہ ناک نقشے سے تو پہلے ہی مالا مال تھا پر اب اس کا جسم ورزشی ہو گیا ہے اتنی پیاری بوڈی بنائی ہے اس نے“ شہزاد نے شاہنزیب کی تعریف کی تو بھابھی ماہ نور کو کونی مارنے لگیں۔۔۔۔
” واہ۔۔۔۔مانو۔۔۔۔خاندان کا سب سے خوبصورت پیس تیرے نصیب میں آیا ہے“ اسما نے ماہ نور سے کہا تو سب ہسنے لگے۔۔۔۔
” جی نہیں ۔۔۔ ہماری ماہ نور خود بہت حسین ہے۔۔۔ اگر شاہ خاندان کا سب سے خوبصورت لڑکا ہے تو مانو سب سے حسین لڑکی ہے۔۔۔ مقابلہ برابری کا ہے“ثانیہ نے ماہنور کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔ماہنور بس خاموش کھڑی سب کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔ رات کے دو بج گئے تھے پر کسی کی آنکھوں میں نیند دور دور تک نہ تھی۔۔۔
” خوبصورت ہونے سے کیا ہوتا ہے؟؟؟۔۔۔ عمر بھی اہمیت رکھتی ہے اور یہ اس سے دو سال بڑی ہے“ چاچی جان یہ کہتے ہوئے آ کر نوجوانوں کی محفل میں بیٹھی تھیں۔۔۔ سب کو ان کی کہی بات نشتر کی طرح دل میں چبتی محسوس ہوٸی تھی ۔۔پر سب خاموش تھے ۔۔۔۔ماہنور ان کے آتے ہی وہاں سے اٹھ کر چل دی تھی ۔۔۔
”کل صبح وہ آجائے گا سارے فیصلے جو چار سال سے اس کے منتظر ہیں ہوجائیں گے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کا فیصلہ کس کے لئے خوشی لاتا ہے اور کسی کے حصے میں غم۔۔۔۔ آج رات کتنا بھی سونے کی کوشش کروں۔۔۔ جانتی ہوں نیند نہیں آئے گی ۔۔۔ان ساری الجھی باتوں میں بس ایک بات ہے تو بالکل سلجھی ہوئی ہے ۔۔۔وہ ہے کل اس کا دیدار ۔۔۔۔۔ وہ آئے گا تو نہ صرف آواز سننے کو ملے گی بلکہ خوش قسمتی سے دیدار بھی نصیب ہو گا ۔۔۔۔میں نہیں جانتی کہ میں اس خاندان کی سب سے خوبصورت لڑکی ہوں یا نہیں۔۔۔۔ پر اتنا جانتی ہوں اگر تمہاری نظروں کو نہ بھاٸی تو کتنی ہی حسین ہو جاؤں کوئی فائدہ نہ پاؤں گی۔۔۔۔ چاچی کہتی ہیں ناں۔۔۔ جسے سجن چاہے وہ سجنی ہوا کرتی ہے۔۔۔آجاٶ شاہنزیب یہ آنکھیں یہ کان ترس رھے ہیں تمھیں دیکھنے اور سننے کے لیے۔۔۔۔۔ دیکھتے ہیں کل کی صبح میرے لئے خوش قسمتی لاتی ہے یا زندگی بھر کا اندھیرا“ وہ اپنے کمرے میں کھڑکی سے لگی سوچ رہی تھی ۔۔۔چاند کی چاندنی چاروں اور پھیلی ہوئی تھی۔۔۔پر دل تھا کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔ اس دل کے اندھیروں کو دور کرنے والا کل واپس آ رہا ہے یہ سوچتے ھی اس کا پورا جسم جھرجھری لینے لگا تھا آنکھوں میں نمی تھی اور ساتھ ساتھ اس کا خوبصورت سراپا بھی۔۔۔۔۔۔
وقت آج پہلی مرتبہ ایسا لگ رہا تھا کہ گزر نہیں رہا ہر کوئی اس کی آمد کا منتظر بیٹھا تھا ۔۔۔چاچی جان اس کے آنے سے پہلے ہی حکم جاری کردیا تھا کے شاہنزیب پر کوئی زور زبردستی نہ کی جائے ماہ نور کے حوالے سے ۔۔۔۔ وہ جو فیصلہ خود کرے گا اسے سب منظور کریں گے ۔۔۔اگر اسے ماہ نور سے ملنا ہوگا تو وہ خود چلا جائے گا اس سے ملنے۔۔۔۔ انہوں نے یہ سب صرف یہ سوچ کر کہا تھا کے شاہنزیب خود سے تو کبھی بھی ملنا نھیں چاہیے گا ماہ نور سے۔۔۔۔ ماہ نور کام کچن میں کر رہی تھی پر دل کے کان دروازے پر لگے تھے
”ابھی تک کامران بھائی شاہ کو لے کر آئے کیوں نہیں؟؟؟“ اسماء دروازے کے سامنے کھڑے ہوکر بول رہی تھی۔۔۔
”بس S.M آنے والے ہیں میں خود سن کر آ رہی ہوں باہر سے“ ستارہ خوش ہوکر ماہنور کو اس کی آمد کی خبر دے رہی تھی۔۔۔
”وہ آگیا“ ماہنور کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا دل کی دھڑکنیں اچانک سے خود بہ خود بہت تیز ہوگئیں تھیں وہ سمجھ گئی۔۔۔ کہ وہ آگیا ہے۔۔۔
” آۓ نہیں ہیں۔۔۔ آنے والے ہیں “ستارہ نفی کرتے ہوئے گویا ہوئی۔۔۔
”نہیں ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔وہ آگیا ہے“ ماہ نور نے ستارہ کو دیکھتے ہوئے کھوۓ کھوۓ انداز میں بولا تھا۔۔۔۔۔
” مانو ۔۔۔۔۔۔شاہ آگیا“ بھابھی نے آکر سب سے پہلے ماہ نو کو بتایا تھا بڑے مسرت بھرے لہجے میں۔۔۔۔ستارا ماہنور کو حیرت سے دیکھنے لگی تھی یہ بات سنتے ہی ۔۔۔۔بھابھی تو بتا کر چلی گئیں تھیں۔۔۔
” آپ کو کیسے پتا چلا S.M کے آنے کا ؟؟؟“ وہ حقاء بقاء نگاہوں سے ماہنور کو دیکھ پوچھنے لگی۔۔۔
” ان دھڑکنوں کا عجیب رشتہ ہے اس سے۔۔۔۔۔جب وہ قریب آتا ہے خود بہ خود تیز ہو جاتیں ہیں ۔۔۔یہ دل کا رشتہ ہے ۔۔۔تم نہیں سمجھ سکتیں ۔۔۔“ وہ یہ کہہ کر باہر اس کی ایک جھلک دیکھنے دوپٹہ سر پر تمیز سے اڑے آئی تھی۔۔۔۔شاہنزیب کو سب گھر والے گھیر کر کھڑے تھے۔۔۔ پر چاچی جان ماہنور کو دیکھ غصے سے گھورنے لگیں تھیں۔۔۔ ماہنور نہیں چاہتی تھی کہ اس کے آتے ہی کوئی بحث ہو۔۔۔اس لٸے واپس کچن میں چلی گئی۔۔۔۔شاہنزیب اکیلا نہیں آیا تھا اس کے ساتھ ایک بڑی حسین لڑکی تھی۔۔۔۔ شاہنزیب نے جس کا تعارف اپنی دوست کہہ کر کروایا تھا۔۔۔
”بی بی ۔۔۔۔۔جی ۔۔۔۔۔S.M تو اپنے ساتھ کوئی گوری لے آئیں ہیں“ستارہ ماہنور کو آکر فکرمند لہجے میں بتانے لگی۔۔۔۔
”کیا؟؟؟“ ماہ نور حیرت سے
” ہاں میں جھوٹ نہیں بول رہی“ اس کے کہنے پر ماہنور فکر مند ھوگٸ تھی۔۔۔۔
” کون ہے وہ ؟؟؟۔۔۔۔کچھ بتایا شاہ نے“ ماہ نور بےتاب ہو کر پوچھنے لگی۔۔۔۔
” نام تو ۔۔۔۔اقصی ہے اس لڑکی کا۔۔۔۔ پر S.M کی کون ہے یہ میں نہیں جانتی“
” اچھا ۔۔۔۔دیکھنے میں کیسی ہے ؟؟؟“ ماہنور تجسس سے پوچھنے لگی۔۔۔۔
” بہت خوبصورت۔۔۔ پوری انگریز جیسی۔۔۔ کپڑے بھی ثانیہ بھابھی جیسے پہنی ہوئی ہے“
” اچھا ۔۔۔مجھ سےبھی زیادہ خوبصورت ؟؟؟“وہ مقابلہ حسن لگا رہی تھی۔۔۔۔
” نہیں بی بی جی۔۔۔۔ آپ کے مقابلے میں وہ کھڑی بھی نہیں ہو سکتی ۔۔۔۔ وہ تو اتنا میک۔اپ ۔۔۔۔ مغربی لباس اور کھلے ہوئے بالوں میں خوبصورت لگ رہی ہے اور آپ ۔۔۔۔تیل والی چوٹی اور سادگی کے حسن سے مالامال ہو ۔۔آپ تو مشرقی لباس میں بھی بہت خوبصورت لگتی ہو“ ستارہ نے اس کی تعریف کی تھی۔۔۔۔ جو سچ بھی تھی۔۔۔۔۔ پر دل ناداں کو تو شاہ کی تعریف کی ضرورت تھی۔۔۔۔
”یہ ہے ماہنور“رومیسا آپا ماہ نور کے کمرے میں ہی اقصی کو لے آئی تھیں انہوں نے دونوں کا ایک دوسرے سے تعارف کروایا تو دونوں ہی ایک دوسرے کو سر سے پاؤں تک بغور دیکھنے لگیں۔۔۔۔
”ھاۓ ماہنور“ اقصی نے کہتے ہوئے اس کی جانب مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا تھا ۔۔۔ماہنور نے ہاتھ ملایا تو کافی دیر تک اس کا معائنہ کرتی رہی ۔۔۔۔ماہنور کو اس کی نگاہوں میں حسرت محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔
”آپ شا۔۔۔شاہ۔۔۔۔شاہنزیب کی؟؟؟“ ماہ نور کی زبان کپکپا رہی تھی۔۔۔ وہ جھجک رھی تھی پوچھنے میں۔۔۔ بڑی ہمت کر کے اس نے آخر استفسار کر ہی لیا تھا۔۔۔۔
”حس وائف “ اقصی نے سنجیدگی سے جواب دیا تو ماہ نور سر سے پاؤں تک ھل گئی ۔۔۔کمرے میں ان دونوں کے علاوہ کوئی موجود نہ تھا۔۔۔ ماہنور نے فورا اس کا ہاتھ چھوڑا یہ سنتے ہی ۔۔۔ اسے اپنی کانوں کی سماعت پر یقین نہیں آرہا تھا ۔۔۔وہ اقصی کو پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھنے لگی ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے ماہنور کے سر پر بم پھوڑا ہو۔۔۔
ماہ نور نے فورا اقصی کا ہاتھ چھوڑا اور اسے پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھنے لگی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے سر پر بم پھاڑ دیا ہو۔۔۔۔ اس نے ماہ نور کو حقاء بقاء دیکھ ہسنا شروع کر دیا۔۔۔
”سوری ۔۔۔آئی ایم جسٹ جوکنگ ۔۔۔۔ میں صرف اس کی دوست ہوں۔۔نوتھیگ ایلس۔۔۔۔ اس لئے ڈونٹ وری“ اقصی مسکراتے ہوئے بولی
اگر وہ کچھ دیر اور خاموش رہتی تو شاید ماہ نور کی تو سانسیں تھم جاتیں یہ مزاق سن کر ۔۔۔اس کا روکا ہوا سانس بحال ہوا تھا۔۔۔”سوری۔۔۔ اگر میں شاہ کی دوست ہوں تو تمہاری بھی تو ہوٸی ناں؟؟؟۔۔۔“ اقصی نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو ماہنور اثبات میں سر ہلانے لگی۔۔۔
” بہت لکی ہوں تم “اس کے لفظوں میں بھی بہت حسرت تھی یہ الفاظ ادا کرتے ہوۓ۔۔۔۔
”اچھا ۔۔وہ کیسے؟؟؟“ وہ اقصی کی باتوں سے کچھ عجیب محسوس کر رہی تھی اس کی باتیں نہیں کہہ رہی تھی کہ وہ صرف شاہزیب کی دوست ہے بلکہ عاشقہ معلوم ہو رہی تھی۔۔۔
” کیونکہ تم شاہ کی بیوی ہو ۔۔۔مجھے لگتا ہے یہ وجہ کافی ہے تمہارے خوش قسمت ہونے کے لئے “وہ یہ کہتے ہوۓ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔” بہت چاہت تھی تمہیں دیکھنے کی“ وہ حسرت بھری نگاہوں سے ماہنور کو دیکھتے ہوئے کمرے سے چلی گئی
ماہنور کو اس کی باتیں اور نظریں الجھا گئیں تھیں۔۔۔
سب سے ملنے کے بعد شاہنزیب کی نگاہیں چاروں طرف چلنے لگیں” چلو شاہ اتنا لمبا سفر طے کر کے آئے ہو تھوڑا آرام کر لو“ یہ کہہ کر اسماء اسے اوپر لے جانے لگی تھی کہ پیچھے سے رومیسا نے اسماء کو کسی کام کے لئے بلایا تو شہزاد شاہنزیب کو کمرے کی جانب لے جانے لگا ماہ نور کے کمرے کے دروازے پر شاہنزیب کے قدم خود بخود رک گئے تھے۔۔۔”چلو“ شہزاد نے کہا تو وہ چل دیا ۔۔۔۔اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی کمرے کے چاروں طرف دیکھنے لگا۔۔
” کیا ہوا؟؟؟۔۔۔۔ تمہارا ہی کمر ہے “شاہنزیب جس حیرت سے کمرے کو دیکھ رہا تھا اسے شہزاد نے پڑھ لیا ۔۔۔ کمرے میں کوئی رد و بدل نہیں کیا گیا تھا تو پھر وہ اتنی حیرت سے کیوں اپنے کمرے کے چاروں طرف دیکھ رہا تھا اور افسردہ ہو رہا تھا؟؟؟۔۔۔
” کیا ماہ نور میرے کمرے میں نہیں آتی تھی ؟؟؟“اس نے شہزاد کو دیکھ سوال کیا تو شہزاد بری طرح چونکا۔۔۔کمرا بالکل چمک رہا تھا ہر چیز ہی ویسی تھی جیسی وہ چھوڑ کر گیا تھا۔۔۔پھر ایسی کیا چیز تھی جس نے اسے بتایا کہ اس کے کمرے میں اب ماہنور نہیں آتی۔۔۔
” تم یہ سوال کیوں کر رہے ہو ؟؟؟“ شہزاد تجسس سے پوچھنے لگا۔۔۔
” میرے کمرے کے در و دیوار شکوہ کر رہے ہیں مجھ سے کے انھوں نے ماہ نور کو کافی عرصے سے نہیں دیکھا۔۔۔۔ میرے کمرے میں اس کی مہک نہیں ہے بس سناٹا سہ محسوس ہورہا ہے۔۔۔۔ بولیں کیا نہیں آتی تھی میرے کمرے میں مانو؟؟؟۔۔۔ میرے جانے کے بعد“شاہنزیب نے پوچھا تو شہزاد خاموش ہوگیا۔۔۔۔ کیا بتاتا کہ ماہنور کو آنے نہیں دیا جارہا تھا اس کے کمرے میں اور روکنے والا اور کوئی نہیں خود اس کی ماں تھی۔۔۔۔
” یہ سب چھوڑو تھک گئے ہو گے آرام کر لو “شھزاد یہ کہہ کر اٹھ کر جانے لگا تھا۔۔۔۔
” سنیں وعدہ یاد ہے نہ اپنا ؟؟؟۔۔۔۔آپ یا دادو اسے کچھ نہیں بتائیں گے ۔۔۔جب تک میں اسے خود نہ بتا دوں اور جب میں بہتر سمجھوں گا اسے بتا دوں گا۔۔ آخری فیصلہ اسی کا ہوگا“شاہنزیب اور شہزاد دونوں ہی لندن میں مل چکے تھے ان کے درمیان کچھ معاہدے بھی ہوئے تھے۔۔۔ شاہنزیب نے اسے یاد کر آیا تھا۔۔۔۔
” مجھے میرا وعدہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔ تم بس اپنا وعدہ یاد رکھو۔۔۔ تم حدود میں رہ کر ماہنور سے اپنی محبت کا اظہار کرو گے۔۔۔ اور جب تمہیں لگے گا کہ وہ بھی تم سے کرتی ہے تو تم اسے پہلے ساری سچائی بتاؤ گے پھر اگر سچ جاننے کے باوجود ماہنور تیار ہوئی تو رخصتی ہوگی ورنہ خلاں لینے کے لئے کورٹ کے چکر نہ لگانے پڑیں خود ہی شرافت سے طلاق دے دینا۔۔۔۔۔۔ سمجھے“ شہزاد کے لہجے میں آج بھی بہت سختی تھی۔۔شاہنزیب نے اثبات سر ہلایا تھا۔۔۔۔” اور ہاں میں اپنی بہن سے بہت محبت کرتا ہوں اگر اسے کوئی تکلیف ہوئی تمہاری وجہ سے یا مجھے لگا کہ تم اسے تکلیف دے رہے ہو تو اٹھا کر باہر پھینک دوں گا تمہیں اپنی بہن کی خاطر اگر تمہیں معاف کر کے واپس لا سکتا ہوں اور ایک موقع دے سکتا ہوں تو یہ بھی سمجھ لو کے۔۔۔۔۔“شھزاد ابھی شاہنزیب کو دھمکا ہی رہا تھا۔۔
” کیا ضرورت ہے یہ سب کہنے کی؟؟؟۔۔۔ میں جانتا ہوں اگر آپ کو مجھ میں اور ماہنور میں کوئی ایک چنا پڑا تو آپ اسے چنو گے“ اس نے بڑے ادب سے کہا تو شہزاد وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔وہ زیر لب مسکرا نے لگا تھا
شاہنزیب بیڈ پر گرتے ہوئے سوچنے لگا ” وہ میرے جانے کے بعد کبھی اس کمرے میں آئی ہی نہیں ۔۔۔کہیں وہ آج بھی راحیل سے تو پیار نھیں کرتی ۔۔۔نھیں راحیل کی تو شادی ہو چکی ہے۔۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ ابھی تک مجھے وہ اپنے شوہر کے روپ میں قبول نہیں کر پارہی ہو ۔۔۔ پر چار سال ہو چکے ہیں ۔۔ چار سال بہت ہوتے ہیں ۔۔۔۔ میں آگیا ہوں ناں۔۔۔۔سب خود ٹھیک کر لوں گا۔۔۔ وہ مجھے اگر ابھی تک اپنے شوہر کے روپ میں قبول نہیں کر پائی ہے تو کوئی بات نہیں میں ہوں ناں۔۔۔۔۔ پر وہ ہے کہاں ؟؟؟۔۔۔۔ سب نظر آئے بس وہی نہیں آئی“ وہ انہی سوچوں میں گم سم تھا کہ اسے نیند نے ہلکے ہلکے اپنی آغوش میں لے لیا
*******-------********🌺
ارد گرد لوگوں کا ہجوم اور اس ہجوم میں کھڑے ہوئے وہ دونوں ۔۔۔ پوری محفل میں صرف اس کی آواز گونج رہی تھی جو اس قدر جذباتی ہوئی وی تھی کہ اس نے محفل کا لحاظ بھی نہ رکھا تھا ”طلاق تو مجھے ۔۔۔۔ طلاق دو“ وہ بار بار بس یہی کہہ رہی تھی گریبان پکڑ کر ۔۔۔ جان نکل گئی تھی اس کے منہ سے یہ الفاظ سن کر ۔۔۔ اس سے جدا ہوجانا اب اس کے اختیار میں نہ تھا۔۔۔۔ سانس رک رہی تھی غم و غصے سے دونوں کی آنکھیں لال تھیں ۔۔۔"ماہ نور میری بات تو سنو" بڑی مشکل سے زبان نے ساتھ دیا تھا اس نے التجاٸی لہجے میں بولا تھا۔۔” مجھے طلاق چاہیے تم نے سنا نہیں ۔۔۔تم طلاق دو مجھے ۔۔۔تم نے جھوٹا وعدہ کیا تھا مجھ سے تم نے کہا تھا میری شادی اس سے ہوگی جس سے میں کرنا چاہتی ہوں ....اور دھوکے باز انسان دولہے بن کر آگئے تم۔۔۔۔ تم جانتے تھے ناں کہ میری شادی زبردستی کروائی جا رہی ہے۔۔ اس شارق سے۔۔۔ پھر کیوں ؟؟؟۔۔۔کیوں راحیل کی جگہ پر آکر بیٹھ گئے۔۔۔ میں راحیل سے پیار کرتی ہوں شاہنزیب افتخار۔۔۔ تم سے نہیں اور اب تو ھر گز کروں گی بھی نہیں کیونکہ تمہاری بے وقوفیوں نے میرے باپ کی جان لی ہے قاتل ہو تم میرے باپ کے۔۔ اور میرے پیار کے ۔۔۔۔مجھے طلاق دو سنا تم نے“ وہ آنکھوں میں نفرت اور لہجے میں کدورت بھرے لفظوں سے شاہنزیب سے طلاق مانگ رہی تھی وہ صرف اس کا گنہگار بنے کھڑا تھا ۔۔۔۔
” ماہنور ماہنور “وہ چیختا ہوا اٹھ بیٹھا تھا۔۔۔ خواب سے بیدار ہوا تو خود کو اپنے کمرے میں اپنے بستر پر پایا یہ خوف کہ ایک دن وہ اس سے طلاق کا مطالبہ کرے گی اسے سکون سے سونے نہیں دیتا تھا۔۔۔۔ شاہنزیب کے ماتھے پر پسینہ چمک رہا تھا۔۔۔۔” یا خدا میں ماہ نور سے محبت نہیں کرتا تو شاید سب بہت خوش ہوتے ۔۔۔بڑے ابو زندہ ہوتے ہیں مانو یتیم نہ ہوئی ہوتی ۔۔۔۔میں قصور وار ہوں جانتا ہوں پر بے انتہا محبت ہے مجھے اس سے ۔۔۔مجھے صرف ایک موقع ملا ہے اسے پانے کا تو میری مدد کر دے۔۔۔ سب کچھ میرے لئے آسان کر دے ۔۔میری راہ میں آنے والی ساری مشکلات کو ہٹا دے ۔۔۔۔تھک چکا ہوں سیراب کے پیچھے بھاگتے بھاگتے۔۔ اب تو مجھے میری محبت عطا کرے تو جانتا ہے میں نے شارق کو اٹھایا ضرور تھا پر اپنے لٸے نہیں صرف ماہنور کی خوشی کے لیے۔۔۔ اس میں میری کیا خطاء کے آخری لمحے میں راحیل غائب ہو گیا تھا“ شاہنزیب اپنے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خود سے ہی کلام کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ دعاگو بھی تھا کے اب اس کی منزل اسے مل جائے ۔۔۔وہ سونا چاہتا تھا دوبارہ۔۔۔ پر نیند تو مانو روٹھی بیٹھی تھی۔۔ وہ بستر سے اٹھا اور کمرے سے باہر آیا ۔۔۔۔ وہ سفید کرتے اور سفید شلوار میں ملبوس تھا۔۔ جو نئے اور کلف لگے ہونے کی وجہ سے چمک رہے تھے۔۔۔ وہ ماہنور کے کمرے کے پاس آیا تو دروازہ کھلا دیکھ سمجھ گیا کہ وہ بھی کمرے میں موجود نہیں ہے ۔۔۔جب سے آیا تھا اسے دیکھنے کے لئے ترس رہا تھا اور وہ ستم گری کی انتہا کر رہی تھی ایک جھلک تک نہیں دیکھائی تھی اس نے اپنے دیوانے کو۔۔۔ رات کافی ہوچکی ہے سب سو رہے تھے پورے گھر میں اندھیرا چھایا ہوا تھا وہ ماہنور کو پورے گھر میں تلاش کرنے لگا۔۔۔۔۔” او۔۔۔۔نو۔۔۔یہ لائٹ کس وقت کی گئی ہے۔۔۔۔“ اسے معلوم تھا کہ سرونڈ کوارٹر سے جنریٹر کافی دور رکھے ہوئے ہیں اس لئے تھوڑی دیر بعد ہی لائٹ آن ہوگی وہ اندھیرے میں ہی ادھر ادھر دیکھتا رہا۔۔۔۔” کہاں ہو ماہ نور؟؟؟“ وہ سب جگہ دیکھ چکا تھا۔۔۔ پر وہ اسے نہ ملی ”ہو سکتا ہے لائبریری میں ہو۔۔۔۔پر مانو اور لائبریری۔۔۔“ وہ سوچنے لگا تھا کہ یہ تو ناممکن ہے۔۔۔” نہیں وہ تو کبھی بھی وہاں جاتی ہی نہیں۔۔۔پر دیکھ لینے میں کیا حرج ہے“ وہ سوچتا ہوا لائبریری کے باہر پہنچ گیا تھا۔۔۔۔ ماہنور آرام سے صوفے پر بیٹھ کر موم بتی کی دھیمی دھیمی روشنی میں کتاب کھول کر بجائے پڑھنے کے شاہنزیب کی تصویر۔۔۔ ان میں رکھ کر اپنی آنکھوں کو سکون دے رہی تھی۔۔۔۔
” جب سے تم آئے ہو چاچی مجھے دیکھنے ہی نہیں دے رہی ہیں تمھیں۔۔۔ سب کہ رہے ہیں تم پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت ہو گئے ہو۔۔۔۔ کیا واقعی ہو گئے ہو؟؟؟۔۔۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی میں تمہیں دیکھ نہیں پا رہی۔۔یہ ستم نہیں تو اور کیا ہے؟؟؟۔۔۔ کب تک یوں ہی تصویر سے باتیں کرنی پڑیں گی ۔۔۔میں نہیں آسکتی کیونکہ میں مجبور ہوں۔۔۔ تم خود آجاؤ۔۔۔۔ تم تو مجبور نہیں“ یہ کہہ کر وہ شکوہ کر رہی تھی تصویر سے۔۔۔” ابھی تک جنریٹر اون کیوں نہیں ہوا ؟؟؟۔۔۔۔لگتا ہے سب پڑے سو رہے ہیں۔۔۔۔ بس میں ہی جاگ رہی ہوں“ وہ اس کی تصویر کو دیکھ کر منہ بسور کر بولی تھی۔۔۔۔ دل کی دھڑکنیں اچانک اسپیڈ میں آ گئیں تھیں۔۔ ایسا لگا کوئی ہوا کا تیز جھوکا اسے چھو کر گزرا ہو۔۔۔۔۔۔۔لگا شاہ آیا ہے۔۔۔۔”شاہنزیب“ ماہ نور یہ کہتے ہوئے کھڑی ہوئی ابھی دروازے کی طرف دو قدم ہی چلی تھی کہ دروازہ باہر سے کھولا ماہنور کو پیچھے سے زمین پر کسی کتاب کے گرنے کی آواز آئی۔۔ وہ چونک کر دروازے کے بجاۓ پیچھے دیکھنے لگی۔۔۔ ٹیبل پر رکھی ایک نیلے رنگ کی بک زمین پر گر گئی تھی۔۔۔ وہ بک کو دیکھ کر جیسے ہی واپس سامنے کی طرف موڑی ۔۔۔۔شاہنزیب اس کے بالکل روبرو کھڑا تھا ۔۔۔کمرے میں کافی اندھیرا تھا ۔۔۔پھر بھی وہ دونوں ایک دوسرے کو پہچان گئے تھے۔۔ وہ دونوں ہی ایک دوسرے کے چہرے کو صحیح سے دیکھ نہیں پا رہے تھے کیونکہ موم بتی ٹیبل پر رکھی تھی جو دروازے سے کافی دور تھی۔۔۔
شاہنزیب اس کی جانب آہستہ آہستہ قدم بڑھانے لگا تھا اور وہ آہستہ آہستہ اپنی طرف بڑھتے ہوئے اس کے قدم دیکھ بغیر پیچھے مڑے۔۔۔۔ پیچھے کی جانب قدم لے رہی تھی۔۔۔ ماہنور یہ بھول گئی تھی اسے دیکھتے ہی کے ٹیبل کے پاس ایک بک گرگئی ہے ۔۔۔جیسے ہی ماہنور اس بک سے جو زمین پر گری ہوئی تھی۔۔ اس کا پاٶں ٹکرایا ۔۔۔وہ اپنا بیلنس قائم نہ رکھ سکی اور گرنے لگی ۔۔۔شاہنزیب نے تیزی سے اسے اپنی باہوں میں تھام لیا تھا۔۔۔۔ ماہنور نے گرنے کے خوف سے آنکھیں بند کر لیں تھیں۔۔۔۔ موم بتی کی دھیمی دھیمی روشنی اب دونوں کے خوبصورت رخسار پر پڑ رہی تھی ۔۔۔ماہ نور اس کی باہوں میں تھی اور وہ اس کے خوبصورت چہرے کو دیوانوں کی طرح تک رہا تھا ۔۔۔ موم بتی کی دھیمی دھیمی روشنی اس کی سادگی کے حسن کو دوبالا کر رہی تھی ۔۔۔ماہ نور سفید رنگ کے قمیض شلوار اور دوپٹے میں ملبوس تھی۔۔۔۔ بالوں میں کیچر تھا جو گرتے وقت اس کے بالوں سے پھیسل کر گر گیا تھا اور اس کی گھنی زلفیں کھل گئی تھیں۔۔۔۔ چار سال بعد آج اس نے ماہنور کو دیکھا تھا ۔۔۔۔ماہنور نے اگلے لمحے محسوس کیا تھا کہ وہ شاہنزیب کے حصار میں ہے۔۔۔۔ اس نے آنکھ کھولی تو سامنے اس کا دلبر کھڑا تھا جو اسے ہی گہری بولتی نظروں سے دیوانوں کی طرح تک رہا تھا ۔۔۔۔۔جسے دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس رہی تھیں ۔۔۔۔جب وہ خود ہی یوں سامنے آگیا تو وہ مدھوش ہونے لگی۔۔۔۔ اس بے چین روح کو قرار آیا تھا اسے دیکھ۔۔۔۔۔ اس کی یوں نزدیکی نے ماہنور کی سانس روک سی دی تھی۔۔۔۔وہ شاہنزیب کو ٹکٹکی باندھ دیکھنے لگی تھی۔۔۔۔شاہنزیب کا خوبصورت چہرا موم بتی کی دھیمی دھیمی سی روشنی میں بڑا نورانی لگ رہا تھا ۔۔۔ آج اس نے ماہنور کو نظروں سے شراب پینا سکھایا تھا۔۔۔ وہی شراب جس کا اسے شکوہ تھا کہ ماہ نور نے اسے عادی بنا دیا ہے اب چاہے بھی تو چھوڑ نہیں سکتا اور نہ ملی تو مر جائے گا۔۔۔ آج جانا تھا کہ محبت کس قدر خوبصورت ہوتی ہے۔۔۔ وہ لمحہ دونوں کی زندگی کا حسین ترین لمحہ تھا۔۔۔۔ماہنور دل بھر کر نظروں میں اسے بساتی رہی ۔۔۔آج وہ بہت خوش تھی اور یہ خوشی وہ سمبھال ہی نہ پائی۔۔۔”شاہنزیب“ بامشکل یہی لفظ ادا کر سکی ۔۔۔اسے اتنے سالوں بعد سکون ملا تھا کہ وہ نشے میں آگئی تھی ۔۔۔۔ماہنور اسی کی باہوں میں بے ہوش ہوگئ۔۔۔۔۔
” بہت حسین ہو تم۔۔۔۔ بہت۔۔۔ میری قسمت بھی کتنی عجیب ہے نا ماہنور۔۔۔۔۔کبھی تم سے مجھے اتنا دور لے جاتی ہے کہ میں تمہیں دیکھنے تک کے لئے ترس جاتا ہوں اور کبھی اتنے قریب لے آتی کہ مجھے اس پر پیار آجاتا ہے۔۔۔۔میں تو صرف خدا سے تمہاری ایک جھلک مانگ رہا تھا اور دیکھو اس کی کرم نوازی تمہیں میرے اتنا قریب کردیا کہ مجھے یقین نہیں آرہا اپنی خوش قسمتی پر“ یہ کہہ کر اسے اپنی گود میں اٹھا لیا۔۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ایک لمحے میں ایک صدی جی لی ہو اس کے ساتھ۔۔۔ لائٹ آگئی تھی اس نے پھوک مار کر موم بتی بجھا کر اپنے کرتے کی جیب میں ڈال لی ۔۔جانے لگا تو نظر اپنی تصویر پر پڑی۔۔۔۔” لگتا ہے حالات اتنے بھی خراب نہیں ہیں جتنا میں سوچ رہا ہوں “یہ کہہ کر ماہنور کا چہرہ دیکھ کر مسکرانے لگا ۔۔۔۔اسے اس کے بیڈ پر لاکر لیٹا دیا۔۔” میں ابھی آتا ہوں“ کہ کر تیز قدم بڑھاتا ہوا اپنے کمرے کی جانب گیا اور ماہنور کی پازیب جو اتنے سالوں سے اس کے پاس تھی وہ لے آیا ۔۔۔ اس کے پاؤں کے پاس ہی بیٹھ گیا ۔۔۔۔وہ سیدھا پاٶں میں پازیب پہنی ہوئی تھی ۔۔۔شاہنزیب نے بڑی محبت سے اسکے الٹے پاؤں میں بھی پازیب پہنا دی۔۔ اس کے پاؤں نہایت حسین۔۔۔ سنگ مرمر سے تراشے ہوئے معلوم ہو رہے تھے۔۔ انہیں دیکھ کر دل جذبات میں آگیا۔۔۔اس کے پاٶں کو چوم کر اسے بڑے پیار سے دیکھنے لگا ۔۔۔۔سو سو جان فدا ہورھا تھا اس پر۔۔ نیچے پانی لینے جانے لگا تاکے اسے بے ہوشی سے جگاۓ۔۔۔ وہ جگ لے کر ابھی کمرے سے نکل ہی رہا تھا کہ بھابھی سامنے کھڑی نظر آئیں۔ ” وہ بھابی میں تو ۔۔۔۔۔میں پانی لے کر آتا ہوں۔۔ مانو بے ہوش ہو گئی ہے اسے جگانے کے لٸے“ بھابھی کی آنکھوں میں حیرت تھی ۔۔ کہیں سوال کر رہی تھیں ان کی آنکھیں۔۔۔ جس کے جواب میں وہ یہ بول کر جانے لگا۔۔۔۔
” پر مانو بے ہوش کیسے ہوئی؟؟؟“ آنکھوں میں ان کے الجھاپن تھا ۔۔۔وہ یکھ شاہنزیب نے مزید کچھ نہ کہا۔۔۔۔صرف یہ بول کر چلا گیا کہ صبح خود پوچھ لیجئے گا ۔۔۔اس نے پانی لاکر بھابھی کے ہاتھ میں دیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔.....
********-----------*********"""🌺
سب کھانے کی میز پر آ چکے تھے وہ ابھی بھی کچن کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔سب نے کھانا شروع کیا ۔۔۔تو شاہنزیب خاموش نہ رہ سکا ”کیا ہوگیا ہے آپ لوگوں کو ؟؟؟ ماہنور کے بغیر ہی کھانا شروع کر دیتے ہیں ۔۔ستارہ جاٶ۔۔۔ جا کر ماہنور کو بلاکر لاؤ“ وہ مزید ماہنور کا اپنی نظروں سے اوجھل ہونا برداشت نہیں کر پا رہا تھا اس نے سب کے سامنے ہی ماہنور کو بلایا تھا تو سب یہ دیکھ کر حیرت سے اس کا چہرہ تکنے لگے۔۔” کیا ہوا ؟؟؟“ سب کو حیرت زدہ دیکھ وہ ابرو اچکاکر کنفیوس ہوکر بولا تھا ۔۔۔اسماء نہ چاہتے ہوئے بھی دبی دبی ہنسی ہسنے لگی۔۔۔اور باقی سب بھی۔۔ شمسہ بیگم نے جو اتنی ساری پابندیاں ماہ نور پر لگائی ہوئی تھیں ان میں یہ تو کہیں نہ بتایا تھا کہ اگر خود شاہنزیب نے اسے بلایا تو کیا کرنا ہے۔۔۔ سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر آئی تھی ٕ۔۔۔ شمسہ بیگم جھنجھلاکر بولی تھیں۔۔۔” بیٹا اس نے کھانا کھا لیا ہوگا اس لیے نہیں آئی“ ان کے کہتے ہی شاہنزیب ستاہ کو دیکھنے لگا جو اس کے حکم کے باوجود اپنی جگہ ہی حیرت سے کھڑی اسے گھور رہی تھی۔۔۔” کھانا کھا لیا؟؟؟“شاہنزیب نے پوچھا تھا ماہنور کے حوالے سے۔۔۔
” ہاں میں نے کھا لیا“ ستارہ کو سمجھ نہیں آیا تھا کہ شاہنزیب ماہ نور کے متعلق پوچھ رہا ہے اس کے نہیں ۔۔۔ سب اس کا جواب سن ہنسنے لگے تھے۔۔۔
” میں تمہاری نہیں ماہ نور کی پوچھ رہا ہوں“ اس نے اپنی بات کلٸیر کی تھی۔۔۔
”نہیں۔۔۔۔ انہوں نے نہیں کھایا ابھی تک“ وہ ڈر رہی تھی بتانے میں کیونکہ شمشہ بیگم اسے نفی کرنے کو کہہ رہی تھیں۔۔۔ پر وہ تو بتا چکی تھی ان کی گردن کا اشارہ دیکھنے سے پہلے ہی۔۔
” جاؤ اسے بلاکر لاؤ“شاہنزیب نے دوبارا کہا ۔۔” کہنا شاہ بلا رہا ہے“شاہنزیب نے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔۔۔ دادو اور باقی گھروالے بہت خوش ہوئے تھے یہ دیکھ کر کہ شاہنزیب اسے خود بلا رہا ہے۔۔۔
” خدا کا شکر ہے شاہ کو احساس ہوا کے ماہنور ہمارے ساتھ کھانا نہیں کھا رہی ہے ۔۔۔اب دعا ہے کہ وہ بیوی کے روپ میں ماہنور کو قبول کرلے “ کامران دل ہی دل دعا گو ہوا تھا۔۔
”جاٶ ستارہ اور کہو ماہنور سے کے تمھارا S.M بلا رھا ہے“ دادو نے مسکراتے ہوئے بولا تو سب ہنسنے لگے ستارہ بھی خوشی خوشی اسے لینے گئی۔۔۔۔
” ماہ نور بی بی جی۔۔۔ آپ کو ناں S.M بلا رہے ہیں “ستارہ نے خوشی خوشی اسے بتایا تھا۔۔۔۔
”کیا؟؟؟۔۔۔ شاہ مجھے ملا رہا ہے ؟؟؟“ماہنور حیرت سے پوچھ رہی تھی۔۔۔
” ہاں جلدی جائیں“ اس نے یہ کہہ کر ماہنور کا ہاتھ پکڑ اسے کچن سے باہر کیا تھا ۔۔وہ چلتی ہوئی آئی اور شاہنزیب کے پیچھے آ کر ادب سے کھڑی ہو گئی۔ وہ گھبرا رہی تھی کہ نہ جانے کیوں اسے بلایا ہے۔۔۔
” کیا؟؟؟“شاہنزیب مڑ کر اسے دیکھتے ہوئے کندھے اچکا کر پوچھ رہا تھا۔۔
” آپ نے بلایا ؟؟؟“ماہ نور کے منہ سے( آپ) کا لفظ سن شاہنزیب آنکھیں مسلنے لگا کہ وہ کہیں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا۔۔۔ پھر پھٹی پھٹی نظروں سے ماہنور کو تکنے لگا۔۔۔
”آپ؟؟؟۔۔۔۔۔ میں آپ کب سے ہو گیا؟؟؟“ وہ آنکھیں جھپکتے ہوئے تیزی سے ۔۔۔حیرت سے بولا تھا تو سب ہنسنے لگے یہاں تک کہ افتخار صاحب اور گھر کے دوسرے بڑوں نے بھی بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کو دبایا تھا ۔۔۔شہزاد شاہنزیب کے سامنے ہسنا نہیں چاہتا تھا اس لیے منہ پر ہاتھ رکھ کھانسنے کی اداکاری کرتے ہوئے مسکراہٹ روکنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا ۔۔۔
” تو کیا بولوں؟؟؟“ وہ نظر جھکاۓ بڑے ادب سے پوچھنے لگی
” یہ بھی میں ہی بتاؤں؟؟“ اس نے اپنی پیشانی مسلتے ہوئے بولا تھا۔۔۔وہ الجھ گیا تھا کے آخر ماہنور اس سے اتنی تمیز سے بات کیوں کر رھی ہے۔۔۔۔
” شاہ وہ نروس ہورہی ہے تم سے۔۔۔ اسے اور مت کرو۔۔۔ ماہنور بیٹھو کھانا کھاؤ۔۔۔۔ کھانا کھانے کے لئے بلایا ہے“ وہ گھبراہٹ میں کیا بول رہی تھی وہ خود نہیں جانتی تھی اس لیے رومیسا نے کہا تو ماہنور ان کے کہنے پر اثبات میں سر ہلانے لگی۔۔۔۔
”کیا؟؟؟۔۔۔۔ کھانا کھڑے ہوکر کھانے کا ارادہ ہے کیا ؟؟؟۔۔آؤ بیٹھو“شاہنزیب نے جب اسے اتنا گھبرایا ہوا دیکھا تو خود کھڑا ہو کر اس کی چٸیر کھسکا کر اسے پہلے بیٹھایا۔۔۔ پھر خود بیٹھ گیا۔۔۔
” یہ چل کیا رہا ہے؟؟؟۔۔۔۔ ماہ نور مجھ سے اتنا گھبرا کیوں رہی ہے۔۔۔پہلے مجھے دیکھ کر بے ہوش ہو گئی اور اب ایسے باتیں کررہی ہے۔۔۔جیسے پہلی بار ملی ہو۔۔۔ جیسے میں کوئی اجنبی ہوں“شاہنزیب الجھ گیا تھا اس نے ولید کو اشارے میں کہا کہ مجھے گارڈن میں آکر ملو تھوڑی دیر بعد۔۔ تو ولید نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔
” کیا ہوا ؟؟؟۔۔۔ایسے کیوں بولایا؟؟“ ولید نے بینچ پر بیٹھے ہوئے سوال کیا تھا ۔۔۔
”کچھ جاننا تھا اس لئے۔۔۔“
” میں جانتا ہوں کیا ۔۔۔ماہ نور کے بارے میں ناں؟؟۔۔“وہ اندازہ لگا چکا تھا ۔۔۔
”ہاں۔۔۔ وہ اتنا عجیب بیہیویئر کیوں کر رہی ہے جیسے مجھے جانتی تک نہ ہو۔۔مجھ سے گھبرا کیوں رہی ہے؟؟“ وہ پریشان ہو کر پوچھنے لگا۔۔
” تمہارے جانے کے بعد بہت کچھ ہوا ہے یہاں۔۔۔۔ جو وہ سہ سہ کر ایسی ہوگئی ہے“ ولید نے اسے یہاں ہونے والی ساری باتیں بتائیں تو وہ حیرت سے سننے لگا
”تم نے یہ سب مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟؟؟۔۔“ وہ پوچھنے لگا پریشان ہوکر اس نے پیشانی مسلنا شروع کر دی تھی وہ ساری باتیں سننے کے بعد جو ماہ نور کے ساتھ ہوئیں اس کے پیچھے۔۔
” کیونکہ تم خود بہت پریشان تھے اور میں تمہیں مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔ اور پھر اگر فرض کرٶ ۔۔۔ بتا بھی دیتا تو کیا کر لیتے تم ۔۔۔سواۓ پریشان ہونے کے۔۔۔ شہزاد نے تم پر کتنی سختی کی ہوئی تھی ماہ نور کے حوالے سے۔۔۔۔ میں سب جانتا تھا پھر تمہیں بتا کر اور زیادہ پریشان کرنا مجھے ٹھیک نہیں لگا۔۔۔۔ میں نے سوچا کہ لوگ کچھ بھی بولتے رہیں کیا فرق پڑتا ہے ؟؟؟۔۔۔آخری فیصلہ لوگوں کی نظر میں تمہارے ہاتھ میں ہے پر ہم چاروں جانتے ہیں کہ اصل فیصلہ آخری میں ماہ نور کرنے والی ہے۔۔۔۔ اور میری نظر سے دیکھو تو لوگوں نے تمہیں ماہ نور کے اور قریب کر دیا ہے یہ سب کر کے۔۔۔۔ وہ نہ صرف تمہیں اپنا شوہر مانتی ہے بلکہ تمہاری عزت بھی کر رہی ہے۔۔“ ولید نے اپنی راۓ دی تھی۔۔۔ شاہنزیب کھڑے ہوتے ہوئے بولا
” وہ عزت نہیں کر رہی صرف ڈر رہی ہے مجھ سے ۔۔۔ میری نظر سے دیکھو تو پتہ چلے گا کہ کتنا دور ہو گئی ہے وہ مجھ سے ۔۔۔۔وہ گھبرا رہی ہے۔۔ میں تمہیں بتا بھی نہیں سکتا کتنی تکلیف ہو رہی ہے مجھے یہ دیکھ کر کہ وہ اپنے شاہ سے گھبرا رہی ہے۔۔۔ جسے وہ اپنے دل کی ہر بات بلا خوف بتایا کرتی تھی“ وہ دونوں ہاتھ فولٹ کر غمزدہ لہجے میں گویا ہوا۔۔۔۔” پتہ ہے میں سمجھ رہا تھا کہ شہزاد بھائی کو مجھ پر ترس آگیا ہے جو خود مجھے ایک موقع دینے چلے آۓ ہیں ۔۔۔۔اب پتہ چلا وہ میرے لیٸے نہیں آئے تھے۔۔۔ ورنہ اسماء کی شادی پر کہاں آنے دیا تھا انہوں نے مجھے ۔۔۔ہر وقت مجھے یہ کہہ کر ڈراتے تھے کہ وہ ماہنور کو سب بتا دیں گے اگر میں نے اس سے کوئی بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی اور پتہ ہے کہ زندگی میں پہلی بار خوف۔۔ڈر کس بلا کا نام ہوتے ہیں میں نے جانا تھا ۔۔۔میں نے چار سال اس خوف کے ساتھ گزارے ہیں کہ کہیں وہ مجھے چھوڑ نہ دے ۔۔۔۔۔جب راحیل کی شادی کی خبر ملی تو میں بتا نہیں سکتا کتنا خوش ہوا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے آدھی جنگ جیت گیا ہوں“اس نے ولید کو اپنے دل کا حال بتایا تو وہ اسے دلاسہ دینے لگا۔۔۔ ” اس معاشرے کے لوگوں نے مجھے اور اسے بہت تنگ کیا ہے ۔۔۔پہلے مجھے دو سال چھوٹا دو سال چھوٹا کر کے اور اب اسے دو سال بڑی دو سال بڑی کرکے۔۔۔ اب میں نئی ریت قائم کروں گا اس خاندان میں۔۔۔کے عمر کا محبت میں کوئی دخل نہیں ہوتا اور جس پر ایک بار دل آجاۓ وہ پھر بڑا اور چھوٹا نہیں ہوتا “شاہنزیب پکا عزم کر چکا تھا کہ اب اسے پانا صرف اس لئے نہیں ہے کہ وہ اس کی محبت ہے بلکہ اس لیے بھی ہے کہ ماہنور کو ستانے والوں کو منہ توڑ جواب بھی دینا ہے ۔۔۔
وہ اندر داخل ہوا تو ماہنور ٹی وی لان میں صوفے پر بیٹھی ٹی وی دیکھ رھی تھی۔۔۔۔وہ اسے دیکھ چکی تھی۔۔۔” ”ہوسکتا ہے مجھے دیکھ کر بھی اندھا کر کے چلا جائے“ ماہنور اسے دیکھ دل میں سوچنے لگی۔۔۔ پر یہ دیکھ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے کہ وہ چلتا ہوا اسی کی جانب آیا تھا ماہنور نے ایسی اداکاری کی ۔۔۔ جیسے فرق ہی نہ پڑھا ھو اس کے آنے کا۔۔۔ اور ٹی وی کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔وہ اس کی بالکل برابر میں لگ کر بیٹھ گیا ۔۔۔یہ دیکھ۔۔۔ اس کی سانس رُکنے لگی ۔۔۔۔۔
” تم تو اس وقت ڈائجسٹ پڑھا کرتی تھیں ۔۔ پھر آج ٹی وی کیسے؟؟؟۔۔“وہ ابرو اچکاکر پوجھ رھا تھا۔۔۔۔۔اس نے ماہنور کو دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ حیران ہوئی کہ اسے آج بھی یاد ہے کہ وہ کس وقت کیا کرتی تھی۔۔۔۔
” اگر چاچی آگئیں تو شاہ کے سامنے ہی مجھے عمر میں بڑی۔۔۔ دو سال بڑی اور جو منہ میں آئے گا کہ دیں گئی ۔۔۔میں شاہ کے سامنے یہ سب نہیں سننا چاہتی ۔۔۔اگر اس کے سامنے اپنی عزت رکھنی ہے۔۔۔ تو جتنا اس سے دور رہوں۔۔۔ اتنا اچھا ہے ورنہ چاچی دیر نہ لگائیں گئی اس کے سامنے میری عزت کا فالودہ کرنے میں “وہ دل میں سوچ کر گھبرا کر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔
”کیا؟؟؟“ شاہنزیب اسے دیکھ صرف ( کیا ) کا لفظ ہی بول سکا تھا کہ وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گئی تھی۔۔۔۔
” اب کیا ہوا ؟؟۔۔۔ابھی تو کوئی نھیں تھا یہاں۔۔۔ اکیلے میں تو بات کر ہی سکتی تھی“ وہ یہ کہ کر ٹی وی بند کرکے منہ بسور چلا گیا۔۔۔۔۔
****------------*********
ماہنور سیڑھیوں سے نیچے آ رہی تھی اور شاہنزیب اوپر جانے کی نیت سے چڑھا تھا پہلی سیڑھی پر جیسے ہی ماہنور نے اسے دیکھا ۔۔۔ اس کے چہرے کی ہوائیاں اڑ گئیں۔۔۔ جو وہ تین چار سیڑھیاں اتری تھی اسے دیکھتے ہی تیزی سے واپس چڑھ گئی۔۔۔” زبردست۔۔۔ میں انسان ہوں یا جن؟؟؟۔۔ جسے دیکھتے ہی ڈر کے مارے بھاگ جاتی ہے۔۔۔اف“ وہ جھنجھلا کر دانت پیس رہا تھا ۔۔۔۔
سارے کزن محفل جمائے ماہ نور کے کمرے میں ہی بیٹھے ہوئے تھے۔۔” ایک خوشی کی خبر سناؤں؟؟؟۔۔ جو ابھی نیچے سے سن کر آیا ہوں“ کامران نے تجسس پھیلاتے ہوئے پوچھا۔۔۔ سب نے فورا ہی ہاں کہا تھا
” سعدیہ شادی میں نہیں آرہی ہے “بس کامران کا خوش خبری دینا تھا کہ سب خوش ہو کر ”اوووووو“ چیخنے لگے۔۔۔
” ارے یار پوری بات تو سن لو اور چاچی جان اس سے بہت ضد کر رہی ہیں کہ وہ آئے“ کامران کو پوری بات بولنے کا موقع ہی نہیں دیا تھا اس کے سارے کزنوں نے تو ان کو روکتے ہوئے ۔۔۔ وہ اپنی بات پوری کر رہا تھا جو ادھوری رہ گئی تھی۔۔۔”او ۔نو“ سب کے چہرے کی خوشی ایک لمحے میں ہی بدل گئی تھی یہ سن۔۔۔۔
” مانو بے فکر ہو جاؤ مجھے نہیں لگتا کہ شاہ کا فیصلہ سعدیہ کے آنے یا نہ آنے سے بدلنے والا ہے" ۔۔۔۔راحیل نے دلاسہ دیا تھا ۔۔۔۔
”مجھے تو لگتا ہے وہ تمہیں اپنی بیوی کے روپ میں قبول کرنے کے لیے تیار ہے “ثانیہ راحیل کے بالکل برابر میں بیٹھی تھی۔۔۔۔ اس نے بھی رحیل کی بات کی تائید کی
” اگر سعدیہ نہ آئی تو مجھے لگتا ہے سب کچھ بہت جلدی ٹھیک ہو جائے گا ماہنور اور شاہ کے درمیان“ بھابھی اندازہ لگاتے ہوئے
” پر ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔ وہ آجائے گی دیکھ لینا ۔۔۔وہ تو صرف نخرے دکھا رہی ہے اور چاچی جان اٹھا بھی رھی ہیں۔۔۔ دیکھ لینا کل پرسوں تک یہاں موجود ہوگی۔۔۔“ اسماء نے کہا منہ بسور کر تو سب اس کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلانے لگے۔۔۔۔ کمرے میں شاہنزیب کے علاوہ سارے کزن موجود تھے۔۔۔۔
” چھوٹی مامی جان اگر آپ بولیں گی تو ہم سعدیہ خالہ کی کار کے ٹائر پنچر کردیں گے پھر وہ آہی نہیں سکیں گی“ جنید جمشید جو ماہنور کے دونوں سائیڈوں سے بالکل لگ کر بیٹھے ہوئے تھے کہنے لگے تو سب ان کی معصومیت دیکھ مسکرا دیۓ۔۔۔۔
” کاش میرے بچوں ٹائر پنچر کرنا مسئلے کا حل ہوتا تو کب کا کر ڈالتے “شاہزیہ نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے افسردہ لہجے میں کہا۔۔۔۔شہزاد بالکل خاموش بیٹھا ہوا تھا اور ولید بھی۔۔۔۔۔
”میں بتا رہی ہوں اگر وہ آئی ناں تو سارا مسئلہ خراب ہو جائے گا ۔۔۔۔وہ آتے ہی شاہ سے چھپکلی کی طرح چپک جائے گی “اسماء منہ کے زاویے بیگاڑتے ہوئے بولی تھی۔۔۔ سب یہ سن پریشان ہوگئے تھے۔۔۔۔
” چلو یار فکر مت کرو ۔۔۔۔وہ اگر چھپکلی بنے گی تو میں اس کا چھپکلا بن جاؤں گا۔۔۔ وہ جیسے شاہ کے پاس جانے کی کوشش کرے گی میں ویسے ہی اس کے اور شاہ کے درمیان دیوار بن کر کھڑا ہو جاؤں گا “کامران نے آنکھ مارتے ہوئے شوخی سے بولا تو سب ہسنے لگے۔۔۔۔
” اللہ کرے وہ آئے ہی نہ“راحیل نے دعا کی تھی تو سب نے اجتماعی دعا کی طرح” آمین“ کہا تھا
” اور اگر آگئی۔۔۔ جو پتہ ہے۔سب کو۔۔ ضرور آئے گی تو سب تیار رھنا۔۔۔۔ ذرا سہ بھی اسے شاہ کے قریب جانے کا موقع نہیں دینا“شاہزیہ آپا نے بولا تو سب ہاں میں ہاں ملانے لگے
شاہنزیب جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا ماہنور بیڈ پر ہی مارے خوف کے کھڑی ہو گئی تھی۔۔۔سب اسے حیرت سے دیکھنے لگے کہ اچانک کیا ہوا ہے۔۔۔۔” کیا ہوا کھڑی کیوں ہو گٸیں اچانک ؟؟؟“ کسی نے شاہنزیب کو آتا ہوا نہیں دیکھا تھا سوائے مانور کے تو سب حیرت سے اسے اچانک کھڑا ہوتا دیکھ سوال کر رہے تھے.......
"میں آتی ہوں" ماہنور یہ کہہ کر بیڈ سے اتر کر اس کے پاس سے ہی گزر کر کمرے سے نکل گئی اور وہ دیکھتا سہ رہ گیا
”واہ جی واہ۔۔۔اگر اتنی ہی رفتار سے میری محبت کی گاڑی چلتی رہی تو شہزاد بھائی کے بچوں کی شادی تک تو میں ماہ نور کو منا ہی لوں گا “وہ دل ہی دل کڑکڑا کر رہ گیا تھا۔۔۔ وہ کمرے میں بیٹھا سب کی باتیں سنتا رہا پر وہ ظالم حسینہ تو ایسی گٸ کہ لوٹی ہی نہیں ۔۔بیچارہ دروازے پر نظر جمائے ہی بیٹھا رہا۔۔۔
” شاہ تم نے سنا تو ہوگا ریشم کی بھاری منگنی ہو رہی ہے“ شاہزیہ آپا اسے دیکھ بولیں۔۔۔
”ہاں ۔۔۔پر اس کی منگنی تو ہو چکی تھی پھر دوبارہ کیوں؟؟؟۔۔۔ اور وہ بھی صباء باجی کی مایوں والے دن ۔۔۔۔ بات سمجھ نہیں آئی“شاہنزیب الجھ کر پوچھنے لگا
” ارے وہ منگنی ہلکی ہوئی تھی۔۔ گھر کے ہی افراد تھے بس۔۔۔ تو ریشم صاحبہ رونے لگیں کہ میری بھاری منگنی کرو۔۔۔ اسے بھاری منگنی اور دولہن بنے کا بہت شوق ہے۔۔ آسان تھوڑی ہوتا منگنی کرنا وہ بھی بھاری ۔۔۔اتنے کام ہوتے ہیں اور پھر شادی کے دنوں میں۔۔۔ اوپر سے پھوپھو کا کوئی بیٹا بھی نہیں ہے۔۔۔ اس لٸے بڑی پھوپھو نے صرف اس کا دل رکھنے کے لیے صباء باجی کی مایوں میں اس کی بھاری منگنی کا کہ دیا ۔۔۔۔ویسے بھی مایو کافی بڑے پیمانے پر ہورہی ھے۔۔۔کیا فرق پڑ جائے گا وہ دلہن بن کر بیٹھ جائے گی اور دو تین رسمیں ہو جائیں گیں“ اسما نے بولا تو شاہنزیب اور راحیل دونوں سوچوں میں گم سم ہو گئے
” ماہنور کو تو دلہن بننے کا بہت شوق تھا پر شادی جس طرح ہوئی وہ انجوائے ہی نہیں کر سکی۔۔”شاہنزیب کو احساس ہوا تھا ۔۔۔
”کیا؟؟؟“راحیل کو احساس ہوا تھا کہ ثانیہ کے بھی بہت خواب ہوں گۓ شادی کو لے کر۔۔۔ آخر وہ بھی تو ایک لڑکی تھی۔۔۔ وہ ثانیہ کو اداس نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔ تو وہ الجھ کر پوچھنے لگی۔۔۔
”کچھ نہیں"راحیل نے نفی میں گردن ہلا دی۔۔۔
*******-------------***********
وہ کچن میں داخل ہوئی تو سب سے پہلے اپنے بالوں کو فولٹ کرکے کیچر کر لیا۔۔۔ وہ لائٹ برون رنگ کے سادھے سے لباس میں ملبوس تھی۔۔۔ کانوں میں سونے کی چھوٹے سے ٹوپس تھے۔۔۔ اس نے ایپرین باندھا اور جہاں آٹا گوندنا تھا وہاں کے سلیپ کو صاف کی ۔۔۔۔تھال دھو کر لاٸی اور سلیپ پر رکھا۔۔۔”ارے یہ آٹا کس نے اوپر والے باکس میں رکھ دیا؟؟۔۔۔۔۔میرا تو ہاتھ بھی نہیں جاتا۔۔۔“ وہ یہ سوچ کر ہاتھ ٹاؤل سے صاف کر کے پاؤں کے انگوٹھے پر کھڑے ہوکر اتارنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔”او ۔۔۔یار ۔۔۔ اس کا کیپ تک نہیں لگا ہوا ۔۔۔ضرور یہ ستارہ کا کام ہے۔۔۔ یہ ہر وقت بس کام چوری کرتی ہے ۔۔ستارہ ۔۔۔۔ستارہ“ وہ کہ کر چلائی تھی۔۔ اس کا ہاتھ پہنچ ہی نہیں رہا تھا اس بکس تک۔۔۔ ستارہ تو نہ آٸی پر شاہنزیب آ گیا تھا ۔۔۔وہ فورا مڑی تھی ۔۔۔وہ چلتا ہوا اس کی جانب آیا تو ماہنور سیدھے ہو کر کھڑی ہو گئی۔۔”یہ میرے دل کو کیا ہوجاتا ہے شاہ کے آتے ہی“ ماہنور کے دل کی دھڑکنوں نے اسپیڈ پکڑ لی تھی۔۔۔
” میں اتار دیتا ہوں “شاہنزیب نے آتے وقت دیکھ لیا تھا کے ماہنور آٹے کے باکس کو اتارنے کی کوشش کر رہی ہے ۔۔شاہنزیب ماہنور سے لمبا تھا وہ اس کے کندھے سے تھوڑی اونچی تھی۔۔۔ شاہنزیب مسکراتا ہوا ماہنور کو دیکھنے لگا۔۔۔ اس کا ہاتھ باآسانی آٹے کے بکس تک ہاتھ پہنچ گیا تھا پر اس کا سارا دیھان ماہنور پر تھا جو اس کے بالکل نزدیک کھڑی تھی۔۔۔شاہنزیب اسے محبت بھری نگاہ سے تکتے ہوئے مسکراء رہا تھا۔۔ اس کی نظروں کی تپش کو ماہنور اپنے چہرے پر محسوس کر پا رہی تھی ۔۔اس نے نظریں جھکالیں۔۔۔ شاہنزیب نے آٹے کے باکس پر ہاتھ رکھ لیا تھا ۔۔۔اس کے اوپر والے حصے کو پکڑ کر کھڑا رہا اور ماہنور کو دیوانوں کی طرح دیکھتا رھا۔۔۔ شاہنزیب ماہنور کو دیکھنے میں اتنا مگن تھا کہ اس نے دیھان ہی نہ دیا کے بکس کا کیپ نہیں ہے اور اس نے جیسی ہی بے دھیانی میں آٹے کا باکس میں اتارنے کی نیت سے کھینچا تو باکس آڑا ہو گیا۔۔۔ اور سارا آٹا شاہنزیب پر آ کر گرا۔۔
” کہیں پر نگاہیں اور کہیں پر نشانہ لگاؤ گے تو یہی ہوگا شاہنزیب میاں“ بھابھی مسکراتے ہوئے بولی تھیں۔۔۔ ماہ نور بھی مسکرانے لگی تھی۔۔۔ وہ پورا آٹے سے لت پت ھو گیا تھا ۔۔۔وہ خود کو جھاڑنے لگا تو اس کی نظر ماہنور کے مسکراتے سراپے پر پڑی ۔۔۔۔۔چار سال بعد اس کا مسکراتا ہوا خوبصورت چہرہ دیکھ وہ آٹا جھاڑنا بھول اسے ہی دیکھنے لگا تھا۔۔۔۔۔
” شاہ آج تک میں نے تمہارے لئے کتنی چالیں چلیں اور تم تھے کہ کسی میں پھنستے ہی نہیں تھے اور آج دیکھو میرے بغیر کچھ کیے ہی تمہارا یہ حال ہوگیا“ اسے پورنا وقت یاد آگیا تھا۔۔۔ جب وہ کتنی کوششیں کیا کرتی تھی اسے تنگ کرنے کے لیے۔۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے سب بھول گئی تھی اس لمحے۔۔ اسے آٹے میں لت پت دیکھ اور بولنے لگی تھی۔۔۔پر اگلے ہی لمحے وہ خاموش ہوگئی۔۔۔ اس کے چہرے سے مسکراہٹ بھی غائب ہوگئی تھی اور وہ تیزی سے کچن سے باہر چلی گئی۔۔۔
******------------*********
کامران گھر میں آیا تو سب کے منہ اترۓ ہوئے تھے” کیا ہوا؟؟؟“ وہ اسما سے پوچھنے لگا ”وہی جس کا ڈر تھا۔۔۔ چھپکلی شام سے گھر میں ہے اور تم صبح سے غائب ہو“ اس نے بولا تو کامران بے ساختہ بول اٹھا” تو آگئی وہ ؟؟؟“اسماء نے جواب میں اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔
”ارے چاچی جان نے اس سے کہا تھا کہ جب تک وہ نہیں آئے گی شادی کی رسمیں شروع نہیں ہونے دیں گی کیونکہ آخر وہ ان کی اکلوتی بھانجی ہے“رومیسا آپا نے آکر کامران سے کہا ۔۔
” اچھا وہ ابھی کہاں ہے؟؟؟“ کامران نے استفسار کیا۔۔۔
”تمھارے کمرے میں“
” کیا؟؟۔۔ وہ میرے کمرے میں کیوں ہے ؟؟“وہ ابرو اچکاکر
”اس لئے کیونکہ ہم نے اس سے کہا کہ وہ تمہارے کمرے میں جاکر آرام کر لے “رومیسا آپا نے کہا
”پر یہ تو غلط ہے یار آ۔۔۔پ لوگ اسے میرا کمرہ کیسے دے سکتے ہیں ؟؟کامران شکوہ کر رہا تھا
”او ۔۔۔ھو ۔۔ سارے کمرے بھرے ہوئے تھے۔۔ وہ لڑکی ہے۔۔ صوفے پر تھوڑی سولا سکتے۔۔۔ اس لئے تمہارا کمرا دینا پڑا اور تم جاؤ اور جا کر اس کے سامنے ایسی اداکاری کرو جیسے تمہیں اس کا بڑا خیال ہے اور تم خود کہ کر گئے تھے کہ تمہارا کمرہ اسے دے دیا جائے“اسمإ نے کہا تو وہ غصے سے گھورنے لگا
” یہ بتائیں میں کس اینگل سے آپ لوگوں کو بیوقوف نظر آتا ہوں “اس نے طنزیہ سوال کیا تو اسماء اس کا منہ پکڑ کر اس کے چہرے کا معائنہ کرنے لگی ۔۔۔بڑی سنجیدگی سے۔۔۔
”کیا دیکھ رہی ہو؟؟؟“ کامران نے جنھجھلا کر ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔
”یہی کہ ایسا کون سہ اینگل ہے جس سے تم بے وقوف نظر نہیں آتے“اسماء نے سنجیدگی سے کہا تو رومیسا آپا مسکرا دیں ۔۔۔اسما نے اچھا خاصا ذلیل کر دیا تھا کامران کو۔۔۔
” مسکرا لیں ۔۔۔ مسکرا لیں۔۔۔پر میں بتا دوں۔۔ میں اپنا کمرہ اس چھپکلی کو نہیں دینے والا “ کامران نے غصے سے گھورتے ہوئے دونوں کو کہا۔۔۔
” یار ایک روم کی تو بات ہے ۔۔۔شئیر کر لو نا اس سے۔۔۔ رات کو وہ سوجایا کرے گی اور دن میں تم رہ لینا “ رومیسا آپا نے کہہ کر اسے مزید غصہ دلادیا تھا
” واہ جی واہ ۔۔۔۔کیا بات ہے ۔۔۔آپ لوگ تو ایسے بول رہے ہیں جسے میں نیکما پورے دن گھر میں ہی پڑا رہتا ہوں۔۔۔۔ میں تو خود اپنے کمرے میں رات کو سونے کے لئے ہی جاتا ہوں۔۔ میں کچھ نہیں جانتا۔۔۔ میرا روم مجھے واپس چاھیے...اور میں ابھی جا کر خالی کرواتا ہوں ۔۔۔ویسے بھی چاچی جان نے بلایا ہے ناں اسے۔۔۔۔ تو وہی اس کے رہنے کی جگہ بھی کریں“ کامران غصے سے بول کر سیڑھیوں کی طرف بڑھا تھا۔۔۔۔
” او۔۔۔ہو ۔۔۔۔۔۔کامران سمجھا کرو ۔۔ ایک کمرے کی تو بات ہے“ اسما نے التجائی انداز میں کہا تھا۔۔۔
” خود سوچو اس کی نظر میں تمہاری عزت کتنی بڑھ جائے گی“رومیسا آپا نے اسے سنہرے خواب دیکھائے تھے۔۔
” آپا ۔۔۔مجھے اس کی نظر میں عزت نہیں بڑھانی ۔۔۔میرا کام بس اسے شاہنزیب سے دور رکھنا ہے اور رہی بات روم کی تو وہ میں نہیں دینے والا۔۔ کل سے شادی کی تیاریاں شروع ہو رہی ہیں اگر چھپکلی کو روم دیا۔۔۔ تو خود چھت پر جا کر سونا پڑے گا۔۔۔ ایک تو پورا دن بھاگم دوڑی میں گزرے گا اور اس پر آپ چاھتی ھیں کے رات کو سونے کے لئے میں چھت پر جاؤں۔۔ ہرگز نہیں“ کامران نے صاف انکار کیا اور غصے سے سیڑھیاں چڑھ گیا۔۔۔
” دیکھو ذرا میری بہنیں ہیں یا دشمن ؟؟؟۔۔۔۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ کوئی روم خالی نہیں ہے ۔۔۔میرا روم اس چھپکلی کو دے دیا ابھی جاکر اسے باہر نکالتا ہوں میں اپنا روم کسی سے شیئر نہیں کرنے والا“ کامران دل ہی دل کڑتا ہوۓ دروازہ نوک کیا ۔۔۔دو تین بار نوک کرنے کے باوجود کوئی جواب نہ ملا تو خود ہی کمرے کا دروازہ کھول کر داخل ہوا۔۔۔
اسے سعدیہ اپنے سامنے نماز پڑھتی ہوئی نظر آئی۔۔۔وہ پیلے رنگ کے سوٹ میں تھی اور سفید رنگ کا دوپٹہ اس نے رکعات کی طرح باندھا ہوا تھا۔۔۔۔ اس لمحے کامران اسے دیکھتے ہی رہ گیا۔۔۔۔ اس نے زندگی میں پہلی بار سعدیہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا ۔۔۔۔ نہ صرف چونکہ بلکہ دل ہی دے بیٹھا ۔۔۔وہ اسے ٹکٹکی باندھے حیرت سے دیکھنےلگا تھا۔۔۔ وہ اتنی حسین لگ رہی تھی کہ اس کی نگاہ کا مرکز بن گئی ۔۔۔۔۔ سعدیہ کے وجود سے اسے نور نیکلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ اس نے بہت بار سعدیہ کو برانڈ کپڑوں اور جیولری میں دیکھا تھا پر آج بات اور تھی۔۔۔ جیسے ہی وہ سجدے میں گی ۔۔۔کامران بیٹھ گیا ۔۔۔سعدیہ جتنا خدا کے آگے جھکتی ۔۔۔کامران کا دل اس کے آگے اتنا ہی جھکنے لگا۔۔۔ وہ اتنی حسین لگ رہی تھی کہ وہ سب بھول بیٹھا تھا۔۔۔ اس کا یہ روپ کامران کو گرویدہ کر گیا تھا۔۔۔۔ اس کا نورانی چہرہ۔۔۔۔ اس کے گلابی ہونٹ جو اس لمحے اللہ کی عبادت میں مشغول تھے ۔۔۔ اس کی کھڑی ناک پر ہلکا سا گیلا پن تھا شاید وہ ابھی ابھی وضو کر کے نماز پڑھنے کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔اس کی آنکھیں جو خدا کے حضور جھکی ہوئی تھیں۔۔ اس نے سلام پھیرا تو کامران کو خود کو گھورتا ہوا دیکھ حیران ہوئی۔۔۔۔۔ کامران بالکل اس کے سامنے دروازے کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔
سعدیہ نے محسوس کیا کہ وہ تو کھیں کھویا ہوا ہے اس کی جانب چلتی ہوئی آئی اور آنکھوں کے آگے چٹکی بجا کر ”یہاں کیوں بیٹھے ہو؟؟ اور تم بالکل سامنے ہی کیوں بیٹھ گۓ تھے ؟؟؟۔۔۔جب دیکھ لیا تھا کہ میں نماز پڑھ رہی ہوں تو چلے جاتے ۔۔۔۔ تمہیں پتا نہیں ہے کیا نمازی کے سامنے نھیں آتے “ سعدیہ تھوڑا سہ جھکی تھی چٹکی بجانے کے لیے اس کی آنکھوں کے سامنے۔۔۔۔۔ جیسے ہی کامران ہوش میں آیا وہ سیدھے کھڑے ہو کر کامران سے بات کرنے لگی ۔۔۔۔۔
کامران گھبرایا ہوا تھا وہ ایک لمحہ بھی وہاں نہ رکا اور باہر آگیا ۔۔۔۔اس کے حواس ابھی تک کام نہیں کر رہے تھے ۔۔۔کامران سمجھ نہیں پا رہا تھا اس کے ساتھ سعدیہ نے کیا۔۔۔ کیا ہے ؟؟؟۔۔۔۔۔وہ تیزی سے چلتا ہوا نیچے آیا تو اسماء اور رومیسا اس کا چہرےہ جو پسینہ پسینہ ہوا تھا دیکھ حیران ہوۓ۔۔۔۔۔
”کیا ھوا؟؟؟“ وہ دونوں پریشان ہو کر استفسار کرنے لگیں۔۔۔ وہ سمجھ ہی نہیں پارہا تھا کہ ہوا کیا ہے۔۔۔۔ تو ان کو کیا بتاتا ۔۔۔ نفی میں گردن ہلا کر واپس چلا گیا ۔۔۔اس بار وہ چھت پر گیا تھا۔۔۔ چاند کو دیکھا تو سعدیہ کا سراپا جو نورانی تھا آنکھوں میں گھومنے لگا۔۔۔۔” مجھے سعدیہ کو دیکھتے وقت کیا ہو گیا تھا؟؟؟۔۔۔۔۔ کیوں آج اتنی حسین لگی مجھے؟؟؟۔۔۔ میں نے تو اسے۔۔۔۔ کبھی اس نظر سے دیکھا تک نہ تھا پھر آج یہ کیسا جادو کیا اس نے مجھ پر۔۔۔ وہ بھی کیا سوچتی ہوگی میرے بارے میں ۔۔۔۔کے کامران مجھے کیسے دیکھ رہا تھا“ وہ خود سے الجھ کر سوال کر رہا تھا جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔۔۔۔
راحیل آفس میں بیٹھا ہوا تھا کامران کے ساتھ اس کے روم میں ”سر ۔۔۔۔راحیل سر سے کوئی جینٹل مین ملنے آئے ہیں ۔۔بہت اصرار کر رہے ہیں کے راحیل سر سے ملے بغیر نہیں جائیں گے“
”آنے دو“ اس نے اجازت دے دی تھی بغیر راحیل سے پوچھے
”کون ہے؟؟؟“راحیل نے اسے انٹرکام پر بات کرتے سنا تو پوچھا
” تیرا سسر۔۔۔۔ بہت دنوں سے آفس کے چکر کاٹ رہا ہے تم سے بس ایک بار ملاقات کرنا چاہتا ہے اس لیے تو میں نے تمھیں آفس بلایا ہے“ کامران نے اسے بلانے کی وجہ بیان کی تھی۔۔
” مجھے اس سے کوئی بات نہیں کرنی پہلے بتا دیتا اس وجہ سے بلا رہا ہے تو اپنا وقت یہاں آنے میں ضائع نہیں کرتا “ راحیل غصے سے بولا۔۔
” یار سن تو لے کے وہ بولنا کیا چاہ رہا ہے۔۔۔“ کامران نے اپنی چیٸر سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا اور اسے اقبال سے بات کرنے کے لیے اکیلا چھوڑ کر چلا گیا۔۔۔
” میں آئے کمنگ “ وہ دروازہ نوک کرتے ہوۓ اجازت طلب کرنے لگے۔۔۔
”یس پلیز“ راحیل نے کہا تو وہ اندر آ گئے۔۔۔
” بیٹھیں“ راحیل نے اپنے سامنے والے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔۔ تو وہ بیٹھ گئے
” بیٹا وہ میں “اقبال کا تو آج رنگ ہی بدلا ہوا تھا اس کے منہ سے اپنے لئے بیٹا سن راحیل چونکا تھا ۔۔”آپ مجھے راحیل بولیں۔۔“راحیل نے انھیں ٹوک دیا تھا۔۔۔
” ٹھیک ہے جیسا تم بولو ۔۔۔۔بیٹا ۔۔۔“ ان کی زبان سے پھر بیٹے کا لفظ پھیسل گیا تھا ۔۔۔ جسے وہ فوراً ہی درست کرتے ہوئے بولے ”نہیں راحیل وہ میں“
” کھانا منگاؤں یا کافی۔۔۔۔ ویسے شام کا وقت ہے چاۓ زیادہ اچھی رہے گی۔۔۔ کیا پسند کریں گے ؟؟؟“راحیل مہمان نوازی کرنے لگا تو وہ انکساری سے نفی کرنے لگے۔۔۔” ایسے کیسے نہیں۔۔۔ جب میرے گھر والے آپ کے گھر رشتہ لائۓ تھے ۔۔۔ تو آپ نے ان کو کھانا کھلایا تھا“ راحیل نے طنزیہ کہا۔۔ مانو وہ اس کھانے کا بدلہ پورا کر رہا ہو۔۔۔ اس نے خود ہی کھانا آرڈر کر دیا ۔۔۔” تو بولیں کیسے آنا ہوا ؟؟؟۔۔۔کیوں ملنا چاہتے تھے آپ مجھ سے ؟؟؟“اقبال کپڑے تو ٹھیک ٹھاک پہنا ہوا تھا مانا تھوڑے پرانے تھے پر ابھی بھی چمک رہے تھے۔۔۔
” وہ میں یہ ثانیہ کے سارے کاغذات لے آیا ہوں ۔۔۔یہ لو بیٹا۔۔۔او۔۔۔سوری۔۔۔میرا مطلب راحیل۔۔۔۔ اس میں ثانیہ کی ڈگریاں بھی ہیں تاکہ اگر وہ نوکری کرنا چاہے تو آرام سے کرلے ۔۔۔میں تو اسے کرنے نہیں دیتا تھا اس لیے کبھی کام ہی نہیں آٸیں۔۔۔ پر بہت شوق ہے اسے ٹیچنگ کرنے کا“ اقبال صاحب نے یہ کہہ کر اس کی جانب ایک کالے رنگ کی فائل بڑھائی تھی راحیل نے فورا لے لی۔۔۔ آج اقبال کے چہرے پر نہ وہ آکڑ تھی نہ غرور اور نہ ہی راحیل کو دیکھتے وقت نظروں میں حقارت و نفرت۔۔۔ وہ چہرے سے بہت غمگین لگ رہے تھے اتنے کے کیسا لگ رہا تھا کہ وہ ابھی رو دیں گے۔۔۔
” راحیل ایک اور بات بولنا چاہتا ہوں وہ بہت ضروری ہے“ انہوں نے کہا تو راحیل نے کوفت ظاہر کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلادیا۔۔۔” بیٹا میری بیٹی بے قصور ہے وہ تو یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ اس کا رشتہ تمہارے گھر سے آیا ہے۔۔۔ میں اپنی بیٹی سے بہت پیار کرتا ہوں اور وہ تم سے اور یہ بات وہ مجھے بہت سال پہلے ہی رومیساء کی شادی پر بتا چکی تھی۔۔۔۔ وہ بہت خوش تھی اور چاہتی تھی کہ میں تم سے ملوں۔۔۔ وہ میری نازک سی بچی ہے پھولوں کی طرح پلی ہے میں نے اسے کبھی کسی چیز کے لیے انکار نہیں کیا۔۔۔ اس لیے جب اس دن میں تم سے ملا تو اس کے سامنے اچھے طریقے سے ملا اور اس کے جاتے ہی اپنی سوچ کے مطابق جیسا میں تمھیں سمجھتا تھا ویسے بات کی“ ان کے اس انکشاف نے راحیل کو حیران کر دیا۔۔۔
” رومیسا آپا کی شادی والے دن جو آپ بات کر رہے تھے وہ ثانیہ کے متعلق کر رہے تھے؟؟؟“ راحیل بے ساختہ پوچھ بیٹھا۔۔
”ہاں“ اقبال صاحب نے فورا اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔ ان کا جواب اسے پرانی یادوں میں لے گیا تھا وہ تو سمجھتا تھا کہ اس دن انھوں نے جو کچھ کہا تھا وہ ماہنور کے متعلق تھا۔۔۔۔”ہاں۔۔۔ اور جب وہ ماہنور کی شادی پر یہاں آئی تھی تو یہ ارادہ کر کے آئی تھی کہ تم سے اپنے دل کی بات کہہ دے گی وہ بالکل ویسی لڑکی بن جانا چاہتی تھی جیسی لڑکی تم چاہتے تھے جیسی تم نے اپنی ڈائری میں لکھی تھی اس نے خود کو بدلنا شروع کیا تو ہمیں بالکل پسند نہیں آیا۔۔وہ کیوں تم جیسے لڑکے کے لیے خود کو بدل رہی ہے؟؟؟۔۔۔۔ وہ تم سے محبت کرتی تھی یہ بات تمہاری ماں کو بھی اس نے خود بتائی تھی اور اپنی خواہش بھی ظاہر کی شادی کرنے کی اور تمہاری ماں بھی بہت خوش ہوئی تھیں یہ سن کر ۔۔۔۔پھر اسے پتہ چلا کہ تم کسی اور سے پیار کرتے ہو وہ بری طرح ٹوٹ گئی تھی ہر وقت غمزدہ رہتی ۔۔۔بڑی مشکل سے ہم اسے تمہاری یادوں سے نکال رہے تھے۔۔۔ تم سوچ بھی نہیں سکتے کتنے خواب تھے اس کی آنکھوں میں۔۔ کہتی تھی پاپا میں بھی رومیسا آپا جیسی شادی کروں گی ۔۔کبھی کہتی میں امریکا میں نہیں بلکہ پاکستان میں شادی کروں گی تاکہ میرے سارے کزن اس شادی کو اسی طرح یادگار بنائيں جیسی رومیساء آپا کی بنائی تھی۔۔۔۔ پھر اچانک ایک دن تمہارے گھر والے رشتہ لینے آئے میرا خون کھول گیا تھا کہ جب تم کسی اور سے محبت کرتے ہو ۔۔۔تو تمہارے گھر والے میری بیٹی کا رشتہ لے کر کیوں آئے ہیں مجھے لگا انہیں میری بیٹی نہیں بلکہ اس کی جائیداد میں انٹرس ہے ۔۔میں نے تمہارا رشتہ لانے پر بہت بےعزتی کی تمہاری دادو کی تمہاری ماں کی تمہاری بہن اور چاچی کی۔۔۔۔“ وہ یہ کہہ کر خاموش ہو گئے ان سے مزید بولا نہیں جا رہا تھا آواز کافی روہانسا ہو گئی تھی ۔۔۔۔
راحیل کا منگوایا ہوا آرڈر آگیا تھا۔۔۔ وہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ وہ صرف کپڑے ہی اچھے پہنے ہوئے تھے۔۔۔جیسے ہی ان کے آگے چاۓ اور اس کا سامان لگا ۔۔۔بھوکوں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑے وہ جلدی جلدی کھا رہے تھے ان کی حالت دیکھ راحیل بہت افسردہ ہوگیا ۔۔۔اس کا بدلہ پورا ہوا تھا وہ اقبال کو آج اس حالت کو پہنچا چکا تھا کہ وہ روٹی روٹی کا محتاج تھا شاید یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنی ضد چھوڑ دی اور ثانیہ کو آج پوری طرح راحیل کے حوالے کر دیا تھا ۔۔۔
” اور منگاؤں؟؟“راحیل اسے یوں کھاتا دیکھ عجیب طرح کی کیفیت میں گرفتار ہو گیا تھا ۔۔۔اس کا ذہن مفلوج ہوگیا اس نے نہایت رحم کھا کر اقبال سے کہا ۔۔۔
” نہیں بیٹا ۔۔۔بس ۔۔۔۔ہمارے یہاں کہتے ہیں کہ دامات کے گھر کا پانی بھی نہیں پیتے ۔۔۔میں نے تو پھر بہت کچھ کھا لیا ہے۔۔۔۔ اور ہاں بیٹا میں جانتا ہوں کہ تم مجھ سے بدلے کے لیے یہ سب کر رہے ہو پر میں سچ کہتا ہوں ۔۔۔ثانیہ کا اس میں کوئی قصور نہیں۔۔۔ مجھے تو میرے غرور کی سزا مل رہی ہے جو ملنی بھی چاہیے پر اسے کیوں ؟؟؟“ وہ یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے ان کی آنکھوں میں آنسو تھے جسے وہ صاف کر رہے تھے وہ صرف بول نہیں رہے تھے کہ وہ شرمندہ ہیں ۔۔۔وہ واقعی شرمسار تھے اور ان کا یہ معافی مانگنا راحیل کو بھی شرمسار کر گیا تھا۔۔۔ وہ جاتے جاتے واپس مڑے ”بیٹا۔۔۔۔ اگر ہو سکے تو ہمیں معاف کر دینا اور تمہاری پھوپھو کہہ رہی تھیں کہ ایک بار تم سے کہہ دوں۔۔۔ اس لیے بول رہا ہوں کہ اپنی شرط ختم کر دو اور ہمیں ہماری بیٹی سے ملنے دو ۔۔۔ہم بوڑھے اپنی لخت جگر کو دیکھنے کے لئے ہر لمحہ ترستے ہیں “انہوں نے التجائی انداز میں کہا ۔ تو راحیل شرمندگی کی اتھا گہرائیوں میں اتر گیا۔۔۔راحیل نے مگر اقبال صاحب کو کوٸی تاثر نہ دیا۔۔۔۔ تو اقبال صاحب وہاں سے چلے گئے ۔۔۔۔ان کے جاتے ہی وہ ایک لمحہ بھی وہاں نہ رکا۔۔۔۔ وہ تیزی سے اپنے گھر لوٹا اور اپنی ڈائری ڈھونڈنے لگا۔۔۔
جب ثانیہ اس کے کمرے میں ڈائری رکھ کر گئی تھی تو راحیل نے کبھی اسے کھول کر دیکھا ہی نہیں ۔۔۔۔ کیونکہ ماہ نور کی شادی ہو چکی تھی اور وہ بہت ناامید ہو گیا تھا اس لیے ڈائری مل جانے کے باوجود الماری میں اسے کپڑوں کے نیچے دبا دیا تھا۔۔۔۔
ڈائری ملی تو اسے کھول کر دیکھا ۔۔۔۔بھت حیران ہوا کہ اس میں ماہ نور کی تصویر نہیں تھی۔۔۔ جب صفحے پلٹے تو ایک کاغذ رکھا نظر آیا ۔۔۔۔ یہ وہی کاغذ تھا جس پر اس کی رائٹنگ میں شاہنزیب نے ایک شعر لکھا تھا وہ پڑھا تو راحیل خود چونک گیا تھا۔۔۔” میری ڈائری میں یہ شعر کس نے لکھا؟؟؟“ اس نے کافی سوچا۔۔۔ تو اسے شاہنزیب کی رائٹنگ کاپی کرنے کی صلاحیت یاد آئی۔۔۔”شاہنزیب ۔۔۔ہاں ۔۔۔ وہی ہوسکتا ہے کیونکہ وہ رائٹنگ کاپی کرنے میں ماہر تھا بچپن میں۔۔۔۔ہاں یہ اسی کی حرکت ہے پر اس نے یہ شعر کیوں لکھا۔۔۔۔ یعنی میری ڈائری ماہ نور نے نہیں شاہنزیب نے غائب کی تھی ۔۔۔۔ اور پھر اس میں سے ماہنور کی تصویر غائب کر کے اس میں یہ شعر ڈال کر ثانیہ تک پہنچا دی اور وہ بے چاری سمجھی کے یہ ساری غزلیں میں نے کسی تصوراتی لڑکی کے لٸے لکھی تھیں اور وہ یہ لڑکی بننے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔ یاخدا۔۔۔۔کیوں کیا شاہنزیب تم نے یہ سب؟؟؟“ وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا.....
”راحیل ۔۔۔راحیل۔۔۔ تم یہاں ہو میں تمہیں پورے گھر میں ڈھونڈ رہی ہوں“ ثانیہ کہتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔ تو وہ ڈاٸری واپس الماری میں رکھ کر ثانیہ کی جانب پلٹا۔۔۔”تم واقعی بھت اچھی ہو۔۔۔میں خوش قسمت ہوں کے مجھے تم ملیں“وہ ثانیہ کی جانب تیزی سے چلتا ہوا آیا ۔۔۔اور اسکے سینے سے لگ کر بڑی محبت کھنے لگا۔۔۔ اس نے ثانیہ کو بہت کس کے اپنی باہوں کے حصار میں جکڑ لیا۔۔۔ پہلی بار وہ اتنی گرم جوشی سے گلے لگا تھا۔۔۔ ثانیہ اچانک راحیل کے اس رویہ پر حیران تھی۔۔۔۔”کچھ ہوا ہے کیا؟؟؟“وہ الجھ کر پوچھنے لگی۔۔۔۔
” تمہارے ڈیڈ آئے تھے آج آفس۔۔۔بھت دوکھی تھے ۔۔۔۔مجھ سے معافی بھی مانگ رھے تھے۔۔۔۔“راحیل نے اتنا ہی کہا کے ثانیہ اس کے سینے سے ذرا ہلکا سہ ھٹی ۔۔۔راحیل کی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ پوچھنے لگی۔۔۔۔”تو تم نے معاف کیا؟؟؟“ اس کی آنکھوں میں ایک امید کی کرن نظر آئی تھی۔۔۔۔ وہ دلی طور پر تمنا رکھتی تھی کہ راحیل کا جواب ہاں میں ہو۔۔۔۔۔
” میں نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا لیکن تم ان سے خود فون کر کے بات کر لو۔۔۔ چاہو تو شادی میں بھی بلا سکتی ہو۔۔۔۔ گھر والوں سے میں خود بات کر لوں گا“ ثانیہ کی محبت کا انکشاف اسے اپنی ہی نظر میں گرا گیا تھا۔۔۔ اسے آج خبر ہوئی تھی کہ ثانیہ جانتی ہے کہ وہ ماہنور سے محبت کرتا ہے۔۔۔۔ پھر بھی اس نے کبھی کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا اور نہ ہی کبھی اس بات کا طعنہ دیا۔۔۔۔۔
”واقعی۔۔۔تم سچ کہ رھے ہو؟؟؟“ ثانیہ کا چہرہ کھل اٹھا تھا مارے خوشی کے۔۔۔ وہ خوشی کے مارے دوبارہ تصدیق کرنے لگی۔۔۔
”ہاں۔۔۔اپنے والد سے میری طرف سے معافی مانگ لینا“اس نے جیھمے ہوۓ انداز میں کہا ۔۔۔۔تو اس بار ثانیہ خوشی کے مارے اس سے چیمٹ گٸ۔۔۔۔
******----------********
وہ اپنے کمرے کی جانب آرہا تھا کہ اسے اپنے کمرے سے ماہنور روتے ہوئے بھاگتی ہوئی باہر آتی اور پھر اپنے برابر سے گزر کر اوپر کے فلور پر جاتی نظر آئی.... وہ اپنے کمرے میں گیا تو سعدیہ اور اس کی والدہ کھڑی تھیں۔۔۔۔
” کیا ہوا ہے؟؟“شاہنزیب نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا۔۔۔
” کچھ نہیں بدتمیز لڑکی سے اور امید بھی کیا کی جاسکتی ہے “شمسہ بیگم نے نہایت برے لہجے میں بولا تھا۔۔۔
”کیا؟؟۔۔۔ایسا کیا ، کیا ہے ماہنور نے؟؟“ وہ الجھی نگاہ سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔۔۔
” میں ابھی آتی ہوں “سعدیہ یہ کہ کر وہاں سے چلی گئی۔۔
”شاہ تم کچھ نہیں جانتے۔۔۔ کتنی بد تمیز اور بد زبان ہو گی ہے یہ لڑکی ۔۔۔ارے ماں جیسی ہوں اس کی ۔۔۔اس کا برا تھوڑی چاہوں گی۔۔۔ میں نے ذرا سا یہ کیا کہہ دیا کہ تمہاری مایوں کے کپڑے سعدیہ پسند کرکے لائے گی مارکیٹ سے ۔۔۔اس نے تو زبان چلانا شروع کر دی۔۔۔“شمسہ بیگم شکوہ کرتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔۔
” پر سعدیہ کیوں لاۓ گی میرے کپڑے؟؟؟“ وہ سوالیہ نظروں سے تکتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔۔۔۔
” بیٹا۔۔۔۔وہ تمہاری بچپن کی منگیتر ہے۔۔۔ میں نے ہی اس سے کہا ہے کہ وہ جاکر اپنی پسند کا سوٹ لاۓ تمہارے لیے“
”کیا؟؟۔۔۔مما پلیز۔۔۔“ اس کے لہجے میں خود بخود سختی آگئی تھی۔۔۔ اپنی والدہ کی بات سن۔۔۔ لیکن اگلے ہی لمحے اس نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا ” سعدیہ میری منگیتر تھی ۔۔۔۔۔ہے نہیں اور ماہنور میری بیوی ہے۔۔۔۔ اگر آپ اس کے سامنے کسی اور کو میرا کام کرنے کی بولیں گی تو یقینا اسے برا لگے گا۔۔۔۔دیکھیں میں صاف صاف لفظوں میں بول رہا ہوں ۔۔۔۔ماہنور میری بیوی ہے اور سعدیہ سے میرا کوئی رشتہ نہیں ہے۔۔۔۔سواۓ خالہ زاد بہن کے ۔۔۔اس لٸے پلیز میرے کام میری بیوی کو کرنے دیں۔۔۔۔ کسی اور لڑکی کو نہیں “وہ بڑے بھرم سے کہہ کر باہر چلا تھا کمرے سے۔۔
شمسہ بیگم کا منہ کھلا کا کھلا ہی رہ گیا تھا مارے حیرت کے۔۔۔شاہنزیب تیزی سے اوپر کی جانب گیا۔۔۔۔ وہ دیوار سے ٹیک لگائے ۔۔۔۔۔لائبریری کے دروازے کے بالکل سامنے کھڑی رو رہی تھی۔۔۔۔۔شاہنزیب آیا تو دل کو پہلے ہی خبر ہو گی ۔۔۔وہ آنسوں صاف کرکے جانے لگی۔۔۔جب شاہنزیب کے بالکل برابر سے گزرنا چاھا تو اس نے ہاتھ کو دیوار سے لگا کر ماہنور کا راستہ روکا۔۔۔ ماہ نور نے ایک نظر شاہنزیب کی جانب دیکھا اور پھر واپس دوسری طرف جہاں سے آئی تھی وہاں کے لئے مڑی تو شاہنزیب نے اس طرف بھی ہاتھ رکھ لیا” جاؤ بھاگو“ وہ راستہ دونوں طرف سے روک۔۔۔ اسے دیوار سے لگائے بڑے بھرم سے کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔” بھاگو ناں مانو “وہ پھر سے بولا تھا ۔۔۔ماہنور سر جھگاۓ اپنے آنسوں صاف کر رہی تھی۔۔۔۔” چلو میرے ساتھ یہ کہہ کر اس نے ہاتھ تھاما اور لائبریری میں لے گیا ۔۔۔لائبریری کا دروازہ اندر سے لاک کردیا ۔۔۔ماہنور بک شیل سے بالکل چپک کر کھڑی ہو گئی مارے گھراہٹ اور ڈر کے۔۔۔۔ جو اس وقت اور بڑھ گیا یہ دیکھ کے اس نے لائبریری کا دروازہ اندر سے لاک کر دیا ہے۔۔۔۔ وہ قریب آنے لگا تو ماہ نور اس سے دور جانے کے لیے ہلکے ہلکے قدم پیچھے لینے لگی۔۔۔” کہاں جارہی ہو؟؟“ یہ کہہ کر اس نے پھر سے دونوں طرف سے اپنے ہاتھوں کو اس کے راستے میں رکاوٹ بنا کر حاٸل کردیا تھا۔۔۔۔
”ماہنور۔۔۔۔ماہنور۔۔۔۔ تم اندر ہو کیا؟؟“ اسماء نے دروازہ بجاتے ہوئے باہر سے بولا۔۔۔
” جب بھی تمہارے ساتھ ہوتا ہوں کوئی نہ کوئی ضرور آجاتا ہے ۔۔۔اب جو میں بولوں وہی بولو اسماء سے“ شاہنزیب نے اسے گھورتے ہوئے حکم دیا تو وہ مزید ڈر گئی
” مانو تم رو رہی ہوں ناں ؟؟؟۔۔۔مجھے پتہ ہے کچھ تو بولو“ اسماء کو سعدیہ نے سب کچھ بتا دیا تھا تو وہ چپ کرانے آئی تھی۔۔۔
” میں رو نہیں رہی ۔۔۔۔کتاب پڑھ رہی ہوں “شاہنزیب نے اس کے کان کے پاس اپنا منہ لا کر ہلکے سے کہا ۔۔۔
”میں جھوٹ نہیں بولتی“ وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے اپنے وجود میں ہمت جمع کر بولی ۔۔۔
”یہی دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے ۔۔“ وہ ماہ نور کو طنزیہ چھوٹی آنکھیں کرتے ہوئے بولا ۔۔”تم کیا ہو ۔۔۔یہ مجھ سے بھتر کوئی نہیں جانتا اب بولو ورنہ“ دھمکی آمیز لہجے میں ڈرانے کی نیت سے بولا ۔۔۔۔ماہنور نے اس کے کہے الفاظ زور سے دہرا دیے ۔۔۔۔
” مجھے سب بتایا ہے سعدیہ نے ۔۔۔۔تم دروازہ کھولو یار ۔۔۔چاچی تو کچھ نہ کچھ بولتی رہتی ہیں۔۔۔۔ اسے دل پر کیوں لے رہی ہو ۔۔تمھیں تو عادت ہو جانی چاہیے ان کی کڑوی باتوں کی۔۔۔۔ میری مانو تو ایک کان سے سننا کرو اور دوسرے کان سے نکال دیا کرو“ اسماء نے فکر مند ہوتے ہوئے کہا اور ساتھ ساتھ مشورہ بھی دیا تھا ۔۔۔۔
”ٹھیک ہے۔۔۔۔اب مجھے کتاب پڑھنے دو ۔۔۔۔ تم جاؤ“شاہنزیب پھر مسکراتے ہوئے اس کے کان میں سرگوشی کر رہا تھا۔۔۔ ماہنور نے جو اس نے کہا زور سے دھرا دیا۔۔۔
” اگر تم کتاب پڑھ رہی ہو تو دروازہ کیوں لاک کیا ہے؟؟؟۔۔۔۔ دروازہ کھولو تمہاری آواز بتا رہی ہے کہ تم رو رہی ہو“اسماء نے بولا۔۔۔۔
” میں نہیں رو رہی بس میں چاہتی ہوں کچھ دیر مجھے اکیلا چھوڑ دو اور پلیز مجھے دوبارہ تنگ کرنے مت آنا“ شاہنزیب نے جب یہ بات اس کے کان میں ہلکے سے کہی تو ماہنور نفی میں گردن ہلانے لگی آنکھیں بڑی کرتے ہوئے کہ وہ نہیں بولے گی۔۔۔۔
” بولو ورنہ میں بول دوں گا “اس نے گھورتے ہوئے بولا تو ماہنور سوچنے لگی۔۔” اگر شاہ نے بول دیا تو اسماء ناجانے کیا کیا مطلب اخذ کر لے گی خود سے ہی۔۔۔۔ اس کا دماغ ویسے بھی اس طرح کی باتوں میں بہت تیز چلتا ہے“ وہ سوچ میں پڑ گئی ۔۔۔شاہنزیب نے اسے ڈرانے کے لئے جیسے ہی بولنے کے لئے منہ کھولا۔۔۔
” جب جانتی ہو کہ میں رو رہی ہوں تو سوال کیوں کر رہی ہو ؟؟؟۔۔۔۔جاؤ یہاں سے۔۔۔ مجھے کچھ دیر کے لٸے اکیلا چھوڑ دو“ اس نے جب شاہنزیب کا منہ کھلتے دیکھا تو اس کے منہ پر جلدی سے ہاتھ رکھ زور سے اسماء سے کہنے لگی ۔۔۔ ماہ نور کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے ہی رہ گئی تھی مارے گھبراہٹ کے۔۔۔۔ وہ دروازے کی جانب دیکھ رہی تھی جبکہ شاہنزیب کی نظر اس کے حسین چہرے پر ٹکیں تھیں۔۔۔ وہ مسکرانے لگا کیونکہ وہ اپنا ہاتھ رکھ کر ہٹانا بھول گئی تھی۔۔۔اس کے خوبصورت ہاتھ شاہنزیب کے ہونٹوں سے مس تھے ۔۔۔۔مانو دیوانے کی عید ہوٸی تھی ۔۔۔ مارے خوشی کے اس کا دل جھوم اٹھا تھا۔۔۔۔
” اچھا ٹھیک ہے “اسماء اسے اکیلا چھوڑ گئی تھی۔۔۔
”ماہنور۔۔۔۔۔۔۔ماہنور“شاہنزیب نے اسماء کے جانے پر ایک لمبی سکون کی سانس لی ہی تھی۔۔۔ ماہنور نے اس کی جانب دیکھا تو فورا اپنا ہاتھ ہٹایا تو وہ دیوانوں کی طرح مسکرانے لگا لیکن جیسے ہی وہ بات کرنے لگا اب دوبارہ دروازہ بجا تھا اس بار آواز رومیسا آپا کی تھی ان کی آواز سن کر شاہنزیب نے اپنا سیدھا ہاتھ زور سے اپنے ماتھے پر دے مارا ۔۔۔
” ماہنور رو مت ۔۔۔امی تو کچھ نہ کچھ بولتی ہی رھتی ہیں۔۔۔ ان کی بات کو دل پر مت لو۔۔۔۔۔ باہر آجاؤ یار“ یہ آواز شاہزیہ آپا کی تھی۔۔۔۔
” ہاں۔۔۔۔مانو ۔۔۔چاچی کی باتوں کو دل پر مت لو “اب کے بھابھی دروازہ بجا تے ہوئے بولی تھیں۔۔۔۔
” زبردست ایک گٸ تو تین آگئیں“ شاہنزیب جھنجھلاکر بول رہا تھا ان کی آوازیں سن کر۔۔۔۔” ان سے کہو کہ تم ٹھیک ہو جاٸیں یھاں سے“ شاہنزیب نے اس کے کان میں ہلکے سے سرگوشی کی تو ماہنور نے احتجاجا نفی میں گردن ہلا دی۔۔۔۔” بولو ورنہ میں بول دوں گا۔۔۔ چلو جلدی جانے کو کہو ان سے“ شاہنزیب نے اس بار دانت پیستے ہوئے غصے سے کہا۔۔۔۔
” ان کو برا لگ جائے گا “اس نے بھی بلکل ہلکے سے بولا تھا اس کے کان کے پاس اپنا منہ لاکر۔۔۔۔۔ وہ ذرا منتی انداز میں گویا ہوئی تھی
”واہ۔۔۔۔۔ ان کو برا لگ جائےگا۔۔۔۔ اس کی بڑی فکر ہے تمہیں اور میرا کیا ؟؟؟۔۔۔۔مجھے تو دیکھتے ہی بھاگ جاتی ہو کبھی سوچا بھی ہے مجھے کتنا برا لگے گا “اس نے شکوہ کیا تو وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔
”ماہ نور تم کچھ بول کیوں نہیں رہی ہو؟؟؟“ رومیسا فکر مند ہو کر بولی تھی ۔۔۔۔۔
یہ خواتین دروازہ توڑ کر اندر آ جائیں گی۔۔۔ تمہارے چکر میں“ شاہنزیب کے اصرار پر وہ بولی تھی
” میں ٹھیک ہوں بس کچھ دیر اکیلے رھنا چاہتی ہوں یہاں۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد خود ہی باہر آجاؤں گی۔۔۔ پلیز آپ لوگ مجھے اکیلا چھوڑ دیں“ اس نے التجائی انداز میں بولا تو وہ تینوں چلی گئیں۔۔۔۔۔۔
” کبھی تم میری ناک کا مذاق اڑاتی تھی ناں کہ بالکل لال ہو جاتی ہے ۔۔۔۔اب اپنی دیکھو۔۔۔۔ ایسا لگ رھا ہے کسی نے ٹماٹر پھوڑ دیا ہو۔۔۔۔ ویسے لگ بہت کیوٹ سی رہی ہو“یہ کہہ کر اس کی ناک پکڑ کر مسکرانے لگا۔۔۔۔ رونے کی وجہ سے ماہنور کا پورا چہرہ لال ہو رہا تھا جو اس کے حسن کو دوبالا کر گیا تھا ۔۔۔۔شاہنزیب مسکرا مسکرا کر اسے دیکھے جا رہا تھا اور وہ روئے جارہی تھی۔۔۔۔” یہ لو ٹیشو “یہ کہہ کر جیب سے ٹیشو پیپر نکال کر اسے دیا تھا تو وہ آنسوں صاف کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔”چلو بیٹھ جاتے ہیں پاؤں تھک جائیں گے ورنہ۔۔۔“ اسے صوفے پر زبردستی بیٹھا دیا اور خود اس کے قدموں میں بیٹھ گیا۔۔۔۔۔” بولو۔۔۔۔رو کیوں رہی ہو ؟؟؟۔۔۔۔یہ پوچھنے کی گستاخی کر سکتا ہوں“ وہ اسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا بڑے پیار سے۔۔۔۔”بولو۔۔۔۔ کیا ہوا ہے ؟؟؟۔۔۔“وہ اصرار کر رہا تھا کہ وہ اپنے منہ سے بتائے کہ ہوا کیا ہے ۔۔۔۔جیسے پہلے بتاتی تھی ورنہ علم تو تھا اسے کے رونے کی وجہ کیا ہے۔۔۔ ”بولو ناں۔۔۔ اپنے شاہ کو نہیں بتاؤ گی“شاہنزیب کا یہ آخری جملہ حیرت میں ڈال گیا تھا ماہ نور کو ۔۔۔۔وہ حیرت سے رونا چھوڑ ۔۔۔۔اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔سب نے کہا تھا آتے ہی چھوڑ دے گا ۔۔۔۔کوئی کہتا تھا کہ خلاء لے لو۔۔۔۔ کسی نے کہا چہرہ تک نہیں دیکھنا چاہے گا ۔۔۔۔ کسی نے کہا کہ کہیں فون پر ہی طلاق نہ دے دے۔۔۔۔ کسی نے کہا بڑی ہو دو سال اس سے ۔۔۔کچھ بھی کرلو آنکھوں کو نہ بھاٶ گی اس کے................... اور وہ جس کے متعلق ہر کوئی راۓ دیتا تھا۔۔۔۔ وہ خود اس کے قدموں میں بیٹھ کر کہ رہا تھا کہ *تمہارا شاہ*
”کیا کہا تم نے؟؟؟“ اسے اپنی کانوں کی سماعت پر یقین نہ آیا تھا اس لٸے دوبارہ تصدیق کرنے کے لیے پوچھنے لگی ۔۔۔
” یہی کے اپنے شاہ کو نہیں بتاو گی؟؟“ اس کا یہ کہنا دل کو سکون دے گیا تھا ماہنور کے۔۔۔۔
” ہمارے بیچ اتنا کچھ ہو گیا پھر بھی؟؟“ وہ حیرت سے روہانسہ آواز میں بولی تھی ۔۔۔
”کیا؟؟۔۔۔ کیا ہوا ہے ہمارے بیچ؟؟“وہ ابرو اچکاکر پوچھ رہا تھا۔۔۔ بالکل انجان بن کر۔۔۔۔۔
”اس کا مطلب تم مجھے طلاق دینے کا نہیں سوچ رہے ؟؟؟“ اس کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا تھا۔۔۔۔
” تم اس لئے مجھ سے بھاگ رہی ہو؟؟؟“ شاہنزیب نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو ماہنور اثبات میں سر ہلانے لگی بڑی معصومیت سے۔۔۔۔
” میں تمہیں طلاق کیوں دوں گا؟؟؟۔۔۔ تم میری مانو بلی ہو یار ۔۔۔۔میرے بچپن کے ساتھی۔۔۔ تم نے سوچا بھی کیسے میں تمہیں طلاق دے دوں گا ؟؟؟“وہ انجان بننے کی اداکاری کر رہا تھا ۔۔۔۔ جیسے جانتا نہ ہو کہ اس کے پیچھے یہاں کیا کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔
” کیونکہ سب یہی کہتے ہیں۔۔۔۔۔ ہر کوئی ۔۔۔۔“ماہنور نے روتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔شاہنزیب کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے۔۔۔۔
” سب کیا کہتے ہیں مجھے فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔تم کیا سوچتی ہو اس سے پڑتا ہے “شاہنزیب نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی زندگی میں اس کی اہمیت کا احساس دلایا تھا ۔۔۔۔
” مجھے نہیں پتہ میں کیا سوچتی ہوں یا شاید میں کچھ سوچتی ہی نہیں ۔۔۔۔بس سب جو بولتے رہتے ہیں وہ سنتی رہتی ہوں اور ڈرتی رہتی ہوں کے تم مجھے چھوڑ دو گے“ اس نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔
” ڈرتا تو میں بھی بہت ہوں کہ کہیں تم خود آکر مجھ سے نہ کہو کے تمہیں مجھ سے طلاق چاہیے۔۔۔ اس وجہ سے نہ جانے کتنی راتوں سے سویا نہیں ہوں۔۔۔ مجھے بھی سب یہی کہتے ہیں کہ چھوڑ دو گی تم مجھے۔۔۔۔“ اس نے اپنا حال بیان کیا تو ماہنور بے ساختہ مسکرا دی۔۔۔
” کیا ؟؟“شاہنزیب اسے مسکراتا دیکھ الجھ کر استفسار کرنے لگا
”تم اور مجھ سے ڈرتے ہو۔۔ جھوٹے“ وہ اس کا حال دل سن بول اٹھی تھی۔۔۔ اس کی نظر میں شاہنزیب جیسا لڑکا اس سے ڈرے یہ ناممکن تھا ۔۔۔
”میں سچ بول رہا ہوں اور تم ہو کے جھوٹ سمجھ رہی ہو“ وہ سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے شکوہ کرنے لگا ۔۔۔۔
” تم باتیں ایسی کر رہے ہو“ وہ تکلف کی دیوار جو دونوں کے بیچ میں تھی اسے ختم کر رہی تھی ۔۔۔۔
” یار میں سچ بول رہا ہوں“ وہ اسے یقین دلا رہا تھا تو ماہنور رونا بھول ہنسنے لگی۔۔۔۔وہ ناراض ہوکر کھڑا ہو گیا
”سوری۔۔۔۔وہ ۔۔۔بات ہی ایسی ہے۔۔۔۔ میں کیا کروں؟؟۔۔۔ مطلب تم خود سوچو میں نے چار سال اس خوف کے ساتھ گزارے کہ تم مجھے چھوڑ دو گے اور تم نے بھی اسی خوف کے ساتھ گزارے کے میں تمہیں چھوڑ نہ دوں “وہ یہ کہہ کر مسکرانے لگی۔۔۔
” ہاں یہ تو عجیب ہے “وہ یہ کہہ کر مسکرانے لگا لیکن اس کی مسکراہٹ کافی جھوٹی تھی۔۔۔
” اس کا مطلب پکا ہے نا تمہارا کوئی ارادہ نہیں ہے مجھے طلاق دینے کا؟؟؟“ ماہنور پھر سے پوچھ رہی تھی اپنے دل کو سکون دینے کے لئے۔۔۔
"نہیں ہے ۔۔۔ اب لکھ کر دوں کیا ؟؟“اس کا کہنا تھا کہ ماہنور خدا کا شکر ادا کرنے لگی۔۔۔”پر“اسے کوئی بات فورا ہی پریشان کر گٸ تھی
” کیا ہوا ؟؟۔۔۔۔اچانک مسکراہٹ غائب کیوں ہوگئی تمہاری۔۔۔“ اس نے حیرت سے استفسار کیا۔۔۔۔
”وہ۔۔۔۔تو کیا ہم میاں بیوی کے رشتے میں؟؟“وہ جھجک رہی تھی بولنے میں۔۔۔۔اس کا چہرہ اس سوال پر کافی لال ہوگیا تھا مارے جھیپ کے۔۔۔۔
” نہیں ہم دوست بن کر رہیں گے ۔۔۔جو ہم بچپن سے ہیں اور ساتھ ساتھ اس بار کوشش بھی کریں گے کہ ایک دوسرے سے محبت کریں اور ہم میں سے جب دونوں اس رشتے کے لیے تیار ہوں گے تو ہی اس رشتے کو آگے بڑھائیں گے ٹھیک ہے۔۔۔۔ اس لٸے فکر کی کوئی بات نہیں “شاہنزیب بن کہے اس کی بات سمجھ گیا تھا کیونکہ وہ اچھی طرح واقف تھا کہ وہ لوگوں کے ڈر سے شادی رکھنا چاہتی ہے ۔۔۔پر یہ شادی کرکے اس کا ہو جانا ۔۔۔میاں بیوی کا رشتہ نیبھانا شروع کردینا وہ ابھی نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔
” ہاں یہ بالکل صحیح ہے۔۔۔ مجھے منظور ہے۔۔۔ کاش یہ بات تم پہلے کرلیتے تو مجھے یہ چار سال اتنے خوف و درد و تکلیف میں نہ گزارنے پڑتے“ ماہ نور یہ کہ کر صوفے پر اطمینان سے بیٹھ گئی تھی اب اس کے دل میں شاہنزیب کے متعلق کوئی خوف باقی نہ رہا تھا۔۔۔۔
”اچھا ایک بات اور۔۔۔۔اگر ہم دونوں میں سے کسی کو محبت ہوگی تو وہ چھپائے گا نہیں ۔۔۔۔بلکہ اظہار کرے گا اس کا۔۔۔ چاہے وہ میں ہوں یا تم اور کوشش کرے گا دوسرے کے دل میں بھی محبت جگانے کی۔۔۔“شاہنزیب نے یہ بات کہی تو ماہنور فورا کھڑے ہو کر بولی” ٹھیک ہے۔۔۔ اگر تمھیں ہو جائے تو مجھے جلدی سے بتا دینا اور کوشش کرنا کہ میرے دل میں بھی جگا سکو“ ماہنور یہ کہہ کر مسکرانے لگی ۔۔۔۔وہ بہت خوش لگ رہی تھی۔۔
” کاش میں تمہیں بتا سکتا کہ میں اس وقت یہی کر رہا ہوں۔۔۔۔ کتنا برا ہوں میں۔۔۔ ابھی بھی تمھیں اندھیرے میں رکھ کر اپنے قریب لارھا ہوں پر کیا کروں ۔۔۔ کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے “وہ سوچوں میں گم سم تھا ۔۔۔۔
”کہاں کھو گۓ؟؟“ وہ آنکھوں کے آگے چٹکی بجاتے ہوئے بولی۔۔۔
” تو دوستی پکی سمجھوں؟؟“ کہ کر شاہنزیب نے ہاتھ بڑھایا تو ماہنور مسکرانے لگی۔۔۔۔” کیا ؟؟؟۔۔۔ہاتھ نہیں ملاٶ گی اپنے شوہر سے “اس نے خود کو شوہر کہہ کر مخاطب کیا تو ماہنور اسے گھومنے لگی۔۔۔۔” مطلب دوست سے “اس نے اپنی غلطی جو آپجان کر کی تھی فوری درست کی۔۔۔
” پتہ ہے جب تم انڈیا گئے اور وہاں سے لوٹے تو سب تمہارے گلے لگے تھے سوائے میرے اور اب بھی جب تم لوٹے تو سب تم سے گلے لگے ۔۔۔اس بار بھی صرف میں ہی نہیں لگی۔۔۔ یہ کہہ کر شکوہ کیا اور فورا دوسرے ہی لمحے اس کے گلے لگ گٸ۔۔۔۔وہ اتنی گرم جوشی اور خوشی سے گلے ملی تھی۔۔۔۔پر شاہنزیب نے اسے ہاتھ تک نہ لگایا۔۔۔وہ خودی لگی اور دو تین لمحے بعد آہستہ سے ہٹ گٸ۔۔۔
” ہو گٸی حسرت پوری؟؟؟“ وہ مسکراتے ہوئے پوچھنے لگا۔۔۔
”نھیں ۔۔۔ جیسے اکثر فلموں أور ڈراموں میں ہوتا ہے ناں ۔۔۔ھیروین بھاگتے ہوۓ آکر ھیرو کے گلے لگتی ہے۔۔۔۔۔۔ ویسے لگنا چاھتی ہوں ایک بار۔۔۔“ وہ مسکراتے ہوئے اپنی تمنا کا اظہار کرنے لگی۔۔۔ شاہنزیب اس وقت بیزاری کا اظہار کر رہا تھا” کیا ہوا؟؟؟۔۔۔ ایسے برے برے منہ کیوں بنا رہے ہو ؟؟؟“وہ اسے منہ بسورتا دیکھ پوچھ اٹھی
”تو اور کیا کروں ؟؟؟۔۔۔۔ تمہاری تو ساری خواہشات گلے لگنے تک ہی محدود ہیں۔۔۔ اب میں اگر تمہارا عاشق ہوتا تو اتنے سے خوش ہو جاتا پر میں تمہارا شوہر ہوں نا “وہ یہ کہ کر بھولا سا چہرہ بناتے ہوۓ اس سے شکوہ کررہا تھا۔۔۔۔
”شرم کرو شاہ۔۔۔۔ تم تو ابھی سے میرے شوہر بن رہے ہو “اس کے سینے پر ہلکے سے ہاتھ مارتے ہوۓ کہتی ہے ۔۔۔
” شرم کیوں کروں؟؟؟ جس کی اتنی خوبصورت بیوی ہوگی وہ پاگل کا بچہ ہی ہوگا جو دوست بن کر رہنا چاہئے گا “اس نے ہاتھ پکڑ کر بڑے پیار سے بولا تو ماہنور ہنس دی۔۔۔۔
”تو شاہ صاحب ۔۔۔آپ فلرٹ بھی کرتے ہیں؟؟؟ یہ روپ تو آپ کا پہلے کبھی نہیں دیکھا“ وہ شرارت سے اسے دیکھ گویا ہوٸی۔۔۔
”تو اب دیکھ لو ۔۔۔محبت تو تمہیں مجھ سے کرنی پڑے گی۔۔۔ ظالم حسینہ“ اس نے جو ہاتھ پکڑا تھا وہ اب زور سے کھینچا ۔۔۔تو وہ اس کے سینے سے آلگی تھی اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال رومانی انداز میں بول رہا تھا۔۔۔۔
” بول تو ایسے رہے ہو جیسے بھت محبت کرتے ہو مجھ سے اور بس میری محبت کے منتظر ہو“ ماہنور نے مسکراتے ہوئے کہا تھا پر وہ واقف نہ تھی ۔۔کہ یہ مذاق۔۔۔۔ سچ ہے۔۔۔۔ وہ واقعی صرف اسی کی محبت کا منتظر بیٹھا ہے۔۔۔” اور یہ جو ظالم حسینہ کا خطاب دیا ہے تم نے مجھے۔۔۔۔۔ مجھے بہت اچھا لگا ۔۔ مجھ پر سوٹ کرتا ہے“ وہ دوسرے ہاتھ سے اپنے بالوں کی چوٹی جو اس کے سینے پر ڈلی ہوئی تھی اسے اتراتے ہوۓ پیچھے کمر پر ڈالتے ہوئے بولی۔۔۔۔ تو شاہنزیب کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر آئی
” مانو تم ابھی تک رو رہی ہو کیا؟؟“ اسماء کو بہت فکر تھی اس کی۔۔۔۔ وہ پھر سے آ گئی تھی۔۔۔
” اسماء روئے میرے دشمن۔۔۔ تم جاؤ میں بس ابھی آتی ہوں“ وہ ہنستے ہوئے کہنے لگی۔۔۔
” تم ٹھیک تو ہو نا ؟؟۔۔۔پہلے رو رہی تھیں اب ہنس رہی ہو؟؟“ وہ مزید فکرمند ہوئی تھی ماہنور کی ہسی کی آواز سن کر ۔۔۔”میں تب تک یہاں سے نہیں جاؤں گی جب تک تو دروازہ کھول ناں دو“ وہ بولی تو ماہنور دروازہ کھولنے جانے لگی۔۔۔
”کیا کر رہی ہو؟؟؟“ وہ ہلکے سے ہاتھ پکڑ کر گویا ہوا۔۔۔۔
” نظر کم آتا ہے کیا ؟؟؟۔۔۔دروازہ کھولنے جا رہی ہوں“ وہ پیچھے مڑ کر آہستہ سے بولی۔۔۔
” کیا پاگل ہوگٸی ہو۔۔۔ اگر دروازہ کھولا تو اسماء جان جائے گی کہ ہم دونوں اکیلے تھے اندر۔۔۔ اتنی دیر سے“شاہنزیب آہستگی سے بولا۔۔۔۔
” تو کیا ہوا میں اسے بتا دوں گی کے ہم ایسا ویسا کچھ نھیں کررھے تھے۔۔۔ہم ابھی صرف دوست ھیں“ اس کی معصومیت پر شاہنزیب کا دل چاہا کہ اپنا سر دیوار سے پھوڑ لے۔۔۔۔
”چپ ہو۔۔۔ تم کسی کو بھی ہمارے درمیان ہونے والی باتیں نہیں بتاؤ گی۔۔۔ سمجھیں“
” تو پھر کیا ہم دونوں دوست نہیں ہیں؟؟“
”ہیں۔۔۔۔ پر کیا اعلان کرنا ضروری ہے دنیا کو ؟؟“
”ھممممم۔۔۔۔۔۔کہ تو ٹھیک رہے ہو۔۔۔ بڑا مزہ آئے گا۔۔۔ کسی کو نہیں بتائیں گے اور چھپ چھپ کر ملا کریں گے“ وہ شوخی سے بولی۔۔۔۔
”اف۔۔۔۔ "اس نے اپنے سر پر ہاتھ مارا تھا "میں یہ نہیں کہہ رہا۔۔۔ میں بس اتنا سمجھا رہا ہوں کہ ہم نارمل رہیں گے سب کے سامنے“
” چلو ٹھیک ہے جیسا تم کہو پر ابھی تو میں دروازہ کھولنے جا رہی ہوں۔۔۔۔ چھپ سکتے ہو تو چھپ جاٶ۔۔۔۔ ورنہ مجھ سے شکوہ نہ کرنا کہ ماہنور نے بتایا نہیں“ اس کی آنکھوں میں شرارت جھلک رہی تھی۔۔۔ یہ کہہ کر اس نے تیزی سے ہاتھ چھوڑایا اور بھاگتی ہوٸی دروازے کے پاس گٸی۔۔۔شاہنزیب یہ سن کر تیزی سے بھاگتا ہوا آیا اور دروازے کے پیچھے والی دیوار سے بالکل چپک کر کھڑا ہو گیا
ماہنور نے دروازہ کھولا تو اسکے چہرے کی رنگت ہی بدلی بدلی نظر آرہی تھی۔۔۔” تم ٹھیک تو ہو نا؟؟؟“اسماء نے فکرمند لہجے میں پوچھا
”ہاں “وہ کھینچتے ہوئے بولی۔۔۔۔اسما نے ایک بار خالی کمرے پر نظر دوڑائی اور پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لے کر چلی گئی۔۔۔۔
سعدیہ کافی بدل گئی تھی اور اس کا یہ بدلہ بدلہ روپ کامران کو گرویدہ کر گیا تھا۔۔۔یہ بات سب نے نوٹ کرلی تھی کے سعدیہ خود بھی شاہنزیب سے دور رھنے کی کوشش کررہی ہے۔۔۔۔
رات کو کھانے کی ٹیبل پر سب کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں ”شاہ یہ بھی لو۔۔۔۔ یہ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔۔۔“ماہ نور پہلے ہی شاہنزیب کی پلیٹ بھر چکی تھی مزے مزے کے کھانوں سے اور پھر بھی اس کی بھری ہوئی پلیٹ کو مزید بھرے جا رہی تھی۔۔۔۔
” بس کرو مانو اس کی پلیٹ میں جو ہے۔۔۔ وہ تو کھا لینے دو اسے “ ولید آخر چپ نہ رہ سکا تھا اس لیے بول پڑا۔۔۔۔
” ہاں۔۔۔۔مانو پہلے میں یہ ختم کرلوں۔۔۔ پھر ڈالنا ۔۔۔۔ورنہ ضاٸع ہوگا “شاہنزہب نے بھی مزید ڈالنے کو منع کیا تھا۔۔۔
سب حیرت سے ماہنور اور شاہنزیب کو ہی گھور رھے تھے ”کیا ہوا ؟؟؟۔۔۔ ایسے کیوں دیکھ رھے ہیں؟؟؟“ ماہنور کے ٹوکنے پر سب کھانا کھانے لگے ۔۔۔
”یہ چل کیا رہا ہے؟؟؟“ اسماء نے رومیسا آپا کے کان میں ہلکے سے پوچھا ۔۔۔۔۔
” مجھے تو خود کچھ سمجھ نہیں آرہا“سب کی طرح وہ بھی الجھی ہوئی تھیں۔۔۔۔ شاہنزیب کی ماں دل ہی دل کڑ رہی تھی یہ سب دیکھ کر۔۔۔۔ جبکے باقی سب کافی خوش اور حیرانی کے عالم میں تھے ۔۔۔۔ماہنور کے چہرے کی رنگت ہی بدلی ہوئی تھی وہ نہایت پرسکون اور خوش نظر آ رہی تھی اور شاہنزیب بھی مسکرا مسکرا کر اس سے باتیں کر رہا تھا ۔۔۔۔
” یار یہ کامران کہاں ہے؟؟“ علی بھائی بولے تو ماہنور کے منہ سے فورا ہی بے ساختہ نکل گیا
”بائیک ریس پر “اس کے منہ سے نکل تو گیا تھا پر اس نے دوسرے ہی لمحے اپنی زبان دانتوں میں دباٸی تھی ۔۔۔ علی بھٸیا اسے غصے سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگے” کیا وہ ابھی تک بائیک ریس میں حصہ لیتا ہے؟؟“ ماہ نور کا خاموش رہنا انہیں یقین دلا گیا تھا ۔۔۔ سبھی یہ سن غصے سے لال پیلے ہوگئے تھے ۔۔۔
ماہ نور کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کامران آج بھی ریس میں حصہ لیتا ہے ۔۔۔۔ اس نے اپنی بہن مان کر ہی اسے اپنا ہمراز بنایا تھا کیونکہ یہ کھیل نہایت ہی خطرناک ہے اور آئے دن اس میں حادثات ہوتے رہتے ہیں اس لیے اگر کبھی کوئی مدد کی ضرورت ہو تو آرام سے ماہنور سے رابطہ کر سکے۔۔۔۔ پر آج اس کہ ہم راز نے ہی بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔۔۔۔ سب غصے سے اس کا انتظار کرنے لگے ۔۔۔۔ حویلی میں جب ریس لگائی تھی تو وہ ریس جیتنے کے چکر میں کامران نے اس قدر تیز بائیک چلاٸی کہ اسے راستے میں آنے والی کھائی نظر ہی نہیں آئی اور جب تک نظر آئی کافی دیر ہو چکی تھی ۔۔۔۔بریک لگا ہی نہیں اور ان کی بائیک کھائی میں گرگئی کامران کو تو معمولی سی چوٹیں آئیں تھیں پر سعدیہ اس کا پورا سیدھا پاؤں بری طرح چھل گیا تھا ۔۔۔۔ تب سے سخت منع کیا گیا تھا کامران کو بائیک ریس لگانے کے لیے ۔۔۔۔اس نے بھی سب کے سامنے جانا چھوڑ دیا تھا اس حادثے کے بعد سے پر آج پتہ چلا تھا کہ وہ ابھی تک نہیں سدرہ ۔۔۔۔۔
روڈ پر باٸیک بالکل تیار کھڑی تھی وہ آکر بڑی شان سے باٸیک پر بیٹھا ۔۔۔۔ وہاں کا سب سے بڑا کھلاڑی مانے جانے لگا تھا وہ۔۔۔۔۔ وہ بیٹھا تو سب نے زور زور سے” کامران کامران“ نعرے لگانا شروع کر دئیے۔۔۔ اس نے باٸیک اسٹارٹ کی ہی تھی۔۔۔ اس کے ساتھ مقابلے میں پانچ اور لڑکے تھے۔۔۔ وہ بلکل تیار تھا ہر بار کی طرح جنون سے بھرپور ہو کر جیتنے کے لیے۔۔۔۔” کتنے لگے ھیں مجھ پر پیسے “ کامران نے اپنے دوست سے پوچھا تھا۔۔۔۔
” پورا ایک لاکھ ۔۔۔۔جیت کر آنا میرے شیر ۔۔۔ہر بار کی طرح“ اس کا دوست اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بولا۔۔۔۔
کامران خوش ہوا تھا یہ سن کر یہ کھیل اسے دل و جان سے عزیز تھا ۔۔۔سب کی شدید مخالفت کے باوجود وہ یہ کھیل چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھا ۔۔ جیسے ہی اس کے پیچھے لڑکی آکر بیٹھی ۔۔۔۔ اسے سعدیہ یاد آگی آج۔۔ اس حادثے کو چار سال سے بھی زیادہ گزر گئے تھے اور اس دوران وہ بہت بار ریس کر چکا تھا اور جیت بھی جاتا تھا پر آج ناجانے دل کو کیا ہوگیا تھا ۔۔۔۔اسے سعدیہ کا گرنا۔۔۔۔ وہ زور زور سے رونا۔۔۔ اس کے پاؤں کا چھل جانا یاد آ گیا تھا ۔۔۔ پہلی بار زندگی میں اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔۔۔ سعدیہ کا چہرہ جو نورانیت سے بھرپور تھا نگاہوں میں گھومنے لگا۔۔۔۔ وہ اس لمحے سعدیہ کی یادوں میں محو ہو کر رہ گیا تھا۔۔۔۔
”نہیں۔۔۔۔ میں ریس نہیں لگا سکتا۔۔۔۔” کامران کے کہتے ہی اس کے پیچھے والی لڑکی حیران ہوگئی۔۔۔”اترو“
”کیا؟؟“ وہ لڑکی حیرت سے کامران کو دیکھ بولنے لگی۔۔
” میں نے کہا اترو“
” کامران یہ تو کیا کر رہا ہے ؟؟؟۔۔۔تو کھیل چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہے؟؟؟“ اس کا دوست فوراً ہی اسے دیکھ بولا
” اترو میں نے کہا “کامران ہیلمٹ اتار کرغصے سے کہا ۔۔۔تو وہ لڑکی اتر گی۔۔۔ ”دیکھ یار۔۔۔ آج تک خبر نہیں تھی کہ میری زندگی کتنی اہمیت کی حامل ہے ۔۔۔لگتا ہے آج جان گیا ہوں۔۔۔اس ریس کے کھیل کی وجہ سے اسے بہت تکلیف پہنچائی تھی میں نے۔۔۔۔پر اب پکا ارادہ کرتا ہوں جو چیز اسے تکلیف دے گی اسے چھوڑ دوں گا“ ۔۔۔ اپنے دوست سے بڑے بھرم سے کہ کر بائیک اسٹارٹ کی اور گھر کی طرف روانا ہوا۔۔۔۔۔۔۔
” یہ کیا ہوگیا ہے مجھے؟؟؟۔۔۔ میں نے سعدیہ کی خاطر بائیک ریس چھوڑ دی۔۔۔۔یہ احساس کیا ہے ؟؟۔۔۔جو میں اس کے پاس ہونے پر محسوس کرنے لگا ہوں۔۔۔۔ کیا میری پسند سعدیہ جیسی لڑکی تھی ؟؟؟۔۔۔کیا واقعی وہ ہے جسے میرا دل اتنے سالوں سے ڈھونڈ رہا تھا ؟؟؟“وہ خود سے ہمکلام ہو کر سوالات کر رہا تھا۔۔۔۔۔
” کہاں تھے تم؟؟؟“علی کی آواز غصے کے مارے بلند ہوئی تھی۔۔۔
” یہ تو علی بھائی کی آواز ہے “راحیل اور ثانیہ چونکے تھے
”کیا ہوا ہے ؟؟“ ثانیہ جو سونے لیٹ چکی تھی وہ گھبرا کر اٹھ کر بیٹھ ۔۔۔۔۔پوچھنے لگی
” پتہ نہیں۔۔۔ چل کر دیکھتے ہیں “ راحیل نے کہا اور دونوں نیچے آۓ۔۔۔۔۔ دونوں سیڑھیوں سے اترے تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ کامران کے منہ سے خون نکل رہا تھا اس کے ہاتھ پاؤں پر چوٹ کے نشان تھے ۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ لڑکھڑا کر چلتا ہوا اندر آیا تھا۔۔۔۔
” میں نے پوچھا کہاں تھے تم؟؟“ علی بھائی پھر سے غصے سے دھاڑتے ہوئے پوچھ رہے تھے۔۔۔۔
” وہ میں گھر آرہا تھا ۔۔۔اس لئے “وہ ابھی بول ہی رہا تھا
” یہ چوٹیں کیسے لگیں تمھیں ؟؟؟“ان کے سوال پر وہ پہلے تو خاموش رہا
”راستے میں میری بائیک سامنے والے کی باٸیک سے ٹکرا گئی تھی ۔۔۔۔“اس بیچارے کا اتنا کہنا گناہ ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔علی بھائی نے مزید کچھ سنا ہی نہیں۔۔۔۔ زور دار طمانچہ اس کے چہرے پر لگا دیا۔۔۔۔ تماچہ اس قدر زور دار تھا کہ پورے گھر میں اس کی آواز گونجی تھی ۔۔۔۔جنید جمشید ڈر کے مارے سعدیہ کے پیچھے چھپ گئے تھے۔۔۔ سب حیرت سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔سعدیہ سہم گٸی تھی اس سے پہلے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی کو مار کھاتے نہیں دیکھا تھا اس نے۔۔۔۔۔جبکے ماہنور ندامت میں مبتلا ہو گئی تھی۔۔۔۔
” کیا کر رہے ہو ؟؟؟۔۔۔جوان بھائی پر کوئی اس طرح ہاتھ اٹھتا ہے کیا؟؟“ انہوں نے جیسے ہی کامران کو مزید مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا بھابھی کامران کے سامنے آ کر ان دونوں کے بیچ کھڑی ہو گئیں اور علی بھائی کو دیکھ کر بولیں۔۔۔۔
” ہاتھ اٹھانا تو بہت کم سزا ہے اس لڑکے کے لیے ۔۔۔۔میرا بس نہیں چل رہا۔۔۔۔ اس کا سارا بائیک ریسنگ کا شوق یہیں اتار دوں ۔۔۔اسے کتنی بار پیار سے سمجھیا۔۔۔۔کتنی بار سخت لہجے میں کہا کہ باز آجاۓ اپنے اس خطرناک شوق سے پر اس کا بھوت اترتا ہی نہیں ۔۔۔۔بولو اگر ہاتھ نہ اٹھاٶں تو کیا کروں؟؟؟۔۔۔۔۔ تم کیا چاہتی ہو کرنے دیں اسے من مانی ۔۔۔ اور ایک دن یہ شوق کے چکر میں اپاہج ہو جائے “انہوں نے جو کہا وہ اپنی جگہ بالکل ٹھیک تھا ۔۔۔۔کامران شرمندگی سے پانی پانی ہو ئے جا رہا تھا۔۔۔۔۔
” کامران تم اوپر جاؤ “بھابھی علی بھائی کو مزید غصہ کرنے سے روک رہی تھیں انہوں نے غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے دادو سے کہا ۔۔۔۔تو دادو ہاتھ پکڑ کر علی کو اپنے کمرے میں لے گٸیں۔۔۔۔۔۔
” تم کیا چاہتے ہو کامران۔۔۔۔ تمہارا بوڑھا باپ اس عمر میں اپنے نوجوان بیٹے کا جنازہ اٹھاۓ ؟؟؟“ اس کے والد نے کہا تو کامران مزید شرمندگی کی اتھا گہرائیوں میں اتر گیا ۔۔۔
”بھائی آپ غصہ مت کریں۔۔۔ آپ کا بلڈپریشر ہائی ہو جائے گا آپ میرے ساتھ چلیں“ افتخار صاحب ان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے تھے کامران کو غصے سے گھور کر۔۔۔۔
” مجھے تمہاری سمجھ نہیں آتی“ شہزاد یہ کہہ کر غصے سے چلا گیا
” میرا دل چاہ رہا ہے ایک دو میں بھی لگا دوں۔۔۔۔ تمھیں اپنی جان عزیز کیوں نہیں ہے ؟؟؟۔۔۔یہ جان اتنی سستی چیز نہیں ہے کامران کے تم بائیک ریس میں ہار جاٶ “راحیل کامران کے روبرو کھڑا ہو کر اسے غصے بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے بولا اور پھر واپس چلا گیا ۔۔۔۔
۔۔۔سعدیہ۔۔۔۔ماہنور۔۔۔۔۔ثانیہ ۔۔۔۔۔۔شاہزیہ ۔۔۔۔۔۔اسما۔۔۔۔۔رومیسا
۔۔۔۔۔۔جنید۔۔۔۔۔۔۔ جمشید۔۔۔۔۔شاہنزیب ۔۔۔۔۔۔ولید ۔۔۔۔ سب ایک جگہ کھڑے ہو کر اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ کامران ایک لمحہ مزید وہاں نہ روکا اور بھاگتا ہوا اوپر جانے کی کوشش کرنے لگا پر وہ دوسری ہی سیڑھی پر لڑکھڑا کر گرنے لگا تھا کے شاہنزیب اور ولید نے اسے سہارا دیا” کہاں جاؤ گے؟؟؟۔۔۔۔ مجھے بتاؤ میں لے چلتا ہوں“ شاہنزیب نے ہمدردی سے پوچھا تھا
” چھت پر“کامران نے جواب دیا۔۔۔
” تو میں بھی مدد کر دیتا ہوں“ ولید نے بھی اسے سہارا دیا تھا۔۔۔۔۔
” تمہیں کچھ نہیں کہنا مجھے؟؟“ کامران کو گھر کے ہر مرد نے برا کہا تھا سوائے شاہنزیب کے ۔۔۔۔اس لٸے وہ الجھ کر شاہنزیب سے پوچھنے لگا ۔۔۔
”میں کیا کہوں ؟؟؟۔۔۔۔میں تو خود خطاوں کا پتلا ہوں میں شہزاد بھائی علی بھائی راحیل کی طرح اس خاندان کا فرمانبردار بیٹا نہیں رہا ہوں شروع سےاور ویسے بھی جس کو جو راہ پسند ہو وہ وہی چنتا ہے ۔۔۔ چاہے پھر کوئی کچھ بھی کہتا رہے “ شاہنزیب نے اسے چٸیر پر بیٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔ اشارتا اسے بتا دیا کہ وہ اکیلا نہیں ہے جس نے مار کھائی ہے خاندان میں۔۔۔۔۔ وہ بھی پہلے کھا چکا ہے۔۔۔۔۔۔
” سعدیہ تم جاؤ اور اس کے پٹی کر دو ۔۔۔۔اگر ہم میں سے کوئی گیا تو مجھے پورا یقیں ہے وہ کبھی نہیں کروائے گا“ اسماء اس کے ہاتھ میں میڈیکل باکس پکڑاتے ہوۓ بولی۔۔۔۔
” میں ۔۔۔نہیں ۔۔ماہنور تم چلی جاؤ ۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔“ سعدیہ نے باکس ماہنور کو پکڑاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
” نہیں مجھے تو دور رکھو کامران بھائی سے۔۔۔۔ کامران بھائی مجھے جان سے مار دیں گے اگر انہیں پتہ چلا کہ میں نے سب کو بتایا ہے“ ماہنو ڈرتے ہوئے بولی۔۔۔ باکس واپس سعدیہ کو پکڑاتے ہوئے۔۔۔۔
”اچھا تو کوئی اور میرے ساتھ ہی چل لے سپورٹ کے لئے ۔۔۔۔ اگر وہ غصے میں ہوا تو وہ سارا غصہ مجھ پر ہی نکال دے گا وہ تو ویسے بھی بڑی جلدی جھنجھلا جاتا ہے“ سعدیہ نے گھبراتے ہوئے کہا تو شاہزیہ نے جنید جمشید کو اس کے ساتھ بھیج دیا۔۔۔
” کامران ماما ۔۔۔۔۔سعدیہ انی پوچھ رہی ہیں آپ ٹھیک تو ہیں ؟؟؟“سعدیہ کامران کے سامنے فورا نہیں گئی بلکہ خود سیڑھیوں پر کھڑی ہوگئی اور جنید جمشید کو پہلے بھیجا ۔۔۔۔۔حالات کا جائزہ لینے۔۔۔۔۔
”وہاں کیوں کھڑی ہو؟؟؟۔۔۔۔ آجاؤ“ کامران کو لگا کوئی پیچھے کھڑا ہے۔۔۔۔ وہ مڑا تو سعدیہ کو سیڑھیوں پر کھڑا دیکھ بلانے لگا۔۔۔۔ سعدیہ اس کے سامنے والی چیئر پر بیٹھ گئی
”ماما ۔۔۔۔بڑے ماما نے آپ کو کیوں مارا ؟؟“جنید نے بھولے پن سے پوچھا
”وہ میں نے شرارت کی تھی ۔۔۔۔ان کے منع کرنے کے باوجود اس لیے“ کامران نے بڑے پیار سے اسے جواب دیا تو سعدیہ کو لگا کے حالات کافی بہتر ہیں۔۔۔۔
” میں پٹی باندھ دوں ؟؟“ سعدیہ نے بڑے التجائیہ انداز میں پوچھا تو کامران اثبات میں سر ہلانے لگا۔۔۔ اس کی ہاں دیکھ اپنی چٸیر تھوڑی کھسکاتے ہوئے اس کی چئیر کے بالکل سامنے سیٹ کی ۔۔۔
سعدیہ اب بالکل پہلے جیسے کپڑے نہیں پہنتی تھی۔۔۔ ہر وقت مشرقی لباس میں ملبوس نظر آتی تھی وہ اس وقت نیلے رنگ کی سادی سی فراک اور اس پر گولڈن رنگ کی بنارسی کپڑے کی کوٹی پہنے ہوئے تھی۔۔۔ چوڑی دار پاجامہ بھی گولڈن رنگ کا تھا اور گلے میں اسی رنگ کا دوپٹہ۔۔۔۔۔۔ وہ بالوں میں آگے بیک کومنگ کا پف اور پیچھے پونی باندھے ہوئے تھی۔۔۔۔ اس کے کان میں گولڈن بالے تھے جو اسے اور دلکش بنا رہے تھے۔۔۔۔
” جنید ڈیٹول کی بوتل پکڑو“سعدیہ نے کہہ کر بوتل پکائی تھی۔۔۔ پہلے اس نے کامران کے ہونٹوں سے جو خون نکل رہا تھا وہ روئی سے صاف کیا پھر روئی میں ڈیٹول لگا کر اس کے زخم پر لگانے لگی جو ہونٹوں کے بالکل سائیڈ میں تھا۔۔۔۔” ویسے ایک بات پوچھوں؟؟“ اس نے پٹی کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔
”ہاں“
” جب سب اتنا منع کر رہے ہیں ۔۔۔تو چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟؟“ سعدیہ نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔
” ہمممممم۔۔۔۔۔۔۔ سچ کہوں یا جھوٹ “ وہ سعدیہ کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھنے لگا
”جو دل چاہیے کیونکہ میں علی بھائی نہیں“ وہ مسکرا کر بولی تھی
” میں نے چھوڑ دی“ کامران نے سنجیدگی سے کہا تو سعدیہ جھوٹ سمجھی” اچھا تو پھر یہ چوٹیں کیسے لگیں ؟؟؟ کامران جھوٹ ایسے بولنا چاہیے کہ سچ کا گمان ہو۔۔۔۔“سعدیہ یہ کہ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر دیکھنے لگی جس پر چوٹیں تھیں۔۔۔۔
” میں واقعی سچ بول رہا ہوں۔۔۔ میں تم سے جھوٹ کیوں بولوں گا ؟؟؟۔۔۔تم علی بھائی تھوڑی ہو “ اسی کی لائن دوبارہ دہراتے ہوئے مسکرایا۔۔۔
“ تو پھر یہ چوٹیں“ وہ الجھ کر دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی
”وہ۔۔۔۔جب میں گھر آ رہا تھا تو کسی کے خیالات میں اتنا کھویا ہوا تھا کہ سامنے والے روڈ پر غلطی سے چلا گیا وہاں سامنے آنے والی باٸیک سے زبردست ٹکر ہو گئی۔۔۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ باٸیک سے ٹکر ہوئی ورنہ کار یا بس یا ٹرک سے بھی ہو سکتی تھی“ اس نے سعدیہ کو بتایا تو وہ مسکرانے لگی
” ایسا کون تھا جس کے خیالوں میں تم اتنا کھوئے ہوۓ تھے؟؟؟“ وہ شوخی سے پوچھنے لگی
”تم“ کامران نے سچ کہا تو وہ ہنسنے لگی۔۔۔
”اچھا بچو۔۔۔۔مجھ سے فلرٹ کر رہے ہو۔۔۔اب سچ بتاؤ کون ہے وہ؟؟؟۔۔۔ میں کسی کو نہیں بتاؤں گی میرے کان میں بتادو“ یہ کہہ کر وہ اس کے چہرے کے پاس اپنے کان لے آئی
”انی ہم بھی سن لیں ۔۔۔ ہم بھی کسی کو نہیں بتائیں گے“ یہ کہہ کر وہ بھی اپنے کان کامران کے منہ کے قریب لے آۓ۔۔۔۔ سعدیہ اور جنید جمشید بے صبری سے انتظار کر رہے تھے کہ اب جلدی سے کامران انھیں نام بتا دے۔۔۔
”آ۔۔۔۔۔آ۔۔۔۔۔آ“ کامران نے ان تینوں کے کانوں میں اتنی زور سے چیخا کہ وہ خود واپس دور ہٹ کر بیٹھ گئے
کامران کے بچے “سعدیہ کان میں انگلی ڈال مسلتے ہوئے گھورتے ہوۓ بولی۔۔۔۔۔
” تم سوال غلط کر رہی ہو۔۔۔۔ یہ پوچھو کہ میں نے بائیک ریسنگ کیوں چھوڑ دی “اس نے خود ہی اسے درست سمت بتائی تھی
” تو بتاؤ کیوں چھوڑی؟؟؟“ اس نے تجسس سے پوچھا
”کیونکے مجھے تم یاد آگئیں تھیں۔۔۔ تمہاری وہ چیخیں ۔۔۔وہ رونا ۔۔۔۔۔سب کچھ۔۔۔۔ اس لئے چھوڑ آیا“ کامران نے کہا تو سعدیہ کو عجیب محسوس ہوا کیونکہ اس کا انداز بولنے کا نہایت الفت بھرا تھا اور ساتھ ساتھ ایسا لگ رہا تھا کہ واقعی وہ اس کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہو۔۔۔۔” اور مزے کی بات دیکھو جب کرکے آتا تھا تو کبھی بھی کسی نے کچھ نہ کہا اور آج جب چھوڑ آیا ہوں تو انعام میں تھپڑ پڑا اور پتہ ہے زیادہ شرمندگی کب ہوئی؟؟۔۔۔ جب تمہیں سامنے کھڑا دیکھا ۔۔۔میں تمہیں بتا بھی نہیں سکتا کتنا شرمندہ ہوں تمہارے سامنے تھپڑ کھا کر“ اس نے شرمندہ ہو کر کہا تو سعدیہ مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔۔۔۔۔
” تم خوہمخواہ شرمند ہو رہے ہو ۔۔۔۔“ وہ کامران سے مخاطب ہو کر کہنے لگی۔۔۔۔”جمشید یہ کاٹو قینچی سے ۔۔۔۔ہاں ۔۔۔۔یہاں سے “ اس نے کہہ کر جمشید سے پٹی کٹوائی تھی۔۔۔ ”مجھے تو تم پر ترس آ رہا تھا جب علی بھائی نے تمہیں مارا“ سعدیہ نے ترس کھانے والے انداز میں بولا تو کامران کہ لبوں پر مسکراہٹ بکھر آئی۔۔۔
” تو پھر میں ایک کام کرتا ہوں بھائی سے جا کر کہتا ہوں 2 ۔۔۔۔3 اور لگا دیں تاکہ تمھیں مجھ پر اور زیادہ ترس آۓ اور تم ہاں کر دو“ کامران اس کے چہرے کے قریب آکر آنکھوں میں آنکھیں ڈال بولا تھا ۔۔۔۔۔
”ماما پٹی خراب ہو جائے گی۔۔ھلیں مت۔۔۔۔۔۔ انی اتنی محنت سے باندھ رہی ہیں“ جنید نے اسے ٹوکا تو وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا ”اب ٹھیک ہے“ وہ جنید جمشید کو دیکھ پوچھنے لگا تو انہوں نے اثبات میں سر ہلا دیا
”کس بات کی ہاں؟؟“وہ الجھی تھی کیونکہ اسے ابھی تک کامران کی رشتے کی خبر نہ تھی اس کی ماں نے اسے کچھ نہیں بتایا تھا اس متعلق۔۔۔۔ اور کامران سمجھا کہ وہ انجان بننے کی اداکاری کر رہی ہے
” جھوٹ ایسا بولنا چاہیے کہ حقیقت کا گمان ہو ابھی ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ نے ہی سکھایا تھا استانی صاحبہ“ وہ یہ کہہ کر مسکرانے لگا۔۔۔۔
”پر“سعدیہ آگے بولتی اس سے پہلے کامران کا فون آیا اور وہ بات کرنے لگا" کامران پاؤں پر جو چوٹ تھی۔۔۔۔ اس پر تو میں نے مرہم لگا دیا ہے پر تم ڈاکٹر کو ضرور دیکھا دینا "وہ یہ کہہ کر چلی گئی....
*******------------*******
وہ پورا کمرہ پھیلائے بیٹھی تھی کپڑوں سے ....شاہنزیب سامنے ہی صوفے پر بیٹھا تھا۔۔” یہ والا دیکھو ۔۔۔یہ اچھا ہے“ ماہنور نے اسے اپنا ایک سوٹ دیکھاتے ہوئے بولا تو وہ نفی کرنے لگا۔۔۔۔۔
”شاہ۔۔۔۔۔ یہ آخری سوٹ ہے میری الماری میں ۔۔۔۔بتاؤ یہ پہنوں آج۔؟؟؟“۔۔۔۔اس نے سوٹ دیکھایا تو ہر سوٹ کی طرح اس پر بھی نفی کرنے لگا
” تمہارے پاس ایک بھی ڈھنک کا سوٹ نہیں ہے ۔۔۔یہ سب ستارہ کو دو اور میرے ساتھ مارکیٹ چلو ۔۔۔۔میں تمہیں نئے کپڑے دلاتا ہوں “کہتا ہوا کھڑا ہوا ۔۔۔۔
”ٹھیک ہے ۔۔ میں تھوڑی دیر میں تیار ہو کر آتی ہوں پھر چلتے ہیں“ وہ کہتے ہوئے بڑے پرجوش انداز میں کھڑی ہوئی۔۔۔
ماہ نور تیار ہو کر نیچے آئی تو چاچی اسے گھورنے لگیں۔۔۔ ”چلو“ شاہنزیب نے اسے دیکھتے ہی کہا تو چاچی سے نظریں چورا کر اس کے ساتھ جانے لگی
”کہاں جا رہے ہو تم دونوں؟؟“ رومیسا آپا نے پوچھا تھا
”مارکیٹ ۔۔۔۔شاہ مجھے کپڑے دلانے لے جا رہا ہے“ ماہنور مسکراتے ہوئے بولی
”شاہنزیب سعدیہ کو بھی لے جاؤ اسے بھی مارکیٹ جانا تھا“ انہوں نے کہہ کر سعدیہ کو آواز دے کر نیچے بلا لیا ۔۔۔۔ سعدیہ منع کر رہی تھی پر اپنی خالہ کے اصرار پر ان دونوں کے ساتھ جانے کے لئے راضی ہوگئی
” سوری مجھے نہیں پتا تھا کہ تم لوگ جانے والے ہو۔۔۔مجھے رات کو پہننے کے لئے سینڈل لینی تھی میں نے صبح ہی خالہ سے کہا تھا “ اس نے ماہ نور سے معافی مانگی تو وہ بغیر جواب دیۓ کار میں بیٹھ گئی۔۔
” سعدیہ میرے ساتھ چلو گی؟؟؟۔۔۔۔ پہلے میں ڈاکٹر کے جاؤں گا پھر تمہیں مارکیٹ لے چلوں گا “کامران گھر سے نکل کر آیا تھا ۔۔۔۔۔سعدیہ کو جاتا ہوا دیکھ۔۔۔۔
”ثھیک ہے ۔۔۔۔پر ابھی چلو۔۔۔۔ میں اندر نہیں جاؤں گی واپس۔۔۔ورنہ خالا برا مان جائیں گئی “سعدیہ نے جواب دیا تو وہ چابی لینے چلا گیا
” تم لوگ جاؤ میں کامران کے ساتھ جا رہی ہوں“سعدیہ مسکراتے ہوۓ کہ کر سائیڈ میں کھڑی ہو گئی تھی۔۔۔۔
” ماہ نور یہ والی دیکھو “شاہنزیب نے اسے بڑی خوبصورتی سے فراک دیکھاتے ہوئے بولا۔۔۔۔
” شاہ۔۔۔یہ اچھی ہے۔۔۔۔ پر آج کی تقریب کے اعتبار سے بہت بھاری ہو جائے گی مجھے بالکل سادی سے قمیض شلوار چاہیے جو خوبصورت بھی ہو اور سمپل بھی۔۔۔“ ماہنور نے اپنی رائے دی تھی۔۔۔شاہنزیب کے پسند کردہ سوٹ کے متعلق۔۔۔
”دادو مجھے لگ رھا ہے شاہنزیب ماہنور کو قبول کر چکا ہے“ بھابھی خوش ہو کر دادو کو بتا رہی تھیں۔۔
” ہاں دادو ۔۔۔پتہ ہے اسے خود لے کر گیا ہے شاپنگ کرا نے ابھی“ رومیسا بھی فورا دادو کو آکر بتانے لگی
” دیکھ کر مجھے بھی بہت خوشی ہو رہی ہے کہ شاہنزیب ماہنور کو اپنا رہا ہے۔۔۔۔ اب لگتا ہے وقت آگیا ہے اس سے رخصتی کے متعلق بات کرنے کا۔۔۔“ دادو نے ارادہ کیا تھا ۔۔۔۔
”اگر وہ مان گیا ۔۔۔تو ہم ماہنور اور صباء کی ایک ساتھ کردیں گے۔۔۔۔۔ کتنا مزا آئے گا ۔۔۔ دونوں بھائی ایک ساتھ دولہے بنیں گے “ثانیہ ایکسائیڈ ہو کر بولنے لگی ۔۔۔۔
”خدا کرے وہ مان جائے “رومیسا آپا دعا گو ہوئی تھیں۔۔۔۔
” خدا نہ کرے۔۔۔ تو یہ لوگ میرے بیٹے کو اس ماہ نور کے ساتھ رخصتی کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے والے ہیں ۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔ لگتا ہے کچھ کرنا پڑے گا ۔۔۔میں اپنے بیٹے کی زندگی یوں تباہ نہیں ہونے دوں گی ۔۔۔اس کی نرم تربیت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں یہ لوگ“ شمسہ بیگم نے جو دادو کے کمرے میں باتیں ہو رہی تھیں وہ سن کر پکاعزم کر لیا تھا کے وہ کچھ نہ کچھ تو کریں گی ۔۔۔۔۔ماہنور کو شاہنزیب کی زندگی سے نکالنے کے لئے۔۔۔۔۔
” ماہ نور یہ والا دیکھو “شاہزیب نے اسے ایک قمیض شلوار دکھایا تھا جس کی قمیض ڈارک ہرے رنگ کی اور شلوار گولڈن تھی۔۔۔۔قمیض کا گلا سفید رنگ کے موٹے نگوں سے جڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔
”ہاں۔۔۔۔یہ بہت پیارا ہے۔۔۔“ ماہ نور کی آنکھیں چمکی تھیں اس سوٹ کو دیکھ۔۔۔۔ یہ لے لو“ اس نے کہا تو شاہنزیب اسے گھور کر دیکھنے لگا ”تم آج تک صرف کپڑے دیکھ کر ہی پسند کر لیتی ہو۔۔۔۔۔ ٹراۓ نہیں کرتیں “ شاہنزیب نے اسے پیار سے ٹوکا ۔۔۔۔
”اچھا بابا ۔۔۔۔میں ٹراۓ کرکے آتی ہوں“ وہ یہ کہہ کر سوٹ لے کر چلی گئی۔۔۔۔ اسی لمحے شاہنزیب کی نظر سامنے والی شاپ پر پڑی جس میں ایک سفید رنگ کی ڈمپی ایک نہایت ہی حسین شرارہ پہنے ہوئے تھی۔۔۔۔۔اسے دیکھ کر شاہنزیب خود کو روک نہیں سکا ۔۔۔۔ لال رنگ کا دوپٹہ جس کے چاروں طرف گولڈن اور سفید نگوں سے جڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے لٹو لٹکتے ہوئے نظر آرہے تھے ۔۔۔بلاؤز گولڈ رنگ کا تھا جو گلے اور دامن سے کڑھائی میں بھرا ہوا اور بیج کے حصے سے بالکل سادہ تھا اور نیچے کا شرارہ لال رنگ کا تھا جس پر نہایت ہی خوبصورتی سے ہاتھوں کا باریک کام ہوا تھا۔۔۔۔ یہ پورا شرارہ نہایت ہی دلکش تھا۔۔۔۔۔شاہنزیب کا اس پر دل اٹک گیا۔۔۔۔” یہ شرارہ پیک کر دیں“ اس نے شرارہ خریدنا چاہا تھا ۔۔۔
”سر ۔۔۔۔سوری۔۔۔۔ پر یہ پہلے ہی فروخت ہو چکا ہے“
” کیا ؟؟؟۔۔۔۔۔۔ پر مجھے بہت پسند آیا ہے یہ۔۔۔۔میں اسے خریدنا چاہتا ہوں“
” سر سوری ۔۔۔۔پر یہ ابھی ابھی انہوں نے خریدا ہے “ وہاں کھڑی لیڈی ورکر نے کہہ کر سامنے کھڑے لڑکے کی طرف اشارہ کیا تو شاہنزیب اس حسین اتفاق پر مسکرا دیا کہ شرارہ خریدنے والا کوئی اور نہیں شہزاد تھا۔۔۔۔۔
” بھائی یہ آپ نے لیا ہے؟؟؟“ شاہنزیب نے شہزاد کے پاس جا کر استفسار کیا
”ہاں“ اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔۔۔” تمہیں اگر پسند ہے تو تم لے لو ۔۔۔۔میں کوئی اور لے لوں گا۔۔۔۔ پر رخصتی کے خواب تب دیکھنا جب سچ بولنے کی ہمت رکھتے ہو“ یہ کہہ کر ورکر کی طرف متوجہ ہوا”ان کو دے دیجئے“ کہ کر شھزاد چلا گیا۔۔۔۔
” پیک کردیں پلیز “ وہ کہہ کر اسی شاپ میں واپس آگیا تھا ۔۔۔۔۔
” کہاں چلے گئے تھے ؟؟؟“ماہ نور پوچھ رہی تھی
” سامنے شاپ پر گیا تھا۔۔۔۔ یہ چھوڑو سوٹ پسند آیا ؟؟“
”ہاں“ ماہنور نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔تو وہ بھی جوابا مسکرانے لگا۔۔۔۔ شہزاد کی بات دل پر لگ گئی تھی۔۔۔۔۔ وہ ماہنور کے ساتھ تھا پھر بھی اسے کھونے کا ڈر لاحق تھا ۔۔۔۔۔ اس نے ماہ نور کا ہاتھ خود ہی تھام لیا تھا۔۔۔۔ماہنور اسے اپنا ہاتھ پکڑتا ہوا دیکھ مسکرانے لگی۔۔۔۔۔۔۔ ”کیوں میں تمہارے ساتھ ہو کر بھی اطمینان نہیں پاتا ؟؟۔۔۔ ہر لمحہ تمہیں کھونے کا ڈر بڑھتا کیوں جا رہا ہے ؟؟؟۔۔۔۔۔۔ میں نے شرارہ خرید تو لیا ہے ۔۔۔۔پر ناجانے تمہیں کبھی دے پاٶں گا یا نہیں “شاہنزیب اسے دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا۔۔۔۔ماہنور بہت خوش نظر آ رہی تھی ۔۔۔ اس کا دل رکھنے کے لیے اپنے لبوں پر جھوٹی مسکراہٹ بکھیرنے پر مجبور تھا۔۔۔۔
” اچھا چلو آئس کریم کھاتے ہیں “ وہ دونوں ہاتھ تھام کر آئیس کریم کون لے کر چلتے چلتے کھانے لگے۔۔۔
” کیا ؟؟۔۔۔۔ میری آٸس کریم ایسے کیوں دیکھ رہے ہو ؟؟؟اپنی کھاٶ ناں “ شاہنزیب اسے مسکرا مسکرا کر آٸس کریم کھاتا دیکھ رہا تھا تو ٹوٹکتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔
ایک باٸیٹ لے سکتا ہوں ؟؟؟“شاہنزیب کا دل اس آٸس کریم پر اٹک گیا تھا جسے وہ کھا رہی تھی۔۔۔۔ وہ منتی انداز میں پوچھنے لگا
” اچھا یہ لو۔۔۔۔پر تھوڑی سی کھانا “وہ بھولے پن سے اس کے منہ کے قریب لے گٸی شاہنزیب نے جیسے ہی منہ کھولا کھانے کے لیے ماہنور نے بجائے اس کے منہ ۔میں کھلانے کے اس کی ناک پر لگادی۔۔۔۔” مزہ آیا“ یہ کہ کر تیزی سے ہستے ہوۓ بھاگنے لگی۔۔۔۔شاہنزیب نے اپنی جیب سے رومال نکال کر آٸس کریم اپنی ناک سے صاف کی۔۔۔
”شاہ ۔۔۔ لال پہنوں یا مہرون “ وہ چوڑیاں دیکھاتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔اس کی آنکھیں خوشی کے مارے جھلملا رہی تھیں۔۔۔۔
”ہمممم۔۔۔۔۔۔ دونوں پہن لو “ وہ سوچتے ہوئے بولا
”دونوں ۔۔۔۔چلو صحیح ہے۔۔۔۔ پہناٶ“ اس نے یہ ہے کہ کر جب اس کے ہاتھ کے آگے اپنا ہاتھ کیا تو نہ جانے کتنے سالوں کی حسرت آج پوری ہوئی تھی۔۔۔ بہت شوق تھا اسے اپنے ہاتھوں سے چوڑی پہنانے کا۔۔۔۔ آنکھوں میں خود بخود نمی آ گئی تھی ۔۔۔جسے اتنا چاہا ہو ۔۔۔ جسے پانے کی اتنی دعائیں کی ہوں۔۔۔۔ جس کو کھونے کا ڈر ہر لمحہ دل کو لگا رہتا ہوں ۔۔۔۔جس کی ایک نظر ہر تکلیف و غم میں ہمت بنا دیتی ہو۔۔ وہ ابھی انہی سوچوں میں گم سم کھڑا تھا۔۔
” کہاں کھو گئے؟؟ ماہ نور اس کی آنکھوں کے آگے چٹکی بجاتے ہوئے بولی۔۔۔۔
”نہیں ۔۔۔کچھ نہیں“ وہ نفی میں گردن ہلانے لگا
” کسی اور رنگ میں لوں؟؟یا ۔۔۔۔ یہی رنگ اچھے لگ رہے ہیں ؟؟“وہ دوسری چوڑیاں دیکھتے ہوئے بولی
” نہیں یہی اچھی ہیں“ بس مشکل سے یہی لفظ ادا ہو سکے۔۔۔ شاہنزیب نے اپنے ہاتھ سے ایک ہاتھ میں لال۔۔۔۔اور دوسرے ہاتھ سے مہرون پہنادیں۔۔۔۔ ماہنور اپنے دونوں ہاتھ چوڑیوں سے بھرے ہوئے دیکھنے لگی اس کی آنکھیں جھلملا رہی تھیں مارے خوشی کے ۔۔۔۔اس کے حسین ہاتھوں میں چوڑیاں اور حسین لگ رہی تھیں۔۔۔۔شاہنزیب کا دل خوشی سے جھوم رہا تھا اسے چوڑیاں اپنے ہاتھوں سے پہنانے کے بعد۔۔۔۔۔
*******--------**********
” ارے سنو۔۔۔ میری گھڑی لا دو میرے کمرے سے “کامران اور سعدیہ گھر واپس آ گئے تھے ۔۔۔ شاہنزیب اور ماہنور بھی وہ دونوں اتنا خوش لوٹے تھے کہ چاچی جان کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی ۔۔۔سعدیہ کامران سے پوچھ کر ہی کمرے میں مایوں کیلئے تیار ہونے گٸی تھی لیکن وہ اپنی گھڑی پہننا تو بھول ہی گیا تھا۔۔۔ جب یاد آیا تو اسماء سے منتی انداز میں کہنے لگا
” خود لے آؤ ۔۔۔۔دیکھ نہیں رہے میں کام کر رہی ہوں“اسماء لیپ ٹاپ پر نظر جماۓ بولی ۔۔۔
”آپا ۔۔۔آپ لا دو“ رومیساء آپا وھیں آرام سے صوفے پر بیٹھیں چپس کھا رہی تھیں۔۔۔ جب کامران نے ان سے التجاٸی انداز میں کہا
” میں تھک گی ہوں اوپر نیچے کے پھیرے کر کر کے ۔۔۔۔ میں نہیں جا رہی “کہ کر اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے دیکھایا کے انہیں بہت درد ہو رہا ہے۔۔
” اپ کروانا مجھ سے اپنا کوئی کام ۔۔۔۔جب دیکھو کامران یہ کردے۔۔۔ کامران وہ کر دے اور میرا ایک کام کرنے میں دونوں کی جان نکل رھی ہے “کام ان دونوں کو گھورتے ہوئے بولا۔۔۔۔
” شاہزیہ آپا ۔۔۔آپ لادو میری گھڑی سعدیہ کے کمرے سے“ شاہزیہ جیسے ہی وہاں آ کر بیٹھی صوفے پر کامران نے منتی انداز میں کہا۔۔۔
” تم خود چلے جاؤ ۔۔۔ ویسے بھی تمہارا کمرا ہے اس کا تھوڑی ہے اور وہ کونسا تم سے پردہ کرتی ہے جو تم خود نہیں جا سکتے ۔۔۔۔۔اور ہاں اوپر جا تو رہے ہو۔۔۔ میرے کمرے سے جنید جمشید کے ہینگر ہوئے کپڑے بیڈ پر آگئے ہی رکھے ہیں ۔۔۔لیتے آنا “ شاہزیہ آپا نے تو آسمإ اور رومیسا کو دو ہاتھ پیچھے چھوڑ دیا تھا انہوں نے تو اپنا کام بھی پکڑا ڈالا تھا کامران کو۔۔۔۔۔وہ منہ بسور کر ان کو دیکھ بولا ”ڈاکٹر نے منع کیا ہے اوپر نیچے کے پھیرے کرنے سے ۔۔۔۔ڈاکڑ نے کہا ہے جتنا ہوسکے آرام کرنا اس لئے بول رہا ہوں آپ لوگوں سے“
” ہم نے نہیں کہا تھا تم سے ریس پر جاؤ۔۔۔۔ اب“۔۔۔۔۔ شاہزیہ آپا ابھی بول ہی رہی تھیں کہ کامران غصے سے نفی میں گردن ہلا کر خود آئستہ آئستہ سیڑھیاں چڑھتے ہوۓ اوپر چلا گیا اس نے دروازے نوک کیا۔۔۔۔۔
” آجاؤ“ سعدیہ کی اندر سے آواز آئی۔۔۔۔ تو وہ اندر چلا آیا ۔۔۔۔۔سعدیہ نہاء کر نکلی تھی ۔۔۔۔اس کی آبشار گیلیں تھیں ۔۔۔۔اور رنگت نکھری نکھری ۔۔۔۔
”وہ میں۔۔۔۔۔۔“ کامران نے سعدیہ کو دیکھا تو بمشکل یہی لفظ ادا کر سکا۔۔۔۔
”کامران ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے منع کیا تھا ناں۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔ انہوں نے کہا تھا ناں کے آرام کی ضرورت ہے تمہیں۔۔۔“ سعدیہ نے ڈپٹنے والے انداز میں کہا ۔۔
”وہ۔۔۔۔۔ گھڑی لینے آیا تھا“ کامران نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔جو اس لمحے نہایت حسین لگ رہی تھی پیلے رنگ کے کرتے اور مہرون رنگ چوڑی دار پاجامے میں۔۔۔۔ وہ پیلے رنگ میں نہایت حسین معلوم ہو رہی تھی۔۔
” گھڑی ۔۔۔۔تم بیٹھو یہاں ۔۔۔۔مجھے بتاؤ ۔۔۔۔میں دوں تمہیں“ سعدیہ نےفکرمند انداز میں کہا ۔۔۔۔ تو کامران اثبات میں سر ہلا کر صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔سعدیہ اس کے سامنے ہی الماری کھول کر دیکھنے لگی” یہ والی“ وہ ایک گھڑی ہاتھ میں لیۓ ۔۔۔۔ دیکھاتے ہوئے بولی
” نہیں ۔۔۔۔۔وہ سلور ہے "
“اچھا“۔۔۔۔۔وہ پھر ڈھونڈنے لگی” کہاں رکھی تھی تم نے؟؟۔۔۔ یہاں تو نہیں ہے “وہ ڈھونڈتے ہوئے بولی
” میں نے خود رکھی تھی دیکھو وہیں ہوگی“ اس نے اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے کہا تھا ۔۔۔۔۔جب اسے لگا کے سعدیہ کو نہیں مل رہی تو آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے اس کی جانب چلتا ہوا آیا ۔۔۔۔اس کے پیچھے آکر کھڑا ہوا ۔۔۔۔سعدیہ الماری کی بیچ والی دراز میں گھڑی ڈھونڈ رہی تھی ۔۔۔کامران کہنے ہی والا تھا۔۔۔۔۔ہٹو سعدیہ میں خود دیکھ لوں۔۔۔۔اس سے پہلے وہ کہتا ۔۔۔ سعدیہ کامران کی پیچھے موجودگی سے بے خبر اچانک سے اسے گھڑی دیکھانے کے لئے مڑی۔۔۔۔سعدیہ کے سارے گیلے بال کامران کے چہرے پر لگے تھے۔۔۔۔ اس کے بالوں کی مہک دیوانہ کرنے کے لئے کافی تھی۔۔۔۔
”سوری“ وہ زبان کو دانتوں میں دباتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔
”دیوانا مجھے بناٶ ناں۔۔۔۔۔دیوانگی کی حد تک“ وہ اسے تکتے ہوئے بول رہا تھا ۔۔۔وہ کھوۓ کھوۓ انداز میں کہہ کر اس کے قریب آنے لگا تو وہ بالکل الماری کے دروازے سے لگ گئی
”کیا کر رہے ہو کامران ؟؟“ کامران کا یوں دیکھنا ۔۔۔۔۔۔۔۔یوں قریب آنا اسے حراسہ کر گیا تھا۔۔۔۔” کامران تم سے بات کر رہی ہوں میں“ وہ بس سعدیہ کو الفت بھری نظروں سے دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔۔ کامران نے اپنا ایک ہاتھ الماری کے لوک پر رکھا تھا اسے تکتے ہوئے۔۔۔
” کامران بہت ہوگیا یار۔۔۔۔۔۔۔ مجھے عجیب فِیل ہو رہا ہے۔۔۔۔پلیز ہٹو “ سعدیہ نے کامران کو خود سے دور ہٹانے کے لیے اپنا ہاتھ اس کے سینے پر زور سے مارتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔ وہ اس قدر بے رخی و بے زاری سے بولی تو وہ حواس میں لوٹ آیا۔۔۔۔
” کیا کر رہی ہو تم میرے ساتھ ؟؟؟۔۔۔کیا بنا رہی ہو مجھے؟؟؟۔۔۔۔ کیوں تمہیں دیکھتے ہی کچھ ہو جاتا ہے ۔۔۔۔پلیز دور رہا کرو مجھ سے “کامران کو اس کی بے رخی اس قدر بری لگی کہ جو محبت کے جذبات ابھرے تھے وہ انھیں خود سولا دینا چاہتا تھا۔۔۔۔ اس لیے سعدیہ سے شکوہ کر کے غصے سے دروازہ زور سے بند کر کے چلا گیا۔۔۔
” میں نے کَیا کِیا ہے؟؟؟۔۔۔ پاگل۔۔۔۔ میں سناتی اس سے پہلے مجھے ہی الٹا سناکر چلا گیا۔۔۔۔ چھوڑو۔۔۔۔ میں تیار ہو جاؤں۔۔۔۔۔ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے“ وہ کڑکڑا کر رہ گٸی تھی کامران کی حرکت پر ۔۔۔۔۔
سعدیہ تیار ہو کر نیچے آٸی تو کامران سامنے ہی صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔۔ باقی سب چلنے کے لیے تیار تھے
” شہزاد بھائی بتا دیں اگر کوئی پیغام پہنچانا ہو تو “ماہ نور نے شوخی سے استفسار کیا ۔۔۔
”نہیں۔۔۔ میں شریف بچہ ہوں“ شہزاد نے بھولا سا چہرہ بنا کر اپنی شرافت کا مظاہرہ کیا
”آپ اور شریف ؟؟“ وہ طنزیہ بولی ۔۔۔۔۔”رہنے دیں اس سے بولٸیے گا جو آپ کو جانتا نہ ہو۔۔۔۔ میں تو آپ کی ہر واردات کی پارٹنر رہی ہوں“ ماہنور شھزاد کے کندھے پر ہاتھ رکھ ۔۔۔۔۔آنکھ مارتے ہوۓ بولی ۔۔۔۔
”ماہنور ہر وقت چھچھورپن مت کیا کرو۔۔۔۔ اتنے کام ہیں گھر میں اور تم یہاں کھڑی ہو۔۔۔۔۔ جاٶ دیکھو صباء کا سامان جس بیگ میں تھا وہ کار میں رکھوا دیا گیا ہے یا ابھی تک میرے کمرے میں پڑا ہے “ شمسہ بیگم صبح سے غصے میں تھیں اور اب ان سے ماہنور کے چہرے کی خوشی برداشت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔۔اس سبب سے وہ ڈپٹتے ہوۓ گویا ہوٸیں۔۔۔۔
” چاچی جان فکر مت کریں۔۔۔۔ میں نے خود رکھودایا ہے “ اسماء نے بول کر ماہنور کو اشارہ کر کے اپنے ساتھ چلنے کے لٸیے کہا تھا۔۔۔۔ابھی وہ جاتی اسے ساتھ لے کر اس سے پہلے
” اسماء یار ۔۔۔۔۔یہ کالر کا بٹن لگا دو “ولید سیڑھیوں سے اتر کر نیچے آیا تھا چیختے ہوئے۔۔۔
”او۔۔۔۔ ولید لاٶ میں لگاؤں“ اسماء یہ کہتے ہوئے اس کے پاس آئی تھی۔۔۔” گردن تو اوپر کرٶ “وہ بٹن لگاتے ہوئے بولی۔۔۔
” اتنا ٹائٹ ہے یار ۔۔۔۔دم گھٹ رہا ہے“ بٹن لگانے کے بعد وہ کالر کو ہاتھوں سے ہلاتے ہوئے بولا۔۔۔۔
” ارے ابھی مت کھولو۔۔۔۔ وہاں جا کر تھوڑی دیر بعد کھول لینا ۔۔۔بس۔۔۔“ اسماء بول کر کچن میں چلی گئی تھی۔۔۔
” ماہنور یار۔۔۔ یہ بٹن لگا دو۔۔۔ لگ ہی نہیں رہا ہے “شاہنزیب بھی یہی کہتا ہوں نیچے آیا تو ولید سعدیہ مسکرانے لگے۔۔۔۔جبکے کامران کی ہسنی چھوٹ گٸی تھی۔۔۔۔
”لاٶ۔۔میں“ مانو یہ بولتے ہوئے اس کے پاس آکر ابھی بٹن پکڑ کر کھڑی ہی ہوئی تھی ۔۔۔
”ماہنور پہلے جاکر بولو اپنے چاچا سے کہ جلدی سے آجائیں تیار ہو کر۔۔۔ سب باہر تیار کھڑے ہیں۔۔۔ بس دولہے کا باپ ہی ہے جو ابھی تک سولہ سنگھار میں مصروف ہے“ چاچی ماہنور کو شاہنزیب سے ہٹانے کے لئے بولیں لیکن یہ بات شاہنزیب کو محسوس نہ ہوجاۓ اس لیے لبوں پر مصنوعی مسکراہٹ سجا لی۔۔۔۔
”اچھا چاچی“ ماہ نور فورا ہی ان کے حکم کی تابع داری میں چاچا کو بلانے چلی گئی۔۔۔
”یار ۔۔یہ لگ ہی نہیں رہا ہے“شاہنزیب خود لگانے کی کوشش کرتے ہوئے جھنجھلا کر بولا۔۔۔۔
” سعدیہ تم لگا دو۔۔۔ اس کا بٹن “ شمسہ بیگم نے جب سعدیہ سے کہا تو شاہنزیب ۔۔۔۔ سعدیہ۔۔۔۔ کامران تینوں ہی ہچکچاھٹ کا شکار ہوگئے۔۔۔
” ارے لگا دو۔۔۔۔ سوچ کیا رہی ہو“ انہوں نے دوبارہ کہا تو وہ آہستہ آہستہ قدم چلتی ہوئی اس کے پاس آئی۔۔۔۔
”آ۔۔۔۔۔۔آ۔۔۔آہ ۔۔۔۔ میرا پاؤں۔۔۔۔یار سعدیہ میں دوائی کھانا تو بھول ہی گیا۔۔۔ اوپر سے لا دو جلدی “کامران اپنا پاؤں پکڑتے ہوئے بولا مانو اسے بہت تکلیف ہو رہی ہو۔۔۔۔سعدیہ اسے تکلیف میں چیختا ہوا دیکھ اوپر بھاگی تھی دوائي لینے۔۔۔۔
” لاٶ میں لگادیتا ہوں۔۔۔۔ اب ہر کسی کی قسمت میں ہماری طرح بیوی سے بٹن لگوانے کا مزا نہیں ہوتا “ ولید شاہنزیب کو چھیڑتے ہوئے اس کا بٹن لگانے لگا۔۔۔۔۔ اس کی بات سن شاہنزیب کی چہرے پر بھی مسکراہٹ بکھر آئی تھی۔۔
” کامران دوائی تو تم کھا چکے ہو۔۔۔۔دیکھو“ سعدیہ دوائی کا باکس دیکھاتے ہوئے بولی جو خالی تھا
”ہاں تو کھا لی ہوگی۔۔۔۔ میں بھول گیا ہوں گا ۔۔۔۔اب چلو ۔۔۔۔۔سب گاڑی میں بیٹھ گٸے ہیں “کامران نے لاپروائی سے جواب دیا تو سعدیہ اسے الجھی نگاہ سے دیکھتے ہوئے باہر چلی گئی ۔۔۔
”کوٸی پیغام دینا ہے؟؟؟“ کامران نے آخری بار شہزاد کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا کیونکہ شہزاد کے سوائے پورا گھر جا رہا تھا۔۔۔۔
”بس میری طرف سے سلام کہنا “ شہزاد مسکراتے ہوۓ کہ کر گاڑی کا دروازہ بند کر کے واپس گھر میں چلا گیا۔۔۔۔
****-_--------*******
”شاہ تم یہاں “شاہنزیب اور ماہ نور ایک ساتھ کھڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔شاہنزیب جو کیمرا لندن سے لایا تھا اس کا رزلٹ ماہنور کو دیکھا رہا تھا کہ عباس کی آواز پر حیرت سے اسے دیکھنے لگا
”تو یہاں کیسے ؟؟؟“شاہنزیب کے منہ سے نکلا تھا
”ارے۔۔۔۔۔ میری دعوت میں آکر مجھ سے پوچھ رہا ہے ۔۔۔۔۔شرم تو آ نھیں رہی ہوگی تجھے۔۔۔۔“ عباس نے شاہنزیب سے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔
”بس رہنے دے ۔۔۔۔تیری دعوت “ وہ طنزیہ بولا ” یہ میرے گھر کی تقریب ہے “شاہنزیب نے بھرم سے کہا تھا ۔۔۔۔۔
”ماہنور راٸٹ؟؟“ عباس کی نظر جیسے ہی ماہنور پر پڑی اس کے منہ سے خود بخود نکل گیا ۔۔۔ اس نے اندازہ بھی پر اعتماد ہو کر لگایا تھا
”جی “ ماہنور نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔
” دیکھا کہا تھا ناں میں نے ۔۔۔۔تصویر مت دیکھا ۔۔۔جتنا تو نے بتایا ہے۔۔۔میں خود دیکھتے ہی بھابھی کو پہچان لوں گا“ اس نے ماہنور کو دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔
”شاہنزیب تم انھیں کیسے جانتے ہو؟؟؟ماہنور حیرت سے شاہنزیب سے پوچھنے لگی
”ماہنور ۔۔۔یہ عباس ہے میرا یونیورسٹی کا دوست“ ماہنور یہ سن اس حسین اتفاق پر حیران ہوٸی کیونکے عباس ہی ریشم کا منگیتر ہے۔۔۔۔
”دولہا بھاٸی آپ ۔۔۔“ ماہنور ابھی بول ہی رھی تھی کہ اسماء وہاں آ کر اس کا ہاتھ کھینچتے ہوئے لے گئی۔۔۔۔اس کی بات ادھوری ہی رھ گٸی۔۔۔۔۔
”ماہنور تجھے دولہا بھائی کیوں کہ رہی تھی ؟؟“شاہنزیب الجھ کر عباس سے استفسار کرنے لگا۔۔۔۔
” شاید میں ریشم کا منگیتر ہوں اس لئے “ عباس ذرا لچک دار آواز میں اندازہ لگاتے ہوئے کہا۔۔۔
”ریشم کی منگنی تجھ سے ہوٸی ہے؟؟“ شاہنزیب حیرت سے پوچھنے لگا۔۔۔
”ہاں۔۔۔ اور تو کون ہے ریشم کا ؟؟؟“عباس نے ابرو اچکاکر پوچھا
”میں اس کے سب سے چھوٹے ماموں کا بیٹا ہوں اور صباء میری ہونے والی بھابھی ہیں “اس نے مسکراتے ہوئے کہا
”ارے واہ ۔۔۔۔۔ہم تو رشتے دار بن گٸے“ یہ کہ کر وہ بھی خوش ہونے لگا۔۔۔۔
” ایک منٹ کچھ تو گڑبڑ ہے اگر تو صباء کا دیور ہے تو یہ ساری باتیں جو میں سن رہا ہوں وہ تیرے متعلق ہو رہی ہیں۔۔۔۔۔ اس کا مطلب وہ لڑکا تو ہے جس نے اپنی دو سال بڑی کزن سے شادی کی ہے ۔۔۔جس کی عین برات والے دن دولہا بھاگ گیا تھا۔۔۔ہے ناں “ وہ ہکا بکا ہوکر شاہنزیب کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔۔۔۔
” ہاں۔۔۔۔ وہ میں ہی ہوں “شاہنزیب کی ایک ہاں نے عباس کو پورا ھلا دیا تھا۔۔۔۔۔
” یعنی وہ لڑکا تو ہے جس کو اپنی بچپن کی منگیتر سے بے پناہ عشق ہے اور قسمت نے ایسا کھیل کھیلا کہ اسی کے سامنے تو نے اپنی کزن سے شادی کرلی؟؟؟“عباس الجھ کر پوچھ رہا تھا۔۔۔
”ہاں ۔۔۔۔۔پر۔۔۔۔“ابھی شاہنزیب بول ہی رہا تھا۔۔۔۔
” یعنی وہ جو سب لوگ کہتے ہیں کہ لڑکا واپس آکر طلاق دے گا اس لڑکی کو ۔۔۔۔۔وہ لڑکی اور کوئی نہیں ماہنور بھابھی ہیں ؟؟؟؟“ وہ شاہنزیب کی بات کانٹتے ہوۓ حیرت سے پوچھ رہا تھا۔۔۔۔
” ہولڈ اون۔۔۔رک جاٶ۔۔۔۔ تو مجھے کچھ بولنے دے گا یا خود ہی بولتا رہے گا؟؟“ شاہنزیب نے بیچ میں اسے روک کر بولنے کی کوشش کی ۔۔۔۔
”نھیں۔۔۔۔تو ۔۔۔۔تو بہت محبت کرتا ہے ماہنور بھابھی سے ۔۔۔ارے بھابھی کے چکر میں تو نے کبھی کسی لڑکی کو تو دور اقصی جیسی حسین لڑکی کو بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔ تو۔۔۔۔۔۔۔۔ تو وہ ہے جو رات کو بھی انہی کا نام لے کر چیختا ہوا اٹھتا ہے۔۔۔۔ تیری تو جان ہے بھابھی میں۔۔۔۔ میں نے دیکھا ہے تیرے جنون کو۔۔۔۔ تیری دیوانگی کو ان چار سالوں میں ۔۔۔۔۔میں نے دیکھا ہے کیسے تو ان کی تصویر کو سینے سے لگائے رکھتا تھا ۔۔۔۔کیسے ان کو فون کرکے ان کی آواز سن کر خوش ہو جایا کرتا تھا۔۔۔۔ تو انہیں طلاق کیسے دے سکتا ہے؟؟؟“ عباس بس بولے جا رہا تھا جذباتی ہوکر۔۔۔۔
”تو چپ ہو اور میرے ساتھ چل۔۔۔ میں تجھے سب بتاتا ہوں“ شاہنزیب اسے اپنے ساتھ ہال سے باہر لے گیا۔۔۔
”میں اسے بھت محبت کرتا ہوں ۔۔۔۔یہ بات میں نے آج تک ماہ نور کو نہیں بتائی۔۔۔۔ میں اسے آج سے نہیں بچپن سے بہت پیار کرتا ہوں ۔۔۔۔وہ میرے جینے کی وجہ ہے ۔۔۔۔اسے طلاق دینے کی بات تو میں مر کے بھی نھیں سوچ سکتا ۔۔۔۔ یہ سب تو صرف لوگ بول رہے ہیں اور لوگوں کا تو کام ہی ہوتا ہے بولنا اور باتیں بنانا ۔۔۔۔۔تو فکر مت کر ۔۔۔۔۔سب کچھ میرے کنڑول میں ہے۔۔۔۔ اب تو ماہ نور بھی اس رشتے کو قبول کرنے لگی ہے۔۔۔۔تو بس دیکھتا رھ ۔۔۔۔۔۔میں کیسے بہت جلد سب افواہوں کو غلط ثابت کرتا ہوں ۔۔۔۔“شاہنزیب نے جب عباس کو یہ سب بتایا تو اس وقت ہال کے باہر صرف وہ دونوں ہی نہیں تھے۔۔۔ کوئی تیسرا بھی تھا جو ان کی باتیں کان لگا کر سن رہا تھا ۔۔۔۔اور وہ شخص کوئی اور نہیں رومیسا کا شوہر یعنی شارق کا بڑا بھائی تھا۔۔۔۔جن پر آج رات یہ انکشاف ہوا تھا کے شاہنزیب ماہنور سے بچپن سے محبت کرتا ہے اور شارق جو اس کے بارے میں کہا کرتا تھا وہ ٹھیک تھا۔۔۔۔
” ہیلو سعدیہ “شاہنزیب کا پورہ ننھیال جو لاہور میں رہتا ہے۔۔۔۔۔ آج کی تقریب میں شرکت کے لیے آٸے تھے۔۔۔۔ سعدیہ کا چھوٹے ماموں کا بیٹا جو بچپن سے اسے پسند کرتا تھا اسے دعوت میں دیکھ مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔
” ہیلو “سعدیہ اسے کہہ کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی ۔۔۔وہ اسے اگنور کر رہی تھی۔۔۔
” تم یہاں ملوگی اس کی امید نہیں تھی ۔۔۔۔تم نے تو سرپرائز دے دیا ۔۔۔۔بہت اچھا لگا تم سے مل کر۔۔“ وہ بہت خوش مزاجی سے کہہ رہا تھا
”اچھا۔۔۔۔ شہزاد بھاٸی صرف تمہارے نہیں میرے بھی کزن ہیں ۔۔۔ اس لئے مجھے تو آنا ہی تھا “سعدیہ نے سرسری سہ دیکھتے ہوئے جواب دیا پھر مڑ کر جانے لگی۔۔۔
”تم بالکل نہیں بدلیں۔۔۔۔وہی غصہ ۔۔۔وہی بے رخی ۔۔۔وہی انداز ۔۔۔۔۔اب تو شاہنزیب کی شادی ہوگئی ہے ۔۔۔۔اب تو نظر کرم مجھ غریب پر کرو“ اس نے ہاتھ تھامتے ہوئے کہا
” تم بھی نہیں بدلے۔۔۔۔ وہی چیپ ڈائیلاگ “ اس نے ہاتھ چھڑایا تھا بڑی بے رخی سے کہتے ہوئے
” یار میں آج بھی تمہارا منتظر ہوں۔۔۔۔ میری محبت پر ذرا تھوڑا سا تو ترس کھاؤ “وہ بڑے جذباتی ہوکر کہہ رہا تھا
”ترس کھائے گی تو محبت نہیں کرے گا “کامران نے آکر سعدیہ کا ہاتھ اس کے سامنے پکڑ کر کہا۔۔۔اس کا جملا مزمل کے تن بدن میں آگ لگا گیا تھا۔۔۔۔
”آپ کی تعریف؟؟؟“ وہ اس کے یوں اچانک بیچ میں آجانے پر جھنجھلا کر پوچھنے لگا۔۔۔
”وہ میں اپنے منہ سے کیا کروں۔۔۔ لوگوں سے سن لو اور سعدیہ چلو تمہاری مما بلا رہی ہٕیں “یہ کہہ کر اس کے سامنے ہاتھ پکڑ کر چلا تھا۔
” کون ہے یہ ؟؟؟“کامران نے ابرو اچکاتے ہوئے سوال کیا
”مزمل ماموں کا بیٹا “
”بڑا ہی کوئی چپکو ہے۔۔۔ تمہارے تو سارے ہی کزن چیپسٹر ہیں“ اس نے سعدیہ کو دیکھ منہ بسورتے ہوئے کہا
”تمہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے مجھے بھی ۔۔۔۔“ وہ طنزیہ کامران کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی ”اب میرا ہاتھ چھوڑو۔۔۔“کہ کر اپنا ہاتھ چھڑا کر اپنی ماں کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی
”ارے ۔۔یہ ماہنور ہے ناں؟؟“ ماہنور کے پاؤں چلتے چلتے رکے تھے اپنا نام سن کر۔۔۔۔ کوئی عورت اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔
” بہت خوبصورت ہے یہ تو۔۔۔ یقین نہیں آتا لڑکا اتنی خوبصورت لڑکی کو چھوڑ کر چلا گیا تھا “تین چار عورتیں ماہنور کو دیکھتے ہی تبصرے کرنا شروع ہوگٸیں۔۔۔۔ماہ نور گلاس میں پانی نکال رہی تھی جب عورتوں کی باتوں کی آوازیں اس کے کانوں کی سماعتوں سے ٹکرائیں۔۔۔۔
” بیچاری کا نہ تو باپ ہے اور نہ شوھر رہے گا ۔۔۔سنا ہے لڑکے کی منگیتر۔۔۔۔ وہ بھی آئی ہوئی ہے ۔۔۔بڑی خوبصورت ہے وہ بھی ۔۔۔۔بہت بد نصیب ہوتے ہیں کچھ لوگ ۔۔۔سب کچھ ہے اس کے پاس ۔۔۔بس پھر بھی اکیلی ہے “ ایک عورت نے کہا تو ماہنور کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے ۔۔۔
”ایسا نہیں بونا چاہیے۔۔۔۔ اتنی پیاری بچی ہے ۔۔۔بس عمر میں بڑی نہ ہوتی تو نہایت ہی حسین کپل ہوتا“ وہ عورتیں بہت دیر تک ماہنور کی زندگی پر تبصرہ کرتی رھیں۔۔۔۔
” اگر اس کی ساس نے رسم اس کے ہاتھوں سے ادا کروائی نئی دلہن کی۔۔۔۔ تو سمجھ لینا لڑکی کی شادی قاٸم ہے اور اگر شمسہ نے اپنی بھانجی سے کروائی تو اس کا مطلب ہے بہت جلد طلاق کی خبر ملے گی“ ان میں سے ایک نے جب یہ بات کہی تو وہ وہاں سے بغیر پانی پیے ہی گلاس رکھ کر رومیسا آپا کے برابر میں آکر بیٹھ گئی۔۔۔
کیا ہوا ؟؟؟۔۔۔رو کیوں رہی ہو؟؟؟“ آپا پریشان ہو کر پوچھنے لگیں۔۔۔۔” چلو میک۔اپ روم میں ۔۔۔چلو جلدی سے۔۔۔“آپا اسے اٹھا کر اپنے ساتھ میک۔اپ روم میں لے آئیں
”آپا چاچی جان رسم سعدیہ سے کروائیں گئی تو لوگ میرے متعلق بہت باتیں کریں گے ۔۔۔مجھے آپ گھر بھیج دیں کامران بھائی کے ساتھ۔۔۔ میں لوگوں کی نظریں اور باتیں مزید برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔“ وہ روتے ہوئے بولی تھی۔۔
” نہیں۔۔۔۔۔چپ ہو۔۔۔۔ بالکل چپ۔۔۔۔۔بچوں جیسی باتیں مت کرو یہی تو وقت ہے دیکھنے کا کہ شاہنزیب تمہارے لئے کیا سوچتا ہے “ آپا اسے چپ کراتے ہوئے کہنے لگیں
”پر۔۔۔۔۔ آپا۔۔۔۔۔شاہ کی چاچی کے سامنے کبھی نہیں چلتی ۔۔۔۔۔۔۔۔چاچی مجھے صباء باجی کی رسم ادا نہیں کرنے دیں گی“ ماہ نور نے کہا تو وہ اسے چپ کرا کر دلاسے دے کر واپس باہر لے آئیں۔۔۔۔سب منتظر تھے یہ دیکھنے کے لیے کہ صباء کو گجرے پہنانے کی رسم کون ادا کرتا ہے ۔۔۔۔ماہنور بالکل ناامید تھی ۔۔۔۔
پہلے ریشم کی منگنی ہوئی ۔۔۔۔پھر صباء کو لا کر اسٹیج پر بٹھایا گیا ۔۔۔۔سب ان کے اردگرد ہجوم بنائے ہوئے تھے۔۔۔۔ شاہنزیب تصویریں بنا رہا تھا اپنے نئے کیمرے سے۔۔۔۔
” السلام علیکم ۔۔۔میری نہیں۔۔۔۔ آپ کے ہونے والے کی طرف سے “کامران نے ہلکے سے صباء کے کان میں شہزاد کا پیغام پہنچایا تو وہ مسکرا کر جواب دینے لگی۔۔۔۔
”چلو بھٸی۔۔۔رسم ادا کرتے ہیں “شمسہ بیگم نے جب کہا تو سب جمع تو پہلے ہی تھے اب منتظر ہوگئے یہ سننے کے لیے۔۔۔ اب نام کس کا لیتیں ہیں وہ ۔۔۔ماہنور کا یا سعدیہ کا۔۔۔۔ ماہ نور سب سے پیچھے کھڑی تھی اسے ذرا سی بھی امید نہ تھی کہ اس سے یہ رسم ادا کروائی جائے گی ۔۔۔
”ماہ نور ۔۔۔ماہنور آٶ۔۔۔رسم کرٶ صباء کی۔۔“چاچی جان نے جب گجرے کی تھال پکڑ کر ماہنور کا نام لیا تو سب ہکا بکا ہوکر کا شمسہ بیگم کو دیکھنے لگے۔۔۔
” چلو مانو ۔۔۔۔۔رسم ادا کرٶ“اسماء بہت مسرت بھرے لہجے میں اسے بولانے لگی۔۔۔۔۔ماہنور کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا اپنے کانوں پر ۔۔۔۔۔۔ سعدیہ کی ماں بہت غصے سے پاؤں پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئیں ۔۔۔۔۔پر سعدیہ وہیں کھڑی مسکراتی رہی۔۔۔۔۔ماہنور چلتے ہوئے آٸی اپنی بے یقینی سی کیفیت میں ۔۔۔۔تو چاچی جان نے مسکراتے ہوئے اسے تھال پکڑایا۔۔۔۔۔۔اس نے تھال لے کر ٹیبل پر رکھا ۔۔۔۔۔۔اسے تو ابھی تک یقین ہی نہیں آرہا تھا ۔۔۔وہ لوگوں کی نظروں کا مرکز بن گٸی تھی اس سبب سے کنفیوز ہونے لگی۔۔۔۔۔شاہنزیب بلکل اس کے سامنے ہی بیٹھ گیا تھا کیمرہ لے کر۔۔۔۔۔
”ماہنور پہناٶ“شاہزیہ آپا نے کہا۔۔۔ سب کے چہرے کھل اٹھے تھے یہ دیکھ کر کہ شمسہ بیگم ماہ نور سے رسم ادا کروا رہی ہیں۔۔۔۔
” ارے یار ۔۔۔۔۔رکیں۔۔۔۔وہ گھبرا رہی ہے۔۔۔ اسے آہستہ آہستہ بتائیں کہ کیا کرنا ہے “ماہنور نے اس سے پہلے کبھی کسی کو گجرے نہیں پہناۓ تھے۔۔۔اس لٸیے سب سے پوچھنے لگی۔۔۔ سب کے ایک ساتھ بتانے سے وہ مزید کنفیوز ہو گئی تو شاہنزیب نے سب کو ٹوکتے ہوۓ اس کی ہمت بڑھاٸی۔۔۔۔۔ گجرے کی رسم ادا کرنے کے بعد
” یہ مت سمجھنا کہ ایک رسم ادا کرنے سے تم میری بہو بن گئیں۔۔۔۔اگر شاہ نے خود آکر مجھ سے نہ کہا ہوتا تو میں کبھی بھی یہ رسم تمہارے ہاتھوں سے نہ کرواتی“ چاچی جان نے ماہنور کے کان میں آہستہ سے کہا اور پھر مسکراتی ہوئی اسٹیج سے اتر کر چلی گئیں۔۔۔۔۔
ماہنور شاہنزیب کو الفت بھری نگاہ سے دیکھنے لگی۔۔۔۔اسکی نگاہیں شکریہ ادا کر رہی تھیں۔۔۔۔شاہنزیب نے اسے جب خود کو اتنی محبت سے تکتے ہوۓ دیکھا ”کامران یہ لے ۔۔۔۔اب تو بنا“ وہ اپنا کیمرا کامران کو پکڑا کر ماہنور کے پاس آکر کھڑا ہوگیا ”کیا ہوا؟؟؟۔۔۔۔ ایسے کیوں دیکھ رہی تھیں مجھے ؟؟؟کیا بہت پیارا لگ رہا ہوں آج؟؟؟“شاہنزیب شوخ بھری نظروں سے ماہنور کو تکتے ہوۓ پوچھنے لگا۔۔۔۔۔
” تھینکس“ شاہنزیب کو بڑی الفت بھری نظر سے دیکھ کر۔۔۔ مسکراتے ہوئے شکریہ ادا کرنے لگی۔۔۔۔ آج شاہنزیب نے یہ رسم چاچی کے ذریعے ماہ نور کے ہاتھوں سے کروا کر پورے معاشرے کو جواب دے دیا تھا کہ وہی اس کی بیوی ہے اور وہ اسے طلاق نہیں دینے والا۔۔۔۔۔
” جب میں ادھر موجود ہوں ۔۔۔تو فکر کی کیا بات ہے۔۔۔خواہ مخواہ رو کر اپنا میک ۔اپ خراب کیا“۔۔۔اس نے کہا تو ماہنور حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ ”تمہارا جو پانی سے بھرا گلاس تھا ناں۔۔۔ جو ان عورتوں کی وجہ سے تم وھیں چھوڑ آئیں تھیں وہ میں نے پی لیا“ شاہنزیب نے بڑی محبت سے اسے بتایا کہ وہ سب کچھ دیکھ اور سن چکا تھا۔۔۔۔
” تم دونوں یہاں کیوں کھڑے ہو؟؟؟۔۔ سب اپٹن لگا چکے ہیں ۔۔۔۔۔شاہ تم رہ گئے ہو بس“ ریشم نے کہا تھا اپنا بھاری سے دوپٹہ سنبھالتے ہوئے ۔۔۔
”تم ایک جگہ ٹک کر بیٹھ جاؤ ۔۔۔۔ پھوپھو نے دیکھ لیا تو بہت غصہ کریں گی۔۔۔۔۔دیکھو تمہاری سسرال والے بھی تمہیں ہی دیکھ رہے ہیں “ماہنور نے اس سے کہا تھا بازو پکڑ کر ۔۔۔۔۔
”او۔۔۔۔۔۔ ہو ۔۔۔۔۔۔تو کیا ان کی وجہ سے اپنی بہن کی مایوں انجوۓ نہ کروں؟؟؟“ ریشم چڑتے ہوئے بولی
” تو ہم نے تھوڑی کہا تھا بھاری منگنی کرنے کو۔۔۔۔۔ اب جا کر سامنے والے صوفے پر بیٹھو۔۔۔ میں نے تمہاری تصویریں لینی ہیں۔۔۔۔ میں بس اپٹن لگا کر آتا ہوں پھر تصویریں لونگا تمہاری“شاہنزیب یہ کہ کر صباء کو اپٹن لگانے چلا گیا۔۔۔۔
سب مہمان چلے گئے تھے صرف خاندان کے مین افراد ہی بچّے۔۔۔۔ سارے بڑے افراد کھانا کھانے لگے تو سب نوجوان صبا کو گھیر کر اردگرد بیٹھ گئے۔۔۔
” شاہ تم ہاتھوں کے چار گجرے کیوں لائے تھے ؟؟صباء بھابھی کے ہاتھ دو ہیں ۔۔۔چار نہیں“اسما نے ٹوکا تو شاہنزیب کو یاد آیا کہ وہ تو ماہنور کے لئے بھی گجرے لایا تھا پر اسے روتا ہوا دیکھ۔۔۔۔۔دینا بھول گیا۔۔۔۔۔۔
” اچھا یاد دلایا۔۔۔۔۔ لاٶ دو۔۔۔۔ کہاں ہیں وہ ؟؟؟“شاہنزیب نے مانگا تو ریشم نے فورا اسے پکڑا دیٸے۔۔۔
”لاٶ مانو ۔۔۔۔ہاتھ دو“ اس نے ہاتھوں کے کڑے کاغذ سے نیکال کر جب سب کے سامنے ماہنور کا ہاتھ بڑے پیار سے مانگا تو سب حیرت زادہ ہو کر اسے دیکھنے لگے
”شاہ “اسماء حیرت سے اسے دیکھتے ہوۓ بولی ۔۔۔ماہنور بلکل صباء سے لگ کر صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔
” کیا ؟؟؟۔۔۔۔۔۔ میں اپنی بیوی کو گجرے نہیں پہنا سکتا کیا؟؟؟“ شاہنزیب نے جب یہ جواب دیا تو سب اس کے منہ سے( بیوی )کا لفظ سن کر بہت خوش ہوئے۔۔۔سواۓ سعدیہ کے۔۔۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے یہ لفظ سنتے ہی....
”او۔۔۔۔۔ہو۔۔۔۔۔بیوی۔۔۔۔“سب ایک آواز ہو کر چھیڑنے لگے تھے دونوں کو۔۔۔۔
” اب بس کرٶ آپ سب۔۔۔۔۔لاٶ ماہ نور ہاتھ دو“ اس نے سب کو ٹوکتے ہوئے ماہنور سے بڑے پیار سے ہاتھ مانگا۔۔۔
” ایسے کیسے شاہنزیب میاں۔۔۔۔ ہم اپنی اتنی خوبصورت سی بچی کا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دے دیں۔۔۔ کچھ لینا دینا تو بنتا ہے نا بھئی“ بھابھی نے کہا تو سب متفق ہوکر ہاں کرنے لگے۔۔۔
”ہاں جی۔۔۔۔ ایسے۔۔۔۔کیسے تم بس ہاتھ پکڑھ کر گجرے پہنا دو گے۔۔۔۔ پہلے ہمیں اپنی سالیاں بنا کر کچھ دو تو صحیح “اسماء نے اب مزید لینے دینے کی بات پر زور دیا تھا
” ماہنور ۔۔۔وہ تجھ سے تیرا ہاتھ مانگ رہا ہے اور تو ٹکر ٹکر اسے ہی دیکھ رہی ہے۔۔۔۔ یہ نہیں تھوڑا شرمائے۔۔۔۔ تھوڑی تو شرم کر لڑکی ۔۔۔۔تیرا شوہر ہے وہ “شاہزیہ آپا نے ماہنور کو دیوانوں کی طرح شاہنزیب کو تکتا ہوا دیکھا تو ٹوکنے لگیں۔۔۔۔
”واہ آپا۔۔۔۔۔ دل جیت لیا یہ کہہ کر۔۔۔۔سنا مانو ۔۔۔ یار میں تمہارا شوہر ہوں تھوڑا بہت ہی صحیح شرما لیا کرو مجھ سے“ شاہنزیب یہ کہ کر شوخی سے اس کا ہاتھ۔۔۔ سب کی نگاہوں سے بچاتے ہوۓ پکڑنے لگا۔۔۔ وہ کامیاب ہو بھی جاتا اگر اسماء فورا ماہنور کے دونوں ہاتھ نہ پکڑتی۔۔۔۔
”اچھا بچو۔۔۔۔۔باتوں میں لگا کر ہاتھ پکڑا جارھا تھا۔۔۔۔“ رومیسا آپا نے مسکراتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔
” اچھا بولیں۔۔۔۔ کیا دوں آپ سب کو اپنی سالیاں بنا کر “شاہنزیب نے سنجیدگی سے پوچھا تھا۔۔۔۔
” ارے آپ لوگ صرف ماہنور کی نہیں شاہ کی بھی بہنیں ہوں ۔۔۔ بھول گئیں کیا ؟؟؟۔۔۔۔اسے لٸے کوئی تو شاہ کا ساتھ دو“ کامران نے سب کو دیکھتے ہوئے کہا
”شاہزیہ آپا ۔۔۔۔آپ ہی کم از کم میرے سائٹ ہو جاؤ “شاہنزیب نے اپنی بہن سے منتی انداز میں کہا ۔۔۔۔جو ماہ نور کے سر پر کھڑی تھیں یعنی صوفے کے پیچھے ۔۔
”اگر تمہاری بہن بننے میں فائدہ ہوگا تو بن جاؤں گی پر ابھی ماہنور کی بہن بنے میں فائدہ نظر آ رہا ہے مجھے“ آپا اتراتے ہوۓ کہ کر ماہنور کے کندھے پر ہاتھ رکھنے لگیں۔۔۔۔
” شاہ ہم سب کو دس ۔۔۔دس ہزار روپے دے دو اور پہنالو اپنی بیوی کو گجرے“ اسماء نے شاہنزیب کو دیکھتے ہوئے اپنی ڈیمانڈ بتائی۔۔۔
”دس ۔۔۔دس ہزار ۔۔۔ ارے یہ تو بہت زیادہ ہیں۔۔ پوری لڑکی تھوڑی مانگ رہے ہیں۔۔۔۔ ہم تو صرف گجرے پہنا رہے ہیں ۔۔۔۔آپ خواتیں تو حد کر رہی ہیں۔۔۔۔۔تھوڑی تو شرم کرو اپنے ہی چھوٹے بھائی کو لوٹ رہی ہو“ علی بھائی جو کافی دیر سے صرف مسکرا مسکرا کر سب کی باتیں سن رہے تھے۔۔۔۔وہ ان کی ڈیمانڈ سنتے ہی بول پڑے تھے۔۔۔۔۔سعدیہ اب مزید یہ سب نہیں دیکھ پا رہی تھی اس کی آنکھوں میں آنسو آرہے تھے۔۔۔۔اس لٸیے وہ اسٹیج سے اتر کر چلی گئی۔۔۔۔۔ کامران بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔۔۔۔۔
” سعدیہ روکو۔۔۔۔۔ میں کہہ رہا ہوں روکو “ کامران بھاگتے ہوئے اس کے پیچھے آیا تھا ۔۔۔۔
” کامران اترو کار سے“ وہ بھاگتا ہوا آیا تو اس نے دیکھا کہ سعدیہ کار میں بیٹھ گئی ہے۔۔۔۔کامران دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ کے برابر والی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔ تو وہ روتے ہوئے بولی۔۔۔۔” کامران میں نے کہا اترو“ وہ پھر سے روتے ہوئے کہنے لگی پر وہ کھڑکی کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا۔۔۔سعدیہ نے غم و غصےکےعالم ہے تین چار بار کہا پر کامران نے جیسے ہونٹ سی لیے ہوں۔۔۔ سعدیہ نے غصے میں کار اسٹارٹ کر دی ۔۔۔۔۔سعدیہ کے پیچھے پیچھے اس کے والدین بھی ھال سے باہر چلے آئے تھے اور جب انہوں نے سعدیہ کی کار کو جاتا دیکھا تو خود بھی فورا اس کا پیچھا کیا۔۔
” چلیں اپنا بھائی سمجھ کر ہی تھوڑی رعایت کردیں۔۔۔یار دس۔۔۔دس ہزار تو بہت زیادہ ہیں میں تو پانچ ہزار بھی رکھ کر نہیں لایا ہوں “ شاہنزیب اپنی جیب پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔
”بس رہنے دو شاہ۔۔۔۔ اتنے بھی کوئی غریب نہیں ہو تم۔۔۔ سیدھے سیدھے نیکالو پیسے ورنہ رکھو اپنے گجرے اپنے پاس۔۔۔“ریشم نے بڑے بھرم سے کہا
” شاہ دے دے پیسے ۔۔۔۔ورنہ یہ خواتین گجرے پہنانے نہیں دیں گی“ بہت دیر بحث ہونے کے بعد علی بھائی تھک کر بولے تھے۔۔۔۔
” اچھا یہ لیں بس۔۔۔“شاہنزیب نے پیسے نکال کر اسماء کو دیے۔۔۔
” چلو تم بھی کیا یاد کروگے۔۔۔ پہنالو اپنی دلہن کو گجرے۔۔ اسماء مسکراتے ہوئے پیسے گن کر بولی تھی۔۔۔
” دیکھو دیکھو یہ تو واقعی شرما رہی ہے “شاہنزیب کے ہاتھ میں اسماء نے خود ماہنور کا ہاتھ پکڑیا تھا۔۔۔ ماہنور کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا ۔۔۔مارے حیاء کے نظریں اٹھ ہی نہیں رھیں تھیں شاہنزیب کی جانب۔۔۔۔۔ وہ شرماتے ہوئے اور بھی حسین لگ رہی تھی۔۔۔۔۔شاہنزیب نے جب ہاتھ پکڑ کر اسے گجرے پہناۓ تو اس بار ماہ نور کی آنکھیں نم ہو گیں ماہنور کے ناخنوں پر لال رنگ نیل پالش لگی تھی اور دونوں ہاتھوں میں چوڑیاں جو شاہنزیب نے ہی پہنائی تھیں اس کے خوبصورت ہاتھ میں۔۔۔۔ اب اسی کے ہاتھ سے یہ سفید پھولوں کے گجرے پہن کر پوری اس کی دلہن بن گئی تھی۔۔۔۔ اسماء نے ماہنور کو شرماتے ہوئے دیکھ۔۔۔ کہا تھا۔۔۔
”نہیں ۔۔۔۔یہ رو رہی ہے “ثانیہ ماہنور کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔
” رو کیوں رہی ہے پاگل؟؟۔۔۔۔ صباء باجی جو اس کے برابر میں بیٹھی تھیں ۔۔۔وہ اسے روتا دیکھ بڑے پیار سے پوچھنے لگیں۔۔۔۔
” کیا ہوا ؟؟؟۔۔۔رو کیوں رہی ہو؟؟؟“شاہنزیب سب سے زیادہ بے صبرا ہو کر پوچھنے لگا۔۔۔۔ ماہ نور اپنے ہاتھوں سے آنسو صاف کر کے مسکرانے لگی ۔۔۔پر آنکھیں آج بار بار بہے جارہی تھیں۔۔۔۔۔
” ماہ نور میری بچی رو کیوں رہی ہے؟؟“ رومیسا آپا اسماء کو ہٹا کر اس کے پاس آ کر کھڑی ہوئی تھیں اور اس کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے استفسار کرنے لگیں۔۔۔۔
”ڈیڈ کی یاد آگئی “ماہنور روتے ہوئے بولی تھی اسے آج اپنے باپ کی شدت سے یاد آئی تھی۔۔۔۔
”او۔۔۔ہو۔۔۔۔۔ اس طرح روتے ہوئے یاد کرو گی انہیں ۔۔۔۔ وہ تو بہت خوش ہوں گے آج۔۔۔ کے تمہارا شوہر تمہیں پہلی بار تحفہ دے رہا ہے ۔۔۔اس خوشگوار لمحے کو یوں نم نہ کرو“آپا نے اسے بڑے پیار سے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا
” اگر ماہنور کو پتہ چلا کہ اس کے ڈیڈ جس صدمے سے مرے ہیں وہ میں نے انھیں دیا تھا۔۔۔۔ تو کیا وہ مجھے معاف کرے گی ؟؟“ شاہنزیب اسے دیکھتے ہوئے سوچ میں پڑ گیا تھا۔۔۔۔
*****-------*******
” یہ تو ہم گھر آگئے“ سعدیہ نے کار گھر پر آ کر روکی تو کامران حیران ہو کر بولنے لگا۔۔۔۔
” تو تمہیں کیا لگا دوبارہ خودکشی کرنے جا رہی ہوں؟؟؟۔۔۔ سعدیہ نے غصے سے دیکھتے ہوئے بولا اور کار سے اتر کر چلی گئی۔۔۔
” اللہ تیرا شکر ہے۔۔۔۔ میں تو یہی گمان کر رہا تھا ۔۔۔۔شکر ہے خدا کا “یہ کہہ کر اس کے پیچھے پیچھے گھر میں آیا۔۔
” تم دونوں اکیلے؟؟“ شہزاد ٹی وی لان میں بیٹھ کر فلم دیکھ رہا تھا پوپون کھاتے ہوئے کے انھیں گھر میں داخل ہوتے دیکھ بول پڑا۔۔۔۔۔ پر اس نے دیکھا کہ سعدیہ روتے ہوئے تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گئی ہے۔۔۔
” کیا ہوا ؟؟؟۔۔۔۔رو کیوں رہی ہے سعدیہ؟؟؟“ شہزاد فکر مند ہو کر پوچھنے لگا۔۔۔۔۔کامران ابھی جواب دیتا کہ سعدیہ کے ماں باپ بھی گھر میں داخل ہوئے۔۔۔۔
” السلام علیکم خالہ جان“ شہزاد کہتا ہوا کھڑا ہوا اور ان کے پاس آیا تھا۔۔۔۔۔
” اپنی ماں سے کہہ دینا ۔۔۔۔آج سے اس کا اور میرا رشتہ ختم ۔۔۔۔اس نے اچھا نہیں کیا ہماری یوں سب کے سامنے بےعزتی کر کے ۔۔۔مجھ سے وعدہ کیا تھا تمہاری ماں نے میری بیٹی کو ہی اپنی بہو بنائی گئی اور صباء کی رسم وہ سعدیہ سے کروائے گی۔۔۔۔ اسی لیے اسے یہاں زبردستی رھنے بلایا اور میں نے تمہاری ماں کے بھروسے اپنی بچی کو یہاں دوبارہ بھیجا جبکہ وہ تو بار بار منع کر رہی تھی۔۔۔ بتا دینا شمسہ کو آج سے سب ختم“ خالا جان تو آتے ہی شہزاد پر برس پڑی تھیں۔۔۔۔
”پر خالا“ شہزاد بولنا چاہتا تھا پر خالا نے اس کی ایک نہ سنی
” سعدیہ کو بلاٶ کامران۔۔۔۔ ہم اسے لے کر جا رہے ہیں“ اب وہ کامران سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں۔۔۔۔” سعدیہ کو بلاکر لاؤ کامران “ کامران کے یہ سنتے ہی ہوش اڑے تھے۔۔۔۔وہ سوچ میں پڑ گیا تھا۔۔۔۔خالا نے اب اپنی بات سختی سے دوھراٸی تھی ۔۔۔۔۔
کامران پہلے تو خاموش رہا پھر اسے احساس ہوا کہ وہ سعدیہ سے دور نہیں رہ سکتا اور اگر آج اس کی ماں اسے اپنے ساتھ لے گی تو دوبارہ اسے شاید مل بھی نہ سکے۔۔۔ اس کی نگاہوں میں سعدیہ کا نورانی چہرہ گھومنے لگا۔۔۔۔
” میں خود جاکر بلا لیتی ہوں کھڑے رہو یہیں “ یہ کہہ کر وہ غصے سے ابھی دو تین قدم ہی چلی تھیں
” پلیز ۔۔۔۔۔ روکیں “کامران نے التجائیہ انداز میں بولا تھا۔۔۔” ”ایسا مت کریں اسے یہاں سے مت لے کر جائیں“کامران نے جب اس طرح کہا تو وہ پلٹ کر اس کے پاس واپس چل کر آٸیں۔۔۔۔۔
”کیوں؟؟؟۔۔۔۔ کیوں نہ لے کر جاؤں اپنی بچی کو یہاں سے۔۔۔۔ کون ہے اس کا یہاں ؟؟؟۔۔۔۔ اس کی خالہ جس کے بھروسے میں نے اسے بھیجا تھا وہ تو اب بدل چکی ہے اپنے بیٹے کی ضد کے آگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا سمجھتی ہے میری بیٹی کوئی آئی گٸ لڑکی ہے ؟؟؟۔۔۔۔۔ وہ میری بیٹی ہے ۔۔۔۔۔وہ سعدیہ شیخ ہے۔۔۔۔ اکلوتی وارث ہے وہ شیخ خاندان کی۔۔۔۔ اسے رشتوں کی کمی نہیں ہے ابھی بھی تم سمیت بھت سے رشتے آئے ہوئے ہیں اس کے“ خالہ بڑے فخرانا انداز میں بولیں۔۔۔۔
” میں مانتا ہوں سعدیہ کے پاس سب کچھ ہے۔۔۔۔۔لیکن جو ایک چیز اس کے پاس نہیں ہے وہ صرف میں اسے دے سکتا ہوں اور وہ ہے پیار ۔۔۔۔میں اس سے سچا پیار کرتا ہوں اور یقین مانیں۔۔۔۔میں زندگی بھر خوش رکھ سکتا ہوں اسے۔۔۔۔بس مجھے ایک موقع دیں۔۔۔۔ اسے یہاں سے لے کر نہ جائیں“ کامران اپنی محبت کا کھلے عام اظہار کر رہا تھا وہ بھی سعدیہ کے والدین کے سامنے شہزاد کا تو منہ کھلا کا کھلا ہی رہ گیا تھا مارے حیرت کے۔۔۔۔۔
” تم کیا کہہ رہے ہو کچھ جانتے بھی ہو؟؟؟“ سعدیہ کے والد غصے سے بولے۔۔۔
” میں جانتا ہوں میں کیا کہہ رہا ہوں۔۔۔۔ میں واحد شخص ہوں جو یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ سعدیہ شاہنزیب سے کتنی محبت کرتی ہے کہ اس کی خاطر اس نے خودکشی تک کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔“کامران کا کہنا تھا کہ شہزاد کے کان کھڑے ہوگئے ۔۔۔۔
سعدیہ نے خودکشی کی کوشش کی تھی یہ بات سعدیہ کے ماں باپ ۔۔۔۔۔۔شاہنزیب اور کامران کے سوا کسی کو معلوم نہ تھی۔۔۔۔۔۔” وہ بدلنا چاہتی ہے۔۔۔۔بھولنا چاہتی ہے شاہ کو اور وہ کوشش بھی کر رہی ہے۔۔۔۔۔ آپ نے دیکھا تھا ناں۔۔۔ جب چاچی نے رسم ماہنور کو کرنے کو کہا تو وہ مسکرا رہی تھی وہ غصہ ہو کر وھاں سے گٸی نہیں تھی وہ وھاں سے روتی ہوئی تب نکلی جب اس نے شاہنزیب اور ماہ نور کو ساتھ دیکھا ۔۔۔۔۔وہ برداشت نہیں کر سکی اور روتی ہوئی گھر چلی آئی اس کا مطلب صاف ہے کہ وہ شاہنزیب کو بھولنے کی پوری کوشش کر رہی ہے ۔۔۔۔۔بس اسے کسی کے ساتھ کی ضرورت ہے جو اسے ہمت دے ان سب سے نکلنے میں اور مجھے پورا یقین ہے ۔۔۔۔۔میں یہ کر سکتا ہوں“ کامران نے خود پر جو اعتماد دیکھایا وہ سعدیہ کے والدین کا دل جیت گیا....
” کیا واقعی تم کر سکتے ہو؟؟؟۔۔ تم میری بیٹی کے چہرے کی وہ مسکراہٹ ۔۔۔ وہ ہسی لا سکتے ہو ۔۔۔۔جو کہیں کھو گئی ہے ہم نے اسے بہت سالوں سے دل کھول کر ہنستے ہوئے خوش ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ہے “سعدیہ کی ماں کی آنکھیں نم تھیں وہ جذباتی ہوکر بول رہی تھیں۔۔۔۔
” ضرور انشاءاللہ ...بس آپ اسے یہاں رہنے دیں وہ یہاں رہے گی تبھی تو میں اس کی کوششوں میں کامیاب ہونے میں مدد کر سکوں گا “کامران کو خود پر پورا بھروسہ تھا اور یہ بھروسہ اس کی محبت نے اسے دیا تھا۔۔۔۔
” ہمارا کوئی بیٹا نہیں تھا کامران۔۔۔ ہم نے ہمیشہ شاہنزیب کو اپنا بیٹا مانا ۔۔۔۔پر بیٹا کیا ہوتا ہے یہ نہیں جان سکے مگر آج لگتا ہے خدا نے ہمیں بیٹا دے دیا ہے “وہ یہ کہہ کر کامران کے گال پر پیار سے سہلانے لگیں۔۔۔۔
” ٹھیک ہے ہم سعدیہ کو صرف تمہارے بھروسے چھوڑ کر جا رہے ہیں اس کا خیال رکھنا “سعدیہ کے والد نے کامران کے کندھے پر اپنا بھاری ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ ان کے جانے کے بعد کامران صوفے پر بے جان ہو کر گرا تھا۔۔۔
” کامران یہ سب کیا تھا ؟؟؟۔۔تم نے کبھی کچھ بتایا کیوں نہیں ؟؟“شہزاد اس کے برابر بیٹھتے ہوئے بولا
” کیا بتاتا؟؟؟۔۔۔ مجھے تو خود کچھ سمجھ نہیں آتا ۔۔۔تمہیں کیا بتاؤں ۔۔۔۔میں بس اتنا جانتا ہوں میں خود سے دور جاتے نہیں دیکھ سکتا سعدیہ کو۔۔۔۔میں نہیں جانتا یار کیا ہوگیا ہے مجھے ۔۔۔۔۔۔۔مجھے لگتا ہی نہیں ہے کے میں کامران ہوں۔۔۔۔۔۔ایسا لگتا ہے میں کوئی اور ہوں۔۔۔پتہ ہے میں نے ہمیشہ اپنے لیے ایک آئیڈیل لڑکی تلاش کی جسے دیکھتے ہی میرا دل کہے یہی وہ لڑکی ہے جو میں ڈھونڈ رہا تھا اور میری قسمت دیکھ ۔۔۔۔۔وہ لڑکی جس کو دیکھ دل حیران اور عقل پریشان ہے وہ لڑکی اور کوئی نہیں وہ نیکلی جسے میں سالوں سے جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔وہ میرے سامنے بڑی ہوئی ہے پر مزے کی بات یہ ہے کہ وہ مجھے اپنا آئیڈیل نہیں مانتی اور یہ بات میں اچھی طرح جانتا ہوں۔۔۔۔ میںری تو قسمت ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟۔۔۔۔۔ یار کیا کہوں۔۔۔۔۔۔ پہلے لڑکی ڈھونڈنے میں آدھی جوانی گزر گئی اب لگتا ہے اس لڑکی کو منانے میں پوری زندگی گزر جائے گی مجھے لگتا ہے میں کنوارہ ہی مروں گا“ کامران اپنی قسمت کے اس عجیب کھیل کو دیکھ نہایت پریشان ہو کر افسردگی سے شہزاد کو بتانے لگا۔۔۔
” چل۔۔۔۔۔ کوئی ٹینشن نہیں““۔۔۔۔ شھزاد اس کی کمر سہلاتے ہوۓ مسکرا کر بولا۔۔۔
” ہاں تجھے کیوں ہوگی۔۔۔۔ تو تھوڑی کنوارا مرے گا “وہ سنجیدگی سے منہ بسور کہنے لگا اور دو لمحے بعد دونوں خوب ہنسے لگے۔۔۔۔
” خدا کا شکر ادا کر لڑکی دیکھنے کو تو ملی کہ آخر ہے کیسی وہ۔۔۔۔ جس کو دیکھ دل خود کہے( ہاں بس یہی ہے)“ شہزاد نے اسے چھیڑتے ہوۓ مسکرإ کر کہا۔۔۔۔” ویسے تو زبردست ہے یار۔۔۔۔ پہلے تو سعدیہ کو ماہنور شاہنزیب کے بیچ میں سے ہٹا دیا اور پھر ہماری بھابھی بھی تلاش کر لیں“ شھزاد اس کی بڑائی بیان کر رہا تھا تو وہ فخرانہ اپنی شرٹ کا کالر پکڑ کر اوپر کرنے لگا اتراتے ہوۓ۔۔۔۔۔” بس بس زیادہ آسمانوں پر چڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ پہلے بھابھی کو منا کر دیکھا ۔۔۔۔پھر دیکھانا یہ کالر چڑھا کے“ شہزاد نے یہ کہہ کر پوپون کا بھرا پیالا کامران کے سر پر الٹ دیا اور مسکراتے ہوئے کہہ کر اپنے کمرے کی جانب جانے لگا۔۔۔۔۔
” کہاں جا رہا ہے مجھے چھوڑ کر؟؟“ کامران نے اسے کمرے کی جانب ۔۔۔۔۔جاتا دیکھا تو فورا بولا۔۔۔۔۔
” یہ فلم بور لگ رہی ہے۔۔۔ اس لیے دوسری فلم کی سی ڈی لینے جا رہا ہوں“
” اچھا ٹھیک ہے جلدی لے آ۔۔۔۔۔تیرا بھاٸی بیٹھا ہوا ہے یہاں“ کامران نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دل میں آیا کہ اسے ایک بار دیکھ آئے۔۔۔ اس لٸے دبے پاؤں جا کر سعدیہ کے کمرے کا دروازہ کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا ہے کے وہ تو آرام سے سو رہی ہے۔۔۔۔دروازہ پورا کھول کر کمرے میں داخل ہوا۔۔۔ اسے سوتا ہوا دیکھ دل کو سکون آگیا تھا۔۔۔۔ جانے لگا تو نظر وہاں رکھی شیشی پر پڑی۔۔۔۔ وہ نیند کی دوائی کی شیشی تھی۔۔۔ پر وہ پوری بھری ہوئی تھی۔۔۔ پانی کا گلاس رکھا تھا جو آدھا خالی تھا ”او ۔۔۔۔۔تو نیند کی دوائی کھا کر سو گئی ہے“ وہ بول کر اس کے اوپر کمبل اوڑھا کر اس کے برابر میں ہی بیٹھ گیا ۔۔۔۔ سعدیہ کا بچا پانی اس کے برابر میں ہی بیٹھ کر پیار سے اس کا خوبصورت سراپا تکتے ہوۓ پیا اور مسکرانے لگا۔۔۔۔
سب باتوں میں مگن تھے... شاہنزیب اشاروں کی زبان اپنائے ہوئے تھا ”تصویر بنوا لو مجھ سے “وہ ماہ نور کو دیکھتے ہوئے بولا تھا اشاروں میں ۔۔۔
”نہیں“ وہ نفی میں گردن ہلانے لگی۔۔۔۔ شاہنزیب نے اسے گھورتے ہوئے دوبارہ کہا۔۔۔۔۔وہ نفی کرنے لگی اور اس کے سامنے ہی رومیسا آپا کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔
” شاہ تم نے جنید جمشید کو کہیں دیکھا ہے ؟؟“شاہزیہ آپا اِدھر اُدھر ان دونوں کو تلاش کرتے ہوئے بولی تھیں۔۔۔
” نہیں تو ۔۔۔۔میں دیکھتا ہوں“ شاہنزیب پریشان ہوگیا تھا اسے لگا کہ وہ مل نہیں رہے ۔۔۔
”نہیں۔۔۔ نہیں ڈھونڈو مت ۔۔۔ورنہ ناراض ہو جائیں گے مجھ سے۔۔۔ میں ان کے ساتھ چھپن چھپائی کھیل رہے ہی ہوں“ آپا نے کہا تو وہ مسکرانے لگا۔۔۔
” شاہزیہ بہت اکیلی ہے۔۔۔ تمھیں نہیں لگتا کہ ہمیں اس کی خاطر کچھ کرنا چاہیے “ علی کے والد نے افتخار صاحب سے شاہزیہ کے متعلق بات کی۔۔۔
” مجھے بھی لگتا ہے اب اس جھوٹی انا کو توڑنے کا وقت ہے میرے لیے میری بیٹی اور اس کے بچے اہم ہیں اس معاشرے کی باتیں نہیں۔۔۔“ افتخار صاحب اپنی بیٹی کو دیکھتے ہوئے ایک گہری سانس بھرتے ہوئے گویا ہوئے۔۔۔
” ایک کام کرتے ہیں ۔۔۔شہزاد کی مایوں سے پہلے پہلے عاشر کو بلا لیتے ہیں۔۔۔ عاشر کا حق ہے اپنے سسرال آنا اور اپنے بڑے سالے کی شادی میں بہنوئی بن کر شرکت کرنا“ علی کے والد نے کہا تو افتخار صاحب اثبات میں سر ہلانے لگے۔۔۔
”کیا ہوا ؟؟؟“رومیسا آپا پوچھنے لگیں جب ماہ نور کو بار بار اپنے ہونٹوں کو رومال سے صاف کرتے دیکھا
”نہیں۔۔۔ کچھ نہیں آپا“ اس نے کہا تھا پھر شاہنزیب کو دیکھنے لگی جو اسے باربار اشاروں سے کہہ رہا تھا کہ اس کے ہونٹوں پہ کچھ لگا ہوا ہے ماہنور بار بار صاف کر بھی رہی تھی پر شاہنزیب پھر بھی اشارے سے صاف کرنے پر زور دیٸے جا رہا تھا کہ کچھ لگا ہوا ہے آخر کار وہ اپنی لیپ اسٹک ٹھیک کرنے رومیساء آپا سے کہہ کر میک۔اپ روم میں گٸی۔۔۔شاہنزیب کے لبوں پر پُرسرار مسکراہٹ بکھر آئی
میک۔اپ روم کافی خوبصورت ڈیزائن کیا ہوا تھا ۔۔۔ ماہنور مرر میں اپنا عکس دیکھنے لگی” شاہ بھی نا ۔۔کچھ بھی تو نہیں لگا میرے ہونٹوں پر “وہ مرر میں دیکھتے ہوئے بولی اور پھر اس کی نگاہ مرر کے عکس میں شاہنزیب پر پڑی جو میک۔اپ روم میں داخل ہوا اور کمرے کا دروازہ اندر سے لوک کر دیا ماہ نور گھبرا کر پیچھے مڑی تھی وہ چلتا ہوا آیا تو ماہنور بالکل آئینے سے لگ کر کھڑی ہوگٸی
”بڑی مغرور ہوگئی ہو تم ۔۔۔کب سے بول رہا ہوں تصویر بنوا لو مجھ سے۔۔۔۔ پر جناب کے مزاج ہی نہیں مل رہے“ وہ بالکل اس کے قریب آکر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ماہنور کی سانسں اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی تھی۔۔۔شاہنزہب نے اتنے قریب آ کر کہا تھا کہ لگا دل باولہ ہوا جارہا ہے۔۔۔۔اتنا زور زور سے دھڑک رہا تھا کہ لگا جان ہی نکل جائے گی ۔۔۔”چلو کوئی بات نہیں ۔۔۔مغرور ہونا ججتا ہے تم پر۔۔۔۔ آخر تم ہو ہی اتنی حسین“ یہ کہہ کر اس کے بال جو چہرے پر آرہے تھے ان کو کان کے پیچھے کیا۔۔ تن بدن دونوں اس کی اس نزدیکی اور الفت بھرے جذبات سے پیگھل رہے تھے۔۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اب جان نیکلی۔۔۔۔کے اب جان نیکلی۔۔۔۔۔” بہت حسین لگ رہی ہو آج۔۔۔۔کہیں میری نظر نہ لگ جائے تمھیں “ پیار سے کہتے ہوۓ اس کے وجود کو تکنے لگا۔۔۔۔” ظالم حسینہ کیا آج اپنے حسن سے ہی قتل کر دینے کا ارادہ ہے؟؟“ شاہنزیب بڑے پیار سے مسکراتے ہوئے پوچھنے لگا۔۔۔۔ اس کے لہجے اور آنکھوں میں رومانیت جھلک رہی تھی۔۔۔
”شاہ۔۔۔میں مر جاٶں گی“ وہ شرماتے ہوئے اپنے خوبصورت چہرے پر دونوں ہاتھ رکھ کر بولی
”ماما ۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟؟؟“ اچانک جنید کی آواز سن شاہنزیب اور ماہ نور چونکہ تھے ان دونوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔۔۔۔۔تو حیران ہوگئے کہ جنید جمشید صوفے کے پیچھے سے نیکلتے ہوتے بولے تھے۔۔۔
” تم دونوں یہاں صوفے کے پیچھے کیا کر رہے ہو ؟؟؟“شاہنزیب حیرت سے پوچھنے لگا۔۔۔۔
” ہم امی کے ساتھ کھیل رہے تھے ماما ۔۔۔۔پر آپ کیا کر رہے ہو؟؟؟“ جمشید نے اپنی ننھی سی ابرو اچکا کر کہا۔۔۔۔۔ تو وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔۔۔۔بڑی عجیب سی کیفیت سے دوچار ہو گئے تھے دونوں ایسا لگ رہا تھا جیسے چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے ہوں۔۔ ماہنور شرمسار ہوگٸی تھی۔۔۔
” وہ ۔۔۔۔تم لوگوں نے کچھ دیکھا؟؟؟“ ماہنور گھبرائے گھبرائے انداز میں پوچھنے لگی۔۔۔
” ہاں۔۔۔۔ہم نے سب دیکھا اور سنا ہے۔۔۔ کیوں جمشید ؟؟؟“جنید نے ہاں کو کافی کھینچتے ہوئے ادا کیا تھا۔۔۔ ان دونوں کی ہی آنکھوں میں شرارت دوڑتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔۔
”ہمممم۔۔۔۔۔ تو دیکھا ہے تم لوگوں نے۔۔۔“ وہ گھمبیر لہجے میں گویا ہوا۔۔” چلو تو پھر کچھ لینا دینا کریں؟؟؟” شاہنزیب نے کہا تو ماہنور اسے گھورنے لگی۔۔۔
” شاہ یہ بچے ہیں ۔۔۔۔ان سے ایسی باتیں مت کرٶ“ ماہنور ٹوکتے ہوئے کہنے لگی
” بچے اور یہ“ اس نے طنزیہ لہجے میں بولا۔۔۔ یہ میرے بھانجے ہیں ۔۔۔میں انھیں اچھی طرح جانتا ہوں یہ کہہ کر ان کی طرف دیکھنے لگا” پانچ ہزار ۔۔۔کافی ہیں؟؟؟“شاہنزیب ان سے ڈیل کر رہا تھا۔۔۔
” نہیں یہ تو بہت کم ہیں۔۔۔ اتنے میں تو ہم صرف دو دن ہی چپ رہ سکیں گے “جمشید نے ذرا اکڑ کر کہا تو ماہنور کا منہ حیرت کے مارے کھل گیا تھا۔۔۔
”یہ تو واقعی تمھارے بھانجے ہیں“ وہ بے ساختہ حیرت سے بولی تھی۔۔۔۔
” تو تم لوگ خود ہی اپنی ڈیمانڈ بتا دو“ شاہنزیب نے جب آفر خود ان کو ڈیسائیڈ کرنے کو دی تو وہ دونوں پہلے تو تھوڑیہ دیر کے لٸے ایک دوسرے کے کان میں کانا پوسی کرنے لگے۔۔۔۔
” ہمیں کچھ نہیں چاہئے چھوٹے ماما ہمارے پاپا کو یہاں بلا لو سب بچوں کے پاپا یہاں موجود ہیں صرف ہمارے ہی نہیں ہیں “جنید جمشید اداس چہرہ بنائے بولے۔۔۔۔ ان دونوں بچوں کا اداس چہرہ شاہنزیب اور ماہنور کو بھی افسردہ کر گیا تھا۔۔۔۔۔
” ہم انشاء اللہ بہت جلد آپ کے پاپا کو یہاں بلائیں گے۔۔۔۔ ٹھیک ہے “ماہنور فورا ان دونوں کو گلے لگا کر پرامید کرنے لگی ۔۔۔۔۔شاہنزیب اسے نفی کرنے لگا کہ وہ بچوں کو جھوٹی امید نہ دلاۓ ورنہ ان کا ننھا سا دل اور دوکھے گا ۔۔۔۔”ڈیل پکی“ماہنور نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔
”ماما آپ بھی تو بولو جو بات آپ کہ دیتے ہو ۔۔۔وہ ضرور ہوتی ہے “ جنید نے شاہنزیب کی جانب دیکھتے ہوئے پرامید نظروں سے کہا تو شاہنزیب ایک دو لمحوں کے لئے کنفیوز ہو گیا کہ وہ کیا کرے وہ ماہنور کی طرح جذباتی ہوکر وعدہ نہیں کر سکتا تھا۔۔۔
” تصویریں بنائیں ورنہ رہ جائیں گی ۔۔۔چلو تم دونوں ایک ساتھ کھڑے ہو جاؤ “شاہنزیب نے اپنے گلے میں ڈلا کیمرہ پکڑ کر کہا تھا اس نے بات کا موضوع بدلنے کی کوشش کی۔۔۔اور وہ کامیاب بھی ہو گیا تھا دونوں بھائی تصویر کے چکر میں بالکل سیدھے ہوکر کھڑے ہو گئے تھے۔۔۔۔
” ماہنور چلو اب تمہاری باری“ یہ کہہ کر اسے صوفے پر بٹھایا خود اس کے سر پر دوپٹہ اڑایا اور اس کی تصویر کیپچر کرنے لگا۔۔۔۔
” ماہ نور آڑا پوس دو“ شاہنزیب نے جیسا کہا وہ ویسی ہی ہو کر بیٹھ گئی۔۔۔۔”زبردست “ وہ تصویر بناتا جا رہا تھا اور مسکرا مسکرا کر ماہنور کو دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔بہت خوش تھے شاہنزیب اور ماہنور۔۔۔ دونوں کی خوشی ان کے چہرے پر آشکار تھی۔۔۔۔” اچھا روکو۔۔۔۔۔ سارے بال آگے کندھے پر ڈال لو اور دوپٹا ہٹا دو “شاہنزیب جس جس طرح پوس بنواتا رہا وہ خوشی خوشی بنواتی رہی۔۔۔ آج وہ اس کا پرائیویٹ فوٹوگرافر بنا ہوا تھا۔۔۔۔
”شاہ بس کرٶ۔۔۔ اور کتنی بناؤ گے ؟؟؟۔۔“وہ ڈر رہی تھی کہ کافی دیر سے وہ چاروں اندر میک اپ روم میں بند ہیں۔۔۔کہیں باہر سب پریشان نہ ہو رہے ہوں ۔۔۔
”تھوڑی سی اور ۔۔۔اچھا کھڑی ہو جاؤ اور دوپٹا ایک کندھے پر ڈالو اور سارے بال دوسری سائیڈ“ شاہنزیب نے کہا تو ماہنور مسکراتے ہوۓ زبان نکال کر اسے چڑھانے لگی۔۔۔۔ شاہنزیب نے ماہنور کا زبان چڑانے والا پوس بھی فورا کیپچر کرلیا۔۔۔۔۔
” دیکھاؤ۔۔۔۔“ وہ خود کیمرے کے پاس آکر تصویر دیکھنے لگی۔۔۔” نہیں نہیں شاہ۔۔۔ ڈیلیٹ کرو اسے ۔۔۔بہت بری لگ رہی ہے “وہ منہ بسورتے ہوئے اپنی ہی تصویر دیکھ کہنے لگی۔۔۔
” مجھے تو بہت کیوٹ لگ رہی ہے ۔۔۔رہنے دو اسے “یہ کہہ کر اس تصویر کو دیکھ دیوانوں کی طرح مسکرانے لگا۔۔۔۔
” ماہ نور تمہاری جھمکی کہاں ہے سیدھے کان کی؟؟؟ “ ماہنور کار میں بیٹھی تو اسماء نے ٹوکا تھا ۔۔۔ ماہ نور نے اپنے کانوں پر ہاتھ لگایا تو اس کے کان کی ایک جھمکی غائب تھی۔۔
” پتہ نہیں کہاں گر گی۔۔۔۔ میں ابھی ڈھونڈ کر لاتی ہوں“ یہ کہہ کر وہ واپس ہال میں ڈھونڈنے گئی تھی۔۔۔شاہنزیب ۔۔راحیل۔۔۔۔ولید تینوں اس کے ساتھ ڈھونڈنے میں مدد کر رہے تھے
” ماہنور اب چلو۔۔۔ کون سا سونے کی تھی۔۔۔ اب گر گئی تو گر گی“شاہنزیب نے کہا تو ماہنور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے واپس آکر کار میں بیٹھ گئی۔۔۔
”ملی؟؟؟“ اسماء نے بیٹھتے ہی پوچھا۔۔
” نہیں“ وہ اداس ہوکر بولی تھی” ایک تو سمجھ نہیں آتی میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری فیوریٹ جھمکیا تھیں یہ "۔۔اپنی دوسری جھمکی کان سے اتار کر دیکھتے ہوۓ اداس ہو کر بول رہی تھی۔۔۔۔
*****---------********
وہ نیچے اتر کر آیا تو سب پہلے سے موجود تھے ...سب اس کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے ...وہ ماہنور کے برابر میں آکر بیٹھ گیا .." ڈیڈ۔۔۔۔آپ نے بلایا تھا “
”ہاں۔۔۔یہ لو پیپر“ انہوں نے ایک لال رنگ کی فائل شاہنزیب کے آگے بڑھائی تھی۔۔
” یہ کیا ہے ؟؟؟“وہ دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔۔۔۔
” خود دیکھ لو “ماہ نور مسکراتے ہوئے بولی تھی۔۔۔
” یہ کیا ہے ؟؟؟۔۔۔تم اپنی ساری جائیداد میرے نام کر رہی ہو “ شاہنزیب نے فائل پڑھی تو ھل گیا اور حیرت سے ماہنور کو دیکھتے ہوئے بولا
”ہاں“ ماہنور اثبات میں سر ہلانے لگی۔۔۔
”ماہنور نے خود فیصلہ کیا ہے اور ہم سب کی نظر میں یہ بالکل صحیح فیصلہ ہے “افتخار صاحب بولے ۔۔
”پر۔۔۔۔ یہ ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔یہ سب بڑے ابو کا ہے اور ان کے بعد تمہارا ۔۔۔۔۔۔میرا اس پر کوئی حق نہیں “شاہنزیب ماہ نور سے مخاطب ہو کر۔۔۔۔۔ صاف منع کرنے لگا تو سب حیران ہوئے سواۓ شہزاد اور دادو کے۔۔۔
” پر۔۔۔۔شاہ۔۔۔ تم میرے شوہر ہو۔۔۔۔ کب تک میری ساری جائیداد شہزاد بھائی سنبھالیں گے مجھے لگتا ہے یہ فیصلہ بالکل صحیح ہے ۔۔۔۔۔وہ اب اپنی نئی عاٸلی زندگی کی ابتداء کرنے جا رہے ہیں میں اپنا بوجھ ان پر کیسے ڈالا سکتی ہوں؟؟؟۔۔۔۔ تم میرے شوہر ہو اور جو میرا ہے وہ تمہارا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں میں دادو “ اس نے دادو کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی بات کی تائید چاہی۔۔۔۔
” شاہ۔۔۔۔مانو ۔۔۔۔ ٹھیک کہ رہی ہے ۔۔۔ میاں بوی میں کیا میرا اور کیا تیرا۔۔۔جو میرے بیٹے کا تھا وہ اب اس کے دمات کو ملے تو اس میں کیا ہراٸی ہے ۔۔۔۔۔“ دادو نے اسے بڑے پیار سے سمجھایا۔۔۔
” مجھے پتا ہے دادو آپ یہ سب صرف ان لوگوں کے سامنے بول رہی ہیں۔۔۔۔۔“شاہنزیب دادو کو دیکھ دل میں سوچنے لگا ”سوری ماہنور۔۔۔۔ کاش میں واقعی تمہارا شوہر ہوتا پر میں ایک دھوکے باز ہوں۔۔۔ اور جب تک تمہیں میری سچائی پتہ نہیں چل جاتی مجھے کوئی حق نہیں کہ میں تمہاری جائیداد تمہارا شوہر بن کر سنبھالوں۔۔۔۔میرے لیے تو یہ میری زندگی کا سب سے حسین لمحہ ہے۔۔۔جب تم مجھے اپنا شوہر بول رہی ہو اور اپنا سب کچھ میرے نام کر کے مجھے بتا رہی ہو کہ تم میرے ساتھ میاں بیوی کا مقدس رشتہ نبھانے کے لیے بالکل تیار ہو پر شاید ابھی میری قسمت میں تمہارا ساتھ دینا نہیں ہے اس لئے چاہتے ہوئے بھی میں تمہارا شوہر ہونے کی حیثیت سے تمھاری جائیداد نہیں لے سکتا ۔۔“شاہنزیب دل ہی دل سوچ اداس ہوا تھا۔۔۔۔
شاہنزیب واقفیت رکھتا تھا کہ اس کا انکار کرنے کا مطلب سب گھر کے ممبرز الگ الگ طرح سے اخذ کریں گے اور ماہنور کو بہت دوکھ پہنچے گا پر وہ ہاں بھی تو نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔۔
”شاہ کے دستخط کرتے ہی ہم رخصتی کی بات کریں گے“ اسماء نے دادو کی کان میں ہلکے سے کہا تھا جس پر وہ اس اثبات میں سر ہلانے لگیں۔۔۔۔ شمشہ بیگم مجبورا خاموش کھڑی تھیں۔۔۔
سب پرامید تھے کے شاہنزیب دستخط کر دے گا ۔۔۔”کرو ناں دستخط شاہ ۔۔۔۔سوچ کیا رہے ہو ۔۔۔“ماہنور اسے دیکھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔
شاہنزیب کے سامنے پین رکھا ہوا تھا ۔۔۔فائل کھلی رکھی تھی۔۔۔۔۔” نہیں۔۔۔۔۔ میں نہیں لے سکتا۔۔۔۔( ابھی نہیں )۔۔۔۔ ہاں سنبھال سکتا ہوں کل سے ہی شہزاد بھائی میں ماہنور کی ساری جاٸیداد خود سمبھالنا شروع کردوں گا ۔۔۔آپ میری مدد کر دیجئے گا “اس نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔۔۔
”پر ۔۔۔شاہ تمہیں بہت مشکل ہو گی۔۔۔ایک ایک کام کے لیے تمہیں گھر آکر ماہ نور سے دستخط لینے ہوں گے ۔۔۔ہر اہم میٹنگ میں ماہنور کا ہونا ضروری ہوگا ۔۔۔جبکے ہم سب جانتے ہیں کے ماہنور کو بزنس کی کوٸی سمجھ نہیں ہے۔۔۔۔ اگر بڑے ابو ہوتے تو وہ بھی یہی فیصلہ کرتے “ راحیل اسے سمجھانے لگا۔۔۔۔
” مسٸلہ سنبھالنے کا ہے اور وہ میں کرنے کے لئے تیار ہوں۔۔۔یہ سب ماہ نور کا ہے اور اسی کے نام پر رہے یہی اچھا ہے۔۔ میں ماہنور سے اونر شپ کے پیپر پر دستخط کروا لوں گا جس سے کمپنی اور دیگر چیزوں کے معاملات میں خود طے کر سکوں گا اور مجھے ماہنور کی اجازت کی ضرورت نہیں پڑے گی“ شاہنزیب کہتا ہوا کھڑا ہوا اور پھر سب کے سامنے ہی گھر سے چلا گیا ۔۔۔۔ماہنور کو بھت رنج پہنچا تھا اسے کل رات کی تعریفیں اور محبت سے لبریز آنکھیں یاد آ رہیں تھیں جن کے بھروسے اسے لگا تھا کہ اب شاہنزیب اس کا شوہر بننے کو قبول کررہا ہے ۔۔۔
” تو میں دھوکہ کھا گئی۔۔۔۔ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا۔۔۔۔ وہ صرف مجھ پر ترس کھا رہا ہے اور ابھی وہ ان سب کے لئے تیار نہیں ہے۔۔۔۔ اسے لگے گا میں نے جلدبازی کی ہے ۔۔۔مجھے کیا ضرورت تھی بغیر شاہ سے پوچھے اتنا بڑا فیصلہ کرنے کی۔۔۔اسے لگے گا میں اس کی دوستی کو غلط لے گئی اور اب وہ میرے قریب آنے سے قطرائے گا ۔۔۔یہ میں نے کیا کردیا۔۔۔۔خود اس کے بڑھتے ہوئے قدم کو روک دیا “ وہ وہاں سے بھاگتی ہوئی اوپر اپنے کمرے میں آ کر رونے لگی تھی یہ سوچ سوچ کر ۔۔۔۔۔۔سب کو لگا کے ابھی شاہنزیب پوری طرح اس رشتے کے لیے تیار نہیں ہے۔۔۔۔ سوائے دادو شہزاد اور ولید کے جو اس کی بات میں کہے گئے لفظ ”ابھی“ مطلب سمجھ گئے تھے۔۔۔۔
” یہ ہم نے کیا کر دیا اب اسے لگے گا کہ ہم سب اس پر دباؤ ڈال رہے ہیں ۔۔۔۔ماہنور کو اپنانے کے لیے۔۔۔ وہ بیچارہ کتنا اچھا ہے اس نے ماہنور کو اپنانے کی پوری کوشش کی آنے کے بعد۔۔۔ بس ہم نے ہی جلد بازی سے کام لیا اسے آۓ ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں جو ہم نے امید باندھ لی کہ وہ اس کا اور اپنا رشتہ نبھانے کے لیے بالکل تیار ہے“رومیسا آپا سر پکڑ کر بولی تھیں
شاہ کی ماں کی آخری امید جاگ گٸی تھی۔۔۔ شاہنزیب کا فیصلے سننے کے بعد۔۔۔۔” لگتا ہے شاہ صرف لوگوں کے سامنے ماہ نور کو اپنا رہا تھا اس کے دل میں تو آج بھی سعدیہ ہے ورنہ وہ ساری جائیداد اپنے نام کیوں نہ کرتا ہمارے یہاں تو یہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔بیوی کی جائیداد شوہر کے نام ہو جاتی ہے۔۔۔ اس کا مطلب ابھی بھی میں چاہوں تو شاہ کو سمجھا کر اس کا فیصلہ بدل واسکتی ہوں ۔۔۔پر مجھے اما کا خیال رکھنا ہوگا۔۔۔۔ اگر یہ موجود ہوئیں تو یہ کبھی بھی شاہ کا ذھن نہیں بدلنے دیں گی“
” تمہیں کیا لگتا ہے شاہ ماہنور کی جائیداد اپنے نام کیوں نہیں کر رہا ؟؟؟“کامران نے سعدیہ سے پوچھا تھا
” مجھے کیا پتا ۔۔۔“وہ کندھے اچکاتے ہوۓ۔۔۔”یہ سوال مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو ؟؟؟۔۔۔“سعدیہ بے رخی سے بولتی ہوٸی آکر بیڈ پر بیٹھ گئی اور ٹی وی اون کر کے دیکھنے لگی
” کیا تم دونوں کے بیچ اب کچھ ہے؟؟؟“کامران نے تفتیشی انداز میں پوچھا۔۔۔۔
” اگر ہے بھی تو تمہیں کیوں بتاؤں؟؟؟“ وہ اسے دیکھ کر بھرم سے بولنے لگی
” کیونکہ مجھے جانا ہے اور وہ جانے بغیر میں یہاں سے نہیں جاؤں گا“ کامران نے جس ہاتھ سے وہ ٹی وی کا ریموٹ پکڑی ہوئی تھی اسے بازو سے پکڑ کر زور سے اپنی طرف کھینچا تھا ۔۔۔۔سعدیہ اس کے سینے سے آ لگی تھی اور اسے نہایت آگ بگولہ ہوکر کہنے لگا
” پاگل ہوگئے ہو کیا ؟؟؟۔۔۔۔شاہ کا غصہ مجھ پر کیوں اتار رہے ہو۔۔۔ میں کل تمہارے ساتھ ہی گھر آگئی تھی اور صبح جب شاہ نے منع کیا تب بھی میں تمہارے ساتھ ہی کھڑی تھی ۔۔۔۔۔ شاہ سے میرا اب کوئی لینا دینا نہیں ہے۔۔“ سعدیہ نے جب غصے سے کہا تو کامران نے اس کے بازو پر پکڑ ڈھیلی چھوڑ دی۔۔۔۔
” تو پھر اس نے ایسا کیوں کیا؟؟؟“ کامران نے الجھ کر استفسار کیا۔۔۔
” مجھے کیا پتا ۔۔۔۔۔میں خود حیران ہوں جو کل دنیا کے سامنے اسے اپنا رہا تھا آج گھر والوں کے سامنے کیسے پیچھے ہٹ گیا“ سعدیہ خود الجھی ہوئی تھی
”میں جانتا ہوں تمہاری وجہ سے۔۔۔۔“ کامران گمبھیر لہجے میں سوچتے ہوئے سعدیہ کو دیکھ بولا” تم روتی ہوئی آٸیں تھیں اس کے سامنے سے۔۔۔۔ وہ اتنا بھی پتھر دل نہیں ہے کہ تمہیں روتا ہوا دیکھے اور اسے کچھ محسوس نہ ہو“ اس نے جب سعدیہ پر الزام ڈالا تو وہ بھی بے انتہا غصہ میں آگئی۔۔۔۔
” تمہیں شاید پتہ نہیں ہے وہ شروع سے اتنا ہی پتھر دل ہے۔۔۔۔ میری والدین اور میری محبت کی کبھی قدر نہیں کی اس نے۔۔۔۔ وہ نھایت ہی ایک خود غرض انسان ہے۔۔۔۔ چار سال میں اکیلے رہی۔۔۔ اور اسی کے بارے میں سوچتی رہی اور اس کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی کہی ایک ایک بات یاد کرتی رہی پھر آشکار ہوا مجھ پر کہ میں تو ایک اندھیری دنیا میں جی رہی تھی جس کے اردگرد خوابوں کا بسیرا تھا بچپن سے سنتی آئی تھی۔۔۔۔۔ یہ شاہنزیب ہے اور یہ میرا منگیتر ہے۔۔۔۔ اس لئے کبھی سوچا ہی نہیں وہ کسی اور سے بھی تو محبت کر سکتا ہے بلکہ ڈرتی تھی اور جلتی تھی ماہنور سے جس کے ساتھ وہ ہمیشہ بہت پیار سے بات کرتا تھا جبکہ اس پیار پر صرف میرا حق تھا ۔۔۔وہ ماہنور سے ہی محبت کرتا تھا اس نے کوئی فرحان کے ڈر سے مجھے نہیں چھوڑا وہ تو ویسے بھی ماہنور سے شادی کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔قسمت نے اسے موقع دیا تو شاہنزیب نے جھٹ سے ماہنور کا ہاتھ تھام لیا “سعدیہ غصے سے بھپر اٹھی تھی۔۔۔۔ وہ کامران کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے غصے سے بولی۔۔۔” میں بچپن سے اس کے نام سے منسوب رہی ہوں۔۔۔تم جانتے بھی نہیں ہوگے کسی کی جب بچپن سے منگنی کر دی جائے تو وہ کتنے خواب سجا لیتا ہے ۔۔۔۔میں بہت چھوٹی تھی جب شاہنزیب سے میری منگنی کر دی گئی۔۔۔۔ میں اس گھر میں جب بھی آتی تھی تو ہمیشہ اسے اپنی سسرال سمجھ کر آتی “سعدیہ کی آنکھیں نم ہوگئیں تھیں یہ بتاتے ہوئے۔۔۔۔پھر وہ بڑی حسرت سے کہنے لگی ” تم کیا جانو ایک لڑکی کے کتنے خواب ہوتے ہیں جب اس بے رحم نے ان خوابوں کو توڑتے وقت ایک بار نہ سوچا تو تمہیں لگتا ہے وہ میرے آنسو دیکھ کر پگھل گیا ہو گا ضرور اس کی کوئی اپنی وجہ ہوگی اس انکار کی۔۔۔۔ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں اور آئندہ میرے ساتھ اسے ملانے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔۔نہ وہ میرا پہلے کبھی تھا اور نہ اب ہے ۔۔۔۔۔ اور نہ میں شاہنزیب کو اس قابل سمجھتی ہوں کے اپنی زندگی میں مستقبل میں بھی اسے شریک ہونے دوں ۔۔۔۔۔۔ناٶ گیٹ آٶٹ “سعدیہ نے غصے سے کہا اور ہاتھ فولٹ کر کے کھڑی ہو گئی۔۔۔کامران کے دل کو اس کی یہ بات سن کر کافی سکون ملا تھا ۔۔۔وہ ایک لمبا سانس لیتے ہوئے” اوکے“ کہہ کر باہر آ گیا
دو دن گزر چکے تھے اس کی آنکھوں میں تھوڑی خفگی تھی اور تھوڑا غصہ ۔۔۔۔۔جب شاہنزیب قریب آکر بیٹھتا ماہ نور اٹھ کر چلی جاتی پر وہ کوشش کرنا نہیں چھوڑ رہا تھا۔۔۔۔ اس کی خفگی جاٸز ہے یہ جانتا تھا وہ ۔۔۔”مجھے بات کرنی ہے “شاہنزب نے راستہ روکتے ہوئے بولا تھا
”راستہ چھوڑو ۔۔۔۔مجھے اپنے کمرے میں جانا ہے“ ماہنور بغیر دیکھے ہی بول کر دوسری طرف قدم بڑھانے لگی۔۔۔ شاہنزیب نے وہاں سے بھی نہیں جانے دیا۔۔۔۔ وہ دونوں بیچ لانچ میں کھڑے تھے۔۔۔۔۔
” مجھ سے ایک بار بات کرو تو صحیح “وہ پھر سے راستہ روکتے ہوئے بولا
” کیا بات کروں ؟؟؟۔۔۔۔بولو... مذاق بنا دیا تم نے میرا ۔۔۔۔۔سب گھر والوں کے سامنے “یہ کہہ کر وہ کچن کی طرف جانے لگی۔۔۔۔ شاہنزیب نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا روکنے کے لئے
” مانو۔۔۔ میری بات “وہ بول ہی رہا تھا ذرا لچک کے ساتھ
”نہیں۔۔۔۔ تم سنو ۔۔۔۔۔اس دن تم نے میری تعریف کیا کر دی۔۔۔۔۔ میں سمجھی ہمارے درمیان سب ٹھیک ہوگیا ہے۔۔۔۔ مجھے تو آنکھیں پڑھنا آتا ہی نہیں۔۔۔۔۔۔ بہت بے وقوف ہوں میں ۔۔۔۔۔۔آنکھوں کو پڑھنے کی ھنر کے معاملے میں۔۔۔۔ سمجھی جو اس دن میں نے تمہاری آنکھوں میں پڑا وہ پیار تھا پر دیکھو کھا گٸی ناں دھوکا “۔۔۔۔۔یہ کہتے ہوئے اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ گیا تھا وہ اپنا ہاتھ مسلسل چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔”چھوڑو“
” میری بات سن لو ایک بار“ پہلی بار زندگی میں شاہنزیب کے لہجے میں التجاء تھی کیونکے وہ جانتا تھا بہت دوکھ پہنچایا ہے اس نے ماہنور کو۔۔۔۔
”چھوڑو میرا ہاتھ“
”نھیں پہلے میری بات اطمینان سے سنو“
”مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سنی “وہ جھنجھلاتے ہوئے ہاتھ چھڑانے لگی۔۔۔۔” نہیں سننا ۔۔۔اور کیا سنو ؟؟؟۔۔۔اب کچھ رہ گیا ہے باقی ۔۔۔۔۔میں بیوی ہوں تمہاری۔۔۔۔ چاہوں ناں پھر بھی دوست نہیں بن سکتی۔۔۔۔ بیوی تم مجھے مانتے نہیں اور دوست میں بننا چاہتی نہیں ۔۔۔۔ اس لئے اب میرا ہاتھ چھوڑو “اس نے اتنی بے رخی سے بولا تھا کہ پورے گھر میں آواز گونجی تھی۔۔۔۔۔
”زبردست ۔۔۔۔۔ بڑے ڈرامے ہو رہے ہیں یہاں تو“ شمسہ بیگم کمرے سے نکل آئیں اور زور زور سے 3 4 تالیاں بجاتے ہوئے بولی تھی ان کا لہجہ نھایت طنزیانہ تھا۔۔۔۔۔
” چاچی “ماہنور انھیں دیکھ گھبرا گئی تھی۔۔۔۔
” چھوڑ دو شاہ اس کا ہاتھ۔۔۔۔۔ میڈم کے نخرے نہیں مل رہے ہیں “۔۔۔ پھر وہ ماہنور کی جانب مخاطب ہو کر”۔ایک تو میرے بیٹے نے ترس کھا کر تم سے شادی کی اوپر سے تم میرے بیٹے کو نخرے دیکھا رہی ہو“ شمسہ بیگم کو جس موقع کی تلاش تھی وہ انہیں آج آسانی سے مل گیا تھا آج دادو بھی گھر پر نہیں تھیں اور کوئی مرد بھی نہیں سوائے کامران کے” کیا چاہتی ہو تم ؟؟؟میرے بیٹے کو اپنے اشاروں پر نچانا؟؟“ وہ غصے سے ماہنور سے پوچھنے لگیں ۔۔۔۔ان کی بات اور لہجہ دیکھ شاہنزیب نے فوراً ہی ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔
” امی جیسا آپ سمجھ رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ ویسا کچھ نہیں ہے“ وہ اپنی ماں کو دھیمے لہجے میں سمجھانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔
” سمجھ تو تم نہیں رہے ہو اس لڑکی کی چالاکیوں کو ۔۔۔۔کتنی آسانی سے تمہیں اپنے قابو میں کر رہی ہے یہ اور تمہیں پتہ بھی نہیں چل رہا“ شمسہ بیگم نھایت جذباتی ہوکر بولی تھیں۔۔۔۔۔
” امی آپ یہ سب چھوڑیں میرے ساتھ چلیں۔۔۔۔“یہ کہہ کر وہ شمسہ بیگم کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔
” ہاں۔۔۔۔چھوڑ ہی تو دیا ہے تمہیں تمہارے حال پر اور اس چالباز لڑکی پر۔۔۔۔لیکن ماں ہوں تمہاری۔۔۔۔ فکر کرنا کیسے چھوڑ دوں ؟؟؟“وہ روتے ہوۓ کہنے لگیں۔۔۔۔ ماہنور تو سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ وہ کیا کرے اس لٸیے خاموش کھڑی رہی۔۔۔۔۔
” سب چھین لیا تم نے مجھ سے ماہنور ۔۔۔ میری بہن مجھ سے اپنے سارے رشتے ختم کرکے چلی گئی صرف تمھاری وجہ سے ۔۔۔۔۔میرا بیٹا جو بچپن سے سعدیہ سے محبت کرتا تھا۔۔۔۔ تم نے اور تمہارے باپ نے اس کی معصومیت کا فائدہ اٹھایا اور کتنے آرام سے پھانس لیا۔۔۔۔واہ ۔۔۔۔واہ۔۔ کتنی بھولی دیکھتی ہو اور ہو کتنی چلاک تم“شمسہ بیگم ماہنور کو دیکھتے ہوئے اپنی بھڑاس نکالنے لگی تھیں
” امی کیا ہوگیا ہے ؟؟؟۔۔۔۔ کیوں بات کو بڑھا رہی ہیں ؟؟؟“شاہنزیب انھیں روتا ہوا دیکھ ۔۔۔۔ان کے بالکل قریب آ کر ان کی کمر سہلاتے ہوئے کہنے لگا
”میں بات بڑھا رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔“ انہوں نے کافی جتاتے ہوئے بولا پوچھا ”شاہ تمھیں میرے آنسو نظر نہیں آرہے ؟؟؟۔۔۔۔۔“۔۔۔۔۔۔ پھر وہ ماہ نور کی جانب دیکھتے ہوئے ”ماہنور۔۔۔۔میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔۔ تم نے مجھ سے میرا بیٹا چھین لیا ہے“ وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے ماہنور کو دیکھ بولیں ۔۔۔۔
”امی۔۔۔۔ بس کریں۔۔۔۔۔خواہ مخواہ آپ بات کو طول دے رہی ہیں“ وہ تھوڑا جھنجھلا کر بولنے لگا۔۔۔۔
” یہ لڑکی جو تمہارے سامنے اتنی بے چاری بن رہی ہے ناں۔۔۔یہ کتنی تیز ہے ۔۔۔۔یہ صرف میں جانتی ہوں اور کتنی بے حیا“ ان کا یہ کہنا تھا کہ ماہنور کے کان کھڑے ہوگئے تھے۔۔۔۔
”بے حیاء؟؟“ ماہنور تعجب سے انہیں دیکھتے ہوئے وہی الفاظ دہرا رہی تھی۔۔۔۔۔
” ہاں ۔۔۔۔بے حیاء ۔۔۔۔۔کیوں تمھیں فون نہیں آیا کرتے تھے لڑکوں کے؟؟؟۔۔۔۔ شاہ اس کے لیے لڑکوں کے یونیورسٹی سے فون آیا کرتے تھے۔۔۔۔ تم خود بتاؤ جس لڑکی کو پڑھنے کا ذرا سا بھی شوق نہیں تھا وہ کیسے پڑھنے کی اتنی شوقین ہوگٸی؟؟ پورے پورے دن پڑھائی کے نام پر لیپ ٹاپ پر چپکی رہتی تھی یہاں تک کہ گھنٹوں گھر سے غائب رہتی“ شمسہ بیگم نے جب ماہ نور کے کردار پر انگلی اٹھائی تو ماہنور کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔۔۔۔۔۔ شمسہ بیگم اس قدر بلند آواز سے گویا ہوئی تھیں کہ گھر کے باقی افراد بھی جمع ہوگئے تھے۔۔۔۔۔رومیساء ۔۔۔۔۔شاہزیہ۔۔۔۔۔ کامران ۔۔۔۔سعدیہ۔۔۔۔ علی کی امی۔۔۔۔۔بھابھی ۔۔۔۔اسماء سب جمع ہو گئے تھے۔۔۔۔
” خدا کا خوف کریں چاچی ۔۔۔۔۔کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ؟؟؟۔۔۔۔۔۔ شاہ میرا یقین کرو میں واقعی پڑھا کرتی تھی لیپ ٹاپ پر۔۔۔۔۔۔ چاہے تو چیک کرلو اور غائب ؟؟؟۔۔۔۔میں کب گھر سے غائب ہوئی؟؟؟۔۔۔۔۔ چاچی ۔۔۔۔میں بس بڑے چاچو کے گھر جایا کرتی تھی اور آپ تو خود گھر پر موجود نہیں ہوتی تھیں۔۔۔۔“ ماہنور اب جوابی کراوٸی پر اتر آئی تھی۔۔۔۔۔۔ اپنے کردار پر انگلی اٹھتے ہوئے کوئی بھی پاکیزہ لڑکی برداشت نہیں کر سکتی اور یہی حال ماہ نور کا تھا۔۔۔۔۔۔۔
”ہاں چاچی۔۔۔۔۔۔ مانو میرے ساتھ رہتی تھی“ بھابھی ماہنور کی بات کی تائید کرتے ہوئے بولی تھیں۔۔۔۔
”ماہنور تم اوپر جاؤ “شاہنزیب سمجھ گیا تھا اس کی ماں کیا کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس لیے وہ ذرا سہ بھی جذباتی نہ ہوا اور ماہنور کو اوپر بھیجنے لگا۔۔۔
” نہیں۔۔۔۔۔ میں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔ یہ مجھے گالی دے رہی ہیں“ ماہنور نفی کرتے ہوئے غصے سے بولی۔۔۔۔
” میں سچ بول رہی ہوں۔۔۔ میں نے خود تمہیں ایک بار فون دیا تھا یہ کہہ کر کے تمہاری دوست کا فون ہے “وہ اسے یاداشت پر زور ڈالنے کو کہہ رہی تھیں
” آپ ظلم کر رہی ہیں مجھ پر۔۔۔۔ میرے شوہر کے سامنے میرے کردار پر انگلی اٹھا کر آپ میرا رشتہ خراب کرنا چاہ رہے ہیں ناں۔۔۔ میں جانتی ہوں۔۔۔۔ آپ اسی لئے بول رہے ہیں یہ سب “ ماہنور غصے سے بولنے لگی تھی
”تمہارا شوہر؟؟۔۔۔۔۔ تمہارا رشتہ؟؟۔۔۔۔ شاہ کوئی تمہارا شوہر نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔اس نے صرف ترس کھا کر تم سے شادی کی تھی “ وہ بھی غصے سے جوابی کارروائی کرنے پر اتر آئی تھیں۔۔۔۔
” آپ لوگ چپ کر جائیں۔۔۔۔ بہت تماشہ کر لیا ۔۔۔۔۔ماہنور اوپر جاؤ ۔۔۔۔سمجھ نہیں آرہی تمہیں “شاہنزیب ماہنور کو غصے سے کہنے لگا وہ نہیں چاہتا تھا کہ معاملہ مزید بگڑ ے۔۔۔۔۔
” میں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔۔ پہلے ان سے بولو اپنے الفاظ واپس لیں ۔۔۔۔میں سچ کہتی ہوں شاہ۔۔۔۔ میں نے کبھی تمہاری امانت میں خیانت نہیں کی ۔۔۔۔چاچی مجھ پر جھوٹے الزام لگا رہی ہیں“ وہ روتے ہوئے اپنے کردار کی صفائی پیش کر رہی تھی۔۔۔۔۔
” اب بس کرو۔۔۔۔ ہمارے گھر میں پہلے کبھی ایسی لڑائی نہیں ہوئی۔۔۔۔ جاؤ رومیساء شاہ ٹھیک کہ رہا ہے ماہنور کو اوپر لے جاٶ"۔۔۔۔علی کی امی رومیساء سے کہنے لگیں۔۔۔۔رومیساء نے ماہنور کا ہاتھ پکڑا تو ماہنور نے فوراً چھڑوا لیا
”آپا چھوڑیں میرا ہاتھ۔۔۔۔۔ شاہ تم مجھ سے پوچھ رہے تھے ناں کے میں تم سے کیوں بھاگ رہی تھی ۔۔۔۔چاچی کی وجہ سے بھاگ رہی تھی میں۔۔۔۔۔ پتا ہے ان چار سالوں میں سب سے زیادہ ذلیل مجھے انھوں نے کیا ہے۔۔۔۔ ان کے آۓ دن مہمان آتے کبھی کوئی آ رہا ہے ۔۔۔۔کبھی کوئی اور اس سے بات صرف ایک ٹوپک پر ہوتی۔۔۔۔ ماہ نور ۔۔۔۔ماہنور ۔۔۔۔۔ماہنور ۔۔۔۔۔ماہنور عمر میں بڑی ہے ۔۔میرا بیٹا اسے چھوڑ دے گا۔۔۔۔۔۔ وہ آتے ہی طلاق دے گا یہاں تک کہ انہوں نے تو تمہارے آنے سے پہلے ہی سعدیہ کی ماں سے وعدہ کر لیا تھا کہ تمہاری شادی سعدیہ سے کروائی گئی اور جب میں نے صرف اتنا کہا کہ چاچی ۔۔۔۔۔شاہ کو آ تو جانے دیں تو انہوں نے تمہارا کمرہ بھی مجھ سے چھین لیا ۔۔۔۔پوچھو ان سے کیا انھوں نے میرے ساتھ ایسا نہیں کیا ؟؟“روتے ہوئے ماہنور نے ۔۔۔۔۔اسے چار سال حالِ ماضی بیان کیا تھا ۔۔۔۔جس سے شاہنزیب پہلے ہی واقف تھا۔۔۔۔۔۔
” دیکھ لی اس کی کی گز بھر کی زبان۔۔۔۔ بس یہی دیکھانا چاہتی تھی میں تمہیں۔۔۔۔۔ تم خود سوچو جس کا تمہارے سامنے یہ حال ہے۔۔۔۔وہ تمہارے پیچھے تمہاری ماں کی کتنی عزت کرتی ہوگی۔۔۔ میں نے اس سے بیزار ہوکر ہی گھر سے باہر جانا شروع کر دیا تھا پارٹیوں میں۔۔۔۔۔ شاہ یہ تمہارے رحم کے قابل نہیں ہے۔۔۔۔۔ طلاق دو اسے“ وہ غصے سے تلملاتے ہوئے بولی تھیں۔۔۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ سب ہکا بکا ہو کر شمسہ بیگم کو دیکھنے لگے تھے
” تم پاگل ہو گئی ہو کیا؟؟؟۔۔۔۔ اتنا بڑا فیصلہ کوئی اتنا جذباتی ہوکر کرتا ہے کیا؟؟؟۔۔۔۔ ماہنور ۔۔۔شاہ تم دونوں اپنے کمرے میں جاؤ “علی کی امی اب دونوں کو غصے سے کہنے لگیں۔۔۔۔۔
” شاہ تم میرے بیٹے ہو۔۔۔۔ تم یہاں سے کہیں نہیں جاؤ گے۔۔۔ جو لڑکی تمہاری ماں کی عزت نہیں کرتی تو اسے اپنے نکاح میں کیسے رکھ سکتے ہو۔۔۔۔۔ طلاق دو اسے ابھی کے ابھی“وہ اب شاہنزیب پر دباؤ ڈالنے لگیں۔۔۔۔
گھر میں آج تک ایسی لڑائی کبھی بھی نہیں ہوئی تھی۔۔۔اسما۔۔۔۔رومیسا ۔۔۔ بھابھی۔۔۔ ماہنور ۔۔۔سعدیہ سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے
”چاچی یہ کیا کہ رہی ہیں آپ ؟؟؟“رومیسا حیران و پریشانی کے عالم میں پوچھنے لگی تھی ۔۔۔۔۔ماہنور کے اوسان خطا ہو رہے تھے۔۔۔۔۔ وہ زندگی میں کبھی کسی سے نہیں لڑی تھی ۔۔۔۔اس کا پورا جسم کپکپا رہا تھا ۔۔۔۔طلاق کا لفظ سنتے ہی اسے سانپ سونگھ گیا تھا۔۔۔..
” بس کرو ۔۔۔۔ماہ نور تمہاری بھی بچی کی طرح ہے ۔۔۔۔۔ تمہاری اور میری گود میں کھیلی ہے۔۔۔۔ تم اس کی زندگی کیسے تباہ کر سکتی ہو؟؟؟۔۔۔۔۔ خدا کا خوف کرو کس گھر میں لڑائی جھگڑے نہیں ہوتے پر اس طرح جذباتی ہوکر آر پار کے فیصلے کروانا کہاں کی سمجھ داری ہے؟؟؟“ وہ اب چاچی کو سناتے ہوئے بولی تھیں۔۔۔۔ دادو کے بعد اگر گھر میں کوئی عورت بڑی تھی تو وہ علی کی امی تھیں اور وہ اپنا فرض بخوبی نیبھا رہی تھیں۔۔۔۔
” اگر میری جگہ آپ ہوتیں تو آپ بھی یہی کرتیں بھابھی“ شمسہ بیگم نے علی کی والدہ سے مخاطب ہو کر غصے سے کہا۔۔۔۔
” نہیں ۔۔۔۔۔میں ایسا ہرگز نہیں کرتی ۔۔۔۔ماہنور اور شاہنزیب دونوں ہی میرے بچے ہیں۔۔۔ میری گود میں کھیلے ہیں۔۔۔ میں ماہنور کو صرف اپنی بیٹی کہتی ہی نہیں ۔۔۔۔ مانتی بھی ہوں “ علی کی امی اپنی محبت کا سچا اظہار کر رہی تھیں۔۔۔۔
” رہنے دیں بھابھی۔۔۔ آپ اپنے کامران کو ماہنور پر قربان کر سکتی ہیں؟؟؟۔۔۔ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں “شمسہ بیگم نے بے رخی سے کہا۔۔۔۔۔ ان کا لہجہ بڑا سخت تھا
” کر سکتی ہوں؟؟؟“ وہ تعجب کا اظہار کرتے ہوۓ ” میں کر چکی ہوں ۔۔۔۔۔تمہیں کیا لگتا ہے ہم نے کامران کا رشتہ سعدیہ کے لٸیے کیوں بھیجا ؟؟؟۔۔۔۔۔” پھر وہ نہایت جتاتے ہوئے ”صرف ماہنور کی خاطر“ ان کا یہ کہنا تھا کہ سعدیہ حیرت سے کامران کو دیکھنے لگی۔۔۔۔کامران نے اپنا سیدھا ہاتھ اپنے ماتھے پر مارا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنا سر کسی دیوار پر دے مارے۔۔۔۔۔۔شاہنزیب بھی حیرت سے سننے لگا ۔۔۔۔ وہ بھی اس بات سے نا واقفیت رکھتا تھا ”رومیساء کو ایسا لگا کہ اگر سعدیہ شاہنزیب اور ماہنور کے بیچ سے ہٹ جائے تو سب بہتر ہوجائے گا اور یقین مانو میں نے صرف ماہنور کی خاطر ۔۔۔۔۔کامران سے خود کہا کہ سعدیہ سے شادی کرلے۔۔۔۔ تاکے میری بچی کا گھر بسا رہے۔۔۔ورنہ کامران کو کوئی انڑس نہیں تھا سعدیہ میں “ انہوں نے غصے میں کہہ تو دیا تھا پر سعدیہ کو حیرت زدہ دیکھ انہیں احساس ہوا کہ وہ کچھ زیادہ ہی بول گٸی ہیں۔۔۔
” بہت ہو گیا یہ سارا ڈرامہ ۔۔۔شاہ تم میرے بیٹے ہو اور میں تم سے کہہ رہی ہوں طلاق دو اس بدزبان لڑکی کو “۔۔۔وہ پھر سے طوطے کی طرح طلاق کا کلمہ پڑھنا شروع ہو گئی تھیں۔۔۔
” آپ کو یہ سب کرنا زیب نہیں دیتا امی۔۔۔۔مجھے بہت تکلیف ہوئی آپ کے منہ سے یہ سب سن کر ۔۔۔۔۔مانو میری بیوی ہے اور میں کسی کے کہنے میں آکر طلاق نہیں دوں گا اسے ۔۔۔۔۔آپ یہ سب کرکے صرف اپنی عزت میری نظروں میں کم کر رہی ہیں ۔۔۔۔۔ آپ کا رتبہ بہت بلند ہے۔۔۔۔ پلیز اسے قائم رہنے دیں ۔۔۔۔اور جو آپ ماہنور کو گالی دے رہی ہیں پلیز بند کریں۔۔۔۔۔ میری عزت ہے ماہنور ۔۔۔ جو گالیاں آپ اسے دے رہی ہیں وہ مجھے مل رہی ہیں۔۔۔۔آپ جس یونیورسٹی کے لڑکے کی بات کر رہی ہیں۔۔۔۔ جس کا فون آتا تھا ماہ نور کے لیے وہ اور کوئی نہیں۔۔۔۔۔میں تھا ۔۔۔۔آپ یہ سب کیوں کر رہی ہیں یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں۔۔۔۔ بس کر دیں۔۔۔۔ میں نے سعدیہ سے کبھی محبت نہیں کی۔۔۔۔ میں صرف آپ کی اور خالہ کی محبت کو دیکھ اور معاشرے میں سعدیہ کے خلاف ہونے والی باتوں کی وجہ سے آج تک خاموش تھا۔۔۔۔ میں نے ترس کھا کر ماہنور سے شادی نہیں کی۔۔۔ میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“شاہنزیب آگے بولتا ۔۔۔۔ اس سے پہلے ولید گھر میں داخل ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اسے لگا اگر اس نے شاہنزیب کو نہ روکا تو وہ سب کچھ بتا دیے گا جذباتی ہوکر۔۔۔۔۔
”شاہنزیب “ولید نے زور سے اس کا نام پکارا تو شاہنزیب بولتے بولتے رک گیا۔۔۔۔۔۔
”چلو مانو“شاہنزیب پہلے تو تھوڑی دیر خاموش ہوگیا۔۔۔۔تاکے خود کے جذبات اور غصے پر قابو پاسکے۔۔۔۔ کیونکہ ماہنور کے کردار پر اس کی ماں کا انگلی اٹھانا اسے طیش دلا گیا تھا۔۔۔۔ وہ ماہنور کا ہاتھ بڑے بھرم سے اپنی ماں کے سامنے پکڑ کر کہنے لگا۔۔۔۔۔
” روکو۔۔۔۔۔ آج فیصلہ کر ہی دو ۔۔۔۔۔تمھیں اپنی ماں عزیز ہے یا یہ ماہنور “ انہوں نے ماہنور پر حقارت بھری نظر ڈالتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔۔
”امی آپ میری ماں ہیں اور یہ میری بیوی ۔۔۔۔۔۔آپ لوگوں کے درمیان میں کیسے کسی کو چن سکتا ہوں؟؟؟۔۔۔۔“ وہ بہت محبت سے اپنی بات سمجھانے لگا ۔۔۔۔
”نہیں فیصلہ کرو۔۔۔۔۔۔ میں مر جاؤں گی پر اسے اپنی بھو نہیں بناؤں گی“ چاچی نے بھرم سے کہا۔۔۔۔۔ اب انہیں یقین تھا کہ شاہنزیب ماہ نور کو طلاق ضرور دے گا۔۔۔۔
” آپ کیوں مریں گی؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔میں مر جاتی ہوں ۔۔۔۔ کیونکہ سارے فساد کی جڑ میں ہی ہوں“ماہنور ان کی بات سنتے ہی خوفزداہ ہوگٸی۔۔۔۔اسے لگا آج شمسہ بیگم طلاق کرا کر ہی دم لیں گی۔۔۔۔۔اس نے شاہنزیب سے اپنا ہاتھ تیزی سے چھڑایا اور سامنے ڈائننگ ٹیبل پر رکھی ناٸف (چھری) اپنے ہاتھوں میں اٹھا لی۔۔۔۔شمسہ بیگم کو دیکھ روتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔۔”میں نے اپنی پوری زندگی جیسے چاھا وہ صرف تم ہو شاہ۔۔۔۔۔میں ویسے بھی مر جاٶں گی اگر تم نے مجھے طلاق دی۔۔۔۔میں“وہ نھایت رنجیدہ ہو کر شاہنزیب سے اپنی محبت کا اظہار کر رہی تھی۔۔۔۔۔
”پاگل مت بنو ۔۔۔۔۔ناٸف چھوڑو ماہنور“ وہ غصے سے اس سے ناٸف لینے کے لٸیے لپکا تھا۔۔۔۔
”نہیں ۔۔۔۔میں آج خود کو ختم کرلوں گی ۔۔۔تاکے چاچی کو سکون آجاۓ“ وہ ناٸف چھوڑنے کے لٸیے تیار نھیں تھی۔۔۔۔شاہنزیب کے ناٸف چھینے میں ہاتھ زخمی ہوگۓ تھے۔۔۔۔اس کے ہاتھوں سے خون زمین پر ٹپکنے لگا تھا۔۔۔۔سب گھر والے ماہنور کی خودکشی کی کوشش پر اسے روکنے کی کوشش کررہے تھے۔۔۔۔آخر کار شاہنزیب کامیاب ہوا اس سے ناٸف چھینے میں۔۔۔۔”مجھے مر جانے دو شاہ۔۔۔۔میں تمھارے بغیر نھیں جی سکتی۔۔۔۔“ناٸف ماہنور کے ہاتھ سے چھین کر شاہنزیب نے دور پھینک دی تھی۔۔۔۔اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا ۔۔۔تو وہ روتے ہوۓ اظہارِ محبت کر رہی تھی۔۔۔۔
”بےوقوف لڑکی تم سے کس نے کہا کے میں تمھیں چھوڑ رہا ہوں ؟؟۔۔۔“وہ اسے اپنی باھوں میں جگڑ کر بڑے پیار سے کھنے لگا۔۔۔۔۔”شاہنزیب مر سکتا ہے ۔۔۔پر ماہنور کو نھیں چھوڑ سکتا “ شاہنزیب نے اپنی ماں کو غصے سے دیکھتے ہوۓ پورے گھر میں زور دار آواز میں اعلان کیا تھا۔۔۔۔ماہنور کی خودکشی کی کوشش دیکھ شاہنزیب مارے غم و غصے کے پاگل ہوگیا تھا ۔۔۔اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔۔۔۔اس کی آنکھوں کا جنون آج پہلی بار صاف عیاں کررہا تھا اس کا حالِ دل۔۔۔ماہنور پھوٹ پھوٹ کر اس کے سینے سے لگ کر رو رہی تھی۔۔۔
”میں نے صرف تم سے محبت کی ہے شاہ۔۔۔۔صرف تم سے۔۔۔تم مجھ سے عمر میں چھوٹے تھے ۔۔مجھے لگا تم کبھی میری محبت نہیں سمجھو گے۔۔۔۔میں نے رومیساء آپا اور اسماء کو بتایا تو انھوں نے کہا کے خاموش رھوں۔۔۔کیونکے تم غلط سمجھو گے۔۔۔۔پر میں سچ کہتی ہوں شاہ ۔۔۔میں نے کبھی تمھاری امانت میں خیانت نہیں کرئی۔۔۔چاچی مجھ پر الزام لگا رہی ہیں۔۔۔۔تم چاہے۔۔۔“ وہ ابھی بول ہی رہی تھی روتے روتے ۔۔۔اس کے سینے سے لگے کے شاہنزیب اسے اپنے سینے سے ہٹاکر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ بھت محبت سے کہتا ہے ”بس کرٶ۔۔۔۔چپ ہو۔۔۔کوٸی تم سے صفاٸی نہیں مانگ رہا تمھارے کردار کی۔۔۔۔۔مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے میری جان۔۔۔۔“
”پر شاہ ۔۔میں“ماہنور باربار اپنے شوھر کو اپنے کردار کے پاکیزہ ہونے کی صفاٸی دے رہی تھی۔۔۔۔
”شاہ ۔۔۔تمھارے ہاتھوں سے خون نکل رہا ہے“رومیسا آپا پریشان ہوکر بولیں ۔۔ماہنور کے ہاتھ بھی اس چھینم چھانی میں زخمی ہوگۓ تھے۔۔۔۔دونوں ہی ہاتھوں پر لگے زخم سے لاپرواہ تھے ۔۔۔کیونکے شمسہ بیگم نے ماہنور کے کردار پر انگلی اٹھا کر دونوں کی روحوں کو چھلی کر دیا تھا ۔۔۔جتنا ماہنور تڑپ تڑپ کر سینے سے لگ کر رو رہی تھی۔۔۔۔شاہنزیب اتنے ہی خون کے گوڈ پی رہا تھا۔۔۔۔۔
”ماہنور کو اوپر لے جاٶ شاہ ۔۔۔میں میڈکل باکس لے کر آتی ہوں۔۔“اسماء نے دونوں کے ہاتھوں سے خون نیکلتے دیکھ پریشان ہوکر کہا۔۔۔
”ہممم“اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔۔اور ماہنور کا ہاتھ پکڑ کر اپنی ماں کے برار سے ہی گزر کر اسے آج پہلی بار اپنے کمرے میں لے آیا۔۔۔۔ماہنور کے آنسوں ابھی بھی رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔۔۔اسے بیڈ پر بیٹھایا تو اسماء باکس لے کر آگٸی۔۔۔۔
”لاٶ میں تم دونوں کے کردوں۔۔۔“اسماء نے کہا
”نہیں۔۔۔میں اپنی مانو کے خود کروں گا۔۔۔تم چھوڑ دو۔۔۔۔۔“شاہنزیب کا لہجہ نھایت خفگی بھرا تھا ۔۔۔اسماء کو اس کے لہجے سے لگا کے وہ کسی بات پر ناراض ہے اس سے
”کیا ہوا ؟؟۔۔۔میں نے کیا ۔۔۔کیا ہے ؟؟۔۔۔مجھ سے ناراض کیوں ہورہے ہو شاہ ؟؟؟“اسماء اس کے رویے پر الجھ کر رہ گئی تھی۔۔
”کیونکے تم اور رومیساء آپا ان سب میں برابر کے شریک ہو۔۔۔جو آج ہوا۔۔۔میں غصے میں تم سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔میں نہیں چاہتا میں کچھ غلط بول دوں۔۔۔ اس لیے پلیز ابھی جاؤ۔۔۔۔“ اس کا لہجہ برف سے زیادہ سرد تھا۔۔۔اسماء باکس دے کر خاموشی سے چلی گٸی۔۔۔۔اسماء نے جب رومیساء اور اپنا نام ایک ساتھ سنا تو وہ سمجھ گئی کہ شاہنزیب کے غصے کا سبب کیا ہے۔۔۔۔
”تم اسماء پر کیوں غصہ ہورہے ہو؟؟؟۔۔۔اس بیچاری کی ان سب میں کوئی غلطی نہیں ہے“ماہنور نے جب روتے ہوۓ کہا تو شاہنزیب اسے غصے سے گھورنے لگا۔۔۔
” خاموش رہو۔۔۔تم پر بھی بھت غصہ آرہا ہے مجھے۔۔۔۔“ اس کی آنکھیں سرخ انگاروں کی طرح لال ہو رہی تھیں۔۔۔۔۔وہ ماہنور کہ وجود کو تکتے ہوئے بولا۔۔۔
”لاٶ ۔۔مجھے دو ۔۔پہلے میں تمھاری پٹی کروں “شاہنزیب جب ماہ نور کے پٹی کرنے لگا تو اس کا خون ماہ نور کی پٹی پر آ رہا تھا تو پہلے اپنا ہاتھ روٸی سے صاف کیا۔۔۔تو ماہنور اس کا ہاتھ پکڑ کر بولی
” چھوڑو ۔۔۔۔میں خود کر لوں گا“شاہنزیب بےرخی سے بولا۔۔۔
” تم اتنا غصہ کیوں ہو رہے ہو؟؟؟“ وہ بے چارگی والا چہرہ بناۓ ۔۔۔اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔۔
” میں تمہیں کیوں بتاؤں؟؟۔۔ کیا تم نے مجھے اس قابل سمجھا کہ اپنے دل کی بات مجھ سے شئیر کرٶ۔۔۔ بجاۓ رومیساء آپا اور اسماء کے“شاہنزیب خفگی سے گویا ہوا۔۔۔
”او۔۔۔۔۔تو تم اس لئے ناراض ہو“ماہنور اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی” اچھا غصہ بعد میں کر لینا پہلے مجھے پٹی کرنے دو“ماہنور نے اتنے پیار سے کہا کہ وہ منع نہ کرسکا۔۔۔شاہنزیب نے ماہ نور کی بات کا کوئی ری۔ایکشن نہ دیا۔۔۔ مگر پھر بھی وہ اس کی خاموشی کو سمجھ گٸی۔۔۔۔اس کا ہاتھ خود ہی پکڑ کر پٹی کرنے لگی۔۔۔۔” ساری میرے ہاتھ کی پٹی خونم خون کردی ہے تم نے ۔۔۔دیکھو تمھارے خون سے رنگ گٸی ہے میری پٹی۔۔۔۔اب دوبارا کردے ناں۔۔ٹھیک ہے“ماہنور بھت پیار سے بول رہی تھی اسے دیکھتے ہوۓ۔۔۔۔۔
”کب سے پیار کرتی ہو مجھ سے؟؟“شاہنزیب کے سوال پر ماہ نور کی آنکھیں بڑی بڑی ہو گئیں۔۔
”جب سے جاننا ہے کے محبت کا احساس کیا ہے۔۔۔ لیکن میری محبت میری ٹینشن ہے۔۔۔ تمہیں اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔ہم اسی ڈیل پر رہے گٸے جیسے پہلے تھے۔۔۔میں پوری کوشش کروں گی تمھیں خود سے محبت کرنے پر مجبور کرنے کی۔۔۔۔۔میں تمھیں اتنی محبت دوں گی کے تم مجبور ہوجاٶ گے مجھ سے محبت کرنے پر “وہ نھایت رومانس بھری نظروں سے شاہنزیب کو دیکھتے ہوۓ بولی۔۔۔
”ہاں ۔۔۔اور تم یہ کیسے کرو گی ؟؟؟۔۔۔ خود کشی کر کے“ وہ طنز یہ بولا۔۔۔
”وہ ۔۔۔تو۔۔۔۔“ماہنور شرمندہ ہوگٸی تھی اس کی بات سن۔۔۔۔وہ بول ہی نہیں پارہی تھی۔۔۔ اس نے اپنی آنکھیں جھکالیں تھیں
”کاش ۔۔۔تم نے پہلے بتادیا ہوتا ۔۔۔۔۔تو آج سب بھت الگ ہوتا۔۔“وہ نھایت افسردگی سے کہنے لگا۔۔۔۔
“تم سعدیہ کی وجہ سے کہ رہے ہو ؟؟؟“ماہنور الجھ گٸی تھی اس کی افسردگی دیکھ۔۔۔اس کے لہجے میں موجود رنج شاہنزیب محسوس کرگیا تھا۔۔۔۔
”نہیں بابا۔۔۔۔تمھاری وجہ سے۔۔۔میں نے تم سے باربار کہا ہے ۔۔۔اور اب پھر کہ رہا ہوں۔۔۔میں نے کبھی بھی سعدیہ سے محبت نہیں کی۔۔۔۔۔“ شاہنزیب اس کے بالوں میں ہاتھ ڈالتے ہوۓ بڑے پیار سے کہنے لگا۔۔۔۔”مجھ سے ان بزرگ نے سچ کہا تھا ۔۔۔۔میں تڑپا بعد میں ہوں مجھے نوازا پہلے گیا ہے۔۔۔“کہ کر اس کی پیشانی سے اپنی پیشانی ملا لیتا ہے۔۔۔۔شاہنزیب آج اپنی خوش قسمتی پر رشک کر رہا تھا اسے آج اپنا محبوب مل گیا تھا۔۔۔۔آنکھیں بند کر کے بس اس کی نزدیکی اس کی محبت اس کی سانسوں کی مہک سے خود کو عجیب سی بے یقینی سی کیفیت سے نیکلانے لگا۔۔۔یقین کرنا چاھتا تھا کے وہ واقعی اتنا خوش قسمت ہے کے ماہنور کی محبت اسے مل گٸی ہے۔۔۔۔جس کے لٸے وہ آج تک تڑپ رہا تھا۔۔۔۔۔
”شاہ۔۔۔میں سچ کہ رہی“ماہنور پھر صفاٸی دینے لگی تو شاہنزیب مسکرا کر بات کاٹتے ہوۓ”چپ ہوجاٶ بانو بلی۔۔۔۔مجھے بس یہ کچھ لمحے بغیر کسی فکر کے اپنے ساتھ جینے دو۔۔۔۔“کہ کر اسے اگلے ہی لمحے اپنے سینے سے لگا لیا تھا۔۔۔۔۔ماہنور اس کی اس ادا پر الجھ کر رہ گٸی تھی۔۔۔۔ جب پیاسا اچانک سے سیراب ہو جائے تو جس خوشی کو اس لمحے وہ محسوس کرتا ہے وہی خوشی اس لمحے شاہنزیب محسوس کر رہا تھا۔۔۔” تبھی تم نے اس دن لائبریری میں خوشی سے کہا تھا ۔۔۔ کہ اگر مجھے تم سے محبت ہو جائے تو میں بتا دوں تمہیں“اب شاہنزیب کو ماہنور کی یہ بات سمجھ آٸی تھی۔۔۔
”ہاں“ماہنور کے منہ سے فقط اتنا ہی ادا ہوسکا۔۔۔۔کیونکے شاہنزیب کی نزدیکی ۔۔۔اس کا یوں گرم جوشی سے گلے لگنا اسے سر سے پاٶں تک ھلا گیا تھا۔۔۔۔بس اس کا جواب سنتے ہی شاہنزیب نے مزید کَس کے اسے اپنی باھوں میں جکڑ لیا۔۔۔۔
” سعدیہ پلیز ایک منٹ میری بات سن لو ۔۔۔“کامران اس کا ہاتھ پکڑ کر التجاٸی انداز میں بولا تھا
”پلیز لیف ماۓ ھینڈ “سعدیہ نے اتنے غصے سے کہا تھا کے کامران نے فورا ہاتھ چھوڑ دیا۔۔۔۔” میں نے تمہیں اپنا دوست سمجھا اور تم۔۔۔۔۔ تم نے کَیا کِیا۔۔۔۔ مجھے ایسی گری ہوئی لڑکی سمجھے تم اور تمہارے گھر والے ۔۔۔۔جو آتے ہی ایک شادی شدہ مرد کے گلے لگ جائے گی۔۔۔ چپک جائے گی اس سے اور اگر تم ایسا سوچتے بھی تھے تو کیا تم نے نہیں دیکھا مجھے شاہ سے دور رہتے ہوۓ۔۔۔۔ پھر کیوں مجھ سے دوستی کا ڈرامہ کرتے رہے؟؟؟۔۔۔ نفرت ہو رہی ہے مجھے تم سے ۔۔۔۔۔مجھ سے چھت پر پیار بھری باتیں کرنا۔۔۔۔ میرا خیال رکھنا۔۔۔ مجھے اپنا کمرہ دینا یہ سب تمہارا سو کولڈ آئیڈیا تھا مجھے شاہ سے دور رکھنے کا ۔۔۔ہے ناں ؟؟؟۔۔۔تم مجھ سے فلرٹ کررہے تھے تاکہ مجھے اپنی جھوٹی محبت کے جال میں پھنسا سکو“سعدیہ غصے سے بولے جا رہی تھی اور وہ خاموش کھڑا سن رہا تھا۔۔۔۔
” ہوگیا یا کچھ اور بھڑاس باقی ہے؟؟؟“ کامران اسے دیکھتے ہوئے بے نیاز بن کر پوچھنے لگا۔۔۔۔
” میں تم پر اپنی بھڑاس نہیں نیکال رہی ۔۔۔۔میں سچ بول رہی ہوں۔۔۔۔ اور تم مجھے اس طرح گھورنا بند کرو“ کامران محبت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا جس کی وجہ سے سعدیہ تھوڑا سہ نروس فیل کر رہی تھی۔۔۔۔ اس لیے اسے ٹوک کر غصے سے دیکھنے لگی۔۔۔
” یاد ہے۔۔۔ ایک بار کہا تھا میں نے اگر کوئی لڑکی پسند آئی تو وقت ضاٸع نہیں کروں گا اس کا ہاتھ پکڑ کر پوچھوں گا اسی وقت ۔۔۔“یہ کہنے کے بعد وہ گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گیا تھا اور بڑی محبت سے سعدیہ کو شادی کیلئے پرپوز کرنے لگا جس کی اسے ذرا سی بھی امید نہ تھی” مجھ سے شادی کرو گی؟؟؟“
” کامران ڈرامہ بند کرو ۔۔۔۔میں سب جان چکی ہوں اس لیے اب یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں“ سعدیہ اسکی نگاہوں میں محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارتے دیکھ کر حیران رہ گئی تھی لیکن وہ سب کچھ نیچے۔۔۔۔ خود اپنے کانوں سے سن کر آئی تھی تو وہ اتنی جلدی اس پر کیسے یقین کر لیتی ۔۔۔۔وہ بے رخی سے اپنا منہ موڑ کر کہنے لگی۔۔۔۔۔۔جبکے اس نے کامران کی نگاہ میں جو محبت اپنے لٸے دیکھی تھی اس سے پہلے کبھی کسی کی نظروں میں نہیں دیکھی۔۔۔۔۔
” میں کامران ہوں سعدیہ اور اگر میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے تم سے شادی کرنے کی خواہش ہے تو اس کا مطلب ہے۔۔۔ میں واقعی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ میں کوئی ڈرامے بازی نہیں کر رہا۔۔۔ مجھے اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔۔۔“ سعدیہ کا ہاتھ پکڑ کر گھٹنوں کے بل بیٹھے ہی کہ رہا تھا۔۔۔
”ٹھیک ہے تم سنجیدہ ہو کر پوچھ رہے ہو ناں مجھ سے شادی کے لئے؟؟؟؟۔۔۔۔ تو میں بھی تمہیں صاف لفظوں میں سنجیدہ ہو کر ہی جواب دے رہی ہوں۔۔۔۔ نہیں کرنی مجھے تم سے شادی۔۔۔۔۔ جاؤ کوئی اور لڑکی تلاش کرٶ۔۔۔۔“یہ کہہ کر جھنجھلاتے ہوئے ہاتھ چھڑا کر دروازے کے پاس جا کر کھڑی ہو گئ۔۔۔۔۔۔”جاٶ اب۔۔۔۔۔۔ تمہیں تمھارا جواب مل چکا ہے“ یہ کہہ کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔
” تم میرا پرپوزل ٹھکرا رہی ہو؟؟؟“ کامران بہت رنجیدہ ہوتے ہوئے استفسار کرنے لگا۔۔۔
” ہاں۔۔۔۔ بلکہ اپنے پاؤں کے نیچے روند رہی ہوں۔۔۔۔بس اب جاؤ“ وہ کہ کر اسے آنکھوں سے جانے کا اشارہ کرنے لگی۔۔۔۔ وہ کھڑا ہوا اور بغیر کچھ کہے رنجیدہ رنجیدہ چہرہ لئے چلا گیا ناامید ہوکر۔۔۔۔۔ سعدیہ کی بے رخی نے اس کا دل توڑ دیا تھا ۔۔۔ سعدیہ نے اس کا پرپوزل ٹھکرا تو دیا تھا پر دل قرار نہیں پا رہا تھا ایک عجیب سی بے چینی میں مبتلا کر گیا تھا کامران اسے۔۔۔۔ سعدیہ نے اس کے جاتے ہی دروازہ اندر سے لاک کر لیا۔۔
*******-------******
ماہ نور جنید جمشید کے ساتھ سیڑھیوں سے اتر کر نیچے آئی تو دروازے سے عاشر کو داخل ہوتا دیکھ وہ ہکاء بکاء رہ گئی ۔۔۔۔۔۔”پاپا۔۔۔۔۔پاپا“ جنید جمشید تیزی سے ماہ نور کا ہاتھ چھوڑ عاشر کے گلے لگے تھے ۔۔۔۔
”عاشر تم یہاں؟؟“ شاہزیہ کچن سے نیکلی تو حیران ہو کر بولنے لگی
”شاہ۔۔۔۔ جلدی نیچے چلو ۔۔۔۔۔۔نیچے آج قیامت کا سماں ہے“ وہ بھاگتی ہوئی شاہنزیب کے کمرے میں آکر اسے بتانے لگی۔۔۔ ماہنور نھایت پریشان نظر آرہی تھی۔۔۔
”کیا ہوا؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔ ڈیڈ اور امی کی لڑائی زیادہ بڑھ گئی ہے کیا ؟؟؟۔۔۔۔“کل جو گھر میں ہوا تھا اس کے بعد گھر کا ماحول سوگوار تھا ۔۔۔۔۔۔کسی نے بھی صبح کا ناشتہ تک نہیں کیا تھا کیونکہ کل دادو کے آنے کے بعد گھر میں عدالت لگی تھی ۔۔۔۔جس میں چاچی اور افتخار صاحب کی کافی بحث ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ دادو نے بھی چاچی کو ہی ڈانٹا تھا ان کے جذباتی فیصلہ کرانے والے واقعے کی وجہ سے ۔۔۔
”کیا ؟؟“وہ پھر سے پوچھنے لگا۔۔۔۔الجھ کر۔۔۔
” عاشر بھائی آئے ہیں “ماہنور کا یہ کہنا تھا کہ شاہنزیب کے بھی ہوش اڑ گئے تھے
”کیا ؟؟؟۔۔۔۔۔کہاں ہیں وہ؟؟؟“ نیچے لانچ میں۔۔۔۔ جلدی چلو“وہ دونوں تیزی سے نیچے آئے تو سب پہلے ہی جمع تھے۔۔۔۔ عاشر شاہزیہ ایک ساتھ کھڑے تھے سر جھکاۓ۔۔۔
” لو آگٸے لاڈ صاحب۔۔۔۔۔ آئیے آپ کا ہی انتظار ہو رہا تھا“ افتخار صاحب شاہنزیب کو دیکھ طنزیہ بولے تھے۔۔۔ شہزاد بھی وہیں سر جھکائے کھڑا تھا ماہنور اور شاہنزیب بھی شہزاد کے برابر میں آکر کھڑے ہوگئے۔۔۔” کون ہے یہ لڑکا؟؟؟“ افتخار صاحب سب کے سامنے شہزاد شاہنزیب ماہنور سے سوال کرنے لگے عاشر کی طرف اشارہ کر کے۔۔۔۔
”ڈیڈ ۔۔۔۔۔وہ۔۔۔و۔۔۔۔۔وہ۔۔۔ی۔۔۔۔ یہ“ شہزاد لکنت کے ساتھ بولنے لگا ۔۔۔۔وہ مزید کچھ بولے شاہنزیب نے ہاتھ پکڑ لیا تھا شہزاد کا اور نفی میں گردن ہلانے لگا۔۔۔۔۔۔
”اچھا تو تم شہزاد کو منع کر رہے ہو بتانے سے “افتخار صاحب نے شاہنزیب کو اشارہ کرتے دیکھ لیا تھا۔۔۔” تو اب تم بتاؤ ۔۔۔۔۔کون ہے یہ؟؟؟۔۔۔۔ کیوں جنید جمشید اسے پاپا ، پاپا کہے رہے ہیں“ افتخار صاحب شاہنزیب کے بالکل روبرو ہو کر پوچھنے لگے تھے رعب دار آواز میں۔۔۔۔۔
” یہ ہو کیا رہا ہے گھر میں؟؟۔۔۔۔ کوئی مجھے بھی بتائیے“ علی کی والدہ الجھ کر پوچھنے لگیں ۔۔۔۔یہ وہ سوال تھا جو اس وقت سب گھر والوں کے ذہن میں چل رہا تھا۔۔۔۔
” میں بتاتا ہوں۔۔۔۔ میں عاشر ہوں۔۔۔۔شاہزیہ کا شوہر “عاشر نے اپنا تعارف جب خود کرایا تو سب ہکا بکا تھے۔۔۔۔ ہر کوئی عاشر کو دنیا کے آٹھوۓ عجوبے کی طرح دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
” یہ کیا بکواس کر رہے ہو۔۔۔۔ہوش میں تو ہو تم۔۔۔ شاہزیہ کا شور فرحان ہے۔۔۔۔ تم کہاں سے آگئے ؟؟؟“علی بھائی غصے سے آ کر عاشر کا کالر پکڑ کر کہنے لگے۔۔۔
” علی بھٸیا کالر چھوڑیں۔۔۔۔۔۔ یہ سچ بول رہے ہیں۔۔۔۔۔۔یہی میرے شوہر ہیں۔۔۔۔عاشر“ شاہزیہ رونے لگی تھی۔۔۔وہ علی سے عاشر کا کالر چھڑواتے ہوئے بولی تھی ۔۔
”کیا کہہ رہی ہو تم؟؟۔۔۔۔ ہوش میں تو ہو؟؟؟۔۔۔اس سے زیادہ گھٹیا بات میں نے آج تک نہیں سنی ۔۔۔۔تم ایک غیر مرد کو اپنا شوہر کہ رہی ہو“ شمسہ بیگم غصے سے شاہزیہ کے سامنے کھڑے ہوکر اسے برا بھلا کہنے لگیں۔۔۔۔
” امی یہی میرے شوہر ہیں میری فرحان سے طلاق ہو چکی ہے وہ بھی چار سال پہلے“ اس کا کہنا تھا کہ سب کو ایسا لگا کہ شاہزیہ آپا نے ان کے سر پر کوئی بم پھاڑا ہو۔۔۔۔۔
” ہاں۔۔۔۔ سچ بول رہی ہیں شاہزیہ آپا۔۔۔عاشر بھاٸی ان کے شوہر ہیں پر یہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح آپ لوگ سمجھ رہے ہیں وہ ۔۔۔۔۔“ماہنور نے شاہزیہ کی سائیڈ لے کر بولنا چاہا تو رومیساء اسے غصے سے گھورتے ہوئے بولی۔۔۔۔
”چپ رہو تم۔۔۔۔ تم ان معاملات میں نہ بولو۔۔۔۔ تم بچی ہو۔۔۔۔ تم شاہزیہ کی گواہ کیوں بن رہی ہو ۔۔۔۔تم تھوڑی اس کے ساتھ تھیں۔۔۔“رومیسا آپا نے اسے ڈپٹتے ہوئے انداز میں چپ کرادیا۔۔۔۔
” ہاں ماہنور بیٹا تم چپ رہو۔۔۔۔ بھلے ہی تم سب جانتی ہو۔۔۔بھلے ہی تم نے ہی وکیل بھیجا تھا۔۔۔۔ مقدمہ لڑنے کے لیے۔۔۔۔ بھلے ہی تم ان دونوں بھائیوں کے ساتھ ملی ہوئیں تھیں پر تم چپ رہو“ افتخار صاحب ماہنور کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے تو شہزاد ۔۔۔۔شاہزیہ۔۔۔ شاہنزیب اور سعدیہ کے کان کھڑے ہوگئے تھے۔۔۔۔انھوں نے پیار ہی پیار میں ان پانچوں کو بتادیا تھا کے وہ سب کچھ جانتے ہیں۔۔۔۔۔
” تم دونوں بھائیوں نے اکیلے ہی اپنی بہن کی برات چڑھالی تھی؟؟؟ “علی کے والد غصے سے پوچھ رہے تھے۔۔۔
”نہیں ڈیڈ۔۔۔۔نہیں تاۓ ابو ۔۔۔ یقین مانیں۔۔۔۔ہمیں تو خود آپا سے تب پتہ چلا تھا جب ان کی شادی عاشر سے ہو گئی تھی “شہزاد نے صفائی پیش کی تھی۔۔۔۔
”ہاں ڈیڈ۔۔۔۔ ہم نے آپا کی شادی نہیں کروائی ۔۔۔ہم نے تو صرف مقدمہ لڑا تھا جنید جمشید کی کسٹڈی کا“ شاہنزیب نے پوری بات بیان کر دی۔۔۔۔
” او اچھا۔۔۔۔ تو دونوں لاڈ صاحبوں کے منہ میں زبان بھی موجود ہے “افتخار صاحب طنزیہ بولے تھے۔۔۔۔
” ڈیڈ ان دونوں کی بلکہ تینوں کی کوئی غلطی نہیں ہے میں نے ہی انہیں منع کیا تھا ۔۔۔۔۔مجھے اتنی مشکل سے آپ لوگوں کے دلوں میں واپس جگہ ملی تھی اسے کھونا نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔ میں ڈرتی تھی کہ آپ کہیں سب کچھ جاننے کے بعد مجھے اپنی زندگیوں سے بے دخل نہ کردیں اور ساتھ ساتھ مجھے اس خاندان کی بدنامی کا خوف بھی کھاۓ جاتا تھا “شاہزیہ روتے ہوئے اپنے باپ کا ہاتھ پکڑ کر بولی تھی۔۔۔۔۔
”میری بچی۔۔۔۔ میری لختِ جگر ۔۔۔۔۔ تم نے کیسے سوچ لیا کہ میں تم سے ناراض ہو جاؤں گا؟؟؟۔۔۔۔ کیا صرف تمہاری ضد پر تمہاری شادی اس فرحان جیسے گھٹیا انسان سے نھیں کرواٸی تھی۔۔۔ مجھے تو پہلے ہی پتہ تھا کہ انجام یہی ہونا ہے۔۔۔۔۔ پر مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ میری بیٹی مجھ سے اتنی دور ہو جائے گی۔۔ جو اپنی ہر چھوٹی بڑی تکلیف اپنے ڈیڈ سے شٸیر کرتی تھی وہ اتنا بدل جاۓ گی کے اس کا شوہر اسے مارے گا وہ برداشت کرے گی پر مجھے نہیں بتائی گئی ۔۔۔۔۔ وہ اسے طلاق دے کر گھر سے نیکال دے گا تو وہ بجائے اپنے باپ کے گھر آنے کے ماری ماری پھرے گی۔۔۔۔ بیٹا میں اتنا سخت دل لگتا تھا تم تینوں کو۔۔۔۔ جو کسی ایک نے بھی مجھے بتانا ضروری نہ سمجھا۔۔۔۔۔ بولو“وہ شاہزیہ کے گال پر پیار سے سہلاتے ہوئے نھایت جذباتی ہوکر پوچھنے لگے ۔۔۔۔۔۔
”نہیں۔۔۔۔۔۔ڈیڈ۔۔۔۔۔۔ میں تو یہ سب صرف یہ سوچ کر برداشت کر رہی تھی کہ کہیں لوگوں کو پتہ نہ چل جائے کہ میری طلاق ہوگئی ہے ۔۔۔۔۔میں پہلے ہی خاندان کی بہت بد نامی کرا چکی تھی ۔۔۔آپ کے ۔۔۔۔۔تاۓ ابو کے۔۔۔۔بڑے ابو سب کے منع کرنے کے اور سمجھانے کے باوجود اس فرحان سے شادی خود کی تھی میں نے۔۔۔ اس لئے اس کا ہر ظلم یہ سوچ کر برداشت کر لیتی تھی کہ یہ میرے بڑوں کا کہنا نہ ماننے کی سزا ہے“ یہ کہہ کر شاہزیہ بری طرح رونے لگی تھی ۔۔۔۔گھر کی ساری خواتین کی آنکھیں نم ہوگئیں تھی ان کی بات سن۔۔۔۔۔
” میری بچی بس کرٶ۔۔۔۔ بہت رو لیں تم۔۔۔ تمھارا باپ ابھی زندہ ہے“ کہ کر افتخار صاحب نے شاہزیہ کو گلے لگا لیا تھا
”پر اس فرحان نے تمہیں طلاق کیوں دی؟؟؟“ شمشہ بیگم غم و پریشانی کے عالم میں پوچھنے لگی تھیں۔۔۔۔
” میں بتاتی ہوں “دادو صوفے سے کھڑے ہوتے ہوئے بولیں تھیں۔۔۔۔” جس بات پر تم اس بچی کو طلاق دلوا رہی ہو“ وہ ماہنور کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولیں۔۔۔” نہیں سمجھیں؟؟“ شمسہ بیگم الجھی نگاہوں سے دادو کو دیکھنے لگیں ۔۔۔” عمر میں بڑے ہونے کی وجہ سے۔۔۔۔۔۔ فرحان کو جب سے پتہ چلا کہ شاہزیہ اس سے عمر میں بڑی ہے وہ پاگل ہو گیا اور اسی بات پر اس نے ایک دن شاہزیہ کو طلاق دے دی۔۔۔۔“دادو نے کہا تو افتخار صاحب اور علی کے ابو دونوں حیران ہوئے
”آپ کو سب پتا تھا ؟؟“ افتخار صاحب حیرت سے پوچھنے لگے ۔۔۔
”ہاں۔۔۔۔۔میرے بچوں نے مجھے سب بتا دیا تھا۔۔۔۔۔ شاہ کوٸی سنگر بننے نہیں جانا چاہتا تھا اسے جنید جمشید کی کسٹڈی کا مقدمہ لڑنے جانا تھا اور اسی لیے میں نے ملک کو مشورہ دیا تھا کہ وہ شاہ کو اس کی ضد پر گھر سے باہر نیکال دے۔۔۔تاکہ وہ آرام سے وہاں جاکر مقدمہ لڑ سکے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔۔۔۔۔اس بچی کے بے ہوش ہو جانے کی وجہ سے شاہ کو نہیں نیکالا گیا تھا بلکہ میرے کہنے پر نیکالا گیا تھا۔۔۔۔۔ یہ بچی بے قصور تھی۔۔۔۔جسے تم ہر وقت کوستی رہتی تھیں میرے سامنے۔۔۔۔اور یہ بیچاری چپ چاپ سنتی رہتی بلکہ اس کے پیسوں کی وجہ سے آج جنید جمشید شاہزیہ کے پاس ہیں ۔۔۔۔ اس لڑکی نے سب سے چھپ کر وکیل بھیجا تاکہ تمہاری بیٹی شاہزیہ کی گود نہ اجڑے تاکہ شاہزیہ کے بچے اس کے پاس رہیں ۔۔۔۔اور ایک تم ہو جو اِس بچی کا گھر تباہ کرنے میں لگی ہو۔۔۔۔“ دادو نے شمسہ بیگم کو دیکھتے ہوۓ ساری حقیقت بیان کی تو وہ ندامت میں مبتلا ہو گئیں۔۔۔۔۔
” امی ماہ نور بہت اچھی ہے اس نے قدم قدم پر میرا ساتھ دیا ہے ۔۔۔۔کیا آپ چاہتی ہیں جس وجہ سے فرحان نے آپا کا یہ حال کیا۔۔۔۔اسی وجہ سے میں ماہنور کو چھوڑ دوں۔۔۔۔ کیا فرحان جو آپا کو عمر میں بڑا ہونے پر مارتا تھا وہ ٹھیک تھا؟؟؟۔۔۔۔۔۔ کیا فرحان نے جو آپا کو طلاق دی عمر میں بڑے ہونے کے سبب آپ کی نظر میں وہ ٹھیک عمل تھا ؟؟؟۔۔۔۔ پتا ہے وہ ہمیشہ ایک بات کہتا تھا کہ بڑی عمر کی لڑکی سے محبت نہیں کی جا سکتی اور بیوی بنا کر تو ہرگز نہیں ۔۔۔۔میں نے بڑے بھرم سے کہا تھا کہ محبت عمر نہیں دیکھتی۔۔۔۔۔اب آپ بولیں ۔۔۔۔۔۔ ہم دونوں میں سے کون صحیح ہے ؟؟؟“شاہنزیب اپنی ماں کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سوال کرنے لگا۔۔۔۔” آپ کی خاموشی اس بات کا جواب ہے کہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔ میں بالکل درست راہ پر ہوں۔۔“ اس نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کر بولا تو وہ بھی رونے لگیں۔۔۔ وہاں سے روتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب تیزی سے چلیں گیٸں
” تو تم سنگر بننے نہیں گٸے تھے ؟؟؟“اسماء شاہنزیب سے بہت خفاء تھی شروع شروع میں ۔۔۔۔پر آج اسے پتہ چلا تھا سچاٸی کے بارے میں۔۔۔۔تو خود اس کے پاس آ کر پوچھنے لگی ۔۔۔۔
”نہیں ۔۔۔۔۔میں مقدمہ لڑنے گیا تھا۔۔۔“ شاہنزیب نے جواب دیا۔۔۔۔ تو اسماء اس کے گلے لگ گئی
”مجھے معاف کردو شاہ۔۔۔ میں نے تمہیں خود غرض سمجھا تھا “وہ روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔
” تم واقعی صرف عمر میں چھوٹے ہو شاہ۔۔۔۔ عقل اور شعور کے معاملے میں تو ہم سب کے باپ ہو“ کامران یہ کہہ کر اسکے گلے لگ گیا تھا اسماء کے ہٹتے ہی۔۔۔۔۔
” اگر گلے ملنا اور تعریفیں ہو گئیں ہوں ۔۔۔۔۔ تو کیا میں اس الو کے پھٹے سے بات کر سکتا ہوں “افتخار صاحب شاہنزیب کو گھورتے ہوئے بولے۔۔۔
”ڈیڈ۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔“شاہنزیب آہستہ آہستہ قدم لیتا ہوا ان کے پاس آیا تھا اور بڑی مشکل سے دو ہی لفظ ادا کر سکا۔۔۔۔
” تم بھی ادھر آؤ شہزاد۔۔“ وہ شہزاد کو بھی گھورتے ہوئے بولے تھے۔۔۔ وہ بھی چلتا ہوا آیا تھا انہوں نے شاہزیہ کو سینے سے ہٹایا اور اپنے دونوں ہاتھ پیچھے کرکے کھڑے ہو گئے ”تم دونوں خود کو سمجھتے کیا ہو ؟؟؟۔۔۔۔کیا سوچ کر اتنے بڑے فیصلے کرتے رہے ؟؟؟بولو۔۔۔۔۔ چپ کیوں ہو اب ؟؟“افتخار صاحب ڈانٹ رہے تھے تو شہزاد نے ان کی ڈانٹ پر نہیں ان کی آنکھوں کی نمی پر توجہ دی۔۔۔ جسے دیکھتے ہی وہ ان کے گلے لگ گیا۔۔۔۔شاہنزیب نے جب شہزاد کو گلے لگتے دیکھا تو وہ بھی اپنے بھائی کی طرح اپنے ڈیڈ سے چپک گیا۔۔۔۔
”سوری ڈیڈ۔۔۔۔۔ غلطی ہوگئی ہم سے۔۔۔۔“ شہزاد نے دونوں کی طرف سے معافی مانگی تھی۔۔۔۔
”ہٹو تم دونوں۔۔۔۔۔۔ ہر بار ایک ہی طریقے سے منا لیتے ہو“ یہ کہہ کر انھیں ہٹانے لگے۔۔۔۔۔افتخار صاحب کی بات سن سب مسکرانے لگے تھے۔۔۔۔۔۔
” آپ ہمارے دمات ہیں عاشر میاں۔۔۔۔اور اسی لیے ہم نے آپ کو بلایا تھا ۔۔۔آپ کو وہ عزت اور مرتبہ ضرور ملے گا جس کے آپ حقدار ہیں“ علی کے والد عاشر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے ۔۔۔شاہزیہ اپنی ماں کو سمجھا کر لے آئی تھی
”ماہنور میری بیٹی۔۔۔۔ میں نے تمھارے ساتھ بہت برا کیا ہے۔۔۔ مجھے معاف کر دو “ شمسہ بیگم نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی تو ماہ نور نے ان کے ہاتھ پکڑ لیٸے۔۔۔
” یہ کیا کر رہی ہیں چاچی جان آپ ۔۔۔۔آپ تو میری ماں جیسی ہیں ۔۔۔۔ میں بلکے آپ سے معافی مانگتی ہوں۔۔۔۔ میں نے کل آپ سے بہت بد تمیزی کی تھی “وہ روتے ہوئے الٹا معافی مانگنے لگی۔۔۔۔
”او۔۔۔۔۔ہو۔۔۔۔۔ معافی مانگنا بند کریں اور ایک دوسرے کے گلے ملیں “شاہزیہ نے اپنی ماں سے مسکراتے ہوئے کہا تو انہوں نے اس بار آگے بڑھ کر ماہ نور کو گلے لگا لیا
” آج سے میں واقعی تمھاری ماں بن کر دیکھاؤں گی اور یہ جو میرا بیٹا ہے ناں ۔۔۔۔۔ یہ بھی تیرا کیونکہ وہ ٹھیک کہہ رہا ہے محبت عمر سے نہیں ہوا کرتی ۔۔۔۔ماہنور مجھے سمجھ نہیں آرہی میں تم سے معافی مانگوں یا شکریہ ادا کروں تمہارا “وہ بڑے پیار سے ماہ نور کے گال پر ہاتھ سے سہلاتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔۔
” چاچی جان آپ کو دونوں کی ضرورت نہیں۔۔۔۔ آپ نے اتنے سالوں بعد مجھے اپنی بیٹی سمجھا میرے لیے یہی بہت ہے“ یہ کہہ کر ماہنور رونے لگی تھی پر اس بار آنسوں خوشی کے تھے۔۔۔۔
”شاہ ادھر آؤ۔۔۔“ انہوں نے خود اپنے بیٹے کو بلایا تھا ”یہ تمہاری امانت ۔۔۔۔آج سے یہ تمہارا ہے “شمسہ بیگم نے شاہنزیب کا ہاتھ ماہنور کے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔شاہنزیب نے ماہنور کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا تھا۔۔۔۔ باقی سب بہت خوش ہوئے تھے یہ دیکھ کر۔۔۔۔شاہنزیب محبت بھری نگاہ سے ماہنور کو دیکھنے لگا۔ ۔۔۔
شہزاد کی مایوں بڑی ہی دھوم دھام سے گھر کے گارڈن میں ہوئی۔۔۔۔ سعدیہ کی ماں نے اسے کامران کے متعلق ہر بات بتا دی جس کے بعد کامران کے لیے سعدیہ کے دل میں تھوڑی سی جگہ بن گئی تھی۔۔۔۔
******----------*******🌺
وہ کمرے میں داخل ہوا تو شاہنزیب نے فورا اپنی بیچ والی الماری بند کر دی۔۔۔” میں تمھارے واش روم یوس کر سکتا ہوں۔۔۔۔ میرے واش روم کا شاور خراب ہوگیا ہے“ شہزاد نے کہا تو شاہنزیب اثبات میں سر ہلانے لگا۔۔۔۔
شہزاد کے واش روم میں جاتے ہی شاہنزیب نے دوبارہ الماری کھولی
” میں تمہیں کیسے بتاؤں کہ کتنا پیار کرتا ہوں تم سے ۔۔“وہ ماہنور کی تصویر کو دیکھتے ہوئے اداس ہوکر شکوہ کر رہا تھا۔۔۔
”شاہ پانی کیوں نہیں آ رہا ؟؟؟“ شہزاد نے واش روم سے آواز لگاٸی تھی۔۔۔۔
” کیا پانی نہیں آرہا ؟؟؟۔۔۔۔“وہ تعجب سے ”لگتا ہے پانی ختم ہو گیا ہوگا ۔۔۔میں دیکھتا ہوں“ کہ کر الماری بند کرنے لگا
”شاہ جلدی کرٶ۔۔۔ میری آنکھوں پر صابن لگا ہوا ہے“ شہزاد کی آواز پھر سے آئی تھی ۔۔۔
”جی بھائی۔۔۔ جا رہا ہوں۔۔۔“یہ کہ کر وہ جلد بازی میں الماری لاک کیے بغیر ہی چلا گیا ۔۔۔
”ماہ نور جاؤ شاہ کی الماری سے وہ ساڑھی لے آؤ“ شمسہ بیگم صوفے پر گرتے ہوۓ بولیں۔۔۔
”ساڑھی ؟؟۔۔۔۔شاہ کی الماری سے ؟؟“ماہنور الجھ کر پوچھنے لگی۔۔۔
” ہاں۔۔۔وہ میں نے رکھ دی تھی صبح۔۔۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ وہ ساڑھی کے کورنر پر کڑھائی کروا دے تو اس نے کہا میں شام تک کروا دوں گا۔۔۔۔ اب میں سوچ رہی ہوں جب میں مارکیٹ جاہی رہی ہوں تو خود ہی کروالوں“ انہوں نے کہا تو ماہنور نے اثبات میں سر ہلا کر شاہنزیب کے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔۔
اس نے ساڑھی نیکالی اور بند کر کے جانے لگی پھر اچانک اس کی نظر بیچ والی الماری کے دروازے پر پڑی جو زندگی میں پہلی بار کھلا ہوا تھا ۔۔۔۔
ماہنور نے کونے والی الماری کا دروازہ اتنی زور سے بند کیا تھا کہ بیچ والا دروازہ دھمک سے کھل گیا تھا۔۔۔۔
”یہ کیسے کھلی ہوٸی ہے آج؟؟؟“ماہنور تعجب سے دیکھنے لگی۔۔۔۔الماری کا پورا دروزہ کھولا تو سب سے پہلے اس کی نگاہ ۔۔۔۔۔سب سے نیچے والے حصے میں رکھے ہوئے ٹیڈی بیئر پر گٸی۔۔۔۔” یہ تو میرا ہے ۔۔۔۔جو ڈیڈ لائے تھے میرے لیٸے۔۔ یہ شاہ کے پاس کیسے؟؟؟۔۔۔۔“یہ کہہ کر اس نے ساڑھی بیڈ پر رکھی اور ٹیڈی بیئر اٹھا کر دیکھنے لگی۔۔۔
” میری گڑیا ۔۔۔۔یہ بھی شاہ کے پاس تھی اور مجھے لگا کامران بھائی نے چھپائی ہے ۔۔۔۔۔میں کتنا لڑٸی تھی ان سے اس کے پیچھے “ماہنور گڑیا کو ہاتھ میں لے کر حیرت سے بولی۔۔۔۔
”میرا بریسلیٹ۔۔۔۔۔ میرا کیلکولیٹر۔۔۔۔۔میرا سیل۔۔۔میری چوڑیاں۔۔۔۔ میرے جولری “
وہ جتنا الماری کا سامان دیکھ رہی تھی اتنا حیرت کی غوطے کھاتی جا رہی تھی۔۔۔۔
اس الماری میں موجود ہر چیز شاہنزیب کے عشق کی داستان خود بیان کررہی تھی۔۔۔۔
ایک پورا فوٹو البم جو صرف اس کی تصویروں سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔دیکھ۔۔۔۔۔۔۔ وہ مسکرانے لگی ۔۔۔۔اس کی آنکھیں نم ہوگٸیں تھیں۔۔۔۔
” میری کتاب جو اس دن لائبریری سے غائب ہوگئی تھی۔۔۔شاہ کی تصویر جو اس رات میں دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔شاہ اسے بھی اٹھا لایا “ ماہنور مسرت بھرے لہجے میں ایک ایک چیز کو دیکھ کر بول رہی تھی۔۔۔
”میری جھمکی جو صباء بھابھی کی مایوں والے دن غاٸب ہوگٸی تھی۔۔۔“ماہنور حیرت سے اس جھمکی کو دیکھتے ہوۓ گویا ہوٸی۔۔۔۔۔
” موم بتی۔۔۔۔شاہ موم بتی تک اٹھا لایا تھا “ وہ حیرت سے مسکراتے ہوۓ ۔۔۔۔
”میری پونی ۔۔۔میرا کیچر “ وہ مسکراتے ہوئے ایک ایک چیز کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔
” بھائی پانی۔۔۔۔“ شاہنزیب کمرے میں اعلان کرتا ہوا داخل ہوا تھا پر جیسے ہی ماہنور پر نظر پڑی اور اپنی کھلی ہوئی الماری پر وہ سکتے کی کیفیت میں آ گیا ۔۔۔سمجھ نہیں سکا کے کیا کرۓ۔۔۔
”کب سے شاہ؟؟؟“ ماہنور حیرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے استفسار کرنے لگی۔۔۔۔
” جب سے تمہیں پازیب پہن کر ناچتے ہوئے دیکھا تھا “شاہنزیب نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا بولا رہا ہے۔۔۔
ماہنور سوال کر رہی تھی اور وہ بغیر سوچے سمجھے بس جو دل میں تھا آج پہلی بار بول رہا تھا۔۔۔۔
”کب ؟؟ “ ماہ نور تجسس سے پوچھنے لگی۔۔۔
”شاہزیہ آپا کی شادی پر“شاہنزیب نے جواب دیا تو ماہنور اٹھ کر اس کی جانب چلتی ہوٸی آٸی تھی ۔۔۔۔
”کتنا کرتے ہو ؟؟؟“ بڑے اشتیاق سے آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ پوچھنے لگی۔۔۔۔ماہنور کے اس سوال پر دیوانا خاموش ہو گیا کیونکہ اس سوال کا جواب نہ دماغ کے پاس تھا نہ دل کے۔۔۔۔۔
زندگی میں شاید سانسیں کم لیں تھیں اور محبت زیادہ کی تھی۔۔۔
کبھی حساب ہی نہ لگایا کہ کتنا چاھتا ہے اسے۔۔۔ بس اتنا جانتا تھا کہ ہر سانس پر اس کا نام ہے۔۔۔ ہر لمحہ اسی کی چاہت میں گزارا ہے
”کتنا کرتے ہو شاہ ؟؟؟“وہ پھر سے مزید قریب آکر پوچھنے لگی۔۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ کتنی محبت چھپاۓ بیٹھا ہے وہ اپنے دل میں اس کے لٸے ۔۔۔دیوانگی تو دیکھ ہی چکی تھی ۔۔۔۔۔بس اس کے منہ سے سننا چاہتی تھی۔۔۔”بولو ناں شاہ ۔۔۔۔کتنی محبت کرتے ہو ؟؟؟“ وہ اس کے خوبصورت چہرے پر اپنا نازک سہ ہاتھ رکھ کر بڑی امید بھری نظروں سے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔۔۔۔
” میں نہیں جانتا ۔۔۔۔بس اتنا جانتا ہوں بچپن سے ایک مرض میں مبتلا ہوں اور اس مرض کی دواء تم ہو“ شاہنزیب کی آنکھیں بھی نم تھیں۔۔۔اس کے الفاظ ۔۔۔۔ اس کے دل کی سچی ترجمانی تھے۔۔۔۔اس کے کہے ہر لفظ میں محبت ہی محبت جھلک رہی تھی۔۔۔۔ اس کی آنکھیں اس قدر محبت سے لبریز تھیں کہ ماہنور رونے لگی۔۔۔ شہزاد اسی وقت نہاء کر نکلا تھا۔۔۔
” مرض عشق دواء تم ہو ۔۔۔۔۔صرف تم“ شاہنزیب بڑی محبت اور دیوانگی سے اسے تکتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔شہزاد کی نظر بھی اس کھلی ہوئی الماری پر پڑھی تھی جس میں سارا سامان ماہنور کا تھا وہ بری طرح چونکا تھا۔۔۔۔
”ماہنور ۔۔۔ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟؟؟ ساڑھی لینے بھیجا تھا اس پر کڑھائی کرنے تھوڑی“ شمسہ بیگم ماہنور کو دیر ہوجانے کے سبب خود ہی چلی آئی تھیں اور اسے دیکھ کر کہنے لگیں۔۔۔۔ ماہنور نے انھیں دیکھتے ہی فوراً الماری کا دروازہ خود ہی بند کر دیا تھا۔۔۔
” چاچی بس میں لا ہی رہی تھی۔۔۔“ ماہنور کی آواز بھری بھری معلوم ہو رہی تھی۔۔۔۔
”تم رو رہی تھیں کیا ؟؟؟“وہ ابرو اچکاکر فکرمند ہوکر پوچھنے لگیں
” نہیں ۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔ و۔۔۔۔۔کچ۔۔۔۔ کچھ نہیں“ اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ چاچی کو کیا جواب دے اس لیے بغیر کچھ بولے ہی چلی گئی۔۔۔
” یہ ایسے کیوں چلی گئی“ وہ الجھ کر پوچھنے لگیں تھیں
” امی چھوڑیں ۔۔۔۔یہ لیں آپ کی ساڑھی“ شاہنزیب تو ابھی تک بت بنے کھڑا تھا۔۔۔۔ اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ اچانک کیا ہو گیا ہے۔۔۔ اس لیے شہزاد نے ساڑھی بیڈ سے اٹھا کر اپنی والدہ کی جانب بڑھا دی۔۔۔۔
” تم بھی یہاں موجود ہو؟؟؟“ وہ حیرت سے بولیں
” ہاں میں نہاء رہا تھا ۔۔۔شاہ کے واش روم میں “
” شاہ تم ٹھیک تو ہو؟؟“ شھزاد نے اپنی والدہ کے جانے کے بعد ۔۔۔۔۔ جب شاہنزیب کو ابھی تک اسی کیفیت میں دیکھا تو اس کا بازو جھنجھوڑتے ہوئے پوچھنے لگا۔۔۔۔
” بھائی میں نے گناہ کیا ہے۔۔۔ مجھے شارق کو اغواہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔۔ میں نے کیوں نہیں سوچا کہ بڑے ابو پر کیا گزرے گی ۔۔۔۔میری وجہ سے وہ آج اس دنیا میں نہیں ہیں۔۔۔۔۔میں نے ماہنوں کو یتیم بنایا ہے۔۔۔ میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں بھائی۔۔۔۔ پر یہ بتانے کی ہمت نہیں ہے مجھ میں۔۔۔۔ کے اس کا سب کچھ چھین لینے والا اور کوئی نہیں ۔۔۔۔۔۔میں تھا ۔۔۔۔میں اسے پا کر کھونے سے ڈرتا ہوں۔۔۔ آج میری زندگی اس کے سامنے کھلی کتاب بن گئی تو اب میں مزید خوف میں مبتلا ہوگیا ہوں۔۔۔ میں سمجھ نہیں پاتا کہ اسے کیسے بتاؤں ۔۔۔۔۔۔ اپنا کیا ہوا گناہ ۔۔۔۔اگر میرا کارنامہ جاننے کے بعد وہ مجھے صرف سزا دینے کے لیے مجھ سے دور چلی گئی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں مانتا ہوں مجھے سزا ملنی چاہیے۔۔۔۔ پر سزا میں اور سزائے موت میں فرق ہوا کرتا ہے۔۔۔۔۔ اس کی ذرا سی بے رخی بھی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔اسے ہمیشہ کے لٸے کھو دینا تو میرے لیے موت کے برابر ہے بھائی۔۔۔۔ میں اس کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ میں اسے کھونا نہیں چاہتا“ شاہنزیب آج پہلی بار زندگی میں ایک کھلی ہوٸی کتاب کی مانند تھا ۔۔
جس کا محبوب جان گیا تھا کہ وہ اس کے پیچھے کتنا دیوانہ ہے اور سزا کا حق بھی محبوب کے پاس تھا
وہ جو چاہے سزا دے سکتی تھی
اس لیے شاہنزیب آج اور زیادہ فکر مند اور رنج میں ڈوب گیا تھا
اسے خوف لاحق تھا کہ اب اس کی سزا کہیں ماہنور کی دوری کی صورت میں نہ ملے۔۔۔۔
شہزاد کے سینے سے لگ کر اپنا حال بیان کر رہا تھا ۔۔۔شاہنزیب کی آواز اس کا حال بیان کرنے کے لیے کافی تھی۔۔۔
وہ جانتا تھا کہ شاہنزیب جھوٹ نہیں بول رہا۔۔۔۔وہ واقعی ڈر رہا ہے ماہ نور کی جدائی سے ۔۔۔۔شہزاد نے شاہنزیب کو اپنے سینے سے لگے رہنے دیا
ماہنور اپنے کمرے میں آ کر سیدھے ہو کر بیڈ پر لیٹ گئی۔۔۔۔۔ اسے ابھی تک اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آرہا تھا ۔۔۔۔۔شاہنزیب کے ساتھ گزارا ایک ایک لمحہ اس کے سامنے تصویر کی طرح گھوم رہا تھا۔۔۔۔۔
ماہنور کے چہرے سے آج مسرت کے جام بٹ رہے تھے۔۔۔وہ مسکرانے لگی تھی ۔۔۔۔خوش ہو رہی تھی۔۔۔دو تین لمحے بعد مرر کے سامنے کھڑی ہو گئی۔۔۔” کیا واقعی میں اتنی حسین ہوں کہ وہ مجھے بچپن سے چاہتا ہے ۔۔۔۔کوئی کسی کو اتنا کیسے چاہ سکتا ہے؟؟؟۔۔۔۔۔۔ پر وہ چاہتا ہے اور وہ بھی صرف مجھے یعنی وہ جو گانا گاتا تھا وہ صرف میرے لٸے تھا۔۔۔“وہ خود کی حسن پر اترا رہی تھی۔۔ شاہنزیب کی محبت بھری نگاہ یاد آئی تو خود سے ہی شرمانے لگی ۔۔۔۔اپنے دونوں ہاتھ چہرے پر رکھ کر ”شاہ مجھ سے محبت کرتا ہے صرف اور صرف مجھ سے۔۔۔۔۔ کوئی ترس کھا کر اس نے شادی نہیں کی تھی۔۔۔۔۔ وہ تو دیوانہ ہے میرا“ یہ کہہ کر اپنی خوش قسمتی پر اترا رہی تھی۔۔۔
******----------*******🌺
وہ کمرے میں داخل ہوئی دادو کے تو کامران کو نماز پڑھتا دیکھ چُونکی تھی” کامران بھائی اور نماز “ماہ نور اسے دیکھ کر حیرت سے بولی تھی۔۔۔ وہ بھاگتی ہوئی کچن کی جانب آٸی۔۔۔ساری خواتین وہاں موجود تھیں۔۔۔کوئی بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔کوئی کھانا پکا رہا تھا ۔۔۔۔کوئی باتوں میں مصروف تھا ۔۔۔۔
”اسماء ۔۔۔۔۔کامران بھائی نماز پڑھ رہے ہیں۔۔۔“ماہنور نے اسماء کو دیکھ یہ حیران کن خبر دی تو سب ماہنور کو حیرت سے دیکھنے لگے۔۔۔۔
” پاگل ہو گئی ہو کیا ؟؟؟۔۔۔۔کامران اور نماز۔۔۔۔ وہ سال میں صرف دو نمازیں ادا کرتا ہے وہ بھی عید کی۔۔۔۔ وہ آج کیسے نماز پڑھ سکتا ہے؟؟“ اسماء نے حیرت سے کہا تھا اسے ماہنور کی بات پر ذرا سہ بھی یقین نہیں آیا ۔۔۔
”میں سچ بول رہی ہوں۔۔۔ چاہو تو خود جا کر دیکھ لو“ ماہنور کے آفر کرتے ہی ساری خواتین آٹھواں عجوبہ یعنی کامران کو نماز پڑھتا دیکھنے چل پڑیں
اسما۔۔۔۔۔ رومیساء۔۔۔۔ سعدیہ ۔۔۔۔۔بھابھی ۔۔۔۔۔ثانیہ۔۔۔۔۔ شاہزیہ اور خود ماہنور اسے نماز پڑھتا ہوا دیکھنے گئے۔۔
” یہ تو واقعی نماز پڑھ رہا ہے“ رومیساء کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا تھا۔۔۔ اسے نماز پڑھتا دیکھ۔۔۔۔
” اسے بخار تو نہیں ہوگیا کہیں؟؟؟“ بھابھی تعجب کی وجہ سے بولیں
”پر یہ تو بخار میں بھی نماز نہیں پڑھتے“ ماہنور فورا ہی بھابھی کی بات کا جواب دے اٹھی تھی۔۔۔۔
” کیا؟؟؟۔۔۔ ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں آپ لوگ مجھے ؟؟؟“کامران سلام پھیرنے کے بعد انہیں اپنے آپ کو گھورتا ہوا دیکھ ابرو اچکا کر استفسار کرنے لگا۔۔۔
”تم نماز؟؟؟۔۔۔۔۔۔ کب سے ؟؟؟“۔۔۔ثانیہ حیرانی سے پوچھنے لگی
” مسلمان ہوں میں بھی “وہ سرسری سہ انھیں دیکھ کر جتاتے ہوئے بولا
”وہ تو پیدائشی ہو ۔۔۔۔پر نماز ؟؟؟“۔۔۔۔ثانیہ نے پھر حیرت سے پوچھا
”کیوں ؟؟؟ میں اچھا نہیں لگ رہا آپ لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے۔۔۔۔۔ اب جائیں مجھے نماز پڑھنے دیں “ اس نے جھنجھلاتے ہوئے کہا تو سب اس کے گھورنے کی وجہ سے مسکراتے ہوئے چلے گئے سوائے سعدیہ کے
” کیا ؟؟؟۔۔۔۔تمہارے لئے نہیں پڑھ رہا ۔۔۔۔اگر دعا میں مانگنا بھی ہوگا تو تمہیں نہیں مانگوں گا تمہاری خوشیاں مانگوں گا “یہ کہہ کر واپس نیت باندھنے کے لئے کھڑا ہو گیا۔۔۔۔
”میں نے تو کچھ کہا ہی نہیں“ سعدیہ کہہ کر بے رخی سے اپنے کندھے اچکاتے ہوئے واپس آ گئی تھی۔۔۔۔
******----------*********🌺
”ارے کیوں ناں ہم سب پیلی ساڑھیاں پہنیں آج “بھابھی نے آئیڈیا دیا تو سب فورا مان گئے ۔۔۔۔۔
آج مہندی تھی صبا کی۔۔۔۔۔
”پر اس کے لٸے تو بازار جانا پڑے گا “اسماء تھکے تھکے انداز میں بولی۔۔۔۔۔
”تو کیا ہوگیا؟؟۔۔۔۔۔ چلتے ہیں بڑا مزہ آئے گا ۔۔۔۔وہاں ریشم اور صبا کو فون کرکے بتا دو کہ وہ بھی پیلی ساڑھیاں پہنیں“ رومیسا آپا نے کہا
”پر مجھے تو ساڑھی پہننا نہیں آتا“ ثانیہ فکر مند ہوتے ہوئے بولی
” کوئی بات نہیں راحیل پاجی کو آتا ہے۔۔۔۔۔۔ کیوں مانو ؟؟“اسماء نے ہستے ہوئے ماہنور کے ہاتھ پر تالی ماری تھی۔۔۔
”اُووووو۔۔۔۔۔ہہہہہہہہہوووووووو۔۔۔۔۔۔۔پورا رومینٹنک سین ہوگا ۔۔۔۔۔۔ جیسا ڈراموں میں ہوتا ہے۔۔۔۔ راحیل پاجی ساڑھی باندھیں گے ۔۔۔۔ثانیہ باجی شرماٸیں گی۔۔۔اللہ کوٸی آجاۓ گا راحیل “ ماہنور نے کھڑے ہوکر ثانیہ کی نقل اتارتے ہوئے کہا تھا تھوڑا گھبرا ہوۓ انداز میں۔۔۔۔۔۔۔۔ جس پر سب ہنسنے لگے
”مانو کی بچی“ ثانیہ نے اسے کوشن مارتے ہوئے دانت پیسے تھے۔۔۔۔۔
” چلو پھر مارکیٹ چلیں “شاہزیہ بولی
”سب جائیں گے تو پھر گھر کے کام کون کرے گا۔۔۔۔۔ ایک کام کرتے ہیں ثانیہ ۔۔۔۔۔۔میں اور اسماء مارکیٹ چلے جاتے ہیں اور آپ سب گھر کے کام سنبھالو“ بھابھی نے کہا تو سب راضی ہوگئے۔۔۔۔
******----------********🌺
” دادو ۔۔۔۔ولید مجھے آپ دونوں سے ضروری بات کرنی تھی اسی لئے اپنے کمرے میں لے کر آیا ہوں“ شہزاد نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا تھا
”کوئی اہم بات ہے ؟؟“دادو نےتجسس سے پوچھا
”ہاں۔۔۔۔بھت اہم “ شہزاد کہ کر خاموش ہو گیا تھا
” بتاؤ کیا؟؟؟“۔۔۔۔۔ولید بےصبرا ہوکر بولا تھا
” دیکھیں ۔۔۔شاہنزیب ۔۔۔۔ماہنور سے کتنی محبت کرتا ہے یہ بات ہم تینوں بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔۔۔۔ میں نے سوچا ہے کہ“ شہزاد کہہ کر خاموش ہوا تھا ۔۔۔۔۔ایک لمبی سانس منہ سے خارج کرتے ہوۓ
”کیا سوچا ہے ؟؟؟“ولید نے سیدھا بیٹھتے ہوئے پوچھا تھا۔۔۔۔
”یہی کے ہم سب پرانی باتیں بھول جائیں ۔۔۔۔۔میری نظر میں شاہنزیب ماہنور سے محبت کرتا ہے
اور ماہنور شاہنزیب سے
بڑے ابو بھی ماہنور کو خوش دیکھنا چاہتے تھے اور ماہنور کی خوشی شاہزیب کے ساتھ رہنے میں ہے۔۔۔۔۔کیا ملے گا ہمیں ساری باتیں ماہنور کو بتا کر۔۔۔۔۔ سوائے اس کے کہ وہ خود بھی تکلیف میں مبتلا ہوگی اور شاہنزیب کو بھی کردے گی ۔۔۔۔۔بہتر یہی ہے جو جیسا ہے ویسا ہی رھنے دیا جاۓ۔۔۔۔۔ کیا مل جائے گا ماہ نور کو یہ جان کر کہ شاہنزیب نے شارق کو اغوا کیا تھا ۔۔۔۔۔کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔
وہ تو خود بھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔ بس شاہ کا طریقہ غلط تھا پر ارادہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کبھی غلط نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دادو پلیز ۔۔۔۔میں آپ سے شاہ کی طرف سے معافی مانگتا ہوں ۔۔۔۔۔۔اسے معاف کر دیں۔۔۔۔۔“ شہزاد نے جب التجاٸیہ انداز میں کہا۔۔
تو ولید بے انتہا خوش ہوگیا ۔۔۔۔”مجھے منظور ہے۔۔۔۔میں زندگی بھر کے لئے اپنا منہ بند رکھنے کے لیے تیار ہوں“ولید مسرت بھرے لہجے میں گویا ہوا۔۔۔۔
جبکہ دادو گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں” کیا ہوا دادو؟؟؟۔۔۔۔ آپ کو نہیں لگ رہا کہ ہماری خاموشی میں ہی شاہ اور ماہنور کی خوشی ہے۔؟؟“شھزاد نے پرامید نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا
” پر یہ ماہ نور کو اندھیرے میں رکھنا ہوگا۔۔۔۔ جو غلط ہے“ دادو نے اختلاف کیا تھا شہزاد کی بات سے۔۔۔۔
” بات اب صحیح غلط کی نہیں رہی ۔۔۔۔۔اب بات زندگی کو آباد ۔۔۔۔۔۔۔یا ۔۔۔۔۔۔۔برباد کرنے کی ہے ۔۔۔۔آپ کو کیا لگتا ہے جب ماہنور سب جان جائے گی تو خوش ہوگی۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔ہرگز نہیں۔۔۔۔ ماہنور کی خوشی اندھیرے میں ہی ہے۔۔۔۔۔ اسے خوابوں کی دنیا میں رھنے دیں ۔۔۔وہ پہلے ہی بہت کچھ برداشت کر چکی ہے۔۔۔۔ اب اچھا یہی ہے کے وہ کچھ نہ جانے“ شہزاد نے انہیں سمجھایا تھا
” نہیں۔۔۔۔ تم صرف اپنے بھائی کی طرف جھک رہے ہو“ دادو کہتے ہوئے کھڑی ہو گئیں تھیں۔۔۔۔۔” شاہ نے کوئی احسان نہیں کیا ہے ماہنور کو اپنا کر۔۔۔۔۔ بلکہ وہی مجرم ہے اس کا۔۔۔۔۔ اسی کی محبت نما دشمنی آج ماہنور کو یہ دن دیکھا رہی ہے ۔۔۔۔۔“دادو نے سخت لہجے میں کہا۔۔۔۔
” ٹھیک ہے آپ بتادیں ماہنور کو۔۔۔۔ جائیں۔۔۔۔۔ کیونکہ میں اب شاہنزیب پر اس معاملے میں سختی نہیں کرنے والا۔۔۔ مجھے یقین ہے ولید بھی میرے ساتھ ہے۔۔۔۔ دادو میری بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔۔۔۔ ماہنور میری بہن ہے اور ایک بھائی ہونے کے ناطے بھی میں یہی چاہوں گا کے اس کا گھر بسا رہے۔۔۔۔۔۔پلیز اس بات کو سمجھیں۔۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کا یہ صحیح غلط کا فیصلہ ۔۔۔۔۔۔شاہنزیب کی جان لے لے۔۔۔۔۔۔کیونکے میں نے خود اس کی دیوانگی دیکھی ہے۔۔۔۔اس کا جنون دیکھا ہے ۔۔۔۔اگر وہ کہہ رہا ہے کہ وہ ماہنور کی دوری اور نفرت نہیں سہ سکتا ۔۔۔۔تو اس کا مطلب ہے واقعی نہیں سہ سکتا ۔۔۔۔میں نے خود اسے ماہنور کو کہتے سنا ہے کہ {مرض عشق کی دواء تم ہو}۔۔۔۔۔۔۔شاہ جی نہیں سکتا ماہنور کے بغیر۔۔۔۔ اگر وہ مر گیا تو گھر میں ایک نہیں دو جنازے اٹھیں گے کیونکہ یہ تو آپ بھی جانتی ہیں ۔۔۔۔جی تو ماہنور بھی نہیں سکتی شاہ کے بغیر۔۔۔۔ شاہنزیب کے سر تو ایک قتل کا گناہ ہے ۔۔۔۔ آپ کے سر پر تو دو ہوں گے “شہزاد کا کہنا تھا کہ دادو اسے حیرت سے دیکھنے لگیں ۔۔۔آج وہ شہزاد نہیں دوسرا شاہنزیب لگ رہا تھا ۔۔۔۔یہ کہہ کر وہ چلا گیا ۔۔۔۔۔
”دادو شہزاد ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔۔ اس سچ کا کیا فائدہ جو دو میاں بیوی کو الگ کر دے۔۔۔۔ اس کا چھپا رہنا ہی بہتر ہے“ولید اپنی رائے دے کر چلا گیا تھا۔۔۔
******-----****🌺
صباء کا پورا گھر آج دلہن کی طرح سجا ہوا تھا... ان کے صحن میں ساری عورتیں جمع تھیں اور صرف گھر کے مرد تقریب میں شامل ہوئے تھے ۔۔۔”ماہنور مہندی لگوالو “شاہزیہ آپا بولی تھیں۔۔۔۔
”آپ لگوالیں۔۔۔میں ابھی تھوڑی دیر میں لگواتی ہوں“ وہ شاہنزیب کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔
” سعدیہ آنی“ رباب کہ رہی تھی اس کا دوپٹہ پکڑ کر۔۔۔۔
” کیا ہوا بچہ؟؟“ سعدیہ اس کے چہرے پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے استفسار کرنے لگی ۔۔۔
”یہ لیں“
” یہ کس نے دیا ؟؟“
”باہر کھڑے ہوئے انکل نے اور کہا آپ کو دوں “
”اچھا “رباب سعدیہ کو ایک کاغذ دے کر گئی تھی ۔۔۔اس نے کھولا تو اس میں لکھا تھا( باہر آکر ملو سعدیہ)اسے لگا یہ کامران نے بھیجا ہے کیونکہ وہ کافی دیر پہلے باہر گیا تھا اس کے سامنے اور ابھی تک واپس نہیں آیا تھا ۔۔۔۔”رباب کامران کو انکل کیوں بولے گی؟؟؟ “وہ الجھ کر خودہی سے پوچھنے لگی۔۔۔۔۔” پر کامران کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے“ یہ سوچ کر وہ باہر چلی آئی تھی۔۔۔۔ وہاں کوئی شخص موجود نہ تھا ۔۔۔۔صرف گاڑیاں کھڑٸیں ہوئیں تھیں ۔۔۔وہ ادھر ادھر نظر دوڑانے لگی
”ہیلو“ گاڑی کے پیچھے سے فرحان نکل کر بولا تھا ۔۔۔۔سعدیہ اسے پہچانی نہیں اس لیے انجانی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔
” آپ نے مجھے بلایا تھا؟؟“
”ہاں۔۔۔ میں نے بلایا تھا “فرحان کہ کر سعدیہ کا سر سے پاؤں تک جائزہ لینے لگا
”سوری ۔۔۔میں آپ کو پہچانی نہیں“ سعدیہ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
”میں فرحان “اس نے کہ کر ہاتھ بڑھایا تھا ملانے کے لئے ۔۔۔
”کون ؟؟؟۔۔۔“وہ تعجب سے پوچھنے لگی ۔۔۔
”فرحان ۔۔۔۔بتایا تو“ وہ اپنے نام پر کافی زور ڈال رہا تھا ۔۔۔یہ کہتے ہوۓ سعدیہ کو دیکھنے لگا جو پیلی ساڑھی میں کھلتے گلاب کی مانند لگ رہی تھی ۔۔۔
سعدیہ کو اپنا گولی لگنا یاد آگیا تھا ۔۔۔وہ گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹی تھی اس سے۔۔۔” تم نے مجھے کیوں بلایا ہے؟؟؟“ وہ گھبراتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔۔
” ایک ضروری بات کرنے ۔۔۔تم ڈر کیوں رہی ہو مجھ سے۔۔۔ میں کھا تھوڑی جاؤں گا تمہیں “فرحان یہ کہتا ہوا اس کے قریب آنے لگا ۔۔۔۔سعدیہ بالکل وہاں لگی گاڑی سے چپک کر کھڑی ہو گئی تھی۔۔۔۔۔
” مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی ۔۔۔۔۔ دور ہٹو مجھ سے“سعدیہ ڈرۓ ہوئے لہجے میں گویا ہوئی
”میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں سعدیہ ۔۔۔مجھے تم بہت اچھی لگتی ہو ۔۔۔جب سے دیکھا ہے پاگل ہوگیا ہوں تم بہت خوبصورت ہو ۔۔۔۔۔وہ شاہنزیب اس قابل نہیں تھا کہ تم جیسی حسین لڑکی اسے ملے“ یہ کہتے ہوۓ سعدیہ کے خوبصورت رخسار کی جانب ہاتھ بڑھانے لگا۔۔۔
” ڈونٹ ٹچ می“ یہ کیا کر اس نے زور سے فرحان کا ہاتھ جھٹک دیا۔۔۔۔
”اف۔۔۔مرچی ہو یار تم۔۔۔۔۔“ وہ سعدیہ کو دیکھ ٹھنڈی آہیں بھر۔۔۔ کہنے لگا ” اب تو اور زیادہ پاگل ہو رہا ہوں میں تم سے شادی کے لیے “فرحان سعدیہ کے اس طرح جھڑک دینے پر بجائے دور ہٹنے کے۔۔۔ اس کے مزید قریب آنے لگا۔۔۔۔۔
” اپنی لمٹ میں رھو ۔۔۔سمجھے“ یہ کہہ کر اپنے ہاتھوں سے اس کے سینے پر زور سے ہاتھ مارتے ہوۓ خود سے دور دھکیلا۔۔۔۔
”سنو“ فرحان نے تیزی سے ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا۔۔۔” اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے اور میرا بھی۔۔۔ اس شاہنزیب نے تم جیسی حسین لڑکی کو دو سال بڑی عمر کی لڑکی کی خاطر چھوڑ دیا۔۔۔ تم چاہو تو اس سے بدلہ لے سکتی ہو۔۔۔ مجھ سے شادی کر کے۔۔۔۔۔ وہ میرا سب سے بڑا دشمن ہے ۔۔۔تم اگر مجھ سے شادی کرو گی تو جل کر خاک ہو جائے گا وہ۔۔۔۔ تمھیں بھی تو بدلہ لینا ہے اس سے۔۔۔۔ سوچ لو ۔۔۔ہم دونوں کی شادی دیکھ تڑپ اٹھے گا وہ حرام زادہ۔۔۔۔اس طرح تمہارا بھی بدلہ پورا ہو جائے گا اور میرا بھی ۔۔“ فرحان نے جب اپنے ناپاک ارادے سعدیہ کو بتائے تو سعدیہ فورا اس سے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔
”مجھے شاہنزیب اور ماہنور کو جلانے میں یا بدلا لینے میں کوٸی انٹرس نہیں “سعدیہ کے ماہنور کا نام لینے پر فرحان کے کان کھڑے ہوگٸے۔۔۔اسے اب علم ہوا تھا شاہنزیب کی واٸف کا نام ماہنور ہے۔۔۔۔
” پر مجھے ہے اور میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں“ یہ کہہ کر اسے اپنی طرف کھینچنے لگا۔۔۔
”چھوڑو میرا ہاتھ۔۔۔ میں شور مچا دوں گی ورنہ “
”مچادو ۔۔۔ پر پہلے میری بات سنو غور سے“ یہ کہہ کر اس نے جب سعدیہ کا ہاتھ مزید زور سے کھینچا تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی طرف کھینچی چلی آئی
”کوئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔مدد کروں"۔۔۔۔۔۔۔ سعدیہ زور زور سے چیختے ہوئے مدد کی پکار لگا رہی تھی ۔۔۔۔۔”چھوڑ مجھے“ اس نے اپنی پوری جان لگاتے ہوئے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی کیونکہ گھر کے اندر گانے زور دار آواز میں چل رہے تھے۔۔۔۔۔ اس لٸیے سعدیہ کی مدد کی پکار کا لوگوں تک پہنچنا بہت مشکل تھا۔۔۔۔۔
” چپ بالکل چپ۔۔۔۔۔۔ بیٹھو گاڑی میں “فرحان نے اپنی گاڑی کا دروازہ کھول کر بولا تھا ۔۔۔
”میرا ہاتھ چھوڑو۔۔۔ میں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جا رہی“ سعدیہ نے خود کو اس ظالم سے چھوڑانے کے لٸے۔۔۔۔۔ زور سے اس کے ہاتھ پر کاٹ لیا۔۔۔۔
”آہ“ جیسے ہی سعدیہ نے کاٹا اس نے فورا چیختے ہوۓ ہاتھ چھوڑ دیا۔۔۔۔اس نے تیزی سے اگلے ہی لمحے سعدیہ کی ساڑھی کا پلو پکڑ لیا۔۔۔۔ سعدیہ بھاگتی پر اس کا پلو پکڑ لینے کی وجہ سے۔۔۔۔ اپنا پلو جو کندھے تک تھا اسے پکڑ کر کھڑی ہوگئی۔۔۔۔
”پلو ۔۔۔۔ چھوڑو میری ساڑھی کا“ سعدیہ خوف میں مبتلا ہوگٸی تھی۔۔۔۔ وہ شیطان کی طرح ہنس رہا تھا۔۔۔
”آہ“وہ ہنس ہی رہا تھا ابھی کے اچانک اس کے کندھے پر پیچھے سے کسی نے ہاتھ رکھا ۔۔۔وہ موڑا تو اس کے منہ پر زود دار مکا کامران نے رسید کیا تھا۔۔۔ وہ زمین پر جا کر منہ کے بل گر گیا۔۔۔۔سعدیہ کی ساڑھی کا پلو بھی اب اس کےہاتھ سے چھوٹ گیا تھا۔۔۔
” تو نے مجھے مارا؟؟؟“ فرحان اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے غصے سے بولا۔
” ابھی مارا نہیں ہے صرف ٹیلر دیکھایا ہے مجھے امید ہے پوری فلم دیکھنے کی تاب تجھ میں نہیں ہو گی“ اس کا کالر پکڑ کر گھورتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔
”تیری تو “ یہ کہ کر فرحان نے جوابی کارروائی میں اسے مارا تھا ۔۔۔۔کامران کی ناک اور ہونٹوں سے خون نیکل آیا تھا اس مار پیٹ میں۔۔۔۔جبکے فرحان کو اس نے لہولہان کر ڈالا تھا۔۔۔۔
” اگر آئیندہ سعدیہ کے اردگرد بھی نظر آیا تو جان سے مار دوں گا “یہ کہہ کر اسے زمین پر پڑا چھوڑ سعدیہ کا ہاتھ تھام کر اسی کے سامنے سے گھر تک لے آیا تھا۔۔۔۔
” چھوڑو میرا ہاتھ ۔۔۔میری نظر میں تم بھی اس فرحان سے کم نہیں ہو ۔۔۔۔وہ بھی شاہنزیب ماہنور کے لئے مجھے استعمال کرنا چاہتا ہے اور تم بھی“ یہ کہہ کر سعدیہ ۔۔۔۔ہاتھ چھڑاکر کدورت بھری نگاہ ۔۔۔۔کامران پر ڈالتے ہوئے جانے لگی۔۔۔۔۔
” جی نہیں۔۔۔۔ مجھ میں اور اس میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔۔۔۔وہ الگ بات ہے تم دیکھنا نہیں چاہتیں ۔۔۔میں نے مانا کہ تم سے دوستی اس نیت سے کرنے آیا تھا کہ تم شاہنزیب اور ماہنور سے دور رکھ سکوں۔۔۔۔لیکن پھر بھی یقین مانو میں اپنا کمرہ تمھیں نہیں دینے والا تھا ۔۔۔۔ کیونکے اپنی چیزیں شیٸر کرنے کی عادت مجھے بچپن سے نہیں ہے۔۔۔۔ چاہے تو جا کر رومیساء آپا ۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔۔اسماء سے پوچھ لو میں تمہیں کمرے سے نیکالنے ہی آرہا تھا ۔۔۔۔۔۔پر نہ جانے کیا ہوگیا مجھے تمھیں نماز پڑھتا دیکھ۔۔۔۔ دل ہار بیٹھا تھا میں۔۔۔۔ نہیں جانتا کیوں اتنی اچھی لگتی ہو تم مجھے ۔۔۔۔میں صرف اتنا علم رکھتا ہوں میں شاہنزیب ماہنور سے تمھیں دور نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔ بس میں تو تمھیں اپنے قریب کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔اگر صرف ڈرامہ کر رہا ہوتا ناں۔۔۔۔ تو تمہارے والدین کے سامنے کبھی بھی اپنی محبت کا کھلا اظہار نہ کرتا ۔۔۔“ کامران نے سعدیہ کا بازو پکڑ کر اسے سائیڈ میں لے جا کر ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے چہرے پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوۓ بڑے پیار سے اپنی محبت سمجھانے کی دوبارہ کوشش کی تھی۔۔۔۔ ”تمہاری مرضی ہے اب ۔۔۔۔میں زندگی بھر تمہارا منتظر نہیں رہ سکتا۔۔۔۔ اب تمہاری مرضی ۔۔۔۔۔چاہے تو زندگی بھر شاہ کے اردگرد اداس ہوکر گھومتی رہو یا پھر اس چاھنے والے کا ہاتھ تھام لو۔۔۔۔ میں انتظار کروں گا تمہارے جواب کا“ یہ کہہ کر جانے لگا تھا اس کی باتوں میں کوئی جادو ہو سیدھے دل پر اثر کر گئیں تھیں سعدیہ کے۔۔۔۔
”روکو“ سعدیہ نے پیچھے سے آواز لگا کر روکا تھا ۔۔۔
”وہ خون نکل رہا ہے تمہاری ناک سے ۔۔۔ اندر ایسے جاؤگے تو سب سوال کریں گے۔۔۔۔ یہاں بیٹھ جاؤ پہلے میں صاف کر دیتی ہوں “اس نے کہا تو وہ سننے کے باوجود ان سنی کرکے جانے لگا ۔۔۔۔سعدیہ نے تیز قدم بڑھاتے ہوئے آ کر اس کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔۔” سنا نہیں تم نے پہلے خون صاف کرالو “اس بار سعدیہ نے تھوڑا حق جتاتے ہوئے کہا۔۔۔
تو کامران اسے شکوے بھری نظروں سے دیکھنے لگا ”یہ دل تم ہر وقت۔۔۔۔ ہر لمحہ تڑپاتی ہو وہ نظر نہیں آتا تمھیں “وہ دل ہی دل کہ رہا تھا
”بیٹھ جاؤ “سعدیہ نے کہا
”فرش پر بیٹھوں کیا؟؟؟“ کامران جھنجھلا کر کہنے لگا
”نہیں۔۔۔۔۔ گارڈن میں چل کر بیٹھتے ہیں“ اس کی آواز میں تھوڑی لچک آ گئی تھی
”چلو“ اس کے ساتھ ساتھ وہ گارڈن کے بینچ کے پاس جو پانی کا فوارا لگا ہوا تھا اس کی دیوار پر کامران چڑھ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ فوارے سے ہلکی ہلکی بوندیں ان دونوں پر آ رہی تھیں۔۔۔ہوا بھی ٹھنڈی ٹھنڈی چل رہی تھی۔۔۔۔”کرو اب “وہ اسے دیکھ کر کہنے لگا
” کس سے کروں؟؟؟۔۔۔۔ میرے پاس کوئی کپڑا نہیں ہے“سعدیہ پریشان ہوتے ہوئے بولی۔۔۔
” یہ لو “وہ اپنا رومال اسے دیتے ہوئے بولا۔۔۔۔
سعدیہ اس کے ہونٹوں سے نیکلنے والے خون کو صاف کرنے نزدیک آٸی تو کامران کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔کامران سو سو جان واری ہوتے ہوۓ اسے تکنے لگا۔۔۔اس کی نگاہوں کی تپش سعدیہ اپنے چہرے پر محسوس کرپارہی تھی۔۔۔اس نے ہلکا سہ کامران کی آنکھوں کی جانب دیکھا تو نروس ہوگٸی۔۔۔ایک دو لمحوں کے لٸے تو کامران کی محبت بھری نگاہوں نے سعدیہ کو اپنی جانب ماٸل کرلیا۔۔۔اس کا ہاتھ خون صاف کرتے کرتے رک گیا تھا۔۔۔۔۔”ایسے مت دیکھو ۔۔۔بڑی مشکل سے کنڑول کر رکھا ہے میں نے اپنی فیلنگز کو۔۔۔۔پھر مجھ سے مت کہنا اگر اٹھا کر لے جاٶں۔۔۔اور زبردستی نکاح کرلوں تو “کامران نے سعدیہ کے چہرے پر آتی ہوٸی لٹ کو کانوں کے پیچھے کرتے ہوۓ ۔۔۔شوخ نگاہوں سے کہا۔۔۔۔
”کامران سدھر جاؤ “سعدیہ نے اس کی محبت سے لبریز جذبات سننے کے باوجود اگنور کرتے ہوۓ اس کے کندھے پر ہلکے سے دھپ لگاتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔اسنے خون صاف کیا پھر کامران کو رومال واپس کرنے لگی۔۔۔۔
”میں کیا کروں گا اس گندے رومال کا ؟؟؟۔۔۔۔۔ پھینک دو“ یہ کہ کر فوارے کی جو دیوار تھی اس سے اتر کر جانے لگا۔۔۔ پہلے سعدیہ کے دل میں آیا کہ پھینک دے پھر نہ جانے دل میں کیا سمائی اور کیا عجیب احساس دل میں جاگا اس نے رومال نہ پھینکا ۔۔۔
” کہاں چلی گئیں تھیں تم ؟؟؟“ سعدیہ آئی تو شاہزیہ فکر مند ہو کر پوچھنے لگی۔۔۔
” وہ۔۔۔۔۔ آپا۔۔۔۔۔وہ “سعدیہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا بہانہ بنائے ۔۔۔۔
”اچھا یہ باتیں چھوڑو مہندی لگوالو “ انہوں نے کہا اور خود جا کر صباء کے پاس بیٹھ گئیں۔۔۔۔
”کس کا نام لکھوں ؟؟؟؟“مہندی والی نے پوچھا تو ماہنور دروازے کو تکنے لگی۔۔۔ انتظار کر کر کے تھک گئی تھی وہ۔۔۔۔ نا امید ہو گئی تھی کہ اب شاہنزیب آئے گا ۔۔۔
”شاہنزیب “ اس نے کہا تو مہندی والی نے اس کی ہتھیلی پر لکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔اس کی پوری مہندی لگ چکی تھی ”نہیں آیا وہ۔۔۔۔۔۔۔ اب تو اتنی دیر ہوگئی ہے ۔۔۔۔۔شاید نہ آۓ ۔۔۔اس نے تمہیں بتایا تھا ناں ماہنور کے آج وہ شیروانی لینے جا رہا ہے شھزاد بھاٸی کے ساتھ۔۔۔ تو پھر اداس کیوں ہو رہی ہو ۔۔۔۔گھر جاکر دیکھا دینا اسے اپنی مہندی “وہ اپنی اداسی کو کم کرنے کے لٸے خودی سے ہمکلامی کررہی تھی۔۔۔ خود کو اتنا سمجھانے کے باوجود بھی دل کی اداسی تھی کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔۔۔ اداس ہو کر اپنی مہندی دیکھنے لگی۔۔۔۔دل کو بڑی چاھت تھی کے جس کے نام کی مہندی لگاٸی ہے سب سے پہلے وہی دیکھے۔۔۔۔۔
وہ اداس ہو کر اپنی مہندی دیکھ رہی تھی کہ اچانک پورے گھر کی لائٹ آف ہوگٸیں اور گٹار بچنے کی آواز کانوں کی سماعت سے ٹکرانے لگیں یہ دھن اس کا دل اچھی طرح جانتا تھا۔۔۔۔اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا ۔۔۔ماہنور جان گٸی تھی وہ آگیا ہے جس کا اسے بےصبری سے انتظار تھا گٹار کی آواز پورے لاونچ میں گونج رہی تھی پھر اچانک ایک سفید لائٹ ماہنور پر پڑی۔۔۔۔ وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔۔۔ ایک سحر تھا جو اس کے آتے ہی چھا گیا تھا مانو اپنے ساتھ ایک حسین دنیا لے آیا ہو۔۔۔۔۔ اس میں سارے احساسات جادوئی تھے ۔۔۔۔پورا ماحول پُرکشش بن گیا تھا۔۔۔ اسے صرف دھن کی آواز آرہی تھی۔۔۔شاہنزیب کہیں نظر نہیں آرہا تھا ۔۔۔
ماہنور کھڑی ہو گئی تھی اپنی جگہ سے وہ بیچ لاونچ میں آ کر کھڑی ہوئی تو سفید لائٹ اسی پر ٹک گئی۔۔۔۔
ٹن ۔۔۔۔ٹن۔۔۔۔ٹن۔۔۔۔ٹن۔۔۔۔۔
او۔۔۔۔۔۔او۔۔۔۔۔۔او۔۔۔۔۔۔۔او۔۔۔۔۔
تو مجھے سوچ کبھی ۔۔۔۔۔
یہی چاہت ہے میری ۔۔۔۔۔۔۔
میں تجھے جان کہوں۔۔۔۔۔۔
یہی حسرت ہے میری۔۔۔۔۔
میں تیرے پیار کا ارمان لیے بیٹھا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
تو کسی اور کو چاہے کبھی یہ خدا نہ کرے۔۔۔۔۔۔۔۔
تو کسی اور کو چاہے کبھی یہ خدا نہ کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہنزیب اندھیروں کو چیرتے ہوئے اس کے سامنے آیا تو حیرت سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔ماہنور کے دونوں ہاتھوں میں اسی کے نام کی مہندی تھی اور وہ ماہنور کے وجود کے گرد گھومتے ہوئے گاہ رہا تھا ۔۔۔۔شاہنزیب آنکھوں ہی آنکھوں میں ماہنور کو بتا رہا تھا کہ کتنی حسرت ہے اس کی محبت کی اسے۔۔۔۔ماہنور اپنے وجود سے اس کی نہ ہٹنے والی نگاہوں کی تپش کی وجہ سے مسکرانے لگی تھی۔۔۔ ماہنور شرمیلی شرمیلی سی لگ رہی تھی۔۔۔وہ جانے لگی شرماتے ہوۓ تو شاہنزیب راستہ روک کر گانے لگا تھا۔۔۔
او۔۔۔۔۔او۔۔۔۔۔او۔۔۔۔او۔۔۔۔
ٹن ۔۔۔۔۔ٹن۔۔۔۔۔ٹن۔۔۔۔۔ٹن۔۔۔۔۔۔۔
آ۔۔۔۔۔۔آ۔۔۔۔۔۔آ۔۔۔۔۔
میری محروم محبت کا سہارا تو ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں جو جیتا ہوں تو جینے کا اشارہ تو ہے ۔۔۔۔۔۔
اپنے دل پہ تیرا احسان لیے بیٹھا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تیرے پیار کا ارمان لیے بیٹھا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو کسی اور کو چاہے کبھی خدا نہ کرے۔۔۔۔۔۔
تو کسی اور کو چاہے کبھی یہ خدا نہ کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہ نور جانے لگی تھی مارے حیاء کے اس کا چہرہ گلابی ہوگیا تھا پر شاہنزیب نے جانے نہ دیا اس بڑے پیار سے تکتے ہوئے گانے لگا ۔۔۔۔ایسا لگ رہا تھا وہ دونوں کسی اور دنیا میں ہوں۔۔۔مانو روح سے روح کا ناطہ تھا۔۔۔۔۔ اپنی محبت اس پر لوٹا کر اپنے ارمان پورے کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔آج جانتا تھا کہ جو مہندی ماہنور نے لگائی ہے وہ اسی کے نام کی ہے۔۔۔۔ دل میں مسرت بھری تھی اور چہرے پر مسکراہٹ ۔۔۔۔۔ وہ سفید رنگ کی ٹیشرٹ اور اس پر ڈاک نیلے رنگ کی جیکٹ پہنے ہوئے تھا اور کالی جینز زیبِ تن تھی۔۔۔۔ بہت حسین لگ رہا تھا وہ ۔۔اس کے حسن کو دوبالا اس کے چاند سے چہرے پر محبت بھری مسکراہٹ کررہی تھی۔۔۔۔
سے یوں لوو می بے بے ۔۔۔۔۔۔
ای ویٹ ہم فور یو ۔۔۔۔۔۔۔۔
او ۔۔۔۔۔او۔۔۔۔۔او۔۔۔۔۔۔او۔۔۔۔۔۔۔
پیار میں شرط کوئی ہو تو بتا دے مجھ کو۔۔۔۔
وہ آبرو اچکاکر پوچھ رہا تھا تو ماہنور مسکراتے ہوئے نفی کرنے لگی۔۔۔۔۔ سب کی نگاہوں کا مرکز تھے دونوں ۔۔۔۔۔۔دونوں ایک ساتھ بہت خوبصورت لگ رہے تھے جیسے چاند اور سورج کی جوڑی ہو۔۔۔۔
اگر خطا مجھ سے ہوئی ہو تو بتا دے مجھ کو ۔۔۔۔۔۔
شاہنزیب اپنا ایک کان پکڑ کر اپنی خطاء کی معافی مانگ رہا تھا جو اس نے اتنی دیر اسے انتظار کرا کر کی تھی۔۔۔۔۔۔ ماہنور بہت خوش تھی آج۔۔۔۔۔ یہ گانا وہ بچپن سے سنتی آئی تھی۔۔۔۔۔ پر ماہنور اس بات سے واقف نہ تھی کے یہ گانا خود اسی کے لئے وہ دیوانہ گاتا ہے۔۔۔۔۔ تو ماہنور اس کا ہاتھ پکڑ کر پھر سے نفی کرنے لگی۔۔۔۔۔
جان ہتھیلی پہ میری جان لٸے بیٹھا ہوں۔۔۔۔
اب گٹار اتار کر سائیڈ میں رکھا تھا شاہنزیب نے۔۔۔۔۔
میں تیرے پیار کا ارمان لیے بیٹھا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
تو کسی اور کو چاہے کبھی یہ خدا نہ کرے۔۔۔۔۔۔
تو کسی اور کو چاہے کبھی یہ خدا نہ کرے۔۔۔۔۔۔۔۔
خود گھٹنوں کے بل سب کے سامنے بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔سب بالکل اندھیرے میں تھے اور سفید لائٹ صرف شاہنزیب اور ماہنور پر تھی۔۔۔۔۔ اس نے اپنی جیب سے ایک لال رنگ کا باکس نیکالا تھا۔۔۔۔ اسے کھولا تو اس میں ایک نہایت نازک سے انگوٹھی تھی۔۔۔۔ جو سفید ڈائمنڈ کی تھی۔۔۔۔
” یاد ہے ایک بار۔۔۔۔۔میں ایک شعر ادھورا چھوڑ کر چلا گیا تھا اور تم نے چھت پر آ کر شکوہ کیا تھا کہ میں کیوں چھوڑ آیا ؟؟؟۔۔۔۔ثانیہ باجی کیا سوچیں گی؟؟ہممممم۔۔۔۔ تو لو۔۔۔۔۔ ثانیہ باجی بھی یہاں موجود ہیں اور باقی سب بھی۔۔۔۔ آج اس شعر کو پورا کر دیتا ہوں شاہنزیب اسے دیوانوں کی طرح دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔
بس اک معافی ہماری توبہ جو اب ہم ستائیں تم کو۔۔۔
لو ہاتھ جوڑے لو کان پکڑے اور کیسے منائیں تم کو ۔۔۔
سچ بتاٸیں تو غصے نے اور بھی دلکش بنا دیا ہے تمہیں۔۔
من کو تو سوچتی ہے اور غصہ دلاٸیں تم کو۔۔۔۔۔۔
سچ بتاؤ
کیا اب بھی میری نظروں کے تقاضے سے ہو بے خبر تم
ہمیں پیار ہے تم سے پگلی اور کیسے بتائیں تم کو۔۔۔۔۔۔
شاہنزیب کا شعر کہنا تھا کہ سب تالیاں بجانے لگے تھے۔۔۔ ماہنور کی آنکھیں خوشی کے مارے جھلملا اٹھیں تھیں۔۔۔۔شاہنزیب نے اوروں کی طرح اس کا ہاتھ نہیں مانگتا تھا بلکہ حق سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی انگلی میں انگوٹھی پہنا دی تھی۔۔۔۔ اس کا انگوٹھی پہنانا تھا کہ ماہنور اور رومیساء ء کی آنکھیں بھر آئیں تھیں۔۔۔
پورے گھر کی لائٹ آن ہوگی۔۔۔۔۔ شاہنزیب ماہنور کے برابر میں ہی کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔۔” بہت بہت مبارک ہو منگنی کرنا“ رومیساء آپا سب سے پہلے آکر انہیں مبارکباد دے رہی تھیں
” کہاں جا رہی ہو ؟؟؟۔۔۔۔پہلے مجھے مہندی تو دیکھا دو “ مبارکباد دینے کے بعد ۔۔۔۔سب کھانا کھانے لگے تو ماہنور اسماء کے کہنے پر مہندی کا ٹوکرا اٹھائے کچن میں جانے لگی تھی کہ راستے میں ہی اس کا ہاتھ انجانی گرفت میں تھا اور اس نے اتنی زور سے کھینچا تھا کہ ماہنور اس کے سینے سے آ لگی تھی۔۔۔۔۔
” جان نیکال دی تھی تم نے میری“ وہ اسے دیکھ گہرا سانس لیتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بولی۔۔۔۔
” بہت پیاری لگ رہی ہے۔۔۔ پتا ہے مجھے بہت ارمان تھا تمہارے ہاتھ میں اپنے نام کی مہندی دیکھنے کا “شاہنزیب اس کا ہاتھ پکڑ کر بولنے لگا تھا جبکہ ماہنور کی نظر اس ٹوکری پر تھی جو اس کے ہاتھ سے شاہنزیب کے کھینچتے وقت گر گئی تھی۔۔۔۔۔
” او۔۔۔۔۔ہو ۔۔۔۔۔شاہ کَیا کِیا تم نے؟؟؟۔۔ مجھے بہت ڈانٹ کھانی پڑے گی اسماء سے “ ماہنور ٹوکری کی وجہ سے پریشان ہوتے ہوئے بولی تھی۔۔شاہنزیب مسکرا کر اس کے بالوں کو کان کے پیچھے کرنے لگا اور باآسانی ماہنور کے کان سے بوندا اتار لیا۔۔” میں کچھ بول رہی ہوں۔۔۔۔۔ اب چھوڑو میرا ہاتھ ۔۔۔اور یہ سارا سامان اٹھواٶ۔۔۔ تمہاری وجہ سے مجھے ڈانٹ کھانی پڑے گی“ ماہنور اس سے ہاتھ چھڑا کر فرش پر بیٹھتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔شاہنزیب نے مسکراتے ہوئے اس کا بوندہ اپنی جیب میں ڈال لیا تھا ۔۔۔۔جس کی ماہنور کو ذرا بھی خبر نہ ہوٸی تھی۔۔۔۔
” اب مسکرا کیا رہے ہو ؟؟؟۔۔۔چلو میرے ساتھ اٹھاؤ۔۔۔۔ ورنہ اسماء یا کوئی اور آیا تو میں یہ کہہ دوں گی کے تم نے گراٸی ہے یہ ٹوکری “ماہنور اسے آنکھیں دکھاتے ہوئے بھرم سے کہنے لگی۔۔۔۔
” تم بچپن سے یہی کرتی آئی ہو۔۔۔۔ غلطی خود کرتی ہو اور الزام مجھ پر ڈال دیتی ہو۔۔۔۔ تو اگر آج بھی کرو گی تو کوئی نئی بات نہیں ہوگی “خود بھی بھرم سے کہتا ہوا بیٹھ گیا۔۔۔
” ماہ نور مٹھائی پلیٹ میں سجا کر باہر لے آؤ“ اسماء کی آواز پر ماہنور تیزی سے کچن کی جانب بڑھی۔۔۔ مٹھائی نیکال کر پلیٹ میں سجانے لگی۔۔۔۔شاہنزیب بھی اس کے پیچھے پیچھے کچن میں آگیا تھا۔۔۔۔
”شاہ۔۔۔کیا کررہے ہو ۔۔۔۔کوٸی آجاۓ گا“شاہنزیب نے ماہ نور کا وہ ہاتھ پکڑ لیا تھا جس میں میٹھائی تھی اور اس کے ہاتھ سے کھانے لگا۔۔۔۔ وہ گھبرا کر باہر کی طرف دیکھ رہی تھی کہ کوئی آ نہ جائے۔۔۔۔
”بھت مزے دار ہے “شاہنزیب اس کے ہاتھ سے پوری میٹھاٸی کھانے کے بعد مسکراتا ہوا کہنے لگا۔۔۔۔اس کی نگاہیں رومانیت ٹپکارہی تھیں ۔۔۔۔ماہنور جھیپ گٸی تھی ۔۔۔۔اس کے گلابی گال مزید گلابی ہوگٸے تھے۔۔۔۔یہ دیکھ شاہنزیب کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر آٸی۔۔۔
شاہنزیب کمرے میں داخل ہوا اپنے تو اسے پہلے ہی وہاں موجود پایا ۔۔۔ سانسیں رک گئیں تھیں اسے دیکھتے ہی ۔۔۔یہ علم تھا کہ وہ شرارے میں ملبوس ہوکر خوبصورت لگے گی۔۔۔پر اس قدر کے آنکھیں جھلملا جائیں۔۔۔۔۔ یہ خبر نہ تھی۔۔۔ لگا ایک لمحے کے لیے سانسیں تھم جائیں گی ۔۔۔۔ اوپر سے اس ظالم حسینہ نے کیچر کٸے ہوۓ بال بھی شاہنزیب کے آتے ہی کھول دیٸے۔۔۔۔ ظلم کی انتہا تھی آج اس دیوانے پر۔۔۔ماہنور اتنی حسین لگ رہی تھی کہ وہ نظریں ہٹانا تو دور ۔۔۔۔پلکیں جھبکانا بھی بھول بیٹھا تھا ۔۔۔
”کیسی لگ رہی ہوں؟؟؟؟“ ماہنور اس کے قریب آ کر پوچھنے لگی تھی۔۔۔۔ جب کہ آنکھوں میں اس کی جواب موجود تھا پھر بھی انجان بن کر مسکراتے ہوۓ استفسار کرنے لگی۔۔۔
”اچھا ہوا تم دونوں یہیں مل گئے“ دادو یہ کہ کر کمرے میں آئیں تھیں۔۔۔” ماہنور یہ کس کا شرارہ ہے؟؟؟“ انہوں نے ماہنور کو شاہنزیب کے لاۓ ہوۓ شرارے میں دیکھ پوچھا تھا۔۔۔۔
” وہ دادو۔۔۔۔یہ شاہ کی الماری میں تھا۔۔۔ میں نے سوچا میرے لئے ہی لایا ہوگا اس لئے ٹرائے کر رہی تھی کہ شاہ اچانک سے آ گیا “اس نے نظریں جھکا کر جواب دیا تھا۔۔۔
” شاہ تم لاۓ ہو یہ ماہنور کے لئے ؟؟؟“دادو اب شاہنزیب سے مخاطب ہوکر پوچھنے لگی تھیں۔۔۔۔ جب کہ وہ تو ابھی بھی حُسنِ یار کے حُسنِ حَسِین میں مگن تھا۔۔۔ ماہ نور مسکرانے لگی تھی نظر جھکا کر جب دیکھا کہ دادو اس سے سوال کر رہی ہیں اور وہ ہے کہ بس ماہ نور کو ٹک ٹکی باندھے دیکھے جا رہا ہے۔۔۔۔” شاہ میں کچھ پوچھ رہی ہوں؟؟“ انہوں نے جب شاہنزیب کے بازو کو جھنجھوڑ کر کہا تو وہ حواس میں لوٹا تھا ۔۔۔
”دادو آپ یہاں؟؟“ وہ چونک کر انہیں دیکھنے لگا۔۔۔
” اپنی واٸف سے نظریں ہٹاٶ اور میرے پاس آکر بیٹھو “ انہوں نے ٹوکتے ہوۓ کہا اور بجاۓ بیڈ پر بیٹھنے کے چٸیر کھسکا کر بیٹھ کے پاس کر لی اور بیٹھ گٸیں ۔۔۔۔
” میں آپ لوگوں کے لئے چاۓ لاٶں؟؟؟“ماہنور نے پوچھا تھا۔۔۔
”نہیں ۔۔۔تم بھی آکر بیٹھو “ انہوں نے کہا تو وہ دونوں بیڈ پر آ کر بیٹھ گئے ۔۔۔”شاہ۔۔۔میں نے بہت سوچا اور پھر فیصلہ کیا۔۔۔۔ کہ وقت آگیا ہے کہ تم۔۔۔۔۔“ انھوں نے اتنا ہی کہا تھا کے شاہنزیب کو لگا کہ وہ ماہنور کو سب بتانے آٸیں ہیں۔۔۔ وہ ڈر کر ماہنور کو دیکھنے لگا ۔۔۔” کہ تم اب ماہنور کی رخصتی لے لو۔۔۔۔“ان کا یہ کہنا شاہنزیب کی توقع کے بالکل برخلاف تھا
”کیا؟؟؟“ وہ بے یقینی سی کیفیت میں حیرت سے پوچھنے لگا۔۔۔۔
” ہاں ۔۔۔۔اب رخصتی لے لو شاہ ۔۔۔میری ماہنور کی “ انہوں نے اس بار شاہنزیب کا ہاتھ پکڑ کر ماہ نور کا ہاتھ اسے تھماتے ہوئے کہا تو ماہنور مسکرا کر شاہنزیب کو دیکھنے لگی۔۔۔۔
”پر؟؟؟“ وہ جو بولنا چاہتا تھا دادو بن کہے ہی سمجھ نہیں گٸیں تھیں۔۔۔۔
”سب بھول جاٶ شاہ۔۔۔ ابھی وقت نٸی کروٹ لے رہا ہے اور اس وقت تم دونوں ایک دوسرے کے اچھے ہمسفر بن سکتے ہو۔۔۔“انہوں نے کہا تو ماہنور شاہنزیب کو محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔۔” بولو شاہ۔۔۔۔اپناٶ گے میری پوتی کو ۔۔۔۔تھامو گے اس کا ہاتھ ؟؟؟“انھوں نے پوچھا تو وہ بہت خوش ہوا۔۔۔۔۔ لگا جیسے کوئی سنہرا خواب دیکھ رہا ہو ۔۔۔۔ کیونکہ دادو سے زیادہ مخالفت اس رشتے کی کسی نے نہیں کی تھی اور آج وہی بول رہی تھیں کہ اپنا لو ماہ نور کو۔۔۔۔
وہ عاشق۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔ دیوانہ ۔۔۔وہ مجنون آج پھولے نہیں سما رہا تھا مسکراتے ہوئے دادو کے سینے سے لگ گیا۔۔۔۔ دادو کو محسوس ہوا کہ وہ رو رہا ہو اس لمحے۔۔۔۔ پر مرد ہے اس لیے آنسوں چھپا رہا ہے۔۔۔
” ماہنور شاہ نے تو ہاں کردی ہے ۔۔۔۔اب اپنی بتاؤ ۔۔۔میرا اتنا لائق ۔۔۔۔ہوشیاں ۔۔۔۔۔ذہین ۔۔۔۔نیک ۔۔۔۔متقی۔۔۔پرہیزگار۔۔۔اپنوں پر جان چھڑکنے والا پوتا تمھیں منظور ہے؟؟؟“ انہوں نے اب ماہ نور سے پوچھا تھا جس کے جواب میں وہ بھی شاہنزیب کی طرح ان کے سینے سے لگ گئی تھی مارے خوش کے۔۔۔” ”ٹھیک ہے۔۔۔۔اب تم دونوں کی رخصتی کی تقریب بھی شہزاد اور صباء کے ساتھ کروا دوں گی ۔۔۔“انہوں نے کہا تو ماہنور اور شاہنزیب دونوں ہی بے یقینی سی کیفیت میں دادو کے سینے سے ہٹ کر ان کا رخسار حیرت سے تکنے لگے۔۔۔
”کیا ؟؟۔۔۔۔۔ ایسے کیوں دیکھ رہے ہو دونوں؟؟؟۔۔۔۔۔کوٸی مسٸلہ ہے کیا ؟؟؟“دادو ابرو اچکاکر دونوں سے استفسار کرنے لگیں۔۔۔
”نہیں ۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔جیسا آپ بھتر سمجھیں“شاہنزیب کے چہرے پر گہری مسکراہٹ بکھر آئی تھی۔۔۔
” ماہنور شرم کرو تھوڑی “دادو نے ماہنور کو ٹوکا تھا ۔۔۔۔جب اسے شاہنزیب کو مسکرا مسکرا کر فدا ہوتے دیکھا۔۔۔۔۔۔
”اوووووو۔۔۔۔ہہہہہہہہووووووو۔۔۔۔۔۔مجھے یہ شرم ورم کرنا نہیں آتا“ ماہنور ہلکا سہ جھنجھلاتے ہوئے دادو کو چھیڑنے کی نیت سے بولی۔۔۔۔
” ماہنور شوہر ہے تیرا“دادو کافی جتاتے ہوۓ ”ہمارے زمانے میں تو میاں بیوی کسی کے سامنے ایک صوفے پر نہیں بیٹھے تھے اور ایک میری پوتی ہے اپنی دادو کے سامنے اپنے شوہر کو بغیر پلکھیں جھپکائے ٹک ٹکی باندھے دیکھے جا رہی ہے“ وہ اپنا سر پکڑ بولیں ۔۔۔۔۔تو ماہنور مزید مسکرانے لگی۔۔۔۔
” اچھا دادو دیکھیں۔۔۔ ایسے شرماٶں تو اچھی لگوں گی؟؟؟“ یہ کہہ کر اپنی شرارے کا دوپٹا جو گلے میں تھا اتار کر سر پر ڈال کر اتنا جھکا لیا تھا کہ سوائے ہونٹوں کے کچھ نظر نہیں آرہا تھا اور شوخی سے مسکراتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔
”ماہنور“ دادو گھور کر بولیں ۔۔۔۔
” اچھا نہیں لگ رہا ۔۔۔۔۔تو کوئی بات نہیں ۔۔۔دوسری طرح دیکھیں ۔۔۔یہ ضرور آپ کو اچھا لگے گا “وہ چنچل نگاہوں سے دادو کو چھیڑتے ہوۓ بولی۔۔۔دوپٹہ سر پر اوڑھا اور سیدھے ہاتھ سے دوپٹے کا ایک سرا پکڑ کر ناک تک لے آئی اس کا چاند سہ چہرہ آدھا چھپ گیا تھا...” اس طرح دیکھیں۔۔۔۔“پھر شاہنزیب سے مخاطب ہوکر ”شاہ تم بتاؤ کون سہ والا پردہ کروں تم سے۔۔ پہلے والا ۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔۔یہ والا“وہ پردہ کیے ہوئے پوچھ رہی تھی ۔۔۔۔
جس پر دادو اس کے سر پر تھپکی مار کر کہتی ہوٸی چلی گئیں۔۔۔۔۔” میری مانو بلی۔۔۔۔۔تیرا کچھ نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔ خدا میرے شاہ کو ہمت و حوصلہ دے کہ وہ تجھے سمبھال سکے“
شاہنزیب کو اس کی چلبلی اداٸیں بھت بہہ رہی تھیں۔۔۔۔۔وہ سو سو جان فدا ہوۓ جارہا تھا اس پر۔۔۔۔۔ دادو کے جاتے ہی اس نے دوپٹہ اتار کر واپس گلے میں ڈال لیا تھا اور اپنے سارے بال کمر سے ہٹا کر آگے کندھے پر ڈال کر سیٹ کر لیے تھے۔۔۔۔۔ ماہنور کے شرارے کے بلاوس کا پیچھے کا گلا کافی گہرا تھا۔۔۔۔اس کی کمر کا دودھیاٸی رنگ چمک رہا تھا ۔۔۔۔وہ شاہنزیب کے کندھے پر سر کر اس سے بلکل لگ کر بیٹھ گٸی تھی۔۔۔۔شاہنزیب کی نظر جب ماہنور کی کمر پر پڑھی تو مسکراتے ہوۓ اس کے کندھے پر سیٹ کٸے سارے بال واپس کمر پر ڈال دیٸے۔۔۔۔
”کیا؟؟؟“وہ تعجب سے بولی ۔۔۔
”کہیں میری نظر نہ لگ جاۓ تمھیں “وہ گہری بولتی نظروں سے اسے دیکھ کہنے لگا۔۔۔۔اس کی نگاھوں کی محبت ماہنور کو اپنی جانب تیزی سے راغب کررہی تھی۔۔۔۔
” میری خوش قسمتی ہے کہ تم مجھے اتنے پیار سے دیکھتے ہو۔۔۔ تمہارا دیکھنا مجھے سوار دیتا ہے“ یہ کہ کر اپنے سارے بال کمر سے ہٹا کر کندھے پر کر لیے تھے۔۔۔۔اس کی کہی بات شاہنزیب کے دل کو مسرت سے بھر گٸی تھی۔۔۔۔اس نے محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر ماہنور کی روشن پیشانی کا بوسہ لیا۔۔۔
”او۔۔۔ یہاں آجاؤ۔۔۔۔ یہ دونوں یہاں ہیں“ کامران نے شاہنزیب کے کمرے میں جھانکتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔۔ماہنور فورا سیدھے ہو کر بیٹھ گئی
”میں چینج کرکے آتی ہوں“ وہ ہلکے سے شاہنزیب کے کان میں سرگوشی کر کے چلی گئی۔۔۔
” مبارک ہو دولہے میاں “کامران آکر اس کے گلے لگا تھا ۔۔۔۔وہ ہٹا تو اسماء لگی تھی وہ ہٹی تو رومیساء آپا ۔۔۔۔۔۔وہ ہٹیں تو شاہزیہ آپا انہوں نے تو اس کی پیشانی بھی چومی تھی۔۔۔
” ماہنور کہاں ہیں کامران یہاں؟؟؟“ اسماء کامران کے ہاتھ پر تھپڑ مارتے ہوئے بولی۔۔۔۔
” یہاں ہوں“ماہنور واش روم سے باہر آ کر مسکراتے ہوۓ کہنے لگی ۔۔۔ سب اس کے بھی باری باری گلے لگنے لگے۔۔
” بھائی شکریہ“ شہزاد کمرے میں داخل ہوا تو شاہنزیب خود اگٸےبڑھ کر گلے لگ گیا۔۔۔ شہزاد بھی بڑی گرم جوشی سے اپنے بھائی کے گلے لگا
”اب تو خوش ہونا ؟؟؟“انہوں نے آہستگی سے اس کے کان میں استفسار کیا ۔۔۔۔
”بہت ۔۔۔۔یہ سب آپ نے کیا ہے ؟؟؟۔۔۔۔آپ واقعی بہت اچھے ہیں بھاٸی “وہ بھی آہستہ سے ہی جواب دے رہا تھا ان کے کان میں ۔۔
” او بھائی۔۔۔ دوسروں کو بھی تو موقع دو “ولید بے صبرا ہو کر گویا ہوا۔۔۔۔” میرے یار ۔۔۔۔بہت بہت بہت بہت بہت مبارک ہو“ ولید بھی بہت گرم جوشی سے ملا ۔۔۔اس نے تو شاہنزیب کو گود میں ہی اٹھا لیا تھا
” ارے کیا کر رہا ہے ؟؟؟۔۔۔۔دولہا میاں کو گراۓ گیا کیا؟؟؟“ کامران فورا ہی بول پڑا تھا۔۔۔
”ولید نیچے اتار “شاہنزیب بھی مسکراتے ہوۓ بولا تھا ۔۔۔سب بھت خوش تھے۔۔۔۔
” بہت بہت مبارک ہو ماہنور“ سعدیہ ماہنور کے گلے لگ کر اسے مبارکباد دینے لگی۔۔۔۔
” زبردست یار۔۔۔۔ اب ایک نہیں دو دو دولہے نکلیں گے ہمارے گھر سے اور ایک نہیں دو دو دولہنیں ہم لے کر آٸیں گے“کامران نے خوش ہو کے اعلان کیا تو سب ”اوووووووووووووووووووو“ کر کے شور مچانے لگے۔۔۔۔
” ارے شور کم کرٶ۔۔۔۔ پورے محلے والوں کو جگانے کا ارادہ ہے کیا ؟؟؟“علی بھاٸی آکر سب کو خاموش کراتے ہوئے بولے پھر وہ بھی شاہنزیب کو مبارکباد دینے لگے ۔۔۔
”ماہنور چلو ۔۔۔۔جلدی سامان پیک کرٶ۔۔۔دادو نے کہا ہے تم بڑی پھوپھو کے گھر جا رہی ہو“ بھابھی نے آکر دادو کا پیغام سنایا تھا۔۔۔۔
”یہ راحیل ثانیہ نظر نہیں آرہے ؟؟؟“شاہنزیب نے ان کی غیر موجودگی پر پوچھا تھا
”او۔۔۔۔سوری دیر ہو گئی۔۔۔۔یہ لو میرے بھائی میں خالی ہاتھ نہیں آٸی ان سب کی طرح“ ثانیہ نٕے آتے ہی شاہنزیب کے منہ میں گلاب جامن ڈالی تھی۔۔۔۔
”بھت مبارک ہو شاہ“ راحیل کہتا ہوا اس کے گلے لگا۔۔جیسے ہی شاہنزیب ہٹنے لگا۔۔۔”مبارک ہو ۔۔۔تم نے جس مقصد کے لٸے ڈاٸری میں تبدیلیاں کیں تھیں ۔۔۔ وہ آج کامیاب ہوگیا“ راحیل اس کے کان میں ہلکے سے کہتا ہو ہٹا تھا۔۔۔شاہنزیب یہ سن چونکا ۔۔۔وہ حیرت سے راحیل کے چہرے کو تکنے لگا۔۔۔۔جبکے راحیل کے چہرے پر اطمینانی چھائی ہوئی نظر آرہی تھی۔۔۔۔اس نے آج شاہنزیب کو آگاہ کردیا تھا کے وہ اس کی محبت سے لاعلم نہیں۔۔۔۔۔
” ماہنور چلو سارا سامان پیک کرٶ۔۔۔۔یہاں کیا کھڑی ہو؟؟؟“ ثانیہ نے اسے گلاب جامن کھلاتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔
” ماہنور اب تم پرسو رات کو گھر میں داخل ہو گی۔۔۔۔ پر اس گھر کی بیٹی نہیں ۔۔۔۔بہو بن کر“ بھابھی نے مسرت بھرے لہجے میں اسے دیکھ کہا۔۔۔۔
” ارے اب تو رججگہ بھی بڑا مزے دار ہوگا ایک طرف شاہ ماہ نور دوسری طرف ہمارا شرمیلا کپل شہزاد صباء“ اسماء ایکسائٹڈ ہوتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔ سب کے چہروں پر خوشی جھلک رہی تھی۔۔۔
” ایک بات بتاؤں تم سب کو میں۔۔۔۔میں اور امی صرف کل میری نہیں شاہنزیب کی بھی شیروانی لے آئے تھے“ شہزاد نے یہ بتایا تو شاہنزیب بہت خوش ہوا ۔۔۔
”ماہنور چلو“ رومیسا آپا نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا تھا
” الوداع “ماہنور نگاہوں ہی نگاہوں میں الودع کر گٸی۔۔۔۔۔۔ماہنور کو اس کی بڑی پھوپھو کے گھر راتو رات پہچا دیا گیا تھا۔۔۔۔ آج رات خوشی کے مارے نیند نہیں آ رہی تھی اس دیوانے کو
” بس ایک رات کی اور بات ہے ماہنور۔۔۔۔ پھر تم میرے اس کمرے میں دولہن بن کر آٶ گی “وہ مسکراتے ہوئے کہ رہا تھا۔۔۔۔” آج جانا ہے کہ انتظار کرنا کتنا مشکل کام ہے ۔۔۔۔مجھ سے تو پرسو کا انتظار ہی نہیں ہو رہا“ شاہنزیب بے صبر ہو کر اس کی تصویر کو دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔۔۔
”تو یہاں؟؟؟“ شاہزیب پارٹی ھال سے باہر آیا تھا کیونکہ اس کی نظر فرحان پر پڑی تھی۔۔۔۔” تو یہاں کیا کر رہا ہے؟؟؟“ وہ غصے سے اس کا کالر پکڑ کر بولا تھا
” سنا ہے تیرے اور تیرے بھائی کا کل سہرا سجنے والا ہے۔۔۔۔ارے بابا۔۔۔۔ اپنے بہنوئی کو نہیں بلایا تم نے ؟؟؟۔۔۔۔چلو کوئی بات نہیں میں خود آ گیا۔۔۔۔۔ اپنی بیوی سے نہیں ملواۓ گا مجھے ؟؟؟۔۔۔۔میں بھی تو دیکھوں قسمت نے جو تجھے سزا دی ہے مجھ سے میرے بچے جدا کرنے کی وہ دیکھتی کیسی ہے۔۔۔۔ میں تو آج بچے کی دو سال بڑی بیوی دیکھ کر ہی جاؤں گا “یہ کہہ کر اپنا کالر چھوڑا کر ھال کی جانب بڑھتا ہے ۔۔۔۔
” تیری تو“ یہ کہ کر شاہنزیب نے پیچھے سے اسکی گردن دبوچی تھی ۔۔۔”سیدھے شرافت سے یہاں سے چلا جا“ اس نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا ۔۔۔
”گردن چھوڑ ۔۔۔۔کہا ناں۔۔۔۔ دیکھ کر ہی جاؤں گا“ فرحان کہ کر گردن چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔ اس کا گمان تھا کہ جس لڑکی کی عین برات والی رات ۔۔۔۔دولہا کسی اور کے ساتھ بھاگ گیا ہو۔۔۔وہ ضرور بھدی۔۔۔۔ بدصورت ۔۔۔موٹی۔۔۔۔کالی سی ہو گی۔۔۔ وہ چاہتا تھا کہ اسے دیکھ کر خوب شاہنزیب کو جلا کر وہاں سے جائے۔۔۔۔
ماہنور شاہنزیب کو ڈھونڈتے ہوئے ھال سے باہر آئی تھی۔۔۔ اس کی نظر دور سے ہی شاہنزیب پر پڑ گئی تھی اس کی لمبی قدامت کے سبب۔۔۔۔۔ وہ تیز قدم بڑھاتی ہوئی آٸی۔۔۔ اس نے شاہنزیب کو فرحان سے لڑتا ہوا دیکھا ”شاہ۔۔۔۔چھوڑو اسے۔۔۔ میں نے کہا چھوڑو“ ماہنور نے جب شاہنزیب کو فرحان کو مارتا ہوا دیکھا تو اس کا ہاتھ پکڑ کر روکنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔۔
فرحان زمین پر چت پڑا تھا۔۔۔” بیٹا کتنا بھی مار لے۔۔۔ تیری بیوی دیکھے بغیر تو میں بھی نہیں جانے والا “اس نے شاہنزیب کو گھورتے ہوئے بڑی ڈھٹائی سے کہا ۔۔۔۔جس پر شاہنزیب کو مزید طیش آ گیا تھا۔۔۔
تو ایسے نہیں سمجھے گا“ اس کے پیٹ میں دو تین مکے جڑ دیئے تھے شاہنزیب نے۔۔۔۔ فرحان کے منہ سے خون نکلا آیا تھا۔۔۔
”کیا کر رہے ہو؟؟؟۔۔۔ مار ڈالو گے کیا اسے ؟؟؟۔۔۔چھوڑو اسے “ ماہنور شاہنزیب کو اپنی بھرپور جان لگاتے ہوۓ روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔
” ماہ نور تم اندر جاؤ“ شاہنزیب کا غصے سے ماہنور کو دیکھ کر کہنا تھا کہ فرحان کے کان کھڑے ہوئے۔۔۔۔ جو زمین پر چاروں ہاتھ پاؤں پھیلائے پڑا تھا ۔۔۔۔
شاہنزیب نے اسے مار مار کر نڈھال کر دیا تھا۔۔۔لیکن ماہنور کا نام سنتے ہی اس کے طوطے اڑ گئے تھے۔۔۔کیونکے ماہنور اس کے گمان سے بلکل برعکس نیکل کر آئی تھی ۔۔۔۔وہ ماہنور کا سر سے پاٶں تک گھور گھور کر دیکھتے ہوئے جائزہ لینے لگا ۔۔۔۔
ماہنور کالے رنگ کی شینیل کی میکسی میں ملبوس ۔۔۔۔ اس کے بالوں میں جوڑا ۔۔۔۔۔سفید رنگ کے اسٹار والے بوندے کانوں میں۔۔۔۔دو تین آوارا لٹیں اس کے حسین چہرے کو چومتی ہوٸیں ۔۔۔۔۔ ڈاک مہرون لپ اسٹک لگاۓ ہوئے ۔۔۔جو اس کے حسن کو دوبالا کر رہی تھی۔۔۔ وہ کالے رنگ میں سنہری سی گڑیا معلوم ہو رہی تھی ۔۔۔۔
فرحان بری طرح چونک اٹھا تھا ماہنور کو دیکھ۔۔۔۔
” ابے اس سالے کی بیوی تو منگیتر سے بھی زیادہ حسین ہے ۔۔۔۔۔کیا سارے حسین پیس اسی کے نصیب میں ہیں۔۔۔ تبھی میں بولوں یہ حرام زادہ کیسے مان گیا اپنے سے دو سال بڑی لڑکی سے نکاح کے لئے۔۔۔اب سمجھ آیا “فرحان ماہنور کو دیکھ دل ہی دل ٹھنڈی آہ بھرنے لگا۔۔۔۔۔
” دیکھ۔۔۔۔۔ اپنی جان پیاری ہے تو نکل یہاں سے” یہ کہ کر شاہنزیب نے اسے گریبان پکڑ کر اٹھایا تھا
” تو یہ ہے تیری بیوی۔۔۔۔۔ اب سمجھ آیا تو نے اپنی بچپن کی منگنیتر کیسے چھوڑ دی “فرحان نے ماہنور کو بغور دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
”پہلے یہ بتا کیوں میرے پیچھے پڑ گیا ہے ؟؟؟۔۔۔سب کچھ ختم ہوۓ چار سال گزر چکے ہیں ۔۔۔تو اپنی زندگی جی۔۔۔۔اور مجھے میری جینے دے۔۔۔کیوں اپنی بھی کھوار کررہا ہے اور میری بھی ۔۔۔ چل نکل یہاں سے ۔۔۔میں تجھے مارنا نہیں چاہتا پر ماں قسم اگر دوبارہ سامنے آیا تو تجھے جان سے مار دوں گا“ شاہنزیب اس کا گریبان پکڑ کر غصے سے تلملاتے ہوئے بول رہا تھا۔۔۔۔۔
” تو ہی تو ہے جو میرے بچے چھین کر بیٹھا ہے مجھ سے۔۔۔ وہ تو ہی تھا جس کے آتے ہی شاہزیہ اور عاشر کے پر نکل آئے تھے ورنہ کہاں ڈرے ڈرے رہتے تھے مجھ سے۔۔۔ تو نے ہی میرے ساتھیوں کو مارا۔۔۔۔ اور سب سے بڑی بات۔۔۔۔ مقدمہ لڑنے کے پیسے نہیں تھے تیری بہن یا بہنوئی کے پاس۔۔۔۔ تو نے دیئے پیسے بھی ۔۔۔۔وکیل بھی آخری وقت میں تو لایا۔۔۔ میں تجھے نہیں چھوڑنے والا۔۔۔۔۔ بہت جلد روۓ گا تو سر پکڑ کر۔۔۔۔۔۔۔۔ تو دیکھتا جا بس۔۔۔۔۔ میں تو یہ سوچ کر جارہا تھا آج۔۔۔۔۔ کے تجھ سے بدلہ کیا لوں ؟؟؟۔۔۔۔تُو ۔۔۔۔تو خود قسمت کا مارا ہے پر اب لگتا ہے بدلہ لینے کی ضرورت ہے۔۔۔۔“ فرحان آنکھوں میں آنکھیں ڈال ۔۔۔۔۔۔شیطانیت بھری نظروں سے شاہنزیب کو گھور کر بولا۔۔۔۔۔
” تو ایسے نہیں مانے گا ۔۔۔۔۔ آج تو تیرا فل اینڈ فائنل کر ہی دیتا ہوں“ یہ کہہ کر شاہنزیب نے اسے مزید مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا
” تمہیں میری قسم ۔۔۔۔۔رک جاؤ “ماہنور دیکھ پارہی تھی اس کی آنکھوں کے جنون کو۔۔۔۔۔ اسے محسوس ہوا کہ اگر اب اس نے شاہنزیب کو نہ روکا تو وہ فرحان کو جان سے مار ڈالے گا ۔۔۔۔بس ماہنور کا ( قسم) کا لفظ ادا کرنا تھا۔۔۔۔ شاہنزیب کے ہاتھ خود بخود رک گئے۔۔۔۔
” پلیز دفاع ہوجاٶ یہاں سے۔۔۔۔ دفع ہو جاؤ“ ماہنور فرحان پر دھاڑتے ہوئے بولی۔۔
” ابھی تو جا رہا ہوں ۔۔۔۔پر واپس ضرور آؤں گا۔۔۔بھولنا مت سالے صاحب “ فرحان ڈھٹائی کا اعلی مظاہرہ کرتے ہوۓ اپنے منہ سے نکلنے والا خون طنزیہ مسکراتے ہوئے اپنے ہاتھ سے صاف کر۔۔۔۔ شاہنزیب کے ہی سامنے ۔۔۔۔اس کی سفید کار سے اپنا خون والا ہاتھ مَس کرتے ہوۓ چلا گیا۔۔۔۔۔
” جاھل ہے کمینہ“ شاہنزیب نے اس کے جاتے ہی اپنی کار صاف کی تھی۔۔۔ ”تمہیں کیا ضرورت تھی باہر آنے کی ؟؟؟“وہ اب ماہنور پر غصہ کرنے لگا
”وہ“ شاہنزیب اتنا جلال میں تھا۔۔کے ماہنور سہم گئی تھی۔۔۔۔
” اور جب تم سن چکی تھیں کہ وہ تمہیں ہی دیکھنے آیا ہے تو کیا ضرورت تھی یہی کھڑے رہنے کی ؟؟؟اندر نہیں جا سکتی تھیں تم؟؟؟۔۔۔۔۔“ وہ ماہنور کا بازو جھنجھوڑتے ہوئے بولا۔۔۔۔
” کتنے پیارے لگ رہے ہو غصے میں تم۔۔۔۔ ناک کے ساتھ ساتھ پورا منہ لال ہو رہا ہے شاہ تمہارا ۔۔۔۔۔ اتنے کیوٹ کیوٹ سے لگ رہے ہو۔۔۔ پیار آرھا ہے تم پر ۔۔۔“وہ سہم گئی تھی اس کے غصے سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پر اگلے ہی لمحے اس کا غصہ جو آسمانوں سے باتیں کر رہا تھا ٹھنڈا کرنے کی نیت سے ۔۔۔۔اس پر پیار نچھاور کرنے لگی ۔۔۔۔
” میں مذاق کے مونڈ میں نہیں ہوں۔۔۔۔ سمجھیں تم“ وہ مزید آگ بگولہ ہو کر اسے اپنے بالکل قریب کرتے ہوۓ کہنے لگا۔۔۔۔
” اچھا بابا ۔۔۔۔۔۔میں سمجھ گئی کہ تم آج غصے میں ہو۔۔۔۔ اور تم آج کی پوری تقریب اس فرحان جیسے انسان کی خاطر خراب کرنے والے ہو“ ۔۔۔۔ماہنور نہایت سمجھداری کا مظاہرہ کررہی تھی اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے ۔۔۔
”یار ۔۔۔ میں تمہیں کیسے سمجھاؤں ۔۔۔وہ کیا دھمکی دے کر گیا ہے ۔۔۔۔۔تمہیں کچھ کر ور دیا اس نے تو “ ماہ نور کی محبت اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔۔۔
مگر فرحان کی دھمکی نے اسے خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔۔۔
” کچھ نہیں کر سکتا وہ مجھے۔۔۔۔تم ہو ہونا میرے ساتھ۔۔۔ پھر تم کب سے اس فرحان سے ڈرنے لگے؟؟؟۔۔۔ تم تو میرے شیر ہو ۔۔۔۔ اور شیر ڈرا نہیں کرتے ۔۔۔ڈرایا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔“وہ شاہنزیب کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔” فالتوہ میں اس جاہل کے منہ لگے تم“ ماہنور اس کے چہرے پر ہاتھ رکھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیار سے سمجھانے لگی۔۔۔۔۔
” میں اس سے نہیں ڈرتا۔۔۔۔۔ وہ مجھے جو چاہےکہے ۔۔۔۔ مجھے ڈر نہیں لگتا نہ میں پرواہ کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ پر جب بات تمہاری آتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔تو میں اپنے آپ کو بہت کمزور محسوس کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔مجھے کوئی کچھ بھی کرے مجھے تکلیف نہیں ہوتی۔۔۔۔لیکن اگر کوئی تمہیں معمولی سی کھروچ بھی مارے تو میں تڑپ اٹھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔جان ہو تم میری۔۔۔۔۔۔۔۔میری جان مجھ میں کبھی تھی ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو ہمیشہ سے تم میں بسی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ گھٹیا انسان ضرور کچھ نہ کچھ کریگا تمہیں تکلیف دینے کے لئے۔۔۔۔ مجھے یہ سوچ کر ہی خوف آرہا ہے ۔۔۔۔۔۔تم نہیں جانتی اس جاھل انسان کو“۔۔۔۔ اس کا بازو چھوڑ ۔۔۔۔۔اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کا خوبصورت چہرہ پکڑ کر اسے بتا رہا تھا کہ جان چلے جانے کا اسے ڈر نہیں بلکہ جس میں جان بستی ہے اس کے تکلیف میں مبتلا ہونے کا ڈر ہے۔۔۔۔
” تم خواہ مخواہ اس جاھل کی بات کو سیریس لے رہے ہو۔۔۔ رخصتی ہوتے ہی میں تمہارے حصار میں آجاؤں گی۔۔۔پھر کیا ضرورت ہے اس کی باتیں کرکے آج کی یادگار رات خراب کرنے کی۔۔۔۔“ ماہنور اس کا ذہن فرحان سے ہٹا رہی تھی جب کہ اسے خبر تھی اچھی طرح کے شاہنزیب کا خوف بےجا نہیں ہے۔۔۔۔ فرحان پہلے بھی سعدیہ پر گولیاں چلوا چکا ہے۔۔۔۔
” ویسے تم اچانک سلون کیسے چلے گٸے ؟؟؟“وہ بات کا موضوع بدل رہی تھی۔۔۔۔۔ مسکراتے ہوئے۔۔۔
” وہ ولید لے گیا زبردستی۔۔۔۔۔ تمہیں تو پتا ہے مجھے یہ فالتوہ کی چوچلے بازی پسند نہیں“
” ہاں ۔۔۔۔۔۔صحیح بات ہے ۔۔۔ تم تو بوڑھی روح ہو ۔۔۔۔تمہیں کیوں پسند آئیں گی یہ آج کل کے نوجوانوں کی چیزیں “ وہ منہ بسور کر طنزیہ کہنے لگی۔۔۔۔
” جی نہیں مجھے سادگی پسند ہے۔۔۔۔ دیکھو کیسے میرے بال کھڑے کر دیے ہیں جیل لگا لگا کر ۔۔۔۔ اسمیل آ رہی ہے مجھے اپنے بالوں سے ۔۔۔میرے اپنے بال اتنے اچھے ہیں مجھے ضرورت نہیں ہے ان سب کی۔۔۔“ شاہنزیب بے نیازی سے اتراتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ جس کے جواب میں ماہ نور ٹمٹماتی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔مانو مزاق اڑا رہی ہو اس کا۔۔۔۔۔
” کیا کر رہی ہو ؟؟؟“ماہنور نے اچانک اپنے دونوں کانوں کو ہاتھ لگایا تو شاہنزیب الجھ کر پوچھنے لگا۔۔۔۔
” دیکھ رہی تھی کہ کہیں میرے بوندے چوری تو نہیں ہوگئے ۔۔۔۔تمہارا کیا بھروسہ ۔۔۔ اتنے ماہر ہو چوری چکاری میں کے سامنے والے کو پتہ بھی نہیں چلتا۔۔۔۔“ماہنور نے کہا تو جوابًا مسکرانے لگا۔۔۔۔۔
” ابھی تک سوچا نہیں تھا میں نے۔۔۔۔ پر اچھا یاد دلایا “شاہنزیب کے چہرے پر گہری مسکراہٹ بکھر آٸی ۔۔۔
شاہنزیب مسکراتے ہوئے نہایت حسین لگ رہا تھا۔۔۔۔ آج سلون جاکر جیسے اس نے اپنی خوبصورتی میں چار چاند لگا لٸیے تھے
”کوئی ضرورت نہیں ہے چورانے کی “ماہنور نے گھور کر کہا تھا۔۔۔
” کیوں؟؟؟۔۔۔۔ یہ میرا حق ہے اور میں تو اب تمہیں ہی تم سے چورانے کی سازش کر رہا ہوں“شاہنزیب نے جب اس کے موجود کو گہری بولتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تو وہ جھیپ گٸی۔۔۔۔
” ایک بات بتاؤں۔۔۔۔ میرا ایک چھوٹا سہ ارمان ہے ۔۔۔پر جانتی ہوں وہ پورا نہیں ہوسکتا “ماہنور نے بھولے سہ چہرہ بنا کر کہا۔۔۔تو شاہنزیب کا دل مچل اٹھا۔۔۔ آخر اس کے محبوب نے پہلی بار تو اپنا کوئی ارمان ظاہر کیا تھا۔۔۔۔
”مجھے بتاٶ کیا ؟؟؟“وہ فورا پوچھ اٹھا۔۔۔
” نہیں جانے دو۔۔۔۔ میں جانتی ہوں نہیں ہوسکتا “ماہنور کار پر ٹیک لگا کر بولی۔۔۔۔
” ایک بار بتانے میں کیا حرج ہے“ شاہنزیب نے کافی زور دیا تھا ۔۔۔۔۔تو وہ بول اٹھی۔۔۔۔
”میں چاہتی ہوں ہم اپنا ہنی مون حویلی میں مناٸیں۔۔۔۔جہاں سے سب شروع ہوا تھا۔۔۔۔ میں حویلی جانا چاہتی ہوں شاہ۔۔۔۔۔ مجھے پتا ہے ایسا ممکن نہیں۔۔۔۔ اتنا لمبا سفر ۔۔۔اور آنا جانا کرنا۔۔۔۔ پھر دوسرے ہی دن ولیمہ بھی ہے“ یہ کہہ کر اس نے اداس سہ چہرہ بنایا۔۔۔۔
”ہوں“ شاہنزیب نے کوئی ری۔ایکشن نہ دیا بس اثبات میں سر ہلانے لگا۔۔۔۔
” چلیں ؟؟؟“ماہنور نے مسکرا کر پوچھا۔۔۔
” شروع ہوا تھا مطلب ؟؟؟۔۔۔۔۔کیا شروع ہوا تھا وہاں سے؟؟؟“ شاہنزیب الجھ کر پوچھنے لگا تھا ہاتھ پکڑ کر۔۔۔۔
” وہ یاد ہے ۔۔۔۔حویلی کی پہلی رات۔۔۔۔ جب تم سو رہے تھے“ ماہنور نے یاد دلایا ۔۔۔۔۔
” ہاں یاد ہے اس حسین رات کو کیسے بھول سکتا ہوں“شاہنزیب کی آنکھوں میں ایک ہی لمحے میں پورا منظر گھوم گیا تھا ۔۔۔جس کے سبب لبوں پر مسکراہٹ بکھر آٸی۔۔۔۔
” پتہ ہے میں صرف شارق سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔ میں نہیں جانتی تھی کہ وجہ کیا ہے ۔۔۔۔کیوں میرا دل اس سے بھاگتا ہے ۔۔۔۔۔پر جب اس رات تم نے مجھے کھینچا اور اپنے قریب کر لیا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں شاید اسی لیے میں شارق کے لٸے ہاں نہیں کر پا رہی تھی ۔۔۔۔بس اسی لیے میرا چھوٹا سہ ارمان ہے کہ جس کمرے میں۔۔۔۔مجھے پیار کا احساس ہوا تھا اسی کمرے میں میرے پیار کی شروعات ہو“ وہ کہہ کر شاہنزیب کو محبت سے دیکھنے لگی۔۔۔۔” چلیں اب؟؟؟۔۔۔کہیں کوئی ڈھونڈتا ہوا یہاں نہ آ جائے۔۔۔۔ پھر اتنے سارے سوالوں کے جواب دینے پڑیں گے “۔۔۔۔ماہ نور نے کہا تو اس کا ہاتھ پکڑ کر ہی ھال میں واپس داخل ہوا۔۔۔۔
ھال کافی خوبصورت اور بڑا تھا ”کہاں تھے تم دونوں ؟؟؟“اسماء نے اس کے آتے ہی ماہنور کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا تھا۔۔۔۔
”وہ“ ماہنور بولتی اس سے پہلے ریشم آگٸی تھی۔۔۔
” چلو بھئی جلدی جلدی سب بیٹھ جائیں“ اس نے کہا تو سب بیٹھنے لگے۔۔۔۔
” کیا ہوا بھائی ؟؟؟“شہزادہ اداس تھا کیونکہ بڑی پھوپھو نے صباء کو نہیں بھیجا تھا۔۔۔۔
” کچھ نہیں۔۔۔۔ چلو بیٹھے ہیں“ یہ کہہ شھزاد افسردہ سہ چہرہ بنائے بیٹھنے لگا۔۔۔۔
” کوئی بات نہیں بھائی ایسا ہوتا ہے۔۔۔ آپ بھی بڑی پھوپھو سے خوب بدلے لینا شادی کے بعد ۔۔۔ وہ آپ کو ترسا رہی ہیں ناں۔۔۔۔ بھابھی کی شکل تک نہیں دیکھنے دے رہیں۔۔۔آپ بھی ایسا ہی کرنا “شاہنزیب نے شھزاد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دلاسہ دیا تھا۔۔۔۔
” سوری بھائی میں نے بہت کوشش کی مگر پھوپھو نہیں مانیں “ ماہنور اداس سہ چہرہ بناکر کہنے لگی
” میں نے بھی فون کر کے کہا تھا“ اسماء نے بولا
” سارا فنکشن خراب کردیا پھوپھو نے تو “ولید اداس چہرہ بناۓ بول رہا تھا۔۔۔۔
”ابے یار ۔۔۔۔پھوپھو بھی ناں“کامران نے جنھجھلاکر کہا۔۔۔۔
” سارے چھوٹوں ۔۔۔۔سارے بڑوں۔۔۔۔۔ اپنے بڑے بھائی کا ادب کرو کیونکہ تمہاری پارٹی کی جان اور شان۔۔۔۔ میں لے آیا ہوں“ علی نے بڑے فخر سے کہا ہنستے ہوئے۔۔۔۔۔
” میں؟؟؟۔۔۔۔۔۔ یا ہم ؟؟؟۔۔۔۔۔ میں نے بات کی تھی پھوپھو سے “بھابھی نے فورا ٹوکا تھا علی بھائی کو۔۔۔۔
سب کو صباء کہیں نظر نہیں آرہی تھی ۔۔۔۔تو پھر کس کو لے آئے تھے وہ؟؟؟۔۔۔۔۔
”تو دل تھام لیجئے دولہے میاں۔۔۔۔۔کیونکے یہ رہی آپ کی صباء“یہ کہ کر بھابھی اور علی بھائی جو مل کر کھڑے ہوئے تھے ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔۔۔۔ اور صباء سب کو چاند رات کے چاند کی طرح نظر آئی۔۔۔۔
” او بھائی جان۔۔۔۔ مان گئے آپ کو “کامران اور شاہنزیب ایک ساتھ خوش ہوکر علی کے گلے لگے تھے۔۔۔۔
” چلو بھئی۔۔۔۔۔ اب تو فنکشن شروع کریں؟؟۔۔۔ شہزاد چلو بیٹھو “ یہ کہہ کر بھابھی مسکرا کر شہزاد کو بیٹھانے لگیں۔۔۔
” صباء کہاں؟؟؟۔۔۔۔ تم بھی یہیں بیٹھو گی“صباء شرما رہی تھی اس لیے بھابھی کے اشارہ کرنے کے باوجود وہ شہزاد کے برابر میں سب کے سامنے نہیں بیٹھ رہی تھی ۔۔۔۔تو رومیساء آپا نے بولا تھا۔۔۔۔ سب نے زبردستی صباء کو شہزاد کے برابر میں بیٹھا دیا تھا ۔۔۔۔شھزاد مسکرا مسکرا کر صباء کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔اس کے چہرے کا رنگ نکھر آیا تھا صباء کو دیکھ کر۔۔۔۔۔
” یار یہ راحیل اور ثانیہ کہاں رہ جاتے ہیں؟؟؟“علی بھائی پورے ہال میں نظر دوڑاتے ہوئے بولے ۔۔۔
”دونوں لیٹ لطیف ہیں۔۔۔ کہیں وقت پر نہیں آتے “شاہزیہ ان دونوں کی شان میں قصیدے پڑھے بغیر نہ رہ سکی ۔۔۔۔۔
”سوری ۔۔۔سوری۔۔۔“ثانیہ راحیل کے داخل ہوتے ہی سب انہیں گھورنے لگے۔۔۔۔ثانیہ نے آتے ہی معذرت طلب کی تھی۔۔۔ ثانیہ ڈاک نیلے رنگ کی کلیوں والی فراک۔۔۔جس پر گولڈن کڑاہی کا نفیس سہ کام ہوا واہ تھا۔۔۔ اسے زیب ِتن کی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ اس کا چہرہ چمک رہا تھا ۔۔۔ اس نے آج بال کھولے تھے اور سیدھے کندھے پر سیٹ کیے ہوئے ۔تھے۔۔۔۔۔۔جب کہ راحیل پیلے رنگ کا کُرتا اور اس پر کالے رنگ کا کورٹ ۔۔۔۔چوڑی دار پاجامہ پہنے ہوئے تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” مجھے ایسے مت دیکھیں۔۔۔۔ ساری دیر ان میڈم نے لگائی ہے ۔۔۔۔تیار ہونے کھڑی ہو جائیں آٸینے کے سامنے۔۔۔۔۔۔ بس پھر ہٹھنا بھی ہوتا ہے۔۔۔۔۔یہ بھول ہی جاتی ہیں “راحیل نے ثانیہ پر الزام ڈالا تو علی بھائی اس کی بات پر قہقہہ لگانے لگے۔۔۔
” کچھ نہیں ہو سکتا ان عورتوں کا “علی بھائی سر پکڑ کر راحیل کی تائید کررہے تھے۔۔۔۔۔
”اس معاملے میں۔۔۔۔۔میں تو بہت لکی ہوں۔۔۔۔میری بیوی تو سادگی پسند ہے“ ولید نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسماء کی سادگی کی بلاٸیں لیں تھیں۔۔۔۔جو لال رنگ کا کُرتا جس پر لیمن رنگ کی کڑھی ہوٸی کوٹی ۔۔۔۔۔۔۔اور لال ڈوری والا پاجامہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بال رولز کیے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ ولید سفید کُرتا شلوار اور اس پر براون باسکٹ پہنے ہوئے تھا۔۔۔۔
”چلو بھٸی ۔۔۔۔“ ریشم نے کہا تو سب اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔۔۔۔۔” تو سب سے پہلے جو کپل آرہا ہے فلور پر وہ ہے اسماء ولید ۔۔۔۔۔“ریشم نے کہا
تو سب خوب ”اووووووووووو“ کی آواز نیکالنے لگے۔۔۔
بیک میوزک اون ہوا تھا ۔۔۔۔اور وہ دونوں بیچ فلور پر آکر کھڑے ہوگئے تھے۔۔۔۔
” اسماء نروس مت ہونا “ماہنور نے آواز لگا کرحوصلہ بڑھایا تھا
ان کی پرفارمنس کے بعد راحیل اور ثانیہ آئے تھے اسٹیج پر۔۔۔۔
”کچھ سیکھو شاہ رحیل پاجی سے ۔۔۔۔کتنے رومینٹک ہیں “ماہنور راحیل اور ثانیہ کو کپل ڈانس کرتا دیکھ شکوہ کررہی تھی۔۔۔۔
” کیوں کل میں نے تمہارے لئے گانا نہیں گایا اور گھٹنوں کے بل تو میں بھی بیٹھا تھا“
”پر ڈانس نہیں کیا تھا تم نے “وہ منہ بسور کہنے لگی۔۔۔۔۔
”مجھے پسند نہیں ہے “ اس نے کہا تو ماہنور سوچتے ہوۓ اثبات میں سر ہلانے لگی
”پھر رومیساء آپا کی مایو والے دن کیوں کیا تھا؟؟“وہ تجسس سے پوچھنے لگی۔۔۔۔
”وہہہہہہہہہہہہہہ ۔۔۔۔۔وہ تو میں تم سے محبت کا اظہار کر رہا تھا۔۔۔۔ پر تم ٹھریں خالی کھوپڑی۔۔۔۔سمجھی ہی نہیں ہر بار کی طرح “شاہنزیب اس کے سر پر ہلکے سے دھپ مار کر کہنے لگا۔۔۔۔جس کے جواب میں وہ سر مسلتے ہوئے گھورنے لگی
” چلیں جی۔۔۔۔ اب آ رہا ہے وہ کپل ۔۔۔۔جس میں لڑکا تھوڑا چلبلا سہ ہے اور لڑکی سیدھی سادھی سی ۔۔۔۔تو نام ہے سعدیہ کامران۔۔۔۔۔“ریشم نے اعلان کیا تو سب اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔۔۔۔
کامران اور سعدیہ ایک ہی صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی الگ الگ۔۔۔۔ ھال میں جو صوفے رکھے گئے تھے وہ سفید رنگ ۔۔۔۔۔ اور صرف دو افراد کے بیٹھنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے تھے۔۔۔۔۔
سعدیہ بروان رنگ کی شینیل کی فراک پہنی ہوئی تھی جس کی کوٹی بروان تھی اور نیچے کا سارا گہر گولڈن تھا۔۔۔۔۔ وہ موٹے موتیوں کی مالا گردن میں ڈالی ہوئی تھی۔۔۔۔ اس کے آگے کے بالوں میں آڑھا بیک کومنگ کا پف بنا ہوا تھا ۔۔۔۔۔وہ پنک پنک سہ میک ۔اپ کٸیے ہوۓ نازک سی باربی ڈول لگ رہی تھی۔۔۔
سعدیہ نے کپل کا لفظ سنتے ہی ریشم کے بجاۓ کامران کو گھور کر دیکھا تھا۔۔۔۔۔
” ایسے نہ دیکھو ۔۔۔۔میں نے کچھ نہیں کیا “کامران تھوڑا لچک دار انداز میں بولا تھا۔۔۔۔
” کامران شرم کر ۔۔۔۔شادی کر لی اور اپنے بڑے بھائی کو بھی نہیں بلایا “علی بھائی ان کے بالکل برابر والے صوفے پر بھابھی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔۔ وہ مذاق اڑاتے ہوئے بولے۔۔۔۔۔
” یار کامران مجھے تو بلا لیتا ۔۔۔۔مجھ سے کیا دشمنی تھی؟؟؟“راحیل کامران کو مسکراتے ہوئے چھیڑ رہا تھا۔۔۔۔
”بس کرٶ یار۔۔۔۔۔ریشم کی بچی۔۔۔۔۔میں اور سعدیہ کپل کیسے ہوگٸے ؟؟؟“ کامران نے ریشم کو گھور کر دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ جو سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر اعلانات کر رہی تھی ۔۔۔
”وہ میرا مطلب تھا۔۔۔۔۔دوست“ ریشم نے اپنی غلطی فورا درست کی ۔۔۔۔۔زبان دانتوں میں دباتے ہوئے۔۔۔۔۔
” میں تمہارے ساتھ ڈانس نہیں کرنے والے “سعدیہ غصے سے دیکھتے ہوئے گویا ہوٸی۔۔۔۔۔
”تو جیسے میں تو مرے جارہا ہوں۔۔۔۔مت کرٶ “کامران نے بھی اتنی ہی بےرخی سے جھنجھلاکر جواب دیا۔۔۔۔۔
”افف اللہ“بھابھی ان کی لڑاٸی دیکھ اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر قسمت پھوڑتے ہوۓ۔۔۔۔” ابھی جاکر ڈانس کرٶ ۔۔۔۔بعد میں لڑ لینا ۔۔۔۔چلو جاؤ “ بھابھی دونوں کی لڑائی دیکھنے کے باوجود۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی لڑائی کو اگنور کرتے ہوۓ بولیں۔۔۔۔
”پر بھابھی ؟؟؟“ سعدیہ بھت ہلکے سے احتجاج کر رہی تھی۔۔۔ جس پر بھابھی نے تھوڑا اصرار کیا۔۔۔۔ اور باقی سب نے بھی ۔۔۔۔۔تو سعدیہ تیار ہوگٸی۔۔۔۔
”چلو“سعدیہ نے بےدلی سے کامران سے کھڑے ہوتے ہوۓ کہا۔۔۔
کامران ایسے ظاہر کرنے لگا جیسے کوئی انٹرس نہ ہو اس کے ساتھ ڈانس کرنے میں۔۔۔۔جبکہ دل ہی دل بہت خوش ہو رہا تھا۔۔۔۔۔
” چلو بھئی کھڑے بھی ہو جاؤ کامران ۔۔۔نخرے مت کرو“ رومیسا آپا بولی تھیں۔۔۔۔
”ٹھیک ہے “یہ کہتا ہوا بےزاری کا مظاہرہ کرتے ہوۓ ۔۔۔۔۔۔۔۔ایک گہرا سانس لے کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔۔۔ وہ نہایت بے رخی کا اظہار کر ہا تھا سعدیہ کو دیکھ۔۔۔۔
دونوں بیچ فلور پر کھڑے ہو گئے۔۔۔۔
جسے زندگی ڈھونڈ رہی ہے ۔۔۔۔
کیا یہ وہ مقام میرا ہے۔۔۔۔
یہاں چین سے بس رک جاؤں۔۔۔۔
کیوں دل یہ مجھے کہتا ہے۔۔۔
جذبات نئے سے ملے ہیں ۔۔۔۔
جانے کیا اثر یہ ہوا ہے۔۔۔۔
اک اس ملی پھر مجھ کو۔۔۔
جو قبول کسی نے کیا ہے۔۔۔۔
میوزک چلتے ہی مانو سحر سہ چھا گیا تھا ۔۔۔وہ تو پہلی ہی نظر میں کامران کو گھائل کر گٸی تھی۔۔۔۔نا جانے اس کی نورانیت میں ایسی کیا کشش تھی کہ وہ چاہ کر بھی اب دور نہیں رہ پارہا تھا ۔۔۔ سعدیہ صرف کھڑی ہو گئی تھی جاکر۔۔۔۔۔ کامران نے ہاتھ بڑھا کر مانگا تو منہ بسورنے لگی۔۔۔۔
پھر سب کے اصرار پر کامران کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا ۔۔۔وہ دور جانے لگی تو ایسا لگا کہ مانو کل ہی کی بات ہو جو اسے نماز پڑھتا دیکھ دیوانہ ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔وہ دور جا کر خود ہی اس کے ہاتھ سے لپٹ کر کمر سے آلگی تھی گول گھوم کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعدیہ کی کمر ۔۔۔کامران کے سینے سے لگی ہوئی تھی۔۔۔
سعدیہ واقعی وہ لڑکی تھی جسے زندگی بھر تلاش کرکے پایا تھا ۔۔۔۔وہ اتنے قریب تھی کہ وہ کہیں دور برفانی وادیوں میں کھو گیا تھا۔۔۔۔۔ اسے لگا کہ وہ کہیں دور سعدیہ کے ساتھ بالکل اکیلا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں ہر طرف حسن ہی حسن بکھرا ہوا ہے ۔۔۔۔سعدیہ ۔۔۔۔۔ اس کے سامنے گول گول مور کی طرح ناچتے ہوۓ۔۔۔۔اور وہ سعدیہ پر پھول برسا رہا ہے وہ سارے پھول اس کے حسین چہرے پر گر رہے ہیں اور وہ مسکرا کر اسے دیکھ رہا ہے۔۔۔۔
میں پرندہ بےصبر ۔۔۔
تھا اڑا جو در بدر۔۔۔
کوئی مجھ کو یوں ملا ہے ۔۔۔۔
جیسے بنجارے کو گھر۔۔۔
اسے سعدیہ کا شاہنزیب کے گلے سے لگ کر رونا یاد آیا۔۔۔ آج وہ لمحہ کامران کو تکلیف دینے لگا تھا ۔۔۔۔وہ سعدیہ کو بتانا چاہ رہا تھا کہ اب وہ اس کا ساتھ دینا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ندی کے کنارے بیٹھی رو رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔اور اس نے آکر اپنی بند مٹھی اسے دیکھائی ہو اور اشاروں سے کہا ہو کھولو اسے۔۔۔۔۔۔۔۔ سعدیہ کے کھولتے ہی اس میں سے ایک تتلی جو رنگوں سے بھری تھی۔۔۔۔۔اڑی۔۔۔۔۔۔ جسے دیکھ سعدیہ اپنا غم بھول کر مسکرانے لگی۔۔۔۔۔
” میں تمہیں ہمیشہ ایسے ہی مسکراتا ہوا رکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ پلیز میرا ہاتھ تھام لو سعدیہ“ کامران جو وادیوں میں کھوۓ ۔۔۔۔۔۔۔سعدیہ سے کہ رہا تھا۔۔۔ وہ دراصل ۔۔۔۔۔اصل زندگی میں کھوۓ کھوۓ سعدیہ کے کان میں بول رہا تھا۔۔۔۔
” اس لئے میں تمہارے ساتھ ڈانس نہیں کر رہی تھی“سعدیہ بڑی بے رُخی سے بولی۔۔۔۔ تو کامران حواس میں لوٹا تھا اور ناامید نظروں سے اس کے وجود کو تکنے لگا۔۔۔۔
سب نے تالیاں بجاکر خوب داد دی۔۔۔۔۔
” شاہ۔۔۔۔ سیٹی بجاؤ “ماہنور نے کہا تو وہ اسے گھورنے لگا
”کیا ؟؟؟“وہ تعجب سے ماہنور کا چہرہ دیکھتے ہوۓ۔۔۔
”یار۔۔۔۔۔بجاٶ ناں۔۔۔۔ مجھے نہیں آتی۔۔۔۔ورنہ میں خود بجا لیتی۔۔۔۔ پلیز بجاؤ “ ماہنور التجائی انداز میں بولی۔۔۔۔
” پر مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔۔۔ چھچھورے پن ٹائپ فیلیگز آتیں ہیں “شاہنزیب منہ بیگاڑتے ہوۓ
” تم بوڑھی روح ہو اس لئے ۔۔۔۔کوٸی چھچھورے پن والی بات نہیں ہے ۔۔۔۔پلیز بجاٶ ناں“ضد کرنے کے باوجود جب شاہنزیب نہ مانا تو خود دونوں ہاتھوں کی انگلیاں زبان کے نیچے رکھ کر بجانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔۔ جب شاہنزیب نے اسے ناکام ہوتے دیکھا تو اپنے لبوں پر دوڑ جانے والی مسکراہٹ کو نہ روک سکا ۔۔۔۔۔۔۔
” اب بات مت کرنا مجھ سے۔۔۔“ ماہنور اب خفگی بھری نظروں سے بول رہی تھی۔۔۔۔۔
” اچھا بابا۔۔۔۔۔ مارتا ہوں“ یہ کہہ کر اس نے جب زور دار سیٹی ماری۔۔۔۔تو ولید۔۔۔۔۔ عباس۔۔۔۔ شہزاد۔۔۔۔کامران۔۔۔۔۔راحیل۔۔۔۔۔علی۔۔۔۔۔عاشر اور باقی سب بھی اسے پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھنے لگے۔۔۔۔۔ مانو وہ کوئی آٹھواں عجوبہ ہو۔۔۔۔سب کے حیرت سے دیکھنے کے سبب شاہنزیب امبرس ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔
” یہ محبت بھی انسان سے کیا کیا کرواتی ہے “ولید مسکرا کر اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔
”ایک اور یار“ماہنور کی ڈیمانڈ بڑھ گئی تھی۔۔۔
” پلیز ماہنور۔۔۔۔ سب مجھے ہی دیکھ رہے ہیں“ اس نے احتجاج کیا تھا۔۔۔۔
” پلیز میرے لئے۔۔۔۔ بس ایک بار اور “ماہنور نے جب محبت سے بلیک میل کیا۔۔۔۔تو بیچارا عاشق مجبور ہوکر ۔۔۔امبرس ہونے کے باوجود ۔۔۔۔اس نے ایک بار پھر سے زوردار سیٹی مارٸی تھی۔۔۔۔
” تم مجھ سے اور کیا کیا کروانے والی ہو مانو؟؟“ شاہنزیب اسے بیچارگی والی نظروں سے تکتے ہوۓ پوچھنے لگا ۔۔۔۔جس کے جواب میں ماہ نور مسکرا کر نفی میں گردن ہلانے لگی۔۔۔۔
” تو اب آرہے ہیں شاہ اور ماہ نور “ریشم نے جب اعلان کیا تو شاہنزیب نے صاف منع کر دیا ۔۔۔۔پر ماہنور اکیلے ہی اٹھ کر اسٹیج پر آگئی۔۔۔۔
” شاہ یہ تمہارے لیے ۔۔۔۔تم نے کل میرے لئے گانا گایا تھا آج میں تمہارے لیے گانا چاھتی ہوں۔۔۔۔مانا تمہاری جیسی خوش آواز نہیں ہوں۔۔۔پر دل سے گاہ رہی ہوں “ ماہنور نے جب بھولے پن و محبت سے کہا۔۔۔۔تو شاہنزیب کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر آئی۔۔۔۔۔
دل دھڑکے میں تم سے یہ کیسے کہوں
کے کہتی ہے میری نظر۔۔۔۔۔۔ شکریہ
تم میری امنگوں کی شب کے لیے
آئے ہوں بن کے سحر ۔۔۔۔۔۔ شکریہ
ماہ نور شاہنزیب کا ہاتھ پکڑ کر اسے بیچ فلور پر خود ہی لے آئی تھی۔۔۔۔
شاہنزیب صرف اسے دیوانوں کی طرح دیکھ مسکرائے جا رہا تھا۔۔۔
ابھی تک میری روح میں چین ہے۔۔۔
ابھی تک میرا دل ہے بےتاب سا۔۔۔۔۔
یہ مانا ہو تم سامنے جلوہ گر۔۔۔۔۔۔۔
مگر مجھ کو لگتا ہے اک خواب سہ ۔۔۔
پل بھر میں جہاں کے غموں سے مجھے ۔۔۔۔۔
تم نے کیا ہے بے خبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شکریہ۔۔۔
شاہنزیب کے کندھے میں اپنی باھیں ڈال کر گاہ رہی تھی۔۔۔ اس کی آنکھیں محبت ہی محبت جھلکا رہی تھیں۔۔۔
” بس مجھے اتنا ہی آتا ہے شاہ۔۔۔۔سوری “ ماہنور مسکرا کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔ پھر سب ”اوووووووووووو“کی آوازیں نکالنے لگے۔۔۔۔پورا ھال اووو کی آواز سے گونج رہا تھا۔۔۔۔
” شاہ۔۔۔۔ مانو نے تمہارے لئے اتنا بڑا گانا گایا ہے۔۔۔ کچھ تو تمہیں بھی کرنا پڑے گا اس کے لئے “علی بھٸیا نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔۔۔
”ہاں شاہ۔۔۔۔تھوڑا سہ مانو کی خاطر ہی ڈانس کر لو “شاہزیہ آپا التجائی انداز میں بولیں۔۔۔۔
” اچھا ٹھیک ہے میں تھوڑا سا کر لوں گا۔۔۔۔پر آپ سب کو میرا ساتھ دینا پڑے گا یہاں تک کہ شہزاد بھائی آپ کو بھی“ اس نے کافی زور دیا تھا اپنے بھاٸی پر ۔۔۔
تو شہزاد نے ہاں میں ہاں ملا دی۔۔۔۔۔
عشق ہائے ۔۔۔۔۔۔۔ھن۔۔۔۔۔۔ھن۔۔۔۔۔۔۔ھن۔۔۔۔
تیری آنکھوں کے متوالے کاجل کو میرا سلام
زلفوں کے کالے کالے بادل کو میرا سلام۔۔۔۔
شاہنزیب نے ماہنور کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے گایا اور تھوڑا جھک کر اداب کرنے لگا اور پھر اسکے بالوں کی ایک جوڑا پن۔۔۔۔ جو ناجانے کب شاہنزیب نے نیکل لی تھی۔۔۔۔اپنی جیب سے ہلکا سہ باہر نیکال کر آنکھ مارتے ہوئے دیکھائی۔۔۔۔ جس پر ماہنور حیرت سے مسکرا دی۔۔۔
اووو۔۔۔۔ گھائل کر گئی مجھے یار
تیری پائل کی چھنکار ۔۔۔
او سوڑی سوڑی ۔۔۔۔۔۔۔تیری سوڑی۔۔۔۔
ہر ادا کو سلام۔۔۔ سلام عشق۔۔۔۔۔عشق ۔۔۔عشق۔۔۔۔
سلام عشق۔۔۔۔۔۔
شاہنزیب نے فرش پر بیٹھ کر۔۔۔۔۔۔ گھٹنوں کے بل ۔۔۔اس کے خوبصورت پاٶں کو اپنے گھٹنوں پر رکھ کر اس کے پاٶں میں خوبصورت سی پازیب پہناتے ہوۓ گایا۔۔۔جس کے سبب ماہنور کا دل خوشی سے جھوم اٹھا تھا ۔۔۔۔وہ اس حسین تحفے کے جواب میں جھک کر اداب کر کے بھاگ گئی تھی۔۔۔۔۔ اس نے جاکر ثانیہ اور راحیل کو کھینچا تھا تو وہ دونوں بھی بیچ فلور پر آگئے تھے۔۔۔۔
تیری مستانی انجانی باتوں کو میرا سلام
رنگوں میں ڈوبی ڈوبی باتوں کو میرا سلام
ثانیہ نے راحیل کے گرد طواف کرتے ہوۓ گایا تھا اور اسے جھک کر آداب کر رہی تھی۔۔۔
خوابوں میں کھو گئی میں
دیوانی ہو گی میں
او سوڑی سوڑی تیری سوڑی ہر ادا کو سلام۔۔۔۔۔
سلام عشق عشق عشق۔۔۔۔ سلام عشق ۔۔۔۔۔
شاہنزیب ولید اور اسماء کو ہاتھ سے پکڑ کر زبردستی کھینچ لایا تھا ۔۔۔۔۔اسماء نے ولید کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے اداب کیا تھا ۔۔۔۔اور انگلی کے اشارے سے اپنے دماغ پر گھوماتے ہوۓ دیوانی ہونے کا اسٹیپ کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔ پھر بے جان ہو کر گرنے لگی۔۔۔۔ولید نے فورا ہی اپنی باھوں میں تھاما تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس پر راحیل ثانیہ۔۔۔۔۔ شاہنزیب ماہنور انہیں ایک ساتھ مسکرا کر اداب کرنے لگے ۔۔۔۔۔۔تو اسماء جھیپ گٸی۔۔۔۔ ولید نے اسے فورا سیدھا کھڑا کیا تھا۔۔۔۔اور خود بھی اسے ”سلام عشق ۔۔۔عشق۔۔۔۔۔عشق۔۔۔۔۔۔ سلام عشق“کہ کر آداب کرنے لگا۔۔۔۔
تیرے ہاتھوں وچ مہندی کا رنگ پیلا ہے
تجھے سپنوں دا چنگا محبوب ملا ہے۔۔۔۔۔
شاہزیہ آپا صباء کے ہاتھوں کی مہندی دیکھ کر گاہ رہی تھیں۔۔۔۔ پھر شہزاد اور صبا کے گال کو ایک ساتھ پیار سے سہلاتے ہوئے گانے لگیں تھیں ۔۔۔۔۔
میری بنو پیاری پیاری
ساری دنیا سے نیاری
اسے ڈولی میں تو لے جا ڈولیاں۔۔۔۔۔
رومیسا آپا نے ماہنور کی روشن پیشانی کا بوسہ لیا تھا ۔۔۔۔۔۔ پھر شاہنزیب کے ہاتھ میں سب کے سامنے ماہنور کا ہاتھ پکڑایا تھا۔۔۔۔ جس پر شاہنزیب ماہنور ایک ساتھ خوش ہوکر رومیساء آپا کے گلے لگے۔۔۔۔۔
تیری میری نظر جو ملی پہلی بر۔۔۔۔
ہوگیا ہوگیا تجھ سے پیار ۔۔۔۔
دل ہے کیا ۔۔۔۔۔۔۔دل ہے کیا ۔۔۔۔
جان بھی تجھ پہ نصار۔۔۔۔۔۔
میں نے تجھ پہ کیا اعتبار۔۔۔۔۔۔
شہزاد کو زبردستی راحیل اور شاہنزیب پکڑ کر بیچ فلور پر لے آئے تھے۔۔۔۔۔۔ شھزاد صرف صباء کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے گاہ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس پر ماہنور اور ثانیہ صباء کو بھی ہاتھ پکڑ کر شہزاد کے برابر میں کھڑا کر کے مسکرا مسکرا کر کونیاں مارنے لگیں۔۔۔۔۔۔ وہ تو پہلے ہی شرمیلی شرمیلی سی تھی۔۔۔۔۔ان دونوں کے چھیڑنے کے سبب۔۔۔۔اپنے دونوں ہاتھ سے چہرہ چھپا کر شرمانے لگی۔۔۔۔۔
اووووو۔۔۔۔۔اووووو۔۔۔
میں بھی تو تجھ پہ مر گئی
دیوانہ پن کیا کر گئی
میری ہر دھڑکن بے تاب ہے
پلکوں وچ تیرا خواب ہے
اسماء۔۔۔۔۔ماہنور نے صباء کو ایک ساتھ شہزاد پر دھکا دے دیا تھا تو وہ شہزاد کے سینے سے جا لگی تھی۔۔۔۔ دونوں کی نظر ملی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس پر سب خوب مسکرا مسکار کر اس حسین لمحے کا لطف لے رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ گانے کے الفاظ صباء کے دل کی سچی ترجمانی کر رہے تھے۔۔۔۔۔ وہ تیزی سے خود کو سمبھالتے ہوۓ جھیپ کر ذرا دور ہٹ کر کھڑی ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوو۔۔۔۔جان سے بھی پیاری پیاری
جانیا کو سلام ۔۔۔۔۔۔ سلام عشق
عشق۔۔۔۔عشق۔۔۔۔عشق۔۔۔۔سلام عشق
راحیل ثانیہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے دوسرے ہاتھ سے سلام کرتے ہوئے مسکرایا تھا ۔۔۔۔۔جس پر شاہنزیب ماہنور ۔۔۔۔۔۔اسماء ولید ان دونوں کو چھیڑنے کی نیت سے جھک جھک کر آداب کرنے لگے۔۔۔۔
میں تیرے عشق میں۔۔۔۔
دوجہاں وار دوں۔۔۔۔
میرے وعدے پہ کرلے یقین۔۔۔۔۔
کہہ رہی ہے زمین کہہ رہا آسمان۔۔۔۔
تیرے جیسا دوجا نہیں۔۔۔۔۔۔۔
کامران کو جب ماہنور لینے آئی۔۔۔۔۔۔ تو وہ اس وقت سعدیہ کی طرف کمر کر کے کھڑا تھا ۔۔۔۔۔وہ صرف سعدیہ کے لٸے گاہ رہا تھا اپنی دونوں باھیں کھول کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے جادو نہ ڈال وے۔۔۔۔
نہ آٶں میں تیرے نال وے ۔۔۔۔
جوٹی تعریفیں چھوڑ دے۔۔۔۔۔
اب دل میرے دل سے جوڑ لے۔۔۔۔
بھابھی علی بھائی کو لے کر خود ہی فلور پر آگئیں تھیں ۔۔۔۔۔۔ یہ گانا گاتے ہوئے ہاتھوں سے دل بنا کر انہیں دیکھا رہی تھیں جس پر علی کے چہرے پر تبسم بکھر آئی۔۔۔۔۔
اووو ۔۔۔جو ابھی ہے دل سے نکلی اس دعا کو سلام۔۔۔۔
سلام عشق ۔۔۔۔عشق ۔۔۔۔۔عشق۔۔۔۔۔۔سلام عشق۔۔۔
کامران کہہ کر علی اور بھابھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دونوں کے کندھوں پر ہاتھ ایک ساتھ ہی رکھ لیا تھا۔۔۔۔ جس پر علی بھٸیا نے اسے گھور کر دیکھا تو اس نے فورا سوری کرتے ہوئے کندھے سے ہاتھ ہٹا لیا اور بھابھی کو دیکھنے لگا۔۔۔۔ جو اسے جھک کر آداب کرتے ہوۓ ۔۔۔۔۔۔مسکرانے لگیں۔۔۔۔۔۔
تیری آنکھوں کے متوالے کاجل کو میرا سلام
ولید نے اسماء کو سلام کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
زلفوں کے کالے کالے بادل کو میرا سلام
علی بھائی نے بھابھی کے بالوں کو سنگتے ہوئے گایا تھا اور اداب کیا۔۔۔۔۔۔
خوابوں میں کھو گئی میں ۔۔۔۔
دیوانی ہو گی میں ۔۔۔۔
ماہنور نے شاہنزیب کا کالر پکڑ کر مسکراتے ہوئے گایا۔۔۔۔۔۔
او سوڑی ۔۔۔۔سوڑی۔۔۔۔تیری سوڑی۔۔۔۔
ہر ادا کو سلام
ماہنور سے اس نے اپنا کالر چھوڑایا نہیں بلکہ بڑے پیار سے اسے دیکھ کر اداب کرنے لگا ۔۔۔۔جس کے جواب میں۔۔۔۔۔۔۔ماہنور نے مسکراتے ہوئے کالر چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔
سلام عشق ۔۔۔۔عشق ۔۔۔۔عشق ۔۔۔۔سلام عشق۔۔۔
ماہنور نے بھی جھک کر بڑے پیار سے اس کے سلام کا جواب دیا۔۔۔۔۔ دونوں ہی کی آنکھیں جھلملا اٹھی تھیں۔۔۔۔ولید نے اس حسین لمحے کو قید کر لیا تھا کمرے میں ۔۔۔۔
"یہ کیا ہے؟؟؟" سعدیہ نے کامران کو میٹھائی سے بھری پلیٹ اس کی جانب بڑھتے دیکھا تو تعجب سے پوچھا تھا ۔۔۔
”میٹھائی ہے ۔۔۔۔یہ گلاب جامن ۔۔۔یہ رس ملائی۔۔۔یہ بیسن کے لڈو۔۔۔۔ یہ ۔۔۔۔۔۔۔“وہ ابھی بول ہی رہا تھا ایک ایک میٹھائی پر انگلی رکھ رکھ کر...
” روکو۔۔۔۔یہ تو میں بھی جانتی ہوں پر تم لاۓ کیوں ہو؟؟؟“
” تمہیں کھلانے “کامران مسکراتے ہوۓ بڑے پیار سے بولا۔۔۔
”میں میٹھائی نہیں کھاتی“ اس نے سرسری سہ کامران کی جانب دیکھ جواب دیا اور مڑ کر جانے لگی۔۔۔۔
”یار۔۔۔۔ میں تو بہت دل سے لایا تھا ۔۔۔تھوڑی سی ہی چک لو “اس نے کہا تو سعدیہ واپس مڑی تھی ۔۔۔کامران کا انداز التجائی تھا جس کی وجہ سے اس کے دل میں تھوڑا رحم پیدا ہوا تھا ۔۔۔۔۔وہ کھانے کے لئے ہاتھ بڑھانے کا سوچ ہی رہی تھی۔۔۔
”سر سے پاٶں تک لال مرچ ہو تم۔۔۔۔ایک دم تھیکی ۔۔اففففف“ یہ کہتا ہوا اپنی زبان منہ سے باہر نیکال کر ”اف ۔۔۔۔اف“ کرنے لگا۔۔۔اس کی بات سن سعدیہ پیچ و تاب کھا گئی تھی۔۔۔” اس لیے سوچ رہا تھا تمہیں میٹھا میٹھا کھلاٶں تاکے تم میٹھی میٹھی سی ہو جاؤ“اس نے بڑے پیار سے چھیڑنے والے انداز میں کہا۔۔۔
”تم ۔۔۔۔تم اپنی لیمٸٹ میں رہو۔۔۔۔سمجھے ۔۔۔۔۔پتا ہے تمھارا پروبلم کیا ہے خود کو ضرورت سے زیادہ اسمارٹ سمجھتے ہو تم “یہ کہہ کر وہ اسے گھورتی ہوئی ایک دم مڑی تھی ...اس کی گھنی خوشبودار زلفیں کامران کے چہرے پر لگی تھیں۔۔۔۔ اس کے بالوں کی دل چورا لینے والی مہک محسوس کی تھی کامران نے۔۔۔۔
” کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔ میں ہی کھا لیتا ہوں “یہ کہہ کر مسکرا کر میٹھاٸی کھانے لگا۔۔۔۔
” کامران بھائی میٹھائی ہی کھاتے رہیں گے کیا؟؟؟۔۔۔ میرے ساتھ چلیں“ماہنور نے ہاتھ میں کیک پکڑا ہوا تھا اور دبی دبی آواز میں کامران سے بول رہی تھی ۔۔۔
” ارادے کیا ہیں ؟؟؟“کامران نے ابرو اچکا کر پوچھا تھا۔۔۔
”ارادے تو بڑے نیک سے ہیں“ وہ معصوم سا چہرہ بنا کر بولی۔۔۔”بس اپنے میاں جی کو کیک لگانا چاہتی ہوں “ وہ شرمانے کی اداکاری کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔
” تو میں کیا کر سکتا ہوں اس میں؟؟؟“وہ الجھ کر پوچھنے لگا۔۔۔۔
”او۔۔۔۔۔ہوووووو۔۔۔۔آپ تو کامران کے کامران ہی رہیں گے“ وہ جھنجھلا کر بولی۔۔۔۔۔
” کیا بول رہی ہو؟؟؟۔۔۔۔میں کامران ہوں تو کامران ہی رہوں گا ۔۔۔۔کوئی علامہ اقبال تھوڑی بن جاؤں گا۔۔۔۔ کچھ بھی بولتی ہو مانو“ وہ میٹھائی کھا تے ہوئے نفی میں گردن ہلاتے ہوۓ بولا۔۔۔۔۔
” صحیح کہا کامران ہی ہیں آپ ۔۔۔۔تبھی تو سعدیہ پھنس نہیں رہی ہے آپ سے۔۔۔میں آپ کو مشورہ دیتی ہوں میری شاگردی میں آجائیں۔۔۔سعدیہ یوں پٹے گی یوں“ یہ کہ کر اس نے چٹکی بجاتے ہوۓ اترا کر کہا۔۔۔۔”اوو۔۔۔۔ آپ باتوں میں لگا رہے ہو مجھے۔۔۔۔ یہ لو کیمرا پکڑو اور شاہنزیب کی تصویر بنانا“ ماہنور نے یہ کہہ کر دوسرے ہاتھ سے کیمرا اسے پکڑایا تھا۔۔۔۔
”چلو“ کامران اس کا کیمرہ مین بن کر آگے بڑھا۔۔۔۔
”شاہ“ ماہنور نے دونوں ہاتھوں میں اپنے کیک کی کریم بھر لی تھی اور اب بڑے پیار سے شاہنزیب کے پیچھے کھڑے ہو کر اسے پکارنے لگی۔۔۔۔ وہ جیسے ہی ماہنور کی آواز پر مڑا۔۔۔ماہنور نے ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا اور اس کے خوبصورت چہرے پر کیک کی کریم مل دی۔۔۔۔
”کامران بھاٸی جلدی تصویر بناٸیں “ ماہنور نے خوش ہوتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔
کامران نے بھی فوراً تصویریں بنائیں تھیں۔۔۔۔ سب خوب ہنس رہے تھے ۔۔۔
”ماہ نور“ شاہنزیب کھاجانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
” سوری۔۔۔۔۔ پر اتنا تو حق بنتا ہے نا میرا “یہ کہتے ہوۓ آنکھ مار کر مسکرانے لگی۔۔۔۔
” یہ لو شاہ۔۔۔۔۔ ماہنور تم بھی ناں۔۔۔۔ناجانے کب بڑی ہوگی تم؟؟“ رومیسا آپا اپنی قسمت پھوڑتے ہوئے بولیں” کوئی ایسے اپنے شوہر کے چہرے پر کریم لگاتا ہے؟؟؟۔۔۔۔۔حد ہے تم سے“ رومیساء آپا نے شاہنزیب کو رومال دیا تھا اور ساتھ ساتھ ماہنور کو خوب ڈانٹ پلائی تھی۔۔۔۔
ماہنور کا پورا چہرہ اتر گیا تھا ڈانٹ کھا کر۔۔۔۔
”ماہنور ۔۔۔۔اب شاہ تمھارا شوہر ہے۔۔۔کوٸی شرم لحاظ ہے یا نہیں ؟؟؟“اسماء بھی ڈانٹنا شروع ہوگٸی تھی۔۔۔۔
” ارے وہ تو صرف مذاق کر رہی تھی “کامران نے ماہ نور کی سائیڈ لی تھی۔۔۔
شاہنزیب وہاں سے چپ چاپ چلا گیا تو ماہنور کو لگا وہ بھی بہت غصہ ہو گیا ہے ۔۔۔۔ماہنور سرجھکا کر ان کی ڈانٹ سنے لگی۔۔۔۔
” اب نظر کیوں جھکا لی ہے۔۔۔۔ دیکھو میری طرف “آپا نے کہا تھا جس پر اس نے نظریں اٹھائیں۔۔۔۔۔تو اس کی نظر سب سے پہلے شاہنزیب پر پڑی تھی جو رومیساء آپا کی سیدھ میں دور کھڑا تھا اور مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔وہ بالکل پلر کے پاس کھڑا تھا۔۔۔۔
”مزا آرہا ہے؟؟؟“شاہنزیب ابرو اچکاکر ۔۔۔۔۔۔اشارے سے مزاق اڑاتے ہوۓ استفسار کررہا تھا۔۔۔
ماہنور سمجھ گٸی تھی اسے کوئی برا نہیں لگا ۔۔۔وہ تو بس فورا فورا بدلا اتار رہا ہے۔۔۔
”اچھا بچو ۔۔۔ میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں“ وہ گھور کر آنکھوں ہی آنکھوں میں بات کر رہی تھی۔۔۔
”پہلے آپا سے تو نمٹ لو ۔۔۔پھر آنا ۔۔۔۔۔مانو بلی “شاہنزیب خوب لطف لے رہا تھا ۔۔۔۔اس کی بیچارگی والی حالت دیکھ۔۔۔۔
”اب تم بچ کر دیکھاٶ مجھ سے۔۔۔۔میں بتاتی ہوں تمھیں ۔۔۔ بس ویٹ اینڈ واچ“وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں دھمکیاں دے رہی تھی۔۔۔۔جس پر ایک گہری تبسم شاہنزیب کے چہرے پر بکھر آئی تھی۔۔۔۔ آپا نے جب ماہنور کو آنکھوں سے اشارے کرتے دیکھا تو فورا پیچھے مڑٸیں۔۔۔۔۔۔پر شاہنزیب پھرتی سے پلر کے پیچھے چھپ گیا تھا۔۔۔۔
” وہاں کیا دیکھ رہی ہو؟؟؟۔۔۔۔میں یہاں کھڑی ہوں ماہ نور۔۔۔۔ اب شاہ سے معافی مانگو“ انہوں نے برہمی سے کہا تھا ۔۔۔۔۔۔
شاہنزیب پلر کے پیچھے سے نکل کر ماہنور کے برابر میں آکر شریف بن کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔
”شاہ برا مت ماننا۔۔۔۔ بچی ہے ابھی۔۔۔ وہ۔۔۔۔ تم تو جانتے ہو ناں ۔۔۔۔۔مانو۔۔۔۔ اور اس کی بیوقوفانہ شرارتوں کو“ رومیساء آپا نے التجاٸی انداز میں معافی مانگی تھی اور پھر ماہنور کو گھور رہی تھیں کہ وہ کیوں چپ ہے وہ بھی مانگے ۔۔۔
”سوری “ماہ نور نے نظر جھکا کر کہا تھا ۔۔۔۔جس پر شاہنزیب بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کنٹرول کر رہا تھا ۔۔۔۔۔
شاہنزیب نے صرف اثبات میں سر ہلا کر معافی دی تھی۔۔۔
ماہنور بغیر شاہنزیب کو دیکھے ۔۔۔منہ بسور کر ۔۔۔۔ میک اپ روم میں چلی گئی تھی۔۔۔۔
”شاہ بچی ہے ابھی۔۔۔ تم صرف مذاق لینا اسے“رومیساء آپا نے ماہنور کو ماں بن کر پالا تھا اور وہ شاہنزیب سے ڈر رہی تھیں۔۔۔کے کہیں وہ ماہنور کے ہسبینڈ ہونے کے ناطے برا نہ مان جاۓ۔۔۔۔
” آپا کیا ہوگیا ہے ؟؟؟۔۔۔ بس کر دیں۔۔۔۔ میں صرف ماہ نور کو تنگ کر رہا تھا اور اگر وہ مجھ سے مذاق نہیں کرے گی تو پھر کس سے کرے گی ۔۔۔۔۔ آپ بھی ناں۔۔۔۔خواہ مخواہ اسے اتنا ڈانٹ دیا۔۔۔۔اب روۓ گی بیٹھ کر ۔۔۔ میں دیکھتا ہوں اسے “یہ کہہ کر مسکراتا ہوا چلا گیا تھا ۔۔۔۔رومیساء آپا کے دل کو شاہنزیب کی بات سن ۔۔۔۔۔کافی سکون ملتا تھا۔۔۔۔
”رو رہی ہو؟؟“ شاہنزیب کمرے میں داخل ہوا تو ماہنور صوفے پر بیٹھی ہوٸی تھی۔۔۔۔اس نے داخل ہوتے ہی دروازہ اندر سے لاک کر لیا تھا۔۔۔۔
”روۓ میرے دشمن “ماہنور گراتے ہوۓ اسے دیکھ بولی۔۔۔” تم وہاں سے چپ چاپ کیوں چلے گئے تھے ؟؟“وہ ابرو اچکا کر پوچھ رہی تھی۔۔۔ شاہنزیب اس کے پہلو میں بیٹھ کر مسکرانے لگا۔۔۔۔” شرم تو آئی نہیں ہوگی اپنی بیوی کو سب کے سامنے ذلیل کروا کر ۔۔۔۔کھڑے پیچھے مزے لے رہے تھے “اس نے بیوی کا لفظ کافی جتاتے ہوۓ ادا کیا۔۔۔۔اور اسے غصے سے گھور کر منہ بسور بولی۔۔۔۔
”بیوی؟؟؟۔۔۔۔آپ میری بیوی ہیں؟؟؟“ وہ انجان بننے کی اداکاری کرنے لگا۔۔۔۔
”اچھا جی۔۔۔۔ اداکاری کی جارہی ہے وہ بھی میرے ساتھ۔۔۔۔۔ چلو واپس دو۔۔۔۔۔ ابھی کے ابھی میرا سارا سامان جو تم نے چوری کیا ہے واپس کرٶ۔۔۔۔۔ خاص طور پر بال پن ۔۔۔“اس نے کمر پر ایک ہاتھ ٹیکاتے ہوۓ کسی بڑی بی کی طرح مانگا تھا۔۔۔
” بال پن تو نہیں ہے۔۔۔۔۔ یہ جوڑا پن ہے۔۔۔ جس پر سفید پھول بنا ہوا ہے“ وہ مسکراتے ہوئے دیکھا کر کہنے لگا۔۔۔۔
”ہاں یہی ۔۔۔۔واپس دو“ یہ کہہ کر اس کے ہاتھ سے جھپٹنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔اس نے تھوڑی دیر ماہنور کو ستایا ۔۔۔پھر جوڑا پن اپنی جیب میں ڈال کر
” ارے یار تم تو برا ہی مان گٸیں۔۔۔۔ زیادہ ہو گیا ناں؟؟؟۔۔۔۔چلو آٸیندہ خیال رکھوں گا۔۔۔۔۔ بس “یہ کہہ کر مسکرانے لگا
”مجھ سے معافی منگاٸی ہے تم نے وہ بھی سب کے سامنے۔۔۔۔ کم ازکم اکیلے میں تو مغرور شخص ۔۔۔۔مجھ سے معافی مانگو“ وہ غصے سے تکتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
” بول تو رہا ہوں اب نہیں کروں گا ۔۔۔۔بچے کی جان لو گی کیا؟؟؟“وہ لاپرواہی سے بولتا ہوا ۔۔۔۔۔۔اسے محبت بھری نگاہ سے تکنے لگا۔۔۔۔ اچانک جنید جمشید کا خیال آگیا
”کیا کر رہے ہو ؟؟؟“ماہنور نے اسے کمرے کے چاروں طرف دیکھتا ہوا اور چیزوں کو ادھر ادھر کرتا دیکھا۔۔۔۔ تو الجھ کر استفسار کیا۔۔۔
” پکا کررہا تھا کہ جنید جمشید تو نہیں چھپے ہوۓ یہاں۔۔“ اس نے کہا تو ماہنور کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر آئی۔۔۔۔وہ مسکراتی ہوٸی حسین سی باربی ڈول لگ رہی تھی۔۔۔۔شاہنزیب کادل اس کی طرف تیزی سے ماٸل ہورہا تھا۔۔۔۔جذبات دونوں کے سلگ رہے تھے۔۔۔۔۔اس کی مسکراہٹ مزید بہکا رہی تھی۔۔۔۔
”شاہ ایسے مت دیکھو ۔۔۔مجھے شرم آتی ہے “ماہنور اپنا چاند سہ چہرہ صوفے سے لگا کر گویا ہوٸی۔۔۔
”بیوی ہو میری۔۔۔۔۔اتنا تو حق ہے ناں ؟؟؟“یہ کہ کر اس کے مزید قریب آنے لگا۔۔۔۔
اس ظالم حسینہ کا چہرہ خود اپنی جانب کرلیا ۔۔۔۔ماہنور کی جان نیکل رہی تھی۔۔۔۔دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔۔وہ جتنا نزدیکی بڑھا رہا تھا۔۔۔۔اتنا ہی سانس رکتا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔ماہنور نے دونوں ہاتھوں سے صوفے کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا۔۔۔۔وہ مزید نزدیک آیا تو ماہنور کی مہک دیوانا کرنے لگی۔۔۔۔ماہنور نے آنکھیں بند کرلیں۔۔۔۔آج شاہنزیب بہک جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔۔ناجانے اگلے ہی لمحے کیا ہو گیا دل کو ۔۔۔۔۔چونک کر خود ہی ماہنور سے دور ہٹا۔۔۔۔۔ اس لمحہ جیسے ضمیر نے پورے وجود کو جھنجھوڑ دیا ہو۔۔۔۔۔۔۔وہ ماہنور کو دیکھنے لگا۔۔۔۔جو اپنا آپ اس کے حوالے کرچکی تھی۔۔۔۔۔۔
”کہاں گیا؟؟؟“ اپنے دل کی دھڑکنوں کو آرام سے چلتا ہوا محسوس کر ۔۔۔۔۔۔آنکھ کھول۔۔۔۔۔۔ دیکھنے لگی۔۔۔۔ شاہنزیب وہاں وجود ہی نہ تھا ۔۔۔۔۔کمرے کا دروازہ بھی کھلا ہوا تھا
”شاہ کہاں ہے ؟؟؟“ماہنور نے اسماء سے پوچھا تھا۔۔۔
” وہ باہر گیا ہے ولید کے ساتھ“
”کیا ؟؟۔۔۔۔۔۔ولید بھائی کے ساتھ۔۔۔۔۔ ولید بھائی بھی ناں کبھی کبھار مجھے اپنی سوتن معلوم ہوتے ہیں۔۔۔“ماہنور چڑ کر کہہ رہی تھی۔۔۔۔
”اوو۔۔۔ہیلو۔۔۔۔ اسکیوزمی ۔۔۔۔ شاہ خود لے کر گیا ہے ولید کو۔۔۔۔ورنہ ولید تو میرے ساتھ تھا ۔۔۔مجھے بلکہ شاہ اپنی سوتن لگنے لگا ہے ۔۔۔۔۔جب سے یہاں آٸی ہوں ۔۔۔ولید مجھ سے زیادہ شاہ کے ساتھ وقت گزارتا ہے “اسماء جوابی کرواٸی کرتے ہوۓ بولی۔۔۔۔۔
”ولید میں اسے سب بتا دوں گا “شاہنزیب نے اپنی روشن پیشانی پر ہاتھ ملتے ہوئے پریشان ہو کر کہا تھا۔۔۔۔ وہ دونوں ہال سے کافی دور آ گئے تھے چلتے چلتے۔۔۔۔
”کیا کہہ رہے ہو ؟؟؟“۔۔۔ولید اس کی بات پر چونک اٹھا تھا۔۔۔
”یار میں اسے اندھیرے میں رکھ رہا ہوں۔۔۔۔ جو غلط ہے۔۔۔ دھوکہ دے رہا ہوں میں اسے۔۔۔۔ اور یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔۔۔۔۔ وہ خود کو میرے حوالے کر رہی ہے۔۔۔۔ میرا ضمیر مجھے ملامت کرنے لگا ہے “شاہنزیب وہاں پاس رکھے پتھر پر بیٹھ کر روہانسہ آواز میں گویا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔
” شاہ ہر بیوی یہی کرتی ہے۔۔۔۔ تم کیا چاہتے ہو دور دھکیل دیتی تمھیں خود سے “
” ہاں میں جانتا ہوں ہر بیوی یہی کرتی ہے ۔۔۔پر ہر شوہر میری طرح دھوکے باز نہیں ہوتا “
”کیا دھوکا دیا ہے تم نے ؟؟۔۔۔۔ جو کیا تھا وہ تم نے اسی کی بھلاٸی کی خاطر کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس طرح تو میں بھی دھوکے باز ہوں۔۔۔۔میں نے بھی اسماء کو دھوکا دیا ہے۔۔۔ نہ صرف دھوکا اسے آج تک دھوکے میں ہی رکھتا آیا ہوں۔۔۔۔“ولید سمجھانے کی غرض سے بول رہا تھا۔۔۔۔
” تمہارے دھوکے اور میرے دھوکے میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔۔۔۔۔“شاہنزیب پریشانی کے عالم میں کھڑا ہوا ۔۔۔۔۔۔
”کوئی فرق نہیں ہے۔۔۔۔۔ اگر ابھی میں جا کر اسماء کو بتادوں کہ جو اسے جاب ملی تھی وہ میں نے دلائی تھی ۔۔۔۔وہ گاڑی۔۔۔۔۔ بنگلہ میں نے دیا تھا۔۔۔۔۔۔ سب کچھ۔۔۔۔۔ جو کچھ اس کے پاس ہے ۔۔۔۔۔۔۔جو وہ سمجھتی ہے کہ اس نے اپنی قابلیت کے بل بوتے پر حاصل کیا ہے ۔۔۔۔۔ وہ اس کی قابلیت نہیں تھی۔۔۔۔وہ میری محبت تھی جو میں اس پر دونوں ہاتھوں سے لوٹا رہا تھا۔۔۔میں نے ایک سال کے اندر اندر اسے اتنا امیر کردیا جتنا وہ بننے کی عارضو رکھتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات اس کے سگا بھائی راحیل بھی جانتا ہے۔۔۔۔ لیکن وہ خاموش رہا کیونکہ میں ٹھیک تھا اپنی جگہ۔۔۔۔ اسی طرح جو تم نے کیا وہ ٹھیک ہے ۔۔۔۔اسی لئے دادو شہزاد اور میں خاموش ہیں“ ولید نے شاہنزیب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُسے سمجھایا تھا۔۔۔۔۔۔
” پر میرا ضمیر نہیں مان رہا۔۔۔ وہ مجھے جھنجھوڑ رہا ہے۔۔۔۔میں اسے سب کچھ بتا دینا چاہتا ہوں ۔۔۔۔اپنی نٸی زندگی کا آغاز جھوٹ سے نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔ ماہنور مجھ سے بہت محبت کرتی ہے۔۔۔۔ وہ سمجھے گی میرے جذبات کو۔۔۔۔ سمجھے گی کیوں کیا میں نے یہ سب۔۔۔۔“شاہنزیب گھمبیر لہجے میں گویا ہوا۔۔۔۔ وہ پُرامید تھا کہ ماہنور اسے سمجھے گی۔۔۔۔۔
” ہاں دادو اور شہزاد تو نفرت کرتے تھے تجھ سے“ولید طنزیہ سمجھانے کی نیت سے کہنے لگا۔۔۔۔” تبھی تو چار سال بعد جا کر مانیں ہیں۔۔۔۔۔تجھے کیا لگتا ہے تو جا کر کہے گا ماہنور میں وہی لڑکا ہوں جس نے تمہاری برات والے دن دولہے کو اٹھا لیا تھا ۔۔۔۔تمہارے والد جس صدمے سے چل بسے ۔۔۔۔ وہ صرف میری ایک مس انڈراسٹینڈنگ کی وجہ سے ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔میں بہت افسردہ ہوں۔۔۔۔۔۔یہ کہو گے تم؟؟؟۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔۔۔۔تمہیں کیا لگتا ہے وہ تمہیں معاف کر دے گی اور کہے گی جو ہوا اسے بھول جاؤ شاہ۔۔۔۔۔ یہ سوچ رہے ہوتم ؟؟؟۔۔۔۔۔یار ۔۔۔۔۔۔۔۔ہوش کرٶ “۔۔۔۔۔۔۔۔ولید اس کا بازو جھنجھوڑتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔”شہزاد کے بڑے اہو تھے ملک صاحب تو اس کا اتنا سخت ردِعمل دیکھا تھا ہم نے۔۔۔۔۔ پہلے وہ مُکے ۔۔۔۔۔پھر گھر میں گھسنے نہ دینا۔۔۔ تمہیں ماہنور سے کوئی رابطہ تک نہیں رکھنے دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر ماہنور کے تو ملک صاحب والد تھے۔۔۔ یتیم ہو گئی تھی وہ ۔۔۔۔سوچا ھے تم نے؟؟؟۔۔۔۔۔۔ وہ تمہیں اتنی آسانی سے معاف کر دے گی۔۔۔۔۔یہ سوچ رہے ہو تم؟؟؟؟۔۔۔۔۔ تو میرے دوست خوابوں کی دنیا سے باہر آؤ۔۔۔۔۔۔ وہ تمہیں سزا دے گی۔۔۔۔ اسے اگر پتا چل جائے ساری حقیقت ۔۔۔۔ تو وہ خود بھی تڑپے گی اور تمہیں بھی تڑپاۓ گی۔۔۔۔۔۔ ابھی تو تم اپنی ضمیر کو سکون دینا چاہتے ہو اسے بتا کر۔۔۔۔۔ پر تب کیا ہوگا جب ماہنور غصے میں آکر طلاق کا مطالبہ کر ڈالے گئی۔۔۔۔۔ اب خود فیصلہ کرٶ اپنے ضمیر کو سکون دینا چاہتے ہو یا زندگی بھر ماہنور کے ساتھ رہنا چاہتے ہو “وہ شاہنزیب کو دوست ہونے کی ناطے سمجھا رہا تھا۔۔۔۔۔
ولید جانے لگا تھا فیصلہ شاہنزیب پر چھوڑ کر۔۔۔۔
” سچ کبھی نہیں چھپتا ۔۔۔۔ ایک نہ ایک دن سامنے آ ہی جاتا ہے۔۔۔۔ اسے کسی اور سے یہ بات معلوم ہوئی تو مجھے کبھی معاف نہیں کرے گی“ یہ کہہ کر شاہنزیب اپنا سر پکڑ کر ۔۔۔۔ اپنی قسمت پر ماتم کرنے لگا۔۔۔۔۔
” اسے کوئی کبھی نہیں بتائے گا تم فکر نہ کرٶ۔۔۔۔اپنی راہ میں آنے والے پھولوں کو چنو ۔۔۔۔۔کانٹوں کی پرواہ تب کرنا جب وہ سامنے آٸیں ۔۔۔“یہ کہہ کر ولید مڑ کر واپس آیا تھا۔۔۔اسے سچے دوست کی طرح دلاسہ دینے۔۔۔۔۔
” عشق نے نکما کر دیا تمھیں میرے دوست
ورنہ آدمی تم بھی بڑے کام کے تھے۔۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر ولید نے شاہنزیب کی کمر کو تھپتھپایا تھا۔۔۔۔۔
ولید اور شاہنزیب واپس ہال پہنچے تو سب باہر نکل رہے تھے ۔۔۔۔سب اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھے تھے۔۔۔
” میرے ساتھ بیٹھ جاؤ ۔۔۔فکر مت کرو گھر ہی پہنچاٶں گا“ کامران نے سعدیہ سے کہا تھا بائیک اسٹارٹ کر کے
چاہو تو میری کار میں آ جاؤ جگہ خالی ہے“ راحیل نے کہا تو کامران نے راحیل کو گھور کے غصے سے دیکھا تھا ۔۔۔جس پر وہ فوراً سمجھ گیا کہ وہ کباب میں ہڈی بن رہا ہے۔۔۔۔
” میرا مطلب ہے چھوڑو۔۔۔۔ تم باٸیک پر ہی بیٹھ جاؤ“ یہ کہ کر وہ آنکھیں میچھتے ہوئے کار میں بیٹھا تھا۔۔۔۔
” سعدیہ بیٹھ جاؤ بیچارہ خوش ہو جائے گا“ اسماء کہہ کر راحیل کی کار میں بیٹھی۔۔۔۔
” ہاں سعدیہ بیٹھ جاؤ ناں۔۔۔۔ پلیز ۔۔کامران بھائی آئستہ آئستہ چلائیں گے “ماہنور شوخی سے کامران کو کونی مارتے ہوئے کار میں بیٹھی۔۔۔
آخرکار سب کے اصرار پر وہ بائیک پر کامران کے ساتھ بیٹھی ۔۔۔۔تو سب خوب ”اووووو“ کرنے لگے
” ہاتھ رکھ لو “کامران نے آہستہ سے کہا تھا ۔۔۔
”کیا ؟؟؟“ سعدیہ کو سنائی نہیں دیا۔۔۔
” میں نے کہا ہاتھ رکھ لو میرے کندھے پر ۔۔۔۔۔ورنہ گر جاؤ گی۔۔۔پھر شکوہ مت کرنا ۔۔۔ میں نے بولا نہ تھا “کامران نے ہلکا سہ مڑ کر اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
” شاہ کہا جا رہا ہے ؟؟؟“علی نے جب شاہنزیب کی کار کو گھر کے بجائے دوسرے راستے جاتے دیکھا تو پریشان ہو کر بولا۔۔۔۔۔
”رات کے اس پہر کہاں جا رہا ہے یہ ؟؟؟“بھابھی جو ان کی برابر والی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی فکر مند ہو کر بولیں۔۔۔۔
” ماہ نور تمہیں پتا ہے کہاں جا رہا ہے ؟؟؟“
”نہیں۔۔۔۔بھابھی “
”اچھا میں فون کر کے پوچھتا ہوں“ یہ کہ کر انہوں نے شاہنزیب کو فون لگایا تھا ۔۔۔۔۔” کال ریسیو ہی نہیں کر رہا“ علی بھاٸی سیل واپس جیب میں ڈالتے ہوئے بولے۔۔۔ساری گاڑیاں رک گئیں تھیں۔۔۔
” کیا ہوا ؟؟؟“ شہزاد نے کار کا شیشہ نیچے اتارتے ہوئے پوچھا تھا۔۔
” شاہ فون نہیں اٹھا رہا اور اتنی رات کو ناجانے کہاں جا رہا ہے“علی بھاٸی نے پریشان لہجے میں جواب دیا۔۔۔۔
” اچھا میں پیچھا کرتا ہوں اس کی کار کا “شہزاد نے اپنی کار شاہنزیب کی کار کے پیچھے لگا لی تھی۔۔۔
” بھائی آپ بھی چلیں۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔ پتا نہیں کہاں جا رہا ہے وہ“ ماہنور فکرمند ہوکر التجائیہ انداز میں گویا ہوٸی۔۔۔ تو وہ بھی شاہنزیب کے پیچھے چل دٸے۔۔۔۔ باقی سب بھی ان کے پیچھے پیچھے آن پہنچے تھے۔۔۔۔
” لو جی۔۔۔ جناب تو ساحل سمندر پر آئے ہیں“ بھابھی نے کہا تھا جب شاہنزیب کی کار کو کھڑا دیکھا۔۔۔
” آدھی رات کو یہاں آنے کی کیا سوجھی تھی ؟؟؟“ علی الجھے انداز میں کہتا ہوا کار سے باہر کھڑا ہوا۔۔۔۔
” وہ کہہ رہا ہے اکیلے رہنا چاہتا ہے کچھ دیر۔۔۔تھوڑی دیر بعد خود ہی آجائے گا“شہزاد نے کان سے فون ہٹاتے ہوئے شاہنزیب کا پیغام علی کو سنایا۔۔۔۔
” اب ہم یہاں آ ہی گٸے ہیں تو تھوڑی دیر رک جاتے ہیں۔۔۔“ بھابھی کار سے اتر کر بولیں۔۔۔
”آپ لوگ یہاں کیوں آگئے؟؟؟“راحیل آیا تھا پوچھتے ہوئے اور اس کے پیچھے پیچھے کامران بھی۔۔۔۔
” سوچا انجوائے کرلیں۔۔۔۔ آج کی رات پھر تھوڑی آٸے گی “ بھابھی نے مسکراتے ہوئے کہا تو سب گاڑیوں سے اترۓ۔۔۔۔۔
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ۔۔۔۔ہوا کی بھینی بھینی سی مہک۔۔۔ جادوٸی سحر۔۔ ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر ۔۔۔۔آسمان پر چاند ستاروں کا خوبصورت سماں۔۔۔۔
”شاہ“ ماہ نور کی آواز پر وہ چونکا تھا ۔۔۔
”تم یہاں ؟؟؟“
”ہاں۔۔۔۔میں یہاں۔۔۔“ ماہنور بڑی پیاری سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔۔۔”پلیز اب یہ مت بولنا کے اکیلے رہنا چاہتا ہوں“ اس نے اگلے ہی لمحہ اداس چہرہ بنا کر کہا ۔۔۔ تو شاہنزیب نفی میں گردن ہلانے لگا۔۔۔۔ وہ ایک اونچے پہاڑ کے کنارے بیٹھا ہوا تھا تنہا تنہا سہ۔۔۔۔۔اپنے ہی غموں میں ڈوبا ہوا۔۔۔ سمندر کو ساحل سے ٹکراتا ہوا دیکھ رہا تھا ۔۔۔ وہ بہت اونچائی پر بیٹھا ہوا تھا وہاں سے دیکھنے والا نظارہ نہایت ہی قدرتی حسن سے لبریز تھا۔۔۔۔ حدِ نگاہ تک سمندر ہی سمندر نظر آرہا تھا۔۔۔ہوا ایسی چل رہی تھی مانو روح کو چھو رہی ہو ۔۔۔۔۔
”بیٹھ جاؤں؟؟؟“ ماہنور نے اجازت طلب کی تو شاہنزیب اثبات میں سر ہلانے لگا ۔۔۔۔وہ بالکل اس سے لگ کر بیٹھ گٸی۔۔
” اتنی رات کو اکیلے ڈرائیو کر کے آنے کی کیا ضرورت تھی؟؟؟“ شاہنزیب ابرو اچکا کر ہلکا سہ خفگی بھرے لہجے میں پوچھنے لگا۔۔۔۔ تو جواب میں ماہنور مسکرا کر ”میں اکیلے تھوڑی آٸی ہوں۔۔۔۔۔چلو میرے ساتھ“ یہ کہہ کر فورا کھڑی ہوگٸی اور اس کے آگے ہاتھ بڑھانے لگی ۔۔۔۔شاہنزیب نے مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا۔۔۔۔اور اس نازک سی گڑیا کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا ہوا۔۔۔۔ پیچھے سے اپنی پینٹ جھاڑنے لگا جس پر کافی مٹی لگ گئی تھی۔۔۔
” یہ سب یہاں؟؟؟“ماہنور اسے پہاڑ کے دوسرے حصے کی طرف لائی تھی جہاں اس کے سارے گھر والے سمندر کے کنارے بیٹھے ہوئے نظر آرہے تھے۔۔۔۔۔
” ولید مت کرٶ۔۔۔ میرا نیا ڈریس خراب ہو جائے گا “اسماء دانت کچکچاتے ہوئے مسلسل خود کو پانی سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے بول رہی تھی۔۔۔۔” تم ایسے نہیں مانو گے۔۔۔۔دوکو۔۔۔۔ تمہیں تو میں بتاتی ہوں“ یہ کہہ کر وہ خود بھی اب ولید پر پانی پھیکنا اسٹارٹ ہوگٸی تھی۔۔۔۔۔
” علی بھائی اور بھابھی کتنے پیارے لگ رہے ہیں ایک ساتھ“ ماہنور نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔وہ دونوں سب سے الگ تھلگ بالکل ایک دوسرے سے لگ کر ایک سائیڈ میں بیٹھے ہوئے تھے دو ہنسوں کے جوڑے کی طرح ۔۔۔۔
”ہممم۔۔۔۔ اچھے لگ رہے ہیں” شاہنزیب نے بھی تائید کی۔۔۔۔
” مجھے ولید بھاٸی اور اسماء کی جوڑی بہت اچھی لگتی ہے“ ماہنور نے مسکراتے ہونے انہیں نیچے بچوں کی طرح پانی سے کھیلتے ہوئے دیکھ کہا۔۔۔۔
” اگر تمہیں پتہ چلے کہ ولید نے اسماء کو دھوکا دیا ہے ۔۔۔تو وہ بھی تمہارا یہی نظریہ ہوگا ۔۔۔؟؟“ شاہنزیب دونوں ہاتھ فولٹ کر کے نہایت گمبھیر لہجے میں پوچھنے لگا۔۔۔۔۔
”ہمممم۔۔۔۔ پہلے دیکھنا پڑے گا کہ دھوکا کس نوعیت کا ہے۔۔۔ اگر ہلکا پھلکا ہے تو جائز ہے میری نظر میں ۔۔۔۔۔تمہاری مجھے نہیں پتا“ وہ اپنی قیمتی رائے دیتے ہوئے بولی۔۔۔
” اگر دھوکا ایسا ہو کہ کسی کی جان چلی جائے تو؟؟؟“ وہ بڑے تجسس سے ماہنور سے استفسار کر رہا تھا۔۔۔۔” کیا تم معاف کر دو گی پھر؟؟؟“
” مجھے نہیں پتا شاید میں معاف نہ کروں اور مجھے پھر ولید بھائی اچھے بھی نہ لگیں۔۔۔کیونکے جو دھوکا کسی کی جان لے لے۔۔۔۔ وہ دھوکا تھوڑی رہے گا وہ تو گناہ بن جائے گا“ ماہنور کی رائے سن شاہنزیب مزید بکھر گیا۔۔۔۔” پر تم ایسے سوال کیوں کر رہے ہو؟؟؟“ وہ الجھی نگاہ سے تکتے ہوۓ بولی۔۔۔۔۔۔
”ایسے ہی“ شاہنزیب نے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ سجاکر کہا۔۔۔۔
” ان پہاڑوں کو دیکھ رہی ہو سعدیہ۔۔۔؟؟؟۔۔۔۔۔ویسے تو ان پہاڑوں کو توڑ دینا کوئی آسان کام نہیں۔۔۔پر یہ جو لہریں ہیں ناں۔۔۔۔ یہ روز کوشش کرتی ہیں اسے توڑنے کی۔۔۔۔۔ اور دیکھو کامیاب بھی ہو جاتی ہیں۔۔۔۔مجھے لگتا ہے ایک دن میرا پتھر دل محبوب بھی ضرور ٹوٹے گا اور اس میں سے وہ موم دل سعدیہ نیکلے گی۔۔۔۔۔۔۔ جو میری ہوگی صرف میری" ۔۔۔۔۔۔سعدیہ اور کامران سمندر کے کنارے کنارے چل رہے تھے۔۔۔۔۔ کہ کامران نے بڑے کھوۓ کھوۓ انداز میں پہاڑوں پر اچھالے مارتے سمندر کی لہروں کو دیکھ کہا تھا۔۔۔
”ہممممم۔۔۔۔۔۔۔ پوچھنا تھا یہ جو تم لیکچر دیتے ہو اس کی فیس چارج کرتے ہو یا فری ہوتا ہے؟؟؟“ سعدیہ نے چھوٹی آنکھیں کرتے ہوئے کامران کو دیکھ نرم لہجے میں پوچھا۔۔۔۔” کیونکہ اگر فری بھی ہوتا ہے ناں۔۔۔۔ تو بھی مجھے سننے میں کوئی انٹرس نہیں ہے“ سعدیہ کہ کر بے رخی سے واپس مڑی تھی کامران اسے دور جاتا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
” بیچارے کامران بھائی اتنی محبت اور کوشش کر رہے ہیں سعدیہ کو منانے کی۔۔۔۔۔ پر وہ ہے کہ مانتی ہی نہیں“ ماہنور نے اوپر سے دیکھتے ہوئے اداس لہجے میں کہا۔۔۔۔
” لگتا ہے ۔۔۔۔ بیچارے کامران کو مدد کی ضرورت ہے“شاہنزیب ایک گہری سانس لیتے ہوئے بولا۔۔۔۔
” میرے ساتھ چلو“شاہنزیب ماہنور کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لے کر بیٹھ گیا واپس اسی جگہ آکر۔۔۔۔
” ایک بات پوچھوں ولید بھاٸی کی تو کوئی بہن بھی نہیں ہے تو پھر کیوں پیچھے پڑے رہتے ہو ان نے؟؟؟“ماہنور کا ابرو اچکاکر تفتیشی انداز میں پوچھنا شاہنزیب کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر لایا تھا۔۔۔
” تم یہ سوال کیوں کررہی ہو؟؟؟“
”کیونکے تم مجھے اکیلا چھوڑ کر کمرے میں ۔۔۔ان کے ساتھ چلے گئے تھے“ وہ منہ بسور کہنے لگی۔۔۔۔جس پر زبردستی شاہنزیب مسکرانے کی ناکام کوشش کرنے لگا
” تمہاری وجہ سے “اس نے سارا الزام جب ماہ نور پر ڈالا تو وہ اسے گھورنے لگی۔۔۔
” کیا؟؟؟۔۔۔۔ میں نے کَیا کِیا ہے؟؟“ وہ الجھی تھی۔۔۔۔
” تم ہی نے کیا ہے۔۔۔۔ ویسے کہتی ہو میں بوڑھی روح ہوں ۔۔۔اور خود کا کیا ؟؟؟۔۔۔۔جیسے ہی رومینٹک ہونا شروع ہوتا ہوں فوراً شرما جاتی ہو۔“۔۔۔۔ شاہنزیب اس سے شکوہ کرنے لگا۔۔۔۔۔
”بھٸی ٹوپک چینج کرٶ“ماہنور نے جھیپ کر کہا تو گہری مسکراہٹ اس کے لبوں پر بکھر آٸی۔۔۔
” بچے کتنے پسند ہیں تمہیں ؟؟؟“اس نے کہا تو شاہنزیب اسے غور سے دیکھنے لگا
” یہ کیسا سوال ہے ؟؟۔۔۔“وہ الجھا تھا۔۔۔
” مطلب۔۔۔۔ تمہیں کتنے چاہیے ؟؟“ماہنور جھیپ رہی تھی یہ سوال کرنے میں ۔۔۔
”ایسا لگ رہا ہے تم بچے بیچنے والی ہو۔۔۔۔“یہ کہ کر ہسنے لگا۔۔۔
” میں مذاق نہیں کر رہی۔۔۔ مجھے تو پورے 12 چاہیے“ اس کا کہنا تھا کہ شاہنزیب کو بری طرح ٹھسکا لگا ۔۔۔
”ارے۔۔۔ارے“ماہنور اس کی کمر سہلانے لگی۔۔۔۔
” کرکٹ ٹیم بنانی ہے تمھیں؟؟؟۔۔۔۔ بارہ بچے😱۔“وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر بولا۔۔۔۔” صرف ایک۔۔۔۔۔ وہ بھی پیاری سی بیٹی ۔۔۔۔میں نے تو نام بھی سوچ رکھا ہے۔۔۔” نور“۔۔۔۔۔ نور رکھوں گا اپنی بیٹی کا نام“ یہ کہہ کر اسے اپنا ارمان بتانے لگا۔۔۔۔
” بڑے ہی کنجوس ہو تم ”وہ شاہنزیب کو دیکھ دانت کچکچاتے ہوۓ بولی۔۔۔۔”کوئی نہیں۔۔۔۔ میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی تھی پر میری بیٹی اکلوتی نہیں ہوگی اس کے بہن بھائی ہوں گے“ یہ کہہ کر اسے گھور کر دیکھنے لگی۔۔۔”اچھا چلو تمھاری خاطر۔۔۔بارہ سے ڈاٸرک پانچ۔۔اب ٹھیک ہے؟؟“وہ مسکراتے ہوۓ شاہنزیب سے بولی۔۔۔۔
”صرف ایک“وہ اپنی بات پر ڈٹ کر بولا۔۔۔۔
” اچھا چلو چار کر لیتے ہیں۔۔۔ اس سے کم نہیں۔۔۔یار مجھے بچے بھت پسند ہیں۔۔۔خاص طور پر جوڑوا ۔۔۔پہلے دو جوڑوا بیٹے ہوں شاہزیہ آپا کی طرح پھر بیٹیاں ۔۔۔بڑا مزا آۓ گا۔۔۔۔“یہ کہ کر شوخی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔
”کوٸی نہیں ۔۔۔میرا تھوڑا تو خیال کرٶ مانو بلی۔۔۔۔میں صرف دو ہی بچے سمبھال سکتا ہوں۔۔۔۔“اس نے خود کو مظلوم ظاہر کرتے ہوئے کہا۔۔
”پر تم تو ایک بیٹی کی بول رہے ہو“وہ اس کی گنتی پر الجھی تھی۔۔۔۔
” ہاںںںس۔۔۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔ تم بھی تو ہو ۔۔۔ایک بچی تم۔۔۔۔ایک نور۔۔۔۔۔کافی ہیں میرے لٸے “ یہ سن وہ مسکرا کر اسے زبان نیکال کر چڑانے لگی۔۔۔۔دونوں ہی مستقبل کے سنہرے خواب سجانے لگے۔۔۔۔ماہنور نٕے اس کے کندھے پر سر ٹیکا لیا۔۔۔۔۔
”مانو“شاہنزیب باتیں کرتے کرتے روکا جب اسے محسوس ہوا کے جس سے وہ باتیں کررہا ہے ۔۔۔وہ تو سو چکی ہے۔۔دل مسرت سے بھر گیا تھا اسے اپنے کندھے پر سر رکھ کر سوتا دیکھ۔۔۔۔بس دیوانوں کی طرح مسکراۓ جارہا تھا ۔۔۔۔۔
وہی چیخیں ۔۔۔ وہی شاہنزیب کو مارتے ہوئے لوگ ۔۔۔۔وہی دلہن کا لباس۔۔۔۔وہی زور زور سے چیخ چیخ کر کہنا” چھوڑ دو شاہ کو ۔۔۔۔چھوڑ دو ۔۔۔۔چھوڑ دو میرے شاہ کو “وہ نیند میں بول رہی تھی۔۔”فرحان ۔۔۔۔چھوڑ دو اسے۔۔۔۔پلیز چھوڑ دو“ آج پہلی بار زندگی میں اسے مارنے والوں کی شکلیں نظر آرہی تھیں۔۔۔۔”شارق پلیز ۔۔۔۔بچا لو شاہ کو ۔۔۔۔میں ہاتھ جوڑتی ہوں تمھارے سامنے۔۔۔۔پلیز شارق“ وہ روتے ہوئے شارق کے پاؤں پڑ رہی تھی پر وہاں موجود سارے ظالم ہس رہے تھے۔۔۔۔
”مانو ۔۔۔۔مانو“شاہنزیب نے جب اسے نیند میں روتا اور بولتا دیکھا تو اسے نیند سے اٹھانے لگا۔۔۔اس کے چہرے پر پیار سے تھپکتے ہوۓ۔۔۔۔اس نے چونک کر آنکھ کھولی۔۔۔۔وہ اٹھتے ہی شاہنزیب سےلپٹ گٸی تھی مارے خوف و وحشت کے۔۔۔پھر روتے ہوۓ اسے اپنا خواب بیان کرنے لگی۔۔۔۔شاہنزیب نے اسے بڑی مشکل سے چپ کرایا تھا۔۔۔۔
” مانو ۔۔۔۔۔کچھ نہیں ہوا ہے مجھے ۔۔۔۔دیکھو تمہارے سامنے ہوں۔۔۔۔ یار ۔۔۔۔تم اس فرحان سے کچھ زیادہ ہی ڈر گئی ہو۔۔۔ اس لیے تمہیں وہ اب خوابوں میں بھی نظر آرہا ہے“شاہنزیب نے اسے بڑے پیار سے سمجھایا تھا۔۔۔۔
”شاہ۔۔۔۔میں نے شارق کو بھی دیکھا ہے“اس نے روتے ہوۓ کہا تو شاہنزیب بھی دو تین لمحوں کے لئے حیران ہوا تھا پر اسے اپنی باتوں سے قائل کر لیا کہ یہ صرف ایک برا خواب تھا اور کچھ نہیں۔۔
شہزاد کے نکاح کے بعد صباء کو اسٹیج پر لے آیا گیا۔۔۔”شاہ ماہنور بھت خوبصورت لگ رہی ہے۔۔۔بیٹا جانی دل تھام لو کہیں ایسا نہ ہو کے دیکھتے ہی باہر نیکل آٸے“ اسماء نے بھی سب کی طرح آکر اس کے کان میں کہا تو شاہنزیب مسکرانے لگا ۔۔۔
”لو جی صبر کی گھڑیاں ختم ہوئیں ۔۔۔دیکھو رومیسا آپا لارہی ہیں۔۔۔ماہنور کو“ریشم نے کہا تو شاہنزیب نے نگاہ اٹھائی تھی۔۔۔وہ اسی شرارے میں ملبوس تھی جو شاہنزیب اس کے لئے لایا تھا اتنی معطر ۔۔۔اتنی پاکیزہ ۔۔۔نورانی صورت والی لڑکی تھی وہ۔۔۔ کے آنکھوں کو اجازت نہ تھی کے پلکیں جھپکالیں ۔۔۔اتنی حسین لگ رہی تھی کے جو دیکھ رہا تھا دیوانا ہوئے جا رہا تھا وہ نازک سی شرمیلی سی گڑیا لگ رہی تھی ۔۔۔۔وہ کافی زیور پہنے ہوئے تھی۔۔۔میک ۔اپ بھی بے انتہا حسین ہوا تھا جو ماہنور نے کہا تھا وہ واقعی سچ ثابت ہوا۔۔۔ بجلی گرا رہی تھی وہ اپنے دیوانے پر۔۔۔دیوانے کا دل تو مچل اٹھا تھا اسے دیکھ۔۔۔۔دل چاھا کے اسے ابھی اٹھا کر لے جاۓ۔۔۔وہ سامنے سے آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی ہوئی شاہنزیب کی جانب ہی آرہی تھی اس کا شرارہ ایک طرف سے رومیساء اور دوسری طرف سے بھابھی سنبھال رہی تھیں۔۔۔ وہ برابر میں آ کر بیٹھی تو شاہنزیب اسے ہی دیوانوں کی طرح تکنے لگا۔۔۔۔
”ہر بار یہی ہوتا ہے میرے ساتھ۔۔۔۔تمھیں دیکھاتا ہوں اور سوچتا ہوں ۔۔بس آج جتنی حسین لگ رہی ہو ۔۔۔وہ انتھا ہے ۔۔۔پر ہر بار تم مجھے غلط ثابت کردیتی ہو ۔۔۔اور زیادہ حسین بن کر میرے سامنے آجاتی ہو۔۔۔اور زیادہ مجھے اپنے سحرِ عشق میں جکڑ لیتی ہو۔۔۔۔۔اس مریض کو اور کتنا مریضِ عشق بناؤں گی ؟؟؟“وہ ماہنور کو دیکھ دل ہی دل سوچ رہا تھا۔۔۔ دونوں کی جوڑی نہایت ہی حسین و جمیل تھی۔۔۔ کوئی لڑکے کو حسین کہ رہا تھا تو کوئی لڑکی کو۔۔۔ تو کوئی کہہ رہا تھا کہ دونوں ٹکر کے ہیں۔۔۔۔
”شاہ ۔۔۔ماہنور کو دیوانوں کی طرح دیکھنا بند کرٶ ۔۔۔۔لوگ تمھیں ہی دیکھ رہے ہیں “بھابھی نے کان میں آہستگی سے کہا تھا تو وہ حواس میں لوٹا ۔۔۔ماہنور اس کی دیوانگی دیکھ پھر آج مسکرا رہی تھی۔۔۔۔۔ ایک طرف شہزاد اور صبا کی رسمیں چل رہی تھیں۔۔۔ تو دوسری طرف شاہنزیب اور ماہنور کی ۔۔۔۔راحیل ۔۔۔ثانیہ۔۔۔دادو۔۔۔ علی بھٸیا ان کی امی شاہزیہ آپا ۔۔۔سعدیہ یہ سب شہزاد کے ساتھ تھے۔۔۔جو ریشم اور صباء کے ددیال سے بحث کر رہے تھے۔۔۔۔
دوسری طرف شاہنزیب کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔اسماء ولید۔۔۔۔شمسہ بیگم ۔۔۔بھابھی ۔۔۔رومیسا آپا ۔۔۔عاشر ۔۔۔عباس۔۔۔چھوٹی پھوپھو۔۔۔
کامران اور جنید جمشید کبھی بھاگ کر داٸیں کپل کی جانب ہوتے تو کبھی بھاگ کر باٸیں کپل کی جانب۔۔۔۔۔
دونوں صوفے بالکل برابر میں رکھے گئے تھے جس میں سیدھے ہاتھ پر شاہنزیب ماہنور ۔۔۔۔۔الٹے ہاتھ پر شہزاد صباء بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔۔
” سعدیہ تمہارے والدین آۓ ہیں“ کامران نے کہا اس کے کان میں آہستگی سے تو سعدیہ اس کے ساتھ چل دی۔۔
” السلام علیکم پاپا“کامران جب یہ کہتا ہوا سعدیہ کے والد کے گلے لگا تو سعدیہ اور اس کی والدہ کی آنکھوں میں آنسوؤں کی لڑی لگ گئی۔۔۔ اس کا یہ کہنا سعدیہ کا دل جیت گیا تھا ۔۔۔۔۔وہ حیرت بھری نگاہوں سے کامران کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
”وعلیکم السلام بیٹا “سعدیہ کے والد کا دل بھر آیا تھا ۔۔۔ انہوں نے کامران کو بڑی گرم جوشی سے گلے لگاۓ رکھا۔۔۔
” السلام علیکم امی کیسی ہیں آپ؟؟؟۔۔۔ اور اتنی دیر کیوں کردی آنے میں ؟؟؟“کامران نے جب سعدیہ کی والدہ کو دیکھ کر بڑے ادب و احترام سے کہا اور ساتھ ساتھ دیر سے آنے کا شکوہ بھی کیا تو سعدیہ کا دل اس کے آگے جھکنے لگا۔۔۔۔اس نے اپنے آنسوں صاف کٸے یہ کہ کر آنکھ میں کچرا چلا گیا ہے۔۔۔۔ سعدیہ کے والدین کو کامران کا یوں ملنا اور اتنے پیار اور احترام سے بات کرنا بہت بھایا۔۔۔
” کھڑی کھڑی دیکھتی رہو گی یا امی پاپا کو بیٹھاٶ گی بھی؟؟؟“ ان کے سامنے جب کامران نے اپناٸیت والے لہجے میں سعدیہ سے بات کی تو انہیں لگا کامران سعدیہ کو منا چکا ہے۔۔۔۔۔سعدیہ جھم گٸی تھی ۔۔۔۔ آج کامران نے اسے اپنے آگے جھکا لیا تھا۔۔۔۔
” میں خالہ کو بلاتی ہوں انہیں بتاتی ہوں کہ آپ لوگ آئے ہیں انہوں نے تو امید ہی چھوڑ دی تھی کہ آپ لوگ آئیں گے“ یہ کہہ کر سعدیہ مڑی تو شمسہ بیگم پیچھے ہی کھڑی تھیں۔۔۔۔
” بہت بہت شکریہ۔۔۔ میں تو امید ھار بیٹھی تھی کہ میری بہن میری خوشی میں شرکت کرے گی “ یہ کہہ کر جب وہ سعدیہ کی والدہ سے گلے ملیں تو دونوں بہنیں رونا شروع ہوگیٸں۔۔۔
” اب رونا دھونا بند کرو اور مجھے میری بہوں سے ملواؤ اور بتاؤ انہیں کے ان کی خلیہ ساس ہوں میں“سعدیہ کی والدہ نے گلے سے ہٹتے ہوئے۔۔۔۔ آنسو صاف کر بولا تھا۔۔۔۔
” ہاں۔۔۔ چلیں بھائی صاحب “یہ کہہ کر وہ دونوں کو اسٹیج پر لے گئیں تھیں۔۔۔
” کامران بھاگ لے ورنہ سعدیہ محفل کا لحاظ بھی نہ رکھے گی اور یہی کھڑے ہوکر لڑنا شروع ہو جائے گی“ دل میں خیال آتے ہی ذلیل ہونے سے بچنے کے لٸے دبے پاؤں وہاں سے جانے لگا۔۔۔۔۔۔
”کہاں؟؟؟۔۔۔۔۔ میرے والدین کو امی پاپا کیوں کہا تم نے؟؟“ کامران کو جاتا دیکھ پیچھے سے ہاتھ پکڑ بڑے دیھمے لہجے میں پوچھ رہی تھی۔۔۔۔ سعدیہ کا لہجہ اور آنکھوں کی نمی بتا رہی تھی کہ وہ بلکل بھی غصہ نہیں ہے۔۔۔
” میرا دل چاہا تو میں نے کہہ دیا ۔۔۔۔ تم مجھے اپنا نہیں سمجھتی۔۔۔۔ میں تو سمجھتا ہوں“ کامران بھولا سا چہرہ بنا کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔کے اگر وہ چاھے تو ڈانٹ دے سب کے سامنے۔۔۔۔۔پر سعدیہ نے ہلکے سے ہاتھ چھوڑ دیا۔۔۔۔ خاموشی سے چلی گئی واپس اسٹیج پر۔۔۔۔
” اور لوگوں کے لیے ہوتا ہوگا ہنسی تو پھنسی میرے لیے تو الٹی کہانی ہے۔۔۔۔ روئی تو پھنسی“یہ کہ کر اس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔۔۔۔
” چلو شاہ ماہنور کو انگوٹھی پہناٶ۔۔“بھابھی نے انگوٹھی دیتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔
” ایسے کیسے؟؟؟۔۔۔۔۔ پہلے کچھ دو تو ۔۔۔۔شاہ تم بہت کنجوس ہو ۔۔۔۔چلو جلدی سے پچاس ہزار روپے نیکال دو“ اسماء نے کہا تو ولید نے سنتے ہی اپنے دل پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔
”یا خدا۔۔۔۔ پچاس ہزار؟؟؟؟۔۔۔۔ انگوٹھی پہنا رہے ہیں۔۔۔خرید تھوڑی رہے ہیں۔۔ ذرا تھوڑا تو لحاظ رکھو۔۔۔ “پھر شاہنزیب سے مخاطب ہوکر ”شاہنزیب اپنی ساری سالیوں کو ایک ایک ہزار پکڑا دے“ ولید شاہنزیب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر صوفے کے کونر پر چڑھ کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔
” ایک ہزار؟؟؟۔۔۔۔۔ ولید تم نے اپنی باری پہ 25 ہزار پکڑا کا دامن چھڑا لیا تھا ۔۔۔شاہ کی باری پر مزید کنجوسی۔۔۔۔ تھوڑا تو دل بڑا کرو۔۔۔شاہ ان کی مت سنو۔۔۔ سیدھے سیدھے پیسے دو۔۔۔“ اسماء جو ماہنور کے ساتھ کھڑی تھی ولید سے لڑتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
” ارے بھئی جلدی کرو۔۔۔ کیا صبح یہیں کرو گے ؟؟؟۔۔شاہ پیسے دے کر معاملہ نمٹا“ علی بھائی اب شاہنزیب کی طرف آئے تھے اور یہ کہ کر شاہنزیب کی سالیوں کو آنکھ ماری تھی۔۔۔ جو کے عباس نے دیکھ لی تھی۔۔۔ وہ سمجھ گیا کے علی بھاٸی جلدی مچاکر سالیوں کی پیسے لینے میں مدد کر رہے ہیں۔۔۔۔
” علی بھائی آپ بھی“ اس نے زور سے کہا گھورتے ہوئے تو علی نے اپنی زبان دانتوں میں دبائی۔۔۔مانو چوری پکڑی گٸی ہو۔۔۔ ”شاہ علی بھائی کی مت سننا ۔۔۔۔یہ تو لڑکیوں کی مدد کررہے ہیں“ عباس نے کہا تھا ۔۔۔جس پر علی بھٸیا مسکرانے لگے۔۔۔۔
” اچھا چلو دس ہزار تو دے دو انہیں“ علی بھائی نے التجائیہ انداز میں کہا۔۔۔
” ہاں بھئی دس۔۔۔۔ دس ہزار تو دو “بھابھی نے کافی زور دیتے ہوۓ کہا تو علی بھٸیا مسکرانے لگے۔۔۔۔۔
” میں نے کہا کہ دس ہزار دو ۔۔۔۔۔صرف ۔۔۔۔دس دس ہزار سب کو دو ۔۔۔۔ایسا نہیں کہا“ انہوں نے کافی جتاتے ہوئے اپنی بات کلیٸر کی ۔۔۔۔تو شاہنزیب کی ساری سالیاں علی بھٸیا کو گھورنے لگیں۔۔۔۔
” بھٸیا آپ یہ بتا دیں آپ ہیں کس کے سائیڈ؟؟؟“ اسماء اپنی کمر پر ہاتھ ٹیکا کر علی بھائی سے آئبرو اچکا کا استفسار کرنے لگی۔۔۔۔۔
”یار۔۔۔ بہن بھی میری۔۔۔ بھاٸی بھی میرا۔۔۔ میں تو دونوں کے سائیڈ ہوں “یہ کہہ کر مسکرانے لگے۔۔۔
” چلو یار اب دو بھی“ جنید نے کہا تو سب اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔۔۔ وہ بیزاری کا اظہار کر رہا تھا۔۔۔۔
” تمہیں کیا ہوا؟؟؟“ عاشر بھائی تجسس سے پوچھنے لگے
” سارے پیسے سالیوں کو مل رہے ہیں ۔۔۔۔ہمیں تو کوئی کچھ بھی نہیں دے رہا“۔۔۔۔ جمشید نے منہ بسورتے ہوئے بولا۔۔۔۔
” اچھا اِدھر آؤ ۔۔۔یہ لو“۔۔۔ شاہنزیب نے بلا کر ان دونوں کے ہاتھ میں ایک۔۔۔ایک ہزار کا نوٹ پکڑا دیا تھا جس پر وہ خوش ہو کر ۔۔۔شاہنزیب کے پاس ہی کھڑے ہو گئے۔۔۔۔
” اچھا یہ لیں آپ سب “۔۔۔۔شاہنزیب نے بہت بحث کے بعد اپنی سالیوں کو انگوٹھی پہنائی دی تھی۔۔۔۔” اب تو پہنا دوں؟؟؟؟“ شاہنزیب نے ان سب کو دیکھ پوچھا تھا جس پر بھابھی نے خود اس کے ہاتھ میں ماہ نور کا نازک سہ ہاتھ تھما دیا تھا۔۔۔۔
ماہ نور کے الٹے ہاتھ کی چوتھی انگلی میں پہلے ہی سے منگنی کی انگوٹھی تھی ۔۔۔۔”ماہنور یہ تو اتار دیتیں“اسماء نے اسے دیکھ کہا۔۔۔۔
”شاہ یہ منگنی والی اتار دو اور یہ نٸی پہنا دو “شمسہ بیگم نے کہا تو شاہنزیب نے نفی کردی۔۔۔۔
” چھوڑیں ماہنور کو یہ بھی میں نے ہی پہنائی ہے اور یہ میری منگنی کی انگوٹھی ہے۔۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ ماہنور اسے اتارے۔۔۔ اس لیے یہ والی دوسرے ہاتھ میں پہنا دیتا ہوں “شاہنزیب نے ماہنور کو محبت سے دیکھتے ہوۓ کہا۔۔۔ تو سب مسکراتے ہوئے مان گئے۔۔۔۔اس نے اپنی دولہن کو اپنے ہاتھوں سے انگوٹھی پہناٸی تھی۔۔۔۔
” ارے انگلی پکڑنے والی رسم کون ادا کرے گا؟؟؟“ اسماء نے پوچھا تھا ۔۔۔
”ماہنور کی تو کوئی سگی بہن ہے ہی نہیں “بھابھی بولیں
”کیا؟؟؟“ ماہنور نے اسماء کو کان قریب لانے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔ وہ قریب لائی تو ماہنور نے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا ”رباب کو بلاؤ۔۔۔ وہ میری بہن ہے“اس کی بات سنتے ہی اسماء اثبات میں سرہلا کر رباب کو ڈھونڈنے لگی۔۔۔۔
” رباب چلو اپنے بہنوئی کی انگلی پکڑو ۔۔۔ سب سے چھوٹی والی۔۔۔“۔۔۔۔۔کامران بچوں کے ساتھ کھیل میں مگن رباب کو گود میں اٹھا کر لے آیا تھا اسٹیج پر۔۔۔۔ لاکر شاہنزیب کی انگلی پکڑتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔
”چلو رباب دل کھول کر پیسے مانگو ۔۔۔۔“بھابھی رباب سے مسکراتے ہوۓ کہنے لگیں۔۔۔۔
” رباب ایک لاکھ مانگو۔۔۔۔ تم اکلوتی سالی ہو شاہنزیب کی“ رومیسا کو دلی خوشی ملی تھی ماہنور کے رباب کو اپنی بہن کہنے پر۔۔۔۔۔رومیسا آپا کے پیسوں کی ڈیمانڈ سن پھر سے بحث چھڑ گئی تھی۔۔۔۔
”شاہ۔۔۔۔رباب کو اتنے ہی دو ۔۔۔۔جتنے آپا نے کہیں ہیں“ ماہنور نے جب سب کو بحث میں مگن دیکھا تو موقع پاتے ہی ہلکے سے شاہنزیب کے کان میں سرگوشی کی تھی ۔۔۔۔۔ شاہنزیب نے بھی فورا ہی اس کے کہنے کا مان رکھا تھا۔۔۔۔ سب بحث میں لگے ہوئے تھے ۔۔۔جبکے شاہنزیب نے ایک لاکھ کا چیک رباب کے ہاتھ میں رکھ دیا تھا۔۔۔۔ جس پر سب خوب ”اوووووووووووو“کر کے شور مچانے لگے۔۔۔۔
”واہ مانو“۔۔۔اسماء نے اس کی کمر ہلکے سے تھپتھپاتے ہوئے شاباشی دی۔۔۔۔
”شاہ یہ کَیا کِیا تو نے؟؟؟“کمران سر پکڑ۔۔۔۔ منہ بیگاڑے پوچھ رہا تھا۔۔۔۔۔
” یہ تو ابھی سے ہی جورو کا غلام ہے ۔۔۔یہ کہیں گے لوگ“ عاشر بھائی بولے تھے جس پر سب خوب ہنستے ہوۓ شاہنزیب کا مزاق اڑانے لگے۔۔۔۔۔
” جورو کا غلام بننے میں کوئی برائی تو نہیں ۔۔۔ ویسے بھی آج کل بیویوں کا ہی زمانہ ہے۔۔۔ کیوں ولید ؟؟؟“اسماء نے اتراتے ہوئے کہا تھا اور ساتھ ساتھ ولید سے تصدیق بھی چاھی۔۔۔۔ جس پر وہ بیچارہ مجبورا سر اثبات میں ہلانے لگا۔۔۔
” آپ کو میں منع کرسکتا ہوں بھلا؟؟؟۔۔۔۔جیسا آپ کہیں بیگم صاحبہ “ولید نے کامران اور شاہنزیب کو دیکھ آنکھ دباتے ہوۓ اسماء کی بات کا طنز بھرا جواب دیا تھا وہ بھی شیرنی سے بھرے لہجے میں۔۔۔۔۔۔
” ساری رسمیں ادا ہوگئیں تو میں لے جاؤں اپنی دلہن کو؟؟؟“ شاہنزیب نے سب کو چھیڑنے کے لٸے ماہنور کا ہاتھ سب کے سامنے پکڑ کر بولا تھا۔۔۔۔
”شاہ ۔۔۔بڑی جلدی ہورہی ہے تمھیں اپنی دولہن لے جانے کی “اسماء ماہنور کا ہاتھ ۔۔۔۔اس کے ہاتھ سے چھڑواتے ہوۓ بولی۔۔۔۔
”یار۔۔۔۔ اب اور کتنی رسمیں باقی ہیں؟؟؟“ شاہنزیب نے بے قراری کا اظہار کرتے ہوئے کہا تو سب اسے بے صبرا ہوتا دیکھ خوب ہنسنے لگے۔۔۔
”دولہے میاں ذرا صبر رکھیں“بھابھی نے اسے چھیڑتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔
”ماما ۔۔۔ ذرا پانچ لاکھ کا چیک دیجیٸے گا شہزاد ماما مانگ رہے ہیں“ جمشید نے آکر شاہنزیب سے کہا تو علی اور کامران کے کان کھڑے ہوئے۔۔۔
”ارے ۔۔۔یہ لڑکی والے۔۔۔چالاک کہیں کے۔۔۔۔ہمارا سیدھا لڑکا لوٹ رہے ہیں ۔“ یہ کہتے ہی کامران شہزاد کی طرف بھاگا تھا۔۔۔۔۔
” شاہ کا ساتھ تم تینوں دو ۔۔۔میں ذرا شہزاد کی طرف جاتا ہوں۔۔۔۔۔ہمارا وہ والا بھائی ذرا سیدھا ہے “علی بھائی یہ کہہ کر شھزاد کی طرف گئے تھے۔۔۔۔
”شاہ یہ لو۔۔۔۔ دودھ پیو اور دودھ پلائی کے پیسے دو“ رومیساء آپا نے دودھ کا خوبصورت کلاس شاہنزیب کے آگے بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
” یقین مانیں ایسا لگ رہا ہے کسی مارکیٹ میں بیٹھا ہوں جہاں ہر چیز کے پیسے ادا کرنے پڑ رہے ہیں ۔۔۔میرا ذرا تو لحاظ کریں۔۔۔ میری جیب خالی کر دی ہے آپ لوگوں نے۔۔۔ تھوڑا تو رحم کریں اپنے چھوٹے بھائی پر “شاہنزیب نے اپنی جیب پر ہاتھ رکھتے ہوئے التجائیہ انداز میں کہا۔۔۔۔
” ٹھیک ہے شاہ ۔۔۔۔۔اب ہم تمہارا لحاظ کریں گے ۔۔۔بس تم ہمیں اس دودھ پیلاٸی کے خود سے پیسے دے دو۔۔۔ جتنے تم چاہو “۔۔۔اسماء کا گمان تھا کہ شاہنزیب خودی اچھی خاصی رقم پکڑا دے گا ۔۔۔۔دودھ پیلاٸی کی۔۔۔۔
”پکا ۔۔۔ میں جو دوں گا وہ خاموشی سے آپ سب قبول کرٶ گی؟؟؟“ شاہنزیب نے اپنی ساری سالیوں سے تصدیق چاہی تھی۔۔۔۔جس پر سب اثبات میں سرہلا رہی تھیں۔۔۔
”ولید انہیں دے دو“شاہنزیب کے کہتے ہی ولید نے اپنی جیب سے پانچ روپے کا سکہ نیکال کر اسماء کے ہاتھ میں پکڑا دیا ۔۔۔سب حیرت سے شاہنزیب اور ولید کا چہرہ تکنے لگے۔۔۔
”یہ کیا ہے ؟؟؟“ اسماء پانچ روپے کا سکہ دیکھتے ہوئے منہ بسور بولی۔۔۔
” پیسے“شاہنزیب نے کافی جتاتے ہوۓ کہا۔۔۔” آپ لوگوں نے خود کہا ناں۔۔۔۔میں اپنی مرضی سے جتنے چاہے دے سکتا ہوں۔۔۔ بھٸی میں تو پانچ روپے ہی دینا چاہتا ہوں آپ لوگوں کو “شاہنزیب اسماء اور باقی سب کا چہرہ بنا دیکھ اپنی مسکراہٹ چہرے پر بکھرنے سے نہ روک سکا۔۔۔ اس کی بات سن۔۔۔ماہنور بھی مسکرانے لگی۔۔۔۔
”شاہ ۔۔ پانچ روپے؟؟؟۔۔۔۔ مطلب صرف پانچ روپے دو گے تم اپنی سالیوں کو۔۔۔ شرم کرو یار کچھ تو“اسما بڑی بی کی طرح ایک ہاتھ کمر پر رکھ اور دوسرا ہاتھ نچاتے ہوۓ شاہنزیب سے بولی۔۔۔۔
” کیوں پیسے کیا پیڑ پر اُگ رہے ہیں؟؟؟۔۔۔۔۔ آپ لوگ اتنی دیر سے لوٹ رہی ہو۔۔۔ آپ لوگ شرم نہیں کر رہیں تو ہم کیوں کریں۔۔۔۔“ عباس نے چھوٹی آنکھیں کرتے ہوۓ سالیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا.....
” غلطی ہوگئی شاہ۔۔ تم پر ترس کھا کر “اسماء منہ بناتے ہوئے بولی۔۔۔
”ماہنور دیکھ لو تمہارا میاں کتنا کنجوس ہے “بھابھی ماہنور سے شکایت کرتے ہوئے بولی تھیں جس پر وہ صرف مسکراء رہی تھی ۔۔۔
” اب پیلا دوں دودھ۔۔۔آپا نے سب کی جانب دیکھ کر پوچھا تو سب نے ہاں کر دی پر سب کے منہ پھولے ہوئے تھے۔۔۔
” بھئی مسکراتے ہوۓ ہاں کریں ۔۔۔پیسے دیے ہیں ہم نے آخر“ ولید نے بڑے بھرم سے کہا تھا جس پر وہ سب منہ چڑا رہی تھیں اپنی زبانیں منہ سے نیکال کر ۔۔۔آپا نے شاہنزیب کو دودھ پلایا تھا۔۔۔
”آپا ۔۔۔ ہم جوتا چھپائی کیسے لیں؟؟؟۔۔ اِس چالاک شاہ نے تو جوتے اتارے ہی نہیں “اسماء رومیساء آپا سے شکوہ کر رہی تھی۔۔۔۔
” چاچی دیکھیں ناں۔۔۔ یہ تو رسم ہوتی ہے ناں بھئی۔۔پر یہ چالاک لڑکا جوتے اتار ہی نہیں رہا.. ہم جوتا چھپائی کیسے لیں ؟؟؟“اسماء نے شاہنزیب کی امی سے بھی شکایت لگائی تھی ۔۔۔۔اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوۓ ۔۔۔
”شاہ۔۔۔۔جوتے اتارٶ۔۔۔۔تاکے یہ پیسے مانگ سکیں “شمسہ بیگم نے کہا تو شاہنزیب مسکرانے لگا ۔۔۔
” امی زبردستی ہے کیا؟؟؟۔۔۔“ اس نے نہایت بھولے پن سے پوچھا ۔۔۔۔
”ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔ کوئی بات نہیں ۔۔۔ہم چوتی کے اندر تیرے جوتے چھپالیں گے ۔۔۔۔پھر تو دینی پڑے گی تمھیں جوتا چھپاٸی۔۔۔۔“اسماء نے منہ چڑاتے ہوۓ کہا تھا جس کے جواب میں وہ بھی مسکرا رہا تھا۔۔۔۔”چلو دیکھ لیں گے“شاہنزیب دونوں ہاتھ بڑے بھرم سے فولٹ کر گویا ہوا۔۔۔۔۔
رسمیں ادا ہونے کے بعد کھانا لگایا گیا۔۔۔ ماہ نور کو اسماء اور ولید شاہنزیب کو کھانا کھلانے لگا ۔۔۔دوسری طرف راحیل شہزاد کو کھلا رہا تھا اور ثانیہ صباء کو۔۔۔۔
” شاہ یہ بتا۔۔۔۔پارٹی کب دے رہا ہے؟؟؟“ عباس بھی وہیں اسٹیج پر ہی کرسی لگاکر بیٹھ گیا ۔۔۔۔ اور شاہنزیب کو دیکھ ابرو اچکاکر استفسار کرنے لگا۔۔۔
” بہت جلد پہلے ولیمہ ہو جانے دو پھر جب تم لوگ بولو گے تب پارٹی دوں گا “شاہنزیب بے انتہا خوش تھا اور وہ مسرت اس کے چہرے پر آشکار تھی۔۔۔۔۔ اس نے کہا تو ماہنور اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔”کیا ہوا ؟؟؟“شاہنزیب نے اشارے میں پوچھا ۔۔۔۔پر اس نےنفی میں گردن کو جمبش دی۔۔۔۔
پھر رخصتی کا لمحہ آن پہنچا ۔۔۔ماہنور رومیساء آپا سے گلے لگ کر رونے لگی۔۔۔۔۔
”ارے پگلی تو کون سہ کہیں جا رہی ہے وداع ہوکر “آپا نے اسے چپ کرانے کے لیے کہا تھا ۔۔۔
”میری بچی ۔۔۔آج سے تو میری پوتی بھی اور پت بہو بھی“ یہ کہہ کر دادو نے اس کی روشن پیشانی کا بوسہ لیا ۔۔۔ اسے اسماء نے ڈرائیور کے برابر والی سیٹ پر بٹھا دیا ۔۔۔
شاہنزیب سب سے الودع لے کر ڈرائیور کی سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔ ماہنور کی روتے ہوۓ نظر شہزاد کی کار پر پڑی جس میں اس نے شاہزیہ آپا کو دولہن کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھا۔۔۔۔
ماہنور کو احساس ہوا کہ ان کے ساتھ تو کوئی نہیں بیٹھا ۔۔۔شاہنزیب نے کار اسٹارٹ کی تو ریشم نے آکر شیشہ بجانے لگی۔۔۔
” کیا ؟؟؟۔۔“شاہنزیب نے بےزاری سے پوچھا۔۔۔۔
”میں تو ماہنور سے ملی ہی نہیں“وہ منہ بسور بولی۔۔۔
” روکو ۔۔۔۔میں باہر آتی ہوں“ ماہنور نے کہا اور کار سے اتر کر اس سے گلے ملی۔۔۔
” جو کچھ بھی ہو۔۔۔ سب بتانا کل“ریشم نے شوخی سے کان میں کہا تھا۔۔۔۔۔پھر مسکراتی ہوٸی چلی گئی ۔۔۔۔ماہنور الجھی تھی اس کی بات سن۔۔۔۔وہ واپس آ کر کار میں بیٹھ گئی۔۔۔۔
ماہ نور نے دیکھا کہ شہزاد کی کار تو اسٹار تک نہیں ہوئی ہے اور شاہنزیب کار اسٹارٹ کر کے روڈ پر لے آیا ہے ۔۔۔۔
”یہ جی۔جاجی پیچھے کیوں آ رہے ہیں ؟؟؟“ شاہنزیب نے جب رومیساء آپا کے شوہر کی کار پیچھے آتے دیکھی تو الجھ کر گویا ہوا۔۔۔ماہنور نے لاعلمی میں کندھے اچکا دٸیے۔۔۔۔۔اس نے کار روک دی تھی۔۔۔۔۔
” یہ لو شاہ ۔۔۔میں تمہیں دینا بھول گیا تھا“ وہ کار سے اتر کر چلتے ہوئے آئے اور ایک خوبصورت سی ٹوکری شاہنزیب کی جانب بڑھاٸی ۔۔۔۔۔
” شکریہ۔۔۔۔پر اس میں کیا ہے؟؟؟“شاہنزیب ٹوکری لیتے ہوۓ تجسس سے استفسار کرنے لگا ۔۔۔۔
” اس میں پان ہے ۔۔۔۔ہمارے خاندان میں ایک رسم ہے کہ دولہے کو پہلی رات سے پہلے پان ضرور کھلایا جاتا ہے اور ماہ نور رومیساء کی بیٹی ہے اس لحاظ سے تم میرے دمات ہوئے اور میں چاہوں گا کہ میری بیٹی کا شوھر یہ رسم ضرور ادا کرے۔۔۔۔اس لیے خاص تمہارے لئے لایا ہوں ۔۔۔تم کھاؤ گے ناں؟؟؟“ انہوں نے نہایت لچک والے انداز میں پوچھا تھا پرامید نظروں سے تکتے ہوئے کے شاہنزیب مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔۔
” جی ضرور ۔۔۔۔کیوں نہیں۔۔۔۔ آخر آپ میرے سسر ہیں آپ کی بات تھوڑی ٹال سکتا ہوں“بس شاہنزیب کا کہنا تھا کہ ان کے چہرے پر خوشی جھلک اٹھی تھی۔۔۔
” شکریہ ۔۔۔خدا تمہیں خوش رکھے اور ہاں ماہ نور کو مت کھانے دینا۔۔۔۔ہر گز نہیں۔۔۔۔ لڑکیاں نہیں کھاتیں ۔۔۔ لڑکیوں کا کھانا بدشگونی سمجھا جاتا ہے “ انہوں نے کہا تو شاہنزیب کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر آئی۔۔۔۔
” تو پھر آپ یہ بات اپنے منہ سے اِس مانو بلی سے کہہ دیں کیونکہ میری تو یہ سننے گی نہیں ۔۔۔۔میٹھا پان اسے بہت پسند ہے“ اس نے کہا تو ماہنور شاہنزیب کو گھورنے لگی۔۔۔ جس پر وہ مسکرانے لگا ۔۔۔
رومیساء آپا کے شوہر بڑے پیار سے سمجھا کر چلے گئے۔۔۔
” ماہ نور پکڑ لو ۔۔۔۔ویسے تو میں جانتا ہوں بلی کو دودھ کی رکھوالی نہیں دینی چاہیے ۔۔۔۔پھر بھی بڑے بھروسے کے ساتھ دے رہا ہوں امانت سمجھو اسے میری “یہ کہہ کر اسے مسکراتے ہوئے دینے لگا ماہنور نے ٹوکری اپنی گود میں رکھ لی۔۔۔۔۔
” کیا ہوا ؟؟؟۔۔۔کچھ بولو گی نہیں؟؟؟“ ماہنور خاموش بیٹھی ہوئی تھی نظریں جھکائے نروس نروس سی تو شاہنزیب اسے دیکھ بولا ۔۔۔۔
”کیا بولوں ؟؟؟“ وہ آہستگی سے بولی ۔۔ جس پر شاہنزیب مسکرانے لگا۔۔۔۔۔۔
”کچھ بھی “
”پھر بھی کیا؟؟؟“
”کچھ بھی یار۔۔۔۔میں بات کروں گا تو تم بولو گی مجھے شرم آرہی ہے ۔۔۔اس لٸے تم ہی شروع کرٶ“ اسے بڑے پیار سے تکتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔
”شاہ ۔۔۔مطلب شاہنزیب ۔۔۔مطلب ۔۔۔وہ۔۔۔وہ“ ماہ نور بولنے میں ہچکچا رہی تھی۔۔۔ شاہنزیب کو وہ کافی نروس نظر آرہی تھی۔۔۔۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے سے مسلسل مسل رہی تھی۔۔۔
” کیا؟؟؟۔۔۔۔ میں شاہ ہی ہوں یار تھوڑی رخصتی کے بعد میرے سر پر سینگ نکل آٸے ہیں۔۔۔جو اتنا گھبرا رہی ہو مجھ سے “اس نے اپنایت سے کہا پھر بھی وہ نظر نہیں اٹھا رہی تھی۔۔۔۔
ماہنور کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو رہے تھے ۔۔۔۔ویسے اس سے بات کرنا آسان تھا پر آج جب اس کی دلہن کے روپ میں تھی تو بات کچھ اور تھی ۔۔۔خوش وہ بھی بہت تھی مگر پھر بھی دل تھا کہ قابو میں ہی نہیں آرہا تھا۔۔۔۔
” تین گھنٹے کا راستہ ہے۔۔۔ اگر اسی طرح خاموش بیٹھ کر جائیں گے تو میں تو ڈرائیف کرتے کرتے ہی سو جاؤں گا“ اس کا کہنا تھا کہ ماہنور حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔” حویلی جا رہے ہیں ہم۔۔۔۔ آخر آپ نے پہلی بار کوئی اپنا ارمان ظاہر کیا تھا ۔۔۔میں کیسے اسے پورا نہ کرتا“ اس نے ماہنور کی آنکھوں کی حیرت کو پڑھ لیا تھا۔۔۔اس لٸے مسرت بھرے لہجے میں اسے بتانے لگا ۔۔۔۔۔
” اور سب مان گئے ؟؟؟“وہ بے ساختہ بول اٹھی تھی مارے حیرت کے۔۔۔۔
” ماننا تو تھا ہی۔۔۔ آخر میں بول رہا تھا“ اس نے اپنا کالر اتراتے ہوئے پکڑ کر کہا تھا جس پر وہ مسکرانے لگی۔۔۔۔” واقعی بہت حسین لگ رہی ہو آج۔۔۔ پہلی نظر میں تو بم پھوٹ گیا تھا میرے سر پر “۔۔۔شاہنزیب نے اسے بڑی محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تو وہ جھیپ گئی اور پھر سے نظریں جھکا لیں۔۔۔۔” تبھی تو میں کہہ رہا ہوں تم بات کرو۔۔۔ ورنہ پورے راستے میں یوں ہی بولتا رہوں گا اور تم اسی طرح شرماتی رہو گی“شاہنزیب نے مسکراتے ہوۓ اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا۔۔۔۔
” چھوڑو شاہ گھر چلتے ہیں ۔۔۔میں نے تو صرف اپنا ارمان ظاہر کیا تھا مجھے تو امید بھی نہیں تھی کہ تم۔۔۔ یعنی آپ اسے اتنا اہمیت دو گے۔۔۔ آنے جانے میں اتنی دیر لگ جائے گی۔۔۔ پھر تھکن الگ ہوگی ۔۔۔کل ولیمہ بھی ہے۔۔۔ کیسے ہوگا سب کچھ؟؟؟۔۔۔ میرا ولیمے کا ڈریس بھی گھر پر ہے۔۔۔۔ پالر والی سے بھی بکنگ ہوئی وی ہے“ ماہنور بڑے دھیمے لہجے میں ۔۔۔۔پریشان ہوکر بول رہی تھی۔۔۔۔۔
” ہمممم۔۔۔۔۔۔سب کچھ ہو جائے گا ۔۔۔۔تم فکر مت کرو“ اسے اطمینان بخش الفاظ کہ کر پُرسکون کر رہا تھا۔۔۔
”پتا ہے میں نے ولید کو بھیجا تھا حویلی سجانے ۔۔۔دلہن کی طرح سجایا ہے پوری حویلی کو۔۔۔۔مجھے یقین ہے تمہیں ضرور پسند آئے گی“ اس نے کہا تو ماہنور ایکسائٹڈ ہوگٸی حویلی دیکھنے کے لیے ۔۔۔۔یہ سنتے ہی اس کا کھلتا گلاب سہ چہرہ مزید کھل اٹھا تھا۔۔۔۔
” ویسے سچ سچ بتانا یہ اتنا شرمانے کا کس نے کہا ہے تم سے؟؟؟۔۔۔۔ رومیسا آپا نے۔۔۔اسما نے ۔۔۔۔یا پھوپھو نے؟؟؟“شاہنزیب نے ابرو اچکا کر تجسس سے جواب طلب کیا تھا۔۔۔۔۔
”کیوں ؟؟؟“ ماہنور بھولا سہ چہرہ بنا کر پوچھنے لگی۔۔۔
” کیونکہ مجھے بالکل اچھی نہیں لگ رہیں“ اس نے کہا تو ماہنور حیرت سے دیکھنے لگی
” یار اگر شرمیلی لڑکی ہی پسند ہوتی یا سمجھدار تو کبھی بھی میرا انتخاب تم نہ ہوتیں۔۔۔ دنیا میں بہت دیکھی ہیں میں نے شرمیلی سی ۔۔۔۔سنجیدہ سی۔۔۔۔ غصے والی پر میرا دل جس پر آیا اور آکر اٹک گیا وہ۔۔۔۔۔۔۔ وہ لڑکی تھی جو نہایت شوق مزاج تھی۔۔۔۔ جس کے نیناں میں بھی ایک عجیب سہ چلبلاپن تھا۔۔۔۔جس کی مسکراہٹ نہایت حسین تھی ۔۔۔۔۔وہ ناچ رہی تھی میرے سامنے مور کی طرح مست ہوکر۔۔۔۔ میرا دل اس کی پازیب کے ساتھ ہی جڑ گیا تھا مجھے وہی چلبلی سی ماہنور چاہیے۔۔۔۔ مجھے نہیں چاہیے وہ ماہنور۔۔۔ جو لوگوں کی باتیں سن کر بنی ہے.... مجھے تو وہی اپنی پرانی والی مانو بلی چاہیے جو کسی کی سنتی ہی نہیں۔۔۔۔۔جس کی ہر شرارت ہر ادا میرے دل کو اس کا اور دیوانا بنا دیتی ہے۔۔۔۔ میں تو اس ماہنور کو نہیں جانتا جسے میں آج دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔ پتا ہے میں اپنی مانو بلی اِس نٸی ماہنور میں تلاش کررہا ہوں ۔۔۔۔ تمہیں یاد ہے وہ کیسی تھی؟؟؟۔۔۔۔ پاگل سی بالکل۔۔۔۔۔ دروازہ بغیر نوک کٸیے اندر آ جاتی تھی بغیر یہ سوچے کہ جو اندر ہے وہ کس حالت میں ہے۔۔۔۔۔ اسے ہر بار ڈانٹتے رہو۔۔۔ وہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتی تھی“شاہنزیب کی آنکھوں میں ماہنور کا خوبصورت سراپا گھوم رہا تھا پرانے وقتوں کا۔۔۔۔ وہ نہایت کھوۓ کھوۓ انداز میں گاڑی چلاتے ہوئے گویا ہوا۔۔۔۔
ماہنور بس اسے حیرت سے دیکھے جا رہی تھی۔۔۔ آج جب وہ بول رہا تھا تو پتا چلا تھا کہ کتنا دیوانہ ہے وہ اس کا ۔۔۔۔اسے اتنے سالوں پہلے کی ہر بات یاد تھی جیسے سب کچھ اس کے لیے کل ہی کی بات ہو۔۔۔۔“ یاد ہے کیسے تم بسکٹ چورا چورا کر کھاتی تھیں۔۔۔ یہاں تک کہ جنید جمشید کے بھی کھا جایا کرتی تھیں۔۔۔“ اس نے کہا تو وہ جوابًا مسکرانے لگی۔۔۔۔” یاد ہے کیسے تم نے شہزاد بھائی پر آٹا پھینکا تھا“ اس نے کہا تو ماہنور ہنسنے لگی۔۔۔۔
” ہاں اور مزے کی بات ۔۔۔اسی وقت صباء باجی سامنے آ گئیں تھیں اور بڑی پھوپھو بھی۔۔۔ بیچارے اتنے شرمندہ سے ہو گئے تھے “اب ماہنور بھی بولنے لگی تھی۔۔۔۔
” یاد ہے تم نے کرسی پر میرے لئے ثمر بونڈ لگا دی تھی“
” ہاں اور اس پر تمہارے بجاۓ علی بھائی بیٹھ گئے تھے۔۔۔ کیسے بھول سکتی ہوں میں “وہ ہنستے ہوئے بول رہی تھی۔۔۔ بہت سالوں بعد وہ دل کھول کر ہنس رہی تھی ۔۔۔۔شاہنزیب نے اس کا اسی سے تعارف کرایا تھا۔۔۔
”ھمممم۔۔۔۔ اور یاد ہے تم نے میرے واش روم کی پانی کی سپلائی بند کر دی تھی اور میری جگہ ڈیڈ نہاء رہے تھے “اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ ہنسنے لگی۔۔۔
” میں اتنی پاگل تھی۔۔۔ یہ تو آج اندازہ ہو رہا ہے مجھے“ ماہنور بلاتکلف اس کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔”تمہیں واقعی بالکل پاگل سی ماہنور چاہیے؟؟؟“ وہ بھولا سہ چہرہ بناۓ تعجب سے پوچھ رہی تھی۔۔۔۔
” ہاں ۔۔۔۔بالکل ۔۔۔۔۔میں نہیں چاہتا تم کبھی بھی۔۔۔ کبھی بھی خود کو بدلو ۔۔۔جیسی ہو پاگل سی ۔۔۔ویسی ہی رہو“ اس نے کہا تو ماہنور مسکرانے لگی۔۔۔۔
” ٹھیک ہے۔۔۔۔ جیسا تم چاہو۔۔۔ ایک بات بولوں واقعی میں مجھے چپ رہنے اور نظریں تمہارے سامنے جھکائے رکھنے کے لیے کہا گیا تھا ۔۔۔۔پتا ہے کس نے کہا تھا ۔۔۔۔گیس کرٶ“ماہنور اسے دیکھ بولی۔۔۔۔
”ہمم۔۔۔۔۔رومیساء آپا “شاہنزیب نے سوچ کر جواب دیا تھا۔۔۔
” نہیں بڑی پھوپھو نے۔۔۔ باربار بس یہی سبق پڑھا رہی تھیں۔۔۔ میرے تو کان پک گئے تھے ان کا یہ سبق سن سن کر۔۔۔۔ اب مجھے سمجھ آیا کہ صباء باجی ایسی شرمیلی شرمیلی سی کیوں ہیں۔۔ تم شرط لگا لو مجھ سے ۔۔۔آج رات تو صباء باجی شہزاد بھائی سے کوئی بات نہیں کرنے والیں۔۔۔ مسکراتی رہیں گی جیسا پھوپھو نے سکھایا ہے “یہ کہہ کر وہ خوب ہنسنے لگی۔۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے بہت خوبصورت گلاب کی مانند لگ رہی تھی۔۔۔۔شاہنزیب تو سو سو جان فدا ہورہا تھا اسے یوں ہسنتے ہوۓ دیکھ۔۔۔۔
” شاہ تمھیں تو پرانی والی ماہ نور پسند ہے ناں ؟؟؟ تھوڑی دیر گزر جانے کے بعد جب اس نے ٹوکری کو ٹکر ٹکر دیکھتے ہوئے کہا تو شاہنزیب سمجھ گیا کے وہ پان کھانے کے چکر میں ہے ۔۔۔۔
”مانو بلی “شاہنزیب گھور کر دیکھنے لگا ۔۔۔پر ماہنور نے اس کی گھورتی نظروں کو مکمل اگنور کیا ۔۔۔اور ٹوکری سے پان باہر نکال لیا ۔۔۔
”مانو بلی واپس رکھو۔۔۔۔جی۔جاجی نے منع کیا ہے ناں۔۔۔۔لڑکیاں نہیں کھاتیں“ شاہنزیب ایک ہاتھ سے کار چلا رہا تھا اور دوسرے ہاتھ سے ماہنور سے پان چھینے کی مسلسل کوشش کررہا تھا۔۔۔
” شاہ توڑا سہ۔۔۔۔ مجھے بہت پسند ہے“یہ کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ اوپر کر لیا تھا اور اسے کھولنے لگی تھی نہ جانے اسی لمحے دل کو کیا ہوا۔۔۔۔۔ لگا جیسے کچھ غلط ہے۔۔۔۔۔وہ پان ماہنور کے لٸے ٹھیک نہیں۔۔۔اس کا دل اک عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہو گیا تھا۔۔۔ جیسے اٹک گیا ہو اس پان پر۔۔۔۔۔
” اگر میں نے ماہنور سے کہا کہ وہ مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے تو ماہنور مزاق میں اڑا دے گی یہ بات۔۔۔۔ پر یہ پان تو جی۔جای نے دیا ہے اس میں کوئی خرابی کیسے ہوسکتی ہے ۔۔۔۔پر یہ پان انہوں نے مجھے کھانے کے لیے دیا ہے ماہ نور کو نہیں ۔۔۔اگر انھیں پان دینا ہی تھا تو سب کے سامنے کیوں نہیں دیا ؟؟؟۔۔۔۔اکیلے آکر کیوں؟؟؟۔۔۔ کیا واقعی کچھ گڑبڑ ہے یا میں ہی کچھ زیادہ سوچ رہا ہوں“ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا۔۔۔ماہنور پان کھاتی اس سے پہلے شاہنزیب نے کار روک دی تھی۔۔۔۔اور اس پان پر جھپٹا تھا
”شاہ مجھے تکلیف ہورہی ہے“ ماہنور نے پان کو اپنی کمر کے پیچھے کر لیا مگر شاہنزیب اس کے ہاتھ سے لینے کی مسلسل کوشش کر رہا تھا۔۔۔اب اس کے ہاتھ میں ماہنور کی نازک کلاٸی آگٸی تھی جس سے وہ پان پکڑۓ ہوۓ تھی۔۔۔شاہنزیب کی چھینے کی کوشش میں ماہنور نے کہا۔۔۔۔”شاہ ۔۔۔ صرف پان ہی تو ہے۔۔۔ تھوڑا سا کھا لینے دو پلیز“ماہنور التجاٸیہ انداز میں بولی۔۔۔۔
”آہ“اس چھینا جھپٹی میں ماہنور کے ہاتھ کی چوڑیاں ٹوٹ رہی تھیں۔۔۔جب ایک چوڑی ماہنور کے ہاتھ میں چبی تو ماہنور کے منہ سے بے ساختہ آہ نکلی۔۔۔۔”شاہ۔۔۔ تم تو ایسے بیھیف کر رہے ہو جیسے اس میں زہر ہو“شاہنزیب نے اس کی چیخ بلند ہونے کے باوجود ہاتھ نہ چھوڑا تھا بلکہ پان چھین کر ہی دم لیا تھا جس پر وہ بے رخی سے اپنی نازک سی کلائی جس میں سے شاہنزیب کی اس چھینا جھپٹی میں خون نکل آیا تھا۔۔۔۔۔ وہ دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔
”یار۔۔۔۔او۔۔۔نو۔۔۔خون نیکل رہا ہے“ یہ کہہ کر پان اپنی جیب میں رکھ کر اس کی کلائی پکڑ کر دیکھنے لگا
”ابھی خون نکلنا بند ہو جائے گا“ اس کے ٹیشو سے خون صاف کر کے اس پر چوٹ پٹی لگا دی تھی۔۔۔۔
” سب اپنی بیویوں کو منہ دیکھائی میں کتنے پیارے پیارے تحفے دیتے ہیں پر میں اس دنیا کی انوکھی دلہن ہوں۔۔۔ جس کے بےپناہ محبت کرنے والے شوہر نے اسے منہ دیکھائی میں خون تحفے میں دیا ہے“ ماہنور اپنی کلائی پکڑ کر منہ بسور افسردہ لہجے میں گویا ہوٸی۔۔۔۔
”یار۔۔۔۔ایسے تو مت بولو۔۔۔۔“وہ شرمساری سے کہنے لگا۔۔۔لیکن وہ دلی طور پر اطمینان میں تھا کہ اس نے جو کیا وہ ماہ نور کی بھلائی کے لیے ہی کیا۔۔۔۔
”اچھا تحفہ دیا تم نے مجھے “ ماہنور خفگی بھری آنکھوں سے طنزیہ بولی۔۔۔۔
”یار۔۔۔“
”کم از کم انسان معافی ہی مانگ لیتا ہے شاہ“وہ خفگی سے بولی
” اچھا آٸیندہ ایسا نہیں ہو گا بس“وہ بڑے پیار سے لچک دار انداز میں کہنے لگا۔۔۔
”معافی مانگو شاہ۔۔۔“ماہنور نے معافی کا مطالبہ کردیا تھا غصے میں ۔۔۔۔۔جبکے وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقفیت رکھتی تھی کہ شاہنزیب کبھی بھی معافی نہیں مانگتا۔۔۔۔
”مانو ۔۔۔میں واقعی شرمندہ ہوں۔۔۔۔“وہ جتاتے ہوۓ
”تو معافی مانگنے میں کیا براٸی ہے؟؟؟۔۔“وہ ابرو اچکا کر استفسار کرنے لگی۔۔۔۔شاہنزیب جانتا تھا کے ماہنور کو طیش دلا گیا ہے اس کا پان چھینا۔۔۔۔
”ہمممم۔۔۔۔۔ویسے غصے نے اور بھی دلکش بنا دیا ہے تمھیں ۔۔۔۔۔۔۔ من کو تو سوچتی ہے اور غصہ دلاٶں تم کو۔۔“وہ شوخی سے کہتے ہوۓ اس نازک صفت گڑیا کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔۔۔اور بڑے پیار سے چومتا ہے۔۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں بےپناہ رومانس ۔۔۔۔اور اپنے ہاتھ کو چومتا دیکھ ماہنور غصہ بھول بیٹھی۔۔۔۔اپنی کلاٸی چھڑوانے کی ہلکی سی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔”تم واقعی بھت خوبصورت ہو میری جان۔۔۔۔“اس نے آنکھوں سے الفت بھرے جال پھینکتے ہوۓ کہا تو ماہنور مزید اس کی رومانس بھری نظروں کی تاب نہ لا سکی۔۔۔اور جھیپ کر کھڑکی کی جانب نظر کر لی۔۔۔۔”پھر سے شرماگٸیں“شاہنزیب نے ٹوکتے ہوۓ کار اسٹارٹ کی تھی۔۔۔۔
*****--------********❤
”راحیل مجھے بہت خوشی ہوگی اگر تم ناراضگی ختم کر کے میرے والدین کو اپنا لو۔۔۔کیوں اپنی ناراضگی میں پھر سے وہی غلطی دُہرا رہے ہو “ثانیہ کہہ کر اس کے پاس آکر بیٹھی تھی جیسے سنتے ہی راحیل نے کروٹ لی تھی۔۔۔ثانیہ کی جانب اپنی پیٹھ کرکے آنکھیں بند کر لیں تھیں۔۔۔ مانو سننا ہی نہیں چاہتا ہو۔۔۔”راحیل میں جانتی ہوں تم سن رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔ یار۔۔۔۔۔۔ ایک بار کوشش تو کرو میرے خاطر۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔تم نے کامران کو دیکھا وہ سعدیہ کے والدین کو کتنی عزت دے رہا تھا۔۔۔۔۔ سب کے سامنے انہیں امی پاپا بول رہا تھا بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ۔۔۔۔جبکے اس کی تو منگنی تک نہیں ہوٸی ہے سعیہ سے۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔راحیل۔۔۔۔ایک بار میری خاطر“وہ التجاٸیہ انداز میں بار بار اصرار کررہی تھی ۔۔۔اس کا بازو پکڑ کر ہلاتے ہوۓ۔۔۔۔۔
”نو وے۔۔۔۔ میں تمہارے باپ کو کبھی معاف نہیں کر سکتا۔۔۔ میری ماں اگر آج اس دنیا میں نہیں ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف تمہارا باپ ہے۔۔۔۔۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں صرف اس لئے تم سے تمہارے والدین کو جدا نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔ پر خود اس کمینے کو باپ کا درجہ دے دوں۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔۔۔“راحیل نے غصے سے اک دم اٹھ کر ثانیہ کا بازو جھنجھوڑ کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔۔۔۔وہ نہایت غصے میں آ گیا تھا ۔۔۔۔کہ کر واپس لیٹ گیا ”لائٹ اُف کر دو“
”ہممم۔۔۔او۔کے“ثانیہ روہانسہ آواز میں کہہ کر لائٹ آف کر کے چلی گئی۔۔۔۔
*****-----*******❤
”تم؟؟؟؟“ وہ کمرے میں رات کے دوسرے پہر داخل ہوا تو سعدیہ حیرت سے پوچھنے لگی۔۔۔۔
”یہ میرا بھی کمرہ ہے“کامران جتاتے ہوۓ کہ کر الماری کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔
” میں کل جارہی ہوں“ سعدیہ نے پیچھے سے کمرے کے دروازے کا لاک پکڑ کر لچک دار انداز میں کامران کو بتایا۔۔۔
”ارے واہ ۔۔۔۔مبارک ہو “اس نے بھت ٹھنڈا ری۔ایکشن دیا تھا بغیر اس کی جانب مڑے۔۔۔۔۔
” اس میں مبارک باد دینے کی کیا بات ہے؟؟؟“ سعدیہ الجھ کر پوچھ رہی تھی۔۔۔۔۔
” تو اور کیا بولوں؟؟؟۔۔۔۔۔کیا چاہتی ہو تم۔۔۔۔کیا ری۔ ایکشن دوں اس بات کو سن کر ؟؟؟۔۔۔۔غصہ کروں؟؟؟۔۔۔۔ یا روں؟؟؟۔۔۔یا تمہارے سامنے بیٹھ کر التجاٸیں کروں کہ نہ جاؤ ۔۔۔۔۔بولو “۔۔۔وہ بڑے رخے و دل جلے انداز میں کہ کر اپنا سیل چارجینگ پر لگا رہا تھا ۔۔۔۔۔
” میں تو بس بتا رہی تھی “ وہ کہ کر صوفے پر بھولا سا چہرہ بنا کر بیٹھ گئی۔۔۔۔کامران کے جانے کی خبر سننے کے بعد سے سعدیہ کا دل قابو میں نہیں آرہا تھا۔۔۔۔محسوس ہورہا تھا گویا کے کچھ مس ہو رہا ہو۔۔۔۔۔
” مجھے پتا ہے پاپا نے مجھے پہلے ہی بتا دیا ہے “
”پاپا ؟؟؟۔۔۔“وہ الجھ کر پوچھنے لگی تھی۔۔۔ کامران کے لفظ پاپا سے مراد کون سی شخصیت ہیں۔۔۔۔اس کے اپنے والد یا شیخ صاحب۔۔۔۔
” سوری ۔۔۔شیخ صاحب۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ بھی بتا رہے تھے کہ تمہارے لئے مزمل کا رشتہ آیا ہے“ یہ کہہ کر وہ افسردہ سہ چہرہ بناۓ جانے لگا ۔۔۔
”سنو “سعدیہ نے آواز دے کر روکا تھا۔۔۔۔”پاپا بولو گے تم مجھے زیادہ اچھا لگے گا اور آگے تمہاری مرضی “سعدیہ نے صوفے پر بیٹھے بیٹھے ہی بڑے دھیمے لہجے میں کہا تھا۔۔۔ جسے سن ۔۔۔۔کامران کے مارے خوشی کے ہوش اڑ گئے تھے وہ تیزی سے بےتاب ہوکر اس کے قدموں میں آکر بیٹھا۔۔
”کیا کہا تم نے؟؟؟۔۔۔۔ذرا دوبارہ کہنا“ کامران بے یقینی سے کیفیت میں مبتلا ہوکر کہ رہا تھا۔۔۔۔
” پاپا بولو گے تو مجھے زیادہ اچھا لگے گا“سعدیہ نے دوبارہ کہا تو کامران پھولے نہیں سما رہا تھا ۔۔۔پہلے دل کیا اسکے گلے لگ جائے۔۔۔۔ اس لیے اپنی دونوں باھیں پھیلا کر گلے لگنے لگا ۔۔۔
”اسٹے یور لمیٹ“ سعدیہ نے گھور کر دیکھتے ہوۓ کہ کر کامران کے ابھرتے ہوۓ جذبات پر فل اسٹاپ لگایا۔۔۔۔ ” میں نے ہاں نہیں کہا ہے ۔۔۔۔جو تم اتنا خوش ہو رہے ہو“۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا تو کامران نے فورا اپنی پھیلی ہوئی باھیں فولٹ کرلیں ۔۔۔۔
” کیا مطلب؟؟؟۔۔۔۔ میں سمجھا نہیں“ وہ الجھ کر دیکھتے ہوئے بول رہا تھا ۔۔۔۔۔اس کے چمکتے ہوئے چہرے کی خوشی ماند پڑ گئی تھی سعدیہ کی بات سن۔۔۔۔۔
” مطلب۔۔۔۔ میں ابھی پڑھنا چاہتی ہوں اور میری پڑھائی مکمل ہونے میں پورے دو سال لگیں گے۔۔۔۔۔میں منگنی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔۔۔ اس لئے اگر دو سال تک خاموش رہ سکتے ہو ۔۔۔اور میرا انتظار کر سکتے ہو تو کرو ورنہ تمہاری مرضی“ سعدیہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔
پہلے تو کامران سُن سی کیفیت میں پڑ گیا تھا اس کے خیالات سن کر۔۔۔۔منگنی ایک رشتے کی بنیاد ہوتی ہے۔۔۔۔ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی منگنی ہو ۔۔۔ وہ دلہن کی طرح اس میں تیار ہو ۔۔۔۔اس کا ہونے والا دولہا اسے اپنے ہاتھوں سے انگوٹھی پہناۓ۔۔۔۔۔پر سعدیہ منگنی کے نام سے بھی خوف کھاتی تھی۔۔۔۔اور اس کا ریزن کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا۔۔۔۔۔
” منظور ہے ۔۔۔۔۔بالکل منظور ہے“اس نے سعدیہ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا تھا ۔۔۔۔۔
”میں تمہارے ساتھ کوئی دھوکا نہیں کرنا چاہتی۔۔۔ میں محبت نہیں کرتی تم سے ۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔اچھے لگتے ہو تم مجھے پر یہ جذبہ محبت نہیں ہے اس لیے پلیز اپنی محبت کے بدلے مجھ سے محبت کی امید مت رکھنا “اس نے صاف گوئی سے کام لیا تھا جس پر کامران مزید صدقے واری جانے لگا تھا اس پر۔۔۔۔۔
” میرے دل میں جو محبت ہے وہ بےلوث ہے سعدیہ۔۔۔۔ اس میں کوئی طلب۔۔۔۔ کوئی غرض شامل نہیں ۔۔۔۔ایک دن میں اپنی محبت سے تمہارے دل میں اپنی جگہ خود بنا لوں گا ۔۔۔۔بس تم اپنے دل کے دروازے میرے لیے کھلے رکھو“ اس نے بڑی محبت سے سعدیہ کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔۔۔۔” اچھا منگنی نہ صحیح۔۔۔۔ ہم گرل فرینڈ ۔۔۔بوائے فرینڈ تو بن کر رہ سکتے ہیں ناں؟؟؟“ اس نے نہایت شوخ مزاجی سے ۔۔۔۔۔ ابرو اچکاکر استفسار کیا۔۔۔۔
” کامران کے بچے۔۔۔۔لگتا ہے تمہاری بیٹری اُو ور چارج ہو گئی ہے“سعدیہ نے اس کی بات سن صوفے پر رکھا ہوا ہے کشن اٹھا کر اس کے سر پر مارتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
” یار ایک بار دیکھو تو ٹھیک طرح مجھے تم۔۔۔۔اپنی آنکھیں کھول کر“کامران اس کے نزدیک آکر آنکھوں میں آنکھیں ڈال بولا۔۔۔۔” تمھیں مجھ جیسا گڈلوکنگ۔۔۔۔ ہینڈ سم ۔۔۔ ڈیشنگ اسمارٹ لڑکا ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا “وہ بڑا اکڑ کر اپنی خوبصورتی پر اتراتے ہوئے سعدیہ کو چھیڑنے کی نیت سے کہنے لگا۔۔۔۔۔
وہ اس قدر نزدیک آگیا تھا کہ سعدیہ نروس ہو کر ہلکا سا پیچھے ہٹی۔۔۔۔” کامران تمہارے ارادے مجھے اب نیک نہیں لگ رہۓ ۔۔۔۔۔چلو نیکلو کمرے سے“اس کی نزدیکی آج سعدیہ پر جادو چلا رہی تھی۔۔۔۔ایک دو لمحموں کے لٸے تو جذبات تیزی سے سلگنے لگے۔۔۔۔اگلے ہی لمحے وہ خود ہی کامران کے چہرے کے قریب اپنا حسین مکھڑا لے آٸی تھی۔۔۔۔کامران نے اپنے ہاتھ سے اس کی گردن پکڑ کر اپنے چہرے کی جانب۔۔۔۔ نیچے جھکایا۔۔۔۔کامران کا دل مسرت سے بھر آیا تھا یہ دیکھ کے آج وہ ذرا سہ بھی اس کی نزدیکی سے نہیں جھنجھلا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔اس نے مسکراتے ہوۓ سعدیہ کی پیشانی کا بوسہ لیا۔۔۔۔وہ کافی جھیپ گٸی تھی۔۔۔۔۔اگلے ہی لمحے خود کے جذبات پر قابو پاتے ہوۓ کامران کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوۓ اسے کمرے سے باہر کھڑا کر دیا۔۔۔۔۔
” سوچ لو لڑکیاں جل جائیں گی کہ کامران جیسا حسیں لڑکا تمہارا بوائے فرینڈ ہے “سعدیہ دروازہ بند کرنے لگی تو کامران دروازے کو زبردستی ہاتھ سے روکتے ہوئے بولنے لگا ۔۔۔
” مجھے کسی کو نہیں جلانا اب جاؤ ورنہ کوئی آجائے گا“۔یہ کہہ کر اس نے دروازہ بند کر دیا تھا۔۔۔۔”پاگل “ سعدیہ مسکراتے ہوۓ کہ کر بیڈ پر لیٹ گئی ۔۔۔۔۔
*****---------*******❤
”شاہ ۔۔۔أور کتنی دیر لگے لگی ؟؟“ ماہ نور تھک چکی تھی بیٹھے بیٹھے۔۔۔ اس لیے اب تھکے تھکے لہجے میں استفسار کرنے لگی۔۔۔
” ابھی تو ایک گھنٹہ باقی ہے “شاہنزیب کار ڈرائیف کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔۔
” ایک گھنٹہ ؟؟؟“۔۔۔وہ زور سے بولی۔۔۔” مجھے تو لگا بس پہنچنے والے ہیں “ وہ تھکن سے چور چور ہو رہی تھی اس لیے سفر سے بیزاری کا اظہار کرنے لگی۔۔۔
” یار تم سو جاؤ۔۔۔ لاٶ تمھاری سیٹ سیڈ کروں“ یہ کہہ کر اس کی سیٹ بچھا دی۔۔۔۔ تاکہ وہ آرام سے سو سکے۔۔۔
” میں سونا نہیں چاہتی۔۔۔۔ میں بہت ساری باتیں کرنا چاہتی ہوں تم سے۔۔۔“ وہ سیٹ سے کمر لگا کر بولی۔۔۔
” تو کرو میں سن رہا ہوں “شاہنزیب بڑے پیار سے جواب دے رہا تھا ۔۔۔۔
”تم نے کبھی مجھے فون کیوں نہیں کیا؟؟؟۔۔۔ کبھی کوئی رابطہ کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی ؟؟؟۔۔۔چار سال تک اپنی آواز تک سننے کے لیے ترساٸے رکھا ۔۔۔آخر کیوں؟؟؟“ماہنور اپنے ذہن میں الجھے ہوئے سوالوں کو سلجھانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔اس نے شکوہ کیا اپنے محبوب سے۔۔۔۔ جو اس کا حق تھا۔۔۔
” پتا نہیں یار۔۔۔ شاید میں ڈرتا تھا“ اس نے صاف گوئی سے کام لیا تھا۔۔۔
” بس کرو جھوٹے۔۔۔۔ تم اور ڈر ؟؟؟۔۔۔۔۔شاہ وہ بات بولو جس پر میں یقین کر سکوں۔۔۔۔تمھاری زندگی شروع سے میری نظر میں ایک آئیڈیل رہی ہے۔۔۔۔۔ کتنی آسان۔۔۔۔کتنی پرسکون۔۔۔اتنے پیار کرنے والے ماں باپ ۔۔۔بہن بھائی۔۔۔ دادو کزنز۔۔۔۔اوپر سے تم اتنے ذہین کے ہر کوئی تمہاری تعریف کرتے کرتے نہ تھکے۔۔۔۔۔۔ہر چیز دی خدا نے تمہیں ۔۔۔۔اتنی پیاری آواز۔۔۔۔انداز ۔۔۔خوبصورت چہرہ ۔۔۔۔۔پڑھائی ہو یا کھیل کود ہر چیز میں اول ۔۔۔۔کوئی تمہیں ھرا نہیں سکتا تھا کسی بھی میدان میں۔۔۔۔ پھر تم ہو بھی اتنے خوبصورت کے ہر لڑکی تم پر فدا ہوتی ہے ۔۔۔۔ہر چیز جیسے خدا نے تمہیں ہی دے دی ہو ۔۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھار تو میں تمہیں دیکھ سوچتی تھی کہ خدا نے تمہیں بے انتہا نوازا ہے ۔۔۔تمہیں مجھ سے محبت ہوٸی ۔۔۔۔خدا نے تمھیں مجھے بھی دے دیا۔۔۔مانو تم جو چیز چاہتے ہو ۔۔۔۔تمہیں فورا مل جاتی ہو“ ماہ نور کی باتیں سن شاہنزیب کو پہلی بار احساس ہوا تھا کہ وہ اس کی اوپری زندگی سے کس قدر متاثر ہے۔۔۔۔
” کاش میں تمہیں بتا سکتا اتنی آسان نہیں رہی میری زندگی جتنی تمہیں نظر آرہی ہے ۔۔۔۔ہر لمحہ تڑپ تڑپ کر تمہیں مانگا ہے دعاؤں میں۔۔۔۔۔ پھر جاکر آج تم میرے ساتھ ہو“ شاہنزیب دل ہی دل اس کی باتیں سن سوچ رہا تھا۔۔۔۔
” تم نے چاہا ہمارا نکاح ہوگیا ۔۔۔۔تمھیں لگا ابھی تم رخصتی کے لیے تیار نہیں ہو۔۔۔ تو تم نے نہیں مانگی۔۔۔۔۔ تمھیں لگا۔۔۔ چار سال تک تم مجھ سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔۔۔ تو تم نے نہیں کی۔۔۔۔۔۔یہ بغیر سوچے کہ میرے دل پر کیا گزرے گی ان چار سالوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کیا سوچوں گی۔۔۔۔۔ لوگ کیا کہیں گے۔۔۔۔ تم کیا جانو ڈر کیا ہوتا ہے ۔۔۔۔جب خوف میں رات کو نیند نہ آئے تو وہ رات کیسے گزرتی ہے۔۔۔۔۔ جب ہر کوئی آپ کے منہ پر آکر بولے تمہارا شوہر تمھیں طلاق دے دے گا۔۔۔۔ اس لمحہ جو دل تلملا اٹھتا ہے۔۔۔۔۔اور جو اس وقت ڈر و خوف لاحق ہوتا ہے تمہیں اس کی کیا خبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمھیں کیا خبر تھی کے لوگ کیا بولتے ہیں ہمارے متعلق۔۔۔۔ تم واپس آۓ اپنی مرضی سے۔۔۔۔۔۔ دل چاہا کہ۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔یہ لڑکی مجھے اتنی پسند ہے کہ میں اس کے ساتھ زندگی گزار سکوں۔۔۔۔ تو تم نے رخصتی مانگ لی۔۔۔۔ اور تمہارے مانگتے ہی ہر کوئی خوشی خوشی راضی ہوگیا ۔۔۔۔اتنی آسان ہے تمھاری زندگی۔۔۔۔۔ کسی چیز میں کوئی مشکل نہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہر چیز جب چاہا تب پالی۔۔۔۔تمہیں کس بات کا ڈر ہو سکتا ہے بھلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں کوئی سوٹ پسند آئے تو وہ بھی تمہارا۔۔۔۔۔تمھیں یہ ماہنور پسند آٸی ۔۔۔ تو وہ بھی تمھاری“اس نے اپنے پورے وجود کو ایک معمولی سی چیز سے تعبیر کر ڈالا تھا جو شاہنزیب کو پسند آتے ہی اس کی ہوگئی۔۔۔۔۔ماہنور نہایت افسردہ و کرب بھرے لہجہ میں بول رہی تھی ۔۔۔۔اس کی آنکھیں نم ہوجارہی تھیں باربار۔۔۔۔
” کاش وہ لمحہ زندگی میں ضرور آئے جب میں تمہیں بتا سکوں کہ کیا ہو تم۔۔۔۔۔۔ سب کچھ دیا خدا نے مجھے۔۔۔۔ یہ سچ ہے ۔۔۔۔۔مگر ساتھ ساتھ بچپن میں ہی اک ایسے مرض میں مبتلا کیا جس کی دواء میرے سامنے ہوتے ہوئے بھی مجھ سے کوسوں دور تھی۔۔۔فطور ہو تم میرا۔۔۔۔۔جنون ہو۔۔۔۔دواء ہو ۔۔۔۔علاج ہو۔۔۔۔۔ کتنا لڑا ہوں تمہاری خاطر کاش تمہیں بتا پاتا آج ۔۔۔۔بڑے ابو ۔۔۔۔دادو۔۔۔۔امی۔۔۔۔۔ راحیل۔۔۔۔ ولید۔۔۔ شارق ۔۔۔۔شہزاد بھائی سب سے لڑ لڑ کر تمھیں پایا ہے۔۔۔۔۔اے خدا وہ وقت ضرور لانا جب میں خود ماہ نور کو بتا سکوں کے کتنا چاہتا ہوں اسے“شاہنزیب دعاگو ہوا تھا ماہنور کی باتیں سن۔۔۔۔ وہ دیوانا بہت رنجیدہ سا ہو گیا تھا اپنی محبوبہ کے منہ سے خود کے لٸے ایسے تاثرات سن کر۔۔۔۔۔
” اب سچ بتاؤ ۔۔۔کیوں نہیں کیا فون کبھی ؟؟؟۔۔۔۔پلیز اس بار سچ کہنا “ اس نے آنکھوں میں آنے والی نمی صاف کرکے شاہنزیب کی جانب متوجہ ہو کر اپنی سیٹ واپس صحیح کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
” دنیا میں کسی کو بھی پلیٹ میں سجا کر کچھ نہیں دیا جاتا ۔۔۔۔مجھے دوکھ ہے یہ سن کر کہ تمہیں میری بات کا ذرا بھی یقین نہیں ۔۔۔۔جب کہ تم نے خود میری الماری دیکھی ہے۔۔۔۔۔“شاہنزیب اب ماہنور کی جانب بالکل نہیں دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔افسردگی و کرب بھرے انداز میں کہہ کر سامنے دیکھنے لگا۔۔۔۔اچانک سے شاہنزیب کی نظر سائیڈ مرر پر پڑی تھی جس میں پیچھے آنے والی کار جو کالے رنگ کی تھی نظر آٸی۔۔۔لیکن اس نے خاص توجہ نہ دی
” ہاں دیکھی ہے۔۔۔۔ اگر تم واقعی اتنی محبت کرتے تھے تو کبھی فون کیوں نہیں کیا؟؟؟۔۔۔ پھر بھی میرے ذہن میں یہی سوال گھوم رہا ہے ۔۔۔میں جاننا چاہتی ہوں“ وہ الجھ کر استفسار کررہی تھی اپنے سوالوں کے جواب مانگ رہی تھی۔۔۔ جبکے شاہنزیب کے پاس اس کے کسی سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔۔۔
” کوئی اور بات کریں“ شاہنزیب سنجیدگی سے بولا۔۔۔ وہ مزید اس ٹوپک پر بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔
” ضرور۔۔۔ ہم یہ بات پھر کبھی کریں گے “اس نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد ایک گہرا سانس لیتے ہوۓ کہا۔۔۔۔
”ھنی مون کے لٸے کہاں جانا پسند کرٶ گی؟؟؟“شاہنزیب نے اسے اداس بیٹھا دیکھ خودی نیا موضوع چھیڑا تھا۔۔۔۔
”کہیں بھی“ ماہنور نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا۔۔۔۔
” یار اس طرح نہیں ۔۔۔تھوڑی تو گرم مزاجی کا مظاہرہ کرو“شاہنزیب نے مسکراتے ہوئے کہا تو اس کا دل رکھنے کے لیے مصنوعی مسکراہٹ لبوں پر سجا لی۔۔۔۔۔
”ہممم ۔۔۔امریکہ چلیں گے۔۔۔ یا تم کہیں اور جانا چاہو تو بولو“ پہلے اس نے اپنی رائے دی پھر ماہنور سے پوچھنے لگا۔۔۔
” نہیں۔۔۔ تم جہاں چاہو“ وہ سنجیدگی سے بول کر کھڑکی کے باہر دیکھنے لگی۔۔۔
” میں سوچتا ہوں جلدی سے ہماری بیٹی ہو جائے۔۔۔ پھر وہ جلدی سے بڑی ہو جائے ۔۔۔۔پھر میں اس کی شادی کروں اور نانا بن جاٶں ۔۔۔۔اپنے نواسوں اور نواسیوں کے ساتھ کھیلوں ۔۔۔۔اور ان کو اپنی خوش قسمتی کی کہانی سناٶں۔۔۔ اور بتاؤں کیسے ان کی نانی عین شادی والی رات منہ پھلائے بیٹھی تھیں"۔۔۔۔اس نے کہا تو ماہنور مسکرا دی۔۔۔۔
” تمہیں صرف نواسے نواسیاں اس لیے چاہیے کہ تم انھیں میری شکایت لگا سکو۔۔۔حد ہے تم سے شاہ “وہ مسکراتے ہوئے کہ کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔
” بولو ناں اگر کہیں اور جانا ہے تو “شاہنزیب نے کار مڑتے ہوئے پوچھا۔۔۔
”ہممم۔۔۔۔نہیں امریکی ہی چلیں گے مزہ آئے گا اور ہم ناں رومیساء آپا۔۔۔ اسماء۔۔۔ ثانیہ۔۔۔۔ بھابھی ۔۔۔صباءباجی ۔۔۔۔ریشم ان کو بھی ساتھ لے کر چلیں گے اور زیادہ انجوائمنٹ ہوجاٸے گا “اس نے شوخی سے ایک ہی سانس میں اتنا بڑا جملا ادا کر کے شاہنزیب کی جانب دیکھا ۔۔۔جو حیرت سے اس کا چہرہ تک رہا تھا۔۔۔
” اور کوئی رہ گیا ہے تو اس کا نام بھی لے لو ۔۔۔۔“شاہنزیب نے طنزیہ کہہ کر منہ بسورا۔۔۔۔ جس پر وہ مسکرا دی۔۔۔
” تمہاری کتنی جلدی ہٹ جاتی ہے۔۔۔میں تو بس مذاق کر رہی تھی“ وہ مسکراتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔
”بس حویلی آنے والی ہے ۔۔۔پندرہ منٹ کا راستہ رہتا ہے“
” صباء بھابھی جب گھر میں آئیں ہوں گی تو سب نے خوب ان کا پھولوں سے ویلکم کیا ہوگا ۔۔۔اسماء۔۔۔۔یا شاہزیہ آپا ان کا شرارہ پکڑ کر کمرے میں لے کر گٸیں ہوں گی۔۔۔۔ پر حویلی میں تو میرا ویلکم کرنے والا کوئی نہیں ہوگا ۔۔۔چلو کوئی بات نہیں ۔۔۔۔۔اب ہر نٸی دولہن کا ویلکم ہو ضروری تھوڑی ہے۔۔۔“وہ دل ہی دل سوچ اداس ہو کر خود کو ہی سمجھا رہی تھی۔۔۔۔
” شاہ پہنچ گئے؟؟؟“ ولید کا فون آیا تھا۔۔۔
” ہاں۔۔۔ بس کار پارک کررہا ہوں۔۔۔تو فکر مت کر۔۔۔۔اور سو جا۔۔۔ ہم ساتھ خیرت سے پہنچ گٸے ہیں “شاہنزیب نے کہ کر فون سوچ آف کیا اور جیب میں ڈال کر کار سے باہر آیا تھا ۔۔۔
”چلیں ۔۔۔آگٸی حویلی۔۔۔“ شاہنزیب نے مسکراتے ہوئے ماہ نور کی جانب کا دروازہ کھولا تھا ۔۔۔۔۔وہ اترٸی تو گلابوں کی خوشبو محسوس ہوئی۔۔ اس نے فورا ہی نیچے زمین کی جانب نظر کی۔۔۔ اس کے قدموں کے نیچے کی زمین گلاب کی پتیوں سے سجی ہوئی تھیں وہ حیرت سے شاہنزیب کو دیکھنے لگی۔۔۔۔
” آج تو قسم کھا رکھی ہے میں نے۔۔۔ یہ بوڑھی روح کا لقب ختم کرکے ہی رہوں گا “اس نے بڑے پیار سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔” لاٶ ۔۔۔ شرارہ پکڑنے میں مدد کروں“ کہ کر ماہ نور کا شرارہ پکڑ کر آہستہ آہستہ چلنے لگا ۔۔۔۔ ماہ نور کو شاہنزیب سے اس قدر رومانٹک ہونے کی ذرا بھی امید نہ تھی ۔۔۔ اس لیے وہ کافی شاکٹ میں آگٸی تھی۔۔۔ پھولوں سے سجا اپنا رستہ دیکھ۔۔۔۔
وہ ابھی حویلی کے دروازے کے پاس کھڑی ہی ہوئی تھی کے چوکیدار نے اسے مسکراتے ہوئے ویلکم کر کے دروازہ کھولا تھا۔۔۔۔۔ ماہنور نے جیسے ہی پہلا قدم رکھا چوکیدار تیزی سے اندر کو بھگا تھا۔۔۔۔اس کے بھاگتے ہی آتش بازی زوردار طریقے سے شروع ہوگی۔۔۔۔ پہلے پٹاکے پر تو ماہنور بری طرح چونک گٸی تھی اور ڈر کر اس نے شاہنزیب کا ہاتھ پکڑا تھا ۔۔۔۔۔پورا آسمان جگمگا اٹھا تھا آتشبازی کے حسین رنگوں سے۔۔۔۔ وہ دونوں ہاتھ پکڑ کر خوب صورت آتش بازی کا نظارہ دیکھنے لگے۔۔۔۔ماہنور کی آنکھوں میں جگنو جگمگا اٹھے تھے یہ خوبصورت منظر دیکھ۔۔۔۔اس نے بڑی محبت سے شاہنزیب کی جانب دیکھا۔۔۔۔
” اندر چلیں“ تھوڑی دیر تک وہ دونوں کھڑے آتش بازی دیکھتے رہے۔۔۔ شاہنزیب نے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلانے لگی ۔۔۔۔اس کی پوری راہ گلاب کی پتیوں سے سجی تھی۔۔۔۔ جیسے ہی وہ حویلی میں مین گیٹ سے چلتی ہوئی حویلی کے بڑے دروازے تک پہنچی۔۔۔ اسے اپنے دائیں اور بائیں دونوں طرف حویلی کے نوکر تھالے پکڑے ہوئے نظر آئے۔۔۔۔ وہ بہت خوش ہوٸی یہ دیکھ کر۔۔۔۔
شہنزیب ماہنور ۔۔۔۔۔۔چاند سورج کی جوڑی کی طرح ہاتھ پکڑے حویلی میں چلتے ہوئے آۓ تھے۔۔۔۔ ان کے آتے ہی نوکروں نے گلاب کے پھولوں کی بارش کر ڈالی۔۔۔۔ماہنور بے انتہا خوش تھی۔۔۔۔مانو کوئی خواب دیکھ رہی ہو۔۔۔۔ جو بے انتہا حسین تھا۔۔۔۔۔ سب خوب پھول برسا رہے تھے اور وہ۔۔۔۔۔۔ اپنے دولہے کا ہاتھ تھامے چل رہی تھی۔۔۔۔۔
” آپ کون ہو ؟؟؟“سب نے ماہنور کو اور شاہنزیب کو مبارکباد دی تھی۔۔۔۔۔پر جب ایک چھوٹے سے لڑکے نے مبارکباد دی تو ماہنور اس سے پوچھنے لگی۔۔۔۔ وہ دیکھنے میں ہی بارہ تیرہ سال کا بچہ معلوم ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔
”یہ میرا بیٹا ہے ۔۔۔۔ماہنور بی بی “ چوکیدار نے اس بچے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا ۔۔۔۔
”بہت پیارا ہے ۔۔۔کون سی کلاس میں ہو آپ؟؟؟“ ماہنور اس بچے کے گال کو سہلاتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔۔۔۔
” تیسری جماعت میں ۔۔۔۔اور میں کلاس میں ہمیشہ اول آتا ہوں“اس نے بڑے فخر سے کہا تو ماہنور اور شاہنزیب مسکرا دیٸے ۔۔۔۔
” اچھا۔۔۔۔زبردست بھٸی“شاہنزیب نے اس کے بالوں پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ وہ بھی بہت خوش ہوا تھا شاہنزیب کے منہ سے اپنی تعریف سن کر ۔۔۔۔
”نام کیا ہے آپ کا ؟؟؟“ماہنور نے پوچھا تو فورا کہنے لگا
”عدیل “
”یہ لو پیسے۔۔۔۔ خوب ساری چوکلیٹ خرید کر کھالینا ۔۔۔ ٹھیک ہے عدیل۔۔۔۔“شاہنزیب نے جیب سے پیسے نکال کر بڑے پیار سے دیتے ہوئے کہا۔۔۔ وہ بچہ اپنے والد کی جانب دیکھنے لگا ۔۔۔۔انہوں نے اثبات میں سر ہلایا تو اس نے خوشی خوشی شاہنزیب سے پیسے لے لٸے۔۔۔۔۔
”چلو“شاہنزیب نے ماہنور سے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔۔۔
وہ اسی کمرے میں آئی تھی دلہن بن کر جس میں چار سال قبل چڑیل بن کر داخل ہوئی تھی شاہنزیب کے ھوش اڑانے۔۔۔۔ وہ کمرہ پہلے ہی اس قدر حسین تھا اب تو مانو شاہنزیب نے اسے پھولوں سے سجا کر ۔۔۔اس میں مزید چار چاند لگا ڈالے تھے۔۔۔ ویسے تو پوری حویلی پر لائٹیں جگمگا رہی تھیں پر اس کے کمرے کا حسن ان لائٹوں کی جگمگاہٹ سے بھی زیادہ تھا ۔۔۔اس کی سیج گلابوں کے پھولوں سے سجی ہوئی تھی۔۔۔ سامنے والی دیوار پر ماہ نور شاہنزیب کی بڑی سی تصویر لگی ہوئی تھی ان کے نکاح کے وقت کی۔۔۔۔۔ جس میں ماہنور نظر جھکائے ہوئے تھی اور شاہنزیب اسے دیوانوں کی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
”کیسا لگا ؟؟؟“ وہ ایک لمبا سانس لیتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔۔۔۔”اچھا روکو ۔۔۔۔۔دروازہ تو بند کرنا بھول ہی گیا “ یہ کہ کر پہلے دروازہ اندر سے لاک کر لیا پھر واپس آ کر اس کے روبرو کھڑے ہو کر بڑے پیار سے پوچھنے لگا۔۔۔۔ ”کچھ تو بولو یار “ وہ صرف نظر نیچے کٸیے مسکرائے جا رہی تھی۔۔۔ اس کا چہرہ گلابی ہو گیا تھا پورا۔۔۔۔۔
”بھت حسین لگ رہی ہو تم ۔۔۔۔۔کہیں تمھیں میری نظر نہ لگ جاۓ “شاہنزیب نے یہ کہ کر اس کا ہاتھ اپنی گرفت میں لے کر اپنی جانب کھینچا تھا۔۔۔۔۔ماہنور اس کے سینے سے آلگی تھی۔۔۔۔۔اس کا تن من سلگ سہ رہا تھا۔۔سانسیں تھم سی گٸیں تھیں شہنزیب کی قربت کے سبب۔۔۔۔۔”یہ لگا لو۔۔۔ امی نے میرے لگایا تھا میں تمہارے لگا دیتا ہوں“اس کی گھنی زلفیں اپنے داٸیں ہاتھ سے ہٹا کر۔۔۔۔۔اپنی آنکھوں میں لگا سرمہ چونگلی سے مس کر کے۔۔۔۔ ماہنور کی خوبصورت گردن پر کالا ٹیکا لگایا۔..۔۔۔ناجانے اس کے لمس میں ایسی کون سی حرارت تھی کے ماہنور کو اپنا جسم جلتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔۔کانوں سے دھوٸیں نکلے تھے۔۔۔ماہنور اپنی گھنی پلکیں کبھی اٹھاکر اسے دیکھتی تو کبھی نیچے جھکا لیتی۔۔۔۔پورا جسم سلگا دیا تھا اس ظالم نے ۔۔۔شاہنزیب اس کے چہرے کے اتار چڑھاٶ دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔”میری دولہن اتنی حسین ہے کے دل چاھ رہا ہے ۔۔۔۔بس دیکھتا رہوں۔۔۔۔مجھے یقین نہیں آرہا اپنی خوش قسمتی پر۔۔۔۔۔کے تم مجھے مل گٸیں۔۔۔۔۔مجھے واقعی اعتبار نہیں آرہا کے آج تم میری دولہن کے روپ میں میرے اتنے نزدیک ہو۔۔۔۔“ شاہنزیب اس کے وجود کو دیوانوں کی طرح تکتے ہوۓ ۔۔۔۔۔۔۔بے یقینی سی کیفیت میں اپنی دونوں باھیں اس کی گردن میں ڈالے گویا ہوا۔۔۔۔۔۔
” شاہ ۔۔۔۔پان “ماہنور کو اچانک پان کا خیال آیا تھا جو جی۔جاجی نے خاص دیا تھا ۔۔۔۔
”کیا؟؟؟“شاہنزیب کافی رومانٹک مونڈ میں تھا اور وہ ایک دم سے پان کی یاد دلا رہی تھی۔۔۔۔
”پان ۔۔۔جو جی۔جاجی نے دیا تھا بھول گئے۔۔۔۔“ وہ بولی تو شاہنزیب ایسی اداکاری کرنے لگا جیسے وہ واقعی بھول بیٹھا ہو۔۔۔۔
”چھوڑو ناں یار “شاہنزیب نے لاپرواہی سے کہا تو جوابًا ماہنور گھورنے لگی ....
”شاہ ۔۔۔۔انھوں نے اتنے دل سے دیا تھا۔۔۔ ایسا تو مت کرو۔۔۔ کہاں ہے پان ؟؟؟“وہ منہ بیگاڑ کر کہنے لگی تو شاہنزیب نے اپنے شیروانی کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔۔۔
” شاید گرگیا کہیں۔۔۔۔۔ چھوڑو ناں۔۔۔ ہم ان سے کہہ دیں گے کہ کھو گیا تھا“ شاہنزیب نے بھولا سہ چہرہ بناکر کہا تو ماہنور نے اپنے ہاتھوں سے اس کے دونوں ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹا تے ہوئے کہا ۔۔۔
”شاہ رومیساء آپا میری ماں جیسی ہیں اور ان کے شوہر میرے والد اور انہوں نے بڑے دل و مان سے اسی رشتے کو اہمیت دیتے ہوئے ۔۔۔تمہیں وہ پان دیا تھا ۔۔۔۔۔تم کیسے اتنے لاپرواہ ہو سکتے ہو ؟؟؟“ماہنور کے چہرے کی مسکراہٹ بلکل غاٸب ہو گئی تھی ۔۔۔۔
شاہنزیب کو محسوس ہوا کے ماہنور اب رونے لگے گی۔۔۔۔ ”اچھا بابا ۔۔۔دیکھتا ہوں۔۔۔ ہو سکتا ہے مل جائے “ اس نے پراعتماد ہوکر کہا۔۔۔
” تم نے میرے سامنے اپنی جیب میں رکھا تھا پھر کہاں جا سکتا ہے ؟؟؟“ماہنور ماتھے پر بل ڈال کر پریشان ہوتے ہوئے بولی۔۔۔۔
” گر گیا ہوگا شاید۔۔۔۔ میں نے کہا ناں دیکھ کر لاتا ہوں ۔۔۔شاید مل جائے۔۔۔۔ تم بیٹھو بیڈ پر جاکر ۔۔۔۔میں آتا ہوں۔۔“یہ کہ کر کمرے سے باہر آیا اور دروازہ ہلکے سے بند کر دیا۔۔۔” ”اف میرے خدا۔۔۔۔ کیا کروں؟؟؟“ وہ ابھی یہی سوچ رہا تھا۔۔
”شاہ۔۔۔تم ابھی تک یہیں کھڑے ہو ؟؟؟۔۔۔جا کر ڈھونڈو“وہ دروازہ کھول کر اسے سامنے کھڑا دیکھ ۔۔۔۔۔پریشان ہو کر گویا ہوٸی۔۔۔
” جا رہا ہوں۔۔۔۔ تم تو جا کر بیٹھو آرام سے ۔۔۔جاؤ ۔۔۔دروازہ بند کرٶ“ شاہنزیب نے بڑے پیار سے چور انداز میں کہا تو اس نےاثبات میں سر ہلا کر دروازہ بند کرلٕیا۔۔۔۔
” وہ چیز کیا ڈھونڈوں جو میری جیب میں ہی ہے۔۔۔۔ کیا کروں؟؟؟۔۔۔ دل کہہ رہا ہے کچھ گڑبڑ ضرور ہے اس پان میں ۔۔۔۔ پر ضروری تھوڑی ہے کے ہر بار میرا دل ٹھیک کہ رہا ہو۔۔۔۔کیا کروں؟؟؟“شاہنزیب اپنا ایک ہاتھ کمر پر رکھ۔۔اور دوسرے سے پیشانی مسلتے ہوۓ ” او ۔۔۔۔ایک کام کرتا ہوں کچن سے کچھ کھا پی لیتا ہوں۔۔۔ماہنور کو لگے گا میں اتنی دیر ڈھونڈ کر آیا ہوں ۔۔۔۔منہ لٹکاۓ جاؤں گا تو سمجھے گی میں نے بہت تلاش کیا ۔۔۔۔ پر ملا نہیں۔۔۔“ یہ سوچ کر وہ کچن کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔
” یہ میرے دل کو کیا ہو رہا ہے ۔۔۔آج اتنا بے چین کیوں ہے ؟؟؟۔۔۔۔“ شاہنزیب پانی پینے لگا تو دل میں اچانک سے ہلچل سی مچ گٸی۔۔۔۔وہ پانی کا گلاس رکھ کر تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھا ۔۔۔۔کمرے کا دروازہ بند تھا۔۔۔۔کھول کر اندر داخل ہوا۔۔۔۔ اسے سامنے بیڈ پر ماہ نور بیٹھی نظر آئی۔۔۔ لیکن اس نے اپنے خوبصورت سے وجود کو سر تا پاؤں شرارہ کے دوپٹے سے ڈھکا ہوا تھا جبکہ ماہ نور کا شرارے کا دوپٹہ بال پنوں اور سیپٹیپنوں سے اچھی طرح سیٹ کیا ہوا تھا ۔۔۔۔اچانک سےماہنور اس طرح کیوں اپنے آپ کو سر سے پاؤں تک چھپائے بیٹھی تھی۔۔۔۔۔شاہنزیب کا دل عجیب سی گھبراہٹ کا شکار تھا وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا آیا تینوں سیڑھیاں چڑھی۔۔۔۔ گلاب کے پھولوں کی لڑیاں ایک ہاتھ سے ہٹا کر جیسے ہی ماہنور کی جانب ہاتھ بڑھایا۔۔۔۔
” سرپرائز ۔۔۔۔۔۔۔کیسا لگا؟؟؟ “جیسے ہی فرحان نے کہا شاہنزیب سر سے پاؤں تک مارے شاکٹ کے ھل گیا۔۔۔مانو فرحان نے اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نیکال لی ہو۔۔۔
”کیوں سالے صاحب اچھا نہیں لگا ہمارا سرپراٸز دینا ؟؟؟“وہ شرارے کا دوپٹہ سر سے اٹھا کر بیڈ پر پھینک کر شیطانی مسکراہٹ لبوں پر سجاتے ہوۓ بولا۔۔۔۔
شاہنزیب پوری طرح ھل کررہ گیا تھا۔۔۔مارے شاکٹ کے دو تین قدم پیچھے کی جانب لٸے۔۔۔۔
” یہ لو سالے صاحب تمہاری دو سال بڑی دلہن کا دوپٹہ۔۔۔۔“ یہ کہہ کر وہ بیڈ سے اٹھ کر کھڑا ہوا تھا اور شاہنزیب کے ہاتھ میں ماہنور کے شرارے کا دوپٹہ پکڑا کر ہنستے ہوئے بولا۔۔۔اس کی فرعونیت والی ہنسی شاہنزیب کو وحشت میں مبتلا کر گئی تھی۔۔۔۔
”میں تجھے چیر پھاڑ کر رکھ دوں گا ۔۔۔۔بتا میری ماہنور کہاں ہے ؟؟؟“شاہنزیب نے دوپٹہ بغور دیکھا وہ واقعی ماہ نور کے شرارے کا تھا یہ دیکھ غصے سے دھاڑ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے فرحان کا کالر پکڑ کر چیر دینے والی نگاہوں سے کہنے لگا۔۔۔۔
ماہنور کا دوپٹہ زمین بوس ہوا تھا۔۔۔۔
” سالے صاحب اتنا غصہ ۔۔۔افففف۔۔۔۔اچھی بات نہیں“ اس نے فرعونیت کا مظاہرہ کیا تھا مسکراتے ہوئے۔۔۔۔
”او۔۔۔ہیرو۔۔۔۔کالر چھوڑ ۔۔۔ورنہ۔۔۔۔ یہ گولی اس کے سر کے آر پار ہوگی۔۔۔۔۔“ ایک موٹا سا لڑکا جس کا رنگ کالا ۔۔۔ گھنگرالو بال ۔۔۔۔نیلے رنگ کے ڈھیلے ڈھالے قمیض شلوار زیب تن کٸیے ہوئے۔۔۔۔ماہنور کو گن کی نوک پر کمرے میں لا کر کہہ رہا تھا۔۔۔۔
” سالے صاحب چھوڑ دو کالر ورنہ میرا جگری دوست گولی چلا ڈالے گا “فرحان نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا تو شاہنزیب کی جان نیکلی تھی۔۔۔۔اس نے صرف ماہ نور کی خاطر کالر چھوڑ دیا۔۔۔۔۔
”یہ ہوئی ناں اچھے بچوں والی بات ۔۔۔۔چل آ میرے ساتھ“ یہ کہ کر اسے بیڈ کی گول سیڑھیوں سے نیچے لے آیا ۔۔۔۔ماہ نور پتھر کی مرتی بنے مارے وحشت و خوف کے کھڑی تھی۔۔۔۔ذھن خوف سے مفلوج ہوۓ جارہا تھا۔۔۔۔
” کیا چاہتا ہے؟؟؟“ شاہنزیب نے ڈاٸرک سوال کیا ۔۔۔شیر کی مانند فرحان کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے۔۔۔۔
” زیادہ کچھ نہیں۔۔۔ بس معافی“ فرحان نے کہا تو شاہنزیب اسے الجھی نگاہ سے گھورنے لگا۔۔۔۔” معافی مانگ۔۔۔چل جلدی۔۔۔۔بول مجھ سے غلطی ہوگئی فرحان بھائی ۔۔جو میں نے آپ جیسے اعظیم انسان سے پنگا لیا ۔۔۔۔چل بول “ فرحان نے کہا تو شاہنزیب اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورنے لگا۔۔۔۔۔
”فرحان باہر لے آ ان دونوں کو“ یہ کہتا ہوا ایک اور لڑکا کمرے میں داخل ہوا تھا ۔۔۔۔
اسے دیکھتے ہی شاہنزیب نے پہچان لیا تھا۔۔۔۔”اختر“ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا۔۔۔
” زبردست تجھے تو میرا نام بھی یاد ہے “اختر کا رنگ تھوڑا ساولا سہ ۔۔۔ جسامت میں کافی موٹا اور گنجا ۔۔۔۔ اس کے چہرے سے ہی ماہنور کو وحشت ہو رہی تھی۔۔۔۔۔ شاہنزیب اسے اچھی طرح جانتا تھا کیونکہ یہ وہی تھا جو عاشر شاہزیہ کے گھر آکر توڑ پھوڑ کر کے گیا تھا اور بدلے میں شاہنزیب نے اسے مار مار کر دنبہ بنا دیا تھا۔۔۔۔۔
” چل باہر چل۔۔۔ پر پہلے موبائل اور کار کی چابی دے“ اس کے کہنے پر شاہنزیب نے دانت پیستے ہوئے چابی اور موبائل نکال کر اس کے حوالے کردیٸے۔۔۔۔۔
”چل “یہ کہتا ہوا فرحان اسے اور ماہنور کو کمرے سے باہر لے آیا ۔۔۔۔
شاہنزیب یہ دیکھ مزید بری طرح چونکا تھا کے وہاں ایک اور بندہ کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں گن تھی اور وہ گھر کے سارے نوکروں کو لائن میں کھڑا کیے ہوئے تھا۔۔۔۔۔
” چل۔۔۔۔ اب ان سب کے سامنے مافی مانگ “فرحان نے شاہنزیب کو حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔۔ شاہنزیب بہت خود دار قسم کا لڑکا تھا ۔۔۔آج تک اس نے کبھی کسی سے معافی نہیں مانگی ۔۔۔
ماہنور جانتی تھی شاہنزیب کتنا غرور والا اور عزت پر جان دینے والا لڑکا ہے ۔۔۔۔اس نے آج تک اپنے ماں باپ سے معافی نہیں مانگی۔۔۔۔۔تو اس فرحان سے کیسے مانگ لے۔۔۔۔ جبکہ اس مظلوم کی تو کوئی خطا بھی نہ تھی۔۔۔۔ پھر بھی صرف ماہنور کی خاطر اس نے وہی الفاظ آنکھوں میں آنکھیں ڈال دھرا دٸیے تھے ۔۔۔۔جو فرحان چاہتا تھا کہ وہ ادا کرے۔۔۔۔۔شاہنزیب کا خون کھول اٹھا تھا۔۔۔۔ بس نہیں چل رہا تھا کہ جان سے مار دے اسے ۔۔۔۔۔۔۔
” تو معافی مانگ رہا ہے ۔۔۔یا احسان کر رہا ہے۔۔۔۔تجھے معافی مانگنا نہیں سکھایا۔۔۔۔ تیرے ماں باپ نے “ فرحان نے کہ کر شاہنزیب کے حسین چہرے پر زوردار طمانچہ مارا تھا ۔۔۔۔۔
دل جل کر خاک ہو رہا تھا ماہنور کا ۔۔۔۔دل چاہا کے آگ لگادے اس فرحان کو۔۔۔۔ جس نے اس کے دولہے پر ہاتھ اٹھانے کی گستاخی کی ہے۔۔۔۔
”اے گن دے۔۔۔مزاق سمجھ رہا ہے یہ کمینا ۔۔۔۔۔“ یہ کہہ کر فرحان نے غصے سے تلملاتے ہوئے اختر سے گن مانگی تھی اس نے بھی فوراً ہی پکڑا دی۔۔۔۔۔ تھپڑ کھانے کے باوجود شاہنزیب نے صبر سے کام لیا تھا۔۔۔۔ غصہ تو بے انتہا آرہا تھا ۔۔۔پر یہ دیکھ خاموش تھا۔۔۔۔کے ان کے ہاتھوں میں گنیں ہیں اور ماہنور اور گھر کے نوکر جو بے گناہ ہیں۔۔۔۔ان کی گنوں کے نشانوں پر ہیں ۔۔۔۔۔شاہنزیب نے خون کا گٹ پیا۔۔۔۔ اور اپنی دونوں مٹھیاں مضبوطی سے بند کٸیں۔۔۔۔۔
” اے ۔۔۔۔۔ایک کو لا ۔۔۔ان میں سے“ فرحان نے کہا تو شاہنزیب اختر کو دیکھنے لگا جو اس کے حکم کی تعمیل پر ایک حویلی کے نوکر کو گھسیٹتا ہوا اس کے سامنے لے آیا تھا۔۔۔۔
” تیری دشمنی مجھ سے ہے۔۔۔۔ ان بے گناہوں کو کیوں گھسیٹ رہا ہے ان سب میں؟؟؟“ شاہنزیب سرخ انگاروں بھری نظروں سے فرحان کو دیکھ ۔۔۔۔گرج دار آواز میں گویا ہوا۔۔۔۔مگر اس فرحان کی فرعونیت دیکھ اس کا بھی دل دہل گیا کہ اس فرحان نے۔۔۔۔نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اس نوکر کے ماتھے پر گن رکھ کر گولی چلا دی۔۔۔۔۔
وہ بیچارہ مظلوم معافی مانگتا رہ گیا۔۔۔۔ دو ہی لمحے بعد وہ زمین بوس ہوا تھا۔۔۔۔ گولی کی آواز پوری حویلی میں گونجی تھی ۔۔۔۔ماہنور اور باقی کھڑے سارے نوکر سکتے میں آگئے تھے۔۔۔۔ سانسیں تھم گئیں تھیں ان ظالموں کی فرعونیت دیکھ۔۔۔۔۔
” اب میری بات سن۔۔۔۔ معافی مانگ۔۔۔۔ تیری معافی میں ان لوگوں کی جان ہے ۔۔۔۔تیری معافی پسند آئی تو تحفے میں جان بخش دوں گا۔۔۔ ورنہ یہی حال کروں گا جو اس کا کرا“فرحان نےاس تڑپتے ہوئے نوکر کے سینے پر اپنے جوتوں سمیت پاؤں رکھ کر شاہنزیب کو آخری وارننگ دیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
”معافی مانگ“شاہنزیب نے جب اس نوکر کو تڑپتے ہوۓ دیکھا تو اس کا ذہن مارے خوف کے مفلوج ہوکر رہ گیا۔۔۔ فرحان نے اس کا جبڑا مضبوطی سے پکڑ کر چیختے ہوئے کہا۔۔۔
” دیکھ میری بات سن چھوڑ دے ان سب کو اور میرے ساتھ جو چاہے کر “شاہنزیب سمجھ گیا تھا کہ وہ آج قیامت ڈھانے آیا ہے ۔۔۔۔وہ طاقت کے نشے میں بدمست نظر آ رہا تھا اس لئے شاہنزیب کے کہنے پر قہقہہ بلند کرنے لگا۔۔۔۔
” کروں گا تو میں وہی جو میرا دل چاہے گا۔۔۔ تو وہ کر ۔۔۔جو تجھ سے کہا جا رہا ہے“ فرحان کے کہنے کے مطابق اس نے ہاتھ جوڑ کر۔۔۔۔۔ نظر جھکا کر معافی مانگی تھی روہانسہ آواز میں ۔۔۔۔۔
” مزہ آیا۔۔۔“ فرحان اپنے دوستوں سے پوچھنے لگا۔۔۔انھوں نے ہستے ہوۓ نفی کی۔۔۔” نہیں یار کسی کو مزہ نہیں آیا۔۔۔۔سالے ہاتھ تو بڑے تیز چلاتا ہے اور زبان چلانے میں موت آرہی ہے تجھے “یہ کہہ کر اس جلاد نے گن کا پیچھے کا حصہ شاہنزیب کے منہ پر زور سے مارا تھا
” شاہ“ ماہنور پوری جان سے چیخی۔۔۔۔۔ یہ دیکھ۔۔۔۔
”سیدھی کھڑی رہ ۔۔۔۔مار دوں گا ورنہ “ماہنور نے شاہنزیب کی جانب قدم بڑھایا تو اس نیلے کپڑے والے نے ماہنور کی کلاٸی اپنی گرفت میں لے کر دھمکی دی۔۔۔۔
”چل لے آ ۔۔۔۔دوسرے کو “ فرحان کے کہتے ہی اختر پھر ایک اور نوکر کو گھسیٹتا ہوا لے آیا۔۔۔۔
”مت مارو انہیں ۔۔۔انہوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے “ماہ نور کی جان ہلکان ہوئے جا رہی تھی۔۔۔۔۔
موت کا کھیل کھلے عام کھیلا جا رہا تھا ۔۔۔۔پھر سے وہ ظالم اک بے گناہ کی جان لینے کی درپے کھڑا تھا۔۔۔۔ماہنور التجاٸی لہجے میں چیخ کر کہہ رہی تھی۔۔۔ وہ نوکر بھی فرحان کے پاؤں پڑ کر جان کی بخشش کی التجائیں کر رہا تھا۔۔۔
” دیکھ ایسے مانگتے ہیں معافی۔۔۔۔سیکھ اس سے “فرحان کی فرعونیت کی شاید کوٸی انتھا تھی ہی نہیں۔۔۔ اس نے یہ کہہ کر گولی چلا دی تھی۔۔۔۔ہو کا عالم تھا ۔۔۔ہر طرف خوف کے بادل چھائے ہوئے تھے ۔۔۔۔”چل مانگ۔۔۔ تیسری باری دے رہا ہوں تجھے۔۔۔۔یہاں کتنے کھڑے ہیں اختر؟؟؟“فرحان نے نوکروں کی تعداد معلوم کی تھی ۔۔
” فرحان۔۔۔ دو تو آل ریڈی مار چکا ہے۔۔۔ بچے یہ سات بلکے ساڑے سات ۔۔۔۔ یہ بچہ بھی تو ہے “ یہ کہہ کر اختر نے عدیل کے بال سہلاۓ تھے۔۔۔۔فرحان یہ سن کر زور زور سے ہسنے لگا۔۔۔۔۔۔۔
” پلیز فرحان معاف کر دے۔۔۔۔ پلیز معاف کر دے“ شاہنزیب کی آنکھوں میں آنسو کی لڑٸی لگ گٸی تھے یہ دیکھ کر کے اس کی وجہ سے بےگناہ مارے جا رہے ہیں ۔۔۔وہ روتے ہوئے فرحان کے پاؤں میں جھک کر ۔۔۔۔اس کے جوتے پکڑ کر معافی کا طالب تھا۔۔۔
" آہ۔۔۔ واووو۔۔ ٹھنڈک مل گئی پر تو اور اچھا کر سکتا ہے جیسے میری جوتوں پر اپنی ناک رگڑ سکتا ہے۔۔۔" فرحان نے شاہنزیب کو حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہا۔۔شاہنزیب نے اس کی بات سننے کے لیے چہرہ اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔۔۔۔ فرحان نے پھر سے گن کا پیچھے کا حصہ اس کے ہونٹوں پر زور سے مارا اس بار شاہنزیب کا منہ خونم خون ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
"چھوڑ دو پلیز میں تمہارے پاؤں پڑھتی ہوں پلیز "ماہنور نے روتے ہوئے کہا تو وہ مسکرانے لگا
" او۔۔۔۔۔۔چھوڑ۔۔۔۔۔ پاؤں پڑنے دے اسے " فرحان نے کہا تو اس نے فورا ماہنور کی کلائی چھوڑ دی۔۔۔ ماہ نور آہستہ آہستہ شاہنزیب کے پاس آ رہی تھی۔۔۔۔ وہ بے دوپٹہ تھی یہ دیکھ کر شاہنزیب کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔۔۔۔۔ وہ تڑپ اُٹھا تھا یہ دیکھ کے آج ماہنور کو کسی کے پاؤں پکڑ کر اس کی وجہ سے معافی مانگنی پڑے گی۔۔۔۔ شاہنزیب نے اپنے آنسو صاف کیے تھے۔۔۔۔ وہ جان دے سکتا تھا پر ماہنور کو کسی کے قدموں میں گر کر معافی مانگتے دیکھنا اسے گوارا نہ تھا۔۔۔۔
" آؤ۔۔۔ مانگو معافی۔۔۔ پکڑ لو میرے پاؤں۔۔ جلدی کرو ورنہ پھر میں اس بچے کو بلاکر کیا کروں گا یہ تو تم جانتی ہی ہو " فرحان یہ کہہ کر ماہ نور کے سامنے فخر سے سینہ تان کر کھڑا ہو گیا۔۔۔
شاہنزیب اب اس کی گن چھیننے کی تاک میں تھا۔۔۔فرحان نے بے دھیانی میں اپنا گن والا ہاتھ نیچے کی جانب لٹکا دیا۔۔۔۔شاہنزیب نے دیکھا کہ اس کی توجہ ماہنور کی جانب مبذول ہے اور ان تینوں لڑکوں کی بھی۔۔۔۔۔ شاہنزیب نے فرحان کے مزید ماہ نور کی جانب متوجہ ہونے کا انتظار کیا۔۔۔اس نے موقع پاتے ہی چیل کی طرح گن پر جھپٹا مارا تھا۔۔۔۔
" ہاتھ اوپر کرو"شاہنزیب نے اگلے ہی لمحے فرحان پر گن تانی تھی۔۔۔۔" گن پھینکو نیچے ۔۔۔۔جلدی کرو"شاہنزیب نے روعب دار آواز میں ان تینوں سے کہا تو فرحان نے ڈر کر اشارہ کیا "پھینک دو" ۔۔۔۔
" پھینک ورنہ اس کی کھوپڑی اڑا ڈالوں گا" اختر گن نہیں پھینک رہا تھا اس لیے شاہنزیب گن لوڈ کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔" میں نے کہا پھینک جلدی" شاہنزیب نے دھاڑتے ہوۓ اپنی بات دہرائی۔۔۔۔۔۔" چل اب تو میرے ساتھ چل "شاہنزیب نے گن اس کے ماتھے پر لگا کر بھرم سے کہا" ماہنور اور آپ سب میرے پیچھے آئیں "اس کے کہتے ہی سب اس کے پیچھے کھڑے ہو گئے وہ فرحان کو ایک ہاتھ کے بازو سے پکڑا ہوا تھا اس کی گرفت کافی مضبوط تھی۔۔ چاہ کر بھی فرحان خود کو آذاد نہیں کروا پارہا تھا۔۔۔۔
شاہنزیب ان سب کو حویلی سے باہر لے آیا تھا جبکے فرحان کے ساتھی اندر ہی تھے ۔۔۔۔شاہنزیب نے فرحان کو بھی اندر کی جانب دھکیل کر۔۔۔۔۔ باہر کی جانب سے حویلی کا دروازہ جلدی سے بند کر دیا ۔۔۔" آپ لوگ جلدی سے بھاگ جائیں یہاں سے ۔۔۔یہ دروازہ زیادہ دیر تک انہیں نہیں روک سکتا" ماہنور کا ہاتھ پکڑ کر ۔۔۔۔۔شاہنزیب نے ملازمین سے مخاطب ہو کر کہا۔۔۔۔۔
" نہیں بابا۔۔۔ ہم آپ کو اس مصیبت کی گھڑی میں اکیلا چھوڑ کر نہیں جائیں گے "ان میں سے ایک بولا۔۔۔
" دیکھیں یہ سب میرے دشمن ہیں۔۔۔یہ میری جان کے درپے ہیں آپ لوگوں کے نہیں" شاہنزیب نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔۔
"شاہ۔۔۔ جلدی چلو ۔۔۔یہ لوگ دروازہ توڑ رہے ہیں" دروازے پر پے در پے وار کیے جا رہے تھے اس خوف سے کہ وہ باہر نہ آجائیں۔۔۔۔ ماہنور چیختے ہوئے بولی۔۔۔۔
" ہم پولیس کو لے کر آتے ہیں "چوکیدار نے کہا تو شاہنزیب نے اثبات میں سر ہلادیا ۔۔۔۔خدا جانے دل میں کیا آئی ۔۔۔اسے اپنے اور ماہنور کے لئے محفوظ پناہ گاہ مزار لگا۔۔۔۔"ہاں۔۔ آپ لوگ پولیس کو لے کر قریب والے مزار پر پہنچے ہم دونوں آپ لوگوں کو وہیں ملیں گے ۔۔۔"شاہنزیب نے ماہنور کا ہاتھ مضبوطی سے تھامتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ان لوگوں کے جانے کے بعد شاہنزیب کی نظر حویلی کے باہر کھڑی کالی کار پر پڑی " اووو۔۔۔۔ تو یہ لوگ میرا پیچھا کر رہے تھے "وہ دل ہی دل سوچ کر پیچھے مڑا تھا۔۔۔۔حویلی کا دروازہ کافی پرانا تھا اس لئے شاہنزیب جانتا تھا کہ وہ کمینے بہت جلد آزاد ہو جائیں گے۔۔۔
" شاہ چلو "ماہنور نے اس کے ہاتھ کو کھینچتے ہوئے کہا تو وہ بھاگنے لگا۔۔۔۔
ماہ نور کو اپنی سینڈل کے سبب بھاگنے میں کافی دقت محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ اس لیے بھاگتے بھاگتے ہی اس نے سینڈل اتار دی تھی راستے میں۔۔۔۔ "شاہ ۔۔۔مجھ سے اور بھاگا نہیں جارہا " ماہنور کے قدم اب آہستہ ہونے لگے تھے۔۔۔ بھاگتے بھاگتے پسینوں سے شرابور ہو چکی تھی اور اس کا سانس بری طرح پھول رہا تھا۔۔۔۔
" ماہنور بس تھوڑا سا اور" شاہنزیب نے اس کی جانب محبت سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔تو وہ نڈھال گڑیا اپنی جان پر بوجھ ڈال کر مزید بھاگنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔" شاہ اور کتنی دور ہے مجھ سے اور بھاگا نہیں جا رہا "وہ اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر ہانپتے ہوئے بڑی مشکل سے گویا ہوئی۔۔۔۔
" اچھا چلو ان جھاڑیوں میں چھپ کر تھوڑی دیر آرام کر لیتے ہیں" شاہنزیب نے ماہ نور کی حالت دیکھ کر فیصلہ کیا تھا وہ دونوں کچی پکی سڑک سے ہٹ کر جھاڑیوں کے پیچھے آ کر بیٹھ گئے تھے ۔۔۔
"شاہ "ماہنور آکے سینے سے لگی ۔۔۔۔اب جاکر جان میں جان آئی تھی یہ رات اتنی خوفناک گزرے گی یہ تو کبھی تصور میں بھی نہ گزرا تھا۔۔۔۔۔ اس کا پورا وجود لرز رہا تھا ۔۔۔آنسوں جھر جھر آنکھوں سے موتی بن کر اس کے شیروانی پر گر رہے تھے
" کچھ نہیں ہوا ۔۔۔دیکھو میں تمہارے پاس ہوں" شاہنزیب نے اپنی باہوں کے حصار میں جھگڑتے ہوئے اسے تسلی دی
"شاہ ۔۔۔گھر چلو۔۔۔۔۔ مجھے رومیساء آپا کے پاس جانا ہے۔۔۔ دادو کے پاس جانا ہے۔۔۔مجھے یہاں نہیں رہنا ۔۔۔۔واپس چلو" وہ بچوں کی طرح سینے سے لگ کر روتے ہوئے ضد کر رہی تھی۔۔۔۔
" میری بات سنو !۔۔۔۔۔۔ہمت رکھو۔۔۔۔۔ بہادر بنو۔۔۔ بچوں کی طرح مت رو ۔۔۔۔میں ہوں ناں۔۔۔۔پھر کیا فکر ہے ۔۔۔۔۔میں کچھ نہیں ہونے دوں گا تمھیں۔۔۔۔ کل ولیمہ ہے ناں ہمارا؟؟؟۔۔۔ بکنگ ہوئی ہے تمہاری پالر میں ۔۔۔دیکھنا وقت پر پہنچا دوں گا تمہیں۔۔۔ اب چپ ہو " اس نے ماہ نور کو سینے سے ہٹا کر اس کی آنکھوں سے بہتے ہوۓ اشک کو اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے ہوۓ اس کی ہمت بندھائی تھی۔۔۔ ماہ نور کے چہرے کا رنگ مارے خوف کے سفید پڑ چکا تھا۔۔ شاہنزیب نے اس کی پیشانی چوم لی تھی۔۔۔" میری بات مانو گی تھوڑا سہ بس تھوڑا سہ مسکرا کر دیکھا دو مجھے۔۔۔۔تمھیں ایسے حال میں دیکھ کر بہت کمزور محسوس کر رہا ہوں خود کو۔۔۔ جان ہو تم میری ۔۔۔۔ بہت محبت کرتا ہوں تم سے پتا ہے کتنا چاہتا ہوں تمہیں؟؟؟" وہ محبت سے چور نگاہوں سے تکتے ہوئے پوچھنے لگا" جتنا چاند چاندنی کو چاہتا ہے آسمان ستاروں کو۔۔۔ سورج کرن کو ۔۔۔سمندر کنارے کو" اس نے اپنی محبت کا اظہار کرکے ماہنور کا ذہن جو ابھی تک فرحان اور اس کے ساتھیوں میں اٹکا تھا ۔۔۔ہٹا کر اپنی محبت کی جانب توجہ مبذول کی تھی۔۔۔۔اسکے خوبصورت چہرے پر اپنا ہاتھ رکھ کر اس کے گال کو الفت سے سہلاتے ہوئے بول رہا تھا۔۔۔" تھوڑا سہ یار ۔۔۔۔میری خاطر" اس نے اصرار کیا تو ماہنور زبردستی مسکرانے لگی۔۔۔۔
"شاہ ۔۔۔آئی لو یو ۔۔۔میں بہت پیار کرتی ہوں تم سے" یہ کہہ کر وہ واپس اس سے لپٹ گئی۔۔۔
شاہنزیب نے اس کا جوڑا کھول دیا ۔۔۔۔اور بال پینیں سمبھال کر اپنی جیب میں ڈال لیں ۔۔۔۔ بلاؤز کا پیچھے کا گلا کافی گہرا تھا جس سے اس کی دودھیا رنگت ظاہر ہورہی تھی۔۔۔۔شاہنزیب نے بال کھولے ۔۔۔ تو اس کی گھنی زلفوں نے پوری کمر کو ڈھک لیا۔۔۔شاہنزیب بھت کمزور محسوس کر رہا تھا خود کو ۔۔۔۔" کاش یہ زمین پھٹے اور میں اس میں سما جاؤں۔۔۔ ان کمینوں نے تمہیں بے دوپٹہ کر ڈالا اور میں کچھ نہ کر سکا"شاہنزیب ماہنور کے بالوں کو سہلاتے ہوئے دل ہی دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔۔۔۔
" ابے کہاں ہیں وہ لوگ؟؟؟" ان کی آوازیں آئیں تو ماہنور خوف کے مارے شاہنزیب سے چپک گئی۔۔۔ شاہنزیب تھوڑی سی جھاڑیاں ہٹا کر انہیں دیکھنے لگا ۔۔۔
"جب لڑکی کی سینڈل اسی راستے پر ملیں ہیں تو ضرور وہ لوگ بھی یہیں آئیں ہوں گے۔۔۔ ورنہ لڑکی کے سینڈل ہوا میں اڑ کر آنے سے تو رہے " اختر نے طنزیہ کہا تھا اپنے ساتھیوں سے۔۔۔۔
"شاہ۔۔۔۔میری سینڈل " اختر کو سینڈل ہلاتے ہوئے دیکھ ماہ نور کے منہ سے بہ ساختہ نکلا۔۔۔شاہنزیب نے پھرتی سے اس کے خوبصورت ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوۓ خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔
" یہاں قریب ہی ایک مزار ہے۔۔۔ ہوسکتا ہے وہ دونوں وہاں گئیں ہوں " فرحان نے اندازاً کہا ۔۔۔
"پر وہ دونوں پولیس کے پاس بھی تو جاسکتے ہیں "وہ چاروں وہیں رک کر باتیں کرنے لگے تھے۔۔۔ شاہنزیب ماہنور کی موجودگی سے بے خبر۔۔۔۔۔
" جا تو سکتے ہیں پر ہمیں فورا خبر مل جائے گی۔۔۔کیونکہ میرے سیٹ دوست نے پولیس کو پہلے ہی رشوت کھلا دی ہے ۔۔۔اگر وہ دونوں وہاں پہنچے تو پولیس انہیں خود پکڑ کر ہمارے حوالے کر دے گی "فرحان نے ہنستے ہوئے کہا تو ماہنور خوفزدہ ہوکر شاہنزیب کو تکنے لگی ۔۔۔۔ایسا لگ رہا تھا ان دونوں کے سر پر فرحان نے بم پھوڑ دیا ہو ۔۔۔
" ابے یار۔۔۔۔جلدی چلو ورنہ وہ دونوں کہیں دور نہ نکل جائیں " ان میں سے جو پیلے کپڑے زیب تن کیے ہوئے پہلوان سہ نظر آرہا تھا وہ اپنی بھاری بھرکم آواز میں گویا ہوا۔۔۔۔ ان کے جانے کے بعد ماہ نور مزید خوفزدہ ہوگئی ۔۔۔
" فرحان کے ساتھ ضرور کوئی اور ملا ہوا ہے۔۔۔میں جانتا ہوں وہ صرف بھڑبھڑا ہے۔۔۔میں اس سے پہلے بھی لڑ چکا ہوں ۔۔۔۔پولیس کو رشوت دینا ۔۔۔سیج پر آکر تمہارا دوپٹہ اوڑ کر بیٹھ جانا ۔۔۔ہمارا پیچھا کرنا ۔۔یہ سب اس کا دماغ نہیں ہو سکتا"شاہنزیب نے اندازہ لگا لیا تھا کہ فرحان کے ساتھ ضرور کوئی اور بھی ملا ہوا ہے۔۔۔ ماہ نور اس قدر خوفزدہ تھی کہ مارے خوف کے شاہنزیب سے لپٹ کر بیٹھی رہی ۔۔وہ شاہنزیب کی کسی بات پر کوئی تاثر نہیں دے رہی تھی ۔۔۔"ماہنور ہمت کرو ۔۔۔۔اس طرح ڈرو گئی تو ڈر ڈر کر ہی مر جاؤ گی ۔۔۔۔بہادر بنو ۔۔۔۔اپنا دماغ حاضر رکھو۔ ۔۔یہ سوچو کہ ہم یہاں سے کیسے نیکلیں۔ "شاہنزیب نے دونوں ہاتھوں سے اس کا خوبصورت چہرہ پکڑ کر اسے سمجھانا چاہا تھا اور اس کا دماغ مفلوج ہو چکا تھا مارے وحشت و خوف کے ۔۔۔۔
"شاہ ان لوگوں نے پولیس کو بھی رشوت دے دی ہے اب ہمیں کوئی بچانے نہیں آئے گا۔۔ سب ختم ہو گیا ۔۔۔اب یہ لوگ ہمیں ڈھونڈ کر مار ڈالیں گے جیسے ان ظالموں نے ان بیچاروں کو مارا " اس کا چہرہ بالکل سفید پڑ گیا تھا ۔۔۔وہ بلک بلک کر روتے ہوئے بولی۔۔۔
"ماہ نور مجھ پر یقین ہے ناں تمہیں؟؟"اس نے استفسار کیا تو ماہنور نے فورا اثبات میں سر ہلا دیا "میں وعدہ کرتا ہوں کچھ نہیں ہوگا ہمیں ۔۔۔ہم اپنے گھر جائیں گے اپنوں کے پاس جہاں دادو ہیں۔ ۔۔۔شہزاد بھائی۔۔ راحیل پاجی۔ ۔ثانیہ ۔۔۔۔بھابھی ۔۔۔۔۔اسماء ۔۔۔۔ولید۔۔۔۔ کامران سب ہیں۔ ۔۔۔بس تم سوچو یہ ایک خوفناک خواب ہے اور جیسے ہی آنکھیں کھولو گی سب ٹھیک ہو جائے گا " شاہنزیب مسلسل اس کی ڈھرس بنا رہا تھا ۔۔۔اسے بکھرنے نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔
"کتنا مارا ہے اس شیطان نے تمہیں۔۔۔ دیکھو کتنا خون نیکل رہا ہے" ماہنور شاہنزیب کی باتیں سن سن کر اپنے حواسوں میں لوٹی تھی۔۔۔۔اس کے ہونٹوں کو چھوتے ہوئے کہنے لگی۔ ۔۔
"آہ" ماہنور کے چھوتے ہی اس کے منہ سے بےساختہ آہ بلند ہوئی۔۔۔۔
"تکلیف بھت ہورہی ہے؟ ؟؟؟"ماہنور نے آنکھوں میں جھانکتے ہوئے محبت سے چور فکرمندانداز میں پوچھا ۔۔۔۔
"ہمم۔۔۔ہاں یار بہت زور سے مارا تھا اس نے۔۔۔ سارے دانت ھل گئے میرے ۔۔۔یہ لو اپنے پیار بھرے ہاتھوں سے صاف کر دو "وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا یہ دیکھ ماہنور مزید رونے لگی یہ سوچ کر۔۔۔۔کے ناجانے آج کے بعد اسے پھر سے مسکراتا دیکھ پائے گی بھی یا نہیں۔۔۔۔
"اللہ۔ ۔۔۔۔ میری جان اتنے موٹے موٹے آنسو ۔۔۔۔یار نہ کرو۔۔ میری جان نکلتی ہے تم کو روتا دیکھ ۔۔۔۔عاشق ہوں تمہارا پرانا ۔۔ ہر سانس پر تم ہی تم ہو یار۔۔۔ مت رو۔ ۔۔۔کچھ نہیں ہوگا ہم دونوں کو ۔۔۔"شاہنزیب نے اس کی پیشانی سے اپنی پیشانی لگاکر کہا۔ ۔۔۔تو وہ خود کو سمبھالتے ہوئےاپنی آنکھوں سے بہنے والے آنسوں صاف کرکے۔ ۔۔۔شاہنزیب کے یاتھ سے رومال لے کر اس کے ہونٹوں سے نکلنے والا خون صاف کرنے لگی۔ ۔۔
"وہ دونوں تو مزار پر بھی نہیں تھے۔۔۔ اب کہاں ڈھونڈیں؟ ؟؟" نیلے کپڑوں والا جھنجھلاکر پاؤں پٹکتے ہوئے کہہ کر فرحان کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ ان کی آواز سن شاہنزیب اور ماہنور بالکل خاموش ہو گئے تھے ۔۔۔شاہنزیب ہلکا سہ اونچا ہوا یہ دیکھنے کے وہ لوگ کس سمت جا رہے ہیں۔۔۔
"میرے دوست کا فون آیا تھا کہ رہا ہے کہ پولیس کو ڈھونڈنے کے لیے لگا دیا ہے ان دونوں کے پیچھے اور جو نوکر وہاں ہماری شکایت لے کر پہنچے تھے ان کو تھانے میں ڈال دیا ہے۔۔۔ وہ دونوں حویلی سے مزار تک کے راستے میں ہی کہیں چھپے ہوئے ہیں۔۔۔ مزار تو ہم دیکھ کر آچکے ہیں اور اس سے آگے پولیس تعینات ہے انہیں پکڑنے کے لیے۔۔۔ چلو ڈھونڈتے ہیں انہیں ۔۔۔۔ضروری وہ دونوں یہیں کہیں چھپے ہوئے ہیں" فرحان نے کہا اور انہیں ڈھونڈنے کے لئے واپس اسی راہ پر چل دیے جہاں سے آئے تھے۔۔۔
" شاہ۔۔۔۔۔ اب کیا ہوگا؟؟؟؟۔۔۔" ماہنور گھبرا کر پوچھ رہی تھی ۔۔۔اس کا خون خشک ہوئے جا رہا تھا ۔۔۔
"کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ہمیں بس صبح تک چھپے رہنا ہے کیونکہ صبح جب گھر والے فون کریں گے۔۔۔میرے کال ریسیو نہ کرنے کے سبب وہ پریشان ہو کر خود چلے آئیں گے اور ان کمینوں کا سارا منصوبہ دھرا کا دھرا ہی رہ جائے گا ۔۔۔"
"ابھی تو صبح ہونے میں بہت دیر ہے اگر انہوں نے جب تک ہمیں تلاش کر لیا تو ۔؟؟؟۔۔۔"ماہنور روتے ہوئے ۔۔۔شاہنزیب کے سینے سے لگی تھی۔۔۔۔
" یار۔ ۔۔۔۔ پھر وہی بات۔۔۔" شاہنزیب نے کہ کر اس کے بازو سے پکڑ کر ہلکا سہ اپنے سینے سے ہٹایا تو ماہنور کی ناک کا بالا شاہنزیب کی شیروانی میں پھنس گیا۔۔۔
"آہ" وہ تکلیف کے سبب چیخی۔ ۔۔
"لاو میں اتار دیتا ہوں۔۔۔ تمھیں عادت نہیں ہے اتنا بڑا بالا پہن کے رکھنے کی۔۔ناک دیکھو کتنی لال ہوگئی ہے تکلیف کے سبب" اس نے کہہ کر شیروانی سے بالا نیکالا تھا۔۔۔
"نہیں۔ ۔۔آپا نے کہا ہے یہ شوہر کی نیشانی ہوتی ہے ۔۔۔میرے پاس ناک میں پہننے کے لئے کچھ اور نہیں ہے۔۔۔ اس لیے اسے رہنے دو "شاہنزیب نے بالا اتارنا چاہا تو ماہنور نے منع کر دیا۔ ۔۔
"لیکن تمہیں تکلیف ہو رہی ہے "
"یار کوئی بات نہیں۔۔۔ میں برداشت کر سکتی ہوں"
" پر؟؟؟"
" چھوڑ دو شاہ۔ ۔۔میں نہیں اتاروں گی۔۔۔"ماہنور نے شاہنزیب کے سمجھانے کے بعد بھی وہ بالا اتارنے کے لئے راضی نہ ہوئی۔ ۔۔ تو وہ اس کے جذبات کا احساس کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلانے لگا ۔۔۔
خوف کے بادل چھائے ہوئے تھے اچانک موسم بدل رہا تھا۔۔۔ ہوا درختوں اور پتوں سے سر پٹخ رہی تھی ۔۔۔ذرا سی آہٹ پر دل دہل جاتا کے کوئی آ تو نہیں گیا ۔۔۔وہ بے ست سی اپنے دولہے کے کندھے پر سر رکھ کر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ہر لمحہ ایک صدی کی طرح گزر رہا تھا ۔۔۔۔گمان ہوتا تھا کے آج کی بھیانک رات گویا کبھی گزرے گی ہی نہیں۔۔۔۔ ہر لمحہ دل کو دھڑکا سہ لگا تھا۔۔۔
" کہاں جا سکتے ہیں وہ دونوں۔۔۔ڈھونڈو انھیں۔۔۔یہیں کہیں جھاڑیوں میں چھپے ہوں گے" فرحان کی آواز بلند ہوئی تھی جسے سن کر ماہنور سہم کر شاہنزیب سے چپک گئی تھی۔۔۔
"ابے ۔۔۔وہاں دیکھ" فرحان نے اختر کو اسی جھاڑی کی جانب اشارہ کر کے کہا جہاں شاہنزیب ماہنور چھپے تھے۔۔۔
" یا خدا مدد کر مجھے اپنی کوئی پروا نہیں اگر اکیلے ہوتا تو کب کا ان کا مقابلہ کرکے انہیں ڈھیر کر دیتا ۔۔۔مگر میرے ساتھ ماہنور ہے۔۔۔اگر انہوں نے ماہنور کو نقصان پہنچا دیا تو۔۔ بس یہی وجہ ہے کہ میرے ہاتھ مجھے بندھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔۔۔۔ ایک کام کرتا ہوں کسی طرح یہاں سے نیکل کر ماہنور کو مزار لے جاتا ہوں۔۔۔۔ وہاں ماہنور کو چھپا کر واپس آ جاوں گا ان کمینوں کا دماغ ٹھیکانے لگانے۔۔۔"شاہنزیب ذہنی طور پر خود کو تیار کر رہا تھا ۔۔۔جبکے ماہنور کے جسم سے مارے خوف کے جان نیکلی جا رہی تھی یہ دیکھ کر ۔۔۔۔۔کے اختر انہی کی جانب آرہا ہے۔۔۔۔
" یا میرے مالک مدد کر ۔۔۔اس وقت صرف تو ہی ہماری مدد کرسکتا ہے ۔۔۔“شاہنزیب دعا گو ہوا تھا۔۔۔
” ارے کہیں وہ دونوں حویلی تو واپس نہیں چلے گئے“ اس نیلے کپڑے والے لڑکے نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے ۔۔۔فرحان کی جانب دیکھ کر کہا۔۔۔
” ابے یار ۔۔۔شاہنزیب بہت چلاک ہے۔۔۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم جھاڑیوں کے پیجھے ڈھونڈتے رہیں۔۔۔اور وہ حویلی پہنچ کر وہاں سے اپنے گھر والوں کو فون کردے“۔۔۔۔ مانو کے دیوانے کی دعا قبول ہوٸی تھی۔۔۔۔۔فرحان کو جیسے ہی یہ خیال ستایا ۔۔۔وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تیزی سے حویلی کی جانب دوڑا۔۔۔۔۔۔۔
”چلو ماہنور“شاہنزیب نے ماہنور کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا تھا۔۔۔۔
” ہم کہاں جا رہے ہیں؟؟؟“ وہ سیدھے کھڑی ہوتے ہوئے تجسس سے استفسار کررہی تھی ۔۔۔۔
”مزار ۔۔۔۔۔۔جلدی چلو۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ واپس آٸیں“ اس نے کہا اور تیز قدم بڑھانا شروع کر دیے۔۔۔۔۔ دونوں تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے مزار کی جانب بڑھ رہے تھے۔۔۔۔
” یا خدا۔۔۔۔۔ یا اللہ سبحان “ماہنور مزار کی سیڑھیوں پر پہنچ کر تھوڑا جھک کر اپنے پاؤں کے ٹخنوں پر ہاتھ رکھ کر ہاپتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔” شاہ مجھ میں ہمت نہیں ہے اتنی ساری سیڑھیاں چڑھنے کی“ وہ بھاگ بھاگ کر تھک چکی تھی۔۔۔۔۔اس نازک صفت گڑیا کے پاؤں میں آپ اتنی جان نہ تھی کہ مزار کی سیڑھیاں چڑھ سکیں ۔۔۔۔
”آٶ ۔۔۔۔“شاہنزیب نے اسے گود میں اٹھا لیا تھا اور تیزی سے ننگے پاؤں مزار کی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔۔۔۔ماہنور شاہنزیب کو ننگے پاٶں تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا دیکھ غم سے ہلکان ہوۓ جارہی تھی۔۔۔۔۔اسے ترس آرہا تھا اپنے دولہے کی حالت پر۔۔۔۔۔
” وہ لوگ یہاں آگئے ہیں۔۔۔ کہا تھا ناں میں نے تم سے شاہنزیب ضرور آٸے گا مزار پر ۔۔۔۔وہ آگیا ہے ۔۔۔۔میں اسے باتوں میں الجھا کر رکھتا ہوں۔۔۔ تم لوگ جلدی پہنچو اور سنو پولیس والے کو بھی لے کر آنا۔۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہ آج شاہنزیب یہاں سے بچ کر جائے“ اس نے کہہ کر فون بند کرکے جیب میں رکھا تھا۔۔۔۔ وہ بھی جان لینے کے درپے کھڑا تھا۔۔۔ شاہنزیب کو مزار کی سیڑھیاں چڑھتے دیکھ وہ اندر جا کر چھپ کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔۔
”ماہنور ۔۔۔۔ تم اندر جا کر چھپو۔۔۔۔میں آتا ہوں “شاہنزیب نے صحن میں پہنچ کر اسے گود سے اتارا ۔۔۔۔۔
”نہیں ۔۔۔۔میں تمہیں نہیں جانے دوں گی “ماہنور ہاتھ پکڑ کر فورا بولی ۔۔۔۔۔۔
”نہیں ۔۔۔۔۔۔میرا جانا ضروری ہے ورنہ وہ ڈھونڈتے ہوئے خود یہاں آ جائیں گے ۔۔۔۔ ان کے ہاتھوں میں گنیں ہیں۔۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ تمہیں کوئی نقصان پہنچے“شاہنزیب نے بڑی محبت سے اسے سمجھاتے ہوۓ اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی تھی۔۔۔۔ پر وہ ماہنور کی جان تھا ۔۔۔۔۔وہ کیسے اپنے دولہے کو دشمنوں کے بیچھ تنہا بھیج دیتی۔۔۔ وہ اپنی پوری جان سے اس کا ہاتھ پکڑے رہی ۔۔۔
” ماہ نور جانے دو مجھے یقین مانو میں جلدی واپس آؤں گا تم بس میرا انتظار کرو اور دعا کرو میرے لٸے۔۔۔۔پلیز مانو“ شاہنزیب التجاٸی لہجے میں اصرار کر رہا تھا کہ وہ ہاتھ چھوڑ دے ۔۔۔۔ پر ماہنور تو الٹا سینے سے لگ گئی تھی۔۔۔۔
” شاہ میرا تمہارے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔۔۔ تم میرے سب کچھ ہو۔۔۔۔ میں تمہیں کیسے ان ظالموں کے سامنے اکیلے جانے دوں۔۔۔ جب کہ میں جانتی ہوں ۔۔۔وہ کمینے تمہاری جان کے سخت دشمن بنیں ہوۓ ہیں“ ماہنور بلک بلک کر روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔
ان دونوں کو ایک دوسرے کے گلے لگے دیکھ وہ جل کر کوئلہ ہوئے جا رہا تھا مزید برداشت نہ کر سکا اس لئے خود ہی باہر نکل آیا ۔۔۔۔
” ماہ نور جانے دو اسے ۔۔۔۔بھاگنا عادت ہے اس کی۔۔۔ ہمیشہ سے بھاگتا ہی تو آیا ہے ۔۔۔۔۔ضرور کوئی پلین سوچ لیا ہوگا اس کے شیطانی دماغ نے “ ۔۔۔۔۔۔وہ کہتا ہوا صحن میں آیا تو شاہنزیب اسے دیکھ چونکا۔۔۔۔۔ماہنور نے آواز پہچان لی تھی وہ گلے سے ہٹ کر پیچھے کی جانب مڑی۔۔۔۔۔
”تم؟؟؟“شاہنزیب اسے دیکھ حیرت سے کہنے لگا۔۔۔۔
”ہاں میں“ فخرانہ کہ کر ماہنور کو سر سے پاؤں تک دیکھنے لگا ۔۔۔اس کی نظریں آج بھی محبت سے لبریز تھیں۔۔۔
”شارق تم یہاں کیسے؟؟؟“ ماہنور بھی ہکاء بکاء تھی اسے دیکھ۔۔۔۔۔الجھی نگاہوں سے اسے تکتے ہوئے استفسار کرنے لگی۔۔۔۔
” سرپرائز۔۔۔۔ اچھا لگا؟؟؟۔۔۔۔ حیران تو بہت ہوا ہوگا تو۔۔۔۔ ماہ نور کی جگہ فرحان کو اپنے بیڈ پر بیٹھا دیکھ؟؟؟۔۔۔۔۔ ایک سرپراٸز تو نے مجھے دیا تھا ۔۔۔۔۔عین میری شادی والی رات۔۔۔۔۔ تو سوچا میرا بھی فرض بنتا ہے کہ ایک سرپرائز تجھے بھی عین برات والی رات دوں۔۔۔۔لگا ناں زور کا جھٹکا ؟؟؟“۔۔۔۔۔شارق شاہنزیب کے روبرو آکر ۔۔۔۔طنزیہ مسکراہٹ لبوں پر سجائے شاہنزیب کو کدورت بھری نظروں سے گھورتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
” تم کیوں کر رہے ہو یہ سب؟؟؟۔۔۔۔۔ کیا ملے گا تمہیں یہ سب کر کے؟؟؟“ ۔۔۔۔۔ماہنور کی آنکھوں سے آنسو بہے جارہے تھے ۔۔۔۔وہ الجھ کر شارق سے مخاطب ہوکر پوچھنے لگی۔۔۔۔۔
”ماہنور تم مت رو۔۔۔۔۔ تمہیں کچھ نہیں ہو گا۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں تم سے۔۔۔۔“شارق کا دل ماہنور کو روتا دیکھ بےچین ہوگیا ۔۔۔وہ ماہنور کے آنسو صاف کرنے کے لئے ہاتھ بڑھانے لگا۔۔۔
” اپنی حدود میں رہ سالے ۔۔۔۔۔۔بیوی ہے میری۔۔۔۔ ہاتھ توڑ دوں گا تیرے ۔۔۔اگر حد سے بڑھیں گے تو۔۔۔۔“ یہ کہہ کر اس نے شارق کا ہاتھ پکڑ کر جھٹکے سے چھوڑا تھا ۔۔۔۔۔
”بیوی ؟۔۔۔۔۔ تیری بیوی ؟؟؟کسے بے وقوف بنا رہا ہے مجھے یا خود کو ؟؟؟۔۔۔۔۔ہم دونوں جانتے ہیں کہ ماہنور حقیقت سے ناواقف ہے۔۔۔ جیسے ہی اسے سچائی کا علم ہوگا وہ تجھے چھوڑ دے گی ۔۔۔۔۔کنجڑ ۔۔۔۔تو کیا سمجھتا تھا مجھے کبھی پتا نہیں چلے گا کے بارات والی رات مجھے اغواہ کرنے والا کوئی اور نہیں ۔۔۔۔۔تو تھا “۔۔۔۔۔ اس کے کہتے ہی ماہنور کے طوطے اڑ گئے وہ حیرت سے شاہنزیب کی جانب دیکھنے لگی۔۔۔۔۔
”کیا بکواس کررہے ہو؟؟؟۔۔۔۔۔ اپنا گناہ میرے شاہ کے سر مت ڈالو “ماہنور حیران ضرور ہوئی تھی کچھ لمحوں کے لٸے۔۔۔ لیکن ذرہ برابر بھی یقین نہ کیا تھا اس نے شارق کی کہی بات پر۔۔۔۔
” ماہنور تمہاری کوئی غلطی نہیں ان سب میں۔۔۔۔ تم تو خود اس کمینے کی ستائی ہوئی ہو میری طرح ۔۔۔۔یہ کمینہ ہے ہی اتنا ہوشیار و دھوکے باز۔۔۔۔کسی کو بھی دھوکا ہو سکتا ہے ۔۔۔پھر تم تو بلکل بھولی سی لڑکی ہو“ اس نے ماہنور پر رحم کھانے والے انداز میں کہا تو ماہنور غصے سے تلملا اٹھی۔۔۔۔۔۔
”بکواس بند کرو اپنی“ماہنور نے شارق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال روعب دار آواز میں کہا۔۔۔۔” شاہ ۔۔۔۔یہاں سے چلو ۔۔۔اگر یہ سب اِس نے کیا ہے تو وہ لوگ بھی بس آتے ہی ہوں گے“ماہنور شاہنزیب کا ہاتھ پکڑ کر بےتابی سے بولی۔۔۔۔ وہ ماہ نور کے سامنے انتہائی شرمندہ ہو گیا تھا ۔۔۔۔
شارق سچ بتا چکا تھا ماہنور کو۔۔۔ پر ماہنور نے ذرا بھی شارق کی بات کا یقین نہ کرکے شاہنزیب کو مزید ندامت میں مبتلا کر ڈالا تھا۔۔۔۔۔
” ہاں لے جاو اسے اور چھپالو اس گناہگار کو اپنے آنچل میں۔۔۔۔۔ جو گناہ گار ہے تمہارا۔۔۔۔۔میرا۔۔۔۔۔ اور تمہارے باپ کا۔۔۔۔ بتا ۔۔۔۔۔۔۔۔تو چپ کیوں ہے؟؟؟۔۔۔۔۔بول ماہنور کے سامنے کے تو نے ہی مجھے اغواہ کیا تھا۔۔۔۔بول ۔۔۔۔۔کیسے عین بارات والی رات تو نے ایسے حالات پیدا کیے تھے کے مجبوراً ماہنور کو تجھ کمینے سے شادی کرنی پڑی۔۔۔۔۔ بول ناں۔۔۔۔۔ چپ کیوں کھڑا ہے؟؟؟۔۔۔۔سانپ سنگھ گیا ہے تجھے؟؟؟“ شارق شاہنزیب کے سینے پر زور زور سے ہاتھ مار کر اسے پریشرائز کر رہا تھا کہ مجبور ہو کر وہ خود اپنے منہ سے اپنا جرم قبول کرے۔۔۔۔۔۔۔
” شاہ ۔۔۔۔۔ خاموش کیوں کھڑے ہو؟؟؟۔۔۔۔ کہہ دو ناں کے تم نے کچھ نہیں کیا ہے۔۔۔۔“ ماہنور اسے خاموش دیکھ اس کا ہاتھ جھنجھوڑتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔
” نہیں بولے گا۔۔۔۔۔ یہ بول ہی نہیں سکتا ۔۔۔شرمندگی اس کی نگاہوں میں ہے۔۔۔۔ میں بے قصور تھا ماہنور۔۔۔۔میں بار بار تمہارے گھر آیا یہ بتانے کے اس رات میرے ساتھ کیا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔پر تم نے میری کسی بات پر بھروسہ نہیں کیا ۔۔۔۔دیکھو ماہنور ۔۔۔۔میرے خدا نے مجھے آج سرخرو کیا ۔۔۔۔۔اور اس گناہ گار کو آج تمہارے ہی سامنے رسوا کرڈالا۔۔۔ دیکھا یہ ہوتا ہے قدرت کا انصاف“ وہ شاہنزیب کے سامنے تن کر کھڑا ہو کر اپنے سینے پر فخرانہ ہاتھ مارتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
” شاہ تم کچھ بول کیوں نہیں رہی ہے؟؟؟۔۔۔۔ بولو ناں کچھ۔۔۔۔۔کیوں خاموش کھڑے ہوکر اس کے جھوٹے الزام کو سچ ثابت کر رہے ہو ؟؟؟۔۔۔۔شاہ۔۔۔۔۔میری آنکھوں میں دیکھو“شاہنزیب شرمندگی کی اتہا گہرائیوں میں گر گیا تھا اب اس کی آنکھوں میں یہ تاب نہ تھی کہ اپنے محبوب کی نظروں سے نظریں ملا سکے ۔۔۔۔اس لئے نظر جھکائے شارق کی باتیں سن رہا تھا۔۔۔۔ اس کا دل پارے پارہے ہو گیا تھا جب ماہنور نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر کہا کہ آنکھیں ملاؤ۔۔۔۔۔۔ ماہ نور کے بہت اصرار کے باوجود شاہنزیب نے نظریں نہ ملائیں۔۔۔۔۔
شاہنزیب چار سال سے جس خوف میں مبتلا تھا آج وہ سامنے آ ہی گیا تھا ۔۔۔۔
” پتا ہے ماہنور۔۔۔۔ اس کی نیت تم پر بہت پہلے سے خراب تھی“ شارق کا یہ سخت جملا ادا کرنا تھا کہ شاہنزیب غصے سے تلملا اٹھا ۔۔۔۔۔آنکھوں میں جنون اتر آیا تھا۔۔۔۔
” تیری ہمت کیسے ہوئی میری پاکیزہ محبت کو گالی دینے کی؟؟؟۔۔۔۔۔“وہ شارق کا کالر پکڑ ۔۔۔۔۔غصے سے چنگھاڑتے ہوۓ گویا تھا۔۔۔۔ شارق کا اس کی پاکیزہ محبت کو گالی دینا اس کے لیے ناقابل برداشت عمل تھا ۔۔۔۔وہ اتنی زور سے چنگھاڑا تھا کہ شارق کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔۔۔۔۔
”سچ آگیا ناں زبان پر“شارق کے لبوں پر پُراسرار مسکراہٹ بکھر آٸی۔۔۔۔۔۔۔وہ بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ شاہنزیب کا ہاتھ اپنے کالر سے ہٹاتے ہوۓ بولا۔۔۔۔
” تو اپنے منہ سے سچ قبول کرۓ۔۔۔۔۔ یہی تو چاہتا تھا میں۔۔۔ تو چار سال تک سب کو گمراہ کرتا رہا۔۔۔۔۔ پتا ہے مجھے اندازہ تھا کہ تو نے کیا ہے مجھے اغواہ۔۔۔ میں نے بھائی سے کہا بھی۔۔۔۔۔پر انھوں نے ذرا بھی یقین نہ کیا اور پھر کرتے بھی کیسے؟؟؟۔۔۔۔ تو نے نکاح کے بعد رخصتی مانگی ہی نہیں ۔۔۔۔جس کے سبب۔۔۔ سب کو لگا کے تو نے ترس کھا کر شادی کی ہے ۔۔۔۔میں بھی الجھ گیا تھا یہ سن کر۔۔۔کے تو نے رخصتی نہیں مانگی۔۔۔۔
میں نے رومیساء بھابھی سے بھی بات کی۔۔۔۔ وہ یہ کہ کر مجھے چپ کرا دیتیں کے اگر ایسا ہوتا تو شاہنزیب ماہنور سے یوں لاتعلقی نہ کرتا۔۔۔۔۔۔ماننا پڑے گا ۔۔۔۔تو نے بڑی ہی ہوشیاری سے کام لیا ۔۔۔۔چار سال تک تو ماہنور سے لاتعلق رہا تاکے کسی کو بھی شک نہ ہو سکے ۔۔۔
میں اپنی بےگناہی میں۔ ۔۔ سب کو بار بار کہتا رہا کہ یہ سب شاہنزیب نے کیا ہے پر کوٸی میرا یقین کرنے کے لیے تیار ہی نہ تھا۔۔۔۔ کیونکہ تیری لاتعلقی لوگوں کو اس بات کا یقین دلاتی تھی کہ تو نے صرف ترس کھا کر شادی کی ہے ۔۔۔۔۔کتنا سوچ سمجھ کر پلین بنایا تھا تو نے۔۔۔۔ ماننا پڑے گا۔۔۔۔“شارق تالیاں بجاتے ہوۓ ۔۔۔۔۔طنزیہ داد دیتے ہوۓ بولا۔۔۔۔۔
"مطلب ماننا پڑے گا اتنی چلاکی۔۔۔۔۔تیرا اپنی تائی کے انتقال پر گھر نہ آنا۔۔۔۔مجھے بھائی کے سامنے جھوٹا بنا گیا ۔۔۔۔تیری ماں نے طلاق کی اڑا دی ۔۔۔۔میں نے سوچا اگر واقعی تو نے صرف ترس کھا کر شادی کی ہے تو ۔۔۔۔۔تو ضرور چھوڑ دے گا ماہ نور کو ۔۔۔۔ویسے بھی ماہ نور دو سال بڑی ہے تجھ سے ۔۔۔۔۔تو گندی نگاہ رکھ سکتا ہے۔۔۔ پر شادی کر لینا یہ بہت زیادہ ہوگیا ۔۔۔۔سوچ ذرا میں سب کچھ جانتے بوجھتے دھوکا کھا گیا صرف تیری چلاکی کی وجہ سے ۔۔۔ تو کامیاب بھی ہو جاتا اگر بھائی کو تیری محبت کی کہانی تیرے ہی منہ سے نہ پتا چلتی۔۔۔۔۔وہ تو دنگ رہ گے یہ سن کر۔۔۔۔"شارق ابھی بول ہی رہا تھا کہ ماہنور کی نظر فرحان اور اس کے ساتھیوں پر پڑی جو گنوں کے ساتھ ساتھ اس بار ہاکی کی اسٹک بھی پکڑے ہوئے تھے۔۔۔۔ ماہنور کا دل ھول کر رہ گیا تھا انہیں دیکھ ۔۔۔۔
"شاہ چلو یہاں سے ۔۔۔شاہ جلدی چلو ۔۔۔فرحان اور اس کے ساتھ آرہے ہیں ۔۔۔یہ اس کا پلین تھا ہمیں یہاں الجھا کر رکھنے کا ۔۔۔۔چلو" ماہنور شاہنزیب کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے کی کوشش کر رہی تھی اپنی ساری طاقت صرف کرتے ہوئے۔۔۔ پر فائدہ کچھ نہ تھا وہ اس کے پیچھے آکر کھڑے ہوگئے تھے ۔۔۔
"وعدے کے مطابق لڑکا تیرا۔۔۔۔۔ لڑکی میری ۔۔۔جو دل چاہے کر۔۔۔۔اٹس یورس " شارق نے جب شاہنزیب کے پیچھے کھڑے فرحان کو دیکھ کہا۔ ۔۔۔تو شاہنزیب جو اس کی موجودگی سے لاعلم تھا حیران ہو کر پیچھے مڑا۔ ۔۔۔
"چلو ماہ نور" شارق نے کہہ کر ماہ نور کا ہاتھ پکڑا تھا شاہنزیب کی نظروں کے سامنے ۔۔۔
"تیری اتنی مجال کہ تو میرے سامنے ماہنور کا ہاتھ پکڑے" یہ کہہ کر وہ شارق کا ہاتھ توڑ دینے کی نیت سے اس بار آگے بڑھا ۔۔۔وہ بھپر اٹھا تھا مارے غصے کے۔ ۔۔۔
"دیکھ یہ سب تیرے دشمن ہیں ماہنور کے نہیں ۔۔۔خواہ مخواہ ان سب میں ماہنور کو مت گھسیٹ۔۔۔۔جا۔۔۔ جا کر ان سے لڑ ۔۔۔۔جب جیت جائے تو میرے پاس آنا ۔۔۔۔جب تک ماہنور میرے پاس تیری امانت ہے ۔۔۔دل تو نہیں مان رہا تیری امانت سمجھنے کے لئے کیونکے تو نے دھوکے سے پایا ہے ۔۔۔۔۔۔پر ماہنور میری محبت ہے اور وہ ابھی بھی تیرے نکاح میں ہے۔ ۔۔۔ اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ تیری امانت ہے۔۔۔ پہلے ان سے لڑ ۔۔۔۔پھر آنا ہم مقابلہ کریں گے جو جیتا وہی ماہنور کا حقدار ۔۔۔۔اور ہاں۔۔۔۔۔ مقابلہ جان لیوا ہوگا ۔۔۔۔اگر میں نے تجھے مار دیا تو ماہنور کو تیرے نکاح سے آزاد کرکے اپنے نکاح میں لے لوں گا۔۔۔۔ اگر میں مر گیا تو ماہنور تیری۔۔۔۔۔پر یہ پکا ہے زندہ آج ہم دونوں میں سے ایک ہی جائے گا "شارق نے جو الفاظ ادا کیے وہ نہایت تسلی بخش تھے۔ ۔۔ماہنور کی عزت اور جان دونوں شارق کے پاس محفوظ لگے شاہنزیب کو ۔۔۔۔۔
"یاخدا میں ماہ نور کو تیری امان میں دیتا ہوں "شاہنزیب نے دل ہی دل خدا کی امان میں دیا اپنی محبت کو۔ ۔۔۔
"پر ہاتھ چھوڑ" شاہنزیب کو ایک لمحے کے لئے بھی ماہنور کی کلائی شارق کے ہاتھ میں منظور نہ تھی۔۔۔
" ہاتھ نہیں پکڑوں گا تو بیچ میں شاہ ۔۔۔شاہ۔ ۔کرتی کود پڑے گی۔۔۔" اس نے کہا تو ماہنور نے چیخ کر رونے لگی۔۔۔ "شاہ۔۔۔ یہ مکار ہے ۔۔۔اس کی باتوں میں مت آو" ۔۔ ماہنور شاہنزیب کا ہاتھ چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھی۔۔۔۔پر شارق اسے بازو سے پکڑ کر گھسیٹا ہوا دور لے گیا تھا ۔۔۔ایسا لگ رہا تھا جیسے قیامت کا سماں ہو۔۔۔۔
"سالے صاحب خدا کو یاد کر لیجیے "فرحان نے کہہ کر فورا اس پر حملہ کر ڈالا تھا۔۔۔۔ وہ ظالم جان لینے کی نیت سے آئے تھے اور یہ بات شاہنزیب بخوبی جانتا تھا ۔۔۔
فرحان نے ہاکی اسٹک سے پہلا حملہ اس کے سر پر کرنے کی بھرپور کوشش کی۔۔۔۔پر شاہنزیب نے بڑی ہی پھرتی سے سر جھکا لیا ۔۔۔اگلے ہی لمحے شاہنزیب نے تیزی سے کھڑے ہوکر فرحان کا ہاتھ پکڑ کر موڑ ڈالا۔۔۔۔
"آہ" فرحان کی چیخ ہوا میں بلند ہوئی تھی۔۔ اختر نے ہاکی اسٹک شاہنزیب کے پاؤں پر مارنی چاہی تو شاہنزیب نے خود کو بچاتے ہوئے فرحان کو اسی پر پھینک دیا ۔۔۔اختر اور فرحان زمین بوس ہوئے۔۔۔۔تو شاہنزیب اختر کے ہاتھ سے گری ہوئی ہاکی اسٹک اٹھانے کی نیت سے جھکا ۔۔۔
"یا خدا میرے شاہ کو ان ظالموں سے بچا۔۔۔ یا خدا مدد کر ہماری" ماہ نور چیخ چیخ کر دعائیں مانگ رہی تھی اس کے موتی جیسے آنسو مزار کی زمین پر گر رہے تھے ۔۔۔
نیلے کپڑے والے نے شاہنزیب کو اسٹک اٹھاتا دیکھ۔۔۔۔فورا ہی شاہنزیب کے سر پر اپنی اسٹک ماری۔۔۔۔شاہنزیب کا سر چکرا گیا دو لمحوں کے لئے۔۔۔ پر بازی جان کی تھی اس لئے رک نہیں سکتا تھا ۔۔۔شاہنزیب اسٹک اٹھانے میں کامیاب ہوا تھا اس نے جوابی کارروائی میں اس نیلے کپڑے والے کی کمر سیکھ ڈالی تھی ۔۔۔پیلے کپڑے والے نے جب شاہنزیب کو حاوی ہوتے دیکھا تو اس کا پاؤں پکڑ کر کھینچ لیا ۔۔جس کی وجہ سے وہ زمین بوس ہوا۔۔ فرحان فورا اس پر چڑھ بیٹھا تھا ۔۔۔ماہنور بری طرح سہم گئی تھی یہ سب دیکھ ۔۔۔
ماہنور کی سانسیں مانو رک سی گئیں تھیں۔۔۔ اس نے اپنے دانت شارق کی کلائی پر گڑائے ۔۔۔اور اس کی پکڑ ہلکی پڑتے ہی تیزی سے شاہنزیب کی جانب بھاگی تھی ۔۔۔اس نازک صفت گڑیا نے اپنی پوری جان لگا کر فرحان کو اپنے ہاتھوں سے دھکا دے کر شاہنزیب سے ہٹایا۔ ۔۔ "شاہ اٹھو "وہ روتے ہوئے اسے اٹھانے کیلئے ہاتھ کھینچ رہی تھی ۔۔۔
"ابے پکڑ اس کو ۔۔۔ایک لڑکی نہیں سمبھال پا رہا تو "وہ پیلے کپڑے والا ماہنور کے سر پر گن رکھ کر شارق کو غصے سے دیکھ رہا تھا۔۔
شارق نے اس بار ماہنور کی کلائی اتنی زور سے کھینچی تھی کہ اس کی چوڑیاں جھٹکے سے ٹوٹ کر بکھر گئیں تھیں۔۔۔۔
"مار سالے کو" شاہنزیب خود کو سنبھال کر اٹھا ہی تھا کہ پیلے کپڑے والا جو نہایت طاقتور تھا ۔۔۔اس نے شاہنزیب کو ہاتھ پاؤں سے پکڑ کر ہوا میں بلند کیا پھر اگلے ہی لمحے شاہنزیب کو ایک بے جان گڈے کی طرح اچھالا اور پھر زمین پر زور سے پھینک دیا ۔۔۔اس ظالم کو ذرا بھی ترس نہ آیا یہ کرتے وقت۔۔۔ شاہنزیب منہ کے بل زمین بوس ہوا تھا۔۔۔۔۔اس کے منہ سے خون نکل کر مزار کی زمین پر بہہ رہا تھا ۔۔۔اس نے شاہنزیب کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا اور پھر سے ایک اور بار اسی طرح ہوا میں بلند کر دیا۔۔۔۔مانو شاہنزیب کوئی بے جان چیز ہو ۔۔۔۔
"فرحان تو اس سے ڈر رہا تھا۔۔۔ اس سنگل پسلی سے ۔۔۔دیکھ اس کے لیے تو میں اکیلا ہی کافی ہوں" اس نے فخرانہ شاہنزیب کو اٹھائے ہوئے کہا تو ماہنور کی جان نکل گئی ۔۔۔
" شاہ" ماہ نور پوری جان سے چیخی تھی ۔۔۔۔۔دل دہل گیا تھا اس کا۔۔۔۔رنگ مارے خوف کے سفید پڑ چکا تھا ۔۔۔۔
اس ظالم نے شاہنزیب کو پھر سے کھلونے کی طرح زمین پر پھینک دیا تھا ۔۔۔
شاہنزیب بے جان سہ پڑا تھا زمین پر منہ کے بل ۔۔۔
"مت مارو۔۔۔۔ چھوڑ دو شاہ کو"ماہنور التجائیں کر رہی تھی مگر اس کی سننے والا کوئی نہ تھا ۔۔۔وہ مظلوم لڑکی بری طرح تڑپ رہی تھی اپنے دلہے کو خون سے لت پت زمین پر پڑا دیکھ ۔۔۔۔
*****-------*********🌺🌺🌺
"شاہنزیب "شمسہ بیگم چیختے ہوئے نیند سے بیدار ہوئیں تھیں ۔۔۔
"کیا ہوا ؟؟؟؟۔۔۔"۔۔۔افتخار صاحب ان کے اس قدر زور سے چیخنے کی وجہ سے چونک کر بیدار ہوئے تھے۔۔
" میرا شاہ۔ ۔۔۔میرا شاہ۔ ۔۔وہ ضرور کسی مصیبت میں ہے۔۔۔ میں نے خواب میں اسے امی امی پکارتے ہوئے سنا ہے" وہ دل پر ہاتھ رکھ ۔۔۔۔۔گھبرائے ہوئے بولیں۔ ۔۔ان کے چہرے کی ہوایاں اڑئی ہوئی تھیں۔۔ ۔۔۔
" تم نے برا خواب دیکھا ہے وہ ٹھیک ہے ۔۔۔ولید نے بتایا تھا کہ اس کی شاہنزیب سے بات ہو گئی ہے اور وہ دونوں ساتھ خیریت سے حویلی پہنچ گئے ہیں "افتخار صاحب انہیں تسلی دے رہے تھے۔۔۔۔ پر ماں کا دل تھا کیسے اطمینان پاتا۔ ۔۔۔ اس کا بیٹا اس کا لخت جگر ان کی آنکھوں کا تارا دشمنوں کے بیچ تنہا تھا اور وہ ظالم اسے زخموں سے چور چور کر رہے تھے ۔۔۔۔۔
"نہیں میرا دل کہہ رہا ہے میرا شاہ تکلیف میں ہے۔۔۔۔آپ فون کریں اسے ابھی ۔۔۔"
"ارے۔۔۔۔۔ کمال کرتی ہیں بیگم صاحبہ آپ۔۔۔۔ اس کی شادی کی پہلی رات ہے ۔۔۔۔اچھا نہیں لگے گا یوں فون کرنا۔۔۔۔۔ ہم صبح ہوتے ہی کریں گے "افتخار صاحب انہیں سمجھا کر لائٹ آف کرنے لگے ۔۔۔۔جو انہوں نے چونک کر کھول دی تھی
"نہیں ابھی بات کروایں میری شاہ سے ۔۔۔میرا دل تب تک سکون نہ پائے گا ۔۔۔جب تک میں اپنے کانوں سے شاہ کی آواز نہ سن لوں "۔۔۔۔ ان کے بار بار اصرار پر افتخار صاحب مجبور ہوگئے شاہنزیب کو فون کرنے کے لیے۔۔۔
فون مل ہی نہیں رہا تھا انہوں نے بار بار ٹرائی کیا یہاں تک کہ حویلی کے ٹیلی فون پر بھی۔۔۔ پر کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔یہ بات انہیں بھی پریشان کرگئی تھی۔۔۔۔اب انہیں محسوس ہو رہا تھا کہ ضرور کچھ گڑبڑ ہے ۔۔۔
شاہنزیب نے پھر ہمت کی اٹھنے کی۔۔ وہ اٹھا اور اس بار اس نے پھرتی سے اس پیلے کپڑے والے کو زوردار مکا مارا کر زمین پر گرا ڈالا ۔۔۔۔۔
فرحان نے اس کے سر پر پیچھے سے وار کیا تو وہ برق کی تیزی سے نیچھے جھک گیا اور وہ اسٹک بجائے شاہنزیب کے اس پیلے کپڑے والے پہلوان کے زور سے لگی جو اٹھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا۔۔۔۔اسٹک کھانے کے بعد اس کا سر بری طرح چکرا گیا ۔۔۔۔
اس طرح کافی دیر تک لڑائی جاری رہی ۔۔۔
کبھی شاہنزیب ان چاروں پر بھاری ہوتا تو کبھی وہ چار شاہنزیب پر حاوی ہو جاتے ۔۔۔
شارق صرف مسکراتے ہوئے تماشا دیکھ رہا تھا ۔۔۔
یکدم ایسا لگا ۔۔۔۔گویا سب ختم ہوا ۔۔۔شاہنزیب فرحان سے گن چھیننے میں کامیاب ہوا تھا۔۔۔ اس نے گن چھینتے ہی فرحان پر تانی۔۔۔۔۔
"اس بار نہیں ۔۔۔۔اگر تو نے فرحان کو مارنا ہے تو مار دے۔۔۔۔ زندہ تو ۔۔۔تو بھی واپس نہیں جائے گا "وہ پیلے کپڑے والا پہلوان شاہنزیب کے رو برو آکر اس کے سر پر اپنی گن تانے بےنیازی سے بولا ۔۔۔۔۔۔
ماہ نور کی جان لمحہ لمحہ نیکل رہی تھی ۔۔۔۔وہ مظلوم دلہن اپنے دولہے کو بچانے سے قاصر تھی ۔۔۔"چھوڑ دو شاہ کو میں تمہارے پاؤں پڑتی ہوں۔۔۔۔چھوڑ دو شارق " اس کا نازک ہاتھ شارق کی مضبوط پکڑ میں تھا ۔۔۔وہ روتے روتے اس کے پاؤں کی جانب جھک کر التجائیں کرنے لگی ۔۔۔
"ماہ نور پاگل مت بنو سیدھی کھڑی رہو "شارق کو ماہنور کا اپنے پاؤں میں جھک کر شاہنزیب کے لئے التجائیں کرنا ناگوار گزرا تھا ۔۔۔۔وہ ماہنور کا بازو جنھجھوڑتے ہوئے بولا ۔۔۔
"اکمل چلا دے گولی ۔۔۔میری فکر مت کر۔۔ زندہ نہیں جانا چاہیے یہ کمینہ یہاں سے" فرحان نے اس پیلے کپڑے والے کا نام لے کر بلاخوف کہا ۔۔۔فرحان بدلے کے جنون میں پاگل ہو چکا تھا۔۔۔انسانیت نامی چیز اس میں اب باقی نہ رہی تھی۔۔۔ وہ اچھی طرح واقفیت رکھتا تھا کہ شاہنزیب صرف ڈرا رہا ہے۔۔۔ وہ اچھے اور شریف خاندان کا لڑکا ہے وہ کبھی کسی کی جان نہیں لے سکتا۔۔۔۔ اس لئے بے خوف ہوکر اکمل کو حکم دے رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
"گن دے واپس "اکمل شاہنزیب پر ایک ہاتھ سے گن تانے ۔۔۔۔اور دوسرا ہاتھ اس کے آگے پھیلائے حاکمانہ انداز میں کہنے لگا ۔۔۔
شاہنزیب نے ایک بار مڑ کر ہلکا سہ ماہنور کی جانب دیکھا۔۔۔ جس کی آنکھیں امید باندھے نظر آرہی تھیں۔۔۔۔کہ وہ اسے ان ظالموں سے آزاد کرا کے واپس گھر لے جائے گا ۔۔۔۔شاہنزیب سوچ میں پڑ گیا تھا کہ وہ کیا کرے؟؟؟؟۔۔۔ "کہ تو سچ رہا ہے اگر میں نے فرحان کو مارا تو یہ لوگ فوراً ہی مجھے مار دیں گے... یہی تو کرنے آئے ہیں یہ لوگ ۔۔۔میں کیا کروں؟؟؟۔۔۔یا خدا مدد کر میری"یہ سوچ کر شاہنزیب نے مظلوم سے چہرہ بنایا جس سے انہیں گمان ہوا کہ شاہنزیب نے ہار مان لی ہے۔۔۔ فرحان کا گلہ جو اس نے اپنے بازو میں دبوچا ہوا تھا وہ ہلکے سے چھوڑنے لگا۔۔۔ اکمل ہسنا تھا شاہنزیب کو اپنے آگے جھکتا ہوا دیکھ۔۔۔
پر اگلے ہی لمحے شاہنزیب نے بڑی پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گولی اکمل کے پاؤں پر چلا ڈالی تھی ۔۔۔۔
اکمل پاوں پر گولی لگتے ہی زور سے چیخ اٹھا۔۔۔ اس کے ہاتھ سے گن چھوٹ گئی ۔۔۔۔۔۔وہ اپنے پاؤں کو پکڑ کر زمین پر ہی بیٹھ گیا ۔۔۔۔شاہنزیب نے اس کی گری ہوئی گن بجلی کی تیزی دیکھاتے ہوئے اپنے ہاتھ میں اٹھالی۔۔۔۔۔
"چل ساتھ میں کھڑا ہو"۔۔۔اس نے دونوں گنیں اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر فرحان اور اختر کو اس نیلے کپڑے والے کے برابر میں کھڑا کیا تھا ۔۔۔"اب بول مار دوں تجھے؟؟؟" شاہنزیب نے استفسار کیا تو فرحان خوف کے مارے نفی کرنے لگا۔۔۔۔۔
" سالے کمینے ۔۔۔مجھے سنگل پسلی کہ رہا تھا تو" شاہنزیب نے کدروت بھری نظر اکمل پر ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔۔ایک اور گولی اس کے دوسرے پاؤں پر غصے سے چلا ڈالی۔۔۔
"آہ۔ ۔۔ "اکمل زور سے چیخا۔۔۔۔ اس کی چیخ ماہ نور کے دل کو سکون دے رہی تھی۔۔۔۔ شارق گڑبڑا کر رہ گیا تھا یہ نظارہ دیکھ ۔۔۔۔شاہنزیب اکیلا ہی ان چاروں پر فتح یاب ہوا تھا۔۔۔۔۔ شارق نے ماہ نور کے بازو پر اپنے ہاتھوں کی پکڑ ڈیلی کی تو وہ بھاگتے ہوئے خوشی خوشی آکر شاہنزیب کی کمر سے چپک گئی۔۔۔۔
"بول ۔۔۔مار دوں اب ؟؟؟؟۔۔۔۔۔اب کیوں نہیں بول رہا کے مار دو ؟؟؟۔۔۔سالے کمینے کیا سمجھا تھا تو ؟؟؟۔۔۔میں نہیں مار سکتا ۔۔۔۔۔۔۔مارنے کا لائسنس صرف تم جیسے گھٹیا لوگوں کے پاس ہوتا ہے "شاہنزیب نے کڑک لہجے میں فرحان کو دیکھ کر استفسار کیا ۔۔۔
"شاہ مجھے معاف کر دے ۔۔۔۔غلطی ہوگئی بھائی۔۔۔۔ سچ میں ۔۔۔۔۔میں نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔یہ شارق اور اس کا بھائی آئے تھے ہمارے پاس۔۔۔۔ اس کے بڑے بھائی نے اس دن ہال کے باہر ہم دونوں کو لڑتا ہوا دیکھا تھا ۔۔۔تو وہ پوچھنے آیا تھا کہ ہماری آپس میں کیا دشمنی ہے۔۔۔۔ یہ سارا منصوبہ اس شارق اور اس کے بڑے بھائی کا ہے۔۔۔۔ایک بار موقع دے دے۔۔۔۔یقین مان ۔۔۔۔دوبارہ زندگی میں اپنی شکل نہیں دیکھائیں گے " فرحان اور اس کے تینوں ساتھی اب ہاتھ جوڑ کر شاہنزیب سے معافی مانگ رہے تھے۔۔۔
"ماہنور آگے آؤ "شاہنزیب کے کہنے پر وہ سہمی ہوئی لڑکی آگے آکر اپنے دولہے سے لگ کر ان تینوں کے سامنے فخرانہ کھڑی ہوگی ۔۔۔
"معافی مانگ میری بیوی سے ۔۔۔۔وہ بھی ہاتھ جوڑ کر "شاہنزیب ماہنور کا بدلہ لے رہا تھا کیونکہ حویلی میں اس نے ماہنور سے معافی مانگنے کو کہا تھا ۔۔۔۔
"معاف کر دو ہمیں۔۔۔ معاف کر دو بہن" فرحان آنسو بہاتے ہوئے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا ۔۔۔
"کاش میں بھی تمہاری طرح ظالم اور پتھر دل ہوتی تو جیسے تم لوگوں نے ان مظلوموں کو بغیر کسی گناہ کے مار ڈالا میں بھی تمہیں اسی طرح تڑپا کر مار ڈالتی" ماہنور شعلہ بار نظروں سے چیختے ہوئے کہہ رہی تھی ان چاروں کو دیکھ ۔۔۔
"تم لوگوں کو کیسے پتہ چلا کہ ہم مزار آئیں گے ؟؟؟"شاہنزیب جاننا چاہتا تھا کہ وہ لوگ کس طرح مزار تک پہنچے۔۔۔ یہ گدی ابھی بھی الجھی ہوئی تھی ۔۔۔۔
"پولیس نے تمہارے نوکروں کو بہت مارا۔۔۔۔ ان سے اگلوانے کے لئے کہ تم لوگ کہاں ہو ۔۔۔ جب چوکیدار کو مارا تو اس کا بیٹا روتے ہوئے بتانے لگا کہ تم لوگوں نے ان سے کہا ہے کہ تم مزار جارہے ہو۔ ۔۔وہ لوگ پولیس کو لے کر وہیں پہنچیں "اختر نے اپنی جان پر منڈلاتے ہوئے خوف کے سبب شاہنزیب کو حقیقت بیان کر دی ۔۔۔
"ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔پر ۔۔۔۔۔۔"ابھی شاہنزیب بول ہی رہا تھا کہ اسے کوئی اپنے پیچھے محسوس ہوا ۔۔۔جیسے ہی ہلکا سہ مڑا ۔۔شارق نے ڈنڈے سے وار کیا ۔۔۔پہلے وہ ڈنڈا شاہنزیب کے منہ پر لگا جس کی وجہ سے اس کے گالوں کی کھال پھٹ گئی اور خون نکلنے لگا۔۔۔۔ شاہنزیب نے وار سہتے ہوئے شارق کا گلا اپنے سیدھے ہاتھ سے پکڑ لیا۔۔۔۔
شاہنزیب پر حملہ اچانک ہونے کے سبب ۔۔۔۔ وہ خود کو سنبھال نہ سکا ۔۔۔۔اس کے ہاتھوں سے گنیں گرتے ہی فوراً اختر نے اٹھالیں۔۔۔۔
شارق نے گلا دبنے کے باوجود ایک اور وار کیا اور ڈنڈا اپنی پوری طاقت سے شاہنزیب کے سر پر دے مارا۔۔۔
ماہنور تکتی سی رہ گئی ۔۔۔۔کہ دو ہی لمحوں میں یہ کیا ہو گیا؟؟؟؟۔۔۔۔ وہ حیرت کے مارے شاہنزیب کو دیکھنے لگی۔ ۔۔ جس کے سر پر اتنے زور سے وار کیا گیا تھا کہ وہ اسی لمحے چکر کھا کر گیا ۔۔۔
"شاہ"وہ حقاء بقاء نگاہوں سے اپنے دلہے کو بے ہوش ہوتا دیکھ چیخی تھی۔۔۔"شاہ اٹھو۔۔۔شاہ " وہ روتے ہوئے اپنے دولہے کے پاس بیٹھ کر اس کے خوبصورت چہرے پر تھپ تھپا رہی تھی ۔۔۔
"مر گیا سالا.۔۔۔ زبردست یار۔۔۔ مان گئے تجھے ۔۔۔۔صحیح وقت پر۔۔۔ تو نے وار کیا "۔۔۔فرحان خوش ہو کر بڑی گرم جوشی سے شارق سے ہاتھ میلاتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔
"ابھی کام پورا نہیں ہوا ہے گن دے"شارق کو ذرا رحم نہیں آیا تھا شاہنزیب پر۔۔۔
ماہ نور چیخ چیخ کر اسے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی شارق نے گن جب شاہنزیب پر تانی تو بڑا خوش ہو کر فخرانہ کہنے لگا :"دیکھ لے شاہنزیب۔۔۔ مقابلہ میں جیت گیا۔۔۔۔ اور تو ہارا ۔۔۔۔۔خدا میرے ساتھ ہے۔۔۔ تو خون سے لت پت پڑا ہے اور تیری مدد کرنے والا کوئی نہیں" یہ کہہ کر وہ گن چلانے لگا تھا ۔۔۔ماہنور اس کے الفاظ سن کر تڑپ اٹھی تھی۔۔۔ وہ ذہنی کرب میں مبتلا تھی اس لمحے ۔۔۔۔غصے سے چھنگھاڑتے ہوئے شارق کے فخرانہ الفاظ کا منہ توڑ جواب دینے لگی ۔۔۔
" تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔ تم نے میرے شاہ کو دھوکے سے مارا ہے ۔۔۔تم مقابلہ نہیں جیتے۔۔۔ تم نے تو کائروں کی طرح پیچھے سے وار کیا ہے۔۔۔ ذلیل انسان خدا تجھ جیسوں کے ساتھ نہیں ہوتا ۔۔۔جو بے قصوروں کی جان لیتے ہیں اور پیچھے سے وار کرتے ہیں۔۔۔ ہمت تھی تو میرے شاہ کے سامنے آکر وار کرتا ۔۔۔۔میری نظر میں تم بزدل ہو "ماہ نور چیر دینے والی نظروں سے چنگھاڑتے ہوئے بولی ۔۔۔۔
"ماہ نور تم بہت بھولی ہو" شارق نے ماہنور کی باتوں کو مکمل اگنور کر دیا ۔۔۔۔وہ صرف اپنی جھوٹی جیت پر خوش ہو رہا تھا ۔۔۔۔شارق نے اختر کو اشارہ کیا کہ ماہنور کو شاہنزیب کے پاس سے ہٹا دے۔ ۔۔۔۔
شارق گن کی ساری گولیاں سینے میں اتار دینے کے ارادے سے کھڑا تھا اس کی سفاکشی کی انتہاء تھی ۔۔۔ماہنور اس کے بے ست سے پڑے جسم سے لپٹ گئی تھی ۔۔۔"مارنا ہے تو دونوں کو مار دو۔۔۔۔چلاو گولی" وہ شاہنزیب کے جسم سے لپٹ کر تلخ لہجے سے گویا ہوئی۔۔۔۔۔۔۔جس پر شارق کوئلے کی طرح جل گیا۔۔۔۔اب تو وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر شاہنزیب کو مار دینا چاہتا تھا ۔۔۔۔
"ہٹا ماہنور کو" شارق نے اختر سے حاکمانہ انداز میں کہا ۔۔۔۔تو وہ اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ماہنور کا ایک ہاتھ پکڑ کر اسے گھسیٹتا ہوا شاہنزیب سے دور لے گیا ۔۔۔۔
وہ چیخ رہی تھی ۔۔۔مت مارو ۔۔۔مت مارو۔۔۔۔۔پر وہ سارے ظالم اس کی چیخوں کو اپنی جیت سمجھ رہے تھے ۔۔۔۔ماہنور اپنی چوڑیوں بھری کلائی زور زور سے اختر کے ہاتھ پر مار رہی تھی ۔۔تاکے وہ اسے چھوڑ دے۔۔۔ اس چکر میں اس کی پوری کلائی خون نم خون ہو گئی تھی۔۔۔ پر وہ ہنس رہا تھا ۔۔۔اس مظلوم لڑکی کے احتجاج کو خاطر میں نہیں لا رہا تھا۔۔۔
"او۔ کے شاہنزیب بائے بائے "شارق مسکراتے ہوئے کہہ کر اس کے سینے پر گولی چلانے ہی لگا تھا ۔۔۔۔
"رک جاؤ۔۔۔ خدا کے لئے یہ قہر نہ ڈھاو۔ ۔۔۔۔ایک سچے عاشق کا قتل وہ بھی اتنی بے رحمی سے۔۔۔کیوں اس بیچارے کو مار کر خدا کی ناراضگی مور لیتے ہو ۔۔۔۔چھوڑ دو اسے۔۔۔ کم ازکم مزار کا ہی لحاظ رکھ لو۔۔۔ اس کا خون یہاں نہ بہاؤ "ایک بوڑھے سے بزرگ سیڑھیاں چڑھ کر آئے۔۔۔۔روہانسہ آواز میں کہتے ہوئے ۔۔۔۔وہ سب کو روکنے لگے۔۔۔
" یہ کون ہے؟؟؟" شارق جھنجھلاکر پوچھ رہا تھا فرحان سے۔۔۔
"ڈرائیور ہے "فرحان شارق کو بتاکر بوڑھے شخص کی جانب متوجہ ہوا ۔۔۔۔"بابا آپ سے کس نے کہا تھا یہاں آو؟؟؟۔۔۔ کہا تھا ناں ۔۔۔حویلی کے باہر پہرے داری کریں گاڑی میں بیٹھ کر۔۔۔۔"فرحان نہایت جھنجھلاتے ہوئے اس بوڑھے شخص سے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔
اس بوڑھے شخص کا رنگ سرخ سفید تھا ۔۔۔سفید رنگ کا کرتہ اور ٹوپی پہنے ہوئے ۔۔۔ان کی داڑھی سفید ہوچکی تھی پوری ۔۔۔ان کے چہرے سے نور کی کرنیں پھوٹی ہوئی معلوم ہو رہی تھیں ۔۔۔۔۔
"افففففف ۔۔۔۔ٹھیک ہے مزار کا لحاظ کر لیتے ہیں ۔۔۔"شارق بے دلی سے کہہ کر ۔۔۔۔۔شاہنزیب کو پاؤں سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا سیڑھیوں کے کنارے لے گیا۔۔۔۔
" شارق خدا کے لیے چھوڑ دو اسے ۔۔۔شارق رحم کرو۔۔۔ فرحان جب شاہنزیب کے ہاتھ میں تمھاری جان تھی تو اس نے تم پر رحم کھایا تھا ۔۔۔۔یاد کرو۔۔۔ وہ چاہتا تو تم سب کو اسی وقت مار دیتا پر اس نے ایسا نہ کیا ۔۔۔۔ کیا اس کے احسان کا بدلہ تم اس طرح ادا کرو گے ۔۔۔۔پلیز چھوڑ دو۔۔" ماہنور تڑپ کر اختر سے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے فرحان کو شاہنزیب کا احسان یاد دلارہی تھی۔۔۔ وہ چیخ رہی تھی مگر اس کی چیخیں سننے والا کوئی نہ تھا۔۔۔
"یا خدا مدد کر ہماری۔۔۔۔۔ میں نے شاہ کو ہمیشہ تیرے آگے سجدہ ریز دیکھا ہے ۔۔۔۔آج ان ظالموں نے اسے اتنا مارا ہے کہ وہ فجر کی نماز تک پڑھنے سے قاصر ہے۔۔۔۔ یا خدا مدد کر۔۔۔ تیرے بندے کو تیری مدد کی سخت ضرورت ہے۔۔" ماہنور تڑپ کر بے دوپٹہ دعا کر رہی تھی ۔۔۔۔التجائیں کر رہی تھی ۔۔۔اس کے سامنے ہی شارق نے بڑی بےدردی سے شاہنزیب کو مزار کی سیڑھیوں سے نیچے پھینک دیا ۔۔۔۔
"شاہنزیب" ماہنور تڑپ کر چیخ اٹھی تھی اور وہ سب ہنس رہے تھے۔۔۔۔۔
"بس۔۔۔ نہیں مارا مزار کی زمین پر" شارق فرعونیت کا مظاہرہ کر رہا تھا۔۔۔ اس بوڑھے شخص کے کندھے پر تھپ تھپاتے ہوئے گہری مسکراہٹ لبوں پر سجائے کہنے لگا ۔۔۔
"شارق ڈرو خدا سے۔۔۔ میں بد دعا دیتی ہوں تمہیں ۔۔۔۔۔خدا کرے جن لوگوں کے ساتھ مل کر تم نے میرے شاہنزیب کو اتنی بے رحمی سے مارا ہے۔۔۔۔خدا انہی کے ہاتھوں تمہارے موت لکھے۔ ۔۔تم تڑپو پر تمھارے لئے دعا کرنے والا ۔۔۔۔ تمہیں بچانے والا کوئی نہ ہو ۔۔۔۔"ماہنور دنیا بھر کی تلخی لہجے میں سمیٹے پھنکار کر کہ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ شارق کو کدروت بھری نظروں سے دیکھ۔۔۔۔۔وہ مظلوم تھی شارق نے اس کے سامنے ہی اس کے دولہے کو مزار کی سیڑھیوں سے پھینک کر ظلم کی انتہاء کی تھی ۔۔۔۔۔
"چلو۔۔۔ نیچے چل کر دیکھتے ہیں بچا یا مر گیا۔۔۔" نیلے کپڑے والا تجسس کہہ رہا تھا ۔۔۔
"ہاں چلو۔۔۔۔" فرحان نے مسرت بھرے لہجے میں اس کی بات کی تائید کر ڈالی ۔۔۔۔
"اس کا کیا کرنا ہے؟؟؟؟"اختر اکمل کی جانب دیکھ استفسار کررہا تھا۔۔۔۔جو اپنے دونوں پاؤں پکڑ کر تڑپ تڑپ کر رو رہا تھا ۔۔۔
"مار دیتے ہیں ۔۔۔ویسے بھی اس کا بوجھ اٹھائے اٹھائے تھوڑی گھوم سکتے۔۔۔۔خدا تیری روح کو سکون دے۔۔۔۔" فرحان نے کہ کر نہایت بے رحمی سے اپنے ہی ساتھی پر گولی چلا دی۔۔۔۔۔۔اکمل جو کچھ وقت قبل اپنی طاقت کے نشے میں بدمست ہوکر شاہنزیب کو زمین پر باربار پٹک رہا تھا۔۔۔۔۔وہ ماہنور کے سامنے ہی اب تڑپ تڑپ کر دم توڑ گیا ۔۔۔۔۔جس لڑکی نے کبھی چینٹی تک کو نہ مارا ہو اس کے سامنے انسانوں کو بے رحمی سے مارا جا رہا تھا۔۔۔۔
اختر ماہنور کو سیڑھیوں سے اتار کر شاہنزیب سے دور لے جانے لگا۔۔۔
شاہنزیب منہ کے بل زمین پر الٹا پڑا تھا۔۔۔۔۔جسے ایک بار تھپڑ کھاتے دیکھا تو مارے خوف کے اس کی روح فنا ہونے لگی ۔۔۔۔مگر آج اسے ان ظالموں کے بیچ تنہاء دیکھ جسم سے روح جدا نہیں ہو رہی تھی۔۔۔۔۔ ناجانے کیا کیا دکھانا تھا قسمت کو ابھی ماہنور کو ۔۔۔۔
"سانسیں چل رہی ہیں اس کی" اختر شاہنزیب کو سیدھا کر کے ناک پر ہاتھ رکھ۔۔۔ اس کے زندہ ہونے کی اطلاع سب کو دے رہا تھا ۔۔۔
شارق کا سیل مسلسل رنگ ہو رہا تھا ۔۔۔۔وہ تھوڑی دور جا کر بات کرنے لگا "ہیلو بھائی"
" ہیلو شارق۔۔۔۔۔۔۔ میری بات غور سے سنو۔۔۔۔۔ شاہنزیب کی والدہ نے اسے خواب میں امی امی پکارتے دیکھا ہے۔۔۔ جس کی وجہ سے افتخار صاحب شاہنزیب کو فون ملانے لگے۔۔۔۔۔ فون نہ ملنے کی وجہ سے یہ لوگ پریشان ہو کر یہاں سے نکل رہے ہیں۔ ۔۔۔میں بھی ان کے ساتھ ہی آ رہا ہوں ۔۔۔جو کرنا ہے جلدی کرو سمجھے "رومیساء آپا کے شوہر نے شارق کو آگاہ کیا تھا۔ ۔۔۔۔
"جی بھائی۔ ۔۔۔"
"ویسے پان کھایا اس نے ؟؟؟؟؟"۔۔۔۔وہ تجسس سے استفسار کرنے لگے ۔۔۔۔۔
"نہیں کھایا ۔۔۔۔۔اگر کھایا ہوتا ۔۔۔تو اب تک مر چکا ہوتا ۔۔۔۔مجھے اندازہ تھا یہ بہت چلاک ہے۔۔۔۔۔ یہ کبھی نہیں کھائے گا آپ کا دیا ہوا زہر والا پان " شارق دانت پیستے ہوئے بولا ۔۔۔
"کاش کھالیتا۔۔۔۔سور کی اولاد سالا ۔۔۔۔۔۔ہمارے آنے سے پہلے پہلے پان غائب کرنا مت بھولنا۔۔۔۔ شاہنزیب نے نہیں کھایا ہے تو ضرور ۔۔۔۔ وہ پان کار میں ہوگا "۔۔۔انہوں نے یہ کہہ کر کال کاٹ دی تھی ۔۔۔۔
"لیجئے جناب۔۔۔میں لے آیا مولوی صاحب کو" ایک پولیس کی جیپ آکر رکی تھی جس میں سے ایک موٹا سا آدمی جو پولیس کی وردی پہنے ہوئے تھا اترا اور اس کے ساتھ ساتھ ایک مولوی صاحب بھی تھے۔۔۔
" ماہ نور میری دلہن "شارق مولوی صاحب کو دیکھ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔۔۔۔ وہ ماہنور کے پاس آ کر اس کی آنکھوں سے آنسو صاف کرنے لگا۔۔۔۔
" پاگل ہوگئے ہو کیا ؟؟؟؟میں اور تمہاری دولہن؟؟؟۔۔۔میں مر جاؤں گی پر تم سے شادی کبھی نہیں کروں گی۔۔" ماہنور نے شعلہ بار نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے۔۔۔۔ فورا شارق کا ہاتھ جو کے اس کی جانب بڑھ رہا تھا روکتے ہوئے کہا ۔۔۔۔اگلے ہی لمحے ایک جھٹکے سے اس نے شارق کا ہاتھ سخت بےرخی سے چھوڑ دیا ۔۔۔
"ماہنور کیوں اس کمینے کے لیے رو رو کر خود کو ہلکان کر رہی ہو ۔۔یہ دھوکے باز تھا ۔۔۔بتا تو چکا ہوں تمہیں ۔۔۔تم نے خود دیکھا تھا یہ نظریں جھکائے شرمندگی سے کھڑا تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ میں سچا ہوں۔۔۔۔اور اگر اب بھی تمہیں میری بات پر یقین نہیں آ رہا تو بھائی سے فون کر کے پوچھ لو ۔۔۔اور پلیز اس کے لیے رونا بند کرو۔۔۔ مجھے غصہ آ رہا ہے "شارق کا دل بری طرح جل رہا تھا ماہنور کو شاہنزیب کے لیے روتا دیکھ۔۔۔۔ وہ غصے سے ماہ نور کے دونوں بازو جھنجھوڑتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔
"میں تب تک تمہاری بات کا یقین نہیں کروں گی جب تک خود میرا شاہ مجھ سے یہ بات ناں کہے "اس کی آنکھیں رو رو کر مانو چھل چکی تھیں۔۔۔۔اس کی ہر بھیگی پلک پر شاہنزیب کا ہی نام تھا ۔۔۔
" اوئے تو ڈرنگ لایا ؟؟؟"فرحان پولیس والے سے پوچھنے لگا
"ہاں "اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا
"تو لا نا " فرحان کے کہنے پر وہ ہرے رنگ کی شراب کی بوتل لے آیا
"مر گیا؟؟؟؟"پولیس والا شاہنزیب کو زمین پر خون آلود پڑا دیکھ تجسس سے پوچھنے لگا ۔۔۔
"نہیں۔۔۔۔اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے" فرحان شاہنزیب کے فراک سینے پر جوتوں سمیت پاؤں رکھ ۔۔۔۔شراب کی بوتل لئے شیطانی مسکراہٹ لبوں پر سجائے کہنے لگا ۔۔۔
"ابے ۔۔۔ایک ہی لایا ہے ؟؟؟؟"نیلے کپڑے والا پولیس والے سے استفسار کرنے لگا ۔۔۔
"نہیں گاڑی میں اور بھی ہیں۔ "۔۔۔۔پولیس اسپیکٹر نے کہا تو نیلے کپڑے والا خود چلا گیا گاڑی سے لینے۔۔۔۔
فرحان مولوی صاحب کو دیکھ کر انہیں چھڑنے کی نیت سے ۔۔۔ شراب کی آفر کرنے لگا ۔۔تو وہ توبہ توبہ کر کے کان پکڑنے لگے ۔۔۔مولوی صاحب کا ری ۔ایکشن دیکھ فرحان کا قہقہہ بلند ہوا ۔۔۔
"او۔۔۔۔شاہنزیب کتنا اچھا لگ رہا ہے تجھے یوں اپنے پاؤں میں پڑھا دیکھ۔۔۔۔سچ میں دل کو بڑا سکون مل رہا ہے ۔۔اوئے ۔۔۔کیوں ناں اس کو بھی مرنے سے پہلے شراب کا مزا چکا دیں "فرحان اپنی جیت کے نشے میں بدمست ۔۔۔نیلے کپڑے والے سے شراب کی دوسری بوتل مانگتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔
فرحان خوب لطف لے رہا تھا شاہنزیب کے سینے کو اپنے پاوں سے روندتے ہوئے۔۔۔۔
"ٹھیک ہے اب میں اس کے منہ سے ہی اس کا کیا گناہ تمہیں سنواوں گا۔۔ مرنے نہیں دوں گا اسے جب تک وہ اپنے منہ سے اپنا کیا گناہ قبول نہ کر لے ۔۔۔.دیکھنا وہ کمینا خود کہے گا تمھارے سامنے کے اس نے اغوا کیا تھا مجھے ۔۔۔میں تمہیں چھوڑ کر نہیں بھاگا تھا۔۔۔ تمہارے والد کی موت کی وجہ میں نہیں تھا۔۔۔ "شارق نے ماہنور کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پکا عزم کیا اور پولیس والے کی جیپ سے پانی کی بوتل نیکال لایا ۔۔۔۔
"اووووو۔۔۔۔۔ یہ کیا کر رہا ہے؟؟؟" فرحان نے اسے پانی کی بوتل کا ڈکن کھولتے دیکھا تو پریشان ہو کر پوچھنے لگا ۔۔۔۔
"اسے ہوش میں لا رہا ہوں"
" پاگل ہوگیا ہے کیا؟؟؟۔۔۔ یہ شیر ہے۔۔۔تو پیچھے سے وار کر کے جیت گیا ہے ۔۔۔آگے سے نہیں ۔۔۔کیوں اسے واپس جگا رہا ہے ۔۔۔میں کہتا ہوں گن لے اور مار دے گولی۔۔۔۔قصہ ختم کر۔۔ تو اپنی دلہن کو لے کر اپنے گھر جا۔۔۔ اور ہم اپنے ملک ۔۔۔یہ فالتوہ میں ہیرو مت بن۔۔۔ تو جانتا نہیں ہے اسے ۔۔۔ اگر یہ ہوش میں آگیا تو ہمیں زندگی کے لالے پڑھ جائیں گے۔۔۔اس لئے کہ رہا ہوں لڑکی کے سامنے ہیرو بنے کے چکر میں ہوشیاری مت دیکھا۔۔۔"فرحان اسے سمجھارہا تھا کے سوئے ہوئے شیر کو نہ جگائے۔۔۔۔۔پر شارق کو اپنے بازو کے زور پر پورا یقین تھا۔۔۔
شارق نے پانی سے بھری بوتل الٹ دی تھی شاہنزیب پر۔۔۔۔ پانی ڈلتے ہی اسے ہوش آگیا تھا ۔۔۔۔ماہنور کا کب کا روکا سانس بحال ہوا تھا اسے ہوش میں آتا دیکھ۔۔۔۔وہ جیسے ہی ہوش میں آیا اس کا سر چکرانے لگا ۔۔۔۔سب دھندلا دھندلا نظر آرہا تھا۔۔۔ فرحان نے فورا اس کے سینے سے اپنا پاٶں ہٹایا تھا مارے خوف کے ۔۔۔۔
”پاگل ہے سارلا۔۔۔۔ناجانے خود کو کیا سمجھ رہا ہے۔۔۔۔ لڑکی کے سامنے ہیرو بننے کے چکر میں ہم سب کو مروائے گا “فرحان دل ہی دل کڑکڑا رہا تھا ۔۔۔۔
اسیر کو ہوش آیا تھا ۔۔۔اس کے چہرے پر گرتا ہوا پانی جب زمین پر جمع ہوا تو اُس سفید پانی کی رنگت سرخ تھی۔۔۔ اس قدر خون بہہ رہا تھا اس کا۔۔۔۔
چیخ چیخ کر اب تو گلا بھی خشک ہوگیا تھا ۔۔۔ماہنور بری طرح نڈھال ہو چکی تھی مارے صدمے اور غم سے۔۔۔دل سے بس یہی دعا ہر سانس کے ساتھ نکل رہی تھی کہ شاہنزیب ہوش میں آ کر ان سب ظالموں سے اسے بچا لے۔۔۔
” میں کہتا ہوں۔۔۔ پہلے اس کے ہاتھ پاٶں باندھ دو ۔۔۔“نیلے کپڑے والے نے پولیس کی گاڑی سے ٹیک لگا کر شراب کی بوتل ہلاتے ہوئے اپنی رائے دی تھی۔۔۔۔ جس پر فرحان اور اختر دونوں ہی اس کی راٸے سے متفق تھے۔۔۔۔
شاہنزیب کی سفید شیروانی اب سرخ ہوچکی تھی ۔۔۔اس کا جوڑ جوڑ مانو ٹوٹ گیا تھا ۔۔۔۔سر پر دو بار وار ہونے کے سبب اسے ٹھیک طرح ہوش نہیں آرہا تھا۔۔۔۔آنکھیں ضرور کھل گٸیں تھیں پر وہ شہزادہ بےست سہ پڑا تھا زمین پر۔۔۔۔
”ہاں اسے باندھ دینا چاہٸے۔۔۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹھیک طرح ہوش میں آتے ہی بھاگنے کی کوشش کرے“شارق کے کہتے ہی ماہ نور اپنے وجود میں بچی کچی طاقت سمیٹ کر چیخی۔۔۔
” تمہاری طرح بزدل نہیں ہے میرا شاہ۔۔۔۔ یہ بزدلی تم پر ججتی ہے میرے شاہ پر نہیں“اختر یہ سن غصے سے تلملا اٹھا۔۔۔
” اگر اتنی ہمت والا تھا تو حویلی سے بھاگا کیوں؟؟؟۔۔۔ وہیں مارتا ہمیں۔۔۔۔ دیکھ اصلی ہمت اسے کہتے ہیں کہ اسی کے سامنے اس کی نئی نویلی دلہن کا ہاتھ پکڑے کھڑا ہوں“اختر نے ماہنور کی نازک کلاٸی کو بےدری سے مڑوڑتے ہوئے فخرانہ کہا۔۔۔۔۔۔
” یا میرے خدا“ شاہنزیب کے آہستہ آہستہ حواس بحال ہوٸے ۔۔۔اس کی لبوں پر یہی الفاظ تھے ۔۔۔ماہنور کی جانب نظر اٹھی۔۔۔ تو اس کا رو رو کر ہلکان ہوا سراپا دیکھ ۔۔۔شاہنزیب کا دل خون کے آنسوں رویا۔۔۔۔
”پانی لا “انھوں نے شاہنزیب کو پوری طرح ہوش میں آنے سے پہلے ہی ایک درخت سے باندھ کر کھڑا کر دیا ۔۔۔۔ اس کے ہاتھ درخت کی پشت پر مضبوطی سے باندھے گئے تھے۔۔۔ شارق نے پولیس والے سے کہا تو وہ جلدی سے ایک اور بوتل پانی لے آیا۔۔۔۔۔ شاہنزیب مارے تکلیف کی شدت کے سبب پوری طرح ہوش میں نہیں آپا رہا تھا ۔۔۔اس لیے شارق نے پھر سے پانی کی بوتل اس پر الٹ دی تھی۔۔۔۔
”سالے اتنی آسانی سے نہیں مر سکتا تو ۔۔۔پہلے تجھے ماہنور کو بتانا ہوگا کہ اس دن تو نے کیسے مجھے اغواہ کیا تھا۔۔“ شارق اس کے جبڑوں پر اپنی انگلیاں گڑاتے ہوٸے غصے سے دانت پیستے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔
”ابے یار ۔۔۔۔کیوں کر رہا ہے یہ سب ؟؟؟۔۔۔۔مار دے اس سور کی اولاد کو ۔۔۔۔لا گن دے ۔۔۔۔اگر تجھ سے نہیں مارا جا رہا تو میں مار دوں۔۔۔۔۔ویسے بھی معاہدہ یہ تھا کہ میں جو چاھے لڑکے کے ساتھ کروں۔۔۔۔اور تو جو چاہے لڑکی کے ساتھ۔۔۔۔لڑکی تجھے مل گئی ہے۔۔۔۔ مولوی سامنے کھڑا ہے۔۔۔پھر کس بات کا انتظار کر رہا ہے؟؟؟۔۔۔۔ میں اسے یہاں مارتا ہوں۔۔۔ اس کمینے کے مرتے ہی ماہنور نکاح سے آزاد۔۔۔۔ تو آرام سے کرلے نکاح۔۔۔۔اور لے جا اسے اپنی دولہن بناکر ۔۔۔۔اب یہ تیری ہے “فرحان نے اپنے بدبخت ارادے ظاہر کٸیے تو ماہنور کی جان نکل گئی ۔۔۔ایسا لگا جیسے قیامت برپا ہوگئی ۔۔۔۔ہر لمحہ پہلے سے زیادہ سخت تر معلوم ہورہا تھا۔۔۔۔فرحان کے کہے الفاظ جب شاہنزیب کی سماعت سے ٹکرائے تو زندگی بھر کا رٹا ہوا جملہ اسیر کی زبان پر خود بہ خود جاری ہوگیا۔۔۔۔۔۔
"ماہنور میری ہے۔۔۔صرف میری"وہ پوری طرح حواس میں لوٹ آیا تھا۔۔۔ اس کے لفظ پتھر پر لکیر کی مانند تھے۔۔۔وہ بلاخوف ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کر رہا تھا سب کے سامنے ۔۔۔اس کا کہنا تھا کہ ماہ نور کے چہرے پر امید کے بادل چھائے نظر آنے لگے۔۔۔۔
” تیری تو“ شارق نے غصے سے بھپر کر شاہنزیب کے چہرے پر طمانچہ مارا تھا۔۔۔۔۔ جس کے جواب میں شاہنزیب مسکرا دیا ۔۔۔۔
” ماہ نور میری ہے۔۔۔۔ صرف میری ۔۔۔جتنا چاہے مار لے “ شاہنزیب بلاخوف اعلان کر رہا تھا۔۔۔
” تیری تو سالے “ شارق غصے سے پاگل ہوا جارہا تھا ناجانے کس مٹی کا بنا تھا وہ ۔۔۔اتنی اذیت میں مبتلا ہونے کے باوجود مسکرا رہا تھا۔۔۔۔ شارق نے ایک اور زور دار طمانچہ اپنی پوری طاقت لگاتے ہوئے اس کے خوبصورت رخسار پر دے مارا ۔۔۔۔۔۔وہ اسیر پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔
”ماہنور میری ہے ۔۔۔تو جان لے سکتا ہے ۔۔۔۔ماہ نور کو نہیں۔۔۔۔خدا نے اسے مجھے دیا ہے۔۔۔۔ اور اب وہ میری ہے۔۔۔۔ تو۔۔۔۔۔ تو کیا۔۔۔۔۔ ہزار تجھ جیسے آجاٸیں اور دھوکے سے مجھے مارنے کی کوشش کرلیں۔۔۔۔۔ تب بھی میں یہی کہوں گا ۔۔۔۔کہ ماہنور صرف شاہنزیب کی ہے “اس کی آنکھوں میں جنون اتر آیا تھا۔۔۔فرحان کے جملے نشتر کی طرح دل میں پیوست ہوگئے تھے ۔۔۔۔گویا سوٸے ہوٸے اسیر کا عشق بیدار ہوا تھا۔۔۔۔۔
”سور کی اولاد“شارق ۔۔۔شاہنزیب کی بات سن طیش میں آگیا۔۔۔۔۔۔ اس فرعون نما انسان نے پھر سے چہرے پر وار کیا ۔۔۔
ماہنور یہ دیکھ تڑپ اٹھی۔۔۔۔ اپنے دولہے کو پل پل موت سے لڑتا ہوا دیکھ رہی تھی وہ۔۔۔۔۔” رومیساء آپا کہاں ہیں آپ؟؟؟۔۔۔ دیکھیں کیسے اس سنسان جنگل میں میرا سہاگ مجھ سے چھینا جا رہا ہے۔۔۔۔ آپا ۔۔۔۔۔روکیں اس شارق کو۔۔۔۔ آپا ۔۔۔۔“وہ روتے روتے اب زمین پر گرنے لگی تھی پر اختر نے ہنستے ہوئے اس کی کلاٸی کو اوپر کی جانب کھینچا ۔۔۔
” سیدھی کھڑی رہ “ اختر گھور کر کہہ رہا تھا گن ہاتھ میں لٸیے۔۔۔۔
”گن دے فرحان ۔۔۔ “شارق نے فرحان سے گن مانگی تو وہ سر کھوجاتے ہوئے گن دینے لگا۔۔۔۔” طلاق دے ماہنور کو ابھی۔۔۔ خود طلاق دے“شارق اسیر کے ماتھے پر گن تان کر حکم صادر کرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔جس کے جواب میں شاہنزیب کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ بکھر آٸی۔۔۔۔۔” میں نے کہا طلاق دے ورنہ“شارق دھمکی آمیز لہجے میں گویا ہوا ۔۔۔
”چل نیکل۔۔۔۔ کچھ نہیں کر سکتا تو۔۔۔۔۔ہوا آنے دے “شاہنزیب اس کے منہ پر ہی بلا خوف بول کر اپنا چہرہ ماہ نور کی جانب کر ۔۔۔۔۔مسکرانے لگا۔۔۔۔
”اللہ“شارق نے غصے سے اس کے پیٹ پر دو تین زور زور سے مکے مارے تو وہ چیخنے لگا اور اس سے بھی زیادہ ماہنور کی چیخیں بلند ہوٸیں۔۔۔
”طلاق دے “شارق پھر مطالبہ کرنے لگا۔۔۔
” اپنی طاقت میرے ہاتھ باندھ کر دیکھا رہا ہے بزدل۔۔۔۔ میرے ہاتھ کھول۔۔۔۔پھر بتاتا ہوں تجھے۔۔۔۔ کون اس مقابلے کا مردِ میداں ہے“شاہنزیب نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہوٸے اس کے چہرے پر تھوکا ۔۔۔۔۔
”کمینے۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے یہ بھی تیری حسرت مرنے سے پہلے پوری کر دیتا ہوں ۔۔۔۔“شارق نے مغرور لہجے میں کہ کر شاہنزیب کے ہاتھ کھولنا چاہیے۔۔۔۔
”شارق پاگل ہوگیا ہے تو۔۔۔۔ اس کے ہاتھ کھولنے کی غلطی مت کر “ فرحان گھبرا کر بول اٹھا۔۔۔۔۔
” دیکھ لے ۔۔۔۔تیرا ساتھی بھی جانتا ہے کہ میں ہی فتح یاب ہوں گا “شاہنزیب اسے مزید طیش دلا رہا تھا۔۔۔۔تاکے وہ رسی کھولے۔۔۔۔
شارق نے طاقت کے جنون میں آکر سب کے بار بار منع کرنے کے باوجود شاہنزیب کے ہاتھ پاؤں کھول دیٸے۔۔۔۔۔ پھر کیا تھا وہی ہوا۔۔۔۔ جس کا فرحان کو ڈر تھا ۔۔۔اس نے مار مار کر شارق کو دنبہ بنا ڈالا۔۔۔۔۔فرحان اور باقی سب شارق کے کہنے کے مطابق پہلے تو دور کھڑے تماشہ دیکھتے رہے ۔۔۔۔پھر جب انھیں محسوس ہونے لگا کے اگر شاہنزیب کو نہ روکا گیا تو وہ باآسانی شارق کو مار ڈالے گا ۔۔۔۔
"اے ہیرو ۔۔۔ہٹ ورنہ مار دیں گے اسے۔۔۔ یہ ہمارے کسی کام کی نہیں ہے اور جس کے یہ کام کی ہے اسے تو مار رہا ہے۔۔ہٹ شارق سے دور ۔۔۔ورنہ اس لڑکی پر گولی چلا دوں گا"اختر نے ماہنور کو نشانا بنا کر شاہنزیب کو روکا تھا اور وہ صرف ماہنور کی خاطر شارق کو چھوڑ دینے پر مجبور تھا ۔۔۔۔
شاہنزیب جیسے ہی شارق پر سے ہٹا اس نے فورا بدلہ لینے کی غرض سے اسے مارنا شروع کر دیا ۔۔۔
"بیٹھ گھٹنوں کے بل فورا "شارق حاکمانہ انداز میں بولا شاہنزیب اس کے کہتے ہی بیٹھ گیا ۔۔۔۔" بول ماہنور کو دیکھ کر کہ تو نے اغوا کیا تھا مجھے۔۔۔۔ بول۔۔۔اور طلاق دے اسے۔۔۔۔سب کے سامنے ۔۔۔۔ورنہ اس بار میں گولی چلا ڈالوں گا ۔۔۔۔۔اگر اپنی جان ذرا بھی پیاری ہے تو طلاق دے ماہنور کو ۔۔۔میں وعدہ کرتا ہوں تیری جان بخش دوں گا" شارق نے گن اس کے سر پر لگا کر کہا تھا۔۔۔۔
"اگر شاہنزیب نے طلاق دے دی اور شارق نے اسے چھوڑ دیا تو؟؟؟“نیلے کپڑے والا فرحان کے کان میں آہستہ سے سوالیہ انداز میں پوچھنے لگا۔۔۔۔
” ہم شارق کے غلام تھوڑی ہیں۔۔۔۔کرنے دے اسے وعدہ۔۔۔ یہ بخش دے گا ۔۔۔۔ تو بھی شاہنزیب یہاں سے کسی صورت زندہ نہیں جائے گا۔۔۔ اگر شارق میرے بدلے کے بیچ میں آیا تو اسے بھی مار دوں گا۔۔۔۔بتا دے اختر کو “فرحان کے منصوبے نہایت فرعونیت سے بھرے تھے۔۔۔۔۔انھوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اختر کو اشارہ کردیا تھا۔۔۔۔
ماہ نور کی روح فنا ہو رہی تھی مارے وحشت کے ۔۔۔۔ایک طرف شاہنزیب کی جان تھی اور دوسری طرف نکاح جیسا مقدس رشتہ۔۔۔۔ یہ نکاح کا رشتہ ٹوٹتے ہی وہ شاہنزیب ک بیوی نہیں رہے گی ۔۔۔یہ خیال ہی موت سے لبریز تھا پر ساتھ ساتھ شارق کا اپنی زبان سے پھرنے کا ڈر بھی لاحق تھا۔۔۔۔۔ اسے خوف ملحق تھا کہ اگر شاہنزیب اپنی ضد پر اڑا رہا تو اب کی بار شارق فرعونیت کی ساری حدود پار کر ڈالے گا۔۔۔۔۔۔۔
”یہاں نہیں ”شاہنزیب نے کہہ کر اس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی گن جو شارق نے پیشانی پر لگی ہوئی تھی وہ دل پر لگا کر نیڈر ہو کر بولا۔۔۔۔”یہاں رکھ“ ماہ نور اور باقی سب حیران تھے یہ دیکھ کر۔۔۔۔
” جان کس کم بخت کو عزیز ہے ؟؟؟۔۔میں تو جیتا ہی اس کی خاطر ہوں۔۔۔۔ تو کہتا ہے میں اسے چھوڑ دوں ۔۔۔۔ تو بخش دے گا میری جان ۔۔۔۔۔ارے بےوقوف ۔۔۔۔میری زندگی تو میرے سامنے ہے۔۔۔۔۔ میری جان۔۔۔۔میری ماہنور۔۔۔۔ اسے طلاق دی تو ایک لمحہ بھی جی نہیں سکوں گا۔۔۔۔ پھر تیری بخشی ہوٸی زندگی کا کیا کروں گا؟؟؟۔۔۔۔ میں اپنی حقیقی زندگی کا انتخاب کرتا ہوں۔۔۔ تو مجھے مار دے۔۔۔۔ میں ماہنور کے عشق میں فنا ہونا قبول کرتا ہوں۔۔۔ اگر میرا عشق سچا ہے تو مجھے مار کر بھی تو میری ماہنور کو نہ پاسکے گا ۔۔۔۔جسے خدا نے خود مجھے دیا ہے۔۔۔۔ اسے اپنے نکاح میں لے کر مروں گا۔۔۔۔۔آٸی لو یو مانو بلی ۔۔۔۔بے انتھاء محبت کی ہے میں نے تم سے۔۔۔۔۔“ شاہنزیب کے صداقت و محبت سے چور الفاظ و جذبات سن ۔۔۔۔ماہ نور جی اٹھی تھی۔۔۔۔
پر اگلے ہی لمحے شارق نے اسے بری طرح مارنا شروع کر دیا۔۔۔شارق نے اپنی جان لگا کر شاہنزیب کے سینے پر لات ماری تو وہ زمین پر گرا۔۔۔۔ پہلے ہی زخموں سے چور چور تھا وہ دیوانہ۔۔۔۔ اب مزید تشدد برداشت کرنا شاید اس کے جسم کے لئے ناممکن تھا۔۔۔۔۔ شارق نے دل کھول کر اس پر اپنی بھڑاس نکالی تھی۔۔۔۔
”ابے وہ مر گیا ہے ۔۔۔۔ چھوڑ دے اسے۔۔۔ مرے ہوئے کو اور کتنا مارے گا؟؟؟۔۔۔۔“ بڑی مشکل سے فرحان اور نیلی قمیض والے نے شارق کو شاہنزیب کے اوپر سے ہٹایا تھا۔۔۔۔
”مر گیا “ وہ بوڑھے شخص جو ڈرائیور تھے۔۔۔ شاہنزیب کی نبض پکڑ کر شارق کی جانب دیکھ بولے اور کھڑے ہو گئے۔۔۔۔
ماہنور کو ایسا لگا جیسے پوری دنیا ویران ہوگٸ۔۔۔ وہ دلہن کے لباس میں تھی۔۔۔۔ اور اس کے دولہے کو نہایت بے دردی سے اسی کے سامنے مار دیا گیا تھا ۔۔۔۔وہ بدنصیب دلہن جس کی مہندی کا رنگ ابھی ہلکا نہ پڑا تھا۔۔۔پر اس کا محبوب نظروں کے سامنے بے جان پڑا تھا۔۔۔۔۔ جس کی سیج کے پھول ابھی مہک رہے تھے اور سیج کا ساتھی لہو لہان زمین کی باہوں میں پڑا تھا۔۔۔۔ یہ لمحہ زندگی کا سخت ترین لمحہ تھا۔۔۔ جسے الفاظوں میں بیان کرنا اب مشکل ہے۔۔۔ اختر نے یہ سنتے ہی اس کی کلائی کی پکڑ ڈھیلی چھوڑ دی تھی۔۔۔۔۔ماہنور ننگے پاؤں بھاگتی ہوئی اس کے لاشے سے لپٹی تھی۔۔۔۔۔
”ہٹو ماہنور“شارق نے فورا ہی ماہنور کو ہٹانا چاہا اس کے دولہے کے لاشے سے۔۔۔۔۔۔ ماہنور اب اس کے قابو میں نہیں آ رہی تھی ۔۔۔۔وہ بکھرے جا رہی تھی۔۔۔۔
” ارے چھوڑ دے ظالم ۔۔۔تھوڑی دیر تو اسے سینے سے لپٹ کر رو لینے دے۔۔۔۔ یہ حق تو نہ چھین اس بچی سے“ وہ بوڑھے شخص نہایت سخت لہجے میں بولے تو شارق پر عجیب سہ خوف طاری ہوگیا ۔۔۔اس نے خود ماہنور کا ہاتھ چھوڑ دیا۔۔۔۔۔
” تو بوڑھا ہے ورنہ میں تیری زبان کھینچ لیتا “ اگلے ہی لمحے فرحان کو اپنا مزاق اڑاتا دیکھ ۔۔۔۔شارق شعلہ بار نظروں سے اس بوڑھے شخص سے کہنے لگا۔۔۔۔
”شاہ۔۔۔۔۔شاہنزیب ۔۔۔۔شاہ۔۔۔۔شاہ“ ماہ نور اس کے لہولہان رخسار کو سینے سے لگا کر رو رہی تھی ۔۔۔۔”شاہ ۔۔۔اٹھو۔۔۔۔دیکھو میں تمہاری دلہن تمہارے پاس ہوں۔۔۔۔اٹھو ناں شاہ۔۔۔۔ پلیز اٹھو شاہ۔۔۔۔۔ ان دشمنوں کے درمیان تم مجھے تنہا کیسے چھوڑ سکتے ہو؟؟؟۔۔۔ شاہ میں نے کہا اٹھو۔۔۔۔ تم مجھے ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتے“ماہنور باربار چیخ چیخ کر اسے پکار رہی تھی ۔۔۔اس کے چیخیں سن کلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔۔۔ زمین و آسمان کو ہلا دے ایسے چیختے ہوٸے اپنے دولہے کو اٹھا رہی تھی۔۔۔۔۔ اس بوڑھے شخص اور مولوی صاحب کو بھی ترس آرہا تھا اس نٸی نویلی دولہن پر۔۔۔۔۔۔
”ہیلو۔۔۔۔۔جی ۔۔۔جی۔۔۔ آپ بتائیں ذرا کپڑے وغیرہ شکل و صورت ۔۔۔۔۔میں ابھی اپنی پوری تھانے کی پولیس کو انھیں ڈھونڈنے لگا دیتا ہوں“ پولیس والے کا فون بجا تو اس نے افتخار صاحب سے بات کی۔۔۔۔ جب افتخار صاحب نے اپنے بیٹے اور بہو کا حلیہ بیان کیا تو اس پولیس والے کے ہوش اُڑ گٸے۔۔۔۔۔وہ مڑ کر حیرت سے شاہنزیب اور ماہنور کو دیکھنے لگا۔۔۔ اس نے فون بند کیا اور فرحان کے پاس تیزی سے چلتا ہوا آیا۔۔۔۔۔” تم لوگوں نے دھوکہ دیا ہے مجھے۔۔۔۔“ پولیس انسپکٹر فرحان پر دھاڑا تھا غصے سے۔۔۔۔
”ابے دیکھ اگر پیسے زیادہ کرنے کے لئے ڈرامہ کر رہا ہے تو۔۔۔ شارق کے سامنے کر ۔۔۔اس نے میرے ارمان بھی توڑ ڈالے۔۔۔ سوچا تھا میں ماروں گا کمینے کو۔۔۔ اس نے میرا حق بھی چھین لیا “فرحان منہ بسور کہنے لگا۔۔۔۔۔
” میں پیسے کے لیے نہیں کر رہا۔۔۔۔۔ تم لوگوں نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ یہ لڑکا جس کو تم لوگوں نے مار ڈالا ہے وہ افتخار صاحب کا چھوٹا بیٹا ہے اور یہ لڑکی جو دلہن کے لبادے میں ہے ۔۔۔ملک صاحب کی بیٹی ہے۔۔۔ تم لوگوں نے دھوکہ کیا ہے میرے ساتھ۔۔۔ ان کے گھر والے جانتے بھی وہ کتنے امیر و کبیر لوگ ہیں۔۔۔۔ارے پاؤں سے الٹا لٹکا ڈالیں گے مجھے بھی اور تم لوگوں کو بھی ۔۔۔“پولیس اسپیکٹر خوفزدہ ہو کر بولا تو اختر اس کی بات سن ہنسنے لگا۔۔۔۔
”ابے تجھے پولیس والا کس نے بنایا ؟؟؟۔۔۔۔۔سالے تیری تو ابھی سے پھٹ رہی ہے۔۔۔۔“نیلے کپڑے والا اس کے کندھے پر ہاتھ مار کر قہقہہ لگانے لگا۔۔۔۔۔
”شاہ اٹھو ناں۔۔۔۔۔ تم کہتے تھے ناں میں تمہاری جان ہوں۔۔۔۔پھر جان کے ہوتے تم کیسے مر سکتے ہو؟؟؟۔۔۔ خدا کے لیے شاہ ہوش میں آٶ۔۔۔۔۔ تم نے کہا تھا ناں *مرض عشق کی دعا تم ہو*۔۔۔۔۔۔ تو دوا کے ہوتے یہ مریض کیسے دنیا چھوڑ سکتا ہے ؟؟؟؟۔۔۔۔شاہ تمہیں پتا ہے جب بھی میں یہ خواب دیکھا کرتی تھی تو اٹھ کر سیدھے بھاگتی ہوٸی تمہارے کمرے میں آتی۔۔۔۔ تمہاری تصویر دیکھ کر خوب رو رو کر دعاٸیں مانگتی ۔۔۔۔۔میری دعائیں ان ظالموں سے نہیں ہار سکتیں۔۔۔۔۔ میں نے تمہارے لئے بھت دعاٸیں کی ہیں ۔۔۔۔تمہیں اٹھنا ہوگا یہ مزار دیکھ رہے ہو شاہ “ وہ اپنی انگلی مزار کی جانب کرتے ہوٸے بولی۔۔۔۔ ”میں نے یہیں تمہیں مانگا تھا خدا سے۔۔۔۔ آج اسی مزار کے آگے تم مجھے چھوڑ کر جا رہے ہو۔۔۔ نہیں شاہ نہیں ۔۔۔۔۔ اٹھو۔۔۔۔۔۔پلیز اٹھو“ ماہنور تڑپ تڑپ کر ہچکیوں سے روتے ہوئے اسے جھنجھوڑ رہی تھی۔۔۔۔ پھر اس کے سینے پر اپنا خوبصورت چہرہ رکھ کر رونے لگی۔۔۔۔۔۔
” بس بہت ہوگیا اور کتنا رو گی اس کے لیے“ شارق نے ماہنور کی کلائی گرفت میں لے کر اسے گھسیٹا تھا ۔۔۔۔”شروع کریں مولوی صاحب“ شارق مولوی صاحب سے نکاح شروع کرنے کا کہہ رہا تھا جبکے ماہنور اپنی کلائی چھڑوانے کی مسلسل کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔ مولوی صاحب نہایت ڈرے ہوئے تھے۔۔۔۔ ان کو بھی ڈرا دھمکا کے لایا گیا تھا۔۔۔۔۔۔
”آپ کو قبول ہے ؟؟؟۔۔۔۔“انہوں نے ماہ نور سے پوچھا تو جواب میں ماہ نور نے اپنے الٹے ہاتھ سے شارق کے منہ پر زوردار تھپڑ رسید کیا۔۔۔۔۔
ماہ نور کے تھپڑ نے شارق کو جلال دلا دیا تھا۔۔ وہ غصے سے تلملا اٹھا اور فورا ہی ماہ نور کے حسین چہرے پر اپنی پوری طاقت سے تھپڑ جڑ دیا۔۔۔۔۔۔ وہ نازک صفت گڑیا زمین پر گر گئی ۔۔۔اس کے ہونٹوں سے خون نکل آیا تھا۔۔۔۔ زندگی میں کسی نے پہلی بار تھپڑ مارا تھا پر وہ بالکل بھی خوفزدہ نہ ہوئی۔۔۔۔۔۔ جس کے سامنے بے گناہوں کو مارا گیا ہو ۔۔۔۔جس کے سامنے اسی کے دولہے کو نہایت بے رحمی سے قتل کر دیا گیا ہو ۔۔۔۔اس کے دل میں خوف کا ہونا محال تھا۔۔۔۔۔ وہ بے خوف کھڑی ہوئی اور نکاح کا کاغذ شارق کے سامنے پھاڑ ڈالے ۔۔۔۔۔"بےوقوف انسان۔۔۔۔نکاح پر نکاح نہیں ہوا کرتا"۔۔۔۔۔ وہ شارق کی آنکھوں میں جھانک کر جلال سے بولی۔۔۔
” پہلی بات اس نے تم سے نکاح دھوکے سے کیا تھا میرے نزدیک اس نکاح کی کوئی اہمیت نہیں اور اب تو ویسے بھی وہ کمینا مر چکا ہے۔۔۔۔۔“ شارق نہایت کڑوے لہجے میں غصے سے بولا ۔۔۔ ماہ نور جواب دیتی اس سے پہلے پولیس اسپیکٹر بیچ میں آ کر کہنے لگا
” مجھے تم لوگوں کا ساتھ نہیں دینا سجھے اور میری مانو تو لڑکا تو مار ہی چکے ہو۔۔۔ لڑکی کو بھی مار دو ۔۔۔ورنہ سب پھنس جائیں گے۔۔۔۔ چلو مولوی صاحب کوئی نکاح نہیں ہوگا یہاں “ پولیس والے نے اپنی رائے دی اور مولوی صاحب کو جیب میں بیٹھا کر لے جانے لگا۔۔۔۔۔
”رک۔۔۔۔ ورنہ گولی چلا دوں گا ۔۔۔جب تک میرا نکاح نہیں ہو جاتا یہ یہاں سے نہیں جاسکتے“ شارق نے گن اختر سے چھین کر پولیس اسپیکٹر پر تانی تو وہ ہس دیا ۔۔۔
”ابے مجھے یہ نہ دیکھا ۔۔۔۔میرے لیے تو یہ کھلونا ہے ۔۔۔سمجھا ۔۔۔۔لڑکی تجھ سے نکاح نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔۔اس لٸیے مولوی صاحب کا یہاں کوئی کام نہیں اور ہاں۔۔۔۔ میری مان تو مار ڈال اسے بھی اور دفنا دے اسی کے شوہر کے ساتھ۔۔۔۔کیونکے اس کے گھر والے آ رہے ہیں ۔۔۔۔ان کی پہنچ بہت اوپر تک ہے وہ بآسانی ہم تک پہنچ سکتے ہیں۔۔۔۔۔ اگر یہ لڑکی زندہ رہی تو یہ ہمارے لیے اچھا نہیں۔۔۔۔۔ سارے واقعے کی چشما دید گواہ ہے یہ “ پولیس انسپکٹر نے سفاکیت بھرے انداز میں کہا ۔۔۔۔۔۔۔وہ بھی بے رحمی کی آخری حدود کو چھو رہا تھا۔۔۔۔۔۔
” تجھ سے کسی نے راۓ نہیں مانگی سمجھا۔۔۔۔ مولوی صاحب کہیں نہیں جائیں گے“ شارق اور پولیس والے میں جھڑک ہو گئی تھی مولوی صاحب کو لے کر ۔۔۔۔
ماہنور زمین پر سکتے کی کیفیت میں بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔ اس کے بال گردآلود تھے۔۔۔۔۔۔ چہرہ صدمے کے مارے سفید۔۔۔۔آنکھیں سرخ انگاروں جیسی۔۔۔۔ وہ زمین کو تک رہی تھی بیٹھ کر۔۔۔۔۔۔ ظالموں نے بڑا ظلم ڈھایا تھا اس نازک لڑکی پر۔۔۔۔
” فرحان ۔۔۔ہم تیرے ایک کہنے پر یہاں تک چلے آٸے اور بدلے میں کچھ نہ مانگا۔۔۔ پر یار اب تو ۔۔۔تو نے بدلہ لے لیا ہے ۔۔۔ خود سے ہی کچھ دے دے۔۔۔ اپنی جیت کی خوشی میں“ نیلے کپڑے والا فرحان سے مفاہمانہ انداز میں کہنے لگا ۔۔۔۔
” ہاں ضرور۔۔۔ بول میرے بھائی کو کیا چاہیے؟؟؟ ۔۔۔اپنی جیت کی خوشی میں ضرور دوں گا“ فرحان مسرت سے چور لہجے میں بولا۔۔۔۔
”یہ لڑکی ۔۔۔۔۔یہ دے دے مجھے “ اس کے کہتے ہی فرحان حیرت سے اسے تکنے لگا۔۔۔۔” ایسی کوئی انہونی بات تو نہیں کی میں نے ۔۔۔“اس نے فرحان کو استعجاب نظروں سے خود کو تکتے ہوئے دیکھا تو اپنی بات پر زور ڈالتے ہوٸے ۔۔۔۔۔منہ بسور کر بولا۔۔۔۔۔
” میں اسے مارنے کی سوچ رہا ہوں اور تو لینے کی۔۔۔۔۔ سنا نہیں تو نے پولیس والا کیا کہ رہا ہے ۔۔۔سب پھنس جائیں گے اگر یہ زندہ بچی“فرحان اسے سمجھانے لگا۔۔۔۔
” ابے تو مارنے کو منع تھوڑی کر رہا ہوں۔۔۔۔ بس مارنے سے پہلے مجھے دے دے۔۔۔۔۔ بہت اچھی لگ رہی ہے مجھے یہ لڑکی“ اس نے ماہنور کے وجود کو حوس بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تو فرحان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔۔
"ارے یار ۔۔۔مچ مچ ختم کرٶ۔۔۔۔۔۔۔کان دوکھ گٸے ہیں میرے “ یہ کہ کر اختر نے جھنجھلاکر مولوی صاحب کے سینے پر گولی چلا دی۔۔۔۔
”یہ کیا ۔۔۔کیا تو نے؟؟؟“پولیس اسپیکٹر نے غصے سے بھپر کر اختر سے کہا۔۔۔۔
”تم دونوں کی لڑاٸی ختم کردی۔۔۔۔تو جارہا تھا ناں۔۔۔اب جا “اختر نے لاپواہی سے کہا تو شارق اور پولیس اسپیکڑ مولوی صاحب کو زمین پر گرا تڑپتا ہوا حیرت سے دیکھنے لگے۔۔۔۔
ماہنور کو ان کے مرنے کا ذرا بھی غم نہ ہوا۔۔۔۔کیونکے جب شاہنزیب کو مارا جارہا تھا تو یہ خاموش کھڑے تھے۔۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں مولوی صاحب کی روح پرواز کر گٸی۔۔۔۔
”اوو۔۔۔غصہ قابو میں رکھ ۔۔۔۔سمجھا ۔۔۔ہاتھ اٹھانے کی دوبارا کوشش کی تو یہ ہاتھ ہی نہیں چھوڑوں گا “شارق نے طیش میں آکر اختر کو مارنے کے لٸے ہاتھ اٹھایا تو اختر نے ہاتھ پکڑکر اکڑ کر بولا۔۔۔۔
”میں چلتا ہوں ۔۔۔تم لوگ تو پاگل ہوچکے ہو۔۔۔۔بیچارے مولوی صاحب کو بھی مار ڈالا۔۔۔“پولیس اسپیکڑ نے زمین پر بیٹھ کر مولوی صاحب کی کھلی ہوٸی آنکھیں بند کٸیں اور دانت پیستے ہوٸے ان ظالموں کو برا بھلا کہ کر چلا گیا۔۔۔۔۔
”اچھا ۔۔۔اب میں بھی چلتا ہوں۔۔۔۔تم لوگوں کا دل کرۓ تو اسے دفنا دینا ورنہ ایسے ہی چھوڑ دو“شاہنزیب کو دیکھ کر شارق نے بےحسی سے کہ کر ماہنور کی جانب اپنے قدم بڑھاٸے ۔۔۔۔تاکے اسے اپنے ساتھ لے کر جاٸے۔۔۔۔
”اووو۔۔۔۔کہاں؟؟؟“ ۔۔۔۔۔نیلے کپڑے والے نے شارق اور ماہنور کے بیچ آکر ابرٶ اچکاکر پوچھا۔۔۔۔
”کیا مطلب۔۔۔۔۔میں پابند نہیں ہوں تم لوگوں کو کچھ بھی بتانے کا ۔۔۔میں ماہنور کو لے جارہا ہوں ۔۔۔ویسے بھی معاہدہ یہی طے پایا تھا ۔۔۔لڑکی میری ۔۔۔لڑکا تمھارا۔۔۔“شارق نے رعب دار آواز میں کہا۔۔۔
”چل پھٹ یہاں سے۔۔۔۔لڑکی کہیں نہیں جارہی۔۔۔۔اس پر ہمارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا تیرا ہے ۔۔۔سمجھا۔۔۔تو اکیلے سارے مزے لے ۔۔۔ہرگز نہیں“نیلے کپڑے والے کی بات جب ماہنور کی سماعت سے ٹکراٸی تو مانو اس پر بجلی گرٸی ہو۔۔۔۔وہ ذلیل لوگ اب اس کی عزت پر حملا کرنے کی تیاری کررہے تھے یہ دیکھ وہ مزید پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔
”فرحان سمجھالے اسے ۔۔۔۔کیا بکواس کررہا ہے یہ “شارق شعلہ بار نظروں سے غرا کر فرحان سے کہنے لگا۔۔۔۔اختر اس دوران آرام سے کھڑے ہوکر گن میں گولیاں بھرنے لگا۔۔۔۔
”صحیح تو کہ رہا ہے۔۔۔۔لڑکا جب دونوں نے مل کر مارا ہے تو لڑکی پر بھی دونوں کا حق ہے ۔۔۔۔اور میں نے سوچ لیا ہے کے لڑکی یہاں سے زندہ نہیں جاۓ گی۔۔۔۔اس کا یہاں سے زندہ جانا ہم سب کو پھانسی پر لٹکا سکتا ہے ۔۔۔۔اس لٸے یہ کہیں نہیں جاۓ گی ۔۔۔۔“فرحان کی بات سن شارق کے ھوش اڑۓ تھے۔۔۔۔
”فرحان تو اپنے وعدے سے مکر رہا ہے“شارق غصے سے دھاڑتے ہوۓ بولا۔۔۔
”ابے چل ۔۔۔۔کون سہ وعدہ؟؟؟۔۔۔۔میں اکیلا تھوڑی تھا جو اسے مارنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔تو اور تیرا بھاٸی برابر کے شریک ہیں اس میں ۔۔۔۔بلکے تیرا بھاٸی تو بدلے کی آگ میں اتنا پاگل ہوگیا کے اس نے شاہنزیب کو مارنے میں ہم سب پر سبقت لے جانے کی کوشش کی ۔۔۔وہ تو شاہنزیب نے زہریلا پان نہیں کھایا۔۔۔“جب فرحان نے شارق کے روبرو آکر یہ بات کہی تو ماہنور پر انکشاف ہوا اس زہریلے پان کے متعلق۔۔۔۔فرحان کی باتوں نے ماہنور کے سر پر ایٹم بم پھوڑا تھا۔۔۔۔ماہنور کو شاہنزیب کا پان نہ کھانے دینا یاد آیا تھا۔۔۔۔
”دیکھ فرحان مجھ سے دھوکے بازی مت کر۔۔۔۔تو جانتا نہیں ہے میں کون ہوں ”۔۔۔۔شارق بڑے فخرانہ اندز میں کہ کر اسے ڈرانے لگا۔۔۔۔اپنے وجود اور پیچھے کے بیگ گروانڈ سے ۔۔۔۔
”دیکھ یار ۔۔۔۔۔۔تو بھی نہیں جانتا کے میں کتنی کمینی چیز ہوں۔۔۔۔۔“فرحان اپنا کالر اچکاتے ہوۓ اترا کر بولا۔۔۔۔”لڑکی تو یہاں سے زندہ نہیں جاۓ گی۔۔۔۔یہ آخری فیصلہ ہے ہم تینوں کا۔۔۔۔اب رہی بات تیری اور اس کی “ فرحان نیلے کپڑے میں ملبوس اپنے ساتھی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر گمبھیر لہجے میں سوچتے ہوۓ کہنے لگا۔۔۔”تو محبت کا دعویدار ہے ناں۔۔۔تو پہلے جا۔۔۔۔دل کھول کر مزے لے۔۔۔۔پھر میرا دوست لے لے گا۔۔۔۔بھٸی ٹھیک ہے ناں“۔۔۔۔۔۔۔شارق اس کی بات سن کر اپے سے باہر ہوگیا اور فرحان پر کود پڑا۔۔۔۔۔اختر جو ماہنور کے سر پر گن تانے کھڑا تھا۔۔۔شارق کو ہٹانے کی غرض سے بھاگا ۔۔۔تو ماہنور تیزی سے شاہنزیب کی جانب لپکی۔۔۔۔۔
”تیری مجال کیسے ہوٸی میری ماہنور کو گندی نگاہ سے دیکھنے کی“شارق نے یہ کہ کر تین چار مکے اس کے پیٹ پر لگاۓ تھے۔۔۔۔فرحان کے دونوں ساتھیوں نے بامشکل شارق کو ہٹاکر سیدھا کھڑا کردیا تھا ۔۔۔۔ان دونوں نے شارق کے ہاتھ اپنی گرفت میں لے لٸے تھے۔۔۔۔
ماہنور شاہنزیب کے سینے سے لگ کر تڑپ تڑپ کر رونے لگی۔۔۔۔فرحان کے الفاظ تھے یا ایٹم بم جس کی طاقتور بارود سے ماہنور نے اپنے وجود کے پرخنچے اڑتے ہوۓ محسوس کٸے تھے۔۔۔۔۔اس نے خود کو بامشکل سمبھالا اور شاہنزیب کی خون آلود جیب ٹاٹولی۔۔۔۔۔
”ابے اگر ہم گندی نگاہ رکھ رہے ہیں تو ۔۔۔۔تو کون سہ پارسہ ہے؟؟؟“یہ کہتے ہوۓ فرحان نے شارق کو گالیاں بکی تھیں۔۔۔۔”کمینے پہلے اس شاہنزیب نے مارمار کر دنبہ بنایا اور اب تو۔۔۔۔۔اب تو یہ لڑکی نہیں بچے گی ۔۔۔۔پر پہلے تجھے مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی قیمت ادا کرنی ہوگی“فرحان اپنی تذلیل کا بدلا لینے کے لٸے پاگل ہوۓ جارہا تھا۔۔۔۔۔
ماہنور کو شاہنزیب کی جیب سے پان مل گیا تھا۔۔۔۔اس نے ایک بار ان چاروں کی جانب دیکھا جو لڑرنے میں مصروف تھے۔۔۔۔پھر ان بزرگ کو جو درخت سے ٹیک لگاۓ اطمينان سے کھڑے تھے۔۔۔۔۔۔ماہنور نے پان کا ریپر کھولا اور جلدی سے کھا لیا۔۔۔۔۔۔یہ جانتے ہوۓ بھی کہ وہ پان زہریلا ہے۔۔۔۔ماہنور پورا جلدی سے نیگل گٸ۔۔۔۔۔”مجھے معاف کرنا میرے خدا۔۔۔۔۔پر میرے پاس اس کے سوا کوٸی راستہ نہ تھا۔۔۔۔۔یہ لوگ اب میری عزت کے درپے ہیں ۔۔۔۔میں بےقصور ہوں مالک۔۔۔۔میں اتنی طاقت نہیں رکھتی کے ان سے لڑ سکوں اور اپنی عزت بچا سکوں۔۔۔۔۔۔۔تو مالک ہے ۔۔۔تو قدرت رکھتا ہے۔۔۔۔تو مجھے اور میرے شاہ کو بچالے۔۔۔۔اور اگر میں آج مرجاٶں تو اسکا عذاب بھی ان ظالموں کے سر پر ڈال ۔۔۔۔مجھے معاف کردے میرے رب “ماہنور رو رو کر مزار کو دیکھتے ہوۓ خدا سے معافی مانگنے لگی۔۔۔۔وہ پارہ پارہ ہوچکی تھی۔۔۔۔
”شاہ اٹھ جاٶ۔۔۔۔دیکھو تمھاری ماہنور کتنی اکیلی ہے۔۔۔۔دیکھو شاہ۔۔۔یہ ظالم اب میری عزت لوٹ لینے کے درپے ہیں ۔۔۔شاہ ااٹھو پلیز “ماہنور روتے ہوۓ اس کے سینے سے لگی تو اسے شاہنزیب کی دھڑکنیں مدھم مدھم سی چلتی ہوٸی محسوس ہوٸیں ۔۔۔۔وہ مرا نہیں تھا کچھ جان باقی تھی اس میں ۔۔۔یہ دیکھ وہ اٹھ کر اپنے دونوں ہاتھ اس کے چہرے پر رکھ کر التجاٸیں کرنے لگی۔۔۔”شاہ اٹھو۔۔۔۔پلیز اٹھو۔۔۔۔دیکھو ان ظالموں کی وجہ سے مجھے خودکشی کرنی پڑھ رہی ہے۔۔۔۔شاہ اٹھو اور مار ڈالو انھیں ۔۔۔۔۔اٹھو شاہ۔۔۔۔۔مجھے بچالو۔۔۔۔میں مرنا نہیں چاہتی۔۔۔۔میں جینا چاہتی ہوں تمھارے ساتھ۔۔۔۔۔تمھاری نور کی ماں بن کر۔۔۔۔۔تمھاری جان بن کر۔۔۔۔اٹھو شاہ ۔۔۔کب تک مجھے ایسے تڑپاٶ گے؟؟؟۔۔۔۔۔۔اب اٹھ بھی جاٶ “وہ بلکتے ہوۓ التجاٸیں کررہی تھی ۔۔۔۔اس بوڑھے شخص کی نگاہ شاہنزیب ماہنور پر ٹکی ہوٸی تھی۔۔۔۔۔
دوسری طرف فرحان نے شارق کو خوب مارا۔۔۔۔جیسے شارق نے شاہنزیب کو بےرحمی سے مارا تھا ویسے ہی اب فرحان اسے مار رہا تھا۔۔۔۔شارق ان تینوں سے خود کو نہیں بچا پارہا تھا ماہنور کی کیا حفاظت کرتا۔۔۔۔
”رک جا۔۔۔۔مت مار اسے۔۔۔۔اسے زندہ رکھتے ہیں اسی ادمری حالت میں۔۔۔۔اب اس کی محبوبہ سے مزے اسی کی آنکھوں کے سامنے لیں گے۔۔۔۔“اختر نے فرحان کا بازو پکڑ کر اسے روکتے ہوۓ کہا۔۔۔۔
”ٹھیک کہا۔۔۔۔۔اس لڑکی کے لٸے مارا تھا ناں تو نے مجھے۔۔۔۔اب تو دیکھ بیٹا ۔۔۔۔۔میں کیا کرتا ہوں اس کے ساتھ۔۔۔۔تیری روح تڑپ اٹھے گی ایسے ماروں گا تیری محبوبہ کو“شارق خون آلود زمین پر پڑا تھا تب فرحان اس کے سینے پر اپنے جوتے سمیت پاٶں رکھ کر اپنے شیطانی عزاٸم بتانے لگا۔۔۔۔
شارق ماہنور کو بچانے کے لٸے اپنی بچی کچی جان سمیٹ کر اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔مگر اختر نے گن کا پیچھے کا حصہ زور سے شارق کے منہ پر مارا تھا۔۔۔۔
”جا لے آ اسے ۔۔۔۔اب جو ہوگا اس کمینے کی نظروں کے سامنے ہوگا“فرحان نے کہا تو نیلے کپڑے والا خوشی خوشی ماہنور کی جانب بڑھا۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں حوس ناچ رہی تھی۔۔۔۔ماہنور کی روح فنا ہوگٸی تھی فرحان کی بات سن۔۔۔۔وہ کرچی کرچی ہوکر بکھر گٸی تھی شاہنزیب پر۔۔۔۔
ماہنور نے شاہنزیب کے بےست سے پڑے جسم سے لپٹ کر رونا شروع کردیا۔۔۔۔”شاہ اٹھو ۔۔۔دیکھو یہ ظالم میری طرف آرہا ہے۔۔۔۔۔شاہ اٹھو ۔۔۔مجھے بچاٶ۔۔۔۔۔تم تو مجھ پر کسی کی نگاہ تک نہیں پڑنے دیتے تھے ۔۔۔۔پھر آج کیسے مجھے بےابرو ہوتے دیکھ سکتے ہو۔۔۔۔۔۔اٹھو شاہ۔۔۔۔یاخدا مدد کر۔۔۔۔۔“وہ چیخ چیخ کر مدد کی پکار لگانے لگی۔۔۔۔۔اس ظالم نے آتے ہی ماہنور کو بالوں سے پکڑ کر کھینچتے ہوۓ اٹھانے کی کوشش کی۔۔۔۔۔ماہنور بری طرح چیخ رہی تھی۔۔۔۔۔اس کا دیوانہ بےست سہ پڑا تھا۔۔۔۔۔ماہنور نے مضبوطی سے شاہنزیب کے ہاتھوں کو پکڑ لیا۔۔۔۔پر وہ اور زیادہ زلالت کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اسے بری طرح کھینچنے لگا۔۔۔۔۔اسی لمحے اس کی نگاہ پان کے خالی ریپر پر پڑی ۔۔۔۔”ابے سالی ۔۔۔تو نے زہریلا پان کھا لیا “اس نے کہ کرماہنور کے بال مزید قوت سے کھینچے تھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔دیوانا جن بالوں سے بال پنیں ۔۔کیچر ۔۔۔جوڑا پنیں جیسی چھوٹی چھوٹی چیزیں نیکال کر ماہنور کی مہک اس میں پاکر خوش ہوجایا کرتا تھا۔۔۔۔آج انھی زلفوں کو وہ ظالم بےدردی سے کھینچ رہا تھا۔۔۔۔
ماہنور کرب میں مبتلا تھی۔۔۔۔”چل سالی ۔۔۔ڈرامے نہ کر“یہ کہ کر اس نے ایک ہاتھ سے بازو پکڑ کر گھسیٹا تھا۔۔۔۔اس کے ہاتھ سے آہستہ آہستہ شاہنزیب کا ہاتھ چھوڑ رہا تھا۔۔۔۔۔اک آندھی ظلم و جبر کی ایسی چلی کے وہ ہاتھ چھوٹ گیا۔۔۔۔وہ فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اسے گھسیٹتا ہوا لے جانے لگا۔۔۔۔۔
”آپا مجھے بچاٸیں۔۔۔۔۔رومیسا آپا مجھے بچاٸیں “جیسے ہر بچہ مصیبت میں اپنی ماں کو پکارتا ہے ویسے ہی ماہنور رومیساء کو پکار اٹھی تھی۔۔۔۔۔”یا میرے خدا مدد کر۔۔۔۔تیرے سواء میرا کوٸی سہارا نہیں ۔۔۔۔۔اگر آج تو نے مدد نہ کی تو تیری اس بندی کی عزت پامال ہوجاۓ گی۔۔۔۔۔بچالے مجھے یااللہ ۔۔۔۔یا اللہ “ ماہنور چیختے ہوۓ خدا سے مدد مانگنے لگی۔۔۔۔
”یا میرے خدا “ رومیساء آپا باقی سب کے ساتھ حویلی کی طرف ہی آرہی تھیں ۔۔۔۔انھوں نے گاڑی میں بیٹھے ہوۓ اپنا دل پکڑا تھا۔۔۔۔
”کیا ہوا آپا ؟؟؟“رومیساء آپا نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا تو اسماء استفسار کرنے لگی ۔۔۔۔
”مجھے ایسا لگا جیسے ماہنور مجھے پکار رہی ہو۔۔۔۔راحیل پلیز گاڑی تیز چلاٶ۔۔۔۔۔میری ماہنور ضرور کسی مصیبت میں ہے۔۔۔۔۔یا میرے خدا ۔۔۔۔حفاظت کر میری بچی کی۔۔۔۔“آپا کی بات سن اسماء ۔۔۔۔راحیل ۔۔۔۔۔ثانیہ ۔۔۔۔۔سب دعاگو ہونے لگے۔۔۔۔کے خدا کرے سب ٹھیک ہو۔۔۔۔۔۔۔جبکے رومیساء آپا کے شوہر صرف سب کے سامنے فکرمند ہونے کی اداکاری کر رہے تھے۔۔۔۔۔
ہ چلبلی سی ادائیں ۔۔۔
وہ چنچل سے نینا ۔۔۔
وہ مسکراتا ہوا چہرہ۔۔۔۔
وہ حسین سراپا۔۔۔۔
وہ اس کا پازیب پہن کر گول گول جھومنا۔۔۔۔
وہ دل میں اتر گیا تھا میرے ۔۔۔۔۔
وہ حسین لڑکی پر ذرا چالاک بھی ۔۔۔جو میرے لئے پانی سے بھری بالٹی تیار رکھے ہوئے تھی کہ میں اسے جگانے آؤں اور وہ مجھے پورے بھیگو دے۔۔۔۔
وہ لڑکی جو پورے گھر کی جان و رونق تھی ۔۔۔۔۔
جسے دیکھ میں ہر لمحہ جیتا تھا ۔۔۔۔”ماہنور منہ اٹھاکر مت چلی آیا کرو کمرے میں۔۔۔۔۔“ میرا اسے ٹوکنا۔۔۔اور اس کا ہر بار کی طرح مکمل اگنور کرنا۔۔۔۔۔
وہ اس کا میرے کندھے پر سر رکھ کر رونا۔۔۔۔۔
میرا گھور کر دیکھنا اور اس کا سہم جانا ۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی اس کا برہمی سے دیکھنا اور میرا ڈرنے کی اداکاری کرنا ۔۔۔۔۔۔
کبھی بلاوجہ مجھے تنگ کرنا۔۔۔۔
اس کا وہ چڑیل بن کر میرے کمرے میں آنا ۔۔۔میرا اسے کھینچ کر اپنے حصار میں جگڑ لینا ۔۔۔۔۔۔
میرا غصہ کرنا اور اس کا رو دینا اس کے رونے کے سبب میرے غصہ کا چھومنتر ہو جانا۔۔۔۔
اس کی چیزیں چورانا اور ان میں اس کی مہک تلاش کرنا ۔۔۔۔۔
اس کا مسکرا کر خود کو اتراتے ہوئے دیکھانا۔۔۔۔۔
اس کا بارش میں جھوم کر کہنا ”تم تو بوڑھی روح ہو شاہ“ پھر ہاتھ کھینچ کر زبردستی بارش میں اپنے ساتھ بھیگانا۔۔۔۔
جھوٹی قسم کھانے پر خوفزدہ ہو جانا اور میرا اسے پیار سے سمجھانا ۔۔۔۔
میرے کندھے پر سر رکھ کر بیٹھنا ۔۔۔۔۔۔میری باہوں کے حصار میں جھیپ جانا ۔۔۔
” میں تم سے لڑتی ہوں جھوٹے مکار آدمی“ اس کا کہہ کر مجھ پر پلو سے وار کرنا اور میرا اس سے بچ کر واشروم میں چھپ جانا ۔۔۔۔۔
میرا اسے بلی کہنا اور اس کا گھور کر مجھے دیکھنا ۔۔۔۔۔۔
”شاہ بہت بہت مبارک ہو" اس کا میرے اور سعدیہ کے نکاح کی خبر پر خود آگے بڑھ کر مجھے مبارکباد دینا۔۔۔۔
میرا اسے کیک کھلانا اور اس کا سب کے سامنے بے تحاشہ رونا ۔۔۔پھر سب کا مجھے اسی کے سامنے قوال بنا کر بیٹھا دینا ۔۔۔۔
اس کا وہ زہر پینے کی کوشش کرنا اور میرا اسے بچانا ”وہ راحیل کا بچہ کمینہ۔۔۔۔ گھٹیا۔۔۔۔ کتے کی اولاد آخر وقت میں پلٹ گیا اور اس سے بھی زیادہ گھٹیا ہو تم۔۔۔ جو مجھے مرنے تک نہیں دے رہے “اس کا منہ بسور کہنا اور میرا بے فکر ہو کر ایک دو گالیوں کی اور ڈیمانڈ کرنا۔۔۔۔۔
اس کا مجھے محبت بھری نظروں سے شکریہ ادا کرنا اور میرا اترانا۔۔۔۔
” شاہ میں مر جاؤں گی “۔۔۔اس کا شرماتے ہوئے کہنا اور میرا مسکرانا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر گزارا ہوا لمحہ اس کی چیخوں کی طرح میرے کان میں گونج رہا ہے۔۔۔۔
” تجھے کیا لگا تو زہر کھلے گی تو چھوڑ دیں گے تجھے ؟؟؟؟“اختر نے ماہنور کے چہرے پر زور سے تھپڑ مارتے ہوئے قہقہہ لگایا۔۔۔۔۔
” یا میرے خدا مدد کرمیری۔۔۔۔۔۔ شاہ شاہ شاہ “ماہنور چیخ چیخ کر اسے پکار رہی تھی ۔۔۔۔ماہنور نے تھپڑ کھانے کے باوجود شاہنزیب کو مدد کی پکار لگانا نہ چھوڑا ۔۔۔۔
”ابے سالی۔۔۔۔۔۔مردے بھی مدد کیا کرتے ہیں کبھی؟؟“ فرحان نے اسے زمین پر دھکا دیتے ہوئے طنزیہ کہا تھا ۔۔۔۔۔
ماہنور زمین بوس ہوٸی۔۔۔۔”شاہ اٹھو ۔۔۔ورنہ آج تمھاری ماہنور بےابرو ہوجاۓ گی“وہ اپنے وجود میں ساری طاقت سمیٹتے ہوئے چیخی۔۔۔۔۔”میرے قریب مت آنا۔۔۔۔“وہ نیلے کپڑے والا مسکراتے ہوۓ ماہنور کے قدموں میں بیٹھا تھا۔۔۔۔جس پر مارے وحشت کے اپنے پاؤں کو تیزی سے سمیٹتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔اس کا کلیجہ دھک سے رہ گیا جب وہ ہستے ہوۓ آہستہ آہستہ قریب آنے لگا۔۔۔۔وہ کونیوں کے بل گھیسٹتے ہوۓ اپنے وجود کو اس سے دور جانے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔۔ اختر اور فرحان جلادوں کی طرح صرف قہقہے لگا رہے تھے ماہنور کی یہ حالت دیکھ ۔۔۔
”کیوں مزہ آ رہا ہے؟؟؟“ فرحان شارق کی کمر کی سائیڈ پر لات مارتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
شارق کا دل تڑپ اٹھا تھا ماہنور کی چیخیں سن۔۔۔۔ پر وہ کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا۔۔۔۔
”جب سے تجھے دیکھا ہے دیوانا ہوگیا ہوں۔۔۔اپنے دیوانے کو اتنا نہ تڑپا ۔۔۔۔چل آجا “وہ فرعون کی طرح ہستے ہوۓ ماہنور کے مزید قریب آتے ہوۓ کہنے لگا۔۔۔۔ ماہ نور اس کی آنکھوں میں ناچتی ہوئی ہوس کو دیکھ ۔۔۔پھر سے ایک بار چیخ کر اسے پکارنے لگی۔۔۔۔ اس بار اس کی چیخ زمین و آسمان کو ہلا دینے کے لئے کافی تھی ۔۔۔پھر شاہنزیب تو اس کا دیوانہ تھا۔۔۔۔۔ اس کی اس چیخ پر شاہنزیب کی آنکھیں ایک دم سے کھلیں۔۔۔۔۔ وہ بوڑھے شخص جو یہ سارا تماشہ درخت سے ٹیک لگائے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔شاہنزیب کو اٹھتا ہوا دیکھ۔۔۔۔۔ ان کے لبوں پر ایک گہری مسکان بکھر آٸی۔۔۔
وہ ماہنور کے دونوں ہاتھوں کو اپنی مجنونانہ گرفت میں دبوچ کر اس کے قریب آنے لگا مگر ماہنور نے اپنی ساری قوت سے اسے خود سے دور دھکیل دیا ۔۔۔۔۔وہ جا کر زمین پر گرا
”سالی ۔۔۔۔تیری تو “ وہ غصے سے دانت پیستے ہوئے اور زیادہ حیوانیت لئے ماہنور پر لپکا۔۔۔۔۔
ماہنور کا گلا خشک ہو گیا تھا چیخ چیخ کر۔۔۔۔وہ پوری کوشش کر رہی تھی خود کو بچانے کی۔۔۔۔ پر اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا جسم اب ساتھ چھوڑ رہا ہے۔۔۔۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا تھا۔۔۔۔۔ اس کے جسم میں زہر پھیل چکا تھا
”اوۓ جلدی کر۔۔۔۔۔۔ہماری بھی باری آنی ہے “فرحان نے بےتابی سے کہا۔۔۔۔۔ دونوں تماشہ دیکھنے میں اتنے مگن تھے کے شاہنزیب کے ان کی جانب چلتے ہوئے آنے کی انہیں خبر ہی نہ ہو سکی مگر شارق نے دیکھ لیا تھا ۔۔۔۔۔شاہنزیب نے آتے ہی اس نیلے کپڑے والے کو زوردار لات مار کر ماہنور سے دور ہٹایا ۔۔۔۔۔ اختر اور فرحان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے تھے ۔۔۔۔۔اختر نے مارے خوف کے گن شاہنزیب پر تانی ۔۔۔۔ تو شاہنزیب نے گن کو ہی پکڑ لیا اور اس کے پیٹ کی جانب موڑ دی۔۔۔۔ اختر نے بہت طاقت لگائی کہ وہ ہٹا سکے پر شاہنزیب کی قوت میں ایسا لگ رہا تھا سو لوگوں کی طاقت ایک ساتھ آگئی ہو۔۔۔۔۔۔ شاہنزیب نے اس بار گن چلا دی۔۔۔۔ وہ اسی طرح تڑپ کر گرا تھا جیسے مولوی صاحب زمین پر گرے تھے۔۔۔۔۔ شاہنزیب نے گن پکڑ لی تھی اور ایک دو گولیاں مزید اس پر چلا ڈالیں۔۔۔۔۔
فرحان وحشت کے ماروں پاؤں میں گر گیا ”مجھے معاف کردو شاہنزیب“ وہ پھر سے مگرمچھ کے آنسو بہانے لگا تھا پر اس بار اس نے کوئی ترس نہ کھایا اور گولی اسی طرح بے رحمی سے مار دی جس طرح بےدردی و بے رحمی سے فرحان نے ان حویلی کے نوکروں کو ماری تھی۔۔۔۔ وہ نیلے کپڑے والا یہ دیکھ بھاگنے کے لیے کھڑا ہوا تھا پر شاہنزیب نے اس کا گلا پکڑ لیا اس کا سانس گھٹ رہا تھا ۔۔۔اس کے پاؤں زمین سے اٹھ گئے تھے وہ بہت کوشش کر رہا تھا خود کو بچانے کی پر شاہنزیب کی گرفت بے انتہا مضبوط تھی ۔۔۔۔آخر کار وہ مر گیا تھا۔۔۔۔شاہنزیب نے اسے زمین پر پھینک دیا۔۔۔۔۔
اندھیرے چھٹ گئے تھے ۔۔۔سورج اپنی کرنیں بکھرنے لگا تھا۔۔۔۔۔فجر کی اذان کی آواز اس کی کانوں کی سماعت سے ٹکرا رہی تھی ۔۔۔۔۔
”یا میرے خدا “سب گھر والے جب حویلی پہنچے تو ان کے اوسان خطا ہوگئے ۔۔۔حویلی کے دروازہ ٹوٹا ہوا تھا ۔۔۔۔کامران کی نظر کالی کار اور اس کے پیچھے کھڑی جیپ پر پڑی تھی جس میں ایک بوڑھا آدمی سو رہا تھا۔۔۔۔۔کامران نے اندازہ لگایا شاید وہ وڑھا آدمی پہرے داری کر رہا ہے۔۔۔
وہ لوگ اندر داخل ہوئے تو ساری عورتوں کی چیخیں بلند ہوٸیں۔۔۔۔ وہاں دو ملازم مرے پڑے تھے ۔۔۔۔۔علی بھیا نے فورا ان دونوں کی سانس چیک کی ۔۔۔۔۔۔ایک تو مر چکا تھا پر دوسرے کی سانس چل رہی تھی۔۔۔۔” کامران یہ زندہ ہے“ وہ بے ساختہ چیخ رہے تھے۔۔۔۔۔۔
پولیس والا فورا آ گیا تھا ۔۔۔۔”میں آگیا ہوں ۔۔۔معاف کیجیے گا آنے میں دیر ہوئی ۔۔۔۔میں شاہنزیب ماہنور کو ڈھونڈ رہا تھا وہ دونوں مل گٸے ہیں “
”کہاں ہیں وہ دونوں ؟؟؟“افتخار صاحب بے قرار ہو کر پوچھنے لگے۔۔۔
” آپ میرے ساتھ چلیں“ پولیس اسپیکٹر کہتا ہوا آگے بڑھا
”راحیل تم عورتوں کے ساتھ یہیں رکو“ ۔۔۔۔علی بھائی اس نازک وقت میں بھی ہوش سے کام لے رہے تھے۔۔۔۔۔۔” کامران اسے ہسپتال لے جاٶ ۔۔۔۔جلدی“ انھوں نے اس ملازم کی نازک صورتحال دیکھتے ہوئے ۔۔۔ کامران سے کہا۔۔۔۔۔
”پر بھائی میں آپ لوگوں کے ساتھ آنا چاہتا ہوں“
” نہیں۔۔۔۔ پہلے تم اسے اسپتال لے کر جاؤ ہو سکتا ہے کہ یہ بچ جاۓ“ انہوں نے کامران کو بڑے پیار سے سمجھایا ۔۔۔۔
پولیس والے کو گمان تھا کہ شاہنزیب مر چکا تھا اور فرحان اور اس کے ساتھی اس قدر پاگل تھے کہ بیچارے مولوی صاحب کو بھی مار ڈالا تھا۔۔۔۔ تو اب تک تو انھوں نے یقیناً ماہنور کو مار دیا ہو گا اور ان دونوں کو دفنا کر بھاگ گئے ہوں گے۔۔۔۔
”شاہ“ افتخار صاحب شاہنزیب کی جانب بھاگے ۔۔۔۔ولید اور شہزاد ماہ نور کی جانب ۔۔۔پولیس والا یہ دیکھ خوش ہو رہا تھا کہ شاہنزیب اسی جگہ اور اسی حالت میں پڑا تھا جس حالت میں وہ چھوڑ کر گیا تھا لیکن یہ دیکھ وہ بھی حیران ہوا کہ باقی سب بھی مرے پڑے تھے۔۔۔۔۔
”شارق “ رومیساء آپا کے شوہر اپنے بھائی کی جانب لپکے۔۔۔۔
*****------******
” آپ نے کیوں نہیں بچایا ؟؟؟“۔۔۔شاہنزیب نے اس بوڑھے شخص سے جو آرام سے درخت سے ٹیک لگائے کھڑے تھے غصے سے پوچھا تھا۔۔۔ ان تینوں کو مارنے کے بعد۔۔۔۔
”بچایا تو ہے “ وہ ٹیک ہٹاکر نرمی سے گویا ہوۓ۔۔۔۔
” نہیں آپ نے نہیں بچایا ۔۔۔۔آپ بچا سکتے تھے ماہنور کو ان لوگوں سے ۔۔۔۔آپ نے کچھ نہیں کیا بس آرام سے کھڑے سنتے رہے اس کی چیخیں “شاہنزیب نہایت جلال سے بول رہا تھا۔۔۔۔۔
” اگر اسے بچا لیتا تو تمہیں کیسے بچا پاتا ۔۔۔“ ان کے لبوں پر ایک پراسرار مسکراہٹ تھی یہ کہتے ہوئے۔۔۔۔
” میرا بچنا ضروری نہیں تھا“ وہ اک اک حرف چبا چبا کر ادا کر رہا تھا۔۔۔۔۔
” ضروری تھا ۔۔۔۔۔۔۔“وہ کافی جتاتے ہوۓ گویا ہوۓ۔۔۔۔”اگر تمہیں کچھ ہوجاتا تو اس لڑکی کی دعائیں ہار جاتیں۔۔۔ جو یہ تمہارے لیے رو رو کر مانگا کرتی تھی“ یہ کہہ کر وہ مزار کی جانب بڑھنے لگے۔۔۔۔۔
” اگر ایسا ہے تو پہلے کیوں نہ بچایا ؟؟؟۔۔۔۔اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد کیوں؟؟؟“شاہنزیب الجھ کر پوچھنے لگا۔۔۔۔
” امتحان تھا ہر عاشق کا ہوتا ہے ۔۔۔۔تمہارا بھی ہوا۔۔۔۔ غلطی تمہاری تھی۔۔۔۔ تم نے ضد کی تھی کہ وہ ملے۔۔۔۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ حق میں بہتر ہو تو ملے ۔۔۔۔جب تم اسے مانگتے تھے دعاؤں میں۔۔۔۔۔ تو اس کا انجام لڑکی کو خوابوں میں دیکھا دیا جاتا تھا تاکے تم ہوش کرو اور نہ مانگو “انہوں نے پلٹ کر روعب دار آواز میں جواب دیا۔۔۔۔۔
آج شاہنزیب کو سمجھ آیا تھا کے ماہنور کو پہلے سے ہی یہ منظر اپنے خووابوں میں کیوں نظر آتا تھا۔۔۔۔۔لیکن اس کی سچی انس تھی وہ کیسے پیچھے ہٹ سکتا تھا۔۔۔۔۔
” میں نے ہمیشہ سنا تھا کہ دعا تقدیر کا لکھا بدل دیتی ہے اس لیے کبھی مانگنا نہ چھوڑا“۔۔۔۔شہنزیب نے جواباً کہا۔۔۔
” ہاں میٹانا اور بدلنا ممکن ہے تبھی تو اس حالت میں بھی تم زندہ کھڑے ہو“ یہ کہہ کر وہ شاہنزیب کے پاس آئے تھے ”مریض کو بچانے کے لیے پہلے دواء دی جاتی ہے۔۔۔۔ تمھارے ساتھ بھی یہی کیا “انہوں نے کہا اور شاہنزیب کے سر پر ہاتھ رکھ کر پھونک دیا۔۔۔۔۔۔
” ماہ نور“۔۔۔۔ وہ چیختا ہوا اٹھا تھا۔۔۔۔۔
” شاہ ۔۔۔میرے بچے تجھے ہوش آگیا “شمسہ بیگم جو بالکل اس کے برابر بیٹھ کر تسبیح پڑھ رہی تھیں خوشی کے مارے بولیں۔۔۔۔۔شاہنزیب حیرت سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔۔۔۔۔ وہ ہسپتال کے ایک کمرے میں موجود تھا۔۔۔
” ڈاکٹر شاہ کو ہوش آگیا ہے “شمسہ بیگم ڈاکٹر کو بلا کر لاٸیں تھیں۔۔۔۔۔
”لیٹے رھیں “ڈاکڑ نے شاہنزیب کو فورا لیٹایا۔۔۔۔
”نہیں پہلے بتاٸیں ماہنور کہاں ہے؟؟؟“ وہ بے تاب ہو کر استفسار کرنے لگا۔۔۔۔
”ماہنور ٹھیک ہے بیٹا ۔۔۔۔ تم لیٹ جاؤ“شمسہ بیگم اسے لیٹنے کا کہہ رہی تھی
” نرس انجکشن دیں “ ڈاکٹر نے شاہنزیب کے فوراً ہی نیند کا انجکشن لگادیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انجیکشن لگتے ہی وہ واپس غنودگی میں چلا گیا۔۔۔
۔سب شاہنزیب کے کمرے کے باہر بیٹھے دعائیں کررہے تھے سب ہی کی جانیں سولی پر لٹکی ہوئی تھیں ۔۔۔۔”شاہنزیب کو ہوش آگیا ہے“۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نے باہر آکر بتایا۔۔۔۔یہ سنتے ہی سب نے سکھ کا سانس لیا۔۔۔۔بڑی دادو خدا کا شکر ادا کرنے لگیں روتے ہوۓ۔۔۔۔۔۔۔۔
”ہم مل سکتے ہیں اس سے ؟؟؟“شہزاد بے صبری سے پوچھنے لگا۔۔۔
” نہیں ۔۔۔۔ انہیں آرام کی سخت ضرورت ہے شدید انجریس کے بعد ان کا ہوش میں آ جانا ہی کسی مریکل سے کم نہیں ۔۔۔کہتے ہیں ناں جیسے خدا رکھے ۔۔۔۔۔۔“ ڈاکٹر کے کہنے پر سب کے چہرے کھل اٹھے تھے۔۔۔۔
” ڈاکٹر شاہنزیب کا بیان لینا ہے ہمیں۔۔۔۔“ پولیس کمشنر خود آئے تھے شاہنزیب کا بیان لینے۔۔۔۔
”جی۔۔۔سوری ۔۔۔ پر ابھی نہیں۔۔۔اور میں آپ کو کم از کم دو دن تک اپنے مریض سے بیان لینے کی اجازت نہیں دوں گا کیونکہ مریض کی حالت ایسی نہیں ہے کہ وہ اپنے دماغ پر زور ڈالے۔۔۔۔ اس کے سر پر دو تین بار وار کٸیے گئے ہیں اور ساتھ ساتھ تشدد کے نشانات بھی ملے ہیں اس کے پورے جسم پر ۔۔۔۔لڑکے کو مارنے کی پرزور کوشش کی گٸی ہے“ ڈاکٹر صاحب نے اپنا بیان ریکارڈ کرادیا تھا ۔۔۔۔
”شاہ ۔۔۔اب طبیعت کیسی ہے ؟؟؟“۔۔۔اسماء اس کی طبیعت دریافت کر رہی تھی ۔۔۔۔۔
”پہلے بتاؤ ماہ نور کہاں ہے؟؟؟۔۔۔۔ وہ کیسی ہے؟؟؟“شاہنزیب بے قرار ہو کر پوچھنے لگا
” وہ ٹھیک ہے تمہارے برابر والے کمرے میں ہی ہے۔۔۔۔ اسے بھی ذہنی سکون کے لیے انجکشن دیئے جا رہے ہیں نیند کے“ اسماء نے کہا تو مزید بے تاب ہو گیا۔۔۔۔
” اسماء مجھے اس کے پاس جانا ہے۔۔۔ دیکھنا ہے اسے “شاہنزیب التجاٸی لہجے میں بول رہا تھا ۔۔۔
”ہرگز نہیں۔۔۔۔ تم لیٹے رہو۔۔۔۔۔ آرام کی ضرورت ہے تمہیں۔۔۔۔وہ ٹھیک ہے بالکل “اسماء نے اطمینان دلایا تھا ۔۔۔۔۔تین دن ایسے ہی گزر گئے
”شاہ “۔۔۔۔ماہنور کی آواز اس کے کانوں کی سماعت سے ٹکرائی تو آنکھیں ہلکے سے کھولیں۔۔۔۔وہ آکر برابر میں بیٹھ کر رونے لگی۔۔۔۔
” کیسی ہو؟؟؟۔۔۔“ وہ لیٹے لیٹے ہی پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔۔
”بلکل ٹھیک اور تم؟؟؟۔۔۔۔“ ماہنور روتے ہوئے پوچھنے لگی
”میں بھی اللہ کا کرم ہے ٹھیک ہوں۔۔۔۔ تمہیں دیکھ لیا ناں دل کو سکون آگیا“ اس نے محبت سے چور لہجے میں کہا تو ماہنور اس کے چہرے پر ہاتھ رکھ کر بڑے پیار سے دیکھتے ہوۓ مسکرانے لگی۔۔۔۔۔۔۔
” برا خواب تھا شاہ ۔۔۔۔۔رات ختم ہوئی تو وہ بھی ختم ہوگیا ۔۔۔۔اب مجھے کبھی بھی وہ خواب نہیں آئے گا“ وہ بول رہی تھی پر شاہنزیب سو گیا تھا۔۔۔۔۔دوائوں کے اثر کی وجہ سے....
ڈاکٹروں کے منع کرنے کی وجہ سے شاہنزیب سے بیان نہیں لیا گیا تھا۔۔۔۔۔
جب ماہنور سے بیان لیا گیا تو اس نے آنکھوں دیکھا حال بیان کر دیا ۔۔۔۔پر ماہنور نے اپنے پان کھانے کے بعد جو کچھ ہوا اس کا ذکر نہیں کیا۔۔۔۔۔
” آپ نے پان کھایا اور آپ بےہوش ہوگٸیں ؟؟؟“ پولیس افسر نے تفتیشی انداز میں پوچھا تھا ۔۔۔۔۔
”ہاں۔۔۔۔۔میں بے ہوش ہو گئی تھی “ اس نے اپنا بیان ریکارڈ کرادیا تھا جبکہ اس نے سب دیکھا تھا ۔۔۔۔۔
اس نے دیکھا تھا شاہنزیب کو ان تینوں کی جان لیتے ہوئے۔۔۔ وہیں گن پھینکتے ہوۓ۔۔۔ پھر وہ بےہوش ہوگٸ تھی۔۔۔۔
شاہنزیب کو باہر ممالک کے ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا ۔۔۔۔شاہنزیب کے سر پر مارا گیا تھا جس کی وجہ سے اسے ہر وقت ذہنی سکون کے لیے بے ہوش رکھا جاتا تھا۔۔۔۔
اس پولیس اسپیکٹر کو بھی ماہ نور کے بیان کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔۔۔۔ اس کا بیان بھی ماہنور سے جدا نہ تھا اس کے بیان کے مطابق بھی شاہنزیب کو شارق نے بے دردی سے مارنے کے بھرپور کوشش کی تھی ۔۔۔۔۔
رومیساء آپا کے شوہر کو بھی پولیس نے گرفتار کرلیا تھا۔۔۔۔
وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے یہ ثابت ہوا تھا ۔۔۔ماہ نور نے جب سارا واقعہ تمام گھر والوں کو سنایا تو سب کی آنکھیں اشک بار تھیں۔۔۔
”ماہنور میرے تو رونگتے کھڑے ہو رہے ہیں یہ سب سن کر تم نے تو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے تم پر کیا گزری ہو گی یہ تصور بھی نہیں کر پارہی۔۔۔۔۔“ بھابھی ماہنور کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگیں۔۔۔۔
” کاش ہم تم دونوں کو اکیلے نہ بھیجتے “دادو روتے ہوئے بولیں۔۔۔۔
” اب جو ہونا تھا وہ ہو گیا ۔۔۔۔شکر ہے خدا کا کہ دونوں بچے صحیح سلامت ہیں “۔۔۔۔۔افتخار صاحب سکھ کا سانس لیتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔۔
”یا خدا !.......مجھے تو یقین نہیں آتا میرا شوہر اتنا بڑا ظالم نیکلے گا “رومیساء آپا روتے ہوئے بولیں۔۔۔
”آپا اور کتنا روئیں گی آپ۔۔۔۔“ اسماء انھیں بڑے پیار سے چپ کرانے لگی۔۔۔۔
میں نے شہزاد سے فون پر بات کی ہے ۔۔۔ڈاکٹر نے اجازت دے دی ہے شاہ کا بیان لینے کی۔۔۔۔۔ بیان دینے کے بعد شاہ کو ڈاکٹر دو دن تک اور رکھیں گے پھر ڈسجارچ کر دیں گے “راحیل نے سب کو اطلاع دی تو شمسہ بیگم اور باقی سب خدا کا شکر ادا کرنے لگے۔۔۔۔
” چاچا جان ۔۔۔۔میں شاہ کے پاس جانا چاہتی ہوں “۔۔۔ماہنور نے خواہش ظاہر کی تھی۔۔۔ وہ بہت بے تاب تھی اسے ملنے کے لیے۔۔۔۔
” بیٹا وہ ٹھیک ہے بالکل۔۔۔ رپورٹ بھی نارمل آٸیں ہیں خدا کے کرم سے ۔۔۔وہ تو بس تمہاری چاچی کا دل مطمئن نہیں ہورہا تھا اس لئے شاہ کو باہر بھیج دیا علاج کے لیے“ افتخار صاحب ماہ نور کو بڑے پیار سے دلاسہ دے کر سمجھانے لگے۔۔۔
”شاہ۔۔۔۔۔۔ تم سمجھ گئے ناں تمھیں کیا بیان دینا ہے ؟؟؟“شہزاد نے شاہنزیب کو ماہنور کا پورا بیان بتا دیا تھا اور کہا تھا وہ بھی یہی بولے۔۔۔۔
” پر بھائی۔۔۔۔ میں نے مارا ہے ان تینوں کو “۔۔۔۔شاہنزیب سر پکڑ کر روتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
” نہیں۔۔۔۔ تم نے نہیں مارا ۔۔۔۔شارق نے مارا ہے اور اس نے اپنا سارا گناہ قبول کر لیا ہے“۔۔۔ شہزاد اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے جھنجھوڑتے ہوئے سمجھانے لگا۔۔۔۔
” وہ جھوٹ بول رہا ہے ۔۔۔ میں نے مارا ہے سب کو ۔۔۔وہ تو خود اد مری حالت میں تھا“۔۔۔شاہنزیب نے چیختے ہوۓ جواب دیا۔۔۔۔ اس کا ضمیر اسے ملامت کررہا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی اور کو اس کے کیے کی سزا ملے۔۔۔۔۔” میں نے ان تینوں کو مارا ہے اگر اس کے لیے مجھے سزا ملے گی تو میں تیار ہوں۔۔۔پر جھوٹا بیان دے کر پولیس کو گمراہ کرنا یہ ٹھیک نہیں۔۔“
” تم چپ رہو ۔۔۔۔میں نے کہہ دیا ناں۔۔۔ تم وہی بولو گے جو ماہ نور نے کہا ہے ۔۔سمجھے ۔۔۔۔اب میں اس معاملے میں مزید بحث نہیں چاہتا “۔۔۔۔شہزاد نے غصے سے آنکھیں دیکھاتے ہوۓ رعب دار آواز میں کہا ۔۔
افتخار صاحب اور علی کی جانب سے بھی پریشرائز کیا گیا شاہنزیب کو بیان دینے کے معاملے میں۔۔۔۔۔تو شاہنزیب خاموش ہو گیا۔۔۔۔ اس نے پولیس کو اتنا ہی بیان دیا جتنا شہزاد اور باقی گھر والے دلوانا چاہتے تھے۔۔۔۔
شاہنزیب کا دل سکون نہیں پا رہا تھا اس لئے وہ بیان دینے کے بعد سب سے پہلے واپس آ کر شارق سے تھانے میں ملنے گیا۔۔۔۔
” کیسے ہو؟؟“۔۔۔۔ شارق نے اسے دیکھتے ہی پوچھا تھا
”خدا کا شکر ہے۔۔۔۔ ٹھیک ہوں۔۔۔ مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے“ شاہنزیب نے سامنے چٸیر پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
” یہی پوچھنا چاہتے ہو ناں کہ میں نے ان تینوں کے قتل اپنے سر کیوں لیے؟؟؟“۔۔۔۔ شارق جانتا تھا کہ شاہنزیب ضرور آئے گا اس معاملے میں اس سے پوچھ تاج کرنے۔۔۔
” ہاں۔۔۔۔ میں جاننا چاہتا ہوں۔۔۔ آخر کیوں ہو رہے ہو مجھ پر اتنے مہربان ؟؟؟۔۔۔۔۔ اب یہ کون سی نئی چال ہے؟؟؟۔۔۔۔“شاہنزیب الجھی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے استفسار کرنے لگا۔۔۔۔۔
” کیونکہ میری وجہ سے ایک وقت ایسا آیا تھا جب ماہنور مصیبت میں آگٸی تھی۔۔۔۔۔پتا ہے میں ہمیشہ یہی شکوہ کرتا تھا خدا سے کے اس نے تمہیں ماہنور کیوں دی۔۔۔مجھے کیوں نہیں؟؟؟۔۔۔۔۔۔پر جب اس وقت تم اور میں دونوں ایک ہی حالت میں تھے۔۔۔۔تب اس شکوۓ کا جواب مجھے مل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں شاہ۔۔۔۔ میں کچھ زیادہ ہی پاگل ہو گیا تھا یہ جاننے کے بعد کہ تم نے ماہنور کو مجھ سے چھینا ہے ۔۔۔۔۔ میں بدلے کی آگ میں ہر حد پار کر گیا ۔۔۔۔۔۔ تم ان تینوں کو کبھی نہ مارتے اگر میں اور بھائی مل کر یہ سارا منصوبہ نہ بناتے ۔۔۔تم نے تو وہی کیا جو اس وقت تمہاری جگہ کوئی بھی غیرت مند شوہر کرتا ۔۔۔میں واقعی شاہنزیب بہت شرمندہ ہوں “شارق واقعی ندامت میں مبتلا تھا کہ اس کی وجہ سے ماہ نور کی جان و عزت پر بن آٸی تھی۔۔۔۔ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے شاہنزیب سے معافی طلب کی
” ایک بات بولوں ۔۔۔ہو سکے تو مجھے بھی معاف کر دو۔۔۔ میں نے تمہارے ساتھ اچھا نہیں کیا ۔۔۔اب سوچتا ہوں تو ندامت میں مبتلا ہو جاتا ہوں۔۔۔ کہ کتنی آسانی سے میں نے تمہاری پوری زندگی تباہ کر دی۔۔۔ تمھیں ایک رات کے لیے اغوا کرکے ۔۔۔اگر میں وہ نہ کرتا تو شاید آج ہم دونوں اس حالت میں نہ ہوتے۔۔۔۔۔ اور نہ ماہنور کو وہ ساری اذیتیں اور تکلیفیں فیس کرنا پڑتیں۔۔۔۔ غلطی جتنی تمہاری ہے اتنی میری بھی ہے۔۔۔۔“شاہنزیب روہانسا آواز میں معافی کا طالب تھا۔۔۔۔ وہ تھوڑی دیر بات کرنے کےبعد اٹھ کر جانے لگا تو شارق نے پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا۔۔۔
”سنو۔۔۔۔۔ میں تم سے ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ہو سکے تو بھائی جان کو ان سب سے باہر نیکال لو شاہ۔۔۔۔ انہوں نے یہ سب صرف میری محبت میں آکر کیا۔۔۔ پلیز رباب کی خاطر۔۔۔وہ چھوٹی سی بچی اتنی سی عمر میں اپنے والد کے ساۓ سے محروم ہو جائے گی۔۔ہو سکے تو انھیں نیکال لو اس کیس سے“۔۔۔۔شارق اپنے آنسو صاف کرتے ہوۓ التجائی لہجے میں گویا ہوا۔۔۔۔
”چلو شاہ“ شہزاد نے شاہنزیب کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔۔۔
شہزاد جانتا تھا کہ شاہنزیب شارق کی بات فورا مان جائے گا۔۔۔ اس لیے انہوں نے شاہنزیب کو مزید وہاں نہ رکنے دیا۔۔۔۔۔
وہ دونوں اپنے گھر پہنچے تھے۔۔۔۔ شاہنزیب گاڑی سے اترا تو پورا گھر لائٹ اور پھولوں سے سجا ہوا نظر آیا ۔۔۔
”شاہ کیسے ہو ؟؟؟“۔۔اسماء گلے لگ کر پوچھنے لگی تھی ۔۔۔
”شاہ اب طبیعت کیسی ہے؟؟؟“۔۔۔ بھابھی نے استفسار کیا ۔۔
وہ سب کو ایک ہی جواب دیٸے جارہا تھا
”شاہ زیادہ دیر کھڑے نہ رہو“۔۔۔اس کی امی نے آتے ہی اسے جھرمٹ سے نیکال کر صوفے پر بٹھا دیا تھا۔۔۔
” کیسا ہے میرا بچہ؟؟؟“۔۔۔۔شمسہ بیگم نے بڑے پیار اور شفقت سے پوچھا تو گلے لگ کر رونے لگا۔۔۔ پہلی بار سب شاہنزیب کو روتا ہوا دیکھ رہے تھے ۔۔۔
”بس کر پگلے رولائے گا کیا؟؟؟“۔۔۔ کامران نے اس کی کمر پر تھپ تھپاتے ہوۓ کہا۔۔۔
“ چل چپ کر پاگل ۔۔۔لڑکے روتے نہیں ہیں “شاہنزیب کی تائی اس کے بال سہلاتے ہوئے پیار سے بولیں۔۔۔۔ رومیساء ۔۔۔ شاہزیہ ۔۔۔۔اسماء ۔۔۔ثانیہ ۔۔۔۔۔سعدیہ ۔۔۔بھابھی۔۔۔۔۔ صباء ۔۔۔ریشم سب کی آنکھیں آب دیدہ تھیں اسے روتا دیکھ۔۔۔۔
”امی ۔۔۔۔امی“شاہنزیب بس رو رو کر یہی کہہ رہا تھا ۔۔۔۔
”چلو بس کرو ۔۔۔شاہ رو مت ۔۔۔۔۔“ پھر شہزاد اپنی والدہ سے مخاطب ہو کر۔۔۔” سمجھایا تھا ناں آپ کو ۔۔شاہ کے سامنے مت روئیے گا ۔۔۔۔۔اب پلیز رونا بند کریں۔۔۔۔۔۔۔“شہزاد کہ کر دونوں کو چپ کرانے لگا۔۔۔۔۔
”صباء پانی لاٶ۔۔۔۔” اس نے کہا تو صباء پانی لینے چلی گئی
”یہ لو۔۔۔۔پانی پیو “شہزاد نے شاہنزیب کو پانی کا گلاس پکڑایا تھا۔۔۔
”شاہ“ دادو کی آواز سن ۔۔۔وہ پانی چھوڑ۔۔۔۔کھڑے ہوکر ان کے گلے لگا۔۔۔۔۔
”چلو ۔۔۔اب شاہ کو آرام کرنے دو۔۔۔۔ جاؤ شہزاد اسے کمرے میں لے جاؤ“دادو اور سب سے ملنے کے بعد ۔۔۔۔تاٸی امی نے کہا تو شہزاد اسے اوپر کمرے میں لے جانے لگا ۔۔۔۔
”روکو۔۔۔۔ اسے سیڑھیاں مت چڑھاٶ۔۔۔ایک کام کرو اسے میرے کمرے میں لے چلو “شمشہ بیگم فکر مند ہوتے ہوئے کہنے لگیں تو شاہنزیب ان کی بات سن مسکرا دیا ۔۔۔
”میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔ آپ فکر نہ کریں “۔۔۔۔کہتا ہوا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔” بھائی۔۔۔۔ ماہ نور کہاں ہے؟؟؟“۔۔۔۔شاہنزیب کی نگاہیں بےصبری سے ماہ نور کو ڈھونڈ رہی تھیں۔۔
” یہی کہیں ہوگی۔۔۔۔ یہ پورا گھر اسی نے سجایا ہے ۔۔۔اور تو اور تمہارے ویلکم کا خاص انتظام بھی کیا ہے۔۔۔۔ سمجھے۔۔۔“انھوں نے شوخی سے کہا تو شاہنزیب الجھ کر انھیں دیکھنے لگا۔۔۔۔
”ٹھیک ہے“۔۔۔ انہوں نے دروازے کے باہر ہی شاہنزیب کو چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔۔
شاہنزیب نے کمرے کا دروازہ کھولا تو ماہنور بھاگتے ہوۓ آکر بےتابی سے اس کے سینے سے لگ گٸی۔۔۔۔شاہنزیب اب سمجھ گیا تھا کہ شہزاد بھائی کیا کہہ رہے تھے۔۔۔۔ اس کے لبوں پر گہری مسکراہٹ بکھر آئی۔۔۔۔اس نے ماہنور کو مزید کس کے اپنی باھوں کے حصار میں جگڑ کر اٹھا لیا۔۔۔۔۔۔ماہنور کے پاٶں زمین سے بلند ہوگٸے تھے۔۔۔۔”ہوگٸ حسرت پوری؟؟؟۔۔۔۔بھاگتے ہوۓ آکر گلے لگنے کی “اس نے کہا تو ماہنور رونے لگی۔۔۔۔وہ نہایت گرم جوشی سے سینے سے لگی رہی۔۔۔
بھت دیر تک بس سینے سے لگی رہی ۔۔۔۔بے یقینی سی کیفیت میں ۔۔۔۔
”شاہ“ وہ صرف اتنا ہی کہہ سکی تھی۔۔۔۔زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی اس دیوانی کا۔۔۔۔
کیسی ہو؟؟؟” گلے سے ہٹی تو محبت سے پوچھنے لگا
” بالکل ٹھیک ۔۔۔آٶ چلو بیٹھ جاؤ “یہ کہہ کر اسے پیار سے بیٹھانے لگی ۔۔۔
”ماہنور“ وہ دونوں پہلے تو خاموش بیٹھے رہے۔۔۔پھر شاہنزیب نے بات کی پہل کی ۔۔۔۔۔”مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے بلکہ سب کچھ بتانا ہے۔۔۔۔ ہر ایک بات ۔۔۔۔ہر ایک چیز “اس نے ماہنور کا ہاتھ پکڑ کر کہا تو وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔” ماہ نور مجھے سمجھ نہیں آرہی کہاں سے شروع کروں اور کیا کیا بتاؤں؟؟؟۔۔۔“ وہ گہری سانس لیتے ہوئے پریشان ہو کر بولا ۔۔۔۔
”جہاں سے چاہے ”ماہنور نے نہایت اطمینان والے انداز سے کہا ۔۔۔۔۔شاہنزیب کافی گہری سوچ میں ڈوبا رہا ۔۔۔ اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ ہمت جمع کررہا ہے بتانے کے لئے ۔۔۔۔پھر چپ کا تالا ہمت کی اینٹ سے توڑ ڈالا آج۔۔۔۔۔
” ماہ نور میں نے سب سے پہلے اپنی محبت کے بارے میں بڑے ابو اور دادو کو بتایا تھا ۔۔۔۔۔۔میں ہر وقت بڑے ابو کو امپریس کرنے کے چکر میں رہتا تھا۔۔۔۔۔رومیساء آپا کی شادی پر انہوں نے مجھے کمرے میں بلایا اور ولید کی تصویر ہاتھ میں پکڑاتے ہوۓ کہا کے میں تمہیں ولید سے ملواؤں۔۔۔۔
پہلی بار میں نے بڑے ابو سے جھوٹ بولا اور دوسری طرف ولید کو دھمکی امیز میسج کرتا رہا تاکہ وہ بھاگ جائے۔۔۔“۔۔۔۔۔۔۔۔شاہنزیب نے کہ کر ماہنور کا ری۔ایکشن دیکھنے کے لئے اس کی جانب نظر اٹھاٸی۔۔۔۔تو ماہنور کو دیکھ حیران ہوا کہ وہ ابھی بھی اتنے ہی اطمینان سے بیٹھی تھی۔۔۔
” پھر بڑے ابو نے تمہارا رشتہ اسی دوران راحیل سے کروانا چاہا۔۔۔۔ راحیل کرنا بھی چاہتا تھا۔۔۔ پر میں نے بیچ میں غلط فہمیاں پیدا کردیں ۔۔۔۔۔ راحیل کی ڈائری جو تم نے کھڑکی سے پھینکی تھی وہ مجھے ملی تھی ۔۔۔۔میں اسے واپس دینے آیا تھا پر تب دادو اور راحیل کی باتیں سن کر میں حیران رہ گیا ۔۔۔۔۔
دادو کی باتوں نے مجھ پر انکشاف کیا کے وہ بھی یہی چاہتی ہیں کہ تمہاری شادی راحیل سے ہو۔۔۔۔۔ میں ڈاٸری واپس لے گیا اسے پورا پڑھا اور پھر اسے پرانے صندوق میں چھپا دیا۔۔۔۔۔ وہ ڈائری اتفاق سے ثانیہ کو مل گئ۔۔۔۔ مجھے خوف آیا کہ ثانیہ تمہیں بتا نا دے کے راحیل تمہارے لئے کیا جذبات رکھتا ہے۔۔۔۔
میں سوچ میں پڑ گیا تھا کہ کیا کروں۔۔۔۔۔پھر تم نے مجھے اس بات کا احساس دلایا کے ثانیہ یہاں نٸی آئی ہے وہ بیچاری تو ہمارے بارے میں کچھ نہیں جانتی ۔۔۔۔ میں نے راحیل کی ڈائری میں سے تمہاری تصویر نکال لی تھی اور جھوٹی شاعری اس کی ہینڈ رائٹنگ میں لکھ کر ثانیہ تک پہنچا دی۔۔۔۔“ شاہنزیب اپنا کارنامہ بتانے کے بعد پھر ماہنور کو دیکھنے لگا اس کے چہرے پر اب بھی کوئی تاثر نہ تھا۔۔۔۔۔
” تم سن رہی ہو ناں؟؟؟“ شاہنزیب اس کے کوئی ری۔ایکشن نہ دینے کے سبب الجھ کر پوچھنے لگا تو ماہنور نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔۔
” دادو نے مجھے گھر سے نکلوا دیا تھا یہ دیکھ کر کہ میں تمہارے پیچھے کیا کیا حرکتیں کر رہا ہوں ۔۔۔۔وہ چاہتی تھیں تمہاری شادی ہو جائے جلد سے جلد تاکہ میں جو اوٹ پٹان حرکتیں کر رہا ہوں وہ روک دوں ۔۔۔ اس لیے انہوں نے مجھ تک یہ خبر پہنچائی کہ میری منگنی ٹوٹ جاۓ گی اگر میں دو ماہ تک گھر نہ لوٹا تو ۔۔۔۔۔۔جبکہ اصل میں تو دادو ان دو ماہ میں تمہاری شادی کرنا چاہتی تھیں۔۔۔۔۔ وہ واقفیت رکھتی تھیں کہ میں تو خود سعدیہ سے منگنی توڑ دینا چاہتا تھا اس لئے میں کبھی بھی دو ماہ سے پہلے گھر نہیں آؤں گا اور ایسا ہو بھی جاتا اگر سعدیہ محض ایک اتفاق سے مجھے نہ ملتی۔۔۔۔
میں صرف تمھاری خاطر دوڑا چلا آیا تھا شادی روکنے۔۔۔۔ حویلی میں ۔۔۔۔میں کوشش کر رہا تھا یہ جاننے کی کہ تم کیا سوچتی ہوں میرے بارے میں۔۔۔۔۔ ایک رات تمہاری اور راحیل کی آدھی ادھوری باتیں سنیں۔۔۔۔۔ مجھے لگا تم راحیل سے م۔۔۔۔۔مح۔۔۔۔۔محب۔۔۔۔محبت کرتی ہو۔۔۔۔۔ اور اسی سے شادی کرنا چاہتی ہو۔۔۔۔“شاہنزیب کافی ہچکچا رہا تھا یہ جملہ ادا کرتے وقت ۔۔۔۔۔اس نے یہ کہہ کر پھر ماہنور کو دیکھا۔۔۔۔ جو ابھی بھی اتنی دلچسپی سے سن رہی تھی جیسے پہلے۔۔۔۔ اس کا کوئی ری۔ایکشن نہ تھا۔۔۔۔
یوں ماہنور کا خالی نظروں سے اس کے وجود کو تکنا ۔۔۔۔۔۔شاہنزیب کو ہچکچاہٹ کا شکار کرگیا تھا۔۔۔ وہ نظریں ماہنور سے چوراتے ہوۓ کھڑا ہو کر مزید اسے باتیں بتانے لگا۔۔۔۔
” میں نے پہلے تو ارادہ کیا کہ میں یہاں سے چلا جاتا ہوں۔۔۔۔ یہاں رہا تو کبھی تمہاری شادی راحیل سے نہیں ہونے دوں گا پر جب اس رات تم حویلی کے قریب والے مزار پر گٸیں۔۔۔۔اور تمہارے پاؤں میں کانچ کا ٹکڑا گھنسا اور تم پھر بھی نہ رکیں تو میں بہت افسردہ ہو گیا ۔۔۔میں نے تمہاری مدد کرنے کا ارادہ کیا۔۔۔۔۔ تمہاری شادی روکنے کی خاطر میں نے شارق کو اغوا کرلیا ولید کے ہاتھوں۔۔۔۔ میں سچ کہتا ہوں۔۔۔میں چلا گیا تھا تاکہ تمہاری اور راحیل کی شادی آرام سے ہو سکے۔۔۔۔ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ آدھی بات کہہ کر شاہنزیب خاموش ہو گیا
”پر کیا ؟؟؟“ماہنور نہایت اشتیاق سے پوچھنے لگی۔۔۔۔۔
” پر تمہاری پازیب میری کار میں رہ گئی تھی ۔۔۔میں اسے دینے واپس آیا۔۔۔ تو پتا چلا کہ راحیل بھی غائب ہے ۔۔۔میں نے راحیل سے رابطے کی بہت کوشش کی ۔۔۔لیکن جب بڑے ابو اور باقی سب کو روتا ہوا دیکھا تو اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور خود ہی کھڑا ہو گیا تم سے نکاح کے لئے ۔۔۔۔۔میں نہیں جانتا تھا کہ میری ایک بیوقوفی بڑے ابو کی جان لے لے گی۔۔۔۔ ورنہ میں کبھی نہ کرتا “۔۔۔۔شاہنزیب ماہنور کے قدموں میں بیٹھ کر روہانسہ آواز میں گویا ہوا۔۔۔۔۔ بڑی ہمت جمع کرکے اسے سارا سچ بیان کیا۔۔۔۔
” اسی رات شہزاد بھائی اور دادو کو علم ہوگیا تھا کہ شارق کو ہم نے اغواہ کیا ہے۔۔۔ انہوں نے مجھے کافی مارا اور فیصلہ سنایا کہ اب یہ سارا معاملہ بڑے ابو طے کریں گے ۔۔۔۔پر بد قسمتی سے دوسرے ہی دن ان کا انتقال ہوگیا
تم اس حالت میں نہیں تھیں کہ تمہیں کچھ بتایا جاتا اس لئے دادو اور شہزاد بھائی نے مجھے پڑھنے بھیج دیا اور مجھے سختی سے منع کر دیا کہ تم سے کوئی رابطہ نہ رکھوں۔۔۔۔ ورنہ وہ تمہیں میری ساری کرتوت بتا دیں گے۔۔۔۔۔ میں ڈر گیا تھا ۔۔۔۔۔
مجھے تو پہلے ہی ایسا لگتا تھا کہ تم راحیل سے شادی کرنا چاہتی ہو۔۔۔۔۔اس پر اگر تمہیں یہ سب پتا چل گیا۔۔۔تو یقیناً تم تو ڈاٸرک خلاء کا مطالبہ کر ڈالو گی۔۔۔۔ اس لئے میں کبھی ہمت جمع کر ہی نہ سکا کہ تمہیں کال کروں۔۔۔۔۔جب راحیل نے مجھے اپنی اور ثانیہ کی شادی کی خبر دی تب جاکر مجھے سکون ملا “۔۔۔۔۔شاہنزیب نے آج ماہنور پر آشکار کر دیا تھا کہ وہ کیوں کال نہیں کیا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔
”اور کچھ؟؟؟“ ماہنور نے نہایت نرمی سے پوچھا تو شاہنزیب نے نفی میں گردن ہلا دی۔۔۔۔۔
” ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ اب میری باری ۔۔۔۔مجھے بھی تمہیں بہت کچھ بتانا ہے شاہ اور تمہیں بھی اتنی خاموشی سے سنا ہوگا جتنا میں نے سنا“۔۔۔۔ ماہ نور کے کہتے ہی شاہنزیب الجھی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔کے آخر کیا بات ہو سکتی ہے جو ماہنور اسے بتانا چاہتی ہے۔۔۔۔
” ایک منٹ ماہ نور ۔۔۔تمہیں شاکڈ نہیں لگا یہ سن کر کے میں نے اغواہ کیا تھا شارق کو یا میری وجہ سے بڑے ابو۔۔۔۔۔“شاہنزیب ہچکچا رہا تھا پوچھنے میں لیکن استفسار کرے بغیر رہ بھی نہ سکا۔۔۔۔۔ پریشان آمیز لہجے میں بول کر۔۔۔خود سے ہی خاموش ہو گیا تھا۔۔۔۔۔
”شاہ ۔۔۔ میں نے کہا تھا۔۔۔تم بھی خاموشی سے سنو گے“اس نے شاہنزیب کو فورا ٹوک دیا تھا۔۔۔۔ اس کے ٹوٹکنے کے سبب وہ خاموش تو ہو گیا تھا پر ذہنی طور پر ابھی بھی الجھن میں تھا کہ آخر ماہنور اسے کچھ کیوں نہیں کہ رہی ہے۔۔۔اس کا گمان تو سخت ردعمل کا تھا ۔۔۔۔شاید ماہنور یہ سننے کے بعد تھپڑ بھی دے مارے ۔۔۔ پر ماہنور نے تو کوئی ری۔ایکشن ہی نہیں دیا۔۔۔۔
”اففففف“۔۔۔۔۔ ماہنور نے ایک گہری سانس لی ۔۔۔۔” یاد ہے شاہ ۔۔۔اللہ کیسے بتاٶں ؟؟؟“ وہ چہرے سے ہی کنفیوز معلوم ہو رہی تھی۔۔۔ اپنے دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرنے لگی۔۔۔۔
شاہنزیب مزید تجسس میں مبتلا ہوا۔۔۔کے آخر ایسی کیا بات ہے جو وہ نہیں جانتا۔۔۔۔”میں تم سے بھت پیار کرتی تھی شاہ ۔۔۔بس مجھے شاید احساس نہیں تھا ۔۔۔جب جب تمہیں سعدیہ کے قریب دیکھتی تھی عجیب سی کیفیت میں پڑ جاتی تھی۔۔۔۔ نہیں جانتی تھی کہ ایسا کیوں ہے۔۔۔۔
یاد ہے تم نے رومیساء آپا کے ولیمے والے دن اسے مارکیٹ الگ سے لے جا کر سوٹ دلایا تھا کالے رنگ کا ۔۔۔۔“ماہنور نے کہا تو شاہنزیب حیرت سے اس کا چہرہ دیکھنے لگا اسے تو یاد بھی نہیں تھا جس معمولی سی بات کو وہ پگلی دل سے لگائے بیٹھی تھی۔۔۔۔
”دراصل ہوا یوں تھا۔۔۔۔کے۔۔۔۔۔“شاہنزیب صفائی پیش کرنے لگا۔۔۔
”شاہ خاموش رہو ۔۔۔جیسے میں رہی تھی“ ماہنور نے اس بار ذرا سخت لہجے میں ٹوکا تھا۔۔۔تو شاہنزیب بولتے بولتے رک گیا۔۔۔۔۔
”شاہ ۔۔۔غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے ایک دوسرے کی بات تحمل سے سننا ضروری ہے۔۔۔۔اور میں چاھتی ہوں ہمارے درمیان جتنی بھی غلط فہمیاں ہیں وہ دور ہوں۔۔۔۔۔اس لٸے پلیز تحمل سے سنو۔۔۔میں کنٹینیو کر رہی ہوں اپنی بات ۔۔۔ پلیز آپ بیچ میں مت کود پڑنا۔۔۔“ پھر وہ اپنے ذہن پر زور ڈالتے ہوئے ”میں کہاں تھی ۔۔۔۔“
”کالے کپڑے دلاۓ تھے میں نے“شاہنزیب صرف اس کی کہی بات یاد دلانے کی نیت سے گویا ہوا تھا۔۔۔۔
”تم چپ نہیں رہ سکتے ناں ؟؟؟“ماہنور اب غصے سے ایک ہاتھ کمر پر ٹیکا کر شاہنزیب کو گھورتے ہوۓ بولی
” میں تو بس موضوع یاد دلارہا تھا۔۔۔“شاہنزیب بھیگی بلی کی طرح نہایت معصومانہ چہرہ بناۓ کہنے لگا۔۔۔
” اب میں دوبارہ بات شروع کر رہی ہوں ۔۔۔اگر اب بیچ میں بولے تو اچھا نہیں ہو گا۔۔۔“ اس نے شاہنزیب کو آخری وارننگ دے ڈالی تھی۔۔۔۔
شاہنزیب نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔
”اور تم کیسے ہنس ہنس کر سعدیہ سے باتیں کر رہے تھے ۔۔۔یاد ہے مجھے اچھی طرح۔۔۔“ماہنور شاہنزیب کو دیکھ چباچبا کر بول رہی تھی۔۔۔۔۔”۔مجھے بہت غصہ آرہا تھا میں نہیں جانتی کیوں ؟؟؟۔۔۔۔میں صرف اس غصے کے لیے وجوہات تلاش کر رہی تھی کہ تم جھوٹے ہو سامنے کچھ اور پیچھے کچھ اور ہوتے ہو۔۔۔۔اسی غصے میں آکر میں نے تم سے شارق کی شکایت نہیں کی کہ اس نے اسٹیج سے اترتے وقت ہاتھ پکڑ لیا تھا میرا اور بہت اصرار بھی کیا تھا صرف اس لئے میں نے اس کے ساتھ تصویر بنوالی تھی۔۔۔۔
ایک رات راحیل پاجی کمرے میں آئے انہوں نے مجھے بتایا کہ ڈیڈ کو کینسر ہے “ماہنور کا کہنا تھا کہ شاہنزیب ہکا بکا نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔ایسا لگ رہا تھا جیسے ماہنور نے اس کے سر پر ایٹم بم پھوڑ دیا ہو۔۔۔۔
”راحیل پاجی نے بتایا کے %50 چانس ہیں انھیں آپریشن کر کے بچانے کے۔۔۔۔ انہوں نے کہا کہ بس میں ڈیڈ کی خاطر ہاں کر دوں۔۔۔۔میری منگنی کے بعد وہ ڈیڈ کو آپریشن کے لٸے منانے کی پوری کوشش کریں گے۔۔۔۔ میری منگنی تھوڑی ڈھارس بنے گی ان کی۔۔۔۔ اور وہ مان جائیں گے۔۔۔
راحیل پاجی کے بھروسہ دلانے پر میں نے شارق سے منگنی پر رضامندی ظاہر کر دی۔۔۔۔پر۔۔۔۔۔ میرا دل ذرا بھی تیار نہ تھا جب وہ مجھے انگوٹھی پہنا رہا تھا تو میرا دل چاہ رہا تھا بس کہیں بھاگ جاؤں یا تم کہیں سے نمودار ہوجاٶ اور یہ منگنی روک دو۔۔۔۔۔ ڈیڈ تو جلد سے جلد میری شادی کروانا چاہتے تھے پر ولید بھائی نے نہ جانے ایسا کیا کہا جو ڈیڈ دو ماہ کے لیے رک گٸے۔۔۔۔۔
اس دوران میں بار بار راحیل پاجی سے ضد کرتی رہی کہ صرف ایک بار مجھے ڈیڈ سے خود بات کر لینے دیں۔۔۔۔
پر وہ یہ کہہ کر منع کر دیتے کے تمھارے بات کرنے سے بڑے ابو کا مجھ پر سے بھروسہ اٹھ جائے گا ۔۔۔۔پھر وہ میری بھی ایک نہ سنیں گے ۔۔۔۔میں بس ان پر یقین رکھوں کہ وہ ڈیڈ کو منالیں گے آپریشن کے لیے ۔۔۔۔
میں مجبوراً صرف خاموش رہی۔۔۔۔ ہر وقت دو ہی دعائیں ہوتی تھیں میرے لبوں پر۔۔
ایک ڈیڈ مان جائیں اور آپریشن کامیاب ہو۔۔۔۔ اور دوسرا تم واپس آ جاؤ ۔۔۔جلد سے جلد ۔۔۔۔۔“وہ یہ کہہ کر رونے لگی تھی اس نے شاہنزیب کی جانب دیکھا جو نہایت افسردگی کے ساتھ یہ سب سن رہا تھا۔۔۔۔
”دادو کے آٸیڈیے کے مطابق ہم نے شہزاد بھائی کے سامنے آپ جان کر یہ بات کہی کہ تمہاری منگنی ٹوٹ رہی ہے تاکہ تم فورا واپس آ جاؤ ۔۔۔۔۔
پر یہ دیکھ ۔۔۔۔کہ تم واقعی سعدیہ کی خاطر لوٹ آۓ میرا دل بری طرح ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گیا تھا ۔۔۔۔مجھے لگا تمہاری نظروں میں صرف سعدیہ کی اہمیت ہے ۔۔۔۔۔ میری تو کوئی حیثیت نہیں ۔۔۔۔۔۔پر پھر بھی میں خوش تھی کہ آخر تم واپس آئے تو صحیح۔۔۔۔۔چاھے پھر وجہ سعدیہ ہی کیوں ناں ہو ۔۔۔۔۔
میں تمہیں دیکھ بہت پرسکون ہو گئی تھی مجھے لگا تم ڈیڈ کو آسانی سے منالو گے۔۔۔۔
پر ڈیڈ اور باقی گھر والوں کا رویہ دیکھ مجھے اپنی آخری امید بھی دم توڑتی نظر آئی۔۔۔۔۔ اوپر سے تم مجھ سے اس قدر بے رخی رکھ رہے تھے کہ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر میری غلطی کیا ہے ؟؟؟۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔کَیا۔۔۔کِیا ہے میں نے؟؟؟۔۔۔کیوں ناراض رہ رہے ہو تم مجھ سے ؟؟؟۔۔۔۔۔
ناراض تو مجھے ہونا چاھٸے تھا تم سے۔۔۔۔۔ تم نہیں آئے تھے دادو کے بلانے کے باوجود میری منگنی پر“ماہنور شانزیب کو شکوۓ بھری نظروں سے تکتے ہوۓ بولی۔۔۔۔
” میں تمہیں حویلی زبردستی اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتی تھی ۔۔۔۔پتا ہے کیوں ؟؟؟۔۔۔۔۔کیونکے میں نے بڑی چاچی جان سے سنا تھا کہ وہاں ایک مزار ہے ۔۔۔جہاں سچے دل سے جو جاٸز دعا مانگی جائے ۔۔۔۔۔۔ وہ ضرور قبول ہوتی ہے ۔۔۔۔۔اور جو کنواری لڑکی مزار پر ننگے پاؤں جائے اور وہاں جا کر دیا جلاۓ۔۔۔۔ اسے من چاھا ور ملتا ہے ۔۔۔۔میں نے سوچا تھا مزار پر جا کر ڈیڈ کی صحت یابی کے لئے دعا کرو گی۔۔۔اور موقع ملتے ہی تمھیں ڈیڈ کی بیماری کے بارے میں بتادوں گی۔۔۔۔تاکے ہم مل کر ڈیڈ کو آپریشن کے لیے پریشرائز کریں۔۔۔۔
یاد ہے جب حویلی کے لیے نکل رہے تھے تو سعدیہ مغربی لباس میں ملبوس ہوکر آئی تھی اور تم اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے۔۔۔“ماہنور نے شاہنزیب کو غصے سے غراتے ہوۓ کہا۔۔۔تو وہ مظلوم اپنی صفاٸی پیش کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔”پر۔۔۔۔“
اس کی زبان سے اک حرف ادا ہوتے ہی ۔۔۔۔ماہنور نے اسے مزید گھورا تھا ۔۔۔جس پر وہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی خاموش ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔
”میرا دل جل کر خاک ہوئے جا رہا تھا ۔۔۔میں نے سوچا اگر میں بھی سعدیہ جیسے کپڑے پہنوں اور اسی کی طرح میک۔اپ کروں تو تم مجھے بھی یقیناً اسی نظر سے دیکھو گے ۔۔۔۔۔جیسے سعدیہ کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔“
”اووووو۔۔۔۔۔۔تو جیلسی میں آکر ماہنور اس طرح تیار ہوکر آٸی تھی۔۔۔۔۔“آج شاہنزیب پر آشکار ہوا تھا۔۔۔ ماہ نور کے مغربی لباس میں ملبوس ہونے کی وجہ۔۔۔۔
” اس لیے میں تیار ہو کر آ گئی۔۔۔۔ میں کتنی بے وقوف تھی اب سوچتی ہوں ۔۔۔میں نے کیوں نہیں سوچا کہ میں سعدیہ سے کیوں جل رہی ہوں ؟؟؟۔۔۔۔وہ تو منگیتر تھی تمہاری ۔۔۔۔
جب میں حویلی میں چڑیل بن کر تمھیں ڈرانے آئی۔۔۔ تو میں تمہیں ڈرا پاتی اس سے قبل تم نے ہی میری جان نیکال دی۔۔۔۔۔ تمہاری نزدیکی مجھے احساس دلا گٸی کہ کیوں اس قدر جلتی ہوں میں سعدیہ سے۔۔۔۔۔کیوں چاہتی تھی کہ تم مجھے اسی طرح دیکھو جس طرح سعدیہ کو دیکھتے ہو۔۔۔
میرا دل چاہا سب وہیں تھم جائے۔۔۔۔ اس حسین لمحے کے بعد جب تم سے الگ ہوئی تو پتا چلا کہ میرا دل اب میرے پاس نہیں رہا ۔۔۔۔۔وہ تو اب مکمل طور پر تمہارا ہو چکا ہے۔۔
اس رات کے بعد سے جب تم میرے قریب آتے میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگتا ۔۔۔۔سانس تھمنے لگتی۔۔۔۔۔ لگتا اب جان نکلی۔۔۔۔۔۔کہ اب جان نکلی۔۔۔۔۔
میں نے راحیل پاجی سے مزید ضد شروع کر دی کہ وہ واپس چلے جائیں گھر۔۔۔۔جیسے بھی ممکن ہو روکیں اس شادی کو۔۔۔۔ اور ڈیڈ کو منائیں اپریشن کے لٸے۔۔۔۔
میں بہت پیار کرتی ہوں تم سے شاہ ۔۔۔۔۔میں تمہارے علاوہ کسی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی ۔۔۔۔ میں نے راحیل پاجی سے بھی کہا کہ مجھے تمہیں بتانے دیں پر انھوں نے منع کردیا۔۔۔۔۔لیکن ان کے منع کرنے کے باوجود میں نے پھر بھی تمہیں بتانے کی کوشش کی۔۔۔۔ لیکن نہ جانے تم مجھے کس بات کی سزا دے رہے تھے ؟؟؟۔۔۔تم نے میری ایک نہ سنی ۔۔۔۔۔ تم ہر بار مجھے چپ کرا دیتے۔۔۔۔
میں نے مزار پر ننگے پاؤں چل کر دیا جلا کر تمہیں مانگا تھا شاہ۔۔۔۔۔جو کانچ کا گھسنا برداشت کیا تھا وہ تمہاری خاطر کیا تھا۔۔۔۔۔ راحیل پاجی کے لیے نہیں ۔۔۔۔“اس نے شاہنزیب کو کافی جتاتے ہوۓ ۔۔۔۔۔دیکھ کہا۔۔۔۔۔شاہنزیب چہرے ہی سے نہایت رنجیدہ نظر آیا۔۔۔۔ وہ دل ہی دل کڑ رہا تھا ۔۔۔۔۔کوس رہا تھا خود کو ۔۔۔۔کے آخر اس نے کبھی ماہنور کی بات کیوں نہ سنی۔۔۔۔
” میں نے حویلی سے واپس آتے ہی رومیساء آپا اور اسماء کو بتا دیا تھا کہ مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے۔۔۔۔ انہوں نے مجھے بھت ڈانٹا ۔۔۔۔۔۔۔آپا نے کہا میں پاگل ہو گئی ہوں۔۔۔۔ میری شادی سر پر رکھی ہے اور میں کسی اور کی دلہن بننے کے خواب دیکھ رہی ہوں اور قسمت کا کھیل دیکھو اسی رات چاچا جان نے ہم دونوں کے نکاح کا اعلان کر ڈالا تھا وہ بھی الگ الگ لوگوں سے ۔۔۔۔
میں نے تمہارا کالر پکڑکر پوچھا تھا سعدیہ سے محبت کے متعلق ۔۔۔۔۔جب تم نے منع کیا تو پھر میں نے سوچا کہ اگر تم سعدیہ سے نہیں کرتے تو یہ ممکن ہے کہ تم مجھ سے کرلو۔۔۔۔ پر مجھے موقع ہی نہیں ملا ۔۔۔۔۔سب کچھ اتنی جلد بازی میں ہو رہا تھا کہ میں کچھ بھی کرنے سے قاصر تھی۔۔۔
یاد ہے میں تمہارے کمرے میں آئی تھی مایوں سے پہلے اس دن میں نے پکا ارادہ کر لیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے ۔۔۔۔میں تمھیں اپنا حالِ دل سنا دوں گی ۔۔۔۔پھر آگے تمہارا فیصلہ ۔۔۔۔۔پر جیسے ہی کمرے میں داخل ہوٸی۔۔۔۔ میرے تو ہوش اڑ گۓ تھے تمھیں اور سعدیہ کو بیڈ پر ایک ساتھ دیکھ۔۔۔ میری ساری ہمت وہ منظر دیکھنے کے بعد دھری کی دھری رہ گئی ۔۔۔اور میں روتے ہوئے واپس چلی آئی۔۔۔۔
پر میرا دل کہتا تھا کے تم مجھ سے محبت کرتے ہو ۔۔۔۔میں نے آپا سے کہا۔۔۔پر عمر میں دو سال بڑے ہونے والی بات بیچ میں آگٸ۔۔۔۔ میں نے آپا سے کہا ایک بار پوچھ لینے میں کیا حرج ہے۔۔۔۔ میں زندگی بھر اس گیلڈ میں نہیں جینا چاہتی تھی کہ میں نے تمہیں کبھی اپنے دل کی بات بتانے کی کوشش بھی نہ کی۔۔۔۔۔
میں آپا کا کو زبردستی لائی تھے تمہارے کمرے میں۔۔۔۔۔۔ پوچھنے ۔۔۔۔۔۔۔کیا تم دو سال بڑی عمر کی لڑکی سے محبت کر سکتے ہو ؟؟؟۔۔۔۔۔تم نے الٹا مجھ سے ہی سوال کر ڈالا میں نے جواب دیا ۔۔۔۔(ہاں)۔۔۔ میں کرسکتی ہوں۔۔۔۔۔ حقیقت تو یہ تھی کہ میں کر چکی تھی۔۔۔۔۔لیکن تم نے کوئی جواب دیا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔میرا دل ٹوٹ گیا۔۔۔۔۔مانو بکھر کر رہ گٸ تھی میں۔۔۔۔۔
راحیل باجی نے بھی اپنا دامن چھڑا لیا۔۔۔۔ میں نے ڈیڈ سے خود بات کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔میں نے دیکھ لیا تھا کے اچانک وہ تم سے بڑے خوش ہو کر گلے ملے تھے۔۔۔۔۔مجھے پورا یقین تھا کے ڈیڈ یہ جاننے کے بعد کے مجھے تم سے محبت ہے ضرور میری شارق سے شادی روک دیں گے ۔۔۔۔اور میں انہیں آپریشن کے لیے بھی منالوں گی ۔۔۔۔
پر میری بدقسمتی ۔۔۔۔وہ میری ایک سننے کے لیے تیار نہ تھے۔۔۔۔ شاید وقت بہت کم تھا ان کے پاس ۔۔۔۔موت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ان کے قریب آتی جا رہی تھی۔۔۔ اور اس بات سے وہ بخوبی واقفیت رکھتے تھے
مجھے جب کوئی راستہ نظر نہیں آیا تو میں نے زہر کی شیشی خرید لی۔۔۔۔ پر تم نے مجھے وہ بھی نہ پینے دیا“ماہنور شکوۓ بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔۔۔
” تم نے ڈیڈ کو نہیں مارا شاہ۔۔۔۔۔۔ڈیڈ کسی بھی صدمے سے نہیں مرے۔۔۔۔ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر انتقال کرگئے ۔۔۔۔۔جس رات ہمارا نکاح ہوا تھا انھوں نے مجھے خود اپنے کمرے میں بلایا تھا ۔۔۔وہ بہت خوش تھے ۔۔۔بے انتہا خوش ۔۔۔۔۔۔۔کہنے لگے ۔۔۔۔۔۔خدا نے میری دعا سن لی اور مجھے دمات کی شکل میں بیٹا دے دیا ۔۔۔اب تو میں مر بھی جاٶں تو کوئی فکر و غم نہیں ۔۔۔اسماء سے کہا۔۔۔ بیٹا جب تمہیں لگے کہ تم اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی ہو تو ولید کا ہاتھ تھام لینا۔۔۔۔۔۔ میری بڑی خواہش ہے کہ ولید میرا بڑا دمات بنے ۔۔۔۔۔۔مجھے دمات کے روپ میں بیٹے مل جائیں گے۔۔۔ کہنے لگے اب صبح ہی چلا جاؤں گا آپریشن کرانے۔۔۔۔۔۔۔اسماء۔۔۔۔۔ میں اور ڈیڈ ۔۔۔۔۔۔ ہم تینوں رونے لگے۔۔۔۔
اسماء کو بہت شکایت تھی ڈیڈ سے۔۔۔۔ کے انہوں نے اسے کچھ کیوں نہیں بتایا ۔۔۔۔۔۔۔پر ڈیڈ نے بڑے پیار سے اسے منا لیا وہ بار بار راحیل پاجی کو بلا رہے تھے۔۔۔۔۔۔ ہم نے راحیل پاجی سے کانٹیکٹ کرنے کی بہت کوشش کی۔۔۔۔ مگر ان کا فون ہی نہیں مل رہا تھا ۔۔۔۔۔اگلے دن سب ختم ہو گیا۔۔۔۔ وہ آپریشن کرانے جا ہی نہ سکے۔۔۔۔“ یہ کہ کر ماہنور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔۔۔شاہنزیب نے اسے اپنے سینے سے لگالیا تھا۔۔۔۔
”تم نے نہیں مارا ڈیڈ کو شاہ۔۔۔۔تم نے نہیں مارا۔۔۔۔“ماہنور روتے روتے اسے بتارہی تھی۔۔۔۔
”پر میں قاتل ہوں ماہنور۔۔۔۔۔میں نے ان تینوں کو تو مارا ہے “شاہنزیب کے روہانسہ لہجے میں کہتے ہی ماہنور سینے سے ہٹ کر اسے احتجاجی نظروں سے دیکھ کہنے لگی۔۔۔”شارق نے مارا ہے انھیں ۔۔۔۔۔تم نے نہیں ۔۔۔۔“
”شارق نے نہیں مارا ان تینوں کو ۔۔۔۔۔میں نے مارا ہے “شاہنزیب کہ کر سر پکڑنے لگا۔۔۔۔وہ ایک نیک سیرت ۔۔۔۔۔متقی و پرہیزگار ۔۔۔۔۔بااخلاق۔ ۔۔۔باکردار لڑکا تھا اس لٸے ان ظالموں کو مارنے پر بھت رنجیدہ تھا۔۔۔۔اس کا ضمیر جھوٹا بیان دینے پر ابھی تک اسے ملامت کررہا تھا۔۔۔۔۔
”میں جانتی ہوں “ماہنور کا جواب سن وہ شاکڈ ہوکر اسے تکنے لگا۔۔۔۔۔
” پھر تم نے جھوٹا بیان کیوں دیا ؟؟؟“شاہنزیب حیرت زادہ نگاہوں سے پوچھ بیٹھا۔۔۔۔
”جھوٹا بیان نہیں دیا میں نے ۔۔۔۔میں نے صرف سچ کہا۔۔۔۔مانا آدھا ۔۔۔۔مگر سچ۔۔۔۔۔“ماہنور اپنی بات پر خاصہ زور دیتے ہوۓ بولی۔۔۔۔
”آدھا سچ بول کر تم نے غلط کیا۔۔۔۔۔شارق نے بےقصور ہونے کے باوجود تینوں قتل اپنے سر لے لٸے۔۔۔۔اگر تم اپنا صحیح بیان دیتیں جو واقعی وہاں ہوا تھا تو شارق ۔۔۔۔۔“شاہنزیب ابھی بول ہی رہا تھا کے ماہنور غصے سے تلملا اٹھی۔۔۔۔
” کیوں دودھ کا دھلا ہوا ہے وہ؟؟؟۔۔۔۔۔ جو اس کے لیے تمہیں اتنا غم ہورہا ہے۔۔۔۔تم کبھی ان تینوں کو نہ مارتے اگر شارق انہیں نہ لایا ہوتا۔۔۔۔ سارا پلین اس کا اور جی۔جاجی کا تھا۔۔۔۔ پان میں زہر تھا شاہ اور وہ پان جی۔جاجی خاص تمہارے لیے الگ سے لاۓ تھے۔۔۔۔۔تمھیں مارنے میں سب سے آگے آگے تھے وہ ۔۔۔۔ اور وہ شارق جس پر تمھیں اتنا رحم آرہا ہے وہ کمینا ماسٹر مائنڈ تھا ان سب کا۔۔۔۔۔ اس نے دھوکے سے مارا تھا تمھیں پیچھے سے۔۔۔۔ اس نے ہی تمہیں اتنی بے دردی سے پاؤں سے گھسیٹ کر سیڑھیوں سے نیچے پھینک دیا تھا ۔۔۔۔اس ظالم نے تو اونچاٸی تک کا خیال نہ کیا۔۔۔۔وہی گھٹیا انسان تھا جیسے تمہاری ماہنور سے نکاح کرنا تھا ۔۔۔۔اس نے ہی مولوی صاحب کو بلوایا تھا۔۔۔۔ اس نے تمہاری جان لینے کی بھرپور کوشش کی۔۔۔۔
پھر بھی تمہیں اس کمینے پر رحم آرہا ہے ؟؟؟۔۔۔۔۔میری بات سنو شاہ ۔۔۔۔۔۔“ماہنور نہایت محبت سے چور لہجے میں۔۔۔۔۔ اس کے حسین چہرے پر دونوں ہاتھ رکھ کر ۔۔۔۔اس کا چہرہ ذرا اپنی جانب مڑتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔
” تم بہت اچھے ہو۔۔۔۔ بس یہ قصور ہے تمہارا اور کچھ نہیں۔۔۔۔ اس لئے تمہیں شارق جیسے ظالم پر بھی رحم آ رہا ہے۔۔۔۔پر وہ قابلِ رحم نہیں ہے۔۔۔ شاہ۔۔۔۔۔ تم نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ یقین مانو میرا ۔۔۔۔
تمہیں اس فرحان جیسے لیچڑ کو مارنے کا دوکھ ہے ۔۔۔۔تو یہ بتاؤ۔۔۔۔۔۔ جو اس نے اتنی بے رحمی سے ہماری حویلی کے ملازموں کو مارا تھا وہ ٹھیک تھا؟؟؟۔۔۔۔۔ وہ تو دوسرے والے کی قسمت اچھی تھی۔۔۔۔ کہتے ہیں ناں۔۔۔جسے خدا رکھے اسے کون چکے۔۔۔۔۔ وہ بچ گیا ورنہ اس فرحان نے تو مار ہی دیا تھا۔۔۔۔۔ وہ ملازم تھے تو کیا ؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔تھے تو انسان ہی ناں۔۔۔۔۔۔ ان کے بھی گھر بار تھے۔۔۔۔ ان کی بھی تو فیملی تھی۔۔۔۔ ایک بار نہیں سوچا اس کمینے فرحان نے ۔۔۔۔اور گولی چلا دی۔۔۔۔ اس نے قتل کیا تھا کھلے عام۔۔۔۔ خون کے بدلے ہم نے خون لیا۔۔۔۔۔ تو اس کمینے فرحان کے قتل کا غم نہ کرو۔۔۔۔
دوسرا وہ اختر ۔۔۔۔۔۔ تمہیں نہیں پتا وہ کتنا کمینہ تھا ۔۔۔۔شارق اور پولیس والے کے درمیان لڑائی ہوگئی تھی۔۔۔۔ اس اختر نے لڑائی کا حل یہ نیکالا کہ بیچارے مولوی صاحب کو جو بے گناہ تھے مار دیا۔۔۔۔ ذرا بھی ترس نہ کھایا ۔۔۔ میں مانتی ہوں۔۔۔۔۔۔ مجھے ان پر بہت غصہ تھا کہ انہوں نے کوشش نہیں کی تمھیں بچانے کی یا ان لوگوں کو روکنے کی ۔۔۔۔۔۔بس کھڑے ہو گئے ایک نکاح شدہ لڑکی کا دوسرا نکاح پڑھانے۔۔۔۔۔ پر اب سوچتی ہوں تو لگتا ہے وہ بیچارے تو خود بھت ڈرے ہوئے تھے ۔۔۔۔ وہ ہماری کیا مدد کرتے۔۔۔
سب سے اہم بات اختر قاتل تھا اس نے خون بہایا تھا ۔۔۔۔ایک مظلوم مولوی صاحب کا۔۔۔۔۔۔ہم نے خون کا بدلہ خون لیا۔۔۔۔۔تو کیا غلط کیا؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔
اور وہ تیسرا نیلے کپڑے والا۔۔۔۔۔اسے مارنے کا غم ہے تمہیں؟؟؟۔۔۔۔۔۔ جو ایک وقت آیا تھا کہ تمہاری ماہ نور کی عزت چھینے چلا آیا تھا۔۔۔۔۔۔اسے مارنے کا غم ہے تمہیں شاہ؟؟؟“ماہنور حیرت سے آنکھوں میں جھانکتے ہوئے استفسار کرنے لگی۔۔۔۔۔۔
” تم نے میری عزت بچائی ۔۔۔۔۔تم نے وہی کیا جو کوئی بھی غیرت مند شوہر کرتا۔۔۔۔۔۔۔ تمہارا کوئی قصور نہیں ۔۔۔۔ان تینوں میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جس کے قتل پر کسی کو کوئی نقصان پہنچا ہو بلکہ دعائیں ملیں ہوں گی تمہیں اس ملازم کے گھر والوں کی۔۔۔۔۔ مولوی صاحب کے گھر والوں کی ۔۔۔۔۔۔اور میری“ وہ شہادت کی انگلی اپنے وجود پر رکھ کر بولی ۔۔۔۔۔۔
”شاہ۔۔۔۔۔ بھول جاؤ سب ۔۔۔۔۔۔کوئی قاتل نہیں ہو تم۔۔۔۔۔۔ شارق نے جو بویا وہی کاٹ رہا ہے۔۔۔۔۔ تمہیں پتا ہے شہزاد بھائی بتا رہے تھے کتنا کہرام مچا تھا جب اس ملازم کی لاش اس کے گھر پہنچائی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مظلوم اپنے گھر کا واحد کفیل تھا۔۔۔۔ تمہیں اب بھی لگتا ہے تم نے کچھ غلط کیا؟؟؟۔۔۔۔۔۔ اس بے رحم فرحان کو مار کر ۔۔۔۔۔۔۔یا اس اختر کو مار کر۔۔۔۔۔۔۔یا پھر اس کمینے کو “ ماہ نور نے آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سوال کیا تو شاہنزیب نفی کرنے لگا ۔۔۔۔
”اب آرام کرو شاہ۔۔۔۔باقی باتیں بعد میں کرلیں گے۔۔۔۔۔ چلو لیٹو۔۔۔۔ مجھے شہزاد بھائی نے کہا بھی تھا کہ تم سے زیادہ باتیں نہ کروں اور تمھیں آرام کرنے دوں پر اپنی باتوں میں۔۔۔۔۔میں بھول گئی۔۔۔“ ماہنور نے کہا تو اتنے سارے سوال دل میں ہونے کے باوجود مفلوج ذہن لئے لیٹ گیا۔۔۔۔۔ وہ کمبل اوڑھا کر برابر میں ہی بیٹھ گٸ۔۔۔۔۔ اور آنکھوں میں آنے والی نمی صاف کرنے لگی۔۔۔۔۔
” سو جاؤ شاہ۔۔۔۔۔ میں تمہارے پاس ہی ہوں“ ماہ نور نے بالوں کو سہلاتے ہوئے بڑے محبت سے لبریز انداز میں کہا ۔۔۔۔تو شاہنزیب نے آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر میں ہی نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔۔۔۔۔۔
صبح ہوتے ہی مہمانوں نے آنا شروع کر دیا تھا شاہنزیب کی طبیعت پوچھنے۔۔۔۔ گھر میں قرآن خوانی بھی تھی۔۔۔ پورا دن مہمانوں کی خاطر مدارت میں ہی گزر گیا ۔۔۔
”سو گیا؟؟؟“۔۔۔ ماہنور دادو کے کمرے میں دودھ دینے کی نیت سے داخل ہوئی ۔۔۔۔تو دادو کے بیڈ پر شاہنزیب کو سوتا ہوا دیکھ حیرت سے بولی۔۔۔۔
”ہاں ۔۔۔۔باتیں کرتے کرتے سو گیا “دادو نے جواباً کہا تو اس نے دادو کی جانب دودھ کا گلاس بڑھا دیا
” چہرے پر مایوسی کیوں چھا گئی تمہارے؟؟؟“ دادو نے اس کے چہرے پر مایوسی دیکھ استفسار کیا ۔۔۔تو وہ نفی کرکے شاہنزیب کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھنے لگی۔۔۔
” کیا ہوا ؟؟؟؟۔۔۔۔“۔۔۔۔دادو نے اس کا سر سے پاؤں تک جائزہ لیا تھا ۔۔۔وہ سفید رنگ کی کلیوں والی فراک ۔۔۔چوڑیدار پاجامہ ۔۔۔شانوں پر سرخ رنگ کا دوپٹہ ڈالے۔۔۔۔لاٸٹ سہ میک ۔اپ کٸے ہوۓ تیار کھڑی تھی ۔۔۔
ماہنور نے اس رات کے کافی خواب سجا رکھے تھے جن سے وہ ظالم بے خبر دادو کے کمرے میں سو گیا تھا۔۔۔۔۔
” کچھ نہیں ۔۔۔۔میں چلتی ہوں “وہ منہ بسور کہتے ہوئے مڑ گٸ۔۔۔۔
” کہو تو اٹھا دوں اسے؟؟؟۔۔۔۔“ انہوں نے پوچھا تو وہ فورا پلٹ کر انکار کرنے لگی
”نہیں۔۔۔ اتنی گہری نیند سے جگانا ٹھیک نہیں ہوگا ۔۔۔۔آپ سونے دیں “یہ کہہ کر وہ ابھی مڑ کر ایک دو قدم بھی نہیں چلی تھی کہ دادو نے آواز دے کر روکا تھا۔۔
” اپنے کمرے میں اکیلے کیا کرو گی ؟؟؟۔۔۔۔۔تم بھی میرے پاس سو جاؤ۔۔“ انہوں نے کہا تو پہلے تو وہ منع کرنے لگے
”نہیں دادو۔۔۔۔۔آپ کو پریشانی ہوگی ۔۔۔۔میں سو جاؤں گی رومیسا آپا کے پاس “۔۔۔
” لو۔۔۔ مجھے کیا پریشانی ہو گی۔۔۔۔ تم کون سے اتنی موٹی ہو کے پورے بیڈ پر پھیل جاؤ گی۔۔۔۔ چلو زیادہ نخرے نہ دیکھاؤ ۔۔۔۔چلو آجاؤ۔۔۔۔بچپن میں تم دونوں کیسے لڑائی کرتے تھے یاد ہے ؟؟؟۔۔۔۔“انہوں نے کہا تو ماہنور مسکرا دی اور چٸیر پر بیٹھ گئی۔۔۔۔
” ہاں یاد ہے ۔۔۔۔شاہ کہتا تھا میں آپ کے پاس سوں گا اور میں کہتی تھی ۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔ اس چکر میں اکثر ہم دونوں ہی آپ کے پاس سو جایا کرتے تھے ۔۔۔۔“۔۔۔ماہنور نے بچپن کی سنہری یادوں میں کھوۓ کھوۓ ۔۔۔۔ گہری مسکان لبوں پر سجائے کہا ۔۔۔۔
” ایک بات تو ماننی پڑے گی ماہ نور مجھے تم سے اس قدر عقلمندی کی امید نہ تھی۔۔۔ مجھے تو لگا میری ماہ نور ابھی بھی چھوٹی سی بچی ہے ۔۔۔۔۔میں حیران ہو گئی یہ دیکھ ۔۔۔۔کے جو ماہنور کل تک اتنا خوف زدہ تھی جو خوابوں سے چیخ چیخ کر اٹھ رہی تھی۔۔۔ وہ شاہ کے سامنے کتنی بہادری کا مظاہرہ کررہی ہے۔۔۔۔کیسے اس کی ڈھارس بندھاۓ ہوئے ہے۔۔۔۔کیسے اس کے بکھیرے ہوۓ وجود کو سمیٹے ہوۓ ہے۔۔۔۔شاباش میری بچی ۔۔۔۔“ انہوں نے آنکھوں کی نمی صاف کرتے ہوۓ ماہ نور کو شاباشی دی۔۔۔تو وہ مسکرانے لگی۔۔۔۔
” کیونکہ شہزاد بھائی نے مجھے سمجھا دیا تھا کہ شاہ مجھ سے بھی زیادہ خوفزدہ ہے بس وہ بول نہیں پا رہا اور وہ ان تینوں کے قتل کو لے کر بہت زیادہ افسردہ و رنجیدہ ہے ۔۔۔شہزاد بھاٸی نے کہا مجھے خود کو سنبھالنا پڑے گا تبھی تو میں اسے سنبھال سکوں گی ۔۔۔شہزاد بھائی نے شاہ کو بہت سمجھانے کی کوشش کی پر وہ سمجھا ہی نہیں۔۔۔ اس لیے یہ کام انہوں نے مجھے سونپ دیا ۔۔۔۔ان کے نزدیک میرے علاوہ کوئی نہیں ہے جو شاہ کو اس وقت سمجھا سکے ۔۔۔۔اس کے ضمیر پر رکھا ہوا بوجھ اتار سکے۔۔۔ شاہ نے میری خاطر بہت کچھ کیا ہے۔۔۔۔کیا میں اس کی خاطر سب کچھ بھول کر بہادر نہیں بن سکتی؟؟؟“۔۔۔۔ اس نے کہا تو داو بہت خوش ہوکر اسے خوب دعائیں دینے لگیں۔۔۔
” چلو اب سو جاؤ میرے پاس“ انہوں نے کہا تو ماہنور کمرے کا دروازہ بند کرکے ان کے الٹے ہاتھ کی جانب آکر لیٹ گٸ۔۔۔۔شاہنزیب دادو کے سیدھے ہاتھ کی جانب تھا ۔۔۔۔۔
”ماہنور“ دادو فجر کی نماز کے لئے بہت پہلے سے ہی اٹھ کر ان دونوں کے درمیان سے چلی گئی تھیں۔۔۔ شاہنزیب کی آنکھ ابھی پوری طرح نہ کھولی تھی۔۔۔۔وہ ابھی بھی نیند کے سحر میں تھا ۔۔۔۔اسے اپنے برابر میں ماہنور نظر آئی سوتے ہوئے ۔۔۔۔ماہنور نے اسی لمحے نیند میں کروٹ لی شاہنزیب کی جانب ۔۔۔۔۔۔وہ نیند میں شاہنزیب کے بےحد نزدیک آگٸ تھی۔۔اتنا کے دونوں کی ناکیں مس ہوگئیں تھیں۔۔۔۔۔اس کی گرم سانسوں کی مہک شاہنزیب کو اپنے چہرے پر محسوس ہورہی تھیں۔۔۔
شاہنزیب نے گمان کیا کے وہ ایک حسین خواب میں ہے۔۔۔۔وہ ماہنور کے چہرے کو چومتی ہوٸی لٹوں کو بڑے پیار سے ہٹاکر کانوں کے پیچھے کرنے لگا۔۔۔۔۔
دیوانوں کی طرح بس اسے دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔وہ سوتے ہوئے نہایت حسین گڑیا لگ رہی تھی۔۔۔ بستر پر پڑے ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتا رہا کوئی حرکت نہ کی اس خوف سے کہ کہیں آنکھ نہ کھل جاۓ اور وہ حسن سراپا آنکھوں سے اوجھل نہ ہو جائے ۔۔۔۔۔۔ہوش تو تب بحال ہوا جب فجر کی اذان کی آواز کنوں کی سماعت سے ٹکرائی۔۔۔۔۔ وہ اذان کی آواز پر اٹھ کر بیٹھا تو گھڑی پر نظر گٸ۔۔۔۔
” چلو شاہنزیب افتخار اب اٹھ جاٶ۔۔۔۔۔بہت دیکھ لٸے سنہرے خواب “۔۔۔۔یہ کہہ کر اپنا چہرہ مسلتے ہوئے جیسے ہی نظر ماہنور پر پڑی ۔۔۔۔۔۔
”ماہنور “ وہ بے یقینی سی کیفیت میں بے ساختہ بولا۔۔۔۔ ”نہیں۔۔۔ ماہ نور کیسے ہو سکتی ہے؟؟؟۔۔۔کیا میں ابھی بھی خواب دیکھ رہا ہوں ۔“آہستہ سے اپنے ہاتھوں سے اس کے گلابی گالوں کو سہلا کر ۔۔۔”اوو۔۔۔یہ تو سچ میں ۔۔۔میرے برابر میں سو رہی ہے۔۔۔۔۔۔اففف۔۔۔۔قاتل حسینہ ۔۔۔۔کتنا ظلم ڈھاتی ہو تم اپنے اس دیوانے پر ۔۔۔۔“یہ کہ کر مسکراتے ہوۓ اس کی پیشانی کو چوم لیا۔۔۔۔۔
سب بیٹھے رات کا کھانا کھا رہے تھے ماہ نور پہلے سے ہی کھا چکی تھی۔۔۔۔ وہ جانے سے پہلے شاہنزیب کو دور کھڑے ہو کر اشاروں میں کچھ کہ رہی تھی مگر وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا ۔۔۔۔اسی لمحے اسماء پیچھے مڑی ۔۔۔۔۔اسے ماہنور کے اشارے سمجھ آگئے تھے۔۔۔
"وہ کہہ رہی ہے شاہ۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد دادو یا کسی اور کے کمرے میں سونے مت چلے جانا ۔۔۔سیدھے ہمارے کمرے میں آنا۔ ۔۔۔ میں انتظار کر رہی ہوں ۔۔۔"اسماء نے بےدھڑک منہ پھٹ انداز میں ماہ نور کے اشارے میں کہی ...بات سب کے سامنے بول دی تھی ۔۔۔
"اسماء" دادو نے گھور کر دیکھا تو اسے احساس ہوا یہ بات سب کے سامنے کرنے کی نہیں تھی۔۔۔۔
اسماء زبان دانتوں میں دباتے ہوئے نیچے دیکھنے لگی جبکہ ماہنور اسماء کے یوں سب کے سامنے بول دینے پر جھیپ گئی تھی ۔۔۔تیزی سے اوپر جانے کے لئے لپکی۔ ۔۔مگر کامران نے ماہ نور کو پیچھے سے آواز دی تو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بیچاری مڑی۔۔۔۔
"ِیہ بھی تو کہو۔۔۔ اگر تم نہیں آئے شاہ آج رات ۔۔۔تو سوچ لینا ۔۔۔تمہارا ویلکم ڈنڈوں سے ہوگا "کامران نے زور سے کہا تو سب ہنسنے لگے ۔۔۔ماہنور اس کی بات سن مزید جھیپ گئی۔۔۔۔اس کے گال مارے حیاء کے گلابی ہوگئے تھے۔۔۔۔وہ ایک لمحہ بھی مزید وہاں نہ رکی۔۔۔شرماتے ہوئے تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گئی۔۔۔۔۔ جبکہ شاہنزیب کے لبوں پر گہری تبسم بکھر آئی تھی ۔۔۔
"ویسے شاہ۔۔۔حد ہے تم سے بھی ۔۔۔وہ بیچاری کل تمہارا انتظار کرتی رہی اور تم اپنی دادو کے کے کمرے میں سو گئے" امی نے ڈپٹتے ہوئے کہا تو وہ مزید مسکراتے ہوئے بتانے لگا کہ وہ باتیں کرتے کرتے کب سو گیا اسے خود علم نہ ہوا۔۔۔۔
"ڈیڈ۔۔۔ وکیل کا فون آیا تھا ۔۔۔میں تو بتانا ہی بھول گیا ۔۔شارق کے گھر والے ہم سے مل کر بات کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ وہ چاہتے ہیں معاملہ لے دے کر نمٹا دیا جائے "۔۔۔۔شہزاد نے بتایا تو سب مرد حضرات غصہ ہوگئے۔۔۔
" ہر گز نہیں۔۔۔۔ ہم ان سے کوئی بات نہیں کریں گے "۔۔علی کے والد نے سخت الفاظ میں شہزاد کو دیکھ کہا۔۔۔۔
"شاہ۔۔۔اگر کھانا کھا لیا تو جاؤ اوپر "شاہزیہ آپا اسے کونی مارتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔۔۔
" ہاں شاہ۔ ۔۔جلدی جاؤ "۔۔۔اسماء شوخی سے بولی ۔۔۔۔
"شاہ اس جنگلی بلی کے صبر کا مزید امتحان نہ لو۔۔۔۔ورنہ انجام اچھا نہ ہوگا "کامران نے آنکھ مارتے ہوئے شوخی سے کہا۔۔۔۔
"شاہ دوائی یاد سے کھا لینا" شمسہ بیگم نے کہا تو شاہنزیب اثبات میں سر ہلاتے ہوئے چئیر سے کھڑا ہوا ۔۔۔
"اوووو"سب خوب آوازیں نیکال کر چھیڑنے لگے ۔۔۔جس پر شاہنزیب مسکرانے لگا۔۔۔
"شاہ ۔۔۔کہو تو کمرے تک چھوڑنے آئیں ؟؟؟"علی بھئیا نے چھیڑتے ہوئے آنکھ دبا کر شاہنزیب سے استفسار کیا۔۔۔
"بھائی آپ بھی"شاہنزیب علی کے چھیڑنے پر حیرت سے ٹوکتے ہوئے گویا ہوا۔۔۔جس پر وہ دبی دبی ہنسی ہنسنے لگے۔۔۔
"شاہ دودھ تو لے جاو۔۔۔"جب سب چھیڑ رہے تھے تو ولید کیسے پیچھے رہ سکتا تھا ۔۔۔۔
"مجھے ضرورت نہیں۔۔۔"سب کے چھیڑنے کے سبب وہ ولید کو ذرا جھنجھلا کر کہتا ہوا ابھی ایک قدم ہی بڑھا تھا کے شمسہ بیگم فکرمند لہجے میں روکتے ہوئے بولیں۔۔۔
"شاہ ولید ٹھیک کہ رہا ہے ۔۔دودھ لے جاو۔۔۔روکو میں لے کر آتی ہوں"شمسہ بیگم کہ کر کچن کی جانب بڑھ گئیں۔۔۔۔اسے ناچاہتے ہوئے بھی روکنا پڑا۔۔۔۔سب اسے دیکھ دیکھ کر مسکرائے جارہے تھے۔۔۔۔جس کے سبب وہ کافی امبیرس فیل کررہا تھا۔۔۔
وہ کمرے میں داخل ہوا تو ماہ نور بیٹھ کے کونر سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی اسے دیکھتے ہی اپنی ساڑھی سیٹ کرنے لگی۔۔۔۔
ماہنور نے ساڑھی اتنی اونچی کر لی کہ اس کے پاؤں کی پازیب شاہنزیب کو نظر آئے ۔۔۔۔وہ سرخ لال رنگ کی ساڑھی میں ملبوث تھی۔۔۔ اس نے سارے بالوں کو ایک کندھے پر ڈال رکھا تھا ۔۔۔اس کے ماتھے پر نازک سی بندیا ستاروں کی مانند چمک رہی تھی۔۔۔۔اس نے کوئی خاص میک۔اپ نہ کیا تھا بس آنکھوں میں کاجل اور ہونٹوں پر ڈاک لال رنگ کی لپ اسٹک تھی۔۔۔۔ اس سادگی میں بھی وہ قاتل حسینہ قیامت ڈاہ رہی تھی شاہنزیب پر۔۔۔۔۔
شاہنزیب دودھ کا گلاس ٹیبل پر رکھ کر تکیے پر آکر مسکراتا ہوا لیٹ گیا۔۔۔۔پھر اپنی کونی تکیے سے ٹیکاکر اس پر اپنا چہرہ رکھ بے یقینی سے اس کے وجود کو تکنے لگا۔۔۔۔”کیا ضرورت تھی سب کے سامنے اشارے کرنے کی ؟؟؟۔۔۔۔میں کھانا کھا کر کمرے میں ہی آنے والا تھا۔۔۔۔“۔۔۔۔شاہنزیب نے نہایت نرمی سے کہا تو جواباً ماہنور کھا جانے والی نظروں سے گھورنے لگی۔۔۔۔
”کیا؟؟؟“وہ ناسمجھی سے استفسار کرنے لگا۔۔۔۔
”اب منہ مت کھلواٶ میرا “وہ خفگی سے بولی۔۔۔۔”کل میں تمھارا انتظار کررہی تھی اور تم جاکر دادو کے کمرے میں سو گٸے۔۔۔۔میں تمھیں نیچے ڈھونڈنے آٸی تو اسماء نے بتایا کے تم دادو کے کمرے میں ہو۔۔۔۔۔ میں نے اسماء کے ہاتھ سے دودھ کا گلاس لیا اور تمہیں بولانے کی نیت سے کمرے میں چلی آٸی۔۔۔۔۔پر پتا چلا کہ جناب تو سو رہے ہیں۔۔۔“۔۔۔ ماہنورنے تلخ لہجے میں گویا ہوٸی۔۔۔۔
”ناراض کیوں ہوتی ہو؟؟؟۔۔۔۔۔غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے یار۔۔۔۔ پتا ہی نہیں چلا باتیں کرتے کرتے کب سو گیا ۔۔۔۔۔ کل سوگیا اس کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ آج بھی سو جاتا “ وہ ماہنور کی ناراضگی پر احتجاج کررہا تھا۔۔۔۔
”تمھارا کوٸی بھروسہ نہیں ہے شاہ۔۔۔۔اس لٸے میں نے سوچا جس نے کی شرم اس کے پھوٹے کرم “ماہنور نے ذرا اترا کر کہا تو شاہنزیب کے لبوں پر گہری مسکراہٹ بکھر آٸی۔۔۔۔
”ہاں۔۔۔۔۔ وہ تو تب پوچھوں گا جب نیچے جاؤں گی صبح۔۔۔ نیچے سب ہمارا خوب ریکارڈ لگا رہے ہیں “ شاہنزیب نے آنکھیں چھوٹی کرتے ہوۓ ذرا طنزیہ جواب دیا۔۔۔۔ اور ساتھ ساتھ ریکارڈ لگانے کی اطلاع بھی۔۔۔۔
” لگا رہے ہیں تو لگانے دو ۔۔۔۔سب تمہاری غلطی ہے۔۔۔“ماہنور نے اکڑ کر ساری غلطی شاہنزیب کے سر ڈالی تھی جسے وہ دیوانا بخوشی قبول کر رہا تھا۔۔۔۔۔
” اچھا یہ چھوڑو ۔۔۔یہ بتاؤ کیسی لگ رہی ہوں؟؟؟“ ماہنور اتراتے ہوۓ اپنے بال کانوں کے پیچھے کر پرامید نظروں سے شاہنزیب کو دیکھتے ہوۓ پوچھنے لگی۔۔۔
اس کے سوال کا جواب دیوانے کے لیے الفاظوں میں دینا تو ممکن نہ تھا مگر وہ صرف اسے چڑانے کی نیت سے لاپرواہ ہو کر بولا۔۔۔” ہر بار جیسی لگتی ہو“
”شاہ ۔۔۔۔۔ یہ کیسا جواب ہے؟؟؟ اوپر سے اتنا ٹھنڈا ری۔ایکشن۔۔۔۔ مجھے تو لگا تھا تم خوب سار میری تعریفیں کرو گے ۔۔۔۔کہو گے مانو تم بہت پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔چاند کی روشنی مدھم لگ رہی ہے تمہارے چہرے کے حسن کے آگے۔۔۔۔ تمہارا چہرہ ہے یا کھلتا گلاب۔۔۔۔۔۔۔۔ تم تو سورج کی پہلی کرن کی مانند حسین ہو ۔۔۔۔۔۔اففف میری جان تم تو گڑیا لگ رہی ہو۔۔۔۔ بالکل باربی ڈول ۔۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔پر تم ۔۔۔۔“ وہ منہ پھولا کر دانت پیستے ہوئے بولی۔۔۔۔جس پر وہ چاھ کر بھی اپنی ہسنی نہ دبا سکا۔۔۔۔
”اتنی کیوٹ کیوں ہو تم ؟؟؟“شاہنزیب نے اس کے گال پکڑ کر محبت سے چور لہجے میں پوچھا تو ماہنور کی سانس تھم سی گٸی۔۔۔۔”ہر بار جیسی لگ رہی ہو۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ عام سی لگ رہی ہو۔۔۔۔عام تو تم کبھی لگی ہی نہیں۔۔۔۔۔تم بال کیچر کرتی ہو تو کھلتے گلاب کی مانند لگتی ہو۔۔۔۔۔۔آبشار بکھیرتی ہو تو میرا دل گھاٸل کردیتی ہو۔۔۔۔“ شاہنزیب ماہنور کی پیشانی پر سجی بندیا کو سیٹ کرتے ہوۓ تھوڑے نزدیک آکر رومانیت بھرے لہجے میں گویا ہوا۔۔۔۔۔تو ماہنور کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔۔۔۔۔لگا آج تو ظالم جان ہی نیکال لے گا۔۔۔۔
”جب تم لال رنگ میں ملبوث ہوتی ہو ۔۔۔۔۔قیامت برپا کرتی ہو اپنے اس دیوانے پر۔۔۔۔۔اور پیلا رنگ پہنو تو سورج کی پہلی کرن کی مانند حسین ۔۔۔“اس نے یہ کہ کر ماہنور کا بازو گرفت میں لے کر اپنی جانب کھینچھا تھا۔۔۔۔اگلے لمحے وہ سینے سے آ لگی ۔۔۔۔شاہنزیب نے آج اجازت نہ دی اسے ذرا سہ بھی فاصلہ رکھنے کی۔۔۔۔۔وہ اپنے تن و من سلگتے ہوۓ محسوس کررہی تھی۔۔۔۔۔۔
”میں کوٸی شاعر نہیں ہوں ۔۔۔۔جو تمہاری تعریف کو خوبصورت موتیوں میں پرو کر بیان کر سکوں۔۔۔۔پر دل سے کہتا ہوں ۔۔۔۔میرے لٸے دنیا کی سب سے حسین لڑکی صرف تم ہو مانو بلی۔۔۔۔۔۔جس کی ہر ادا پر سو سو ہزار ہزار جان فدا ہوتا ہے میرا دل۔۔۔۔۔۔۔۔ایک شعر ذہن میں آرہا ہے اجازت ہو تو سنا دوں۔" ۔۔شاہنزیب نے مسکراتے ہوئے اس کی گھنی زلفوں میں اپنے ہاتھ ڈالتے ہوئے پوچھا ۔۔۔وہ کافی نروس ہوچکی تھی ۔۔۔۔ایک نظر اٹھاکر شاہنزیب کی جانب دیکھا تو وہ دشمن جاں اسی کے وجود کو دیوانوں کی طرح تک رہا تھا ۔۔۔اس نے مارے حیاء کے چہرہ جھکا لیا۔۔۔۔
"دل ہے نازاں کے تیری صورتِ زیبا دیکھی
آنکھ حیران کے اک حسن کی دنیا دیکھی
پہلے آنکھیں ہوئیں گرویدہ پھر آنکھوں کی طرح
چاہنے دل بھی لگا آپ کو دیکھا دیکھی۔۔۔❤ شاہنزیب اس کی تھوڑی کو ہلکا سہ پکڑ کر چہرہ جو حیاء کے مارے جھک گیا تھا اسے اونچا کر ۔۔۔۔۔رومانیت بھرے لہجے میں گویا ہوا ۔۔۔
ؓ
ماہنور نے آنکھیں بند کی ہوئیں تھی۔۔شاہنزیب نے اسی لمحے اپنی جیب سے ایک لال رنگ کی ڈبی نیکال کر ماہنور کی جانب مسکراتے ہوئے دیکھا ۔۔"مانو بلی ۔۔۔۔تمھاری منہ دیکھائی کا تحفہ " کہتے ہوئے اس نے ماہنور کے کانوں میں خوبصورت سی جھمکیاں جو سفید رنگ کے موتیوں سے جڑی تھیں ۔۔۔اپنے ہاتھوں سے پہنائیں۔۔۔۔اس کے ہاتھوں کے لمس میں ناجانے کون سہ کرنٹ تھا جو ماہنور کو اپنے پورے وجود میں سرایت کرتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔۔
"آئی لو یو میری جان۔۔۔۔میری خوش قسمتی ہے کہ خدا نے تمہیں مجھے سونپ دیا۔۔۔ اس نے تم جیسی حسین و جمیل گڑیا کا جوڑا میرے ساتھ لکھا ۔۔۔۔۔ یہ میرا دل ہے ناں ۔۔۔ بھرتا ہی نہیں تمھیں دیکھتے دیکھتے۔۔۔۔آنکھیں رجتی ہی نہیں ۔۔۔چاھے کتنا بھی دیکھتا جاوں۔۔۔۔۔۔میرا بس نہیں چلتا وقت کو روک دوں اور اسی طرح بس تمھیں دیکھتا رہوں ۔۔۔"شاہنزیب کی محبت سے لبریز تعریفیں سن ماہنور جھیپ کر اس کے سینے سے لگ گئ۔۔۔۔۔اس نے فورا ہی اپنی حسین و جمیل دولہن کو اپنی باہوں کے حصار میں کس کے جکڑ لیا۔۔۔۔۔
اس لمحے دیوانے کی آنکھوں میں خوشی کے مارے آنسوں بھر آئے ۔۔۔۔اس نے بلندی کی جانب اپنا چہرہ کر کہا: "یا خدا میں تیرا جتنا شکر ادا کروں اتنا کم ہے ۔۔۔۔تو نے مجھے میری سچی اونس عطا کردی۔۔۔مجھے میرے مرض کی دواء عطا کردی۔۔۔پر میں اب اس مرض میں تاعمر قید رھنے کی عارضو رکھتا ہوں۔۔۔۔"
*****------*****🌺🌺🌺
” ماہ نور۔۔۔ ماہ نور ۔۔۔یار ایک کام کرو میرے کپڑے نیکال دو۔۔۔ بھائی آفس جا رہے ہیں۔۔ میں بھی ان کے ساتھ ہی نیکل جاتا ہوں۔۔۔ ورنہ اکیلے مجھے کوئی جانے نہیں دے گا۔۔۔“ شاہنزیب کہتا ہوا کمرے میں داخل ہوا تھا جب اس نے دیکھا کہ ماہنور اس کی بات سن کر کھڑی ہوگی اور الماری سے کپڑے نکالنے لگی تو اس نے ہاتھ تھام کر اس کا رخ اپنی جانب کیا۔۔۔ ”رو رہی ہو؟؟؟“ شاہنزیب اس کی آنکھوں کو لال دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ وہ رو رہی ہے۔۔۔
” نہیں تو۔۔کچرا چلا گیا تھا ۔۔۔۔“وہ نظریں چوراتے ہوۓ گویا ہوٸی ۔۔۔۔”بتاؤ کون سی شرٹ نیکالوں تمھاری ؟؟؟“یہ کہہ کر الماری کی طرف مڑی ۔۔۔
”پہلے ادھر آ کر بیٹھو“ یہ کہتے ہوئے اس کا بازو پکڑ کر زبردستی اسے لا کر بیڈ پر بیٹھا دیا ۔۔۔۔” اب بولو کیا ہوا ہے؟؟؟“ شاہنزیب بڑے پیار سے اس سے پوچھنے لگا۔۔۔
” کہ تو رہی ہوں کچھ نہیں۔۔۔۔“ وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔
” ماہ نور مجھ سے جھوٹ بولنے کی کوشش نہ کرو ۔۔۔۔ بتاؤ کیا ہوا ہے ؟؟؟۔۔۔کسی نے کچھ کہا ہے کیا ؟؟؟۔۔۔“شاہنزیب نے پریشان ہوکر پوچھا تھا ۔۔۔۔
”رباب بہت زیادہ ضد کر رہی تھی اپنے ابو کے پاس جانے کی۔۔۔۔ اس کی ضد کے سبب آپا نے غصے میں آکر اس کے چہرے پر تھپڑ مار دیا ۔۔۔“یہ کر ماہنور بلک بلک کر رونے لگی ۔۔۔
”اچھا۔۔۔۔ چلو خاموش ہو ۔۔۔۔ بالکل خاموش“شاہنزیب کہ کر اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوں اپنے ہاتھوں سے صاف کرکے اسے چپ کرانے لگا ۔۔۔
”ھاۓ میری جان ۔۔۔۔اور کتنا رو گی۔۔۔۔دیکھو کیسے آنکھیں سرخ لال کر لی ہیں تم نے رو رو کر ۔۔۔۔“شاہنزیب محبت سے چور لہجے میں کہ کر اسے چپ کرا رہا تھا۔۔۔” اس میں رونے والی کیا بات ہے؟؟۔۔۔آپا کو غصہ آگیا تو انھوں نے رباب کو ہلکا سہ تھپڑ لگا دیا ۔۔۔۔اس میں تم کیوں بیٹھ کر رو رٸی ہو ؟؟؟“
” کیونکہ انہوں نے مجھے کبھی نہیں مارا ۔۔۔۔ میں تو کتنی شرارتی اور ضدی تھی۔۔۔۔۔پر آج انھوں نے رباب کو مارا۔۔۔ وہ بیچاری بچی تو صرف اپنے ابو سے ملنے کی ضد کر رہی تھی۔۔۔“ ماہنور روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔۔۔”شاہ پلیز ۔۔۔۔جی۔ جاجی کو چھڑوالو ۔۔۔۔پلیز ۔۔۔رباب کی خاطر “اس نے التجاٸی لہجے میں روتے ہوۓ کہا تو شاہنزیب سوچ میں پڑھ گیا۔۔۔۔
”فکر نہ کرٶ ۔۔۔۔میں ہوں ناں۔۔۔۔سب ٹھیک کر دوں گا ۔۔۔میں دیکھتا ہوں میں رباب کی خاطر کیا کرسکتا ہوں۔۔۔“ اس نے بھروسہ دلایا ۔۔۔”چلو اب چپ ہو ۔۔۔۔۔کیونکے روتے ہوۓ تم بہت خوفففففففففففناکککک لگتی ہو۔۔۔۔“شاہنزیب نے اسے چھیڑنے کی نیت سے کافی کھینچتے ہوۓ کہا۔۔۔
”جی نہیں ۔۔میں ان لڑکیوں میں سے ہوں جو روتے ہوۓ بھی کیوٹ لگتی ہیں“ماہنور اپنے آنسوں صاف کر اتراتے ہوۓ بولی۔۔۔جس پر شانزیب زیر لب مسکرایا۔۔۔۔۔
”آپ لڑکی نہیں۔۔۔ عورت ہیں ۔۔۔اور وہ بھی میری عورت “شاہنزیب نے اگلے ہی لمحے اس کے وجود کو گہری بولتی نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہا۔۔۔۔اس کی زلفوں میں اپنے ہاتھ ڈالنے کی نیت سے شاہنزیب نے ہاتھ بڑھایا ہی تھا۔۔۔۔کے ماہنور فورا کھڑے ہوکر بولی ۔۔۔
”لاٶ کپڑے نیکال دوں تمھارے“ماہنور اس کے ارادے بھانپ گٸ تھی ۔۔۔اس لٸے ایک لمحہ بھی ضاٸع کٸے بغیر اس سے دور ہٹی۔۔۔۔شاہنزیب نے مضبوطی سے اس کا ہاتھ تھام کر واپس بیٹھالیا اور مسکراتے ہوۓ اسے گھورنے لگا۔۔۔۔
”کیا؟؟؟“ماہنور جھیپ گٸ تھی اس کی نظروں کی تپش سے ۔۔۔ہلکا سہ اس کی جانب دیکھا تو وہ مسکراتے ہوۓ دیوانوں کی طرح تک رہا تھا۔۔۔۔ماہنور پانی پانی ہورہی تھی اس کی نظروں کی تپش سے۔۔۔۔
”کیوں دیکھنا منع ہے؟؟؟ “وہ بڑے شوخ لہجے میں مسکراتے ہوۓ ابرو اچکا کر پوچھنے لگا۔۔۔
”نہیں پر ۔۔۔۔ اگر ایسے ہی بیٹھ کر دیکھتے رہے تو شہزاد بھائی آفس نیکل جائیں گے اور تم یہیں رہ جاؤ گے“ ۔۔۔ماہنور کے چکر میں وہ تو بھول ہی بیٹھا تھا کے وہ شہزاد کے ساتھ آج آفس جانے کی سوچ رہا ہے۔۔۔۔
”او۔نو ۔۔۔میں تو بھول ہی گیا۔۔۔۔سب تماری غلطی ہے۔۔۔بندے کو روتے وقت اب اتنا بھی کیوٹ نہیں لگنا چاھیٸے کے سامنے والے کا فل مونڈ بن جاۓ۔۔۔۔۔۔۔“شاہنزیب نے اس کے گال کو پیار سے سہلاتے ہوۓ کہا۔۔۔۔”میں نہانے جارہا ہوں ۔۔۔تم جلدی سے میرے کپڑے نیکال کر رکھو ۔۔۔۔“کہ کر تیزی سے واش روم کی جانب لپکا۔۔۔۔۔”اور ہاں ۔۔۔۔بعد میں آکر اچھی طرح دیکھوں گا تمھیں “وہ واش روم سے منہ باہر نیکال ماہنور کی جانب دیکھ مفاہمانہ انداز میں کہ کر آنکھ دبانے لگا۔😉۔۔۔۔۔جس پر ماہنور جھیپ کر مسکرانے لگی۔۔۔۔۔
*****---------*******
وہ کمرے میں داخل ہوا تو اسے ماہ نور اسٹول پر کھڑے ہوکر گھڑی صاف کرتے ہوئے نظر آئی ۔۔۔۔وہ مسکراتا ہوا دبے پاٶں چلتا ہوا آیا ۔۔۔ماہنور کا دل اسے خبر دے چکا تھا کے شاہنزیب آیا ہے۔۔۔۔
شاہنزیب بالکل اس کی اسٹول کے پاس پہنچ گیا ۔۔۔
”شاہ تم نے سلام ۔۔۔۔۔“ماہنور کہتے ہوئے ابھی اس کی جانب دیکھتی اس سے قبل ہی شاہنزیب نے پوری اسٹول ہلادی جس کی وجہ سے وہ اپنا بیلنس برقرار نہ رکھ سکی ۔۔۔اور شاہنزیب پر گرٸی۔۔۔۔
” جب دیکھو میرے پاس آنے کے بہانے ڈھونڈتی رہتی ہو۔۔۔“ شاہنزیب نے اسے زمین پر گرنے سے پہلے ہی اپنی باہوں میں تھام لیا تھا۔۔۔اسے دیکھ ۔۔۔۔ چھیڑتے ہوئے شوخی سے گویا ہوا۔۔۔
”جھوٹے ۔۔۔۔ میں تمہارے قریب آنے کے بہانے ڈھونڈتی ہوں یا تم میرے؟؟؟۔۔۔۔“ وہ ابرو اچکا کر استفسار کرنے لگی۔۔۔ماہنور نے اپنی دونوں باھیں اس کے کندھے میں ڈال لیں تھیں۔۔۔۔
”دروازہ کھلا ہوا ہے ۔۔۔۔کیا کر رہے ہو ۔۔۔نیچے اتارو مجھے “شاہنزیب ذرا اس کے ہونٹوں کے قریب آنے لگا تو ماہنور گھبرا کر بولی ۔۔۔۔۔
”اففف ۔۔۔یہ دروازہ۔۔۔۔“شاہنزیب جھنجھلاکر کھولے ہوۓ دروازے کی جانب دیکھنے لگا۔۔۔۔
”اتارو مجھے “وہ گھبرا کر باربار دروازے کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔۔کے کہیں کوٸی آ نا جاۓ۔۔۔۔جبکے شاہنزیب صرف اپنی مانو بلی پر سو سو جان فدا ہورہا تھا۔۔۔۔
”شاہ ۔۔۔اتارو ناں یار ۔۔۔کوٸی آ جاۓ گا۔۔۔“ماہنور کی جان پر بنی تھی اور شاہنزیب اسے گھبراتا ہوا دیکھ خوب لطف لے رہا تھا۔۔۔۔
”یار مجھے ہنی مون پر جانا ہے ۔۔۔۔۔۔“شاہنزیب اسے دیکھ بڑے شوخ مزاج میں گویا ہوا تو وہ جھیپ گٸی۔۔۔۔
”اتار دو پلیز ۔۔۔۔کوٸی آجاۓ گا۔۔۔“وہ اس بار التجاٸی لہجہ میں اصرار کرنے لگی۔۔۔تو ناچاہتے ہوۓ بھی شاہنزیب نے اسے سیدھا کھڑا کردیا۔۔۔
شاہنزیب اپنی ٹاٸی ڈھیلی کرتے ہوۓ بیڈ پر آکر لیٹا تھا۔۔۔
” بہت تھک گئے ہو ؟؟؟“ماہنور اس کے بالوں کو سہلاتے ہوۓ بڑے پیار سے پوچھنے لگی۔۔۔۔
” ہاں یار۔۔۔۔پر تم چاہو تو ایک منٹ میں میری تھکن اتار سکتی ہو“شاہنزیب اس کا ہاتھ جو بالوں میں تھا پکڑ کر اپنے دل پر رکھ کر مفاہمانہ انداز میں گویا تھا۔۔۔۔
”اچھا جی ۔۔۔۔۔وہ کیسے ؟؟“ ماہ نور اس کی آنکھوں کی شرارت پڑھ چکی تھی پھر بھی انجان بن کر پوچھنے لگی۔۔۔۔
”ابھی بتاتا ہوں “یہ کہ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے وجود پر گرا لیا تھا۔۔۔
”شاہنزہب شاہنزیب “ نیچے سے شہزاد کی زور زور سے اس کا نام پکارنے کی آواز آ رہی تھی۔۔۔۔
” شہزاد بھائی تمہارا نام لے کر اس طرح کیوں چیخ رہے ہیں ؟؟؟“ ماہنور گھبرا کر استفسار کرنے لگی۔۔۔
” لگتا ہے ۔۔۔۔پتا چل گیا “وہ بے ساختہ بولا۔۔۔۔
”کیا پتا چل گیا ؟؟؟“ وہ الجھ کر اسے دیکھ پوچھنے لگی تھی ۔۔۔۔
”نیچے چلو ورنہ خود آ جائیں گے وہ “اس نے کہا اور ٹائی اتار کر بیڈ پر پھینک دی۔۔۔
ماہنور کا ہاتھ پکڑ تیزی سے نیچے آیا تھا۔۔۔۔ سب وہاں پہلے سے ہی موجود تھے شاہنہزیب ماہنور کا ہاتھ چھوڑ شہزاد کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔۔
” تم نے کس سے پوچھ کر اس کمینے انسان کو آزاد کروایا ؟؟؟“ شہزاد نے اس سے پوچھا تو سب تجسس میں پڑ گۓ کہ شاہنزیب نے کس کو آزاد کروا دیا ہے جبکہ ماہنور شہزاد کے کہتے ہی سمجھ گٸ تھی۔۔۔۔
” وہ ۔۔۔۔وہ بھاٸی “شاہنزیب شہزاد کو غصہ سے لال پیلا ہوتا دیکھ کہنے میں ہچکچا رہا تھا۔۔۔۔۔اس نے اپنا تھوک نیگلا تھا۔۔۔۔۔۔
”کوئی ہمیں بھی بتائیے گا کہ کیا ہوا ہے ؟؟؟۔۔۔“علی بھیٸا صوفے سے کھڑے ہو کر بولے۔۔۔۔
” جی جی ۔۔۔۔ضرور بتائیں گے اور جس نے کیا وہ خود بتائے گا۔۔۔۔۔کیا سوچ کر اس نے اتنا عزیم کارنامہ انجام دیا ہے۔۔۔“شہزاد نے شاہنزیب کے وجود کو گھورتے ہوئے بولا ۔۔۔
”شاہ۔۔۔۔۔چپ کیوں ہو؟؟؟۔۔۔۔۔ بولو ۔۔۔۔۔۔کیا کارنامہ انجام دے کر آۓ ہو اس بار ؟؟؟“۔۔۔۔۔افتخار صاحب پوچھنے لگے
”ڈیڈ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔میں نے جی۔جاجی سے اپنا کیس واپس لے لیا۔۔۔ اور انہیں جیل سے آزاد کرا دیا ۔۔۔“شاہنزیب کا نظریں جھکائے کہنا تھا کہ سب کو محسوس ہوا کہ شاہنزیب نے ان کے سر پر بم پھورٹ دیا ہو۔۔۔۔
” کیا کہا تم نے ؟؟؟“۔۔۔علی بھٸیا بے یقینی سے چلتے ہوئے آ کر اس سے دوبارہ پوچھنے لگے۔۔۔۔
” وہ معافی مانگ رہے تھے بہت زیادہ میرے پاؤں میں گر کر۔۔۔“ شاہنزیب نے کہا تو علی بھٸیا غصے سے تلملا اٹھے اور یہ حال ان کے اکیلے کا نہ تھا وہاں موجود ہر شخص یہ سن غصہ کے مارے طیش میں آگیا تھا۔۔۔سواۓ ماہنور اور رومیساء کے۔۔۔۔۔
” تم جیل گۓ تھے ان سے ملنے ؟؟؟۔۔۔“علی نے غصے سے استفسار کیا تو شاہنزیب نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔۔وہ پہلے سے ہی تیار تھا ۔۔۔اسے علم تھا کہ اتنا ہی سخت ردعمل دیکھنے کو ملنے والا ہے ۔۔۔
”پر کیوں ؟؟؟۔۔۔۔کس سے پوچھ کر“ علی بھیٸا روبرو آکر غصے سے پوچھنے لگے۔۔۔
”رباب کی خاطر “شاہنزیب نے نہایت دیھمے لہجے میں جواب دیا تھا ۔۔۔۔
”کیا مطلب ہے تمہارا ؟؟؟۔۔۔۔رباب کی خاطر سے ؟؟؟“علی بھٸیا الجھ کر پوچھ بیٹھے ۔۔۔۔
” بھٸیا دیکھیں جو ہوا ہمیں چاہیے کہ اسے بھول جائیں اور انھیں ایک اور موقع دیں ۔۔۔۔وہ بہت شرمندہ ہیں۔۔۔۔یقین مانیں ان سے غلطی ہوگئی تھی۔۔۔۔ انہوں نے غصے میں آ کر یہ سب کر دیا ورنہ وہ بہت اچھے انسان ہیں “شاہنزیب نے جب رومیساء آپا کے شوہر کی ساٸیڈ لی تو سب حیران ہو گئے ۔۔۔۔
”تم جانتے بھی ہو کیا کہ رہے ہو؟؟؟۔۔۔۔۔ اس نے تمھاری اور ماہنور کی جان لینے کی کوشش کی تھی اور تم اسے صرف غلطی کہ رہے ہو ۔۔۔۔کیا پاگل ہوگئے ہو؟؟؟۔۔۔۔ جو احمقوں والی باتیں کر رہے ہو۔۔۔“علی بھائی نے غصے سے دھاڑتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔
” بھٸیا یہ صرف احمقوں والی بات کر نہیں رہا اس نے عملاً بھی کارنامہ انجام دے دیا ہے۔۔۔۔۔یہ اس گھٹیا انسان کو آزاد کرا کر ہی آیا ہے “ شہزاد نے طنزیہ انداز میں شاہنزیب کا کارنامہ پورے گھر کو بیان کیا ۔۔۔۔
”تم کیسے کر سکتے ہو اتنا بڑا فیصلہ؟؟؟۔۔۔ کیا سوچ کر کیا تم نے یہ ؟؟؟۔۔۔۔اتنے بڑے ہو گئے تم ۔۔۔۔ کہ تم نے ہم سب کی اجازت کے بغیر ہی جا کر سارے فیصلے کر لٸے ۔۔۔۔“علی بھٸیا شاہنزیب کا بازو جھنجھوڑتے ہوئے بولے۔۔۔۔
” میں مانتا ہوں انہوں نے برا کیا ہے ہمارے ساتھ۔۔۔ مگر ہمیں رباب کے بارے میں بھی تو سوچنا چاہیے۔۔۔۔ وہ شخص شاہے جیسا بھی ہے ۔۔۔۔۔۔ہے تو رباب کا باپ ۔۔۔۔۔۔ہم کیسے ایک بچی کو اس کے باپ سے دور کر سکتے ہیں ؟؟؟۔۔۔“شاہنزیب کی بات سن علی کی والدہ جو کب سے غصہ ضبط کر رہی تھیں پھٹ پڑٸیں ۔۔۔۔۔
”نہیں چاہیے مجھے اپنی نواسی کے لئے ایک قاتل باپ ۔۔۔جس نے اتنی بے رحمی سے میری ہی بچوں کو مارنے کی سازش کی۔۔۔۔۔۔تم دونوں جب زندگی اور موت کے بیچ لڑھ رہے تھے۔۔۔۔ تمہیں کیا خبر کہ تم دونوں کو اس حالت میں دیکھ کیا قیامت گزری تھی ہمارے دلوں پر۔۔۔۔ جس ماہنور کو گود میں کھلایا تھا وہ میرے سامنے بے ست پڑی تھی دلہن کے لباس میں۔۔۔۔اس کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔۔۔اس کے ہونٹ نیلے پڑھ چکے تھے۔۔۔ جانتے ہو ڈاکٹر نے کیا کہا تھا ۔۔۔“تاٸی امی شاہنزیب سے روہانسہ لہجے میں آنکھوں میں آنکھیں ڈال جتاتے ہوۓ استفسار کرنے لگیں ۔۔۔۔۔”کہا تھا ۔۔۔۔۔ بہت مشکل ہے کیس ۔۔۔۔زہر پورے جسم میں پھیل چکا ہے وہ کوشش کریں گے اپنی طرف سے ماہنور کو بچانے کی۔۔۔۔پر ہم دستخط کردیں اس کاغذ پر ۔۔۔۔کہ اگر ماہنور کو کچھ بھی ہوا تو ہسپتال کی انتظامیہ کی ذمہ دار نہیں ہے۔۔۔۔ جانتے ہو وہ لمحہ کتنا دشوار تھا ہمارے لئے ۔۔۔۔ہماری بچی۔۔۔۔ ہماری جان۔۔۔۔ ہماری آنکھوں کے سامنے تڑپ رہی تھی۔۔۔۔اور ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔۔۔۔ یہ تو دعائیں لگیں ہیں اسے۔۔۔۔ جو آج تمہارے سامنے کھڑی ہے ۔۔۔ایسے آدمی کے پاس نہیں بھیجنی مجھے اپنی نواسی ۔۔۔۔رباب کے لئے زندہ ہیں ابھی اس کے نانا نانی ۔۔۔۔ہم کریں گے اس کی پرورش۔۔۔۔ اپنی نواسی یا بیٹی کو میں پھر سے اسی قاتل کے پاس نہیں بھیجنے والی۔۔۔“ انہوں نے کہا تو سب عورتوں کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔۔۔
"تائی امی غلطی ہر انسان سے ہوتی ہے ان سے بھی ہوئی۔۔۔ انہیں معاف کردیں۔۔۔ “شاہنزیب التجاٸی انداز میں ان کے سامنے بول رہا تھا۔۔۔۔
” تم کیا دیکھانا چاہتے ہو شاہ ؟؟؟ کے تم ہی واحد ہو جسے رباب کی فکر ہے اس گھر میں ۔۔۔۔ ہم سب کیا ۔۔۔۔۔“راحیل آگ بگولہ ہوکر ابھی بول ہی رہا تھا کہ شاہنزیب نے تیزی سے اس کی بات کاٹ دی۔۔۔
” نہیں ۔۔۔آپ لوگ سمجھ نہیں رہے“شاہنزیب ابھی اپنی بات سمجھانے کی کوشش کر رہی رہا تھا کہ اس بار کامران اس کی بات کاٹ گیا ۔۔۔
”سمجھ تو تم نہیں رہے ہو شاہ۔۔۔۔دونوں بھائی دشمن ہیں تمہاری جان کے۔۔۔ سمجھ نہیں آتا کونسی دشمنی نیکال رہیں ہیں ہم سے۔۔۔ پہلے ایک بھاٸی شادی سے بھاگ گیا۔۔۔۔ پھر بعد میں آکر ہنگامے مچانے لگا ۔۔۔جھوٹی کہانیاں گڑنے لگا ۔۔۔۔۔اور دوسرا بھائی ہمارے ساتھ رہا۔۔۔۔ ہم نے اسے اتنی عزت دی پر اس نے کَیا کِیا ؟؟؟۔۔۔۔ہماری ہی پیٹھ پر خنجر مار دیا سالے نے ۔۔۔۔۔ دیکھو شاہ تم ابھی بچے ہو۔۔۔ ان کی مکاریاں نہیں سمجھ پا رہے۔۔۔۔۔۔ بہت مکار ہیں وہ دونوں بھائی ۔۔۔۔ تمہیں مگرمچھ کے آنسو دیکھا کر پھنسا لیا ہے انہوں نے۔۔۔“ کامران اس کے کندھے پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ ۔۔۔۔۔۔اسے بڑا بھائی ہونے کے ناطے سمجھا رہا تھا۔۔۔۔
” ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔۔۔ ہمارے وکیل کو فون کرو شہزاد ۔۔۔میں اور شاہ پولیس اسٹیشن جا رہے ہیں تاکہ جلد سے جلد کارروائی کرواسکیں۔۔۔اور اسے دوبارا اریسٹ کروائیں“ علی بھائی نے شہزاد پر حکم صادر کیا اور شاہنزیب کا ہاتھ پکڑ کھینچنے لگے۔۔۔۔
” نہیں ۔۔۔۔میں انہیں واپس گرفتار نہیں کراٶں گا۔۔۔ انہوں نے ماہ نور کو مارنے کی کوشش نہیں کی ۔۔۔۔۔حالات ایسے ہوگئے کہ ماہنور کو پان کھانا پڑا۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس میں زہر ہے ورنہ انھوں نے میرے سامنے بار بار ماہنور کو منع کیا تھا کھانے کے لئے۔۔۔۔۔وہ پان صرف میرے لئے تھا ۔۔۔وہ مجھ سے بدلہ لے رہے تھے۔۔۔“ شاہنزیب نے ہاتھ چھڑا کر سب کے سامنے زور دار آواز میں احتجاج بلند کیا۔۔۔۔
” شاہ کیا بےوقوفوں والی باتیں کر رہے ہو۔۔۔۔۔ پان تمہارے لئے تھا تو کیا اس پر کوئی مقدمہ نہیں بنتا؟؟؟۔۔۔ اس نے مارنے کی پرزور کوشش کی ہے تمہیں۔۔۔۔۔ کیا تمہاری نظر میں تمھاری زندگی کی کوئی اہمیت نہیں ؟؟“ علی بھائی شاہنزیب کو اس کی جان کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوۓ غصہ سے بھپر کر بول رہے تھے ۔۔۔۔۔
”میں نے غلطی کی ہے۔۔۔۔۔نہیں بلکہ گناہ کیا ہے۔۔۔۔اس پر بجائے عقلمندی سے کام لینے کے۔۔۔۔ جی۔جاجی نے بھی میرا ہی راستہ اپنایا اور گناہ کے مرتکب ہوۓ۔۔۔ بس اتنی خطاء ہے ان کی۔۔۔۔۔وہ وڈیرے لوگ ہیں ان کے لیے عزت ہی سب کچھ ہے ۔۔۔۔وہ عزت کی خاطر جان لیتے بھی ہیں اور دیتے بھی ہیں۔۔۔۔ “ شاہنزیب کی بات سن سب الجھ گٸے۔۔۔۔۔دادو اور ماہنور سمجھ گٸے اس کا اشارہ کس جانب ہے۔۔۔۔
”شاہ چپ ہو “دادو فورا اسے خاموش کرانے لگیں۔۔۔۔
” نہیں دادو مجھے بولنے دیں۔۔۔۔میری غلطیوں کی سزا کوئی اور کیوں بھوکتے “۔۔۔۔اس نے دادو کو دیکھ کہا ۔۔۔۔
”شاہ صاف صاف بات کرو۔۔۔“ افتخار صاحب ناسمجھی سے اس کی۔جانب دیکھ بولے۔۔۔۔
”ڈیڈ “ شاہنزیب نے گہرا سانس منہ میں بھر کر کہاں تھا۔۔۔ اس نے ہمت جمع کی تھی سب کو سچائی بتانے کی ۔۔۔۔
”شاہ “ماہنور واقف تھی سچاٸی سامنے آتی ہی ایک طوفان برپا ہوگا ۔۔۔جس کی لپیٹ میں آکر شاہنزیب کو صرف نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔۔۔۔
”شاہنزیب خاموش ہو “ شہزاد بھی اسے خاموش کرانے لگا۔۔۔
” شارق جھوٹ نہیں بولتا۔۔۔۔ نہ ہی جی۔جاجی جھوٹ بول رہے ہیں میرے متعلق۔۔۔۔ میں نے واقعی ماہنور کی بارات والی رات “شاہنزیب ابھی بول ہی رہا تھا کہ ولید بھاگتا ہوا آکر اس کا ہاتھ پکڑ کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔۔اس نے آنکھوں کے اشارے سے شاہنزیب کو نفی کی۔۔۔۔۔”یہ حماقت مت کر یار ۔۔۔۔“وہ جانتا تھا کہ یہ سچائی جاننے کے بعد سب کا ری۔ایکشن نہایت سخت ہو سکتا ہے۔۔۔۔ اس لیے منع کرنے لگا۔۔۔۔
”سوری میرے یار ۔۔۔۔پر آج چپ نہیں رہوں گا “شاہنزیب نے بھی آنکھوں ہی آنکھوں میں جواب دیا۔۔۔
”ہاں ۔۔۔۔میں نے بارات والی رات شارق کو اغواہ کیا تھا۔۔۔ میں نے ہی ماہ نور کا نکاح اس رات شارق سے رکوایا تھا اور اسے اغوا کرکے سب کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ میری بات مانیں اور ماہنور کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیں“ شاہنزیب نے کہا تو سب کے منہ کھولے کے کھولے رہ گئے ایسا لگ رہا تھا کسی نے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہو۔۔۔۔۔ہر کوئی شاہنزیب کو حیرت سے تک رہا تھا۔۔۔
رومیساء کو شارق کے کہے الفاظ یاد آرہے تھے جو وہ خود کو بے قصور ثابت کرنے کے لئے بولا کرتا تھا ۔۔۔۔۔
” کیا کہہ رہے ہو تم ؟؟؟۔۔۔۔ہوش میں تو ہو ؟؟؟۔۔۔“علی کے والد جو پیچھے کھڑے تھے وہ آکر شاہنزیب کا ہاتھ پکڑ ۔۔۔۔اپنی جانب موڑ ۔۔۔۔۔بے یقینی سے دوبارا پوچھنے لگے ۔۔۔
”شاہ سچ کہ رہا ہے“ شہزاد شاہنزیب کے برابر میں کھڑا ہو کر سر جھکاۓ گواہی دینے لگا۔۔۔۔۔ ان کے ہاتھ کی پکڑ ڈھیلی ہوگٸی ۔۔۔وہ سر پکڑ کر زمین پر گرنے لگے۔۔۔۔
” تاۓ ابو “شہزاد اور شاہنزیب نے سنبھالنا چاہا تو انہوں نے ہاتھ دیکھا کر روک دیا۔۔۔۔۔
”کیوں کیا ؟؟؟۔۔۔۔۔۔کیوں شاہنزیب ؟؟؟“ ۔۔۔۔۔افتخار صاحب چنگھاڑتے ہوۓ پوچھنے لگے۔۔۔۔
” کیونکہ پیار کرتا تھا ماہنور سے بے انتہاء ۔۔۔اسے کسی اور کا ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا ۔۔۔“شاہنزیب نظریں اٹھائے آنکھوں میں جنون لٸے اپنے والد کو دیکھتے ہوئے بول رہا تھا۔۔۔۔
شاہنزیب کا جواب سب کو ہلا گیا تھا سوائے سعدیہ کے ۔۔۔۔۔
” تم نے تو کبھی کچھ بولا ہی نہیں۔۔۔تم ہم سے کہتے۔۔۔۔ ہم کراتے تمہاری ماہنور سے شادی ۔۔“۔۔۔۔شمسہ بیگم روتے ہوئے بولنے لگیں۔۔۔۔
” کہا تھا میں نے۔۔۔۔۔ بار بار کہا تھا ۔۔۔۔چاہے تو پوچھ لیں دادو سے۔۔۔۔ میں نے بڑے ابو سے خود مانگا تھا ماہنور کا ہاتھ۔۔۔۔۔انہوں نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ میں عمر میں ماہنور سے چھوٹا ہوں۔۔۔۔۔اور کیوں بتاتا میں آپ لوگوں کو؟؟؟۔۔۔۔ آپ لوگ بھی یہی کہتے مجھ سے۔۔۔۔۔
جب میں بار بار مانگتے مانگتے تھک گیا تو میں نے چھینے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔۔ آپ سے کہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا ۔۔۔۔کبھی یاد ہے آپ لوگوں نے مجھ سے پوچھا ہو کہ میں کیا چاہتا ہوں؟؟؟۔۔۔۔ بس لے کر منگنی کرا دی سعدیہ سے۔۔۔ پھر بغیر پوچھے میرا نکاح بھی پڑھوا رہے تھے ۔۔۔آپ لوگوں کو بتانے کا مطلب تھا خود کو اور مشکلوں میں ڈالنا۔۔۔۔ اس لئے میں چپ رہا اور صحیح موقعے کا انتظار کرتا رہا ۔۔۔۔جب ملا تو کرلی ماہنور سے شادی “وہ کہہ کر خاموش ہوا تو افتخار صاحب نے زور دار تھپڑ شاہنزیب کے چہرے پر دے مارا۔۔۔۔
ماہنور یہ دیکھ بھاگتے ہوئے آئی تھیں۔۔۔۔
” نیکل جاؤ۔۔۔۔۔ چلے جاؤ میری نظروں سے دور۔۔ میرے گھر سے نیکلو ابھی۔۔۔۔ عزتوں سے کھیل کر اسے محبت کا نام دے رہے ہو۔۔۔۔۔ تم جیسا بیٹا خدا کسی دشمن کو بھی نہ دے۔۔ نیکلو میرے گھر سے ابھی“ افتخار صاحب غصے سے تلملا اٹھے تھے۔۔۔۔
وہ شاہنزیب کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچتے ہوئے دروازے تک لے آئے ۔۔۔۔۔
”چاچا جان پہلے شاہ کی پوری بات تو سن لیں ۔۔۔“ماہنور افتخار صاحب سے التجاٸیہ انداز میں گویا ہوٸی۔۔۔پھر شاہنزیب سے مخاطب ہوکر ۔۔۔۔۔۔”شاہ کیوں جھوٹ بول رہے ہو؟؟؟۔۔۔۔۔ “وہ روتے ہوۓ شاہنزیب کا ہاتھ چھڑوانے کی بھرپور کوشش کررہی تھی۔۔۔۔۔
” ماہ نور تم ہٹو۔۔۔“ علی بھٸیا نے ماہ نور کا بازو مضبوطی سے گرفت میں لے لیا تھا ۔۔۔
”شاہ نکل جاؤ ورنہ میں کچھ کر بیٹھوں گا۔۔“ افتخار صاحب دھمکی آمیز لہجے میں گویا تھے۔۔۔۔
”نکل جاؤں شاہ ورنہ میں تمہارا خون کر بیٹھوں گا ۔۔۔دفع ہو جاؤ “علی بھائی غصے سے پاگل ہوئے جارہے تھے۔۔۔
ماہنور اور ولید سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ شاہنزیب کیوں آپ جان کر چھوٹ بول رہا ہے۔۔۔۔جبکہ دادو سمجھ گئیں تھیں کہ وہ کیا کرنے کے ارادے میں ہے ۔۔۔اس لیے وہ خاموش تماشائی بنی رہیں۔۔۔۔
” ایک منٹ۔۔۔۔۔تم اکیلے گنہگار نہیں ہو۔۔۔۔۔اگر شاہنزیب گناہ گار ہے اور اِس کی سزا اسے گھر سے نیکال کر دی جا رہی ہے تو میں بھی برابر کا شریک ہوں ۔۔۔۔اس نے اکیلے اغواہ نہیں کیا تھا شارق کو ۔۔۔۔میں بھی پورے پلین میں اس کے ساتھ تھا “ولید آکر شاہنزیب کا ہاتھ پکڑ تن کر کھڑا ہو گیا تھا سب کے سامنے۔۔۔۔۔
” کیا کہا؟؟؟۔۔۔ تم بھی شریک تھے اس کے ساتھ ؟؟؟“ علی بھیا کی پکڑ ولید کی بات سن ۔۔۔۔۔۔خود بخود کمزور پڑ گئی تھی۔۔۔
ماہنور شاہنزیب کے برابر میں آکر ہاتھ پکڑ کر کھڑی ہو گئی تھی۔۔۔۔
اسماء حقا بقا تھی ولید کی بات سن۔۔۔۔آج اسے سمجھا آ رہا تھا کہ شاہنزیب ولید کیوں ہر وقت ساتھ رہا کرتے تھے۔۔۔کیوں دروازے بند کر کر کے باتیں کیا کرتے تھے ۔۔۔۔
”ہاں۔۔۔۔بلکہ میں تو اس سے بھی بڑا دھوکے باز ہوں۔۔۔۔یہ تو اتنا اچھا ہے کے اس کے ضمیر نے جب تک ماہنور کو سب کچھ بتا نہیں دیا سکون نہیں پایا۔۔۔ پر میں تو اس سے بھی بڑا کمینہ ہوں ...میں نے اسماء کو آج تک دھوکے میں رکھا اور پھر بھی سکون سے رہ رہا ہوں۔۔۔۔“پھر وہ اسماء سے مخاطب ہوکر ” تمہیں یاد ہے۔۔۔ تمھیں ایک اچھی نوکری ملی تھی اس کے ساتھ گاڑی بنگلہ بھی ۔۔۔وہ سب میں نے دیا تھا تمہیں۔۔۔۔ جسے تم اپنی محنت سے کمایا ہوا سمجھ کر فخر سے جیتی ہو ۔۔۔وہ سب میں نے تمہیں دیا ہے۔۔۔تاکے تم مجھ سے شادی کے لے راضی ہو جاؤ اور دیکھو تم شادی کے لٸے مان گئیں۔۔ میرے پاس تم نے کوئی راستہ نہیں چھوڑا تھا۔۔۔ میں نے تمہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ میری نظر میں صرف تمہاری اہمیت ہے اور کسی چیز کی نہیں ۔۔۔۔ پر تم نے کبھی میری بات کو سمجھا ہی نہیں ۔۔۔تم مجھے جو چاھے سزا دو۔۔۔۔ پر میں تمھیں بتا دوں۔۔۔میں کل بھی تمہاری بہت عزت کرتا تھا اور آج بھی کرتا ہوں اور ہمیشہ کرتا رہوں گا۔۔۔۔“ ولید نے اعلان کیا تھا۔۔۔۔
اسماء تو جیسے پتھر کی بن گٸ تھی مارے شاکڈ کے ۔۔۔
” بھٸیا مجھے معاف کر دیں“ شاہنزیب التجاٸیہ انداز میں گویا ہوا۔۔۔
” تمہیں معاف کر دیں؟؟؟۔۔۔ تمہیں ؟؟؟“وہ شاہنزیب سے ہی ابرو اچکاکر حیرت سے استفسار کرنے لگے۔۔۔۔۔” جس کی وجہ سے آج بڑے ابو ہمارے بیچ نہیں ہیں ۔۔۔۔“علی بھٸیا نے غصہ سے بھپر کر کہا تو ماہنور مزید ضبط نہ کرسکی اور غصے سے بول پڑی۔۔
اس نے سب کو بتایا کہ ملک صاحب کو کینسر تھا۔۔۔۔
” آپ نے دیکھا ۔۔۔میں آپ کا بھائی ہوں۔۔۔آپ مجھ سے کتنی محبت کرتے ہیں ۔۔۔۔پر یہ سننے کے بعد کے میں نے آپ لوگوں کی عزت سے کھیلا ہے۔۔۔ آپ مجھے گھر سے نیکالنے لگے۔۔۔ دھمکی دینے لگے کہ مار ڈالیں گے۔۔۔ اسی طرح یہ بات جب جی۔جاجی اور شارق کو پتا چلی تو وہ بھی مجھے سزا دینے کے لیے پاگل ہو گئے۔۔۔۔ میں ان کا بھائی تھوڑی تھا جو وہ لوگ مجھے معاف کر دیتے ۔۔۔۔۔انہوں نے اپنی عزت سے کھیلنے کا بدلہ میری جان سے وصول کرنا چاہا۔۔۔۔ “ شاہنزیب نے بڑے ہی اطمینان سے علی بھیا اور سب کو سمجھایا تھا۔۔۔۔
”شاہ ٹھیک کہ رہا ہے “ ملک صاحب کی بیماری کا سن کر سب گھر والے کافی جھم گئے تھے ۔۔۔۔۔بہت افسردہ و رنجیدہ حالت سے دوچار تھے۔۔۔۔۔
شاہنزیب نے انہیں اطمینان سے اپنی بات سمجھائی تھی۔۔۔۔ جب دادو کو ملک صاحب کے کینسر اور ماہنور سے کی ہوٸی آخری گفتگو کا علم ہوا تو وہ مزید قفل کا تالا برقرار نہ رکھ سکیں ۔۔۔۔اور شاہنزیب کی تائید کرنے لگیں۔۔۔۔
” دادو میں مانتا ہوں کہ بڑے ابو بہت خوش تھے شاہ ور ماہنور کی شادی پر ۔۔۔۔۔۔مگر اس کے باوجود شاہ نے جو کیا وہ غلط تھا “علی بھٸیا احتجاج کرنے لگے۔۔۔۔۔۔۔
” ٹھیک ہے۔۔۔۔ کیا ہے غلط شاہ نے۔۔۔۔۔ پر ایک بات میری بھی سن لیں۔۔۔۔ اگر شاہ کو آپ لوگ گھر سے نیکالیں گے تو اس بار میں بھی اس کے ساتھ جاؤں گی کیونکہ صرف شاہنزیب نے مجھ سے محبت نہیں کی تھی۔۔۔میں بھی کرتی تھی۔۔۔۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ میں شارق سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔صرف ڈیڈ کی بیماری کی وجہ سے میں شادی کے لٸے راضی ہوٸی تھی ورنہ پوچھ لیں راحیل پاجی سے ۔۔۔ “ماہنور علی کی بات سن روتے ہوۓ شاہنزیب کا ہاتھ پکڑ اعلانیہ بول رہی تھی۔۔۔۔۔ سب کو بتا رہی تھی کہ غلطی صرف شاہنزیب نے نہیں کی وہ بھی اس کے ساتھ برابر کی شریک رہی ہے۔۔۔
” ماہ نور تم چپ رہو “شاہنزیب اسے گھور کر چپ کرانے لگا۔۔۔۔
” نہیں۔۔۔۔۔ میں چپ نہیں رہوں گی ۔۔۔سن لیں آپ سب ۔۔۔۔میں نے کوئی مجبوری میں آکر شاہنزیب سے شادی نہیں کی۔۔۔۔۔ میں نے اپنی مرضی اور خوشی سے کی تھی “۔۔۔۔ماہنور ڈٹ کر سب کے سامنے بولی تھی۔۔۔۔
دادو حیران تھی ۔۔۔پہلے ملک صاحب کی بیماری کی خبر کا اشکار ہونا اور اب ماہنور کا یوں اظہار محبت۔۔۔۔۔
”تو ماہنور اس لٸے شارق سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔“راحیل پر بھی آج اشکار ہوا تھا ماہنور کے شادی سے انکار کا راز۔۔۔۔۔۔
” شاہ ماہنور کو لے کر اوپر جاؤں “دادو ماہنور کو روتا ہوا دیکھ ۔۔۔۔۔شاہنزیب سے مخاطب ہوکر بولیں۔۔۔۔
”پر۔۔۔۔دادو میری بات۔۔۔۔“ شاہنزیب جو سمجھانا چاہتا تھا وہ بات تو ادھوری ہی رہ گئی تھی ان ساری باتوں میں ۔۔۔
”میں نے کہا اوپر لے کر جاٶ۔۔۔۔ اور تم سب اپنے اپنے کمرے میں جاؤ۔۔۔ آج کے لٸے بہت تماشا ہو گیا ۔۔۔۔اب ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے کے آگے کیا کرنا ہے “۔۔۔۔دادو نے حکم دیا تو سب اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔۔۔
”اسماء میری بات سنو۔۔۔۔“ ولید اس کے پیچھے پیچھے کمرے میں آیا تھا۔۔۔۔
”کیا سنو ؟؟؟۔۔۔۔کچھ باقی ہے سنے کے لٸے ۔۔۔۔یا مجھے جو مزید دھوکے دٸے ہیں وہ سناٶ گے “اسماء غصے سے آگ بگولہ ہوکر بولی۔۔۔۔
”یار ۔۔۔۔۔میں کیا کرتا ؟؟؟۔۔۔۔۔تم نے مجھے مجبور کردیا تھا یہ کرنے کے لٸے “ ولید کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوۓ گویا ہوا۔۔۔
”ولید مجھے ابھی تم سے کوٸی بات نہیں کرنی ہے ۔۔۔۔مجھے ابھی سونا ہے “یہ کہ کر اس نے لیٹ کر جلدی سے کمبل اوڑھ لیا تھا۔۔۔۔
”پر مجھے کرنی ہے ۔۔۔۔“یہ کہتے ہوۓ اس نے کمبل کھینچ لیا ۔۔۔۔
”مجھے نہیں کرنی“اسماء نے ضدی بچے کی طرح پھر کمبل اوڑھ لیا۔۔۔
”مجھے کرنی ہے اور تمھیں کرنی پڑے گی۔۔۔۔“یہ کہ کر اس نے پھر کھینچا تھا۔۔۔۔
”ولید مجھے تنگ مت کرٶ“اسماء غصے سے دانت پسیتے ہوۓ بولتی ہوٸی دوبارا کمبل اوڑھنے لگی۔۔۔
”میں تمھیں تنگ نہیں کررہا۔۔۔۔میں صرف بات کرنا چاھتا ہوں اور تمھیں سنی پڑے گی۔۔۔۔“یہ کہ کر اس بار اس نے کمبل پورا کھینچ لیا تھا وہ آخر کار غصہ سے تلملاتے ہوۓ بیٹھ گٸ۔۔۔۔۔
”بولو“اسماء بے دلی سے اسکی جانب دیکھ بولی
”تم ناراض ہو کس بات پر ؟؟؟۔۔۔۔۔اس پر کے میں نے تمھیں دھوکا دیا ۔۔۔۔یا اس بات پر کے تم نے میرے ساتھ جو پوری زندگی گزاری ہے وہ تمھیں دھوکا لگ رہی ہے یہ سچ جاننے کے بعد ؟؟؟۔۔۔۔۔“ولید اطمینان سے بیٹھ کر استفسار کرنے لگا۔۔۔۔
”اس لٸے کے تم نے مزاق بنادیا میری خواہشات کا۔۔۔میرے ہر ارمان کا۔۔۔۔۔میری عارضو کا۔۔۔۔جس کامیابی کو میں اپنی محنت و قابلیت سمجھتی تھی ۔۔۔۔آج پتا چلا وہ سب تمھاری بھیگ تھی۔۔۔تم نے مجھے مزاق بنا کر رکھ دیا سب کے سامنے۔۔۔۔“اسماء آنکھوں میں آنکھیں ڈال غصے سے بولی۔۔۔۔
”جھوٹ۔۔۔۔میں تمھیں ۔۔۔تم سے بھی بہتر جانتا ہوں۔۔۔۔تم صرف لوگوں کو دیکھانے کے لٸے امیر بنا چاہتی تھیں ۔۔۔۔کوٸی عارضو و ارمان نہیں تھا تمھارا کے تم امیر ہو ۔۔۔۔تمھیں جو لوگوں کی نظروں میں اپنے لٸے حقارت نظر آتی تھی وہ ختم کرنا تمھارا ارمان تھا۔۔۔۔تمھاری خواہش بس یہی تھی کے یہ معاشرہ تمھیں عزت کی نگاہ سے دیکھے۔۔۔۔تمھارے گمان میں وہ عزت تمھیں پیسہ گاڑی عیش وعیشرت کی زندگی دلاسکتی تھی تو تم اس کے پیچھے بھاگنے لگیں ۔۔۔۔میں بتاتا ہوں تمھیں۔۔۔۔۔ تم کس چیز کا ارمان رکھتی ہو ۔۔۔“ولید نہایت جتاتے ہوۓ گویا تھا ۔۔۔۔”تم محبت کا ارمان رکھتی ہو۔۔۔۔۔لوگوں کی نظر میں عزت کی خواہش رکھتی ہو اور چاہتی ہو لوگ تمھیں اتنی عزت دیں جتنی تم قابل ہو۔۔۔۔اب بس ایک سوال کا جواب دو میرے۔۔۔۔۔کیا میں نے تمھاری عزت نہیں کی ؟؟؟۔۔۔۔۔تم سے کبھی محبت نہیں کی؟؟؟۔۔۔۔تمھارا ہر ارمان پورا کرنے کی کوشش نہیں کی؟؟؟۔۔۔۔۔تمھیں جو بھی چیز چاہٸے تھی وہ مانگنے سے پہلے تمھیں لاکر نہ دی۔۔۔۔۔بولو ۔۔۔۔۔یا ۔۔۔۔تمھیں میری محبت بھی دھوکا لگ رہی ہے ؟؟؟؟۔۔۔“اس نے ہاتھ جھنجھوڑتے ہوۓ روہانسہ آواز میں اپنی محبت کا احساس دلایا اور پھر غصے سے اٹھ کر جانے لگا۔۔۔۔وہ تین چار قدم بڑھا ہی تھا کے وہ پیچھے سے آکر چمٹ گٸ۔۔۔۔
”مانو بلی ۔۔۔۔چپ کرٶ۔۔۔۔کیوں رو رو کر ہلکان ہوۓ جارہی ہو ؟؟؟“شاہنزیب اسے بیڈ پر بیٹھاکر خود برابر میں بیٹھتے ہوۓ گویا ہوا۔۔۔۔
”انھوں نے تمھیں مارا ۔۔۔یہ جانتے ہوۓ بھی کے تم بیمار ہو “وہ بلک بلک کر روتے ہوۓ بول رہی تھی۔۔۔
”اففف ۔۔۔اللہ۔۔۔۔کیسے یقین دلاٶں تمھیں ۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔کچھ نہیں ہوا ہے مجھے ۔۔۔۔اور مجھے ڈیڈ نے مارا ہے یار ۔۔۔ان کی مار تو میرے لٸے ذرا بھی تکلیف دہ نہ تھی۔۔۔۔تم خواہمخواہ رو رہی ہو ۔۔۔۔۔دیکھو میری طرف ۔۔۔۔تمھیں لگ رہا ہے مجھے ذرا بھی تکليف ہورہی ہے ۔۔۔یار تم بھی ناں “ شاہنزیب اسے دونوں شانوں سے پکڑ کر اپنی طرف رُخ مڑتے ہوۓ پیار سے چور لہجے میں سمجھا رہا تھا۔۔۔۔
”میں بتا رہی ہوں اگر دوبارا کسی نے بھی تم پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی تو میں اسے چھوڑنے والی نہیں ۔۔۔ایک کام کرتے ہیں ہم یہاں سے کہیں دور چلتے ہیں ۔۔۔۔جہاں کوٸی تمھیں ذرا بھی تکلیف نہ پہنچا سکے۔۔۔۔“ماہنور شاہنزیب کے خوبصورت رخسار پر ہاتھ رکھ کر جذبات سے لبریز گفتگو کرنے لگی۔۔۔۔اس کا دولہا موت کے منہ سے واپس آیا تھا۔۔۔۔شاید یہی وجہ تھی کے ماہنور شاہنزیب کو لے کر اُوور پوزیسف رہتی تھی۔۔۔۔اس کی بات سن شاہنزیب مسکرا دیا۔۔ماہنور کی آنکھوں میں جنون جھلکنے لگا تھا اب۔۔۔۔جسے شاہنزیب نے محسوس کر لیا تھا۔۔۔۔
”ارے بابا۔۔۔۔یہ میری مانو بلی بول رہی ہے۔۔۔۔جو ہنی منون پر بھی پورے گھر کو ساتھ لے جانا چاہتی تھی۔۔۔“شاہنزیب حیرت کا مصنوعی مظاہرہ کرتے ہوۓ ماہنور کی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ بولا۔۔۔گویا اس کی بات کا مزاق اڑا رہا ہو۔۔۔۔۔
”شاہ ۔۔۔میں مزاق نہیں کر رہی ۔۔اب کسی نے بھی تمھیں ہاتھ لگایا تو ۔۔۔۔تم دیکھ لینا پھر میں کیا کرٶں گی “ماہنور نے شاہنزیب کو سنجیدگی سے کہا تو وہ محبت سے اس کے وجود کو تکنے لگا۔۔۔۔
”اچھا بابا۔۔۔۔اب رونا بند کرٶ۔۔۔۔میں سب گھر والوں کو کل صبح ہی وارن کر دوں گا کے اگر کسی نے مجھے ہاتھ لگایا تو سوچ سمجھ کر اپنے ذمہ پر ہوکر لگاۓ ۔۔کیونکے میری مانو بلی نے اپنے نوکیلے پنچے تیز کر لٸے ہیں ۔۔۔اور ۔۔۔“شاہنزیب ابھی مزاحیہ انداز میں بول ہی رہا تھا کے ماہنور نے اس کے سر پر کشن دے مارا ۔۔۔۔
”تم میرے برابر میں بیٹھ کر میرا مزاق اڑا رہے ہو ؟؟“ماہنور تیمور چڑھاۓ تفتيشی افسر کی طرح استفسار کرنے لگی۔۔۔۔جس پر شاہنزیب نہایت معصومانہ چہرہ بناکر ڈرنے کی اداکاری کرتے ہوۓ نفی کرنے لگا۔۔۔
”میں پاگل تھوڑی ہوں جو جنگلی بلی کے برابر میں بیٹھ کر اس سے پنگا لوں “اس نے طنزیہ مسکراہٹ لبوں پر سجاۓ کہا تو ماہنور رونا بھول اس کی جانب مکمل متوجہ ہوگٸ۔۔۔۔شاہنزیب نے ماچس کے ڈبے میں چنگاری لگانے کا کام کیا تھا۔۔۔۔۔نتیجاً ماہنور جل اٹھی۔۔۔۔
”شاہ ۔۔۔تم نے مجھے ابھی جنگلی بلی کہا ؟؟؟۔۔۔۔ہے ناں ؟؟“وہ آنکھیں پھاڑ کر پوچھنے لگی جس پرشاہنزیب نے زبان دانتوں میں دباٸی اور تیزی سے اس کے پاس سے کھڑا ہوا۔۔۔۔کیونکے وہ واقف تھا جنگ اب چھڑ چکی ہے۔۔۔۔
”اوووپسسسس۔۔۔۔زبان سلپ ہوگٸ۔۔۔سچ میں مانو بلی ۔۔۔۔ورنہ تم خود بتاٶ میں تمھیں جنگلی بلی بول سکتا ہوں “اس نے پھر بہانے سے جنگلی بلی کا لقب دے دیا تھا ۔۔۔۔جس پر ماہنور تلملا اٹھی۔۔۔۔
”تمھیں تو میں بتاتی ہوں۔۔۔بھاگ کہا رہے ہو ۔۔۔ڈر پوک۔۔۔۔“ماہنور نے چھوٹی آنکھیں کرتے ہوۓ کہا اور شاہنزیب کے پیچھے دوڑ لگا دی۔۔۔۔
شاہنزیب نے پورے کمرے کا چکر لگوا ڈالا تھا پر ماہنور کے ہاتھ نہیں آیا۔۔۔
”اب کہاں جاٶ گے؟؟؟ “شاہنزیب بیڈ کی جانب بھاگتا ہوا آیا تھا ۔۔۔تو ماہنور بھی بھاگتے ہوۓ آٸی اور اس کا راستہ بلاک کردیا۔۔۔۔ابھی وہ بول ہی رہی تھی کے اچانک اس کا پاٶں سلپ ہوگیا تھا ۔۔۔وہ شاہنزیب پر گرٸی اور شاہنزیب بیڈ پر۔۔۔۔اگلے لمحے اس نے خود کو شاہنزیب کے سینے سے لگا پایا۔۔۔۔وہ خود کو سمبھال کر ہٹتی اس سے قبل شاہنزیب نے اسے باھوں کے حصار میں جکڑ لیا۔۔۔
”جب دیکھو میرے پاس آنے کے بہانے ڈھونڈتی ہو“شاہنزیب شرارت بھری نظروں سے اسے دیکھ گویا ہوا جس پر وہ جھیپ کر رہ گٸ تھی۔۔۔۔
دوسرے دن وہی فیصلہ ہوا جو شاہنزیب چاہتا تھا۔۔۔۔ رومیساء کی بیٹی کی خاطر سب نے جی۔جاجی کو معاف کر دیا ۔۔۔۔۔انہوں نے سب سے خوب رورو کر معافی مانگی ۔۔۔رومیساء آپا اپنے شوہر کے ساتھ خوشی خوشی گھر چلی گئیں۔۔۔۔ شارق کو پھانسی نہیں ہوئی کیونکے اس کے گھر والے یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے تھے کہ فرحان اور اس کے دونوں ساتھی کریمنل تھے ۔۔۔۔
فرحان تو سعدیہ کو گولی مارنے کے جرم میں دو سال جیل بھی کاٹ چکا تھا اور انہوں نے حویلی کے ایک ملازم اور مولوی صاحب کو بے گناہ ہونے کے باوجود کھلے عام قتل کیا تھا اور سب سے بڑھ کر وہ غیر ملکی باشندے تھے اس لئے شارق کو شاہنزیب پر قاتلانہ حملہ کرنے اور غیر ملکی باشندوں کو مارنے کے جرم میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔۔۔۔۔
ایک سال بعد علی بھیا کے گھر بیٹے کی ولادت ہوئی۔۔۔ جس کا نام انہوں نے( دانیال ) رکھا۔۔۔۔ علی بھیا کی طرح ان کا بیٹا بھی خاندان کا سب سے بڑا پوتا تھا پھر کچھ ماہ بعد۔۔۔۔۔
اسماء ولید کے گھر بیٹے کی ولادت ہوٸی جس کا نام انہوں نے (عالیان) رکھا۔۔۔۔ جو نہایت ہی حسین اور تندرست تھا۔۔۔۔
پھر چند ماہ بعد شہزاد کے گھر بیٹی کی ولادت ہوئی جو خاندان کی سب سے بڑی پوتی بنی ۔۔۔۔۔۔اس کا نام دادو نے خود رکھا ۔۔۔۔۔(پارس)
”کتنا خوبصورت ہے شکریہ ثانیہ ۔۔۔آج تم نے مجھے زندگی کی سب سے بڑی خوشی دی۔۔“ راحیل نے اپنے خوبصورت ھون کے بیٹے کو گود میں لے کر ثانیہ کا شکریہ ادا کیا تھا
” راحیل کچھ مانگو تو دو گے ؟؟؟“ثانیہ نے موقع غنیمت جانتے ہوئے لیٹے لیٹے استفسار کیا پرامید نظروں سے دیکھتے ہوئے۔۔۔۔۔
”ہاں ضرور۔۔۔۔ جو بولوگی ۔۔…دوں گا“ وہ بے انتہا خوش تھا اپنے بیٹے کو دیکھ ۔۔۔۔۔اس لٸے مسرت بھرے لہجے میں جواب دیا۔۔۔۔۔
” میرے ڈیڈ کو معاف کردو پلیز ۔۔۔ اللہ خوش ہوتا ہے اپنے اس بندے سے جو دوستی میں پہل کرۓ۔۔۔۔ اللہ کی رضا کی خاطر میرے والد کو معاف کر دو“۔۔۔۔۔آج راحیل منع نہ کر سکا ۔۔۔۔۔خدا کی رضا کی خاطر ثانیہ کے والد کو معاف کر دیا ۔۔۔۔راحل کے بیٹے کا نام اس کے نانا نے ماتھا چوم کر ”حورین“رکھا۔۔۔۔۔اس کی آنکھیں دیکھ مانو سب فدا ہوۓ جارہے تھے۔۔۔۔حورین کو خدا نے گرے رنگ کی نہایت حسین آنکھوں سے نوازا تھا۔۔۔۔۔
*****-------*****
” کامران بھائی آگئے آپ سعدیہ سے مل کر؟؟؟“۔۔۔ کامران دبے پاؤں گھر میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔ گھر میں چھایا ہوا اندھیرا دیکھ اسے اطمینان حاصل ہوا کہ سب سو رہے ہیں۔۔۔۔ دبے پاؤں ابھی پہلی سیڑھی پر چڑھا ہی تھا کہ پیچھے سے ماہنور کی آواز نے خوفزدہ کر دیا ۔۔۔۔۔وہ گھبر کر پیچھے مڑا۔۔۔۔
” میں کوئی سعدیہ سے مل کر نہیں آیا ۔۔۔کچھ بھی بولتی ہو۔۔۔۔ کہہ دیا نا میں نے ۔۔۔۔منہ دکھائی کے وقت دیکھوں گا اسے “وہ ماہنور کو دیکھ کر گڑبڑا گیا تھا پر اگلے ہی لمحے بڑے بھرم سے جھوٹ بولنے لگا۔۔۔۔
” اچھا اب ماہنور سے جھوٹ بولا جائے گا۔۔۔ کامران بھائی ابھی آپ اتنے عقلمند نہیں ہوئے ہیں کہ مجھے بیوقوف بنا سکیں۔۔۔۔ میں جانتی ہوں آپ سعدیہ سے مل کر آرہے ہیں۔۔۔اب سچ سچ بولیں ورنہ۔۔۔“ماہنور صوفے سے کھڑے ہو کر اس کی جانب آکر۔۔۔۔۔ دھمکی آمیز لہجے میں شہادت کی انگلی دیکھا کر بولی۔۔۔۔
” ورنہ کیا کرلو گی ؟؟؟“کامران ڈر تو گیا تھا پر پھر بھی اپنا جھوٹا بھرم قائم رکھتے ہوئے اس کی انگلی کو اپنی انگلی سے گراتے ہوۓ ابرو اچکا کر پوچھنے لگا۔۔۔۔
” ورنہ میں ابھی چیخ چیخ کر سب کو اٹھا دوں گی اور پھر علی بھائی ۔۔۔بڑے چاچا۔۔۔۔۔۔چاچاجان اور سب آپ کے منہ سے خود نیکلوالیں گے کے آپ کہاں تھے ۔۔۔۔“ماہنور اتراتے ہوۓ اپنے دونوں ہاتھ کمر پر ۔۔۔۔۔ دھمکی دیتے ہوئے کہا تو کامران سٹ پٹا گیا۔۔۔۔۔
” مانو تمھارا شوہر کہاں ہے ؟؟؟۔۔۔اس سے اس کی بیوی سنبھالی نہیں جا رہی ہے کیا؟؟؟۔۔۔۔ اتنی رات کو باہر کیوں گھوم رہی ہو ۔۔۔۔جاؤ کمرے میں جاٶ ۔۔۔۔۔اپنے شوہر کے پاس۔۔۔“کامران نے چاہا کہ وہ غصہ کر کے اسے چپ کرا دے۔۔۔۔
” میں یہاں ہوں کامران بھائی اور میں ہی اپنی بیوی کو یہاں لایا تھا ۔۔۔دراصل اس نے مجھے ذمہ داری سونپی تھی کہ آپ پر نظر رکھوں۔۔۔ اور میں نے اپنی ذمہ داری بخوبی ادا کی۔۔۔۔۔ہے ناں مانو ؟؟؟“شاہنزیب ماہنور کے پیچھے سے نیکل کر آیا تو کامران حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔وہ آکر کامران کے کندھے پر ہاتھ رکھ اطمینان سے کھڑا ہوگیا۔۔۔
” شاہ تم بھی اس کے ساتھ مل گۓ ؟؟؟“ کامران منہ کھولے حیرت سے پوچھنے لگا جس پر شاہنزیب کے چہرے پر گہری تبسم بکھر آئی اور اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔۔
” چلیں اب فالتو باتیں بہت ہوگئیں۔۔۔۔اب کام کی بات پر آتے ہیں۔۔۔۔ چلیں نکالیں پیسے“ اس نے کامران کے سامنے ہاتھ پھیلا کر پیسوں کا مطالبہ کیا تھا۔۔۔۔
”کیوں بھٸی۔۔۔۔پیسے کس بات کے ؟؟؟“وہ ابرو اچکاکر حیرت سے استفسار کرتے ہوئے احتجاج کرنے لگا۔۔۔۔
” چپ رہنے کے اور پلیز جلدی دیں۔۔۔۔ مجھے سونے بھی جانا ہے آخر کل بارات ہے آپ کی۔۔۔۔مجھے فریش دکھنا ہے۔۔۔“ماہنور اتراتے ہوۓ اپنی انگلی سے بالوں کو لپیٹتی ہوٸی بولی۔۔۔۔
”اس وقت تو زہر دکھ رہی ہو “ وہ الفاظ چباتے ہوئے دانت پیس کر بولا۔۔۔۔
” دے رہے ہیں یا شور مچاٶں ؟؟“ ماہنور فل دھمیکی دیتے ہوۓ۔۔۔۔
”شاہ۔۔۔ کچھ تو بولو اسے “کامران شاہنزیب کی جانب متوجہ ہوا تھا بیچارگی والا چہرہ بناۓ۔۔۔۔۔۔ جو آرام سے کھڑا دونوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
” بھئی آپ دونوں بہن بھائیوں کا معاملہ ہے میں کیا بولوں“ اس نے مسکراتے ہوئے بڑی ہوشیاری سے خود کو اس معاملے سے دور کر لیا تھا ۔۔۔۔
” اب دے بھی دیں۔۔۔۔ زیادہ نخرے نہ دکھائیں۔۔۔۔“ماہنور جھنجھلاتے ہوئے بول رہی تھی۔۔۔۔۔
”اچھا لو“ پہلے کامران احتجاج کرنے لگا لیکن جب دیکھا کہ وہ احتجاج کو خاطر میں نہیں لا رہی تو جھنجھلا کر ماہنور کے ہاتھ میں پانچ ہزار پکڑا دیٸے۔۔۔
”یہ کیا ہے ؟؟؟“ماہنور نوٹ پکڑ کر اسے دیکھ ۔۔۔۔
منہ بسورتے ہوئے بول رہی تھی
” نظر نہیں آرہا ۔۔۔ پورے پانچ ہزار کا نوٹ ہے “کامران نوٹ کی اہمیت جتلاتے ہوۓ۔۔۔
” نظر آ رہا ہے مجھے بھی۔۔۔۔“پہلے تو ماہنور طنزیہ بولی لبوں پر مسکان سجاۓ۔۔۔ ”نہیں بھٸی۔۔۔۔یہ تو بہت کم ہیں۔۔۔ مجھے شاہ کو بھی %20 دینے ہیں۔۔۔۔اب اتنے سے پیسے ہیں۔۔۔ میں خود لوں یا شاہ کو دوں۔۔۔سمجھا کریں کامران بھاٸی “پھر اگلے ہی لمحے بیچارگی والا چہرہ بناۓ معصومیت سے بولی۔۔۔۔
” شاہ کو دینے ہیں پر کیوں؟؟؟“ کامران الجھ کر پوچھنے لگا۔۔۔۔
” تو فری میں تھوڑی آپ کی جاسوسی کر رہا تھا وہ۔۔۔۔آپ بہت بولتے ہیں۔۔۔ ساری باتیں ختم کریں اور پیسے دیں “ماہنور اب اکتاہٹ کا اظہار کر رہی تھی۔۔۔
”یہ لو “کامران نے بےدلی سے پھر ایک پانچ ہزار کا نوٹ نیکال کر ماہنور کے ہاتھ میں رکھا۔۔۔۔
” کامران بھائی اتنی کنجوسی۔۔۔ قبر میں لے کر جائیں گے کیا اپنے پیسے ۔۔۔۔کم از کم پچاس ہزار تو دیں “ماہنور کی ڈیمانڈ تو آسمانوں سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔
” تو تم دونوں میاں بیوی اپنے پیسے قبر میں لے کر جاؤ گے کیا؟؟؟ اتنا پیسہ ہے تم دونوں میاں بیوی کے پاس پھر بھی مجھ بیچارے غریب سے لڑکے کے پیچھے پڑے ہو“کامران نے بیچارگی ظاہر کی۔۔۔
” نہیں دراصل ہمارے پیسوں میں ناں وہ مزہ نہیں ہے جو آپ کے پیسوں میں ہے۔۔۔۔۔یقین مانیں۔۔۔ آپ کے جل کوکڑ کر جیب سے نیکالے گئے پیسے انمول ہیں۔۔۔۔ چلیں اب دیں بھی۔۔۔ اور دیر نہ کریں ۔۔۔۔“ماہنور نےجھنجھلا کر کہا۔۔۔تو کامران کو مجبوراً اپنی جیب خالی کرنی پڑی۔۔
”اب تو چپ رہو گی ناں؟؟؟“کامران ابرٶ اچکا کر پوچھنے لگا۔۔۔۔
”بلکل ۔۔۔ایک لفظ بھی کبھی منہ پر نہیں آۓ گا۔۔۔۔آپ بے فکر رہیں کامران بھاٸی۔۔۔یہ ماہنور شاہنزیب کا وعدہ ہے آپ سے“ماہنور خوشی خوشی پیسے لے کر چلی گٸ تھی۔۔۔۔
”ویسے شاہ واقعی تم ماہنور سے جاسوسی کے پیسے لو گے ؟؟“ ماہ نور کے جانے کے بعد شاہنزیب بھی جانے لگا تو کامران نے پیچھے سے آواز دے کر تعجب سے پوچھا۔۔۔۔
”نہیں۔۔۔۔آپ بھی کس پر یقین کررہے ہیں۔۔۔۔ وہ تو صرف آپ سے پیسے نکلوانے کے لیے بےوقوف بنا رہی تھی۔۔۔“شاہنزیب کہتا ہوا چہرے پر گہری تبسم سجائے ۔۔۔۔چلا گیا۔۔۔۔
”ماہنور کی بچی ۔۔۔مجھے بےوقوف بناکر ڈبل پیسے لے گٸ۔۔۔۔اسے تو میں بعد میں دیکھ لوں گا “۔۔۔۔کامران دانت پستا رہ گیا تھا۔۔۔۔
آج کا دن نہایت حسین ترین اور خوشگوار تھا ماہ نور کے گھر جڑواں بیٹا بیٹی کی ولادت ہوئی تھی ۔۔۔۔سب بہت خوش تھے ۔۔۔”شکریہ.... مجھے سمجھ نہیں آرہا ۔۔۔۔کیا کہوں “ شاہنزیب اپنی بیٹی کو گود میں لیے روہانسہ آواز میں بول رہا تھا ماہنور سے.....
” شاہ ہم سب لائن میں کھڑے ہیں یار ۔۔۔۔تم کب تک منی کو لٸے کھڑے رہو گے؟؟؟“ کامران منچلا ہو کر بولا تھا۔۔۔
” یار میری باری کب آئے گی ؟؟؟۔۔۔۔میں بچوں کی آنی ہوں “ اسماء بےصبری ہوکر بولی۔۔۔
” آۓ گی۔۔۔۔ آۓ گی۔۔۔۔ سب کی باری آئے گی۔۔۔“ بھابھی اعلانیہ بولیں تھیں ۔۔۔۔
” ماہ نور واقعی دونوں بہت پیارے ہیں۔۔۔۔“ دادو نے اس کا ماتھا چوم کر بچوں کی تعریف کی تھی۔۔۔۔ منا تو صرف انہی کی گود میں تھا البتہ منی پر باریاں لگ رہی تھیں۔۔۔۔
” ماہنور تم اتنی بڑی کب ہوئیں۔۔۔۔ ایسا لگ رہا ہے کل ہی کی بات ہو جو بڑے ابو نے تمہیں میری گود میں دیتے ہوئے کہا تھا کہ رومیساء اسے سمبھالو “رومیسا آپا نم آنکھوں سے ماہنور کو گلے لگاتے ہوئے بولیں۔۔۔۔
” ماہ نور میری بڑی خواہش تھی جڑواں بچے دیکھنے کی۔۔۔جو تم نے آج پوری کردی ۔۔۔۔بہت پیارے ہیں دونوں ۔۔۔“اسماء کی گود میں منا آگیا تھا اور سعدیہ اسی کے برابر میں منی لٸے کھڑی تھی۔۔۔۔ ان دونوں بچوں کو ایک ساتھ دیکھ ثانیہ مسرت بھرے لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔
” لاٶ۔۔۔۔ میری گود میں دو ذرا “شاہزیہ آپا سعدیہ سے بولیں تھیں۔۔۔۔
” یہ لیں آپا“سعدیہ نے مسکراتے ہوئے منی شاہزیہ آپا کو دی ۔۔۔۔
” ماہ نور مجھے تو یقین نہیں آرہا ہماری بچی جو کل تک ثمر بونڈ لگا کر ہمارے ساتھ شرارت کیا کرتی تھی۔۔۔وہ آج خود دو بچوں کی ماں بن گئی ہے“ علی بھٸیا ماہ نور کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بڑی محبت و شفقت سے گویا ہوۓ۔۔۔۔ان کی آنکھیں دیکھ ۔۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا ابھی رو دیں گے۔۔۔۔
” یہ لو ستارا۔۔۔۔۔“ شمسہ بیگم نے دونوں بچوں پر سے پیسے اثار کر۔۔۔صدقہ ستارا کو دیا تھا غریبوں میں بانٹنے کے لیے۔۔۔۔
” امی مجھے بھی دیں منےکو۔۔۔۔“ شہزاد نے اپنی امی سے منے کو مانگا تھا۔۔۔۔
صبا اور شہزاد ایک ساتھ منے سے کھیلنے لگے تھے۔۔۔۔۔
”آنی یہ منی تو مجھے دیکھ رہی ہے“ جنید خوش ہو کر بولا تھا ماہنور سے۔۔۔
”نہیں۔۔۔ منی مجھے دیکھ رہی ہے“ جمشید فورا ہی بول پڑا تھا۔۔۔جنید جمشید کی باتیں سن ۔۔۔۔ ماہنور شاہنزیب ایک دوسرے کو دیکھ مسکرانے لگے۔۔۔۔۔
”مبارک ہو یار ۔۔۔تو بھی پاپا بن گیا “ولید بڑے گرم جوشی سے شاہنزیب کے گلے لگا تھا آتے ہی ۔۔۔۔
”کہاں تھا تو ؟؟“شاہنزیب نے ابرو اچکاۓ دیر سے آنے کی وجہ استفسار کی ۔۔۔۔
”یار ٹریفک میں پھنس گیا تھا“ولید بیچارگی والا چہرہ بناۓ بولا۔۔۔۔
” میں ابھی آتا ہوں“شاہنزیب سب کو کمرے میں چھوڑ ۔۔۔عباس سے ملنے باہر گیا تھا ۔۔۔
”یہ لو۔۔۔۔۔بہت بہت مبارک ہو“ عباس نے پھولوں کا گلدستہ دیتے ہوئے مبارک باد دی تھی۔۔۔۔۔
” اندر آجاؤ“شاہنزیب کمرے میں بلانے لگا۔۔۔۔
” نہیں۔۔۔۔ بس ٹھیک ہے “عباس نے کہا تو شاہنزیب اسے لے کر وہیں باہر بیٹھ گیا اور وہ دونوں باتیں کرنے لگے۔۔۔۔
” یار۔۔۔ جتنی محبت تم کرتے تھے۔۔۔۔ مجھے تو لگتا تھا وہ تمہیں کبھی نہیں ملے گی۔۔۔ کیونکے اکثر حد سے زیادہ محبت کرنے والے اپنی محبت نہیں پایا کرتے۔۔۔۔۔ وہ مر جاتے ہیں یا لوگ انھیں جدا کر دیتے ہیں ۔۔۔کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوتا ہے کہ وہ نہیں مل پاتے۔۔۔۔ “عباس نے کہا تو شاہنزیب کے چہرے پر گہری تبسم بکھر آٸی۔۔۔۔۔
” اس لیے کیونکہ میں نے بغاوت کر کے خدا سے نہیں مانگا۔۔۔۔ میں نے کبھی یہ نعرہ نہیں لگایا کے محبت ایسی کرتا ہوں کہ محبوب کو دیکھوں تو خدا کو بھول جاؤں۔۔۔۔ معاذاللہ۔۔۔۔ میں نے تو اپنے خدا سے ہی اسے ہمیشہ مانگا۔۔۔ میں نے اور عاشقوں کی طرح محبوب کی کھڑکی کے باہر چکر نہیں کاٹے۔۔۔۔۔۔میں نے تو مسجد میں ہی ڈیرا ڈال لیا۔۔۔۔۔کے مالک تو ہی دے۔۔۔۔کیونکے تو ہی دے سکتا ہے ۔۔۔۔۔ اور اس نے مجھے دے دیا۔۔۔۔ مانا میں نے ضد کر کے اسے پایا جو غلط تھا پر وہ عاشق ہی کیا جس نے ضد کا کلمہ نہ سیکھا ہو۔۔۔۔۔ اور عاشق محبوب کی خفگی کو بدلنے کے لیے ضد پر اترتے ہیں ۔۔۔۔میں نے ایسا نہیں کیا۔۔۔ میں نے اپنے محبوب سے کوئی ضد نہ کی ۔۔۔۔بس اپنے خدا سے مانگتا رہا“۔۔۔۔شاہنزیب کا جواب اپنے اندر بہت سے معنی سمیٹے ہوئے تھا۔۔۔۔ عباس اس کی دیوانگی بھری باتیں سن مسکرادیا۔۔۔۔۔
شاہنزیب نے اپنی بیٹی کا نام ”نور“ رکھا جیسا کہ اس کی عارضو تھی۔۔۔۔۔
بیٹے کا نام افتخار صاحب نے ”زوہیب“ رکھا۔۔۔۔
وقت ریت کی طرح پھنسل گیا اور کامران سعدیہ کے گھر بیٹی کی ولادت ہوئی جس کا نام علی نے بڑی محبت سے (رمشاء) رکھا۔۔۔۔ کامران اور سعدیہ کو لاہور جانا پڑا وہاں سے کامران نے اپنے خود کے نئے بزنس کی ابتدا کی۔۔۔۔۔
راحیل اور ثانیہ ۔۔۔۔اسماء ولید کے ساتھ امریکہ چلے گٸے۔۔۔۔۔
****---------*******
”شاہ “ وہ آفس سے واپس لوٹا تو نور کے کمرے کی جانب چلا آیا۔۔۔۔۔وہاں ماہنور نڈھال بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی اسے دیکھ کر نور پاپا پاپا کرکے گود میں چڑھی تھی ۔۔۔شاہنزیب اسے گود میں لے کر ماہنور کے برابر میں بیٹھ گیا۔۔۔۔جو نہایت بے حال نظر آرہی تھی۔۔۔۔۔
”شاہ“ماہنور نے روتو منہ بنا کر اپنا خوبصورت چہرہ شاہنزیب کے شانو پر ٹیکایا تھا۔۔۔۔۔
” کیا ہوا میرا بچہ؟؟؟“ اس نے نور کو پیار کرتے ہوئے ماہنور کی جانب دیکھ بڑے پیار سے پوچھا۔۔۔
”مت پوچھو شاہ ۔۔۔۔۔ تمہاری بیٹی مجھے ناک منہ چنے چبوا رہی ہے۔۔۔“ اس نے شکوہ کرتے ہوئے کہا تو شاہنزیب کے زیر لب گہری مسکراہٹ بکھر آئی ۔۔۔۔
” میرا زوہیب جتنا سیدھا ہے ناں۔۔۔۔ یہ اتنی ہی تیز ہے۔۔۔ بہت تنگ کرتی ہے مجھے “ماہنور نے منہ بسور شیکایت کی تو وہ نور سے جو پانچ سال کی ہو چکی ہے بڑے پیار سے استفسار کرنے لگا ۔۔۔۔۔
”نور ۔۔۔۔اب کَیا، کِیا آپ نے بیٹا؟؟؟۔۔۔ آپ نے تو وعدہ کیا تھا ناں مجھ سے کہ ماما کو تنگ نہیں کرو گی پھر کیوں تنگ کیا؟؟؟“
”پاپا ۔۔۔میں نے نہیں کیا۔۔۔بلکے ماما مجھے بہت تنگ کرتی ہیں ۔۔۔“نور معصومانہ چہرہ بنائے اپنی توتلی زبان میں نفی کرنے کے ساتھ ساتھ الٹا ماہنور کی شکائیت لگانے لگی۔۔۔جیسے سن ماہنور نے اسے بڑی بڑی آنکھیں دیکھاٸیں جبکے شاہنزیب نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کو ہونٹوں میں دبایا تھا۔۔۔۔
”واہ۔۔۔۔واہ۔۔۔۔۔نور بی بی۔۔۔۔کیا کہنے آپ کے۔۔۔۔“ماہنور نور کو دیکھ دانت پیستے ہوۓ بولی۔۔۔۔۔۔”خود دیکھ لو اپنی لاڈلی بیٹی کو۔۔۔۔“پھر وہ شاہنزیب سے مخاطب ہوکر غصے سے بولی۔۔۔۔
”اووو۔۔۔بیٹا ایسا نہیں کہتے ۔۔۔۔ماما سے سوری کرٶ۔۔۔“شاہنزیب نے ریفری بن کر ان دونوں کی دوستی کرائی تھی۔۔۔۔
” اچھا جاؤ۔۔۔زوہیب کو بلاکر لاؤ۔۔۔۔بولو پاپا بلا رہی ہیں۔۔۔“شاہنزیب کے کہتے ہی نور تیزی سے زوہیب کو بلانے کے لٸے بھاگنے لگی۔۔۔۔
” نور آہستہ چلو“ ماہنور فکرمند لہجے میں بولی تھی اسے بھاگتا ہوا دیکھ کر۔۔۔۔
”پتا ہے کَیا کیا ہے تمہاری لاڈلی نے۔۔۔ پہلے تو میں نے اسے تیار کیا تو جاکر کچن میں اس نے سارا آٹا خود پر انڈیل لیا۔۔۔ میں جب کچن میں پہنچی تو صاحبزادی آٹے سے کھیل رہی تھیں۔۔۔۔ میں نے پھر اتنی مشکل سے زبردستی پکڑ کر اسے نہلایا۔۔۔۔۔۔اتنا شور مچارہی تھی نہاتے وقت کے اللہ اللہ۔۔۔۔۔۔ پھر میڈم صاحبہ گارڈن میں جاکر پودوں میں سے مٹی نیکال کر کھیلنے لگیں۔ ۔۔۔۔سارے کپڑے مٹی میں کر لٸے تھے۔۔۔۔افففف۔۔۔۔۔مجھے پھر زبردستی پکڑ کراسے نہلانا پڑا۔۔۔اور تمھیں تو پتا ہی ہے نور نہانے کی کتنی چور ہے۔۔۔“ ماہنور تھکے تھکے لہجے میں نور کی ساری شکایات اسے بتا رہی تھی۔۔۔۔ جسے سن کر شاہنزیب مسکرا دیا۔۔۔۔
”مسکراٶ مت یار۔۔۔۔کچھ کرٶ۔۔۔۔“
” کیا کروں؟؟؟۔۔۔ اب وہ شرارتوں میں تمہاری بھی ماں ہے تو اس میں میری کیا غلطی۔۔۔۔ برداشت کرٶ۔۔۔۔جیسے ہم سب کرتے تھے تمہیں“ اس نے پیاری سی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے کہا۔۔۔
” جی نہیں۔۔۔ میں اتنی شرارتی نہیں تھی جتنی تمہاری بیٹی ہے۔۔۔۔ میں تو اپنے بیٹے کی طرح بالکل سیدھی سچی سی تھی۔۔۔“ ماہنور نے اس کے کندھے سے سر ہٹا کر اپنی شرافت کا قصیدہ پڑھا ۔۔۔ تو شاہنزیب پھٹی بھٹی نظروں سے اسے تکنے لگا۔۔۔
” سیدھی سادی اور تم۔۔۔۔۔ اچھا مذاق ہے۔۔۔۔۔ رومیساء آپا سے پوچھو کتنا تنگ کرتی تھی تم انھیں ۔۔۔۔ سب گھر والوں کی ناک میں دم کیا ہوا تھا تم نے۔۔“شاہنزیب نے کافی جتاتے ہوۓ کہا۔۔۔
” کیا واقعی میں بہت تنگ کرتی تھی آپا کو؟؟؟“ اس نے معصومانہ چہرہ بنائے استفسار کیا تو شاہنزیب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔۔
”بیچاری میری آپا۔۔۔۔“ ماہنور رومیساء کی بیچارگی پر ترس کھاتے ہوئے بولی۔۔۔” اب خود پر بیت رہی ہے تو پتا چل رہا ہے شاید تبھی جب میں کھانا لے کر نور کو کھلانے کی نیت سے اس کے پیچھے بھاگ رہی ہوتی ہوں ناں۔۔۔۔ تو وہ بہت ہستی ہیں “ماہنور مسکراتے ہوئے گویا تھی۔۔۔۔
”اچھا اب آگے کا کیا ؟؟؟“شاہنزیب معنی خیز انداز میں بولا۔۔۔۔
”کیا مطلب ؟؟؟“ماہنور ناسمجھی سے استفسار کرنے لگی۔۔۔
”مطلب ۔۔۔ابھی تو صرف دو ہیں ۔۔۔۔ہمیں تو پوری کرکٹ ٹیم بنانی ہے ۔۔۔۔توووووو “ شاہنزیب منچلا ہوکر شرارت بھری نظروں سے اس کے بحال سے وجود کو دیکھ گویا ہوا ۔۔۔۔ جس پر ماہنور نے پاس رکھا تکیہ اٹھایا تھا۔۔۔۔
”سوچنا بھی مت ۔۔۔تمھاری نور دس پر بھاری ہے۔۔۔۔اسی نے میرے سارے ارمان اچھی طرح پورے کر دیے ہیں ۔۔۔خود تو تم آفس چلے جاتے ہو۔۔۔تمھیں کیا خبر کیسے سمبھالتی ہوں میں ان دونوں کو“ ماہنور تھکے ہوۓ انداز میں منہ بسور بولی۔۔۔۔
”یار ۔۔۔دو بچے تو بہت کم ہیں ۔۔۔کم از کم آٹھ بچے تو ہونے چاہیے۔“شاہنزیب نے اسے چھیڑنے کے لیے کہا۔۔تو ماہور پلو ہاتھ میں اٹھا کر گھورنے لگی۔۔۔۔
”اچھا یار۔۔۔غصہ کیوں ہوتی ہو۔۔۔تھوڑا کم کر لیتے ہیں ۔۔۔چھ ۔۔۔اب ٹھیک ہے۔۔۔۔بھٸی چھ تو ہونے ہی چاہئے“ شاہنزیب اچھی طرح واقف تھا کہ ماہنور کی کیا حالت ہے ۔۔۔پھر بھی اسے چھیڑنے کے لئے کہہ رہا تھا۔۔۔
”چھ۔۔۔۔“یہ کہ کر ماہنور اس پر پلو سے وار کرنے لگی تھی وہ بھی فورا دوسرا پلو اٹھا کر جوابی حملہ کرنے لگا۔۔۔۔
دونوں نے ایک دوسرے پر خوب حملے کٸے جس کے نتیجے میں پلو کے اندر کی سفید روٸی باہر نکل آئی تھی ۔۔۔۔اور ان دونوں کے اردگرد پھیل گئی تھی۔۔۔۔
”شاہ ۔۔۔بس کرٶ ۔۔۔لگ رہی ہے مجھے “ ماہ نور نے کہا تو شاہنزیب نے وار کرنا فورا روک دیا تھا۔۔۔۔ پلو پھٹ چکے تھے اور ہر طرف روٸی پھیلی نظر آ ہوئی تھی یہاں تک کہ ماہنور کے بالوں میں بھی۔۔۔
”آٸی لو یو مانو بلی “شاہنزیب نے مسکراتے ہوۓ اس کی گھنی آبشار سے روٸی ہٹاکر ۔۔۔اس کے وجود کو گہری بولتی نظروں سے تکتے ہوۓ کہا تھا۔۔۔۔جس پر وہ جھیپ کر شرمگیں سے نظریں جھکا کر مسکرانے لگی۔۔۔۔اسی لمحے پاپا ۔۔۔پاپا کرتے نور اور زوہیب آکر اس کی گود میں ایک ساتھ چڑ گۓ۔۔۔
”یا خدا ۔۔۔میں تیرا جتنا شکر ادا کرٶں اتنا کم ہے ۔۔۔۔تو نے مجھے زندگی کی ہر خوشی دے دی۔۔۔۔۔“شاہنزیب اپنے دل میں خدا کا شکر ادا کرنے لگا۔۔۔اپنے بچوں اور ماہنور کے چہرے پر پیاری سی مسکان دیکھ۔۔۔۔
❤HAPPY ENDING❤
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write
Marz E Ishq Ki Dawa Tum Ho Season 1 Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Marz E Ishq Ki Dawa Tum Ho Season 1 written by Husny Kanwal E Ishq Ki Dawa Tum Ho by Husny Kanwal is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment