Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 31&35 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday, 11 October 2024

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 31&35

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 31&35

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Storiesa

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 31&35

Novel Name: Hum Mi Gaye Yuhi 

Writer Name: Ismah Qureshi  

Category: Continue Novel

"لالہ۔۔!! آپ کو آغا جان بلارہے ہیں۔انہیں کوئ بات کرنی ہے آپ سے۔۔!! آپ ہمارے ساتھ چلیں ۔۔!!"

فدیان بیڈ پر لیٹا چھت کو گھور رہا تھا۔ جب وشہ اس کے کمرے میں آئ۔ اور آتے ہی اسے دراب آفریدی کا پیغام دیا۔ ہفتہ ہوچکا تھا جرگے کے فیصلے کو اور آج نکاح ہونا تھا وشہ اور فدیان کا۔

اور آج ہی دراب آفریدی نے یہ بات ان دونوں کو بتانے کا ارادہ کیا تھا۔ 

وشہ کی بات سن کر فدیان نے حیرت کے مارے اسے دیکھا۔

"وشہ آغاجان نے مجھے بلایا ہے اور وہ بھی بات کرنے کے لیے ۔تم مزاق تو نہیں کررہی نا۔!!!"

وہ فورا اٹھ بیٹھا ۔تو وشہ نے نفی میں سر ہلایا ۔

"ہم کیوں مزاق کریں گے انہوں نے خود کہا ہے کہ اس گھر کے سب سے عقلمند انسان، تابعدار، فرمانبردار، ہونہار، لائق، فائق اور سنجیدہ انسان کو چھوڑ کر جس کو دل چاہے بلا لاؤ۔ ہمارے ذہن میں تب سب سے پہلا خیال ہی آپ کا آیا تو ہم یہاں آگۓ۔ !!"

وشہ کی پہلی باتیں سن کر فدیان نے فخر سے اپنے بال سیٹ کیے پر اگلی بات سن کر اس کا منہ کھل گیا۔ اور وشہ کی ہنسی چھوٹ گئی ۔

 "زیادہ تیز نہ بناکرو۔بہت بولنے لگی ہو تم۔ کرتا ہوں تمہیں سیٹ میں۔ تمہارا جہیز بنارہا ہوں میں بس کچھ چیزیں رہ گئ ہیں پھر کرتا ہوں میں تمہیں رخصت۔۔!! بڑا شوق ہے نا تمہیں وکیل بننے کا اب اپنے سسرال کے مقدمے لڑتی رہنا ۔!!"

خفگی کا اظہار کرکے فدیان بیڈ سے نیچے اترا اور ڈریسنگ ٹیبل کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا۔البتہ وشہ کی چھوٹی سی ناک پر اس وقت غصہ سوار ہوچکا تھا۔ شادی کے نام سے ۔

"لالہ۔۔!! ہمیں ہلکے میں مت لیں ۔آپ کیا ہمیں رخصت کروائیں گے ہم ہی آپ کو ونی کروا دیں گے۔ بہت شوق ہے نا آپ کو مظلوم بننے کا تو آپ کو ہم نے سچ میں مظلوم نہ بنادیا تو ہمارا نام بھی وشہ آفریدی نہیں ۔۔!!

 کہتے ہیں ہم بابا سے کہ آپ کو کسی راہ چلتے بندے کو دے دیں۔یا پھر کسی مانگنے والے کے کشکول میں ڈال دیں آپ کو ۔جیسے آپ پر ترس کھاکر آپ کو مانگنے والے سے لے کر انہوں نے پالا تھا۔ ویسے ہی اب آپ سے جان چھڑوا لیں وہ ۔۔!!!"

وہ بھی غصے سے بولی۔ چہرا ضبط کی انتہا سے سرخ ہورہا تھا اس کا۔ فدیان نے مڑ کر اس شیرنی کو دیکھا جس کا غصہ بالکل درمان جیسا تھا۔ وہ اگر ایک بار ٹھان لیتی تو پھر اسے ونی کرواہی دیتی۔ لیکن فدیان بھی اس کا ہی بھائ تھا باز آنا اس نے سیکھا ہی نہیں تھا۔

"استغفر اللہ ۔۔!! میں آغاجان کا سگا بیٹا ہوں۔مجھے کسی سے لے کر نہیں پالا انہوں نے۔  یہ فضول باتیں نہ کیا کرو تم۔ بڑا ہوں میں تم سے میری عزت کرو ۔۔!!! 

اور سر جھکا کر رکھا کرو میرے سامنے۔ ورنہ میں سچ میں تمہیں ونی کردوں گا۔ کسی ظالم جلاد کو ۔جو تمہیں سیدھا کردے گا۔آئ بڑی مجھے بھکاریوں کے کشکول میں ڈالنے والی۔ ہوا کے جھونکے سے اڑنے والی اب مجھے باتیں سناۓ گی۔فدیان آفریدی کو۔!!!"

اس نے وہیں کھڑے ہوکر رعب سے کہا ۔پھر اپنا کالر ٹھیک کرکے اپنا چہرہ شیشے میں دیکھنے لگا۔ جہاں نشان اب بس نام کے تھے ۔

"آپ کے سامنے سر تو ہم مر کر بھی نہ جھکائیں۔ اغواہ کاروں کے ہاتھوں پٹ کر آۓ ہیں خود اور باتیں ہمیں سنارہے ہیں۔ہم آپ کو لالہ کہہ دیتے ہیں نہ تو یہ ہی بہت بڑا احسان ہے ہمارا آپ پر۔ اور آپ کوی آغاجان کے سگے بیٹے نہیں ہیں۔ سچ کڑوا ہے پر یہی سچ ہے کہ مانگنے والا آپ کو سڑک پر چھوڑ گیا تھا پھر آغاجان نے ترس کھاکر آپ کو پالا۔ یہ راز انہوں نے خود ہمیں بتایا ہے۔ ذیادہ ہواؤں میں نہ اڑا کریں آپ۔ ورنہ ہم ایک لمحے میں آپ کو سیدھا کردیں گے ۔۔!!"

وہیں کھڑے ہوکر وہ غرائ کہ لمحے کے لیے فدیان نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اسے غصہ بھی اس نے خود دلایا تھا۔ اب بھگتنا بھی اسے خود تھا۔فدیان اور ہار مان جاۓ ناممکن ۔

تبھی تو اس نے کانوں میں انگلی گھما کر بیزاریت سے وشہ کو دیکھا ۔ پھر لاپرواہی سے آنکھیں گھمادیں کی جو کرنا ہے کرو۔ لیکن سوتیلا ہونے والا راز جان کر اس کا دل بھی لرزا کہ شاید ایسا ہی ہو۔ تبھی تو گھر میں اس کی ویلیو نہیں ہے۔

"مجھے تو پہلے ہی پتا تھا کہ میں آغاجان کی سگی اولاد نہیں ہوں۔ میں پاگل ہی ہوں جو سچ سامنے دیکھ کر بھی انجان بنتا رہا۔ بس بہت ہوگیا اب میں اپنے اصل ماں باپ ڈھونڈوں گا پھر ان لوگوں کی آدھی جائیداد پر قبضہ کرکے اپنے ماں کو لے کر بھاگ جاؤں گا اس ملک سے۔

 ویسے جنہوں نے مجھے سڑک پر چھوڑا تھا وہ اس قابل ہے تو نہیں کہ ان کا بھلا سوچا جاۓ۔ پر ہیں تو میرے ماں باپ ہی نا۔ بس طے ہوا میں اب ولن بن جاؤں گا ۔"

فدیان نے چہرہ دوسری طرف کرکے رونی صورت بنائ ۔ سچ واقعی میں بہت کڑوا تھا۔ البتہ وشہ پورے اعتماد سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"لالہ جان۔۔!! اگر آغا جان کو پتہ لگ جاۓ کہ رشوت دے کر آپ نے بی بی اے کے لاسٹ والے دو سیمسٹر جو پاس کرنا آپ کے بس کی بات نہیں تھی وہ پاس کیے تھے۔

 یہ بات ایک پروفیسر کو پتہ لگ گئ تھی جو سیدھا انہیں ان کے نالائق بیٹے کے کرتوت بتانے آرہے تھے۔ تو آپ نے ان پروفیسر کو اغواہ کروایا تھا نا صرف اغواہ کروایا بلکہ انہیں اتنا ٹارچر کیا اپنی باتوں سے کہ وہ یونی ہی چھوڑ گۓ۔ اس کے علاؤہ آپ آغاجان کے جعلی دستحظ کرکے ان کے اکاؤنٹ سے پیسے بھی نکلواتے رہے ہیں۔ اور ۔۔!!"

وشہ نے بولنا شروع کیا تو فدیان کے ہوش اڑ گۓ یہ وہ راز تھے جو اس کے علاؤہ کوئ نہیں جانتا تھا۔ اگر کوئ جان جاتا تو فدیان کو اس کے آغاجان جائیداد سے ہی عاق کردیتے۔

تھوک نگل کر وہ اس کی بات کاٹ گیا۔

"تمہیں کس نے بتایا یہ سب۔ یہ الزام ہیں مجھ پر۔ جھوٹ ہے یہ سب ۔ میں بہت شریف انسان ہوں۔۔!!"

فدیان آگے بڑھا اور مشکل سے بااعتماد رہ کر صفائ دی۔

وہیں وشہ کے چہرے پر جتاتی مسکراہٹ تھی ۔ 

"ہم جانتے ہیں آپ 'شریف' ہیں تبھی تو یہ سب کررہے ہیں۔یاد رکھیں 'شریف' تو خود پر لگے الزامات دھو گۓ۔ پر آپ کو ہم باعزت بری نہیں ہونے دیں گے۔ہم اس ملک کا قانون تھوڑی ہیں ۔۔!! 

خیر آپ کے سارے راز باحفاظت ہمارے دماغ میں محفوظ ہیں۔ تو ابھی کے ابھی خود کو کچرے کے ڈبے سے ملا بچہ مان جائیں اور کہیں کہ ہم آپ سے زیادہ پہنچی ہوئ چیز ہیں تو باخدا ان باتوں کی بھنک بھی کسی کو نہیں پڑے گی۔ ورنہ۔۔۔!!"

ہاتھ پشت پر باندھ کر بات کو دانستہ طور پر ادھورا چھوڑ کر وشہ اس کے سامنے جلادینے والی مسکراہٹ سنگ کھڑی ہوئ۔ تو فدیان نے اپنی پانچویں انگلیاں کھول کر اپنے منہ کی طرف کیں پھر زبردستی ہنس کر سر ہاں میں ہلایا۔

وہ بھول گیا تھا کہ چھوٹی بہن سے پنگا لینے کا مطلب اپنی بربادی کو آواز دینا ہے ۔ وہ سب بھول سکتی ہے پر بھائ کے راز نہیں بھول سکتی۔ اور وقت آنے پر دھمکیاں بھی اچھی خاصی دے سکتی ہے۔ جیسے وشہ نے فدیان جیسے راکٹ کو چپ کرواکر ثابت کردیا کہ وہ بھی شیرنی نے ۔

"میں کچڑے کے ڈبے میں پڑا گندا مندا اور بدبودار بچہ تھا۔ جسے اس کے کم ظرف والدین سڑک پر چھوڑ گۓ۔ ہوسکتا ہے وہ آس پاس ہی کہیں ہوں پر آغاجان نے جلدی سے مجھے اٹھا لیا ہو کہ کہیں اتنا پیارا بچہ ہاتھ سے نہ نکل جاۓ۔ خیر میں سوتیلا ہوں۔

میرا کوئ گھر نہیں ہے۔یہ گھر وشہ کا تھا وشہ کا تھا اور وشہ کا ہی رہے گا۔۔ !! 

یا اللہ مجھے ونی ہی کردے تاکہ مجھے اپنا گھر تو ملے۔۔!!"

ہاتھ اٹھا کر اس نے دہائ دی تو یہیں وشہ ہنس پڑی ۔ یہ ڈرامے باز بندہ کبھی سدھر نہیں سکتا تھا ۔

 فدیان نے بھی اپنے نادیدہ آنسو پونچھے ۔

"ہم مزاق کررہے تھے لالہ۔مزہ آرہا تھا ہمیں آپ کی رونی صورت دیکھ کر !! ہم بھلا کیوں آپ کے راز آغا جان کو بتائیں گے۔ آغاجان نے کونسا آپ کو قابو کرلینا ہے۔ یہ تو آپ کی بیوی ہی کریں گی۔ویسے آج بھی آپ ہم سے ڈر گۓ۔ مانتے ہیں نا پھر آپ کہ آپ کی بہن آپ کی بھی استاد ہے۔ "

وشہ نے فرضی کالر جھاڑے ۔یہ سب اس نے صرف فدیان کو تنگ کرنے کے لیے کیا تھا۔ یہ سن کر فدیان کی جان میں جان آئ۔ تو اس نے بھی گہرا سانس خارج کیا۔پھر اس کی ناک دبا کر وہ واپس ڈریسنگ ٹیبل کے پاس چلا گیا۔وہ سچ میں ڈر گیا تھا کہ وشہ سب کو سچ بتادے گی ۔

"ڈرا دیتی ہو تم مجھے۔ میرے اتنے گہرے راز تک تمہیں پتہ ہیں۔مجھ سے آگے کی چیز ہو تم۔تمہیں وکیل نہیں جاسوس بننا چاہیے تھا۔ میری بیوی کا تو پتہ نہیں پر اپنے اس مظلوم بھای کو تم نے قابو میں کیا ہوا ہے۔ اچھا اب تم جاؤ میں بھی ذرا منہ دھو کر آجاؤں گا۔ سانس تو تم نے روک ہی دیا ہے۔ !!"

اپنا تیز تیز دھڑکتا دل تھام کر وہ واش روم کی طرف چلا گیا۔ تو وشہ کی ہنسی کی آواز کمرے میں گونجی ۔ وہ سمجھ میں آنے والی لڑکی نہیں تھی۔ جو جیسا ہوتا وہ کوشش کرتی کہ اس کے ساتھ ویسی ہی بن جاۓ۔

درمان کے لیے سنجیدہ ، زرلش کے لیے معصوم اور فدیان کے لیے وہ اس کے جیسی شرارتی لڑکی تھی۔جو اسے تنگ کرتا اپنا بدلہ وہ خود ہی لیتی۔ کسی کی مدد کی بھی ضرورت نہیں تھی اسے۔

 اب یونہی تو درمان نہیں کہتا کہ وشہ دیار کو پاگل کردے گی۔ جو اپنے بھائ کی چھوٹی سی بات پر اس کے راز کھول سکتی ہے۔ وہ دیار کا کیا حال کرے گی۔

 یہ تو وقت ہی بتاتا۔ 

 ہاں یہ بھی ہوسکتا تھا کہ وہ اس کے لیے اس جیسی ہوجاۓ۔ یا پھر اس کی ہو ہی نہ کبھی ۔

وہ بھی واپس نیچے لاؤنج کی طرف چلی گئ۔ وہاں اس کے بابا اس کے منتظر تھے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"کیا کررہے ہیں یہ آپ..!!! چھوڑیں میری بیٹی کو ۔!!"

سبرینہ بیگم چلائیں پھر معصومہ کا ہاتھ جو دلاور خان کی گرفت میں تھا اسے آزاد کروانا چاہا۔ معصومہ کو دلاور خان زبردستی اپنے ساتھ لے جارہے تھے۔ اور معصومہ اس افتادہ پر اتنا ڈری تھی کی کہ اس کے حلق سے آواز بھی نہیں نکل پارہی تھی۔

ابھی دوپہر کا وقت تھا۔ معصومہ کی طبیعت پہلے ہی موسم بدلنے کی وجہ سے خراب تھی۔ وہ ابھی کمرے میں اپنی ماں کے پاس لیٹی تھی۔جب دلاور خان کسی طوفان کی طرح ان کی پر سکون زندگیوں میں محل ہوگۓ۔ سبرینہ بیگم کو کچھ دنوں سے ان کے تاثرات بدلے بدلے لگ رہے تھے آج جب انہوں نے اچانک معصومہ کو اپنے ساتھ لے جانا چاہا تو ان کی جان لبوں پر آگئ۔

سبرینہ بیگم کا ہاتھ دلاور خان نے جھٹک دیا۔

"ہر کام کے بیچ میں اپنی منحوسیت نہ ڈالا کرو ۔ بیٹی ہے یہ میری میں کچھ غلط نہیں کروں گا اس کے ساتھ۔ آج نکاح ہے اس کا دراب آفریدی کے بیٹے کے ساتھ۔ سامان باندھ دو تم اس کا۔ ڈرائیور کے ہاتھ بھجوادینا۔ !! اب ہٹو میرے رستے سے ۔۔ !!"

وہ جھنجھلا کر بولے تو دراب آفریدی کے بیٹے کے ساتھ نکاح کا سن کر ان کا اگلا سانس بھی اٹک گیا۔وہ کتنی خوش تھیں کہ ان کی بیٹی اب اس جہنم سے نکل جاۓ گی۔ اسے دیار جیسا سلجھا ہوا انسان ملے گا۔ جو اسے نارمل کردے گا۔ وہ بھی باقیوں جیسی ہوجاۓ گی۔ ہنس مکھ اور بولنے والی۔ 

وہ پیدائشی ایسی نہیں تھی نہ اس کی زبان میں لڑکھڑاہٹ پیدائشی تھی یہ سب خوف کا نتیجہ تھا جو اس کے دماغ کو پوری طرح جھکڑ چکا تھا۔ اگر وہ ذہنی طور پر پرسکون ہوجاتی تو آہستہ آہستہ بالکل ٹھیک ہوجاتی ۔ اسے پرسکون ماحول کی ضرورت تھی نہ کہ اس بات کی کہ اسے ونی کردیا جاۓ۔ ظالموں کے حوالے کردیا جاۓ۔۔!!

"وہ وہی شخص ہے نا جس کے بیٹوں پر آپ نے حملہ کروایا تھا۔ ایک کو موت کے منہ تک اور دوسرے کو مہینوں اپنی قید میں رکھا ہے آپ نے۔۔۔!! دلاور کوئ خدا کا خوف کریں آپ۔ ذرا اس معصوم کی طرف دیکھیں یہ آپ کے گناہوں کا کفارہ ادا کرسکتی ہے بھی یا نہیں ۔

 یہ مرجاۓ گی رحم کریں اس پر ۔ !!! آگے ہی اس کی پوری شخصیت آپ کی سفاکیت کی نظر ہوگئ ۔ اللہ کا واسطہ ہے آپ کو بخش دیں اسے۔۔۔!!!"

انہیں دراب آفریدی کے بارے میں سرسری سا پتہ تھا کہ وہ وہی شخص ہے جس سے ان کے شوہر نے بیر بنارکھا ہے۔ تبھی انہوں نے ہاتھ تک جوڑ دیے ۔

پر دلاور خان کو کہاں فرق پڑتا تھا ان باتوں سے ۔

انہوں نے ایک حقارت بھری نظر ان کے وجود پر ڈالی۔

"سبرینہ ہنگامہ کھڑا کرنے کی کوئ ضرورت نہیں ہے۔ ہوگا تو وہی جو میں چاہوں گا۔ تو بہتری اسی میں ہے کہ تم بھی راستے سے خود ہی ہٹ جاؤ۔  منحوس عورت...!!!!! شکوے سنانے سے فرصت نہیں ملتی اسے۔ اور چلی ہے میرا مقابلہ کرنے۔۔!!!"

ان کے وجود سے آنکھیں پھیر کر دلاور خان معصومہ کو تقریبا گھسیٹ کر وہاں سے لے جانے لگے۔ جو اب کی بار تکلیف سے رودی۔کب سے وہ شاکڈ تھی تبھی آواز بھی ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ پر اب ماں سے دور جانے کا سوچ کر آنسوؤں کو خود آواز مل گئ۔ 

سبرینہ بیگم دوبارا سے ان کے راستے میں آئیں ۔

آنکھوں میں بلا کی سختی تھی۔ انہوں نے نفرت سے دلاور خان کی آنکھوں میں دیکھا۔

"میں کہیں نہیں لے جانے دوں گی آپ کو اسے۔جب گناہ کرتے وقت آپ کو ڈر نہیں لگتا تو اب سزا بھگتنے کے لیے جرگے کو اپنا آپ پیش کیوں نہیں کررہے آپ۔ نا مردوں کی طرح اپنی بیٹی کسی فالتو شے کی طرح کیوں دے رہے ہیں دشمن کو۔ 

کوئ غیرت بچی ہے آپ میں یا نہیں۔

میری بچی آپ کی غلام نہیں ہے جو اسے اٹھا کر دشمنوں کو دے آئیں آپ۔ سالوں تک آپ اپنی دوسری اولاد کو بھول کر جیتے رہے ہیں تو اب بھی اس پر حق نہ جتائیں۔بے غیرت انسان ہو تم دلاور خان ۔ تھو ہے تمہاری صورت پر۔ شرم سے ڈوب مرو ۔باپ کہلانے کے قابل نہیں ہو تم۔!!!"

انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ دلاور خان سمجھ جاۓ کہ وہ اس روتی سسکتی لڑکی کا باپ یے۔ پر جب اپنی باتوں کے جواب میں انہوں نے دلاور خان کو بیزاریت دکھاتے دیکھا تو آج ان کی صورت پر تھوک کر انہیں ان کی اوقات یاد دلادی ۔

جو اس حرکت پر تلملا اٹھے اور الٹے ہاتھ کا تھپڑ ان کے گال پر رسید کردیا۔ کمرے کی دیواروں سے اس تھپڑ کی آواز ٹکڑائ۔ اور ہر سمت سکوت چھاگیا۔ 

معصومہ کا چلتا سانس بھی اسی کے ساتھ ہی رکا۔ جیسے ہوا بھی رک سی گئی تھی۔ ایک فرعون جو اب گناہوں کے دلدل میں دھنستا جارہا تھا۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں سے آج اپنی ہی بیوی اور بیٹی کے دل میں موجود آخری آس کے وہ ان کا سرپرست ہے وہ بھی ختم کرگیا۔ 

معصومہ کی آنکھیں دھندلانے لگیں ۔جیسے سانس لینے کے لیے مطلوبہ آکسیجن اسے مل ہی نہ پارہی ہو۔

اس کا پورا وجود سانس لینے کی کوشش میں لرز رہا تھا۔ سبرینہ بیگم جو فرش پر گری تھیں جب انہیں معصومہ کی جانب سے مکمل خاموشی سنائ دی تو فورا اپنا درد بھلا کر وہ وہاں سے اٹھیں ۔ ان کے ہونٹ کے کنارے سے خون جاری تھا۔ پر انہیں رتی برابر پرواہ نہیں تھی۔

"م۔معصومہ۔...!!! بچے سانس لو۔۔!! میرا بچہ کچھ نہیں ہوا مجھے۔۔۔!!! دیکھو میں ٹھیک ہوں ۔۔!!!"

وہ فورا وہاں سے اٹھیں اور معصومہ کے پاس آئیں جس کا ہاتھ اب بھی دلاور خان کی گرفت میں تھا پر وہ خود یہ ظلم برداشت نہ کرتے ہلقان ہوکر فرش پر نیم بیہوشی کی حالت میں بیٹھ چکی تھی۔ پر افسوس دلاور خان پر جسے اب بھی رحم نہ آیا اس پر۔

جو لوگ منافق ہوں اور ان کے دلوں پر گناہوں کے زنگ کی گہری تہہ جم گئ ہو پھر انہیں اپنی اولاد کی فکر بھی نہیں رہتی۔ ایسے لوگوں کو بس اپنی پرواہ ہوتی ہے بس اپنی ۔۔۔!!!

سبرینہ بیگم معصومہ کو وہیں چھوڑ کر اس کے بیڈ کی سائیڈ ڈرار کی طرف لپکیں اور وہاں سے اس کا انہیلر نکالا۔ پھر خود بھی ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے گۓ۔

وہ تو ایسی ماں تھیں جنہوں نے اپنی بیٹی کو تنہا پالا تھا ۔باپ کے ہوتے بھی وہ معصومہ کے لیے واحد سایہ تھیں جنہوں نے اسے بےرحم دنیا سے بچا کر رکھا تھا۔ اب اسے مرتا دیکھنا ان کے لیے تکلیف دہ تھا۔

دلاور خان کی اب بھی کوشش تھی کہ کسی طرح سے معصومہ کو یہاں سے لے جائیں کیونکہ جرگے کا وقت ہونے والا تھا۔

"چھوڑو اسے وہ مرجائے گی۔۔!!! بےرحم انسان اسے بیٹی نہ سہی انسان ہی سمجھ لو۔ اس کی حالت تو دیکھو۔اسے سانس نہیں آرہا۔۔!!!"

وہ چلائیں تو دلاور خان نے حیرت سے معصومہ کو دیکھا جو واقعی تکلیف میں تھی اور گہرے گہرے سانس لینے کی کوشش کررہی تھی ۔

سبرینہ بیگم نے انہیلر کا سکون اسے اسے بخشا۔ جس کا سانس کچھ حد تک جھٹکے سے بحال ہوا۔ پھر وہ اسے اپنے ممتا بھرے آنچل میں چھپاگئیں۔ پر ہاتھ دلاور خان نے ابھی تک نہیں چھوڑا تھا۔

"ہوگیا نا جو تم نے کرنا تھا۔ بس ٹھیک ہے باقی کے سانس یہ جرگے میں لے لے گی۔ ایک چھوٹا سا استھما کا اٹیک تھا تم تو یوں ہلقان ہورہی ہو جیسے یہ زندگی کے آخری سانس لے رہی ہو۔ 

میں تو خود اس بیماریوں کی پوٹلی سے تنگ ہوں۔ یہ اور اس کے مسئلے ۔ اچھا ہے نا آج جان چھوٹ جاۓ گی اس عذاب سے۔ اب چھوڑ دو اسے۔ آسانی سے نہیں مرے گی یہ۔۔ !! 

ڈرامے باز ہو تم دونوں ماں بیٹی ۔!!!"

انہوں نے جھک کر معصومہ کو دوسرے ہاتھ سے ان سے جدا کیا پھر حقارت آمیز لہجے سے زہر اگل کر وہ معصومہ کو کھینچ کر لے جانے لگے۔

وہ تو انسان کہلانے کے قابل بھی نہیں تھے۔منافقین ایسے ہی ہوتے ہیں متکبر، خوف و ہراس پھیلانے والے، اس بات سے ڈرنے والے کے کہیں لوگوں کو ان کی اصلیت نہ پتا لگ جاۓ۔ کیونکہ انہیں بس دنیا والوں کی نظر میں اپنی عزت کی پرواہ ہوتی ہے۔ اللہ کی نظر میں وہ چاہے جتنے بھی رسوا ہو جائیں انہیں فرق نہیں پڑتا۔

یہ اپنا مقام بناۓ رکھنے کے لیے جس حد تک گر سکتے ہوں گرجاتے ہیں ۔

دلاور خان بھی اس پستی تک پہنچ چکے تھے کہ اب انہیں اپنے انجام کی فکر بھی نہیں تھی۔

_______________________

ترجمہ:

ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ سلگائی مگر جب اس آگ سے ہر طرف روشنی پھیل گئی تو خدا نے ان کی روشنی لے لی اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ اب انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

البقرہ~آیت 17

_______________________

"دلاور خان ڈرو اللہ سے ۔۔!! اس نے تمہاری رسی ڈھیلی چھوڑی ہے تاکہ تم جتنے گھٹیا ہو اس حد تک جاؤ۔ پر جب وہ تمہاری رسی کھینچے گا نا تو تم منہ کے بل ایسا زمین پر گروگے کہ پھر اٹھ بھی نہیں پاؤ گے۔۔!!! 

ایک ماں کی بددعا ہے یہ جیسے تم نے پہلے میرے بیٹے کو مجھ سے چھینا پھر میری بیٹی بھی چھین رہے ہو اللہ تمہیں غارت کرے گا ۔ تم منافق ہو تم نشانہ عبرت بنو گے۔۔۔!!!!"

وہ پھر سے چیخی ۔ تو اس دفعہ دلاور خان نے معصومہ کا ہاتھ چھوڑا اور پلٹ کر بغاوت پر اتر آئ اپنی بیوی کو ان کے بالوں سے پکڑا۔ 

یہ مزید گری ہوئ حرکت تھی ان کی کہ خود سے کمتر اور کمزور وجود کو تشدد کا نشانہ بناکر خود کو مرد کہنا۔ جبکہ عورت پر ہاتھ اٹھانے والا اسے ڈرا دھمکا کر رکھنے والا کچھ بھی ہوسکتا ہے پر مرد نہیں ہوسکتا۔

"بکواس بند کرو۔ تمہاری اس چلتی زبان سے نفرت ہے مجھے۔ مجھے اگر دنیا کی نظروں میں آنے کی فکر نہ ہوتی تو کب کا تمہاری زبان ہی کاٹ دیتا۔ لے جارہا ہوں میں اسے۔ اور میری دل سے خواہش ہے کہ اب تمہاری اس دھڑکن کا جنازہ ہی اٹھے اُس گھر سے تاکہ تمہاری اس چلتی زبان کو خود ہی بریک لگ جاۓ۔

 پھر جو تم تڑپو گی تو میرے دل کو سکون ملے گا۔ مجھے انجام سے نہ ڈرایا کرو۔ میں نہیں مانتا اس انجام جیسی چیز کو۔ ایسا کچھ ہوتا ہوتا تو اب تک میں نیست و نابود ہوچکا ہوتا۔ میرے سارے گناہ تو تمہیں بھی پتہ ہیں نہ۔

 میری مانو تو تم بھی چھوڑ دو اس گناہ ثواب کی باتوں کو اور منہ بند کرلو اپنا ۔ یا کسی کونے میں بیٹھ کر اپنے اللہ سے مدد مانگتی رہو۔ پھر جب مجھ پر عذاب آیا تو میں بھی مان جاؤں گا کہ ایسا کچھ ہوتا ہے۔۔!!!"

انہوں نے ان کے بالوں پر گرفت بڑھائی تو وہ سسکیں پھر دلاور خان کا شیطانی لہجہ سن کر ان کے چہرے پر تمسخر بھری ہنسی آئ۔  

"وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۬ؕ -اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُ(42)

ترجمہ: کنزالایمان

اور ہرگزاللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے انہیں ڈھیل نہیں دے رہا ہے مگر ایسے دن کے لیے جس میں آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ جائیں گی۔۔۔!!!"

اسی ہنسی کے ساتھ ہی سبریبہ بیگم نے ان کے اس لہجے کا جواب ان کے منہ پر دے مارا۔

کہ لمحے کے لیے وہ بھی لرز اٹھے اور اسی وقت پوری قوت سے انہوں نے انہیں جھٹک دیا۔جو پیچھے کی سمت فرش پر اوندھے منہ گریں۔

"تم تڑپو ۔۔!! اسی کی مستحق ہو تم۔۔!!"

وہ معصومہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے زبردستی وہاں سے لے گۓ جو رو رو کر ہلقان ہوچکی تھی۔

سبرینہ بیگم فورا فرش سے اٹھیں اور دروازے کی طرف لپکیں۔

جو جاتے وقت دلاور خان نے بند کردیا تھا۔

"دلاور خان ۔۔۔!!! مجھے میرے اللہ پر پورا بھروسہ ہے۔۔دیکھنا وہ میرے ایک ایک آنسو کا حساب تم سے لے گا۔ تمہیں عبرت کا نشان بنادے گا وہ ۔۔۔!!! 

یا اللہ مجھ پر رحم فرما میری بچی تیری امان میں یے۔ اسے بچالے۔ جو درد وہ یہاں سہتی رہی اسے وہاں نہ ملنے دینا۔ یااللہ اس کی آزمایشوں میں کمی کردے۔ اور جو آزمائشیں اسے دینی ہی ہیں اسے اس قابل بنادے وہ ان پر پورا اتر سکے ۔!!!"

انہوں نے بند دروازے کے ہینڈل کو گھمایا ۔پھر آنکھیں بند کرکے دل میں اللہ سے مخاطب ہوئیں اور اسی کے ساتھ ہی اس بند کمرے میں ان کی سسکیوں کی آواز گونجنے لگی۔

ایک ماں خود پر ہوۓ سارے ظلم سہہ سکتی ہے پر اپنی اولاد کو تباہ ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔

وہ درد اسے سب سے زیادہ تکلیف دیتا ہے اور انہیں بھی اس وقت انتہا کی تکلیف ہورہی تھی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"ہوگئ بات ختم۔۔!! وشہ اور فدیان کا نکاح آج ہی ہوگا۔ وشہ کا نکاح اس بےعزتی کی تلافی میں ہوگا جو ایک غلط فہمی کی وجہ سے زرلشتہ کے بھائ کی ہوئ ۔اور چونکہ یشاور اصل مجرم ہے تو علاقہ بدر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی بہن فدیان کے نکاح میں جاۓ گی۔ وشہ کا سامان پیک کرواکر بھجوادینا شنایہ۔۔!!! 

اور تم دونوں بھی میرے ساتھ چلو۔ آخری بار وشہ تم سب سے مل لو۔ اس کے بعد تمہارا گھر وہی ہوگا جہاں تم جارہی ہو۔۔!!"

یہ خبر انہوں نے ابھی ابھی سارے گھر کے لوگوں کو اکٹھا کرکے دی تھی۔ وشہ بھی حیران تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ وہ تو ان فضول رسموں کے خلاف تھی پھر اسے ہی کیوں آج ونی کیا جارہا ہے۔ وہ ششدر تھی۔

فدیان نے میکانکی انداز میں گردن گھماکر اسے دیکھا۔ پھر فورا اپنے بابا کی طرف بڑھا۔

"آغاجان وہ بہن ہے میری اور آپ اسے ونی کررہے ہیں۔ کیا ہوگیا ہے آپ کو۔ ایسا کچھ نہ کریں ۔دیار سے میں بات کرلوں گا۔ وہ مان جاۓ گا۔ دیکھیے گا وہ اپنا مطالبہ واپس لے لیں گے۔ پر اس کے ساتھ یہ ظلم نہ کریں ۔۔!!"

فدیان نے تکلیف سے کہا۔ تو دراب آفریدی نے تکلیف بھرا سانس کھینچنا ۔ان کے لیے بھی مشکل تھا اپنی بیٹی قربان کرنا پر اپنی انا انہیں زیادہ پیاری تھی۔

شنایہ بیگم اندر ہی اندر جل بھن رہی تھیں کیونکہ انہیں رات میں ہی دراب آفریدی نے وارننگ دے دی تھی کہ وہ اگر ونی والے معاملے میں بولیں تو وہ انہیں پرانی حویلی بھجوادیں گے۔ پھر وہاں اکیلے بیٹھ کر وہ لڑتی رہیں جس سے بھی لڑنا ہے انہیں ۔تبھئ وہ چپ ہی رہیں۔

"لالہ آپ کیوں بھول رہے ہیں ہمارے آغاجان جب ایک بار کوئ بات کہہ دیتے ہیں پھر اس سے ہٹتے نہیں ۔یہ ان کی انا کو گوارہ نہیں ہے۔ ہم تیار ہیں نکاح کے لیے۔

جب ہم نے ہونا ہی ونی ہے تو ہم کیوں رونے دھونے میں وقت ضائع کریں ۔آپ اپنی بات کرلیں ہمارے مسئلے کو زیر بحث نہ لائیں۔ اور اپنا سامان ہم خود پیک کرلیں گے۔ ہمیں کسی سے آخری بار نہیں ملنا۔ جس نے ملنا ہوا وہ خود ہی آکر ہم سے مل لے۔ یا رہنے دیں اپنا اور ہمارا وقت برباد نہ کریں ۔۔!!!"

جس پٹاخے کے پھوٹنے کے ڈر سے انہوں نے بات چھپاکر رکھی تھی وہ تو اتنے سکون سے یہاں سے گئ جیسے نکاح مرضی سے ہورہا ہو اس کی۔

درمان ، فدیان ، دراب آفریدی اور خاص کر شنایہ بیگم اس کے اتنی آسانی سے مان جانے پر حیران تھے۔ انہیں لگا تھا کہ وہ پورا گھر ہی تباہ کردے گی اس بات پر ۔پر وہ تو اپنا سامان پیک کرنے گئ تھی۔

"یہ طوفان سے پہلے والی خاموشی لگ رہی ہے مجھے تو ۔دیار تمہارا اللہ کی حافظ ہے۔ یہ میزائل اب تم پر ہی گرے گا۔ یا اللہ اس بیچارے کو ہمت دینا کہ اسے برداشت کرپاۓ۔۔!!!!"

درمان نے تھوک نگلا اس آفت کے پھٹنے کے ڈر سے اسے بھی ہمدردی محسوس ہوئ دیار کے لیے۔

وشہ نے تو سب کو حیران کردیا تھا۔اسی کے ساتھ ہی شنایہ بیگم بھی وہاں سے واک آؤٹ کرگئیں۔ یہاں خاموش تماشائ بننا انہیں گوارہ نہیں تھا۔

وہیں فدیان نے سر نفی میں ہلایا۔

"آغاجان آپ آخرکار روایتی پٹھان بن ہی گۓ نا۔ جاگ اٹھی نا آپ کی انا۔ پر کان ، آنکھ، ناک، دماغ ,دل سب کھول کر سن لیں۔ میں راضی نہیں ہو اس نکاح کے لیے ۔مانا وہ یشاور کمینہ جتنا امیر ہے میرے معیار پر پورا اتر رہا ہے۔ پر وہ ونی میں بہن دے رہا پے۔مطلب نا جہیز دے گا نا ہی مجھے کوئ اہمیت دے گا۔ وہ تو بہن سے بھی تعلق توڑرہا ہے۔ مجھے ایسا نکما سسرال نہیں چاہیے ۔۔!!!! میری طرف سے انکار ہے ۔!!"

فدیان نے تنک کر کہا۔ اس منحوس یشاور کے ساتھ رشتہ جوڑنا اسے منظور نہیں تھا۔ اس کا انکار اور انوکھی وجہ سن کر دراب آفریدی کا دل اس کا سر پھوڑنے کو کیا۔ پھر انہوں نے درمان کی طرف دیکھا ۔جو ابھی تک سیڑھیاں دیکھ رہا تھا جہاں سے وشہ گئ تھی ۔

"ٹھیک ہے ہم فدیان کا نکاح نہیں کروائیں گے اس بچی کے ساتھ۔کیونکہ اب درمان تمہارا نکاح ہوگا اس بچی کے ساتھ۔ ہماری عزت کا سوال ہے اب۔ ہم اگر ونی دے رہے ہیں تو ونی لائیں گے بھی ضرور۔۔!!! تم دونوں فیصلہ کرلو کہ کون نکاح کرے گا۔ اور سیدھا اب جرگے میں نکاح خواں کو ہی بتادینا جب وہ شوہر کے خانے میں لکھنے کے لیے نام پوچھے ۔۔!!!".

انہوں نے اپنا فیصلہ سنایا۔ جسے سن کر درمان کی آنکھیں حیرت سے بڑی ہوئیں آگے ہی وہ زرلشتہ کے ساتھ ناانصافی کر چکا تھا دیار کے ناکردہ گناہ کی سزا اسے دے کر اب جب وہ اپنی غلطی سدھارنا چاہتا تھا تو دوبارہ ایک اور غلطی کرنا ناممکن۔۔!!!

"آغاجان ۔۔۔!!! میں شادی شدہ ہوں۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ میں یہ نکاح نہیں کروں گا۔ آپ مان کیوں نہیں جاتے میری بات۔۔!!!"

وہ فورا بولا۔ اس کے لہجے میں تڑپ تھی۔ لیکن دراب آفریدی تو اٹھ کر وہاں سے چلے گئے ۔

فدیان نے رونی صورت بنائ۔پھر فیصلہ لے ہی لیا اور درمان کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔

"لالہ اتنا نہ سوچیں آپ۔۔۔!!! میں ہوں نا آپ کی خاطر میں چھری تلے آجاؤں گا۔ ویسے بھی بابا نے ہم دو میں سے ایک کو تو بَلی کا بکرا بناکر چھوڑنا ہے تو وہ بکرا میں ہی بن جاتا ہوں۔میرا تو دل ہے کہ ہم اپنے خاندان کا نام آفریدی سے بدل کر ونی رکھ دیں۔ اس گھر کی دونوں بہوئیں بھی ونی ہیں اور اکلوتی بیٹی بھی ونی ہوگئ۔ آغاجان تو ونی کا ریکارڈ بنائیں گے ریکارڈ ۔۔!!!" 

تھک کر وہ بھی ڈرامائی انداز میں اس ونی کی رسم اور اپنے باپ کے ارادے سوچتا وہاں سے چلا گیا۔ 

پیچھے درمان نے شکر ادا کیا کہ وہ زرلشتہ کے ساتھ ناانصافی کرنے سے بچ گیا۔

فدیان نے بھی یہ سب صرف زرلشتہ کی خوشی کے لیے کیا تھا۔اسے پتا تھا اس کے بابا اس کے بھائ کا نکاح زبردستی کروادیں گے یشاور کی بہن کے ساتھ ۔ اور زرلشتہ کی زندگی میں مزید مشکلات آجائیں گی۔ اب اگر وہ اپنی خاموش محبت کے سکون کے لیے بھی کچھ نہیں کرسکتا تو کیا فایدہ اس کی اس محبت کا ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"اووو پاگل ہے کیا تم۔یا جان بوجھ کر کرتا ہے یہ سب۔ گھٹیا تو تم پہلے ہی ہے۔ بے حس بھی بن گیا ہے اب تم۔۔!! چھوڑ بچی کو۔ ورنہ دلاورا ہم تمہارا قتل کردے گا۔۔!!! ظالم کہیں کا۔۔!!!"

دلاور خان معصومہ کو  گھسیٹتے ہوۓ گاڑی تک لاۓ تو بادل جو ابھی ہی وہاں آیا تھا معصومہ کو روتا بلکتا دیکھ کر غصے سے تن فن کرتا ان تک پہنچا اور غرا کر ان کے ہاتھوں سے معصومہ کا ہاتھ آزاد کروایا۔

"بادل میرے اور میرے گھر والوں کے مسئلوں میں نہ بولا کرو۔ یہ ہے ہی اسی قابل ۔ منحوس کہیں کی۔ اچھا ہے آج جان چھوٹ جاۓ گی اس کی۔ اور تم کیوں تڑپ رہے ہو اس کے لیے..!!!"

دلاور خان نے جب بادل کو غراتے دیکھا تو حیران ہوکر پوچھ بیٹھے۔

جواب میں بادل نے معصومہ کی سرخ ہوتی آنکھیں دیکھیں تو دل اس دلاور کی آنکھیں نوچنے کو کیا۔ پر ابھی وقت تھا اس کام میں۔

"ہمارا کوئ خاندان نہیں پر ہم پچھلا چار سال سے اس بچی کو اپنا بیٹی سمجھتا رہا ہے۔ بھابھی کو اپنا بڑا بہن اور تم کو گھٹیا نسل کا کمینہ۔۔۔!!!! ہمارا بس یہی خاندان ہے اور تم ہم کو آج اپنا گھر سے الگ کردیا۔ اتنا جلدی تو گرگٹ بھی رنگ نہیں بدلتا جتنا جلدی تم شیطان ہوکر رنگ بدل گیا۔

 اور جب کوئ ہمارا بچی کو رلاۓ گا چاہے وہ تم ہی کیوں نہ ہوا ہم اسے تباہ کردے گا۔ ہم اگر کسی کا خاطر جان دے سکتا ہے تو مت بھول ہم اپنی پر آیا تو جان لے بھی لے گا تمہاری۔۔۔!!!!"

 اس نے گاڑی کی بیک سائیڈ کا دروازہ کھولا اور معصومہ کو اندر بیٹھنے کو کہا۔ ابھی یہاں کہیں اور بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں تھی ۔ساتھ میں دلاور خان کو شعلے برساتی نظروں سے دیکھنا نہ بھولا۔جسے فرق پڑتا ہی نہیں تھا۔

"اووو مردودوں کی فوج ۔۔!!! شیطانوں کا کنبہ۔۔!! بے شرموں کیا تم کمینوں اور ہٹ دھرموں کو ہم خط لکھے کہ بچی کا حالت خراب ہے تو تم پانی لے آؤ اس کے لیے ۔ یا ایک دو کو ہم یہیں قتل کرے گا تو تم سنے گا ہماری ۔۔!!!

اور دلاور خانا تم جاؤ ادھر سے ابھی بچی کو ہم خود لے آۓ گا۔ پاگل انسان ہمارا بیٹی کا کیا حشر کردیا تم نے ۔!!! "

پہلی بات اس نے وہاں کھڑی گارڈز کی فوج کو دیکھ کر کی جو اسے چیختا دیکھ کر فورا سارے ہی پانی لینے کے لیے بھاگ گۓ۔ اس کا رعب تو دلاور خان کو ڈرا گیا تھا۔ تبھی وہ بھی وہاں سے چلا گیا۔ بادل نے کہا تھا کہ وہ معصومہ کو لے آۓ گا تو وہ لے آتا۔

یہاں رہ کر اس کے ہاتھوں مرنا اسے منظور نہیں تھا۔

"م۔ما۔ماموں وہ م۔مما۔۔!!!"

معصومہ نے اپنے کانپتے ہاتھوں سے اپنے آنسو رگڑے پھر گھر کی سمت اشارہ کیا ۔تو بادل نے اس کے سر پر نرمی سے ہاتھ رکھا۔ اتنے میں گارڈ پانی کے گلاس نہیں گلاسوں کے ساتھ حاضر تھے ۔

اس نے ایک گلاس پانی پکڑا اور معصومہ کے ہاتھوں میں دیا پھر ان بوکھلاۓ ہوۓ گارڈز کو دیکھا۔

"جاہل انسانوں ان باقی کے گلاسوں میں ڈوب مرو تم سب لوگ ۔ دفع ہوجاؤں ہمارا نظروں کے سامنے سے۔ ورنہ ہم تم سب کو مار دے گا۔۔!!!"

وہ دبی دبی آؤاز میں انہیں دھمکا گیا کہ وہ فورا وہاں سے نو دو گیارہ ہوگۓ۔

"ڈرو نہیں آپ ۔ ہم ہے نا سب سنبھال لے گا ہم ۔۔!!!"

اس نے معصومہ کو تسلی دی۔ اگر وہ اپنی پر آتا تو آج سب تباہ کردیتا ۔ پر اسے احتیاط سے چلنا تھا تبھی وہ صبر کرگیا ۔

جرگے میں تمام لوگ پہنچ چکے تھے۔ ایک طرف دیار بیٹھا تھا جس کے چہرے پر رتی برابر بھی سکون یا خوشی نہیں تھی۔ آخر وہ ونی میں نکاح کررہا تھا۔ کسی کی عزت نفس مجروح ہونے جارہی تھی۔ اسے اس بات کی ہی فکر تھی ۔

ایک طرف وہ درمان سے دوستی ختم کرنے کا دعویدار تھا تو دوسری طرف اسی دوست کی ہر بات ناچاہتے ہوۓ بھی اسے ماننا پڑتی تھی۔ 

وہ تو خود ہی نہ سمجھ پایا کہ وہ درمان سے ناراض ہے یا اب بھی بس اسے ہی بھائ سمجھتا ہے۔

"درمان تم نے کس موڑ پر مجھے لاکھڑا کیا ہے۔ تمہاری دوستی بہت مہنگی پڑی ہے مجھے۔ لیکن میں اس تعلق کو نبھاؤں گا۔اپنی پوری کوشش کروں گا کہ ہر حال میں میں اپنے نام کے ساتھ جڑنے والے اس وجود کی حفاظت کروں اسے عزت دوں اور وہ مان دوں جو اس کا حق ہے۔ 

نہ میں نے آج تک اپنے رشتوں کے معاملے میں کوتاہی برتی ہے نہ آئندہ برتوں گا۔ 

یااللہ مجھے اتنا حوصلہ دینا کہ میں کبھی اس پاک رشتے کا مزاق نہ بناؤں۔ الٰہی آمین..!!!"

اس نے جیسے خود سے ایک عزم کیا تھا اور بلاشبہ دیار اپنے کہے پر پورا اتر سکتا تھا ۔

اس کے بابا اسی کے ساتھ ہی بیٹھے تھے جن کے چہرے پر آج فتح کی خوشی تھی اپنی رسوائ کا بدلہ جو پورا پورا انہوں نے وصول کیا تھا۔

ان کی نظریں دراب آفریدی پر ہی جمی تھیں جنہوں نے ایک بار بھی ان کی سمت نہ دیکھا۔ 

دوسری طرف درمان اور فدیان کھڑے تھے۔

فدیان تو اس وقت کو کوس رہا تھا جب وہ اغواہ کاروں کے ہاں سے واپس آیا تھا نہ وہ آتا اور نہ ہی اسے آج یہ دن دیکھنا پڑتا۔ 

اس کے دل میں ہول اٹھ رہے تھے کی اگر وہ لڑکی اپنے بھائ کی طرح کی ہوئ تو وہ اس کا کیا حال کرے گی۔  اس کی زبان اگر اس کے جیسی ہی ہوئ تو وہ بیچارا کونسی دیوار کو ٹکڑ مارے گا۔

"میں انتہا کا معصوم اور بھولا بھالا انسان ہوں میرے اللہ۔ مانا میں تھوڑا بدتمیز ہوں ۔پر ہوں تو تیرا ہی بندہ نا۔ یا اللہ مجھے مظلوم انسان بننے سے بچالے۔ میں فرائ پین سے سر تڑواتا۔ بیلن سے مار کھاتا اور گھر میں جھاڑو پوچا لگاتا بالکل اچھا نہیں لگوں گا۔ابھی میری عمر ہی کیا ہے۔ میں اپنی بیوی کے پیر نہیں دبا سکتا ۔

یہ سب میرے ساتھ ان اغواہ کاروں کی بددعا کی وجہ سے ہورہا ہے۔نہ میں ان کی زندگی عزاب بناتا نہ میں آج موت کے کنویں میں صدا رہنے کے لیے اس قید نامے پر دستخط کررہا ہوتا۔

یا اللہ مجھے بچالے۔۔ !!!!

اس یشاور کی بہن سے مجھے اچھے کی کوئ امید نہیں ۔مجھے پنکھے سے الٹا لٹک کر اس کی سالگرہ بھولنے کی معافی نہیں مانگنی۔"

فدیان نے اپنی پیشانی پر چمکتا پسینہ صاف کیا۔ پھر جرگے میں آس پاس دیکھا جیسے بھاگنے کے لیے راستہ ڈھونڈ رہا ہو۔ پھر زرلش کی زندگی میں طوفان آنے کے ڈر سے اپنے بال دائیں ہاتھ سے جھنجھلا کر بگاڑ کر وہ وہیں اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔

وہیں درمان تو فون کو دیکھ رہا تھا بار بار ۔ پورے ہفتے اسے اتنا ڈر نہیں لگا تھا اسے کھو دینے کا۔ جتنا اسے آج لگ رہا تھا۔

"مصیبت یار کیا فیصلہ کیا ہے تم نے۔ ایک بار بتادو مجھے ۔ میں سوچ سوچ کر پاگل ہونے والا ہوں۔۔۔۔!!!!

اگر تم نے مجھے چھوڑ دیا تو ناجانے میرا کیا بنے گا ۔۔۔!!!!"

اس نے زرلش کا نمبر ملایا مگر کال کرنے سے پہلے ہی فون بند کرکے پاکٹ میں رکھ لیا۔ کال زرلشتہ نے خود کرنی تھی تو اس کا کام بنتا۔ ورنہ تو درمان گیا تھا کام سے۔

وشہ گم سم سی اپنے بھائیوں کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی تھی۔ شال سے ڈھکا چہرہ آنکھوں میں غصہ اور ہاتھوں کی مٹھیاں بھینجی ہوئ تھیں۔ وہ تب سے چپ ہی تھی ۔ بالکل چپ۔

"کسی کو نہیں چھوڑیں گے ہم۔ بہت ہوگیا یہ ونی کا شور۔ اب ہم بتائیں گے انہیں کہ ونی کیا ہوتی ہے آخر۔ ہم نے ڈرنا نہیں سیکھا تو ہم ڈریں گے بھی نہیں ۔ کسی نے ہمیں ہاتھ لگایا تو ہم ہاتھ ہی توڑ دیں گے۔ ہم انہیں اتنا مجبور کریں گے کہ یہ دوبارا ونی کا نام بھی نہیں لیں گے ۔۔!!!"

وشہ نے بھی خود سے عہد کیا۔ اب تو وقت ہی بتاتا کہ دیار سے ملنے کے بعد وہ کس حد تک اپنے ارادوں پر قائم رہتی۔وہ ایک نظر کی محبت میں مبتلا لڑکی تھی۔جسے وہ انجان بس اس لیے اچھا لگتا تھا کیونکہ وہ اسے بغیر جانے بھی عزت دے گیا تھا ۔ پر اسے کہاں خبر تھی وہ اس بھرے جرگے میں ونی بھی اسی کے نام ہورہی ہے۔

تو ایک وجود ایسا بھی تھا جو خود میں ہی سمٹ کر سر جھکاۓ آنسو بہا رہا تھا۔ سیال شال میں چھپا وہ چھوٹا سا وجود جسے دنیا کی خبر ہی نہیں تھی ۔ جسے بس ڈرنا آتا تھا اور وہ اپنی پوری زندگی ڈرتی ہی رہی تھی آج رو رہی تھی کہ اب اس کی ساری زندگی ہی روتے ہوۓ گزر جاۓ گی۔

 اسے زبردستی نکاح کے بندھن میں باندھ تو دیا جاۓ گا پر کیا وہ اس رشتے کو کبھی قبول بھی کرپاۓ گی۔ اسے اپنی ماں کی بھی فکر تھی جسے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لیے تڑپتا دیکھا تھا اس نے۔ 

لوگ آخر کیوں اتنے بے حس ہوتے ہیں کہ کسی کو خود سے ڈرا کر چپ کرواتے یہ نہیں سوچتے کہ ان کی یہ حرکت کسی کی شخصیت تباہ کردے گی۔دلاور خان کو تو کوئ فکر نہیں تھی ان کی طرف سے ساری دنیا بھاڑ میں جاتی اور وہ خود ہر جرم سے بری الزمہ قرار دے دیے جاتے ۔

"میں کیسے رہوں گی مما آپ کے بغیر۔ یہ سب مجھے مار دیں گے۔ جیسے بابا آپ کو مارتے تھے وہ بھی بابا جیسے ہی ہوں گے۔ جیسے بابا مما کو مارتے تھے بری بری باتیں کرتے تھے وہ بھی مجھے ایسے ہی ٹارچر کریں گے۔ مما اب تو آپ مجھے چپ کروانے بھی نہیں آئیں گی۔ میں ایسے ہی روتے روتے اللہ کے پاس چلی جاؤں گی مجھے کوئ نہیں بچاۓ گا اب ۔!!!"

اس نے سر جھکا کر اپنے آنسو ہاتھوں سے رگڑے ۔ باپ کی موجودگی کی وجہ سے اس کا سانس رک رہا تھا ایک گھٹن تھی جو اس شخص کی موجودگی میں اسے ہمیشہ محسوس ہوتی تھی۔ جو اسے آج بھی محسوس ہورہی تھی۔

دلاور خان ایک بدنصیب باپ تھا جس کی اپنی سگی اولاد اس کی موجودگی بھی گوارہ نہیں کرتی تھی۔ اور اسے رتی برابر بھی فکر نہیں تھی اس کی۔

کچھ ہی دیر میں سردار غیث آگۓ تو اسی لمحے نکاح خوان نے نکاح کی کاروائی شروع کی۔

بس کچھ ہی دیر کی بات تھی اور وشہ آفریدی، وشہ دیار درانی بن گئ اور معصومہ خانم ، معصومہ فدیان آفریدی بن گئ۔

بادل بھی وہیں سائیڈ پر کھڑا تھا جس کی آنکھیں ذرا نم تھیں معصومہ کو فدیان کے حوالے کرنا ایک رسک تھا کیونکہ اسے پتہ تھا فدیان ایک غیر سنجیدہ مزاج کا شخص ہے وہ ناجانے کیا سلوک کرے گا معصومہ کے ساتھ اور اسے اب ڈر بھی لگ رہا تھا۔

"ہم کوئ غلط فیصلہ تو نہیں لے گیا نا ۔

ہم کو تو لگتا ہے ہم لے گیا ہے کوئ غلط فیصلہ ۔یہ ڈرامہ انڈسٹری کا فلاپ کردار کہیں اس نقلی شاور کا بدلہ ہمارا بچی سے نہ لے لے۔ ہم تو بہت خدمت کیا تھا اس کی۔ اس کا کھانا پینا، کپڑا ہر ضرورت کا خیال رکھا تھا ہم نے ۔اتنا سکون تو اسے کبھی گھر میں بھی نہ ملا ہوگا جتنا ہم نے اسے اغواہ کرکے فراہم کیا تھا۔ اب دیکھو یہ آفریدیوں کا چشم و چراغ کوئ لاج رکھے گا اپنے خون کی یا پھر یہ بھی بے حس ہی نکلے گا۔ !!!!"

اس نے گم سم بیٹھے فدیان کو دیکھا تو بیچاری صورت بناکر سوچ بیٹھا ۔

نکاح تو ہوچکا تھا اب وقت تھا رخصتی کا ۔ 

آج اس جگہ سے چار لوگ اجنبی ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے ہمسفر بن چکے تھے۔ 

درمان حیران تھا کہ جرگے کے دوران کسی نے زرلشتہ والا مسئلہ کوئ زیر بحث نہیں لایا۔ جرگے میں بس نکاح ہوا اور سردار غیث ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوکر وہاں سے چلے گۓ۔

اب سردار غیث بھی کیا کرتے بادل کا ڈر انہیں اضافی بات کرنے نہیں دیتا تھا۔ تبھی بس نکاح کرواکر وہ چلے گۓ۔ وشہ بغیر کسی سے ملے خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گئ ۔ جس میں فرنٹ سیٹ پر دیار بیٹھا تھا۔ نہ وشہ نے دیار کو دیکھا نہ دیار شال میں چھپی اپنی اس بیوی کو دیکھ سکا۔ 

فدیان تو وہیں سے اپنی جان بچا کر نکل گیا اس وقت اس کا گھر جانے کا ارادہ نہیں تھا۔ اور درمان وہیں گاڑی سے ٹیک لگا کر وشہ کی گاڑی کو دور جاتا دیکھتا رہا۔ 

اس کی اکلوتی بہن شدید ناراض تھی سب سے ۔ اور اسے منانا دنیا کا مشکل ترین کام تھا۔ آخر بہن وہ کس کی تھی۔۔۔!!!

دراب آفریدی بھی معصومہ کو لے کر اپنے گھر کی طرف چلے گۓ۔ جبکہ دلاور خان جو سارے نکاح میں بھی بیزار ہی دکھ رہے تھے وہ بھی اپنے ٹھکانے کی سمت چلے گۓ۔ بادل بھی وہاں سے جاچکا تھا۔

یہ جرگہ آج پھر کئ لوگوں کی زندگیاں بدل کر اختتام پذیر ہوگیا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

دیار کی گاڑی طویل سفر کے بعد اپنی حویلی کی حدود میں داخل ہوئ۔ گاڑی میں بالکل سناٹا تھا۔ تب سے نہ وشہ نے کچھ کہا تھا نہ ہی دیار نے کچھ بولنے کی غلطی کی تھی۔

مین گیٹ کھلتے ہی گاڑی حویلی میں داخل ہوئ اور دیار نے بریک لگا کر فرنٹ مرر سے پیچھے کی طرف دیکھا۔ پھر وہ گاڑی سے نکلا تاکہ وشہ والی سائیڈ کا دروازہ کھول سکے ۔

مگر وشہ اس سے پہلے ہی دروازہ کھول کر باہر نکل گئ۔

دیار نے اب بھی اس کی صورت نہیں دیکھی تھی نہ وشہ نے دیار کی طرف دھیان کیا۔

وہ بھی گہرا سانس بھر کر اس کے ہمقدم ہوا۔ دونوں ہی اس وقت شاکڈ تھے تبھی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے والی غلطی نہ کرسکے۔ 

ابھی وشہ نے گھر کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا۔جب اچانک اس کی سماعتوں سے کسی کی کھلکھلاتی آواز ٹکڑائ ۔

صرف آواز نہیں اسے اپنی راہ میں پھولوں سے لکھا ہوا ویلکم بھی دکھا پھر اچانک خود پر ہوتی پھولوں کی بارش بھی محسوس ہوئ۔

"میری بھابھی آگئیں ۔۔ !!!!"

اپنے چہرے پر پیاری سی مسکراہٹ سجاۓ زرلشتہ مسکراتی ہوئی اس کے پاس آئ اور اس کے گلے لگ گئ۔ جو اب بھی شاکڈ تھی۔ 

کسی ونی کا استقبال وہ بھی پھولوں سے ہوگا وشہ نے سوچا بھی نہیں تھا۔

وہ اسی جگہ منجمد تھی۔ پر زرلشتہ کا ارادہ اسے چھوڑنے کا نہیں تھا۔ اس نے پورے دو دن لگا کر وشہ کے پیارے سے ویلکم کی چھوٹی سی تیاریاں کی تھیں۔ سب سے چھپ چھپا کر۔

"وشہ آپ میری بھابھی بن گئیں مجھے یقین نہیں آرہا ۔۔۔!!!! لالہ جان آپ کو مبارک ہو آخر اس دنیا کی سب سے پیاری ، کیوٹ ، انوسنٹ، صاف دل کی مالک، میری جان اور میری بیسٹی سی بھی زیادہ عزیز میری نند آپ کی بیوی جو بن گئیں ہیں۔۔۔۔!!!!!!"

کھلکھلاتے ہوۓ اس نے وشہ کو چھوڑا اور پھر دیار کے سینے سے لگ گئ۔ اپنے اکلوتے بھائ کی شادی کی خوشی اس سے بڑھ کر کسی کو نہیں ہوسکتی تھی۔

دیار بھی شاکڈ ہی تھا۔ اس نے پھولوں کی ٹوکریاں پکڑے کھڑی ملازماؤں کو دیکھا جو پھول پھینکنے میں مصروف تھیں لیکن سب تیار بھی یوں تھیں جیسے اس کی سچ میں بینڈ باجے کے ساتھ شادی ہوئ ہو۔

پھر اس نے اپنی ماں کو سوالیہ نظروں سے دیکھا جنہوں نے جواب میں گہرا سانس بھرا کہ یہ سب تمہاری بہن کی کارستانی ہے تو وہ جو کررہی ہے اسے کرنے دو۔

دیار نے بھی ہاں میں سر ہلادیا۔ ابھی وہ کچھ کہنے ہی والا تھا۔جب زرلشتہ خود ہی اس سے الگ ہوئ ۔ اور ذرا فاصلے پر جاکر وشہ کو دیکھنے لگی۔ جس کا آدھا چہرہ تک شال سے ڈھکا تھا۔

"وشہ۔۔..!!! آپ کی شادی ہوئ ہے آج اور آپ کیسے اداس حلیے میں گھوم رہی ہیں ۔آپ نئ نویلی دلہن ہیں تو جلدی سے آئیں میں آپ کو اچھا سا تیار کرکے لے آؤں۔ میں نے آپ کے لیے پیارا سا لہنگا لیا ہے ساتھ میں میچنگ جیولری اور بھی بہت کچھ ہے۔ اور میں نے نا آپ کا روم بھی ڈیکوریٹ کروایا ہے۔

 میں ابھی آپ کو تیار کرتی ہوں اور لالہ آپ کیا ہارے ہوۓ سیاستدان بنے کھڑے ہیں آپ مما کے ساتھ جائیں آپ کے لیے بھی آپ کی بہن نے پیاری سی شیروانی لی ہے۔ ابھی ہم بہت سی پکس بھی بنوائیں گے۔۔۔!!!!"

وہ منہ بنا کر پہلے وشہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے لے جانے لگی اور ساتھ میں تفصیل بھی بتانے لگی کہ کیا کیا تیاریاں کی ہیں اس نے ان کے لیے۔ 

جب اپنے بھائ کو اسی جگہ حیرت کا مجسمہ بنادیکھ کر اس نے اپنی ماں کو اسے لے جانے کو کہا۔ جو مسکراہٹ دبا کر دیار کی طرف بڑھیں جس بیچارے کو تو کوئ کچھ بولنے کا موقع بھی نہیں دے رہا تھا۔

"زرلش۔۔!! ہم ایسے ہی ٹھیک ہیں۔ ہم شادی کا جوڑا پہنتے اچھے نہیں لگیں گے۔ ہم ونی ہیں ۔۔۔!!!"

وشہ نے راستے میں اس کا ہاتھ چھوڑنا چاہا جس نے مڑ کر اسے خفگی سے دیکھا۔

"آپ ونی نہیں میری خواہش تھیں۔ آپ کو جب میں نے پہلے دن دیکھا تھا تبھی سوچ لیا تھا کہ آپ ہی میری بھابھی بنیں گی۔ اب جب آپ کا نکاح میرے لالہ کے ساتھ ہوگیا ہے تو آپ کیوں ہچکچا رہی ہیں دلہن بننے سے۔ ابھی تو شکر منائیں کہ میں نے بس گھر میں ہی تقریب رکھی ہے ورنہ تو میرا پورے علاقے کو دعوت دینے کا پروگرام تھا ۔۔۔!!!!"

اسے تنگ کرتے جب اس نے وشہ کے چہرے پر اڑی ہوائیاں دیکھیں جو سوچ رہی تھی کہ اس کی بھابھی کے ارادے شروع سے ہی خطرناک تھے تو وہ مسکرا کر اسے اپنے کمرے کی طرف لے گئ۔ 

جہاں اس کا ڈریس اس نے رکھا تھا۔

وہیں دیار بھی اپنی ماں کے ساتھ نہ نہ کرتے بھی تیار ہونے چلا گیا۔ 

یہ انوکھی ونی میں ہوئ شادی تھی جس پر بجاۓ رونے کے دعوت کا انتظام کیا گیا تھا۔

زرلشتہ خود پنک کلر کی میکسی جو اس نے اپنے شوہر صاحب سے ہی کل منگوائی تھی کہ اسے اس کی پسند کے ہی کپڑے پہننے ہیں ۔ وہ پہنے اپنے بال کھلے چھوڑے پیارے سے میک اپ ۔ ہلکی سی جیولری۔ اور چہرے پر سب سے پیاری مسکراہٹ لے کر آج درمان کے ساتھ جانے کے لیے خود ہی تیار تھی۔ یعنی زرلشتہ کے ارادے درمان بھی جانتا تھا۔ تبھی تو وہ بھی مطمئن تھا وشہ کے لیے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"ہم کچھ زیادہ اوور لگ رہے ہیں زرلش اوپر سے یہ چوڑیاں ، گجرے ۔۔!!! ہم نہیں پہنیں گے انہیں ۔ آپ ہماری بات کیوں نہیں سمجھ رہیں ۔ ہم ونی ہوۓ ہیں اپنی مرضی سے یہاں نہیں آۓ۔بہت ہے نا اتنی ہی تیاری ۔ اب رہنے دیتے ہیں۔ !!!!"

وشہ نے جب خود کو مرر میں دیکھا تو پہلے تو حیران ہوئ کہ وہ کیا اتنی بھی پیاری لگ سکتی ہے زرا سے میک اپ سے۔ پھر جب اپنے ہاتھوں میں بھری ہوئ چوڑیاں دیکھیں اور اپنی اس نند +بھابھی کے چہرے کے تاثرات دیکھے تو اس نے خود ہی احتجاج کرنا چاہا ۔

پر زرلشتہ کے سامنے احتجاج بے کار تھا ۔

وہ اس کے ہاتھ پکڑ کر اسے گھور کر اپنا کام مکمل کرچکی تھی۔ 

"آپ میری بھابھی ہیں۔ میرے بھی ننھے ننھے سپنے تھے کہ اپنے بھائ کی دلہن کے ساتھ کوئ دو سو تصویریں بناؤں گی۔ انہیں تنگ کروں گی۔ ان کے نام پر لالہ کو بلیک میل کروں گی۔ اپنا نہ سہی تو میرے ننھے منھے خوابوں کا ہی پاس رکھ لیں۔ 

آپ اگر اب کچھ بھی بولیں تو میں سچ میں چلی جاؤں گی۔ اور جاتے ہوۓ اس گھر کے گیٹ کو باہر سے تالا لگا کر اس میں ایلفی ڈال دوں گی تاکہ آپ سب میں سے کوئ باہر ہی نہ نکل سکے۔۔۔!!!"

زرلشتہ کی بات سن کر وشہ کا دل اب رونے کو کیا۔ کہ یہ نند کیوں نہیں سمجھ رہی کہ وہ یہاں ان لوگوں کو ستانے آئ ہے نہ کہ یہاں بسنے ۔۔!!!! 

زرلشتہ نے اس کا دوپٹہ سیٹ کیا پھر اس کا لہنگا سنبھال کر اسے کھڑا ہونے میں مدد دی۔ 

ریڈ روز کلر کا لہنگا اس پر جچ رہا تھا۔ جلدی جلدی میں زرلشتہ جو جو کرسکتی تھی اس نے کردیا۔ یہ سب بھی اس نے دو دن لگا کر یوٹیوب سے سیکھا تھا کہ دلہن کو سمپل مگر پیارا لک کیسے دیں۔

زرلشتہ نے بغیر اسے کچھ بولنے کا موقع دیے اپنے ساتھ اب لاؤنج میں لے جانا مناسب سمجھا جہاں وہ صبح ملازموں سے چھوٹا سا سٹیج بھی بنواچکی تھی۔

سامان تو اس نے کل ہی منگوا لیا تھا پر سجاوٹ چند گھنٹوں میں کی گئ تھی۔ 

وہ بڑی احتیاط سے سیڑھیوں سے اتری تو نظر لاؤنج میں سجے پھولوں پر پڑی۔ 

اس کے اپنے دل کی دھڑکن تیز ہوئ۔ یہ کیا ہورہا ہے اس کے ساتھ۔ اسے اجنبی کیفیت یا پہلی دفعہ اس گھر میں آکر خوف محسوس نہ ہوا وجہ تھی زرلشتہ اور اس کی خاموش پہلی نظر کی محبت۔وہ شخص اسی گھر میں موجود تھا۔ پر وہی انجان تھی۔

سیڑھیوں سے اتر کر وہ زرلشتہ کے ساتھ اسی سٹیج کی طرف گئ۔ 

"ہمارا دل کیوں اتنا تیز دھڑک رہا ہے۔کیا ہوگیا ہے ہمیں یہاں آتے ہی۔ ہم تو برباد ہوۓ ہیں اس ونی کی رسم میں تو پھر ہمیں یہ بربادی محسوس کیوں نہیں ہورہی۔ اپنی اس خاموش محبت کے لاحاصل رہنے کا ذرا سا دکھ تو ہمیں ہونا چاہیے پر ہمیں تو دکھ ہی نہیں ہورہا ۔ !!!"

وشہ نے اپنی کیفیت سے تنگ کر خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر آس پاس اب اسی شخص کو ڈھونڈا جس کے نکاح میں وہ تھی۔

پر وہ اب بھی کہیں غائب ہی تھا۔ 

"آجائیں نا۔۔۔!!! مجھے پہلے آپ کے ساتھ پکس بنوانی ہیں۔پھر آپ کی لالہ کے ساتھ پکس بنوائیں گے۔ بہت مزہ آۓ گا۔ "

زرلشتہ نے اس کے چہرے کا رخ اپنے سامنے کیا۔ پھر اسے صوفے پر بٹھا کر خود اپنا فون آن کرکے وہاں کھڑی ایک ملازمہ کے ہاتھ میں دیا۔ جو اس کا حکم مان کر تصویریں بنانے میں مصروف ہوگئ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"مما۔۔۔!!! زرلش تو بچی ہے پر آپ تو موقع کی مناسبت کو سمجھیں۔ وہ لڑکی ابھی جرگے سے واپس آئ ہے۔ ابھی اس نے اپنا گھر چھوڑا ہے۔ اس کے دل میں کئی سوال ہوں گے۔ وہ غصہ بھی ہو گی۔ اور ناراض بھی ہوگی سب سے۔ بجاۓ اسے سمجھنے کے ہم لوگ شادی والا ماحول بنارہے ہیں۔

 اگر اس نے غصے میں زرلش کو کچھ کہہ دیا تو اسکا دل ٹوٹ جاۓ گا۔ وہ ابھی ٹروما سے نکلی ہے۔ ابھی اس نے کھل کر مسکرانا پھر سے شروع کیا ہے میں نہیں چاہتا کہ اس کی خوشی ماند پڑے۔

آپ اسے کسی طریقے سے روک دیں پلیز۔۔ !!!"

لاؤنج سے ذرا فاصلے پر رک کر اس نے مسکراتی ہوئی زرلشتہ کو دیکھا ۔ تو اپنا ڈر اپنی ماں کو بتانا ضروری سمجھا۔ 

"بیٹا تم دونوں بہن بھائیوں کے آگے کوی تیسرا جیت نہیں سکتا چاہے وہ تم لوگوں کی ماں ہی کیوں نہ ہو۔ تمہاری بہن ہے وہ تم سمجھاؤ اسے۔ مجھے دور ہی رکھو اپنے مسئلوں سے ۔۔!!!"

ہاتھ اٹھا کر انہوں نے خود کو لاتعلق ظاہر کیا اور خود کچن میں اپنا کام پورا کرنے کے لیے چلی گئیں۔ پیچھے دیار سچ میں پریشان تھا کہ ناجانے وہ لڑکی کیا سوچ رہی ہوگی ان لوگوں کے بارے میں کہ یہ سب کے سب ہی پاگل ہیں۔

تھک کر وہ خود بھی اب سر کو نفی میں جنبش دیتے اپنی سرپھری بہن کا دماغ درست کرنے کے لیے اس کے پاس ہی جانے لگا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

زرلشتہ اب فون میں سے پکس دیکھ رہی تھی۔اپنے بھائ پر نظر پڑتے ہی اس نے مسکرا کر راستہ چھوڑا کہ آئیں جناب بیٹھیں یہاں آپ کا ہی انتظار ہورہا تھا۔ دیار نے اسے گھورا تو جواب میں اس نے دانتوں کی نمائش کردی۔

"اب وقت ہوا چاہتا ہے اس نۓ نویلے جوڑے کی تصویروں کا۔ لالہ شرما کیوں رہے ہیں آپ یہ آپ کی ہی بیوی ہیں۔۔۔!!! ذرا سا مسکرا دیں نۓ نویلے دلہے مسکراتے کیسے لگتے ہیں میں بھی دیکھنا چاہتی ہوں ۔۔!!!"

زرلشتہ نے مسکراہٹ روکتے کہا بیچارے دیار کا چہرہ تو خود ہی سرخ ہورہا تھا۔ کہ اس کی بہن کو کہیں سکون نہیں مل سکتا ۔ کیسی شادی جہاں اسے یہ ہی نہیں پتہ کہ اس کی بیوی کا نام کیا ہے ۔

ٹینشن کی وجہ سے اس نے یہ بھی جاننا ضروری نہیں سمجھا تھا۔

"زرلش باز آجاؤ۔۔۔!!! نہیں تو اچھا نہیں ہوگا۔ جاؤ جاکر کھانا کھاؤ پھر میڈیسن لو اور سوجاؤ۔ یہ اچھل کود تمہاری صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔ شوگر لو ہوگئ تو ہماری دوڑیں لگوادو گی تم۔ جاؤ اب۔ !!!"

اپنا سرخ ہوتا چہرہ چھپانے کی کوشش دیار نے کی پر یہ آواز وشہ کے ذہن کو جھنجھوڑ گئ۔ وہ کیسے یہ آواز بھول سکتی تھی۔

اس کی سانسیں اٹکیں کہ شاید یہ کوئ وہم ہو۔

"لالہ جان میں بس بے ہوش ہوئ تھی خدانخواستہ آئ سی یو نہیں پہنچ گئ تھی جو آپ لوگوں نے مجھے مریض بناکر رکھ دیا ہے۔ اور آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میرے شوہر صاحب ابھی کچھ ہی دیر میں آنے والے ہیں میرا سامان پیک ہے تو میں اب بس اپنے سسرال لینڈ کرنے والی ہوں۔ آپ سنبھالیں اپنا گھر۔۔!!"

زرلشتہ کا لہجہ درمان کا خیال آتے ہی خودبخود نرم ہوگیا۔ ساتھ ساتھ میں وہ اینگلز سیٹ کرکے پکس بھی لے رہی تھی۔

وشہ تو ساکت تھی ابھی تک۔ البتہ دیار ضرور پریشان تھا کہ کہیں یہ خوشی پھیکی نہ پڑجاۓ۔

"یعنی تم نے واپس جانے یا فیصلہ کرہی لیا ہے۔ کاش میں تمہیں روک سکتا"

اس نے گہرا سانس خارج کیا۔

"اٹھیں آپ دونوں اور ذرا سائیڈ پر آکر پیاری سی سمائل چہرے پر سجا کر ایک دوسرے کو دیکھیں۔ میں یہ سب بس اپنے بھتیجے بھتیجیوں کے لیے کررہی ہوں۔ کل کو جب وہ بڑے ہوں گے اور آپ کی شادی کا البم دیکھنے کی ضد کریں گے تب آپ انہیں کیا بس ہنس کر دکھادیں گے ۔ 

نہیں نا تو اچھے بچوں کی طرح وہ مانیں جو زرلشتہ درمان آفریدی آپ سے کہہ رہی ہے۔میں آپ کا بھلا سوچ رہی ہوں۔۔!!! ابھی تو بس شادی کی تصویریں بنی ہیں میں اگلی بار آئ تو آپ کی مہندی بھی کرواؤں گی اور لالہ آپ بھی اپنی جیب زرا ہلکی کرلو اور ایک ولیمے کی دعوت رکھ لو۔ پھر آپ کا یہ البم تو پورا ہو ہی جاۓ گا۔۔۔!!! سمائل کریں دونوں ۔۔۔!!!"

زرلشتہ نے وشہ کا لہنگا سنبھال کر اسے چلنے میں مدد دی پھر اسے سائیڈ پر لے آئ دیار بھی چار و ناچار اس کے اشاروں پر پی چل رہا تھا۔ 

وشہ نے دعا مانگی کہ کاش یہ کوئ وہم ہو۔ جس شخص نے بغیر جانے اس کے ذہن پر قبضہ کیا تھا وہ اسے سرِ بازار رسوا نہیں کرسکتا۔

زرلشتہ انہیں اپنے اس احسان عظیم کے پیچھے چھپی وجہ بتا کر خود ذرا فاصلے پر جاکر کھڑی ہوگئ اور دونوں کو ہنسنے کو کہا۔اور تصویر کلک کرلی۔

"چلیں اب ایک دوسرے کو دیکھیں ۔ شاباش ۔۔!!!"

ایک نیا حکم جاری ہوا تھا اس کی جانب سے۔ دیار نے آنکھیں بند کیں پھر گردن موڑ کر وشہ کی طرف دیکھا وہاں اسے بس اس کا جھکا سر ہی نظر آیا۔ 

وہیں وشہ نے دل کو انتہا کا مضبوط کرکے اب اپنے اس ہمسفر کی طرف اپنی نظریں کیں ۔ 

دیار نے جونہی اس کے چہرے کو دیکھا تو وہ شاکڈ رہ گیا۔ اسے بھی وشہ یاد تھی وہ بھی نہیں بھولا تھا اسے۔ وشہ نے گھنی پلکوں کی جھالر اٹھائ ۔ دھڑکتا دل اچھل کر باہر آنے کے قریب تھا۔ پر جب شہد رنگ آنکھوں سرمئ آنکھوں سے ٹکرائیں تو دنیا لمحے میں رک گئ۔

یہ صورت ، یہ آنکھیں ، مقابل کھڑا شخص تو وہی تھا جسے وہ اللہ سے بھی مانگ چکی تھی۔

وہ اس کا بن چکا تھا۔ لیکن کیوں ۔۔!!!

کچھ ٹوٹا اس کے دل میں درد اتنا تھا کہ بائیں آنکھ کے کنارے سے نمکین پانی کا ایک قطرہ خاموشی سے بہا اور دیار کی نظروں میں آنے سے مخفی نہ رہ سکا۔

ایک طرف دیار کھویا تھا اس کے چہرے میں ۔ نکاح کے رشتے میں بندھ کر ایک الگ سی محبت اس کے دل میں جاگی ۔وہیں وشہ کے دل میں پلتی محبت کا جیسے دم ہی گھٹ گیا ہو۔

ﻋﺸﻖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﺑﮑﻞ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﮨﻤﺎﺭﺍ...!! 

"ﺑﺎﺧﺪﺍ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ...!!

دیار وہیں ساکت تھا۔ وشہ کی آنکھوں نے ساتھ نہ دیا اس کا۔ آنکھیں دھندلائیں۔ اور اگلے ہی پل اس کی دنیا تاریک ہوگئ۔

"آخـــــری حل تھا یہی ، پیشِ نظــــــــر ، جانے دیا

ایکــــ گہری سانس لی پھر خوابـــــ  مر جانے دیا

سار بانا۔۔!! دے گواہی مجـــــھ کو پیاری تھی اَنا

رکھ لیا زادِ سفَـــــــر ، اور ھم سفَـــــــر جانے دیا"

کوئ کبھی نہ سمجھ سکتا کہ وہ لڑکی محبت مل جانے پر بھی کیوں رو دی تھی۔ وہ کیوں شاکڈ تھی۔ کیونکہ جسے اس نے چاہا تھا اس نے اسے عزت دی تھی اور جو اس کے سامنے کھڑا تھا اس نے اس کی عزت نفس مجروح کی تھی۔ اس کا دل یہ حقیقت ماننے سے انکاری تھا۔ کہ کیسے وہ اسی شخص کے پاس آگئی ۔کیسے۔۔!!!

 دیار نے جب اس کی آنکھوں کو بند ہوتے دیکھا تو فورا اسے سنبھالا ورنہ وہ گر چکی ہوتی۔ ہوش تو زرلشتہ کے بھی اڑے۔

"وشہ آپ کو کیا ہوگیا۔۔!!! لالہ انہیں کیا ہوا ۔!!"

وہ شاکڈ کی کیفیت میں بول اٹھی۔ جب دیار نے لب بھینچے ۔ وہ جب اسے پہچان گیا تھا تب اس کی آنکھوں میں جس درد کے آنسو تھے وہ ان سے انجان کیونکر رہتا۔

"بچے شاید تھکاوٹ کی وجہ سے یہ بے ہوش ہوگئ ہیں۔ میں انہیں کمرے میں لے جارہا ہوں ۔ آپ پانی لے کر آؤ۔۔!!!"

اس نے زرلشتہ کو پانی لانے کا اشارہ کیا جو فورا سے پہلے کچن کی طرف بھاگ گئ۔ اور خود وہ وشہ کو اٹھا کر کمرے کی طرف لے گیا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

دراب آفریدی معصومہ کو گھر لے آۓ تھے۔ زرلشتہ کی طرح انہوں نے اس لڑکی کو بھی اپنی بیٹی ہی سمجھا۔ آخر باپ اور بھائ کے گناہوں کی سزا یہ لڑکی کیوں ادا کرتی۔

گاڑی سے نکل کر انہوں نے اس کی طرف کا دروازہ کھولا تو معصومہ جو پہلے ہی سہمی ہوئی تھی۔ وہ آنسو پونچھ کر باہر نکلی۔ سر اب بھی جھکا ہوا تھا۔ غیر دانستہ طور پر وہ خوف کی وجہ سے چند قدم مزید ان سے دور ہوکر کھڑی ہوگئ۔

"بچے اب سے یہی آپ کا گھر ہے۔ اب آپ کو یہیں رہنا ہے کوشش کیجۓ گا کہ دل سے اس گھر کے لوگوں کو اپنا سمجھیں۔۔۔!!! "

انہوں نے نرمی سے اسے مخاطب کیا جس نے بچوں کے انداز میں سر ہاں میں ہلا دیا۔

پھر وہ بھی گہرا سانس خارج کرکے گھر کے اندرونی حصے کی طرف بڑھنے لگے معصومہ بھی آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر ان کے پیچھے چل رہی تھی۔ نا اسے پتہ تھا اس گھر کے لوگ کیسے ہیں نہ ہی اسے اپنے شوہر کا نام پتہ تھا۔ 

پتہ تھا تو اتنا کہ اس کے بابا اسے اپنے کسی گناہ کے کفارے میں اس گھر کو دے گۓ ہیں ۔

اب اسے یہیں رہنا ہے ہمیشہ ۔۔۔!!!!

اسے اپنا آپ فضول لگا بالکل فضول۔ جس کی کوئ اہمیت نہیں نہ ہی قدر ہے۔

چلتے چلتے وہ رہ گئ ذہن میں خوف کے گہرے ساۓ تھے۔ دراب آفریدی بھی رک چکے تھے۔ اسے خبر ہی نہ ہوئ کب وہ اس حویلی کے لاوئج میں آکھڑئ ہوئی تھی۔ہر طرف سناٹا تھا۔ موت سا سناٹا.تبھئ اپنے دل کی دھڑکن کی آواز اسے کانوں میں بجتی سنائ دے رہی تھی  ۔۔!!!

"سردار۔۔۔!! وشہ اور فدیان میرے بھی بچے تھے۔ پھر آپ نے اتنا بڑا فیصلہ اکیلے کیوں لے لیا آخر۔۔۔!!!! پہلے میرا درمان اس فتنی کے حوالے کردیا آپ نے۔ پھر اب میرا فدیان بھی ان دشمنوں کی بیٹی سے بیاہ دیا آپ نے۔ میری وشہ کے ساتھ بھی ظلم کرتے آپ کا دل نہیں کانپا۔۔۔!!!! میرے بچوں کو برباد کردیا ہے آپ کے فیصلوں نے ۔!!"

کسی کی چیختی آواز سن کر معصومہ نے کانوں پر ہاتھ رکھے۔پھر ڈر کر سامنے دیکھا جہاں اس کی ماں کی عمر کی عورت آتش فشاں بنی دراب آفریدی پر چیخ رہی تھی۔ یعنی اس کے باپ جیسے لوگ یہاں بھی رہتے تھے۔

"مما۔۔۔!! آپ نے کہا تھا کہ سسرال میں سب اچھے ہوتے ہیں پر بابا کی بچھڑی ہوئ بہن یہاں کیسے آگئیں۔ یا اللہ میں تو بہری ہوجاؤں گی اگر یہ پھر سے چیخیں تو ۔!!!!"

معصومہ نے تھوک نگلا پھر متوقع حالات سوچ کر اپنے لب سختی سے بھینچے ۔

دراب آفریدی کو یہ چنگھاڑتی آواز گراں گزری تھی۔ انہوں نے ایک تیز نظر شنایہ بیگم پر ڈالی۔ 

"پھر سے سوال کررہی ہوں تم مجھ سے شنایہ ۔!! جانتی ہو نہ کہ میں تمہاری زبان کانٹے میں وقت نہیں لگاؤں گا۔ میں کیا کرتا ہوں اور کیا نہیں میں تمہیں جوابدہ نہیں ہوں ۔

آئندہ مجھے سے سوال جواب کرنے سے پہلے سو کیا ہزار دفعہ سوچنا ۔۔!!! میرا دماغ پہلے ہی گھوما ہے اب اگر تم کچھ بھی بولی تو انجام بھیانک ہوگا۔تو میرے راستے میں نہ آنا نہ ہی کچھ کہنا اب۔!!! "

ان کا منہ اپنی ایک ہی دبی دبی دھاڑ سے بند کرواکر وہ اتنے سکون سے وہاں سے گۓ جیسے جانتے تھے اب وہ ان سے کچھ نہیں پوچھیں گی ۔ ہوا بھی یہی شنایہ بیگم نے دانت نکوسے پر زبان بند ہی رکھی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہوگۓ۔

پھر انہوں نے معصومہ کو  سر تا پیر دیکھا جو اسی پوزیشن میں کھڑی تھی۔ 

"یہ میسنی بھی اسی فتنی جیسی ہوگی دیکھنے میں معصوم اور اندر سے آفت کی پرکالہ ۔۔!!! وہ تو بچ گئ میرے ہاتھوں اسے تو میں زندہ نہیں چھوڑوں گی ۔ !!!"

ایک نیا عزم کرکے وہ چند قدم معصومہ کے پاس آئیں پر معصومہ اتنے ہی قدم پیچھے چلی گئ۔ 

"سنو لڑکی میرے بیٹے سے دور ہی رہنا۔ اس گھر میں وہی ہوگا جو میں چاہوں گی۔ اگر تمہیں لگتا ہے سردار کی ہمدردیاں لے کر تم مجھ سے لڑ لو گی تو بھول ہے یہ تمہاری کیونکہ میں جو کروں گی اس کی بھنک بھی انہیں نہیں پڑے گی۔۔!!!

ناز یہاں آؤ اور اس لڑکی کو سٹور میں بند کرو۔ مجھے یہ دوبارہ یہاں نہ دکھے۔ !!!"

اسے دیکھ کر نفرت سے پھنکارتے انہوں نے اپنی خاص ملازمہ کو آواز دی ۔ سٹور کا نام سن کر معصومہ کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے والی ہوئیں۔ 

وہ ملازمہ اس لڑکی کی اس گھر میں حیثیت سے انجان تھی تبھی شنایہ بیگم کے ایک اشارے پر وہ معصومہ کا بازو پکڑ کر اسے لے جانے لگی۔

"چ۔چھوڑیں مجھے۔۔!!!"

حالات سمجھ کر معصومہ نے مدھم سی آواز میں کہا۔ پر وہ اس عورت کے سامنے کچھ بھی نہیں تھی تبھی آتے ہی اسے سٹور کی طرف بڑی آسانی سے لے جایا گیا۔

وہ سچ میں اس عورت کے سامنے کچھ بھی نہیں تھی تبھی مزاخمت تو دور کی بات وہ چیخ بھی نہ پائ۔ 

اس عورت نے اسے سٹور میں دھکیل دیا تو برستی آنکھوں سے اس نے اس کھنڈر کو دیکھا۔

"چیخ چیخ کر اپنا گلا نہ پھاڑنا ۔ یہیں کونے میں پڑی رہو۔ یہاں سے آواز حویلی کے اندر تک نہیں جاتی تو چیخنا بیکار ہے۔"

اس ملازمہ نے دروازہ دھرام سے بند کیا۔ تو اچھل کر وہ دیوار سے لگ گئ۔

"مجھے باہر نکالو ی۔یہاں سے۔۔ !!! یہاں کا۔کاکروچ ہوں گے۔ مجھے ک۔کھا جائیں گے وہ ۔ کوئ س۔سن رہا ہے مجھے۔  !!!"

سہمی ہوئی نظروں سے معصومہ نے ارد گرد دھول دیکھی۔ پھر ہچکیوں سے ایک صدا دی لیکن آواز سٹور میں ہی دب گئ اس کی۔

اس کی شال کندھے پر جھول رہی تھی۔ بال بکھرے ہوۓ تھے ۔ آنکھیں سوج کر لال ہوچکی تھیں۔ پر کوئی اس کی مدد کے لیے نہ آیا۔

فدیان ناجانے کہاں تھا۔ اس کی لاپرواہی کا نتیجہ معصومہ کی ابتر حالت تھی ۔

وہ روتے روتے وہیں بیٹھ گئ۔

کمرے کا دروازہ کھلتے ہی گلاب کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو نے دیار کا استقبال کیا۔ کمرہ پھولوں سے بھرا ہوا تھا۔

سرخ و سفید گلاب بھی جیسے اپنے نۓ مکین کو خوش آمدید کہنے کے لیے بے تاب تھے۔ اور جس کے لیے یہ ساری تیاریاں کی گئ تھیں وہ ہر چیز سے بیگانہ ہوش کی دنیا سے ہی دور تھی۔

کہاں سوچا تھا وشہ نے کہ وہ اسی شخص کی زندگی کا حصہ بن جاۓ گی اور آۓ گی بھی اسے تباہ کرنے کے ارادے سے۔ 

اس کے دل و دماغ میں جاری جنگ میں دل دیار کے ساتھ اور دماغ اپنی انا کے ساتھ کھڑا تھا۔ جنگ جاری تھی اور ناجانے کون جیتتا دونوں میں سے۔

دیار نے اسے نرمی سے بیڈ پر لٹا دیا۔پھر اس کے سینڈلز اتار کر نیچے رکھتے ہوۓ اس کی نظر کمرے کے دروازے کی طرف پڑی جہاں زرلشتہ پانی کا گلاس لے کر کھڑی تھی۔ اسکے چہرے پر بھی اس وقت پریشانی کے تاثرات تھے کہ اچانک وشہ کو کیا ہوگیا؟

پانی کا گلاس لے کر دیار نے پانی کے چند قطروں کا چھڑکاؤ اس کے یخ بستہ چہرے پر کیا تو اس کی پلکوں میں لرزش ہوئ۔

اس کی پلکوں میں ہوتی جنبش دیکھتے ہی دیار نے سکون کا سانس لیا کہ وہ ٹھیک ہے۔ورنہ تو اس کے ذہن میں انگنت وسوسے آتے جارہے تھے۔ جو اس کا دل ہی جکڑ چکے تھے۔

وشہ کی آنکھیں آہستگی سے کھلیں تو اسے اپنی اور جھکا ہوا دیار نظر آیا۔ آنکھوں میں اب بھی ایک شکوہ تھا۔ اس کی طرف سے چہرہ موڑ کر وہ دوسری سمت دیکھنے لگی۔

"ٹھیک ہیں آپ ۔۔؟؟"

پانی کا گلاس دیار نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور فکر مندی سے اس کے مرجھانے چہرے کو دیکھا۔ جس نے سن کر بھی بات انسنی کردی۔

پھر خود ہی مشکل سے سیدھا ہوکر بیٹھنے لگی جب دیار نے اسے سہارہ دے کر بٹھایا ۔ چند ہی لمحے اس کے چہرے کو تحریک کرگۓ۔ اتنا تاریک جیسے کوئ تھکا ہوا مسافر ہوتا ہے۔ وشہ نے اب بھی سرد مہری جاری رکھی۔

زرلشتہ اب بھی وہیں کھڑی تھی۔ جو بس رونے والی تھی کہ یہ سب اس کی وجہ سے ہی ہوا ہے۔

"وشہ آۓ ایم سوری۔!! میری ضد نے آپ کی طبیعت خراب کردی ۔مجھے سوچنا چاہیے تھا کہ آپ سفر سے تھکی ہوئ آئ ہیں آپ کو آرام کرنا چاہیے۔ پر میں نے آپ کو بہت تنگ کردیا۔ 

مجھے سچ اندازا نہیں تھا کہ یہ سب ہوجاۓ گا۔

مجھے معاف کردیں۔۔!!"

وہیں کھڑے ہوکر زرلشتہ نے اپنے آنسو ضبط کرنا چاہے پر وہ ناکرسکی اور روپڑی۔ اس کے رونے کی آواز سن کر وشہ بھی اپنی سرد مہری کے حول سے نکلی وہ تو بھول ہی گئ تھی کہ زرلشتہ اس وقت اپنے ننھے سے ذہن کو استعمال کرکے خود کو مجرم بھی بناچکی ہوگی۔

جبکہ اس وقت تو وہ واحد تھی جو بقول وشہ کے اس سے مخلص تھی۔ جو اس کے ونی میں آنے کے باجود بھی اس کے نکاح کے اس دن کو یادگار بنانا چاہتی تھی۔ دیار نے بھی مڑ کر دیکھا تو گہرا سانس بھرا۔ 

زرلشتہ اور اس کا معصوم سا ذہن ۔ 

وہ آگے بڑھا اور اس کے چہرے سے ہاتھ ہٹاۓ۔

"نا میرا بچہ روتے نہیں ہیں۔ تم نے کچھ نہیں کیا۔ وشہ بتائیں اسے کہ آپ کی طبیعت اس کی وجہ سے خراب نہیں ہوئ ورنہ یہ رو رو کر اپنی طبیعت خراب کرلے گی۔ میرا شہزادہ اگر آپ ایسے ہی روتی رہیں تو آپ کا وہ پاگل شوہر میرا سر پھاڑ دے گا۔ کہ اس کی بیوی کو میں نے رلایا ہے۔ بس چپ کرجاؤ۔۔ !!!"

دیار نے وشہ کی سمت دیکھ کر اسے اشارہ کیا کہ وہ کچھ بولے۔ پھر خود وہ اپنی اس چھوٹی سی بہن کو خود سے لگا کر چپ کروانے لگا۔ جو بس روتی ہی جارہی تھی۔ 

"زرلش آپ کا کوئ قصور نہیں ہے۔ وہ صبح ہم نے ناشتہ نہیں کیا تھا تو ہمارا بی پی لو ہوگیا۔ اب ٹھیک ہیں ہم۔ آپ نے ہمارے لیے اتنی تیاریاں کیں خود بھی کیوٹ سی باربی بنی ہیں آپ اور ہمیں بھی کیا سے کیا بنادیا آپ نے۔ہمیں تو تھینکس کہنا تھا آپ سے اور ہم نے رلادیا آپ کو۔اب ہماری وجہ سے آپ روئیں تو ہم بھی رونے لگیں گے۔ اور ہم چپ بھی نہیں ہوں گے ۔!!! آپ ہورہی ہیں چپ یا پھر ہم رونا شروع کردیں ۔۔!!"

وشہ کا لہجہ نارمل تھا۔ وہ اپنی کیفیت چھپانے میں بھی ماہر تھی۔ تبھی زرلشتہ دیار سے الگ ہوکر اس کے پاس آئ اور اس کے گلے لگ گئ۔ جس کا دل تو بہت رونے کو کیا کیا پر اس کی بھلائ کے لیے وہ چپ ہی رہی۔ 

"آپ بہت اچھی ہیں وشہ ۔بہت اچھی۔ آپ بہت خوش رہیں گی اس گھر میں انشاء اللہ۔ !!!"

زرلشتہ کی بات سن کر وشہ نے آنکھیں بند کیں اور گہرا سانس خارج کیا۔ اتنے میں اس کے فون کی میسج ٹیون رنگ ہوئ تو اس نے وشہ سے الگ ہوکر میسج دیکھا۔

"لالہ جان۔۔۔!!! درمان آگۓ ہیں باہر۔ میں جارہی ہوں اور آپ بھی وشہ کا بہت خیال رکھنا۔یہ بہت سویٹ سی ہیں آپ نے اگر انہیں تنگ کیا تو میں لڑنے آجاؤں گی آپ سے۔مجھے باہر تک چھوڑنے کی ضرورت نہیں نیچے میرے ماں باپ مجھے کہیں گھومتے پھرتے مل جائیں گے میں ان کے ساتھ ہی رخصت ہوجاؤں گی۔ آپ اپنی نئ نویلی دلہن کے پاس بیٹھیں۔اب باقی باتیں پھر کسی دن ہوں گی۔ اللہ حافظ ۔۔۔!!!!"

اسے کچھ بولنے کے لیے منہ کھولتا دیکھ کر زرلشتہ نے اس کی نہ کی گئ آفر کا بھی جواب دیا اور دونوں سے مل کر ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوکر وہاں سے بھاگ گئ۔ جاتے ہوۓ دروازہ بھی اپنی عادت سے مجبور ہوکر دھرام سے بند کرگئ۔ 

اس کے جانے کی دیر تھی جب وشہ کے چہرے پر سختئ چھائ۔ دیار چند قدم چل کر اس کے پاس آیا۔جب وشہ نے اسے کڑے تیوروں سے گھورا۔

"ہمارے پاس مت آئیے گا۔دور رہیں ہم سے۔ اگر آپ کو لگتا ہے ہم ان روتی اور ڈری سہمی لڑکیوں جیسے ہیں جنہیں کوئ بھی اپنے قابو میں کرسکتا ہے تو یہ بھول ہے آپ کی۔ ہم وشہ ہیں وشہ  ۔۔ !!! آپ نے ہمیں ونی کے نام پر قبول کیا ہے۔ یہ بات نہ ہم بھولیں گے نہ آپ کو کبھی بھولنے دیں گے۔ !!!"

وشہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خود سے دور رہنے کا اشارہ کیا۔ جس نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔ یہ لڑکی بہادر تھی وہ جانتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ وہ ونی میں آنے کی وجہ سے اس سے نالاں ہوگی پر اس کا لہجہ جتنا اذیت پھرا تھا وہ اس اذیت کی وجہ سے بے خبر تھا ابھی تک۔

"وشہ ریلیکس۔۔!!! میں دور ہی ہوں آپ سے۔۔۔!!! کیا کھائیں گی آپ؟ بتائیں مجھے۔ میں ابھی لادیتا ہوں آپ کو۔ اتنی دیر تک بھوکا رہنا صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔ !!!"

دیار نے وہیں کھڑے ہوکر نرم سے لہجے میں پوچھا۔ اس کی آنکھوں میں کسی بھی قسم کا غصہ نہیں تھا ورنہ وشہ کا لہجہ کسی کا بھی دماغ گھمانے کو کافی ہوتا۔

"زہر لادیں ہمیں ۔ تاکہ وہ کھاکر ہم مرجائیں۔ ہمارے خواب تو پہلے ہی توڑ دیے آپ کی اس ونی نام کی خواہش نے۔ باقی چند سانسیں بچی ہیں وہ بھی ختم ہوجانی چاہییں تاکہ ہماری اس زندگی سے جان چھوٹے۔۔۔!! 

اور آپ کیوں ہماری اتنی فکر کررہے ہیں ۔اتنا اچھا بننے کی کیا ضرورت ہے آپ کو۔ آپ نے ہمیں تباہ کرنے کی خواہش تو دل میں رکھی ہوگی نہ۔ ہماری زندگی موت سے بھی بدتر کرنے کی خواہش تاکہ اپنا بدلہ لے سکیں آپ تو پھر یہ ڈرامہ کیوں کررہے ہیں آپ۔۔!!!"

وہ پھر سے چیخی۔ دیار کا میٹھا لہجہ اس کے ارادے کمزور کررہا تھا۔ جو اسے نامنظور تھا۔ لیکن دیار کو اس کی باتیں کسی تیر کی طرح ہی چبھی۔ اس کی آنکھوں میں اذیت اتری۔ پر وشہ کا غصہ جائز ہے یہی بات اسے جھکنے پر مجبور کررہی تھی۔

"وشہ میں پھر کہہ رہا ہوں آپ نے کیا کھانا ہے مجھے وہ بتائیں۔ زہر کو چھوڑ کر۔ کیونکہ آپ کو اتنی آسانی سے میں جانے تو نہیں دوں گا کہیں بھی۔تو مرنے کی خواہش سائیڈ پر کردیں۔ آپ کا کیا بھروسہ کہیں زہر مجھے ہی دے دیں۔ میں ابھی مرنا نہیں چاہتا ۔ آج تو شادی ہوئ ہے میری۔ آپ ذرا اپنا دماغ ٹھنڈا کریں اور کھانے کے بارے میں بات کریں ۔۔!!!"

بڑی مشکل سے اپنی آنکھوں میں ابھری اذیت چھپاکر اس نے نارمل لہجے میں بات کی۔ تو وشہ نے ایک جانچتی نظر اس کے معصومیت بھرے چہرے پر ڈالی۔ جو کسی کو بھی اپنی اپنائیت سے زیر کرسکتا تھا۔

"نہیں دیں گے آپ کو ہم زہر۔ہم آپ کو پل پل ماریں گے۔ بہت ازیت دیں گے ہم آپ کو۔ آپ نے تو سوچا ہوگا کہ کوئ روتی ہوئ لڑکی آپ کے سامنے سر جھکا کر بیٹھی ہوگی۔ جسے کٹھ پتلی بنالیں گے آپ۔ پر اب آپ کو پتہ لگے گا کہ آپ کا پالا وشہ آفریدی سے پڑا ہے۔ آپ کو ہم ونی کے نام سے بھی نفرت کروادیں گے دیکھیے گا آپ۔۔!!"

اس کے معصوم چہرے سے تنگ آکر وہ غصے سے بیڈ سے اتری اور اس کا گریبان پکڑ کر اس کی آنکھوں میں دیکھتے انتہائی زہریلے لہجے غرائ پر دیار نے اپنا گریبان نہ تو چھڑوایا نا ہی اس کی اس حرکت کو برا سمجھا۔ آخر بیوی تھی وہ اس کی جو چاہے وہ کرسکتی تھی۔ دیار بالکل برا نہیں ماننے والا تھا۔

"کبھی کہتی ہیں ہم سے دور رہو۔ پھر خود ہی پاس آجاتی ہیں۔ ویسے آپ کا بولنے کا انداز بہت خوبصورت ہے۔ 'ہم' کہہ کر جب آپ مجھ سے مخاطب ہوتی ہیں تو اس 'ہم' سے لگتا ہے جیسے میرا اور آپ کا ساتھ شروع سے ہی تھا۔

تبھی تو آپ میں 'میں' نہیں ہے۔ جہاں بھی ہے 'ہم' ہی ہے۔ مجھے سچ میں آپ کا انداز بہت اچھا لگا۔ پھر آپ کی یہ آنکھیں جو مجھے غصے میں دیکھ کر اپنا دیوانہ بنارہی ہیں تو جب پیار سے دیکھیں گی تو کیا ہوگا تب۔ آپ سچ میں بہت پیاری ہیں۔ آ

پ نے گریبان پکڑا ہے اور میں آپ کو اجازت دیتا ہوں آپ جب چاہیں یہ حرکت کرسکتی ہیں پھر سے۔ گریبان کیا آپ تو اچھی خاصی کڑوی باتیں بھی سنادیں مجھے۔ یہ اجازت صرف دو لوگوں کے پاس ہے۔ اور ان میں ایک اب آپ بھی ہیں۔۔۔!!!"

وہ اس صورتحال میں بھی دلکشی سے مسکرایا۔ اس کے گال پر پڑا گرہا نمودار ہوا۔ اسی کے ساتھ ہی وہ اپنے گریبان پر رکھے اس کے دونوں ہاتھ نرمی سے پکڑ گیا۔ پر ہٹاۓ نہیں اس نے۔

وشہ نے اس کی قیمتی مسکراہٹ دیکھی تو اس کا غصہ پل میں ہوا ہوا پھر اپنے ہاتھ اس کی نرم سی گرفت میں دیکھ کر اس نے تھوک نگلا۔ 

"نہیں وشہ یہ شخص مجرم ہے تمہارا۔۔۔!!! تم اس کی مسکراہٹ دیکھ کر پاگل نہیں سکتی ۔ تم پٹھان ہو اپنا بدلہ لیے بغیر کسی کو چھوڑ دینا تمہارے خون میں شامل نہیں تو کانفیڈنٹ رہو۔۔!!!"

اس کے دماغ نے اسے جھنجھوڑا تو پھر سے اس کی آنکھوں میں غصہ اترا ۔ اس نے دیار کی سرمئ آنکھوں میں اپنی شہد رنگ آنکھوں سے جھانکا ۔

"ہم سیریس ہیں آپ کیوں ہماری باتوں کو مزاق بنارہے ہیں۔ اس گستاخی پر ہم قتل بھی کردیں گے آپ کا۔ یہ مسکرا کر باہر کی لڑکیوں کو دیکھا کریں وہی آپ کے اس ڈمپل میں ڈوب کر مریں گی ہم متاثر نہیں ہوں گے آپ سے ۔ !!! آپ نے ہماری توہیں کی ہے ہمیں ونی میں بھرے جرگے میں مانگ کر۔ ہم انسان ہیں کوئ کھلونا نہیں ہیں۔مسٹر ایکس،واۓ،زی۔۔۔!!!"

وہ پھر سے چلائ تو اسے اپنی آنکھیوں کے سامنے اندھیرا چھاتا ہوا محسوس ہوا۔ پر وہ خود کو سنبھال گئ۔ بھوک اسے لگی تھی اور چیخ چیخ کر گلا بھی بیٹھ گیا تھا۔ لیکن دیار کو دیکھ کر اس کا کب کا جمع کیا اعتماد ٹوٹنے لگا۔وہ اس وقت معصوم بنا کھڑا وشہ کو اس کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کے لیے اکسا رہا تھا۔

اس کی مسکراہٹ سمٹی اس نے عجیب سی کیفیت میں اسے دیکھا۔

"میں کیوں نامحرموں کو مسکرا کر دیکھوں۔ میری مسکراہٹ کیا اتنی ارزاں ہے۔میں تو آپ کو ہی بس مسکرا کر دیکھو گا۔چاہے پھر آپ میرا قتل ہی کیوں نہ کردیں۔ میں آپ کی توہین کرہی نہیں سکتا۔ نہ مزاق بنا سکتا ہوں آپ کا۔ آپ کا مزاق میرا مزاق ہوا۔ ہم دونوں میں اب فرق تو نہیں ہے کوئ بھی۔

 اور آپ سے التجا ہے کہ اب میرے علاؤہ کبھی کسی کو اپنی ان قاتل نگاہوں سے نہ دیکھیے گا اگر کوئ ان آنکھوں میں اور آپ کے لہجے میں کھویا تو بے موت مارا جاۓ۔ آپ اب میری ہی ہیں مانیں یا نہ مانیں۔اور میں آپ کا۔۔۔!!! دیار درانی نام ہے میرا مسز دیار۔۔۔!!! مجھے اسی نام سے بلایا کریں اب۔جانم۔۔!!!"

اس کا لہجہ محبت سے لبریز تھا۔ کوئ نہ مانتا اس بندے کے اندر بھی ایک محبت کرنے والی روح رہتی ہے۔ یہ بندہ اس انداز میں بھی بات کرسکتا ہے۔ پر یہی سچ تھا۔ وشہ شاکڈ رہ گئ۔

"ہم آپ کے نہیں ہیں۔ خوش فہم نہ ہوں زیادہ۔ اور یہ جانم جیسے عجیب ناموں سے ہمیں نہ بلائیں آپ۔ آپ ہمیں زچ کیوں کررہے ہیں۔ ہاتھ چھوڑیں ہمارے ۔ ہم آپ کی بہن کو بتائیں گے کہ آپ فضول باتیں کرتے ہیں۔ ہمیں زچ کررہے ہیں آپ ۔!!! بہت برے ہیں آپ ۔!!!"

وشہ نے اپنا ہاتھ کھینچا پر ہاتھ اس کی گرفت میں تھا تو نکلتا کیسے۔ تبھی وہ تنگ آگئ اور جھنجھلا کر اسے دھمکیاں دینے لگی۔ جس نے ان دھمکیوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا۔ 

یہاں وہ آئ تو دیار کو برباد کرنے تھی پر دیار تو اس کا دیوانہ ہوگیا۔ برباد کیا ہوتا اب۔۔!!

"جانم یادداشت کمزور ہے آپ کی شاید۔ آپ نے خود نکاح نامے پر دستخط کیے ہیں۔ آپ میری ہی ہیں ۔ اور میں تنگ نہیں کررہا آپ کو۔ میں تو بات کررہا ہوں بس۔ میں خوش فہم ہی تو ہوں۔ جو میرے فہم میں ہے اس پر خوش۔۔۔!!!

اور ہمارے بیچ کی بات اگر آپ نے زرلش کو بتائ تو وہ کیا سوچے گی کہ اس کی شیرنی جیسی بھابھی اس کے پیارے سے معصوم سے بھائ سے ڈر گئ۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ مجھ سے ڈریں آپ لڑیں مجھ سے ۔ اجازت ہے آپ کو ۔۔!! جانِ دیار۔۔۔!!!"

اس کی مزاخمت کی وجہ سے دیار نے اس کے ہاتھ چھوڑ دیے۔ وشہ کے دل کی دنیا میں طوفان برپا تھا۔ ایک سانس آرہی تھی تو اس سانس کا خارج ہونا ہی مشکل تھا۔اپنے کانپتے ہاتھوں سے اس نے اپنی پیشانی پر آیا پسینہ صاف کیا ۔دیار کا محبت بھرا انداز اس کے اوسان خطا کرچکا تھا۔ اسے بھوک سے چکر آۓ اور وہ وہیں گرنے لگی۔ لیکن دیار سنبھال گیا اسے۔

"کب سے پوچھ رہا تھا میں کہ کیا کھائیں گی آپ۔ پر آپ بھی بہت ضدی ہیں ۔ اس درمان کی بہن ہیں تو ضدی ہی ہوں گی نہ۔ میں کیسے سوچ گیا کی اس درمان کی چھوٹی بہن کوئ ڈرپوک لڑکی ہوگی۔ آپ نے تو حیران ہی کردیا ہے مجھے۔

تھینکس ٹو درمان کہ اس نے مجھے اس نکاح کے لیے راضی کرلیا۔ ورنہ میں تو خود ہی آپ کو اپنانے سے انکاری تھا۔ آپ میرے ساتھ ہی اچھی لگیں گی۔ پر پتہ نہیں کب آپ کو میں بھی اچھا لگوں گا ۔!!"

اس نے اسے بیڈ پر بٹھایا پھر پانی کا گلاس اسے پلانے لگا۔ اس دوران بھی اس کے ذہن میں اسی لڑکی کا راج تھا۔ اسے محرم والی محبت ہوئ تھی۔ اپنی محرم کو دیکھتے ہی اس سے شدید والی اور اچانک ہوئ محبت ۔ تبھی تو وہ اس کے لیے ایک ہی لمحے میں بدل گیا ۔

وشہ کو اپنے حصار میں قید کرکے اس کے کانپتے یخ بستہ ہاتھ وہ نرمی سے دبانے لگا۔ اب اسے اس پٹاخہ کا غصہ بھی سہنا تھا اور اس کا خیال بھی رکھنا تھا۔ فلحال تو اسے اب اسے کھانا کھلانا تھا۔ آتے ہی وشہ اس سے خدمتیں بھی کروانے لگی تھی۔ 

"درمان تمہاری چھوٹی بہن کی وجہ سے میں نے تمہیں بھی معاف کیا۔ یہ اتنی پیاری کیوں ہے۔ ظلم تو اس کے ساتھ ہوا ہے پر میں سب ٹھیک کردوں گا۔ ان کا کوئ خواب میں ٹوٹنے نہیں دوں گا۔ پڑھائ ہو یا کوئ اور خواہش ۔ سب میں ہی پوری کروں گا ۔ میری پٹاخہ بیوی ۔۔۔!!! "

 فون نکال کر اس نے ملازمہ کو کھانا لانے کا میسج کیا۔ اس وقت وشہ کو اکیلا چھوڑنا اسے منظور نہیں تھا۔

خود وہ  اس آفت کے چہرے کے تاثرات جو کچھ دیر پہلے تھے وہ سوچ کر مسکرا اٹھا۔

وشہ تو اپنے ارادوں میں فلحال ناکام ہوگئی ۔ اپنی محبت کے آگے ٹکنا مشکل تھا ۔ اور اس کے بس سے بھی باہر تھا۔ پر کوشش اب بھی اس کی پوری تھی کہ کسی طرح اپنا بدلہ لے ہی لے ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

زرلشتہ کا سامان درمان کی گاڑی میں ملازم رکھ کر جاچکا تھا۔ اب وہ زرلشتہ کے انتظار میں گاڑی سے ٹیک لگاۓ کھڑا تھا۔ جب اسے اچانک اپنی چھوٹی سی بیوی آتی ہوئ دکھی۔ پنک میکسی اس نے اب بھی پہنی ہوئ تھی۔میک اپ بھی ویسا کا ویسا تھا سب سے بڑھ کر درمان کو دیکھتے ہی اس کے چہرے پر جو خوشی آئ وہ درمان سے مخفی نہ رہ سکی۔

وہ مسمرائز ہوا۔

"یہ تقاضا عشق ہے یا میری آنکھوں کی مستی

کھولو تو دیدار تمہارا ، بند کرو تو خیال تمہارا..!!"

وہ اس کے پاس چلتی ہوئ آئ۔ درمان تو اب اس کے  اس نۓ روپ پر حیران تھا۔ وہ تو ہر انداز میں درمان کو زیر کرنے کی طاقت رکھتی تھی۔

اوپر سے اس کا وہ ہیئر اسٹائل جو پہلے وہ اسی کی وجہ سے چینج کرچکی تھی اب اسی کی خاطر وہ پھر سے اسی لک کو اپنا گئ۔میکسی سنبھالنا ذرا مشکل تھا اس کے لیے پر بھائ کی شادی پر وہ عام سے کپڑے پہننے سے تو رہی تھی۔تبھی یہ مشکل کام بھی کرلیا اس نے۔

"درمان خیال رکھنا اس کا۔ اسے التجا سمجھ لینا یہ اس کے ماں باپ کی درخواست ۔۔!!"

وہ ابھی بھی اسی کو ہی دیکھ رہا تھا جب اسے اپنے پاس کسی کی آواز سنائ دی تو اسے اندازا ہوا کہ وہاں کوئ اور بھی موجود ہے۔ اس نے غور کیا تو پتا چلا کہ اس کے ماں باپ بھی یہاں موجود ہیں۔ درمان مسکرایا زرلشتہ کا خیال رکھنے کے لیے تو وہ دل و جان سے تیار تھا۔

"آپ مجھے شرمندہ نہ کریں۔ ماضی میں جو ہوا وہ غلط تھا میں بھول چکا ہوں سب۔ تو آپ بھی بھول جائیں۔ ہمارے تعلقات پہلے بھلے ٹھیک نہیں تھے پر اب انشأ اللہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ آپ حکم کیا کریں التجا نہیں۔۔۔!!!"

درمان نے ان کی توقع کے برعکس خاصے دوستانہ لہجے میں ان کی بات کا جواب دیا۔ وہ پہل کرچکا تھا تو بہراور درانی کو بھی تسلی ہوگئ کہ ان کی بیٹی اس کے ساتھ ہی خوش رہے گی۔ ویسے بھی اس ایک ہفتے میں وہ جان چکے تھے کہ زرلشتہ درمان کو پسند کرتی ہے اور اپنی بیٹی کی خوشی میں وہ خوش تھے۔

ان دونوں کو رخصت کرکے وہ بھی سکون میں آگۓ وہیں رخمینہ بیگم نے بھی زرلشتہ کے چہرے پر چمک دیکھی تھی درمان کے ساتھ کی وجہ سے ۔ وہ بھی مطمئن ہوگئیں۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"طبیعت ٹھیک ہے نا تمہاری اب۔ بخار یا پھر سردرد کچھ اگر ہے تو بتادو۔ ہم چیک اپ کروا آئیں گے۔۔!!!"

گاڑی ڈرائیو کرتے ہوۓ درمان نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔بخار اسے نہیں تھا۔ پھر اس کی بینڈیج کو آنکھیں سکیڑ کر اس نے دیکھا۔ اس کے چہرے پر لگے زخم ٹھیک تھے اب پر پیشانی کی چوٹ بھرنے میں کافی وقت لگتا ۔

زرلشتہ نے نفی میں سرہلا دیا ۔

"نہیں ہے درد اور مجھے ہاسپٹل بھی نہیں جانا پہلے ہی لالہ نے اتنے سارے ٹیسٹ کروا دیے ہیں میرے۔ اتنا سارا خون بھی لیا انہوں نے۔ اور درد بھی ہوا تھا۔ اور ریپورٹس بھی ساتھ دی ہیں انہوں نے مجھے کہ میں آپ کو وہ دکھادوں اور یہ بھی کہوں کہ اب اگر مجھے کچھ ہوا تو وہ آپ کا پہلے سے برا حال کریں گے۔ پر پہلے انہوں نے کیسا حال کیا تھا آپ کا جو اب وہ آپ کا حال پہلے سے بھی برا کریں گے ۔!!!"

زرلشتہ نے بڑی عقلمندی سے اسے سب بتادیا جو کچھ دن پہلے دیار نے اسے کہا تھا۔ لیکن یہ دھمکی سن کر درمان کو اس دن کا دیار کا وہ جلاد والا روپ یاد آیا تو اس نے جھرجھری لی۔

زرلشتہ کی پیشانی سے ہاتھ ہٹا کر اس نے اپنی جھنجھلاہٹ پر قابو پانے کے لیے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔

"اس نے تمہارے ٹیسٹ کروانے اور مجھے بتانا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ بہت خون لیا تھا کیا انہوں نے۔ درد زیادہ ہوا تھا ۔۔!!!"

اس نے بات گھمانا چاہی ۔تبھی بات کو نیا رخ دے دیا۔ زرلشتہ نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

"اتنا سارا خون لیا تھا انہوں نے اور آپ کو پتا ہے میں روئ بھی تھی تو ڈاکٹر کہنے لگی میں اتنی بڑی ہوکر بھی انجکشن لگنے پر رورہی ہوں۔مجھے دیکھ کر وہ ہنسی بھی تھی۔ آپ بتائیں انجکشن کا بڑے ہونے سے کیا تعلق ہے۔ کیا بڑے لوگوں کو درد نہیں ہوتا۔ کیا سوئ انہیں درد کی بجاۓ سکون دیتی ہے۔ 

نہیں نا تو لوگ ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں۔۔!!!"

درمان کے کندھے پر سر رکھ کر منہ بناتے زرلشتہ نے اپنا درد بانٹا۔ جسے واقعی برا لگا کہ ڈاکٹر اس کی بیوی پر ہنسی کیوں۔ 

"ڈاکٹر پاگل ہی ہوگی جسے یہ بھی نہیں پتا کہ انجکشن لگنے پر لوگوں کو سچ میں درد ہوتا ہے وہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ درد چھپا جاتے ہیں پر تمہیں درد چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب سے اگر ہم چیک اپ کے لیے گۓ تو میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔ تمہیں انجکشن بھی نہیں لگنے دوں گا۔ اب بتاؤ کہاں جانے کا دل ہے تمہارا ۔

شاپنگ پر ، گھومنے پھرنے ، یا پھر کچھ کھانے جانا ہے۔۔!!!"

اس نے گاڑی شہر کے رستے پر موڑ دی۔ ابھی گھر جانا اسے منظور نہیں تھا۔ آخر اسے اس کی مصیبت ایک ہفتے بعد ملی تھی تو اسے خوش کرنے کے لیے وہ چاہتا تھا کہ اس کی پسند کی جگہ پر جاۓ۔

"شاپنگ پر گۓ ہم تو بہت تھک جائیں گے۔ اور گھومنے پھرنے والا آئیڈیا اچھا ہے پر اس سے بھی ہم تھک جائیں گے ہم کچھ کھانے ہی جاتے ہیں ۔ کچھ بہت اچھا سا۔ ٹھیک ہے نا ۔!!!"

آفر اچھی ہو اور زرلشتہ جانے دے ناممکن اسے پاستہ ہی کھانا تھا۔ درمان جان گیا۔

"جیسا تم چاہو ۔۔۔!!! ویسے اچھی لگ رہی ہو آج تم۔ میں تو شاکڈ رہ گیا تھا تمہیں دیکھ کر کہ میری بیوی پہلے سے بھی پیاری کیسے ہوگئ۔تم تو ہر لک میں کیوٹ لگتی ہو۔بس مہندی کی کمی ہے۔ لگواؤ گی تم یا پھر تمہیں پسند نہیں ہے مہندی۔ میری مانو تو مہندی بھی لگوالو۔ دونوں ہاتھوں پر پھر تم بھی آج میری دلہن بن کر ہی میرے گھر آؤ گی۔ لگواؤ گی نا مہندی ۔۔!!!"

اس کے سونے ہاتھ دیکھ کر درمان نے خواہش کا اظہار کیا ۔زرلشتہ نے کبھی مہندی لگوائ تو نہیں تھی پر جیسے درمان نے کہا تھا اسے انکار کرنا غلط ہوتا۔

"میں لگوالوں گی مہندی مان۔ آپ کا نام بھی لکھواؤں گی بیچ میں۔ ساتھ میں پھولوں والے گجرے بھی لے کر دیں اور مجھے واپسی پر چاکلیٹس بھی دلوانی ہے آپ نے۔ اب میں آپ کی دوست بھی ہوں تو آپ وہ سب مانیں گے جو میں کہوں گی۔۔!!!"

زرلشتہ نے فرمائشیں کیں پھر جواب کا انتظار کیا۔البتہ درمان اس کے منہ سے اپنا وہی نک نیم جو وہ اکثر ہوش و حواس سے بیگانہ ہوکر کہتی تھی وہ سن کر چونک اٹھا۔ پھر اسے وہی اظہار والی بات یاد آئ۔

"ویسے میرا نام کیوں لکھواؤ گی تم ۔ کہیں تم سچ میں میرے عشق میں پاگل تو نہیں ہوگئ۔ ایسا ہے تو بتادو۔ بتانے میں حرج نہیں ہے۔ !!"

اس کی باتوں کا انوکھا مطلب نکال کر درمان نے اسے تنگ کیا جس نے حیرت سے اسے دیکھا پھر اس سے دور ہوکر اپنی سیٹ سے ٹیک لگائ۔

"میں نہیں کرتی آپ جیسے سڑو سے محبت۔ بس خوش فہمیاں ہیں یہ آپ کی۔ شوہر آپ ہیں میرے۔ پاگل آپ کو ہونا چاہیے میرے لیے۔ میں تو بیوی ہوں اور مشرقی لڑکیاں ایسی باتیں نہیں کرتیں۔ اچھا نا سامنے دیکھیں میں نروس ہورہی ہوں۔ آپ ڈرا دیتے ہیں مجھے ۔!!"

اس نے درمان کو چڑایا ۔ لیکن جب اسے محسوس ہوا وہ اسے ہی دیکھ رہا ہے تب اپنی آنکھیں میچ کر وہ گاڑی کے شیشے سے باہر دیکھنے لگی۔ 

درمان نے بمشکل مسکراہٹ روکی۔ 

"مانیں یا نہ مانیں صنم۔۔!!!دل آپ کا بھی میرے لیے ہی دھڑکتا ہے۔عشق کا جہاں دونوں طرف آباد ہے۔بس اظہار سے کتراتی ہیں آپ۔

ہم نے بھی آپ سے اظہار نہ کروایا تو پھر عاشق نہ کہیے گا ہمیں۔بس انتظار کیجئے وہ وقت قریب ہے جب آپ خود کہیں گی ۔

مجھے تم سے محبت ہے فقط تم سے۔۔۔!!!"

اس نے اسے مزید تنگ کیا۔ جو اس کی طرف دیکھنے کو بھی تیار نہیں تھی۔

اور درمان کی بھی ضد تھی کہ ایک اظہار تو اسے اپنے پورے ہوش و حواس میں کرنا چاہیے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

رات آٹھ بجے کے قریب فدیان گھر میں داخل ہوا۔ پورا دن وہ یونہی سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا رہا تھا ۔ اور اب تھک ہار کر اپنے مسکن کی جانب واپس آگیا کہ جو ہونا ہوگا دیکھی جاۓ گی۔ حالات سے بھاگنا فضول ہے تو اسے حالات کا سامنا کرنا چاہیے۔

"اگر وہ لڑکی سچ میں ظالم ہوئ تو ابھی کمرے کا دروازہ کھولتے ہی میرا سر پھاڑ دے گی کی سارا دن کہاں غائب تھے تم۔ پھر ہوسکتا ہے مجھے کمرے سے ہی باہر نکال دے اس صورت میں میں کسی بھی دوسرے کمرے میں جاکر سو جاؤں گا۔ پر اس سے بحث نہیں کروں گا۔ 

ہمارے ملک کا قانون بھی تو عجیب ہے مرد عورت کو مارے تو ڈومیسٹک وائیلنس کا کیس بنتا ہے اس کے خلاف۔ حقوق نسواں ، تحفظ نسواں پتہ نہیں کون کون سے ادارے اس مرد کو مارنے پر تل جاتے ہیں۔

پر جب وہی عورت ایک مرد کو ویسے ہی مارے تو اس عورت کو بہادر کہا جاتا ہے۔ معاشرہ اسے سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے تب نہ ہی پولیس آتی ہے نا ہی لوگ مرد سے ہمدردی کرتے ہیں ۔ تب بھی سب یہی کہتے ہیں کہ ضرور اس میسنے نے ہی کچھ کیا ہوگا۔ تبھی تو مار پڑی اسے اپنی بیوی سے۔ ضرور یہی منحوس ،کمینہ ، ظالم جلاد اس پر ظلم کرتا ہوگا۔ چاہے وہ بیچارا بیوی کے سامنے بولتا بھی نہ ہو۔ہماری جان کی تو اہمیت ہی نہیں قانون کے اداروں کو۔!!!"

اس نے سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے سوچا ۔ تو مسکین صورت بناکر اپنے معاشرے کو برا بھلا کہا۔ پھر آخری سیڑھی پر پہنچ کر نیچے وہ جھانکنے لگا۔

"میرے ملک کا قانون اگر مجھ جیسے مظلوم مردوں کے لیے بھی اچھا ہوتا تو آج میں ڈر کر نہیں پورے اعتماد سے کمرے میں جاتا۔ 

آج اپنے ملک کے قانون کو دیکھتے ہوۓ دل کررہا ہے کہ اس جگہ سے ہی کود کر جان دے دوں پر چوٹ بہت لگے گی تو یہ پلان کینسل ۔۔!!! "

اس نے اتنی اونچائی دیکھی تو سر ہی چکرا گیا۔ 

آخر کار تنگ آکر وہ کمرے کے دروازے کے پاس آیا۔

جہاں آکر اس نے ڈر کر دروازے کا ہینڈل پکڑا۔اور دروازہ کھول ہی دیا۔

اسے امید تھی کہ کوئ اس کا سر ضرور توڑ دے گا۔ پر یہاں تو ایسا کچھ ہوا ہی نہیں۔

وہ کمرے میں داخل ہوا اور گھوم کر سارا کمرا دیکھا۔ وہاں کوئ بھی نہیں تھا۔

اس نے حیران ہوکر اپنا سر کھجایا۔ 

"مسز مظلوم فدیان آفریدی ۔کہیں آپ کسی کونے میں چھپ کر مجھ پر حملہ تو نہیں کرنے والیں۔میں شریف سا انسان ہو۔ یہ ظلم نہ کیجۓ گا آپ مجھ پر۔باہر نکل آئیں آپ جہاں بھی ہیں ۔۔!!!"

اس نے اونچی آواز میں کہا پر جواب اب بھی نہ ملا اسے۔ اس کی پیشانی پر بل پڑے۔

"اس لڑکی کو یہیں ہونا چاہیے تھا۔ چلو مجھ سے لڑ لیتی مار لیتی۔ یا مجھے ہی کمرے سے نکال دیتی پر خود تو کمرے میں ہی رہتی نا وہ ۔ کہیں بھاگ تو نہیں گئ وہ۔ یا اللہ میری اکلوتی بیوی جسے میں نے دیکھا بھی نہیں، جس کا مجھے نام بھی نہیں پتہ وہ کیسے بھاگ گئ۔۔۔!!؛ میں اب گھر والوں کو کیا جواب دوں گا۔۔!!"

اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑیں ۔اس نے واش روم اور کمرے کے کونے بھی دیکھ لیے پر وہ وہاں ہوتی تو اسے ملتی ۔

وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکلا اب اسے اس نامعلوم بیوی کو ڈھونڈنا بھی تھا۔ لوگ شادی سے پہلے بیوی ڈھونڈتے ہیں وہ شادی کے بعد بیوی کو ڈھونڈ رہا تھا۔

سیڑھیوں سے اترتے وقت اسے سامنے ناز کھڑی دکھی جو شنایہ بیگم کی خاص ملازمہ تھی۔ ایک ہی ہفتے میں وہ ان کی چاپلوسی کرکے خاص بن جو گئ تھی۔

"میری بیوی کہاں ہے؟ تم نے کیا اسے دیکھا ہے کہیں ؟"

اس کے پاس رک کر اس نے سنجیدگی سے استفسار کیا جب ناز کے چہرے پر ناسمجھی چھائ۔

"صاحب آپ کی تو شادی ہی نہیں ہوئ ۔ تو بیوی کہاں سے آگئ آپ کی۔ شاید آپ نیند میں ہیں تبھی ایسی باتیں پوچھ رہے ہیں ۔ آپ کی کوئ بیوی نہیں ہے۔جاکر سوجائیں"

ناز نے پورے یقین سے جواب دیا تو فدیان کے چہرے پر سختی چھائ ۔

"میں تمہیں پاگل لگتا ہوں جو میں نیند میں چل کر تم سے اپنی بیوی کا پوچھتا پھروں گا۔ میں اس لڑکی کا پوچھ رہا ہوں جو آج اس گھر میں آئ ہے۔وہی میری بیوی ہے۔ اصولا اسے میرے ہی کمرے میں ہونا چاہیے تھا ۔پر مجھے وہ وہاں نہیں دکھی۔ میں سیریس ہوں اس وقت تو جلدی سے بتاؤ وہ کہاں گئ۔۔!!!"

فدیان پھٹ پڑا۔ پر آواز مدہم ہی رکھی۔ ناز ڈر کر پیچھے ہوئ۔ یہ بندہ غصہ بھی کرتا ہے اسے بھی ہفتے بعد ہی پتا چلا تھا ۔

"صاحب آج تو اس گھر میں ایک ہی لڑکی آئ ہے۔ چھوٹی سی تھی وہ۔ اگر آپ اس کا پوچھ رہے ہیں تو بڑی بی بی جی کے حکم کے مطابق میں نے اسے اس حویلی کے پچھلے سٹور میں بند کیا تھا۔ ابھی بھی وہ وہیں ہے۔"

اس نے ڈر کر سچ بتایا تو یہ سچ سنتے ہی فدیان کا رنگ فق ہوا۔

"بیوقوف عورت وہ لڑکی بیوی ہے میری کوئ فالتو شے نہیں تھی جسے تم مورے کے ایک اشارے پر سٹور میں بند کر آئ ہو۔ جاہل ہو تم۔۔۔!!! وہ جگہ جانوروں کے رہنے کے قابل نہیں اور وہ لڑکی دوپہر سے وہاں بند ہے۔ دیکھو اگر اسے خراش بھی آئ ہوئ تو میں سچ میں تمہیں ایسے ہی کسی کھنڈر میں بند کروادوں گا۔ آئ بڑی مورے کی چمچی۔۔!!!"

فدیان کا بس نہ چلا کہ اس عورت کو ہی مار دے۔ لاپرواہی کا یہی نتیجہ نکلنا تھا۔ اس کی روح تک کانپ گئ یہ سوچ کر کہ کہیں اس کھنڈر میں سے کوئ سانپ ہی نہ نکل آیا ہو ۔ یا پھر کوی بچھو ۔

فدیان اس ملازمہ کو سخت نظروں سے گھور کر باہر کی سمت بھاگا۔ معصومہ اب بھی سٹور میں بند اپنی قسمت کو رو رہی تھی۔ جسے نہ اس کے گھر میں سکون ملا تھا نہ ہی سسرال میں ایک سکون کا سانس لے سکی تھی وہ۔

"یہاں تو ہر طرف خاموشی ہے وہ تو کچھ بول بھی نہیں رہی۔ اللہ خیر کرے ۔۔!!! اسے کچھ ہونہ گیا ہو۔ "

اس نے جلدی سے سٹور کا دروازہ کھولا سامنے مکمل اندھیرا تھا۔ 

دروازہ کھلنے کی آواز پر معصومہ ڈر کر مزید دیوار سے لگ گئ۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں کوئ اسے مارنے ہی نہ آیا ہو۔ اس نے منہ پر ہاتھ رکھا اور سانس روک لیا اپنا ۔وہ بند جگہوں پر چھپنے کی عادی تھی۔ تبھی اس کھنڈر میں بھی سروائیو کرگئ۔

"اس گھر میں نئ آئ لڑکی کیا تم یہاں ہو, یا نہیں ہو۔ پلیز جہاں بھی ہو مجھے آواز دو۔ "

فدیان کے چلنے کی آواز بھی ماحول میں خوف طاری کرنے لگی۔ اوپر روشن دان سے چاند کی روشنی سٹور میں داخل ہورہی تھی۔

فدیان نے فون کی ٹارچ لائٹ آن کی۔ اندھیرے میں معصومہ کا اسے ملنا مشکل تھا۔

معصومہ نے آواز نکالنے کی غلطی نہ کی۔ فدیان نے چارو طرف اسے ڈھونڈا پر وہ اسے نہ دکھی۔

کہاں ہو تم میری کچھ دیر پہلے بنی بیوی؟ جہاں بھی ہو مجھے مل جاؤ۔ ورنہ پچھتاؤ گی تم ۔ تم انسان ہو یا کوئ بلا ہو۔ اس بند سٹور میں کہاں غائب ہوگئ ہو تم ۔۔؟؟"

اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر جب وہ تھک گیا تو غصے میں آکر وہ چیخا۔ اس ویران کھنڈر نما کمرے میں اس کی آواز کسی شیر کی دھاڑ جیسی ہی تھی۔ تبھی تو ناچاہتے ہوۓ بھی معصومہ خوف سے ہلکا سا چیخی پھر اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ کر وہ آنکھیں میچ گئیں۔

فدیان نے گھوم کر آواز کی سمت دیکھا پھر ٹارچ کی روشنی میں اسی جگہ کے قریب ہوا۔ ایک پرانے ٹیبل کے نیچے سے وہ آواز آئ تھی۔ معصومہ بچتے بچاتے اسی ٹیبل کے نیچے چھپی تھی۔ 

وہ نیچے بیٹھا۔ ٹارچ لائٹ معصومہ کے چہرے پر پڑ رہی تھی جس سے اس کا چہرہ فدیان آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔ وہ ایک پل میں جان گیا کہ یہ عجوبہ یقیناً اسی کی بیوی ہوگی۔ سائیڈ پر گری بلیک شال اسے یاد تھی جو اس نے جرگے میں بیٹھی لڑکی کے سر پر دیکھی تھی۔ تو وہ اسے پہچان گیا ۔

"ڈھونڈ چکا ہوں میں تمہیں۔۔!!! تو آنکھیں کھول لو۔ بہت ہوگیا یہ ہائیڈ اینڈ سیک کا کھیل۔ اب رات بہت ہوگئ ہے تو مزید میرا ضبط آزمانے سے اچھا یہی ہے کہ تم باہر نکلو اور میرے ساتھ چلو۔۔!!!"

فدیان نے اس کے ڈرے سہمے چہرے کو دیکھتے ہوۓ سرد لہجے میں اسے باہر نکلنے کا حکم دیا جو یہ آواز سن کر اپنے پکڑے جانے کے ڈر سے آنکھیں کھول گئ۔اسی لمحے اس کی آنکھیں ٹارچ کی روشنی سی دھندلائیں تو وہ چہرے کے سامنے ہاتھ کرکے مزید دیوار سے لگ گئ۔ دل ڈوب کر ابھرا کہ ناجانے سامنے کون ہوگا۔

فدیان نے کوفت سے نظریں پھیریں ۔اس میں اس وقت اس لڑکی کی منتیں کرکے اسے یہاں سے لے جانے کی ہمت نہیں تھی۔ تبھی اس نے فون آف کرکے پاکٹ میں رکھا۔ اور خود دوسرے ہاتھ سے اس کی کلائی پکڑ کر اسے خود ہی باہر نکالنے لگا۔

 جو اس افتادہ پر بوکھلائ اور ایک ہی جھٹکے میں باہر آگئ۔اسے اپنے سامنے کھڑا کرکے اس نے جھک کر اس کی شال اٹھائ اور عجلت میں اس کے شانوں پر پھیلا کر۔ چاند کی روشنی میں اس کا چہرہ دیکھا ۔ جہاں خوف کے آثار تھے ۔ معصومہ مکمل طور پر ڈر چکی تھی۔ تبھی تو بولنے کی ہمت بھی اس میں نہ تھی اب۔

"تم ایسے ماننے والوں میں سے نہیں ہو۔ مجھے زبردستی تمہیں باہر نکالنا نہیں تھا۔ پر اس وقت میں مزید اس بھوت نگری میں چڑیلوں کے ساۓ میں نہیں بیٹھ سکتا۔ ان کا کیا بھروسہ ۔ کوئ مجھ پر عاشق ہوگئیں تو تمہارا کیا جاۓ گا۔ زندگی تو میری عزاب بنے گی نا۔اب چلو میرے ساتھ ۔۔!!!"

اسے سوچنے کا موقع دیے بغیر اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ باہر لے جانے لگا۔ معصومہ سرد پڑ چکی تھی۔ اس کا دماغ ماؤف ہونے لگا۔ ایک انجان شخص اس کا ہاتھ کیسے پکڑ گیا وہ بس سوچ ہی سکی۔

وہ کھینچی چلی گئ اس کے ساتھ۔ 

"چ۔چھوڑیں مجھے۔۔!!!"

سٹور سے باہر نکلتے ہی معصومہ نے فدیان کی پشت دیکھی پھر اس ویران حویلی کو دیکھا تو اسے یاد آیا دوپہر میں ایک ملازمہ اسے یہاں چھوڑ کر گئ تھی۔ یہ لوگ ہی برے ہیں ۔

تبھی اس کے ہاتھ میں قید اپنے ہاتھ کو وہ دوسرے ہاتھ سے آزاد کروانے لگی۔

اور ساتھ میں پھر سے رونے لگی ۔ اس کے رونے کی آواز سن کر فدیان رکا۔ اور گردن گھماکر ایک سخت نظر چاند کی روشنی میں دکھتے اس کے چہرے پر ڈالی۔

"جتنا رونا ہے کمرے میں جاکر رولینا ۔یہاں باہر نہ کوئ تمہیں چپ کرواۓ گا نہ میں ابھی کسی عاشق کی طرح تمہارے آنسو پونچھوں گا۔ تو منہ بند کرو اپنا اور چلو میرے ساتھ۔ !!!!"

فدیان نے اسے تنبیہ کی پھر دوبارا اسے کھینچتے ہوۓ آگے بڑھ گیا۔ گھر کے اندرونی حصے تک پہنچنے تک معصومہ کا احتجاج جاری تھا۔ اس کے مطابق تو وہ کسی نئ مشکل میں پھنسنے والی تھی کیونکہ فدیان اس کا شوہر ہے یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

اس نے ہورا زور لگایا پر ہاتھ آزاد کروانا ناممکن تھا۔

"م۔مجھے چھوڑیں ۔ میرے ش۔شوہر کو پتا لگ گیا کہ آپ م۔مجھے اپنے ساتھ لے جارہے ہیں تو وہ آپ کو ماریں گے۔ میرا ن۔نکاح ہوا ہے آج۔ میں بے سہارا نہیں ہوں۔ مجھے ج۔ جانے دیں ۔ میں آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گی۔"

وہ حلق کے بل چیخی ۔ خود کو نۓ خطرے میں محسوس کرکے آج اس نے اپنی ہمت جمع کرکے وہ کردیا جو وہ کر ہی نہیں سکتی تھی ۔ یعنی ایک ساتھ اتنی لمبی بات وہ بھی خاصی اونچی آواز میں۔

لیکن آخر میں وہ روپڑی ۔ اس کی سسکیوں کی آواز فدیان نے بھی سنی۔ وہ متاثر ہوا کہ اس لڑکی کو پتہ ہے اب کس کے نام کی دھمکی دینی ہے اسے۔ یعنی نہ باپ نہ بھائ۔ اب اس کا محافظ اس کا شوہر ہے ۔ ناچاہتے ہوۓ بھی ایک پیاری سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر سجی۔ جسے وہ اگلے ہی لمحے چھپا گیا۔

"کون ہے تمہارا شوہر۔ذرا مجھے بھی تو بتاؤ تم ۔آخر کون ہے وہ انسان جو فدیان آفریدی کے سامنے ٹکے گا۔ اور تم اگر بے سہارا نہیں ہو تو سٹور میں کیا کررہی تھی تم۔ وہاں تو سب فالتو سامان پڑا ہوتا ہے یعنی تم بھی فالتو ہی تھی۔ میں تمہیں سٹور سے لایا ہوں ۔ تو اب تم پر میری ہی مرضی چلے گی "

وہ بھی فدیان تھا جواب دینے میں ماہر اب وہ خود کو ہی ایک سوال بنا گیا۔ معصومہ نے آنکھیں جھپک کر ان میں جمع آنسو نکلنے دیے۔ فدیان کہہ تو ٹھیک رہا تھا۔

ناز اب بھی اسی جگہ پر کھڑی تھی شاید یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ لڑکی زندہ ہے یا اب اس کی وجہ سے وہ مرے گی۔ فدیان کے ساتھ اسی لڑکی کو دیکھ کر اسے اپنی موت اپنے سامنے دکھی۔

"اگلے دومنٹ میں اس لڑکی کا سامان میرے کمرے میں پہنچواؤ۔کوئ چیز بھی پیچھے نہ رہ جاۓ۔ آئندہ اپنی اوقات سے بڑا کام کرنے سے پہلے یاد رکھنا آج جو میں تمہارا انجام سوچ چکا ہوں اگلی بار اس سے بھی برا کروں گا تمہارے ساتھ۔ دو منٹ مطلب دومنٹ۔۔!!! ساتھ میں کھانے کی ٹرے بھی لاؤ۔ جو فریج میں پڑا ہے وہ نہ لے آنا۔ اسے بخار ہے تو کچھ ہلکا پھلکا سا بنالاؤ۔ دیر مت کرنا ۔میں برداشت نہیں کروں گا کوئ بھی کوتاہی ۔۔!!!!"

ناز کو ایک نظر دیکھ کر اس نے غصے سے جو حکم سنایا تو وہ سر ہاں میں ہلاکر وہاں سے فورآ غائب ہوگئ ۔ معصومہ کی تو ابھی بھی یہی کوشش تھی کہ کسی طرح وہ اپنا ہاتھ چھڑوالے۔

"آ۔ آپ کو کیا کرنا ہے میرے شوہر کے بارے میں جان کر۔ آپ مجھ سے دور رہیں۔ مجھے ہاتھ لگانے کا حق نہیں ہے آپ کے پاس۔۔۔!!! میں سٹور میں ر۔رہوں یا سڑک پر یا پھر جنگل میں وہ میرا مسئلہ ہے۔ آپ م۔مجھے زبردستی اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتے ۔ہیں کون آپ۔۔!!"

وہ پھر سے رونے لگی ۔ فدیان کو یہ ڈرا ڈرا سا غصہ اچھا لگ رہا تھا۔ وہ حیران تھا کہ کوئ بیک وقت غضہ، التجا اور احتجاج سب کیسے کرسکتا ہے۔

اس لڑکی کو تنگ کرنے کا اس کا اب پکا ارادہ تھا 

تاکہ جان سکے یہ لڑکی آخر ہے کیا چیز۔

اس نے کمرے کا دروازہ کھولا اور اسے لے کر کمرے میں داخل ہوا۔ معصومہ کا دل ڈوبنے لگا۔ وہ بس اپنے ہوش کھونا چاہتی تھی۔ تاکہ ہر مصیبت سے بچ جاۓ۔ پر اس کا نصیب بھی اتنا ظالم تھا کہ اسے ہر مشکل آنکھیں کھول کر سہنی پڑتی تھی۔

"میں تمہارے شوہر کے بارے میں جاننے کے بعد اسے قتل کروں گا اور تم سے نکاح کرلوں گا۔ پھر سارے حق میرے پاس ہوں گے۔ پھر میں تمہیں اسی کمرے میں ہمیشہ قید رکھوں گا۔ تاکہ تم خود کو چھڑوانے کے لیے احتجاج کرسکو۔۔!!!! اچھا آئیڈیا ہے نا یہ ۔!!!!"

اس نے اسے صوفے پر لا بٹھایا اور اس کا ہاتھ چھوڑ کر اس کی طرف جھک کر اس کی آنکھوں میں دیکھتے پراسرار سا مسکراتے اپنے نیک ارادے اس پر آشکار کیے۔

معصومہ کی آنکھیں اسی کے چہرے پر جم گئیں۔ جن میں خوف ہی خوف تھا۔ اس کا سانس بھاری ہوا۔ قید میں زندگی گزارنے کا سوچ کر وہ ہلنا بھی بھول گئ اس نے نفی میں سرہلایا۔

"ن۔نہیں۔۔!!!" اس نے بے آواز کہا ۔

"ہاں ۔۔۔!!! میں ایسا ہی کروں گا کرائنگ گرل۔ تمہیں میری قید میں رہنا ہوگا "

 اس نے یقین سے کہا پھر اس کے گالوں پر بہتے آنسو دیکھ کر آنکھیں سکیڑیں ۔ یہ سچ میں بہت روتی ہے اسے یقین ہوگیا۔

"اگر تم مجھے اپنے شوہر کا نام بتادو تو شاید میں تمہیں چھوڑ دوں۔لیکن اگر تم اسے جانتی ہی نہیں تو پھر تمہارا بچنا مشکل ہے"

اس نے شرط رکھی۔ تو معصومہ نے لب بھینچے ۔ کون تھا اس کا شوہر اس نے خود سے پوچھا مگر جواب تھا معلوم نہیں ۔!!!

"م۔مجھے نہیں آتا ان کا نام۔ مجھے چھوڑ دیں میں ا۔اسی سٹور میں واپس چلی جاؤں گی۔ آپ ن۔نامحرم ہیں میرے لیے۔ م۔مما کہتی ہیں نامحرم کو دیکھنے سے بھی گ۔گناہ ملتا ہے۔ آپ کو بھی ملے گا دیکھ لینا آپ۔۔!!!"

جب کچھ بھی اسے سمجھ نہ آیا تو یہ وہ واحد راستہ دکھا اسے دکھا ایک اور سبق ساتھ میں دھمکی بھی۔ فدیان کو یہ لڑکی بہت ہی معصوم لگی۔ جسے بات کرنے کا بھی نہیں پتا تبھی اس نے خود کو پرسکون کیا۔

"میں اپنی ملکیت سٹور میں نہیں دیکھ سکتا۔ جو جگہ جس کی ہو وہ وہیں اچھا لگتا ہے۔ تمہاری جگہ میرے ساتھ ہے۔ یعنی جہاں میں رہوں گا تم بھی وہیں رہو گی۔ تم بھلے اس کمینے یشاور کی بہن ہو پر ہو تو میری ہی بیوی نا تو آئندہ زبردستی والا لفظ میرے لیے استعمال نہ کرنا۔ 

میں تمہیں اس کمرے میں تمہارے ہی بھلے کے لیے لایا ہوں۔ ایسے حیران مت ہو میں ہی تمہارا شوہر ہوں فدیان آفریدی ۔!!! یعنی مجھے تمہیں اپنے ساتھ رکھنے پر کوئ گناہ نہیں ملے گا۔ اب مجھے بتاؤں۔ کیا دھمکی دو گی تم مجھے اب ۔۔!!!"

وہ طنزاً مسکرایا پھر اس صوفے سے دور ہوکر اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ معصومہ آنکھیں میچ گئیں۔ یہ ظالم شخص اس کا شوہر ہے یہ سوچ ہی ناقابلِ قبول تھی۔

"س۔سوری" اس نے اب معافی بھی مانگ لی تو فدیان نے بیچارگی سے آنکھیں میچیں۔ اس میں معافی مانگنے والی کیا بات ہے۔ معصومہ کا بس چلتا تو وہ غائب ہوجاتی یہاں سے  اسے یقین تھا یہ شخص بالکل اس کے بابا جیسا ہوگا جو اسے مارے گا اور اس کی تذلیل بھی کرے گا۔

" نام کیا ہے تمہارا ؟ کوئ تو ایسا لفظ ہوگا جس سے تمہارے گھر والے تمہیں بلاتے ہوں گے کرائنگ گرل۔۔۔!!! وہی بتادو مجھے ۔لیکن اگر تم اس نام میں بھی اٹکی تو میں تمہارے منہ پر ٹیپ لگادوں گا۔ میں لگابھی دوں گا تو اٹکنا مت۔ !!"

اس نے تھک کر بات کا رخ پلٹا ۔تو معصومہ نے تھوک نگلا۔

"معصومہ خانم۔۔!!!" اس نے ایک ہی سانس میں تیزی سے کہا۔ تو فدیان کا ہوش اڑا ۔ کہ یہ بغیر اٹکے کیسے بول گئ۔ یہ اسے پاگل کرنے والی ہے یہی سوچ کر اس نے سر جھٹکا ۔

اتنے میں ناز نے دروازہ کھولا اور پہلے کھانے کی ٹرے اس کے سامنے کی۔ جو اس نے پکڑ لی۔

"گڈ ۔۔!!! اب اس کا سامان بھی لاؤ۔۔ !! "

اس نے ٹرے لیتے ہی دروازہ ملازمہ کے منہ پر بند کیا۔ پھر معصومہ کے سامنے رکھے ٹیبل پر وہ ٹرے اس نے رکھ دی۔

"کھاؤ اسے ۔ اور آئندہ مجھے کسی سٹور میں نہ ملنا تم۔ کھاؤ اسے ورنہ اپنی جان سے جاؤ گی تم۔۔!!!"

اس نے جب حکم دے دیا تھا تو معصومہ کیوں حیرت سے ٹرے دیکھ رہی تھی ۔۔؟؟؟ کبھی اسے دیکھ رہی تھی۔۔؟؟؟ اسی بات سے تنگ آکر اس نے بھی دھمکی دی۔

ٹرے میں دودھ ، کچھ فروٹس، بسکٹس ، پیسٹریز ، بریڈ سلائسز، جوس کا گلاس، انڈے اور بھی چیزیں رکھی تھیں۔ 

فدیان سے ڈر کر ناز کو جو جو ملا تھا عجلت میں وہ وہی لے آئ تھی۔ سنیکس، ناشتہ ، سٹارٹر اب اس ٹرے کو کیا کہا جاتا ۔نام تو اسے فدیان بھی نہیں دے سکتا تھا ۔۔ !!!!

لیکن فدیان کی دھمکی میں اثر تھا تبھی ڈرتے ہوۓ وہ وہاں سے دودھ کا گلاس اٹھا کر پینے لگی۔ اسے کچھ کھاتا دیکھ کر فدیان اب ڈریسنگ روم چلا گیا۔ وہاں فرسٹ ایڈ باکس پڑا تھا وہ لانے۔

پانچ منٹ بعد وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں کمفرٹر تھا ساتھ میں فرسٹ ایڈ باکس۔ چہرے پر سنجیدگی اب بھی ویسی کی ویسی تھی۔

معصومہ نے اسے دیکھتے ہی ڈرتے ہوۓ سیب کا پیس اٹھایا اور کھانے لگی ابھی اسے مرنا نہیں تھا۔

"یہ بخار کی میڈیسن ہے یہ ابھی کھالو۔ صبح تک ٹھیک ہوجاؤں گی تم۔ باقی جو زخم تمہارے پیر پر لگا ہے اس پر دوا بھی لگانی پڑے گی کہیں زخم خراب نہ ہوجاۓ۔ آئندہ انسانوں کی طرح چلنا۔

 بار بار میں تمہارا دھیان نہیں رکھوں گا۔ مجھے دوسروں پر انحصار کرنے والے لوگ نہیں پسند ۔ پھر چاہے وہ تم ہی کیوں نہ ہوئ۔ اچھا بتاؤ پاؤں کے علاؤہ کہیں چوٹ لگی ہے تمہیں یا بس یہی ہے"

اس نے کمفرٹر سائیڈ پر رکھا اور اس کے سامنے میڈیسن بھی رکھی۔

پھر اس نے اس کے پاؤں کی جانب اشارہ کیا جہاں خون جما ہوا تھا۔ تب معصومہ نے بھی اسی سمت ناسمجھی سے دیکھا اسے تو ابھی پتہ لگا کہ اسے چوٹ بھی لگی ہے۔ یہ چوٹ اسے جرگے میں ہی لگی تھی جب اپنے مقدر پر روتے ہوۓ وہ بے دھیانی میں گرتے گرتے بچی تھی۔ 

اسے درد تو تب ہوتا جب اسے اپنی فکر ہوتی۔

"پتہ ن۔نہیں۔۔!!" اس نے معصومیت سے جواب دیا۔

"کوئ بات نہیں مجھے لگ رہا ہے بس یہیں چوٹ لگی ہے تمہیں۔ اور آنکھیں بھی درد کررہی ہوں گی تمہاری تو وہ بخار اور رونے کی وجہ سے ہی ہورہا ہے زیادہ رونا مت اب۔"

اس کا چہرہ ہاتھ سے اپنی طرف کرکے اس نے اس کی سرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھا۔ اور ساتھ ہی انگوٹھے سے اس کے گالوں پر جمے آنسو پونچھ دیے۔ اسے دوسروں پر انحصار کرنے والے لوگ ناپسند تھے اور موصوف خود معصومہ کی فکر کررہے تھے۔

 "اب چونکہ ہمارا نکاح ہوچکا ہے معصومہ خانم۔۔!!! تو واپسی کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔ اب تم میرے ساتھ ہی رہو گی یہ بات اپنے ذہن میں محفوظ کرلو۔ لیکن نکاح جن حالات میں ہوا ہے تمہارے لیے اس نکاح کو قبول کرنا مشکل ہوگا۔ میرے لیے بھی ہے ۔۔!!!! تو میں تمہیں ٹائم دینا چاہتا ہوں جتنا تم چاہو ۔۔!!!

 تم جب کمفرٹیبل ہوگئ میرے ساتھ۔ تب انشأ اللہ ہماری الجھی ڈوریں بھی سلجھ جائیں گی۔تو بالکل یہ بات نہ سوچنا کہ میں ونی والی بات کو لے کر تمہیں ٹارچر کروں گا یا پھر زبردستی تمہیں اس رشتے کو قبول کرنے پر مجبور کروں گا۔ تم بے قصور ہو تو میری طرف سے تمہیں کوی سزا نہیں ملے گی۔۔!!!"

وہ نیچے بیٹھا اور اس کے پاؤں سے سینڈلز اتارے۔یعنی ناجانتے ہوۓ بھی اپنی بیوی کے پاؤں تک کو ہاتھ لگانے میں قباحت محسوس نہ ہوئ اسے۔

ایک اور احسان وہ اس پر کرگیا یہ کہہ کر کہ وہ اسے کوئ سزا نہیں دے گا۔ نا ہی زبردستی اسے اس رشتے کو قبول کرنے پر مجبور کرے گا۔

جو حق اسے جرگے نے انصاف کا راگ الاپتے نہیں دیا جو حق اسے اس کے سگے باپ نے نہیں دیا وہ حق فدیان نے اسے بغیر اپنی انا بیچ میں لاۓ دے دیا۔

 معصومہ نے پاؤں پیچھے کی طرف کھینچا مگر فدیان کے لہجے کی سنجیدگی کی وجہ سے اپنی کوشش روک گئ۔

__________________*

ہم ایک عجیب سے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں اگر شوہر بیوی کو اپنے قابو میں رکھے تو وہ ایک عظیم انسان ہے اور اگر وہی مرد عورت کو اس کا جائز حق دے ۔ اس سے محبت کرے ، اس کا خیال رکھے مختصراً اسلام کے سارے احکامات مان لے تو وہ بیوی کا غلام ہے۔۔۔!!!!!!

ہم ہیں تو مسلمان پر ناجانے عورت کو اس کی حیثیت دیتے وقت ہم کمظرف کیوں ہوجاتے ہیں ۔

ہم نہیں مانتے پر ہمارا معاشرہ کم ظرف ہوجاتا ہے جب سوال عورت کا ہو ایک بیوی کی حیثیت سے ۔۔!!!! 

___________________*

"تم میرے سامنے اپنے باپ اور بھائ کی حمایت نہیں کرو گی۔ تمہاری پچھلی زندگی اب مکمل مٹ چکی ہے تمہارے لیے اور تمہیں میری بات ماننی ہی ہوگی۔ جو میں کہوں گا تم وہی کرو گی۔ اپنا دماغ زیادہ مت چلانا ۔۔!!!"

اس کا حکم سن کر اسے اس کی ماں یاد آئ تو کیا اسے اپنی ماں کو بھی بھولنا ہوگا ۔ اس نے آنسو روکے۔

"اور م۔مما کا نام بھی نہیں لینا۔۔!!!" 

معصومہ نے مشکل سے پوچھا۔ فدیان کے ہاتھ جو تیزی سے اپنا کام کررہے تھے وہ رکے ۔

"ماں کا نام لے لینا تم۔ مائیں جیسی بھی ہوں ان سے منہ نہیں موڑا جاسکتا ۔ نہ میں تمہیں ایسا کرنے کو کہوں گا ۔!!! اس کے علاؤہ کسی اچھائ کی امید نہ رکھنا تم ۔۔ !!!"

جلدی سے پٹی کرکے وہ وہاں سے اٹھا اور ایک اور عنایت کرکے بھی ظاہر کیا کہ اس نے تو کچھ کیا ہی نہیں ۔

اتنے میں ملازمہ بھی اس کا بیگ گھسیٹتے ہوئے کمرے تک لے آئ۔

"باقی کا سامان بھی جلدی لاؤ۔ اور ہاں کل مجھے تم اس حویلی میں چلتی پھرتی نہ دکھو۔ ورنہ اپنی بیوی کو قتل کرنے کی کوشش کرنے کے جرم میں میں تمہیں جیل بھجوا دوں گا۔ "

فدیان کا لہجہ اٹل تھا۔ملازمہ نے رونی صورت بنائ ۔ جی حضوری اسے مہنگی پڑی تھی نہ وہ یہ ظلم کرتی نہ ہی آج کام سے ہاتھ دھو بیٹھتی۔

وہ وہاں سے چلی گئ تو فدیان بھی اب سونے کے ارادے سے بیڈ پر بیٹھا۔ معصومہ میڈیسن کھاچکی تھی۔ تو اسے تسلی ہوگئ کہ اب وہ سکون سے سوجاۓ گی۔ جتنا رعب اب تک فدیان نے اس پر جھاڑا تھا وہ تو اگلی بار بولتی ہی نہ اس کے سامنے۔ 

"تمہارے حالات دیکھ کر لگتا ہے تم روشنی میں ہی سوتی ہوگی۔ چلو اب سو جاؤ۔ جتنی تم چھوٹی ہو اس صوفے پر کمفرٹیبل رہو گی۔ میں مزید کوئ احساس نہیں کروں گا تمہارا۔ 

نا مجھ سے کوئ امید رکھنا اور ہاں ایک اور بات جب بھی کچھ بھی چاہیے ہو تو خاموش رہنے کی بجاۓ سیدھا مجھے بتانا میں نہیں چاہتا کہ تم اپنی ضروریات پر بھی سمجھوتہ کرو۔ گھر میں کسی سے کوئ مسئلہ ہوا تمہیں تب بھی سیدھا مجھے بتانا ۔مورے نے آج جو کیا میں اس پر خاموش اسی لیے ہوں کیونکہ مجھے پتا ہے اگر ان کا پارا ہائ ہوا تو نقصان تمہیں ہی پہنچے گا۔ اس معاملے کو میں اپنے طریقے سے ہینڈل کرلوں گا۔ برتن اٹھانے کی ضرورت نہیں وہ آخری چکر میں یہ بھی لے جاۓ گی۔ "

بے رخی کا مظاہرہ کرتے بھی اسے بس معصومہ کے کمفرٹ کی فکر تھی ۔ اب پیچھے بچا کیا تھا جو احساس کرنے کے لیے ضروری ہے۔ پہلی ہی ملاقات میں اس کے رہنے، سونے، کھانے پینے، درد، حتی کہ اس کے تحفظ کا احساس کرکے بھی وہ بس یہی کہہ رہا تھا مجھ سے کسی احساس کی امید نہ رکھنا ۔

اس کے کمفرٹ کا پورا بندوبست کرکے دنیا سے لاپرواہ خود میں مگن فدیان صاحب بھی سوگۓ۔

"یہ مجھ پر غصہ کررہے تھے یا احساس کررہے تھے میرا۔ مجھے سٹور سے اپنے کمرے میں لاکر۔ میری ساری ضرورت کی چیزیں مجھ تک پہنچا کر میرے کہے بغیر ہی میرے زخموں پر مرہم رکھ کر بھی یہ یوں تھے جیسے میری فکر ہی نہیں انہیں ۔ مما نے جیسا کہا تھا یہ ویسے ہی میرا خیال رکھ رہے ہیں۔ پر جتا بھی نہیں رہے۔۔۔!!! "

اس بار معصومہ کا ذہن بھی الجھ گیا۔ وہ صوفے پر لیٹی اور کمفرٹر خود پر اوڑھ کر اس نے ایک بار بیڈ پر لیٹے فدیان کو دیکھا۔ 

ایک ذمہ دار شوہر میں اس کے علاؤہ کیا خصوصیات ہوسکتی ہیں آخر۔ کہ وہ اپنی بیوی کے سکون کے لیے اس کے پاؤں سے خود سینڈل بھی اتار گیا تھا۔ کوئ انا نہیں تھی اس میں۔ 

ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ناپسندیدہ بیوی کے آگے بھی جھک جانا۔ 

اپنی من پسند عورت کا خیال تو ہر مرد رکھ لیتا ہے۔ اس میں کوئ خاص بات نہیں۔۔۔!!!!!

خاص تو وہ مرد ہے جو بغیر چاہے بھی عورت کو معتبر کردے۔ اتنا اہم بناکر بھی اتنا انجان رہے کہ اجنبیت بھی ختم ہوجاۓ ۔۔۔۔۔۔!!!!

یہ خصوصیت بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ فدیان ایسا ہی خاص شخص تھا۔ محبت تو اسے شاید بہت بعد میں ہوتی۔ پہلے تو وہ معصومہ کو اپنا اسیر کرتا۔ معصومہ بھی سکون سے سوگئ۔ کمرے میں مکمل خاموشی تھی اب۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"زرلشتہ اٹھ جاؤ...!!! گھر پہنچ گۓ ہیں ہم۔"

گاڑی سائیڈ پر روک کر اس نے اپنے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی زرلشتہ کو اٹھانا مناسب سمجھا۔ جو ابھی کچی نیند میں تھی تبھی اٹھ گئ۔پورا دن وہ دونوں گھوم پھر کر ہی آۓ تھے۔

پہلے تو وہ اسے ہاسپٹل لے گیا۔ زرلشتہ تب ناراض ہوئ تھی مگر درمان کو اپنی تسلی بھی کرنی تھی تبھی اس کی رپورٹس دکھا کر روٹین چیک اپ کرواکر وہ اسے ریسٹورنٹ لے گیا اس کا فیورٹ پاستہ کھلانے ۔

بعد میں وہ اسے مہندی لگوانے کے لیے لے کر گیا۔ جہاں دونوں ہاتھوں کے آگے اور پیچھے خوبصورت سی مہندی لگواکر دائیں ہاتھ میں اس نے مان بھی لکھوایا ۔

نام لکھوا کر وہ ساری ناراضگی بھول گئ تھی۔ اس نے گجرے بھی لیے۔ آئس کریم بھی کھائ ۔ بہت سی پکس بھی بنوائیں اور بہت انجوائے کیا۔ 

لیکن اب گھر واپس آکر اسے ڈر لگ رہا تھا درمان کی ماں سے۔ جو اسے پھر سے مار بھی سکتی تھیں۔ 

اس نے پریشانی سے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مروڑنا شروع کیں ۔ درمان بغیر سنے بھی جان گیا اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔

اس کا ہاتھ نرمی سے پکڑ کر وہ مکمل طور پر اس کی طرف متوجہ ہوگیا۔

"کچھ نہیں ہوگا تمہیں وعدہ ہے میرا۔ مجھ پر بھروسہ رکھو۔ اگر ایسا کچھ بھی پھر ہوا تو تم مجھے اپنے محافظ کے طور پر اپنے ساتھ پاؤں گی۔ میں خود یہاں سے جانا چاہتا تھا پر گھر کا جو ماحول ہے ابھی جانا ٹھیک نہیں ۔۔۔!!!

تم ڈرنا مت میں ہوں تمہارے ساتھ۔۔۔!!!"

اس نے اسے سمجھایا تو وہ سمجھ بھی گئ۔ تبھی اس نے سر ہاں میں ہلادیا۔ تو درمان بھی پرسکون ہوگیا ۔

وہ گاڑی سے نکلا اور اس کی سائیڈ کا دروازہ کھول کر اپنا ایک ہاتھ اس کے سامنے کیا ۔ جو زرلشتہ نے مسکرا کر تھام لیا۔ پھر وہ اس کے ساتھ ہی گھر کے اندرونی حصے کی جانب بڑھ گئ۔

اس کی واپسی دو آنکھوں نے مشکل سے برداشت کی تھی۔ 

"اب آگئ ہو نا تم۔ تو اب زندہ بچ کر یہاں سے واپس نہیں جاپاؤ گی۔ بہت ہوگیا یہ چوہے بلی کا کھیل۔ بس ایک موقعہ اور اس نئ ونی کے ساتھ تمہیں بھی عبرت کا نشان بنادوں گی میں۔ میرا وہ روپ جو تم نے ابھی پورا نہیں دیکھا ایک دن جب بازی میرے ہاتھ میں ہوگی تب تمہیں دکھاؤں گی۔ تب نہ میرے بچے تم دونوں کو بچائیں گے نہ کوئ تدبیر کرپاؤ گی تم ۔۔!!!!"

انہوں نے نفرت سے آنکھیں پھیریں۔کچھ لوگوں کی فطرت سانپ جیسی ہوتی ہے جو جیسے بھی حالات آجائیں ڈسنا نہیں چھوڑتے ۔ چاہے وہ حرکت انہیں ہی برباد کیوں نہ کردے ان لوگوں کو فرق نہیں پڑتا۔ 

شنایہ بیگم کی فطرت بھی ایسی ہی تھی نہ انہیں فرق پڑا تھا ابھی تک۔ نہ وہ سدھری تھیں۔ موقع ملتے ہی ایک اور بار اپنے ہی بچوں کی خوشیاں وہ تباہ کرنے کی کوشش کرنے کی خواہش رکھتی تھیں۔

اب تو وقت ہی بتاتا کہ آگے کیا ہونے والا تھا۔ ان کا راز کھلتا یا وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو ختم کرہی دیتیں۔

بہت سے راز ایسے تھے جو جب کھلتے تو لوگوں کو بولنے کے قابل بھی نہ چھوڑتے۔پر ہر راز اپنے وقت پر ہی کھلتا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

کمرے میں آتے ہی زرلشتہ کی آنکھوں نے جو منظر دیکھا وہ وہیں حیرت کے مارے کھڑی ہوگئ۔ درمان کو امید تھی وہ حیران ہی ہوگی۔

سامنے دیوار پر بڑی سی پک لگی تھی جو آج کی ہی تھی۔ ابھی چند گھنٹے پہلے ہی تو یہ پک بنائ تھی درمان نے اور اتنی جلدی اسے فریم کرکے وہ کمرے میں بھی لگواگیا۔ 

پھر راستے میں پھولوں سے ویلکم بیک لکھا تھا۔ بہت سے غبارے جو ربنز سے بندھے تھے وہ بھی اسی کے استقبال کے لیے وہاں رکھے گۓ تھے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی تھی آس پاس چھوٹے بڑے سائیز کے ٹیڈی بیئرز رکھے گۓ تھے۔ درمان نے جو گنز وغیرہ شوپیس کے طور پر رکھی تھیں وہ انہیں بھی اٹھوا چکا تھا۔

اس کے کمرے کی تھیم بھی پنک پر شفٹ ہوچکی تھی۔ اسے لگا وہ کسی غلط جگہ پر آگئ ہے۔ 

"اب خوش ہو نا تم۔۔۔!!!! اب تو یہ کمرہ تمہارے شایان شان ہوچکا ہے۔ کسی فیری کے روم کی طرح۔ میں جتنا کر سکا ابھی کے لیے اسی میں خوش ہوجاؤں۔ باقی بھی جیسا تم چاہو گی ویسا ہی ہوگا۔۔۔!!!!"

اس کے پیچھے کھڑے ہوکر وہ مدھم سے لہجے میں اسے اس کے خیالوں سے نکال گیا۔ زرلشتہ بھی مسکراتے ہوۓ اس کی طرف رخ کرگئ۔

"میں بہت خوش ہوں مان۔۔۔!!!! آپ نے میرے لیے اتنا سب کیا ہے۔ مجھے یہ سب خواب ہی لگا ۔ سچ میں۔۔۔!!!! میں جیسے سچ میں فیری لینڈ آگئ ہوں۔ میں آپ کا شکریہ کیسے ادا کروں ۔۔!!!"

اس کا لہجہ محبت بھرا تھا۔وہ لڑکی سچ میں بہت خوش تھی۔اچانک ملی خوشی اس سے سنبھالنا مشکل تھا۔درمان نے اس کے مہندی سے سجے دونوں ہاتھ تھامے۔ 

"جب تم ایسے مسکرا کر دیکھتی ہو نہ مجھے تو میرا دل مجھ سے پوچھتا ہے پہلے سے ہارا دل اور کتنی بار ہارو گے اس لڑکی پر۔ زری تم نہیں جانتی تم بہت خاص ہوتی جارہی ہو میرے لیے ۔ میرا بس نہیں چلتا کہ خود کو فنا کرکے تمہیں خوش کردوں۔ کسی کو اتنا دیوانہ کرنا وہ بھی اپنے پیچھے کیا جائز ہے؟"

 اس لڑکی کی خوشی اسے خود پر حاوی ہوتی محسوس ہوئ۔ زرلشتہ نے معصومیت سے آنکھیں جھپکیں۔ مس ڈرامہ کوئین کا ذہن آج تک اس شخص کے سامنے کام نہیں کرپایا تھا۔ 

"آپ کو فنا کرکے میں خوش نہیں ہوں گی کبھی بھی۔ اور آپ کا دل کیوں ہار رہا ہے۔ ہار آپ کو سوٹ نہیں کرے گی۔ آپ جیت جائیں ۔۔!!! میں ہار جاتی ہوں ۔۔!!!"

 اس کی نیلی آنکھوں میں دیکھ کر زرلش نے اس کے مسئلے کا حل نکالا۔ تو درمان نے سر کو نفی میں ہلاکر اس کی ہتھیلی پر لکھا اپنا نام دیکھا۔

"محبت میں ہارنا انسان کو معتبر کردیتا ہے۔جیت تو منزل ہوتی ہے۔۔!!! مجھے منزل ملی ہے ہار کر۔ تمہارے تو ہاتھوں پر میرا نام لکھا ہے ۔ میرے تو دل کی ملکہ ہو تم۔ بہت تنگ کیا تھا نا میں نے تمہیں ۔ ایک ایک بات کی تلافی کروں گا میں۔ اچھا ایک بات سچ سچ بتاؤ ۔ تم روئ تھی آج۔"

اسے زرلشتہ کے ذہن کو زیادہ الجھانا نہیں تھا۔ محبت اظہار مانگتی ہے پر جب وقت آۓ تب۔ اور وہ بھی اسی وقت پر اظہار کرتا پوری تیاری کے ساتھ۔ اظہار بھی عام نہ ہونے دیتا وہ۔

زرلشتہ نے اس کے اتنے صحیح اندازے پر سر ہاں میں ہلادیا۔

"وہ میری وجہ سے وشہ کی طبیعت خراب ہوگئ تھی۔ میں نے انہیں کچھ زیادہ ہی تنگ کردیا۔ میں سچ میں شرمندہ ہوں۔۔!!!"

وہی سب اسے جب یاد آیا تو اس نے سر جھکایا اسی لمحے درمان اس کے ہاتھ چھوڑ کر اسے اپنے حصار میں قید کرگیا ۔ کہیں وہ رو ہی نہ پڑے۔

"وشہ کی طبیعت صبح سے ہی تھوڑی ڈاؤن تھی۔ کھاتی بھی تو کچھ نہیں ہے وہ۔ اوپر سے میری بہن ہونے کی وجہ سے لڑنا اس پر فرض ہے۔ تبھی وہ بیمار ہوئ ہوگی دیار ہے نا تمہارا بھائ۔ وہ سنبھال لے گا اسے۔ اسے ہی اب وشہ کو سنبھلنا ہے اور مجھے تمہیں سنبھالنا ہے ۔!!! "

درمان نے اسے سمجھانا چاہا جس نے ہاں میں سر ہلادیا۔ 

"آپ جب مجھ سے پیار سے بات کرتے ہیں تب مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ آپ کیوٹ پٹھان بن گۓ ہیں۔ میں بھی آپ کو اب اپنے خوابوں جیسی لگتی ہوں یا نہیں لگتی ۔!!!"

چہرہ اوپر کرکے آنکھیں پٹپٹا کر اس نے سوال پوچھا۔

"سچ کہوں تو مجھے ایسی بیوی چاہیے تھی جو میرے سامنے بات بھی نہ کرے۔ کسی کونے میں چپ کرکے بیٹھی رہے۔ میری زندگی میں ہو بھی اور نہ بھی ہو۔ انشارٹ شادی وغیرہ میرے نزدیک ایک فارمیلیٹی تھی بس۔ تم مجھے ویسے ہی تو ظالم نہیں کہتی نہ۔ میں ظالم ہی تھا۔۔!!! 

لیکن تم نے مجھے سکھادیا کہ زندگی گزارنی نہیں ہوئ زندگی جینی ہوتی ہے۔ اپنے پارٹنر کے ساتھ اس جیسا بن کر۔ تم میرے خوابوں جیسی نہیں ہو میں نے کبھی آئیڈیل پارٹنر کا خواب نہیں دیکھا تم میری حقیقت ہو۔۔!!! "

درمان کی سوچ زرلشتہ کو عجیب لگی ۔ تبھی اس نے اسے خفگی سے گھورا تو مسکرا کر وہ اسے آزاد کرگیا۔

"جاؤ چینج کرلو تم۔ پھر آرام سے سوجانا ۔ باقی کی باتیں ہم بعد میں کرلیں گے۔ ماۓ چیری بلوسم۔۔!!!!"

مسکراتے ہوۓ وہ خود بھی جاکر صوفے پر بیٹھا اور اپنی گھڑی اتارنے لگا۔ پر زرلشتہ تو افسوس کررہی تھی کہ اس کے شوہر کو وہ چاہیے ہی نہیں تھی۔

"میں آپ کے خوابوں جیسی نہیں ہوں نا۔ آپ خوش نہیں مجھ سے۔۔!!! ایسا ہی ہے نا درمان۔۔!!!"

وہی کھڑے ہوکر اس نے منہ ہھلایا ۔ درمان نے سر کو نفی میں ہلایا اپنی گھڑی وہیں رکھ کر وہ اس کے پاس واپس آکر کھڑا ہوا۔

"ماۓ لٹل بٹرفلاۓ۔۔!!! ضروری نہیں ہر خواب کی کوئ تعبیر بھی ہو۔ خواب مخض دھوکہ بھی ہوتے ہیں۔ پر میری چھوٹی سی جان تو حقیقت ہے نا۔ تو تمہارا مان کیوں تمہیں خواب کہے

۔ کیوٹی پاۓ زیادہ نہ سوچا کرو۔ میں ہوں نہ سوچنے کے لیے تو تم بس مجھے ہی دیکھا کرو۔۔!!! اب جاؤ چینج کر آؤ۔۔!!! اتنے بھاری ڈریس نے تھکا دیا ہوگا تمہیں بھی ۔!!! میرا ٹیڈی بیئر ہو تم۔ کیوٹ سا۔ تو اداس نہ ہوا کرو۔۔!!!"

اس نے اپنانیت بھرے انداز میں اس کے پھولے گال نرمی سے کھینچے پھر اسے ڈریسنگ روم کی طرف جانے کا اشارہ کیا۔

"مان میں اپنے پہلے والے سٹائل کا کوئ ڈریس پہن لوں ۔ مجھے دوسرے ڈریسز انکمفرٹیبل لگتے ہیں نا۔ مجھے نیند نہیں آتی۔ ابھی عادت نہیں ہے۔ ابھی اجازت دے دیں میں پکا باہر آپ کے لاۓ ڈریس پہن کر نکلوں گی۔ پلیز ۔۔۔!!!"

جانے کی بجاۓ زرلشتہ نے ریکوئسٹ کی تو درمان نے سر ہاں میں ہلادیا ۔

"کمرے کی حد تک میری چوزی جیسے چاہے رہ سکتی ہے۔باہر نکلتے تھوڑی احتیاط کرنا اوکے۔۔!!!"

وہ نہیں چاہتا تھا کہ زرلشتہ کوئ بھی کام اپنی مرضی کے خلاف کرے اب ۔اس نے اجازت مانگی تو اتنے نے ہی درمان کو معتبر کردیا کہ وہ ضروری ہے اس کے لیے۔ اجازت ملتے ہی مسکرا کر وہ ڈریسنگ روم میں چلی گئ۔

درمان بھی تھک گیا تھا آج بہت۔ اسے بھی نیند آرہی تھی ۔ لیکن اپنی چیری بلاسم کو سلاۓ بغیر اس کا سونے کا ارادہ نہیں تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

پندرہ منٹ بعد اپنا میک اپ ریموو کرکے وہ گرے کلر کی شرٹ اور ٹراؤزر پہن کر باہر آئ درمان اس کے باہر آتے ہی اب خود بھی چینج کرنے جارہا تھا جب اس نے زرلشتہ کو صوفے پر جاتے دیکھا تو اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے سامنے کیا۔

"میں تمہارے لیے خود سمیت پورا کمرہ بدل گیا اور تم ہو کہ پھر اپنی پرانی جگہ پر جارہی ہو۔ وہ رہا بیڈ جس سائیڈ پر کمفرٹیبل ہو تم۔اسی سائیڈ پر جاکر سوجاؤ ۔ آئندہ یہ بات مجھے تمہیں بتانی نہ پڑے۔"

وہ خفا ہوا ۔ زرلشتہ نے صوفے کی جانب دیکھا پھر بیڈ کو دیکھا۔

"پر وہ تو آپ کا ہے ۔۔!! " اس نے وضاحت دینا چاہی۔

"تو تم کس کی ہو؟ میری ہی بیوی ہو نا تم۔ کیوں بھول جاتی ہو یہ بات۔ ماۓ وائفی جاکر سوجاؤ اپنی جگہ پر سائیڈ ٹیبل پر پانی اور میڈیسن رکھی ہے وہ کھا لینا۔ جاؤ اب۔ "

اس کی آنکھوں نے اسے یاد دلایا کہ وہ کون یے۔ تبھی وہ بھی اب بغیر کچھ بھی کہے بیڈ پر بیٹھی اور منہ بناکر میڈیسن کھا کر لیٹ گی۔ درمان بھی اب سکون میں آگیا ۔ سب جتنا اسے مشکل لگا تھا سب اتنا ہی آسان تھا۔ 

"حیرتِ عشق سے نکلوں تو کدھر جاؤں میں

ایک صورت نظر آتی ہے جدھر جاؤں میں"

وشہ اس وقت اپنی کتاب ہاتھ میں پکڑ کر کمرے کے وسط میں کھڑی ارد گرد سے بیگانہ کوئ صفحہ کھول کر اس میں ہی کھوئ ہوئ تھی۔ سرخ سادہ سے لباس میں ملبوس۔ بال کھول کر چادر شانوں کے گرد اچھے سے لپیٹے اپنی آنکھوں کے سامنے گول فریم والے گلاسز لگاۓ اسی کتاب میں وہ محو تھی۔ 

اسے انداز ہی نہ ہوا دروزے سے ٹیک لگا کر کھڑا دیار ناجانے کتنی دیر سے بس اسے ہی دیکھتا جارہا ہے۔ نکاح کے بعد سے اس کا سامنا دیار سے کم ہی ہوتا تھا۔ دیار کا زیادہ تر وقت یا تو زمینوں کے معاملات سلجھانے میں گزرتا یا شہر میں گزر جاتا۔ چند دنوں میں اس رات کے بعد وہ کوئ دو سے تین دفعہ ہی گھر آیا تھا جب وشہ سوئ ہوئ تھی تب۔ 

اس کی غیر موجودگی وشہ نے محسوس کی تھی پر یہ کم بحت انا اسے دیار کی فکر کرنے ہی نہیں دیتی تھی۔ البتہ اس کی والدہ سے وہ ڈھکے چھپے الفاظوں میں اس کی خیریت پوچھ ہی لیتی تھی۔ جو مسکرا کر اسے بتادیتیں۔

ابھی وہ اپنے ہی کام میں کھوئ ہوئ تھی جب اس کے کانوں میں کسی کی آواز پڑی۔ اپنے خیالوں سے نکل کر اس نے آواز کی سمت دیکھا تو دیار کو فرصت سے خود کو تکتا پایا۔ اس کے چہرے کی وہی پرکشش سی مسکراہٹ دیکھ کر وہ اسی جگہ رک گئی۔ جیسے یہ منظر واقعی اسے اچھا لگا ہو۔

"یہ بھی ممکن ہے کہ ہر سانس سزا ہو جائے

ہو بھی سکتا ہے جدائی میں سنور جاؤں میں"

دروازے کی ٹیک چھوڑ کر وہ اپنی عاجزانہ چال چلتا وشہ کے پاس آیا ۔ جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ دیار کو وہ گلاسز میں بہت ہی کیوٹ لگی۔ پھر اتنے دنوں کے بعد اسے اپنے سامنے کھڑا دیکھ کر دل کسی اور ہی طرز پر دھڑکا۔

"یوں مسلسل مجھے تکنے کی نہ عادت ڈالو

یہ نہ ہو آنکھ جو جھپکو تو بکھر جاؤں میں"

اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر نرمی سے اس نے اس کی گلاسز اتاریں ساتھ میں جس بے خودی میں وہ اسے دیکھ رہی تھی اسے پوائنٹ آؤٹ بھی کیا۔ تو وہ سٹپٹا گئ ۔ اس کے ہاتھ سے وہ کتاب گری ۔

"اگر آہی گۓ ہیں آپ  تو ہمیں مخاطب کرنا کیا لازم تھا آپ پر۔ ا۔اپنے کام سے کام رکھا کریں ۔ ہم سے زیادہ فری ہونے کی کوشش نہ کیا کریں ۔!!!"

اپنی بے خودی پر وہ شرمندہ بھی ہوئ پھر اپنے دل کو سنبھال کر جھک کر وہ کتاب اٹھانے لگی جب دیار بھی اس کے ساتھ ہی نیچے کی طرف جھکا اور اس سے پہلے ہی وہ کتاب اٹھالی۔ وشہ نے اسے گھورنا چاہا پر اسے دیکھتے ہی نظروں کا زاویہ خود ہی بدل گیا۔

"کیا ترے دل پہ قیامت بھی بھلا ٹوٹے گی؟

گر تجھے دیکھ کے چپ چاپ گزر جاؤں میں.!!!!"

وہ کسی اور ہی احساس کے زیر اثر تھا تبھی اس کا جواب بھی شعر میں دے گیا۔ وشہ کا دل لمحے کے لیے لرزا کہہ تو وہ صحیح رہا تھا اگر وہ بے رخی اختیار کرتا تو دل تو وشہ کا دکھتا ۔ پر اسے کوئ فکر نہیں تھی اپنے اس دل کی بھی۔

"اپنی اس عاشقوں والی روح کو ہمارے سامنے نہ لایا کریں۔ کوفت ہوتی ہے ہمیں اس طرح کے لہجوں سے۔ ساری دنیا کے لیے آپ ڈیسنٹ ہیں تو ہمارے سامنے کیوں ٹھرکیوں والی روح آجاتے ہے 

آپ میں ۔۔۔!!!! جائیں یہاں سے کام کریں اپنا۔۔!!!"

وشہ کو ڈر تھا کہیں وہ اپنے ہی ارادوں میں کمزور نہ ہوجاۓ تبھی اس کا دل دکھانے کی کوشش کرکے وہ جانے لگی۔ لیکن اس کے جانے سے پہلے ہی دیار اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف جھٹک گیا۔ ہاتھ اب دیار کی گرفت میں تھا تو وہاں سے جانا ناممکن تھا۔ تبھی اس سے ذرا فاصلے پر ہی رہ کر وشہ نے نظریں جھکائیں۔

"دیکھو انجام تو دینے ہیں امورِ دنیا

جی تو کرتا ہے ترے پاس ٹھہر جاؤں میں..!!!" 

اس کی جانب جھک کر وہ خاصے گھمبیر انداز میں بولا تو وشہ آنکھیں ہی میچ گئیں۔ دیار کو واقعی میں اسے تنگ کرکے مزہ آتا تھا۔ اس بیچاری کی جان لبوں پر آچکی تھی۔ وشہ نے ہاتھ کھینچا مگر گرفت خاصی سخت تھی۔ 

"چ۔چھوڑیں ہمارا ہاتھ۔۔۔!!!!" وہ مشکل سے بولی۔ اس کا یہ انداز دیار کو اچھا لگا۔

"تھام رکھا ہے جو تُو نے تو سلامت ہے بدن

تُو اگر ہاتھ چھڑا لے تو بکھر جاؤں میں...!!!"

جواب بھی تیار تھا اب تو وشہ کا سر چکرایا۔ یہ بندہ چاہتا کیا ہے آخر۔ وہ تو اسے دیکھنے کی جرات بھی نہ کرسکی۔ کہیں اس کے دل کا حال آنکھوں سے عیاں نہ ہوجاۓ۔

"کوئ شرم نہیں ہے آپ میں۔۔!!! لوگوں کو کتنے سلجھے ہوۓ لگتے ہیں آپ۔ ہمارا بس چلے تو ہم لوگوں کو چیخ چیخ کر بتائیں آپ کتنے بگڑے ہوۓ ہیں۔ بہت بدتمیز ہیں آپ۔۔!!!"

اپنا ہاتھ اس نے دوسرے ہاتھ سے چھڑوانا چاہا ساتھ میں اسے اچھی خاصی باتیں بھی سنائیں جو واقعی اس نے بری نہ سمجھیں بلکہ انہیں بھی کومپلیمنٹ سمجھ گیا۔

"جس قدر بگڑا ہوا ہوں میں یہی سوچتا ہوں

کب ترے ہاتھ لگوں اور سُدھر جاؤں میں...!!!!!"

وہ مدھم سے انداز میں اسے جواب دے گیا تو اس نے حیرت سے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ جہاں محبت کا جہان آباد تھا۔ ہاتھ وہ چھوڑنے والا نہیں تھا اور باتیں اس کی ختم نہیں ہونی تھیں۔ اسے دیوانگی نہ کہیں تو کیا کہیں ۔ !!!

"کون ہے ، بول مرا، میری اداسی ! تجھ بن

تُو بھی گر پاس نہ آئے تو کدھر جاؤں میں...!!!!!

یہ مری عمر فقط چاہ میں تیری گزرے

مر نہ جاؤں جو ترے دل سے اتر جاؤں میں...!!!!!"

(زین شکیل)

غزل ختم ہوئ تو جتنی شرافت سے اس سے وشہ کا ہاتھ پکڑا تھا اتنی ہی شرافت سے اس نے ہاتھ چھوڑ بھی دیا۔ تو وہ جلدی سے اپنا ہاتھ سہلاتے چند قدم دور ہوئ۔

"گلاسز میں کیوٹ لگتی ہیں آپ لیکن آئندہ میرے سامنے یہ نہ پہنیے گا۔ یہ آپ کی آنکھوں کو مجھ سے چھپاتی ہیں۔ اور میرے دل کو گوارہ نہیں کہ ان آنکھوں کو آپ بھی مجھ سے چھپائیں۔کافی دنوں سے میں یہ حرکت برداشت کررہا ہوں کہ سوتے وقت آپ کی ان آنکھوں پر جب پلکیں سایہ فگن ہوگئیں تب آپ کا دیدار نصیب ہوا مجھے پر آئندہ نہیں کروں گا۔۔۔۔!!!!!"

وہ چند قدم پیچھے ہوا اور ڈریسنگ ٹیبل پر اس کے گلاسز اور کتاب بھی رکھ دی۔ پھر جتنے قدم وہ دور تھی وہ اتنے ہی قدم اس کی طرف لے گیا۔

پھر اس کی آنکھوں کو دیکھتے اپنے دونوں ہاتھ پشت پر باندھ کر اس کے سامنے پورے حق سے کھڑا ہوا کہ وشہ کے دل کی دنیا میں طوفان سا برپا ہوگیا۔ 

اس نے فورا آنکھیں دوسری طرف کیں۔ اور چہرے پر خفگی سجائ۔ 

"اگر آپ کا چھچھور پن ختم ہوگیا ہو تو راستے سے ہٹیں ہمیں پڑھنا ہے ابھی ۔۔!!!"

وہ سائیڈ سے ہوکر جانے لگی جب دیار دوبارا اس کے سامنے آیا۔

"بس کریں جانم۔۔!!! کتنا پڑھیں گی ان کتابوں کو۔ یہ بس آپ کی آنکھوں کو تھکائیں گی۔ آج وقت نکال کر کچھ مجھے پڑھیں۔ آپ کے دل تک میں سکون اترے گا۔ کچھ مجھے خود کو جاننے کا موقع دیں تاکہ میں بھی آپ کے دل کی گہرائی میں اتر سکوں ۔

 شوہر اتنے دنوں بعد آپ سے ملا ہے تو کچھ باتیں ہی کرلیں۔ میرے بھی تو کچھ ارمان ہیں نا کہ آپ سے گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کروں ۔ تو میرے ارمانوں پر کتابیں نہ ماریں۔ ایک نظر کی مار ہوں میں ۔ نظر بھر کر دیکھیں آخری سانس تک اس قرض کو اتارتا رہوں گا ۔۔!!!"

دیار کا لہجہ محبت سے پر تھا۔ کوئ کسی کی نفرت کا جواب کیسے اتنی محبت سے دے سکتا ہے۔ وشہ سمجھ نہ سکی ۔ وہیں دیار تو اس کی آنکھوں میں کھویا تھا۔ ایک چھوٹی سی خواہش کی اس نے ۔ جو ماننا وشہ کے دل نے گوارہ نہ کیا۔ انا جہاں آجاۓ محبت کے لیے سارے در بند کردیتئ ہے۔ اس کے دل کے در بھی بند ہوچکے تھے 

" کسی اور کی آنکھوں میں مریں جاکر۔ ہم آپ کا دل بہلانے کے لیے نہیں بیٹھے یہاں ۔ زبردستی کیوں ہم پر مسلط ہورہے ہیں آپ۔ بس بہت ہوگیا آپ کا یہ دکھاوا ۔ جان چھوڑیں ہماری۔جس دن آپ ہماری جان چھوڑ گۓ تب بہت خوش ہوں گے ہم۔۔۔!!!"

اس کے اتنے پاکیزہ جذبوں کا مزاق بناکر وشہ نے اس کے دل تک کو زخمی کیا۔ جتنا وہ چاہتا تھا کہ اس لڑکی کو اس کا حق دے اسے محبت دے، عزت دے ۔ اتنا ہی وشہ اس کے دل کو زخمی کردیتی۔

"جانِ دیار ۔۔!!!!! میرا پہلا پیار ۔!!! کیوں خفا رہتی ہیں مجھ سے۔۔۔!!! کیوں نہیں مجھے موقع دیتیں ایک بار کہ آپ کو جانوں ۔ آپ کے دل کو پہچانوں۔ آپ کے خیالوں میں ایسا بسوں کہ میرے نا ہونے پر آپ کا دل بھی تو تڑپے میری یاد میں۔ باخدا آپ سے میں دل نہیں بہلارہا یہ پاگل تو میرے بس میں ہے ہی نہیں ۔ کیوں نہیں سمجھتیں آپ مجھے"

سب جھٹک کر وہ ایک بار پھر اس کا ہاتھ نرمی سے تھام گیا۔ اور خود ہی مڑکر اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ کیا کچھ نہ تھا اس کے لہجے میں محبت ، تڑپ، اداسی ، دل ٹوٹنے کا درد، شکوہ، آس سب تھا اس کے لہجے میں ۔

مرد بار بار ٹھکراۓ جانے پر بھی مسکرادے، اپنی تذلیل کو ہنس کر سہہ لے۔ اپنا مزاق بنانے والی عورت کو پھر بھی عزت دے ۔ تو وہ مرد اس عورت کے لیے کائنات کا انمول ترین تحفہ ہوتا ہے۔ 

آسان تھا دیار کے لیے اس کے لفظوں کا ویسا ہی جواب اسے دینا۔ یا اسے اپنے سامنے بے بس کردیا پر یہ محبت دیار کو اونچی آواز میں بات ہی کرنے نہیں دیتی تھی۔ کیا کرتا وہ بیچارا ۔ !!!

"آپ کے ناہونے پر ہم سکون میں رہیں گے۔ ہمارا دل کبھی آپ کی غیر موجودگی پر نہیں تڑپے گا۔ ہمارا دماغ نہ خراب کریں اور آئندہ ہمیں ہاتھ بھی نہ لگائیے گا۔ ہم نہیں آپ کی ان میٹھی باتوں میں آنے والے ۔۔۔!!!"

بے دردی سے اس کا ہاتھ جھٹک کر وشہ نفرت سے پھنکاری۔ تو دیار نے گہرا سانس خارج کیا۔ بہت بڑے بول بول دیے تھے وشہ نے۔ جس پر ثابت قدم رہنا بہت مشکل ہوتا۔

"آپ کا سکون عزیز ہے مجھے چلیں میں آپ کو اب ہاتھ نہیں لگاؤں گا اوکے ۔۔!!! جیسے آپ کہیں ویسے ہی صحیح ہے۔ لیکن آپ کو میری باتیں میٹھی لگیں جان کر اچھا لگا۔

 میں بس ایک فائل لینے آیا تھا ۔ آپ کو میری غیر موجودگی پسند ہے تو چلیں سکون میں آجائیں میں اب چند دن ناچاہتے ہوۓ بھی شہر والے فلیٹ میں رہ لوں گا۔ آپ یہاں سکون سے رہیں۔ دلبرم۔۔۔!!!!"

بہت برا لگا تھا دیار کو وشہ کا لہجہ پھر بھی صبر کرکے وہ اسے تسلی دے کر اپنی فائلز سائیڈ ڈرار سے نکال کر وہاں سے چلا گیا وہاں رہتا تو شاید کچھ سخت کہہ دیتا اسے جو اسے گوارہ نہیں تھا۔ اس کے جانے کی دیر تھی وشہ نے غصے سے وہاں رکھا گلدان اٹھا کر دیوار ہر دے مارا ۔

آواز دور تک دیار کے کانوں نے بھی سنی پر وہ چلا گیا۔ فضول تھا اس وقت وشہ کو اپنے دل کا حال سمجھانا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ لڑکی اپنی باتوں کی وجہ سے اس کے دل سے اتر جاۓ۔ 

"ہمارا کیا جاتا ہے جہاں چاہیں یہ جائیں۔ ہمیں ویسے بھی پرواہ نہیں ہے ان کی۔ ہماری طرف سے مر۔۔۔!!!!"

اپنی کتاب اور گلاسز اٹھا کر وہ بیڈ پر بیٹھی بیٹھی اور دروازے کو دیکھ کر بڑبڑائ۔

ہر جملہ مکمل کرنے  سے پہلے ہی اس کے لب سل گۓ۔ اور آنکھیں حیرت سے بڑی ہوئیں ۔ 

"استغفر اللہ ۔۔!!! یا اللہ ایسا کبھی نہ ہو۔ انہیں کچھ ہوگیا تو یہ ہم کیسے سہیں گے۔ ہم کچھ زیادہ ہی بول گۓ۔ اگر ہماری باتیں سچ ہوگئیں ۔۔۔!!!! نہیں ہم تو مرجائیں گے ۔۔۔!!!! "

کتاب وہیں پٹخ کر حواس باختہ ہوکر وہ وہاں سے اٹھی۔ اور اب دیار کے پیچھے بھاگی جب فرش پر گرا کانچ اس کے پیر میں چبھا۔ خود ہی تو اس نے گلدان توڑا تھا اور وہ خود ہی بھول گئ۔

 جھک کر اس نے اپنا پیر پکڑا اور درد سے آنکھیں میچ گئ۔ دل کو سکون نہیں مل رہا تھا۔

اس کانچ کو کھینچ کر باہر نکالا اس نے پھر دیار کے پیچھے لڑکھڑاتے قدموں سے گئ۔

عجیب تھی وہ بھی۔ پہلے خود ہی اسے اس نے برا بھلا کہا اور اب خود ہی مرنے والی ہوگئ کہ کہیں اسے کچھ ہونہ جاۓ۔

 جتنی فضول باتیں اس نے کی تھیں اسے ڈر تھا کہ کہیں کوئ قبولیت کی گھڑی نہ ہو اس وقت۔

دیار کا کمرہ فرسٹ فلور پر ہی تھا تو اسے زیادہ وقت نہ لگا اس تک پہنچنے میں پر افسوس اس کے باہر نکلتے ہی اسے دیار کی گاڑی گیٹ سے باہر جاتی دکھی۔

وہ وہیں رکی ۔ سر پر چادر لے کر آنکھیں بند کرکے اس نے ایت الکرسی پڑھ کر غائبانہ ہی اس پر پھونک دی تاکہ ایک حصار اس کے گرد بنارہے۔ 

"یا اللہ ہم بہت فضول بول جاتے ہیں ہمیں احساس نہیں ہوتا۔ پر ان کو آپ لمبی زندگی دینا ۔ ہم نے جو کہا ہمیں اس کی سزا مل گئ۔ پر یا اللہ انہیں آپ خیریت و عافیت سے گھر واپس پہنچا دینا 

پلیز ۔۔۔!!!!"

وشہ نے دل سے دعا کی۔ پھر دیوار کے سہارے مایوس ہوکر واپس پلٹ گئ۔ یہاں دو دل تھے ایک ہی کیفیت سے دوچار ۔

ایک نے انا ماردی تو دوسرے نے آنا کی اونچی دیوار کھڑی کرلی۔ اب ناجانے انجام کیا ہوتا ان کی محبت کا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"آپ کے ک۔کمرے میں جاۓ نماز ہے تو مجھے دے دیں۔ م۔مجھے نماز پڑھنی ہے۔ پر ج۔جاۓ نماز نہیں مل رہی۔۔!!!"

ابھی فدیان کمرے میں آیا ہی تھا جب اسے اپنے عقب سے کسی کی آواز سنائ دی۔ اس نے گھوم کر پیچھے دیکھا تو محترمہ دیوار سے لگی کھڑی تھیں۔ یہ جملے پتہ نہیں کتنی مشکل سے بولے تھے انہوں نے۔  

اپنے ہاتھ پاکٹ میں گھسا کر وہ چند قدم اس کے قریب ہوا۔ ابھی مغرب کی نماز کا وقت تھا۔اور وضو کرنے کے بعد فدیان کو دیکھ کر آج معصومہ نے جاۓ نماز مانگ لی۔

"اتنے دنوں بعد یاد آیا تمہیں کہ جاۓ نماز بھی مانگنی ہے۔ یہ تم اتنے دنوں سے کس پر نماز پڑھ رہی تھی۔۔۔!!! "

اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔ جب وہ کہہ چکا تھا کہ جو بھی چاہیے ہو مجھے لازمی بتانا تو یہ لڑکی کیوں کچھ نہیں بولتی تھی۔ 

معصومہ نے سانس روکا ۔ اسے پتا تھا فدیان بہت سوال پوچھے گا تبھی تو وہ ہمت جمع نہیں کرپائ تھی۔

"چ۔چادر پر۔۔!!" اس نے اسی پوزیشن میں کھڑے ہوکر بتایا۔ تو فدیان نے سر کو نفی میں جنبش دی۔ پھر اسے اسی کے حال پر چھوڑ کر وہ ڈریسنگ روم میں گیا جہاں کبرڈ میں ایک سے زائد جاۓ نماز رکھی تھیں جیسے ساری نمازیں فدیان الگ الگ مصلے پر پڑھتا ہو۔

واپس آکر اس نے وہ جاۓ نماز اس کے سامنے کی جو توقع کے مطابق ابھی تک دیوار سے لگی تھی۔

"ش۔شکریہ۔۔۔!!!" اس نے کانپتے ہاتھوں سے جاۓ نماز پکڑی پھر مدھم سی آواز میں شکریہ بھی کہہ دیا۔ فدیان نے بڑی مشکل سے اپنا غصہ ضبط کیا۔ ایک تو یہ روتی بہت تھی ، پھر بولتی کم تھی، ڈرتی بھی بہت تھی اور سب سے بڑھ کر یہ تکلف۔۔۔!!! 

جس سے اسے چڑ تھی۔

"معصومہ صاحبہ کسی دن میں تمہاری اس زبان کو کاٹ دوں گا۔ تم تو پہلے ہی اسے اتنا استعمال نہیں کرتی تو کیا کرو گی تم اسے منہ میں رکھ کر۔ اچھا ہے نا پھر میں سوچوں گا کہ میری بیوی ہے ہی گونگی۔ تو مجھے تمہارا نہ بولنا برا بھی نہیں لگے گا۔۔۔۔!!!! یہ وہی شاپنگ مال والی روندو لڑکی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے اس پر۔۔۔!!!"

اس نے یہ دھمکی اسے دی نہیں ورنہ اس کا کیا بھروسہ نماز میں اس کی شکایتیں ہی لگادیتی اللہ سے۔

"بڑی نوازش ہے آپ کی بیگم صاحبہ۔۔۔!!! بندہ ناچیز تو حیران تھا کہ آپ تکلف سے باہر کیسے نکل آئیں آخر۔ شکریہ بندے کو اس کے اصل میں واپس لانے کے لیے جائیں نماز پڑھیں آپ۔۔!!!"

اس کے راستے سے ہٹ کر فدیان نے زبردستی ہنس کر کہا پھر ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔ اتنے دنوں سے اس نے معصومہ کے منہ سے اتنے الفاظ سنے تھے جتنے وہ ایک ہی منٹ میں بول سکتا تھا۔ پھر بھی یہ اس کا حوصلہ تھا جو وہ برداشت کررہا تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"بس بہت ہوگیا ہے یہ سب۔۔!!!!! بابا نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ۔ سب جانتے بوجھتے مجھے سب کی نظروں میں بدنام کردیا انہوں نے۔۔۔!!! ذرا احساس نہیں ہوا انہیں کہ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔

اوپر سے وہ درمان جس نے سارے الزام مجھ پر لگادیے۔ اچھا ہی ہوا جو سردار نے مجھے اس علاقے سے ہی نکال دیا۔ مجھے اب اپنے باپ کے پاس واپس جانا ہی نہیں ۔ بس اب میں اپنی زندگی اپنے مطابق جیوں گا۔"

زور سے ہاتھ اس نفس نے اسٹیرنگ پر مارا۔ اس کا غصہ اب بھی ویسا کا ویسا تھا۔ اپنے علاقے سے تو وہ نکال دیا گیا تھا تب سے وہ شہر میں موجود اپنے خفیہ فلیٹ پر رہ رہا تھا اپنے باپ کی نظروں سے بہت دور۔

بادل نے جو دراڑ ان باپ بیٹے کے بیچ ڈالی تھی وہ اب بھی ویسی کی ویسی تھی۔ اب تک تو یشاور اپنے باپ سے اتنا بدگمان ہوچکا تھا کہ اپنے باپ کے سکھاۓ سارے غلط کام وہ چھوڑ گیا۔

جو وار بے گناہ ہوتے ہوۓ بھی اس کی انا پر ہوا تھا اس نے اس کے وجود کو ہی جھنجھوڑ دیا۔ اتنا کہ اب وہ شراب جیسی غلاظت بھی چھوڑ گیا۔ کیونکہ اسے اب اس سے بھی سکون نہیں مل رہا تھا۔ 

"میں اب اپنے بل بوتے پر آگے بڑھوں گا ۔ مجھے اب زرلشتہ ، درمان ، دیار کسی سے کوئ مطلب نہیں۔ بس بہت ہوگیا یہ سارا تماشہ۔ بہت استعمال کرلیا بابا نے مجھے۔۔۔!!! میں اب کسی کے ہاتھوں کا کھولنا نہیں بنوں گا "

اس نے گاڑی کی سپیڈ مزید تیز کی۔یشاور سدھر چکا تھا یا یہ سب وقتی تھا اندازا لگانا مشکل تھا۔ لیکن یہ تو سچ تھا کہ اپنے باپ کو وہ آسانی سے معاف نہ کرتا۔

"لیکن میں کروں گا کیا اب میرے پاس کوئ مقصد ہی نہیں زندگی کا۔ کاش میں مورے کو بھی وہاں سے لے آؤ۔ بہت ستایا ہے میں نے انہے۔ کوئ تلافی ہی کرلوں گا میں اپنے برے کاموں کی۔ پر وہ نہیں آئیں گی۔ انہیں میں اچھا ہی نہیں لگتا ۔ 

میرے کام بھی تو کمینوں والے تھے میری ماں مجھے اچھا کیوں سمجھے گی۔اور وہ معصومہ پتہ نہیں کس حال میں ہوگی۔ مانا میں اسے کچھ نہیں سمجھتا تھا پر وہ بہت معصوم ہے۔ بابا نے تو اپنے ہی بچے قربان کردیے۔ کوئ باپ اتنا سنگدل کیسے ہوسکتا ہے۔ چلو میری تو خیر تھی پر اس بچی کو تو چھوڑ دیتے۔ لیکن نہیں انہیں بس بادل عزیز ہے۔ 

دل تو کررہا ہے اس بادل کو برباد کرنے کا ذمہ لے لوں۔۔۔!!!!"

اس نے تیزی سے ٹرن لیا ورنہ گاڑی کسی کھائ میں گرجاتی ۔ وہ شہر سے دور اب کسی علاقے کی طرف انجانے میں بڑھ رہا تھا اور اسے پتہ بھی نہیں تھا کہ وہ ہے کہاں۔ بس شام سے وہ گاڑی دوڑاۓ جارہا تھا اور اب کہیں اور ہی پہنچ چکا تھا۔

"نہیں وہ بادل بھی پہلے سے ہی تباہ ہے۔ میں اسے کیا تباہ کروں گا۔ چھوڑو اسے یشاور۔۔!! کسی اور کی اب کیا آہ لینی۔ اف مجھے سمجھ نہیں آتی جب اللہ اپنے سارے بندوں سے پیار کرتا ہے تو وہ مجھے اس دلدل سے کیوں نہیں نکال دیتا۔ 

جب وہ دیکھ بھی رہا ہے کہ میں کتنی الجھن کا شکار ہوں تو وہ مجھے کیوں ایسے ہی چھوڑ رہا ہے۔ میں تو توبہ بھی کرنا چاہتا ہوں پر وہ مجھے اجازت تو دے ۔۔۔!!!!

 کوئ مقصد تو دے ۔ کوئ تو ایسا طریقہ نکالے کے میں تھوڑا ہی سہی اس کی بارگاہ میں سر خرو تو ہوجاؤں ۔ یا پھر بابا کی طرح میں بھی جہنم میں ہی جاؤں گا ۔!!"

یشاور نے شاید پہلی بار ہی اتنے دل سے کوئ شکوہ کیا تھا۔ ہاں یہ سچ ہے اللہ سے شکوے کرنا جائز نہیں ۔ یہ غلط ہے ۔ پر اسے کیا پتا تھا وہ کونسا اسلام کی گہرائ جانتا تھا۔ اس جیسے گناہوں کے دلدل میں پھنسے شخص نے آج اللہ کو پکارا بھی تو بس شکوہ ہی کیا۔

منافقت کا لبادہ اوڑھ کر وہ نماز بھی پڑھنے جاتا تھا پر افسوس اسے یاد ہی نہیں کہ کبھی اس نے اللہ کو پکارا ہو۔اس کا دل زنگ آلود تھا اور آج تھک کر اس نے شکوہ کیا۔ 

پھر غصے سے اسٹیرنگ کسی الگ ڈائریکشن میں گھمادی ۔ کوئ سنسان سا جنگل کے بیچ میں بنا راستہ جو شاید کسی قبائلی علاقے سے جڑا ہوا تھا۔ جب گاڑی کی ہیڈ لائٹ کی وجہ سے اسے کوئ انسان بھاگتا ہوا اپنی گاڑی کی طرف آتا دکھا۔ وہ اپنے خیالوں سے نکلا اور بریک لگادی۔ 

اس کا سر اسٹیرنگ سے ٹکرایا ۔ 

"ی۔یہی ہونا رہ گیا تھا۔ ابھی اس مہینوں پرانی مار کا درد بھی ختم نہیں ہوا کہ میرا سر بھی پھٹ گیا۔۔۔۔!!!! بس اب مرنا باقی رہ گیا ہے تو مجھے مر بھی جانا چاہیے۔۔۔!!!"

وہ غصے سے بڑبڑا اٹھا پھر ہاتھ اسٹیرنگ پر رکھ کر مشکل سے اس کے سہارے اٹھا ۔ سر کے کنارے پر ہلکا سا زخم لگا تھا اسے۔ 

پھر اچانک کسی نے اس کی گاڑی کا شیشہ پوری قوت سے بجایا۔ اپنا درد بھول کر اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور باہر نکلا۔

"اگر میری گاڑی چھیننے آۓ ہو تو جاؤ بھائ یہ بھی لے جاؤ۔ اگر قتل کرنے کا ارادہ ہے تو وہ بھی کردو۔ میں آگے ہی بہت تنگ ہوں اس زندگی سے۔ تو میں کوئ مزاخمت نہیں کروں گا۔مار ہی دو اب مجھے۔۔!!!"

اس کا دماغ اتنا گھوما ہوا تھا کہ باہر نکل کر بغیر سامنے دیکھے اس نے خود کو مارنے کی بھی آفر کری۔ ساتھ میں اپنا دکھتا سر سنبھالا ۔

"س۔ سنیں میری ہیلپ کردیں ۔ ا۔ان لوگوں نے میرے پورے گ۔گھر کو مار دیا۔ میرے امی بابا میرے سامنے مر گۓ۔ وہ سانس نہیں لے رہے تھے۔ بہت خون بہہ رہا تھا ان کا۔ بہت خون تھا ۔۔۔!!!

ان کی نظریں گندی تھیں انہوں نے مجے ہرٹ کرنا چاہا تو میرا چھوٹا بھائی مجھے بچانے آیا ا۔انہوں نے اسے بھی مار دیا۔س۔سب مر گۓ۔ و۔وہ میرے پیچھے ہیں۔۔۔۔!!!! "

ایک نسوانی وجود ابتر حالت میں اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کی سسکیوں کی آواز سن کر یشاور نے آنکھیں کھولیں تو اسے اپنے سامنے بکھرے بالوں خون سے تر کپڑوں میں ایک لڑکی دکھی۔ جس کے چہرے پر خراشیں تھیں اور ہاتھوں پر بھی زخم تھے۔ وہ شاید بہت دور سے بھاگتی آئ تھی تبھی اس کے پیر بھی زخمی تھے اور سانس بھی پھولا ہوا تھا۔

اس نے پیچھے کی طرف اشارہ کیا۔ جیسے وہ ابھی بھی اس کے پیچھے تھے۔ یشاور تو بوکھلا گیا۔ کہ یہ اب کونسا امتحان آگیا ۔

"کس نے مارا ہے آپ کے گھر والوں کو۔ کون ہیں وہ لوگ۔۔۔۔!!! مجھے بتائیں کہاں ہے آپ کا گھر۔۔!!! ہم پولیس کے پاس چلتے ہیں۔ اوکے گھبرائیں نہیں ۔ میں کچھ کرتا ہوں۔"

اس لڑکی کی حالت دیکھ کر یشاور نے اسے تسلی دینا چاہی پھر اپنا فون نکالنے لگا۔ لیکن یہاں تو سگنل ہی نہیں تھے ۔

"آپ سمجھ نہیں رہے سب مرگۓ۔ میرے سامنے سب مرگۓ۔ کوئ نہیں بچا۔ وہ بہت طاقتور ہیں ۔ پولیس بھی ان کے سامنے کچھ نہیں۔ مجھے بچالیں وہ مجھے مار دیں گے۔ وہ۔۔۔وہ۔۔۔ وہ۔۔۔۔!!!"

وہ لڑکی اب کی بار چیخی اسے لگا کہ پشاور اسے سمجھ نہیں رہا۔ یشاور تو خود شاکڈ تھا اس کی ابتر حالت دیکھ کر ۔

اتنے میں اپنے ہوش کھو کر وہ نیچے گرگئ۔ یشاور ڈر کر دو قدم پیچھے ہوا ۔

"یہ تو بے ہوش ہوگئیں ۔ اب میں انہیں اٹھاؤں کیسے۔ میری اپنی پریشانیاں کیا ہم ہیں جو اب میں ایک نئ مصیبت میں پھنس گیا۔ یا اللہ کہاں جاؤں میں۔۔!!!"

یشاور نے تنگ آکر سوچا پھر نیچے بیٹھا تاکہ اسے سہارا دے کر اٹھا سکے۔ پر اس میں اتنی ہمت نہیں تھی۔ سارے گناہ کرنے کے باوجود یہ واحد گناہ تھا جو اس نے کرنا گوارہ نہ کیا تھا اب تک ۔یعنی کسی نامحرم سے بات کرنا۔ اسے عورت ذات ہی فضول لگتی تھی تو وہ کیوں ان پر اپنا وقت برباد کرتا۔ پر آج وہ سچ میں ڈررہا تھا۔

تبھی اس نے اٹھ کر گاڑی میں سے کوئ شال ڈھونڈی تو اسے بیک سیٹ پر اپنی شال رکھی مل گئ جو کافی ٹائم سے وہیں رکھی تھی۔ وہ اس لڑکی کو ہاتھ بھی نہیں لگانا چاہتا تھا۔ تبھی اس شال سے اسے ڈھانپ کر اس نے اسے اٹھایا۔پھر اسے بیک سیٹ پر لٹا کر وہاں سے اب ہاسپٹل کی طرف جانے لگا۔ تھوڑا دور جاکر جہاں سگنل آجاتے وہ گوگل میپ سے اپنی لوکیشن پتہ کرتا پھر اس لڑکی کو ہاسپٹل لے کر جاتا۔

ایک انجان لڑکی کو سڑک پر اکیلا بے یار و مدد گار چھوڑ دینا بھی گناہ ہی ہوتا جب وہ جانتا تھا وہ پہلے ہی خطرے میں ہے۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"مل گئ زمین ۔ یا وہ سالا اب بھی ڈھٹائی پر اڑا ہے۔۔؟؟؟"

فون کے دوسری طرف سے گونجتی آواز سن کر اس عالیشان حویلی کے بیچ کھڑے ایک درندے نما انسان نے اپنے سامنے فرش پر گری لاشوں کو دیکھا۔ جو ایک عورت ، ایک ادھیڑ عمر کے مرد اور ایک پندرہ سے سولہ سال کے لڑکے کی لاشیں تھیں۔ 

سامان بھی بکھرا ہوا تھا اور فرش پر کسی کا دوپٹہ گرا تھا۔ ساتھ ہی باہر جانے والا دروازہ کھلا تھا اور باہر تک خون کے نشان تھے۔ جیسے یہاں ظلم کی انتہا ہوئ تھی۔

"صاحب بہت اکڑ رہا تھا یہ سالا۔ زمین تو ہم نے لے لی پر اس کی بیٹی پر دل آگیا تھا ہمارا کہا بھی کہ بیٹی دے دے شرافت سے۔ پر یہ کمینہ مانا ہی نہیں۔ تو مار دیا ہم نے اسے پھر اس کی بیوی راہ میں رکاوٹ بنی تو اسے بھی مارنا پڑا اور آخر میں جب زمین کے ساتھ ایک تحفہ مفت میں ملنے والا تھا تو اس کا یہ غیرت مند بھائ سامنے آگیا اور بیچارا وہ بھی مرگیا۔ 

افسوس کے ساتھ اعلان کیا جاتا ہے کہ اس گھر کے تین مکین فرش پر خون میں لت پت مردہ پڑے ہیں اور ان کی وہ بیٹی اپنے بھائ کی قسم کا مان رکھتے ہوۓ اپنی عزت کی حفاظت کے لیے ہمارے ایک آدمی کا سر گلدان سے پھاڑ کر جاچکی ہے۔ "

اس شخص نے سفاکیت کی انتہا کی یہ تین لاشیں اس کے سامنے کچھ بھی نہیں تھی جیسے ۔ پھر اس دوسری طرف موجود شخص کو ساری صورتحال بتا کر وہ فرش پر گرے خون سے بچتا بچاتا اس حویلی سے باہر نکلا۔

"تو وہ لڑکی بھی بھاگ گئ۔ چلو چھوڑو اسے ۔ زمین کے کاغذات لے کر میرے پاس پہنچو۔ وہ لڑکی مل بھی گئ تو اسے ماردینا۔ مجھے تو لگتا ہے وہ مرگئ ہوگی اب تک ۔ جتنا بڑا صدمہ اسے ملا ہے زندہ رہنا مشکل ہے اس کے لیے ۔

بچ بھی گئ تو اپنے گھر والوں کی موت یاد کرتے کرتے مر جاۓ گی۔ تم لوگ نکلو وہاں سے جتنی جلدی ہو سکے اور لاشیں بھی خاموشی سے صبح دفنا دینا۔ کام ختم۔۔۔!!!!"

اس شخص نے مزید سفاکیت کی انتہا کی اور کال کٹ کردی۔ پھر اپنی نشست پر بیٹھتے اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ آئ۔ اپنے مذموم عزائم کامیاب ہونے کی خوشی۔

"دلاور خان کے سامنے ٹکنا اپنی موت کو دعوت دینا ہی تھا کاروان خانزادہ۔۔۔!!! اپنا ہنستا بستا گھر تم نے تباہ کردیا چچ چچ چچ۔۔۔!!!"

کمرے میں ان کی مقروع آواز گونجی۔ یہ دلاور خان ہی تھے۔ پتھر دل ، سفاک انسان ، جن کے لیے انسانی جانیں بے معنی تھیں۔

وہ معصوم سی لڑکی جو اپنے گھر والوں کا قتل دیکھ کر بھاگی تھی دلاور خان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ یشاور کے پاس مدد کے لیے پہنچی ہے ۔ یا یشاور خود اس تک اس کی مدد کرنے آیا ہے۔ 

جیت کی خوشی کا نشہ ان کے سر پر سوار تھا۔ وہ بے خبر تھے ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے اس کہانی میں۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

رات ہوچکی تھی درمان صوفے پر بیٹھا فائل سٹڈی کررہا تھا ۔ اس کا سارا فوکس فائلز پر نہیں تھا ۔ کچھ دھیان بیڈ پر لیٹی زرلشتہ پر بھی تھا جو کب سے کروٹیں بدل رہی تھی ۔

 کبھی وہ فانوس کو گھورنے لگتی۔ کب منہ بنا کر بیٹھ جاتی۔ وہ تھک گئ تھی کروٹیں بدل بدل کر۔ ایک اس سے روٹھی نیند تھی جو آ ہی نہیں رہی تھی اسے۔ 

ایک بار پھر جب اس نے بے چینی سے کروٹ بدلی تو درمان کو اب اس کی فکر ہونے لگی وہ نیند کی کتنی پکی تھی درمان باخوبی واقف تھا اس سے۔ وہ تو لیٹتے ہی سو سکتی تھی پر آج کچھ تو عجیب تھا۔

"لٹل بٹر فلاۓ۔۔!! کیا ہوگیا ہے تمہیں۔ کب سے کروٹیں بدل رہی ہو۔ سو نہیں رہی تم ۔ طبیعت تو ٹھیک ہے نا تمہاری ۔!!!!"

فائل اس نے بند کرکے ایک طرف رکھی اور اب اسے بلا ہی لیا جس نے اس کی طرف کروٹ بدل کر رونی صورت بنائ۔

"نیند نہیں آرہی مجھے۔ بور ہورہی ہوں میں۔ فون کی بیٹری بھی ختم ہوگئی ورنہ میں گیم کھیل لیتی۔ کب سے میں سونے کی کوشش کررہی ہوں پر نہیں سو پارہی۔۔!!! مان آپ کوئ بات کریں نہ مجھ سے ۔۔!!!"

اس نے بے چینی سے کہا۔ اس کی بوریت کا احساس درمان کو اس کی رونی صورت سے ہوگیا تبھی وہ وہاں سے اٹھا اور اس کے پاس بیڈ پر خالی جگہ پر بیٹھ گیا۔ تاکہ اس کی اداسی دور کرسکے 

" کیا بات کرنی ہے تم نے مجھ سے ۔کرو میں سن رہا ہوں ۔۔!!" 

درمان نے پیار سے اسے بہلانا چاہا۔ جس نے سرد سانس خارج کیا ۔

"نہیں مل رہی بات بھی مان۔۔!!! آپ مجھے کوئ سٹوری سنائیں۔ اچھی سی تاکہ میں سو جاؤں۔۔!!!"

میڈیکل سٹور پر جاکر جہاز کے ٹکٹس مانگنے والی بیوقوفی کی زرلشتہ نے کہ ایک سنجیدہ سے بندے کو خود کو کہانی سنانے کو کہہ دیا۔ درمان نے بے یقینی کے عالم میں خود کو دیکھا اب وہ کیا کہانی سناۓ گا اسے؟ وہ تو خود ہی ایک کہانی ہے۔

" ذری۔۔!!! میں کہانی کہاں سے لاؤں۔ مجھے اگر پتہ ہوتا کہ میری بیوی کبھی مجھ سے سٹوری سننے کی فرمائش کرے گی تو میں کوئ کہانی یاد کرلیتا پر اس وقت مجھے بس greedy dog ۔thirsty crow یہی یاد ہے بس۔ اس کے علاؤہ کچھ نہیں یاد مجھے ۔!!!"

اس نے اسے وضاحت دی۔جب زرلشتہ بس رونے کے قریب پہنچی ۔ کہ اس کا شوہر اسے کوئ کہانی بھی نہیں سنا سکتا۔

"اچھا آپ میرا یہ ہاتھ دبائیں۔ شاید میرا دھیان بٹ جاۓ اور میں سوجاؤ ورنہ میں صبح تک جاگتی ہی رہوں گی۔ اور میرے لیے کچھ تو کریں ۔ کچھ تو سنائیں مجھے ۔ سچی اگر آپ کبھی کہتے کہ آپ بور ہورہے ہیں تو میں آپ کی خاطر Momo بھی بن جاتی۔ آپ کو مزے مزے کی باتیں سناتی۔ آپ کا دھیان بٹاتی۔ پر آپ میرے لیے کچھ نہیں کررہے ۔۔!!!!"

اس نے اس کی طرف بڑھایا جو اس نے پکڑ لیا ۔ پھر سوچنے لگا کہ اب کیا کرے۔ بیوی بھی تو بچوں جیسی ملی تھی اسے۔ جسے بہلانے کے لیے اب اسے سچ میں کچھ نہ کچھ سیکھنا ہوتا ورنہ تو وہ خفا ہوجاتی اس سے۔

"یہ تو میں کرلوں گا ہینڈ مساج دینا تو میرے لیے بہت آسان ہے۔ میں بہت ماہر ہوں اس کام میں۔ اس کے علاؤہ کوئ اور حکم ہے ملکہ عالیہ تو بتائیں مجھے۔۔!!!"

 اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی ہتھیلی وہ نرمی سے دبانے لگا جب زرلشتہ نے کوئ اور حکم سوچا پر ذہن میں آج کچھ آہی نہیں رہا تھا۔

" آپ مجھے Greedy dog ہی سنادیں میں اس وقت کچھ نہیں سوچ پارہی ۔ آپ کو جو جو آتا ہے سنا دیں میں جب سو گئ تو آپ کو بتادوں گی پھر آپ بھی سوجانا اور ہاں آپ نہ کتا کہنے کی بجاۓ اسے ٹومی کہنا۔ یہ ہمارے لالچی ڈاگ کا نام ہے۔۔۔!!!" 

بہت سوچنے کے بعد اس نے تھک کر ایک حل نکالا۔ پھر اپنی کہانی کے کردار کا نام بھی اسے بتایا ۔ جو یاد کرنے لگا کہ یہ کہانیاں آخر تھیں کیسی ۔ اب تو سالوں گزر چکے تھے اسے یہ کہانیاں پڑھے ہوۓ وہ بھول چکا تھا انہیں۔  درمان نے تھوڑا سا دماغ پر زور دیا کہ شاید اسے کچھ یاد آجاۓ۔ پر دماغ کے گھوڑے بھی سو چکے تھے۔ 

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Hum Mi Gaye Yuhi Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Hum Mi Gaye Yuhi  written by Ismah Qureshi   Hum Mi Gaye Yuhi  by Ismah Qureshi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages