Aik Sitam Aisa Bhi By Momina Shah Complete Urdu Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 26 May 2024

Aik Sitam Aisa Bhi By Momina Shah Complete Urdu Novel Story

Aik Sitam Aisa Bhi By Momina Shah Complete Urdu Novel Story  

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading… 

Aik Sitam Aisa Bhi By Monina Shah Completeh Novel Story

Novel Name :Aik Sitam Aisa Bhi 
 Writer Name : Momina Shah

New Upcoming :  Complete 

سورج کی روشنی دھیرے دھیرے افق سے پھوٹنے لگی تھی۔ ملگجا سا اندھیرا اب بھی موجود تھا ، چڑیائیں چہچہا کر صبح ہونے کا پتہ دے رہی تھیں۔ پودوں میں لگے پھول دھیرے سے کھلنے لگے تھے۔ چہارسوں پھیلے سرسوں کے کھیت ، دور دور بنے کچی مٹی کے مکان اور ان مکانوں سے اٹھتا دھواں وہاں دن شروع ہوجانے کا پتہ دے رہا تھا، 

گلابی آنچل اوڑھے وہ لڑکی سرسوں کے کھیت میں بھاگتی ہوئ پگڈنڈی پہ قدم لڑکھڑانے سے بچانے کو کبھی کبھی ہاتھوں کو ہوا میں اونچا کرکے اپنا توازن برقرار کر رہی تھی۔ 

" میرب رک "۔ پیچھے سے اسکے پیچھے دوڑتا وہ لڑکا اسے مزید تیزی سے بھاگنے پہ مجبور کر رہا تھا۔ 

" میں نہیں رکنے والی ، خبیث انسان"۔ وہ بھاگتی ہوئ پھولی ہوئ سانسوں سمیت بولی۔ 

" سن میرب میری بات تو سن لے"۔ اسنے اسکے پیچھے بھاگتے کہا۔

" میں نہیں رکونگی اتنی پاگل تھوڑی ہوں"۔ اسنے سلگ کر کہتے جیسے ہی قدم سڑک پہ رکھے اسکا پیر مڑا وہ گری پر ہمت کرکے وہ دوبارہ اٹھی تھی۔ اونچی نیچی سڑک پہ بھاگتے بھاگتے اسنے پیچھے مڑ کے دیکھا وہ اب اسکے پیچھے نہیں تھا بھاگنا اسنے اب بھی نہیں چھوڑا تھا کہ یکدم اسکا نازک وجود کسی فولادی وجود سے ٹکرایا ڈر و خوف کے مارے اسکے حلق سے چیخ بر آمد ہوئ، اسکے چیخنے پہ مقابل کے ماتھے پہ شکنوں کا جال بچھا تھا۔

" چیخو مت"۔ اسنے اسے خود سے دور جھٹک کر کہا۔ 

" جی معافی ۔۔ "۔ اسنے سر پہ آنچل درست کرکے سائڈ سے نکل جانا چاہا کہ مقابل کی آواز پہ وہ رکی۔ 

" اتنی صبح تن تنہا اکیلی عورت کھیتوں سے نکل کر بھاگتی آرہی ہو لڑکی۔۔!!! کیا کرنے گئ تھیں"۔ اسنے کرخت لہجہ میں پوچھا۔ 

اسکی بات کا مفہوم سمجھتے میرب کے تو سر پہ لگی اور تلوں پہ بجھی۔ 

" کہنا کیا چاہ رہے ہیں آپ"۔ اسنے سلگ کر اسکے مقابل آتے کہا۔ 

" وہی جو تم کرکے آرہی ہو"۔ وہی سرد بے تاثر لہجہ۔ 

" آپ ہوتے کون ہے مجھ پہ اتنا گھٹیا الزام لگانے والے"۔ میرب نے مقابل کھڑے شخص کو جلتی آنکھوں سے گھورا۔ 

" اس گاؤں کا اگلا سردار"۔ اسنے گردن اکڑا کر کہا۔ 

" گاؤں کے اگلے سرادر ہیں تو سرداروں والی حرکت کریں ایسی گری ہوئ باتیں اکثر شخصیت بھی گرا دیتی ہیں"۔ اسنے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔ 

بہروز چوہدری کی آنکھیں تعجب سے سے پھیلی تھیں۔ وہ تو اس لڑکی کو کوئ عام لڑکی سمجھ رہے تھے ، پر شاید یہ عام دکھنے والی لڑکی بے حد خاص انداز و اتوار رکھتی تھی۔ جسکا اندازہ انہیں بخوبی ہوچکا تھا۔

" بہت خوب "۔ اسنے آنکھوں میں ڈھیروں چمک لیئے کہا۔ 

اسنے اسکی بات پہ آنکھیں گھمائ اسنے قدم ایک بار پھر آگے بڑھانے چاہے تھے کہ وہ اسکی آواز سن کر رکی۔ 

" دن کا اجالا بھی مکمل نہیں نکلا ، اور تم جوان جہاں لڑکی گھر سے باہر نکلی پھر رہی ہو"۔ اسنے قدرے سنجیدگی سے کہا۔ 

" یہ۔۔۔۔ آپلے لینے اماں نے بھیجا تھا"۔ وہ تنک کر واپس اسکے مقابل آئ ہاتھ میں پکڑے آپلوں کا تھیلا اسکی آنکھوں کے پاس لے جا کر لہرایا۔ 

" کیا تمہاری اماں کو خبر نہیں ہوئ کہ تم حسین ہو جوان ہو تمہارے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے"۔ وہ اسے بغور تکتے بولا۔ 

تو غصہ سے اسکے نتھنے پھول گئے۔ اور وہ بنا مزید کچھ کہے اپنے گھر کی طرف قدم بڑھا گئ۔

♡♡♡♡♡

زمینوں پہ چلتا جھگڑا دو سرداروں کا تھا پر انکے ساتھ جمع ہوئے لوگ بنا اپنے کسی مفاد کے محض تفریح کا سامان کرنے اپنے گھروں سے نکل کر اپنے پسندیدہ سرداروں کی ٹیم کا حصہ بن گئے تھے۔ 

دونوں اطراف ایک دوسرے پہ بندوقیں تانے کھڑے وہ تمام لوگ محض تفریح کا سامان کر رہے تھے پر کون جانتا تھا کہ کب نجانے کیسے تفریح کا سامان کرتے کیسے یہاں ماتم کا سماں بن جانا تھا۔

ایک ہفتہ سے زمین پہ چلتا جھگڑا عروج پہ تھا۔ اور کہتے ہیں ناں ہر عروج کو زوال ہے۔ چوہدری مرزا حسین کے دونوں بیٹے بھی وہاں موجود تھے یکدم جنگ نے زور پکڑا معاملہ گرم ہوا اور سب کی بندوقیں ایک دوسرے پہ تن گئیں۔ 

مخالف پارٹی سے ایک بندہ سامنے نکل کر آیا چوہدری افراسیاب جو کے سولہ سترہ سالہ نو عمر لڑکا تھا۔ اسنے مخالف پارٹی کے ایک شخص کو بندوق تانے اپنی طرف بڑھتے دیکھا تو وہ یکدم ڈر کر بھاگا۔ پر وہ شخص نا رکا اسنے اسکے کندھے پہ گولی چلائ ، گولی سیدھا کندھے پہ لگی وہ نو عمر لڑکا تڑپ کر نیچے بیٹھا، بندوق تھامے کھڑے بندے نے ایک اور گولی سیدھا اسکے سینے پہ دل کے مقام پہ اتاری تو یکدم وہ غش کھا کر زمین پہ سجدہ ریز ہوگیا۔ چوہدری بہروز کی نظر جیسے ہی اسکے وجود پہ پڑی وہ بھاگتا ہوا اس تک آیا پر شاید تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ دوسری پارٹی کے تمام فریق بھاگ چکے تھے۔ چوہدری بہروز نے اپنے چھوٹے بھائ کو گود میں اٹھایا پاگلوں کی طرح وہ اسے اسپتال کے لیئے لے کر بھاگا تھا۔ پر اسپتال پہنچنے تک وہ جان کی بازی ہار چکا تھا۔ چودھریوں کی حویلی پہ مانوں غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ مخالف پارٹی کے تمام لوگ بھاگ چکے تھے وہ تمام مرد علاقہ ہی چھوڑ کر بھاگ چکے تھے رہ گئ تھیں تو محض انکی عورتیں ، جس شخص نے گولی چلائ تھی، اس شخص کو سب لوگ جانتے تھے وہ انکے گاؤں کا ہی تو بندہ تھا۔ حیات عالم ایک عام کسان 

تھا پر ایک عام سے کسان کی ایک جرآت اسے کتنی بھاری پڑنے والی تھی شاید اس بات سے وہ کسان بے خبر تھا۔ 

وہی ہوا جو ایسے علاقوں میں ہوتا تھا۔ پولیس آئ اپنے علاقے کا معاملہ کہہ کر انہیں چلتا کردیا۔ اور پھر جرگہ بٹھایا گیا ، جرگہ میں حیات عالم کی بیوی کو بلایا گیا ، جرگہ میں پیسوں یا پھر ونی خون بہا کو رکھا گیا۔ جس میں سے چوہدریوں نے خون بہا کا انتخاب کیا کیونکہ انکے بھائ اتنا ارزاں تھوڑی تھا کہ اسکا قتل چند نوٹوں کے واسطے معاف کردیتے۔ 

خون بہا میں حیات عالم کی بیٹی میرب حیات عالم کو ونی کر دیا گیا میرب حیات عالم کا نکاح چوہدری بہروز سے کر دیا گیا۔ اور پھر ایک بار پھر وہی خون بہا کی داستان شروع ہوگئ جو شاید ان جاگیرداروں کے ہاں برسوں سے چلتی آرہی تھی۔ 

" نام کیا ہے تمہارا"۔ میرب کے سامنے بیٹھی سفید دوپٹے کے ہالے میں بیٹھی پرشفیق عورت نے نرم لہجہ میں پوچھا۔ 

" میرب"۔ اسنے دھیرے سے کہا۔ 

" بڑا پیارا نام ہے "۔ انہوں نے نم آنکھوں سے کہا۔

" شنو"۔ اماں جی نے شنو کو آواز لگائی جو کسی بوتل کے جن کی مانند وارد ہوئ۔ 

" جی اماں جی"۔ اسنے سعدت مندی سے سر جھکا کر کہا۔ 

" اسے بہروز کے کمرے میں لے جاؤ "۔ انہوں نے شنو کو دیکھ اسی نرم لہجہ میں کہا۔

" جی اماں جی"۔ سعادت مندی کی حدود پار کرتے شنو نے میرب کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا وہ خاموشی سے اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔ 

ایک کمرے کے دروازے کے پاس رک کر شنو نے اسے اندر جانے کا اشارہ کیا وہ خاموشی سے اندر چلی گئ۔ 

اندر گھستے ہی اسنے گہرا سانس لیا اور سامنے پڑے دیوان پہ جا بیٹھی ، اسے کچھ تسلی ہوئ تھی نہیں تو وہ بہت خوفزدہ ہوچکی تھی۔ پر ضروری نہیں تھا کہ ہر کوئ اس سے نرمی کا برتاؤ کرتا۔ یہ سوچ کر ہی اسکی کالی سیاہ آنکھوں میں آنسو چمکے۔

♡♡♡♡♡♡♡♡

وہ گہری نیند میں غرق تھی کے یکدم کسی نے اسے جھنجھوڑ کر اٹھایا، 

" ہمت کیسے ہوئ تمہاری یہاں اتنے سکون سے سونے کی ہماری زندگیوں کا سکون برباد کرکے سکون سے تو میں تمہیں بھی نہیں رہنے دونگا"۔ وہ اسے بازو سے کھینچ کر اٹھاتا اسپہ جھکا غصہ سے چیخ رہا تھا۔ اسے اسکی سرخ آنکھیں دیکھ یکدم خوف آیا خشک ہوتے لبوں کو تر کرتے اسنے کچھ کہنے کے کیلیئے منہ کھولنا ہی چاہا کہ اسکے اگلے الفاظ اسکا دماغ گھوما گئے تھے۔ 

" تم جیسے گھٹیا لوگ میں جانتا ہوں تم کس گھٹیا باپ کی گندی اولاد ہو"۔ وہ تو مانوں اسکے کانوں میں سیسہ انڈیل گیا تھا۔ 

" ہمت کیسے ہوئ میرے باپ کے بارے میں یا میرے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کرنے کی"۔ وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھ کر سرکش لہجہ میں کہتی اسے مزید سلگا گئ تھی۔ 

" جیسے ہوتی ہے ویسے ہی ہوئ ہے ہمت اور تم کون ہوتی ہو مجھے میری ہمت کا بتانے والی غلام ہو تم ہماری ونی ہو تم تمہاری اتنی لمبی زبان مشکل میں ڈال دیگی تمہیں"۔ وہ اسکے بال مٹھی میں دبوچتا حقارت سے بولا۔ 

" اگر آپ سوچ رہے ہیں ناں کہ میں ڈر جاؤں گی اور آپکی کسی غلط بات کو برداشت کرونگی تو یہ آپ کی سوچ ہے"۔ وہ اب بھی باز نا آئ تھی۔ وہ اسکی ہمت دیکھ تمسخر سے ہنسا تھا۔ 

" بہت دیکھی ہیں تم جیسی دو دو کوڑی کی عورتیں"۔ وہ اسکے بالوں کو مزید سختی سے دبوچتا نفرت آمیز لہجہ میں بولا۔

" دیکھی ہونگی پر میرب حیات نہیں ہونگی "۔ وہ اسکی گرفت سے اپنے بال آزاد کرانے کی کوشش کرنے لگی۔ 

" زبان کو لگام دو اپنی"۔ اسنے اسکے چہرے پہ اپنی پانچوں انگلیاں چھاپ دیں۔ میرب کی آنکھ سے ایک آنسو ٹپکا۔

" نہیں دونگی"۔ ضدی تو وہ بھی صدا کی تھی۔ 

" اگر اس زبان کو لگام نا دی ناں تو بہت پشتاؤ گی"۔ وہ اسے گردن سے دبوچتا بولا۔ 

" اگر میں نے غلط کو غلط نا کہا ناں خاموشی سے ظلم سہتی رہی تو اور بھی پشتاوا ہوگا"۔ وہ بہ مشکل بولی۔ اسکا چہرہ سرخ ہوچکا تھا اب تو اسے سانس لینے میں بھی دکت ہورہی تھی کے مقابل نے ایک جھٹکے سے اسکی گردن چھوڑ دی۔ وہ کھانستے ہوئے اسکے پاس سے اٹھی تھی وہ بیڈ پہ اسکے بے حد قریب بیٹھا تھا ، اور اسکی قربت میرب حیات کو کسی صورت منظور نہیں تھی۔ 

وہ بے حد تھک چکی تھی اس وجہ سے اسکی آنکھ لگ گئ تھی پر اچانک اس شخص کا آکر اسے ایسے اٹھانا اسکے تمام حواس جھنجھوڑ گیا تھا۔ 

وہ اسکو سنا کر کمرے سے واپس نکل گیا تھا۔ میرب کو اپنا سر دکھتا ہوا محسوس ہوا۔ اسنے جو تھپڑ اسکے چہرے پہ مارا تھا۔ وہ اسکے حواس جھنجھنا گیا تھا۔ وہ ہمت کرتی کمرے سے باہر آئ حویلی میں ملازموں کے علاوہ کوئ موجود نہیں تھا۔ 

اس وقت شام کے پانچ بج رہے تھے۔ وہ ننگے پیر چلتی ہوئ حویلی کے مین دروازے سے نکل کر باہر بنے برآمدے میں آئ تھی۔ 

اماں جان وہیں بیٹھی تھیں ، وہ انکے پاس جا کر سلام کرتی تخت پہ بیٹھی۔ تو وہ اسے دیکھ نرمی سے مسکرائ تھیں۔ " وعلیکم اسلام "۔ انہوں نے شفقت سے کہا۔ 

" آرام کرکے اب کچھ بہتر لگ رہا ہوگا ناں تمہیں"۔ انہوں نے نرمی سے کہا۔ 

" جی پر سر میں درد ہو رہا ہے"۔ وہ دھیمی سے آواز میں کہتی اماں جان کو بڑی پیاری لگی تھی۔ 

" شنو جا جاکر بچی کے لیئے کھانا لا ، اور پھر اچھی سی چائے چڑھا ہم دونوں کے لیئے ، اور تم آؤ ادھر دم ڈال دوں ابھی غائب ہوجائے گا سر درد"۔ انہوں نے اسے اپنے قریب بیٹھنے کو کہا۔ وہ ذرا سی کھسک کر اماں کے پاس ہوئ اماں نے دم ڈالنا شروع کیا اسکا سر شدید درد کر رہا تھا۔ کافی دیر خاموشی کے بعد اماں کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائ۔ 

" جانتی ہوں بہروز آیا تھا ، اور شاید اسنے تم سے بد تمیزی بھی کی ہو ، پر تم صبر سے کام لینا دیکھنا بہت جلد وہ تمہارے صبر کے آگے ہار جائے گا"۔ اماں نے اسکے سر کو دباتے کہا۔ دم شاید وہ ڈال چکی تھیں۔ 

" اماں جی ہر چیز پہ ہم عورتیں ہی کیوں صبر کریں"۔ اسکے لہجہ کی تلخی محسوس کرتیں وہ دھیرے سے مسکرائ تھیں۔ 

" اگر صبر نہیں کروگی تو کبھی خوشیاں نہیں آپائیں گی تمہارے قریب تم جانتی ہو سکھ ہمیشہ ڈھیروں آزمائش کے بعد ملتا ہے پھر وہ چاہے مرد ہو یا عورت دونوں کو آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے"۔ انہوں نے نرمی سے کہا۔ میرب نے جھٹ آنکھیں کھول کر انہیں تکا۔ 

" پر میں نے مرد کو آزمائشوں میں گھرا نہیں دیکھا"۔ وہ سنجیدگی سے بولی۔

" پگلی۔۔۔ !! یہ جو بہروز جس دور سے گزر رہا ہے یہ اسکی بھی تو آزمائش ہے ، اسنے اپنا بھائ کھویا ہے، یہ جو آگ اسکے سینے میں جل رہی ہے ناں یہ ہی سب سے بڑی آزمائش ہے ، اور سب سے بڑی بات تم دونوں کا رشتہ بہت پیارا ہے بس اگر تم دونوں وقت پہ سمجھ جاؤ "۔ انہوں نے اسکے گال پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔ 

" کیا ضمانت ہے اس بات کی کہ وہ میرے صبر کے آگے ہار جائے گا"۔ اسنے انہیں تکتے نرمی سے پوچھا۔ 

" میں ضمانت ہوں ، میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ تمہارے صبر کے آگے ہار جائے گا"۔ انہوں نے شفقت سے اسکے ماتھے پہ بوسہ لیا۔ 

" مجھے لگتا تو نہیں پر پھر بھی کوشش کرونگی"۔ اسنے آنکھیں مٹکا کر کہا۔

" صبر کوشش سے نہیں کیا جاتا جب صبر کیا جاتا ہے تو بس صبر ہی ہوتا ہے پھر اسکو کرنے کے لیئے کوشش نہیں کرنی پڑتی"۔ وہ نرمی سے بولیں۔

" ہمم سہی میں صبر کرونگی "۔ اسنے نظریں جھکا کر کہا۔ شنو اسکے لیئے کھانا لائ اسنے کھانا کھایا اتنے میں چائے بھی تیار ہوچکی تھی وہ چائے لے کر آئ۔

اسنے اور اماں نے چائے پی پھر اسکو ایک سر درد کی گولی دی پھر وہ دیر اماں جی کے ساتھ ہی رہی اور رات آٹھ بجے اماں نے اسے اسکے کمرے میں بھیج دیا۔ وہ من من بھر کے ہوتے قدم لیئے کمرے میں جیسے ہی گھسی وہ سامنے بیڈ پہ ایک شان سے پڑا نجانے کس سے موبائل کان سے لگائے ہم کلام تھا۔ اسکو دیکھ اسنے کال کاٹی تھی اسکی آنکھوں میں چھپی نفرت دیکھ اسکے پیر کانپنے تھے۔ 

" وہاں کیا کھڑی ہو کیا پتھر کا مجسمہ بن گئ ہو ، یہاں آؤ"۔ اسنے سرد بے تاثر لہجہ میں اسے اپنی طرف آنے کو کہا۔

" ج۔۔جی"۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی جیسے ہی اسکے پاس آئ۔ اسنے اسے ہاتھ سے کھینچ کر بیڈ پہ گرایا تھا۔ وہ یکدم اسکی آغوش میں آگری تھی۔ وہ اس وقت برے سے برے رویے کی امید کر رہی تھی پر یہ کیا خوف سے اسکے پیر کانپ اٹھے تھے۔ اسنے اٹھنا چاہا کہ یکدم وہ کروٹ لے کر اسپہ مکمل طور پر جھکا۔ 

" راہ فرار ممکن نہیں "۔ اسنے سخت انگلیاں اسکے چہرے پہ پھیرتے کہا۔ میرب کا سانس اٹکا تھا۔ 

" مجھے۔۔۔ پتہ تھا ۔۔۔۔مجھے دیکھ تم یونہی پل میں پگھل جاؤ گے"۔ وہ تمسخر سے گویا ہوئ۔ 

" ہاں تمہیں تو ویسے بھی بڑا تجربہ ہے ناں مردوں کو پل میں پگھلانے کا"۔ اسنے بھی سیدھا خنجر سے وار کیا تھا۔ " میرے بارے میں ایسے الفاظ نا استعمال کریں"۔ وہ اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتی اسے خود سے دور کرنے کے جتن کرنے لگی تھی کہ وہ یکدم اسپہ مزید حاوی ہوا تھا۔ دونوں کے وجود ایک دوسرے سے مکمل طور پہ جڑے پڑے تھے۔ 

" میرا دل جیسے الفاظ استعمال کرنے کو کرے گا میں کرونگا اور تم ہوتی کون ہو مجھے یہ بتانے والی کہ میں تمہارے لیئے کیسے الفاظ استعمال کروں ، تم ایک قاتل کی بیٹی ہو ، اور تم یہاں اپنے باپ کے جرم کی سزا کاٹنے آئ ہو ، یہ انداز یہ کانفیڈینس تم پہ سوٹ نہیں کرتا"۔ وہ اسکے بالوں کو اپنی مٹھی میں قید کرتا اپنے لہجہ میں ڈھیروں نفرت سموئے گویا ہوا۔

" بیوی ہوں آپکی ، عزت کی مستحق ہوں"۔ نم لہجہ میں کہا گیا۔ 

" اچھا اتنی ہی عزت دار ہو اور عزت کی مستحق ہو تو بتاؤ اس دن ان کھیتوں میں کیا کر رہی تھیں"۔ وہ اسکا چہرہ دبوچ کر غرایا۔ " میں نے اس دن بتایا تو تھا کہ میں آپلے لینے گئ تھی"۔ وہ نم لہجہ میں گویا ہوئ۔ 

" اچھا اور آپلے لینے کے بہانے اپنے کس عاشق سے ملاقات کرکے آرہی تھیں"۔ اب کے اس کا لہجہ حد سے زیادہ تضحیک آمیز تھا۔ 

" دور ہٹیں "۔ وہ یکدم اسے دھکا دے کر اٹھی تھی وہ بھیگی بلی سے یکدم خونخوار شیرنی بن گئ تھی۔ وہ اسکے خونخوار ہونے پہ تمسخر سے ہنسا تھا۔ 

" جس میں خامی ہو وہ یونہی بھڑکتا ہے"۔ وہ بیڈ کی دوسری سائڈ پہ ہوتا طنزاً ہنسا تھا۔ 

" آپ جیسا انسان جسکی سوچ اس حد تک گری ہوئ ہو میں نے آج تک نہیں دیکھا"۔ وہ حقارت سے کہتی اسے سلگا گئ تھی۔

" میں کتنا گرا ہوا انسان اس کا اندازہ تمہیں بہت جلد ہوجائے گا ، زیادہ میرے منہ لگنے کی ضرورت نہیں"۔ سیگریٹ کو لائٹر سے جلا کر ایک کش لیتے کہا۔ 

" مجھے اچھے سے معلوم پڑ چکا ہے کہ آپ کیسے مرد ہو"۔ وہ ماتھے پہ لاتعداد تیوریاں سجائے کہتی لیٹنے لگی تھی کہ اسکے الفاظ سن کر اسنے اسے دیکھا۔ 

" یہاں سونے کی ضرورت نہیں اپنے مرنے کا بندوبست کہیں اور کرلو"۔ وہ بد تمیزی کی تمام حدود پار کر گیا تھا۔

" میں تو یہیں سوؤں گی بیوی ہوں آپکی"۔ وہ جیسے سلگی۔ 

" اچھا بیوی ہو ٹھیک ہے پھر حقوق ادا کرو میرے"۔ اسنے اسے ستانے کو کہا۔

" سوچنا بھی مت ایسا کچھ آپ جیسے انسان کے ساتھ میں کوئ تعلق کبھی نہیں بناؤں گی"۔ وہ آنکھوں میں ڈھیروں نفرت و حقارت لیئے بھڑکی۔ 

" سمجھ کیا رکھا تم نے مجھے شاید تم نے ابھی ٹھیک سے مجھے پہچانا نہیں میں چوہدری بہروز ہوں ، میرے ساتھ اس انداز میں بات کرنے کی ہمت کوئ نہیں رکھتا اور جو رکھتا ہے ناں میں اسکی ہمت توڑ دیتا ہوں"۔ وہ اسے کھینچ کر اپنی طرف سرکا گیا تھا۔ جس وحشی انداز میں اسنے اسے اپنی گرفت میں جکڑا تھا وہ تڑپ کر ہی تو رہ گئ تھی۔ اسنے اسکی مضبوط گرفت سے خود کو نکالنا چاہا پر ناممکن سی بات تھی۔ 

"چھوڑو مجھے"۔ اسنے اسکی انگلیوں کی جنبش کو اپنے وجود پہ ہوتا محسوس کرکے سسک کر کہا۔ 

اور پھر وہ ہوا جو شاید ہونا تو چاہیئے تھا پر ایسے نہیں۔۔ بہروز نے اسکا لباس ایسے نوچ کر اس سے الگ کیا تھا۔ کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر روپڑی تھی۔ 

" بہروز نہیں"۔ اسنے یکدم سر نفی میں ہلایا۔ بہروز نے گہری نظروں سے اسے تکا۔ 

" کیوں نہیں ہاں"۔ اسنے اسکے چہرے پہ انگلی پھیر کر کہا۔ 

" پلیز دور ہٹیں"۔ وہ گہرے سانس لیتی روندھی ہوئ آواز میں بولی۔ 

بہروز تمسخر سے ہنستا اسکے لبوں پہ اپنا مضبوط ہاتھ جماتا اپنا حق وصول کر گیا تھا۔ 

کچھ دیر بعد نیم اندھیرے کمرے میں اسکی سسکیاں گونجنے لگی تھیں، وہ جو ابھی اسکو ریزہ ریزہ کرکے پیچھے ہٹا تھا۔ اسکے رونے کی آواز جب اسکے کانوں میں پڑی تو اپنے کیئے پہ شرمندہ ہونے کے با وجود بیزار سے لہجہ میں گویا ہوا۔

" بند کرو یہ رونا دھونا ایسا بھی کوئ ظلم نہیں کیا جو رونا ہی بند نہیں ہورہا"۔ وہ کروٹ بدل گیا۔ 

وہ اسکے روکنے پہ بھی نا رکی ساری رات اسکی روتے روتے گزری صبح کی روشنی لگنے سے پہلے ہی وہ اپنی حالت درست کرکے کمرے سے نکل چکی تھی۔ جیسے ہی مولوی نے اذان دی دھیرے دھیرے حویلی میں چہل پہل ہونے لگی۔ میرب نے جلدی جلدی نماز پڑھی اور جب دعا کے لیئے ہاتھ اٹھائے تو انسوؤں اور سسکیوں کے سوا کچھ نا تھا۔ 

اماں جی بھی اٹھ چکی تھیں ، وہ انکے پاس آکر بیٹھی تھی ۔ یکدم بہروز کے والد نماز پڑھ کر جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے اور اسے دیکھ کر جو بے عزتی انہوں نے اسکی کی ، وہ رات کو کی گئ انکے بیٹے کی کی گئ زیادتی کو بھی پیچھے چھوڑ گئ تھی۔ صبح صبح حویلی کی دیواریں انکی دھاڑ سے کانپ اٹھی تھیں۔ وہ ظالم بھی نیند سے بھری آنکھیں لیئے جیسے ہی جدید طرز کے بنے لاؤنج میں آیا تو میرب سر جھکا کر رو رہی تھی اور اسکے ابا اسکے سر پہ کھڑے اسے نجانے کیا کچھ کہہ رہے تھے۔ اسے برا لگا۔ پر اسنے کچھ نا کہا۔ خاموش رہا۔ نظر ایک بار پھر اسکے کملائے چہرے پہ پڑی تو وہ محض لب بھینچ گیا۔ پر جب ابا نے اسکے کردار پر بولنا شروع کیا تو اسکی برداشت بلکل ختم ہونے لگی تھی، اسکے دماغ کی رگیں غصہ سے تن گئ تھیں۔ وہ یکدم بھڑکا۔ 

" ابا میری بیوی کے بارے میں ایسے الفاظ آپ کیسے استعمال کر سکتے ہیں"۔ وہ مشتعل ہوا۔ 

" بیوی نہیں ہے تمہاری یہ ونی ہے"۔ ابا چیخے۔ 

" ابا غلط بات نا کریں نکاح کرکے لایا ہوں"۔ وہ جیسے بھپرا۔ 

" ہاں نکاح بے شک کیا ہو پر اسکی حیثیت ہماری ملازمہ سے بھی کم ہے"۔ وہ بھی بھڑکے تھے۔ 

میرب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی اماں جی نے یکدم اسے اپنے سینے میں بھینچا تو وہ مزید سسک اٹھی۔ 

ابا تن فن کرتے وہاں سے جاچکے تھے اور وہ سامنے کھڑا ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ کھڑا اب اسے غصہ سے گھور رہا تھا۔ یکدم وہ آگے بڑھا بغیر اماں جی کا لحاظ کیئے اسے کلائ سے تھامتا گھسیٹتا ہوا کمرے میں لیکر آیا تھا۔ ایک جھٹکے سے اسے بیڈ پہ لاکر پھینکا تو وہ یکدم سیدھی ہوکر بیٹھی۔ 

" آئیندہ سے جب تک ابا گھر پہ ہوں کمرے سے نا نکلنا"۔ اسنے کمرے میں طیش کے عالم میں چکر کاٹتے کہا۔ 

" ایسا غلط کچھ انہوں نے بھی نہیں کہا جو آپ نے کیا وہ اس سے زیادہ توہین آمیز تھا"۔

وہ اسکے مقابل کھڑی ہوتی نم لہجہ میں گویا ہوئ۔ 

" بکواس بند کرو"۔ وہ نظریں چرا کر بولا۔

" بکواس نہیں ہے یہ سچ ہے جسے آپ جھٹلا نہیں سکتے ارے آپ سے بہتر تو سہیل تھا۔ وہ میری عزت پہ تاک لگائے بیٹھا تھا جانتے ہو کیوں ۔۔؟؟ کیونکہ میں اسکی عزت نہیں تھی پر آپکی تو عزت تھی ناں۔۔۔!!"۔ وہ اسے دیکھ افسوس سے کہتی اسکے غصہ کو مزید ہوا دے گئ تھی۔ 

" کیا بکواس کر رہی ہو ہاں ، میں نے کوئ گناہ نہیں کیا سمجھی"۔ وہ یکدم بھڑک تھا اسنے اسکی گردن کو اپنی مضبوط گرفت میں جکڑا تو اسکی سانسیں بند ہونے لگیں۔ اسنے اسے خود سے دور کرنا چاہا۔ اپنی گردن آزاد کرانی چاہی پر وہ تو شاید غصہ میں آپے سے ہی باہر ہوجاتا تھا۔ 

" آج تو کی ہے یہ بکواس آئیندہ کرنے کے بارے میں سوچنا بھی مت اور کون ہے یہ سہیل ؟"۔ وہ اسکی گردن چھوڑتا اسے بازو سے دبوچ گیا تھا۔ 

" کوئ نہیں ہے"۔ وہ اپنی سانسیں بہال کرتی اسے خود سے دور جھٹک گئ تھی۔ 

" مجھے اپنی چلانے والے لوگ بلکل پسند نہیں سمجھی تم"۔ وہ اسے جھنجھوڑ کر بولا۔

" پر میں اپنی ہی چلاؤں گی میں کسی کے ہاتھ کی گڑیا نہیں بن سکتی"۔ وہ اپنا آپ اس سے چھڑاتی پھنکاری۔ اسکے یہی انداز بہروز کے غصہ کی وجہ بن رہے تھے۔ وہ اسے بیڈ پہ جھٹک کر خود الماری سے کپڑے لیٹا واشروم میں بند ہوچکا تھا۔ اور وہ محض سسک کر رہ گئ تھی۔ 

وہ بھی کمرے سے نکل کر باہر آئ تو اماں وہیں بیٹھی تھیں وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی انکے پاس آکر بیٹھی تھی۔ 

" اسنے ہاتھ تو نہیں اٹھایا نا تم پہ"۔ انہوں نے اسکے بالوں پہ ہاتھ پھیرتے کہا۔ 

اسنے گردن کو ذرا سا ترچھا کرکے انہیں دیکھا اور پھر خاموشی سے سر کو نفی میں ہلادیا۔ اماں جی نے گہرا سانس خارج کیا۔ اور اسے بغور تکا۔ 

" جانتی ہو تم ونی ہو جبھی تمہیں یہ سب سہنا پڑھ رہا ہے بلکہ اس سے زیادہ سہہنا پڑتا ہے ونی میں آء عورتوں کو پر تم جانتی ہو ایسی بھی عورتیں ہیں جو ونی نہیں ہوتیں ، انہیں دھوم دھام سے خوشی خوشی گھر کی بہو بنا کر لایا جاتا ہے اور پھر انکے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے جیسا تمہارے ساتھ ہو رہا ہے"۔ وہ اسکا ہاتھ تھامتی نرمی سے گویا ہوئیں۔

" اماں جی اگر انکے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے ناں تو وہ اپنے میکے جا کر بیٹھ جاتی ہیں ، طلاق لیتی ہیں اور اپنی زندگی آسان کردیتی ہیں ، پر مجھ جیسی ونی ہوئ عورتیں تو صبر اور برداشت کے کچھ کر ہی نہیں سکتیں"۔ اسنے شوخی ہوئ نظریں جھکا کر کہا۔ 

" سو فیصد میں سے پچھتر فیصد عورتیں برداشت کرتیں ہیں ، یہ کہنا بلکل غلط ہے کہ وہ طلاق لے لیتی ہیں یا پھر میکے چلی جاتی ہیں ، ایسا نہیں ہوتا انکے بچے انکے پیروں کی زنجیر بن جاتے ہیں ، وہ اپنے بچوں کی خاطر خود کو مار دیتی ہیں اپنی خواہشوں کا گلا گھونٹ دیتی ہیں"۔ انہوں نے قدرے افسوس سے کہا۔

" کاش اماں جی میں ونی نا ہوتی ایسے سلوک پہ نا میں آپ کے بیٹے کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتی"۔ اپنے بے بسی پہ اسے ایک بار پھر رونا آیا۔ 

آنچل اسکا ہلکا سا ڈھلکا تو گردن پہ اسکی انگلیوں کے نشان اماں کی نظر سے پوشیدہ نا رہ سکے ابھی وہ اسے کچھ کہتیں اسنے اپنا آنچل درست کیا۔ سامنے وہ نک شک سا تیار لاؤنج میں آیا، صوفہ پہ بیٹھ کے اسنے اسے ایک نظر دیکھا اور پھر دوبارہ نظر جھکا کر اپنے موبائل میں مشغول ہوگیا۔ 

" تم نے اس پہ ہاتھ اٹھایا ہے؟"۔ اماں نے سخت گیر لہجہ میں پوچھا۔ 

اسنے نا سمجھی سے سر اٹھایا۔ 

" جی اماں جی"۔ اسنے کچھ الجھن کا شکار ہوکر پوچھا۔ 

" تم نے میرب پہ ہاتھ اٹھایا ہے"۔ انہوں نے سختی سے دریافت کیا۔

میرب اسکی گھوری خود پہ دیکھ یکدم سٹپٹائ تھی۔ 

" نہیں اماں جی ایسا تو کچھ نہیں کیا میں نے"۔ اسنے بہ مشک الفاظ ترتیب دیئے۔ 

" تم نے نہیں کیا تو کش نے کیا ہے اسکی گردن پہ تمہاری انگلیوں کی نشان باقاعدہ پڑے ہیں"۔ اماں کے لفظ لفظ میں سختی تھی۔ 

" اماں جی وہ غصہ آگیا تھا"۔ اسنے نگاہیں جھکا کر کہا۔ 

" یہ کیا بت ہوگئ غصہ آگیا ، تو کیا بیوی کے ساتھ ایسا سلوک کروگے"۔ انہوں نے اسے گھرکا۔

" ممعذرت اماں جی آئندہ خیال رکھوں گا"۔ اسنے نگاہیں جھکا کر کہا۔ 

" اگر آئیندہ ایسا کچھ ہوا توبہروز میں نے تم سے بات نہیں کرنی"۔ وہ خفگی سے بولیں۔

وہ یکدم تڑپ ہی تو گیا تھس۔ 

" اماں جی آپ دوسروں کی خاطر مجھ سے ایسے برتاؤ نہیں کرسکتیں ، آپ میری ماں ہیں آپکا کہا پتھر پہ لکیز کی مانند ہے ، آپ ایسے ناراضگی کی دھمکی نا دیا کریں"۔ وہ اٹھ کر انکے قدموں میں آبیٹھا تھا۔ 

اور وہ محض دیکھ کر رہ گئ تھی کہ اسے اپنی ماں سے اسقدر عقیدت تھی۔ 

" آپ ہمیں شرمندہ نہیں کریں گے کبھی کچھ ایسا کرکے جس سے ہماری تربیت پی حرف آئے تو ہم کیوں خفا ہونے لگے آپ سے"۔ انہوں نے نرمی سے اسکے چہرے پہ ہاتھ بھیرا۔ 

" اماں جی میں وعدہ کرتا ہوں اب تک جو کچھ ہوا وہ ہوگیا پر اسکے بعد میں کچھ بھی غلط نہیں کرونگا"۔ وہ ادب سے نگاہیں جھکا کر بولا۔ 

او پھر جو اسنے کہا تھا اسنے وہی کیا ، وہ حیران ہوئ تھی کوئ شخص اپنی بات کا اتنا پکا کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ کمرے میں ہوتی تو وہ اس سے کلام تک نا کرتا۔ چاہے اچھا ہو یا برا یہ سلسلہ پچھلے چار ماہ سے ایسے ہی چل رہا تھا۔ اسکی بھی روٹین کافی بدل گئ تھی۔ وہ صبح اٹھ کر شنو کے ساتھ لگ کر گھر کے کاموں میں حصہ لینے لگی تھی پھر باقی کا دن اماں جی اور پودوں کے ساتھ گزرتا اور اس سے کبھی سامنا ہوتا تو وہ اسپے سے نگاہ پھیر کر نکل جاتا۔ 

ابھی وہ لگی باہر لگے پودوں کو پانی دے رہی تھی ، کالے رنگ کا لان کا پرنٹڈ سوٹ پہنے بالوں کی لمبی چوٹی بنائے کھڑی تھی۔ پائپ لے کر وہ دوسری پیاری کی طرف مڑی کہ یکدم پائپ کے سامنے نمودار ہوتا وجود پورا کا پورا بھیگ گیا ۔ اسنے بے ساختہ ہاتھ منہ پہ رکھے اور پائپ زمین پہ پھینکتی دو قدم اچھل کر پیچھے ہوئ اور یکدم بھاگتی ہوئ اماں جی کے پاس پہنچی تھی۔ وہ کافی دیر تک انتظار کرتی رہی کہ اب وہ اسکی بیستی کرے گا پر ایسا نا ہوا۔ اسے کچھ تسلی ہوئ۔ شام کی چائے پی کر وہ اماں جی کی ٹانگیں دبا رہی تھی کہ وہ اماں جی کے پاس آیا انہیں سلام کرکے پاس پڑی کرسی قریب کھسکائ اور بیٹھا۔ میرب نے چور نظر سے اسے دیکھا۔ 

" وہ اماں جی کی طرف متوجہ تھا ، 

" اماں جی آپ نے بلایا تھا"۔ اسنے اماں جی کو تکتے پوچھا۔ 

" ہاں بیٹا بلایا تھا"۔ انہوں نے اٹھتے ہوئے میرب کے ہاتھ تھام کر روکے۔ میرب نے آٹھ کر کمرے سے نکل جانا چاہا پر اماں نے اسے روک لیا ، وہ جانتی تھی اماں کیا بات کرنے والی ہیں اسکا دل دھڑکا، وہ بات جو تقریباً چار ماہ سے پوشیدہ تھی وہ بات آج اماں جی اسے بتانے والی تھیں۔ وہ بے حد خوفزدہ تھی اسکا ری ایکشن سوچ کر۔ 

اسکی بھی بے ساختہ نظر اسپہ پڑی تو اسے اسمیں نجانے کیوں پر پہلے کے مقابلے میں کافی تبدیلی محسوس ہوئ۔ 

" بہروز تم باپ بننے والے ہو"۔ اماں جی نے سنجیدگی سے کہا۔ 

" جی۔۔!!"۔ اسے حیرت ہوئ۔ 

" ہاں تمہیں چار مہینے پہلے اس لیئے نہیں بتایا کیونکہ تم کافی غصہ میں رہتے تھے ان دنوں"۔ اماں جی نے نرمی سے کہا۔ 

میرب نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔ بہروز کو تو سمجھ ہی نا آئے کیا کرے ، عجب سی بے بسی تھی۔ اسنے ایک میرب کو دیکھا ، وہ بیٹھی نظریں جھکائے انگلیاں چٹخا رہی تھی۔ کمرے میں گہری خاموشی تھی۔ وہ گہری سانس لے کر اٹھا۔ 

" اماں جی چلتا ہوں کچھ کام ہے رات میں ملاقات ہوگی"۔ وہ سنجیدگی سے کہتا کمرے سے نکل گیا۔

اور وہ محض بھیگی نظروں سے اسکی پشت کو دیکھتی رہ گئ۔ 

" اماں جی اب کیا ہوگا"۔ اسنے اماں کی طرف رخ کیا۔

" اللہ خیر کرے گا"۔ انہوں نے اسے پریشان دیکھ کر کہا۔ 

" اماں جی وہ غصہ تو نہیں کریں گے ناں"۔ اسنے اماں جی کو تکتے پریشانی سے کہا۔

" نہیں"۔ اماں جی نے یک لفظی جواب دیا وہ بھی خاموش ہوگئ ۔ اس سے بھی آگے مزید کچھ کہا نا گیا۔

♡♡♡♡♡

رات میں وہ کمرے میں بیٹھی تھی۔ گھٹنے پہ سر ٹکائے بیٹھی پیلے رنگ کا جوڑا پہنے بیٹھی تھی۔ بہروز کمرے میں گھسا اسے دیکھ کر ہمیشہ کی طرح نظر انداز کرتا وہ کمرے کی بالکنی میں گیا۔ سگریٹ سلگا کر پینے لگا کہ وہ بے چینی سی محسوس کرتی خود ہی اسکے پیچھے آٹھ کر گئ۔ اسکی پشت پہ کھڑے ہوکے اسنے بہ مشکل الفاظ کو ترتیب دیا۔

" آپ خوش نہیں اس خبر سے"۔ اسنے دھیرے سے کہا۔ 

وہ مذاق اسنے سیگریٹ کا گہرہ کش لے کر دھواں ہوا کے سپرد کیا اور اسے دیکھ تمسخر سے ہنسا۔ 

" بلکل بھی نہیں "۔ اسنے آدھ جلا سگریٹ زمین پہ پھینک کر اپنے جوتوں تلے مسلا۔

" کیوں ؟"۔ اسے اپنے حلق میں کانٹے چھبتے ہوئے محسوس ہوئے۔ 

" کیونکہ میں یہ بچہ نہیں چاہتا میں چاہتا ہوں اسکو ختم کردو"۔ اسنے سفاکی کی حد تمام کردی۔

" یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں"۔ وہ خوف کے مارے دو قدم پیچھے ہوئ۔ 

" وہی جو تم نے سنا"۔ وہ اسکے سراپے کو بغور تکتا گویا ہوا۔

اسکے سراپے میں ہلکا سا بھاری پن وہ دیکھ کر سر جھٹک گیا۔ 

" پر میں ایسا کچھ نہیں چاہتی ، آپ پلیز ایسی باتیں نا کریں"۔ اسکی رنگٹ پل میں زرد پڑی تھی۔ پورا وجود لمحے میں پسینے سے شرابور ہوا تھا، گھبراہٹ کے مارے اسکے وجود پہ ایسا لرزش طاری ہوا کہ ایک پل کو تو بہروز بھی ستپٹا گیا۔ اسنے یکدم لپک کر اسے تھاما۔ 

" کیا ہوا تمہیں "۔ اسنے اسکے گال تھپتپائے۔ 

" پانی۔۔پانی"۔ اسنے گہرے سانس لے کر کہا۔ 

" ہاں صبر "۔ وہ اسے خود کے ساتھ لگائے ، بیڈ پہ لاکر بٹھاتا گویا ہوا۔

سائڈ ٹیبل پہ رکھے جگ سے پانی اسنے گلاس میں انڈیل کر اسکے لبوں سے لگایا تو کچھ دیر بعد اسکی حالت سنمبھلی۔ 

" اب بہتر محسوس کر رہی ہو"۔ اسنے اسکے بال سہلاتے کہا۔

" جی"۔ اسنے اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیر کر کہا۔ اور نظریں اسکے چہرے پہ گاڑھ کر بے بسی سے اسے دیکھا۔ 

" آپ کیوں نہیں چاہتے کہ۔۔"۔ اسنے بات ادھوری چھوڑی۔

" تم اور میں ایک ہیلدی ریلیشن شپ میں نہیں ہیں ، بچے کا آنا مطلب اسکی زندگی خراب کرنا ، ماں باپ کے تعلقات کا فرق اولاد کی شخصیت پہ بہت پڑتا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ ۔۔۔ کسی معصوم کی زندگی خراب ہو"۔ وہ سنجیدگی سے بولا۔

" ہم ٹھیک کریں گے ناں اپنا تعلق ، ہمارے بیچ سب ٹھیک ہوجائے گا"۔ وہ بے قراری سے بولی۔

" کیسے۔۔۔ ؟"۔ اسنے آئبرو آچکا کر کہا۔

" آپ بھول جائیں نا یہ کہ میں ونی ہوں پلیز"۔ وہ جیسے منٹ پہ اتر آئ۔

" ایسا نہیں ہوسکتا میرب تم میرے بھائ کے خون بہا میں آئ ہو ہمارے بیچ کبھی کچھ بھی درست نہیں ہوسکتا"۔ وہ سنجیدگی سے بولا۔

" کیوں نہیں ہوسکتا کوشش تو کریں"۔ اسنے روتے ہوئے کہا۔ 

" کبھی کبھی کچھ چیزیں کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتیں"۔ وہ اسکے پاس سے اٹھتا گویا یوا۔ 

" آپ اتنے سنگ دل نا بنیں"۔ وہ سسکی۔

" کبھی کبھی سنگ دل بننا پڑھتا ہے"۔ وہ بے رخی سے کہتا اسکا دل دکھا گیا تھا۔

" پلیز۔۔۔ ہم ایک کوشش کر سکتے ہیں ناں"۔وہ اسکے پیچھے اٹھی تھی اسکا آنچل بیڈ پہ ہی رہ گیا تھا وہ دوپٹے سے بے نیاز بکھری سی حالت میں اسکے مقابل کھڑی ہوئ۔ اسکی نظر اسپہ پڑی تو وہ سانسیں لینا بھول گیا۔ اسکی روئ روئ آنکھیں بکھرے سے بال ، کپکپانے لب نجانے کیا تھا اس لمحہ میں کہ وہ کمزور پڑ گیا۔ وہ دھیرے سے اسے اپنی بانہوں میں قید کرتا اسکے لبوں پہ جھکا تھا۔ وہ یک دم سٹپٹائ ، اسنے اسے خود سے دور کرنا چاہا ، اسکی گرفت مزید سخت ہوئ ، میرب کو اپنی سانسیں رکتی ہوئ محسوس ہوئیں۔ وہ اس سے دور ہٹا اسنے اسکی کمیز کو تھاما ، وہ اسے کھڑا دیکھتا رہا یکدم اسنے گہری سانس خارج کی۔

" کل تیار رہنا ڈاکٹر کے پاس چلیں گے اماں جی کو نا بتانا"۔ وہ اسے خود سے دور کرتا سنجیدگی سے کہتا۔ خود باتھروم میں بند ہوگیا اور وہ بکھری سی حالت میں بے جان وجود لیئے زمین پہ بیٹھتی چلی گئ۔

اگلی صبح جب بہروز اٹھا تو میرب کو کمرے کے کونے میں فرش پہ بیٹھا پایا شاید ساری رات وہ وہیں بیٹھی رہی تھی۔ 

" تیار ہوجاؤ"۔ اسنے نیند سے بوجھل ہوتی آواز میں کہا۔

" میں نہیں جاؤں گی"۔ ہڈ دھرمی سے کہا۔

" جانا پڑے گا تمہیں"۔ بہروز کے ماتھے پہ تیوریاں نمودار ہوئ۔

" میں نے کہا ناں۔۔۔!! میں نہیں جاؤں گی"۔ وہ اپنی نم سوجی آنکھیں اسکی آنکھوں میں گاڑھ کر جنون امیز لہجہ میں کہتی بہروز کے غصہ کو ہوا دے گئ تھی۔ 

" مسئلہ کیا ہے تمہارا عزت سے بول رہا ہوں تو سمجھ نہیں آتی بات"۔ بہروز بیڈ سے کشن اٹھا کر زمین پہ پھینکتا اٹھا تھا۔

وہ خوف سے کپکپا اٹھی تھی۔ وہ بہ مشکل اپنے بے جان ہوتے پیروں پہ زور ڈال کر اٹھی تھی۔ 

" مجھے نہیں کرنا اپنے بچے کا قتل"۔ وہ مضبوط لہجہ میں گویا ہوئ۔

" تم کیوں سر پہ چڑھ رہی ہو میرے جتنا کہا ہے اتنا کرو"۔ وہ طیش کے عالم میں دھاڑا۔

" نہیں کرونگی جو آپ چاہتے ہیں وہ کبھی نہیں کرونگی"۔ وہ سر کو نفی میں جنبش دیتی نحیف سی آواز میں بولی۔

" میری ایک بات کان کھول کر سن لو اگر اس بچے نے اس دنیا میں جنم لیا تو یہ بھول جانا کہ میں اسے باپ بن کر پالوں گا یا اسکی پرورش کرونگا"۔ وہ اسے کندھوں سے تھامتا غرا کر گویا ہوا۔

" میرے بچے کے لیئے میں کافی ہوں"۔ وہ سسک کر بولی۔

" ٹھیک ہے تو پھر پیدا کرو اور اکیلے پالو اسے"۔ وہ اسے جھٹک کر کمرے سے نکل گیا تھا۔ میرب نے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اپنی سسکیوں کو روکا تھا۔ 

♡♡♡♡

" میرب۔۔"۔ اماں جی نے اسے گم صم بیٹھے دیکھ کر آواز دی۔

" جی اماں جی۔۔"۔ اسنے سر اٹھا کر اماں جی کو دیکھا۔ 

" بہروز خوش ہے ناں اس بچے کی آمد سے؟"۔ انہوں نے اسکے زرد چہرے کو تک کر کہا۔

" پتہ نہیں"۔ وہ عجیب سے لہجہ میں بولی۔

" کچھ کہا ہے اس نے تمہیں؟"۔ اماں جی نے کچھ فکر مندی سے پوچھا۔

" نہیں ابھی تک تو کچھ نہیں کہا"۔ وہ بات چھپا گئ۔

" ہمم بس اللہ اس بچے کو تم دونوں کے لیئے رحمتوں اور برکتوں والا بنائے"۔ اماں جی نے اسکے ماتھے پہ بوسہ دے کر کہا۔ 

اسکی آنکھیں ہلکی سی بھیگیں، پر وہ اپنی آنکھوں کی نمی چھپا گئ۔ 

" بہروز تھوڑا سخت گیر ہے ، پر میرا بچہ دل کا بہت اچھا ہے میرب "۔ اماں جی نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا۔

اسکے دل سے بے ساختہ ایک آواز نکلی کہ اگر اتنا ہی اچھا ہے تو اپنے بچے کو کیوں مار رہا ہے۔

" جی اماں جی "۔ دل کی بات وہ زبان پہ نا لا سکی تھی۔ 

" اسکی ماں جب مری تھی ناں تو نو سال کا تھا وہ چھوٹا تھا ، نا سمجھ۔۔۔"۔ اماں جی نے نم آواز میں کہا۔ 

میرب کو یکدم جھٹکا لگا ، اسنے حیرت سے اماں جی کی طرف دیکھا۔ 

" پر اماں جی آپ تو۔۔"۔ میرب نے اماں جی کو دیکھ بہ مشکل الفاظ ترتیب دیئے۔

" میں اسکے باپ کی دوسری بیوی ہوں ، میری بڑی بہن بہروز کی ماں تھی اسکے انتقال کے بعد بہروز کے ابا نے مجھ سے نکاح کر لیا تھا"۔ انہوں نے گہری سانس خارج کرکے کہا۔ 

" آپ نے پہلے کبھی بتایا نہیں"۔ وہ حیران سی تھی۔ 

"اب بتا دیا "۔ وہ دھیرے سے ہنسی تھیں۔ 

" اور ۔۔۔ جو بہروز کا بھائ تھا وہ بھی کیا آپکا اپنا بیٹا نہیں تھا؟؟"۔ اسنے کچھ ہچکچا کر کہا۔ 

" وہ میرا بیٹا تھا اسے میں نے جنم دیا تھا"۔ انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔

" آپ کو مجھ سے نفرت نہیں محسوس ہوتی"۔ اسے حیرت ہوئ۔

" نہیں کیوں میں بھلا تم سے کیوں نفرت کروں"۔ وہ نرمی سے بولیں۔

" میرا باپ آپکی اولاد کا قاتل ہے"۔ اسنے انہیں یاد دلایا۔

" اور میرا اللہ میری اولاد کے قاتل کو سزا دینے والا"۔ وہ پرسکون لہجہ میں گویا ہوئ۔

" اتنا صبر کیسے ہے آپ میں اماں جی؟"۔ اسے حیرت در حیرت ہوئ۔

" جب اپنے اچھے اور برے کا یقین اس پاک ذات پر ہونا پھر صبر آہی جاتا ہے"۔ وہ اپنی آنکھوں میں ڈھیروں نور لیئے گویا ہوئیں۔

" آپ جیسا صبر ہر کسی کو کیوں نہیں آتا؟؟"۔ اسنے انکے ہاتھ عقیدت سے تھام کر لبوں سے لگائے۔

" کیونکہ ہم اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ ایمان تو رکھتے ہیں ، پر ہمارا عقیدہ بڑا کمزور ہے ، ہم اللہ رب العزت سے زیادہ اسکے بندوں سے توقعات رکھتے ہیں ، اور جب امیدیں اور یقین دنیا پر ہو تو صبر کیسے آئے گا۔۔!!"۔ انہوں نے مسکرا کر کہا۔ 

وہ بھی دھیرے سے مسکائ تھی۔ حقیقت تھی یہ ہمیں اللہ سے زیادہ انسانوں سے ہی تو اچھے کی امید ہوتی ہے۔

" پھر بھی اماں جی آپ نے اپنا جوان بیٹا کھویا ہے ، کیا آپکو دکھ نہیں ہوا تھا کیا آپکے سینے میں بدلہ لینے کی آگ نے جنم نہیں لیا تھا؟؟"۔ اسے پھر بھی اشتیاق رہا۔

" اولاد کا دکھ ہمیشہ ہر دکھ سے بھاری ہوتا ہے ، پھر چاہے اولاد جوان ہو یا بوڑھی یا پھر بچپن کے دور میں ہو، اسکی تکلیف دل کو پاش پاش کر دیتی ہے ، پتہ ہے میں نے اپنے بیٹے کے قتل کا معاملا اللہ کی عدالت پہ چھوڑا ہے۔۔۔!! یہ دنیا کیا ہوگی انکی عدالت کیا ہوگی اور انکا انصاف کیا ہوگا دیکھو ناں ۔۔! اب بھی تم جیسی معصوم بے بس عورت کو سزا کاٹنے کے لیئے چنا گیا۔۔۔۔ حالانکہ تم نے تو کچھ نہیں کیا تھا ، جس نے کیا تھا وہ تو بھاگ گیا ۔۔۔ کہیں اور جاکر وہ پھر کسی معصوم کا قتل کردے گا اور پھر کسی اور معصوم کو اسکی سزا دی جائے گی ، جو اپنے جرم و گناہ سے بھی ناواقف ہوگا ، یہ دنیا کی عدالتیں اندھی ہیں ، اصل انصاف تو میرے رب کی عدالت میں ملتا ہے"۔ وہ تمکنت سے کہتی میرب کو تعجب میں ڈال گئ تھیں۔ وہ حیرت سے انہیں تک رہی تھی ، وہ اسے اسقدر حیرت سے خود کو تکتا پاکر دھیرے سے مسکرائ تھیں۔

" بہروز کی زندگی بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ، اسکی زندگی کا بھی ایک سیاہ باب ہے اور وہ میں تمہیں نہیں بتاؤں گی ، میں چاہتی ہوں تم اسکا اعتماد جیتو تم اسے جیتو محبت سے ، وفا سے ، توجہ سے مجھے یقین ہے ایک دن آئے گا جب وہ اپنا ہر غم تمہیں بتائے گا ، تم سے اپنی ہر تکلیف بانٹے گا انشااللہ"۔ انہوں نے اسکے بال سنوارتے کہا۔

" ایسا کیا ہے؟؟"۔ وہ انکو تکتی مستفسر ہوئ۔

" ایسا سمجھو کہ اگر یہ کڑی تم نے سلجھا لی ناں تو ۔۔۔ تم دونوں کی زندگی خوبصورت ہوجائے گی ایک ساتھ"۔ انہوں نے اسے سمجھایا۔

" پر ۔۔۔ وہ تو مجھ سے بات تک نہیں کرتے اور ابھی تو ناراض ہیں کافی"۔ اسنے بے چینی سے کہا۔ 

" اب یہ تو تم پر ہے ناں کہ تم کیا کرتی ہو اور کیسے کرتی ہو"۔ انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔ میرب گہری سوچ میں ڈوب گئ۔

♡♡♡♡ 

شام کے پانچ بج رہے تھے وہ کسی کام سے عجلت میں گھر آیا تھا۔ کوئ ضروری کاغذات تھے جن کی اسے ضرورت پڑ گئ تھی۔ 

وہ کمرے میں ہر ایک جگہ چھان چکا تھا پر اسے اسکے کاغذات نہیں ملے۔ 

کافی ڈھونڈنے کے بعد اسے یاد آیا کہ وہ کاغذات تو اسنے اپنے وکیل کے پاس رکھوائے تھے۔ اسنے اپنی پینٹ کی پاکٹ سے موبائل نکال کر کان سے لگایا۔ 

میرب کمرے کا دروازہ دھیرے سے بند کرتی اندر آئ تھی سرخ رنگ کے شیفون کا جوڑا جس پہ ہلکی ہلکی ایمبرائڈری ہوئ تھی۔ موتیے کے پھولوں کی خوشبو جیسا پرفیوم لگائے ، آنکھوں میں گہرا کاجل لگائے ہونٹوں پہ سرخ جوڑے کے ہم رنگ سرخی لگائے ناک میں ایک موتی والی نتھ پہنے وہ غضب ڈھا رہی تھی۔ 

بہروز کی توجہ اسکی طرف نا تھی۔ وہ خاموشی سے چلتی اسکے پاس آئ تھی۔ بہروز نے موبائل کان سے ہٹا کر کال کاٹی ، اوپر دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ ان چار ماہ میں پہلی بار وہ ایسے سج سنوری کر اسکے سامنے آئ تھی۔ وہ اسقدر حسیں لگ رہی تھی کہ وہ بے خود سا اسے تکتا رہ گیا۔ وہ اسے خود کو تکتا پاکر تھوڑی سی کنفیوز ہوئ تھی ، مگر ہمت کرکے وہ اسکے برابر بیٹھی تھی دھیرے سے اسکے قریب ہوکر اسنے پلکیں جھکا کر پوچھا۔

" میں کیسی لگ رہی ہوں"۔ وہ کپکپائے لہجہ میں مستفسر ہوئ۔

" بہت خوبصورت"۔ وہ بے خودی کے عالم میں اسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرتا گویا ہوا۔

وہ اسکے تعریف کرنے پہ شرمیلی سی مسکان ہونٹوں پہ لیئے نظریں اٹھا کر دوبارہ جھکا گئ تھی۔ 

بہروز دھیرے سے جھکا تھا اسکی جھکی آنکھوں پہ اپنے لب رکھ گیا تھا۔ اسکی جسارت پہ اسکی آنکھیں دھیرے سے کپکپائی تھیں۔ 

" بہروز۔۔ "۔ اسنے اپنے سرخ لب دھیرے سے ہلائے۔ 

" ہمم "۔ وہ اسکے چہرے پہ اپنی انگلیاں پھیرتا مخموریت سے گویا ہوا۔

" کچھ نہیں"۔ کچھ کہتے کہتے اسکے لب پھڑپھڑائے تھے۔ بہروز کی نظر اسکے کپکپاتے لبوں پہ پڑی تو وہ بے خود سا ہوتا اسکے لبوں پہ جھکا تھا۔ اسکے لمس میں اسقدر شدت تھی کہ وہ کپکپا کر رہ گئ تھی۔ لمحہ یونہی سرکتے گئے میرب کا سانس رکنے لگا میرب نے اسکی گردن پہ اپنے ناخن گاڑھے۔ 

وہ دھیرے سے اس کے لبوں کو چھوڑتا اسے بستر پہ گراتا اسپے جھکا تھا۔ اسکی گردن پہ اپنے دانتوں کا ہلکا سا دباؤ ڈالا تو میرب سسک اٹھی اسنے اسکی شرٹ کے کالر کو مضبوطی سے اپنی گرفٹ میں جکڑ لیا۔ لمحے یونہی فسوں خیزی کے بیتنے لگے کہ یکدم بہروز کا موبائل بجا وہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹا اسے خود سے دور کرکے اٹھا ، چہرے پہ یکدم اسنے ہاتھ پھیرا۔ چہرے پہ نرمی ختم ہوئ اورسختی نے بسیرا کر لیا۔ 

میرب بھی اسکے پیچھے اٹھی تھی۔ اسنے میرب کو طیش کے عالم میں دیکھا۔

" آئیندہ سے ایسے سجنے سنورنے کی ضرورت نہیں ، انتہائ بے ہودہ لگ رہی ہو"۔ وہ اسپہ غراتا کمرے کا دروازہ زور دار آواز کے ساتھ بند کرتا نکل گیا تھا۔ 

اور وہ محض گہری سانس لے کر رہ گئ تھی۔ 

مشکل تھا اسکے دل تک رسائ کرنا پر ناممکن نہیں تھا۔ 

♡♡♡♡♡♡

وہ کچن میں لگی رات کا کھانا بنا رہی تھی ، اماں جی سے بہروز کی پسند کا پوچھ کر وہ لگی اسی کی پسند کا کھانا بنانے میں مشغول تھی۔ کھانا بنا کر فارغ ہوئ تو نہا دھو کر اسنے سادہ سا بادامی رنگ کا سوٹ پہنا ، ساتھ ہی ہونٹوں پہ ہلکی سے پنک کلر کی لپ اسٹک بھی لگالی۔ 

وہ کمرے میں بیٹھی اسکے آنے کا انتیظار کررہی تھی۔ کچھ وقت بیتا تو باہر سے اسکی گاڑی کی آواز آئ ، وہ ایک دم کھڑی ہوگئ ، وہ کمرے میں ایک سمت سے دوسری سمت چکر کاٹتی اسکے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ 

وہ کمرے میں آیا تو اسے پچھلے ایک ہفتے کی طرح آج بھی تیار دیکھا۔ وہ اس سے نظریں پھیرتا بیڈ کی سمت جانے لگا تھا کہ وہ یکدم اسکے مقابل آئ تھی ۔ بہروز کے اسے دیکھنے پہ وہ نرمی سے مسکراتی اسکے قریب آئ تھی، اپنے ہاتھوں کا ہار اسکی گردن کے گرد بنا کر اسنے اپنا چہرہ اسکے چہرے کے قدرے قریب کرکے مدھم سی آواز میں اسے مخاطب کیا۔ 

" آج دیر کردی آپ نے آنے میں ، آپکو پتہ ہے میں نے آپ کے لیئے آج اپنے ہاتھوں سے کھانا بنایا ہے"۔ وہ لاڈ اٹھانے والے انداز میں بولی۔

" تم میری بیوی بننے کی کوشش مت کرو کہہ رہا ہوں دور رہو مجھ سے نہیں تو مجھے دل توڑنے کا ہنر خوب آتا ہے"۔ وہ اسے خود سے دور کرتا سنجیدگی سے بولا تھا۔ 

وہ اسکی بات پہ منہ بنا کر رہ گئ تھی۔ 

" آپ کتنے سنگ دل ہیں وہ مجھے پتہ ہے ، اور رہی بیوی بننے کی بات تو میں آپکی بیوی ہوں ، اور سب سے اہم بات مجھے بھی ٹوٹے دل جوڑنے کا ہنر خوب آتا ہے"۔ وہ اسکے قریب ہوتی اس سے پہلے ہی اسکے الفاظ اسکی ہمت ختم کر گئے تھے۔ 

" جانتا ہوں بہت خوب آتا ہے تمہیں ٹوٹے دلوں کو جوڑنا وہی تو کرتی تھی تم شادی سے پہلے"۔ وہ سنجیدگی سے کہتا بیڈ پہ بیٹھا تھا۔ 

" بھاڑ میں جائیں آپ میں پاگل تھی جو آپکے لیئے لگ کر اس حالت میں ، میں نے کھانا بنایا ، آپکے لیئے تیار ہوئ آپکے آنے کا پورا دن انتظار کیا"۔ وہ غصہ سے بھڑکی تھی۔

" اس میں کونسی بڑی بات ہے کیا عورتیں اس حالت میں کام نہیں کرتیں۔۔ جہاں تک میں نے دیکھا ہے عورتیں پورے پورے گھر سنبھالتی ہیں"۔ وہ جوتے اتارتا مصروف سے انداز میں بولا۔

وہ دھپ سے اسکے برابر بیٹھی تھی۔ وہ گردن موڑ کر محض اسے بری نظروں سے گھور کر رہ گیا تھا۔

"ہاں کرتی ہونگی پر مجھ سے نہیں ہوتا"۔ وہ منہ بنا کر کہتی اسکے کندھے پہ سر رکھ گئ تھی۔

" تو نا کرو میں نے نہیں کہا"۔ وہ اسکا سر اپنے کندھے سے ہٹاتا دوٹوک لہجہ میں کہتا اٹھا تھا۔ وہ الماری کھول کر کھڑا اپنے کپڑے نکال رہا تھا کہ وہ یکدم اسکے پیچھے گئ تھی۔ اسکی کمر پہ اپنا سر ٹکا کر کھڑی ہوتی وہ دھیرے سے منمنائ تھی۔ پر اسکی منمناہٹ وہ بخوبی سن چکا تھا۔

" پیار سے بناتی ہوں ، دل کرتا ہے آپکا خیال رکھوں آپکے لیئے کھانا بناؤں"۔ وہ اسکی کمر پہ سر ٹکائے کھڑی تھی کہ وہ یکدم مڑا وہ سیدھی۔کھڑی ہوئ۔ 

" میرب پلیز مجھ سے دور رہو ایسا نا ہو کہ میں تمہیں سچ میں کچھ ایسا دے دوں جو تمہیں اور تمہارے بچے کو نقصان پہنچا دے"۔ اسکے لہجہ میں بلا کی سنجیدگی تھی۔ 

" کیا یہ بچہ اور میں آپکے کچھ نہیں لگتے کیا ہماری تکلیف پہ آپ کو تکلیف نہیں ہوگی؟"۔ اسکی پلکیں پل میں بھیگیں تھیں۔

" نہیں جن چیزوں سے میرا کوئ سروکار نہیں مجھے انکی پرواہ بھی نہیں۔۔!!"۔ سنگدلی کی حد وہ تمام کر گیا تھا۔

" ہم دنوں سے آپ ہی کا تو سروکار ہے"۔ اسنے اسکا ہاتھ تھامنا چاہا۔ 

پر وہ اپنا ہاتھ اسکی پہنچ سے دور کر گیا۔ 

" آخری بار کہہ رہا ہوں دور رہو مجھ سے"۔ وہ اسکی نم آنکھوں میں اپنی سرد بے تاثر آنکھیں گاڑھ کر بولا۔

" اب تو ممکن ہی نہیں"۔ اسنے ہمت کرکے بکھرے ہوئے لہجہ میں کہا۔

" اپنی اوقات مت بھولو تمہاری حیثیت ہمارے گھر کے ملازموں سے بھی بدتر ہے"۔ اسنے تلخی سے کہا۔

" اچھا تو کیا جو اس رات آپ نے میرے ساتھ کیا وہ آپ اپنی ملازماؤں کے ساتھ بھی کرتے ہیں"۔ نجانے کیسے اسکی زبان سے یہ بات نکلی اسے خود خبر نا ہوئ۔ 

" آخری بار کہہ رہا ہوں اپنی زبان کو لگام دینا سیکھو"۔ وہ انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتا اپنے کپڑے الماری سے جھپٹنے کے انداز میں لیتا واشروم میں بند ہوا۔ 

وہ نم آنکھیں لیئے وہیں کھڑی رہی۔

" اب تک یہیں کھڑی ہو ، اب جو کھانا بنایا ہے لاکر دو بھی گی کہ نہیں"۔ وہ باتھروم سے باہر نکلا اسے وہیں کھڑے دیکھ کر بھڑکا۔ 

اسنے چونک کر اسے دیکھا۔۔ خاموشی سے مشینی انداز میں کمرے سے نکل گئ تھی۔ وہ محض اسے جاتا دیکھ کر رہ گیا۔ 

کچھ دیر بعد وہ دوبارہ کمرے میں آئ تھی۔ کھانے کی ٹرے ہاتھ میں تھامے اپنے ہلکے سے بھاری سراپے سمیت نجانے کیوں وہ چوہدری بہروز کے دل میں گھر کر رہی تھی۔ اسنے اسکے سراپے سے نظریں چرائیں۔ 

میرب نے کھانا لاکر بیڈ پہ اسکے سامنے رکھا۔ وہ کھانا کھانے لگا ، تو وہ صوفہ پہ جا کر بیٹھ گئ ، میرب نے کوئ بات نا کی خاموش بیٹھ گئ۔ 

بہروز کے لیئے اس خاموشی میں نوالے نگلنا مشکل سا ہوگیا۔ پر خیر وہ کھانا کھا کر ہی ہٹا۔ 

وہ دوبارہ اسی انداز میں آئ برتن اٹھائے اور کمرے سے نکل گئ۔ 

اور بہروز محض لب بھینچ کر رہ گیا۔

♡♡♡♡♡♡

وہ ایسے ہی اسے منانے کے جتن کرتی رہی ، پر وہ شاید کوئ پتھر تھا جس میں دراڑ کر پانا مشکل سی بات تھی۔ 

اسکا آٹھواں مہینہ شروع ہوچکا تھا۔ اسکا سراپا پہلے سے زیادہ بھاری ہونے لگا تھا۔ اسے ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ اسکے جڑوا بچے ہیں پر اسنے یہ بات بہروز کو نہیں بتائ۔ جتنے دن بیتتے جا رہے تھے اتنی اسکی حالت بد تر ہوتی جارہی تھی۔ 

اب بھی وہ اپنا سوجا وجود لیئے باغ میں کرسی رکھے بیٹھی تھی۔ کہ نجانے وہ کہاں سے بر آمد ہوا۔ موبائل پہ لگا وہ کسی سے تیز لہجہ میں بات کر رہا تھا۔ 

میرب نے اسے دیکھ کر سر جھٹکا۔ 

بہروز کی اسپہ نظر پڑی تو وہ چلتا اسکے پاس آیا ، 

" اماں جی بتا رہی تھیں ، طبیعت ٹھیک نہیں تمہاری کیا ہوا ہے؟"۔ وہ اسکے سامنے دوسری کرسی کھینچ کر بیٹھتا مصروف سے انداز میں مستفسر ہوا۔

" ایسی حالت میں طبیعت ویسے ہی بیزار رہتی ہے اماں جی ایسے ہی پریشان ہوجاتی ہیں"۔ وہ دھیرے سے بولی۔ 

بہروز نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ اسکی حالت سچ میں بظاہر بھی بہت عجیب ہورہی تھی۔ وہ حسین و نازک نقوش دب سے گئے تھے۔ اسکا ناک بھی شدید قسم کا سوجا ہوا تھا۔ 

وہ اسکی ناک دیکھ کمینگی سے ہنسا تھا۔

" اپنی ناک دیکھو تم۔۔۔ہاہا۔۔۔۔ توبہ پوری نمونی لگ رہی ہو"۔ وہ اپنا بے ساختہ امڈتا قہقہہ روک نہیں پایا تھا۔ 

" کیا ہوا ہے میری ناک کو"۔ اسنے اپنی ناک پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔ 

" کچھ نہیں۔۔۔۔ہاہاہا"۔ وہ بہ مشکل بولا۔

" آپ کیوں ہنس رہے ہیں مجھ پہ"۔ وہ روہانسی ہوئ۔

" کچھ نہیں میں نے تو کہا تھا ایبارٹ کروا لو بچے کو پر تم نا مانی اب بھگتو"۔ وہ پل میں سنجیدہ ہوا تھا۔

" آپ کو شرم نہیں آتی ایسی بات کرتے"۔ اسے افسوس ہوا۔

" بلکل نہیں"۔ اسنے رخ موڑ کر کہا۔

" آپ پلیز یہاں سے آٹھ جائیں اسوقت مجھے شدید غصہ آرہا ہے"۔ وہ بگڑے تنفس سمیت گویا ہوئ۔ 

" پھر کہوں گا اوقات مت بھولو"۔ وہ سنجیدگی سے کہتا تن فن کرتا وہاں سے نکل گیا تھا۔ میرب اپنے سر کی پشت کرسی کی پشت سے لگا گئ تھی۔ 

♡♡♡♡♡♡

اور پھر وہ دن آیا جب اسنے دو بچوں کو جنم دیا اسکے گھر ایک بیٹی اور بیٹا پیدا ہوا۔ 

اماں جی اور ابا جی بے حد خوش تھے ، وہ خود بھی بے حد خوش تھی۔ 

اسکو سب نے بہت فون کیا پر وہ نا آیا۔ 

میرب کو اگلے دن ہاسپٹل سے ڈسرچارج کیا گیا۔ وہ گھر آگئ۔ وہ اپنے بچوں کو ساتھ بستر پہ لٹائے خود بھی انکے برابر پڑی تھی۔ 

بہروز کمرے میں آیا بچوں پہ نظر تک ڈالنا بھی ضروری نا سمجھا اسنے ، میرب کا حلق سوکھا ، اسکی آنکھیں نم ہوئ تھیں۔ وہ صوفہ پہ بیٹھا موبائل میں ایسے گم تھا جیسے نجانے اسکے کونسے خزانے اسکے موبائل میں پڑے ہوں۔ 

" آپ آئے نہیں ہسپتال"۔ اسنے گہری خاموشی توڑتے کہا۔ 

وہ بنا جواب دیئے ہنوز اپنے موبائل میں گم تھا۔ 

اسنے دوبارہ ہمت کر کے اسے مخاطب کیا۔ 

"بہروز۔۔۔!! میں آپ سے بات کر رہی ہوں"۔ اسنے اسے تکتے نم لہجہ میں کہا۔ 

" مجھے تنگ کرنا بند کرو یہ بات اول روز ہی طے ہوچکی تھی کہ اس بچے سے میرا کوئ سروکار نہیں"۔ وہ بنا نگاہ اٹھائے بیزار سے لہجہ میں بولا۔

" بہروز بس بھی کردیں آپ مجھ سے نفرت سمجھ آتی ہے کے میں آپ کے بھائ کے قاتل کی بیٹی ہوں ۔۔۔۔ پر۔۔۔ یہ تو آپکا اپنا خون ہے ، آپکی اپنی اولادیں ، انکو کس بات کی سزا دے رہے ہیں آپ۔۔؟؟"۔ اسکی آنکھوں سے آنسو بھل بھل بہنے لگے تھے۔ 

" پلیز اپنا لیکچر بند کرو ، سر میں درد کرکے رکھ دیا ہے"۔ سرد مہری کی دیوار پہلے سے زیادہ اونچی ہوچکی تھی۔ 

وہ خاموش رہی اس سے آگے تو اس سے ایک لفظ بھی نا کہا گیا۔ 

دن تیزی سے گزر رہے تھے ، آج اسکے بچے پورے ایک ماہ اور دس دن کے ہوچکے تھے۔ 

اسنے انکو نہلا دھلا کر صاف ستھرا کیا۔ بہروز بیڈ پہ ہی بیٹھا تھا۔ پر بے نیاز ۔۔۔ میرب نے اپنے بچوں کو کپڑے پہنائے اچھے سے لپیٹ کر دونوں کو بیڈ پہ لٹایا۔ میرب کی ایک چور نظر بہروز پہ گئ۔ غلطی سے بھی اسکی نگاہ اپنے بچوں کو دیکھنے کے لیئے نہیں اٹھی تھی۔ 

وہ انکو باری باری فیڈ کروا کر کمرے میں بستر پہ لٹا کر چلی گئ۔ بہروز نے ایک آنکھ اٹھا کر کمرے سے باہر جھانک کر دیکھا وہ کہیں نہیں تھی۔ 

بہروز نے یکدم موبائل سائڈ پہ رکھا ، دونوں بچوں کے ماتھے پہ یکدم جھک کر اپنے لب رکھ گیا تھا۔ انکے ننھے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھامتا باری باری انکے ہاتھوں پہ پیار کرنے لگا کہ اسے کسی کے قدموں کی چاپ محسوس ہوئ وہ ان سے دور ہوکر واپس خود کو موبائل میں غرق کر گیا۔ 

میرب جلد بازی میں کمرے میں آئ الماری کھول کر کچھ سامان نکال کر وہ واپس کمرے سے نکل گئ۔ 

اسکے جاتے ہی وہ واپس اپنے بچوں کیطرف متوجہ ہوگیا۔ 

کافی وقت بیتنے کے بعد بھی جب وہ واپس نا آئ بچوں کے پاس تو اسے تشویش ہوئ۔ وہ کمرے سے نکل کر لاؤنج کیطرف آیا سامنے صوفے پہ بیٹھا شہروز چہک چہک کر میرب اور اماں جی سے بات کر رہا تھا۔ 

وہ شروع سے ایسا تھا۔ ہر کسی سے جلدی گھل مل جانے والا۔ 

" تم کب ائے"۔ بہروز نے اندر آتے کہا۔ 

" میں ابھی آیا مجھے پتہ چلا میرے یار نے مجھے یاد کیا اور میں جھٹ سے چلا آیا"۔ اسکا قہقہہ بے ساختہ تھا۔ 

" نوٹنکی انسان کبھی تو انسان بنو"۔ بہروز ہنستے ہوئے اسے بغلگیر ہوا۔ 

" ابے انسان ہی ہوں بس تیری طرح آدم بیزار نہیں ہوں"۔ شہروز قہقہہ لگا کر بولا۔ 

" ہاں وہ تو دکھ رہا ہے"۔ وہ مسکان دبا کر کہتا شہروز کو جلا گیا تھا۔

" زیادہ بک مت"۔ شہروز نے منہ بنایا۔

" بیٹھ جا"۔ بہروز نے صوفہ پہ بیٹھتے اسے بھی بیٹھنے کو کہا۔

" بیٹھ رہا ہوں بیٹھ رہا ہوں ، تیرے بچوں کو دیکھنے آیا ہوں اتنی دور سے "۔ وہ خوش اخلاقی سے بولا۔ 

بہروز کے چہرے پہ یکدم سنجیدگی طاری ہوئ۔ 

" ہمم "۔ اسنے محض اتنا ہی کہنے پہ اکتفا کیا۔ کہ یکدم میرب کی آواز نے اسے چونکا دیا۔

" میں لے کر آتی ہوں دونوں کو "۔ وہ چہک کر کہتی کمرے کی سمت رخ کر گئ۔ 

اماں جی بھی انکو مسکرا کر دیکھ رہی تھیں۔ 

" اور سنا کیا حال ہیں"۔ بہروز نے اسے مخاطب کیا۔

" ایک دم مست حال ہیں"۔ بہروز نے قہقہہ لگا کر بتایا۔

" وہ دکھ رہا ہے کمینے"۔ شہروز نے کمینے پن سے آنکھ ماری۔ 

دونوں کی نظر ایک ساتھ میرب کی طرف اٹھی تھی۔ میرب کی گود میں دونوں بچے تھے۔ بہروز ایک نظر دیکھ نظریں پھیر گیا تھا۔ شہروز یکدم پرجوش ہوتا اٹھا تھا۔ اسنے میرب کی گود سے دونوں بچوں کو لیا۔ شہروز بچوں کو لے کر بہروز کے پاس آیا اسی کے برابر بیٹھ گیا۔ 

" حیرت کی بات ہے ویسے بھابی لڑکی کون ہے لڑکا کون ؟؟"۔ شہروز دونوں کے گول مٹول سے چہروں کو دیکھ حیرت سے بولا۔ 

" یہ بیٹی ہے اسکا نام اماں جی نے دانین رکھا ہے اور یہ بیٹا ہے اسکا نام ابا جی نے زلقرنین رکھا ہے"۔ وہ چہک کر شہروز کو بتا رہی تھی۔ 

" واہ بڑے ہی ایک جیسے نام ہیں بلکل ان دنوں جیسے"۔ وہ اسے دیکھ ہنسا تھا۔ 

میرب بھی ہنسی تھی۔ دونوں کے انداز سے ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ دونوں پہلی بار مل رہے ہیں۔ 

" ویسے میرب تم نے یونی میں ایڈمیشن کیوں نہیں لیا ۔۔؟؟"۔ شہروز نے سنجیدگی سے پوچھا۔ 

" وہ میں لینا چاہتی تھی ایڈمیشن پر اچانک سے یہ سب کچھ ہوگیا پھر میرا نکاح ہوگیا اور اب بچے ہیں تو اب تو بلکل ہی مشکل بات ہے"۔ وہ دھیمے لہجہ میں گویا ہوئ۔ 

" ارے پاگل مجھے پتہ ہوتا ناں تم یہاں ہو مطلب میرے اپنے چاچو کے گھر تو میں تمہیں خود لینے آتا اور تمہارا یونی میں ایڈمیشن کرواتا ، اور اب بھی میں ایسا ہی کرونگا اپنی پڑھائی چھوڑنے کی کوئ ضرورت نہیں ، بچوں کا کیا ہے کچھ گھنٹے یہ نکما سنمبھال لیا کرے گا ناں"۔ شہروز نے چہک کر تمام بات ختم کی میرب محض دھیرے سے گردن ہلا گئ تھی۔ 

اور رہی بات بہروز کی تو اسکا حال غصہ سے برا تھا یہ بات برداشت کر پانا مشکل ہو پا رہا تھا اسکے لیئے کے کوئ اسکی بیوی سے ایسے حق جتاتے لہجہ میں بات کیسے کر سکتا ہے۔

" تم دونوں جانتے ہو ایک دوسرے کو؟"۔ بہروز نے سوکھے لبوں پہ زبان پھیر کرکہا۔ 

" ہاں بہت اچھے سے"۔ شہروز نے چہک کر کہا۔ 

" اچھا ۔۔۔۔ !! کیسے جانتے ہو تم دونوں ایک دوسرے کو"۔ بہروز کے انداز پہ میرب کی ریڑھ کی ہڈی سنسنائ تھی۔ 

" ارے یہ فرشتے کی بیسٹ فرینڈ ہے یہ ہاسٹل میں رہا کرتی تھی کراچی میں اور فرشتے بھی وہیں رہتی تھی ، اب حیدرآباد سے کراچی جانے میں بھی دو گھنٹے تو لگ ہی جاتے ہیں ناں"۔ وہ مگن سے لہجہ میں بچوں کو پیار کرتا بولا۔

" اچھا۔۔"۔ بہروز نے میرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایسے اچھا کہا کہ میرب کا حلق کچھ غلط نا ہوتے ہوئے بھی سوکھ گیا۔

" میں انکو روم میں لے جاتی ہوں سو رہے ہیں دونوں جاگ گئے تو پھر روئیں گے کوئ کام نہیں کرنے دیں گے "۔ وہ بچے شہروز سے لے کر اپنے کمرے میں چلی گئ تھی۔ 

بہروز نے شہروز کو چینج کرکے فریش ہونے کا کہا اور اسکے پیچھے کمرے میں گیا تو وہ بستر پہ پریشان سی بیٹھی تھی۔ 

اسنے یکدم اسے کلائ سے تھام کر اپنے مقابل کھڑا کیا تھا۔ وہ کٹی پتنگ کی مانند اسکے سینے سے لگی تھی۔ 

" تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا تم جانتی ہو شہروذ کو"۔ اسکے لہجہ میں شعلوں کی لپک تھی۔ 

" جی وہ مجھے خود آج پتہ چلا کہ شہروز۔۔"۔ وہ سہمے ہوئے لہجہ میں بات ادھوری چھوڑ گئ۔

" نام مت لو شرم نہیں آتی کسی غیر مرد کا میرے سامنے نام لیتے"۔ وہ اسے دیوار سے لگاتے غرایا۔

پ پلیز مجھ سے دور رہیں"۔ اسنے خشک ہوتا حلق تر کرکے کہا۔ 

" کیوں دور رہوں حق رکھتا ہوں تم پر بھی اور تمہارے اس دل پہ بھی"۔ اسنے خون آشام نظروں سے گھورتے کہا۔

" پلیز میرے منہ سے غلطی سے نکل گیا"۔ وہ سسکی۔ 

" پرائے مرد کا نام میرے سامنے اپنے " شوہر" کے سامنے غلطی سے نکل گیا"۔ اسکا بازو جنونیت سے دبوچا۔ 

" معاف کر دیں "۔ بے اختیار نکل آنے والی سسکی کو دبا کر کہا۔ 

" کیسے کردوں معاف؟"۔ اسنے سر جھکا کر اسے گھورتے کہا۔ 

" آپ کو کیا ہوگیا ہے اچانک سے"۔ وہ حیرت سے سہمی ہوئ نظریں اسکی طرف اٹھا کر بولی۔ 

" ہمم بہت خوب اب تو تمہیں مجھ میں فالٹ ہی دکھیں گے ناں۔۔۔ ایک بات کان کھول کر سن لو سوچنا بھی مت کہ میں تمہیں چھوڑوں گا"۔ وہ اسکی گردن دبوچتا جنونیت سے کہتا میرب کو مزید سہما گیا تھا۔

یکدم کمرے کی خاموش فضا میں بچوں کے رونے کی آواز گونجی۔ 

" وہ بچے رو رہے ہیں ، دور ہٹیں"۔ وہ اسکے سینے پہ ہاتھ رکھتی اسے خود سے دور کرتی کپکپائے لہجہ میں گویا ہوئ۔ 

" تمہیں کیا لگتا ہے تم بچوں کا بہانا بنا کر مجھ سے بچ جاؤ گی سوچنا بھی مت "۔ وہ اسکے بازو پہ اپنی گرفت پہلے سے بھی زیادہ مضبوط کر گیا تھا۔

" بہروز وہ رو رہے ہیں"۔ وہ نم پلکیں اٹھا کر گویا ہوئ۔

" ٹھیک ہے قسم کھاؤ تمہیں شہروز سے محبت نہیں "۔ بہروز نے اپنا دایاں ہاتھ دیوار پہ رکھ کر مزید اسپے جھکتے کہا۔ 

" میں قسم کھاتی ہوں ، مجھے ان سے محبت نہیں پر ۔۔۔"۔ وہ نظریں جھکائے مضبوط لہجہ میں کہتی بات ادھوری چھوڑ گئ تھی۔

" پر ۔۔کیا؟؟"۔ وہ بے تابی سے مستفسر ہوا۔

" پر۔۔۔ مجھے آپ سے محبت ہے بے حد"۔ اسنے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تو اسکے چہرے پہ نرمی کے بجائے سختی تھی۔ چہرہ کے تاثرات کرخت تھے۔ 

" مزاق بنا رہی ہو میری بے بسی کا"۔ وہ اسکا چہرہ دبوچتا بھڑکا تھا۔

" کیسی بے بسی کیا ہوا ہے آپکو پلیز چھوڑیں ۔۔"۔ وہ بہ مشکل خود کو اسکی گرفت سے آزاد کروا پائ تھی۔ 

" جاؤ اپنے بچوں کو دیکھو مجھ سے تمہیں ویسے بھی کوئ سروکار نہیں"۔ وہ اسے بیڈ کی سمت دھکیلتا اکھڑے لہجہ میں گویا ہوا۔ 

" یہ بچے آپکے بھی ہیں بہروز ۔۔۔۔ !!"۔ وہ دانین کو اٹھاتی پیار کرنے لگی تھی۔ 

اسے دھیرے سے اپنے سینے سے لگائے وہ چپ کروا رہی تھی۔ 

" پر مجھے نہیں چاہیئے تھے۔۔!!"۔ ٹوٹے ہوئے لہجہ میں کہا گیا۔

" تو پھر اس رات میرے قریب ہی نا آتے"۔ اب کے وہ بھی بھڑکی تھی۔ تنگ آچکی تھی وہ ہر وقت کی اسکی اس گردان سے کہ اسے بچے نہیں چاہیئے تھے۔

" کیا مطلب نا آتے ۔۔۔ کیوں نا آتا ہاں بیوی ہو میری حق ہے میرا اور میرا اب بھی جب دل کرے گا میں آؤں گا تمہارے قریب"۔ وہ بھڑکا تھا۔ 

" میں نے یہ نہیں کہا کہ آپکا حق نہیں جیسے مجھ پہ آپکا حق ہے ناں بہروز ویسے ہی آپ پہ میرا بھی حق ہے میرے حقوق کا کیا۔۔۔؟؟؟ کبھی سوچا آپ نے میرے حقوق کے بارے میں یا بس ۔۔۔۔ اپنے ہی حقوق یاد رہتے ہیں آپکو۔۔!!!"۔ اسکی آنکھیں پل میں بھیگیں۔ 

" کیا چاہیئے تمہیں اور اچھا کھاتی ہو پیتی ہو پہنتی ہو ، بچے تک ہیں تمہارے اس۔۔۔ گھر کی مالکن بن کر پھرتی ہو اور کیا چاہیئے ۔۔۔۔ ؟؟؟"۔ وہ اسکی بات پہ بھڑک ہی تو اٹھا تھا۔ 

" کیا بس ایک عورت کی ضرورت یہ ہی سب ہوتا ہے"۔ اسنے دانین کو بستر پہ لٹاتے کہا۔

" تو اور کونسی ضرورتیں ہوتی ہیں جو پوری نہیں ہو رہی ۔۔۔ ہاں ۔ ۔۔ سب سے اہم ضرورت تو کافی عرصہ ہوا پوری ہی نہیں کی میں نے شاید تم اسی کی بات کر رہی ہو۔۔ چلو آج وہ بھی پوری کر ہی دیتا ہوں"۔ وہ اسکے قریب آتا بیڈ پہ اسکے مقابل بیٹھا تھا۔ 

" ہاتھ بھی نا لگایئے گا مجھے افسوس ہے مجھے آپکی ذہنیت پہ ، شرم آنی چاہیئے ایسی باتیں کرتے ہوئے آپ کہہ رہے تھے ناں ۔۔۔!! اور کیا ضرورت ہوگی ایک عورت کی۔۔۔۔ عورت کا تو پتہ نہیں پر ایک بیوی کو محبت ، عزت ، مان، بھروسے ۔۔۔۔ کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔ جن میں سے آپ مجھے کچھ بھی نا دے سکے"۔ وہ انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتے لہجہ میں گویا ہوئ۔ 

" وہ تو شاید میں کبھی نہیں دے سکتا"۔ وہ نظریں پھیر کر بولا۔

" کیوں نہیں دے سکتے۔۔۔؟؟"۔ وہ جنونی ہوئ۔ 

" مجھے نہیں پتہ کیوں۔۔۔ پر بس نہیں دے سکتا"۔ اسکے لہجہ میں بلا کی سختی تھی۔ 

وہ دو پل کے لیئے بے بسی اور خاموشی سے اسے دیکھتی رہ گئ۔ 

" آپ کیوں ہے اتنے سنگ دل بہروز ۔۔۔ یہ دیکھیں یہ ہمارے بچے ہیں ، اگر ہم ایسا کرینگے تو انکی زندگیوں کا کیا ہوگا یہ تو معصوم بکھر کر رہ جائیں گے"۔ وہ اسکے قریب ہوتی اسکے ہاتھ تھام کر محبت سے گویا ہوئ۔ 

" مجھے پتہ ہے یہ بکھر جائیں گے پر ۔۔۔ میں خود بکھرا ہوا ہوں انکو کیسے سمیٹوں گا؟؟"۔ اسکے گہرے سوال پہ وہ دھیرے سے مسکرائ۔ 

" میں آپکو سمیٹ لونگی اور پھر ہم دونوں مل کر کبھی اپنے بچوں کو بکھرنے نہیں دینگے"۔ وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نم لہجہ میں گویا ہوئ۔

" تمہیں نہیں پتہ میرب پر میں بے حد بکھرا ہوا ہوں"۔ وہ دھیرے سے اپنے ہاتھ اسکے گال پہ رکھتا اسکے گال سہلانے لگا تھا۔

" کیوں ہیں آپ اسقدر بکھرے ہوئے؟؟"۔ وہ اسکے مزید قریب ہوئ تھی۔ 

" میری ماں ۔۔۔۔ ایک بد کردار عورت تھی ۔۔۔۔ دنیا کی نظروں میں میرے باپ کی نظروں میں پر وہ بد کردار نہیں تھی ، وہ تو ایک عظیم عورت تھی ، ابا جی کے کسی دوست نے ان سے کہا کہ انکی حویلی سے ابھی کوئ کود کر نکلا ہے یقیناً انکی بیوی ۔۔۔ کا۔۔۔۔ عاشق ہوگا"۔ اسکی آنکھ سے ایک موتی ٹوٹ کر گرا تھا۔ 

میرب نے اس انمول موتی کو اپنی انگلیوں کی پوروں پہ چن لیا۔ 

" ابا جی گھر شدید غصہ میں آئے اور میری ان آنکھوں کے سامنے میری ماں کے سینے میں گولیاں اتار دیں میری ماں مر گئ میں ۔۔۔ تنہا ہوگیا۔ تم جانتی ہو ساری زندگی میں نے اپنے اماں ابا کو لڑتے دیکھا اور پھر انہوں نے میری ماں کو مار دیا ایک بار بھی انکا دل نا کانپا انکے ہاتھ نا کانپنے، اور پھر ابا نے میری خالہ یعنی اماں جی سے شادی کرلی ساری زندگی انکی بھی کوئ میری ماں سے مختلف نا گزری طعنے تشنہ مار پیٹ ہی دیکھی انہوں نے تم بتاؤ میرب ۔۔۔۔ جس انسان نے کبھی خوشحال گھرانا خود نا دیکھا ہو وہ اپنے بیوی بچوں کو کیسے خوش رکھ سکتا ہے بہت مشکل ہے یہ"۔ وہ بکھرے ہوئے لہجہ میں گویا ہوا۔

" آپ جانتے ہیں آپ بکھرے ہوئے ہیں اسی لیئے آپ کبھی چاہ کر بھی اپنی اولاد کو بکھرنے نہیں دیں گے"۔ وہ نم لہجہ میں گویا ہوئ۔ 

" پر تمہیں تو بکھیر چکا ہوں ناں میں جانے انجانے میں "۔ وہ اسے تکتا گویا ہوا۔ 

" پر میں نہیں بکھری ۔۔۔ ، مجھ میں آج بھی بہت امید اور ہمت ہے میں آج بھی ویسے ہی دامن بکھیرے کھڑی ہوں ، بس چاہیئے تو محض مان، بھروسہ ، عزت اور محبت"۔ اسکی آنکھ سے آنسو لڑیوں کی مانند بہہ نکلے تھے۔ 

وہ اسے خود میں بھینچتا اپنے سینے سے لگا گیا تھا ، 

" تم جانتی ہو ۔۔۔ ہماری پہلی ملاقات ۔۔۔۔ یاد ہے تمہیں مجھے تو تم سے تب ہی محبت ہوگئ تھی "۔ وہ اسکے ماتھے پہ اپنے لب رکھتا محبت سے گویا ہوا۔ 

" اپنے بچوں کو تو دیکھ لیں"۔ اسنے مسکرا کر کہا۔

" دیکھ چکا ہوں بہت بار"۔ وہ اسکے گال سہلاتا لب دبا کر گویا ہوا۔ 

" کب ۔۔؟؟"۔ وہ حیران ہوئ۔ 

" جب جب تم انہیں تنہا چھوڑ کر کمرے سے باہر جاتی تھی میں انہی کے ساتھ اپنا وقت بتاتا تھا"۔ وہ نرمی سے گویا ہوا۔ 

" آپ کتنے بد تمیز ہیں میں کتنی پریشان رہتی تھی یہ سوچ سوچ کر کہ آپ نے اپنے بچوں کو ایک نظر بھی نہیں دیکھا اور۔۔۔ آپ ۔۔ تھے کہ۔۔۔"۔ وہ برا مناتی اسکے پاس سے اٹھنے لگی تھی۔ کہ یکدم اسنے اسے کھینچ کر خود میں قید کیا تھا۔

" مجھے بد تمیز کہنے کی ہمت کسی میں نہیں"۔ وہ اسے تکتا مصنوئ غصہ چہرہ پہ لاتا بولا۔ 

" معاف۔۔۔"۔ وہ اس سے معافی مانگنے لگی تھی کی وہ اسکے لبوں پہ اپنی شہادت کی انگلی رکھتا اسکے الفاظ گم کر گیا تھا۔

" تم ناں ۔۔۔۔ بہت بدھو ہو"۔ وہ ہنستا ہوا اسپہ جھکنے لگا تھا کہ وہ یکدم اسے خود سے دور جھٹکتی قہقہہ لگاتی کمرے سے نکلنے ہی والی تھی کہ بہروز نے اسے لپک کر اسکی پشت سے اسے اپنی بانہوں میں بھرا۔ 

" کہاں بھاگ رہی ہو ۔۔ "۔ اسکی گردن پہ لب رکھتے پوچھا گیا۔

" کھانا بنانا ہے چھوڑیں"۔ وہ گلنار چہرہ لیئے لب کاٹتی گویا ہوئ۔ 

" پر میں تو کچھ اور ۔۔۔"۔ وہ اسے خود میں مزید بھینچ کر گویا ہوا۔ 

" پلیز ہٹیں"۔ وہ اس سے خود کو چھڑاتی بھاگی تھی۔ 

وہ قہقہہ لگاتا ۔ اپنے بچوں کیطرف متوجہ ہوگیا تھا۔

ہاں اسکی زندگی کٹھن رہی تھی پر آپ اسکی زندگی بہت آسان ہونے والی تھی۔ اسنے اپنے بچوں کو گود میں اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا تھا۔ وہ کمرے کے دروازے کے پیچھے سے کھڑی اسے دیکھتی آسودگی سے مسکرائ تھی۔ 

ختم شد  

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about

'' Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha '' is her first long novel . The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️.There are many lessons to be found in the story.This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lasson to be learned from not leaving....,many social evils has been repressed in this novel.Different things which destroy today’s youth are shown in this novel . All type of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a best novel ever 3rd Novel. Novel readers liked this novel from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that, but also how sacrifices are made for the sake of relationships.How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 

Aik Sitam Aisa Bhi Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Aik Sitam Aisa Bhi  written Momina Shah Aik Sitam Aisa Bhi by Momina Shah is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Madiha Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Madiha Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages