Wehshat E Ishqam By Pari Shah New Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Wehshat E Ishqam Novel by Pari Shah Complete Romantic Novel |
Novel Name: Wehshat E Ishqam
Writer Name: Pari Shah
Category: Complete Novel
"کس نے پکڑا ہے مجھے سامنے آؤ. ہمت ہے تو سامنے آؤ یوں چھپ کے وار کیوں کرتے ہو . میں کہتا ہوں سامنے آؤ ایک بار . کون ہو تم ..." تین دن بعد اس کے منہ کی پٹی کھلی تو وہ حلق کے بل چیخا
لیکن کوئی جواب نہ آیا اسکی آواز دیواروں سے ٹکرا کے واپس آ گئی اس کرسی پہ وہ ہل بھی نہیں سکتا تھا کیوں کے پوری کرسی پہ نوکیلے کیل لگے تھے ذرا سا بھی ہلتا تو نوکیلے کیل اسکو زخمی کر دیتے تھے تین دن سے اس کرسی پہ بندھا وہ بے حال ہو چکا تھا لیکن اسکو قید کرنے والا بہت ہی ظالم تھا
"میں پوچھتا ہوں کون ہو تم کیوں پکڑا ہے مجھے ....." اب تو چیخ چیخ کے گلے میں کانٹے چھبنے لگے تھے لیکن کوئی جواب نہ ملا
تین دن سے یہاں قید تھا لیکن کوئی بھی اسکو نظر نہ آیا تھا نہ پانی ملا تھا نہ کھانا ملا اس سفید کمرے کو دیکھ دیکھ کر اب اسکی آنکھیں خراب ہونے لگی تھی جہاں ہر طرف سفید ہی رنگ تھا بھوک پیاس سے بری حالت تھی اور اپنی ہی غلاظت میں تین دن سے پڑا وہ بہت ہی بری حالت میں تھا
"سامنے کیوں نہیں آ رہے کون ہو تم ....." پھر سے چیخا
"تمہاری موت ......" پیچھے ایک سرد آواز سنائی دی
"کون ہو تم . دیکھو چھوڑ دو مجھے جانے دو . ورنہ اچھا نہیں ہو گا تمھارے لئے تم نہیں جانتے میں کون ہوں اور کہاں تک پھنچ ہے میری ....." اپنی طرف سے اسنے دھمکی دی
"ہاہاہاہا ....." قہقہ کی آواز سن کے اسکی ریڑھ کی ہڈی سنسنا گئی لیکن پھر بھی خود کو مظبوط ثابت کرنے کو بولا
"دیکھو تم اچھا نہیں کر رہے میرے ساتھی تمہے چھوڑے گے نہیں ..."
"میری چھوڑو تم اپنی فکر کرو بہت کم وقت بچا ہے تمھارے پاس ...." آہستہ سے چلتا سامنے آ کے بولا
"کون ہو تم ...." لہجے کو سخت بنانے کی کوشش کی
"تمہارا باپ ...." چیئر سامنے رکھ کے بیٹھا
"کیسا لگ رہا ہے یہاں پہ رہ کے ...." مسکراہٹ سے پوچھا
"دیکھو جو بھی ہو مجھے جانے دو ورنہ بیسٹ تمہے چھوڑے گا نہیں .. آہ " بولتے ہوے ہلا تو نوکیلے کیل چبھ گئے
"اچھا جانتے ہو بیسٹ کو . کبھی دیکھا ہے ..." وہ ایسے مسکرایا جیسے کسی بچے کی بات پہ مسکراتے ہیں
"ہاں میں بیسٹ کا خاص آدمی ہوں وہ تمہے چھوڑے گا نہیں ...." لہجہ مظبوط بنانے کی کوشش کی لیکن سامنے والے بندے کی مسکراہٹ بہت خطرناک لگ رہی تھی
"اچھا لیکن میرا خاص آدمی تو یہ کھڑا ہے ...." اسنے اپنے پیچھے کھڑے ایک نوجوان کی طرف اشارہ کیا
"ک ک کون ہو تم ...." اب اسکو سچ میں اس انسان سے ڈر لگا جو دیکھنے میں تو کافی خوش شکل تھا لیکن اسکے تاثرات اس وقت اتنے سخت اور خطرناک تھے کے اسکی زبان لڑکھڑانے لگی
"بیسٹ ......" سرد ٹھرٹھرا دینے والی آواز سنائی دی
ساتھ ہی گھوشت جلنے کی سمیل آئ
"آہ . نہیں پلیز چھوڑ دو میں کسی کو کچھ نہیں کہوں گا ...." چلاتا ہوا بولا
ایک نظر اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا جو تیزاب سے جھلس چکا تھا
ابھی اس زخم کا درد کم ہوا نہ تھا کے اسنے اپنے ہاتھ میں پکڑا بلیڈ اسکے منہ پہ چلانا شروع کیا دھار کی طرح خون نکلا اور ساتھ اسکا چہرہ بھی خراب کر گیا
"جو بیسٹ کو ایک بار دیکھ لیتا ہے وہ دوبارہ دیکھنے کے لائق نہیں رہتا اور تمہارا تو جرم ہی بہت بڑا ہے .." ٹھنڈا سرد برف جیسا لہجہ تھا اسکا جس کو سن کے اگلا بندہ کانپ جائے
اتنا درد اور تکلیف تھی کے وہ چلا بھی نہیں پا رہا تھا
اسکا چہرہ اچھی طرح بگاڑنے کے بعد بلیڈ سے اسکے ہاتھوں اور بازوں کی جلد کاٹنی شروع کی اسکا بلیڈ ایسے چل رہا تھا جیسے کیک کاٹ رہا ہو فرش پہ خون کی ندی بہہ رہی تھی اور اب اس شخص کی دل دہلا دینے والی چیخیں پورے سیل میں گونج رہی تھی لیکن وہ اور اسکا خاص بندہ کان بند کیے ہوے تھے
اپنا کام پورا کیے پیچھے ہوا
"آگے کا کام پتا ہے نہ تمہے ....." بلیڈ سائیڈ پہ پھینکتا بولا
"یس باس ..." اسنے جلدی سے سر ہلایا
" دیکھ لو اس کو .." سخت خوفناک لہجے میں کہتا اسکی کرسی کو پاؤں سے ٹھوکر مارتا چلا گیا
اور پیچھے اسکی کرسی گرنے سے نوکیلے کیل اسکے جسم میں پیوست ہو گئے اور اسکی دل دہلا دینے والی چیخوں سے سیل کے در و دیوار ہل گئے لیکن وہاں کسی کو سنائی نہ دیا
سامنے کھڑے اس خاص آدمی نے بے تاثر چہرے سے اسکا بازو دیکھا جہاں لکھا تھا
im beast
🌹🌹🌹
موسم سرما کا آغاز تھا نرم سی دھوپ بھی اچھی لگتی تھی صدیقی ہاؤس کے گارڈن میں پھولوں کی مہک پھیلی ہوئی تھی پرندوں کے چہچانے کی آواز آ رہی تھی ساتھ ہی ایک میٹھی سی گنگناہٹ بھی سنائی دے رہی تھی
ڈرائینگ روم کی کھڑکی سے کھڑے ہو کے دیکھو تو سامنے ہی پھولوں کے درمیان ایک پیاری سی لڑکی کینوس پہ کچھ پینٹ کر رہی تھی ساتھ ہی ہلکا ہلکا گنگنا رہی تھی. اسکے لمبے بھورے بال صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سے اڑ کر بار بار اسکے چہرے پہ آ رہے تھے جسے وہ مسکرا کے اپنی نازک انگلیوں سے سمیٹتی. رنگ برنگے پھولوں کے درمیان وہ خود بھی پھول ہی لگ رہی تھی. کینوس کے ایک سائیڈ پہ ایک طوطا بیٹھا تھا .
مٹھو ... طوطا اپنی آواز میں بولا
"مجھے پتا ہے مٹھو کو بھوک لگی ہے بس یہ پینٹنگ پوری ہو گئی ہے دیکھو کیسی لگ رہی ہے ....." پینٹنگ کو فائنل ٹچ دیتی مسکرا کے پیچھے ہٹی
پینٹنگ پہ چاروں طرف پھولوں کے درمیان ایک لڑکی چل رہی تھی دیکھنے سے وہ ایک رئیل منظر ہی لگ رہا تھا بلا شبہ وہ اچھی پینٹر تھی
مٹھو ہلکا سا اڑ کے اسکے کندھے پہ بیٹھا
مٹھو اچھا ہے .... طوطا زور زور سے پر مارتے اپنی زبان میں بولا
"تھینک یو مٹھو چلو بابا کو دیکھاتے ہیں ...." مسکرا کے کہتی کینوس سے پیج اتار کے گھر کی طرف چلی گئی اور مٹھو اسکے پیچھے پیچھے اڑنے لگا اس کے پر پوری طرح نہیں کاٹے تھے اس لئے وہ تھوڑا بہت اڑ لیتا تھا
"بابا کہاں ہیں آپ دیکھیں میں نے ایک اور پینٹنگ بنائی ہے ...." عالیاب کہتی اپنے بابا کو یہاں وہاں دیکھنے لگی
"میں یہاں ہوں بیٹا ...." کچن سے زمان صدیقی کی آواز آئ
"بابا آپ یہاں کیا کر رہے ہیں کتنی بار منع کیا ہے آپکو کک بنا لے گی نہ ناشتہ پھر آپ کیوں آ جاتے ہیں ....." خفگی سے کہتی انکا ہاتھ پکڑ کے ہال میں لے گئی
"میرا بیٹا مجھے اچھا لگتا ہے آپ کے لئے کھانا بنانا ویسے بھی تو میں فری ہی ہوتا ہوں اس ٹائم ..." زمان صاحب محبّت سے اپنی لاڈلی کو دیکھ کر بولے جو ہو بہ ہو اپنی ماں زرین صدیقی کی کاپی تھی
"لیکن میرے ہوتے ہوے آپ کام کریں مجھے اچھا نہیں لگتا ... " عالیاب منہ پھلا کے بولی
"اوکے بیٹا جی اب میں نہیں کرتا کام آپ بس منہ ٹھیک کرو ...." زمان صاحب نے پیار سے اسکے بال سنوارے
اس گڑیا میں تو انکی جان بستی تھی یہی تو انکے جینے کی وجہ تھی ورنہ زرین کے بعد تو وہ ٹوٹ گئے تھے لیکن اپنی بچی کے لئے خود کو سمبھالا
"آپکو پتا ہے بابا میں نے نیو پینٹنگ بنائی ہے بہت پیاری ہے مٹھو کو بھی اچھی لگی بہت ...." بچوں کی طرح کہتے وہ بہت معصوم لگی
وہ تھی بھی معصوم اور نرم دل پری جیسی
"میرا بیٹا ہمیشہ سے بہت پیاری پینٹنگ کرتا ہے ...." زمان صاحب سراہے بنا رہ نہ سکے
"آپکو پتا ہے میں نے پوری دس پینٹنگ بنا لی ہیں اور پتا ہے میم کہتی ہیں میں بہت اچھی پینٹنگ بناتی ہوں ایک دن میں بہت بڑی پینٹر بنوں گی ..." عالیاب مسکرا کے اپنی پینٹنگ کلاس کی باتیں بتانے لگی
رات کو زمان صاحب کافی لیٹ آۓ تھے اس لئے وہ رات کو بتا نہ سکی ورنہ اپنے پورے دن کی روداد سنا کے ہی سوتی تھی
"انشاءلله میرا بیٹا .. اب آپ بتاؤ آپ نے نیکسٹ کیا سوچا ہے اب تو پیپر ہو گئے ..." زمان صاحب اسکو کندھے سے لگا کے بولے
"کیا اتنا پڑھنا کافی نہیں ہے مطلب میں نے تو پینٹر بننا ہے پھر اتنا سارا پڑھ کے کیا کروں گی ..... " عالیاب چہرے پہ بھرپور معصومیت سجا کے بولی
اسکی تو پڑھائی کے نام پہ جان جاتی تھی اللہ اللہ کر کے تو پیپر دیے تھے ایسا نہیں تھا کے وہ نکمی تھی پڑھائی میں بس اسکو پڑھنا اچھا نہیں لگتا تھا موٹی موٹی بکس دیکھ کر دماغ گھوم جاتا تھا ہمیشہ اچھے گریڈ ہی لاتی تھی لیکن پڑھائی سے بھاگتی تھی
"میرا بچا لوگ کیا کہے گے کہ اتنے بڑے بزنس مین کی بیٹی بس انٹر پاس ... پینٹر بننے کے لئے بھی بہت سارا پڑھنا پڑتا ہے ابھی آپ کی ایج ہی کیا ہے ابھی سے گھر کے کام تھوڑی کرنے ہیں آپ نے ...." زمان صاحب اسکو سمجھاتے ہوے بولے
"مٹھو بھوک .مٹھو چوری ..یاب بھوک کھانا ...." مٹھو کو اپنی پڑی تھی جو عالیاب کے کندھے پہ بیٹھ کے اسکے کان میں بول رہا تھا
"چپ کرو مٹھو کے بچے . لیکن بابا ابھی تو میں نے پیپر دیے ہیں ابھی پھر سے میں ایک سال بعد .." عالیاب مٹھو کو پیچھے ہٹاتی بے چارگی سے بولی
"بس میں نے کہہ دیا جیسے ہی آپکا رزلٹ اپنے یونی میں ایڈمشن لینا ہے ..." اب زمان صاحب تھوڑا سخت لہجے میں بولے جانتے تھے اب وہ مان جائے گی
"اوکے بابا ..." معصوم سی صورت بنا کے بولی
مٹھو کو ہاتھ میں اٹھایا اور ڈائیننگ کی طرف چلی گئی
"چلو مٹھو پیارے یہاں تو کوئی ہم سے پیار ہی نہیں کرتا ہم بھی اب کسی سے بات نہیں کرے گے ..." بھولی سی صورت بنا کے مصنوعی ناراضگی سے کہتی بیٹھ گئی اور مٹھو سے اپنا دکھڑا شئیر کرنے لگی
اور مٹھو اسکے ہاتھ سے نکل کر یاب یاب کرتا اسکے آگے پیچھے اڑنے لگا
زمان صاحب اپنی لاڈلی کی آہیں سنتے ہنس رہے تھے وہ صرف گھر میں ہی اتنا بول لیتی تھی ورنہ گھر سے باہر تو بہت چپ چپ رہتی تھی لوگوں سے گھبرا جاتی تھی گھر میں تو اسکی اور مٹھو کی بولتی بند نہیں ہوتی تھی
🌹🌹🌹
لندن
صبح کے چھ بجے پارک میں زیادہ لوگ جاگنگ کر رہے تھے آج موسم بھی کافی سرد تھا بارش کے امکانات تھے لیکن موسم سے بے نیاز لوگ اپنے کام میں مصروف تھے
اتنے میں ہی ایک نوجوان پارک کی بیک سائیڈ سے بھاگتا ہوا گیٹ کی طرف آیا سب اپنا کام چھوڑ کے اسکو دیکھنے لگے کان میں بلو ٹوتھ ڈیوائس لگاے وہ کسی سے بات کر رہا تھا بلیک ٹراؤزر اور ہاف بازو والی بلیک شرٹ سے اسکی کسرتی بازو نمایاں تھے کالے گھنے بال ماتھے پہ بکھرے ہوے تھے بھاگنے سے چہرہ سرخ ہو رہا تھا گہری کالی آنکھیں جو ہر تاثر سے پاک تھیں اور کالی ہی ہلکی ہلکی داڑھی تھی جو اسکی وجاہت میں اضافہ کر رہی تھی بلا شبہ وہ بہت ہی ڈیشنگ تھا اور کسی بھی لڑکی کا خواب ہو سکتا تھا
بات ختم کر کے ڈیوائس کان سے نکالی اور بینچ پہ بیٹھ کے اپنا چہرہ اور سر صاف کرنے لگا لڑکیاں دور سے ہی اس ہینڈسم کو دیکھ کر آہیں بھر رہی تھی.. لیکن اسکے چہرے پہ لگے نو لفٹ کے بورڈ کی وجہ سے کسی کی ہمت نہیں تھی کے پاس آے اسکی شخصیت میں ایک روعب تھا کے اگلا بندہ سوچ کے بولے ..
دو گھونٹ پانی کی حلق میں اتارنے کے بعد یہاں وہاں ایک سر سری سی نظر ڈالی اور چلا گیا سب جانتے تھے یہاں اسکو. روز کی اسکی یہی روٹین تھی روز آتا تھا یہاں لیکن کسی کو لفٹ نہیں کرواتا تھا. سب اس ہینڈسم رچ کو دیکھتے ہی رہ جاتے جو جہاں جاتا لڑکیوں کا دل دھڑکا دیتا تھا لیکن خود وہ گرلز الرجک تھا .
تھوڑا سا چلنے کے بعد ایک پیلس کے سامنے رکا جہاں باہر بڑا سا ماہ بیر پیلس لکھا ہوا تھا ماہ بیر پیلس اپنی پوری شان و شوکت سے کھڑا جگمگا رہا تھا موسم خراب ہونے کی وجہ سے ہلکا ہلکا اندھیرا تھا تو لائٹس ابھی تک چل رہی تھی گارڈ نے اسکو دیکھتے ہی فوراً گیٹ کھولا
"گڈ مارننگ مسٹر ماہ بیر .." گارڈ بول کے سائیڈ پہ ہو گیا
وہ سر ہلاتا اندر کی طرف بڑھ گیا
جیسے ہی انٹر ہوا سرونٹ نے جلدی سے نے بلیک کافی کا مگ پیش کیا ماہ بیر نےپہلے اسکو دیکھا پھر مگ کو
پھر اچانک ہی ہاتھ مار کر مگ گرا دیا چھناک کی آواز سے مگ ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا سرونٹ جلدی سے پیچھے ہوا
"کتنی بار کہا ہے کافی میں خود بنا لوں گا بس تم سامان نکل دیا کرو سمجھ نہیں آتی .." وہ بولا نہیں دھاڑا تھا
"سوری سر غلطی ہو گئی ..." سرونٹ کانپ گیا تھا آج جاگنگ سے لیٹ آنے کی وجہ سے اس نے کافی بنائی تھی
"گیٹ لاسٹ ..." زور سے کہتا کچن کی طرف گیا
وہ جتنا بھی بڑا بزنس ٹائیکون ہو اپنا کام خود کرتا تھا خاص طور پہ اپنا کھانا خود بناتا تھا پانچ منٹ میں کافی بنا کے پیتا اپنے روم کی طرف بڑھا
روم بھی کیا تھا جیسے کسی شہزادے کا ہو
وہ بھی کونسا کسی شہزادے سے کم تھا پیلس کو دیکھ کر ہی اندازہ ہو جاتا تھا وہاں رہنے والے کا ہر چیز اسکے اعلی ذوق کا منہ بولتا ثبوت تھی
روم میں داخل ہوا تو ایک سرونٹ نے اسکا سوٹ اور باقی سامان نکل کے رکھا تھا ایک نظر گھڑی کی طرف ڈالی اور فون پہ میل چیک کرنے لگا
پورے پانچ منٹ بعد فون رکھ کے واشروم میں بند ہو گیا
بلیک سوٹ میں بال جیل سے سیٹ کے ہاتھ میں برانڈڈ واچ پہنے کان میں بلو ٹوتھ ڈیوائس لگاۓ وہ تیار تھا ہمیشہ کی طرح ہینڈسم لگ رہا تھا بلیک رنگ اسکے سرخ و سفید رنگت پہ خوب جچتا تھا کوٹ پہننے کی بجاے ایک بازو پہ ڈال رکھا تھا جلدی جلدی سیڑھیاں اترتے وہ باہر کی طرف چلا گیا
اسکے جاتے ہی سرونٹس نے رکی ہوئی سانس بحال کی کوئی پتا نہیں چلتا تھا باس کے موڈ کا بھی کب خراب ہو اور کب انکی شامت آ جائے
"مامہ .. یاب مامہ آئ ..." حمامہ کو دیکھ کر مٹھو چیخ اٹھا
اپنی جگہ سے اٹھ کے جلدی سے عالیاب کے پاس پہنچا جانتا تھا جب حمامہ آتی تھی تو اسکو پاس بھی نہیں انے دیتی اپنی دوست کے
"اوے چل ہٹ یہاں سے میں نے کتنی بار بولا ہے تجھ سے جب میں آؤں تو میری دوست کے آس پاس بھی نظر نہ آیا کر ..." حمامہ نے اسکو اٹھا کے اسکی جگہ پہ بیٹھایا اور خود عالیاب کے گلے لگی جو ان کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی
"کیس ہو میری یاب جانی ..." حمامہ نے پیار سے اسکا گال چھوا
مٹھو بھی اس کو دیکھ کر ہی یاب سیکھا تھا عالیاب نے مٹھو کو بہت بولنا سیکھایا تھا تقریباً ہر بات کر لیتا تھا
عالیاب ہر بات اس سے کر لیتی تھی وہ بھی آگے سے بہت بولتا تھا عالیاب کا بہت لگاؤ تھا اس سے لیکن حمامہ اسکو اپنی دوست کے پاس دیکھ کر چڑ جاتی تھی
"کیا یار تم بھی ایک طوطے سے مقابلہ کر رہی ہو ..." عالیاب اسکو لے کے روم کی طرف بڑھی
مٹھو بھی اپنی یاب کے پیچھے پیچھے ہی تھا حمامہ نے اسکو گھور کے دیکھا تو وہیں رک گیا
"حمامہ میرے مٹھو کو ڈرا مت ..." عالیاب نے اسکو ٹوکا جو مٹھو کو آنکھوں سے ہی کھانے کا ارادہ رکھتی تھی
"ہاں بس ایک تو اور ایک تیرا مٹھو ہی معصوم باقی سارے تو ڈریکولہ ہیں ..." حمامہ منہ بنا کے کہتی دھپ سے صوفہ پہ بیٹھی
"جی بلکل بابا کہتے ہیں میں بہت معصوم ہوں .." عالیاب مٹھو کو سائیڈ پہ بیٹھاتی بولی
"ہاں اور بابا کی پرنسس اچھے بچوں کی طرح ہر بات مان جاتی ہے .." حمامہ نے چپس اٹھا کے منہ چلانا شروع کیا
"جی ..." عالیاب فرمابرداری سے بولی
"پتا نہیں تیرا کیا ہو گا خیر چھوڑ چل تو میرے ساتھ کچھ شاپنگ کرنی ہے تو بھی اپنی پینٹنگ کا سامان لے لینا .." حمامہ جلدی سے چپس ختم کرتی بولی
"لیکن ..." شاپنگ کے نام پہ عالیاب گھبرائی
"کوئی لیکن نہیں میں ہوں نہ چل اٹھ ..." حمامہ نے ہاتھ پکڑ کے اسکو کھڑا کیا
"یاب مٹھو ..." مٹھو بھی جلدی سے اسکے پاس آیا
"اوے مٹھو چل جا یہاں سے ہم تمہے نہیں لے کے جا رہے ..." حمامہ نے گھرکا تو وہ بیچارہ چپ کر کے واپس چلا گیا
🌹🌹🌹
لندن
پورے دس بجے لفٹ کا دروازہ کھلا پورا سٹاف الرٹ ہوا سب اپنے کام کو پوری غوروفکر سے کر رہے تھے
بلیک سوٹ میں اپنی ڈیشنگ پرسنیلٹی کے ساتھ ماہ بیر خان لفٹ سے نکل کے اپنے آفس کی طرف بڑھا سب نے اپنی گھڑیاں دیکھی مجال ہے جو یہ بندہ ایک منٹ بھی لیٹ ہو جائے پورے دس بجے آفس میں موجود ہوتا ہے
ایک نظر اردگرد سٹاف پہ ڈالتے اپنے آفس کی طرف بڑھ رہا تھا کے رکا ساتھ سٹاف کے سانس بھی رکے ضرور کسی کی شامت آنی تھی
"صفائی کس نے کی ہے یہاں کی .." سپاٹ چہرے سے پوچھا
"سر میں نے ..." ایک دبلاپتلا سا لڑکا سامنے آیا ابھی یہاں نیا تھا اس لئے اسکے سامنے آگیا ورنہ تو اسکے سامنے آواز ہی نہ نکلتی
"نظر ٹھیک ہے تمہاری ..." بڑے ضبط سے پوچھا
"جی سر بلکل ٹھیک ہے .." وہ مسکرا کے بولا
"تو پھر یہ نظر کیوں نہیں آیا تمہے . یہاں کام کرنا ہے تو آنکھیں کھلی رکھا کرو ورنہ کل سے انے کی ضرورت نہیں ہے ..." ایک ٹیبل پہ پڑا کاغذ کا بلکل چھوٹا سا ٹکڑا دیکھا کے بڑے ضبط سے بولا کہ ابھی اسکا پہلا دن ہے ورنہ اٹھا کے باہر پھینک چکا ہوتا
صفائی پسند ماہ بیر خان
"سر یہ تو اتنا سا ہے نظر بھی نہیں آتا ..." وہ لڑکا پھر بولا
سٹاف کو افسوس ہوا اسکے بولنے پہ
"آج میرے سامنے زبان کھولی ہے آئندہ ایسا کچھ ہوا تو کچھ بھی بولنے لائق نہیں رہو گے..ناؤ گیٹ لاسٹ .." دانت پیس کے بولتا آخر میں اتنی زور سے دھاڑا کے وہ لڑکا کانپ گیا
وہ لڑکا جلدی سے وہاں سے غائب ہوا
" بیک ٹو یور ورک .." ایک سخت نظر ان سب پہ ڈالی جو اپنا کام چھوڑ کے اسکو دیکھ رہے تھے
سب فوراً سے پہلے اپنی جگہ پہ گئے
دو بجے میٹنگ روم میں سب اکٹھے تھے اور دوسری کمپنی کے لوگوں کا ویٹ کر رہے تھے جیسے جیسے سیکنڈ گزر رہے تھے ماہ بیر کے ماتھے کے بلوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا سٹاف ممبر کبھی دروازہ دیکھتے اور کبھی ماہ بیر کو
کچھ منٹ بعد ہی دروازہ کھلا اور تین لوگ داخل ہوے
"جیک بیک اپ کرو ہم کوئی ڈیل نہیں کر رہے .." ماہ بیر اٹھتا بولا
"جی سر ..." جیک تو جیسے انتظار میں تھا
"لیکن کیوں مسٹر ماہ بیر خان .." آنے والوں میں سے ایک بولا
"میٹنگ کا کیا ٹائم تھا مسٹر ہیری ..." ماہ بیر جان چھڑانے والے انداز میں بولا
"دو بجے تھا .." ہیری حیران سا بولا
"اب دو بج کر پانچ منٹ ہو چکے ہیں پہلے تم وقت کی پابندی سیکھ لو پھر مجھ سے ڈیلنگ کے لئے آنا میں ان لوگوں کے ساتھ بلکل بھی کام نہیں کرتا جو وقت کی قدر نہیں کرتے .. تم نے پانچ منٹ ویسٹ کیے میں ان پانچ منٹ میں ایک ڈیل کر لیتا ہوں وقت برباد کرنے والے لوگ سخت برے لگتے ہیں مجھے آئندہ کام کرنا ہو تو وقت پہ آنا ورنہ ماہ بیر خان کو ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں ہے بزنس مین بعد میں بننا پہلے وقت پہ کہیں آنا سیکھ لو ...." اپنی عادت کے خلاف لمبی بات کرتا اسکو باور کروا چکا تھا کے اسکی ڈیل سے اسکو کوئی فرق نہیں پڑتا
ایک سخت نظر جیک پہ ڈالتا وہاں سے چلا گیا جیسے ساری غلطی جیک کی ہو
مسٹر ہیری کا چہرہ آہانت سے سرخ ہو گیا تھا اسنے ماہ بیر خان کے بارے میں سنا تھا کے وہ بہت ہی کھڑوس , اکڑو اور وقت کا پابند ہے لیکن اتنا ہو گا اسے اندازہ نہیں تھا
جتنا بڑا وہ لندن میں بزنس چلا رہا تھا ہیری اسکے سامنے کچھ بھی نہ تھا لندن میں بزنس کی دنیا کا کنگ تھا وہ
جیک نے انکو واپس بھیج دیا ہیری نے کافی اسرار کیا تھا ڈیل کرنے پہ لیکن جیک نے کہہ دیا کہ سر جو ایک بار منع کر دیں دوبارہ نہیں کریں گے
🌹🌹🌹
مٹھو کو گھر چھوڑ کے دونوں شاپنگ کے لئے نکلی عالیاب کی پینٹنگ کا سامان لے کے دونوں روڈ سائیڈ بنی دکانوں کی طرف آ گئی کیوں کہ حمامہ کو روڈ سائیڈ شاپنگ کرنے کا زیادہ مزہ آتا تھا عالیاب بھی گھبرائی سی اس کے ساتھ تھی اسکو ویسی ہی بھیڑ والی جگہوں سے ڈر لگتا تھا لیکن حمامہ اسکی ایک نہ سنتی تھی جہاں جاتی اسکو لے کے جاتی تھی
ابھی بھی عالیاب یہاں وہاں دیکھتی ڈری سہمی سی اسکے ساتھ چل رہی تھی حمامہ لیتی کم ہی تھی لیکن دیکھتی سب تھی اب بھی وہ ایک شاپ پہ کھڑی چوڑیاں دیکھ رہی تھی عالیاب کے لئے کیوں کے اسکو بہت پسند تھی کہ ایک لڑکے نے انکو دیکھ کر سیٹی بجائی
عالیاب ڈر گئی حمامہ نے اگنور کیا لیکن وہ باز نہ آیا پھر سے وہی حرکت کی
حمامہ کا دماغ گھوما
"ارے ایسے سیٹی کیوں بجا رہے ہو ساتھ گانا بھی گاؤ اور ڈانس بھی کرو پہلی بار لڑکی دیکھی ہے ..." حمامہ دانت پیس کے بولی
عالیاب کی جان پہ بن آئ وہ تو پہلے ہی بہت ڈری ہوئی تھی بھیڑ سے اب یہ لڑکا .. اسکی موٹی موٹی گرے آنکھوں میں آنسو آ گئے
"حمامہ چلو یہاں سے پلیز .." عالیاب نے بھرائی آواز میں کہتے اسکا ہاتھ ہلایا
جو اب لڑکے کو خونخوار نظروں سے دیکھ رہی تھی
"کیا ہوا اب چپ کیوں ہو گئے بولو پہلی بار تو لڑکی دیکھی ہے ہیں نہ .. کمینے انسان گھر میں بہن کو دیکھ کر بھی ایسے ہی کرتے ہو کیا .." حمامہ کو غصہ آ گیا
"دیکھو بہن کا نام مت لو .." لڑکا انگلی دیکھا کے بولا
"کیوں نہ لوں بہن کا نام . اپنی ماں بہن کے ساتھ بھی یہی کرتے ہو کیا جو دوسروں کی ماں بہن کے ساتھ کر رہے ہو . تم جیسے کمینوں کی تو پکڑ کے چھترول کرنی چاہیے . ارے اپنی بہن کو لے جاتے وقت تو لڑکوں کو بڑا پردہ یاد آتا ہے بہن کو دوست کے سامنے نہیں انے دیتے . دوست کے سامنے سے بہن کے ساتھ گزرو تو بہن کا سر جھکا دیتے ہو . دوسروں کی بہنوں کو دیکھ کر یہ کیا تکلیف پڑتی ہے تم لوگوں کو . کیا فرق ہے مجھ میں اور تمہاری بہن میں وہ بھی تو میرے جیسی ہو گی نہ کل کو کوئی اسکے ساتھ ایسا کرے تو کیا کر لو گے تم . اگر کسی کی عزت نہیں کر سکتے تو بے عزت بھی مت کرو . دنیا مکافات عمل ہے کسی کی بہن بیٹی کے ساتھ اتنا ہی کرنا جتنا اپنی بہن بیٹی کے ساتھ برداشت کر سکو اب تمیز سے یہاں سے کھسکو نہیں تو تم دوبارہ کچھ بولنے کے لائق نہیں رہو گے .." حمامہ جذباتی ہوتی آخر میں ہاتھ کا مکا دیکھا کے بولی
حمامہ کی بات سن کے وہ لڑکا بھی شرمندا ہو گیا تھا اور سوری بہن کہتا چلا گیا
"چلو یہاں سے .." کافی دیر سے اسکو بلاتی عالیاب جھنجھلا کے بولی
"کیا ہے بہی تمہے خود تو تم ڈرپوک ہو مجھے بھی کچھ کرنے نہیں دیتی تمہاری وجہ سے اسکو زبان سے سمجھا دیا ورنہ ایسا مزہ چکھاتی نہ ساری زندگی سیٹی بجاتے ہوے سو بار سوچتا .." حمامہ اسکو گھور کے بولی
عالیاب نے بے چارگی سے اسکو دیکھا اور آنکھوں سے ہی پلیز کا اشارہ کیا جانتی تھی وہ جو کہہ رہی کر بھی دے گی کیوں کے حمامہ باکسنگ چمپین تھی
اللہ اللہ کر کے حمامہ کی شاپنگ ختم ہوئی اور وہ دونوں گھر روانہ ہوئی تو عالیاب نے شکر کیا جتنی دیر وہ گھر سے باہر رہی اسکی سانس حلق میں ہی اٹکی رہی کے اب کچھ تب کچھ ہوا
حمامہ نے شکر کیا اس لڑکے نے کوئی بتمیزی نہیں کی ورنہ عالیاب کی تو طبیعت ہی خراب ہو جاتی اور پھر حمامہ کے لئے اسکو سمبھالنا مشکل ہو جاتا ایسا بہت کم ہوتا تھا لیکن جب بھی ہوتا تھا حمامہ اسکو سمبھال نہیں سکتی تھی
حمامہ جانتی تھی اپنی دوست کو اسی لئے وہ اسکو ساتھ لے کے آتی تھی کے اسکا ڈر ختم ہو اور باقیوں کی طرح نارمل رہے لیکن کوشش بیکار ہی رہی
گھر میں عالیاب بلکل بھی ڈری سہمی نہیں لگتی تھی بلکہ وہ گھر میں کافی بولتی تھی اور مٹھو کے ساتھ مل کے ہر کام کرتی تھی ابھی انٹر کے پیپر سے فری ہو کے اس نے پینٹنگ کرنا شروع کی تھی کرتی تو وہ بچپن سے تھی لیکن اب باقاعدہ ایک پینٹنگ کلاس بھی جوائن کی تھی اور حمامہ جس کو بچپن سے ہی باکسنگ کا شوق تھا اور دو سال پہلے وہ باکسنگ سیکھ کر کافی مقابلے بھی جیت چکی تھی
حمامہ عالیاب کے گھر کے ساتھ ہی رہتی تھی بچپن سے دونوں ساتھ تھی ایک دوسرے کی جان اور رازدار ہر وقت ساتھ ہی رہتی تھی حمامہ کا ایک بھائی تھا جو کے شادی شدہ تھا اور امریکا میں ہی رہائش پذیر تھا جب کبھی حمامہ جاتی امریکا تو عالیاب بہت اکیلی ہو جاتی تھی اسی لئے اسنے زمان صاحب سے ضد کر کے ہی مٹھو منگوایا تھا
زمان صاحب بھی بیٹی کی ہر خواھش پوری کرتے تھے انہوں نے عالیاب کو ماں اور باپ دونوں بن کے پالا تھا وہی تو انکے جینے کی وجہ تھی
🌹🌹🌹
سورج آہستہ آہستہ اپنے زوال کی طرف جا تھا تھا اور چاند کی ہلکی ہلکی جھلک نظر آ رہی تھی بہت دنوں بعد آج بارش کی وجہ سے موسم اچھا ہو گیا تھا
ایسے میں ہی اپنے گھر کی جم میں وہ نظر آ رہا تھا ٹریڈ مل پہ بھاگتا ہوا فل سپیڈ پہ ٹریڈ مل پہ بھاگتا وہ پسینے سے شرابور تھا لفٹ ہاتھ پہ بنا شیر کا ٹیٹو بھی اسکی طرح ہی دھاڑ رہا تھا
اتنے میں ہی دروازہ کھلا اور اسکا خاص آدمی چلتا ہوا اسکے پیچھے آ کے رکا بغیر پیچھے دیکھے ہی وہ جان گیا کے کون ہے اور اس کے علاوہ کسی اور کی ہمت بھی نہیں تھی اس وقت شیر کے منہ میں ہاتھ دے
ٹریڈ مل بند کر کے وہ رکا اور اپنا چہرہ صاف کیا اسکا خاص آدمی اسکو کچھ لوگوں کی انفارمیشن دے رہا تھا جو چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی کرتے تھے اور وہ بس خاموشی سے سنتا پنچنگ بیگ کی طرف گیا جو کچھ عجیب سا تھا جیسے کوئی بوری ٹائپ چیز ہو
بغیر گلوز کے اس نے باکسنگ شروع کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس بیگ سے خون نکلنا شروع ہو گیا اور عاقب (خاص آدمی ) بس دیکھتا ہی رہا کیوں کہ اسکو کام کے علاوہ کچھ بھی بولنے کی اجازت نہیں تھی اور ویسے بھی اس ٹائم بیسٹ کو جگانا مطلب اپنی موت کو دعوت دینا تھا
اب تو پنچنگ بیگ سے خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا لیکن وہ نہ روکا چہرے پہ چٹان جیسے سخت تاثر لئے اسنے ایک نظر دیکھا اور زور سے ایک مکا مار کے پیچھے ہو گیا
عاقب سمجھ گیا ضرور اس بیگ میں کوئی مجرم ہے اور اسکے سر اس وقت حد سے زیادہ خراب موڈ میں ہیں اس لئے کام کی بات بتا کر شرافت سے وہاں سے چلا گیا
عاقب کے جاتے ہی اس نے ایک نظر جم کے دروازے کو دیکھا چہرے کے تاثر بدلے ایک لمحے کو ایسا لگا جیسے وہ تکلیف میں ہے یا جیسے کسی کرب میں ہے لیکن اگلے ہی لمحے اس کے تاثر پہلے جیسے ہوے آنکھیں سرخ لال انگارہ ہو رہی تھی جیسے شولے نکل رہے ہوں
ایک زور کا مکا وہ پنچنگ بیگ کو مار کر وہاں سے نکلتا چلا گیا شاید کوئی زخم تازہ ہو گیا تھا
"نہیں پلیز چھوڑ دو .. نہیں کرو خدا کے لئے جانے دو پلیز چھوڑ دو .." وہ روتی ہوئی اس سے اپنی عزت کی بھیک مانگ رہی تھی لیکن وہ شیطان اسکی ہوس بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے
ادھر ادھر سر مارتی وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی پوری طرح پسینے میں شرابور تھی اور کانپ رہی تھی اپنے ہاتھ پاؤں ہلاتی وہ پیچھے ہو رہی تھی لیکن ایک آدمی نے آگے بڑھ کے اسکو پکڑ لیا
"نہیں پلیز چھوڑوو ... آہ... " وہ چلائی اور جھٹکے سے اٹھ بیٹھی
سانس بری طرح اکھڑی چکی تھی جیسے میلوں بھاگ کر آئ ہو اور دل کی دھڑکن حد سے زیادہ تیز تھی یہاں وہاں دیکھتی خود کو یقین دلانے لگی کے صرف خواب تھا یقین ہوا تو پھوٹ پھوٹ کے رو دی
"یا اللہ کب یہ خواب مجھے ازیت دینا چھوڑے گے .. اے اللہ ہمت دے میں اپنے ماضی کو بھول سکوں .." اللہ سے دعا کرتی بیڈ سے اٹھی اور باہر نکلی
دبے پاؤں وہ زمان صاحب کے روم تک گئی آہستہ سے دروازہ کھول کے دیکھا روم کی لائٹ آف تھی اور وہ گہری نیند میں تھے ان کو دیکھ کر پر سکون ہوتی واپس آ گئی
آہستہ سے چلتی واپس آئ اور بیڈ پہ چت لیٹ گئی نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی اب تو ویسے بھی نیند آنی نہیں تھی یہ تو پچھلے چار سالوں سے ہو رہا تھا آدھی رات کو ان خوابوں کی وجہ سے اس کی نیند اڑ جاتی تھی لیکن اس نے کسی کو نہ بتایا تھا زمان صاحب پہلے کی اسکی وجہ سے بہت پریشان رہتے تھے وہ مزید انکو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی
اس وقت کہیں سے بھی وہ عالیاب نہیں لگ رہی تھی جو دن میں مٹھو کے ساتھ مل کے شرارت کرتی تھی اور بابا کو تنگ کرتی تھی اسکی آنکھوں اور چہرے پہ رقم کرب سے اسکی تکلیف کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا لیکن صبح ہوتے ہی وہ خود پہ ہنسی کی خول چڑھا لیتی تھی کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی معصوم ڈرپوک سی لڑکی ہے اپنے ماضی کو بھلانے کی لاکھ کوشش کے بعد بھی یہ خواب اسکا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے بہت کوشش کے بعد بھی کچھ نہ ہوتا تو رو دیتی تھی
خود کو پرسکون کرتی آنکھیں بند کر گئی لیکن نیند کا نام و نشان بھی نہ تھا
🌹🌹🌹
لندن
آج کچن سے کھٹ پٹ کی آوازیں آ رہی تھی اور اشفاق صاحب ڈائیننگ پہ بیٹھے مسکرا رہے تھے انکا پوتا ان کے ساتھ تھا اور خود ان کے لئے کھانا بنا رہا تھا
"اگر بندہ ٹائم پہ شادی کر لے تو یہ زنانے کام تو نہ کرنے پڑے .." مین ڈور سے کسی کی آواز آئ
اشفاق صاحب کی مسکراہٹ گہری ہوئی
"پہلے خود تو کر لو پھر کسی اور کو بھی مشورہ دے دینا .." ماہ بیر کچن سے بولا
"ویسے گرینڈ پا آپ کو نہیں لگتا اب اس ہینڈسم کھڑوس کو شادی کر لینی چاہیے کب تک آپ اس کے ہاتھ کے بنے بد ذائقہ کھانے کھاتے رہے گے ..." حاشر ایک نظر کچن کو دیکھتا زور سے بولا
"میں تو کب سے کہہ رہا ہوں لیکن مجھ بوڑھے کی سنتا کون ہے یہاں ..." گرینڈ پا بھی اسی کے انداز میں بولے
ماہ بیر انکی باتیں سنتا مسکرا رہا تھا اگر کوئی آفس کا ممبر اسکو مسکراتے ہوے دیکھ لیتا تو ضرور غش کھا کے گر جاتا
"تم کیوں نہیں کر لیتے شادی .." ایپرن اتار کے ماہ بیر اسکے پاس آیا
"میں نے قسم کھائی ہے جب تک تیری شادی نہیں ہو جاتی میں گھوڑی نہیں چڑھوں گا اور ویسے بھی میں کسی سیدھی سادھی پاکستانی لڑکی سے شادی کروں گا یہاں کی گوریاں ساری تو تجھ پہ فدا ہیں ..." حاشر شرارت سے بولا
"او کم اون یار میں ابھی شادی نہیں کر رہا ویسے بھی مجھے ابھی کوئی ایسی ملی نہیں ہے جو میرے دل کو اچھی لگی ہو ساری تو یہاں ایک جیسی میک اپ کی دکانیں ہیں .." ماہ بیر ناگواری سے بولا
اسکو میک اپ کرنے والی لڑکیاں زہر سے بھی زیادہ بری لگتی تھیں
"تو پھر دی گریٹ ماہ بیر خان آپ بتانا پسند کریں گے کے آپکو کیسی لڑکی پسند ہے .." اب گرینڈ پا بولے تھے
ویسے تو وہ ماہ بیر کے ساتھ بلکل دوستوں کی طرح ہی رہتے تھے لیکن کبھی کبھی اسکی شادی نہ کرنے والی ضد سے چڑ کر ہی اسکو اس طرح مخاطب کرتے تھے
"پلیز ناٹ آگین گرینڈ پا .. میں یہاں موڈ فریش کرنے آتا ہوں لیکن آپ دونوں وہی ایک ہی ٹوپک پکڑ کے بیٹھ جاتے ہیں .. کریں آپ بات جا رہا ہوں میں .." ماہ بیر خراب موڈ میں کہتا جانے لگا
"اچھا اچھا معذرت میرے یار نہیں کر رہے ہم شادی کی بات .." حاشر نے اسکو پکڑ کر واپس بیٹھایا
بارہ سال سے لندن میں رہتے ہوے اسکا صرف ایک ہی دوست تھا حاشر جو ایک بزنس مین کے ساتھ بہترین ہیکر بھی تھا لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے تھے حاشر بھی پاکستانی تھا لیکن پرنٹس کی ڈیتھ کے بعد اپنے چچا کے ساتھ لندن آ گیا تھا یہیں اسکو ماہ بیر ملا تھا جو کہ ایک اکڑو اور کھڑوس انسان تھا لیکن حاشر نے بھی دوستی کر لی تھی اور اس دوستی میں بھی حاشر کا ہی ہاتھ تھا کیوں کے ماہ بیر لوگوں سے دور ہی رہتا تھا صرف بزنس کے لئے ہی اسکا لوگوں سے تھوڑا بہت تعلق تھا
ماہ بیر پیلس کے بلکل سامنے ہی خان ہاؤس تھا جہاں اشفاق خان رہتے تھے ایک چھوٹا مگر خوبصورت اور صاف ستھرا بنگلہ تھا اشفاق صاحب کو بڑے گھر میں رہنے کی عادت نہیں تھی اور نہ ہی وہ اکیلے اتنے بڑے پیلس میں رہ سکتے تھے اس لئے وہ اپنے بیٹے کے گھر میں شفٹ ہو گئے تھے ماہ بیر روز شام کو آفس سے واپسی پر یہیں آتا تھا اور ڈنر کرنے کے بعد ہی جاتا تھا
اپنی بزی لائف سے وہ ان دونوں کے لئے وقت ضرور نکالتا تھا آفس میں نظر انے والا کھڑوس ماہ بیر یہاں کچھ اور ہی ہوتا تھا صرف یہی دو لوگ تھے جو ماہ بیر کی فیملی تھے ان کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتا تھا پہلے ہی بہت کچھ کھو چکا تھا لیکن اب انکو کھونا نہیں چاہتا تھا
"کہاں کھو گئے بیٹا .." گرینڈ پا نے اسکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا
اپنا پوتا انکو بھی جان سے عزیز تھا
"کچھ نہیں گرینڈ پا .. تم بتاؤ کیسے چکر لگا لیا آج .." سوچوں کو جھٹک کر گرینڈ پا سے کہتا حاشر کی طرف مڑا
"ہاں وہ ایک کام تھا تجھ سے .." حاشر کچھ توقف سے بولا
"ہاں بول .." ماہ بیر کہتا اٹھا اور کھانا لگانے لگا
" جو تو نے اس دن میٹنگ کینسل کی ہے وہ دوبارہ کر لے یہ پروجیکٹ ہمارے لئے فائدہ مند ہو سکتا ہے ..." حاشر سنجیدہ سا بولا
"دیکھ حاشر تجھے پتا ہے میں جس بات سے ایک بار منع کر دیتا ہوں وہ دوبارہ نہیں کرتا اور اس طرح کے کسی پروجیکٹ سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اب یہ بات دوبارہ نہ ہو .." ماہ بیر نے آخر میں وارننگ دی
یہ بات حشر نے کی تھی اگر کوئی اور ہوتا تو اب تک اچھی خاصی کروا چکا ہوتا
حاشر سمجھ کے سر ہلا گیا
"جو میٹنگ پاکستانی کلائنٹ سے تھی وہ کب آ رہے ہیں ..." گرینڈ پا کو سرو کر کے خود بھی کھانے کی طرف متوجہ ہوا
"تین دن بعد .." حاشر مختصر سا بولا
"تم دونوں اپنا آفس بند کرو اور چپ چاپ کھانا کھاؤ ..." گرینڈ پا نے ڈپٹا
"ویسے ہینڈسم تم نے بتایا نہیں کیسی لڑکی سے شادی کرو گے .." حاشر مسکراہٹ دبا کے بولا
حاشر خود بھی بہت ہینڈسم تھا لیکن ماہ بیر کو روز بتانا ضروری تھا جس سے وہ چڑتا تھا
"کیا تمہے اپنے دانت پیارے نہیں ہیں ..." ماہ بیر نے مکا دیکھایا
"گرینڈ پا آپ پوچھے نہ ..." حاشر نے مدد مانگی
"بتا دو بیٹا ہم کونسا تمہے ابھی شادی کے لئے کہہ رہے ہیں صرف پسند ہی پوچھ رہے ہیں ..." گرینڈ پا نرمی سے مسکراۓ
"مجھے زیادہ کچھ نہیں چاہیے بس جو مجھے پہلی نظر میں اچھی لگی میں صرف اسی سے شادی کروں گا ..." ماہ بیر بھی مسکرا کے بولا
"ویسے اگر تم آفس میں بھی ایسے ہی مسکرا کے بات کر لو گے تو کوئی ٹیکس نہیں لگے گا .. گرینڈ پے پتا ہے آپکو یہ آفس میں بلکل ڈیول بنا ہوتا ہے جیسے بات کرنے والے کو کھا جائے گا ..." حاشر نے چھوٹا سا طنز کیا
"حاشرر ...." ماہ بیر نے ایک لفظ بولا
"اچھا بہی کیا ہے تم تو مرنے مارنے پہ آ جاتے ہو .." حاشر برا سا منہ بنا کے بولا
گرینڈ پا دونوں کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے یہی انسان ماہ بیر کو ہنسا سکتا تھا ورنہ وہ تو مسکرانا ہی بھول گیا تھا پورے دن میں یہی وہ وقت ہوتا تھا جب وہ مسکرا کے بات کرتا تھا ورنہ تو منہ سے شولے نکل رہے ہوتے تھے
"ویسے آپس کی بات ہے اگر وہ لڑکی شادی شدہ ہوئی تو ..." حاشر کی زبان پھر پھسلی
"تو پھر میں اسکو بیوہ کر دوں گا .." ماہ بیر خطرناک لہجے میں کہتا کافی بنانے چلا گیا
حاشر کا نوالہ گلے میں ہی اٹک گیا
اتنے خطرناک جواب کی امید نہیں تھی اسکو
"گرینڈ پا کیا آپ چنگیز خان کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں .." حاشر نے مشکوک لہجے میں پوچھا
گرینڈ پا اس کی بات سن کے ہنس پڑے
ہنسی تو ماہ بیر کو بھی تھی لیکن کنٹرول کر گیا
"حاشر میں سب سن رہا ہوں ..." ماہ بیر مصنوعی غصے سے بولا
"ہاں جی پتا ہے آپ کے ہاتھی جتنے بڑے کان سب سن سکتے ہیں .." حاشر برا منہ بنا کے چپ ہوا
🌹🌹🌹
"مٹھو پتا ہے میں نے فیصلہ کیا ہے کے میں روز بابا کے لئے ناشتہ خود بنایا کروں گی .." عالیاب ایک ہاتھ پہ مٹھو کو بیٹھاۓ اس سے باتیں کرتے کچن کی طرف گئی
یہ الگ بات ہے اسکو چاۓ بھی نہیں بنانی آتی تھی
"ہاں مٹھو چوری ..." مٹھو کو چوری یاد آئ
"ایک تو تمہے ہر وقت کھانے کی پڑی رہتی ہے .." عالیاب چڑ کے کہتی اسکو بیٹھا کے فریج کی طرف گئی
فریج سے اسکو ایک مرچ دی اور دودھ نکال کے چاۓ بنانے لگی
"تمہے پتا ہے حمامہ نے کل ایک لڑکے کی بینڈ بجا دی ..جب ہم حمامہ کی آنٹی کے گھر سے واپس آ رہے تھے تو راستے میں ایک لڑکا ایک لڑکی کو اپنے ساتھ لے جا رہا اور وہ لڑکی رو رہی تھی پھر حمامہ نے اس لڑکے کو زور سے دو پنچ مارے اور وہ بیچارہ گر گیا .. ہم نے سمجھا وہ اسکو کڈنیپ کر رہا ہے لیکن پھر پتا چلا وہ تو اسکا بھائی ہے ..." عالیاب کہتی منہ پہ ہاتھ رکھ کے ہنس پڑی
مٹھو زور زور سے سر ہلانے لگا جیسے سب سمجھ آ رہا ہو
چاۓ چولہے پہ رکھ کے مٹھو سے باتیں کرنے لگی تھوڑی دیر بعد کچھ جلنے کی سمیل آئ
عالیاب پلٹی
چاۓ ابل کر گر چکی تھی اور چولہے کے پاس پھیل گئی تھی عالیاب نے جلدی سے چولھا بند کیا
"شکر ہے ساری نہیں گری .." عالیاب نے شکر کرتے اسکو الگ برتن میں نکالا
چاۓ ٹھیک کر کے انڈا بنایا شکل سے تو ٹھیک ہی لگ رہا تھا ساتھ ٹوسٹ نکلالے اور ٹرے میں سجا کےڈائیننگ ٹیبل پہ لے گئی پیچھے کچن کی حالت کافی نازک ہو گئی تھی
زمان صاحب تیار ہو کے نیچے آۓ تو وہ سامنے ہی بیٹھی مٹھو کو ایک ہاتھ سے چوری کھلاتی ( جو بوا نے بنائی تھی ) اس سے باتیں کر رہی تھی زمان صاحب مسکراۓ
"السلام و علیکم بیٹا جی ..." زمان صاحب نے مسکرا کے اسکا ماتھا چوما اور اپنی جگہ پہ بیٹھے
"وعلیکم سلام بابا آج میں نے خود آپ کے لئے ناشتہ بنایا ہے .." عالیاب نے چہکتے ہوے بتایا رات والی کسی تکلیف کا چہرے پہ شائبہ تک نہیں تھا
"بہت شکریہ بیٹا جی لیکن آپ نے کیوں بنایا بوا بنا لیتی .." زمان صاحب نے کہتے ناشتے کو دیکھا
"میرا دل کر رہا تھا آج میں اپنے بابا کے لئے ناشتہ بناؤں .." عالیاب معصوم سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی
مٹھو چوری کھا کے نیچے اترا اور اپنے گھر کی طرف چل پڑا جو کے باہر لان میں تھا
"شکر ہے تمہے بھی کچھ بنانے کا خیال آیا ورنہ مجھے تو لگا تھا کے اگلے گھر جا کے ساس کے جوتے ہی کھاۓ گی .." حمامہ شرارت سے کہتی اسکے پاس ہی بیٹھ گئی
"نہیں جی میں بابا کو چھوڑ کے کہیں نہیں جاؤں گی ..." عالیاب اسکو دیکھ کر بولی
"کیوں نہیں جاؤ گی کیا ساری زندگی ہمارے سر پہ ہی بیٹھی رہو گی نہیں بہی ہم نہیں رکھے گے تمہے جاؤ اپنے سسرال اور اپنے شوہر کا سر کھاؤ اور اسکو یہ اپنے تجربے کھلاؤ ..." حمامہ سنجیدگی سے بولی لیکن آنکھوں میں شرارت تھی
"بابا میں نہیں جاؤں گی آپ اسکو بولو نہ .." عالیاب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے
"میرا بچا ٹھیک کہہ رہا ہے حمامہ تم تنگ نہ کرو ..." زمان صاحب مصنوعی غصے سے بولے
"انکل مجھے آپکا یہ معصوم ڈر پوک بچا بلکل نہیں پسند لیکن پھر بھی لوو یو یارا ..." حمامہ نے اسکے گلے میں ایک ہاتھ ڈال کے اسکو زور سے گلے لگایا
زمان صاحب اسکی بات پہ ہنس پڑے
"ہٹو پیچھے میں نہیں بولتی ..." عالیاب ناراضگی سے کہتی اسکے ہاتھ ہٹا کے چلی گئی
"ہاہاہاہا نہ بول میں خود بول لوں گی .." حمامہ ہنسی
اسکے جاتے ہی زمان صاحب کے چہرے پہ پریشان آئ جو حمامہ نے با خوبی دیکھی
"کیا ہوا انکل آپ پریشان ہو گئے ..." حمامہ نے اسکو دیکھ کر پوچھا
"تم سے کیا چھپانا بیٹا تم تو سب جانتی ہو کل رات بھی عالیاب بری طرح ڈر گئی تھی یہ خواب اسکا پیچھا نہیں چھوڑ رہے روز رات کو میری بچی اسی تکلیف میں ہوتی ہے مجھ سے اسکی یہ حالت نہیں دیکھی جاتی وہ سمجھتی ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا لیکن باپ ہوں اپنی بچی کی ہر تکلیف جانتا ہوں لیکن بہت بے بس ہوں کچھ کر بھی نہیں سکتا ..." زمان صاحب کی آواز بھرا گئی
"کچھ نہیں ہو گا انکل آپ دعا کریں اللہ نے چاہا تو ہماری عالیاب ضرور ٹھیک ہو گی .." حمامہ نے تسلی دی
زمان صاحب نے سر ہلایا اس ذات کے سوا کوئی اور سہارا بھی نہ تھا
"میں اسکو دیکھتی ہوں .." حمامہ کہتی لان کی طرف گئی
زمان صاحب نے گہری سانس لیتے ناشتے کی طرف دیکھا تو لب مسکراۓ
🌹🌹🌹
رات کے وقت جب پورا لاہور سویا ہوا تھا ایسے میں یہ جگہ کافی روشن لگ رہی پاس جا کے دیکھو تو یوں لگ رہا تھا جیسے ویرانے میں کوئی جشن کیا جا رہا ہو
ویران سی حویلی میں لائٹس جگمگا رہی تھی اور وہاں بیٹھے سات لوگ حرام مشروب سے لطف اندوز ہوتے قہقے لگا رہے تھے اندر سے کچھ بچوں کی چیخوں کی آواز آ رہی تھی لیکن وہ اپنے کان بند کیے ہوے تھے
یہاں سے کچھ دور رات کی خاموشی کی گاڑی کے ٹائر کی آواز نے چیرا بھری بوٹوں کی دھمک سنائی دی تین لوگ تھے دو ایسے ہی تھے لیکن ایک نے چہرے پہ ہڈی کی ہوئی تھی
وہ سات لوگ ابھی پوری طرح نشے میں نہیں ڈوبے تھے اسی لئے انے والوں کو دیکھ لیا تھا اور ہڑبڑا کے کھڑے ہوے
"ارے کھڑے کیوں ہو گئے بیٹھو اور مزے کرو ساتھ ہمیں بھی کرواؤ ..." ہڈی میں چپے چہرے نے بڑے ہی دوستانہ لہجے میں کہا
پچھلے دونوں نے ہنسی چھپائی
"س س سوری غلطی ہو گئی آئندہ نہیں کریں گے ..." ایک آدمی ہکلا کے بولا
شاید نہیں یقیناً سامنے والے بندے کو پہچان چکے تھے
"بیسٹ کی ڈکشنری میں معافی جیسا کوئی لفظ نہیں ہے ..." سرد لہجے میں کہتے پچھلے دونوں کو اشارہ کیا
وہ دونوں جلدی سے آگے بڑھے اور ان سب کو پکڑ کر ایک جگہ باندھ دیا نشے کی وجہ سے وہ زیادہ مذاحمت نہ کر پاۓ
بیسٹ نے انکی ہی بوتلوں کو ان پہ خالی کیا اور اپنا لائٹر نکال کے ان پہ جلا کے پھینک دیا چند منٹ میں ہی انکی دل دہلا دینے والی چیخیں سنائی دی لیکن ویرانے میں کون سنتا ہے
بیسٹ وہیں ہاتھ سینے پہ باندھے کھڑا اطمینان سے انکو دیکھ رہا تھا جب کے دوسرے دونوں اندر گئے اور وہاں سے بچوں کی نکل کر لاۓ جو بہت ہی قابل رحم حالت میں تھے
یہ لوگ چھوٹے بچوں اور بچیوں کو اغوا کر کے ان کے ساتھ زیادتی کرتے اور اگر کوئی بچا بچ جائے تو اسکو آگے بیچ دیتے تھے
"دیکھو کس کس نے گمشدگی کی رپورٹ لکھوائی ہے .جس نے لکھوائی ہے انکے بچے گھر بھیج دو اور باقیوں کو دارلامان بھیج دو ..." سنجیدگی سے کہتا وہ وہاں سے چلا گیا
وہ دونوں یس سر کہتے اپنا کام کرنے لگے
لندن
آج ماہ بیر خان کے لئے ایک پارٹی ارینج کی گئی تھی لندن کے سب سے بڑے ہوٹل میں لندن کی بڑے بڑے بزنس مین اور دوسری جانی مانی ہستیاں بھی آج کی پارٹی میں شرکت کرنے والی تھی
لندن کی بزنس لیڈی مس جولیا نے یہ پارٹی ارگنائز کی تھی ماہ بیر ایسی پارٹی کبھی کبھار اٹینڈ کر لیتا تھا اور آج بھی جا رہا تھا کیوں کے حاشر نے جانے سے منع کر دیا تھا
وینیو پہ پہنچتے ہی ماہ بیر کو سامنے ہی جولیا نظر آ گئی تھی وہ اسی کے انتظار میں تھی
"ہیلو مسٹر ماہ بیر .." جولیا کافی محبّت سے اسکی طرف بڑھی اور گلے لگنے لگی
"ہیلو " اس کے برعکس ماہ بیر نے کافی رکھائی سے جواب دیا اور تھوڑا سا پیچھے ہو کے صرف ہاتھ آگے کیا
جولیا کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑا لیکن پھر سمبھل کے مسکرائی پاس کھڑے کچھ لوگوں کے چہروں پہ بڑی طنزیہ مسکراہٹ تھی بزنس ورلڈ میں سب جانتے تھے کے جولیا شروع سے ہی ماہ بیر کے پیچھے تھی لیکن ماہ بیر بھی اپنے نام کا ایک تھا اسکو گھاس بھی نہیں ڈالتا تھا اور اگر کبھی زیادہ اریٹیٹ ہو تو اسکی سب کے سامنے اچھی خاصی کر بھی دیتا تھا لیکن وہ بھی ڈیٹھ تھی پھر بھی باز نہیں آتی تھی ماہ بیر کے قریب جانے کا کوئی موقع چھوڑتی نہیں تھی
"کیسے ہیں مسٹر ماہ بیر .." جولیا پھر بولی
"الحمدوللہ میں بہت اچھا ہوں .." ماہ بیر نے اپنے ازلی بے نیاز انداز میں جواب دیا
جولیا جو توقع کر رہی تھی کے وہ اس سے بھی خیریت پوچھے گا اسکے چپ کرنے پہ بہ مشکل مسکرائی
صرف دو منٹ ان کے ساتھ کھڑے ہونے کے بعد ماہ بیر دوسرے گیسٹ کے پاس چلا گیا جب کے جولیا غصے سے مٹھیاں پینچ کر رہ گئی
جولیا ایک تیس سال کی برٹش لیڈی تھی لیکن ابھی تک شادی نہیں کی تھی دس سال پہلے جب ماہ بیر بزنس کی دنیا میں آیا تو جولیا اسی وقت سے اس کے پیچھے تھی پہلے بھی اسکے کافی افیئر رہ چکے تھے وہ تھی بھی خوبصورت کے مرد خود اسکی طرف اٹریکٹ ہوتے تھے اسی بات کا اسکو غرور تھا لیکن ماہ بیر اسکے لئے ایک چکنا گھڑا ثابت ہوا تھا
جولیا بہت کوشش کر چکی تھی لیکن ماہ بیر ایک غلط نگاہ اس پہ نہ ڈالتا تھا جس کی وجہ سے اب ماہ بیر اس کے لئے ایک چیلنج بن گیا تھا اور وہ ہر حال میں اسکو جیتنا چاہتی تھی
"کیا ہوا جولیا چھوڑ دو اسکا پیچھا وہ ایک مسلم ہے اور کبھی بھی تمہارا نہیں ہو سکتا .." مسز ڈیوڈ جو کے جولیا کی دوست تھی وہ بولی
"ایسا کچھ نہیں ہے جو جولیا نے حاصل نہ کیا ہو چاہے یہ مسلم ہے یہ کچھ اور لیکن اس کو میرا ہونا پڑے گا میں اس کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہوں ..." جولیا ماہ بیر کی چوڑی پشت دیکھتی بولی جو کچھ لوگوں کے ساتھ کھڑا سنجیدہ سا کچھ کہ رہا تھا
"دس سال سے تم اس کے پیچھے ہو لیکن ایک بار بھی اس نے تم سے تمیز سے بات نہیں کی اور تم ہو جو ہر وقت اس کے پیچھے رہتی ہو .." مسز ڈیوڈ کو جولیا کا یہ سب بلکل پسند نہیں تھا
"وٹ ایور .. مجھے وہ ہر قیمت پہ چاہیے .." جولیا غصے سے بول کے چلی گئی
پوری پارٹی میں ماہ بیر چھایا ہوا تھا لیکن ماہ بیر کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا وہ اس سب کا عادی تھا پارٹی میں اسکو انٹرسٹ نہ تھا لیکن یہ سب اب چھوڑ بھی نہیں سکتا تھا
"اوکے مس جولیا اب میں چلتا ہوں کچھ کام ہے مجھے ..." ماہ بیر کچھ وقت تک ہی یہ سب برداشت کر سکا اور گھڑی دیکھتا بولا
"لیکن مسٹر ماہ بیر ابھی تو زیادہ وقت بھی نہیں ہوا اور آپ اتنی جلدی جا رہے ہیں .." جولیا ایسے بولی جیسے دونوں کا تعلق بہت خوشگوار ہو
"مجھے ضروری کام ہے .." ماہ بیر فارمیلٹی کے لئے بولا
ورنہ دل تو کر رہا منٹ سے پہلے یہاں سے چلا جائے خاص کر اس جولیا سے دور
"او ٹھیک ہے جلد ہی ملے گے .." جولیا نے مسکرا کے ہاتھ بڑھایا
"اللہ نہ کرے .." ماہ بیر اردو میں بولا
"جی آپ نے کچھ بولا .." جولیا کو سمجھ نہ آئ
" نہیں .." ماہ بیر زبردستی بولا
اور لمبے لمبے ڈاگ بھرتا چلا گیا
جولیا کی نظروں نے دور تک اسکا پیچھا کیا
🌹🌹🌹
عالیاب آج گھر میں بہت بور ہو رہی تھی حمامہ رات کو اسکے ساتھ ہی رکی تھی اور صبح ہی واپس گئی تھی اور مٹھو صاحب نے کل زیادہ مرچ کھا لی تھی تو اسکی طبیعت ناساز تھی
صبح تو بوا کے ساتھ تھوڑی باتیں کر لی تھی اور ان کے ساتھ تھوڑا کام بھی کروا لیا تھا لیکن اب بوا بھی اپنے کواٹر میں چلی گئی تھی اور اب عالیاب بلکل اکیلی تھی آج پینٹنگ کلاس بھی نہیں گئی تھی
آخر تھک ہار کے وہ پینٹنگ کرنے لان میں آ گئی کینوس پہ اپنی انگلیوں سے سے ہی رنگ بکھیرنے شروع کر دیے لیکن آج اس میں بھی دل نہیں لگ رہا تھا پھر بھی کر رہی تھی
ابھی وہ پینٹنگ کر رہی تھی کہ یکا یک کینوس کے رنگ بدلے اور اس میں ایک لڑکی نظر آنے لگی جس کہ چہرے پہ ڈر خوف اور تکلیف تھی اور دو آدمی اسکی طرف بڑھ رہے تھے لیکن وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں پا رہی تھی
عالیاب کے ہاتھوں سے پینٹ باکس نیچے گرا اور رنگ گھاس پہ بکھر گئے چہرے پہ خوف اذیت کے تاثر ابھرے آنکھوں میں آنسو آۓ اور وہ وہیں نیچے بیٹھتی گئی پلکوں پہ ٹھہرے آنسو گالوں پہ بہہ نکلے
"نہیں نہیں پلیز نہیں چھوڑو جانے دو ..چھوڑووو .." کانوں پہ ہاتھ رکھے وہ چلائی
روتی سسکتی وہیں گھاس پہ جھک گئی
حمامہ جو اسکو دیکھنے ٹہلتی آ رہی تھی چیخ سن کے بھاگی سامنے ہی اسکی جانِ عزیز نیچے بیٹھی روتی ہوئی بے حال تھی حمامہ جلدی سے اسکے پاس پہنچی
"عالیاب میری جان کیا ہوا کیوں رو رہی ہو عالیاب یہاں دیکھو میری جان کیا ہوا کسی نے کچھ کہا ..." حمامہ نے جلدی سے اسکو گلے لگایا
اسکا سہارا پاتے ہی عالیاب بکھر گئی زور زور سے روتی سسکتی اسکا بھی دل دہلا رہی تھی
"بتاؤ میری جان کیا ہوا کسی نے کچھ کہا ہے بتاؤ میں ابھی اسکو ٹھیک کرتی ہوں .." حمامہ خود کو کنٹرول کرتی بولی ورنہ اسکی حالت دیکھ کر اسکی آنکھیں بھی بھیگ چکی تھی
"ک..کیوں کیا م.میرے ساتھ ایسا م.میں نے ک. کیا بگاڑا تھا ک.کسی کا میں نے تو کسی کا ب برا نہیں سوچا تھا پھر ک کیوں کیا . ان انکو رحم نہیں آآیا مجھ پہ کتنی م منت کی تھی لیکن .. " تکلیف حد سے زیادہ ہوئی تو دل کا غبار پہلی بار باہر نکالا
روتی بلکتی عالیاب اپنے ساتھ اسکو بھی رلا گئی
"بس کر میری جان اللہ ضرور انکو سزا دے گا جس کی وجہ سے تو اذیت میں ہے بس کر مت رو کر خود کو ہلکان کر ہم ہیں نہ تیرے ساتھ کچھ نہی ہو گا ..." اپنے آنسو صاف کرتی حمامہ اسکو تسلی دینے لگی
جب کسی صورت وہ چپ نہ ہوئی تو حمامہ نے خود اسکو کھڑا کیا اور اپنے ساتھ لگاے اندر گئی اس میں تو اتنی ہمت نہیں بچی تھی کے خود چلی سکتی حمامہ کے سہارے اپنے کمرے میں پہنچی حمامہ نے سسکتی عالیاب کو بیڈ پہ لیٹایا اور خود اسکے ساتھ بیٹھی اسکا سر گود میں رکھ گئی
"م میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا تھا پ پھر کیوں ایسا ہوا میرے س ساتھ میں تو بابا کی اچھی بچی ہوں نہ پھر ا ایسا کیوں کیا ا اللہ جی م میں نے کتنی دعا کی تھ تھی پر کچھ نہیں ہوا مامہ ..م میں کیا کروں یہ یہ سب میرا پیچھا نہیں چھوڑتا .م میں س سب کو پریشان ک کرتی ہوں م مجھے مر جانا چاہیے ..." ہچکیوں سے روتی وہ حمامہ کو تڑپا گئی
"نہیں میری جان اللہ تمہے سلامت رکھے تم کسی کو پریشان نہیں کرتی .. بس اللہ پہ بھروسہ رکھو وہ سب ٹھیک کر دے گا دیکھنا تم سب کو سزا ضرور ملے گی جو بھی تمہاری اس حالت کا ذمہ دار ہے نہ وہ ضرور سزا پاے گا ..." حمامہ اسکے آنسو صاف کرتی اسکے بالوں میں ہاتھ چلانے لگی
سسکتی ہوئی حمامہ کی گود میں سر رکھے پرسکون ہوتی سو گئی حمامہ نے ایک نظر دیکھا تو ہلکا سا مسکرائی
اس پہ کمفرٹر ڈال کے نائٹ بلب آن کیا اور اسکا ماتھا چوم کے چلی گئی
حال میں بیٹھے حمامہ خود بھی پریشان تھی بہت وہ سب بہت کوشش کر چکے تھے لیکن عالیاب کی حالت ویسی ہی تھی
"پلیز اللہ جی میری دوست کو ٹھیک کر دیں میں بھی پوری کوشش کروں گی بس آپ میرا ساتھ دینا میں ہر ممکن کوشش کروں گی بس آپ اسکو ٹھیک کر دیں ..." آنکھوں میں آنسو لئے وہ اپنی دوست کے لئے دعا کر رہی تھی
جب سارے راستے بند ہو جائے تو بھی اللہ ایک راستہ کھول دیتا ہے وہ ہے دعا بے شک دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے اور شاید حمامہ کی دعا بھی قبول کر لی گئی تھی اب بس اس وقت کا انتظار تھا
🌹🌹🌹
لندن
"گڈ مارننگ سر ..." حاشر کو آتا دیکھ روزی جلدی سے سامنے آتی مسکرا کے بولی
"مارننگ .." حاشر بھی مسکرایا
"ماہ بیر .."
"وہ سر اپنے آفس میں ہیں ..." اسکے بات پوری کرنے سے پہلے ہی روزی جلدی سے بولی
حاشر سر ہلاتا چلا گیا
"سر کتنے ہینڈسم ہیں نہ .." روزی پاس کھڑی ورکر سے بولی
"ہاں لیکن ماہ بیر سر سے زیادہ نہیں .." وہ ماہ بیر پہ فدا تھی
"لیکن وہ تو بلکل بھی اچھے نہیں ہیں یہ سر بہت اچھے ہیں کتنے پیار سے بات کرتے ہیں .." روزی کھوے ہوے بولی
"ہاں وہ تو ہے .." دوسری نے تائید کی
"کاش وہ میرے ہو جائے .." روزی حسرت سے بولی
"مس روزی اگر میرے بارے میں خیالات کا اظہار ہو گیا ہو تو پلیز مجھے کل والی فائل لا دیں گی ..." حاشر پیچھے سے غصے میں بولا
اپنی ذات کا موضوع گفتگو بننا اسکو ذرا بھی نہیں پسند تھا
"سو سوری سر ابھی لائی ..." روزی ہلکائی
"مہربانی ہو گی .." حاشر طنز سے کہتا واپس چلا گیا
"کیا ہوا .." ماہ بیر نے لیپ ٹاپ سے نظریں اٹھا کے اسکے غصے سے بھرے چہرے کو دیکھا ابھی تو ٹھیک ٹھاک گیا تھا یہاں سے
"میری بات سن یہ جو مس روزی ہیں نہ انکو اپنی زبان میں سمجھا دے نہیں تو پھر میں سمجھاؤں گا تو تمہے اچھا نہیں لگے گا کہ لڑکی سے بتمیزی کی .." حاشر غصے سے بولا
"ہوا کیا ہے .." ماہ بیر نے غور سے اسکو دیکھا
حاشر نے باہر والی بکواس بتائی تو ماہ بیر مسکرایا
"تم ہنس رہے ہو دماغ سیٹ ہے تمہارا ..." حاشر جھنجھلایا
"تم کر لو شادی .." ماہ بیر نے مسکراہٹ دبائی
جانتا تھا اسکا جواب
"پہلے تم کرو پھر میں .." حاشر منہ بنا کے بولا
"پھر تم دعا کرو مجھے جلد ہی کوئی مل جائے .." ماہ بیر کہتا دوبارہ لیپ ٹاپ پہ جھک گیا
"اللہ کرے کل ہی مل جائے آمین .." حاشر نے پورے دل سے دعا کی
ماہ بیر نے ایک نظر اسکو دیکھا اور واپس بزی ہو گیا
🌹🌹🌹
"عالیاب بچے کہاں ہو آپ ..." زمان صاحب گھر آتے ہی بولے
"اسلام و علیکم بابا جان .." عالیاب مسکرا کے انکے گلے لگی
"وعلیکم سلام میرا بچا کیسا گزرا دن .." زمان صاحب نے اسکے سر پہ بوسہ دیا
عالیاب کے چہرے پہ سایہ آیا لیکن پھر مسکرا کے بولی
"بہت اچھا بابا .."
"اچھا بچے مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ..." زمان صاحب حال میں بیٹھتے بولے
"جی بولے بابا ..." عالیاب مسکرائی
"بیٹا میں کل لندن جا رہا ہوں ایک میٹنگ ہے میری آپ حمامہ کے ساتھ رک جانا بس دو دن کی بات ہے ..." زمان صاحب اسکے تاثر دیکھتے بولے
"بابا حمامہ کے تو گھر بہت سارے گیسٹ اے ہیں اسکے بھائی کا بےبی ہوا ہے نہ .." عالیاب اکیلے رہنے کا سن کے گھبرا گئی
"کچھ نہیں ہوتا میرا بچا وہاں سب اپنے ہیں بس دو دن میں میں آ جاؤں گا .." زمان صاحب نے سمجھایا
"بابا وہاں برف باری ہو رہی ہو گی نہ .." عالیاب کچھ یاد کر کے بولی
"جی .." زمان صاحب نے سر ہلایا
"میں بھی چلوں آپ کے ساتھ .." عالیاب ڈرتے ڈرتے بولی کہیں منع نہ کر دیں
"ہاں ہاں ضرور میرا بچا ..." زمان صاحب خوش ہوے
پہلی بار اسنے خود کہیں جانے کا کہا تھا
"تھینک یو بابا ..." عالیاب جوش سے کہتی چلی گئی
پتا نہیں کیوں لیکن اسکا دل کر رہا تھا جانے کا
🌹🌹🌹
ایک اندھیرے کمرے میں راکنگ چیئر کی آواز آ رہی تھی اور ساتھ ہی سیگریٹ کی سمیل چیئر پہ بیٹھے وجود کی آنکھیں بند تھی پھر اسنے ہاتھ بڑھا کے لائٹ آن کی پھر آف کر دی
پھر آن آف ہی کرتا رہا
پاپا پاپا بچاؤ .. بھائ بچاؤ مجھے یہ یہ آگ لگی ہے پلیز بچاؤ مجھے ...
اچانک سے اسکے کانوں میں ایک بچی کی آواز گونجی
اسنے جلدی سے آنکھیں کھولی جو اس وقت لہو رنگ ہو رہی تھی چہرے پہ اتنے خوفناک تاثر تھے کہ کوئی دیکھتا تو ضرور کانپ جاتا
چیئر سے اٹھا اور ڈریسنگ کے سامنے گیا وہاں کسی کی تصویر دکھائی دی
آہ ..... زور سے دھاڑ کے مکا شیشے پہ مارا اور شیشہ چکنا چور ہوتا اسکا ہاتھ بھی رنگ گیا لیکن اسکو فرق نہ پڑا
"میں تمہارا بدلہ ضرور لوں گا کسی کو نہیں چھوڑوں گا سب کو حساب دینا ہو گا سب کو ...." زور زور سے چلاتا وہ روم کی ہر چیز توڑ چکا تھا
کچھ دیر پہلے نظر انے والا صاف کمرہ اس وقت کباڑ خانہ لگ رہا تھا
لیکن یہ تو روز کا معمول تھا اسکا جب کبھی اسکو غصہ آتا یہ سب لازمی ہوتا تھا
"تم جا رہی ہو یارا میں اداس ہو جاؤں گی .." جب سے حمامہ نے عالیاب کے جانے کا سنا تھا اسکا ڈرامہ ہی ختم نہیں ہو رہا تھا
"صرف دو دن کی تو بات ہے اور ویسے بھی تمھارے گھر تو اتنے گیسٹ آۓ ہیں تم تو بزی رہو گی نہ پھر میری یاد کیسے آۓ گی .." عالیاب اپنی پیکنگ کر رہی تھی
مٹھو بھی پاس ہی بیٹھا دونوں کو دیکھ اور سن رہا تھا
"مطلب تم نہیں رکو گی .." حمامہ منہ بنا کے بولی
"تو تم چلو میرے ساتھ دونوں مستی کریں گے .." عالیاب اسکا دل رکھنے کو بولی
خود بھی جانتی تھی باہر لوگوں میں کتنی گھبرا جاتی ہے کجا کے مستی کرنا
"لیکن یار مما نہیں مانے گی ابھی تو بھابھی گھر آئ ہوئی ہیں اور پھر چھوٹو بھی تو گھر ہے انکی ہیلپ کرنی پڑے گی .." حمامہ کا دکھ کم نہیں ہو رہا تھا
گھر کا کام کرتے ہوے تو اسکو ویسے موت نظر آتی تھی یہاں عالیاب کے پاس آ کر اسکی جان چھوٹ جاتی تھی گھر کے کام سے اب وہ بھی جا رہی تھی تو مطلب گھر سے نکلنا بند اور گھر کا کام وہ الگ
"تو تم اپنی بھابھی سے دوستی کر لو نہ اور چھوٹو بھی تو ہے اس کے ساتھ کھیل لینا.." عالیاب نے مٹھو کو اٹھایا جو خاموشی سے انکی شکل دیکھ رہا
"اسکو تو ہٹاؤ یار ابھی میں بات کر رہی ہوں نہ ..." حمامہ نے مٹھو کو اس سے لے کے نیچے بیٹھا دیا اور وہ بیچارہ بھی چپ چاپ بیٹھ گیا خود اسکی گود میں سر رکھ لیا
"کبھی کبھی تم بچی بن جاتی ہو .." عالیاب نے اسکے سر پہ چت لگائی
"جی نہیں میں بڑی ہو گئی ہوں .." حمامہ نے اسکا ناک کھینچا
"پھر تو تمہاری شادی کر دینی چاہیے .. ہاۓ سوچو کتنا مزہ آۓ گا نہ تمہاری شادی میں .." عالیاب سوچ کر ہی مسکرائی
"تمھارے منہ میں گھی شکر یارا بس جلدی سے میرا ویا کروا دو لیکن کسی ہینڈسم رچ سے کروانا تا کے ان منحوس کاموں سے میری جان چھوٹے .." حمامہ کی تو باچھیں کھل گئی تھی
حمامہ کے گھر کام والی بھی کام کرتی تھی لیکن اسکی مما کا ماننا تھا کے لڑکی کو ہر کام آنا چاہیے تا کے اگلے گھر جا کی کوئی مشکل نہ ہو اس لئے حمامہ کو وہ ہر کام سکھاتی تھیں لیکن حمامہ صدا کی کام چور برے برے منہ بناتی انکی نصیحت سنتی تھی
عالیاب تو منہ کھولے حیرت سے اسکو دیکھ رہی تھی جو بڑے مزے سے اپنی شادی کی بات کر رہی تھی
"کیا ہوا .." حمامہ نے اسکی حیرت دیکھ کر پوچھا
"تمہے ذرا بھی دکھ نہیں ہو گا شادی کا .." عالیاب کی حیرت بھری آواز آئ
"نہیں بہی شادی کا دکھ کس کو ہوتا ہے بلکہ شادی کی تو خوشی ہوتی ہے سب آپکو پروٹوکول دیتے ہیں اور کام بھی نہیں کرنا پڑتا ..." حمامہ کی ہر بات کام پہ ہی ختم تھی
"مطلب تمہے رونا نہیں آۓ گا تم اپنا گھر چھوڑ کر چلی جاؤ گی .." عالیاب کی حیرت کم نہیں ہو رہی تھی
آج تک دونوں نہ کبھی شادی کے بارے میں بات نہیں کی تھی ورنہ عالیاب اتنی حیران نہ ہوتی
"نہیں بلکل نہیں میں تو شکر کروں گی کہ کام سے جان چھوٹی ..." حمامہ کی تو منطق کی نرالی تھی
"حد ہے حمامہ تم کام سے اتنی کیوں ڈرتی ہو .." عالیاب کو اسکی سمجھ نہ آئ
"تم کام نہیں کرتی نہ اس لئے تمہے پتا نہیں ہے کام کرنے کے لئے کیا کیا چھوڑنا پڑتا ہے .. تم کیا جانو میرا دکھ .." حمامہ نے کہتے اپنے کبھی نہ آنے والے آنسو صاف کیے
"چلو ہٹو ڈرامہ کوئین . بابا آنے والے ہیں بس .." عالیاب اسکو اپنی گود سے اٹھاتی خود بھی اٹھی
"میرا مٹھو اداس ہو گیا ہے ..." عالیاب مٹھو کو اٹھا کر پیار سے اس پہ ہاتھ پھیرتی بولی
"ہاں بس تمہے تو اس مٹھو کی فکر ہے باقی تو سب بے کار ہیں تمھارے لئے .." حمامہ چڑی
"ایسا نہیں ہے میری پیاری دوست میں تم دونوں سے بہت پیار کرتی ہوں ..." عالیاب مسکرا کے بولی
مٹھو ابھی بھی ہاتھ میں تھا جس کو اب وہ اپنے ہاتھ سے مرچ کھلا رہی تھی اور دوسرے ہاتھ سے اسکو سہلا رہی تھی عالیاب کے جانے کی وجہ سے وہ بھی چپ تھا
"بس بس رہنے دو مجھے پتا ہے تم مجھ سے پیار نہیں کرتی ..." حمامہ نے فل دکھی ہونے کی ایکٹنگ کی
"نہیں نہیں میں تم سے پیار کرتی ہوں تم تو دوست ہو نہ ..." عالیاب جلدی سے اسکے پاس آئ کہیں ناراض ہی نہ ہو جائے
"مٹھو سے بھی زیادہ .." حمامہ نے منہ پھلایا
"ہاہاہا ہاں مٹھو سے بھی زیادہ .." عالیاب ہنس پڑی
اسکو ہنستا دیکھ حمامہ بھی مسکرائی
"اللہ تمہے ہمیشہ ایسے ہی ہنستا رکھے میری جان .." حمامہ کے لہجے میں اپنی دوست کے لئے پیار ہی پیار تھا
"آمین ..." مٹھو بولا تو دونوں نے حیرت سے اسکو دیکھا پھر ہنس پڑی
🌹🌹🌹
رات کو نو بجے زمان صاحب اور عالیاب کو لندن کی فلائٹ تھی حمامہ سے ملنے کے بعد دونوں ائیرپورٹ چلے گئے عالیاب کو ڈر تو بہت لگ رہا تھا لیکن اپنے بابا کی ہاتھ مضبوطی سے پکڑا وہ انکے ساتھ ہی رہی
اناؤنسمنٹ ہونے کے بعد دونوں اپنی سیٹ پہ بیٹھے تو عالیاب نے انکا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا انہوں نے اسکو تسلی دی تو ہلکا سا مسکرائی لیکن اندر سے دل سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا پلین چلنا شروع ہوا تو عالیاب نے ڈر سے آنکھیں بند کر لی اور منہ میں کچھ پڑھنا شروع کر دیا
اللہ اللہ کر کے سفر ختم ہوا لندن ائیرپورٹ پہ لینڈ کرتے ہی یخ بستہ ٹھنڈی ہوا نے استقبال کیا آٹھ گھنٹے کی فلائٹ اور چیکنگ کے بعد ایئر پورٹ سے باہر نکلے تو سرد ٹھنڈی ہوا نے کپکپانے پہ مجبور کیا عالیاب نے بے ساختہ جھرجھری لی
دسمبر کے مہینے میں برف باری شروع ہو چکی تھی اور پورے لندن کو برف کی سفید چادر نے چھپایا ہوا تھا سڑکیں بھی گیلی گیلی سی تھیں ائیرپورٹ سے نکل کر عالیاب نے اردگرد نگاہ ڈورائی ہر طرف برف ہی برف تھی عالیاب مسکرائی
بابا کا ہاتھ پکڑا ٹیکسی تک گئی ہوٹل کے پورے راستے تک عالیاب اشتیاق سے باہر دیکھتی رہی اسکو برف باری اور سردیوں کا موسم بہت زیادہ پسند تھا اکثر گھر میں بھی وہ کوئی بھی گرم کپڑا نہیں پہنتی تھی اسی وجہ سے بیمار ہو جاتی تھی لیکن باز پھر نہیں آتی تھی
لندن کے خوبصورت نظاروں میں اس قدر کھوئی ہوئی تھی کہ پتا بھی نہ چلا ہوٹل آ گیا روم میں جاتے ہی عالیاب فریش ہو کے سو گئی تھی تین گھنٹے نیند پوری کرنے کے بعد اٹھی تو زمان صاحب نے کھانا آرڈر کیا دونوں نے ساتھ کھانا کھایا اور پھر زمان صاحب اسکو اپنا خیال رکھنے کی تاکید کرتے اپنی میٹنگ کے لئے چلے گئے
زمان صاحب کے جاتے ہی عالیاب اپنا کوٹ اتارتی بالکونی میں آئ ابھی صبح تھی تو ہلکی ہلکی برف گر رہی تھی عالیاب مسکراتی ہوئی وہاں کھڑی برف باری دیکھنے لگی یہاں آ کر ایک عجیب سا احساس ہو رہا تھا ایک عجیب سی خوشبو تھی لندن کی ہواؤں میں جو عالیاب کو اچھی لگ رہی تھی کچھ دیر وہاں کھڑے رہنے کے بعد عالیاب واپس روم میں آ گئی حمامہ کو بھی کال کرنی تھی ور اسنے ناراض ہو جانا تھا
🌹🌹🌹
"کہاں ہو ماہ بیر تم یہاں میٹنگ میں تمہارا ویٹ ہو رہا ہے .." حاشر فون پہ آہستہ سے بولا
میٹنگ روم میں سب بیٹھے ہوے بس ماہ بیر کے لئے رکے ہوے تھے
آگے سے پتا نہیں کیا کہا کہ حاشر پریشان ہوا ..
"اگر زیادہ پرابلم ہے تو میں میٹنگ کینسل کر کے آ جاتا ہوں .." حاشر سب کو دیکھتا بولا
"ہممم ٹھیک ہے خیال رکھنا اگر کوئی پرابلم ہو تو مجھے ضرور بتانا .." حاشر نے کہتے فون بند کیا
"از ایوری تھنگ اوکے .." زمان صاحب بولے
"جی جی سب ٹھیک ہے بس گرینڈ پا کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تو اس وجہ سے اسکو جانا پڑا .. اف یو ڈونٹ مائنڈ ہم میٹنگ ماہ بیر کے بغیر کر سکتے ہیں آپ ان سے پارٹی میں مل سکتے ہیں .." حاشر نے نہ آنے کی وجہ بتاتے اجازت چاہی
"ہاں ہاں بلکل ..." زمان صاحب مسکرا کے بولے
میٹنگ کامیاب رہی اب وہ ماہ بیر کی کمپنی کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار تھے انہوں نے بہت سنا تھا ماہ بیر کے بارے میں لیکن کبھی ملنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا
دونوں کمپنی کی ڈیل کی خوشی میں آج رات بزنس ڈنر تھا ماہ بیر کی طرف سے .. زمان صاحب میٹنگ سے فری ہوتے ہوٹل گئے عالیاب تو حمامہ کے ساتھ فون پہ لگی ہوئی تھی زمان صاحب نے ڈنر کا بتایا تو عالیاب نے بھی ساتھ چلنے کا کہا پہلا تو زمان صاحب حیران ہوے کے عالیاب خود سے کہیں انا کا کہہ تھی زمان صاحب نے خوشی سے اجازت دی وہ تو خود چاہتے تھے کے وہ سب کی طرح خوش رہے
وینیو پہ پھنچے تو عالیاب گھبرائی
"کیا ہوا بیٹا .." زمان صاحب اسکے پاس آۓ
"کچھ نہی بابا چلے .." عالیاب خود کو ریلیکس کرتی بولی
ہال میں انٹر ہوے تو عالیاب کا دل دھڑکا زمان صاحب کچھ لوگوں سے ملے عالیاب کو بھی ملوایا عالیاب تو حیرت سے وہاں لڑکیوں کو دیکھ رہی تھی جو مغربی لباس پہنے کونفیڈینس سے پوری پارٹی پہ چھائی ہوئی تھی بے خوفی سے مردوں سے بات کرتی ان سے گلے ملتی چہک رہی تھی
اچانک ہی سب ایکٹو ہوے اور انٹرنس کی طرف متوجہ ہوے سارے میڈیا والوں نے اپنے کیمرے سیدھا کیے ایک خوبرو شخص انٹر ہوا فل بلیک میں اپنی مردانہ وجاہت کے ساتھ وہ ماہ بیر خان تھا
عالیاب کا فون بجا تو وہ زمان صاحب کو بتا کر فون سننے باہر چلی گئی کچھ دیر حمامہ سے بات کرنے کے بعد فون رکھا تو ایسا لگا جیسے پیچھے کوئی ہے عالیاب ڈر گئی
🌹🌹🌹
زمان صاحب سے ملنے سے پہلے ہی ماہ بیر کو کال آئ تو وہ سب سے ایکسکیوز کرتا سائیڈ پہ چلا گیا پتا نہیں فون کرنے والے نے کیا کہا لیکن اسکی بات سن کے ماہ بیر کی سیاہ آنکھیں سرخ ہونا شروع ہو گئی غصے سے ماتھے کی رگیں تن گئی پھر بات کرتا وہی سے باہر نکل گیا
🌹🌹🌹
"عاقب تم نے باس کو بتا دیا آج جو ہوا .." عمر روم میں اتا بولا
دونوں بیسٹ کے لاہور والے فلیٹ میں رہتے تھے ان کو بیسٹ نے ہی اپنے ساتھ ہی رکھا تھا اسکا ہر کام وہ دونوں ہی کرتے تھے ان دونوں کو ٹرین بھی اسنے خود ہی کیا تھا
"نہیں تم کر دو مجھے ڈر لگتا ہے اگر انکا موڈ خراب ہوا تو بلاوجہ مجھ پہ غصہ نکل جائے گا .." عاقب منہ بنا کے بولا
ہر دفع بیسٹ کے غصے کا نشانہ جو بنتا تھا
"ٹھیک ہے .." عمر کہتا فون کرنے لگا
"ہیلو باس آپکو کچھ بتانا ہے .." عمر آرام سے بولا
"ہاں جلدی بولو ابھی پارٹی میں مصروف ہوں میں .." بھاری مردانہ آواز آئ
آگے سے عمر نے جو بات بتائی وہ بیسٹ کو غصہ دلانے کے لئے کافی تھی .وہاں کھڑے لوگوں سے ایکسکیوز کرتا باہر چلا گیا دل کر رہا تھا سب کو آگ لگا دے
🌹🌹🌹
ابھی وہ فون پہ بات کر ہی رہا تھا کے اچانک اسکی نگاہ اٹھی اور پھر پلٹنا بھول گئی سامنے کا منظر تھا ہی اتنا حسین کے وہ سب بھول گیا
سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی بلیک فراک پہنے ساتھ ہی بلیک کوٹ پہنا تھا اور بلیک ہی حجاب تھا اسکی صرفپ گرے آنکھیں ہی نظر آ رہی تھی جو پانی سے بھری ہوئی تھی وہ دونوں ہاتھ ملتی کبھی آگے کی طرف جاتی کبھی واپیس پیچھے آ جاتی برف باری بھی زور و شور سے ہو تھی اور اس کے بیچ کھڑی یہ لڑکی ایک حسین منظر پیش کر رہی تھی
وہ تو صرف اسکی آنکھیں ہی دیکھتا رہ گیا جو پانی سے بھری ہوئی جھیل جیسی لگ رہی تھی حسین آنکھیں اسنے پہلا بھی دیکھی تھی لیکن ان میں کچھ الگ تھا جو اسکو اپنی طرف کھینچ رہا تھا ایک تو اسکی حسین آنکھیں اور اس پر پلکوں کی جنبش .. آنکھیں جھپک جھپک کر وہ اپنے آنسو روکنے کی کوشش کر رہی تھی
اس سیاہ رات میں وہ سیاہ لباس پہنے رات کا ہی حصہ معلوم ہوت رہی تھی
"بلیک بیوٹی .." اسکے لبوں سے ایک لفظ ادا ہوا
وہ لڑکی بری طرح سے اسکو اپنے سحر میں جکڑ چکی تھی اسکو اپنا دل ہاتھ سے جاتا ہوا محسوس ہوا بے اختیار اسکا ہاتھ اپنے دل پہ گیا
اسکو تو اور کچھ بھی نظر نہ آ رہا تھا بس وہ تو یک ٹک اسکی آنکھیں ہی دیکھتا جا رہا تھا
"ہیلو .." دوسری طرف سے آواز آئ تو وہ ہوش میں آیا
"ہاں بعد میں بات کرتا ہوں ..." فون رکھ کے واپس اسکی طرف دیکھا جو اب ایک آدمی کے ساتھ کھڑی تھی اس آدمی کی اسکی طرف پیٹھ تھی وہ چہرہ نہ دیکھ سکا
اتنا حسین منظر کے وہ سب کچھ بھلا گیا
"تم سے ملنا پڑے گا بلیک بیوٹی .." کہتا واپس چلا گیا
🌹🌹🌹
زمان صاحب نے کافی دیر عالیاب کا انتظار کیا لیکن وہ اندر نہ آئ تو پریشان ہوے اور اسکو دیکھنے باہر چلے گئے
عالیاب ڈر گئی تھی اسکی آنکھوں میں آنسو آۓ یہاں وہاں دیکھتی وہ انٹرنس ڈھونڈھ رہی تھی لیکن وہ فون پہ بات کرتی شاید ہال کے پیچھے آ گئی تھی ہاتھوں کو مڑوڑتی یہاں وہاں دیکھتی آنکھوں میں آنسو لئے آگے کی طرف جاتی پھر واپس آ جاتی
بابا کو کال کی تو وہ بھی اٹھا نہیں رہے تھے ابھی وہ دوبارہ کال کرتی کہ زمان صاحب خود باہر آگے
"آپ ٹھیک ہو بیٹا ..." زمان صاحب نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا
"جی بابا .. ہم چلے اب.." عالیاب کو حوصلہ ہوا ورنہ تو اسکا دل ہی بند ہو جاتا
ایک تو وہ پہلے اتنی پریشان کھڑی تھی اور ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی دیکھ رہا تھا
"جی میرا بیٹا آپ بیٹھو گاڑی میں میں ابھی آیا ..." زمان صاحب نے اسکو گاڑی میں بیٹھایا اور خود ہال کی جانب گئے
حاشر سے معذرت کرلی کہ انکی بیٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ماہ بیر سے وہ پھر کبھی مل لے گے
حاشر سے مل کے سیدھا ہوٹل گئے عالیاب تو جاتے ہی سو گئی تھی پتا نہیں تھک گئی تھی یا ڈر گئی تھی
زمان صاحب بھی آرام کرنے لگے ابھی کل انکو ایک اور کام کرنا تھا پھر کل رات کی فلائٹ تھی واپسی کی
ماہ بیر جب سے پارٹی سے آیا تھا تب سے بے چین تھا دل کر رہا تھا وہ بلیک بیوٹی سامنے ہو اور اسکا چہرہ دیکھ لے ہاتھ بڑھا کے اسکی گھنیری لمبی پلکیں چھو لے لیکن وہ تو دوبارہ نظر نہ آئ پارٹی میں بھی اس نے ہر لڑکی کو دیکھا لیکن وہ کہیں نہیں تھی اس کے لباس سے ہی پتا چل رہا تھا کے وہ اس ماحول کی نہیں ہے پھر کون تھی وہ کہاں سے آئ تھی سوچ سوچ کہ ماہ بیر اب جھنجھلا چکا تھا
چار گھنٹے سے بیٹھا سیگریٹ پہ سیگریٹ پھونک رہا تھا کمرے میں دھواں بھر چکا تھا لیکن اسکی سوچوں کا محور وہی لڑکی تھی جو کچھ پل میں ہی اسکا سکون چین سب ساتھ لے گئی تھی بار بار اسکی آنکھوں کے سامنے وہی پانی سے بھری گرے آنکھیں آ رہی تھی
سوچوں میں اتنا گم تھا کہ پتا ہی نہ چلا سیگریٹ ہاتھ کو جلا گیا جلن ہوئی تو سوچوں کا دھارا ٹوٹا اور حال میں واپس آیا
"کچھ ہی لمحوں میں ان قاتل آنکھوں نے ماہ بیر خان کا دل گھائل کر دیا کچھ تو خاص ہے تم میں بلیک بیوٹی .. تم سے ملنا ہی پڑے گا اب تو .." ماہ بیر دلکشی سے مسکرا کر بولا
🌹🌹🌹
اگلے دن لندن میں کافی برف باری ہوئی تھی تو ٹھنڈ بھی کافی بڑھ گئی تھی زمان صاحب صبح عالیاب کے ساتھ ناشتہ کر کے کہیں چلے گئے تھے رات سے عالیاب کو بڑی عجیب سے فیلنگز آ رہی تھی لندن میں کچھ تو ایسا تھا جو اسکو اپنی طرف کھینچ رہا تھا
ناشتہ کرنے کے بعد کچھ دیر باہر برف باری میں کھڑی رہی کل کی نسبت آج ٹھنڈ کافی زیادہ تھی کچھ دیر میں ہی اس کے سفید گال ٹھنڈ کی شدت سے لال ہو گئے تھے اور ناک بھی لال ٹماٹر ہو رہی تھی لیکن وہ وہیں کھڑی اپنی سوچوں میں گم رہی جب دانت بجے تو پھر ہاتھ رگڑتی اندر چلی گئی کل سے کوئی دس دفع حمامہ کال کر چکی تھی
رات کو انکی فلائٹ تھی اس نے ابھی حمامہ کے لئے شاپنگ بھی کرنی تھی تو وہ زمان صاحب کا ویٹ کر رہی تھی پھر کچھ ہی دیر میں زمان صاحب آ گئے چہرے سے کافی پریشان لگ رہے تھے
"کیا ہوا بابا آپ اتنے پریشان کیوں ہیں .." عالیاب بھی پریشان ہوئی
"نہیں بیٹا کچھ نہیں ہوا میں بس تھوڑا تھک گیا ہوں اس لئے آپ کو لگ رہا ہے ابھی آرام کروں گا تو ٹھیک ہو جاؤں گا .." زمان صاحب اسکا سر تھپک کر بامشکل مسکراۓ ورنہ جو خبر آج انکو ملی تھی وہ چاہ کر بھی اپنی بیٹی کو نہیں بتا سکتے تھے
"پکا نہ بابا ..." عالیاب کو یقین نہ آیا
"جی میرا بیٹا .." زمان صاحب اس کے سر پہ پیار سے ہاتھ پھیر کر اپنے روم میں چلے گئے
🌹🌹🌹
حاشر کے چچا کی طبیعت آج کل کچھ ٹھیک نہیں تھی تو وہ آج انکو ملنے امریکا جا رہا تھا ماہ بیر اسکو چھوڑنے ائیرپورٹ آیا تھا ابھی اسکو سی آف کر کے واپس جا ہی رہا تھا کے سامنے سے آتے کسی نازک وجود سے ٹکرایا جب اس پہ نظر پڑی تو پھر پلٹنے سے انکاری ہو گئی ہاتھ میں پکڑا موبائل بھی نیچے گر چکا تھا لیکن وہ تو ایک دم ساکت سامنے دیکھ رہا تھا
عالیاب اپنے بابا کے ساتھ ائیرپورٹ پہ اناؤنسمنٹ کا ویٹ کر رہی تھی جب زمان صاحب کا فون بجا تو وہ اٹھ کر سائیڈ پہ چلے گئے ابھی انکی کال ختم ہی ہوئی تھی کے فلائٹ کی اناؤنسمنٹ ہو گئی انہوں نے عالیاب کو آنے کا کہا اور خود آگے بڑھ گئے پہلے تو عالیاب گھبرائی اور انکو روکنے لگی لیکن پھر ہمت کر کے خود ہی جانے لگی ایک ہاتھ میں بیگ پکڑا ہوا تھا جب کے دوسرے ہاتھ سے حجاب کا پلو پکڑا تھا پن کہیں گر گئی تھی اور دوسری مل نہیں رہی تھی
جلدی جلدی قدم اٹھاتی جا ہی رہی تھی کہ سامنے سے آتے کسی پہاڑ سے ٹکر گئی آنکھوں نے آگے تارے ناچ گئے بیگ ہاتھ سے چھوٹا اور سامان بکھر گیا ساتھ ہی حجاب کھلا عالیاب کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا لیکن سامنے والے کو نظر اٹھا کے دیکھا تک نہیں تھا
"س سوری .." بامشکل ایک لفظ بولتی نیچے جھک کے اپنا سامان سمیٹنے لگی
ماہ بیر تو بس اس چاند سے بے داغ چہرے کو دیکھ رہا تھا اتنا مکمل حسن جھکی ہوئی گرے آنکھیں ان پہ گھنی پلکوں کا پہرا سرخ و سفید رنگت سردی کی شدت سے سرخ گال اور سرخ ہی ناک گلاب کی پنکھڑی جیسے گلابی لب اور لبوں کے بلکل اوپر چھوٹا سا کالا تل ..ماہ بیر کا دل گھائل کیسے نہ ہوتا . جب اسکی سوری سنائی دی ماہ بیر کو لگا کسی نے کانوں میں رس گھول دیا ہو نیچے جھک کر وہ اپنا سامان اٹھا رہی تھی وہی تھی بلیک بیوٹی اس سے پہلے ماہ بیر ہاتھ بڑھا کے اسکو چھوتا وہ تو سامان اٹھا کے اپنا حجاب صحیح کرتی وہاں سے بھاگ گئی
ماہ بیر نے مڑ کر دیکھا لیکن وہ کہیں نظر نہ آئ ماہ بیر بے چین ہوا اسی طرف بھاگا جہاں وہ گئی تھی لیکن وہاں کوئی نہ تھا فلائٹ ٹیک آف ہو چکی تھی لیکن ماہ بیر کو پتا نہ چلا وہ کس فلائٹ میں کہاں گئی اس نے کافی لوگوں سے پوچھا لیکن کچھ پتا نہ چلا
آخر دل پہ پتھر رکھ کے واپس آ گیا اب تو وہ جا چکی تھی اپنے روم میں آتے ہی سیگریٹ جلائی دھویں میں پھر سے اسکا چاند سا چہرہ نظر آیا ماہ بیر کا دل زور سے دھڑکا اسکی نظروں سے وہ منظر ہی نہیں ہٹ رہا تھا اپنی تیس سالہ زندگی میں اسنے ہر طرح کی عورت کا حسن دیکھا تھا اسکی خود کی پرسنیلٹی ایسی تھی کے لڑکیاں اسکی طرف خود بہ خود مائل ہو جاتی تھی لیکن آج تک اس نے خود کسی کی طرف نہ دیکھا تھا پھر اب یہ چھوٹی سی لڑکی ماہ بیر کے دل کی دنیا زیر و زبر کر گئی تھی
ماہ بیر خان تو آج ایک چھوٹی سی لڑکی کے ہاتھوں گھائل ہو چکا تھا کہاں کسی کو خاطر میں نہ لانے والا ماہ بیر خان دو دن سے ایک لڑکی کے بارے میں سوچ رہا تھا
"بہت تڑپا رہی ہو بلیک بیوٹی ماہ بیر خان کو بس ایک دفع میری دسترس میں آ جاؤ سارے بدلے لوں گا میرا چین سکون برباد کر کے کہاں چلی گئی ہو .." ماہ بیر تصور میں ہی بلیک بیوٹی سے مخاطب تھا
🌹🌹🌹
عالیاب تو اس انسان سے ٹکرانے کی وجہ سے ہی بہت زیادہ گھبرا گئی تھی دل زور زور سے دھڑک رہا تھا پتا نہیں کون تھا اللہ کا شکر کرتی وہاں سے گئی کہ اس نے کچھ کیا نہیں
صبح گھر پہنچے تو سامنے کی لاؤنج میں حمامہ نظر آئ جو صوفہ پہ بیٹھی پاؤں سامنے ٹیبل پہ رکھے سر صوفہ کی بیک پہ سر رکھے سو رہی تھی عالیاب اسکو دیکھ کر مسکرائی ..زمان صاحب اسکو آرام کرنے کا کہتے خود بھی اپنے کمرے میں چلے گئے تھے.. ابھی آگے بڑھنے ہی لگی تھی کہ مٹھو آہستہ آہستہ چلتا اسکے سامنے آیا عالیاب کی مسکراہٹ گہری ہوئی
نیچے جھک کر مٹھو کو اٹھایا
"آئ مس یو مٹھو بےبی .." پیار سے اسکی فر پہ ہاتھ پھیرا
"مٹھو مس یو یاب .." مٹھو رک رک کے اسکی کاپی کرتا بولا اور اپنی چونچ سے اسکا گال چھوا
عالیاب کھلکھلائی پھر جلدی سے منہ پہ ہاتھ رکھ کر حمامہ کو دیکھا جو ابھی بھی گہری نیند میں تھی
عالیاب نے مسکرا کے مٹھو کو آہستہ سے کچھ بولا تو مٹھو نے سر ہلایا
آہستہ آہستہ پاؤں اٹھاتی مٹھو کو ہاتھ میں پکڑا صوفہ تک گئی جہاں حمامہ سوئی ہوئی رہی تھی عالیاب نے مسکراہٹ دبا کے مٹھو کو حمامہ کے کان کے پاس کیا
"مٹھوووو ..مامہ .." مٹھو زور سے بولا
"کیا .. کیا ہوا .." حمامہ زور سے چلاتی اٹھی
ہاہاہاہا ... عالیاب ہنسنے لگی
مٹھو بھی سر ہلاتا اڑ کے ایک سائیڈ پہ بیٹھ گیا
حمامہ کو پہلے تو سمجھ نہ آئ کیا ہوا
پھر سمجھ آئ تو عالیاب کی طرف بھاگی جو پہلے کی اسکی پہنچ سو دور ہوئی
"رک جا کمینی عورت تجھے میں بتاتی ہوں .." حمامہ نے کشن اٹھا کر اسکی طرف پھینکا
ہاہاہاہاہاہاہا .. عالیاب قہقہ لگا کے سائیڈ پہ ہوئی
"میں یہاں صبح چار بجے سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں اور تم تم آ کر اس طرح سے مجھے اٹھا رہی ہو احسان فراموش انسان میں تمہاری ہڈیاں توڑ دوں گی اگر یہ مٹھو دوبارہ میرے پاس آیا تو .." حمامہ غصے سے لال پیلی ہو گئی
"ہاہاہاہا اچھا نہ غصہ نہ کر میری مامہ جانی شولی نہ ..." عالیاب معصوم سی شکل بنا کر بولی
"جا میں نی بولتی .." حمامہ منہ پھلا کے صوفہ پہ بیٹھی
ا"چھا نہ معاف کر دے میری پیاری دوست نہیں شولی ..دیکھ میں تیرے لئے اتنے سارے گفٹ لائی ہوں .." عالیاب اسکو ہگ کرتی لاڈ سے بولی
"سچی تو گفٹ لائی ہے نہ میرے " حمامہ نے اسکو دیکھا
عالیاب نے گردن ہاں میں ہلائی
"لو یو یارا .." حمامہ زور سے اسکا گال چومتی بیگ کی طرف بھاگی
عالیاب اسکی جلد بازی پہ مسکرائی
کافی سارا ٹائم عالیاب کے ساتھ گزار کر حمامہ گھر گئی تو عالیاب بھی سونے چلی گئی حمامہ سے مل کے وہ سب کچھ بھول گئی تھی
🌹🌹🌹
وقت اپنی رفتار سے گزر رہا تھا کسی کا اچھا تو کسی کا برا ماہ بیر نے ایک ہفتے میں اپنی بلیک بیوٹی کو بہت ڈھونڈہ لیکن اسکو کچھ پتا نہ چلا وہ تو یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ اس دن کس فلائٹ سے کہاں گئی ہے جیسے جیسے دن گزر رہے تھے اسکی بیچینی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا
دل تو کر رہا تھا ساری دنیا الٹ کے بھی اپنی بلیک بیوٹی کو سامنے لے آۓ جو اسکا سب کچھ لوٹ کر پتا نہیں دنیا کے کس کونے میں چھپ گئی تھی
"حاشر کہاں ہے ..." فون کان سے لگاے اسکی سیکریٹری سے پوچھا
"سر اپنے آفس میں ہیں .." اسنے جواب دیا تو ہوں کہتا اسکے آفس چلا گیا
ڈور کھولا تو سامنے ہی حاشر لیپ ٹاپ پہ جھکا کافی مصروف تھا ڈور کی آواز پہ اوپر دیکھ تو ماہ بیر کو دیکھ کر مسکرایا
"ارے کوئی کام تھا تو مجھے بلا لیتے .."
"ہاں بس ایک بہت ضروری کام تھا تو سوچا خود مل لوں تم سے .." ماہ بیر بھاری آواز میں کہتا بیٹھا
"ہاں بولو .." حاشر لیپ ٹاپ سائیڈ پہ کرتا اسکی طرف متوجہ ہوا
"ایک لڑکی کو ڈھونڈنا ہے .." ماہ بیر اسکو یاد کر کے مسکرایا
"ہاں ہو جائے گا نام بتاؤ .." حاشر نے لیپ ٹاپ پھر سے سامنے کیا
"پتا نہیں .." ماہ بیر سوچ کر بولا
"پرنٹس کا نام .." حاشر نے غور سے اسکا چہرہ دیکھا
"پتا نہیں .." ماہ بیر کسی غیر مرائی نقطے کو دیکھتا بولا
"کوئی تصویر وغیرہ ..." حاشر حیران ہوا پہلی بار وہ کسی لڑکی کے بارے میں بات کر رہا تھا
"نہیں ہے ..." ماہ بیر ویسے ہی بولا
"فون نمبر ..." حاشر کو اسکی حالت مشکوک لگی
"نہیں پتا .." ماہ بیر کو کچھ یاد آیا تو مسکرایا
"کہاں رہتی ہے .." حاشر ضبط سے بولا
ماہ بیر نے کندھے اچکا دیے
ابے یار جب کچھ پتا نہیں اس کے بارے میں تو کہاں سے ڈھونڈھ کے دوں ..." حاشر چڑ گیا
پتا کچھ ہے نہیں اور چلے ہیں لڑکی ڈھونڈھنے
"تمھارے پاس صرف دس دن ہیں اس لڑکی کو کہیں سے بھی ڈھونڈھو سکیچ مل جے گا شام کو .." اب ماہ بیر غصے سے بولا
"کون ہے یہ .." حاشر نے اسکا انداز دیکھا کچھ کچھ تو سمجھ آ رہا تھا اسکو بھی
"میرا عشق ..." دو لفظ کہتا اسکا مقام بتا گیا
حاشر کا منہ کھل گیا
"صرف دس دن اگر کوئی خبر نہ ملی تو اس پورے شہر کو آگ لگا دوں گا ..آخری بار ائیرپورٹ پہ دیکھا تھا .." لہو رنگ آنکھوں سے خوفناک لہجے میں کہتا زور سے دروازہ مارتا چلا گیا
حاشر تو اسکے لفظوں پہ ہی حیران رہ گیا
🌹🌹🌹
حمامہ اور عالیاب کا ریزلٹ آ گیا تھا دونوں ہی اچھے نمبروں سے پاس ہوئی تھی اور اب دونوں کو یونی جوائن کرنے کا آرڈر ہوا تھا جس پہ عالیاب نے کافی احتجاج کیا تھا لیکن کسی نے نہ سنی آج دونوں نے یونی دیکھنے جانا تھا عالیاب تو ہمیشہ کی طرح بہت ڈری ہوئی تھی لیکن حمامہ نے اسکی ایک نہ چلنے دی
لاہور کی سب سے بڑی یونی کے سامنے وہ دونوں کھڑی تھی عالیاب کی تو ہمت نہ ہو رہی تھی جانے کی لیکن حمامہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ ہی کھینچا اندر انٹر ہوئی تو وہاں طلبہ کا سیلاب آیا ہوا تھا اتنے لوگ دیکھ کر عالیاب کی جان پہ بن آئ
"تو رک ایک منٹ یہاں میں کسی سے بزنس ڈیپارٹمنٹ کا پوچھ کر آئ .." حمامہ نے اسکو گارڈن کی ایک سائیڈ پہ کھڑا کیا
عالیاب نے گھبرا کر اسکا ہاتھ پکڑا
"ڈر مت میں یہیں ہوں سامنے ہی بس ابھی آئ .." حمامہ نہ ی اسکی آنکھوں میں رقم ڈر دیکھا تو تسلی دی
عالیاب ڈری سہمی سی وہاں کھڑی تھی اور حمامہ سامنے ہی لڑکیوں سے پوچھ رہی تھی
"ہیلو بےبی .." پتا نہیں کہاں سے وہ تین لڑکے نمودار ہوے
عالیاب بدک کے پیچھے ہوئی
انکو دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آۓ اور خود کانپ گئی
"کیا ہوا بےبی کو ڈر لگ رہا ہے .." ایک لڑکے نے اسکو کانپتے دیکھ اسکی طرف ہاتھ بڑھایا
یہ یہاں سے بڑے لوگوں کے بگڑے ہوے بچے تھے جن کو کوئی کچھ نہیں کہتا تھا
حمامہ نے دیکھا تو جلدی سے اسکے پاس آئ اور اسکو پکڑا
"او تو دوسری بےبی بھی ہے .." اب دوسرا لڑکا بولا
"آ جاؤ ساتھ چلتے ہیں .." اس نے ہاتھ آگے کر کے پکڑ نے کی کوشش کی
حمامہ کا خون کھول گیا
ایک ہاتھ گھما کے اسکے منہ وہ مارا تو اسکے ناک سے خون نکل آیا
"دفع ہو یہاں سے ورنہ اچھا نہیں ہو گا .." عالیاب کو اپنے پیچھے کرتی وہ غرائی
"نہیں تو کیا کرو گی ابھی بتاتا ہوں تمہے .." ایک لڑکا آگے آیا
حمامہ نے اسکی ناک پہ اتنی زور سے پنچ مارا کے وہ چیختا وہیں نیچے بیٹھ گیا شاید ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی
کچھ ہی دیر میں وہاں مجما لگ چکا تھا سب ہی اپنا کام چھوڑ کے انکو دیکھ رہے تھے لیکن مدد کسی نے نہیں کی
عالیاب بری طرح رو اور کانپ رہی تھی لیکن حمامہ کو روکنے کی ہمت نہ ہوئی جو ان لڑکوں کی اچھی خاصی دھلائی کر چکی تھی
انکی اچھی طرح صفائی کر کے ہاتھ جھاڑتی کھڑی ہوئی اور ایک سخت نگاہ وہاں کھڑے لوگوں پہ ڈالی جو تماشہ دیکھ رہے تھے
"ختم ہو گیا تماشہ اب آپ سب جا سکتے ہیں .." غصے سے کہتی عالیاب کا ہاتھ پکڑ کے جانے لگی پھر رکی
ایک زور کی کک لڑکے کو ماری جو پہلے ہی بے حال تھا وہ تینوں اتنے ہٹےکٹے نہیں تھے اس لئے حمامہ انکو بری طرح پیٹ گئی تھی عالیاب کا ہاتھ پکڑے وہاں سے چلی گئی جس کی حالت خراب ہو رہی تھی
🌹🌹🌹
بیس دن سے ماہ بیر نے بلیک بیوٹی کو ڈھونڈھنے کے لئے زمین آسمان ایک کر دیا تھا لیکن وہ تو ایسے غائب ہوئی تھی کہ جیسے کبھی تھی نہیں ماہ بیر کی بیچینی اب غصہ بنتی جا رہی تھی اتنا بڑا بزنس ٹائیکون ایک لڑکی کو نہ ڈھونڈھ سکا اب تو وہ منہ سے آگ ہی برسا رہا تھا
اسکا ہر نقش ہر وقت اسکے دل و دماغ پہ چھایا رہتا تھا وہ پانی سے بھری گرے قاتل آنکھیں ہر وقت اسکو پریشان کرتی تھی وہ چھوٹی سی لڑکی ماہ بیر خان کے ہوش و حواس پہ بری طرح چھا گئی تھی پوری طرح ماہ بیر خان کو اپنے سحر میں جکڑ چکی تھی
"نظر سے قتل کر ڈالو نہ ہو تکلیف دونوں کو 😘😘
تمہے خنجر اٹھانے کی مجھے گردن جھکانے کی 💘💘"
"کیا مطلب ہے کچھ پتا نہیں چلا زمین کھا گئی یہ آسمان نگل گیا اسکو .. ایک لڑکی تم سے ڈھونڈھی نہیں جا رہی . ایک آخری موقع دے رہا ہوں اگر اب تم نے کوئی بری خبر سنائی تو پھر دوبارہ کوئی خبر سنانے کو زندہ نہیں رہو گے .." اپنے روم میں یہاں وہاں چکر کاٹتا اپنے آدمیوں پہ دھاڑ رہا تھا
موبائل بند کر کے زور سے دیوار پہ دے مارا اور وہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا بیس دنوں میں پتا نہیں کتنے موبائل توڑ چکا تھا
"ماہ بیر بیٹا .." گرینڈ پا کی آواز آئ تو جلدی سے ہاتھ میں جلتا سیگریٹ پاؤں کے نیچے مسلی اور باہر گیا
"یس گرینڈ پا کوئی کام تھا تو مجھے کال کر دیتے میں آ جاتا .." ماہ بیر نے جلدی سے انکا ہاتھ پکڑ کر بیٹھایا
"ہاں بیٹا وہ تمہاری پھوپھو کا فون آیا تھا .." گرینڈ پا گہرا سانس لے کے بولے
"او کیسی ہیں وہ ..." ماہ بیر کو اپنی پھوپھو یاد آئ
"ٹھیک ہے وہ بلایا ہے ہمیں دو دن بعد .." گرینڈ پا بولے
"کیوں خیریت ..." ماہ بیر کو تشویش ہوئی
"ہاں سب خیریت ہے اسکی چوٹی بیٹی کی شادی ہے تو بلایا ہے تم چلے جاؤ بیٹا اور حاشر کو بھی لے جاؤ پاکستان .." گرینڈ پا پیار سے بولے
"نہیں میں وہاں نہیں جاؤں گا .." ماہ بیر سخت لہجے میں بولا
"لیکن بیٹا ..." گرینڈ پا نے کچھ کہنا چاہا
"نہیں بس میں نے کہہ دیا میں نہیں جاؤں گا .." ماہ بیر کے لہجے کے ساتھ چہرے کو تاثر بھی سخت تھے
"ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی مجھے لگا تھا اس بوڑھے دادا کی بات کی اہمیت ہے اس لئے میں نے رخسانہ کو تمھارے آنے کا کہہ دیا لیکن تمہاری نظر میں میری کوئی اہمیت نہیں ہے میں بوڑھا اتنا سفر نہیں کر سکتا ورنہ خود چلا جاتا .. لیکن خیر ہے مرضی تمہاری .." گرینڈ پا اموشنل بلیک میل کرنے لگے
"نہیں ایسی بات نہیں ہے گرینڈ پا ..." ماہ بیر جلدی سے بولا
"تو مان لو میری بات .." گرینڈ پا نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا
"اچھا ٹھیک ہے .." ماہ بیر کہتا انکا ہاتھ لبوں سے لگاتا چلا گیا
"کچھ پتا چلا .." ڈنر کے بعد گرینڈ پا سونے چلے گئے تو ماہ بیر نے پوچھا
"نہیں .." حاشر اپنے موبائل میں بزی تھا
"کیا فائدہ تمھارے ہیکر ہونے کا تم سے ایک لڑکی نہ ڈھونڈھی گئی .." ماہ بیر کو غصہ آنے لگا
"تو تم خود ڈھونڈھ لو مسٹر بیسٹ .." حاشر دانت پیس کر بولا
بغیر کسی انفارمیشن کے وہ دس دن خوار ہوا اور ان نواب کے مزاج نہیں مل رہے
"اگر دوبارہ یہ لفظ بولا تو میں تمہارا منہ توڑ دوں گا .." ماہ بیر کا پارہ ہائی ہوا
حاشر کے علاوہ کسی کو نہیں پتا تھا اس بات کا گرینڈ پا بھی نہیں جانتے تھے صرف اسکے دونوں ہیلپر عمر عاقب اور بس حاشر ہی جانتا تھا کیوں کے ہیکر ہونے کی وجہ سے وہ بھی کافی مدد کرتا تھا
"ہاتھ تو لگاؤ میں نے بھی کوئی چوڑیاں نہیں پہنی ہوئی .." حاشر کونسا اس سے کم تھا
ماہ بیر نے جواب نہ دیا وہ کسی اور کی سوچوں میں گم تھا
"ویسے ایک بات بتاؤ تم نے ہوٹل اور ائیرپورٹ کے سی سی ٹی وی چیک کیے شاید کچھ پتا چل جاتا .." حاشر نے اسکی آنکھوں میں دیکھا جو اس وقت لال انگارہ ہو رہی تھی
"لعنت ہے .. مجھے پہلے خیال کیوں نہیں آیا .." ماہ بیر کو خود پہ غصہ آیا
"مجنوں کو ہوش ہوتا تو خیال آتا .. آج کل تو خیالوں پہ کوئی اور چھائی ہوئی ہے .." حاشر ادھر ادھر دیکھتا بولا
"بکواس مت کرو .." ماہ بیر نے اسکو خونخوار نظروں سے دیکھا اور موبائل پہ نمبر ملانے لگا
"ہاں جیک جہاں اس دن پارٹی تھی مجھے اس ہوٹل کے سارے کیمرا کی فوٹیج چاہیے تمھارے پاس آدھا گھنٹہ ہے .." سنجیدگی سے کہہ کر بغیر اسکی بات سنے فون بند کر دیا
پیچھے جیک سر سر کرتا رہ گیا
جیک کو کال کرنے کے بعد ائیرپورٹ پہ کسی کو فون کیا اور اسکو بھی آدھے گھنٹے کا ٹائم دے کے فون بند کر دیا حاشر نے تاسف سے سر ہلا کے افسوس کیا
"ویسے تم پاکستان کیوں نہیں جانا چاہتے .." حاشر کو گرینڈ پا کی بات یاد آئ
"تم جانتے ہو پاکستان میں میں کیا کھو چکا ہوں اب میرا وہاں جانے کا دل نہیں کرتا .." سوچ کے ہی دماغ کی رگیں تن گئی
"بس کرو اب تو بہت سال گزر چکے ہیں اور تم تو اسکا بدلہ بھی لے رہے ہو پھر .." حاشر نے سمجھانا چاہا
"ابھی نہیں ابھی تو اصلی مجرم رہتا ہے میں اسکو عبرت کا نشان بنا دوں گا بس ایک بار مجھے اسکا پتا چل جائے .." ماہ بیر کی آنکھوں سے شرارے نکل رہے تھے ہاتھ کی مٹھیاں پینچے وہ زخمی شیر بن گیا تھا وہ سامنے ہو اور ابھی اسکو زندہ زمین میں گاڑھ دے
ابھی حاشر کچھ کہتا کے ماہ بیر کا فون بجا
"ہاں جیک بولو .." ماہ بیر خو کو کنٹرول کر کے بولا
"ٹھیک ہے .." فون رکھتے ہی لیپ ٹاپ کھولا
جیسے ہی پارکنگ کی ویڈیو آن کی کیمرے کے بلکل سامنے ہی وہ ظالم لڑکی کھڑی تھی جو اتنے دن سے ماہ بیر کا سب کچھ لوٹ کے پتا نہیں کہاں چھپ گئی تھی اسکو دیکھتے ہی ماہ بیر کے دل پہ ٹھنڈی پھوار پڑی آنکھوں میں نرمی آئ چہرے کے پتھر جیسے تاثر موم کی طرح نرم ہوے جو حاشر نے بڑے غور سے دیکھے
پھر کچھ ہی دیر میں ائیرپورٹ کی فوٹیج بھی آ گئی جہاں اسکا چہرہ دکھائی دیا ماہ بیر کا دل کیا وہ سامنے ہو اور اسکو چھو لے اس کے بعد حاشر نے ائیرپورٹ پہ موجود اپنے کنٹیکٹ سے پتا کروایا وہ فوٹیج دیکھا کر کے یہ لڑکی کہاں گئی ہے
جو نیوز پتا چلی وہ ماہ بیر کو چونکانے کے لئے کافی تھی
"کیا اب تم جاؤ گے پاکستان .." حاشر نے اسکو دیکھا جو ہلکا سا مسکرا رہا تھا
"ہممم کل رات کی ٹکٹس بک کروا لو تم بھی ساتھ چل رہے ہو .." مسکرا کے کہتا روم کی طرف بڑھ گیا
اچانک سے سب اچھا لگ رہا تھا ورنہ تو اتنے دنوں سے شولا جوالہ بنا ہوا تھا
حاشر نے حیرت سے اسکو دیکھا جو مسکرا رہا تھا
"اللہ تمہے ہمیشہ ایسے ہی خوش رکھے .." حاشر نے دل سے دعا کی
"بہت تڑپایا ہے بلیک بیوٹی تم نے ماہ بیر خان کو .. بہت جلد ملے گے .." مسکرا کے دل میں اس سے مخاطب ہوتا آنکھیں موند گیا بہت دنوں بعد سکون سے نیند آۓ گی
🌹🌹🌹
عالیاب جب سے یونی سے آئ تھی رو رہی تھی رو رو کر حالت خراب کر لی تھی پورا بدن کانپ رہا تھا رونے کی وجہ سے منہ سرخ ہو گیا تھا آنکھیں سوج گئی تھی اور حمامہ کے لئے اسکو سمبھالنا مشکل ہو گیا تھا
"عالیاب میری جان کچھ نہیں ہوا سب ٹھیک ہے دیکھو ہم اپنے گھر میں ہیں کوئی تمہے کچھ نہیں کہہ رہا .." حمامہ اس کے آنسو اپنے ہاتھوں سے صاف کرتی بولی
"و وہ ل لے جائے گے م مجھے بہ بہت ڈر لگا تھا مجھے م میں میں بہ بہت روئی تھ تھی م مجھے ن نہیں ج جانا و وو گندے ہ ہیں ان انہو ن نے بہت م مارا تھ تھا بہ بہت درد ہوا تھا مجھ مجھے .." حمامہ کے گلے لگی وہ ہچکیوں سے روتی بولتی وہی چھوٹی بچی بن گئی تھی جو پانچ سال پہلے تھی
"نہیں میری جان کوئی کچھ نہیں کرے گا میں ہوں نہ میں سب کو بہت ماروں گی کوئی نہیں آۓ گا یہاں .." حمامہ اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتی بولی
اپنی جان سے عزیز دوست کی یہ حالت دیکھ کر اسکا دل کٹ جاتا تھا لیکن وہ بھی کچھ نہیں کر پا رہی تھی کتنی کوشش کی تھی اسکا ڈر ختم کرنے کی لیکن سب بے کار گزرا
عالیاب اس سے لگی کانپتی نفی میں سر ہلا رہی تھی اتنے سالوں کا ڈر آج بھی ویسا ہی تھا
جب کسی طرح وہ چپ نہ ہوئی تو مجبوراً حمامہ کو اسکو نیند کی گولی دینی پڑی پانی پیتے ہی وہ غنودگی میں جانے لگی نیند میں بھی بڑبڑاتی ہوئی ہچکیاں لے رہی تھی حمام نے بالوں میں ہاتھ پھیرا تو کچھ دیر میں پرسکون ہو گئی
بہت ساری سوچوں کے ساتھ حمامہ نیچے آئ ابھی بیٹھی ہی تھی کے زمان صاحب جلدی جلدی اندر آۓ
"کیا ہوا عالیاب کو کیسی ہے میری بچی .." زمان صاحب پریشان سے بولے
جب سے حمامہ کی کال آئ تھی انکا دل تڑپ گیا تھا اپنی بچی کے لئے جس کی تکلیف کم ہی نہیں ہو رہی تھی
"انکل ریلیکس وہ ٹھیک ہے اب بہت مشکل سے سلایا ہے اسکو .." حمامہ نے انکو سہارا دے کے بیٹھایا
زمان صاحب حد سے زیادہ پریشان تھے ان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کے کیسے وہ اپنی بیٹی کی تکلیف کم کریں اتنے بڑے بزنس مین ہونے کا کیا فائدہ جب وہ اپنی بچی کے لئے ہی کچھ نہیں کر سکتے
حمامہ نے جلدی سے انکو پانی پلایا حمامہ گلاس رکھنے گئی تو انکو اپنی ناک سے کچھ نکلتا ہوا محسوس ہوا ہاتھ لگا کے دیکھا تو خون تھا وہ جی جان سے کانپ گئے جلدی سے ٹیشو سے صاف کیا
"انکل کیا کوئی ایسا راستہ نہیں ہے جس سے ہم عالیاب کو اس تکلیف سے نکال سکے میں ایسے نہیں دیکھ سکتی اسکو .." کچھ دیر پہلے کی اسکی حالت یاد کر کے حمامہ کی آنکھیں بھیگ گئی
"مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا بیٹا میں کیا کروں کتنا بد نصیب باپ ہوں اپنی بچی کو اتنی تکلیف میں دیکھ کر بھی اس کے لئے کچھ نہیں کر پا رہا کیا فائدہ میری اتنی دولت جائیداد کا جب میری بچی ہی ٹھیک نہیں ہے .. میں بہت بے بس محسوس کر رہا ہوں خود کو اب تو میری زندگی کا بھی کوئی بھروسہ نہیں ہے میں کسی مظبوط ہاتھوں میں اپنی بچی دینا چاہتا ہوں اس بھیڑوں کی دنیا میں اسکو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا .." زمان صاحب کو بیٹی کے دکھ نے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا
"ایسے مت کہیں انکل اللہ آپ کو لمبی زندگی دے .. دیکھئے گا ایک دن ضرور ہماری عالیاب کی ہر تکلیف ختم ہو جائے گی .." حمامہ اپنی آنکھیں صاف کر کے بولی
اسکے پاپا بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے اس نے زمان صاحب کو بھی اپنے پاپا کی طرح سمجھا تھا اور زمان صاحب بھی اسکو عالیاب کی طرح ہی پیار کرتے تھے
"اللہ میری بچی کا نصیب اچھا کرے اسکی ساری تکلیفیں ختم کرے .." زمان صاحب اسکے لئے دعا کرتے اٹھ کے چلے گئے
آمین .... حمامہ دل سے کہتی اپنے گھر روانہ ہوئی
🌹🌹🌹
شام کے پانچ بجے لندن سے ایک فلائٹ لاہور لینڈ کی کچھ ہی دیر میں چیکنگ کے بعد مسافر باہر آنے لگے ان میں وہ دونوں بھی تھے دونوں بلیک ڈریس پینٹ پہنے ساتھ ماہ بیر نے بلیک ہی شرٹ پہنی تھی جبکہ حاشر نے ہلکی نیلی شرٹ پہنی تھی حاشر تو اپنا فون کان سے لگاۓ کسی سے بات کر رہا تھا
ماہ بیر اپنی ازلی بے نیازی سے ادھر ادھر دیکھتا جائزہ لے رہا تھا جیسے پہلی بار آیا ہو سب لوگ ان دو ہینڈسم نوجوانوں کو دیکھ رہے تھے جو اس ماحول کے بلکل نہیں لگ رہے تھے
اپنی بیوٹی کو سوچ کے ماہ بیر کے لب مسکراے تو کتنی لڑکیوں نے دل تھام لئے اففف یہ جان لیوا مسکراہٹ
"بہت جلد ملے گے بلیک بیوٹی تم سے .." ماہ بیر دل میں کہتا گاڑی کی طرف بڑھا
پیچھے سے حاشر بھی فون بند کرتا آیا
شاہ ہاؤس میں انکا کافی پرتپاک استقبال ہوا رخسانہ پھوپھو تو اپنے بھائی کے بیٹے کے صدقے واری جا رہی تھی پورے دس سال بعد اسکی شکل دیکھی تھی انکی خوب خاطر داری کی جا رہی تھی جس کو ماہ بیر تو نہیں لیکن حاشر کافی انجوۓ کر رہا تھا ماہ بیر تو بس یہی چاہ رہا تھا کے جلدی سے شادی ختم ہو اور اپنی بیوٹی سے ملے
شاہ ہاؤس کو دلہن کی طرح سجایا ہوا تھا آج مہندی تھی تو گھر کے لان کو اسی حساب سے سجایا تھا کافی گیسٹ آۓ ہوے تھے ان دونوں کو کھانا کھانے کے بعد روم دیکھا دیا تھا کے ریسٹ کر لے پھر رات کو فنکشن لیٹ نائٹ تک چلنا تھا
"کافی اچھا لگ رہا ہے یہاں آ کر .." حاشر روم میں آتا بولا
"ہممم بہت .." ماہ بیر اپنا بیگ کھولنے لگا
"ویسے اب تم اپنی بیوٹی کو کیسے ڈھونڈھو گے لاہور تو بہت بڑا ہے .." حاشر بیڈ پہ لیٹ گیا
"شادی ختم ہو جائے تو اسکو بھی ڈھونڈھ لوں گا لاہور جتنا بھی بڑا ہو اسکو میں کہیں سے بھی ڈھونڈھ کے سامنے لے آؤں گا .." ماہ بیر کہتا واشروم میں بند ہو گیا
🌹🌹🌹
"پلیز چل نہ یار نہیں تو مشعل آپی ناراض ہو جائے گی انہوں نے کتنی محبّت سے کہا تھا کہ عالیاب کو لے کے آنا .." حمامہ کب سے اسکو منا رہی تھی مشعل کی شادی میں جانے کے لئے لیکن وہ منع کر رہی تھی
کل بہت زیادہ رونے کی وجہ سے بخار ہو گیا تھا
"میرا بلکل دل نہیں کر رہا یار جانے کا تم چلی جاؤ نہ میں کیا کروں گی .." عالیاب ایک ہاتھ سے مٹھو کو مرچ کھلا رہی تھی
"دیکھو تم سیدھے طریقے سے میری بات مان لو نہیں تو میں نے اٹھا کے لے جانا ہے ..پلیز چل نہ نہیں تو میں ناراض ہو جاؤں گی اور پھر تیرے گھر بھی نہیں آؤں گی .." حمامہ نے منہ پھلا کے دھمکی دی
"لیکن یار ..." عالیاب نے بے چارگی سے اسکی شکل دیکھی
"کوئی لیکن ویکن نہیں چلو جلدی کرو .." حمامہ نے اسکو ڈریس پکڑا کر واشروم بھیجا
اور خود بھی تیار ہونے لگی اپنا سامان آتے ہوے یہیں لے آئ تھی
مشعل انکے گھر کے ساتھ ہی رہتی تھی جس سے دونوں کی کافی دوستی تھی آج اسکی مہندی تھی مشعل تو انکو اپنی بہنوں کی طرح سمجھتی تھی
دونوں تیار ہو کے انکے گھر پہنچی جہاں کافی سارے گیسٹ آ چکے تھے دونوں رخسانہ آنٹی سے ملتی مشعل کے روم میں گئی
"شکر ہے تم دونوں آ گئی ورنہ میں تم دونوں سے ناراض ہو جانا تھا .." مشعل مسکرا کے ان کے گلے لگی
"میں تو ریڈی تھی آپی لیکن یہ آپکی چہیتی ہی نہیں مان رہی تھی بڑی مشکل سے لائی ہوں اسکو .." حمامہ خفگی سے کہتی اپنا میک اپ ٹھیک کرنے لگی جو پہلے ہی ٹھیک تھا
"کیوں گڑیا آپ کیوں نہیں آ رہی تھی اب تو میں ہمشہ کے لئے جا رہی ہوں ..." مشعل اپنے جانے کا سوچ کر دکھی ہوئی
"نہیں آپی ایسی بات نہیں ہے وہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے بس اسی لئے .." عالیاب آہستہ سے کہتی سر جھکا گئی
"ارے کوئی بات نہیں گڑیا تم یہی میرے پاس بیٹھو اور تم پٹاخہ جاؤ یہ پھول باہر بھابی کو دے کر آؤ انہوں نے مانگے ہیں .." مشعل نے اسکو اپنے ساتھ بیٹھا کے حمامہ کو بولی جو ہر انداز سے اپنی تصویر بنا رہی تھی
"ہاں ہاں جا رہی ہوں بٹھاؤ اس نازک پری کو اپنے ساتھ .." حمامہ مصنوعی ناراضگی سے کہتی پھولوں کی ٹوکری اٹھا کے چلی گئی
مشعل اور عالیاب ہنس پڑی
ابھی حمامہ آخری سیڑھی پہ ہی تھی کا لہنگے میں پاؤں اٹکا
آہہہہ .. حمامہ چیخی
حاشر جو اوپر ماہ بیر کو بلانے جا رہا تھا حمامہ کو گرتا دیکھ جلدی سے آیا اور اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر پکڑا
"گر گئی اللہ جی .." حمامہ میچی آنکھوں سے بولی
"آپ ٹھیک ہیں محترمہ آنکھیں کھولیں .." حاشر سنجیدہ سا بولا
مردانہ آواز سن کے حمامہ نے فٹ سے آنکھیں کھولی اور جلدی سے سیدھی ہوئی
پہلے آنکھیں بند کر کے کھولی پھر آنکھیں چھوٹی کر کے غور سے اسکا چہرہ دیکھا
"اللہ جی اتنا ہینڈسم منڈہ .. تم کہاں سے آۓ ہو ہینڈسم .. یہاں کے تو نہیں لگتے ویسے ہو تو بہت ہینڈسم سنگل ہو کیا .." حمامہ اکسائیٹڈ ہوئی
"جی ..?" حاشر حیرت سے اسکو دیکھ رہا تھا
"ویسے لگتے تو سنگل ہو خیر اگر نہ بھی ہوے تھے تو میں اپنی سوتن کو بھگا دوں گی بہت اچھے وقت پہ ملے ہو لگتا ہے اللہ نے تمہے میرے لئے ہی بنایا ہے ویسے میں بھی ابھی سنگل ہی ہوں اب تو تم اپناؤ دماغ میں بیٹھا لو میرے ہو تم اور میں تمہاری .. میرا نام حمامہ ہے تمہارا کیا نام ہے خیر جو بھی ہو تم ہینڈسم ہو یہی کافی ہے ویسے امیر ہو ہو نہ تم .. کیا ....
"او ہیلو مس تیز گام ذرا بریک پہ پاؤں رکھے پاگل وگل تو نہیں ہو گئی .." حاشر نے اسکی چلتی زبان کو روکا
"پہلے تو نہیں تھی لیکن تمہے دیکھ کر ہو گئی ہوں .." حمامہ مسکرا کر بولی
"ہٹو یہاں سے پتا نہیں کس پاگل سے واسطہ پڑ گیا ..." حاشر جھنجھلا کے کہتا اسکو سائیڈ پہ کرتا چلا گیا
"اوے نام تو بتاتے جاؤ ہینڈسم منڈے .." حمامہ نے پیچھے سے ہانک لگائی
حاشر آنکھیں دیکھا کے چلا گیا
"ہاہاہا بہت مزہ آۓ گا ..." حمامہ ہنستی باہر چلی گئی
🌹🌹🌹
سب تیاری ہو گئی تو دلہن کے آنے انے کا انتظار ہونے لگا ماہ بیر اور حاشر دونوں نے ہلکے سے مہندی رنگ کے کرتے پہنے تھے جو رخسانہ پھوپھو ان کے لئے لائی تھی وہ دونوں اسٹیج کے ایک سائیڈ پہ کھڑے تھے ماہ بیر تو بس ایسے ہی بے زار سا کھڑا تھا اسکو ان ساری رسموں میں بلکل بھی انٹرسٹ نہیں تھا جبکہ حاشر تو کافی انجوۓ کر رہا تھا
کچھ ہی دیر میں دلہن آنے کا شور اٹھا تو سب کی نظریں ان کی طرف اٹھی لال رنگ کی چنری کے نیچے مشعل پیلے رنگ کا خوبصورت لہنگا پہنے سہج سہج کے چل رہی تھی سب دلہن کو دیکھ رہے تھے لیکن ماہ بیر کی نظریں دلہن کی دائیں طرف تھی جہاں وہ دشمن جان تھی ماہ بیر کو تو اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آ رہا تھا اتنی جلدی وہ اسکے سامنے تھی ماہ بیر بغیر پلک جھپکے اسکو دیکھ رہا تھا جیسے ابھی پلک جھپکے گا تو وہ غائب ہو جاۓ گی
دلہن کو اسٹیج پہ بیٹھا کے وہ اسکے ساتھ ہی بیٹھ گئی ہلکے سے پیلے رنگ کی فراک پہ گرین حجاب لئے بغیر کسی میک اپ کے سادہ چہرے میں وہ سب سے الگ سب سے نمایاں لگ رہی تھی بخار کی وجہ سے چہرہ سرخ ہو رہا تھا اس سوگوار حسن میں بھی وہ ماہ بیر کے دل پہ بجلیاں گرا رہی تھی
بیوٹیفل... ماہ بیر سرگوشی میں بولا
"کیا ہوا کہاں کھو گئے تم ..." حاشر نے اسکا کندھا ہلایا
"وہ مل گئی .." ماہ بیر مسکرا کے بولا
"کہاں ہے ...." حاشر نے اسکی نظروں کی سمت دیکھا
ماشاللہ ... حاشر بے ساختہ بولا تو ماہ بیر نے خونخوار نظروں سے اسکو دیکھا
"ماشاللہ بھابھی بہت پیاری ہیں .." حاشر نے جلدی سے بیان بدلہ
اسکے بھابھی کہنے پہ ماہ بیر کے لب پھیلے تو حاشر نے بھی گہری سانس لی ورنہ اسکا کیا بھروسہ بھری محفل میں اسکا منہ توڑ دیتا
ماہ بیر سب فراموش کیے اسکو دیکھ رہا تھا جو اب اسکی نظروں سے پریشان یہاں وہاں دیکھ رہی تھی پھر ساتھ بیٹھی دلہن نے کچھ کہا تو ہلکا سا مسکرائی تو دونوں گالوں میں ڈمپل نظر آۓ ماہ بیر تو بس دیکھتا ہی رہ گیا وہ سادی سی لڑکی کسی کا بھی دل ہلا سکتی تھی
رسم شروع کی گئی تو ماہ بیر کو بھی اسٹیج پہ بلایا وہ خوشی خوشی چلا گیا کیوں کہ عالیاب بھی وہیں بیٹھی تھی مشعل کے پاس بیٹھ کر رسم کرتے اسکی نظریں مسلسل عالیاب پہ ہی تھی جو اسکی نظروں سے اب پریشان ہو گئی تھی ماہ بیر نے غور سے اسکی آنکھوں کو دیکھا جن میں کاجل کی لکیر تھی اس پہ گھنی پلکیں ماہ بیر کا دل کیا ہاتھ بڑھا کے چھو لے لیکن پھر دل پہ جبر کرتا چلا گیا
دل پہ بڑا سارا پتھر رکھ کر ماہ بیر اسٹیج سے نیچے گیا آج بھی وہی گرے کاجل سے سجی سرخ ڈوروں والی آنکھیں ماہ بیر کے دل میں اتھل پتھل مچا گئی تھی دل کی خواھشات بڑھتی ہی جا رہی تھی کہاں وہ ہر لڑکی کو نظر انداز کر رہا تھا اور کہاں اس ظالم نے ابھی تک اسکی طرف دیکھا بھی نہیں تھا ..ایک بار صرف ایک بار نظر اٹھا کے دیکھ لے
اسکی نظروں کی تپش سے پریشان عالیاب نے یہاں وہاں دیکھا تو نظر اس پہ گئی جو بڑی گہری نظروں سے اسکو دیکھ رہا تھا نظروں کا تصادم ہوا اور گھبرا کر پھر سے پلکوں کی جھالر عارضوں پہ گر گئی اسکی طرف دیکھ کر ہی عالیاب جی جان سے کانپ گئی ہتھلیاں گیلی ہو گئی
"آپی میں آتی ہوں .." گھبرا کے کہتی اٹھی اور اسٹیج سے اتر کر گھر کی طرف چلی گئی
ماہ بیر کی نظروں نے دور تک پیچھا کیا
اسکی گھبراہٹ سے ماہ بیر دلکشی سے مسکرایا
"بس کر جا بھائی کیوں لڑکیوں کے دلوں پہ ظلم کر رہا ہے دیکھ کتنی حسرت سے تجھے دیکھ رہی ہیں .." حاشر نے اسکی توجہ کچھ لڑکیوں کی طرف کی جو کافی دیر سے کھڑی ماہ بیر کو دیکھ رہی تھیں
ایک نظر انکو دیکھ کر ماہ بیر منہ پھیر گیا تو حاشر کی ہنسی نکل گئی
"تو تو ایسے چھپ رہا ہے جیسے وہ تجھے کڈنیپ کر لیں گی بیچاریاں دیکھ کر خوش ہو رہی تھی تو دیکھنے دیتا .."
"میرا چھوڑو تم اپنی تیز گام کو سمبھالو بڑی بری ہونے والی ہے تمھارے ساتھ فیوچر میں .." ماہ بیر نے دل جلانے والی مسکراہٹ سے کہا
"لعنت ہو تمہاری کالی زبان پہ .." حاشر کا منہ کڑوا ہو گیا
"رک آتا ہوں " ماہ بیر کہتا اس طرف گیا جہاں عالیاب گئی تھی
ابھی وہ آگے جاتا ہی کے سامنے حمامہ آ گئی
"جی جناب کہاں جانا ہے آپ نے .." حمامہ نے ایک ہاتھ کمر پہ ٹکا کے آئ برو اچکا کے پوچھا
ہاتھ میں پکڑا گلاس منہ کو لگایا
"وہ ابھی جو اندر گئی ہے مجھے اس سے ملنا ہے .." ماہ بیر نے بے تابی سے اندر کی طرف جھانکا
"کیوں وہ آپکی کیا لگتی ہے ..." حمامہ مشکوک ہوئی
"ہونے والی بیوی ..." ماہ بیر نے ابھی بڑے آرام سے جھٹکا دیا
"ک کیا ........." حمامہ کو اچھو لگا
"دماغ سیٹ ہے بھائی کیا بول رہے ہو دوست ہے میری ایسی ویسی حرکت کی تو منہ بھی توڑ دوں گی .." حمامہ کو تو غصہ ہی آ گیا اسکی بات سن کے
"آپکی دوست ہے تو پھر آپ نام بھی جانتی ہوں گیں کیا نام ہے اسکا .." ماہ بیر نے بے چینی سے اسکے حیران چہرے کو دیکھا
"کیوں بتاؤں میں آپکو کیا لگتے ہیں آپ .." حمامہ کا غصہ کم نہ ہوا
"بتایا تو ہے ہونے والی بیوی ہے میری .." ماہ بیر جھنجھلایا
"حد ہے بہی میری ہی بیسٹ فرینڈ کی شادی آپ سے ہونی ہے اور مجھے ہی نہیں پتا .." حمامہ کو تو سمجھ نہ آئ اسکی بات
"دیکھیں میں آپکی دوست سے پیار کرتا ہوں اور شادی کرنا چاہتا ہوں .." اب کہ ماہ بیر آرام سے بولا
دل میں خود کو ملامت کی ایک بیسٹ ہو کہ اس لڑکی کی منتیں کر رہا ہوں
"میں کیسے مان لوں آپ پیار کرتے ہو آج کل تو ہر دوسرا بندہ پیار کرتا ہے اس میں کیا خاص بات ہے .." حمامہ کو اس پہ یقین نہیں آ رہا تھا
"دل چیر کے دکھا دوں .." ماہ بیر کا لہجہ اسکو ڈرا گیا لیکن پھر مظبوط لہجے میں بولی
"کیا کر سکتے ہیں اس کے لئے .."
ایسے ہی تھوڑی اپنی جان سے پیاری دوست دے دینی تھی
"جان لے بھی سکتا ہوں اور دے بھی ..." ماہ بیر کا لہجہ خطرناک حد تک سنجیدہ ہو گیا
"اچھا اب ڈراؤ تو مت آپ .." حمامہ نے برا سا منہ بنایا تو ماہ بیر مسکرایا
"خیر مجھ سے ملیے میں ہوں آپکی ہونے والی اکلوتی سالی حمامہ درانی اینڈ یو ..." حمامہ نے مسکرا کے اپنا تعارف کروایا
"ماہ بیر خان ..." ماہ بیر کی مسکراہٹ گہری ہوئی
"نام تو بڑا پیارا ہے آپکا .." حمامہ کو اسکی پرسنیلٹی اچھی لگی تھی اسنے ماہ بیر کی آنکھوں سے جھلکتے جذبات دیکھے تھے اسی لئے جلدی مان گئی
"اب میری ہونے والی بیوی کا پیارا نام بھی بتا دیں مہربانی ہو گی ..." ماہ بیرا بے صبری سے بولا
"ارے واہ شادی کرنے آپ آ گئے لیکن نام نہیں پتا یہ کیسا پیار ہوا ..." حمامہ نے ناک سکوڑی
"جیسا بھی پیار ہو میں آپکی دوست کو بتا دوں گا آپ بس نام بتا دو .." ماہ بیر مسکرا کے بولا
"ٹھیک ہے .." حمامہ نے سر ہلایا
"بتاؤ پھر ..." ماہ بیر جھنجھلا گیا اس بے وقت آئ آفت سے
"کیا .." وہ گلاس منہ سے لگاتی انجان بنی
"نام .." ماہ بیر نے اب کہ دانت پیسے
بلا وجہ آرام سے بات کر لی ایک بار گن کی زیارت کروا دیتا تو طوطے کی طرح بولتی ...
یہ صرف سوچا
"ہاہاہا اچھا سوری مذاق کر رہی تھی .." حمامہ ہنسی
"بتاؤ اب ..." ماہ بیر کو غصہ آنے لگا
"اچھا بتا رہی ہوں غصہ کیوں ہو رہے ہیں .." حمامہ اسکی بے صبری پہ مسکرائی
"رشیدہ نام ہے آپکی ہونے والی بیوی کا ..." حمامہ نے مسکراہٹ دبائی
"ہیں یہ کیسا نام ہوا .. یہ تو کسی آنٹی کا لگتا ہے .." ماہ بیر حیران ہوا ایسا نام
"ہاں یہی نام ہے کیا ہوا پسند نہیں آیا ہاہاہاہاہاہا ..." حمامہ کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا
ماہ بیر سمجھ گیا کے اس نے پھر سے مذاق کیا ہے تو خود بھی مسکرایا کسی بہت اپنے کی یاد آ گئی تھی
"اچھا سوری بتاتی ہوں ..." حمامہ ہنسی روکتی سیدھی ہوئی
ماہ بیر نے سر ہلایا
"عالیاب نام ہے اسکا .." اب سنجیدہ ہوئی
"لیکن آپ خود اس کے پاس بلکل بھی مت جانا وہ ڈر جائے گی .."
"کیوں ڈر جائے گی میں اتنا برا تھوڑی دکھتا ہوں ..." ماہ بیر کو لگا وہ مذاق کر رہی ہے
"آپ مذاق مت سمجھے یہ اس سے شادی کرنے کے لئے آپکو پہلے بہت کچھ سننا اور برداشت بھی کرنا پڑے گا پھر پتا چلے گا آپ کتنا پیار کرتے اس سے ..." حمامہ کا لہجہ سنجیدہ تھا
"کیا مطلب ہے کیا سننا پڑے گا کیا ہوا ہے ..." ماہ بیر کو اسکی بات سمجھ نہ آئ
"بہت لمبی بات ہے بعد میں بتاؤں گی ابھی بس یہی کہوں گی کہ اپنا دل بڑا رکھیے گا .." حمامہ نے اسکو خبردار کیا
"مطلب کیا ہے اس بات کا ...ماہ بیر کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا
"شادی کے بعد بتاؤں گی سب کچھ ... ویسے بدلے میں مجھے کیا ملے گا .." حمامہ اسکا موڈ چینج کرنے کو بولی
"کیا چاہیے تمہے ..." ماہ بیر ہلکا سا مسکرایا ورنہ تو وہ پریشان ہو گیا تھا
"آپ کیا دے سکتے ہیں ..." حمامہ نے ادا سے بال جھٹکے
"ہینڈسم منڈے کا نمبر ..." ماہ بیر کھل کے ہنسا
"ہاہاہاہاہاہاہاہاہا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے بھلا ... " حمامہ نے قہقہ لگایا
"ٹھیک ہے ڈن .." ماہ بیر کہتا چلا گیا
"اللہ جی پلیز یہ میری یاب جانی کو ٹھیک کر دیں .." حمامہ کہتی روم کی طرف گئی
🌹🌹🌹
عالیاب اسٹیج سے اٹھ کر جلدی سے روم میں گئی اس شخص کی بولتی نظریں اسکا ننھا سا دل دھڑکا گئی ایک دم سے اس سے ڈر لگا جلدی سے واشروم گئی کھینچ کے حجاب اتارا تو ریشم جیسے بھورے بال آبشار کی طرح کمر پہ بکھر گئے منہ پہ پانی کے چھینٹے مارتی خود کو پر سکون کرنے لگی ابھی بھی ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ دیکھ رہا ہو
"کیا ہوا یاب جانی تو ٹھیک تو ہے آپی کہہ رہی تم وہاں سے اچانک اٹھ گئی ..." حمامہ نے واشروم کا ڈور ناک کیا
عالیاب حجاب ہاتھ میں پکڑتی باہر آئ
"ہاں ٹھیک ہوں بس باہر تھوڑی گھبراہٹ ہو رہی تھی اس لئے آ گئی .." کہتی صوفہ کی پشت پہ سر رکھتی آنکھیں موند گئی
"ارے تمہے تو پھر سے بخار ہو گیا . تم رکو میں جوس لے کے آتی ہوں پھر میڈیسن بھی دیتی ہوں ..." حمامہ اسکا ماتھا چھوتی جلدی سے بولی
روم سے باہر نکلی تو ماہ بیر مل گیا اس سے باتوں میں دیر ہو گئی جب جوس لے کے واپس آئ تو عالیاب وہیں سوئی ہوئی تھی حمامہ مسکرائی اسکو دیکھ کر
"عالیاب میری جان اٹھ یہ جوس پی لو پھر ہم گھر چلتے ہیں ..." اسکو سہارا دے کر اٹھایا اور میڈیسن دی
مشعل آپی سے مل کے وہ عالیاب کو ساتھ لئے گھر چلی گئی عالیاب تو بغیر چینج کیے ہی سو گئی حمامہ نے چینج کیا اور اس کے ساتھ ہی لیٹ گئی کافی دیر ہو گئی تھی تو مما کو گھر نہ آنے کا میسج کر دیا
🌹🌹🌹
ماہ بیر تو عالیاب کا جاتے وقت سرخ چہرہ دیکھ کر ہی پریشان ہو گیا تھا لیکن پھر کل تک صبر کرنا تھا جب سے حمامہ نے بات کی تھی اسکو کسی پل چین نہیں آ رہا تھا پتا نہیں کیا کہنا ہو گا اسکی بلیک بیوٹی کے بارے میں کیا بات ہو گی کہیں کچھ برا نہ ہو
حاشر نے جب حمامہ کو جاتے دیکھا تو سکھ کا سانس لیا
"کیا لڑکی تھی ایک دم پٹاخہ پتا نہیں اس کے گھر والے کیسے برداشت کرتے ہوں گے اور بھابھی کیسے کرتی ہوں گی یہ تو اچھے خاصے بندے کو پاگل کر دے .. ویسے کر تو میری تعریف ہی رہی تھی کیا کہہ رہی تھی ..... ہاں ہینڈسم منڈا ... سلی گرل ...."
حاشر کافی دیر سے اسکے بارے میں ہی سوچ رہا تھا
ماہ بیر جب سے روم میں آیا تھا سیگریٹ پھونکتا اپنی جان جلا رہا تھا دماغ میں عجیب عجیب سے خیال آ رہے تھے
"اوۓ مجنوں کیا سوچ رہا ہے اب تو بھابھی بھی مل گئی میں نے رخسانہ پھوپھو سے پوچھا تھا وہ یہیں ساتھ والے گھر میں ہی رہتی ہے ..." بیڈ پہ لیٹے حاشر نے اپنا کارنامہ سنایا
"ہممم پتا ہے ..." ماہ بیر بھاری آواز میں بولا
"اچھا آ جا اب سو جا فلائٹ میں بھی نہیں سوۓ تھے .. آج تو بہت تھک گئے ویسے مزہ کافی آیا ..." حاشر مسکرا کے کہتا سونے لگا
ماہ بیر بنا جواب دے وہیں کھڑا رہا سوچوں کے سارے دھاگے عالیاب میں ہی الجھے تھے پتا نہیں کیسی ہوگی دوائی کھائی بھی یا نہیں وہیں کھڑے صبح کی اذان سنائی دی تو چونکا پھر ٹائم دیکھ کر مسکرایا
"بہت تڑپا رہی ہو ماہ بیر خان کو ..." تصور میں اس سے مخاطب تھا
ایش ٹرے راکھ سے بھر چکی تھی
پھر اٹھ کے وضو کیا نماز پڑھ کے سو گیا
🌹🌹🌹
صبح عالیاب اٹھی تو بخار کافی کم تھا بس نقاہت کی وجہ سے بستر سے اٹھ نہیں پائی ساتھ ہی حمامہ کو دیکھ کر مسکرائی جو گہری نیند میں تھی اسکو اپنی یہ واحد دوست بہت عزیز تھی کتنا خیال رکھتی تھی اسکا ہر وقت ساۓ کی طرح ساتھ رہتی ہر مشکل میں ساتھ رہتی بڑی بہن کی طرح اسکو سمجھاتی لیکن کچھ بھی ٹھیک نہ ہوا
عالیاب نے کتنی کوشش کی سب بھولنے کی نہ ڈرنے کی لیکن ہر دفع کچھ نہ کچھ ہو جاتا کہ اسکا تھوڑا سا حوصلہ جو وہ بہت کوشش سے حاصل کرتی وہ بھی ٹوٹ جاتا اس کے بابا اسکی وجہ سے کتنے پریشان رہتے تھے کہتے کبھی نہیں تھے لیکن نظر تو آتا تھا سب
اس نے خود بھی کتنی کوشش کی کہ نہ ڈر سب کا سامنا کرے لیکن وہ بھی بے بس تھی خواب اسکا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے کبھی کبھی تو لگتا وہی پانچ سال پہلے والا سب آج بھی سامنے آ جائے گا پھر سے وہ پکڑی جائے گی پھر سے وہی سب ہو گا اسکی تو روح تک کانپ جاتی
"یاب ٹھیک ہو بخار اتر گیا دکھاؤ ..." حمامہ نے تھوڑی سی آنکھیں کھول کے اسکو دیکھا تو سیدھی ہو کے بیٹھی
"ہاں ٹھیک ہوں میری پیاری ..تھینک یو تمہارا ..." عالیاب مسکرائی
"دوبارہ تھینک یو بولا تو میں نے دانت توڑ دینے ہیں تمھارے ..." حمامہ مصنوعی غصے سے کہتی اٹھی اور دروازہ کھولا
دروازے کے سامنے بیٹھا مٹھو یاب یاب کرتا جلدی سے اندر آیا
"ارے میرا پیارا مٹھو مس کیا مجھے .." پیار سے مٹھو کی فر پہ ہاتھ پھیرتی بولی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے مٹھو سے زیادہ بات نہ ہوئی
"ہاں بس ایک یہی تمہے یاد رہتا ہے باقی کو بھول جاتی ہو ..." حمامہ منہ پھلاتی واشروم میں بند ہو گئی
عالیاب ہنستی مٹھو کو چوری کھلانے لگی جو ابھی بوا دے کے گئی تھی
آج بارات کا فنکشن تھا اور ماہ بیر بے صبری سے عالیاب کے آنے کا انتظار کر رہا تھا لیکن حمامہ کو اکیلے آتے دیکھ مایوس ہوا اور جلدی سے اس کے پاس پہنچا
"عالیاب کیوں نہیں آئ تمھارے ساتھ .." ماہ بیر بے چینی سے بولا
"طبیعت ٹھیک نہیں تھی اسکی رات کو تو میں خود ہی نہیں لے کے آئ .." حمامہ یہاں وہاں دیکھتی کسی کو ڈھونڈھ رہی تھی
"کیا ہوا اسکو کیوں طبیعت خراب ہو گئی اس نے دوائی لی کیا ..." ماہ بیر کا دل کیا سب چھوڑ کے اس کے پاس چلا جائے
"ہاں لی ہے دوائی اور اب وہ ٹھیک ہے .." حمامہ کی نظریں ابھی بھی کسی کی تلاش میں تھی
"کیا دیکھ رہی ہو تم مجھ سے بات کرو .." ماہ بیر اسکے لاپرواہ انداز پہ چڑا
"او ہو آپ سے بھی بات کر لوں گی ابھی آپ یہ بتائیں کہ ہینڈسم منڈا کہاں ہے نظر نہیں آ رہا .." اب کہ حمامہ نے اسکو دیکھا جو تپا پڑا تھا
"اوپر ہے .." ماہ بیر سنجیدہ سا بولا
"ٹھیک ہے .. بارات کے بعد کافی شاپ میں ملے گے .." حمامہ کہتی جلدی سے چلی گئی
پیچھے ماہ بیر غصے سے مٹھیاں پینچ کر رہ گیا
حاشر کال کر کے واپس مڑا ہی تھا کے سامنے سے آتے انسان کو دیکھ کر منہ پھیر لیا
"شرما رہے ہو مجھ سے ہینڈسم منڈے .." حمامہ اس کے منہ پھیرنے پہ مسکرائی
"میرا نام حاشر ہے .. یہ بکواس لفظ یوز کرنے کی ضرورت نہیں ہے ..." اسکو دیکھتے ہی حاشر کا بی پی ہائی ہوا
"واللہ نام تو بڑا پیارا ہے بلکل تمہاری طرح .. لیکن میں تو ہینڈسم منڈا ہی کہوں گی .." حمامہ ادا سے بال جھٹک کر بولی لبوں پہ ابھی بھی مسکراہٹ تھی جو حاشر کو زہر لگ رہی تھی
"جہنم میں جاؤ تم پاگل لڑکی ..." حاشر غصے سے کہتا جانے لگا
"تم ساتھ چلو تو میں تیار ہوں .." حمامہ سامنے آئ
"کیا چاہیے .." حاشر نے آنکھیں بند کر کے غصہ ضبط کیا ورنہ دل تو کر رہا تھا اسکو کہیں غائب کر دے
"تم ...." پیار بھرے لہجے میں یک لفظی جواب آیا
"نہیں مل سکتا اب جاؤ .." حاشر نے جان چھڑائی
"کیوں نہیں مل سکتے .." حمامہ نے اسکو دیکھا جو غصے کی شدت سے لال ہو رہا تھا
"شادی شدہ ہوں ..." حاشر نے سفید جھوٹ بولا
"تو دوبارہ کر لو اس میں کونسی بات ہے بہت سارے لوگ دوسری شادی کرتے ہیں . ویسے دوسری شادی کے بہت فائدے ہیں . اگر پہلی بیوی سے لڑائی ہو جاۓ تو دوسری کے پاس چلے جاؤ اور اگر ....."
"بس چپ ایک دم چپ .. ایک بار میں سمجھ نہیں آتی کیا بات مجھ سے دور رہو .." حاشر نے انگلی اٹھا کے وارن کیا
"اور نہ رہوں دور تو .." حمامہ اسکی دھمکی کو کسی خاطر میں نہ لائی
"دیکھو میں بہت برا ہوں بہتر ہے تم اپنا راستہ بدل لو تمہے کچھ نہیں ملے گا .." حاشر نے نرمی سے سمجھانا چاہا
"جو بھی ہو ایک بار میرے دل نے تمہے چن لیا ہے اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے تو بہتر ہے تم خود کو تیار کر لو میرے لئے کیوں کہ اب تم صرف میرے ہو .. ہینڈسم منڈے .."
بڑے پیار سے کہتی آخر میں شرارت سے آنکھ مارتی چلی گئی
یو ......
حاشر تو اس لڑکی کی جرت دیکھتا رہ گیا نہ پیار کا کوئی اثر ہوا اور نہ ہی نرمی کا ..
پورے فنکشن میں حاشر کا موڈ بری طرح خراب تھا اسکو حمامہ پہ بہت زیادہ غصہ آ رہا تھا جو اس کو چھیڑنے سے باز نہیں آ رہی تھی حاشر کچھ کہہ بھی نہیں پا رہا تھا سب کے بیچ تو بس غصے سے گھور رہا تھا لیکن اسکو کوئی اثر نہ ہوا اسکے گھورنے کا
حاشر کو تنگ کر کے حمامہ کو بہت مزہ آ رہا تھا اس کے غصے سے لال چہرہ اتنا کیوٹ لگ رہا تھا کہ وہ بار بار اسکے پاس سے گزرتی کبھی اسکو دیکھ کر مسکراتی
ادھر ماہ بیر کا دل انگاروں پہ لوٹ رہا تھا کسی پل چین نہیں مل رہا تھا دل کی عجیب حالت ہو رہی تھی کہیں کچھ تو غلط تھا چہرے پہ غیظ و غضب کے تاثر لئے وہ بہت زیادہ غصے میں تھا
اللہ اللہ کر کے فنکشن ختم ہوا تو ماہ بیر جلدی سے کافی شاپ پہنچا ایک سائیڈ پہ بیٹھا وہ بار بار گھڑی دیکھ رہا تھا لیکن حمامہ آنے کا نام نہیں لے رہی تھی ابھی وہ کال کرتا کہ وہ آتی دکھائی دی
"کہاں تھی میں کب سے ویٹ کر رہا ہوں .." ماہ بیر غصہ دبا کے بولا
"جیجا جی غصہ نہ ہوں آپکی ہونے والی سے مل کر آ رہی ہوں ..." حمامہ بیگ اور موبائل ٹیبل پہ رکھتی بولی
"کیسی ہے وہ طبیعت ٹھیک ہوئی .." ماہ بیر کا دل اسکی دشمن جان کی طرف گیا
"ہاں اب وہ ٹھیک ہے ..." حمامہ نے اپنے لئے کافی آرڈر کی فنکشن سے بغیر چینج کیے وہ عالیاب سے ملنے گئی اور سیدھا یہاں آ گئی
"اچھا بتاؤ اب سب مجھے .." ماہ بیر سے مزید صبر نہ ہوا
"پہلے نمبر دیں مجھے بعد میں آپ بھول جائے گے ..." حمامہ نے اپنا مطالبہ کیا
ماہ بیر نے سر ہلا کے فورا نمبر دے دیا اب وہ اس سے زیادہ صبر نہیں کر سکتا تھا
🌹🌹🌹
زمان صدیقی اپنے والدین کے اکلوتے تھے بڑی دو بہنیں تھی جو شادی شدہ تھی بڑی منتوں سے انکو مانگا تھا گھر بھر کے لاڈلے تھے لیکن جب انہوں نے اپنی پسند سے زرین سے شادی کی تو سب کی محبّت نفرت میں بدل گئی اور انکو گھر سے بے دخل کر دیا گیا انکی صرف ایک بہن ہی ان سے کبھی کبھی ملتی تھیں
زرین ایک سمجھ دار لڑکی تھی جس نے ہر طرح کے حالات میں زمان صاحب کا ساتھ دیا شادی کے پانچ سال تک کوئی اولاد نہ ہوئی تو زرین پریشان رہنے لگی پھر اللہ کے کرم سے اگلے ہی سال انکی زندگی میں ایک پری آئ عالیاب جو بلکل اپنی ماں کی کاپی تھی اس پری کے آنے سے انکے سونے آنگن میں ڈھیروں خوشیاں آئ یہ پری ان کے لئے رحمت بن کر آئ
عالیاب ایک بہت ہی پیاری اور کیوٹ بچی تھی سرخ و سفید رنگت اور گرے آنکھیں بہت معصوم تھی اپنے ماں باپ کو کبھی تنگ نہیں کیا تھا وقت گزر رہا تھا اور عالیاب بارہ سال کی ہو گئی ان دنوں زمان صاحب ایک میٹنگ کے لئے ملک سے باہر گئے تھے جب وہ بھیانک وقت انکی ہنستی کھیلتی زندگی میں آیا
عالیاب کی سالگرہ تھی لیکن زمان صاحب نہ تھے تو اسکا موڈ خراب تھا اور اپنی سالگرہ بھی نہ منائی تھی حمامہ نے بھی اسکو منایا تھا لیکن وہ نہ مانی اور روٹھ کر گھر سے باہر چلی گئی اور پھر نہ ملی پورا علاقہ چھان مارا لیکن عالیاب کا کچھ پتا نہ چلا زرین کا رو رو کر برا حال رہا ماں تھی جانتی تھی یہ دنیا کیسی ہے زمان صاحب کا فون نہیں لگ رہا تھا
اگلے دن اپنی پری کو سرپرائز دینے کے لئے وہ واپس آۓ تو خود ہی سرپرائز ہو گئے انکی پری کہیں نہ ملی انہوں نے ہر وہ جگہ دیکھ لی جہاں وہ ہو سکتی تھی لیکن اسکا کچھ پتا نہ چلا پولیس میں رپوٹ بھی کروائی لیکن وہ بھی کچھ نہ کر سکے سب پریشان تھے کے اچانک کیا ہو گیا ایسے کیسے وہ غائب ہو سکتی ہے
وہ تو خود سے کہیں بھی نہیں جا سکتی تھی ہمیشہ کسی کے ساتھ ہی گھر سے نکلتی تھی اسکو کھوۓ چار دن ہو چکے تھے لیکن کوئی سراغ نہ ملا زرین بیٹی کی جدائی میں بیمار ہو گئی تھی زمان صاحب اپنی سر توڑ کوشش کر رہے تھے لیکن کچھ بھی نہ پتا چلا تھا پتا نہیں کہاں چلی گئی تھی
حمامہ روز اپنی دوست کے مل جانے کی دعا مانگتی تھی وہ اسکی اکلوتی دوست تھی چھ دن ہو گئے تھے لیکن کوئی کچھ نہ کر سکا نہ ہی پولیس اور نہ ہی کوئی اور .. اب تو اخبار میں بھی گمشدگی کا اشتہار دیا تھا .. دو دن بعد ایک آدمی آیا جس نے بتایا کہ وہ اس لڑکی کو دیکھ چکا ہے اور جس گاڑی میں وہ اسکو لے گئے ہیں اسکا نمبر بھی جانتا ہے جب سب کو پتا چلا کے عالیاب کڈنیپ ہوئی ہے تو سب خوفزدہ ہو گئے تھے کیوں کہ یہاں لڑکیوں کو اغوہ کر کے بہت سارے کام لئے جاتے تھے
اس آدمی کی مدد سے گاڑی ڈھونڈھی اور پھر اسکی لوکیشن معلوم کی پولیس کہ ساتھ زمان صاحب وہاں گئے تو انکی پری مل گئی لیکن کوئی اس پری کو بری طرح کچل چکا تھا وہ نازک پھول مرجھا چکا تھا زمان صاحب جلدی سے اسکے پاس پہنچے اسکی حالت اتنی زیادہ خراب تھی کہ زمان صاحب کی آنکھیں بھیگ گئی اپنے جگر کے ٹکڑے کو اس حالت میں دیکھ کر اسکی مدھم سانسیں سنتے اسکو ہسپتال لے گئے اور وہاں جو خبر پتا چلی وہ انکی دنیا دہلا گئی
عالیاب اجتماعی زیادتی کا نشانہ بن چکی تھی کسی کی درندگی کی بھینٹ چڑھ گئی تھی اسکے جسم پہ بے جا تشدد کے نشان تھے اسکا نروس بریک ڈاؤن ہو چکا تھا اور وہ کوما میں چلی گئی زمان صاحب اور زرین پہ تو قیامت ٹوٹ گئی تھی انکی پھولوں سے نازک بچی کا کیا حال ہو گیا تھا
جس پری کو کبھی انہوں نے پھول کی چھڑی سے بھی نہ چھوا تھا وہ پری کسی شیطان کی ہوس کا نشانہ بن گئی زرین تو بری طرح صدمے میں تھی اسکی چھوٹی کی بچی کس قدر تکلیف میں تھی انکا دل کٹا جا رہا تھا زمان صاحب کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا
ہوسپٹل کے بیڈ پہ لیتی انکی جان انکی بچی بہت زیادہ بری حالت میں تھی چہرے پہ زخموں کے نشان زرد رنگت اور ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی تھی اپنی بچی کا صدمہ برداشت نہ کرتی زرین ہمیشہ کے لئے چلی گئی زمان صاحب کو اکیلا چھوڑ دیا
بہت مشکل سے خود کو سمبھالتے زمان صاحب نے اپنی بچی کا خیال رکھا تیرا سالہ حمامہ نے بھی انکا پورا ساتھ دیا ہر وقت وہ اپنی دوست کے ساتھ رہتی ہر طرح سے اسکا خیال رکھتی بلکل بڑی بہن کی طرح اسکو سمبھالا حلانکہ وہ خود بھی بچی تھی لیکن عالیاب کا خود سے بڑھ کر خیال رکھتی .. عالیاب تو زندہ لاش بن کے رہ گئی تھی
زمان صاحب نے پوری کوشش کی مجرموں کو ڈھونڈھنے کی لیکن وہ غائب ہو چکے تھے جب انہے عالیاب ملی تو وہ وہاں اکیلی تھی کوئی بھی نہیں تھا جس کی وجہ سے انکو کچھ پتا نہ چل سکا ....
ایک سال گزر چکا تھا لیکن عالیاب کی حالت میں کوئی سدھار نہ آیا تھا وہ بس سن سکتی تھی منہ سے ایک لفظ نہ نکالا تھا کبھی تکلیف حد سے بڑھتی تو آنکھوں سے آنسو کی صورت باہر انے لگتے
ڈاکٹرز تو امید چھوڑ چکے تھے کہ وہ ہوش میں آۓ گی .. ڈیڑھ سال بعد عالیاب نے آنکھ کھولی تو سب نے شکر کیا صرف زمان صاحب اور حمامہ ہی اسکے ساتھ رہتے تھے ہوش آنے کے بعد بھی وہ ٹھیک نہیں تھی بس چت لیٹی بس دیکھتی رہتی نہ کوئی بات کرتی نہ کسی کی بات کا جواب دیتی بس چپ چاپ سب دیکھتی رہتی کبھی تو اتنی تکلیف کے زور زور سے چلانا شروع کر دیتی چیختی ہاتھ پیر مارتی وہ پاگل لگتی تھی اور زبان پہ صرف ایک ہی بات ہوتی انکل پلیز چھوڑ دو بہت درد ہوتا ہے یہ الفاظ سن کے زمان صاحب کی روح تک زخمی ہو جاتی لیکن پھر اسکو سکون کا ان انجکشن لگا دیا جاتا
گھر آ کر بھی یہی حال تھا حمامہ اب بھی اسی کے ساتھ تھی ڈاکٹر کا کہنا تھا اسکو نارمل ہونے میں بہت وقت لگے گا آہستہ آہستہ اب وہ ٹھیک ہو رہی تھی کسی کو اپنے پاس دیکھ کر چیخ بھی نہیں مارتی تھی ہاں بس یہ تھا کے ڈر بہت جاتی تھی حمامہ اور اپنے بابا کے سوا کسی سے بات نہیں کرتی تھی ان سے بھی بات نہیں کرتی تھی بس انکی باتوں کے چھوٹے چھوٹے جواب دیتی تھی جسم کے زخم بھی ٹھیک ہو رہے تھے
اسکو ٹھیک ہونے میں ایک سال لگ گیا لیکن اب بھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہوئی تھی دوسرا جب سے ماں کے مرنے کا پتا چلا تھا تب سے وہ اور بھی زیادہ تکلیف میں تھی حمامہ کو بھائی کی وجہ سے جانا پڑا تو پھر اکیلی ہو گئی پھر اسکو بزی رکھنے کے لئے ایک فی میل ہوم ٹیوٹر رکھ دی جو روز اسکو تھوڑا بہت پڑھاتی
زمان صاحب خود کو قصور وار سمجھ رہے تھے وہ اپنی بچی کی حفاظت نہ کر سکے ایک بیٹی کا دکھ اور ساتھ بیوی کی موت کا صدمہ وہ بلکل ٹوٹ چکے تھے لیکن انکو اپنی بچی کے لئے مظبوط بننا تھا
دو سال بعد عالیاب نے خود پہ گزری ازیت صرف حمامہ سے شئیر کی
گھر سے ناراض ہو کے نکلی تو گھر کے پاس بنے پارک میں گئی وہاں ایک بینچ پہ بیٹھی اداس سی بچوں کو دیکھ رہی تھی کہ کوئی ساتھ آ کے بیٹھا عالیاب اسکو دیکھ کر تھوڑا سا سائیڈ پہ ہوئی وہ آدمی مسکرا کے بچوں کو دیکھ رہا تھا عالیاب اٹھ کے جانے لگی تو اسنے عالیاب کی ناک پہ بھیگا ہوا رومال رکھا اور وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئی
آدمی نے اسکو ہاتھوں میں اٹھایا وہاں لوگ کم تھے اسی لئے کسی نے دیھاں نہیں دیا اسکو وہاں سے لے گئے پھر عالیاب کی آنکھ کھلی تو خود کو ایک کمرے میں پایا جلدی سے اٹھ کر باہر کی طرف بھاگی لیکن سامنے سے آتے موٹے سے آدمی نے پکڑ لیا
"ان انکل جانے دیں مما ویٹ کر رہی ہیں میرا ..." عالیاب روتے ہوے بولی
وہ آدمی بغیر کچھ کہے اسکا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گیا اور زور سو اسکو پیچھے پھینکا عالیاب کی کمر میں زور کا درد اٹھا تو وہ زور زور سے رونے لگی
"اے چپ کر گلہ مت پھاڑ ورنہ بہت ماروں گا ..." اس آدمی نے گن سامنے کی تو عالیاب چپ ہو گئی لیکن آنکھوں سے آنسو تواتر بہہ رہے تھے
اسکو اٹھا کے ایک کرسی پہ باندھ دیا اور روم بند کر کے چلا گیا
"چھوڑو مجھے جانے دو یہاں سے چھوڑوووو ... نکالو مجھے ڈر لگ رہا ہے مما بابا پلیز نکالو یہاں سے مجھے بچاؤووو مما بابا ......."!! زور زور سے روتی چلاتی وہ ہل رہی تھی کہ کرسی گری اور وہ بھی گر گئی سر پہ لگنے کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئی
اگلے دن ہوش آیا تو دروازے کے پاس دو آدمی کھڑے تھے عالیاب کی آنکھیں سوج گئی تھی اور ہونٹ بھی گرنے کی وجہ سے پھٹ گیا تھا بال بکھرے ہوے تھے سر کی چوٹ کی وجہ سے حالت خراب تھی
"باس کا حکم ہے اس لڑکی کو بھی سری لنکا والے مال کے ساتھ بھیجنا ہے ..." ایک آدمی کرخت آواز میں بولا
"ویسے یار چیز بہت کمال کی ہے کیوں نہ تھوڑا فائدہ ہم بھی اٹھا لیں ..." دوسرے کے لہجے سے خباثت ٹپک رہی تھی
"خیال برا نہیں ہے لیکن دیھان رکھنا لڑکی مرے نہ ..." پہلا آدمی مکروہ ہنسی ہنستا چلا گیا
عالیاب کو ان کی باتیں سمجھ تو نہیں آ رہی تھی لیکن وہ حد سے زیادہ خوفزدہ تھی
"سوری مما میں نے آپکی بات نہیں مانی .. پلیز مجھے بچا لو یہ بہت گندے ہیں مجھے لے جاؤ بابا مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے پلیز بابا مجھے بچا لو بابا ......." دل میں ماں باپ کو یاد کرتی وہ سسک رہی تھی
جسم کا ہر حصہ دکھ رہا تھا تکلیف حد سے سوا تھی لیکن کسی کو رحم نہ آیا
وہ آدمی حرام مشروب منہ سے لگاۓ اسکی طرف بڑھ رہا تھا آنکھوں سے ہوس نظر آ رہی تھی عالیاب نے پیچھے ہونا چاہا لیکن ہاتھ پاؤں بندھے تھے تو زور زور سے نفی میں سر ہلاتے رونا چیخنا شروع کر دیا
آدمی نے زور سے ایک تھپڑ اس کے نازک گال پہ مارا ہاتھ اتنا زور کا لگا تھا کے منہ میں خون کا ذائقہ گھل گیا
اس کے ہاتھ پاؤں کھول کے اسکو نیچے پھینک دیاایک ہاتھ سے سیگریٹ جلائی اور ایک اسکی آستین پھاڑ دی عالیاب کو زور دار چیخ گونجی
ہاتھ میں پکڑے سیگریٹ کو اسکی بازو پہ رکھ دیا ساتھ ہی عالیاب کی زور دار چیخوں سے وہ کمرہ گونج اٹھا وہ امی قہقہ لگا کر ہنس رہا تھا عالیاب بے اختیار پیچھے ہوئی لیکن اس نے پکڑ لیا اور پھر عالیاب کی چیخوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا ....
🌹🌹🌹
"بسسس ... ایک اور لفظ آگے مت بولنا ..." ماہ بیر جو کب سے ضبط کر کے بیٹھا تھا ایک دم سے دھاڑا سب لوگوں نے اس خوبرو نوجوان کو دیکھا
آنکھوں لہو رنگ ہو گئی تھی غصے سے ماتھے کی رگیں پھٹنے لگی تھی دل میں آگ لگی ہوئی تھی جی چاہ رہا تھا یہاں موجود ہر چیز کو آگ لگا دے
آگے پیچھے چکر لگاتا خود کو کنٹرول کرنے لگا
حمامہ سر جھکاۓ بری طرح رو رہی تھی
"بس ایک بات کا جواب دینا ..." ماہ بیر پتھر جیسے سخت لہجے میں بولا تو حمامہ نے سر اٹھا کے اسکو دیکھا
"کیا مجرم پکڑے گئے ..." ماہ بیر ضبط سے بولا تو حمامہ نے نہ میں سر ہلا دیا
"چلو .." اسکا ہاتھ پکڑ کر ساتھ لے گیا اس وقت وہ بپھرا ہوا شیر بنا ہوا تھا
حمامہ کو گھر چھوڑ کے وہ اندھا دھندہ گاڑی چلاتا پتا نہیں کہاں نکل گیا تھا ایک سنسان سی جگہ گاڑی روکی زور دار دھماکے سے گاڑی کا دروازہ بند کرتا باہر نکلا
اہہہہہہہ ....... زور دار دھاڑ سنسان جگہ پہ گونجی
عالیاب کی تکلیف کا سوچ کر آنکھوں سے آنسو بہنے لگے دل درد سے پھٹا جا رہا تھا کیسے اس نازک سی لڑکی نے اتنی ازیت اتنی تکلیف برداشت کر لی
وہ مظبوط توانہ مرد صرف سن کے ہی رو رہا تھا تو وہ تو لڑکی تھی جس کے ساتھ یہ ظلم ہوا تھا
یا اللہ یہ کیسی آزمائش ہے ...... خود کی ہزار تکلیفیں ہنس کے برداشت کرنے والا اپنی محبّت کی تکلیف پہ سسک پڑا تھا
دل میں آگ لگی ہوئی تھی جو کسی صورت کم نہیں ہو رہا آنکھیں مسلسل برس رہی تھی بار بار عالیاب کا معصوم چہرہ نظروں کے سامنے آ رہا تھا ابھی تو اس نے مسکرانا شروع کیا تھا پھر اتنا بڑا دکھ اتنی بڑی اذیت کیسے برداشت کرتا دماغ کی نسیں پھٹنے کے قریب تھی
اچانک سے زور دار گرج چمک کے ساتھ بارش شروع ہو گئی شاید بادل بھی اسکے غم میں شریک ہو رہا تھا کافی دیر وہاں بیٹھ کے رونے کے بعد چہرہ صاف کرتا اٹھا
"سب کو سزا ملے گی ہر ایک کو حساب دینا ہو گا ..." خطرناک لہجے میں کہتا چلا گیا
🌹🌹🌹
پوری رات سڑکیں ناپنے کے بعد صبح جب روم میں داخل ہوا تو حاشر فکر مند سا ادھر ادھر ٹہلتا دکھائی دیا
"کہاں تھے تم پوری رات میں نے کتنی دفع فون کیا تم نے اٹھایا نہیں .." حاشر اسکو دیکھ کر فورا اسکے پاس آیا
"یہیں تھا .." بے زار لہجے میں کہتا واشروم میں بند ہو گیا
پیچھے حاشر ارے ارے کرتا رہ گیا
دسمبر کی سردی میں یخ ٹھنڈے پانی سے بھی اسکے دل کی آگ نہ بجھی سر درد سے پھٹا جا رہا تھا آنکھیں غصے اور رات جاگنے سے لال سرخ ہو رہی تھی جیسے ابھی خون نکلنے لگے گا دل درد سے پھٹا جا رہا تھا
ایک گھنٹہ شاور لینے کے بعد بھی اسکا دماغ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا باہر نکلا تو حاشر پھر سے اسکے پاس آیا
"کیا ہوا ہے مجھے بھی نہیں بتاؤ گے .." حاشر پریشان سا بولا
"کچھ نہیں ہوا ابھی میں بات نہیں کرنا چاہتا .." قطعی لہجے میں کہتا سیگریٹ اٹھا کے بالکونی میں چلا گیا
حاشر ابھی کچھ کہتا ہی کہ اسکا فون بجا
"السلام و علیکم چاچو کیسے ہیں آپ .." چچا کا نمبر دیکھ کر فورا اٹھایا
"وعلیکم سلام میں ٹھیک ہوں تم سناؤ برخودار کیسے ہو ..." کمال شاہ کی آواز آئ
"میں ٹھیک هوں چاچو .." حاشر مسکرا کے بولا
ایک یہی شخص تو تھے اس کے فیملی
"سنا ہے آج کل لاہور میں ہو ..." کمال شاہ اسکے ہر کام سے با خبر تھے
"جی ماہ بیر کے ساتھ ہوں .." حاشر سعادت مندی سے بولا
"پھر کیا سوچا تم نے ..." کمال شاہ سوچ کر بولے
"کس بارے میں چاچو ..." حاشر انجان بنا
"نکاح کے بارے میں کیا سوچا ہے .. ابھی تم لاہور میں ہو ایسا کرو مل لو رفعت بہن سے .." کمال شاہ روعب سے بولے
"لیکن چاچو اتنی جلدی میرا مطلب میں نے ابھی سوچا نہیں ہے اس بارے میں .." حاشر گڑبڑا گیا
"کیا مطلب ہے نہیں سوچا ایک مہینہ پہلے کہا تھا تم سے .. کب سوچنے کا ارادہ ہے جب دانت ٹوٹ جائیں گے .." کمال شاہ کو غصہ آیا
"نہیں چاچو ایسی بات نہیں ہے .." حاشر منمنایا
صرف ایک یہی وہ انسان تھے جن کے سامنے حاشر کی نہیں چلتی تھی
"میں بات کرتا ہوں رفعت بہن سے کہ تم آج مل رہے ہو ان سے اور ایڈریس بھی سینڈ کرتا ہوں تمہے ..." کمال شاہ حتمی بولے
پر چاچو ... حاشر بولا لیکن وہ سنے بغیر ہی بند کر چکے تھے
"کیا ہوا ..." ماہ بیر اسکو پریشان دیکھ کر بولا
"میں کیوں بتاؤں تم نے بتایا مجھے ..." حاشر کو غصہ آیا
"ٹھیک ہے میں ان سے ہی پوچھ لوں گا .." ماہ بیر سر ہلاتا سپاٹ لہجے میں بولا
"کہہ رہے تھے نکاح کے بارے میں کیا سوچا .." حاشر منہ بنا کے بولا
جانتا تھا وہ خود کچھ نہیں بتاۓ گا لیکن اس کے بارے میں سب جان لے گا
"ہممم تو پھر کیا سوچا تم نے ..." ماہ بیر موبائل میں مصروف ہوا
"میں کیا سوچوں یار .. نہیں مطلب بندا اچھی خاصی سکون کی زندگی گزار رہا ہو اور اچانک سے یہ کہہ دیا جائے کہ فلاں سے بچپن میں تمہارا نکاح ہوا ہے اب تم اس کو گھر لے آؤ .. یہ کیا بات ہوئی یار .. میں اسکو جانتا تک نہیں نام تک نہیں معلوم کیسے سوچ لوں اس کے بارے میں ...." حاشر بری طرح جھنجھلایا ہوا تھا
"تو کیا ہوا کسی نہ کسی سے تو کرنی ہے نہ ایک دن شادی .. مل لو اس لڑکی سے شاید پسند آ جائے .. اگر نہ آۓ تو پھر دیکھ لینا جو تمہاری مرضی ..." ماہ بیر نے سمجھایا
"لیکن یار میں کیسے مطلب مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ..." چہرے کے زاویے بری طرح بگڑے ہوے تھے
"او کم آن بی اے مین .. کیا لڑکیوں کی طرح کر رہے ہو جاؤ اور ملو جا کے اسکو .." ماہ بیر اسکی جھنجھلاہٹ سے بے زار ہوا
"ہمم ٹھیک ہے .." حاشر کچھ سوچ کے چپ ہوا
🌹🌹🌹
"کہاں گئی تھی کل تم ..." عالیاب نے اسکو گھورا جو جب سے آئ تھی کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی
"ہاں نہیں بس ایسے ہی کام تھا کچھ ..." حمامہ چونکی
رات سے وہ ماہ بیر کے بارے میں سوچ رہی تھی پتا نہیں اسکو بتا کے ٹھیک بھی کیا تھا یا نہیں وہ بھی تو بغیر کوئی جواب دیے غصے میں چلا گیا تھا اور کال بھی نہیں اٹھا رہا تھا اب حمامہ کو فکر ہونے لگی تھی
"کیا کام تھا ..." عالیاب مشکوک ہوئی
"کچھ خاص نہیں بس ایسے ہی ... تم بتاؤ نیو پینٹنگ کب بنا رہی ہو ..." حمامہ نے ٹالا
"بس ایک دو دن میں ..." عالیاب پتا نہیں مطمئن ہوئی تھی کہ نہیں لیکن خاموش ہو گئی تھی
"اب آگے کیا پڑھنا ہے تم نے ..." حمامہ نے مشکل سوال کیا
"کچھ بھی نہیں میں نے پڑھ کر کیا کرنا ہے ..." عالیاب دکھی ہوئی
"تو پھر شادی کر لو میرے بڑے ارمان ہیں ..." حمامہ شرارت سے بولی
"نہ نہیں میں شادی نہیں کروں گی .." عالیاب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے
"کیوں نہیں کرو گی ..." حمامہ جو لیٹنے کے انداز میں بیٹھی تھی فورا اٹھ کے سیدھی ہوئی
"میں کیسے کر سکتی ہوں شادی کون کرے گا مجھ جیسی لڑکی سے شادی جو پہلے ہی ..." عالیاب کہتی رو دی
ابھی بھی وہ تلخ باتیں نہیں بھولتی تھی لوگوں کی
"نہیں میری جان ایسا نہیں سوچتے .. تم کونسا معذور ہو اچھی بھلی ہو خوبصورت ہو ...پ دیکھنا ایک شہزادہ آۓ گا تمہے لینے ..." حمامہ اسکو گلے لگاتی بولی
ساتھ ہی ماہ بیر پہ غصہ آیا جو پتا نہیں کہاں غائب ہو گیا تھا
کچھ دیر اسکو یہاں وہاں کی باتیں کرتی بہلاتی رہی پھر مٹھو کے ساتھ تھوڑی سی بحث کی تو عالیاب کا موڈ کچھ چینج ہوا یہ بھی شکر تھا اب وہ ٹھیک تھی
🌹🌹🌹
"کہاں ہیں آپ مسٹر ماہ بیر .. اس دن تو بہت دعوے کر رہے تھے محبّت کے اب کیوں کل سے وہ سب سن کے غائب ہیں .. کہاں ہیں آپ ملنا ہے مجھے ..." کافی دیر بعد ماہ بیر نے فون اٹھایا تو حمامہ غصے سے بولی
صبح سے دماغ خراب کیا ہوا تھا
"اپنے سسرال جا رہا ہوں .." اطمینان سے جواب دیا
"ک کیا مطلب .. ابھی جا رہے ہیں .." حمامہ ڈری پتا نہیں عالیاب کے ساتھ کیسا بی ہیو کرے گا
ہوں .... ہنکارا بھرتے فون بند کیا
ابھی بہت سارے کم کرنے تھے
"نہیں میں نہیں مانتی یہ سب غلط ہے آپ ایسے کیسے کر سکتے ہیں میرے ساتھ ..." نکاح کا سن کر حمامہ پھٹ پڑی تھی
"کیا غلط ہے اس میں یہ تمھارے بابا کی مرضی سے ہوا تھا ..." رفعت بیگم نے ڈپٹا
"میں نہیں مانتی اس نکاح کو .. کوئی ایسے بھی کرتا ہے کیا .. میرا نکاح کرتے وقت تو مجھ سے پوچھا بھی نہیں پتا نہیں کس پپو سے کروایا ہو گا .. ہاۓ کیا ہو گیا میرے ہینڈسم منڈے کا ..." پہلے زور سے کہتی آخری بات منہ میں بولی
عالیاب تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے بڑے مزے سے حمامہ کا ڈرامہ دیکھ رہی تھی
جب کمال شاہ کا فون آیا تو انہوں نے حمامہ کو بھی اس کے بابا کی خواھش بتائی اور نکاح کا بتایا جسے سنتے ہی حمامہ ہتھے سے اکھڑ گئی یہ نکاح حمامہ کے بابا کی خواھش پہ ہوا تھا جمال شاہ(حاشر کے پاپا ) فہد درانی(حمامہ کے بابا ) بہت اچھے دوست تھے فہد درانی کے بھائی ایک لالچی انسان تھے انکی ہمیشہ سے فہد کی دولت جائیداد پہ نظر تھی اسی لئے انہوں نے سات سالہ حمامہ کا ہاتھ اپنے بیس سال کے بیٹے کے لئے مانگا تھا لیکن فہد کو یہ کبھی قبول نہ ہوتا کیوں کہ انکا بیٹا نشہ کرتا تھا حمامہ کا بھائی بھی اپنی لائف میں بزی تھا اس نے امریکا جا کے واپس پلٹ کر نہ دیکھا فہد نے اپنی اکلوتی بچی کا مستقبل بچانے کے لئے اسکا نکاح اپنے دوست کے بیٹے حاشر سے کر دیا جو اس وقت بارہ سال کا تھا لیکن دونوں بچوں کو اس بات سے بے خبر رکھا .. نکاح کے دو مہینے بعد ہی دماغ کی نس پھٹنے سے فہد کی موت ہو گئی ...
فہد کی موت کے بعد ان کے بھائی نے رفعت بیگم اور بچوں کو بہت تنگ کیا جائیداد کے لئے انکا جینا محال کر رکھا تھا آۓ دن کوئی نہ کوئی مشکل لیکن کہتے ہیں نہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے جس بیٹے کے لئے وہ اپنے بھائی کے بیوی بچوں کو تکلیف دیتے تھے وہ بیٹا اپنی نشے کی عادت کی وجہ سے مر گیا اس صدمے کی وجہ سے فہد کا بھائی اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا
"اپنی بکواس بند کرو حمامہ تمھارے بابا نے کچھ سوچ کر ہی کیا ہے تم اس طرح سے منع نہیں کر سکتی ایک بار مل تو لو اس سے ...." رفعت بیگم نے اب پیار سے سمجھانا چاہا
"نہیں نہیں نہیں میں نہیں مانتی .. بہی میری ساری زندگی کا سوال ہے پتا نہیں کون ہو گا کیسا ہو گا .. موٹا کالا توند والا اور اگر گنجا ہوا تو ... نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا یہ ظلم ہے.. آہہہہ..." حمامہ کی فر فر چلتی زبان کو رفعت بیگم کی چپل سے بریک لگی
عالیاب منہ پہ ہاتھ رکھے ہنس رہی تھی دو ہفتے میں ایک دن ایسا ضرور ہوتا تھا جب حمامہ اپنے ڈرامے کی وجہ سے جوتی کھاتی تھی
"سدھر جاؤ تم نہیں تو اس چپل سے اتنا ماروں گی کہ تمھارے سارے ڈرامے نکل جائے گے ..." رفعت بیگم نے ساتھ ہی ایک دھموکہ بھی جڑ دیا
"آہہہہہ .. مجھے پورا یقین ہو گیا ہے اب یہ عورت میری ماں نہیں ہے .. بتائیں سچ سچ بتائیں کہاں سے اٹھا کے لائیں تھیں مجھے آج بتا ہی دیں ...." عزت کروا کہ بھی حمامہ کی زبان کو سکون نہ ملا
رفعت بیگم نے بے بسی سے عالیاب کو دیکھا جس نے آنکھوں سے اشارہ کیا کہ وہ سمجھا دے گی
"یہ اس اس کو کیا دیکھ رہی ہیں یہ تو خود نہ سمجھ ہے یہ مجھے کیا سمجھاۓ گی یہ تو خود روتی پھر رہی ہے .. یا اللہ کہاں جاؤں میں سب میرے ہی پیچھے پڑ گئے ہیں ....."
اس سے پہلے رفعت بیگم کا ہاتھ دوبارہ جوتے کی طرف جاتا حمامہ عالیاب کا ہاتھ پکڑ کر نو دو گیارہ ہوئی
عالیاب کے گھر پہنچے تو حمامہ سیدھا کچن میں گئی اتنا بولنے کے بعد بھوک لگ گئی تھی عالیاب دروازے میں ہی کھڑی اسکو گھور رہی تھی
"کھانا ہے تو کھا لو ایسے ندیدوں کی طرح گھورو تو مت .." حمامہ بریانی کا چمچ منہ میں رکھ کر پھنسی ہوئی آواز میں بولی
"آنٹی کی بات مان کیوں نہیں لیتی .." عالیاب خفگی سے بولی
"اگر مجھے پسند نہ آیا تو ..." حمامہ نے اپنا خدشہ ظاہر کیا
"ایک بار ملنے میں کوئی حرج نہیں ہے .. اگر نہ پسند آیا تو ختم کر دینا یہ تعلق کوئی زبردستی تو نہیں کر رہا تمھارے ساتھ صرف ایک بار ملنے کو بولا ہے ..." عالیاب آرام سے سمجھانے والے انداز میں بولی
"لیکن یار ...." حمامہ کشمکش کا شکار ہوئی
اسکی سوچ بھی ٹھیک تھی
"کسی اور کا نہیں ایک بار آنٹی کا سوچو وہ کتنی پریشان ہیں تمھارے لئے کم سے کم انکی خوشی کے لئے ہی مان لو انکی بات ..." عالیاب نے اموشنل کرنا چاہا
"ہاں ہاں ٹھیک ہے .. اس پہ خود بھی عمل کر لو انکل بھی بہت فکر مند ہے تمہاری وجہ سے ..." حمامہ پلیٹ رکھ کر اسکے پاس آئ
"میں تو کر لوں لیکن کوئی میری حقیت جاننے کے بعد مجھے دیکھنا تک پسند نہیں کرتا ..." عالیاب کی آنکھوں میں آنسو آۓ
"اچھا آج کوئی آیا تھا تمھارے گھر کیا ..." حمامہ نے اسکا دھیان کہیں اور کرنا چاہا
"نہیں تو کسی نے آنا تھا کیا .." عالیاب نہ سمجھی سے بولی
یاب .... مٹھو کی آواز سنائی دی تو دونوں پلٹی
"میرا پارا مٹھو کیسا ہے طبیعت ٹھیک ہو گئی .." عالیاب نے جلدی سے اسکو اٹھایا
دو دن سے وہ بیمار تھا تو اپنے گھر میں ہی ہوتا تھا عالیاب وہیں اس سے مل آتی اور ساتھ کھانا بھی دے آتی تھی
"لو آ گیا تمہارا لاڈلا .. رہو تم اس کے ساتھ میں چلی ..." بغیر اسکی سنے حمامہ چلی گئی ابھی ماہ بیر سے بھی بات کرنی تھی
"یہ تو پاگل ہے چلو میں تمہے کچھ کھلاتی ہوں پھر ہم باتیں کرے گے ..." عالیاب پیار سے اس پہ ہاتھ پھیرتی بولی تو وہ عالیاب سے لگ گیا
🌹🌹🌹
ماہ بیر ابھی گھر سے نکلا ہی تھا کہ فون بجا
"بولو ...." حمامہ کا نمبر دیکھ کر اٹھا لیا
"پہنچے تو نہیں سسرال ..." حمامہ نے طنز کیا
"ہمم بس ابھی نکلا ہوں ..." ماہ بیر بے زار تھا
"کیوں لندن سے پیدل چل کے آۓ ہیں ..." حمامہ باز نہ آئ
"کوئی کام ہے تو بولو نہیں تو فون رکھو اور بھی کام ہیں ..." ماہ بیر سپاٹ چہرے سے بولا
"واہ کیا زمانہ آ گیا ہے کام تھا تو کتنے بے صبرے تھے کام نکلتے ہی آنکھیں پھیر لی آپ نے تو ..." حمامہ کو غصہ آیا
"حمامہ ....." ماہ بیر نے تنبیہ کی
"اچھا ٹھیک ہے آپ تو ڈرانے لگ جاتے ہیں ..." حمامہ نے منہ بناتے فون بند کر دیا
فون رکھتے ہی دروازے پہ بیل دی تو چوکیدار نے کھول دیا
زمان صاحب سے ملنے کا کہا تو ڈرائنگ روم میں بیٹھا دیا
ابھی بیٹھا عادت سے مجبور یہاں وہاں کا جائزہ لے رہا تھا جب نظر ٹہری ساری بے زاری اڑن چھو ہوئی وہاں سے اٹھ کے کھڑکی کے سامنے کھڑا ہوا سامنے کا منظر تھا ہی اتنا دل فریب کہ کوئی بھی ہوش کھو دیتا
لان میں رنگ برنگے پھولوں کے بیچ سفید رنگ کا پیروں تک آتا فراک پہنے پینٹنگ کر رہی تھی لال دوپٹہ ایک کندھے پہ جھول رہا تھا دونوں ہاتھوں میں لال اور سفید چوڑیاں پہنی تھی جو اسکی نازک سی سرخ اور سفید کلائی میں خوب جچ رہی تھی اور سب سے خوبصورت چیز اسکے گھنے بھورے لمبے بال جو کھلے ہوے تھے کمر سے بھی نیچے تک آتے بالوں کی آبشار سے ننھی ننھی پانی کی بوندیں گر رہی تھی شاید نہانے کے بعد بال ڈراۓ نہیں گئے تھے اور ہلکا سا مسکرانے سے پڑتا ڈمپل
میں نظر سے پی رہا ہوں .یہ سما بدل نہ جاۓ
نہ جھکاٶ نگاہ ہیں کہیں رات ڈھل نہ جاۓ
عالیاب حمامہ کے جانے کہ بعد نہا کہ بال کھلے چھوڑے لان میں آ گئی ویسے بھی یہاں اس وقت کوئی بھی نہیں آتا تھا کافی دنوں سے کچھ پینٹ نہیں کیا تھا تو پینٹنگ کرنے لگی ساتھ ہی کینوس کے ایک سائیڈ پہ بیٹھے مٹھو سے تھوڑی تھوڑی باتیں کرتی مسکرا رہی تھی اچانک ایسا لگا جیسے بہت گہری نظروں سے کوئی دیکھ رہا ہو عالیاب نے گھبرا کر یہاں وہاں دیکھا لیکن کوئی نظر نہ آیا گلاس ڈور سے اندر سے باہر دیکھا جا سکتا تھا لیکن باہر سے اندر نہیں اس لئے ماہ بیر نظر نہ آیا کسی کو نہ پا کر گرے آنکھوں میں حیرت ابھری لیکن پھر کندھے اچکا کر کام میں لگ گئی
گھنی مونچھوں تلے لب پھیلے
"ماہ بیر خان کو زیر کرنے کے سارے ہتھیار تمھارے پاس ہیں ....." ہلکی سی بڑبڑاہٹ سنائی دی
"السلام و علیکم ...." زمان صاحب کی آواز سنائی دی تو انکی طرف مڑا
"وعلیکم سلام کیسے ہیں صدیقی انکل ..." ماہ بیر مسکرا کر بولا
"میں ٹھیک ہوں بیٹا لیکن تم کون ہو میں نے پہچانا نہیں ..." زمان صاحب کو اسکا چہرہ دیکھا دیکھا لگ رہا
"ماہ بیر خان انکل ..." ماہ بیر ابھی بھی ہلکا سا مسکرا رہا تھا
"ماہ بیر تم وہی ہو نہ ..." زمان صاحب حیرت سے بولے انکو توقع ہی نہیں تھی کہ کبھی اس سے دوبارہ ملے گے
"جی انکل میں وہی ہوں ..." ماہ بیر ان کے گلے لگا
"کیسے ہو میرے بچے ..." زمان صاحب نے شفقت اسکے سر پہ ہاتھ پھیرا
"میں ٹھیک ہوں انکل .آپ بیٹھے نہ یہاں میرے ساتھ ..." ماہ بیر نے انکو ساتھ بیٹھایا
"اتنے سالوں بعد انکل کی یاد کیسے آئ ..." زمان صاحب نے نم آنکھوں سے مسکراتے شکوہ کیا
"بس انکل کام ہی کچھ ایسا تھا کہ آنا پڑا ایک بار پھر سے آپ کی شفقت کی ضرورت ہے ..." ماہ بیر انکا ہاتھ پکڑ کر آرام سے بولا
ابھی زمان صاحب کچھ کہتے ہی کہ بوا اندر آئ
"زمان صاحب باہر وہ آئ ہے آپ جلدی آئیں ..."
"ماہ بیر بیٹا تم بیٹھو میں ابھی آیا جانا مت ..." زمان صاحب مسکرا کے کہتے چلے گئے
🌹🌹🌹
حمامہ ابھی مما سے بڑی مشکل سے اجازت لے کہ مارکیٹ تک گئی تھی رفعت بیگم گھر میں اکیلی تھی جب کوئی آیا
"جی بچے کس سے ملنا ہے آپکو ..." سامنے ایک ڈیسیٹ سے لڑکے کو دیکھ کر نرمی سے گویا ہوئیں
"آپ رفعت آنٹی ہیں ..." حاشر سنجیدہ سا بولا
"جی آپ..ا آپ حاشر ہو نہ ..." رفعت بیگم کو حیرت بھری خوشی ہوئی
ساتھ ہی حمامہ کے جانے پہ غصہ آیا
حاشر نے محض سر ہلایا
"آؤ بیٹا یہاں کیوں کھڑے ہو اندر آؤ ..." رفعت بیگم نے جلدی سے بلایا
"وہ مجھے کمال چاچو نے کہا تھا آپ سے مل لوں ...." حاشر بیٹھتا بولا
وہ جلد سے جلد یہاں سے جانا چاہتا تھا
"ہاں کمال بھائی نے بتایا تھا مجھے .. ابھی تو حمامہ گھر نہیں ہے ورنہ ملوہ دیتی .. تم رکو میں فون کرتی ہوں اس کو ..." رفعت بیگم کہتی فون ملانے لگی
حمامہ کا نام سن کے اسنے ایک بار بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ کونسی حمامہ ہے وہ تو بس جلد سے جلد یہ سب ختم کرنا چاہتا تھا
"بیٹا وہ تو ٹریفک میں پھنسی ہوئی ہے تھوڑا ٹائم لگ جائے گا .. تم بیٹھو میں چاۓ بنا کے لاتی ہوں ..." رفعت بیگم کہتی کچن میں چلی گئی
حاشر نے کچھ کہنے کو منہ کھولا پھر بند کر دیا
کچھ ہی دیر میں رفعت بیگم چاۓ بنا کے لے آئ ابھی حاشر کپ اٹھانے لگا تھا کہ فون بجا
"ایکسکیوز می آنٹی ضروری کال ہے ...." حاشر کہتا ایک سائیڈ پہ ہو کہ بات کرنے لگا
حمامہ کی وجہ سے رفعت بیگم کو غصہ آ رہا تھا کتنی دیر سے فون کر رہی تھی لیکن اس نے اٹینڈ نہ کیا
"سو سوری آنٹی ابھی آفس سے کال آئ ہے وہاں کچھ پرابلم ہو گیا ہے مجھے جانا پڑے گا پھر لندن کے لئے بھی نکلنا ہے ...." حاشر نے معذرت کی
اندر سے خوش تھا کہ جان چھوٹی
"اتنی جلدی بیٹا اور آج ہی لندن ... پھر کب آؤ گے ..." رفعت بیگم پریشان ہوئی
"آنٹی کام ہے بہت ضروری انشاللہ جلد ہی چکر لگاؤں گا ..." حاشر خدا حافظ کہتا چلا گیا
ابھی اسکو گئے دس منٹ ہی ہوۓ تھے کہ پھر سے دروازہ کھولا سامنے ہی حمامہ کھڑی دانتوں کی نمائش کر رہی تھی
"ابھی بھی نہ گھر آتی اب کیوں آ گئی اور یہ منحوس جو فون رکھا ہوا کیوں رکھا ہے اس کا سے کسی کی سن بھی لیا کرو ...." رفعت بیگم نے اسے آڑے ہاتھوں لیا
"کیا ہو گیا ہے مما سائیلینٹ پہ تھا فون ...." حمامہ نے فون نکل کر چیک کیا جہاں رفعت بیگم کی پانچ کالز تھی
"میرے فون میں لڑکے کی تصویر ہے دیکھ لو نہ پسند آۓ تو بتا دینا ...." رفعت بیگم خفگی سے کہہ کر چلی گئی
"میں بھی تو دیکھوں آخر کونسا حور پرا مل گیا مما کو ...." بڑبڑاتے فوٹو کھولی تو آنکھیں حیرت سے پھٹ گئی
یہ ..... حمامہ کو یقین نہ آیا
"مما اسکا نام کیا ہے ....." حمامہ زور سے چلائی
حاشر ..... رفعت بیگم کہتی کام کرنے لگی
حمامہ کو تو اپنی آنکھوں اور کانوں پہ یقین نہ آۓ
کیا یہ سچ ہے .....
حمامہ کے ذہن میں یہی سوال تھے
جس کے نام کی محبّت کی کونپل دل میں پھوٹی تھی وہ ہی اسکا نصیب تھا حمامہ کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ... سچ کہا ہے کسی نے جو دل میں محبّت ڈال سکتا ہے وہ نصیب میں بھی ڈال سکتا ہے
"او مما یو آر گریٹ .. لو یو مما ...." حمامہ بھاگ کے رفعت بیگم سے لپٹ گئی
"کیا تمہے حاشر پسند آیا ...." رفعت بیگم نے اسکو دیکھا
"جی مجھے میرے مجازی خدا پسند ہیں ..." رفعت بیگم کا دوپٹہ منہ میں لے کر شرمانے کی بھرپور ایکٹنگ کی گئی
"ہاہاہا بے شرم ....سدا خوش رہو میری بچی ..." رفعت بیگم نے اسکے سر پہ چت لگا کے دعا کی
"شکریہ مما بابا آپکا بھی ..." دل میں شکریہ کہتے چلی گئی
🌹🌹🌹
"السلام و علیکم آپا کیسی ہیں آپ ...." زمان صاحب صوفہ پہ بیٹھی اپنی بڑی بہن کو دیکھ کر جلدی سے ان کے پاس بیٹھے
"الحمدوللہ ..میاں تم سناؤ آج کل کیا چل رہا ہے کتنے مہینوں سے فون نہیں کیا نہ ہی خود آۓ خیریت ہے ...." صفیہ خاتون اپنے مخصوص لہجے میں بولی
"میں ٹھیک ہوں آپا بس آج کل کام میں تھوڑا مصروف ہوتا ہوں ...." زمان صاحب نرمی سے بولے جو انکی طبیعت کا خاصا تھی
"اچھی بات ہے کرو کام لیکن آج میں ایک خاص کام سے آئ ہوں ..." صفیہ خاتون کا انداز کچھ اور ہی کہہ رہا تھا
ٹیبل پہ مٹھائی اور تحفے دے کر زمان صاحب کو خطرہ لاحق ہوا
"جی کہیں سن رہا ہوں ...." زمان صاحب ضبط سے بولے
"دیکھو میاں تم تو جانتے ہو پورے خاندان میں سے کوئی نہیں ملتا تم سے سواۓ میرے اکیلے ہو کوئی آتا جاتا نہیں ہے ایسے میں تمہے کچھ ہو گیا ہو تو بچی کا کیا ہو گا اللہ تمہارا سایہ اس پہ سلامت رکھے لیکن ہر طرح کے حالت کے لئے تیار رہنا چاہیے . اب ماشاللہ بڑی ہو گئی ہے سوچو اسکا بھی کچھ .. میں بھی آج اسی لئے آئ ہوں . اپنے بیٹے عرفان کے لئے تمہاری بیٹی کا ہاتھ مانگنے آئ ہوں ...." صفیہ خاتون انکو سمجھاتے اصل مدعا کی طرف آئ
زمان صاحب نے دہل کر دیکھا
انکا شادی شدہ دو بچوں کا باپ آوارہ بیٹا زمان صاحب کو یاد آیا
"لیکن آپا عرفان تو اتنا بڑا اور شادی شدہ ہے میری بچی ابھی بہت چھوٹی ہے ..." زمان صاحب صدمے سے بولے
"کیوں کیا برائی ہے میرے بیٹے میں اچھا خاصا تو ہے اور کیا ہوا شادی شدہ ہے تو مرد ایسے ہی ہوتے ہیں ...." صفیہ خاتون کو تیش آیا
"نہیں آپا میں اپنی بچی کی زندگی برباد نہیں کر سکتا معاف کیجئے گا یہ نا ممکن ہے ...." زمان صاحب قطعی لہجہ میں بولے
"کیوں نا ممکن ہے بہی .. میرا بیٹا شادی شدہ ہے تو تمہاری بیٹی کونسا دودھ کی دھلی پاک صاف ہے وہ بھی تو گند ہے شکر کرو میں اسکو لے جانا چاہتی ہوں ورنہ کون ایسی لڑکیوں سے شادی کرتا ہے ساری عمر سر پہ بیٹھا کے رکھنے سے اچھا ہے دو بول پڑھا میرے بیٹے کے ساتھ رخصت کر دو ...." صفیہ خاتون منہ سے زہر اگل رہی تھی
"میں کروں گا شادی ..... " بھاری مردانہ آواز پہ دونوں نے وہاں دیکھا
"اے میاں کون ہو تم اور ہماری لڑکی سے شادی کیوں کرو گے ...." صفیہ خاتون نے خطرناک تیوروں سے ماہ بیر کو گھورا
"خیر سے جہاندیدہ عورت ہیں جانتی ہوں گی شادی کیوں کی جاتی ہے ..." ماہ بیر ہاتھ باندھے اطمینان سے بولا
صفیہ خاتون سٹپٹائی
"کوئی شرم حیا ہے کہ نہیں میاں .. ایسے کیسے تم شادی کی بات کر رہے ہو ماں باپ کہاں ہیں تمھارے .. "
اپنی خفت مٹانے کو بولی
"کیوں شادی مجھے کرنی ہے تو بات بھی میں کروں گا ... خیر انکل میں کل پھوپھو اور مصطفیٰ انکل کو بھیج دوں گا وہ باقی معاملات دیکھ لیں گے ... اور فکر مت کیجئے گا میں سب جانتا ہوں .. سب مطلب سب .." ماہ بیر انکو جواب دیتا زمان صاحب کو سب سمجھا چکا تھا
صفیہ خاتون تلملائی
"اور ایک بات اپنے آوارہ بیٹے کو عالیاب سے دور رکھیے گا ورنہ میں اسکو سب سے دور بھیج دوں گا ..." پر سکون انداز میں کہتا انکی سنے بغیر چلا گیا
"یہ یہ کیا بول کے گیا ہے .. تمہاری بہن کو دھمکی دی ہے اور تم چپ چاپ سن رہے ہو میں بتا رہی ہوں زمان اگر تم نے اپنی لڑکی کی شادی اس سے کی تو مجھ سے تمہارا تعلق ختم ہو جائے گا ...." اب وہ غصے میں دھمکی پہ اتر آئیں تھی
"آپ بھی ختم کر دیں آپا میں تو ویسے بھی اکیلا ہوں ..." زمان صاحب ہارے ہوے لہجے میں کہتے چلے گئے
پیچھے صفیہ خاتون غصے سے بل کھا کے رہ گئی
اپنی قسمت کے فیصلے سے بے خبر عالیاب ابھی تک اپنی پینٹنگ میں مصروف مٹھو سے باتیں کر رہی تھی
🌹🌹🌹
"یاب یاب کہاں ہو یاب میری جان کہاں ہو تم یاب یاب ....." حمامہ زبان اور پیروں کو تیز تیز چلاتی ہوئی آ رہی تھی
عالیاب جو ابھی مٹھو کو چوری کھلا کے روم میں گئی ہی تھی کہ حمامہ کی چنگھاڑتی آواز پہ نیچے آئ
"کیا ہو گیا ہے کیوں آتے ہی گھر سے پہ اٹھا لیا ہے .." عالیاب نے اسکو گھور کے دیکھا
"یہ دیکھ میں مٹھائی لائی ہوں تیری پسند کی ..." حمامہ نے ڈبا اسکو دکھایا
مسکراہٹ لبوں سے جدا نہیں ہو رہی تھی
"کس خوشی میں لائی ہو ..." عالیاب لڈو منہ میں رکھتی مسکرا کے بولی
"تمہارا جیجا پسند کر لیا ہے میں نے ..." حمامہ نے شرمانے کی پوری کوشش کی
"ہاۓ اللہ جی صدقے .. کیسا ہے ..." عالیاب کی مسکراہٹ گہری ہوئی
"جانتی ہو تم اسکو ..." حمامہ نے اشارہ کیا
"کون .. سامنے والی آنٹی کا بیٹا عثمان .." عالیاب نے مسکراہٹ دبائی
"یخ تھو گندی ... تمہے میرا ٹیسٹ اتنا خراب لگتا ہے ....." حمامہ کا حلق تک کڑوا ہو گیا شکل دیکھنے لائق تھی اسکی
عثمان سامنے والی آنٹی کا بیٹا تھا جو کافی موٹا تھا اور موٹا سا نظر کا چشمہ لگاتا تھا ویسے تو ٹھیک تھا لیکن اس کے سامنے کے دو دانت نہیں تھے
ہاہاہاہاہاہاہا..... عالیاب کا قہقہ گونجا
"دفع دور دو میری مٹھائی واپس جاؤ میں نہیں بتاتی ...." حمامہ نے برا سا منہ بنا کے ڈبہ اسکے ہاتھ سے چھینا
"اچھا اچھا نہیں کہہ رہی کچھ بتا اب کون ہے وہ جس کا تیرے ساتھ نصیب پھوٹا ....." عالیاب نے بڑی مشکل سے مسکراہٹ روکی
"وہی جو مجھے شادی میں ملا تھا ہینڈسم منڈا ..." حمامہ کے چہرے پہ محبّت کے رنگ صاف نظر آ رہے تھے
عالیاب نے چپکے سے اسکی نظر اتاری
"اچھا مجھے یاد نہیں ..." عالیاب کو وہ یاد نہ آیا
"دیکھ یہ تصویر دیکھ ...." حمامہ نے جلدی سو فون سامنے کیا
"کمال جوڑی ہے ماشاللہ ....." عالیاب نے اسکو گلے لگایا
"قسم سے یار یہ دیکھ کر میرا تو دل باغ باغ ہو گیا ...." حمامہ کے تو دانت ہی اندر نہیں جا رہے تھے
"ہاں ظاہر ہے اس بیچارے کی درگت بنا کے تمہارا دل تو باغ باغ ہی ہو گا ...." عالیاب اسکو اچھی طرح جانتی تھی
حمامہ نے فخر سے گردن اکڑائی
"اچھا تم بتاؤ کوئی آیا تھا کیا کل ..." ماہ بیر نے ابھی تک حمامہ کو نہیں بتایا تھا
"ہاں پھوپھو آئیں تھیں ...." عالیاب دکھی ہوئی
حمامہ کا منہ ہی بگڑ گیا
"کوئی اور نہیں آیا تھا کیا ....." حمامہ کو کسی پل چین نہیں آ رہا تھا
"نہیں بہی اور کس نے آنا تھا کل سے تم پوچھ رہی ہو یہی ...." عالیاب چڑی کل سے کتنا دفع تو وہ پوچھ چکی تھی یہ بات
اچھاااا..... حمامہ فون میں گم ہوئی
🌹🌹🌹
حاشر رات کو ہی پہلی فلائٹ سے لندن چلا گیا تھا ماہ بیر بھی بزی تھا تو کسی کو وہاں ہونا چاہیے تھا
ابھی آفس پہنچا ہی تھا کہ میسج ٹون بجی
چیک کیا کسی ان نوں نمبر سے تھا
ہیلو .....
کون ...." حاشر نے میسج بھیج کے لیپ ٹاپ کھولا
آپکی زندگی ..... منٹ سے پہلے رپلائ آیا تھا
حاشر کے ماتھے پہ بل پڑے
"کس کو تکلیف ہے ..." حاشر کا دماغ پہلے ہی گھوما ہوا تھا
دل کو .... الٹا رپلائ آیا تھا
بھاڑ میں جاؤ .... حاشر کو غصہ چڑھا
تم بھی چلو ساتھ ... اگلا ویلا بیٹھا تھا یا شاید تھی
حاشر کو کوئی یاد آیا پھر سر جھٹکا
کچھ دیر بعد پھر مسیج آیا
حاشر نے جھنجھلا کے اٹھایا
اسمبلی ٹوٹ جائے _____یا مارشل لاء لگ جائے....😜
میرے دل کی پارلیمنٹ کے ____وزیرِاعظم سدا تم ہی رہو گے... .💕💕
سکرین پہ شعر جگمگایا تو حاشر نے استغفار کہا
کافی دیر تک مسیجز آتے رہے لیکن حاشر اگنور کیے کام میں بزی رہا
جب مسیج کا رپلائ نہ آیا تو غصہ آنے لگا لیکن پھر مسکرائی
کوئی نہیں ساری زندگی میرے ساتھ ہی گزارنی ہے پھر دیکھ لوں گی تمہے ہینڈسم منڈے ....
ناک سکوڑ کے سوچا
🌹🌹🌹
"عالیاب مان گئی کیا ..." ماہ بیر نے رخسانہ پھوپھو کو بتایا تو انہوں نے پوچھا
"وہ زمان انکل دیکھ لے گے آپ کل ان سے بات کر لیجئے گا ...." ماہ بیر پھوپھو اور مصطفیٰ شاہ کو دیکھ کر بولا
"اتنی جلدی کیا ہے بیٹا مطلب کچھ وقت بعد بھی تو کر سکتے ہیں نہ شادی دھوم دھام سے ..." مصطفیٰ شاہ بولے
"اگر آپ کو کوئی پرابلم ہے تو رہنے دیں میں خود کر لوں گا سب ...." ماہ بیر اٹھ کے جانے لگا
"نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا ... ہم کل ہی بات کر لے گے ...." مصطفیٰ شاہ جلدی سے بولے
ماہ بیر سر ہلاتا چلا گیا
"ساری دنیا میں ایک یہی لڑکی ملی تھی اسکو شادی کرنے کے لئے ..." ماہ بیر کے جانے کے بعد مصطفیٰ شاہ بولے
"کیا کہہ رہے ہیں مصطفیٰ عالیاب بہت اچھی لڑکی ہے اور میرے سامنے بڑی ہوئی ہے ...." رخسانہ کے لہجے میں پیار تھا
"تمہے پتا ہے اسکے ساتھ کیا ہوا ہے پھر بھی تم مان گئی اپنی بہو بنانے کو ..." مصطفیٰ شاہ پتا نہیں کیا کہنا چاہ رہے تھے
"جو بھی مصطفیٰ وہ ماہ بیر کی پسند ہے اور مجھے دل و جان سے قبول ہے ...." رخسانہ کہتی چلی گئی ابھی انکو بہت کام کرنے تھے
پیچھے مصطفیٰ شاہ غصے سے کھول کہ رہ گئے
🌹🌹🌹
"عالیاب بچے جاگ رہے ہو ...." زمان صاحب نے اسکے روم کا دروازہ نوک کیا
"جی بابا آ جائیں ..." عالیاب جو لائٹ آف کرنے لگی تھی مسکرا کے بولی
"بیٹا مجھے کچھ بات کرنی ہے آپ سے ..." زمان صاحب نے تمہید باندھی
"جی کہیں بابا ...." عالیاب مسکرا کے بولی
"اگر میں آپ کے لئے کوئی فیصلہ لوں تو آپکو منظور ہو گا کیا ...?" زمان صاحب سوچ کر بول رہے تھے
"جی بابا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات آفکورس مجھے منظور ہو گا ...." عالیاب کی مسکراہٹ برقرار تھی
"وہ بیٹا میں چاہتا ہوں اب آپکی شادی کر دوں ..." زمان صاحب دل پہ پتھر رکھ کر بولے تھے
ابھی تو انکی بیٹی چھوٹی تھی اگر آج یہ سب نہ ہوتا تو وہ ابھی یہ فیصلہ نہ کرتے ایک انکی اپنی بیماری تھی دوسری اپنی بچی کے مستقبل کی فکر جو انکو اندر سے دیمک کی طرح چاٹ رہی تھی
بابا ..... عالیاب کے منہ سے الفاظ نہ نکلے آنکھوں میں نمکین پانی جمع ہو گیا
"میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے بیٹا میرے بعد یہ دنیا تمہے جینے نہیں دے گی آج بھی تمہاری پھوپھو اسی لئے آئیں تھیں .. وہ چاہتی ہیں کہ میں تمہاری شادی عرفان سے کر دوں ....." زمان صاحب دکھ سے بولے
آنسو لڑیوں کی صورت گلابی گالوں پہ بہنے لگے
"میں یہ سب نہیں چاہتا بیٹا ... میں بس اتنا چاہتا ہوں کے اپنی زندگی میں ہی تمہے کسی مظبوط ہاتھوں میں سونپ دوں تا کہ سکون سے مر سکوں ......" زمان صاحب کی آنکھیں بھی نم ہوئیں تھیں
"بابا ایسے تو نہیں کہیں ...." عالیاب نے تڑپ کر انکو دیکھا
"بیٹا ایک آخری بات مان لو بابا کی ...." زمان صاحب عاجزی سے بولے
پر بابا ..... عالیاب نے کچھ کہنے کو لب کھولے لیکن زمان صاحب کی آنکھوں میں رقم مجبور باپ کی التجا دیکھ کر چپ ہوئی
"ٹھیک ہے بابا جیسے آپکی مرضی ....." ہر مشرقی بیٹی کی طرح عالیاب نے بھی باپ کا مان رکھا
"شکریہ بیٹا ہمیشہ خوش رہو ....." زمان صاحب آنکھوں میں تشکر کے آنسو لئے اسکا ماتھا چوم کر چلے گئے
پیچھے عالیاب سن سی بیٹھی رہ گئی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ اتنی جلدی اور اس طرح .... کون ہو گا وہ ? کیا مجھ جیسی کو قبول کر لے گا ? اس طرح کے بہت سے سوال عالیاب کے ذہن میں تھے لیکن زبان پہ نہ سکے
رخسار پھوپھو نے زمان صاحب سے بات کرنے کے بعد سارے معاملات طے کر لئے تھے ماہ بیر سادگی سے جلدی شادی کرنا چاہتا تھا اب مزید وہ اپنی بلیک بیوٹی سے دور نہیں رہ سکتا تھا تین دن بعد جمعہ کی نماز کے بعد نکاح کی سنت ادا ہونی تھی ماہ بیر کو ان تین دنوں میں بہت سے کام ختم کرنے تھے شادی کے بعد وہ اپنا سارا وقت عالیاب کو دینے کا ارادہ رکھتا تھا
حمامہ کو جب سے پتا چلا تھا وہ تو ناچ گا رہا رہی اسکی اکلوتی دوست کی شادی تھی وہ سب کچھ کرنا چاہتی تھی رفعت بیگم بھی حمامہ کے ساتھ شادی کے تمام کام خود کر رہیں تھی زمان صاحب بھی اپنی بیٹی کی شادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتے تھے شادی کے بعد تو ویسے بھی انکی بیٹی نے ان سے بہت دور چلے جانا تھا دونوں گھروں میں گہما گہمی کا سماں تھا حلانکہ زیادہ لوگ بلانے سے ماہ بیر نے منع کیا تھا لیکن پھر بھی قریبی لوگ کافی تھے
جس کی شادی کی تیاری ہو رہی تھی وہ اس سب سے بے نیاز کہیں اور ہی گم تھی دل و دماغ میں سوچوں کے جھکڑ چل رہے تھے اسکی تو یہ پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی کہ شادی ہو کس سے رہی ہے وہ تو نام بھی نہ جانتی تھی سب کو کام کرتا دیکھ خاموشی سے بیٹھی رہتی یا پھر مٹھو کے ساتھ بیٹھ کر دل بہلا لیتی ابھی بھی سب مہندی کی تیاریوں میں لگے ہوے تھے اور وہ اکیلی چھت پہ مٹھو کے ساتھ اپنا دل ہلکا کر رہی تھی
"مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا مٹھو میں کیا کروں .. بابا کی وجہ سے میں نے ہاں تو کر دی ہے لیکن مجھے یہ سب بلکل ٹھیک نہیں لگ رہا پتا نہیں وہ کون انسان ہے جس کے ساتھ میری زندگی جڑنے جا رہی ہے پتا نہیں وہ کیسا ہو گیا ... کیا وہ میرے بارے میں سب جانتا ہو گا .. اگر جانتا ہوا تو میں کیسے اسکا سامنا کروں گی ... اور اگر وہ نہ جانتا ہوا اور شادی کے بعد اسکو کسی اور سے پتا چل گیا تو کیا ہو گیا .. اگر سب پتا چلنے کے بعد اسنے مجھے چھوڑ دیا تو میں کیا کروں گی ....
مٹھو نے اس کے ہاتھ پہ اپنا پنجہ رکھا جیسے تسلی دے رہا ہو
لیکن وہ کسی سوچ میں مگن بولی جا رہی تھی یہ جانے بغیر کہ کوئی اور بھی سن رہا ہے
میں تو اسکا نام تک نہیں جانتی میں کیسے رہوں گی اس کے ساتھ ... میرا دل نہیں مانتا ... میرے وجود پہ لگے بد نما داغ کا اثر اگر میری آنے والی زندگی پہ ہوا تو ... اگر اس نے مجھے ہی غلط سمجھ لیا تو ... لیکن اس سب میں میری کیا غلطی ہے .. میں تو بے قصور ہوں ظلم تو میرے ساتھ ہوا ہے ... کیا کروں میں .. بابا کا مان بھی نہیں توڑ سکتی .. وہ پہلے ہی میری وجہ سے بہت پریشان رہتے ہیں میں مزید ان کی پریشان کی وجہ نہیں بن سکتی ..... "
عالیاب اپنے خدشے ظاہر کرتی سسک پڑی
اس وقت اسکو اپنی مما کی کمی سب سے زیادہ محسوس ہو رہی تھی باپ چاہے جتنا بھی بیٹی کے قریب ہو ایک لڑکی جو باتیں اپنی ماں سے کر سکتی ہے وہ باپ سے نہیں کر سکتی
ماہ بیر جو شادی سے پہلے ایک بار عالیاب سے بات کرنا چاہتا تھا ابھی زمان صاحب سے پوچھ کے اوپر آیا تھا لیکن وہاں سے آتی آواز نے اسکو قدم روکنے پہ مجبور کیا اسکی باتیں سن کے ماہ بیر کے ماتھے کی رگیں تن گئی ...
"تمھارے مجرم کو سزا ضرور ملے کی میری جان ... ہر ایک کا حساب کروں گا میں اپنے ہاتھوں سے .. بس جلد سے جلد میرے پاس آ جاؤ میں تمھارے تمام خدشات دور کر دوں گا ...." ماہ بیر خود سے کہتا چلا گیا
عالیاب ابھی بھی ٹیبل پہ سر رکھے بہتی آنکھوں سے اپنی ماں کو یاد کر رہی تھی اور مٹھو کبھی اپنا پر اس کے سر پہ رکھتا اور کبھی اپنا پنجہ اس کے ہاتھ پہ رکھ کر تسلی دیتا
🌹🌹🌹
آخر وہ وقت بھی آ گیا جب عالیاب کے ہاتھوں میں ماہ بیر کے نام کی مہندی لگنی تھی ہلکے سے پیلے رنگ کے پیروں تک آتے فراک میں پیلا ہی دوپٹہ سر پہ اس طرح سیٹ کیا تھا کہ کوئی بال بھی نظر نہیں آ رہا تھا میک اپ سے پاک چہرہ لئے وہ سوگوار سے روپ میں بھی بہت حسین لگ رہی تھی
پیلے اور ہرے رنگ کا غرارا پہنے حمامہ یہاں سے وہاں چہک رہی تھی اپنی دوست کا ہر کام اپنے ہاتھوں سے کرتی وہ سر شار تھی ماہ بیر کو اپنی دوست کے لئے چن کے اسنے کوئی غلط فیصلہ نہیں کیا تھا لیکن عالیاب کا چہرہ دیکھ کر وہ کافی پریشان بھی تھی جو بغیر کسی تاثر کے بیٹھی تھی
"کیا تم اس شادی سے خوش نہیں ہو ..." حمامہ نے اس کے پاس بیٹھتے آہستہ آواز میں پوچھا
اس پاس عورتیں بیٹھی انکی طرف ہی دیکھ رہی تھی
"پتا نہیں مجھے کچھ بھی فیل نہیں ہو رہا ..." عالیاب خالی آنکھوں سے پھیکا سا مسکرائی
"کیا مطلب ہے اگر کوئی بات ہے تو مجھے بتاؤ ...." حمامہ فکر مند ہوئی
"مجھے ڈر لگ رہا ہے ...." عالیاب کی آنکھوں میں نمی آئ تو اس نے بڑی مشکل سے اپنے اندر اتار لی
"تم ڈرو مت میری جان ماہ بیر بھائی بہت اچھے ہیں وہ تمہارا بہت خیال رکھے گے ...." حمامہ نے ایک ہاتھ اس کے کندھے پہ پھیلا کے تسلی دی
عالیاب نے سر ہلایا
اس شخص کا نام پہلی دفع سن کے دل عجیب سا ہوا لیکن پھر اپنے خیالات جھٹک دیے
"خود کو ریلیکس کرو کچھ بھی نہیں ہو گا .. انشاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا ..." حمامہ نے بڑی بہن کی طرح اسکا ماتھا چوما تو عالیاب ہلکا سا مسکرا دی
"اللہ تمہے ہمیشہ خوش رکھے میری جان .. چلو اب تمہے مہندی لگاتی ہوں ..." حمامہ نے کہتے مہندی کی کون اٹھائی
"پلیز مجھے نہیں لگانی ...." عالیاب نے برا سا منہ بنایا
"میرے لئے تھوڑی سی بس ...." حمامہ نے اتنے پیار اور مان سے کہا کہ وہ منع نہ کر پائی
دونوں ہاتھوں کی پشت پہ گول ٹکی بنائی اور تھوڑی سی انگلیوں پہ لگا دی مہندی کا رنگ بہت گہرا آیا تھا جو اسکے سفید نازک ہاتھوں پہ بہت اچھا لگ رہا تھا
"ماشاللہ بہت اچھا کلر آیا ہے .. لگتا ہے ماہ بیر بھائی تم سے بہت پیار کرتے ہیں ...." حمامہ نے شرارت سے اسکو چھیڑا لیکن وہ مسکرا تک نہ سکی
کافی دیر تک حمامہ اس سے باتیں کرتی رہی اور وہ بس ہوں ہاں ہی کر رہی تھی حمامہ اسکی حالت سمجھ رہی تھی اسی لئے اسکو یہاں وہاں کی باتیں کرتی بہلا رہی تھی
کچھ ہی دیر میں حمامہ سو گئی تھی سارا دن کام کرتی وہ کافی تھک چکی تھی لیکن عالیاب کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی
🌹🌹🌹
صبح سے گھر میں کافی گہما گہمی لگی ہوئی تھی جمعہ کے بعد نکاح تھا تو سب کام جلدی ختم کرنے تھے حمامہ بھی صبح سے لگی ہوئی تھی عالیاب بے تاثر چہرے سے خالی آنکھوں سے سب دیکھ رہی تھی آج صبح سے ہی بار بار آنکھیں بھیگ رہی تھی لیکن وہ خود پہ کنٹرول کیے ہوے تھی مٹھو کو لئے وہ لاؤنج میں بیٹھی تھی
مہمانوں کا سارا انتظام لان میں کیا تھا زمان صاحب بھی صبح سے لگے کبھی کچھ تو کبھی کچھ کر رہے تھے آنکھیں تو انکی بھی بھیگ رہی تھی اپنی شریک حیات کو یاد کر کے لیکن وہ اپنی بیٹی کے سامنے رو کر اسکو اور دکھی نہیں کرنا چاہتے تھے جانتے تھے کہ وہ ابھی اس سب کے لئے تیار نہیں ہے نہ ہی اس رشتے کو سمجھ رہی ہے لیکن یہ سب اس کے لئے ضروری ہے زمان صاحب کو جب سے اپنی بیماری کا پتا چلا تھا وہ تب سے ہی اپنی بیٹی کے مستقبل کے بارے میں سوچ رہے تھے انکو بلڈ کینسر تھا جو کہ لاسٹ اسٹیج تھا انکی طبیعت بہت وقت سے خراب تھی لیکن انہوں سے زیادہ اہمیت نہ دی لیکن جب حد سے زیادہ ہوا تو انہوں نے لندن میں اپنا ٹیسٹ کروایا ...
بیماری کے بعد سب سے بڑی فکر انکو اپنی بیٹی کی تھی جس کا ان کے علاوہ اور کوئی نہ تھا جو اس کے ساتھ ہو چکا تھا ایسے میں اگر انکو کچھ ہو جاتا تو یہ دنیا انکی معصوم سی بچی کو جینے نہ دیتی اسی وجہ سے انہوں نے یہ فیصلہ اتنی جلدی کیا
"کاش تم میرے ساتھ ہوتی زرین اور ہم مل کر اپنی بیٹی کی شادی کرتے ...." ایک نا ممکن سی خواھش کی ان کے دل نے
ماہ بیر کے گھر ایسا کچھ نہ ہو رہا تھا ویسے بھی یہ اسکا گھر نہیں تھا اس نے جو بھی کرنا تھا اب لندن جا کے ہی کرنا تھا گرینڈ پا زیادہ سفر نہیں کر سکتے تھے اس لئے وہ نہیں آ رہے تھے جبکہ حاشر نے پوری کوشش کی تھی کہ اپنا کام ختم کر کے اسکے نکاح میں شریک ہو لیکن ایسا نہ ہو سکا
"کیسے دوست ہو تم میرے بغیر ہی شادی کر رہے ہو ..." حاشر کو رہ رہ کر اپنے نہ آنے پہ افسوس ہو رہا تھا اس لئے وہ ویڈیو کال پہ اس سے بات کر رہا تھا
"تمھارے آنے سے کیا ہو جاتا نکاح تو اب بھی ہو گا اور تب بھی ہوتا ...." ماہ بیر نے ایک نظر اسکو دیکھ کر فون سامنے رکھا اور بال بنانے لگا
"مطلب تمہے میرے ہونے نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا ...." حاشر کو دکھ ہوا
"اب میں نے یہ بھی نہیں کہا ... تم نے جو کرنا ہے لندن میں کر لینا .. ولیمہ تو وہیں ہو گا ..." ماہ بیر کہتا نہیں تھا لیکن حاشر اسکی زندگی کا اہم حصہ تھا
"اب میں اور کیا کر سکتا ہوں ...." حاشر ابھی تک افسردہ تھا
"تم تیاری کرو میرے ولیمہ کی ... سب کو پتا چلنا چاہیے کہ ماہ بیر خان شادی کر چکا ہے ..." ماہ بیر نے واسکٹ پہنی
"بڑے ہینڈسم لگ رہے ہو بھابھی تو گئیں ....." حاشر مسکرایا
بلیک شلوار قمیض پہ ہاف وائٹ واسکٹ پہنے سیاہ بال ایک سائیڈ پہ سیٹ کیے وہ بہت ہی ڈیشنگ لگ رہا تھا بلیک کلر اس پہ بہت اچھا لگتا تھا اسکے دراز قد پہ شلوار قمیض اچھا لگ رہا تھا اوپر سے اسکا مغرور بے نیاز انداز
حاشر کے منہ سے بھابھی سنتے اسکے چہرے پہ دلکش مسکراہٹ آئ جو جلد ہی چھپ گئی
"اچھا بعد میں بات کریں گے ابھی دیر ہو رہی ہے ..." ماہ بیر ہلکا سا مسکرا کے بولا
"ٹھیک ہے اللہ تمہے بہت ساری خوشیاں دے ..." حاشر نے دل سے دعا کی
ماہ بیر دل میں آمین کہتا نیچے گیا جہاں سب اسکا انتظار کر رہے تھے
🌹🌹🌹
جمعہ کے بعد سب لوگ صدیقی ہاؤس پہنچ چکے تھے کچھ دیر ملنے ملانے کے بعد نکاح کی رسم شروع کی گئی مولوی صاحب نے ماہ بیر سے پوچھا
ماہ بیر خان والد زوار خان آپکا نکاح عالیاب زمان والد زمان صدیقی سے باعوض پچاس لاکھ حق مہر طے پایا ہے کیا آپکو قبول ہے .....
قبول ہے ..... ماہ بیر نے دل و جان سے قبول کیا
دو بار مزید قبول کرنے کے بعد ماہ بیر اس کے قبول کا انتظار کرنے لگا
مولوی صاحب روم میں داخل ہوے تو عالیاب نے حمامہ کا ہاتھ زور سے پکڑا دل سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا آنکھوں سے آنسو بہنے لگے حمامہ نے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر تسلی دی
عالیاب زمان ولد زمان صدیقی آپکا نکاح ماہ بیر خان ولد زوار خان سے باعوض پچاس لاکھ حق باہر طے پایا ہے کیا آپکو قبول ہے .....
مولوی صاحب کی آواز سن کو اس کے کان سائیں سائیں کرنے لگے تھے زمان صاحب نے سر پہ ہاتھ رکھا تو عالیاب لڑکھڑاتے بولی ..
ق قبول ہے ....
دو بار اور کہنے کے بعد کانپتے بدن بہتی آنکھوں اور لرزتے ہاتھوں سے سائن کر کے اپنا سب کچھ اس شخص کے نام کر دیا جس کے نام کے سوا وہ کچھ نہیں جانتی تھی
مولوی صاحب واپس گئے تو عالیاب زمان صاحب کے گلے لگی پھوٹ پھوٹ کے رو دی آنسو تو زمان صاحب کی آنکھوں میں بھی آ گئے تھے عالیاب کے سر پہ پیار دیتے خود سے علیحدہ کرتے وہ چلے گئے ورنہ اپنا ضبط کھو دیتے
اسکو چپ کرواتی حمامہ بھی رو دی تو رفعت بیگم نے دونوں کو سمجھایا اور چپ کروایا
اسکی طرف سے اقرار سن کے ماہ بیر کے اندر تک سکون اتر گیا آخر اس نے بلیک بیوٹی کو اپنے نام کر لیا تھا اب اسٹیج پہ بیٹھا بے صبری سے اس کے آنے کا انتظار کر رہا تھا
یہ انتظار بھی کچھ پل کا ہی تھا جب وہ حمامہ کے ساتھ آتی دکھائی دی اس کے بھیجے وائٹ فراک میں سرخ حجاب لئے ہاتھوں میں سرخ چوڑیاں اور گلاب کے گجرے ہلکا سا میک اپ اور رونے سے سرخ ڈوروں والی گرے آنکھیں جھکی ہوئی تھی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی وہ ماہ بیر کو اپنے دل میں اترتی محسوس ہوئی
اسٹیج کے پاس پہنچی تو ماہ بیر نے ہاتھ بڑھایا حمامہ نے اسکا یخ ٹھنڈا ہاتھ ماہ بیر کے ہاتھ میں دیا تو عالیاب نے ذرا سی نظریں اٹھا کے اسکو دیکھا
نظروں کا زور دار تصادم ہوا تو عالیاب نے جھٹ سے پلکیں گرا لیں ماہ بیر کے چہرے پہ دلکش مسکراہٹ نے احاطہ کیا
ذرا سا اسکو سہارا دے کر اپنے ساتھ بٹھایا
عالیاب کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ چکے تھے بدن ہولے ہولے کانپ رہا تھا دل یوں لگ رہا تھا جیسے بند ہو گیا ہو عجیب ہی کیفیت ہو رہی تھی جس کو وہ خود سمجھنے سے قاصر تھی
جبکہ ساتھ بیٹھا ماہ بیر سر شار تھا اپنے ساتھ بیٹھی لڑکی کی حالت سے وہ با خوبی واقف تھا تبھی اسکے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا
عالیاب کی سانسیں رکی
ریلیکس ..... ایک لفظ کہتا اپنا ہاتھ ہٹا چکا تھا لیکن عالیاب سن ہو گئی تھی
ایک ساتھ بیٹھے وہ دونوں چاند سورج کی جوڑی دیکھ رہے تھے کچھ خوشی سے دعائیں دے رہے تھے تو کچھ حسد کے مارے لوگ یہ دیکھ رہے تھے کہ اس جیسی لڑکی کو اتنا شاندار مرد کیسے ملا
سب اپنی عقل کے مطابق سوچ رہے تھے لیکن بولا کوئی نہیں
"جیجو آپ میرے ہینڈسم منڈے کو نہیں لاۓ ...." حمامہ منہ پھلا کے بولی
"وہ یہاں نہیں ہے ....." ماہ بیر اسکا منہ دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا
"پھر کہاں ہے وہ مجھے ملنا تھا ... اچھا خیر چھوڑیں میری بات سنیں ...." حمامہ نے اسکے قریب ہو کر سرگوشی کی
"جی جی سنائیں ...." ماہ بیر بھی اسکے قریب ہوا
"مجھے بھی لندن جانا ہے ...." حمامہ نے منہ بنایا
"تو چلو تم میں نے کب منع کیا ...." ماہ بیر کو سمجھ نہ آئ وہ کیوں کہہ رہی ہے
"او ہو میں نہیں جا سکتی نہ ..مما نہیں جانے دیتی .. پلیز آپ کہو نہ ان سے میں نے آپکا اتنا بڑا کام کیا اتنی ہیلپ کی آپکی ...." حمامہ نے اپنے احسان یاد کرواۓ
"ٹھیک ہے میں ابھی کہتا ہوں ...." ماہ بیر کہتا سیدھا ہوا
"ارے نہیں ابھی نہیں .. پوری بات تو سنیں نہ ...." حمامہ نے اسکو پیچھے کیا
ان دونوں سے بے خبر عالیاب اپنی سوچوں میں گم تھی
ماہ بیر نے سر ہلایا تو حمامہ نے اپنا پلان بتایا جسے سن کے ماہ بیر ہنس پڑا
"ویسے بڑی کوئی چیز ہو تم ...."
"شکریہ شکریہ ......" حمامہ نے مسکراتے داد وصول کی
کچھ دیر اور رکنے کے بعد وہ چلے گئے رخصتی کل کرنی تھی یہاں سے سیدھا انکو ائیرپورٹ جانا تھا جانے سے پہلے ماہ بیر کو ایک ضروری کام کرنا تھا
سب کچھ اچھے سے ہو گیا تھا سب خوش تھے سواۓ عالیاب کے وہ تو اٹھتے ہی اپنے روم میں چلی گئی تھی چینج کرتے ہی وہ بیڈ پہ گری اور جلد ہی نیند کی وادی میں اتر گئی
حمامہ نے بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے یہ کہہ کہ ٹال دیا کے مجھے نیند آئ ہے صبح بات کرے گی حمامہ بھی اسکی بات سمجھتی سونے کے لئے لیٹ گئی
🌹🌹🌹
ہاں عاقب کام ہوا .... ماہ بیر فون پہ بولا
"ٹھیک ہے انکی اچھی طرح خاطر تواضع کرو میں بھی آتا ہوں ...." کہتے فون بند کیا اور فریش ہونے گیا
کچھ دیر بعد نکلا تو حولیا بدلہ ہوا تھا بلیک ٹراؤزر پہ بلیک ہڈی پہنی ہوئی تھی موبائل اور کار کی کیز اٹھاتا چلا گیا
تین دن میں ماہ بیر سب کچھ جان چکا تھا ان دونوں مجرموں کا سارا کچا چٹھا نکل لیا تھا بس ایک کام نہیں ہو پایا تھا جو انکا باس تھا اسکا کوئی سراغ نہ ملا خیر وہ بھی کب تک بچ پاتا مجرم تو تب ہی مل گئے تھے لیکن وہی مسلہ ... ہمارے پولیس کے محکمے میں موجود کالی بھیڑیں جو پیسے کے لئے اپنا ضمیر بیچ دیتے ہیں انہی کی وجہ سے عالیاب کے مجرم بچ گئے تھے انہوں نے رپورٹ ہی ایسی بنائی تھی کہ کوئی پوچھ نہ سکا
زمان صاحب اپنی بیٹی کے غم میں نڈھال تھے اس طرف دھیان نہ دے سکے لیکن ماہ بیر نے ایسا نہ کیا ... ایک بار وہ پہلے بھی پولیس پہ یقین کرنے والی غلطی کر چکا تھا اب دوبارہ ایسا نہیں کر سکتا تھا اب تو سوال اسکی زندگی کا تھا کیسے ان کو چھوڑ دیتا جنہوں نے اسکی زندگی کو تکلیف دی وہ انکی زندگی کیسے سکون سے گزرنے دیتا کل ہی وہ دونوں پکڑے گئے تھے ابھی بھی انکا سربراہ غائب تھا لیکن وہ بھی ایک نہ ایک دن پکڑا جاتا
نکاح سے فری ہوتا اپنے فلیٹ پہ پہنچا جو وہ ٹورچر کے لئے استعمال کرتا تھا
"کہاں ہے ...." چہرے پہ کوئی تاثر نہ تھا اور لہجہ جو سامنے والا کا دل دہلا دے
عاقب اسکو ساتھ لئے سیل کی طرف گیا جہاں وہ دونوں کیل والی چیئر پہ بندھے تھے اور چہروں کو کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا
ماہ بیر نے اشارہ کیا تو کپڑا ہٹایا
وہ دونوں چالیس کے قریب تھے لیکن جسم سے کافی مظبوط تھے کپڑا ہٹتے ہی دونوں نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولی تو سامنے ہی ماہ بیر لہو رنگ آنکھوں سے دونوں کو دیکھ رہا تھا
"بہت شوق ہے نہ تم لوگوں کو بچوں سے زیادتی کرنے کا .. آج میں بتاؤں گا زیادتی کیا ہوتی ہے ...." لہجہ پتھر کو مات دیتا تھا
دونوں کے بدن کپکپاۓ لیکن وہ منہ سے کچھ بول نہ سکے کیوں کے منہ میں کپڑا دے پٹی سے باندھا ہوا تھا ماہ بیر کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ دونوں نفی میں سر ہلانے لگے
ہلتے ہی نوکیلے کیل ان کے گوشت میں پیوست ہونے لگے لیکن وہ درد کے مارے چلا بھی نہ سکے
"انہی ہاتھوں سے بچوں کی زندگی سے کھیلتے ہو نہ ....." کہتے ہی ہاتھ پہ چاکو چلاتے چمڑی ادھیڑ دی
درد کی شدت سے ان کے چہرے سرخ ہوے اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے
دیکھتے ہی دیکھتے انکے ہاتھوں سے خون کی ندی بہنے لگی لیکن اسکے دل میں لگی آگ ابھی تک ٹھنڈی نہ پڑی تھی
ماہ بیر نے اشارہ کیا تو عاقب نے ایک بٹن دبایا تو چھت سے کوئی مائع سا گرنے لگا گرم سا چپکتا ہوا وہ گرم کھولتی ہوئی ویکس تھی جو ان کے جسم پر پڑی تو آگ لگ گئی لیکن ستم تو یہ تھا وہ منہ سے کوئی آواز نہ نکال پا رہے تھے سر یہاں وہاں ہلاتے وہ ہل رہے تھے جس کی وجہ سے کیل لگ رہے تھے اور اوپر سے گرتی ویکس زخموں پہ نمک مرچ کا کام کر رہی تھی
ماہ بیر اطمینان سے کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا جلتے دل کو ابھی تک سکون نہیں ملا تھا کتنے سال اسکی جان تکلیف میں رہی ہے یہ تو ابھی کچھ بھی نہیں تھا
پانچ منٹ بعد اشارہ کیا تو عاقب نے بٹن بند کر دیا ماہ بیر کے ساتھ ٹارچر سیل میں عاقب ہی آتا تھا عمر سے یہ سب دیکھا نہیں جاتا تھا
وہ دونوں درد سے ادھ موے ہو چکے تھے
"نہ ان کے منہ سے یہ پٹی اترے گی اور نہ ہی انکو کھانے پینے کو کچھ ملے گا . انکو ڈاکٹر کو دکھاؤ تا کہ یہ جلدی ٹھیک ہوں اگلی سزا کے لئے ...." چبا چبا کے کہتا ان پہ ایک خونخوار نظر ڈال کر چلا گیا
🌹🌹🌹
سورج کی روشنی چاروں طرف پھیل کر سب کچھ روشن کر چکی تھی کھڑکی سے آتی روشنی عالیاب کے چہرے پہ پڑی تو تاثر بگڑے جیسے روشنی کی یہ مداخلت پسند نہ آئ ہو جب کسی طرح یہ روشنی کم نہ ہوئی تو کسمسا کے آنکھیں کھول دی چہرے پہ پیاری سی مسکان آئ
لیکن ہاتھ پہ نظر پڑی تو کل کا سارا واقعہ ذہن کہ پردے پہ تازہ ہو گیا مسکراہٹ پل میں ہوا ہوئی اور آنکھوں میں کرچیاں سی چبھنے لگی دل کا درد پھر سے تازہ ہوا ... جب یاد آیا کہ آج تو سب کو چھوڑ کے لندن چلے جانا ہے تو پلکوں پہ ٹہرے آنسو گلابی گالوں پہ بہہ نکلے
حمامہ نیچے کا سب کام ختم کرتی اسکو اٹھانے آئ تو اسکو روتے ہوے دیکھ کر جلدی سے اسکے پاس آئ
"کیا ہوا یاب میری جان کیوں رو رہی ہو ..." حمامہ کے دل کو کچھ ہوا
"میں میں یہاں سے نہیں جانا چاہتی .. مجھے سب کے ساتھ رہنا ہے میں کیسے رہوں گی تمھارے بابا کے بغیر پلیز مجھے روک لو مجھے نہیں جانا ....." ہچکیوں سے روتی وہ حمامہ کے گلے لگ گئی
حمامہ کی بھی آنکھیں نم ہوئی وہ بھی تو کبھی اس سے دور نہیں رہی تھی
"بس بس میری پیاری بس ... یہاں دیکھو میں بھی بہت جلد تمھارے پاس آ جاؤں گی بس کچھ وقت کی بات ہے پھر ہم دونوں ساتھ ہوں گے .. اور جب تمہارا دل چاہے تم ماہ بیر بھائی کے ساتھ آ جانا انکل سے ملنے ..." حمامہ نے اس کے آنسو صاف کیے
"اگر کچھ ہوا تو میں کیا کروں گی ..." عالیاب ماہ بیر سے ڈر رہی تھی لیکن شئیر نہیں کر پا رہی تھی
"کچھ بھی نہیں ہو گا اور اگر ہوا بھی تو ماہ بیر بھائی سب دیکھ لیں گے ... چلو اب رونا بند کرو اٹھو اور تیار ہو جاؤ سب آتے ہی ہوں گے ...." حمامہ نے ہاتھ پکڑ کر اسک اٹھایا اور کپڑے تھما کر واشروم بھیجا
کچھ ہی دیر میں عالیاب سب کے ساتھ نیچے تھی لائٹ اور ڈارک پرپل کلر کی کیپری شرٹ بلیک جیکٹ پہنے سر پہ دوپٹہ اچھی طرح سیٹ کیے سادہ چہرے کے ساتھ وہ بہت معصوم لگ رہی تھی اوپر سے اسکی روئی روئی سی سرخ آنکھیں اور سردی سے لال پڑتی ناک اور گال ماہ بیر کو اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے
ماہ بیر کی نگاہ بھٹک بھٹک کے اسکے چہرے پہ جا رہی تھی جس کی وجہ سے وہ گھبراتی یہاں وہاں دیکھ رہی تھی آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھی جنہیں وہ جھپک جھپک کے آنسو روک رہی تھی رخسانہ پھوپھو کے ساتھ بیٹھی وہ انکی باتوں کے چھوٹے چھوٹے جواب دے رہی تھی لیکن ایک بار بھی ماہ بیر کی طرف نہ دیکھا تھا
پرسکون ماحول میں سب نے لنچ کیا لیکن عالیاب کے گلے سے نوالہ نہیں اتر رہا تھا بامشکل چند لقمے زہر مار کرنے کے بعد وہ سب سے معذرت کرتی لان میں چلی گئی مٹھو آج گھر کے اندر نہیں آیا تھا شاید عالیاب کے جانے کی وجہ سے اداس تھا شام کو پانچ بجے انکی فلائٹ تھی حمانہ کو بھی رونا آ رہا تھا لیکن وہ خود کو کنٹرول کرتی سب کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی جانے کی ساری تیاری ہو گئی تھی
"حمامہ بیٹا جاؤ عالیاب کو بلاؤ ...." زمان صاحب دل کو مظبوط کر کے بولے
ورنہ دل تو بیٹی کی جدائی میں رو رہا تھا
حمامہ سر ہلاتے لان میں چلی گئی کچھ ہی منٹ بعد عالیاب بھی آ گئی ماہ بیر سب سے مل کے پہلے ہی باہر جا چکا تھا
عالیاب تو زمان صاحب کے گلے لگ کر جو روئی کہ زمان صاحب کے ضبط کا بندھن بھی ٹوٹ گیا حمامہ بھی ایک سائیڈ پہ کھڑی آنسو بہا رہی تھی بہت مشکل سے اسکو خود سے جدا کرتے زمان صاحب باہر لے کے گئے
"میری بچی بہت معصوم ہے اسکا خیال رکھنا ...." زمان صاحب نے نم آواز میں کہتے عالیاب کا ہاتھ ماہ بیر کے ہاتھ میں دیا جس نے بڑے پیار سے تھام لیا
عالیاب منہ نیچے کے آنسو بہانے میں مصروف تھی
"میری دوست کو کوئی تکلیف ہوئی تو یاد رکھیے گا میں باکسنگ چمپین ہوں آپکو بخشوں گی نہیں ...." حمامہ نے گیلی سی آواز میں دھمکی دی
"جو حکم میڈم ...." ماہ بیر ایک ہاتھ سینے پہ رکھتا ذرا سا جھکا
حمامہ اسکے انداز پہ مسکرائی
سب سے مل کے ماہ بیر نے اسکو گاڑی میں بیٹھایا اور دوسری سائیڈ سے خود آ کے بیٹھا تو عالیاب ذرا سا دور ہوئی ماہ بیر نے لب پینچ لئے .. گاڑی ڈرائیور چلا رہا تھا اس لئے ماہ بیر نے کچھ نہ کہا اور موبائل نکال کر کسی کو کال کرنے لگا
عالیاب نیچے منہ کیے ہنوز سوں سوں کر رہی تھی ماہ بیر نے ٹیشو دیا تو ڈرتے ڈرتے پکڑ لیا اس وقت اشد ضرورت تھی آدھے گھنٹے کا راستہ بلکل خاموشی سے گزرا گاڑی سے اترتے ہی ماہ بیر نےعالیاب کا ہاتھ نرمی سے اپنے مظبوط ہاتھ میں پکڑ لیا عالیاب کانپ گئی بے بسی سے اپنے ہاتھ کو دیکھا لیکن کچھ بولی نہ
چیکنگ کے بعد ائیرپورٹ میں داخل ہوے تو عالیاب کسی بے جان گڑیا کی طرح اسکے پیچھے چل رہی تھی ماہ بیر خاموشی سے اپنا کام کر رہا تھا پلین میں بیٹھے تو عالیاب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اسکو ہمیشہ ڈر لگتا تھا تو زمان صاحب اسکو باتوں میں مصروف کر دیتے تھے لیکن اب تو ماہ بیر اپنے موبائل پہ لگا ہوا تھا عالیاب سر جھکا گئی
ماہ بیر جو کب سے عالیاب کی بے چینی نوٹ کر رہا تھا چاہ رہا تھا کہ وہ خود سے کچھ کہے لیکن شاید ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا جب وہ خود اسکو مخاطب کرتی .. اسکو سر جھکاتے دیکھ موبائل رکھا اور بازو اسکے کندھے کے گرد پھیلا کے اسکو اپنے حصار میں لیا عالیاب جی جان سے کانپ گئی نظریں اٹھا کے اسکو دیکھا جو بہت گہری نظروں سے اسکو ہی دیکھ رہا تھا اسکی نظروں سے گھبراتی دوبارہ سر جھکا گئی
"ریلیکس ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے .. آنکھیں بند کر لو میں یہیں ہوں ..." بھاری گھمبیر آواز میں کہتے اسکا سر اپنے کندھے پہ رکھا
عالیاب جو پہلے ہی اسکی قربت سے کانپ رہی تھی اس قدم پہ اسکی رنگت فق ہوئی لیکن وہ مزاحمت بھی نہ کر سکی
ڈرتے ڈرتے آنکھیں بند کر لی ماہ بیر نے بڑی فرصت سے اسکا چہرہ دیکھا لرزتی پلکیں سردی سے سرخ ناک اور گال کپکپاتے ہونٹ اور ہونٹ کے اوپر جان لیوا تل .... ماہ بیر کے دل کی حالت غیر ہوئی من چاہا ساتھی باہوں میں اور ملکیت کا احساس بہت کچھ کرنے پہ اکسا رہا تھا لیکن وہ ماہ بیر خان تھا خود پہ کنٹرول کرنا جانتا تھا
کچھ ہی دیر میں اسکی گہری سانسوں کی آواز آنے لگی جس کا مطلب تھا وہ سو گئی ماہ بیر کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے ذرا سا جھک کے اسکے ماتھے پہ محبّت کی پہلی مہر ثبت کی اور خود بھی پرسکون ہو گیا
🌹🌹🌹
آٹھ گھنٹوں کی فلائٹ میں وہ پرسکون ماہ بیر کے کندھے پہ سر رکھے سوتی رہی ماہ بیر نے بغیر پلکیں جھپکاۓ اس کے معصوم چہرے کو دیکھتے آنکھوں کی پیاس بجھائی
پلین لینڈ کیا تو ماہ بیر نے اسکا ہلکا سا ہلایا لیکن وہ ویسے ہی رہی پوری فلائٹ میں ماہ بیر یہ جان چکا تھا کہ وہ نیند کی بہت پکی ہے
"عالیاب اٹھ جاؤ ہم لندن پہنچ گئے ...." ماہ بیر نے اسکا گال تھپتھپایا تو اسنے ہلکی سی آنکھیں کھولی ماہ بیر کو دیکھتے ہی جلدی سے سیدھی ہوئی
"سو سوری وہ م میں ......" عالیاب کو سمجھ نہ آئ کہ کیا کہے
"چلیں یا یہیں رہنا ہے ...." ماہ بیر نے ہلکا سا مسکرا کے ہاتھ پھیلایا
عالیاب نے ایک نظر اسکو دیکھا اور جھجھکتےاپنا ٹھنڈا پڑتا ہاتھ اسکی چوڑی ہتھیلی پہ رکھ دیا .... اسکا ہاتھ پکڑے ہی ماہ بیر نے سارا کام کیا اور ائیرپورٹ سے نکلے
ٹھنڈی ہوا عالیاب کو ٹھرٹھرا گئی ایک جیکٹ لندن کی سردی کا مقابلہ نہ کر سکی
ماہ بیر نے اپنا کوٹ اتار کے دیا
"پہن لو یہاں بہت زیادہ سردی ہے بیمار پڑ جاؤ گی ...." ماہ بیر نے نرم لہجے میں کہا تو عالیاب نے پکڑ لیا
ماہ بیر گاڑی میں سامان رکھ کے پلٹا تو عالیاب پہ نظر گئی جو اسکے کوٹ میں چھپ گئی تھی ماہ بیر کا کوٹ اسکے گھٹنوں تک آ رہا تھا اور بازو ہاتھوں سے بھی آگے گھنی مونچھوں تلے لب بے اختیار مسکرائے پھر مسکراہٹ دبا کے بولا
"چلو ...." ساتھ ہی اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکو فرنٹ پہ بیٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا
اسکا ڈرائیور گاڑی چھوڑ کر جا چکا تھا
گاڑی میں ہیٹر کی وجہ سے سردی نہیں لگی تھی عالیاب تو تھوڑی ہی دیر میں لال ہو چکی تھی سیٹ کی پشت سے سر ٹکاۓ وہ باہر دیکھ رہی تھی جہاں دور دور تک برف کی سفید چادر نے سب کچھ ڈھکا ہوا تھا ماہ بیر گاڑی چلاتا گاہے بگاہے ایک نظر اس پہ ڈالتا جو مگن سی پتا نہیں کیا دیکھ رہی تھی
کچھ ہی دیر کی ڈرائیو کہ بعد گاڑی ایک بڑے سے محل میں داخل ہوئی تو عالیاب نے حیران نظروں سے سب دیکھا اتنا خوبصورت اور بڑا محل ....
"کیا یہ آپکا گھر ہے ......" عالیاب بے ساختہ بولی
ماہ بیر نے اسکو دیکھا جو پیلس کو ستائشی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی
"یہ ہمارا گھر ہے ...." ماہ بیر نے ذرا سا جھک کے اسکے کان میں بولا تو وہ چونکی
پھر اپنی بے اختیاری پہ لب کچلنے لگی
ماہ بیر اسکا ہاتھ پکڑ کر گھر میں داخل ہوا عالیاب نے دوبارہ نظریں اٹھانے کی غلطی نہ کی اسکو اپنے روم میں لے گیا
"تم ریسٹ کرو میں کھانا لاتا ہوں پھر صبح ہم گرینڈ پا سے ملنے چلے گے ...." اسکو روم میں چھوڑ کر چلا گیا
عالیاب نے ایک نظر روم کو دیکھا بہت بڑا کشادہ روم تھا گرے اور وائٹ تھیم تھی عالیاب بیڈ پہ بیٹھتی ماہ بیر کا رویہ سوچنے لگی جو حد سے زیادہ اچھا تھا وہ تو کچھ اور سوچ رہی تھی لیکن یہ تو کچھ اور ہی تھا
جو بھی تھا اسکا شوہر ہی تھا لیکن اگر اسنے مجھ سے اپنا حق مانگا تو ..... یہاں آ کے اسکا دل ڈوبا ...
"نہیں میں اسکو اپنے قریب نہیں آنے دوں گی اگر اسکو سب پتا چل گیا تو ......" عالیاب کا دل سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا
🌹🌹🌹
کچھ ہی دیر میں ماہ بیر کھانے کی ٹرے لیے روم میں آیا عالیاب سوچوں میں گم تھی
"فریش ہو کہ کھانا کھا لو ...." ماہ بیر نے اس کو بلایا تو ایک دم ڈری
"ج جی ..? " عالیاب نے خوفزدہ نظروں سے اسکو دیکھا
"وہاں واشروم ہے فریش ہو کہ کھانا کھا لو ..." ماہ بیر نے ہاتھ سے اشارہ کیا
عالیاب سر ہلاتی چلی گئی
کچھ دیر بعد واپس آئ تو ماہ بیر پلیٹ میں کھانا نکال چکا تھا عالیاب انگلیاں چٹکھاتی وہیں کھڑی رہی
"آ جاؤ کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے ...." ماہ بیر بلکل نارمل بی ہیو کر رہا تھا جیسے سالوں سے جانتا ہو
عالیاب کھڑی رہی تھی ماہ بیر گہرا سانس بھرتا اس تک آیا
"چلو ...." ماہ بیر نے ہاتھ پکڑنا چاہا تو وہ بدک کر پیچھے ہوئی
"م میں خود ....." منہ سے ڈر کی وجہ سے الفاظ نہ نکل رہے تھے
اسکا ڈر دیکھ کر ماہ بیر کے جبڑے تن گئے اور ہاتھوں کو غصے سے پینچا دل کیا ان لوگوں کو آگ لگا دے جن کی وجہ سے وہ اتنا ڈرتی ہے لیکن پھر عالیاب کو دیکھ کر خود کو ریلیکس کرتا صوفہ پہ واپس گیا
عالیاب پلیٹ میں چمچ چلا رہی تھی منہ میں ایک دانہ نہ ڈالا تھا
"اس سے کھیلنا نہیں ہے اسکو کھانا ہے ...." ماہ بیر ذرا تیز لہجے میں بولا
"ج جی ..." ہکلا کے کہتی آہستہ سے کھانے لگی
ماہ بیر نے کافی کا مگ لبوں سے لگایا آنکھیں اس پہ ہی جمی تھی جو چڑیوں کی طرح کھا رہی تھی
کھانا کھا کے ماہ بیر نے ملازمہ کو بلوا کر برتن دیے اور اسکو سونے کا کہتے خود بھی لیٹ گیا
عالیاب بے بسی سے لب کاٹتی کھڑی رہی
"عالیاب چپ کر کے یہیں بیڈ پہ سو جاؤ ..." ماہ بیر بند آنکھوں سے بولا
عالیاب ڈرتے ڈرتے بیڈ کی بلکل سائیڈ پہ ہو کہ لیٹ گئی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اسکو ایک ساتھ سب لوگ یاد آنے لگے تو سسک پڑی
ماہ بیر نے اسکی سسکی سن کے لب پینچ لئے اور ہاتھ بڑھا کے اسکو حصار میں لیا عالیاب کی سانس سینے میں ہی اٹک گئی اور ماہ بیر کی گرفت میں وہ بن پانی کی مچھلی جیسے تڑپی
"چھ چھوڑیں ...." عالیاب نے نکلنے کی کوشش کی لیکن ہل بھی نہ سکی
ماہ بیر کچھ نہ بولا
کافی دیر مزاحمت کا کوئی فائدہ نہ ہوا تو بے بس ہو کے آنکھیں موند لیں
رات کافی سکون سے گزری تھی حمامہ نے بتایا تھا کہ وہ رات کو خواب میں ڈر جاتی ہے لیکن آج وہ کافی سکون سے سوئی تھی ایک بار بھی نہیں ڈری تھی شاید ماہ بیر کے حصار میں خود کو محفوظ محسوس کر رہی تھی ماہ بیر نے رات میں کافی بار اٹھ کر اسکو دیکھا لیکن وہ اس کے بازو پہ سر رکھے سو رہی تھی
رات سرکی تو آہستہ آہستہ صبح نے اپنے پر پھیلاۓ ماہ بیر تو پوری رات بس سوئی جاگی کیفیت میں ہی رہا صبح جاگنگ کا ارادہ ملتوی کرتا اٹھا اور نماز پڑھ کے اس عظیم ذات کا شکر کیا جس نے اس کی جھولی میں اسکی محبّت ڈالی تھی وہ جتنا شکر ادا کرتا کم تھا عالیاب ابھی تک گہری نیند میں تھی ماہ بیر اپنی زندگی میں یہ خوبصورت اضافہ دیکھ کر مسکرایا اسکے ماتھے پہ لب رکھتا نیچے چلا گیا
قریباً آدھے گھنٹے کی محنت کے بعد اس نے اپنی جان کے لئے ناشتہ بنایا پھر ٹائم دیکھتا اپنا کافی کا مگ لے کے اوپر گیا عالیاب ابھی بھی ویسے ہی سو رہی تھی
"سلیپنگ بیوٹی ...." اسکے معصوم سے چہرے کو دیکھتے نیا نام دیا
"عالیاب اٹھ جاؤ اب بہت ٹائم ہو گیا ہے ...." ماہ بیر نے گھڑی دیکھی جو دس بجا رہی تھی
عالیاب ویسے ہی سوئی رہی ماہ بیر نے نفی میں سر ہلایا اسکی وقت پابند طبیعت پہ یہ بات نہ گوار گزر رہی تھی کہ اسکی بیوی وقت کی قدر نہ کرے
"اٹھ جاؤ اب ......" ماہ بیر نے اسکو کندھوں سے پکڑ کر بیٹھا دیا
"پلیز حمامہ ابھی سونے دو نہ ...." عالیاب نیند میں جھولتی اس کے کندھے پہ سر رکھ گئی
ماہ بیر مسکرایا
"عالی میری جان اٹھ جاؤ اگر میں نے اٹھایا تو تمہے اچھا نہیں لگے گا ....." ماہ بیر مسکراہٹ دبا کر ذرا زور سے بولا
عالیاب نے فٹ سے آنکھیں کھولی اور اس سے دور ہوئی
نیند سے بوجھل سرخ ڈوروں والی گرے آنکھیں پھر سے ماہ بیر کو مہبوت کر گئی
"وہ م میں ....." عالیاب کو سمجھ نہ آیا کیا بولے
"اٹھ کے فریش ہو جاؤ پھر ناشتہ کرتے ہیں .. ہری اپ دس منٹ ہے تمھارے پاس ..." ماہ بیر نے اسکو ہاتھ پکڑ کر واشروم کی طرف بھیجا
عالیاب تو اسکے بی ہیو سے ہی بہت حیران تھی وہ کیسے اتنا نارمل تھا کچھ کہہ کیوں نہیں رہا تھا کچھ پوچھ کیوں نہیں رہا تھا ... وہ ایک نارمل کپل تو نہیں تھا .. عالیاب کو خود کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی اپنی سوچوں کی جھٹکتی وہ فریش ہوئی
کبرڈ کھولا تو دیکھ کر حیران رہ گئی اتنے کپڑے اس اکیلی کے ... لیکن رات کو تو یہ سب نہیں تھا اب کہاں سے آیا ماہ بیر اور عالیاب کے ڈریسز کے کلر ایک جیسے تھے ہر کلر ہی موجود تھا اس وقت کبرڈ میں .... وہ سوچ ہی رہی تھی کہ ڈور نوک ہوا
"اگر تم پانچ منٹ میں باہر نہیں آئ تو میں اندر آ جاؤں گا ...." ماہ بیر تیز لہجے میں بولا
اسکو گرینڈ پا کے پاس چھوڑ کے اور بھی کتنے کام کرنے تھے اسکا ایک ایک منٹ قیمتی تھا کل کی پارٹی کی بھی ساری تیاری کرنی تھی
"ج جی ....." عالیاب اسکی آواز سن کہ اچھلی
ایک منٹ میں جو سوٹ ہاتھ لگا پہن کے باہر نکلی لمبے بال ایسے ہی چھوڑ دیے تھے دوپٹہ سر پہ لیا ہوا تھا
واشروم کا دروازہ کھلا تو فون پہ بزی ماہ بیر نے ایک سرسری سی نظر اس پہ ڈالی لیکن وہ سرسری سی نظر کب بے خودی میں بدلی اسکو بھی پتا نہ چلا عالیاب بیڈ کے پاس کنفیوز سی کھڑی انگلیاں چٹکھا رہی تھی ماہ بیر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اسکی طرف بڑھا عالیاب کی سانس حلق میں اٹکی ماہ بیر بلکل اس کے سامنے کھڑا ہوا یوں کہ ایک ہاتھ کا فاصلہ تھا عالیاب نے ڈر سے آنکھیں بند کر لیں جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرتا ہے
ماہ بیر نے گہرا سانس لیا اور سائیڈ ٹیبل سے اپنا کافی کا مگ اٹھایا جو فون پہ بات کرتے وہاں رکھ چکا تھا ماہ بیر پیچھے ہوا تو عالیاب نے رکی ہوئی سانس بحال کی
"چلو ...." ماہ بیر نے اسکا ہاتھ پکڑنا چاہا تو پیچھے کر لیا
"کک ..کہاں جج جانا ..." عالیاب خوفزدہ ہوئی
ماہ بیر نے بغیر کوئی جواب دیے اسکا ہاتھ زبردستی پکڑا اور نیچے لے گیا عالیاب کو آنکھیں پھیلاۓ اسکو دیکھ رہی تھی
ڈائیننگ پہ اسکو بٹھا کے ناشتہ لگایا
عالیاب تو بس حیرت سے پوری آنکھیں کھولے اسکو دیکھ رہی تھی جو ہر کام خود کر رہا تھا
"مجھے دیکھنے کو ساری زندگی پڑی ہے ابھی تم ناشتہ کرو ہمیں دیر ہو رہی ہے ..." ماہ بیر اسکی نظریں خود پہ محسوس کرتا بولا
عالیاب نے سٹپٹا کے نظریں جھکا دی اور آہستہ آہستہ ناشتہ کرنے لگی
بیس منٹ بعد عالیاب نے ناشتہ کیا ماہ بیر تو صبر کے گھونٹ بھر کے رہ گیا
🌹🌹🌹
"السلام و علیکم گرینڈ پا ...." ماہ بیر انکا ہاتھ چومتا پیار سے بولا
"وعلیکم سلام کیسا ہے میرا بیر ...." گرینڈ پا صبح صبح اسکو دیکھ کر خوش ہو گئے
"میں ٹھیک دیکھیں کون آیا ..." ماہ بیر نے عالیاب کی طرف اشارہ کیا جو سر جھکا کے کھڑی تھی
اپنا نام سنتے سر اٹھا کے دیکھا اور گرینڈ پا کو سلام کیا جو بامشکل ہی انکو سنائی دیا
گرینڈ پا نے چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا نماز کے سٹائل میں دوپٹہ سر پہ لئے سادہ چہرے کے ساتھ وہ معصوم لگ رہی تھی گرینڈ پا کو اپنے بیر کے لئے وہ اچھی لگی
"ماشاللہ خوش رہو میری بچی ...." گرینڈ پا نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا
"میں ابھی جا رہا ہوں میری زندگی آپ کے پاس ہے خیال رکھیے گا ..." ماہ بیر مسکرا کے کہتا چلا گیا
کتنی دیر عالیاب کے کانوں میں ماہ بیر کے الفاظ گونجتے رہے ....
کیا انہوں نے مجھے "میری زندگی " کہا .....
سوچ کے ہی دل دھڑک اٹھا
سارا دن وہ گرینڈ پا کے ساتھ رہی وہ بھی اس سے اس کے بارے میں پوچھتے رہے کیا کرتی ہے کہاں رہتی ہے گھر والوں کے بارے میں ... عالیاب آہستہ سی آواز میں جواب دیتی رہی
شام کو ماہ بیر کی کال آئ تو گرینڈ پا نے اسکو گھر بھیج دیا
عالیاب گھر پہنچی تو کوئی بھی نہیں تھا بس ملازم کام کر رہے تھے
عالیاب جلدی سے روم میں گئی .. وہ ماہ بیر کے آنے سے پہلے سونا چاہتی تھی .. پہلے تو اسکو اپنے بال سنوارنے تھے لیکن اس سے سیدھے ہی نہیں ہو رہے تھے پھر تنگ آ کر ایسے ہی چھوڑ دیے .. کبرڈ سے ماہ بیر کی ایک ٹی شرٹ اور ٹراؤزر لیا شرٹ اسکے گھٹنوں تک تھی اور ٹراؤزر کے پانچے فولڈ کیے اور کمفرٹر میں دبک گئی .....گھر میں تو وہ رات کو اپنا ٹراؤزر شرٹ پہن کے سوتی تھی یہاں اس کے سائز کا نہ ملا تو ماہ بیر کا ہی پہن لیا .... آج کوئی بھی فضول سوچ اس کے دماغ میں نہیں آئ تھی
آج حمامہ سے بھی بات کرنے کا بہت دل کیا لیکن وہ اپنا فون یہاں لائی ہی نہیں تھی اور نمبر بھی اسکو یاد نہیں تھا کے لینڈ لائن سے ہی کر لیتی .. سوچوں میں گم کب نیند کی وادی میں اتر گئی پتا بھی نہ چلا
ماہ بیر اتنے دن کے اپنے کام ختم کرتا آیا تو کافی دیر ہی چکی تھی کھانا وہ حاشر کے ساتھ ہی کھا چکا تھا گرینڈ پا کو اس نے کال کر دی تھی کہ وہ عالیاب کو کھانا کھلا دے .. جیسے ہی روم میں انٹر ہوا نظر اپنی زندگی پہ گئی لب مسکرا اٹھے ... نائٹ بلب کی روشنی میں معصوم سی صورت لئے وہ گہری نیند میں تھی
ماہ بیر چلا اس کے پاس آیا غور سے دیکھا تو اسکو اپنی شرٹ میں دیکھ کر مسکراہٹ گہری ہو گئی لمبے بال تکیے پہ بکھرے ہوے تھے ایک ہاتھ گال کے نیچے تھا ماہ بیر نے نظروں پہ پہرا لگایا اور فریش ہونے چل دیا
بیڈ پے لیٹ کے ایک نظر اسکو دیکھا اور اگلے ہی لمحے وہ اسکی باہوں میں تھی ماہ بیر نے ذرا سا جھک کے اسکے گلابی گال پہ لب رکھے شیو کی چبھن محسوس کرتے اسنے برا سا منہ بنایا تو ماہ بیر پیچھے ہوتا آنکھیں بند کر گیا
🌹🌹🌹
صبح عالیاب کی آنکھ کھلی تو روم خالی تھا بیڈ سے اٹھنے لگی تو سائیڈ ٹیبل پہ نظر پڑی جہاں ایک نوٹ پڑا تھا
"ملازمہ نیچے موجود ہے .. فریش ہو کے ناشتہ کرلینا پھر بیوٹیشن آ جائے گی .. شام کو پارٹی ہے ..." عالیاب پڑھ کے فریش ہوئی
باہر برف باری ہو رہی تھی کل کی نسبت آج موسم ٹھنڈا تھا بلکونی میں آئ تو نظر نیچے گئی جہاں مالی لان میں پودوں کو دیکھ رہا تھا آسمان سے گرتے روئی کے گالوں کو دیکھ کر عالیاب مسکرائی واپس روم میں آتے غور سے سب دیکھا کافی بڑا روم تھا کنگ سائز بیڈ جس کی پچھلی دیوار پہ ماہ بیر کی بڑی سی فوٹو لگی ہوئی تھی سامنے ہی صوفہ رکھا تھا اور ایک ٹیبل .. دیوار گیر کھڑکی جس کے کرٹنز ہٹاؤ تو پول نظر آتا اور اسکے سامنے دو چیئر اور ان کے درمیان چھوٹا سا شیشے کا میز ... صوفہ کے ساتھ ہی ایک دروازہ تھا جو اسٹڈی روم کا تھا
اسٹڈی روم بھی کافی بڑا تھا چھت تک جاتے کتابوں کے ریک سینٹر میں ٹیبل اور چیئر ٹیبل پہ بہت ساری فائلز پڑی تھی جو یقینا ماہ بیر کے آفس کی تھیں بیڈ کے رائٹ سائیڈ ڈریسنگ تھا وہ بھی کافی کھلا تھا ... بلاشبہ کمرہ بہت شاندار تھا
روم سے نکلتی وہ پورے گھر کو دیکھ رہی تھی اتنا بڑا گھر تو نہیں کوئی محل ہی تھا دیواروں پہ آویزاں خوبصورت پینٹنگز مخملی کرٹنز قیمتی فرنیچر ... وہاں موجود ہر چیز ماہ بیر کے اعلی ذوق کا نمونہ تھی .... عالیاب مان گئی کہ یہ گھر واقعی میں شاندار ہے ...
کچھ ہی دیر میں بیوٹیشن آ گئی روم میں ہی عالیاب کو تیار کیا اپنا کام پورا کر کے وہ جا چکی تھی .. پورا دن گھر میں اکیلے رہنے کے بعد وہ بہت اداس ہو چکی تھی ماہ بیر دن میں گھر نہیں آیا تھا .. شام کو آیا تو تیار ہو کے چلا گیا
رات ہوئی تو گھر میں گیسٹ آنا شروع ہو گئے ماہ بیر نے پارٹی گھر میں ہی ارینج کی تھی بڑے بڑے بزنس مین انکی بیویاں اس کے آفس ورکرز ایکٹرز اور میڈیا کے لوگ ... سب آج ماہ بیر کی بیوی کو دیکھنے آۓ تھے ... حاشر نے پارٹی کا سارا کام خود کروایا تھا ماہ بیر تو اپنا آفس کا کام دیکھ رہا تھا وہ جلد سے جلد یہ کام ختم کر رہا تھا تا کے وہ کل سے عالیاب کو وقت دے سکے
پارٹی شروع ہوئی تو لوگ بے صبری سے ماہ بیر خان کی وائف کا انتظار کر رہے تھے
"میٹ مائی لوولی وائف اینڈ مائی لائف عالیاب ماہ بیر خان ...." ماہ بیر کی آواز نے سب کو متوجہ کیا
سپاٹ لائٹ سیڑھوں پہ پڑی جہاں سے ایک لڑکی آ رہی تھی مہرون کلر کے گاؤن میں مہرون ہی حجاب لئے بلکل نہ ہونے کے برابر میک اپ کیے اپنی معصومیت کے ساتھ قدم اٹھاتی وہ وہاں موجود سب کو حیران کر گئی ..... حیران تو ماہ بیر بھی رہ گیا تھا اتنی خوبصورتی اتنی پاکیزگی ...
ماہ بیر نے ہاتھ بڑھایا تو عالیاب نے ایک نظر اسکو دیکھا جو آنکھوں میں ہزاروں خوبصورت جذبات لئے اسے دیکھ رہا تھا عالیاب کا دل دھڑکا پھر آہستہ سے اپنا ہاتھ اسکی چوڑی ہتھیلی پہ رکھ دیا
im blessed my lady .....
عالیاب کو کان میں گمبھیر سرگوشی سنائی دی تو دل کی دھڑکن بڑھی
میڈیا کیمرے حرکت میں آتے دھڑا دھڑ انکی تصاویر بنا رہے تھے عالیاب اتنے لوگوں کو دیکھ کر گھبرا گئی
زور سے ماہ بیر کا ہاتھ جکڑ لیا
"ریلیکس میں یہیں ہوں ...." ماہ بیر نے نرمی سے اسکا ہاتھ دبایا تو وہ سر ہلا گئی لیکن دل ابھی بھی ڈر رہا تھا
وہاں موجود کچھ لوگوں نے انکو دعا دی تو کچھ حسد سے انکو دیکھ رہے تھے
مس جولیا بھی وہاں موجود بڑے غصے سے عالیاب کو دیکھ رہی تھی دل کر رہا تھا کے عالیاب کو کہیں دور پھینک دے اور خود ماہ بیر کے ساتھ کھڑی ہو ... لیکن وہ صرف یہ سوچ ہی سکی کڑوے گھونٹ بھرتی وہ ان دونوں کو دیکھ رہی تھی
اسکی فرینڈز طنزیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے کہہ رہی ... تم تو بڑا کہتی تھی ماہ بیر میرا ہے اب کیا ہوا ......
جولیا کے دل میں آگ لگی ہوئی تھی جو کسی طرح بجھ نہیں رہی تھی اور لوگوں کی باتیں اسکو مزید بھڑکا رہی تھی ....
🌹🌹🌹
ماہ بیر کے حصار میں عالیاب سن سی کھڑی تھی اسکو تو کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا دل ک حالت خراب ہو رہی تھی چہرے پہ زبردستی کی مسکراہٹ لئے وہ بے زار تھی اتنے لوگوں میں کھڑے ہونے کی بلکل ہمت نہ تھی ماہ بیر نے پکڑا نہ ہوتا تو اب تک گر چکی ہوتی ... اس کے براعکس ماہ بیر اسکی کمر میں ایک ہاتھ ڈالے کافی ریلیکس سا کھڑا سب کے سوالوں کے جواب دے رہا تھا
ماہ بیر کا دل تو بلکل نہیں چاہ رہا تھا عالیاب کو یہاں سب کے سامنے کھڑا رکھنے کا لیکن تھوڑی فارمیلٹی نبھانی تھی ...
"السلام وعلیکم بھابھی ...." عالیاب سر جھکا کے کھڑی تھی جب ایک خوش باش سی آواز سماعت سے ٹکرائی
نظر اٹھا کے دیکھا تو حاشر کھڑا تھا عالیاب پہچان گئی کہ یہ حمامہ کا ہینڈسم منڈا ہے
"وعلیکم سلام .. آپ .." عالیاب مدھم سا بولی
"جی میں آپکا اکلوتا دیور..آپ نے پہلے تو نہیں دیکھا ہو گا مجھے کیوں کہ شادی پہ نہیں آیا تھا نہ میں .... اس بتمیز نے میرا ویٹ نہیں کیا اور اکیلے ہی شادی کر لی ...." حاشر نے اسکی شکایت کی جو عالیاب کے ساتھ کھڑا مسکرا کر وہاں موجود لڑکیوں پہ ظلم کر رہا تھا
عالیاب سر ہلا گئی ماہ بیر کے سامنے تو ویسے بھی منہ سے الفاظ نہیں نکلتے تھے
"تم جاؤ روم میں میں گیسٹ کو اٹینڈ کر کے آتا ہوں ..." ماہ بیر نے جیسے اسکو اس گھٹن زدہ ماحول سے آزادی دی
عالیاب جلدی سے چلی گئی مبادا دوبارہ روک ہی نہ لے
کچھ دیر حاشر سے باتیں کرنے کے بعد گیسٹ کو چھوڑتا خود بھی روم میں چلا گیا
پارٹی تو چل رہی تھی وہ سب کو نظر انداز کر صرف اپنی بیوٹی کے ساتھ ٹائم سپینڈ کرنا تھا
ماہ بیر روم میں انٹر ہوا تو ساری خوشی پہ پانی پھر گیا
عالیاب چینج کر کے سو چکی تھی
"یا اللہ یہ لڑکی کتنا سوتی ہے ......" ماہ بیر حیرت سے بولا
تین دن سے اسکی نیند ہی پوری نہیں ہو رہی تھی ماہ بیر سمجھا شاید شادی کی وجہ سے وہ سو نہیں سکی اس لئے سوئی لیکن یہ تو لگتا نیند کی دیوانی تھی
"کل بات ہو گی تم سے اور کوئی رعایت نہیں ملے گی ......" گہری سانس بھر کے کہتا خود بھی چینج کرنے چلا گیا
🌹🌹🌹
رات کو کافی لیٹ تک پارٹی کی وجہ سے آج اٹھنے میں دیر ہو گئی تھی
جلدی سے تیار ہوا اپنے لئے ہلکا سا ناشتہ بنایا کافی کا مگ ہاتھ میں لئے کچن سے باہر آیا تو بیل بجی
صبح صبح کون آ گیا ..... خود سے کہتا دروازے کی طرف گیا
دروازہ کھولتے ہی سامنے موجود ہستی پہ نظر پڑی تو اپنی آنکھوں پہ یقین نہ آیا
مانوس سی آواز سن کے عالیاب کی آنکھ کھلی نیند سے بوجھل آنکھوں سے یہاں وہاں دیکھا تو روم میں کوئی نہیں تھا پھر نظر کھڑکی کی طرف گئی
جلدی سے بیڈ سے اٹھی اور کھڑکی تک پہنچی
"مٹھو میرا بےبی مٹھو کیسا ہے ....." چیئر پہ بیٹھے مٹھو کو جلدی سے ہاتھوں میں اٹھا کے چٹا چٹ پیار کیا
"یاب مٹھو میاں مٹھو ....." عالیاب کو دیکھ کر مٹھو چہک اٹھا
"میرا پیارا بےبی کس کے ساتھ یہاں آیا کیا بابا بھی آۓ ہیں ...." عالیاب نے بے تابی سے پوچھا
"یاب مامہ مٹھو آئ ......" مٹھو اپنا پنجہ اسکے ہاتھ پہ رکھ کر بولا
اپنی یاب کو دیکھ کر مٹھو اتنا خوش ہو گیا کے بار بار اپنا پر اس کے منہ پہ لگاتا اپنا پنجہ اسکے ہاتھ پہ رکھتا .. عالیاب تو اسکو دیکھ کر خوش ہی ہو گئی تھی
"ہاں بس اسکو دیکھ کر تمہے سارا جہاں بھول جاتا ہے ...." پیچھے سے حمامہ کی خفا سی آواز آئ تو عالیاب جلدی سے پیچھے مڑی
"حمامہ میری پیاری دوست میری جان ..." عالیاب مٹھو کو چیئر پہ بیٹھاتی بھاگ کے اسکے گلے لگ گئی
اتنے دن بعد دیکھ کر عالیاب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے وہ تو کبھی اتنے دن دور نہ رہی تھی
"کیسی ہے میری یاب جانی ..." حمامہ نے اسکو پھولا گلابی گال چوما
"میں ٹھیک ہوں تم یہاں کیسے آئ انٹی نے تو منع کیا تھا نہ ...." عالیاب جانتی تھی رفعت بیگم حمامہ کو اکیلے کہیں نہیں جانے دیتی تھی
"وہ بھی بتاؤں گی پہلے تو مجھے بتا ..." حمامہ اسکو لے کے صوفہ پہ بیٹھی
مٹھو آہستہ سے چلتا ہوا عالیاب کے پاس آیا تو اس نے اپنی گود میں بیٹھا لیا
"کیا بتاؤں ...." عالیاب جانتی تھی وہ کیا پوچھ رہی ہے لیکن اہر بھی انجان بنی
"ماہ بیر بھائی کیسے ہیں ....." حمامہ نے اسکے تاثر دیکھے
"پتا نہیں ...." عالیاب دکھی ہوئی
"کیا مطلب ہے پتا نہیں ... چار دن سے تم ان کے ساتھ رہ رہی ہو ابھی تک تم کو یہ نہیں پتا چلا کے وہ کیسے ہیں کیا کرتی رہی ہو تم ... کہیں تم نے انکو خود منع تو نہیں کیا ..." حمامہ تھوڑا تیز لہجے میں بولی
"پتا نہیں یار مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا میں چاہ کے بھی یقین نہیں کر پا رہی ان پہ ان چار دنوں میں انہوں نے میرا خیال رکھا مجھ سے اپنا کوئی حق بھی نہیں مانگا لیکن مجھے ڈر لگتا ہے کہیں انکو پتا چل گیا تو وہ کیسے ری ایکٹ کرے گے .. مجھے ڈر لگتا ہے کہیں میرا یقین ٹوٹ نہ جائے بہت مشکل سے میں نے خود کو تھوڑا سا سمبھالا ہے اگر دوبارہ بکھری تو پھر مر جاؤں گی ... مجھے ڈر لگتا ہے اب کسی مرد پہ یقین کرنے سے میں نے یہ چار دن اتنی مشکل سے گزارے ہیں ... میں نے چار دن میں انکو دیکھا وہ اچھے ہیں بہت لیکن وہ مجھ جیسی لڑکی ڈیزرو نہیں کرتے انکو کوئی ان جیسی ہی لڑکی ملنی چاہیے ... میں تو ...."
بولتے ہوے اسکی آواز رندھ گئی
وہ کہیں سے بھی ایک انیس سال کی لڑکی نہیں لگ رہی ایک حادثے نے اسکو وقت سے پہلے بڑا کر دیا تھا لوگ تو کہہ جاتے ہیں حوصلہ کرو بھول جاؤ لیکن یہ تو اسکو پتا ہوتا ہے جس کے ساتھ گزرتی ہے جو ان سب تکالیف سے گزرا ہوتا ہے اس کے لئے یہ سب کتنا مشکل ہوتا ہے کوئی نہیں جان سکتا
"نہیں میری جان ماہ بیر بھائی ایسے نہیں ہیں وہ اتنی چھوٹی سوچ نہیں رکھتے وہ کبھی بھی تمہارا یقین نہیں توڑے گے ایک بار ان پہ بھروسہ تو کرو ... اللہ نے تم دونوں کو ایک پاکیزہ بندھن میں باندھا ہے یہ بندھن اتنا کمزور نہیں ہے ... کسی اور پہ نہ صحیح اللہ پہ ہی یقین کرو جس نے تم دونوں کی قسمت جوڑی ہے ... تم جانتی ہو نہ وہ کبھی تمھارے لئے کچھ غلط نہیں کر سکتا ..."
اپنی دوست کو سمجھاتی تسلی دیتی وہ کہیں سے بھی شرارتی حمامہ نہیں لگ رہی تھی
عالیاب نے سر ہلایا
واقعی اللہ نے کبھی اسکا ساتھ نہیں چھوڑا تھا اتنے بڑے حادثے کے بعد اسکو زندگی دی اتنے پیار کرنے والے لوگ دیے زندگی کی ہر آسائش دی اسکو سلامت رکھا کیا ہوا اگر کچھ برا ہو گیا تو اچھا بھی تو بہت کچھ ہوا ہے نہ .. پھر اللہ سے شکوہ کیوں کرتی وہ جب اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کر سکتے تو شکوہ کرنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے ..... لیکن کچھ لوگ یہ بات نہیں سمجھتے کہ اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے اگر اس نے ہم سے کچھ چھینا ہے تو کتنا کچھ دیا بھی تو ہے لیکن نہیں ہم جیسے لوگ اس چیز کا شکوہ کرتے ہیں جو چھن جاتی ہے لیکن ان چیزوں کا شکریہ ادا نہیں کرتے جو اس نے بن مانگے عطا کی ہو ...
عالیاب کے ساتھ اتنا بڑا حادثہ ہوا لیکن اس نے شکوہ زبان پہ نہیں لایا اس نے اپنے رب کا شکر کیا جس نے ایک نئی زندگی سے نوازا وہ اپنے رب کے اور قریب ہو گئی ہمیشہ سے اللہ کی ذات پہ یقین کیا لیکن اس حادثے نے اسکے ذہن پہ بہت برے اثرات چھوڑے ہمیشہ ہنستی کھیلتی رہنے والی عالیاب کہیں گم ہو گئی ضد سے اپنی بات منوانے والی عالیاب پتا نہیں کہاں گم ہو گئی ... پانچ سال پہلے تو وہ اتنا بھی نہیں بولتی تھی بس ہوں ہاں کرتی رہتی .. حمامہ کی وجہ سے وہ بہتر ہوئی تھی لیکن ابھی بھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہوئی تھی
"اب میری بات پہ عمل بھی کرنا ہے یا نہیں ...." حمامہ نے اسکو دیکھا جو کسی گہری سوچ میں گم ہو گئی تھی
"لیکن میں تو نام کے علاوہ کچھ نہیں جانتی ان کے بارے میں ...." عالیاب سر جھکا کے بولی
مٹھو اسکی گود میں سکون سے بیٹھا تھا اور عالیاب اسکی فر پہ پیار سے ہاتھ پھیر رہی تھی
"تو اپنے ان سے ہی پوچھ لو نہ سب ....." حمامہ نے شرارت سے اپنے کندھا اسکے کندھے سے مارا
عالیاب نے مسکرا کے سر جھکا لیا
گلابی رنگت لال ہوئی
"آے ہاۓ لڑکی شرما رہی ہے ...." حمامہ ہنسی
عالیاب کا سر مزید جھک گیا
"بابا آۓ ہیں ..." عالیاب کو اپنے بابا یاد آۓ
"نہیں وہ کچھ دن تک آۓ گے ..." حمامہ اٹھ کھڑی ہوئی
"تم میرے ساتھ رہو گی نہ ...." عالیاب بھی اٹھی مٹھو ابھی تک اس کے ہاتھ میں ہی تھا
"نہیں مجھے کباب میں ہڈی بننے کا کوئی شوق نہیں ہے اور ویسے بھی میں تمھارے لئے نہیں اپنے ان کے لئے آئ ہوں ....." حمامہ نے شرمانے کی ناکام کوشش کی
"پر کچھ دیر تو رکو ...." کتنا دن بعد ملی تھی کچھ وقت وہ ساتھ گزارنا چاہتی تھی
"نہیں ابھی تم اپنے انکو پوچھو میں بعد میں آؤں گی اب تو ویسے بھی یہیں رہنا ہے ...." حمامہ کہتی آنکھ مار کر چلی گئی
عالیاب اسکی جلد بازی پہ ارے ارے کرتی رہ گئی
پھر سر جھٹک کر مسکرائی
"میرا پیارا مٹھو ...." مٹھو کو زور سے اپنے ہاتھوں میں پکڑا
مٹھو ..... اتنی زور سے پکڑنے پر مٹھو چیخا تو عالیاب کھلکھلائی
🌹🌹🌹
صبح صبح اپنے سامنے موجود ہستی کو دیکھ کر حاشر کو اپنی آنکھو پر یقین نہ آیا
یہ یہاں کیسے آ سکتی ہے
"لگتا ہے مجھے دیکھ کر صدمے میں چلے گئے ہو ...." حمامہ نے اسکی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلایا وہ تو اسکی شکل دیکھ کر یقین کرنا چاہ رہا تھا کے واقعی یہاں ہے یا صرف خواب ہے
"تم یہاں کیا کر رہی ہو .. اور میرے گھر کا ایڈریس کس نے دیا تمہے ...." حاشر کی حیرت میں ڈوبی آواز سنائی دی
"میں اپنا فیوچر گھر دیکھنے آئ ہوں اور جہاں تک رہی ایڈریس کی بات تو اس میں کونسی مشکل ہے کہیں سے بھی مل جاتا ....." حمامہ اسکو سائیڈ پہ ہٹا کے اندر آئ
ماہ بیر پیلس جتنا تو نہیں لیکن یہ بھی خوبصورت اور بڑا گھر تھا حمامہ کے ہونٹ واؤ میں ڈھلے
"تم کیسے آئ ہو یہاں اور کیوں آئ ہو ... ابھی کے ابھی جاؤ میرے گھر سے ..." حاشر کا دماغ گھوم گیا
یہ لڑکی یہاں تک پہنچ جائے گی اسکو بلکل بھی اندازہ نہیں تھا
"واہ میرے آنے کی خوشی میں ناشتہ بھی بنا رکھا ہے ... شکریہ بہت ضرورت تھی اس کی ....." اسکی بات نظر انداز کیے ناشتے کی طرف متوجہ ہوئی
کھانا دیکھ کر تو ویسے کچھ یاد نہیں رہتا تھا
حاشر کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا
"تمہے سنائی نہیں دیا ابھی کے ابھی جاؤ میرے گھر سے .... تمہے پہلے بھی کہا تھا میں شادی شدہ ہوں ...." حاشر ضبط سے بولا
اب تو جانتا تھا کے نکاح ہو گیا ہے
"ہاں تو کیا ہوا میں بھی شادی شدہ ہوں ڈئیر ہبی ....." حمامہ نے اطمینان سے کافی کا مگ لبوں سے لگاتے اسکے سر پہ بم پھوڑا
"کیا بکواس کر رہی ہو تم ...." حاشر غصے سے کھولتا اسکے سر پہ پہنچا
"یہ بکواس نہیں ہے میرے ہینڈسم منڈے ... یقین نہیں تو کمال انکل سے پوچھ لو ...." اسکا اطمینان برقرار تھا لیکن آنکھوں میں شرارت تھی
کمال چاچو کے نام پہ اسکا ماتھا ٹھنکا
"نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ...." بڑبڑاتے اسنے فون پہ نمبر ملایا
اسکے سر پہ دھماکہ کر کے خود سکون سے ناشتہ کر رہی تھی
"ارے حاشر میں تمہے ہی فون کرنے والا تھا حمامہ پہنچ گئی ...." کمال صاحب کی ہشاش بشاش سی آواز سنائی دی
"چاچو یہ لڑکی کون ہے ....." حاشر ضبط کی آخری حد پہ تھا
"منکوحہ ہے تمہاری .. ابھی کچھ دن تمھارے گھر رہے گی ... میں رفعت بہن سے جلد ہی رخصتی کی ڈیٹ لیتا ہوں ..." آج تو حاشر کی سماعتوں پہ دھماکے ہی ہو رہے تھے
"چاچو میں نے ابھی تک سوچا نہیں اس بارے میں اور اس لڑکی سے میں بلکل بھی شادی نہیں کروں گا ...." حاشر کی آواز میں دبا دبا غصہ تھا
کمال شاہ کے سامنے ویسے اسکی نہیں چلتی تھی
"تو تمہے سوچنے کے لئے اور کتنے سال چاہیے .. اور اس لڑکی سے شادی نہیں کرنے کا مطلب ... تمہاری شادی ہو چکی ہے بس رخصتی ہونی ہے اور وہ بھی جلد ہو جائے گی بہتر ہے تم خود کو تیار کر لو ...." کمال شاہ بھی اس کے ہی چاچو تھے
"لیکن چاچو یہ لڑکی مجھے نہیں پسند اتنا بچپنا ہے اس میں ذرا جو کوئی لڑکیوں والی تمیز ہو یہ ایک امیچور لڑکی ہے میں نے ایسی لڑکی نہیں سوچی اپنے لئے ......" حاشر اب آرام سے بولا
اگر وہ غصہ کرتا تو کمال شاہ اس سے زیادہ غصے میں بات کرتے
"اس عمر میں ہر لڑکی ایسا ہی ہوتی ہے ... جب تمہاری بیوی بن جائے گی تو پسند بھی آ جائے گی ... میں اب کوئی بحث نہیں چاہتا یہ جمال بھائی کی خواھش تھی جسے میں ضرور پورا کروں گا بہتر ہے تم بھی اپنے باپ کی خواھش کا مان رکھو اگر نہیں تو پھر بھول جانا کوئی چاچو تھا تمہارا ....." کمال شاہ نے اسکے اعتراض کو کسی خاطر میں نہ لاتے دھمکی دی
"چاچو ......" حاشر صدمے میں تھا
اسکے چاچو ایک لڑکی کے لئے اس سے رشتہ ختم کر لے گے
"جتنے دن وہ وہاں ہے خیال رکھنا اسکا اگر مجھے کوئی شکایت ملی نہ تو پھر تمہاری خیر نہیں ہو گی ...." غصے سے وارن کرتے وہ فون بند کر چکے تھے
حاشر کا تو دماغ کام کرنا چھوڑ گیا تھا
یہ لڑکی پوری زندگی اس کے ساتھ رہے گی نہیں ایسا نہیں ہو گا ......
حاشر خود سے کہتا اسکی طرف گیا جو ناشتہ کر کے اب گھر کا جائزہ لے رہی تھی
"دیکھو میری بات کان کھول کے سن لو میں ساری زندگی تمھارے ساتھ نہیں رہ سکتا تو چاچو کو منع کر دو یہ رشتہ نہیں چل سکتا ...." حاشر نے آرام سے سمجھایا
"ٹھیک ہے تم نہ رہنا میرے ساتھ میں تمھارے ساتھ رہ لوں گی ...." اسکی طرف دیکھتی اطمینان سے بولی
لیکن آنکھوں میں شرارت واضح تھی
"میری بات سمجھو ہم ایک ساتھ نہیں چل سکتے ہم بہت اپوزٹ (Opposite )ہیں ایک دوسرے سے یہ رشتہ ایسے نہیں چل سکتا ...." اسکی بات بڑے ضبط سے برداشت کرتے بولا تھا
"ہممم یہ سوچنے والی بات ہے ....." حمامہ انگلی گال پہ ٹکا کے بولی
حاشر نے گہرا سانس لیا شکر ہے کچھ تو سمجھ آئ
"اس کا بھی حل ہے .. ہم ساتھ نہیں چل سکتے تو کیا ہوا میں آگے چل لوں گی تم پیچھے چل لینا ... اور اپوزٹ ہیں تو اچھی بات ہے نہ اپوزٹ تو ہمیشہ ایک دوسرے کو اٹریکٹ کرتے ہیں .. میں بھی کہوں تم مجھے اچھے کیوں لگتے ہو ضرور یہی وجہ ہو گی ....." حمامہ کے پاس ہر مسلے کا حل تھا
حاشر جو تھوڑا ریلیکس ہوا تھا اس کی بات سن کے اسکا دماغ دوبارہ گھوما
"تمہے ایک بار سمجھ نہیں آتی کیا مجھے نہیں رہنا تمھارے ساتھ ....." غصے سے دھاڑا
"ویسے گھر تو بہت پیارا ہے لیکن تھوڑی چینجنگ کی ضرورت ہے کوئی نہیں میں آ کے ٹھیک کر لوں گی ....." حمامہ نے بات ایسے نظر انداز کی جیسے وہ کسی اور سے بات کر رہا ہو
اپنی بات کا نظر انداز ہونا حاشر کو آگ لگا گیا
"تم سمجھتی کیا ہو ہو خود کو ...." زور سے اسکا بازو پکڑ کے اپنے سامنے کیا
"حمامہ حاشر شاہ ....." اسکا اطمینان حاشر کے غصے کو ہوا دے رہا تھا اسکا چہرہ غصے سے لال ہو گیا تھا
"تم ابھی جانتی نہیں ہو مجھے میں بہت برا ہوں ....." غصے سے غرایا
"تو کیا ہوا جان جاؤں گی ویسے تم برے ہو یا اچھے میں تمہے سیدھا کر لوں گی ...." حمامہ کے چہرے پہ سکون ہی سکون تھا
اس کے الٹے جوابوں پہ حاشر کا دل کیا اپنا سر دیوار میں مار دے
"بھاڑ میں جاؤ تم ...." اسکو زور سے صوفہ پہ دھکا دیتا تن فن کرتا چلا گیا
"اب تو جہاں بھی جاؤں گی تمھارے ساتھ ہی جاؤں گی ہینڈسم منڈے ......" حمامہ پیچھے سے کہنا نہیں بھولی تھی
حاشر نے دروازہ اتنی زور سے بند کیا کے حمامہ ایک لمحے کو ڈری لیکن پھر اسکا غصے سے لال سرخ چہرہ یاد کرتے ہنس پڑی
🌹🌹🌹
"مبارک ہو میجر ذی کے .. فائنلی آپ نے اپنا کہا پورا کر دیا ....." کرنل عامر ہوسپٹل کے روم میں داخل ہوتے بولے
"شکریہ کرنل یہ تو میرا فرض ہے ...." ہوسپٹل بیڈ پہ زخمی حالت میں پڑے میجر زی کے نے بامشکل مسکرا کے جواب دیا
تین مہینے سے وہ اس کیس پہ کام کر رہے تھے اپنی بیوی بچوں سے دور بغیر ان سے رابطہ کیے وہ اپنا فرض سر انجام دے رہے تھے ... کل ہی انہوں نے کراچی کا سب سے برا ڈرگز سمگلنگ گینگ پکڑا تھا جو دشمن ممالک سے خطرناک ڈرگز لیتے اور اپنے ملک کے بچے بچیوں کو ڈرگز کی گندی لت لگا کر انکا مستقبل اور انکی زندگی داؤ پہ لگا رہے تھے
یونی کے لڑکے لڑکیوں کو اس کا عادی بنا کر ان سے غلیظ کام کرواۓ جاتے تھے ... بہت وقت سے پاک فوج ان کے پیچھے تھی لیکن تین مہینے پہلے میجر زی کے نے یہ کام اپنے ذمے لیا اور بلآخر اسکو پورا کیا ... کل ہونے والی جھڑپ میں وہ خود بھی اچھے خاصے زخمی ہو چکے تھے لیکن اپنی جان پہ کھیل کے انہوں نے اپنے ملک کے آنے والے مستقبل کی حفاظت کی
"جلدی سے ٹھیک ہو جائیں آپ نے اور بھی بہت سے کام کرنے ہیں ...." کرنل عامر انکا کندھا تھپتھپا کے چلے گئے
میجر زی کے نے مسکراتے آنکھیں بند کر لی
انکا نام تو کچھ اور تھا لیکن انکو خود کو ذی کے کہلوانا اچھا لگتا تھا
🌹🌹🌹
عالیاب فریش ہو کے آئ تو ماہ بیر صوفہ پہ بیٹھا لیپ ٹاپ پہ کام کر رہا تھا عالیاب ہمت کرتی اس تک آئ کب تک منہ بند رکھتی ساری زندگی ایسے تھوڑی گزر جانی تھی
ماہ بیر بظاہر تو کام کر رہا تھا لیکن اس کی ساری حساسیات اسکی طرف ہی متوجہ تھی اسکے انداز سے لگ رہا تھا کے وہ کچھ کہنا چاہتی ہے ماہ بیر چاہتا تھا وہ خود بات کرے اس لئے خاموش اس کے بولنے کا ویٹ کرتا رہا
عالیاب کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا کہے انگلیاں چٹکھاتی وہ لب کچل رہی تھی آنکھوں میں خوف ہلکورے لے رہا تھا پتا نہیں وہ کیا کہے گا
"سنیں ...." آواز اتنی مدھم تھی کے شاید ہی اسکو سنائی دی ہو
وہ ویسے ہی بیٹھا رہا
"مسٹر خان ..سنیں ....." ہمت کرتے رک کے بولی
اسکے الفاظ سن کے مونچھوں تلے سرخ لب مسکراہٹ میں ڈھلے لیکن پھر سنجیدہ چہرہ بنا کے اسکو سوالیہ نظروں سے دیکھا
"وو وہ مم مجھے بات کر کرنی ...." اسکے دیکھتے ہی زبان اٹکنے لگی
"بیٹھو ...." لیپ ٹاپ ٹیبل پہ رکھتے اسکو پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا
وہ ڈرتے ڈرتے ایک سائیڈ پہ ٹک گئی جیسے ابھی اٹھ کے بھاگ جانا ہو
"بولو میں سن رہا ہوں ...." ماہ بیر اسکی طرف مڑا اور اسکا ہاتھ نرمی سے اپنے مظبوط ہاتھ میں لیا
عالیاب کا دل جو پہلے ہی لرز رہا تھا اس حرکت پہ اچھل کے حلق میں آیا الفاظ منہ سے نکلنے سے انکاری تھے
"نہیں آج بولنا پڑے گا عالیاب ہمت کرو ...." دماغ نے حوصلہ دیا
ماہ بیر اسکی طرف ہی متوجہ تھا
"مم میں جانتی ہم ہمارا رشتہ کک کیا ہے پر یہ یہ س سب میرے لی لئے بہت م مشکل ہے ا ایک دم سے یہ یہ س سب ہو گیا مج مجھے پتا نہی کک کیا کروں مم میں آپ کو ن نہیں جانتی آ آپ میری زن زندگی میں آ آنے والے پہ پہلے مرد ہیں .." یہ کہتے کرب سے آنکھیں میچ لیں .. " ہم ہمارے رشتے کک کو سمجھنے کے لئے ٹا ٹائم چاہیے مم میں پہلے آ آپ کو جاننا چاہتی پلیز آپ سمج سمجھ لیں ...."
رک رک اٹک اٹک کے اپنی بات پوری کرتے آنکھیں زور سے میچ لیں
دل ڈر سے کانپ رہا تھا پتا نہیں وہ کیا کہے
"میں سب جانتا .. اب تم مجھ سے کیا چاہتی ہو کیا کروں ..." ماہ بیر نرمی سے بولا تو اسنے نظریں اٹھا کر اسکو دیکھا
اسکی آنکھوں میں ایسا سحر تھا کے وہ کچھ لمحے بھی نہ دیکھ پائی اور گھبرا کر نظریں جھکا دی
"آ آپ مم میرے دو دوست بن جائیں پلیز ....." وہ اتنی معصومیت سے بولی کہ ماہ بیر دیکھتا رہ گیا
کیا تھا اس لڑکی میں جو وہ ماہ بیر کا عشق بن چکی تھی بارہ سال سے وہ مغربی ملک میں تھا اس نے ہر طرح کا حسن دیکھا تھا لیکن پہلے تو کبھی وہ حسن سے متاثر نہیں ہوا ... کیا وہ عالیاب کے حسن پہ فدا ہوا تھا نہیں اس نے عالیاب کو دیکھا نہیں تھا پھر کیوں وہ لڑکی اسکا عشق بن گئی ... صرف آنکھوں کی وجہ سے ... پانی سے بھری گرے آنکھیں اس پہ لمبی گھنیری پلکیں ... وہ آنکھیں کچھ ہی لمحوں میں ماہ بیر خان جیسے انسان کو اپنا آسیر کر گئی تھی .... ماہ بیر خان جس پہ لڑکیاں مرتی اسکی نظروں میں آنے کے لئے ہر حد سے گزر جاتی لیکن وہ ایک نظر نہ دیکھتا .. اسکی لائف میں تو نسوانی وجود کی جگہ نہ تھی .... لیکن یہ چھوٹی سی لڑکی انجاے میں ماہ بیر خان کی دنیا بدل چکی تھی ....
پیار محبّت کو ٹائم ویسٹ سمجھنے والا ماہ بیر خان آج خود کسی کے عشق کا آسیر ہو چکا تھا ....
"کک کیا ہوا ....." اسکو سوچوں میں گم دیکھ کر عالیاب آہستہ سے بولی
"کچھ نہیں ... حمامہ جیسا دوست بناؤ گی ...." ماہ بیر مسکرا کر بولا
عالیاب نے جھٹ سر ہاں میں ہلا دیا ماہ بیر کے مسکرانے سے حوصلہ ملا تھا
"ٹھیک ہے پھر میری شرط ماننی پڑے گی ...." ماہ بیر نے اسکا چہرہ دیکھا
"میجر میں نے آپکی رپورٹس دیکھی ہیں مجھے دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کے جو گولی آپ کے کندھے پہ لگی ہے وہ آپکا کافی نقصان کر چکی ہے آئ ایم سوری لیکن اب آپ گن نہیں چلا سکتے ..." ڈاکٹر افسوس سے کہتا انکا وجود زلزلوں کی زد میں چھوڑ گیا
میجر زی کے کی ساری ساری دنیا طوفان کی نظر ہی گئی ایک فوجی کے لئے یہ موت کا مقام ہوتا ہے کے اسکو یہ کہہ دیا جاۓ کے وہ فوج کے لئے ناکارہ ہو گیا ہے بیس سال سے فوج سے منسلک رہتے ایک بار بھی غلطی سے انکو ایسا خیال نہیں آیا تھا کے وہ کبھی اس مقام پہ بھی آ سکتے ہیں
تین مہینے سے اپنی فیملی سے دور اس کیس پہ کام کرتے انہوں نے ایک بار بھی نہ سوچا تھا کے ایسا کچھ بھی ہو سکتا ہے یہ کیس ان سے بہت کچھ چھین چکا تھا ایک آنسو چپکے سے انکی آنکھ سے نکلتا داڑھی میں جزب ہو گیا
چار دن بعد انکو ڈسچارج کیا گیا بہت اعزاز سے انکو فوج سے ریٹائر کیا گیا اس وجہ سے وہ حد سے زیادہ افسردہ تھے لیکن اللہ کی مصلحت کو قبول کیا .. لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور آئندہ بھی جب ضرورت ہو مدد کرنے کا وعدہ کیا جسے کرنل عامر نے خوش دلی سے قبول کیا میجر ذی کے جیسے جانباز لوگوں کی وجہ سے آج ملک کے لوگ آرام سے اپنے گھروں میں زندگی گزار رہے ہیں .....
سب کو مل کے اپنے گھر روانہ ہوے جہاں ایک اور بری خبر انکی منتظر تھی
🌹🌹🌹
"کک کیسی ش شرط..." کچھ لمحے پہلے جو ڈر کم ہوا تھا وہ پھر سے چہرے پہ نظر آنے لگا
"میرے ساتھ روز صبح جلدی اٹھنا پڑے گا .. جم جانا پڑے گا مجھ سے ٹریننگ لینی ہو گی اپنی ہر بات مجھ سے شئیر کرنی ہو گی جیسے حمامہ سے کرتی ہو اور سب سے ضروری بات وقت کی پابندی کرنی ہو گی .. مجھے وقت ضائع کرنے والے لوگ بلکل بھی نہیں پسند ...." ماہ بیر اسکا چہرہ دیکھتا سنجیدگی سے بولا
عالیاب کی تو شرط سن کے ہوائیاں اڑ گئی تھیں صبح جلدی اٹھنا اسکو سب سے مشکل کام لگتا تھا اور وقت کی پابندی کرنا یہ تو کبھی سوچا نہیں تھا
"ا اگر مم میں یہ س سب ن نہ کر سک سکو ت تو ....." اسکا سنجیدہ چہرہ دیکھی ڈر کے بولی
"پھر میں دوست نہیں تمہارا شوہر بن جاؤں گا اور یو نو شوہر کے حقوق و فرائض ...." ماہ بیر نے مسکراہٹ دبائی
عالیاب نے بے اختیار تھوک نگلا
"ا ابھی تو آ آپ نہ نے کہا کہ آ اپ د دوست بن جائے گ گے ...." عالیاب نے ہراساں ہو کہ اسکو دیکھا
اسکے ہاتھوں میں ہاتھ ٹھنڈے پڑ گئے
"ہاں تو شرط مان لو میں دوست بن جاؤں گا ..." اتنی مشکل سے تو وہ کچھ بولی تھی اب کیسے جانے دیتا
عالیاب تو بات کر کے پھنس گئی تھی اتنے مشکل کام ایک ساتھ کیسے کرے گی اور اگر اسکو غصہ آ گیا تو .....
"ٹھیک ہے تم نے نہیں ماننا تو میں نہیں بنتا تمہارا دوست ...." ماہ بیر خفا سا بولا لیکن ہاتھ نہیں چھوڑے
"نہیں ...." وہ جلدی سے بولی
ماہ بیر نے آئ برو اچکا کے دیکھا جیسے پوچھا ہو کیا نہیں
"مج مجھ سے ن نہیں اٹھ اٹھا جاتا جل جلدی ...." آہستہ سے منمنائی
"میں اٹھا لوں گا تم کہو تو صحیح ..." ماہ بیر نے شکر کیا وہ مانی تو
"ٹھ ٹھیک ہے ...." عالیاب گہرا سانس لے کے بولی
اتنی ہمت کی ہے تو تھوڑی اور صحیح .. ایسے ڈر کے تھوڑی گزر جانی تھی زندگی کچھ تو کرنا ہی تھا اور پھر جب اللہ ساتھ ہے تو کس بات کی فکر وہ سب ٹھیک کر دے گا
"شکریہ پیاری لڑکی ..." اسکے ہاتھ لبوں سے لگاۓ
عالیاب کی آنکھیں پھیلی دل کی دھڑکن بڑھی اور گال سرخ ہوے
"دوستی اپنی جگہ لیکن ہمارے رشتے یہ میں سب جائز ہے ...." سکون سے اپنی کہتا واپس لیپ ٹاپ اٹھا چکا تھا
عالیاب دھڑکتے دل سے اٹھی اور ڈریسنگ تک گئی سر سے دوپٹہ اتارا تو بال الجھے ہوے تھے اسکی شکل رونے والی ہو گئی پھر کچھ سوچ کے مڑی
"مسٹر خان ..." دھڑکتے دل سے پکارا
"جی میری جان ...." پیار بھرا لہجہ
عالیاب جھینپ گئی
"وو وہ ایک ہے ہیلپ کر دیں ..." انگلیاں چٹکھاتے بولی آواز بہت مدھم تھی
"جی حکم ..." نظریں لیپ ٹاپ پہ تھیں لیکن لہجہ نثار ہونے والا
"مم میرے ب بال بن بنا دیں ..." پتا نہیں کیوں لیکن کہتے ہوے شرمندگی ہوئی
ماہ بیر کو لگا اس نے کچھ غلط سنا ہے
"میں بال بنا دوں ..." اس نے کنفرم کیا
جلدی سے سر ہاں میں ہلا دیا
"آپ نہ نے بولا کک کے آپ کو حمامہ ج جیسا دوست سم سمجھوں ت تو اس ل لئے بولا ...." عالیاب وضاحت کرتی سر جھکا گئی
ہممم..... ماہ بیر گہرا سانس بھرتے اٹھا
اب لندن کا بزنس کنگ بیوی کے بال بناۓ گا واہ ....
"آج سے پہلے کون بناتا تھا تمہارے بال ...." اسکے بالوں کو ہاتھ لگاتا بولا
کمر سے نیچے تک آتے بھورے بال کافی گھنے تھے ماہ بیر نے ہاتھ میں لے کے انکی نرماہٹ محسوس کی
"حمامہ یا بابا ... بچ بچپن سے مم میرے ب بال مما نے بڑ بڑھے کک کیے ل لیکن م مجھ سے نہیں ٹھیک ہوتے اٹ اٹک جاتے ہیں میں بابا کو بو بولا کٹوا دے انہوں نے منع ک کر دیا .. اب تو بابا ن نہیں میں کٹوا دوں گی ...." اپنی مشکل بتاتے ساتھ حل بھی بتایا
اس کے ذرا سے حوصلے کی وجہ سے وہ بول رہی تھی
"خبر دار جو تم نے بالوں کو ایسا ویسا کچھ کرنے کی کوشش کی تو ...." ماہ بیر اسکے بال سیدھے کرتا ذرا زور سے بولا
"کک کیوں ...." آنکھوں میں خوف لئے اسکو دیکھا جو پیچھے کھڑا تھا
"بس میں نے منع کر دیا نہ تم بالوں کو کچھ نہیں کرو گی ... اگر تم نے کچھ کیا تو پھر دوستی ختم ..." ماہ بیر نے دھمکی دی
"یہ کیسی دوستی ہو ہوئی آ آپ چھ چھوٹی سی بات پہ ختم کر دے گے ..." عالیاب کو غصہ آیا
"میری دوستی ایسی ہی ہے تمہے میری ہر بات ماننی پڑے گی ..." ماہ بیر روعب سے بولا
"تو پھر آ آپ کو بہ بھی میری بات ماننی ہو گی ...." عالیاب نے منہ پھلایا
ماہ بیر نے حیرت سے اسکو دیکھا کل تک تو اس سے بولا نہیں جا رہا تھا اور آج وہ ناراض ہو رہی تھی
کچھ حمامہ کی باتوں کا اثر تھا اور کچھ ماہ بیر سے دوستی کی وجہ سے
"ہاں تو میں نے کب منع کیا لیکن بالوں کو تم ہاتھ بھی نہیں لگاؤ گی اور نہ ہی تم کاٹو گی ..." ماہ بیر نے وارن کیا
"کی کتنا مشکل ہو ہوتا ایسے بال ر رکھنا آپ ک کے ہوں تو پتا چلے ...." خفگی سے کہتے اسکے ہاتھ سے اپنی موٹی سی چوٹی لی جو وہ باتوں باتوں میں بنا چکا تھا
ماہ بیر تو حیران تھا یہ دیکھ کر کے وہ ضدی بھی ہے .. ابھی تک تو صرف اسکا ڈر ہی دیکھا تھا .. ذرا سی نرمی اور دوستی سے وہ اتنے آرام سے بات کر رہی تھی ماہ بیر کو یقین ہوا اگر وہ تھوڑی سی اور کوشش کرے تو وہ پہلے جیسی ہو سکتی ہے
🌹🌹🌹
حمامہ سے دماغ خراب کرکے وہ آفس آیا موڈ حد سے زیادہ بگڑا ہوا تھا ساتھ ہی آفس کے ورکرز کی شامت آئ ہوئی تھی
"اس لڑکی کی اتنی ہمت کے وہ میرے گھر تک پہنچ گئی . میں کسی صورت اس سے شادی نہیں کروں گا کتنی بتمیز ہے وہ .. پاگل لڑکی کس طرح میرے ہی گھر میں مجھ سے بتمیزی کر رہی تھی میں میں اسکو ایک لمحہ برداشت نہیں کر سکتا کجا کے پوری زندگی ......."
اپنے آفس میں بیٹھا وہ مسلسل حمامہ کے بارے میں سوچ رہا تھا
"کتنی چالاک لڑکی ہے کیسے میرے چاچو کو ورغلہ لیا ہے وہ سننے کو تیار نہیں میں کیسے انکار کروں ... یا اللہ کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں اچھی بھلی زندگی گزر رہی تھی پتا نہیں کہاں سے یہ میرے گلے پڑ گئی ....."
حاشر کا بس نہیں چل رہا تھا کے اسکو کہیں غائب کر دے کہاں وہ پچیس سال کا میچور مرد اور کہاں وہ بچی ....
اس نے یہی سنا تھا کے نکاح میں بہت طاقت ہوتی ہے جو دو دلوں کو جوڑ دیتا ہے لیکن حاشر اسکے لئے ایسا کچھ نہیں فیل کر رہا تھا بلکہ اسکو تو غصہ آ رہا تھا
اسنے اپنے لئے ایک میچور سمجھدار سی لڑکی سوچی تھی جو اسکے جیسی ہو اسکو سمجھ سکے اور کہاں یہ منہ پھٹ بتمیز اسکے گلے پڑ گئی تھی
جب کسی پل چین نہ ملا تو کیز اور موبائل اٹھا کے آندھی طوفان بنا وہاں سے چلا گیا اور جیک جو ماہ بیر کے نہ ہونے کی وجہ سے اسکے پاس آ رہا تھا پیچھے سر سر کرتا رہ گیا
🌹🌹🌹
حاشر کے جانے کے بعد حمامہ نے اچھی طرح سے پورے گھر کا جائزہ لیا اکیلے ہونے کے باوجود گھر صاف ستھرا تھا حاشر کا روم بھی ترتیب سے سیٹ تھا
"واہ اتنی صفائی میں نے تو کبھی نہیں کی ...." کبرڈ دیکھتے حمامہ کو اپنی یاد آئ جس کو جب وہ کھولتی کپڑے پیروں میں سجدہ کرتے
حاشر کا روم حمامہ کو بہت پسند آتا تھا روم وائٹ اور ڈارک بلیو تھا کافی بڑا تھا شاید گھر کا ماسٹر بیڈ روم تھا
اچھی طرح سے انکوائری کرنے کے بعد حمامہ وہیں بیڈ پہ ایک سائیڈ پہ لیٹ کے یہاں آنے کے بارے میں سوچنے لگی
نکاح والے دن ...
"بھائی آپ نے ایک کام کرنا ہے ...." حمامہ ماہ بیر کے کان میں گھسی
"کیسا کام ...." ماہ بیر بھی آہستہ سے بولا
"پلیز آپ حاشر کو نہ بتانا کے اسکا نکاح مجھ سے ہوا ہے میں خود بتا دوں گی وہاں آ کر ... اور آپ پلیز مما سے بات کریں نہ کے مجھے لندن جانے دے اب تو آپ بھی وہاں ہیں نہ تو پھر کس بات کی فکر اور مجھے اپنے ہینڈسم منڈے سے بھی ملنا ہے .... آپ جاؤ گے نہ وہاں تو دو دن بعد مما کو کال کرنا اور کہنا کے عالیاب کو یونی بھیجنا ہے تو اکیلا نہیں بھیج سکتا اس لئے آپ حمامہ کو بھی یہاں بھیج دے دونوں ایک ساتھ چلی جائے گی ...."
حمامہ نے التجائیہ نظروں سے دیکھا
"ایک اور حل بھی ہے اسکا ...." ماہ بیر رازداری سے بولا
"کیا جلدی بتائیں ...." حمامہ بے صبری ہوئی
"تم کمال انکل سے بات کر لو انکی بات آنٹی کبھی نہیں ٹالے گیں حاشر بھی انکی مانتا ہے ...." ماہ بیر نے اسکا فائدہ کروا دیا
"او بھائی بہت شکریہ ... اب دیکھنا میں کیسے آپکے اس ہینڈسم منڈے کو سیدھا کرتی ہوں .. ذرا آنے تو دیں لندن مجھے اور آپ بلکل اسکو کچھ نہیں بتائیں گے ..." حمامہ کی آنکھوں میں شرارت صاف نظر آ رہی تھی
"ویسے بڑی کوئی چیز ہو تم ... " ماہ بیر ہنسا
شکریہ شکریہ ...... حمامہ نے مسکراتے داد وصول کی
اگلے دن .....
"السلام و علیکم جی کون ...." سپیکر سے کمال شاہ کی مصروف سی آواز آئ
"وعلیکم سلام انکل میں حمامہ رفعت درانی کی بیٹی ...." حمامہ باہر کی طرف دیکھ کر بولی شاید کسی نے آنا تھا
"ارے حمامہ بچے کیسے ہو آپ اور رفعت بہن کیسی ہیں ...." کمال شاہ خوش ہو گئے تھے
"میں اور مما ٹھیک ہیں آپ سے ایک فیور چاہیے انکل ...." حمامہ مدعے پہ آئ
"جی بیٹا بولیں ....." کمال شاہ فائل رکھ کے سیدھا ہوے
"آپ چاہتے ہیں نہ میں اور حاشر ساتھ رہے اس لئے آپ کو میری مدد کرنی ہو گی ..." حمامہ نے کھڑکی سے باہر دیکھا جہاں رفعت بیگم پودوں کو پانی دے رہی تھی
"کیسی مدد بیٹا ...." کمال شاہ کو سمجھ نہ آئ
"میں شادی کا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے حاشر کو تھوڑا جاننا چاہتی ہوں اس لئے مجھے لندن جانا پڑے گا لیکن میری مما مجھے اکیلے نہیں آنے دے گی نہ ہی وہ میری بات مانے گی آپ پلیز ان سے بات کریں وہ آپکو مان لیں گی ... اور آپکو حاشر کے سامنے میرا ساتھ دینا ہو گا ہر بات میں ...." حمامہ نے سنجیدگی سے اپنی بات پوری کی
"ٹھیک ہے بیٹا میں کروں گا آپکی ہیلپ لیکن حاشر غصے کا بہت تیز ہے کہیں آپکو کچھ کہے نہ ..."
کمال شاہ کچھ سوچ کر بولے
"شکریہ انکل آپ کے بچے کو میں ٹھیک کر دوں گی ...." کافی دیر کمال شاہ سے باتوں میں وہ کافی کچھ پوچھ چکی تھی حاشر کے بارے میں
پھر رفعت بیگم کو اندر آتے دیکھا تو جلدی سے فون رکھ دیا
کمال شاہ نے اپنا کام کر دیا اور اگلے دن حمامہ لندن میں تھی .....
🌹🌹🌹
"آپ خود کک کیوں کھانا بناتے ہیں ...." لنچ کرتے عالیاب نے پوچھا
ابھی بھی تھوڑی جھجھک تھی
"کیوں کے مجھے اپنا کام خود کرنا اچھا لگتا ہے ...." ماہ بیر سنجیدہ سا بولا
اور ایک نظر عالیاب کے بازو پہ بیٹھے مٹھو کو دیکھا جو حمامہ کی طرف اسکو بھی پسند نہیں آیا تھا
لیکن عالیاب کی وجہ سے وہ چپ کر گیا تھا
"آپ کک کے مما بابا ...." مٹھو کو ہاتھ سے چوری کھلاتے پوچھا
"کافی ٹائم پہلے انکی ڈیتھ ہو گئی تھی ..." ماہ بیر کے لہجے میں دکھ تھا جس کو وہ سمجھ نہ پائی
"اللہ انکی مغفرت کرے ..." عالیاب افسوس سے بولی
صبح سے وہ ماہ بیر سے چھوٹے چھوٹے سوال پوچھ رہی تھی ماہ بیر جواب دیتا اس سے بھی اسکے بارے میں پوچھ رہا تھا جس کا وہ تھوڑا سوچ کر اٹک کر جواب دیتی لیکن ماہ بیر کے لئے ابھی اتنا ہی کافی تھا کے کم سے کم وہ بول رہی ہے اسکو اب رات کو وہ خواب بھی نہیں اتے ماہ بیر کی باہوں میں وہ پرسکون سوتی لیکن ماہ بیر مشکل میں آ جاتا ایک تو انکا پاکیزہ رشتہ اوپر سے اتنی قربت ماہ بیر تو اپنا آپ سمبھالتا رہ جا
پورا دن خراب موڈ اور غصے کے ساتھ باہر گزار کر گھر میں داخل ہوا تو سامنے کوئی نظر نہیں آیا لاؤنچ خالی تھا صوفہ کے کشن بکھرے ہوے تھے ڈائیننگ پہ صبح والے ناشتے کے برتن ویسے ہی پڑے تھے کچھ اور برتن بھی کچن میں ادھر ادھر نظر آ رہے تھے حاشر نے سب کچھ دیکھ کر ایک گہری سانس لی
ابھی اسکا کوئی بھی کام کرنے کا ارادہ نہیں تھا تو سب چھوڑتا کمرے میں چل دیا گھر خالی دیکھ کر شکر ادا کیا کے وہ لڑکی چلی گئی خود کو پرسکون کرتے روم کا دروازہ کھولا تو حیرت سے آنکھیں کھل گئی
سامنے ہی بڑے مزے سے اس کے بیڈ پہ حمامہ سو رہی تھی حیرت کم ہوئی تو پھر سے غصہ آیا
"یہ میرے بیڈ روم تک پہنچ گئی ....."
"اے لڑکی اٹھو یہاں سے ..." غصے سے سرخ چہرہ لئے اسکے سر پہ پہنچا
تھوڑی دیر پہلے جو سکون ملا تھا وہ غائب ہوا
حمامہ ٹس سے مس نہ ہوئی
حاشر نے سائیڈ ٹیبل پہ پڑا پانی کا جگ اٹھا کے اس پہ انڈیل دیا
"سیلاب آ گیا بچاؤ مما سیلاب ...آہہہہہ .." حمامہ ہڑبڑاتی اٹھی اور چلائی
حاشر جو ہلکا سا اس کی طرف جھکا تھا سر اسکے سر سے ٹکرایا
"ہاۓ اللہ کونسا پہاڑ آ گیا ہے ..." حمامہ چیختی واپس بیڈ پہ بیٹھی
"تم یہاں کیوں سو رہی اور ابھی تک میرے گھر میں کیا کر رہی ہو ....." لگی تو حاشر کو بھی تھی لیکن وہ بھلاۓ اسکو دیکھتا چبا کر بولا
"یہ کونسا طریقہ ہے یار اٹھانے کا سارے موڈ کا بیڑا غرق کر دیا ...." اتنی ٹھنڈ میں ٹھنڈا پانی پڑنے سے حمامہ کے دانت بجنے لگے تھے
"تم ابھی تک یہاں کیوں ہو ...." اب حاشر غصے سے بولا
"کیوں تمہے کیا مسلہ ہے میرے شوہر کا گھر ہے ...." حمامہ ہاتھ سے ماتھا مسلتی اسکو دیکھ کر بولی
"کیا یار سارے کپڑے برباد کر دیے کتنی محنت سے تیار ہوئی تھی ...." حمامہ نے منہ بگاڑا
شام کو ہی وہ تیار ہوئی تھی حاشر کے لئے اور اسکا ویٹ کرتے سو گئی تھی
حاشر نے ایک نظر اسکو دیکھا جو پنک اور بلیک کیپری شرٹ میں دوپٹہ گلے میں لئے گولڈن کندھوں تک آتے بال کھولے ہلکے سے میک اپ میں تھی بھوری آنکھوں میں خفگی تھی اور چہرہ اس وقت سردی کی وجہ سے سرخ ہو رہا تھا
شاید نہیں یقیناً وہ بہت پیاری تھی کے کوئی بھی لڑکا اسکو پسند کر سکتا تھا
"کیا میں بہت پیاری لگ رہی ہوں ..." حمامہ نے مسکرا کے اسکے یوں دیکھنے پہ چوٹ کی
"تم ابھی تک گئی کیوں نہیں ..." حاشر اپنے خیال جھٹکتا اسکو گھور کر بولا
"اور تمہے کس نے کہا میں یہاں سے جا رہی ہوں ...." حمامہ کی آنکھیں مسکرا رہی تھی
"کیا مطلب ہے ... تم یہاں نہیں رہ سکتی ..." حاشر دبا دبا سا غرایا
"میں یہی رہوں گی تم کمال انکل سے پوچھ لو ... میں ذرا چینج کر لوں تم بھی فریش ہو جاؤ پھر ڈنر کرنے چلتے ہیں مجھے بہت بھوک لگی ہے ...." سکون سے کہتی اسکو حکم صادر کر گئی جیسے بہت گہری دوستی ہو انکی
حاشر نے غصے سے جگ ہاتھ مار کے نیچے پھینک دیا جو قالین ہونے کی وجہ سے ٹوٹا نہیں تھا
کچھ دیر بعد فریش ہو کے نکلا تو بلیک ٹراؤزر اور بلیو ہائی نیک میں تھا گیلے بال ماتھے پہ چپکے تھے ہائی نیک میں کسرتی وجود نمایاں ہوتا اسکو مزید خوبرو بنا رہا تھا آنکھیں غصے کی وجہ سے لال ہو رہی تھیں ہاتھ بالوں میں پھیرتا آئینے کے سامنے کھڑا ہوا
ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کے حمامہ واپس آئ اب وہ بلیو جینز اور ساتھ ڈارک بلیو کرتے میں تھی بلیک لانگ کوٹ ہاتھ میں پکڑا تھا
"چلیں ...." مسکرا کے پیار سے پوچھا گیا
"میں تمھارے ساتھ کہیں نہیں جا رہا ..." حاشر غصے سے کہتا ایک نظر اسکو دیکھ کر اپنا موبائل لے کے صوفہ پہ بیٹھا
اس سے بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا
"جانا تو پڑے گا تمہے ..." حمامہ کی آنکھیں چمکی
حاشر نے جواب نہیں دیا
"تم چل رہے ہو یا نہیں ...." حمامہ نے چیلنج والے انداز میں پوچھا
"میں تمھارے ساتھ کہیں نہیں جا رہا جو کرنا ہے کر لو ..." حاشر نے بغیر اسکو دیکھے موبائل پہ ٹائپنگ کرتے کہا
"مجھے بھوک لگی ہے چلو نہ ..." حمامہ تھوڑا بیچارہ سا منہ بنا کے بولی
"اتنی زبان چلتی ہے ہاتھ چلا کے کچھ بنا لو خود میں نہیں جا رہا ..." حاشر نے خود کو غصہ کرنے سے باز رکھا
وہ جتنا غصہ کرتا آگے سے وہ بھی ویسے ہی الٹے جواب دیتی
"سوچ لو میں کچھ بھی کر سکتی ہوں ...." حمامہ نے دھمکی دی آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی
حاشر نے کوئی اہمیت نہ دی
"السلام و علیکم کمال انکل کیسے ہیں آپ ..." فون کان سے لگاۓ بڑی تمیز سے بولی
"جی میں بھی ٹھیک ہوں بس حاشر سے کہہ رہی تھی کے کھانا کھانے باہر چلتے ہیں لیکن وہ مان نہیں رہے ..." دکھی سی لڑکی کی طرح بولی
حاشر موبائل چھوڑتا تیر کی تیزی سے اسکے پاس پہنچا اور فون ہاتھ سے لیا
"تمہارا دماغ خراب ہے چاچو کو کیوں فون کیا ...."
غصے دبا کے کہتا فون بند کرنے لگا لیکن یہ کیا
ہاہاہاہا ..... حمامہ نے قہقہ لگایا
کوئی کال نہیں کی تھی بس فون کان سے لگاۓ ایسے ہی بول رہی تھی
"ابھی تو نہیں کی اگر تم نہیں چلے تو پھر پکا کر دوں گی ..." حمامہ ہنستے ہوے بولی
"یو ......" حاشر کو سمجھ نہ آیا اس پاگل لڑکی کو کیا کہے
"ہاں پتا ہے میں بہت پیاری ہوں اب چلو ورنہ میں سچ میں فون کر دوں گی ...." اسکے ہاتھ سے فون لے کے مسکراتی چلی گئی
حاشر غصے سے کھول گیا اپنی وجہ سے چاچو کو وہ پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اور ویسے بھی چاچو اسکی سن بھی نہیں رہے تھے جب تک وہ شادی کے لئے ہاں نہ کرتا چاچو کا اس سے بائیکاٹ تھا گہری سانس لے کے غصہ ضبط کرتا جیکٹ پہن کے کیز اور موبائل اٹھاتا چلا گیا
اگر پھر منع کرتا تو وہ دوبارہ دماغ کھاتی اور چاچو کو بتاتی وہ الگ .....
🌹🌹🌹
اپنے سب فرائض سے فری ہو کے بغیر اپنے گھر والوں کو بتاۓ اسکو سرپرائز دینے کے لئے لاہور پہنچے .. انکا شیر کتنا خوش ہو جاتا اچانک سے اپنے بابا جانی کو دیکھ کر اور انکی گڑیا وہ تو بابا کی دیوانی ہو جاتی اچانک سے سامنے دیکھ کر .. انکی بیوی انکو سامنے دیکھ کر اپنے سب شکوے بھلا دیتی جو رابطہ نہ کرنے پہ ہوتے . انہی سب سوچوں میں انہوں نے اپنے چھوٹے مگر خوبصورت گھر کا دروازہ کھولا
"تاشہ گڑیا کہاں ہو دیکھو بابا آ گئے ..." اتنے وقت بعد گھر میں داخل ہوے تو آنکھیں نم ہو گئی
"میرا شیر کہاں ہے ..." ایک بار پھر آواز دی لیکن کوئی جواب نہ ملا
"نیلم میری جان کہاں ہیں آپ ....." اب کہ انہوں نے اپنی جانِ عزیز بیگم کو پکارا
لیکن کوئی جواب نہ ملا
انکا دل ڈوبا دماغ کو کچھ غلط محسوس ہوا ....
دھڑکتے دل کے ساتھ وہ اوپر اپنے کمرے کی طرف بڑھے لیکن روم خالی تھا سامنے دیوار پہ اپنی پیاری سی فیملی کی تصویر دیکھ کر مسکراۓ
"نہیں چھوڑ دو مجھے جانے دو میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا ... بابا! بچاؤ مجھے .. جانے دو مجھے ....." ابھی وہ تصویر ہی دیکھ رہے تھے کے بیٹی کی آواز کان میں پڑی
اپنا بیگ وہیں پھینکتے وہ تاشہ کے روم کی طرف بھاگے
دروازہ کھولا تو سامنے انکی گڑیا نیچے بیٹھی تھی اور اسکی حالت دیکھ کر ذی کے کو ایسا لگا جیسے پورے گھر کی چھت ان پہ گر گئی ہو روتی بکھرے بالوں والی چہرے پہ تشدد کے نشان پیاری سی نیلی آنکھیں لہو رنگ ہونٹ سوجے ہوے ی وہ چلاتی ہوئی ماں کی پکڑ سے نکل رہی تھی اپنی حالت سے وہ صدیوں کی بیمار لگ رہی تھی اور انکی بیوی ان تین مہینوں میں کتنی کمزور ہو گئی تھی چہرے سے وہ بھی بیمار لگ رہی تھی اور انکا شیر کمرے کے ایک کونے میں کھڑا اپنی تاشہ آپی کی حالت پہ بے آواز رو رہا تھا ... یہ تو انکی پیاری فیملی نہیں تھی وہ تو اپنی فیملی کو ہنستا مسکراتا چھوڑ گئے تھے
"تاشہ ..." انکی آواز رندھ گئی
گلے میں آنسو کا گولہ پھنس گیا
نیلم نے نظر اٹھا کر انکو دیکھا اور وہ نظر ایسی تھی کے وہ نظر چرا گئے
نیلم انکو دیکھتی واپس تاشہ کی طرف متوجہ ہوئی جو اب اپنے بال کھینچ رہی تھی یوں لگ رہا تھا جیسے وہ پاگل ہو .. نیلم نے ایک گولی اسکے منہ میں زبردستی ڈال کر پانی پلا دیا اور کچھ ہی دیر میں وہ بڑبڑاتی ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئی
ذی کے میں ہمت نہ تھی کے وہ آگے بڑھتے انکے پاؤں وہیں جکڑے گئے تھے انکا شیر اب روتے ہوے بابا جانی کو دیکھ رہا تھا
نیلم تاشہ کو بیڈ پہ لیٹاتی ایک شکوہ کناں نظر ان پہ ڈال کر چلی گئی اور وہ چاہ کر بھی اسکو روک نہ سکے
"بابا جانی دیکھیں تاشہ آپی کو کیا ہو گیا ہے مما مجھے نہیں بتاتی ..." بارہ سالہ معصوم سا بچا روتے ہوے باپ سے پوچھ رہا تھا
اور ذی کے جواب دینے کے لائق نہ تھے
"آپ اپنے روم میں جاؤ میں ابھی آتا ہوں ..." ذی کے اسکا سر تھپک کے چلے گئے
انہوں نے اپنے روم کا دروازہ کھولا نیلم بیڈ پہ بیٹھی منہ پہ ہاتھ رکھے اپنی سسکیاں دبانے کی کوشش کر رہی تھی
"نیلم یہ ...." ان سے کچھ بولا نہ گیا
نیلم نے ایک نظر انکو دیکھا اور بھاگ کے انکے گلے لگ گئی
"اپنے ملک کے بچوں کی حفاظت کرتے کرتے آپ اپنی بچی کی حفاظت نہیں کر پاۓ خان .. انہوں نے ہماری بچی کی زندگی برباد کر دی اسکی معصومیت چھین لی خان .. کیا بگاڑا تھا ہماری معصوم بچی نے انکا .. پورے ملک کی حفاظت کرنے والا اپنی بچی کا محافظ نہ بن سکا .. آپ حفاظت نہیں کر پاۓ تاشہ کی . ہماری بچی برباد ہو گئی خان ..." نیلم پھوٹ پھوٹ کے روتی ان کو بتا رہی تھی اور وہ یوں ہو گئے جیسے کسی نے انکے جسم سے جان نکل لی ہو
جیسے کسی نے انکی زبان پہ تالا لگا دیا ہو انکی آنکھوں سے آنسو نکلتے نیلم کے بالوں میں جزب ہونے لگے
نیلم کو ساتھ لگاۓ وہ بیڈ پہ بیٹھے
"یہاں دیکھو نیلم مجھے بتاؤ کس نے کیا یہ سب کیا ہوا تھا مجھے ساری بات بتاؤ ..." ذی کے نے اسکا چہرہ تھام کر اوپر کیا
یہ رونے کا وقت نہیں تھا اپنی بچی کے لئے کچھ کرنے کا وقت تھا
"آپ کے جانے کے ایک ہفتے بعد تاشہ کے کالج کی پارٹی تھی اسنے ہمیشہ کی طرح مجھ سے جانے کی ضد کی .. میشو بھی اسکے ساتھ گئی تھی پھر شام کو میشو واپس آ گئی لیکن تاشہ نہیں آئ .. میشو نے کہا کے وہ پہلے ہی گھر جانے کے لئے نکل گئی تھی .. لیکن وہ گھر نہیں آئ تھی ہم نے اسکو بہت ڈھونڈھا خان لیکن وہ کہیں نہیں ملی ... اگلا دن بھی گزر گیا میں نے آپ سے رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن نہیں ہو سکا پھر میں پولیس اسٹیشن گئی لیکن وہاں بھی کسی نے کوئی مدد نہ کی انہوں نے کہا کے چوبیس گھنٹے بعد کچھ کرے گی ... جب میں گھر واپس آئ تو گیٹ کے پاس کوئی لڑکی گری ہوئی تھی میں نے بھاگ کے اسکو اٹھایا وہ بہت بری حالت میں تھی خان وہ ہماری تاشہ تھی ... ان درندوں نے اسکو نوچ لیا خان وہ کھا گئے ہماری بچی کی معصومیت ... ہماری بچی کہیں کی نہیں رہی ....."
اپنی پیاری بیٹی کی حالت یاد کرتے وہ پھر سے زارو قطار رو دی ایک ماں کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا اپنی بیٹی کی ایسی حالت دیکھ کر ..
اور ذی کے انکی تو گویا قوت گویائی ہی چھین لی تھی وہ کیا کہتے .. وہ تو اپنے ملک کے بچوں کی حفاظت کرنے گئے تھے اور پیچھے انکی اپنی بچی کسی درندے کی درندگی کا نشانہ بن گئی کسی کی ہوس کا شکار ہو گئی ..
نیلم کو وہیں چھوڑتے شکستہ قدموں سے روم سے باہر نکل گئے کیا کہتے نیلم کو کیسے تسلی دیتے ایک ماں کو کیسے اس نے تین مہینے گزارے ہوں گے کتنی بار وہ لڑکھڑائی ہو گی کتنی بار اسکو اپنے شوہر کی ضرورت پڑی ہو گی لیکن وہ اپنے فرض کو پورا کر رہے تھے ...
اور انکی نیلی آنکھوں والی گڑیا انکی پری کیسے برداشت کی ہو گی اسنے یہ اذیت یا تکلیف کتنی بار اسنے اپنے بابا کو پکارا ہو گا اور وہ نہیں آ سکے وہ اپنی بچی کی حفاظت نہیں کر سکے .. یہ سوچ کر انکا دماغ پھٹ رہا تھا انکا دل خون کے آنسو رو رہا تھا ...
یہ ہے ان فوجیوں کی زندگی جن کو ہم یہ کہہ دیتے ہیں کے وہ ہمارا بجٹ کھاتے ہیں وہ تو ہماری حفاظت کرنے کے لئے اپنی فیملی کو غیر محفوظ کر دیتے ہیں ہمارے لئے لڑنے والے یہ فوجی اپنوں کے لئے نہیں لڑ سکتے
🌹🌹🌹
ماہ بیر پیلس اس وقت خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا برف باری کے بعد سب کچھ سفید ہو گیا تھا ٹھنڈ بھی بڑھ گئی تھی لیکن گھر میں ہیٹر کی وجہ سے محسوس نہیں ہوتی تھی
آج کا دن کافی اچھا گزرا تھا ماہ بیر پورا ٹائم گھر پہ ہی تھا اپنا کام بھی گھر سے ہی کر رہا تھا عالیاب ایک ہی دن میں کافی حد تک اس کے ساتھ ٹھیک ہو گئی تھی پورا دن وہ اس سے چھوٹے چھوٹے سوال پوچھتی رہی جس کا وہ مسکرا کر جواب دیتا تو عالیاب کو مزید حوصلہ ملتا
صرف ذرا سی توجہ محبّت اور حوصلے سے وہ ماہ بیر کے ساتھ کافی نارمل بات کر رہی تھی مٹھو بھی ہر وقت اسکے ساتھ تھا جس کو ماہ بیر صرف گھور کے دیکھ رہا تھا لیکن کہا کچھ نہیں اپنی بیوی کے ساتھ یہ بلکل بھی برداشت نہیں ہو رہا تھا لیکن فلحال ضبط کر گیا یہ سوچ کر کہ .
"اسکا بھی کچھ کرنا پڑے گا ..."
دوپہر میں زمان صاحب سے بھی بات کی تھی انکی طبیعت خراب تھی لیکن وہ عالیاب کو نہیں بتانا چاہتے تھے کچھ دیر ان سے بات کرنے کے بعد عالیاب کافی خوش تھی ماہ بیر تو اسکو خوش دیکھ کر ہی خوش تھا .. اسکو لگ رہا تھا کے عالیاب کو پھر سے ویسا بنانا مشکل ہے لیکن ایسا نہیں تھا وہ بہت لڑکی تھی چھوٹی چھوٹی باتوں سے چھوٹی چھوٹی چیزوں سے وہ خوش ہو جاتی تھی وہ بہت کونفیڈینٹ لڑکی تھی لیکن ایک حادثہ اسکی زندگی بدل گیا
ابھی تک اسکو وہ بھیانک ماضی یاد نہیں آیا تھا ماہ بیر نے اسکو پوری طرح سے خود کے ساتھ مصروف رکھا تھا ہر جگہ اسکے ساتھ تھا اور اسکو صرف آج کی چھٹی دی تھی کل سے وہ ماہ بیر کے ساتھ اٹھے گی اس کے ساتھ جم جائے گی اور اس سے مارشل آرٹ کی ٹریننگ لے گی .. عالیاب نے کافی کوشش کی منع کرنے کی لیکن ماہ بیر نے دھمکی دی کے وہ شوہر بن جائے گا تو عالیاب دل مسوس کر رہ گئی
" مسٹر خان آپکو پتا ہے ..." اچانک سے کچھ یاد آتا تو پر جوش سی بولتی
"نہیں میری جان مجھے نہیں پتا تم بتاؤ ..." ماہ بیر مسکرا کر لیپ ٹاپ پہ انگلیاں چلاتا بولا
عالیاب مٹھو کو اسکے گھر میں ابھی چھوڑ کے کھانا دے کے آئ تھی جو شام میں ہی ماہ بیر نے منگوا کر دیا تھا مٹھو کے ساتھ کھیلتی باتیں کرتی وہ ماہ بیر کو معصوم سی بچی لگی
"مجھے نہ پینٹنگ کا بہت شوق ہے میں پینٹنگ اسکول بھی جاتی تھی اور میں نے پوری فیفٹین پینٹنگز بنائی تھی .. میری میم کہتی تھی کے میں بہت اچھی پینٹر بنوں گی .. مجھے بہت شوق ہے پینٹر بننے کا ...." دونوں گالوں پہ ہاتھ رکھے وہ آنکھیں پٹپٹا کے کہتی بہت معصوم لگ رہی تھی
ماہ بیر کے میری جان کہنے پہ وہ چھینپ کر چپ ہو جاتی پھر کچھ لمحے بعد بولنے لگتی
ماہ بیر نے غور سے اسکی آنکھوں میں چمک اور چہرے پہ خوشی دیکھی
"اچھا لیکن مجھے کیسے پتا چلے گا تم اچھی پینٹر ہو میں نے تو کبھی تمہاری پینٹنگز نہیں دیکھی ..." ماہ بیر سنجیدہ سا بولا
"لیکن یہاں تو میرے پاس کوئی سامان نہیں ہے میں کیسے بنا کے دکھاؤں آپکو پینٹنگ ..." عالیاب نے منہ لٹکایا
"تم حکم کرو میں ابھی سامان منگوا دیتا ہوں ..." ماہ بیر نے مسکرا کے آفر کی
"ہاں منگوا دیں میں بہت پیاری پینٹنگ بنا کے دوں گی آپکو ..." عالیاب چہکی گرے آنکھوں میں چمک آئ اور گالوں میں گڑھے پڑے
"ٹھیک ہے لیکن میری تصویر بنانی پڑے گی ..." ماہ بیر دلکشی سے مسکرایا
"آپ ہر بات میں شرط کیوں رکھ دیتے ہیں ..." عالیاب نے منہ بنایا
ماہ بیر نے کندھے اچکا دیے
"اچھا ٹھیک ہے بنا دوں گی ..." منہ بنا کے کہتی ڈریسنگ روم میں چلی گئی
کچھ دیر بعد باہر نکلی تو پنک کلر کے نائٹ سوٹ میں تھی آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بالوں کی چٹیا کھولی تو بھوری آبشار کمر پہ بکھر گئی بغیر دوپٹہ کے وہ چلتی بیڈ تک گئی اور کمفرٹر میں گھس گئی
بیڈ کی دوسری سائیڈ پہ لیپ ٹاپ گود میں رکھ کے بیٹھے ماہ بیر نے بے بسی سے بھوری آبشار کو دیکھا جو اب تکیے پہ بکھری ہوئی تھی
"یہ لڑکی ان ہتھیاروں سے میرے ضبط کا امتحان لے رہی ہے ..." ایک نظر اسکے چہرے پہ ڈالتے بڑبڑا کے لیپ ٹاپ سائیڈ پہ رکھا اور خود بھی لیٹ گیا
پہلے اپنے اور اسکے درمیان فاصلے کو دیکھا جو بیڈ کنگ سائز ہونے کی وجہ سے کافی زیادہ تھا پھر اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسکو خود میں بھینچ لیا
عالیاب جو ابھی کچی نیند میں تھی اس حرکت پہ دل اچھل کے حلق میں آیا سانس سینے میں اٹک گئی اور ڈر سے آنکھیں میچ کے آہستہ سے بولی
"مم مسٹر خ خان ...."
"ہش! میری جان اپنی دوستی دن کے لئے رکھو رات میں تم صرف میری بیوی ہو اور میں اپنی بیوی سے دوری بلکل برداشت نہیں کروں گا بے فکر رہو تمہاری اجازت کے بغیر تمھارے قریب نہیں آؤں گا اتنا یقین رکھو ..." ذرا سا اوپر ہو کے اسکے کان میں سرگوشی کرتے اسکے ماتھے پہ اپنے سلگتے لب رکھے
اسکا لمس محسوس کرتے اسکے چہرے کے خوفزدہ تاثر ریلیکس ہوے چہرے پہ سکون پھیل گیا
ماہ بیر نے غور سے یہ رنگ دیکھے
"گڈ نائٹ ...." اسکے بالوں کو لبوں سے چھوتے ہاتھ بڑھا کے لائٹ آف کر دی تو وہ بھی اسکے حصار میں خود کو محفوظ محسوس کرتی پرسکون ہو گئی
🌹🌹🌹
اپنا غصہ ضبط کرتا اسکو لے کر ایک اٹالین ریسٹورانٹ آیا تھا ایک سائیڈ ٹیبل بک کروا کے دونوں وہیں بیٹھے سارے راستے میں حمامہ کا منہ بند نہ ہوا لیکن حاشر جواب نہیں دے رہا تھا
جتنا وہ کچھ کہتا آگے سے وہ اتنا ہی دماغ کھاتی ایک ہی دن میں وہ ایک کول رہنے والے بندے کو اچھا خاصا زچ کر کے اسکو غصہ دلا چکی تھی
اور اتفاق سے انکے ڈریسز کا کلر سیم ہو گیا جس کی وجہ سے حمامہ اسکو اتنا تنگ کر چکی تھی کے وہ یہ ڈریس پہن کے پچھتایا
ابھی بھی ٹیبل پہ بیٹھے وہ یہاں وہاں دیکھتی مسلسل بول رہی تھی جبکہ حاشر کان بند کیے اپنے فون میں بزی تھا
"ہیلو حاشر کیسے ہو ہینڈسم بواۓ ...." پیچھے سے کوئی ہنستی مسکراتی نسوانی آواز آئ
تو حمامہ نے پیچھے مڑ کر اسکو دیکھا
حاشر نے بھی نظریں اٹھائیں
"کہاں مصروف ہو آج کل نظر نہیں آتے ..." ایمی نے مسکراتے ہاتھ بڑھایا
جسے حاشر نے مسکرا کے تھاما
"میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ یونی کے بعد نظر نہیں آئ ...." حاشر اسکو دیکھ کر خوش ہوا
یونی میں ایمی اسکی کافی اچھی دوست تھی پھر یونی کے بعد اسکی شادی ہو گئی اور حاشر بھی بزنس میں بزی ہو گیا آج کافی وقت بعد دونوں کی ملاقات ہوئی
"ہاں بس جیسم کے ساتھ ہیرو (Harrow ) شفٹ ہو گئی تھی کچھ دن پہلے ہی آئ ہوں ..." ایمی مسکرا کے بولی
حمامہ دونوں کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی
ان دونوں نے دھیان نہ دیا وہ اپنی باتیں کر رہے تھے حمانہ دونوں کو سخت نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے نظروں سے ہی بھسم کرنے کا ارادہ ہو ..
"اہم ! ..." کچھ دیر بعد بھی انکو متوجہ نہ دیکھ کر کھانسی
دونوں نے چونک کر اسکی طرف دیکھا
"حاشر یہ .گرل فرینڈ ہے تمہاری ..." ایمی نے حیرت سے دیکھا اسکو کیوں کے چار سال حاشر کے ساتھ گزارنے کے بعد وہ جانتی تھی کے اسکے علاوہ حاشر کی کسی لڑکی سے دوستی نہ تھی
"میں انکی گرل فرینڈ نہیں نصف بہتر ہوں ..." حمامہ نے ان دونوں تیکھی نظروں سے دیکھا
"حاشر تم نے شادی کر لی اور بتایا بھی نہیں بڑے بے وفا نکلے تم تو یار ...." ایمی خفا ہوئی
وہ حاشر کو بلکل بھائی کی طرح ٹریٹ کرتی تھی عمر میں بھی اس سے کچھ سال بڑی تھی
"ارے ہماری شادی تو بچپن میں ہوئی تھی انہوں نے بتایا نہیں آپکو ...." حمامہ نے زبردستی مسکرا کے کہا ورنہ دل تو کر رہا تھا اسکو کہیں غائب کر دے جو بلا وجہ کباب میں ہڈی بن رہی تھی
"حاشر اتنے سال ساتھ رہنے کے باوجود تم نے نہیں بتایا ...." ایمی ناراض ہوئی
"ان سے ناراض مت ہوں انکی غلطی نہیں ہے بس ہم خود ہی نہیں چاہتے تھے کے وقت سے پہلے کسی کو اپنے رشتے کا بتائیں ...." حمامہ نے حاشر کو بولنے کا موقع دیے بغیر خوش اخلاقی کی حد کر دی
"او ٹھیک ہے تم دونوں انجوۓ کرو میں چلتی ہوں ..." ایمی کو وہاں بیٹھنا اچھا نہیں لگا
اگر وہ اکیلا ہوتا تو اس کے ساتھ ڈنر کر کے جاتی لیکن اب وہ نہیں بیٹھ سکتی تھی
"ارے رکو تو تم ڈنر کرکے جانا ..." حاشر نے اسکو روکنا چاہا
حمامہ کا دل کیا اسکے منہ پہ ٹیپ لگا دے
"نہیں ڈنر پھر کبھی ابھی جیسم ویٹ کر رہا ہو گا ..." وہ سہولت سے انکار کرتی چلی گئی
"کیا بکواس تھی یہ ..." حاشر اس پاس کا خیال کرتا دبا سا غرایا
"کونسی بکواس کی میں نے ..." حمامہ یہاں وہاں دیکھتی لاپروائی سے بولی
"کیا ضرورت تھی اسکو نکاح کا بتانے کی ..." حاشر کو ایمی کے ساتھ اسکا بی ہیو اچھا نہیں لگا
"کیوں نہ بتاتی نکاح کیا ہے کوئی چوری تھوڑی کی ہے میں نے ... اور ویسے بھی میری غیرت کو یہ بلکل گوارا نہیں ہے کے کوئی بھی لڑکی منہ اٹھا کے میرے شوہر کے اس پاس بھی آۓ آئندہ کسی سے ہاتھ ملانے کی کوشش مت کرنا ورنہ وہی ہاتھ خود سے باندھ لوں گی ...." حمامہ نے شولہ بار نظروں سے اسکو دیکھ کر دھمکی دی
"وہ میری بہن جیسی ہے بیوقوف لڑکی ..." حاشر ضبط کر رہ گیا اسکی دھمکی
"ہونہہ بہن کہنے سے بہن بن نہیں جائے گی ..." حمامہ نے ناک سکیڑی
"کیسے اس سے ہنس ہنس کے باتیں کر رہا تھا اور مجھ سے بات کرتے وقت انگارے چبا لیتا ہے ...." جل کے سوچا
"تو تم بھی بیوی کہنے سے بیوی بن نہیں جاؤ گی ..." حاشر طنزیہ ہنسا
"کہو تو آج ہی رخصتی کروا کر آ جاؤں پھر بیوی بھی بن جاؤں گی ..." حمامہ نے بے شرمی سے آنکھ ماری
"تم میں ذرا شرم نہیں ہے لڑکی ..." حاشر نے حیرت سے اسکو دیکھا جس کی کوئی بھی حرکت لڑکیوں والی نہیں تھی
"شرم تو بہت ہے مجھ میں لیکن اب شوہر کے سامنے کیسی شرم ...." حمامہ نے اسکی بات کا کوئی اثر نہ لیا
ویٹر کھانا سرو کر کے گیا تو حاشر چپ کر کے کھانے لگا جب کے حمامہ کھاتے وقت بھی کچھ نہ کچھ بول رہی تھی جس سے حاشر کو سخت چڑ ہو رہی تھی لیکن ضبط کر گیا کیوں کے اسکے منہ لگ کے اسکا اپنا ہی دماغ خراب ہونا تھا وہ تو ویسے ہی رہتی ...
کھانا کھاتے ہی حاشر اٹھا اب مزید اسکو وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا حمامہ بھی بغیر بحث کیے اسکے ساتھ چل پڑی
اسکو پتا تھا اب وہ کافی تھک گیا ہے اسلئے وہ کچھ نہ بولی واپسی کا سفر کافی خاموشی سے گزرا جس پہ حاشر نے شکر کا کلمہ پڑھا
گھر پہنچتے ہی حاشر اپنے روم میں چلا گیا حمامہ کچن میں گئی اور ایک کپ کافی بنا کے جلدی سے حاشر کے روم تک گئی نوک کیا تو جواب نہ آیا
دروازہ کھلا ہوا تھا حمامہ نے کافی کا مگ بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پہ رکھا ساتھ ہی نوٹ پیڈ پڑا تھا
ایک نظر واشروم کی طرف دیکھا جہاں سے پانی کی آواز آ رہی تھی
پھر نوٹ پہ کچھ الفاظ گھسیٹے اور مسکراتی چلی گئی
حاشر فریش ہو کے بیڈ پہ آیا تو کافی کے مگ پہ نظر گئی
حاشر نے حیرت سے دیکھا مگ کے ساتھ ہی پڑا نوٹ اٹھایا
"کافی سے تھکن دور ہو جائے گی اور ڈنر کے لئے تھینکس ..." ساتھ ایک مسکراتا ایموجی بنا ہوا تھا
حاشر نے نوٹ واپس رکھا سیگریٹ اور لائٹر اٹھا کے بالکونی میں چلا گیا
دماغ بہت ساری سوچوں میں الجھا ہوا تھا
🌹🌹🌹
"عالی اٹھو جلدی سے ...." ماہ بیر جاگنگ سے واپس آتے اسکو اٹھا رہا جو بہت گہری نیند میں تھی
ماہ بیر کی آواز اسکے کانوں تک نہ پہنچی
"گیٹ اپ عالی ..." اب اسکو ہلایا لیکن کوئی اثر نہ ہوا
"اٹھ جاؤ اب بہت ٹائم ہو گیا ہے ..." ماہ بیر نے اب اسکو اٹھا کے بیٹھا دیا
بھوری آبشار کندھوں پہ بکھر گئی
"بس تھوڑی دیر .." نیند میں ڈوبی کہتی وہ اسکے سینے پہ سر ٹکا گئی
ماہ بیر نے گہری سانس لے کے خود پہ ضبط کیا ورنہ اس لڑکی کی حرکتیں انجانے میں اسکے جذبات جگا دیتی
"تم ایسے نہیں اٹھو گی ...." کہتے ہی اسکو باہوں میں اٹھایا اور واشروم لے گیا
اپنے ساتھ کھڑا کرتے اسکو ایک ہاتھ سے سہارا دیا اور دوسرے ہاتھ سے شاور کھول دیا
"آہ !...." ٹھنڈا پانی منہ پہ پڑتے ہی عالیاب کی چیخ نکل گئی
گرتے پانی سے بچنے کے لئے ماہ بیر کے سینے میں منہ چھپا گئی
"مم مسٹر خ خان بند کر رکے اسکو ات اتنا ٹھنڈا پانی ہے پلیز ...." منہ کے آگے ہاتھ کرتی اٹک اٹک کر بولی
"نیند پوری ہو گئی تمہاری ..." ماہ بیر نے دلکشی سے مسکرا کے کہتے دونوں ہاتھوں سے اسکے گرد حصار بنایا
"ہا ہاں ہو گئی اس اسکو بند کریں ..." کانپتی آواز میں کہتی مزید اس میں چھپی
ماہ بیر نے شاور بند کیا اور اسکو اٹھا کر شیلف پہ بیٹھایا ٹھنڈ سے کانپ گئی تھی دانت بج رہے تھے اور ہونٹ نیلے ہو رہے تھے جبکہ ماہ بیر نے اسکی حالت نظر انداز کیے برش اسکو دیا
عالیاب نے خفا نظر اس پہ ڈال کے برش پکڑا اور منہ پھلا کے برش کرنے لگی
"کک کوئی ایسے بہ بھی اٹھاتا ہے ..." کانپتی آواز سے غصے میں بولی
"جی بلکل جو میری بات نہ مانے میں اسکو ایسے اٹھاتا ..." ماہ بیر نے مسکراہٹ دبائی
آنکھوں میں خفگی لئے سردی سے سرخ چہرے اور بجتے دانتوں کے ساتھ وہ چھوٹی سی بچی لگ رہی تھی ماہ بیر کو اسکا چھوٹا سا سرخ ناک دیکھ کر ہنسی آئ لیکن کنٹرول کر گیا
"اب شاور بھی خود لو گی یا میں لے جاؤں وہاں تک ..." ماہ بیر شرارت سے بولتا اسکو اٹھانے لگا
"نہ نہیں ...." جلدی سے اٹھ کے واشروم بھاگ گئی
تو ماہ بیر ہنس پڑا بلکل بچی تھی
"پندرہ منٹ میں باہر آؤ ورنہ ...." مصنوعی سنجیدگی سے کہتا چلا گیا
عالیاب ورنہ کا مطلب سمجھ رہی تھی لیکن کچھ کر نہیں سکتی تھی
بیس منٹ بعد وہ باہر آئ تو ماہ بیر فون پہ حاشر سے بات کر رہا تھا اب ٹی شرٹ کی جگہ صرف بنیان پہنی تھی عالیاب نے جلدی سے نظریں پھیر لی
"میں نے پندرہ منٹ کہا تھا اب بیس ہو چکے ہیں ..." فون رکھ کر اسکی طرف مڑا
چہرے پہ مصنوعی سنجیدگی تھی
"اب ہو تو گئی ہوں تیار دو چار منٹ سے کیا فرق پڑتا ہے ..." عالیاب نے منہ بنایا
ایک تو اتنی صبح صبح اٹھا دیا اوپر سے ٹھنڈا پانی ڈالا
"دو چار منٹ میں ایک بزنس ڈیل ہو جاتی ہے ...." اب ماہ بیر سچ میں سنجیدہ ہوا
"میں کونسا کمپنی چلا رہی ہوں جو بند ہو جائے گی ...." عالیاب منہ کے ٹھیڑے میڑے ڈیزائن بنا رہی تھی
"کمپنی کی بات نہیں ہے انسان کو وقت کی قدر کرنی چاہیے ..." ماہ بیر کی وقت پابند طبیعت کو یہ بات پسند نہ آئ
"بال بنا دیں میرے وقت ضائع ہو رہا ہے ..." جل کر کہتے کنگھی اسکے ہاتھ میں دی
ماہ بیر حیرت سے اسکے بدلے روپ کو دیکھ رہا ایک دن اور ایک رات میں اتنا چینج .. مطلب وہ خود بھی ٹھیک ہو کے پرانی والی عالیاب بننا چاہتی تھی بس اسکو کسی کے سپورٹ کی ضرورت تھی .. سپورٹ تو حمامہ نے بھی بہت کیا تھا لیکن شاید اس سے رشتہ اتنا مظبوط نہ تھا جتنا ماہ بیر سے تھا پہلی بار اسنے بابا کے علاوہ کسی مرد پہ بھروسہ کیا تھا جس نے ایک ہی دن میں بتا دیا کے وہ اس کے لئے خاص ہے ...لیکن اندر کہیں ڈر بھی تھا کے سچ پتا چلنے کے بعد کہیں چھوڑ نہ دے اسکا بھروسہ مان ٹوٹ نہ جائے ...
ماہ بیر نے جان بوجھ کے اسکو یہ نہیں بتایا کے وہ اسکا پاسٹ جانتا ہے وہ خود اسکو اتنا اعتماد دینا چاہتا تھا اتنا مظبوط بنانا چاہتا تھا کے وہ خود سے بغیر کسی ڈر کسی خوف کے ماہ بیر کو سب کچھ بتاۓ ... اس دن ماہ بیر خان کو پتا چلے گا کہ وہ کامیاب ہوا یا نہیں ...
اسکے بالوں کی پونی ٹیل بنا کے بنا کسی دیر کے اسکو اپنے ساتھ جم لے گیا
عالیاب حیرت سے جم دیکھ رہی تھی جہاں ہر مشین موجود تھی ماہ بیر کا کسرتی وجود دیکھ کر صاف پتا چل رہا تھا کے وہ جم روز آتا ہے
ماہ بیر کی گھٹنوں تک آتی فل بازو والی ٹی شرٹ اور ساتھ اسکا کھلا سا ٹراؤزر پہنا تھا جس کے پانچے نیچے سے فولڈ کر دیے تھے
ماہ بیر نے بلکل سلو سپیڈ پہ ٹریڈ مل چلا دیا عالیاب جاگرز پہنے آہستہ آہستہ اس پہ چل رہی تھی جبکہ دوسری ٹریڈ مل پہ ماہ بیر فل سپیڈ میں بھاگ رہا تھا
چلتے چلتے عالیاب ایک نظر اسکے بائیں بازو پہ ڈالتی جہاں شیر بنا دھاڑ رہا تھا
ٹریڈ مل بند کر کے ماہ بیر نیچے اترا اور ہاتھ پکڑ کر اسکو بھی اتارا
"اب تم کچھ دیر ریسٹ کرو پھر ہم فائٹنگ کرے گے ..." ماہ بیر اسکو ایک سائیڈ پہ بیٹھنے کا کہتے خود ویٹ لفٹ کرنے لگا
عالیاب اسکو دیکھ رہی تھی وہ ایک شاندار مرد تھا کسی بھی لڑکی کا خواب ہو سکتا تھا اسکو تو کوئی بھی اچھی اور خوبصورت لڑکی مل سکتی تھی پھر مجھ سے ہی کیوں شادی کی .. کاش وہ سب نہ ہوا ہوتا تو ان کے ساتھ زندگی کتنی حسین ہوتی ....
آدھے گھنٹے بعد ماہ بیر اپنی ایکسرسائز سے فری ہوتا اسکی طرف آیا
"کہاں کھو گئی چلو ..."
اسکو سوچوں سے ہوش میں لاتا ہاتھ پکڑ کر ایک کھلی سی جگہ پہ لایا ایک سائیڈ پہ باکسنگ رنگ بنا تھا باقی جگہ خالی تھی
" مسٹر خان اگر مجھے چوٹ لگ گئی تو ..." اسکا چہرہ دیکھتی معصومیت سے بولی
"میں ہوں نہ میری جان ..." انتہائی پیار سے بولا
ذی کے نے ایک مہینے میں پوری تفتیش کر لی تھی زر تاشہ کو ہیوی ڈوز میں ڈرگز دے کر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور یہ کسی اور کا نہیں بلکہ انہی لوگوں کا کام تھا جن کو ذی کے نے پکڑا تھا کراچی کا ابھی صرف ایک ہی گینگ پکڑا گیا تھا انکا سرغنہ ابھی تک رو پوش تھا اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا
ذی کے نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی بچی کو انصاف دلانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن خدا کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا
اس واقع کو سات مہینے گزر چکے تھے لیکن تاشہ کی حالت میں کوئی سدھار نہیں تھا وہ ذہنی مریض بن گئی تھی خطرناک ڈرگز کی ہیوی ڈوز اسکے دماغ کو بری طرح سے نقصان پہنچا چکی تھی جس کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ اپنا ذہنی توازن کھوتی جا رہی تھی جب کبھی اسکو وہ بھیانک رات یاد آتی زور زور سے چلانے لگتی اپنے آپ کو نوچتی خود کو مارنا شروع کر دیتی تھی اس پاگل پن میں وہ ایک روز اپنے سر کے سارے بال بھی کاٹ چکی تھی
آہستہ آہستہ اپنی ذات کو اپنے گھر والوں کو بھولتی جا رہی تھی نیلم کے لئے اسکو سمبھالنا مشکل ہو جاتا تھا کسی بھی مرد کو پاس نہیں آنے دیتی تھی ذی کے اپنے آپ کو حد سے زیادہ بے بس محسوس کر رہے تھے انکی ہنستی کھیلتی گڑیا کو درندوں نے نوچ کھایا تھا انکا شیر اپنی تاشہ آپی کی حالت دیکھ کر خاموش آنسو بہاتا تھا ہمیشہ خوش رہنے بولنے والا بچا آج ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالتا اور اگر بولتا بھی تو صرف یہ کے میری تاشہ آپی کو کیا ہوا ہے ؟؟ نیلم اور ذی کے اس کے سوال پہ سر نظریں چرا جاتے اور وہ بھی خاموش ہو جاتا ..
لیکن یہ بے خبری زیادہ عرصہ نہیں رہی اس کے اسکول میں بھی باتیں ہونے لگی جس سے پریشان ہو کر نیلم نے اس تیرا سال کے بچے کو بتا دیا جس کو سن کے وہ معصوم سا بچا کہیں کھو گیا نہ وہ زیادہ بات کرتا اور نہ ہی پہلے کی طرح روتا اسکی شخصیت میں بدلاؤ آ گیا تھا آنکھوں میں ہما وقت ایک سرد تاثر رہتا چہرے پہ وقت سے پہلے سنجیدگی رہتی غرض وہ تیرا سال کا بچا اچانک سے بہت بڑا ہو گیا تھا
ذی کے نے آرمی چھوڑنے کے بعد بھی اپنا کام نہ چھوڑا وہ ابھی بھی جتنا ہو سکتا اپنے ملک کے مجرموں کے خلاف ثبوت اکھٹا کر کے کرنل عامر کو دیتے جس کی وجہ سے اسکے بہت سے مزید دشمن بن چکے تھے لیکن وہ کسی سے نہ ڈرتے جن کی رگوں میں وطن کا عشق لہو بن کے دوڑتا ہو وہ اللہ کے سوا کسی کا ڈر دل میں نہیں لاتے اپنی بچی کا معاملہ وہ اللہ پہ چھوڑ چکے تھے بے شک وہ بہترین انصاف کرنے والا ہے
آہستہ آہستہ وہ سب سواۓ تاشہ کے پھر سے اپنی زندگی میں لوٹ رہے تھے گو کے سب کچھ بدل چکا تھا لیکن زندگی کی گاڑی کسی طرح تو چلانی ہی تھی ذی کے کے والد بھی کچھ دنوں تک ان کے پاس آ رہے تھے
باقی دنوں جیسا وہ بھی ایک دن تھا جب ان پہ ایک اور قیامت ٹوٹی اور انکا سب کچھ ختم ہو گیا
🌹🌹🌹
ماہ بیر نے عالیاب کو پہلے ورک آوٹ سے شروع کروایا پہلے اس نے خود کر کے دکھایا پھر اسکو بولا کے وہ کرے
عالیاب کو ڈر تو بہت لگ رہا تھا لیکن وہ ماہ بیر پہ بھروسہ کرنا چاہتی تھی
سیدھی کھڑی ہو کے دایاں پاؤں آگے رکھا اور بایاں پاؤں تھوڑا پیچھے کیا دایاں ہاتھ گھٹ نے پہ رکھا اور تھوڑا سا نیچے جھکی ماہ بیر پاس ہی کھڑا دیکھ رہا تھا
"ویری گڈ اب دوسری سائیڈ سے کرو ..." مسکرا کر اسکا حوصلہ بڑھایا
ایک نظر ماہ بیر کو دیکھ کر بایاں پاؤں آگے کیا اور پھر سے ویسے ہی جھکی
کافی بار ماہ بیر نے یہی کروایا جو اس نے کافی اچھا کیا
"میں نے کر لیا ..." عالیاب ہاتھ پہ ہاتھ مار کر ہنسی تو گالوں کے گڑھے نمایاں ہوے
"بہت اچھے اب یہاں دیکھو ..." ماہ بیر نے مسکرا کا اسکا گال تھپتھپایا اور اگلا سٹیپ کرنے لگا
"یہ تو مشکل ہے ...." عالیاب گھبرائی
"کوئی مشکل نہیں ہے کرو تم میں ہوں یہاں ..." ماہ بیر اسکے پیچھے کھڑا ہوا
وہ سیدھی کھڑی ہوئی ماہ بیر نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے پھر دایاں ہاتھ نیچے کی طرف اتنا جھکایا کے تقریباً پاؤں تک پہنچ گیا اور بایاں ہاتھ اپر ہوا میں رہا اسکو بیلنس کر کے خود پیچھے ہوا
ایک منٹ عالیاب ایسے ہی جھکی رہی
"اب لفٹ سائیڈ سے کرو ..." ماہ بیر اسکے پاس ہی کھڑا رہا
عالیاب اوپر ہوئی اور لفٹ سائیڈ پہ بھی ایسے ہی جھکی
بایاں ہاتھ اوپر کیا تھا پاؤں مڑا اور لڑکھڑائی ماہ بیر نے فورا سے پہلے اسکو پکڑا عالیاب کا دل لرزا ماہ بیر کی بنیان زور سے مٹھیوں میں دبوچی آنکھیں زور سے میچ لیں
"آنکھیں کھولو کچھ نہیں ہوا ..." ماہ بیر نے اسکو اپنے سامنے سیدھا کھڑا کیا تو اسکو پاؤں میں درد محسوس ہوا شاید مڑ گیا تھا چہرے پہ تکلیف کے تاثر ابھرے
"مم مجھ سے ن نہیں ہو گا مم ..." دونوں ہاتھوں سے مظبوطی سے ماہ بیر کو پکڑے بند آنکھوں سے گھبرا کے بولی
"عالی میری جان اوپن یور آئیز ..." ماہ بیر اسکے ٹھنڈے ہاتھ نرمی سے اپنے ہاتھوں میں لئے پیار سے بولا اور اسکو پاس پڑی چیئر پہ بیٹھایا
اسنے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولی پاؤں میں درد زیادہ ہوا
ماہ بیر نیچے بیٹھا اور ایک ہاتھ سے اسکا پاؤں پکڑ کر دیکھا
"زیادہ نہیں ہے بس ہلکی سی موچ ہے ٹھیک ہو جائے گا ..." اسکے ساتھ ہی دوسری چیئر پہ بیٹھا
عالیاب کا سر جھکا ہوا تھا
"کیا ہوا ..." ٹھوڑی سے پکڑ کر چہرہ اوپر کیا
"مم مجھ سے نہیں ہو گا یہ میں نہیں کر سکتی بہت مشکل ہے یہ سب میں فیل ہو جاؤں گی اگر میں نہیں کر سکی تو کیا آپ دوستی توڑ دیں گے ..." وہ گرے آنکھوں میں دوستی ختم ہونے کا ڈر لئے اتنی معصومیت سے بولی تھی کے ماہ بیر کو اس پہ پیار آیا
اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیا اور انتہائی پیار سے بولا
" تم نے پرامس کیا ہے کے تم کرو گی پھر پہلے ہی کیسے ہار مان سکتی ہو ابھی تو شروع ہی ہوا ہے تم پہلے ہی پیچھے ہٹ گئی ایسے تو نہیں سیکھ سکتی نہ تم .. تمہے ہمت کرنی ہو گی اور سب سے پہلے خود پہ بھروسہ کرنا ہو گا تم کسی سے کم نہیں ہو تم سب کچھ کر سکتی ہو .. تم جب خود کو یہ کہو گی کے تم سب کر سکتی ہو تو دیکھنا تمہے کچھ بھی مشکل نہیں لگے گا ... مشکل تو ہر کام ہوتا ہے لیکن اسکو آسان ہم نے خود بنانا ہوتا ہے اللہ پہ بھروسہ کر کے خود پہ بھروسہ کر کے یہ کام ہم کر سکتے ہیں .. جب ہم پہلے ہی یہ کہہ دیں کے یہ ہم نہیں کر سکتے تو پھر ہم اس کام کو کبھی نہیں کر سکتے ... "
"لیکن میں کیسے کروں گی مطلب کیا ضروری ہے یہ سب ..." عالیاب خود بھی بہت کنفیوز تھی
"جی یہ بہت ضروری ہے صرف تمھارے لئے نہیں ہر لڑکی کے لئے یہ ضروری ہے .. جیسا آج کا دور ہے میں تو کہتا ہوں لڑکیوں کو بچپن سے ہی یہ سیکھانا چاہیے تا کے وہ خود اپنی حفاظت کر سکیں ضروری نہیں ہے ہر بار باپ بھائی یا شوہر ساتھ ہو اور وہ حفاظت کرے ایک لڑکی کو اتنی سمجھ ہونی چاہیے کے وہ خود اپنی حفاظت کر سکے .. اور تم تو بہت خاص ہو تم ماہ بیر خان کی بیوی کو تمہے یہ سب کچھ آنا چاہیے اور ویسے بھی مجھے کمزور لڑکیاں بلکل نہیں پسند اس لئے تمہے سٹرانگ بننا ہو گا اتنا سٹرانگ کے تمہے کوئی نہ ہرا سکے .. نہ صرف میرے لئے بلکہ خود کے لئے بھی سٹرانگ بننا ہو گا ... کرو گی نہ ..." پیار سے سمجھاتے مان سے پوچھا
عالیاب نے سر ہلا دیا ہونٹوں پہ دھیمی سی مسکان تھی کتنا پیارا تھا یہ شخص اوپر سے پتھر کی طرح سخت نظر آنے والا اندر سے موم کی طرح نرم تھا
"دیٹس لائک مائی جان ..." مسکرا کے اسکا ماتھا چوما تو عالیاب نے سکون سے آنکھیں بند کر لیں کتنا عقیدت بھرا لمس تھا
"چلو آج کے لئے اتنا کافی ہے ..." سہارا دے کر اسکو اٹھایا اور روم میں لے گیا
"کیا جب انکو میرا پاسٹ پتا چلے گا تو بھی ایسے ہی پیار کریں گے کیا یہ سب تب بھی ایسا ہی حسین ہو گا ؟؟... " عالیاب خاموشی سے اسکو دیکھتی سوچ رہی تھی
اسکو بیڈ پہ بیٹھا کے پاؤں پہ پین ریلیف سپرے کیا اور اسکو ریسٹ کرنے کا کہہ کر خود نیچے چلا گیا
عالیاب بس خاموشی سے شاندار شخص کو دیکھ رہی تھی جو اسکا ہر کام اپنے ہاتھ سے کر رہا تھا اسکو ایک منٹ بھی اکیلا نہ چھوڑتا تھا آفس کا سارا کام بھی وہ گھر سے کرتا تھا
کچھ ہی دیر میں وہ کھانے کی ٹرے لے کے روم میں آیا اور اپنے ہاتھ سے ہی کھلایا عالیاب بھی بغیر کچھ کہے خاموشی سے کھاتی اسکو دیکھ رہی تھی
اسکا یہ کیرنگ انداز اسکا پیار اسکی باتیں سب عالیاب کو مجبور کر رہا تھا اس پہ یقین کرنے کو اور وہ کر بھی تو رہی تھی ایک ہفتے سے اسکے ساتھ تھی ایک بار بھی اسنے اونچی آواز میں بات تک کرتے نہیں سنا تھا ہمیشہ پیار بھرا ٹھہرا سا لہجہ
ابھی وہ کھانا کھا کے فری ہوا ہی تھا کے فون بجا اس وقت وہ نہ اٹھاتا لیکن عاقب کی کال تھی اٹھانی پڑی
"باس ایک بری خبر ہے ...." سپیکر سے عاقب کی پریشان سی آواز گونجی
"ہممم بولو ..." گہرا سانس لیا پہلے کب اسنے اچھی خبر دی تھی
آگے سے اسنے پتا نہیں کیا کہا کے ماہ بیر کے چہرے کے تاثر پتھر ہوے آنکھیں خون چھلکانے لگی ماتھے کی رگیں تن گئی
"ٹھیک ہے تم اپنا کام کرو میں کل صبح آؤں گا ..." سرد لہجے میں کہتے فون بند کیا
عالیاب تو اسکی سرد آواز سن کے ہی کانپ گئی اس نے تو اتنے دن سے اسکی پیار بھری آواز سنی تھی اتنا سرد لہجہ عالیاب کو ایک دم سے خوف آیا
ماہ بیر اسکو دیکھے بغیر اٹھا اور واشروم میں بند ہو گیا
عالیاب نے ایک نظر دروازے کو دیکھا اور آنکھیں بند کر لی ابھی اسکو بلانے کی ہمت اس میں تو بلکل بھی نہیں تھی
🌹🌹🌹
صبح حاشر فریش ہو کے نکلا تو بیڈ پہ اسکا سوٹ پڑا ہوا تھا ایک نظر اسکو دیکھ کر کبرڈ کھولی اور دوسرا سوٹ نکالا
جانتا تھا اس گھر میں ان دونوں کے علاوہ کوئی نہیں اور یہ کام اسکا ہی تھا حاشر اسکو ایسا کوئی حق نہیں دینا چاہتا تھا پہلی ہی ملاقات میں اسکو وہ بلکل اچھی نہیں لگی تھی اگر وہ پہلے نہ ملے ہوتے تو وہ شاید اتنا غصہ نہ کرتا اور مان جاتا
وہ شاید پہلی ملاقات بھول بھی جاتا لیکن دو دن میں حمامہ اسکو اتنا زچ کر چکی تھی کے وہ صرف غصہ ہی کر رہا تھا اس کے آفس ورکرز بھی اسکے غصے کا نشانہ بن رہے تھے ماہ بیر سے اسکی ولیمہ کے بعد ملاقات نہیں ہوئی تھی کے اس سے ہی بات کر لیتا
تیار ہو کے روم سے نکلا اور کافی پینے کچن میں گیا لیکن ڈائیننگ پہ پہلے سے ہی ناشتہ بلگا ہوا تھا حاشر نے یہاں وہاں دیکھا لیکن وہ نظر نہ آئ
"اچھا ہے نہ ہی نظر آۓ دن تو اچھا گزرے گا ..." سر جھٹک کر بڑبڑایا اور بغیر کسی چیز کو ہاتھ لگاۓ باہر نکل آیا
لیپ ٹاپ بیگ کیز اور موبائل اٹھایا اور دروازے کی طرف بڑھا
"رکیے ..." ابھی ہینڈل پہ ہاتھ رکھا ہی تھا کے پیچھے سے میٹھی سی آواز آئ
حاشر بے زار سا مڑا لیکن اسکو دیکھ کر آنکھوں میں حیرت آئ
پنک کلر کی شارٹ فراک پنک ہی دوپٹہ سر پہ لئے گولڈن بالوں کی چوٹی کندھے پہ رکھے ہلکا سا تیار ہوے کافی اچھی لگ رہی تھی حاشر نے پہلی بار اسکو گہری نظر سے دیکھا لیکن جلد ہی نظر پھیر لی
رات کو کافی سوچنے کے بعد اس نے فیصلہ کیا تھا کے وہ اچھی بچی بن کے رہے گی اور حاشر کو تنگ نہیں کرے گی
صبح جلدی اٹھ کے نماز پڑھی اور اپنا روم سمیٹا پھر حاشر کے روم کی طرف گئی روم خالی تھا جلدی سے کبرڈ سے اسکا سوٹ نکالا اور کچن میں آ کر اسکے لئے ناشتہ بنایا
رفعت بیگم نے اسکو سب کچھ سکھایا تھا لیکن کرتے وقت اسکو موت نظر آتی تھی
لیکن اب وہ سب کچھ اپنے شوہر کے لئے کرنا چاہتی تھی
سب کر کے روم میں چلی گئی اور تیار ہوئی جب باہر نکلی تو حاشر جا رہا تھا حمامہ نے جلدی سے روکا
"ناشتہ نہیں کیا آپ نے ..." حمامہ بڑے آرام سے بولی
حاشر نے حیرت سے دیکھا کل تک تم تھا اور اب آپ ....
"آپ آفس میں کھا لیجئے گا ..." اسکا جواب نہ پا کر خود ہی بولی اور کچھ پڑھ کر اس پہ پھونکا
یا سب رفعت بیگم کی ہی سیکھ تھی کے شوہر کا خیال کیسے رکھتے ہیں
"تم کیا سمجھتی ہو یہ سب کر کے مجھے متاثر کر لو گی تو غلط فہمی ہے تمہاری ..." حاشر کو پتا نہیں کیوں غصہ آ گیا
حمامہ نے کچھ کہنے کو لب کھولے تھے کے اسنے زور سے اسکا بازو پکڑا اور غرایا
" میں نے ایک بار کہہ دیا ہے نہ کے نہیں رہنا تمھارے ساتھ تمہے سمجھ نہیں آتی کتنی ڈیٹھ لڑکی ہو تم ..."
"بس بہت ہوا میں چپ ہوں اسکا مطلب یہ نہیں تم یوں سنا کے چلے جاؤ مجھے .. اور مجھے کسی کو متاثر کرنے کی ضرورت نہیں ہے .. عزت راس نہیں آئ تمہے ..." زور سے اسکا ہاتھ جھٹک کر چلی گئی
حاشر کا غصہ بڑھا لیکن فلحال آفس جانا تھا اس سے بحث کرنا مطلب اپنا دماغ خراب کرنا
"تمہے محبّت راس نہیں آ رہی نہ اب دیکھو میں کیا کرتی ہوں ...." حمامہ کے دماغ میں ایک شیطانی آئیڈیا تھا اور ہونٹوں پہ شیطانی مسکراہٹ
"اچھے لوگوں کو تو لوگ جینے نہیں دیتے ..ا صرف سوٹ ہی نکالا تھا بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ..." دوپٹہ اتار کے صوفہ پہ پھینکا اور اپنا بنایا ہوا ناشتہ کرنے لگی
"ارے واہ ناشتہ تو اچھا بنا ہے ... شاباش حمامہ شکر ہے اس سڑیل نے نہیں کیا ہونہہ لائک ہی نہیں ہے میرے ہاتھ سے بنے ناشتے کے ... " اپنی تعریف کرتی حاشر کو کوستی منہ چلا رہی تھی
🌹🌹🌹
"کہاں مر گئے ہیں یہ چاروں منحوس ..." دھاڑ کی آواز پہ وہ اچھلا
"نہیں معلوم سائیں پہلے دونوں دو ہفتے سے نہیں آۓ اور یہ بھی کل سے غائب ہیں ..." ساجد گھبرا کر بولا
"تو جا کر معلوم کرو ورنہ اپنی منحوس شکل لے کر دفع ہو جاؤ پہلے ہی مال کم ہو رہا ہے اور اگر تم جیسے ناکارہ کتوں کی وجہ سے مجھے ذرا بھی نقصان ہوا تو زندہ نہیں چھوڑوں گا تم سب کو ...." کرخت آواز میں چلایا
"جو حکم سائیں میں ابھی سے ہی کام پہ لگتا ہوں ...." ساجد مؤدب سا بولا
"ہممم میرے لئے آج رات کا انتظام کرو اور اپنی منحوس شکل گم کرو یہاں سے ...." شراب کا گلاس منہ کو لگاتے ہاتھ سے جانے کا اشارہ کیا
ساجد سینے پہ ہاتھ رکھ کر چلا گیا
حرام حلق سے گھونٹ گھونٹ اتارتے وہ سوچ رہا اور سوچوں کا محور ایک معصوم سی لڑکی تھی جس کو سوچتے ہی آنکھوں سے خباثت ٹپکنے لگی
"کبھی نہ کبھی تو ہاتھ آؤ گی بے بی ڈول ..." خباثت سے کہتا زور دار قہقه لگا کے ہنسا
🌹🌹🌹
"مٹھو تمہے پتا ہے آج مسٹر خان غصے میں ہیں ..." دونوں ہاتھوں سے مٹھو کو زور سے پکڑے منہ اسکے قریب کر کے بولی
"یاب مٹھو ..." مٹھو زور سے چیخا شاید اس نے زیادہ زور سے پکڑ لیا تھا
"او سوری پیارا بےبی ..." عالیاب نے جلدی سے اپنی پکڑ ڈھیلی کی
"مامہ آئ ...." مٹھو ریلیکس ہو کے اسکے پہ بیٹھا
"نہیں مٹھو مامہ نہیں آئ لگتا ہے ہمیں بھول گئی ...." عالیاب نے ایک نظر ماہ بیر کو دیکھا جو صوفہ پہ بیٹھا تھا اور پاؤں ٹیبل پہ پھیلا کے لیپ ٹاپ گود میں رکھے کام کر رہا تھا
گھر میں ہونے کے باوجود ہر کام ٹائم پہ کر رہا تھا عالیاب کی وجہ سے وہ روم میں تھا ورنہ نیچے ہوتا یا پھر لان میں
عالیاب اسکو دیکھتی ہلکی آواز میں بول رہی تھی جب کے مٹھو چیخ رہا تھا
"مٹھو ایک سیکرٹ بتاؤں ..." ماہ بیر کو دیکھ کر ہلکی آواز میں بولی
مٹھو ..... مٹھو نے سر ہلا کے اپنا پر اسکے ہاتھ پہ رکھا
"مسٹر خان اچھے ہیں بہت میرا خیال بھی رکھتے ہیں ..." ایک چور نظر اسکے چہرے پہ ڈالی جو انہماک سے کام کر رہا تھا
"پتا ہے آج انہوں نے مجھے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا اور میرے پاؤں پہ دوائی بھی لگائی اور مجھے فائٹنگ بھی سکھا رہے ہیں بہت اچھے ہیں وہ سویٹ سے ..." مٹھو کے پاس چہرہ کیے خوشی سے بول رہی تھی
ماہ بیر کے لب مسکراۓ وہ کام میں بزی تھا لیکن کان اسکی باتیں سن رہے تھے جو ہلکی آواز میں باتیں کر رہی تھی اور آواز اتنی ہلکی تھی کے ماہ بیر آسانی سے سن رہا تھا
"مسز خان اگر تعریف کرنی ہے تو میرے سامنے کر دو طوطے کو بتانے کی کیا ضرورت ہے ...."
اسکی آواز اتنی پاس سے آئ کے وہ جو مٹھو سے راز و نیاز میں مصروف تھی اچھلی دل حلق میں آ گیا مطلب انہوں سے ساری باتیں سن لی
"وو وہ مم .... " عالیاب سے کچھ بولا نہ گیا
"وہ کیا ...." مٹھو کو اٹھا کے نیچے بٹھا دیا اور خود اسکے سامنے بیٹھا
عالیاب نے نظریں جھکا لی اور لب دانتوں میں دباۓ
ماہ بیر نے اسکی لرزتی پلکیں دیکھی اور انگوٹھے سے اسکے لب دانتوں سے آزاد کرواۓ
"ان پہ میرا حق ہے اور میں تمہے ان پہ تشدد کی بلکل اجازت نہیں دوں گا ..." اسکے کان کے پاس جھکے گھمبر لہجے میں سرگوشی کی
عالیاب کا چہرہ تپ کے سرخ ہوا دل سینے کی دیواروں سے ٹکرانے لگا اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے
"کل تم گرینڈ پا کی طرف چلی جانا حمامہ بھی آ جائے گی .. مجھے کام سے جانا ہے کل رات تک آ جاؤں گا ...." اسکا ٹھنڈا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا
"کیوں کہاں جانا ہے ..." عالیاب نے جھٹ سے سر اٹھا کے اسکو دیکھا
"کیوں کہاں جانا ہے ..." اس نے جھٹ سے سر اٹھا کے دیکھا
ایک دم اکیلے رہنے سے ڈر لگا
"کچھ ضروری کام ہے آوٹ اور ٹاؤن جانا ہے کل رات تک میں آ جاؤں گا ..." ماہ بیر نے نرمی سے کہتے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے
"پر میں اکیلے کیسے ..." اسکو اتنے بڑے گھر میں اکیلے رہنے سے ڈر لگا
"ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے کل تم گرینڈ پا کے ساتھ رہنا اور حمامہ بھی تو آ جائے گی نہ بس ایک دن کی بات ہے رات کو میں آ جاؤں گا .. ٹھیک ہے .." پیار سے کہتے اسکا جھکا ہوا سر اوپر کیا
عالیاب نے سر ہلا دیا
"گڈ گرل .. آؤ میرے ساتھ ایک سرپرائز ہے تمہارے لئے ..." اسکا ماتھا چومتے ہاتھ پکڑ کر اٹھایا
پاؤں میں ابھی ہلکا سا درد تھا
"کیا سرپرائز ہے ..." عالیاب نے اسکا چہرہ دیکھا جہاں ایک نرم سا پیار بھرا تاثر تھا
صبح تو وہ اسکی سرد آواز سن کے ہی ڈر گئی تھی لیکن پھر کچھ دیر بعد وہ پہلے جیسا ہی ہو گیا تھا پیارا سا نرم گو
"ابھی پتا چل جائے گا ..." اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکو پیلس کے لاسٹ پورشن پہ لے گیا
مٹھو بھی آہستہ آہستہ ان کے پیچھے چل رہا تھا
"آئیز بند کرو ..." ایک دروازے کے سامنے اسکو کھڑا کیا
پر ... عالیاب نے کچھ کہنا چاہا لیکن ماہ بیر نے اسکی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ دیا
روم کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوے
گلابوں کی خوشبو عالیاب کے نتھنوں سے ٹکرائی تو لب مسکرائے گلاب اسکو حد سے زیادہ پسند تھا
ماہ بیر نے ہاتھ ہٹا دیا جب عالیاب کی سامنے نظر پر تو پلک جھپکنا بھول گئی
وہاں ہر طرح کا گلاب موجود تھا اور انکی خوشبو پورے ماحول پہ چھائی ہوئی تھی عالیاب نے پورا روم گھوم کر دیکھا گلاس ہاؤس جس کی سامنے والی دیوار میں بالکونی تھی جہاں گلاب کے ڈھیروں پھول تھے اور وہ جگہ اتنی خوبصورت لگ رہی تھی کے عالیاب سحر زد سی دیکھ رہی تھی ایک سائیڈ پہ بہت خوبصورت سا ٹیبل پڑا تھا جس پہ بہت سارے رنگ اور برش پڑے تھے ساتھ ہی کینوس تھا
دوسری دیوار پہ ایک بہت پیارا سا مصنوعی درخت بنا تھا رات کے اس وقت باہر کی روشنیاں نظر آتی بہت خوبصورت نظارہ پیش کر رہی تھی وہ گلاس ہاؤس اتنا پیارا تھا کے عالیاب کی نظریں ہی نہیں ہٹ رہی تھی
"کیسا لگا ...." وہ کچھ نہ بولی تو ماہ بیر اسکے کان کے پاس جھکا
عالیاب جو سب دیکھنے میں مگن تھی چونک کے مڑی
"مسٹر خان تھینک یو تھینک یو سو مچ یہ بہت پیارا ہے بہت خوبصورت ہے میرے خواب سے بھی زیادہ ...." خوشی سے چہکتی وہ ماہ بیر کے گلے لگ گئی
ماہ بیر ساکت ہوا پھر زور سے ہاتھ اسکے گرد باندھے
عالیاب کو جب احساس ہوا کہ کیا کیا ہے تو کسمسا کے اسکی گرفت سے نکلنا چاہا لیکن ناکام رہی دل کی دھڑکا اتنی تیز ہو گئی کے ماہ بیر آسانی سے سن سکتا تھا
دونوں کا دل ایک ساتھ دھڑک رہا تھا عالیاب کا تو بدن کانپ رہا تھا ہاتھ ٹھنڈے پڑ گئے تھے
اسکی حالت کا خیال کرتے ماہ بیر نے آہستہ سے اسکو الگ کیا
"میں نے اپنا کہا پورا کیا اب تمہاری باری .. جب میں کل واپس آؤں تو مجھے بھی سرپرائز ملنا چاہیے ..." گھمبیر آواز میں اسکے کان میں سرگوشی کی
"کک .کیسا سرپرائز ..." عالیاب کی نظریں جھکی
"جیسا تم چاہو میری جان ..." ماہ بیر مسکرایا
عالیاب سر ہلا کے دور ہوئی اور بالکونی میں گئی جہاں ڈھیر سارے گلاب رات میں ہلکی سی روشنی میں بہت خوبصورت لگ رہے تھے عالیاب نیچے جھکی اور بلیک گلاب کو ہاتھ سے چھوا پھر ناک پاس کر کے خوشبو سانسوں میں اتاری ماہ بیر ہاتھ باندھے اسکو دیکھ رہا تھا جو بڑے شوق سے سب کو ہاتھ لگا رہی تھی
"چلو عالی تم نے کچھ پہنا بھی نہیں ہے ٹھنڈ میں اور ٹائم بھی بہت ہو گیا ہے ..." ماہ بیر نے ٹائم دیکھ کر اسکو بلایا جو سب بھلا کے پھولوں میں مگن تھی
"بس پانچ منٹ ..." عالیاب نے بغیر اسکو دیکھے ہاتھ سے اشارہ کیا
"نہیں ایک منٹ بھی نہیں چلو اٹھو ٹائم پہ سونا ہے ..." ماہ بیر نے اسکے پاس پہنچتے اسکا ہاتھ پکڑ کر کھڑا کیا
"کیا ہے مسٹر خان آپ ہر وقت ٹائم مشین کیوں بنے رهتے ہیں ..." عالیاب چڑی
کچھ دیر پہلے والی جھجھک ختم تھی
اسکو لان میں لگے پھولوں کے پاس بھی نہیں جانے دیتا تھا باہر بہت زیادہ ٹھنڈ ہوتی برف باری کی وجہ سے اور عالیاب بیمار ہو سکتی تھی اس وجہ سے وہ گھر میں ہی رہتی ہر وقت ماہ بیر کے سامنے
"تم چل رہی ہو یا اٹھا کے لے جاؤں ...." ماہ بیر نے گھورا
ہونہہ .... عالیاب نے پیر پٹکے
"آہ !....." پہلے سے دکھتا ہوا پاؤں زور سے نیچے لگا تو کراہی
"کیا کرتی ہو تم دیکھا نہ اب لگ گئی ..." ماہ بیر اسکے پاس پہنچا
عالیاب نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اسکو دیکھا
ماہ بیر نے جلدی سے اسکا باہوں میں اٹھا لیا
"کیا زیادہ زور سے لگی ہے ..." اسکو لئے بیڈروم کی طرف بڑھا
عالیاب نے سر ہلا دیا گرے آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آ گئے ماہ بیر کو لگا وہ ایک بار پھر سے ڈوب جائے گا تو آنکھیں پھیر لی
"کچھ نہیں ہوا ابھی ٹھیک ہو جائے گا ..." جلدی سے اسکو بیڈ پہ بیٹھا کر پاؤں پہ سپرے کی
عالیاب پلکیں جھپک کر آنسو روک رہی تھی
"یا لو پین کلر کھا لو ٹھیک ہو جائے گا ابھی ..." گولی اس کے ہاتھ پہ رکھ کر پانی دیا
اسکو لٹا کے خود بھی دوسری سائیڈ سے آیا اور اسکا سر اپنا بازو پہ رکھ کر تھپکنے لگا
"مٹھو کہاں ہے ..." عالیاب نے آنکھیں کھول کر اسکو دیکھا
"فکر مت کرو جیزی(پیلس کی کیئر ٹیکر ) اسکو دیکھ لے گی .. سو جاؤ تم صبح تک ٹھیک ہو جائے گا .." پیار سے اسکا گال تھپتھپایا
عالیاب نے سر ہلا کے آنکھیں بند کر لی
ماہ بیر کو تو بول دیا کے ٹھیک ہے لیکن اندر سے وہ بہت ڈری ہوئی تھی ہفتے سے وہ ماہ بیر کے ساتھ تھی جس نے ایک لمحے کو بھی اسے اکیلا نہیں چھوڑا تھا اب اسکو یوں پورا دن گزارنا مشکل لگ رہا تھا گرینڈ پا اور حمامہ تو تھے لیکن جو تحفظ کا احساس ماہ بیر کے ساتھ ہوتا وہ کسی اور کے ساتھ نہیں ہوتا انہی سوچوں میں گم وہ نیند کی وادی میں اتر گئی
ماہ بیر نے جب دیکھا کے سو گئی ہے تو آہستہ سے اسکا سر تکیے پر رکھا اور ماتھا چوم کر اٹھ گیا اسکو ابھی جانا تھا جتنی جلدی جاتا اتنی جلدی واپس آتا اپنی زندگی کو بلکل اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا لیکن کام بھی زیادہ ضروری تھا
چینج کر کے اپنا تھوڑا سا سامان لیا اور عالیاب پہ کمفرٹر ٹھیک کرتا چلا گیا
🌹🌹🌹
حاشر آفس جاتے بہت برے موڈ میں تھا لیکن وہ کسی پہ غصہ نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے ضبط سے کام لیا ماہ بیر کی غیر موجودگی میں سارا کام اسنے ہی کرنا تھا جیک سے ساری ڈیٹیل لیتا میٹنگ میں بزی ہو گیا صبح غصے میں کچھ کھایا بھی نہیں اور ابھی بھی صرف کافی لی تھی
لگاتار تین میٹنگ اٹینڈ کرکے فری ہوا ایک ہاتھ میں سیگریٹ تھی اور دوسرے میں کافی کا مگ وہ کوئی اتنا چین سموکر نہیں تھا بس کبھی کسی وجہ سے پی لیتا تھا لیکن ان کچھ دنوں سے لگاتار پی رہا تھا اور بہت زیادہ پی رہا تھا وہ عجیب الجھن کا شکار تھا اس رشتے کو اپنی زندگی سے نکالنا چاہتا تھا حمامہ اس سے چھوٹی تھی اور ابھی امیچور تھی جس کی وجہ سے وہ زیادہ کوفت کا شکار تھا
ایسا نہیں تھا کے وہ نفرت کرتا تھا حمامہ سے لیکن وہ بس اسکو پسند نہیں تھی اسکو کوئی اپنے جیسی لڑکی چاہیے تھی جو اسکی ہم عمر ہوتی میچور ہوتی جو اسکو سمجھ سکتی نہ کے تنگ کر کے اسکو غصہ دلاتی جو کم بولتی ہو تھوڑی شرم و حیا بھی ہو اس میں لیکن حمامہ پہلی ہی ملاقات میں بہت کچھ کہہ چکی تھی جو اسکو بلکل پسند نہیں آیا تھا
اسنے یہی سنا تھا کے نکاح میں بہت طاقت ہوتی ہے جو دو دلوں کو جوڑ دیتی ہے ایک دوسرے سے باندھ دیتی ہے لیکن وہ ایسا کچھ بھی نہیں فیل کر رہا تھا .. اسنے ابھی تک صرف حمامہ کو ایک بتمیز لڑکی ہی سمجھا تھا جو اپنی الٹی حرکتوں اور فضول باتوں سے دوسروں کا دماغ خراب کرتی ہے ...اسنے ابھی تک حمامہ کو اپنی بیوی مانا ہی نہیں تھا اسکو یہی لگ رہا تھا کے اس کے سر پہ مسلت کی گئی ہے
آج وہ حمامہ کا کیئرنگ انداز دیکھ کر حیران ہوا تھا لیکن پھر جب یاد آیا کے یہ زبردستی آئ ھو تو غصہ آ گیا لیکن اسکے غصے کا بھی حمامہ پہ کوئی اثر نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی وہ ڈرتی تھی جس کی وجہ سے اسکا دماغ خراب ہو جاتا
ساری سوچیں سائیڈ پہ کر کے کام کرنے لگا سارا کچھ ختم کرتے اسکو شام کے سات بج گئے تھے پھر کام وائنڈ اپ کرتے اٹھا اور گھر کی راہ لی
گھر کے دروازے تک پہنچا تھا کے زور سے گانے کی آواز آئ تو غصہ پھر سے آگیا لیکن پھر چھوڑو کیا فائدہ بحث کرنے کا اسکو تو کوئی اثر نہیں ہوتا تھا لاؤنج میں آیا تو فل ولیم پہ سونگ چلاۓ خود بھی صوفہ ف کھڑی ہاتھ کا مائک بناے اونچا اونچا گا رہی تھی
میں چلی میں چلی دیکھو پیار کی گلی
مجھے روکے نہ کوئی میں چلی میں چلی
ہاں ہاں اہ میری جاں مجھے جانا ہے وہاں
میرا پیار ہو جہاں وہی میرا جہاں
حاشر نے ایک ناگوار نظر اس پہ ڈالی اور گانا بند کر دیا
حمامہ ایک دم سے رکی
"یہ چڑیا گھر نہیں ہے انسانوں کی طرح رہو یہاں رہنا ہے تو نہیں تو چلتی بنو ...." حاشر چبا کر بولا
"کیوں چلتی بنوں یہاں سے میرے شوہر کا گھر ہے کوئی نہیں نکال سکتا مجھے یہاں سے ..." حمامہ اسکے سامنے اتے آنکھوں میں دیکھ کر بولی
"شادی نہیں ہوئی صرف نکاح ہوا ہے اور میں کوئی تمہارا شوہر نہیں ہوں ...." حمامہ کے یہی جواب دینے کی وجہ سے اسکو غصہ آتا تھا
"ہاں تو ہو جائے گی شادی بھی .." حمامہ کہہ کر جانے لگی
"لیکن میں نہیں کرنا چاہتا تم سے شادی ..." اسکا بازو پکڑ کر زور سے بولا
"یہ بات تم اتنی ہی آواز سے اپنے چاچو سے کہو .. ہٹو آج میرا موڈ بہت اچھا ہے اور میں تم سے بحث نہیں کرنا چاہتی ..." اپنا بازو چھڑانا چاہا لیکن اسکی پکڑ مظبوط تھی
"بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہارا موڈ ...." غصے سے تن فن کرتا روم میں چلا گیا اور دھاڑ سے دروازہ بند کیا
"بہت عزت دی لیکن راس نہیں آئ تمہے اب تم دیکھو کیا ہوتا ہے نہیں کرنا چاہتے نہ تم مجھ سے شادی پتا چل جائے گا ..." حمامہ مسکرائی
اپنا کام وہ کر چکی تھی بس پرسو کا انتظار تھا
🌹🌹🌹
رات کو دس بجے اسکی فلائٹ تھی صبح وہ پانچ بجے وہ اپنے فلیٹ پہنچا جہاں عاقب اسکا ویٹ کر رہا تھا
"بتاؤ اب پوری بات ..." اپنا موبائل والٹ اور گھڑی اتار کر عمر کو دی
"باس جن کو ہم نے پہلے پکڑا تھا وہ دونوں بھی ڈرگز مافیا کے ساتھ کام کرتے ہیں ہم نے انکے اڈے پہ نظر رکھی ہوئی ہے پرسوں یہ دو آدمی وہاں دو گاڑیاں بھر کر ڈرگز لاۓ اور ساتھ ہی تین بچے اور دو لڑکیاں جو بہت زیادہ بری حالت میں تھے .. ان کے اڈے کے علاوہ جہاں یہ دن کو رہتے ہیں وہاں سے تین لڑکیاں ملی ہے جن کی حالت یہی کہتی ہے کے ان کے ساتھ ......"
ماہ بیر نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا
اور آج صبح دس بجے انکا یہ سارا مال ایک شپ کے ذریعے جا رہا ہے انکا باس بھی آج کل یہیں ہے باقی آپ ان سے پوچھ لیں ..." عاقب اسکو سارا کچھ بتاتے ٹارچر سیل لے گیا
جو دو آدمی پہلے پکڑے تھے وہ بہت زیادہ بری حالت میں سیل کے ایک کونے سے لگے ہوے تھے دو ہفتے کھانا پانی نہ ملنے کی وجہ سے بہت کمزور ہو گئے تھے ذرا سا بھی ہلنے کی ہمت نہیں تھی ماہ بیر نے ایک نظر انکو دیکھا اور دوسرے دونوں کی طرف متوجہ ہوا جو سپاٹ چہرے سے دیکھ رہے تھے
" کون ہے تمہارا باس اور مال کہاں سے کہاں جا رہا ہے ...." آنکھیں سرخ ہو گئی اور لہجہ پتھر کو مات دیتا ہوا
"ہم نہیں جانتے ..." ان میں سے ایک بولا
وہ دونوں مناسب سی جسامت کے تھے ماہ بیر کا ایک ہاتھ بھی برداشت نہ کرتے اس لئے بولنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی
"تو پھر کام کس کے لئے کرتے ہو ..." ماہ بیر نے اسکا گریبان پکڑا
اب وہ کچھ نہ بولا دوسرا تو بس ماہ بیر کو گھور رہا تھا
"بولو ....." ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پہ مارا کے اسکے کان سائیں سائیں کرنے لگے
"ہم نہیں جانتے یہ سب ہمارا کام بس انکو مال دینا ہے ..." تھپڑ کھا کے ہوش آیا تھا
"کس کو دیتے ہو مال ...." اسکا گلا پکڑا جس سے اسکا چہرہ سرخ ہو گیا اور آنکھیں ابل پڑی
"س ساجد کو ...." بامشکل بولا
"کون ہے ساجد ..." وہ غرایا
"باس کا خاص آدمی ہے اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا باس کو صرف وہی ملتا ہے ...." ماہ بیر نے گلا چھوڑا تو بولا
دوسرا ابھی تک اسکو گھور رہا تھا
"تم بیسٹ ہو نہ ...." دوسرا سپاٹ سا بولا
ماہ بیر نے اسکو دیکھا
"تم ہی ہو نہ وہ جو ہمارے آدمیوں کو مارتا ہے اور ان پہ اپنی نشانی بھی چھوڑ دیتا ہے ..." وہ جان گیا تھا ماہ بیر کو
"ارے واہ تم تو بہت زہین ہو ... چلو جب اتنا پتا ہے تو باقی بھی بتا دوں ... میں ہی ہوں وہ بیسٹ جو تمھارے مافیا کے پیچھے ہے .. تم جیسے لوگوں کا قانون کچھ نہیں بگاڑ سکتا اس لئے مجھے بیسٹ بننا پڑا تا کے تم جیسوں کو ٹھکانے لگا سکوں ... ویسے بڑا ہی بے غیرت ہے باس تمہارا کام خود غلط کرتا ہے اور بدنام مجھے کیا ہوا ہے .. کوئی نہیں اسکی موت میرے ہی ہاتھوں سے لکھی ہوئی ہے سارے حساب چکتا کروں گا ... فلحال تو تم حساب دو اپنے کیے کا ...." افسوس سے کہتے عاقب کو اشارہ کیا
عاقب نے سوئچ آن کیا اور تار ماہ بیر نے ہاتھ میں دی جو آگے سے کھلی ہوئی تھی ان دونوں کے پاؤں میں پانی رکھا ہوا تھا اور پاؤں بندھے ہوے تھے ماہ بیر نے بجلی کی تار پانی میں ڈال دیا
کرنٹ سے دونوں تھر تھر کانپنے لگے اور زور دار چیخوں سے سیل گونج اٹھا
ماہ بیر اطمینان سے انکو تڑپتے دیکھ رہا تھا ایسے ہی یہ معصوم بچوں اور لڑکیوں کو تڑپاتے ہیں اور مزے لیتے ہیں انکی چیخوں کو نظر انداز کر کے درندے بن جاتے ہیں ماہ بیر بھی سکون سے کھڑا دیکھ رہا تھا
پانچ منٹ بعد عاقب نے سوئچ بند کر دیا کرنٹ اتنا ہائی والٹ کا تھا کے پانچ منٹ میں وہ تقریباً مر چکے تھے ماہ بیر نے چاکو لیا اور ایک کو چھوڑ کر باقی تینوں کی گردن اتار دی
پھر جس کو چھوڑا تھا اسکے منہ پہ پانی ڈال کر ہوش میں لایا
ہاتھ میں پکڑے بلیڈ سے اسکی دونوں آنکھیں نکال دی اس میں اتنی ہمت نہ بچی تھی کے چیخ سکتا پھر اس کے بازو پہ بلیڈ سے لکھا
im beast
"ان تینوں کو کہیں بھی پھینک دو اور اسکو انکے اڈے پہ پھینک دو .." بلیڈ پھینکا چلا گیا ابھی مال کا بھی بندوبست کرنا تھا
🌹🌹🌹
عالیاب کی صبح آنکھ کھلی تو روم خالی تھا ایک دم سے خوف آیا لیکن پھر ہمت کر کے اٹھی فریش ہو کر آئ تو نظر بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پہ گئی جہاں کوئی کاغذ رکھا تھا
گڈ مارننگ میری جان .. جب تم صبح اٹھو گی تو میں نہیں ہو گا لیکن تم اپنا خیال رکھنا ٹائم پہ کھانا کھا لینا اور زیادہ چلنا مت ورنہ پاؤں میں درد ہو گا .. میں جلدی اس لئے آ گیا تا کے جلدی سے کام ختم کر کے واپس اپنی جان کے پاس آ سکوں ... گرینڈ پا کے پاس چلی جانا اور حمامہ کے ساتھ رہنا اور اپنا بہت سارا خیال رکھنا ...
تمہارا مسٹر خان
پڑھتے ہی لبوں پہ خوبصورت مسکراہٹ رینگ گئی
مسٹر خان کتنے اچھے ہیں نہ مجھ سے کتنا پیار کرتے ہیں میرا کتنا خیال رکھتے ہیں ... کیا میں بھی کبھی کر سکوں گی ان سے اتنا پیار ؟؟ اچھی سوچ کے بعد ایک تلخ سوچ بھی دماغ میں آئ
پھر سوچوں کو جھٹکتی کھڑکی تک گئی کرٹنز ہٹا کے دیکھا جو باہر برف باری ہو رہی تھی ہر طرف سفیدی چھائی ہوئی تھی عالیاب مسکرائی
ماہ بیر نے ایک بار بھی اسکو برف باری میں نہیں جانے دیا تھا اب تو وہ نہیں تھا کس نے روکنا ہے
کھڑکی کھولتی باہر نکلی پول میں بھی پانی جم گیا تھا سائیڈ سے ہو کے آگے چلی گئی ٹھنڈی ٹھنڈی برف کی پھوار منہ پہ پڑ رہی تھی عالیاب کی مسکراہٹ گہری ہوئی کافی دیر وہاں چہل قدمی کرتی ماہ بیر کے بارے میں سوچتی رہی پھر بھوک کا احساس ہوا تو نیچے آ گئی آج جیزی نے کھانا بنانا تھا
"یاب میری جان کیسی ہو تم ...."
ابھی کچن میں قدم ہی تھا کے حمامہ کی چہکتی آواز آئ
اور وہ خود بھی بھاگ کے اس کے گلے لگ گئی
"میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو ..." عالیاب صبح صبح خوش ہو گئی
"ایک دم فٹ ویسے کیا بنا ہے ناشتے میں زور کی بھوک لگی ہے ..." حمامہ نے پیٹ پہ ہاتھ رکھ کے کچن میں جھانکا
"ہاں آ جاؤ میں بھی ناشتہ کرنے لگی تھی ..." عالیاب اسکا ہاتھ پکڑ کر کچن میں لے گئی
مسلسل بولتے دونوں نے ناشتہ کیا حمامہ اسکو خوش دیکھ کر ہی خوش تھی
"چلو تمہے کچھ دکھاتی ہوں ...." عالیاب اسے اوپر لے گئی
گلاس ہاؤس کے اندر گئے تو حمامہ کا منہ کھلا رہ گیا
"واہ یہ کتنا پیارا ہے نہ جیسے ڈزنی لینڈ ہو اتنے خوبصورت پھول ...." دونوں ہاتھ گالوں پہ رکھے وہ گھوم کر چاروں طرف دیکھ رہی تھی
"کل رات مسٹر خان نے مجھے سرپرائز دیا ہے اور تمہے پتا ہے وہ مجھے فائٹنگ بھی سکھا رہے ہیں میں ان کے ساتھ جم بھی گئی تھی ...." عالیاب مسکرا کر سب بتا رہی تھی
"اوے ہوے مسٹر خان کی مسز خان تو بڑی خوش ہیں ...." حمامہ نے چھیڑا
"ہاں میں بہت خوش ہوں مسٹر خان بہت اچھے ہیں ...." عالیاب معصومیت سے بولی
"ہاۓ میں صدقے جاؤں اس معصومیت کے ...." حمامہ نے دادی اماں کی طرح دونوں ہاتھوں سے اسکی بلائیں لیں
عالیاب مسکرا کے سرخ چہرہ جھکا گئی
"چل گرینڈ پا کے پاس چلتے ہیں پھر مجھے گھر بھی جانا ہے بہت بڑا کام کیا ہے میں نے ...." حمامہ اسکو لے کے نیچے آئ
"کیا کیا ہے ..." عالیاب نے نا سمجھی سے اسکو دیکھا تو حمامہ نے اسکو اپنا کارنامہ بتا دیا
"اگر حاشر بھائی غصہ ہوے تو ..." ساری بات سن کے عالیاب بولی
"اسکو چھوڑ وہ تو ہر وقت غصہ کرتا ہے سڑیل کہیں کا اتنا ہینڈسم ہے لیکن ذرا جو مجھ سے تمیز سے بات کر لے ..." اسکو بغیر بولنے کا موقع دیے گرینڈ پا کے گھر لے گئی
"کیا بکواس کر رہے ہو تم ...." وہ دھاڑا تھا
"س سائیں میں سچ کہہ رہا ہوں س سب ٹھیک تھا لیکن اچانک سے کہاں سے آرمی والے آۓ مجھے نہیں پتا ہمارے دونوں ٹرک پکڑے گئے ہیں اور دوسری لڑکیاں بھی ..." ساجد دو قدم پیچھے ہٹ کر بولا
"ایسا کیسے ہو سکتا ہے کسی کو نہیں پتا تھا مال کے بارے میں پھر کیسے پکڑا گیا سچ بتاؤ ساجد ورنہ یہ تمہارا آخری دن ہو گا ..."
وہ پاگل ہو رہا تھا
یہ سب تیسری دفع ہو رہا تھا پہلے بھی اسکا بہت نقصان ہو چکا تھا لیکن آج کا مال پکڑا جانا اسکو بہت بڑا ناقابل تلافی نقصان دے چکا تھا اور وہ اس وقت زخمی شیر بنا دھاڑ رہا تھا
"سائیں میں سچ کہہ رہا ہوں ..." ساجد منمنایا
"بھاڑ میں گیا تمہارا سچ اب کہاں سے پورا کروں گا میں انکا مال وہ تو مجھے چھوڑے گے نہیں کتنا پیسا لے چکا ہوں میں ان سے ..."
ہاتھ میں پکڑا شراب کا گلاس دیوار میں دے مارا جو چھناک کی آواز سے ٹوٹ گیا اور شراب کی بدبو پھیل گئی
"ساجد سائیں یہ دیکھیں باہر جلدی آئیں ..." باہر سے کوئی دروازہ بجا کر بولا
ساجد نے وہاں سے جانے کی کی ورنہ باس نے تو آج اسکو ہی شوٹ کر دینا تھا
"سائیں سائیں وہ ...." ساجد دو منٹ میں بھاگا بھاگا آیا چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا
"اب کیا موت پڑ گئی ہے تمہے ...." غصے سے غرایا
دل تو کر رہا تھا کے ساجد کو ہی اڑا دے لیکن وہی تو اسکا سارا کام کرتا تھا اس کے بغیر تو وہ خود کچھ نہیں کر سکتا تھا ویسے بھی وہ کسی کے سامنے نہیں آنا چاہتا تھا
"سائیں وہ جو ہمارے آدمی پکڑے گئے تھے انکی لاشیں ملی ہیں اور ایک پہ ..." ساجد اسکے چہرہ دیکھتا احتیاط سے بولا
"ایک پہ کیا پوری بکواس کرو ..." وہ اس پہ جھپٹا
"سائیں ایک پہ وہی لکھا ہوا ہے ..." ساجد نے تھوک نگلا
"کون ہے یہ کمینہ جو میرے گلے کی ہڈی بن گیا ہے پتا کرو سب اس کے بارے میں ایک ایک بات سب کچھ پتا کرو اور میرے لئے لندن کی فلائٹ بک کرواؤ میں ابھی رو پوش ہونا چاہتا ہوں ...." دونوں ہاتھ بالوں میں پھنسا کر بولا
یہ بیسٹ تو اس کے ہر کام کی رکاوٹ بن چکا تھا آۓ دن اسکا کوئی نہ کوئی بندہ مر جاتا اسکا کوئی اڈا تباہ ہو جاتا اور وہ کچھ نہیں کر پا رہا تھا
"جی سائیں ...." ساجد تو شکر کرتا وہاں سے چلا گیا ورنہ آج تو باس نے پکا اسکا کام تمام کر دینا تھا
🌹🌹🌹
اپنے اسکول اور اکیڈمی سے فری ہو کے وہ اپنے گھر پہنچا تو کچھ عجیب سا لگا ابھی اس نے قدم آگے بڑھایا ہی تھا کے گولی کی آواز آئ
جلدی سے وہ گھر کے باہر والی کھڑکی کے پیچھے چھپا کھڑکی ذرا سی کھلی تھی جس سے لاؤنج نظر آ رہا اور اچانک ہی اسکے بابا نیچے گرے انکے سینے سے بھل بھل کے خون نکل رہا تھا وہ چلاتا کے ایک آدمی اسکے بابا کے پاس آیا اور گن سے دھڑا دھڑ گولیاں اسکے بابا کے جسم میں پیوست کر دی
اپنی چیخوں کا گلہ گھونٹنے کو منہ پہ ہاتھ رکھا کے اسکو اپنی ماں کی چیخ سنائی دی اور پورا گھر گولیوں کی آواز سے گونج اٹھا
اور ساتھ ہی تاشہ کی چیخ و پکار گھر کے در و دیوار ہلا گئی
ذرا سا آگے ہو کے دیکھا تو دل بند ہونے لگا اسکی معصوم سی تاشہ آپی جو پہلے ہی اپنا سب کچھ گنوا چکی تھی دو آدمیوں کی پکڑ میں تڑپ رہی تھی کچھ ایسا ہی حال اسکی ماں کا تھا اور وہ تیرا سال کا بچا اتنا بھیانک منظر دیکھ رہا کے کسی کی روح بھی کانپ جاتی
اسکے بابا خون میں لت پت ساکت آنکھوں سے پڑے تھے جیسے یہ سب دیکھنے سے پہلے ہی چلے گئے ہوں ایک آدمی بیٹھا سب دیکھ رہا تھا اس کا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا
پورا گھر تہس نہس کر کے گھر والوں کو مار کر وہ جا رہے تھے جو آدمی بیٹھا تھا اس کو سب باس کہہ رہے تھے
انکی باتوں سے اسکو یہی سمجھ آئ تھی کے وہ اس کے بابا کے دشمن تھے جن کے خلاف بابا نے کچھ دن پہلے ثبوت اکٹھا کیے تھے اور وہ انکو مار کر سارے ثبوت ختم کر چکے تھے
وہ لڑکھڑا کر گرنے لگا تھا کے کھڑکی کو پکڑا اور گملا گرا
ابھی وہ گھر سے نکلتے کے کھڑکی سے کسی چیز کے گرنے کی آواز آئ
"دیکھو کوئی ہے وہاں پر جو بھی ہے جلدی پکڑو اسکو اور ختم کر دو ..." جو انکا باس تھا وہ زور سے بولا
انکی آواز سن کے وہ بھاگا آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اسکا سب کچھ لٹ گیا ہنستی کھیلتی اسکی تاشہ آپی اسکی پیاری سی مما اور اسکے بابا جانی سب اسکو چھوڑ کے چلے گئے پل میں وہ بے سہارا ہو گیا
"دیکھو وہ بھاگ رہا ہے پکڑو ضرور یہ میجر کا بیٹا ہو گا ..." ایک آدمی باقی سب کو بلاتا اس کے پیچھے بھاگا
ننھے ہاتھوں سے آنسو صاف کرتا وہ پیچھے دیکھے بغیر بھاگ رہا تھا اپنے پیچھے انکے بھاگنے اور چیخنے کی آواز آسانی سے سن سکتا تھا وہ پانچ لوگ تھے لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور بھاگتا رہا
کافی تیز بھاگتے انکو کافی پیچھے چھوڑ چکا تھا اندھیرا پھیل رہا تھا سورج بھی ڈوب رہا تھا سڑک پہ تھوڑی بہت ٹریفک تھی وہ بار بار پیچھے دیکھ رہا تھا کہ سامنے سے آنے والی گاڑی نہ دیکھ سکا کے ٹکر گیا
سر گھوما اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا حواس کھونے سے پہلے اسکو اتنا سا نظر آیا کے دو ہاتھوں نے اسکو اٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور اندھیرا ہو گیا
🌹🌹🌹
اپنا سارا کام وہ دو بجے تک ختم کر چکا تھا عاقب کو آگے کا کام بھی سمجھا دیا تھا ابھی وہ یہی سوچ رہا تھا کے اسکی جان کیا کر رہی ہو گی تین بجے اسکی فلائٹ تھی وہ جلد سے جلد اس کے پاس پہنچ جانا چاہتا تھا لیکن ہاۓ یہ سفر ... ابھی وہ ائیرپورٹ پہ بیٹھا اسکی کو سوچ رہا تھا کے فلائٹ کی اناؤنسمنٹ ہوئی تو مسکراتا اٹھ کے چل پڑا
پہلی بار وہ یوں اکیلے مسکرا رہا تھا وجہ ہی اتنی خوبصورت تھی ورنہ وہ تو بہت پہلے مسکرانا چھوڑ چکا تھا
وہاں موجود لوگ اس ہینڈسم کو مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے جو اب موبائل میں کچھ دیکھ رہا تھا اور مسکراہٹ گہری ہو رہی تھی اسکی مسکراہٹ کی وجہ سے وہ لڑکیوں کے ساتھ باقی بھی سب کی توجہ کا مرکز بن گیا تھا لیکن وہ سب سے بے نیاز اپنے موبائل میں اپنی جان کو دیکھ رہا تھا
🌹🌹🌹
شام کو چار بجے تک حمامہ انکے ساتھ رہی گرینڈ پا کے ساتھ مل کر حمامہ نے خوب مستی کی گرینڈ پا بھی اس پیاری سی شرارتی لڑکی کو دیکھ کر خوش ہوے تھے انکو یہ زندہ دل لڑکی حاشر کے لئے اچھی لگی تھی گرینڈ پا کو صرف یہی پتا تھا کے حمامہ اور حاشر کا نکاح ہوا ہے باقی انکی لڑائی یا کوئی اور بات انکو نہیں بتائی تھی اور نہ ہی حمامہ بتانا چاہتی تھی جن کو بتانا تھا انکو بتا چکی تھی
عالیاب خوش تھی ان کے ساتھ لیکن کہیں اندر سے وہ مسٹر خان کو مس کر رہی تھی لیکن اسکو سمجھ نہیں آ رہی تھی کے وہ پوری طرح سے خوش نہیں ہو رہی کچھ تھا جو نہیں تھا لیکن اسکو نہیں پتا تھا وہ کیا تھا اسکو عادت ہو رہی تھی مسٹر خان کی ایک ہفتے سے اسکو ہر وقت اپنے پاس ہی پایا تھا اب صبح سے وہ نہیں تھا تو کچھ عجیب سا لگ رہا تھا حمامہ واپس گئی تو وہ بھی پیلس آ گئی اسکو یہ وائٹ پیلس بہت زیادہ پسند آیا تھا
باہر سے یہ اس قدر خوبصورت تھا کے گزرنے والا ایک بار رک کر ضرور دیکھتا ویسے تو سب ہی جانتے تھے یہ اس کے بارے میں لندن کے رچ ہینڈسم اور روڈ بزنس کنگ کا وائٹ پیلس جہاں بہت کم لوگوں کو جانے کی اجازت تھی
عالیاب فریش ہوتی مٹھو کو لے کر گلاس ہاؤس آ گئی اسکو مسٹر ہینڈسم کے لئے سرپرائز بنانا تھا سوچ کے ہی اچھا لگ رہا تھا
مٹھو کو ساتھ بٹھاۓ اسنے کینوس سیٹ کیا اور برش اٹھا کر اپنا کام کرنے لگی چہرے پہ پیاری سی مسکان تھی
ایک ہفتے میں اسکو ایک بار بھی اپنا بھیانک ماضی یاد نہیں آیا تھا نہ ہی کوئی خواب آیا تھا ماہ بیر کی باہوں میں پرسکون سوتی تھی ماہ بیر بر لمحہ اسکے ساتھ رہتا اسکو خود میں الجھا چکا تھا تا کے کوئی بھی فضول سوچ اسکے دماغ میں نہ آۓ
اور ہوا بھی ایسا ہی تھا
پینٹنگ کرتی وہ ہلکا سا گنگنا بھی رہی تھی کتنے دنوں بعد برش کو ہاتھ لگایا تھا تو اچھا لگ رہا تھا
رات کو آٹھ بجے ماہ بیر لندن پہنچا ائیرپورٹ سے نکلنے کے بعد ایک دو کام کیے اور گھر آ گیا پہلے گرینڈ پا سے ملا ان کے ساتھ کچھ دیر بیٹھا باتیں کرتا رہا پھر وہ سونے لگے تو پیلس آیا ہر طرف خاموشی تھی روم میں گیا تو وہاں بھی کوئی نہیں تھا
ماہ بیر سمجھ گیا وہ کہاں ہو گی
مسکراتا اوپر گیا
دروازے کے پاس پہنچا تو کانوں تک اسکی گنگناہٹ پہنچی
اتنی سی ہنسی
اتنی سی خوشی
اتنا سا ٹکرا چاند کا
خوابوں کے تنکوں سے
چل بناۓ آشیاں
"او تو مسز میں یہ ٹیلنٹ بھی ہے .. امپریسو ..."
ماہ بیر مسکرایا اسکی آواز کافی اچھی تھی
ماہ بیر نے اسکو دیکھا جو اوشن بلیو کلر کے گھٹنوں تک آتے فراک میں تھی بھوری آبشار کمر پہ بکھری ہوئی تھی اور آوارہ لٹیں چہرے کا طواف کر رہی تھی یہاں سے اسکی ایک سائیڈ نظر آ رہی تھی ایک ہاتھ سے کینوس پہ برش چلاتے وہ بہت مگن تھی
اچھا مٹھو ہے ..... مٹھو گانا سن کر بولا
مٹھو نے کافی کوشش کی گانے کی لیکن گا نہ سکا
"تھینک یو مٹھو .." دوسرے ہاتھ پہ بیٹھے مٹھو کو پاس کرتے ذرا سا ہونٹوں سے چھوا
ماہ بیر جو مسکرا رہا تھا یہ دیکھ کر حلق تک کڑوا ہو گیا
مطلب اسکی بیوی اسکو چھوڑ کر طوطے سے پیار کر رہی تھی... ماہ بیر کا دل کیا اسکو کہیں غائب کر دے یہاں سے اچھے خاصے موڈ کا ستیاناس مار دیا
ماہ بیر نے سائیڈ پہ ہٹ کے جیزی کو بلایا اور وہ مٹھو کو اب گھر چھوڑ کے آنا ہے کہہ کر لے گئی تو عالیاب مسکراتے ہوے واپس کام میں مگن ہو گئی
پھر سے ہونٹوں پہ ہلکی سی گنگناہٹ تھی اسکو مسکراتے دیکھ ماہ بیر بھی مسکرایا
آہستہ سے چلتے اسکے پیچھے جا کھڑا ہوا
"میں تو آشیاں بنانے کو تیار ہوں بس تم حکم کرو ...." اسکے کان میں گھمبیر سرگوشی کی
"ہاۓ اللہ ...." وہ اپنے کام میں مگن تھی اچانک سے اسکی آواز سن کر دل پہ ہاتھ رکھتی اچھلی
اس سے پہلے کے وہ گرتی ماہ بیر نے اسکو کمر سے پکڑا اور اوپر کیا وہ سیدھا سینے سے آ لگی
"اوپن یور آئیز عالی جان ..." پیار بھری مسکراتی آواز جس کو صبح سے مس کر رہی تھی
"مسٹر خان آپ آ گئے اتنی جلدی ..." عالیاب نے آنکھیں کھول کر اسکو دیکھا جو پیار سے اسی کو دیکھ رہا تھا
اسکے دل کی دھڑکن بڑھی
"میری جان رات کے دس بج چکے ہیں ..." ماہ بیر نے باہر کی طرف اشارہ کیا جہاں رات کے اندھیرے میں اونچی عمارتوں کی روشنیاں جگمگ رہی تھی
"کیا! دس بج گئے .. اچھا کوئی بات نہیں میرا کام بس ہو گیا ہے ..." عالیاب کہتی پیچھے ہونے لگی لیکن ہو نہ سکی
"کونسا کام ..." ماہ بیر نے دوسرے ہاتھ سے اسکے چہرے کو چھوا جو سرخ ہو رہا تھا
"آپ نے کہا تھا نہ آپ کو سرپرائز دوں تو میں نے بنا لیا ہے سرپرائز ..." عالیاب نے خوش ہو کر پینٹنگ کی طرف اشارہ کیا
ماہ بیر نے ایک نظر پینٹنگ کو دیکھا اور پھر دیکھتا ہی رہا ایسے لگ رہا جیسے وہ رئیل ہو اسکو بلکل بھی اندازہ نہیں تھا کے وہ اتنی اچھی پینٹر ہو گی وہ تو بس ایسے ہی سمجھا تھا لیکن وہ تو کمال تھی
پینٹنگ بلکل ویسی تھی جیسا اسکے روم میں اسکا پوٹریٹ لگا تھا بلیک فل سوٹ میں مغرور سا ماہ بیر خان سیاہ گہری آنکھوں میں سرد سا تاثر ..... وہ بلکل ایسے لگ رہا تھا جیسے ماہ بیر خان ہی ہو بس ایک چیز کا اضافہ تھا پینٹنگ میں کونے میں بہت پیاری سی ڈیزائننگ میں مسٹر خان لکھا ہوا جو الگ سے نظر آ رہا تھا
"کیا ہوا اچھی نہیں ہے..." اسکو ساکت کھڑا دیکھ کر اسکا کندھا ہلایا
"یہ تم نے بنائی ہے ..." ماہ بیر حیرت سے بولا آنکھیں ہٹ ہی نہیں رہی تھی
"جی .. کیا آپکو پسند نہیں آئ ..." عالیاب آہستہ سے بولی
"عالی میری جان یہ بہت پیاری ہے مجھے بلکل بھی اندازہ نہیں تھا تم اتنی اچھی پینٹنگ کرتی ہو یہ تو بلکل کسی ایکسپرٹ پینٹر کی لگ رہی ہے ...." اسکے دونوں ہاتھ پکڑ کے لبوں سے لگا کر پیار سے بولا
دل تو کر رہا تھا اس پیاری سی معصوم سی لڑکی کو دل میں سمو لے اپنی روح میں شامل کر لے لیکن فل وقت نہیں
"میں نے کہا تھا میں بہت اچھی پینٹنگ کرتی ہوں اب تو آپکو پتا چل گیا نہ ..." خاصا فخر کیا گیا تھا
"ہاں میری جان آ گیا یقین بہت خوبصورت سرپرائز ہے ...." اسکے ماتھے پہ لب رکھے تو وہ جھینپ گئی چہرہ مزید سرخ ہوا
اچھو ... عالیاب یک دم چھینکتی پیچھے ہٹی
"کیا ہوا تم ٹھیک ہو ..." ماہ بیر نے جلدی سے اسکو پکڑ کر چیئر پہ بیٹھایا
"جی وہ مم .. اچھو ..." ناک لال سرخ ہو چکا تھا
"ایک منٹ تم باہر برف باری میں گئی تھی ..." ماہ بیر اسکی حالت دیکھ کر سمجھ گیا
"نہیں وو مم ....." عالیاب کو سمجھ نہ آئ کیا کہے
ماہ بیر نے اسکو سختی سے منع کیا تھا ٹھنڈ میں جانے سے اور وہ بغیر کسی شال یا جیکٹ کے برف باری میں ٹہلتی رہی
"گئی تھی یا نہیں ...." اب اسنے آنکھیں دکھا کر سختی سے پوچھا
عالیاب نے سر ہلا دیا
"کیوں گئی تھی میں نے منع کیا تھا نہ ...." ماہ بیر نے غصہ کنٹرول کیا
"بس تھوڑی .. اچھو.. دیر ہی گئی تھی اچھو ...." عالیاب منمنائی
"ہاں اب تھوڑی دیر کا نتیجہ دیکھ لو ..." ماہ بیر ضبط سے بولا
"کک کیا ہو گ ..اچھو.. گیا ہے ..." عالیاب نے اسکو دیکھا جو غصہ ضبط کرنے میں سرخ ہو گیا تھا
عالیاب کو ڈر لگا آنکھوں میں آنسو آنے لگے تو سر جھکا گئی
عالی میری جان یہاں دیکھو .. تم اتنی لا پرواہ کیسے ہو سکتی ہو تمہے پتا ہے نہ تم زیادہ ٹھنڈ میں نہیں رہ سکتی پھر کیوں گئی تھی باہر اب دیکھو ہو گئی نہ طبیعت خراب .. اگر زیادہ ہو جاتی تو اور میں بلکل بھی برداشت نہیں کروں گا میری بیوی کو ذرا سی بھی تکلیف ہو آئندہ خیال رکھنا ورنہ پھر پتا ہے نہ ...." اسکی آنکھیں صاف کرتے پیار سے بولتے دھمکی دی
وہ جو اسکی فکر اسکا پیار دیکھ کر مسکرائی تھی کہ دھمکی پہ برا سا منہ بنایا
"چلو تمہے سوپ پلاتا ہوں ... یہ نہیں کے شوہر گھر آیا ہے اسکو چاۓ پانی پوچھو الٹا میڈم خود شوہر سے خدمت کروا رہی ہے ..." اسکو کچن کی طرف لے جاتا بیچارے شوہر کی طرح بڑبڑایا
عالیاب نے مسکراہٹ دبائی اسکا یہی کیئرنگ انداز تو اچھا لگ رہا تھا یہی تو صبح سے مس کر رہی تھی
🌹🌹🌹
پورا دن کام میں بزی رہنے کے بعد جب گھر پہنچا تو سر درد سے پھٹا جا رہا تھا ایک تو کام اوپر سے پچھلے چار دنوں سے الگ ٹینشن سوچ سوچ کر اسکا ذہن ماؤف ہو رہا تھا اب بھی اسکا سر بہت بری طرح دکھ رہا تھا وجہ وہ جانتا تھا لیکن نظر انداز کر رہا تھا
لاؤنج میں آیا تو حمامہ ٹی وی کافی اونچی آواز میں چلا کے بیٹھی ہوئی تھی آواز حاشر کے سر میں مزید درد کرنے لگی لیکن ابھی وہ اس سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا فلحال اسکو نیند کی سخت ضرورت تھی ایک نظر اس پہ ڈالی اور روم کی طرف بڑھ گیا
"اوے ہینڈسم ....." حمامہ کی آواز ان سنی کرتا روم کا دروازہ لاک کیا
بیگ ٹیبل پہ رکھا اور چینج کرنے واشروم میں گھس گیا کچھ دیر بعد شاور لے کے آیا تو چہرہ تپ رہا تھا اور آنکھیں لال سرخ ہو رہی تھی بغیر کچھ کھاۓ بیڈ پہ گر گیا اور کچھ ہی دیر میں وہ گہری نیند میں چلا گیا
"اسکو کیا ہوا اب تو میں نے کچھ کیا بھی نہیں ..." حمامہ نے حیرت سے بند دروازے کو دیکھا
پہلے تو حمامہ کے اونچی آواز کرنے پہ چڑ جاتا اور اچھی خاصی سنا بھی دیتا تھا آج بغیر کچھ کہے چلا گیا
حمامہ نے ٹی وی بند کیا اور اٹھ کر دروازے تک گئی کھولنے کی کوشش کی لیکن لاک تھا حمامہ منہ لٹکا کے ڈائیننگ ٹیبل پہ بیٹھی جہاں اسنے کھانا بنا کر رکھا ہوا تھا
آج اس نے بہت محنت سے پہلی بار کھانا بنایا تھا بنانا تو اسکو آتا تھا لیکن کبھی بنایا نہیں تھا
اور آج جس کے لئے بنایا اس نے تو ایک نظر دیکھا بھی نہیں تھا
حمامہ اداس ہوئی اتنے دنوں سے وہ ہنس کر اسکی باتیں سہہ رہی تھی لیکن اندر سے وہ کافی دکھی بھی ہو جاتی تھی لیکن یہ سوچ کر کے وہ ایک دن مان جائے گا پھر سے کوشش کرتی ..
اگر اسکا نکاح نہ ہوا ہوتا تو کبھی مڑ کر بھی نہ دیکھتی لیکن اللہ نے دونوں کو پاکیزہ بندھن میں باندھا تھا وہ ایسے کیسے پیچھے ہٹ جاتی اتنا آسان تھوڑی ہوتا ہے اللہ کی طرف سے بنایا گیا رشتہ توڑنا ..
وہ حاشر کو تنگ نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن پتا نہیں کیوں اسکو اچھا لگتا تھا غصے سے اسکا سرخ چہرہ اسکا چڑنا اچھا لگتا تھا
وہ بس ذرا سا کچھ کہتی اور وہ چڑ جاتا غصے سے کھول اٹھتا
حمامہ بس یہی کوشش کر رہی تھی کے کسی طرح انکا رشتہ قائم رہے جب دونوں ساتھ رہے گے تو محبّت بھی ہو ہی جائے گی اور نکاح کے بولوں میں اتنی طاقت تو ہے کے ایک دوسرے کے لئے احساس پیدا کر دے
سوچوں میں گم وہیں ٹیبل پہ سر رکھے سو گئی
"کیا نام ہے آپکا بچے …" جو آدمی اسکو لے کے آیا تھا اب ہوش میں آنے کے بعد اس سے پوچھ رہا تھا
"ماہ بیر …" وہ سپاٹ سا بولا
"کہاں سے آۓ ہو .." انہوں نے پیار سے پوچھا اس بچے کی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی
اس نے جواب نہیں دیا
"اچھا پرنٹس کہاں ہیں تمھارے …؟" وہ غور سے اسکا چہرہ دیکھ رہے تھے جو بلکل بے تاثر تھا
"مر گئے …" کسی غیر مرائی نقطہ پہ نظریں جما کر بولا
"کیا مطلب …" انکو لگا کچھ غلط سنا ہے
"مطلب مر گئے مار دیا انکو میری آنکھوں کے سامنے سب ختم کر دیا سب کچھ ختم ہو گیا میں سب دیکھ رہا تھا لیکن کچھ نہیں کر سکا کچھ نہیں کر سکا میں سب ختم ہو گیا …." ہاتھ میں پکڑا پانی کا گلاس جو کچھ دیر پہلے ہوش آنے پہ اسکو دیا تھا سامنے دیوار پہ مار کر زور سے دھاڑا اور پھر رو پڑا
"کس نے مارا کیا تم جانتے ہو انکو …" انہوں نے کچھ دیر بعد پوچھا
تیرا سال کا بچا کتنا کچھ برداشت کر چکا تھا انکو سوچ کر ہی دکھ ہوا
"آپ کون ہیں اور مجھے یہاں کیوں لاۓ ..؟ " اب اسکو یاد آیا
"میرا نام زمان صدیقی ہے تم میری گاڑی سے ٹکرا کر بیہوش ہو گئے تھے اس لئے میں تمہے اپنے فلیٹ پہ لے آیا …" وہ اٹھ کر پاس آۓ
"کیا تم مجھے بتانا چاہو گے کے تم کیوں بھاگ رہے تھے اور یہ سب جو ابھی کہا تم نے …" وہ کچھ نہ بولا تو زمان صاحب پھر سے بولے
"آپ کو بتانے سے کیا ہو گا …" اب اسکی آنکھیں سوکھ چکی تھی اور چہرہ ویسا ہی بے تاثر
"ہو سکتا ہے میں کچھ مدد کر دوں …" انہوں نے آفر کی
"کیسی مدد …" سوالیہ نظروں سے انکو دیکھا
اپنی باتوں سے وہ بلکل بھی تیرا سال کا بچا نہیں لگ رہا تھا
"ان مجرموں کو پکڑنے میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں .." پتا نہیں کیوں لیکن زمان صاحب کو لگا کے اسکی مدد کرنی چاہیے
"اور آپ کیوں مدد کرے گے …" وہ مشکوک ہوا
"پتا نہیں بٹ مجھے ایسا لگا کے مجھے تمہاری مدد کرنی چاہیے …" انہوں نے کندھے اچکا دیے
"نہیں مجھے نہیں چاہیے آپکا شکریہ .. اب مجھے جانا چاہیے …" ماہ بیر سپاٹ انداز میں کہتا بیڈ سے اٹھ کر دروازے کی طرف گیا
"کہاں جاؤ گے ..؟ " پیچھے سے روکا
"کہیں بھی چلا جاؤں گا …" بغیر مڑے جواب دیا
"اور جا کر کیا کرو گے …" چلتے اسکے سامنے آۓ
"بدلہ لوں گا …" وہ بے زار ہوا تھا
"کس سے لو گے اور کیسے .." بات تو ویسے ٹھیک ہی کی تھی
ماہ بیر رکا وہ تو نہیں جانتا تھا کون ہے اور کہاں سے ڈھونڈھے گا انکو کیسے کرے گا یہ سب کچھ بھی تھا لیکن وہ تھا تو تیرا سال کا بچا ہی
"کیا اب تم بتانا چاہو گے …" زمان صاحب کو لگا اب وہ بتا دے گا
اور ایسا ہی ہوا اسکو بھی کوئی چاہیے تھا جس کو وہ سب کچھ کہہ سکتا بغیر کسی تاثر کے ٹھنڈے سرد لہجے میں وہ سب بتا چکا تھا زمان صاحب تو کچھ بولنے کے لائک نہ رہے تھے کیا کچھ دیکھ چکا تھا وہ بچا … زمان صاحب صرف اسکو ساکت نظروں سے دیکھ رہے تھے جو باہر کچھ دیکھ رہا تھا
"کیا آپ میری مدد کرے گے اب …" ماہ بیر انکی طرف مڑا
زمان صاحب نے سر ہلا دیا
اپنے کہے کے مطابق زمان صاحب نے ماہ بیر کی ہر ممکن مدد کی سب سے پہلے اس کے گھر گئے لیکن وہاں سب کچھ جل کر رکھ ہو چکا تھا یقینا وہ لوگ ہی آگ لگا کر گئے ہوں گے آرمی والے بھی جان چکے تھے اس سب کے بارے میں اور انہوں نے مجرموں کو بھی ڈھونڈنا شروع کر دیا تھا ذی کے کی جھلسی ہوئی باڈی کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا نیلم اور زر تاشہ کو ماہ بیر نے زمان صاحب کے ساتھ مل کر دفن کیا اپنی پھوپھو اور گرینڈ پا کو بھی اس نے کچھ نہیں بتایا تھا
آرمی والے اپنا کام کر رہے تھے لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں تھا جن کے خلاف ذی کے نے ثبوت اکٹھا کیے تھے انکو صرف ذی کے ہی جانتا تھا باقی کوئی ان کے بارے میں نہیں جانتا تھا جس دن اسکا مرڈر ہوا اس کے اگلے دن اس نے کرنل عامر کو ثبوت دینے تھے لیکن ایسا موقع نہ ملا انکو گھر کے ساتھ سارے ثبوت بھی جل چکے تھے جس کی وجہ سے آرمی والوں کو بھی یہ کام کرنے میں مشکل ہو رہی تھی زمان صاحب کی مدد سے اس نے پولیس میں بھی رپورٹ کروائی تھی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا
دو ہفتے بعد اس کے گرینڈ پا بھی آ چکے تھے وہ تو بہو بیٹے اور پوتی کے غم سے نڈھال تھے ایسے میں صرف زمان صاحب تھے جو ماہ بیر کی مدد کر رہے تھے کئی بار ماہ بیر نے پوچھا کے وہ کیوں کر رہے ہیں تو انہوں نے یہی کہا کے بس انکا دل کرتا ہے اسی مدد کرنے کو زمان صاحب کی وجہ سے ماہ بیر پھر سے اسکول جا رہا تھا لیکن اس نے انکو تلاش کرنے کا کام نہیں چھوڑا تھا روز پولیس سٹیشن کے چکر لگاتا لیکن کوئی خبر نہیں انکا یہی کہنا تھا کے تفتیش ہو رہی ہے آرمی کو بھی کوئی اچھی انفارمیشن نہیں ملی تھی اور جو ملی تھی وہ ناکافی تھی
یہ معاملہ ویسے بھی مافیا کے خلاف تھا اور مافیا کے لوگوں پر ہاتھ ڈالنا اتنا بھی آسان نہیں تھا ماہ بیر نے ہار نہ مانی وہ پانچ سال تک کوشش کرتا رہا کبھی کبھی تو غصہ آ جاتا لیکن وہ ضبط کر رہا تھا اس ایک دن کے لئے جب وہ اس کے سامنے ہوتے جب کہیں سے کچھ نہ ہوا تو اس نے خود فورس جوائن کرنے کا فیصلہ کیا لیکن کچھ فزیکل پروبلمز کی وجہ سے وہ بھی نہ کر سکا
گرینڈ پا نے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ یہ سب نہ کرے اللہ پہ چھوڑ دے لیکن وہ نہ مانا گزرتا وقت کے ساتھ ساتھ اسکا غصہ بڑھتا ہی جا رہا اور آۓ دن بچوں بچیوں سے زیادتی کی خبریں اسکے غصے میں مزید اضافہ کر رہی تھی اب ایسا بھی نہیں ہے کے ہمارے ملک کی پولیس فورس اتنی کمزور ہے کے انکو پکڑ نہ سکے بس ان لوگوں میں موجود کالی بھیڑوں کی وجہ سے یہ سب بچ جاتے کسی اور معصوم پھول کسی نو خیز کلی کو مسلنے کے لئے
آرمی والے تو ویسے ہی اپنے حساب سے پلان سے کام کر رہے تھے لیکن ماہ بیر اب خود کچھ کرنا چاہتا تھا کے ایک روز اسکو موقع مل گیا جب اسکو عاقب ملا .. دو لوگ عاقب کے ساتھ بھی وہی ظلم کرنے کی کوشش کر رہے تھے جب ماہ بیر نے دیکھا اور اپنا سارا غصہ ان پہ نکال دیا وہ دونوں کافی اچھے خاصے تھے لیکن ماہ بیر کے غصے اور جنون کے آگے ٹک نہ سکے اور ماہ بیر نے صرف انکو مارا ہی نہیں تھا بلکے جان سے مار دیا تھا اور وہ دن جن تھا جب بیسٹ پیدا ہوا تھا
اس دن کے بعد عاقب ہر وقت ماہ بیر کے ساتھ رہتا ماہ بیر نے کسی کو بھی پتا نہ چلنے دیا وہ کیا کرتا ہے ایک سال میں وہ عاقب کو ٹرین کر چکا تھا خود بھی ماہر ہو گیا تھا اور ان کے ساتھ عمر بھی آ چکا تھا جو کے ماہ بیر سے تھوڑا ڈرتا تھا لیکن بہت کام کا بندہ تھا انیس سال کی عمر میں گرینڈ پا کے بہت زیادہ کہنے پر وہ لندن شفٹ ہوا تھا لیکن اپنا کام نہیں چھوڑا تھا جب بھی کسی بچے یا بچی سے زیادتی کی کوئی خبر ہوتی یا کسی نے کوشش کی ہوتی تو عاقب اور عمر اسکو ماہ بیر کے فلیٹ کے ٹارچر سیل میں پہنچا دیتے یہ فلیٹ اسکو زمان نے دیا تھا
لندن جانے کے کچھ عرصے بعد ہی اسکو حاشر ملا تھا پھر جب اسکو پتا چلا کے حاشر ہیکنگ کرنا جانتا ہے تو ماہ بیر نے اسکو سب بتا کے اپنے ساتھ شامل کر لیا دونوں نے ایک ہی یونی میں ایڈمشن لیا اور ساتھ ہی بزنس شروع کیا لیکن حاشر ماہ بیر سے چھوٹا تھا تو وہ صرف تھوڑا ہی کام کرتا تھا جب تک حاشر کی اسٹڈیز پوری ہوئی ماہ بیر اپنی کمپنی کو لندن کی ٹاپ لسٹ میں لا چکا تھا پھر حاشر نے اسکا ساتھ دیا اور انکی کمپنی لندن کی سب سے بڑی ڈیزائننگ کمپنی بن چکی تھی اور ماہ بیر لندن کا ہینڈسم بزنس کنگ …
حاشر کے علاوہ اسکا کوئی دوست نہ تھا ہاں بس کچھ بزنس فرینڈز تھے جو آفس کی حد تک تھے عاقب اور عمر اپنا کام کر رہے تھے جب بھی وہ کسی کو پکڑتے ماہ بیر کو ایک دن کے لئے لاہور جانا ہوتا رات کو وہ جاتا اور نیکسٹ شام تک واپس آ جاتا لندن انے سے کچھ مہینے پہلے زمان صاحب سے اسکا رابطہ ختم ہوا تھا شاید وہ کہیں بزی تھے یہ ملک سے باہر تھے ویسے بھی انکی زیادہ بات فون پہ ہی ہوتی تھی
لندن آنے کے بعد ماہ بیر ایک روبوٹک زندگی گزار رہا تھا گو کے وہ حاشر اور گرینڈ پا سے ملتا ان کے ساتھ بیٹھتا بھی لیکن بس فارمل سی بات اور بس ..اسکا صرف اب ایک ہی مقصد تھا دنیا کی نظر میں بزنس کرنا اور سب سے چھپ کے مجرموں کو سزا دینا … جب انکی لاشیں ملتی تو پولیس کو ہر ممکن کوشش کے بعد بھی کوئی ثبوت نہ ملتا صرف اتنا پتا چلتا کے کسی بیسٹ کا کام تھا کیوں کے ہر باڈی پہ اسکی نشانی ہوتی
بارہ سال سے وہ لندن میں تھا لیکن اس شخص کو تلاش کرنا نہیں چھوڑا تھا بارہ سال سے وہ بدلے کی آگ میں جھلس رہا تھا کیسے چھوڑ دیتا انکو کیسے اپنی تاشہ آپی کے گناہگاروں کو بخش دیتا کیسے اپنے بابا اور مما کے قاتلوں کو چھوڑ دیتا … نہیں وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا اب تو وہ ان کے بہت قریب تھا اب پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا
اس سب میں اسکی زندگی میں سب سے بڑی تبدیلی آئ عالیاب کی صورت میں … ہر بار حاشر کی شادی والی بات کے جواب میں وہ یہی کہتا کے جب کوئی پہلی نظر میں اچھی لگے گی اس سے شادی کروں گا وہ صرف حاشر سے جان چھڑاتا تھا کیوں کے ایسا ہوتا ہی نہیں تھا کے پہلی نظر میں کوئی اچھا لگے ویسے بھی اسکی ایسی زندگی میں کسی بھی اتنے قریبی رشتے کی جگہ نہیں تھی وہ شادی کرنا ہی نہیں چاہتا تھا … اس کے لئے پیار محبّت کچھ تھا ہی نہیں لیکن عالیاب کو ایک نظر دیکھنے کے بعد یہ سب بدل گیا پیار محبّت تو کہیں پیچھے رہ گیا وہ تو اس سے عشق کر بیٹھا
نہ چاہتے ہوے بھی ہو گیا جتنا وہ غصہ کرنے والا روڈ تھا اسکو لگتا تھا وہ کسی بھی لڑکی سے پیار سے بات نہیں کر سکتا اس کا بات کرنے کا انداز ہی ایسا تھا کے اگلا سوچ کر بولتا وہ نہیں چاہتا تھا کے کوئی اسکی زندگی میں آۓ لیکن عالیاب کے آنے سے سب بدل گیا اس سے بات کرتے وہ کہیں سے بھی وہ غصے والا مغرور ماہ بیر خان نہیں لگتا تھا وہ تو وہی بچپن والا پیارا سا ماہ بیر بن گیا تھا جس کے دل میں اپنوں کے کے صرف محبّت اور چاہت ہی تھی .. سب ٹھیک تھا جب اسکو عالیاب کا پاسٹ پتا چلا اسکے سینے میں بھڑکتی آگ مزید بھڑکی … اب اس آگ میں کس نے جلنا تھا یہ تو وقت بتاۓ گا …
اگر اسکو پتا چلا کے وہ بیسٹ بن کر لوگوں کو مارتا ہے تو کیا کرے گی وہ کہیں اسکو چھوڑ نہ جائے ….. نہیں وہ اسکو کہیں نہیں جانے دے گا اگر پیار سے نہ مانی تو زبردستی ہی لیکن اسکو خود سے دور نہیں کرے گا یہ طے تھا
🌹🌹🌹
صبح غیر معمولی سے شور سے اسکی آنکھ کھلی کچھ دیر تو سمجھ نہ آیا کے کہاں ہے پھر جب یہاں وہاں دیکھا تو اپنے ہی روم میں تھا پوری رات وہ بلکل بے ہوش ہی تھا سر میں درد سے ٹیسیں اٹھ رہی تھی ابھی بھی ہلکا سا درد تھا لیکن رات سے کافی بہتر تھا بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کے کچھ دیر بیٹھا رہا فون چیک کیا جہاں چاچو کی مس کالز تھیں پھر کچھ دیر بعد انکو کال کرنے کا سوچتے فریش ہونے گیا
واپس آیا تو باہر سے باتوں کی آواز آ رہی تھی وہ روم میں تھا اور حمامہ اکیلی تھی پھر کون بول رہا تھا چینج کرتا ڈور ان لاک کرتا باہر نکلا لاؤنج میں کوئی نہیں تھا آوازیں کچن سے آ رہی تھی وہاں پہنچا تو آنکھوں پہ یقین نہ آیا
ڈائیننگ پہ بیٹھے وہ کوئی اور نہیں اسکے چاچو چچی تھے اور حمامہ بھی ساتھ بیٹھی ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی
"چاچو آپ واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز …" خوشگوار حیرت سے کہتا انکی طرف بڑھا جو اسکو دیکھ کر کھڑے ہو گئے تھے
"جی برخودار کیسے ہو ..؟ " کمال شاہ گلے لگتے مسکراۓ
"میں ٹھیک ہوں آپ یوں اچانک خیریت ہے نہ …" حاشر کتنے دن بعد خوش ہوا تھا
"جی خیریت ہے اپنی چچی سے تو مل لو …"
کمال شاہ نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کیا جو انکو دیکھ کر مسکرا رہی تھی
"کیسی ہیں چچی آپ …" حاشر انکے گلے لگا
"میں ٹھیک ہوں میرا بچا تم مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے خیریت …" فریحہ شاہ نے اسکا ماتھا چوما اور سرخ آنکھیں دیکھی
ماں بن کر پلا تھا چہرے سے پہنچان جاتی تھی اسکی پریشانی
"جی بس وہ رات کو تھوڑا سر درد تھا بس اسی لئے .. ارے آپ کھڑے کیوں ہیں بیٹھیں نہ …." حاشر نے کہتے انکو بیٹھایا
حمامہ کو یکسر نظر انداز کر چکا تھا
"اب کیسی ہے طبیعت …" فریحہ شاہ نے پریشانی سے اسکے چہرے پہ ہاتھ پھیرا
کمال شاہ اور حمامہ دونوں کا پیار دیکھ کر مسکرا رہے تھے
"جی آپ فکر نہ کریں میں ٹھیک ہوں اب .. ناشتہ کیا آپ نے …" انکی تسلی کرواتا کمال شاہ کی طرف مڑا جو جھک کر حمامہ کی بات سن رہے تھے
حاشر کا منہ بگڑا
"نہیں بس تمہارا ہی ویٹ کر رہے تھے ناشتہ تو حمامہ نے بنا لیا ہے بڑی پیاری بچی ہے …" فریحہ شاہ اپنی ازلی نرم طبیعت سے بولی
"ہونہہ پیاری بچی …" حاشر بڑبڑایا
حمامہ بغیر کچھ بولے ناشتہ لگانے لگی ناشتہ کرتے وہ مسلسل فریحہ سے بات کر رہا تھا جب کے حمامہ تو پہلی بار اسکو ایسے بات کرتے دیکھ رہی تھی ورنہ وہ تو منہ سے آگ ہی اگلتا رہتا تھا
ناشتہ کر کے فریحہ کے ساتھ روم میں چلا گیا حمامہ کو ایک نظر دیکھا بھی نہیں تھا جس سے اسکا چہرہ اتر گیا تھا
"اداس نہ ہو بیٹا یہ دونوں ایسے ہی ہیں جب ساتھ ہوں تو مجھے بھی یاد نہیں رکھتے …" کمال شاہ اسکی اداسی بھانپ کر اسکے سر پہ ہاتھ رکھتے بولے
"نہیں انکل میں اداس نہیں ہو رہی بس سوچ رہی تھی کے اتنے دن سے میں ساتھ ہوں مجھے تو یہی لگ رہا تھا کے وہ سب سے ایسے ہی بات کرتا ہے جیسے منہ سے آگ اگل رہا ہو .. سٹرینج نہ یہ کڑوا کریلا میٹھا ہو گیا …" حمامہ اداس تو ہوئی تھی لیکن کہا نہیں
"یہ صرف فریحہ کے ساتھ ہی میٹھا رہتا ہے اچھا چھوڑو اسکو چلو مجھے تم سے بات کرنی ہے …" کمال شاہ مسکرا کر کہتے اسکو ساتھ لے گئے
"کیا بات ہے میرا بچا پریشان کیوں ہے …" فریحہ پیار سے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی جو اسکی گود میں سر رکھے اوندھا لیٹا تھا
"باہر آپکو چلتی پھرتی پریشانی نظر نہیں آئ کیا …" خفگی سے کہتا سیدھا ہوا سر ابھی بھی گود میں تھا
سکون مل رہا تھا ماں کی آغوش میں
"بری بات حاشر اتنی پیاری بچی تو ہے .." فریحہ نے اسکے ہلکی سی چت لگائی
"آپکو نہیں پتا کیا بلا ہے وہ …" حاشر نے منہ بنایا
"حاشر!…" انہوں نے ٹوکا
"آپکو نہیں پتا چچی میں نے جھیلا ہے اسے اچھے خاصے بندے کا دماغ گھما سکتی ہے وہ پیاری بچی …" حاشر کا انداز طنزیہ تھا
"جو پرابلم ہے وہ بتاؤ یوں بات کو گول گول گھمانے کی ضرورت نہیں ہے …" اب وہ سنجیدہ ہوئیں
"مجھے شادی نہیں کرنی اس سے میں نے ایسی لڑکی نہیں سوچی اپنے لئے وہ بلکل بچی ہے میں اسکو چند گھنٹے نہیں برداشت نہیں کر سکتا اور کہاں پوری زندگی …" حاشر جھنجھلا کر بولا
"ہمممم کافی سیریس پرابلم ہے .. ابھی تم کام پہ جاؤ ہم رات کو بات کرے گے …" فریحہ نے پیار سے اسکا گال تھپکا
وہ بھی سر ہلاتا چلا گیا
کوئی تو تھا جو اسکو سمجھ رہا تھا
🌹🌹🌹
"چلو میں اسٹاپ واچ سٹارٹ کر رہا ہوں تم بھی شروع کرو …" صبح صبح جم میں بلیک ٹراؤزر اور ہاف سلیو شرٹ میں ماتھے پہ بال بکھراۓ کھڑا اسکو گائیڈ کر رہا تھا
وہ رسہ کود رہی تھی آج بھی ماہ بیر کے ہی ٹراؤزر شرٹ میں تھی لمبے بال آج جوڑے میں تھے جاگنگ سے آنے کے بعد ماہ بیر اسکو فورا ہی یہاں لے آیا تھا اب اسکو فائٹنگ کے ساتھ وقت کی پابندی بھی سکھا رہا تھا جس پہ وہ برے برے منہ بنا رہی تھی
ٹریڈ مل پہ آج رفتار تھوڑی تیز کی تھی ورک اوٹ بھی بڑھا تھا ماہ بیر بھی اسکے ساتھ ہی سب کر رہا تھا پھر رسہ کودنے لگی تو ماہ بیر نے ٹائم سٹارٹ کیا آج سے اسکی ڈائٹ بھی چینج کی تھی جس میں تھوڑی ہیلتھی چیزیں شامل کی تھی جس کو دیکھ کر عالیاب کے منہ کے ڈیزائن بگڑ رہے تھے لیکن ماہ بیر کی ایک گھوری پر سیدھی ہو گئی
"بس اب میں تھک گئی ہوں باقی کل کرے گے …" دس منٹ بعد عالیاب رسہ پھینک کر پھولی سانسوں سے نیچے ہی بیٹھ گئی
"ابھی تو صرف ایک گھنٹہ ہوا ہے اگر یہی حال رہا تو کیسے سیکھو گی …" ماہ بیر بھی ایک گھٹنہ موڑے اس کے سامنے بیٹھا
"تو آپ کیا چاہ رہے ہیں میں ایک دن میں سب سیکھ لوں …" عالیاب نے منہ ٹیڑھا کیا
"نہیں لیکن کم سے کم دو گھنٹے تو کرو …" اسکی سانس بہتر ہوئی تو اسکو پانی دیا
"دو گھنٹے ! یہ سب کیا ہو گیا ہے آپکو .. میں انسان ہوں بلکہ ایک نازک سی لڑکی ہوں آپکی طرح کوئی گینڈا تھوڑی ہوں جو نان اسٹاپ یہ سب کرتی رہوں …" پانی کی بوتل منہ سے لگاتی اسکی اچھی خاصی باڈی کو گینڈا بنا چکی تھی
"میں تمہے گینڈا لگتا ہوں …" ماہ بیر کا حیرت سے منہ کھل گیا
مطلب جس کے لکس اور باڈی پہ لڑکیاں مرتی ہیں اسکی اپنی بیوی گینڈا کہہ رہی ہے حد ہے .....
عالیاب کندھے اچکا کر ہنسی
"تم اپنے دوست کو گینڈا کہہ رہی ہو …" ماہ بیر کا منہ لٹکا
اور رخ موڑ لیا
"نہیں نہیں سوری وہ میں مذاق کر رہی تھی پلیز آپ ناراض نہیں ہوں …"
جلدی سے اسکے سامنے ہوتے کان پکڑے
ماہ بیر کچھ نہ بولا
"مسٹر خان پلیز معاف کر دیں نہ اپنی عالی کو …" انتہائی پیار اور معصومیت سے کہا گیا
ماہ بیر کی مصنوعی ناراضگی بھی ہوا ہوئی اور لب پھیلے
پھر جلدی سے سیریس ہوا
"اگر نہ کروں تو …" آئ برو اچکائی
"ٹھیک ہے پھر مت کریں میں جاتی ہوں مٹھو ویٹ کر رہا ہو گا …" عالیاب بے نیازی سے کہتی جانے کے لئے کھڑی ہوئی
ماہ بیر حیرت سے اسکو دیکھ رہا تھا جس کا روپ پل پل بدل رہا تھا
"مطلب تم مجھے نہیں مناؤ گی …" اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکو واپس بیٹھایا
اسکا ڈر دن با دن ختم ہو رہا تھا لیکن صرف ماہ بیر کے سامنے کیوں کے وہ صرف اسکے ساتھ ہی تھی
"منایا تو ہے آپ خود ہی نہیں مان رہے …" واہ کیا معصومیت تھی
ماہ بیر دیکھ کر رہ گیا
"ایسے مناتے ہیں …" ماہ بیر نے گھورا
"مجھے کیا پتا میں نے کونسا کسی کو منایا ہے …" کیا بے نیازی تھی
"اب میں بتاؤں کیسے مناتے ہیں پھر ویسے ہی مجھے منانا …" ماہ بیر مسکراہٹ دبا کر بولا
عالیاب نے سر ہلا دیا ماہ بیر کی طرف توجہ نہیں تھی ورنہ اسکی مسکراہٹ دیکھ لیتی وہ تو باہر برف باری دیکھ رہی جہاں جا نہیں سکتی تھی رات کو بھی اسکو سوپ پینا پڑا تھا سردی کی وجہ سے
اسکو سوچوں میں گم دیکھ کر بڑے جارحانہ انداز میں اسکے دونوں سرخ و سفید گال چوم لئے
عالیاب کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئی دل کی دھڑکن یک دم بڑھی
"اب مناؤ مجھے .." ماہ بیر مسکرایا
"وو مم …" الفاظ حلق میں اٹک گئے
اس سے پہلے ماہ بیر کچھ کہتا اٹھ کر وہاں سے بھاگی
اسکی حالت دیکھ کر ماہ بیر ہنسا
ناشتہ کر کے ماہ بیر ہال میں ہی بیٹھا لیپ ٹاپ لئے اپنا کام کر رہا تھا گاہے بگاہے عالیاب کو بھی دیکھ رہا جو مٹھو کے ساتھ بیٹھی بڑی حسرت سے باہر ہوتی ہلکی ہلکی برف باری دیکھ رہی تھی لیکن ہمت نہیں تھی کے اٹھ کے جا سکے مٹھو بھی بڑا بے چین سا تھا
"عالی کیا کر رہی ہو …" لیپ ٹاپ پہ نظریں مذکور کیے پوچھا جیسے خود تو جانتا نہ ہو
"کبڈی کھیل رہی ہوں آئیں آپ بھی کھیل لیں …" عالیاب جل کر بولی
مطلب حد ہے خود پاس بیٹھا ہے دیکھ بھی رہا ہے پھر بھی پوچھ رہا ہے
"اگر فری بیٹھی ہو تو کچھ کر لو …" ماہ بیر نے مسکراہٹ روکی
بے تکی بات کا مقصد اسکو تنگ کرنا تھا ناشتے میں اسکو ایگ کھلایا تھا تبھی سے منہ بنا ہوا تھا کیوں کے اسکو ایگ بلکل بھی پسند نہیں تھا
"ہاں میں تو یہاں کسی ملک کی وزیراعظم لگی ہوں نہ جو ملک چلا لوں …" عالیاب تپی پڑی تھی نہ خود کہیں جا رہا تھا نہ اسکو جانے دے رہا تھا
"اچھا یہ لو …" ماہ بیر نے اپنا موبائل دیا
ہنسی اب بھی لبوں میں دبی ہوئی تھی
"کیا کروں اسکا میں …" انداز میں انتہا سے زیادہ خفگی تھی
"میں نے ویڈیو ڈالی ہے فائٹنگ کی وہ دیکھو …" ایک نظر اسکے چہرے کو دیکھا
شاکنگ پنک سادہ شرٹ ساتھ گولڈن کیپری میں پنک اور گولڈن دوپٹہ لاپروائی سے شانوں پہ ڈالے منہ پھلا کے بیٹھی تھی ماہ بیر سے ناراضگی کی وجہ سے بال بھی خود ہی گول مول سے بناۓ تھے آوارہ لٹیں چہرے پہ آ رہی تھیں گرے آنکھوں میں خفگی تھی
وہ دن بہ دن اسکے ضبط کا امتحان لے رہی تھی
"مجھے نہیں دیکھنا پہلے صبح صبح اٹھا کے اتنا کچھ کرواتے ہیں اب پھر سے یہ دیکھو …" وہ حد سے زیادہ چڑی ہوئی تھی
"عالیاب دیکھو اگر تم ایسے ہی کرو گی تو سیکھو گی کیسے اور اس طرح فری بیٹھ کر ٹائم ضائع نہیں کرتے میں نے سمجھایا تھا نہ اور تمہے پتا ہے نہ مجھے ٹائم ضائع کرنے والے بہت برے لگتے ہیں …" ماہ بیر نے اسکی طرف دیکھ کر سنجیدگی سے کہا جو دوسرے صوفہ پہ مٹھو کو ساتھ لئے منہ پھلا کر بیٹھی تھی
"ٹائم مشین …" بڑبڑا کر اس کے ہاتھ سے فون لیا
ماہ بیر نے بڑبڑاہٹ سن کر اسکو گھورا لیکن اسکو کونسا اثر ہو رہا تھا
ویڈیو ان کی تو ولیم فل تھا عالیاب نے ایسے ہی چلا دی
مٹھو ….. باہر دیکھنے میں مگن مٹھو اچانک سے ویڈیو کی آواز اتنے پاس سے سن کر چیخا اور صوفہ سے نیچے گرا
"مٹھو میرا بےبی زیادہ تو نہیں لگی …" فون وہیں پھینکتے جھک کر مٹھو کو اٹھایا اور اسکو ہاتھوں سے سہلایا
ماہ بیر نے گھور کر ان دونوں کو دیکھا لیکن وہ متوجہ ہی نہ تھے
"ٹھیک ہے …" مٹھو بیچارہ سا بولا
"شکر ہے زیادہ لگی نہیں میرا مٹھو …" عالیاب نے اسکے فر پہ ہاتھ پھیرتے اسکو چوما
"عالی ایسے طوطے کو نہیں چومتے …." ماہ بیر کی بینائی پہ یہ منظر سخت ناگوار گزرا
"اسکا نام مٹھو ہے اور یہ میرا بیسٹ فرینڈ ہے …" اپنے مٹھو کی اتنی انسلٹ برداشت نہیں ہوئی
"اور میں کیا ہوں .." ماہ بیر نے سخت نظروں سے گھورا جو ابھی بھی اسکو گود میں بیٹھاۓ سہلا رہی تھی اور وہ بھی مزے سے بیٹھا تھا
"آپ بھی دوست ہیں …" ایک نظر اسکو دیکھا
"واہ طوطا بیسٹ فرینڈ اور میں صرف فرینڈ .." ماہ بیر کو مٹھو ایک آنکھ نہ بھا رہا تھا
"اسکا نام مٹھو ہے …" عالیاب نے تصحیح کی
"واٹ ایور آج کے بعد اس طرح کی کوئی حرکت کی تو اس طوطے کا گھر میں آنا بند کر دوں گا اور تمہارا باہر جانا …" ماہ بیر کا بس چلتا تو اس کو ابھی کے ابھی غائب کر دیتا کتنے مزے سے اسکی بیوی سے پیار لیتا رہتا ہے
"کیا ہے آپ ہر وقت دھمکی کیوں دیتے ہیں یہ میرا دوست ہے …" عالیاب روہانسی ہوئی
ہر بات پہ دھمکی
"یہ طوطا ہے اور تم آج کے بعد اس کو کس نہیں کرو گی ورنہ جانتی نہیں ہو مجھے اس کو ایسا غائب کروں گا کے دوبارہ اس دنیا میں نظر نہیں آۓ گا …." ماہ بیر کو تو غصہ ہی آ گیا تھا
"مسٹر خان میں کہہ رہی ہوں اگر میرے مٹھو کو کچھ ہوا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا …." عالیاب کو بھی غصہ آ گیا مطلب اتنی سی بات کے لئے وہ اسکے مٹھو کو مار دے گا
ماہ بیر کچھ کہنے ہی لگا تھا کے انٹر کام بجا
"ہاں بولو …." سخت نظروں سے اسکو گھورا جو مٹھو کو گلے سے لگا کے بیٹھی تھی اور میسنا مٹھو بھی آرام سے لگا ہوا تھا
"سر مس جولیا آئ ہیں .." چوکیدار بولا
پیلس میں صرف دو ہی ملازم تھے ایک جیزی اور چوکیدار یہاں ویسے بھی زیادہ ملازم نہیں رکھے جاتے تھے عالیاب کے آنے سے پہلے دو میل ملازم تھے لیکن پھر انکو ہٹا کر جیزی کو بلا لیا
"ہمم بھیج دو …" سنجیدگی سے کہتے رکھ دیا اور اسکو دیکھا جو مٹھو کے ساتھ بزی تھی
"تم روم میں جاؤ میں کام ختم کر کے آتا ہوں …" لیپ ٹاپ بند کرتے اٹھا
عالیاب بغیر کچھ کہے چلی گئی
اندر آتی جولیا نے اوپر جاتی عالیاب کو نفرت سے دیکھا
"ہیلو مسٹر ماہ بیر …." مصنوعی سا مسکرا کے ہاتھ آگے کیا
عالیاب کو دیکھ کر تو دل میں آگ لگ گئی تھی
"السلام و علیکم …" ماہ بیر نے ہمیشہ کی طرح اسکا بڑھا ہوا ہاتھ اگنور کیا
"کیسے آنا ہوا .." سیدھا کام کی بات کی
"ہمارا جو پروجیکٹ چل رہا ہے اس میں کچھ نیو ڈیزائنز ایڈ کیے ہیں تو بس میں وہیں آپ سے ڈسکس کرنا چاہ رہی تھی آفس سے پتا چلا کے آج کل آپ مصروف ہیں تو سوچا یہیں آ جاؤں …" اسکو دیکھ کر کہتے ایک نظر اوپر دیکھا جہاں ابھی عالیاب گئی تھی
"ہممم آئیے …" اسکو لے کر اپنے آفس کی طرف گیا جو پیلس میں ہی بنا ہوا تھا
دو گھنٹے ڈیزائن پہ ڈسکشن کرنے کے بعد ماہ بیر نے صرف دو ہی پسند کئے تھے اور ویسے بھی وہ ہمیشہ جیولری اور ڈریسز کے ڈیزائن خود ہی سلیکٹ کرتا تھا لیکن ابھی جولیا کے بہت اسرار پہ اسکو صرف دو ہی قابل قبول لگے تھے
"میں نے سنا ہے آپکی وائف پاکستان سے ہے …" میٹنگ کے بعد چاۓ پیتے پوچھا
ہممم…. ماہ بیر نے سر ہلایا
"کیا کرتی ہے …" جولیا جاننا چاہتی تھی کے کون ہے جس کو ماہ بیر نے پسند کیا ہے
"ابھی پڑھ رہی ہے …." ماہ بیر نے مروتا جواب دیا
"ہممم گڈ .. کیا میں مل سکتی ہوں …" جولیا مسکرا کے بولی
"نہیں …" یک لفظی جواب دیتا اٹھ کر چلا گیا اس سے زیادہ وہ بات نہیں کر سکتا تھا
اہانت سے جولیا کا چہرہ سرخ ہو گیا ماہ بیر تو شروع سے ہی ایسا تھا پر وہ بیچلر رہا لیکن اب عالیاب کا اسکی زندگی میں آنا اسکو مزید غصہ دلا رہا تھا اسکا بس چلتا تو عالیاب کو اسکی زندگی سے نکال دیتی یہ پھر مار ہی دیتی لیکن ماہ بیر کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی جانتی تھی ماہ بیر خان جان لے لے گا … غصے سے چاۓ کا کپ ٹیبل پہ پٹخ کر چلی گئی اس عالیاب کا کچھ کرنا ہی پڑے گا
🌹🌹🌹
شام کو واپس آیا تو گھر میں صبح کی نسبت خاموشی تھی ٹی وی لاؤنج بھی خالی تھا اور حال بھی … کچن سے کھٹ پٹ کی آواز آ رہی تھی فریش ہو کے آیا تو حمامہ کچن میں کھڑی کھانا بنا رہی تھی
حاشر نے اسکو دیکھا گولڈن بالوں کو ہلکا سے کیچر لگا کر باندھا ہوا تھا دوپٹہ ایک کندھے پر تھا اور بہت مگن انداز میں وہ کچھ بنا رہی تھی حاشر اسکو دیکھے گیا
بہت کچھ چل رہا تھا دل و دماغ میں اور اس سب میں بس ایک ہی نتیجہ تھا کے حمامہ سے شادی نہیں کرنی بلکہ کسی سے بھی نہیں کرنی
پشت پہ نظروں کی تپش سے حمامہ پیچھے مڑی تو اسکو ساکت پایا
اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھا کون ہو تم😍
میں نے بھی دل ہی دل میں کہا، آپکی چچی کی بہو🙈❤
اسکو سٹل دیکھ کر حمامہ کی شرارتی رگ پھڑکی
اسکی شوخ آواز پہ حاشر ہوش میں آیا
"چچی اور چاچو کہاں ہیں …" بے تاثر سا بولا
"چاچو باہر گئے ہیں اور چچی روم میں آرام کر رہی ہیں …" حمامہ نے آرام سے جواب دیا
حاشر بغیر کچھ کہے جانے لگا
"کیا مجھ سے ناراض ہو ہینڈسم منڈے …." بہت معصومیت سے پوچھا گیا تھا
"ہمارا رشتہ ہے ایسا کے روٹھنا منانا ہو …" لہجہ سپاٹ تھا
"تو بن تو سکتا ہے نہ …" حمامہ سامنے آئ
"نہیں …" وہ بے زار ہوا تھا
"کیوں نہیں بن سکتا ایسی بھی کیا برائی ہے مجھ میں جو تم اتنی نفرت کرتے ہو …" نہ چاہتے ہوے بھی اسکی آواز بھرا گئی
اتنے دن سے اسکی بے رخی سہہ رہی تھی
"تم میں برائی ہو یا اچھائی میرا کوئی لینا دینا نہیں ہے اور نفرت ان سے کی جاتی ہے جن سے کوئی محبّت ہو اور ہمارے درمیان تو ایسا کچھ نہیں ہے …" سرد آواز میں زہر اگلتا چلا گیا
حمامہ کی آنکھ سے کئی شفاف موتی نکل کر بے مول ہوے
🌹🌹🌹
"ہاں عاقب بولو کیا خبر ہے …" کچن میں کام کرتا مصروف سا بولا
"سر انکا باس رو پوش ہو گیا ہے جو ہم نے مال پکڑوایا ہے وہ انکو کافی نقصان دے چکا ہے جس کی وجہ سے وہ مافیا سے چھپ رہا ہے …" عاقب کی سیریس سی آواز آئ
"ہممم گڈ اور جو دوسرا کام کہا تھا اسکا کیا ہوا …" ماہ بیر کا چہرہ کسی بھی احساس سے عاری تھا
یہ کام کرتے ہوے تو ویسے بھی کسی قسم کا کوئی احساس نہ ہوتا اور نہ ہی کسی پہ ترس آتا اور ویسے بھی یہ لوگ ترس کھانے کے قابل نہیں ہیں … اگر ہمارے محکمے میں موجود لوگ باقی بہت سے غیر اہم کاموں پہ قانون پاس کروانے کی بجاۓ معاشرے کے اس ناسور پہ کوئی قانون پاس کروا لیں تو کتنے ہی پھول اور کتنی ہی کلیاں بغیر کسی خوف کے اپنی زندگی جی سکے گے کتنوں کی زندگی بچ جائے گی
"جی سر مچھلی کو چارہ ڈال دیا ہے اب بس پھنسنے کی دیر ہے …" عاقب ہلکا سا مسکرایا
"گڈ مجھے بتاتے رہنا .. اور عمر کیا کر رہا ہے آج کل …" ماہ بیر بھی ہلکا سا مسکرایا
وہ دونوں اسکو بہت عزیز تھے
"سر آپکو پتا تو ہے بس آپکی اجازت درکار ہے …." عاقب ہنسا تو ساتھ بیٹھے عمر نے منہ بنایا
"اسکو بولو پہلے پڑھ لے اس کام کے لئے ساری عمر پڑی ہے …" ماہ بیر نے مسکرا کر فون بند کر دیا
اور کھانے کی طرف متوجہ ہوا اپنی جان کو بھی منانا تھا جو صبح سے منہ پھلا کر گھوم رہی تھی
🌹🌹🌹
"چچی …" دروازے سے حاشر نے جھانکا
"ارے بچا آ جاؤ …" فریحہ جو ابھی نماز پڑھ کر بیٹھی تسبیح کر رہی تھی اسکو دیکھ کر مسکرائی
حاشر آہستہ سے چلتا آیا اور انکی گود میں سر رکھ لیٹ گیا
"کیا سوچ رہے ہو …" کچھ پڑھ کر اس پہ پھونکا
"بابا نے میرا نکاح کیوں کیا تھا …" بند آنکھوں سے بولا
"کیوں کہ انکو لگتا تھا کے انکا بیٹا انکی خواھش پوری کرے گا .." فریحہ نرمی سے بولی
اللہ نے انکو اولاد س محروم رکھا تھا تو حاشر جیسا بیٹا دے دیا جس کو ماں بن کر پالا تھا
"لیکن اگر اس خواھش میں میری خوشی شامل نہ ہو تو …" آنکھیں بند اور لہجہ دھیما تھا
"میں جانتی ہوں میرا بچا جمال بھائی کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ کسی کو بھی بچپن میں بچوں کی زندگی کا اتنا برا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے … لیکن حمامہ ایک اچھی لڑکی ہے اس لئے میں اور کمال چاہتے ہیں کے تم دونوں ہمیشہ ساتھ رہو وہ مخلص ہے بچا اس میں آج کل کی لڑکیوں کی طرح تیز طراری نہیں ہے ہاں وہ شرارتی ہے بولتی بھی بہت ہے لیکن اچھی ہے … اگر وہ اچھی نہ ہوتی تو میں خود ہی تمہے اس رشتے سے آزاد کروا دیتی …" ایک ماں کی طرح انہوں نے پیار سے سمجھایا
"پر میں شادی نہیں کرنا چاہتا میں نہیں نبھا سکتا یہ رشتہ …" حاشر کی سوئی ابھی بھی وہیں اٹکی ہوئی تھی
"میرا بچا کوئی وجہ بھی تو ہو گی نہ ایسے کیسے میں منع کر دوں …" فریحہ کو اسکی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا چاہتا ہے
"چچی کیوں کہ ….." کہتا چپ ہوا
"بولو میرا بچا …" فریحہ نے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرا
حاشر نفی میں سر ہلا کے چہرہ انکی گود میں چھپا گیا
"کمال نے ایک فیصلہ کیا ہے تم دونوں کے لئے وہ صبح تمہے بتا دیں گے ایک بار انکی بات مان کر دیکھنا .. ماں باپ کا کوئی فیصلہ بچوں کے لئے غلط نہیں ہوتا .. ہو سکتا ہے شروع میں تمہے سمجھ نہ آۓ لیکن تم خود جان جاؤ گے کے یہ بلکل ٹھیک تھا …" کچھ دور بعد وہ اٹھ کر جانے لگا تو فریحہ بولی
"میں جانتا ہوں چچی آپ دونوں کبھی غلط نہیں ہو سکتے پر میں نہیں کر سکتا یہ …" دل میں کہتا کرب سے آنکھیں بند کر کے کھولی اور بغیر کچھ کہے چلا گیا
سر میں پھر سے ٹیسیں اٹھ رہی تھی
🌹🌹🌹
"سائیں پتا چل گیا ہے اس کے بارے میں سب …" ساجد جوش سے کہتا اندر آیا
جہاں وہ شراب کا گلاس منہ سے لگاۓ بیٹھا تھا
"شاباش ساجد چلو شروع ہو جاؤ ایک ایک چیز بتاؤ …" خوش ہوتے ساجد کو اشارہ کیا
"ماہ بیر خان نام ہے جو لندن کا بزنس ٹائیکون ہے بہت کم پاکستان آتا ہے لیکن جب بھی آتا ہے ہمارا نقصان کر کے جاتا ہے وہاں ایک پیلس میں رہتا ہے حفاظت کے لئے کوئی گارڈ نہیں ہے اسکے دادا اسکے ساتھ رہتے ہیں زیادہ لوگوں سے اسکا ملنا نہیں ہے اور باقی تو آپ جانتا ہیں نہ …." ساجد کہتا آخر میں ہنسا
" ہاہاہاہا ارے واہ تو یہ ہے وہ چھپا ہوا دشمن .. بڑا مزہ آۓ گا … میری فلائٹ کب ہے لندن کی …" قہقه لگاتے اس سے پوچھا
"جی سائیں آج رات کی …" ساجد مودب سا بولا
اس نے اشارہ کیا تو وہ چلا گیا پر سوچ نظریں دیوار پہ گاڑے شراب کا گلاس منہ کو لگایا
"مسٹر خان اٹھیں …" زور سے اسکا کندھا ہلایا
ماہ بیر نہ ہلا رات کافی دیر سے سویا تھا
"اٹھ جائیں نہ مسٹر خان ہم نے باہر جانا ہے …" عالیاب نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کھینچا
رات کو ماہ بیر کے منانے پہ یہ شرط رکھی گئی تھی کے وہ اسکو باہر لے کے جائے گا ماہ بیر تو ویسے یہ چاہتا تھا کے وہ خود باہر جانے کا کہے .. ویسے روز ماہ بیر کے ہزار بار اٹھانے پہ مشکل سے اٹھنے والی آج ماہ بیر سے پہلے اٹھی ہوئی تھی
"عالی سونے دو ابھی ٹائم ہے …" ماہ بیر کی نیند میں ڈوبی آواز سنائی دی
ابھی صبح کے پانچ بجے تھے اور ماہ بیر چھ بجے اٹھتا تھا
"اٹھیں نہ جلدی پھر ہم جلدی فری ہو جائیں گے …" عالیاب باز نہ آئ
ماہ بیر نے نیند سے بھری آنکھوں کو ہلکا سا کھول کر دیکھا ماہ بیر کے ٹراؤزر شرٹ میں بال بکھراۓ وہ اس پہ جھکی اٹھا رہی تھی لب مسکراۓ حسین صبح !!
ماہ بیر نے ہاتھ کھینچا اور عالیاب سیدھا ماہ بیر کے سینے پہ گری بال اس پہ بکھر گئے جسے ماہ بیر نے ہاتھ سے اسکے کان کے پیچھے کیا .. عالیاب کا سانس رک گیا اور دل ہاتھوں میں دھڑکنے لگا نظریں اٹھنے سے انکاری ہو گئی
ماہ بیر نے گہری نظروں سے دیکھا کھلے بکھرے بال گرے آنکھوں میں کاجل کی باریک سی لکیر جو ہر وقت ہوتی لرزتی پلکیں کپکپاتے ہونٹ اس کے دل کے ساتھ دھڑکتا دل اور ملکیت کا احساس … پر ہاۓ یہ دوستی !!
"اب بتاؤ کیا کہہ رہی تھی …" دونوں ہاتھ اسکی کمر پہ باندھے خمار الود لہجے میں پوچھا
" وو ….." عالیاب تو شیر کے منہ پہ باتھ دے کر پچھتائی
"وہ کیا …." ماہ بیر نے ناک اسکی چھوٹی سی سرخ ناک سے مس کی
عالیاب نے زور سے آنکھیں میچ لیں دل پسلیاں توڑ کر باہر انے کو تیار تھا گال سرخ اناری ہوے
"کیا ضرورت تھی میرے سوۓ ہوے جذبات جگانے کی …." گھمبیر لہجے میں کہتے کڑوٹ لی تو عالیاب کا دل دھک سے رہ گیا
"پ پل پلیز چھ چھوڑیں …" ڈر کے مارے زبان سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے
"پہلے سزا تو بھگت لو مجھے بے وقت اٹھانے کی .." جھک کے کان میں سرگوشی کی اور بالوں کی خوشبو خود میں اتاری
"س سزا …" عالیاب کے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہوے
ماہ بیر مسکرایا ذرا سا جھک کر اسکی دونوں آنکھوں پہ بوسہ دیا ماتھے پہ نشانی چھوڑی تو عالیاب ریلیکس ہوئی آنکھیں ابھی تک بند تھیں
پیچھے ہٹتے نظر بھٹکی اور کپکپاتے گلابی لبوں پہ گئی اور اوپر والے لب پہ تل ماہ بیر نے ایک نظر اسکے چہرے کو دیکھا جو سرخ ہوتا تپ رہا تھا پھر ہلکا سا جھک کر بہت نرمی سے اسکے ہونٹ پہ موجود تل لبوں سے چھوا اور مسکراتا بیڈ سے اٹھتا چلا گیا
بال کُھلے تھے اُسکے اور کاجل بھی لگا رکھا تھا،❤️
ہونٹوں پہ تِل نے تو اُودھم ہی مچا رکھا تھا...!!.❤️
عالیاب جو ذرا سا ریلیکس ہوئی تھی اس حرکت پہ تو جان لبوں پہ آ گئی دل اتنی زور سے دھڑکا جیسے ابھی باہر آ جائے گا گال دہک اٹھے ذرا سی آنکھ کھول کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا
عالیاب نے شکر کیا
" ہاۓ اللہ مسٹر خان کتنے خطرناک ہیں آج کے بعد میں نہیں اٹھاؤں گی …." اپنے زور سے دھک دھک کرتے دل پہ ہاتھ رکھ کر معصومیت سے بولی
ابھی تک گال سرخ تھے
🌹🌹🌹
صبح ناشتے کے بعد کمال شاہ نے سب کو لاؤنج میں بلایا حمامہ اور حاشر بھی چپ چاپ آ گئے دونوں کے ذہن الجھے ہوے تھے لیکن کوئی بھی نہ بولا
"میں جانتا ہوں جمال بھائی اور فہد بھائی کو یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن یہ جمال بھائی کی آخری خواھش تھی کے تم دونوں یہ رشتہ نبھاؤ .. میں سمجھ سکتا ہوں کے ابھی تم دونوں تیار نہیں ہو ایک دوسرے کو جانتے نہیں ہو لیکن تم دونوں کا رشتہ ایسا نہیں ہے کے ایک لمحے میں ختم کر دیا جائے .. اگر منگنی ہوتی تو میں کبھی تم دونوں کو فورس نہیں کرتا لیکن تم دونوں کا نکاح ہو چکا ہے اس رشتے کو اللہ نے جوڑا ہے میں نہیں توڑ سکتا .. میں چاہتا ہوں تم دونوں ایک دوسرے کو موقع دو ایک دوسرے کو سمجھو پھر آرام سے فیصلہ کرو .. اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کے تم دونوں دو مہینے ساتھ رہو میں تم دونوں کی رخصتی کر رہا ہوں اگر ان دو مہینوں میں تم دونوں کو ایسا لگا کے تم دونوں زندگی گزار سکتے ہو تو میں آفیشلی تمہاری شادی آناؤنس کر دوں گا لیکن اگر ان دو مہینوں میں تم دونوں کو ایک بار بھی ایسا لگا کے یہ شادی نہیں چل سکتی میں دوبارہ فورس نہیں کروں گا …"
کمال شاہ نے دونوں کو دیکھا جو سر جھکا کے بیٹھے تھے
"میں جانتا ہوں یہ بہت مشکل فیصلہ ہے لیکن بعد میں پچھتانے سے اچھا ہے کہ ایک دوسرے کو کم سے کم ایک موقع دو اگر تم دونوں کو کچھ کہنا تو بتا دو تا کہ بعد میں کوئی مسلہ نہیں ہو …" کمال شاہ نے ایک نظر فریحہ کو دیکھا جو جواب میں ہلکا سا مسکرائی
حمامہ نے ایک نظر حاشر کو دیکھا جو نیچے دیکھتا پتا نہیں کہاں گم تھا یوں لگ رہا تھا جیسے کسی اور کے بارے میں بات ہو رہی ہو اسکو دیکھ کر خود بھی نظر جھکا گئی اب جو ہو گا دیکھا جائے گا .. اگر وہ راضی ہے تو ٹھیک نہیں تو وہ واپس چلی جائے گی …
حاشر کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کہے وہ کہنا چاہتا تھا انکار کرنا چاہتا تھا لیکن بول نہیں پا رہا تھا الفاظ ہی نہیں مل رہے تھے سر کے پچھلے حصے سے درد اٹھتا پورے سر میں پھیل رہا تھا اور شاید زکام بھی ہو رہا تھا اسکو ابھی کوئی بھی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی
کمال اور فریحہ پریشان سے دونوں کو دیکھ رہے تھے لیکن دونوں سر جھکا کے بیٹھے تھے
اچانک حشر اٹھا اور جیسی آپکی مرضی کہتا چلا گیا حمامہ نے حیرت سے نظریں اٹھا کر اس ستم گر کو دیکھا جو دو انگلیوں سے کنپٹی مسلتا چلا گیا
"میں رفعت بہن سے بات کر لوں …" کمال شاہ فون پہ نمبر ملاتے چلے گئے
"کیا سوچ رہی ہو .." فریحہ اٹھ کے حمامہ کے پاس آئ
"وہ کیسے مان گیا مطلب وہ تو یہ رشتہ نہیں کرنا چاہتا تھا پھر کیسے …" حمامہ کو اسکی سمجھ نہ آئ وہ الجھی ہوئی تھی
"یہ تو میں بھی نہیں جانتی .. لیکن اتنا جانتی ہوں اس سب کے بعد وہ کبھی تمہے نہیں چھوڑے گا وہ شاہ ہے اپنے رشتوں پہ جان لٹانے والا اور پھر تم تو عزت ہو اسکی اسکے نکاح میں اسکی بیوی ہو وہ کبھی تمہے خود سے الگ نہیں کرے گا نہ ہی کسی اور کے لئے چھوڑے گا میں نہیں جانتی وہ کیوں انکار کر رہا تھا اور اب کیوں مان گیا لیکن ایک بات طے ہے وہ یہ رشتہ ضرور نبھاۓ گا .. تم فکر نہیں کرو سب ٹھیک ہو جائے گا نکاح میں اتنی طاقت ہوتی ہے کے دو دلوں کو جوڑ دے ان میں محبّت پیدا کر دے تم سب اللہ پہ چھوڑ دو اور اپنے انے والے کل کی تیاری کرو …" فریحہ پیار سے اسکو سمجھاتی اسکا ماتھا چوم کر چلی گئی
حمامہ جبراً مسکرائی سب کچھ ٹھیک تھا لیکن کچھ کھٹک رہا تھا حاشر کیسے بدل سکتا ہے کچھ تو تھا جو غلط تھا کچھ دن سے وہ بہت عجیب بی ہیو کر رہا تھا
🌹🌹🌹
"کہاں ہو …" ماہ بیر کی مصروف سی آواز آئ
"آفس جا رہا ہوں …" زکام زدہ آواز میں بولا
"خیریت ہے کچھ عجیب ساؤنڈ کر رہے ہو …" عالیاب کو ہاتھ سے اشارہ کرتا بولا
"ہاں بس زکام ہے تم بتاؤ کیسے فون کیا …" حاشر نے گاڑی سائیڈ پہ کھڑی کی
"ہمم گھر آ جاؤ بات کرنی ہے کچھ …" سنجیدگی سے کہتے فون بند کر دیا
حاشر نے گاڑی واپس موڑی بہت سلو ڈرائیو کر رہا تھا دماغ بلکل خالی ہو رہا تھا
🌹🌹🌹
"ہاتھ سیدھا رکھو اور رائٹ پاؤں آگے کرو …" ماہ بیر نے اسکا ہاتھ سیدھا کیا
عالیاب کافی حد تک پرایکٹس کر چکی تھی اب ماہ بیر اسکو سٹارٹنگ کے کچھ فائٹنگ سٹیپس بتا رہا تھا وہ کافی جلدی سیکھ رہی تھی ماہ بیر خوش تھا کے وہ جلدی سیکھ رہی ہے جتنی جلدی وہ سیکھتی اتنی جلدی اسکا یونی میں ایڈمشن ہوتا
ایک گھنٹے بعد اسکی پرایکٹس پوری ہوئی آج کافی خوش تھی وہ شاید باہر جانے کی خوشی تھی روز یہ سب کرتے منہ بناتی لیکن آج ایسا کچھ نہیں کیا کچھ ہی دیر میں دونوں ناشتہ کرنے کے بعد فری تھے جب حاشر آیا برف باری کی وجہ سے سڑک بلاک تھی تو دیر ہو گئی
عالیاب کو روم میں جانے کا کہا تو عالیاب نے منہ پھلا کے مٹھو کو اٹھایا اور روم میں آ گئی پتا نہیں کتنی دیر لگنی تھی اسکو
"خیریت ہے ٹھیک نہیں لگ رہے …" ماہ بیر نے غور سو اسکا سرخ چہرہ اور سرخ آنکھیں دیکھی
"ہاں ٹھیک ہوں بس ذرا سا زکام ہو گیا ہے …" حاشر بھری آواز میں سمبھل کر بولا
"یہی بات ہے نہ …" ماہ بیر نے جانچتی نظروں سے دیکھا اسکو کچھ اور لگ رہا تھا
"ہاں اور کیا ہو گا یہی ہے …" حاشر مصنوعی سا مسکرایا
ماہ بیر کو اسکی مسکراہٹ کھولی لگی لیکن کچھ بولا نہیں
تقریباً ایک گھنٹے بعد دونوں نے اپنا کام ختم کیا تو ماہ بیر نے کافی منگوا لی وہ غور سے حاشر کو دیکھ رہا تھا لیکن حاشر نظریں نہیں ملا رہا تھا وہ کہیں اور گم تھا
"مس جولیا کے دو ڈیزائن میں نے فائنل کر کے تمہے میل کیے تھے تم نے دیکھ لئے …" کافی کا گھونٹ لیتے پر سوچ نظریں اسکے چہرے پہ گاڑے پوچھا
"ہاں کیا کہا …" حاشر چونکا اسکو ماہ بیر کی بات سمجھ نہ آئ
"میں نے کہا مس جولیا کے دو ڈیزائن فائنل کر کے تمہے میل کیے تھے تم نے دیکھے …" کافی کا مگ ٹیبل پہ رکھ کر آگے کو ہوا
"او سوری میں بھول گیا ابھی جا کے دیکھ لوں گا …" حاشر نے ذرا سا مسکرا کے مگ لبوں سے لگایا
"کمال چاچو آۓ ہیں تم نے بتایا نہیں …" کرسی سے ٹیک لگائی
کچھ تو تھا جو حاشر نہیں بتا رہا تھا
"ہاں وو اچانک ہی آۓ تھے دماغ سے نکل گیا آنا تم بھابھی کو لے کے …" حاشر سمبھلا
"حمامہ کا کیا فیصلہ کیا ہے …" ماہ بیر کرید رہا تھا
حاشر نے گہرا سانس لے کے کمال شاہ کا فیصلہ سنا دیا
"ٹھیک کیا انہوں نے .. تم راضی ہو دل سے …" وہ مزید جاننا چاہتا تھا
"پتا نہیں بس میں انکا فیصلہ مان رہا ہوں …" حاشر کھڑا ہوتا جانے لگا
"کیا کچھ ایسا ہے جو مجھے پتا ہونا چاہیے اور تم نہیں بتا رہے …" ماہ بیر کی بات نے اسکے قدم زنجیر کیے
پھر بغیر کچھ کہے چلا گیا اگر کچھ دیر اور رکتا تو شاید بتا دیتا جو وو نہیں چاہتا تھا ماہ بیر کی پرسوچ نظروں نے دور تک پیچھا کیا
🌹🌹🌹
حمامہ بہت خاموش تھی اسکو حاشر کا رویہ سمجھ نہیں آ رہا تھا رفعت بیگم سے وہ بات کر چکی تھی وہ بھی راضی تھیں لیکن اسکا ذہن الجھا ہوا تھا حاشر کچھ تو چھپا رہا رہا تھا
پہلے وہ اسکی باتوں کا جواب غصے سے ہی لیکن دیتا تھا یہ اس پہ چلا بھی لیتا تھا کسی بھی قیمت پہ شادی کے لئے راضی نہ تھا لیکن کچھ دنوں سے وہ الگ ہی لگ رہا تھا خاموش سا اسکی کسی بات پہ ری ایکٹ نہیں کر رہا تھا نہ ہی غصہ کر رہا تھا بس خاموش سا اسکو دیکھتا اور چلا جاتا
شروع میں کچھ غلطیاں ہوئی تھی اس سے بھی بلاوجہ اسکو پریشان کیا تھا لیکن ایسا بھی کچھ نہیں تھا کے وہ یوں بات کرنا ہی چھوڑ دے پہلے چاہے لڑتا تھا لیکن بات تو کرتا تھا اب تو کچھ نہیں کہتا جو حمامہ کو زیادہ تکلیف دے رہا تھا اسکی بے رخی تو ہنس کر سہہ لیتی لیکن یہ خاموشی اسکو بری طرح سے کھل رہی تھی
"اللہ جی کیا کروں میں …" کچھ نہ سمجھ آیا تو رو پڑی
شوخ و چنچل سی حمامہ کئی دنوں سے کھو سی گئی تھی یہ تو ہر وقت کسی نہ کسی سوچ میں گم رہتی اس وقت کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا اس سے شادی ہی کرنا چاہتی تھی لیکن اسکی مرضی سے ایسے نہیں … پتا نہیں کیا ہو گیا تھا یہ سب
🌹🌹🌹
"چلو تیار ہو جاؤ …" روم میں آتا ماہ بیر عجلت میں بولا تھا
"بڑی جلدی یاد آ گیا جانے کا دو چار گھنٹے اور لگا لیتے …" عالیاب نے منہ پھلا کے طنز کیا
"میری جان کی زبان زیادہ نہیں چلنے لگ گئی …" ماہ بیر نے گہری نظروں سے اسکو دیکھا تو گڑبڑا گئی
پھر ہونہہ کہتی چینج کرنے چلی گئی
واپس آئ تو ماہ بیر جیسے ہی سکائی بلیو گھٹنوں تک آتی شرٹ اور بلیک جینز میں تھی بھورے بال پشت پہ بکھرے ہوے تھے خود ماہ بیر نے سکائی بلیو ہائی نیک کے اوپر بلیک کوٹ اور بلیک ہی جینز پہن رکھی تھی آج معمول سے ہٹ کر اچھا لگ رہا تھا
عالیاب نے اپنے بال سیدھے کر کے کنگھی ماہ بیر کو دی بال بنانے کا اشارہ تھا
"لندن کا بزنس ٹائیکون گھر پہ اپنی بیوی کے بال بناتا ہے اسکو کھانا بنا کے کھلاتا ہے ہاؤ فنی …" ماہ بیر نے اپنی حالت پہ تبصرا کیا تو عالیاب ہنس پڑی
"زیادہ ہنسو مت میرا موڈ بدلتے وقت نہیں لگتا ایسا نہ ہو کے تم مشکل میں آ جاؤ …" ماہ بیر نے وارن کیا
وہ تو ویسے دن بہ دن اس کے لئے مشکل امتحان بنتی جا رہی تھی
عالیاب کی ہنسی کو فورا بریک لگی سو صبح والی اسکی حرکت یاد آئ تو جلدی سے لبوں پہ ہاتھ رکھ لیا
ماہ بیر نے مسکراہٹ دبائی
"چلو …" سارے بال اکٹھے کر کے جوڑا بنا دیا
حجاب کر کے کوٹ پہنا اور مٹھو کی طرف آئ جو ایک سائیڈ پہ بیٹھا مرچ کھا رہا تھا مرچ ڈسٹ بن میں پھینک کر اسکو ہاتھ میں اٹھا لیا
"یہ نہیں جا رہا ہمارے ساتھ …" گھڑی پہنتے ماہ بیر نے اسکو گھورا
"کیوں نہیں جائے گا یہ بھی تو لندن دیکھنا چاہتا ہے …" عالیاب نے مٹھو کو خود سے لگایا کہیں ماہ بیر چھین ہی نہ لے
"میں نے کہہ دیا نہ جانا ہے تو اسکو یہیں چھوڑ کر چلو .. بلا وجہ چپکتا رہتا ہے میری بیوی سے اسکا اب تو کچھ کرنا ہی پڑے گا …" اسکو غصے سے گھورتا بڑبڑا کر چلا گیا
"سوری مٹھو مسٹر خان آج کل بہت کھڑوس ہو رہے ہیں میں تمہے پھر کسی دن لے جاؤں گی …" افسوس سے کہتی اسکو تھپک کر وہیں چھوڑ دیا اور چلی گئی
اسکو اکیلے آتا دیکھ ماہ بیر مسکرایا
ماہ بیر اسکو لندن کے سب سے بڑے مال لے کر گیا عالیاب گاڑی میں تو کافی پرجوش سی بیٹھی اس سے سب جگہوں کے نام پوچھ رہی تھی اور وہ بھی مسکرا کر سب بتا رہا تھا آج دیکھنا تھا تین ہفتے کی محنت کیا رنگ لائی ہے
مال میں انٹر ہوے تو وہاں بہت سارے لوگ دیکھ کر عالیاب پہلے کی طرح گھبرا گئی ماہ بیر کا ہاتھ زور سے پکڑ لیا ماہ بیر نے ایک نظر اسکے خوفزدہ چہرے کو دیکھا
"کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے کوئی کچھ نہیں کہے گا میں ہوں نہ …" اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے اپنے ہونے کا احساس کرایا
عالیاب پھیکا سا مسکرائی دل زور سے دھک دھک کر رہا تھا ماہ بیر اسکو لے کر مال میں بنے ریسٹورانٹ آیا ایک فیملی کارنر بک کروا کے وہاں انہوں نے لنچ کیا ماہ بیر وقفے وقفے سے اسکو ریلیکس کرتا رہا وہ کافی حد تک ٹھیک تھی لیکن ماہ بیر کا ہاتھ ابھی بھی مظبوطی سے پکڑا ہوا تھا
"کیا لینا ہے …" اسکو بازو کے ہلکے میں لیتے پوچھا
"مجھے بہت ساری چوڑیاں لینی ہے ہر کلر کی …" اسنے بچوں کی طرح فرمائش کی
"اور …" ماہ بیر نے اسکی خوشی دیکھی
"اور تو سب کچھ ہے میرے پاس …" عالیاب نے یاد کیا
شادی کی رات کی ماہ بیر سب کچھ منگوا چکا تھا ڈریسز شوز بیگز جیولری اور بہت ضرورت کا سارا سامان بس چوڑیاں نہیں تھی اس کے پاس جو ہمیشہ پہنتی تھی
ماہ بیر اسکو ایک انڈین جیولری شاپ پہ لے گیا عالیاب تو وہاں اتنی ساری ہر کلر کی چوڑیاں دیکھ کر خوش ہو گئی تھی پھر اس نے جس پہ ہاتھ رکھا ماہ بیر نے بغیر ایک لفظ کہے پیک کروا دیا چوڑیوں کے علاوہ ماہ بیر نے اسکے بالوں کے لئے گولڈ اور ڈائمنڈ کی ہیئر پنز بھی لی بہت سارے نیو ڈریسز اور بھی بہت کچھ عالیاب تو بس دیکھ رہی تھی اور وہ پیک کروا رہا تھا
ڈھیروں ڈھیر شاپنگ کرنے کے بعد ماہ بیر اسکو لئے مال سے باہر آ گیا گاڑی ایک جگہ پارک کر کے پیدل ہی واک کرنے لگے سردی کی وجہ سے عالیاب کی ناک اور گال لال ہو گئے تھے ایک ہاتھ ماہ بیر کے ہاتھ میں تھا اور دوسرا کوٹ کی پاکٹ میں تھا
"مسٹر خان آپکو پتا ہے جب میں بابا کے ساتھ آئ تو بس دور سے ہی دیکھا تھا مجھے بہت شوق تھا لندن دیکھنے کا لیکن مجھے اکیلے ڈر لگتا تھا ... لیکن آج میں بہت خوش ہوں یہ سب دیکھ کر …" دور تک پانی دیکھتی عالیاب اشتیاق سے بولی
یہاں لوگ کافی کم تھے اس لئے وہ ریلیکس تھی
"میں بھی بہت خوش ہوں …." اسکو مسکراتے دیکھ کر ماہ بیر کے دل میں ڈھیروں سکون اترا
"آپ کیوں خوش ہیں …" عالیاب نے مسکرا کر اسکو دیکھا تو گالوں میں ڈمپل نمایاں ہوے
"کیوں کے میری جان بہت خوش ہے …" اسکی طرف ہلکا سا جھک کر بولا تو وہ نظریں جھکا گئی
گال دہک اٹھے… افف اس شخص کا میری جان کہنا دل دھڑکا دیتا ہے …
"یہ غلط بات ہے تم اس طرح شرماؤ گی تو پھر مجھ سے شکایت مت کرنا بندہ بشر ہوں یار ہر بار نہیں سمبھال سکتا …." انداز شکایتی لیکن لہجہ آنچ دیتا خمار الود
عالیاب چہرہ موڑ گئی دور دور تک دریا کا پانی پھیلا ہوا تھا ٹھنڈا نیلا پانی روح کو سکون دیتا ہوا ذرا سی ہوا چلتی تو روح تک کپکپاجاتی
دونوں بہت دیر تک خاموشی سے وہاں کا منظر دیکھتے رہے منظر تو صرف عالیاب دیکھ رہی تھی ماہ بیر تو اسکا حسین چہرہ دیکھ رہا تھا
ہر لمحے کا حساب رکھنے والا آج بغیر حساب کیے بغیر وقت دیکھے صرف اپنی جان کی خوشی دیکھ رہا تھا وہاں کتنا وقت گزرا پتا نہیں چلا وہ جگہ تھی ہی بہت خوبصورت سامنے نظر آتا (Thames River) اور اس میں سکون سے بہتا پانی بہت سکون بخش تھا
"چلیں یا رات یہیں رہنا ہے …." اندھیرے نے بسیرا کرنا شروع کیا تو ماہ بیر بولا
"کیا ہم یہاں نہیں رہ سکتے …" عالیاب دور تک دیکھتی حسرت سے بولی
"اگر آپکا رات کو کلفی بننے کا ارادہ ہو تو ضرور رہ سکتی ہیں …" ماہ بیر کھڑا ہوا
"آپ یہاں ایک گھر لے لیں ہم ہر ویک اینڈ یہاں رہے گی …" عالیاب اسکا ہاتھ پکڑ کر کھڑی ہوئی
"اور کوئی حکم ملکہ عالی جان …" ماہ بیر سینے پہ ہاتھ رکھتا تھوڑا سا جھکا
نہیں …. عالیاب کھلکھلائی
ماہ بیر نے آگے بڑھ کر اسکو باہوں میں اٹھا لیا
"یہ یہ کک کیا کر رہے مم مسٹر خان چھ چھوڑیں …" عالیاب بوکھلائی
"چپ ابھی بہت سارا چلنا ہے گاڑی بہت پیچھے پارک ہے تم تھک جاؤ گی …" ماہ بیر نے آنکھیں دکھائیں
عالیاب نے آنکھیں بند کر لیں
لوگ مڑ مڑ کر ان دونوں کو دیکھ رہے تھے ماہ بیر کے توانہ بازوں میں وہ چھپی ہوئی چھوٹی بچی لگ رہی تھی قد میں ویسے ہی بامشکل ماہ بیر کے سینے سے تھوڑا سا اوپر آتی تھی
دس منٹ کی واک کے بعد ماہ بیر نے اسکو فرنٹ پہ بیٹھایا عالیاب تو آنکھیں نہیں کھول رہی تھی ماہ بیر نے ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ کر ایک نظر اسکو دیکھا اور مسکرا کر گاڑی آگے بڑھا دی
🌹🌹🌹
"میں اسکو چھوڑوں گی نہیں اسکی ہمت بھی کیسے ہوئی میرے ماہ بیر پہ قبضہ کرنے کی …." آفس روم میں آتے ہی زور دار دھاڑ سے دروازہ بند کر کے بیگز اٹھا کے مارے
مال میں دونوں کو ساتھ دیکھ کر جولیا کی آنکھوں میں مرچیں لگ گئی تھی غصے سے کھولتی وہ واپس آئ تھی
"ک کیا ہوا جولی …." پیٹر تو مسکرا کر لیپ ٹاپ پہ کچھ دیکھ رہا تھا دھاڑ سے اچھلا
"میں اسکا خون کر دوں گی وہ بچ میرے ماہ بیر پہ قبضہ کر کے بیٹھی ہے …" جولیا غرائی
"او ابھی تک تمہارا مسلہ حل نہیں ہوا…" پیٹر افسوس سے کہتا واپس بیٹھا
جولیا نے جواب نہیں دیا اسکا دماغ انکو یوں ایک ساتھ اتنے قریب سوچ کر ہی پھٹ رہا تھا دل کر رہا تھا سب تہس نہس کر دے
"ویسے اسکی وائف بہت پریٹی ہے بیوٹیفل …" پیٹر سکرین پہ دیکھ کر بولا
جولیا نے اسکو سوالیہ نظروں سے دیکھا
"اگر تم چاہو تو میں مدد کر سکتا ہوں لیکن بدلے میں مجھے بھی کچھ ملنا چاہیے .." پیٹر مسکرا کر بولا
"واٹ …." جولیا اپنے بھائی کو اچھے سے جانتی تھی لیکن پھر بھی پوچھا
"ماہ بیر خان کی وائف …" چہرے پہ کمینی مسکراہٹ تھی
"وہ مسلم ہے …" جولیا وسکی کا گلاس لے کے بیٹھی
"سو وہاٹ میں کونسا شادی کر رہا ہوں بس کچھ دن رکھوں گا …" پیٹر نے بھی گلاس اٹھایا
جولیا نے سر ہلا دیا اسکے دماغ میں بہت کچھ چل رہا تھا
🌹🌹🌹
ماہ بیر گھر آیا تو گارڈ نے کسی کے انے کی اطلاع دی ماہ بیر نے سر ہلایا اور دوسری سائیڈ پہ آ کے عالیاب کو اٹھایا جو سو گئی تھی ویسے بھی رات کافی ہو گئی تھی اور وہ ڈنر بھی باہر ہی کر کے آۓ تھے
اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اسکو کندھے سے پکڑا وہ نیند میں تھی گھر میں انٹر ہوا تو سامنے موجود ہستی کو دیکھ کر رک گیا
سامنے مصطفیٰ شاہ تھے ماہ بیر کو ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کے وہ بھی ہو سکتے ہیں ایک نظر انکو دیکھ کر عالیاب کو دیکھا جو اسکے کندھے سے لگی تقریباً سو رہی تھی پھر جھک کر اسکو بازو میں اٹھایا اور اوپر لے گیا مصطفیٰ شاہ بس خاموش سے اسکو دیکھ رہے تھے
اسکو بیڈ پہ لیٹا کے آہستہ سے اسکا حجاب کھولا اور کوٹ بھی اتار دیا جوڑے سے بال کھول کے اسکو ریلیکس کیا کمفرٹر ٹھیک کرکے نائٹ بلب آن کیا اور نیچے آ گیا
"اسلام و علیکم مصطفیٰ انکل کیسے ہیں …" سیڑھوں سے نیچے اتے نارمل انداز میں پوچھا
"ٹھیک ہوں تم سناؤ .. لگتا ہے میں غلط ٹائم پہ آیا ہوں …" سر ہلا کو جواب دیتے ایک نظر اوپر کی طرف دیکھا
"خیر بتائیے کیسے آنا ہوا .." گہری سرد نظریں ان پہ ٹکاتے پوچھا
"ہمم میں یہ سوچ رہا تھا کے اپنا بزنس لندن شفٹ کر لوں تو بس تم سے تھوڑی مدد چاہیے …" مصطفیٰ شاہ بہت ناپ تول کے بول رہے تھے
"کس طرح کی مدد …" ماہ بیر نے آئ برو اچکاۓ
"تم جانتے ہو میں شپ سے ٹرانسپورٹ کرتا ہوں پاکستان میں تو کافی پھیلا ہوا ہے میرا بزنس … تم یہاں سب کو جانتے ہو تمھارے تعلقات بھی ہوں گے تو بس تم مجھے پرمیشن لیٹر ایشو کروا دو کسی سے ہر طرح کی ٹرانسپورٹ کے لئے …" اسکے تاثر دیکھتے مصطفیٰ شاہ نے بہت احتیاط سے الفاظ استعمال کیے
"یہاں میرے بہت تعلق ہیں اور میں چاہوں تو آپکا کام ابھی اسی وقت کروا سکتا ہوں بٹ میں ایسا نہیں کروں گا .. میں بہت اچھے سے جانتا ہوں آپ کا بزنس میں بس پھوپھو کی وجہ سے خاموش ہوں تو میری خاموشی کو میری کمزوری مت سمجھیۓ گا اگر یہاں وہی کام کیا تو مجھ سے آپکا کوئی رشتہ نہیں نہ ہی میں آپکی کوئی مدد کروں گا …." سرد سپاٹ وارن کرتی نظروں سے اسکو دیکھتا چلا گیا
پیچھے مصطفیٰ شاہ غصے سے بیچ و تاب کھا کر رہ گئے وہ پہلے کی انجانے میں انکو بہت نقصان دے چکا ہے اور اب تو صاف دھمکی دے کر گیا ہے اس نے بظاھر ایسا کہاں نہیں لیکن اسکا مطلب یہی تھا کے اگر اس نے وہی کام لندن میں کیا تو وہ ضرور اسکو یہاں کی پولیس کو پکڑوا دے گا
"تم میری راہ کا ناقابل برداشت کانٹا بن گئے ہو بہت جلدی میں اس کانٹے کو نکال پھینکوں گا …" اوپر کی طرف دیکھ کر زہر خندہ لہجے میں کہا اور چلے گئے
وہ تو ویسے ہی یہاں اس لئے آۓ تھے کے اسکو پتا چل جائے وہ لندن میں ہیں تا کہ بعد میں اگر کہیں دیکھ لے تو کوئی پریشانی نہ ہو ابھی تو ویسے ہی انکو بہت کام تھے
🌹🌹🌹
ایک ہفتے بعد حمامہ کی رخصتی طے ہوئی تھی کل تک رفعت بیگم نے بھی آ جانا تھا کمال شاہ اور فریحہ بھی تیاری کر رہے تھے بس گھر کے ہی لوگ شامل تھے حاشر تو رات کو آتے ہی بغیر کسی سے بات کیے روم میں بند ہو گیا تھا وہ تو ہر چیز سے فرار حاصل کر رہا تھا لیکن حمامہ اسکو سب کا سامنا کرنا تھا اور خوش بھی رہنا تھا
ایسا تو اس نے نہیں سوچا تھا وہ تو سب کچھ اچھا چاہتی تھی لیکن سب الٹ ہو گیا حاشر کا رویہ اسکو بری طرح تکلیف دے رہا تھا کہاں وہ سب کو ہنسانے والی آج خود مصنوعی ہنس رہی تھی اسکی غلطی اتنی بھی بڑی نہ تھی کے اسکو ایسا سزا دی جاتی حاشر کی بے رخی اسکی چپ حمامہ کو اندر سے مار رہی تھی کسی سے بات کرنے سے وہ کترانے لگی تھی کہیں کوئی اسکے چہرے پہ رقم وہ تکلیف نہ پڑھ لے جو جانے انجانے میں حاشر اسکو دے رہا تھا
گھر کے کاموں سے بھاگنے والی نے خود کو گھر کے کاموں میں الجھا لیا تھا خود کو فضول سوچوں سے باز رکھنے کے لئے یونی میں بھی ایڈمشن بھی کروا لیا تھا جو رخصتی کے اگلے دن جوائن کرنی تھی ہر وقت پٹر پٹر بولنے والی کی زبان بلکل خاموش تھی اور حاشر وہ تو جیسے وہاں تھا ہی نہیں ہر چیز سے بے نیاز ہر وقت کسی سوچ میں گم ……
ابھی بھی صبح کے کام سے فری ہو کے حمامہ کچن میں تھی شاید کچھ پکانے کی کوشش کر رہی تھی جب حاشر کچن میں داخل ہوا عموما وہ اس وقت گھر نہیں ہوتا تھا آج شاید اسکو کمال نے روکا تھا ایک نظر حمامہ کو دیکھ کر پانی کی بوتل لی اور جانے لگا
"حاشر بات سنیں …" بڑی اپنائیت سے پکارا تھا
نہ چاہتے بھی حاشر رکا اور اسکی طرف دیکھا جس کی سرخ متورم آنکھیں اسکے رونے کی چغلی کھا رہی تھی
"کیا آپ اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں …" بہت ہمت کرتے پوچھا تھا ورنہ تو اس ستم گر کو دیکھ کر آنکھیں بھیگ رہی تھیں
"میری خوشی کی پرواہ کس کو ہے …" زکام زدہ سرد سی آواز تھی
"اگر آپ نہیں چاہتے تو کیوں کر رہے ہیں …." بہت سے آنسو اندر اتار کے پوچھا
"میں صرف چاچو کا کیا گیا فیصلہ مان رہا ہوں …" پتا نہیں کیوں لیکن حاشر کی وضاحت کمزور سی تھی
اپنے فیصلوں میں با اختیار مرد کیسے کسی کے دباؤ میں آ سکتا ہے
"آئ ایم سوری میری وجہ سے جو بھی آپکو پریشانی ہوئی لیکن اگر آپ یہ نہیں کرنا چاہتے تو میں انکل کو منع کر دوں گی …" دونوں ہاتھوں کی انگلیاں مڑوڑتی بھرائی آواز میں بولی
دل پہ کیسے جبر کیا تھا وہ خود ہی جانتی تھی درد سا اٹھ رہا تھا سینے میں جو آنکھوں کے ذریعے باہر آنے کو تیار تھا
"ضرورت نہیں جو ہو رہا ہے ہونے دو …" جذبات سے عاری لہجے میں کہتا جانے لگا
"آئ ایم سوری شاہ …" گیلی سی آواز میں کہتی وہاں سے بھاگ گئی
پیچھے حاشر کے دل کو کچھ ہوا اسکے آنسو حاشر کو اچھے نہیں لگ رہے تھے وہ اسکی وجہ سے روئی تھی اسکو اچھا نہیں لگ رہا تھا اندر ہی اندر کچھ ہو رہا تھا جس کو جان کر بھی حاشر انجان بن رہا تھا وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہا تھا وہ کر ہی نہیں سکتا تھا سب کچھ تو اسکی مرضی کے مطابق نہیں ہو سکتا
اس نے منع کیا تھا اس بیوقوف لڑکی کو کے مت کرو شادی لیکن وہ نہیں مانی اب یہ آنسو شاید اسکی قسمت میں تھے سوچوں کو جھٹکتا چلا گیا ابھی اسکو کہیں جانا تھا
🌹🌹🌹
"کیا سوچا ہے تم کیا کرو گی …" جولیا کو کسی سوچ میں گم دیکھ کر بولا اور نظریں لیپ ٹاپ پہ مذکور کی
"فلحال تو نہیں کر سکتی میں کچھ …" جولیا نے اسکو دیکھا
"کیوں …" پیٹر نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹا کر اسکو دیکھا جو کافی خوبصورت لگ رہی تھی خوبصورت تو وہ تھی لیکن اسکا فیشن اسکو مزید پرکشش بنا دیتا تھا کے دیکھنے والے کی نظریں نہ ہٹ پاتی
"ابھی میرا پروجیکٹ چل رہا ہے اس کے ساتھ اگر ابھی کچھ کیا تو میرا کروڑوں کا نقصان ہو سکتا ہے سو ہمیں دو مہینے ویٹ کرنا ہو گا جب میرا کام پورا ہو گا تو ہی ہم کچھ کرے گے اور تم کان کھول کر سن لو تم اس کے آس پاس بھی نہیں جاؤ گے تب تک …." انگلی اٹھا کے اسکو وارن کیا
پیٹر ہنسا " یہ کافی مشکل ہے …"
"وہاٹ ایور تم اس کے پاس نہیں جاؤ گے …"
ٹیبل پہ ہاتھ مار کے زور سے بولی
"اوکے اوکے ریلیکس میں نہیں جا رہا …" پیٹر نے دونوں ج ہاتھ اٹھا دیے
جولیا نے فون اٹھایا
"ویسے تم کیا کرو گی اس کے ساتھ مطلب مجھے کچھ تو پتا ہونا چاہیے نہ …" پیٹر تجسس سے آگے ہوا
"ٹائم آنے پہ بتا دوں گی فلحال تم وہ کرو جو میں نے کہا ہے …" کال آئ تو بیگ اٹھا کے چلی گئی
پیٹر کندھے اچکا کے اپنا کام کرنے لگا
🌹🌹🌹
"یہ غلط بات ہے مسٹر خان وہ میری ایک اکلوتی دوست ہے مجھے بتاۓ بغیر شادی کر رہی ہے …." عالیاب گہرے صدمے میں تھی
جب سے ماہ بیر نے حمامہ کی رخصتی کا بتایا تھا وہ تو جلی بھنی بیٹھی تھی
ا"بھی نہیں ہوئی شادی اسکی ایک ہفتے بعد ہے تم تب تک انجوۓ کر سکتی ہو …" ماہ بیر فون پہ بزی سا بولا
"تو مجھے بتانا تو چاہیے تھا نہ اتنی دیر سے بتایا مجھے …" عالیاب کو رہ رہ کے حمامہ پہ غصہ آ رہا تھا
"یہ سب تم اس سے پوچھ لینا شام کو جب جائے گے …" فون کے ساتھ لیپ ٹاپ بھی اٹھا لیا
کافی کام تھا آج کا
"ابھی چلیں مجھے ملنا ہے اس سے …" مٹھو کو ہاتھ میں اٹھاۓ اس تک آئ
"ابھی مجھے کام ہے شام کو چلے گے …" نظریں لیپ ٹاپ پہ مذکور تھیں اور انگلیاں تیزی سے چل رہی تھی
"نہیں مجھے ابھی جانا ہے آپ چلیں …" اسکے پاس بیٹھتی منہ پھلا کے بولی تھی
"عالی ابھی مجھے کام ہے بہت ضروری ہم شام کو چل رہے ہیں نہ …." بہت ضبط کا مظاہرہ کرتے کہا تھا
"نہیں نہیں نہیں ! ابھی جانا ہے …" وہ بچوں کی طرف ضد سے بولی تھی
ماہ بیر دیکھ کر رہ گیا کہاں وہ ایک لفظ نہ بولتی اور کہاں ضد کر رہی ہے
"تم دیکھ رہے ہو مٹھو سب کیسے بدل گئے ہیں ایک وہ حمامہ ہے جس کا میرے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا آج میرے بغیر شادی کر رہی ہے اور ایک یہ مسٹر خان ہے کیسے دوست ہیں ساری بات ماننے کا وعدہ کیا اب سن بھی نہیں رہے …" بڑے ہی شکایتی انداز میں مٹھو سے کہا اور مٹھو نے دونوں پر اسکے گالوں پہ رکھے
"بس ایک تم ہی مجھے سمجھتے ہو …." اسکو مٹھو پہ بے ساختہ پیار آیا
"مٹھو یاب …." مٹھو بھی بولا
ماہ بیر نے مٹھو کو گھورا
"ٹھیک ہے ابھی چلتے ہیں پر تم اسکو یہاں روم میں نہیں لایا کرو گی آئیندہ …." ابھی تو اسکو موقع ملا تھا اپنی بات منوانے کا
مٹھو ماہ بیر کو دیکھ رہا تھا
"یہ کیا بات ہوئی آپ ہر بار ایسے ہی کرتے ہیں میرا مٹھو آپکو کچھ کہتا ہے کیا جو آپ اس سے اتنا برا سلوک کرتے ہیں .. دیکھا مٹھو سب تم سے جیلس ہوتے ہیں …" عالیاب جھنجھلائی
اسکا مٹھو کونسا کسی کو کچھ کہتا ہے جو کوئی بھی اسکو پاس نہیں آنے دیتا
"جو بھی ہے جانا ہے تو ٹھیک نہیں تو میں بزی ہوں …"
کندھے اچکا کے واپس لیپ ٹاپ پہ متوجہ ہوا
"سوری مٹھو مجھے ابھی مامہ سے ملنے جانا ہے تم سے میں واپس آ کے ملتی ہوں پھر ہم بہت اچھی سی پینٹنگ بھی کرے گے …" بڑے پیار سے مٹھو کو اٹھا کے باہر چلی گئی
ماہ بیر کے لب پھیلے اسکو ہینڈل کرنا اتنا بھی مشکل نہیں تھا بہت معصوم تھی وہ جلدی بات مان جاتی تھی
🌹🌹🌹
کمال اور فریحہ باہر گئے ہوے تھے حاشر بھی آفس چلا گیا تھا حمامہ اکیلی بیٹھی بور ہو رہی تھی ٹی وی بھی دیکھنے کو دل نہیں کر رہا کھانا وہ بنا چکی تھی نماز بھی پڑھ لی تھی لاؤنج میں دونوں ہاتھ گالوں پہ ٹکاۓ وہ اداس سی بیٹھی تھی جب بیل بجی بے دلی سے اٹھ کر دروازے تک گئی
" تم کیسی دوست ہو ہاں یہاں آتے ہی تم بدل گئی ہو تمہے شوہر کیا ملا تم نے تو نظریں ہی پھیر لی بڑی ہی بے وفا نکلی تم شادی کر رہی اور بتایا بھی نہیں …." حمامہ کو دیکھتے ہی وہ شروع ہو گئی
صرف حمامہ ہی تھی جس سے وہ ایسے بات کرتی تھی ماہ بیر نے آئ برو اچکا کر اسکا انداز دیکھا
"حوصلہ کرو لڑکی سانس لے لو …." حمامہ اسکے گلے لگتی بولی
"ہٹو تم پیچھے ناراض ہوں میں تم سے کیسے تم شادی کر سکتی ہو میرے بغیر میری شادی ہوئی تھی تو سب سے پہلے تمہے بتایا تھا اور تم ہو کے دوسرے لوگوں کی طرح خبر کی ہے خود نہیں بتا سکتی تھی ویسے تو دنیا جہاں کی باتیں کروا لو تم سے کام کی بات تم سے نہیں بتائی گئی …." اسکو سائیڈ پہ کر کے نون اسٹاپ بولتی اندر آئ
ماہ بیر کو بلکل نظر انداز کر دیا اور وہ تو بس اسکی زبان کی سپیڈ دیکھ رہا تھا کیا وہ اتنا بولتی ہے
حمامہ بس اسکو گھور رہی تھی
"کیا ہوا کچھ غلط بول دیا …." خود کو یوں گھورتا پا کر آہستہ سے بولی اور ایک نظر ماہ بیر کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا
اسکے دیکھنے پہ زبردستی مسکرائی
"ہو گیا ہو تو میں کچھ بولوں …"
حمامہ اسکے پاس آ کر بیٹھی
"ہاں بولو تم …" اسکو بول کے ایک چور نظر ماہ بیر پہ ڈالی جو اب حاشر کو گھر آنے کا کہہ رہا تھا
"کل ہی ڈیٹ فائنل ہوئی ہے اور تمہے ہی سب سے پہلے بتایا ہے میرا سیل صبح گر گیا تھا تو تمہے کال نہیں کر سکی اور میں بلکل بھی بے وفا نہیں ہوں بس تم ہی کہیں بزی ہو گئی ہو …."
اپنا درد مسکراہٹ میں چھپا کے شرارت سے بولی
"نہیں وہ تو بس ایسے ہی …" عالیاب جھینپ گئی
"آہ ہاں ایسے ہی …" حمامہ نے ٹہکا دیا تو وہ شرما گئی
"تم بتاؤ حاشر بھائی مان گئے …" ماہ بیر کو باہر جاتا دیکھ کر بولی
"ہاں مان گئے …" گہرا سانس لے کر بولی یہ تو وہی جانتی تھی کے کیسے مان گئے
"کیسے مان گئے اتنی جلدی …" عالیاب کو اسکی آنکھوں میں اداسی نظر آ رہی تھی
"فریحہ آنٹی نے بات کی تھی ان سے …" کہتی نظریں چرا گئی
"اور جو تم نے خود سوچا تھا وہ …" عالیاب اسکے چہرے کو دیکھ رہی تھی جو کافی بدلہ لگ رہا تھا
"کیا فرق پڑتا ہے ہو تو وہی رہا تھا جو میں چاہتی تھی اب جیسے بھی ہو رہا ہے …" حمامہ لہجے کی اداسی نہیں چھپا پا رہی تھی
"مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کے تم خوش نہیں ہو …" عالیاب نے اسکے دونوں ہاتھ پکڑے
"نہیں تو ایسا کچھ نہیں ہے میں خوش ہوں .. لگتا ہے حاشر آ گئے تم بیٹھو میں کافی لاتی ہوں …" گاڑی کی آواز سن کے شکر کرتی چلی گئی ورنہ جتنے پیار سے عالیاب پوچھ رہی تھی وہ ضرور بتا دیتی
لیکن وہ نہیں بتانا چاہتی تھی ابھی تو اسکی دوست کی لائف میں خوشیاں آئ تھیں وہ اپنی وجہ سے انکو خراب نہیں کر سکتی تھی
ایک ہفتہ کیسے گزرا پتا بھی نہ چلا حاشر نے خود کو بری طرح کام میں مصروف کر لیا تھا صبح جلدی چلا جاتا اور رات کو دیر سے آتا گھر پہ بھی بہت کم بات کرتا سب سمجھ رہے تھے کہ شاید ماہ بیر کے نہ ہونے کی وجہ سے کام ہے لیکن حمامہ اچھی طرح جانتی تھی وہ سب سے بھاگ رہا ہے لیکن وہ بھی کچھ نہ بولی اب جو ہو رہا تھا ہونے دو اس نے سب اللہ پہ چھوڑ دیا تھا دو دن پہلے رفعت بیگم بھی آ گئیں تھیں کل رخصتی تھی سب کام ہو چکے تھے صرف گھر کے لوگ ہی تھے اور کسی کو بھی انوائٹ نہیں کیا تھا
ابھی فریحہ کچن میں تھیں حمامہ کو اب وہ کام سے منع کر چکی تھی اور سارا کام خود ہی دیکھ رہی تھی کمال شاہ بھی باہر کسی کام سے گئے ہوے تھے حاشر روز کی طرح آفس تھا
حمامہ رفعت بیگم کے ساتھ ان کے روم میں تھی
"کیا بات ہے حمامہ تم بہت خاموش ہو گئی ہو …" دو دن سے ذہن میں آتا سوال پوچھ ہی لیا تھا
"کوئی بات نہیں ہے مما بس میری شادی ہو رہی ہے نہ اس لئے سمجھدار ہو گئی ہوں …" پھیکا سا مسکرا کے بات کو مذاق میں اڑانے کی کوشش کی
"پہلے تو تم ایسی نہیں تھی کچھ ہوا ہے تو بتاؤ مجھے …" رفعت بیگم کو فکر ہوئی
ماں تھیں کیسے بیٹی میں آیا بدلاؤ نہ دیکھتی دو دن سے دیکھ رہی تھی گھر کے کام سے بھاگنے والی بغیر ایک بھی شکن ماتھے پہ لاۓ سارا گھر دیکھ رہی تھی ہر وقت پٹر پٹر بولنے والی سوچ سوچ کر بول رہی تھی
"نہیں مما ایسی بات نہیں ہے بس مجھے بابا اور بھائی یاد آ رہے ہیں …" افسردہ سی کہتی انکی گود میں سر رکھ کر آنکھیں موند گئی
"ہاں بچے یاد تو مجھے بھی بہت آتے ہیں لیکن کیا کر سکتے ہیں جو اللہ کی مرضی …." اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتی وہ بھی دکھی ہوئی
شوہر تو ساری زندگی کے لئے اکیلا کر گیا اور بیٹا اس نے جیتے جی اکیلا کر دیا
"مما بھائی ایسے کیوں ہو گئے ہیں …" اپنے بھائی کی بے حسی پہ دل بھر آیا
"شاید میری ہی تربیت میں کوئی کمی رہ گئی تھی جو اسکو ماں کے بڑھاپے کا بھی احساس نہیں ہے …" انہوں نے منہ پہ ہاتھ رکھ کر سسکی روکی
جوان بیٹا ماں کو یوں ستاۓ تو دل تو دکھتا ہی ہے
"میں ہوں نہ مما میں ہمیشہ آپکا خیال رکھوں گی …." ماں کا ہاتھ لبوں سے لگایا
"میری پیاری بیٹی …." اپنی آنکھیں صاف کرتے اسکا ماتھا چوما
"شکر ہے مانا تو سہی کے میں پیاری ہوں …" حمامہ ہنسی
"پاگل …" انہوں نے ہلکی سی چت لگائی
تو وہ انکی گود میں منہ چھپا گئی رگ و پے میں سکون کی لہر اتری ماں کی آغوش میں تو ویسے ہی سکون ہوتا ہے
🌹🌹🌹
"کیا کرتے پھر رہے ہو …" کافی دن بعد ماہ بیر نے آج آفس کا چکر لگایا تھا اور آتے ہی حاشر کے کیبن میں آیا تھا
"کیا …" حاشر انجان بنا
"کل رخصتی ہے اور تم آفس میں کیوں ہو ؟ تمہے حمامہ کے ساتھ ہونا چاہیے ایک دوسرے کو تھوڑا وقت دو گے تو ہی جان سکو گے …." سنجیدگی سے سمجھانا چاہا
"مجھے نہیں جاننا اسکو تم جانتے ہو میں صرف چاچو کی بات مان رہا ہوں مجھے کوئی انٹرسٹ نہیں ہے اس میں یہ اس سے جڑے رشتے میں …." آخری بات کہتے نظریں چرائیں
"اچھا مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے تم کچھ چھپا رہے ہو …" ماہ بیر نے تیز نظروں سے دیکھا
"نہیں میں کیا چھپاؤں گا سب تو بتا دیا تمہے …" لیپ ٹاپ پہ ٹائپنگ کرنے کی کوشش کی لیکن انگلیاں کپکپائی
یاد نہ آیا کے کیا لکھنا ہے
"سوچ لو ابھی تو میں شرافت سے پوچھ رہا ہوں پتا کرنے کے اور بھی طریقے ہیں اور اگر مجھے کچھ بھی ایسا ویسا پتا چلا نہ تو پھر تمہاری خیر نہیں یاد رکھنا …." سخت لہجے میں کہتا چلا گیا
کام ختم کر کے اسکو جلدی جانا تھا
"آئ ایم سوری یار لیکن میں بتا کر تم سب کو پریشان نہیں کرنا چاہتا .. میں جانتا ہوں تم سب پتا کر لو گے لیکن میں خود بتانے کی ہمت نہیں کر سکتا تم سب کا دل نہیں توڑ سکتا .. میں تو خود ٹوٹا بکھرا ہوں تم سب کا ٹوٹنا برداشت نہیں کر سکتا معاف کر دینا مجھے …." دروازے سے اسکو جاتے دیکھ تکلیف سے لال سرخ آنکھیں بند کرتا بڑبڑایا
🌹🌹🌹
انکی شادی کو ایک مہینہ ہو گیا تھا عالیاب ماہ بیر سے بہت اٹیچ ہو گئی تھی ٹریننگ بھی تقریباً اسکی ہو گئی تھی عالیاب اچھی لرنر تھی بہت جلدی اس نے سب سیکھ لیا تھا ماہ بیر سے ایک بار فائٹنگ بھی کر چکی تھی … آج رات کو زمان صاحب بھی انے والے تھے تو عالیاب بہت زیادہ خوش تھی اسنے ماہ بیر سے رات حمامہ کے پاس رہنے کا پوچھا تو ماہ بیر نے سختی سے منع کر دیا اب تو ایک لمحہ اس کے بغیر نہیں گزرتا تھا
آفس کا کام ختم کرتا ماہ بیر آیا تو عالیاب نظر نہ آئ ماہ بیر سمجھ گیا وہ کہاں ہو گی .. اسکو حمامہ کے پاس جانے سے منع کیا تو موڈ خراب ہو گیا تھا
فریش ہو کے اوپر آیا تو وہ منہ پھلا کے کچھ پینٹ کر رہی تھی سادہ سی سفید فراک دوپٹہ شانوں پہ ڈالے پھولے سے گال اور سرخ ناک لئے بہت کیوٹ لگ رہی موٹی سی چوٹی کمر پہ جھول رہی تھی اسکو فائٹنگ کے ساتھ بال بنانے بھی سکھا دیے تھے
دبے قدموں سے اسکے پیچھے جا کر کھڑا ہوا شکر ہے آج مٹھو نہیں تھا اسکے ساتھ
عالیاب اسکے کلون اور سیگریٹ کی مہک سے اسکی موجودگی جان چکی تھی لیکن انجان بنی اپنا کام کرتی رہی
کرنٹ تو تب لگا جب ماہ بیر نے اسکو کمر سے تھام کر تھوڑی اسکے کندھے پہ ٹکائی برش ہاتھ سے نیچے جا گرا اور دل سینے میں دھڑک دھڑک گیا
"مسٹر خان کی جان ناراض ہے …" کان میں سرگوشی کی تو اسکی مونچھوں کی چبھن محسوس کرتی مزید سمٹی
ٹھنڈ میں بھی پسینہ آ گیا پلکیں رخساروں سے لپٹ گئیں کچھ دن سے اسکے دل کے حالات بدل رہے تھے اسکی قربت اسکو جھلساتی تھی وہ دل کو اچھا لگ رہا تھا اسکی بری طرح عادت ہو گئی تھی ماہ بیر اسکو خود میں الجھانے میں کامیاب ہوا تھا
"بولو میری جان …" اسکا ٹھنڈا پڑتا ہاتھ لبوں سے لگایا تھا
"آ آپ نے مجھ مجھے کیوں نہیں جانے دیا …" ذرا سا اٹک کر بولی
"اگر تم جاتی تو میرا کیا ہوتا …" ماہ بیر نے اسکا چہرہ اپنی طرف کیا
"مطلب …" عالیاب نے نہ سمجھی سے دیکھا
"مطلب اگر تم جاتی تو میں کیسے گزارتا تمھارے بنا یہ وقت اب تو مجھے میری عالی کے بغیر نیند بھی نہیں آتی …" خمار آلود لہجہ میں کہتے اسکو خود میں پینچ لیا
اس سے دور رہنا دن بہ دن مشکل ہوتا جا رہا تھا
"میں بھی تو رہتی نہ آپ کے بغ….." بات کا مہفوم سمجھتے لب دانتوں میں دبا گئی
"کیا خیال ہے دوست سے بیوی کی پوسٹ پہ پرموشن کر دوں تمہاری …" اسکی لال سرخ ناک پہ لب رکھے تو وہ سرخ ہوئی
"نہ وو مم …." اسکی جان لبوں سے آئ
"جانا ہے وہاں تو مجھے کچھ دینا پڑے گا …." اسکو لئے پھولوں کے پاس آیا
اتنے گلابوں کی خوشبو سارے پہ چھائی ہوئی تھی شام کے وقت گلاس وال سے باہر کا سہانا موسم نظر آ رہا تھا دوپہر میں ہوئی بارش کی وجہ سے سڑکیں ابھی گیلی تھیں جنوری شروع ہوا تو برف باری بھی روز رات کو ہونے لگی تھی سردی کافی بڑھ گئی تھی
"کیا دینا پڑے گا …" ایک نظر اسکے مظبوط ہاتھ میں اپنے ہاتھ کو دیکھ کر اسکا چہرہ دیکھا
ذرا سا اسکی طرف جھک کے اس کے کان میں سرگوشی کی کے اسکا چہرہ خون چھلکانے لگا نظریں خود با خود جھک گئی بدن لرز گیا اسکے ہاتھ سے ہاتھ چھڑانا چاہا لیکن چھڑا نہ سکی
"آ آپ ایسی ب باتیں ن نہ کریں …" دوسرا ہاتھ دل پہ رکھتی بہ مشکل بولی
"پھر کیسی باتیں کروں عالی جان …" دلکشی سے مسکرا کر ایک پھول اسکی موٹی چٹیا میں لگایا
عالیاب کچھ نہ بولی
"جانا ہے …" اسکا ہاتھ چھوڑ کر چہرہ ذرا سا اوپر کیا
"آپ بہت برے ہیں …" اسکا ہاتھ پیچھے کرتی سرخ چہرہ لئے بھاگ گئی
پیچھے ماہ بیر کا ہلکا سا قہقہ سنائی دیا
اب وہ دوبارہ جانے کی بات نہیں کرے گی ….
🌹🌹🌹
صبح ہوئی تو بادلوں نے بھی سورج کو تھوڑا سا راستہ دیا ہلکی سی دھوپ بہت بھلی لگ رہی تھی باقی دنوں کے مقابلے آج سردی کچھ کم تھی رات کو برف باری بھی کم ہوئی تھی نئی صبح کسی کے لئے خوشی کا پیغام لائی تھی تو وہیں کسی کے لئے کوئی بری خبر .. کسی کا دل خوش ہوا تھا تو کسی کا اداس .. خیر انہی دکھ سکھ کا نام زندگی ہے
باہر کے موسم کی نسبت حمامہ کا دل آج اداس تھا دل کا موسم اچھا نہ ہو تو باہر کا موسم بھی اچھا نہیں لگتا کہنے کو آج اسکی رخصتی تھی لیکن کہیں سے بھی وہ دلہن نہیں لگ رہی تھی نہ ہی کوئی مہندی لگی تھی اور نہ ہی کوئی مہمان آیا تھا اسنے تو کتنا کچھ سوچا تھا کے وہ شادی پہ یہ بھی کرے گی وہ بھی کرے گی لیکن شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ہمارے سوچنے سے کیا ہوتا ہے ہونا تو وہی ہے جو اللہ نے چاہا
فریحہ شاہ اور رفعت بیگم گھر کے کام کر رہی تھی کمال شاہ بھی کسی کام میں مصروف تھے حاشر صبح سے اپنے روم سے نہیں نکلا تھا اور حمامہ اپنا روم میں اداس بیٹھی تھی پتا نہیں یہ سب ٹھیک بھی تھا یا نہیں … اسکو حاشر کا رویہ ڈرا رہا تھا حاشر نے تو جیسے چپ سادھ لی تھی جو حمامہ کو بری طرح سے پریشان کر رہی تھی لیکن وہ چاہ کر بھی پوچھ نہیں سکتی تھی حاشر تو اسکو دیکھ کر ہی منہ موڑ جاتا تھا بات کیا کرتا …؟
🌹🌹🌹
عصر کے بعد سب حاشر کے گھر میں تھے زمان صاحب اور گرینڈ پا بھی آ چکے تھے بس عالیاب اور ماہ بیر کا انتظار تھا کمال شاہ زمان صاحب اور گرینڈ پا کے ساتھ مصروف تھے فریحہ شاہ اور رفعت بیگم بھی کچن کے کام دیکھ رہی تھیں حمامہ اپنے روم میں تیار ہو رہی تھی حاشر کچھ دیر پہلے ہی گھر آیا تھا اور ابھی تک روم میں تھا
"بابا …." کچھ دیر بعد عالیاب کی چہکتی ہوئی آواز پہ سب متوجہ ہوے جو بھاگ کے زمان صاحب کے گلے لگ گئی
اتنے دن بعد ایک دوسرے کو دیکھ کر دونوں کا دل بھر آیا زمان صاحب تو بس اپنی لاڈلی کو خوش دیکھ کر ہی جی اٹھے تھے یقیننا انکا فیصلہ غلط نہیں تھا
"کیسا ہے میرا بچا …." اسکا ماتھا چومتے پیار سے پوچھا
سب لوگ مسکرا کر باپ بیٹی کا پیار دیکھ رہے تھے
"میں ٹھیک ہوں بابا آپ کیسے ہیں اور یہ کیا ہوا …" انکا ہاتھ پکڑتی فکر مندی سے بولی جہاں شاید ڈرپ کا نشان تھا
"کچھ نہیں میرا بچا بس بوڑھا ہو گیا ہوں …" زمان صاحب نے مسکرا کر تسلی دی
انکی دن بہ دن گرتی حالت کے بارے میں صرف وہ اور ماہ بیر جانتے تھے ڈاکٹرز کے مطابق اب شاید ہی وہ کچھ مہینے مزید گزار سکتے ..
"پکا نہ …" عالیاب نے انکو دیکھا جو اپنی بیٹی کو خوش دیکھ کر مسکرا رہے تھے
"جی میرا بچا میں بلکل ٹھیک ہوں …" اسکی تسلی کروا کر ماہ بیر کی طرف گئے
عالیاب فریحہ اپر رفعت بیگم سے ملتی حمامہ کے پاس جا چکی تھی
"بہت شکریہ ماہ بیر میری بچی کو اتنا خوش رکھنے کے لئے میں ساری زندگی تمہارا احسان مند رہوں گا …." ماہ بیر سے ملتے بڑی عاجزی سے بولے تھے
"نہیں انکل آپکو یہ سب کہنے کی ضرورت نہیں ہے .. عالیاب میری بیوی ہے اسکا خیال رکھنا اور اسکو خوش رکھنا میرا فرض ہے اور ماہ بیر خان کبھی اپنے فرض سے پیچھے نہیں ہٹتا …." ماہ بیر نے انکے ہاتھ تھامے
"اور ویسے بھی جو احسان آپ نے مجھ پہ میری مدد کر کے کیا تھا میں اسکا بدلہ کبھی نہیں چکا سکتا …" انکے بولنے سے پہلے وہ خود ہی بولا
"اللہ تم دونوں کو ایسے ہی خوش رکھے …" بڑی خوشی اور دل سے دونوں کو دعا دی
کچھ دیر ان سے بات کرنے کے بعد حاشر کے روم کی طرف گیا جو ابھی تک باہر نہیں آیا تھا
🌹🌹🌹
ماہ بیر روم میں داخل ہوا تو دھواں دھواں نظر آیا ہاتھ سے دھواں سائیڈ پہ کرتے آگے آیا تو حاشر منہ میں سیگریٹ دباۓ بیٹھا تھا وہ کافی دیر سے سموکنگ کر رہا تھا اس لئے روم میں دھواں بھرا ہوا تھا
وائٹ شلوار سوٹ پہ بلیک مردانہ شال لئے سرخ آنکھوں اور ہلکی بڑھی ہوئی شیو سے وہ کوئی وڈیرہ ہی لگ رہا تھا ماہ بیر نے تاسف سے اسکی سرخ آنکھوں اور بکھرے حولیے کو دیکھا
"یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے …" آگے بڑھ کے اسکے منہ سے سیگریٹ نکالی تو وہ چونک کر ہوش میں آیا
پھر ماہ بیر کو دیکھ کر سر جھٹکا
"اگر مطمئن ہی نہیں ہو تو کیوں کر رہے ہو یہ سب اپنے ساتھ کسی معصوم کی بھی زندگی داؤ پہ لگا رہے ہو …" سخت تیوروں سے اسکو گھورا جو سر جھکا کے قالین پہ پتا نہیں کیا تلاش کر رہا تھا
"میں تم سے بات کر رہا ہوں … مسلہ کیا ہے تمھارے ساتھ …" کوئی جواب نہ پا کر ماہ بیر مزید سیخ پا ہوا
کتنے دن سے اسکو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اسکی کھوپڑی میں کچھ آ ہی نہیں رہا تھا .. نہ خود کچھ بتاتا اور نہ ہی اسکی مانتا
"کر تو رہا ہوں تم لوگوں کی خواھش پوری اور کیا کروں …" حاشر ایک دم سے پھٹ پڑا تھا
زور سے بولنے سے دماغ کی نسیں پھٹنے کے قریب تھی ایک دم سے پچھلے حصے میں درد سا اٹھا تھا لیکن اب تو عادت ہو گئی تھی
ماہ بیر نے اچنبے سے اسکو دیکھا وہ بہت کول مائنڈ انسان تھا اتنی جلدی غصہ نہیں کرتا تھا پھر کیا بات اسکو پریشان کر رہی تھی پہلے تو ماہ بیر نے زیادہ توجہ نہ دی لیکن اب جاننے کی اشد ضرورت تھی کے وہ کیا چھپا رہا ہے
"بابا کی مان لی چاچو کی مان رہا ہوں کر رہا ہوں شادی اور کیا کروں … جب میں خوش ہی نہیں ہوں تو کس خوشی کا دکھاوا کر لوں جتنا کر رہا ہوں کافی ہے اس سے زیادہ کی امید مت کرنا مجھ سے .. منع کیا تھا کے نہیں کرنی لیکن نہیں سب کو اپنی خواھشوں کی پڑی ہے کر لو پوری اب سب اپنی میں نے نہیں کہا تھا اس معصوم کو میرے ساتھ باندھنے کو …." زور سے چیئر کو ہاتھ مارتا چلا گیا یہ دیکھے بغیر کے چیئر اسکا ہاتھ زخمی کر چکی ہے
یہ زخم روح پہ لگے زخموں کے مقابلے کچھ نہ تھا کیا سوچا تھا اسنے اور کیا ہو رہا تھا
پیچھے ماہ بیر گہرا سانس بھر کر رہ گیا اب کچھ تو کرنا پڑے گا ایسے وہ حمامہ کے ساتھ کچھ بھی غلط نہیں ہونے دے گا جو بھی مسلہ ہے اب اسکو خود ہی سلجھانا تھا حاشر اسکو بلکل چھوٹے بھائی کی طرح عزیز تھا اسکی پریشانی کی جو بھی وجہ ہو ماہ بیر اسکو جڑ سے اکھاڑ دے گا
🌹🌹🌹
"بہت خوبصورت لگ رہی ہو میری جان …" آئینے سے اسکا عکس دیکھتی عالیاب بولی تو حمامہ نے نظریں اٹھا کے اسکو دیکھا
ایک دم سے دل بھر آیا لیکن پھر آنسو گلے میں اتارتی بولی .. " میری چھوڑو آج تو تم ماہ بیر بھائی پہ بجلیاں گرا رہی ہو .."
"ہاہا اب ایسی بھی بات نہیں ہے …" عالیاب ہنس پڑی
حمامہ بھی پھیکا سا ہنسی
"تم نے بھی حاشر بھائی کو گھائل کرنے کا سارا انتظام کیا ہوا ہے …" عالیاب نے چھیڑا تو وہ نظریں جھکا گئی
اب کیا بتاتی کے حاشر تو نظر اٹھا کے دیکھتا بھی نہیں ہے
"تم نے مہندی کیوں نہیں لگائی …" اسکے خالی ہاتھ دیکھ کر عالیاب بولی تو اسنے بھی اپنے ہاتھوں کو دیکھا پتا نہیں کیا لکھا تھا ان ہاتھوں کی لکیروں میں
"یہاں مہندی نہیں ملتی …" کمزور سا جواز پیش کیا
تو عالیاب نے سر ہلا دیا
وہ اتنی بڑی اور سمجھدار نہیں تھی کے کسی کا چہرہ دیکھ کر اسکے اندر کے حالت جان لیتی حمامہ کے چہرے سے بھی وہ جان نہیں سکی کے وہ اداس ہے یہ پریشان ہے .. حمامہ جتنی بھی لا پروا اور شرارتی سہی لیکن ایک کیئر کرنے والی سمجھدار لڑکی تھی اپنی دوست کی ہر بات جان لیتی تھی لیکن عالیاب کو یہ سب سمجھ نہیں آتا تھا اور یہی بات جان کر حمامہ کچھ سکون میں تھی کے عالیاب کو کچھ نہیں پتا اور نہ ہی اسکا بتانے کا کوئی ارادہ تھا
"اچھا تم اتنی اداس کیوں ہو …." غور سے اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ کر بولی
"شادی پہ ہر لڑکی اداس ہوتی ہے تم بھی تو کتنی اداس تھی …" حمامہ مسکرانے کی کوشش کرتی بولی
"ہاں یہ تو ہے …" عالیاب نے سر ہلایا
حمامہ نے شکر کیا کے اسنے مزید کچھ پوچھا اس وقت ویسے ہی دل میں عجیب عجیب خیال آ رہے تھے وہ کسی بھی بات کا جواب نہیں دینا چاہتی تھی
"تمہے پتا ہے مٹھو بھی تمہے بہت مس کرتا ہے لیکن مسٹر خان بھی تمہاری طرح میرے مٹھو سے جلتے ہیں اسکو کہیں بھی لے جانے نہیں دیتے …" مسکرا کے کہتے آخر میں برا سا منہ بنایا
"ہاہاہا تمہارا مٹھو اس لائق ہی نہیں کے اس سے پیار کیا جائے چپکو نہ ہو تو …" ذرا سا ہنس کر لہجے کو خوشگوار بنانے کی کوشش کی
"دفع دور تم اور مسٹر خان تو میرے مٹھو سے جلتے ہو کے میں اسکو اتنا پیار کرتی ہوں …" اپنی چھوٹی سی ناک چڑھا کر بولی
"کون جل رہا ہے تمھارے مٹھو سے میری جان …." اندر آتا ماہ بیر اسکی آخری بات سن کر بولا
اسکی بات سن کر جہاں حمامہ نے مسکراہٹ دبائی وہیں عالیاب نے بیچاری سی شکل بنائی
"کوئی نہیں میں تو بس ایسے ہی کہہ رہی تھی …" مسکرا کے کہتی کھڑی ہوئی
"اچھا لیکن مجھے تو سنائی دیا تھا کسی کا نام …" ایک بازو اسکے کندھے پہ رکھ کر مصنوعی حیرت سے بولا
"آپ یوں فضول باتیں نہ سنا کریں …" عالیاب نے اسکا ہاتھ ہٹایا
حمامہ دونوں کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی
"تم سے میں رات کو تفصیل سے فضول باتوں سے دور رہنے لا لیکچر لوں گا فلحال باہر چلیں سب ویٹ کر رہے ہیں …." ایک نظر اسکے خوبصورت سراپے کو دیکھ کر حمامہ کی طرف متوجہ ہوا جو سر جھکا گئی
"ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے کوئی بھی بات ہو مجھے بے جھجھک مجھ سے کہنا …" اسکے سر پہ ہاتھ رکھ کر تسلی دی تو اپنے سگے بھائی کو یاد کر کے حمامہ کی آنکھیں بھر آئیں یا سب اسکو کرنا چاہیے تھا جو کوئی اور کر رہا تھا
عالیاب کا ہاتھ پکڑے وہ روم سے باہر آئ سرخ رنگ کا گھیر دار پیروں تک آتا ہلکے کام والا فراک ہلکا سا میک اپ اور سمپل سی جیولری میں دوپٹہ سر پہ لئے وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اس ستم گر کی طرف بڑھ رہی تھی جو سب سے بے نیاز کھڑا تھا ایک نظر اسکو دیکھا تک نہیں تھا حمامہ کا دل ڈوبا
فریحہ نے اسکو سہارا دے کر حاشر کے ساتھ بٹھایا اسکے ساتھ بیٹھتے ایک کچھ ہوا دل کی دھڑکن حد سے سوا تھی لیکن وہ تو لا پروا بے نیاز بیٹھا رہا ایک دفع دیکھنے تک کی زحمت نہ کی حمامہ کا دل رویا لیکن آنکھوں میں آنسو نہ آنے دیا اپنے ٹھنڈے یخ ہاتھوں کو مڑوڑتی وہ سن سی بیٹھی رہی
اپنے ساتھ بیٹھے وجود کے دل کی دھڑکن وہ آسانی سے سن سکتا تھا لیکن کچھ بھی کہنا نہیں چاہتا تھا کیا کہتا کچھ تھا ہی نہیں کہنے کو بغیر کسی کی طرف دیکھے وہ بیٹھا رہا کچھ نہیں کہنا تھا کسی کے سوالوں کے جواب نہیں دینے تھے
رفعت بیگم سے رسم شروع کی تو باقی سب نے بھی انکی تقلید کی ماہ بیر اور عالیاب ایک سائیڈ پہ کھڑے تھے
"یہ دونوں اتنے اداس کیوں ہیں …." دونوں ہاتھوں سے اسکی بازو پکڑے اسکے ساتھ لگی ان دونوں کی اتری ہوئی شکلیں دیکھ کر بولی
ماہ بیر نے اسکو دیکھا جو گرے اور بلیک فراک میں خوبصورت سا حجاب لئے بغیر کسی مصنوعی آرائش کے بھی ماہ بیر کے دل میں اتر رہی تھی وہ خود بھی بلیک سوٹ میں ملبوس واجیہہ لگ رہا تھا
"کیوں کے انکی شادی ہو رہی ہے …" اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پہ رکھا
"لیکن شادی پہ تو انکو خوش ہونا چاہیے …" عالیاب نے اسکو دیکھا
"جی میری جان خوش تو ہونا چاہیے لیکن ہو سکتا ہے نہ وہ دونوں اپنی فیملی کو مس کر رہے ہوں …" ماہ بیر نے پیار سے اسکا گال تھپکا
عالیاب نے سر ہلا دیا
"تمھارے لئے ایک سرپرائز ہے …." اسکے کان میں ہلکی سی سرگوشی کی
"کیا سرپرائز ہے …" وہ اشتیاق سے بولی گرے آنکھیں چمک اٹھی تھی اور گالوں میں گڑھے نظر آۓ
زمان صاحب مسکرا کر دونوں کو دیکھ رہے تھے اپنی بچی کو خوش دیکھ کر وہ اللہ کا شکر ادا کرتے نہیں تھک رہے تھے
"یہ تو رات کو پتا چلے گا …" ماہ بیر اسکی ایکسائیٹمنٹ پہ مسکرایا
"ابھی بتا دیں نہ پلیز …." دونوں ہاتھوں سے اسکا ہاتھ پکڑ کر بولی
"نہیں میری جان رات کو پتا چلے گا اور بدلے میں مجھے بھی کچھ چاہیے …" ماہ بیر دلکشی سے مسکرایا
"کیا چاہیے میں ابھی دیتی ہوں آپ بتائیں نہ کیا سرپرائز ہے …" چھوٹی سی بچی کی طرح وہ ضدی ہوئی
"میری بیوی بن جاؤ میری جان اب مزید تم سے دور نہیں رہا جاتا …." جذبات سے بھرپور آنچ دیتا لہجہ تھا کے عالیاب کی ریڑھ کی ہڈی سنسنا گئی
اسکی نظروں کی تپش سے گھبرا کر چہرہ جھکا گئی رنگت میں سرخیاں گھل گئی دل ایک دم سے ہاتھوں میں دھڑکنے لگا
"بولو …" اسکی تھوڑی سے پکڑ کر چہرہ اوپر کیا تھا
لرزتی پلکیں رخساروں پہ سایہ فگن تھی گلابی لب کپکپارہے تھے
چہرہ واپس جھکاتی سر نفی میں ہلا گئی کتنی بھی کوشش کے بعد وہ اتنی ہمت نہیں لا پائی تھی کے ماہ بیر کو کچھ بتا پاتی اور ماہ بیر کو بتاۓ بغیر وہ اپنی زندگی شروع نہیں کر سکتی تھی .. ابھی بھی ایک دھڑکا لگا رہتا تھا کے کہیں کچھ ہو نہ جائے کوئی کچھ کہہ نہ دے ماہ بیر کو کہیں اور سے پتا نہ چل جائے .. پتا نہیں سب کچھ پتا چلنے کے بعد وہ کیا کرے گا یہ سوچ ہی جان لیوا تھی .. کہیں ایسا نہ ہو کے اسکی محبّت ماضی کی وجہ سے کہیں کھو جائے وہ محبّت جس کی وہ عادی ہو چکی تھی
"کوئی بات نہیں میری جان تمھارے لئے تو میں پوری زندگی انتظار کر سکتا ہوں .. میں نے تمہاری روح سے محبّت کی ہے تمہاری ان آنکھوں سے محبّت کی ہے . جسم کی چاہ نہ مجھے کبھی تھی اور نہ ہے بس تم میرے ساتھ رہنا ہمیشہ …" بہت نرمی سے اسکا ماتھا لبوں سے چھو کر بولا
عالیاب کی رگ رگ میں سکون اتر گیا کتنا پرسکون لمس تھا اس شخص کا …
کچھ ہی رسموں کے بعد سب نے ڈنر کیا اور حمامہ کو حاشر کے روم میں بھیج دیا حاشر کال کا کہتا اوپر چلا گیا تھا زمان صاحب گرینڈ پا کے ساتھ جا چکے تھے ماہ بیر اور عالیاب بھی چلے گئے تھے بس گھر کے لوگ ہی بچے تھے رفعت بیگم نے بھی کل شام کی فلائٹ سے واپس جانا تھا
اس گھر میں رہتے صرف کمرہ ہی چینج ہوا تھا اور شاید زندگی بھی ….
🌹🌹🌹
"کیا سوچ رہے ہو …" وہ تو سوچوں میں گم ہاتھ میں سیگریٹ پکڑا کھڑا تھا فریحہ شاہ کی آواز پہ چونکا
سیگریٹ پاؤں کے نیچے مسل مر انکی طرف مڑا
"کیا بات ہے حاشر مجھے بھی نہیں بتاؤ گے …" اسکی سرخ آنکھیں دیکھ کر ان کے دل کو کچھ ہوا تھا
"مجھے نہیں سمجھ آ رہا چچی میں کیا کروں آپ کی بات مان لی ہے لیکن میں خود الجھ گیا ہوں یہ سب نہیں چاہتا تھا میں …" انکے گلے لگ کر گلو گیر لہجے میں بولا
دل کر رہا تھا ماں جیسی چچی کے سامنے سب کہہ دے دل کا غبار نکال دے بچوں کی طرح انکی گود میں سر رکھ کر رو لے لیکن نہیں وہ مرد تھا مظبوط مرد وہ رو نہیں سکتا تھا
مجھے نہیں پتا بچے تم ہم سے کیا چھپا رہے ہو اور کیا بات تمہے پریشان کر رہی ہے جس سے وجہ سے تم اس رشتے سے انکاری ہو .. لیکن ایک بات یاد رکھنا جس ذات نے یہ پریشانی دی ہے وہ ہی اسکا حل بھی دے گا وہ سب جانتا ہے نہ تو سب ٹھیک کر دے گا .. تم بس ایک بار اپنے رشتے کو موقع دو وہ لڑکی اپنا سب کچھ چھوڑ کر تمھارے لئے آئ ہے لڑکیوں کا دل بہت نازک ہوتا ہے ذرا سی بات پہ وہ خوش ہو جاتی ہیں اور بہت بڑی بڑی باتیں خاموشی سے برداشت بھی کر لیتی ہیں .. تم اسکو شرارتی اور باتونی کہہ رہے تھے اب نہ تو وہ کوئی شرارت کرتی ہے نہ ہی زیادہ بولتی ہے بلکہ وہ تو اب بولتی بھی نہیں ہے … پہلے میری مانی ہے ایک بار اور مان لو مجھے یقین ہے تم خوش رہو گے … جاؤ بچے اب کمرے میں وہ انتظار کر رہی ہو گی .. اور ایک بات یاد رکھنا محبّت ہو یا نہ ہو تم اسکی عزت کرنا یہ یاد رکھ کے کل تمہاری بھی بیٹی ہو گی …"
پیار سے اسکے سر پہ ہاتھ پھیر کر چلی گئی
حاشر کافی دیر وہاں کھڑا خود سے ہی لڑتا رہا بہت ہمت کر کے کمرے کی طرف قدم بڑھاۓ
🌹🌹🌹
"بتا دیں نہ اب کیا سرپرائز ہے …" جب سے گھر آئ تھی تب سے یہی رٹ لگائی ہوئی تھی نہ خود کچھ کر رہی تھی نہ اسکو کرنے دے رہی تھی
"مجھے کیا ملے گا …." لیپ ٹاپ پہ انگلیاں تیزی سے چلاتے پوچھا تھا
"آپکو میں کافی بنا کے دوں گی اور ایک اچھی سی پینٹنگ بھی …"
گال پہ انگلی رکھے سوچنے کے انداز میں بولی تھی
"اچھا اور اگر میں منع کر دوں یہ لینے سے اور اپنی مرضی سے کچھ مانگوں تو …" نظریں اٹھا کر اسکو دیکھ جو بال کھولے پنک کلر کے نائٹ سوٹ میں چہرے پہ معصومیت لئے اسکے سامنے سراپا امتحان تھی
"پھر میں نہیں لیتی سرپرائز …" منہ پھلا کے دھپ سے بیڈ پہ بیٹھی
مٹھو کا روم میں آنا بند تھا ورنہ اس ٹائم اس کے ساتھ ہوتا
"ٹھیک ہے کافی ہی پلا دینا لیکن پینٹنگ میری پسند کی ہونی چاہیے …"
اسکا پھولا منہ دیکھ کر مسکرایا
"ٹھیک ہے ڈن اب دیں سرپرائز …." جلدی سے اٹھ کے اسکے پاس آتی صوفہ پہ بیٹھی
ماہ بیر نے ایک فائل اس کے ہاتھ پہ رکھی اور کھولنے کا اشارہ کیا
"یہ کیا ہے …" حیرت سے اسکو کھولتے پوچھا
ماہ بیر کچھ بولتا کے فون بجا اسکو کھولنے کے کہتے اٹھ کر بالکونی میں آ گیا
فائل کے اندر پیپر دیکھ کر عالیاب کو چار سو چالیس واٹ کا کرنٹ لگا
"ہاں بولو عاقب …" ایک نظر اسکو دیکھ کر فون کان سے لگایا
"ویری گڈ بہت اچھا کام کیا ہے … ابھی کچھ وقت رک جاؤ اب صرف مال پکڑنے سے کچھ نہیں ہو گا کسی بڑی مچھلی کو بھی پکڑنا ہو گا تب ہی کچھ ہو گا …"
عاقب نے کافی اچھی خبر سنائی تھی
"ہاں مجھے پتا چل گیا تھا اسکے انے کا .. نہیں ابھی تو کچھ نہیں کیا اسنے ..ہ ٹھیک ہے میں دیکھ لوں گا …" سنجیدگی سے کہتے فون بند کیا
واپس اتے نظر اس پہ گئی جو منہ کھولے حیرت سے پیپر دیکھ رہی تھی تو لب مسکراۓ
ایسے ہی تاثرات کی توقع تھی اس سے ….
حاشر کے روم میں وہ سن سی بیٹھی تھی کچھ بھی اس وقت سمجھ نہیں آ رہا تھا پتا نہیں کیا سہی تھا کیا غلط تھا دماغ ماؤف ہو گیا تھا اپنا معاملہ وہ اللہ پہ چھوڑ چکی تھی
اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھتی پتا نہیں کس سوچ میں گم تھی کے دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی
دل ایک دم سے دھڑک اٹھا
گہرا سانس لے کر حاشر نے روم میں قدم رکھا سامنے ہی بیڈ پہ وہ سرخ فراک میں بیٹھی تھی ایک نظر اسکو اور ایک نظر اپنے روم کو دیکھا جو موم بتیوں سے سجا پر فسوں ماحول بنا رہا تھا بھری قدم اٹھاتا صوفہ تک آیا کندھے سے شال اتار کر صوفہ پہ رکھی اور نائٹ سوٹ لے کر واشروم میں بند ہو گیا
اس قدر بے رخی پہ حمامہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے وہیں بیٹھی آنسو صاف کرتی رہی اٹھنے کی ہمت ہی نہ تھی
کچھ دیر بعد حاشر فریش ہو کے آیا اور ایک سائیڈ پہ لیٹ گیا ایک نظر اٹھا کر اسکو دیکھا تک نہیں جو اس کے لئے بیٹھی تھی
حمامہ کے منہ سے سسکی نکلی جسے ہاتھ سے اس نے دبا دیا
حاشر کے دل کو کچھ ہوا لیکن ضبط کیے پڑا رہا
"جو ہونا تھا ہو چکا اب تم اس بوجھ سے آزاد ہو کے سو سکتی ہو …" کچھ کہنے کو نہ ملا تو بھری آواز میں اتنا بول کر نائٹ بلب آن کیا
آنکھوں میں آنسو لئے لب کچلتی اپنا فراک سمبھال کر اٹھی اور چینج کیا حاشر کی شال اٹھا کر کبرڈ میں رکھی اور بیڈ کے کنارے پہ ٹک گئی کیوں کہ صوفہ اتنا بڑا نہ تھا کے وہ لیٹ سکتی
نیند دونوں کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ایک تکلیف میں تھی تو دوسرا بھی تکلیف میں تھا ایک تکلیف کی وجہ جانتا تھا جب کہ دوسری بغیر کسی غلطی کسی گناہ کے تکلیف جھیل رہی تھی
حمامہ کی آنکھوں سے بہت سے آنسو نکلتے تکیے میں جذب ہو رہے تھے بدن ہولے ہولے لرز رہا تھا وہ خوش باش رہنے والی لڑکی تھی لیکن خوشی تو شاید روٹھ گئی تھی اس سے .. اپنے منہ پہ ہاتھ رکھے سسکیاں روکنے کی کوشش کر رہی تھی
دوسری طرف حاشر چاہ کے بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا اس کے آنسو حاشر کی تکلیف میں اضافہ کر رہے تھے لیکن وہ ضبط کے کڑے مراحل سے گزرتا لیٹا رہا اسکا خود کا جسم بری طرح سے دکھ رہا تھا سر میں درد کی شدید لہر اٹھ رہی تھی لیکن وہ کسی سے نہیں کہہ سکتا تھا حمامہ تو رو کے اپنا دل ہلکا کر رہی تھی اور وہ تو رو بھی نہیں سکتا تھا
کچھ ہی دیر میں حمامہ کی بھاری سانسیں سنائی دینے لگی حاشر نے کروٹ لے کے چہرہ اسکی طرف کیا سرخ چہرہ چھوٹی سی ناک سرخ ہو رہی نیند میں بھی وہ ہچکیاں لے رہی تھی بند پلکوں پہ آنسو ٹہرے تھے سرخ لب بری طرح کچلے ہوے تھے حاشر غور سے اسکا چہرہ دیکھ رہا تھا جو اس کے دل میں بس گیا تھا
جی اس کے دل میں بس گیا تھا آج یا کل سے نہیں اسی وقت سے جب اسکو پہلی بار دیکھا تھا لیکن تب یہ نہیں پتا تھا کے وہ اسکی منکوحہ اسکی شریک حیات ہے لیکن پہلی ملاقات میں اپنی حرکت کی وجہ سے وہ حاشر کو زچ کر چکی تھی وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا لیکن پھر جب کسی اور سے اپنا نکاح یاد آیا تو حاشر پیچھے ہو گیا
پہلی ہی دفع وہ حاشر کے دل میں گھر کر گئی تھی اسکی حرکتیں حاشر کو غصہ دلاتی لیکن وہ ضبط کر جاتا چاچو سے بات کر کے وہ اپنا نکاح پاکستان میں ہی ختم کرنا چاہتا تھا لیکن پھر اسکو واپس آنا پڑا کچھ وقت سے اسکے سر کا درد بہت بڑھ گیا تھا تو پاکستان آنے سے پہلے وہ ٹیسٹ کروا کے آیا تھا پھر جس دن وہ حمامہ کے گھر گیا تھا اسکو ڈاکٹر کی ہی کال آئ تھی جس نے ارجنٹ لندن بلایا تھا تو حاشر کو جانا پڑا
پھر جو ڈاکٹر نے بتایا وہ حاشر کے لئے ناقابل یقین تھا اسکی زندگی کبھی بھی ختم جو سکتی تھی اس نے علاج شروع کیا تھا لیکن میڈیسن سے وہ ٹھیک نہیں ہو سکتا تھا اس کا ایک ہی حل تھا برین سرجری …. اس کے بعد بھی حاشر زندہ رہے اس کی کوئی گرانٹی نہیں تھی اس نے کسی کو بھی نہیں بتایا تھا اور ڈاکٹر کو بھی منع کیا تھا کسی کو بتانے سے
ایک ہفتہ میڈیسن یوز کی لیکن پھر غصے میں آ کر چھوڑ دی اور اس کے اگلے ہی دن حمامہ آئ تو پتا چلا کے اسکی منکوحہ ہے …. حاشر قسمت کی ستم ظریفی پہ کراہ کر رہ گیا .. آہ کیا ظلم کیا تھا قسمت نے ؟ محبّت ملی بھی تو زندگی کی اتنی بے یقینی میں … کیا کہتا وہ اور کیا کرتا یوں لگ رہا تھا سب ختم ہو گیا ہے .. جب کچھ نہ سمجھ آیا تو حاشر کو غصہ آنے لگا اپنی بے بسی پہ اپنی تکلیف پہ …
اور وہ غصہ حمامہ کی باتوں اور شرارتوں پہ نکل جاتا اگر یہ نہ ہوا ہوتا تو وہ بہت انجوۓ کرتا لیکن ہونا تو وہی جو قسمت میں لکھا ہے جو اللہ کو منظور ہو ..
اپنی زندگی کی بے یقینی کی وجہ سے وہ حمامہ کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کرنا چاہتا تھا اس پہ غصہ کر کے اسکو دھتکار کر خود سے دور کرنا چاہتا تھا لیکن شاید یہ بھی قسمت میں نہیں تھا .. وہ نہیں چاہتا تھا کے اگر اسکو کچھ ہو اور اس کی وجہ سے حمامہ کی زندگی تباہ ہو وہ نہیں چاہتا تھا اسکی وجہ سے حمامہ کو کوئی دکھ ہو .. مظبوط رشتہ بندھنے سے پہلے ہی وہ ختم کرنا چاہتا تھا کے تھوڑی تکلیف کے بعد وہ سب بھول جائے گی لیکن ایسا نہ ہو سکا وہ تو اسکو اپنے روم روم میں بسا چکی تھی
بہت کوشش کے بعد بھی جب علیحدہ نہ ہو سکا تو چپ سادھ لی جس نے حمامہ کو بھی چپ لگا دی .. جانتا تھا وہ کے اسکی وجہ سے ایسی ہو گئی ہے اسکی وجہ سے تکلیف میں ہے لیکن کیا کہتا کسی سے کے وہ مرنے والا ہے؟کیسے کہتا ؟ کیسے اپنوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے تکلیف میں دیکھتا ؟ ابھی تو صرف ایک انسان اسکی وجہ سے تکلیف میں تھا پھر سب تکلیف میں ہوتے تو وہ کیسے برداشت کر پاتا ان سب کا دکھ .. وہ تو وقت سے پہلے ہی مر جاتا …
جب کچھ نہ ہوا تو تھک ہار کے چاچو کی بات ماننی پڑی اور اسکی من چاہی نہ چاہتے ہوے بھی اسکی زندگی میں شامل ہو گئی … کاش کے نہ ہوتا یہ تو سب کتنا خوبصورت ہوتا کتنی حسین زندگی ہوتی اپنی محبّت کے ساتھ … لوگ اپنی محبّت کو پانے کے لئے کیا کیا کرتے ہیں اور ایک وہ ہے محبّت ملی بھی تو کیسے وقت پہ …
اسکا خوبصورت چہرہ دیکھتے حاشر کا دل کر رہا تھا کے سب کچھ پس پشت ڈال کر اسکو اپنا لے چھپا لے اسکو خود میں اتنے دن جو اسکو دکھ دیا اسکا بہت پیار بہت محبّت سے مداوا کرے لیکن پھر وہی سوچ سانپ کی طرح اسکو ڈس جاتی کے اسکو اپنا عادی کر کے محبّت دے کر اگر تم چلے گئے تو کیا ہو گا اسکا … تب وہ کتنی اذیت میں ہو گی اس وقت کون اسکو پیار سے سمبھالے گا .. ابھی تو شاید وہ بھول جائے لیکن بعد میں کیا بھول سکے گی ؟ کیا اپنی محبّت کو بھولنا اتنا آسان ہوتا ہے ؟
نیند میں بھی اسکی آنکھوں میں آنسو برداشت نہ ہوے تھے ذرا سا اسکے قریب ہوتے اپنے لبوں سے اسکے آنسو چن لئے .. اسکا لمس پاتے ہی اس کے چہرے کے تاثر بدلے شاید اسکو محسوس کر چکی تھی … اسکے جاگنے کے ڈر سے جلدی سے پیچھے ہوا اور اسکو آنکھوں کے راستے دل میں اتارنے لگا .. اپنی تکلیف بھلا چکا تھا …
🌹🌹🌹
"کیا ہوا ایسے کیوں بیٹھی ہو …" اسکو بت بنا دیکھ پاس بیٹھتے پوچھا
"یہ جھوٹ ہے نہ …" صدمے سے حلق سے آواز نہ نکلی
"نہیں میری جان یہ سو فیصد سچ ہے نہیں یقین تو یہ پڑھ لو صاف صاف لکھا ہے کے پرسوں تم یونی سٹارٹ کرو گی …" اسکا گال انگلیوں سے چھوتے پیار سے بولا
"پلیز میں نہیں جانا آپ اسکو کینسل کروا دیں پلیز آپ میرے اچھے دوست ہیں نہ میری ہر بات مانتے ہے نہ پلیز …"
معصوم سی صورت بنا کے منت کی
"اب یہ کینسل نہیں ہو سکتا تمہے پڑھنا ہے آگے اور اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا ہے انڈیپنڈنٹ بننا ہے …"
نفی میں سر ہلاتے ماہ بیر نے اسکی ریکویسٹ رد کی
"نہیں نہیں میں نہیں پڑھوں گی .. آپکو پتا ہے مجھے کتنا مشکل لگتا ہے پڑھنا .. اتنی ساری بکس ہوتی ہے اتنا سارا کام کرنا پڑتا ہے صبح کو اٹھ کر کالج بھی جانا پڑتا ہے اور تو اور ٹیچر کی ڈانٹ بھی سننی ہوتی ہے ..دیکھیں مسٹر خان میں نہیں پڑھ سکتی اگر میں چلی گئی تو مٹھو کا کیا ہو گا … اور ویسے بھی میں نے پینٹر بننا ہے پڑھ کے کیا کروں گی …" ہاتھ نچا کے تیز تیز بولتی وہ ماہ بیر کو مسکرانے پہ مجبور کر گئی
"مٹھو کو جیزی دیکھ لے گی تم نے پڑھنا ہے اور پینٹر تم پڑھنے کے بعد بھی بن سکتی ہو .. حمامہ بھی تمھارے ساتھ ہی ہو …" جلدی سے مسکراہٹ دبا کر بولا
"نہیں یہ ظلم ہے آپ ایسا نہیں کر سکتے میں نہیں پڑھنا …" منہ کا ڈیزائن بگاڑ کر تھوڑا زور سے بولی
"ٹھیک ہے اگر نہیں جانا تو مت جاؤ پھر میری بیوی بن جاؤ میں صرف تمہے تمہاری اسٹڈی کی وجہ سے ٹائم دے رہا تھا لیکن اب تم پڑھنا ہی نہیں چاہتی تو کوئی بات نہیں میرا ہی فائدہ ہے اس میں …" اس کے ہاتھ سے پیپر لے فائل میں ڈالتے سنجیدہ سا بولا تھا
اسکی شکل دیکھ کر ہنسی بڑی مشکل سے دبائی تھی
"مسٹر خان یہ غلط بات ہے آپ ہر بار ایسے مجھے بلیک میل نہیں کر سکتے …"
اس بار بھی اسکی دھمکی سن کر وہ غصہ ہوئی تھی
"میری جان میں کچھ بھی کر سکتا ہوں تمھارے حق میں بہتر ہے کے میری بات مان لو نہیں تو پھر تم مجھے نہیں روک سکتی …" پر تپش نظریں اسکے بکھرے سراپے پہ ڈالی
مقصد صرف یہ تھا کے وہ اسکی بات مان لے
اسکی نظروں کا مہفوم سمجھ کر وہ گھبراتی نظریں جھکا گئی اسکی نظریں پہلے کب وہ برداشت کر پائی تھی جو آج کر پاتی ….
"پلیز نہ مجھے نہیں پڑھنا …" سارے جہاں کی معصومیت چہرے پہ سجا کے بولی کہ ایک پل کو ماہ بیر کو بھی ترس آ گیا
لیکن پھر زمان صاحب کی بات یاد آئ کہ وہ پڑھائی سے بھاگنے کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہے … تو تھوڑا سخت لہجے میں بولا
"پڑھنا ہے تو ٹھیک نہیں تو سمبھالو گھر بھی اور گھر والا بھی …"
"مجھے پتا تھا آپ بھی باقی سب جیسے ہوں گے میری پڑھائی کے پیچھے پڑ گئے ہیں سب جس کو دیکھو یہی کہتا ہے پڑھ لو پہلے بابا اور اب آپ بھی آپ تو دوست ہیں میرے آپ کو میری بات ماننی چاہیے لیکن نہیں آپ بھی مجھے پڑھا پڑھا کر پاگل کرنا چاہتے ہیں … ضرور آپکو بابا نے کہا ہو مجھے پڑھانے کو .. ہاۓ اللہ میں کیا کروں سب میرے پیچھے پر گئے ہیں مجھ معصوم نے کسی کا کیا بگاڑا تھا جو یہ پڑھائی والا ظلم کر رہے مجھ پہ اللہ جی بچا لو …" عالیاب نظر نہ آنے والے آنسو صاف کرتی اونچا اونچا بول رہی تھی
ماہ بیر اسکی دھائیاں سنتا مسکرا رہا تھا آہستہ آہستہ ہی سہی لیکن وہ ٹھیک ہو رہی تھی ماہ بیر کے ساتھ تو وہ بہت زیادہ ٹھیک ہو گئی تھی اب یونی میں دیکھنا تھا کے وہ لوگوں کا سامنا کرتی ہے یہ پہلے کی طرح ڈر جائے گی …
جب دھائیوں کا کوئی اثر نہ ہوا تو منہ بسورتی بیڈ پہ جا کے بیٹھ گئی
"سن لیں مسٹر ظالم خان میں بات نہیں کروں گی …" منہ بگاڑ کر کہتی کمفرٹر میں گھس گئی
نیا نام سن کر ماہ بیر کی مسکراہٹ گہری ہوئی لیپ ٹاپ بند کر کے ٹیبل پہ رکھا اور چلتا بیڈ پہ آیا
"ٹھیک ہے مسز خان تم نہ کرنا بات میں خود کر لوں گا …" گھمبیر آواز میں کہتے اسکو باہوں میں بھر لیا
"چھوڑیں مجھے مسٹر ظالم خان میں ناراض ہوں …" اسکی پکڑ میں وہ پھڑپھڑا کر رہ گئی
"شرافت سے سو جاؤ عالی جان میرے سوۓ ہوے جذبات جاگ گئے تو پھر تمہاری نیندیں حرام ہو جائیں گی …" بوجھل آواز میں سرگوشی کرتے اسکے کان کی لو کو ہلکا سا دانتوں میں دبایا
عالیاب کی ریڑھ کی ہڈی سنسنا گئی
جلدی سے آنکھیں بند کر لی کہیں سچ میں وہ اپنے کہے پہ عمل نہ کر دے
ماہ بیر اسکی حالت دیکھ کر مسکراتا اسکے ماتھے پہ لب رکھتا آنکھیں بند کر گیا
🌹🌹🌹
صبح حاشر کی آنکھ کھلی تو روم خالی تھا ٹائم دیکھا تو دس بج چکے تھے
"او لیٹ ہو گیا آج …" جلدی سے واشروم میں گھسا
کچھ دیر بعد تیار ہوا باہر آیا لیپ ٹاپ بیگ اٹھا کے جانے لگا تھا کے دروازہ کھول کر حمامہ اندر آئ ہاتھ میں کافی مگ تھا
اسکو دیکھ کر حاشر کو کل کا واقع یاد آیا لیکن فلحال اسکا حمامہ سے بات کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا اسکا وجود حاشر کو کمزور کر رہا تھا
اسکو نظر انداز کر کے جانے لگا تو حمامہ بولی
"حاشر ناشتہ تو کر لیں …"
"نہیں کرنا …" بغیر مڑے کہتا جانے لگا تو پھر اسکی آواز آئ
"کیا ساری زندگی ایسے ہی رہیں گے …"
اسکی آواز نم تھی یا شاید وہ روئی تھی
"فکر مت کرو بہت جلد آزاد ہو جاؤ گی …" کہہ کے رکا نہیں تھا
بات کا پس منظر اور اسکی اذیت وہی جانتا تھا
حمامہ کی آنکھوں میں کرچیاں سی چبھنے لگی پلکوں پہ ٹہرا آنسو گال پہ لڑھک گیا ہارے ہوے انداز میں بیڈ پہ بیٹھی
"مت کریں حاشر ایسے .. آپکی بے رخی مار رہی ہے مجھے اتنا بڑا تو میرا قصور بھی نہیں ہے جتنی سزا دے رہے ہیں بکھر رہی ہوں میں سمیٹ لیں مجھے اس سے پہلے کے دیر ہو جائے .. اتنا بے مول مت کریں میری ذات کو نہیں سہہ سکتی اتنا سب میں.."
شکست خردہ سا لہجہ تھا
دروازے پہ رکے حاشر کو یہ الفاظ نیزے کی طرح لگے تھے وہ تو خود ٹوٹ کر بکھر چکا تھا اسکو کیسے سمبھالتا .. جس انسان کو یہ پتا چل جائے کے کسی بھی وقت وہ مر سکتا ہے وہ کیسے ٹھیک رہ سکتا ہے … موت تو فطری ہے ہر زی روح نے مرنا ہے لیکن سب کو یہ نہیں پتا ہوتا کے اسکی موت قریب ہے یہ وہ مرنے والا ہے …
ضبط سے اسکی آنکھیں سرخ پڑ گئی اس سے پہلے کوئی اسکو یہاں دیکھے وہ لمبے لمبے ڈاگ بھرتا چلا گیا
پیچھے حمامہ اپنی بے بسی پہ سسک اٹھی …
🌹🌹🌹
"سلام سائیں …" ساجد دانت نکل کر بولا
"ہم بولو کیوں فون کیا …" سگار کا کش بھرتے بولا
اس وقت وہ نائٹ سوٹ میں تھا نظریں سامنے ہی بیڈ پہ نہ زیبا لباس میں بیٹھی لڑکی پہ تھی شکل سے وہ کوئی گوری لگ رہی تھی
"سائیں دوبارہ سے مال کا بندوبست کیا ہے لیکن ابھی کم ہے اور پیسے بھی ختم ہو گئے ہے باقی کا مال کہاں سے پورا کروں .. "
"کتنے پیسے چاہیے اور …" بھاری آواز میں بولا
دماغ میں بہت کچھ چل رہا تھا
"پچیس کروڑ …" ساجد للچا کر بولا
"ہم تم ایسا کرو وہاں کسی سے رابطہ کرو میں نے یہاں بھی اپنا ٹھکانہ ڈھونڈھا ہے امید ہے کچھ دن تک مثبت جواب ملے گا …" پر سوچ نظریں لڑکی پہ جمی ہوئی تھی
"ٹھیک ہے سائیں جو آپکا حکم …" ساجد ادب سے بولتا فون بند کر گیا
"ساجد سائیں آپ نے جھوٹ کیوں بولا ہمیں صرف دس کروڑ ہی چاہیے تھے …" وہاں بیٹھا ایک نو جوان لڑکا بولا
"چپ کر جھوٹ کے بچے .. سارا کام ہم کریں مال ہم لے کے آئیں اسکو پہنچا کے بھی ہم آتے اور پیسے سارے وہ بڈھا لے جاتا ہے ٹانگیں قبر میں ہے اور پیسے کے پیچھے پڑا ہے .. میرا تو دل کرتا ہے اس بیسٹ کو بتا دوں سب اور اسکا قصہ ختم ہو لیکن وہ جتنا خطرناک ہے مجھے بھی ساتھ ہی مار ڈالے گا …" ساجد خراب موڈ سے بولا
"پر ساجد سائیں بیسٹ تو انکو مارتا جو غلط کام کرتے پھر سب نے اسکو بدنام کیوں کیا ہوا ہے …" اس لڑکے کو شاید کچھ پتا نہیں تھا
"ہمارا جو باس ہے نہ بڑا ہی بزدل ہے اپنا کیا سب بیسٹ کے متحے مل دیتا ہے .. باس جانتا ہے بیسٹ کون ہے لیکن اسکا کچھ بگاڑ نہیں سکتا بس جب دیکھو اس سے چھپتا رہتا ہے …" ساجد غصے سے بولا تھا
"کون ہے بیسٹ …" لڑکا تجسس سے بولا
"ابے یار مجھے تو صرف نام پتا ہے دیکھا تو میں نے بھی نہیں بس باس کو نام بتایا تھا تو وہ جان گئے تھے .. انکو پتا کون ہے .." ساجد نے حرام مشروب منہ سے لگایا
لڑکے نے سر ہلا دیا شکل سے کافی شریف لگ رہا تھا
🌹🌹🌹
کل کا پورا دن کچھ بوجھل سا گزرا تھا رفعت بیگم واپس چلی گئی تھی کچھ دن تک کمال شاہ اور فریحہ بھی جا رہے تھے انکا وہاں بزنس تھا جس کو دیکھنا تھا حمامہ بھی کل سے یونی شروع کر رہی تھی آج حاشر سے بات کرنے والی تھی وہ …
کچن کے کام سے فری ہو کے روم میں آئ تو حاشر بیٹھا لیپ ٹاپ پہ کچھ کام کر رہا تھا حمامہ کو پتا نہیں چلا وہ کب گھر آیا خیر سوچیں جھٹکتی اس تک گئی
حاشر اسکو روم میں آتا دیکھ چکا تھا سمجھ رہا تھا وہ کچھ کہنا چاہتی ہے لیکن اپنا کام کرتا رہا
"حاشر مجھے کچھ بات کرنی ہے …" بڑی ہمت سے بولی
صبح کے بعد اسکو بلانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی
حاشر نے محض سر ہلایا
"وہ مجھے کل سے یونی جوائن کرنی ہے …" دونوں ہاتھوں کی انگلیاں مڑوڑتی بولی نظریں جھکی ہوئی تھی
"کر لینا …" ایک نظر اسکے جھکے سر کو دیکھ کر واپس لیپ ٹاپ پہ نظریں گاڑ دیں
"کیا آپ مجھے ڈراپ کر دیں گے مجھے راستے نہیں معلوم …" نم آنکھوں سے التجا کی
اس طرح سے کہنا اسکو بہت برا لگ رہا تھا لیکن وہ بھی کیا کرتی کمال شاہ سے تو کہہ نہیں سکتی تھی جو بھی تھا اب بس یہ ستم گر ہی اسکا سب کچھ تھا
"میں ڈرائیور سے کہہ دوں گا …" آج وہ نارملی بات کر رہا تھا لہجہ بھی نرم تھا
شاید خود سے لڑتے لڑتے وہ بھی تھک گیا تھا
حمامہ سر ہلا کے چلی گئی تو حاشر نے دروازے کو دیکھا اور زور سے لیپ ٹاپ بند کیا اس سے اس طرح کا سلوک کرنا مشکل تھا بے حد مشکل … پہلے وہ اس سے دور رہ سکتا تھا روم بھی بند کر کے بیٹھ سکتا تھا لیکن اب وہ ہر پل اسکی نظروں کے سامنے رہنے والی تھی کیسے نظر انداز کرتا اسکو .. وہ اسکی بیوی تھی اسکی محبّت تھی …
سر ہاتھوں میں گرا لیا طبعیت شاید خراب ہو رہی تھی …
"عالی اٹھ جاؤ میں آخری بار کہہ رہا ہوں …" لیپ ٹاپ پہ کچھ کام کرتا وہ زور سے بولا تھا آج عالیاب کو یونی چھوڑنے کے بعد خود بھی اس نے آفس جانا تھا
لیکن عالیاب تو شاید مردوں سے شرط لگا کے سوئی تھی
"عالی میں جانتا ہوں تم میری آواز سن رہی ہو شرافت سے اٹھ جاؤ نہیں تو اچھا نہیں ہو گا …." اسکی لرزتی پلکیں دیکھ کر اندازہ ہو گیا تھا کے وہ جاگ رہی ہے
عالیاب کا دل زور سے دھڑکا لیکن ویسے ہی لیٹی رہی اور کمفرٹر زور سے مٹھیوں میں پھینچ لیا
اس کے ہاتھوں کی حرکت دیکھ کر ماہ بیر کو شرارت سوجھی لیپ ٹاپ گود سے اٹھا کے سائیڈ ٹیبل پہ رکھا اور ایک نظر اس کے چہرے کو دیکھا
ذرا سا اس کی طرف جھکا عالیاب کے دل نے سپیڈ پکڑی آنکھیں بند ہونے کی وجہ سے اسکو سمجھ نہیں آئ وہ کیا کرنے والا ہے
اسکے تاثر بدلتے دیکھ ماہ بیر کی مسکراہٹ گہری ہوئی آہستہ سے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے اور پوری شدت سے اسکے لبوں کو قید کر لیا
اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس کر کے اس نے پٹ سے آنکھیں کھول دی ماہ بیر کو خود پہ جھکے دیکھ اس نے ہاتھ ہلا کے اسکو پیچھے کرنا چاہا لیکن ہاتھ ماہ بیر کے مظبوط ہاتھوں میں قید تھے عالیاب نے زور سے آنکھیں بند کر لی
دل سینے میں دھڑک دھڑک پاگل ہو رہا تھا اسکی مظبوط پکڑ میں وہ ہل بھی نہیں پا رہی تھی
اسکی حالت اچھی طرح بگاڑنے کے بعد آزادی بخشی تو عالیاب تیز تیز سانسیں لیتی خود کو نارمل کرنے لگی
"اچھا طریقہ ملا ہے جگانے کا …" مسکراتا بیڈ سے اٹھ گیا ابھی کچھ اور کام بھی تھا
عالیاب آنکھیں پھیلا کے اسکو دیکھنے لگی کیا تھا یہ بندا …
"عالی میری جان اگر تم اگلے پانچ منٹ میں تیار نہیں ہوئی تو …" معنی خیز نظروں سے دیکھتے بات ادھوری چھوڑی
اسکی نظروں سے لپکتے جذبات کا مہفوم سمجھ کر وہ منٹ سے پہلے اٹھ کے واشروم بھاگی
صبح صبح اسکے چودہ طبق روشن ہو گئے تھے
اسکی تیزی دیکھ کر ماہ بیر مسکرایا
میری معصوم عالی جان ….
🌹🌹🌹
صبح کی فلائٹ سے کمال شاہ اور فریحہ بھی چلے گئے تھے جانا تو کچھ دن بعد تھا لیکن وہاں شاید کوئی ضروری کام آ گیا تھا ان کے جانے سے حمامہ کا دل مزید اداس ہو گیا تھا ان کے ہونے سے کم سے کم گھر خالی تو نہیں تھا ورنہ تو خالی گھر کاٹنے کو دوڑتا ہے سوچوں کو جھٹکتی وہ یونی کی تیاری کرنے لگی ماہ بیر کا شکریہ جس کی وجہ سے یونی میں جلدی داخلہ مل گیا اور عالیاب کے ساتھ سے کچھ حد تک تنہائی تو دور ہوتی ورنہ شاید وہ پاگل ہو جاتی
حاشر کمال شاہ کو ائیرپورٹ چھوڑ کے واپس آیا تو بغیر ناشتہ کیے آفس کے لئے تیار ہو گیا ڈرائیور ابھی تک آیا نہیں تھا شاید برف باری کی وجہ سے ٹریفک میں پھنس گیا تھا اور حاشر اسکو ایسے چھوڑ کے نہیں جا سکتا تھا وہیں لاؤنج میں رک کر اس کے آنے کا انتظار کرنے لگا
پانچ منٹ بعد حمامہ آئ تو اسکو دیکھ کر رک گئی وہ تو سمجھی اب تک جا چکا ہو گا
"جلدی آ جاؤ میں باہر ویٹ کر رہا ہوں …" ایک نظر اسکو دیکھ کر کہتا چلا گیا
حمامہ کو خوشگوار حیرت ہوئی پہلی بار وہ خود اسکو ساتھ آنے کو کہہ رہا تھا حمامہ کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے کتنے دنوں بعد اسکے چہرے پہ حقیقی خوشی نظر آئ تھی جلدی سے بیگ لیتی باہر گئی
حاشر گاڑی سٹارٹ کیے اسکا ویٹ کر رہا تھا سامنے سے وہ چلی آ رہی تھی چہرے پہ مسکراہٹ تھی اسکو مسکراتے دیکھ حاشر کے دل میں عجیب سا سکون اترا تھا دروازہ کھول کر بیٹھی تو حاشر نے گاڑی آگے بڑھا دی ..
دونوں کے درمیان خاموشی حائل تھی گاڑی کی خاموش فضا میں دونوں کی سانسیں سنائی دے رہی تھی
دونوں ہی کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن کیا یہ سمجھ نہ آیا …..
"حاشر …." گہری خاموشی کو حمامہ کی مدھم آواز نے توڑا
اسکے لبوں سے اپنا نام سن کر خوشی ہوئی تھی لب مسکرانا چاہتے تھے لیکن مسکرا نہ سکے
"ہمم …" نظر انداز کرنا چاہا لیکن کر نہ سکا
"مجھے کچھ کہنا ہے .. کیا آپ مانے گے…؟ ہاتھوں کو گود میں رکھے سر جھکا کے مدھم آواز میں بولی
دل زور سے دھڑک رہا تھا کہ منع نہ کر دے ..
"کہو …" حاشر کا ہر عضو سماعت بنا
"وہ .. کیا آپ مجھے روز یونی چھوڑ دے گے پلیز حاشر صرف میری ایک بات مان لیں …" ذرا سا ہچکچا کے بولی
دل دھک دھک کر رہا تھا اپنی دھڑکن کانوں میں سنائی دے رہی تھی
"ٹھیک ہے …" حاشر چاہ کر بھی منع نہ کر سکا
پہلے کی بات اور تھی وہ غصہ کر لیتا تھا لیکن اب وہ اس معاملے میں بھی بہت بے بس محسوس کر رہا تھا اس رات وہ جس طرح نیند میں بھی رو رہی تھی حاشر کو اپنا آپ مجرم لگنے لگا تھا وہ اسکی تکلیف کا قصور وار خود کو سمجھ رہا تھا
جو بھی تھا کم سے کم اب حاشر اسکو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا اسکے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ بھی حاشر کو سکون دے رہی تھی
باقی راستہ خاموشی سے کٹا حمامہ تو اسکا مثبت جواب سن کر حیران ہو گئی تھی اتنی جلدی اس کے ماننے کی امید نہ تھی پہلے کہاں وہ اس سے اتنے غصے سے بات کرتا تھا اور اب اتنی نرمی سے بات کر رہا تھا
"شاید ہمارے رشتے کو اکسیپٹ کر رہے ہیں …." سوچ کے ساتھ چہرے پہ پیاری سی مسکراہٹ آئ
حاشر کے دل میں سکون اتر گیا
🌹🌹🌹
بہت سارے بہانوں کے بعد بھی ماہ بیر کسی صورت نہ مانا تو عالیاب کو آنا پڑا پورے راستے میں اسکا موڈ خراب تھا ماہ بیر سنجیدہ سا ڈرائیو کرتا گاہے بگاہے اسکا پھولا ہوا منہ بھی دیکھ رہا لیکن فلحال وہ اسکو کوئی بھی ڈھیل دینے کے موڈ میں نہیں تھا
لیکن اپنی تسلی کے لئے صبح ہی اسکو ایک واچ پہنائی تھی جو اسکی واچ سے کنیکٹڈ تھی وہ ایک بار بٹن پریس کرتی تو ماہ بیر کو مسیج مل جاتا اور اس میں لگے جی پی ایس سے اسکی لوکیشن بھی پتا چل جاتی
عالیاب کا دل سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا لاسٹ ٹائم جو یونی میں ہوا تھا اس کے بعد وہ بہت خوفزدہ تھی لیکن ماہ بیر کو بتا نہیں پا رہی تھی اتنے سارے لوگ ایک ساتھ کیسے سامنا کرے گی وہ؟ پہلے ہر وقت ماہ بیر ساتھ ہوتا تو حوصلہ تھا لیکن اب تو وہ بھی نہیں ہو گا …
گاڑی یونی کے سامنے رکی تو عالیاب ویسے ہی بیٹھی رہی ماہ بیر نے اتر کس اسکی سائیڈ کا ڈور کھولا لیکن وہ باہر نہ آئ
ماہ بیر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر باہر نکالا تو اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اسکو دیکھا ماہ بیر کے دل کو کچھ ہوا
"کیا ہوا میری جان …" اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیتے پوچھا
"مجھے ڈر لگے گا …" بھرائی آواز میں بولی آنسو باہر آنے کو تیار تھے
"کوئی بات نہیں میری جان کبھی کبھی ہو جاتا ہے نئی جگہ ہے نہ اس لئے کچھ دن میں ٹھیک ہو جائے گا .. کوئی تمہے کچھ نہیں کہے گا اور اگر کہے تو اسکی اچھی طرح پٹائی کر دینا .. اگر زیادہ ڈر لگے تو یہ جو تمہاری واچ پہ بٹن لگا ہے بس اسکو ایک بار پریس کر دینا میں آ جاؤں گا .. حمامہ بھی ہو گی نہ تمھارے ساتھ .. کچھ نہیں ہو گا .. ہمم .." پیار سے اسکو سمجھایا
پر …" عالیاب کچھ کہنے لگی ہے
"ایک مہینے سے میرے ساتھ ہو کیا مجھ پہ یقین نہیں …" اسکا چہرہ اوپر کرتے پوچھا
"مجھے یقین ہے آپ ایسے تو نہ کہیں …" کہتے سر جھکا گئی
"آئ ایم بلیسڈ میری جان …" اسکی پلکوں پہ ٹہرے موتی لبوں سے چن لئے
اسکا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گیایونی میں سٹوڈنٹس کا ریلہ تھا ہر طرح کے لڑکے لڑکیاں وہاں نظر آ رہے تھے ماڈرن ڈریسز میں موجود لڑکیاں وہاں ٹہلتی نظر آ رہی
عالیاب کو ایسے لگ رہا تھا جیسے سب اسکو دیکھ رہے ہوں ماہ بیر کے ہاتھ پہ گرفت سخت کر دی تو ماہ بیر نے ایک نظر اسکو دیکھ کر اسکا گال تھپکا
سامنے کی سیڑھیوں کے پاس حمامہ نظر آ گئی حمامہ کی نظر ان دونوں پہ گئی تو جلدی سے ان کے پاس آئ
"کہاں تھے آپ میں کب سے وائٹ کر رہی تھی …"
"میں نے کچھ نہیں کیا تمہاری دوست ہی نہیں آ رہی تھی …"
ماہ بیر نے مسکرا کے عالیاب کو سامنے کیا جو اس کے چوڑے وجود میں چھپ رہی تھی
"اس کو تو آپ رہنے دیں پتا نہیں کیا مسلہ ہے کتابوں میں جن بھوت نظر آتے ہیں اسکو سارا سال روتی ہے پڑھائی کے نام پہ لیکن پھر سال کے آخر میں نمبر بھی لے جاتی ہے اور ہم جیسے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں …." حمامہ منہ بناتی جل کر بولی
بہت دنوں بعد خود کو ریلیکس فیل کر تھی تھی شاید حاشر کے نرم رویے کی وجہ سے
"تم تو ویسے ہی مجھ سے جلدی ہو جل ککڑی …" عالیاب نے ناک چڑھا کو جواب دیا
ماہ بیر مسکرا کے اسکو دیکھ رہا تھا
"اوکے تم دونوں اچھی طرح لڑ لینا میں چلتا ہوں …" ماہ بیر نے اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑوایا تو وہ پھر سے خوفزدہ ہوئی
"کچھ نہیں ہو گا .. اپنا خیال رکھنا …" اسکا ماتھا چوم کر چلا گیا
اسکا خود کا بھی بلکل دل نہیں کر رہا تھا اسکو ایسے چھوڑ کے جانے کا لیکن اب اسکو ہر وقت ساتھ نہیں رکھ سکتا تھا اسکی پانی سے بھری گرے آنکھیں دیکھ کر اسکے دل کو کچھ ہوا اس لئے چلا آیا کیوں کہ اگر کچھ اور دیر رکتا تو پھر اسکو چھوڑ کے ہی نہ جاتا …لیکن یہ سب اس کے لئے ضروری تھا
ماہ بیر کو جاتے دیکھ عالیاب نے گہری سانس لی آنسو اندر اتارے ڈر تو لگ رہا تھا لیکن ہمت تو کرنی ہی تھی
"ویسے تمہے اتنی جلدی نہیں آنا چاہیے تھا ابھی دو دن تو ہوے ہیں شادی کو حاشر بھائی کو ٹائم دیتی …" عالیاب نے بڑی آنٹی کی طرح نصیحت کی
"تمھارے حاشر بھائی کو میں شام کو ٹائم دے دوں گی فلحال چلو پہلے ڈیپارٹمنٹ ڈھونڈھ لیں …" اسکا ہاتھ پکڑ کر اوپر چلی گئی
"آ جاؤ ان سے پوچھتے ہیں …"
سامنے ہی کچھ لڑکے لڑکیوں کے گروپ کی طرف اشارہ کر کے بولی
زیادہ تر سٹوڈنٹس ایسے ہی گروپس میں کھڑے تھے
"ایکسکیوز می …" حمامہ ایک لڑکی سے بولی
عالیاب نے روکنے کی کوشش کو لیکن وہ سن نہیں رہی تھی
"یس …" وہ لڑکی ہنستی ہوئی انکی طرف مڑی
بلیک کلر کا ٹاپ پہنے گولڈن ڈائی بال اور ڈارک میک اپ میں وہ سٹوڈنٹ تو نہیں ماڈل ضرور لگ رہی تھی
"میتھس ڈیپارٹمنٹ کہاں ہے ..؟ " حمامہ اسکو دیکھ کر بولی
تو اس نے خوش اخلاقی سے ہاتھ سے اشارہ کرتے بتا دیا
حمامہ تھنکس کہتے اسکا ہاتھ پکڑ کر اس طرف آ گئی اس لڑکی نے ٹھیک بتایا تھا ورنہ اکثر نیو سٹوڈنٹس کی ریکنگ ضرور کرتے تھے ان دونوں نے شکر کیا کے جلدی کلاس مل گئی
عالیاب تو بار بار اپنے اس پاس خوفزدہ نظروں سے دیکھتی ہاتھ واچ پہ ہی تھا ادھر کچھ ہو اور ادھر وہ بٹن دبا دے
لیکن کچھ نہ ہوا الموسٹ پورا ٹائم سکون سے گزرا تھا
عالیاب بری طرح ماہ بیر کو مس کر رہی تھی لیکن اب ہر وقت اس کے ساتھ چپک بھی نہیں سکتی تھی اسکو کام بھی تھا
ماہ بیر کا حال بھی اس سے مختلف نہیں تھا وہ تو منٹ منٹ گن کے گزار رہا تھا اب ٹائم ختم ہو اور اب وہ عالیاب کے پاس پہنچ جائے آج اسکو ٹائم سب سے برا لگ رہا تھا …
🌹🌹🌹
"عاقب ایک بات سمجھ نہیں آئ …" لاہور کے فلیٹ کے لاؤنج میں عمر کی پر سوچ آواز گونجی
آج کل وہ بس مچھلی کے پھنسنے کا انتظار کر رہے تھے
"کیا …" عاقب موبائل میں مصروف تھا اسکو ماہ بیر کو ہر چیز کی اپ ڈیٹ دینی ہوتی تھی
"سر نے اتنے سال بعد ہی کیوں انکو اپنا کلیو دیا .." عمر کافی الجھا ہوا تھا
"کیوں کہ سر کو پتا چل گیا ہے کے وہ کون ہے اس لئے سر نے اسکو بھی بتا دیا کے وہ کون ہیں …" عاقب نے نظریں اٹھا کے اسکو دیکھا
عمر سوچوں میں گم بول رہا تھا
"وہ وہی ہے نہ جس کی وجہ سے سر کی وائف …."
"بکواس بند کرو سر کو بھنک بھی لگ گئی نہ ہم یہ سب جانتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں ہی ٹھکانے لگا دیں گے .. آئندہ یہ الفاظ اپنی زبان سے نہ نکالنا ورنہ کچھ بولنے کے لائق نہیں رہو گے …" عاقب نے کشن اٹھا کے اسکے منہ پہ مارا
عمر نے برا سا منہ بنایا وہ عمر میں بھی چھوٹا تھا اور تھوڑا نہ سمجھ بھی لیکن بہت کام کرتا تھا
"ساجد بھی لندن جا رہا ہے کچھ دن تک …"
عمر کی آواز پہ عاقب چونکا
"لیکن اسکا باس بھی تو وہیں ہے …." عاقب کو حیرت ہوئی
"وہ اپنے باس سے چھپ کر جا رہا ہے اپنے کام سے …" عمر لاپروائی سے صوفہ پہ آڑا ترچھا لٹا بولا رہا تھا
"اچھا پھر تو سر کو ضرور پتا چلنا چاہیے کام کی نوعیت کا …" عاقب نے کہتے ہی کال ملائی
یونی سے واپسی پہ عالیاب کافی گم سم سی تھی ماہ بیر کے پوچھنے پہ بھی تھک گئی ہوں کہہ کر چپ ہو گئی لیکن ماہ بیر کو کچھ اور ہی لگ رہا تھا جو وہ بتانا نہیں چاہتی تھی
یونی میں لڑکے نے کسی لڑکی سے بتمیزی کی تھی اور وہ لڑکی کافی رو رہی تھی حمامہ اور عالیاب نے دیکھا تھا اس لڑکی کو جو شکل سے معصوم سی لگ رہی تھی پہلے کی طرح عالیاب کو ڈر تو نہیں لگا تھا لیکن اپنا بھولا ہوا ماضی ضرور یاد آ گیا تھا وہ تلخ حقیت جس سے وہ کبھی منہ نہیں موڑ سکتی تھی بے شک کوئی یہاں نہیں جانتا تھا لیکن وہ نہیں بھول سکتی تھی اتنے ٹائم سے ماہ بیر کی سنگت میں رہتے یہ بات وقتی طور پہ تو بھول گئی تھی لیکن دماغ سے نہیں مٹی تھی اور آج پھر سے وہی سوچ اسکو بچھو کی طرح ڈس رہی تھی کہ اسکو پتا چلے گا تو کیا ہو گا?
ماہ بیر غور سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ رہا تھا اسکو سمجھ آ رہی تھی کہ کوئی بات اسکو پریشان کر رہی ہے لیکن شاید ابھی وہ اس پہ اتنا یقین نہیں کرتی کے بے جھجھک کہہ دے .. یہ سوچ کر اسکو تکلیف ہوئی کہ ابھی بھی اس پہ اتنا یقین نہیں کہ اپنے دل کی بات شئیر کر سکے .. لب پھینچے سٹئرنگ پہ گرفت مظبوط کر دی
گھر پہنچ کے بھی عالیاب بغیر کچھ کہے روم میں چلی گئی کھانا بھی بس براۓ نام کھایا ورنہ ماہ بیر نے اسکی پسند کی کوئی چیز بنائی ہو اور وہ نہ کھاۓ ہو نہیں سکتا …
کھانا کھا کے گھر سے باہر آ گئی جہاں مٹھو تھا اب ماہ بیر کو اسکا رویہ پریشان کر رہا تھا لیکن فل وقت اسکو اکیلا چھوڑ دیا
عالیاب کو آتے دیکھ مٹھو چہک اٹھا کافی دن بعد اسکے پاس آئ تھی
یاب … جلدی سے اسکے پاس آیا تو عالیاب نے ہلکا سا مسکرا کر اسکو ہاتھ میں لیا پیار سے اسکی فر پہ ہاتھ پھیرا تو وہ بھی اپنا چہرہ اسکے ہاتھ پہ لگانے لگا
"میں کیا کروں مٹھو اب یہ بوجھ مجھ سے نہیں اٹھایا جاتا .. میں مسٹر خان سے مزید یہ سب نہیں چھپا سکتی وہ کتنا پیار کرتے ہیں مجھ سے اور میں نے انکو کچھ بھی نہیں دیا .. میں انکو بتانا چاہتی ہوں لیکن ہمت نہیں کر پا رہی ..ک کیا یہ سب بتانے کے بعد میں ان سے نظر ملا سکوں گی ? کیا سب پہلے جیسا ہی رہے گا ? اگر نہ ہوا تو ? میں مر جاؤں گی مٹھو نہیں ہوتا یہ مزید برداشت .. میرا دل انکے نام پہ دھڑکنے لگا ہے انکے ساتھ میں نے جینا سیکھ لیا ہے .. کیسے برداشت کروں گی میں اگر وہ مجھ سے دور ہو گئے تو .. "
آنکھوں میں آنسو لئے ہر بار کی طرح اپنا دل مٹھو کے سامنے کھول رہی تھی جو خاموشی سے سب سن رہا تھا اس کے ہاتھ پہ پر رکھ کر تسلی دے رہا تھا ہمیشہ کی طرح .. بے شک وہ یہ سب نہیں سمجھ سکتا تھا لیکن اس سے بات کر کے اچھا لگتا تھا ..اچھے دوست کی طرح وہ سب سنتا تھا
اوپر بلکونی میں کھڑا ماہ بیر خونخوار نظروں سے دیکھ رہا تھا
"میری بیوی مجھے چھوڑ کر اس طوطے سے سب باتیں کرتی ہے اس کا مستقل علاج کرنا پڑے گا …"
مٹھو سے بات کرتے دیکھ ماہ بیر کو وہ دن یاد آیا جب نکاح سے پہلے عالیاب مٹھو سے بات کر رہی تھی ..
ماہ بیر کو وہ اپنا سب سے بڑا دشمن لگا
کافی ٹائم مٹھو کے ساتھ بیٹھ کر اوپر گلاس ہاؤس آ گئی فلحال ماہ بیر کا سامنا نہیں کرنا چاہ رہی تھی اس سے بات کرنے کے لئے ہمت چاہیے تھی جو ابھی اس کے پاس نہ تھی ماہ بیر بھی نیچے کام میں بزی ہو گیا تو وقت گزرنے کا پتا نہ چلا روم میں آیا تو وہ سوئی ہوئی تھی یا شاید ماہ بیر کے سوالوں سے بچ رہی تھی
ماہ بیر خراب موڈ کے ساتھ خود بھی لیٹ گیا اسکا ارادہ باہر ڈنر کرنے کا تھا لیکن عالیاب کو اٹھانا مناسب نہ لگا ایک تو آج عاقب نے جو بتایا تھا اسکو سن کے بڑی مشکل سے اس نے ضبط کیا ہوا تھا اوپر سے عالیاب …
ابھی اسکو سوۓ کچھ دیر ہی ہوئی تھی جب ایسا لگا کے عالیاب رو رہی ہے ماہ بیر نے جلدی سے اٹھ کر اسکو دیکھا آج وہ ماہ بیر سے الگ دوسری سائیڈ کروٹ لئے سو رہی تھی بدن ہولے ہولے لرز رہا اتنی ٹھنڈ میں بھی اسکو پسینہ آ رہا تھا بند آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے چہرے پہ خوف اور تکلیف کے ملے جلے تاثر تھے شاید وہ کوئی برا خواب دیکھ رہی تھی
نہیں پلیز چھوڑ دو جانے دو مجھے ….
نیند میں بڑبڑائی
کمفرٹر کو زور سے مٹھیوں میں جکڑ لیا
نہیں جانے دو … چھوڑو!…
سر ادھر ادھر کرتی وہ چلائی
عالی میری جان کیا ہوا آنکھیں کھولو دیکھو کچھ نہیں ہے تم ٹھیک ہو آنکھیں کھولو میری جان …..
ماہ بیر نے تڑپ کے اسکو باہوں میں لیا
وہ ابھی بھی سر ہلاتی بڑبڑا رہی تھی پورا بدن بھیگا ہوا تھا
ماہ بیر سمجھ گیا اتنے ٹائم بعد پھر اسکو وہی خواب آیا ہے
"عالی اٹھو آنکھیں کھولو …." ماہ بیر نے اسکو جھنجھوڑا
تو وہ ہوش میں آئ آنکھیں جھپکا کے یہاں وہاں دیکھا پھر ماہ بیر کو دیکھا
اگلے ہی لمحے وہ ماہ بیر کے گلے لگتی تڑپ تڑپ کے رو دی
بدن کانپ رہا تھا منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی آنکھوں سے نکلتے آنسو ماہ بیر کے سینے میں جذب ہو رہے تھے
اور وہ لب پھینچے اسکا سر تھپک رہا تھا
"برا خواب دیکھا تھا کچھ نہیں تم ٹھیک ہو بس چپ ہو جاؤ میں ہوں نہ …" اسکے بالوں پہ لب رکھتا بولا
وہ مزید اس میں سمٹی یوں لگ رہا تھا وہ سچ میں پھر سے وہیں اس بھیانک جگہ پہنچ گئی ہے پھر سے وہی سب ہو رہا ہے .. اتنے دن سکون سے گزرنے کے بعد پھر سے یہ خواب اسکو بری طرح سے ڈرا گیا تھا …
"مم مجھے ک کچھ بتانا ہے آ آپکو …." کمر سے اسکی شرٹ مٹھیوں میں زور سے جکڑی ہوئی تھی
بس اب وہ مزید نہیں برداشت کر پا رہی تھی ابھی نہیں تو کبھی نہ والی حالت تھی اسکی …
"ہم صبح بات کر لے گے میری جان تم سو جاؤ میں یہیں ہوں تمھارے پاس …" کسی قیمتی متاع کی طرح اسکو باہوں میں سمیٹا تھا
"نہیں ابھی …" نفی میں سر ہلاتی لب کاٹتی بولی تھی
جو بھی کہنا تھا ابھی کہنا تھا ورنہ یہ خوف یہ ڈر اس سے دور ہونے کا خدشہ اسکو مار دیتا
میں بارہ سال کی تھی بہت ضدی تھی میں بہت ….
ماہ بیر کے بولنے سے پہلے وہ گم سم سے برستی آنکھوں سے بولنا شروع ہوئی تھی ایک لمحے کو بھی ماہ بیر سے الگ نہ ہوئی خوبصورت گرے آنکھوں سے آنسو بہہ اسکا سینہ بھیگا رہے تھے اٹک اٹک کر بہت ہمت سے بہت سی اذیت برداشت کر کے ایک ایک لفظ ماہ بیر کو بتا رہی خود پہ کیا گیا ایک ایک ظلم ہر ستم بتا رہی تھی آنکھیں مسلسل برس رہی تھی
باہر رات دھیرے دھیرے سرک رہی تھی اندر نائٹ بلب کی روشنی میں اپنا چہرہ اسکے سینے میں چھپاۓ سب کچھ بتا رہی تھی اس بھیانک وقت کو یاد کر کے بدن کانپ گیا روح کے زخم تازہ ہو گئے تھے لیکن اب وہ چپ نہیں رہ سکتی تھی
ماہ بیر اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتا کمال ضبط سے سب سن رہا تھا اسکی لہو ہوتی آنکھیں ماتھے اور گردن کی تنی ہوئی رگیں اس کے غصے کا پتا دے رہی تھی دل میں جلتی آگ اور بھڑک گئی تھی چہرے کو تاثر اس حد تک خطرناک ہو گئے تھے کو اگر عالیاب دیکھ لیتی تو ایک لفظ نہ بولتی یا شاید بے ہوش ہی ہو جاتی لیکن وہ آنکھیں بند کیے سب کہہ رہی تھی اپنا دل کھول کر اسکے سامنے رکھ رہی تھی جو اسکا محرم تھا اسکا شوہر اسکا دیوانہ تھا ….
اتنے وقت سے بیسٹ کو کنٹرول کیا ہوا تھا لیکن اب اور نہیں اب اس آگ میں وہ سب جلنے والے تھے ایک ایک انسان .. اسکی جان پہ جس نے ظلم کیا تھا اسکو حساب دینا تھا .. اب وقت آ گیا تھا اس کے حساب کا جس نے ماہ بیر خان کی جان کو دکھ دیا اس سے اسکا بچپن چھین لیا نہ صرف اس سے بلکہ کتنے ہی ایسے بچوں سے جو بے گناہ تھے معصوم تھے …
رو کر سسک کر خود پہ ہوا ہر ظلم اسکو بتا دیا ہر تکلیف اسکو بتا دی اسکے سینے سے لگی پھوٹ پھوٹ کے رو دی ..
ماہ بیر نے کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے سب سنا سیاہ آنکھیں لہو رنگ ہو گئی تھی جیسے کسی بھی وقت خون نکل آۓ گا .. اسکی معصوم سی جان نے اتنا کچھ کیسے برداشت کیا تھا یہ سوچ ہی اسکا غصہ اسکا تیش بڑھا رہی تھی ..بے ساختہ اسکو تاشہ آپی یاد آئ ایک آنسو چپکے سے اسکی آنکھ سے نکلا اور عالیاب کے بالوں میں جذب ہو گیا
"بس ایک لفظ اور نہیں …" اسکو سامنے کرتا سنجیدگی سے بولا
بہت مشکل سے اس نے خود کو کنٹرول کیا تھا اسکے اندر آگ لگی تھی غصے اور اشتعال کو ضبط کر رہا تھا یہاں تک کے بازو کی رگیں تک نظر آنے لگی تھی
عالیاب نے خوفزدہ نظروں سے اسکو دیکھا
اسکی خوفزدہ پانی سے بھری گرے آنکھیں دیکھ کر ماہ بیر کو پہلی ملاقات یاد آئ
گہرے سانس لے کے خود کو نارمل کر رہا تھا جو کے ناممکن ہی تھا
عالیاب کو اس سے خوف آنے لگا اسکو لگا شاید بتا کر غلطی کر دی ہے دل بری طرح دھڑک رہا تھا آنکھوں سے آنسو ابل ابل کر باہر آ رہے تھے ہونٹ بری طرح دانتوں میں کچلے تھے
ماہ بیر کمرے میں ٹہلتا اپنے اندر ابلتے لاوے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا تھا عالیاب پہلے ہی بہت ڈری ہوئی تھی اس کے سامنے وہ بلکل بھی غصہ نہیں کر سکتا تھا
"آ آپ مم مجھے چھ چھوڑ دے گے …." اتنی تناؤ بھری فضا میں اسکی معصوم سی لڑکھڑاتی آواز گونجی
ماہ بیر نے چونک کر اسکو دیکھا دیکھتے ہی آنکھوں میں خود بہ خود نرمی آ گئی
اس کے ساتھ بیٹھتے پیار سے اسکو خود سے لگایا عالیاب کا سانس رکا ہوا تھا دل کسی انجن کی طرح دھڑک رہا تھا ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے گرے آنکھیں بار بار پانی سے بھر رہی تھی
"نہیں میری جان کوئی اپنی سانسیں اپنی زندگی بھی چھوڑ سکتا ہے کیا …"
اسکا چہرہ ہاتھوں میں لئے بولا لہجہ خود بہ خود نرم ہو گیا تھا
اسکا جواب سن کر عالیاب نے نظریں اٹھا کے اسکو دیکھا
اس نے کیا کہا یقین نہ آیا پلکوں پہ ٹہرے موتی گالوں پہ بکھرنے لگے
روتے روتے ہچکی بندھ گئی
"نہیں میری جان اب نہیں بہت رو لیا تم نے اب تمہارا ایک آنسو نہیں بہے گا تمہاری آنکھوں کے یہ موتی میرے لئے بہت قیمتی ہیں انکو ضائع مت کرو .. جتنا اذیت تمھارے حصے میں تھی وہ ختم ہوئی .. اب انکی باری جو تمہاری ہر اذیت ہر تکلیف کی وجہ ہیں .." انگلی سے اسکے آنسو صاف کرتے اسکو خود میں پھینچ لیا
عالیاب کو اب تک یقین نہ آ رہا تھا کہ اسکو یہ سب سن کے فرق ہی نہ پڑا تھا وہ ویسا ہی تھا یا شاید اس سے بھی زیادہ ….
"مجھے پتا ہے اسکا …"
سر اٹھا کے اسکی آنکھوں میں دیکھتی بولی
"کون تم جانتی ہو اسکو …" ماہ بیر کو صرف شک تھا کسی پہ
عالیاب نفرت سے اسکا نام بولی تھی
ماہ بیر کا شک درست تھا آج ہی اسکو عاقب سب بتا چکا تھا اسکا اور عالیاب کا مجرم ایک ہی انسان تھا …
"آج تک میں نے کسی کو نہیں بتایا مجھے ڈر لگتا ہے ان سے آج بھی میں اس اذیت اس تکلیف کو بھلا نہیں سکی آج بھی وہ بھیانک دن وہ اذیت بھری راتیں میری تکلیف کی وجہ ہیں کاش مجھ میں اتنی ہمت ہوتی تو میں پہلے سب کو بتا سکتی تو آج وہ یوں کھلا نہ گھوم رہا ہوتا …."
کہتی اس میں چھپ سی گئی تھی
"بہت کھلا گھوم لیا بہت چھوٹ دے لی اسکو اب نہیں .. اب حساب کتاب کا وقت ہے ہر عمل کی سزا دینے کا وقت ہے جو اذیت میری عالی جان کو دی میری تاشہ آپی میری مما کو دی اب وہ سب تمھارے حصے میں آۓ گی اب تم دیکھنا میں کیا کرتا ہوں …" انتہائی نفرت سے سوچا تھا
ماہ بیر سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ انسان ہو سکتا ہے ….
سب کچھ بتا کے عالیاب پر سکون تھی اب کچھ کھونے کا ڈر نہیں تھا اب وہ اس کے ساتھ تھا اسکا محافظ اسکی ڈھال اب کسی کا ڈر نہیں رہا تھا …
اس کے سینے سے لگی اسکے دل کی دھڑکن سن رہی تھی جو صرف اسکا ہی نام لے رہی تھی
عالیاب کے بالوں میں انگلیاں چلاتے پر سوچ نظریں سامنے دیوار پہ جمی تھیں
🌹🌹🌹
دن ایسے ہی معمول سے گزر رہے تھے ماہ بیر سب جان چکا تھا بس اب سہی وقت کا انتظار تھا حاشر کی پریشانی کی وجہ بھی ڈھونڈھ رہا تھا لیکن اسکو ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کے اسکا ہیلتھ پرابلم بھی ہو سکتا ہے .. عالیاب اور حمامہ یونی باقاعدگی سے جاتی عالیاب کافی بہتر تھی اس دن ایک بار پھر نہ جانے کی ضد کی تھی لیکن ماہ بیر نے سمجھا دیا تھا
حمامہ اور حاشر کے درمیان ابھی بھی خاموشی ہی تھی جسے دونوں میں سے کسی نہ بھی توڑنے کی کوشش نہیں کی تھی ضروری بات کے علاوہ کوئی بات نہ ہوتی
حاشر کی طبیعت دن بہ دن گر رہی تھی جسے وہ خود جان بوجھ کر نظر انداز کر رہا تھا غصہ بے بسی تکلیف اذیت یہ پتا نہیں کیا تھا لیکن وہ جھنجھلا گیا تھا اپنی حالت سے کبھی وہ چیزیں بھول جاتا کبھی کبھی وومٹ آ جاتی سر کا درد نا قابل برداشت ہوتا جا رہا تھا زکام مسلسل رہنے لگا تھا
کبھی تو اتنی شدید سردی لگتی کے جم گیا ہو جسم درد سے ٹوٹنے لگتا تو دوائی کھا لیتا جس سے وقتی طور پہ آرام آ جاتا تھا جب بھی طبیعت ذرا سی خراب ہوتی حمامہ کی نظروں سے دور ہو جاتا کہ کہیں وہ دیکھ نہ لے
حمامہ کو سامنے دیکھ کر اپنے پاس دیکھ کر دل بے قابو ہوتا اس سے بات کرنا چاہتا اسکو بتانا چاہتا کچھ اسکی سننا چاہتا لیکن کچھ بھی نہیں ہو پا رہا تھا وہ دن بہ دن اسکی روح میں اتر رہی تھی اسکی دھڑکن بنتی جا رہی تھی جتنا وہ اس سے دور ہونا چاہتا تھا اتنی ہی وہ قریب آ گئی تھی اسکی سانسوں میں بس گئی تھی .. لیکن یہ بے بسی ….
اب تو اسکی نظروں سے بھی اسکی چاہت اسکی محبّت اسکا عشق ظاہر ہونے لگا تھا حمامہ سے نظریں ملانے سے گریز کر رہا تھا کہیں وہ اسکی آنکھوں میں لکھی محبّت کی تحریر پڑھ نہ لے کہیں اسکے جذبات سے آشنا نہ ہو جائے .. اگر ایسا ہوا تو وہ نفی نہیں کر سکتا ….
🌹🌹🌹
شام کا نیلگوں اندھیرا پھیل رہا تھا سارا دن بارش کے بعد لندن بھیگا بھیگا سا تھا حاشر کا گھر بھی اندھیرے میں ڈوب رہا تھا تھکان زدہ چہرے کے ساتھ لاؤنج میں داخل ہوا صوفہ اور ٹیبل پہ بکس اور نوٹس بکھرے ہوے تھے لیکن پڑھنے والی نظر نہیں آئ
حاشر نے متلاشی نظروں سے دیکھا لیکن وہ نظر نہ آئ کچن بھی خالی تھا شاید روم میں ہو گی
سوچتا روم کی طرف گیا سارے دن کی تھکن اسکو ایک نظر دیکھ کر ختم ہو جاتی
روم کا دروازہ کھولتے ہی ٹھٹھک کر رکا
ساری تھکن ایک دم سے دور ہو گئی
گہری نظروں سے سامنے دیکھا
حمامہ کچھ دیر پہلے ہی فری ہوئی تھی یونی کا کام پورا کر کے ڈنر بنایا پھر فریش ہونے روم میں چلی آئ کافی دن بعد موڈ اچھا تھا ہمیشہ بن سنور کے رہنے والی کچھ وقت سے خود کو فراموش کر چکی تھی لیکن آج دل کر رہا تھا
پیچ کلر کی شرٹ ساتھ وائٹ کیپری پہنی تھی گولڈن بال گیلے تھے ابھی جن سے پانی کی بوندیں گر رہی تھی آئینے کے سامنے کھڑی بڑے مگن انداز میں ہونٹوں پہ کچھ لگا رہی تھی
پشت پہ نظروں کی تپش سے پلٹی سامنے ہی حاشر کو سٹل پایا وہ گہری نظروں سے دیکھ رہا ایک دم سے دوپٹہ نہ ہونے کا خیال آیا
نظریں بیڈ پہ گئی جہاں دوپٹہ پڑا تھا جلدی سے دوپٹہ اٹھا کے شانوں پہ پھیلا لیا حاشر نے اسکا گریز بڑی شدت سے محسوس کیا
حمامہ اسکی نظروں سے کنفییوز ہو رہی تھی
"وہ میں …" حمامہ کو سمجھ نہ آیا کیا کہے
پہلے کی طرح بولتی ہوتی تو اچھا جواب دیتی
حاشر بس خاموش نظروں سے اسکو دیکھ رہا تھا اسکی نظروں سے پریشان حمانہ نے نظریں اٹھا کر اسکی آنکھوں میں جھانکا اور دھک سے رہ گئی
حاشر کی آنکھوں میں وہ اپنا عکس دیکھ سکتی تھی لیکن یقین نہیں آ رہا تھا اسکی نظریں سب بیان کر رہی تھی وہاں صرف حمامہ تھی اسکا عکس تھا اس کے لئے محبّت تھی اس کے لئے جذبات تھے حمامہ کی آنکھوں میں پہلے بے یقینی تھی پھر حیرانی اور پھر شکوہ اور ساتھ ہی موتی چمکنے لگے
بغیر پلکیں جھپکاۓ یک ٹک اس کو دیکھ رہی اسکو ڈر تھا اگر پلک جھپکی تو سب غائب ہو جائے گا حاشر پھر اس سے بے نیاز لا پرواہ ہو جائے گا
آنکھوں سے موتی ٹوٹ ٹوٹ کے رخساروں پہ گرنے لگے
آہستہ سے قدم اسکی طرح بڑھاۓ ایک قدم دو قدم پھر بھاگی اور اسکے سینے لگ گئی
حاشر کا دل بند ہوا اور زور سے دھڑکا کرب سے آنکھیں بند کر لی یہی تو وہ نہیں چاہتا تھا لیکن محبّت کب چھپی ہے جو آج چھپ جاتی ….
اسکو مظبوطی سے جکڑے آنسو بہا رہی تھی اظہار کے لئے کسی لفظ کی ضرورت ہی نہ پڑی تھی سب کچھ آنکھوں نے کہہ دیا .. آنکھوں کا پیغام آنکھوں نے پڑھ لیا تھا دونوں ہی بے یقین تھے کب ان کے بیچ ایسا رشتہ بنا کے وہ ایک دوسرے کی آنکھوں کی زبان سمجھ سکیں …
حاشر نے آہستہ سے اس کے گرد بازو کا حصار بنایا اسکا سہارا پاتے ہی وہ اور زور سے رونے لگی اسکے آنسو حاشر کو تکلیف دے رہے تھے
حاشر نے گہری سانس لی آج نہیں تو کل اسکو پتا چل جانا تھا اسکو ساتھ لئے صوفہ پہ بیٹھا حمامہ نے ابھی تک دونوں ہاتھوں سے اسکی شرٹ مظبوطی سے پکڑی ہوئی تھی
روتے روتے وہ ہچکیاں لینے لگی تھی لیکن بولی کچھ بھی نہیں
حاشر نے آرام سے اپنی شرٹ اسکے ہاتھ سے چھڑوائی اور اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے
وہ ابھی تک سوں سوں کر رہی تھی
"حمامہ یہاں دیکھو …" تھوڑی سے پکڑ کر اسکا چہرہ اوپر کیا
حمامہ نے سرخ روئی آنکھوں سے اسکو دیکھا آنسو ابھی تک پلکوں پہ ٹہرے تھے
"کب سے …" گیلی سی آواز میں پوچھا
"پہلے دن سے …. " حاشر گہری سانس لے کر بولا
"کیوں چھپایا?…" آنکھوں میں شکوہ تھا
"بتانا چاہتا تھا …" ہارا ہوا لہجہ تھا
"پھر کیوں نہیں بتایا …" پلکوں پہ ٹہرے موتیوں نے پھر سے بہنا شروع کر دیا
"مجبور تھا …" دوسری طرف بے بسی تھی
"ایسی بھی کیا مجبوری تھی جو دونوں کو تکلیف دی …" ایک ہاتھ سے گال رگڑا
"نہیں بتا سکتا …" اپنی بے بسی پہ غصہ آیا
"کیوں .." حمامہ کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا
"ہمت نہیں …" وہ خود بھی تھک گیا تھا
"مجھے بھی نہیں بتائیں گے …" دونوں ہاتھوں سے اسکا ہاتھ پکڑا تھا
حاشر نے اسکی بات نظر انداز کی اٹھ کے صوفہ سے نیچے بیٹھا اور سر اسکی گود میں رکھ دیا عجیب تھکا تھکا سا انداز تھا جیسے بس ہو گئی ہو ..
حمامہ ششدر سی رہ گئی کہاں وہ اسے دیکھنے کا رواداد نہیں تھا اور اب ….
"حاشر کیا ہوا ہے …" حمامہ کو ڈر لگا کچھ تو تھا جو ٹھیک نہیں تھا
"پلیز حمامہ یہ سب بعد کے لئے رکھو فلحال مجھے صرف سکون چاہیے …" اسکا ہاتھ اپنے سر پہ رکھا اور آنکھیں بند کر لی
"کیا یہ سب سچ ہے …" اسکے بالوں میں ہاتھ چلاتی خواب کی سی کیفیت میں بولی تھی
"کیا سب …" اسکا دوسرا ہاتھ لبوں سے لگایا تھا
"یہی کہ آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں اور میرے ساتھ ہیں …" حمامہ کا دل دھڑکا تھا
"اگر میں کہوں ہاں یہ سچ ہے …" حاشر نے سر اٹھا کر اسکو دیکھا
اسکے چہرے پہ خوشی وہ صاف دیکھ سکتا تھا آنکھوں میں جگنوں چمک رہے تھے ہونٹوں سے مسکراہٹ جدا نہیں ہو رہی تھی صرف چند لفظوں کی وجہ سے ….
"تو مجھے لگے گا میں خواب دیکھ رہی ہوں …" حمامہ مسکرا رہی تھی
اور اسکی مسکراہٹ حاشر کے دل میں ٹھنڈک کا باعث تھی
"یہ خواب نہیں ہے سچ ہے جس کو میں خود سے بھی چھپا رہا تھا لیکن تم سمجھ گئی …" حاشر اٹھ کے اسکے ساتھ بیٹھا ہاتھ ابھی تک پکڑ رکھا تھا
"کیوں چھپا رکھا تھا …" حمامہ نے اسکو گھورا
"بتایا تو ہے مجبوری تھی بلکہ ہے …" حاشر اس کے گھورنے پہ نظریں چرا گیا
مزید وہ کچھ نہیں بتا سکتا تھا
"تو اب کیوں بتا دیا …" حمامہ سننا چاہتی تھی اسکی مجبوری
"میں نے نہیں بتایا تم خود ہی جان گئی …"
حاشر نے برا سا منہ بنایا
آپکی جو بھی مجبوری تھی یا ہے آپکو مجھے بتانی چاہیے میں آپکی نصف بہتر ہوں آپکا فرض ہے کہ ہر بات مجھے بتائیں …"
مان بھرے انداز میں جتایا تھا
پہلی دفع حاشر کے چہرے پہ مسکراہٹ آئ
"آپ مسکراتے بھی ہیں …" اپنے ساتھ حمامہ اسکو پہلی دفع مسکراتے دیکھ رہی تھی
"کبھی تم مجھے ' تم ' کہتی تھی …" حاشر کو پہلے والی باتیں یاد آئ
"اب بھی کہہ سکتی ہوں لیکن کہوں گی نہیں .." حمامہ نے اپنی آنکھیں صاف کی جو بار بار پانی سے بھر رہی تھی
"کیوں اب کیا ہوا .." حاشر حیران ہوا
"اب آپ میرے شوہر بن گئے ہیں …" حمامہ گردن اکڑا کے بولی
"وہ تو پہلے بھی تھا …" حاشر کو لاجک سمجھ نہ آئ
"او ہو .. پہلے صرف نکاح ہوا تھا اب رخصتی ہو گئی ہے سب کے سامنے اب ہم ساتھ رہتے ہیں اس لئے پہلے کونسا ہم ایک ہی روم میں رہتے تھے …" حمامہ کو اسکی عقل پہ افسوس ہوا
"او سہی …" حاشر کو سمجھ آ ہی گئی
"ایک بات پوچھوں …" حاشر کو حمامہ کا لہجہ بدلا ہوا لگا
حاشر نے اثبات میں سر ہلایا
"کیا دو مہینے پورے ہونے کے بعد آپ مجھے چھوڑ دے گے …"
اس کے لہجے میں ڈر تھا اداسی تھی جو کم از کم حاشر کو بلکل اچھی نہیں لگی
"تم کیا چاہتی ہو …" جواب جانتے ہوے بھی پوچھا
"آپکا ساتھ …" بغیر کسی تاخیر کے بولی تھی
"میں بھی …" بلآخر دل کی بات زبان پہ آ ہی گئی تھی
"سچ میں …" حمامہ بے یقین سی تھی
یہ سب خواب لگ رہا تھا ایک دم سے حاشر کی محبّت اب اسکا اقرار …
"جی بلکل سچ میں …" حاشر مسکرایا تھا
حمامہ نم آنکھوں سے مسکراتی اسکے گلے لگ گئی
حاشر کی مسکراہٹ گہری ہوئی
"ایک بات بتاؤں …" اسکے کان میں سرگوشی کی
اسکی مونچھوں سے اسکو گدگدی ہوئی تو وہ ہنسی
"کیا …" حمامہ نے اسکا چہرہ دیکھا
"نہیں ابھی نہیں …" حاشر نے ارادہ بدل لیا
"کیوں نہیں بتائیں نہ …" حمامہ الجھی
"نہیں ابھی تم میرے ساتھ چلو …" حاشر اٹھا
اسکی مسکراہٹ دیکھ کر اپنا درد بھول گیا تھا
"کہاں جانا ہے …" حمامہ بھی ساتھ ہی کھڑی ہو گئی
"ڈنر کرنے …" کبرڈ سے کوٹ نکال کر اسکو دیا
"پر میں نے تو ڈنر بنا لیا ہے …" حمامہ نے کوٹ پکڑا
"وہ ہم صبح کھا لیں گے ابھی چلو تم …" خود بھی کوٹ پہنا
حمامہ مسکرائی کتنی مشکل سے سب ٹھیک ہوا تھا وہ منع نہیں کر سکتی تھی اسکا ساتھ ہی کتنا اچھا تھا مسکراتی اسکا ہاتھ تھام کر چلی گئی
حاشر بھی خوش تھا کچھ ٹائم کے لئے وہ سب کچھ بھولنا چاہتا تھا اور بس حمامہ کا ساتھ انجوۓ کرنا چاہتا تھا ایک اچھے سے ریسٹورانٹ میں کیبن بک کروا کے دونوں نے پر سکون ماحول میں ڈنر کیا
دونوں کے لبوں پہ مسکراہٹ تھی ایک دوسرے کا ساتھ دونوں کے لئے سکون کا باعث تھا آج تو حمامہ چہک رہی تھی بہت دنوں بعد حاشر کو اس میں پرانی حمامہ کی جھلک نظر آئ تھی اسکو خوش دیکھ کر حاشر خوش تھا .. محبوب کی خوشی کے سوا اسکو اور کیا چاہیے تھا
انکو رخصتی سے پہلے کا ڈنر یاد آیا تو دونوں ہنس پڑے
کھانا کھاتے حمامہ مسلسل بول رہی تھی یونی کی باتیں گھر کی باتیں عالیاب کی باتیں اتنی ساری باتیں پتا نہیں کہاں سے لائی تھی حاشر مسکراتا بس اسکو سن رہا تھا
سر کا درد بڑھ رہا تھا لیکن وہ برداشت کر رہا تھا اس کے سوا کر بھی کیا سکتا تھا
"یہاں سے گھر کتنے منٹ کی واک پہ ہے …" واپس جانے لگے تو حمامہ بولی
"بیس منٹ کی واک پہ ہے کیوں …" حاشر نے اسکا ہاتھ اپنے مظبوط ہاتھ میں لیتے دوسرا ہاتھ اسکے کندھے پہ پھیلایا تھا
"ہم پیدل چلیں …" حمامہ نے اسکو دیکھا
"اوکے چلو …" حاشر جو پارکنگ سائیڈ جانے والا تھا رک گیا
وہ اتنا پیدل نہیں چل سکتا تھا لیکن اسکو منع بھی نہیں کر سکتا تھا ..اسکا ہاتھ مظبوطی سے پکڑے اسکے قدم سے قدم ملا کے چلتے اسکے بدن سے اٹھتی کلون اور سیگریٹ کی مہک ... حمامہ کو سب اچھا لگ رہا تھا ایک دم سے پوری کائنات حسین ہو گئی تھی لندن کا ٹھنڈا موسم اچھا لگ رہا تھا
کچھ ہی دیر چلنے کے بعد حاشر کو ٹھنڈ لگنے لگی تھی سر درد بھی ناقابل برداشت ہو رہا تھا آنکھیں سرخ ہو رہی تھی اور شاید چکر بھی انے لگے تھے
چلتے چلتے لڑکھڑایا تھا
"کیا ہوا حاشر آپ ٹھیک ہیں …" حمامہ گھبرائی
اسکے ہاتھ ٹھنڈے برف ہو گئے تھے
"ہاں م میں ٹھیک ہوں .بس سر درد ہے …" اسکے سامنے حاشر کمزور نہیں پڑ سکتا تھا
"او چلیں میں گھر جا کر آپکا سر دبا دیتی ہوں …" حمامہ نے جلدی سے اسکو سہارا دیا اسکا جسم ہر لمحے کے ساتھ مزید ٹھنڈا ہوتا جا رہا تھا
اسکو لگ رہا تھا کے رگوں میں خون جم گیا ہے
"حاشر کیا ہوا ہے آپ کا جسم تو برف کی طرح ہوتا جا رہا ہے بتائیں نہ حاشر کیا ہوا آپکو …." حمامہ ڈر گئی تھی یہ صرف سر درد تو نہیں تھا
"کچھ نہیں ہوا حمامہ میں ٹھیک ہوں بس ذرا سی ٹھنڈ ہے ابھی گھر جا کے ٹھیک ہو جاؤں گا …" کوشش کے بعد بھی آواز لڑکھڑا گئی تھی
پانچ منٹ بعد وہ گھر پہنچے حمامہ جلدی سے اسکو روم میں لے کے گئی کمفرٹر دے کر ہیٹر آن کیا روم گرم ہونا شروع ہو گیا حمامہ جلدی سے کچن میں گئی اور ہاٹ کافی بنائی
"حاشر یہ لیں کافی پی لیں آپکو آرام ملے گا …" اسکو سہارا دے کر اٹھایا وہ غنودگی میں جا رہا تھا آنکھیں سرخ ہو گئی تھی
حاشر نے با مشکل آنکھیں کھولی اور اسکو دیکھا کچھ دیر پہلے جو چہرہ کھلا ہوا تھا اب مرجھا گیا تھا فکر پریشانی واضع نظر آ رہی تھی
کافی کے دو گھونٹ لئے اور واپس رکھ دیا ابھی اسکا بلکل بھی دل نہیں کر رہا تھا جسم ٹوٹ رہا تھا اور سر درد سے سن ہو رہا تھا حمامہ کچھ بول رہی تھی لیکن اسکو سمجھ نہیں آ رہا تھا
حمامہ نے اسکا سر گود میں رکھا اور نرم ہاتھوں سے دبانے لگی حاشر کو ماتھے پہ نرم سا لمس محسوس ہوا تو ذرا سی آنکھیں کھولی وہ پریشانی اور فکر سے جھکی ہوئی کچھ کہہ رہی تھی شاید اسکی آنکھوں میں آنسو بھی تھے حاشر نے مسکرانے کی کوشش کی لیکن کچھ سمجھ نہ آیا اسکو اور آنکھیں بند ہو گئی
کافی دیر بعد حاشر کا باڈی ٹمپریچر نارمل ہوا تو حواس بحال ہوے سر درد تو ویسے ہی تھا لیکن جسم کا درد ٹھیک تھا آنکھیں کھول لی ویسے بھی اس درد کے ساتھ نیند نہیں آتی تھی پہلے شاید وہ بے ہوش ہوا تھا ورنہ نیند تو دوائی کھا کے ہی آتی تھی … حمامہ کا ہاتھ ابھی تک اسکے سر پہ تھا اور خود وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاۓ سوئی ہوئی تھی پلکوں پہ نمی تھی شاید وہ روتی ہوئی سوئی تھی .. حاشر کو خود پہ غصہ آیا لیکن وہ بھی کیا کرتا اس کے بس میں نہیں تھا ..
حاشر گھومتے سر کو پکڑ کر اٹھا اس کے اٹھنے سے حمامہ کی نیند کھل گئی
"کیا ہوا حاشر کچھ چاہیے آپکی طبیعت کیسی ہے اب میں ڈاکٹر کو کال کروں …" حمامہ فکر مندی سے بولی
"میں ٹھیک ہوں حمامہ …" حاشر بھی کراؤن سے ٹیک لگا کے بیٹھا
سر تو بہت دکھ رہا تھا لیکن وہ حمامہ کو مزید پریشان نہیں کر سکتا تھا
"سوری حاشر میری وجہ سے آپکو سردی لگ گئی میں نے ہی پیدل آنے کا کہا تھا …." شرمندہ سی کہتی سر جھکا گئی
حاشر کی حالت دیکھ کر تو وہ ڈر ہی گئی تھی
"نہیں تمہاری غلطی نہیں ہے مجھے سردی کا موسم کچھ راس نہیں آتا کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے …" حاشر نے اسکا چہرہ اوپر کیا
جانتا تھا یہ جھوٹ ہے لیکن سچ نہیں بتا سکتا تھا ہمت ہی نہیں تھی اسکا دل توڑنے کی اسکی خوشی چھیننے کی
"آپ ٹھیک ہیں نہ …" حمامہ نے اسکا ہاتھ پکڑا پھر اسکے ماتھے پہ ہاتھ رکھ کر چیک کیا
"جی مسز حمامہ حاشر شاہ میں بلکل ٹھیک ہوں …" اسے قریب کرتے اسکا سر کندھے پہ رکھا تھا
اپنے نام کے ساتھ اسکا نام سن کے سرشاری سی رگوں میں اتر گئی تھی وہ اس سے محبّت کرتا تھا بس یہی کافی تھا اور کچھ نہیں چاہیے تھا
"حاشر …." کمرے کی خاموش فضا کو حمامہ کی پر سوچ آواز نے توڑا
"جی …" حاشر پیار سے بولا
"کیا آپ ساری زندگی اسی طرح مجھ سے پیار کریں گے …" اتنی دیر سے شاید وہ یہی سوچ رہی تھی
حاشر کے چہرے پہ سایا لہرایا پھر سمبھل کر بولا
"جب تک میری سانسیں باقی ہیں میں دل و جان سے تم سے محبّت کروں گا …"
یہ کہتے حاشر کے لہجے میں درد تھا جسے صرف وہی سمجھ سکتا تھا
اسکی بات سن کر حمامہ کے چہرے پہ مسکراہٹ دوڑ گئی
کائنات کی ہر خوشی مل گئی ہو جیسے اسکو مسکراتے دیکھ حاشر بھی اداس سا مسکرایا
میں ابھی آیا کہتا اٹھا اور اسٹڈی میں چلا گیا
حمامہ ابھی تک مسکرا رہی تھی یہ خوشی ملے گی اس نے سوچا بھی نہی تھا
دو منٹ بعد آیا تو اس کے ہاتھ میں کچھ تھا
حمامہ کو آئینے کے سامنے کھڑا کیا اور ایک لاکٹ اسکی شفاف گردن کی زینت بنا دیا
حمامہ کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی لاکٹ بہت خوبصورت تھا اس پہ دونوں کے نام کا پہلا لفظ لکھا ہوا تھا
"پسند آیا …" اسکے گرد حصار بناتے تھوڑی کندھے پہ ٹکائی تھی
"آپ رومانٹک ہو رہے ہیں…" حمامہ کھلکھلائی
"اتنی خوبصورت بیوی کے ہوتے نہیں ہونا چاہیے کیا …" اب کہ حاشر بھی دلکشی سے مسکرایا تھا
اسکی خوبصورت مسکراتی آنکھوں میں ایک نظر دیکھتی نظریں جھکا گئی
اسکی آنکھیں بہت کچھ کہہ رہی تھی حمامہ کا دل ہاتھوں میں دھڑکنے لگا
"کیا مجھے اجازت ہے کے آج میں تمہاری خوبصورتی کو اپنے عمل سے سراہوں اور اپنی محبّت کا یقین دلاؤں …." اسکا چہرہ اپنی طرف کرتے بہت محبّت سے بولا تھا
یہ پل وہ جینا چاہتا تھا اپنی محبّت کے ساتھ بغیر اس سے دور ہو جانے کے خوف کے …
حمامہ نے اسکو دیکھا جو اسکی اجازت کا منتظر تھا حمامہ سر جھکاتی اس کے گلے لگ گئی اسکی اجازت پہ حاشر کھل کے مسکرایا
کھڑکی سے نظر آتا چاند بھی ان سے شرماتا بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا
حمامہ کی آنکھ کھلی تو خود کو حاشر کے حصار میں پایا گزری رات زہن کے پردے پہ لہرائی تو ہونٹوں پہ شرمگی مسکراہٹ دوڑ گئی جو آنسو حاشر نے دیے تھے اسکا مداوا بہت خوبصورت انداز میں کیا تھا حمامہ بہت خوش تھی یہ اس کے صبر کا ہی پھل تھا اپنے رب کا شکر اس نے سب سے پہلے ادا کیا جس نے اسکی سن لی اسکی محبّت اسکی جھولی میں ڈال دی بے شک وہ بڑا بے نیاز ہے …
حاشر کا ہاتھ ہٹا کے وہ اٹھنے لگی تھی کے حاشر نے دوسرے ہاتھ سے بھی اسکو مظبوطی سے اپنی پناہوں میں قید کیا حمامہ کی مسکراہٹ گہری ہوئی پھر ٹائم دیکھا
"حاشر اٹھ جائیں دیکھیں نو بج گئے میں نے یونی بھی جانا ہے …" اسکے بالوں میں ہاتھ پھیر کر پیار سے بولی
"کال می شاہ …"
حاشر نے اسکے بالوں میں منہ چھپایا
"کیوں …" صبح صبح ایسی فرمائش پہ حمامہ حیران ہوئی
"کیوں کہ میں کہہ رہا ہوں …" حاشر نے نیند کے خمار سے بوجھل ہوتی نظروں سے اسکو دیکھا
سر کا درد ہنوز ویسا ہی تھا لیکن وہاں پرواہ کس کو تھی
"اور اگر میں نہ کہوں تو …" حمامہ نے بازو اسکی گردن کے گرد حمائل کیے
آنکھوں میں شرارت تھی
"تو پھر تمہے سزا ملے گی …" حاشر نے اسکی ناک سے ناک مس کی
"جیسی رات کو ملی تھی پیار بھری سزا …"
حاشر اسکا چمکتا چہرہ دیکھ بہک رہا تھا
"میں ایسی سزا پانے کو تیار ہوں لیکن فلحال نہیں مسٹر حاشر شاہ …." حمامہ نے کھلکھلا کے کہتے اسکو پیچھے دھکا دیا اور واشروم بھاگی
حاشر جو اس کی مسکراہٹ میں کھویا تھا اس جھٹکے سے پیچھے ہو کے بیڈ پہ گرا
"یہ چیٹنگ ہے مسز حاشر شاہ …"
حاشر نے اسکا ارادہ سمجھتے ایک جست میں اسکو پکڑا
حمامہ کی کھلکھلاہٹ پورے کمرے میں گونجی خاموش سا گھر آج چہک رہا تھا
"محبّت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے شاہ جی …" حمامہ نے آنکھ ماری
"ہاہاہا شاہ جی .. اٹ ساؤنڈ کول …" حاشر اس کے انداز پہ ہنسا
"ارے واہ شاہ جی تو ہنستے ہوے بڑے ہینڈسم لگتا ہیں …" حمامہ نے اسکا گال کھینچا
"تعریف کے لئے شکریہ مسز شاہ .. اب جلدی سے میری مارننگ حسین بنا دو …" حاشر مطلب کی بات پہ آیا
"میں کیسے حسین بنا دوں شاہ جی …" حمامہ نے آنکھیں پھیلائیں
"جیسے مسز شاہ کا دل کرے …." حاشر تو اس کے ہر انداز پہ نثار تھا
"اچھا!…. کچھ سنا دوں صرف آپ کے لئے …." سوچ کے بولی
"جی جی ضرور میں ہما تن گوش ہوں …" حاشر تو بس یہ لمحے جی رہا تھا
" ملے جو مجھ____کچھ لینے کی اجازت
زندگی بھر کے لئے_____میرا جواب ھوگا
صرف تم۔۔۔۔
ھر بار تم۔۔۔.
آخری سانس تک تم۔۔۔۔"
حمامہ مسکرا کے اسکی آنکھوں میں دیکھتی بولی تھی
حاشر تو بس اسکے لفظوں میں کھو سا گیا تھا اتنا حسین اتنا خوبصورت انداز …
"کس مراقبے میں چلے گے شاہ جی …" حمامہ نے اسکی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلایا
"دیکھ رہا ہوں میری زندگی کتنی حسین ہے … اور شاید مختصر بھی …" مسکرا کے کہتے آخری الفاظ صرف سوچ سکا تھا
حمامہ کے چہرے پہ گلال بکھر گیا پلکیں رخساروں پہ گرا لیں
"تم شرما رہی ہو …" حاشر نے غور سے اسکے چہرے کے رنگ دیکھے
"نہیں میں کیوں شرماؤں گی بھلا …" حمامہ نے جھٹ سے اسکو دیکھا
"اور تم کیوں نہیں شرماؤ گی …" اسکو خود سے قریب تر کیا
اتنا کے دونوں کی سانسیں ایک دوسرے کو جھلسا رہی تھی
"آپ میرے نصف بہتر ہیں آپ سے کیسی شرم شاہ جی …." حمامہ کی لب مسلسل مسکرا رہے تھے
حاشر کے دل سے اس مسکراہٹ کے ہمیشہ ایسے ہی رہنے کی دعا نکلی ..یہ عرش پہ پہنچی تھی یا نہیں یہ تو وقت ہی بتا سکتا تھا
"اچھا جی!….." حاشر نے عقیدت بھرا لمس اسکی پیشانی پہ چھوڑا
"چلیں بس اب آپ فریش ہوں میں ناشتہ بناتی ہوں پھر آپ نے آفس بھی جانا ہے …." حمامہ نے اسکے ہاتھ ہٹاۓ
"کیا آج ہم دونوں ایک ساتھ پورا دن نہیں گزار سکتے …" حاشر نے معصوم سی شکل بنا کے پوچھا تھا
درد تو دل میں اٹھ رہا تھا اب اسکی زندگی حسین ہوئی تھی اور وہ یہ سب کھونا نہیں چاہتا تھا
"کل ویک اینڈ ہے شاہ جی کل کا میرا ہر ایک لمحہ آپکا …" حمامہ نے پیار سے اس کے گال پہ ہاتھ رکھا
"پرامس…" حاشر نے ہتھیلی پھیلائی
"پکا والا پرامس شاہ جی …" حمامہ نے اسکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا تو حاشر نے اسکا ہاتھ لبوں سے لگا لیا
حاشر آفس کے لئے تیار ہو کے آیا اسکا بلکل بھی دل نہیں کر رہا تھا آج جانے کا لیکن اب کام بھی نہیں چھوڑ سکتا تھا حمامہ بھی ناشتہ بنا کے یونی کو لئے تیار ہو گئی دونوں نے ساتھ ناشتہ کیا حمامہ تو ہمیشہ کی طرح کھاتے ہوے بول رہی تھی جبکہ حاشر کچھ چپ ہو گیا تھا اسکا دل اداس تھا
کل جو بھی ہوا وہ نہیں چاہتا تھا لیکن حمامہ اسکی بیوی تھی اسکی محبّت تھی کیسے اس سے دور رہ سکتا تھا یا اسکو خود سے دور کر سکتا تھا لیکن اب اگر اسکو کچھ ہو گیا تو …
یہیں آ کر سوچ کے دھاگے ٹوٹ جاتے تھے پہلے تو شاید وہ سمبھل بھی جاتی لیکن اب ایسا ہونے سے رہا …
حمامہ تو چہک رہی تھی اس کے انگ انگ سے خوشی جھلک رہی تھی آنکھوں میں ٹمٹماتے جگنوں چہرے پہ رونق وہ حاشر کی ایک دن کی محبّت سے کھل گئی تھی اور حاشر سب بھلا کے اسکو دیکھ رہا تھا اسکی خوشی اسکی مسکراہٹ حاشر کے جلتے دل پہ ٹھنڈی پھوار بن کے برس رہی تھی روح تک سکون اتر گیا تھا
چہتی باتیں کرتی حمامہ کو با دل ناخواستہ اسکو یونی چھوڑ کے آیا تھا پتا نہیں پھر یہ لمحہ نصیب ہونا تھا یا نہیں … اسکو ڈاکٹر سے بھی ملنا تھا شاید کوئی معجزہ ہو جائے کم از کم اب وہ مرنا نہیں چاہتا تھا
🌹🌹🌹
یونی میں بھی حمامہ کے چہرے کی مسکراہٹ جدا نہیں ہو رہی تھی اس کے چہرے کی رونق اسکی چمکتی آنکھیں سب کو متوجہ کر رہی تھی لیکن وہ سب سے بے نیاز اپنے شاہ جی کی یاد میں مگن تھی پروفیسر نے کیا کہا کب کلاس ختم ہوئی کب سب لوگ چلے گئے حمامہ کو خبر نہ ہوئی
"او بہن کومے سے باہر آ جا ساری کلاس چلی گئی …."
عالیاب جو کافی دیر سے اسکو پکار رہی تھی اب اسکا کندھا زور سے ہلا کے بولی
"ہاں کیا …." حمامہ خواب سے حقیقت میں آئ
"کیا کیا کب سے بلا رہی ہوں …" عالیاب نے گھورا
"پروفیسر چلے گئے کلاس ختم بھی ہو گئی اتنی جلدی …." حمامہ نے چونک کر خالی کلاس دیکھی
"جی سب چلے گئے ویسے تم کونسے جہاں کی سیر کو نکلی ہوئی تھی جو کچھ سنائی نہ دیا …"
عالیاب نے لڑاکا عورتوں کی طرح کمر پہ ہاتھ رکھ مشکوک نظروں سے اسکو دیکھا
"نہیں میں یہی تھی …" حمامہ گڑبڑا کے جلدی سے کتابیں بیگ میں ڈالنے لگی
"اچھا لیکن مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ کچھ ہے جو مجھے پتا ہونا چاہیے …." عالیاب اسکے چہرے پہ بکھرے حاشر کی چاہت کے رنگ با خوبی دیکھ سکتی تھی
"چلو بتاتی ہوں .." حمامہ اسکا ہاتھ پکڑ کر کینٹین کی طرف لے گئی نیکسٹ کلاس بیس منٹ بعد تھی
حاشر کا اظہار اسکی محبّت سب کچھ عالیاب کو بتا کر اب ریلیکس سی بیٹھی لیز انجوۓ کر رہی تھی آج سب کچھ حسین لگ رہا تھا پوری کائنات جیسے خوبصورت ہو گئی ہو آج تو ہوا بھی حمامہ کے سنگ جھوم رہی تھی
اسکی بات سن کے عالیاب کو اپنا سینڈوچ ہضم کرنا مشکل ہو رہا تھا وہ آنکھیں پھاڑ کے حمامہ کو دیکھ رہی تھی
"اب تک کس جہاں میں چلی گئی کس بات کا صدمہ لگ گیا تمہے …" حمامہ نے اسکو ہلایا
"تمہے حاشر بھائی کے سامنے ایسے کہتے شرم نہیں آئ مطلب تم نے کیسے کہہ دیا میں تو کبھی نہیں کہہ سکتی …" عالیاب کی حیرت زدہ سی آواز سنائی دی
"کیوں مجھے کیوں شرم آۓ گی شوہر ہے میرا اور کیسے کہہ دیا مطلب جب میں ان سے پیار کرتی تو انکو ہی کہنا تھا نہ …" حمامہ نے اسکو گھورا
"اور ویسے بھی ہر کوئی میرے جیسا بہادر نہیں ہوتا جو پیار کرتے ہیں وہ ڈرتے نہیں کسی سے …" پھر کچھ توقف سے بولی
عالیاب نے منہ بنایا اسکو تو حمامہ کی بات سمجھ ہی نہ آئ تھی
"تم نے ماہ بیر بھائی کو بتایا …." حمامہ اٹھی اور دونوں اگلی کلاس کی طرف چل پڑی
"ہاں بتا دیا تھا میں بہت ڈر گئی تھی جب مسٹر خان غصے میں تھے تو مجھے لگا میں نے انکو بتا کر غلطی کر دی لیکن ایسا نہیں تھا انکو اس انسان پہ غصہ تھا .. پتا ہے تب سے وہ مجھ سے اور بھی زیادہ پیار سے بات کرتے ہیں …"
عالیاب معصومیت سے بولی
حمامہ کو اسکی معصومیت پہ پیار آیا تھا
"ہیلو جانم کہاں جا رہی ہو …." پتا نہیں کہاں سے ایک لڑکا عالیاب کے سامنے آتا خباثت سے بولا تھا
وہ جو کوئی بھی تھا دیکھنے میں خوش شکل تھا
وہ دونوں بغیر جواب دیے سائیڈ سے جانے لگی جب وہ لڑکا عالیاب کا ہاتھ پکڑ کر بولا
"کہاں جا رہی ہو بے بی …." بڑا ہی لوفر تھا کوئی
اس پاس سب انکو دیکھ رہے تھے
چٹاخ ….. ایک زور دار تھپڑ کی گونج پورے گراؤنڈ میں سنائی دی تھی
پیٹر کا کان سن ہو گیا تھا ایک نازک سی لڑکی کے ہاتھ سے اتنا زور دار تھپڑ …
"اپنے ہاتھ کنٹرول میں رکھو ورنہ توڑنے میں دیر نہیں لگے گی میرا نام عالیاب ماہ بیر خان ہے دوبارہ کوئی ایسا حرکت کی تو صرف ہاتھ نہیں ہڈیاں بھی توڑ دوں گی …." انگلی اٹھا کے وہ سخت لہجے میں بولی تھی
پتا نہیں اتنی ہمت کہاں سے آئ تھی شاید نہیں یقینا ماہ بیر کامیاب ہوا تھا ورنہ کچھ مہینے پہلے کی عالیاب ہوتی تو اس کے ہاتھ پکڑنے پہ بے ہوش ہو چکی ہوتی
حمامہ نے سیٹی بجائی
"واللہ کیا چماٹ ماری ہے مزہ ہی آ گیا …" حمامہ کی تو خوشی کو چار چاند لگ گئے تھے
عالیاب بغیر کچھ کہے پیٹر کو سخت نظروں سے گھورتی چلی گئی
you have to pay for this …
پیٹر زہر خندہ لہجے میں بولا تھا
🌹🌹🌹
"مسٹر خان …" عالیاب کو وہ بات یاد آئ تو اپنا کام چھوڑ کے اسکو پکارا جو پاس ہی بیٹھا کام کر رہا تھا
"جی میری جان …" اففف یہ طرز تخاطب
"پتا ہے آج میں نے کیا کیا .." مسکرا کے کہتی پوری بات بتانے لگی تو ماہ بیر بھی کام چھوڑ کے اسکی طرف متوجہ ہوا
پوری بات سن کے ماہ بیر کافی حیران ہوا تھا مطلب اسکی محنت بے کار نہیں گئی تھی
"واہ میری جان تو بہت بریو ہو گئی ہے ویری گڈ …" اسکا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لیتے اسکا ماتھا چوما تھا
"میرا دل کر رہا تھا میں اسکی پٹائی کر دوں لیکن میری کلاس تھی …" عالیاب کو افسوس ہوا
"تم نے جتنا کیا بہت ہے …." ماہ بیر نے محبّت سے اسکے بال سنوارے جو گھر میں تقریباً کھلے ہی رکھتی تھی
"اور آپکو پتا ہے کل حمامہ اور حاشر بھائی کی صلح بھی ہو گئی ہاۓ حمامہ کتنی خوش تھی …." اشتیاق سے بولتی وہ ماہ بیر کو بہت پیار لگی تھی
ماہ بیر کے سیل پہ مسیج آیا تو سیل دیکھا
"چلو ایک سرپرائز ہے تمھارے لئے …" ماہ بیر اسکا ہاتھ پکڑ کر اٹھا
سرپرائز کا نام سنتے ہی وہ خوش ہو گئی تھی تین مہینے میں ماہ بیر اسکو اچھی طرح سمجھ گیا تھا وہ تو چھوٹی سی بات پہ بھی خوش ہو جاتی تھی
اسکو ساتھ لئے گارڈن میں آیا اب سردی کافی کم ہو گئی تھی وہ اب اسکو نہیں روکتا تھا باہر آنے سے …
سامنے ہی ایک بڑی سی چیز تھی اس پہ کپڑا ڈالا ہوا تھا عالیاب کے چہرے پہ بہت پیاری مسکراہٹ تھی اس کے گالوں کے گڑھے بھی نظر آ رہے تھے اور گرے آنکھیں چمک رہی تھی جب سے اس نے ماہ بیر کو سب بتایا تھا وہ ریلیکس ہو گئی تھی
"یہ کیا ہے …" اس کے پاس پہنچتے ہی عالیاب بے صبری سے بولی تھی
"خود دیکھ لو …" ماہ بیر نے اسکو کپڑا ہٹانے کا اشارہ کیا
عالیاب منٹ سے پہلے کپڑا ہٹایا اسکو دیکھ کر منہ کھلا رکھ گیا تھا
ایک خوبصورت سا پنجرا تھا اندر دو طوطے تھے ایک تو مٹھو تھا دوسرا پتا نہیں …
"یہ طوطا کس کا …" عالیاب نے اسکو دیکھا جو ہاتھ باندھے کھڑا اسکو دیکھ کر مسکرا رہا تھا
"یہ طوطا نہیں ہے مینا ہے …" ماہ بیر چلتا اس کے پاس آیا
"تو یہ میرے مٹھو کے ساتھ کیوں ہے …" عالیاب کو بلکل اچھا نہیں لگا تھا
"یہ تمھارے مٹھو کی ہے …" ماہ بیر دلکشی سے مسکرایا
"نہیں میرے مٹھو کی کوئی مینا نہیں ہے وہ صرف میرا دوست ہے …" عالیاب کے ماتھے پہ بل پڑے
"نہیں میری جان یہ اسکی دوست نہیں ہے اسکی بیوی ہے …" ماہ بیر نے اسکے کندھے پہ ہاتھ پھیلایا
"لیکن میرے مٹھو کی تو شادی نہیں ہوئی …" عالیاب کو ابھی بھی سمجھ نہیں آئ تھی
"دیکھو میری جان تمہاری شادی ہو گئی ہے اور تم یونی بھی جاتی ہو پھر میرے ساتھ ٹائم سپینڈ کرتی ہو رات کو بھی میرے ساتھ سوتی ہو …م مٹھو بیچارہ اکیلا ہو گیا ہے اسکو بھی تو کوئی پارٹنر چاہیے نہ اس لئے میں نے اسکی وائف لا دی اب وہ اکیلا نہیں ہو گا نہ …" ماہ بیر مسکراہٹ دبا کے بولا تھا
"ہاں آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں پر مٹھو میرا دوست ہے اسکو مجھے تو بتانا چاہیے تھا کے اسکو شادی کرنا ہے میں کروا دیتی …" عالیاب اتنی فکر سے بولی تھی کہ کہ ماہ بیر نے بڑی مشکل سے اپنے قہقہے کا گلا گھونٹا تھا
"اب تو کر لی اس نے شادی .. اگر تم چاہتی ہو کے مٹھو خوش رہے تو اس شادی کو مان لو …" ماہ بیر بہت مشکل سے اپنے قہقہے کنٹرول کر رہا تھا
"ٹھیک ہے اب مٹھو نے بے وفائی کر ہی کی ہے تو کوئی بات نہیں میں اسکی خوشی میں خوش ہوں …" عالیاب مسکرا کے بولی تھی
ماہ بیر نے شکر کیا مٹھو تو اس کے سر سے ٹلا تھا
🌹🌹🌹
حاشر کی محبّت دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی اور حمامہ مزید نکھر رہی تھی دوپہر کو یونی سے واپسی سے دونوں باہر لنچ کرتے اور شام کو حاشر کی آفس سے واپسی پہ حمامہ کا سارا وقت حاشر کا ہوتا … ڈنر وہ دونوں مل کر بناتے یہ اگر موڈ ہو تو باہر سے آرڈر کر دیتے .. حاشر ایک منٹ بھی اسکو نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتا ..
ڈاکٹر نے ایک ہی حل بتایا تھا برین سرجری جو حاشر نہیں کروانا چاہ رہا تھا اگر سرجری کامیاب نہ ہوئی تو …. ہر بات اس تو پہ آ کے رکتی …
آج حمامہ اپنے یونی کے کام سے جلدی فری ہو گئی تھی حاشر کے آنے میں وقت تھا ابھی تو سوچا پہلے ہی ڈنر بنا لے کچن میں ابھی اس نے کام شروع کیا ہی تھا کہ بیل بجی ابھی حاشر کے آنے میں ٹائم تھا تو اس وقت کون ہو سکتا …
دروازہ کھولا تو حاشر تھا اسکی حالت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی آنکھیں لال سرخ ہو رہی تھی اور چہرہ بھی ایسا لگ رہا تھا بخار ہو
"شاہ کیا ہوا آپ اتنی جلدی طبیعت تو ٹھیک ہے آپکی …" حمامہ نے جلدی سے اسکو سہارا دیا اور روم میں لے کے گئی
حاشر سے بولا نہیں جا رہا تھا آج سر کا درد برداشت سے باہر تھا آنکھیں بند ہو رہی اور جسم بھٹی بن گیا تھا
"اللہ شاہ آپکو تو اتنا تیز بخار ہے آپ یہاں لیٹ جائیں میں ابھی ڈاکٹر کو فون کرتی ہوں اور دوائی لے کے آتی ہوں …" جلدی سے باہر گئی ڈاکٹر کو فون کیا اور کچن میں گئی
ابھی دودھ گرم کر ہی رہی تھی کے دوبارہ بیل بجی حمامہ سمجھی ڈاکٹر آیا ہو گا تو جلدی سے بھاگی
"ماہ بیر بھائی آپ …" ماہ بیر کو دیکھ کر رک گئی
ماہ بیر کے تاثر ہی ایسے تھے کے اس سے کچھ بولا نہ گیا
"حاشر کہاں ہے …" آواز میں سختی تھی
"وہ اندر انکی طبیعت ٹھیک نہیں …" حمامہ کی بات پوری ہونے سے پہلے بھاگا
حاشر اوندھے منہ لیٹا تھا
"حاشر آنکھیں کھولو حاشر اٹھو …" ماہ بیر زور سے بولا اور اسکو سیدھا کیا
"کیا ہوا ماہ بیر بھائی آپ اس طرح …." حمامہ بولتی اس کے پیچھے آئ لیکن حاشر کو دیکھ کر رک گئی
حاشر کے ناک سے خون کی لکیر بہہ رہی تھی اور شاید منہ سے بھی آنکھیں بند تھی اور رنگ کچھ لمحوں میں پیلا ہو گیا تھا ماہ بیر نے جلدی سے خون صاف کیا …
"شاہ کیا ہوا آپکو یہ خون بھائی بولیں نہ کیا ہوا شاہ کو یہ ایسے کیوں …." حمامہ تڑپ کے آگے آئ
"حمامہ کنٹرول یہ لو گاڑی کا دروازہ کھولو حاشر کو ہسپتال لے کے جانا ہے جلدی …." اسکو چابی دے کر خود حاشر کو اٹھایا
حاشر بھی ماہ بیر کی طرح ہی مظبوط جسم کا مالک تھا ماہ بیر نے بہ مشکل اسکو گاڑی میں ڈالا اور زن سے ہسپتال کی طرف بڑھا دی
ماہ بیر فل ہائی سپیڈ پہ گاڑی اڑا رہا تھا حمامہ پچھلی سیٹ پہ بیٹھی حاشر کا سر گود میں رکھے روتی ہوئی بار بار شاہ کہتی لیکن وہ بے سدھ پڑا تھا پندرہ منٹ کی ریش ڈرائیو کے بعد ماہ بیر ہسپتال پہنچا
ڈاکٹر ….. اسکو سٹریچر پہ اندر لے کے گئے تو ماہ بیر دھاڑا
حمامہ اسکا ہاتھ پکڑے رو رہی تھی اسکا تو دل و دماغ بند ہو رہا تھا صبح تک تو وہ اسکے ساتھ مسکرا رہا تھا لنچ ٹائم اسکو تنگ کر رہا تھا اور اب وہ ہوش و حواس سے بیگانہ تھا …
اسکو روم میں لے گئے حمامہ مسلسل روتی کچھ پڑھ رہی تھی ماہ بیر چہرے پہ فکر اور غصے کے ملے جلے تاثر لئے یہاں سے وہاں ٹہل رہا تھا
کچھ دیر بعد ڈاکٹر روم سے باہر نکلا
"کیا ہوا میرے شاہ کو …" حمامہ جلدی سے آگے بڑھی
ماہ بیر نے اسکو سہارا دیا اور ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوا
"مسٹر ماہ بیر میں نے پہلے ہی کہا تھا انکو سرجری کروا لیں لیکن وہ نہیں مانے اور نہ ہی انہوں نے میڈیسن یوز کی .. میں نے انکو وارن کیا تھا کہ سیگریٹ نہ پیۓ لیکن وہ باز نہیں آۓ وہ جانتے تھے انکی کنڈیشن ٹھیک نہیں ہے لیکن انہو نے میری بات نہیں سنی … انکی برین کی نس پھٹ گئی ہے … اب بہت دیر ہو چکی ہے …"
ڈاکٹر نے بہت ہی بے رحم انداز میں ان کے دل کچلے تھے
آسمان سر پہ کیسے ٹوٹتا ہے ?
پیروں سے زمین کیسے نکلتی ہے ?
روح کیسے کانپ اٹھتی ہے ?
حمامہ کو آج ادراک ہوا تھا … یوں لگا جیسے کسی نے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیا ہو … کیا مطلب تھا اس بات کا ?
"کیا بکواس ہے یہ … ڈاکٹر آج تم نے خود کہا تھا کہ حاشر کا علاج ہو سکتا ہے سرجری سے پھر اب کیوں بکواس کر رہے ہو .. میں آخری بار کہہ رہا ہوں اسکا علاج کرو جو ہو سکتا ہے کرو لیکن اگر حاشر کو کچھ بھی ہوا نہ تو میں تمھارے پورے ہسپتال کو آگ لگا دوں گا …. "
ماہ بیر کی دھاڑ سے ہسپتال کے در و دیوار کانپ گئے تھے
غصے سے اسکے ماتھے اور ہاتھوں کی رگیں تن گئی تھی آنکھیں شولے اگلنے کو تیار تھیں
"دیکھئے مسٹر ماہ بیر تحمل سے میری بات سنیں حاشر کو برین سٹروک ہوا ہے بلڈ وین پہلے سے ڈیمج تھی اور اب بلیڈنگ سٹارٹ ہو گئی ہے ہم سرجری کرے گے لیکن کامیاب ہو یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے .. حاشر کو یہ پہلے کروانی چاہیے تھی یہ سب انکی لا پروائی کی وجہ سے ہوا ہے .. خیر آپ جلدی سے فارم فل کر دیں ہم سرجری شروع کرتے ہیں … ایک بار پھر سے کہہ رہا ہوں سرجری کامیاب ہو گی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے باقی آپ دعا کریں …"
ڈاکٹر اپنے مخصوص انداز میں کہتا چلا گیا
ماہ بیر غصے سے مٹھیاں پینچ کر رہ گیا صبح ہی اسکو حاشر کی حالت کچھ ٹھیک نہیں لگی تھی پہلے وہ کوئی کام سے ریلیٹڈ یا کسی لڑکی سے ریلیٹڈ بات سمجھ رہا تھا لیکن جب صبح اس نے حاشر کو ڈاکٹر سے بات کرتے سنا تو وہ سیدھا ہسپتال ہی آ گیا اور جو اسکو یہاں سے پتا چلا ماہ بیر تو سکتے میں ہی آ گیا تھا … بہت کم لوگ تھے اسکی زندگی میں جو اسکو بہت سے بھی زیادہ عزیز تھے اور حاشر بھی انہی لوگوں میں سے تھا … ماہ بیر سب اپنوں کو کھو چکا تھا اب مزید کسی کو کھونے کا حوصلہ نہیں تھا اس میں .. وہ جتنا بھی مظبوط مرد ہو فیملی ہر مظبوط انسان کی کمزوری بن جاتی ہے …
یہ سب پچھلے چھ مہینے سے چل رہا تھا اور اسکو بھنک بھی نہیں ہوئی تھی کیسا دوست تھا وہ ? اسکو خود پہ غصہ آ رہا تھا کیوں حاشر کی خبر نہیں رکھی ? کیوں نہیں دیکھا کہ وہ بیمار ہے وہ پریشان ہے ? دکھ تکلیف تو بہت چھوٹا لفظ ہے جو اس وقت وہ محسوس کر رہا تھا وہ کم از کم الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا تھا … جتنی حاشر کی حالت تکلیف دہ تھی اتنا ہی اسکو حاشر پہ بھی غصہ آ رہا تھا .. اسکو ہر بات بتاتا تھا ہر بات شئیر کرتا تھا لیکن اتنی بڑی بات چھپا لی ….
ماہ بیر نے زور سے دیوار پہ ہاتھ مارا … اس وقت وہ کتنا بے بس تھا وہی جانتا تھا لندن کا بزنس کنگ ایک بلّینئیر اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی اپنے دوست کے لئے کچھ نہیں کر پا رہا تھا ….
حمامہ کا وجود تو جیسے کسی نے زلزلوں کے حوالے کر دیا تھا اسکو تو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کے شاہ جی اتنی تکلیف میں تھے .. حاشر کے ساتھ گزرا ہر لمحہ اسکی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چل رہا تھا ..
وہ اسکو کہہ رہا تھا مجھے شاہ کہو …
اسکو پیار بھری سزا دے رہا تھا …
اسکی باتوں پہ مسکرا رہا تھا …
کچن میں کھڑا اس کے ساتھ کھانا بناتا اسکو تنگ کر رہا تھا …
ڈائیننگ پہ زبردستی اسکو اپنے ہاتھ سے کھلا رہا تھا …
اسکی ایک ایک بات یاد کرتے حمامہ کی آنکھیں مسلسل برس رہی تھی انگ انگ اس کے لئے دعا گو تھا ….
چھ مہینے سے وہ یہ سب جھیل رہا تھا مطلب یہ وجہ تھی شادی سے انکار کی … یا مجبوری تھی اسکی .. یا اللہ میں کیوں نہ سمجھ سکی انکو کیوں میں انکی حالت نہ دیکھ سکی تین دفع حاشر کی طبیعت اس کے سامنے خراب ہوئی تھی ہر بار حاشر نے کہہ دیا کے سردی کی وجہ سے ہوتا ہے اور وہ مان بھی گئی …کیسی بیوی تھی وہ … وہ تو اسکی روح کا حصہ ہے کیسے نہ اسکی تکلیف سمجھ سکی کیسے نہ محسوس ہوئی اسکی تکلیف ….
آہستہ سے قدم آگے بڑھاۓ آپریشن تھیٹر کے شیشے سے اندر دیکھا سٹریچر پہ لیٹا اسکا وجود کچھ ہی گھنٹوں میں لاغر ہو گیا تھا دونوں ہاتھ نالیوں میں جکڑے تھے چار ڈاکٹر اس پہ جھکے تھے حمامہ کی آنکھوں کا منظر دھندلا ہونے لگا کانپتا ہاتھ شیشے پہ رکھ کر اسکو محسوس کرنا چاہا لیکن کچھ سواۓ دل میں اٹھتے درد کے کچھ محسوس نہ ہوا
دونوں اپنی اپنی جگہ کھڑے سوچوں میں گم تھے حمامہ تو بے آواز روتی اپنے شاہ جی کے لئے دعا کر رہی تھی کچھ ہی لمحوں میں اسکی تو دنیا ہی اجڑ گئی تھی صبح تک سب کتنا حسین تھا وہ خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھ رہی تھی اور اب تو یوں لگتا تھا کہ ساری دنیا ہی بے رنگ ہو گئی ہو …..
عالیاب کو رات کے اس وقت گھر میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا اس لئے ڈرائیور کو بھیج کر اسکو بلا لیا تھا ابھی کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا کمال شاہ کو بھی اس نے بے خبر رکھا تھا … یہ خبر دے کہ انکا دکھ ماہ بیر نہیں دیکھ سکتا تھا .. سوچوں میں گم ہی تھا کہ ذہن میں خیال بجلی کی طرح کوندہ ہاں وہ کچھ کر سکتا تھا …
جلدی سے موبائل نکالا اور کسی کو کال ملائی
امریکا میں اسکا ایک دوست ڈاکٹر تھا جو برین اسپیشلٹ تھا وہ اس کی مدد کر سکتا تھا ماہ بیر نے ساری بات اسکو بتائی تو اس نے وہاں کے ڈاکٹر سے رابطہ کرنے کا کہا …
ماہ بیر نے حاشر کے ڈاکٹر سے اسکی بات کروا دی .. اسکو پوری امید تھی کہ اللہ اسکو کبھی مایوس نہیں کرے گا ..
"مسٹر خان حمامہ کیا ہوا آپ یہاں سب ٹھیک ہے نہ …" کچھ دیر بعد عالیاب کی فکر مند سی آواز آئ تو دونوں نے چونک کر اسکو دیکھا
یاب …. حمامہ بھاگی اور اس کے گلے لگ گئی
"یاب دیکھ نہ م میرے شاہ کو کیا ہوا و وہ ڈاکٹر پتا نہیں ک کیا کہہ رہے وو وہ اٹھ نہیں رہے یاب انکو بول نہ میرے شاہ کو ٹھیک کر دیں م میں مر جاؤں گی پلیز میرے شاہ کو ٹھیک کر دیں ……"
عالیاب کا سہارا پاتے ہی وہ تڑپ تڑپ کے رو دی
اسکو روتا دیکھ عالیاب کی اپنی آنکھوں میں آنسو آ گئے
"حمامہ دیکھو یہاں میری طرف تم دعا کرو کچھ نہیں ہو گا حاشر بھائی کو دیکھنا اللہ سب ٹھیک کر دیں گے وہ تو سب دیکھ رہے ہیں نہ ہم سب دعا کرے گے دیکھنا وہ ٹھیک ہو جائے گی تم رو مت یہاں بیٹھو ….." روتی سسکتی حمامہ کو چیئر پہ بیٹھا کے تسلی دی
ڈر تو وہ خود بھی گئی تھی حمامہ کو اتنی بری طرح روتے دیکھ .. اسکو بیٹھا کے وہ ماہ بیر کے پاس گئی جو دیوار سے پشت لگاۓ ضبط سے سرخ ہوتی آنکھوں کو زمین پہ گاڑے کھڑا تھا …
عالیاب کے پوچھنے پہ اس نے مختصر لفظوں میں سب بتا دیا عالیاب کا تو زہن ہی ماؤف ہو گیا حاشر سے اسکی زیادہ بات نہیں ہوئی تھی لیکن ماہ بیر اور اب حمامہ کے حوالے سے اسکو عزیز تھا … وہ تو حمامہ کی تکلیف کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتی تھی جانتی تھی حمامہ اپنے شاہ جی کی کتنی دیوانی ہے … ماہ بیر اس سے چند گھنٹے بات نہ کرے تو اسکی جان پہ بن آتی ہے اور حمامہ کی محبّت تو زندگی موت سے لڑ رہی تھی وہ کتنی تکلیف میں ہو گی
چیئر پہ بیٹھی حمامہ برستی آنکھوں سے اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی ابھی تو خوشی نصیب ہوئی تھی پھر اتنا بڑا دکھ اتنی بڑی تکلیف کیوں … کیا اسکو کوئی حق نہیں خوش رہنے کا اور حاشر کیا قصور تھا اسکا جو اسکو اتنا بڑا دکھ دیا کیا محسوس کرتا ہو گا جب یہ سوچ آتی ہو گی کہ اسکی زندگی خطرے میں ہے …
عالیاب نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا تو پھر سے اس کے گلے لگتی سسک اٹھی تکلیف ہی تکلیف تھی دل کا درد حد سے سوا تھا ….
گھڑی کی سویاں کیسے بھاگی کتنا گھنٹے گزرے کسی کو ہوش نہ تھا ساری رات کھڑے کھڑے گزر گئی لیکن کوئی خیر کی خبر نہ آئ ان تینوں کے سانس اٹکنے لگے تھے حمامہ کے دل کی دھڑکن مدھم سے مدھم ہوتی جا رہی تھی .. آہستہ آہستہ جسم سے جان جا رہی تھی ساری رات آنکھیں برستی رہی لب مسلسل ہلتے حاشر کی زندگی مانگ رہے تھے دور کہیں سے فجر سنائی دی تو حمامہ اٹھ کر پریئر روم کی طرف گئی اسکو اللہ سے اپنے شوہر کی زندگی مانگنی تھی … عالیاب بھی اس کے ساتھ ہی تھی
اے میرے اللہ میں جانتی ہوں تو یہاں ہے میں جانتی ہوں تو سب دیکھ رہا ہے تو میرے آنسو دیکھ رہا ہے میری دعا سن رہا ہے یا اللہ تو سب جانتا ہے تجھ سے تو کچھ چھپا نہیں ہے میرے حاشر کو ٹھیک کر دے میرے مالک اسکی زندگی لوٹا دے اسکو میری جھولی میں ڈال دے میرے مالک تو یہ سب تو کر سکتا ہے نہ تیرے لئے تو کچھ بھی مشکل نہیں ہے میں تیری گناہگار بندی ترے کن کی منتظر ہے میں جانتی ہو یہ میری آزمائش ہے یا اللہ مجھے اس آزمائش میں سرخرو کرنا … تو کن کہہ دے میرے مالک میرے شاہ کی زندگی کی نوید سنا دے یا اللہ تو تو سب دے سکتا ہے نہ میرے مالک تیرے خزانے میں تو کوئی کمی نہیں ہے میرے مالک تو مجھے بھی نواز دے میرے شاہ کی زندگی کی صورت …
اپنے رب کے سامنے سجدہ میں جھکی وہ اپنا سب کچھ مانگ رہی تھی وہ ایک شخص مانگ رہی تھی جو اسکا سب کچھ تھا جو اسکی دنیا بن گیا تھا …
بے شک وہ عرش پہ بیٹھا سب سن اور دیکھ رہا تھا …
ڈاکٹر کو اندر بارہ گھنٹے ہو چکے تھے لیکن کوئی باہر نہ آیا تھا نہ ہی کچھ بتایا تھا ماہ بیر تو بس وہاں کھڑا سب دیکھ رہا تھا کچھ ہی دیر پہلے وہ فجر پڑھ کر آیا تھا حمامہ اور عالیاب بھی وہیں بیٹھی مسلسل کچھ پڑھ رہی تھی تینوں کی نظریں آپریشن تھیٹر کے دروازے پہ جمی تھی
دل کی دھڑکن مدھم پڑتی جا رہی تھی لیکن یقین قائم تھا کہ اللہ ضرور انکی سنے گا …
🌹🌹🌹
گھڑی کی سویاں آگے بڑھی اور اٹھارہ گھنٹے بیت گئے تھے لیکن وہ تینوں اسکی پوزیشن میں تھے نہ بھوک لگی نہ پیاس کچھ محسوس ہی نہیں ہوا بس سب حساسیات اس ایک انسان کی طرف لگی ہوئی تھی جو اندر زندگی موت کے درمیان تھا
کچھ دیر بعد آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر باہر آیا ماہ بیر جلدی سے ڈاکٹر کی طرف آیا
وہ دونوں بھی دم سادھے ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوئیں
"سرجری ہو چکی ہے ابھی ہوش نہیں آیا جب تک ہوش نہیں آتا ہم کچھ نہیں کہہ سکتے …" ڈاکٹر کہتا چلا گیا
ان کے سانس اٹکے ہی رہ گئے …
ماہ بیر نے شیشے سے دیکھا جو سب سے بیگانہ وہاں لیٹا ہوا تھا
حمامہ اٹھی اور ماہ بیر تک گئی
بھائی … گیلی زکام زدہ سی آواز میں پکارا تو ماہ بیر نے اسکو دیکھا جو ایک ہی رات میں مرجھا گئی تھی رو رو کے آنکھوں کے پپوٹے سوج گئے تھے
"مجھے شاہ سے ملنا ہے …" آنکھوں کو جھپک کر نمی اپنے اندر اتارتے بولی
"لیکن چندا ابھی …" ماہ بیر کو اس معصوم سی لڑکی پے ترس آیا تھا
"پلیز بھائی …" حمامہ کی آنکھوں سے آنسو کی لڑیاں پھر سے بہہ نکلی تھی
"ٹھیک ہے میں ڈاکٹر سے بات کرتا ہوں …" اس نے بھائی اتنے مان سے کہا تھا کے ماہ بیر منع نہ کر سکا
ڈاکٹر نے بہت مشکل سے بس پانچ منٹ کی اجازت دی تھی وہ بھی صرف حمامہ کو .. حمامہ کو پہلے کوٹ پہنایا کیپ اور ماسک لگا کے اسکو جانے دیا …
برستی آنکھوں کانپتے بدن سے حمامہ اندر گئی سامنے ہی اسکا شاہ بیڈ پہ لیٹا تھا پورا سر پٹیوں میں جکڑا تھا ہاتھوں پہ نالیاں لگی ہوئی تھی اور دل کے مقام پہ بھی کوئی مشین لگی ہوئی تھی اسکی خوبصورت آنکھیں بند تھی لب آپس میں پیوست تھے رنگت ہلدی کی طرح پیلی ہو گئی تھی
حمامہ کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ایسا تو نہیں تھا اسکا شاہ … آنسو ابل ابل کر باہر آ رہے تھے من من کے بھاری قدم اٹھاتی اس تک گئی اسکا ڈرپ لگا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا آنسو بھل بھل بہنے لگے
اپنے منہ سے ماسک اتار دیا اور اس کے پاس سٹریچر پہ بیٹھی دونوں ہاتھوں سے اسکا ہاتھ پکڑا اور سسک اٹھی
شاہ …
شاہ اٹھیں نہ دیکھیں کتنی دیر ہو گئی آپ کیوں سو رہے ہیں .. شاہ آپ سن رہے ہیں نہ مجھے شاہ پلیز اٹھ جائیں میرا دل بند ہو جائے گا شاہ دیکھیں آپکی زندگی رو رہی ہے میری آنکھوں میں آنسو ہیں شاہ آپ صاف نہیں کرے گے کیا .. آپ نے کہا تھا کے نہیں چھوڑ کے جائیں گے پھر اب کیا کر رہے ہیں شاہ اٹھ جائیں نہ آپکی زندگی آپکو بلا رہی ہے شاہ مجھے ضرورت ہے آپکی آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں میرے ساتھ ..
پلیز کھول دیں نہ آنکھیں آپکی حمامہ تکلیف میں ہے شاہ میں مر جاؤں گی اگر آپ نہیں اٹھے تو میں مر جاؤں گی اگر مرنا ہی ہے تو پہلے میں مر جاتی ہوں شاہ آپ کے بغیر میری کیا زندگی رہ جائے گی … پلیز شاہ آپ کیوں نہیں مان رہے میری بات اٹھ جائیں نہ ….
روتے سسکتے حاشر کے ہاتھ پہ سر رکھ لیا آنکھوں سے بہتے آنسو اس کے ہاتھ پہ گرنے لگے
حمامہ نے سر اٹھا کے دیکھا وہ ابھی بھی ویسے ہی تھا وجود میں کوئی جنبش نہ ہوئی
شاہ ….
حمامہ نے اس کے دل پہ ہاتھ رکھا
یک دم سے حاشر کا سانس اکھڑا مشین کی آواز تیز ہو گئی حمامہ نے دہل کے دیکھا حاشر کا سانس رک رہا تھا حمامہ کا دل بند ہوا …
"پلیز آپ باہر جائیں پیشنٹ کی حالت خراب ہو رہی ہے …" ڈاکٹر جلدی سے آتے بولا
حمامہ منہ پہ ہاتھ رکھ کر بھاگی
نرس اور دوسرے ڈاکٹر بھی بھاگے
ماہ بیر جلدی سے اس کے پاس آیا
"کیا ہوا حمامہ سب ٹھیک ہے نہ …."
"وہ شاہ اسکا سانس .. پلیز اسکو بچا لیں میں مر جاؤں گی …" روتی وہیں نیچے بیٹھتی چلی گئی
"حمامہ میری جان اٹھو کچھ نہیں ہو گا سب ٹھیک ہو جائے گا …"
عالیاب نے جلدی سے اسکو سہارا دیا
تو وہ اس کی باہوں میں بکھر گئی
عالیاب کی آنکھیں بھی برسنے لگی
ماہ بیر کی آنکھیں ضبط کی شدت سے سرخ پڑ گئی تھی ہاتھوں کی مٹھیاں پینچے وہ دروازے کو دیکھ رہا تھا
"حاشر کیسا ہے … " ڈاکٹر کو باہر آتا ماہ بیر سخت آواز میں بولا تھا
ویل یہ ایک معجزہ ہے مجھے بلکل بھی یقین نہیں تھا ….
"حاشر کیسا ہے …" ڈاکٹر کی بات کو نظر انداز کرتا زور سے بولا تھا
"ہی از فائن ناؤ …لیکن پوری طرح میں نہیں کہہ سکتا کیوں کہ بلڈ وین کے پھٹنے سے بہت مسلہ ہو گیا تھا اب دعا کریں کہ اسکا کوئی باڈی پارٹ افیکٹ نہ ہوا ہو … ہی از اوٹ آف ڈینجر …" ڈاکٹر پروفشنل انداز میں کہتا چلا گیا تھا
ان سب میں نئی زندگی کی لہر دوڑ گئی تھی سانس بحال ہوا تھا اور دل نے بے اختیار اس عظیم ذات کا شکریہ ادا کیا تھا جس نے ان سب کی دعائیں رد نہیں کی تھیں
🌹🌹🌹
دو دن تک حاشر کو انڈر ابزرویشن رکھا تھا اسکو ویسے بھی ابھی ہوش نہیں آیا حمامہ ایک لمحہ بھی اس سے دور نہ ہوئی تھی ماہ بیر نے بہت کہا کے وہ گھر جا کر ریسٹ کرے لیکن وہ نہ مانی اب وہ اپنے شاہ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہتی تھی …
آج اسکو روم میں شفٹ کیا تھا ماہ بیر رات کو یہیں تھا ابھی وہ فریش ہونے گھر گیا تھا عالیاب حمامہ کے ساتھ تھی زبردستی حمامہ کو تھوڑا سا کھلایا تھا اور اب وہ کافی لینے گئی تھی
حمامہ روم میں آئ حاشر آنکھیں بند کیے پڑا تھا سر پہ سفید پٹی تھی حمامہ آہستہ سے اس کے قریب گئی
"اب تو آنکھیں کھول دیں شاہ اور کتنا تنگ کرے گے …" جھک کے اسکے ماتھے کو لبوں سے چھوا تھا
وہیں اس کے پاس بیٹھ کے اسکا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں مظبوطی سے پکڑ لیا جیسے اب کبھی نہیں چھوڑنا ..
اس کے ہاتھ پہ سر رکھے وہ آنسو بہانے لگی دو دن سے یہی تو کر رہی تھی لیکن وہ ظالم آنکھیں بند کیے ہر شے سے بے نیاز پڑا تھا حمامہ کی کوئی پکار اسکو سنائی نہ دے رہی تھی
روتے روتے حمامہ کی آنکھ لگ گئی تین دن سے وہ سو نہیں رہی ہی اس ڈر سے کہیں حاشر کو کچھ ہو نہ جائے کل بھی عالیاب نے زبردستی اسکو لٹایا تو کچھ ہی دیر میں وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی تھی
ابھی وہ کچی نیند میں ہی تھی کہ یوں لگا کسی نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا ہو حمامہ نے جلدی سے آنکھیں کھول دی ….
حاشر کا زہن اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا پورا جسم سن تھا کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا وہ اندھیرے میں ہی چلتا جا رہا تھا روشنی کا کوئی سرا ہاتھ نہ آ رہا تھا آہستہ آہستہ کچھ محسوس ہوا شاید ہاتھ پہ کچھ گیلا سا تھا پھر ایسا لگا کسی نے ہاتھ زور سے پکڑا ہو پھر کسی کی آواز سنائی دی …
زہن اس آواز کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا کوئی جانی پہچانی سی نسوانی آواز تھی
شاہ اب تو اٹھ جائیں اور کتنا تنگ کرے گے ….
یہ آواز یہ لہجہ سنا ہوا تھا کچھ اپنا سا تھا ہاں وہ اس آواز کو پہچانتا تھا یہ حمامہ کی آواز تھی اسکی زندگی کی …..
زہن لا شعور سے شعور کی طرف آ رہا تھا اندھیرے جھٹ رہے تھے آہستہ آہستہ روشنی اسکی طرف آ رہی تھی سر میں درد محسوس ہو رہا تھا آنکھیں بہت بھاری تھی پورا جسم ٹوٹ رہا تھا چار دن بعد اسکو ہوش آ رہا تھا ..
دکھتے سر سے مندھی مندھی سی آنکھیں کھولی سفید چھت نظر آئ زہن سمجھنے کی کوشش کرنے لگا کو وہ کہاں ہے … آنکھیں پھر سے بند ہو رہی تھیں سر بھاری لگ رہا تھا اور درد بھی کر رہا تھا … اس نے پھر سے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی بہت مشکل سے سر کو ذرا سا دائیں طرف کیا کسی کا ڈھلکا ہوا سر نظر آیا
ہاتھ ہلانے کی کوشش کی تو ہلا نہ سکا پھر بایاں ہاتھ ذرا سی کوشش سے اٹھایا اور کانپتا ہاتھ اس کے سر پہ رکھا
اپنے سر پہ کسی کا لمس محسوس کر کے حمامہ نے جلدی سے آنکھیں کھول دیں حاشر کی کھلی آنکھیں دیکھ کر وہ کھل گئی
"شاہ آپ کو ہوش آ گیا آپ ٹھیک ہیں میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں …"
حمامہ نم آنکھوں سے مسکراتی باہر بھاگی سامنے سے عالیاب کافی کے مگ ہاتھ میں لئے آ رہی تھی
"حمامہ کیا ہوا تم بھاگ کیوں رہی ہو …" عالیاب اسکو بھاگتا دیکھ اس کے پاس آئ
"یاب وو وہ شاہ کو ہوش آ گیا …" فرط جذبات سے بولا نہیں جا رہا تھا
"تم جاؤ میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں …" عالیاب خوش ہوتی جلدی سے ڈاکٹر کے کیبن تک گئی
کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر حاشر کو چیک کر رہا تھا حمامہ آنکھوں میں آنسو لئے اسکو دیکھ رہی تھی عالیاب بھی اس کے ساتھ کھڑی تھی چار دن بعد ان سب کو سکون محسوس ہوا تھا
ڈاکٹر کے ساتھ ماہ بیر سنجیدہ سا ہاتھ باندھ کر کھڑا ڈاکٹر کی بات سن رہا تھا
"ہی از فائن .. بس سرجری کی وجہ سے انکی رائٹ سائیڈ تھوڑی افیکٹ ہوئی ہے موو کرنے میں تھوڑی مشکل ہو گی لیکن فکر کی بات نہیں ہے ریسٹ اور میڈیسن سے ٹھیک ہو جائے گے کل شام تک آپکو ڈسچارج کر دیں گے … ٹیک کیئر … " ڈاکٹر مسکرا کے کہتا چلا گیا
حاشر نے نہ سمجھی سے انکو دیکھا
ک کیا ہوا ہے ?
بولنے میں تھوڑا مسلہ ہو رہا تھا
"کیا ہوا ہے … زیادہ کچھ نہیں بس تمھارے دماغ کی نس پھٹ گئی تھی ڈاکٹر نے سرجری کی اور چار دن بعد آپ جناب ہوش میں ہیں .. بس اتنا ہی ہوا ہے …." ماہ بیر غصہ ضبط کرتے دانت پیس کر بولا تھا
ورنہ دل تو کر رہا رکھ کے دو مارے اس کے چار دن سے انکی جان سکھا کے پوچھ رہا ہے ہوا کیا ہے ….
چار دن …. حاشر کو جھٹکا لگا پھر جب یاد آیا کہ یہ بات سب سے چھپائی تھی تو نظریں چرا لی
"کیا ہوا اب منہ کیوں نیچے کر لیا بہت بڑا کارنامہ سر انجام دینے چلے تھے دیکھو اس کی طرف چار دن سے سولی پہ لٹکی ہوئی ہے حالت دیکھو تمہاری وجہ سے رو رو کر حشر برا کر لیا ہے ایک دفع بھی گھر نہیں گئی صرف تمہاری وجہ سے .. بہت سکون مل رہا ہو گا ہم سب کو یوں پریشان کر کے … "
ماہ بیر آہستہ آواز میں غرایا
حاشر نے ایک نظر حمامہ کو دیکھا ملجگے سے کپڑے بال بھی بکھرے سے رو رو کر آنکھیں سوجی ہوئی تھی خشک لب اور زرد سی رنگت …سر جھکاۓ لب کچلتی آنسو پی رہی تھی
حاشر کو شرمندگی ہوئی پھر کچھ کہنے لگا
ماہ بیر وہ میں ….
"چپ ایک دم چپ …اپنی چونچ میرے سامنے بند رکھو نہیں تو تمھارے اس ٹوٹے سر کا بھی لحاظ نہیں کروں گا .. جو تم نے کرنا تھا کر چکے اب مجھ سے بچ کہ رہنا اور کوشش کرنا اپنا منہ میرے سامنے بند رکھو نہیں تو توڑنے میں دیر نہیں لگے گی ….." ماہ بیر کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ہسپتال بیڈ پہ ہی اسکی درگت بنا دے
کتنا پریشان کر دیا تھا سب کو ….
حاشر کا سر مزید جھک گیا …
"چلو عالی اس جیسے بے وفا دوست کو ہماری ضرورت نہیں …"
سخت نظروں سے اسکو گھورتا عالیاب کا ہاتھ پکڑ کر چلا گیا
🌹🌹🌹
حمامہ سر جھکاۓ لب کچل رہی تھی آنکھوں میں بار بار پانی آ رہا تھا جس کو ہاتھ سے رگڑ دیتی ..
حمامہ … حاشر نے آہستہ سے پکارا
لیکن وہ کھڑی رہی …
"حمامہ میری زندگی یہاں آؤ …" حاشر نے پھر سے پیار سے پکارا
حمامہ نے پانی سے بھری نظریں اٹھا کر اسکو دیکھا اسکی نظروں میں ڈھیروں شکوے تھے حاشر کا دل کسی نے مٹھی میں لیا
حمامہ بھاگ کر اس کے سینے لگ گئی جھٹکے سے اسکے دماغ کی چولیں تک ہل گئی زور دار سا درد ہوا لیکن حمامہ کے لئے وہ اس سے بھی زیادہ درد برداشت کر سکتا تھا
حاشر نے بایاں ہاتھ اس کے گرد پھیلایا حمامہ بری طرح سے رو رہی تھی کتنا تڑپی تھی وہ …
"حمامہ میری زندگی چپ ہو جاؤ میں ٹھیک ہوں پلیز چپ ہو جاؤ …" حاشر نے اسکا چہرہ اوپر کیا
آنسوؤں سے تر چہرہ بھیگی سی پلکیں سرخ ناک اور کپکپاتے لب ….
حاشر نے اسکے آنسو صاف کیے لیکن شاید ٹنکی فٹ کی تھی آنکھوں میں جو آنسو رک ہی نہیں رہے تھے سر جھکاۓ وہ سوں سوں کر رہی تھی …
"حمامہ مت کرو تمھارے آنسو مجھے تکلیف دے رہے ہیں …" حاشر دکھ سے بولا تھا
حمامہ کی یہ حالت اس سے برداشت نہیں ہو رہی تھی
"بہت برے ہیں آپ شاہ میں چار دن سے تکلیف میں ہوں آپکو وہ نظر نہیں آ رہا کتنا ڈر گئی تھی میں اگر آپکو کچھ ہو جاتا تو میرا کیا ہوتا آپ نے ایک بار بھی میرا نہیں سوچا ..میں تو بیوی ہوں آپکی مجھے تو بتانا چاہیے تھا اس دن ماہ بیر بھائی نہ آتے تو پتا نہیں کیا ہو جاتا ... آپ کے بغیر میں مر جاتی شاہ …"
آنکھیں رگڑ کر نم آواز میں بولی تھی
"شششش… بس اب دوبارہ مرنے کی بات مت کرنا ابھی ہم نے ایک ساتھ بہت سارا جینا ہے … میں ٹھیک ہوں اب دیکھو تمھارے سامنے ہوں … آئ ایم سوری میری زندگی میری وجہ سے تمہاری آنکھ میں آنسو آۓ … بس اب اور نہیں …" اسکا ہاتھ لبوں سے لگا کر پیار سے بولا
حمامہ اسکے سینے پہ سر ٹکا گئی اتنے دن بعد رگ رگ میں سکون کی لہر دوڑ گئی تھی …
حاشر نے بھی سکون سے آنکھیں بند کر لیں …
کچھ دیر بعد نرس دوائی دے کہ گئی تو حمامہ نے تھوڑا سا سوپ پلا کے اسکو دوائی کھلا دی لیکن منہ پھولا ہوا تھا اور آنکھوں میں خفگی تھی .. حاشر مسلسل اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا حمامہ نے اسکو گھورا لیکن اس پہ اثر نہ ہوا تو حمامہ روم سے باہر چلی گئی
حاشر نے بے بسی سے بند دروازے کو دیکھا اور ٹھنڈی آہ بھر کے رہ گیا .. مطلب سب اس سے خفا تھے
🌹🌹🌹
"مسٹر خان …" کھانا کھاتے عالیاب کی پھنسی سی آواز نکلی
"جی میری جان …" ماہ بیر جی جان سے اسکی طرف متوجہ ہوا
"آپکو حاشر بھائی پہ غصہ کیوں آیا ہے انکی کیا غلطی ہے وہ تو بیچارے بیمار ہیں …" عالیاب اس کے ہاتھ سے ایک اور نوالہ لیتی بہ مشکل بولی
"غصہ نہیں کروں تو کیا کروں اسکو پھولوں کے ہار پہناؤں چھ مہینے سے وہ سب جھیل رہا تھا ویسے ہر بات کرتا ہے ساری بکواس ہو جاتی ہے اس سے لیکن یہ اتنی بڑی بات نہیں بتائی گئی اس سے … میں نے تو کبھی کچھ نہیں چھپایا اس سے پھر اس نے کیوں چھپایا وہ دوست ہے میرا جان سے زیادہ عزیز ہے مجھے لیکن اس نے دوست نہیں سمجھا .. خیر چھوڑو اسکو میں خود دیکھ لوں گا تم صرف مجھے دیکھو …"
غصے سے دانت پیس کر کہتے آخر میں لہجہ زو معنی ہوا
"آپکو کیا دیکھوں آپ ٹھیک ٹھاک تو ہیں .." عالیاب لا پروائی سے کہتی اٹھ کے جانے لگی
ماہ بیر نے ہاتھ پکڑا اور گود میں بٹھا لیا عالیاب مچلی گال گلال ہوے پلکیں جھک کہ گالوں کو چھو گیں اسکی پر حدت قربت اسکی جان پہ بن آتی تھی
"مسٹر خان چھوڑیں …" عالیاب نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اس نے مظبوطی سے دونوں ہاتھ اسک کمر کے گرد باندھے تھے وہ ہل بھی نہ سکی
"کب تک بھاگنے کا ارادہ ہے مسز خان …" اس کے بکھرے بالوں کی خوشبو سانسوں میں اتارتے لہجہ خمار آلود ہوا تھا
عالیاب کا دل ایک سو بیس کی سپیڈ پہ بھاگا ہتھیلیاں نم ہو گئی
وو مسٹر خان …. عالیاب سے کوئی بات نہ بنی
"جی میری جان حکم …" ماہ بیر تو اس کے منہ سے مسٹر خان سن کے ہی نثار ہو جاتا
"وہ مم میں مسٹر خان مجھے یونی کا کام کرنا ہے اتنے دن سے نہیں گئی آپ مجھے سمجھا دیں پلیز …" عالیاب جلدی سے بولی
اس کے سامنے مذاحمت بیکار تھی
"ٹھیک ہے تم جاؤ میں آتا ہوں …" ٹھنڈی آہ بھر کے بولا
گرفت ذرا سی ڈھیلی ہو تو وہ بغیر پیچھے دیکھے بھاگ گئی
ماہ بیر نے افسوس سے سر جھٹکا پتا نہیں کب اسکی معصوم بیوی اسکو سمجھے گی
تھوڑی دیر بعد ماہ بیر اوپر گیا تو وہ پوری طرح سے کام میں مگن تھی ماہ بیر نے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا اور اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا
عالیاب کسی سوال پہ الجھی ہوئی تھی منہ کے برے برے ڈیزائن بناتے وہ لکھ رہی تھی لیکن سمجھ نہیں آ رہا تھا ماہ بیر اس کا منہ دیکھ رہا تھا ..
"سمجھا دیں نہ یہ منحوس سوال حل نہیں ہو رہا …" عالیاب ناک چڑھا کر بولی
"اچھا مجھے کیا ملے گا اس کے بدلے …" ماہ بیر نے مسکراہٹ دبائی
بہت مزہ آتا تھا اس سے بدلے میں کچھ لے کے …
"سب کچھ تو ہے آپ کے پاس مجھ سے کیا چاہیے …"
عالیاب نے منہ پھلایا
"وہ میں اپنی مرضی سے لوں گا بتاؤ دو گی …" ماہ بیر نے گہری نظروں سے دیکھا
"اچھا ٹھیک ہے دے دوں گی اب سمجھا دیں …" عالیاب اسکی لو دیتی نظروں سے گھبرا کر بولی
"ہمم ٹھیک ہے لیکن پھر میری مرضی سے روز پڑھنا ہو گا میرے پاس …" ماہ بیر دلکشی سے مسکرایا تھا
"ایک تو آپ کی شرطیں … ٹھیک ہے پڑھ لوں گی اب اس سے جان چھڑوا دیں …" عالیاب تھک گئی تھی
دو گھنٹے میں ماہ بیر نے ایک سوال کی جگہ پوری ایکسرائز کروا دی تھی عالیاب کو اچھی طرح سمجھ آ گئی تھی بس ایک سوال نہیں سمجھ آ رہا تھا جس پہ عالیاب کو غصہ آ رہا تھا نیند سے آنکھیں بند ہو رہی تھیں لیکن یہ منحوس سوال نہیں حل ہو رہا تھا اس سے …
ماہ بیر نے دو بار اسکو کر کے دیا اور اب اسکو کرنے کو کہا خود لیپ ٹاپ پہ ٹائپنگ کرنے لگا حاشر کی بیماری کی وجہ سے کام بڑھ گیا تھا کام کر کے ہسپتال کا بھی چکر لگانا تھا ویسے تو حاشر کو ڈاکٹرز ہی دیکھ رہے تھے لیکن حمامہ اکیلی تھی
"عالی ہو گیا …"
لیپ ٹاپ پہ نظریں مذکور کیے بولا
کوئی جواب نہ آیا ..
"عالی …." ماہ بیر نے اسکی طرف دیکھا تو عنابی لب مسکراۓ
عالیاب پنسل ہاتھ میں پکڑے بک پہ سر رکھے سو گئی تھی
مسکراتے لیپ ٹاپ سائیڈ پہ رکھا اسکی بکس سائیڈ پہ کر کے اسکو باہوں میں اٹھا کے بیڈ پہ لیٹا دیا
"میری معصوم سی جان …" اس کا ماتھا چوم کر نائٹ بلب آن کرتا چلا گیا …
🌹🌹🌹
"میری وائف کو بلاؤ مجھے نہیں کھانی یہ …" حاشر منہ پھلا کے ضدی بچے کی طرح بولا
نرس نے بے چارگی سے باہر کی طرف دیکھا وہ کافی دیر سے حاشر کو دوائی دینے کی کوشش کر رہی تھی لیکن حاشر مان ہی نہیں رہا تھا بس ایک ہی رٹ تھی میری بیوی کو بلاؤ … حمامہ ناراض تھی اس سے کل شام ہی تھوڑی دیر اس کے پاس بیٹھی پھر اٹھ کے چلی گئی اب بھی صبح سے بس ایک بار آئ تھی …
"پلیز میم آپ خود چلیں وہ نہیں مان رہے کہہ رہے میری وائف کو بلاؤ …" نرس باہر کھڑی حمامہ سے التجا کرتی بولی
حمامہ اسکو بھیج کر خود گئی اسکو دیکھ کر حاشر کے چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی جب کہ حمامہ کی آنکھوں میں خفگی تھی …
"مسلہ کیا ہے آپ کے ساتھ کیوں نہیں کھا رہے دوائی …"
حمامہ تھوڑا غصے سے بولی
"میں نے کب منع کیا تم کھلاؤ تو سہی …" حاشر ہنسا
حمامہ کے ماتھے پہ بل پڑے
گولی اس کے منہ میں رکھی تو حاشر نے اس کی انگلی دانتوں سے پکڑ لی حمامہ نے غصے سے دیکھا تو شرافت سے چھوڑ دی اسکو پانی پلا کے واپس جانے لگی جب حاشر نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا
حمامہ نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو حاشر نے بیٹھنے کا اشارہ کیا حمامہ چپ چاپ بیٹھ گئی
"میری زندگی ناراض ہے مجھ سے …" پیار سے اسکا گال چھوا
حمامہ نے کوئی جواب نہ دیا
"بولو میری جان کیا ہوا .. مجھے بتاؤ …" حاشر نے بولنے پہ اکسایا
"میں نہیں بولتی آپ سے …"
حمامہ نے پلکیں جھپکی تو ایک آنسو گال پہ لڑھک گیا
"ٹھیک ہے پھر جب میری بیوی بات ہی نہیں کرتی میں دوبارہ سے بے ہوش ہو جاتا ہوں …" حاشر افسوس سے بولا
حاشر !… حمامہ نے پانی سے بھری نظریں اٹھا کر اسکو دیکھا
حاشر کا دل ڈوبا اس کی شکوے بھری نظریں دیکھ کر ..
"حاشر کی جان معاف کر دو نہ حاشر کو ورنہ حاشر تمھارے بغیر مر …."
اسکی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے تو حاشر کی زبان رکی
وہ ہچکیوں سے رونے لگی حاشر بوکھلا گیا
"حمامہ کیا ہوا حمامہ میری زندگی کیا ہوا اب تو میں ٹھیک ہو گیا ہوں دیکھو پلیز چپ کر جاؤ حمامہ …"
حاشر ایک ہاتھ سے اس کے آنسو صاف کر رہا تھا لیکن وہ زارو قطار رو رہی تھی
حاشر نے اسکو ساتھ لگایا تو وہ اور زور سے رونے لگی
"حاشر آپ اچھے نہیں ہیں میں ڈر گئی تھی آپکو نہیں پتا مجھ پہ کیا گزری ہے آپ کے سوا کون ہے میرا یہاں آپ نے مجھے بہت ہرٹ کیا آپ بلکل بھی اچھے نہیں ہے میں آپ سے بات نہیں کروں گی آپ کو شاہ بھی نہیں کہوں گی …" اس کے سینے سے لگی وہ اسی کی شکایت کر رہی تھی
آخری بات سن کر حاشر مسکرایا
"آئ ایم سوری میری جان … پلیز معاف کر دو نہ .." حاشر مسکراہٹ چھپا کر بولا
"نہیں کروں گی آپ اچھے نہیں ہیں …" حمامہ سوں سوں کرتی بولی
"اچھا یہاں میری طرف دیکھو …." حاشر نے اسکا چہرہ اوپر کرنا چاہا
"نہیں …" حمامہ نفی میں سر ہلاتی مزید اس میں چھپی
"سوری میری زندگی …" حاشر نے کہتے لب اس کے سر پہ رکھے
حمامہ ویسے ہی اس سے لگی رہی
….
شام کو حاشر ڈسچارج ہو گیا تھا ڈاکٹر نے بہت ساری ہدایت دی تھی ریسٹ کرنے کی … ماہ بیر بھی ان کے ساتھ ہی تھا عالیاب کو کل اسائمنٹ سبمٹ کروانی تھی تو وہ اپنی اور حمامہ کی اساآئمنٹ بنا رہی تھی ..
راستے میں حاشر نے ماہ بیر سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن اسکی غصے سے بھری نظریں اور سخت تاثر دیکھ کر برا سا منہ بنا کہ رہ گیا ..
بات تو حمامہ بھی نہیں کر رہی تھی
حمامہ کی ہیلپ کے لئے ماہ بیر نے ایک ملاذمہ رکھ دی تھی جو چوبیس گھنٹے وہیں رہتی حاشر کو تو حمامہ نے ہی سمبھالنا تھا بس گھر کے کام کرنے کے لئے وہ رکھی تھی
ضروری ہدایات دیتا ماہ بیر چلا گیا اسکو آفس بھی دیکھنا تھا رات کو عالیاب کے ساتھ بھی آنا تھا …
حاشر کو کھانا کھلا کے دوائی دی تو وہ سو گیا حمامہ خود فریش ہوئی تھوڑا سا گھر سنوارا پھر یونی کا کام لے کے بیٹھ گئی پچھلا کام بھی عالیاب نے کر کے دیا تھا …
🌹🌹🌹
یونی سے واپسی پہ ماہ بیر اسکو لے کے گھر آیا ابھی اس کو کچھ بتانا تھا عالیاب کافی تھکی ہوئی تھی کھانا کھا کے روم میں آ گئی اتنے دن سے مٹھو کے پاس بھی نہیں گئی تھی اس نے بے وفائی جو کی تھی …
"عالی جان کہاں ہو …" روم میں انٹر ہوتے ماہ بیر نے آواز دی
"میں یہاں ہوں مسٹر خان …" بلکونی سے عالیاب کی آواز آئ تو ماہ بیر وہاں چلا گیا
عالیاب ریلنگ پہ دونوں ہاتھ رکھے باہر دیکھ رہی تھی بھورے بالوں کی موٹی سی چوٹی کمر پہ جھول رہی تھی کچھ شریر لٹیں ہوا کے دوش پہ اڑتی چہرے کو چوم رہی تھی
ماہ بیر نے پیچھے سے اسکو حصار میں لیتے دونوں ہاتھ اس کے ہاتھوں پہ رکھے عالیاب ہلکا سا مسکرائی
"وہ پکڑا گیا …" ماہ بیر بغیر تمہید کے بولا
عالیاب کے چہرے پہ سایہ سا گزرا لیکن پھر سمبھل کر بولی …
"آپ اسکو ہاتھ نہیں لگاۓ گے بس پولیس کو پکڑوا دیں وہ خود ہی سزا دیں گے …"
"جو حکم میری جان میں اسکو ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا (بس بلیڈ یوز کروں گا ) …." ماہ بیر فرمابرداری سے بولا
عالیاب مسکرا دی اب اسکا سارا ڈر ختم ہو گیا تھا بھیڑ سے ابھی بھی وہ تھوڑا کتراتی تھی لیکن پہلے جتنا نہیں …
"کل کا ادھار باقی ہے مسز …" ماہ بیر نے اسکا رخ اپنی طرف کیا
"کونسا ادھار …" عالیاب ادھر ادھر دیکھتی انجان بنی
ماہ بیر مسکرایا تو عالیاب نے اسکو دیکھا کتنی خوبصورت مسکراہٹ تھی اسکی عالیاب کے دل نے بیٹ مس کی بے ساختہ نظریں جھکا گئی …
"میری جان جو کل آپکو پڑھایا اسکی فیس …" ماہ بیر نے دونوں ہاتھ مظبوطی سے اس کی کمر کے گرد باندھے
عالیاب سرخ ہوئی دل کی سپیڈ بڑھ گئی پلکیں لرزیں ….
"وو میرے پیسے روم میں پڑے ہیں میں ابھی دیتی …" عالیاب نے جان چھڑانی چاہی
"کس نے کہا مجھے پیسے چاہیے …"
ماہ بیر نے اسکی کوشش ناکام بنائی
"پھر …" عالیاب نے اسکی آنکھوں میں دیکھا لیکن لمحے میں نظریں جھکا گئی
اسکی سیاہ چمکتی بولتی آنکھوں میں دیکھنا عالیاب کے بس میں نہ تھا
"کس می …" ماہ بیر نے پرتپش نظروں سے اسکا سرخ ہوتا چہرہ دیکھا
عالیاب نے یوں دیکھا جیسے غلط سنا ہو
لیکن ماہ بیر کی نظریں افف توبہ … کتنی گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا
"کیا …." عالیاب نے تصدیق کرنی چاہی
"میں نے کہا کس می …" ماہ بیر نے اسکو مزید قریب کیا
عالیاب کی سانس اٹکی پلکوں کی جھالر اوپر نیچے ہوئی دل زور سے دھڑکا …
"مم مجھ سے نہیں …. " آواز ہی نہ نکلی
"کیا مجھے ٹھیک سے سنائی نہیں دیا …"
ماہ بیر نے چہرہ اس کے قریب کیا
ماہ بیر کی گرم سانسیں چہرے پہ محسوس کرتی آنکھیں بند کر دی
ماہ بیر بہک رہا تھا اور عالیاب کی جان جا رہی تھی اسکی لرزتی پلکیں کپکپاتے ہونٹ ماہ بیر کو اکسا رہے تھے
ماہ بیر کا فون بجا تو وہ ہوش میں آیا
عالیاب نے پیچھے ہونے کی کوشش کی لیکن ماہ بیر نے مزید خود میں پینچ لیا تو وہ پھڑپھڑا کر رہ گئی
ایک ہاتھ سے ماہ بیر نے فون کان سے لگایا دوسرے ہاتھ سے اسکو پکڑا ہوا تھا لیکن وہ مسلسل پیچھے ہونے کی کوشش کر رہی تھی
ذرا سا ماہ بیر کی گرفت ڈھیلی ہوئی عالیاب جلدی سے پیچھے ہوتی روم کی طرف بھاگی
"آ ہاں مجھ سے چالاکی …" روم میں جانے سے پہلے ہی ماہ بیر نے اسکو پکڑا اور باہوں میں اٹھا لیا
"چھوڑیں مسٹر خان …" عالیاب مچل گئی
"چھوڑنے کے لئے تھوڑی پکڑا ہے …." ماہ بیر روم کی طرف بڑھا عالیاب کی جان لبوں پہ آ گئی
"چھوڑیں مسٹر خان نہیں تو میں نے ناراض ہو جانا ہے …" اپنی طرف سے عالیاب نے دھمکی دی
ماہ بیر ہنسا
"ٹھیک ہے پھر میں منع لوں گا اپنے طریقے سے …"
اسکو نیچے کھڑا کیا
"چھوڑیں نہ …" عالیاب روہانسی ہوئی
"پہلے میری فیس …" ماہ بیر بھی اپنے نام کا ایک تھا
"اچھا آنکھیں بند کریں …" عالیاب آہستہ سے بولی
ماہ بیر نے آنکھیں بند کیں
عالیاب مسکرائی پاؤں اٹھا کے ذرا سا اونچا ہوئی ماہ بیر کی گرفت ڈھیلی ہوئی
دائیں ہاتھ کی دو انگلیاں ماہ بیر کے ہونٹوں کے پاس لے کے گئی ذرا سا ٹچ کیا اور بھاگی
"میرا نام بھی عالیاب ماہ بیر خان ہے مجھے پانا اتنا آسان بھی نہیں ہے …." کھلکھلا کے کہتی نیچے بھاگ گئی
ماہ بیر کی مسکراہٹ گہری ہوئی
"بڑی تیز ہے مسز خان … کوئی نہیں ہمارا وقت بھی آۓ گا …"
🌹🌹🌹
حاشر بہت جلدی ٹھیک ہو رہا تھا حمامہ پوری طرح سے اسکی کیئر کر رہی تھی سارا دن اس کے پاس رہتی اپنے ہاتھ سے اسکا ہر کام کرتی البتہ ناراضگی ابھی تک تھی اور ابھی بھی حاشر کہتی تھی حاشر نے کتنی دفع سوری کہا لیکن وہ نہ مانی ..
ماہ بیر بھی اچھا خاصا ناراض تھا روز رات کو آتا تھا لیکن بس حمامہ سے ہی خیریت پوچھتا تھا
حاشر اب تھوڑا چل لیتا تھا ابھی حمامہ اسکو دوائی دے کر گئی تھی اسکو تھوڑا یونی کا کام تھا ایک مہینے سے نہیں گئی تھی سارا کام گھر سے ہی کر رہی تھی یونی کا کام کر کے کچن میں گئی ڈنر بنانا تھا ملازمہ سے وہ صرف گھر کا کام ہی کرواتی کھانا خود ہی بناتی تھی …
حاشر کے لئے لائٹ سا بنا کے اب اپنے لئے میکرونی بنا رہی تھی جب حاشر کی آواز سنائی دی
"ارے حاشر آپ یہاں کیا کر رہے ہیں مجھے بلا لیتے …" حمامہ نے جلدی سے اسکو پکڑ کہ چیئر پہ بیٹھایا
ایک مہینے بعد سر کی پٹی کھل چکی تھی
"مجھے یہاں نہیں رہنا …"
حاشر کا موڈ سخت خراب تھا
"پھر کہاں جانا ہے …" حمامہ نے مسکراہٹ دبائی جانتی تھی اسکی ناراضگی کی وجہ سے کہہ رہا ہے
ماہ بیر بھی تو اس سے بات نہیں کر رہا تھا
"مجھے ہوسپٹل چھوڑ آؤ یہاں کسی کو میری پرواہ ہی نہیں ہے مانا کے غلطی ہو گئی ایک مہینے سے روز سوری کہتا ہوں لیکن کوئی مان ہی نہیں رہا کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا …"
حاشر بچوں کی طرح معصوم سی شکل بنا کے کہہ رہا تھا
"ارے واہ بڑی جلدی یاد آ گیا …"
حمامہ مسکراتی اس کے سامنے بیٹھی
"اب تو سب ٹھیک ہو گیا ہے نہ میں نے کوئی بات بھی نہیں چھپائی اب تو معاف کر دو نہ اور کتنی سزا دو گی پلیز اب تو واپس بیڈ پہ آ جاؤ نہ مجھے نیند نہیں آتی اپنی زندگی کے بغیر …" حاشر کا منہ لٹک گیا
اتنے دن سے حمامہ صوفہ پہ سو رہی تھی جو اس نے ماہ بیر سے کہہ کر روم میں رکھوایا تھا
"اچھا اور جب اپنی زندگی کو چھوڑ کے جا رہے تھے اس وقت زندگی یاد نہیں آئ تھی …" حمامہ بھی اسکو تڑپا کے سارے بدلے لے رہی تھی
"اب ہو گئی نہ غلطی کیا کروں پھر .." حاشر چڑا
"ماہ بیر بھائی سے معافی مانگے پھر میں سوچوں گی …" حمامہ مسکراہٹ دبا کے کہتی اٹھ کے چولہے کے پاس گئی
"پھر ملے گے …" حاشر کچھ سوچتا اٹھ گیا
پہلے ماہ بیر سے مل کے اس کو منانا تھا جو روٹھی محبوبہ کی طرح بی ہیو کر رہا تھا پھر اس زندگی کو بھی دیکھ لے گے گا جو تڑپا رہی تھی
منہ بناتا اٹھ کے چلا گیا حمامہ مسکراتی اپنا کام کرنے کرنے لگی
🌹🌹🌹
"کیا حال ہیں جناب …" ماہ بیر مسکراتا چیئر پہ بیٹھا
نیچے بیٹھے وجود نے بہت غصے سے اسکو دیکھا ایک مہینے میں صرف پانی پہ زندہ تھا اب تو ہلنے کی طاقت نہیں تھی ..
"تمہے کیا لگا تھا کہ اتنے بڑے بڑے کام کرو گے اور مجھ سے بچ جاؤ گے .. شاید بچ بھی جاتے لیکن وہ کیا ہے نہ تم نے میری بیوی کو تکلیف دینے کا گناہ کر دیا … میں نے آج تک اس سے اونچی آواز میں بات نہیں کی اور تم نے اسکو اتنے سال تک دکھ دیا اتنا ڈرا کے رکھ دیا کہ اس نے جینا چھوڑ دیا تمہاری وجہ سے وہ گھر سے نہیں نکلتی صرف تمہاری وجہ سے …. آج ان تمام سالوں کے حساب کا وقت آ گیا ہے تو کیا خیال ہے شروع کریں …."
ہاتھ میں بلیڈ گھماتے بہت ہی اطمینان سے پوچھا تھا
"تم اچھا نہیں کر رہے بھولو مت تمہاری پھوپھو کا شوہر ہوں …"
مصطفیٰ شاہ بامشکل بولا
"ارے میں تو بھول ہی گیا تھا بتانا .. وہ دراصل پندرہ دن پہلے میری پھوپھو بیوہ ہو گئی میرے پیارے انکل کی کار ایکسیڈنٹ میں ڈیتھ ہو گئی تھی .. اب تو سب بھول بھی چکے ڈئیر انکل …"
ماہ بیر مسکرایا تھا
"مافیا والے تمہے چھوڑے گے نہیں تم جانتے نہیں کس سے پنگا لے رہے ہو …" مصطفیٰ شاہ غصے سے بولا
لیکن اٹھ نہیں سکا
"تمہے کیا لگتا ہے ایک مہینے سے میں کنچے کھیل رہا ہوں کونسا مافیا کہاں کا مافیا … اب تک تو کرنل وہاں سے مافیا کا نشان بھی مٹا چکے ہوں گے …اور تمھارے وہ کتے سب کے سب اس جہاں سے کوچ کر چکے … اب بچے تم تو تمہارا بھی وقت آ گیا ہے … تم نے میری پوری فیملی برباد کر دی میری آپی کی حالت کے ذمہ دار تم تھے میرے ڈیڈ کو تم نے مارا میری بیوی کا دامن داغ دار کیا … آج ان سب گزرے ماہ و سال کا حساب ہو گا …"
ماہ بیر کا لہجہ اتنا برفیلا ہو گیا کہ مصطفیٰ شاہ کی ریڑھ کی ہڈی تک ٹھنڈک پہنچ گئی
اسکو ڈر لگا ایسے ہی تو ماہ بیر کو بیسٹ نہیں کہتے تھے جتنی درد ناک وہ موت دیتا تھا کہ مرنے کے بعد بھی درد محسوس ہوتا …
"میں تمہے چھوڑوں گا نہیں ماہ بیر خان …" مصطفیٰ شاہ نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن کمزوری کے باعث اٹھ نہ سکا
"کتے کی دم کبھی سیدھی نہیں ہوتی .. خیر بتاؤ کیا سزا دوں تمہے …" ماہ بیر نے بڑے اطمینان سے پوچھا تھا جیسے کھانے کا مینو پوچھ رہا ہو
مصطفیٰ شاہ نے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا
ماہ بیر پر اسرار سا مسکرایا
"کیا ہوا حیران ہوے کہ مجھے یہ سب کیسے پتا چلا …" ماہ بیر خود ہی بولا
مصطفیٰ شاہ بس اسکو گھور رہا تھا جیسے نظروں سے کھانے کا ارادہ ہو
اسکی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر ماہ بیر نے سیٹی بجائی تو کوئی دروازہ کھول کر اندر آیا
"ساجد تم آ گئے مجھے پتا تھا تم اپنے باس کو اکیلا نہیں چھوڑو گے ختم کرو اس کو اور چلو یہاں سے …." ساجد کو دیکھ کر مصطفیٰ شاہ کی باچھیں کھل گئیں
لیکن ساجد سپاٹ سا کھڑا رہا ..
"ارے ڈئیر انکل یہ آپ کا نہیں میرا بندہ ہے .. ویسے ماننا پڑے گا بہت وفادار تھا آپکا لیکن وہ کیا ہے نہ بندہ پیسے کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے میں نے بھی اسکو پیسے دیے اور کرنل سے بچانے کا وعدہ کیا تو اس نے آپکی غلامی کو لات مار دی … آپکو کیا لگا تھا کہ اس نے آپ کے کہنے پہ میرے بارے میں بتایا تھا سب .. یہ میرے لئے کام کرتا ہے اور میرے کہنے پہ جتنا میں نے کہا آپکو بتا دیا …. تمہے کیا لگا تھا تم میری بیوی کو دوبارہ سے کڈنیپ کرنے کا پلان بناؤ گے اور میں چپ چاپ تماشہ دیکھوں گا … اب تمہارا دنیا سے جانے کا وقت آ گیا ہے .. آج اس زمین سے ایک اور بوجھ کم ہو جائے گا …" ماہ بیر نے کہتے اسکا منہ اتنی زور سے پکڑا تھا کہ جبڑے کی ہڈی چٹخ گئی تھی
ماہ بیر چیئر سے اٹھا ساجد کے ہاتھ سے گن لی اور مصطفیٰ کی ٹانگوں کے بیچ گولی ماری …. مصطفیٰ شاہ اتنی زور سے چلایا تھا کہ اس سیل کے در و دیوار لرز گئے تھے ..
"شیرو کو بلا لو باقی کا وہ دیکھ لے گا …" گن ساجد کی طرف پھینک کہ کہتا چلا گیا
ساجد مسکرایا بہت ذلیل کیا تھا مصطفیٰ شاہ نے اسکو اب اسکی باری تھی سیل کی ایک دیوار میں لگا دروازہ کھولا تو ایک بڑا سا شکاری کتا وہاں سے نکلا ساجد نے اسکے پٹے کی رسی کھول دی مصطفیٰ شاہ نے اسکو دیکھ کر نفی میں سر ہلایا منہ سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے اسکو بڑے سے کتے کو دیکھ کر مصطفیٰ شاہ کا بدن لرز گیا تھا وہ بیٹھا کانپ رہا تھا اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ اٹھ کے بھاگ سکے
تین دن سے بھوکا کتا مصطفیٰ شاہ پہ ٹوٹ پڑا تھا اور منٹوں میں اس کی بوٹی بوٹی کھا گیا تھا
ساجد اطمینان سے کھڑا دیکھ رہا تھا وہ ایک چالیس سالہ آدمی تھا پچھلے بیس سال سے مصطفیٰ شاہ کے ساتھ تھا ڈرگز اور سمگلنگ میں اسکا رائٹ ہینڈ تھا لیکن آج تک اس نے کسی لڑکی کے ساتھ زبردستی نہیں کی تھی کیوں کہ اسکی بھی بیٹی تھی .. اسکے دل میں ابھی بھی خدا کا خوف تھا اگر وہ کسی کی بیٹی کے ساتھ غلط کرتا تو وہ سب اسکی بیٹی کے سامنے آتا … لیکن سمگلنگ کرتے وقت یہ بھول گیا تھا کہ وہ کسی کی بہن بیٹی کی زندگی برباد کر رہا ہے انکو دلدل میں ڈال کے …
ماہ بیر نے اسکو بہت پہلے آفر کی تھی کہ اپنے باس کا بتا کر اس کے ساتھ مل جائے لیکن وہ نہیں مانا …
پر جب کچھ مہینے پہلے مصطفیٰ شاہ کی نظر اسکی کم عمر بیٹی پہ پڑی تو اسکو مافیا کے کام سے باہر بھیج کر اسکی بیٹی کو اٹھا لیا …
اس وقت ساجد نے قسم کھائی تھی کہ وہ مصطفیٰ شاہ کو نہیں چھوڑے گا لیکن وہ یہ کام اکیلا نہیں کر سکتا تھا اس لئے اسکو ماہ بیر کی مدد لینی پڑی …
بیسٹ بننے سے پہلے ماہ بیر زوار خان کے دوست کرنل اظہر سے ملا تھا انکو سب کچھ بتا دیا اور اپنے ارادے بھی … کرنل بھی اچھی طرح جانتے تھے یہاں پہ کسی بھی مجرم کو اتنی آسانی سے سزا کبھی نہیں ملتی خاص کر کے ریپ کیس کے مجرم کو … انکی مدد سے ماہ بیر کی ٹریننگ ہے تھی جب بھی کسی کا کام تمام کرنا ہوتا ماہ بیر پہلے کرنل سے اجازت لیتا تھا …
کرنل کے کہنے پہ ہی ماہ بیر لندن شفٹ ہوا تھا اس سب کے ساتھ اسکو اپنی اسٹڈی بھی پوری کرنی تھی اور اپنا بزنس بھی کرنا تھا … پاکستان میں نہ ہو کر بھی ماہ بیر کو وہاں کی ہر خبر رہتی تھی عاقب اور عمر کو بھی اس نہ کرنل کے کہنے پہ ہی اس نے اپنے ساتھ رکھا تھا … ماہ بیر وہ کام کر رہا تھا جو کرنل قانون کے دائرے میں رہ کے نہیں کر سکتے تھے … جب ماہ بیر نے آرمی میں اپلاۓ کیا تھا تو کرنل نے فزیکل پرابلم کا مسلہ بنا کر ماہ بیر کو نکلوا دیا تھا … کسی بڑے مجرم کو سزا دینی ہو تو کرنل صرف ماہ بیر کو اسکا نام بتا دیتے پھر اس کے بعد وہ انسان اس دنیا میں دوبارہ نظر نہ آتا تھا کیوں کہ ماہ بیر کے نزدیک بچے اور بچیوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنانے والے کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں تھا … اور اس سب میں کبھی بھی ماہ بیر کا نام نہیں آیا تھا صرف کرنل کی وجہ سے ….
🌹🌹🌹
"حاشر بھائی اسلام و علیکم کیسے ہیں …." عالیاب جو ابھی کچن سے نکل رہی تھی حاشر کو آتا دیکھ کر رک گئی
"وعلیکم سلام بھابھی میں ٹھیک ہوں … ماہ بیر کہاں ہے …" آج حاشر کی طبیعت ٹھیک تو ماہ بیر کو منانے چلا آیا
"مسٹر خان ابھی اپنے آفس گئے ہیں آپ چلیں جائیں …"
عالیاب مسکرا کے کہتی باہر لان میں چلی گئی
حاشر جل تو جلال تو پڑھتا آفس گیا جانتا تھا جتنا ماہ بیر کو غصہ ہے وہ حاشر کا بلکل لحاظ نہیں کرے گا
نوک کر کے دروازہ کھولا تو ماہ بیر فائل ریک کے پاس کھڑا کوئی فائل دیکھ رہا تھا دروازے کی آواز پہ پیچھے مڑ کے اسکو دیکھا اور پھر سے اپنا کام کرنے لگا
اسکے تیور دیکھ کر حاشر نے تھوک نگلا پہلی بار حاشر نے اس سے کچھ چھپانے کی غلطی کی تھی اور ماہ بیر اسکو دوستی کے اول روز سے بتا چکا تھا کہ جس دن حاشر نے کچھ چھپایا اس سے پھر حاشر کو کوئی نہیں بچا سکتا ماہ بیر سے…
"دیکھ خان میں جانتا ہوں میں نے غلطی کو ہے مجھے بتانا چاہیے تھا لیکن یار میں ڈر گیا تھا مجھے لگا تھا کے تم سب پریشان ہو جاؤ گے اس لئے میں نے نہیں بتایا .. میں سرجری کروانا چاہتا تھا لیکن اس میں بھی رسک تھا اور میں اپنے دن سرجری کی وجہ سے کم نہیں کرنا چاہتا تھا … جب مجھے پتا چلا تو تم بھابھی کے ساتھ تھے تو میں نے اس لیے نہیں بتایا … آئ ایم سوری یار آخری بار معاف کر دے پھر کچھ نہیں چھپاؤں گا پکا …." ماہ بیر کا منہ دوسری طرف دیکھ کر حاشر جلدی سے سب ایک سانس میں بول گیا
اسکی بات سن کر ماہ بیر نے فائل واپس رکھی اور اطمینان سے چلتا اس کے پاس آیا اسکا چہرہ دیکھ کر حاشر کو اندازہ نہیں ہوا کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے حاشر بے اختیار دو قدم پیچھے ہوا …
"ہمیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا ہاں!…." اسکا لہجہ ایسا تھا کہ حاشر کو لگا اس نے یہاں آ کر غلطی کر دی
ابھی حاشر کچھ کہتا ہی کے ماہ بیر نے اتنی زور سے تھپڑ مارا کے حاشر کا کان بند ہو گیا …
"ابھی تو نے پریشان نہیں کیا ہمیں تیری لاپروائی کی وجہ سے جان جا سکتی تھی تیری تجھے ڈاکٹر نے منع کیا تھا سیگریٹ پینے سے پھر کیوں پی …" ابھی حاشر اس تھپڑ سے سمبھلا نہیں تھا کہ ماہ بیر نے زور دار مکا اس کے پیٹ میں مارا کے وہ درد سے دہرا ہو گیا
اسکو کراہتا دیکھ ماہ بیر اطمینان سے چلتا جا کے اپنے چیئر پہ بیٹھ گیا درد کچھ کم ہوا تو حاشر نے اسکو دیکھا جو بڑے مزے سے سیگریٹ ہاتھ میں لئے اسکو دیکھ رہا تھا حاشر منہ بنا کے اس کے سامنے ہی بیٹھ گیا
"طبیعت کیسی ہے …." کش لیتے ماہ بیر نے پوچھا تھا
"ٹھیک ہی تھی لیکن آپ کی مہربانی سے خراب ہو رہی ہے شکریہ …" اپنا کان سہلاتا حاشر جل کر بولا تھا
کھوپڑی کے اندر سارا کچھ ہل گیا تھا
"کیا ارادہ ہے آگے …" ماہ بیر آگے ہو کے بیٹھا
انکی دوستی ایسی تھی .. ماہ بیر حاشر سے بڑا تھا اور حاشر کو بلکل بھائی کی طرح ہی عزیز تھا ماہ بیر کچھ بھی کہہ لیتا تھا حاشر کبھی برا نہ مانتا تھا وہ دل سے ماہ بیر کی عزت کرتا تھا
"ولیمہ ہے میرا اگلے مہینے …" حاشر کا منہ ہنوز بنا ہوا تھا
"ہمم شکل تو سیدھی کرلو …" ماہ بیر نے سیگریٹ مسلتے کافی مانگوائی تھی
"ٹھیک ہے میری شکل ورنہ تمھارے اس دو کلو کے ہاتھ نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی میری شکل بگاڑنے میں …" حاشر نے فون کے کیمرے میں اپنا چہرہ دیکھا تھا
"تمہاری غلطی ہے میں نے نہیں کہا تھا باتیں چھپاؤ …" ماہ بیر کا اطمینان ابھی بھی ویسا ہی تھا
"ہاں بس اب ساری زندگی تم لڑاکا پھوپھو کی طرح طنز کرتے رہنا …" حاشر تو اسکا اطمینان دیکھ کر جل بھن گیا تھا
"تم نے کام ہی ایسا کیا تھا …" حاشر کو چڑانا ہو اور ماہ بیر موقع چھوڑ دے ایسا نہیں ہو سکتا
"جا رہا ہوں آنا ہی نہیں چاہیے تھا تمھارے پاس …" حاشر مصنوعی غصے سے کہتا اٹھ گیا
"کافی تو پی لو …" ماہ بیر نے روکا بھی تو کس لئے
"تمہاری کافی تمہے مبارک …" زور سے دروازہ بند کر کے چلا گیا
اس کے بچوں جیسے انداز پہ ماہ بیر ہنس پڑا ..
🌹🌹🌹
"تم نے اچھا نہیں کیا مٹھو میرے ساتھ .. اکیلے ہی شادی کر لی کم سے کم مجھے بتا تو دیتے میں نے کونسا تمہے منع کر دینا تھا …."
مٹھو کو مینا کے ساتھ دیکھ کر عالیاب دکھ سے بولی
یاب … مٹھو سب چھوڑ کے اس کے پاس آیا
اب وہ بیچارہ کیسے بتاتا کے یہ شادی اسکی مرضی سے نہیں ماہ بیر کی مرضی سے ہوئی ہے …
"شادی کرتے وقت تمہے یاب یاد نہیں آئ تھی …" عالیاب نے اسکو اٹھا لیا
مینا بھی ان کو دیکھ کر اس طرف آ گئی وہ بہت پیاری تھی
"دیکھو کیسے پیچھے ہی آ گئی ہے جاؤ میں نہیں بولتی تم سے …" خفگی سے کہتے عالیاب نے مٹھو کو بھی چھوڑ دیا
پیچھے کھڑا ماہ بیر اسکی باتیں سنتا مسکرا رہا تھا
مٹھو دوبارہ سے اس کے پاس آیا لیکن عالیاب نے اٹھایا نہیں تو مٹھو بیچارہ چپ کر کے وہیں بیٹھ گیا کتنے دن سے عالی نے اسکو مرچ نہیں کھلائی تھی
ماہ بیر نے مٹھو کی حالت دیکھ کر لب دباۓ …
مینا بھی مٹھو کے بلکل ساتھ آ کر بیٹھی تو عالیاب کا منہ پھول گیا گلابی سے گال پھلا کو عالیاب پیچھے مڑی اور ایک قدم کے فاصلے پہ کھڑے ماہ بیر سے ٹکرا گئی …
"ہاۓ اللہ …" آنکھوں کے سامنے تارے ناچ گئے
"عالی میری جان ٹھیک ہو …" ماہ بیر نے جلدی سے اسکا ماتھا سہلایا
اسکا سر اتنی زور سے ماہ بیر کے فولادی سینے سے لگا تھا کے آنسو آ گئے تھے
ماہ بیر نے اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو ذرا سا جھک کر لبوں سے چن لئے عالیاب نے سانس روک لی … اسکا پر حدت لمس اسکی قربت عالیاب کی جان مشکل میں آ جاتی تھی …
"تم ٹھیک ہو …" ماہ بیر نے اسکا چہرہ اوپر کیا تو وہ سر ہلا گئی
آج کل تو ویسے اس کے سامنے بولا نہیں جا رہا تھا اسکو دیکھ کر ہی دل میراتھن کی ریس کی طرح بھاگنے لگتا تھا عالیاب کتنا سمبھالتی اپنے اس دل کو جو اسکو دیکھ ہی باغی ہو جاتا تھا اسکی قربت کا خواھش مند ہو جاتا تھا رہی سہی کسر اس شاندار شخص کی کیئر اسکا پیار اور اور اسکی دلکش سی مسکراہٹ پوری کر دیتی اور عالیاب اپنے دل کو سمبھالتی رہ جاتی ….
"کیا ہوا کہاں کھو گئی …" وہیں اسکو سوچوں میں گم دیکھ کر ماہ بیر نے اسکو ہلایا
"ہاں نہیں کچھ نہیں …" عالیاب نے اپنے دھڑکتے دل کو سمبھالا
"اچھا چلو میں کام کرنے لگا تم بھی پڑھ لو پھر آج باہر ڈنر کرنے چلے گے …" اسکی بات سن کے عالیاب سر ہلاتی اندر کی طرف چلی گئی دل ابھی تک دھک دھک کر رہا تھا
اسکا اتنا نارمل ری ایکٹ دیکھ کر ماہ بیر حیران ہوا ورنہ باہر جانے کا سن کر تو وہ اچھل پرٹی تھی.. پھر خیال جھٹکتا اس کے پیچھے چلا گیا …
🌹🌹🌹
"حمامہ میری زندگی کہاں ہو تم …" آفس سے آتے ہی حاشر زور سے بولا
ٹھیک ہوتے ہی اس نے آفس جانا شروع کر دیا تھا حمامہ بھی دوبارہ سے یونی جانے لگی تھی ..
"کیا ہو گیا شاہ آپ اتنی جلدی آ گئے خیریت …" اس کے ہاتھ سے لیپ ٹاپ بیگ لیتی بولی
"جی میری زندگی سب خیریت ہے .. تم اسکو چھوڑو اور چلو …" حاشر نے اسکے ہاتھ سے بیگ لے کے وہیں رکھ دیا
"کہاں جانا ہے …" حمامہ الجھی
حاشر کو اتنا تو جان چکی تھی کہ اسکو باہر کا کھانا زیادہ پسند نہیں ہے پھر اس وقت کہاں جانا ہے …
"پتا چل جائے گا … تم نے ڈنر بنایا تو نہیں …" حاشر نے فون پہ کچھ ٹائپ کرتے پوچھا
"نہیں لیکن جانا کہاں ہے وہ تو بتا دیں …" حمامہ جھنجھلائی
ماہ بیر سے بات کرنے کے بعد حاشر نے اسکو منایا تو تھوڑے نخرے دکھا کر اور اپنے لئے پلاؤ بنوا کر حمامہ بھی مان گئی تھی
"چلو پتا چل جائے گا …" اسکا ہاتھ پکڑ کر لے گیا
حمامہ نہ سمجھی سے اسکو دیکھتی رہی لیکن وہ مصروف سا ڈرائیو کرتا رہا کچھ دیر بعد حمامہ کو ایک سیلون لے کے آیا
حمامہ نہ سمجھی سے اسکی ساری کاروائی دیکھ رہی تھی ..
"ہیلو حاشر میں آپکا ہی ویٹ کر رہی تھی …" ایک خوش شکل سی لڑکی انکو دیکھ کر یہاں آئ
پورا سیلون خالی تھا بس دو لڑکیاں تھا
"ہیلو مس سوزی یہ میری وائف ہیں آپ انکو تیار کر دیں .. میں تین گھنٹے بعد آ جاؤں گا …"
حاشر نے حمامہ کا تعارف کرواتے سوزی کو تین بڑے بڑے بیگ دیے
"میری زندگی تم تیار ہو میں کچھ کام کر کے آیا .. تمھارے لئے کچھ ہے تم تیار ہو گی نہ میرے لئے …." حاشر اتنے مان سے بولا تھا کہ حمامہ نے ثبات میں سر ہلا دیا
حاشر اسکا گال تھپک کر چلا گیا …
🌹🌹🌹
آہستہ آہستہ موسم بدل رہا تھا برف باری نہیں ہوتی تھی تو ٹھنڈ بھی کم تھی لیکن جس دن بارش ہوتی ٹھنڈ بھی بڑھ جاتی … سورج آسمان پہ ہلکی سی لالی چھوڑتا چلا گیا تھا درخت بھی سکون میں تھے اندھیرا ہر سو پھیل رہا تھا ماہ بیر کا پیلس بھی اس جامنی سے اندھیرے میں ڈوب رہا تھا لیکن اسکا کمرہ خوب روشن تھا …
ماہ بیر ٹانگیں ٹیبل پہ پھیلاۓ لیپ ٹاپ گود میں رکھ کر بیٹھا تھا ساتھ ہی عالیاب بیٹھی اپنی بک پہ جھکی لکھ رہی تھی کچھ دیر پہلے ہی ماہ بیر نے اسکو کوئسچن سمجھا دیے تھے اور اب وہ خود کر رہی تھی کل اسکا ٹیسٹ تھا تو اسکو موت نظر آ رہی تھی یہ سوال دیکھ کر .…
سمیسٹر ختم ہونے والا تھا لیکن عالیاب ابھی بھی بکس کو دیکھ کر برے برے منہ بناتی تھی …
پلیز بس کریں نہ اب میں تھک گئی ہوں .." مسکین سی صورت بنا کے بولی
"ہاں ٹھیک ہے تم یہ کؤیسچن پانچ بار پریکٹس کرو پھر بس کرتے ہیں ..." وہ بھی اسکی رگ رگ سے واقف تھا
"کیا پانچ بار .. کیا ہو گیا ہے آپکو میں اتنی دیر سے پڑھ رہی ہوں اور اتنے سارے کؤیسچن کر لئے ہیں ابھی پھر سے کروں .. نہیں پلیز مجھ سے نہیں ہو گا نہ میں کل ٹیسٹ سے پہلے کر لوں گی ...." پہلے زور سے کہتی آخر میں ریکویسٹ کرنے لگی
"نہیں میں نے ایک بار کہہ دیا نہ جب تک یہ کر نہیں لیتی تم کوئی چھٹی نہیں ملے گی .." وہ اسکی کسی ریکویسٹ کو خاطر میں نہیں لا رہا تھا
پیار سے تو وہ پڑھتی نہیں تھی اس لئے تھوڑی سختی کرنی پڑتی تھی لیکن وہ بھی کہاں ڈرتی تھی
"دیکھیں پلیز مجھے بہت زیادہ نیند آ رہی ہے یہ دیکھیں میری آنکھیں بند ہو رہی ہے او او یہ میں سو گئی ..." معصومیت سے کہتی آنکھیں بند کر کے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کے سو گئی
اسکے معصوم سے ناٹک پہ قہقہ لگانے کو دل کیا لیکن بڑی مشکل سے خود پہ کنٹرول کیا کے وہ تو ویسے نہیں ڈرتی ہنسنے سے اسکو شہ ملے گی
"عالیاب میں نے کہہ دیا نہ یہ کرنا ہے مطلب کرنا ہے ورنہ بات نہیں کرنا مجھ سے ..." بڑی مشکل سے خود کو کنٹرول کر کے مصنوعی ناراضگی سے بولا
ورنہ دل تو کر رہا تھا اس معصوم کو خود میں چھپا لے جو اپنی پیاری پیاری حرکتوں سے اسکی دنیا میں رونق لائی تھی
"کیا ہے بہی آپ فوراً دھمکی دینے لگ جاتے ہیں کر رہی ہوں نہ میں ..." فٹ سے آنکھیں کھول کے جلدی جلدی کرنے لگی اسکی ناراضگی پہ تو ویسے جان پہ بن آتی تھی
"ہاں تو میری جان دھمکی کے بغیر تم مانتی کہاں ہو ..." وہ بھی اپنے جان لیوا انداز میں مسکرایا
عالیاب نے منہ بنایا … آدھے گھنٹے بعد جب سوال ہو گئے تو بکس ایسے پیچھے کی جیسے کوئی اچھوت ہو …
جلدی سے اٹھتی بیڈ پہ چلی گئی کہ ماہ بیر دوبارہ سے کچھ کرنے کو نہ کہہ دے لیکن وہ انہماک سے اپنا کام کر رہا تھا .. کافی دیر بیڈ پہ لیٹی کروٹیں بدلتی رہی لیکن نیند ہی نہیں آ رہی تھی ماہ بیر کی باہوں میں سونے کی عادت جو ہو گئی تھی …
کمفرٹر سے سر نکال کر اسکو دیکھا جو ابھی بھی اپنے کام میں بہت مگن تھا پھر منہ بنا کے لیٹ گئی اب کیسے کہے اسکو کہ یہاں آ جائے …
ماہ بیر کر تو اپنا کام رہا تھا لیکن اسکی ہر حرکت دیکھ رہا تھا جانتا تھا کہ وہ بھی اس سے پیار کرنے لگی ہے لیکن مان نہیں رہی … اسکا چہرہ اس کے آنکھوں میں نظر آنے والے چاہت کے رنگ کچھ بھی ماہ بیر کی نظروں سے اوجھل نہیں تھا … پھر پانچ منٹ میں کام سمیٹ کر اٹھا اور اس کے پاس گیا لیکن ایک سائیڈ پہ لیٹ گیا ..
عالیاب انتظار کرتی رہی کہ کب اسکا سر وہ اپنے سینے پہ رکھے گا لیکن شاید وہ بھی آج اسکو تڑپا رہا تھا .. کافی دیر تک جب کوئی حرکت نہیں ہوئی تو عالیاب نے تھوڑی سی آنکھ کھول کر اسکو دیکھا آنکھوں پہ بازو رکھے پتا نہیں سو رہا تھا یا جاگ رہا تھا عالیاب اندازہ نہ لگا سکی ..
پھر آہستہ سے سرک کر اسکے قریب ہوئی بہت آرام سے اسکا بازو آنکھوں سے اٹھا کے تکیے پہ رکھا .. ماہ بیر بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کنٹرول کر کے لیٹا تھا ..
ایک نظر اسکو دیکھا آرام سے اپنا سر اس کے سینے پہ رکھ کر بازو اسکے گرد باندھے اور سکون سے آنکھیں موند گئی ..
ماہ بیر نے آنکھیں کھول کے اپنے سینے پہ اسکا سر دیکھا پھر اسکے بالوں پہ لب رکھتے اسکو خود میں پینچ گیا …
🌹🌹🌹
تین گھنٹے میں حاشر نے اپنا سارا کام ختم کیا کل کا پورا دن اس نے حمامہ کے ساتھ گزارنا تھا تو آج کام ختم کیا کچھ کام جیک کو دیا .. پھر حمامہ کے لئے کچھ لیا اپنا تمام انتظام اچھی طرح سے خود چیک کیا آج وہ کسی بھی طرح کی کمی نہیں رہنے دینا چاہتا تھا اسکی وجہ سے حمامہ بہت روئی تھی آج اسکو ہر اس آنسو کا مداوا کرنا تھا …
پورے تین گھنٹے بعد سیلون پہنچ کے حمامہ کو باہر آنے کا کہا دس منٹ بعد حمامہ باہر آتی دکھائی دی حاشر کی تو کچھ پل کے لئے سانس ہی رک گئی تھی ….
حمامہ کو نیچے آتے دیکھ حاشر کی سانس رک گئی وہ تو کوئی آسمان سے اتری ہوئی پری لگ رہی تھی بلڈ ریڈ کلر کی فل میکسی جس پہ یوں لگ رہا تھا کہ گلاب کے پھول رکھے ہوں گلے میں نفیس سا ڈائمنڈ کا نیکلس کانوں میں چھوٹے چھوٹے ٹاپس گولڈن بالوں کو ہلکا سا کرل کر کے ایک خوبصورت سا کراؤن لگا ہوا تھا .. بیوٹیشن کے مہارت سے کیے گئے میک اپ نے اس کے نقوش کو مزید ابھار دیا تھا …حاشر تو دل تھام کر رہ گیا تھا …
سہج سہج کے چلتی وہ سیدھا حاشر کے دل میں اتر رہی تھی حاشر بغیر پلکیں جھپکاۓ یک ٹک اسکو دیکھ رہا تھا کہ حمامہ اس کے پاس پہنچ گئی
"کہاں کھو گئے شاہ جی …" حمامہ کی میٹھی سی آواز اس کے کان میں گونجی
"واللہ لڑکی جان لو گی کیا شاہ جی کی …" بہکتا سا لہجہ تھا
حمامہ کھلکھلائی
حاشر تو بس دیکھتا رہ گیا …
"چلیں یا رات یہیں بسر کرنی ہے …" حمامہ نے اس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا تو وہ ہوش میں آیا
"چلیں میری زندگی ایک خوبصورت سا سرپرائز آپکا انتظار کر رہا ہے …" حاشر نے بہت محبّت سے کہتے ایک سیاہ پٹی اسکی آنکھوں پہ باندھ دی
حمامہ مسکراتی اس کے ساتھ بیٹھی آنے والے لمحوں کو سوچ رہی تھی سوچ کر ہی خوشی ہو رہی تھی حاشر اسکی زندگی میں آنے والا پہلا مرد تھا اور آخری بھی .. بچپن سے ہی وہ بہت شرارتی تھی ہر کسی سے پنگا لیتی تھی لیکن کبھی بھی کسی سے لڑکے سے فرینک نہیں ہوئی تھی حاشر وہ پہلا انسان تھا جس سے حمامہ نے خود بات کی تھی ورنہ کبھی کسی لڑکے کی طرف دیکھا تک نہ تھا .. وہ جتنی بھی ماڈرن سہی لیکن اپنی حدود اچھی طرح جانتی تھی .. ویسے بھی رفعت بیگم نے اسکی تربیت ہی ایسی کی تھی کہ وہ نکاح سے پہلے لڑکے لڑکی کے ہر طرح کے تعلق کو غلط ہی کہتی تھی … اسکی نظر میں نکاح سے پہلے یہ سب حرام تھا .. اور ٹھیک ہی تو تھی اسکی سوچ …
آج کل کے لڑکے لڑکیاں رات کے اندھیروں میں چھپ کر باتیں کرتے ہیں اور جب کوئی پوچھے تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم کونسا کوئی غلط بات کرتے ہیں ایک دوسرے کو سمجھ رہے ہیں … آپ خود سمجھ دار ہیں اگر یہ کام اچھا ہے تو رات کو سب سے چھپ کر کیوں کیا ہے دن میں سب کے سامنے ایک نا محرم سے بات کرو اگر یہ ٹھیک ہے تو … آپ خود جانتے ہیں کہ یہ غلط ہے اسی لئے تو سب سے چھپ کر کیا جاتا ہے … ہم سب کو بس اتنا یاد رکھنا ہے کہ جو ہمارا نصیب ہے وہ ہمیں مل ہی جانا ہے جب اللہ چاہے گا … اگر ہم خود کسی ناجائز طریقے سے لینے کی کوشش کریں گے تو اسکی برکت کو کم کرتے جائیں گے … کبھی دیکھا ہے کہ کچھ لوگ پسند کی شادی کے باوجود بھی خوش نہیں ہوتے کیوں کہ وہ شادی سے پہلے ہی سارے سکون اور برکتیں ناجائز طریقے سے لے چکے ہوتا ہیں .. آپ کسی سے یا چاہے منگیتر سے ہی فون پہ بات کرتےہیں تو یہ نہ بھولیں جو غلط اور حرام ہے وہ ہے آپ کی دلیلوں سے بدل نہیں جائے گا .. جتنا آپ ناجائز طریقے سے لیں گے اتنی ہی اسکی برکت اسکے سکون کو کھو دیں گے …
لیکن اگر آپ ناجائز چھوڑ دیں گے جس چیز اللہ نے منع کیا ہے وہ چھوڑ دیں گے اللہ کے لیے تو یقین کریں اللہ پہ وہ کچھ عرصے بعد آپکو جائز طریقے سے دی جائے گی … آپ جانتے ہیں اللہ کتنا غیرت مند ہے وہ کسی کا کچھ نہیں رکھتا … صدقہ دو تو دس گنا کر کے واپس کرتا ہے .. سو آپ ناجائز طریقے سے سکون لینا چھوڑ دیں اس یقین کے ساتھ کہ اللہ اسکو جائز طریقے سے آپ کے نصیب میں لکھ دے گا …
حمامہ نے اس یقین کے ساتھ صرف ایک بار حاشر سے بات کر کے اسکا فیصلہ اللہ پہ چھوڑ دیا تھا اور آج اس فیصلے کا اجر اسکو مل رہا تھا کہ حاشر اسکا محرم بن گیا تھا .. اللہ نے اسکے دل میں محبّت ڈالی تھی صرف اس کے محرم کے لئے جو صرف اسکا تھا … بے شک اللہ کے بناۓ ہوے پاک رشتوں میں ہی لذت ہے …
قریباً آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد گاڑی رکی تو حمامہ نے سوچوں کو جھٹکا
"ہم کہاں آۓ ہیں شاہ …" حمامہ نے پٹی اتارنی چاہی
"رکو میری زندگی بس کچھ منٹ …" حاشر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکو باہر انے میں مدد کی
حمامہ چہرے پہ بہت خوبصورت سی مسکان لئے حاشر کا ہاتھ پکڑ کر اس کے ساتھ چل رہی تھی جب حاشر رکا اسکو ایک جگہ کھڑا کیا
"جب میں کہوں تو پٹی کھولنا …" حاشر اسکا ہاتھ چھوڑ کر دو قدم پیچھے ہوا
"شاہ کہاں گئے میں پٹی کھول رہی ہوں …" کچھ دیر تک اسکی آواز نہ آئ تو حمامہ نے خود ہی پٹی کھول دی
جیسے ہی پٹی کھلی حمامہ پہ پھولوں کی بارش ہوئی حمامہ کی مسکراہٹ گہری ہوئی سامنے نظر پڑی تو ہونٹوں کے ساتھ آنکھیں بھی مسکرانے لگی حاشر ایک گھٹنہ موڑے اس کے سامنے بیٹھا تھا اس کے چہرے کی مسکراہٹ بھی دیکھنے والی تھی حمامہ خواب کی سی کیفیت میں دیکھ رہی تھی حاشر کے پیچھے نیلا سمندر ایک ٹیبل ڈنر کے لئے سیٹ تھی اور کچھ ہی دور تک لائٹوں سے راستہ بنا تھا جو ایک چھوٹی سی ہٹ ٹائپ جگہ تک جا رہا تھا وہاں ایک فلور بیڈ تھا جو پھولوں سے سجا تھا رات کے اس وقت لائٹس کی مدھم روشنی ہلکی ہلکی ہوا لہروں کا ہلکا سا شور اور پر فسوں ماحول حمامہ کا دل دھڑکا … اس نے یہ سب نہیں سوچا تھا …
"شاہ یہ سب …." حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے اس سے بولا نہیں جا رہا تھا
"یہ سب شاہ کی زندگی کے لئے … جانتا ہوں تم مجھے معاف کر چکی ہو اب تمہے مجھ سے کوئی گلہ نہیں ہے لیکن پھر بھی مجھے یہ سب کرنا تھا .. میں جانتا ہوں میری وجہ سے تمہے بہت دکھ پہنچا ہے میری وجہ سے بہت آنسو آۓ ہیں تمہاری آنکھوں میں .. انجانے میں میں نے تمہے بہت ہرٹ کیا ہے .. لیکن تمہے دکھ دے کر میں تم سے زیادہ تکلیف میں تھا میں تم سے دور نہیں جانا چاہتا تھا بہت مشکل تھا سب میں تم سے نفرت کا دعوا کرتا تھا اپنی باتوں سے اپنے الفاظ سے میں نے تمہے بہت تکلیف دی تمھے وہ سب کہہ کر میں خود کو یاد دلاتا تھا اس سب کے لئے میں بہت سوری ہوں آئندہ ایسا بھول کر بھی نہیں ہو گا … آج یہاں اس وقت میں اس سمندر اس آسمان اس فضا یہاں موجود ہر چیز کو گواہ بنا کر یہ اقرار کرتا ہوں کہ میں حاشر شاہ حمامہ حاشر شاہ سے اس دنیا میں سب سے زیادہ محبّت کرتا ہوں جو میری بیوی ہے میری محرم ہے میری زندگی ہے .. نہ تم سے پہلے میری زندگی میں کوئی تھا نہ تم سو بعد کوئی ہو گا تم سے میں ہوں …. آئ لو یو میری زندگی … ول یو ?…. "
خوبصورت سا بلیک روز (حمامہ کا فیورٹ ) ہاتھ میں لئے بہت خوبصورتی سے اپنے دل کی بات کہی
حمامہ تو بس اسکو انسان کو دیکھ رہی تھی جو اپنی ہر غلطی کو قبول کرتا اس سے معافی مانگ کر اپنا دل کھول کر اس کے سامنے رکھ رہا تھا
آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر اس سے روز لیا حاشر کی مسکراہٹ گہری ہو گئی اسکو اس جہاں کی ہر خوشی مل گئی
حمامہ بھی اس کی طرح اس کے سامنے نیچے بیٹھی پھر مسکراتے ہوے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا
"میں حمامہ حاشر شاہ آج پورے دل سے اقرار کرتی ہوں کہ میں اپنے شاہ جی سے عشق کرتی ہوں نہ آپ سے پہلے کوئی تھا نہ کوئی ہو گا .. آپ میری زندگی میں آنے والے پہلے اور آخری مرد ہیں اور اب میری زندگی ہیں …"
بہت محبّت سے کہتے اس کا ہاتھ لبوں سے لگایا تھا حاشر نے اسکے ماتھے پہ محبّت احترام اور عقیدت سے لب رکھے تھے حمامہ سکون سے آنکھیں بند کر کے اسکا لمس محسوس کر رہی تھی
"باقی سب اپنی جگہ لیکن میری شرط ہے …" وہاں سے اٹھ کے سمندر کے پاس جاتی بولی تھی
وہ لندن کے ایک بیچ پہ تھے یہاں لوگ کم کم ہی ہوتے تھے اور رات کے اس وقت تو اکا دکا ہی ہوتے …
"کونسی شرط …" حاشر جلدی سے اسکے سامنے آیا تو حمامہ کے قدم رک گئے
پھر شرارت سے اسکو دیکھ کر بولی
"سارے نخرے میں کروں گی غصہ بھی میں کروں گی روٹھوں گی بھی میں اور آپ میرے نخرے اٹھاۓ گے میرا غصہ بھی برداشت کریں گے اور مجھے مناۓ گے بھی .. بولیں منظور ہے …."
"واہ میری زندگی تو بہت چالاک ہے …" حاشر نے اسکی طرف قدم بڑھاۓ تو وہ پیچھے ہوئی
"دیکھ لیں مان سکتے ہیں میری شرط… اگر نہیں تو …" حمامہ نے مسکراہٹ دبائی
تو …. حاشر نے آئ برو اچکایا
"تو میں پاکستان چلی جاؤں گی مما کے پاس …." حمامہ نے شاید دھمکی دی تھی
"آ ہاں .. ایسے کیسے چلی جاؤ گی پاکستان …." حاشر نے کمر سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا
خاموش سی فضا میں حمامہ کی ہنسی کھنکی ….
"شاہ جی آپ مجھے روک نہیں سکتے …"
"شاہ کی زندگی ابھی تم نے شاہ کو جانا ہی کتنا ہے …" حاشر بھی جان لیوا انداز میں مسکرایا تھا
"جانتی ہوں میں آپکو شاہ جی …" حمامہ جتا کر بولی تھی
"جو نہیں جانتی وہ آج رات جان جاؤ گی …." حاشر نے کہتے جھٹکے سے اسکو باہوں میں اٹھا لیا تھا
"اچھا کیا جان جاؤں گی …." حمامہ نے بازو اس کے گرد حمائل کیے تھے
"یہی کہ شاہ اپنی زندگی سے کتنا پیار کرتا ہے اور …." حاشر نے سرگوشی کی تو حمامہ سر جھکا گئی
چہرہ سرخ ہوا تھا پلکیں لرز گئی تھیں زور سے اسکا کارلر مٹھی میں جکڑا تھا اسکی حالت پہ حاشر ہنسا …
"کیا ہوا شاہ کی زندگی اتنے میں بس ہو گئی ابھی تو میں نے کچھ کیا نہیں …."
اسکو نیچے اتارا تو سر جھکا ہوا تھا گلابی چہرہ مزید گلابی ہو رہا تھا
"آپ بہت برے ہیں شاہ جی …" حمامہ خفگی سے بولی
"یہ سب تو آپ کل کے لئے رکھیں فلحال کھانا کھا لیں …"
حاشر نے لو دیتی نظروں سے اسکو دیکھا تھا
حمامہ چہرہ جھکاۓ کھانا کھانے لگی جیسے اس سے ضروری کچھ تھا ہی نہیں … کھا کم رہی تھی صرف چمچ ہی ہلا رہی تھی حاشر کی پرتپش نظریں اسکی دھڑکن بڑھا رہی تھی حاشر پہلی بار اس کے قریب نہ آیا تھا لیکن پتا نہیں کیوں آج دل الگ ہی لے پہ دھڑک رہا تھا …
حاشر سکون سے بیٹھا اسکو بے سکون کر رہا تھا چند لقمے ہی کھانے کے بعد حمامہ کی بس ہو گئی تھی وہاں سے اٹھ کر سمندر کے پاس آ گئی رات کے اس وقت سمندر بھی الگ ہی نظارہ پیش کر رہا تھا دور تک پھیلا نیلا سمندر بہت گہرا تھا اور پر سکون بھی کچھ دیر پہلے نظر آنے والی لہریں بھی سکوت میں تھی سیاہ آسمان پہ ہزاروں ستاروں کے بیچ نظر آتا چاند اپنی چاندنی اس نیلی سطح پہ ڈالتا اس منظر کو اور بھی سحر انگیز بنا رہا تھا …حمامہ نظریں آسمان کی طرف کیے چاند کو دیکھ رہی تھی
"کیا سوچ رہی ہو …."
حاشر نے کب اسکو حصار میں لیا اسکو پتا نہ چلا
"چاند کتنا حسین ہے نہ …." حمامہ کی نظریں ابھی تک وہیں تھیں
"میری زندگی سے زیادہ نہیں …." حاشر نے سرگوشی کی تھی
"فلمی ڈائلوگ تھا …" حمامہ نے منہ بنایا
"تمہے میری فیلنگز فلمی ڈائلوگ لگ رہی ہیں …" حاشر نے اسکا رخ اپنی طرف کیا
حمامہ مسکراہٹ دباتی سر ہلا گئی …
"تو پھر کیا خیال ہے ایک رومانٹک فلم نہ دکھا دوں تمہے …" کہتے ہی حاشر نے اسکو اٹھا لیا
"شاہ کیا کر رہے ہیں چھوڑیں مجھے …" حمامہ مچلی
"اتنی جلدی نہیں میری جان پہلے تم یہ تو جان لو کہ میری فیلنگز ڈائلوگ نہیں ہیں … صبح سے پہلے آزادی نہیں ملے گی …."
بہکتے بوجھل سے لہجے میں کہتے اسکے لب قید کیے تھے
حمامہ نے مزاحمت نہ کی ….
بات مجھ سے پوری نہ ہو سکی ساقی
ہونٹوں پہ ہونٹ رکھ دیے تھے اس نے
چاند کی چاندنی دونوں کو اپنی روشنی سے بھیگو رہی تھی حاشر نے بہت محبّت سے اسکو بتایا تھا کہ اس کی فیلنگز کیا ہیں … حمامہ تو بس اسکی محبّت محسوس کر رہی تھی اسکے لمس میں نرمی تھی اپنائیت تھی محبّت تھی ….
ان سے شرماتا چاند بھی اپنی چاندنی کے ساتھ بادلوں کی اوٹ میں ہوا تھا ….
🌹🌹🌹
"مسٹر ماہ بیر آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں آپکی وجہ سے میرا کروڑوں کا نقصان ہو گیا ہے .."
مس جولیا سخت غصے میں ماہ بیر کے آفس آئ تھی
مس جولیا نے لاسٹ ویک جو ماہ بیر کی کمپنی کے ساتھ پروجیکٹ سٹارٹ کیا تھا ماہ بیر نے کینسل کر دیا جس کی وجہ سے جولیا کا بہت زیادہ نقصان ہو چکا تھا
"آہستہ آواز میں بات کرو مجھے اونچی آواز میں بولنے والی عورت سے نفرت ہے …."
ماہ بیر ناگواری سے بولا تھا
آفس سے جلدی واپس آ کر وہ گھر میں ہی اپنا کام کر رہا تھا …
"آپ نے ایسا کیوں کیا …." جولیا چبا کر بولی
محبّت اپنی جگہ لیکن بزنس میں نقصان وہ کبھی برداشت نہیں کرتی تھی
"تمہے اور تمھارے اس آوارہ بھائی کو کیا لگا تھا میری بیوی کے خلاف کچھ بھی پلان کرو گے اور میں تماشہ دیکھوں گا …. ماہ بیر خان اپنی بیوی کی حفاظت کرنا جانتا ہے .. شکر کرو صرف بزنس میں نقصان کیا ہے اگر تمہارا وہ بھائی مجھ دوبارہ میری بیوی کے اس پاس بھی نظر آیا تو دوبارہ اس دنیا میں نظر نہیں آۓ گا … گیٹ لاسٹ …"
ماہ بیر سرخ آنکھوں سے اسکو گھورتا بولا تھا
وہ عورت پہ ہاتھ نہیں اٹھاتا تھا اسکی ماں نے عورت کی عزت کرنا سکھائی تھی … ورنہ دل تو کر رہا تھا جس دماغ سے اسکی عالی جان کو کڈنیپ کرنے کی پلاننگ کی تھی وہی دماغ اڑا دے …
جولیا ششدر رہ گئی یہ بات صرف پیٹر اور جولیا کو ہی پتا تھی پھر ماہ بیر کو کیسے پتا چلی …
پھر کچھ سوچ کر بولی
"دیکھو ماہ بیر تم جانتے ہو میں دس سال سے تم سے پیار کرتی ہوں لیکن تم نے اس بچی سے شادی کر لی کیا ہے ایسا اس میں جو مجھ میں نہیں .. میں خوبصورت ہوں اتنا بڑا بزنس ہے میرا مجھ سے شادی کر کے تم فائدے میں رہو گے … اس کے پاس تو ایسا کچھ بھی خاص نہیں ہے .. تم مجھ سے شادی کر لو ہم دونوں مل کر بزنس کو دنیا پہ راج کرے گے … دیکھو …."
جولیا بول ہی رہی تھی کہ ایک زور دار تھپڑ سے اسکا منہ بند ہوا جولیا منہ پہ رکھے غصے سے پیچھے مڑی
"یو تمہاری اتنی ہمت …" جولیا نے پلٹ کے اس پہ ہاتھ اٹھانا چاہا
"ڈونٹ یو ڈیئر …." ماہ بیر نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا
"اس پہ ہاتھ اٹھانے کی غلطی مت کرنا …"
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے مسٹر خان سے ایسی بات کرنے کی .. وائٹ وچ میں تمہارا منہ توڑ دوں گی اگر دوبارہ میرے ہسبنڈ کے آس پاس بھی نظر آئ …"
عالیاب خونخوار نظروں سے اسکو دیکھتی ہوئی بولی
ماہ بیر ہاتھ باندھے مسکراتا اپنی بہادر بیوی کو دیکھ رہا تھا
جولیا منہ پہ ہاتھ رکھے صدمے سے اسکو دیکھ رہی تھی اس کے سامنے عالیاب کافی چھوٹی لگ رہی تھی لیکن اسکا ہاتھ بہت زور سے پڑا تھا …
"اور آپ ابھی کے ابھی اس سے سارے کام ختم کریں اپنے …" ماہ بیر کو مسکراتا دیکھ اسکی طرف مڑی تو اس نے تابعداری سے سر ہلا دیا
"اب تم جاؤ گی مجھے اپنی وائف کے ساتھ ٹائم سپینڈ کرنا ہے .."
اسکو ابھی بھی وہیں کھڑے دیکھ کر ماہ بیر نے عالیاب کو اپنے پاس کرتے کہا تھا
جولیا بھسم کر دینے والی نظروں سے ان دونوں کو دیکھتی چلی گئی …
"واہ میری عالی جان نے تو کمال کر دیا مزا آ گیا …."
ماہ بیر کہتا اس کے دونوں گال چوم گیا
"خبر دار جو دوبارہ یہ آپ کے آس پاس نظر بھی آئ تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا …" عالیاب نے انگلی اٹھا کر وارن کیا
"جو حکم مسز خان …" ماہ بیر نے اسکی انگلی چوم لی
"چلیں چھوڑیں مجھے اپنی پینٹنگ پوری کرنی ہے …"
عالیاب نے اسکا حصار توڑنا چاہا
"پھر کبھی کر لینا ابھی اس بہادری کا انعام تو دینے دو …" ماہ بیر نے مزید اسکو خود میں پھینچا
"نہیں چھوڑیں …" اسکی جھلساتی سانسیں اپنے چہرے پہ محسوس کرتی آنکھیں میچ گئی
ماہ بیر کی قربت اسکا نرم گرم سانسیں محسوس کرتے اسکی سانسیں اٹکنے لگیں تھیں
"مسٹر خان کی جان کب تک تڑپاؤ گی …." اسکی شہ رگ پہ لب رکھتے ماہ بیر بہکا تھا
"مسٹر خ خان پلیز …" عالیاب منمنائی
ماہ بیر نے گہری سانس لے کر اسکو چھوڑا تو وہ بھاگی …
ماہ بیر تو بس انتظار کرتا رہا کہ کب وہ کچھ کہے گی اپنے دل کی بات کرے گی لیکن وہ نہ بولی
🌹🌹🌹
دن برق رفتاری سے گزر رہے تھے عالیاب اور حمامہ کا سمیسٹر پورا ہو گیا تھا ایک بار حمامہ پاکستان رفعت بیگم سے بھی مل آئ تھی حاشر کی محبّت دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی اور حمامہ مزید نکھر رہی تھی ….
شام کو آفس سے آنے کے بعد حاشر ایک منٹ بھی اسکو فری نہیں رہنے دیتا ہر منٹ اس کے ساتھ رہتا اسکو خود میں الجھا دیتا تھا اور حمامہ بھی کبھی تو بہت سکون سے اس کے ساتھ وقت گزارتی اور کبھی اسکو اچھا خاصا زچ کر دیتی اور حاشر پھر اسکو میٹھی سی سزا دیتا ….
"حمامہ میری زندگی کہاں ہو تم …"
روز بولا جانے والا جملا بولتے گھر میں داخل ہوا
لیکن روز کے برعکس شاہ جی کا جواب سنائی نہ دیا تھا گھر میں مکمل خاموشی تھی لاؤنج بھی خالی تھا اور کچن بھی ورنہ روز وہ یہیں ہوتی ….
حاشر حیران ہوتا روم کی طرف گیا جانتا تھا گھر کے علاوہ کہیں نہیں جائے گی
روم میں آیا تو دروازے پہ رک گیا
سامنے ہی حمامہ بیٹھی تھی ایک ہاتھ میں بڑی سی چاکلیٹ پکڑی تھی اور دوسرے ہاتھ میں ٹیشو … آنکھوں سے بھل بھل آنسو بہہ رہے تھے ایک چاکلیٹ کی بائٹ لیتی وہ ٹیشو سے ناک بھی صاف کر رہی تھی …
وہ کھا بھی رہی تھی اور رو بھی رہی تھی
حاشر لیپ ٹاپ بعد وہیں صوفہ پہ پھینکتا جلدی سے اس کے پاس گیا
"حمامہ میری زندگی کیا ہوا کیوں رو رہی ہو کسی نے کچھ کہا طبیعت ٹھیک ہے تمہاری …."
حمامہ نے سرخ متورم نظریں اٹھا کر اسکو دیکھا آنکھیں مسلسل بہہ رہی تھیں منہ چاکلیٹ سے بھرا ہوا تھا اور ہونٹوں کے اوپر نیچے بھی چاکلیٹ لگی ہوئی تھی
"یہ آپکی وجہ سے ہوا ہے شاہ …" ٹیشو سے ناک رگڑتے بھاری سی آواز میں بولی تھی
"کیا ہوا ہے میری زندگی بتاؤ نہ …" حاشر نے پیار سے اس کے آنسو صاف کیے تھے
"ابھی میری (چاکلیٹ کی بائٹ لی ) عمر ہی کیا ہے ابھی سے یہ سب میں کیسے کروں گی شاہ یہ سب آپکی وجہ سے ہوا ہے …." سوں سوں کرتے بولی
"میری جان بتاؤ نہ کیا ہوا ہے کیوں رو کر اپنی حسین آنکھوں پہ ظلم کر رہی ہو …" حاشر نے التجا کی
حمامہ نے تکے کے نیچے سے کوئی لفافہ نکال کر اسکو دیا
حاشر نے حیرانی سے اسکو دیکھ کر کھولا اندر کوئی میڈیکل رپورٹ تھی ….
حاشر بے یقینی سے کبھی رپورٹ کو اور کبھی حمامہ کو دیکھ رہا تھا جو ابھی بھی رو رہی تھی اور کھا رہی تھی …
"حمامہ میری زندگی یہ خوبصورت تحفہ دینے کا بہت شکریہ میں بہت بہت خوش ہوں میں بہت خوش ہوں … او میں بابا بننے والا ہوں …."
اس کے چہرے کو چومتا وہ جھوم گیا تھا
حمامہ بس اسکی خوشی دیکھ رہی تھی صبح ہی اسکو پتا چلا تھا تب سے وہ پریشان تھی کیسے وہ یہ ذمہ داری نبھاۓ گی وہ تو خود ابھی بچوں والی حرکتیں کرتی ہے ….
"آپ خوش ہیں …" اپنا کھانا اور رونا بھول کر اسکو دیکھ رہی تھی
"ہاں میری جان میں بہت بہت خوش ہوں یہ میری لائف کی سب سے بڑی خوشی ہے … تھنک یو سو مچ میری زندگی …" حاشر کا دل کر رہا تھا اٹھ کے بھنگڑا ڈالنا شروع کر دے
حمامہ چپ چاپ اسکو دیکھ رہی تھی
"کیا ہوا تم خوش نہیں ہو …" اسکو پریشان سا دیکھ کر حاشر کی مسکراہٹ تھمی
"میں خوش ہوں پر …" حمامہ کو خود سمجھ نہیں آ رہی کیسے ری ایکٹ کرے
"پر کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نہ …" حاشر کو فکر ہوئی
"میں کیسے بےبی کو سمبھالوں گی میں نے تو کبھی بچوں کو نہیں سمبھالا اگر اسکو چوٹ لگ گئی تو اگر کچھ ہو گیا تو شاہ میں کیسے کروں گی …"
چاکلیٹ لگے ہونٹ بچوں کی طرح باہر نکال کر بولی تھی
"ہاہاہا تم ابھی سے یہ سب سوچنے لگی … کچھ نہیں ہو گا میری زندگی میں ہوں نہ .. اور ویسے بھی میں کل ہی چچی کو بلا لیتا ہوں تم اس حالت میں گھر میں اکیلی نہیں رہ سکتی .. ریلیکس شاہ کی جان سب ٹھیک ہے یہ تو بہت خوشی کی بات ہے تم خوش رہو اور ہمارے بےبی کو بھی خوش رکھو …"
حاشر نے اس کے ماتھے پہ لب رکھے تو وہ بھی پر سکون ہو گئی …
🌹🌹🌹
سب ٹھیک جا رہا تھا وہ اپنی فیلنگز سمجھ چکی تھی ماہ بیر کو بھی بتانا چاہتی تھی لیکن سہی وقت کا انتظار تھا جو جلد آنے والا تھا لیکن پتا نہیں آج دل بہت گھبرا رہا تھا عجیب سا لگ رہا تھا جیسے کوئی اپنا تکلیف میں ہو سب سے وہ بات کر چکی تھی پاپا سے بھی بات کر لی تھی ماہ بیر بھی کچھ دیر پہلے ہی گیا تھا آفس لیکن اسکو کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا
مٹھو کے پاس بھی گئی لیکن وہاں بھی دل کو سکون نہ ملا پینٹنگ کرنے لگی تو کچھ سمجھ ہی نہ آیا دماغ بلکل خالی سلیٹ کی طرح ہو رہا تھا ..
تھک ہار کر وہیں لاؤنج میں صوفہ کی پشت سے سر ٹکا گئی آنکھیں بند کی ہی تھیں کہ ہڑبڑا کر پھر سے کھول لیں یہ کیسے بھول سکتی تھی وہ ….
"مسٹر خان پلیز جلدی آ جائیں …" فون پہ عالیاب نے بہت مشکل سے آنسو کنٹرول کیے تھے
"عالی میری جان رؤ نہیں میں آ رہا ہوں …" ماہ بیر نے آفس روم میں جانے کی بجاۓ اپنے قدم باہر کی طرف موڑے
اسکی بیوی سے زیادہ امپورٹنٹ کچھ نہیں تھا …
عالیاب پریشانی سے لاؤنج میں ٹہل رہی تھی چہرے پہ پریشانی اور فکر تھی اس کے بابا کو اسکی ضرورت تھی وہ کیسے بھول سکتی تھی کہ وہ بیمار ہیں …
پندرہ منٹ میں ماہ بیر ریش ڈرائیونگ کرتا گھر پہنچا تھا
"مسٹر خان پلیز مجھے پاکستان جانا ہے بابا کے پلیز مجھے ابھی جانا ہے …"
اسکو آتے دیکھ عالیاب اسکی طرف لپکی آنسو پلکوں کی باڑ توڑنے کو تیار تھے
"ہاں میری جان ہم چل رہے ہیں تم پیکنگ کروں میں سیٹ بک کرواتا ہوں …."
ماہ بیر نے پیار سے کہتے اسکی پلکوں پہ موجود موتی اپنی پوروں سے چن لئے
عالیاب نے جلدی جلدی پیکنگ کی آدھے گھنٹے بعد انکی فلائٹ تھی ماہ بیر اسکی حالت سمجھ رہا تھا لیکن ابھی اسکو نہیں بتا سکتا تھا کہ زمان صاحب ان کے بیچ نہیں رہے گھر آتے اسکو عاقب کی کال آئ تھی جو زمان صاحب کے ساتھ ہوتا تھا ماہ بیر کے کہنے پہ ….
مسلسل اپنے بابا کے لئے دعا کرتے عالیاب کے لب ہل رہے تھے وقفے وفقے سے آنکھیں بھیگ رہی تھی ماہ بیر بھی اسکو رونے سے منع نہیں کر رہا تھا بس زبردستی اسکو کھانا کھلا دیا تھا کے وہاں جا کر وہ پتا نہیں کیسا ری ایکٹ کرتی …
آٹھ گھنٹے بعد فلائٹ لینڈ ہوئی بورڈنگ اور چیکنگ وغیرہ میں بھی گھنٹہ لگ گیا … عالیاب کا دل بری طرح گھبرا رہا تھا اسکو پتا تھا اس کے بابا ٹھیک نہیں ہیں ….
صبح نو کے قریب وہ گھر پہنچے تو گھر کے سامنے کافی لوگ جمع تھے عالیاب کو انہونی کا احساس ہوا ماہ بیر اسکو کاندھوں سے تھامے گھر کے اندر لایا تھا بہت سے لوگ لاؤنج میں تھے اسکے ددھیال کے لوگ اسکے اسکی دونوں پھوپھو بھی وہاں بیٹھی بین کر رہی تھی کچھ اور بھی عورتیں تھیں عالیاب نے خالی نظروں سے ماہ بیر کی طرف دیکھا … ماہ بیر کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا
"جاؤ بابا کو دیکھ لو …" ماہ بیر کو کو الفاظ نہیں مل رہے تھے
پھر رخسانہ پھوپھو اور رفعت آنٹی کو اشارہ کیا تو دونوں نے عالیاب کو سہارا دیا اور زمان صاحب کی میت کے پاس لے کے گئی …
چہرے سے کپڑا ہٹایا تو عالیاب کی آنکھیں برسنے لگی یہ تو اس کے بابا نہیں لگ رہے تھے بلکل پیلی کملائی سی رنگت ہو گئی تھی انکی ایسا لگ رہا تھا وہ بہت زیادہ بیمار ہوں ….
عالیاب وہیں ڈھے سی گئی تھی آج وہ یتیم ہو گئی تھی ماں کے بعد باپ کی ٹھنڈی چھاؤں بھی اس کے سر سے ہٹ گئی تھی یوں لگ رہا تھا جیسے تپتی دھوپ میں ننگے پاؤں صحرا میں چل رہی ہو ….
ممکن اگر ہوتا کسی کو عمر لگانا
ہر سانس اپنے بابا کے نام لکھتی ….
زمان صاحب کی آخری رسومات ادا کر دی گئی کب سب لوگ چلے گئے گھر خالی ہوا عالیاب کو پتا نہیں چلا وہ ایک ہی جگہ ساکت بیٹھی رہی زہن میں بابا کے ساتھ گزارا ہر لمحہ گھوم رہا تھا آنکھیں تواتر سے بہتی گالوں کو بھیگو رہی تھیں .. گھٹنوں کے گرد دونوں ہاتھ باندھے ان پہ سر رکھے خلا میں گھور رہی تھی …
"عالی اٹھو روم میں چلو …." ماہ بیر کب آیا اسکو پتا نہیں چلا
سر اٹھا کے خالی خولی نظروں سے اسکا چہرہ دیکھا اسکی سرخ آنکھیں دیکھی پھر اٹھی اور روم کی طرف چلی گئی جب سے آئ تھی ایک لفظ نہیں بولی تھی بس برستی آنکھیں ہی اسکا دکھ بیان کر رہی تھی یا شاید وہ بھی یہ دکھ بیان کرنے سے قاصر تھیں
ماہ بیر بھی اس کے پیچھے گیا زبردستی کچھ نوالے اسکو کھلاۓ پھر نیند کی گولی دے کر سلا دیا ایسے تو وہ کبھی نہ سوتی …..
اسکو سلا کر خود بھی اس کے سرہانے بیٹھا اس کے بالوں میں انگلیاں چلا رہا تھا …
جانتا تھا زمان صاحب ایک مہینے سے ہوسپٹل میں تھے لیکن یوں اچانک سے ان کے جانے کی خبر ماہ بیر کے لئے بھی صدمہ تھا زمان صاحب اس کے محسن تھے انکی وجہ سے ماہ بیر زندہ تھا اگر وہ نہیں بچاتے تو پتا نہیں کہاں ہوتا … وہ بھی اس کے پاپا جیسے تھے وہ اتنا زیادہ اٹیچ نہیں تھا ان سے لیکن آج یوں لگ رہا تھا وہ پھر سے یتیم ہو گیا ہے ….
عالیاب کا دکھ سمجھ رہا تھا وہ لیکن اسکی رو نہیں سکتا تھا اسے عالیاب کو بھی سمبھالنا تھا اور خود کو بھی وہ کمزور نہیں پڑ سکتا تھا … سرخ پڑتی آنکھوں کو بند کیا تو ایک آنسو چپکے سے نکل کر کنپٹی میں جذب ہو گیا ….
اگلے دن حمامہ اور حاشر بھی آ گئے تھے حمامہ کو دیکھتے ہی عالیاب نے رونا شروع کر دیا سارا درد آنسوؤں سے بہہ رہا تھا اس کے گلے لگ کے روتی اپنا غم باہر نکال رہی تھی بہت بڑا نقصان ہوا تھا اسکا …. اسکو تسلی دیتی حمامہ خود بھی رو پڑی تھی زمان صاحب میں اسکو اپنے پاپا نظر آتے تھے اور اب وہ انکو بھی نہیں دیکھ سکے گی یہ سوچ ہی سوہان روح تھی …
غم بہت بڑا تھا لیکن وقت سارے غم کم کر دیتا ہے ختم تو نہیں ہو سکتا لیکن کم ضرور ہو جاتا ہے ایک مہینہ گزر چکا تھا دو ہفتے وہاں رہنے کے بعد ماہ بیر اسکو واپس لے آیا تھا لیکن وہ بہت گم سم ہو گئی تھی کم بولتی تھی پہلے کی طرح ماہ بیر کو تنگ نہیں کرتی تھی مٹھو کے پاس بھی کم جاتی تھی یونی ابھی سٹارٹ نہیں ہوئی تھی …
ابھی وہ خاموش سی کھڑی نیچے لان میں لگے پھولوں کو دیکھ رہی تھی جب ماہ بیر نے اسکو حصار میں لیا …
"کیا سوچ رہی ہے میری بہادر بیوی …" اسکا ہاتھ لبوں سے لگاتے بہت محبّت سے پوچھا
"کچھ نہیں …" عالیاب مدھم آواز میں بولی
"کب تک ایسے رہنا ہے انکل بھی تمہے دیکھ کر دکھی ہوں گے …"
ماہ بیر نے اسکا رخ اپنی طرف کیا
"میں کوشش کر رہی ہوں لیکن بہت مشکل ہے … میں جانتی ہوں کہ اللہ کی امانت تھی اللہ نے لے لی لیکن بس ایک بات کی خلش رہ گئی کہ میں آخری وقت میں بابا کے ساتھ نہیں تھی ان سے بات نہیں کر سکی .. کسی کے جانے سے زندگی رک نہیں جاتی لیکن بدل ضرور جاتی ہے بابا کی جگہ میری زندگی میں ہمیشہ رہے گی .. ان کے بغیر جینے کی عادت ہو رہی ہے … آپ کے ساتھ جینا ہے مجھے لیکن پلیز کچھ وقت ابھی یہ سب میرے لئے بہت مشکل ہے …"
آنکھوں میں آنسو لئے کہتی اس کے سینے پہ سر ٹکا گئی
"میری جان میں ہمیشہ تمھارے ساتھ ہوں جتنا وقت لینا ہے لو لیکن مجھے میری پہلے والی عالی جان واپس چاہیے …"
ماہ بیر نے اسکو خود میں پھینچا
واقعی کسی کے جانے سے زندگی رک نہیں جاتی .. مرنا تو ہر کسی نے ہے کسی نے آج تو کسی نے کل پھر وہیں ایک جگہ رک جانے کا فائدہ … ہاں جانے والے کے ساتھ ہماری زندگی میں ایک خلا بن جاتا ہے اسکی جگہ خالی ہو جاتی ہے لیکن وقت بہت مہربان ہے اس خالی جگہ کو اس خلا کو کسی اور انسان کسی اور رشتے سے بھر نہیں سکتا لیکن بھرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے …
زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے جس کی جتنی سانسیں اس دنیا میں لکھی ہیں وہ اتنی ہی لے گا نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ … سب اللہ کے ہاتھ میں تو ہے وہی تو چلا رہا ہے سب اسی نے پیدا کرنا ہے اور اسی نے موت دینی ہے … لیکن اکثر لوگ کسی اپنے کے جانے پہ کسی اور اپنے کو قصور وار کہتے ہیں کسی کو منحوس کہتے ہیں .. کیا یہ ٹھیک ہے ? نہیں یہ ٹھیک نہیں ہے یہ انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے اور نہ ہی انسان کی وجہ سے ہے … مرنا تو ہے سب کو پھر کیوں کسی جانے والے کے لئے کسی زندہ کو اذیت دینا …
انسان کو یہ بات سمجھنی چاہیے کے جو ہوتا ہے اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے کسی اور کا اس میں کوئی دخل نہیں ہو ہی نہیں سکتا ….
عالیاب یہ بات جانتی تھی وہ سمجھتی تھی اللہ کی رضا اسکی مرضی لیکن کسی کو کھونے کا دکھ دوبارہ کبھی نہ دیکھ پانے کا دکھ چھوٹا نہیں ہوتا لیکن تھوڑی سی کوشش سے اللہ پہ یقین رکھ کر کسی اور کے لئے جینا پڑتا ہے کسی ایسے انسان کے لئے جس کی دنیا آپ ہو جو آپ کے لئے جیتا ہو ….
🌹🌹🌹
حمامہ حاشر کی زندگی بھی معمول پہ آ گئی تھی حاشر ہر طرح سے حمامہ کا خیال رکھتا تھا ہر ضرورت ہر خواھش پوری کرتا … حمامہ ٹھیک تھی لیکن کبھی کبھی اتنی چڑچڑی ہو جاتی کہ حاشر سے بھی نہ سمبھالی جاتی ڈاکٹر نے کہا تھا کہ سب ٹھیک ہے بس ذرا اپنی ڈائٹ ٹھیک رکھے لیکن آج کل اس سے کھایا نہ جاتا … بری طرح سے اسکا موڈ خراب ہوتا اور شامت حاشر کی آتی تھی
کل کی نسبت آج اسکا موڈ ٹھیک تھا حاشر نے اپنے ہاتھ سے اسکو کھانا کھلایا اور دودھ کا گلاس دیا جسے وہ برے برے منہ بنا کے پیتی اسکو لٹا کے حاشر نے اپنا تھوڑا سا کام کیا اور خود بھی لیٹ گیا حمامہ کافی گہری نیند میں تھی تو حاشر نے ذرا احتیاط کی ورنہ اگر وہ جاگ جاتی تو پوری رات نہ خود سوتی نہ حاشر کو سونے دیتی …. تین مہینے میں ہی وہ حاشر کو اچھا خاصا نچا چکی تھی …
ابھی حاشر کو سوۓ ہوے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ نیند میں لگا کوئی کاندھا ہلا رہا ہے حاشر بہت گہری نیند میں تھا پھر اسکو زور سے جھنجھوڑ دیا
حاشر ہڑبڑا کے اٹھا نیند سے بھری آنکھوں میں گلابی پن نمایاں تھا حمامہ کا برا سا منہ دیکھ کر نیند بھک سے اڑی
"حمامہ میری زندگی کیا ہوا تم ٹھیک ہو …"
حاشر جلدی سے سیدھا ہو کے بیٹھا
"شاہ …" حمامہ رونے والی ہو گئی تھی
"جی شاہ کی جان کیا ہوا کہیں پین ہو رہا ہے کیا …" حاشر نے بہت محبّت سے اسکو ساتھ لگایا
"مجھے گول گپے کھانے ہیں …" بچوں کی طرح منہ لٹکا کے بولی
حاشر نے بے بسی سے اسکو دیکھا آدھی رات کو وہ لندن میں کہاں سے گول گپے ڈھونڈھ کر لاۓ لیکن اسکا لٹکا ہوا منہ دیکھ کر انکار بھی نہیں کر پا رہا تھا ..
"حمامہ میری زندگی اس وقت …" حاشر نے ٹائم دیکھا جہاں رات کا ایک بج رہا تھا
"شاہ مجھے کھانے ہیں پلیز …" آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے
وہ ویسے ہی بہت سینسیٹو ہو گئی تھی
"اچھا میں کچھ کرتا ہوں …" حاشر اپنا فون اٹھا کے باہر گیا
اس وقت اور نہ سہی کوئی ریسٹورانٹ تو کھلا ہی ہو گا شاید شیف بھی ہو …
حاشر نے فون کیا تو اٹھا لیا گیا حاشر نے بہت منت سے اسکو گول گپے بنانے کا کہا شکر ہے پاکستانی شیف تھا تو سمجھ گیا ورنہ کہاں ان انگریزوں کو گول گپے کا پتا ہے …
ایک گھنٹے بعد ڈلیوری ہوئی تو حاشر نے شکر کیا ورنہ حمامہ نے گول گپے نہ ملنے پہ رو رو کر حشر برا کر لینا تھا اپنا بھی اور ساتھ حاشر کا بھی …
دو پلیٹ گول گپے حمامہ نے بہت مزے سے کھاۓ پاکستان جیسے تو نہیں تھے لیکن گزارا ہو گیا تھا حاشر نیند سے بند ہوتی آنکھوں کو با مشکل کھولے اس کے ساتھ بیٹھا تھا
"چلو اب سو جاؤ مجھے بھی نیند آ رہی ہے …"
حاشر نے پلیٹس اٹھا کے وہیں ٹیبل پہ رکھ دی
"نہیں مجھے نیند نہیں آ رہی آپ میرے ساتھ باتیں کریں .." حمامہ کا سونے کا کوئی موڈ نہیں تھا شام میں بھی وہ سوئی تھی اور اب فریش تھی
"حمامہ پلیز میری زندگی صبح مجھے آفس بھی جانا ہے میں بہت تھک گیا ہوں …" حاشر نے التجا کی
"پھر میں کیا کروں گی مجھے نہیں پتا آپ کافی پی لیں لیکن میرے ساتھ باتیں کریں …"
حمامہ کسی اور موڈ میں ہی تھی
"حمامہ یار کیا تم بچوں کی طرح ضد کر رہی ہو دیکھو میری آنکھیں نہیں کھل رہی … تم بھی سو جاؤ نہ ایسے طبیعت خراب نہ ہو جاۓ …"
حاشر کا نیند سے برا حال تھا
"بہت برے ہیں آپ شاہ آپکو پتا بھی ہے میں کتنی مشکل سے مینج کرتی ہوں کتنا کچھ برداشت کر رہی ہوں بےبی کے لئے یہ آپکا بھی بےبی ہے پتا بھی ہے کیسے محسوس ہوتا ہے کچھ کھایا نہیں جاتا مجھ سے .. آپ پریگننٹ ہوں تو آپکو پتا چلے …."
برا سا منہ بنا کے خفگی سے کہتی کمفرٹر میں گھس گئی
حاشر آخری الفاظ پہ ہکا بقا رہ گیا یہ کیا بول گئی تھی …
"حمامہ یہ کیا بولا ہے تم نے …" حاشر اٹھ کے بیٹھ گیا
"حاشر شرافت سے سے جائیں آپ کا بےبی تنگ کرنے کے لئے کافی ہے اب آپ مت شروع ہو جانا …" حمامہ غصے سے بولی تھی
حاشر حیران رہ گیا اس نے کب تنگ کیا تھا بلکہ تنگ تو وہ کرتی تھی … نفی میں سر ہلاتا لیٹ گیا اس حالت میں اسکو کچھ کہہ نہیں سکتا تھا
کچھ منٹ بعد ہی اسکا سر سینے پہ محسوس کرتا مسکرایا تھا
"سوری شاہ وہ میں بس ایسے ہی غصہ ہو جاتی ہوں آپکو پتا ہے نہ کیوں ہوتا ہے آپ برا نہیں ماننا پلیز …" اس کی انگلیوں سے اپنی انگلیاں الجھاتی پیار سے بولی
"کوئی بات نہیں میری زندگی …" حاشر نے مسکرا کے اسکا ہاتھ لبوں سے لگایا تھا
ہر بار غصہ کرنے کے بعد ایسے ہی کرتی تھی …
🌹🌹🌹
عالیاب بھی پہلے سے ٹھیک ہو گئی تھی ماہ بیر کی محبّت کا نتیجہ تھا اب اسکو ماہ بیر کو اپنے دل کی بات بتا دینی چاہیے … یہ وہ کافی دنوں سے سوچ رہی تھی لیکن سمجھ نہیں آ رہا تھا ایسا کیا کرے کہ ماہ بیر کو پسند آۓ ماہ بیر کی بے لوث بے غرض محبّت کا جواب اتنی ہی محبّت سے دینا تھا پہلے وہ ماہ بیر کی سالگرہ پہ اسکو سرپرائز دینا چاہتی تھی لیکن پھر نہیں دے پائی لیکن اب اور دیر نہیں اب مزید وہ اپنے مسٹر خان کو نہیں تڑپاۓ گی …
بہت سوچنے کے بعد وہ ایک نتیجے پہ پہنچی پھر اسکا ری ایکشن سوچ کر خود ہی شرما گئی …
دو دن بہت خاموشی سے گزرے تھے ماہ بیر بھی اپنے کام میں بزی تھا تو عالیاب کے کاموں پہ دھیان نہ دیا عالیاب نے شکر کیا کے اس نے کچھ پوچھا نہیں کہ وہ پیچھے والے گارڈن میں کیا کرتی ہے ….
شام کو ماہ بیر آیا تو گھر میں خاموشی تھی خاموشی تو پہلے بھی ہوتی لیکن آج لائٹس بھی آف تھی بلکل سناٹا چھایا ہوا تھا
"عالی میری جان کہاں ہو …" لیپ ٹاپ بیگ اور کوٹ وہیں رکھتا آگے بڑھا
اسکی آواز دیواروں سے ٹکرا کر واپس آ گئی
روم میں جانے لگا تھا کے کوئی آواز سنائی دی ماہ بیر پلٹا وہاں کوئی نہ تھا
چھن کی آواز پھر سے آئ
ماہ بیر نے پھر سے دیکھا سمجھ آئ تو عنابی لبوں پہ مسکراہٹ پھیل گئی
ماہ بیر نے آواز کا پیچھا کیا ایک روم سے آواز آ رہی تھی ماہ بیر نے دروازہ کھولا روم خالی تھا لیکن سامنے کچھ رکھا تھا
بیڈ پہ ایک سرخ گلاب پڑا تھا ماہ بیر نے اٹھایا مسکراہٹ گہری ہو گئی وہاں سے نکلا تو نیچے فرش پہ کچھ نظر آیا
چوڑیوں کو جوڑ کر آئ لکھا تھا اور آگے ایرو بنا تھا ماہ بیر اس طرف گیا کچھ فاصلے پہ ایک اور گلاب تھا ماہ بیر نے اٹھا لیا
چوڑیوں سے لو لکھا تھا ماہ بیر سمجھ گیا آگے بڑھا ایک اور گلاب تھا
کچھ ہی قدم پہ پچھلے گارڈن کا دروازہ تھا وہاں یو لکھا تھا اور دو گلاب پڑے تھے ماہ بیر انکو اٹھا کے مسکراتا گارڈن میں گیا
واہ کیا نظارہ تھا … گلاب کی مہک کینڈل کی ہلکی سی روشنی ہلکا سا میوزک سامنے ہی بڑا سا آئ لوو یو مسٹر خان لکھا تھا اور ایک سائیڈ پہ کچھ اور بھی رکھا تھا …..
ماہ بیر نے یہاں وہاں دیکھا لیکن وہ نظر نہ آئ
ذرا سا آگے بڑھا تو سیاہ آنچل لہرایا ساتھ ہی چوڑیاں کھنکی …
ماہ بیر اس طرف گیا لیکن نظر نہ آئ
عالیاب اس کے پیچھے سے گزر کے جانے لگی جب ماہ بیر نے اسکی کلائی تھام لی
"آج بچ کر کہاں جا رہی ہو مسز خان …" اسکی کمر سے پکڑ کر سامنے کیا
وہ خان …. عالیاب کا دل دھڑکا
"خان کی جان آج تو قیامت ڈھا رہی ہو …." ماہ بیر نے پر تپش لو دیتی نظروں سے اسکا خوبصورت سراپا دیکھا
شیفون کی بلیک ساڑھی لمبے بھورے بال کھلے ہوۓ ہاتھوں میں بلیک چوڑیاں کانوں میں آویزے ہونٹوں پہ ریڈ بلڈ لپسٹک اسکی قربت سے سرخ پڑتا چہرہ اور بار بار جھک دکھاتا ڈمپل ….
"خان وہ میں …." عالیاب سے بولا نہ گیا
بہت ہمت سے اس نے کر تو لیا لیکن ہمیشہ کی طرح اس کی قربت سب بھلا دیتی …
"یہ سب جو لکھا ہے میں تمھارے منہ سے سننا چاہتا ہوں …" ماہ بیر بہک رہا تھا
عالیاب نے نظریں اٹھا کر اسکو دیکھا
اسکی سیاہ چمکتی آنکھوں میں جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا عالیاب گھبرا کر نظریں جھکا گئی اسکی آنکھوں میں دیکھنا اس کے بس کی بات نہیں تھی …
"بولو میری جان …" اسکا چہرہ اوپر کرتے محبّت پاش نظروں سے دیکھا تھا
لرزتی پلکیں کپکپاتے سرخ لب اناری گال … ماہ بیر جھکا اور بہت نرمی سے اس کے دونوں سرخ گال لبوں سے چھو لئے … عالیاب نے سانس روک لی
"خان پلیز …" عالیاب کا سانس اتھل پتھل ہوا تھا
"کہو …" اس کے لبوں پہ انگلی پھیرتے لپسٹک پھیلا دی
"آئ لو یو خان …"
مدھم سی آواز میں کہتی اسکے سینے لگ گئی
"آئ لوو یو ٹو میری معصوم سی جان …." ماہ بیر نے اسکو خود میں سمو لیا …
"یہاں دیکھو …"
ماہ بیر نے اسکا چہرہ اوپر کیا جو وہ اسکے سینے میں چھپا رہی تھی
عالیاب نے نہ میں سر ہلایا
"دیکھو نہ …" اسکو لے کر آگے گیا جہاں لکھا ہوا تھا
"یہ سب کس نے کیا ہے …" اسکو خود سے الگ کر کے پوچھا
"میں نے …" عالیاب پھر سے سر جھکا گئی
"تو میری جان یہ سب کر لیا تو بول بھی لو مجھ سے کیسی شرم …"
ماہ بیر اسکی شرم جھجھک سمجھ رہا تھا
"نہیں میں نے کچھ نہیں بولنا بس کچھ دکھانا ہے …" عالیاب نے گرے آنکھوں سے اسکی بلیک روشن آنکھوں کو دیکھا
"کیا دکھانا ہے …." ماہ بیر نے اسکا ہاتھ پکڑ کے پھر سے قریب کیا
"آئیں …" اسکو لے کر اس چیز کے پاس گئی جو ڈھکی ہوئی تھی ….
محبت کے چاند کو اپنی پناہ میں رہنے دو
لبوں کو نہ کھولو آنکھوں کو کچھ کہنے دو
دل پہ ہاتھ رکھو اور کچھ دیر رہنے دو
مجھے محسوس کرو اور اپنے پاس ہی رہنے دو
عالیاب اسکا ہاتھ پکڑے وہاں لے گئی جہاں ٹیبل پہ کچھ رکھا تھا اس پہ کپڑا ڈالا ہوا تھا
ماہ بیر نے سوالیہ نظروں سے اسکو دیکھا
"دیکھیں …"
عالیاب نے کپڑا ہٹانے کا اشارہ کیا
دیکھتے ہی ماہ بیر کی آنکھوں میں ستائش ابھری عنابی لبوں کی مسکراہٹ گہری ہوئی
سیاہ رنگ سے ماہ بیر خان لکھا ہوا تھا صرف یہی نہیں تھوڑا غور کرو تو اس کے نام میں کچھ اور بھی تھا بہت مہارت سے ماہ بیر کے نام میں چھپا عالیاب کا نام بھی نظر آتا … اتنی خوبصورتی سے وہ بنایا گیا تھا کہ ماہ بیر دیکھتا رہ گیا
اس نام میں چھپے الفاظ اور ان الفاظ میں چھپا عالیاب کا اظہار ماہ بیر سمجھ چکا تھا وہ تو اسکی ہر خاموشی سمجھ لیتا تھا تو یہ کیسے نہ سمجھتا کیسے نہ جانتا اپنی محرم کے دل کا راز ….
ماہ بیر اس کے ہر دکھ کا ساتھی تھا ہر تکلیف سے با خبر تھا اس کا محرم اسکا شوہر تھا اس سے عشق کرتا تھا کیسے نہ وہ اس کے عشق پہ ایمان لاتی اسکی زندگی میں آنے والا پہلا مرد تھا وہ پہلا انسان تھا جس نے بہت محبّت سے بغیر کسی غرض کے بغیر کسی طلب کے صرف اس سے محبّت کی تھی اس کے جسم سے نہیں اسکی روح سے محبّت کی تھی …. وہ عالیاب کے دل کا مالک بنا تھا لیکن اسکا محرم بن کر اسکی محبّت کا حقدار بنا تھا …. ہر لمحہ اس کا ساتھ دینے والا اسکی پرچھائی بن کے رہنے والا اسکو طاقت ہمت دینے والا اسکو اسکی ذات کا اعتماد دینے والا تھا … اسکا مسیحہ تھا جس نے ہر درد کو ہر بری یاد کو اس کے بھیانک ماضی کو اپنی محبّت سے اسکی زندگی سے مٹا کر اسکی زندگی میں خوشیوں کے سورج کو منور کیا تھا …
ایک وقت تھا جب وہ کسی ایک شخص کے بھی سامنے جانے سے ڈرتی تھی کہ کہیں ماضی کی وجہ سے کوئی اسکو دھتکار نہ دے قصور وار وہ نہیں تھی لیکن بن گئی تھی دنیا کی نظر میں … اس نے کسی مرد کے بارے میں سوچا تک نہیں تھا جانتی تھی اس کے ماضی کی وجہ سے کوئی اسکو نہیں اپناۓ گا لیکن اس نے اتنا ضرور سیکھا تھا کے اللہ کبھی اسکو مایوس نہیں کرے گا اسکی زندگی میں بھی خوشیاں آۓ گی لیکن تب جب اللہ چاہے گا … آج وہ ایک شخص کے نہیں پوری دنیا کے سامنے کھڑی ہو کر یہ اعلان کر سکتی تھی کہ اللہ نے کن کہ دیا اور اسکی زندگی میں بھی خوشیوں سے دستک دی ہے اس شخص کی صورت میں … وہ شکر گزار تھی رب کی کہ جس نے اتنا شاندار شخص اسکی قسمت میں لکھا تھا جو نہ صرف صورت میں بلکہ سیرت میں بھی اعلی تھا جس نے اسکو اسکی خامیوں کے ساتھ قبول کیا تھا … پھر اسکو خامیوں کا طعنہ نہیں دیا بلکہ ان خامیوں کو خوبیوں میں بدلنے میں ساتھ دیا . ہر قدم اس کے ساتھ رہا بے شک وہ شخص اللہ کی طرف سے اس کے لئے تحفہ تھا …
"کیسا ہے …"
کافی دیر وہ کچھ نہ بولا تو عالیاب نے خود پوچھ لیا
"یہ تحفہ یہ سب جو تم نے کیا بہت خوبصورت ہے میری جان …یہ سب مجھے پسند ہے بہت پسند ہے … تمہاری یہ بلیک ساڑھی یہ کھلے بال یہ گال میں پڑتا ڈمپل مجھے سب پسند ہے … لیکن ماہ بیر خان نے تمہاری آنکھوں سے عشق کیا ہے تمہاری ان سرمئی جھیل سی آنکھوں نے صرف کچھ لمحات میں ماہ بیر خان کی ذات کو تسخیر کر لیا …"
اس نے لفظوں سے اسکو سحر میں جکڑا
وہ سب بھلاۓ صرف اس کے الفاظ میں کھوئی تھی وہ ہمیشہ اسکی تعریف کرتا تھا لیکن کبھی اسکی آنکھوں کے بارے میں کچھ نہیں بولا تھا
آج ہونے والا انکشاف انوکھا سا تھا خوبصورت سا …
"خان …" عالیاب کو سمجھ نہ آیا اسکو کیا کہے کیسے اسکی محبّت کا جواب دے
"آج کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے میری جان آج صرف محسوس کرو مجھے میری محبت کو …" گھمبیر لہجے میں کہتے اسکو قریب کیا تھا
اس خوابناک سے ماحول میں وہ بہک رہا تھا اسکی دھڑکن خود میں سنتے اسکو باہوں میں اٹھایا
اسکو باہوں میں بھرے شدت بھری گستاخی کی تھی کہ اس کو چودہ طبق روشن ہو گئے …
اس نے روکنا چاہا لیکن خود بھی جانتی تھی اسکی پیش قدمی کی وجہ سے اسکی محبّت کی برسات کو روکنا اسکے بس کی بات نہیں تھی …
اس کے بڑھتے قدموں سے اسکا دل حلق میں آ گیا … سرخ چہرے اور بکھرتی سانسوں سے اسکی شرٹ زور سے جکڑی …
"خان چھوڑیں پلیز …" وہ مچلی
دل سینے میں دھڑک دھڑک پاگل ہو رہا تھا
"اس خوبصورت رات میں خان تمہے چھوڑ دے تو خود کدھر جائے …"
بوجھل بہکتے لہجے میں کہتے اسکی کھلی آنکھوں پہ لب رکھتا انکو بوجھل کر گیا
روم میں آتے اسکو بیڈ پہ لٹایا تو وہ چہرہ چھپا گئی دھڑکنوں نے الگ شور مچایا ہوا تھا …
ہونٹوں پہ ہاتھ اور نہ چومنے کی ضد ...
محبّت بھی ہم سے اور شرمانہ بھی ہم سے ...
یہ کہتے اس نے ہاتھ بڑھا کے لیمپ بجھا دیا اور اس کے کان میں جھکا ..
"بہت شکریہ میری جان اس اعزاز کے لئے میری محبّت کو قبول کرنے کے لئے … میرے لئے میری زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہو تم صرف تم …."
انتہائی محبّت سے بولا تھا
اس کے الفاظ نے اسکی آنکھوں میں نمی بھر سے جسے بڑی محبّت سے اس کے لبوں سے چن لیا … دل ہاتھوں میں دھڑکنے لگا تھا …
یہ رات ان کے ملن کی تھی .. انکے صبر کا پھل تھا … تکالیف برداشت کرنے کے بعد انکے لئے تحفہ تھا … جس میں لمحہ بہ لمحہ وہ بھیگ رہے تھے ماہ بیر اسکو اپنی محبّت کی بارش میں بھیگا رہا تھا اور وہ بھیگتی جا رہی تھی ….
🌹🌹🌹
اگلی صبح بہت روشن اور بہت خوبصورت تھی ….
میری دنیا ……….. میری خوشیاں
بس تم سے شروع تم پہ ختم
مندی مندی آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ ماہ بیر نے سینے پہ سر رکھے تھی اور ماہ بیر گہری نظروں سے اسکو دیکھ رہا تھا … اسکو آنکھیں کھولتے دیکھ مسکرایا اس کے چہرے پہ نظر آتے ماہ بیر کی چاہت کے رنگ اسکو مہبوت کر رہے تھے …
حسین صبح مبارک ….
اس کے بال ماتھے سے پیچھے کرتی وہ مسکرائی تھی
ماہ بیر کی سرخ آنکھیں بتا رہی تھی کہ وہ رات بھر نہیں سویا جبکہ وہ نماز پڑھ کے سو گئی تھی
"آپ سوۓ کیوں نہیں …" اس کے سینے پہ بکھرے بالوں کو سمیٹ کر اٹھتی بولی
"دیکھ رہا تھا …" اسکے بالوں کو پھر سے کھول دیا
"کیا …" عالیاب نے اسکی حرکت پہ گھورا
"اپنی جان کو …" اسکو حصار میں لیا اور ایک خوبصورت سا بریسلیٹ اسکی نازک سی مرمری کلائی کی زینت بنایا
"بہت خوبصورت ہے …" عالیاب مسکرائی
"میرا گفٹ .."
ماہ بیر بھی دلکش سا مسکرایا
" رات کو دے دیا تھا چلیں چھوڑیں مجھے فریش ہونا ہے بھوک لگی ہے …" عالیاب اسکی قربت میں مچلی
"نہ چھوڑوں تو …" ماہ بیر پھر سے رات والے موڈ میں تھا
"ماہ بیر پلیز …."
بے ساختہ بولی
"پھر سے کہو …." پہلی بار اپنا نام پیارا لگا تھا
کے دل نے پھر سے سننے کی خواھش کی
"ماہ بیر چھوڑیں پلیز …." عالیاب نظریں جھکا گئی
اسکی سیاہ چمکتی نظریں اور ان سے لپکتے جذبات … اففف
محبّت بھی ہم سے اور شرمانا بھی ہم سے ….
ماہ بیر بولا تو گلابی چہرے میں سرخیاں گھل گئیں …
"کچھ تو بندے کی حالت پہ رحم کرو مسز …"
ماہ بیر اس کے چہرے کے خوشنما رنگ دیکھتا پھر سے بہک رہا تھا
"تنگ نہیں کریں پلیز …"
عالیاب منمنائی
"اچھا چلیں آزاد کیا …"
ماہ بیر بولا تو عالیاب نے جلدی سے جانے لگی …
اسکی قربت اسکی شدت عالیاب کی جان پہ بن آئ
"لیکن …." ہاتھ پکڑ کر روکا
عالیاب سوالیہ نظروں سے دیکھتی سر جھکا گئی
ماہ بیر نے مسکراتے سرگوشی کی تو اس کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا … خون چھلکاتے چہرے سے دونوں ہاتھوں سے اسکو پیچھے کتی بھاگ کر واشروم میں بند ہوئی .. پیچھے ماہ بیر کا قہقہ سنائی دیا تو خود سے شرماتی چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی ….
🌹🌹🌹
"میں موٹی ہو جاؤں گی شاہ …." حمامہ کی اپنی فکریں تھیں
وہ جو مگن سا اس کے لئے پیزا بنا رہا تھا اسکی بات سن کے مسکراتا پلٹا آج کل پتا نہیں کیا کیا سوچتی رہتی تھی … سب سے زیادہ فکر اسکو اپنے موٹے ہونے کی تھی …
حمامہ اور اسکی فکریں!
"سب موٹے ہوتے ہیں میری زندگی …" اون بند کر کے اس کے پاس بیٹھا
"آپ تو نہیں ہوۓ …"
آئس کریم کھاتے وہ بغیر سوچے سمجھے بولی تھی
آج کل یہی تو کر رہی تھی وہ ….
"حمامہ یار کبھی تو سوچ کر بولا کرو میں کیوں موٹا ہوں گا …"
حاشر جھنجھلایا
"ہاں آپ کیوں موٹے ہوں گے آپ پریگننٹ تھوڑی ہیں …"
واہ حمامہ کی لاپروائی
"یا اللہ حمامہ یہ کیا بول رہی ہو کچھ تو سوچو …" حاشر نے سر تھام لیا
"حد ہے شاہ میں بےبی کے لئے اتنا سب کر رہی ہوں اور آپ صرف میری باتیں نہیں برداشت کر سکتے جائیں میں نہیں بات کرتی …"
منہ پھلا کے کہتی وہ جانے لگی
"تمہاری ہر بات سر آنکھوں پہ میری زندگی لیکن پلیز یہ بات نہ کیا کرو …" حاشر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکو واپس بٹھایا
"اچھا پھر کونسی بات کروں …" شکر ہے حمامہ کا موڈ ٹھیک تھا
"تمہے بیٹی چاہیے یا بیٹا …." حاشر نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے
"مجھے بیٹا چاہیے بہت پیارا سا بلکل آپ جیسا …"
حمامہ مسکرا کے بولی
ماں بننے کی خوشی دنیا کی سب سے بڑی خوشی ہوتی ہے یہ حمامہ با خوبی جان گئی تھی … جب سے پتا چلا تھا اس کے چہرے کی رونق بڑھ گئی تھی
"لیکن مجھے تو بیٹی چاہیے بلکل میری زندگی جیسی …"
حاشر بھی مسکرا رہا تھا
"مجھے پتا ہے بیٹا ہی ہو گا اور میں اسکا نام اصحاذ شاہ رکھوں گی …"
حمامہ گردن اکڑا کر بولی تھی
"ارے واہ اکیلے ہی نام بھی سوچ لیا …" حاشر نے مصنوعی ناراضگی دکھائی
"نہیں شاہ آپ ناراض نہ ہوں اگر آپکو نہیں پسند تو ہم چینج کر لیتے ہیں …" حمامہ کی مسکراہٹ فٹ سے غائب ہوئی تھی
"نہیں میری زندگی میں ناراض نہیں ہو رہا یہ نام بہت پیارا نام ہے …" حاشر کبھی اپنی زندگی سے ناراض ہو سکتا ہے بھلا
"میں نے بہت کچھ سوچا ہے …" حمامہ مسکراتے اپنے خیالات شئیر کرنے لگی اور حاشر نے شکر کیا کے اسکا دھیان کسی اور طرف ہوا
اون نے بپ بجائی تو حاشر نے پیزا نکالا
آج کل حمامہ کا ٹیسٹ خراب تھا باہر کا بھی اسکو زیادہ نہیں کھلا سکتا تھا تو خود ہی سب کچھ بنانے لگا …
آفس کا وقت کم کر دیا تھا جو کام تھا ماہ بیر خود ہی دیکھ لیتا تھا فریحہ نے آنا تھا لیکن پھر کمال شاہ کی وجہ سے نہیں آئ انکی آج کل طبیعت اپ ڈاؤن تھی …
حمامہ مسلسل منہ چلاتی کھا بھی رہی تھی اور بول بھی رہی تھی اور حاشر مسکراتا اسکا حسین چہرہ دیکھتا اسکی باتیں سن رہا تھا جو شروع بےبی سے ہوتی اب اسکی شادی تک پہنچ چکی تھی ..
باہر رات قطرہ قطرہ پگھل رہی تھی …
🌹🌹🌹
ماہ بیر کی محبّت میں حسین سی عالیاب مزید نکھر گئی تھی بڑھتے دنوں کے ساتھ اسکی محبّت بھی بڑھتی جا رہی تھی … یونی شروع ہو گئی تھی لیکن عالیاب کم جاتی تھی جو بھی کام ہوتا رات کو ماہ بیر کرواتا جسے وہ برے برے منہ بناتی کر لیتی تھی …
مٹھو کے بےبی ہوۓ تھے تو اس سے ناراضگی ختم ہو گئی تھی لیکن مینا سے ابھی دوستی نہیں ہوئی تھی … پینٹگ ابھی بھی ویسی بھی زبردست ہوتی تھی سب بدل رہا تھا بس ایک کام کے علاوہ وہ تھا ڈنر جو روز ماہ بیر کو بنانا ہوتا تھا .. ناشتہ اور دوپہر کا عالیاب بنا لیتی تھی اب لیکن رات کو اسکو ماہ بیر کے ہاتھ کا ہی چاہیے ہوتا تھا اور کھانا بھی اس کے ہاتھ سے ہی تھا .. عالیاب کی کوئی خواھش ہو اور ماہ بیر پوری نہ کرے یہ تو نا ممکنات میں سے تھا ….
حمامہ کے بےبی کے لئے وہ حد سے زیادہ ایکسائیٹڈ تھی اس نے ڈھیروں باتیں جمع کر رکھی تھی جو بےبی سے کرنی تھی اسکو ہاتھوں میں لینا تھا اس سے کھیلنا تھا اسکو باہر لے کے جانا تھا کتنا کچھ سوچ رکھا تھا اس نے … روز رات کو ماہ بیر سنتا تھا کے بےبی ہو گا تو یہ کروں گی وہ کروں گی اور ماہ بیر اسکو محبّت دیکھتا ضبط کرتا رہتا لیکن جب ضبط کا بندھن ٹوٹتا تو عالیاب کی جان مشکل میں آ جاتی ….
حاشر نے آفس ٹائم کم کیا تو ماہ بیر کا کام بڑھ گیا تھا آج کل تو کچھ زیادہ ہی بزی ہو گیا تھا کچھ دن پہلے پاکستان بھی گیا تھا .. ابھی عالیاب کو اپنے بیسٹ ہونے کا نہیں بتایا تھا پتا نہیں کیسا ری ایکٹ کرتی …
جلدی سے اپنا کام ختم کرتی وہ تیار ہو رہی تھی آج ماہ بیر نے وعدہ کیا تھا اسکو ڈنر کرانے باہر لے جائے گا اور شاپنگ بھی کرواۓ گا … ابھی وہ چینج کر کے نکلی تھی کے موبائل کی مسیج ٹیون بجی.. موبائل وہ کم ہی یوز کرتی تھی ابھی بھی ماہ بیر کا سوچتے فون اٹھایا تو کوئی ویڈیو تھی …
عالیاب نے مسکراتے پلے کر دی .. جیسے جیسے وہ ویڈیو آگے بڑھ رہی تھی عالیاب کے چہرے کے تاثر بدل رہے تھے پہلے ڈر خوف پھر کراہیت پھر حقارت اور پھر نفرت …..
اپنا سارا کام ختم کرتے ماہ بیر کو دس بج گئے تھے پھر جلدی سے گھر کی راہ لی جانتا تھا اسکی عالی جان انتظار کر رہی ہو گی … چہرے پہ دلکش سی مسکراہٹ لئے وہ گھر میں داخل ہوا سامنے کوئی نہیں تھا پھر روم کی طرف چلا گیا .. دروازہ کھولا تو عالیاب کھڑکی کی طرف منہ کیے کھڑی تھی حولیے سے وہ ڈنر کے لئے تیار لگ رہی تھی …
"عالی جان تیار ہو میں بھی ابھی فریش ہو کے آیا …"
ماہ بیر مسکراتا جانے لگا
"کیا یہ سچ ہے …" اسکی طرف مڑتی عالیاب سپاٹ لہجے میں بولی تھی
ماہ بیر ٹھٹھک کر رکا تھا اس کے ہاتھ میں موجود موبائل کی طرف دیکھا … کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا
ویڈیو دیکھی تو بے اختیار آنکھیں بند کی مطلب حساب دینے کا وقت تھا .. ویڈیو اسکی تھی جس میں وہ ایک اور مجرم کو اس کے انجام تک پہنچا رہا تھا اور انجام بہت بھیانک تھا کیوں کے اس نے دو سال کی بچی کو اپنی درندگی سے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا … پہلی بار جلدی میں اس نے اپنا سیل یوز نہیں کیا تھا ایک سنسان علاقے میں اسکو انجام تک پہنچایا تھا پتا نہیں کس نے ویڈیو بنائی تھی … مزید اس پہ لکھا ٹائٹل ..
بیسٹ ایک درندہ ….
"عالی میں بتاتا ہوں …" ماہ بیر گہرا سانس لے کر بولا
اب چھپانے کا فائدہ نہیں تھا کبھی نہ کبھی تو بتانا تھا تو آج ہی سہی ….
"صرف اتنا یہ سچ ہے یا نہیں …" عالیاب سخت لہجے میں بولی تھی
یہ اعتماد بھی ماہ بیر کا دیا ہوا تھا …
"ہاں یہ سچ ہے …"
ماہ بیر آنکھیں بند کر کے قبول کر گیا یہ کوئی غلط کام نہیں تھا وہ صرف مجرم کو سزا دیتا تھا کسی معصوم کو نہیں …وہ تو معصوموں کی حفاظت کرتا تھا ان درندوں کا اس دنیا سے خاتمہ کر کے بے شک یہ دنیا کی نظروں میں قتل تھا گناہ تھا لیکن وہ نہیں مانتا تھا ….
"مجھے نہیں رہنا ایک بیسٹ کے ساتھ …" سپاٹ لہجے میں کہتی وہ جانے لگی
"نہیں عالی تم ایسے نہیں جا سکتی میری بات سنو …"
ماہ بیر نے اسکا ہاتھ پکڑا
"میرا ہاتھ چھوڑیں ماہ بیر خان مجھے نہیں آپ جیسے انسان کے ساتھ … آپ تو پتا نہیں کب تک چھپا کے رکھتے آج بھی مجھے یہ نہ ملی ہوتی تو مجھے پتا ہی نہ چلتا کے آپکا اصل کیا ہے … نہیں رہنا مجھے یہاں جا رہی ہوں …."
غصے سے کہتی وہ ہاتھ چھڑا کے روم سے نکل گئی
"عالی رکو پلیز ایک بار میری بات تو سن لو .. یہ سب ایسا نہیں ہے جیسا تم سمجھ رہی ہو میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا میں قاتل نہیں ہوں عالی پلیز رکو …." ماہ بیر تڑپ کہ کہتا اس کے پیچھے گیا
جن آنکھوں میں ہمیشہ اپنے لئے محبّت دیکھی تھی آج ان میں نفرت کیسے دیکھ سکتا تھا … اس نے تو سوچا تھا کے اگر عالیاب اسکو چھوڑنے کی کوشش کرے گی تو زبردستی اسکو ساتھ رکھے گا کہیں نہیں جانے دے گا پیار سے غصے سے جیسے بھی اسکو ساتھ رہنا ہو گا . لیکن نہیں وہ کیسے اپنی عالی پہ غصہ کر سکتا تھا کبھی نہ اس نے تو کبھی زور سے بات تک نہ کی تھی غصہ تو بہت دور کی بات ہے …
اسکی پکار ان سنی کرتی گھر سے باہر چلی گئی اور ماہ بیر اپنے خالی ہاتھ دیکھتا رہ گیا وہ چاہ کر بھی اسکو زبردستی روک نہ پایا … اتنی رات کو وہ کہاں جائے گی اسکو تو راستوں کا بھی پتا نہیں ماہ بیر اس کے پیچھے نکلا لیکن وہ نظر نہ آئ تھوڑی سی دیر میں کہاں جا سکتی ہے ….
پیدل چلتی عالیاب انتہا سے زیادہ غصے میں تھی چہرہ ضبط سے سرخ ہو رہا تھا رونا بھی آ رہا تھا اور غصہ بھی .. ماہ بیر ایسا کیسے کر سکتا تھا وہ ایسا تو نہیں تھا پھر یہ سب ….
بغیر سمت کا تعین کیے چلتی جا رہی تھی … دفعتا پیچھے قدموں کی چاپ سنائی دی عالیاب چلتی رہی .. قدم بھی اس کے پیچھے تھے ایک سے زیادہ لوگوں کے … اس نے رفتار تیز کر دی ابھی کسی سے بات نہیں کرنی تھی …
"ہیلو ڈول کہاں جا رہی ہو …" ایک لفنگا سا اس کے سامنے آیا تھا
وو وہی تھا جس نے یونی میں تھپڑ کھایا تھا اس کے ساتھ دو لوگ اور تھے حالت سے ڈرنک لگ رہے تھے …
عالیاب گھور کر جانے لگی جب اس نے ہاتھ پکڑا …
"کہاں جا رہی ہو بےبی اس دن کا حساب تو دو .. بہت بڑی غلطی کی تھی مجھ پہ ہاتھ اٹھا کے اب بھگتو …"
خباثت سے کہتے اس نے عالیاب کا سکارف اتارنا چاہا …
عالیاب نے زور سے ہاتھ گھما کے اس کے ناک پہ مکا مارا وہ پیچھے ہوا .. اتنا زور کا لگا تھا کہ ناک سے خون کی لکیر بہہ نکلی …
وہ دونوں بھی آگے بڑھتے اسکو پکڑنے لگے اور پھر عالیاب نے جو ہاتھ صاف کیا ماہ بیر کا سارا غصہ ان پہ نکل گیا وہ تینوں نشے میں تھے تو مار کھا لی ورنہ شاید عالیاب اکیلی انکو نہ سمبھال پاتی …
دو کو تو کچھ زیادہ ہی پڑی تھی وہ نیچے پڑے پیٹ پکڑے کراہ رہے تھے عالیاب واپس مڑی اور آگے جانے لگی جب یوں لگا پیچھے سر پہ کسی نے کوئی لوہے کی چیز ماری ہو … عالیاب کی نظروں میں سب گھوم گیا سب اندھیرا ہو گیا حواس سے بیگانہ ہونے سے پہلے جو چہرہ دیکھا تھا وہ ماہ بیر کا تھا …
"ڈاکٹر میری وائف …" ڈاکٹر روم سے باہر آیا تو بے چین سا ماہ بیر اسکی طرف گیا
"شی از فائن .. میں نے ڈریسنگ کر دی ہے کچھ دیر میں ہوش آ جائے گا …."
ڈاکٹر پروفشنل انداز میں کہتا اسکا کاندھا تھپتھپا کر چلا گیا تو ماہ بیر بے ساختہ الحمدوللہ بولا
وہ پیٹر ہی تھا اتنی رات کو عالیاب کو اکیلا دیکھ کر تھپڑ کا بدلہ لینے آیا تھا وہ تو ڈرنک تھا تو عالیاب نے سمبھال لیا ماہ بیر جب وہاں پہنچا تو اس نے عالیاب کو گرتے دیکھ بھاگ کر پکڑ لیا وہ تینوں کافی بری حالت میں تھے عالیاب نے اچھی دھلائی کی تھی انکی حالت دیکھ کر نہ چاہتے بھی ماہ بیر کا لبوں پہ مسکراہٹ آ گئی اپنی بیوی کی بہادری دیکھ کر …
ماہ بیر نے پولیس کو کال کر کے انکو پولیس کے حوالے کیا اور عالیاب کو ہسپتال لایا .. شکر تھا کہ عالیاب کو زیادہ چوٹ نہیں لگی تھی ..
ماہ بیر کو ابھی بھی ٹینشن تھی کہ عالیاب کو کیسے مناۓ گا وہ تو اس کے ساتھ رہنا بھی نہیں چاہتی .. کیا وہ رہ لے گا اس کے بغیر … نہیں بلکل بھی نہیں …
"کیا کروں …." بالوں میں ہاتھ پھنسا کر وہ وہیں چیئر پہ بیٹھ گیا
"سر آپکی وائف کو ہوش آ گیا ہے …"
نرس کی آواز پہ وہ ہوش میں آیا پھر سر ہلا کر روم کی طرف بڑھ گیا
عالیاب آنکھیں بند کیے لیٹی ہوئی تھی ماہ بیر آہستہ سے چلتا اس کے پاس جا کر بیٹھا عالیاب اسکی موجودگی محسوس کر چکی تھی لیکن ویسے ہی لیٹی رہی ماہ بیر نے آہستہ سے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا …
"آئ ایم سوری لیکن میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا …"
اسکا ہاتھ لبوں سے لگاتے افسردہ سے لہجے میں بولا تھا
"جانتی ہوں ..اور میں آپ سے اس لئے ناراض نہیں ہوں …" آنکھیں کھولتی وہ ناراضگی سے بولی
اسکی آنکھوں میں شکوہ تھا …
"پھر تم نے کیوں کہا کے میرے ساتھ نہیں رہنا …"
ماہ بیر زخمی نظروں سے اسکو دیکھ نظریں پھیر گیا
اس سے دور ہونے کا خیال ہی سوہان روح تھا …
"کیوں کہ آپکو مجھ پہ یقین نہیں ہے …"
اسکی نظروں میں شکوہ اور ناراضگی دونوں تھے ..
"نہیں میری جان ایسا نہیں ہے مجھے خود سے بھی زیادہ یقین ہے تم پہ .. تم ایسے کیوں کہہ رہی ہو …"
اس الزام پہ ماہ بیر نے تڑپ کر اسکی طرف دیکھا
"اگر ایسا ہے تو آپکو سب کچھ مجھے خود بتانا چاہیے تھا جیسے میں نے بتایا تھا .. لیکن آپکو لگا کے میں آپکو غلط سمجھوں گی اور آپکو چھوڑ کر چلی جاؤں گی آپکو اتنا تو یقین ہونا چاہیے تھا خان کے آپکی عالی جان ایسا نہیں کر سکتی … جو بھی آپ کرتے ہیں وہ آپکا اور آپکے اللہ کا معاملہ ہے میں آپکو غلط یا سہی نہیں کہہ سکتی میں جج نہیں کر سکتی آپکو … لیکن کم از کم آپکو مجھ پہ یقین کر کے مجھے سب کچھ خود بتانا چاہیے تھا لیکن مجھے کسی اور سے پتا چلا … میرا ہر درد آپ سمیٹتے رہے اور آپکا اپنا درد اسکا کیا ? خان آپ نے اپنا درد کبھی مجھ پہ واضح نہیں ہونے دیا آپ کا دل کتنا زخمی ہے اپنے کبھی پتا نہیں چلنے دیا اور میں! میں بھی کتنی خود غرض ہوں اپنے غم میں ڈوبی رہی اور آپکو سمجھنے کی کوشش نہیں کی … "
عالیاب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے
اسکا غم تو جو تھا سو تھا لیکن ماہ بیر اس نے کتنا کچھ برداشت کیا تھا یہ سوچ کر ہی روح کانپ گئی تھی …
"تمہے یہ سب کس نے بتایا …"
ماہ بیر نے نظریں چرائیں
"خان یہ اہم نہیں ہے کس نے بتایا یہ اہم ہے کے آپ نے کیوں نہیں بتایا … مجھے جان کہتے ہیں اپنی اور اپنی ہی جان سے اتنی پردہ پوشی کیوں?…."
پلکوں پہ ٹہرے آنسو گالوں پہ بکھر گئے
"آئ ایم سوری لیکن مجھ میں تم جتنی ہمت نہیں تھی کے خود اپنا دل ایک بار پھر سے زخمی کرتا .. میں جانتا تھا ایک نہ ایک دن تمہے یہ سب پتا چل جائے گا اور میں تیار تھا اس سب کے لئے .. لیکن میں خود دوبارہ سے وہ سب نہیں دوہرا سکتا تھا جتنی اذیت وہ سب دیکھ کر ہوئی تھی اس سے بھی زیادہ اسکو سوچ کر ہوتی ہے کاش کہ میں اس وقت اتنا طاقت ور ہوتا تو شاید کسی اپنے کو بچا لیتا .. شاید ان کے لئے کچھ کر لیتا … آئ ایم سوری .. مجھے تمہے یہ سب خود بتانا چاہیے تھا لیکن میں نہیں بتا سکا .. اسکا مطلب یہ نہیں ہے مجھے تم پہ یقین نہیں ہے .. میں خود سے بھی زیادہ تم پہ یقین کرتا ہوں .. کیا تم اب بھی مجھے چھوڑ کر جاؤ گی …."
وہ سب پھر سے یاد کر ماہ بیر کی آنکھ سے ایک آنسو نکلا تھا لیکن ابھی بھی اسکو یہی ڈر تھا کے اسکی عالی جان کہیں چھوڑ کے نہ چلی جائے …
"نہیں میں اپنے خان کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی لیکن میری ایک شرط ہے …"
عالیاب نے مسکرا کے کہتے اسکی آنکھوں سے نمی اپنے لبوں سے چنی تھی …
ماہ بیر نے سوالیہ نظروں سے اسکو دیکھا ..
"پہلے کان پکڑ کر سوری کریں اور اٹھک بیٹھک کریں …"
عالیاب مسکراہٹ دبا کر بولی
اسکی بات سن کر ماہ بیر مسکرایا
"آئ ایم سوری میری عالی جان …."
اسکے کان پکڑ کر ماہ بیر دلکشی سے مسکراتا بولا
"یہ میرے ہیں …" عالیاب نے گھورا
"اور تم پوری کی پوری میری ہو …" ماہ بیر نے اسکا گال کھینچا وہ مسکرائی گالوں میں ڈمپل نظر آنے لگے
ماہ بیر کی نظر ان گڑھوں پہ گئی تو بے اختیار انکو چھونے کی خواھش جاگی ..
"دل کرتا ہے تمھارے یہ ڈمپل کھا جاؤں …."
دل کی خواھش پہ لبیک کہتے ماہ بیر نے بڑے جارحانہ انداز میں دونوں گالوں کو چوم لیا …
"ابھی آپکی سزا باقی ہے …"
عالیاب نے منہ پھلایا
"جو حکم میرے دل کی ملکہ …" ایک ہاتھ سینے پہ رکھ کر ماہ بیر جھکا تو عالیاب کھلکھلا کر ہنس دی …
پھر عالی جان نے خان کی سزا بڑھا دی اور ماہ بیر اٹھک بیٹھک کی جگہ ایک ہاتھ زمین پہ رکھے پش اپس کر رہا تھا اور وہ خود اسکی پیٹھ پر بڑے مزے سے بیٹھی ایپل کھا رہی تھی .. کچھ دیر بعد اسکا سرخ چہرہ دیکھتی اور کھلکھلا کر ہنس دیتی …
ہسپتال کی خاموش فضا میں اسکی کھلکھلاہٹ عجب رنگ بکھیر رہی تھی … ماہ بیر کو اس کے علاوہ چاہیے کیا تھا کے اسکی عالی جان اس کے ساتھ ہے .. اسکی کھلکھلاہٹ ماہ بیر کا سیروں خون بڑھا رہی تھی …
کتنا پیار کرتے ہیں تم سے ہمیں کہنا نہیں آتا
بس اتنا جانتے ہیں تمھارے بن رہنا نہیں آتا
🌹🌹🌹
آٹھ سال بعد
ہوسپٹل کے کوریڈور میں بے چینی سے ادھر ادھر چلتا اپنی جان کے لئے دعا گو تھا اس کے ساتھ تین نفوس اور تھے جو اسکو دیکھ رہے تھے …
"ویئر از چچی …"
ایک آٹھ سالہ بچے کی آواز پہ وہ اسکی طرف متوجہ ہوا
"وہ پیاری سی ڈول لانے گئی ہیں …"
اسکو دیکھ کر کہتے دوبارہ سے آپریشن تھیٹر کی طرف دیکھا …
وہ بچا سر ہلا کر اپنی ماں کے پاس بیٹھ گیا
لندن میں ڈیڑھ سال گزارنے کے بعد عالیاب نے ماہ بیر سے پاکستان جانے کا کہا اور ہمیشہ کی طرح اسکی خواھش ماہ بیر کی سر آنکھوں پہ …
وہ چاروں پاکستان آ گئے عالیاب کے کہنے پہ انہوں نے گھر بھی ایک ہی لیا بس پورشن الگ تھے دو سال میں حاشر اور ماہ بیر نے اپنا سارا بزنس پاکستان میں سیٹ کیا اور لندن کی طرح یہاں بھی اپنے نام کا لوہا منوا لیا …
جولیا اور اس کے بھائی کو پولیس اریسٹ کر چکی تھی کیوں کہ وہ دونوں اپنے کام کی آڑ میں غلط بھی کر رہے تھے … چار سال پہلے گرینڈ پا کا انتقال ہو گیا تھا .. مٹھو بھی اپنی مینا کے ساتھ پاکستان آ گیا تھا اور ابھی تک عالیاب کی مینا سے دوستی نہیں ہوئی تھی اگر عالیاب چند منٹ کے لئے بھی مٹھو کے پاس جاتی تو وہ بھی ماہ بیر کی طبیعت پہ سخت ناگوار گزرتا لیکن وہ اپنی عالی جان کو کچھ کہہ نہیں سکتا تھا …
حاشر اور حمامہ کا ایک آٹھ سال کا بیٹا تھا اصحاذ شاہ … شکل میں اپنے باپ جیسا تھا لیکن عادت میں نہیں … کافی سمجھدار تھا جتنا حاشر کول مائنڈڈ تھا اتنا ہی اصحاذ شاہ غصے کا تیز تھا .. اپنی چیزوں کو لے کر حد سے زیادہ ٹچی … جو پسند آ گیا وہ اسکا ہو گیا بس …
اسکا سٹائل بلکل ماہ بیر جیسا تھا یا یوں کہا جا سکتا کے شکل سے وہ حاشر اور عادات سے ماہ بیر….
"مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے …."
یہ پانچ الفاظ ماہ بیر کی سماعت میں شہد کی طرح گھلے تھے آٹھ سال انتظار کیا تھا یہ سننے کو …
نرس نے مسکراتے ایک پنک سے کمبل میں لپٹا نازک سا وجود اسکی باہوں میں دیا تھا ماہ بیر نے نہایت احتیاط سے اس ننھے سے وجود کو لیا تھا …
گلابی سا چہرہ روئی کے گالوں کی طرح نرم سا وہ ننھا وجود … ماہ بیر کی آنکھیں نم ہو گئیں ..
یوں لگ رہا تھا سارے جہاں کی خوشی اسکی باہوں میں آ سمائی ہو ..
بے ساختہ اس لے لبوں سے نکلا …
"اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے "
اس دنیا کی سب سے قیمتی نعمت تھی اولاد … اور بیٹی تو تو اس خوش نصیب انسان کو ملتی ہے جس سے اللہ راضی ہو جس سے اللہ خوش ہو اسکو بیٹی دیتا ہے …. جب اللہ خوش ہوتا ہے تو زمین پر بیٹی پیدا کرتا ہے ..
جب کوئی لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
"اے لڑکی تو زمین پر اتر میں تیرے باپ کی مدد کروں گا "
بیٹیاں سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں
گھر جو خدا کو پسند آۓ وہاں ہوتی ہیں
اسکے گلابی سے نقش دیکھتا اسکی نرمی کو محسوس کرتا ماہ بیر وہاں موجود ہر چیز بھول چکا تھا بس اس پل کو جی رہا تھا جس کا اتنے سال انتظار کیا تھا
بے ساختہ جھک کر اپنے جگر گوشہ کا ماتھا چوما .. کتنا خوبصورت کتنا انوکھا احساس تھا باپ بننے کا …
کچھ دیر بعد عالیاب کو ہوش آیا تو اپنی جان کا ٹکڑا لئے اس کے پاس گیا بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کے بیٹھی اسکو اور اس کے ہاتھ میں موجود ننھی سی جان کو دیکھ کر آسودگی سے مسکرائی اور اپنے رب کا شکر ادا کیا جس نے اتنے صبر کے بعد انکو اس صبر کا پھل دیا تھا …
ماہ بیر نے پاس جاتے اسکے ہاتھ میں دیا جسے بہت محبّت سے اس نے تھام لیا اس ننھی سی جان کو اپنے ہاتھوں میں محسوس کرتے اسکی آنکھوں سے موتی ٹوٹ کے گرنے لگے دل اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوا ….
"خان یہ ہماری بیٹی …." ڈرپ لگے ہاتھ سے اسکا گال چھوا اتنی نرمی سے جیسے روئی ہو ..
اسکا ہر نقش عالیاب جیسا تھا بال ماہ بیر جیسے سیاہ تھے جبکہ آنکھیں بند تھی تو اسکا کچھ کہہ نہیں سکتے اور نہ ہی ڈمپل کا …
"ہاں میری جان یہ ہماری بیٹی ہے میری جان کے وجود کا حصہ میرے جگر کی ٹھنڈک …" ماہ بیر نے اسکے پاس بیٹھتے اسکے بالوں پہ لب رکھے
"میں آ جاؤں …" اصحاذ نے دروازے سے ذرا سا سر نکال کر پوچھا
"آ جا میرے شیر …" ماہ بیر نے اپنی نم آنکھیں صاف کیں اور اسکو اشارہ کیا تو وہ اندر آ گیا
"بہت مبارک ہو میری جان …" اس کے پیچھے حمامہ بولتی اندر آئ ساتھ ہی حاشر بھی آ گیا
"مبارک ہو خان …" اسکے گلے لگتے حاشر پر جوش سا بولا
"یہ بہت پیاری ہے ماشاللہ … اللہ اسکو سلامت رکھے …" حمامہ چھوٹی سی گڑیا کو گود میں لیتی بے ساختہ بولی
عالیاب مسکرا کر انکو دیکھ رہی تھی بچی اب حاشر کے ہاتھ میں تھی اور اصحاذ کی پوری کوشش تھی کے اس کے ہاتھ سے لے لیکن حاشر تو پوری طرح سے مگن تھا اسکو متوجہ نہ پا کر اصحاذ نے بے حد ناراضگی سے ماہ بیر کی طرف دیکھا …
ماہ بیر نے سمجھتے حاشر کے ہاتھ سے لی اور اصحاذ کے سامنے کیا
"شی از سو پریٹی …."
اصحاذ شاہ نے خوبصورت سا تبصرہ کیا تو سب مسکرا دیے
"یس جونیئر شاہ جی شی از ویری پریٹی …"
حمامہ ہنس کر بولی
"از شی مائن …" اصحاذ شاہ کے دماغ میں پتا نہیں کیا آیا …
"یس شی از یور سسٹر …" ماہ بیر نے مسکراتے بچی اسکے ہاتھ میں دی
اصحاذ نے بہت احتیاط اور نرمی سے اسکو لیا
بچی نے آہستہ سے آنکھیں کھول دی اسکی آنکھیں بلکل ماہ بیر جیسی تھی چمکتی ہوئی سیاہ آنکھیں …
"سی ہر آئیز سو بیوٹفل …"
اسکی چمکتی آنکھیں دیکھ کر اصحاذ شاہ پھر سے بولا
سب اسکی بات سن کر مسکرا دیے اصحاذ نے آہستہ سے اسکا نرم گلابی گال چھوا تو وہ مسکرائی اصحاذ کی مسکراہٹ گہری ہو گئی …
"یاب اسکا کیا نام رکھو گی …" حمامہ کو نام یاد آیا
"زر تاشہ ماہ بیر خان …" عالیاب مسکرا کر بولی
تو ماہ بیر بھی اسکو دیکھ کر نرمی سے مسکرا دیا
جب بھی بچے کی بات ہوتی عالیاب ہمیشہ کہتی کہ اگر میری بیٹی ہوئی تو اسکا نام زر تاشہ رکھوں گی اور ماہ بیر سر ہلا کر مسکرا دیتا …
"زر ڈول… یس شی از مائی زر ڈول …"
اصحاذ شاہ نے اسکا نام سن کر اسکو نیا نام دیا اور ہلکا سا اسکا گال لبوں سے چھوا
حاشر نے اس کے ہاتھ سے زر تاشہ کو لیا تو اس نے پھر برا سا منہ بنایا لیکن باپ کو کچھ کہہ نہیں سکتا تھا کچھ ہی دیر بعد وہ تینوں اس کے ساتھ بلکل مگن تھے …
ماہ بیر عالیاب کے پاس بیٹھا تو عالیاب نرمی سے مسکرا دی
"شکریہ میری جان اس خوبصورت تحفے لے لئے …"
ماہ بیر نے اسکا ماتھا لبوں سے چھوا تو سکون سے آنکھیں موند گئی
🌹🌹🌹
یہ شہر قائد کے ایک چائلڈ پارک کا منظر تھا جہاں ویک اینڈ کی شام بہت سے بچے اپنی ماؤں کے ساتھ یہاں آتے … وہ دونوں بھی بینچ پہ بیٹھی مسکرا کر اپنے بچوں کو دیکھ رہی تھی کچھ ہی دور گھاس پہ وہ وہ دونوں نظر آ رہے تھے
سفید رنگ کی بہت خوبصورت سی فراک پہنے ہلکے سے بالوں والے سر پہ سفید ہی ہیئر بین لگاۓ چھوٹے سے گلابی پاؤں میں سفید چھوٹا سا جوتا اور چھوٹی سی کلائیوں میں سفید چھوٹی چھوٹی چوڑیاں پہنے وہ کھلکھلا رہی تھی ساتھ ہی اصحاذ بیٹھا تھا …
اصحاذ اسکو کھڑا کرتا اور چلانے کی کوشش کرتا اور نو ماہ کی زر تاشہ ایک قدم اٹھاتی اور پھر نیچے بیٹھ کر کھلکھلانے لگتی …اصحاذ مسکرا کے پھر سے اسکو کھڑا کرتا اور پھر وہ ویسے ہی کرتی اور اصحاذ وہ تو اپنی زر ڈول کی کھلکھلاہٹ دیکھتا ہی خوش ہو رہا تھا …
اصحاذ نے اسکو پھر کھڑا کیا تو اس نے قدم آگے بڑھایا ایک قدم ..
دو قدم …
تین قدم ..
اور اصحاذ سے لپٹ گئی اصحاذ تو خوشی سے نہال ہی ہو گیا تھا …
دور بینچ پہ بیٹھی انکی مائیں انکو دیکھ کر مسکرا رہی تھیں اتنی چھوٹی سی زر تاشہ اصحاذ سے کافی اٹیچ تھی .. آج ویک اینڈ تھا تو وہ یہاں آئ تھیں پورا ہفتہ تو وہ بزی ہوتی حمامہ گھر میں اور عالیاب اپنی اکیڈمی میں ….
پاکستان آنے کے بعد عالیاب نے اکیڈمی کھولی تھی جہاں وہ لڑکیوں کو فائٹنگ سیلف ڈیفنس اور پینٹنگ سکھاتی تھی اور ہمیشہ کی طرح ماہ بیر نے پورا ساتھ دیا .. وہ صرف گرلز اکیڈمی تھی جہاں صرف لڑکیاں اور عورتیں ہی تھیں …
عالیاب بہت مظبوط اور با ہمت ہو گئی تھی وہ بس یہی چاہتی تھی کہ ہر لڑکی کو اپنا بچاؤ آتا ہو تا کہ کوئی اور درندہ کسی اور کی زندگی برباد نہ کر سکے …
اگر وہ اس ناسور کو ختم نہیں کر سکتی تھی تو کیا ہوا جو اسکو آتا تھا وہ تو کسی کو سکھا سکتی تھی … شاید اسکی وجہ سے کسی کی زندگی کسی کی عزت بچ جائے … اور ماہ بیر آج بھی وہی کام کرتا تھا عالیاب نے کبھی نہ اس سے کچھ پوچھا تھا اور نہ ہی اس کے کسی کام میں داخل دیا تھا …
اور حمامہ وہ آج بھی اپنے شاہ جی کی دیوانی تھی اپنی باتوں سے اسکو گھما دیتی تھی اور حاشر تو بس اپنی زندگی کے صدقے واری جاتا تھا …حمامہ زیادہ ٹائم اپنے گھر کو دیتی تھی رفعت بیگم بھی انکے ساتھ رہتی تھی .. انہوں نے بہت منع کیا تھا لیکن حمامہ اور حاشر کے سامنے ایک نہ چلی کیوں کے حمامہ کے بھائی نے تو مڑ کے پوچھا نہ تھا … وہ اپنی ماں کو عمر کے اس حصے میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھی اس لئے وہ گھر رہتی اپنا گھر اور اپنی ماں کو سمبھالتی تھی …
عالیاب بارہ بجے اکیڈمی جاتی تھی زرتاشہ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھی بارہ بجے اصحاذ اسکول سے آتا تو ایک منٹ بھی اکیلا نہیں چھوڑتا تھا اپنی ڈول کے لئے تو وہ حد سے زیادہ پوزیسو تھا خود سے زیادہ اسکا خیال رکھتا تھا .. اس کے ہوتے عالیاب کو ٹینشن نہ ہوتی اور حمامہ بھی تو تھی اسکا خیال رکھنے کو …
باتیں کرتے دونوں کی نظر اصحاذ پہ گئی جو کسی بچے کو پکڑ کے کھڑا تھا شاید مارنے والا تھا
حمامہ نے بھاگ کر اسکو پکڑا … عالیاب نے روتی زرتاشہ کو اٹھا کے کاندھے سے لگایا
"اصحاذ شاہ وہاٹ آر یو ڈوئنگ …."
غصے میں حمامہ اسکا پورا نام لیتی تھی
"اس نے میری ڈول کو رلایا میں اسکو چھوڑوں گا نہیں …"
اصحاذ نے انتہا سے زیادہ غصے میں اس لڑکے کو دیکھا جو اپنی ماں کے پیچھے چھپا ہوا تھا
زرتاشہ بال سے کھیل رہی تھی اصحاذ کا دھیان ذرا سا اس سے ہٹا تو اس لڑکے نے بال اٹھا لی اور زرتاشہ زور سے گلہ پھاڑ کر رونے لگی …اصحاذ نے اپنی ڈول کو روتے دیکھا تو غصے سے بے قابو ہو گیا اور زور دار مکا اس لڑکے کے مارا
… ابھی بھی حمامہ نہ پکڑتی تو وہ اسکا منہ بھی توڑ دیتا …
عالیاب مسکراتی زرتاشہ کو کاندھے سے لگاۓ اس کو دیکھ رہی تھی جو اپنی ڈول کے لئے اس حد تک پوزیسو تھا …
بڑی مشکل سے حمامہ نے اسکو ٹھنڈا کیا ورنہ وہ تو سچ میں اس بچے کا منہ توڑ دیتا ….
🌹🌹🌹
"اصحاذ آج پارک میں کیا کیا آپ نے ?…"
حمامہ نے حاشر کو بتایا تو حاشر خود اس سے بات کرنے اس کے روم میں آ گیا
اصحاذ جو اپنا اسکول کا کام کر رہا تھا چونک کر باپ کو دیکھا پھر اپنا کام کرنے لگا
"آپکو مما نے بتا تو دیا ہے …"
لہجے میں ناراضگی تھی
"مجھے آپ سے سننا ہے …." حاشر اس کے پاس بیٹھا
"اس لڑکے کی وجہ سے میری ڈول روئی تھی لیکن مما نے مجھے روک دیا نہیں تو میں اسکا منہ توڑ دیتا …"
اصحاذ نے دانت پیسے تھے
حاشر مسکرایا اس کے انداز پہ لیکن پھر مسکراہٹ چھپا لی ..
"بیٹا ایسے ہر کسی سے لڑتے نہیں ہیں آپ تو بہت سمجھدار ہو نہ … کوئی بات نہیں اگر آپکی ڈول روئی تھی بچے تو ویسے بھی کتنی بار روتے ہیں … لیکن آپ ایسے دوبارہ کسی کو نہیں مارنا …."
حاشر سنجیدہ سا بولا
"آئ نو بٹ اگر کسی کی وجہ سے میری ڈول روئی تو پھر میں اسکو نہیں چھوڑوں گا …."
اصحاذ شاہ بھی اپنے نام کا ایک تھا
اندر آتی حمامہ اس کے الفاظ سن کے چونک گئی …
"اصحاذ شاہ وہ آپکی سسٹر ہے کوئی کھلونا نہیں جو رو نہیں سکتی …" حمامہ سختی سے بولی
"شی از ناٹ مائی سسٹر …."
اصحاذ شاہ غصے سے بولا تھا
حاشر اور حمامہ نے بیک وقت اسکو دیکھا تھا
اسکا لہجہ عجیب ہی تھا ..
"سسٹر نہیں تو کیا …."
حمامہ نے اسکی آنکھیں دیکھی
"آپ ڈیڈ کی سسٹر ہیں کیا ?….." اصحاذ شاہ آٹھ سال کا تھا لیکن بچا بلکل نہیں تھا
"اصحاذ یہ کیا کہہ رہے ہو …." حمامہ کو غصہ آ گیا تھا
جبکہ حاشر اسکی بات کا مطلب سمجھ کر مسکرایا تھا …
پھر حمامہ نے قریباً ایک گھنٹے تک اسکو سمجھایا تھا اور اصحاذ شاہ منہ بند کر کے بہت بے زاری سے سن رہا تھا … وہ دونوں سے کلوز تھا لیکن جب حمامہ اس طرح سے اسکو لیکچر دیتی تو وہ حد سے زیادہ بیزار ہوتا لیکن سننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا اور حاشر اپنے بیٹے کی شکل دیکھ کر مسکرا رہا تھا …
🌹🌹🌹
ماہ بیر کے روم میں کی ساری لائٹس آن تھی سامنے ہی بیڈ پہ بیٹھا ماہ بیر گود میں لیپ ٹاپ رکھے تیزی سے انگلیاں چلا رہا تھا اس کے ساتھ ہی زرتاشہ کھیلتی اپنی زبان میں او آآ کر رہی تھی اور عالیاب دوسری سائیڈ پہ بیٹھی ایک بک پڑھتی گاہے بگاہے دونوں کو دیکھ رہی تھی … بس آدھے گھنٹے بعد دونوں باپ بیٹی نے ایک دوسرے میں مگن ہو جانا تھا ویسے بھی جب ماہ بیر گھر ہوتا تو زرتاشہ عالیاب کو کم ہی لفٹ کراتی تھی …
زرتاشہ گول مٹول سی سفید گلابی بچی تھی بال عالیاب کی طرح گھنے تھے لیکن ماہ بیر جیسے سیاہ تھے جو اس وقت دو پونیوں میں باندھے تھے ماہ بیر کو زرتاشہ اور اسکی ماں کے بال بہت پسند تھے …
دونوں اپنے کام میں مگن تھے جبکہ زرتاشہ شاید اپنی زبان میں او آ کرتی کچھ کہنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن کوئی متوجہ نہیں تھا … اس نے کھلونے ہاتھ مار کے سائیڈ پہ کیے اور کرال کرتی ماہ بیر تک گئی
ڈا .. ڈا … اس کے گھٹنے پہ اپنا نرم سا ہاتھ مارتی بولی اور پھر خود ہی خوش ہو کر تالیاں بجانے لگی
اسکی آواز سن کر عالیاب کی نظریں اور ماہ بیر کی انگلیاں ساکت ہوئی تھیں دونوں نے بے یقینی سے ایک دوسرے کو دیکھا پھر زرتاشہ کو جو بار بار ڈا… ڈا کہتی خود ہی خوش ہوتی تالیاں بجا رہی تھی …
ماہ بیر نے لیپ ٹاپ سائیڈ پہ کیا اور اسکو گود میں لیا
"تاشہ میری جان پھر سے بولو …."
ماہ بیر کو تو کوئی خزانہ ہی مل گیا تھا عالیاب کا بھی یہی حال تھا دونوں کی خوشی دیدنی تھی
زرتاشہ بھی باپ کے کہنے پہ بار بار ڈا… ڈا بولتی اس کے چہرے پہ اپنے ننھے ہاتھ رکھتی خوش ہو رہی تھی
کبھی اسکی آنکھوں کو ہاتھ لگاتی کبھی اسکو مونچھوں کی چبھن اپنے نرم سے ہاتھ پہ محسوس کرتی کھلکھلاتی ….
عالیاب نے نم آنکھوں سے دونوں کی نظر اتاری …ماہ بیر نے اسکی آنکھوں کی نمی دیکھی تو زرتاشہ کو اپنے پیٹ پہ بیٹھا کر اسکو کندھے سے لگایا .. عالیاب بھی سکون سے آنکھیں بند کر گئی …
آپ میرے لئے میرے اللہ کا تحفہ ہیں خان …. کچھ دیر بعد اسکو اپنے کان میں میٹھی سی سرگوشی سنائی دی تو اسکی مسکراہٹ گہری ہو گئی
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Wehshat E Ishqam Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Wehshat E Ishqam written by Pari Shah .Wehshat E Ishqam by Pari Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment