Diyar E Dil Written by Rabia Bukhari Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday, 17 September 2024

Diyar E Dil Written by Rabia Bukhari Complete Romantic Novel

Diyar E Dil By Rabia Bukhari Novel Complete Romantic Episode

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Diyar E Dil Written by Rabia Bukhari Complete Romantic Novel

Novel Name: Diyar E Dil

Writer Name: Rabia Bukhari  

Category: Complete Novel

"بلال میں کہہ رہی ہو یہ آخری بار ہے۔۔۔

بار بار امی سے جھوٹ نہیں بولا جاتا مجھ سے۔۔۔

تم جانتے بھی ہو پاپا کہ بعد وہ میرے حوالے سے کس قدر سینسیٹیو ہو گئی ہے۔۔۔۔

مگر ہر بار تمہاری ضد کے آگے ان کی تربیت جھک جاتی ہے اور میری انا ٹوٹتی ہے۔۔۔۔"

منہاء سنجیدگی سے فون پر بات کم ڈانٹ زیادہ رہی تھی۔۔۔

جبکہ پاس بیٹھی ثمر جو گاڑی سامنے دیکھتے چلا رہی تھی کان دھڑے سننے لگی۔۔۔۔۔۔

"ہاں میں بس پہنچ رہی ہو۔۔۔

ثمر کے ساتھ ہی آرہی ہو اسی نے ہی کوئی کہانی گڑھی تھی امی کے سامنے۔۔۔

کیونکہ مجھ سے ان کے سامنے جھوٹ نہیں بولا جاتا فورا پکڑ لیتی ہے مجھے وہ۔۔۔۔

مگر میں پھر سے کہہ رہی ہو یہ آخری ملاقات ہے ہماری۔۔۔

اب ملے گے تب جب نکاح ہوگا ہمارا۔۔۔"

منہاء نے کہتے ساتھ ہی فون پٹخا اور باہر کی جانب دیکھنے لگی۔۔۔

جبکہ ثمر نے منہاء کا سرخ پڑتا چہرہ دیکھا تو دبی مسکراہٹ لیے ہنسنے لگی۔۔۔

"اب تمہاری کیوں ہنسی نکل رہی ہے؟؟؟؟

کیا تمہارا ارادہ بھی خود کی صفائی کروانے کا ہے؟؟؟

تو. بتا دو مجھے ذرا برابر وقت نہیں لگے گا کرتے ہوئے!!!"

منہاء نے تیکھی نظروں سے ثمر کو گھورا۔۔۔

"ارے نہیں نہیں۔۔۔۔

مجھے کوئی شوق نہیں تم سے صفائی کروانے کا۔۔۔۔"

ثمر نے سنا تو فورا نفی میں سر ہلائے بولی۔۔۔

'تم بس بلال کی صفائی پر فوکس دیا کرو۔۔۔

جو ہر بار تمہیں کسی نہ کسی طرح ملنے کیلئے بلا لیتا ہے۔۔

اور تم ہر بار کی طرح ڈانٹ ڈپٹ کے بعد اس سے ملنے کو چلی جاتی ہو۔۔۔

حیرت ہے ویسے!!!!!

اس کی چالاکی پر اور تمہاری سمجھداری پر!!!!۔۔۔۔"

ثمر دبی مسکراہٹ ہوئی۔۔۔

"تو کیا کرو وہ ہر بار ہی ایسی شکل بنا کر بات کرتا ہے کہ مردہ بھی رو پڑے۔۔۔

میں تو پھر انسان ہو۔۔۔۔"

منہاء منہ بسورے بولی۔۔۔

"کہہ تو بلکل ٹھیک رہی ہو۔۔۔۔

اس کی شکل واقعی میں ایسی ہی ہے۔۔۔

ترس زدہ ، رحم مانگنے والی۔۔۔

دل پسیج جاتا ہے دیکھ کر جسے۔۔۔۔۔"

ثمر دانت دکھائے قہقہ گو ہوئی۔۔۔۔

"بس کردو اب تم اچھا۔۔۔

منگیتر ہے وہ میرا۔۔۔"

منہاء نے ثمر کے کندھے پر ضرب لگائی اور دانت پسیجتے گو ہوئی۔۔۔

"میں کیا بولی تم تو پر ہی دکھانے لگ گئی ہو۔۔۔۔

اب گاڑی چلاؤ جلدی سے۔۔۔

ویسے بھی امی بہت پریشان ہوجاتی ہے اگر ذرا سی بھی دیر ہو جائے تو۔۔۔

بہتر ہے وقت پر پہنچوں اور وقت پر ہی نکلوں وہاں سے۔۔۔"

منہاء ایک سانس میں پھونکی۔۔۔

جبکہ اس کی لگی چست پر ثمر ہل سی گئی۔۔۔

"دھیان سے کیا کرتی ہو لڑکی۔۔۔

گاڑی چلا رہی ہو میں ذرا سا بھی زور کا جھٹکا لگتا ناں تو بلال کی جگہ ملک آلموت سے ہی ملاقات ہونی تھی تمہاری۔۔۔۔

اور میں نے فضول میں رگڑا جانا تھا تمہارے ساتھ۔۔۔"

ثمر اسٹیئرنگ سنبھالے بپھڑی۔۔۔

ثمر کی بے تکی بات سنی تو منہاء نے گھورنے پر ہی اکتفاء کیا اور خاموشی سے موبائل پر انگلیاں دوڑانے لگی۔۔۔۔۔

کچھ دیر  یونہی خاموش رہنے کے بعد بلآخر ثمر سے رہا نہ گیا اور زبان کی لگی کھجلی نے اسے بے چین کر دیا۔۔۔

"یار ویسے ایک بات پوچھوں!!!!!"

"پوچھوں!!!!"

منہاء موبائل میں مصروف بناء دیکھے بولی۔۔۔

" تم دونوں کی منگنی کو ایک سال ہونے کو ہے۔۔۔

شادی کیوں نہیں کر لیتے ہو تم دونوں۔۔۔

 یہ چھپ چھپ کر ملنے کا سلسلہ یوں کب تک جاری رہنے والا ہے؟؟؟؟

اور نہ ناجانے میری جان کب اس بیگانی ذمہ داری سے چھوٹے گی!!!"

ثمر نے اکتاہٹی نظروں سے منہاء کو نظر بھر گھورا۔۔۔

منہاء نے سنا تو عنقریب اس کے پاس خود بھی اس سوال کا جواب موجود نہ تھا۔۔۔۔

مگر چہرے کی ہڑبڑاہٹ چھپاتے وہ لفظوں کو پرونے لگی۔۔۔

"کہا تو ہے بلال سے۔۔۔

بات کرے اپنی امی سے۔۔۔

اور  مجھے خود یہ بچگانہ تماشے پسند نہیں۔۔۔

مگر اس کی مجبوریاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔۔۔

کبھی چھوٹی بہن کی شادی تو کبھی چھوٹے بھائی کا ایڈمیشن۔۔۔۔

اور انہی مجبوریوں میں پس رہی ہے ہماری محبت۔۔۔"

منہاء. تھکے لہجے سے مایوس کندہ باہر دیکھنے لگی۔۔۔۔

"ہمممم کہہ تو ٹھیک رہی ہو تم یار۔۔۔

ذمہ داری تو بہت ہے اس پر مگر مجھے لگتا ہے اس کی امی خوش نہیں اس رشتے پر۔۔۔

تبھی تو یوں لٹکا رہی ہیں تم دونوں کو۔۔۔۔

ورنہ کس ماں کو شوق نہیں اپنے بیٹے کے سر پر سہرا باندھے۔۔۔

اس کہ خوشیاں دیکھے۔۔؟؟؟"

ثمر اپنے اندر کے خدشے کو ظاہر گو ہوئی۔۔۔

"پتہ نہیں میں کچھ نہیں کہہ سکتی اس پر۔۔۔۔

بس بلال کا ساتھ ہے میرے ساتھ اور کچھ ضروری نہیں میرے لیے۔۔۔۔"

منہاء ثمر کی بات کو ہلکا لیتے تاسف ہوئی۔۔۔۔

"ہممممم۔۔۔۔۔

مگر تم دونوں کی وجہ سے جو مجھے بے پناہ جھوٹ بولنے پڑتے ہیں ناں آنٹی سے۔۔۔۔

 اسے دیکھ کر لگتا ہے تم دونوں کی وجہ سے ہی مجھے جہنم میں اعلی مقام ملنے والا ہے۔۔۔۔۔"

ثمر دانت چبائے تیکھا ہوئی۔۔۔

"آمین!!!!!!"

منہاء نے ثمر کی بات سنی تو ہنستے ہوئے چہرے کو ہاتھوں سے چھوتے بولی۔۔۔۔

"بہت ہی بد لحاظ لڑکی ہو۔۔۔۔ 

ناجانے بلال کا کیا بنے گا۔۔۔۔

اللہ خیر ہی کرے اس پر۔۔۔"

ثمر منہ چڑھائے سامنے دیکھنے لگی۔۔۔۔

"معصوم پھنس گیا تم سے محبت کر کے۔۔۔۔"

"کچھ نہیں بنے گا بہن۔۔۔

تم بس سامنے فوکس دو۔۔۔۔

سامنے فوکس ہٹا تو واقعی ہی جہنم میں واصل ہونگے ہم دونوں۔۔۔۔"

منہاء متحیر ہوتے مسکرائی۔۔۔۔

"اور ویسے بھی پھنسا وہ نہیں میں ہو۔۔۔

یاد نہیں کتنے تلے کروائے تھے میں نے اس سے۔۔۔۔"

منہاء یاد کرواتے ہنس ہی پڑی۔۔۔

"ہاں یاد ہے بے چارا۔۔

کتنا تڑپایا تھا تم نے اسے۔۔۔۔

کوئی اور ہوتا تو بھاگ جاتا۔۔۔

مگر وہ بھی ڈھیٹ تھا ہاں کروا کر ہی دم بھرا۔۔۔"

ثمر نے بلال کی داد بھری۔۔۔

کہ تبھی گاڑی جو پرسکون انداز سے اپنی منزل کی جانب تھی پیچھے سے ایک زور دار ٹکر لگنے کی وجہ سے لڑکھڑا سی گئی۔۔۔۔

جس پر ثمر اور منہاء کی ہنسی عنقریب چیخوں میں بدل گئی۔۔۔

منہاء نے فورا اپنی نشست کو مضبوطی سے پکڑا جبکہ ثمر نے اسٹیئرنگ کو سنبھالے گاڑی کو بریک لگائی۔۔۔

دونوں کی سانسیں بری طرح پھول چکی تھی جبکہ وہ دونوں ایکدوسرے کو اب حیرت اور خوف بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔۔

"یہ سب کیا تھا؟؟؟؟؟"

منہاء بمشکل سانس بحال کیے بڑبڑائی۔۔۔

"شاید پ۔۔۔پ۔۔۔چھے سے کسی نے ہٹ کیا۔۔۔۔"

ثمر چندھیائی نظروں سے منہاء کو دیکھنے لگی۔۔۔۔

جبکہ منہاء طیش ہوتے پیچھے کھڑی گاڑی کو گھورنے لگی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"مسز منیر آپ کے ہسبنڈ نے صاف صاف کنٹریکٹ کیا تھا مجھ سے اس ڈیل کے حوالے سے۔۔۔

جس کا قانونی ثبوت بھی ہے میرے پاس اور ساتھ اس کے اسٹیپ پیپرز بھی۔۔۔۔

اب آپ کے شوہر نے کنٹریکٹ توڑا ہے اور آپ چاہتی ہے کہ کوئی کاروائی نہ ہو تو بہت معذرت میں دغا باز لوگوں کو معاف نہیں کرتا۔۔۔۔۔"

مردانہ آواز سے بولتا دبدبے لہجے کا مالک پرسکون انداز سے گاڑی کا اسٹیئرنگ سنبھالے وہ گو ہوا۔۔۔۔

"میں مانتی ہو ۔۔۔

میں مانتی ہو انہوں نے کنٹریکٹ توڑا ہے۔۔۔۔

اور میں چاہتی ہو کہ آپ سزا دے۔۔۔۔

مگر بات کورٹ کی بجائے اگر ہم دونوں میں ہی نمٹ جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔۔۔۔

آپ کیلئے بھی اور میرے لیے بھی۔۔۔۔"

دوسری جانب سے بولتی خاتون للچائی اوربناوٹی لہجے سے دلچسپی ظاہر کرنے لگی۔۔۔۔

"آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ آپ کو کنٹریکٹ کے ٹوٹنے پر بہت خوشی ہے۔۔۔۔"

آہل اپنا چشمہ ترچھا کرتے  بدقت مسکراتے گو ہوا۔۔۔

"کافی سمجھدار معلوم ہوتے ہیں آپ۔۔۔

کافی جلدی سمجھ گئے !!!!

کیا چاہتی ہو میں اور کیا پانا ہے مجھے۔۔۔۔"

مسز منیر قہقہ بھرے ہنسی۔۔۔۔

"جی ظاہر سی بات ہے۔۔۔

آج جس مقام پر ہو میں میری سمجھداری کا ثبوت ہے۔۔۔۔

مگر آپ جس مقام پر پہنچنا چاہتی ہے میں آپ کی منزل کی راہ بننا نہیں چاہتا۔۔۔۔"

آہل دوٹوک ہوا۔۔۔

"کیا مطلب ؟؟؟؟

میں کچھ سمجھی نہیں؟؟؟"

"مطلب تو آپ بخوبی سمجھ گئی ہے مگر انجان بن رہی ہے تو وہ الگ بات ہے۔۔۔

پھر بھی آپ جو چاہتی ہے مجھ سے میں آپ کو کبھی نہیں دے سکتا محترمہ۔۔۔

اور رہی بات سزا کی تو وہ تو اب آپ کے ہسبنڈ کو ملے گی۔۔۔

ضرور ملے گی۔۔۔۔

کیونکہ جو مرد اپنی عورت کو دوسروں کے آگے پیش کرتا پھرے اس کو معاف کرنا میرے ضمیر کو گالی ہوگی۔۔"

آہل نے طنز بھرا۔۔۔۔

"اور بقول آپ کے میں بہت سمجھ دار ہو۔۔۔۔"

"مسٹر آہل آپ میری انسلٹ کر رہے ہیں اب۔۔۔

آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ میری کردار کشی کریں یوں۔۔۔۔

میں بس معاملہ سیٹ کرنا چاہتی ہو۔۔۔۔"

مسز منیر نے سنا تو اشتعال انگیزی سے چیخی۔۔۔

"انسلٹ ان کی کی جاتی ہے جن کی عزت ہوتی ہے۔۔۔

اور ابھی تو میں نے کچھ کہا ہی نہیں مسز منیر!!!!!"

آہل  لفظوں پر زور ڈالے غرایا۔۔۔۔

"خیر میں یہ کال ریکارڈنگ آپ کے شوہر کو بھیج دونگا۔۔۔۔

آپ کے اندر کی جلتی وہ بھجا دے گے اچھے سے۔۔۔۔

شاید پھر کسی مرد کے آگے اپکو اپنی پیاس نہ رکھنی پڑے۔۔۔"

"آپ ایسا نہیں کر سکتے!!!!!

مسٹر آہل!!!!!

سن رہے ہیں ناں آپ۔۔۔۔

اچھا نہیں ہوگا آپ کیلئے ۔۔۔۔

آپ ایسا نہیں کر سکتے!!!!"

وہ فون کان پر لگائے متلاطم چیختی رہی مگر دوسری جانب سے فون کاٹ دیا گیا تھا۔۔۔۔

مبغوض کیفیت سے فون کاٹنے کے بعد وہ ابھی اسی کے متعلق سوچ رہا تھا کہ اپنی سوچ میں گم بے خبر  آہل کی گاڑی سامنے موجود گاڑی سے بری طرح جا ٹکرائی۔۔۔۔۔

"او شٹ!!!!!!!!"

گاڑی کے ٹکرانے پر ہوش میں آتا آہل داسہم ہوتے گاڑی کے اسٹیئرنگ کو سنبھالے بدحواس ہوا۔۔۔۔

مگر فورا اپنے اعصاب پر قابو پاتے گاڑی کو سڑک کنارے بریک لگائے پرسکون ہوا۔۔۔۔

اس بے احتیاطی کی وجہ سے وہ بری طرح ہل سا گیا تھا۔۔۔۔

سانس بری طرح پھول رہی تھی جبکہ وہ اسٹیئرنگ کو 

زور سے جکڑے آنکھیں موندھے نشست سے سر ٹکائے بیٹھا۔۔۔۔

کہ تبھی یاد سامنے والی گاڑی سے ٹکرائی اور وہ ششدر ہوتے فورا سیدھا ہوا۔۔۔۔

جب اسکی نظر سامنے کھڑی گاڑی پر پڑی جس کا پچھلا حصہ مکمل تباہ ہو چکا تھا جبکہ دو لڑکیاں اب اپنی گاڑی پر کھڑی سر تھامے ابتر کیفیت میں تھی۔۔۔۔

"اب ایک نئی مصیبت!!!!!!

اففففففف۔۔۔۔۔"

آہل انہیں دیکھتے ہی مبہم ہوتے زیر لب بڑبڑایا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء ثمر کے ساتھ فورا باہر کو نکلی تو گاڑی کا پچھلا حصہ دیکھ کر منہ کھولے ایکدوسرے کو ہکا بکا دیکھنے لگی۔۔۔۔

"منہاء!!!!!

میری گاڑی!!!!!

 میری گاڑی یار!!!!!"

ثمر دیکھتے ساتھ ہی گاڑی کی جانب افسردہ ہوتے لپکی۔۔۔

"ساری تباہ ہو گئی۔۔۔۔

ساری ٹوٹ گئی۔۔۔۔

کتنی احتیاط سے رکھی تھی میں نے۔۔۔

پاپا کا آخری تحفہ تھا یہ۔۔۔۔

وہ بھی ٹوٹ گیا۔۔۔۔"

ثمر جذباتی ہوتے نم آنکھوں سے رونے لگی۔۔۔

جبکہ ثمر کو یوں روتا دیکھ کر منہاء کا دماغ پھر سا گیا۔۔۔

اور پھر ایک تیکھی نظر  سامنے کھڑی کالی کرولا  پر پڑی  جس کا سامنے کا حصہ بھی مکمل ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔۔۔۔

منہاء ثمر کو حوصلہ دینے کو آگے بڑھتی مگر اسکا غصہ اس کی عقل کو کھا رہا تھا۔۔۔

"ایک منٹ ثمر۔۔۔۔۔

اس گاڑی والے کی تو میں!!!!!"

منہاء ثمر کو کہتے سیدھا آستین چڑھائے غصے سے گاڑی کی جانب لپکی۔۔۔

اور کالے شیشے پر اپنے ہاتھ کو زور دار طریقے سے پٹخنے لگی۔۔۔۔

"او ہیلو مسٹر؟؟؟؟

شیشہ نیچے کرو۔۔۔۔

نیچے کرو ابھی!!!!!"

منہاء نے شیشے کو عنقریب توڑنے والے انداز سے پیٹا۔۔۔

"ابھی بتاتی ہو تمہیں میں۔۔۔

تم جیسے امیر زادے سمجھتے کیا ہے خود کو۔۔۔

باہر نکلوں ذرا۔۔۔

نکلوں باہر!!!!"

سامنے کھڑی لڑکی کی جاہلانہ حرکت دیکھ کر آہل جو کسی سے فون پر بات کررہا تھا فورا فون کاٹے اب اس کی جانب لپکا۔۔۔

"اندھے ہو کیا؟؟؟؟؟

جب گاڑی چلانے نہیں آتی ہیں تو سڑک پر ناچتے کیوں ہو؟؟؟

تمہارے جیسے امیر زادوں کی وجہ سے ہم لوگوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔۔۔۔

اب ہمت کیوں نہیں ہورہی ہے باہر آنے کی؟؟؟؟"

منہاء نے شیشے کو نیچے آتے دیکھا تو عنقریب بپھڑ سی گئی۔۔۔

"کیا مسئلہ ہے اپکو محترمہ؟؟؟

کس بات کا تماشا بنا رہی ہیں آپ؟؟؟؟"

آہل منہاء کے غصے کو دیکھتے سخت گو ہوا۔۔۔۔

"ایسے بات کر رہے ہو جیسے  کچھ  پتہ ہی نہ ہو۔۔۔

ویسے کہہ بھی سہی رہے کس اگر پتہ ہوتا تو ہماری گاڑی سے یوں ٹکر نہ ہوتی ۔۔۔۔۔

اور نہ وہ اس قدر تباہ حال ہوتی۔۔۔۔

اور یہ سب تمہاری لاپرواہی کی وجہ سے ہوا مسٹر۔۔۔

جب گاڑی چلانے نہیں آتی تو کیوں یہ کوشش بھی کرتے ہو ؟؟؟؟"

منہاء سناٹ ہوئی۔۔۔۔

"بہت بول رہی ہے آپ محترمہ۔۔۔۔

میں کس قدر تمیز سے بات کررہا ہو آپ اتنا بد تمیزی کا مظاہرہ کررہی ہے!!!!

ہونا تھا ایکسیڈینٹ ہوگیا۔۔۔

اب اپنی قیمت بتائے کہ کتنا نقصان ہوا ہے اپکا؟؟؟

ابھی بھر دیتا ہو پیسے۔۔۔۔

مگر میرے سر پر چیخنا چلانا بند کرے۔۔۔

مجھے عورتوں کا بے باک ہونا پسند نہیں۔۔۔۔"

آہل نے سنگین نظروں سے منہاء کو گھورا اور اپنے چیک بک نکالے ایک چیک کاٹا اور چیک منہاء کی جانب بڑھایا۔۔۔۔

منہاء نے سامنے بیٹھے شخص کا رویہ دیکھا تو چیک اس کے ہاتھ سے کھینچتے لمحے میں کئی ٹکڑوں میں بدل دیا۔۔۔۔

اور پھر وہی ٹکڑے سامنے بیٹھے چشم آور انسان کے منہ پر دے مارا۔۔۔۔

"بلکل ٹھیک کہا تم نے۔۔۔

ایکسیڈینٹ ہونا تھا ہوگیا۔۔۔

اور اسی طرح میں نے بھی چیک پھاڑنا تھا پھاڑ دیا۔۔۔

کیونکہ پیسوں کا جو بھوت سوار ہے ناں تمہارے سر پر وہ تمہیں ہی مبارک ہو۔۔۔۔۔

اور اپنی دولت کا ڈھونس کسی اور کے سر پر جھاڑو۔۔

بڑے ائے میری بے باکی پر سوال کرنے والے۔۔۔"

منہاء زہر آلود ہوئی۔۔۔

جبکہ آہل کو اس لڑکی کہ یہ حرکت زہر گوار گزری اور حقارت اور غیض نظروں سے منہاء کو گھورنے لگا۔۔۔

" اپنی نظریں نیچے رکھے مسٹر۔۔۔

غلطی کرنے والے کی نظریں جھکی ہی اچھی لگتی ہے۔۔۔

اور مجھے بے باک نظریں پسند نہیں۔۔۔"

منہاء نے اسی انداز سے آہل کو جواب دیا۔۔۔

جو اس کے اس رویے کو دیکھ کر ششدر ہو گیا کیونکہ اس کا سامنا پہلی بار ایسی لڑکی سے ہو رہا تھا جو اس کے ساتھ ساتھ اس کی دولت کو بھی بخوبی روندھ رہی تھی۔۔۔۔

میں کچھ کہہ نہیں رہا ہو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ اپنی لمٹس کراس کرے۔۔۔۔

خاتون ہے آپ تبھی لحاظ رکھ رہا ہو میں۔۔۔

ورنہ!!!!"

آہل اپنا چشمہ تیکھا کرتے سرد ہوا۔۔۔

"ورنہ کیا؟؟؟؟

کیا ورنہ؟؟؟؟"

منہاء گاڑی کے دروازے کو ہاتھ مارے چیخی۔۔۔۔

"ابھی یہاں پولیس کو بلا لیا نہ میں نے تو تلے پر اتر آؤ گے تم۔۔۔۔۔

اور رہی بات نقصان کی۔۔۔۔

تو جاؤ صدقہ دیا تمہیں اپنی جان کا۔۔۔۔

کیا یاد کرو گے کس رحمدل سے پالا پڑا ہے۔۔۔

اب امید ہے کئی راتیں نیند نہیں آئے گی تمہیں اتنی زلالت پر۔۔۔۔"

منہاء حقیر نظروں سے آہل کو گھورتے گاڑی پر پاؤں مارتے آگے کو بڑھی۔۔۔۔

جبکہ یہ سننا ہی تھا کہ آہل جو ضبط کیے بیٹھا تھا اب گاڑی کا دروازہ کھولے سنگین ہوتے باہر کو لپکا۔۔۔

"او ہیلو محترمہ!!!!!"

نیوی بیلو پینٹ کوٹ میں ملبوس ،گندمی صاف رنگت کا مالک،  گھنے کالے سیاہ بال اور چہرے پر فرینچ شیپ کا پردہ، چست چوڑا مضبوط سینہ تانے کالی سیاہ رنگ کی آنکھوں پر بھورے رنگ کا چشمہ چڑھائے وہ سخت تاثرات لیے منہاء کے پیچھے لپکا۔۔۔۔

"کس بات کا غرور ہے تم میں؟؟؟؟

کس بات کی اکڑ لیے پھر رہی ہو تم؟؟؟؟

تم جانتی بھی ہو کہ میں کون ہو؟؟؟"

آہل اپنا کوٹ جھٹکے فخریہ ہوا۔۔۔۔

"ہاں جانتی ہو۔۔۔۔"

منہاء جو پلٹی تھی اب اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولی۔۔۔۔

"ایک امیر کبیر باپ کا بگڑا ہوا عظیم شہزادہ۔۔۔۔

وہی گھیسی پیٹی روایت جو آج تک کسی نے نہ بدلی۔۔۔"

منہاء طنزیہ مسکراہٹ ہوئی۔۔۔

"اور رہی بات کی اکڑ کی تو ہاں ہے مجھ میں اکڑ۔۔۔۔

آپ جیسے لوگوں کیلئے جو اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے پیسوں میں اپنی معافی تولتے ہیں۔۔۔۔

اور مجھے بہت مزہ آیا ان پیسوں کو سود سمیت منہ پر مارنے کا۔۔۔۔"

منہاء کہتے کہتے سنگین مسکراہٹ ہوئی۔۔۔۔

"تم!!!!!

تم بہت بد تمیز اور بد دماغ لڑکی ہو۔۔۔۔"

آہل چشمہ اتارے اسے اشارے دیتے شدت ہوا۔۔۔

"تعریف کیلئے شکریہ۔۔۔"

منہاء دونوں بازوؤں باندھے بدقت مسکرائی۔۔۔

جبکہ آہل اسے کاٹ کھانے کی نظروں سے گھورنے لگا۔۔۔

دور کھڑی ثمر جو یہ سب دیکھ رہی تھی فورا منہاء کی جانب لپکی۔۔۔۔

"بس کردو منہاء۔۔۔۔

چھوڑو ہمیں کچھ نہیں چاہیے۔۔۔۔

چلوں یہاں سے۔۔۔۔

چلوں!!!!!"

ثمر منہاء کو بازو سے کھینچتے بولی۔۔۔۔

"جا رہی ہو میں مگر یاد رکھنا اپنی نام نہاد عزت مسٹر وٹ ایور!!!"

منہاء اسی انگلی سے تنبیہہ کرتے ثمر کے ساتھ اپنی گاڑی کی جانب بڑھی۔۔۔۔

"کیا کرتی ہو یار؟؟؟

کیوں اپنا غصہ کسی پر نکال رہی ہو؟؟؟

گاڑی ہی تو تھی یار ہوجاتی ٹھیک اس میں اتنا تماشا کیوں؟؟"

"وہ معافی نہیں مانگ رہا تھا ثمر قیمت لگا رہا تھا۔۔۔

اب اس کی اوقات اس کے سامنے رکھی ہے ناں تو اب سکون ہے مجھے۔۔۔

ان جیسوں کے ساتھ ایسا ہی کرنا چاہیے ورنہ یہ کسی کو کچھ نہ سمجھے!!!!"

منہاء ثمر کی بات کا جواب دیتے گاڑی میں جا بیٹھی۔۔۔

جبکہ آہل وہی کھڑا اس کھڑوس لڑکی کو جاتا دیکھتا رہا جس کی گاڑی پل بھر میں اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔۔۔

"عجیب کھر دماغ لڑکی تھی۔۔۔

سارے دماغ کا حلوہ بنا گئی ہے۔۔۔۔

اتنی اہم میٹنگ تھی میری آج اور اس لڑکی کا زور آور منہ۔۔۔

اففففففف۔۔۔۔

ریلیکس آہل ریلیکس۔۔۔۔"

 خود کو پرسکون کرتے آہل نے اپنا چشمہ سہی کیا اور اردگرد دیکھتے سپاٹ تاثرات لیے گاڑی میں بیٹھا اور راہ بھری۔۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

پورے راستے منہاء منہ بسورے بیٹھی رہی جبکہ ثمر نے اسے چھیڑنا مناسب نہ سمجھا۔۔۔

غصے کی تیز اور ڈاڈی اخلاق کی لڑکی سے مقابلہ کرنا ثمر کے بس میں نہ تھا کہ اس نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی۔۔۔

بلال کے بتائے ہوئے ریسٹورینٹ پہنچتے ہی دونوں اندر کی جانب داخل ہوئی جہاں پہلے سے ہی موجود بلال اس کے انتظار میں بیٹھا گھڑی کی سوئیاں گن رہا تھا۔۔۔۔

اندر داخل ہوتے ہی بلال نے دونوں کو اپنی جانب آنے کا اشارہ دیا جس پر دونوں اس کے پاس جا بیٹھی۔۔۔۔

"کیسی ہو من؟؟؟؟"

بلال اس سے پہلے کچھ پوچھتا منہاء جو تپی آتش ہوئی تھی فورا بول اٹھی۔۔۔

"یہ کیا؟؟؟؟

تین کپ کافی؟؟؟؟

تمہارا دماغ سیٹ ہے بلال جو تم نے ایک ساتھ تین کپ کافی پی لی؟؟؟؟

کیا ہوا اس کے بعد کبھی ملنے نہیں تھی کافی کیا؟؟؟

یا قیامت آجانی تھی جو ایک  ساتھ ہی انڈیل لی۔۔۔"

منہاء جس کا موڈ ابھی تک بگڑا ہوا تھا میز پر کپ کی لائن دیکھ کر سناٹ ہوئی۔۔۔

بلال نے منہاء کے چہرے کی سرخی دیکھی تو ثمر کو آنکھ کا اشارہ دیا۔۔۔۔

"کچھ نہیں محترمہ کی ابھی ابھی تازہ جنگ ہوئی ہے ۔۔۔۔

اسی کے اثرات ہے دیکھ رہے ہو۔۔۔۔

امید ہے یہ اثرات جلد اپنا اثر ختم کرے گے اور ہم پر اس کا رحم برسے۔۔۔۔"

ثمر تاسف سے بلال کو دیکھتے بولی۔۔۔

"ثمر!!!!!!"

منہاء نے سنا شدت ہوئی۔۔۔۔

"بلال تم ہی سنبھالو اسے اب۔۔۔۔

میں تو جا رہی ہو اپنی گاڑی کا علاج کروانے۔۔۔

کیونکہ اس کا علاج ہو جائے گا مگر اسکا غصہ لاعلاج ہے۔۔۔

جب فری ہو تو میسج کر دینا حاضر ہو جاؤ گی میں فورا۔۔۔"

ثمر اپنا بیگ سنبھالے فورا وہاں سے اٹھی اور چلتی بنی۔۔۔۔

ثمر کے جانے کے بعد بلال نے گہری نظر سامنے بیٹھی آگ بگولہ منہاء پر ڈالی۔۔۔۔

"منہاء!!!!!"

"ایم سوری بلال وہ میں بس۔۔۔۔

غصے میں مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا۔۔۔

جو آتا ہے منہ میں بول دیتی ہو۔۔۔۔

مجھے تم سے ایسی بات کرنی نہیں چاہیے تھی۔۔۔

میں سچ میں شرمندہ ہو۔۔۔"

منہاء غلطی تسلیم کرتے پشیمانی سے سر جھکائے بیٹھی۔۔۔

جبکہ بلال منہاء کو یوں دیکھ کر مسکراہٹ گو ہوا۔۔۔۔

"جانتا ہو تم شرمندہ ہو۔۔۔

اور میں نے یہ شرمندگی قبول کی۔۔۔۔"

بلال کے پراعتماد جواب پر منہاء نے ایک گہرا سانس بھرا اور پھر اردگرد ماحول کو دیکھنے لگی۔۔۔

جبکہ بلال تو بس اس کی نظروں کے تعاقب لگائے اسے تاڑ رہا تھا۔۔۔

"پتہ منہاء کبھی کبھی مجھے لگتا ہے مجھے محبت تم سے نہیں تمہارے غصے سے ہوئی ہے۔۔۔"

"اور اب تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے؟؟؟

کوئی خاص وجہ؟؟؟"

منہاء تجسسی ہوئی۔۔۔

"کیونکہ جب تم غصہ نہیں کرتی تو لگتا ہے کچھ ادھورا ہے نامکمل ہے۔۔۔

شکر ہے آج میرا ادھورا پن جلدی ختم ہوا۔۔۔۔

ورنہ یہ کمی مجھے رات بھر بے سکون رکھتی۔۔۔۔ "

بلال منہاء پر نظریں جمائے سپاٹ ہوا۔۔۔۔

جبکہ منہاء نے سوچ کے برعکس جواب سنا تو ہنس پڑی۔۔

"بہت ہی فضول ڈائیلاگ مارا ہے تم نے بلال۔۔۔۔"

"جانتا ہو مگر اس فضول ڈائیلاگ نے اتنی قیمتی مسکراہٹ بھی تو دی ہے ناں مجھے۔۔۔"

بلال دل سوز ہوا۔۔۔۔

"اچھا بس اس سے پہلے تم اپنا رومائینٹک انداز شروع کرو  یہ بتاؤ مجھے یہاں بلانے کی وجہ کیا ہے؟؟؟؟

کیا ہوا کوئی سیریس بات ہے جو فورا بلایا مجھے۔۔۔"

منہاء نے بلال کے جذبات کو بھانپا تو فورا متحیر ہوئی۔۔۔۔

بلال نے سنا تو فورا ہڑبڑاہٹ بھرے پیچھے کو ہوا۔۔۔

"وجہ بتاؤ گا تو ہوسکتا ہے تم میرا سر پھوڑ دو۔۔۔

بہتر ہے پہلے ہم کچھ کھا لے پیاری پیاری باتیں کر لے۔۔۔

اس کے بات وقت ہوا تو وجہ بھی بتا دونگا۔۔۔"

جبکہ منہاء اس کو سنگین نظروں سے گھورنے لگی۔۔۔

"وہ تو میں پھوڑو گی۔۔۔

کیونکہ تمہاری حرکتیں بڑھتی جارہی ہیں۔۔۔

صیحح کہتی ہے ثمر تمہاری چالاکیاں میں سمجھ نہیں پاتی ہو۔۔۔۔

اور ہر بار تمہاری باتوں میں آجاتی ہو۔۔۔"

منہاء سخت ہوئی۔۔۔

"اچھا تو یہ ثمر نے کہا تمہیں۔۔۔

اسکی تو اچھی خاصی کلاس لونگا میں۔۔۔

میرے پیچھے تمہیں بھڑکاتی ہیں یہ۔۔۔۔

بتاوء گا اسے میں۔۔۔

آنے تو دو اسے۔۔۔۔

ہماری محبت کی دشمن ۔۔۔۔"

"اس کے آنے کا بعد میںو انتظار کرنا پہلے اپنی شامت مجھ سے تو کروا لو۔۔۔۔"

منہاء نے سامنے پڑا مینیوں کارڈ بلال کے کندھے پر دے مارا۔۔

"اللہ۔۔۔۔

اللہ۔۔۔۔

لڑکی تمہیں ذرا شرم نہیں آتی اپنے ہونے والے مجازی خدا کو مارتی ہو۔۔۔"

بلال مصنوعی کراہت بھرے بولا۔۔۔

"نہیں۔۔۔

بلکل بھی نہیں۔۔۔"

منہاء نے سنا تو ایک اور ضرب اس کے کندھے پر لگائی۔۔۔۔

"نہ کرو منہاء سب دیکھ رہے ہیں یار۔۔۔

کیا سوچے گے شادی سے پہلے ہی مار کھا رہا ہے یہ تو شادی کے بعد کیا ہوگا ؟؟؟؟"

بلال روہانسی تاثرات لیے  اپنے کندھے کو دبوچے ہڑبڑایا۔۔۔

جبکہ بلال کے چہرے کو دیکھ کر منہاء اپنی ہنسی نہ روک سکی۔۔۔

اور چہرہ ہاتھوں. میں لیے ہنسنے لگی۔۔۔

"تم سے میں کبھی مقابلہ نہیں جیت سکتی۔۔۔۔

اتنا تو میں سمجھ گئی ہو۔۔۔۔"

'اور میں تمہیں کبھی ہارنے نہیں دونگا۔۔۔

اتنا تو میں بھی جانتا ہو۔۔۔۔"

بلال منہاء کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں بھرے محبت جتائے بولا۔۔۔

جس پر سامنے بیٹھی منہاء لش پش سی شرما گئی۔۔۔۔

"اچھا بس آرڈر کرو کچھ اب۔۔۔۔

بھوک لگی ہے مجھے بہت۔۔۔

اور پتہ امی بھی انتظار میں ہوگی۔۔۔

تو جلدی منگواؤ کچھ۔۔۔۔"

منہاء کو ہر بار بلال کے اقرار سے بھاگتی تھی آج بھی فورا بات بدلے بولی۔۔۔

"اصل میں چالاک میں نہیں تم ہو۔۔۔

ہر بار جذبات بدل دیتی ہو میرے۔۔۔۔

ناجانے کب اس مظلوم پر اپنا رحم ںرساؤ گی۔۔۔"

بلال نے ویٹر کو اشارہ دیا۔۔۔

"جب تم اپنی امی سے ہماری شادی کی بات کرو گے۔۔۔"

منہاء دوٹوک ہوئی۔۔۔

"ہاں یار روز کہتا ہو ان سے۔۔۔

بلاناغہ ۔۔۔

مگر آج پھر سے دوٹوک بات کرونگا میں۔۔۔

کیونکہ اب مجھ سے صبر نہیں ہوتا۔۔۔

میں خود تھک گیا ہو انتظار کر کے۔۔۔"

بلال تھکے لہجے سے بولا۔۔۔

جبکہ بلال کو یوں اداس دیکھ کر منہاء نے مزید کوئی بات کرنا مناسب نہ سمجھی۔۔۔

شام کی چادر تنی تو آسمان پر بھٹکے پرندوں کے جھڑمٹ واپس اپنی راہ کو بھرے اپنے اپنے گھونسلوں کی جانب رواں دواں ہوئے۔۔۔

ثمر اپنی گاڑی کی ڈینٹنگ پینٹنگ کروانے کے بعد منہاء کو ساتھ لیے ایک گھر کے سامنے جا رکی۔۔۔

روپوش علاقے میں موجود ایک عام سا سادہ سا مکان دیکھتے ہی ثمر نے گاڑی روکی تو منہاء اپنی چادر سے سر ڈھانپے  اپنا بیگ سنبھالے اترنے کو تیار ہوئی۔۔۔۔

"بات کی تم نے بلال سے شادی کی؟؟؟؟

کیا کہتا ہو وہ؟؟؟

اور کتنی دیر تم سے یوں چھپے مراسم رکھے گا وہ؟؟؟؟"

ثمر نے جاتی منہاء کو کشمکش بھری نظروں سے دیکھا۔۔۔

"کوشش کی تھی مگر۔۔۔۔

معلوم نہیں کب تک!!!!!"

منہاء اپنے تاثرات چھپائے گاڑی سے اتری اور دروازہ بند کیا۔۔۔

"اس کا مطلب یہ ڈیوٹی کئی مہینوں تک یا شاید کئی سالوں تک محیط ہے۔۔۔۔

وہ تمہیں یونہی مجبوریوں کی گولیاں دیتا رہے گا اور تم یونہی کھا کر انتظار کے دامن میں سوتی رہنا۔۔۔"

'تو کیا کروں۔۔۔

اس کے پاؤں پکڑ لوں۔۔۔

کہ مجھ سے شادی کر لے مجھے اپنا لے۔۔۔۔

یا اس کی امی کے سامنے چادر پھیلا دو کہ مجھے اپنی بہو بنالے۔۔۔۔

نہیں۔۔۔۔۔"

منہاء نے ثمر کا طنز سنا تو شدت ہوئی۔۔۔۔

"میں بلال کو چھوڑ سکتی ہو ثمر اپنی عزت نفس کو کچل نہیں سکتی۔۔۔۔"

"میری سمجھ سے باہر ہے یہ سب منہاء۔۔۔۔

تھک جاؤ گی تم یوں۔۔۔۔

سمجھ کیوں نہیں رہی ہو یار!!!!"

ثمر نے ایک بار پھر سمجھاتے کہا۔۔۔۔

"ابھی تو سچ میں تھک گئی ہو میں۔۔۔

بلکل اس حالت میں نہیں کہ کچھ سمجھ سکوں۔۔۔۔

گھر پہنچوں تو ایک میسج کر دینا یاد سے۔۔۔

تمہاری فکر رہتی ہے مجھے۔۔۔۔"

منہاء ایک گہری تھکاوٹ بھری سانس بھرے دروازے کی جانب بڑھی۔۔۔

جبکہ ثمر یونہی اسے دیکھتی رہی جب تک وہ اندر نہ چلی گئی۔۔۔

"ایک لمبے سفر کی مسافر ہو تم منہاء۔۔۔۔

منزل جس کی ابھی تک معلوم نہیں تمہیں۔۔۔

اور تھک ابھی سے گئی ہو۔۔۔۔

اللہ سب بہتر کرے تمہارے حق میں۔۔۔۔"

ثمر تاسف سے بولتی وہاں سے گاڑی بڑھائے چلتی بنی۔۔۔

اندر داخل ہوتے ہی پریشان کھڑی ناز بی بی سے منہاء کا سامنا ہوا تو کوئی سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیے بغیر منہاء نے جانا مناسب سمجھا۔۔۔

"کہاں رہ گئی تھی؟؟؟؟؟

کب سے انتظار میں تھی تمہارے میں۔۔۔

وقت دیکھا ہے تم نے؟؟؟؟؟"

نظر انداز کرنے کے باوجود ناز بی بی نے منہاء کے قدم روک ڈالے جن کی تاثرات پریشان کن تھے۔۔۔۔

"ثمر کی گاڑی خراب ہو گئی تھی تو بس اسی میں ہی وقت لگ گیا۔۔۔۔"

منہاء نظریں چڑائے فورا اپنے کمرے کی جانب کو لپکی۔۔۔

"جھوٹ بول رہی ہو تم!!!!!

سچ بولتی تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے جواب گو ہوتی۔۔۔

یوں بھاگتی ناں میرے سوال سے۔۔۔۔"

ناز بی بی سخت ہوئی۔۔۔۔

"امی میں تھک گئی ہو بہت۔۔۔۔

چینج کر کے آتی ہو۔۔۔۔۔

 پھر چائے ساتھ پیے گے۔۔۔۔"

منہاء نظر انداز کرتے سیدھا اندر کو بڑھی۔۔۔

جبکہ ناز بی بی اس کو بس جاتا دیکھتی رہی۔۔۔۔

(ناز بی بی زوجہ منور اسلم ایک بہت ہی باہمت خاتون تھیں۔ منور اسلم جن کا انتقال عنقریب دو سال پہلے ہو چکا تھا ناز بی بی نے ان کی وفات کے بعد منہاء کو مزید خود کے قریب کر لیا۔ اکلوتی اولاد ہونے کے ناطے وہ ہر وقت بس اس کی فکر میں صرف رہتی تھی۔ اور خود منہاء بھی ہر وقت انہی کہ فکر میں سوچ میں گھری رہتی تھی۔۔

تین کمروں پر مشتمل مکان کو ناز بی بی نے ویسا ہی رکھا ہوا تھا جیسا منور اسلم کی حیات میں سجایا ہوا تھا۔۔)

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

ایک عالیشان کوٹھی جس کا ہر کمرہ ہر جگہ اپنی دید کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ ہر جانب نوکر کی ایک فوج تیار جبکہ ہر دیوار پر کئی پرانی اور نادر تصاویر اور اشیاء کا راج تھا۔۔۔

اسی عالیشان کوٹھی میں موجود ایک اندھیرے سے بھرا کمرہ جو اس رونق زدہ کوٹھی کے مکمل برعکس تھا جس کی دیواریں اندھیرے کی وجہ سے مکمل چھپ چکی تھی وہاں ہر جانب ایک عجیب سی مایوسی ایک عجیب سا سناٹا چھایا ہوا تھا۔۔۔۔

اور پھر اچانک اس گھپت اندھیرے کمرے کے وسط میں ایک روشنی کی چنگاری ابھری۔۔۔

موبتیوں کے پیلی جگمگ کرتی روشنی نے اپنے اردگرد اجالا کیا تو ایک سیاہ پیانو کی چمک نے ایک اودھم سا مچایا۔۔

ہاتھ میں جلتے لائیٹر کی آگ کو بجھاتے آہل جو خود بھی سیاہ رنگ کی شلوار قمیض میں موجود تھا۔۔۔

سنگین اور درد بھرے تاثرات لیے وہ پیانو کے سامنے جا بیٹھا۔۔۔۔ 

آنکھوں میں کئی سوالات اور سوچ میں کئی بھنور لیے وہ اپنے انگلیوں کو اب پیانو کی چابیوں پر دھیرے دھیرے پھیرنے لگا۔۔۔

ایک ’سر سا بکھرا تو آنکھیں موندھے وہ خود بھی اس ’سر کے نشے میں مست سر گرائے جھومنے لگا۔۔۔

'سروں نے جب پورے کمرے کو لپیٹا تو آہل کے ‚سلے لب بھی اس کے ساتھ ہلنے لگے۔۔۔

"میں یوں خفا تو نہیں۔۔۔🍁

مگر گلہ ہے مجھے۔۔۔🔥

کہ بے وفا سے کوئی وفا کرے۔۔۔۔🙏

رکھا ہوا قید میں۔۔۔😑

 ہے اس کے من میں کہی۔۔۔😥

اسے کہوں دل میرا رہا کرے۔۔۔💔

اپنا بنا ۔۔۔✨

کیا فنا۔!!!!!!!💘۔

تو یہ بتاتی کیسی یہ دیوانگی۔۔۔😍

او بے وفا تیری دیوانگی۔۔۔!!!!🔥!"

آہل اپنے درد میں گم انگلیوں کے ساتھ ساتھ لبوں کو بھی جھومتے ہلا رہا تھا کہ تبھی دروازے کی دستک نے اس کے ردھم میں ایک خلل پیدا کیا۔۔۔

اور انگلیوں کے ساتھ اس کے لب بھی وہی رک گئے۔۔۔۔

"چھوٹے صاحب خان بابا بلا رہے ہیں آپ کو۔۔۔۔

آپ کے انتظار میں ہے وہ قہوہ خانے میں۔۔۔۔

بتائیں کیا پیغام دو ان کو میں آپ کی جانب سے۔۔۔"

گل افگن دروازے پر با ادب ہوا۔۔۔۔

"دادا سے کہوں آرہا ہو میں۔۔۔۔

کچھ دیر اور انتظار کی تکلیف برداشت کر لے۔۔۔۔"

آہل نے سنا تو سرخ پڑتی نظروں کو موم بتیوں کے شعلے میں جکڑے بولا۔۔۔

جبکہ گل افگن مزید کچھ کہے وہاں سے چلتا بنا۔۔۔۔

اپنی نشست سے اٹھ کر آہل نے ہاتھ میں بتیوں کے سٹینڈ کو اٹھایا اور پھر سامنے موجود ایک دیوار کی جانب اپنے قدم بڑھائے۔۔۔۔

جہاں جا بجا کئی تصویروں کا راج تھا۔۔۔۔

اور ہر تصویر میں صرف ایک ہی لڑکی چھائی ہوئی تھی جس کے مختلف پوزز میں تصویریں عیاں تھی۔۔۔۔

آہل اہستگی سے اپنا ہاتھ سامنے لگی تصویر پر جمائے مسکرایا۔۔۔۔

جس میں حسین لڑکی بڑی سے مسکراہٹ اور چمک بھری آنکھیں لیے کھڑی تھی۔۔۔

"ابھی بھی چمک ویسے کی ویسے ہی ہے تمہاری آنکھوں میں۔۔۔

جیسے تب ہوا کرتی تھی۔۔۔

بلکل نہیں بدلی تم۔۔۔۔"

آہل روشنی اس کے چہرے کے قریب کرتے زیر لب بڑبڑایا۔۔۔

"معلوم نہیں مجھے کہ تم سے شدت سے کیا کرو۔۔۔۔

نفرت کہ محبت!!!!!"

"مگر ایک بات تو میں اچھے سے جانتا ہو۔۔۔۔"

آہل نے تصویر دیوار سے اتری اور ہاتھ میں پکڑے بڑبڑایا۔۔۔

"تم کسی بھی قابل نہیں ہو۔۔۔۔

نہ میری نفرت کہ اور نہ ہی محبت کہ۔۔۔۔"

نفرت انگیز تاثرات لیے ہاتھ میں پکڑی تصویر کو آہل نے جھٹکے سے چھوڑا تو وہ زمین بوس ہوئی اور پھر کانچ کئی ٹکڑوں میں بٹ گیا۔۔۔

زخمی مسکراہٹ اور نم آنکھ سے تصویر کو ٹکڑوں میں لپٹے دیکھا تو سکون محسوس کرتے اسی پر سے بے دردی سے قدم بڑھائے وہ آگے کو بڑھا اور کمرے سے باہر کو لپکا۔۔۔۔

خود کو سنبھالے اور تاثرات درست کرتے وہ سیدھا قہوہ خانے میں داخل ہوا۔۔۔۔

جہاں پر پختونی روایتی انداز سے کمرے کو بخوبی سجایا گیا تھا۔۔۔

جبکہ وہی ایک اڈھیر عمر کا شخص سر پر پختونی پگڑی اور شلوار قمیض کے ساتھ ایک شیشوں سے بھری واسکٹ زیب تن کیے سامنے جلتے حقے کا پائپ منہ میں جمائے بیٹھا کش بھر رہا تھا۔۔۔۔

آہل اندر داخل ہوا تو سیدھا ان کی جانب بڑھا ۔۔۔

خان بابا کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے لب ان کے ہاتھوں پر جمائے وہ مہذب انداز سے سلام کرتے پیچھے ہوا ۔۔

 اور پھر سیدھا ان کے روبرو جگہ پر تکیوں سے ٹیک جمائے بیٹھ گیا۔۔۔۔

"گل افگن!!!!!!!

سامنے رکھو اس کے۔۔۔۔۔

اور دیکھ لینا زیادہ تیز نہ ہو۔۔۔

بچہ ہے ابھی یہ برداشت نہیں کر پائے گا۔۔۔۔"

خان بابا نے ایک کش بھرا تو گل افگن کو اشارہ دیا۔۔۔

"نہیں دادا مجھے نہیں پینا اپکا یہ روایتی حقہ۔۔۔۔

گل افگن  کافی لا دو مجھے۔۔۔۔

بہت تھک گیا ہو تھکاوٹ اتر جائے گی۔۔۔"

آہل نے سنا تو فورا نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔

"کیوں برخودار !!!!

ڈر گیا ہے تم خود سے۔۔۔۔

یا یقین نہیں خود پر؟؟؟؟

ہم نے تو شیر کا بچہ بنایا تم کو۔۔۔۔

تم کیوں گیڈر والا کام کرتا ہے پھر؟؟؟؟"

خان بابا نے سنا تو برجستگی سے بولے۔۔۔۔

"ایموشنل دھکا لگانا کوئی آپ سے سیکھے دادا!!!!

بھول کیوں جاتے ہیں اپکا ہی خون ہو میں اور دو قدم آگے ہی ہو آپ سے۔۔۔۔"

آہل نے سنا تو دبی مسکراہٹ ہنسا۔۔۔۔

"اچھا تو تم مانتا ہے پھر کہ ہمارا خون جاندار ہے۔۔۔۔"

خان بابا مسکرائے۔۔۔

"تو دیر کیوں کرتا ہے گل افگن رکھوں چھوٹے صاحب کے سامنے دیکھتا ہے ہم کہ کیسے نہیں پیتا یہ!!!!"

"لے آؤ گل افگن بات اب دادا کی آن پر پہنچ گئی ہے۔۔۔۔"

آہل نے فخریہ انداز سے بولا اور پھر افگن کے حقہ رکھنے پر ایک گہرا کش بھرا۔۔۔۔

خان بابا جو اسے عقابی نظروں سے گھور رہے تھے اب اس کے چہرے کے تاثرات پڑھنے لگے۔۔۔۔

"تم باز نہیں آئے گا مطلب ؟؟؟؟

ہماری کسی بات کا تم کو سمجھ نہیں آتا !!!!

ایسا کیوں ہے آہل؟؟؟"

خان بابا سنجیدہ ہوئے۔۔۔۔

"میں کچھ سمجھا نہیں دادا؟؟؟

کونسی بات کیا مطلب؟؟؟؟"

آہل تذبذب ہوا۔۔۔۔

"تم کیوں اس کمرے میں جاتا ہے۔۔۔۔

بارہا منع کیا ہے ہم نے تم کو۔۔۔

کیوں نہیں مانتا کہ وہ بدکردار عورت تھا وہ تم سے بس اپنا دل بہلا رہا تھا۔۔۔۔"

"دادا میرے خیال سے مجھے یہاں سے چلنا چاہیے ۔۔۔۔

بہت وقت ہو رہا ہے آپ بھی آرام کر لے۔۔۔۔"

آہل نے سنا تو فورا نظریں چڑائے سرد لہجے سے اٹھا۔۔۔۔

"بھاگ جانا ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتا آہل۔۔۔۔

اور تم بھاگ رہا ہے تبھی تم بے حال ہے۔۔۔۔

ہم بس چاہتا ہے کہ اب تم آرام کرے اور کہیں رک جائے۔۔۔۔

وہ تمہارا نہیں تھی یہ بات مان جاؤ۔۔۔

وہ اپنی دنیا میں خوش ہے اس بات کو تسلیم کر لو۔۔"

"وہ چھوڑ گئی مجھے۔۔۔۔

مجھ سے دغا کیا۔۔۔۔

میں سب مانتا ہو ۔۔۔"

آہل پلٹا اور خان بابا کے روبرو ہوا۔۔۔۔

"مگر اس کی وجہ سے مجھ میں اعتبار کرنے کی حس ختم ہوگئی ہے۔۔۔۔

اس کے لیے اسے کبھی معاف نہیں کرونگا میں دادا۔۔۔"

آہل سنگین ہوا۔۔۔۔

"میں اسے یاد رکھنا چاہتا ہو۔۔۔

تاکہ میں کسی کو اب خود تک رسائی نہ دو۔۔۔۔"

"بیٹھو واپس۔۔۔

بات کرنا ہے تم سے کچھ ۔۔۔۔۔"

خان بابا نے سنا تو آہل کو واپس بیٹھنے کا اشارہ دیا۔۔۔۔

جس پر مزید کوئک مذمت کیے واپس اپنی نشست پر براجمان ہوا۔۔۔

"دوپہر کو تم سے بات کی تو تم کسی سے لڑ رہا تھا۔۔۔

تو بتاؤ کون لڑکی تھا وہ جس سے جھگڑ رہا تھا تم۔۔۔۔

کون تھا جو تمہاری اس قدر کر رہا تھا کہ تم کو خاموش کروا گئی۔۔۔۔"

خان بابا  اپنے شرارتی لہجے اپنائے ٹیڑھی نظروں سے آہل کو دیکھنے لگے۔۔۔۔

آہل جو ان کی بات اچھے سے سمجھ گیا تھا ناسمجھی کا ڈرامہ رچائے تاثر دیا۔۔۔۔

"جو بھی تھا وہ اخیر تھا۔۔۔۔

پہلی بار کسی نے تمہاری بولتی بند کروایا تھا سن کر بہت اچھا لگا ہمیں۔۔۔۔"

خان بابا بول رہے تھے جبکہ آہل کو بھی سن کر خود پر ہنسی سے آ رہی تھی۔۔۔۔

"عجیب باگڑ بلی مانند لڑکی تھی دادا۔۔۔

بس فرق پنجہ مارنے کا تھا باقی وہ کاٹ کھانے کو تیار تھی مجھے۔۔۔۔"

آہل متحیر  قہقہ گو ہوا۔۔۔۔

جبکہ خان بابا وہی بیٹھے دھواں اڑائے آہل کے قہقے کو محسوس کرنے لگے۔۔۔۔

آہل کو آج اتنے عرصے بعد کو ہنستا دیکھ کر خان بابا کی سوچ کئی جگہ گھومی۔۔۔

جبکہ آہل اسے قہقے کو سمیٹے اٹھا اور وہاں سے چلا گیا۔۔۔

( آہل خان ، خان انڈسٹری کا اکلوتا وارث جبکہ خانم کوٹھی کا اکلوتا چشم چراغ اور خان بابا کی انکھوں کی ٹھنڈک اور محبت بھرا تارا تھا۔ والدین کی علیحدگی کے بعد خان بابا نے آہل کو بٹنے سے بچانے کیلئے اسے اپنی تحویل میں لیا اور اپنی الفت میں پالا اور اسے صیحح اور غلط کی بہترین تمیز سیکھائی۔)

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

بلال اپنے کمرے میں بیٹھا آفس کے کسی کام کو لیے لیپ ٹاپ پر مصروف تھا جب نغمہ بیگم پھوں پھاں کرتی اندر کو بڑھی۔۔۔۔

"کہاں گئے تھے تم؟؟؟؟؟

کس سے مل کر آرہے ہو ۔۔۔۔

اسی چڑیل سے ناں جس نے تمہیں اپنا گرویدہ بنا کر رکھا ہے۔۔۔

کتنی بار منع کیا ہے تمہیں میں نے کہ اس سے نہ ملا کرو۔۔۔

سمجھ نہیں آتی تمہیں ایک بار میں۔۔۔"

نغمہ بیگم کمر پر ہاتھ جمائے طیش کدہ ہوئی۔۔۔

"امی کیا ہو گیا ہے آپ کو؟؟؟؟

کیوں ہر وقت اس کے پیچھے پڑی رہتی ہے آپ۔۔۔۔

اور کیوں نہ ملوں میں اس سے۔۔۔

منگیتر ہے میری وہ محبت کرتا ہو اس سے میں۔۔۔"

بلال نے سنا تو لیپ ٹاپ دوسری جانب جمائے جوابدہ ہوا۔۔۔۔

"میں نہیں مانتی اسے تمہاری منگیتر ۔۔۔۔

اور جلد رشتہ ختم کردونگی اس سے تمہارا میں۔۔۔

اس لیے اپنے دماغ سے نکال دو کہ تمہاری شادی ہوگی اس کے ساتھ۔۔۔

کیونکہ میں ایسا ہونے نہیں دونگی۔۔۔۔"

نغمہ بیگم زہر آلود ہوئی۔۔۔

"کیوں نہیں ہوگی اس سے شادی میری۔۔۔۔

اور کیوں نکالو میں اسے اپنی زندگی سے اپنے دماغ سے۔۔۔

وہ ایک سال سے میرے نام پر بیٹھی ہے امی ۔۔۔۔۔

میں اسے اب اتنی دور لا کر چھوڑ نہیں سکتا ہو۔۔۔۔

آپ یہ بات سمجھ لے کہ شادی تو میں اس سے ہی کرونگا۔۔۔

چاہے جو مرضی ہوجائے۔۔۔"

بلال سخت گو ہوا۔۔۔۔

"اچھا تو چاہے تیری ماں مر جائے۔۔۔

تیرے بہن بھائی لاوارث ہوجائے۔۔۔۔

ہائے ہائے کیا کالا جادو کر دیا ہے اس ڈائن نے میرے بیٹے پر کہ ماں کے سامنے کھڑا ہو گیا ہے۔۔۔۔"

نغمہ بیگم بین ڈالے رونے لگی۔۔۔

جبکہ بلال ان کی اس ڈرامہ بازی کو اچھے سے سمجھتا تھا بس سر پر ہاتھ رکھے ہلانے لگا۔۔۔

"بس کردے امی۔۔۔۔

کوئی کالا جادو نہیں اس کی جانب سے۔۔۔

یہ بس اپنا وہم ہے اپکا گمان ہے۔۔۔۔

وہ بہت اچھی لڑکی ہے امی۔۔۔

کیوں نہیں سمجھتی آپ!!!!"

"اچھا تو اب ماں غلط بھی لگنے لگی ہے۔۔۔۔

اور وہ اچھی بن گئی ہے۔۔۔

ضرور اس نے تجھے کچھ کھلا دیا ہے تبھی تو ایسے بول رہا ہے اپنی ماں کے سامنے۔۔۔

اللہ یہ دن دکھانے سے پہلے موت کیوں نہ اگئی مجھے۔۔۔۔

اس دن کیلئے پالا تھا تجھے میں نے کہ زندگی کا اہم فیصلہ تو خود کر جائے اور ماں کو مکھی کی مانند نکال پھینکے۔۔۔"

نغمہ بیگم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔

"بس کردے امی۔۔۔۔

میں آگے ہی بہت پریشان ہو ۔۔۔۔

سکون کرنے دے مجھے۔۔۔۔

نہیں تو میں خود چلا جاتا ہو یہاں سے۔۔۔۔"

بلال بگڑے موڈ سے اٹھا اور کمرے سے چلتا بنا۔۔۔

"ہاں ہاں اب تو ماں بے سکون ہی کرے گی تجھے۔۔۔۔

بیڑہ غرق ہو منہاء تیرا۔۔۔۔

بیٹے کو ماں کے سامنے کھڑا کر دیا منحوس نے۔۔"

نغمہ بیگم بدگوئیاں بھرتے بولی۔۔۔

"دیکھتی ہو میں کیسے ہوتی ہے تیری شادی اس چڑیل سے۔۔۔

بھوکے ننگے لوگ نہ ہو تو ایک سونے کے بوندے تک تو دے نہ سکے وہ مجھے۔۔۔۔

اور میں اپنا سونا اگلتا بیٹا اسے تھما دو۔۔۔

ہرگز نہیں۔۔۔"

نغمہ بیگم بلال کے پیچھے کو چنگاری۔۔۔

"میں بھی دیکھتی ہو کیسے وہ آتی ہے میرے گھر۔۔۔

امیر کبیر لڑکی جچتی میرے بیٹے کے ساتھ۔۔۔۔

بڑی ائی میری بہو بننے والی۔۔۔

ہہہہہہہ۔۔۔۔!!!"

اور پھر پاؤں پٹختے وہاں سے چلی گئی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء چینج کر کے آئی تو چائے بنا کر سیدھا ناز بی بی کے کمرے میں داخل ہوئی جہاں وہ عشاء کی نماز کی ادائیگی کر رہی تھی۔۔۔

منہاء نے دیکھا تو خاموشی سے بیڈ پر جا کر براجمان ہوگئی اور موبائل استعمال کرنے لگی۔۔۔۔

ناز بی بی نے سلام پھیرا اور دعا کرنے کو ہاتھ اٹھائے۔۔۔

دعا کرتے ہی اٹھی جائے نماز طے کی اور پھر دعائیاں کلمات پڑھتے منہاء پر پھونک مارنے لگی۔۔۔۔

"کتنی دعائیاں کرتی ہیں ناں آپ میرے لیے امی۔۔۔۔

اثر کیوں نہیں کرتی مجھ پر پھر؟؟؟؟"

منہاء سوالیہ نظروں سے دیکھتے بولی۔۔۔

"ایسا نہیں کہتے منہاء۔۔۔۔

ہر کام کا اپنا ایک وقت ہوتا ہے اور دعا اسی وقت قبول ہوتی ہے جب وہ وقت آن پہنچتا ہے۔۔۔۔

اس طرح کی باتیں بد گمانی پیدا کرتی ہیں۔۔۔

اور بدگمانی انسان کو گمراہ کرتی ہے۔۔۔"

ناز بی بی منہاء کے روبرو بیٹھی تو منہاء نے چائے ان کی جانب بڑھائی۔۔۔۔

"ہمممم ٹھیک کہہ رہی ہے آپ!!!!"

"میں تو ٹھیک کہہ رہی ہو مگر اب تم بتاؤ۔۔۔

بلال کی امی کا کیا ارادہ ہے؟؟؟؟

کیوں وہ تم دونوں کی شادی کی بات نہیں کر رہی۔۔۔

اور کرنا عرصہ چاہیے انہیں۔۔۔

ایک سال تو گزر چکا ہے اب۔۔۔"

ناز بی بی برجستگی ہوئی۔۔۔

"امی معلوم نہیں مجھے۔۔۔

مجھے نہیں سمجھ آتی وہ کیا چاہتی ہے۔۔۔۔

اور نہ ہی میں بلال کو اس حوالے سے فورس کرتی ہو۔۔۔"

منہاء متحیر ہوئی۔۔۔۔

"تمہارے چچا ائے تھے آج۔۔۔

ایک بار پھر اپنے بیٹے کا رشتہ ڈالنے تمہارے لیے۔۔۔۔"

ناز بی بی تاسف ہوئی۔۔۔

"بہت مشکل سے بھیجا انہیں ناجانے کیا کیا بہانے بنائے میں نے ان کے سامنے۔۔۔۔"

"کیا؟؟؟؟

چاچوں نصیر ائے تھے؟؟؟

اور آپ مجھے اب بتا رہی ہے؟؟؟؟"

منہاء کا لہجہ ایک دم سخت ہوا۔۔۔۔

"اور ان کی ہمت کیسے ہوئی اپنے اس سانڈ نکھٹو بیٹے کیلئے میرا رشتہ لانے کی۔۔۔۔

شکل دیکھی ہے اس نے اپنی انڈین فلموں کا گندہ گنڈا۔.."

منہاء نے عجیب سا منہ بسورے نقشہ کھینچا۔۔۔

"پہلے بتاتی تو کیا کر لیتی تم۔۔۔

 جانتی ہو ناں میں نے پورے خاندان سے چھپا کر رکھا ہے تمہارا رشتہ۔۔۔۔

مگر اب باتیں زور پکڑ رہی ہے۔۔۔۔

تمہارے باپ کی اچانک موت نے پورے خاندان کو ہم پر جھکاؤ کا موقع دیا تھا ۔۔۔۔"

اور اب وہ زور آور ہے۔۔۔

"میں کرتی ہو بات چاچوں سے۔۔۔۔

ان کو کتنی بار کہا ہے کہ مت آیا کرے ہمارے گھر۔۔۔

ابا کی زندگی میں تو ہوش نہ تھی ہماری اور اب اس مکان اور دکانوں کے پیچھے رشتے داری یاد آرہی ہے ان کو۔۔۔"

منہاء نے سنا تو غصے سے بپھڑ گئی۔۔۔۔

"بات ان سے نہ کرو۔۔۔

اگر کرنی ہے تو بلال سے کرو۔۔۔

کیونکہ اب میں اور انتظار نہیں کرنے والی۔۔۔

اس کی ماں کا رویہ مجھے بہت کچھ پہلے ہی سمجھا چکا ہے۔۔۔

مگر بس بلال کی ضد اور تمہاری خوشی کی وجہ سے میں نے رشتہ حامی میں بھرا۔۔۔۔"

ناز بی بی پریشان کن ہوئی۔۔۔۔

جبکہ منہاء کے پاس کسی بات کا کوئی جواب نہ بنا۔۔۔۔

اور پھر خاموشی سے بناء کوئی جواب دیے وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور کمرے سے باہر چلی گئی۔۔۔

جبکہ کوئی جواب نہ پا کر ناز بی بی مزید الجھن کا شکار ہوئی۔۔۔۔

پوری رات بے چینی اور اضطرابی سے گزارنے کے بعد منہاء ایک اہم فیصلے کا عندیہ  کرتے صبح کو بیدار ہوئی۔۔۔۔

اور بناء ناشتہ کیے کہیں جانے کی تیاری کرنے لگی۔۔۔

منہاء کی بھاگ دور دیکھی تو ناز بی بی اس کی جانب بڑھی۔۔۔

"صبح صبح کس بات کی تیاری ہے منہاء؟؟؟؟

کہیں جا رہی ہو کیا؟؟؟"

"جی امی میں نے جاب کرنے کا سوچا ہے۔۔۔

یوں گھر پر بیٹھی رہی تو لگتا ہے کہ میرا دماغ پھٹ جائے گا یا میں عنقریب پاگل ہوجاؤ گی۔۔۔"

منہاء اپنے ضروری کاغذات ٹٹولے بولی۔۔۔

"اور مجھے یہ بتانا مناسب نہیں سمجھا تم نے۔۔۔

کیا اب ہر فیصلہ تم خود سے کروگی؟؟؟

کیا ماں کی رائے کی کوئی قدر نہیں رہی؟؟؟؟۔۔۔"

ناز بی بی ناگوار ہوئی۔۔۔

"امی بڑی ہوگئی ہو میں اب۔۔۔۔

خوداختیار ہو۔۔۔

سمجھ دار ہو اچھے برے کا فیصلہ اچھے سے کر سکتی ہو۔۔۔

اور ویسے بھی میں اب مزید خود کو دیمک ذدہ نہیں کرنا چاہتی۔۔۔

اباں نے اتنی خواہش سے مجھے پڑھایا تھا اب اسکا کچھ تو فائدہ اٹھاؤ میں۔۔۔"

منہاء بول رہی تھی جبکہ ناز بی بی بس اس کی افراتفری دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

"ہاں ہیلو ثمر!!!!!"

منہاء نے فورا ایک نمبر ملایا اور فون کان سے لگایا۔۔۔

"ہاں میں تیار ہوگئی ہو۔۔۔

سب ضروری کاغذات بھی رکھ لیے ہیں۔۔۔

اب تم آؤ گی لینے مجھے یا میں خود پہنچ جاؤ گی اس آفس پر۔۔۔۔"

منہاء اپنا بیگ تیار کیے تاسف ہوئی۔۔۔

جبکہ ناز بی بی جو بے بسی کی تصویر بنی کھڑی تھی فورا کیچن کی جانب بڑھی اور دودھ کا ایک عدد آدھ گرم ٹھنڈا گلاس اٹھائے اس کے روبرو ہوئی۔۔۔

"ہاں اچھا ٹھیک ہے میں نکل رہی ہو تم بھی نکل آؤ۔۔۔

پھر وہی ملاقات ہوگی تم سے۔۔۔"

منہاء نے دودھ کو نظر بھر دیکھا اور نفی میں سر ہلائے شیشے کی جانب بڑھی۔۔۔۔

"دودھ تو پی لو منہاء۔۔۔۔"

"امی بلکل دل نہیں ہے میرا۔۔۔۔

میں وہاں پہنچتے ہی اپکو فون کردونگی۔۔۔

اور پلیز میرے حوالے سے پریشان نہ ہونا آپ۔۔۔۔"

منہاء تیزی سے ان کی جانب بڑھی اور پیشانی پر بوسہ دھڑے فورا دروازے کی جانب لپکی۔۔۔۔

"بلال سے پوچھا ہے تم نے !؟؟؟

یا اسے بھی میری طرح بے خبر رکھا ہوا ہے۔۔۔۔"

ناز بی بی کے اس سوال نے منہاء کے جاتے قدم روکے۔۔۔

"میری زندگی ہے یہ امی۔۔۔

ابھی اسکا کوئی حق نہیں اس پر۔۔۔۔

آزاد ہو میں اپنے فیصلوں اور فعل دونوں میں۔۔۔

اور مناسب نہیں سمجھتی اسے کچھ بھی بتانے کو۔۔۔"

منہاء بے رخی اپنائے گو ہوئی۔۔۔

"چلتی ہو اب امی دعا کیجئے گا کہ جو بچا کچا میرا نصیب ہے وہ اس جاب پر لگ جائے۔۔۔۔"

منہاء کہتے دروازے سے باہر کو بڑھی۔۔۔

جبکہ ناز بی بی اس طوفانی صورتحال کو ہکا بکا دیکھتی رہی اور سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

نیوی بیلو تھری پیس میں ملبوس آہل اپنے کمرے سے نکلتے سیدھا لاونچ کی جانب ہوا جہاں پہلے سے موجود خان بابا قہوہ نوش کر رہے تھے۔۔۔

"السلام علیکم دادا!!!!!"

آہل کف کے بٹن بند کرتے فورا ان کی جانب جھکا۔۔۔۔

"وعلیکم السلام!!!!

کیسا ہے تم برخودار؟؟؟"

خان بابا انسیت گو ہوئے۔۔۔

"میں ٹھیک ہو دادا۔۔۔

آپ سنائیے کیسے ہیں آپ؟؟؟"

آہل نے سامنے پڑے اخبار کو اٹھایا اور مطالعہ کرنے لگا۔۔۔

"رات ٹھیک سے گزرا تمہارا کہ نہیں؟؟؟۔۔۔۔

بہت پریشان اور کوفت ذدہ تھا تم کل رات۔۔۔۔

ہم تمہاری وجہ سے بہت تشویش میں رہا پوری رات ۔۔۔"

خان بابا سنجیدہ ہوئے۔۔۔

"اور ایسا کیوں ہے دادا؟؟؟؟

مجھے کیا ہونا تھا میں تو بلکل ٹھیک تھا بلکہ ہو۔۔۔"

آہل نے سنا تو فورا اخبار رکھے ان کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔

" محسوس ہوا مجھے کہ اس لڑکی کی وجہ سے تم خاصا پریشان ہو گیا تھا۔۔۔

اور یقین تھا کہ تم پوری رات بے سکون رہا ہو گا!!!"

خان بابا کا لہجہ سرد ہوا۔۔۔

"کون لڑکی۔۔۔؟؟؟

کس کی بات کر رہے ہیں آپ کچھ سمجھا نہیں میں دادا؟؟؟؟"

آہل نے پاس کھڑے گل افگن کو اشارہ دیا جو فورا اس کیلئے ایک کپ کافی لانے کو بڑھا۔۔۔۔

"وہی جس نے تمہارا کل اخیر کیا تھا۔۔۔۔"

خان بابا نے آہل کے مزاج کو دیکھا تو فورا بات بدلے قہقہ گو ہوئے۔۔۔

جبکہ آہل جو کسی اور سوچ کو لیے بیٹھا تھا سن کر مطمئن انداز سے پیچھے کو ہوا۔۔۔

"بھول جائے دادا اسے۔۔۔۔

وہ بس ایک حادثہ تھا اور غلطی بھی میری ہی تھی۔۔۔

آپ نے تو وہ بات ہی پکڑ لی ہے۔۔۔

ناجانے کب تک آپ کے مذاق کا حصہ رہے گا وہ واقعہ۔۔۔۔"

گل افگن نے فورا کپ آہل کے سامنے رکھا جو ایک چسکی بھرے خان بابا کو دیکھنے لگا۔۔۔

"ہم کو بھولتا نہیں ہے وہ یقین جانو آہل۔۔۔

ہمارا ہنسی نہیں رکتا جب جب سوچتا ہے تمہاری اس صورت کا۔۔۔

بہت ہی نڈر اور شیر دل لڑکی تھا تمہارا نام جان کر بھی تمہارے دبدبے میں نہیں آیا وہ۔۔۔

مجھے تو ایسا لگا جیسے تمہاری دادی اگیا ہے جنت سے۔۔۔"

خان بابا خوشدلی سے متحیر ہوئے۔۔۔۔

"کیا دادو بھی اپکو ایسی ہی ڈاٹتی تھی؟؟؟

کبھی ذکر نہیں کیا آپ نے اس متعلق!!!!"

آہل نے سنا تو دلچسپی لیے بولا۔۔۔۔

"مرد اپنی عزت کبھی کسی کے سامنے عیاں نہیں کرتا جو اس کی بیوی بند کمرے میں اس کی دل لگا کر کرتا ہے۔۔۔

اور یہ بات تمہیں تب سمجھ میں ائے گا جب تم ہم سے یہ باتیں چھپایا کرے گا۔۔۔"

خان بابا کے چہرے پر شرارت ابھری۔۔۔

"اففففففف دادا سیریسلی آپ کہیں سے نہیں لگتے کہ آپ اسی سال کے بوڑھے ہے۔۔۔"

"مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔۔۔

اور میں ابھی بھی جوان جوشیلا ہو۔۔۔۔

مگر ایک تم ہی ہے جو ہم کو بار بار اس بات کا احساس دلواتا ہے"

خان بابا نے آہل کی بات سنی تو اپنے زور بازو دکھائے جوشیلے ہوئے۔۔۔

"جی جی بلکل۔۔۔۔

آپ کی جوانی کبھی غروب نہ ہو۔۔۔

مگر میرا وقت ابھی گزر رہا ہے دادا۔۔۔۔

چلتا ہو اب بہت ضروری میٹنگ ہے میری آج۔۔۔۔

شام کو ملاقات ہوتی ہے پھر۔۔۔"

آہل قہقہ آور ہوتے اٹھا۔۔۔

'گل افگن گاڑی نکالواؤ میری فورا۔۔۔۔"

آہل کا حکم ملتے ہی افگن باہر کی جانب بھاگا۔۔۔

"آج میں بھی تمہارے آفس آؤ گا۔۔۔۔

گھر رہ رہ کر تھک گیا ہے۔۔۔۔

دیکھنا چاہتا ہے تم کس قدر ترقی کررہا ہے۔۔۔۔"

خان بابا ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے متحیر ہوئے۔۔۔

"ٹھیک ہے دادا آنے سے پہلے اطلاع ضرور کیجئے گا تاکہ میں تب تک خود کو فری کر لو۔۔۔۔"

آہل نے اپنا کوٹ جھٹکے سے چڑھایا اور باہر کی جانب ہوا۔۔

"ہاں ٹھیک ہے 

پھر ملتے ہیں آفس میں ہی۔۔۔۔

فی ایمان اللہ۔۔۔"

آہل جا چکا تھا جبکہ خان بابا وہی بیٹھے اپنے قہوے کی چسکیاں بھرنے لگے۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"تو تم نے بلال کو نہیں بتایا کہ تم جاب کرنا چاہتی ہو؟؟؟؟"

ثمر گاڑی کو اچانک بریک لگائے حیرت ذدہ ہوئی۔۔۔

"اب تم بھی امی کی طرح شروع مت ہو جانا پلیز۔۔۔۔

گاڑی چلاؤ ہم آگے ہی بہت لیٹ ہو گئے ہیں۔۔۔۔"

منہاء لاپرواہی سے بولی۔۔۔

"یار تم غلط کررہی ہو۔۔۔۔

یہ سب کرنے سے صرف وہ تم سے دور ہوگا اور کچھ نہیں۔۔۔

جانتی ہو اسی جاب کرنے والی لڑکیاں نہیں پسند۔۔۔

تو کیوں خود کے ساتھ نانصافی کر رہی ہو؟؟؟"

ثمر شکن ذدہ ہوئی۔۔۔

"وہ دور ہو رہا ہے ثمر۔۔۔۔

میں جب جب شادی کی بات کرتی ہو وہ پریشان سا ہوجاتا ہے۔۔۔۔

مجھے سمجھ نہیں آتی پھر امی کو مطمئن کیسے کرو اور بلال کی پریشانی کا جواب کیا دو۔۔۔۔

بہتر ہے میں جاب ہی کر لو۔۔۔۔

تاکہ دونوں کے سوالات کا جواب ہی نہ دینا پڑے مجھے۔۔۔"

منہاء اکتاہٹ ذدہ ہوئی۔۔۔

"پتہ نہیں کیا کرنا چاہتی ہو خود کے ساتھ۔۔۔۔

خیر دعا ہے جو ہو اچھا ہی ہو۔۔۔۔"

ثمر کہتے ساتھ ہی سامنے سڑک پر نظر جمائے گاڑی چلانے لگی۔۔۔۔

کہ تبھی ساتھ بیٹھی منہاء کی نظر سڑک کنارے کھڑی ایک گاڑی پر پڑی جہاں ایک بزرگ آدمی گاڑی سے باہر فٹ پاتھ پر بیٹھے لمبے لمبے گہری سانس بھر رہا تھا۔۔۔۔

"ثمر!!!!!

ثمر گاڑی روک یار۔۔۔۔

وہ دیکھ لگتا ہے ان انکل کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔۔"

منہاء نے بے چینی سے ثمر کو اس جانب متوجہ کروایا۔۔۔

تو ثمر نے فورا گاڑی اس کنارے روکی۔۔۔

دونوں ہی فورا بزرگ کی جانب بھاگی جو شلوار قمیض میں ملبوس اپنے سینے پر زور زور سے ہاتھ مار رہا تھا اور ہانپ بھی رہا تھا۔۔۔۔

"انکل آپ ٹھیک تو ہے ناں؟؟؟؟"

منہاء فورا بزرگ کے سامنے جھکی۔۔۔۔

"میں پانی لاتی ہو منہاء۔۔۔۔"

ثمر نے حالت کی خرابی دیکھی تو فورا اپنی گاڑی کی جانب بھاگی۔۔۔۔

"سانس!!!!!"

وہ شخص اپنے سینے پر ہاتھ دھڑے بمشکل مدہم آواز ہوا۔۔۔۔

"یہ لے صاحب جی!!!!!

پانی!!!!

میں نے چھوٹے صاحب کو فون کردیا ہے۔۔۔

وہ بس آ ہی رہے ہونگے۔۔۔۔"

ڈرائیور جو کہیں سے پانی کی بوتل لیے بھاگا آیا تھا سانس پھولائے بولا۔۔۔

"آپ ان کے؟؟؟"

"میں ڈرائیور ہو انکا۔۔۔

آفس لے کر جا رہا تھا جب ان کی طبیعت خراب ہوئی۔۔۔

مگر میں نے ان کے پوتے کو فون کردیا ہے وہ بس آ ہی رہے ہونگے۔۔۔۔"

منہاء کے پوچھنے پر وہ ادراک کیے ہوا۔۔۔

"دیکھیے ان کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔۔

آپ کے صاحب ناجانے کب ائے۔۔۔

بہتر ہے آپ انہیں گاڑی میں بیٹھائے ان کو ہسپتال لے کر چلے۔۔۔

میں چلتی ہو آپ کے ساتھ۔۔۔۔

جلدی کرے۔۔۔۔"

منہاء نے حالت کی نازکی دیکھی تو فورا گو ہوئی۔۔۔

"مگر منہاء؟؟؟؟؟"

ثمر نے سنا تو فورا روکنے کو بڑھی۔۔۔

"ثمر میرا سامان دے دو مجھے اور ہاں تم پہنچوں اس آفس میں ۔۔۔۔

میں آتی ہو کچھ دیر میں بس۔۔۔۔"

منہاء ڈرائیور کے ساتھ مل کر بزرگ کو گاڑی کی جانب لے کر چلی۔۔۔۔

جبکہ ثمر منہاء کی بات سن کر اس کی فائلز اس کی جانب لے کر بڑھی۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں منہاء دوسری گاڑی میں ان بزرگ کے ساتھ سوار وہاں سے نکلی۔۔۔۔

جبکہ اس کے جاتے ہی ثمر بھی اپنی منزل کی جانب ہوئی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل جو ایک میٹنگ کی بریفنگ کو سننے میں مصروف تھا۔۔۔

کہ تبھی ریسپشنسٹ تیزی سے کمرے کا دروازہ کھولے اس کی جانب کو بھاگی۔۔۔

اور فورا اس کے قریب جھکتے اہستگی سے بولی۔۔۔

جیسے جیسے آہل سن رہا تھا اس کے چہرے کے تاثرات یکسر بدل رہے تھے۔۔۔

فورا اپنا موبائل اٹھائے وہ افراتفری اور پریشانی بھرے تاثرات لیے دروازے کی جانب لپکا۔۔۔

جبکہ میٹنگ میں موجود ہر شخص اس کی اس حرکت کو حیرانگی سے دیکھ رہے تھے۔۔۔

آفس سے بے ہنگم نکلتے ہی سیدھا رخ گاڑی کی جانب کیا اور ہڑبڑاتے ہوئے وہاں سے نکلا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء وارڈ روم کے باہر ہی کھڑی مبہم ہوتے چکر کاٹ رہی تھی جب باہر آتے ڈاکٹر کو دیکھتے ہی وہ فورا ان کی جانب بڑھی۔۔۔۔

"سب ٹھیک تو ہے ناں؟؟؟

کیا کوئی سیریس بات یا کوئی مسئلہ؟؟؟؟"

منہاء پریشان کن ہوئی۔۔۔

"نہیں کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔۔۔۔

عمر کا تقاضا ہے اور ساتھ ان کو سانس کا بھی شدید مسئلہ ہے۔۔۔

شاید یہ بہت سگریٹ نوشی کرتے ہیں تبھی یہ مسئلہ حد تک بھر رہا ہے۔۔۔"

ڈاکٹر نے ساری صورتحال سامنے واضح کی۔۔۔

"اپ کیا لگتی ہے ان کی؟؟؟۔۔۔

دراصل ہسپتال کا فارم فل کرنا ہے تو آپ بتا دے۔۔۔

تاکہ میں ریسپشنسٹ تک انکا فارم اور ادویات پہنچا دو۔۔۔"

"دراصل میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔

یہ تو بس راستے میں مجھے ملے تو میں یہاں لے ائی ہو انہیں۔۔۔۔

مگر ان کے ڈرائیور نے ان کے گھر والوں کو اطلاع کردی ہے۔۔۔۔

وہ آ ہی رہے ہونگے یہاں۔۔۔"

منہاء تاسف سے بولی۔۔۔

"چلیں ٹھیک ہے پھر۔۔۔

میں انکی فائل تیار کروا دیتا ہو۔۔۔۔

 باقی پریسکرپشن میں ان کی فیملی کو دے دونگا۔۔۔"

ڈاکٹر کہتے ساتھ ہی وہاں سے چلتا بنا۔۔۔

جبکہ منہاء وارڈ کی جانب ہوئی اور دروازے کے شیشے سے اندر پرسکون آنکھیں موندھے لیٹے بزرگ کو دیکھنے لگی۔۔۔

کہ تبھی منہاء کا فون بجا۔۔۔۔

"ہاں ثمر بول؟؟؟"

"یار کہاں رہ گئی ہے تو۔۔۔۔

پتہ ہے یہاں انٹرویو شروع ہو چکا ہے۔۔۔

اور تیرا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔۔۔"

"ہاں یار بس آرہی ہو۔۔۔

نکل رہی ہو بس یہاں سے۔۔۔

تم مجھے اس جگہ کا ایڈریس بھیج دو میں جتنی جلدی ہوسکا وہاں پہنچ جاؤ گی۔۔۔۔"

ثمر سے بات کرتے ہی منہاء نے فون کاٹا اور فورا وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی۔۔۔

وقت کی قلت اور جگہ کی دوری کی وجہ سے منہاء نے سیڑھیوں کا انتخاب کرنے کی بجائے لفٹ میں جانا مناسب سمجھا۔۔۔۔

مگر اپنی افراتفری میں موبائل میں مگن جیسے ہی وہ لفٹ کی جانب بڑھی تو باہر نکلتے ایک بے ہنگم وجود سے بری طرح ٹکرا سی گئی۔۔۔

کہ اس طوفان سے بے خبر وہ لڑکھڑائی اور زمین پر جا مدہم ہوئی۔۔۔

"آوچ!!!!!!!!"

زمین پر گرتے ہی منہاء کے منہ سے ایک کراہ سی نکلی۔۔۔

"میرا پاؤں!!!!!"

"ایم !!!!

ایم ریلی سوری!!!!

مجھے پتہ نہیں چلا۔۔۔۔

میں بس جلدی میں تھا۔۔۔

اپکو زیادہ تو نہیں لگی۔۔۔۔"

آہل ہڑبڑاتے اس کی جانب اضطرابی کیفیت سے جھکا۔۔۔

"نہیں کوئی بات نہیں!!!!!!"

منہاء نے خود پر جھکے وجود کو دیکھا تو ہکا بکا سی اسے داسہم ہوتے دیکھنے لگی۔۔۔۔

"تم!!!!!!!

تم یہاں بھی!!!!"

آہل جو اپنی ہی پریشانی میں گم تھا آواز سنتے ہی سامنے بیٹھی بپھڑی شیرنی کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔۔

"نہیں پھر سے نہیں۔۔۔۔

اففففففف یہ لڑکی پھر سے نہیں۔۔۔۔"

آہل نے منہاء کو دیکھا  تو نفی میں سر ہلائے چہرے پر ہاتھ جمائے بھونچکا۔۔۔

منہاء نے خود پر جھکے  آہل کو دیکھا تو ایک بے دھڑک سا دھکا دیا کہ پیروں کے بل بیٹھا آہل بھی اب پیچھے کی جانب گرتے گرتے بچا۔۔۔۔

"تم نے کیا ٹھیکا اٹھا رکھا ہے کسی نے کسی طرح مجھے نقصان پہنچانے کا۔۔۔

کل گاڑی اور آج میرا پاؤں توڑ دیا۔۔۔۔

آخر مسئلہ کیا ہے تمہیں؟؟؟؟

کیوں پیچھا کر رہے ہو میرا؟؟؟؟"

"پاگل ہوگئی ہو تم کیا؟؟؟

یا ذہنی مریض ہو؟؟"

آہل بمشکل سنبھلے اس کی جانب طیش نظروں سے گھورنے لگا۔۔۔

"یا جان کر ایسا تماشا کرتی ہو۔۔۔۔

میں کیوں کرنے لگا تم جیسی کھر دماغ بد تمیز لڑکی کا پیچھا؟؟؟"

"اچھا میں تو پاگل ہو کھر دماغ ہو تو پھر اپنے بارے میں کیا خیال ہے تمہارا۔۔۔

آنکھوں سے اندھے اور عقل سے پیدل۔۔۔۔"

منہاء زمین سے بمشکل سہارا لیے اٹھنے کی کوشش کرتے چنگاری۔۔۔۔

"دیکھو لڑکی۔۔۔"

آہل نے منہاء کی تلخی دیکھی تو انگلی دکھائے اسے تنبیہہ کرنے لگا۔۔۔۔

"مجھے کوئی شوق نہیں تم جیسی بدماغ لڑکی کا پیچھا کرو۔۔۔۔

اور جس خواب میں تم رہتی ہو ناں کہ سب تمہارے پیچھے ہیں نکل آؤ اس سے۔۔۔۔

عجیب بے وقوف لڑکی ہو۔۔۔"

"تم جیسا بے حس انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا۔۔۔"

منہاء نے سنا تو زہر آلود ہوئی۔۔۔

" دیکھو گی بھی نہیں۔۔۔۔

کیونکہ میں. ایک ہی ہو۔۔۔"

آہل فخریہ مسکراہٹ ہوا۔۔

جسے دیکھ کر منہاء سیخ پا سی گئی۔۔۔

"اور ایک اور بات۔۔۔"

آہل نے منہاء کو آگ بگولے ہوتے دیکھا تو مزید اسے چڑ چرانے کو بڑھا۔۔۔

" لڑکی کو کھلی لگام مانند زبان جچتی نہیں۔۔۔

بہتر ہے مجھ سے ذرا تمیز سے بات کیا کرو۔۔۔

میں ان مردوں میں سے نہیں جو عورت کہ بد تمیزی پر قہقے لگائے۔۔۔"

آہل کے طنز نے منہاء کو خونخوار سا کردیا جبکہ وہ خود اس کے غصے سے مزے لینے لگا۔۔۔

"مجھے تمہاری پسند نہ پسند سے کوئی فرق نہیں پڑتا مسٹر ٹے پٹ ٹے۔۔۔

اب جاؤ یہاں سے۔۔۔

پاؤں تو توڑ دیا ہے میرا کیا اب سر بھی توڑنے کا ارادہ رکھتے ہو۔۔۔"

منہاء اشتعال انگیز ہوئی۔۔۔

جبکہ آہل جو اس کے روبرو ہی کھڑا اسے گھور تھا فورا اس کی جانب ہاتھ بڑھائے بڑھا۔۔۔

"ہاتھ دو۔۔۔۔"

"جاؤ یہاں سے تم سے مدد لینے کی بجائے میں ٹانگیں نہ کٹوا لو اپنی۔۔۔۔"

منہاء آہل کا ہاتھ جھٹکے زمین پر سے سہارا لیتے بمشکل سی کھڑی ہوئی۔۔۔۔

"سوچ لو مرضی ہے تمہاری۔۔۔۔

بعد میں نہ کہنا مدد نہ کی میں نے۔۔۔۔"

آہل لڑکھڑاتی منہاء کے سامنے روبرو کھڑا اکڑایا۔۔۔

"تم جاؤ گے یہاں سے کہ کچھ مارو تمہارے سر پر۔۔۔۔"

منہاء جو دیوار سی لگی زخمی شیرنی کی مانند تھی دانت چبائے غرائی۔۔۔۔

"اففففففف بہت ہی تیکھی مرچ ہو تم۔۔۔۔

ہو بھی ایسی کہ سچ میں کچھ مار بھی دوگی۔۔۔

مگر مجھے اپنا سر تم سے تڑوانے کا کوئہ شوق نہیں۔۔۔۔

چلتا ہو اب خیال رکھوں اپنا۔۔۔

جنگلی بلی۔۔۔۔"

آہل منہاء کے قریب تر ہوتے کان میں سرگوشی کرتے ہنسا اور پھر وہاں سے تیز گام مانند چلتا بنا۔۔۔۔

"اففففففف جنگلی انسان۔۔۔۔

صبح صبح اس انسان سے پالا پڑ گیا اب خدا جانے پورا دن کیسا نکلے گا میرا۔۔۔۔"

آہل کے جاتے ہی منہاء روہانسی ہوتے زیر لب بڑبڑائی۔۔۔

اور پھر بمشکل ہی لڑکھڑاتے ہوئے لیفٹ کی جانب بڑھی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

وارڈ میں داخل ہوتے ہی آہل نم آنکھوں سے خان بابا کی جانب بڑھا۔۔۔۔

جو نیند کے انجیکشن کے زیر اثر آرام کر رہے تھے۔۔۔۔

جبکہ ایک ڈاکٹر بھی فائل ہاتھ میں تھامے ان کی رپورٹ کا معائنہ کر رہا تھا۔۔۔

آہل کو دیکھتے ہی اس کی جانب بڑھا۔۔۔۔

"آپ پیشنٹ کے؟؟؟"

"پوتا ہو میں انکا۔۔۔۔

کیا ہوا ہے انہیں۔۔۔۔

کیا یہ ٹھیک تو ہے ناں؟؟؟؟

کوئی پریشانی کی بات؟؟؟"

آہل بے چینی سے ڈاکٹر کی جانب لپکا۔۔۔

"جی آپ کے پیشنٹ بلکل ٹھیک ہے اب ۔۔۔

بس انجیکشن کے زیر اثر ہے۔۔۔

باقی ان کی ادویات اور باقی بریفنگ سب میں نے ریسپشنسٹ کو دے دی ہے آپ وہاں سے لے لیں۔۔۔"

"وہ تو ٹھیک ہے مگر یہ کب تک ڈسچارج ہونگے یہاں سے؟؟

اگر زیادہ ایشو ہے تو میں انہیں کسی اچھے سے ہسپتال لے جاتا ہو ابھی؟؟"

آہل پریشان کن ہوا۔۔۔

"نہیں نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔

جیسے ہی ان کو ہوش ائے گا آپ ان کو لے جائیے گا۔۔۔

اور ان کو اب سگریٹ پینے سے باز رکھے ان کا سانس کا مسئلہ خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے۔۔۔

پرہیز ہی اس مسئلے کو کم کر سکتا ہے۔۔۔

باقی ادویات لگاتار دے انہیں۔۔۔"

"جی شکریہ!!!!

میں کوشش کرونگا۔۔۔۔"

آہل نے آگے بڑھتے ڈاکٹر کو مصاحفہ کیا جبکہ خود اب خان بابا کی جانب بڑھ گیا۔۔۔

"کیا مطلب؟؟؟؟

تم کہنا چاہ رہی ہو کہ تم نے اپنے اوریجنل۔۔؟؟؟؟"

ثمر جس کے الفاظ سکتے میں آتے ہی دب گئے تھے منہاء کو دبوچے پھنکاری۔۔۔

"یار پلیز۔۔۔۔"

منہاء ثمر کی گرفت کو زور آور لگاتے لڑکھڑاتے قدموں سے کرسی پر براجمان ہوگئی۔۔۔

"میں آگے ہی بہت پریشان ہو۔۔۔

مجھے حوصلہ نہیں دے سکتی تو مزید پریشان بھی نہ کرو۔۔۔۔"

"میں کیسے حوصلہ دو لڑکی۔۔۔

تمہیں ہوش بھی ہے کہ تم کہہ کیا رہی ہو؟؟؟"

ثمر اس کے روبرو کھڑی پیچ و تاب سے بلبلائی۔۔۔

"تم نے اپنے اوریجنل ڈاکومنٹس گما دیے ہیں۔۔۔

لڑکی اوریجنل ڈاکومنٹس!!!!"

ثمر منہاء کے روبرو ہوتے اسے کندھوں سے جھنجھوڑے پگلا سی گئی۔۔۔۔

"اور سونے پر سہاگا محترمہ کو خبر ہی نہیں کہ پھینکے کہاں ہیں؟؟؟

مطلب کہ اپنی نکمے پن کا بخوبی ثبوت دے رہی ہو تم مجھے۔۔۔۔"

"یار جان بوجھ کر تھوڑی کیا ہے میں نے!!!!

مجھے کیا پتہ تھا کہ اس افراتفری میں خود کا نقصان کر جاؤ گی۔۔۔۔"

منہاء منہ بسورے افسردہ ہوئی۔۔۔۔

"اچھا تو اب!!!

اب آگے کیا ہوگا۔۔۔؟؟؟

یہاں ہم جھگ مارنے آئے ہیں کیا؟؟؟

انٹرویو کیسے دوگی اب؟؟؟

تم جانتی بھی ہو کس قدر مشکل سے انٹرویو ارینج کروایا تھا میں نے!!!

کچھ خبر بھی ہے تمہیں؟؟؟"

ثمر اشتعال انگیز ہوئی۔۔۔

"ایم سوری!!!!

ایم ریلی سوری یار۔۔۔۔۔

میرا ارادہ ایسا ہرگز نہ تھا میں تو بس!!!!!"

منہاء نے ثمر کا عتاب ہوتا چہرہ دیکھا تو نم آنکھوں سے روہانسی ہوئی۔۔۔

جبکہ اب ثمر بھی منہاء کو یوں دیکھ کر افسردہ سی ہوئی اور اس کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔۔۔

"پانی !!!!!"

ثمر نے نرم لہجے سے پانی منہاء کی جانب بڑھایا جس پر وہ ایک گھونٹ بھرتے سارا پانی انڈیل گئی۔۔۔۔

"ٹینشن نہ لو سوچتی ہو کچھ کرتی ہو کچھ۔۔۔۔

مسئلہ بس اس انٹرویو کا ہے۔۔۔۔

جو کہ اب ناممکن سا ہے۔۔۔۔"

"ناممکن کیوں؟؟؟؟

  تم تو دے سکتی ہو نان انٹرویو۔۔۔۔

تو دو پھر!!!

میری وجہ سے کیوں خود کا نقصان کررہی ہو !!!!"

ثمر کی بات سنتے ہی منہاء تاسف ہوئی۔۔۔

"بکواس  بند رکھو اپنی آئی سمجھ۔۔۔۔"

ثمر نے سنا تو انگاری نظروں سے منہاء کو گھورنے لگی۔۔۔

"میں نے اگر ضبط کیا ہے ناں تو بس تمہارے آنسوں دیکھ کر ورنہ اتنا غصہ تو آنٹی بھی نہ کرے جتنا میں نے تم کرنا تھا۔۔۔

ہر وقت تیس مار خان بننے کو بھاگتی ہو۔۔۔

اب سکون مل گیا ہے تمہیں!!!!"

ثمر کا غصہ دیکھ کر منہاء کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔۔۔

"قسم سے ثمر اگر تم لڑکا ہوتی ناں میں نے بلال کو چھوڑ دینا تھا اور تم سے ہی شادی کرنی تھی مگر افسوس!!!"

منہاء زیر لب مسکرائی۔۔۔

"تم جیسی لڑکی سے میں کبھی شادی نہ کرتی یہ تو لکھوا لو۔۔۔

ہر معاملے میں کان کھڑے رکھتی ہو خود کے متعلق بہری ہوجاتی ہو۔۔۔۔"

ثمر منہاء کو دیکھ کر زچ ہوئی۔۔۔

جبکہ منہاء نے کوئی جواب دینا مناسب نہ سمجھا اور سر جھکائے بیٹھ گئی۔۔۔

"خیر اب ایسا منہ مت بناؤ۔۔۔

یقین جانو تنکا برابر بھی ترس نہیں آرہا مجھے تم پر۔۔۔۔۔ اٹھو چلوں یہاں سے اس سے پہلے کوئی ہمارے نام کا پرچم لہراتے یہاں آئے اور پھر ہمیں شرمندگی اٹھانی پڑے۔۔۔

ویسے بھی شرمندگی تو پھر بھی ہونی ہے مجھے کیا کیا نہ کیا تھا میں نے اس جاب کیلئے۔۔۔"

ثمر منہ پھولائے اٹھی۔۔۔

جبکہ منہاء بھی اپنا ایک عدد بیگ سنبھالے دیوار کا سہارا لیے اٹھی۔۔۔

کہ پاؤں پر دباؤ پڑتے ہی وہ درد سے کراہتے واپس کرسی پر گرتے بیٹھی۔۔۔۔

"کیا ہوا اب؟؟؟؟

چیخی کیوں؟؟؟"

ثمر فورا اس کی جانب مارے حیرت پلٹی۔۔۔۔

"ثمر میرا پاؤں!!!!!

میرا پاؤں بہت درد کررہا ہے یار!!!!"

منہاء اپنے پاؤں پر جھکتے روہانسی ہوئی۔۔۔

"کیوں کیا ہوا ہے؟؟؟؟

ٹھیک تو تھی تم؟؟؟

اچانک کیسے؟؟؟

دیکھاؤ مجھے کیا ہوا ہے؟؟؟"

ثمر سنتے ہی فورا اس کی جانب بڑھی۔۔۔

"مڑ گیا تھا میرا پاؤں۔۔۔۔

اس جنگلی انسان کی وجہ سے۔۔۔۔

تبھی درد ہو رہی ہے مجھے۔۔۔"

منہاء زیر آلود تاثرات ہوئی۔۔۔

"کون؟؟؟

کون مل گیا تھا؟؟؟

کس جنگلی کی بات کررہی ہو؟؟؟"

ثمر جو اس کے پاؤں پر جھکی معائنہ کررہی تھی اسے ششدر نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔

"بتاؤ گی یار۔۔۔

سب بتاؤ گی مگر ابھی چلوں یہاں سے!!!!

سب ہمیں عجیب نظروں سے گھور رہے ہیں!!!"

منہاء کے کہتے ہی ثمر اگے کو بڑھی اور خود کا سہارا دیتے منہاء کو وہاں سے لیے چلتی بنی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

خان بابا کو سہارا دیے آہل سیدھا خان ہاؤس میں داخل ہوا۔۔۔

"گل افگن۔۔۔

گل افگن۔۔۔۔"

لاؤنچ میں داخل ہوتے ہی آہل نے آواز لگائی۔۔۔

"جی صاحب جی!!!!"

گل افگن بھاگتا ہوا کیچن سے ان کی جانب بڑھا۔۔۔

"گاڑی کے اندر دادا کا کچھ سامان اور فائلز پڑی ہے۔۔۔

فورا لے کر آؤ یہاں ۔۔۔۔"

آہل کے کہتے ہی گل افگن باہر کو بھاگا۔۔۔

جبکہ خان بابا کو صوفے پر بٹھاتے آہل خود بھی ان کے روبرو جا بیٹھا اور سر گرائے صوفے پر آنکھیں موندھے ہوا۔۔۔

"پریشان کردیا ناں ہم نے تم کو؟؟؟

ہم کو معلوم نہ تھا کہ یہ سب ہو جائے گا۔۔۔۔

ہم۔کو آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔۔۔

گھر رہنا چاہیے تھا۔۔۔۔"

خان بابا نے اہل کی تھکاوٹ دیکھی تو متحیر ہوئے۔۔۔

"نہیں دادا۔۔۔۔

پریشان نہیں بلکہ سچ بتاؤ ۔۔۔۔"

آہل نے خان بابا کی بات سنی تو چہرے پر خوف لیے فورا ان کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔

"آہل خان ڈر گیا تھا۔۔۔

سخت نظر آنے والا آہل اپنے دادا کو لے کر ڈر گیا تھا۔۔۔

ایک آپ کی تو ہے میری اس ویران سی دنیا کی رونق۔۔۔

سب ایک ایک کر کے مجھے چھوڑ گئے اگر آپ کو کچھ۔۔۔"

آہل کہتے ساتھ ہی خان بابا کے سینے پر جا لگا اور سختی سے گرفت بڑھائی۔۔۔۔

"ابھی تم صبح کہہ تو رہا تھا کہ ہم جوشیلا جوان ہے۔۔۔

اب خود اس بات کا نفی کرتا ہے۔۔

ہم ٹھیک ہے بلکل ٹھیک ہے میری جان۔۔۔۔"

خان بابا آہل کی محبت دیکھ کر نم اشکبار ہوئے۔۔۔

"تو بس ٹھیک ہے دادا۔۔۔

آج سے اپکا حقہ نسوار بند۔۔۔

مکمل بند۔۔۔"

آہل نے سختی سے تردید کی۔۔۔

"تم ہم سے ہمارا جان مانگ لے آہل۔۔۔

مگر یہ ستم نہ کرو۔۔۔۔

 ہمارا نسوار اور حقہ ہم سے نہ مانگو۔۔۔

ہم سانس کے بغیر تو رہ سکتا ہے مگر ان کے نہیں۔۔۔۔"

"مگر دادا میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔

ویسے بھی ڈاکٹر نے سختی سے منع کیا ہے۔۔۔

تو ہرگز نہیں۔۔۔

یہ زہر ہے آپ کو اندر سے آہستہ آہستہ ختم کررہا ہے۔۔۔

کیوں اپنے آہل کی زندگی کو ختم کرنا چاہتے ہیں آپ۔۔۔

بس کہہ دیا میں نے کہ نہیں لے گے آپ تو نہیں لے گے۔۔۔

ابھی گل افگن سے کہتا ہو اپکا حقہ اور نسوار کا صندوق میرے کمرے میں رکھے۔۔۔"

آہل کہتے ساتھ ہی واپس اپنی جگہ کی جانب بڑھا۔۔۔

"دیکھتا ہو کیسے لیتے ہیں آپ اب۔۔۔"

"کھانہ خراب ہو اس خبیث ڈاکٹر کا۔۔۔

ہم سے ہماری زندگی مانگ لیا ہے ۔۔۔۔

اللہ کبھی خوش نہ رکھے اسے۔۔۔

ہم تڑپے گا وہ بھی تڑپے۔۔۔۔"

خان بابا نے آہل کی سختی سنی تو منہ پھولائے بدگوئیاں بھرنے لگے۔۔۔

جبکہ خان بابا کی باتیں سن کر آہل دبی مسکراہٹ لیے موبائل کی جانب ہوئی۔۔۔

"چھوٹے صاحب یہ سامان اور یہ ادویات۔۔۔۔

گل افگن نے فائلز اور ادویات میز پر جمائی۔۔۔"

"ہمممم ٹھیک ہے یہ یہی رکھوں اور جا کر دادا اور میرے لیے گرم گرم قہوہ ساتھ کاجو لے کر آؤ۔۔۔

جوان مرد کو ہمت کی ضرورت ہے بہت۔۔۔

کیوں دادا صیحح کہہ رہا ہو ناں میں۔۔۔"

آہل نے کہتے ہوئے شرارتی نظر خان بابا پر ڈالی جو منہ پھولائے بیٹھے تھے۔۔۔

"ہم کو مت بلاؤ آہل خان۔۔۔

تم ہمارا دشمن ہے۔۔۔

ہمارا بیوی سے زیادہ خطرناک دشمن ہے تم ۔۔۔

تم نے ہماری محبوبہ کو ہم سے دور رکھا ہے ہم تم سے نفرت کرتا ہے۔۔۔"

خان بابا کو لال پیلا ہوتے دیکھ کر آہل کا دبا قہقہ گونج سا اٹھا۔۔۔

جبکہ گل افگن بھی منہ پر ہاتھ جمائے دانت چھپائے ہنسا۔۔

"گل افگن ہم تمہارا ٹانگ توڑ دے گا۔۔۔

بھاگ جاؤ یہاں سے اپنے تیس دانتوں کی بتیسی لے کر۔۔۔۔

ورنہ تم کا کچومر بنا دے گا ہم۔۔۔"

خان بابا جو آہل کو تو کچھ نہ کہہ سکتے تھے گل افگن پر بپھڑے جو فورا وہاں سے ہنستا ہوا کیچن کی جانب بڑھا۔۔۔

"اففففففف میرے پیارے دادا۔۔۔

آپ ہی تو میری زندگی کی رونق ہے۔۔۔

غصہ کرتے ہو تو کتنے پیارے لگتے ہو ناں۔۔۔"

آہل فورا ہنستے ہوئے ان کو دبوچے خود سے لگائے گو ہوا۔۔۔

جبکہ خان بابا ناراضگی ظاہر کرتے اسے خود سے دور کرنے لگے۔۔۔

"ہم تم سے بلکل محبت نہیں کرتا۔۔۔

پیچھے ہٹ جاؤ ہم سے۔۔۔۔

دشمن ہے تم ہمارا اور ہماری نسوار حقے کا۔۔۔۔"

"لگتا ہے میری محبوبہ مجھ سے ناراض ہوگئی ہے۔۔۔

ابھی فریش ہو کر آتا ہو پھر مناتا ہو اپنی محبوبہ کو۔۔۔"

آہل قہقہ آور ہوتے اٹھا اور سیدھا اوپر کی جانب واقع اپنے کمرے کی جانب بڑھا۔۔۔

جبکہ خان بابا وہی غصے سے بیٹھے اپنے سامنے پڑی رپورٹس کو دیکھنے لگے۔۔۔

"اللہ اللہ کیا کیا بیماریاں ایجاد کردی ہے میرے ایک وجود سے ۔۔۔

سہی کہتا ہے لوگ ڈاکٹر کے پاس ایک بیماری کیلئے جاؤ تو وہ جہیز بھیج دیتا ہے بیماریوں کا بہن کا سسرال سمجھ کر۔۔۔۔"

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

ثمر منہاء کو گاڑی میں بیٹھائے اپنی نشست پر براجمان ہوئی۔۔۔۔

"اب بتاؤ کون تھا جس نے تمہارے پاؤں کا یہ حال کیا ہے؟؟؟؟"

ثمر بے چینی سے منہاء کی جانب متوجہ ہوئی۔۔۔

"اففففففف ثمر صبر کیسے کیا ہوا تھا دو منٹ تم نے۔۔۔

مطلب اس قدر بے چینی کے بیٹھتے ساتھ ہی سوال منہ پر مار دیا میرے؟؟؟"

"تو اور کیا؟؟؟؟

تم گئی تو ہسپتال تھی مگر معلوم ہو رہا ہے کہ گھوم کر تم کسی چڑیا گھر سے آئی ہو۔۔۔

تو بتاؤ اب مجھے!!!!"

ثمر اضطراب ہوئی۔۔۔

"یار وہی گاڑی والا جس نے کل گاڑی توڑی تھی ناں ہماری۔۔۔

اسی نے آج میرا پاؤں بھی توڑ ڈالا ہے۔۔۔"

منہاء اپنے پاؤں کو دیکھتے غمزدہ ہوئی۔۔۔

"وہ تمہیں کہاں سے مل گیا منہاء؟؟؟؟

وہ وہاں کیسے؟؟؟؟"

ثمر نے سنا تو ششدر ہوئی۔۔۔

"مجھے کیا پتہ؟؟؟

وہ وہاں کیسے آیا یا کیوں آیا۔۔۔

مگر اس نے میرا پاؤں توڑ ڈالا ۔۔۔

اللہ اسے بھی ایسی ہی تکلیف ہو جنگلی ناں ہو تو۔۔۔۔"

منہاء نفرت انگیز ہوئی۔۔۔۔

"اچھا!!!!!!!!!"

ثمر نے سنا تو سوچ میں پڑ گئی۔۔۔

"اب کس سوچ میں ہو یار۔۔۔۔

میری ڈگریوں کا سوچوں اب اسکا کیا ہوگا۔۔۔۔

میں تو بلال کو بھی نہیں کہہ سکتی وہ تو طعنے دے دے مارے گا۔۔۔

اور امی اففففففف۔۔۔

امی تو ویسے ہی میری جاب کے مخالف تھی۔۔۔"

منہاء روہانسی نظروں سے ثمر کو دیکھتے بولی۔۔۔

"تو تمہیں کس نے کہا تھا کہ دنیا بھر کی ہمدردی لیے اس انکل کے ساتھ جاؤ۔۔۔۔

انکا ڈرائیور آ تو گیا تھا ناں۔۔۔"

"مجھے جو صیحح لگا میں نے کیا۔۔۔

اور تم بہتر جانتی ہو کہ میں نے یہ سب کیوں کیا!!!!"

منہاء کی آنکھ نم اور لہجہ بھیگ سا گیا۔۔۔

جبکہ ثمر نے مزید کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔۔۔

کہ تبھی اس کا فون بجا اور ایک انجان سا نمبر اسکرین پر چمکا۔۔۔۔

"اب یہ کس کا فون ہے؟؟؟؟

ایک تو میں آگے ہی پریشان ہو اوپر سے ایسی کالز۔۔۔"

منہاء سر پکڑے مبہم ہوئی۔۔۔

"مجھے دو۔۔۔۔

آج تمہیں یوں دیکھ کر دونوں ہاتھوں سے فٹے منہ کرنے کا دل کررہا ہے میرا۔۔۔۔

بڑی آئی ہمت والی۔۔۔"

ثمر نے طنز بھرے اس کے ہاتھ سے فون کھینچا اور ریسیو کیا۔۔۔

"ہیلو السلام علیکم جی کون؟؟؟؟"

ثمر کا لہجہ سرد معلوم ہوا۔۔۔

کہ تبھی دوسری جانب کہ آواز سن کر اس کے چہرے کی پریشانی کم ہونے لگی اور بڑی سی مسکراہٹ بکھر گئی۔۔۔

"جی جی۔۔۔

ٹھیک ہے آپ مجھے اپنا ایڈریس بھیج دے ہم ابھی آ کر لے لیتے ہیں۔۔۔

جی ٹھیک ہے۔۔۔

بہت شکریہ آپکا۔۔۔"

ثمر مسرت انداز سے فون منہاء کی جانب بڑھایا جو اسے سوالیہ نظروں سے گھور رہی تھی۔۔۔۔

"کون تھا؟؟؟

اور اتنی خوش کیوں ہو بات کر کے۔۔۔

جیسے کوئی لاٹری نکل آئی ہو؟؟؟"

"ارے لاٹری ہی سمجھو لڑکی۔۔۔"

ثمر پر جوش ہوئی۔۔۔۔

"مطلب؟؟؟

صاف صاف بتاؤ؟؟؟

کون تھا اور ایڈریس کس بات کا؟؟؟"

منہاء ناسمجھی سے بولی۔۔۔

"ارے تمہاری ڈگریاں آج صبح ان انکل کی گاڑی میں رہ گئی تھی جن کی تم نے مدد کی تھی۔۔۔

انہی کا فون تھا ابھی۔۔۔

تمہاری سی-وی تھی ناں اس میں وہی سے نمبر لیا انہوں نے تمہارا۔۔۔

بس ابھی ایڈریس بھی بھیج دے گے تو پھر ڈگریاں لے کر سیدھا گھر کو نکلے گے۔۔۔"

ثمر کے بتانے پر منہاء نے ایک گہرا سانس بھرا اور دعائیہ انداز سے اوپر کی جانب دیکھتے مسکرائی۔۔۔

"دیکھا مدد کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔۔۔"

"ہاں ہاں دیکھ بھی لیا اور سن بھی لیا۔۔۔

اب میسج آیا ہے تو بتاؤ گاڑی کہاں لے کر جانی ہے۔۔۔"

ثمر نے منہاء کی بات سنی تو برجستگی سے بولی۔۔

جبکہ منہاء نے حامی میں سر ہلایا اور پھر موبائل پر انگلیاں پھیرنے لگی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"گل افگن۔۔۔۔

گل افگن۔۔۔۔"

خان بابا فائل کو ہاتھ میں پکڑے آواز آور ہوئے۔۔۔

"جی بڑے صاحب جی۔۔۔۔"

گل افگن بھاگتا ہوا مہذب انداز آور ہوا۔۔۔

"گل افگن ہم اپنے کمرے میں ہے …

کچھ دیر میں ایک لڑکی آئے گا جیسے ہی وہ آئے ہم کو بلا لینا۔۔۔

اور یہ بتاؤ کہ آہل بابا ابھی تک کیوں نہیں آیا؟؟؟

اس نے تو ہمارے ساتھ قہوہ کاجو کھانا تھا ناں؟؟"

خان بابا ہاتھ میں فائل تھامے اٹھے۔۔۔۔

"وہ آج پھر اسی کمرے میں گئے ہیں صاحب جی۔۔۔

میں نے انہیں جاتے دیکھا تھا۔۔۔"

"تو ہمیں پہلے کیوں نہیں خبر کیا۔۔۔

اس لڑکے کا باپ اتنا تنگ نہ کرتا تھا ہمیں جتنا یہ ہمیں رلاتا ہے۔۔۔"

خان بابا افسردگی سے سر جھکائے آگے کو بڑھے۔۔۔

"خیر جیسے ہی وہ آتا ہے ہمیں بتانا۔۔۔

ہم آرام کرنے کو جاتا ہے اب۔۔۔"

"جی ٹھیک ہے۔۔۔"

خان بابا کو جاتے دیکھا کر گل افگن حامی میں سر ہلائے کیچن کی جانب بڑھ گیا۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء ثمر کے ساتھ اسی ایڈریس کی جانب گامزن تھی کہ تبھی منہاء کا فون ںجنے لگا۔۔۔

"منہاء فون دیکھو ہوسکتا ہے انہی انکل کا ہو ۔۔۔۔

دیکھو کیا کہتے ہیں وہ۔۔۔"

ثمر نے منہاء کو ہوش دلائی جو اپنی سوچ میں گم باہر کی جانب محو تھی۔۔۔

"نہیں یہ انکا نہیں ہے بلکہ بلال کا فون ہے۔۔۔"

منہاء نے فون دیکھتے ہی ادراک کیا۔۔۔

"اچھا سنوں دیکھو کیا کہتا ہے یہ بھی اب۔۔۔"

ثمر سامنے کی جانب نظریں گاڑھے بولی۔۔۔

"ہاں ہیلو بلال!!

کیسے ہو؟؟؟

اس وقت فون خیریت؟؟"

منہاء نے فورا فون کان پر لگائے کہا۔۔۔

"میری چھوڑو یہ بتاؤ تم کہاں ہو؟؟؟؟"

بلال کا لہجہ سرد تھا۔۔۔

"م۔۔۔م۔۔میں؟؟؟"

منہاء نے فورا ثمر کی جانب اشارہ بھرا۔۔۔۔

"ہاں تم!!!!

کہاں ہو تم؟؟؟؟"

بلال لفظ دںائے بولا۔۔۔

"میں. گھر ہو۔۔۔۔

کیوں کیا ہوا یہ کیوں پوچھ رہے ہو۔۔۔۔"

منہاء سوالی ہوئی۔۔۔

"جھوٹ۔۔۔۔

جھوٹ بول رہی ہو تم۔۔۔۔

مجھ سے جھوٹ بول رہی ہو تم وہ بھی اتنی مطمئن ہو کر۔۔۔

تم گھر پر نہیں ہو۔۔۔۔"

بلال جو ضبط کیے تھا اب چنگارا۔۔۔

"بلال!!!!"

منہاء نے بلال کا لہجہ سنا تو فورا پریشان ہوئی۔۔۔

"میں تمہارے گھر پر کھڑا ہو منہاء۔۔۔

اور تمہاری امی مجھے سب بتا چکی ہو۔۔۔

ذرا شرم نہ آئی مجھ سے جھوٹ بولتے ہوئے۔۔۔

مجھ سے چھپاتے ہوئے۔۔۔

میں نے منع کیا تھا ناں جاب کرنے کا۔۔۔"

بلال چنگار رہا تھا جبکہ منہاء سر پکڑے مبہم سی اس کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔

"میری بات سنوں بلال۔۔۔

میں جاب!!!!"

منہاء جو اس سے پہلے کچھ بولتی بلال پھر سے چیخا۔۔۔

"منہ بند منہاء۔۔۔۔

مزید جھوٹ نہیں۔۔۔۔

خدا حافظ۔۔۔۔"

بلال نے متلاطم ہوتے فون پٹخا۔۔۔

جبکہ منہاء اسی طرح فون کان سے لگائے چند لمحوں کے طوفان کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔

"کیا ہوا ہے محترمہ۔۔۔۔

منہ کیوں اتر گیا ہے تمہارا بلال سے بات کرتے ہی۔۔۔

کیا کہہ رہا ہے وہ نمونہ اب؟؟؟"

ثمر نے دیکھا تو تاسف ہوئی۔۔۔

"امی نے اسے بتا دیا ہے کہ میں جاب ڈھونڈنے گئی ہو۔۔۔

آفت یہ کہ بلال گھر میں ہی موجود تھا۔۔۔

اور بپھڑ رہا تھا مجھ پر۔۔۔"

منہاء باہر کی جانب نم آنکھوں سے دیکھتے بولی۔۔۔۔

"ایک تو یہ ڈرامے بازیاں۔۔۔۔

چھوڑو تم۔۔۔

سنبھال لے گے اسے بھی۔۔۔

ابھی جو مصیبت ہے اس کو دیکھتے ہیں۔۔۔"

ثمر منہاء کو ہلکا کرتے بولی۔۔

جبکہ جوابا وہ کچھ نہ بولی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل اسی اندھیرے والے کمرے میں اپنی دھن میں مست پیانو پر انگلیاں پھیرتے درد بھرے انداز سے افسردہ سا بیٹھا تھا۔۔۔

جب منہاء ثمر کے ساتھ خان ہاؤس پہنچی۔۔۔

"تو یہ ہے وہ بنگلو جہاں وہ انکل رہتے ہیں؟؟؟

یار وہ تو بہت امیر نکلے ہیں ویسے!!!"

ثمر گاڑی سے نکلتے بنگلو کے سامنے منہ کھولے بولی۔۔۔

"ہاں تو ہمیں کیا یار؟؟

ہماری بلا سے وہ بل گیٹس ہی کیوں نہ ہو۔۔۔

مجھے تو بس میری ڈگریاں چاہیے اور کچھ نہیں۔۔۔"

منہاء لاپرواہی سے آگے کو بڑھی۔۔۔

"یار یہ تو خان ہاؤس ہے۔۔۔

وہی خان انڈسٹری والے تو نہیں جہاں آج ہمارا انٹرویو تھا؟؟۔۔"

ثمر باہر لگی پلیٹ کو دیکھتے ہی اضطراب ہوئی۔۔۔

"لازم تو نہیں کہ یہ خان وہی والے خان ہو۔۔۔

تم کیوں اتنی دلچسپی بھر رہی ہو یار۔۔

چلوں اندر ابھی۔۔۔

وقت آگے ہی بہت ہوچکا ہے اور ہم اپنے گھروں سے خاصے دور ہیں اس وقت۔۔۔"

منہاء نے کہتے ساتھ ہی ڈول بیل پر ہاتھ دھڑا۔۔۔

جبکہ ثمر کو بنگلو کے ششکے دیکھ کر چندھیا سی گئی تھی۔۔۔

منہاء ثمر کے ہمراہ بنگلو کے اندر داخل ہوئی تو گیراج سے ہوتے سیدھا اندر کی جانب بڑھی۔۔۔

"یار یہ تو کسی محل سے کم نہیں لگتا۔۔۔

یقین نہیں آتا وہ انکل یہاں رہتے ہیں حلیے سے تو لگتا نہیں تھا۔۔۔"

ثمر چندھیائی آنکھوں سے لاؤنچ کے ششکے پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگی۔۔۔

"حلیے سے تو بل گیٹس بھی امیر ترین شخص معلوم نہیں ہوتا۔۔۔

لازم نہیں حلیہ اچھا ہو تو انسان امیر ہی نظر آئے۔۔۔"

منہاء کی سوچ کی نفی کرتی آگے کو بڑھی۔۔۔

کہ تبھی سامنے سے آتے گل افگن کی نظر حیرت ذدہ کھڑی دو لڑکیوں پر پڑی جو حیران کن نظروں سے اردگرد کے ماحول کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

"جی آپ دونوں کون؟؟؟؟

اور کس سے ملنا ہے ؟؟؟"

گل افگن کی آواز سنتے ہی دونوں یک دم چونکی۔۔۔۔

"وہ ہمیں بلایا تھا یہاں کے رہنے والے بزرگ نے۔۔۔

دراصل میرا کچھ سامان تھا ان کے پاس بس اس لیے۔۔۔

آپ پلیز انہیں فورا بلا دیں بہت دیر ہو رہی ہے ہمیں۔۔۔"

منہاء فورا تاسف گو ہوئی۔۔۔

"اچھا اچھا تو آپ ہی ہیں وہ۔۔۔"

گل افگن فورا یاد کرتے بولا۔۔۔۔

"جی جی مجھے بڑے صاحب نے بتایا تھا آپ کی آمد کے متعلق۔۔۔۔

آپ بیٹھیے یہاں میں ابھی بلا کر لاتا ہو انہیں۔۔۔"

گل افگن نے سامنے موجود صوفے کی جانب اشارہ دیا اور وہاں سے چلتا بنا۔۔۔

جبکہ منہاء اور ثمر ابھی تک اس ماحول کے اثر میں تھی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"بڑے صاحب جی!!!!

بڑے صاحب جی!!!!!"

گل افگن نے دروازے پر دستک دھڑی۔۔۔

"اندر آجاؤ افگن۔۔۔

تم کو کتنی بار کہا ہم نے یوں دروازہ مت پیٹا کرو۔۔۔

ہمارا کونسا بیوی ہے یہاں جو تم دروازہ توڑ کر اندر آنے کی اجازت مانگتا ہے۔۔۔۔"

خان بابا جو بیڈ پر لیٹے تھے سیدھا ہوتے بولے۔۔۔

"صاحب جی وہ جن خاتون کے متعلق آپ نے کہا تھا وہ اگئی ہے۔۔۔

میں نے انہیں لاونچ میں بیٹھا دیا آپ کے انتظار میں. ہے۔۔۔

کہہ رہی ہے کہ بہت جلدی انہیں!!!!"

"اچھا تو یہ بات تم پہلے کیوں نہیں بولا۔۔۔"

خان بابا نے سنا تو فورا بیڈ پر سے اٹھنے کو ہوئے۔۔۔

"ہر کام کا بات تم دیر سے بتاتا ہے۔۔۔۔"

جبکہ گل افگن خان بابا کی بات سن کر سر نفی میں ہلائے مسکرا سا گیا۔۔۔

"تم جاؤ اور جا کر ان خاتون کا اچھے سے خیال رکھو۔۔۔

کچھ کھانا پانی دو ان کو۔۔۔

ہم تب تک فریش ہو کر آتا ہے نیچے۔۔۔"

"جی صاحب جی۔۔۔

ٹھیک ہے۔۔۔"

گل افگن کہتے ہی واپس پلٹا جبکہ خان بابا اس فائل کو ہاتھ میں تھامے دیکھنے لگے۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"ہائے یار یہاں کے لوگ لگتا ہے بادشاہوں کی طرح رہتے ہونگے۔۔

ہر چیز سے کتنی نفاست اور چمک ٹپک رہی ہے ناں۔۔۔

اور کس قدر مہنگی بھی معلوم ہو رہی ہے یہ تو۔۔۔۔"

ثمر چمکیلی نظروں سے پورے گھر کو گھور گھور کر دیکھ رہی تھی۔۔۔

"مجھے ڈر لگ رہا ہے ثمر۔۔۔

ایک ان چاہا سا ڈر۔۔۔"

منہاء جس کے چہرے کے تاثرات بگڑے ہوئے تو نرم لہجہ آور ہوئی۔۔۔

جبکہ ثمر نے سنا تو فورا اس کی جانب لپکی۔۔۔

"کیوں کیا ہوا ہے؟؟؟

سب ٹھیک تو ہے ناں؟؟؟"

"بلال!!!"

منہاء نے بس ایک لفظ بولا کہ ثمر کو سارے جوابات مل گئے۔۔۔

"تم کیوں ٹینشن لے رہی ہو منہاء؟؟؟

میں کہہ رہی ہو ناں کہ میں سنبھال لونگی اسے۔۔۔

تو سنبھال لونگی۔۔۔

وقتی غصہ آتا ہے اسے۔۔۔

اور ویسے بھی وہ تم سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔۔

بہت دیر تک ناراض نہیں رہ سکتا وہ۔۔۔۔"

ثمر نے منہاء کو حوصلہ دیا تو وہ اداسی سے حامی میں سر ہلانے لگی۔۔۔۔

"بی بی جی!!!

بڑے صاحب آرہے ہیں۔۔۔

آپ بتائے آپ کیا لے گی؟؟؟

چائے یا جوس؟؟؟"

گل افگن جو اچانک نمودار ہوا تیز گام بولا۔۔۔

"نہیں کچھ بھی نہیں چاہیے  اپکا بہت شکریہ!!"

ثمر اس سے پہلے کچھ کہتی منہاء نے فورا انکار بھرا۔۔۔

"جی ٹھیک ہے۔۔۔۔"

گل افگن نے سنا تو وہاں سے چلا گیا۔۔۔

"کیا کرتی ہو لڑکی۔۔۔

صبح سے کھجل ہو رہی ہو اب تو کچھ پینے دیتی مجھے۔۔۔

آگے ہی بھوک سے برا حال ہے میرا۔۔۔

ہمت چاہیے تھی مجھے آگے کیلئے۔۔۔"

ثمر منہ بسورے بیٹھی۔۔۔

"یار یہاں سے نکل جائے بس جو کہوں گی کھلاؤ گی بھی پلاؤ گی بھی۔۔۔

اب پلیز چپ۔۔۔۔

میرا تو دماغ ویسے ہی سن ہو گیا ہے ۔۔۔۔"

'وہ تو ہونا ہی تھا جب پیٹرول ہی نہیں ہے تو انجن کیا خاک چلے گا تمہارا۔۔۔

خیر اب کیا ہوسکتا ہے تم نے تو انکار کردیا ہے اب۔۔۔"

ثمر ناراضگی ظاہر کرتے بولی۔۔۔

جبکہ منہاء جوابا خاموش رہی اور انتظار کرنے لگی۔۔۔

کہ تبھی پورے گھر کی خاموش فضا میں ایک سرسراہٹ سی بکھری اور منہاء کی سماعت سے ٹکرائی۔۔۔

"یہ آواز؟؟؟"

منہاء نے چونکتے ہوئے ثمر کی جانب دیکھا جو تو بس گھر کی چنکاچوند میں ڈوبی چیزوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔

"تم نے وہ آواز سنی؟؟؟؟"

منہاء مبہم سی ہوئی۔۔۔

"کونسی آواز ؟؟؟

نہیں میں نے تو نہیں سنی کوئی آواز؟؟؟"

ثمر کندھے اچکائے بولی۔۔۔

"نہیں یار آواز آرہی ہے۔۔۔

صاف صاف آواز آرہی ہے۔۔۔

جیسے کوئی پیانو بجا رہا ہو اور ساتھ گنگنا رہا ہو۔۔۔

کوئی اداس ہے افسردہ ہے۔۔۔

تمہیں کیوں نہیں آرہی ہے بہری۔۔"۔

منہاء نے ایک چست ثمر کے سر پر دھڑی۔۔۔

"یار مار کیوں رہی ہے۔۔۔

مجھے سچ میں نہیں آرہی تو جھوٹ کیوں بولو؟؟؟"

ثمر چڑچڑا کر بولی۔۔۔

"اچھا تو ٹھیک ہے میں ابھی دیکھ کر آتی ہو اس آواز کو۔۔۔

اور پھر تجھے بھی دیکھاؤ گی اور پھر بتائی کہ آواز تھی کہ نہیں۔۔۔۔"

منہاء اپنا بیگ وہی صوفے پر دھڑے اٹھی اور لڑکھڑاتے قدموں سے اہستگی سے آگے کو بڑھی۔۔۔

"کیا ہو گیا ہے منہاء تمہیں؟؟؟

ایک آواز ہی تو ہے۔۔۔

واپس آؤ یار ہماری بلا سے آواز ہو کہ نہیں۔۔۔

ہم کسی کے گھر میں موجود ہے یار۔۔۔"

ثمر فورا اس کی جانب روکنے کو بڑھی۔۔۔

"دیکھ آواز تیز ہو رہی ہے۔۔۔

اور یہ اوپر سے آرہی ہے۔۔۔

میں ابھی دیکھ کر آتی ہو ۔۔۔

تو یہی رک۔۔۔

بس آتی ہو ابھی۔۔۔"

منہاء ثمر کو اشارہ بڑھتے اہستگی سے سیڑھیوں پر بڑھی۔۔۔

جبکہ منہاء کو یوں جاتا دیکھ کر ثمر پریشان سی ہو گئی ۔۔۔۔

"آخر کیا مصیبت ہے یہ لڑکی؟؟؟؟

میں ہی پاگل ہو اس کھر دماغ کی ہاں میں ہاں ملا دیتی تو اچھا ہوتا۔۔۔

اب کوئی آگیا تو کیا کہوں گی کہ منہاء کہاں گئی ہے؟؟؟

اففففففف منہاء!!!!"

ثمر پریشانی اور غصے کے ملے جلے تاثرات لیے زیر لب زور آور ہوئی۔۔۔

منہاء آواز کا پیچھا کرتے دبے قدموں سے کمرہ بہ کمرہ گزر رہی تھی۔۔۔

جیسے جیسے آگے قدم بڑھ رہے تھے آواز کی شدت بڑھ رہی تھی۔۔۔

بلآخر وہ اس کمرے کے روبرو جا پہنچی جہاں سے آواز اپنا سر بکھیر رہی تھی۔۔۔۔

چند قدم دور دروازے کے وہ کھڑی کسی سوچ میں گم مبہم ہوئی۔۔۔

اور پھر اہستگی سے تجسسی کیفیت سے دروازے کو ہلکا سا دھکیلے اندر کی جانب بڑھی جہاں پہلے سے اندھیرا بھرا ہوا تھا۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"منہاء کی بچی!!!!

جلدی آجاؤ یار۔۔۔

اففففففف بہت تنگ کرتی ہو مجھے۔۔۔

خدا کی قسم بہن نہ مانتی تو تمہیں مار مار کر قتل کر دیتی میں۔۔۔

اور یقین جانو کسی بھی قسم کی سزا بھی نہ ہونی تھی جب تمہاری حرکتیں بین ڈال کر میں نے بتانی تھی۔۔۔"

ثمر منہ میں ناخن دبائے زیر لب غرائی۔۔۔

کہ تبھی سفید شلوار قمیض اور پختونی پگڑی میں ملبوس آہل اڈھیر عمر کا شخص ہاتھ میں فائل لیے نیچے ہی کسی کمرے سے باہر نکلتے اس کی جانب بڑھا۔۔۔

کہ ثمر دیکھتے ہی کھڑے ہوگئی۔۔۔

"نہ نہ بیٹا بیٹھ جاؤ۔۔۔

بیٹھ جاؤ۔۔۔

ہم کونسا وذیر ہے جو تم ہم کو دیکھ کر کھڑا ہو گیا ہے!!!"

خان بابا ہنستے ہوئے آئے اور اس کے روبرو براجمان ہوئے۔۔۔

جبکہ ثمر مصنوعی ہنسی لیے مبہم انداز آور ہوئی۔۔۔

"گل افگن۔۔۔۔

او گل افگن۔۔۔۔"

خان بابا نے فائل میز پر دھڑے پکار گو ہوئے۔۔۔

جی صاحب جی!!!!

گل بھاگتا ہوا وہاں آن پہنچا۔۔۔

"کھانہ خراب کا بچہ ہم نے تم کو کہا تھا کہ تم کھانا پانی کا پوچھنا۔۔۔

تم نے تو لگتا ہوا کا بھی نہ پوچھا ہونا ان سے۔۔۔"

خان بابا بدمزاج انداز ہوئے۔۔۔

"نہیں صاحب جی میں نے پوچھا تھا۔۔۔

وہ تو دوسری بی بی نے منع کردیا تھا۔۔۔

تو میں نہیں لایا۔۔۔"

گل افگن نے ثمر کی جانب اشارہ دیا جو پریشان حال بیٹھی تھی۔۔۔

"دوسری بی بی؟؟؟"

خان بابا سوالیہ ہوئے۔۔۔

"ہاں اچھا یاد آیا وہ والی بچی کہاں ہے جو ہم کو ہسپتال لے کر گیا تھا؟؟؟

ہم اسی کا سامان ہی تو لوٹانا چاہتا تھا اور شکریہ ادا بھی کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔

اگر وہ ہماری مدد نہ کرتا تو آج ہم یہاں بیٹھا نہ ہوتا۔۔۔

فرشتوں کے ساتھ سوال جواب میں مصروف ہوتا۔۔۔

مگر وہ بچہ ہے کہاں؟؟؟؟"

خان بابا اور گل افگن دونوں ہی سوالیہ نظروں سے ثمر کو دیکھنے لگے۔۔۔

جو بمشکل مسکراہٹ لیے بیٹھی تھی ایک دم سکھر سی گئی۔۔۔۔

"وہ آواز؟؟؟؟

اس آواز کے پیچھے!!!!"

ثمر نے اشارہ اوپر کی جانب کیا۔۔۔

جسے دیکھتے ہی خان بابا کے تاثرات فق سے ہو گئے۔۔۔

"اور میرے خدایا۔۔۔۔

گل افگن جلدی جاؤ۔۔۔۔

اس پہلے وہ بچہ وہاں پہنچے۔۔۔۔

اور قہرام مچ جائے بھاگو اس جانب۔۔۔

اس وقت وہ خونخوار ہوا ہوتا ہے۔۔۔

ناجانے کیا ہوگا اب۔۔۔"

خان بابا کے کہتے ہی گل افگن دوڑتا ہوا سیڑھیوں کی جانب بھاگا۔۔۔

جبکہ ثمر بھی سن کر اب خوفزدہ اور روہانسی ہوگئی۔۔۔۔

"انکل کیا ہوا ہے؟؟؟

کیا ماجرا ہے یہ ؟؟؟

میری دوست کہاں ہے وہ کیا ہوا ہے اس کے ساتھ؟؟؟

کیا ہے اس کمرے میں ؟؟؟؟"

ثمر بے چینی سے بولی۔۔۔

"پریشان نہ ہو بیٹا؟؟؟

آؤ میرے ساتھ آپ!!!"

خان بابا آگے کو ںڑھے تو ثمر بھی ان کے پیچھے کو لپکی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

پیانو پر جھکا ایک کالے لباس میں وجود اہستگی سے منہ میں کچھ گنگنا رہا تھا اور ساتھ ساتھ پیانوں پر اپنی انگلیاں پھیر رہا تھا اس بات سے بے خبر کے کوئی اس کے پیچھے کھڑا اہستگی سے اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔

"پہلے تھا چرایا جو۔۔۔🔥

گھر تھا پھر بنایا جو۔۔😍

دل وہی کیوں توڑ بھی دیا ہے۔۔۔💔

درد یہ اٹھایا جو۔۔۔۔۔😥

مشکلوں سے پایا جو۔۔۔۔💘

پھر اسی کو چھوڑ بھی دیا ہے۔۔۔🔥

لگا گلے۔۔۔۔😍

جدا کیا!!!!😥

تو یہ بتاتی کیسی یہ دیوانگی۔۔۔🔥

او بے وفا تیری دیوانگی!!۔۔۔💘

ہائےےےےے۔۔۔۔"

منہاء  جیسے جیسے آگے بڑھی سامنے وجود کی الفاظ اس کی سماعت سے ٹکرانے لگی جو درد کی کیفیت سے دوچار بلبلا رہا تھا۔۔۔

کہ اچانک سامنے بیٹھے شخص کو پیچھے موجود منہاء کی آہٹ کا احساس ہوا اور چلتی انگلیاں اچانک رک سی گئی۔۔۔

"تو آگئی ہو تم۔۔۔۔

واپس میرے پاس۔۔۔۔"

دبدبے اور نفرت انگیز زہر سے ڈوبے لہجے کی آواز پورے کمرے میں گونجی۔۔۔

جبکہ منہاء بھی آواز سن کر استعجاب سی گئی۔۔۔

"تمہیں کیا لگتا ہے مجھے چھوڑ کر جاؤ گی تو خوش رہو گی۔۔۔

نہیں۔۔۔۔

میں ایسا کبھی ہونے نہیں دونگا۔۔۔"

جلتی موم بتی جو واحد اس کمرے میں روشنی کا ذریعہ تھی  اپنے ہاتھ اس کے آگ پر  دبوچے اسے زمین پر پھینکا۔۔۔

منہاء جو اس صورتحال سے مکمل گھبرا سی گئی تھی موم کا سانچہ اس کے پیروں کے قریب آ گرا جسے دیکھتے ہی وہ  واپس پلٹنے کو پیچھے قدم بڑھانے لگی۔۔۔

"یا اللہ یہ کیا؟؟؟"

منہاء دل ہی دل میں گھنگول سی گئی۔۔۔

مگر اندھیرے کی شدت کی وجہ سے محض اسے دروازے سے آتی مدہم روشنی ہی نمایاں ہو رہی تھی جس کی جانب وہ اب بڑھ رہی تھی۔۔۔۔

کہ تبھی پیچھے قدم لیتے اس کا ٹکراؤ کسی سخت وجود سے ٹکرا سا گیا۔۔۔

"کہاں بھاگ رہی ہو اب مجھ سے؟؟؟

میں وہی ہو جس کی بانہوں میں تم کئی راتیں گزار کر گئی ہو اب کیوں ڈر رہی ہو مجھ سے"

سامنے کھڑا وجود کا لہجہ سخت گیر ہوا اور قدم بڑھائے وہ منہاء کی جانب بڑھنے لگا۔۔۔۔

جسے دیکھتے ہی منہاء نے اس وجود کے روبرو ہوتے قدم پیچھے کو لینے شروع کیے۔۔ 

کہ اس اندھیرے کی شدت میں بھی اسے اس کی سرخ چمکتی آنکھیں عیاں سی ہوئی جو اس کی آنکھوں میں. گھور رہی تھی۔۔۔۔

منہاء نے ایک بار پھر سے دروازے کی جانب قدم بڑھانے کی کوشش کی مگر اس سے پہلے آگے بڑھتی اس سیاہ وجود نے اپنی سخت مضبوط ہاتھوں میں منہاء کو بازوؤں سے جکڑا اور اسے اپنے قریب کر لیا۔۔۔

کہ اب منہاء کی تیز بھاگتی گرم سانسیں اس وجود کے سینے کو گرما سی رہی تھی۔۔۔

"م۔۔۔۔مم۔ممیں۔۔۔

میں وہ۔۔۔۔۔"

منہاء سنگین ماحول میں بمشکل ہی بولنے کی کوشش میں تھی۔۔۔

کہ سامنے کھڑے وجود نے اسے دبوچتے اپنے سینے سے لگایا اور گرفت مضبوط کردی۔۔۔۔

منہاء جو پہلے سے ہی خوفزدہ  تھی ایک زور دار دھکا بڑھتے اسے خود سے دور کرتے چلا سی اٹھی۔۔۔

"چھوڑو مجھے۔۔۔۔

چھوڑو۔۔۔۔

کون ہو تم ؟؟؟؟

تمہاری ہمت کیسے ہوئے مجھ سے یوں بد تمیزی کرنے کی۔۔۔

"

"دھوکا دیتے ہوئے کیوں ناں خیال آیا میرا کہ میں تم سے عشق کرتا ہو۔۔۔۔

تب کیوں نہ ہمت آئی کہ میری ہو سکتی؟؟؟

اب جب میں تم میں کھونا چاہتا ہو اپنا بنانا چاہتا ہو تو دور کیوں ہو رہی ہو مجھ سے۔۔۔"

حواس سے بدحال وہ واپس منہاء کو جکڑے اس کے چہرے کو تھامے ابتر ہوا۔۔۔۔

"اففففففف!!!!!"

منہاء جس کو اس کے منہ سے حد درجہ بدبو سی محسوس ہوئی منہ پر ہاتھ رکھے کراہ سی گئی۔۔۔

"کیا ہوا میری جان!!!!

تھوڑی سی ہی تو پی ہے۔۔۔

اب کیا کرو جب جب تم مجھے ستاتی ہو میں خود کو اسی کے سہارے بہلاتا ہو۔۔۔

اب تم اگئی ہو ناں۔۔۔

اب تم مجھے بہلاؤ گی۔۔۔"

منہاء کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کی گرفت میں جکڑے وہ اس کے چہرے پر جھکنے لگا۔۔۔

خود کو اس زور آور اور طاقتور شخص کی گرفت میں بے بس محسوس کرتے وہ اب اس کے سینے پر چست لگانے لگی۔۔۔

"چھوڑو مجھے۔۔۔۔

چھوڑو۔۔۔۔۔

میں وہ نہیں ہو جو تم سمجھ رہے ہو!!!!

چھوڑو!!!!

ثمر۔۔۔۔۔۔

ثمر!!!!!!"

منہاء زور زور سے روتے چلانے لگی۔۔۔

جبکہ وہ مدہوشی اور نفرت ہے نشے میں گم اس کے چہرے کو سختی سے دبوچے جھکا اور پل بھر میں منہاء کے ہونٹوں کو چھوتے اس کے گرم لمس کو محسوس کرنے لگا کہ پورا کمرا جو پہلے دونوں کی آوازوں سے گونج رہا تھا اب خاموشی طاری تھی۔۔۔

منہاء نے اسے خود پر مسلسل ہاوی ہوتے محسوس کیا تو ایک زور دار دھکا اس کی ڈھیلی گرفت محسوس کرتے ہی دیا۔۔۔۔

جس پر نشے میں چور وہ لڑکھڑاتے ہوئے زمین پر جا گرا۔۔۔

کہ تبھی کمرے کی لائیٹ جلی اور گل افگن اندر کے ماحول کو دیکھتے ہکا بکا سا رہ گیا۔۔۔۔

جبکہ پیچھے ہی خان بابا ثمر کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے۔۔۔

روشنی کے کھلتے ہی منہاء کی نظر سب سے پہلے اس خوفناک وجود پر پڑی جو سامنے ہی زمین پر گرا نشے میں کراہ رہا تھا۔۔۔

"منہاء!!!!!"

ثمر فورا ہی اس کی جانب کو بھاگی۔۔۔۔

جبکہ گل افگن آہل کو سنبھالنے کو بڑھا۔۔۔۔

"ثمر!!!!"

منہاء ثمر کو آتے دیکھ کر فورا اس کے ساتھ جا لگی اور زور زور سے رونے لگی۔۔۔۔

"اس نے!!!

اس نے میرے ساتھ!!!!"

منہاء اپنے ہونٹوں کو بےدردی سے صاف کرتے بلبلانے لگی۔۔۔

"بس منہاء!!!!

بس میں اگئی ہو ناں!!!!

بس۔۔۔"

ثمر منہاء کو خود سے لگائے اسے سنبھالنے لگی۔۔۔

جبکہ سامنے کھڑے خان بابا پشیمانی سے سر جھکائے نشے میں دھت آہل کو دیکھنے لگے۔۔۔

"گل افگن اسے لے جاؤ کمرے میں۔۔۔

اور بند کر دینا صبح تک جب تک میں نہ کہوں دروازہ مت کھولنا اس کے کمرے کا۔۔۔"

خان بابا جو غصے سے تلملا سے گئے تھے چنگارے۔۔۔

جس پر گل افگن مدہوش آہل کو کندھوں کا سہارا بھرتے وہاں سے لے گیا۔۔۔

ثمر کی نظر جب اس پر پڑی تو اسے بھی کل والے شخص کی یاد آگئی۔۔۔۔

"ہم بہت معذرت خواہ ہے بچے!!!!

ہمیں نہیں خبر تھا کہ ایسا کچھ ہوگا!!!!"

خان بابا پشیمان ہوتے سر جھکائے بولے۔۔۔

جبکہ منہاء کچھ بھی کہے بغیر روتے ہوئے وہاں سے لڑکھڑاتے قدموں سے تیز گام ہوئی۔۔۔

ثمر نے منہاء کو جاتے دیکھا تو فورا اس کے پیچھے کو بھاگی۔۔۔۔

جبکہ فائل ایک بار پھر خان بابا کے ہاتھ میں ہی رہ گئی۔۔۔

اور وہ افسردگی سے فائل تھامے کمرے کو دیکھنے لگے۔۔۔

"دل کرتا ہے اس کمرے کو تباہ کردو۔۔۔

کیا حال کردیا ہے اس ظالم عورت نے میرے پوتے کا۔۔۔

خبیث کی اولاد نہ ہو تو۔۔۔"

خان بابا دل کے جلتے انگاروں کو لفظ بڑھے چنگارے۔۔

اور لائٹ دروازہ بند کرتے کمرے سے باہر نکل گئے۔۔۔

ثمر پورے راستے منہاء کی خاموش سسکیوں کو محسوس کرتی رہی۔۔۔

دونوں ٹانگیں سیٹ پر چڑھائے وہ کبھی باہر کی جانب نم آنکھوں سے دیکھتی تو کبھی اس واقعے کی یاد میں اپنے لبوں کو زور زور سے مسل کر رونے لگتی۔۔۔

ثمر نے پورے راستے منہاء سے کوئی بات نہ کی۔۔۔

جبکہ جیسے ہی گاڑی منہاء کے گھر کے سامنے رکی تو ثمر خود کو روک نہ سکی۔۔۔۔

منہاء جو ایک بت کی مانند بیٹھی تھی ثمر نے اہستگی سے اس کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔

جس پر منہاء بری طرح چونک سی گئی۔۔۔۔

"میں ہوں ثمر۔۔۔

منہاء میں ہوں یار۔۔۔

کیا ہو گیا ہے کیوں اتنا خوف کھا رہی ہو لڑکی۔۔۔"

ثمر فورا اس کی جانب اسے خود سے لگائے روہانسی ہوئی۔۔۔

"یہ سب میری غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔۔۔۔

یہ سب میری غلطی تھی ثمر۔۔۔۔

کاش میں مان جاتی تمہاری بات۔۔۔

کاش میں نہ جاتی۔۔۔

مگر میری ضد میری انا۔۔۔"

منہاء خود کو دیکھتے سنگین سی ہوئی۔۔

"اس کی ہاتھوں کا لمس مجھے ابھی تک۔۔۔

ابھی تک پورے وجود میں محسوس ہو رہا ہے۔۔۔

جیسے ہو چھو رہا ہو مجھے جھنجھوڑ رہا ہو مجھے۔۔"

"منہاء بس یار۔۔۔۔

مت رو میری جان۔۔۔

کچھ نہیں ہوا۔۔۔

کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔

سب ٹھیک ہے تم ٹھیک ہو۔۔۔۔"

ثمر منہاء کے چہرے کو اپنے ہاتھوں. میں دبوچے اسے سمجھانے لگی۔۔۔

"نہیں۔۔۔۔

کچھ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔

تم نہیں جانتی کیا ہوسکتا تھا ۔۔۔۔

وہ انسان نہیں جانور ہے جو مجھے جھنجھوڑ رہا تھا۔۔۔

اور میں۔۔۔۔"

منہاء کے بھیگے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ابھری۔۔۔

"خود کو ایک مضبوط لڑکی سمجھتی تھی۔۔۔

جو کسی کا بھی منہ توڑ سکتی تھی۔۔۔

اس کی حوس کا نشانہ بنی۔۔۔

اور کچھ نہ کر سکی۔۔۔۔"

"نہیں منہاء۔۔۔

وہ ہوش میں نہیں تھا۔۔۔

اور اللہ پاک کا شکر ہے کچھ نہیں ہوا ایسا جو تم خود کو کوس رہی ہو۔۔۔۔

پلیز رونا بند کرو۔۔۔

دیکھو گھر آگیا ہے تمہارا ایسے اندر جاؤ گی تو آنٹی کو بہت شک ہوگا۔۔۔

کیا جواب دو گی ان کو پھر۔۔۔"

ثمر منہاء کے چہرے کو صاف کرتے گو ہوئی۔۔۔

"امی!!!!"

منہاء ابتری ہوئی۔۔

"امی تو میرا جھوٹ بھی پکڑ لیتی ہے ثمر۔۔۔

میری حالت دیکھو ایک انسان کے عتاب کا نشانہ بن کر آئی ہو۔۔۔۔

اور بلال!!!!!"

منہاء سکتے کی حالت میں ہوئی۔۔۔۔

"تم کیوں مطلب کیوں بلال کیوں؟؟؟

پاگل ہو گئی ہو تم۔۔۔۔

کہہ رہی ہو ناں کہ چپ رہو۔۔۔۔

ابھی جاؤ اندر اور آرام کرو۔۔۔

صبح آتی ہو تم سے ملنے۔۔۔۔

 اور تب تک خود کو سنبھالو۔۔۔

پلیز بھول جاؤ سب ایسا کچھ نہیں ہوا جو تم اتنا سنگین بنا رہی ہو یار۔۔۔"

ثمر زچ ہوئی۔۔۔

"نہیں بھول سکتی۔۔۔

کبھی نہیں بھول سکتی۔۔۔۔

بہت غلط کیا میں نے خود کے ساتھ۔۔۔

سزا تو بنتی تھی ناں۔۔۔"

منہاء فورا اپنا بیگ سنبھالے لڑکھڑاتے قدموں سے گاڑی سے باہر کو نکلی۔۔۔

اور سیدھا دروازے کی جانب بڑھی۔۔۔

پہلی بار منہاء نے ثمر کو تلقین نہیں کی تھی خود کی کرچیوں کی چھبن میں گم وہ گھر کے اندر داخل ہوئی۔۔۔

جبکہ منہاء کو یوں جاتا دیکھ کر ثمر کو بھی دکھ سا ہوا۔۔۔

مگر پھر کچھ سوچتے ہی گاڑی آگے کو بڑھا دی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"کہاں رہ گئی تھی تم؟؟؟

یہ وقت ہے ایک عزت دار جوان لڑکی کا گھر واپس آنے کا۔۔۔۔

تمہیں ہوش بھی ہے کہ کس قدر پریشان تھی میں۔۔۔

کس کو کہتی کس کو بلاتی۔۔۔

فون کرو تو وہ مسلسل بند جا رہا ۔۔۔۔

کہاں ہے تمہارا وہ فون جس کے

منہاء کو لٹکے منہ سے اندر آتے دیکھا تو ناز بی جو غصے اور پریشانی سے اٹی پڑی تھی اس کو دیکھتے ہی برس پڑی۔۔۔

"میرا تو دماغ سن ہو گیا تھا۔۔۔۔

وقت دیکھ دیکھ کر اندھیرا دیکھ دیکھ کر۔۔۔

بلال کا سوچا وہ تو پہلے ہی تم سے بپھرا ہوا۔۔۔

اور اگر تمہارے چچا کو بلاتی تو تمہارے کردار کی دھچیاں پورے خاندان میں بکھرتی۔۔۔۔۔"

ناز بی بول رہی تھی جبکہ منہاء بت بنی بناء کوئی جواب تاثر دیے سیدھے چلتے اپنے کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔

"منہاء!!!!

میں کچھ کہہ رہی ہو کچھ بول رہی ہو۔۔۔۔

تمہیں سمجھ بھی آرہی ہے کیا؟؟؟

سن کیوں نہیں رہی جواب کیوں نہیں دے رہی ہو تم!!!!"

ناز بی اس کے پیچھے کو بڑھی جبکہ وہ خاموشی سے کمرے میں جاتے ہی دروازہ بند کیے سیدھا اپنے بستر کی جانب بڑھی اور اوندھے منہ گرتے لیٹ گئی۔۔۔۔

"منہاء!!!!

منہاء دروازہ کھولو۔۔۔۔

کیا ہوا ہے بچے؟؟؟؟

میرا دل پھٹ جائے گا۔۔۔

کیا ہوا ہے دروازہ کیوں بند کیا ہے ؟؟؟"

ناز بی دروازہ پیٹ رہی تھی جبکہ منہاء کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہو گئے اور ہچکیاں بھرتے زور زور سے رونے لگی۔۔۔

دستک کچھ دیر تک یونہی جارہی ہے مگر جواب نہ ملنے پر ناز بی واپس پلٹ گئی۔۔۔۔

جبکہ پوری رات ایک اذیت کی آگ میں جلتی منہاء بے چین سی رہی اور ناجانے آنکھ کب لگی اسے خبر نہ ہوئی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

صبح کی کرن پھوٹی تو رات کے سناٹوں نے اپنا دامن جھاڑا اور وہاں سے چلتے بنے۔۔۔۔

بیڈ پر رات بھر کا بےسود پڑا وجود انگرائی بھرتے اٹھا تو سر میں شدت درد لیے آہل چکرا سا گیا۔۔۔۔

"اففففففف!!!!!

میرا سر۔۔۔۔۔

کل رات بہت پی لی تھی میں نے۔۔۔۔

نہیں پینی چاہیے تھی مجھے۔۔۔۔

اففففففف۔۔۔"

آہل سر پکڑے خود کلام ہوا۔۔۔۔

کہ تبھی آنکھیں موندنے پر کل رات کی کئی جھلکیاں اس کی آنکھوں کے گرد گھومی۔۔۔۔

"چھوڑو مجھے۔۔۔

چھوڑو۔۔۔۔

میں وہ نہیں ہو جو تم سمجھ رہے ہو۔۔۔

چھوڑو۔۔۔۔"

کانوں میں گونجتی چیخوں نے آہل کو دہلا سا دیا۔۔۔۔

اور پھر اس لڑکی کی قربت کا احساس وہ اپنے ہونٹوں کو چھوتے بیگانگی سے کرنے لگا۔۔۔

"یہ سب کیا تھا؟؟؟؟

اوہ میرے خدایا۔۔۔۔"

آہل سر جکڑے بے ہنگم ہوا۔۔۔

"کون تھی وہ؟؟؟

کیا کردیا میں نے یہ سب!!!"

آہل کشمکش سے زیر لب بڑبڑائے فورا بستر سے اٹھا تو ایک بار پھر سے چکرا سا گیا مگر خود کو سنبھالے دروازے کی جانب بڑھا۔۔۔

کہ جیسے ہی دروازہ کھولا تو وہ باہر سے بند معلوم ہوا۔۔۔

"گل افگن!!!!!

گل افگن۔۔۔۔۔

دروازہ کھولو گل افگن۔۔۔۔

اففففففف میرا سر۔۔۔۔"

آہل دروازے کو زور دار طریقے سے پیٹنے لگا۔۔۔

مگر دوسری جانب سے کوئی جواب نہ آیا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"کب تک یونہی آپ مجھے چائے کا سہارا دیے بیٹھائے رکھے گی آنٹی۔۔۔۔

کہاں ہے منہاء؟؟؟

ملنا ہے مجھے اس سے۔۔۔۔

کیوں چھپ رہی ہے مجھ سے وہ۔۔۔۔"

بلال جو خاصا پریشان تھا گھڑی پر نظریں جمائے بولا۔۔۔

"ایسی کوئی بات نہیں ہے بیٹا ۔۔۔

بلاتی ہو۔۔۔

کل رات بہت تھک گئی تھی وہ۔۔۔

تبھی اسے سونے دیا میں نے۔۔۔

اٹھایا نہیں اسے۔۔۔

آپ بیٹھو بس لاتی ہو اسے میں۔۔۔"

ناز بی اٹھی اور سیدھا اس کے کمرے کی جانب بڑھی۔۔۔

جبکہ بلال وہی چائے کی خالی پیالی ہاتھ میں دبوچے بیٹھا انتظار میں تھا۔۔۔۔

"منہاء بیٹا!!!!

منہاء۔۔۔۔۔۔"

ناز بی دروازے کو پیٹنے لگی جبکہ بیڈ پر موندھے منہ گری منہاء کو ہوش نہ ہوا۔۔۔۔

"منہاء!!!!

بیٹا دروازہ کھولو۔۔۔۔

بلال ملنا چاہتا ہے تم سے۔۔۔

بہت پریشان ہے وہ بیٹا۔۔۔

دروازہ کھولو باہر آؤ۔۔۔۔"

ناز بی مسلسل دستک بھر رہی تھی۔۔۔

جبکہ بخار میں تپتی منہاء ناز بی کی آواز اور دروازے کی دستک سن کر بمشکل ہی خود کو سنبھالے اٹھی۔۔۔

غنودگی اور پاؤں کی دکھن سے لڑکھڑاتے وہ گرتے پڑتے دروازے تک جا پہنچی۔۔۔۔

"بلال۔۔۔

بلال منہاء دروازہ نہیں کھول رہی ہے بیٹا!!!

دیکھو اسے کہیں کچھ ہو تو؟؟؟"

ناز بی روہانسی ہوتے فورا بلال کی جانب بھاگی جو سنتے ہی ان کے ساتھ ہڑبڑاتے ہوئے منہاء کے کمرے کی جانب لپکا۔۔۔

مگر جیسے ہی پہنچا اجڑی حالت میں کھڑی منہاء بمشکل سی کھڑی تھی ۔۔۔۔

مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ چکرائی اور زمین پر بےہوش ہوتے گر گئی۔۔۔۔

منہاء کو یوں گرتے دیکھا تو ناز بی اور بلال مارے پریشانی فورا اس کی جانب لپکے۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"آپ نے مجھے کمرے میں بند کیا؟؟؟؟

کیوں؟؟؟

وجہ جان سکتا ہو میں کیا؟؟؟؟"

آہل صوفے پر زور دار طریقے سے ٹانگ مارے چنگارا۔۔۔۔

"اپنا غصہ کم کرو آہل خان۔۔۔

تمہاری عقل ختم ہو جائے گا یقین جانو۔۔۔۔

تمہارے سامنے کون بیٹھا ہے لگتا ہے بھول گیا ہے تم۔۔۔"

خان بابا جو سامنے بیٹھے سخت مزاج میں تھے غرائے۔۔۔۔

"گل افگن۔۔۔۔

گل افگن۔۔۔۔۔"

آہل جو ویسے ہی بپھڑا ہوا تھا چیخنے لگا۔۔۔۔

"جی صاحب جی!!!!"

گل افگن نے آہل کا چنگارنا سنا تو ایک ٹانگ اس کی جانب بھاگا۔۔۔

"کون آیا تھا کل؟؟؟

کس کی ہمت ہوئی میرے کمرے میں میری موجودگی میں آنے تھی۔۔۔۔

کون تھی وہ؟؟؟

سچ بتانا ورنہ یقین جانو بہت برا کرو گا میں۔۔۔"

آہل سرخ آنکھوں سے چیخا۔۔۔۔

"ہاں ہاں بتاؤ افگن۔۔۔

آہل خان کو بتاؤ۔۔۔

کہ کیسا وہ وحشی جانور بنا تھا کل رات۔۔۔"

خان بابا غصے سے تلملائے۔۔۔۔

"جو کسی لڑکی ذات کا استحصال کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتا۔۔۔

وہ تمہیں کہاں بخشے!!!!"

"دادا!!!!!"

آہل نے سنا تو زیر لب زچ ہوا۔۔۔

"جب پینے کے بعد تم سے سہا نہیں جاتا تو مرد کیوں بنتا ہے پھر۔۔۔۔

تم نے کل رات جو کیا خان کے نام پر داغ لگایا ہے۔۔۔

ہم تم کو کبھی معاف نہیں کرے گا آہل۔۔۔

کبھی بھی نہیں۔۔۔۔"

خان بابا افسردگی سے بولتے آگے کو بڑھے۔۔۔۔

"افگن ہمارے لیے قہوہ حقہ تیار کرو۔۔۔۔

ہم بتانا چاہتا کسی کو کہ اصل مرد ہوتا ہے کیا۔۔۔۔"

"جی صاحب جی۔۔۔

آپ چلے میں لاتا ہو۔۔۔"

گل افگن حامی میں سر ہلائے بولا۔۔۔

جبکہ آہل خان بابا کی اتنی سختی دیکھ کر پریشان سا ہو گیا۔۔۔

بلال اور ناز بی ہسپتال کے ایک ایمرجنسی وارڈ روم کے باہر پریشان کھڑے تھے جب ثمر پریشانی سے پوچھ پوچھاتے بھاگتی ہوئی ان کی جانب بڑھی۔۔۔۔

"کیا کیا ہوا ہے منہاء کو بلال؟؟؟؟

کیا ہوا ہے اسے؟؟؟

رات تو ٹھیک تھی ؟؟؟؟

اب کیا ہوا اسے؟؟؟"

ثمر مبہوت ہوتے بلال کی جانب لپکی۔۔۔

جو منہ پر ہاتھ جمائے کندھے اچکائے پریشانی سے  پیچھے کو ہوا۔۔۔

بلال کی بے رخی دیکھی تھی تو ثمر منہ چڑھائے فورا ناز بی کی جانب بڑھی۔۔۔

"کیا ہوا ہے آنٹی؟؟؟

سب ٹھیک تو ہے ناں؟؟؟

مجھے جیسے ہی بلال نے بتایا میں فورا بھاگتی آئی ہو!!

کہاں ہے منہاء کیسی ہے وہ؟؟

ہوا کیا ہے اسے؟؟؟؟"

ثمر بلبلائی۔۔۔

"مجھے نہیں پتہ ثمر بیٹا۔۔۔

مجھے کچھ نہیں پتہ۔۔۔۔"

ناز بی جو ضبط کیے تھے روتے ہوئے ثمر کے ساتھ جا لگی۔۔

"کل رات واپس آئی تو خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ بند کر لیا۔۔۔

اب جب صبح اٹھانے کو بڑھی تو یہ اس حالت میں آئی باہر۔۔۔۔

میری منہاء!!!!!"

ناز بی کو یوں ٹوٹتے دیکھا تو ثمر حوصلہ دیتے انہیں خود سے لگائے چپ کروانے لگی۔۔۔

"کچھ نہیں ہوتا منہاء کو آنٹی۔۔۔۔

سنبھالے خود کو آپ بس۔۔۔۔

ڈاکٹر !!!!

ڈاکٹر کیا کہتے ہیں کیا ہوا ہے اسے۔۔۔"

ثمر ناز بی کو کرسی پر بیٹھائے بلال کو دیکھنے لگی۔۔۔۔

"پتہ نہیں۔۔۔۔

کچھ نہیں بتایا انہوں نے ابھی۔۔۔

میں خود بہت پریشان ہو کہ اسے ہوا کیا ہے؟؟؟

کل رات سے صبح تک کئی کالز کی اسے میں نے مگر کوئی جواب نہ دیا اس نے مجھے۔۔۔

بہت ہی لاپرواہ اور خود سر لڑکی ہے منہاء۔۔۔۔"

بلال بدمست ہوا۔۔۔۔

اس سے پہلے ثمر منہ توڑ جواب بڑھتی کہ تبھی ڈاکٹر وارڈ سے باہر نکلا جسے دیکھتے ہی بلال اور ثمر فورا ان کی جانب لپکے۔۔۔۔

"کیسی ہے منہاء؟؟؟

کیا ہوا ہے اسے؟؟؟

وہ ٹھیک تو ہے ناں؟؟؟؟"

ثمر اضطرابی کیفیت ہوئی۔۔۔۔

"اپکی پیشنٹ اب کافی بہتر ہے ۔۔۔۔

بہت زیادہ سٹریس لینے کی وجہ سے وہ کل رات بخار میں رہی ہے اور یہی وجہ کہ وہ بے ہوش ہو گئی تھی۔۔۔

لیکن شکر ہے کہ آپ انہیں وقت ہر یہاں لے آئے اگر وقت پر نہ لاتے تو بخار سر پر چڑھنے کا خدشہ تھا جس سے نروس بریک ڈاؤن بھی ہو سکتا تھا انکا۔۔۔"

"نروس بریک ڈاؤن؟؟؟؟"

ناز بی نے سنا تو داسہم نظروں سے ثمر کو دیکھنے لگی جو فورا ناز بی کی جانب بڑھی۔۔۔۔

"اب ٹھیک ہے منہاء آنٹی!!!

بلکل ٹھیک ہے اب وہ۔۔۔۔

آپ بس اب پریشان نہ ہو۔۔۔۔

سب ٹھیک ہے اب۔۔۔۔"

"اب اب کیسی ہے وہ؟؟

کیا ہم مل سکتے ہیں اس سے؟؟؟

اور کب تک ڈسچارج ہوگی وہ؟؟؟"

بلال نے ڈاکٹر کی تفصیل سنی تو فورا سوالیہ ہوا۔۔۔۔

"ابھی تو وہ نیند کے اثر میں ہے۔۔۔

تاکہ پرسکون رہے۔۔۔

مگر جیسے ہی ہوش آئے گا آپ ان سے مل لینا۔۔۔

اور پھر بخار کی شدت دیکھ کر ہی ہم انہیں ڈسچارج کرنے کا کچھ کہہ سکتے ہیں ۔۔۔۔

باقی ان کو کسی بات کا سٹریس نہ دے اور ادویات کی رپورٹ ریسپشنسٹ کے پاس بھیج دی ہے میں نے آپ وہاں سے بل کے ساتھ وہ رپورٹ بھی لے لیں۔۔۔"

ڈاکٹر تاسف سے کہتے وہاں سے چلتا بنا۔۔۔

جبکہ بلال ثمر کو اشارہ بڑھتے سیدھا ریسپشن کی جانب بڑھا۔۔۔۔

"میں بھی شکرانے کے نفل پڑھ کے آتی ہو ثمر۔۔۔

تم یہی رہنا میری بیٹی کے پاس اچھا۔۔۔

یہی رہنا تم میں بس آتی ہو ابھی آتی ہو۔۔۔"

ناز بی اٹھی اور چہرہ صاف کرتے ثمر کو تلقین کرتے وہاں سے چلی گئی۔۔۔

جبکہ ثمر خود وارڈ کے باہر کھڑی اندر سکوت لیٹی منہاء کو دیکھنے لگی۔۔۔۔

"سہی کہہ رہی تھی تم۔۔۔

تم نہیں بھول سکتی وہ سب۔۔۔۔"

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل جس کا دماغ خان بابا سے عزت افزائی کروانے کے بعد ساتویں آسمان پر چڑھا تھا اپنے کمرے میں پھوں پھاں کرتے چکر کاٹنے لگا۔۔۔۔

"آخر کون تھی وہ جس کی وجہ سے دادا نے مجھے اس قدر ڈانٹا۔۔۔

وہ شخص جو کبھی بھی مجھ سے ناراض نہ ہوا تھا آج مجھ پر چیخے چنگارے۔۔۔۔

کیسے کر سکتے ہیں دادا میرے ساتھ یوں!!!!!

کیسے کر سکتے ہیں وہ؟؟؟؟"

آہل اپنے ڈریسنگ کے سامنے کھڑا پرفیوم کی کئی بوتلوں کو غصے سے ہاتھ مارے چنگارا۔۔۔

کہ کانچ کی کئی بوتلیں زمین پر گری اور کانچ کانچ ہو گئی۔۔۔

"نہیں چھوڑو گا اسے۔۔۔

نہیں چھوڑو گا۔۔۔

ہمت کیسے ہوئی اس کی میرے کمرے میں آنے کی۔۔۔۔

بس ایک بار پتہ لگ جائے مجھے کہ وہ تھی کون۔؟؟؟؟

ایسا مزہ چکھاؤ گا کہ یاد رکھے گی مجھے۔۔۔"

آہل خونخواری آنکھوں میں لیے شیشے کے سامنے کھڑا غرایا۔۔۔۔

اور پھر فورا تیز قدموں سے کمرے سے باہر نکلا۔۔۔۔

"گل افگن۔۔۔۔۔

گل افگن!!!!!!"

اپنے کمرے سے نکلتے ہی آہل زور زور سے چیخنے لگا۔۔۔

"جی صاحب جی!!!!"

گل افگن جو پہلے ہی آہل کے غصے سے ڈر سا گیا تھا ہاتھ جوڑے اہستگی سے بولا۔۔۔

"فورا میرے کمرے میں آؤ ابھی اور اسی وقت۔۔۔۔

جلدی آؤ۔۔۔۔"

آہل کہتے واپس اپنے کمرے میں بڑھا۔۔۔۔

جبکہ گل افگن کانپتے وجود کے ساتھ سیڑھیاں چڑھتے اوپر کی جانب ہوا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"گل افگن میں تم سے بس ایک سوال کرونگا۔۔۔۔"

آہل آرام دہ کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے ہاتھ میں وائین کا کین تھامے بگڑے مزاج سے بولا۔۔۔

"اور چاہتا ہو اس سوال کا جواب تم سچ اور امانتداری سے دو۔۔۔۔

یقینا تم میرے غصے کو مزید ہوا نہیں دو گے اور نہ ہی چاہو گے کہ اسکا نشانہ تم بنو۔۔۔۔"

جبکہ گل افگن کی نظر زمین پر بکھرے شیشے کے ٹکڑوں پر پڑی جس پر آہل نے کچھ دیر پہلے اپنا عتاب اتارا تھا۔۔۔۔

" ج۔ج۔جی صاحب جی۔۔۔

آ۔۔۔۔آ۔۔۔آپ پوچھیے جو پوچھے گے سب بتاؤ گا سچ سچ بتاؤ گا۔۔۔"

گل افگن ہاتھ باندھے بادب ہوا۔۔۔۔

"تو بتاؤ کون تھی وہ لڑکی جو کل رات میرے اس کمرے میں آئی تھی؟؟؟؟

میں جانتا ہو تم سب جانتے ہو کیونکہ اس گھر میں کون کب آیا اور کب گیا تمہیں سب کی خبر ہوتی ہے۔۔۔۔"

آہل نے کین کو منہ سے لگایا اور ایک لمبا گھونٹ بھرتے گلے کی۔خشکی ہٹائی۔۔۔

"صاحب جی وہ کون تھی یہ تو مجھے معلوم نہیں۔۔۔۔"

گل افگن نے ایک گہرا سانس بھرا اور بولا۔۔۔۔

"مگر وہ بڑے صاحب سے ملنے آئے تھی انہیں بڑے صاحب نے ہی بلوایا تھا۔۔۔"

"تو کیا دادا جانتے تھے انہیں؟؟؟

کیوں بلایا تھا اسے اور کون ہے وہ لڑکی؟؟؟؟"

آہل دلچسپی ظاہر کرتے بولا۔۔۔

"نہیں بڑے صاحب بھی نہیں جانتے تھے انہیں۔۔۔

وہ تو بس بڑے صاحب کو ہسپتال وہی لڑکی لے کر گئی تھی اور  اپنا کچھ سامان بڑے صاحب کی گاڑی میں بھول گئی تھی۔۔۔

صاحب جی نے وہ سامان واپس کرنے اور شکریہ ادا کرنے کیلئے بلایا تھا انہیں۔۔۔۔ 

باقی جو مجھے معلوم تھا میں نے آپ کو بتا دیا۔۔۔"

گل افگن برجستگی سے بولنے کے بعد خاموش ہوگیا۔۔۔

جبکہ آہل سب کچھ خاموشی سے سننے کے بعد ایک ہی گھونٹ میں سارا کین انڈیلا اور وہی زمین پر پھینک دیا۔۔۔۔۔

"کیا وہ لڑکی سامان لے گئی تھی ؟؟؟؟ 

اور کیا سامان تھا اس کا کیا معلوم ہے تمہیں؟؟؟"

آہل گہرا سنگین ہوا۔۔۔۔

"صاحب جی وہ فائل تھی ایک شاید کچھ کاغذات تھے اس میں۔۔۔۔

میں نے جاتے ہوئے تو ان کے ہاتھ کوئی فائل نہیں دیکھی تھی۔۔۔

ہوسکتا ہے وہ نہیں لے کر گئی ہو اور بڑے صاحب کے پاس

موجود ہو ابھی بھی۔۔۔۔

گل افگن تاسف ہوا۔۔۔۔"

"تو ٹھیک ہے وہ فائل مجھے چاہیے۔۔۔۔

کسی بھی طرح۔۔۔۔

اور تم لا کر دو گے مجھے کیسے بھی کر کے۔۔۔۔"

"مگر صاحب. جی!!!!!"

گل افگن نے سنا تو ششدر ہوا۔۔

"قیمت دونگا اس کی میں تمہیں۔۔۔۔

مجھے جاننا ہے کہ کون تھی وہ جس نے میرے کمرے میں آنے کی جرات کی۔۔۔۔

مجھے آج رات تک وہ فائل چاہیے۔۔۔"

آہل حکم صادر کرتے  ہی وہاں سے اٹھا اور کمرے سے بے دھڑک چلتا بنا۔۔۔۔

جبکہ گل افگن منہ لٹکائے اب کانچ کے کئی ٹکڑوں کو سمیٹنے کو آگے کو بڑھا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء کو ہوش آ چکا تھا جبکہ ثمر اور ناز بی منہاء کے پاس بیٹھی اس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

کیا ہوا ہے منہاء؟؟؟؟

کس بات کی پریشانی ہے؟؟؟

کیوں اپنی ماں سے سب چھپاتی ہو تم؟؟؟؟

ناز بی روتے ہوئے شکوہ کناں ہوئئ۔۔۔

امی!!!!!

منہاء مدہم ہوئی۔۔۔

آنٹی پلیز روئے ڈاکٹر نے کہا ہے ناں اسے کسی بھی قسم کی ٹینشن نہیں دینی ابھی یہ مکمل ٹھیک نہیں ہے۔۔۔۔

آپ پلیز چپ ہو جائے روئے مت ۔۔۔۔۔

ثمر سمجھاتے بولی۔۔۔

"کیوں نہ روؤں میں ثمر۔۔۔

کیوں نہ روؤں۔۔۔۔

ایک ہی ایک اولاد ہے میری یہ۔۔۔۔

اگر اسے کچھ ہوجاتا تو کیا کرتی میں۔۔۔۔

آدھی زندگی تو اس کے باپ کے ماتم میں روئی ہو باقی زندگی اس کی جدائی میں رونا پڑنا مجھے۔۔۔۔"

ناز بی روتے ہوئے باہر کو چلی گئی۔۔۔

جبکہ ثمر انہیں سمجھانے کو آگے کو بڑھی۔۔۔۔

"ثمر!!!!!!!!"

منہاء نے جاتی ثمر کو آواز دی تو وہ واپس اس کی جانب پلٹی۔۔۔۔

"کیا ہوا ہے؟؟؟

کچھ چاہیے کیا؟؟؟؟

طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟؟؟

کہوں تو میں ڈاکٹر!!!!!"

"بلال چاہیے!!!!!

کہاں ہے وہ؟؟؟؟"

منہاء نے ثمر کی اضطرابی دیکھی تو اہستگی سے زیر لب بولی۔۔۔۔

"وہ باہر ہے ابھی بلاتی ہو اسے میں۔۔۔۔

بس ابھی بلاتی ہو۔۔۔"

ثمر کہتے ساتھ ہی باہر کو بڑھی۔۔۔

جبکہ منہاء بمشکل بازوؤں کو سہارا دیتے ٹیک لگائے بیٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

بلال منہاء کے سامنے بیٹھا موبائل استعمال کررہا تھا جبکہ اسے ٹکر ٹکر دیکھتی منہاء اس کی بے رخی پر اشک بھر رہی تھی۔۔۔۔۔

"ناراض ہو؟؟؟؟"

گہری خاموشی کے بعد منہاء بلآخر بول ہی پڑی۔۔۔۔

"طبیعت کیسی ہے اب تمہاری؟؟؟؟"

بلال اسی طرح بیٹھا منہاء کو نظر انداز کرتے بولا۔۔۔۔

"میری طرف کیوں نہیں دیکھ رہے ہو بلال؟؟؟"

منہاء نے بلال کے ہاتھ سے موبائل کھینچا۔۔۔۔

"کیا بد تمیزی ہے یہ منہاء؟؟؟؟

موبائل واپس کرو میرا۔۔۔۔"

بلال سخت گیر ہوا۔۔۔۔

"نظر کیوں نہیں ملا رہے مجھ سے پھر؟؟؟

کیوں خفا ہو مجھ سے بلال؟؟؟

کیا بس یہی محبت تھی تمہاری؟؟؟؟"

منہاء کی آنکھیں بھر آئی۔۔۔۔

"ہاں یہی محبت تھی میری۔۔۔

کیونکہ جیسی محبت تم نبھاؤ گی ویسی ہی پاؤں گی۔۔۔

منع کیا تھا ناں تمہیں میں نے جاب کرنے سے۔۔۔۔

نہیں مانی نہ تم؟؟؟؟"

بلال سخت ہوا۔۔۔۔

"تم میری جاب کی وجہ سے ناراض ہو ؟؟؟؟"

منہاء اسے سوالی ہوتے دیکھنے لگی۔۔۔۔

"تو اور کونسی بات ہے جس وجہ سے ناراض ہونگا میں بولو۔۔۔

تمہارے لیے میں اپنی ماں کے آگے کھڑا ہو رہا ہو۔۔۔

اور تم اپنی من مانی کررہی ہو۔۔۔

مجھے بتانا گوارا نہیں سمجھا تم نے اپنی جاب کے متعلق؟؟؟

کیوں؟؟؟؟"

بلال عنقریب چیخا۔۔۔

"تو کیا کرتی میں بلال۔۔۔

گھر رہ رہ کر میری سوچ بس شادی اور امی کی پریشانی میں اٹکی رہتی تھی۔۔۔۔

پاگل ہو رہی تھی تم سے لڑ رہی تھی۔۔۔۔

اور ویسے بھی تم جانتے ہو ہمارے گھر کے حالات کیسے ہیں۔۔۔۔"

تو میں کیوں جاب نہ کرو کیوں خود کو وقت نہ دو۔۔۔۔

منہاء زچ ہوئی۔۔۔۔

"ٹھیک ہے تو کرو پھر اپنی من مانیاں۔۔۔۔

میں بھی اپنی مرضی کرونگا۔۔۔۔"

بلال کہتے ہی اٹھا اور وہاں سے منہ بسورے چلتا بنا۔۔۔

جبکہ منہاء نے اسے روکنا مناسب نہ سمجھا۔۔۔۔

بلال کے باہر جاتے ہی ثمر فورا اندر کی جانب بڑھی۔۔۔

"اسے کیا ہوا منہا؟؟؟؟

یہ کیوں اتھڑا گھوڑا بنا ہوا تھا۔۔۔۔"

ثمر سوالی ہوئی۔۔۔۔

"کچھ نہیں یار۔۔۔۔

چھوڑو اسے۔۔۔

یہ بتاؤ امی کہاں ہے؟؟؟؟"

منہاء نے بات نظر انداز کی۔۔۔۔

"میں نے انہیں گھر بھیج دیا ہے۔۔۔

صبح سے شام ہو گئی ہے اور وہ بہت تھک گئی تھی بیٹھ بیٹھ کر۔۔۔۔"

"ہمممم صیحح کیا تم نے۔۔۔۔"

منہاء مطمئن ہوئی۔۔۔۔

"اچھا منہاء!!!!!"

ثمر جو کچھ سوچ رہی تھی بولی۔۔۔۔

جس پر منہاء اس کی جانب متوجہ ہوئی۔۔۔۔

"تمہاری فائل تو ابھی بھی وہی ہے؟؟؟؟

کیا کرنا ہے اب آگے یہ بتاؤ۔۔۔

کیسے لینی ہے وہ فائل؟؟؟"

"میں نے نہیں جانا اب وہاں۔۔۔۔

تم۔۔۔۔

تم لے آؤ پلیز۔۔۔۔

مجھے اس گھٹیا انسان کا سامنا نہیں کرنا۔۔۔۔

اگر وہ میرے سامنے آیا نہ تو یقین جانو منہ توڑو گی اسکا میں اب۔۔۔۔"

منہاء زیر آلود ہوئی۔۔۔۔

"ہمممم ٹھیک ہے میں نے کل جاب کیلئے جانا ہے جاتے ہوئے لے لونگی تمہاری فائل تم ٹینشن نہ لو۔۔۔۔"

ثمر نے سنا تو تاسف سے اس کے پاس بیٹھ گئی۔۔۔۔

"یار ڈاکٹر کب مجھے اس قید سے آزاد کرے گے پلیز پوچھ کر آؤ۔۔۔۔

میں یہاں ایک دن رہ کر ہی تھک گئی ہو۔۔۔۔

گھر جانا چاہتی ہو اب۔۔۔"

منہاء منہ بسورے بولی۔۔۔

"ہاں میں پوچھ کر آتی ہو کہ میں ڈسچارج کرے گے تمہیں۔۔۔

اب تو کافی ٹھیک ہے تمہاری طبیعت۔۔۔۔

شاید ڈاکٹر ڈسچارج کر ہی دے۔۔۔"

ثمر کہتے اٹھی اور باہر کو چلی گئی۔۔۔

جبکہ سر تکیے پر گرائے منہاء آنکھیں موندھے لیٹی۔۔۔

مگر کل رات کا وہی منظر منہاء کی آنکھوں میں چھلکا جسے دیکھتے ہی وہ گھبراتے واپس اٹھ بیٹھی اور پریشان سی ہوگئی۔۔۔۔

رات کے آٹھ بج رہے تھے جب گل افگن ہاتھ میں کھانے کی ٹرے تھامے خان بابا کے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔

تو پشتوں گانوں سے مسرور ہوتے خان بابا نے گل افگن کو دیکھا تو میوزک بند کرنے کا اشارہ دیا۔۔۔

جس پر ٹرے میز پر سجائے گل افگن نے گانا بند کیا اور واپس ٹرے لیے خان بابا کے سامنے جا پہنچا۔۔۔۔

"بڑے صاحب جی اپکی دوائی کا وقت ہو گیا ہے۔۔۔

کچھ کھا لے آپ پہلے پھر دوائی بھی دینی ہے آپ کو۔۔۔۔

ذرا سی بھی لاپرواہی ہوئی نہ میری جانب سے تو آہل بابا مار ڈالے گے مجھے۔۔۔۔"

گل افگن ٹرے خان بابا کے سامنے رکھتے تاسف ہوا اور واپس پیچھے کو پلٹا۔۔۔۔

"کہاں ہے وہ لاوے کا پہاڑ؟؟؟؟

انگارے خان!!!!"

خان بابا بے رخی سے بولے۔۔۔۔

"معلوم نہیں بڑے صاحب جی۔۔۔۔۔

شام کے نکلے ہیں اب رات ہونے کو ہے مگر ابھی تک نہیں آئے۔۔۔۔"

گل افگن واپس پلٹا۔۔۔۔

"تم نے یقینا اس کو سب بتا دیا ہوگا۔۔۔

کہ کون لڑکی تھا وہ اور کیسے آیا تھا وہ یہاں؟؟؟"

خان بابا نے ترچھی نظر گل افگن پر ڈالی۔۔۔

جس پر گل افگن خاموشی سے ہاتھ باندھے سر جھکائے کھڑا ہوگیا۔۔۔۔

"ایک تو تم جیسا ہلکے پیٹ کا مرد ہمیں زہر لگتا ہے۔۔۔۔

تم جیسا ملازم ہی ہوتا ہے جو دشمن کو راذ دیتا ہے اور پھر موت پرواتا ہے مالک کے سر۔۔۔۔"

خان بابا سخت ہوئے۔۔۔

" تو کیا کرتا پھر میں صاحب جی۔۔۔۔

ایک طرف آپ ایک طرف آہل صاحب۔۔۔۔

ان کا غصہ اس قدر کے میری روح تک کانپ جاتی ہے۔۔۔

پھر جو وہ پوچھتے گئے میں اگلتا گیا سب۔۔۔۔"

گل افگن کندھے اچکائے بولا۔۔۔۔

"اچھا تو تم اس آج کے چھٹانک بھرے لڑکے سے ڈرتا ہے۔۔۔

اور میں مصطفی خان جو کسی زمانے میں چار چار تم جیسے مردوں کو ایک ہاتھ سے پچھاڑ دیتا تھا کیا مجھ سے ڈر نہیں لگتا ہے تمہیں؟؟؟"

خان بابا اپنے بازوؤں پر چست لگائے فخریہ ہوئے۔۔۔

"صاحب جی وہ زمانہ گزر گیا اب آہل خان کا زمانہ ہے۔۔۔

جس کا زمانہ اسی کی سرداری۔۔۔۔"

گل افگن مسکراتے بولا۔۔۔۔

"ہٹ کمبخت بد ذات انسان۔۔۔۔

فون لگاؤ اپنے زمانے کو۔۔۔

اس کے زمانے کا زوال ہم بنتا ہے۔۔۔۔

بڑا آیا سردار کہنے والا۔۔۔"

خان بابا نے سنا تو گل افگن کو کاٹ کھانے کو بولے۔۔۔

جبکہ گل افگن ہنستا ہوا یونہی فورا باہر کو بھاگا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء ثمر کے ہمراہ ہسپتال سے واپس آچکی تھی۔۔۔۔

جبکہ ثمر ناز بی کو اس کی ادویات کے متعلق آگاہ کر کے جا چکی تھی۔۔۔۔

منہاء اپنے بیڈ پر لیٹی مسلسل بلال کے متعلق سوچ رہی تھی۔۔۔۔

کہ تبھی فون اٹھایا اور اسکا نمبر ملاتے ہی فون کان سے لگا لیا۔۔۔۔

مسلسل فون پر بیلز جارہی تھی مگر دوسری جانب سے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا۔۔۔۔

"جان بوجھ کر میرا فون نہیں اٹھا رہا ہے یہ۔۔۔۔

مگر میں بھی حد درجہ ضدی ہو جب تک فون نہیں اٹھائے گا میں بھی کرتی جاؤ گی کال۔۔۔۔"

منہاء زچ ہوئی اور دوبارہ فون ملانے لگی۔۔۔۔

کہ تبھی دو بیلز کے بعد دوسری جانب سے فون اٹھا لیا گیا۔۔۔۔

"بلال کہاں ہو تم؟؟؟؟

اور یہ کیا بد تمیزی ہے میں تمہیں کب سے کال کررہی ہو اور تم ہو کہ اپنے ڈرامے دیکھا رہے ہو۔۔۔۔"

منہاء بپھڑ سی گئی۔۔۔۔

"توبہ توبہ توبہ۔۔۔۔

کیا زبان ہے تیری لڑکی۔۔۔

تجھے ذرا شرم نہیں آتی اپنے ہونے والے مجازی خدا سے یوں بات کرتے ہوئے۔۔۔۔

وہ تو فون میں نے اٹھا لیا ورنہ ناجانے تم کیا کیا تیر چلاتی ہوگی اس پر۔۔۔۔

اور وہ بے وقوف انسان بیٹھ جاتا ہوگا تیرے سامنے سر جھکا کر۔۔۔

بیغیرت نہ ہو تو وہ۔۔۔۔۔"

نغمہ بیگم جو پہلے ہی منہاء سے خھار کھاتی تھی اڑے ہاتھوں لیتے بولی۔۔۔

جبکہ نغمہ بیگم کی آواز سنتے ہی منہاء سر تھامے بیٹھ گئی۔۔۔۔

"ن۔۔۔ن۔۔۔نہیں آنٹی وہ تو بس یونہی۔۔۔۔

میں بہت پریشان ہو گئی تھی وہ فون جو نہیں اٹھا رہا تھا۔۔۔۔"

"ہاں تو اس کا کیا مطلب ہے کہ تم منہ پھٹ ہوجاؤ۔۔۔

ایک تو ویسے ہی جب سے تم اس کی زندگی میں آئی ہو میرا بیٹا مجھ سے دور ہو گیا ہے۔۔۔

ناجانے کیا کیا تعویز دھاگے پلاتی رہتی ہو اسے کہ ماں سے جدا ہی کردیا بیٹے کو۔۔۔۔"

نغمہ بیگم زہر آلود ہوئی۔۔۔

"یہ کیا کہہ رہی ہے آنٹی آپ؟؟؟

آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہیں؟؟؟

پسند ہو میں بلال کی اور؟؟؟"

منہاء جو اس سے آگے بولتی نغمہ بیگم بے قابو سی ہوئی۔۔۔۔

"ہاں ہاں کہہ دو کہ میں غلط ہو۔۔۔۔

میری سوچ غلط ہے۔۔۔۔

ارے تم جیسیوں کو اچھے سے جانتی ہو میں۔۔۔

پڑھنے کے بہانے شریف لڑکوں کو اپنے جال میں پھنساتی ہو۔۔۔

اور پھر ان کو لے اڑتی ہو۔۔۔

مگر یاد رکھنا بی بی۔۔۔

میں نغمہ بیگم ہو نغمہ۔۔۔۔

تمہیں اپنی بہو کبھی بننے نہیں دونگی میں۔۔۔

عذاب بنا دو گی تمہاری زندگی۔۔۔۔

بڑی آئی مجھے غلط کہنے والی۔۔۔۔

ہہہہہہہہہہہ۔۔۔۔"

نغمہ بیگم اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہی فون پٹخ دیا۔۔۔۔

جبکہ منہاء سکتے سے دوچار فون کان سے لگائے بت سی بن گئی۔۔۔۔

کہ تبھی ناز بی دودھ کا گلاس اور ادویات لیے اندر کی جانب بڑھی۔۔۔۔

"کیا ہوا ہے منہاء؟؟؟؟

ایسے کیوں بیٹھی ہو؟؟؟

اور کس کا فون ہے کس بات کررہی ہو؟؟؟"

ناز بی نے منہاء کا بے رونق چہرہ دیکھا تو فورا بولی۔۔۔

"نہیں۔۔۔۔

نہیں وہ!!!!

ثمر۔۔۔۔

ثمر کا فون تھا طبیعت کا پوچھ رہی تھی مجھ سے۔۔۔۔

بس اس لیے۔۔۔۔"

منہاء نے فورا نم آنکھوں کو پھیرا اور فون دوسری جانب رکھا۔۔۔۔

اچھا تو دیکھاؤ کتنا بخار ہے اب؟؟؟

اترا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔"

ناز بی منہاء کی پیشانی تو چھوتے دیکھنے لگی۔۔۔۔

جبکہ منہاء کے اندر ایک آنسوں کا طوفان امڈ سا آیا مگر وہ خود کو حوصلہ دیے بیٹھی رہی۔۔۔۔

"اب تو بہت کم ہے ۔۔۔۔

شکر ہے اللہ کا۔۔۔۔

چلوں اب یہ دودھ اور دوائی لو۔۔۔

تاکہ مزید سکون ملے تمہیں۔۔۔۔"

ناز بی دوائی اور دودھ کا گلاس بڑھائے بولی۔۔۔۔

جبکہ منہاء بناء کچھ کہے دوائی لے لی۔۔۔۔

منہاء کو دوائی دینے کے بعد ناز بی جیسے ہی واپس جانے کو پلٹی تو کچھ سوچتے واپس منہاء کی جانب ہوئی۔۔۔۔

"معلوم نہیں کہ کونسی ٹینشن لی ہے تم ہے۔۔۔۔

جس کی وجہ سے یہ حال ہو گیا ہے تمہارا۔۔۔۔"

منہاء نے سنا تو ناز بی کو شش و پنچ نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔۔

"مگر ماں ہو میں تمہاری۔۔۔

تمہارا میرے علاوہ اور میرا تمہارے علاوہ کوئی مخلص اس دنیا میں نہیں ہے منہاء۔۔۔۔

یہ بات یاد رکھنا۔۔۔۔

سارا زمانہ تمہیں ٹھکرا سکتا ہے مگر میں تمہیں کبھی خود سے الگ نہیں کرونگی۔۔۔۔"

ناز بی کی آنکھیں نم ہوئی۔۔۔۔۔

"چاہو تو بتاؤ دینا مجھے اپنی پریشانی کے متعلق۔۔۔۔

یقین جانو سکون اور مطمئن انداز سے سنوں گی۔۔۔

اور اچھا مشورہ دونگی۔۔۔۔"

ناز بی منہاء کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرے بولی۔۔۔۔

جبکہ منہاء نم آنکھوں سے حامی میں سر ہلائے تاسف ہوئی۔۔۔

جبکہ ناز بی کہتے ہی واپس کمرے سے باہر کو چلی گئی۔۔۔۔

"جانتی ہو آپ سے زیادہ مخلص میرا کوئی نہیں۔۔۔۔

مگر میں اپکو پریشان بھی نہیں دیکھ سکتی امی۔۔۔۔۔

نہیں دیکھ سکتی۔۔۔۔"

منہاء دل ہی دل میں سوچتے گو ہوئی۔۔۔۔

جبکہ پھر واپس آرام کرنے کی غرض سے بستر پر لیٹ گئی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨ 

آہل ہاتھ میں فائل تھامے فخریہ مسکراہٹ ہوا۔۔۔۔

جبکہ دونوں بازوؤں بادب جوڑے گل افگن سامنے کھڑا آہل کی بے معنی مسکراہٹ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

"جیسا آپ نے کہا تھا میں فائل چھپا کر لے آیا ہو آہل صاحب۔۔۔

مگر اگر خان بابا کو پتہ چلا تو ؟؟؟؟؟"

گل افگن نے خدشہ ظاہر کیا۔۔۔۔۔

"کون بتائے گا انہیں۔۔۔۔؟؟؟

کون؟؟؟؟

تم !؟؟؟

تم بتاؤ گے انہیں؟؟؟؟؟"

آہل نے ہاتھ میں پکڑے وائین کا کین زور دار طریقے سے دروازے پر مارا۔۔۔

جس سے ایک زور دار آواز نمودار ہوئی جبکہ گل افگن سے خوف سے ہل سا گیا تھا۔۔۔۔

"نہیں صاحب جی!!!!!

میں کیوں بتاؤ گا!!!!

آپ یقین کرے مر جاؤ گا کچھ نہیں کہوں زبان بند رکھو گا۔۔۔۔"

گل افگن وعدہ گو ہوا۔۔۔۔

جبکہ سنتے ہی آہل واپس فائل کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔۔

منہاء منور!!!! 

"ہمممممممممممم۔۔۔۔۔۔

یونیک نیم"

آہل نام لیتے ہی گہری سانس بڑھتے کرسی کی نشست سے لگا اور ہاتھ میں ایک نیا بیئر کا کین تھامے فاتحانہ چسکی بڑھنے لگا۔۔۔۔

"منہاء۔۔۔۔۔

بہت ہی خوبصورت نام ہے ناں افگن!!!!!"

آہل دلچسپی ظاہر گو ہوا۔۔۔

"جی صاحب جیسی وہ خود تھی ویسا ہی خوبصورت نام انکا۔۔۔۔"

گل افگن حامی میں بولا۔۔۔۔

"اچھا تو وہ لڑکی خوبصورت تھی جس کو میں نے اپنی قربت کا احساس دیا۔۔۔۔

آہاں یہ تو بہت اچھا ہو گیا پھر تو۔۔۔۔"

آہل ہاتھ میں فائل تھامے مسکراتے اٹھا اور نام دیکھتے اس کی سی وی کی تفصیل پڑھنے لگا۔۔۔۔

"صاحب جی آپ کو بڑے صاحب جی یاد کر رہے تھے۔۔۔۔

کیا انہیں بتا دو کہ آپ آگئے ہیں؟؟؟؟"

گل افگن تاسف ہوا۔۔۔۔

"نہیں۔۔۔۔

ابھی نہیں۔۔۔۔۔

اور انہیں بلکل خبر نہ ہو کہ فائل میرے پاس موجود ہے۔۔۔۔

اور اگر انہیں ذرا سی بھی بھنک لگی ناں۔۔۔۔"

آہل نے ہاتھ میں پکڑے کین کو پچکاتے افگن کو دیکھا جس کا حلق دیکھتے ہی خشک سا ہو گیا تھا.۔۔۔۔

"جی صاحب جی۔۔۔۔

جیسا آپ کہے۔۔۔۔

میں بلکل نہیں بتاؤ گا انہیں۔۔۔۔

آپ بے فکر رہے۔۔۔"

گل افگن مارے ڈر کہتے ہی فورا باہر کی جانب کو بھاگا۔۔۔۔

جب کہ اس کے جاتے ہی آہل واپس سی وی کا کاغز ہاتھ میں لیے مسکراتے دیکھنے لگا۔۔۔۔

"منہاء!!!!!!

منہاء!!!!!!"

کرسی پر واپس بیٹھتے وہ آنکھیں موندھے کاغذ سینے پر دھڑے بڑںڑانے لگا۔۔۔۔

جبکہ کمرے میں آہستہ آہستہ شراب کی بو پھیلنے لگی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

صبح کی کرن چمکی تو منہاء بھی ایک پرسکون ذہن کے ساتھ بیدار ہوئی۔۔۔۔

"اٹھ گئی ہے میری بیٹی!!!!

طبیعت کیسی ہے اب؟؟؟؟"

ناز بی ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے لیے اندر کو آئی اور منہاء کی گال کو پیار سے چھوتے  بولی۔۔۔۔

"امی میں بلکل ٹھیک ہو اب۔۔۔۔

اور آپ نے کیوں ناشتہ بنایا ہے۔۔۔۔

میں خود بنا لیتی ناں اب۔۔۔۔"

منہاء کہتے ہی فورا بیڈ سے اٹھی اور فریش ہونے کو بڑھی۔۔۔

"چلوں آج بنا دیا ہے ناں کل سے خود بنا لینا جلدی سے فریش ہو کر آؤ پھر مل کر ناشتہ کرتے ہیں۔۔۔۔"

ناز بی کہتے ہی کچھ اور چیزیں لینے باہر کو بڑھی جبکہ تب تک منہاء فریش ہو کر اگئی۔۔۔۔

اور پھر دونوں مل کر ناشتہ کرنے لگی۔۔۔۔

"منہاء ناشتہ کرنے کے بعد دوائی لینا مت بھولنا۔۔۔۔

ڈاکٹر نے سختی سے تاکید کی ہے کہ ناغہ نہ ڈالا جائے۔۔۔۔

تو ہرگز لاپرواہی نہیں کرنی اس میں۔۔۔۔"

"جی امی نہیں کرتی لاپرواہی۔۔۔۔۔

آپ پریشان نہ ہو نہ بس۔۔۔۔

یہ بتائے چاچوں کی جانب سے اب کوئی فضول بات تو نہیں اٹھی؟؟؟؟"

منہاء تاسف ہوئی۔۔۔۔

"معلوم نہیں۔۔۔۔

یہ تو اب جب خاندان بھر سے گھوم کر مجھ تک آئی گی تبھی بتاؤ گی تبھی معلوم ہوگا۔۔۔۔

خیر تم فکر مت کرو مجھے ان کی باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔۔"

"یہ آپ کہہ رہی ہے امی؟؟؟

بڑی بات ہے!!!!"

منہاء نے سنا تو حیرت ذدہ ہوتے مسکرائی۔۔۔۔

"اچھا بس کرو اب دوائی کھاؤ فورا۔۔۔

بہت زبان چلتی ہے تمہاری بلکل اپنے ابو کی طرح ہر سوال کا جواب فورا دیتے تھے وہ بھی۔۔۔۔

خیر میں یہ برتن رکھ کر آتی ہو۔۔۔

تب تک دوائی کھاؤ میں دیکھو گی آ کر کہ کھائی کہ نہیں۔۔۔

آئی سمجھ!!!"

ناز بی کہتے ہی برتن اٹھائے وہاں سے چلی گئی۔۔۔

جبکہ منہاء نے فورا اپنا موبائل تھاما اور دیکھنے لگی۔۔۔۔

"بلال کی بیس کالز؟؟؟؟؟؟

سب خیر ہو بس!!!!"

منہاء نے دیکھا تو مبہم گو ہوئی اور فورا کال مل دی۔۔۔۔

کہ دو تین بیلز کے بعد دوسری جانب سے فون اٹھا لیا گیا۔۔۔۔

"کیا ہوا ہے بلال؟؟؟

سب خیریت تو تھی ناں؟؟؟؟

تم نے اتنی کالز کی میں تو پریشان ہی۔۔۔۔"

"بس کردو اب یہ اپنی ڈرامہ بازی۔۔۔۔

یہ بتاؤ تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری امی سے بد تمیزی کرنے کی۔۔۔۔۔"

بلال سناٹ ہوتے منہاء کی بات کاٹے بولا۔۔۔۔

"میں نے بد تمیزی؟؟؟؟

میں نے بد تمیزی کی وہ بھی آنٹی سے؟؟؟؟"

منہاء نے بلال کا انکشاف سنا تو ہکا بکا ہوئی۔۔۔۔

"جی تم نے ہی کی۔۔۔۔۔

یہ تو مجھے پتہ تھا کہ تمہاری زبان بہت تیز ہے مگر۔۔۔

تمہیں شرم نہیں آئی ان سے اس لہجے سے بات کرتے ہوئے۔۔۔۔

ماں ہے وہ میری اور تم کیسے ان سے بد تمیزی کر سکتی ہو منہاء۔۔۔۔۔"

بلال بپھڑا۔۔۔۔

"بلال میں نے کوئی بد تمیزی نہیں کی تمہاری ماں سے۔۔۔

بلکہ تمہاری ماں ہی الٹا!!!!"

"آرہا ہے نظر مجھے کہ کتنا سچ کہہ رہی ہو تم۔۔۔۔

میرے سامنے تم ایسا بول رہی ہو پتہ نہیں ان سے کیا کیا کہا ہے کہ وہ رات بھر روتی رہی ہے اور اب ان کی طبیعت خراب ہے۔۔۔۔

اگر ان کو کچھ ہوا نہ تو یاد رکھنا معاف نہیں کرونگا میں کبھی تمہیں۔۔۔۔۔"

"بلال میں نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے۔۔۔۔

میں کیوں ان سے بد تمیزی کرونگی؟؟؟؟

اور تمہیں مجھ ہر یقین نہیں کیا؟؟؟؟"

منہاء صاف گو ہوئی۔۔۔

"تو کیا میری ماں جھوٹ بول رہی ہے؟؟؟؟

جھوٹ بول رہی ہے وہ کیا؟؟؟؟

بولو؟؟؟؟"

بلال گرجا۔۔۔۔

"ہاں جھوٹ بول رہی ہے وہ۔۔۔۔

کیونکہ وہ مجھے تمہاری نظروں سے گرانا چاہتی ہے۔۔۔

وہ نہیں چاہتی کہ میری تمہاری شادی ہو۔۔۔۔

تم کیوں. نہیں سمجھ رہے ہو یہ بات؟؟؟؟"

منہاء  بدمست ہوئی۔۔۔۔

"بس شادی شادی شادی۔۔۔۔۔

تمہیں بس شادی کا رہ گیا ہے ۔۔۔۔۔"

بلال کہتے چنگارا۔۔۔۔

جبکہ منہاء اس کا غصہ دیکھ کر روہانسی ہوئی۔۔۔

"تمہاری وجہ سے۔۔۔۔

صرف تمہاری وجہ سے میں اپنی امی کے خلاف جاتا ہو۔۔۔

ان سے تمہارے لیے لڑتا ہو۔۔۔۔

اور تم یہ سب کرتی پھرتی ہو۔۔۔۔

تو کیسے مانے گی وہ پھر!!!!!

بولو۔۔۔۔"۔

"تمہارا لہجہ صاف بتا رہا ہے کہ وہ مجھے تمہارے سامنے کتنا بندہ کرچکی ہے۔۔۔۔

وہ جو کہہ رہی تھی کل سچ کر چکی ہے۔۔۔۔"

منہاء کا لہجہ بھیگا۔۔۔۔

"بس کردو منہاء بس کردو۔۔۔۔

تم کیوں. مانو گی اپنی غلطی۔۔۔

ٹھیک ہے میں غلط ہو میری ماں غلط ہے ہم سب غلط ہے بس تم ٹھیک ہو۔۔۔۔

تو رہو ٹھیک اب۔۔۔۔

آج کے بعد مجھے فون مت کرنا آئی سمجھ۔۔۔۔

ختم سب کچھ۔۔۔۔

سب ختم۔۔۔۔"

بلال نے سنگین ہوتے فون بند کردیا۔۔۔۔

جبکہ منہاء بوجھل لہجے سے فون کان پر لگائے مبہوت ہوئی۔۔۔۔

ناز بی جو سب دروازے پر کھڑی سن چکی تھی منہاء کو یوں ٹوٹتے دیکھتے پہلے تو اس کی جانب بڑھنے لگی مگر پھر کچھ سوچتے وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔

منہاء جو ابھی تک بلال کی نفرت انگیزی کو ہضم نہیں کر پا رہی تھی اچانک اس کا فون پھر سے بجا۔۔۔۔

اور سکرین پر ایک انجان نمبر چمکنے لگا۔۔۔۔

جسے دیکھ کر منہاء نے فورا کاٹ دیا اور فون سوئچ آف کرتے وہی بستر پر پھینکتے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨ 

آہل تیار ہوتے ہی سیدھا اپنے کمرے سے نکلا۔۔۔۔

نظر اوپر سے آتے ہی سامنے بیٹھے خان بابا پر پڑی جو اپنے قہوے کی چسکیاں بھر رہے تھے۔۔۔۔۔

آہل آتے آتے رکا مگر پھر مکمل نظر اندازی سے وہاں سے گزرنے لگا۔۔۔ 

"کیا ہوا برخودار۔۔؟؟؟؟

طاقت کے نشے میں بزرگوں کا ادب بھول گیا ہے تم؟؟؟؟

حیرت ہے ایسا کیسے کر سکتا ہے تم؟؟؟؟؟"

خان بابا نے طنزیہ لہجہ اپنایا۔۔۔۔

جبکہ جاتے آہل کے قدم وہی رک گئے۔۔۔۔

"آپ نے ایک غیر لڑکی کی وجہ سے مجھ سے ناراضگی لی۔۔۔۔

مجھ سے اپنے پوتے سے۔۔۔۔۔

جیسے آپ حیرت میں ہے دادا میں بھی ویسے ہی حیران ہوا تھا۔۔۔۔۔"

آہل اپنا کوٹ جھاڑتے تلخ ہوا۔۔۔۔۔

"غلط بات پر سمجھانا اگر ناراضگی ہے تو ہاں ہم تم سے ناراض ہے۔۔۔۔۔

اور تب تک رہے گا جب تک تم اپنی غلطی نہیں مانے گا۔۔۔۔"

خان بابا سخت ہوئے۔۔۔۔

"ٹھیک ہے مرضی ہے آپ کی پھر۔۔۔۔"

آہل لاپرواہی سے کہتے وہاں سے چلتا بنا۔۔۔۔

جبکہ خان بابا آہل کی اس بے رخی کو دیکھتے رہ گئے۔۔۔۔

آہل خان تیز گام گھوڑے کی مانند گاڑی بھگا کر سیدھا اپنے آفس پہنچا۔۔۔۔

داخل ہوا تو ہر شخص آہل کو دیکھتے ہی فورا اپنی اپنی نشست پر بادب کھڑے ہوتے اسے سلام کرنے لگے۔۔۔۔

جبکہ وہ بجلی کی رفتار  کی مانند بناء جواب دیے سیدھا اپنے کیبن میں داخل ہوا۔۔۔۔۔

نبیل جو آہل کے آنے کے انتظار میں تھا کئی فائلز کا بوجھ لیے فورا اس کے کیبن کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔

آہل اسی فائل کو تھامے ایک ایک کر کے سارے ڈاکومنٹس کو میز پر سجائے دیکھنے لگا۔۔۔۔

"بہت ہی مغرور لڑکی ہے یہ!!!!!

کل سے ہزار فون کرچکا ہو ۔۔۔۔

مگر میرا فون تو کاٹنے کی دور کی بات موبائل ہی بند کر دیا ہے اس نے تو۔۔۔۔

اب کیسے پہنچوں اس تک میں۔۔۔۔؟؟؟

کیسے پتہ لگاؤ اس کے متعلق۔۔۔۔؟؟؟؟

کہ آخر  کون ہے یہ؟؟؟؟

اس کو جاننا اب میرے لیے ایک کھیل بن گیا ہے اور مجھے اسے جیتنا ہے اب کیسے بھی کر کے۔۔۔۔"

آہل جیب سے سگار نکالے اسے سلگائے ہوا دھواں دھواں کرنے کرنے لگا اور واپس سی وی کو تھامے ہوا میں لہرائے گھورنے لگا۔۔۔۔

کہ تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔۔

"مے آئی کمنگ سر؟؟؟؟"

"یس کمنگ!!!!!"

آہل نے ڈاکومنٹس کو ایک جانب سمیٹا اور واپس اسی انداز سے بیٹھ گیا۔۔۔۔۔

"السلام علیکم سر۔۔۔۔۔

کیسے ہیں آپ؟؟؟؟"

نبیل مہذب انداز سے مسکراہٹ لیے اندر داخل ہوا۔۔۔۔

"وعلیکم السلام۔۔۔۔

بیٹھو یہاں اور نام بتاؤ فورا کیا کام ہے؟؟؟

اور یہ فائلز؟؟؟؟"

اہل نے سگار کی آگ کو ایش ٹرے میں مسلا اور توجہ نبیل کے ہاتھ میں موجود فائلز کی جانب کی۔۔۔۔

"سر آپ کل آفس نہیں آئے تھے تو یہ کچھ فائلز ہے جن پر آپ کے دستخط چاہیے۔۔۔۔

اور کچھ سی ویز ہے ان ایمپلوئیز کی جن کا انٹرویو لیا گیا ہے جاب کیلئے۔۔۔۔

تو آپ پلیز ایک بار دیکھ لیں ان سی ویز کو تاکہ آگے کو پروسس شروع کیا جائے۔۔۔۔"

نبیل نے فائلز اور سی ویز آہل کی جانب بڑھائی۔۔۔۔

"دستخط تو میں بنا پڑھے کرونگا نہیں۔۔۔۔

جب تک پڑھ نہ لو تب تک یہ یہی رہنے دو میرے پاس۔۔۔

اور باقی رہی بات سی ویز کی۔۔۔۔"

آہل سی ویز دیکھتے بولا۔۔۔

"کیا ان سب کے انٹرویوز لے لیے ہیں تم نے؟؟؟۔۔۔۔"

"جی سر سب کے لے لیے ہیں۔۔۔

اور ساتھ ان کے ڈاکومنٹس بھی چیک کر لیے۔۔۔

بس سر دو لڑکیاں تھیں جو بناء انٹرویو دیے ہی واپس چلی گئی تھی۔۔۔۔

ان میں سے ایک کی سی وی اس میں موجود ہے۔۔۔۔۔

شاید میں نکالنا بھول گیا ہو ۔۔۔۔"

نبیل نے اشارہ دیا۔۔۔۔

"کوئی خاص وجہ کہ آ کر بھی انٹرویو نہیں دیا انہوں نے 

اور چلی گئی ایسے ہی؟؟؟؟"

آہل سی ویز کا معائنہ کرتے بولا۔۔۔۔

"جی سر۔۔۔۔

ہمارے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ نے کال کی تھی ان میں سے ایک لڑکی کو۔۔۔۔

جن کی سی وی ہمارے پاس موجود تھی۔۔۔

 فون کر کے وجہ معلوم کی تو وہ کہہ رہی تھی کہ ان کی دوست کے ڈاکومنٹس گم ہوگئے ہیں۔۔۔۔

اور اسی وجہ سے وہ دونوں بناء انٹرویو دیے یہاں سے چلی گئی تھیں۔۔۔۔"

نبیل تاسف ہوا۔۔۔۔

"ہممممم اچھا۔۔۔۔"

آہل لاپرواہی سے سی ویز کو کھنگالنے بولا ۔۔۔۔

"ٹھیک ہے تم دیکھ لو جو بھی بہتر لگے ان میں سے۔۔۔۔

مگر مجھے کام پرفیکٹ اور وقت پر چاہیے۔۔۔

اس بات کا خاص خیال رکھنا تم۔۔۔۔

لاپرواہی اور تاخیر مجھے ناپسند ہے"

آہل نے سی وی فائل نبیل کی جانب بڑھائی۔۔۔۔

"جی ٹھیک ہے سر۔۔۔۔

تھینک یو!!!!"

نبیل کہتے ساتھ ہی اٹھا اور واپس جانے کو پلٹا۔۔۔۔

کہ آہل کی سوچ نبیل کی ایک بات پر اٹکی۔۔۔۔

"رکوں نبیل بات سنوں ذرا!!!!"

"جی سر!!!!!'

آہل کے بلانے پر نبیل واپس اس کی جانب بڑھا۔۔۔۔

"تم نے کہا کہ دو لڑکیاں آئی تھیں اور ایک کے ڈاکومنٹس گم گئے تھے۔۔۔۔

کیا تم مجھے اس لڑکی کی سی وی دے سکتے ہو جو اس وقت تمہارے پاس ہے۔۔۔۔"

آہل سوچتے ہوئے متحیر ہوا۔۔۔۔

"جی سر میں ابھی دیتا ہو۔۔۔۔"

نبیل نے فورا ہی فائل کھولی اور پھر سی وی آہل کے حوالے کردی۔۔۔۔

"یہ لے سر!!!!

یہ ہے اس لڑکی کی سی وی۔۔۔۔

ثمر چودھری نام ہے ان کا۔۔۔۔"

"ٹھیک ہے باقی میں خود دیکھ لونگا۔۔۔۔۔

تم جاؤ اب یہاں سے۔۔۔۔"

آہل سی وی لیے اسے تفتیشی نظروں پڑھنے لگا۔۔۔۔

جبکہ نبیل اب آہل کی یہ تجسسی کیفیت دیکھ کر وہی کھڑا رہا۔۔۔۔

'تمہیں سمجھ نہیں آئی کہ میں کیا کہا ہے تمہیں؟؟؟؟

جاؤ یہاں سے اب!!!!!!"

آہل نبیل کو دیکھتے چنگارا۔۔۔۔

"سوری سر!!!!

ریلی سوری!!!!!"

جس پر وہ الٹے پاؤں فورا باہر کی جانب بھاگا۔۔۔۔

نبیل کے جاتے ہی آہل نے فورا اس فائل سے منہاء کی سی وی نکالی اور اب دونوں میں مماثلت تلاش کرنے لگا۔۔۔۔

 ✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"صبح سے کال کررہی تھی تمہیں مگر مجال ہے کہ تم نے ایک بار بھی فون اٹھایا ہو میرا۔۔۔۔

جانتی ہو کس قدر پریشان ہو گئی تھی میں کہ بھاگتی ہوئی تمہارے پاس آئی ہو۔۔۔۔

ذرا بھی احساس ہے تمہیں منہاء کہ نہیں؟؟؟؟"

ثمر جو منہاء کے گاڑی میں بیٹھتے ہی اسے پھڑک کر پڑی۔۔۔

"مجھے معلوم نہیں تھا کہ تم اس قدر پریشان ہو جاؤ گی۔۔۔۔

وہ تو بس کوئی رانگ نمبر تنگ کررہا تھا تو میں نے فون ہی سوئچ آف کردیا تھا۔۔۔"

منہاء منہ بسورے بولی۔۔۔۔

"حیرت ہے رانگ مردوں کو سیٹ کرنے والی رانگ نمبر پر فون بند کیے بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔

سن کر عجیب لگ رہا ہے مجھے بہت!!!!"

ثمر طنزیہ ہوئی۔۔۔۔

"یہ سب کہنے کو بلایا تھا تو میں واپس چلی جاتی ہو!!!!

اور ویسے اندر کیوں نہیں آئی تم مجھے باہر بلانے کی وجہ؟؟؟"

منہاء ترچھی ہوئی۔۔۔۔

"جو بات کرنی تھی میں نے وہ اندر نہیں کر سکتی تھی میں۔۔۔۔

تبھی یہاں بلایا ہے میں نے تمہیں۔۔۔۔"

"ضرور ڈاکومنٹس کی بات کرنی ہوگی تم نے۔۔۔۔

جانتی ہو اچھے سے میں۔۔۔

ورنہ تم اندر نہ آتی ایسا ممکن ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔۔"

منہاء ثمر کے تاثرات کو سمجھتے بولی۔۔۔

"تو کیا کرنا ہے اب؟؟؟؟

کیسے لے گے ڈاکومنٹس؟؟؟؟

کچھ سوچا ہے اس متعلق؟؟؟"

ثمر سوالیہ ہوئی۔۔۔

"کیا مطلب کیا کرنا ہے؟؟؟

تم نے کہا تو تھا کہ تم جا کر لے آؤ گی۔۔۔۔

اور تم لائی کیوں نہیں ویسے؟؟"

منہاء متحیر ہوئی۔۔۔۔

"کل تمہاری وجہ سے بہت تھک گئی تھی تو آج لیٹ اٹھی تھی۔۔۔۔

اور جب سے اٹھی تھی تب سے تمہیں کال کررہی تھی۔۔۔

بس اس کے بعد میں یہاں تمہارے سامنے ہو۔۔۔۔"

ثمر تفضیلا ہوئی۔۔۔۔

منہاء نے سنا تو کوئی جواب دیے بغیر خاموش بیٹھی رہی تھی۔۔۔۔

جبکہ ثمر خاموش بیٹھی منہاء کو ٹکر ٹکر دیکھنے لگی۔۔۔۔

"بلال نے چھوڑ دیا ہے مجھے۔۔۔۔

سب ختم کردیا ہے اس نے ۔۔۔۔۔

ہمارا تعلق ہماری منگنی سب ختم کردیا ہے۔۔۔۔۔"

منہاء جو خاموش بیٹھی تھی اب گہری سانس بڑھتے نم آنکھوں سے بولی۔۔۔۔

"کیا؟؟؟؟

کیا مطلب؟؟؟

کیا مطلب سب ختم؟؟؟؟

وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے اور تم؟؟؟

اور تم نے ایسا کرنے دیا؟؟؟؟

کیوں؟؟؟؟"

ثمر نے سنا تو مبہم ہوتے بھڑکی۔۔۔۔

"تو کیا کرتی میں۔۔۔۔۔

اسے جب مجھ پر یقین ہی نہیں ہے تو کیوں میں اس کے تلے بڑھتی۔۔۔۔"

منہاء کی آواز بھاری ہوئی۔۔۔

"اچھا ہی ہوا جو اس نے مجھے چھوڑ دیا۔۔۔۔

بہت ہی کمزور مرد ثابت ہوا ہے وہ ۔۔۔

آج کا رونا کل کے رونے سے کئی گناہ بہتر ہے ثمر۔۔۔۔

وہ شخص مجھے کبھی تحفظ نہیں دے سکتا تھا کبھی بھی نہیں۔۔۔۔

میں نے بس تنہا رہنا تھا تا عمر۔۔۔۔

ساتھ ہو کر بھی اسکا میں تنہا ہی رہنا تھا۔۔۔۔"

ثمر نے منہاء کا بہتا آنسوں گال پر چمکتا دیکھا تو فورا آگے بڑھتے اسے خود سے لگائے حوصلہ دینے لگی۔۔۔۔

"ٹھیک کیا تم نے۔۔۔۔

بلکل ٹھیک کیا۔۔۔

اس کی ماں پہلے ہی تمہارے سخت مخالف تھی۔۔۔

وہ کیسے اتنے آرام سے بلال کو تمہارا ہوتے دیکھ سکتی تھی۔۔۔۔

ایک نہ ایک دن ایسا ہونا تھا یہ میں جانتی تھی۔۔۔

بس دکھ اس بات کا وہ دن اتنی جلدی آجائے گا یقین نہیں آرہا مجھے۔۔۔۔"

ثمر منہاء کے آنسوں پونچھتے اس کی گال چھوتے بولی۔۔۔

"باقی میں ہو تمہارے ہر فیصلے میں تمہارے ساتھ۔۔۔۔"

جس پر منہاء بس مصنوعی مسکراہٹ ہنس دی۔۔۔۔

"آنٹی کو پتہ ہے کیا؟؟؟؟

کیا وہ جانتی ہے اس سب کے بارے میں؟؟؟"

"میں نے انہیں کچھ نہیں بتایا۔۔۔۔

مگر ان کا رویہ مجھے سب بتا چکا ہے کہ وہ جان چکی یے۔۔۔

کہ اب بلال سے میرا کوئی تعلق نہیں۔۔۔

مگر کچھ کہہ نہیں رہی۔۔۔

شاید میری وجہ سے ہی چپ ہے۔۔۔"

منہاء روہانسی ہوئی۔۔۔۔

کہ ثمر اس سے پہلے کچھ بولتی کے تبھی اس کا فون بجنے لگا۔۔۔

منہاء آنسوں پونچھتے باہر کی جانب دیکھنے لگی جبکہ ثمر فون کان سے لگائے دوسری جانب کسی سے بات کرنے لگی۔۔۔۔

"جی ٹھیک ہے۔۔۔۔

جی ۔۔۔۔

جی وہ ساتھ ہی ہے میرے۔۔۔۔

جی جی ہم ابھی آ جاتے ہیں۔۔۔۔

جی ٹھیک ہے بہت شکریہ اپکا۔۔۔۔

اللہ حافظ۔۔۔۔۔"

ثمر نے برجستگی سے بات کرتے فون بند کیا۔۔۔۔

"کیا ہوا ہے؟؟؟

کس کا فون تھا ثمر؟؟؟؟"

منہاء فورا اس کی جانب ہوئی۔۔۔۔

"بتاتی ہو سب مگر سب سے پہلے واپس اندر جاؤ اور اپنا حلیہ سیٹ کر کے واپس باہر آؤ۔۔۔

ہمارے پاس وقت بہت کم ہے اور ہمیں جلدی پہنچنا ہے۔۔۔۔

جلدی کرو نکلوں باہر۔۔۔۔"

ثمر افراتفری ظاہر کرتے بولی۔۔۔

"ہوا کیا ہے؟؟؟

کس بات کے گھوڑے بھگا رہی ہو تم؟؟؟؟

اور کیوں تیار ہو میں؟؟؟؟

کہا جانا ہے تم نے؟؟؟؟"

منہاء اچک نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔

"ہم نے۔۔۔۔

ہم نے جانا یے۔۔۔۔

کہہ رہی ہو ناں بتاتی ہو۔۔۔۔

جلدی جاؤ تیار ہو کر آؤ فورا۔۔۔

اپنا یہ ماتمی لباس اندر پھینک کر آنا شجل سمیت۔۔۔۔

نکلوں فورا۔۔۔۔"

ثمر نے عنقریب منہاء کو دھکے بھرتے گاڑی سے باہر نکالا۔۔۔

جبکہ وہ اسے ہکا بکا نظروں سے گھورتے اندر کی جانب بڑھی۔۔۔۔

"شکر ہے جاب کا کچھ ہوا۔۔۔۔۔

اففففففف اب بس مل جائے ہمیں یہ جاب۔۔۔

تو بہت آسانی ہو جائے گی منہاء کیلئے۔۔۔۔"

ثمر ہاتھ اٹھائے دعائیہ ہوئی۔۔۔۔

اور پھر اس کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل نے دونوں سی ویز کا اچھے سے معائنہ کیا تو فاتحانہ مسکراہٹ لیے پیچھے واپس کرسی کی نشست پر سر جمائے قہقہ آور ہوا۔۔۔۔

"بغل میں چھوڑا شہر بھر میں ڈھنڈورا یہ کہاوت میرے لیے ہی تو بنی یے۔۔۔۔

دونوں کی تمام معلومات بلکل ایک جیسی ہے بس نام کا ہی فرق ہے دیکھا جائے تو۔۔۔۔"

آہل دونوں سی ویز کو لہراتے ہنسا۔۔۔۔

اور پھر فورا ایک نمبر پاس موجود ٹیلی فون پر ملایا اور کان سے دھڑا۔۔۔۔

"ہاں نبیل اندر آؤ فورا۔۔۔۔"

آہل نے کہتے ساتھ ہی فون بند کیا اور واپس دونوں سی ویز کو سامنے رکھے ہاتھ لب پر رکھے متواتر مسکرانے لگا۔۔۔

"جی سر آپ نے بلایا مجھے؟؟؟؟"

نبیل پھولی سانس کے ساتھ اندر داخل ہوا۔۔۔

" نبیل یہ سی وی لو۔۔۔۔

اور فون کرو اس پر۔۔۔۔

کہوں کہ انکا انٹرویو ہے آج۔۔۔

فورا انٹرویو دینے کیلئے آفس پہنچے۔۔۔۔"

آہل نے سی وی نبیل کی جانب بڑھائی۔۔۔۔

"سر یہ تو ثمر چودھری ہے!!!!"

نبیل نے دیکھا تو مبہوت ہوتے بولا۔۔۔۔

"معلوم ہے مجھے کہ یہ ثمر چودھری۔۔۔۔

اسی کو ہی کال کرو اور کہوں کہ انکا اور ان کی دوست کا انٹرویو ہے آج۔۔۔۔

اور کال کرنے کے بعد فورا مجھے ان کا جواب بھی بتاؤ۔۔۔۔"

آہل تاسف ہوا۔۔۔۔

"مگر سر ہم نے تو لیسٹ بھی فائنل کر لی ہے جن کو جاب پر بلانا ہے!!!!

تو اب ان کا انٹرویو کس لیے؟؟؟؟"

بلال سوالیہ ہوا۔۔۔۔

"اب میں تمہیں جوابدہ ہونگا کہ انٹرویو کس لیے؟؟؟؟

جو کہا ہے وہ کرو۔۔۔۔

اور فورا مجھے اس کے متعلق آگاہ کرو۔۔۔۔

جاؤ یہان سے اب۔۔۔۔

بیوقوف انسان نہ ہو تو۔۔۔۔۔"

آہل سناٹ ہوا۔۔۔

جبکہ نبیل مزید کچھ کہتے سر ہلائے فورا باہر کی جانب لپکا۔۔۔۔

جبکہ نبیل کے جاتے ہی آہل واپس میز پر پڑی فائیلز کو کھولے ان کو پڑھنے لگا۔۔۔۔

کچھ دیر گزری ہی تھی کہ نبیل واپس اندر کی جانب تیز قدموں سے بڑھا۔۔۔۔

"سر میں نے کال کردی ہے ثمر چودھری کو۔۔۔۔

وہ آرہی ہے انٹرویو کیلئے کہہ رہی تھی کچھ دیر تک وہ پہنچ جائے گی۔۔۔۔"

نبیل سانس پھولائے ادراک کرتے بولا۔۔۔

"اچھا اور جو ان کی دوست تھی اس کا کیا کہا تم نے؟؟؟؟

کیا جواب ملا کیا وہ آرہی ہے انٹرویو کیلئے کہ نہیں؟؟؟؟"

آہل نے سنا تو سنگین دلچسپی ظاہر کرتے گو ہوا۔۔۔

"جی سر وہ بھی ساتھ آرہی ہے ثمر چودھری کے۔۔۔"

"ہمممم تو ٹھیک ہے پھر۔۔۔۔

جیسے ہی وہ آئے تو مجھے بتانا فورا۔۔۔۔

دونوں کا مکمل انٹرویو لیا جائے اور سارے سوالات کے جواب مجھے دیکھائے جائے۔۔۔۔

اور سب سے اہم بات جو تم نے مجھے بتانی ہے۔۔۔۔"

آہل نے فورا انگلی سے تنبیہہ کی۔۔۔۔

"مجھے دوسری لڑکی کا نام سب سے پہلے بتایا جائے۔۔۔۔

اب ان باتوں کو یاد رکھنا بھولنا مت۔۔۔۔"

آہل کی جانب سے سخت تاکید پر نبیل بس سر حامی میں گھومائے رہ گیا۔۔۔۔

"اور یہ فائلز پر سائن کردیے ہیں میں نے۔۔۔۔

لے جاؤ ان کو بھی اپنے ساتھ۔۔۔۔"

آہل نے فائلز نبیل کی جانب بڑھائی جو فائلز تھامے سیدھا باہر کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔

جبکہ اب اہل کرسی کی نشست پر سر جمائے اس رات کے منظر کو آنکھوں میں دہراتے دبی مسکراہٹ ہوا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

خان بابا اپنے حقہ خانے میں بیٹھے حقہ نوش کر رہے تھے جب گل افگن ہاتھ میں کچھ پھل لیے ان کی جانب بڑھا۔۔۔

اور سامنے بیٹھتے ہی ان کیلئے پھل کاٹنے لگا۔۔۔۔

"اوئے افگن!!!!

ہم کو یاد آیا۔۔۔۔۔

تم نے وہ فائل کہاں رکھا ہے؟؟؟

ہم نے تم کو احتیاط کرنے کا کہا تھا کہاں ہے وہ لا کر دو ہمیں وہ واپس۔۔۔۔"

خان بابا نے حقے کا پائپ پھینکتے ہی فورا اس کی جانب متوجہ ہوئے۔۔۔۔

"ہم اس فائل کو واپس اس کے مالک تک پہنچائے گا۔۔۔

ناجانے کتنا مشکل ہو رہی گی بچی کو۔۔۔۔"

خان بابا مبہم ہوئے۔۔۔

جبکہ خان بابا کے اس سوال پر گل افگن گہری خاموشی لیے خان بابا کو کینی نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔۔

خاموشی محسوس کی تو خان بابا نے پھونچکا نظروں سے افگن کو گھورا۔۔۔۔

"ہرگز مت کہنا کہ وہ فائل آہل خان لے گیا ہے افگن۔۔۔۔

یقین جانو ہم تمہارا ہڈیوں کا سوپ بنا کر پی جائے۔۔۔۔"

خان بابا پھنکارے۔۔۔۔

"بڑا گوشت منع ہے اپکو بڑے صاحب جی۔۔۔۔

اور کیا کرے گے مجھ معصوم کو سوپ پی کر۔۔۔۔۔"

افگن مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔۔

"تم بہت ہی بڑا دھوکے باز ہے گل افگن۔۔۔۔

تم جیسا نمک حرام۔انسان ہم نے پوری زندگی میں نہیں دیکھا۔۔۔۔

آخر تم کو کیا ضرورت پڑا تھا اس کو فائل دینے کی۔۔۔۔"

خان بابا پریشان ہوئے۔۔۔۔

"بڑے صاحب جی ہم غلام ہے بس۔۔۔۔

جو حکم ملتا ہے وہ بجا لاتے ہیں۔۔۔

بس وہی کیا میں نے بھی۔۔۔۔"

گل افگن نے سیب کا ٹکرا خان بابا کی جانب بڑھایا۔۔۔۔

"ہم تمہارے ہاتھ کا کھانا آج سے حرام سمجھتا ہے۔۔۔۔

تم کو عقل بھی ہے کہ تم نے کیا ہے؟؟؟؟

تم نے اس معصوم کے پیچھے اس شیر کو چھوڑ دیا ہے جو آگے ہی نوچ کھانے کو تیار رہتا ہے۔۔۔۔۔"

خان بابا سرد ہوئے۔۔۔۔

"تو بڑے صاحب اس شیر کا رخ میری جانب تھا۔۔۔

میں نے خود کو چیڑ پھاڑ سے بچایا ہے۔۔۔"

"اب تم یہاں سے دفع ہوجاؤ۔۔۔

ورنہ ہم تم کو کچا چبا جائے گا۔۔۔۔

دفع ہوجاؤ۔۔۔۔"

خان بابا نے گل افگن کو دھکا دیا جس پر وہ خاموشی سے اٹھتے وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔

جبکہ پریشان بیٹھے خان بابا اب واپس حقہ سلگانے لگے۔۔۔۔

"ثمر پورے راستے تم نے منہ میں چھالیا دبائے رکھا اور اب اس آفس کے سامنے گاڑی روک دی ہے۔۔۔

یہ تو وہی آفس ہے جہاں ہم پہلے آئے تھے انٹرویو دینے کیلئے۔۔۔۔۔

تو یہاں کیوں گاڑی روکی تو نے؟؟؟؟"

منہاء نے ششدر ہوتے سوالی نظریں ثمر ہر گھومائی۔۔۔

جو گاڑی ایک جگہ پر پارک کرتے اس کی جانب متوجہ ہوئی۔۔۔

"ہاں یہ وہی جگہ ہے۔۔۔۔

اور یہی آنا تھا ہم نے بھی۔۔۔

جب انہوں نے مجھے خود فون کیا نہ انٹرویو کیلئے تو میری صورتحال بھی تمہاری شکل سے کم نہ تھی۔۔۔"

ثمر پر جوش ہوئی۔۔۔

"مگر یہ ہمیں کیوں بلائے گے یار؟؟؟

کوئی تو وجہ ہوگی؟؟؟

بقول تمہارے خانز انڈسٹری پورے شہر کی سب سے کامیاب اور مشہور انڈسٹری ہے۔۔۔۔

اور یہاں پر جابز لینا کسی جنگ میں کامیابی سے کم نہیں۔۔۔

مگر ہم نے تو جنگ لڑی ہی نہیں تو کامیابی کیسے؟؟؟

حیرت ہے؟؟؟"

منہاء کو کئی خدشات نے آ گھیرا۔۔۔۔

"تم بس اسی سوچ میں گم رہنا آئی سمجھ۔۔۔

بھئی پکی پکائی کھیر سامنے پڑی ہے اور تم چاول چگنے کو بیٹھی ہو۔۔۔۔

اور اتنا کیوں سوچ رہی ہو یار۔۔۔

ابھی انٹرویو دینا ہے ہمیں جاب نہیں ملی ابھی جو تم سوچ سوچ کر میرا دماغ بھی خشک کررہی ہو۔۔۔۔"

ثمر کہتے ساتھ ہی گاڑی سے باہر کو نکلی۔۔۔۔

جبکہ منہاء کو ابھی تم ثمر کی کسی بھی دلیل نے مطمئن نہیں کیا تھا۔۔۔۔

"آ بھی جاؤ یار اب۔۔۔۔

آگے ہی بہت لیٹ ہو گیا ہے ہمیں۔۔۔۔"

ثمر فورا منہاء کی جانب اس کا دروازہ کھولے بولی۔۔ 

"میں کہہ رہی ہو ثمر۔۔۔۔

بہت کچھ غلط ہونے کو ہے۔۔۔۔

میری چھٹی حس کبھی مجھے بدگمان نہیں کرتی۔۔۔"

منہاء نے ایک گہری سنجیدہ نظر ثمر پر ڈالی۔۔۔۔

"بلکل وہی چھٹی حس جو تم نے بلال کے متعلق بھی آگاہ کرتی تھی دیکھ لو اب اسکا نتیجہ بھی۔۔۔۔

اپنی چھٹی حس کی کھڑکیاں دروازے بند کرو اور نکلو باہر فورا۔۔۔۔"

ثمر کی جانب سے اخیر عزت افزائی ہونے پر منہاء بناء کچھ کہے باہر نکلی اور ثمر کے ہمراہ آفس میں داخل ہوئی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل جو منہاء کے انتظار میں اپنی نشست پر سر گرائے بیٹھا سوچ میں گم تھا۔۔۔۔

کچھ سوچتے ہی فورا اپنے لیپ ٹاپ کی جانب جھکا اور پھر اس کی کیز پر اپنی انگلیاں دوڑانے لگا۔۔۔۔

لیپ ٹاپ پر کچھ لکھنے کے بعد فورا فون اٹھایا اور نمبر ملایا۔۔۔۔

"نبیل فورا میرے کیبن میں آؤ جلدی۔۔۔۔۔"

آہل نے کہتے ساتھ ہی فون رکھا اور واپس اپنے لیپ ٹاپ پر متوجہ ہوا۔۔۔۔

جبکہ نبیل جس کی آج اچھی خاصی دوڑ لگ چکی تھی پھر ہانپتے ہوئے اس کے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔

"جی سر!!!!

آپ نے بلایا مجھے؟؟؟"

"ہاں میں تمہیں ایک پیپر میل کررہا ہو۔۔۔۔

اس پیپر کا پرنٹ نکالنے کے بعد ان دونوں نئی لڑکیوں کے سائن اس پر کروانے ہیں۔۔۔

اور یہ کام یاد سے ہو جانا چاہیے۔۔۔۔"

آہل لیپ ٹاپ پر نظریں گاڑھے بولا۔۔۔۔

"جی ٹھیک ہے سر میں انٹرویو کے بعد سائن کروا کر پیپرز آپ کے حوالے کردو نگا۔۔۔۔"

نبیل حامی میں سر ہلائے بولا۔۔۔

اور واپس باہر کی جانب بڑھنے لگا۔۔۔

جبکہ انتظار کی گھڑیوں میں جکڑا آہل جو بے ہنگم سا بیٹھا اضطرابی کیفیت میں مبتلا تھا نبیل جو جاتے دیکھا کر فورا بول اٹھا۔۔۔۔

"وہ کب تک آئے گی؟؟؟؟

کیا تم نے انہیں وقت کے متعلق آگاہ نہیں کیا تھا؟؟؟؟"

"سر میں نے بتایا تھا۔۔۔۔

معلوم نہیں ابھی تک کیوں نہیں آئی۔۔۔۔

آپ کہے تو دوبارہ انہیں آگاہ کردو؟؟؟"

نبیل سوالی ہوا۔۔۔

"ن۔۔۔نہیں۔۔۔

نہیں رہنے دو۔۔۔۔

بس جیسے ہی وہ آئے مجھے آگاہ کرنا۔۔۔۔

اور ساتھ دوسری لڑکی کا پورا نام بھی پوچھ کر آنا۔۔۔

جاؤ اب یہاں سے تم!!!!"

آہل اپنے جذبات کو سنبھالے بولا۔۔۔

جبکہ نبیل واپس باہر کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔

اور آہل واپس اپنے اسی انداز میں بیٹھتے اشتیاق سے انتظار کرنے لگا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"ثمر میں کہہ رہی ہو یار۔۔۔۔

ایک بار پھر سوچ لے۔۔۔۔

پتہ نہیں میرا دل کیوں گھبرا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔

مجھے یہ سب ٹھیک نہیں لگ رہا ہے یار!!!!"

منہاء ثمر کے پیچھے چلتے مبہوت انداز ہوئی۔۔۔

"بس بھی کردو منہاء اب۔۔۔۔

تم نے خود ہی جاب کی حامی بھری تھی ناں۔۔۔

اب جب مل رہی ہے تو کیوں نفی ڈال رہی ہو۔۔۔

میں ہوں ناں تمہارے ساتھ کچھ نہیں ہوتا غلط میری بہن۔۔۔۔

اور یہ کوئی عام کمپنی نہیں ہے جہاں فراڈ ہو جانی مانی کمپنی ہے یہ۔۔۔۔

تو پلیز اپنے خدشات اپنے دل و دماغ میں رکھوں۔۔۔

میرا بھی دل بدظن کرنے پر تلی ہو تم۔۔۔۔"

ثمر دانت پسیجتے آگے بڑھتے سیدھا ریسپشن کی جانب ہوئی اور کچھ پوچھنے کے بعد واپس بوجھل کھڑی منہاء کی جانب بڑھی۔۔۔۔

"اوپر ہے ان کا ایچ آر ڈیپارٹمنٹ تھرڈ فلور پر۔۔۔

چلوں چلتے ہیں ۔۔۔۔

آگے ہی بہت دیر ہو گئی ہے۔۔۔۔"

ثمر منہاء کا ہاتھ دبوچے اسے اپنے ساتھ لیے آگے کو بڑھی۔۔۔۔

جبکہ ثمر کے سامنے اب بے بس جاتی منہاء بھی خاموش ہو گئی ۔۔۔۔۔

لیفٹ کے ذریعے دونوں تھرڈ فلور پر پہنچی اور پھر وہی موجود سامنے ایک اور ریسپشن کی جانب ہوئی۔۔۔۔

"السلام علیکم۔۔۔۔۔"

ثمر آگے بڑھتے گو ہوئی۔۔۔۔

جبکہ منہاء منہ میں انگلی دبائے اپنے خدشات کو لیے پورے آفس کا معائنہ کرنے لگی۔۔۔۔

"وعلیکم السلام جی میم میں کیسے اپکی مدد کر سکتی ہو؟؟؟؟"

"دراصل ہمیں یہاں پر انٹرویو کیلئے بلایا گیا ہے سر نبیل کی جانب سے۔۔۔۔

کیا آپ بتا سکتی ہے کہ وہ کہاں ہے اس وقت؟؟؟

یا آپ ان کو ہمارا بتا دے کہ ہم آگئیں ہیں۔۔۔"

ثمر تاسف ہوئی۔۔۔۔

"جی میم میں ابھی ان کو انفام کردیتی ہو۔۔۔

آپ بس تھوڑا سا انتظار کرے۔۔۔۔"

 سامنے کھڑی ریسپشنسٹ نے سنا تو فورا ٹیلی فون سے کال ملا دی۔۔۔۔

جبکہ ثمر وہی کھڑی اردگرد ماحول پر نظریں دوڑانے لگی۔۔۔

"جی سر وہ دونوں آگئیں ہیں اور آپ کے متعلق ہی پوچھ رہی ہیں!!!!!

ٹھیک ہے سر۔۔۔۔۔

جی ٹھیک ہے۔۔۔۔

میں بتا دیتی ہو انہیں۔۔۔"

ریسپشنسٹ فون بند کرتے ہی واپس ثمر کی جانب متوجہ ہوئی۔۔۔

"میم سر خود آرہے ہیں یہاں پر۔۔۔

جب تک وہ نہیں آتے  آپ وہ سامنے ویٹنگ سائیڈ پر بیٹھ کر انتظار کر لے۔۔۔

وہ بس آ ہی رہے ہیں۔۔۔"

"جی ٹھیک ہے تھینک یو!!!!

جب بھی وہ آئے آپ ہمیں آگاہ کر دیجئے گا۔۔۔"

ثمر مسکراتی جوابا ہوئی اور واپس ہکی بکی منہاء کی جانب ہوتے اسکا ہاتھ تھامتے ویٹنگ سائیڈ پر چل پڑی۔۔۔۔

"کیا ہوا ہے؟؟؟

اب ہم ویٹنگ ایریا میں کیوں جا رہے ہیں ؟؟؟؟

کیا کہہ رہی تھی وہ لڑکی؟؟؟

کہاں ہے وہ تمہارے سر نبیل جنھوں کا عذاب صبح سے مسلط ہے میرے سر پر تمہاری صورت میں۔۔۔"

منہاء اپنا ہاتھ چھڑوارتے ثمر کے سامنے ان کھڑی ہوئی۔۔۔

"محترمہ ہمارا نوکر نہیں ہے وہ جو ہمارا انتظار کرتا۔۔۔ کیونکہ جیسے ہم نے انہیں انتظار کروایا تھا اب ویسے ہی وہ ہمیں انتظار کروائے گے۔۔۔۔

ادلے کا بدلہ۔۔.."

ثمر پرسکون ہوتے بیٹھی۔۔۔۔

"کیا مطلب ادلے کا بدلہ۔۔۔۔۔

یہ کیا بات ہوئی بھلا۔۔۔۔

ہم نے جان بوجھ کر انہیں تھوڑی ناں انتظار کروایا ہے۔۔۔۔

جو وہ ایسا کررہے ہیں؟؟؟؟"

منہاء ناگوار ہوئی۔۔۔

"چلوں جی اب ہم اس حوالے سے بھی ان سے لڑیں گے کیا؟؟؟

منہاء کبھی تو ٹھنڈے دماغ سے سوچ لیا کرو یار۔۔۔"

ثمر بدمست ہوئی۔۔۔۔

جبکہ منہاء منہ بسورے بیٹھ گئی اور ہر آتے جاتے شخص کو کاٹ کھانے کی نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔

 کچھ دیر کے انتظار کے بعد ایک شخص پینٹ کوٹ میں ملبوس سیدھا ان کی جانب تیز قدموں سے بڑھتا آیا اور ان کے روبرو کھڑا ہوگیا۔۔۔

"جی تو آپ میں سے کون ہے ثمر چودھری؟؟؟؟

جن کو میں نے انٹرویو کیلئے کال کی تھی آج صبح؟؟؟؟"

نبیل دونوں کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھتے بولا۔۔۔

"جی میں ہو ثمر چودھری۔۔۔۔

اور آپ سر نبیل ہے کیا؟؟؟؟"

ثمر مسکراہٹ دیتے سوالیہ ہوئی۔۔۔۔

"جی میں نبیل ہو اور آپ کو کال میں نے ہی کی تھی۔۔۔۔

ویسے کافی وقت کی پابند معلوم ہوئی ہے آپ انٹرویو والے دن ہی!!!!"

نبیل کلائی بندھ گھڑی کو دیکھتے طنزیہ ہوا۔۔۔۔

جبکہ اس پر ثمر مصنوعی مسکراہٹ دیتی رہ گئی۔۔۔۔

"اور یہ ساتھ آپ کی دوست ہے جو اس دن آپ کے ساتھ تھی جن کے ڈاکومنٹس کا ایشو تھا کچھ؟؟؟"

نبیل منہاء کی جانب اشارہ کرتے بولا جو ابھی تک اپنی نشست پر براجمان ثمر اور نبیل کو بات کرتے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

"جی سر یہ میری دوست ہے۔۔۔

منہاء منور۔۔۔۔

ہم دونوں اس دن انٹرویو کیلئے ہی آئے تھے جب ان کے ڈاکومنٹس گم ہوگئے تھے۔۔۔۔

اور اسی وجہ سے ہم انٹرویو نہیں دے سکے۔۔۔"

ثمر منہاء کو بازو کھینچتے اٹھائے برجستگی سے بولی۔۔۔۔

"ٹھیک ہے اس میں کوئی ایشو نہیں ہے۔۔۔۔

خیر وقت کافی ہو گیا ہے تو میرے خیال سے انٹرویو کا آغاز ہونا چاہیے۔۔۔۔

تو آجائے آپ دونوں میرے پیچھے۔۔۔

ہمارا ایچ آر ڈیپارٹمنٹ اپکا مکمل انٹرویو لے گا اور پھر ہی آگے کا فیصلہ ہوگا کہ آپ یہاں جاب کرنے کے قابل ہے بھی کہ نہیں۔۔۔۔"

نبیل متحیر ہوتے آگے کو بڑھا۔۔۔۔

جبکہ ثمر منہاء کا ہاتھ ایک بار پھر مضبوطی سے تھامے اسے خود سے چپکائے نبیل کے پیچھے کو چل پڑی۔۔۔۔

"یہ کیا بات ہوئی ثمر؟؟؟

ان کو میرے ڈاکومنٹس سے کوئی سروکار کیوں نہیں؟؟؟

بھلا ایسا کہاں ہوتا ہے یار؟؟؟

کوئی بھی کمپنی ایسا نہیں کرتی اگر ایسا ہو تو ہر ان پڑھ جاہل آفس میں جاب نہ کرنے لگ جائے۔۔۔"

منہاء ثمر کے کان میں سرگوشی گو ہوئی۔۔۔۔

جبکہ ثمر نے جواب میں بس اسے آنکھوں سے گھورا۔۔۔۔

" ثمر آپ پہلے جا کر انٹرویو دے آئے۔۔۔"

نبیل نے ثمر کی جانب اشارہ دیا۔۔۔

"جی سر ٹھیک ہے۔۔۔"

ثمر حامی بھرتے ہی کمرے میں داخل ہوگئی۔۔۔

"اس کے بعد  آپ چلی جائیے گا انٹرویو کیلئے۔۔۔

کیا نام بتایا تھا انہوں نے اپکا؟؟؟"

نبیل مصنوعی انداز اپنائے منہاء کی جانب اشارہ کرتے گو ہوا۔۔۔۔

"منہاء منور!!!!

میرا نام منہاء منور ہے۔۔۔۔"

منہاء برجستگی ہوئی۔۔۔

"جی منہاء منور اس کے بعد آپ چلی جائیے گا۔۔۔

جب تک ثمر کا انٹرویو ہو رہا ہے میں آپ کے متعلق ڈیپارٹمنٹ کو آگاہ کر آتا ہو۔۔۔

سو گڈ لک فار یور انٹرویو۔۔۔۔"

نبیل مسکراہٹ دیتے وہاں سے چلتا بنا جبکہ ثمر بھی ہاتھ میں اپنے ڈاکومنٹس پکڑے اندر انٹرویو کیلئے داخل ہوئی۔۔۔

اور منہاء وہی باہر کرسی پر بیٹھے اسکا انتظار کرنے لگی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

نبیل ہاتھ میں فائل تھامے تیز قدموں سے فورا آہل کے کیبن میں داخل ہوا۔۔۔۔

جو لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے کسی کام میں مصروف تھا۔۔۔۔

"سر وہ دونوں لڑکیاں اگئی ہیں۔۔۔

اور دونوں کا انٹرویو بھی ہوچکا ہے۔۔۔۔

اور یہ تفصیل ہے ان کے انٹرویو کی اور ساتھ وہی پیپرز جن پر ان کے سائن کا کہا تھا آپ نے۔۔۔۔"

نبیل نے فائل آہل کے سامنے رکھی۔۔۔

آہل نے سنا تو  جھپٹنے کے انداز سے فائل کی جانب بڑھا اور کھولتے ہی ساری تفصیل دیکھنے لگا۔۔۔۔

جسے پڑھتے پڑھتے آہل کے چہرے کی مسکراہٹ گہری ہوتی گئی۔۔۔

"آہاں!!!!!!!

جانتا تھا میں کہ میری چھٹی حس کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتی۔۔۔۔

یہ سب ایک سوچی سمجھی چال تھی۔۔۔

جسے کامیاب بنانے کی ناکام کوشش کی گئی ۔۔۔۔

تم بہت ذہین ہو آہل خان۔۔۔

تم کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتے۔۔۔

شاباش؛!!!

آہل خان۔۔۔

شاباش!!!!!"

آہل نے فاتحانہ انداز سے میز پر اپنے ہاتھ کی چست لگائی اور خود کی حوصلہ افزائی بھرتے قہقہ آور ہوا۔۔۔

جبکہ سامنے کھڑا نبیل ہاتھ باندھے آہل کے تاثرات کو مارے ششدر دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

"کہاں ہے منہاء منور۔۔۔۔

بھیجو اسے میرے آفس میں فورا۔۔۔۔

ابھی اور اسی وقت۔۔۔۔"

آہل جو اپنی جیت کی خوشی سے سرشار تھا اب نبیل کی جانب بدمست تاثرات لیے بولا۔۔۔۔

"جی ٹھیک ہے سر۔۔۔

میں ابھی بھیجتا ہو انہیں۔۔۔۔"

نبیل چندھیائی نظروں سے آہل کو دیکھتے سیدھا باہر کی جانب بڑھا۔۔۔۔

جبکہ آہل گہری مسکراہٹ لیے سگار جلاتے اپنے لبوں میں دبائے دھواں چھوڑتے ہنسا۔۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

ثمر کے پراسرار زور لگانے پر منہاء بلآخر کیبن کے باہر کھڑی شش و پنچ کا شکار تھی۔۔۔

"کس مصیبت میں ڈال دیا ہے ثمر نے مجھے۔۔۔۔

مجھے ہی کیوں بلایا گیا ہے یہاں؟؟؟؟

اور میں بھی بے وقوف اس کی باتوں میں آ کر یہاں آگئی ہو۔۔۔

کیا مصیبت ہے یار؟؟؟؟؟"

منہاء بدمست ہوئی۔۔۔۔

اور پھر اردگرد کے لوگوں کو خود پر نظریں گاڑھے دیکھا تو فورا دروازے پر دستک بھری۔۔۔۔

اور اندر کی جانب اپنے تاثرات سمیٹے داخل ہوئی۔۔۔۔

"مے آئی کمنگ سر؟؟؟؟"

منہاء پراعتماد انداز ہوئی۔۔۔۔

"یس کمنگ!!!!"

دیوار کی جانب کرسی گھومائے بیٹھا آہل اس کی آواز سن کر گہری مسکراہٹ ہوا۔۔۔۔

"السلام علیکم۔۔۔۔۔"

منہاء چھوٹے قدم لیے اس کی جانب ہوئی۔۔۔۔

"وعلیکم السلام مس منہاء۔۔۔۔

پلیز ہیو آ سیٹ ہیر۔۔۔۔"

آہل بنا پلٹے رعب دار آواز ہوا۔۔۔۔۔

جبکہ منہاء بناء کوئی دلچسپی دیکھائے کرسی پر براجمان ہوتے شش و پنچ میں بیٹھ گئی۔۔۔۔

"سو مس منہاء۔۔۔۔"

آہل کی آواز میں طنز سا ابھرا۔۔۔

"میں نے سنا ہے کہ آپ نے لاسٹ ٹائم انٹرویو نہیں دیا تھا۔۔۔

کیا میں وجہ جان سکتا ہو اس متعلق؟؟؟؟

کہ کیا خاص وجہ تھی کہ آپ نے شہر کی سب سے بڑی کمپنی کے انٹرویو کو اگنور کیا۔۔۔۔؟؟؟

لوگ تو یہاں جاب کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں ایڑیاں رگڑ دیتے ہیں یہاں کام کرنے کو اور آپ نے موقع گنوا دیا؟؟؟؟

کیوں ؟؟؟؟"

"ممکن ہے جو آپ کہہ رہے ہیں ایسا ہی ہو۔۔۔

مگر مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں تھا سر کہ اپکی کمپنی کس قدر مشہور ہے یا لوگ کیا سوچ رکھتے ہیں اس کے متعلق!!!!۔۔.."

منہاء نے آہل کے تکبر کو محسوس کیا تو سوچتے ہوئے سخت گو ہوئی۔۔۔

"اور جیسا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ لوگ ایڑیاں رگڑتے ہیں یہاں جاب کرنے کو تو آپ نے ان کو کیوں نہیں بلایا۔۔۔

شاید وہ مجھ سے زیادہ اس جاب کے حقدرا ہو۔۔۔

مجھے تو اپکی کمپنی کا نام بھی سہی سے معلوم نہیں۔۔۔

تو کیوں آپ مجھے موقع دے رہے ہیں؟؟؟"

منہاء نے سنا تو تاسف ہوئی۔۔۔

"اس سے اپکو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے مس منہاء۔۔۔۔

یہ میرا آفس ہے اور یہاں میری مرضی چلتی ہیں۔۔۔

میں جس کو چاہو رکھو جس کو چاہو نکالو۔۔۔

خیر واپس اپنی بات پر آتے ہیں آپ مجھے وجہ بتائیں جو میں نے پوچھی ہے آپ سے۔۔۔۔

امید ہے آپ کو کوئی ایشو نہیں ہوگا بتانے میں ۔۔۔۔"

آہل نے منہاء کا جواب سنا تو تاثرات سخت سے ہوئے۔۔۔

منہاء نے سامنے بیٹھے شخص کی بات سنی تو منہ بسورے بدمست ہوئی۔۔۔۔

"جی سر!!!!!!"

لفظوں کو دانت پر پسیجتے منہاء اہستگی سے غرائی۔۔۔

"ثمر کہاں پھنسا دیا ہے تو نے مجھے ؟؟؟؟

خدا تجھے پوچھے ثمر!!!!!

تیری گاڑی کا ٹائیر پنچر ہوجائے۔۔۔

تیری میک آپ کٹ ٹوٹ جائے۔۔۔

تجھے نیند نہ آئے رات بھر۔۔۔۔

تیرا فیورٹ سوٹ خراب ہوجائے۔۔۔"

منہاء کئی بدگوئیاں بھرے دل ہی دل میں ثمر کو کوس رہی تھی۔۔۔۔

"مس منہاء میں انتظار کررہا ہو آپ کے بولنے کا۔۔۔۔

کیا آپ بولے گی کچھ؟؟؟؟

مجھے اور بھی کئی ضروری کام ہے میں یہاں صرف آپ کیلئے نہیں بیٹھا ہوا!!!!"

آہل نے منہاء کی خاموش سرگوشی محسوس کی دبی مسکراہٹ گو ہوا۔۔۔

"میں اپنی دوست ثمر کے ساتھ انٹرویو کیلئے ہی آرہی تھی جب راستے میں ہمیں ایک بزرگ ملے جن کی طبیعت بہت زیادہ ناساز تھی۔۔۔۔۔

تو بس انہی کو ہسپتال لے جاتے وقت میرے ڈاکومنٹس مس ہوگئے مجھ سے۔۔۔

اور میں انٹرویو کیلئے نہ آ سکی۔۔۔۔

اور میری وجہ سے میری دوست نے بھی انٹرویو نہیں دیا۔۔۔"

منہاء مختصرا برجستگی سے بولی۔۔۔۔

"کیا آپ ان بزرگ کو جانتی تھی؟؟؟؟

میرا مطلب آج کے دور میں کوئی ایسا کرتا نہیں ہے۔۔۔

جو آپ انہیں یوں ہسپتال لے گئی وہ بھی اپنے ایک بہت اہم دن۔۔۔۔"

آہل نے سنا تو تجسسی ہوا۔۔۔۔

"کیا لازم ہے کسی کی مدد تب کی جائے جب ہم انہیں جانتے ہو۔۔۔۔

آپ سمجھتے ہونگے ایسا میں ایسا تصور بھی نہیں رکھتی۔۔۔

اور میرے لیے اس وقت اہم ان کی زندگی اور صحت تھی نہ کہ یہ جاب اور انٹرویو۔۔۔۔"

منہاء دوٹوک ہوئی۔۔۔۔

"نہیں تو آپ ہی کیوں لے کر گئی انہیں۔۔۔۔

کیا وہاں پر اور کوئی موجود نہ تھا جو آپ ہی انسانی ہمدردی کرنے کو بھاگی۔۔۔۔"

آہل سوال پر سوال داغ رہا تھا۔۔۔۔

"اگر کوئی موجود ہوتا بھی تو میں ہی یہ ذمہ داری بخوبی نبھاتی جو میں نے نبھائی۔۔۔۔

اور میرے خیال سے ان سوالات کا تعلق اپکی جاب اور میرے انٹرویو سے نہیں ہے۔۔۔۔

تو کیا ہم ان سوالات سے آگے بڑھ سکتے ہیں ؟؟؟؟"

منہاء زچ ہوئی۔۔۔۔

"نہیں ہم انہیں سوالات پر ہی بات کرے گے چاہے اپکی مرضی ہو یا نہ ہو!!!!"

آہل بضد ہوا۔۔۔

"تو ٹھیک ہے پھر۔۔۔۔

اپکی جاب اپکو ہی بہت مبارک ہو۔۔۔

کیونکہ میں پابند ہونے والوں میں سے نہیں ہو۔۔۔۔

بہت شکریہ اپکا۔۔۔"

منہاء متلاطم ہوتے اپنا بیگ سنبھالے اٹھی اور دروازے کی جانب تیز قدموں سے بڑھی۔۔۔۔

"مس منہاء منور۔۔۔۔۔

رکیے۔۔۔"

آہل نے منہاء کے جانے کی آہٹ سنی تو فورا کرسی گھومائے اس کو اپنی جانب متوجہ کیا۔۔۔

"جانا چاہتی ہے تو شوق سے جائے۔۔۔

مگر اپنے ڈاکومنٹس تو لیتی جائے جو آپ اس رات میرے گھر چھوڑ گئی تھی۔۔۔۔"

"ڈاکومنٹس"

منہاء جو عنقریب دروازے سے باہر قدم رکھنے کو تھی ڈاکومنٹس کا  سنتے ہی ایک دم رک سی گئی۔۔۔۔

اور  مارے حیرت و تعجب ایک بیگانے وجود کی مانند پیچھے کی جانب پلٹی۔۔۔۔

آہل جو منہاء منور کو دیکھنے کا خواہش مند تھا سامنے کھڑی لڑکی کو پلٹتے دیکھا تو چہرے کی طویل مسکراہٹ ایک دم سکھڑ سی گئی۔۔۔۔

جبکہ آہل کو دیکھتے ہی منہاء کی آنکھوں کے سامنے اس رات کی وحشت جھلکی جس پر اس کے قدم لڑکھڑا سے گئے۔۔۔۔۔

"ت۔۔۔۔ت۔۔۔تم!!!!!"

منہاء لڑکھڑاتی زبان سے سکتہ آور ہوئی۔۔۔۔

جبکہ آہل خود بھی چندھیائی نظروں سے منہاء کے چہرے کے حواس باختگی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

"تو تم ہو منہاء منور۔۔۔۔

جو اس رات میرے کمرے میں میری بانہوں میں۔۔۔۔"

"بکواس بند رکھو اپنی۔۔۔۔"

آہل جو اس سے پہلے اپنی غلیظ بات مکمل کرتا منہاء اسے حقارت بھری نظروں سے دیکھتے چلائی۔۔۔

جبکہ آہل بھی سرد تاثرات لیے اسے گھورنے لگا۔۔۔

"مجھے ذرا سی بھی بھنک ہوتی کہ یہ تمہارا آفس ہے تو یہاں تھوکتی بھی نہ کبھی۔۔۔۔۔

تم جیسے جانور صفت انسان کے آفس میں کام کرنا اپنی توہین سمجھتی ہو میں۔۔۔"

منہاء سفاک ہوئی۔۔۔

"کیوں آئی تھی اس رات میرے کمرے میں؟؟؟؟

کس کے کہنے پر آئی تھی تم وہاں؟؟؟؟

بس اس بات کا جواب دو مجھے۔۔۔۔۔

اور اپنے ڈاکومنٹس لے کر یہاں سے دفع ہوجاؤ۔۔۔"

آہل سرخ پڑتی نظروں سے منہاء کو گھورتے چنگارا۔۔۔۔

"میں تمہیں کچھ بھی بتانا مناسب نہیں سمجھتی مسٹر آہل۔۔۔

بہتر ہے میرے ڈاکومنٹس واپس کرو۔۔۔

ورنہ میں یہاں چلا چلا کر سب کو اکٹھا کردونگی اور وہ تماشہ لگاؤ گی کہ کسی کو شکل دکھانے کے قابل نہیں رہو گے تم۔۔۔۔"

منہاء انگلی دکھاتے بپھڑی۔۔۔۔

جبکہ آہل منہاء کی اس بد تمیزی کو دیکھتے اب چھوٹے قدم لیے اس کی جانب بڑھنے لگا۔۔۔۔۔

"چلانا چاہتی ہو۔۔۔۔

چلاؤ۔۔۔۔

لگاؤ تماشہ۔۔۔۔

کرو جمع لوگوں کو۔۔۔۔

اگر یہ سب کرنے سے تمہیں تمہارے ڈاکومنٹس واپس مل جائے گے تو یہ بھول ہے تمہاری۔۔۔۔

بدنامی اگر میری ہوگی تو نام تمہارا بھی میرے ساتھ زبان عام ہو گا۔۔۔

تو بہتر ہے مجھے سب سچ سچ بتاؤ۔۔۔

ورنہ!!"

آہل اہستگی سے خونخواری  مسکراہٹ لیے منہاء کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔

جبکہ منہاء بھی اب ثابت قدموں کے ساتھ کھڑی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے آتشی کدہ ہوئی۔۔۔۔

"ورنہ کیا؟؟؟؟

کیا ورنہ!!!!!

ڈاکومنٹس تو میں واپس لے کر ہی رہو گی۔۔۔۔

چاہے مجھے کچھ بھی کرنا ہی کیوں نہ پڑے۔۔۔۔"

منہاء عتاب ہوئی۔۔۔۔

"اچھا تو کیا کرو گی پھر۔۔۔۔

بولو۔۔۔۔"

آہل منہاء کے قریب ہوتے اہستگی سے بولا۔۔۔

"کیا پھر میرے گھر کا چکر لگاؤ۔۔۔۔

یا پھر سے میرے کمرے میں میری قربت کا مزہ لوگی۔۔۔"

منہاء کی سننے کی ہی دیر تھی کہ ایک زور دار طمانچہ آہل کے چہرے پر دے مارا جس سے وہ ایک دم لڑکھڑا سا گیا۔۔۔

"اپنی گندی زبان اپنے منہ میں رکھو مسٹر۔۔۔۔

 بہتر ہوگا تمہارے لیے۔۔۔۔

اچھا ہوتا اس رات ہی تمہارا منہ نوچ لیتی تو آج تم یوں میرے سامنے کھڑے نہ ہوتے۔۔۔۔"

منہاء اشتعال انگیز تاثرات ہوئی۔۔۔۔

جبکہ اب آہل بھی کسی آتش فشان کی مانند کھڑا اپنے گال پر ہاتھ جمائے تھا۔۔۔۔

"اگر مزید تھپڑ کھانا نہیں چاہتے تو میرے ڈاکومنٹس مجھے واپس کردو ۔۔۔۔۔۔

کیونکہ تم سے مزید بات کرنا اور تمہاری شکل دیکھنا میرے لیے کسی اذیت سے کم نہیں ہے۔۔۔۔"

منہاء سنگین ہوئی۔۔۔۔

"تم نے مجھے تھپڑ مارا۔۔۔۔۔

آہل خان کو۔۔۔۔۔۔"

آہل اپنے گال پر ہاتھ جمائے غرایا۔۔۔۔

"ہاں میں نے تمہیں تھپڑ مارا۔۔۔

اور ہوا تو اور بھی مارو گی۔۔۔

کیونکہ تم اسی قابل ہو۔۔۔۔۔

آہل خان؛!!!!!!"

منہاء لفظ بہ لفظ انگاروں مانند چبائے بولی۔۔۔

آہل جو منہاء کی باتیں سن کر اپنا گال سہلا رہا تھا غصے سے پاگل ایک دم منہاء کی جانب ہوا۔۔۔

اور منہاء کو دونوں بازوؤں سے دبوچے دیوار سے پٹختے فورا اس کے قریب اس پر اپنا حصار بنایا۔۔۔

آہل کے اس ردعمل سے بے خبر منہاء داسہم ہوتے آہل کے سینے پر ہاتھ دھڑے چلا سی گئی۔۔۔۔

"ثمر!!!!!!"

آہل نے منہاء کی چیخ سنی تو فورا اس کے منہ پر اپنا ہاتھ دھڑے اس کی چیخ کو دبا دیا۔۔۔۔

اور خود اب سرخ خون اتری آنکھوں سے منہاء کی نم ہوتی آنکھوں میں دیکھتے اس کے قریب ہوا۔۔۔

"خاموش!!!!!!

شششششششش!!!!

بلکل خاموش۔۔۔۔

اب آواز نکالی نہ تم نے۔۔۔

تو اس رات کو یاد کر لینا۔۔۔۔

اس سے بدتر کر سکتا ہو میں۔۔۔

اور یہ میں کہہ نہیں رہا بلکہ کر کے بھی دیکھاؤ گا۔۔۔۔

آئی سمجھ۔۔۔۔"

آہل سیخ پا ہو رہا تھا جبکہ منہاء کو اب اس کی وحشت سے خوف آنے لگا۔۔۔۔

ایک بار پھر وہ اس کے گرداب میں جکڑی خود کو بے بس محسوس کررہی تھی۔۔۔۔

"اب بتاؤ۔۔۔۔

کس کے کہنے پر آئی تھی تم اس رات۔۔۔۔

کس نے کہا تھا تمہیں کہ اس کمرے میں جاؤ۔۔۔؟؟؟"

آہل جنونی ہوا۔۔۔۔

آہل کا سوال سنا تو منہاء کی آنکھوں سے آنسوں کی گرم لڑیاں ٹوٹتی آہل کے ہاتھ پر بکھر گئی۔۔۔

جبکہ سختی سے منہاء کے منہ کو دبوچے کھڑا آہل کو اس کے لمس کا بھی احساس نہ ہوا۔۔۔۔

"کچھ پوچھ رہا ہو تم سے۔۔۔۔

جواب دو۔۔۔۔

بتاؤ کس نے بھیجا تھا تمہیں۔۔۔۔

ہما نے بھیجا تھا ناں تمہیں۔۔۔۔

اسی نے بھیجا ہے ناں تمہیں۔۔۔۔

بولو۔۔۔۔

بولتی کیوں نہیں ہو تم۔۔۔۔

جواب دو۔۔۔۔"

آہل دیوانہ وار چلایا۔۔۔

جبکہ منہاء جو اس سارے معاملے سے بے خبر تھی اب زاروقطار بناء آواز کے رونے لگی۔۔۔۔

آہل جو غیظ و غضب کا شکار تھا منہاء کی دبی آواز سنی تو ایک دم اپنا ہاتھ ہٹائے پیچھے کو ہوا اور حواس باختگی سے سامنے روتی منہاء کو دیکھنے لگا۔۔۔

"میرا۔۔۔۔

م۔۔۔۔۔م۔۔۔میں۔۔۔۔

ہ۔۔۔ہما۔۔۔

نہیں!!!!!

تعلق!!!!"

منہاء ہچکیاں بھرے چہرے کو ہاتھ سے چھپائے روتے اپنے ٹوٹے لفظوں سے بات مکمل کرنے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔۔

جبکہ آہل اسی انداز سے کھڑا منہاء کی ہچکیوں کو محسوس کرتے اس کے لفظوں کو سمجھ رہا تھا۔۔۔

منہاء سے جب مزید سہا نہ گیا تو وہاں سے فورا باہر کی جانب لپکی۔۔۔

جبکہ منہاء کے جاتے ہی آہل نے ایک ٹانگ سامنے موجود صوفے پر دے ماری اور پریشانی سے اپنے بالوں میں پھیرے واپس اپنی نشست کی جانب ہوا۔۔۔۔

اور سر گرائے خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔

ثمر جو ویٹنگ سائیڈ پر ہی بیٹھی منہاء کے انتظار میں تھی۔۔۔

کمرے سے باہر آتی منہاء کو دیکھا تو فورا اس کی جانب لپکی۔۔۔۔

"منہاء!!!!!!"

جبکہ منہاء اپنے آنسوں کو چھپاتی سیدھا تیز قدموں سے ثمر کی آواز سے بے خبر لیفٹ کی جانب بھاگی اور جیسے ہی لیفٹ کھلی فورا اندر داخل ہوئی۔۔۔۔

"منہاء رکوں تو سہی یار؟؟؟؟

کہاں جارہی ہو ؟؟؟؟

منہاء؟؟؟؟"

ثمر نے منہاء کو یوں جاتے دیکھا تو حواس باختگی سے لیفٹ کو لپکی مگر تب تک لیفٹ بند ہوچکی تھی۔۔۔۔

"اسے کیا ہوا ہے اب؟؟؟؟

یہ ایسے کیوں بھاگ رہی تھی جیسے کوئی جن پیچھے بھاگا ہو اس کے؟؟

اوپر سے میری آواز کا جواب بھی نہیں دیا۔۔۔۔

ہوا کیا ہے آخر؟؟؟؟"

ثمر کئی سوالات کے ساتھ لیفٹ کے باہر کھڑی تھی کہ تبھی اپنا موبائل نکالا اور منہاء کو فون ملانے لگی۔۔۔۔

"فون اٹھاؤ منہاء!!!!!

فون اٹھاؤ یار۔۔۔

فون کیوں نہیں اٹھا رہی ہے یہ اب!!!!"

ثمر بے چینی سے فون کان پر لگائے لیفٹ میں داخل ہوئی۔۔۔

بیلز مسلسل جارہی تھی مگر دوسری جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔

جیسے ہی لیفٹ کھلی ثمر تیزی سے باہر کی جانب بھاگی جہاں چاروں اطراف وہ منہاء کو دیکھنے کیلئے نظر دہرانے لگی۔۔۔۔

کہ تبھی نظر سامنے رکشہ میں سوار ہوتی منہاء پر پڑی۔۔۔

"منہاء؟؟؟؟

کہاں جارہی ہو یار؟؟؟

بات تو سنوں؟؟؟؟

منہاء!!!!"

ثمر بوکھلائی اس کی جانب بھاگی۔۔۔

مگر تب تک رکشہ چل چکا تھا اور منہاء جا چکی تھی۔۔۔۔

"اففففففف۔۔۔۔۔

یہ سب کیا تھا؟؟؟؟؟

یہ ایسے کیوں چلی گئی؟؟؟؟

مجھے چھوڑ کر ہی چلی گئی؟؟؟؟

منہاء!!!!"

ثمر پھولی سانس کے ساتھ ایک بار پھر سے چلائی مگر اب تک وہ دور جا چکی تھی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آفس سے نکلتے ہی منہاء کے حساس جیسے بند ہونگے ہو۔۔۔۔

بس وہاں سے نکل جانے کی دھن میں گم وہ ثمر کو وہی چھوڑ آئی تھی اور خود فرار اختیار کی۔۔۔۔

رکشے میں سوار ہوتے ہی جیسے ہچکیوں کا بندھا پل ٹوٹا اور وہ چہرے کو ہاتھوں میں دبوچے زور زور سے رونے لگی۔۔۔۔

کہ آگے بیٹھا شخص بھی منہاء کی آواز سنتے ہی پریشانی سے اس کی جانب مڑ کر اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔

"کیا ہوا ہے بہن؟؟؟؟

سب ٹھیک تو ہے ناں؟؟؟؟

اگر کوئی مسئلہ ہے تو بتا سکتی ہو مجھے بہن!!!

شاید میں کوئی مدد کر سکوں!!!"

"نہیں بھائی اپکا بہت شکریہ۔۔۔

آپ بس جلدی سے میرے بتائے ہوئے پتہ پر مجھے پہنچا دے۔۔۔

بس یہ مہربانی کردے مجھ پر۔۔۔"

منہاء فورا اپنے آنسوں صاف کیے تاسف ہوئی۔۔۔

جس پر وہ شخص خاموشی سے آگے کی جانب متوجہ ہوتے بیٹھ گیا۔۔۔۔

جبکہ منہاء کے ذہن میں مسلسل آہل کی باتیں گونجنے لگی۔۔۔۔

""خاموش!!!!!!

شششششششش!!!!

بلکل خاموش۔۔۔۔

اب آواز نکالی نہ تم نے۔۔۔

تو اس رات کو یاد کر لینا۔۔۔۔

اس سے بدتر کر سکتا ہو میں۔۔۔

اور یہ میں کہہ نہیں رہا بلکہ کر کے بھی دیکھاؤ گا۔۔۔۔

آئی سمجھ۔۔۔۔"

"اففففففف میرے خدایا۔۔۔۔

یہ سب کیا تھا؟؟؟؟؟

یہ سب؟؟؟؟

میرے ساتھ ہی کیوں؟؟؟؟

میں ہی کیوں؟؟؟؟"

منہاء نم آنکھوں سے دل ہی دل میں سوچتے سر تھامے خود کو کوسنے لگی۔۔۔۔

کہ تبھی فون پھر سے زور زور سے ناچنے لگا جس نے منہاء کو اپنی جانب متوجہ کیا۔۔۔۔

"اب یہ کیوں مجھے کال کررہا ہے؟؟؟؟

سب نے مل کر ہی سوچا ہوا ہے کسی نہ کسی طرح میری زندگی کو عذاب بنایا جائے۔۔۔۔

اور سب سے زیادہ تم نے میری زندگی خراب کی ہے!!!!"

منہاء زیر لب پھنکاری اور فون اٹھا لیا۔۔۔

اس سے پہلے بلال کچھ بولتا منہاء برہمی انداز آور ہوئی۔۔۔

"بولو کیا ہے اب؟؟؟؟

کیوں فون کیا ہے مجھے تم نے؟؟؟؟

اب کونسی کسر باقی رہ گئی ہیں تمہاری ماں کی جانب سے  جو تم نکالنا چاہتے ہو ؟؟؟

رشتہ تو ختم ہو گیا ہے ناں تو پھر اب؟؟؟"

"میں تمہیں کب سے فون کررہا ہو منہاء۔۔۔۔

تھوڑا بھی احساس ہے تمہیں کہ کس قدر ڈپریشن میں ہو میں۔۔۔۔

اور یہ کیسے بات کررہی ہو تم مجھ سے جھوٹ؟؟؟؟"

بلال متحیر ہوا۔۔۔۔

"کیا مطلب کیسے بات کررہی ہو میں۔۔۔

جس قابل ہو نہ تم اسے لحاظ سے بات کررہی ہو میں۔۔۔

اور میری بلا سے تم ڈپریشن میں ہو یا ڈپریشن تم میں ہو۔۔۔

مجھے فون مت کرو اب۔۔۔۔"

منہاء فون بند کرنے کو ہی تھی کہ بلال پھر سے بول اٹھا۔۔۔

"بس بھی منہاء؟؟؟

کس قدر غصہ کروگی یار۔۔۔۔

اس وقت میں بہت غصے میں تھا مجھے نہیں سمجھ آیا اس وقت کہ کیا کیا بول گیا ہو میں۔۔۔۔

اب سوچا تو سچ میں مجھے احساس ہوا کہ بہت غلط کر گیا ہو میں تمہارے ساتھ۔۔۔۔

مجھے تمہاری بھی بات سننی چاہیے تھی۔۔۔۔"

"ہو گیا تمہارا کہ اور ہے ابھی؟؟؟؟"

بلال کی بات کاٹتے ہی منہاء جو پہلے سے ہی متلاطم تھی بلال پر برس پڑی۔۔۔

"منہاء!!!!"

"نام مت لو میرا!!!!!"

بلال کے منہ سے نام سنتے ہی منہاء حف ہوئی۔۔۔

"یہ سب بتانے کو فون کیا تھا تم نے۔۔۔

 جب تم غصے میں ہوگے مجھے زلیل کرو گے اور جب تمہارا دل چاہے گا مجھ سے محبت جتلاؤ گے۔۔۔۔؟؟؟"

"تم ٹھیک کہہ رہی ہو یار۔۔۔

بلکل ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔۔۔

بس اس وقت میں!!!!"

بلال مبہم ہوا۔۔۔۔

"دیکھو بلال اس وقت جو بھی تھا مجھے اس سے کچھ نہیں اب۔۔۔

اپنے وقت کی قدر نہیں تو میرے وقت کا خیال کرلو تم۔۔۔۔

تم پر آگے ہی بہت کچھ گوا چکی ہو میں اب بس۔۔۔۔

اپنی ماں اور اپنی عزت کا ٹوکرا اٹھاؤ اور چلتے بنو اب۔۔۔۔"

"منہاء بہت بول رہی ہو تم۔۔۔۔

بس کرو اب۔۔۔۔

تم جانتی ہو مجھے تمہارا یوں بولنا پسند نہیں۔۔۔۔"

بلال کا مزاج بگڑا۔۔۔

"مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تمہیں کیا پسند ہے اور کیا نہیں۔۔۔

ہمارے درمیان اب ایسا کوئی تعلق نہیں جس کی ڈھونس جمانے کو آئے ہو تم۔۔۔۔"

منہاء شدت ہوئی۔۔۔

"اور میں اچھے سے جانتی ہو کہ یہ فون بھی تم نے کیوں کیا ہوگا۔۔۔۔

تمہاری ماں کی سانس جو پھنسی ہے انگوٹھی کے اندر۔۔۔

فکر مت کرو میں تمہارے منہ پر ہی مارو گی وہ انگوٹھی۔۔۔۔

اور ہاں اپنی اماں سے کہنا میرے ماں نے جو انہیں سونے کے بوندے دیے تھے ناں واپس کرے۔۔۔۔

اگر انہیں عورت ہونے کا لحاظ نہیں تو میں بھی زہر ہو بلال تڑپا کر مارو گی۔۔۔۔

تمہیں بھی اور تمہاری ماں کو بھی۔۔۔۔"

منہاء نے اشتعال انگیز ہوتے ہی فون بند کردیا۔۔۔

جبکہ دوسری جانب بلال بھی ہکا بکا فون کان سے لگائے کئی دیر تک نئی منہاء کی باتیں سن کر دنگ سا رہ گیا۔۔

"زندگی عذاب بنا دی ہے سب نے میری۔۔۔۔

سب نے تماشا بنا دیا ہے میرا۔۔۔

اب جو میں چاہو گی وہی ہوگا وہی کروگی!!!!!"

منہاء اپنا سر جکڑے بلبلائی۔۔۔

اور پھر فون دوبارہ سوئچ آف کیے بیٹھ گئی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء کے جاتے ہی آہل بھی اپنے آفس سے اضطرابی کیفیت اپنائے باہر نکلا اور سیدھا گھر کی راہ بھری۔۔۔۔

پورے راستے وہ بس منہاء کے متعلق ہی سوچتا رہا اور جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو لاؤنچ سے ہوتے سیدھا سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔۔۔۔

لاونچ میں بیٹھے خان بابا جو اسی کے انتظار میں. تھے آہل کو یوں بپھڑے جاتے دیکھا تو فورا اس کے پیچھے کو ہوئے۔۔۔۔

آہل اپنے کمرے میں داخل ہوا تو بے چینی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرے گہری سانسیں بھرتے پورے کمرے میں ٹہلنے لگا۔۔۔

اور پھر جب سکون نہ آیا تو شامت اردگرد پڑی چیزوں کی آئی جسے آہل اٹھا اٹھا کر پٹخنے لگا اور لمحہ بھر میں ایک نفاست کا پیکر کمرہ کسی طوفان ذدہ جگہ کی مانند معلوم ہونے لگا۔۔۔

ہر جانب تباہی مچانے کے بعد اب وہ اپنی پھولی تیز سانس لیے بیڈ پر سر پکڑے بیٹھ گیا۔۔۔۔۔

جبکہ اب خان بابا بھی دروازے پر کھڑے اس بے ہنگم وجود کو ترس بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔

"کیوں آئے ہیں آپ یہاں دادا؟؟؟؟

جائیے پلیز یہاں سے۔۔۔۔

میں نہیں چاہتا کہ کسی بھی قسم کی گستاخی کرو میں آپ کے ساتھ۔۔۔۔

بہت دکھ ہوتا ہے مجھے پھر اور شرمندگی بھی۔۔۔۔"

آہل جو سر گرائے بیٹھا تھا سرخ آنکھوں کو اپنے ہاتھوں میں دبوچے بولا۔۔۔۔

"میری آہٹ کا تم کو بخوبی خبر ہے۔۔۔

مگر اپنے ضمیر کی چیخ کو کیوں نہیں سن رہا تم آہل؟؟؟؟

حیرت ہے ہر کام کا فنکار ہو تم مگر خود کے معاملے میں حد درجہ نالائق انسان ہو۔۔۔"

خان بابا سامنے بکھرے سامان کو پاؤں سے پیچھے کرتے اس کی جانب بڑھے۔۔۔

"بہت غلط کر کے آیا ہو میں دادا ۔۔۔۔۔

بہت غلط!!!!!

خود کو تیس مار خان سمجھنے والا آہل آج اپنی چھٹی حس سے ہار کر بیٹھا ہے۔۔۔۔"

آہل نے خان بابا کو اپنے روبرو دیکھا تو بے یقینی کیفیت سے اپنا سر تھامے بلبلایا۔۔۔۔

"اکثر انسان اسی سے مات کھاتا ہے جس پر سب سے زیادہ یقین رکھتا ہے۔۔۔۔

تم ایک انسان ہے سوچ بھی کیسے لیا تم اپنے چھٹی حس سے دنیا فتح کرے گا۔۔۔۔

وہ بھی محض ایک لڑکی کو مات دے کر!!!!"

خان بابا کے منہ سے یہ بات سننے کو ہی تھی کہ آہل مارے تعجب انہیں دیکھنے لگا۔۔۔۔

"ایسا کیا دیکھتا ہے تم!!!!

دادا ہے ہم تمہارا۔۔۔۔

تمہارے باپ کا باپ ہو ۔۔۔۔

تمہارے پاس اگر چھ حس ہے تو ہم آٹھ رکھتا ہے۔۔۔۔

کون اس ویلہ میں کیا کررہا ہے سب ہر نظر ہے ہماری۔۔۔

تم پر بھی!!!!!"

خان بابا طنزیہ مسکراہٹ ہوئے۔۔۔۔

"بلآخر اس پیٹ کے ہلکے افگن نے اگل ہی دیا سب آپ کے سامنے۔۔۔۔۔"

آہل مسکراہٹ بھرے سر جھٹکاتے اٹھا۔۔۔۔

"پھر مات کھا رہا ہے تم آہل۔۔۔۔

اس نے ہمیں کچھ نہیں بتایا۔۔۔

تم نے اسے دھمکایا جو اس قدر تھا۔۔۔۔

جس فائل کو تم نے افگن سے چوری کروایا تھا۔۔۔

بھول کیسے گیا تم وہ فائل ہمارے سرہانے کے نیچے رکھا تھا ہم نے جو بس افگن جانتا تھا اور کوئی نہیں۔۔۔۔"

"تو آپ سب جان چکے ہیں پھر!!!!

کہ میں اس تک پہنچ چکا ہو۔۔۔۔"

آہل سگار جلائے ہانپا۔۔۔۔

"تمہارے ضمیر کے بوجھ کو دیکھتے ہی اندازہ لگایا تھا کہ تم اس معصوم کو غلط سمجھے ہو۔۔۔

ورنہ جیت کا بوجھ اس بکھرے کمرے پر ہاوی نہ ہوتا۔۔۔۔

اچھا ہے تم کو احساس ہو گیا ہے۔۔۔۔

سکون کی نیند میسر ہوگی آج رات تمہیں پھر۔۔۔۔"

خان بابا مسکراہٹ دیتے اٹھے۔۔۔۔

جبکہ خان بابا کی دوغلی باتوں کو سنتے آہل بس سگار سلگائے رہ گیا۔۔۔۔

"ہم کھانے پر انتظار کررہا ہے تمہارا۔۔۔۔

اپنا حلیہ سدھار کر وہی آجاؤ۔۔۔

اور اس دھویں کے بادل کو بجھا کر آنا!!!!

افگن سے کہتا ہے ہم ہر بار کی طرح تمہارا کمرہ سمیٹ دے گا وہ۔۔۔۔"

خان بابا کہتے وہاں سے چلے گئے۔۔۔

جبکہ آہل مسکراہٹ بھرے واپس اپنے بیڈ پر بیٹھا اور پھر بکھری چیزوں کو دیکھنے لگا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"یہ کیا بد تمیزی تھی منہاء!!؟؟؟؟؟"

ثمر آگ بگولہ ہوتے سیدھا منہاء کے کمرے کی. داخل ہوئی۔۔۔۔

"کیوں آئی ہو تم یہاں؟؟؟؟

ثمر جاؤ یہاں سے میں نہیں چاہتی کہ کچھ الٹا سیدھا بولو تمہیں۔۔۔۔

پلیز جاؤ یہاں. سے۔۔۔۔۔"

منہاء جو فریش ہوتے باہر کو آئی تھی تولیہ بیڈ پر پھینکتے سناٹ ہوئی۔۔۔۔

"بولو!!!!

سننا چاہتی ہو میں تمہارا الٹا سیدھا!!!

کیونکہ تم نے جو آج میرے ساتھ کیا ہے ناں وہ میں کبھی نہیں بھولو گی۔۔۔۔"

ثمر سناٹ ہوئی۔۔۔۔

"اور جو تمہاری وجہ سے میرے ساتھ ہوا وہ۔۔۔۔

یقین جانو میں بھی کبھی نہیں بھولوں گی!!!!"

منہاء غرائی۔۔۔۔

"کیا کیا ہے میں نے بولو؟؟؟؟

آخر ایسا ہوا کیا تھا جو تم یوں بھاگی چلی آئی کہ پیچھے کسی کی خبر تک نہ لی؟؟؟؟"

"تم جانتی بھی ہو اس خانز انڈسٹری کا سی ای او کون ہے!!!!؟؟؟"

منہاء بازوؤں باندھے ثمر کو دیکھتے سناٹ ہوئی۔۔۔

"ہمیں اس سے کیا یار؟؟؟؟

وہ جو کوئی بھی ہو۔۔۔۔

ہم نے بس جاب کرنی ہے وہاں پر۔۔۔۔"

"آہل خان!!!!

اسی بزرگ شخص کا پوتا جن کے گھر ہم گئے تھے۔۔۔۔"

منہاء بول رہی تھی جبکہ ثمر کا منہ سنتے ہی کھل گیا تھا۔۔۔

"کہہ دے یہ جھوٹ ہے۔۔۔۔

مذاق ہے۔۔۔

اگر یہ مذاق ہے تو  تیری قسم منہاء بہت ہی بھدا مذاق کررہی ہو تم میرے ساتھ۔۔۔"

ثمر بے یقینی ہوئی۔۔۔

"سب پلین تھا ثمر۔۔۔

سب سوچا سمجھا پلین تھا۔۔۔۔

مگر تمہاری بے وقوفی نے مجھے اس کے شکنجے میں پھینک دیا۔۔۔۔

اور یہ سب اس نے اپنے منہ سے بتایا مجھے میرے ڈاکومنٹس کو لہراتے وہ سب کچھ بک رہا تھا۔۔۔۔

اور جانتی ہو اس وقت میں کیا سوچ رہی تھی۔۔۔۔"

منہاء سوالیہ ہوئی۔۔۔

"ک۔۔۔۔ک۔۔۔کیا؟"

ثمر ہکلائی۔۔۔

"تمہیں جھولی بھر بھر گالیاں دے رہی تھی۔۔۔۔"

منہاء منہ بسورے ثمر کے ساتھ آ بیٹھی۔۔۔

"اب کیا ہوگا یار؟؟؟؟

اب تو میرے بھی ڈاکومنٹس ان کے پاس ہے۔۔۔"

ثمر مبہم ہوئی۔۔۔۔

"تم نے اپنے ڈاکومنٹس کیوں دیے پاگل لڑکی؟؟؟؟؟

میں تو ڈوبی تھی اب تم بھی؟؟؟؟؟"

منہاء نے سنا تو بپھڑتے اٹھی۔۔۔۔

"تو اور کیا کرتی ؟؟؟؟

مجھے کیا پتہ تھا یہ سب ایک سوچی سمجھی چال ہے۔۔۔

انہوں نے جب وہ کنٹریکٹ سائن کروایا تھا تو شرط موجود تھی کہ ڈاکومنٹس ان کے پاس محفوظ ہونگے تب تک جب تک ہم وہاں جاب کرے گے۔۔۔"

"اففففففف ثمر!!!!"

منہاء نے سنا تو اب واپس سر پکڑے بیٹھ گئی۔۔۔۔

"میرا دل کررہا ہے تیرا سر پھاڑ دو قسم سے۔۔۔۔

کس مصیبت میں ڈال دیا ہے مجھے۔۔۔۔"

"اس سے پہلے میرا یہاں قتل ہو۔۔۔

میرے خیال سے مجھے یہاں سے بھاگ جانا چاہیے۔۔۔۔"

ثمر نے منہاء کی خونخواری دیکھی تو فورا اپنا بیگ تھامے باہر کی جانب بھاگی۔۔۔

جبکہ منہاء اس کو یوں بھاگتا دیکھ بمشکل دبی مسکراہٹ ہوئی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

رات کا آدھا پہر گزر گیا تھا جب آہل اسی کمرے میں موجود ہما کی تصویر کے سامنے کھڑا مسلسل شراب پی رہا تھا۔۔۔۔

ہر ایک گھونٹ پر اس کی آنکھ سے ایک آنسوں ٹوٹتا اور اس کی گال پر بکھر جاتا۔۔۔۔

"اہل کتنی محبت کرتے ہو مجھ؟؟؟؟"

آہل کا ہاتھ تھامے وہ اپنے دل سے لگائے دلفریب ہوئی۔۔۔

"اتنی کہ تمہیں اپنے نکاح میں لانا چاہتا ہو۔۔۔

بتاؤ پھر کب میری ہونا چاہو گی۔۔۔۔"

آہل ہما کو اپنی جانب کھینچتے بانہوں میں بھرے مسکرایا۔۔۔۔

"اففففففف ایک تو یہ نکاح کی رٹ۔۔۔۔

یار کیوں باندھنا چاہتے ہو مجھے اس گھٹن بھرے تین بولوں میں۔۔۔۔"

آہل کی بانہوں سے خود کو آزاد کراتے وہ بدظن سی ہوئی۔۔۔

"میری جان نکاح گھٹن نہیں بلکہ ایک ٹھنڈنک بھری کھلی فضا ہے۔۔۔

اور میں تمہیں بس اپنے نام کرنا چاہتا ہو۔۔۔۔"

آہل نے ناراض ہوتی ہما کی کلائی تھامی اور واپس اسے 

اپنی بانہوں میں بھرے اس کے اوپر جھکا۔۔۔۔

"او ریلی۔۔۔۔"

آہل کے چہرے کو چھوتے وہ اہستگی سے بولی۔۔۔۔

"او یس!!!!"

آہل فاتحانہ مسکراہٹ لیے ہما کے لمس کو محسوس کرنے لگا۔۔۔

"جھوٹ تھا سب!!!!

سب جھوٹ تھا۔۔۔۔

دادا سہی کہتے ہیں ۔۔۔۔۔

انسان اسی سے مات کھاتا ہے جس پر بہت یقین کرتا ہے۔۔۔

میں نے تو تم سے عشق کیا تھا ۔۔۔۔

دھتکار تو بنتی تھی۔۔۔۔"

آنکھ سے بہتے یاد کے ایک سرد آنسوں کو انگلی کی پور سے تصویر کی جانب اچھالتے وہ بے دردی سے قہقہ آور ہوا۔۔۔۔

اور پھر اسی طرح جھومتے لڑکھڑاتے واپس اپنے پیانو کے سامنے بیٹھا اور ایک بے ہنگم سی دھن بجاتے وہی مدہوش ہوتے گر گیا۔۔۔۔

دو دن گزر چکے تھے اور ان دو دنوں میں آہل ریسپشنسٹ سے منہاء اور ثمر کے متعلق کئی بار پوچھ چکا تھا۔۔۔۔

اور آج بھی وہ انہی کے متعلق پوچھنے کے بعد سیدھا اپنے کیبن میں ایک بگڑے انداز سے داخل ہوا۔۔۔۔

کہ سامنے اپنی نشست پر مزے سے بیٹھی ایک حیسنہ کو دیکھا جو نازیبا لباس میں ملبوس تھی جسے دیکھ کر اس کے تیور مزید سرد ہوگئے۔۔۔۔

جبکہ آہل کو دیکھتے ہی وہ ایک گہری حسین مسکراہٹ سجائے چھبتی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔

"کتنا انتظار کرواتے ہو تم آہل!!!!!!

تمہاری یہ عادت اب تک نہیں بدلی!!!

پتہ ہے آدھے گھنٹے سے تمہاری خوشبو کے ساتھ گزارا کر رہی ہو میں اس کمرے میں۔۔۔۔

جو آج بھی ویسے ہی مجھے پاگل کر دیتی ہے جیسے اس وقت کیا کرتی تھی !!!!!"

ایک نشیلی ادا سے چلتی ہوئی وہ آہل کے روبرو کھڑی ہوتے اس کے ہونٹ کو اپنی انگلی سے چھوتے مسکرائی۔۔۔۔

 آہل جو اس وقت شدت میں تھا نے اس کے ارادے کو بھانپا تو اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں جکڑتے ہی پیچھے کی جانب جھٹکا دیا جس سے وہ بری طرح ہل سی گئی اور خود آہل اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتے سیدھا اپنی کرسی پر براجمان ہوا۔۔۔۔

"کیوں آئی ہیں آپ یہاں مسز منیر؟؟؟؟

آپ جانتی ہے ناں اچھے سے کہ میں بناء اپاؤنمنٹ کسی سے نہیں ملتا۔۔۔۔

اور میں آپ سے پہلے ہی دوٹوک بات کرچکا ہو کہ آپ کے شوہر کو سزا ملے گی سو ملے گی!!!

تو یہاں آنے کی وجہ اب؟؟؟"

آہل نے حقارت بھری نظر سے اسے گھورا اور پھر ریسپشن پر نمبر ملایا۔۔۔۔

"تم کیا سمجھ رہے ہو کہ میں اس بڈھے شخص کی وجہ سے تم سے ملنے آئی ہو؟؟؟؟"

آہل کی بات سنتے ہی ایک گہرا سنگین قہقہ لیے وہ ہنسی کہ پورا کیبن اس کی ہنسی سے گونج اٹھا۔۔۔۔

"نہیں میری جان میں تو تم سے ملنے آئی ہو۔۔۔۔

بہت دل کررہا تھا تمہیں دیکھنے کا۔۔۔

کچھ دل کی باتیں کہنے کا کچھ دل کی باتیں سننے کا۔۔۔"

آہل جو اس کی باتوں کو مکمل نظر انداز کررہا تھا ریسپشنسٹ پر بھڑک ہی پڑا۔۔۔۔

"کتنی بار کہا ہے تمہیں کہ میری اجازت کے بغیر کسی کو اندر مت آنے دیا کرو۔۔۔۔

اگلی بار ایسی غلطی کی تو ٹرمنیٹنگ لیٹر گھر پہنچ جائے گا۔۔۔۔"

جبکہ اب وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھتی آہل کے غصے کو مزے سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

"میں کسی میں شمار نہیں ہوتی آہل۔۔۔۔

اور مجھے تم سے ملنے کیلئے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔

میرا جب دل کرے گا میں آؤ گی تم سے ملنے۔۔۔۔

اور تم بھی مجھے روک نہیں سکتے ۔۔۔۔۔"

"دیکھیے مسز منیر!!!!!"

آہل جو اپنے فون پر مصروف تھا بات سنتے ہی اس کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔۔

"مسز منیر کیوں کہہ رہے ہو؟؟؟؟

میں یہاں مسز منیر بن کر نہیں آئی ہو!!!!

میں بس ہما ہو تمہاری ہما!!!

بار بار کیوں یاد کرواتے ہو مجھے ؟؟؟

موڈ ہی خراب کردیا اس بڈھے کو یاد کروا کر میرا!!!"

اپنی نشست سے اٹھ کر وہ آہل کی کرسی کو پیچھے دھکیلتے اس کے سامنے میز پر چڑھتے بیٹھ گئی۔۔۔۔

اور آہل کو گریبان سے اپنی جانب کھینچتے اپنی بانہوں کو اس کے گرد مائل کرتے بولی۔۔۔۔

"کیونکہ تم بار بار بھول جاتی ہو کہ تم کسی کی بیوی ہے۔۔۔۔

اور مجھے بار بار اچھا نہیں لگتا کہ تمہیں یاد کروا کر زلیل کرو۔۔۔"

کرسی کو پیچھے دھکیلتے وہ اپنی انگاری نظروں سے گھورتے اٹھا۔۔۔۔

"معاف نہیں کرو گے اپنی ہما کو؟؟؟؟

یوں کب تک مجھے سزا دو گے میری غلطی کی آہل؟؟؟"

آہل کا ہاتھ تھامتے ہما اس کی جانب ہوتے روبرو ہوئی۔۔۔۔

"معافی غلطی کی ہوتی ہے ہما گناہ کی نہیں۔۔۔۔

اور اب بھی تم گناہ کررہی ہو بہتر ہے جس کے نام کی ہو اسی کے نام سے رہو۔۔۔۔

کیا خبر مستقبل میں تمہیں معاف کردو!!!!!"

آہل اپنا ہاتھ جھٹکے سے نکالتے پیچھے کو ہوا۔۔۔۔

"میں تھک گئی ہو اس بڈھے کو سنبھالتے سنبھالتے !!!!!

بہت خوش کر لیا ہے اسے اب میں نے۔۔۔

مجھے اب تمہارا ساتھ چاہیے آہل۔۔۔۔۔

مجھے تم چاہیے!!!!"

ہما ایک بار پھر سے آہل کے ساتھ چپکتے اس کے چہرے کو تھامے بے صبر ہوئی۔۔۔۔

"مگر مجھے تم نہیں چاہیے ہو اب!!!!

تم جیسے مفاد پرست اور بے حیا عورت سے میں نے کبھی محبت بھی کی تھی یہ سوچ کر ہی خود سے گھن سی آتی ہے۔۔۔۔

اور تمہیں لگتا ہے کہ اب میں. واپس تمہاری جانب لوٹوں گا تو یہ تمہاری بھول ہے۔۔۔"

آہل اسے خود سے دور کرتے غرایا۔۔۔۔

"میں نے تمہاری قدر نہیں کی مانتی ہو۔۔۔۔

مگر اب تو واپس آنا چاہتی ہو ناں میں۔۔۔

تو کیوں نہیں مجھے اپنا رہے ہو اب۔۔۔

تم کہوں گے ناں تو میں ابھی اس بڈھے بیمار انسان سے خلع لے لونگی۔۔۔

مگر تم میرے ہو جاؤ واپس ویسے ہی جیسے پہلے ہوا کرتے تھے۔۔۔۔"

ہما مبہوت ہوتے چلائی۔۔۔

"آواز آہستہ رکھو اپنی آئی سمجھ تمہیں۔۔۔

تمہارا عالیشان مکان نہیں یہ جس کی خاطر تم مجھے چھوڑ کر گئی تھی۔۔۔۔

آفس ہے میرا یہ۔۔۔۔

اور مجھے یہاں کوئی تماشا نہیں چاہیے۔۔۔۔

تو بہتر ہے دفع ہو جاؤ اب یہاں سے۔۔۔۔

گیٹ آوٹ۔۔۔۔۔"

آہل متلاطم ہوتے دروازے کی جانب دیکھتے چنگارا۔۔۔۔

"نہیں جاؤ گی۔۔۔۔

میں نہیں جاؤ گی یہاں سے۔۔۔

جب تک تم مجھے اپنا نہیں لوگے۔۔۔۔

تم میرے ہو آہل۔۔۔

میں تمہیں چھوڑ کر اب نہیں جاؤ گی۔۔۔"

آہل کے چہرے کو دبوچے وہ روتے چلائی۔۔۔۔

"تم مجھے چھوڑ کر جا چکی ہو۔۔۔۔

سمجھتی کیوں نہیں ہو تم؟؟؟!۔۔"

آہل نے ہما کو خود سے دور کرتے دھکا دیا جس سے وہ پیچھے کو ہوتے زمین پر گر گئی۔۔۔۔

"کہیں نہیں ہو تم اب میری زندگی میں۔۔۔۔

تم اب بھی جو واپس آئی ہو ناں۔۔۔

اپنے مفاد اپنی لالچ اور اپنی خود غرضی کی وجہ سے آئی ہو۔۔۔۔

اور میں اب مزید اسکا حصہ نہیں بنو گا۔۔۔۔

نکلوں اب یہاں. سے۔۔۔۔

اور واپس اپنی شکل مت دکھانا مجھے۔۔۔۔

نکلوں!!!!"

آہل نے جھکتے ہی روتی ہما کو بازو سے جکڑا اور اسے کھینچتے ہوئے دروازے کی جانب لے گیا اور دروازہ کھولتے ہی باہر کو دھکا دیا۔۔۔۔

"تم اچھا نہیں کررہے ہو آہل میرے ساتھ۔۔۔۔

برباد کردونگی میں تمہیں۔۔۔۔

میں بد نام کردونگی تمہیں کہ تم کسی کو شکل دکھانے کے لائق نہیں رہو گے۔۔۔

کہیں کا نہیں چھوڑو گی تمہیں اگر تم میرے نہ ہوئے۔۔۔۔"

ہما سناٹ ہوتے چیخی۔۔۔۔

کہ اردگرد گزرتا ہر شخص ان دونوں کی ہوتی تکرار کو دیکھتے حیرت سے رک گیا۔۔۔

"بدنامی کا نام تو تم لو ہی مت۔۔۔۔

تم جیسی گھٹیا عورت اور کر بھی کیا سکتی ہے۔۔۔۔

آہل ہما کی بازو جھنجھوڑتے مشتعل ہوا۔۔۔۔

تمہاری ساری گھٹیا باتیں تمہارا نام نہاد شوہر سن چکا ہے۔۔۔۔

بہتر ہے جا کر پہلے اپنے نام نہاد گھر کو بچاؤ۔۔۔

پھر مجھے برباد کرنا۔۔۔"

آہل نے اپنا فون ہما کے سامنے لہرایا جو حواس باختگی سے اسے دیکھ رہی تھی اور پھر اپنے کیبن کا دروازہ پٹختے ہوئے اندر چلا گیا۔۔۔۔

"یہ تم نے سہی نہیں کیا آہل!!!

میں برباد ہونگی تو تم بھی کہیں کہ نہیں رہوگے۔۔۔۔

یہ تم نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ۔۔۔۔

یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔۔۔"

ہما دروازے پر زور زور سے ہاتھ مارے نفرت انگیز ہوتے چنگاری۔۔۔

جبکہ اندر بیٹھا آہل اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں جکڑے اسے اگنور کرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔

کچھ دیر یونہی تماشا آہل کے کیبن کے باہر جاری رہا اور پھر روتی بلکتی ہما وہاں سے پاؤں پٹختے جاتی بنی۔۔۔۔

ہما کو گئے اب آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا جبکہ آہل ابھی بھی اس کے زیر اثر سر پکڑے بیٹھا تھا۔۔۔۔

کہ تبھی نبیل نے دروازے پر دستک بھری جس سے آہل واپس ہوش کی دنیا میں داخل ہوا۔۔۔

"مے آئی کمنگ سر؟؟؟؟"

"یس کمنگ!!!!"

آہل فورا خود سیٹ کیے بیٹھا۔۔۔۔

"سوری سر میں نے اپکو ڈسٹرب کردیا ہے۔۔۔

مگر سر وہ میں نے اپ سے ان ڈاکومنٹس کا پوچھنا تھا کہ اب ان کا کیا کرنا ہے؟؟؟؟"

نبیل نے آہل کی پریشانی دیکھی تو ڈاکومنٹس اس کے سامنے دھڑے۔۔۔۔

"یہ کونسے ڈاکومنٹس ہیں؟؟؟؟ "

آہل گھنگولا۔۔۔

"سر یہ منہاء منور اور ثمر چودھری کے اوریجنل ڈاکومنٹس ہیں جو ہم نے ان سے کنٹریکٹ کے ذریعے لیے تھے۔۔۔۔

آپ کے کہنے کے مطابق ہم نے ان دونوں کو جاب پر رکھ لیا تھا مگر دو دن سے وہ دونوں آفس نہیں آئی اور نہ ہی اپنے متعلق ہمیں کسی بھی بارے میں اطلاع دی ہے۔۔۔۔"

"آپ نے کال کی تھی انہیں؟؟؟؟"

آہل استہفامی ہوا۔۔۔

"جی سر دونوں کو ہی کئی بار کالز کی ہیں۔۔۔

یا تو کوئی فون نہیں اٹھاتا یا پھر دونوں کا نمبر بیک وقت بند معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔"

تبھی میں یہ ڈاکومنٹس آپ کے پاس لے کر آیا ہو۔۔۔

نبیل ادراک گو ہوا۔۔۔

"ہمممم تو ٹھیک ہے۔۔۔۔

دونوں کو کمپنی کے لیگل وکیل کے ذریعے وارننگ بھیجوں کہ اگر کل تک یہ دونوں آفس نہ آئی تو ہم ان کے خلاف قانونی چارہگوئی استعمال کرنے کو حق رکھتے ہیں۔۔۔"

آہل سپاٹ چہرے سے فائل اس کی جانب بڑھاتے بولا۔۔۔

"مگر سر؟؟؟؟

اتنی جلدی یہ پولیسی؟؟؟"

نبیل ششرر ہوا۔۔۔۔

"میں نے جو کہا ہے وہ کرو بس۔۔۔

اور آج ہی بھیجو نوٹس انہیں اور بھیجنے کے بعد فورا مجھے آگاہ کرو اس کے متعلق۔۔۔۔

اب جاؤ یہاں سے۔۔۔۔"

آہل کے سخت لہجہ سنتے ہی نبیل مزید کچھ کہے سیدھا باہر کی جانب بھاگا۔۔۔۔

جبکہ اب آہل کی توجہ ہما سے ہٹ کر منہاء کی جانب متوجہ ہوئی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"کیا مطلب تم نے بھی فون بند رکھا ہوا ہے؟؟؟؟

اففففففف اس شاطر انسان کو تو ضرور ہم پر شک ہو گیا ہو گا کہ ہم دونوں نے یہ جان بوجھ کر کیا ہے۔۔۔۔"

منہاء نے ثمر کی بات سنی تو قہقہ آور ہوئی۔۔۔۔

"ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔۔۔

اب کیا وہ ہمیں اپنے گھروں سے اٹھا کر لے کر جائے گا۔۔۔

اتنی بھی لٹ نہیں پڑی ہوئی ابھی۔۔۔"

ثمر بات ہوا میں بات. اڑاتے بولی۔۔۔۔

"معلوم نہیں۔۔۔۔

کیونکہ جو روپ میں نے اسکا دیکھا ہے ناں۔۔۔

خوف آتا ہے مجھے اس سے کہ کیا خبر اٹھا کر ہی نہ لے جائے۔۔۔۔"

منہاء متحیر ہوئی۔۔۔۔

"ویسے یار مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ وہ تمہارے ساتھ ہی ایسا کیوں کررہا ہے۔۔۔۔

مطلب ایک گاڑی کی وجہ سے کوئی اس قدر پاگل ہوسکتا ہے کیا کہ دور تک پیچھا کرے کسی کا؟؟؟"

ثمر بے چین ہوئی۔۔۔۔

"نہیں ثمر۔۔۔۔

بات کچھ اور ہی ہے۔۔۔

اس دم بھی آفس میں وہ کسی ہما کا نام لے کر مجھ پر چلا رہا تھا۔۔۔۔

اس وقت تو میں بلکل سن ہو گئی تھی کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔۔۔"

"کیا مطلب کون ہما؟؟؟؟

تم جانتی ہو اسے کیا؟؟؟؟"

ثمر سوالیہ ہوئی۔۔۔۔

"اب یہ مجھے نہیں پتہ کہ کون ہما!!!

اور نہ ہی مجھے کوئی شوق ہے اس متعلق جاننے کا۔۔۔

خیر چھوڑو اسے کوئی اور بات کرو یار۔۔۔

میں آگے ہی مشکل سے ریلیکس ہوئی ہو۔۔۔"

منہاء اپنا لیپ ٹاپ کھولے بیٹھ گئی۔۔۔

"بلال سے رابطہ ہوا تمہارا؟؟؟؟"

ثمر نے ایک اور سوال داغا۔۔۔

"کیا لازم ہے تم ان لوگوں کی ہی بات کرو جن سے مجھے نفرت ہو گئی ہے۔۔۔۔۔

کبھی وہ آہل خان تو کبھی یہ بلال!!!

میں موڈ سیٹ کرنا چاہتی ہو اور تم ہو کہ!!!!!!"

منہاء کا مزاج بگڑا۔۔۔۔

کہ اس سے پہلے ثمر کچھ آگے بولتی دروازے پر دستک کی آواز سنائی دی۔۔۔۔

"ایک منٹ منہاء کوئی دروازے پر ہے ۔۔۔۔

میں دیکھ کر آتی ہو۔۔۔"

"ہاں ثمر یہاں پر بھی ۔۔۔۔

کیا بات ہے ناں ایک ساتھ ہی کوئی ہمارے گھر پر آیا ہے۔۔

اچھا فون نہ بند کرنا دیکھتے ہیں کون آیا ہے باہر!!!"

منہاء نے سنا تو ہنستے ہوئے اٹھی۔۔۔۔

اور سیدھا دروازے کی جانب بڑھی۔۔۔

"منہاء کوئی ڈاک آئی ہے میرے نام یار وہ بھی خان انڈسٹری سے۔۔۔۔"

ثمر داسہم ہوئی۔۔

"یہاں بھی یار!!!!"

منہاء جس کے ہاتھ میں بھی وہی ڈاک تھی فورا کاغذ کھولتے اندر کا لیٹر نکالے پڑھنے لگی۔۔۔

"منہاء یہ تو قانونی نوٹس ہے!!!!!!

یہ تو ہمارے خلاف!!!!!"

ثمر مبہم ہوتی بولی۔۔۔

جبکہ  منہاء خود بھی حواس باختگی سے فون کان سے ہٹائے لیٹر کو بار بار پڑھنے لگی۔۔۔

"کیا ہوا ہے منہاء؟؟؟؟

کون تھا دروازے پر؟؟؟؟"

ناز بی جو دروازے کی دستک پر باہر آئی تھی منہاء کے اڑتے رنگ دیکھتے بولی۔۔۔

"ک۔۔۔ک۔۔کوئی نہیں امی۔۔۔۔

کوئی نہیں تھا۔۔۔"

منہاء فورا کاغذ اٹھائے استعجاب ہوتے کمرے کی جانب بڑھی۔۔۔۔

"لیکن میں نے تو خود آواز سنی تھی؟؟؟؟"

ناز بی پیچھے سے بولی مگر منہاء کمرے میں جا چکی تھی۔۔۔

"اففففففف کیا ہے یہ لڑکی ہر وقت پریشان حال ہی رہتی ہے یہ تو۔۔۔۔"

جبکہ منہاء کمرے میں داخل ہوتے ہی واپس ثمر کو کال ملانے لگی۔۔۔۔

"بہت یاد  آرہی رہی تھی ناں تمہیں اس آہل خان کی۔۔۔

دیکھو اس کا بلاوا آ ہی گیا ہمیں۔۔۔

آخر اس کو مسئلہ کیا ہم سے؟؟؟؟

کیوں ہمارے پیچھے پڑ گیا ہے یہ؟؟؟؟

تم سہی کہتی تھی غلطی ہوگئی مجھ سے اس کے دادا کی جان بچا کر۔۔۔۔

میری توبہ اب میں کسی مرتے انسان کو پانی بھی پلاؤ۔۔۔"

منہاء آگ بگولہ ہوئی۔۔۔۔

"یہ سب چھوڑو یار۔۔۔

اب آگے کیا کرنا ہے یہ بتاؤ؟؟؟؟

ہماری ڈگریاں اور وہ کنٹریکٹ وہ سب اس کے پاس ہے ۔۔۔۔۔

اور اب یہ دھمکی!!!!!

ہم بری طرح پھنس چکے ہیں یار!!!!!"

ثمر بدقت ہوئی۔۔۔۔

ثمر کی بات سنتے ہی منہاء بھی خاموش ہو گئی اور سوچنے لگی۔۔۔۔

"منہاء !!!!

ایک آئیڈیا!!!!"

ثمر پر جوش چلائی۔۔۔

جبکہ منہاء نے سنا تو بھونچکا ہوتے سننے لگی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

رات کے سات بج رہے تھے جب ثمر نے گاڑی کو خان ہاؤس کے باہر روکا اور پھر گہری نظر ساتھ بیٹھی منہاء پر ڈالی جو مسلسل اپنے منہ میں انگلی دبائے چندھیائی نظروں سے گھر کو گھور رہی تھی۔۔۔۔

"ڈر لگ رہا ہے ناں؟؟؟؟"

ثمر منہا کی جانب دیکھتے بولی۔۔۔

"ہم نے صیحح نہیں کیا یہاں آ کر ثمر۔۔۔۔

ادھر امی سے جھوٹ بولا کہ تمہارا ایکسیڈینٹ ہوا ہے اور یہ یہاں اس خان کا جنون!!!!

میری بات سن یار!!!"

منہاء معصومیت اپنائے گو ہوئی۔۔۔

"ایسا کرتے ہیں واپس چلتے ہیں گھر اور پھر کچھ اور نیا سوچتے ہیں۔۔۔۔

اس طرح ڈریکٹ گھر آنا مناسب نہیں"

"اتنی دور آ کر واپس نہیں جانا اب منہاء۔۔۔۔

ہم یہی سوچ کر آئے تھے ناں کہ آہل کے دادا سے بات کرے گے۔۔۔

تو بس اب بات کر کے ہی جائے گے۔۔۔۔

چاہے جو بھی ہوجائے۔۔۔"

ثمر ثابت قدم ہوئی۔۔۔۔

"جو بھی کچھ ہوگا ناں ثمر وہ میرے ساتھ ہی ہوگا۔۔۔

ناجانے اس کھڑوس کو مجھ سے کیا بیڑ ہے۔۔۔۔

تم خود تو بچ جاؤ گی اور پھنسو گی میں۔۔۔۔"

منہاء روہانسی ہوئی۔۔۔

"نہیں اس بار مل کر پھنسے گے۔۔۔

اور ویسے بھی ابھی تو بات کرنی ہے تم پہلے ہی کیوں نفی ڈال رہی ہو۔۔۔۔

کیا معلوم وہ مان جائے اپنے دادا کی بات۔۔۔

اور ہمارے ڈاکومنٹس ہمیں واپس کردے۔۔۔"

ثمر نے خوش آئند کا تارا چمکایا۔۔۔

تو روشنی منہاء کی آنکھوں میں جھلکی۔۔۔

"ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔۔۔

مگر ناجانے کیوں تم جب جب کچھ الٹا سوچتی ہو ناں۔۔۔

تب تب کچھ اخیر ہی ہوتا ہے میرے ساتھ۔۔۔

اب اللہ جانے میرے پر کیا گزرنے والی ہے؟؟؟"

منہاء خدشہ ظاہر کرتے پھنکاری۔۔۔

"اچھا اچھا سوچ پلیز۔۔۔

میری سوچ کو بھی ڈگمگا رہی ہو تم۔۔۔

باقی اب اندر جا کر ہی پتہ چلے گا کہ اس بار کیا ہوتا ہے تمہارے ساتھ ۔۔۔

اور پلیز ڈرو مت حوصلہ رکھوں میں ہو ناں تمہارے ساتھ۔۔۔"

ثمر کہتے ساتھ گاڑی سے اتری۔۔۔

"اسی بات کا تو خوف ہے۔۔۔

کہ تم ہو میرے ساتھ۔۔۔

اب ناجانے کیا ہوگا میرے ساتھ اندر۔۔۔

یہ مجھے پر بار مرواتی ہے اب کی بار قبر میں ہی اتروائے گی ۔۔۔۔"

منہاء زیر لب بڑںڑائی۔۔۔

'کیا ہوا ہے یار جلدی نکلوں گاڑی سے باہر۔۔۔

جتنی جلدی کام ہو جائے اتنا ہی ہمارے لیے بہتر ہے۔۔۔"

ثمر کے کہنے پر منہاء فورا گاڑی سے باہر نکلی اور ثمر کے ہمراہ خان ہاؤس میں داخل ہوئی۔۔۔

سڑک کنارے بائیک کھڑی کرتے بلال روھنس ہوتے فٹ پاتھ پر جا بیٹھا اور پھر تیز بھاگتی چم چم کرتی گاڑیوں کو آتے جاتے دیکھنے لگا۔۔۔۔

"اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا یہ کہاوت میرے لیے ہی بنائی گئی یے۔۔۔

کس قدر بے وقوف انسان ہو میں کہ سب جان بوجھ کر بھی منہاء کو خود سے دور کردیا میں نے۔۔۔۔"

بلال مارے پریشانی اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرتے خود کلام ہوا۔۔۔

"اسکی ایک نہ سنی بس امی کی پڑھائی ہوئی پٹیوں پر چلتا گیا میں اور آج جب وہ مجھ سے دور ہو رہی ہے تو میں کچھ نہیں کررہا ہو۔۔۔

سوائے اسے جاتا دیکھ رہا ہو۔۔۔۔"

بلال اب پریشان ہوتے بائیک کے گرد ٹہلنے لگا۔۔۔۔

"بہت غلط کردیا تم نے بلال بہت غلط کردیا ہے۔۔۔

اچھے سے جانتا ہو کہ امی کو منہاء بلکل پسند نہیں۔۔۔

پھر بھی ان کی بات مان کر میں نے منہاء کو خود سے دور کردیا۔۔۔۔

سہی کہتی ہے منہاء میں بہت کمزور مرد ہو اسے کبھی دفاع نہیں دے سکتا ہو۔۔۔۔"

بلال اپنا موبائل نکالے منہاء کی آخری بار کی کال کو دیکھنے لگا۔۔۔

"کس قدر بے اعتباری اور نفرت جھلک رہی تھی اس کے لہجے میں۔۔۔

اففففففف کیوں کیا امی آپ نے ایسا۔۔۔۔

اگر میں وہ وائس ریکارڈنگ نہ سنتا تو شاید اب تم منہاء کو ہی قصور وار مانتا۔۔۔۔"

بلال کشمکش میں مبتلا سرخ آنکھوں سے اب کھلے آسمان کو دیکھنے لگا۔۔۔

"مگر اب جو ہونا تھا سو ہوگیا۔۔۔

مجھے اب امی سے بات کرنی ہوگی وہ بھی دوٹوک۔۔۔

 انہیں سمجھانا ہوگا منانا ہوگا۔۔۔۔

کہ میں منہاء کو نہیں چھوڑو گا۔۔۔۔

شادی کرونگا تو صرف اسی سے ہی چاہے جو مرضی ہوجائے۔۔۔۔"

بلال ثابت قدم ہوتے کھڑا ہوا۔۔۔

"مگر اس سے پہلے۔۔۔۔

اس کو منانا ہوگا جس کیلئے مجھے اب کھڑے ہونا ہے۔۔۔

بہت ناراض کردیا ہے اسے میں نے مگر اب نہیں۔۔۔

میں اس کا ہر شکوہ ختم کرونگا اب بھرپور ساتھ دونگا اس کا میں۔۔۔"

بلال ختمی فیصلہ سوچتے ہی بائیک پر واپس بیٹھا اور سٹارٹ کردی۔۔۔۔

"کل ہی ملتا ہو منہاء سے روبرو بات ہوگی تو شاید وہ میری مجبوریوں کو سمجھ جائے۔۔۔۔

ہاں کل ہی ملوں گا اس سے میں۔۔۔"

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

شام کے سات بج رہے تھے جب خان بابا وقت دیکھتے سیدھا اپنے کمرے سے لاؤنچ کی جانب بڑھے اور گل افگن کو آواز دینے لگے۔۔۔۔

"افگن!!!!!!!

او افگن کا بچہ!!!!!

کہاں رہ گیا ہے تم؟؟؟؟؟"

خان بابا آواز بھرتے سیدھا صوفے پر براجمان ہوگئے اور پریشانی سے اردگرد دیکھنے لگے۔۔۔

"کھانہ خراب کا بچہ جب جب ہم اس کو آواز لگاتا ہے اس کے کانوں میں سیسہ گر پڑتا ہے۔۔۔

ناجانے کیا دشمنی ہے اس کا ہم سے"

"جی صاحب جی ۔۔۔۔

آ گیا آ گیا!!!!

کیا ہوا اپکو کچھ چاہیے ہیں؟؟؟"

گل افگن ایپرن سے ہاتھ صاف کرتے فورا خان بابا کے سامنے نمودار ہوا۔۔۔۔

"ایک بات بتاؤ افگن۔۔۔"

خان بابا بگڑے مزاج ہوئے۔۔۔۔

"جی صاحب جی پوچھیے!!!!"

افگن کندھے اچکائے تجسسی ہوا۔۔۔۔

"آہل بلاتا ہے جب تمہیں تو تم خرگوش بن جاتا ہے مگر ہماری باری میں تمہیں کچھوا کیوں یاد اجاتا ہے۔۔۔"

"نہیں صاحب. جی ایسی بھی بات نہیں۔۔۔۔

وہ تو بس میں کھانا بنا رہا تھا ۔۔۔۔

آپ بتائیں کچھ چاہیے اپکو۔۔۔۔"

گل افگن نے خان بابا کا طنز و مزاح سنا تو قہقہ بھرے ہنسا۔۔۔۔

"آہل کیوں نہیں آیا ابھی تک؟؟؟

اتنا دیر ہو گیا ہے اس وقت تو وہ آجآتا ہے ناں!!!

اب تو سات بج رہے ہیں کیا وہ کچھ بتا کر گیا تھا تمہیں؟؟

کہ آج دیر سے آئے گا؟؟؟"

خان بابا مبہم سوالیہ ہوئے۔۔۔۔

"نہیں صاحب جی وہ تو کچھ نہیں بتا کر گئے۔۔۔۔

بلکہ آج صبح وہ تو بہت جلدی چلے گئے تھے آفس کیلئے۔۔۔۔

ناشتہ بھی نہیں کیا تھا انہوں نے۔۔۔"

گل افگن کی بات سنی تو خان بابا مزید پریشان ہوگئے۔۔۔

"ایک تو یہ لڑکا ہمیں سکون کی موت نہیں مرنے دے گا۔۔۔

اسکا باپ جتنا ہمارا فرمانبردار تھا یہ اتنا ہی جنونی اور سرپھرا ہے۔۔۔۔

خیر تم ایسا کرو فون کرو اس آگ خان کو پتہ کرو کہاں ہے اور کب تک آرہا ہے وہ؟؟؟؟"

خان بابا خود کلام ہوتے اب افگن کی جانب ہوئے۔۔۔

جس پر وہ حامی میں سر ہلائے آگے کو ہی بڑھا کہ نظر دروازے پر کھڑی دو لڑکیوں پر نظر پڑی۔۔۔

جو پریشان اور حواس باختگی سے اندر کی جانب اہستگی سے بڑھ رہی تھیں۔۔۔۔

گل افگن جو ان کو دیکھ کر پہچانے کی کوشش کررہا تھا واپس خان بابا کی جانب پلٹا۔۔۔۔

"صاحب جی!!!!"

گل افگن نے خان بابا کو متوجہ کرتے ان دونوں کی جانب اشارہ دیا جو اب خود بھی ان دونوں کو دیکھ کر ان کی جانب بڑھ رہی تھی۔۔۔۔

"مجھے کیوں لگ رہا ہے منہاء کہ آج وہ کھڑوس گھر میں موجود نہیں ہے۔۔۔"

ثمر  سامنے دیکھتے منہاء کے کان میں پھسپھسائی۔۔۔۔

"اب تمہیں کیوں ایسا لگ رہا ہے؟؟؟

ایک تو تمہارے لگنے نے مجھے بہت کچھ لگوا دیا ہے۔۔۔"

منہاء منہ بسورے بولی۔۔۔۔

"کبھی میرے بات پر دعا نہ بھرنا تم۔۔۔۔

خود دیکھو اس قدر سکون اور خاموشی ہے یہاں۔۔۔

ورنہ اس دن تو عجیب ہی ماحول تھا اس خوبصورت ویلہ کا۔۔۔۔"

ثمر پھر سے للچائی نظروں سے اردگرد دیکھتے بولی۔۔۔

"یہ خاموشی سکون نہیں بلکہ آنے والی قیامت کی ہے۔۔۔

جو یقینا مجھ پر ہی گزرے گی۔۔

اللہ بچائے مجھے آہل نامی شیطان مردود کے شر سے۔۔۔۔"

منہاء دل ہی دل میں دعا گو ہوتے روہانسی ہوئی۔۔۔۔

 جبکہ منہاء کی روہانسی شکل دیکھتے ہی ثمر نے فورا قرآنی آیات کا ورد کرنا شروع کیا اور دونوں اب خان بابا کے پاس جا کھڑی ہوئی۔۔۔

جو افگن کے متوجہ کروانے پر ان دونوں کو ہی پھٹی نظروں سے گھور رہے تھے۔۔۔۔

"السلام علیکم انکل!!!!!

کیسے ہیں اپ؟؟؟؟"

منہاء بمشکل  مصنوعی مسکراہٹ لیے بولی۔۔۔۔

"وعلیکم السلام۔۔۔۔

 اللہ کا کرم بیٹا آپ سنائیں!!!"

خان بابا جو خود ان دونوں کی موجودگی دیکھ کر مبہوت تھے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے بولے۔۔۔۔

"ہم بھی ٹھیک ہے اپکا بہت شکریہ!!!!"

  ثمر نے اشارہ دیکھا تو  منہاء کا ہاتھ دبوچے سیدھا صوفے کی جانب کھینچتے لے گئی

۔۔۔

"افگن جاؤ چائے پانی کا احتمام کرو۔۔۔۔

اور خرگوش کی چال سے کرنا۔۔۔

 ہم کو آہل ہی سمجھ لو آج تم!!!!!

ہم بھی تو دیکھے آہل کے نام پر تم کتنی تیز دوڑ لگاتا ہے!!"

خان بابا نے افگن کو دیکھتے طنز بھرا جس پر وہ دبی مسکراہٹ لیے وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔

"آپ یقینا سوچ رہے ہونگے کہ ہم دونوں یہاں پر کیوں؟؟؟

 وہ بھی اس وقت!!!!"

منہاء اچک انداز ہوئی۔۔۔۔

"مگر یقین جانیے انکل ہم بہت مجبوری سے آئے ہیں اپ کے پاس۔۔۔۔

اور امید رکھتے ہیں کہ آپ ہماری مدد ضرور کرے گے۔۔۔۔"

منہاء کی بات سنی تو ثمر بھی جھپٹ کر بولی۔۔۔

"آپ دونوں کی پریشانی دیکھ کر ہی صاف معلوم ہو رہا ہے کہ وجہ کون ہے اور مجبوری کیا ہے!!!؟؟؟

ہم کوشش کرے گا آپ کی مدد کرنے کی۔۔۔۔

مگر یقین نہیں دلائے گا آپ کو۔۔۔۔

کیونکہ جس کی وجہ سے آپ آئے ہو وہ میرے بیٹے کا بیٹا ضرور ہے مگر باپ ہے ہمارا!!!!"

خان بابا متحیر ہوئے تو سامنے بیٹھی ثمر اور منہاء جو پہلے سے ہی گھبرائی ہوئی تھی اور بھی روھنس ہوگئیں۔۔۔۔

"خیر ہم نے کہا نہ ہم کوشش کرے گا۔۔۔

تو آپ دونوں گھبراؤ مت۔۔۔۔

باقی یہ چائے پانی لو گلہ تر کرو۔۔۔

اور بتاؤ ہم کو کہ کیا مدد کر سکتا ہے ہم تمہاری اور کیسے؟؟؟؟"

خان بابا نے گل افگن کو آتے دیکھا تو فورا تاسف ہوئے۔۔۔

جس پر منہاء اور ثمر ایکدوسرے کو مبہم نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

ہما کا یوں سامنے آنا آہل کیلئے بلکل بھی ہضم شدہ بات نہ تھی۔۔۔۔

آفس سے تو وہ کئی جلدی نکل آیا تھا مگر بے چینی اور اضطرابی کیفیت نے اسے سکون نہ لینے دیا جس کی وجہ سے وہ خالی سڑکوں پر اپنی گاڑی تیز بجلی مانند بھاگا رہا تھا۔۔۔۔

"کیوں آئی ہے یہ اب؟؟؟؟؟

اور کتنا تباہ کرنا چاہتی ہے یہ مجھے؟؟؟؟

بھر تو دی ہے مجھ میں اس قدر نفرت کہ اب خون کی جگہ میرے بدن میں نفرت دوڑتی ہے۔۔۔۔

تو اب کیوں مجھ سے محبت بھیک مانگ رہی ہے۔۔۔۔؟؟؟"

آہل پچھلی باتوں کو یاد کرتے غیظ و غضب سے ہاتھ اسٹیئرنگ مارتے چنگارا۔۔۔۔

"کیوں وہ وقت بھول گئی جب میں رویا تھا۔۔۔۔

کیوں وہ وقت یاد نہیں جب مجھے دھتکارا تھا۔۔۔۔۔

مگر اب!!!!"

آہل جس کے چہرے پر نرمی تھی اچانک خونخواری چھلکی۔۔۔

" وقت میرا ہے۔۔۔۔

اب باری میری ہے۔۔۔۔

اب میں مزہ چکھاؤ گا تمہیں ہما منیر۔۔۔۔

احساس دلواؤ گا تمہیں کہ دھتکار کی اذیت ہوتی کیا ہے"

آہل نے سامنے ہولڈر سے اپنا ایک کین نکالا اور نکالتے ہی منہ سے لگائے ایک گہرا گھونٹ بھرا۔۔۔۔

"اور یہ منہاء منور!!!!!

ہو ناں ہو اس کا ہما کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق تو ضرور ہے۔۔۔۔

ورنہ اچانک اس کا یوں میرے گھر میرے کمرے اور پھر میرے آفس میں آنا کوئی انسیڈینس معلوم نہیں ہوتا۔۔۔

ایک سوچی سمجھی گہری چال معلوم ہوتی ہے۔۔۔

اور اب اس چال میں منہاء منور پھنسے گی۔۔۔۔"

آہل کے چہرے پر ایک انتقامی مسکراہٹ ابھری۔۔۔۔

"چھوڑو گا نہیں تمہیں منہا منور!!!!!

شیر کی کچھاڑ میں ہاتھ ڈالا ہے حملہ تو ہوگا۔۔۔۔

اور شکست بھی ہوگی۔۔۔

اور مجھے اپنی جیت کا بے صبری سے انتظار ہے۔۔۔"

آہل نے سوچتے ہی ایک گھونٹ بھرا اور پھر گاڑی اپنے گھر کی جانب گھومائی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء اور ثمر جو خان بابا کو سب بتا چکی تھیں اب معصومیت سے پیالی منہ سے ٹکائے خان بابا کے بولنے کا انتظار کرنے لگی۔۔۔۔

جبکہ خان بابا تو جیسے سن کر سکتے میں ہی سر پکڑے بیٹھے تھے۔۔۔۔

منہاء نے خان بابا کو یوں پریشان بیٹھے دیکھا تو اٹھتے ہی فورا ان کی جانب بڑھے اور گھٹنوں کے بل بیٹھتے ان کے روبرو ہوئی۔۔۔۔

"میرا مقصد اپکو یوں پریشان کرنا نہیں تھا انکل۔۔۔۔

اور نہ ہی اپکو یوں شرمندہ کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔

مگر اب اپکا پوتا جو بھی کررہا ہے یا کرنا چاہتا ہے وہ حد سے زیادہ ہے اب۔۔۔۔"

منہاء سنجیدہ ہوئی۔۔۔۔

"جانتا ہو بیٹا۔۔۔۔

تم دونوں کو میری مدد کا ہی سزا مل رہا ہے۔۔۔

ہم بہت شرمندہ ہے تم سے بیٹا۔۔۔۔ 

میرے پوتے کی وجہ سے تم دونوں کو خوب اذیت ملا ہے۔۔۔۔

ہم بہت معذرت کرتا ہے تم دونوں سے۔۔۔۔"

خان بابا مدہم انداز ہوتے منہاء کے سر پر شفقت بھرے ہاتھ رکھتے پشیمان  ہوئے۔۔۔۔

منہاء نے خان بابا کا جھکا سر دیکھا تو مایوسی سے ثمر کی جانب دیکھنے لگی۔۔۔

"ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ضد اور انا پر چلتے چلتے ہمارا آہل سفاکی کی منزل تک پہنچ جائے گا۔۔۔

کہ کسی کی گناہ کا سزا وہ کسی اور معصوم کے سر ڈالے گا۔۔۔۔

ہم بس معافی مانگ سکتا ہے آپ سے باقی ہمارے بس میں کچھ نہیں رہا۔۔۔۔"

خان بابا شکستہ دل سے بولے۔۔۔۔

"نہیں انکل آپ کیوں شرمندہ ہو رہے ہیں۔۔۔

آپ تو بہت اچھے ہیں۔۔

اور یقین جانیے کہیں سے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جلاد صفت انسان اپکا پوتا ہے۔۔۔

اور ویسے بھی مدد کرنے کا اجر ملتا ہے سزا نہیں۔۔۔

اور میں نے اپنا اجر کمایا ہے اپکی دعا کہ صورت میں۔۔۔"

منہاء خان بابا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے مسکرائی۔۔۔

"کاش ہمارا تم جیسا پوتی ہوتی۔۔۔۔

تو ہم کبھی یوں شرمندہ نہ ہوتا کسی کے سامنے۔۔۔۔

مگر یقین جانو ہمارا آہل بہت اچھا تھا بس حالات اور لوگوں نے اسے زہر بنا دیا۔۔۔۔"

خان بابا کی آنکھیں نم ہوئی۔۔۔

جبکہ منہاء نے انہیں یوں اداس دیکھا تو خاموشی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔

"جو بھی ہے انکل۔۔۔

حالات اور برے لوگ کس کی زندگی میں موجود نہیں ہوتے۔۔۔

مگر اس کا یہ تھوڑی مطلب کہ انسان اپنے اردگرد کے لوگوں کو کم تر سمجھنا شروع کردے۔۔۔۔

ان پر اپنا غضب ڈھائے اپنا عتاب کا نشانہ بنائے۔۔۔۔"

منہاء غصے سے بلبلائی۔۔۔۔

"آپ نے ہی اپنے پوتے کو چھوٹ دی ہوئی ہے تبھی وہ خود سر اور بد تمیز ہو گیا ہے۔۔۔۔

خود کو خدا سمجھنے لگا ہے۔۔۔۔

کاش میری طرح آپ بھی اس کو روز دو چماٹ لگاتے ناں تو آج اپکو اس کی وجہ سے رونا نہ پڑتا۔۔۔۔"

منہاء اپنے دل کی بھڑاس حف ہوتے نکال رہی تھی۔۔۔

جبکہ ثمر جو منہاء کے بلکل سامنے بیٹھی تھی اس کے رنگ ایکدم اڑ سے گئے۔۔۔۔

"منہاء!!!!!"

"ثمر چپ رہو تم۔۔۔

بولنے دو مجھے۔۔۔۔

یہ سب بھی تمہاری وجہ سے ہی ہو رہا ہے۔۔۔

کاش تم مجھے اس کے آفس نہ لے کر جاتی تو میرا سامنا اس سے کبھی نہ ہوتا۔۔۔۔

اور تم دیکھ نہیں رہی کہ اتنے اچھے انکل آج اس کھڑوس اور بد تمیز بد لحاظ جانور کی وجہ سے رو رہے ہیں۔۔۔

اور تم مجھے چپ کروا رہی ہو۔۔۔

یقین جانو وہ میرے سامنے آگیا ناں تو دو تھپڑ اور مارو گی میں اسے ۔۔۔۔۔"

منہاء متلاطم ہوتے بپھڑی۔۔۔

جبکہ ثمر جو مسلسل اسے چپ کروانے کا اشارہ دے رہی تھی اب خان بابا کو اشارے کرنے لگی۔۔۔۔

جس پر خان بابا بھی ایک دم مڑے تو پیچھے دونوں بازوؤں باندھے سناٹ اور سرخ تاثرات لیے کھڑے آہل کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے۔۔۔۔

"انکل آپ اپنے بدماغ پوتے کو سمجھا دے اب۔۔۔۔

کہ اگر اس نے ہمارے ڈاکومنٹس واپس نہ کیے تو میں اسے چھوڑو گی۔۔۔۔

وہ حال کرونگا نہ اسکا کہ وہ یاد رکھے گا۔۔۔۔

امیر کبیر ہوگا اپنی دنیا میں۔۔۔

میری نظر میں ایک فقیر جیسی حیثیت بھی نہیں رکھتا وہ اب۔۔۔۔"

منہاء ڈرامائی انداز سے بھڑکی۔۔۔

کہ تبھی نظر خان بابا اور ثمر پر ٹھہری جو اسے پھٹی آنکھوں سے اڑتے رنگ لیے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔

"آپ دونوں کو کیا ہوا ہے؟؟؟

یوں اچانک کیوں کھڑے ہوگئے ہیں جیسے میرے پیچھے آہل خان کو دیکھ لیا ہو؟؟؟؟"

منہاء سوالیہ ہوئی۔۔۔

جس کے جواب میں خان بابا اور ثمر دونوں نے حامی میں سر زور زور سے ہلانا شروع کردیے۔۔۔

دونوں کے سروں کو یوں حامی میں ہلتے دیکھا تو منہاء کے وجود میں ایک بجلی مانند لہر سے دوڑی۔۔۔

"جیسے وہ سچ میں میرے پیچھے کھڑا ہو؟؟؟؟"

منہاء نے ایک بار پھر ہکلاتی آواز سے ثمر کی جانب خوف کھاتے دیکھا۔۔۔۔

جس کے جواب پر ثمر نے ایک بار پھر سر ہلایا۔۔۔۔

"نہیں!!!!!!!

او شٹ!!!!!!"

منہاء نے دیکھا تو مارے ہیبت فورا اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے دبوچے پھنکاری۔۔۔

آہل اپنی پاکٹس میں دونوں ہاتھ جمائے سپاٹ تاثرات لیے پیٹ لیے کھڑی منہاء کے قریب ہوا۔۔۔۔

"تو مس منہاء آپ کیا کہہ رہی تھی؟؟؟؟

اگر ڈاکومنٹس واپس نہ کیے تو کیا ہوگا میرے ساتھ؟؟؟؟"

آہل اپنی رعب دار آواز لیے گرجا کہ پورے گھر میں اس کی گونج گونجی جبکہ منہاء کا وجود ایک بار کپکپا سا گیا۔۔۔۔

"آہل کیسے بات کرتا ہے تم ایک لڑکی سے؟؟؟؟

کیا ہم نے تم کو یہ تمیز دیا ہے ؟؟؟"

خان بابا نے آہل کا غصہ دیکھا تو آگے بڑھتے بولے۔۔۔۔

"دادا آپ نہیں بولے گے۔۔۔۔

یہ میرا اور مس منہاء کا معاملہ ہے۔۔۔۔

اور انہوں نے یہاں آ کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔۔۔۔

جس کی سزا انہیں ملی گی۔۔۔۔

اور آپ چپ رہے گے پلیز!!!!"

آہل سختی سے تنبیہہ کرتے خان بابا کی جانب ہوا۔۔۔۔

منہاء نے آہل کو یوں خان بابا سے بات کرتے دیکھا تو ایک بار پھر سے بھڑک سی گئی۔۔۔۔

"آپ کو تو سچ میں تمیز نہیں ہے کہ بزرگوں سے بات کیسے کرتے ہیں۔۔۔۔

جس انسان کو بزرگ سے بات کرنے کی تمیز نہیں وہ کسی اور کی کیا عزت کرے گا۔۔۔۔"

منہاء آہل خان کے روبرو ہوتے سنگین ہوئی۔۔۔۔

"آپ کو اس سے مطلب۔۔؟؟؟؟

یہ میرے دادا میں ان سے بد تمیزی کرو یا گستاخی میرا مسئلہ ہے۔۔۔۔

آپ میرے گھر پر کیا کررہی ہے سوال یہ ہے؛!!

اور جواب مجھے چاہیے۔۔۔"

آہل بھی اب مشتعل ہوتے سیدھا ہوا۔۔۔۔

"مجھے میرے ڈاکومنٹس چاہیے ابھی اور اسی وقت۔۔۔۔"

"وہ تو نہیں ملے گے اب۔۔۔۔

جو کرنا ہے کر لے۔۔۔۔

میں بھی دیکھتا ہو کہ کیسے نکلواتی ہے آپ ڈاکومنٹس مجھ سے۔۔۔"

آہل مسکراہٹ دیتے پیچھے کو ہاتھ پھیلائے ہنسا۔۔۔۔

"تو ٹھیک ہے میں بھی منہاء منور ہو۔۔۔۔

حلق سے ڈاکومنٹس نہ نکلوا لیے تو کہنا۔۔۔۔"

منہاء آگے بڑھتے غرائی۔۔۔۔

آہل نے منہاء کی بات سنتی تو خونخواری سے آگے بڑھتے اس کی جانب ہوا۔۔۔۔

"نکالو۔۔۔۔

نکالو میرے حلق سے ڈاکومنٹس۔۔۔۔۔

میں سب جانتا ہو کہ تم کیوں آئی ہو میری زندگی میں اور کس کے کہنے پر۔۔۔۔

مگر ایک بات یاد رکھنا۔۔۔۔

تمہارا کوئی بھی منصوبہ میں کامیاب ہونے نہیں دونگا۔۔۔۔

اگر ڈاکومنٹس چاہیے تو جاب کرو۔۔۔۔

ورنہ قانونی جنگ لڑوں۔۔۔۔"

منصوبہ؟؟؟؟؟

"کامیابی؟؟؟؟

اپکا دماغ ٹھیک تو ہے ناں مسٹر آہل خان!!!!

میں اپنے ڈاکومنٹس کی بات کررہی ہو آپ؟؟؟"

منہاء دانت پسیجتے غرائی۔۔۔

"اپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ آپ جیسے فضول انسان کیلئے میں کیوں منصوبہ بندی کرو نگی؟؟؟

عجیب غریب انسان ہے یہ تو ثمر؟؟؟"

منہاء طنزیہ ہنسی ہنستے ثمر کی جانب ہوئی۔۔۔

"بس کردے منہاء بہت ہو گیا ہے یار!!!!

چپ ہوجا اب"

ثمر منہاء کے منہ پر ہاتھ رکھتے چپ کروانے لگی۔۔۔۔

"بس تو میری ہوگئی ہے یار۔۔۔ 

گاڑی کے ایکسیڈینٹ سے لے کر ہسپتال تک اور پھر گھر سے لے کر افس تک اس انسان نے مجھے اذیت دی ہے۔۔۔

اور اب بھی یہ شخص باز نہیں آرہا ہے مجھے تکلیف دینے میں۔۔۔۔"

منہاء تھکن لہجے سے چلائی۔۔۔

"مس ثمر بہتر ہے اپنی اس بد تمیز دوست کو یہاں سے لے جائے۔۔۔

یہ نہ ہو جو کاروائی مجھے کل ہے وہ ابھی اسی وقت کرنی پڑے مجھے۔۔۔۔"

آہل منہاء کی جانب اشارہ کرتے سناٹ ہوا۔۔۔

"کیا کرو گے ہاں؟؟؟؟

تم کر بھی کیا سکتے ہو سوائے اپنی مردانگی جھاڑنے کے!!!!

میں بتا رہی ہو مسٹر آہل۔۔۔

مجھے کل تک میرا ڈاکومنٹس چاہیے ورنہ!!!!

پانی تک ہضم ہونے نہیں دونگی۔۔۔۔"

منہاء آپے سے باہر ہوئی تو ثمر فورا اس کی جانب اسے چپ کرواتے باہر کی جانب گھسیٹنے لگی۔۔۔

"اور میں انتظار کرو گا!!!!"

آہل منہاء کو آنکھ مارتے مزید چڑھاتے مسکرایا۔۔۔

"بس کردو منہاء!!!

پلیز چلوں یہاں سے اب یار!!!!

سارا کام بگاڑ دیا ہے تم اب۔۔۔۔

بس کرو اب۔۔۔۔"

ثمر اسے کھینچتے لے کر جارہی تھی۔۔۔

جبکہ خان بابا ہکا بکا نظروں سے کبھی منہاء کو دیکھ رہے تھے تو کبھی آہل کو جس کے ماتھے پر اب پیسنہ چمک رہا تھا۔۔۔

ثمر منہاء کو لیے وہاں سے چلی گئی۔۔۔

جبکہ اس کے جاتے ہی آہل بھی پھوں پھاں کرتے وہاں سے سیدھا اپنے کمرے کی جانب بھاگا۔۔۔

"یہ تو اخیر لڑکی تھا باخدا!!!!"

خان بابا جو ابھی تک حیرت ذدہ تھے سنگین مسکراہٹ ہوئے۔۔۔۔

"اس آہل جو ایسا ہی کوئی لڑکی ملنا چاہیے!!!

جو اس کو تیر جیسا سیدھا رکھ سکے!!!!"

خان بابا کے دماغ میں ایک کھچڑی ابھری جس پر وہ سوچتے ہنسنے لگے۔۔۔۔

"بہت شکریہ ثمر۔۔۔۔۔"

منہاء نے گاڑی اپنے گھر کے سامنے رکی دیکھی تو مسکراہٹ دیتے ثمر کو دیکھنے لگی۔۔۔

"اب دھیان سے گھر جانا۔۔۔

اور پہنچتے ہی مجھے فون یا میسج لازم کرنا۔۔۔۔

رات بہت ہوگئی ہے میں پریشان رہو گی جب تک تم مجھے میسج نہیں کروگی۔۔۔۔

اور جب. میں. پریشان ہوتی ہو تم اچھے سے جانتی ہو میں کیا کرتی ہو!!!!"

منہاء اپنا بیگ تھامے ثمر کے چہرے پر چٹکی کاٹے مسکرائی اور دروازہ کھولے باہر کی جانب ہوئی۔۔۔۔

"تمہیں خبر بھی ہے تم وہاں کیا تماشا کر کے آئی ہو۔۔۔۔"

منہاء کی مسکراہٹ دیکھی تو ثمر سر پیٹتے رہ گئی۔۔۔

"اور اتنا سب کر کے بھی پرسکون کیسے ہو سکتی ہو تم؟؟؟

تمہیں تو دیکھ دیکھ کر حیرت ہو رہی ہے مجھے کہ جو جاتے ہوئے کلمے پڑھ رہی تھی اب واپسی پر کسی کو یاد کروا کر آرہی ہے!!!!

تم اتنی مطمئن کیسے ہو یار؟؟؟؟"

"شکر کرو مجھے سکون مل گیا ہے ثمر۔۔۔

ابھی تو وہ بچ گیا ہے ورنہ سر بھی پھوڑ کر آتی میں اسکا اگر تم مجھے کھینچ کر نہ لاتی۔۔۔۔"

منہاء مایوسی گو ہوئی۔۔۔

" میرے اندر کس قدر  طوفان تھا تم سوچ بھی نہیں سکتی ہو جو اج  باہر نکلا۔۔۔

اور نکلا بھی اس پر جو اس کی جڑ تھا۔۔۔

یقین جانو میرا سانس یہاں پر یہاں پر پھنسا رہتا تھا ہر وقت جب جب میں سوچتی تھی اس کے بارے میں!!!!"

منہاء اپنے حلق پر ہاتھ جمائے متحیر ہوئی۔۔۔

جبکہ ثمر اسے تیکھی نظروں سے گھور رہی تھی۔۔۔۔

"اب آج رات میں پرسکون ہو کر سو گی۔۔۔۔

کس قدر ہلکا محسوس کررہی ہو میں اس وقت تم اندازہ بھی لگا نہیں سکتی ہو!!!!"

منہاء اطمینانی کیفیت اپنے دل پر ہاتھ جمائے مسرت ہوئی۔۔۔

"اور تمہیں یوں دیکھ کر میرے سینے پر جو مختلف نسل کے سانپ رینگ رہے ہیں ناں تم اس کا انداز نہیں لگا سکتی ہو ۔۔۔۔

تم اتنا کچھ کیسے کہہ سکتی ہو یار؟؟؟؟

کیوں سوچ نہیں آئی تمہیں کہ ہم ابھی بھی اس کے دانت کے نیچے ہی ہیں۔۔۔

جو جب چاہے ہمیں کچل سکتا ہے۔۔۔۔"

ثمر روھنس ہوتے چندھیائی۔۔۔۔

"یہ پہلے بتانا تھا ناں!!!!

اب تو ہو گیا جو ہونا تھا!!!!

کر رہی تھی ناں منع میں کہ واپس لے چلوں تمہیں ہی شوق تھا اندر جانے کا اب بھگتوں!!!!!"

منہاء کندھے اچکائے مسکرائی۔۔۔۔

"پلے درجے کی بد تمیز ہو تم منہاء۔۔۔۔

نکلوں میری گاڑی سے ابھی اور اسی وقت۔۔۔

تمہیں دیکھ دیکھ کر خون کھول رہا ہے میرا۔۔۔۔"

ثمر منہاء کو دھکا بھرے چنگاری۔۔۔۔

"تم اس بد تہذیب انسان کی وجہ سے مجھے اپنی دوست نما بہن کو دھکا دے رہی ہو؟؟؟؟؟"

"تو تم بھی اس سے کم نہیں ہو۔۔۔۔۔

تمہارا انداز بھی جاہلانہ ہی تھا جیسے وہ نوچنے کو تیار تھا تم بھی پنجے نکالے وار کرنے کو بیٹھی تھی۔۔۔

اور اب دیکھو کیسے میرے سامنے معصوم بن رہی ہو۔۔۔۔

نکلوں میری گاڑی سے باہر فورا۔۔۔۔"

ثمر اشتعال انگیز ہوئی۔۔۔

جبکہ ثمر کو یوں آگ بگولہ ہوتے دیکھتے ہی منہاء ہنستے ہوئے گاڑی سے باہر نکلی اور شیشے پر بازوؤں جمائے اسے فلائنگ کس بھیجنے لگی۔۔۔۔

"میری پیاری دوست میری جان ثمر کیوں کررہی ہو اتنا غصہ یار!!!!

تم نے ہی تو کہا تھا اب گئے ہیں تو کچھ کر ہی آئے گے۔۔۔

تو میں کردیا۔۔۔۔

اب ناراض نہ ہو میری جان۔۔۔"

منہاء ثمر کے لال پڑتے چہرے کو چھوتے ہنسی جس پر ثمر نے اس کے ہاتھ کو جھٹکا بھرا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔۔۔۔

"دفع ہوجا منہاء۔۔۔۔

تیری جیسی دوست سے اچھا میں دشمن ہی پال لوں تو بہتر ہے۔۔۔

جا رہی ہو میں اب اور سیدھا اب اندر جاؤ تم بھی۔۔۔۔

اور پلیز مجھے فون مت کرنا میں پہنچتے ہی خودی تمہیں میسج کردونگی۔۔۔۔

دماغ خراب کر کے رکھا ہوا ہے میرا سب نے!!!!"

ناراضگی کے باوجود ثمر انسیت دیکھائے سخت لہجہ ہوئی اور گاڑی آگے بڑھا دی۔۔۔۔

جبکہ ثمر کا غصہ دیکھ کر منہاء مسکراتے ہوئے گھر کی جانب ہوئی تو سامنے دروازے پر کھڑی غصے سے لال پیلی  ناز بی کو دیکھتے ہی چہرے کی مسکراہٹ ایک دم اوجھل سی ہوگئی۔۔۔۔

 منہاء دھیمے قدموں سے دروازے کی جانب ہوئی تو ناز بی راستہ چھوڑے پیچھے کو ہٹی اور منہاء نظریں چڑائے تیز قدموں سے اندر کی جانب بھاگی۔۔۔۔۔

"جھوٹ کیوں بولا تھا تم نے کہ ثمر کا ایکسیڈینٹ ہوا ہے؟؟؟؟؟

اب اپنی ماں سے بھی تم جھوٹ  بولا کروگی!!!!؟؟؟"

ناز بی نے منہاء کو یوں بھاگتے دیکھا تو فورا سرد ہوئی۔۔۔

"امی وہ بس!!!!

ایک کام!!!!."

منہاء نے ناز بی کا شکوہ سنا تو پشیمان ہوتے پلٹی۔۔۔۔

"ایسا کونسا کام تھا منہاء جو تم مجھے سچ بتا کر نہیں کر سکتی تھی۔۔۔

تم جانتی ہو ناں میں تم پر خود سے زیادہ یقین کرتی ہو کیونکہ تمہارے باپ نے مجھ سے زیادہ تمہاری پرورش کی تھی جس میں کوئی کھوٹ نہیں۔۔۔۔

تو پھر جھوٹ بولنے کا سبب کیا تھا؟؟؟"

ناز بی سوالیہ نظروں سے منہاء کو گھورنے لگی۔۔۔

"امی کوئی ایسی خاص وجہ نہیں تھی۔۔۔

وہ بس آپ رات کو نہ جانے دیتی اس لیے جھوٹ بولا تھا میں نے۔۔۔۔

آپ پلیز پریشان نہ ہو۔۔۔۔

آپ نے دیکھا ہے ناں میں ثمر کے ساتھ ہی آئی تھی۔۔۔

اور میں مر جاؤ گی کبھی ابو کے نام پر حرف انے نہیں دونگی!!!!"

منہاء ناز بی کے ہاتھوں کو تھامے تاسف ہوئی۔۔۔

"مگر مجھے تم سے یہ ہرگز امید نہ تھی منہاء!!!!!

تم سوچ بھی نہیں سکتی کہ اس وقت اگر تمہیں کوئی آتے دیکھ لیتا تو تمہارے کردار کے حوالے سے کیا کیا نہ کہتا!!!"

ناز بی سختی گو ہوئی۔۔۔۔

"امی آپ نے کیا میرے کردار کا سرٹیفیکیٹ  ان باہر والوں کے ہاتھ تھمایا ہے جو میرے متعلق کچھ بھی کہتے پھرے گے۔۔۔۔"

منہاء نے سنا تو جوابا ہوئی۔۔۔۔

"بس کردو منہاء۔۔۔۔

انسان غلطی کرتا ہے تو مانتا بھی ہے۔۔۔۔

اب تم اپنی غلطی میری باتوں میں مت چھپاؤ۔۔۔۔"

ناز بی بھڑکتے آگے کو بڑھی اور پھر میز پر پڑے کاغذ کو اٹھائے اس کی جانب ہوئی۔۔۔۔

"تو امی آپ بھی تو ہر بار باہر والوں باہر والوں کرتی رہتی ہے۔۔۔

کون ہے یہ باہر والے مجھے بھی تو بتائیں۔۔۔۔

یہ باہر والے تب کہاں تھے جب میرا باپ سڑک کنارے دم نکال رہا تھا۔۔۔

آج آپ باہر والے باہر والے میرے سر پر ڈال رہی ہے۔۔۔

کون ہوتے ہیں وہ میرے کردار پر انگلیاں اٹھانے والے۔۔۔

مجھے آپ سے غرض ہے بس اپکی سوچ سے ہے۔۔۔

تو کیوں میرے اپنے درمیان ان کو لاتی ہے آپ!!!"

منہاء نم آنکھوں سے سرخ پڑتے اپنے کمرے کی جانب گئی۔۔۔۔

"کیونکہ عورت ذات ہو تم۔۔۔۔

اس مکان میں بس دو عورتیں رہتی ہیں منہاء۔۔۔۔

اور جہاں مردوں کا سایہ نہ ہو وہاں تہمتوں اور بہتانوں کا ڈیرا ڈلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔۔۔

اور میں منور کے نام پر کوئی داغ لگنے نہیں دونگی۔۔۔۔

یہ بات اپنے دماغ میں ڈال لو تم!!!!"

ناز بی متلاطم ہوئی۔۔۔

جبکہ منہاء کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے۔۔۔۔

"اب رونا مت شروع کردو۔۔۔۔

مجھے یہ بتاؤ کہ کیا ہے اب؟؟؟؟

کس بات کا قانونی نوٹس ملا ہے تمہیں؟؟؟

کونسا فراڈ کیا ہے تم نے جس کا نتیجہ یہ نکل آیا ہے؟؟؟"

ناز بی نے ڈاک لفافہ منہاء کے سامنے لہرایا جس پر خان انڈسٹری کا نام صاف صاف عیاں تھا۔۔۔۔

"امی یہ آپ کو کہاں سے؟؟؟؟"

منہاء جو حواس باختگی سے نوٹس دیکھ رہی تھی فورا  ناز بی کے ہاتھ سے کھینچتے اپنے بیگ میں ڈالنے کی کوشش کی۔۔۔۔

"تم پھر سے مجھ سے بات چھپا رہی ہو منہاء!!!!

ماں ہو میں تمہاری۔۔۔

ہر وقت میری سوچ تم میں ڈوبی رہتی ہیں۔۔۔

اور تم ہو کہ !!!!!

مجھے غیروں سے بھی بدتر سمجھتی ہو۔۔۔۔

کونسی خواہش ایسی نہیں تمہاری جو میں نے پوری نہ کی ہو؟؟؟

کب کب تمہارے ساتھ نہ. کھڑی ہوئی ہو۔۔۔۔

اور مجھے اس کا صلہ کیا ملا میری اپنی بیٹی مجھے کچھ نہیں سمجھتی۔۔ 

جھوٹ بولتی ہے مجھ سے باتیں چھپاتی ہے۔۔۔"

ناز بی کی آنکھیں نم ہوئی ۔۔۔۔۔

"امی کچھ نہیں ہے یہ آپ کیوں پریشان ہو رہی ہے !!!!"

منہاء صفائی بھرے اٹھی۔۔۔۔

"مجھے جاہل مت سمجھوں منہاء۔۔۔۔۔

میں پڑھ چکی ہو سب جو اس میں لکھا ہے۔۔۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ تم اب بھی سچ نہیں بتانا چاہتی مجھے۔۔۔

اب بھی مجھ سے جھوٹ بول رہی ہو۔۔۔۔"

ناز بی کی آنکھوں سے آنسوں چھلکا جسے دیکھتے ہی منہاء بھی روہانسی ہوگئی۔۔۔

"امی پلیز روئے تو مت!!!!"

منہاء فورا ان کی جانب تڑپ دکھائے بڑھی۔۔۔

"بہت دل دکھایا ہے میرا تم نے منہاء بہت دل دکھایا ہے میرا!!!"

بہت تنگ کرتی ہو تم مجھے۔۔۔۔

بہت تنگ!!!"

 ناز بی جو روتے ہوئے وہاں سے چلی گئی کو یوں روتے جاتے دیکھ کر منہاء اپنا چہرہ ہاتھوں سے چھپائے افسردہ سی ہوئی۔۔۔۔

کچھ دیر یونہی بیٹھنے کے بعد منہاء خاموشی سے اٹھی اور کیچن کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔

ہاتھ میں دو کپ چائے کی ٹرے سجائی اور رخ ناز بی کے کمرے کی جانب کیا۔۔۔۔

ناز بی جو منور صاحب کی شرٹ کو اپنے ہاتھوں میں تھامے بیڈ پر ںیٹھی رو رہی تھی۔۔۔۔

منہاء کے درستک دینے پر فورا شرٹ چھپاتے اپنا چہرہ صاف کرتے بیٹھ گئی۔۔۔۔

"امی!!!!!"

منہاء اہستگی سے بولتے ہوئے اندر کی جانب بڑھی اور پھر ناز بی کے روبرو جا بیٹھی۔۔۔۔

جبکہ ناز بی ناراضگی ظاہر کرتے دوسری جانب چہرہ لیے ہوئی۔۔۔۔

"میں سب بتاؤ گی اپکو۔۔۔

ابو کی قسم سب سچ بتاؤ گی اپکو۔۔۔

بس آپ روئے مت۔۔۔ 

پلیز چپ ہوجائے۔۔۔۔"

منہاء ناز کی گال پر چمکتے آنسوں کو چھوتے اداس ہوئی۔۔۔

جس پر ناز بی منہاء کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں بھرے اس پر بوسہ دیتے مسکرائی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل اپنے کمرے میں گیا تو سر بھاری سا محسوس ہوا۔۔۔۔

ایک طرف ہما کی باتیں تو دوسری طرف منہاء کا زہر اس کے دماغ میں ایک گہرا شور برپا تھا۔۔۔۔

بے چینی اور اضطرابی کیفیت سے وہ بستر کی چادر کو نوچتے پھینکتے سیدھا واش روم کی جانب بڑھا۔۔۔

اندر جاتے ہی واش بیسن کا نل کھولا اور پانی کی چھینٹے اپنے منہ پر پے در پے دے مارے۔۔۔۔

"اپکا دماغ ٹھیک تو ہے ناں مسٹر آہل خان!!!!

میں اپنے ڈاکومنٹس کی بات کررہی ہو آپ؟؟؟"

"اپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ آپ جیسے فضول انسان کیلئے میں کیوں منصوبہ بندی کرو نگی؟؟؟"

منہاء کی باتیں آہل کے کانوں میں گونجی تو غصے سے لبریز آہل نے شیشے میں دیکھتے ہی اپنے ہاتھ کو زور دار طریقے سے دے مارا۔۔۔

جس سے شیشہ کئی دڑاروں میں ہوتے نیچے گر گیا اور کرچیوں میں بدل گیا۔۔۔۔

بہت گندہ کھیل کھیلا ہے تم نے آج منہاء میرے گھر آ کر۔۔۔۔

ہما کے اشاروں پر تمہیں چلنے کی وہ سزا دونگا کہ رو گی اپنی قسمت پر۔۔۔۔

اور اس کیلئے چاہے مجھے کچھ بھی کیوں کرنا پڑے۔۔۔۔

آہل کے بالوں سے گرتا سرد پانی اس کی آنکھوں میں پڑتی سرخی سے ہوتے اس کے چہرے پر گر رہا تھا۔۔۔۔

"بات میرے حد تک رہتی تو ٹھیک تھی۔۔

مگر اب بات بہت آگے پہنچ گئی ہے۔۔۔

میرے دادا کے سامنے تم نے مجھے زلیل کیا ناں۔۔۔

تمہاری کسی پیاری چیز کے سامنے تمہیں رسوا نہ کیا تو میرا نام بھی آہل خان نہیں۔۔۔۔"

آہل سامنے بچے شیشے کے ایک عدد ٹکڑے میں اپنی جنونی کیفیت کو دیکھتے خود کلام ہوا۔۔۔۔

اور پھر اپنے چہرے پر دوبارہ پانی کے چھینٹے اڑاتے باہر کی جانب ایک زخمی شیر کی مانند بپھڑا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء کی باتیں سن کر ناز بی بھی اب خود سوچ میں پڑ گئی تھی۔۔۔

جبکہ منہاء انہیں اب آس بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔

"خاموش کیوں ہے امی آپ؟؟؟

یقین جانیے جو بھی اب بتایا ہے سب سچ بتایا ہے۔۔۔۔"

"بہت غلط کیا ہے تم نے منہاء اس کے گھر جا کر۔۔۔۔

بات آفس تک ہی رہتی تو زیادہ بہتر تھا۔۔۔

ناجانے اس کے دادا کیا سوچ رہے ہونگے اور اوپر سے وہ خود بھی اب مزید شدت اختیار کرے گا۔۔۔"

ناز بی مبہم ہوئی۔۔۔

"کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی امی ہمیں ۔۔۔۔

جو صیحح لگا جو سمجھ آیا بس کردیا۔۔۔"

منہاء ناز بی کی گود میں سر دھڑے لیٹ گئی۔۔۔

جبکہ ناز بی اس کے بالوں میں محبت سے انگلیاں پھیرنے لگی۔۔۔۔

"اب آگے کیا کرنا ہے؟؟؟؟

کیا تم دونوں آفس جاؤ گی اب کل؟؟؟"

ناز بی سوالیہ ہوئئ۔۔۔۔

"معلوم نہیں امی!!!

وہاں تو بہت شور مچا آئی ہو مگر اب اس کو پورا کیسے کرنا ہے اس کی مجھے بلکل سمجھ نہیں آرہی۔۔۔۔

آپ ہی بتا دے اب آگے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟؟؟"

منہاء داسہم ہوئی۔۔۔

'تم کل اس کے آفس جاؤ۔۔۔

بلکہ تم دونوں کل جاؤ۔۔۔

کیونکہ یہ معاملہ غصے سے نہیں بلکہ ٹھنڈے مزاج سے ہی حل ہوگا۔۔۔۔

وہ تمہیں غلط سمجھ رہا ہے اور تم اسے۔۔۔۔

بہتر ہے سکون سے غلط فہمی ختم کرو اور معاملہ رفع دفع کرو۔۔۔"

"مگر امی!!!!"

منہاء نے سنا تو پھونچکا ہوتے اٹھ بیٹھی۔۔۔

"میری بات سمجھو منہاء!!!!"

ناز بی منہاء کے چہرے کو چھوتے اسے سمجھانے لگی۔۔۔

"اس معاملے کو گھسیٹنے سے اس کو کوئی فائدہ نقصان نہیں ہوگا منہاء۔۔۔

مسئلہ تمہارے لیے ہی کھڑا ہوگا۔۔۔۔

کیونکہ نہ تو تمہارا باپ ذندہ ہے اس وقت اور نہ ہی تمہارا کوئی بھائی جو یہ سب بھگتائے۔۔۔۔

بہتر ہے سوچوں اس بات پر۔۔۔۔

بیٹی ذات ہو ڈرتی ہو اس دنیا سے۔۔۔۔"

منہاء نے ناز ہی کی بات سنی تو مزید کچھ کہے اپنے کمرے کی جانب بڑھ آئی اور پھر اس متعلق سوچنے لگی۔۔۔۔

کہ سوچتے سوچتے ناجانے کب اس کی آنکھ لگ گئی اسے خود خبر نہ ہوئی۔۔۔۔

اور پھر صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہی ناز بی کے اٹھانے ہر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔

نماز کی ادائیگی کی تو سیدھا رخ کیچن کا کیا۔۔۔۔

جہاں پہلے سے ہی موجود ناز بی ناشتے کی تیاری میں مصروف تھی۔۔۔۔

"تو پھر کیا سوچا ہے منہاء؟؟؟؟

کیا فیصلہ کیا ہے اس متعلق؟؟؟"

ناز بی نے منہاء کو دیکھا تو سوالی ہوئی۔۔۔

"میں نے ثمر سے بات نہیں کی امی ۔۔۔۔۔

اس سے بات کرتی ہو تبھی کوئی فیصلہ کرتی ہو اس متعلق۔۔۔۔"

منہاء متحیر ہوتے چائے بنانے لگی۔۔۔

جبکہ ناز بی بناء کچھ کہے وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

 امی ثمر آگئی ہے میں جا رہی ہو آفس۔۔۔۔

آپ پلیز دعا کیجئے گا میرے لیے۔۔۔۔

منہاء اپنا بیگ سنبھالے فورا دروازے کی جانب بھاگی۔۔۔

"ہاں میری جان میں دعا کرونگی۔۔۔

بس معاملے کو خراب نہ کرنا۔۔۔۔

اور ٹھنڈے دماغ سے کام لینا۔۔۔"

ناز بی منہاء کے ماتھے کو چومتے اسے حوصلہ دیتے بولی۔۔۔

"ٹھیک ہے امی۔۔۔

میں جارہی ہو اپکو فون کرتی رہو گی۔۔۔"

منہاء کہتے ہی باہر کی جانب ہوئی تو ناز بی دروازہ بند کرتے واپس پلٹی۔۔۔

ثمر جو پہلے سے ہی باہر گاڑی میں موجود تھی منہاء کے بیٹھتے ساتھ ہی گاڑی اسٹارٹ کی اور وہاں سے چلا دی۔۔۔

"یہ کہاں جارہی ہے وہ بھی اس وقت؟؟؟؟

بلال جو اپنی بائیک پر گلی کے کنارے منہاء کو مبہم نظروں سے دیکھتے رکا تھا خود کلام ہوا۔۔۔۔

اور پھر کچھ سوچتے ہی بائیک ان کی گاڑی کے پیچھے گھوما دی۔۔۔۔

"ایک رات میں اتنی کیا تبدیلی آئی ہے تم میں میڈم کہ تم اس کے آفس جانے کیلئے بے تاب ہوگئی ہو۔۔۔

کل رات تو بہت پھریاں مار ری تھی تم نے اور اب یہ ہوا کیوں نکل گئی ہے تمہاری باتوں سے؟؟؟؟"

ثنر طنزیہ مسکراہٹ ہنسی۔۔۔۔

"امی کی وجہ سے۔۔۔۔

بس امی کی وجہ سے۔۔۔۔

ورنہ تم مجھے اچھے سے جانتی ہو جس در سے نکل جاؤ میں وہاں واپس نہیں جاتی ہو۔۔۔ 

چاہے وہ محبت ہی کیوں ناں ہو!!!!"

منہاء صاف گو ہوئی۔۔۔۔

"کیا مطلب؟؟؟؟

تم نے آنٹی کو سب بتا دیا؟؟؟؟"

ثمر نے سنا تو مارے حیرت ہوئی۔۔۔

"انہیں سب پتہ چل گیا تھا۔۔۔۔۔

میں نے بس تصدیق کی تھی!!!!"

منہاء تاسف ہوئی۔۔۔۔۔

"باقی امی سے کچھ نہیں چھپتا۔۔۔

وہ سب جان گئی ہے سب کچھ۔۔۔۔

انہوں نے ہی مجھے کہا تو میں نے تمہیں کال کی۔۔۔"

"ہمممم۔۔۔۔

اب دعا ہے اس آہل کا دماغ ذرا سیٹ ہوا ہو۔۔۔۔

ورنہ بہت برا ہوگا ہمارے ساتھ۔۔۔۔"

ثمر دعا گو ہوئئ۔۔۔

جبکہ منہاء باہر کی جانب دیکھنے لگی۔۔۔۔

آہل تیار ہوتے سیدھا ڈائینگ روم کی جانب بڑھا۔۔۔

کرسی کھینچی اور سامنے میز پر پڑے اخبار کو تھامے نظریں دہرانے لگا۔۔۔۔

خان بابا جو سامنے ہی بیٹھے اس کی ہر حرکت پر نظر جمائے تھے دبی مسکراہٹ لیے اسے مسلسل گھور رہے تھے۔۔۔۔

"افگن!!!!!

افگن میری کافی لاؤ جلدی!!!!

آگے ہی بہت لیٹ ہو گیا ہو میں۔۔۔۔"

آہل نے ہاتھ بندھی گھڑی پر نظر ڈالی تو فورا اخبار دوسری جانب رکھتے اب موبائل پکڑے بولا۔۔۔۔

جبکہ آواز سنتے ہی افگن فورا ایک ٹانگ پر بھاگتے کافی کا مگ آہل کے سامنے رکھتے واپس پلٹا۔۔۔۔

"کب تک مجھے ایسی نظروں سے دیکھتے رہے گے دادا آپ؟؟؟

وجہ پوچھ سکتا ہو آپ کی اس احسان نوازی کا۔۔۔۔"

آہل جو خان بابا کی نظروں کو محسوس کررہا تھا اب براہ راست کافی کا مگ ہاتھ میں تھامے ان کو دیکھتے بولا۔۔۔۔

"کچھ نہیں بس دیکھ رہا ہو کہ آہل خان کو ایک معمولی سی لڑکی نے اس قدر بے چین کر رکھا کہ وہ پوری رات سو نہ سکا۔۔۔۔

محض کروٹیں اور دل کو دلاسیں بھرتا رہا۔۔۔۔"

خان بابا طنزیہ ہوئے۔۔۔۔

"اپکو کس نے کہا کہ میں سویا نہیں؟؟؟؟"

آہل نے سنا تو اکڑتے انداز آور ہوا۔۔۔۔

"اور کس کی ہمت کے مجھے آہل خان کو بے چین رکھے۔۔۔۔"

"لازم نہیں ہر بات الفاظ کا محتاج ہو۔۔۔

کبھی کبھی چہرے اور آنکھوں کے گرد پڑے حلقے بھی بہت کچھ کہہ دیتا ہے آہل۔۔۔۔"

خان بابا اب بڑی سی مسکراہٹ سے متحیر ہوئے۔۔۔۔

"آپ کل رات کے واقعے سے اب تک باہر نہیں نکلے تبھی یہ سب بول رہے ہیں۔۔۔۔

بہتر ہے بھول جائیے سب۔۔۔

ویسے ہی جیسے پہلے بھولتے آرہے ہیں۔۔۔۔"

آہل سپاٹ ہوا۔۔۔۔

"خدا قسم جب جب وہ بول رہا تھا ناں۔۔۔

ایسا لگ رہا تھا تمہاری مرحوم دادی کھڑا ہے سامنے۔۔۔

اور تم کہتا ہے ہم بھول جائے۔۔۔

نہ ہرگز نہیں۔۔۔۔

اتنے عرصے بعد ایسا دیدہ دلیر لڑکی دیکھا ہے ہم نے جو تم جیسے کو سیدھا کر سکتا ہے۔۔۔۔

ورنہ وہ ہما نے تو تم کو برباد کرنے کا کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔۔۔۔

ناجانے صیحح لڑکی کا فرق تم کب سیکھے گا۔۔۔۔"

خان بابا کا مزاج اب روکھا ہوا۔۔۔

"کیا ہم کوئی اور بات کرسکتے ہیں تب تک جب تک میں چلا نہیں جاتا ؟؟؟؟"

 ہما کا نام سن کر آہل کے چہرے پر ایک نفرت کی لہر سی جھلک گئی۔۔۔۔

"نہیں ہم اسی کا ہی بات کرے گا جس نے تم کو باتیں سنائی ہیں۔۔۔۔

اگر تم کو نہیں پسند تو تم جا سکتا ہے۔۔۔۔

ہم ویسے بھی تمہارے ساتھ کا محتاج نہیں ہے۔۔۔

اکیلا ہی رہتا ہے دن بھر اب بھی رہ لے گا۔۔۔۔"

خان بابا حف ہوئے جبکہ آہل خان بابا کی اداسی دیکھ کر مزید کچھ نہ بولا۔۔۔۔

"دادا!!!!!"

"آفگن۔۔۔۔

ہم بھی آہل ہی ہے ہم کو بھی ناشتہ پوچھ لیا کرو۔۔۔۔

مردود کا اولاد کبھی ہمارا خیال نہیں رکھتا ہے۔۔۔

ہر وقت ہم چیختا رہتا ہے مگر مجال ہے اس کے کان میں ایک بھینس بھی رینگی ہو۔۔۔"

خان بابا آہل کی پکار کو نظر انداز کرتے گل افگن پر چیخے۔۔۔۔

جبکہ خان بابا کی ناراضگی بھانپتے وہ خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا۔۔۔۔

"کیا چاہتے ہیں آپ دادا ؟؟؟؟

صاف صاف بولے۔۔۔۔

کیوں حالات کا سہارا لے رہے ہیں آپ؟؟؟؟

"جانتے بھی ہے مجھے گول مول باتیں پسند نہیں۔۔۔۔"

آہل صاف گو ہوا۔۔۔

"ہم جو چاہتا ہے وہ تم سوچتا تک نہیں ہے۔۔۔۔

مگر اگر جاننا چاہتا ہے تو سنوں۔۔۔۔

ہم چاہتا ہے تم اپنا گھر بسا لے۔۔۔۔

خوش رہے خوش رکھے۔۔۔

تمہارا یہ اکیلا پن ہمارے دل میں کئی بدعاؤں کو جنم دیتا ہے جو ہم ہما کے نام  پر نکالتا ہے۔۔۔۔

مگر ہم یہ بھی جانتا ہے تم ایسا کبھی نہیں کرے گا۔۔۔۔

اکیلا جیے گا اور مجھے تنہا مرنے دے گا"""

خان بابا سنجیدہ ہوئے۔۔۔۔

جبکہ آہل کو تو جیسے ایک سانپ ہی سونگھ گیا ہو۔۔۔۔

"تو بولو پھر!!!!

کیا سوچا ہے تم نے؟؟؟

کیا تم ہماری چاہ پوری کر سکتا ہے؟؟؟؟

کیا اس بدکردار عورت کو معاف کر کے خود کی زندگی آسان کر سکتا ہے؟؟؟؟"

خان بابا اب سنگین ہوئے۔۔۔۔

جبکہ آہل کسی گہری سوچ میں ڈوبتے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے سہارا دیتے کسی چیز پر نظریں جمائے بیٹھا رہا۔۔۔۔

"تمہاری خاموشی میرا جواب ہے آہل خان۔۔۔۔

کیونکہ تم نے قسم کھا رکھا ہے خود بھی تڑپے گا اور ساتھ مجھ بوڑھی ہڈیوں کو بھی موت کے گھاٹ اتارے گا۔۔۔

ہم کو تم سے کوئی امید نہیں اب۔۔۔۔

جا سکتے ہو تم۔۔۔"

خان بابا روھنس لہجے سے بھڑکے۔۔۔۔

"اسے معاف میں کبھی نہیں کرونگا یہ تو بات طے ہے دادا۔۔۔

اور جب تک میں اسے معاف نہیں کرونگا میں کسی سے محبت نہیں کرسکتا۔۔۔۔

اور محبت ہر رشتے کی بھوک ہوتی ہے میں کسی کو محبت کے قحط سے تڑپانا نہیں چاہتا۔۔۔۔

تو بہتر ہے میری شادی کے خیالات دل میں. لانا چھوڑ دے۔۔۔"

آہل کہتے ساتھ ہی اٹھا اور ایک نظر خان بابا پر ڈالی۔۔۔

"ہم تمہاری خوشیوں کا سوچنا چھوڑ دے۔۔۔۔

یہ تم کہہ سکتا ہے مگر ہم کر نہیں سکتا۔۔۔۔"

"اپکو کس نے کہا ہے کہ میں خوش نہیں!!!!

کیا خوشی شادی کے بغیر ممکن نہیں؟؟؟؟"

آہل نے دادا کی بات سنی تو اچک ہوا۔۔۔

"ممکن ہے بلکل ممکن ہے۔۔۔۔

مگر وہ تم حاصل کرچکا ہے۔۔۔

اور اب تنہا ہے ٹوٹا ہوا ہے اندر سے۔۔۔

اگر لڑکی دل توڑتا ہے تو ایک لڑکی ہی اس کو جوڑ سکتا ہے۔۔۔۔

اور تم کو ایک ہم سفر کا ضرورت ہے جس کے آنچل میں تم اپنے آپ کو سموں سکے۔۔۔۔

جو تم کو سمیٹے تم سے محبت کرے تم کو وقت دے۔۔۔"

خان بابا فرط جذبات ہوئے۔۔۔۔

"مجھے کسی کی ضرورت نہیں ہے دادا۔۔۔۔۔

مجھے کسی کا سہارا نہیں چاہیے۔۔۔۔"

آہل نے سنا تو نفی ہوا۔۔۔۔

"یہ تمہارے اندر کا بے جان مرد کہہ رہا ہے آہل تم نہیں۔۔۔

تمہارے اندر کا نفرت بول رہا ہے بدلہ بول رہا ہے۔۔۔۔

بات کو سمجھوں میری جان!!!

اگر بدلہ لینا ہی چاہتا ہے تو شادی کرو اس کے سامنے خوش ہو کر دکھاؤ۔۔۔

خدا گواہ رہے گا وہ جل جل مرے گا۔۔۔

اور تم سکھ سکھ پائے گا۔۔۔۔"

خان بابا آہل کے کندھے پر ہاتھ دھڑے اسے سمجھاتے بولے۔۔۔

جبکہ خان بابا کی آنکھوں کی چمک دیکھ کر آہل مزید کچھ کہے بنا وہاں سے چلتا بنا۔۔۔۔

"امید ہے میری باتیں تمہارے دل پر نشان چھوڑے۔۔۔

اور یہ داغ میں روز لگاؤ گا اب۔۔۔

کبھی تو تم کا ارداہ بدلے گا آہل خان۔۔۔۔

آخر ہم بھی تمہارا دادا ہے۔۔۔۔"

خان بابا فاتحانہ مسکراہٹ لیے واپس اپنی نشست پر بیٹھے اور پرسکون انداز سے اخبار پڑھنے لگے۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"منہاء ایک بار پھر سوچ لو۔۔۔۔

مجھے آج بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔

یہ نہ ہو کل رات کی بیعزتی کا بدلہ وہ آج پورے آفس کے سامنے لے ہم سے۔۔۔۔"

ثمر نے گاڑی آفس کے سامنے روکی تو اڑتے رنگ لیے منہاء کی جانب دیکھا جس کا رنگ اس سے زیادہ فق تھا۔۔۔۔

"کیوں کس بات کا ڈر!!!!

محترمہ کو آج جو ڈر لگ رہا ہے۔۔۔

 کل جب مجھے جوش جذبے کے ترانے سناتے لے کر گئی تھی۔۔۔

تب کیا ماجرا تھا؟؟؟"

منہاء نے سنا تو بپھڑی۔۔۔۔

"تو مجھے کیا پتہ تھا کہ تم بھی پاک فوج کی مانند دشمن پر ٹوٹ پڑوں گی اور مکمل تباہ کر کے ہی آؤ گی۔۔۔۔"

ثمر نے سنا تو طنزیہ ہوئی۔۔۔۔

"پلیز ثمر اپنی مطالعہ پاکستان بند کرو ابھی۔۔۔

میرا دماغ بلکل سن ہے اس وقت۔۔۔

ناجانے کیا کہے گا ہمیں دیکھ کر؟؟'؟"

منہاء منہ میں انگلی دبائے مبہم ہوئی۔۔۔

"یقینا ہنسے گا۔۔۔

خوب ہنسے گا۔۔۔

اور پھر ہمیں زلیل کرے گا۔۔۔۔

ساری کسر نکالے گا۔۔۔۔

اور پھر کہیں جا کر ہمیں ہمارے ڈاکومنٹس واپس کرے گا۔۔۔"

ثمر نفی میں سر ہلائے روھنس ہوئی۔۔۔

"امی کی دعا ہے ساتھ۔۔۔

ان کا یقین ہے ساتھ۔۔۔۔

سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔

اللہ عزت دینے والا ہے اسکا حکم ہوا تو عزت ذلت جو نصیب میں ہوا آجائے گا سامنے۔۔۔۔"

منہاء ہاتھوں کا دعائیہ انداذ سے باندھے جوابا ہوئی اور پھر گاڑی سے باہر کو نکل آئی۔۔۔

جبکہ منہاء کو یوں جاتا دیکھ کر ثمر بھی فورا اس کے پیچھے کو لپکی۔۔۔

"منہاء!!!!!!!

منہاء!!!!!"

 منہاء اور ثمر جو ابھی اندر جانے کو ہی تھے بلال کی آواز سنتے ہی واپس پیچھے کو پلٹی۔۔۔

جو سانس پھولائے بھاگتا ہوا ان دونوں کی جانب آرہا تھا۔۔۔

"تم بات کرو اس سے۔۔۔

میں اندر جاتی ہو۔۔۔

اور پلیز جلدی آجانا اس سے پہلے ہٹلر ہماری موت کا پروانہ لے کر آجائے۔۔۔"

ثمر کہتے ساتھ ہی اندر کو بڑھی۔۔۔

جبکہ اب منہاء بلال کے روبرو سرد تاثرات لیے کھڑی اسے گھورنے لگی۔۔۔۔

"کوئی سلام دعا حال احوال؟؟؟؟

اس قدر ناراضگی ہے مجھ سے کے کوئی سوال نہیں؟؟؟؟"

بلال اپنی سانسیں بحال کرتے مسکرایا۔۔۔۔

"میرا پیچھا کر رہے تھے تم؟؟؟؟"

منہاء بدمست ہوئی۔۔۔۔

"نہ کرتا تو شاید تم مجھے آج بھی نہ ملتی!!!!"

بلال تاسف ہوا۔۔۔۔

"یہاں آنے کی وجہ؟؟؟؟"

منہاء بازوؤں باندھے اسے گھورتے بولی۔۔۔

"معافی مانگنا چاہتا ہو تم سے۔۔۔۔

میں مانتا ہو میں نے!!!!"

"معاف کیا اب جاؤ!!!!"

بلال جو مزید بولتا منہاء سرد ہوتے آگے کو بڑھی۔۔۔

"میری بات تو سنو یار!!!

کیوں اس قدر ناراض ہو رہی ہو تم اتنی بڑی کوئی بات نہیں جتنا تم بنا رہی ہو اسے!!!!"

بلال نے فورا جاتی منہاء کو بازو سے کھینچتے اپنی جانب کھینچا۔۔۔

"کیا کررہے ہو بلال؟؟؟؟

یہ  آفس ہے کیوں تماشا بنا رہے ہو میرا تم؟؟؟؟

چھوڑو مجھے سب دیکھ رہے ہیں!!!!"

منہاء اپنا بازو بلال کے ہاتھ سے کھینچتے پیچھے کو ہوئی۔۔۔

"اور اگر اتنی بڑی بات نہیں تو جاؤ یہاں. سے پھر معافی کیوں مانگ رہے ہو پھر مجھ سے"

جبکہ اب اردگرد گزرتا ہر شخص عجیب نظروں سے ان دونوں کو گھور رہا تھا۔۔۔۔

"دیکھو میں کسی بھی قسم کا تماشا لگانے نہیں آیا یہاں.۔۔۔۔

اور نہ ہی مجھے یہاں کسی سے بھی کوئی فرق پڑتا ہے۔۔۔۔

میں تم سے بات کرنا چاہتا ہو اور کر کے ہی رہو گا۔۔۔"

بلال منہاء کو بازو سے پکڑتے ایک جانب کھینچتے لے گیا۔۔۔

"کیوں سنوں میں تمہاری بات اور کس حیثیت سے؟؟؟؟

کیا تعلق ہے میرا تم سے اب!!!!!"

منہاء بلال کو انگلی دکھاتے سختی سے تنبیہہ ہوئی۔۔۔

"دیکھو بلال میں اس وقت آگے ہی بہت پریشان ہو مجھے مزید تنگ مت کرو۔۔۔۔۔"

جبکہ ایک بڑی سی مسکراہٹ سجائے بلال مسلسل اس کے گھومتے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

"جھوٹ !!!!

جھوٹ بولتی ہو تم!!!!

تعلق نہ ہوتا تو یہ انگوٹھی جو میں نے پہنائی تھی آج بھی اس ہاتھ ہی سینے نہ بنی ہوتی۔۔۔۔"

بلال منہاء کا ہاتھ دبوچے اپنے دل سے لگائے مسکرایا۔۔۔۔

"بھول ہے تمہاری!!!!

ابھی ختم کرتی ہو اس کا سلسلہ بھی۔۔۔۔

میں تمہیں کسی بھی قسم کی جھوٹی آس نہیں دلانا چاہتی۔۔۔

تو پکڑو اپنی یہ انگوٹھی اور نکلوں یہاں سے!!!!"

منہاء اپنی انگلی سے انگوٹھی نکالنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔

جبکہ بلال اب اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دبوچے اسے روکنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔

"یہ سب کیا ہو رہا ہے یہاں؟؟؟؟"

منہاء جو اپنا ہاتھ بلال کے ہاتھ سے نکالنے کی کوشش میں تھی پیچھے سے آنے والی آہل خان کی  گرج دار آواز کو سنتے ہی فورا سکوت میں آگئی اور اپنا ہاتھ بلال کے ہاتھ سے کھینچتے مبہم ہوئی۔۔۔۔

"آپ کو اس سے مطلب؟؟؟؟"

بلال جو کسی اور کی دخل اندازی کو دیکھ کر بگڑا آگے کو بڑھتے تیکھا ہوا۔۔۔

"مس منہاء میں کچھ پوچھ رہا ہو آپ سے!!!!؟؟؟

یہ سب کیا ہو رہا ہے یہاں؟؟؟؟"

آہل اب سناٹ ہوتے منہاء کے سامنے آن چیخا کہ سب دوبارہ ان کی جانب متوجہ ہوئے۔۔۔۔

"ک۔۔۔۔ک۔۔۔کچھ نہیں سر!!!!

وہ بس میں بات!!!!!"

منہاء نظریں. گرائے بھونچکا ہوتے وہاں سے تیز قدموں سے بھاگ کھڑی ہوئی۔۔۔۔

جبکہ منہاء کو یوں جاتے دیکھ کر بلال بھی اب پیچھے کو واپس قدم لیے بڑھا۔۔۔۔

"کون لگتی ہے یہ تمہاری جو تم اس کا ہاتھ تھامے کھڑے تھے؟؟؟؟"

آہل نے بلال کو جاتے دیکھا تو فورا تجسسی ہوا۔۔۔

"منگیتر ہے وہ میری۔۔۔۔

اور جلد ہی شادی ہونے والی ہے ہماری۔۔۔"

بلال جس کے قدم رکے تھے سوال سنتے ہی پلٹا اور  فاتحانہ مسکراہٹ سے آہل کے روبرو ہوا۔۔۔۔

"اوہ!!!!!"

آہل جس کیلئے یہ بات ناقابل یقین تھی اچک انداز ہوا۔۔۔

"اور آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں؟؟؟؟"

بلال تیکھی نظروں سے آہل کو گھورا۔۔۔

"اس کمپنی کا سی ای او اور ڈریکٹر ہونے کی حیثیت سے۔۔۔

میرا مطلب میری کمپنی میں کھڑے ہو کر جب یہ سب ہوگا تو میرا سوال کرنا لازم ہے۔۔۔

خیر بہت مبارک ہو آپ دونوں کو۔۔۔

مس منہاء نے بتایا نہیں کبھی۔۔۔۔

کہ وہ انگیجڈ ہیں!!!!"

آہل جو اس ہونے والے ادراک پر ہکا بکا سا رہ گیا تھا جلتے دیے کی مانند بھن سا گیا اور اسی جلتی حالت میں بلال سے مصاحفہ کیا دانت پسیجتے مسکرانے لگا۔۔۔۔

"وہ ایسی ہی ہے بس۔۔۔

اور بہت شکریہ اپکا۔۔۔

جب بھی شادی ہوئی اپکو ضرور بلاؤ گا۔۔۔۔"

بلال جو آہل کے چہرے تاثرات پڑھ رہا تھا ایک اور ضرب لگائے مسکرایا۔۔۔۔

جس پر آہل نے مزید رکنا مناسب  نہ سمجھا اور پھر مزید کچھ کہے وہاں سے شدت ہوتے تیز قدموں سے چلتا بنا۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

ثمر آہل کے کیبن کے باہر ہی کھڑی منہاء کے آنے کے انتظار میں تھی جب منہاء لیفٹ سے نکلتے ہی سیدھا اس کی جانب بھاگی۔۔۔ 

"یار وہ!!!!"

منہاء پھولی سانس لیے کھانسی۔۔۔

کہ ثمر نے فورا پانی اس کی جانب بڑھایا۔۔۔۔

جس پر دو گھونٹ بڑھتے ہی وہ دوبارہ بولنے کے قابل ہوئی۔۔۔

"کیا ہوا ہے ؟؟؟؟

کیوں پریشان ہو اتنا؟؟؟

کیا بلال نے کچھ کہا ہے؟؟؟؟

اس کی تو میں!!!"

ثمر بپھڑتے اٹھی۔۔۔

"نہیں یار۔۔۔۔

وہ آہل۔۔۔

آہل خان وہاں آگیا تھا جب میں بلال سے اپنا ہاتھ چھڑوا رہی تھی۔۔۔۔"

"کیا مطلب؟؟؟؟

تمہارا ہاتھ اس کے ہاتھ میں!!!؟؟

اور تم اس  سے اپنا ہاتھ چھڑوا رہی تھی کیوں؟؟؟"

ثمر بات کاٹتے ناسمجھی سے بولی۔۔۔

"یہ سب بعد میں بتاؤ گی یار۔۔۔

مجھے تو اب اور بھی ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔

کہ اب ناجانے وہ کیا کیا سوچے گا میرے بارے میں۔۔۔"

منہاء منہ میں انگلی دبائے داسہم ہوئی۔۔

"اور پتہ نہیں اس بلال نے کیا کہا ہوگا میرے متعلق؟؟"

 کہ ثمر جو اس سے پہلے کچھ کہتی لمبے ڈاگ بھرتے سرخ آنکھوں اور سرد تاثرات لیے آہل کو آتے دیکھ کر دونوں کا حلق خشک سا ہو گیا جو منہاء کو کاٹ کھانے کی نظروں سے مسلسل گھورتے آرہا تھا۔۔۔۔

"مس منہاء میرے کیبن میں ابھی اور اسی وقت!!!!"

آہل دانت پسیجتے منہاء کو اشارہ دیتے چنگارا اور پھر اندر کی جانب دھرم کرتا بڑھا۔۔۔۔

"ثمر!!!!!"

منہاء نے آہل کا غصہ بھانپا تو ثمر کا ہاتھ مضبوطی سے دبوچے روہانسی ہوئی۔۔۔

"کچھ نہیں ہوتا ریلیکس کر۔۔۔

تو تو شیرنی ہے ناں۔۔۔

بس شیرنی والے کام کر۔۔۔۔

بہادر بن کر جاؤ اور جنگ جیت کر آؤ۔۔۔"

ثمر منہاء کو تھپکی بھرے بولی۔۔۔

"اور تیری یہی باتیں مجھے اس قدر بھڑکا دیتی ہے کہ میں ہر بار آہل خان کو منہ کی مات دے کر آتی ہو۔۔۔۔

مگر اب اپنی یہ باتیں بند کر۔۔۔

مجھے امی کی باتیں سوچنے دے جو انہوں نے مجھے سمجھائی تھی۔۔۔

کیونکہ تیری باتوں پر چلی نہ تو اگلی ملاقات ہماری جیل میں ہوگی۔۔۔"

منہاء ثمر کو خود سے پیچھے کرتے سخت ہوئی اور پھر ایک گہرا سانس بھرتے اندر کو بڑھی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل جو پہلے ہی خان بابا کی باتوں سے پریشان آیا تھا اب منہاء کی منگنی کا سن کر وہ جل بھن سا گیا کہ اپنی کرسی پر بیٹھنے کی بجائے وہ پورے کمرے کی چکر کاٹنے لگا۔۔۔۔

"مے آئی کمنگ سر!!!؟؟؟"

منہاء جو خود بھی ڈر رہی تھی حوصلہ کرتے دستک دیتے گو ہوئی۔۔۔

"یس کمنگ!!!!"

آہل نے منہاء کی آواز سنی تو خود کو نارمل کرتے واپس اپنی کرسی پر ٹھاٹ جمائے بیٹھ گیا۔۔۔

منہاء آہل کی آواز سنتے ہی ڈرے سہمے قدموں سے اندر کی جانب بڑھی اور نظریں گرائے سیدھا آہل کے روبرو جا بیٹھی۔۔۔۔۔

جو دروازے سے کرسی تک منہاء کو اپنی نظروں کے حصار لیے گھور رہا تھا۔۔۔

"سر وہ میں!!!!!"

منہاء بمشکل لفظوں کو سمیٹتے بولی۔۔۔

"جی مس منہاء میں سن رہا ہو آپ بولیے کیا کہنا چاہے گی اپنی صفائی میں؟؟؟؟"

آہل زچ ہوئے سرد ہوا۔۔۔۔۔

"جی سر وہ میں !!!"

منہاء کیلئے آہل کی نظروں کا سامنا کرنا کسی عذاب سے کم نہ تھا مگر ناز بی کے بھروسے نے اسے حوصلہ دیے رکھا۔۔۔۔

"میں بس معافی مانگنا چاہتی ہو۔۔۔

جو بھی کل رات ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔۔

مجھے وہاں نہیں آنا چاہیے تھا اور وہ سب نہیں کہنا چاہیے تھا۔۔۔۔"

منہاء کی زبان کہتے لڑکھڑا سی گئی۔۔۔

"کیا کیا کہا آپ نے؟؟؟؟"

آہل نے منہاء کو یوں سر گرائے دیکھا تو طنزیہ اور فخریہ لہجے سے سیدھا ہوتے کرسی پر سنگین مسکراہٹ سجائے بولا۔۔۔

"مجھے سنائی نہیں دیا!!!!

مجھے لگا جیسے میں نے کچھ غلط سنا ہے۔۔۔

کیا آپ پلیز دوبارہ دہرائی گی اپنی بات کو۔۔۔

مس منہاء!!!"

آہل لفظ چبائے گو ہوا۔۔۔۔

"سر وہ میں معافی!!!'

منہاء جو آہل کی چالاکی سمجھ چکی تھی بے بسی سے بولی ۔۔۔۔۔۔

"اوہ!!!

تو آپ شرمندہ ہیں!!!!

مجھے لگا میں نے شاید کچھ غلط!!!!!"

آہل اپنی کرسی سے اٹھتے طنزیہ قہقہ آور ہوا۔۔ 

"مطلب مس منہاء منور جنھوں نے نام بدلنے کی قسم کھائی تھی آج میرے ہی ساتھ شرمندہ ہے۔۔۔۔

آئی لوو اٹ!!!"

آہل ہنس رہا تھا جبکہ منہاء بناء کچھ کہے سر گرائے خاموش رہی۔۔۔۔

"معافی آپ نے مانگی۔۔۔

اپکا بنتا تھا۔۔۔

مگر معاف میں کرو یہ تو لازم نہیں ناں!!!!"

آہل میز پر جھکتے منہاء کو دیکھتے ہنسا۔۔۔۔

"سر میں سچ میں شرمندہ ہو۔۔۔۔

آپ چاہے تو میں آپ کے دادا کے سامنے بھی معافی مانگ سکتی ہو۔۔۔ 

مگر میری وجہ سے ثمر کو سزا مت دے۔۔۔

وہ بے قصور ہے بس میری نادانی اور ناسمجھی کی وجہ سے پھنستی۔چلی گئی۔۔۔ 

اور میرے ساتھ کی وجہ سے پھنستی گئی۔۔۔"

منہاء مبہم ہوئی۔۔۔

جبکہ آہل کو اس بپھڑی شیرنی کی دم پر پاؤں رکھنے میں بہت مزہ آرہا تھا۔۔۔۔

''تو آپ سچ میں ان کے سامنے مجھ سے معافی مانگنے کو تیار ہے؟؟؟؟

اوہ واؤ۔۔۔۔۔

کل۔مجھے لڑکارنے والی آج اپنی ہار تسلیم کرتی ہے۔۔۔۔

گریٹ!!!"

آہل مسکرایا۔۔۔

"جی سر میں تیار ہو!!!!

کیونکہ میری امی نے کہا جو کام سکون اور آرام سے ہوسکتا اسے اسی طرح۔۔۔۔

اور میں وہی کرنے کی کوشش میں. ہو۔۔۔۔"

منہاء نے سنا تو تاسف ہوئی۔۔۔۔

"ہمممم۔۔۔

یہ تو بہت اچھی بات ہے پھر۔۔۔

چلے اس وجہ سے میں ثمر کے ڈاکومنٹس واپس کر دیتا ہو۔۔۔۔"

آہل مزے سے کرسی پر بیٹھتے سوچتے گو ہوا۔۔۔

جسے سنتے ہی منہاء کے چہرے پر اطمینان سا چھلکا۔۔۔

"مگر!!!!!"

آہل جو اب کچھ اخیر سوچ چکا تھا منہاء کا سکون ایک دم اڑ سا گیا۔۔۔۔

"مگر کیا سر؟؟؟؟"

"اپکو اس آفس میں جاب کرنی ہو۔۔۔۔

اور وہ تب تک جب تک میں چاہو گا۔۔۔۔

اگر منظور ہے تو بتائیے ورنہ ثمر کے ڈاکومنٹس بھی بھول۔جائیے۔۔۔۔"

آہل نے اپنا آخری پتہ پھینکا جس کو دیکھتے ہی منہاء ہکا بکا نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔

"یہ کیا؟؟؟

میرا مطلب جاب؟؟؟؟"

منہاء ششدر نظروں سے دیکھتے ہکلائی۔۔۔۔۔

"یہ اپکی مرضی ہے۔۔۔۔

کیونکہ میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا۔۔۔

آپ چاہے تو مجھے کل تک جواب دے سکتی ہے۔۔۔

مگر اس سے زیادہ مجھ سے امید مت رکھیں۔۔۔

تو اب آپ جا سکتی ہے وہ ہے دروازہ۔۔۔۔"

آہل نے منہاء کی پریشانی دیکھی تو مزے لیتے دروازے کی جانب اشارہ دیا۔۔۔

جس پر منہاء حواس باختگی سے کچھ سوچتے اٹھی اور  بناء کچھ کہے وہاں سے نکل پڑی۔۔۔ 

جبکہ منہاء کو یوں پہلی بار زیر کرنے پر آہل خوشی سے نہال کرسی پر جھوم سا گیا تھا۔۔۔

اور پھر فاتحانہ مسکراہٹ لیے واپس اپنے کام کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔۔۔

منہاء منہ لٹکائے آہل کے کیبن سے باہر نکلی تو ثمر جو اس کے انتظار میں. دانت چبائے بیٹھی تھی فورا اس کی جانب لپکی۔۔۔۔

"کیا ہوا ہے اندر اب؟؟؟؟

سب ٹھیک تو ہے ناں؟؟؟؟

پلیز میں بلکل یہ سننا نہیں چاہتی کہ اندر پھر کوئی دنگل مچا ہے۔۔۔۔

کہیں تم نے اس کا سر ور تو نہیں پھاڑ ڈالا؟؟؟؟!"

ثمر منہاء کی خاموشی اور اترے چہرے کو دیکھتے ہانپتی بولی۔۔۔۔

"سب ٹھیک ہے یار!!!!

کچھ نہیں ہوا ہے ایسا جیسا تم سوچ رہی ہو۔۔۔۔

نہ کوئی دنگل اور نہ ہی کوئی خون خرابہ۔۔۔۔"

منہاء مرے لہجے سے بولی۔۔۔۔

"اچھا اگر ایسا ہے تو پھر چہرے پر بارہ کیوں بجے ہیں تمہارے؟؟؟

جیسے اس نے تمہیں نوکری کی آفر کردی ہو۔۔۔۔"

ثمر بازوؤں باندھے طنزیہ ہوئی۔۔۔۔

"تمہیں کیسے پتہ چلا؟؟؟؟۔۔۔۔

کیا تم کان لگائے سن رہی تھی ہماری باتیں؟؟؟؟"

منہاء حیرت ذدہ ہوئی۔۔۔

"کیا مطلب کیا سچ میں ایسا ہی کہا اس نے؟؟؟؟؟؟"

 ثمر نے سنا تو مارے ششدر پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔

"او تیری خیر!!!!

یار میں نے تو بس یونہی کہا تھا۔۔۔۔

اففففففففففف اللہ۔۔۔۔"

ثمر سر پیٹتے گو ہوئی۔۔۔۔

"میرے منہ میں خاک ۔۔۔۔

اماں سہی کہتی ہے کہ میری کالی زبان ہے۔۔۔۔

جو بولتی ہو سچ ہوجاتا ہے۔۔۔۔"

"بلکل ٹھیک کہتی ہے آنٹی ۔۔۔۔

کہ تم سچ میں ہی کالی زبان کی مالک ہو۔۔۔۔"

منہاء جو پہلے ہی آہل کی باتوں سے زچ تھی ثمر کی بات  سنی تو ایک دم پھٹتے لاوے مانند چنگاری۔۔۔۔

"منہاء!!!!"

ثمر نے سنا تو ہکا بکا ہوئی۔۔۔

"صیحح کہہ رہی ہو میں ۔۔۔۔

تمہارے کہنے پر چل چل کر ہی یہاں تک پہنچ گئی ہو میں۔۔۔۔

کہ اس کھڑوس اور بدماغ انسان کے سامنے مجھے جھکنا پڑا۔۔۔۔"

منہاء نم آنکھیں لیے ثمر کو گھوری۔۔۔۔

"اس انسان کے سامنے جس سے مجھے شدید نفرت ہے۔۔۔

جو اس لائق نہیں جس سے مسکرا کر بھی بات کی جائے مجھے اس سے معافی مانگنا پڑی!!!!

تمہیں پتہ ہے کس قدر اذیت تھی میرے لیے اس سے معافی مانگنا۔۔۔۔"

منہاء ثمر کو دبوچے بپھڑی!!!

"نہیں تمہیں نہیں پتہ۔۔۔

تم محسوس بھی نہیں کر سکتی وہ جو   اس کی طنزیہ مسکراہٹ کو دیکھتے میں محسوس کررہی تھی۔۔۔

وہ مجھ پر ہنس رہا تھا اپنی جیت کا جشن منا رہا تھا۔۔۔

اور میں بس خاموش تھی بلکل خاموش!!!!"

منہاء طنزیہ مسکراہٹ ہوئی۔۔۔

"دل تو بہت کیا کہ منہ نوچ لو میں اسکا جو مجھ پر ہنس رہا ہے مگر  میں چپ رہی۔۔۔

سر جھکائے ںیٹھی رہی صرف تمہاری وجہ سے اور امی کی وجہ سے!!!!!"

منہاء جو آہل کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان ہو گئی تھی 

اپنا چہرہ ہاتھوں میں. بھرے چہرے لمبے لمبے سانس بھرنے لگی۔۔۔

جبکہ ثمر خاموشی سے کھڑی اس کو سرخ پڑتا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

"ہو گیا کہ اور ہے!!!!

اگر ہے تو بولو۔۔۔۔

سب کہوں جو کہنا چاہتی ہو۔۔۔"

ثمر نے منہاء کو خاموش دیکھا تو اس کو کندھے سے تھامے حوصلہ گو ہوئی۔۔۔

"میں چاہتی ہو تم دل سے سارا غبار نکالو۔۔۔۔

ورنہ یونہی کاٹنے کو پڑو گی سب کو۔۔۔۔

اور سب کو خود سے بدظن کرتی رہو گی۔۔۔۔"

"میں تھک گئی ہو یار!!!!

اس عذاب سے تنگ آگئی ہو میں۔۔۔"

منہاء ثمر کو خود سے لگائے بے بس سی ہوئی۔۔۔

"اس آہل نامی برے وقت نے میری زندگی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔۔۔

اور میں بس بہہ رہی ہو اس وقت میں۔۔۔

جس میں میرے لیے نہ کوئی سہارا نہ کوئی کنارہ!!!!"

"سب ٹھیک ہو جائے گا منہاء!!!!

لازم نہیں ہر کہانی انسان ہی لکھے۔۔۔۔

تقدیریں اور اصل کہانیان بننے والی ذات وہ ہے۔۔۔

جو تم سے اور مجھ سے بہتر جانتا ہے کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔۔۔۔

ہم جتنا کرسکتے تھے کرتے رہے۔۔۔

اب اس پر چھوڑ دو۔۔۔۔

شاید سکون مل جائے گا اس طرح!!!"

ثمر نے منہاء کی مایوسی کو محسوس کیا تو خود سے الگ کرتے سمجھانے لگی۔۔۔

جبکہ منہاء خاموش کھڑی سب سنتی رہی۔۔۔۔

"خیر چھوڑو۔۔۔۔

گھر چلتے ہیں اب۔۔۔۔

پھر گھر جا کر بات کرو گی تم سے جب تم بلکل ریلیکس ہوجاؤ گی۔۔۔

ٹھیک ہے!!!"

ثمر نے منہاء کی گال کو پیار سے چھوتے بولی جس پر مصنوعی مسکراہٹ لیے وہ حامی میں سر ہلائے جوابا ہوئی۔۔۔

اور پھر دونوں وہاں پر مزید رکے چلتی بنی اس بات سے بے خبر کہ دروازے کے اس پار کان لگائے کھڑا آہل دونوں کی باتوں سے محظوظ ہوتے ہنس رہا تھا اور پھر ان دونوں کے جانے کے بعد واپس مسکراتے ہوئے اپنی نشست پر براجمان ہوا۔۔۔۔

"برا وقت!!!!!"

آہل قہقہ آور ہوتے واپس اپنی کرسی کی جانب بڑھا۔۔۔۔

"صیحح پہچانا مجھے مس منہاء منور !!!!

یہ برا وقت بھی تم نے خود ہی چنا ہے تو سہنا بھی خوب پڑے گا۔۔۔

اس کھڑوس اور بدماغ انسان سے اتنی آسانی سے تمہیں چھٹکارا نہیں ملے گا!!!!!"

آہل حقارت لہجے سے سنگین ہوا۔۔۔

"کیونکہ جب تک مجھے تمہارے آنے کا مقصد نہیں معلوم ہوجاتا۔۔۔

تم یونہی میرے قابو میں رہو گی۔۔۔۔

اور اب تو اس کھیل کو کھیلنے میں اور بھی مزہ آئے گا۔۔۔

اور میں اس کھیل کے اختتام کا انتظار کررہا ہو۔۔۔۔"

آہل دل ہی دل میں سوچتے مسکرایا اور پھر واپس منہاء کی سی وی نکالے اس کو دیکھنے لگا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء کو آفس سے واپس آئے اب دو گھنٹے ہو چکے تھے۔۔۔

اور جب سے وہ آئی تھی اپنے بستر پر لیٹی سکون سے خواب خرگوش کے مزے چکھ رہی تھی۔۔۔

کہ تبھی ناز بی اس کے کمرے میں سانس پھولائے داخل ہوئی۔۔۔۔

"منہاء!!!!!

اٹھو بیٹا!!!!

دیکھو کون آیا یے تم سے ملنے!!!!

چلوں شاباش اٹھو جلدی!!!"

ناز بی کے ہلانے پر منہاء جاگ بھرے کھسکی۔۔۔

اور پھر نیند میں گم آنکھوں کو ملتے وہ بمشکل ہوش ہاتھوں سے سہارا لیے اٹھی۔۔۔۔

"ک۔۔۔۔ک۔۔۔کون آیا ہے امی؟؟؟؟

جو بھی ہے اسے کہے بعد میں آئے میں سو رہی ہو ابھی۔۔۔

آگے ہی سر میں بہت درد ہے میرے۔مجھے نہیں کسی سے بات کرنی ابھی!!!"

منہاء کہتے ساتھ ہی واپس اپنا تکیہ پلٹے لیٹی.۔۔۔۔

"ہوووووو!!!

منہاء کوئی ملنے آیا ہے اور اسے میں یہ کہوں!!!!

کتنی بری بات ہے بیٹا!!!!

اور ویسے بھی یہ سونے کا کوئی وقت نہیں!!!!

فورا اٹھو اور چلوں باہر تب تک میں چائے کا انتظام کرتی ہو۔۔۔

شاباش اٹھو اور فریش ہو کر باہر آؤ۔۔۔۔"

ناز بی منہاء کو بازو سے کھینچتے اسے دوبارہ بیٹھا کر واپس باہر کی جانب بڑھی۔۔۔۔

جبکہ نیند میں گم منہاء چڑچڑے پن سے منہ بسورے بے دل ہوتے اٹھی اور سیدھا واش روم کی جانب بڑھی۔۔۔۔

بہت معذرت بیٹا!!!!

آپ کو انتظار کرنا پڑا۔۔۔۔

ناز بی ہاتھ میں ٹرے تھامے صحن کی جانب بڑھی جہاں بلال منہاء کے انتظار میں بیٹھا مسلسل اس کی راہ تک رہا تھا۔۔۔۔

"سو رہی تھی جب سے آفس سے آئی تھی بس میں نے ابھی اٹھایا ہے اسے۔۔۔۔

فریش ہو کر آ ہی رہی ہوگی۔۔۔

آپ تب تک چائے پیوں۔۔۔"

"آپ مجھے پہلے بتا دیتی آنٹی کہ وہ سو رہی ہے تو میں تنگ نہ کرتا اسے۔۔۔۔

بعد میں آجآتا اس سے ملنے۔۔۔

اب آئے گی تو مزید بھڑکے گی مجھ پر کہ میری وجہ سے نیند ٹوٹ گئی اس کی۔۔۔۔"

بلال تاسف بھرے مسکرایا۔۔۔

"ایسے کیسے بھڑکے گی۔۔!!!

بھلا یہ سونے کا وقت ہے اسکا۔۔۔۔

آپ رکوں بلکہ میں اسے دوبارہ دیکھ کر آتی ہو۔۔۔۔

پتہ چلے محترمہ دوبارہ سو گئی ہے لمبی تان کر۔۔۔۔"

ناز بی مسکراہٹ دیتے ساتھ ہی اٹھی کہ سامنے سے منہ صاف کرتی منہاء پر نظر پڑی۔۔۔۔

جس کے تاثرات بلال کو دیکھتے ہی بگڑ گئے۔۔۔۔

"یہ کیا کررہا ہے یہاں امی؟؟؟؟

اور آپ نے اسے اندر بھی کیسے آنے دیا!!!!

نکالے اس شخص کو باہر جس سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔۔۔۔"

منہاء کاٹ کھانے کو بلال کی جانب بڑھی۔۔۔۔

جو چائے کا گھونٹ بڑھتے بڑھتے رہ گیا تھا۔۔۔

"منہاء یہ کیا بد تمیزی ہے بیٹا؟؟؟

وہ آیا ہے تم سے ملنے اور تم اسے نکل جانے کا کہہ رہی ہو!!!؟؟"

"امی آپ نہیں جانتی اس منافق انسان کو۔۔۔۔

یہ میرے سامنے کچھ ہوتا ہے اور اپنی ماں کے سامنے کچھ۔۔۔"

منہاء نے سنا تو ناز بی کے سامنے لال پیلی ہوئی۔۔۔

"اس سے پہلے میں امی کے سامنے سب کچھ اگلوں۔۔۔

اور یہ تمہیں خود دھکے دے کر نکالے۔۔۔

نکل جاؤ میرے گھر سے ابھی اور اسی وقت۔۔۔۔"

منہاء اب بلال کے روبرو سناٹ ہوتے دروازے کی جانب اشارہ کرتے بولی۔۔۔۔۔

"وہ مجھے سب کچھ بتا چکا ہے اور معافی بھی مانگ چکا ہے۔۔۔

اور میں نے معاف کردیا ہے اسے۔۔۔

بہتر ہے تم بھی معاف کردو اور سب بھول جاؤ۔۔۔۔

کوئی اتنی بڑی بات نہیں تھی جس کی وجہ سے تم یہ رشتہ ختم کرنے پر ضد کرو۔۔۔۔"

ناز بی جو پیچھے ہی کھڑی تھی صاف گو ہوئی۔۔۔۔

"امی آپ کیسے؟؟؟!!!!

آپ سب جان کر بھی کیسے؟؟؟"

منہاء نے سنا تو ششدر ہوئی۔۔۔۔

"اور یہ کیوں اتنی بڑی بات نہیں ہے امی۔۔۔۔

کیا آپ کی بیٹی اتنی گری پڑی ہے کہ کوئی بھی آ کر اسے کچھ بھی کہتا رہے سناتا رہے اور وہ بس سر گرائے ہاں ہاں کرے۔۔۔

نہیں ہرگز نہیں۔۔۔۔

آپ معاف کر سکتی میں نہیں!!!!"

منہاء حف ہوتے چنگاری۔۔۔۔

"تم بیٹھو بلال۔۔۔۔

اور جب تک میں نہ کہوں کہیں مت جانا۔۔۔

اس لڑکی کا دماغ میں سیٹ کر کے لاتی ہو۔۔۔

بیٹھو شاباش!!!!"

ناز بی بلال کو کہتے شدت ہوتی منہاء کا ہاتھ پکڑے سیدھا اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔۔۔

جبکہ بلال واپس اپنی جگہ پر بیٹھے چائے کی میٹھی چسکیاں بھرنے لگا۔۔۔۔

"امی آپ نہیں جانتی اس کی امی نے مجھے کیا کیا کہا. ہے؟؟؟؟

آپ سن لیتی تو اس شخص کیلئے کبھی دروازہ نہ کھولتی۔۔۔

مگر کوئی بات نہیں اب آگیا ہے تو میں اسے نکال کر ہی دم بھرو گی میں ۔۔۔۔

ابھی اسے مزہ چکھا کر آتی ہو۔۔۔"

منہاء کہتے ساتھ ہی باہر کی جانب بڑھنے کو ہوئی کہ ناز بی نے فورا اس کا ہاتھ تھامتے اس کے قدم روک ڈالے۔۔۔

"بس کردو منہاء!!!!

اور کتنا خود کا نقصان کرو گی اب۔۔۔"

"امی آپ ابھی بھی مجھے بس کرنے کا کہہ رہی ہے!!!!

کیوں؟؟؟؟

میرا اعتماد ٹوٹا ہے امی!!!"

منہاء نم آنکھوں سے سرد ہوئی۔۔۔

"محبت کرتا ہے تم سے۔۔۔

اگر نہ کرتا تو کبھی واپس نہ پلٹتا۔۔۔

اپنی ماں کی ہی سنتا اور چھوڑ جاتا تمہیں۔۔۔۔"

"کوئی محبت نہیں کرتا بس ڈرامہ ہے یہ سب۔۔۔۔

محبت کیا ایسی ہوتی ہے؟؟؟

اتنے کچے کانوں کا مالک یہ شخص کہ میری سنے بناء رشتہ ختم کردیا۔۔۔۔

میرا بھروسہ ڈگمگا گیا ہے اور کہہ رہی ہے کہ میں بس کرو!!!

کیوں ؟؟؟؟؟"

منہاء کا آنسوں بہا تو ناز بی بھی اس کو دیکھتے اداس ہو گئی۔۔۔۔

"کیونکہ میں کہہ رہی ہو!!!!"

ناز بی منہاء کے چہرے کو تھامے محبت انداز ہوئی۔۔۔

ڈمانتی ہو تم ٹھیک ہو اپنی جگہ مگر موقع اور حالات کی نذاکت سمجھو منہاء۔۔۔۔

میرے پاس تمہارے مستقبل کیلئے اور کوئی چراغ نہیں سوائے بلال کے۔۔۔۔

اگر وہ بھی بجھ گیا تو میں کیسے اس دنیا میں تمہیں تن تنہا چھوڑ کر جاؤ گی۔۔۔۔

میں تو مر کر بھی بے چین رہو گی میری جان!!!!"

ناز بی فرط جذبات ہوئی۔۔۔

"امی!!!!!"

منہاء نے سنا تو تڑپ سی گئی۔۔۔

"بس کرے پلیز!!!

اللہ اپکو میری عمر بھی لگا دے۔۔۔

پلیز ایسی باتیں کر کے مجھے مت ڈرایا کرے۔۔۔۔

میں آپ کے بغیر جی نے کا تصور نہیں کر سکتی اور آپ ہے کہ!!!"

منہاء فورا ناز بی سے لگتے روہانسی ہوئی۔۔۔۔

"جو حق ہے وہ حق ہے۔۔۔۔

اب بس جہاں اتنا اپنی ماں کی مان رہی ہو۔۔۔

وہاں بلال کو معاف کر کے ماں کا مان بھی رکھ لو۔۔۔۔"

ناز بی منہاء کے چہرے کو تھامے گو ہوئی۔۔۔۔

جبکہ. منہاء بس خاموشی سے کھڑے ناز بی کے چہرے پر بکھری ہزاروں پریشانیوں اور فکر کو پڑھنے لگی۔۔۔

"ٹھیک ہے!!!!"

منہاء کچھ سوچتے بولی جس پر ناز بی منہاء کی پیشانی کر بوسہ بھرتے مسکرائی۔۔۔۔

"اچھا اب خود کو سیٹ کر کے واپس آجاؤ باہر۔۔۔۔

انتظار کررہا ہے وہ تمہارا۔۔۔

اور اب آرام سے بات کرنا اور اس کی سننا۔۔۔

شاباش جلدی آجاؤ۔۔۔"

ناز بی کہتے ہی باہر کو نکلی۔۔۔۔

جبکہ منہاء ابھی تک یونہی کھڑی نفی میں سر ہلانے لگی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل آفس سے آج جلدی گھر کی جانب بڑھا۔۔۔۔

جیسے ہی لاونچ میں. داخل ہوا خان بابا کو دیکھتے ہی نظر پھیرتے اندر کو بھاگا۔۔۔۔

"کوئی ہم سے چھپ رہا ہے۔۔۔

مگر یہ کوئی جانتا نہیں ہم کو۔۔۔

کہ ہم سب کو دیکھتا ہے۔۔۔۔

اور سب جانتا ہے۔۔۔۔"

خان بابا جو بظاہر آہل کو دیکھ نہیں رہے تھے دبی مسکراہٹ لیے گو ہوئے۔۔۔۔

"آپ سے کوئی نہیں بچ سکتا۔۔۔۔

اس بات کا اندازہ یقین میں بدلتا جا رہا ہے میرے۔۔۔۔"

آہل نے سنا  تو ہنستے ہوئے سیدھا ان کے روبرو آ بیٹھا۔۔۔۔

"تو کیا سوچا پھر؟؟؟؟

کیا ارادہ ہے اب تمہارا!!؟؟؟

کیا یونہی تم۔روز ہم سے چھپتا پھرے گا؟؟؟

یا کوئی سیدھا جواب بھی دے گا ہمیں؟؟؟"

خان بابا دوٹوک اس کو دیکھنے لگے۔۔۔

"کس حوالے سے دادا؟؟؟؟'

آہل نے اپنی کا گلاس تھاما جو افگن اس کے سر پر لیے کھڑا تھا۔۔۔۔

"اس کی آمد کا کس قدر خبر ہے تم کو افگن۔۔۔۔

مجھے تو لگتا ہے تم نے جن چھوڑ رکھا ہے آہل کے پیچھے۔۔۔"

خان بابا جن کا حد درجہ بیر تھا ایک بار پھر افگن کے پیچھے ہاتھ دھوتے بھاگے۔۔۔۔

"نہیں صاحب جی ان کی گاڑی کی آواز سن چکا تھا میں۔۔۔

اس سے پہلے یہ مجھے بلاتے میں نے خود ہی آنا مناسب سمجھا۔۔۔۔"

گل افگن دانت دکھائے بولا۔۔۔۔

" مکھن کی دکان کبھی ہم بزرگ پر بھی تھوڑا ملائی لگا دیا کرو تم!!!!

اس کی انہی حرکتوں کو دیکھ کر ہم تمہیں کہتا ہے کہ شادی کرلو تم آہل۔۔۔

مگر نہیں تمہیں تو افگن کی شکل کا ریڈی میڈ زوجہ ملا ہوا ہے۔۔۔۔

ہماری کہاں سنے گا پھر۔۔۔۔"

خان بابا ناراضگی ظاہر کرتے بولے۔۔۔

"ایسے ہی پورا دن مجھے بولتے رہتے ہیں بڑے صاحب جی۔۔۔

اب اپکی خدمت کے ہی پیسے لیتا ہو حرام کیوں کرو اس کو۔۔۔۔"

افگن منہ بسورے بولا۔۔۔

"اچھا تم جاؤ افگن۔۔۔۔

تم تو بناء وجہ ہی دھڑ لیے جاتے ہو ورنہ یہ سب میرے لیے ہی ہوتا ہے۔۔۔"

آہل نے گلاس افگن کو تھمایا جس پر وہ منہ لٹکائے وہاں سے چلا گیا۔۔۔

"ہمارا سوال کا جواب تم نے ابھی تک نہیں دیا بگولہ خان۔۔۔۔

تم ہم کو بتا دے۔۔۔

کہ تم شادی کرے گا یا پھر ہم اپنا بندوبست کرے؟؟؟"

خان بابا سنگین ہوتے اٹھے۔۔۔۔

"آپ ہی کر لے اپنا بندوبست۔۔۔۔

کہے تو رشتہ سینٹر والوں کو تصویر بھیج دو اپکی۔۔۔

دیکھیے گا جوان جوان لڑکیاں مرے گی آپ کیلئے۔۔۔"

آہل ہنستے ہوئے اٹھا اور سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔۔۔۔

"بہت ہی کمینہ شخص ہے تو آہل!!!

اپنی مرحوم دادی پر سوکھن لانے کا سوچتا ہے۔۔۔۔

دیکھ لو دلبر تمہارا پوتا ہی ایسا کہہ رہا ہے۔۔۔

ورنہ ہم تو تم سے آج بھی عشق کرتا ہے۔۔۔۔"

خان بابا اوپر کی جانب نظریں اٹھائے تاسف ہوئے۔۔۔

جبکہ آہل یونہی ہنستے ہوئے اوپر کی جانب بڑھنے لگا۔۔۔

"ہم اس سوال کا جواب تم سے لے کر رہے گا آہل۔۔۔۔

چھوڑے گا نہیں ہم تم کو۔۔۔

ہم بھی پٹھان ہے پٹھان۔۔۔۔

جس کے پیچھے پڑ جاتا ہے اس کو ختم کر کے چھوڑتا ہے۔۔۔"

خان بابا اپنی سفید مونچھوں کو فخریہ تاؤ بھرے بولے۔۔۔

جبکہ اب تک آہل وہاں سے جا چکا تھا۔۔۔۔

آہل جو مسکراتے ابھی اپنے کمرے میں داخل ہی ہوا تھا کہ تبھی ایک نمبر سے اس کا فون بجنے لگا۔۔۔۔

جسے دیکھ کر آہل پہلے تو سوچ میں پڑا مگر پھر فورا اٹھاتے کان سے لگا لیا۔۔۔۔

"کیوں کیا ایسا تم نے؟؟؟؟

کیوں؟؟؟؟؟

تم تو محبت کرتے تھے نہ مجھ۔۔۔۔

عشق کا نام بھرتے تھے ناں!!!!

تو کیوں کیا پھر ایسا؟؟؟

کیوں میرا گھر تباہ کر دیا تم نے آہل؟؟؟؟؟"

ہما جو روتے بلکتے چیخ رہی تھی بلبلائی۔۔۔۔

"اپنے گھر کی بربادی کا ذمہدار تم خود ہو۔۔۔۔

اور صرف اپنی ہی نہیں میری زندگی کی تباہی بھی تمہارے گناہوں میں شامل ہے۔۔۔۔"

آہل جس کے تاثرات اب زہر آلود تھے سخت سرد ہوا۔۔۔

"طلاق دے دی مجھے منیر!!!!!

چھوڑ دیا اس نے مجھے صرف تمہاری وجہ سے۔۔۔۔

تم ذمہ دار ہو اس کے لیے صرف تم!!!!!"

ہما اپنے گناہوں کا بوجھ آہل کے کندھوں پر ڈالے شدت ہوئی۔۔۔

"ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔۔۔

ہو میں ذمہ دار۔۔۔

اس منیر کو تمہارے شر سے بچایا ہے میں نے۔۔۔

تو بلکل ہوں میں ذمہ دار۔۔۔۔

کیونکہ تم اسی لائق ہو۔۔۔

ایک مرد کی جھوٹ جو پیسوں کیلئے کسی دوسرے مرد کے بستر پر پہنچ جائے۔۔۔"

آہل ہما کو آئینہ دکھاتے حقارت بھرے بولا۔۔۔

'آہل!!!!!!

حد میں رہو اپنی!!!!

پہلے مجھے ہوتا تھا کہ میں نے تمہارے ساتھ غلط کیا مگر اب کہتی ہو تم تھے ہی اسی لائق۔۔۔

کہ تمہیں استعمال کیا جائے اور دھتکارا جائے۔۔۔

اور اب میں آزاد ہو یہ بات مت بھولنا۔۔۔۔

کیونکہ اب چھوڑو گی نہیں میں تمہیں۔۔۔۔

جس طرح تم نے مجھے تباہ کیا ہے ناں۔۔۔

میں تمہیں بھی خاک میں ملاؤ گی۔۔۔"

ہما جنونی ہوتے لڑکاری۔۔۔۔

'"تباہ تو تم مجھے بہت پہلے ہی کر چکی ہو۔۔۔۔

مگر اب سوچنا بھی مت۔۔۔

کیونکہ جو مہرا تم میرے خلاف استعمال کررہی ہو ناں اب۔۔۔

اس کو تو میں ایسا مزہ چکھاؤ گا کہ روئے گی وہ اور تراہ تمہارا نکلے گا۔۔۔۔

اور پھر پوچھو گا مٹی میں کون ہے اور آسمان پر کون۔۔"

آہل غیظ و غضب سے بولتے سیخ پا ہوا اور فون بند کرتے اپنے بیڈ کی جانب بڑھا۔۔۔

اور سر پکڑے بیٹھ گیا۔۔۔۔

"میں بلکل ایسا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔

کہ تم تباہ ہو۔۔۔۔

مگر جو جیسا کرتا ہے وہ بھرتا بھی۔۔۔

تم جو کرنا چاہتی تھی بس میں نے وہ روکا ہے۔۔

مگر اب کچھ کیا تو جواب بھرپور دونگا۔۔۔۔"

آہل دل ہی دل میں سوچتے نم آنکھ ہوا اور ایک ننھا آنسوں جو گال پر بہا فورا بے دردی سے صاف کرتے فریش ہونے کو بڑھا۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"حیرت ہے آنٹی نے آج مجھے تمہارے ساتھ آنے دیا باہر۔۔۔

ورنہ تو تم ہر بار بھاگنے کو ہی جاتی تھی واپس۔۔۔۔"

بلال جو جوس کا اسٹرا منہ میں دبائے بیٹھا تھا۔۔۔

سامنے بیٹھی خاموش منہاء کو دیکھ کر بولا۔۔۔۔

"جیسے میں مجبوری سے آئی ہو تمہارے ساتھ ویسے وہ بھی مجبور تھی۔۔۔۔"

منہاء نے سنا تو بے دلی سے جوابا ہوئئ۔۔۔

"بس بھی یار۔۔۔۔

اور کتنی بار معافی مانگوں۔۔۔

اب کہوں تو کان پکڑ لوں تمہارے سامنے۔۔۔"

بلال ڈرامائی انداز سے اٹھا۔۔۔۔

"بس کردو بلال۔۔۔

ڈرامے مت کرو واپس بیٹھو اپنی سیٹ پر۔۔۔

ہر وقت الٹی حرکتیں کبھی تو موقع مناسبت دیکھ لیا کرو ۔۔۔۔"

منہاء نے بلال کی بچگانہ حرکت دیکھی تو ناراض ہوئی۔۔۔

"تو کیا کرو پھر یار؟؟؟

کیسے تمہارا موڈ سیٹ کرو۔۔۔

مانتا ہو میں نے غلطی کی ہے۔۔۔

مگر اب تسلیم بھی تو کر رہا ہو ناں۔۔۔

شرمندہ ہو اور کیا کروں؟؟؟؟"

بلال مبہم ہوا۔۔۔۔

"میں بہت ہرٹ ہوئی تھی بلال۔۔۔۔

تمہاری باتیں اور آنٹی کی باتوں نے مجھے اندر تک ہلا دیا تھا۔۔۔۔

تم جانتے بھی ہو وہ اذیت کیسی تھی!!!!"

منہاء کی آنکھیں نم ہوئی۔۔۔

"تم جانتی ہو امی کیسے ہی ہیں۔۔۔

بس میں ان کی باتوں میں۔۔۔۔

مگر تم یہ بھی جانتی ہو کہ بہت محبت کرتا ہو تم سے۔۔۔

بہت محبت!!!!

اس محبت کی قسم اب کبھی ناراض نہیں کرونگا تمہیں۔۔۔"

بلال منہاء کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں بھرے محبت انداز ہوا۔۔۔

"بلکہ اب جیسے بھی کر کے امی کو مناؤ گا۔۔۔

ایک بات تم میری ہوجاؤ گی تو کوئی کچھ بھی کہے مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔۔۔"

بلال منہاء کو تسلی بخش جواب دیتے بولا۔۔۔

جبکہ منہاء حامی میں سر ہلائے مسکرائی۔۔۔

"مگر میں جاب کرونگی۔۔۔

اور تم مجھے روکوں گے نہیں۔۔۔"

منہاء نے بلال کا موڈ دیکھا تو فورا بولی۔۔۔

"مگر منہاء!!!!"

"پلیز بلال مان جاؤ۔۔۔

یوں میں بھی مصروف رہو گی۔۔۔

اور تمہیں بھی وقت مل جائے گا آنٹی کو منانے کا۔۔۔"

منہاء متحیر ہوئی۔۔۔

جبکہ بلال جو پہلے ہچکچا رہا تھا منہاء کے زور دینے پر حامی بھرے مسکرایا۔۔۔

"ٹھیک ہے مگر ایک شرط پر!!!"

"اور اب وہ کیا ہے؟؟؟؟"

"یہی کہ میں تمہیں چھوڑنے بھی جاؤ گا اور واپس بھی لاؤ گا۔۔۔

اگر مان جاؤ تو منظور ہے مجھے ورنہ کوئی جاب شاپ نہیں۔۔۔"

بلال ضد پکڑے پیچھے کو ہوا۔۔۔

جبکہ منہاء بلال کی شرط کو سنتے ہی مزید کچھ کہے مان گئے ۔۔۔۔۔

"ٹھیک ہے جو حکم اپکا۔۔۔

اب کچھ منگوا لو کھانے کیلئے بہت بھوک لگی ہے مجھے۔۔۔۔"

"تو یہ ہوئی ناں بات۔۔۔۔

بھی منگواتا ہو۔۔۔"

بلال نے سنا تو قہقہ لگائے ہنسا۔۔۔۔

"آئی لوو یو!!!!"

بلال منہاء کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں بھرے فرط جذبات ہوا۔۔۔

جبکہ منہاء نے شرماتے ہوئے فورا اپنا ہاتھ کھینچا۔۔۔

"بہت ہی اوور ہو جاتے ہو۔۔۔

بس ہاتھ پکڑنے کی دیر ہے تمہاری۔۔۔

تم بازو ہی کھینچے لگتے ہو۔۔۔۔"

منہاء مسکراہٹ گو ہوئی۔۔۔

جبکہ منہاء کی بات پر ہنستے ہوئے بلال اب کھانے کا آرڈر دینے کو بڑھا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

بلال سے رات بھر باتیں کرنے کے بعد منہاء اب پرسکون نیند لیتے سو رہی تھی کہ آلارم کی آواز نے اسے جاگ بھری۔۔۔

آلارم کو ناچتے دیکھ کر فورا بند کیا اور اونگھ بھری کیفیت لیے فریش ہونے کو بڑھی۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں فریش ہو کر باہر نکلی تو فورا کیچن کی جانب ہوئی۔۔۔

اور ناشتہ بنانے کی تیاری کرنے لگی۔۔۔

ناز بی جو آج خود دیر سے بیدار ہوئی تھی منہاء کو کیچن میں کھڑا دیکھ کر ششدر سی ہوگئی۔۔۔۔

"منہاء تم؟؟؟؟

تم کیچن میں؟؟؟

بیٹا سب خیریت تو ہے ناں؟؟؟؟"

ناز بی مبہم نظروں سے منہاء کی جانب بڑھی۔۔۔

"جی امی سب ٹھیک ہے۔۔۔

آپ جائیے میں ناشتہ بنا کر لاتی ہو مل کر کرے گے۔۔۔

اور پھر مجھے آفس بھی تو جانا ہے۔یہ نہ ہو پہلے دن ہی لیٹ ہوجاؤ میں۔۔۔۔۔"

منہاء خوشگوار انداز ہوئی۔۔۔۔

"بلال؟؟؟؟"

ناز بی نے سنا تو سوالیہ ہوئی۔۔۔

"امی پریشان نہ ہو آپ  بلال سے پوچھ لیا ہے میں نے بلکہ وہ ہی مجھے لے کر جائے گا ۔۔۔۔

تو پلیز آپ جائیے مجھے باتوں میں مت لگائیے۔۔۔۔

وہ آگیا ناں تو سانس بھی نہیں بھرے گا۔۔۔۔

نہ بھرنے دے گا مجھے۔۔۔۔"

منہاء افراتفری دیکھائے ہاتھ مارنے لگی۔۔۔۔

جبکہ ناز بی حیرت کی مورت بنے ویسی ہی باہر کی جانب ہوئی۔۔۔۔

ناز بی سے ناشتہ کرنے کے بعد منہاء فورا آفس کیلئے تیار ہوئی کہ تب تک بلال اس کو لینے کو آچکا تھا۔۔۔۔

تیز تیز بھاگتی منہاء ناز بی کی ڈھیروں ڈھیر دعائیں سمیٹے فورا باہر کی جانب ہوئی۔۔۔

اور بلال کے ساتھ بیٹھتے وہاں سے پل بھر کی آفس کیلئے روانہ ہوئی۔۔۔۔

"لیجئے جناب آپ کی عارضی منزل آگئی ہیں۔۔۔۔

اور حکم اس معصوم نوکر کے حق میں!!!!"

بلال ڈرامائی انداز سے بائیک آفس کے سامنے روکتے سر خم ہوا ۔۔۔

"بس یہی کہ کم ڈرامے دیکھا کرو۔۔۔۔

اس قدر ڈائیلاگز تو لکھاری نہیں لکھتے جس قدر تم سنا سنا کر مجھے مکھن لگاتے ہو۔۔۔۔"

منہاء بائیک سے اترے آہل کے روبرو ہوئی۔۔۔۔

"اسے ٹیلنٹ کہتے ہیں مستقبل کی زوجہ محترمہ۔۔۔۔

آپ نہیں سمجھے گی۔۔۔۔"

بلال منہاء کی گال کو چھوتے انسیت ہوا۔۔۔

"اور ویسے بھی کیا خبر آنے والے دنوں میں آپ کے لیے محبت کی ایک کتاب ہی لکھ ڈالو۔۔۔

پھر تو مانے گی ناں مجھے!!!!"

"آہ لکھ ہی ناں لو تم!!!!

اتنے رہتے نہیں تم کتاب لکھنے والے۔۔۔۔"

منہاء بلال کو بازو پر چست بھرے ہنسی۔۔۔

"منہاء کوئی مارتا ہے ایسے اپنی مستقبل کے مجازی خدا کو۔۔۔

دیکھو لوگ ہنس رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"

بلال اپنی بازو کو مسلے بےچارگی ہوا۔۔۔

"ہاں میں مارتی ہو ناں۔۔۔

اور اس سے پہلے تم مزید مجھ سے دوچار کھاؤ۔۔۔

جاؤ یہاں سے اب۔۔۔۔"

منہاء بلال کو دھکا بھرے بولی۔۔۔

"جا رہا ہو یار دھکے تو نہ دو۔۔۔

مگر جاتے جاتے ایک بات سن لو میری میں پہلے سے ہی بتا رہا ہو شادی کے بعد یہ سب نہیں چلے گا۔۔۔

آخر میں بھی ایک روایتی شوہر بننا چاہتا ہو۔۔۔۔

میری بھی خواہش ہے کہ میں بھی کبھی تم پر رعب ڈالو  اور تم جی حضور جی حضور کرتی میرے سامنے آؤ اور پھر میں سنگین ہوتے تم پر حکمرانی کرو۔۔۔"

"اور یوں کرتے کرتے ایک دن تمہارا خواب ٹوٹ جائے اور تم منہ کے بل زمین پر گرو۔۔۔۔

ہیناں!!!!"

منہاء منہ پر ہاتھ قہقہ آور ہوئی۔۔۔

جبکہ بلال محض منہ بسورے اسے گھورتا رہا۔۔۔

"کبھی تو خوش ہونے دیا کرو مجھ معصوم کو بھی منہاء۔۔۔۔"

" بس کردو معصوم جو ہو تم .۔۔۔۔

دو چار اور آگئے ناں تم جیسے معصوم تو دنیا کو اللہ ہی بچائے۔۔۔۔

خیر چلوں شاباش نکلوں اب یہاں سے اس منہ کے ساتھ تم بھی بہت لیٹ ہو گئے ہو اپنی جاب سے۔۔۔

اور میں بھی۔۔۔۔"

منہاء بلال کو اشارہ بھرے آفس کی جانب ہوئی۔۔۔۔

کہ جاتی منہاء کو دیکھتے ہی بلال نے فورا اس کی کلائی تھاما اور اپنی جانب کھینچتے گنگنانے لگا۔۔۔

"آج جانے کی ضد کرو۔۔۔۔۔

ہم مر جائے گے۔۔۔

ہم مر جائے گے۔۔۔۔۔۔"

بلال منہاء کا ہاتھ اپنے سینے پر دھڑے محبت کا اظہار کرتے مسکرایا۔۔۔

"بس بھی کردو بلال۔۔۔۔

آفس ہے یہ میرا!!!!

جاؤ پلیز یہاں سے اب۔۔۔

کسی نے دیکھ لیا ناں ایسے تو میرا مذاق بنے گا۔۔۔

اور تم سچ میں مرو گے پھر!!!!"

منہاء اپنا ہاتھ کھینچتے پیچھے قدم لیتے ہنسی۔۔۔۔

"افففف بہت ہی بد لحاظ ہو تم!!!

جاتا ہو میں مگر یاد رکھنا میں لینے آؤ گا۔۔۔۔

انتظار کرنا میرا۔۔۔۔"

بلال نے منہاء کو جاتے دیکھا تو پیچھے سے آواز آور ہوا۔۔۔

جبکہ منہاء یونہی مسکراتے ہوئے اندر کی جانب بڑھی۔۔۔

بلال کی نظریں تب تک منہاء پر رہی جب تک وہ اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہوگئی اور پھر اپنی بائیک اسٹارٹ کیے وہ وہاں سے چلتا بنا۔۔۔

جبکہ دونوں ہی اس بات سے بے خبر رہے کہ وہی گاڑی میں موجود آہل جو کالے چشمے پہنے  ان دونوں کی محبت کو نفرت انگیز نظروں سے دیکھ رہا تھا اب حقارت سے اپنی پیشانی کو مسلے سرد ہوا اور فورا باہر کو نکلا۔۔۔

منہاء جو لیفٹ کے انتظار میں ہی کھڑی تھی۔۔۔۔

 اپنے پیچھے کسی کی تیز رفتار سانسوں کو گونجتے محسوس کیا تو  بے دھیانی سے پیچھے کو پلٹی کہ مڑتے ہی اسکا ہاتھ آہل کے سینے سے جا ٹکرایا جو اس کی اسی حرکت کے انتظار میں. کھڑا اسے گھور رہا تھا۔۔۔۔ 

منہاء نے آہل کو اپنے پیچھے کھڑا دیکھا تو فورا بوکھلاتے ہوئے دو قدم پیچھے کو جھنپی۔۔۔۔

جبکہ آہل منہاء کی چہرے پر بکھری پریشانی سے محظوظ ہوتے اپنے سینے پر ہاتھ دھڑے سپاٹ ہوا۔۔۔۔

"س۔۔۔سوری سر!!!

م۔۔۔م۔۔۔مجھے پتہ نہیں چلا کہ آپ پیچھے کھڑے ہیں!!!۔۔۔"

"ظاہر سی بات ہے مس منہاء دھیان جب کسی اور پر اٹکا ہوگا اپکا تو کیوں کسی کی خبر رکھے گی آپ؟؟؟!!!!"

آہل حقارت نظروں سے اپنے کوٹ کو جھاڑتے سنگین ہوا۔۔۔

"خیر آپ یہاں آج کیوں؟؟؟

کیا پھر سے میرا منہ نوچنے کا ارادہ ہے یا پھر سے معافی مانگنے کی سوچ ہے۔!!!!!

اگر ایسا کوئی بھی ارادہ رکھتی ہے تو دونوں کو ساتھ لیے وہ سامنے دروازے سے جا سکتی ہیں۔۔۔"

آہل  سنگین نظروں سے منہاء کو گھورتے انٹریس کی جانب اشارہ بھرتے بولا۔۔۔

"کیونکہ میں اپکو کل ہی اپنا ارادہ بتا چکا ہوں۔۔۔

جس میں لچک کی کوئی گنجائش نہیں۔۔۔۔"

"میں اچھے سے جانتی ہو کہ آپ کس قسم کے ارادے رکھتے ہیں!؟؟؟؟"

منہاء نے سنا تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیتی بدمست ہوئی۔۔۔

"مگر پھر بھی اپکو بتا دو میں یہاں نہ تو آپ کا منہ نوچنے کو آئی ہو اور نہ ہی معافی مانگنے۔۔۔

اور جس ارادے کی آپ بات کررہے ہیں اسی کے تحت آپ کے سامنے کھڑی ہو۔۔۔

تو بہتر ہے آپ اپنی لچک اپنے اندر ہی رکھے جس کی مجھے کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔"

منہاء کا لہجہ سخت ہوا۔۔۔

"شاید آپ بھول رہی ہے مس منہاء کہ آپ اس وقت میرے آفس میں کھڑی ہیں۔۔۔۔

اور جس انداز سے آپ مجھ سے بات کررہی ہے یہ اپکو کئی حد تک مہنگا پڑ سکتا ہے۔۔۔۔"

آہل اشارتا غرایا۔۔۔

"نہیں سر میں نہیں بھولی ہو۔۔۔

مگر شاید  آپ بھول رہے کہ اس وقت آپ میرے بوس ہے اور میں اپکی ایمپلوئی۔۔۔۔

اور ہمارا تعلق صرف ایک کام کی حد تک ہونا چاہیے ناکہ کچھ اور۔۔۔۔"

منہاء آہل کے روبرو کھڑی سخت ہوئی۔۔۔۔

جبکہ آہل کے پاس اس کی باتوں کا مزید کوئی جواب نہ بنا تو انگاری نظروں سے منہاء کو گھورتے سیدھا لیفٹ کی جانب ہوا اور بٹنوں پر اپنا غصہ آتارنے لگا۔۔۔

"وٹ دا ہل اس دس!!!!

کب سے انتظار کررہا ہو میں ابھی تک آئی کیوں نہیں یہ!!!!!"

آہل جو منہاء کے جواب پر حف تھا لیفٹ کو زور دار ٹانگ مارے چنگارا۔۔۔۔

"اب اس بے جان چیز کو تھوڑی پتہ کہ سامنے آہل خان کھڑا ہے۔۔۔۔

ورنہ ضرور اپنا منہ کھولے اپکا استقبال کرتی۔۔۔۔"

جبکہ منہاء جو اس کی اشتعال انگیزی کو دیکھ رہی تھی زہریلا طنز بھرتے پیچھے  کو ہوئی اور سیدھا سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔

جبکہ منہاء کے یوں تیکھے تیور دیکھ کر آہل دانت چبائے رہ گیا۔۔۔۔

"سمجھتی کیا ہے خود!!!!!"

آہل نے لیفٹ کے دروازے پر اپنا ہاتھ پٹخا ۔۔۔

"رسی جل گئی مگر زبان کے بل نہ گئے۔۔۔۔

اس کو تو ایسا مزہ چکھاؤ گا کہ یاد رکھے گی زندگی بھر!!!!"

آہل سیخ پا ہوا اور پھر لیفٹ کھلنے کا انتظار کرنے لگا۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"یار تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ تم اس کی آفر مان گئی ہو۔۔۔۔"

ثمر ناراض ہوتے بولی۔۔۔۔

"مجھے تو بتاتی یار!!!!"

"کیا بتاتی یار میں تو بس امی کے کہنے پر آئی ہو جاب پر۔۔۔۔

تم جانتی تو ہو وہ کس قدر پریشان ہوجاتی ہے۔۔۔

مگر تم پریشان مت ہو میں آج تمہارے ڈاکومنٹس تو لازم لے کر ہی آؤ گی۔۔۔۔

تاکہ تم تو اس جھامیلے سے باہر نکلوں۔۔۔۔"

منہاء متحیر ہوئی۔۔۔۔

"آگ میں جائے ایسے ڈاکومنٹس جس کی وجہ سے تم مسلسل اس بدماغ انسان کے نیچے کام کرو گی۔۔۔۔

اس کو تو اچھا خاصا موقع مل گیا ہے اب تمہیں زلیل کرنے کا اور تم خود پہنچ گئی اس کے پاس زلیل ہونے کو۔۔۔۔"

ثمر حف ہوئی۔۔۔۔

"جانتی ہو یار مگر اور کوئی چارہ نہیں تھا میرے پاس۔۔۔۔

اور ویسے بھی میں نہیں چاہتی کہ بلال تک  کسی بھی قسم کی ایسی بات پہنچے جس سے وہ میرے کردار پر انگلی اٹھائے۔۔۔

آگے ہی بہت بہت مشکل سے ٹھیک ہوا۔۔۔

مجھے سب بگاڑنا نہیں ہے۔۔۔۔"

منہاء صاف گو ہوئی۔۔۔

"پتہ نہیں کیا کرنا چاہتی ہو۔۔۔۔

کچھ سمجھ نہیں آتی ویسے مجھے تمہاری۔۔۔۔"

ثمر مبہم ہوئی۔۔۔۔

"کبھی اسے کاٹ کھانے کو دوڑتی ہو تو کبھی اس کے سامنے جھک جاتی ہو۔۔۔۔"

"مس منہاء۔۔۔۔"

نبیل جو سیدھا آہل کے آفس سے ہی باہر کو نکلا تھا منہاء کے سامنے کھڑے گو ہوا۔۔۔۔

"جی سر۔۔۔۔"

منہاء نے نبیل کو دیکھا تو فورا اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔

"آپ کو سر بلا رہے ہیں مس۔۔۔۔

جائیے ان کی بات سنیے۔۔۔

اور ہاں آفس میں موبائل فون استعمال کرنا آلاؤ نہیں۔۔۔

تو پلیز نیکسٹ ٹائم دھیان رکھیے گا اس بات کا۔۔۔۔"

نبیل منہاء کو وارن کرتے آگے کو بڑھا۔۔۔

جبکہ نبیل کے پیچھے منہ چڑھاتی منہاء نے فون واپس کان سے لگایا۔۔۔

"سن تو لیا ہی ہوگا تم نے سب۔۔۔۔

تو اب بعد میں ہی بات کرتی ہو تم سے ثمر۔۔۔

اس سے پہلے کوئی اور وارنگ ملے مجھے میں اس ہٹلر کے آفس سے ہو کر آتی ہو۔۔۔۔"

منہاء کرسی کھینچتے باہر کو نکلی۔۔۔

"ہاں جاؤ اور اندر جاتے ہی آیت الکرسی پڑھ کر اس پر پھونکنا۔۔۔

کیا پتہ شیطان جھٹ سے غائب ہو جائے اور معاملہ فورا ختم۔ہوجائے۔۔۔"

ثمر بولتے ہی قہقہ آور ہوئی۔۔۔

"اچھا جاتی ہو اب دعا کرو کوئی نیا عذاب نہ ہو میرے لیے۔۔۔"

 منہاء خود بھی دبی مسکراہٹ ہوئی اور پھر  فون بند کرتے آہل کے آفس کی جانب بڑھی۔۔۔۔

دروازے کے باہر کھڑی ہوتے ہی ایک گہرا سانس بھرا اور دروازے پر دستک بھری۔۔۔۔

آہل جو لیپ ٹاپ پر سے جھکائے بیٹھا کسی کام میں مصروف تھا دروازے کی دستک پر متوجہ ہوا۔۔۔۔

"جی آجائیے۔۔۔۔"

"منہاء اپنا منہ بند رکھنا تجھے خدا کا واسطہ۔۔۔

جو بھی بولے گا بس ایک سے سنی دوسرے سے نکال دائی۔۔۔

جو ہوگا اللہ وارث اب۔۔۔۔"

منہاء خود کو سمجھاتے  سپاٹ تاثرات لیے کیبن میں داخل ہوئی جہاں آہل اپنے لیپ ٹاپ پر مصروف تھا جبکہ اس کے سامنے کئی فائلز کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔۔۔۔

"جی سر آپ نے مجھے بلایا ہے؟؟؟؟"

منہاء آگے کو بڑھے بولی۔۔۔۔

"جی مس منہاء۔۔۔۔

میں نے ہی اپکو بلایا ہے۔۔۔۔

ظاہر سی بات ہے اب اپکو فارغ بیٹھنے کیلئے ہی تو نہیں بلایا گیا۔۔۔۔"

اور نہ ہی فون پر گپیں لگانے کیلئے اپکو پے کیا جائے گا!!!!

آہل تیکھا انداز ہوا۔۔۔۔

"جی سر آپ بولیے کیا کام ہے!!!!!"

منہاء نے ضبط کا مظاہرہ کرتے بولی۔۔۔

"مس منہاء یہ کچھ فائلز ہیں ان کو آپ نے ہارڈ کاپی سے سافٹ کاپی میں کنورٹ کرنا ہے۔۔۔۔

یہ ساری فائلز مجھے ورڈ پر چاہیے وہ بھی آج۔۔۔۔

ایک بار دیکھ لے ان کو کچھ سمجھ نہ آئے تو پوچھ سکتی ہیں۔۔۔۔"

آہل نے پانچ فائلز کا دستہ منہاء کی جانب دھکیلا جو پھٹی نظروں سے  کبھی فائلز کی تعداد اور موٹائی کو دیکھ رہی تھی تو کبھی سنگین تاثرات لیے آہل کو دیکھنے لگی۔۔۔۔

"مس منہاء آپ سے ہی کہہ رہا ہو میں کہ دیکھ لے۔۔۔۔

میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ اپنی بات بار بار دہراتا رہو۔۔۔"

آہل  نے منہاء کا سکوت چہرہ دیکھا تو اونچی آواز سے چنگارا۔۔۔۔

"سر یہ فائلز تو بہت زیادہ ہے اور بہت زیادہ پیجز ہیں ان کے۔۔۔

میں کیسے ایک دن میں اتنے کم وقت  یہ سب؟؟؟؟"

منہاء سوالیہ ہوئی۔۔۔۔

"یہ اپکو یہاں آنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھ مس۔۔۔۔۔

اگر چاہتی ہے کہ آج اپکو اپکی دوست کے ڈاکومنٹس مل جائے۔۔۔

تو مجھے آج ہی یہ کام چاہیے۔۔۔۔

کر سکتی ہے تو بتائیے۔۔۔

ورنہ وہ دروازہ ہے جا سکتی ہیں آپ۔۔۔۔"

آہل طنزیہ مسکراہٹ لیے اپنی کرسی پر سیدھے ہوتے بیٹھا اور منہاء کی حواس باختگی کو دیکھنے لگا۔۔۔

جبکہ منہاء جو بری طرح پھنس گئی تھی مزید کچھ کہے فائلز اٹھائے وہاں سے آگے کو بڑھی۔۔۔۔

اور منہاء کو یوں جاتے دیکھ کر آہل فاتحانہ مسکراہٹ لیے واپس اپنے لیپ ٹاپ کی جانب جھکا۔۔۔۔

"اففففففففففف!!!!!

یہ تو سچ میں بدماغ انسان یے۔۔۔۔"

منہاء ساری فائلز اپنی ٹیبل کر پٹختے روہانسی ہوئی۔۔۔

"کیسے کردنگی میں اتنا سارا کام!!!

وہ بھی اتنے کم وقت میں!!!!"

"اففففففففففف اللہ پوچھے تمہیں آہل خان۔۔۔۔

معصوم لوگوں کو تکلیف دیتے ہو سکون نہ ملے تمہیں کبھی۔۔۔"

منہاء اپنے سر پر ہاتھ رکھے بدگوئیاں بھرے سنگین ہوئی۔۔۔

اور پھر مزید وقت ضائع کیے اپنے کمپیوٹر کی جانب جھکی اور کام کرنے لگ گئی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

شام کے پانچ بج چکے تھے جب منہاء ابھی تک آنکھیں کمپیوٹر میں. گاڑھے مسلسل لکھ رہی تھی کہ اب اس کی آنکھوں سے بھی پانی بہنے لگا۔۔۔

جبکہ آہل جو اپنے آفس میں بیٹھا سگار سلگائے منہاء کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا فورا آگے کو بڑھتے فون ملایا۔۔۔۔

"میرے کیبن میں آؤ جلدی!!!"

اپنا حکم صادر کرتے ہی آہل واپس اسی انداز سے بیٹھتے سر سیٹ کی نشست سے ٹکائے سگار کے نکلتے دھویں کو دیکھنے لگے۔۔۔۔

کہ تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔

"آجاؤ اندر!!!!"

آہل سگار ایش ٹرے میں دبوچے سیدھا ہوا۔۔۔

کہ تبھی نبیک تیز گام مانند اندر کی جانب ہوا۔۔۔۔

"جی سر آپ نے بلایا مجھے؟؟؟؟"

"ہاں نبیل۔۔۔۔

جا کر دیکھ کر آؤ مس منہاء نے ابھی تک اپنا کام مکمل کیا ہے کہ نہیں۔۔؟؟؟

اور فورا مجھے اس کے متعلق آگاہ کرو۔۔۔"

آہل کا حکم سنتے ہی نبیل ایک ٹانگ باہر کو بھاگا۔۔۔۔

جبکہ آہل اب گھڑی کی سوئیوں کو دیکھنے لگا جو تیز رفتار مانند بھاگ رہی تھی۔۔۔

"مس منہاء۔۔۔۔"

نبیل منہاء کے روبرو جا کھڑا ہوا جو اپنی آنکھوں سے بہتے پانی کو صاف کرتے واپس ہی سکرین کی جانب ہوئی تھی۔۔۔

"جی سر!!!!!

کچھ کام ہے آپ کو ؟؟؟"

منہاء نبیل کو سامنے دیکھتے ساتھ ہی اٹھی۔۔۔۔

"کتنا کام ہو گیا ہے آپ کا؟؟؟؟"

"سر تین فائلز مکمل ہوگئی ہے بس دو رہ گئی ہے وہی کررہی ہو۔۔۔"

منہاء تاسف سے بولی ۔۔۔۔۔

"ابھی بھی دو فائلز رہ گئی ہیں آپ کی!!!!"

نبیل سخت ہوا۔۔۔

"آپ دیکھ رہی ہے کہ وقت کیا ہو رہا ہے؟؟؟

سب جا رہے ہیں اور آپ ابھی بھی یہی موجود ہے۔۔۔

اور آپ کی وجہ سے میں بھی گھر نہیں جا سکتا!!!!

اب بتائیں میں سر کو کیا جواب دو اس متعلق؟؟؟؟"

نبیل دونوں بازوؤں کو باندھے حف ہوئے سوالیہ ہوا۔۔۔

"اپکو کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں سر ۔۔۔۔"

منہاء نے نبیل کا لہجہ دیکھا تو دانت پسیجتے بولی۔۔۔

"میں خود ان کو بتا سکتی ہو۔۔۔۔

آپ جائیے اپکو جو دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔"

منہاء طنز یہ  ہوتے ساتھ ہی فائلز اٹھائے آگے کو بڑھی جبکہ نبیل کندھے اچکائے وہاں سے چلتا بنا۔۔۔۔

منہاء جو فائلز لیے آہل کے کمرے کے باہر ہی پہنچی تھی کہ تبھی اسکا فون بجنے لگا۔۔۔

"ہاں بلال!!!!"

"یار کہاں رہ گئی ہو بیس منٹ ہوگئے ہیں مجھے تمہارے آفس کے باہر کھڑے ہوئے۔۔۔۔

اور تمہارا کوئی اتہ پتہ ہی نہیں۔۔۔۔"

بلال متحیر ہوا۔۔۔۔

"بس بلال یہ کچھ کام رہ گیا تھا وہی کررہی ہو۔۔۔

تم کچھ وقت دو مجھے میں بس ابھی مکمل کر کے آتی ہو۔۔۔"

"ہاں پلیز۔۔۔۔

جلدی کرو بہت تھک گیا ہو میں آج اور اب یہ انتظار۔۔۔"

بلال تھکاوٹی لہجے سے بولا۔۔۔

جبکہ منہاء نے سنتے ساتھ ہی فون بند کیا اور فائل اٹھائے بناء دستک اندر کی جانب ہوئی۔۔۔۔

"سر یہ میں نے تین فائلز!!!!!"

منہاء جو افراتفری سے اندر کو آئی تھی آہل کو سگار منہ دبائے دیکھ کر ٹھٹک سی گئی۔۔۔۔

جبکہ منہاء کو یوں بناء اجازت اندر آتے دیکھ کر اس کے تیور بھی بگڑ سے گئے۔۔۔۔

"کیا اپکو کسی نے تمیز نہیں سکھائی کہ بناء اجازت اندر نہیں آتے!!!!!"

آہل سگار دوسری جانب پھینکتے بپھڑا۔۔۔

"بہت معذرت سر۔۔۔

مجھے بہت لیٹ ہو رہی تھی تو۔۔۔

میں آئندہ خیال رکھو گی!!!"

منہاء آہل کی بات کو نظر انداز کرتے فائل لیے آگے کو بڑھی۔۔۔۔

"آپ بس ایک بار یہ فائلز اور کام۔۔۔۔"

آہل نے منہاء کو فائلز اگے بڑھاتے دیکھا تو فائل کو ہاتھ سے پیچھے دھکیلتے پھنکارا کہ فائلز منہاء کے ہاتھ سے نکلتے دور زمین پر جا گری اور منہاء آہل کی اس حرکت پر ششدر نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔

"تو میں کیا؟؟؟؟

ہر جگہ جب چاہے اپنی مرضی سے کیوں آجاتی ہو تم؟؟؟؟؟"

آہل طیش انداز سے آگے کو بڑھتے منہاء کو کندھے سے دبوچے جھنجھوڑتے چلایا۔۔۔۔

"دور کیوں نہیں ہوجاتی میری زندگی سے تم!!!!"

جبکہ منہاء ابھی تک آہل کے اس انداز کو ناسمجھی سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

"پاگل ہو گئے ہیں آپ؟؟؟؟

میں کیوں آپ کی زندگی میں آؤ گی۔۔۔

یہ آپ ہی ہے جو میری زندگی کو کھلونا سمجھتے کھیل رہے ہیں۔۔۔

اگر اتنا ہی ناپسند کرتے ہیں مجھے تو مارے میرے منہ پر میرے ڈاکومنٹس اور نکال دے مجھے باہر کمپنی سے۔۔۔"

منہاء نے آہل کی خونخواری دیکھی تو دونوں ہاتھوں جو جھکتے پیچھے کو ہوئی۔۔۔۔

"کیا کہا تم نے؟؟؟؟؟

پاگل ہو میں ہاں!!!!

پاگل ہو میں!!!"

آہل نے دور جاتی منہاء کو دیکھا تو واپس  اسے بازوؤں سے دبوچے اپنی جانب کھینچتے چلایا۔۔۔۔

"ہاں پاگل ہو تم۔۔۔

بلکل پاگل۔۔۔"

منہاء خود کو آہل کی گرفت سے نکالنے کی کوشش کرتے چلائی۔۔۔۔

"ایک ایسے پاگل جس کو بناء کسی وجہ کے ہر کسی سے بیر لینے کا شوق ہے۔۔۔"

"تمہیں ڈاکومنٹس چاہیے ناں۔۔۔

ابھی دونگا تمہیں۔۔۔۔

ابھج کہ ابھی۔۔۔

مگر مجھے سچ سچ بتاؤ۔۔۔

کتنے پیسے دیے ہیں تمہیں ہما نے۔۔۔۔

بولوں کتنے پیسے دیے ہیں میری زندگی کو عذاب بنانے میں۔۔۔۔"

آہل دانت پسیجتے حف ہوا۔۔۔

"پیسے ہما؟؟؟؟

کیا کہہ رہے ہو تم؟؟؟"

منہاء سوالیہ نظروں سے آہل کو گھوری۔۔۔

"اب تمہیں کیوں میری باتیں سمجھ میں انی ہے۔۔۔

چوری جو پکڑی گئی ہے تمہاری۔۔۔

ارے تم جیسی لڑکیاں ہی ہوتی ہے جو اپنی عزت کو نیلام کرتی ہے وہ بھی اتنے پیسوں کی خاطر!!!!!

شادی کسی اور سے اور تعلق کسی اور سے۔۔۔"

آہل کو ہما کی بے وفائی یاد آئی تو زہر آلود غرایا۔۔۔

"آہل!!!!!"

منہاء نے سنا تو خود کو آہل کی جکڑ سے نکالتے ایک زور دار طمانچہ اس کے منہ پر دے مارا۔۔۔۔

جس کی گونج پورے کمرے میں گونجی جبکہ آہل اپنی گال پر ہاتھ رکھے اس کو خونخوار نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔

"حد میں رہو اپنی آئی سمجھ۔۔۔۔

بہت ہو گئی اب بکواس اور بہت سن لیا میں نے۔۔۔

میں ہی پاگل تھی جو تم سے امانتداری کی امید باندھے بیٹھی تھی۔۔۔۔۔

مگر افسوس تم تو کسی قابل بھی نہیں ہو۔۔۔۔"

منہاء دو قدم پیچھے ہٹتے آہل کو انگلی دکھاتے چیخی۔۔۔۔

"مجھ پر ہاتھ اٹھایا تم نے۔۔۔۔

آہل خان پر!!!!!"

آہل جو جنونی کیفیت سے منہاء کی جانب بڑھا تھا منہاء اس کو یوں اپنی جانب آتے دیکھ کر پیچھے کو ہونے لگی۔۔۔

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے چھونے کی۔۔۔۔

میرے آفس میں میرے کیبن میں کھڑی ہو کر تم نے مجھے ہی تھپڑ مار دیا۔۔۔۔

آج تک کسی کی مجال نہیں جو مجھ سے اونچی آواز سے بھی بولے۔۔۔۔

اور تم نے مجھے مارا۔۔۔۔

مجھے۔۔۔۔"

آہل کی آنکھوں میں اترتے خون کو دیکھ کر منہاء جو فورا اپنی غصے میں کی جانے والی غلطی کا احساس ہوا۔۔۔۔

"نہیں۔۔۔۔

ایم۔۔۔

ایم ریلی سوری!!!!

وہ مجھے!!!!"

منہاء بدحواسی سے اپنے چہرے پر بکھرے بالوں کو سمیٹتے مبہم ہوئی۔۔۔۔

"اب بتاتا ہو تمہیں کہ کس قدر پاگل ہو میں۔۔۔۔"

آہل جنونی حد تک منہاء کی جانب ہوا۔۔۔

جبکہ اپنی جانب آتے آہل کو دیکھتے ہی منہاء فورا دروازے کی جانب بھاگی۔۔۔

کہ اسے یوں جاتا دیکھ کر آہل نے فورا بھاگتی منہاء کا ہاتھ جکڑا اور اسے اپنی جانب کھینچا۔۔۔۔

کہ منہاء جو اس سے پہلے سنبھلتی آہل کے سینے سے جا ٹکرائی۔۔۔۔

منہاء کو اپنے قریب پاتے دیکھ کر آہل نے فورا اپنی بانہیں اس کے گرد مائل کی اور چہرہ اس کی جانب جھکایا۔۔۔

"چھوڑو مجھے آہل۔۔۔۔

چھوڑو مجھے۔۔۔۔

میں سچ میں شور مچا دونگی تم کسی کو اپنی یہ شکل دکھانے کے قابل نہیں رہو گے۔۔۔۔"

منہاء آہل کے سینے پر چست بھرے چلائی۔۔۔

جبکہ جوابا آہل نے زور دار قہقہ لگایا کہ اس کے قہقے کی گونج میں منہاء کی بکھرتی سسکیاں مدہم سی ہوگئی۔۔۔

"تو چلاؤ۔۔۔۔

میں بھی دیکھتا ہو کون سنتا ہے تمہاری آواز آور کون بچاتا ہے تمہیں مجھ سے۔۔۔۔

اگر بچنا چاہتی ہو تو مجھے سچ سچ بتا دو۔۔۔

ورنہ مجھے کوئی مشکل نہیں ہے تمہارے ساتھ کچھ بھی کرنے میں۔۔۔۔"

آہل منہاء کے چہرے کو چھوتے طنزیہ ہنسا۔۔۔۔

"میں کتنی بار کہوں تمہیں کہ میں نہیں جانتی کسی بھی ہما کو۔۔۔

اور نہ ہی میرا کوئی واسطہ۔۔۔۔

کیوں میری بات کا یقین نہیں کررہے ہو تم!!!"

منہاء نے سنا تو چڑچڑاتے ہوئے بپھڑی اور خود کو آہل سے دور کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔

"تو ٹھیک ہے پھر۔۔۔

تمہاری مرضی۔۔۔۔"

آہل انتقامی مسکراہٹ لیے منہاء کے چہرے پر جھکا۔۔۔

کہ اس سے پہلے وہ اس کو چھوتا بلال دروازہ کھولتے سیدھا اندر کی جانب بڑھا۔۔۔۔

تو اندر منہاء کو یوں آہل کی بانہوں میں دیکھ کر جیسے اس کے ہوش کی اڑ گئے ہو۔۔۔۔

منہاء خود بھی بلال کو یوں سامنے دیکھ کر روہانسی سی ہوئی اور خود کو آہل کی بانہوں سے چھڑواتے فورا اس کی جانب لپکی۔۔۔۔

کہ اس سے پہلے وہ بلال کے پاس جاتی اپنا ہاتھ ہوا میں لہراتے اس نے منہاء کے قدم وہی روک دیے۔۔۔۔

جس پر منہاء اسے استہفامیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔

"یہ سب کیا تھا؟؟؟؟؟"

بلال دلبرداشتہ انداز ہوا۔۔۔۔

"بلال یہ ۔۔۔۔

یہ میرے ساتھ۔۔۔۔"

منہاء روتے ہوئے آہل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جو مزے سے پرسکون کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔۔۔

"ایسا کچھ نہیں ہے جیسا تم سمجھ رہے ہو بلال۔۔۔

منہاء تو بس کام دکھانے کو آئی تھی۔۔۔۔

تم غلط مت سمجھنا اسے پلیز۔۔۔

اور ہاں شادی پر ضرور بلانا مجھے۔۔۔

وقت ہوا تو ضرور آؤ گا میں۔۔۔

خیر اب میں چلتا ہو مجھے بہت دیر ہو رہی ہے۔۔۔"

آہل اپنی گھڑی کی جانب دیکھتے مسکرایا۔۔۔۔

"تو ٹھیک ہے مس منہاء کل ملتے ہیں آفس میں۔۔۔

گڈ نائیٹ بائے۔۔۔"

آہل  اپنا کام دکھاتے منہاء کو آنکھ مارتے مسکرایا اور وہاں سے جھومتا ہوا نکلا۔۔۔۔

جبکہ منہاء آہل کی چال کو اچھے سے سمجھتے ہوئے واپس بلال کی جانب ہوئی۔۔۔

جس کی آنکھوں میں بے اعتباری کا عکس صاف عیاں تھا۔۔۔۔

"تو یہ تھا تمہارا کام!!!!

تو اس وجہ سے تم جاب کرنا چاہتی تھی!!!

ہیناں!!!!"

بلال جو اس سب معاملے کو دیکھ کر دیوانہ وار ہوا تھا چیخا۔۔۔۔

"نہیں بلال۔۔۔۔

تم غلط سمجھ رہے ہو۔۔۔

یہ سب چال تھی۔۔۔

یہ سب آہل خان کی چال تھی۔۔۔۔

میں بتاتی ہو ناں تمہیں سب کچھ۔۔۔"

منہاء آگے کو بڑھتے اپنی صفائی دیتے روئی۔۔۔

"دور۔۔۔۔

دور رہو مجھ سے۔۔۔۔

اپنا غلیظ وجود دور رکھو۔۔۔۔"

بلال ہانپتے وجود سے روتے ہوئے پیچھے کو ہوا۔۔۔۔

"مجھے گھن آرہی ہے تم سے منہاء۔۔۔۔

تم یہ سب کیسے کر سکتی ہو!!!؟؟؟

تم مجھے دھوکا کیسے دے سکتی ہو؟؟؟؟

اور سب سے زیادہ گھن تو اپنے وجود سے ارہی ہے ۔۔۔۔

جو تم سے سے محبت کرتا تھا۔۔۔۔"

بلال پیچھے کو قدم لیے چیخا۔۔۔

جبکہ منہاء جو زاروقطار رو رہی تھی بلال کی جانب ہوئی۔۔۔

"امی بلکل ٹھیک کہتی ہے۔۔۔

تم بدکردار ہو۔۔۔

تمہیں مردوں کو جال میں پھنسانے کا شوق ہے۔۔۔

کل میں تھا اور آج یہ۔۔۔۔"

"نہیں بلال۔۔۔۔

سب جھوٹ ہے۔۔۔

تم ایک بار۔۔۔

بس ایک بار میری بات سن لو پلیز۔۔۔"

منہاء گڑگڑاتے ہوئے زمین پر ںیٹھی۔۔۔۔

"میں کہہ رہی ہو ناں۔۔۔

یہ سب چال تھی۔۔۔

میرے خلاف سوچی سمجھی سازش تھی۔۔۔"

"تو جو میں نے دیکھا وہ۔۔۔

کیا وہ بھی سب چال تھی۔۔۔

کیا اس کی بانہوں میں تمہارا جانا بھی اس کا فریب تھا۔۔۔"

"ہاں سب جھوٹ تھا سب سازش تھی۔۔۔"

منہاء نے بلال کا سوال سنا تو چیخی۔۔۔

"اور کتنا جھوٹ بولو گی تم۔۔۔

اور کتنا۔۔۔۔

میں ہی پاگل ہو جو تمہاری باتیں سن رہا ہو۔۔۔

بہتر ہے یہاں. سے چلا جاؤ۔۔۔"

"نہیں۔۔۔

نہیں بلال تم مجھے یوں چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔۔۔

میری بات سننے ہوگی تمہیں۔۔۔

تم ایسے نہیں جاسکتے۔۔"

منہاء بلال کی بازو تھامے بلکی کہ بلال اسے جھٹکا بھرے پیچھے کو ہوا جس پر منہاء زمین پر جا گری۔۔۔

"دور رہو مجھ سے۔۔۔

بہت دور۔۔۔۔

اور آج کے بعد مجھے اپنی شکل مت دکھانا منہاء۔۔۔

کیونکہ تم جیسی بدکردار سے میرا کوئی تعلق نہیں اب۔۔۔"

بلال اپنا قہر برسائے وہاں سے نکل پڑا۔۔۔

جبکہ منہاء بلال کی باتیں سن کر وہی سکتے کی صورت میں زمین پر ںیٹھی رہی۔۔۔۔

"بہت اچھا کام کیا ہے تم نے نبیل۔۔۔۔

آئی ایم ریلی ایمپریسڈ!!!"

آہل اپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر سوار تھا گاڑی  کا دروازہ کھولے نبیل کو دیکھتے مسکرایا جو آس بھری روشن نظروں سے اسے  ہاتھ باندھے دیکھ رہا تھا۔۔۔

"بہت شکریہ سر اپکا۔۔۔۔

ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ آپ مجھے کوئی حکم دے اور میں وہ کام نہ کرو۔۔۔۔"

نبیل چمک لیے مسکرایا۔۔۔

"ہمممم گڈ

مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم وقت اور ارادے کے اتنے پابند ہونگے کہ بلکل ویسا ہی کرو گے جیسا میں نے کہا تھا۔۔۔۔"

آہل نے سنا تو فاتحانہ مسکراہٹ ہوا۔۔۔

"خیر تمہیں تمہارا انعام ضرور ملے گا۔۔۔۔"

"سر اس میں میرا کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔

اگر آپ مجھے نہ بتاتے کہ کس  شخص کو اوپر بھیجنا ہے اور عین وقت پر فون کر کے مجھے آگاہ نہ کرتے تو شاید میں چونک جاتا۔۔۔۔"

نبیل اپنی تعریف سنتے پھولے سمائے بولا۔۔۔۔

"باقی میں تو ایک ادنا سا ملازم ہو خوشی ملی آپ کے کام آ کر۔۔۔۔"

"ہممم چلوں ٹھیک ہے پھر اب تم جاؤ۔۔۔۔"

آہل اپنے چہرے پر چشمہ لگائے گھڑی کی جانب دیکھنے لگا۔۔۔۔

"بہت دیر ہوگئی ہے مجھے بھی میں بھی چلتا ہو اب۔۔۔"

"جی سر گڈ نائیٹ اپنا خیال رکھیں گا اللہ حافظ۔۔۔"

نبیل نے سنا تو الوداعی کلمات کہتے وہاں سے نکلتا بنا۔۔۔

جبکہ اس کے جاتے ہی آہل نے گاڑی کا دروازہ بند کیا اور اپنی گاڑی کو چابی بھری۔۔۔۔

ایک گہری سانس اندر کو کھینچی اور ایک پرسکون مسکراہٹ لیے آفس کی جانب نظر پھیری۔۔۔

کہ تبھی اس کی نظر سامنے سے آتی اجڑی منہاء پر پڑی جو دھیمے قدموں اور بکھرے بالوں کے ساتھ باہر کی جانب سکتے کی کیفیت سے آرہی تھی۔۔۔۔

آہل نے اسے یوں آتے دیکھا تو گہری سنگین مسکراہٹ لیے واپس اپنی گاڑی سے باہر نکلا اور اپنے کوٹ کو تکبری انداز سے جھاڑتے اردگرد  نظریں گھومائے اس کی جانب بڑھا۔۔۔۔

"سو مس منہاء!!!!!

کیسا رہا سب اوپر؟؟؟؟"

آہل طنزیہ مسکراہٹ لیے منہاء کے قریب ہوا۔۔۔

"مجھے یقین ہے کہ آپ کے منگیتر کو میری بات پر یقین آ گیا ہوگا!!!!۔۔۔۔

مگر آپ کی اس صورت کو دیکھ کر ہمممم۔۔۔۔۔۔"

اہل منہاء کے چہرے کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہنسا۔۔۔

جبکہ بے بسی کی صورت بنی منہاء قدرے سکتے کی حالت میں نظریں گرائے کھڑی تھی۔۔۔

"لگتا ہے محترمہ کی زبان کہیں گر گئی ہے۔۔۔"

آہل منہاء کی خاموشی دیکھتے زمین پر نظریں گھومائے قہقہ آور ہوا۔۔۔

جبکہ منہاء اپنے آنسوں مو صاف کرتے آگے کو بڑھنے کو ہوئی

"ویسے اگر آپ کہے تو میں ان سے پھر بات کرو!!!؟؟؟

کیا معلوم وہ میری بات پر یقین کر لین"

آہل نے منہاء کو جاتے دیکھا تو دبی مسکراہٹ لیے گو ہوا۔۔۔

"بہت ہی گھٹیا اور نیچ انسان ہو تم۔۔۔۔۔

تم اچھے سے جانتے تھے کہ وہ مجھے لینے آیا ہے۔۔۔

تبھی تم نے یہ سب کیا ناں میرے ساتھ۔۔

ایک مکمل سوچی سمجھی چال تھی تمہاری یہ!!!

ہیناں!!!"

منہاء جس کا رو رو کر برا حال تھا اپنی سوجھی سرخ آنکھوں سے آہل کی جانب پلٹتے روبرو ہوتے حقارت نظروں سے گھورتے پھنکاری۔۔۔۔

"ماشاء اللہ۔۔۔۔

مس منہاء کے منہ میں تو زبان موجود ہے۔۔۔

میں تو سمجھا تھا کہ شاید!!!!"

آہل مصنوعی انداز آور ہوا۔۔۔

"ویسے مس منہاء آپ تو بہت ہی سمجھ دار نکلی۔۔۔

میں تو اپکو بس بد تمیز اور بد زبان سمجھتا تھا مگر آپ تو بہت شاطر اور تیز معلوم ہوئی مجھے۔۔۔۔"

آہل ڈرامائی انداز سے چونکتے گو ہوا۔۔۔۔

"اور ہو بھی نہ کیسے؟؟؟

یہاں تک پہنچنا آسان بات تھوڑی تھی!!!!"

"کیوں کیا یہ سب میرے ساتھ آہل تم نے۔۔۔؟؟؟؟

کیوں؟؟؟؟؟"

منہاء نے سنا تو تلملاتے ہوئے آہل کا گریبان پکڑے روتی سناٹ ہوئی.۔۔۔۔

"آخر کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا ؟؟؟؟

کیوں کررہے ہو میرے ساتھ ایسا؟؟؟؟؟

کہ مجھ سے میری خوشی میری محبت کو ہی دور کردیا۔۔۔۔"

منہاء آہل کے گریبان کو جھنجھوڑتے شدت ہوئی۔۔۔۔

جبکہ آہل نے منہاء کو اپنے گریبان جکڑے دیکھا تو اس کے ہاتھوں کو جھٹکتے خود سے دور دھکا دیا۔۔۔۔

"تھپڑ کا حساب ابھی میں نے پورا لیا نہیں تم سے۔۔۔۔

اور تم ہو کہ مزید خود کیلئے بدنامیاں سیمٹنا چاہتی ہو۔۔۔"

آہل لفظ بہ لفظ چباتے منہاء کے دونوں کو ہاتھوں کو دبوچے سنگین ہوا۔۔۔۔

"میرے غصے اور نفرت کو مزید ہوا مت دو منہاء!!!!

ورنہ وہی حال کرونگا میں تمہارا بھی جو تمہاری ماسٹر پلین ہما کا کیا ہے میں نے۔۔۔۔

اچھے سے جانتا ہو اسے کہ کتنی نیچ اور بدکردار عورت ہے وہ۔۔۔۔

اور اس جیسی تم بھی۔۔۔۔۔"

آہل انگلی دکھائے انگاری ہوا جبکہ منہاء جو اس سب سے اب بھر چکی تھی غصے سے بپھڑتی آہل کے سینے پر چست بھرے چیخی۔۔۔۔

"کون ہے ہما؟؟؟؟

کس کی سزا دے رہے ہو تم مجھے آہل خان؟؟؟؟

کتنی بار کہوں تمہیں میں کہ میں کسی ہما کو نہیں جانتی۔۔۔۔

تو کیوں؟؟؟؟

کیوں مجھ سے سب چھین رہے ہو؟؟؟؟

کیوں اس کی گناہوں کی سزا مجھے دے رہے ہو!!!!!؟؟؟"

منہاء اپنے بالوں کو نوچتے چیختے چلائی۔۔

اور پھر اپنے چہرے پر ہاتھ جمائے روتے ہوئے زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔۔۔۔

"میں نہیں جانتی کسی کو!!!۔۔۔۔۔

نہیں جانتی!!!!!

تمہاری ایم غلط فہمی نے مجھے تباہی پر لا کھڑا کر دیا ہے آہل خان۔۔۔۔

مجھے تباہ کر دیا ہے!!!!'

"جھوٹ!!!!

ابھی بھی تم جھوٹ بول رہی ہو!!!!!

کیوں جھوٹ بول رہی ہو میرے سامنے!!!!!

سب سچ سامنے آ چکا ہے تو پھر کیوں جھوٹ بول رہی ہو اب۔۔۔۔

کیا سچ کا سامنا کرنا شرمناک عمل ہے تمہارے لیے؟؟؟

بولوں !!!!"

آہل جھکتے ہی منہاء کو بازوؤں سے دبوچتے اپنی جانب کھینچتے کھڑا کیا جو سہمتے ہوئے اس کی خونخوار آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

"ایسے کیسے ہو سکتا ہے جس لڑکی نے پانچ سال مجھے پلٹ کر نہیں دیکھا اسی دن مجھ سے بات کرے جس دن تم سے سامنا ہوا میرا۔۔۔

اسی دن میرے آفس میں آئے جس دن تم میرے گھر تک پہنچ گئی۔۔۔

کیا یہ سب بھی ایک دھوکا تھا۔۔۔۔

کیا یہ سب بھی اتفاق تھا۔۔۔

جھوٹ تھا؟؟؟؟؟؟"

آہل منہاء کو دبوچے خود کے مزید کرتے اس پر جھکتے چنگارا۔۔۔۔

"مجھے بیوقوف مت بناؤ اور نہ ہی سمجھو۔۔۔۔

ایک بار دھوکا کھا چکا ہو بار بار خود کو ختم نہیں کرونگا۔۔۔"

جبکہ منہاء نفی میں سر ہلائے اس کو بھیگی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

"ہاں۔۔۔۔

سب اتفاق ہے۔۔۔۔

سب دھوکا ہے۔۔۔۔

اپکی غلط فہمی ہے آہل۔۔۔۔

یہ میرے جڑے ہاتھ دیکھیے۔۔۔۔"

منہاء آہل کے سامنے ہاتھ جوڑے روئی۔۔۔۔

"میں نہیں جانتی کسی بھی ہما کو۔۔۔۔

اس سے اپکا کیا تعلق تھا میں نہیں جانتی۔۔۔۔

وہ تو بس ایک حادثہ تھا ایک مدد تھی جو مجھ پر بہت مہنگی پر گئی ہے کہ میرے رشتے تک فنا ہوگئے اس کے پیچھے۔۔۔"

منہاء تاسف ہوئی۔۔۔۔

"مجھے یقین نہیں!!!!

تمہاری کسی بھی بات کا مجھے یقین نہیں۔۔۔۔

جھوٹ ہو تم سراسر۔جھوٹ ۔۔۔۔۔"

آہل منہاء کو بے اعتباری سے خود سے دور کرتے پیچھے کو کھنگارا۔۔۔۔

منہاء نے آہل کی ہٹ دھرمی دیکھی تو اپنے آنسوں پونچھتے سر ہلائے خود کو سنبھالنے لگی۔۔۔۔

"صیحح کیا۔۔۔۔

وہ جو بھی لڑکی تھی اس نے جو بھی کیا تم جیسے جانور کے ساتھ صیحح کیا۔۔۔۔

اور اس کی جگہ اگر میں ہوتی تو تمہارا وہ حال کرتی کہ خود کو دیکھ کر روتے!!!!!"

منہاء اب حقیر نظروں سے سفاک ہوئی۔۔۔

"کیونکہ تم جیسا خبیث انسان اسی لائق ہوگا جو وہ تمہارے ساتھ برا کر کے گئی۔۔۔۔

اور میں چاہتی ہو تمہارے ساتھ اس سے بھی برا ہو۔۔۔۔

تم بھی تڑپو جیسے تم نے مجھے تڑپایا۔۔۔

تم بھی خالی ہاتھ ہوجاؤ جیسے مجھے میری محبت سے خالی ہاتھ کیا۔۔۔۔"

منہاء آہل کو انگاری نظروں سے بدگوئیاں بھرے چلا رہی تھی۔۔۔۔

جبکہ آہل اسے کاٹ کھانے کی. نظروں سے گھور رہا تھا۔۔۔۔

"کبھی سکون نہ ملے تمہیں آہل خان۔۔۔۔

کبھی سکون نہ ملے تمہیں۔۔۔۔

دعا ہے یہ میری اور تمہارے حق میں بدعا ہے یہ۔۔۔۔"

منہاء شدت ہوتے اپنا ڈوپٹہ اوڑھے چیخی اور پھر آہل کے کندھے کو دھکا دیتے وہاں سے چلتی بنی۔۔۔۔

"اگر ایسے لوگوں کی بدعائیں لگنے لگ گئی تو ہوگئی دنیا کامیاب اور چل پڑا نظام۔۔۔۔

خود کے دامن داغدار اور آئے ہیں لوگوں کی گریبان کو پکڑنے۔۔۔۔"

بدگمانی کی چادر میں چھپا آہل ابھی بھی نفرت انگیز ہوتے منہاء کو جاتے دیکھ رہا تھا اور پھر اس کے جاتے ہی واپس اپنی گاڑی کی جانب بڑھا اور خود بھی وہاں سے چلتا ہوا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء کسی نہ کسی طرح خود کو سمیٹے جیسے ہی گھر پہنچی تو دروازے سے پھوں پھاں نکلتے بلال کو دیکھا جسے دیکھ کر منہاء کا دل بند سا معلوم ہوا۔۔۔

ایک پل کو وہ اس کی جانب ہوئی مگر بلال کی آنکھوں میں خود کیلئے نفرت دیکھ کر وہ وہی رک گئی۔۔۔۔

بلال کو اپنے گھر سے یوں جاتے دیکھ کر منہاء کی آنکھیں پھر سے نم ہوئی۔۔

مگر پھر اچانک سوچ ناز بی کی جانب ہوئی۔۔۔۔

"امی!!!!!

کہیں بلال نے امی کو کچھ!!!!!"

منہاء حواس باختگی سے سوچتے ہی اندر کو بھاگی۔۔۔۔

کہ اندر داخل ہوتے ہی  اسے سامنے سر پکڑے بیٹھی ناز بی نظر آئی جنھیں بلال سب کچھ بتا کر جا چکا تھا۔۔۔۔

"امی!!!!!!"

منہاء مدہم روہانسی ہوتے ہوئی ناز بی کی جانب بڑھی۔۔۔۔

"مر گئی امی!!!!

مر گئی تمہاری ماں!!!!

مار دیا تم نے اپنی امی کو۔۔۔

کہیں کا نہیں چھوڑا اسے منہ دکھانے کو۔۔۔۔"

ناز بی تھکے لہجے سے مدہم ہوئی۔۔۔

"نہیں امی۔۔۔۔۔

ایسا مت کہے ۔۔۔۔

اپ کو خدا کا واسطہ ایسا مت کہے۔۔۔۔"

منہاء ہاتھ جوڑے تلملائی۔۔۔۔

"تو اور کیا کہوں!!!!

جو سچ ہے وہی کہہ رہی ہو ناں۔۔۔۔

اپنی بیٹی کی عزت کا جنازہ نکلتے دیکھا ہے اس گھر سے میں نے۔۔۔۔

تو سب ختم  ہی تو ہوا ہے منہاء۔۔۔۔"

"امی بلال غلط سمجھا ہے۔۔۔۔

میں اس سے بات کرونگی اسے بتاؤ گی کہ جو کچھ بھی اس کے دیکھا ہے وہ اسے دیکھایا۔گیا ہے بس۔۔۔۔۔

آپ دیکھنا وہ مجھے سمجھے گا۔۔۔

مجھے مانے گا اور سب ٹھیک ہو جائے گا پہلے کی طرح سب ٹھیک۔۔۔۔"

منہاء اپنے آنسوں صاف کرتے بدحواسی ہوئی۔۔۔

"کچھ ٹھیک نہیں ہوگا۔۔۔

عزتوں کا جنازہ نکل جائے تو پلٹتا نہیں ہے ۔۔۔

تمہارے باپ کی عزت کا جنازہ  نہ روک سکی میں۔۔۔۔

ان کے غرور کو خاک ہوتے دیکھتی رہی میں۔۔۔۔"

ناز بی ماتم کناں انداز آور ہوئی۔۔۔

'اور اس میں برابر کی ذمہ دار میں ہی ہو۔۔۔

جو تمہاری جاںجا ضد کو روک نہ سکی۔۔۔"

ناز بی بول رہی تھی جبکہ منہاء نفی میں. سر ہلاتے ناز بی کے سامنے جا بیٹھی اور زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھتے ان 

 کے پیروں کو تھامے رونے لگی۔۔۔۔

"نہیں امی!!!!

پاپا کی عزت کو کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔

انکا غرور آج بھی ویسا ہی ہے جیسا پہلے تھا۔۔۔۔۔

ان کا غرور آج بھی زندہ ہے۔۔۔۔

میں کبھی اسے خاک میں ہونے نہیں دونگی۔۔۔

کبھی نہیں ہونے دونگی!!!!!'

منہاء ناز بی کے پیروں کو چومتے رونے لگی۔۔۔۔

"پیچھے!!!!!

پیچھے منہاء!!!!!

تم ہو قاتل۔۔۔۔

اپنے باپ کی عزت کی قاتل۔۔۔۔

اس انسان نے پوری زندگی کمایا ہی کیا۔۔۔۔

نیک نامی۔۔۔۔

عزت وقار۔۔۔

اور تم نے کیا کیا  اس کا ہی گلہ گھونٹ ڈالا۔۔۔

اپنے باپ کی عزت کا خیال بھی نہ کیا۔۔۔۔"

ناز بی فورا وہاں سے اٹھتے پیچھے کو بلبلائی۔۔۔۔

"نہیں امی۔۔۔۔

نہیں۔۔۔۔

میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔

وہ سب دھوکا تھا چال تھی۔۔۔۔

آپ سب مجھے غلط سمجھ رہے ہیں امی!!!!!

میں نے اپکو سب بتایا تو تھا ناں۔۔۔

کچھ نہیں چھپایا تھا تو کیوں نہیں مجھ پر یقین کررہی آپ۔۔۔۔"

منہاء ناز بی کے قریب ہوتے ان کے چہرے کو کانپتے ہاتھوں سے چھوتے گو ہوئی۔۔۔۔

"اور جو بلال نے تمہیں اس کی بانہوں میں!!!!!

مجھے تو شرم آرہی ہے بولتے ہوئے۔۔۔۔" 

ناز بی اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھامے انیزوی ہوئی۔۔۔

"کیا وہ سب بھی جھوٹ تھا۔۔۔۔"

ناز بی کے سوال پر منہاء نظریں جھکائے گھنگولی۔۔۔۔

جبکہ منہاء کی اس خاموشی کو دیکھ کر ناز بی اس کو خود سے پیچھے کرتے ہوئی۔۔۔

"تمہاری خاموشی سب بتا دیتی ہے مجھے منہاء۔۔۔۔

اور تمہاری خاموشی کہہ رہی ہے کہ جو بھی بلال مجھے بتا کر گیا ہے وہ سچ ہے۔۔۔۔"

ناز بی حف ہوئی۔۔۔۔

"امی میں بتاتی ہو اپکو سب۔۔۔۔

آپ ایک بار۔۔۔۔

بس ایک بار میری بات۔۔۔۔"

منہاء ایک بار پھر ناز بی کی جانب بڑھی۔۔۔۔

"میرا دل پھٹ رہا ہے منہاء۔۔۔۔

میرا دل پھٹ رہا ہے۔۔۔۔

 دور رہو مجھ سے بس۔۔۔

دور رہو۔۔۔۔۔

شکر ہے اللہ کا کہ تمہارا باپ پہلے ہی مر گیا ورنہ آج اس موت مرتا کہ نہ جان نکلتی نہ سانس آتا۔۔۔۔"

ناز بی وہاں سے روتے ہوئی سیدھا اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔۔۔

جبکہ منہاء نے ناز بی کو یوں جاتے دیکھا تو فورا ان کے پیچھے کو بھاگی۔۔۔

"امی۔۔۔۔

امی پلیز!!!!

بس ایک بار!!!!

بس ایک بار میری بات سن لے۔۔۔۔

اپکی بیٹی پاک ہے۔۔۔۔

ابو کا غرور نہیں ٹوٹا امی۔۔۔۔

ابو کا غرور نہیں ٹوٹا۔۔۔۔"

منہاء دروازے پر اپنا ہاتھ پٹخے چلا رہی تھی۔۔۔۔

"میں سوچ بھی نہیں سکتی ایسا کرنے کو۔۔۔۔

بس ایک بات میری سن ہے!!!!"

منہاء باہر ںیٹھی چلا رہی تھی جبکہ ناز بی دروازہ بند کیے زمین پر ںیٹھی رو رہی تھی

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"کون ہے ہما؟؟؟؟

کس کی سزا دے رہے ہو تم مجھے آہل خان؟؟؟؟

کتنی بار کہوں تمہیں میں کہ میں کسی ہما کو نہیں جانتی۔۔۔۔

تو کیوں؟؟؟؟

کیوں مجھ سے سب چھین رہے ہو؟؟؟؟

کیوں اس کی گناہوں کی سزا مجھے دے رہے ہو!!!!!؟؟؟"

آہل اپنے اسی کمرے میں بیٹھا خود میں مگن پیانو بجا رہا تھا جب ایک دم اس کی آنکھوں کے سامنے منہاء کا روتا بلکتا چہرہ آیا کہ چلتی انگلیاں وہی رک گئی اور پھٹی آنکھوں سے وہ چاروں اطراف دیکھنے لگا۔۔۔۔

"میرے حواسوں تک سوار ہوگئی تھی یہ۔۔۔۔

اچھا مزہ چکھایا ہے میں نے اسے اب ۔۔۔۔۔

اب کبھی میرے سامنے آنے کی ہمت نہیں کرے گی۔۔۔۔"

آہل فاتحانہ انداز لیے سامنے پڑے شراب کے گلاس کو منہ سے لگائے ایک گھونٹ میں انڈیلا اور پھر سے پیانو کی میٹھی آواز کو بکھیرنے لگا۔۔۔

"لگتا ہے آج ہمارا پوتا خوب خوش ہے۔۔۔۔"

خان بابا جو دروازے پر ہی کھڑے تھے آہل کی جانب ہوئے۔۔۔۔

"اور یہ بات اپکو کیسے پتہ کہ میں بہت خوش ہو؟؟؟؟"

آہل خان بابا کی جانب ہوتے مسکرایا۔۔۔۔

"تمہارے پیانو کی دھن سے۔۔۔۔

مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ تم۔خوش کب ہوتے اور دکھی کب۔۔۔۔"

خان بابا آہل کے روبرو بیٹھتے بولے۔۔۔۔

جبکہ آہل اپنے گلاس کو شراب سے بھرتے مسکرایا۔۔۔

"مگر ایک بات کہوں تم سے آہل۔۔۔۔"

خان بابا جو آہل کے چہرے کو گور سے دیکھ رہے تھے گھنگولے ہوئے۔۔۔۔

"دادا مجھ سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی آپ کو۔۔۔۔

بے دھڑک بولا کرے آپ بس۔۔۔"

آہل خوش مزاجی سے بولا۔۔۔۔

"تم بظاہر تو بہت خوش معلوم ہو رہا ہے مگر۔۔۔۔"

خان بابا مبہم ہوئے۔۔۔۔

'مگر دادا؟؟؟؟"

"مگر تمہاری آنکھیں اور تمہارا چہرہ اس خوشی میں شریک نہیں۔۔۔

جیسے سب دکھاوا ہو۔۔۔۔

اوپری دکھاوا۔۔

یا کسی کہ خوشی کا چھینا ہوا احساس ہو۔۔۔۔"

خان بابا کی بات سنی تو آہل کے چہرے کی پھیکی مسکراہٹ بھی گم ہو گئی۔۔۔۔

"نہیں دادا میں خوش میں۔۔۔

اور لازم نہیں خوشی کا اظہار شور سے ہی ہو۔۔۔"

"ہاں ںرخودار وہی تو ہم۔کہہ رہا۔۔۔

خوشی کا اظہار سکون سے ہوتا ہے۔۔۔

جو تم۔میں ہم کو کہیں معلوم۔نہیں ہوا۔۔۔۔

ناجانے کیسی خوشی ہے کہ بس ہونٹ ہی ہل رہے باقی سب اداس ہے۔۔۔۔"

خان بابا نفی میں سر ہلائے اٹھے اور وہاں سے چلتے بنے۔۔۔

جبکہ آہل وہی بیٹھا خان بابا کی باتوں پر غور کرنے لگا۔

"میں تو پہلے ہی جانتی تھی کہ وہ لڑکی ہے ہی بدکردار۔۔۔۔

مگر تجھے تو میری ایک بات بھی سمجھ نہیں آتی تھی۔۔۔

بس عشق کا بھوت سوار تھا تیرے سر پر۔۔۔۔۔

بھگت اب میری کونسی سنتا تھا تو جو اب میرے سرہانے پیٹ رہا ہے۔۔۔۔۔"

نغمہ بیگم جو پاندان اپنے سامنے رکھے مزے سے چھالیا کاٹ رہی تھی سامنے بیٹھے بلال کو روہانسی دیکھ کر مزید زیر آلود ہوئی۔۔۔۔

"اس لڑکی کے پیچھے تو اپنی ماں کی نافرمانی کررہا تھا ناں۔۔۔

مجھے غلط کہتا تھا مجھ سے لڑتا تھا۔۔۔۔

دیکھ لے خدا نے تجھ سے کیسا بدلا لیا !!!!!"م

اور کیسے اس کی اصلیت تیرے سامنے کھولی۔۔۔

"میں تو شکر  ادا کرتی ہو کہ میری بہو نہیں بنی وہ۔۔۔

ایسی لڑکیاں نسلیں تباہ کر دیتی ہیں۔۔۔"

نغمہ بیگم زخم پر نمک کا کام بخوبی کررہی تھی جبکہ بلال جو اپنی ہی سوچ میں گم خالی ہتھیلی کو دیکھ رہا تھا خاموش رہا۔۔۔۔

"اور بلال اب تو سن لے۔۔۔۔"

نغمہ بیگم نے موقع اچھا سمجھا تو فورا بولی۔۔۔

"اب خبردار اس لڑکی کی جانب مڑا بھی تو۔۔۔۔

اب میں خود تیرے لیے کوئی اچھی سی لڑکی ڈھونڈو گی جس سے تیرا بیاہ رچاؤ گی۔۔۔

مجھے تو سوچ کر ہی شرم آتی ہے۔۔۔۔

کہ کیسی بے شرم لڑکی ہے۔۔۔"

نغمہ بیگم کانوں جو ہاتھ لگائے حیرت ذدہ ہوئی۔۔۔

"نہ شرم نہ لحاظ کسی غیر مرد کے ساتھ لگی پڑی جاتی ہے۔۔۔۔

اور ویسے ہی اس کی ماں جسے کوئی خبر ہی نہیں۔۔۔"

"امی بس بھی کردے۔۔۔۔۔

یہ میرے جڑے ہاتھ دیکھ لے آپ!!!!!

پلیز چھوڑ دے اسے۔۔۔۔"

بلال غصے سے بپھڑتے ہاتھ جوڑے چلایا۔۔۔

"آپ کو بتانے کا مقصد اس کے قصیدے سننا نہیں تھا۔۔۔۔

اور اب جہاں اپکی مرضی ہو جو کرنا ہے کرے آپ۔۔۔

مجھے مت سنائیے پلیز!!!!"

"جب دیکھو تماشا۔۔۔

زندگی عذاب بنا دی ہے سب نے مل کر میری۔۔۔۔"

بلال زیر لب بڑبڑائے غصے سے پھوں پھاں کرتے وہاں سے چلتا بنا۔۔۔۔

"ابھی بھی تجھے سبق نہیں مل رہا ہے بیغیرت۔۔۔۔

ابھی بھی مجھ پر ہی چیخ رہا ہے جیسے میں نے اسے ایسا کرنے کو کہا تھا۔۔۔

ابھی تک اس بدکردار منحوس لڑکی کیلئے مجھ سے لڑ رہا ہے۔۔۔"

نغمہ بیگم منہ میں پان دبائے اس کے پیچھے کو چلائی۔۔۔

"اللہ کرے مر ہی جائے وہ۔۔۔

بیڑہ غرق کردیا ہے تیرا اس نے۔۔۔۔

دیکھتی ہو اب کیسے تو میری بات نہیں سنتا۔۔۔۔"

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

خان بابا کی باتوں نے آہل کو الجھا کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔

جبکہ وہ خود. بھی اپنی بے سکونی کو اچھے سے محسوس کررہا تھا۔۔۔۔

"اکثر دادا کی باتیں مجھے الجھا کر رکھ دیتی ہے۔۔۔۔

میں خوش ہو میں جانتا ہو۔۔۔۔"

آہل سگار سلگائے بالکنی کی جانب بڑھا جہاں سے گہری سیاہ رات کی چادر پر ٹمٹماتا چاند اس کو اپنی روشنی سے روشن کررہا تھا۔۔۔۔

"مگر پھر بھی یہ خوشی دل سے نہیں۔۔۔۔

بوجھ محسوس ہو رہا ہے میرے دل پر میرے ضمیر پر۔۔۔۔"

آہل نے گہرا کش بھرا اور باہر کو چھوڑا۔۔۔۔

"تم بھی تڑپو جیسے تم نے مجھے تڑپایا۔۔۔

تم بھی خالی ہاتھ ہوجاؤ جیسے مجھے میری محبت سے خالی ہاتھ کیا۔۔۔۔"

"کبھی سکون نہ ملے تمہیں آہل خان۔۔۔۔

کبھی سکون نہ ملے تمہیں۔۔۔۔

دعا ہے یہ میری اور تمہارے حق میں بدعا ہے یہ۔۔"

آہل کے کانوں میں منہاء کی بدعا گونجی تو چونکتے ہوئے اس کا سگار اس کے پاؤں پر جا گرا جس کی جلن سے وہ فورا پیچھے کو ہوا۔۔۔۔

"ڈر لگ رہا ہے مجھے اب۔۔۔۔

کہیں اپنی نفرت اپنے بدلے اور انا میں, میں نے کچھ غلط!!!!"

آہل کو ایک سنگین احساس نے آ گھیرا۔۔۔۔

"نہیں۔۔۔

نہیں مت سوچوں ایسا آہل۔۔۔۔

مت سوچوں۔۔۔۔

تم نے جو بھی کیا ہے ٹھیک ہی کیا ہے۔۔۔

ایک اصلیت ہی تو سامنے لائے ہو تم۔۔۔۔

تو ڈر کس بات کا۔۔۔۔"

آہل گرے ہوئے سگار کو اٹھاتے اپنی ہی سوچ کی نفی کرتے لیٹر سوچنے لگا۔۔۔

"اچھا ہی ہوا کہ اس کی اصلیت اس کا منگیتر بھی جان گیا ورنہ جو حال میرا کیا تھا ہما نے اس کا بھی وہی ہوتا۔۔۔"

آہل سگار کا دھواں اندر کھینچتے ہوئے پرسکون ہوا اور پھر چمکتے ہوئے چاند پر نظریں جمائے رات کی گہرائی کو دیکھنے لگا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء رات بھر ناز بی کے کمرے کے باہر ںیٹھی رہی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد ان کے دروازے پر دستک بھرتی رہی۔۔۔۔

کہ شاید ناز بی اس کیلئے دروازہ کھولے اور اس کو اپنی ممتا کی چادر میں سمیٹے اس کو بہلائے۔۔۔۔

مگر اندر سے کوئی جواب نہ پا کر وہ پھر اسی طرح نامیدی سے بیٹھی رہی۔۔۔۔

کہ اسی انتظار میں پوری رات  کب گزر گئی اور کب صبح کا اجالا چمکا اسے خود خبر نہ ہوئی۔۔۔۔

رات بھر بے سکونی اور جاگ کر گزارنے کی وجہ سے منہاء کی آنکھوں میں سرخی پھیلی ہوئی تھی۔۔۔۔

دروازے سے سہارا بھرتے وہ ایک بار پھر سے آخری دستک بھرنے کو اٹھی مگر جیسے ہی دروازے پر ہاتھ رکھا تو محسوس کیا کہ وہ کھلا ہوا ہے۔۔۔

"امی؛!!!!!"

دروازے کو کھلا دیکھ کر منہاء فورا اندر کی جانب لپکی۔۔۔۔

اسی خوشی میں کہ وہ ناز بی کو اپنی سچائی کا یقین دلائے  گی مگر اندر داخل ہوتے ہی سامنے زمین پر اوندھے منہ گری ناز بی کو دیکھ کر وہ سکتے سے ٹھٹک سی گئی۔۔۔۔

اور اسی طرح دروازے سے لگے وہ بے سود ہوتے ناز بی کو زمین پر گرے دیکھنے لگی۔۔۔۔

"امی!!!!!"

منہاء روہانسی ہوتے ناز بی کی جانب اب قدم بڑھاتے اہستگی سے ہوئی۔۔۔۔

"امی!!!!!!

آپ میری آواز سن کیوں نہیں رہی؟؟؟؟"

منہاء نے ایک بار پھر سے ناز بی کو آواز دی کہ شاید وہ اس کی بات کا جواب دے مگر خاموشی پا کر منہاء اپنا سکوت توڑتے سیدھا ان کی جانب لپکی۔۔۔۔

اور ناز بی کا سر اپنی گود میں بھرے ان کے چہرے کو تھپتپھانے لگی۔۔۔۔

"امی !!!!!

امی کیا ہوا ہے آپ کو۔۔۔۔؟؟؟؟

امی!!!!"

منہاء کے ہاتھ خوف سے کپکا رہے تھے جبکہ وہ لزرتی آواز سے ناز بی کو اٹھانے کی کوشش میں تھی۔۔۔۔

"امی اٹھیے ناں۔۔۔۔

اٹھیے۔۔۔۔

امی!!!!

دیکھے میں ہو اپکی منہاء۔۔۔۔۔

پلیز مجھے مت ڈرائیے۔۔۔"

منہاء مسلسل ناز بی کے چہرے پر تھپکی بھرتے اب ان کو خود سے لگائے رونے لگی۔۔۔۔

"مجھے مت ڈرائیے امی!!!!

ایسا ڈر مجھے ابو کی موت پر لگا تھا جیسا آج لگ رہا ہے پلیز اٹھیے دیکھیے میں ہو منہاء۔۔۔۔!!!!"

"رکشہ!!!!!

ہسپتال۔۔۔۔۔"

منہاء منہ میں خود کلام ہوتے تیزی سے بڑبڑائی اور پھر ناز بی کو  وہی چھوڑتے باہر کی جانب بھاگی کہ باہر جاتے منہاء کے سر پر نہ ہی چادر رہی اور نہ ہی پیروں میں جوتی۔۔۔۔

جبکہ ناز بی وہی زمین پر پڑی بے سود رہی۔۔۔۔

بوکھلاتی اور حواس باختگی سے باہر بھاگتی منہاء سڑک پر بھاگتے آتے جاتے رکشے کو روکنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔

صبح سویرے کا وقت ہونے کی وجہ سے سڑک پر ابھی ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔۔۔۔

"رکشہ!!!!!!

رکشہ؟!!!!"

ہر رکشے کی جانب وہ روتے بلکتے بھاگی مگر کوئی بھی اس کی جانب نہ رکا۔۔۔۔

"کوئی تو رک جائے۔۔۔ 

پلیز کوئی تو۔۔۔۔۔

میری امی کو کچھ ہو گیا ہے۔۔۔۔

کوئی تو میری مدد کرے۔۔۔"

منہاء سڑک کنارے کھڑی بالوں میں ہاتھ پھیرتے چیخی۔۔۔۔

کہ تبھی ایک بزرگ جو اپنے رکشے کو لیے وہاں سے گزر رہا تھا سامنے بھاگتی روتی منہاء کو دیکھا تو فورا اس کی جانب ہوئے۔۔۔۔

"کیا ہوا ہے بیٹی؟؟؟؟

سب خیریت تو ہے ناں؟؟؟

کیا کوئی مسئلہ ہے؟؟؟؟"

"انکل!!!

وہ!!!!

وہ میری امی!!!!"

منہاء بمشکل لفظوں کو کھنگالے ہکلا رہی تھی۔۔۔۔

"وہ بے ہوش ہوگئی ہے۔۔۔

کیا آپ پلیز!!!!"

"ہاں ہاں بیٹی کیوں نہیں۔۔۔۔

 میں لے کر چلتا ہو ان کو اپنے ساتھ ہسپتال۔۔۔۔

بیٹا بتاؤ کہاں ہے اپکا گھر؟؟؟"

وہ بزرگ فورا اپنے رکشے سے نکلتے آگے کو بڑھے۔۔۔

منہاء نے سامنے کھڑے فرشتہ صفت انسان کو اپنی مدد کرتے دیکھا تو فورا اپنے آنسوں پونچھتے اپنے گھر کی جانب تیز قدم ہوئی۔۔۔۔

اور داخل ہوتے ہی اپنا ڈوپٹہ پکڑے وہ ناز بی کے کمرے کی جانب بھاگی۔۔۔۔

بزرگ نے ناز بی کو بے ہوش دیکھا تو فورا باہر کی جانب بڑھے۔۔۔۔

"بیٹا میں رکشہ لاتا ہو باہر آپ انہیں لے کر آؤ فورا۔۔۔۔

ان کی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے مجھے

جلدی کرو۔۔۔۔۔"

منہاء نے سنا تو حامی میں سر ہلائے ناز بی کو بمشکل اپنے سہارے پر کھڑا کرتے باہر کی جانب بڑھی اور بزرگ کی مدد سے ناز بی کو رکشے میں بٹھاتے سیدھا ہسپتال کو ہوئی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل جو پوری رات کروٹیں بدلتا رہا تھا ہاتھ میں جوس کا گلاس تھامے جمائی بھرتے سیدھا لاؤنچ کی جانب ہوا۔۔۔۔

جہاں پہلے سے ہی موجود خان بابا اخبار کا مطالعہ کررہے تھے۔۔۔۔

"گڈ مارننگ دادا!!!!

کیسے ہو آپ؟؟؟؟"

خان بابا کو سامنے بیٹھے دیکھ کر وہ پرجوش ہوا۔۔۔۔

"میں ٹھیک تم سناؤ۔۔۔۔

تم تو بہت فریش لگ رہا ہے آج۔۔۔۔"

خان بابا اخبار دوسری جانب رکھے تاسف ہوئے۔۔۔۔

"جب انسان اندر سے خوش ہو ناں تو بظاہر فریش ہی معلوم ہوتا ہے وہ۔۔۔۔

دیکھ سکتے ہیں آپ مجھے اپکی رات کی کہی گئی بات میں نے غلطی ثابت کردی ہے۔۔۔۔"

آہل تاسف مسکرایا۔۔۔۔

"ہم ویسے کہنا نہیں چاہتا تھا مگر تم۔نے جو بات کہی تو کہہ ہی دیتا ہے۔۔۔۔

تم ابھی بھی ہم کو ویسا ہی معلوم ہو رہا ہے یا اس سے بدتر جیسا رات کو ہم کو نے دیکھا تھا۔۔۔۔"

خان بابا طنزیہ مسکراہٹ ہوئے.۔۔۔۔۔۔

"اففففففففففف جان کر کررہے ہیں ناں میرے ساتھ آپ یہ سب۔۔۔۔"

آہل نے سنا تو قہقہ آور ہوا۔۔۔۔

"جانتا ہو میں اپکو مجھے تنگ کرنے میں کتنا مزہ آتا ہے"

"ہم تمہارا دشمن نہیں دوست ہے۔۔۔۔

جو دیکھے گا وہی بتائے گا۔۔۔۔

ناجانے منہ دھوتے ہوتے ہوئے تم کہاں دیکھتا ہے ورنہ ہم کو تمہیں یہ بتانے کی ضرورت نہ پڑتی کہ تمہارے چہرے پر کس قدر اکتاہٹ اور بیزاری پھیلا ہوا ہے۔۔۔۔"

خان بابا آہل کے چہرے پر اشارہ بھرے بولے۔۔۔

"چھوڑیے دادا۔۔۔۔

آپ کو پتہ نہیں کب سے میرا چہرہ پڑھنے کا شوق ہوگیا ہے۔۔۔"

آہل نے خان بابا کی بات سنی تو نظر انداز کرتے ہوئے وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا 

"آئیے ناشتہ کرتے ہیں مل کر بہت بھوک لگی ہے مجھے تو۔۔۔۔"

"جب سے تم نے اپنے اوپر لبادہ اوڑھا ہے تب سے ہم تم کو پڑھنا بھی سیکھ لیا ہے۔۔۔۔

وہ الگ بات ہے کہ تم۔مانتا نہیں ہے ہمارا۔۔۔۔"

خان بابا نے آہل کو جاتے دیکھا تو زیر لب بڑبڑائے اس کے پیچھے کو چل پڑے۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء وارڈ کے باہر بیٹھی مسلسل سورت کا ورد کررہی تھی جب ثمر پوچھتے پوچھاتے اس کو دیکھتے ہی اس کی جانب بڑھی۔۔۔۔

"منہاء!!!!!!"

منہاء جو آنکھیں موندھے اپنا چہرہ ہاتھوں. میں لیے دعا گو تھی ثمر کی آواز سنتے ہی اس کی جانب تیزی سے لپکی اور لپٹ گئی۔۔۔

"ثمر!!!!!

میں بہت اکیلی تھی۔۔۔۔

کوئی نہیں تھا میرے پاس۔۔۔۔

اور دیکھو امی۔۔۔"

منہاء وارڈ کی جانب اشارہ کرتے زور زور سے رونے لگی اور پھر واپس ثمر سے لگ گئی اور گرفت مضبوط کی۔۔۔۔

"کیا ہوا ہے آنٹی کو؟؟؟

اور وہ بھی اچانک!!!!

کل تک تو ٹھیک تھی ناں وہ۔۔۔"

ثمر منہاء کو خود سے الگ کرتے واپس کرسی پر بیٹھاتے پریشان ہوئی۔۔۔

"مجھے تو جیسے ہی تم نے فون کیا مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا بس بھاگتی ہوئی آئی ہو تمہارے پاس یہاں۔۔۔"

ثمر روتی منہاء کو دیکھتے سوالیہ ہوئی جو بس ہچکیاں بھرے تیز تیز سانس لے رہی تھی۔۔۔۔

"میں نہیں چھوڑو گی ثمر۔۔۔۔

میں کسی کو نہیں چھوڑو گی اگر میری امی کو کچھ ہوا۔۔۔

میں سب کو تباہ کردونگی۔۔۔

سب کو۔۔۔۔"

منہاء جس سے اب بولا بھی نہیں جا رہا تھا ثمر اس کو ناسمجھی نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔۔

"اچھا بس کرو۔۔۔۔

شششششششش چپ رہو بس۔۔۔۔

تمہارے رونے سے نہیں دعا کرنے سے ہی آنٹی ٹھیک ہو سکتی ہے۔۔۔۔

بس دعا کرو تم۔۔۔"

ثمر منہاء کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں دبوچے اس کے آنسوں صاف کرتے بولی۔۔۔

اور یہ بتاؤ ڈاکٹر نے کچھ بتایا کہ کیا ہوا ہے 

آنٹی!!!؟؟

کیوں اچانک ان کی طبیعت خراب ہوگئی ہے۔۔۔"

 منہاء نے سنا تو نفی میں سر ہلایا۔۔۔

"ہمت ہی نہیں پڑی کہ کسی کو بھی روک کر کچھ پوچھ سکوں۔۔۔۔

مجھ میں سکت نہیں کچھ بھی سن سکوں ایسا جو میں سننا نہیں چاہتی۔۔۔۔"

منہاء اپنے چہرے کو صاف کرتے گو ہوئی۔۔۔

"اچھا کوئی بات نہیں تم یہی بیٹھوں میں پوچھ کر آتی ہو۔۔۔

اور پلیز رونا مت۔۔۔۔"

ثمر منہاء کو حوصلہ دیتے اٹھی اور سیدھا آگے کی جانب بڑھی۔۔۔۔

جبکہ منہاء وہی بیٹھی واپس سورت کا ورد کرتے دعا گو ہونے لگی۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں ثمر ہاتھ میں پانی کی بوتل  لیے اس کی جانب آئی اور پانی کی بوتل اس کی جانب بڑھائی۔۔۔

"یہ لو پانی پیوں!!!!

رو رو برا حال کیا ہوا ہے تم نے اپنا پانی پیوں اور صبر سے کام لوں۔۔۔"

"نہیں پینا مجھے!!!!

میرا سانس لینے کو بھی جی نہیں اور تم پانی کی بات کررہی ہو؟؟؟؟

بس یہ بتاؤ کہ امی کیسی ہیں؟؟؟؟

کیا بتایا ڈاکٹر نے؟؟؟

کیا ہوا ہے انہیں؟؟؟

اور وہ ٹھیک تو ہو جائے گی ناں؟؟؟"

منہاء نے ثمر کو پانی بڑھاتے دیکھا تو بوتل کو پیچھے کرتے فورا اس کی جانب ایک سانس میں گھنگولی۔۔۔۔

"اب کیسے بتاؤ اسے کہ آنٹی ٹھیک نہیں ہے۔۔۔۔

نروس بریک ڈاؤن کی وجہ سے وہ ہوش میں نہیں آرہی ہے ناجانے رات کے کس پہر ان پر اس کا اٹیک ہوا۔۔۔۔

کہ ڈاکٹر بھی اب نامید ہے۔۔۔۔

اور اگر اسے کچھ بتایا تو یہ تو آپے سے باہر ہو جائے گی کیسے سنبھالو گی میں اسے۔۔۔۔"

ثمر دل ہی دل میں سوچتے گم ہوئی۔۔۔۔

"بولو گی کچھ کہ نہیں !!!!!

کیا بتایا ہے ڈاکٹر نے؟؟؟؟"

منہاء نے سوچ میں گم ثمر جو بازووسے دبوچے جھنجھوڑا۔۔۔۔

"پانی پیوں پہلے!!!!

پھر بتاؤ گی کہ ڈاکٹر نے کیا کہا ہے!!!"

"یہ کیا بات ہوئی ثمر؟؟؟

اب تم امی کیلئے بھی مجھے شرطوں پر ٹرکھاؤ گی۔۔۔"

"نہیں منہاء تم اپنی حالت تو دیکھو کیا بنا کر رکھی ہے۔۔۔

اب آنٹی کے سامنے ایسے جاؤ گی تو سوچوں وہ کس قدر پریشان ہونگی۔۔۔

اور ان کی طبیعت اور بھی خراب ہوگی۔۔۔

چلوں شاباش پانی پیوں۔۔۔

پھر بتاتی ہو کیا کہا ڈاکٹر نے۔۔۔۔"

ثمر منہاء کو لیے واپس کرسی پر ںیٹھی اور اسے سمجھانے لگی۔۔۔۔

"امی ٹھیک تو ہو جائے گی ناں!!!!"

منہاء بوتل ہاتھ میں پکڑے ایک بار پھر رو پڑی۔۔۔۔

"ہاں میری جان آنٹی ٹھیک ہوجائے۔۔۔

بہادر بیٹی کی بہادر ماں ہے وہ!!!!

تو کیوں ٹھیک نہیں ہونگی بتاؤ خود۔۔۔۔

اب پانی پیوں سکون ملے گا صبر ہوگا۔۔۔۔"

ثمر منہاء کو حوصلہ بھرے بولی جس پر وہ مصنوعی مسکراہٹ دیے پانی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرنے لگی۔۔۔

"بلال نے ٹھیک نہیں کیا۔۔۔۔

اس نے امی کو سب بتا کر ٹھیک نہیں کیا۔۔۔۔"

منہاء نم آنکھوں سے شکوہ کناں ہوئی۔۔۔

"وہ ایک بار مجھے سمجھ تو لیتا میری سنتا تو سہی۔۔۔

مگر نہیں اس نے جو دیکھا وہی حقیقت سمجھا اسی کو ہی تسلیم کیا۔۔۔۔"

"مجھے اصل بات کا نہیں پتہ مگر ایک بات جانتی ہو۔۔۔

کہ م یہ بھروسے کے لائق ہی نہیں تھا۔۔۔

اس جیسا شخص کبھی ایک پراعتماد مستقبل نہیں دے سکتا۔۔۔۔

مجھے ڈر تھا کہ کچھ ہوگا ایسا مگر اس کا ہاتھ نتیجہ نکلے گا امید نہ تھی۔۔۔۔۔"

ثمر حف ہوئی۔۔۔۔

"مگر ثمر یہ سب اس شخص کا کیا دھڑا ہے۔۔۔۔

وہ مجھے تباہ کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتا۔۔۔۔

اس شخص کی وجہ سے آج میری امی اس حال میں ہے۔۔۔۔

اور وہ خود سکون میں ہے کیوں؟؟؟"

منہاء سناٹ ہوئی۔۔۔

"یہ تو مجھے بھی سمجھ نہیں آرہی ہے کہ وہ کیوں کررہا ہے ایسا!!!!"

ثمر نے سنا مبہم ہوئی۔۔۔

"مگر مجھے سمجھ آچکی ہے۔۔۔۔

اپنی محبوبہ کی بے وفائی کا بدلہ لینا وہ مجھ سے لینا چاہتا ہے۔۔۔۔۔

مگر میں اسے خود کے ساتھ نانصافی کرنے نہیں دونگی۔۔۔

میں بھی اسے سکون میں رہنے نہیں دونگی۔۔۔۔"

منہاء غصے سے بپھڑتی کچھ سوچتے  اٹھی۔۔۔۔

"چابی دو مجھے اپنی گاڑی کی اور اپنا فون بھی۔۔۔۔"

منہاء ہاتھ آگے کرتے سنگین ہوئی۔۔۔۔

"کہاں جانا ہے اور کیا کرنا چاہتی ہو تم اب؟؟؟!"

ثمر سوالیہ ہوئی۔۔۔۔

"دیکھو تم ابھی بہت غصے میں ہو سوچ سمجھ نہیں رہی ہو۔۔۔۔"

"پتہ نہیں کیا کرنا چاہتی ہو میں اب۔۔۔

مگر ہاں اس کی زندگی کو بھی زہر بنا کر چھوڑو گی۔۔۔

جس نے مجھے اس دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔۔۔۔

دو چابی مجھے ابھی اور اسی وقت۔۔۔۔"

منہاء زور آور ہوئی۔۔۔

"میری بات سنوں منہاء ہوش کے ناخن لو۔۔۔

یہ سب کرنے کا یہ کوئی وقت نہیں۔۔۔۔

میری مانو تو یہی بیٹھو اپنی امی کے پاس۔۔۔

ان کو اس وقت تمہاری اود تمہاری دعاؤں کی زیادہ ضرورت ہے۔۔۔"

ثمر اٹھتے ہی اسے سمجھاتے بولی۔۔۔۔

"تمہیں لگتا ہے اس وقت میں ہوش میں ہو۔۔۔۔

بولوں۔۔۔"

منہاء اپنی جانب اشارہ کرتے چلائی۔۔۔

"کل رات سے میں اس قدر اذیت میں. ہو منہاء کہ زندگی بھاری ہے مجھ پر اور وہ جس نے مجھ پر زندگی تنگ کرتی ہے سکون میں ہے کیوں؟؟؟؟

نہیں وہ بھی سکون میں نہیں رہے گا۔۔۔۔"

بلکل نہیں رہے گا۔۔۔۔

"مگر منہاء!!!!"

ثمر نے سنا تو پھر سے گھنگولی۔۔۔۔

"مجھے چابی دو میں اس وقت کچھ بھی سمجھنے کی حالت میں نہیں۔۔۔۔"

منہاء کی اشتعال انگیزی دیکھی تو ثمر مزید کچھ کہے چابی اور موبائل منہاء کو حوالے کردیا۔۔۔۔

"میں پھر سے کہہ رہی ہو یار۔۔۔۔

مت جاؤ یہی رہو۔۔۔۔"

ثمر نے آخری کوشش کی۔۔۔۔

"امی کے پاس رہنا میں بس آتی ہو کچھ دیر میں۔۔۔

اور ہاں مجھے ہسپتال کے فون سے بتاتی رہنا۔۔۔۔"

منہاء کہتے ساتھ ہی وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی۔۔۔۔

جبکہ ثمر سر پکڑے وہی بیٹھ گئی۔۔۔۔

"اس قدر جنونیت کیوں یے اس میں۔۔۔۔

اففففففففففف۔۔۔۔"

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل آفس کی تیاری پکڑے بازو پر گھڑی باندھے سیڑھیوں سے اترتے نیچے کو آیا۔۔۔۔

"گل افگن!!!!!

گل افگن۔۔۔۔۔"

"جی صاحب جی!!!!"

افگن جو ویسے ہی آہل کی آواز پر بھاگا آتا تھا فورا نمودار ہوا۔۔۔۔

"دادا صیحح کہتے ہیں۔۔۔

تم واقعی ہی زاکوٹا جن ہو جو میری آواز پر نمودار ہوتے ہو۔۔۔

آہل نے "دیکھا تو مضحکہ خیز تاثرات سے ہنسا۔۔۔

"صاحب جی اب آپ بھی۔۔۔۔

بڑے صاحب کم تھے تو آپ بھی مجھے یہ سب کہے گے؟؟؟"

گل افگن منہ بسورے بولا۔۔۔۔

"اچھا جاؤ میری گاڑی تیار کرواؤ مجھے بہت دیر ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔

ڈرائیور سے کہوں آج اس کے ساتھ  ہی جاؤ گا میں۔۔۔"

آہل کہتے ہوئے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا جبکہ افگن وہاں سے تیزی سے باہر کو بڑھا۔۔۔۔

"جا رہا ہے تم پھر؟؟؟؟"

خان بابا آہل کی آواز سنتے ہی باہر کو بڑھے اور اس کے روبرو بیٹھ گئے۔۔۔۔

"جی دادا۔۔۔۔

آج بہت امیوڑٹینڈ میٹنگ ہے میری۔۔۔۔"

آہل اپنا موبائل تھامے تاسف ہوا۔۔۔۔

"بس اسی کے لیے جلدی جا رہا ہو میں ۔۔۔۔۔۔

کیوں کیا ہوا کوئی بات کرنی تھی آپ کو؟؟؟؟"

"نہیں بس یونہی پوچھا مجھے کیا بات کرنا تم سے!""

خان بابا جو کسی بات کو لیے آئے تھے روکھے لہجے سے مدہم ہوئے۔۔۔

کہ تبھی منہاء جو تیز قدم لیے بپھڑتے ہوئے اندر کو آئی تھی آہل کو سامنے پرسکون بیٹھتے دیکھتے ہی اس کی جانب جارہانہ انداز سے بڑھی۔۔۔۔

"مجھے برباد کر کے تم کس قدر پرسکون بیٹھے ہو۔۔۔۔

میں یہ بات اچھے سے جانتی تھی۔۔۔۔۔"

منہاء  نے سامنے بیٹھے آہل کو دیکھا تو فورا اسکا گریبان جکڑے جنونی ہوئی۔۔۔۔

"مگر اگر میں سکون میں نہیں تو تمہیں بھی سکون میں رہنے نہیں ہونگی مسٹر آہل خان۔۔۔۔"

"یہ سب کیا بد تمیزی ہے مس منہاء؟؟؟؟

چھوڑیے مجھے۔۔۔۔۔"

آہل جو منہاء کی اچانک حرکت پر بے خبر تھا کہ دونوں ہاتھوں کو خود سے دور کرتے چیخا۔۔۔۔

"ابھی تو میں نے کچھ کہا ہی نہیں ہے تمہیں۔۔۔۔

اور تمہیں بد تمیزی لگنے لگ گئی ہے۔۔۔"

منہاء آہل کو دھکے دیتے چنگاری۔۔۔۔

"اگر میں بھی تمہاری جیسی گھٹیا حرکت کرنے پر آؤ تو تم تو اس کو عذاب ہی سمجھ لو گے خود پر۔۔۔۔"

"یہ سب کیا ہو رہا ہے؟؟؟؟

کیا ہوا ہے بیٹا؟؟؟؟

اور آہل یہ سب؟؟؟؟"

خان بابا جو یہ سب ہوتا دیکھ رہے تھے درمیان میں آتے بولے۔۔۔۔

"پوچھیے!!!!

پوچھیے اپنے اس پوتے سے۔۔۔۔

کہ کیا ہے یہ سب؟؟؟؟

کیوں کیا ہے اس نے میرے ساتھ ایسا۔۔

میں نے تو آپ کے ساتھ نیکی کی تھی ناں!!!! 

بولیے کی تھی ناں؟؟؟"

منہاء خان بابا کے سامنے کھڑی دہائیاں بھرتے انگاری۔۔۔

"ہاں ہاں بیٹا کیا تھا تم نے!!!!

تم نے ہماری بہت مدد کیا تھا۔۔۔"۔

"تو پھر یہ صلہ کیوں؟؟؟؟

میری نیکی کا یہ صلہ کیوں ؟؟؟

نیکی نے میری زندگی تباہ کردی ہے۔۔۔۔

مجھے ہر جگہ رسوا کردیا ہے۔۔۔۔"

منہاء متلاطم ہوتے آہل کو حقارت نظروں سے دیکھتے اشارہ گو ہوئی۔۔۔۔

"آہل یہ سب کیا ہے؟؟؟؟

کیا کہہ رہا ہے یہ بچہ؟؟؟؟

کیا کیا ہے تم نے اس کے ساتھ بولوں؟؟؟؟"

خان بابا نے آہل کی جانب مبہم نظروں سے دیکھا جو اپنے کوٹ کو جھاڑے عقب آلود تاثرات ہوا۔۔۔۔۔

"کچھ نہیں دادا۔۔۔۔

یہ لڑکی پاگل ہو گئی ہے۔۔۔۔

نکالو میرے گھر سے باہر ابھی اور اسی وقت!!!!"

آہل منہاء کو بازو سے کھینچتے باہر کی جانب ہوا۔۔۔۔

"چھوڑو مجھے!!!!!

چھوڑو۔۔۔۔

ہاتھ مت لگاؤ اپنے گندے وجود سے مجھے!!!!"

منہاء آہل سے خود کو چھڑواتے چنگاری۔۔۔۔

"آہل بس کرو۔۔۔۔

لڑکی ذات ہے کچھ تو لحاظ رکھوں!!!!"

خان بابا آہل کو منہاء سے دور کرتے سنگین ہوئے۔۔۔۔

"انکل لحاظ اور اس شخص کو۔۔۔۔"

منہاء مبغوض کیفیت لیے چلائی۔۔۔۔

"پوچھیے اپنے پوتے سے کیسی گندی چال چلی ہے اس شخص نے میرے ساتھ کہ آج میری امی زندگی اور موت میں جھول رہی ہے۔۔۔۔"

منہاء اپنا سر پکڑے پیچھے قدم لیتے رونے لگی۔۔۔۔

"اس شخص کی وجہ سے وہ مجھ سے ناراض ہوئی ۔۔۔

اور اب وہ ہسپتال کے بستر پر اپنی سانسیں گن رہی ہے۔۔۔۔"

منہاء جس کی ظاہری حالت اس کی اندرونی کیفیت کا منہ بولتا ثبوت تھی خان بابا بات سنتے ہی آہل کو ناگواری سے دیکھنے لگے۔۔۔۔

جو خود بھی اس وقت سب سن کر خلط ملط ہوچکا تھا۔۔۔۔

"یہ سب کیا ہے آہل؟؟؟؟

کیا کہہ رہا ہے یہ ؟؟؟؟

کیا یہ سب سچ ہے؟؟؟

کیا تمہاری وجہ سے؟؟؟"

خان بابا استہفامیہ ہوئے۔۔۔۔

جس کے جواب میں آہل خاموش رہا۔۔۔۔

"یہ کچھ نہیں بتائے گے انکل!!!!

کیونکہ یہ اچھے سے جانتے ہیں جو میں کہہ رہی ہو بلکل سچ ہے وہ۔۔۔۔

ایک ایک لفظ اس کی گھٹیا سوچ کی عکاسی ہے۔۔۔۔

لیکن مسٹر آہل!!!!

اب بس!!!"

منہاء ایک بار پھر آہل کے گریبان کو پکڑے حف ہوئی۔۔۔

"اگر میری امی کو کچھ بھی ہوا تو خدا کہ قسم جینا حرام کردونگی میں تمہارا۔۔۔۔

میری ایک امی ہی ہے جو مجھے روک لیتی ہے ۔۔۔۔

دعا کرو وہ ٹھیک ہو جائے ورنہ مجھے روکنے والا کوئی نہیں اس دنیا میں۔۔۔۔"

منہاء آہل کو جھٹکے سے پیچھے کرتے انگلی سے اشارہ بھرے غیظ و غضب ہوئی۔۔۔۔

خان بابا تو بس ناسمجھی سے دونوں کے درمیان اس جنگ کو ہکا بکا ہوتے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔

کہ تبھی منہاء کے ہاتھ میں موجود فون بجنے لگا۔۔۔۔

جس کو دیکھ کر منہاء کے رنگ فق سے ہوئے جبکہ اس کے ہاتھ بھی کپکپانے لگے۔۔۔۔

منہاء اس حالت کو دیکھ خان بابا سمیت آہل بھی پریشان سا ہوگیا۔۔۔۔

منہاء نے خود کو حوصلہ دیتے بلآخر فون کان سے لگا لیا اور ہانپتی آواز سے گو ہوئی۔۔۔

"ہ۔۔۔۔ہ۔۔ہیلو!!!!!"

مگر جیسے ہی دوسری جانب موجود ثمر کی ہانپتی آواز سنی تو منہاء کے ہاتھ سے فون کھسکا اور زمین پر گر گیا۔۔۔

جبکہ  وہ خود صدمے کی حالت سے دوچار حواس باختگی سے پیچھے کو قدم لیتے لڑکھڑائی۔۔۔

"نہیں۔۔۔۔

امی نہیں۔۔۔۔

نہیں امی!!!!"

منہاء منہ پر ہاتھ رکھے بھونچکا ہوئی۔۔۔۔

"کیا ہوا ہے بیٹا؟؟؟؟

سب خیریت تو ہے ناں؟؟؟

کس کا فون تھا؟؟؟"

خان بابا نے گرے ہوئے فون کو اٹھائے کان سے لگایا۔۔۔

جبکہ منہاء ابھی بھی خود کلامی کرتے زیر لب بڑبڑا رہی تھی اور پھر بدحواسی سے کچھ سوچتے ہوئے وہاں سے بھاگتی ہوئی باہر کو بڑھی۔۔۔۔

"دادا؟؟؟

دادا کیا ہوا ہے؟؟؟؟

کون تھا فون پر اور یہ ایسے کیوں بھاگی ہے؟؟؟"

آہل جو داسہم ہوا کھڑا تھا خان بابا کو فون پر کان لگائے دیکھا تو بے چین ہوا۔۔۔۔

"ثمر تھا اس کا دوست۔۔۔۔

بول رہا تھا کہ اس کی ماں کا انتقال ہوگیا ہے۔۔۔۔"

خان بابا افسردہ لہجے سے متحیر ہوئے۔۔۔۔

جبکہ آہل کو بھی سن کر ایک جھٹکا سا محسوس ہوا۔۔۔۔

"گل افگن!!!!

گل افگن۔۔۔۔

ڈرائیور سے کہوں گاڑی نکالے۔۔۔

ہم کو جانا ہے ہسپتال!!!!!

جلدی کرو!!!"

خان بابا آہل جو نفرت انگیز نظروں سے گھورتے تیز قدموں سے باہر کی جانب ہوئے۔۔۔۔

جبکہ آہل وہی کھڑا ششدر نظروں سے ساری صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔

ثمر وارڈ کے باہر ہی کھڑی نم آنکھوں سے منہاء کی راہ تک رہی تھی جب اس کی نظر سامنے سے آتی منہاء پر پڑی جو دھیمے اور مرے قدموں سے بے جان شکل لیے سر اور آنکھیں گرائے اس کی جانب آرہی تھی۔۔۔۔

"کہاں تھی تم؟؟؟؟

بولوں کہاں تھی؟؟؟؟

روکا تھا ناں میں نے کہ مت جاؤ۔۔۔۔۔

مگر نہیں۔۔۔۔۔

نہیں سنی تھی میری!!

تم نے میری ایک نہ سنی!!!!"

ثمر منہاء کو آتے دیکھتے ہی اس کی جانب غصے سے بھاگی اور دونوں بازوؤں سے اسے جھنجھوڑتے رونے لگی۔۔۔

"منع کیا تھا ناں کہ مت جاؤ۔۔۔۔

کیا تھا ناں منع۔۔۔۔

تو کیوں گئی تھی تم!!!!

کیوں تمہارا دل نہیں ہلا منہاء؟؟؟.

کیوں تمہیں آنٹی کی جانب سے خوف نہ آیا۔۔۔۔"

ثمر سکوت کھڑی منہاء کو جھٹکے سے پیچھے دھکیلتے رونے لگی۔۔۔۔

جس پر اس کی باتوں اور رونے کا کوئی اثر نہ ہو رہا تھا۔۔۔

"کیسی بیٹی ہو تم؟؟؟؟

اپنی ماں کی آخری سانس کو محسوس نہ کرسکی!!!

کس قدر بد نصیب ہو تم کہ ایک بار ان کی کھلی آنکھوں کو دیکھ نہ سکی!!

انا غصہ نفرت سب کچھ کھا گیا تمہارا اور اب تم خالی ہو۔۔۔۔

منہاء تم خالی ہاتھ ہو کیونکہ تمہاری ماں مر گئی ہے۔۔۔۔

جا چکی ہے وہ تمہیں چھوڑ کر اس دنیا سے۔۔۔۔

جا چکی ہے وہ!!!!"

ثمر منہاء کو ایک بار پھر سے جھنجھوڑتے پیچھے کو ہوتے رونے لگی جبکہ منہاء کسی بھی قسم کے تاثرات کو ظاہر کیے خاموشی سے ایک بت مانند ثمر کو خالی آنکھوں سے دیکھنے لگی جو دیوار سے لگتے زمین پر سر پکڑے بیٹھ گئی تھی ۔۔۔۔۔

ثمر کو بناء کوئی تاثر یا جواب دیے وہ خاموشی سے اسے وارڈ کی جانب ہوئی جہاں ناز بی کو رکھا گیا تھا۔۔۔

 منہاء کو یوں جاتے دیکھ کر ثمر سٹپٹا سی گئی۔۔۔

"یہ سب کیا ہو گیا ہے؟؟؟؟

یہ سب کیا ہو گیا ہے میرے اللہ۔۔۔۔؟؟؟

اب منہاء کا کیا ہوگا؟؟؟

کیا ہوگا اس کا؟؟؟؟"

ثمر چہرہ ہاتھوں میں چھپائے گھنگولی۔۔۔

کہ تبھی اسے سر پر کسی کا شفقت بھرا ہاتھ محسوس ہوا جس پر وہ فورا چونکتے سر اٹھائے دیکھنے لگی۔۔۔۔

"آ۔۔۔۔آ۔۔۔۔آپ۔۔۔؟؟؟

آپ یہاں؟؟؟؟"

"ہاں بیٹا ہم یہاں !!!!!"

خان بابا نے ثمر کی حیرانگی دیکھی تو افسردہ ہوئے۔۔۔۔

"معلوم نہیں میرا یہاں آنا منہاء بیٹی کو کیسا لگے گا۔۔۔۔

مگر جو ہم کو صیحح لگا ہم نے کردیا اور یہاں آگیا۔۔۔۔"

"تو اس کا مطلب منہاء خان ہاؤس!!!!"

ثمر دیوار سے سہارا لیے اٹھتے سوالیہ ہوئی۔۔۔

جس کے جواب میں خان بابا نے بس سر ہلانے میں ہی اکتفاء کیا۔۔۔

"بہت افسوس ہوا سن کر کہ بیٹی کے سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا۔۔۔۔

مگر اس سے بھی زیادہ افسوس مجھے اس بات کا ہے کہ اس کے پیچھے کا ذمہ دار میرا پوتا میرا وارث ہے۔۔۔۔

مجھے اب بھی یقین نہیں آرہا ہے کہ وہ یہ سب. کر سکتا ہے؟؟؟؟!!"

خان بابا شرمندہ گو ہوئے ۔۔۔۔۔۔

"بہت برا کر دیا ہے آہل خان نے منہاء کے ساتھ انکل۔۔۔۔

بہت برا!!!!

ایک ناز آنٹی ہی تو واحد سہارا تھی اسکا اس وحشت بھری دنیا میں ۔۔۔ 

وہ سہارا بھی چھین لیا گیا ہے اس سے۔۔۔

بلکل تنہاء رہ گئی ہے میری دوست بلکل تنہاء۔۔۔۔"

ثمر داسہم ہوتے اشکبار ہوئی۔۔ 

"ہم معافی مانگنا چاہتا ہے بیٹی سے۔۔۔۔۔

مگر ہمت نہیں کر پا رہا ہے کہ سامنا کیسے کرے معصوم بچی کا۔۔۔۔

خدارا آہل نے ظلم کر ڈالا معصوم سے۔۔۔۔

بس ڈر اب اللہ کی لاٹھی کا ہے جو ناجانے اس پر کب برسے گا۔۔۔۔

اور جس کا خمیازہ ہم کو بھرنا پڑے گا۔۔۔۔"

خان بابا پشیمان ہوتے کرسی پر سر گرائے بیٹھ گئے۔۔۔۔

جبکہ ثمر مزید کچھ کہے وہی ان کے پاس کھڑی رہی۔۔۔۔۔

کمرے کا دروازہ کھولتے ہی منہاء کو بچپن سے اب تک کے کئی لمحات آنکھوں کے گرد گھومنے لگے۔۔۔۔۔

"مانتی ہو تم ٹھیک ہو اپنی جگہ مگر موقع اور حالات کی نذاکت سمجھو منہاء۔۔۔۔

میرے پاس تمہارے مستقبل کیلئے اور کوئی چراغ نہیں سوائے بلال کے۔۔۔۔

اگر وہ بھی بجھ گیا تو میں کیسے اس دنیا میں تمہیں تن تنہا چھوڑ کر جاؤ گی۔۔۔۔

میں تو مر کر بھی بے چین رہو گی میری جان!!!!"

ناز بی کا مسکراتا چہرہ منہاء کی آنکھوں کے گرد چھلکا اور پھر نظر سامنے بے جان وجود پر پڑی جو کبھی منہاء کو اپنی گود میں بھرے اس سے شفقت اور محبت کیا کرتی تھی۔۔۔۔

"امی!!!!!!"

منہاء خالی آنکھوں اور مرے لہجے سے بے یقینی کیفیت لیے نڈھال ہوتے بیڈ کی جانب ہوئی جہاں پر ناز بی کی میت کو سفید کفن سے ڈھانپا گیا تھا۔۔۔۔

"امی؛!!!!"

منہاء نے ایک بار پھر آواز کو زور بھرے ناز بی کو پکارا مگر ایک بار پھر کوئی جواب نہ پایا۔۔۔۔

"میں آپ سے کہہ رہی ہو ناں۔۔۔۔

میری کوئی غلطی نہیں ہے۔۔۔۔

کیوں نہیں سن رہی ہے میری بات آپ۔۔۔۔

کل سے کہہ رہی ہو۔۔۔۔

سن ہی نہیں رہی ہے آپ اور اب بھی دیکھے چادر اوڑھے سو رہی ہے۔۔۔۔

اٹھیے اور مانیے کہ اپکی منہاء ایسی نہیں۔۔۔

اپکی تربیت ایسی نہیں۔۔۔۔"

منہاء حواس باختگی سے ناز بی کے پاس کھڑی تاسف ہوئی۔۔۔۔

"آپ خود ہی تو کہتی ہے کہ بابا نے میری تربیت کی ہے۔۔۔

اور اب خود ہی  ایسا سوچ لیا ہے۔۔۔۔

کہہ رہی ہو ناں اٹھیے ۔۔۔۔۔

پھر بتاتی ہو سب کچھ اپکو۔۔۔۔"

منہاء بیڈ کے پاس زمین پر ایک ناراض بچے کی مانند بیٹھتے حواس کھوتے بولی۔۔۔

"پتہ امی بلال کہہ رہا تھا کہ وہ اپنی امی کو منائے گا۔۔۔۔

جب وہ مان جائے گی ناں تو پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔۔"

منہاء اپنے ڈوپٹے سے کھیلتی خود کلامی کرتے دیوانہ وار ہنسی۔۔۔۔

"ہاں سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔"

منہاء اپنے پیلے پڑتے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لیے ناز بی کی جانب جھکی۔۔۔۔

"امی خاموش کیوں ہے؟؟؟

جواب کیوں نہیں دے رہی ہے آپ۔۔۔

اج نہیں کہے گی کہ لڑکی خود منہ سے شادی کا کہے تو اسے بے شرم کہا جاتا ہے۔۔۔۔

دیکھیے اپکی منہاء خود کہہ رہی ہے آج۔۔۔

اب کہے مجھے بے شرم!!!۔

کہیے ناں!!!!"

منہاء ناز بی کے ٹھنڈے پڑے ہاتھ کو اہستگی سے چھوتے مسکرائی۔۔۔۔

"کیا کررہی ہو منہاء؟؟؟؟۔

مت چھوؤں آنٹی کو۔۔۔۔"

ثمر جو خان بابا کے ساتھ اندر کی جانب ہی ہوئی تھی منہاء کو میت سے پیچھے کرتے بولی۔۔۔۔

"جانتی ہو ناں مردے کو تکلیف ہوتی ہے جب جب اسے کوئی چھوتا ہے۔۔۔۔

تو کیوں انہیں تکلیف دینا چاہتی ہو!!!!"

"مردہ!!!!!!؟؟؟؟

یہ مردہ نہیں ہے میری امی ہے ثمر!!!؟؟؟

دماغ ٹھیک ہے تمہارا کیا اول فول بکتی جارہی ہو۔۔۔۔"

منہاء نے سنا ثمر کو کاٹ کھانے کی نظروں سے دیکھتے چنگاری۔۔۔

"امی آپ دیکھ رہی ہے کیسی بہکی بہکی باتیں کررہی ہے یہ پاگل۔۔۔۔

اس کا ناں دماغ خراب ہو گیا ہے بس اور کچھ نہیں۔۔۔

میں آنٹی سے کہوں گی اس کی بھی شادی کروا دے۔۔۔

ورنہ یہ اور پاگل ہو جائے گی۔۔۔"

 منہاء پھر واپس ناز بی کے پاس کھڑی زیر لب بڑبڑاتے بیگانگی سے ہنسنے لگی۔۔۔۔

ثمر نے منہاء کی حالت دیکھی تو منہ پر ہاتھ رکھے رونے لگ گئی۔۔۔۔

"یہ کیا کررہی ہے انکل؟؟؟؟

مجھے تو اسے یوں دیکھ کر ڈر لگ رہا ہے!!!!

رونے کی بجائے ہنس رہی ہے قہقے لگا رہی ہے!!!!"

خان بابا نے ثمر کی بات کی سنی تو افسردگی سے آگے کو ہوئے۔۔۔۔۔۔

"ماں کی موت کا صدمہ لگا ہے منہاء کو ثمر بیٹا اس کو کیسے بھی کر رلاؤ۔۔۔۔

یہ روئے گا تبھی صدمے سے باہر نکلے گا۔۔۔۔۔

اس وقت یہ بے جان ہے کیونکہ اس کا دل دماغ سن ہو چکا ہے۔۔۔

اگر یہ جلد نہ روئیا تو اندر ہی اندر گھٹ جائے گی۔۔۔۔"

خان بابا نے منہاء کی بگڑتی حاکت دیکھی تو ثمر کو اشارہ بھرا جسے سنتے ہی ثمر اپنے آنسوں پونچھتے آگے کو ہوئی اور اہستگی سے ناز بی کے چہرے سے کفن کو ہٹا دیا۔۔۔۔

ناز بی کا چہرہ دیکھنے کی دیر ہی تھی کہ منہاء جو اپنے حواس کھو بیٹھی تھی ایک چیخ مارے زمین پر بیٹھے صدمے سے دوچار ہوئی۔۔۔۔

"یہ امی نہیں۔۔۔

یہ میری امی نہیں ہے ثمر۔۔۔"

منہاء بے یقینی کیفیت سے زمین پر خود کو پیچھے گھسیٹتے نفی میں چلائی۔۔۔۔

"دیکھو منہاء!!!

آنٹی کا چہرہ دیکھو کس قدر پرسکون ہے وہ!!!

کس قدر نور ہے ان کے چہرے پر!!!!"

ثمر ناز بی کے چہرے کو دیکھتے رونے لگی۔۔۔

جبکہ منہاء سکتے کی حالت میں ثمر کی باتوں کو سن کر پھٹی آنکھوں سے اردگرد دیکھنے لگی۔۔۔

"نہیں نہیں۔۔۔۔

یہ میری امی نہیں ہے۔۔۔

یہ میری امی ہو ہی نہیں سکتی!!!

میں گھر جارہی ہو!!!

میری امی گھر پر ہے

ہاں وہ گھر پر ہے میرا انتظار کررہی ہے۔۔۔"

منہاء گرتے پڑتے بمشکل خود کو سنبھالنے اٹھی اور دروازے کی جانب لپکی۔۔۔

کہ ثمر نے منہاء کو یوں جاتے دیکھا تو فورا اس کی جانب ہوئی اور بازو سے کھینچتے اسے بیڈ کی جانب لائی۔۔۔

"دیکھو انہیں!!!۔

انہیں دیکھو منہاء!!!!

ایسا لگ رہا ہے جیسے سو رہی ہے یہ!!!!

دیکھو تم بھی دیکھو!!!٬

ثمر منہاء کو جکڑے بولی جو اپنی آنکھیں خوف سے موندھے چہرے کو چھپائے ہوئی۔۔۔۔

نہیں نہیں ثمر!!!

یہ امی نہیں ہے مجھے جانے دو!!!

مجھے پلیز جانے دو۔۔۔

امی انتظار کررہی ہے میرا وہ کھانا نہیں کھاتی میرے بناء!!!

کل رات سے کچھ نہیں کھایا انہوں نے ۔۔۔۔

بھوکی ہونگی وہ۔۔۔

منہاء ثمر کے سامنے ہاتھ جوڑے بلبلائی۔۔۔

جبکہ ثمر جو منہاء کی اس حالت پر ٹوٹ رہی تھی منہاء کا چہرہ دبوچے ناز بی کی جانب کیا۔۔۔۔

منہاء کی نظر ناز بی کے چہرے پر پڑی تو بے اختیار اس کے منہ سے دعا نکل آئی۔۔۔

انا للہ وانا الیہ راجعون!!!!

منہاء صدمے سے ہوتی ڈھیلی کوئی اور وہی بیڈ کے پاس گرتے ناز بی کو دیکھنے لگی۔۔۔

امی!!!!

مار دیا میں نے امی کو۔۔۔۔

میں نے اپنی امی کو مار دیا۔۔۔۔

اللہ۔۔۔۔

مجھے بھی موت دے دے مار دیا میں نے اپنی جنت کو۔۔۔

منہاء خود کو پیٹتے چلانے لگی۔۔۔

جبکہ ثمر منہاء کے ہاتھوں کو جکڑے اسے روکتے خود سے لگائے سنبھالنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔

"نہیں میری جان یہ بس اللہ کی مرضی ہوتی ہے۔۔۔

تمہارا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔۔۔

تم نے نہیں مارا۔۔۔"

"نہیں میں نے مارا ہے انہیں۔۔۔۔

وہ مجھ سے ناراض تھی ثمر۔۔۔۔

میں نے ابھی منانا تھا تو ایسے کیسے جا سکتی وہ۔۔۔۔"

منہاء ثمر کو دیکھتے چلائی۔۔۔

اور پھر واپس ناز بی کی جانب بڑھی اور ماتھے پر اپنے لب رکھے زور زور سے رونے لگی۔۔۔۔

"آپ تو مجھ سے خفا تھی ناں۔۔۔۔

میں نے تو آپ کو منانا تھا تو آپ ایسے کیسے جا سکتی ہے امی۔۔۔۔

امی اٹھیے ۔۔۔۔!!!!

امی اپکو منہاء کی قسم اٹھیے۔.۔۔ 

ورنہ منہاء مر جائے گی۔۔۔۔۔

امی منہاء مر جائے گی۔۔۔۔"

منہاء اپنا سر ناز بی کے سینے پر دھڑے دھاڑے مارتے رونے لگ گئی۔۔۔۔

جبکہ پاس کھڑے خان بابا اور ثمر منہاء کو یوں بچوں کی مانند روتے بلکتے دیکھ کر دونوں ہی اشکبار ہوئے۔۔۔۔

بیٹا تم منہاء کو سنبھالو ہم ہسپتال کے کاغذات دیکھ کر آتا ہے۔۔۔

خان بابا ثمر کو ہدایت کرتے وہاں سے چلتے بنے۔۔۔۔

جبکہ ثمر آگے بڑھتے ٹوٹی بکھرتی منہاء کو سنبھالنے لگی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل اپنے کیبن میں بیٹھا لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے مسلسل کام کرنے کی کوشش میں تھا ۔۔۔۔

مگر جب جب وہ خود کو فوکس دیتا تب تب اس کی آنکھوں کے سامنے منہاء کا روتا چہرہ چھلک پڑتا۔۔۔۔

"کیا مصیبت ہے یہ!!!!

کیا ہے یہ سب؟؟؟؟"

آہل اکتاہٹ بھرے لیپ ٹاپ کو پٹختے پیچھے کو ہوا۔۔۔۔

"کیوں بار بار وہ مجھے یوں پریشان کررہی ہے؟؟؟؟"

"زندگی میں تو عذاب بھر ہی دیا ہے خیالات کو بھی اپنے بھنور میں جکڑا ہوا ہے۔۔۔۔

عجیب لڑکی ہے!!!!"

سگار سلگائے وہ منہ میں دبائے اٹھا اور سیدھا کھڑی کی جانب تازہ ہوا لینے کو ہوا۔۔۔۔

"پتہ نہیں کیوں!!!

مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔

کہ کہیں میری وجہ سے۔۔۔؟؟؟؟

کہیں میں غلط؟؟؟؟"

آہل کے دل میں ایک سسکی سی ابھری مگر پھر نفی میں سر ہلاتے ہی اپنی سوچ کو غلط کیا اور کچھ سوچتے ہی اپنا فون نکالا اور ایک نمبر ملا دیا۔۔۔۔

دو تین بیلز کے بعد دوسری جانب سے فون اٹھا لیا گیا۔۔۔۔

"ہاں گل افگن میں ہو آہل!!!!

یہ بتاؤ دادا واپس آگئے ہیں کیا؟؟؟

آگئے ہیں تو میری بات کرواؤ ان سے ابھی ۔۔۔۔"

آہل اپنی نشست کی جانب بڑھا۔۔۔۔

"نہیں صاحب جی۔۔۔

بڑے صاحب ابھی تک نہیں آئے واپس کیا آپ ان کے ساتھ نہیں تھے۔۔۔۔۔؟؟؟

مجھے لگا وہ آپ کے ساتھ ہیں؟؟؟"

افگن متحیر ہوا

"تمہیں ایسا کیوں لگا؟؟؟؟

اور تم نے مجھے بتانا مناسب بھی نہیں سمجھا کہ دادا ابھی تک نہیں آئے؟؟؟۔۔۔"

آہل نے سنا تو سناٹ ہوا۔۔۔۔

"تم جانتے ہو ناں ان کی طبیعت کے متعلق؟؟؟؟"

""صاحب جی مجھے لگا کہ شاید آپ بھی وہی گئے ہیں جہاں بڑے صاحب گئے ہیں۔۔۔۔

اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ نہیں گئے تو میں پہلے ہی اپکو اطلاع دے دیتا۔۔۔"

گل افگن نے آہل کی برہمی سنی تو مبہم ہوا جبکہ آہل سختی سے فون بند کرتے کمرے میں. ٹہلنے لگا۔۔۔۔۔۔

"ان کو ضرورت ہی کیا تھی وہاں جانے کی۔۔۔۔

کونسا ان کا کوئی رشتہ تھا جو وہاں جا کر بیٹھ گئے ہیں ۔۔۔۔

اچھے سے جانتے ہیں ان کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی پھر بھی۔۔۔۔"

آہل زیر لب بڑبڑاتے اب خان بابا کو فون کرنے لگا۔۔۔۔

"فون اٹھائے دادا!!!!

فون اٹھائے میرا!!!!"

آہل اضطرابی ہوا۔۔۔۔

مگر دوسری جانب سے کوئی جواب نہ آیا۔۔۔

"اففففففففففف کیا ہے دادا !!!!

کبھی تو سامنے والے کی پریشانی کو سمجھا کرے۔۔۔"

آہل غصے سے بپھڑا۔۔۔۔

"ان کو ذرا بھی خیال نہیں کسی کی بے چینی کا۔۔۔۔

ناجانے عمر کے ساتھ ساتھ سوچ کہاں جاتی جا رہی ہے ان کی؟؟؟؟"

آہل حف ہوتے زیر لب بڑبڑاتے اپنی چابیاں تھامے سیدھا کیبن سے باہر کو نکلا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

 میت کو اب غسل کے بعد برامدے میں رکھ دیا گیا تھا۔۔۔۔

جبکہ اب آہل محلہ کے لوگ بھی اس خبر پر آہستہ آہستہ گھر میں جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔۔۔۔

منہاء ثمر کے ساتھ لگے جنازے کے پاس ہی بے سود بے ضرر  بیٹھی مسلسل ناز بی کے پرنور سفید چہرے کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

ہر کوئی منہاء کے سر پر ہمدردی سے پیار کرتے اسے حوصلہ دینے کو آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔۔

کہ تبھی ایک خاتون سینہ پیٹتے دھاڑے مارتے ہوئے اندر کو آئی۔۔۔۔

"ہائے ۔۔۔۔

ہائے میری بھابھی مر گئی۔۔۔۔۔۔

ہائے اللہ یہ کیا ہوگیا ہے؟؟؟؟

ہائے میری بہن جیسی بھابھی مر گئی۔۔۔۔

اب میں کیا کرونگی؟؟؟؟

کیسے رہو گی اپنی بہن کے بناء؟؟؟"

اپنا سینہ پیٹتی پروین بیگم منہاء کو دیکھتے اس کی جانب لپکی۔۔۔۔

اور ثمر سے اسے کھینچتی خود سے لگائے نوح و کناں کرنے لگ گئی۔۔۔۔

"ہائے مجھے کیا پتہ تھا کہ بھابھی اتنی جلدی چلی جائے گی!!!!

ہائے میری بیٹی منہاء کا کیا ہوگا ؟؟؟؟

کیسے گزارے گی وہ اپنی زندگی اس ظالم دنیا میں !؟؟؟

اللہ جی!!!!

ہائے اللہ جی!!!!

یہ کیا ہوگیا؟؟؟؟"

پروین بیگم منہاء کے چہرے کو جھنجھوڑتے اسے خود سے لگائے چیخ و نواں کر رہی تھی۔۔۔۔

جبکہ ثمر نے پروین بیگم کے مگر مچھ کے آنسوں دیکھے تو بیزاری دیکھائے وہاں سے اٹھتے اندر کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔

جبکہ منہاء کو تو کوئی ہوش ہی نہ رہی کہ کون اس کو خود سے لگا رہا ہے اور کون اسے دلاسے بھر رہا ہے۔۔۔۔

"اففففففففففف ڈرامے باز عورت!!!!

پوری زندگی جس نے ان کی شکل نہ دیکھی اج آئی ہے اپنی محبت جتلانے۔۔۔۔

میسنی نہ ہو تو۔۔۔"

ثمر بدگوئیاں بھرے کمرے میں داخل ہوئی اور فون پر ایک نمبر ملائے کان سے لگا کر انتظار کرنی لگی۔۔۔۔

"یہ فون کیوں نہیں اٹھا رہا ہے؟؟؟"

ثمر مسلسل بیلز جانے کے بعد واپس فون ملائے انتظار کو ہوئی۔۔۔

کہ دو بیلز کے بعد فون اٹھا لیا گیا۔۔۔۔

"کیا یے کیوں فون کررہی ہو تم مجھے بار بار؟؟؟

میری بات سن لو پہلے ہی اور سمجھ بھی لو۔۔۔۔

مجھ سے منہاء کے متعلق کوئی بات نہ کرنا اور نہ ہی اس کیلئے کوئی روداد بھرنا۔۔۔۔

نفرت ہے مجھے اس سے اور میں اس کے بارے میں کچھ سننا نہیں چاہتا۔۔۔۔"

بلال حقارت لہجے سے سخت گو ہوا۔۔۔۔

"میری کچھ سنوں گے پہلے کہ اپنی ہی بولتے جاؤ گے!!!

تمہیں فون میں نے کسی بھی قسم کی کہانی سنانے کو نہیں کیا۔۔۔

بس یہ بتانا چاہتی تھی!!!!"

ثمر جو اس پہلے کچھ بولتی بلال بات کاٹتے پھر سے پھنکارا۔۔۔۔

"کیا کیا بتانا چاہتی تھی؟؟؟؟

یہی ناں کہ وہ سب اس کے بوس کا پلان تھا۔۔۔۔

اور وہ سب جھوٹ تھا۔۔۔۔

مجھے پہلے ہی سمجھ جانا چاہیے تھا کہ کیوں جاب کرنے کی ضد میں تھی یہ؟؟؟"

بلال طیش آور ہوا۔۔۔

"مگر اب میں سب دیکھ چکا ہو سن چکا ہو۔۔۔۔

اور میں اب بدکردار لڑکی سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہتا بہتر ہے مجھے بار بار فون نہ کرو۔۔۔۔"

بلال زہر آلود ہوا۔۔۔۔

"بکواس بند رکھو اپنی بلال۔۔۔۔

اگر میں سب کچھ سن رہی ہو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو تم بھونکتے جاؤ گے سب سچ ہوگا۔۔۔۔"

ثمر سناٹ ہوتے چلائی۔۔۔

"کردار اس کا نہیں تمہارا ہلا ہوا ہے کیونکہ اگر تم سیدھے ہوتے تو اس کا یقین کرتے ۔۔۔

اگر سچی محبت کرتے تو اس اہل خان کا منہ توڑ کر آتے۔۔۔۔

مگر  اچھا ہی ہوا کہ تم سے چھٹکارا مل گیا منہاء کو۔۔۔۔"

ثمر سیخ پا ہوئی۔۔۔

اور ہاں تم جو نفرت نفرت لگے ہوئے ناں۔۔۔۔

اس نفرت سے کئی گناہ کم ہے جو اب تم سے منہاء کرتی ہے۔۔۔۔

تمہاری گندی سوچ اور کمزور یقین کی وجہ سے اج اس کی ماں اس دنیا سے چلی گئی!!!!!

"کیا؟؟؟؟؟

کیا مطلب؟؟؟

ناز آنٹی؟؟؟؟"

بلال نے ثمر کا ادراک سنا تو چندھیا سا گیا۔۔۔۔

"جی آنٹی ناز اب اس دنیا میں رہی۔۔۔۔

اور یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا صرف تمہاری وجہ سے۔۔۔۔

دعا کرتی ہو تمہارے ضمیر پر اس کا بوجھ اس قدر رہے کہ تم کبھی سانس بھر کر جی نہ سکوں!!!!

بڑے آئے معاف کرنے والے۔۔۔۔"

ثمر بلال پر شدت انداز سے بھڑکی اور پھر فون بند کر دیا۔۔۔۔

جبکہ ناز بی کی موت کا سن کر بلال بے یقینی کیفیت سے فون کو ٹکر ٹکر دیکھنے لگا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

خان بابا جو گھر کے باہر ہی کھڑے تھے پشیمانی لیے اندر کی جانب ہوئے۔۔۔۔

کہ نظر سامنے بیٹھی منہاء پر پڑی جو جنازے سے سر ٹکائے خاموش بیٹھی تھی جبکہ وہاں موجود ہر عورت طرح طرح کی باتیں کررہی تھیں۔۔۔۔

"یہ سب کیسے ہوگیا اچانک؟؟؟

ارے ابھی کل تک تو ٹھیک تھی ناز بی؟؟؟"

ایک عورت کان میں پھس پھس کرتے گو ہوئی۔۔۔۔

"ارے مجھے کیا معلوم بس اڑتی ہوئی خبر ملی ہے۔۔۔

کہ بیٹی کا اپنے بوس کے ساتھ چکر تھا۔۔۔۔

جس کا اس کے منگیتر کو پتہ چل گیا تھا۔۔۔"

"ہین؟؟؟؟

کیا سچی؟؟؟

ارے دکھنے میں تو نہیں لگتی یہ ایسی!!!"

"بس بہن اجکل کا زمانہ ہی ایسا ہے کون کیسا ہے کیا خبر!!!!"

"اچھا تو پھر آگے تو بتاؤ؟؟؟

آگے کیا ہوا؟؟"

تجسسی اور چسکے بھرے انداز سے منہ پر ہاتھ جمائے بڑبڑائی۔۔۔۔

"آگے کیا ہونا تھا اس کے منگیتر نے ان دونوں کو ساتھ دیکھ لیا اور سیدھا اس کی ماں کو سب بتا دیا۔۔۔

اب دیکھو ماں کی غیرت اپنی بیٹی کے داغ کو برداشت نہ کرسکی اور مر گئی۔۔۔۔"

"آہاں!!!!!

اففففففففففف توبہ اللہ بچائے بھئی ایسی اولاد سے۔۔۔۔"

دوسری خاتون دونوں کانوں کو ہاتھ لگائے تلخ ہوئی۔۔۔

"ہم تو بھئی اپنی بیٹیوں کو زیادہ ازادی دینے کے حق میں ہی نہیں ہے۔۔۔

اب جیسے جیسے جوان ہوتی گئی ان کو بیاہتی گئی میں اور یہ صیحح بھی رہا دیکھو سب آباد ہے اپنی زندگیوں میں۔۔۔"

"ہاں صیحح کہہ رہی ہو تم!!!!!

باپ جتنا عزت دار تھا بیٹی نے سب تباہ کردیا۔۔۔

اور ماں کی زندگی تک نگل گئی۔۔۔۔"

"ہمممممممم۔۔۔۔

بس اللہ سب کی عزتیں محفوظ رکھیں بہن!!!

اور ایسی بیٹیوں سے بھی!!!!"

"آمین!!!!"

خان بابا جو پاس ہی کھڑے تھے سب سننے کے بعد واپس منہ لٹکائے باہر کو نکلے تو سامنے ہی کالے چشمہ چڑھائے کھڑے آہل کو دیکھ کر ان کا پارہ چڑھ سا گیا۔۔۔۔

آگے کو بڑھتے وہ تیزی سے آہل کی بازو کو پکڑے وہاں سے اگے کو بڑھے۔۔۔۔

"تم یہاں. کیا کرتا ہے خبیث؟؟؟؟

اس سے پہلے تمہیں یہاں کوئی دیکھے نکل جاؤ یہاں. سے!!!!"

خان بابا شدت ہوئے۔۔۔

"آپ مجھ سے یہ کس طرح بات کررہے ہیں دادا؟؟؟

آخر میں نے کیا کیا ہے؟؟؟؟"

آہل چشمہ اتارے سوالیہ ہوا۔۔۔

"جب تم کو کچھ پتہ ہی نہیں کہ تم نے کیا کیا ہے؟؛؛

تو یہاں کیا کرنے کو آیا یے تم؟؟؟؟

جاؤ یہاں سے ابھی اسی وقت!!!!"

خان بابا آہل پر سنگین ہوتے واپس پلٹے۔۔۔۔

"میں لینے آیا ہو آپ کو دادا۔۔۔۔

صبح سے دوپہر ہوگئی ہے اب تو۔۔۔۔

واپس چلے میرے ساتھ اس پہلے کہ اپکی طبیعت خراب ہو جائے۔۔۔۔

چلے میرے ساتھ!!!"

"تم انسان ہے بھی کہ نہیں؟؟؟؟

خان بابا نے آہل کی سنگدلی سنی تو برہم ہوئے۔۔۔۔

ایک موت ہوا ہے تمہاری وجہ سے اور تم ہو کہ!!!!!

جاؤ یہاں سے آہل ہم جو تمہیں دیکھ دیکھ کر نفرت ہو رہا ہے۔۔۔

تم جاؤ یہاں. سے بس!!!!"

خان بابا زبردست ہوتے واپس پلٹے۔۔۔۔

"اپکو سمجھ کیوں نہیں آرہی ہے اپکی طبیعت خراب ہو جائے گی!!!!

میں اپکو یہاں ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔۔۔۔"

آہل ایک بار پھر سے زور آور ہوا۔۔۔

"تو کیا ہوگا ہم مر جائے گا ناں!!!!

تو مرنے دو۔۔۔۔

کیونکہ تم جو گناہ کر چکا ہے ہم کو اب تک مر جانا چاہیے کیونکہ ہم سمجھ گیا ہے ہم تمہاری تربیت میں ناکام رہا ہے۔۔۔۔

ہم گنہگار ہے تمہارے والدین کا اور اب اس معصوم بچی کا جس کے ساتھ تم زیادتی کرچکا ہے۔۔۔۔"

خان بابا کی پہلی بار آج آنکھیں نم ہوئی کہ آنسوں ان کی گال تک بہنے لگے۔۔۔۔

"ہم اچھا انسان نہ بنا سکا تمہیں آہل خان۔۔۔

ہم اچھا انسان نہ بنا سکا تمہیں۔۔۔۔"

خان بابا نم آنکھوں سے واپس سر گرائے بڑبڑاتے واپس منہاء کے گھر کی جانب ہوئے۔۔۔۔

جبکہ آہل وہی سکتے کی حالت میں کھڑا خان بابا کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

نصیر صاحب دیگر مردوں کے ساتھ جنازے کو اٹھانے کو آگے کو بڑھے تو منہاء جو پہلے مدہوش سی بیٹھی ہوئی تھی سب کو آگے بڑھتے دیکھا تو فورا جنازے کے ساتھ لپٹ سی گئی۔۔۔۔

"کہاں لے کر جاریے ہیں امی؟؟؟؟

کیوں آرہے ہیں سب میری امی کے قریب؟؟؟"

منہاء نے سب جو آتے دیکھا تو فورا اٹھتے چلائی۔۔۔

"دور ہٹے سب دور ہٹے۔۔۔۔

میری امی کے قریب کسی نے نہیں آنا۔۔ 

خبردار کسی نے ہاتھ بھی لگایا مار دونگی سب کو۔۔۔

سب کو مار دونگی۔۔۔۔"

منہاء بپھڑتی روتی اٹھی اور سب کو دھکے بھرتے جنازے سے دور کرتے چیخنے لگی۔۔۔۔

"منہاء بس ان کو جانے دو!!!

دیکھو ان کو دیر ہو رہی ہے ناں!!!

ان کو مزید دیر مت کرواؤ۔۔۔۔"

ثمر نے منہاء کو یوں پاگلوں کی طرح چنگارے دیکھا تو اس کو پکڑے سمجھانے لگی۔۔۔

"نہیں۔۔۔۔

نہیں ثمر ۔۔۔"

منہاء جس کی آواز اب بند ہوچکی تھی بمشکل بولتے روئی۔۔۔

"مجھے معافی مانگنی ہے امی سے۔۔۔۔

انہوں نے مجھے معاف نہیں کیا میں کیسے جانے دو انہیں۔۔۔۔

نہیں میں نہیں جانے دونگی ہیں۔۔۔

مجھے بات کرنی ہے امی سے۔۔۔۔

ایسے کیسے جا سکتی ہے یہ؟؟؟"

منہاء ثمر کو خود سے دور کرتے واپس آگے کو ہوئی۔۔۔۔

کہ پروین بیگم نے واپس منہاء کو جکڑا اور اسے پیچھے کو کرنے لگی۔۔۔۔

نصیر صاحب نے کھڑے تمام مردوں کو اشارہ دیا تو سب ہی آگے کو بڑھے اور جنازے کو کندھا دیتے کلمہ کا ورد کرتے ہوئے باہر کی جانب ہوئے۔۔۔۔

منہاء نے ناز بی کو یوں جاتے دیکھا تو پروین بیگم کی جکڑ میں تڑپ سی گئی اور چیخنے چلانے لگی۔۔۔۔

"مت لے کر جاؤ میری امی!!!!

کوئی تو روکوں!!!!!

امی!!!!

امی میں کیسی رہو گی اپکے بناء!!!!!

امی کو نہ لے کر جاؤ!!!!!

اللہ۔۔۔۔

اللہ میری امی!!!!

امی!!!"

منہاء چیختے چلاتے ایک دم مدہم سی ہوئی اور بے ہوش ہوتے ہی نیچے کو گر گئی کہ ثمر فورا اس کی جانب کو لپکی اور اس کو اپنی گود میں رکھے اسے ہوش دلانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔

خان بابا جو وہی کھڑے یہ سب دیکھ رہے تھے نم آنکھیں لیے باہر کو نکلے۔۔۔۔

تو سامنے کا منظر دیکھ کر وہ دنگ اور ششدر رہ گئے۔۔۔۔

آہل اپنا کوٹ اتارے شرٹ کی بازوؤں کو چڑھائے  جنازے کو کندھا دیتے سب لوگوں میں شامل ان کے ساتھ جا رہا تھا۔۔۔۔

خان بابا اس منظر کو دیکھ کر دنگ سے رہ گئے جبکہ منہاء ابھی تک ثمر کی گود میں بے ہوش پڑی تھی۔۔۔۔

"ڈاکٹر انکل کیا ہوا ہے اسے؟؟؟

 یہ اب تک ہوش میں کیوں نہیں آئی ہے؟؟؟؟

اگر کوئی بڑا مسئلہ ہے تو بتائیں میں اسے ابھی اسی وقت ہسپتال لے جاؤ گی۔۔۔۔"

ثمر جو منہاء کے پاس ہی بیٹھی تھی پریشان گو ہوئی۔۔۔۔

"نہیں بیٹا کوئی بڑا ایشو نہیں ہے بس شوکڈ کی وجہ سے بے ہوش ہوگئی تھی۔۔۔۔

اور یہ بھی کہ شاید یہ کئی دنوں سے ٹھیک سے سو نہیں پائی تبھی یہ صدمہ برداشت نہ کرسکی۔۔۔

خیر  میں نے انہیں نیند کا انجیکشن لگا دیا ہے اب یہ رات بھر سکون سے سو سکتی ہے۔۔۔۔"

ڈاکٹر صاحب نے ثمر کی بے چینی دیکھی تو اطمینان بخش ہوا۔۔۔۔

"ٹھیک ہے تو پھر میں چلتا ہو باقی جب بھی ضرورت ہو آپ مجھے بلا سکتے ہیں۔۔۔۔۔"

ڈاکٹر اپنا سامان باندھے تاسف سے مسکرایا۔۔۔۔

"بہت شکریہ اپکا ڈاکٹر انکل۔۔۔۔"

ثمر نے سنا تو واپس منہاء کی جانب پریشان کن ہوئی۔۔۔۔

"اوئے سلیم!!!!!"

پروین بیگم جو ایک پلیٹ میں بریانی کے نام پر بوٹیاں ڈالے حوس کھو تھی سلیم کو ٹانگ مارے بولی۔۔۔۔

"جا ڈاکٹر کو باہر تک چھوڑ کر آ۔۔۔۔

چل اٹھ۔۔۔۔"

"کیا یے اماں؟؟؟؟

کبھی تو سکون سے بیٹھنے دیا کرو!!!

جب دیکھو کھانے کو پڑتی ہو۔۔۔۔"

سلیم جو زمین پر ہی لیٹے موبائل استعمال کررہا تھا منہ بسورے چلایا۔۔۔۔

"میں نہیں جا رہا تو نے جانا تو جا یا اباں سے کہہ۔۔۔۔

ہر وقت سلیم سلیم سلیم!!!!"

پروین بیگم نے سامنے کھڑے ڈاکٹر اور ثمر کی حیرت ذدہ نظروں کو دیکھا تو ایک بار پھر سے سلیم پر چلا سی اٹھی۔۔۔

"ارے او کمبخت ذرا تو شرم کر لے۔۔۔۔

کسی کے سامنے تو عزت دے دیا کر مجھے بیغیرت۔۔۔ 

چل اٹھ باہر چھوڑ کر آ۔۔۔۔

اٹھ ورنہ کھینچ کر جوتی مارو گی تجھے۔۔۔۔

اٹھ۔۔۔۔"

سلیم جو اوندھے موبائل استعمال کررہا تھا پروین بیگم کے ہاتھ میں جوتی لہراتی دیکھی تو فورا بڑبڑاتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔

"اپنی عزت کا ہی پڑا رہتا ہے ہر وقت بس۔۔۔۔

اور کسی کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔۔۔۔"

"چلے ڈاکٹر صاحب اپکو بھی پار لگا ہی آؤ۔۔۔"

سلیم پھنکار مارتے آگے کو بڑھا تو ڈاکٹر کندھے اچکائے اس کے پیچھے چل پڑا۔۔۔۔

پروین بیگم نے جوتی وہی پھینکی اور پھر سے اپنی پلیٹ پر دھاوا بول دیا۔۔۔۔

"چاچی آپ اسی ہاتھ سے دوبارہ کھانے لگ گئی ہے جس سے ابھی جوتی پکڑی تھی۔۔۔۔

ہاتھ تو دھو لیتی آپ!!!۔"

ثمر جو پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ششدر ہوئی۔۔۔۔

"لو یہ کیا بات کردی تم نے لڑکی۔۔۔۔۔

جوتی بھی میری ہی تھی ناں اور ہاتھ بھی میرا ہے اور چاول بھی میں نے ہی کھانے ہے۔۔۔۔

تو پھر ہاتھ کیوں دھوتی۔۔؟؟؟"

پروین بیگم منہ میں نوالے ڈالے بمشکل سے بولی۔۔۔۔

"ارے او سلیم آتے ہوئے ایک پلیٹ چاول لیتے آنا۔۔۔۔

اور چار پانچ بوٹیاں بھی۔۔۔۔

قسم سے رو رو کر بھوک ہی لگ گئی تھی مجھے۔۔۔"

پروین بیگم وہی بیٹھی بیٹھی چلائی اور ثمر کو دیکھ کر مسکرانے لگی۔۔۔۔

"چاول ہی چاول ہے بس بوٹیاں تو ہے ہی نہیں اس میں قسم سے۔۔۔۔"

ثمر نے سنا تو نظر پروین بیگم کی پلیٹ پر ڈالی جس پر ہڈیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔۔۔۔

"ٹھیک کہہ رہی ہے آپ چاچی!!!!!!

سچ میں بوٹیاں نہیں ہے آپ کی پلیٹ میں۔۔۔"

ثمر طنزیہ ہوئی اور واپس منہاء کو دیکھنے لگی۔۔۔

کہ تبھی خان بابا اہستگی سے کمرے میں داخل ہوئے۔۔۔۔

"کیسا ہے اب منہاء بیٹا؟؟؟؟

طبیعت زیادہ خراب ہے تو ہم لے چلتا ہے ہسپتال اس کو۔۔۔"

خان بابا آگے کو ہوتے منہاء کو دیکھتے بولے۔۔۔

"نہیں انکل اب بہت بہتر ہے ڈاکٹر نے نیند کا انجیکشن دیا ہے انشاء اللہ صبح تک اور بھی بہتر ہو جائے گی۔۔۔"

ثمر منہاء کے پاس سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔

"انشاء اللہ۔۔۔۔

بس صدمہ اس قدر تھا بچی پر کہ سہہ نہ سکا۔۔۔

باقی اللہ حوصلہ اور صبر دے بچی کو۔۔۔۔"

خان بابا آسمان پر ہاتھ بلند کیے دعا گو ہوئے۔۔۔

"ٹھیک کہتے ہو آپ بڑے بزرگ۔۔۔۔"

پروین بیگم جو کانوں کو لگائے دونوں کی باتیں سن رہی تھی اپنا حصہ ڈالے بولی۔۔۔

" اللہ حوصلہ دے اسے باقی اب ہم آگئے ہیں ناں بس سنبھال لے گے اسے اب۔۔۔۔"

"یہ کون؟؟؟"

خان بابا پروین بیگم کو دیکھتے سوالیہ ہوئے۔۔۔

"انکل یہ!!!!"

ثمر جو اس سے پہلے بولتے پروین بیگم فورا اپنا ہاتھ جھاڑے آگے اٹھی اور منہاء کے سرہانے آ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔

"میں اس کی چاچی ہو اس کی ماں جیسی۔۔۔۔

اس کی ماں کو میں اپنی بہن کہتی تھی۔۔۔۔

بس اب یہ میری بیٹی ہے۔۔۔"

پروین بیگم منہاء کی پیشانی پر اپنے لب رکھے بولی۔۔۔

"اور اللہ کے فضل سے اب اسے میں جلد اپنی بہو بھی بنا لو۔۔

اللہ بخشے ناز کو بڑی خواہش تھی اس کی کہ یہ میرے گھر کی عزت بنے۔۔۔ 

باقی اب جو اللہ کو منظور!!!"

پروین بیگم نے موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے مصنوعی تاثرات لیے روہانسی ہوئی۔۔۔

جبکہ خان بابا ثمر کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔۔۔

"چاچی آپ یہی رہے منہاء کے پاس میں انکل کو چھوڑ کر آتی ہو۔۔۔"

ثمر نے پروین بیگم کی داستان سنی تو فورا باہر کو لپکی۔۔۔

"بیٹا یہ کیا کہہ رہا تھا؟؟؟

کیا سچ میں ایسا ہے؟؟؟"

"نہیں انکل ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔

پوری زندگی انہوں نے کوئی تعلق نہیں رکھا منہاء سے اور آج یہ گھر اور دکانوں کی لالچ نے ان کے سفید خون کو سرخ کردیا ہے اور کچھ نہیں۔۔۔"

ثمر طنزیہ ہوئی۔۔۔۔

"اچھا سمجھ گیا۔۔۔۔"

خان بابا متحیر ہوئے۔۔۔۔

"بس اللہ بچی کے حق میں سب بہتر کرے۔۔۔۔

خیر اب میں چلتا ہو بیٹا کسی بھی چیز کا ضرورت ہو تو ہم کو ضرور بتانا بلاجھجھک۔۔۔۔"

خان بابا ثمر کے سر پر ہاتھ رکھتے شفقت گو ہوئے۔۔۔۔

"ہم انشاء اللہ کل پھر آئے گا منہاء بچے سے ملنے۔۔۔۔

تب تک خیال رکھو بیٹی کا!!!!

اللہ نگہبان۔۔۔"

"ٹھیک ہے انکل اللہ حافظ۔۔۔"

خان بابا کے جانے کے بعد ثمر واپس کمرے میں آگئی اور پروین بیگم کی جھوٹی سچی باتوں کو بیزاری سے سننے لگی۔۔۔۔

جبکہ خان بابا جو گھر سے باہر نکلے ہی تھے سامنے کھڑے آہل کو دیکھ کر چونک سے گئے۔۔۔۔

جو گاڑی کی بونٹ پر بیٹھا گلی کے بچوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھا۔۔۔۔

خان بابا کو دیکھتے ہی سیدھا کھڑا ہو گیا اور بناء کچھ کہے گاڑی کی ڈرائیونگ نشست پر براجمان ہو گیا اور گاڑی اسٹارٹ کردی۔۔۔۔

خان بابا جو اس کی سب حرکت کو دیکھ رہے تھے سپاٹ تاثرات لیے سیدھا گاڑی کی جانب بڑھے اور آہل کی ساتھ والی نشست پر براجمان ہوگئے۔۔۔۔

"فکر نے کرے دادا۔۔۔۔

میں نے آپ کے ڈرائیور کو واپس بھیج دیا تھا گھر۔۔۔۔"

آہل نے خان بابا کی تجسسی نظروں کو بھانپا تو بولا۔۔۔

جبکہ خان بابا جوابا خاموش ہی رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔۔۔۔

خان بابا کی سنگین خاموشی کو محسوس کیا تو آہل نے مزید کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا اور گھر کی راہ لی۔۔۔۔

پورے راستے دونوں کے درمیان گہری خاموشی چھائی رہی۔۔۔

گھر میں گاڑی ہوتے ہی خان بابا اترتے ساتھ ہی سیدھا اندر داخل ہوئے جبکہ خان بابا کی سنگین ناراضگی کو دیکھ کر آہل سوچ میں پڑ گیا۔۔۔۔۔

"ناجانے ان کی ناراضگی کب ختم ہوگی!!!!!

پہلی بار ہوا ہے کہ دادا نے پورا دن مجھ سے کوئی بات نہ کی ہو۔۔۔۔

اور یہ دن بہت ہی عجیب گزرا ہے۔۔۔۔"

آہل دل ہی دل میں. سوچتے گاڑی سے اترا اور خود بھی اندر کو داخل ہوا۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"یہ منہاء کے ساتھ کون ہے اندر؟؟؟؟"

نصیر صاحب کمرے میں داخل ہوتے ہی پروین بیگم کو دیکھتے سوالیہ ہوئے۔۔۔۔

"ارے نصیر صاحب ایک ہی تو ہے چھپکلی جو ہر وقت اس کے سر پر سوار رہتی ہے۔۔۔۔"

پروین بیگم منہ بسورے بولی۔۔۔

"بھئی عجیب لوگ ہے اپنی جوان جہان بیٹی کو یہاں چھوڑا ہوا ہے۔۔۔۔

نہ کوئی فکر نہ کوئی مسئلہ؟؟؟!!!

حیرت ہے بھئی حیرت ہے۔۔۔۔"

"امی یہ لے آپ کے چاول!!!!

اور ہاں اب ختم ہوگئے ہے سارے چاول۔۔۔

جو بھی تھے سارے آپ کھا چکی ہے اب مزید اور نہیں ہے۔۔۔"

سلیم پلیٹ چاول کی لائے پھنکارا۔۔۔۔

"ارے کمبخت ماں کے نوالوں پر نظر رکھتا ہے۔۔۔۔

بس ایک پلیٹ ہی تو کھائی ہے میں نے۔۔۔

اور اتنا سا تو کھاتی ہو میں۔۔۔۔

ہاں نہیں تو۔۔۔۔"

پروین بیگم چاول کھاتے بھڑکی۔۔۔۔

"دیکھ رہے ہو اباں۔۔۔۔

یہ آئی کس کام کو ہے اور کر کیا رہی ہے!!!"

سلیم بدمست ہوتے صوفے پر ٹانگیں چڑھائے بیٹھا۔۔۔۔

"اگر انکا زور روٹی پر ہی رہا ناں تو ہو گئی میری شادی منہاء سے اور مل گیا اپکو یہ مکان اور دکانیں۔۔۔۔"

٬تیرے منہ میں خاک ۔۔۔۔

شکل اچھی نہ ہو تو بات ہی اچھی کر لیا کمبخت!!!!"

پروین بیگم شدت ہوئی۔۔۔۔

"ہاں تو صیحح ہی کہہ رہا ہے سلیم۔۔۔۔

بین ڈالنے اور روٹی کھانے کے علاوہ کیا ہی کیا ہے تو نے پروین۔۔۔۔

ساری زندگی میں نے اس پر نظر رکھی ہے اگر اب یہ ہاتھ سے نکل گیا ناں تو کچھ ہاں نہیں آئے گا ہمارے بتا رہا ہو۔۔۔۔"

نصیر صاحب مبہوت ہوتے متحیر ہوئے۔۔۔۔

"ایسے کیسے نہیں آئے گا کچھ ہاتھ ہمارے۔۔۔ "

پروین بیگم پلیٹ ایک جانب رکھے پھنکاری ۔۔

"اتنی دعائیں مانگی تھی اس بھابھی کی موت کیلئے اب اللہ اللہ کر کے مر ہی گئی ہے تو فائدہ بھی تو ہمیں ہونا چاہیے ناں!!!!

اور ویسے بھی جو کچھ محلے کی عورتیں کہہ رہی تھی ناں اس منہاء کے بارے میں۔۔۔۔

دور دور تک کوئی بھی اس کا رشتہ نہیں لے گا اب۔۔۔

بتائے دیتی ہو میں۔۔۔۔"

"ہاں یہ تو ہے۔۔۔۔

بات تو سہی کی ہے تم نے۔۔۔

مگر ایک اور کام کرنا تم بھی ان باتوں کو اچھے سے پھیلا دو پورے خاندان میں ۔۔۔

تاکہ کسی کہ دل میں بھی کوئی آس ہو ناں تو وہ وہی مر جائے۔۔۔۔"

نصیر صاحب نے سوچتے تاکید کی۔۔۔

"نصیر صاحب یقین رکھے مجھ پر۔۔۔۔

یہ کام میں بہت اچھے سے سرانجام دونگی۔۔۔۔

اور دیکھنا۔۔۔۔

منہاء کی شادی بس ہمارے سلیم سے ہی ہوگی۔۔۔۔

بس ذرا یہ سنبھل جائے تو سادگی سے نکاح پڑھوا لے گے اسکا۔۔۔۔

ابھی معاملہ گرم ہے تھوڑا ٹھنڈا ہونے دے پھر دیکھنا پروین کی چالاکیاں کہاں تک جائے گی۔۔"

پروین بیگم بھنویں اچکائے تیکھی مسکرائی۔۔۔۔

"ٹھیک ہے جو بہتر لگے کرو۔۔۔

مگر اس سے پہلے اس لڑکی کو یہاں سے نکالو۔۔۔۔

اس کا یہاں ہونا خطرے سے خالی نہیں ہے ہمارے لیے۔۔۔۔"

"ٹھیک کہہ رہے ہو نصیر صاحب۔۔۔۔

کرتی ہو کچھ اسکا بھی بندوبست۔۔۔۔

رفو چکر کرتی ہو اس کو بھی میں کل۔۔۔۔۔"

پروین بیگم بدمست مسکراہٹ ہوئی۔۔۔

جبکہ سلیم بس اپنی شادی کا سن کر خوشی سے پھولے نہ سما پا رہا تھا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل فریش ہونے کے بعد اپنے بستر پر سونے کی غرض سے لیٹا ہی تھا جب دروازے کی دستک سن کر وہ پھر سے اٹھ بیٹھا۔۔۔۔

"آجائیے!!!!"

"تم جاگ رہا ہے ابھی تک؟؟؟

سویا نہیں کیوں نہیں؟؟؟"

خان بابا سنجیدہ تاثرات لیے اندر کو داخل ہوئے۔۔۔۔

"بس سونے ہی لگا تھا میں دادا۔۔۔

آپ بتائیں آپ کیوں نہیں سوئے ابھی تک۔۔۔۔"

خان بابا کو اندر آتے دیکھ کر آہل سیدھ ہوا۔۔۔۔

"کافی دیر ہوچکی ہے اب تو۔۔۔۔

اور آپ تو جلدی سونے کے عادی ہے۔۔۔"

"بات تو تم صیحح کہہ رہا ہے کافی دیر ہوچکی ہے۔۔۔۔

مگر کیا کرے ہم کو نیند نہیں آرہا ہے ۔۔۔۔۔۔

بہت بے چینی ہو رہا ہے گھٹن ہو رہا ہے۔۔۔۔"

خان بابا مبہم ہوئے۔۔۔۔

"کیا ہوا ہے دادا؟؟؟؟

اپکی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟؟؟؟

نہیں تو اٹھے چلے میرے ساتھ ابھی جاتے ہیں ڈاکٹر کے پاس۔۔۔

چلے اٹھے۔ ۔۔"

آہل اپنی چابی اٹھائے تیزی سے اٹھا کہ خان بابا نے فورا آہل کی بازو تھامی اور اسے بیٹھ جانے کا اشارہ دیا۔۔۔۔

"ہم کو ڈاکٹر کی نہیں تمہاری ضرورت ہے آہل۔۔۔

ہم کو تم سے بہت ضروری بات کرنا ہے۔۔۔۔

اور چاہتا ہے کہ تم تحمل اور اطمینان سے ساری بات سنے اور پھر اس کو سوچے۔۔۔۔"

خان بابا کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے آہل واپس ان کے روبرو جا بیٹھا۔۔۔۔

"ایسی کیا بات ہے جو اپکو صبح کا انتظار کرنے نہیں دے رہی؟؟؟"

"معلوم نہیں ہم کو مگر جب تک ہم تم سے یہ بات نہیں کر لے گا سو نہیں پائے گا۔۔۔"

خان بابا گھنگولے۔۔۔

"ہمممم ٹھیک ہے آپ بولے میں سن رہا ہو۔۔۔"

آہل منہ کو ہاتھ کا سہارا خان بابا کو دیکھنے لگا۔۔۔

"ہم جو بات کہے گا شاید تمہیں اچھی نہ لگے۔۔۔۔

مگر جو تم کر چکا ہے اب یہ تم پر ہے کہ تم ہی اس کو سمیٹوں۔۔۔۔"

"دادا پہیلیاں نہ بجھائے صاف بات کرے۔۔۔

کیا کہنا چاہتے ہیں؟؟؟

آپ جانتے ہیں میں صاف بات سننے کا عادی ہو۔۔۔"

آہل نے خان بابا کی گول مول باتیں سنی تو صاف گو ہوا۔۔۔

خان بابا جو پہلے سے ہی سوچ سوچ کر استعجاب ہوگئے تھے اب گہری سانس بھرے فیصلہ کن انداز ہوئے۔۔۔۔

"ہم چاہتا ہے تم منہاء کو اپنے نکاح میں لے لو۔۔۔۔

اس کو اپنا نام دو اسے اپنا بناؤ۔۔۔۔"

خان بابا نے بات کو بہت ہی تحمل انداز سے کیا آہل پر ایک پہاڑ مانند ثابت ہوئی۔۔۔۔

"کیا؟؟؟؟؟

مطلب کیا؟؟؟؟

کس سے کیا نکاح کیا؟؟؟۔"

آہل جو چندھیائی نظروں سے خان بابا کو دیکھ رہا تھا حواس باختگی سے اپنی جگہ سے اٹھتے بے یقینی ہوا۔۔۔۔

"دادا مجھے ایسا لگا جیسے آپ نے نکاح کی بات کی ہے؟؟؟۔

کیا یہ مجھے لگا ہے یا ایسا سچ میں بھی ہے؟؟؟"

آہل کو ابھی تک اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا 

جبکہ خان بابا پرسکون انداز سے آہل کی بے چینی کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔

"میں نہیں سمجھتا ہم نے کوئی گناہ کی بات کی ہے۔۔۔۔

نکاح کا ہی کہا ہے اور ہم چاہتا ہے وہ تم کرے۔۔۔

اس معصوم کا اب اس دنیا میں کوئی نہیں اور جو ہے وہ اسے نوچنے کو تیار ہے۔۔۔"

خان بابا حاکمانہ انداز آور ہوئے۔۔۔۔

"آپ جانتے بھی ہے رات کے اس پہر آپ مجھے کیا کہہ رہے ہیں؟؟؟

میں اور منہاء کے ساتھ؟؟؟؟"

آہل قہقہ آور ہوتے پیچھے کو ہنسا۔۔۔۔

"اور ویسے بھی دادا معصوم وہ نہیں آپ ہو جو پر کسی کی بھولی صورت کو سمجھ نہیں پاتے۔۔۔۔

کاش سمجھ جاتے تو نظر آتا اپکو کہ اس کے بہت سے ہیں۔۔۔"

آہل طنزیہ ہوا۔۔۔

"بس کردو آہل اب۔۔۔۔

اور کتنا گھٹیا سوچوں گے تم اب۔۔۔

اور ہم نے منہاء کے ساتھ ہی نکاح کا کہا ہے۔۔۔

اور ہم اچھے سے  جانتا ہے ہم نے تم سے کیا بات کی ہے۔۔۔

جو بھی کہا ہے سوچ سمجھ کر ہی کہا ہے۔۔۔۔"

خان بابا تاسف ہوئے۔۔۔۔

"نفرت ہے مجھے اس سے دادا۔۔۔۔

شدید نفرت۔۔۔۔

اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میں اسے اپنے نکاح میں. لو۔۔۔۔

نہیں کبھی بھی نہیں۔۔۔۔

ایک حادثے سے آپ یہ سوچ لے کہ میں اس سے شادی کر لو تو یہ بس اپکی سوچ ہی ہے وہی تک رکھیں اسے۔۔۔"

آہل غیظ و غضب ہوا۔۔۔۔

"نفرت تو وہ بھی تم سے کرتا ہے اور تم سے زیادہ کرتا ہے۔۔۔

مگر جو دکھ جو تکلیف تم نے اسے دیا ہے ہم چاہتا ہے تم ہی اسے بھرے۔۔۔۔"

خان بابا تاسف ہوئے۔۔۔

"آپ کے چاہنے سے اگر کچھ ہوسکتا تو اس وقت بہت کچھ ہوجاتا دادا۔۔۔۔

میرے خیال سے اب اپکو سو جانا چاہیے۔۔۔۔

بہت دیر ہوگئی ہے۔۔۔۔

تبھی بہکی بہکی باتیں کررہے ہیں آپ!!!!"

آہل اپنے بستر کی جانب بڑھا۔۔۔۔

"تمہاری وجہ سے اس پاکدامن بچی کی ماں مری۔۔۔

اس کے کردار کا چیتھڑے اڑائے۔۔۔۔

زمانے بھر میں رسوا ہوا۔۔۔۔

اور تم اب بھی سنگدل ہو۔۔۔

اگر تم نے سب کیا ہے تو تم ہی اس یتیم کو اب سہارا دو گے۔۔۔۔

اور یہ ہماری ضد سمجھو یا حکم۔۔۔

اب یہ تم پر ہے۔۔۔۔"

خان بابا وہاں سے کہتے چل پڑے۔۔۔۔

"میں اور اس منہاء سے نکاح۔۔۔۔"

آہل سوچتے ہی طنزیہ مسکراہٹ ہوا۔۔۔۔

"سوچ بھی کیسے لیتے ہیں یہ سب آپ دادا۔۔۔۔

میں اس کو اپنے پاس آنے نہ دو اور اپنا نام دو۔۔۔

کبھی نہیں۔۔۔"

آہل سوچتے ہی زہر آلود ہوا۔۔۔۔

جبکہ اب خان بابا اسے ایک نئی سوچ کے ساتھ چھوڑے جا چکے تھے جو کچھ دیر پہلے نیند میں گم ہونا چاہتا تھا اب نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور گم تھی۔۔۔۔

صبح کا اجالا چمکا تو ہر جانب روشنی نے اپنی چادر پھیلائی ۔۔۔۔۔

پردوں سے روشنی آہل کے چہرے پر چھلکی تو آنکھوں کو بھینچتے وہ کراہتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔۔۔۔

پوری رات وہ دادا کی باتوں کے متعلق سوچتا رہا تھا اور جب آنکھ لگی تو سورج کی تپش نے اس کو بیدار کردیا۔۔۔۔

آنکھوں کو مسلتے وقت گھڑی پر نظر جمائی تو فورا افراتفری دیکھائے وہ بیڈ سے چھلانگ لگائے اترا اور سیدھا واش روم کی جانب بڑھا۔۔۔۔

"افگن ڈرائیور سے کہوں گاڑی نکال دے۔۔۔

ہم کو آج وہی جانا ہے جہاں وہ کل ہم کو لے کر گیا تھا۔۔۔"

خان بابا جو تیار ہوتے لاونچ میں آئے تھے گل افگن کو چائے کی پیالی تھامے اپنی جانب آتے دیکھا تو فورا حکم صادر کیا۔۔۔۔

"وہ تو ٹھیک ہے بڑے صاحب جی۔۔۔

 مگر آپ نے ناشتہ نہیں کیا ابھی اور بناء ناشتے دوائیاں نہیں دے سکتا ہو آپ کو۔۔۔

اور آگے ہی کل بھی آپ کی دوائی کا ناغہ پڑ گیا تھا۔۔۔

اور اگر آہل صاحب کو پتہ چلا تو وہ پکا میری صیحح شامت لائے گے۔۔۔۔"

گل افگن تاسف ہوا۔۔۔

"اگر تمہارے مضمون ختم ہوگیا ہو تو جو ہم نے کہا وہ کرو۔۔۔

اور ہماری بلا سے آہل تم کو کیا کہتا ہے کیا نہیں۔۔۔

ہم دادا ہے اسکا وہ باپ نہیں ہمارا۔۔۔۔

جاؤ گاڑی تیار کرواؤ۔۔۔"

خان بابا نے گل افگن کو پھنکار ماری۔۔۔

بڑا آیا آہل کا دم چھلا۔۔۔

گل افگن نے خان بابا کی بدمزاجی محسوس کی تو منہ لٹکائے وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔

جبکہ خان بابا جو بگڑے مزاج میں تھے صوفے پر بیٹھتے گرم چائے کی تیزی سے چسکیاں بھرنے لگے۔۔۔۔

"کہاں کی تیاری ہے دادا؟؟؟ 

وہ بھی اتنی صبح۔۔۔"

آہل جو اوپر کھڑا سب سن رہا تھا خان بابا کی جانب ہوا۔۔۔

"ہم کو نہیں لگتا ہم تم کو کچھ بھی بتانے کا پابند ہے۔۔۔

بہتر ہے اپنے کام سے کام رکھو۔۔۔۔"

خان بابا آگ بگولہ ہوتے آہل کو گھورے۔۔۔۔

"بڑے صاحب گاڑی لگ گئی ہے۔۔۔۔"

گل افگن باہر سے ہوتا تیز گام خان بابا کے سامنے کھڑا ہوا۔۔۔

"ٹھیک ہے ہم چلتا ہے اور کسی کو ضرورت نہیں ہمارے پیچھے آنے کی۔۔۔۔

ہم نہیں چاہتا کسی وجہ سے منہاء کو تکلیف بھی ہو۔۔۔۔"

خان بابا تیکھی نظروں سے آہل کو گھورتے کھڑے ہوئے۔۔۔

"آپ پھر وہی جا رہے ہیں دادا؟؟؟

کیوں؟؟؟"

آہل بے چین ہوا۔۔۔

"تمہارے گناہوں کا حساب تو بھرنا ہے ناں کسی کو تو وہ ہم بھر رہا ہے تم کو مسئلہ اس سے؟؟؟"

خان بابا حف ہوئے۔۔۔

"میں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔۔۔

اس کو اس کی غلطی کی سزا دی ہے بس!!!"

آہل سپاٹ ہوا۔۔۔

"وہ غلطی جس کا اس کو خبر نہیں۔۔۔

جو اس سے ہوا ہی نہیں!!!!"

خان بابا بدمست ہوئے۔۔۔

"تو کس بات کا گناہ کس بات کی سزا؟؟؟

اور تم خدا ہے جو سزا جزا دے گا کسی کو؟؟؟

بولوں؟؟؟"

"آخر مسئلہ کیا ہے دادا؟؟؟

کیوں ضد پکڑے بیٹھے ہیں؟؟؟

میں کیوں کسی انجان لڑکی کو اپنی زندگی میں لاؤ؟؟؟"

آہل جو زچ ہوا پیچھے کو گو ہوا۔۔۔

"یہ بات اس معصوم کو زلیل کرتے کیوں نہ یاد آیا؟؟؟

تب کیوں نہ وہ انجان بنا جب تم اس کے کردار کو بے داغ کررہا تھا۔۔۔۔"

خان بابا سنگین ہوئے۔۔۔۔

"آپ کو کچھ نہیں پتہ تبھی ایسا بول رہے ہیں۔۔۔۔

اگر پتہ ہوتا تو یوں کسی کیلئے مجھ سے منہ نہ موڑتے۔۔۔۔"

"اچھا تو تم بتا دو ہمیں کہ ہم کو کیا نہیں پتہ؟؟؟

دو دن کا چھٹانک آج ہمارے سامنے کھڑا ہم کو دوہائی بھر رہا ہے!!!!

وللہ۔۔۔۔"

خان بابا  طنزیہ مسکراہٹ گو ہوئے۔۔۔۔

"دیکھیے آپ کہیں نہیں جا رہے ہیں۔۔۔۔

اور نہ ہی میں کچھ بھی اپکو بتانا مناسب سمجھتا ہو۔۔۔

افگن خبردار دادا گھر سے باہر بھی نکلے۔۔۔

ورنہ اچھا نہیں ہوگا تمہارے لیے۔۔۔۔"

آہل خان بابا کی جانب سختی سے دیکھتے اشارہ افگن کو دیتے بولا۔۔۔

"ارے یہ روکے گا مجھے؟؟؟"

خان بابا نے افگن کی گتھی پر ایک تھپڑ لگایا جس پر وہ کراہ سا گیا۔۔۔۔

"ایک ہاتھ کا مار سہہ نہیں سکتا یہ خبیث ہمارا اور ہمیں روکے گا۔۔۔۔"

دادا بدقت مسکرائے۔۔۔

"دادا بہت ہوگیا اب!!!!"

آہل نے دیکھا تو شدت ہوا۔۔۔

"ہم جو کرنا چاہتا ہے کر کے رہے گا۔۔۔۔

تم نے جو کیا ہم نے کچھ نہیں کہا اب ہم جو کرے گا تم۔بھی بس وہی دیکھے گا۔۔۔۔"

خان بابا سرد ہوتے آگے کو بڑھے۔۔۔۔

"وہ ہما کے ساتھ ملی ہوئی ہے دادا ۔۔۔۔۔"

آہل جو اب متلاطم تھا ماتھا پیٹتے برہم ہوا۔۔۔

جسے سنتے ہی خان بابا اس کی جانب ششدر نظروں سے دیکھتے مڑے۔۔۔۔

"میں نہیں بتانا چاہتا تھا آپ کو۔۔۔۔

مگر آپ نے مجھے اس قدر!!!"

آہل سر پکڑے صوفے پر بیٹھ گیا جبکہ خان بابا کے تاثرات بلکل نہ بدلے۔۔۔۔

"تم غلط ہے!!!!

سراسر غلط ہے ۔۔۔۔۔

وہ ایسا نہیں ہے۔۔۔۔

بلکل بھی نہیں۔۔۔۔"

خان بابا آہل کے سر پر کھڑے سنجیدہ ہوئے۔۔۔

"آپ یہ سب جان کر بھی اس لڑکی کو صیحح کہہ رہے ہیں دادا؟؟؟

کیا وہ لڑکی آپ کو مجھ سے زیادہ عزیز ہوگئی ہے جس نے مجھے دوبارہ تباہ کرنے کی ٹھانی تھی۔۔۔۔"

آہل نے سنا تو بپھڑا۔۔۔۔

"اگر وہ تم کو تباہ کرتا تو شاید ہم مان جاتا۔۔۔

مگر برباد تم نے اس کو کیا ہے۔۔۔

اس قدر کے وہ اپنی ماں کو کھو چکا ہے۔۔۔

تو ہم کو تم پر یقین نہیں۔۔۔"

خان بابا برجستگی ہوئے۔۔۔۔

لگتا ہے آپ میری حالت بھول چکے ہیں۔۔۔

"وہ سب بھول چکے ہیں جو ہما میرے ساتھ کرچکی ہے۔۔۔۔"

"ہم کچھ نہیں بھولا مگر شاید تم بھول چکا ہے۔۔۔

اگر یاد رکھتا تو اپنا جیسا حال کسی کا نہ کرتا۔۔۔"

خان بابا نے آہل کو دوٹوک جواب دیا۔۔۔۔

"وہ اس کے ساتھ ملی ہوئی ہے دادا مجھے پورا یقین ہے۔۔۔"

آہل سرخ آنکھوں سے بپھڑا۔۔۔

"اور مجھے تم پر یقین نہیں۔۔۔

کیونکہ ہم تمہارا یقین پہلے ہی دیکھ چکا ہے جو تم نے ہما پر کیا تھا۔۔۔

اور ویسے بھی کوئی ثبوت ہے تمہارے پاس کہ وہ اس کے ساتھ ملا ہے۔۔؟؟؟

اگر ہے تو دکھاؤ!!!"

خان بابا ادراک ہوئے۔۔۔

"مجھے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔۔۔"

آہل تکبر انداز ہوا۔۔۔

"مگر ہم کو ہے۔۔۔

کیونکہ ہم کسی پر بہتان لگا کر اپنی آخرت خراب نہیں کرنا چاہتا۔۔۔

جو کہ تم کر چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم تمہارا کفارہ منہاء سے نکاح کی شکل میں ادا کروانا چاہتا ہے۔۔۔"

"ناممکن!!!!!

سوچیے گا بھی مت!!!"

آہل نے سنا تو حقارت بھرتے پیچھے کو ہوا۔۔۔

"ایک من مانی تم نے کیا تھا ایک اب ہماری۔۔۔۔

ہم آج اس سے بات کرنے جارہا ہے بہتر ہے تم بھی اپنا دماغ سیٹ کرو۔۔۔۔"

خان بابا پیچھے کو ہوئے اور پلٹے۔۔۔۔

آہل خان بابا کو یوں جاتے دیکھ کر میز پر پڑے کپ کو غصے سے ہاتھ مارے چنگارا۔۔۔۔

جس سے کپ دو گرتے کرچیوں میں بدل گیا۔۔۔۔

"میں غلط نہیں ہوسکتا !!!!

آہل خان غلط نہیں ہوسکتا!!!!"

آہل صوفے پر سر گرائے بیٹھ گیا اور خان بابا کی باتوں کو سوچنے لگا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

ثمر جو منہاء کے ساتھ ہی سوئی ہوئی تھی باہر کی جانب سے کھٹ پٹ کی آوازیں سنی تو آنکھ ملتے اٹھ بیٹھی۔۔۔۔

"یہ اس وقت کون ہے کیچن میں؟؟؟؟

یہ بھی کوئی وقت ہے چمچ بجانے کا!!!!"

ثمر جمائی بھرے منہ میں بڑبڑائی اور پھر منہاء کی جانب نظر دہرائی۔۔۔۔

جو ابھی تک پرسکون نیند سو رہی تھی۔۔۔

"بہت اچھا ہے اس کیلئے سکون لینا۔۔۔۔۔

بہت کچھ سہا ہے میری بہن نے اور ناجانے اب کیا کیا آگے سہنا ہے اسے۔۔۔

اوپر سے یہ دوغلے چچا چچی کا سوار ہونا کسی نئی قیامت سے کم نہیں۔۔۔"

ثمر ترس بھری نظروں سے منہاء کی پیشانی پر بوسہ دیتے وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی اور سیدھا باہر کی جانب بڑھی۔۔۔

پروین بیگم کیچن میں کھڑی پرٹھے بنا رہی تھی جبکہ سلیم وہی کھڑا ڈبل روٹی فریج سے نکالے ٹھونس رہا تھا۔۔۔۔

"امی کب تک بنے گے میرے پراٹھے؟؟؟؟

مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے اور یہ ڈبل روٹی بھی اب ختم  ہونے کو ہے۔۔۔۔

جلدی بنائے ناں!!!!"

سلیم منہ میں ڈبل روٹی ڈالے بمشکل بولا۔۔۔

"ارے کمبخت کتنا کھائے گا۔۔۔

پیٹ دیکھ کہاں جارہا ہے اور عقل دیکھ اپنی

صبر کر لے روٹی ہی بنا رہی ہو۔۔۔۔

اور تیرے لیے ویسے بھی ایک روٹی نہیں بلکہ کوئی چار روٹیاں بنانی ہوتی مجھے۔۔۔۔

اب صبر کر اور جا اندر کمرے میں جا کر بیٹھ لاتی ہو تیرا ناشتہ!!!"

پروین بیگم متحیر ہوئی۔۔۔

تو سلیم ڈبل روٹی اٹھائے کیچن سے باہر کو نکلا تو سامنے کھڑی ثمر کو دیکھتے ہی منہ کھولے ہنسا۔۔۔۔

جس پر ثمر بمشکل مسکرائے تیزی سے اندر کو بڑھی۔۔۔

"چچی یہ کیا کررہی ہے آپ؟؟؟"

"پراٹھا بنا رہی ہو " نظر نہیں آتا کیا تجھے لڑکی؟؟؟"

پروین بیگم بدمست ہوئی۔۔۔

"وہ تو آرہا ہے نظر کہ یہ پراٹھا ہی ہے مگر فوتگی والے گھر میں چولہا نہیں جلایا جاتا اور آپ یہ ناشتے؟؟؟"

ثمر کیچن کی بکھری حالت دیکھتے مبہم ہوئی۔۔۔

"تو کیا مطلب مرنے والے کی وجہ سے ہم۔بھوک سے مر جائے؟؟؟

وہ تو مر گئی اب ہم روٹی کھانا چھوڑ دے؟؟؟"

پروین بیگم شدت ہوئی۔۔۔

جبکہ ثمر کو ان کا لہجہ ناگوار گزرا جس پر وہ واپس باہر جانے کو پلٹی!!!!

"ارے لڑکی یہ بتاؤ تم نے کب جانا ہے یہاں سے؟؟؟؟

میرا مطلب کیا تمہارے گھر والوں کو کوئی مسئلہ نہیں یہاں تمہارے رہنے کا؟؟؟"

پروین بیگم طنزیہ گو ہوئی۔۔۔

جبکہ ثمر ان کی بات کو اچھے سے سمجھتے پیچھے کی جانب بازوؤں باندھے پلٹی۔۔۔۔

"یہی بات میں بھی پوچھنے آئی تھی خالہ۔۔۔۔

اپ کب جارہی ہے قل کے بعد یا دسویں کے بعد۔۔۔۔

دراصل منہاء کو زیادہ لوگ پسند نہیں اردگرد۔۔۔

اور آپ تو پورا ٹبر ہی!!!"

ثمر نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔۔۔

"ارے لڑکی کس قدر بد تمیز ہو تم!!!!"

پروین بیگم چمٹا ثمر کو دیکھائے بپھڑی۔۔۔

"میرے جیٹھ کا گھر یہ میری مرضی جب تک رہو میں۔۔۔

اور جانا مجھے نہیں تمہیں چاہیے۔۔۔

ناجانے کیسے ماں باپ ہے بے فکرے کھلی لگام چھوڑ رکھی ہے تم پر۔۔۔"

پروین بیگم مشتعل ہوئی۔۔۔۔

"میری والدین آپ جیسی ذہنیت نہیں رکھتے تبھی میں یہاں ہو۔۔۔۔

باقی منہاء جب تک چاہے گی میں یہاں رہو گی۔۔۔

آپ اپنا سوچے بس۔۔۔۔"

ثمر تحمل انداز ہوتے جواب گو ہوئی اور پاؤں پٹختے وہاں سے چلتی بنی۔۔۔

"بڑی آئی مجھے نکالنے والی۔۔۔

پروین نام ہے میرا اوقات یاد نہ کروا دی تو کہنا!!!!"

پروین بیگم بھڑکتے ہوئے چمٹا اٹھائے چنگاری۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

ثمر کمرے میں. داخل ہوئی تو منہاء پر نظر پڑی جو اب تک اٹھ چکی تھی۔۔۔

"امی!!!!

کہاں ہے امی!!!!؟؟؟"

منہاء جو زیر لب بڑبڑاتے اپنے بیڈ سے اٹھی تھی ثمر کو دیکھتے ہی اس کی جانب لپکی۔۔۔۔

ثمر امی کہاں ہے؟؟؟

میں نے کہا بھی تھا انہیں جانے مت دینا۔۔۔

مگر تم نے ایک نہ سنی!!!

منہاء کی حالت ویسے کی ویسے دیکھ کر ثمر فورا اس کو تھامے بیڈ کی جانب لپکی۔۔۔۔

"تم نے کب کہا تھا مجھے منہاء؟؟؟

ضرور تم نے کوئی خواب دیکھا ہوگا تبھی یوں کہہ رہی ہو!!!

بیٹھو یہی آرام کرو میں پانی لاتی ہو تمہارے لیے۔۔۔"

ثمر منہاء کو سمجھاتے ہوئے بیڈ کی جانب لے کر بڑھی۔۔۔

"تم ایسا کیسے کہہ سکتی ہو کہ کوئی خواب ہے یہ۔۔۔۔

میں سچ کہہ رہی ہو ثمر امی آئی تھی۔۔۔

وہ یہی تھی میرے پاس مجھے پیار کررہی تھی۔۔۔

مجھے کہہ رہی تھی کہ انہیں مجھ پر یقین ہے!!!"

منہاء نے حواس باختگی سے بیڈ کی جانب اشارہ دیتے مسکرائی۔۔۔۔۔

"میں نے تمہیں آواز بھی لگائی کہ انہیں جانے مت دینا مگر تم۔۔۔"

منہاء ثمر کو پیچھے کرتے کمرے سے باہر کو نکلی۔۔۔

"میں خود ہی جا کر دیکھتی ہو۔۔۔

تم تو بس یہی کہوں گی کہ میں جھوٹ بول رہی ہو!!!؟"

"منہاء آنٹی نہیں ہے میری جان!!!

کیوں نہیں سمجھ رہی ہو!!!"

ثمر نے منہاء کو یوں جاتے دیکھا تو فورا اس کے پیچھے کو لپکی۔۔۔

"یہ سب کیا ہے؟؟؟؟"

منہاء جو ناز بی کے کمرے میں داخل ہوئی تھی کمرے کو بکھرا دیکھ کر حیرت ذدہ ہوئی۔۔۔

پروین بیگم جو سلیم کے ساتھ بستر پر مزے سے بیٹھے ناشتہ کررہی تھی۔۔۔۔

منہاء جو دیکھتے ہی فورا اپنے ڈوپٹے سے ہاتھ صاف کرتے اس کی جانب صدقے واری ہوتے لپکی۔۔۔۔

"وہی رک جائے!!!

پاس مت آئیے گا میرے!!!"

منہاء شدت ہوتی چلائی۔۔۔۔

"یہ میری امی کے کمرے کا کیا حال بنا دیا ہے آپ جاہلوں نے مل کر!!!!

کس کی اجازت سے آپ یہاں رکے ہو۔۔۔؟؟؟

کس کی اجازت سے میری امی کے کمرے ہو آپ سب بولے!!!؟؟"

منہاء نیچے گرے تکیوں کو خود سے لگائے سناٹ ہوئی۔۔۔

"پاگل تو نہیں ہوگئی ہو تم منہاء ماں کی موت کے بعد۔۔ 

ماں کو مرے ابھی چوبیس گھنٹے ہوئے نہیں اور زبان دیکھو اس کی کیسے چل رہی ہے۔۔۔۔"

پروین بیگم طنزیہ ہوئی۔۔۔

"میری ماں زندہ ہے۔۔۔۔

وہ ذندہ ہے آئی سمجھ۔۔۔۔"

منہاء نے ہاتھ میں پکڑے تکیہ کو بستر پر دے مارا جو سیدھا سلیم کے منہ پر جا لگا۔۔۔۔

جبکہ منہاء کی دیوانگی کو دیکھ کر پروین بیگم ڈگمگا سی گئی۔۔۔

"اور اب ایک بار بھی کچھ غلط کہا ناں ان کے بارے میں چچی۔۔۔۔

تو لحاظ بھول جاؤ گی میں سب۔۔۔۔"

منہاء خونخواری انداز سے آگے کو بڑھی۔۔۔۔

"ویسے بھی آپ جیسے دوغلے لالچی لوگوں سے میں تو کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی!!!"

"ارے او نصیر صاحب۔۔۔

سنتے ہو!!!!

اپنی بھتیجی کے دماغ کا علاج کرواؤ۔۔۔۔

ایسی پاگل لڑکی سے تو نہ میں اپنے بیٹا ویاہو۔۔۔۔"

پروین بیگم چلائی۔۔۔۔

جس پر نصیر صاحب ناسمجھی سے اندر کی جانب بڑھے۔.  

"کیا؟؟؟

کیا کہا آپ نے؟؟؟

شادی اور وہ بھی آپ کے اس سانڈ پھدے لڑکے کے ساتھ میں کرونگی؟؟؟؟"

منہاء حقارت ہوئی۔۔۔۔

"بس کردو منہاء!!!

چلوں یہاں سے۔۔۔۔"

ثمر نے منہاء کا غصہ دیکھا تو بازو کھینچتے بولی۔۔۔۔

"ہاں ہاں اب تو بس کرنے کا ہی کہوں گی۔۔۔

پہلے بھڑکا کر جو لائی تھی تماشا جو لگوانا تھا۔۔۔

غیر تو تم ہی نکلوں یہاں سے پہلے تم!!!!"

پروین بیگم ثمر پر چڑھائی کرتے بولی۔۔۔

"چچا اپنی اس بد زبان بیوی اور اسے سانڈ بیٹے کو لے کر نکلے میرے گھر سے ابھی کے ابھی۔۔۔۔

میرے ماں کے کمرے کو اپنے ناپاک وجود سے گندہ کردیا ہے انہوں ہے۔۔۔۔

پوری زندگی ان کو زلیل کرنے والی یہ عورت آج آئی ہے حو جمانے کو۔۔۔۔

لے کر جائے اسے یہاں سے ابھی ۔۔۔۔"

منہاء جس کا پارہ ساتویں آسمان پر تھا نصیر صاحب کی جانب خفگی سے اشارہ دیتے بولی اور وہاں سے پھوں پھاں کرتی باہر کو نکلی تو نظر سامنے کھڑے بلال پر پڑی جو سپاٹ تاثرات لیے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

'تم!!!!!!

تم یہاں کیا کررہے ہو؟؟؟؟؟"

منہاء جو پہلے ہی بپھڑی پڑی تھی خون اترتی آنکھوں سے بلال کو دیکھتے اس کی جانب اہستگی سے ہوئی۔۔۔۔

"میں یہاں بس افسوس کرنے آیا ہو۔۔۔۔

اس سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔۔"

بلال سپاٹ ہوا.۔۔۔۔۔

جبکہ پروین بیگم جو نصیر صاحب سے لڑ رہی تھی باہر کا منظر دیکھتے ہی فورا باہر کو لپکی۔۔۔۔

"واہ کیا گھٹیا رواج ہے ناں تم جیسے قاتلوں کا۔۔۔۔۔

پہلے کسی کو بے دردی سے مار دو اور پھر اس کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر اپنے گناہوں کا کفارہ کرو۔۔۔۔

واہ۔۔۔۔"

منہاء نفرت انگیز ہوتے تالی بجاتے بولی۔۔۔۔

"اپنے حواس میں نہیں ہو تم لگتا ہے۔۔۔۔

مجھے یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔۔۔۔

کیونکہ تم اس قابل نہیں کہ تم سے کچھ بھی کہا جائے۔۔۔"

بلال سنگین ہوا اور آگے کو بڑھا۔۔۔۔

منہاء جو ضبط کیے کھڑی تھی تیز قدموں سے آگے کو ہوئی اور بلال کو پیچھے شرٹ سے کھینچتے اپنے روبرو کیا اور ایک زور دار طمانچہ اس کے منہ پر دے مارا۔۔۔

کہ وہاں کھڑا ہر شخص منہاء کی اس حرکت پر منہ کھولے ششدر تھے۔۔۔۔

"تم تو میری تھپڑ کے بھی قابل نہیں تھے بلال۔۔۔۔

دیکھو ہاتھ گندہ کردیا میں نے اپنے دل کے سکون کی خاطر۔۔۔۔"

منہاء اپنا ہاتھ بلال کے سینے سے رگڑتے سنگین ہوئی۔۔۔۔

'میری ماں کی موت کی اصل وجہ تم ہو۔۔۔۔

تم جیسے شخص پر یقین کر کے میں نے امی ماں کھو دی۔۔۔۔"

منہاء کی آنکھوں بھیگی تو بلال کو دھکا بھرتے پیچھے کو ہوئی جو اسے سنگین نظروں سے گھور رہا تھا۔۔۔۔

"کاش تم اس دن ایک بار میری بات سن جاتے تو آج وہ میرے ساتھ ہوتی۔۔۔۔

اور میں ہوں اس دنیا میں اکیلی نہ لڑ رہی ہوتی۔۔۔۔"

منہاء روتے ہوئے اپنا چہرہ صاف کر بلبلائے۔۔۔۔

"مگر اب پتہ کیا!!!"

منہاء حف ہوئی۔۔۔۔

"میرا معاملہ اب اللہ پر ہے۔۔۔۔

وہی تم سب سے میری ماں کے قتل کی سزا لے گا اور میرے ایک ایک آنسوں کی جو تم لوگوں نے مجھے دیے ہیں۔۔۔۔

اور میں دیکھنا چاہتی ہو سب۔۔۔۔

اپنی آنکھوں سے تنہادی بربادی دیکھنا چاہتی ہو۔۔۔"

منہاء حقارت لہجے سے پھنکاری۔۔۔۔

جبکہ بلال نے مزید وہاں رکنا مناسب نہ سمجھا اور تیزی سے دروازے کی جانب ہوا جہاں خان بابا کھڑے اندر کی صورتحال کو دیکھ کر خاصا پریشان تھے۔۔۔۔

بلال ایک پل کو رکا مگر پھر تیز گام ہوتا وہاں سے چلا گیا۔۔۔

جبکہ منہاء بھی وہاں سے اپنا چہرہ صاف کرتے اپنے کمرے کی جانب ہوئی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل جو خان بابا کا پیچھا کرتے منہاء کے گھر کے باہر ہی کھڑا تھا۔۔۔۔

بلال کو سرخ انگلیوں کے نشان سے بھری گال کے ساتھ باہر آتے دیکھا تو فورا گاڑی سے نکلتے اس کی جانب لپکا۔۔۔۔

"بلال!!!!!۔"

بلال نے اپنا نام سنا تو فورا حیرت ذدہ نظروں سے اس کو دیکھتے رکا۔۔۔

"مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے!!!!

اگر تھوڑا وقت مل جائے تو؟؟؟؟"

آہل پرسکون انداز ہوا۔۔۔

جبکہ بلال اسے ناسمجھی نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔ 

"مگر مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔

بہتر ہے میرا راستہ چھوڑو!!!!"

بلال شدت ہوتے اپنی بائیک کی جانب ہوا۔۔۔

"سوچ لوں۔۔۔

کیونکہ بات منہاء کی ہے۔۔۔۔

کیا پتہ جو تم سمجھ رہے ہو ویسا کچھ ہو ہی ناں؟؟؟"

آہل پتہ پھینکتے پھنکارا۔۔۔

"کیا مطلب کیا کہنا چاہتے ہو تم؟؟؟؟

جو دیکھا وہ سچ نہیں تھا۔۔۔

جو سنا وہ دھوکا تھا۔۔۔

ارے دھوکا تو تم دونوں مل کر مجھے دے رہے تھے۔۔۔

اب آج چوری پکڑی گئی تو مجھ پر ہی چڑھائی۔۔۔"

بلال جو اندر سے پہلے تلملا کر نکلا تھا چنگارا۔۔۔۔

"آواز نیچی رکھو اپنی۔۔۔۔

ورنہ چیخنا مجھے بھی آتا ہے۔۔۔۔

آہل اپنا چشمہ اتارے تاسف ہوا۔۔۔"

"باقی تمہاری مرضی ہے بات کرنی تو کرو ورنہ جا سکتے ہو۔۔۔۔

مجھے بھی کوئی شوق نہیں تم جیسے لوگوں سے بات کرنے کا!!!!"

آہل حقارت لیے اپنی گاڑی کی جانب بڑھا۔۔۔۔

جبکہ بلال وہی کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا۔۔۔

"رکوں!!!!۔"

بلال سوچتے ہی اس کی جانب بڑھا جو پہلے ہی اس بات پر مسکرا سا گیا تھا۔۔۔۔

"پاس ہی میں ایک کافی شاپ ہے۔۔۔۔

اگر اپکا معیار زیادہ اونچا نہیں تو ہم وہاں بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں۔۔۔۔"

بلال طنزیہ ہوا۔۔۔۔

جس پر آہل حامی میں مسکراہٹ دیے اپنی گاڑی کی جانب ہوا۔۔۔۔

جبکہ بلال اپنی بائیک اسٹارٹ کرتے آگے کو ہوا۔۔۔

منہاء اپنے کمرے میں موجود بیڈ پر ںیٹھی سر گھٹنوں پر گرائے رو رہی تھی جب خان بابا ثمر کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوئے۔۔۔۔

"دیکھ لے انکل اس کو سب کے سامنے مضبوط نظر آنے والی کیسے گھٹ گھٹ کر رو رہی ہے۔۔۔۔"

ثمر ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے تھامے منہاء کے سامنے براجمان ہوئی۔۔۔۔

"سمجھائے اس کو اس کو یوں بکھرتا دیکھ کر لوگ جو پہلے سے ہی تاک لگائے بیٹھے ہیں اس پر حملہ کرنے کو مزید تیار ہو گئے ہیں۔۔۔۔"

"ثمر لے جاؤ میرے سامنے یہ سب!!!!

مجھے نہیں کھانا اور نہ ہی مجھے سمجھانے کی کوئی ضرورت ہے۔۔۔۔"

منہاء نے تلخ نظر سامنے کھڑے خان بابا پر ڈالی اور واپس سر گرائے بیٹھ گئی۔۔۔۔

"دو دن  سے تم نے کچھ نہیں کھایا۔۔۔

اب مزید رونے کیلئے بھی تو ہمت چاہیے ناں؟؟؟؟

تو لوں کھاؤ یہ جلدی سے۔۔۔۔

شاباش!!!"

ثمر نے نوالہ بناتے منہاء کی جانب بڑھایا۔۔۔۔

"تمہیں سمجھ کیوں نہیں ارہی ہے؟؟؟؟

مجھے نہیں کھانا تو نہیں کھانا۔۔۔

یہاں زندگی تنگ پڑی ہے اور تم مجھے زندہ رکھنے پر تلی ہو!!!!"

منہاء جس نے ثمر کا ہاتھ جھٹکا تھا شدت سے چلائی۔۔۔

"منہاء!!!!"

ثمر ششدر ہوئی۔۔۔

"اور ہاں ان سے بھی کہوں کہ جائے یہاں سے۔۔۔۔"

منہاء نے تلخ نظر خان بابا پر ڈالی اور بیڈ سے اٹھتے آگے کو ہوئی۔۔۔۔

"میں کسی سے بھی بات کرنے یا کچھ بھی سننے کی حالت میں نہیں ہوئی۔۔۔۔۔

میں نہیں چاہتی میں کچھ بھی بد تمیزی کرو اور ان کا دل دکھے۔۔۔ 

بہتر ہے یہ جائے یہاں سے!!!"

"مگر ہم تو بات بھی کرنا چاہتا ہے اور معافی بھی مانگنا چاہتا ہے۔۔۔۔

اور تب تک یہاں سے نہیں جائے گا جب تک تم ہماری بات نہیں سن لیتا۔۔۔۔۔۔

اس کو ضد سمجھو یا ایک بزرگ کی درخواست!!!!"

خان بابا منہاء کی بات سنتے  پشیمانی انداز ہوئے۔۔۔۔

"دیکھیے انکل!!!

میں اپکی بہت عزت کرتی ہو۔۔۔۔

میں نہیں چاہتی کوئی بھی بد تمیزی مجھ سے سرزد ہو۔۔۔۔

کہ بعد مجھے پچھتاوا ہو۔۔۔۔

اور ویسے بھی اس شخص سے جڑے ہر تعلق سے مجھے نفرت ہے۔۔۔۔

شدید نفرت چاہے وہ آپ ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔"

منہاء کی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹا تو زبان سے شدت بات اتری۔۔۔۔

"منہاء!!!!!

کیا بول رہی ہو تم؟؟؟؟

ہوش میں تو ہو؟؟؟؟"

ثمر نے سنا تو سناٹ ہوتے منہاء کی جانب ہوئی اور اس کی بازو کھینچتے اپنی جانب رخ کیا۔۔۔

جبکہ خان بابا نے سنا تو ایک دو قدم پیچھے کو لیے ہوئے۔۔۔

"جس شخص کو تم اس وقت زلیل کرنے پر تلی ہو ناں۔۔۔

کل صبح سے انہوں نے تمہارا ایک پل کو بھی ساتھ نہ چھوڑا۔۔۔"

ثمر سنگین ہوتے خان بابا کی جانب اشارہ کرتے چلائی۔۔۔

"آنٹی کے کفن دفن سے اب قل تک کے اخراجات انہوں نے ہی برداشت کیے ہیں۔۔۔

کیا تمہیں نہیں پتہ کہ کیا حالت تھی تمہاری؟؟؟؟

ہوش تک نہ تھا تمہیں ورنہ دیکھ سکتی خود!!!!"

منہاء نے سنا تو ثمر کو استہفامیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔

اور پھر سامنے کھڑے خان بابا کو دیکھنے لگی جو سر گرائے خاموش تھے۔۔۔۔

"اب تو ہوش کرلو۔۔۔

اب تو غصہ چھوڑ دو۔۔۔۔

اور تم انکا احسان ماننے کی بجائے یہ سب کہہ رہی ہو؟؟؟؟"

"ہوش میں ہی تو نہیں ہو ثمر میں!!!!

نہیں ہو ہوش میں۔۔۔"

منہاء اپنا بازوؤں ثمر سے چھڑواتے پیچھے کو  ہوتے روئی۔۔۔

"جس کی ماں کو مرے چوبیس گھنٹے بھی نہ ہوئے ہو اور الزام اس کی خود کی ذات پر آرہا ہو تو کیا وہ ہوش میں رہ سکتا ہے۔۔۔۔"

منہاء سوالیہ نظروں سے متحیر ہوئی۔۔۔۔

"نہیں بلکل بھی نہیں۔۔۔۔

میری ماں کی موت کا ذمہدار ہر کوئی مجھے ہی ٹھہرا رہا ہے اور میں کچھ نہیں کر پا رہی ہو کچھ بھی نہیں۔۔۔۔"

منہاء اپنے بالوں کو نوچتے سراپا احتجاجا روئی۔۔۔

جبکہ خان بابا جو سب دیکھ کر افسردہ ہوئے آگے کو ہوتے منہاء کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھے گو ہوئے۔۔۔۔

"ہم معافی مانگنا چاہتا ہے تم سے منہاء!!!!

ہم کو سچ میں. بہت تکلیف پہنچا ہے آہل کی اس حرکت کا۔۔۔

ہم کو ذرا بھی اندازہ ہوتا ہم کبھی یہ نوبت نہ آنے دیتا۔۔۔۔"

"مجھے معاف کردے انکل!!!!

میں بہت شرمندہ ہو!!!

مجھے آپ سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی!!!"

منہاء روتے ہوئے ہاتھ جوڑے کھڑی ہوئی تو خان بابا نے محبت سے منہاء کو خود سے لگائے اسے چپ کروانے لگے۔۔۔۔

"تمہارے اسے اخلاق کو دیکھ کر ہی معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری پرورش کس قدر حسین ہوا ہے۔۔..

یہی چیز ہے کہ ہم تم کو آہل سے زیادہ اپنا مانتا ہے۔۔۔۔"

خان بابا بول رہے تھے جبکہ پاس کھڑی ثمر نم آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

"کاش ہم بھی آہل کو ایسا بنا سکتا ۔۔۔

افسوس صد افسوس۔۔۔۔!!!"

خان بابا مایوس کن ہوئے۔۔۔۔

"باقی معافی اسی صورت میں ملے گا جب تم کچھ کھائے گا۔۔۔

یقینا تم نہیں چاہے گا اپنی ماں کی روح کو بے سکون کرنا۔۔۔۔

ہیناں!!!"

خان بابا کے پوچھنے پر منہاء نے حامی میں سر ہلایا تو خان بابا تاسف مسکرائے ثمر کی طرف ہوئے۔۔۔

"ثمر بچے منہاء بیٹی کو کچھ کھلاؤں۔۔۔

ہم تب تک مسجد سے ہو کر آتا ہے کچھ کام ہے۔۔۔"

خان بابا نے منہاء کے سر پر ہاتھ رکھے اسے سمجھایا تو وہ بناء کچھ کہے آنسوں صاف کرتے بیڈ کی جانب بڑھ گئی۔۔۔

جبکہ ثمر بھی خود منہاء کے سامنے بیٹھے اس کو کھانا کھلانے لگی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل اور بلال اب تک کافی کے دو دو مگ پی چکے تھے مگر ابھی تک دونوں میں کسی بھی قسم کی بات کا آغاز نہ ہوا تھا۔۔۔۔

"میرے خیال سے ہم یہاں بات کرنے آئے تھے۔۔۔۔

نہ کہ کافی انڈیلنے!!!!

اگر ہو سکے تو جلدی کرو میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ تم پر ضائع کرو۔۔۔۔"

بلال گھڑی کی جانب دیکھتے سخت ہوا۔۔۔۔

"مجھے منہاء کے بارے میں جاننا ہے۔۔۔۔

وہ سب جو تم جانتے ہو اور وہ سب جو میں جاننا چاہتا ہو۔۔۔"

آہل اپنے چشمے کو میز پر رکھتے اکڑتے گو ہوا۔۔۔۔۔

"اور میں تمہیں اس کے متعلق کیوں بتاؤ؟؟؟؟"

بلال طنزیہ ہوا۔۔۔

میرے خیال سے تم دونوں کی قربت اس قدر ہے کہ وہ "تمہیں سب کچھ آسانی سے بتا سکتی ہے!!!"

"میرے سوال کا یہ جواب نہیں!!!!"

آہل غرایا۔۔۔۔

"اور میرے پاس تمہارے کسی بھی سوال کا جواب نہیں۔۔۔۔"

بلال بھی دوٹوک ہوا۔۔۔۔

"ٹھیک ہے۔۔۔"

آہل نے ایک گہرا سانس بھرا اور پھر اپنے کوٹ سے چیک بک نکال کر اپنے سامنے رکھی اور پرسکون انداز سے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھ گیا۔۔۔۔

"ایسا کرتے ہیں ایک ڈیل کرتے ہیں ہم!!!!"

آہل نے اپنا سگار نکالا اور سلگاتے ہوئے دھواں چھوڑا۔۔۔۔

"جس سے تمہیں بھی فائدہ ہو اور مجھے بھی!!!"

"کیا مطلب؟؟؟

کیسی ڈیل؟؟؟

تمہاری کسی بھی ڈیل سے مجھے کیا فائدہ ہوگا مسٹر آہل خان!!!!

اور میں کیوں تم سے ڈیل کرو؟؟؟

کوئی وجہ !!!!"

بلال بازو باندھے سپاٹ ہوا۔۔۔۔

"تم ایک گندے سے علاقے میں موجود ایک دو کمرے کے مکان کے رہائشی ہو۔۔۔

تمہاری ایک بہن ہے جس کی شادی ہو چکی ہے جبکہ اس کی شادی کا قرضہ ابھی تک تمہارے کندھوں پر ہے۔۔۔

جبکہ ایک چھوڑا بھائی جو تعلیم مکمل کرنے کی کوشش میں ہے۔۔۔

اور ساتھ ہی ایک بیوہ ماں جس کو پیسوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔۔۔۔

اور پھر تم ایک الجھے ہوئے انسان!!!

ایک چھوٹی سی تنخواہ میں کئی خرچیں سر پر اٹھائے پھر رہے ہو۔۔۔۔"

آہل نے تفصیلا برجستگی ہوا۔۔۔

جبکہ بلال نے سب سنا تو دنگ ہوتے سیدھا ہوا۔۔۔۔

"تمہیں کیا لگتا ہے اگر میں تمہارے بارے میں سب معلوم کروا سکتا ہو تو کیا منہاء کے بارے میں معلوم کروانا میرے لیے مشکل ہوگا!!!!

نہیں بلکل نہیں۔۔۔۔"

آہل نے فخریہ انداز سے ایک گہری مسکراہٹ بھری۔۔۔

جبکہ بلال ابھی تک سکتے میں بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

"تو بات کرتے ہیں ڈیل کی۔۔۔

ہر سوال کے صیحح جواب پر میں تمہیں دس ہزار دونگا۔۔۔

اب سوال چاہے دس ہو بیس ہو یا تیس۔۔۔۔

اب آگے مرضی ہے تمہاری۔۔۔۔"

آہل نے لالچ کا پتہ پھینکا اور اب بلال کا تماشا دیکھنے لگا جو کبھی چیک بک کی جانب دیکھتا تھا تو کبھی اپنی خالی ہتھیلی کی جانب افسردہ ہوتا تھا۔۔۔۔

"پہلا سوال!!!!"

بلال نے کچھ سوچتے ہی اہستگی سے کہا۔۔۔

جبکہ آہل کو اب اس کھیل میں. مزہ آنے لگا۔۔۔۔

"منہاء کو کب سے جانتے ہو؟؟؟"

آہل نے پہلا سوال داغا۔۔۔۔

"چار سال سے!!!۔"بلال چیک بک پر نظر جمائے مسکرایا۔۔۔

اور پھر یوں سوالوں کا سلسلہ شروع ہوا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

خان بابا کے روبرو بیٹھی منہاء مسلسل ان کی بے چینی کو دیکھتے بلآخر بول ہی اٹھی۔۔۔۔

"کیا ہوا ہے انکل؟؟؟؟

کس بات سے اس قدر پریشان ہے آپ کہ لفظ بھی اپکا پچھلے آدھے گھنٹے سے ساتھ نہیں دے رہے!؟؟؟

کیا کوئی پریشانی ہے؟؟؟"

منہاء خان بابا کی پریشانی کو دیکھتے مبہم ہوئی۔۔۔۔

"اگر اپکو پریشانی اس بات کی ہے کہ میں آپ کے پوتے کو معاف نہیں کرونگی۔۔۔۔

تو میں اس متعلق کچھ نہیں کر سکتی!!!!

وہ جو بھی میرے ساتھ کر چکا ہے۔۔۔

اب اللہ اس سے اس بات کا انصاف لے گا۔۔۔۔"

منہاء مبغوض ہوئی۔۔۔۔

"کیا تم آہل سے نکاح کر سکتا ہے؟؟؟؟"

خان بابا جو منہاء کے چہرے پر نظریں جمائے تھے جھٹ پٹ بول ہی اٹھے۔۔۔۔

جبکہ منہاء جو اس قسم کی کسی بھی بات کے گمان میں نہ تھی پھٹی سرخ آنکھوں سے خان بابا کو گھورنے لگی۔۔۔۔

"ہم خدا کی لاٹھی سے بہت خوف کھاتا ہے۔۔۔۔

ہم نہیں چاہتا وہ اس کی پکڑ میں آئے۔۔۔۔

وہ نادان ہے بےوقوف ہے بہتان اور اس کی سزا سے ناواقف ہے۔۔۔۔

مگر ہم اس کو اچھے سے سمجھتا اور جانتا ہے۔۔۔

ہم اپنے خون کو یوں تڑپتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا۔۔۔۔"

خان بابا التجائی انداز آور ہوئے۔۔۔۔

جبکہ منہاء تو بس سکتے میں ہوتے اردگرد نظریں گھومائے خود کو ایک خواب میں تصور کروانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔

"آپ کو پتہ بھی ہے آپ نے ابھی مجھے کیا کہا ہے؟؟؟؟"

منہاء حواس باختگی سے بولی۔۔۔۔

"میں اس شخص سے نکاح کرو جس نے میری ماں کو مار ڈالا!!!!

میں اس شخص کو اپنی زندگی میں لاؤ جس نے میری زندگی تباہ کر ڈالی!!!!"

منہاء آگ بگولہ ہوتے انگاری ہوئی۔۔۔

"ہم سب مانتا ہے ۔۔۔۔

ہم اس کی سب خطا ہر شرمسار ہے۔۔۔۔

مگر ہم یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ سدھر جائے۔۔۔۔

اور اس کو بس تم ہی سدھار سکتا ہے اور کوئی نہیں یہ بات بھی طے ہے۔۔۔"۔

خان بابا تمحیر ہوئے۔۔۔۔۔

"چاہے سامنے والی کی زندگی خراب ہو جائے؟؟؟"

منہاء برہمی سوالیہ ہوئی۔۔۔۔

"اوہ!!!!

تو اب سمجھ میں آئی!!!

تو آپ اس وجہ سے میری مدد کررہے تھے۔۔۔"

منہاء جو سوچ کے گھوڑے دوڑا رہی تھی طنزیہ مسکراہٹ گو ہوئی۔۔۔

"آپ اس وجہ سے مجھے شفقت دے رہے تھے کیونکہ اپکو مجھ سے کام تھا۔۔۔۔

آپ اپنے پوتے کی پکڑ ہونے سے بچانا چاہتے ہیں چاہے میرے دامن پر لگے سارے جھوٹے داغ سچے ہو جائے۔۔۔۔"

منہاء سنگین ہوتے اٹھی اور اپنی پیشانی کو مسلتے روہانسی ہوئی۔۔۔۔

"تم غلط سمجھ رہا ہے بچے!!!!

ہم۔تم سے کیوں مفاد سوچے گا۔۔۔۔

ہم چاہتا ہے جو دکھ اس نے دیا اب خوشی بھی وہی دے"

"میری خوشی کی امید اس زلیل انسان مت لگائیے۔۔۔۔

اگر آپ کو مجھ سے ذرا بھی ہمدردی ہوتی تو مجھ سے اس عذاب کے متعلق کوئی بات نہ کرتے بلکہ سوچتے بھی ناں۔۔۔"

منہاء متلاطم ہوئی۔۔۔۔

"یہ لو!!!!

ارے یہاں تو کہانی ہی کچھ اور ہے نصیر صاحب!!!

میں نہ کہتی تھی کہ اس لڑکی کا کردار اچھا نہیں۔۔۔۔

مگر نہیں میری کون سنتا ہے۔۔۔

لوں دیکھ لو اور سن لو خود۔۔۔۔"

پروین بیگم جو نصیر صاحب کے ساتھ دروازے پر ہی کھڑی تھیں قہقہ آور ہوتے اندر کی جانب طنزیہ ہوئی۔۔۔

جبکہ منہاء نے پروین بیگم کو اندر آتے دیکھا تو گھنگولی۔۔۔

"بھئی اس کے تو. بڑے دیوانے ہیں رے بابا۔۔۔۔

دیکھ رہے ہو نصیر صاحب اپنے بھائی کی عزت کا تماشا!!!"

پروین بیگم زہر آلود ہوئی۔۔۔

"دیکھیے آپ سب غلط سمجھ رہا ہے منہاء بیٹی کو۔۔۔

وہ ہرگز ایسا. نہیں۔۔۔۔

جیسا آپ سوچتا ہے!!!"

خان بابا نے سنا تو فورا حمایتی ہوئے۔۔۔۔

"آپ تو چپ رہے بڑے بزرگوں۔۔۔

مجھے تو پہلے سے ہی اپکی موجودگی خٹک رہی تھی۔۔۔۔

کہ بھئی آج کے دور میں. کون اتنا مہربان کہ اپنے پیسے وقت کسی انجان پر لگائے۔۔۔"

پروین بیگم آگے کو کاٹ کھانے کو ہوئی۔۔۔۔

"ہوگیا اپکا!!!!

اب لگ گیا پتہ!!!

 تو وہ ہے دروازہ۔۔۔۔

جائے یہاں سے اب!!!"

منہاء جو سب سن کر زچ ہوئی آگے کو شدت ہوتے بھڑکی۔۔۔

"ہاں ہاں جا رہے ہیں جا رہے ہیں۔۔۔

اس گند کے مکان میں کون رہنا پسند کرے گا۔۔۔

جہاں عزتوں کے جنازے نکلے ہو۔۔۔

ارے ہمارے ہی مت ماری گئی تھی جو اپنے شریف بیٹے کا تمہارے ساتھ سوچا تھا۔۔۔۔

توبہ میری توبہ صیحح وقت ہر آنکھ کھل گئی میری تو۔۔۔"

پروین بیگم کانوں کو ہاتھ لگائے سفاک ہوئی۔۔۔

"آپ جارہی ہے کہ میں اپکو دھکے مارو۔۔۔۔

لے کر جائے انہیں یہاں سے نصیر چچا۔۔۔۔

اور ساتھ اپنے شاہ رخ کو بھی لیتے جانا۔۔۔

کس قدر شریف وہ پورے خاندان کو معلوم ہے۔۔۔"

منہاء پھنکار مارے چلائی۔۔۔

"ہاں جیسا بھی ہے شریف ہے۔۔۔

تجھ جیسی لمبی زبان نہیں۔۔۔۔

چلوں جی بڑا شوق تھا اپکو بھائی کی بیٹی کا۔۔۔

لو دیکھ لو۔۔۔۔

کیا کرتوت ہے اس کے۔۔۔

شکر کرو منور بھائی مر گیا پہلے ہی ورنہ آج ہوتا تو خودکشی کر لیتا۔۔۔"

پروین بیگم بدگوئیاں کرتے وہاں سے چلتی بنی ساتھ نصیر صاحب بھی ان کے ہمراہ ہوئے۔۔۔۔

منہاء نے پروین بیگم کا زہر سنا تو روتے ہوئے پیچھے اپنے بیڈ پر آ کر بیٹھ گئی اور سر پکڑے زور زور سے رونے لگی۔۔۔۔

خان بابا جو اس سب تکرار کو دیکھ کر داسہم ہوئے تو منہاء کی جانب بڑھے مگر اس کی حالت دیکھتے ہوئے کچھ بھی کہنا مناسب نہ سمجھا اور خاموشی سے باہر کو چلے گئے۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

بلال جا چکا تھا جبکہ آہل ابھی بھی اپنی چیک بک پر اپنا ہاتھ رکھے سکتے میں بیٹھا سگار سلگائے دھواں چھوڑ رہا تھا۔۔۔

"سر آپ کا بل!!!!"

ایک ویٹر ہاتھ میں بل لیے اس کے روبرو کھڑا ہوا۔۔۔

جس کے بلانے پر آہل ہوش کی دنیا میں آیا اور اپنا کارڈ اس کو دیے سیدھا ہوا۔۔۔۔

"نہیں وہ کسی بھی ہما نامی لڑکی کو نہیں جانتی۔۔۔۔

نہ ہی اسکا کسی سے کوئی تعلق ہے۔۔۔

اگر ایسا ہوتا تو مجھے ضرور خبر ہوتی ۔۔۔

مگر ثمر کے علاوہ اس کا کوئی دوست نہیں تھا اور نہ ہی اب ہے۔۔۔۔"

بلال کی باتیں آہل کے دماغ میں گھومی جس کو سوچتے وہ قدرے مبہم ہوا اور ہڑبڑاتے ہوئے اپنی نشست سے اٹھا۔۔۔

اپنی میز پر بکھری چیزوں کو سمیٹا اور سیدھا کاونٹر کی جانب ہوا۔۔۔

کارڈ لیا اور سیدھا گیراج کی جانب چل پڑا۔۔۔۔

"جاب نہیں کرنا چاہتی تھی وہ،  وہ تو بس فارغ ہونے کی وجہ سے کررہی تھی ورنہ اس کو شوق نہ تھا۔۔۔۔"

"یہ سب کیا ہوگیا مجھ سے؟؟؟"

آہل بلال کی باتوں کو سوچتے اسٹیئرنگ پر اپنا ہاتھ مارتے سنگین ہوا۔۔۔

"میں کیسے کسی کو سمجھ نہ سکا!!!!

وہ مجھے کہتی رہی اور میں اپنی آنا اور نفرت میں اسے تباہ کرتا چلا گیا۔۔۔"

اور پھر سے اپنا سگار سلگائے دھواں بھر دھواں اڑانے لگا۔۔۔

"میں کتنی بار کہوں تمہیں کہ میں نہیں جانتی کسی بھی ہما کو۔۔۔

اور نہ ہی میرا کوئی واسطہ۔۔۔۔

کیوں میری بات کا یقین نہیں کررہے ہو تم!!!"

منہاء کی بے بسی آہل کے کان میں گونجی تو گاڑی کی بریک منہاء کے گھر کے سامنے جا لگی۔۔۔۔

ایک شرمندگی بھری نظر سامنے پڑی تو آنکھیں خودبخود جھک سی گئی۔۔۔

پھر کچھ سوچا اور فورا فون نکالتے ایک نمبر ملا دیا۔۔۔

"دادا میں باہر ہی کھڑا ہو!!!

آپ فری ہوگئے ہیں تو آجائیے!!!"

آہل نے الجھے ہوئے لہجے سے کہا اور پھر فون بند کر کے انتظار کرنے لگا۔۔۔۔

"دادا مجھے کہتے رہے مگر میں نے ایک ناں سنی۔۔۔۔

اپنے اندر کے غبار اور عتاب کا نشانہ اس کو بناتا رہا جو اس سب کے بارے میں انجان تھی۔۔۔۔

اففففففففففف میرے خدایا یہ سب کیا ہوگیا مجھ سے؟؟؟"

آہل پچھتاتے ہوئے اپنے سر کو جکڑے زیر لب بڑبڑایا۔۔۔

کہ تبھی خان بابا آہل کی ساتھ والی نشست پر براجمان ہوگئے۔۔۔۔

"تم یہاں ؟؟؟

سب خیریت؟؟؟

ہم کو تھا تم یہاں واپس نہیں پلٹے گا؟؟؟

مگر تم ہم کو ہر بات حیران کر دیتا ہے آہل!!!"

خان بابا نے آہل کا اترا چہرہ دیکھا تو سوالیہ ہوئے۔۔۔

'ہاں!!!!

ہاں ہاں بس وہ یہاں سے گزر رہا تھا تو سوچا اپکو بھی ساتھ لے کر چلتا جاؤ۔۔۔۔

آپ فری تو تھے ناں؟؟؟"

آہل بمشکل اپنی حواس باختگی چھپائے مصنوعی مسکراہٹ ہوا۔۔۔۔

"ہاں مجھے کیا کام ہونا تھا !!!بس اس معصوم کا دل ہلکا کررہا تھا ہم۔۔۔۔

باقی اللہ صبر دے بچی کو۔۔۔

بہت حوصلہ رکھتی ہے وہ معصوم بچی۔۔۔"

خان بابا دعا گو ہوئے۔۔۔۔

"اللہ اس کے امتحان میں آسانی کرے ورنہ تم نے کوئی کسر نہ چھوڑی اس کو زلیل کرنے کا"

جبکہ خان بابا جو طنزیہ ہوئے تھے کو یوں پریشان دیکھ کر آہل بھی چین سا ہوگیا۔۔۔۔

"دادا ایک پوچھو!!!"

آہل سوچ میں گم زیر لب ہوا۔۔۔

جبکہ خان بابا اس کی بات پر کچھ نہ بولے۔۔۔

" منہاء کیسی ہے؟؟؟

وہ ٹھیک تو ہے ناں!!!"

خان بابا جو آہل کے منہ سے منہاء کا نام سنتے ہی مڑے اسی استہفامی نظروں سے دیکھتے چونکے۔۔۔۔

"ٹ۔۔۔ٹھیک ہے وہ۔۔۔۔

اور اللہ اسے ٹھیک ہی رکھے۔۔۔۔

مگر تم کیوں پوچھتا ہے؟؟؟؟"

"ب۔۔۔ب۔۔بس یونہی۔۔۔۔

یونہی۔۔۔

یونہی پوچھا۔۔۔۔"

آہل ہکلاتے ہوئے سامنے کی طرف دیکھنے لگا اور ہڑںڑاہٹ ہوتے گاڑی چلا دی۔۔۔۔

جبکہ آہل کی اس ہڑںڑاہٹ کو خان بابا اچھے سے محسوس کر چکے تھے مگر کچھ نہ بولے۔۔۔۔

رات کی سیاہ چادر تنی تو ہزاروں سرگوشیوں اور خاموشیوں کی ڈولی منہاء کے گھر پر ڈیرا ڈالے سائیں سائیں کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔

منہاء جس کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی اپنے بیڈ پر سہارا لیے بیٹھی رات کے آدھے پہر مسلسل چھت کی جانب نظر اٹھائے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

جبکہ ساتھ ہی لیٹی ثمر منہاء کی بے خوابی سے بے خبر خواب خرگوش کے مزے لیتے چھوٹے چھوٹے خراٹے بھر رہی تھی۔۔۔۔

رات کی خاموشی میں. ہزاروں وسوسوں کی چیخوں نے منہاء کے کانوں میں ایک شور برپا کر رکھا تھا۔۔۔

کہ اسی بے چینی اور اضطرابی کی کیفیت سے دوچار منہاء  اہستگی سے بیڈ سے اتری اور اپنے کمرے سے نکلتے باہر کو ہوئی۔۔۔۔

کہ رات کا چاند اپنی بھرپور روشنی کے ساتھ آسمان پر اپنی ٹھاک بٹھائے ہوا تھا کی روشنی سے مسحور ہوتی منہاء کی نظر سامنے سنسنان صحن پر پڑی۔۔۔

"منہاء!!!!!

کتنی بار کہا ہے کہ رات کے وقت صحن کی لائیٹ بند مت کیا کرو۔۔۔۔

مجھے خوف آتا ہے اس اندھیرے سے ۔۔۔۔

مگر تم ہو کہ سنتی ہی نہیں!!!!"

منہاء کی آنکھوں کے سامنے ناز بی کا ایک عکس گھوما۔۔۔

"امی مجھے نیند نہیں آتی ہے اس روشنی میں۔۔۔۔

جب میں سو جایا کرو ناں تو آپ بند کردیا کرنا یہ لائیٹ۔۔۔"

منہاء کو اپنی آواز سے ساتھ اپنا بھی ہولہ سامنے عکس کی مانند نظر آیا۔۔۔

"ویسے ڈر کس بات کا لگتا ہے آپ کو؟؟؟

جب میں ہو آپ کے ساتھ تو ڈر تو کوسوں دور ہونا چاہیے ناں؛!"

ناز بی کے ساتھ چپکتی منہاء چہکی۔۔۔

"اسی بات کا ہی تو ڈر ہے کہ تم جیسی چڑیل مجھے ڈرا دیتی ہو۔۔۔۔

اب کچھ تو چاہیے ناں مجھے حوصلہ ہونے کیلئے۔۔۔"

ناز بی منہاء کی گال کھینچتے ہوئے کیچن کی جانب ہوئی۔۔۔

جبکہ منہاء منہ بسورے ان کے پیچھے لپکی۔۔۔۔

سامنے کھڑی منہاء جو ان یادوں کی فلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے مسکرایٹ دیتے اشکبار ہوئی تھی آگے کو بڑھتے صحن کی لائیٹ جلا دی اور پھر سیدھا ناز بی کے کمرے کی جانب رخ کیا۔۔۔

جن کا کمرہ منہاء نے نصیر چچا کے جانے کے بعد ویسے ہی سمیٹ دیا تھا جیسے ناز بی کی موجودگی میں ہوتا تھا۔۔۔۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ ناز بی کی خوشبو کو محسوس کرتے ان کے بیڈ کی جانب ہوئی۔۔۔

اور پھر تکیے کو خود سے لگائے گھٹن بھرے آنسوں سے بیڈ پر ہی لیٹ گئی۔۔۔۔

"کیوں چلی گئی امی آپ مجھے چھوڑ؟؟؟؟

کیوں؟؟؟"

منہاء شکوہ کناں ہوتے روئی۔۔۔۔

"جانتی تھی ناں کہ میں اکیلی پڑ جاؤ گی!!!!

اب کیسے رہو گی میں یہاں اکیلی!!!!

جو ڈر اپکو پہلے لگا کرتا تھا آج وہ ڈر مجھے لگ رہا ہے امی!!!

مجھے بی روشنی چاہیے امی!!!

مجھے بھی سہارا چاہیے!"

منہاء کی ہچکیاں شروع ہوئی تو پورا کمرہ اس کی لپیٹ میں ہوا۔۔۔۔

"مجھے ڈر لگ رہا ہے امی!!!!

پلیز کہیں سے آجائے ناں!!!"

منہاء بے یارومددگار ہوتے اردگرد نظریں گھومائے اب سر تکیے پر لگائے رونے لگی اور پھر ناجانے کب روتے روتے وہ نیند کی وادیوں میں گم ہوئی اسے خود خبر نہ لگی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل اپنے کمرے کی بالکنی میں کھڑا ایک ہاتھ میں سگار تو دوسرے ہاتھ میں کین تھامے  تھا۔۔۔۔

چاند کی روشنی میں آنکھیں ڈالے آج وہ پھر سے کسی جنگ کے موڈ میں تھا۔۔۔۔

"آہ!!!!!!!!"

آہل جو کچھ دیر پہلے پرسکون کھڑا تھا اندر کے طوفان سے تنگ آتے ہی کین کو زمین پر پٹختے چلا سا گیا۔۔۔۔

"تم کیسے ہار سکتے ہو آہل خان؟؟؟

تم کیسے غلط ہوسکتے ہے؟؟؟"

آہل اپنے ہاتھ سے سگار زمین پر گرائے اسے مسلتے چیخا۔۔۔۔

"میری سوچ میری سینسز کیسے غلط ہو سکتی ہے؟؟؟

نہیں نہیں!!!!

میں غلط نہیں ہوسکتا۔۔۔"

آہل خود کو دلاسے بھرے بمشکل گرل سے سہارا لیے کھڑا رہا۔۔۔

"یقینا بلال جھوٹ بول رہا ہوگا!!!

ہاں وہ جھوٹ بول رہا ہوگا۔۔۔۔"

"پیسوں کی لالچ نے اسے سچ سے پڑے کردیا ہے تبھی وہ یہ سب بول کر گیا ہے۔۔۔۔

کیا خبر وہ دونوں ملے ہوئے ہو؟؟؟"

آہل جو اپنی ہار کو تسلیم نہیں کررہا تھا خود کو جھوٹی دلاسے بھرے سنگین ہوا۔۔۔

"ہاں ایسا بھی تو ممکن ہوسکتا ہے ناں!!!"

آہل خود سے سوالیہ ہوتے خلط ملط ہوا۔۔۔

"میں منہاء سے بہت محبت کرتا تھا آہل خان۔۔۔

مگر تم نے اسے مجھ سے چھین لیا۔۔۔

تم نے اسے سارے زمانے میں رسوا کردیا۔۔۔

اور وہ تم ہی ہو جس کی وجہ سے اج اس کی ماں اس دنیا میں نہیں ہے۔۔۔۔"

بلال کی زہر آلود باتیں آہل کے کانوں میں گونجی۔۔۔

تو وہ دیوانہ وار کانوں کو دونوں ہاتھوں سے جکڑے چیخنے لگا۔۔۔۔

"جھوٹ بول رہے ہو تم!!!!

جھوٹ بول رہے ہو!!!

میں غلط نہیں ہوسکتا ہو۔۔۔

آہل خان غلط نہیں ہوسکتا ہے۔۔۔۔"

آہل چنگارتے ہوئے بپھڑا۔۔۔

"میں نے کسی کو رسوا نہیں۔۔۔۔

وہی کیا جو اس کچھ وہ بو رہی تھی!!!!"

اہل جو سنگین تھا خان بابا کی موجودگی کو پاتے ہی ان کو استہفامیہ نظروں سے گھورنے لگا۔۔۔۔

"تم نے اسے رسوا کیا ہے آہل!!!!

بات بس اتنی سی ہے کہ تم اصلیت سے عار ہو۔۔۔"

خان بابا نے آہل کی ہٹ دھرمی دیکھی تو تاسف ہوئے۔۔۔

"نہیں دادا!!!!

کوئئ انسان کسی کو رسوا نہیں کرتا۔۔۔"

آہل نے خان بابا کی بات سنی تو نفی میں ہکلاتے ہوئے اٹھا۔۔۔

"یہ تو اسی کے اعمال ہوتے ہیں جو اس کو اس مقام پر لے آتے ہیں!!!"

"ہم جانتا ہے تم کمزور ہے۔۔۔

ضمیر کا بوجھ تمہاری سقت سے زیادہ ہے۔۔۔

مگر اگر اپنی غلطی مان لیا جائے اور انجان گناہ کا اعتراف کیا جائے تو انسان کیا خدا بھی معاف کر دیتا ہے۔۔۔"

خان بابا نے آہل کی دیوانگی دیکھے تو سپاٹ ہوئے۔۔۔

"کس بات کی معافی؟؟؟

کس بات کا گناہ؟؟؟"

اہل جنونیت تاثرات لیے کھڑا ہوا اور بپھڑا۔۔۔

"آہل خان غلط نہیں ہوسکتا ہے دادا!!!

وہ بار بار غلطی نہیں کر سکتا!!!"

"تو کہہ دو تم پھر۔۔۔

کہ تم فرشتہ ہے!!!

شاید پھر ہم مان لے تمہاری اس بات کو۔۔۔

کہ ہاں آہل خان غلط نہیں ہوسکتا۔۔۔

وہ کوئی گناہ غلطی نہیں کرسکتا۔۔۔۔"

خان بابا نے سنا تو سناٹ ہوئے۔۔۔

"آپ جائیے یہاں سے دادا۔۔۔۔

مجھے آپ کے فلسفے نہیں سننے۔۔۔

میں آگے ہی بہت تنگ ہو۔۔۔

مجھے مزید تنگ نہ کرے۔۔۔"

آہل جس کا چہرہ سرخ پڑ چکا تھا ہاتھ جوڑتے پلٹا۔۔۔

"تم تنگ تب تک رہے گا جب تک تم مان نہ جائے گا۔۔۔۔

اور افسوس ہم تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔۔۔۔

کیونکہ تم اپنی خود کا مدد نہیں کرسکتے۔۔۔

امید کرتا ہے اللہ تمہارے ضمیر کے ساتھ تمہیں بھی سکون بخشے جو کہ ہمیں نظر نہیں آرہا۔۔۔"

خان بابا سنگین ہوتے پلٹے۔۔۔

جبکہ آہل جو سر گرائے کھڑا تھا خان بابا کی سختی سن کر گھٹنوں کے بل وہی بیٹھ گیا۔۔۔۔

"ایک عورت کی بے وفائی نے سب عورتوں کو میری نظر سے گرا دیا۔۔۔۔

اور اب ایک مرد کے ظلم نے مرد ذات کو عورت کے سامنے حقیر کردیا۔۔۔۔"

آہل دل ہی دل سوچتے مبہم ہوا۔۔۔۔

"شاید یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی سامنے والے کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔۔۔

ہما نے مجھے کیا اور میں نے منہاء کو۔۔۔

مگر حساب برابری میں اب بھی ایک مرد پیچھے ہی رہا ور عورت جیت گئی ہے۔۔۔۔

اور کاش میں اس جیت کو جلد تسلیم کر سکوں!!!"

آہل لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھا اور کمرے سے باہر نکلتے ساتھ ہی موجود ایک کمرے میں داخل ہوا جہاں اس کا پیانو اور اس کی تنہائی بستی تھی۔۔۔۔

دل شکستہ ہوتے وہ پیانو. کے سامنے جا بیٹھا اور آج اس کی ساز ہر بار کی دھن سے مختلف اور خوبصورت تھا۔۔۔۔

خان بابا جو اپنے کمرے میں ہی موجود تھے دھن سن کر ایک پل کو اٹھے مگر پھر کچھ سوچتے واپس اپنے بیڈ پر بیٹھ گئے اور اس دھن سے مسرور ہونے لگے۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

 صبح کا اجالا چمکا تو ثمر بھی اپنے نیند کی وادیوں کو تنہاء۔چھوڑتے ہوئے اٹھ بیٹھی۔۔۔۔

"منہاء اٹھو!!!!!

اٹھو منہاء!!!!

نماز پڑھنی ہے !!!!

فجر کا وقت ہو رہا ہے۔۔۔

اٹھو شاباش!!!!"

ثمر جس کی آنکھیں ابھی پوری کھلی بھی نہ تھی بستر پر ہاتھ مارے مدہم ہوئی۔۔۔۔

مگر جب ساتھ کسی کو لیٹے نہ پایا تو فورا ہڑبڑاتے ہوئے پھٹی آنکھوں سے پورے کمرے کو دیکھنے لگی۔۔۔۔

"یہ کہاں چلی گئی ہے؟؟؟؟

منہاء!!!!!"

ثمر مارے پریشانی سیدھا واش روم کی جانب بڑھی مگر وہ بھی خالی پایا۔۔۔

"منہاء واش روم میں ہو کیا؟؟؟؟"

"یہ تو یہاں بھی نہیں ہے!!!!

ہائے اللہ یہ کہاں چلی گئی ہے؟؟؟؟"

ثمر کا دل دہلا تو ہو باہر کی جانب ہوئی تو دن کے اجالے میں بھی بلب کی روشنی پائی۔۔۔

"رات تو میں نے لائیٹ بند کی تھی تو یہ کھلی کیسے؟؟؟"

ثمر جس کے دماغ میں وسوسے دوڑ رہے تھے اچانک سوچ ناز بی کے کمرے کی طرف گئی تو بناء دیر لگائے وہ ایک ٹانگ اس جانب بھاگی۔۔۔۔

اندر داخل ہوتے ہی پہلی نظر منہاء پر پڑی جو ناز بی کے بستر پر ایک بچے کی مانند لیٹی تکیے کو خود سے لپیٹے سو رہی تھی۔۔۔۔

ثمر جو اس کی امید میں نہ تھی نم آنکھوں سے سوئی ہوئی منہاء کی جانب ہوئی جو بناء کسی نیند کی دوائی کے پرسکون سو رہی تھی۔۔۔۔

"منہاء!!!!!

منہاء اٹھو !!!"

ثمر نے اہستگی سے منہاء کو اٹھایا جس پر وہ آنکھیں مسلتے اٹھ بیٹھی۔۔۔۔

"چلوں شاباش آوء نماز پڑھو میرے ساتھ!!!!

اٹھو!!!!"

ثمر نے منہاء کی جانب مسکرا کر دیکھا تو وہ حامی میں سر ہلائے اٹھ بیٹھی اور ثمر کے سامنے ہی سیدھا واش روم کی جانب فریش ہونے کو بڑھی۔۔۔۔

جبکہ ثمر تک منہاء کو یوں نم آنکھوں سے جاتا دیکھ کر واپس پلٹی اور خود بھی فریش ہونے کو بڑھی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

خان بابا ناشتے کے ٹیبل پر ہی موجود تھے جب آہل آفس کیلئے تیار ہوتے سیدھا نیچے کی جانب ہوا۔۔۔۔

خان بابا جو اس کو گھور رہے تھے کو آہل نے مکمل نظر انداز کیا اور کف کے بٹن بند کرتے باہر کی جانب بڑھنے لگا۔۔۔

"آہل!!!!!

رکوں!!!!"

خان بابا نے آہل کی چوری دیکھی تو سخت آواز سے غراتے اس کو آواز لگائی اور خود بھی اٹھ کر اس کی جانب ہوئے۔۔۔۔

جبکہ آہل بھی خان بابا کی آواز پر قدم روکے وہی کھڑا اردگرد دیکھنے لگا۔۔۔۔

"نظر چرانے سے اگر اصلیت بدل جاتا تو ہر کوئی آنکھوں میں ایلفی ڈال کر بیٹھ جاتا۔۔۔۔

اس طرح بھاگ کر کہاں جا رہے ہو۔۔؟؟؟؟

ہم کو بات کرنی ہے تم سے ٹیبل پر آؤ۔۔۔۔"

خان بابا بے روکھی سے بولتے واپس ٹیبل کی جانب ہوئے۔۔۔

"تم کو ہمارا آواز نہیں آیا کیا؟؟؟

ہم تم سے ہی کہہ رہا ہے ٹیبل پر آؤ۔۔۔"

خان بابا نے آہل کی ہٹ دھرمی دیکھی تو غرائے۔۔۔۔

جبکہ آہل بناء کچھ کہے خاموشی سے خان بابا کے سامنے بیٹھ گیا۔۔۔۔

"گل افگن صاحب کیلئے ٹھنڈا جوس لاؤ۔۔۔"

خان بابا اونچی آواز سے بولے تو گل افگن جو کیچن سے ہی آرہا تھا الٹے پاؤں مڑ گیا۔۔۔

"کیونکہ جو بات ہم نے اس سے کرنا ہے کیا خبر یہ آگ سے جل بھن جائے۔۔۔۔"

خان بابا تیکھا ہوئے تو آہل واپس اپنی کرسی سے اٹھتے آگے کو ہوا۔۔۔۔

"ہم کو زیادہ دماغ دکھانے کا ضرورت نہیں آہل خان۔۔۔

ہم تمہاری سابقہ محبوبہ نہیں جو تم سے لپٹ جائے گا۔۔۔"

خان بابا پھنکارے تو آہل پلٹا۔۔۔

"بس کردے دادا!!!!

اور کتنا زلیل کرے گے مجھے اب!!!!

میرے خیال سے اب بہت ہوگیا ہے۔۔۔۔"

آہل سناٹ ہوا۔۔۔

"یہی ہم تم سے کہہ رہا ہے ۔۔۔۔

اب بہت ہوگیا ہے۔۔۔

ہم کو بس ہمارا جواب دو تاکہ ہم آگے کی کاروائی ڈالے۔۔۔"

خان بابا میز پر ہاتھ مارے اٹھے۔۔۔

"کس بات کا جواب؟؟؟

کونسی کاروائی دادا؟؟؟

ایک تو آپ کی سوچ کو بیس توپوں کی سلامی دادا۔۔۔

ناجانے کیا کیا سوچتے رہتے ہیں آپ!!!!

جارہا ہو میں دیر ہو رہی ہے مجھے بہت!!!'

آہل ناگواری سے متحیر ہوتے واپس باہر جانے کو ہوا۔۔۔۔

"تم منہاء سے نکاح کرنا چاہتا ہے کہ نہیں؟؟؟

بس یہ جواب دو مجھے!!!۔"

آہل جو بس باہر کو نکلنے کو ہی تھا خان بابا کی بات نے ایک بار پھر اس کےسے قدم روک ڈالے۔۔۔

"اگر تم نہیں کرنا چاہتا تو ہم منہاء کے منگیتر سے بات کر کے اس کو سمجھائے گا۔۔۔۔ 

تاکہ وہ معصوم تو اپنی آگے کی  زندگی جو سکون سے گزارے۔۔۔"

خان بابا صاف گو ہوتے واپس اپنی کرسی پر بیٹھ گئے اور پرسکون انداز سے ناشتہ کرنے لگے۔۔. 

جبکہ آہل نے خان بابا کے منہ سے بلال کا نام سنا تو جیسے جل بھن سا گیا چہرے پر ناگواری تاثرات لیے اس نے خان بابا کو ایک نظر گھورا اور بناء کوئی جواب دیے باہر کو نکل پڑا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"منہاء!!!!

منہاء!!!

منہاء!!!!

کیا عذاب مسلط کردیا ہے مجھ پر اس منہاء نام کا!!!!"

آہل ایک ہاتھ اسٹیئرنگ پر جمائے دوسرے ہاتھ سے سر تھامے پھنکارا۔۔۔۔

"ناجانے دادا کب اس کے جادو کے اثر سے نکلے گے!!؟؟"

"اور مجھے بتانے کی کیا ضرورت ہے جس سے مرضی اس کا نکاح کروائے۔۔۔۔۔

میری بلا سے بلال سے کروائے یا کسی اور سے۔۔۔"

آہل جو بلال کے نام پر  جل بھن سا گیا تھا چشمہ آنکھوں سے اتارے دور پھینکتے سنگین ہوا۔۔۔۔

کچھ دیر وہ یونہی تیز گام رفتار سے گاڑی کو بھاگاتا رہا مگر پھر کچھ سوچتے ہی اپنا فون نکالا اور نمبر پر کال ملا دی۔۔۔۔

دو بیلز ہی ہوئی کہ دوسری جانب سے فون اٹھا لیا گیا۔۔۔۔

"میں تم سے ملنا چاہتا ہو۔۔۔۔

اگر مل سکتے ہو مجھے تو بتا دو۔۔۔

کیونکہ اب کی بار جگہ اور وقت میں بتاؤ گا۔۔۔

چلوں ٹھیک ہے میں تمہیں وقت اور جگہ ٹیکسٹ کر دیتا ہو۔۔۔۔

ملتے ہیں پھر!!!!"

آہل نے کہتے ساتھ ہی فون بند کیا تو ایک گہری جلی مسکراہٹ اس کے چہرے پر بکھر گئی۔۔۔۔

اور گاڑی کو مزید تیز بھاگتے وہ اپنے آفس کی جانب ہوا۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"ثمر تم کیوں جارہی ہو یار؟؟؟؟

پلیز تم تو مت جاؤ!!!؟؟

دیکھو سب چھوڑ کر چلے گئے ہیں مجھے اور اب تم۔بھی"

منہاء اداس لہجے سے ثمر کے پیچھے کھڑی ہوئی جو اپنا سامان ایک بیگ میں ڈال رہی تھی۔۔۔۔

"منہاء میں سچ میں نہیں جانا چاہتی ہو۔۔۔

مگر تم تو بہت اچھے سے جانتی ہو میرے گھر کے حالات۔۔۔۔"

ثمر منہاء کے ہاتھوں. کو اپنے ہاتھ میں تھامے حوصلہ گو ہوئی اور واپس اپنے سامان کو پیک کرنے لگی۔۔۔۔

"بھابھی امی کا بلکل خیال نہیں رکھتی اور بھائی صاحب تو ویسے ہی اپنی جوڑو کے غلام ہے۔۔۔۔

اب کل ابو کا ہی فون آیا تھا مجھے کہ امی کی طبیعت بہت خراب ہے۔۔۔

اور وہ اپنا بلکل خیال نہیں رکھ رہی ہے۔۔۔۔

اب کسی کو تو انکا خیال رکھنا پڑے گا ناں!!!!"

ثمر بول رہی تھی جبکہ منہاء اسے مبہوت نظروں سے بھاگتے دیکھ رہی تھی۔۔۔

"اور میرے علاوہ وہ کسی سے سنبھلتی بھی نہیں ہے"

"ہمممممم میں سمجھ سکتی ہو:؛!!!"

منہاء بے دل ہوئی۔۔۔

"بس یہی وجہ میں جارہی ہو ورنہ یقین جانو میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی!!!!

اور امی کی جانب سے مجھے خود سختی سے تاکید تھی کہ میں تمہارے پاس ہی رہو۔۔۔۔

مگر اب معاملہ ہی ایسا ہے کہ کیا کرو!"

ثمر منہاء کے چہرے کو پیار سے چھوتے مبہم ہوئی اور اپنا سامان سمیٹتے کمرے سے باہر کو نکلی۔۔۔

"گاڑی منگوا لی ہے تم نے؟؟؟؟"

منہاء مایوسی سے اس کی جانب ہوئی۔۔۔۔

"ہاں منگوا لی ہے بلکہ آ بھی گئی ہے۔۔۔۔

اچھا اب میں چلتی ہو۔۔۔

اپنا بہت خیال رکھنا۔۔۔۔"

ثمر جو موبائل کی جانب تھی دیکھتے ہی منہاء کے گلے لگ گئی۔۔۔۔

"اور کسی بھی چیز کی ضرورت ہو یا کچھ بھی ہو بلاجھجھک مجھے فون کرنا۔۔۔۔

آئی سمجھ۔۔۔۔"

ثمر منہاء کے چہرے کو چھوتے اسے نصیحت کرنے لگی جبکہ منہاء نم آنکھوں سے حامی میں سر ہلائے خاموش رہی۔۔۔۔

"آنٹی کا بہت خیال رکھنا اور میرا سلام دینا۔۔۔

میں آؤنگی ان سے ملنے بہت جلد۔۔۔"

منہاء ثمر کے ہنراہ دروازے تک بڑھی۔۔۔۔

"ہاں ضرور۔۔۔۔

میں خود بھی تمہیں بتاتی رہو گی اور ہاں میں آؤنگی دو تین دن تک گھر۔۔۔۔

پریشان مت ہونا۔۔۔۔

امی کی صحت سیٹ ہو جائے نہ تو پھر آؤ گی۔۔۔۔"

ثمر گھر سے باہر کو نکلی اور گاڑی کی جانب بڑھی۔۔۔۔

"ہاں ٹھیک ہے اللہ حافظ!!!!"

منہاء دروازے پر کھڑے خالی آنکھوں سے ثمر جو جاتے دیکھتی ریی۔۔۔۔

اس کے جانے کے بعد واپس پیچھے کو مڑی تو اب اس کو اپنا گھر انسانیت اور خاموش سا محسوس ہوا۔۔۔۔

اس سنسانیت کو محسوس کرتے ہی منہاء تیز قدموں سے اپنے کمرے کی جانب بھاگی اور دروازہ اندر سے بند کرتے سیدھا اپنے بستر پر جا بیٹھی۔۔۔۔

"کیسے رہو گی میں یہاں اکیلی؟؟؟؟

مجھے تو ابھی سے یہ یہ گھر کھانے کو دوڑ رہا ہے۔۔۔۔

کیوں چھوڑ کر چلی گئی ہو آپ امی۔۔۔۔

یہ بھی نہ جانا کہ منہاء ڈر جاتی ہے!!!!!

منہاء کی آنکھوں نمی سے چمکی تو  دونوں آنکھیں موندھے دعا گو ہوئی اور ہیبت ذدہ ہوتے اردگرد دیکھنے لگی۔۔۔۔

"یاللہ مجھے حوصلہ دے صبر دے ہمت دے۔۔۔

تاکہ میں اس دنیا کا سامنا اور ہمت سے کر سکوں!!!!"

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل جو ایک ریسٹورینٹ میں بیٹھا کسی کا انتظار کررہا تھا۔۔۔۔

ایک نمبر سے فون آنے پر وہ فورا اس کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔۔

"ہاں بولو کیا خبر ہے؟؟؟؟"

"سر آپ نے جس گھر پر میری ڈیوٹی لگائی تھی وہاں سے ابھی ابھی ایک لڑکی گاڑی میں بیٹھ کر گئی ہے۔۔۔

ہاں میں کچھ سامان تھا اس کے۔۔۔

لگتا ہے یہاں سے جارہی تھی وہ!!!!"

آہل کے پوچھنے پر وہ تفصیلا ہوا۔۔۔

"کیا مطلب کہاں گئی ہے؟؟؟

اور گاڑی میں دو لڑکیاں بیٹھی تھی کیا؟؟؟"

آہل جو سنتے ہی سیدھ بیٹھ گیا تھا منہاء کا سوچتے ہی بے چین ہوا۔۔۔۔

"نہیں سر ایک ہی لڑکی تھی۔۔۔

جبکہ ایک لڑکی دروازے پر کھڑی اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔۔۔

اب معلوم نہیں  مجھے کہ وہ کہاں گئی ہے !!!!"

"ثمر!!!!۔

ثمر ہوگی وہ۔۔۔

دادا نے بتایا تھا مجھے کہ وہ اس کے ساتھ رہ رہی ہے۔۔۔۔"

آہل خود کلام ہوا۔۔۔۔

"آپ نے مجھے کچھ کہا ہے سر؟؟؟"

"نہیں تم سے کچھ نہیں کہا!!!!

تم وہی رہو اور جب تک میں نہ کہوں وہاں سے ہلنا مت۔۔۔"

آہل نے سختی سے تاکید تھی۔۔۔۔

"پل پل کی خبر ملے مجھے وہاں کی!!!

کون آیا کون گیا سب کچھ!!!!"

"جی سر جیسا آپ کہے!!!!"

شخص نے حامی بھری اور فون بند کردیا۔۔۔۔

جب کہ آہل جو ابھی کچھ سوچ ہی رہا تھا سامنے سے آتے بلال جو دیکھتے ہی سیدھا ہوتے بیٹھ گیا۔۔۔۔

بلال جو آہل کو پہلے ہی دیکھ چکا تھا اس کے پاس آتے ہی مصاحفہ کیا اور اس کے روبرو بیٹھ گیا۔۔۔۔

"کافی پیو. گے کہ چائے؟؟؟"

آہل سوالیہ ہوا۔۔۔

"وجہ بتاؤ مجھے بس کہ بلایا کیوں ہے؟؟؟

مجھے واپس اپنی جاب پر بھی جانا ہے وقت نہیں ہے میرے پاس زیادہ۔۔۔"

بلال سخت ہوا۔۔۔۔

"ایک تم جیسے نوکری کرنے والوں کا یہی مسئلہ ہے دن بھر دھکے کھانا اور پھر کمانا چند ٹکوں میں۔۔۔۔"

آہل طنزیہ ہوا۔۔۔۔

"اب ہر کسی کو تو باپ دادا کی جائیداد نصیب نہیں ہوتی۔۔۔

بلکہ مزہ تو یہ ہے کہ اتنا خود کا کماؤ کہ نسلیں رشک کرے۔۔۔۔"

بلال بھی دوٹوک ہوا۔۔

"خیر آپ بتائیں کیوں بلایا ہے مجھے؟؟؟

اگر تو منہاء کی بات کرنی ہے تو میں پہلے ہی سب کچھ بتا چکا ہو اس کے متعلق۔۔۔۔

اور اب مزید کچھ نہیں بتا سکتا۔۔۔۔"

بلال کندھے اچکائے بولا۔۔۔۔

"اس دن کی طرح میں آج پھر تم سے ایک ڈیل کرنا چاہتا ہو۔۔۔

اور یقین جانو یہ ڈیل پہلی والے سے زیادہ اچھی اور تگڑی ہوگی۔۔۔"

آہل اپنا چشمہ اتارے میز پر ٹکائے سنجیدہ ہوا۔۔۔

"اب کس طرح کی ڈیل؟؟؟

جو بھی تھا سب بتا تو چکا ہو میں۔۔۔

اور اچھے خاصے. پیسے بھی لے چکا ہو۔۔۔

تو اب کیا وجہ ہوئی جو تم پھر سے مجھ سے ڈیل کرنا چاہتے ہو؟؟؟؟"

بلال تجسسی سوالیہ ہوا۔۔۔۔

"کیا تم اب بھی منہاء سے شادی کرنا چاہتے ہو؟؟؟"

آہل جو مزید دیر کرنے کی غرض میں نہ تھا فورا گو ہوا اور نظریں بلال کے چہرے پر ڈالی جس کے تاثرات ساکن تھے۔۔۔

"کیا کہا؟؟؟

منہاء سے شادی؟؟؟"

بلال ہکلایا۔۔۔۔

"ہاں منہاء سے شادی!!!

یعنی اگر میں کہوں تم سے کہ میرے اور منہاء کے درمیان ایسا کچھ نہیں تھا جیسا اس دن تم نے سمجھا تھا تو کیا تم پھر سے اسے اپناؤ گے۔۔۔۔"

آہل برجستگی سے بلال کے جواب کا منتظر ہوا۔۔۔

جبکہ بلال پھٹی آنکھوں سے اسے حواس باختگی سے دیکھنے لگا۔۔۔۔

"مگر وہ سب جو میں نے دیکھا تھا؟؟؟؟"

"جھوٹ تھا سب۔۔۔

سب میری چال تھی۔۔میرا پلین تھا۔۔۔۔

میں اسے ہرانا چاہتا تھا اور وہ جیتنے کی ضد میں تھی۔۔۔

اور میں کسی کو خود سے آگے جاتا دیکھ نہیں سکتا!!!"

آہل بدقت مسکرایا۔۔۔

"خیر تم بتاؤ کیا کرو گے پھر؟؟؟

اب تو سب جانتے ہو تم!!!"

جبکہ بلال جو آہل کی باتوں کو سمجھ نہیں پا رہا تھا اب اس کا چہرہ غصے سے سرخ پڑ گیا۔۔۔۔

"تم کس قدر گھٹیا انسان ہو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔"

بلال میز پر ہاتھ پٹختے چنگارا۔۔۔۔

"آواز نیچے مسٹر بلال۔۔۔۔

زیادہ چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔

گھٹیا میں نہیں تم ہو جس کو اپنی محبت پر یقین سے زیادہ دعوی تھا۔۔۔۔

اگر یقین کر لیتے تو شاید وہ آج بھی تم سے محبت کرتی نہ کہ نفرت۔۔۔"

آہل نے بلال کو برہم ہوتے دیکھا تو سفاک غرایا۔۔۔

"لہذا مجھ پر اپنی غلطی نے ڈالنا!!!"

آہل نے بلال کو انگلی سے سخت تنبیہہ کی تو بلال جس کے پاس اب مزید کہنے کو کچھ نہ تھا خاموش رہا۔۔۔۔

"تو آتے ہی ڈیل پر اب۔۔۔

اگر تمہاری محبت کا اثر تم پر سے کم ہوا ہو تو!!!"

آہل نے اپنی جیب سے چیک بک نکالی اور بلال سے سامنے پھینکی۔۔۔

"اس میں ایک چیک ایسا ہے جس پر میرے سائن موجود ہے مگر رقم موجود نہیں۔۔۔

اب تم کو یہ موقع دیتا ہو میں کہ جتنی چاہے اس میں رقم بھرو اور جان چھٹواؤ اس زلالت بھری نوکری سے۔۔۔۔"

"اور اس کیلئے مجھے کیا کرنا ہوگا؟؟؟"

بلال چیک کو دیکھتے آہل سے سوالیہ ہوا۔۔۔۔

"زیادہ مشکل نہیں۔۔۔

بس تم منہاء سے دور رہو گے۔۔۔

اور چاہے جو بھی ہو جائے اس سے شادی نہیں کروگے۔۔۔۔"

آہل ایک گہری مسکراہٹ سے بولا۔۔۔

جبکہ بلال اس کو اب سنگین نظروں سے گھورنے لگا۔۔۔

"تو یہ ہے تمہاری ڈیل!!!!

کہ پیسوں کے عوض میں اپنی محبت بیچ دو؟؟؟

نہیں ہر گز نہیں۔۔۔

میں سب کچھ جب جان گیا ہو تو اس کو کبھی نہیں چھوڑو گا اب۔۔۔"

بلال ثابت قدم انگارا۔۔۔۔

"آہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔

محبت؟!!!!"

آہل نے سنا تو ایک گہرا قہقہ لگائے پیچھے کو ہوا۔۔۔۔

"کونسی محبت کیسی محبت۔۔۔

وہ محبت جو ایک جھوٹ پر دم توڑ گئی تھی۔۔۔

وہ محبت۔۔۔"

آہل کے طنزیہ قہقوں نے بلال کو متلاطم کردیا۔۔۔۔

"تم ایسا پہلے ہی کر چکے ہو۔۔۔

پچاس ہزار دیے تھے محض پانچ سوالوں کے۔۔۔

اور اب تم کو خیال آیا کہ تم بیچ رہے ہو سب!!!

واہ"

بلال جو مکمل طور ہر پھنس چکا تھا کی پریشانی دیکھ کر آہل طنزیہ ہوا۔۔۔۔

"اور ویسے بھی جو تم اس کے ساتھ کر چکے ہو وہ تم سے بے حد نفرت کرتی ہے۔۔۔

تو پھر کیوں اس ڈیل کو ٹھکرانا چاہتے ہو۔۔۔"

"اور اگر میں انکار کردو تو!!!!"

بلال مبہم ہوا۔۔۔۔

"کیونکہ تم جو بھی کہوں وہ مجھ سے محبت کرتی تھی۔۔۔"

"بقول تمہارے وہ محبت کرتی تھی۔۔. "

آہل نے لفظوں پر زور بھرا۔۔۔۔

"پھر بھی کہہ رہے ہو کہ انکار کردو؟؟؟؟

حیرت یے؛!!!!"

آہل جو بلال کی سوچ کو جکڑ رہا تھا اب مکمل کامیاب ہوا۔۔۔

"مگر پھر بھی یہ اب تم پر ہے۔۔۔۔

ویسے بھی رسوا تو ہوگئی ہے میرے نام سے کچھ اور کردونگا۔۔

اور تمہاری ماں تو ویسے ہی اس سے نفرت کرتی ہے۔۔۔

وہ تو کبھی ہونے نہیں دے گی تمہاری شادی اس سے۔۔۔

اور اگر ہو بھی گئی تو کبھی بسنے نہیں دے گی۔۔۔

یوں اس طرح تم منہاء سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے اور ساتھ پیسوں سے بھی۔۔۔۔"

آہل نے ساری تفصیل بلال کے سامنے رکھی تو وہ اب الجھ سا گیا۔۔۔

اور چیک کو مبہوت ہوتے دیکھنے لگا۔۔۔

"اب یہ تم پر ہے۔۔۔

ایک جانب پیسوں کو اور سکون کی زندگی گزارو۔۔۔

اور دوسری جانب منہاء جس کے ساتھ نبھا نہیں پاؤ گے دیر تک۔۔۔"

آہل تلخ مسکراہٹ لیے بلال کو گھورنے لگا۔۔۔

جو اس وقت تذبذب کا شکار ہوچکا تھا۔۔۔

محبت اور پیسوں کی جنگ میں وہ اس قدر پھنسا کہ کچھ سمجھ ہی نہ پا رہا تھا۔۔۔

"مجھے لگتا ہے تمہیں ناکام محبت چاہیے تبھی کوئی جواب نہیں دے رہے ہو۔۔۔

ٹھیک ہے مرضی ہے تمہاری۔۔۔

ورنہ کوئی بھی اتنی بڑی آفر نہیں کرتا!!!!"

آہل نے فورا اپنی چیک بک کو پکڑنا چاہا تو بلال نے آہل کے ہاتھ کو روک دیا۔۔۔

آہل نے بلال کی لالچ بھانپی تو خاموشی سے اپنا ہاتھ پیچھے کو کھینچ لیا اور پین بلال کی جانب اچھالا۔۔۔

جو کشمکش میں چیک بک سامنے کھولے بیٹھا تھا ایک روٹی تگڑی رقم چیک ہر آتارنے کے بعد پین واپس آہل کی جانب بڑھایا۔۔۔

آہل جو اس وقت کسی کی محبت کو خرید کر فاتحانہ مسکراہٹ تھا چیک اتارتے بلال کو تھمایا۔۔۔۔

"اب اس ڈیل پر قائم رہنا۔۔۔

اور یہ چیک تبھی کیش ہوگا جب مجھے کنفرم ہو گا کہ تم نے مجھے دھوکا نہیں دیا۔۔۔"

آہل اپنا کوٹ جھاڑے اٹھا اور فخریہ ہوا۔۔۔

جبکہ بلال کی آنکھیں اتنی بڑی رقم کو دیکھ چندھیا سی گئی تھی حامی میں سر ہلائے خلط ملط ہوا۔۔۔

آہل بلال کو یونہی حیرت ذدہ چھوڑ کر وہاں سے چلتا بنا۔۔۔

جبکہ بلال چیک کو لالچ بھری نظروں سے دیکھتے مسکرانے لگا۔۔۔۔

منہاء ظہر کی نماز پڑھ کر جائے نماز پر  بیٹھی دونوں ہاتھوں کو اٹھائے دعا گو تھی۔۔۔۔

جب آنکھوں سے بہتے آنسوں اور آواز کی سسکی نے اس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔۔۔

دل میں ہزار شکوے اور لب پر اللہ پاک کے کرم کی امید نے اس کے لبوں کو لرز سا دیا۔۔۔۔

"اللہ!!!!"

بلآخر ایک دھیمی سی آواز  نکالے وہ بمشکل گو ہوئی۔۔۔

"تو تو سب جانتا ہے ناں!!!!

تو کیوں نہیں دیتا میرا ساتھ پھر؟؟؟؟"

منہاء آنسوں سے بھیگے چہرے کو آس بھری نظروں سے اٹھائے اللہ سے دعا کے ذریعے کلام کررہی تھی۔۔۔۔

"میں بدکردار تو نہیں!!!!

تو کیوں مجھے بد نام کر رہی ہیں تیری مخلوق۔۔۔؟؟؟"

"کیوں یہ سب مجھے تباہ کرنا چاہتے ہیں؟؟؟

سب کچھ تو چھین لیا مجھ سے۔۔۔۔

پہلے بابا اور اب امی!!!!

کوئی بھی تو نہیں میرے پاس سوائے تیری ذات کے۔۔۔۔

تو کیوں اب بھی مجھے یہ بخش نہیں رہے!!!!

کیوں اللہ جی!!!!"

منہاء چہرے کو دونوں ہاتھوں سے چھپائے روتے سجدے میں جا گری۔۔۔۔

"میں جس کیلئے دعا کرتی تھی آج وہ آپ کے پاس۔۔۔۔

اب تو ہی بس میرا واحد سہارا ہے۔۔۔۔

میری امی کو جنت میں اعلی مقام دینا میرے رب۔۔۔

اور میں نے جو خطائیں کی ہیں ان کے ساتھ انہیں بخش دے۔۔۔۔

انہیں بخش دے میرے مالک ۔۔۔۔

بہت گنہگار ہو میں اس گناہ کا بوجھ سقت سے زیادہ ہے۔۔۔"

منہاء سجدے میں گری گڑگڑانے لگی۔۔۔۔

کہ تبھی اسے دروازے پر زور کہ دستک سنائی دی جسے سنتے ہی سجدے میں گری منہاء گھبرا سی گئی۔۔۔۔

دعا کو مکمل کرتے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرے اور خوف سے بیڈ پر جا بیٹھی۔۔۔۔۔

'کون ہوسکتا ہے؟؟؟؟

اب تو کسی کا آنا بنتا نہیں تھا پھر اب کون؟؟؟"

منہاء جو اسی سوچ میں گم تھی مبہم ہوئی کہ ایک بار پھر سے دروازے نے بننا شروع کیا تو منہاء ڈہل سی گئی۔۔۔۔

منہاء جو ابھی آگے کچھ سوچ ہی رہی تھی دروازے کی دستک کی رفتار بڑھتی گئی۔۔۔۔

کہ خوف سے بیٹھی منہاء گھبراتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور  تیز قدموں سے دروازے کی جانب ہوئی تاکہ باہر کھڑے شخص کا پتہ کر سکے۔۔۔۔

"منہاء بیٹا!!!!!

منہاء بیٹا؟؟؟

کیا آپ اندر ہو بیٹا؟؟؟؟"

خان بابا جن کا لہجہ خاصا پریشان معلوم ہو رہا تھا دروازے کو پیٹتے بولے۔۔۔۔

"ارے ڈرائیور معلوم کرو بچہ اندر ہے بھی کہ نہیں؟؟؟

خدایا ایسا کبھی نہیں ہوا۔۔۔۔

کہ وہ وقت پر دروازہ نہ کھولے۔۔۔۔

اللہ خیر کرے بس!!!

ہم کو ڈر لگ رہا ہے بہت!!!!

جاؤ بھاگ کر معلوم کرو کہیں سے!!!۔"

خان بابا نے مارے پریشانی ڈرائیور کو آواز بھری کہ تبھی منہاء جو خان بابا کی آواز پہچان گئی تھی سکھ کا سانس بھرے فورا دروازہ کھولتے باہر کو آ گئی۔۔۔۔

"انکل آپ!!!!۔

السلام علیکم!!!"

منہاء تاسف ہوتے سر آگے کرتے بولی۔۔۔۔

"وعلیکم السلام بیٹا!!!

کہاں رہ گیا تھا تم!!!

ہم تو خدا کا قسم اس قدر ڈر گیا تھا کہ تم سوچ بھی نہیں سکتا!!!۔"

خان بابا نے منہاء کو دیکھا تو مطمئن ہوئے۔۔۔۔

"انکل نماز پڑھ رہی تھی تبھی دیر ہوگئی۔۔۔۔

آپ آئیے بیٹھیے!!!!"

منہاء مصنوعی مسکراہٹ دیتے پیچھے کو ہوئی۔۔۔۔

"تو دوسرا بچی کہاں ہے؟؟؟

وہ ثمر!!!!۔"

خان بابا یاد کرتے سوالیہ ہوئے۔۔۔

"وہ تو تمہارے ساتھ ہی ہے ناں!!!

وہ کیوں ناں دروازہ کھولنے کو آیا؟؟؟"

"انکل وہ چلی گئی ہیں اپنے گھر۔۔۔۔"

منہاء کہتے ہوئے کیچن کی جانب ہوئی۔۔۔۔

"آپ بیٹھیے میں چائے لاتی ہو آپ کیلئے۔۔۔۔"

"چلا گیا ہے وہ؟؟؟

مگر کیوں؟؟؟؟"

خان بابا سوچتے ہوئے اس کے پیچھے کو چل پڑے۔۔۔۔

"وہ تمہیں ایسے چھوڑ کر چلا کیسے گیا؟؟؟

اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ اب تم اکیلا ہے۔۔۔۔"

"انکل وہ جانا نہیں چاہتی بس اچانک ہی اس کی والدہ کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔۔۔

ویسے بھی وہ اتنے دن تو رہ ہی گئی تھی میرے پاس تو بس آج صبح ہی واپس گئی ہے۔۔۔"

منہاء چائے بناتے بولی۔۔۔۔

"تو اسکا مطلب تم اکیلا تھا؟؟؟؟

اور تم نے دروازہ بناء تصدیق کھول دیا؟؟؟؟"

خان بابا ششدر ہوئے۔۔۔۔

"نہیں انکل میں اکیلی نہیں ہو میرا اللہ ہے ناں میرے ساتھ۔۔۔

اور اپکی آواز سن چکی تھی تبھی دروازہ کھولا تھا میں نے۔۔۔۔"

منہاء مسکراہٹ گو ہوئی۔۔۔

"وہ تو تم ٹھیک کہتا ہے۔۔۔

پھر بھی بچے!!!!

ہم کو تو تم نے پریشان کردیا ہے یہ سب بتا کر!!!"

خان بابا سنتے ہی مبہم ہوئے۔۔۔۔

"اچھا چلیے آپ پریشان مت ہو ۔۔۔۔

چائے تیار ہے آئیے میرے ساتھ چائے پیئے۔۔۔

ویسے بھی اکیلی ہی پینی پڑنی تھی مجھے۔۔۔

اب آپ آ گئے ہیں ناں تو ساتھی مل گیا ہے مجھے۔۔۔"

منہاء چائے کی ٹرے تھامے مسکراتے ہوئے باہر کو ہوئی۔۔۔۔

جبکہ خان بابا جو یہ سب سن کر پریشان ہوگئے تھے بناء کچھ کہے اس کے ہمراہ چل پڑے۔۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل اپنے آفس میں بیٹھا کئی فائلز کے درمیان سر جھکائے مصروف تھا جبکہ سامنے کھڑا نبیل اسے کسی پروجیکٹ کی بریفنگ دے رہا تھا کہ اسی دوران ایک فون نے ان دونوں کی میٹنگ میں گہرا خلل ڈالا۔۔۔

اور بولتا ہوا نبیل خاموش چہرہ لیے آہل کو دیکھنے لگا جو فون کو تجسسی نظروں سے گھور رہا تگا۔۔۔۔

"سر میں بعد میں آتا ہو۔۔۔۔"

نبیل نے آہل کی سنجیدگی دیکھی تو کہتا ہوا فائل تھامے باہر کو نکل پڑا۔۔۔۔

جبکہ نبیل کے جاتے ہی آہل نے فون اٹھایا اور کان سے لگا لیا۔۔۔۔۔

"ہاں بولو اس وقت کیوں کال کی ہے تم نے؟؟؟؟"

آہل سپاٹ لہجے سے کہتا اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور سامنے بنی بڑی کھڑکی نما شیشے کے ساتھ ہاتھ ٹکائے باہر کی دوڑ کو دیکھنے لگا۔۔۔۔

"سر آپ نے مجھے کہا تھا کہ کوئی بھی آئے تو میں اپکو فورا اطلاع کردو۔۔۔"

"ہاں کہا تھا آگے بولوں اب!!!!

کیا خبر ہے ؟؟؟؟"

آہل اکتاہٹ انداز ہوا۔۔۔

"سر اس وقت کوئی بزرگ آئے ہیں ایک گاڑی میں۔۔۔۔

اور کافی دیر ہوگئی ہے گھر کے اندر ہی موجود ہے۔۔۔۔

ابھی تک باہر نہیں آئے۔۔۔

اب معلوم نہیں وہ کون ہے؟؟؟

اگر آپ کہے تو میں پتہ لگاؤ؟؟؟"

آہل نے سنا تو فورا دماغ کا اشارہ خان بابا کی جانب مڑا۔۔۔

"نہیں کوئی ضرورت نہیں پتہ لگانے کی۔۔۔

میں. جانتا ہو اچھے سے کہ کون ہے وہ بزرگ!!!!

خیر تم اپنا کام جاری رکھو اور جب وہ بزرگ جائے تو مجھے فورا کال کر کے بتاؤ۔۔۔۔"

آہل نے سختی سے تنبیہہ کی۔۔۔۔

"جی ٹھیک ہے سر جیسا آپ کہے۔۔۔۔"

 بند ہوتے ہی آہل واپس اپنی نشست پر آ بیٹھا اور موبائل تھوڑی پر ٹکائے سوچ میں پڑ گیا۔۔۔۔

"ضرور دادا منہاء سے بلال کے متعلق ہی بات کرنے گئے ہونگے۔۔۔۔

ناجانے ان کو سکون کیوں نہیں آتا گھر!!!"

آہل پھنکار مارے موبائل ٹیبل پر پٹختے بولا۔۔۔۔

"اگر منہاء نے دادا کی بات مان لی اور بلال سے شادی کی حامی بھر لی تو کیا ہوگا!؟؟؟

میرا سارا بنا بنایا پلین مٹی ہو جائے گا۔۔۔۔"

آہل کو انجانے خوف نے  آگھیرا مگر پھر خود کی نفی کرتے وہ سر تھامے بڑبڑایا۔۔۔۔

"نہیں۔۔۔

بلکل نہیں میں ایسے نہیں ہونے دونگا۔۔۔۔

ایک بار جو ہوچکا ہے اب میں اسے دوبارہ نہیں دہراؤ گا۔۔۔۔"

آہل نے سوچتے ہی فون اٹھایا اور بلال کو کال ملائے فون کان سے لگائے انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔

"فون اٹھاؤ بلال میرا فون اٹھاؤ!!!!!"

اپنی نشست سے اٹھتے ہی وہ بے چینی سے کمرے کے چکر کاٹنے لگا۔۔۔۔

کہ تبھی دوسری جانب سے فون ریسیو ہوا اور آہل واپس تیزی سے اپنی نشست پر آ بیٹھا۔۔۔۔

"فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے میرا؟؟؟

کب سے فون کررہا ہو میں تمہیں کچھ خبر بھی ہے!!!"

آہل نے دوسری جانب سے جواب پایا تو خونخوار ہوا۔۔۔

"میں آفس میں ہو کام کے سلسلے میں بوس کے آفس گیا تھا۔۔۔۔

خیر آپ بتاؤ کیا کام ہے مجھ سے اب!!!!

اور کیوں کررہے تھے اس قدر بیتابی سے مجھے کال؟؟"

بلال طنزیہ مسکراہٹ ہوا۔۔۔۔

'زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔۔۔

بس میری بات دھیان سے سنوں تم!!!!

میں جو بھی کہوں گا تمہیں بلکل ویسا ہی کرنا ہوگا اب۔۔۔۔

اور اگر اس کے مخالف گئے یا مجھے ڈبل کراس کرنے کی کوشش کی تو مجھے اچھے سے جانتے ہو تم۔۔۔۔

کہ میں کیا کر سکتا ہو۔۔۔. "

بلال جو آہل کی باتوں کو سمجھ نہیں پا رہا تھا چندھیا سا گیا۔۔۔۔

"وہ تو میں اچھے سے جان گیا ہو کہ آپ کیا کیا کرسکتے ہو!!!"

بلال طنزیہ ہوا…

"مگر ابھی میں بس یہ جاننا چاہتا ہو کہ آخر ہوا کیا ہے؟؟؟؟

صبح تک تو سب ٹھیک ہے اور اب یہ باتیں؟؟؟"

"آگے بھی سب ٹھیک ہوسکتا ہے اگر تم میرے مطابق چلتے رہو تو۔۔۔۔

جو بھی ہو جائے چاہے کوئی کچھ بھی کہہ لے یا منہاء خود ہی کیوں نہ کہہ لے تم سے شادی کا۔۔۔

تم قطعا حامی نہیں بھرو گے۔۔۔۔"

آہل سخت ہوا۔۔۔۔

"سمجھ رہے ہو ناں بات میری!!!!"

"ہاں سمجھ رہا ہو اچھے سے۔۔۔

 مگر ایک بات مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے جو مسلسل مجھے کھٹک رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔

اگر آپ کہے تو کیا میں پوچھ سکتا ہو؟؟؟"

بلال جو سب معاملات میں تذبذب تھا  سوچتے گو ہوا۔۔۔۔

"ہمممممم پوچھو!!!!!"

"آپ یہ سب کیوں کررہے ہیں؟؟؟

مطلب مجھے کوئی وجہ سمجھ نہیں آرہی ہے ابھی تک کہ منہاء کے ساتھ یہ سب کیوں؟؟؟

پہلے اس پر الزام لگایا اور اب یہ شادی؟؟؟؟"

بلال تجسسی سوالیہ ہوا۔۔۔۔۔

"میں ہر کام کرنے کو تیار ہو مگر اس سوال کا جواب جاننا چاہتا ہو میں!!!!

کیونکہ مجھے خود سمجھ نہیں ارہی ہے کہ یہ سب ہو کیوں رہا ہے!!!!؟"

آہل جو بلال کی بات غور سے سن رہا تھا سنتے ہی وہ خود بلال کے سوال میں الجھ سا گیا۔۔۔۔

بلال جو اس کے جواب کا منتظر تھا خاموشی پا کر بول ہی پڑا۔۔۔۔

میرے خیال سے آپ کے پاس خود اس سوال کا جواب نہیں ہے۔۔۔۔

مگر اب تک جو میں سمجھا ہو وہ یہی ہے کہ اتنا سب انسان تبھی کرتا ہے جب یا تو اسے سامنے والے انسان سے شدید محبت ہو۔۔۔

یا پھر شدت کی نفرت!!!!

نفرت کی وجہ نہیں اور محبت کا کچھ پتہ نہیں!!!

بلال تاسف ہوا۔۔۔۔

"دیکھو میرے خیال سے تمہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے!!!!"

آہل جو بلال کی باتیں سن کر مبہوت ہوا تھا سپاٹ لہجہ آور ہوا۔۔۔۔

"تمہیں تمہارے کام کے پیسے مل رہے ہیں ناں تو تم اسی میں ہی خوش رہو۔۔۔ 

مگر اگر میرے کام میں رکاوٹ ڈالی تو یقین جانو زمین پر پٹخ دونگا میں تمہیں۔۔۔۔

کہ دوبارہ اٹھنے کے قابل نہیں رہو گے تم!!!!

یہ بات یاد رکھنا بس۔۔۔ "

آہل نے شدت انداز ہوتے بلال کو للکاڑ بھری اور فون پٹخ دیا۔۔۔۔

جبکہ دوسری جانب بلال جو آہل کی اس شدت پسندی کو سمجھ نہیں پارہا تھا ہکا بکا ہوتے فون کو گھورنے لگا۔۔۔

"عجیب پاگل انسان ہے یہ تو!!!

جب دیکھو کاٹ کھانے کو ہی پڑتا ہے۔۔۔۔

بلال زیر لب بڑبڑایا۔۔۔۔

بیچاری منہاء بھی کس بدماغ انسان کے متھے لگی ہے۔۔۔

اللہ مدد کرے اس کی۔۔۔

بلال کو منہاء کیلئے پل بھر کا نرم گوشہ ابھرا مگر پھر تبھی پیسوں کا سوچتے ہی وہ شادمان سا ہوگیا۔۔۔

"خیر مجھے کیا مجھے تو میرے پیسے مل رہے ہیں ناں۔۔۔

میں اسی میں ہی خوش ہو۔۔۔۔

میری بلا سے وہ جو کرتا ہے کرے۔۔۔۔

مجھے اس سے کوئی نہیں۔۔۔"

بلال دل ہی دل میں جوشیلا ہوا اور واپس اپنی کام کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔

"اتنا سب انسان تبھی کرتا ہے جب یا تو اسے سامنے والے انسان سے شدید محبت ہو۔۔۔

یا پھر شدت کی نفرت!!!!

نفرت کی وجہ نہیں اور محبت کا کچھ پتہ نہیں!!!"

بلال کی باتیں آہل کے کانوں میں گردش کرنے لگی۔۔۔۔

"یہ تو سچ ہے کہ میں اب یہ سب بلاوجہ کررہا ہو۔۔۔

مگر کیوں کررہا ہو خود کو بھی معلوم نہیں!!!!

جو بھی غلط فہمی تھی سب دور ہوگئی۔۔۔

مگر اس کسک کیسی ہے کہ جب جب منہاء کا نام کسی کے ساتھ سنتا ہو بے چین ہوجاتا ہو۔۔۔۔"

آہل سر نشست سے ٹکائے آنکھیں موندھے سوچنے لگا۔۔۔

"کہیں بلال کی بات درست تو نہیں۔۔۔

کہیں مجھے منہاء سے م؟!!!؟؟؟؟"

آہل جس کی سوچ ابھی اٹکی ہی تھی فورا تذبذب سا ہوتے سیدھا بیٹھ گیا۔۔۔۔

"نہیں نہیں ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟؟؟

ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔۔

میں کیوں اس سے محبت کرو۔۔۔۔

نفرت کی وجہ نہیں تو لازم نہیں کہ مجھے اس سے محبت ہی ہوجائے۔۔۔"

آہل خود کو دلاسہ دیتے زیر لب بڑبڑایا۔۔۔

کہ تبھی دروازے دستک سنائی دی۔۔۔

"سر مے آئی کمنگ؟؟؟"

"یس کمنگ!!!!"

آہل نے بلال کی آواز سنی تو پیشانی مسلے متحیر ہوا۔۔۔۔

"سر کیا ہم واپس کنٹینیو کرے اپنی میٹنگ کو۔۔۔؟؟؟

اگر آپ کہے تو؟؟؟"

"نہیں نبیل ابھی میرے سر میں بہت درد ہے۔۔۔۔"

آہل آنکھیں موندھے سر تھامے بولا۔۔۔۔

"تم ایسا کرو مجھے ایک کہ کافی لا دو۔۔۔۔"

"جس سر ابھی لاتا ہو۔۔۔۔"

"نہیں بلکہ رہنے دو۔۔۔۔"

بلال جو جا ہی رہا تھا آہل کی آواز سنتے ہی پیچھے پلٹا۔۔۔

"میں گھر ہی جارہا ہو۔۔۔

 طبیعت نہیں ٹھیک لگ رہی مجھے۔۔۔"

آہل اپنا سامان تھامے کھڑا ہوا اور نبیل کی جانب ہوا۔۔۔۔

"تم یہاں کہ سب کام دیکھ لینا۔۔۔۔

باقی میں کل تم سے ساری بریفنگ لونگا۔۔۔"

"جی سر ٹھیک ہے جیسا آپ کہے!!!!"

نبیل نے آہل کی ہدایت سنی تو حامی میں سر ہلایا جبکہ اہل۔کہتے ہی کیبن سے باہر کو لپکا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"آپ کو پتہ بھی ہے آپ مجھے کیا کہہ رہے ہیں انکل؟؟؟

اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی!!!"

منہاء جو خان بابا کی بات سن کر بھونچکا سی گئی تھی گو ہوئی۔۔۔

"ہم بہت اچھے سے جانتا ہے ہم کیا کہہ رہا ہے۔۔۔

اب تم سے کہتا ہے اس کو تم بھی اچھے سے سمجھو۔۔۔۔"

خان بابا نے منہاء کے بگڑے تاثرات دیکھے تو متحیر ہوئے۔۔۔

"کیونکہ ہم نے جو بھی کہا ہے کسی لحاظ سے غلط نہیں ہے۔۔۔"

"نہیں۔۔۔۔

بلکل نہیں۔۔۔۔

وہ شخص اس لائق نہیں کہ میں اس سے شادی کرو۔۔ 

اور پھر زندگی بھر اس کے اور اس کی ماں کے طعنے سنوں۔۔۔"

منہاء چائے کی ٹرے اٹھائے سیدھا کیچن کی جانب ہوئی۔۔۔

"مجھ میں مزید حوصلہ نہیں اور نہ ہی میں تھوک کے چاٹنے والوں میں سے ہو۔۔۔"

"لائق تو یوں کوئی کسی کیلئے نہیں ہوتا بیٹا۔۔۔

مگر سب اپنا معیار کم رکھتے ہیں۔۔۔۔

ایسا نہ ہو تو دنیا میں سب اپنے معیار کو لیے پھرتا رہے۔۔۔"

خان بابا اس کے پیچھے کو چل پڑے۔۔۔۔

"میرا کوئی معیار نہیں اور نہ ہی میں لوگوں کو جانچتی ہو۔۔۔

مگر اس شخص سے میں ہرگز شادی نہیں کرونگی اور نہ ہی کبھی جھکوں گی۔۔۔۔

آپ پلیز مجھے اس حوالے سے فورس نہ ہی کرے تو ہی اچھا ہے۔۔۔۔"

منہاء ناگوار انداز ہوئی۔۔۔۔

"جس کی شکل دیکھنا گوارا نہیں اس کے نکاح میں جاؤ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔۔"

"تمہاری ماں اس کو تمہارا محافظ مانتی تھی منہاء۔۔۔"

"اور اسی محافظ نے ماں مار دی میری۔۔۔۔

اب اس سے آگے کوئی دلیل نہیں میرے پاس۔۔۔۔"

منہاء نے خان بابا کے حمایتی جملے سنے تو حقارت پسند ہوئی۔۔۔۔

"تم اکیلا ہے اس دنیا میں اور یہ سب جانتا ہے۔۔۔۔

بہت مشکل ہو جائے گا بچے سمجھ کیوں نہیں رہا۔۔۔۔"

خان بابا اب افسردہ ہوئے۔۔۔ 

"میرے ساتھ میرا رب ہے یہ کوئی نہیں جانتا انکل۔۔۔

باقی وہی مشکل کشا ہے سو اب سب اس پر ہی ہے۔۔۔"

منہاء دوٹوک ہوئی۔۔۔

"تو ٹھیک ہے نہ کرو بلال سے شادی۔۔۔

مگر ہماری ایک بات تم کو منانا پڑے گا پھر!!!!"

خان بابا سوچتے ہی تاسف ہوئے۔۔۔۔

"ممکن ہوا تو ضرور۔۔۔۔"

منہاء مسکرائی۔۔۔۔

"تم کو ہمارے ساتھ ہمارے گھر چلنا ہوگا۔۔۔

کیونکہ ہم تمہارا تحفظ یہاں نہیں سمجھتا۔۔۔۔

اور اس سے آگے نہ کوئی سوال نہ کوئی بحث!!!!"

"کیا؟؟؟؟"

منہاء نے خان بابا کی بات سنی تو پھٹی آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگی۔۔۔ 

"ہاں اب ہم اس پر کوئی بحث نہیں سنے گا اور نہ ہی کوئی دلیل۔۔۔

اپنا سامان پیک کرو اور چلوں ہمارے ساتھ۔۔۔۔

ہم انتظار کررہا ہے تمہارا گاڑی میں!!!!"

خان بابا حتمی فیصلہ سناتے اٹھ کھڑے ہوئے اور دروازے کی جانب بڑھے۔۔۔۔

"آپ اس سے اچھا میری شادی بلال سے ہی کروا دے۔۔۔۔

میں تیار ہو۔۔۔۔"

منہاء جو اس بات کو سن کر سٹپٹا سی گئی تھی جوابا ہوئی۔۔۔۔

جسے سن کر خان بابا پلٹے اور چندھیائی نظروں سے اسے دیکھنے لگے۔۔۔۔

"مگر اس شخص کے گھر کبھی نہیں جاؤ گی جس نے میرے سر سے چادر کھینچی ہے۔۔۔

اور جس تحفظ کی آپ بات کررہے ہیں ناں جو مجھے حاصل نہیں اب وہ بھی اسی کی ہی نوازش ہے۔۔۔۔"

منہاء سخت لہجے سے بول رہی تھی جبکہ خان بابا کے پاس اسکی بات کا کوئی جواب نہ تھا۔۔۔۔

"آپ بہت اچھے ہیں مگر آپ کے اردگرد کے لوگوں سے نفرت کرتی ہو میں۔۔۔

امید ہے آپ کل پھر سے آئے گے مجھ سے ملنے۔۔۔

اور میں اپکا انتظار کرونگی شام کی چائے کے ساتھ۔۔۔۔"

منہاء بے رخی اپنائے اپنے کمرے کی جانب ہوئی۔۔۔

جبکہ خان بابا منہاء کی ضد دیکھ کر مزید کچھ نہ بولے اور مایوس ہوتے باہر کو نکل پڑے۔۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل جو خان بابا کی روانگی سے پہلے ہی آگاہ کیا جا چکا تھا لاونچ میں بیٹھا خان بابا کے انتظار میں ہی تھا کہ تبھی خان بابا کو منہ لٹکائے اندر آتے دیکھ کر اکڑتے ہوئے سپاٹ انداز سے کھڑا ہو گیا۔۔۔۔

"کہاں گئے تھے آپ؟؟؟؟"

خان بابا جو اپنی ہی سوچ میں تھے آہل کیا آواز سے. کر دہل سے گئے۔۔۔۔

"ت۔۔۔ت۔۔تم کب آیا؟؟؟

اور اتنی جلدی؟؟؟"

"میرے سوال کا یہ جواب نہیں دادا؟؟؟؟

آپ کہاں گئے تھے آج؟؟

یہ بتائے بس!!!!"

آہل سنگین ہوا۔۔۔۔

جس پر خان بابا خاموشی سے آگے بڑھتے اپنے کمرے کی جانب ہوئے۔۔۔

آہل جو خان بابا کو بناء جواب جاتے دیکھ رہا تھا خان بابا اب کمرے کے دروازے پر جا رکے اور آہل کی جانب پلٹے۔۔۔۔

"وہ کہتا ہے آہل۔۔۔۔

کہ وہ بلال سے شادی کر لے گا۔۔۔۔

مگر تم سے اس قدر نفرت ہے کہ وہ اس دہلیز پر کبھی نہیں آئے گا۔۔۔۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم سچ میں جلاد ہے۔۔۔۔

خدا تمہارے حق میں سب بہتر ہے مگر جس کیلئے دل سے بدعا نکلتی ہو ناں کسی کیلئے اس کا بھلا ہونا بڑا مشکل ہے۔۔۔۔

افسوس صد افسوس!!!!

ہم کچھ نہ کرسکا تمہارے لیے۔۔۔

ہم کچھ نہ کرسکا۔۔۔"

خان بابا دل برداشتہ ہوتے اپنے کمرے میں داخل ہوئے اور دروازہ بند کردیا۔۔۔۔

جبکہ آہل وہی کھڑا اپنی اکڑ لیے ششدر رہا جس کے پاس مزید کوئی سوال پوچھنے کو نہ رہا۔۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء عشاء کی نماز کی ادائیگی کرنے کے بعد سب دروازے اچھے سے دیکھ کر اپنے کمرے میں داخل ہوئی اور سونے کی غرض سے دروازہ بند کرنے ہی لگی کہ اسے صحن سے کسی کھٹ پٹ کی آواز محسوس ہوئی۔۔۔۔

"یہ آواز ؟؟؟؟؟"

منہاء جو آواز سن کر چونک سی گئی تھی مبہم ہوتے صحن کو دیکھنے لگی۔۔۔۔

کہ تبھی اسے کسی شخص کا صاف عکس فرش پر دکھائی دیا جو دیوار کے پیچھے چھپا منہاء کو ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

منہاء نے جیسے ہی وہ عکس دیکھا تو ہڑبڑاتے ہوئے تیزی سے اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا اور لاک لگاتے پیچھے کو حواس باختگی سے ہوئی۔۔۔

"دروازہ کھولو منہاء۔۔۔۔

منہاء دروازہ کھولو!!!!!

آج تو تجھے میں چھوڑونگا نہیں۔۔۔۔

کھول دروازہ کھول!!!!"

سلیم جو منہاء کو دیکھ چکا تھا فورا باہر نکلتے تیزی سے دروازے کی جانب بھاگا اور بپھڑتے انداز سے دروازے کو روکتے پیٹنے لگا۔۔۔۔۔

منہاء جو سلیم کی اس خونخواری کو دیکھ کر سٹپٹا سی گئی تھی فورا بھاگتے ہوئے اپنے میز کو دھکا لگاتے دروازے کے آگے کردی اور خود بیڈ پر دونوں ٹانگیں اٹکائے روتے بلکنے لگی۔۔۔۔

"اب میں کیا کرو!!!!؟؟؟

اللہ اب میں کیا کرو؟؟؟؟

یہ اندر کیسے آیا؟؟؟

یہ کیسے اندر؟؟؟"

منہاء حواس باختگی سے خود کلام ہوئی۔۔۔۔

"تو کھول رہی ہے دروازہ کہ میں توڑ دو!!!!

تو نے میری ماں کی جو بیعزتی کی تھی تجھے کیا لگتا میں سب بھول جاؤ گا ہضم کر جاؤ گا۔۔۔۔

نہیں ہر گز نہیں!!!!

سلیم نے زور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کردیا تھا جس کہ رفتار مسلسل بڑھتی جارہی تھی۔۔۔۔۔"

تجھے تو ایسا مزہ چکھاؤ گا تیری مری ماں بھی یاد رکھے گی آج!!!

سلیم شیطانی قہقہ آور ہوا۔۔۔۔

جبکہ منہاء جو سلیم کے ارادے اچھے سے بھانپ گئی تھی سن کر گھبرا سی گئی۔۔

"س۔۔۔۔سلیم!!!

تم جاؤ یہاں. سے۔۔۔۔

فورا جاؤ یہاں. سے۔۔۔۔

ورنہ !!!!

ورنہ میں پولیس کو کال کردونگی!!!!

تم نے اچھا نہیں کیا یہاں آ کر!!!"

منہاء نے چیختے للکار بھری۔۔۔۔

"اس سے پہلے کہ میں پولیس کو بلاؤ نکل جاؤ میرے گھر سے میرے ابھی اور اسی وقت!!!!"

"اچھا تو دبی بلی کی آواز نکل ہی آئی۔۔۔۔"

سلیم دروازے سے چپکے گھٹیا انداز آور ہوا۔۔۔۔

"اففففففففففف ترس ہی گیا تھا آواز سننے کو میں۔۔۔

بس ایک بار میری جان۔۔۔

ایک بار دروازہ کھول دو۔۔۔۔

یقین جانو ہر بات مانو گا میں تمہاری۔۔۔

ہر بات!!!!

اور اماں کو پھر سے منا لونگا ہماری شادی کیلئے۔۔۔

تم دیکھنا وہ مان جائے گی۔۔۔"

سلیم دروازے سے کمینے پن کی حد کو چھوتے لپکے بول رہا تھا۔۔۔۔

"بہت ہی گھٹیا انسان ہو تم!!!

حد ردجہ گھٹیا انسان۔۔۔۔

صیحح سوچتی تھی میں تمہارے بارے میں بلکل صیحح۔۔۔

کہ تم ایک غلیظ انسان ہو۔۔۔

اور تم سے شادی کرنے سے اچھا میں پنکھے سے لٹک کر مر جاؤ۔۔۔۔"

منہاء نے سلیم کی گندی سوچ سنی تو چیخی۔۔۔

"مطلب تو میرے بات نہیں مانے گی!!!!

تو میرے غصے کو للکارنا چاہتی ہے!!!

مگر میں نہیں چاہتا کہ میں تجھ سے نفرت کرو!!

تبھی کہہ رہا ہو آرام سے دروازہ کھول لو۔۔۔۔

کیونکہ تو نہیں جانتی کیسے امی سے چھپ کر دروازے کی چابی بنوائی تھی۔۔۔

اور اب تو ہے کہ دروازہ نہیں کھول رہی۔۔۔

کوئی کرتا ہے ایسا اپنے قدر دانوں کے ساتھ۔۔۔۔"

سلیم کمینہ پن اتارے مسلسل قہقے لگاتے دروازہ پیٹ رہا تھا۔۔۔۔

جبکہ منہاء جو سلیم کے ارادوں سے اب مکمل خوف کھا چکی تھی ثمر کو فون ملسل  فون ملاتے کان سے لگائے اضطرابی ہوئی۔۔۔۔

"پلیز ثمر!!!

پلیز میرا فون اٹھا لو!!!!"

منہاء داسہم ہوتے دعا گو ہوئی۔۔۔۔

جبکہ ثمر کی جانب سے کوئی جواب نہ ملا جس پر منہاء سر تھامے زور زور سے کراہتے رونے لگی۔۔۔

"اچھا تو تم ایسے دروازہ نہیں کھولو گی۔۔۔۔

ٹھیک ہے مرضی ہے تمہاری پھر!!!!

مگر اب جو بھی ہو گا اس کا ذمہ دار میں نہیں ہونگا۔۔"۔

سلیم جو بھاری بھرکم جسامت کا مالک تھا دروازے سے خود کے وجود کو ٹکراتے بپھڑ سا گیا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل جو اپنے کمرے میں موجود بستر پر لیٹا خان بابا کی باتوں کو سوچ سوچ کر تھک چکا تھا ایک بے چینی محسوس کرتے سیدھا ہوتے بیٹھ گیا۔۔۔۔

پانی پینے کو ہاتھ گلاس کی جانب بڑھایا تو ہڑبڑاتے ہوئے گلاس زمین پر جا گرا اور کرچیوں میں بکھر گیا۔۔. 

کہ اسی اثناء میں وہ مزید آگے ہو کر کچھ کرتا ایک فون کال نے اسے اپنی جانب مبذول کیا۔۔۔۔

"ہاں بولو اس وقت کیوں فون کیا ہے؟؟؟

اس وقت کونسی خبر دینا چاہتے ہو تم؟؟؟؟"

آہل جو اکتایا ہوا تھا بےزار ہوا۔۔۔

مگر جیسے جیسے وہ دوسری جانب موجود شخص کی بات سن رہا تھا اس کے چہرے پر پھیلتی سرخی صاف عیاں تھی۔۔۔ 

آہل فون کان سے لگائے ہی فورا سامنے پڑی چابی اٹھائے باہر کی جانب بھاگا۔۔۔۔

سیڑھیوں کو پھلانگتے ہوئے وہ تیزی سے لاؤنچ سے گزرا کہ  گل افگن جو اس طوفان کی آہٹ سن کر باہر کو آیا تھا گھبرا سا گیا اور فورا خان بابا کے کمرے کی جانب بھاگا۔۔۔

آہل تیزی سے اپنی گاڑی کی جانب لپکا اور ایک سانس نہ بھرتے گاڑی کو سڑک پر لے آیا تو تیز بجلی مانند بے ہنگم انداز سے گاڑی کو بھگانے لگا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"منہاء!!!!!

میری جان منہاء!!!!

کھول نہ یار!!!

دیکھ رات گزر رہی ہے میری جان اور مجھے صبر نہیں آرہا اب۔۔۔۔

کیا چاہتی ہے تو تجھے گھر سمیت آگ لگا دو!!!!"

سلیم دروازے کے ساتھ بیٹھا شیطانی تاثرات لیے انگارا۔۔۔۔

'جو مرضی کرلو تم۔۔۔۔۔

جو مرضی۔۔۔۔

چاہے آگ بھی لگا دو۔۔۔

مگر. یہ دروازہ نہیں کھلے گا۔۔۔۔"

منہاء جس کی حالت اب مکمل بگڑ سی گئی تھی سناٹ ہوتے چیخی۔۔۔۔

"کبھی نہیں کھلے گا"

"اففففففففففف میری جان تو میرا بھی سوچوں نہ پھر!!!!

ہم تو تیرے لیے ایسے ہی مر جائے گا۔۔۔ "

سلیم دروازے پر ہنستے ہوئے دستک دیتے گو ہوا۔۔۔

"تو مر جاؤ۔۔۔۔

یا دعا کرو میں مر جاؤ۔۔۔۔

ہاں کاش میں مر جاتی۔۔۔۔

تو آج یہ سب نہ ہو رہا ہوتا میرے ساتھ۔۔۔۔"

منہاء خود کو پیٹتے رونے لگی۔۔۔۔

کہ سلیم جس کا صبر اب جواب گو تھا دروازے پر بے ہنگم دھکے مارنے لگا۔۔۔

کہ دروازے پر ٹکایا گیا میز بھی اپنی جگہ چھوڑنے لگا جبکہ لاک بھی اپنی گرفت ڈھیلی کرنے لگا۔۔۔۔

منہاء نے یہ صورتحال دیکھی تو گھبراتے ہوئے پیچھے دیوار کے ساتھ جا لگی اور سسکیاں بھرتے زمین پر بیٹھ گئی۔۔۔۔

کہ تبھی دروازہ ایک زور دار آواز سے کھل گیا اور سلیم اپنی وحشت لیتے مونچھوں کو تاؤ بھرتے اندر کی جانب ہنستے ہوئے داخل ہوا۔۔۔۔

"کہا تھا ناں کھول دو دروازہ ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔

اب دیکھ کرتا کیا ہو تیرے ساتھ میں۔۔۔۔"

سلیم جس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی پل بھر میں وحشی بھرے منہاء کی جانب بھاگا۔۔۔۔

جبکہ منہاء ہانپتے وجود سے اپنے ہاتھوں کو چہروں پر ٹکائے آیت الکرسی کا ورد زور زور سے کرتے چلانے لگی۔۔۔۔

کہ اس سے پہلے سلیم اس کی جانب بڑھتا پیچھے کی گرفت نے اس کے قدم روک ڈالے۔۔۔۔

اس کے ساتھ کچھ کرنے سے پہلے مجھ سے تو نمپٹ لے۔۔۔۔

آہل جو سلیم جو خونی نظروں سے دیکھ رہا تھا پیچھے کی جانب کھینچتے ہوئے اسے زمین پر پٹخا اور پھر اس پر جھکتے ہی پے در پے مکوں کی بارش کرنے لگا۔۔۔۔

منہاء جو چہرے کو ہاتھوں. سے تھامے بیٹھی ہوئی تھی سلیم کی چیخے سنتے ہی سامنے کے منظر کو دیکھ کر حیرت ذدہ ہوگئی۔۔۔

آہل بری طرح سلیم کو پیٹ رہا تھا کہ اس کے چہرہ اب مکمل خون آلود ہوچکا تھا۔۔۔۔

"ہمت کیسے ہوئی تیری؟؟؟؟

ہمت کیسے ہوئی منہاء پر نظر رکھنے کی۔۔۔۔

اسے چھونے کا سوچا بھی تو نے کیسے؟؟؟؟

بول!!!!؟؟

سوچا بھی کیسے؟؟؟؟"

آہل غصے سے بپھڑا جنونی تھا۔۔۔۔

جبکہ سلیم کی حالت اب ابتر ہوچکی تھی کہ وہ اب مدہوش چکا تھا۔۔۔۔

منہاء جو آہل کی اس دیوانگی کو دیکھ کر دنگ سی رہ گئی تھی سلیم کی حالت دیکھتے فورا اس کی جانب لپکی اور آہل کے ہاتھ کو فورا جکڑتے اس کا ہاتھ روک ڈالا۔۔۔۔

آہل جو منہاء کے سامنے آنے پر رک گیا تھا سفاکی نظروں سے خون اتری آنکھوں سے منہاء کو گھورنے لگا۔۔۔۔

"چھوڑ دو اسے۔۔۔۔

مل گئی اس کو اس کی سزا!!!!!"

منہاء آہل کے ہاتھ کو اہستگی سے چھوڑتے پیچھے کو ہوئی۔۔۔۔

"اب مر جائے گا یہ۔۔۔۔

اور سہہ نہیں پائے گا"

جبکہ آہل جس کا سانس بری طرح پھولا ہوا تھا منہاء کی بات سنی تو سلیم کے اوپر سے اٹھتے اپنا ہاتھ جھاڑتے پیچھے کو ہوا۔۔۔۔

سلیم مکمل بے ہوش تھا جبکہ آہل ابھی بھی اسے خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا۔۔۔۔

"تم چل رہی ہو میرے ساتھ ابھی اور اسی وقت!!!!!"

آہل سلیم کو دیکھتے منہاء پر چنگارا۔۔۔۔

"نہیں!!!

میں نہیں جاؤ گی!!!"

منہاء جو آہل کی سنگینی حالت جو دیکھ رہی تھی پیچھے قدم لیتے بولے۔۔۔۔

آہل نے منہاء کا جواب سنا تو بناء کچھ کہے آگے کو ہوا اور منہاء کی کلائی مضبوطی سے تھامے اسے اپنے پیچھے کھینچتے لے چلا۔۔۔ 

"چھوڑو میرا ہاتھ آہل!!!

مجھے نہیں جانا تمہارے ساتھ!!!!

چھوڑو!!!"

منہاء اپنا ہاتھ آہل کی گرفت سے چھڑوانے کی کوشش کرتے چیخی۔۔۔۔

"چپ !!!!!

بلکل چپ!!!!!"

آہل ایک دم رکا اور منہاء پر متلاطم ہوتے چنگارا۔۔۔۔

"میں نے تم سے کچھ پوچھا نہیں بتایا ہے۔۔۔۔

اب بولی نہ تو ایک تھپڑ تمہارے منہ پر بھی مارو گا۔۔۔"

آہل انگلی سے تنبیہہ کرتے شدت ہوا اور آگے بڑھنے لگا جبکہ منہاء نے آہل کا عتاب دیکھا تو اپنا ہاتھ کھینچتے اس سے پیچھے کو ہوئی۔۔۔۔

"میں خود جا سکتی ہو۔۔۔

مجھے کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔"

آہل جو منہاء کو سناٹ ہوتے دیکھ رہا تھا اس کو یوں گاڑی کی جانب خاموشی سے جاتا دیکھ کر زیر لب مسکرا سا گیا۔۔۔

جبکہ منہاء خود بھی بناء کچھ کہے اس کی گاڑی میں جا بیٹھی اور گاڑی کا دروازہ  بے دھڑک بند کردیا۔۔۔۔

آہل نے منہاء کو یوں بیٹھے دیکھا تو تیزی سے اپنی ڈرائیونگ سیٹ کی جانب ہوا اور اپنی سیٹ سنبھالے گاڑی چلادی۔۔۔۔

آہل تیز رفتاری سے گاڑی کو بھگا رہا تھا جبکہ منہاء جو آہل کے چہرے پر موجود جنونیت کو اچھے سے دیکھ پا رہی تھی۔۔۔۔

سیٹ بیلٹ کو باندھتے ہی گاڑی کی سیٹ کو مضبوطی سے تھامے حواس باختگی سے سامنے کے منظر کو دیکھتے ورد کرنے لگی۔۔۔۔

آہل جو منہاء کی اس حرکت پر دبی مسکراہٹ ہوگیا تھا جان بوجھ کر مزید گاڑی کی رفتار بڑھائے اسے بھگانے لگا۔۔۔۔

"اگر مجھے مارنا ہی تھا تو اس خبیث سے بچایا کیوں مجھے؟؟؟"

منہاء جو سامنے نظر ٹکائے گھبرا سی گئی تھی سخت گو ہوئی۔۔۔۔

"وہی چھوڑ دیتے مرنے کیلئے مجھے اپنے ساتھ کیوں لے آئے پھر؟؟؟؟"

آہل جس پر منہاء کی یہ بات بہت ہی ناگوار گزری تھی فورا سڑک کنارے گاڑی کو بریک لگاتے رکا۔۔۔

کہ منہاء جو اس کی اس حرکت سے بے خبر تھی کا سر سیدھا سامنے موجود جگہ سے بری طرح جا ٹکرایا۔۔۔۔

"آہ!!!!!"

منہاء اپنا سر تھامے کراہ سی گئی جبکہ آہل نے منہاء کو کراہتے دیکھا تو فورا اس کی جانب پریشانی سے جھکا۔۔۔

"لگی تو نہیں زیادہ؟؟؟؟"

"ارادہ اگر سر پھوڑنے کا تھا تو. بلکل نہیں لگی مجھے۔۔۔۔

ایک بار پھر کوشش کرو شاید پھٹ ہی جائے میرا سر!!!"

منہاء اپنا ماتھا تھامے غرائی۔۔۔۔

جبکہ آہل منہاء کی تلخی سن کر ایک دلکش مسکراہٹ لیے سامنے دیکھنے لگا۔۔۔۔

"انسان کو بولنے سے پہلے سوچنا چاہیے۔۔۔۔

اور سر کا بجنا ہی اس سبق کو یاد نہ کرنے کی پہلی سزا تھی۔۔۔۔

امید ہے مجھے اب نہیں بھولو گی تم!!!"

آہل گاڑی کو چابی بھرے تاسف ہوا۔۔۔۔

جبکہ منہاء بس اپنا ماتھا تھامے اسے انگاری نظروں سے گھورنے لگی۔۔۔۔۔

"مجھے واپس گھر جانا ہے اپنے ابھی اور اسی وقت!!!!"

منہاء دونوں بازوؤں باندھے ضد گو ہوئی۔۔۔۔

جبکہ آہل جو منہاء کی بات سن چکا تھا مکمل نظر انداز کرتے سامنے اپنا فوکس رکھا۔۔۔

"میں کچھ کہہ رہی ہو اپکو مسٹر آہل خان!!!!

مجھے میرے گھر جانا ہے واپس ابھی اور اسی وقت!!!!"

منہاء اب کی بار سامنے گاڑی کی جگہ پر اپنا ہاتھ زور مارتے چلائی۔۔۔۔

"کیا ؟؟؟

آپ نے مجھ سے کچھ کہا؟؟؟؟"

آہل ڈرامائی انداز سے ناسمجھی اپنائے سوالیہ ہوا۔۔۔

"نہیں میں سے کیوں. کچھ کہوں گی؟؟؟

میں تو پاگل ہو ناں۔۔۔

اور مجھے خود کلامی کرنے کی عادت ہے۔۔۔۔"

منہاء جو آہل کی حرکت پر زچ ہوئی تھی سناٹ ہوئی۔۔۔

"یہ بتانے کی کیا ضرورت ہے اپکو مس منہاء منور!!!!

یہ تو مجھے بخوبی پتہ ہے کہ آپ!!!!!"

بولتے بولتے آہل کی نظر اچانک منہاء کے چہرے پر پڑی جو اسے کاٹ کھانے کے تاثرات لیے گھور رہی تھی جسے دیکھتے ہی وہ خاموشی سے سامنے دیکھنے لگا۔۔۔

کہ کچھ دیر کی خاموشی میں ایک بے ہنگم سا شور برپا ہوا جو کہ آہل کے موبائل کی وجہ سے نمودار ہوا تھا۔۔۔

منہاء جو سامنے نظریں ٹکائے مسلسل سوچ کی گرفت میں تھی آہل کے فون پر اس کی جانب متوجہ ہوئی۔۔۔

"ہاں بتاؤ اب!!!

جو میں نے کہا تھا وہ کردیا ہے تم نے کہ نہیں؟؟؟"

آہل فون کان سے لگائے رازداری سے بول رہا تھا جبکہ منہاء جو بہت ہی خاموشی سے اس کی باتوں پر کان لگائے تھی سب سن رہی تھی۔۔.۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے پھر۔۔۔۔

گھر کو اچھے سے لاک لگا دینا تھا اس کو باہر پھینکنے کے بعد!!!

اور اس کی چابی تم کل مجھے میرے آفس میں پہنچاؤ گے۔۔۔۔"

آہل جو منہاء کی تیکھی کانی نظروں کو دیکھ چکا تھا فون بند کرتے سامنے دیکھنے لگا۔۔۔۔

"ٹھیک ہے کل آجانا آفس اور ریسپشنسٹ سے اپنی رقم لے جانا۔۔۔۔

باقی بات میں تم سے خود مل کر کرونگا۔۔۔۔"

"میرے پیچھے جاسوس چھوڑے گئے تھے کسی کی جانب سے اگر میں غلط نہ ہو تو!!!!"

منہاء نے آہل کی مشکوک حرکتیں محسوس کی تس باہر کی جانب دیکھتے آہل کو بات لگائے طنزیہ ہوئی۔۔۔

"جب سب سن ہی چکی ہو تو یہ صیحح غلط کا اندازہ کیوں بھر رہی ہو۔۔۔"

آہل نے سنا تو دوٹوک ہوا۔۔۔

"ہاں لگائے تھے میں نے تمہارے پیچھے جاسوس۔۔۔

اور تمہیں تو میرا مشکور ہونا چاہیے کہ میں نے لگا کر سہی کیا۔۔۔۔

ورنہ ایسا نہ ہوتا تو ناجانے آج کیا ؟؟؟؟"

آہل جس کے تاثرات سوچتے ہی ناگوار ہوگئے تھے سامنے سے آتی گاڑی کو جانتے بوجھتے اوور ٹیک کرتے چنگارا۔۔۔۔

جس پر منہاء بھی اپنی سیٹ پر بری طرح ہل سی گئی تھی اور گھبرائی نظروں سے آہل کو تاکنے لگی۔۔۔

"بےوقوف انسان!!!!

ایسے لوگوں کو تو گاڑی چلانے کا حق ہی نہیں دینا چاہیے؟؟؟

سڑک پر ڈانس کرتے پھرتے ہیں اور جان ہماری جاتی ہے۔۔۔"

آہل جو اپنا غصہ اس گاڑی والے پر نکال رہا تھا منہاء اس کی اس حرکت کو دیکھ کر ششدر ہوئی۔۔۔۔

"غلطی آپ کی تھی اس کی نہیں مسٹر آہل خان!!!!

غلطی ماننا اور اس کا اعتراف کرنا سیکھے۔۔۔

زندگی بہت آسان ہوجائے گی آپ کیلئے۔۔۔۔"

منہاء زچ ہوئی۔۔۔

جبکہ آہل نے بس اسے گھورنے پر ہی اکتفاء سمجھا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"تم کو اس کو روکنا چاہیے تھا افگن!!!!

تم کو اس کو یوں جانے نہیں دینا چاہیے تھا!!؟؟"

خان بابا جو گل افگن کے بتلانے پر پریشان تھے لاونچ کے چکر کاٹ رہے تھے۔۔۔۔

"کھولتے خون ہے وہ کسی کو بھی جلا دے گا"

"صاحب جی ہم کو خود نہیں پتہ چلا کہ ہوا کیا ہے؟؟؟

وہ تو بس بھاگتے ہوئے غصے سے نیچے آئے اور سیدھا باہر کو نکل پڑے۔۔۔۔

میں تو خود پریشان ہوگیا تھا کہ اس وقت صاحب جی کو ہوا کیا ہے؟؟؟"

گل افگن مبہم ہوا۔۔۔۔

"وقت بھی دیکھو کیا ہوتا جارہا ہے افگن۔۔۔"

خان بابا سینے پر ہاتھ دھڑے لمبے سانس لیتے گھبرائے۔۔۔

"ہمارا دل بیٹھ جائے گا۔۔۔

اس کو فون لگاؤ اور پوچھو یہ خبیث گیا کدھر ہے؟؟؟

اس کے غصے سے تو ہم کو بھی خوف آتا ہے ناجانے کس پر قیامت ڈھائے گا یہ اب!!!!"

"صاحب جی آپ بیٹھ جائے اپکی طبیعت خراب ہو رہی ہے۔۔۔۔

میں ابھی لاتا ہو اپنی دوائی اور پانی۔۔۔۔"

گل افگن داسہم ہوتے خان بابا کی جانب بڑھا۔۔۔۔

"ہم کو کچھ نہیں چاہیے بس اس گولہ خان کو فون لگاؤ ناجانے کس پر پھٹ رہا ہوگا وہ بارود کی کان!!!"

خان بابا منہ پھولائے پھنکارے۔۔۔۔

کہ تبھی آہل جو اپنی آستین ہی چڑھاتا اندر آرہا تھا خان بابا کو یوں ماتم کرتا دیکھ کر دنگ سا رہ گیا۔۔۔۔۔

"دادا؟؟؟

کیا ہوا ہے آپ کو؟؟؟

ایسے کیوں بیٹھے ہیں آپ؟؟؟

طبیعت تو ٹھیک ہے ناں آپ کی؟؟؟"

آہل جو دیکھتے ہی ان کی جانب بڑھا خان بابا نے آہل کو دیکھا تو  آگ بگولہ ہوتے اس کی جانب لپکے۔۔۔۔

"کہاں گیا تھا تم؟؟؟؟

بولو اس وقت کہا گیا تھا تم؟؟؟"

خان بابا جن کو گھبراہٹ کے پسینے چھوٹ چکے تھے آہل کو جھنجھوڑتے سنگین ہوئے۔۔۔۔

"تمہیں کچھ خبر بھی ہے کہ ہم کس قدر پریشان تھا !!!!"

"دادا؟؟؟؟؟

کیا ہوگیا ہے آپ کو؟؟؟

میں تو اکثر یوں باہر جاتا رہتا ہو ناں؟؟؟

تو آج کیا خاص بات تھی کہ آپ اس قدر پریشان ہوگئے؟؟؟"

آہل نے خان بابا کی پریشانی دیکھی تو پسینے سے شرابور چہرے کو دیکھتے چھوتے مبہم ہوا۔۔۔۔

"ہم کو تم سے ڈر لگتا ہے۔۔۔۔

کہ ناجانے تم پل بھر میں کیا کر بیٹھے۔۔۔"

خان بابا اکتاتے ہوئے پریشان ہوئے۔۔۔۔

"اچھا چھوڑے سب میں ایک کام کیلئے ہی گیا تھا دادا آپ بیٹھیے بتاتا میں اپکو ارام سے!!!

پھر یقینا آپ پریشان نہیں ہونگے!!!!"

اہل جو خان بابا کو اہنے ساتھ لیے صوفے کی جانب چاہتا تھا کہ ہاتھ ہر لگے خون کو خان بابا نے دیکھا تو اس کا ہاتھ تھامتے مبہم ہوئے۔۔۔۔

"یہ خون؟؟؟؟

یہ خون کس کا ہے آہل؟؟؟؟"

خان بابا آہل کے ہاتھ کو اضطرابی کیفیت سے دیکھتے کھنگالتے مبہم ہوئے۔۔۔۔

"مجھے کچھ نہیں ہوا ہے دادا۔۔۔۔

یہ خون میرا نہیں ہے۔۔۔۔

چھوڑیے اسے اور بیٹھیے مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔"

آہل اپنا ہاتھ کھینچتے خان بابا کو تھامتے صوفے کی جانب ہی ہوا کہ خان بابا اسے خود سے دور کرتے سنگین ہوئے۔۔۔

"کس کا خون کر کے آیا ہے تم ہم کو سچ سچ بتا دو آہل؟؟؟؟

تم نے کس کا قتل کیا ہے؟؟؟"

خان بابا انگلی دکھائے شدت ہوئے۔۔۔

"دادا کیا کہہ رہے ہو آپ یار؟؟؟

کیا کیا سوچتے رہتے ہو آپ میرے بارے میں؟؟"

آہل حیرت ذدہ ہوا۔۔۔

"میں نے کس کا خون کرنا ہے اور کیوں کرونگا میں ؟؟؟"

"یہ تو تم بتاؤ نہ کسی کا خون کر کے آیا ہے کیوں؟؟؟"

خان بابا چیختے سوالیہ ہوئے۔۔۔

"دادا آپ میری بات سنے گے کہ نہیں؟؟؟"

آہل  منہ پر ہاتھ جمائے سپاٹ ہوا۔۔۔۔

"تم شیطان تھا یہ ہم جانتا تھا۔۔۔۔

تم جلاد تھا یہ بھی ہم۔جانتا تھا۔۔۔

مگر تم تو !!!"

خان بابا ششدر ہوتے منہ پر ہاتھ جمائے سپاٹ ہوئے۔۔۔۔

"تم تو اب قاتل بھی ہوگیا ہے میرے خدایا۔۔۔

یہ کیسا پودا اگ آیا ہے میری کھیتی میں۔۔۔"

خان بابا حواس باختگی اور بے اعتباری سے اپنا سر تھامے پیچھے لڑکھڑاتے ہوئے صوفے پر جا بیٹھے۔۔۔۔

آہل جو خان بابا کی حرکت کو چلبلی نظروں سے دیکھ رہا تھا اب دبی مسکراہٹ لیے ہنسنے لگا۔۔۔۔

"کیا کرتے رہتے ہیں آپ پورا دن؟؟؟

اور کیا دیکھتے رہتے ہیں آپ؟؟؟"

آہل ہنستے ہوئے ان کی جانب بڑھا کہ خان بابا آہل کو قریب آتے دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔۔

"پیچھے رہو آہل خان!!!

ہم کو تم سے بہت ڈر لگتا ہے اب!!!!

تم اب قاتل ہے۔۔۔۔

بہت بڑا قاتل!!!!!"

خان بابا سنگین ہوتے پیچھے کو ہوئے۔۔۔۔

"افگن کیا دیکھتے رہتے ہیں دادا دن بھر؟؟؟

میں بتا رہا ہو ان کا ٹی وی دیکھنا ابھی سے بند!!!"

آہل گل افگن کو دیکھتے مسکرایا۔۔۔

"پتہ چلے کل کو میں گھر اؤ تو پولیس بلا کر رکھی ہو میرے لیے!!!"

آہل کی بات سنی تو افگن بھی منہ پر ہاتھ جمائے کھر کھر کرنے لگا۔۔۔۔

"افگن کا بچہ!!!!

تم بھی اس کے ساتھ ملا ہوا ہے۔۔۔۔

خبیث تم بھی ہم پر ہی ہنستا ہے۔۔۔۔"

خان بابا اب غصے سے پھٹ ہی پڑے۔۔۔۔

کہ تبھی منہاء جس کی موجودگی سے بے خبر خان بابا بے ہنگم ہو رہے تھے ان کے پاس چلتی آئی اور ان کے روبرو پرسکون انداز سے کھڑی ہوگئی۔۔۔۔

"السلام علیکم انکل!!!!

کیا ہوا ہے اپکو کیوں اتنا پریشان ہو رہے ہیں آپ؟؟؟"

منہاء جو خان بابا کے چہرے کی تپش  کو دیکھ رہی تھی سوالیہ ہوئی۔۔۔

جبکہ خان بابا منہاء کے اچانک آجانے پر ہکا بکا سے رہ گئے تھے۔۔۔۔

"وعلیکم السلام!!!!

منہاء بیٹا آپ یہاں؟؟؟؟"

"جی دادا مس منہاء منور یہاں!!!!

اور یہی بات میں اپکو پچھلے پانچ منٹ سے بتانے کی کوشش کررہا تھا مگر آپ نے اپنی ہی سی آئی ڈی کھول کر رکھی ہوئی تھی۔۔۔۔"

آہل صوفے پر بیٹھتے ہی تاسف ہوا۔۔۔۔

"تم چپ کرو آہل خان!!!

ہم منہاء سے بات کررہا ہے بھیچ میں مت بولنا تم اب!!!"

خان بابا سخت ہوئے۔۔۔

"کیا ہوا ہے بچے ؟؟؟

کیا اس نے اب بھی کچھ کردیا ہے؟؟؟

یقین جانو میں جانتا ہے یہی غلط ہوگا۔۔۔

اور ہم اس کی طرف سے معافی مانگتا ہے۔۔۔۔"

خان بابا جو بناء کچھ سنے ہاتھ جوڑے پشیمان ہوئے تھے منہاء نے فورا ان کے ہاتھوں کو تھاما اور نیچے کردیے۔۔۔

"دادا؟؟؟؟

کیا کررہے ہو یار اپ؟؟؟"

اہل نے دیکھا تو ان کی جانب لپکا۔۔۔۔

ہماری زندگی کا یہی تو مقصد رہ گیا ہے ۔۔۔۔

"تم غلطی کرے گا ہم بھگتے گا اسے۔۔۔

وہی کررہا ہے اب!!!"

خان بابا نم آنکھ ہوئے۔۔۔۔

"نہیں انکل۔۔۔

کچھ نہیں کیا آپ کے پوتے نے۔۔۔۔

اور بات بات پر معافی نہ مانگا کرے آپ۔۔۔۔

بہت شرمندہ کر دیتے ہیں اپ مجھے!!!

منہاء سر جھکائے اداس ہوئی۔۔۔

"مانتی ہو اپکا پوتا اس لائق نہیں کہ انسان کہلائے جا سکے۔۔۔"

منہاء نے آہل کو مرچی نظروں سے جلایا۔۔۔

جبکہ آہل بھی اس کی بات سنتے ہی اسے گھورنے لگا۔۔۔

"مگر ناجانے کبھی کبھی نیک کام کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں یہ۔۔۔۔

شاید انسان کی فہرست میں آنا چاہتے ہیں!!!!"

خان بابا جو آہل اور منہاء کی تکراری نظروں کو دیکھ رہے تھے ناسمجھی سے گو ہوئے۔۔۔

"ہم کچھ سمجھا نہیں؟؟؟

کیا کہنا چاہ رہا ہے تم؟؟!

کوئی ہم کو سب بتائے گا کہ ہوا کیا ہے؟؟؟"

"دادا میں سمجھاتا ہو اپکو مس منہاء منور کی دو معنی باتیں۔۔۔۔

مگر اسے سے پہلے گل افگن مس منہاء منور کو گیسٹ روم میں لے جاؤ اور ان کی خوب خاطرداری کرو۔۔۔۔"

آہل خان بابا جو خود سے لگائے گل افگن کی جانب اشارہ گو ہوا۔۔۔

"اور خیال رکھنا کوئئ کسر نہ رہ جائے ہمارے خصوصی مہمان کی!!!"

آہل نے اب کی بار طنزیہ مسکراہٹ بھری۔۔۔۔

"کیا خبر کل ہماری خاطر داری پر بھی نفرت ہے جھنڈے گاڑ دے یہ!!!"

جبکہ منہاء اسے بھنویں چڑھائے دیکھتے گل افگن کے پیچھے خاموشی سے چل پڑی۔۔۔۔

"یہ سب کیا ہو رہا ہے؟؟؟

تم ہم کو کچھ بتائے گا بھی کہ نہیں؟؟!"

آہل جو جاتی منہاء کو دور تک اپنی نظروں کے حصار سے دیکھ رہا تھا خان بابا کے سوال پر ہوش میں آیا۔۔۔

"دادا کیا کیا الزام لگا دیے تھے آپ نے یار مجھ پر!!!!

آئیے کمرے میں سب بتاتا ہو اپکو تفصیلا!!!!"

آہل خان بابا کو تھامتے ان کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء آہل کے اسرار پر اس کے ساتھ آ تو گئی تھی مگر بے چینی اور اضطرابی کیفیت سے دوچار ہوتے کمرے کے اب تک کئی چکر لگا چکی تھی۔۔۔۔۔

"یہ سب کیا ہوتا جارہا ہے میرے ساتھ!!!!

ایک سے بڑھ کر ایک قیامت ٹوٹ رہی ہے مجھ پر!!!

اور اب ستم یہ!!!"

منہاء سوچتے ہی بیڈ پر سر تھامے بیٹھی۔۔۔۔

کہ اب اس شخص کے گھر میں پناہ لی ہے جس نے میری اپنی چھت مجھ پر تنگ کردی تھی۔۔۔

"جس کی وجہ سے اج میں اس مقام پر ہو کہ ہر کوئی مجھے نوچنا چاہتا ہے۔۔۔۔"

منہاء نم آنکھوں سے اپنا چہرہ تھامے بیٹھ گئی۔۔۔۔

کہ تبھی دروازے پر دستک ہوئی جسے سنتے ہی منہاء اپنا چہرہ صاف کرتے دروازے کی جانب بڑھی۔۔۔۔

دروازہ کھولا تو سامنے گل افگن کو کھڑا پایا جو ہاتھ میں کھانے کی ٹرے تھامے کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔۔۔

"بیٹا میرا نام گل افگن ہے۔۔۔۔

اور مجھے بڑے صاحب نے بھیجا ہے کہ اپکو کھانا دے آؤ اور ساتھ سر پر کھڑے ہو کر کھلا بھی دو۔۔۔"

گل افگن مسکراتے ہوئے اندر کی جانب بڑھے اور ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھتے منہاء کی جانب مڑے جو دروازے پر ہی کھڑی انہیں خالی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

"مگر افگن چچا میں تو کھانا کھا چکی ہو۔۔۔۔"

منہاء کھانے کی ٹرے کو دیکھتے ان کی جانب ہوئی۔۔۔

"اور میں ویسے بھی جلدی کھانا کھانے کی عادی ہو۔۔۔

آپ اسے لے جائے۔۔۔۔"

"بیٹا یہاں بھی سب مغرب کی اذان کے بعد رات کا کھانا کھا لیتے ہیں۔۔۔

مگر کوئئ بات نہیں میں بڑے صاحب کو بتا دیتا ہو اس متعلق۔۔۔۔"

گل افگن واپس ٹرے تھامے دروازے کی جانب بڑھے۔۔۔

جبکہ منہاء انہیں جاتا دیکھ کر واپس بیڈ کی جانب ہوئی۔۔۔

"اور بیٹا کسی بھی چیز کی ضرورت ہو بلاجھجھک آپ نے مجھے آواز لگائی دینی ہے۔۔۔

ایسے ہی جیسے ابھی مجھے چچا کہا تھا۔۔۔

میں فورا حاضر ہوجاؤ گا آپ کے سامنے۔۔۔۔

بڑے صاحب کی جانب سے سخت ہدایت ہے مجھے کہ آپ کو کسی چیز کی کمی نہ دی جائے۔۔۔"

گل افگن دروازے کی جانب ہوا تو مڑتے ہی متحیر ہوا۔۔۔۔

"جی افگن چچا جیسا آپ کہے!!!"

منہاء نے سنا تو گوئیہ مسکرائی۔۔۔

"شب بخیر!!!"

جبکہ گل افگن دروازہ بند کرتے باہر کو چلا گیا۔۔۔۔

گل افگن کے جانے کے بعد منہاء بستر پر سیدھی لیٹتی ہی چھت کی جانب دیکھنے لگی۔۔۔۔

"جو بھی ہو خدایا میرے نصیب میں اب۔۔۔

تیرے کرم سے مولا سب سنور جائے میرا۔۔۔"

منہاء زیر لب دعا گو ہوئی اور پھر کچھ دیر یونہی چھت کو دیکھتے دیکھتے وہ نیند کی وادیوں میں گم ہوگئی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

” بس یہی وجہ تھی دادا جو میں اسے یہاں لے آیا۔۔۔ 

کیونکہ اس وقت جو بھی مجھے مناسب لگا میں نے کیا!!!“

آہل کندھے اچکائے جیب میں ہاتھ ڈالے خان بابا کے روبرو کھڑا ہوتے تفصیلا ہوا۔۔۔

"ہم جانتا تھا۔۔۔

ہمیں ڈر تھا کہ ایسا ہی کچھ ہوگا۔۔۔۔

مگر اتنی جلدی ہوگا یہ یقین نہ تھا۔۔۔"

خان بابا جو سب کچھ جان چکے تھے مبہم ہوئے۔۔۔

"کیا مطلب دادا؟؟؟

آپ یہ سب کیسے؟؟؟

کیا آپ جانتے تھے کہ اس کا کزن ایسا کچھ کرے گا؟؟؟"

آہل نے سنا تو حیرت ذدہ ہوتے خان بابا کے پاس آ بیٹھا۔۔۔

"ہاں ہم جانتا تھا۔۔۔

ہم اس دن ہی اس کے سارے ارادے بھانپ چکا تھا جس دن منہاء نے اس کی ماں کی اچھی خاصی عزت کی تھی۔۔۔

یہی وجہ تھی کہ ہم بار بار اس کے گھر جاتا تھا اور اس کو شادی کا کہتا رہا۔۔۔۔"

خان بابا جو سنتے ہی پریشان ہوگئے تھے برجستگی ہوئے۔۔۔۔

"ہمممممم۔۔۔۔

خیر  اس کی میں نے ایسی دھلائی کی ہے دادا کہ سات پشتین یاد رکھے گی اس کی اب!!!"

آہل اپنے ہاتھ کو دیکھتے مسکرایا۔۔۔

"مگر ہم کو ایک بات سمجھ نہیں آتا۔۔۔

تم وہاں کیسے پہنچا وہ بھی وقت پر؟؟؟"

خان بابا جو آہل کے چہرے کی شادمانی کو دیکھ رہے تھے سوالیہ ہوئے۔۔۔۔

"اور تمہیں کیا ضرورت تھا کہ تم ہی جاتا؟ یا اکیلے جاتا؟؟؟

تم ہم کو کہہ دیتا ہم چلا جاتا منہاء کے گھر!!!

یوں خود تیس مار کیوں بنے برخوردار!!!!"

آہل جو اپنے طاقت کو بیان کرنے پر پرجوش تھا خان بابا کے سوال پر ایک دم مدہم ہوا۔۔۔۔

"دادا؟؟؟ 

کیا ہوگیا کے اپکو؟؟؟ "

آہل جو سنتے ہی مبہم ہوا تھا ہکلایا..………

"ہم کو تمہارے ارادے نیک لگ رہے ہیں شیطان خان!!!

اور ہم کو دیکھ کر اچھا لگ رہا ہے یہ سب!!!

آہل جو چہرہ گرائے اپنے تاثرات چھپائے مڑا تھا خان بابا دبی مسکراہٹ لیے گو ہوئے۔۔۔“

کہ جو بھی ہوا بہتر ہی ہوا!!!! 

” ایسا کچھ نہیں ہے جیسا آپ سمجھ رہے ہیں دادا۔۔۔۔

میں نے بس اس لیے جاسوسی کروائی تھی کہ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہے۔۔۔

میں نے جو کچھ اس کے ساتھ کیا میرا اتنا تو حق بنتا تھا کہ میں بھی اب کچھ اس کے حق میں اچھا کرو۔۔۔“

آہل اپنا بچاؤ کرتے اکڑتے مڑا۔۔۔۔

” ہاں ہاں بلکل بلکل۔۔۔“

خان بابا جو ابھی تک آہل کو مسکراتے دیکھ رہے تھے گو ہوئے۔۔۔

” دادا بس بھی!!!!

میں جارہا ہو سونے کیونکہ میں بہت تھک گیا ہو اب!!!“

آہل چڑتے ہوئے دروازے کی جانب ہوا۔۔۔۔

” ہم ایک بار پھر سے بات کرے گا منہاء سے۔۔۔۔“

خان بابا نے اونچی آواز سے کہا جس سے آہل کے قدم وہی دروازے پر رک گئے۔۔. 

” تمہاری اور منہاء کی شادی کے متعلق!!!۔۔“

خان بابا جن کا لہجہ خوشگوار تھا فرط مسرت ہوئے۔۔۔

جبکہ یہ سنتے ہی آہل خان بابا کو تعجبی نظروں سے گھورنے لگا۔۔۔۔

” ایسا کیا دیکھتا ہے آہل خان تم ہم کو؟؟؟۔

بھولوں مت باپ کا باپ ہے ہم تمہارا۔۔۔

اور یہ سفید بال دہائیوں. کے تجربے سے کیے ہیں میں نے۔۔۔؛“

خان بابا آہل کے چونکتے تاثرات دیکھے تو مسکرائے..….

جبکہ آہل جو بظاہر برہم دکھائی دے رہا تھا ہلکی مسکراہٹ سمیٹے وہاں سے چلتا بنا......... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

خان بابا ناشتے کے ٹیبل پر بیٹھے آہل اور منہاء کے انتظار میں تھے جب آہل آفس کی تیاری پکڑتے نیچے کو آیا اور سیدھا ٹیبل کی جانب اپنی کرسی کھینچتے بیٹھ گیا.………

"السلام علیکم دادا!!!"

آہل جس کے مزاج آج بدلے سے معلوم ہورہے تھے چہکتے ہوئے ناشتے اپنی یلیٹ پر سجانے لگا......... 

"گڈ مارننگ کیسے ہو آپ؟؟؟"

"وعلیکم السلام آج تو تمہارا رنگ ہی الگ ہے آہل خان؟؟ 

کیا بات کس کی آنے کی خوشی میں چہک رہا ہے تم اتنا؟؟" 

خان بابا نے آہل کے چہرے کی رونق دیکھی تو شرارتی انداز آور ہوئے....... 

"کیا ہے دادا؟؟؟؟ 

آپ بھی نہ بس!!! 

خوش ہو تب مسئلہ نہ خوش ہو تب!! 

پلیز!! 

ناشتہ کرنے دے مجھے سکون سے؟!!! 

رات بھی بہت تنگ کیا تھا آپ نے مجھے.." 

آہل چڑچڑایا….……. 

جبکہ خان بابا آہل کے تاثرات کو دیکھ کر محظوظ ہونے لگے........ 

کہ تبھی منہاء گیسٹ روم سے نکلتی سیدھا ان کی جانب بڑھی.... 

" السلام علیکم انکل!!!"

منہاء مصنوعی مسکراہٹ ہوئی...... 

" وعلیکم السلام بیٹا!!

کیسا ہے تم؟؟؟؟ 

آؤ بیٹھو ناشتہ کرو ہمارے ساتھ!!!!" 

خان بابا منہاء کو دیکھتے خوش دل ہوئے..... ۔

جبکہ آہل جو کینی نظروں سے منہاء کو دیکھ رہا تھا خان بابا کی بات سنتے آواز گو ہوا........... 

" افگن!!!!

ناشتہ لاؤ منہاء بی بی کیلئے آج ہمیں شرف ملنے والا ہے ان کے ساتھ ناشتہ کرنے کا....."

آہل اپنی دبی مسکراہٹ سے منہاء کو بناء دیکھے تمحیر ہوا......

جبکہ منہاء جو کسی بات کی غرض سے ہی آئی تھی آہل کی بات کو مکمل نظر انداز کرتے خان بابا کی جانب بڑھی........

" مجھے آپ سے بات کرنی ہے انکل..

بہت ضروری بات!!!"

منہاء پرزور سنجیدہ ہوئی....

" ہاں بیٹا آپ بولو ہم سن رہا ہے!!!!" 

خان بابا مسکراہٹ گو ہوئے.....

مجھے گھر جانا ہے اپنے انکل...

"وہ بھی ابھی اور اسی وقت!!!!" 

منہاء جو اپنی ہتھیلی کو دیکھتے تاسف ہوئی تھی کی بات سنتے ہی آہل کا نوالہ منہ کر قریب آتے ہی رک گیا......

"آپ پلیز ڈرائیور سے کہے مجھے واپس چھوڑ آئے ...….."

منہاء اپنی بات مکمل کرچکی تھی جبکہ وہ اسے ناگوار تاثرات لیے گھورنے لگا.....

" مگر کیوں بیٹا؟؟ 

کیوں جانا چاہتا ہے واپس تم؟؟ "

خان بابا پریشان ہوئے......

"کیا یہاں کوئی پریشانی ہے یا پھر کوئی مسئلہ تو ہم کو بتاؤ ہم ابھی سب ٹھیک کردے گا......"

" نہیں انکل!!! 

کوئی پریشانی نہیں ہے یقین جانیے!!!!

مگر میرا یہاں رکنا مناسب نہیں...." 

منہاء گھٹنوں کے بل بیٹھتے خان بابا کے سامنے تاسف  سے بیٹھی.....

"جو بہتان میرے دامن پر لگ چکے ہیں اس کو سچ ثابت کرنے کیلئےکل کی رات ہی کافی تھی.....

ناجانے اب تک کیا کیا کہانیاں بن چکی ہونگی مجھ پر.... "

منہاء نے ایک گہرا سانس بھرا... 

" اور میں اب مزید کچھ برداشت نہیں کر سکتی...." 

"ایسا کچھ نہیں ہوگا.....

نہ ہی میں ہونے دونگا..

بے فکر رہے آپ مس منہاء !!!!"

آہل جو منہاء کی مکمل بات سن چکا تھا ہاتھ صاف کرتے سپاٹ ہوا....

" آپ کی کسی بھی بات پر یقین نہیں. مجھے مسٹر آہل...

اگر کل رات میں کمزور نہ پڑتی تو میں آپ کے ساتھ کبھی نہ آتی...." 

منہاء اہل کی بات سنتے شدت کھڑی ہوئی....

" لہذا اپنی غلط فہمی نکال دے اپنے دماغ سے" 

" دیکھیے مس منہاء!!"

آہل جو مزید بولنے ہی والا تھا خان بابا کے اشارے پر چنے چبائے رہ گیا......

" ہم اس کی بات کرتا ہی نہیں ہے منہاء!!!!!!

ہم فٹے کرتا ہے اسے.."...

خان بابا نے آہل کی جانب اشارہ بڑھا....

جس پر سر جھکائے بیٹھا رہا....

" ہم بات تمہاری کررہا ہے تم سے!!!!

جو لوگ کچھ نہ ہونے پر بھی تم کو کوستا ہے تم ان کی وجہ سے اپنی عزت کا داؤ لگانے پر تلا ہے؟؟؟؟

کیوں اتنا بڑا ستم کرنا چاہ رہا ہے خود پر؟؟؟؟؟ 

کیوں؟؟؟" 

خان بابا سنگین شدت ہوئے...... 

"کیونکہ مجھے آپ کے پوتے کی شکل نہیں دیکھنی.... "

منہاء آہل کی جانب اشارہ کرتے چنگاری 

" میں جب جب ان کی شکل دیکھتی ہو انکل.... 

یقین جانیے مجھے میری امی کا چہرہ کفن مین لپٹا نظر آتا ہے...

وی چہرہ جو. میں روز فجر کی نماز سے پہلے دیکھتی تھی اور عشاء کی نماز کے بعد دیکھتے سوتی تھی...."

منہاء آبدیدہ ہوتے رونے لگی.... 

جبکہ آہل جو سب سن رہا تھا سر جھکائے سب ضبط کیے بیٹھا رہا.... 

"چھین لیا اس شخص نے مجھ سے سب کچھ.. 

تو کیسے رہو میں یہاں انکل؟؟؟ 

کیسے اس شخص کے روبرو رہو میں جس سے مجھے نفرت ہے..."

منہاء نفرت انگیز ہوئی تو اہل کی آنکھ میں آتی نمی نے منہاء کے چہرے کی سنگینی اور لہجے کی نفرت کو سہا .... 

"ہم سمجھ سکتا ہے سب!!!!"

خان بابا منہاء کو سمجھاتے گو ہوئے...

"نہیں انکل آپ نہیں سمجھتے کچھ...

کوئی کچھ بھی نہیں سمجھتا...

کیونکہ مین نے سہا ہے اور دیکھیے کس قدر ڈھیٹ کہ اب تک زندہ ہو..."

منہاء روتے کرسی پر بیٹھ گئی....

جبکہ اہل منہاء کو یوں روتے دیکھ کر خود بھی تڑپ سا گیا اور اپنی آنکھوں کی نمی چھپائے اٹھ کھڑا ہوا.....

"آپ مجھے میرے گھر بھجواتے واپس بس.....

اور مجھے ان کے ساتھ نہیں جانا!!! یہ بھی بات میری طے ہے!!"

منہاء اپنا چہرہ صاف کرتے اٹھی.....

"ہم اب بھی اسی بات پر قائم ہے منہاء !!!!

ہم کو ڈر لگتا ہے زمانے سے....

یہی وجہ تھی ہم تمہاری شادی کا کہہ رہا تھا تم سے....." 

خان بابا جو حالات کی نازکی کو دیکھ کر خود بھی پریشان ہوگئے تھے ایک آخری کوشش کرتے بولے.....

"اپکو یہی مسئلہ نہ کہ میں اکیلی رہو گی!! ؟؟؟

اور میرے ساتھ ناجانے کیا کیا ہوجائے گا!!!!"

منہاء خان بابا کے دونوں ہاتھوں کو تھامے تاسف ہوئی.... .

جس پر خان بابا نے حامی میں سر ہلایا.....

"تو ٹھیک ہے آپ کرے بات پھر بلال سے....

آپ نے کہا تھا ناں آپ بات کرے گے اس سے شادی کے متعلق....."

منہاء خان بابا کو یاد دہانی کرواتے گو ہوئی....

جبکہ آہل جو منہاء اور خان بابا کی باتوں کو خاموشی سے سن رہا تھا سناٹ کھڑا رہا....

"تو بس آپ کرے بات اس سے...

کہ نکاح کرے مجھ سے اور ختم کرے یہ سب تماشا.…"

منہاء بول رہی تھی جبکہ اہل جس سے اب یہ سب برداشت نہ ہورہا تھا وہاں سے جانے کو بڑھا....

"میرے آنے تک کوئی یہاں سے نہیں جائے گا.....

اب اس کو میری دھمکی سمجھے یا حکم....." 

آہل سنگین ہوتے دروازے کی جانب بڑھتے رکا اور شدت ہوا...

جبکہ منہاء جو اہل کی بات سن کر اس کی جانب شدت سے مڑی تھی جوابا ہوتے اس کی جانب ہونے کو ہی لپکی تھی کہ آہل وہان سے تیز گام ہوا جبکہ منہاء اہل کو یوں بھاگتے دیکھ کر سٹپٹا سی گئی تھی.....

" انکل مجھے جانا ہے....

مجھے جانا ہے انکل ابھی جانا ہے...

نہیں تو مین خود چلی جاؤ اور مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں...."

منہاء شدت ہوتے  باہر کی جانب لپکی مگر اس سے پہلے وہ دہلیز پار کرتی گارڈ جو آہل کے کہنے پر وہی کھڑا تھا ڈنڈا آگے بڑھائے راستہ روکے کھڑا ہوگیا......

" مجھے جانے دو....

جانے دو مجھے...."

منہاء اس پر چلائی...

" یہ اہل کے غلام ہے منہاء یہ ہماری نہیں سنتا تو تمہاری کہاں مانے گا یہ!!!!

مر جائے گا تم کو جانے نہیں دے گا.... 

بہتر ہے اندر آجاؤ کیونکہ سر دیواروں سے مارنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے....

سر اپنا ہی درد ہوگا اور کچھ نہیں...." 

خان بابا کو دور کھڑے منہاء کی تڑپ دیکھ رہے تھے اب کہتے ہوئے واپس ڈائیٹنگ روم کی جانب ہوئے.....

جبکہ منہاء خان بابا کی بات سن کر منہ لٹکائے وہی بیٹھ گئی......

منہاء کو اپنا فیصلہ سنانے کے بعد بھی آہل کو کسی بںی طرح سکون میسر نہ تھا.........

ایسے جیسے کر کے وہ آفس تو پہنچ گیا تھا مگر منہاء کے اقرار نے اس الجھا کر رکھ دیا تھا.....

بار بار وہ اپنے سامنے پڑے لیپ ٹاپ کو کبھی کھولتا تو کبھی کوفت محسوس کرتے واپس بند کر دیتا...... 

"ایسا کیسے چلے گا اب...... 

اور کب تک؟؟؟"

آہل اپنا سر نشست پر گرائے پریشان کن ہوا.....

"مجھے اندازہ نہیں تھا کہ منہاء اس بکاؤ بلال کیلئے اب تک ہمدردی رکھتی ہیں۔۔۔

 یا شاید محبت؟؟؟؟"

آہل ابھی اسی سوچ میں گم تھا کہ تبھی نبیل کچھ فائیلز تھامے سیدھا اس کے کیبن میں داخل ہوا...۔ 

"بہت معذرت سر میں بناء اجازت اندر آگیا ہو مگر کچھ بہت ضروری بات کرنی تھی آپ سے تبھی میں اجازت نہ لے سکا..... "

نبیل آہل کی جانب معذرت خواہ ہوتے تیز گام ہوا اور ہاتھ میں تھامی کچھ فائلز آہل کے سامنے رکھ دی.......

"کوئی بات نہیں نبیل!!! "

آہل خود کو سیٹ کرتے سیدھا ہوتے بیٹھا...... 

"بس یہ بتاؤ کہ یہ کونسی فائلز ؟؟؟؟

کیا ہم اس ہر پہلے کسی قسم کی ڈسکشن کر چکے ہیں؟؟"

"سر یہ مس منہاء اور مس ثمر کی سی ویز اور اوریجنل ڈاکومنٹس ہیں...."

نبیل نے آہل کی بات سنی تو جوابا ہوا۔۔۔۔

"کیونکہ ان دونوں نے جاب چھوڑ دی ہے تو پھر اب ان کے ڈاکومنٹس ہمارے لیے ردی کے کاغذ کے برابر ہے۔۔۔۔

اب آپ مجھے بتا دے کہ ان کے ساتھ کیا کرنا ہے!!!

ان کو جلا دو یا کرش کردو جیسا آپ مناسب سمجھے!!!"

آہل جو خاموشی سے سر جھکائے سپاٹ تاثرات سے سن رہا تھا انگاری نظروں سے نبیل کو گھورنے لگا۔۔۔۔

"مسٹر نبیل تھوڑا تمیز کا مظاہرہ کرے گے تو بہتر ہوگا۔۔۔

کسی کی کئی سالوں کی محنت کو یوں ردی میں بدلنا اپکی تعلیم کی عکاسی کرتا ہے۔۔۔۔"

آہل سنگین ہوا۔۔۔۔

"کیسا ہو اگر میں آپ کے ڈاکومنٹس کو کرش یا جلا دو؟؟؟"

"سوری سر!!!!

میں تو بس!!!"

نبیل جو اپنے نمبر بڑھوانے کے چکروں میں تھا آہل کا ریایکٹ دیکھا تو پشیمان ہوا۔۔۔۔۔

"کچھ مت کہیے اب تو بہتر ہوگا!!! "

آہل نے ہاتھ کا اشارہ دیا تو نبیل منہ لٹکائے رہ گیا۔۔۔۔

"آپ بس ریسپشن پر جائے اور کہے ان سے کہ مس ثمر کو کال کر کے بلوائے اور ڈاکومنٹس صیحح سالم واپس کرے انہیں۔۔۔۔"

آہل نے نبیل کی جانب ثمر کی فائل بڑھائی اور ہدایت دی۔۔۔۔

"اور یہ سب کام ہونے کے بعد مجھے آگاہ کرے!!!"

"جی ٹھیک ہے سر!!!!

ابھی کہہ دیتا ہو!!!!

مگر سر مس منہاء کی فائل؟؟؟"

نبیل نے دوسری فائل کی جانب سوالیہ اشارہ بھرا۔۔۔۔

"کیا مس منہاء کو بھی کال کرنی ہے؟؟؟"

"جتنا آپ سے کہا ہے اتنا کرے تو بہتر ہے۔۔۔۔

ذیادہ آڑان بھرے گے تو زمین پر اور زور سے گرے گے آپ مسٹر نبیل!!!!"

آہل دانت چبائے بولا تو نبیل مزید کچھ کہے سر گرائے وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔

نبیل کے جانے کے بعد آہل واپس منہاء کی فائل کو کھولتے اس کی تعلیم کو جائزہ کرنے لگا۔۔۔

جیسے جیسے وہ منہاء کے متعلق جان رہ تھا چہرے کی مسکراہٹ اسی مانند گہری اور سنگین ہوتی جارہی تھی۔۔۔۔

کہ تبھی ہی کچھ سوچتے ہی اس نے اپنا فون نکالا اور ایک نمبر پر کال ملا دی۔۔۔۔

دو تین بیلز کے بعد دوسری جانب سے جواب موصول ہوا۔۔۔

"ہاں کیسے ہو تم؟؟؟؟

تم سے ملنا چاہتا ہو میں؟؟؟

اگر رات کو فری ہو تو بتا دو مجھے۔۔۔۔

ڈنر میری جانب سے ہوگا کسی اچھے سے ریسٹورینٹ میں!!!"

آہل نے لالچ بھرے انداز سے کہا۔۔۔

"چلوں ٹھیک ہے وقت اور جگہ میں تمہیں بتا دونگا۔۔۔

ملتے ہیں پھر شام کو۔۔۔۔"

آہل نے کہتے ساتھ ہی فون بند کیا اور گہری مسکراہٹ لیتے واپس کرسی کی نشست سے سر لگائے ہنستے لگا۔۔۔۔

"اب آئے گا اصل مزہ!!!!

دیکھتا ہو میں اب کیسے یہ جاتی ہے واپس!!!

اور کیسے نہیں بدلتی اپنا فیصلہ!!!!"

آہل زیر لب خود کلام ہوتے متحیر ہوا۔۔۔۔

اور پھر اپنی ہی باتوں کو سوچ سوچ کر دبی مسکراہٹ ہوا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

شام کا وقت سر پر تھا جب منہاء عصر کی نماز کی ادائیگی کے بعد اپنے کمرے میں ٹہلنے لگی۔۔۔۔

کہ تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔۔

"افگن چچا مت اجازت لیا کرے پلیز!!!!

آجائیے اندر۔۔۔۔"

منہاء بیڈ پر بیٹھتے متحیر ہوئے۔۔۔۔

"کیسے نہ لے ہم اجازت گڑیا بیٹا۔۔۔۔

مہمان ہو آپ یہاں ہمارے ہم ایسے اندر نہیں آ سکتے!!!!"

گل افگن ہاتھ باندھے مسکراہٹ گو ہوئے۔۔۔۔

"اچھا بتائیے!!!

آپ کو کیا پھر سے خان بابا نے بھیجا ؟؟؟؟"

منہاء تاسف ہوئی۔۔۔

"وہ صبح سے پریشان ہے بیٹی!!!!

کہ آپ نے صبح سے اب تک کچھ نہیں کھایا۔۔۔۔"

گل افگن مبہم ہوا۔۔۔

"اب بھی مجھے بھیجا ہے کہ میں ایک بار پھر سے کوشش کرو۔۔۔۔"

"ہمممممم!!!!

ٹھیک ہے افگن چچا آپ چلے میں آتی ہو۔۔۔۔

مگر پلیز میرا دل نہیں ہے کچھ بھی کھانے کو ہوسکے تو بس چائے بنا دے مجھے اچھی سی ساتھ انکل کیلئے بھی۔۔۔"

"ہاں ہاں کیوں نہیں!!!

آپ چلوں میں ابھی اچھی سی چائے بنا کر لاتا ہو۔۔۔۔"

گل افگن نے سنا تو مسرت ہوتے باہر کی جانب بڑھ گیا۔۔۔

جبکہ منہاء بے دلی سے ہوتے کمرے سے باہر نکلی اور لاؤنچ کی جانب بڑھی۔۔۔۔

جہاں پہلے سے پریشان بیٹھے خان بابا منہاء کو آتے دیکھتے ہی چہک اٹھے۔۔۔۔

"بہت گندہ بیٹی ہے تم منہاء!!!!

بہت ہی برا ہے تم۔۔۔"

منہاء نے اپنا سر خان بابا کی جانب کیا جس پر وہ شکوہ کناں ہوئے۔۔۔۔

"آپ نہیں جانتے انکل میرے لیے یہ سب کس قدر عجیب اور برا ہے۔۔۔۔"

منہاء سنجیدگی سے ان کے روبرو بیٹھ گئی۔۔۔۔

"ہم جانتا ہے مگر تم ہماری بات کیوں نہیں سنتا۔۔۔۔"

خان بابا اداس ہوئے۔۔۔

منہاء اور خان بابا جو اس وقت آپس میں بات چیت کرریے تھے گل افگن کے چائے کی ٹرے لانے پر خاموش ہوگئے۔۔۔۔

"چائے لو بیٹا!!!!

اور افگن تم خالی چائے لایا ہے بس؟؟؟

خان بابا نے منہاء کو اشارہ دینے کے بعد اپنی توپ کا رخ افگن کی جانب کیا۔۔۔"

جانتا ہے ناں یہ آہل خان کا مہمان ہے اگر اس کو پتہ چلا ناں!!!

"انکل چچا کو مت ڈانٹے میں نے ہی انہیں بس چائے کا ہی کہا تھا۔۔۔"

منہاء نے گل افگن کا اترا چہرہ اور خان بابا کا سخت رویہ دیکھا تو فورا گو ہوئی۔۔۔۔

"آپ جاؤ چچا اور بہت شکریہ!!!

چائے بہت اچھی بنی ہے!!!"

منہاء نے ایک چسکی بھرے تریف کی۔۔۔۔

جس پر گل افگن نے پرمسور مسکراہٹ منہاء کی جانب کی جبکہ منہ بسورتے خان بابا کو گھورتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔

"تم اس کو خراب کر رہا ہے منہاء!!!!

یہ بس ہم سے سیدھا رہتا ہے۔۔۔۔

ورنہ تو سب کے سر پر یہ ناچے!!!!"

"کوئی بات نہیں انکل۔۔۔۔

تھوڑا سا خراب ہونے دے کیا پتہ مکمل صیحح ہوجائے۔۔۔"

منہاء نے چائے کی چسکی بھرے مسکراہٹ دی۔۔۔

کچھ دیر یونہی خاموش چائے پینے میں مصروف رہے مگر منہاء جو بات کرنے کی غرض سے ہی ائی تھی بلآخر بول ہی پڑی۔۔۔۔

"انکل آپ پلیز آہل کو فون کر کے کہے کہ مجھے جانے دے!!!!

وہ ایسے کیسے مجھے یوں قیدی بنا کر رکھ سکتا ہے؟؟؟؟"

منہاء خان بابا کے سامنے التجائی انداز آور ہوئی۔۔۔۔

"اس کو کسی بھی قسم حق نہیں پہنچتا کہ وہ مجھے حبس بجا میں رکھیں!!!!!"

"ہماری بات سنتا ہوتا تو نوبت کبھی بھی یہاں تک نہ آتی!!!"

خان بابا نے بے بس سے ہوئے۔۔۔۔

"ہم کوشش کرسکتا ہے بس یقین نہیں دلا سکتا تم کو کسی بھی قسم کی۔۔۔۔

کہ وہ ہماری سنے گا بھی!!!"

"یہ شخص ایسا کیوں ہے انکل!!!؟؟؟"

منہاء اپنا سر جکڑے غرائی۔۔۔

جبکہ خان بابا بس کندھے اچکائے سوالیہ انداز ہوئے۔۔۔۔

کہ تبھی ان کی نظر سامنے سے آتے آہل پر پڑی جو ان دونوں کو وہی بیٹھ دیکھ کر ان کی جانب آرہا تھا۔۔۔۔

"کیسا؟؟؟؟

کیسا لگتا ہے ہم کو آہل؟؟؟"

خان بابا جو آہل کو دیکھ کر شرارتی انداز سے دوبارہ سوالیہ ہوئے تھے متحیر ہوئے۔۔۔

"میرے خیال سے ٹھیک ہی تو ہے جیسا بھی ہے!!!!"

جبکہ آہل جو خان بابا کا سوال سن کر تجسسی انداز سے منہاء کے پیچھے رک گیا تھا اب منہاء کے جواب کا منتظر بازووں باندھے اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔

"انکل اب آپ تو ایسا مت کہے کہ وہ ٹھیک ہے۔۔۔

عجیب جنگلی سا انسان ہے وہ۔۔۔۔

نہ پتہ ہنستے کیسے ہیں اور نہ ہی پتہ کہ سامنے والے سے بات کیسے کرتے ہیں!!!!؟؟"

منہاء کا لہجہ سنگین شدتی تھا جبکہ وہ مٹھیاں بھینچے بول رہی تھی۔۔۔

"مجھے تو لگتا ہے بناء تاثرات بناء احساسات کا انسان ہے وہ!!!

عجیب سا!!!"

منہاء برا سا منہ بسورے بولی۔۔۔

"سنگین سنگدل اور ظالم انسان!!!!

یہ تو آپ نے کہا ہی نہیں مجھے!!!"

آہل جو دونوں بازووں باندھے پیچھے سپاٹ تھا متحیر ہوا۔۔۔

"ہاں بلکل یہی تین الفاظ!!!!"

سنگین سنگدل اور ظالم!!!!"

منہاء جو پرجوش ہوتے مڑی تھی اہل کو سپاٹ کھڑے دیکھ کر الفاظ منہ میں ہی مدہم ہوگئے۔۔۔۔

"بہت ہی نیک خیالات ہے ویسے آپ کے"

آہل دو قدم آگے بڑھائے بولا۔۔۔

" مگر انسان کہنا بھول گئی ہے آپ!!!!"

"کیا؟؟؟؟"

منہاء جو آہل کو یوں کھڑا دیکھ کر ابھی بھی حیرت ذدہ تھی مدہم ہوئی۔۔۔۔

"آپ نے مجھے کہا ناں ابھی سنگین، سنگدل اور ظالم ۔۔۔۔"

آہل انگلیوں پر گنتے تاسف ہوا۔۔۔

جس کے جواب پر پہلے تو منہاء نے نفئ میں سر ہلایا اور پھر جب آہل کی گھوری دیکھی تو حامی میں سر ہلائے پھٹی انکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔

"ظالم کے ساتھ انسان نہیں لگایا تھا ۔۔۔۔

یا پھر مجھے آپ انسان کہلانے کے قابل بھی نہیں سمجھتی!!!!"

آہل اب منہاء کے روبرو دلکش انداز سے کھڑا ہوا۔۔۔

"ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔" 

منہاء نے آہل کی خود پر گھرتی نظروں کو محسوس کیا تو تیزی سے گزرتے خان بابا کی جانب ہوئی ہی تھی..... 

کہ تبھی آہل نے منہاء کو چوری آنکھ سے بھاگتا دیکھا تو فورا اس کی کلائی کو اپنے مضبوط گرفت میں تھامی اور اسے اپنی جانب جھٹکے سے کھینچا...... 

کہ منہاء جو آہل کی طاقت پر پنکھری کی مانند اس کی جانب اڑی آہل کے سینے سے ٹکراٹتے بچی...... 

"کیا مسئلہ ہے آپ کو؟؟؟؟

کیوں بار بار میرا ہاتھ تھام لیتے ہو؟؟؟"

منہاء آہل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اپنا ہاتھ کھینچتے چلائی۔۔۔

"اگر چاہیے تو بتا دو کاٹ کر ہی دے دیتی ہو!!!"

"ہاتھ نہیں تم چاہیے۔۔۔۔

اور اگر اتنا ہی مسئلہ ہے تو ایک بار ہی کیوں نہیں تھما دیتئ ہو مجھے اپنا یہ ہاتھ!!!

کہ مجھے بار بار پکڑنے کی ضرورت ہی نہ پڑے!!!!"

آہل جو منہاء کے چہرے پر چھائی بیچینی کو دیکھ کر بیگانگی سے گو ہوا تھا۔۔۔

خان بابا سمیت منہاء بھی اب پھٹی سکتے بھری انکھوں سے اسے گھورنے لگی۔۔۔۔

"کیا کہا؟؟؟"

منہاء سوالیہ نظروں سے آہل کے چہرے کی اطمینانیت دیکھتے سوالیہ ہوئی.....

"کیا مطلب آپ کی اس بات کا؟؟؟"

"سمجھا دو گا...

میں اپنی ہر بات سمجھا دونگا تمہیں....

مگر ابھی چلوں میرے ساتھ...."

آہل منہاء کی کلائی پر اپنی گرفت بڑھائے مین دروازے کی جانب بڑھا.....

"مجھے نہیں جانا کہیں بھی تمہارے ساتھ.....

چھورو میرا ہاتھ.....

انکل روکے اسے......

اسے کہے چھوڑے میرا ہاتھ....."

منہاء اپنا ہاتھ کھینچتے بری طرح چلائی....

جبکہ خان بابا بھی مبہوت ہوتے ان کے پیچھے کو چلے.....

"کیا کرتا ہے تم آہل؟؟؟

چھوڑو بچی کا ہاتھ ابھی اسی وقت!!!"

"میں آپکی بچی کو کھا نہیں جاؤ گا یقین جانیے!!!"

آہل جو خان بابا کی آواز پر مڑا تھا منہاء کے چہرے کی جانب دیکھتے مسکرایا....

"آپ کو اپکی بچی زندہ صیحح سالم ملے گی!!!

مگر ابھی مجھے جانے دے!!!"

"ہم کو تم ویسے بھی انسان خور لگتا ہے.....

تو ہم کو تم پر یقین نہیں...."

خان بابا نے آہل کی گرفت سے منہاء کے ہاتھ کو چھڑواتے بولے۔۔۔۔

بہتر ہے چھورو اس کا ہاتھ ابھی اسی وقت....

اور تم کو جہاں جانا جاؤ۔۔۔"

منہاء خان بابا کی بات سن کر حامی میں سر ہلائے معصومیت تاثر ہوئی۔۔۔

میں تو" لے کر جاؤ گا۔۔۔۔

اور ابھی ہی لے کر جاؤ گا۔۔۔۔

روک سکتے تو لے آپ۔۔۔۔

یا یہ روک سکتی مجھے تو کر لے کوشش۔۔۔۔"

آہل فخریہ انداز ہوا اور پھر سے آگے کو بڑھتے منہاء کو اپنے ساتھ کھینچتے لے کر باہر کی جانب بڑھا۔۔۔

خان بابا جو آہل کے اس جاہلانہ انداز کو دیکھ کر تلملا سے گئے تھے اسکے پیچھے کو بھاگے۔۔۔۔

جبکہ آہل منہاء کو گاڑی کی اگلی سیٹ پر پھینکتے ہی فورا اپنے نشست کی جانب بھاگا۔۔۔۔

اور اس سے پہلے منہاء گاڑی سے باہر نکلتی آہل نے گاڑی کو اندر سے لاک کیا اور اب واپس منہاء کی کلائی کو تھامتے ایک ہاتھ سے گاڑی اسٹارٹ کی  جو مسلسل اپنا ایک ہاتھ شیشے پر مارتے خان بابا کو دیکھ کر چلا رہی تھی۔۔۔۔

خاموش ہوسکتی ہو کچھ دیر کہ نہیں؟؟؟؟"

" آہل منہاء کی کلائی کو دبوچتے چنگارا.... 

"نہیں!!!!!! "

منہاء نے آہل کا عتاب محسوس کیا تو آہل کی بازووں پر شدت اور َدباؤ سے دانت گاڑھے سنگین ہوئی.... 

مگر آہل جو منہاء کی اس حرکت کو دیکھ کر اسے کے چہرے پر بکھرتے بالوں کو چھونے لگا تھا.... 

منہاء فورا اس سے پیچھے کو ہوتے مبہم ہوئی اور پھر اس کے بازو پر اپنے دانتوں کے نشان دیکھنے لگی جس سے اب خون بھی رس رہا تھا جبکہ آہل کے چہرے پر بکھری مسکراہٹ اس کی تکلیف کو عیاں ہونے نہیں دے رہی تھی.... 

"بہت ہی بیوقوف لڑکی ہو تم منہاء!!!!! "

آہل اپنے بازو پر موجود نشان پر اپنے ہاتھ کو پیار سے رکھے سہلاتے مسکرایا.... 

"پٹھان کا ہاتھ ہے جس میں خون نہیں فولاد بہتا ہے... "

آہل گاڑی اسٹارٹ کرتے مسکرایا جبکہ منہاء اسے ششدر نظروں سے گھورنے لگی...... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء بے جان سی بیٹھی اپنی نشست پر باہر کے منظر کو دیکھ رہی تھی......

جبکہ آہل تھوڑی تھوڑی دیر بعد منہاء کی کلائی پر جان بوجھ کر دباؤ ڈالتا تاکہ منہاء کچھ بولے اور آہل کو اس سے جنگ کرنے کا موقع ملے.........

"ویسے کیسا ہو ناں!!!" 

آہل اونچی آواز سے بولا....

جبکہ منہاء نے مکمل نظر انداز کیا...

"تمہاری شادی مجھ سے ہوجائے اور پھر مجھے تم سے محبت!!!!!" 

منہاء جو بے تاثر سی بیٹھی تھی آہل کی بات سنی تو فورا اسے خالی نظروں سے گھورنے لگی......

"سن کر ہی اتنا گندہ لگ رہا ہے......

اور جو سننے میں ہی عجیب ہو اسے سوچنا بھی نہیں چاہیے...." 

منہاء اپنی کلائی کو ایک بار پھر سے کھنچتے بپھڑی مگر پھر سے ناکام رہی......

"سوچنے پر پابندی نہیں ہے......

بلکہ میں تو یہ بھی سوچ رہا ہو کہ کہیں تمہیں مجھ سے محبت ہی نہ ہوجائے....."

آہل گہری مسکراہٹ ہوا.....

جبکہ منہاء نے سنا تو بے بسی سے اپنا ہاتھ دیکھتے روہانسی ہوئی.....

"مجھے بس اتنا بتا دے....

مجھے کب آذادی ملے گی آپ سے!؟؟؟" 

" ویسے تو کچھ دیر میں!!!

ورنہ سچ پوچھوں تو کبھی بھی نہیں..."

اہل کی آنکھوں میں اب محبت کا سمندر ٹھاٹھے مارتا صاف دکھائی دے رہا تھا....

جو منہاء کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہا تھا....

یہ" لو آگئے ہیں ہم اپنی منزل پر...

اور مل گئی آذادی تمہیں...."

آہل نے گاڑی ایک ریسٹورنٹ کے سامنے روکی اور منہاء کی کلائی کو اپنی گرفت سے آذاد کیا...

"اب جلدی سے باہر نکلوں اور چلوں میرے ساتھ اندر.... 

اس سے پہلے ہم لیٹ ہوجائے..." 

"مجھے آپ کے ساتھ کہیں نہیں جانا.... 

اور کیوں لائے ہیں مجھے یہاں پر؟؟؟؟ "

منہاء نے آہل کی بات سنی تو فورا اپنی کلائی تھامی تو اسے سہلانے لگی.....

"دل کر رہا تھا تمہارے ساتھ رومینٹک ڈنر کرنے کا...... 

تو آجاؤ تھوڑا رومانس ہوجائے.. "

آہل منہاء کو چڑھاتے گاڑی سے باہر نکلا اور منہاء کی جانب ہوا....

" کیا مصیبت ہے یہ شخص؟؟؟؟ 

کبھی سہی جواب نہیں دیتا مجھے.... 

اللہ ہی جانے کے کیوں لایا ہے مجھے اب یہاں؟؟" 

منہاء مبہم. سی ہوتی خود کلام ہوئی.... 

" خود سے باتیں بعد مین کر لینا ابھی باہر نکلو فورا.... 

ورنہ اب میں گود مین اٹھا کر لے جاؤ گا پھر نہ کہنا مجھے... "

آہل سنگین ہوا تو منہاء فورا باہر کو آ نکلی..... 

" شاباش!!! "

آہل نے منہاء کی پھرتی دیکھی تو دبی مسکراہٹ ہوا.... 

" پہلی بار تم مجھے شدت کی اچھی لگی ہو... "

" اور آخری بار بھی!! "

منہاء بے ضرار ہوتے آگے کو ہوئی تو آہل مسکراتے ہوئے اس کے پیچھے کو چل پڑا اور دونوں اندر داخل ہوئے.. ...

جہاں پہلے سے ہی ایک شخص ان کے انتظار مین موجود تھا..... 

آہل نے اسے دیکھا تو فورا منہاء کو اپنے ساتھ لیے اس کے پاس چل پڑا..... 

" یوسف یہ ہے وہ جنھیں تم اپنے ساتھ لے کر جاؤ گے اس روم میں..... 

اور دھیان رکھنا ساری آواز اور ویڈیو صاف صاف سنائی دے انہیں.." 

آہل یوسف کو ہدایت دے رہا تھا جبکہ منہاء ناسمجھی سے دونوں کو دیکھ رہی تھی..... 

کہ تبھی آہل کا فون بجا... 

"آگیا ہے اسکا فون.... 

یوسف لے جاؤ اسے فورا.... 

اور منہاء جو بھی یہ کہے فورا کرنا....... "

آہل منہاء کی آنکھوں میں اٹھتے کئی سوالات کے سمندر کو دیکھتے ہی بولا اور پھر کہتے ہی فورا وہاں سے آگے کو بڑھا...... 

" کیونکہ میں جو بھی کررہا ہو تمہاری بھلائی کیلئے ہی کررہا ہو... 

تو زیادہ نہیں تو تھوڑا یقین رکھو مجھ پر!!! "

جبکہ منہاء جو تذبذب کا شکار تھی آہل کو یوں جاتا دیکھ کر اس کے پیچھے کو ہوئی.... 

"مس پلیز آپ وہاں مت جائیے آپ آئیے میرے ساتھ!!!! 

میں اپکو ریکارڈ روم میں لے چلتا ہو... 

جہاں آہل سر نے کہا تھا....." 

یوسف کہتے ہی آگے کو چلا جبکہ منہاء تذبذب سی ہوتی ان کے پیچھے کو ہوئی...... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

بلال پہلے سے ہی میز پر بیٹھے آہل کا انتظار کررہا تھا جب آہل کو آتے دیکھتے ہی وہ اس کی جانب مصاحفہ کی غرض سے بڑھا..... 

" آپ بہت لیٹ ہوگئے ہیں آج.... 

مجھے انتظار کرتے ہوئے آدھا گھنٹہ ہوگیا ہے...." 

بلال اپنی گھڑی کو دیکھتے بدمست ہوا.. 

"اب میری تمہاری طرح دو ٹکے کی نوکری نہیں ہے کہ ایک فکس ٹائم ہو ایک چلتا بھاگتا بزنس ہے جہاں میری ہر وقت ضرورت رہتی ہے ....." 

آہل طنزیہ ہوا...... 

" وہ تو ٹھیک ہے آپ بتائے آپ نے مجھے یہاں کیوں بلایا ہے اب؟؟؟ 

جو بھی تھا سب ہو تو گیا ہے؟!!!! 

اب پھر اس ملاقات کی وجہ؟؟؟؟ "

بلال سوالیہ ہوا... 

جبکہ آہل نے جواب دینے سے پہلے ویٹر کو اشارہ دیا..... 

" پہلے کچھ آرڈر کر لیا جائے.... 

باتیں تو ساتھ ساتھ ہوتی رہے گی!!! "

آہل نے ویٹر کو اشارہ دیا جس پر وہ وہاں سے چلتا بنا.... 

" اچھا تو بات کچھ یوں ہے کہ مجھے ایک بات سمجھ نہیں آرہی ہے!!!!! 

اگر تم چاہو تو مجھے اچھے سے سمجھا دو.... 

کیونکہ جب تک مجھے سمجھ نہیں آئے گی مین چیک کیش نہیں کروا سکتا تمہارا پچاس لاکھ کا جو مین نے تمہیں دیا تھا منہاء سے شادی نہ کرنے پر!!!!" 

آہل صاف گو ہوا...... 

جبکہ بلال نے چیک کا سنا تو فورا چوکس ہوا... 

" کیوں نہیں کیوں نہیں..... 

آپ پوچھیے آپ کیا سمجھنا چاہتے ہیں.... 

ہوسکا تو سب سمجھا دونگا اپکو..... *

بلال متحیر ہوا..... 

"تم منہاء سے سچ مین محبت کرتے تھے یا کوئی اور وجہ؟؟؟؟ 

کیونکہ اگر محبت کرتے تو میرے منہ پر چیک مار دیتے اور منہاء کو اپناتے مگر تم نے تو!!!" 

آہل بولتے بولتے چپ ہوا....... 

"سوال تھوڑا مشکل ہے مگر جواب بہت آسان ہے....." 

بلال نے سنا تو شکن زدہ ہوا.... 

"منہاء سے محبت تھی مجھے..... 

مگر محبت سے زیادہ مجھے عزت چاہیے تھی جو کہ اب اس کے دامن میں نہیں..... 

اور ویسے بھی محبت سے پیٹ نہیں بھرا جاتا....

اور یہ بعد اس سے دور ہونے کے بعد سمجھ مین آئی ہے وہ بھی اچھے سے.... "

" ہممممم!! 

یہ تو ہے محبت سے پیٹ نہیں بھرا جاتا..... 

مگر پھر بھی اگر اس سے اتنی محبت تھی تو تھوڑا سا تو یقین کرتے اس پر!!!!! 

کیا پتہ وہ تمہارے حق مین اچھی ہوتی!!!!! "

آہل نے ایک اور چوٹ بھری..... 

" ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ میرے حق میں اچھی ہوتی.…"

بلال سامنے پڑی پانی کی بوتل لیے گلاس بھرے انڈیلتے بولا.... 

جبکہ اہل تو بس اس کے ہر جواب کو سن کر چسکے بھر رہا تھا..... 

" دراصل میری امی کو تو شروع سے ہی یہ ناپسند نہیں تھی.... 

بہت ہی بدماغ اور بدتمیز لڑکی ہے یہ....

وہ شروع سے ہی مجھے سمجھاتی تھی مگر یہ!!!! 

وہ تو شکر ہے میری اس سے شادی نہیں ہوئی ورنہ ناجانے کیا حال ہوتا میرے گھر کا!!! 

کیونکہ یہ گھر بسانے والوں مین سے نہیں.... "

آہل بدگوئیاں کررہا تھا جبکہ اہل پرسکون سن کر مسرور ہوا.. 

" بلکہ اپکو پتہ ہے اس کی زبان اس قدر خراب کہ کیا بتاؤں اپکو اور اس کی زبان ہی اس کی ماں کی موت کی وجہ بنی اور کچھ نہیں..... 

ویسے میرے خیال سے مرنا آنٹی کو نہیں بلکہ اسے چاہیے تھا..... 

خیر اب بھی کونسا سکون مین ہوگی..." . 

بلال پر اطمینان انداز آور ہوا.... 

جبکہ آہل جو یہ سب سن کر تلملا سا گیا تھا اپنے دونوں ہاتھوں کو مٹھی میں بھینچتے خود کو کنٹرول کرنے لگا..... 

کہ تبھی ویٹر کھانا لیے سیدھا ان کی ٹیبل پر پہنچے اور کھانا سیٹ کرنے لگے.... 

بلال جو کھانے کو کمینگی نظروں سے دیکھ رہا تھا فورا کھانے پر ٹوٹا.... 

آہل جو یہ سب ہمت سے برداشت کررہا تھا  صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو کوٹ جھارتے اٹھ کھڑا ہوا.... 

"آپ کہاں؟؟؟ 

کھانا نہیں کھائے گے کیا؟؟؟؟" 

بلال جس کا منہ نوالوں سے اٹا ہوا تھا بمشکل گو ہوا... 

"نہیں بھوک نہیں مجھے..... 

تم کھاؤ سکون سے میں بل پے کردیتا ہو تمہارا....." 

آہل اپنا سامان آٹھاتے وہاں سے تیزی سے چل پڑا.... 

"اور کل آفس آنا میں تمہارے چیک پر کام کروا دونگا.... "

جبکہ بلال کیلئے یہ سب اب مال غنیمت کی مانند تھا جس پر وہ اب بے دریغ ٹوٹ پڑا تھا..... 

آہل اپنی آنکھوں کو کالے چشموں سے چھپائے ریکارڈنگ روم مین داخل ہوا..... 

تو سامنے سر پکڑے بے سود بیٹھی منہاء کو دیکھا جس کے چہرے کے رنگ فق ہوگئے تھے...... 

جبکہ وہ اب بناء کسی قسم کے تاثر دیے آہل کو دیکھتے ہی اٹھ کھڑی ہوئی اور خاموشی سے سفاک نظروں سے دیکھتے اس کی جانب بڑھی...... 

"چلے گھر..... "

منہاء مدہم ہوئی تو آہل نے بس حامی میں ہلایا جس پر منہاء آہل کے پاس سے گزرتی دھیمے وجود کو لیے باہر کو نکلی جبکہ آہل اردگرد نظر دہرائے اس کے پیچھے چل پڑا... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

پورے راستے منہاء سیٹ سے سر ٹکائے مسلسل خاموش بیٹھی رہی..... 

جبکہ آہل بار بار منہاء کو دیکھتا مگر منہاء کے سپاٹ تاثرات دیکھ کر پھر افسردگی سے سامنے نظریں جمائے گاڑی چلانے لگتا.... 

"ایسا میرے ہی ساتھ کیوں؟؟؟ *

منہاء جو ایک لمبی خاموشی کے بعد مدہم ہوئی تھی آنکھ سے بہتا ایک آنسوں منہاء کی گال کو تر گیا..... 

جبکہ آہل نے منہاء کو یوں بکھرتے دیکھا تو پھر سے چشمہ اپنی آنکھوں پر چڑھا لیا تاکہ آنکھوں میں جھلکتی نمی کو چھپا سکے..... 

"وہ تمہارے قابل ہی نہیں تھا..... 

تبھی تمہاری قیمت مجھ سے لے گیا..." 

اہل بلال کے خلاف بھڑکا.... 

"اور تم ہو کہ ایسے شخص سے شادی کرنا چاہتی ہو جو تمہاری عزت سمجھنا تو دور نام بھی حقارت سے لیتا ہے...." 

"وہ ایسا تو نہیں تھا!!!!!" 

منہاء حواس باختہ ہوئی..... 

"وہ ایسا ہی تھا تم نے اسے کبھی اس کی اصلیت دیکھی ہی نہیں..... 

مگر اب سب کچھ تمہارے سامنے ہے اور سب تمہارے حق میں ہے.... 

جو بہتر جانو کرو اب..…"

اہل سنجیدہ ہوا...... 

"مجھے میرے گھر جانا ہے پلیز مجھے میرے گھر چھوڑ دو آہل......" 

منہاء جو بلال کی باتیں سن کر ٹوٹ سی گئی تھی آہل کے سامنے ہاتھ جوڑے رو پڑی..... 

"نہیں......" 

جس پر اہل نے نفی میں سر ہلایا اور واپس اپنی توجہ سامنے سڑک کی جانب کی..... 

منہاء اپنے جڑے ہاتھوں کو خود سے لگائے رو رہی تھی..... 

جبکہ اہل جس کی آنکھ مین آئی نمی اب گال پر گری تھی فورا اسے صاف کرتے وہ سنجیدہ ہوا..... 

"افگن!!! 

افگن!!!" 

خان بابا جو آہل اور منہاء کے انتظار میں مسلسل گھڑی پر نظر دہرانے کے بعد اپنے سینے میں تکلیف محسوس کرتے آواز آور ہوئے تھے کمرے میں ٹہلتے اپنا سینہ مسلنے لگے..... 

"جی صاحب جی!!!! 

آپ نے بلایا!!!!" 

گل افگن جو آواز سنتے ہی کمرے میں داخل ہوا تھا گو ہوا..... 

"کچھ چاہیے اپکو ؟؟؟" 

"نہیں کچھ نہیں چاہیے ہم کو!!! 

تم بس یہ بتاؤ کہ آہل منہاء کو لے کر ابھی تک واپس آیا ہے کہ نہیں؟؟؟؟" 

خان بابا جن کے چہرے پر اب تکلیف کی وجہ سے پسینہ نمودار ہوگیا تھا بیڈ پر بیٹھتے ہانپے.…

"نہیں صاحب جی وہ تو ابھی تک نہیں آئے مگر مجھے آپکی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے.... "

افگن جو خان بابا کی حالت دیکھتے ہی ان کی جانب بڑھا تھا پانی کا گلاس بڑھاتے مبہم ہوا...... 

" کیا ہوا ہے سب ٹھیک تو ہے ناں صاحب جی!!!" 

"ٹھیک ہے ہم!!!! 

بلکل ٹھیک!!!!" 

خان بابا نے پانی کا گلاس ایک سانس میں انڈیلا اور گہرے سانس بھرتے اپنے بستر پر لیٹ گئے.... 

"کچھ نہیں ہوا ہمیں!!! "

"نہیں صاحب جی آپ ٹھیک نہیں ہے..... 

میں ابھی ڈاکٹر کو فون کر کے بلاتا ہو.... "

افگن پریشان ہوتے دروازے کی جانب ہوا.... 

" یہ نہ ہو کہ طبیعت اور بگڑ جائے!!! "

"تم کو ہماری بات سمجھ نہیں آتی ہے کیا خانہ خراب کا بچہ!!!!" 

خان بابا غصے سے چیخے تو گل افگن واپس ان کی جانب پلٹا.... 

" ہم ٹھیک ہے.... 

بلکل ٹھیک ہے... 

تم بس ہمیں ان کی اطلاع دو آ کر...." 

خان بابا کھانستے ہوئے بمشکل گو ہوئے.... 

" اور خبردار ان کو کچھ بھی بتایا... 

ورنہ ہم تمہارا کچومر بنا دے گا اور کتوں کو کھلائے گا....." 

خان بابا کی للکار سنی تو افگن سر خم کیے واپس کمرے سے باہر چلا گیا.... 

" کہاں رہ گیا ہے یہ چنگیز خان کی اولاد؟؟؟؟ 

ناجانے کیا قیامت ڈھا رہا ہوگا اس معصوم پر !!!! "

خان بابا زیر لب بڑبڑائے پریشان ہوئے.... 

" اللہ ہی جانے کب اس بند دماغ لاوے کو عقل آئے گا...." 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل نے گاڑی گیراج میں پارک کی تو نظر ساتھ بیٹھی منہاء پر پڑی....

جو دونوں ٹانگیں سیٹ پر چڑھائے سر نیچے ٹکائے  بلکل خاموش بیٹھی تھی...

آہل پہلے پہر تو منہاء کو یوں بیٹھے دیکھتا رہا مگر پھر بڑھتی خاموشی کی طول کو دیکھتے ہی گلہ کھنگالے بولا......

"مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم بلال کی اصلیت کو جان کر اس قدر اثر لوگی.….

کہ نوں و کناں پر ہی اتر آؤ گی!!! "

آہل جو اچک انداز ہوا تھا منہاء نے  سنا تو سر اٹھائے آہل کو اپنی سرخ اور سوجھی آنکھوں سے حقارت نظر دیکھنے لگی جو اس کی صدیوں کے ماتم کا ثبوت تھی.....

"مگر مجھے جو بہتر لگا میں نے کیا!!!!

اور آگے بھی وہی کرونگا جو مجھے بہتر لگے گا!!! "

آہل برجستگی ہوا جبکہ منہاء اپنا چہرہ صاف کرتے سیدھے ہوتے بیٹھ گئی...

"اور ویسے بھی تمہارا اس کی اصلیت جاننا بہت ضروری تھا....

تمہیں تو شکر گزار ہونا چاہیے کہ میں نے تمہیں اس سے بچایا!!! 

کیونکہ جو شخص آج تمہیں پچاس لاکھ میں مجھے بیچ سکتا ہے اس سے کسی بھی قسم کی امید لگائی جا سکتی ہے......"

" تو بہتر ہے اس کو بھولو اور آگے بڑھو..

یہ تمہارے لیے بھی بہتر ہے اور اردگرد والوں کیلئے بھی!!! ...." 

آہل منہاء کے چہرے کو دیکھ کر َمتحیر ہوا جس کے چہرے کے تاثرات اب یکسر بدل رہے تھے....

" لگتا ہے کوئی جواب نہیں دوگی تم.... 

ٹھیک ہے مرضی ہے تمہاری!!!!" 

آہل نے منہاء کی خاموشی دیکھی تو کندھے اچکائے باہر کی جانب نکل پڑا!!!! 

*میں جارہا ہو اندر !!! 

اگر تمہارا صدمہ ختم ہو جائے تو تم بھی اندر آجانا...

دادا انتظار کررہے ہونگے ہمارا...."

آہل طنزیہ انداز ہوتے آرام سے کہتا آگے کو بڑھا.. 

"ہاں میری مرضی!!!!!" 

جبکہ منہاء جو آہل کی بات سن کر طنزیہ مسکراہٹ ہوئی تھی ایک الگ ہی کچھری لیے گاڑی سے باہر نکلی اور گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگائے بدمست انداز ہوئی!!!! 

" اب مجھے سب سمجھ میں آرہا ہے مسٹر آہل ....

وہ سب کچھ جس کو سوچتے سوچتے میری رات کٹ جاتی تھی مگر مجھ بیوقوف سمجھ ہی نہیں پاتی تھی...." 

منہاء جو سنگین ہوتے خود پر ہنستے آہل کو آواز بھرتے چلائی آہل سنتے ہی رکا اور اس کی جانب استفہامی نظروں سے دیکھنے لگا... 

" کیا مطلب؟؟؟؟

کیا سمجھ میں آگیا ہے تم بیوقوف کو؟؟؟"

آہل نے منہاء کی بات کو ہی طنز بنایا....

" جو یوں بے وجہ چیخ رہی ہو؟؟؟" 

"یہی کہ کیوں مجھ پر مہربانی کی جاتی تھی؟؟" 

منہاء دھکتی انگاری نظروں سے آہل کو گھورتے اس کے روبرو ہوتے شدت ہوئی....

"کیوں مجھ پر جاسوس چھوڑے گئے تھے..؟؟

اور کیوں مجھے زبردستی یہاں قید کیا جارہا ہے؟؟؟؟" 

منہاء نے ویلہ کی جانب بدمست ہوتے اشارہ کیا..... 

"یہ تو بہت اچھی ہے بات!!!!"

آہل نے منہاء کی بات سنتی تو دلکش مسکراہٹ لیے منہاء کے قریب ہوا...

"کہ مجھے کچھ کہنا نہیں پڑا اور تم سب کچھ سمجھ گئی..." 

"ہاں بالکل!!!" 

منہاء جو آہل کی مسکراہٹ اور اطمینانیت کو دیکھ کر مزید جل بھن سی گئی تھی سناٹ ہوئی..

" بلکل سب کچھ ہی سمجھ گئی اور بہت اچھے سے سمجھ گئی..

کہ آپ کیسے اپنی خریدی ہوئی چیز کو یوں چھوڑ سکتے تھے؟؟؟

کیسے اسے آزادی کی زندگی گزارے دیکھ سکتے تھے...؟؟ ."

منہاء جو عقب آلود نظروں سے آہل کو دیکھ رہی تھی اپنے بال نوچتے روتے چلائی...

جبکہ آہل جس کے چہرے کی مسکراہٹ منہاء کی بات سنتے ہی اڑ سی گئی تھی اپنا سر تھامے دو قدم پیچھے کو ہوا....

" تم کس قدر بیوقوف ہو تم جانتی بھی ہو؟؟؟"

آہل دانت چبائے شدت ہوئی.....

" کیا بکواس کررہی ہو معلوم بھی ہے کچھ تمہیں ؟؟؟؟ "

"جانتی ہو!!!!

سب جانتی ہو میں!!!

کہ کیسے دو مردوں نے میری بولی لگائی!!! 

کہ کسطرح میں ایک چیز کی مانند فروخت ہوگئی...." 

منہاء خود کو نوچتے چنگاری.... 

" ایک میرا خریدار بن گیا تو ایک میرا فروختکار!!! 

اور پھر میں بک گئی..."

منہاء اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں. سے  چھپاتے رونے لگی.....

" اور پھر منہاء بک گئی.... "

جبکہ آہل منہاء کی بے تکی باتوں کو سن کر دونوں بازوؤں باندھے اسے سپاٹ نظروں سے دیکھنے لگا....

"بہت ہی فضول بولا ہے تم نے ابھی منہاء...

جسے سن کر دل کیا کہ منہ توڑ دو مگر!!!" 

آہل دانت پسیجتے انگارہ

"مگر کیا مسٹر آہل؟؟؟

کیا مگر!!!!"

منہاء آہل کی دھمکی سنتے اس کے گریبان کو جکڑے سنگین ہوئی...

"آپ تو کچھ بھی کر سکتے ہیں ناں اب!!!

اپ تو میرے مالک ہے....

اور میں آپکی غلام!!!!"

منہاء سفاک ہوئی جبکہ آہل منہاء کی دونوں بازوؤں کو تھامے اسے روکنے لگا.... 

"اور اب اپکا جب چاہے گا مجھے زلیل کرے گے اور جب چاہے گا تو دل بہلانے کیلئے استعمال..... "

منہاء نے دھکا بھرتے آہل کو پیچھے کیا اور خود شدت ہوتے روتے ہوئے وہی ٹہلتے خود کو پرسکون کرنے لگی.... 

جبکہ آہل جو تب سے ضبط کیے کھڑا تھا متلاطم ہوتے گاڑی کے ٹاہیر کو ٹانگ مارتے غیظ و غضب ہوا اور پھر سامنے کھڑی منہاء کی جانب بڑھا..... 

" سمجھتی کیا ہو تم خود؟؟؟؟" 

آہل نے منہاء کو بازو سے جکڑتے اپنی جانب کھینچا اور دونوں بازوؤں سے تھامے اسے اپنے قریب کیا....

کہ اس کے چہرے پر بکھرے پسینے کے ننھے قطرے اس جھٹکے سے منہاء کے چہرے پر جا گرے جو اب اس جلاد کو پھٹی سہمی آنکھوں سے گھور رہی تھی...

"بولو!!!! 

کیا سمجھتی ہو خود کو؟؟؟؟ "

"کب سے تمہاری بکواس سن رہا ہو مگر مجال ہے تم نے کچھ بھی اچھا بولا ہو... 

جب دل آیا بکواس کردی....

جب دل آیا چیخنے لگی!!!! 

کبھی اس دماغ کا استعمال کیا بھی ہے تم نے؟؟؟؟" 

آہل منہاء کے سر پر تھپکی بھرے غصیل ہوا...

"ہاں مانتا ہو کہ میں نے جاسوس لگائے تھے تمہارے پیچھے!!!!

مگر صرف تمہاری حفاظت کی وجہ سے....*

آہل منہاء کو جھنجھورتے بولا جبکہ وہ بس آہل کے چہرے پر بکھری پریشانی کو دیکھنے لگی....

"اور جب پھر مجھے محسوس  ہوگا تب پھر لگاؤ گا!!!! 

اور بار بار لگاؤ گا!!!! 

کیونکہ میں!!!!!" 

آہل جس کی دل کی بات زبان پر آتے آتے رکی تھی منہاء استعجابی نظروں سے آہل کے دھیمے نرم لہجے کو محسوس کرتے اسے دیکھنے لگی.... 

آہل جو منہاء کی استفہامی سوالیہ نظروں میں آگیا تھا فورا اپنا چہرہ تھامے پیچھے کو ہوا اور پھر سے ایک بار منہاء کی جانب خونخواری انداز سے بڑھا اور ایک بار پھر اسے اپنے قریب تر کھینچتے مدہم ہوا... 

" اگر تمہیں استعمال ہی کرنا ہوتا ناں مجھے منہاء!!! 

تو یقین جانو کوئی طاقت نہیں اس جہان میں سوائے اللہ کے جو. مجھے تمہیں چھونے سے روک سکتا..... *

آہل نے منہاء کے چہرے کو چھوتے اسے پیچھے کی جانب دھکا بڑھا کہ وہ پیچھے کو گرتے گرتے سنبھلی.....

" تو بہتر ہے اپنی گندی سوچ کو بدلو!!!! 

اور طریقے سے رہو.…..

کیونکہ میں آہل خان ہو بلال یا سلیم نہیں جس کو تمہارے جسم کی حوس ہو......"

آہل اشتعال انگیز ہوتے منہاء پر بھڑکا اور پھر لمبے ڈاگ بھرتے اندر کو چل پڑا... 

جبکہ منہاء جو ابھی تک آہل کی باتوں کے حصار میں تھی خلط ملط ہوتے آسمان کی سیاہی کو دیکھنے لگی.... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

" آہل صاحب آپ آگئے!!!!" 

افگن جو لاؤنچ میں ہی موجود انتظار میں تھا آہل کو دیکھتے ہی ان کی جانب بڑھا.... 

"بڑے صاحب جی آپ کا بار بار پوچھ رہے تھے... 

بہت پریشان تھے وہ!!!! 

اور طبیعت بھی!!!! "

"کہاں ہے دادا؟؟؟ 

اور کیسے ہیں وہ؟؟؟ "

آہل جو اپنی ہی الجھنوں میں تھا افگن کی آدھی بات سنتے ہی سیدھا خان بابا کے کمرے کی جانب بڑھا.... 

جبکہ آہل کے جاتے ہی افگن بھی ان کے پیچھے کو دوڑ پڑا.... 

"دادا!!!! 

دادا کیا ہوا ہے اپکو؟؟؟؟"

آہل تیز گام داخل ہوتے ہی سیدھا خان بابا کی جانب لپکا... 

جو اپنے بستر پر اوندھے منہ گرے ہوئے تھے.... 

خان بابا کو اس حالت میں دیکھ کر تو جیسے آہل کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہو..... 

"افگن!!!!! 

کیا ہوا ہے دادا کو؟؟؟؟؟ 

دادا کیا ہوا ہے یار اپکو؟؟؟؟ 

اٹھو کیا ہوا ہے اپکو یار؟؟؟ "

آہل جو افگن پر حواس باختگی سے چلایا تھا خان بابا کو خود سے لگائے چلایا..... 

"پتہ نہیں صاحب جی!!!! 

میں تو ان سے پوچھ رہا تھا مگر یہ!! "

افگن مبہم ہوا... 

جبکہ آہل جس کا دماغ سن تھا نے فورا خان بابا کو اٹھایا اور کمرے سے باہر افراتفری سے بھاگتے ہوئے نکلا.... 

"دروازہ کھولو گاڑی کا افگن!!! 

جلدی جا کر دروازہ کھولو!!!! "

آہل لاونچ میں داخل ہوتے چلایا اور آگے کو احتیاط بڑھتے بڑھا.... 

"جی صاحب جی ابھی جاتا ہو.... "

افگن بھاگتے ہوئے باہر کو نکلا کہ تبھی اسے دروازے کے پاس پریشان حال کھڑی منہاء نظر آئی جو افگن کو یوں بھاگتے دیکھ کر مبہوت ہوئی.... 

"کیا ہوا ہے افگن چچا؟؟؟" 

منہاء نے افگن کو گاڑی کا دروازہ کھولے دیکھا تو ان کی جانب ہوئی....

*آپ ایسے کیوں بھاگ رہے ہو؟؟؟ 

سب خیریت تو ہے ناں؟؟؟ "

"وہ بڑے صاحب جی!!!" 

افگن سانس پھولائے گو ہوا....

" منہاء بیٹا بڑے صاحب جی!!! " 

*کیا ہوا ہے انکل؟؟؟ 

انکل؟!!!!" 

منہاء نے نامکمل بات سنی بھونچکا ہوتے فورا آگے کو بڑھی کہ تبھی باہر آتے آہل پر نظر پڑی جو خان بابا کو گود مین اٹھائے باہر کی جانب ہی آریا تھا.... 

"کیا ہوا ہے انکل؟؟؟ 

کیا ہوا ہے انہیں آہل؟؟؟ "

منہاء نے خان بابا کو یوم مدہوش دیکھا تو گھبراتے چلائی.... 

"پتہ نہیں مجھے ابھی.... 

مین انہیں ہسپتال لے کر جارہا ہو ابھی.... 

دعا کرو سب ٹھیک ہو....." 

آہل خان بابا کو پچھلی نشست پر لٹائے پریشان کن ہوا اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی..... 

جبکہ منہاء نے آہل کو جاتے دیکھا تو فورا اگلی نشست پر جا بیٹھی..... 

"مین بھی جاؤ گی مجھے بھی جانا ہے!!! "

آہل نے منہاء کو پریشان ہوتے دیکھا تو بناء کچھ کہے حامی میں سر ہلایا اور گاڑی کو ریورس کرتے باہر نکالی اور بھگا دی.... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

خان بابا کو ہسپتال میں لایا گیا تو فورا انہیں ایمرجنسی کی جانب اسٹریچر پر لے کر جایا گیا.... 

منہاء آہل کے ہمراہ ایمرجنسی کے باہر ہی کھڑی خان بابا کو حالت کو دیکھ کر پریشان تھی.... 

جبکہ بذات آہل خود دیوار سے لگے اپنا سر تھامے پریشان حال تھا.... 

منہاء نے آہل کو یوں پریشان ہوتے دیکھا تو ایک پل کو اس کی جانب کو بڑھی مگر پھر کچھ سوچتے ہوئے واپس وہی موجود کرسی پر جا بیٹھی اور دعا گو ہونے لگی..... 

خان بابا کو اندر گئے اب تک ایک گھنٹے سے زیادہ ہوگیا تھا مگر اب تک اندر سے ان کی صحت کے متعلق کوئی اطلاع موصول نہ ہوئی تھی.... 

جبکہ آہل جس کیلئے پل پل کی گھڑی کسی عذاب سے کم نہ تھی بے چینی اور اضطرابی کیفیت سے کبھی دروازے سے اندر کی جانب دیکھنے کی کوشش کرتا تو کبھی وہی باہر تیز تیز قدموں سے ٹہلنے لگتا..... 

"انکل ٹھیک ہوجائے گے آہل!!!! 

اپ پلیز پریشان مت ہو!!!!" 

منہاء جو کرسی پر بیٹھتے آہل کے کئی چکر گن چکی تھی اس کے روبرو کھڑی ہوتے مدہم ہوئی.... 

" میرے پاس میرے دادا کے علاوہ کوئی نہیں ہے منہاء!!!! 

اگر انہیں کچھ ہوگیا تو!!! "

آہل جو بظاہر سخت وجود تھا آنکھوں سے بہتے اس کے اندر کی نرمی اور معصومیت کو بیاں کررہی تھی.... 

"میں کہہ رہی ہو ناں...

کچھ نہیں ہوگا انہیں...." 

منہاء آہل کے کندھے پر تاسف سے ہاتھ رکھے اسے سنبھالنے کی کوشش کرتے بولی.... 

"آپ کے یوں پریشان ہونے سے نہیں بلکہ آپ کے دعا کرنے سے ان کو صحت ملے گی زندگی ملے گی.... 

ان کیلئے دعا کرے آپ بس!!! 

باقی سب اللہ ذات پر چھوڑ دے!!!! "

آہل نے منہاء کی بات سنی تو جود کو سنبھالے ایک بار پھر وارڈ کے دروازے کی جانب کی بڑھا.... 

کہ تبھی کچھ ڈاکٹرز آپس میں بات کرتے باہر کی جانب بڑھے..... 

جنھین دیکھتے ہی آہل فورا ان کی جانب بڑھا جبکہ منہاء بھی متوجہ ہوئی..... 

" کیسے ہیں میرے دادا؟؟؟؟ 

وہ ٹھیک تو ہے ناں؟؟؟ 

کیا مین انہیں مل سکتا ہو؟؟؟؟" 

آہل گھنگولا ہوا.... 

"آپ کے دادا کو ہارٹ اٹیک ہے اور جس نوعیت کا انہیں اٹیک آیا ہے ان کی عمر اور صحت دونوں ہی اس کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے!!!!" 

ڈاکٹر نے آہل کی پریشانی دیکھی تو ناامیدی سے تفصیلا ہوئے... 

جبکہ آہل جو یہ سنتے ہی لڑکھڑا سا گیا تھا منہاء فورا آگے کو ہوتے اس کی جانب ہوئی اور اسے کرسی پر بیٹھاتے سنبھالنے لگی.... 

" ہم اپکو کسی بھی قسم کی تسلیاں نہیں دے گے نہ ہی کوئی امید.... 

وہ اس وقت اسٹیبل ہے مگر کب تک رہے گے کچھ کہہ نہیں سکتے!!!!" 

"اپ ایسے کیسے کہہ سکتے ہیں؟؟؟؟؟ 

ایک ڈاکٹر ہو کر ایسی ناامیدی والی باتیں؟؟؟؟ 

کیوں؟؟؟" 

منہاء نے آہل کی چندھیائی حالت کو دیکھا تو بھرکتے ہوئے ڈاکٹر کے سامنے گو ہوئی... 

" اپکا کام ہمیں حوصلہ دینا ہے نہ کہ امید تورنا!!!" 

" دیکھیے مس!!!! 

ہم نے وہی بتایا جو ہے!!!! 

باقی ہم جو کچھ کرسکتے تھے ہم نے کیا ہے!!! 

اب اس ذات کی مرضی جو زندگی دیتا بھی ہے اور لیتا بھی!!!!" 

ڈاکٹر نے منہاء کی سختی سنی تو صاف گو ہوا.…

"باقی وہ کسی منہاء سے ملنا چاہتے ہیں.... 

جو بھی ہے وہ ان کو بلا دے فورا.…." 

منہاء نے اپنا نام سنا تو فورا آگے کو بڑھتے بولی... 

" میں ہو منہاء!!!! 

وہ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں کیا؟؟؟" 

" جی وہ اپکو بلا رہے تھے بار بار!!! 

خیر اپ چلے ہمارے ساتھ اور مل لے ان سے!!! 

کیونکہ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے.... "

ڈاکٹر کہتا ہوا واپس اندر کی جانب ہوا.... 

جبکہ منہاء نے سنا تو آہل کے سامنے گھنٹوں کے بل بیٹھتے اسے دیکھنے لگی.... 

" پریشان مت ہو کچھ نہیں ہوگا انہیں.….

مین ابھی مل کر آتی ہو ناں... 

پھر بتاتی ہو اپکو سب!!! 

تب تم دعا کرے بس.…

کیونکہ دعائیں عرش ہلا دیتی ہے....." 

منہاء آہل کے دونوں ہاتھوں کو تھامے اسے سمجھاتے بولی.... 

جبکہ آہل کو ساکت ہی بیٹھا تھا بناء کوئی جواب دیے یونہی بیٹھا رہا.... 

جبکہ منہاء آہل کو ایسے بیٹھا دیکھ کر خاموشی سے اٹھی اور وارڈ مین داخل ہوئی.... 

منہاء آہل کو تو یقین اور حوصلے کا سبق دے تو آئی تھی مگر بخود  اس کے قدم وارڈ روم میں داخل ہوتے ہی لڑکھڑا سے گئے تھے.... 

دروازے کو بند کرتے وہ ایک پل کو دروازے سے ٹیک لگائے کھڑی ہوئی اور پھر ایک گہرا سانس بھرتے آگے کو بڑھی کہ ہر بڑھتا قدم اسے ناز بی کے آخری لمحات کی یاد کروا رہا تھا..... 

آنکھوں کے گرد پھیلتا وہی دلخراش منظر جس میں ناز بی کی میت کو ایسے ہی کسی وارڈ میں چند گز کے کفن سے لیپٹ کر رکھی گئی تھی منہاء کے وجود کو لمحہ بہ لمحہ جھنجھوڑ سا گیا تھا...... 

جبکہ اپنی نم آنکھوں اور تیز ہوتی سانس کو لیے وہ مزید آگے کو ہوئی تو نظر سامنے مشینوں سے جکڑے وجود پر پڑی جو آنکھیں موندے آکسیجن ماسک کے اندر گہرے لمبے سانس تیزی سے بھر رہے تھے.... 

خان بابا نے منہاء کی آہٹ کو محسوس کیا تو دھمیی آنکھوں کو کھولتے ہی سامنے دور کھڑی اشکبار منہاء کو دیکھا تو اہستگی سے اپنے ہاتھ کو ہلاتے اسے اپنی جانب آنے کا اشارہ بھرا..... 

منہاء جو ساکت نم آنکھوں سے ایک زندہ دل بشر کو اج بے سود پڑے دیکھ کر ششدر میں تھی اشارہ ملنے پر عنقریب بھاگتی ہوئی ان کے پاس جا کھڑی ہوئی اور ہاتھ کو مضبوطی سے تھام لیا..... 

"کیسے ہیں آپ؟؟؟؟" 

منہاء روتے ہوئے خان بابا کے ہاتھ کو تھامے مدہم ہوئی.... 

جبکہ خان بابا جو منہاء کو اپنے سامنے دیکھ کر پرسکون ہوئے تھے مدہم مسکراہٹ ہوئے... 

"آپ جانتے ہیں ناں کہ آپ بلکل ٹھیک ہوجائے گےانکل!!!!" 

منہاء جو خان بابا کی اس حالت کو دیکھ لر بمشکل سنبھلے کھڑی تھی بدقت حوصلہ افزا ہوئی.. 

"اور اپکو ہونا بھی ہے اپنے لیے، میرے لیے اور آہل کیلئے....." 

جبکہ خان بابا جو منہاء کو یوں روتے دیکھ کر خود بھی رو پڑے تھے اپنا ماسک منہ سے ہٹائے منہاء کی جانب دیکھنے لگے.... 

"مت ہٹائیے ماسک انکل!!!" 

منہاء نے دیکھا تو فوراً روکتے تاسف ہوئی!!! 

"یہ سانس آپ کیلئے نہیں بلکہ ہم سب کیلئے بہت ضروری ہے!!! "

" ہم کو بولنا ہے منہاء بیٹا!!!!" 

خان بابا نے منہاء کی بے چینی دیکھی تو  لمبے گہرے سانس بھرتے کھنگارے....

"وہ سب بتانا چاہتا ہے تم کو آج جو شاید تم کبھی نہ جان پایا اور شاید کبھی جاننے کی کوشش بھی نہ کرے گا تم!!!!"

خان بابا کی انکھ سے ایک آنسوں ٹوٹا تو منہاء بناء کوئی مذمت کیے پاس پڑے اسٹول پر خان بابا کا ہاتھ تھامے بیٹھ گئی....

"تم جانتا ہے کہ ہم نے اپنے اس وقت میں آہل کی بجائے تمہیں کیوں بلایا؟؟؟؟"

خان بابا بمشکل سانس کھینچتے کراہے...

جبکہ منہاء جو خان بابا کی تکلیف کو دیکھتے مسلسل رو رہی تھی نفی میں سر ہلائے جواباً ہوئی....

"کیونکہ ہم اچھے سے جانتا ہے.....

ہمارے بعد وہ جس سے سنبھلے گا وہ تم ہے!!!! "

خان بابا مطمئین انداز ہوئے....

جبکہ منہاء چندھیائی سرخ نم نظروں سے خان بابا کو دیکھنے لگی....

"ہم جانتا ہے تم اس سے نفرت کرتا ہے!!!!" 

خان بابا افسردہ مدہم ہوئے....

"مگر ہم مرتے انسان پر یقین رکھو منہاء میرا آہل برا نہیں ہے....

وہ برا نہیں ہے.!!!!"

خان بابا کہتے ہی رو پڑے جبکہ منہاء بس خاموش بیٹھی سر جھکائے ان کی باتیں سننے لگی....

"وہ تو بہت خوش مزاج اور حسین اخلاق رکھنے والا شخص تھا مگر اس خبیث لڑکی نے مجھ سے میری عمر بھر کی کمائی چھین لیا...."

خان بابا سخت الفاظ ہوئے جبکہ منہاء کچھ نہ بولی......

"اور دیکھو اسے کیسا بنا دیا کہ وہ آج لوگوں کی آہیں لے رہا ہے وہ ہم آج وہ سب بھگت رہا ہے.....

کہ سانس لینا بھی دشوار ہے اب میرے لیے!!!! "

" بس کرے انکل پلیز!!!!! 

آپ کا یوں بولنا صیحح نہیں ہے!!! "

منہاء ایک بار پھر ماسک چڑھانے کو کھڑی ہوئی تو خان بابا نے پھر سے نفی میں سر ہلائے اسے منع کردیا.... 

"کیا تم ہماری ایک آخری خواہش مانے گا؟؟؟؟"

خان بابا نے منہاء کی خاموشی محسوس کی تو منہاء کا ہاتھ آس بھرے لہجے سے تھامے متحیر ہوئے.....

جس پر منہاء خان بابا کے ہاتھ کو دونوں ہاتھوں میں تھامے بدقت مسکرائی....

"وعدہ نہیں کرتی مگر کوشش کرونگی!!!! "

"آہل سے نکاح کر لو!!!!!" 

خان بابا منہاء کی دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے التجاء ہوئے...

جبکہ منہاء جو اس سب کی امید میں نہ تھی فورا مبہوت ہوتے اٹھ کھڑی ہوئی....

"ی.... یہ... یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ انکل؟؟؟؟

میں نکاح؟؟؟؟"

منہاء بھونچکا ہوتے خان بابا کو گھورنے لگی....

" وہ بھی آہل جیسے انسان سے ہرگز نہیں!!!! "

" ہم جانتا ہے تمہارے لیے یہ سب بہت مشکل ہے... 

مگر منہاء وہ تم سے بہت محبت کرتا ہے اور ہم نے خود اس کی آنکھوں میں تمہارے لیے محبت دیکھا ہے.... 

ایک صاف پاکیزہ محبت کا جذبہ...!!! "

خان بابا تاسف ہوئے.... 

"محبت!!!! "

منہاء نے خان بابا کے منہ سے آہل کو لے کر محبت سنی تو چندھیا سی گئی... 

"میرے خیال سے آپکو آرام کرنا چاہیے انکل!!!!! 

آپ آرام کرے میں جاتی ہو اب.... "

" مگر میری بات سنو بیٹا!!!!" 

منہاء خود کو خان بابا کی باتوں سے بچاتی باہر جانے کو ہوئی.... 

کہ تبھی نظر دروازے پر کھڑے آہل پر پڑی جو اجڑی حالت میں ناجانے کب سے کھڑا ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا.... 

منہاء نے آہل کو یوں سوالیہ نظروں سے خود کو دیکھتے محسوس کیا تو ششدر ہوتے رک گئی... 

جبکہ خان بابا جو آہل کی موجودگی سے بے خبر تھے ایک بار پھر سے منہاء کے پیچھے گو ہوئے..…

" ہم کو مرتے دم تک خلش رہے گا تم سے منہاء.... 

کہ جس کو ہم نے اپنے پوتے سے بڑھ کر جانا وہ ہمارا اپنا کبھی ہوا ہی نہیں تھا...."

 منہاء جو آہل کے روبرو کھڑی تھی خان بابا کی تڑپ سنی فورا واپس ان کی جانب تیز قدموں سے آتے شکوہ کناں ہوئی.... 

جبکہ آہل نے منہاء کو یوں پلٹتے دیکھا تو خود بھی اب آگے کو ہوا اور خان بابا کی حالت دیکھ کر جیسے وہ ٹوٹ سا گیا ہو .... 

" ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں آپ انکل؟؟؟؟" 

منہاء خان بابا کے سینے پر سر دھڑے شدت غم ہوئی.... 

"آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں؟؟؟؟ 

بولے!!! "

"کتنے آرام سے کہہ دیا آپ نے یہ سب؟؟؟ 

جانتے بھی ہیں کہ امی کے بعد آپ ہی تو ہیں میرے!!!!" 

منہاء سر اٹھائے ہچلیاں بھرنے لگی... 

" جن کو اپنا کہا میں نے اپنا مانا اور اب آپ ہی؟؟؟؟" 

جبکہ خان بابا جن کی حالت مسلسل بگڑتی جارہی تھی نے منہاء کو یوں روتے بلکتے دیکھا تو لمبے سانس لیتے کھانسنے لگے..... 

" دادا!!!!! "

آہل جو دور ہی کھڑا تھا اب خان بابا کی جانب بڑھتے ان کے سینے سے چپکتے رونے لگا... 

" وللہ!!! 

ہمارا لاوا خان کو رونا بھی آتا ہے؟؟؟" 

خان بابا بمشکل مسکرائے!... 

"یہ سب کیا ہے یار؟؟؟" 

آہل خان بابا کے ہاتھوں پر لب رکھے تڑپا...... 

"کیوں کررہے ہیں آپ یہ سب؟؟" 

جبکہ منہاء جس نے پہلے کبھی بھی آہل کا یہ روپ نہ دیکھا تھا پیچھے کو ہوتے مبہوت نظروں سے دیکھنے لگی.... 

" کہا تھا ناں تمہیں!!! 

خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے!!! 

بس دیکھ لو تم آہل ہم وہ لاٹھی کھا چکا ہے تمہارے لیے!!!!" 

خان بابا آہل کے چہرے کو چھوتے بولے....

"نہیں!!!!

نہیں نہیں ؟!!!" 

آہل نفی میں سر ہلاتے واپس خان بابا سے جا لگا....

"نہیں اللہ میرے دادا نہیں!!!!

میرے دادا کو کچھ نہیں....."

آہل خان بابا سے لپٹے رو رہا تھا کہ تبھی خان بابا تیز سانس بھرنے لگے جبکہ ان کے اردگرد لگی مشینیں بھی اب شور مچانے لگی..

"دادا!!!"

آہل نے خان بابا کی بگڑتی حالت دیکھی تو فورا ہڑبڑا سا گیا....

"آہل ڈاکٹر!!!!

پلیز ڈاکٹر کو بلاؤ!!!"

منہاء جو یہ سب دیکھتے حواس باختگی سے چلائی تھی.....

آہل سنتے ہی دروازے بوکھلاتے ہوئے سر ہلانے لگا....

"ہا!!! ہاں میں ابھی!!!! "

کہ اس سے پہلے وہ یہاں سے باہر جاتا خان بابا نے آہل کا ہاتھ تھام لیا.....

"وقت!!!!

وقت نہیں میرے پاس آہل!!!!"

خان بابا سانس تیزی سے بھرتے بمشکل بولے.....

"مولوی کو بلاؤ!!

تمہارا اور منہاء کا نکاح!!!!." 

"انکل میں کرونگی نکاح آہل سے!!!!"

منہاء خان بابا کے سامنے یقین دہانی کروائے رونے لگی....

"میں کرونگی نکاح....

مگر ابھی ڈاکٹر!!!!"

" ہم کہہ رہا ہے ناں!!!!

ہم مرنا نہیں چاہتا ایسے!!!

ہم اپنی آنکھوں کے سامنے تم دونوں کو ایک کرے گا... "

خان بابا نے ضد بڑھی...

" تم.….

تم یہی رہو!!! "

تو آہل الٹے قدم لیتے دروازے کی جانب ہوا...

"میں لاتا ہو مولوی کو دادا...

مگر اپکو قسم ہے میری کہیں نہیں جانا!!!!

پلیز کہیں نہیں جانا!!!"

آہل روتے ہوئے باہر کو نکلا تو منہاء بھی باہر کو بھاگتی ڈاکٹر کو بلانے کو ہوئی......

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء سر پر ڈوپٹہ اوڑھے روتی آنکھوں سے مسلسل خان بابا کو دیکھ رہی تھی جن کو دوبارہ آکسیجن ماسک لگا دیا گیا تھا جبکہ دو ڈاکٹرز مسلسل مشینوں کی اسکریننگ کو چیک کر رہے تھے.....

آہل ایک مولوی اور تین گواہوں کے ہمراہ خان بابا کے پاس ان کا ایک ہاتھ تھامے بیٹھا مسلسل ان کے چہرے کو خالی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا.....

جبکہ خان بابا خود  آنکھیں موندھے پرسکون لیٹے ہوئے تھے.... 

"تو میں نکاح شروع کرتا ہو اگر یہاں کسی بھی صاحب کو کسی بھی قسم کا اعتراض ہو تو کہہ سکتا ہے!!!!" 

مولوی صاحب جو نکاح کے کاغذات کی کاروائی کو مکمل کرتے کھڑے ہوئے تھے بلند آواز گو ہوئے... 

جس پر وہاں موجود ہر فرد نے نفی میں سر ہلایا.... 

"تو ٹھیک ہے پھر میں نکاح کا آغاز کرتا ہو.…"

مولوی صاحب بلند آواز ہوئے اور پھر ایک قرآنی آیت کا ورد کرتے منہاء کی جانب مڑے جو بے سود اجڑی بیٹھی مسلسل خان بابا کو روتے ہوئے دیکھ رہی تھی.... 

"تو بیٹی میں آغاز کرتا ہو نکاح کا.... 

اگر اپکو نکاح پر کسی بھی قسم کا اعتراض ہو تو اپکو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب سے مکمل آختیار حاصل ہے کہ اس نکاح سے انکار کرسکتی ہیں.." 

مولوی صاحب نے شفقت بھرا ہاتھ منہاء کے سر پر رکھا جس پر وہ اپنے آنسوں پونچھتے حامی میں سر ہلاتے جواباً ہوئی..... 

" تو بیٹی منہاء منور ولد محمد منور اپکا نکاح آہل خان ولد اکبر خان کے ساتھ فقہ رائج الوقت ایک کڑور حق مہر کے تحت کیا جاتا ہے کیا اپکو قبول ہے؟؟؟" 

منہاء جس کیلئے یہ سب ایک بھیانک خواب سے کم نہ تھا مسلسل جان بابا کے چہرے کو نم آنکھوں سے دیکھ رہی تھی مولوی صاحب کے سوال پر خاموش رہی..….

جبکہ آہل جو سامنے ہی خان بابا کے پاس بیٹھا سب سن رہا تھا منہاء کی جانب سے جواب نہ پاتے ہوئے مبہوت نظروں سے اسے دیکھنے لگا.... 

"بیٹی میں آپ سے ہی پوچھ رہا ہو اور ایک بار پھر. سے آپ سے سوال کرتا ہو.... 

توجہ دیں..." 

مولوی صاحب نے جب جواب نہ پایا تو منہاء کے سر پر پھر سے ہاتھ دہڑے اسے ہوش دلاتے بولے.... 

کہ اس سے پہلے وہ دوبارہ سوال دہراتے منہاء خان بابا کی جانب بڑھتے ہوئے رونے لگی.... 

" قبول ہے!!!! "

منہاء نے خان بابا کا دوسرا ہاتھ تھاما اور اپنا سر ان کے ہاتھ پر ٹکائے مدہم ہوئی.... 

جبکہ آہل جو منہاء کے اقرار کو سنتے ہی اس کو چندھیائی نظروں سے دیکھ رہا تھا چونک پڑا.... 

مولوی صاحب نے دو بار پھر سے منہاء سے وہی سوال دہرایا... 

جس پر منہاء نے بناء کوئی رکاوٹ اقرار کیا.... 

اور پھر سائن کرنے کے بعد واپس خان بابا کی جانب  روتے ہوئی جھکی.... 

جبکہ خان بابا جو یہ سب سن رہے تھے مدہم مسکراہٹ ہوئے... 

منہاء کی جانب سے اقرار کے بعد مولوی صاحب آہل سے ہی نکاح کے متعلق سوال گو ہونے کے بعد سائن کروا رہے تھے کہ تبھی پرسکون لیٹے خان بابا کا وجود لڑکھڑا سا گیا.... 

اور وہ تیز سانسیں بھرتے اپنے بستر پر سینہ چڑھائے کراہنے لگے.... 

منہاء نے خان بابا کی یہ حالت دیکھی تو فورا ڈاکٹر کو آواز بھرگ ان کے پاس بیٹھی روتے ہوئے آیت الکرسی کا ورد کرنے لگی.... 

جبکہ دونوں ڈاکٹرز تیزی سے خان بابا کے اردگرد گھومتے ان کی پلسزز اور ہارٹ بیٹ چیک کرنے لگے....  

آہل جو یہ سب دیکھ کر بوکھلائے ان کی جانب بھاگا تھا خان بابا کے لب پر مدہم سا کلمہ جاری ہوتے دیکھا تو وہ بت مانند وہی رک گیا جبکہ خان بابا جو پہلے پہر تڑپ سے گئے تھے پرسکون ہوتے اپنے بستر پر ایک بے جان جسم کی مانند مدہم ہوئے.... 

جبکہ منہاء جو دونوں ڈاکٹروں کو امید بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی ان دونوں کو مایوسی سے پیچھے ہٹتے جاتے دیکھا تو سکتے میں ہوتے پرسکون خان بابا کے چہرے کو دیکھنے لگی.... 

"انا للہ و انا الیہ راجعون!!!!" 

پیچھے کھڑے مولوی صاحب جو یہ سب دیکھ رہے تھے  بلند آواز کے ساتھ بولے اور پھر وہاں سے سب باہر کو نکل پڑے.... 

"دادا!!!!" 

 آہل جو خان بابا کے سامنے کھڑا تھا حواس باختگی سے زمین پر گھٹنوں کے  بل گرتے زیر لب بڑبڑایا... 

جبکہ منہاء جو خود خان بابا کے انتقال پر سکتے میں تھی دیوار سے لگتے چہرہ دونوں ہاتھوں سے چھپائے زور زور سے رونے لگی.... 

"دادا اٹھے یار!!! 

دیکھیے بہت ہوگیا ہے مذاق اب!!!!" 

آہل دیوانہ وار اٹھتے خان بابا کی جانب ہوا اور ان کے سینے لر تھپکی بھرے چلانے لگا....

" اٹھ کیوں نہیں رہے ہو؟؟؟" 

"اٹھے!!!! 

آٹھیے دادا!!!" 

آہل خود کو جھنجھوڑتے چیخ رہا تھا جبکہ منہاء آہل کے اس روپ کو دیکھ کر سہمی سی دیوار سے لگے اسے دیکھ رہی تھی....

" وعدہ خلافی کی.!!

آپ نے مجھ سے وعدہ خلافی کی دادا!!!!" 

"میں اپکو کبھی معاف نہیں کرونگا...."

آہل خان بابا کے وجود کو جھنجھوڑتے چلا رہا تھا.... 

"سن رہے ہیں ناں آپ؟؟؟؟" 

جبکہ منہاء نے یہ سب ہوتے دیکھا تو فورا اٹھتے آہل کی جانب بڑھی اور اس کو بازوؤں سے کھینچتے خان بابا سے دور کرنے لگی.....

" آہل....

آہل ہوش میں آؤ!!! 

پلیز ہوش میں آؤ"

منہاء بپھڑے آہل کو بمشکل کھینچ رہی تھی جو مسلسل منہاء سے اپنا ہاتھ چھڑاتے خان بابا کی جانب بڑھ رہا تھا....

"مت کرو ایسا!! 

پلیز مت کرو!!!!" 

"پیچھے ہوجاؤ تم!!!! 

یہ میرے اور میرے دادا کا معاملہ ہے!! 

تم دور کو جاؤ اس سے!!!! "

آہل جو اس وقت اپنے حواس میں نہ تھا انگاری نظروں سے منہاء کو تنبیہ کرتے چلایا اور پھر اسے دھکا دیتے واپس خان بابا کی جانب ہوا.... 

جبکہ منہاء جو بری طرح لڑکھڑا سی گئی تھی آہل کو واپس خان بابا کو جھنجھوڑتے دیکھا تو غصے سے تلملاتے ہوئے اس کی جانب ہوئی اور پیچھے شرٹ سے کھینچتے اسے خان بابا سے دور کیا اور پھر ایک زور دادا طمانچہ آہل کے منہ پر دے مارا.... 

کہ آہل جو پہلے ہی صدمے سے پگلا سا گیا تھا حواس باختگی سے منہاء کو گھورنے لگا.... 

"مت کرے ایسا خدا کیلئے!!!!!" 

منہاء ہاتھ جوڑے روتے بلبلائی.... 

"ان کو تکلیف ہورہی ہے پلیز مت کرے ایسا!!!!" 

منہاء روتے ہوئے زمین پر بیٹھے سٹپٹانے لگی.... 

جبکہ آہل جو اپنی گال پر ہی ہاتھ جمائے منہاء کو دیکھ رہا تھا خاموشی سے یونہی باہر کو نکل پڑا... 

جبکہ آہل کو یوں جاتے دیکھ کر منہاء خود کو سیمٹتے سر ٹانگوں سے لگائے رونے لگی.... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

خان بابا کا انتقال ہوئے اب دو دن گزر چکے تھے جبک خان ہاؤس میں سوگ کا ساماں ویسا ہی تھا جیسے اس دن خان بابا کے جنازے کو اٹھاتے وقت کا ساماں تھا.....

"کس قدر خاموشی ہوگئی ہے اس محل نما گھر میں منہاء!!!! 

ایک وقت تھا جب یہاں ایک الگ ہی رونق ہوا کرتی تھی...." 

ثمر اردگرد کی بکھری مایوسی دیکھتے مبہم ہوئی.. 

"مگر اب ایک عجیب سی ویرانی اور سناٹا!!! "

"ہاں صیحح کہہ رہی ہو تم!!! 

ایسا لگتا ہے جیسے انکل کے جانے کی اداسی اس پورے گھر کو ہے... 

منہاء نے سنا تو حامی لہجہ آور ہوئی... "

" انکل رونق تھے اس گھر کی!!! 

ان کا وجود اس گھر کیلئے کسی نعمت سے کم نہ تھا.... 

مگر اب ایسا لگتا ہے جیسے سب ماند پڑ گیا ہے.... "

منہاء مایوسی سے نمی صاف کرتے اپنا چہرہ ہاتھوں سے چھپائے بولی..... 

" منہاء ایک بات پوچھوں؟؟؟  "

ثمر جس کے دماغ میں کب سے کئی سوالات اٹھ رہے تھے بول ہی پڑی... 

" برا تو نہیں مانو گی؟؟؟؟" 

" ہمممممم پوچھوں!!!! "

منہاء سیدھی ہوتے بیٹھی..... 

" تمہاری کسی بھی بات کا برا نہیں لگتا مجھے!!! "

"یار جس اجلت میں تمہارا اور آہل کا نکاح!!!! "

ثمر جو بولتے ہوئے منہاء کے چہرے کی بیزاری دیکھتے رکی تھی ایک لمحے کے بعد پھر سے بولنے لگی.... 

" میں جانتی ہو تمہارے لیے یہ سب کسی صدمے سے کم نہیں تھا.... 

مگر اب آگے کیا ہوگا؟؟؟ 

مطلب تمہارے نزدیک اس نکاح کی کوئی حیثیت؟؟؟ "

ثمر تفتیشی اور استفہامیہ انداز اور ہوئی.... 

"نکاح نکاح ہوتا ہے ثمر..... 

اس کی اہمیت اور حیثیت میرے اللہ نے خود طے کی ہے.... "

منہاء جو اس سوال پر الجھ سی گئی تھی سوچتے بولی...... 

" میں کون ہوتی ہو اس کی حیثیت رکھنے والی!!! "

تم" مس منہاء آہل خان ہوتی ہو!!! 

وہ منہاء آہل خان جس کو اس آہل خان سے شدید نفرت تھی جس کو وہ اپنی ماں کی موت کی وجہ مانتی تھی.... "

" بس کردو ثمر پلیز!!!!!" 

منہاء نے ثمر کی بات سنی تو ہاتھ جوڑے التجاء ہوئی.... 

" یہ بس میں ہی جانتی ہو کہ اس وقت مجھ پر کیا بیت رہی تھی... 

مگر مجھے اس وقت خود سے زیادہ انکل کی فکر تھی.... 

جو مجھے آس بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے.... "

منہاء کی انکھ سے انسوں ٹوٹا تو گال پر بکھرتے اس کی آواز کو لرزا سا گیا..... 

جبکہ ثمر نے منہاء کو روتے دیکھا تو اٹھ کر اس کی جانب بڑھی اور اسے خود سے لگا لیا.... 

" آہل کیسا ہے؟؟؟ 

تم ملی ہو اس سے ابھی تک کیا؟؟؟ "

ثمر سوالیہ ہوئی.... 

" کیا وہ ٹھیک ہے اب؟؟؟" 

"مجھے نہیں پتہ ثمر؟؟؟" 

منہاء اپنا چہرہ صاف کرتی سنبھلتے گو ہوئی... 

"میری ہمت نہیں ہوئی کہ اسے حوصلہ دے سکوں!!! 

اس کو دیکھ کر مجھے اپنی حالت نظر آجاتی ہے اور پھر مجھے اس سے نفرت کا احساس ہوتا ہے.... "

منہاء ثمر کے ہمراہ لاؤنچ میں بیٹھی باتیں کررہی تھی جب گل افگن چائے کی ٹرے تھامے ان کی جانب بڑھا....

"آپ نے کیوں بنائی چچا!!؟؟"

منہاء نے گل افگن کو ٹرے رکھتے دیکھا تو متحیر ہوئی....

یقین" جانیے اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی....."

" عادت ہے مجھے بہو بیٹا!!!!" 

گل افگن نے سنا تو اشکبار لہجے سے تاسف ہوئے... 

"پہلے اس وقت میں بڑے صاحب کو چائے بنا کر دیتا تھا....

مگر اب کس کو بنا کر دونگا یہی سوچ کر میں آپ دونوں کیلئے چائے بنا کر لے آیا......" 

"بلکل ٹھیک کیا آپ نے انکل!!!! "

ثمر نے افگن کو افسردہ ہوتے دیکھا تو فورا متحیر ہوئی... 

"یقین جانیے بہت ہی مزے کی چائے بنائی ہے آپ نے.…."

" بہت شکریہ بیٹا اپکا!!!! "

گل افگن نے سنا تو بدقت مسکراتے ٹرے اٹھائے واپس کو پلٹا... 

" چچا!!! "

منہاء جو کچھ سوچتے بے چین تھی فوراً گو ہوئی.... 

"جی بہو بیٹا!!!!" 

گل افگن نے سنا تو فوراً پلٹا.... 

"آہل!!!! 

آہل نے کچھ کھایا ہے ابھی تک کہ نہیں؟؟؟ "

منہاء پریشان کن ہوئی.... 

" کہاں بہو بیٹا؟؟؟" 

افگن داسہم ہوتے برجستہ ہوا...

"جب سے بڑے صاحب گئے ہیں وہ خود کو کمرے میں بند کیے بیٹھے ہیں!!! 

کئی بار دروازہ بجایا میں نے مگر اندر سے کوئی جواب نہیں ملتا.... 

ایسا لگتا ہے جیسے وہ خاموش ہوگئے ہیں!!!

اور اندر ہی اندت گھٹ رہے ہیں!!!" 

افگن گھنگولتے سنگین ہوا تو منہاء بھی پریشانی سے گل افگن کو دیکھنے لگی....

جبکہ ثمر منہاء کی اضطراری دیکھ کر آہستگی سے گرم چائے کی چسکیاں بھرنے لگی.... 

رات کے دس بج رہے تھے جب منہاء پورے گھر کا چکر لگاتے ساری کھڑکیوں اور دروازوں کا معائنہ کررہی تھی.... 

"افگن چچا میں نے سارے کمرے نیچے والے دیکھ لیے ہیں!!! 

سب کے دروازے اور کھڑکیاں اچھے سے بند ہیں!!! "

منہاء نے باہر سے آتے افگن کو دیکھا تو ان کی جانب بڑھتے تفصیلاً ہوئی... 

"آپ نے باہر کا. مین گیٹ دیکھ لینا تھا اور ساتھ لاکڈ کیزز بھی لے آنی تھی گاڑد سے!!! "

" جی بہو بیٹا سب دیکھ آیا ہو باہر سے اور گارڈز کو بھی چوکنا کر آیا ہو....." 

گل افگن متحیر ہوا..... 

"مجھے تو جب سے آپ نے بتایا تھا میں تو تب سے ہی پریشان ہوگیا تھا.." 

ہاں چچا میں تو خود بھی پریشان ہوگئی تھی جب آج ہی ثمر نے مجھے بتایا کہ شہر میں چوروں ڈاکوؤں کا راج چل رہا ہے.... 

جب دل کرتا ہے کسی کو بھی لوٹ لیتے ہیں کسی کا بھی قتل کردیتے ہیں!!!!" 

منہاء مبہم ہوئی!!! 

"اللہ غارت کرے ایسے بے ضمیر خبیث لوگوں کو!!!! 

جو کسی کو بھی ناحق قتل کردیتے ہیں!! "

گل افگن نے سنا تو بدگوئی ہوا... 

"ہاں چچا یہی سب سوچ کر ہی میں نے کہا کہ بہتر ہے کسی بھی قسم کے نقصان پر بعد میں رویا جائے پہلے ہی احتیاط برت لینی چاہیے!!!! "

منہاء تاسف ہوئی... 

"تبھی میں نے اپکو گھر کے کیمرے صحیح کروانے کا بھی کہا تھا کیا وہ بھی ہوگئے ہیں؟؟؟ "

"ہاں وہ ٹھیک ہوگئے ہیں بیٹا.... "

گل افگن تسلی بخش ہوا.... 

" اور میں نے خود چیک کیے ہیں!!!" 

" ٹھیک ہے پھر چچا اب لگتا ہے کہ ہم پرسکون نیند سو سکتے ہیں !!!!" 

منہاء مسکرائی.... 

" اب ایسا کرے اپ بھی آرام کرلے اور میں بھی جاتی ہو سونے!!! 

کافی دیر ہوگئی ہے اب!!! "

منہاء نے دیوار پر لگی گھڑی کو دیکھتے جمائی بھری... 

" ہاں میں جاتا ہو مگر میں اوپر کے پورشن میں نہیں گیا..... "

گل افگن نے اوپر لی جانب اشارہ کیا تو منہاء بھی متوجہ ہوئی.. 

" ایک بار وہاں کی بھی تسلی ہوجائے تو پھر کوئی خدشہ نہیں ہوگا.... 

بس میں دیکھ کر آیا پھر جاتا ہو سونے!!!!" 

گل افگن نے کہا تو کہتے ہی سیڑھیوں کی جانب بڑھا..... 

" افگن چچا!!!! "

منہاء نے گل افگن کو جاتے دیکھا تو فورا پیچھے کو ہوئی.... 

"جی بہو بیٹا!!!!" 

گل افگن سوالیہ ہوئے.... 

" آپ رہنے دے میں دیکھ لیتی ہو.... 

کافی رات ہوگئی ہے اور صبح سے آپ بھاگ دوڑ میں لگے ہیں...." 

منہاء نرمی سے متحیر ہوئی... 

"تھک گئے ہونگے بہتر ہیں آپ جائیے اب اور آرام کرے..." 

"مگر بیٹا..." 

گل افگن شکن زدہ ہوئے... 

" میں کہہ رہی ہو ناں چچا.... 

آپ آرام کرے اب..... "

منہاء نے گل افگن کی بات سنی تو بضد ہوتے سیڑھیوں کی جانب بڑھی.... 

" شب بخیر چچا!!!!! "

"ٹھیک ہے بہو بیٹا شب بخیر!!!! "

گل افگن کہتے ہوئے اپنے کوارٹر کی جانب ہوا جبکہ منہاء اوپر کی جانب بڑھتی تمام کمروں کو ایک ایک کر کے چیک کرنے لگی..... 

بس اللہ پاک سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین ثم آمین!! 

ناجانے کیسے بے حس لوگ ہیں چند پیسوں کی خاطر کسی بھی جان لے لیتے ہیں ان کی جمع پونجی لوٹ لیتے ہیں!!! 

منہاء خود کلام ہوتے سب کمرے چیک کررہی تھی.... 

کہ تبھی ایک کمرے کا دروازہ جو پہلے سے ہی کھلا ہوا تھا کو اپنی سوچ میں مست منہاء نے بے دھیانی سے جھٹکے سے کھینچا تو دھرم کرتی اندر کی جانب جا گری!!!!!!

"آہ!!!!!!" 

زمین پر منہ کے بل گرتی منہاء کا سر زمین پر لگتے بال بال بچ گیا تھا جبکہ پاؤں جو بری طرح اس جھٹکے کی وجہ سے مڑ گیا تھا کو کراہتے ہوئے اپنے ہاتھ سے دباتے روہانسی ہوئی.....

"اللہ!!!!!

میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے یہ سب؟؟؟" 

منہاء بچوں کی مانند منہ بسورے شکوہ کناں ہوئی!!!! 

*اتنی زور سے لگی ہے قسم سے!!!! "

کہ اس بات سے بے خبر کے سامنے موجود آہل جو بیڈ کے سہارے زمین پر بیٹھا تھا اسے ٹکر ٹکر سرخ آنکھوں سے گھور رہا تھا.....

منہاء نے کسی کو خود کو گھورتے محسوس کیا تو نظر سامنے بیٹھے آہل پر پڑی....

جو کالے رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس بکھرے بالوں اور چہرے پر بڑھی شیو کی وجہ سے عجیب ہی مخلوق بنا ہوا تھا....

آنکھوں میں پھیلی نمی اور وحشت جبکہ چہرے پر بکھری اداسی اور مایوسی نے منہاء پر ایک عجیب ہی خوف طاری کردیا تھا....

اپنے دونوں ہاتھوں سے زمین پر سہارا لیتے وہ حواس باختگی سے خود کو اس بے ہنگم وحشی آہل سے دور کرنے لگی....

جبکہ آہل جو دونوں ٹانگوں کو اپنی بازوؤں سے سمیٹے منہاء کو گھور رہا تھا....

اس کو خود سے یوں بھاگتے دیکھ کر سر گھنٹوں پر گرائے بیٹھ گیا....

منہاء جو اب دیوار سے سہارا لیتے آہل کو ایک نظر بھر دیکھ کر واپس باہر جانے کو تھی آہل کی پکار نے اس کے جاتے قدموں پر زنجیر ڈال دی....

"منہاء!!!!! "

آہل ایک دلخراش آواز سے بولا....

جبکہ منہاء جس کے وجود میں آہل کی آواز سن کر ایک کرنٹ سا دوڑا تھا اس کی جانب پلٹتے ہوئے ششدر دیکھنے لگی......

جو خود بھی سر اٹھائے اس کو خالی نظروں سے دیکھ رہا تھا....

"مجھے بات کرنی ہے تم سے!!!!!

ممکن ہے تو پاس بیٹھ جاؤ میرے!!!" 

آہل نے زمین پر اپنے ہاتھ کا اشارہ دیا تو منہاء جو پہلے ہی اس بے ہنگم حالت آہل سے خوف کھا رہی تھی سنتے ہہ واپس پلٹنے کو ہوئی....

میرے دادا نے تمہارا ساتھ دیا تھا تب جب تم تنہاء تھی....."

آہل نے منہاء کو جاتے دیکھا تو پھر گو ہوا....

"آج اسی شخص کا پوتا تنہاء ہے کیا تم انکا قرض نہیں اتارو گی؟؟؟؟"

آہل سوالیہ انداز سے منہاء کو دیکھ رہا تھا جو دوسری جانب منہ پھیرے کھڑی اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو دیکھ کر خلط ملط ہوئی.....

"کیونکہ ہم اچھے سے جانتا ہے.....

ہمارے بعد وہ جس سے سنبھلے گا وہ تم ہے!!!"

منہاء جس کے دماغ میں کئی وسوسے چل رہے تھے خان بابا کی بات یاد کی تو  آہستگی سے واپس آہل کی جانب بڑھنے لگی جو اسے آس بھری نظروں سے گھور رہا تھا..... 

منہاء خاموشی سے آہل کے پاس زمین پر چونکری لگائے جا بیٹھی....

جبکہ آہل نے منہاء کو اپنے پاس بیٹھے دیکھا تو سر گرائے کچھ پل کو خاموش ہوگیا......

"مجھے ہمیشہ سے یہی لگتا تھا....." 

آہل نے تاسف سے مدہم بولنا شروع کیا....

تو منہاء بھی اسے مبہوت نظروں سے گھورنے لگی....

"کہ جو میں ہو وہ میں ہی ہو!!!!!

میں نے جو دیکھ لیا کہہ دیا سن لیا سوچ لیا وہ پتھر پر لکیر ہے حق سچ برحق ہے!!!!" 

آہل کا لہجہ مدہم ہوا تو منہاء بھی نیچے نظریں گرائے دیکھنے لگی..

"مگر دیکھو ہر بار کی طرح اس بار بھی میری ہر سمجھ ہر سوچ ہر بات میری منہ پر ایک طمانچے کی مانند پڑی.."

آہل خود پر طنزیہ مسکراہٹ ہوا جبکہ منہاء اسے کینی نظروں سے دیکھنے لگی. ...... 

" جس کی گونج اس قدر ہوتی ہے کہ میری روح تک اس سے چھلنی ہوجاتی ہے...." 

آہل نے کہا تو ایک پل بھر کو خاموش ہوگیا... 

مگر پھر ایک گہری سانس بھرتے وہ پھر سے بولنے لگا.... 

" مجھے دھوکا ملا!!!!!! 

ہاں آہل خان کو دھوکا ملا ہے!!! "

آہل حقارت انداز ہوا.... 

جبکہ منہاء اب اسے براہ راست نظریں جھکائے دیکھ رہی تھی... 

" اس شخص سے دھوکا ملا جس سے میں نے بے پناہ محبت کی!!!

شدت سے چاہا اور اپنا بنانے کا ارادہ کیا!!!!

مگر!!!!" 

آہل کا لہجہ بھیگا....

" مگر کیا؟؟؟؟"

منہاء جو تجسسی انداز سے اسے سن رہی تھی بول پڑی....

"وہ مجھے چھوڑ گئی!!!

مجھ سے زیادہ امیر شخص کی بیوی بن کر اس نے مجھے میری کمتری کا احساس کروایا....."

آہل کی آنکھ سے آنسوں ٹوٹا تو آواز بھی لڑکھڑا سی گئی....

"مجھے وہ بنا دیا جو میں کبھی تھا ہی نہیں!!!

میرے دادا کو مجھ سے دور کردیا اور مجھ میں اس قدر بے یقینی اور بے اعتباری بھر دی کہ مجھے ہر شخص دھوکے باز لگا!!! 

یہاں تک کہ تم بھی!!!! "

آہل نے منہاء کو محو نظر سے دیکھا.... 

جبکہ منہاء جس کو کچھ دیر پہلے اس شخص سے خوف محسوس ہورہا تھا اب اس پر ترس آنے لگا....

" اس کے بنائے ہوئے اس آہل نے سب کے ساتھ غلط کیا....

سب کو غلط سمجھا...

جو دل میں آیا کیا اور اپنی زلالت کا بدلہ دوسروں سے لے کر خود کو تسکین کا سامان تیار کیا!!! 

کسی کی نہ سنی نہ ہی کسی کی مانی!!!" 

آہل اپنے بالوں کو نوچتے شدت ہوا....

"تمہیں غلط کہا دادا سے لڑتا رہا....

اس حد تک گر گیا میں کہ میری وجہ سے تم نے اپنی ماں کو کھو دیا!!!!"

آہل شدت غم سے روتے ہوئے اپنے چہرے کو چھپائے بلبلایا....

" میں اتنا برا تو نہیں تھا!!!! 

میں سنگدل تو نہیں تھا!!!! 

ایک شخص نے مجھے کیا سے کیا بنا دیا مجھے خود بھی خبر نہ ہوئی!! "

 منہاء جو آہل کو یوں روتا دیکھ رہی تھی اب خود بھی رو پڑی تھی....

" اور دیکھو اللہ نے کیسا انصاف کیا ہے...." 

آہل منہاء کی جانب آنسوؤں لیے مڑا.... 

" میں نے تم سے تمہاری ماں کو چھینا تو اللہ نے مجھ سے میرے دادا کو!!!! 

وہ دادا جو میرے سب کچھ تھے..... 

اور اب میں نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے!!!!" 

آہل بچوں کی مانند بلکا.... 

" بلکل اسی طرح جیسے تم نے سب کچھ کھو دیا تھا!!!! "

دادا کہتے تھے اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اور وہ لاٹھی میرے دادا پر یوں برسی کہ اس کی آواز اب تک کانوں کے پردوں کو پھاڑ رہی ہے منہاء!!!! 

آہل منہاء کے ہاتھوں کو تھامے تڑپا.... 

میں نے کبھی ایسا نہیں چاہا تھا آہل!!!!! 

منہاء نے آہل کی بات سنی تو روتے ہوئے مدہم ہوئی.... 

کہ جو غم جو تکلیف مجھے ملی ہے وہ کسی دوسرے کو بھی ملے.... 

ہاں مگر وہ انصاف کرنے والی زات..... 

دیکھو کیسا انصاف کیا ہے.... 

مجھ سے میرے دادا ہی لے لیے اور اب ان کی موت کا ذمہ دار بھی میں ہو..... "

آہل خود کو پیٹتے چنگارا.... 

میں ہی" وجہ ہو ان کی موت کی!!!! 

میں نے ہی مارا ہے اپنے دادا کو!!!" 

منہاء جس کو یہ سب دیکھ کر اپنی اذیت یاد آگئی تھی سے یہ سب اب برداشت نہ ہورہا تھا تیزی سے باہر جانے کو اٹھی.... 

کہ تبھی آہل نے جاتی منہاء کی کلائی تھامی اور اسے وہی روک لیا.... 

منہاء نے اپنی سرخ آنکھوں سے آہل کو مڑتے دیکھا تو چہرے پر بے بسی کی پرچھائی دیکھی.... 

"آج رات مت جاؤ پلیز!!!! 

بہت انتظار تھا مجھے تمہارا!!!!" 

آہل منہاء کا ہاتھ تھامے اسے آس سے دیکھنے لگا....

" اب آئی ہو تو مت جاؤ!!!! 

 بہت تنہاء ہو میں مجھے ضرورت ہے تمہاری.... 

پلیز بس آج کی رات!!!!" 

آہل نے پرزور اسرار کیا تو منہاء انکار نہ کرسکی اور خاموشی سے آگے کو آتے اس کے واپس جا بیٹھی!! ... 

کہ آہل نے منہاء کو اپنے پاس بیٹھتے دیکھا تو خاموشی سے اپنا سر منہاء کی گود میں رکھے سسکیاں بھرنے لگا.... 

جبکہ منہاء جو آہل کی حالت زار کو دیکھ کر رو رہی تھی آہل کو اپنی گود میں یوں روتے دیکھ کر کشمکش میں اپنا ہاتھ ہوا میں لہرانے لگی.... 

مگر پھر بناء کسی کی پرواہ کیے اپنا ہاتھ آہل کے بالوں میں پھیرتے اسے پرسکون کرنے لگی.... 

جبکہ آہل نے منہاء کے لمس کو محسوس کیا تو اس لا دوسرا ہاتھ بھی تھامے اپنے سینے سے لگائے ہچکیاں بھرتے آنکھیں موندے سونے کی کوشش کرنے لگا.... 

جبکہ منہاء جو آہل کی حالت مو بخوبی سمجھ سکتی تھی اسے اب سہلانے لگی....

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

رات کا اندھیرا چھلکا تو صبح کا اجالا اپنی جوبن پر ناچا.... 

آہل جو دو راتوں کی بے سکونی کے بعد آج ایک پرسکون نیند لیے سویا تھا سورج کی کرنیں اس کی ہاتھ پر اپنی تپش بٹھائے اجاگر ہوئی تو وہ آنکھیں مسلتے جمائی بھرے زمین پر ہاتھ سے سہارا دیتے اٹھ. بیٹھا.... 

اپنے سر کو بے گانی سے کھجاتے وہ اونگھ بھری نظروں سے کمرے کو دیکھنے لگا کہ تبھی اسے رات کا منظر چھلکا... 

کہ جب وہ منہاء کی گود میں سر رکھے اپنے دل کے سارے بوجھ کو اتارے سو رہا تھا جبکہ منہاء اس کو یوں مطمئن سوتے دیکھ کر اس کے سر میں اپنی انگلیوں کے پوروں کو مسل رہی تھی.... 

"منہاء!!!!!!" 

آہل حیرت و تعجب سے زیر لب بڑبڑایا... 

کہ تبھی ہاتھ پاس ہی پڑے تکیے سے ٹکرایا جس کو تھامتے ہی آہل کے دماغ میں کئی خدشات اور خوف نے جنم لیا.... 

"کہیں وہ مجھے چھوڑ کر!!!!!" 

آہل اضطراری کیفیت سے تکیہ پیچھے کو پھینکتے دروازے کی جانب لپکا ہی تھا کہ تبھی اسے اندر آتی منہاء دیکھائی دی.... 

جو ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے تھامے مسکراہٹ دیے اندر کو آرہی تھی جبکہ اس کے پیچھے گل افگن ہاتھ میں چائے اور مشروبات کا سامان تھامے سیدھ میں تھے..... 

آہل جس کے چہرے کی ہوائی دیکھ کر دونوں ہی دنگ نظروں سے اسے مبہوت ہوتے دیکھ رہے تھے.... 

فوراً اپنے چہرے کو ہاتھوں سے چھپائے ایک گہری سانس بھرتے پرسکون ہوا.... 

"افگن چچا!!!! "

منہاء نے آہل کی حواس باختگی کو محسوس کیا تو آنکھ چرائے ناشتے کو بیڈ کی جانب لے کر چل پڑی.... 

"پانی لانا بھول گئے ہیں ہم!!!! 

آپ پلیز پانی لے آئے میں ناشتہ لگاتی ہو تب تک!!!! "

منہاء کی بات سنی تو گل افگن مشروبات کی ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور واپس باہر کی جانب بڑھ گیا..... 

آہل جو منہاء کو سکتے بھری کشمکش نظروں سے ابھی تک یوں دیکھ رہا تھا بالآخر بول ہی پڑا... 

" م!!!! م!!! مجھے لگا!!! "

آہل ہکلایا.... 

" کہ میں چلی گئی ہو!!!" 

منہاء پلیٹ سیٹ کرتے بناء آہل کو دیکھے بولی.... 

"ہممممممم!!!" 

آہل اپنے اجڑے بالوں کو روایتی انداز سے چھیڑتے گو ہوا..... 

"ایسا ہی کچھ!!!" 

"ایسا کچھ ہوتا تو رات کو ہی چلی جاتی...." 

منہاء روکھے پن سے بولتی ہوئی کھڑی ہوئی اور دروازے کی جانب بڑھی....

" یوں پوری رات آپ کے ساتھ نہ گزارتی!!!!" 

"کہاں جارہی ہو اب؟؟؟ "

آہل نے منہاء کو یوں جاتے دیکھا تو بے چین ہوا.... 

"افگن چچا کو دیکھنے.... "

منہاء بناء مڑتے تاسف ہوئی.... 

" پانی نہیں ہے یہاں!!!! 

اور آئے نہیں وہ ابھی تک لے کر تو میں لے کر آتی ہو.... 

آپ تب تک فریش ہوجائے!!!!! "

منہاء کہتے ہوئے باہر کو نکلی جبکہ آہل جو منہاء کی بے رخی کو اچھے سے محسوس کررہا تھا سنتے ہی فریش ہونے کو واش روم کی جانب ہوا..... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل فریش ہو کر باہر نکلا تو منہاء کو چائے تیار کرتے دیکھ کر ایک پل کو رکا..... 

سفید اور گلابی رنگ کے لباس میں ملبوس منہاء بہت ہی بھلی معلوم ہورہی تھی..... 

بناء کسی قسم کا بناؤ سنگھار کیے وہ ایک الگ ہی حسن کی جھلک کا پیکر لگ رہی تھی... 

"کس قدر برا کیا ہے میں نے اس کے ساتھ!!!!" 

آہل منہاء کے چہرے کی معصومیت کو دیکھتے محو ہوا.... 

"مگر یہ ہے کہ اب تک نفرت کے باوجود میرے ساتھ ہے میرا خیال رکھ رہی ہے!!!! 

کاش میں وہ سب نہ کرتا!!!! 

کاش اس کو مجھ سے محبت ہوتی!!!!" 

آہل اپنی سوچ میں گم مسلسل منہاء کو دیکھ رہا تھا جبکہ چائے کو تیار کرتی منہاء کی نظر سامنے کھڑے آہل پر پڑی جو ہاتھ میں تولیہ تھامے کھڑا تھا تو گو ہوئی... .. 

" آجائیے ناشتہ کرے آپ!!!! "

منہاء بناء کسی تاثر سے اٹھتے پیچھے کو ہوئی تو منہاء کی بات سنتے ہی آہل تولیہ ایک جانب پھینکتے بیڈ کی جانب بڑھا... 

"مجھے چچا نے بتایا ہے کہ آپ نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا...." 

منہاء متحیر ہوتے آگے کو ہوئی اور تولیہ اٹھائے واش روم کی جانب بڑھی.... 

" اب پلیز مکمل ناشتہ کر کیجئیے گا..... 

یہ نہ ہو کہ آپکی طبیعت خراب ہوجائے...." 

منہاء بولتے بولتے دروازے کی جانب ہوئی.... 

آپ" نہیں کرے گی ناشتہ؟؟؟ "

آہل نے منہاء کو روکنا چاہا....

"طبیعت تو آپکی بھی خراب ہوسکتی!!!!" 

منہاء جو آہل کی بات سنتے مڑی تھی متحیر ہوئی.... 

" نہیں!!!! 

میں ناشتہ کر چکی ہو.... 

مجھے جلدی کرنے کی عادت ہے...." 

جبکہ آہل جو پہلے ہی منہاء کے اس جواب سے اچھے سے واقف تھا منہ لٹکائے بیٹھ گیا.... 

"آپ کو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو!!!! "

منہاء جو اپنی بات کو مکمل کرنے پر ہی تھی کہ آہل پرجوش ہوتے بول پڑا... 

" میں اپکو اواز دے دونگا!!! "

آہل جو منہاء کی بات کو کاٹتے بولا تھا پرجوش ہوا... 

جبکہ منہاء جو آہل کو بھنویں اچکائے استعجاب ہوتے دیکھ رہی تھی نفی میں سر ہلانے لگی.... 

" چچا کو آواز لگا دیجئیے گا... 

وہ فورا آجایے گے...." 

منہاء لفظوں پر زور بھرتے وہاں سے کہتی چلتی بنی.... 

"آہل خان کی منکوحہ ہے محبت نہیں عشق کرے گی مجھ سے!!!!". 

جبکہ آہل نے منہاء کی بات سنی تو  دل ہی دل میں فرط جذبات ہوا.... 

آہل جو ناشتہ کرنے کے دوران مسلسل دروازے پر نظر جمائے منہاء کا منتظر تھا ناشتہ کرتے ہی سیدھا کمرے سے باہر نکلا اور سامنے گرل کی جانب ہوتے نیچے دیکھنے لگا.... 

کہ تبھی آہل کی متلاشی نظریں سامنے باہر سے آتی منہاء سے جا ٹکرائی جو گل افگن سے بات کرتے اندر کی جانب ہی آرہی تھی.... 

"منہاء!!!!! "

آہل جو اسے دیکھتے ہی بے صبرا ہوتے اوپر سے ہی چلایا تھا کی آواز پورے لاؤنچ میں گونجی.... 

کہ منہاء جو اپنا نام سنتے ہی اوپر آہل کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی گل افگن بھی چونکتے اسے تاڑنے لگا... 

"جی!!!" 

منہاء تاسف ہوئی... 

جبکہ آہل جو منہاء کی گھرتی نظروں کو دیکھ کر بوکھلا سا گیا تھا اب اردگرد چندھیائی نظروں سے دیکھنے لگا.... 

"آپ کو کچھ چاہیے؟؟؟؟ "

منہاء نے آہل کی کشمکش دیکھی تو متحیر ہوئی.... 

"نہیں کچھ نہیں چاہیے بس وہ برتن پڑے ہیں اندر آ کر لے جاؤ!!!! "

آہل کمرے کی جانب اشارہ کرتے تذبذب ہوا.... 

جبکہ منہاء آہل کی بات سمجھتے ہوئے حامی میں سر ہلاتے بولی.... 

"ٹھیک ہے آپ جائیے میں لے جاتی ہو آ کر!!!!. "

منہاء بدمست مسکرائی.... 

جبکہ آہل نے منہاء کی بات سنی تو دبی مسکراہٹ لیے کمرے کی جانب بڑھ گیا.... 

"چچا آپ ایسا کرے آپ جا کر لے آئے برتن آہل کے کمرے سے میں تب تک انکل کے کمرے کو سیٹ کر آتی ہو.... "

منہاء نے آہل کو جاتے دیکھا تو گل افگن سے کہنے لگی... 

"سوچ رہی ہو انہی کے کمرے میں ہی قرآن خوانی کرواؤ..... 

کہتے ہیں چالیس دن تک روح اپنے گھر میں رہتی ہیں بہتر ہے انہی کے کمرے میں کرواؤ تاکہ وہ بھی سن لے اور پرسکون ہوجائے... "

"ہاں ٹھیک ہے بیٹا..... 

آپ جاؤ میں برتن رکھ کر آتا ہو آپکی مدد کو.... "

گل افگن مسکراہٹ دیتے سیڑھیوں کی جانب بڑھا جبکہ منہاء پل بھر کو کچھ سوچتے رکی اور پھر خان بابا کے کمرے کی جانب بڑھی..... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل جو منہاء کی بات سن کر فرط جذبات سے دلکش مسکراہٹ لیے اندر کمرے میں داخل ہوا تھا.... 

خوشی سے سرشار ہوتے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کھڑا ہوا اور پھر شیشے میں اپنی بگڑی حالت کو دیکھ کر منہ کے برے زاویے بنائے زیر لب بڑبڑایا!!!!!

"افففففف کس قدر عجیب لگ رہا ہو میں؟؟؟" 

آہل اپنی بڑھی ہوئی داڑھی اور چہرے کی بے رونقی دیکھ کر بدگوئی ہوا... 

"اور پھر اس بات کی امید رکھنا کہ مجھے دیکھتے ہی وہ مجھ سے مجبت کا اقرار کرے سراسر میری کم عقلی کا ثبوت ہوگی!!!!" 

آہل دلکس مسکراہٹ لیے سوچتے ہی سیدھا اپنے واش روم کی جانب بڑھا تاکہ اپنی حالت کو قدرے بہتر کر سکیں....

جبکہ آہل کے جاتے ہی گل افگن کمرے میں داخل ہوا اور ایک ایک کرکے سارے برتن سمیٹنے لگا....

آہل نے کمرے میں کسی کھٹ پٹ کی آواز سنی تو پرجوش انداز سے واپس باہر کی جانب لپکا مگر امید پر اوس کی چادر تب پڑی جب سامنے منہاء کی بجائے گل افگن کو مسکراتے پایا.….

"تم یہاں کیا کررہے ہو؟؟؟؟" 

آہل نے افگن کو دیکھا تو شدت ہوا....

"اور منہاء کہاں ہے؟؟؟

میں نے تو اسے بلایا تھا یہ سب اٹھانے کو؟؟؟

تو وہ کیوں نہیں آئی؟؟؟"

"صاحب جی وہ بہو بیٹا بڑے صاحب کے کمرے میں ہے...." 

گل افگن نے آہل کا بگڑا مزاج دیکھا تو برتن سمیٹتے جواباً ہوا...

"تو اس لیے انہوں نے مجھے بھیج دیا کہ میں برتن لے جاؤ یہاں سے!!!"

" وہ وہاں کیا کررہی ہے؟؟؟" 

آہل پھوپھاں کرتے غصے سے بیڈ کی جانب لپکا اور اپنی سگریٹ کی ڈبی دراز سے نکالے سلگانے لگا.... .. 

"اور اسکا وہاں کیا کام؟؟؟؟" 

"صاحب جی بہو بیٹا کہہ رہی تھی کہ بڑے صاحب جی کے کمرے میں ان کیلئے قرآن خوانی کروانی ہے تبھی وہ کمرے کی صفائی کروا رہی ہے.... "

آہل جو بیزاری سے سگریٹ منہ میں دبائے ایک کش بھرتے سب  سن رہا تھا سنتے ہی ایک دم رک سا گیا اور پھر اور بھی شدت سے سگریٹ منہ سے نکالے زمین پر پھینکتے اسے مسلنے لگا.…

" تو صفائی کا کام تم بھی کرواسکتے تھے؟؟؟

 کہ سارا ٹھیکا آپکی بہو بیٹا نے اٹھا رکھا ہے؟؟؟" 

" صاحب جی جو بہو بیٹا  نے مجھے کہا میں نے وہی کیا!!!!" 

افگن نے سنا تو مایوس کن ہوا.... 

"آپ کی بہو بیٹا کو آئے بس ایک ہفتہ ہوا ہے.... "

آہل سپاٹ ہوا..... 

" جبکہ آپ کو یہاں کام کرتے ایک عرصہ بیت گیا ہے اور آپ اچھے سے جانتے ہیں کہ یہاں کس کی بات سنی جاتی ہے اور مانی جاتی ہے.... 

لہذا اگلی بار آپکی بہو بیٹا کوئی حکم دے تو ان کے کان میں میری یہ بات ضرور ڈالیے گا .....

کہ آہل خان ابھی زندہ ہے اور انکا سرپرست ہے بہتر ہے پہلے مجھ سے پوچھا جائے اور پھر کسی پر کو ہلایا جائے" 

" جی صاحب جی!!!! "

افگن نے سنا تو حامی میں سر ہلائے بولا... 

" بہتر!!! "

" اب جائیے آپ یہاں سے.... "

آہل چڑچڑاتے ہوئے چلایا....

" اور کرے خدمتیں اپنی بہو بیٹا کی!! "

 گل افگن نے آہل کی بلاوجہ کی اکتاہٹ دیکھی تو منہ لٹکائے برتن اٹھائے باہر کو بڑھا.... 

"کیا وقت آگیا ہے اس لڑکی کی وجہ سے مجھ پر!!!! "

افگن کے جاتے ہی آہل نے واپس اپنا سگریٹ نکالا اور دوبارہ اسے جلاتے دھواں چھوڑنے لگا...

"گھر کے معاملات مجھے نوکروں سے پتہ لگے گے اب!!! "

"ناجانے کیا جادو کیا ہوا ہے سب پر ؟؟؟؟" 

آہل کھڑکی کی جانب سوچتے زیر لب بڑبڑایا... 

" جس کو دیکھو اسے کے سحر میں جکڑا ہے!!!!" 

"اور شاید ان میں اب میں بھی شامل ہو!!!! 

اور میرا نام سرفہرست ہے ان پر!!!" 

آہل جو یہ بولتے مدہم مسکرایا تھا اب باہر چڑھتے سورج کی پروان کو فخریہ انداز دیکھنے لگا.... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء خان بابا کے کمرے کی صفائی کروا رہی تھی جب منہ بسورے گل افگن کمرے میں داخل ہوا.... 

" چچا آپ آگئے!!! "

منہاء نے افگن کو دیکھا تو خوش دل ہوئی.... 

"میں اپکا ہی انتظار کررہی تھی...." 

"کیوں کیا ہوا بیٹا سب خیریت؟؟" 

افگن مبہم ہوا.... 

"ہاں خیریت ہے چچا بس آپ یہ دیکھ لے کہ صفائی صیحح ہوئی ہے ناں! 

اور کوئی چیز اپنی جگہ سے ہلی تو نہیں؟؟؟؟" 

منہاء پورے کمرے کا معائنہ کرتے بولی.... 

"نہیں سب ٹھیک ہے!!!! 

بلکل ٹھیک!!!!! "

" اچھا چچا آپ کسی کام سے آئے تھے یہاں؟؟؟ "

منہاء سوالیہ ہوئی..... 

"ہاں بیٹا وہ میں اپکو بتانے آیا تھا کہ اپکی دوست آئی ہے آپ سے ملنے!!! 

میں نے انہیں لاؤنچ میں ہی بیٹھا دیا...." 

"ثمر آئی ہوگی!!! 

یقیناً" 

منہاء نے سنا تو پرجوش مسکرائی.... 

" ہاں ہاں وہی!!!! "

افگن یاد دہانی ہوا.... 

" آپ آجاؤ میں چائے بناتا ہو آپ دونوں کیلئے!!!! "

" نہیں چچا!!!! "

منہاء جو باہر جانے کو ہی ہوئی تھی واپس پلٹی.... 

" میں خود بنا لونگی

آپ بس جو کمی رہ گئی ہے اس کمرے میں وہ دیکھ لے پلیز!!! 

یہ نہ ہو آہل دیکھے تو بلاوجہ غصہ کرے!!!!" 

منہا منہ بسورے بولی اور باہر کی جانب لپکی.... 

"جی بہتر!!!! "

جبکہ منہاء کے جانے کے بعد گل افگن  خان بابا کمرے کا جائزہ کرنے لگا... 

"السلام علیکم!!!!"

منہاء ثمر کو دیکھتے ہی اس کی جانب جوشیلے انداز سے بھاگی اور ساتھ لپک گئی ... 

" وعلیکم السلام!!! 

کیسی ہیں میری بہن؟؟؟؟" 

ثمر بھی پرجوش ہوئی... 

"میں بلکل ٹھیک!!! 

تم سناؤ اتنی صبح یہاں کیسے؟؟؟" 

منہاء ثمر کو اپنے ہمراہ لیے صوفے پر براجمان ہوئی.... 

" ویسے میں آج صبح ہی تمہیں یاد کررہی تھی.... 

سوچ ہی رہی تھی کہ تمہیں فون کرو.... 

اور دیکھو تم میرے سامنے!!!!" 

منہاء مسکرائی.... 

"دیکھ لو تم نے سوچا اور میں حاضر!!!!" 

ثمر شوخی ہوئی...

" اچھا بس کرو اب زیادہ بنو مت یہ بتاؤ چائے پیو گی کہ کافی؟؟؟" 

"کچھ بھی نہیں پینا مجھے!!!! 

سب کھا پی کر آئی ہو میں!!! "

ثمر نے سنا تو نفی ہوئی.…

" بلکہ تمہیں ایک بہت ضروری بات بتانی تھی میں نے تو بس تبھی آئی ہو!!…."

" وہ تو ٹھیک مگر پہلے یہ بتاؤ آنٹی کیسی ہیں اب!!!! 

سوری میں پتہ کرنے نہیں آسکی انکا!! "

منہاء معذرت خواہ ہوئی.…

" ارے یار کوئی بات!!! 

امی بلکل ٹھیک ہے اب!!!!" 

ثمر برجستہ ہوئی... 

"اور ویسے بھی ان کو سب پتہ ہے تمہارے بارے میں اور وہ تمہارا پوچھ رہی تھی مجھ سے.....

آئے گی ملنے تم سے کسی دن!!! "

" اچھا!!!!"

منہاء تاسف ہوئی... 

" تو اب بتاؤ کیا بات کرنی ہے تم نے مجھ سے جو میفی یاد پر بھاگی آئی ہو؟؟؟. "

ثمر نے سنا تو مسکراہٹ دیتے ایک فائل منہاء کے سامنے رکھ دی اور خاموش ہوگئی... 

" یہ کیا ہے؟؟؟ "

منہاء فائل تھامے تذبذب ہوئی.... 

" یہ میرے ڈاکومنٹس ہے جو آج ہی میں خان انڈسٹری سے واپس لے کر آئی ہو..... "

" کیا؟؟؟؟ 

کیا سچ میں!!! "

منہاء نے سنا تو بے یقینی کیفیت سے فائل کی جانب لپکی اور پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگی... 

"یہ تو سچ میں!!! "

" بلکل ایسے ہی تاثرات تھے میرے جب مجھے فون آیا کہ میں اپنے ڈاکومنٹس واپس لے سکتی ہو.... 

مگر اس سے زیادہ حیرت زدہ تب ہوئی جب سچ میں میرے ہاتھ میں میرے ڈاکومنٹس تھما دیے گئے تھے...." 

ثمر ہنستے متحیر ہوئی... 

جبکہ منہاء کبھی  اسے تو کبھی فائل کو مبہوت نظروں سے گھورنے لگی.... 

" تمہیں پتہ ہے ثمر ساری فساد کی جڑ یہی ڈاکومنٹس تھے!!! "

منہاء جو ہکا بکا تھی کہ تاثرات دیکھے تو ثمر نے فوراً اپنی فائل کھینچی.... 

" شکر ہے مجھے تو میرے ڈاکومنٹس مل گئے!!!!" 

ثمر فائل خود سے لگائے مطمئین ہوئی.... 

جبکہ منہاء مایوسی سے سر گرائے بیٹھ گئی.... 

" مگر یار مجھے تو میرے ڈاکومنٹس نہیں ملے!!!! "

" کیونکہ محترمہ آپ کے ڈاکومنٹس اب آپ کے شوہر کے ہی پاس ہے.... 

اور اب اپکو ان ڈاکومنٹس کی نہیں نکاح ڈاکومنٹس کی بات کرنی چاہیے مجھ سے صرف!!!" 

ثمر جو کہتے ہی کھلکھلا کر ہنسی تھی منہاء اسے طیش نظروں سے گھورنے لگی.... 

" اب ایسے کیا گھور رہی ہو تم مجھے؟؟؟ 

جاؤ چائے بنا کر لاؤ میرے لیے!! "

ثمر نے منہاء کو جلتے بنتے دیکھا تو مزے سے چڑچڑاے بولی... 

" اب دل کررہا ہے پینے کو میرا!!! 

وہ بھی چسکیاں بھر کے!!!" 

"چائے کی جگہ زہر نہ پلادو تمہیں میں!!!" 

منہاء نے پاس پڑے کشن کو ثمر کے منہ پر دے مارا جس پر وہ چلا سی اٹھی.... 

" بہت ہی فضول بکنے لگی ہو تم!!!!" 

"منہاء یہ کیا بدتمیزی ہے؟؟؟ 

سچ ہی تو کہا ہے میں نے!!! 

اس پر اتنی زور کا تکیہ مارنے کی کیا ضرورت تھی؟؟؟" 

ثمر نے تکیہ واپس منہاء کی جانب پرزور انداز سے پھینکا جو اس نے بخوبی اچھے سے تھام لیا.... 

" وہ تمہارا شوہر ہے اور تم اس کی زوجہ محترمہ!!!! 

اور بقول تمہارے ہی تمہارے نزدیک اس نکاح کی اہمیت ہے تو اب آوور مت ہو!!!! "

" بلکل یہ سچ ہے!!! "

منہاء نے سنا تو شدت انداز سے چلائی.... 

"کہ اس نکاح کی اہمیت میرے نزدیک ہے.... 

مگر سچ یہ بھی ہے کہ اس شخص کی اہمیت میرے نزدیک ایک مٹی کے ذرے برابر بھی نہیں!!!! 

اگر سچ یہ ہے کہ میں اس کے نکاح میں ہو تو سچ یہ بھی ہے کہ یہ رشتہ بس انکل کی وجہ سے بنا تھا.... 

اور چونکہ اب انکل نہیں تو پھر یہ رشتہ بھی نہیں..... "

منہاء بھڑکتے چنگاری.... 

" تو کیا مطلب تم اس سے طلاق؟؟؟ "

ثمر ششدر ہوتے مدہم ہوئی.... 

" ہاں بلکل!!! 

اب چاہے وہ دے یا نہ دے مگر میں علیحدگی لونگی اس سے.….

کیونکہ مجھے نفرت ہے اس سے.... "

منہاء طیش سے تلملاتی کھڑی ہوئی.... 

" تب سے جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی تو باقی باتیں تو ہے ہی بعد میں.... "

" تم پاگل ہوگئی ہو پوری منہاء !!! 

مجھے نہیں پتہ تھا کہ نفرت تمہیں ایسی سوچ تک پہنچا دے گی!!! "

ثمر مبہم ہوتے کھڑی ہوئی.... 

" کیوں خود کی زندگی کا تماشا بنا رہی ہو تم؟؟؟ 

اب کوئی نہیں ہے تمہارا اس دنیا میں منہاء.سوائے آہل بھائی کے جو تمہیں سہارا دے گے...." 

" اور مجھے اس شخص کا سہارا چاہیے بھی نہیں!!!! "

منہاء جواباً بھڑکی.... 

" میں بس اس کے سنبھلنے کا انتظار کررہی ہو... 

وہ کچھ بہتر ہو تو میں اس سے دوٹوک بات کرونگی .... "

منہاء دوٹوک ہوئی... 

" اور ویسے تم کیوں اتنا ساتھ دے رہی ہو اسکا.... 

کیا پتہ وہ مجھے خود چھوڑ دے اور خود میرے ساتھ رہنا نہ چاہے؟؟؟" 

منہاء بدمست مسکرائی... 

جبکہ ثمر جو اس کی باتیں سن کر اسے پریشان نظروں سے گھور رہی تھی پیچھے کھڑے ساکت وجود کو دیکھ کر ٹھٹھک سی گئی... 

"اب چپ کیوں لگ گئی ہے تمہیں؟؟؟ "

منہاء طنزیہ ہوئی.... 

" اب بولوں چائے پیو گی. کہ کافی؟؟؟ "

" کافی!!! "

آہل جو پیچھے کھڑا منہاء کی سب باتیں سن رہا تھا سپاٹ ہوا.   

جبکہ منہاء جو آہل لی آواز سن کر چندھیا سی گئی تھی مڑتے آہل کو دیکھنے لگی.... 

"کافی مل سکتی ہے مجھے!!! 

اگر ہوسکے تو ابھی!!!! 

وہ بھی میرے کمرے....." 

آہل بناء تاثرات دیکھائے بولا اور سیدھا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا.... 

جبکہ منہاء جو آہل کی موجودگی سے ناواقف تھی اب واپس ثمر کو ہکا بکا نظروں سے دیکھنے لگی... 

"تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟؟؟؟ "

"مجھے خود ہی پتہ نہیں چلا کہ کب آہل بھائی پیچھے؟؟؟ "

ثمر نے سنا تو کندھے اچکاتے گو ہوئی... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل منہاء کے سامنے تو کوئی تاثر دیے بغیر وہاں سے آ تو گیا تھا مگر کمرے میں داخل ہوتے ہی ضبط سے کھڑا آہل آپے سے باہر ہوگیا..... 

اور ڈریسنگ ٹیبل کی جانب بڑھتے ہی ایک زور دار مکا سامنے شیشے پر دے مارا..... 

جس سے شیشہ کئی ٹکڑوں میں بکھرتے زمین پر جا گرا اور کرچیوں میں پورے فرش پر بکھر گیا.... 

آہل جس کا غصہ منہاء کی باتیں سن کر ماؤنٹ اوریسٹ کی چوٹی پر تھا گہرے سانس بھرتے ہوئے وہ دونوں ہاتھوں کو ڈریسنگ ٹیبل پر ٹکائے سر گرائے لمبے سانس بھرنے لگا.... 

"سچ یہ ہے کہ میں اس کے نکاح میں ہو تو سچ یہ بھی ہے کہ یہ رشتہ بس انکل کی وجہ سے بنا تھا.... 

اور چونکہ اب انکل نہیں تو پھر یہ رشتہ بھی نہیں.." 

آہل کے کانوں میں منہاء کی آواز گونجی تو وہ شدت لیے پیچھے کو مڑا..... 

کہ مڑتے ہی اس کی نظر سامنے کافی لیے کھڑی منہاء پر پڑی... 

جو پہلے تو کمرے میں بکھرے ٹوٹے شیشے کو دیکھ رہی تھی مگر اب نظر آہل کے ہاتھ پر پڑی جس کے دونوں ہاتھوں سے خون ٹپ ٹپ کرتے فرش پر اپنی لالی چھوڑ رہا تھا..... 

"یہ آپکی کافی!!!!" 

منہاء سرخ اور غصے سے پاگل ہوتے آہل کو نظر بھر دیکھتے آگے کو ہوئی اور کافی کا مگ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے واپس پلٹی..... 

آہل جو پہلے ہی منہاء کی سب باتیں سن کر خونخوار ہوگیا تھا منہاء کی نظر اندازی دیکھتے اس کی جانب تیزی سے لپکا اور جاتی منہاء کو بازو سے جکڑتے اسے اپنے جانب کھینچا اور اپنی بازوؤں کے حصار میں منہاء پر اپنی گرفت مضبوط کردی..... 

"آہل!!!! 

یہ بدتمیزی ہے؟؟؟؟" 

منہاء آہل کی دیوانگی کو دیکھتے چلائی.... 

"چھوڑو مجھے چھوڑو.!!!!" 

"تم سمجھتی کیا ہو خود کو؟؟؟؟" 

آہل منہاء کے چہرے پر جھکتے پھنکارا!!! 

"میں کچھ بھی نہیں سمجھتی ہو خود کو!!!!" 

منہاء سنجیدہ چلائی... 

"اور تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ مجھے یوں تکلیف دو!!!" 

"شوہر ہو میں تمہارا!!!! 

اورحق رکھتا ہو!!!! "

آہل منہاء کو اپنے قریب اور کرتے سنگین ہوا.... 

"کہ تمہارے ساتھ کچھ بھی کر جاؤ.... "

"مانتی ہو تم شوہر ہو میرے...." 

منہاء آہل کی گرفت میں پھڑکی.... 

*مگر یہ حرکتیں شوہر کو زیب نہیں دیتی!!! 

کہ بیوی کو یوں تکلیف دے کر اپنے حق کا مطالبہ کرے... "

"مجھے چھوڑنا چاہتی ہو؟؟؟؟ 

کیوں؟؟؟؟ 

کس نے اجازت دی ہے تمہیں ایسا سوچنے کی بھی!!!" 

آہل منہاء کے چہرے پر اپنی نظریں جمائے شدت ہوا.... 

" کیونکہ میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا نہیں چاہتی!!!!! "

منہاء آہل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پھنکاری....

" اور مجھے تمہاری اجازت کی ضرورت نہیں ہے مجھے یہ حق میرے مذہب نے دیا جس کی اجازت میں تم سے لینا مناسب نہیں سمجھتی.... "

"میں تمہیں نہیں چھوڑونگا!!!!" 

آہل منہاء کی کمر کے گرد اپنی بازوؤں کی مضبوطی حائل کرتے فرط جذبات مدہم ہوا..... 

"مگر میں تمہیں چھوڑونگی!!! 

چاہے تم مجھے طلاق دو یا نہ دو.... 

میں تم سے خلع ضرور لونگی!!!" 

منہاء بھی ضد آزمائی ہوئی.... 

" میں تمہیں ایسا نہ کرنے دونگا اور نہ ہی خود کرونگا... 

کیونکہ تم میری ہو..... 

منہاء آہل خان ہو تم!!!!" 

آہل فرط جذبات سے مسرور ہوتے منہاء کے چہرے کی جانب جھکا.... 

" آہل!!! 

حد میں رہے اپنی!!!! 

اور چھوڑیں مجھے!!!!" 

منہاء نے آہل کو خود پر حاوی ہوتے دیکھا تو خود کو اس سے دور کرنے کی کوشش کرتے چلائی.... 

" ششششششششش!!!! 

چپ!!! "

آہل جو خود لے قابو میں نہیں تھا منہاء کی پیشانی پر لب رکھے متحیر ہوا.... 

"آہل!!!! 

پلیز!!!! "

منہاء جو روہانسی ہوگئی تھی آہل کے چہرے پر نمودار ہوتے ننھے پسینے کے قطروں کو خود پر گرتے محسوس کرنے لگی.…

"تم میری ہو منہاء!!! 

محبت کرتا ہو تم سے میں.... "

آہل جو براہ راست بلا جھجھک منہاء سے اپنی محبت کا اعتراف کررہا تھا منہاء اس کو بے یقینی نظروں سے دیکھنے لگی.... 

"شدت سے عشق کرتا ہو تم سے ..... 

اور تم کیسے سوچ سکتی ہو کہ میں آہل خان تمہیں خود سے دور ہونے دونگا...." 

آہل منہاء کو بیڈ کی جانب دھکیلے فوراً دروازے کی جانب ہوا اور چٹکی چڑھائے منہاء کی جانب مڑا.... 

*نہیں!!!! 

ہرگز نہیں!!! "

منہاء جو آہل کی وحشت کو دیکھتے گھبرا سی گئی تھی واپس دروازے کی جانب ہڑبڑاتی لپکی مگر آہل جو پہلے سے ہی اس کی راہ میں کھڑا تھا منہاء کو واپس اپنی بانہوں میں بھرے اس کے چہرے پر جھک گیا.... 

منہاء جو آہل کے لمس کو محسوس کرتے شدتی مذمت کررہی تھی.... 

آہل اسے خود سے لگائے اسے اپنی مضبوطی کا احساس بخوبی دے رہا تھا.... 

چند منٹ کی مذمت کے بعد منہاء نے مزید ہمت نہ لگائی جبکہ آہل نے منہاء کی جانب سے اب کوئی روٹوک نہ دیکھی تو خود سے الگ کرتے اب دور ہوتے مسکرانے لگا..... 

جبکہ منہاء جو آہل کی گرفت سے چھوٹتے ہی پیچھے کو ہوتے اپنے لبوں پر ہاتھ رکھے اسے دیکھ رہی تھی اب رونے لگ گئی تھی... 

"بس اتنی سی ہمت!!! 

اتنا سا ضبط تھا میری محبت کا!!!" 

آہل جو دونوں بازوؤں باندھے اسے مزے سے دیکھ رہا تھا ہنستے بولا..... 

جبکہ منہاء جو بار بار اپنے ہونٹوں کو صاف کررہی تھی روتے ہوئے بناء کوئی جواب دیے دروازے کی جانب بڑھی.….

"مس منہاء آہل خان.!!!!" 

آہل جو آگے کو ہوتے کافی تھامے اونچی آواز سے بولا تھا منہاء آواز سنتے ہی رکی.... 

"امید ہے ٹریلر اچھا لگا ہوگا...." 

آہل جو منہاء کو کہتے ساتھ ہی  قہقہ آور ہوا تھا منہاء اسے مڑتے دیکھ کر کاٹ کھانے کی نظروں سے دیکھنے لگی.... 

"لیکن. اگر مزید کسی بھی قسم کی ایسی سوچ سوچی تم نے .... 

تو!!!!!!! "

آہل مگ پر اپنی انگلی پھیرتے سنگین ہوا.... 

"یقین جانو میرے بچوں کی امی تم ہی بنو گی!!!! "

آہل کہتے ہوئے قہقہ آور ہوا جبکہ منہاء روتی بلکتی کمرے سے باہر نکل پڑی... 

"بیوقوف لڑکی!!!! "

آہل منہاء کو جاتے دیکھ کر بولا... 

"مگر کافی اچھی بناتی ہے یہ!!!! "

آہل نے چسکی بھری تو زیر لب بڑبڑاتے مسکرایا.... 

اور کافی کے چسکے بھرنے لگا... 



Group by Amir Abbasi

Novel Bank

Private group

 ·

404.5K members

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Facebook

Rabia Bukhari

dstrSoopne9g

 

 

5g8320

2

i534

0

ii9

r

u8

0

tf11hc

2

34

M

f7

1

7

a

31l31

h

2

9h

c

a5

  · 

ناول

                          👈#دیار_دل🔥👉

از 👈 رابعہ بخاری🌸

#نوٹ:

بناء اجازت کاپی پیسٹ نہ کرے اور ہر اگلی قسط کا لنک پچھلی قسط میں پوسٹ کیا جائے گا اور اگلی قسط کل پوسٹ کی جائے گی شکریہ😊

Epi link

https://m.facebook.com/groups/819738951696027?view=permalink&id=1207737612896157 

قسط نمبر 32 

منہاء جو آہل کے کمرے سے نکلتے ہی سیدھا اپنے کمرے میں داخل ہوئی تھی تیزی سے بیڈ پر دھرم کرتے جا لیٹی اور چہرہ دونوں بازوؤں میں چھپائے رونے لگی.... 

ثمر جو صوفے پر مزے سے دونوں ٹانگیں جمائے منہاء کے آنے کے ہی انتظار میں بیٹھی موبائل استعمال کررہی تھی اس کو یوں روتے بلکتے بیڈ پر گرتے دیکھ کر چندھیا سی گئی.... 

"اب اس کو کیا ہوا ہے؟؟؟ 

یہ تو آہل بھائی کو کافی دینے گئی تھی؟؟؟" 

ثمر زیر لب خود سے  سوالیہ ہوئی.... 

"ایسے ٹھاکر کی بنستی کیوں بن کر واپس آئی ہے؟؟؟ ….." 

ثمر جو سوچتے اٹھی تھی سیدھا منہاء کی جانب بڑھی اور اس کے پاس جا بیٹھی..... 

"منہاء؟؟؟ 

کیا ہوا ہے یار تجھے؟؟؟؟ "

ثمر نے منہاء کو چہرہ چھپائے روتے دیکھا تو اسے ہلاتے مبہم ہوئے... 

"رو کیوں رہی ہو؟؟؟ 

ابھی تک تو ٹھیک تھی ناں تم تو اب اچانک کیا ہوگیا ہے؟؟؟" 

"ثمر!!!!" 

منہاء نے ثمر کی آواز سنی تو چہرہ اٹھائے اسے روتے دیکھنے لگی.... 

" کیا ہوا ہے تمہیں مجھے بتاؤ؟؟؟ 

اور یہ نشان؟؟؟؟" 

ثمر کی نظر منہاء کے ہونٹ پر پڑی جو اب گہرا سرخ پڑ چکا تھا تو ششدر نشاندہی کرتے بولی..... 

" یہ کس چیز کا نشان ہے تمہارے ہونٹ پر!!!!؟؟ 

ابھی تو کچھ دیر پہلے نہیں تھا؟؟؟؟ 

اب کہاں سے آیا ہے؟؟؟" 

ثمر تجسی سوالیہ ہوئی... 

" اور تم تو آہل بھائی کو کافی دینے گئی تھی تو پھر یہ سب؟؟؟" 

 منہاء جس کی ہچکیاں پورے کمرے میں پھیل گئی تھی روتے ہوئے ثمر کے گلے لگ گئی....

" وہ!!!! 

وہ آہل!!!! 

اس نے؟؟؟ "

" کیا ہوا ہے آہل بھائی کو؟؟؟؟ "

ثمر نے سنا تو منہاء کو خود سے. الگ کرتے اضطراری ہوئی... 

" اور کیا کیا ہے آہل بھائی نے؟؟؟؟ 

کچھ بولو گی یا یونہی روتی جاؤگی؟؟؟" 

"وہ بہت جنگلی ہے ثمر!!!" 

منہاء نے ثمر کی پریشانی دیکھی تو واپس گلے لگتے اس پر اپنی گرفت مضبوط کرتے پھنکاری....

" وہ بہت جنگلی ہے!!!! 

اس کو بلکل احساس نہیں ہے میرا .... 

وہ بس ایک خونخوار جانور ہے جو بس نوچنا چاہتا ہے..... 

نوچنا جانتا ہے!!!! "

" تو تمہارا مطلب یہ نشان ان کی جانب سے!!!! ؟؟؟" 

ثمر نے سنا تو منہاء کو خود سے الگ کرتے حیرت زدہ ہوئی.... 

"ہاں!!!! 

یہ اسی نے!!! "

منہاء اپنے ہونٹ کو چھوتے افسردہ ہوئی..... 

" ہائے اللہ سو رومینٹک!!!!!" 

ثمر جو سنتے ساتھ ہی جوشیلے اور شرماہٹ انداز سے بستر پر گرتے لیٹی تھی دبی مسکراہٹ ہوئی.... 

جبکہ منہاء جو ثمر کے تاثرات کو دیکھ کر غصے سے بپھڑی تھی پاس پڑے تکیے کو اس کے منہ پر دے مارا..... 

"بہت شوق ہے ناں تمہیں رومانس کا تو بہن تم کیوں نہیں کروا لیتی ہو شادی اپنی!!!!!" 

ثمر جو منہاء کی بات سن کر مسکرا رہی تھی منہ پر پڑتے تکیے نے اس کو ہلا کر رکھ دیا.... 

"پھر سے مارا مجھے تم نے منہاء کی بچی!!!" 

ثمر للڑکارے اٹھی اور تکیہ منہاء کے سر پر دے مارا..... 

" بہت اچھا کیا آہل بھائی نے تمہارے ساتھ کیونکہ تمہاری حرکتیں ہی ایسی ہے.... 

کہ کوئی برداشت نہ کرے...." 

ثمر بیڈ پر کھڑے ہوتے چنگاری.... 

"ثمر تم اس کا ساتھ دے رہی ہو!!! "

منہاء اپنا سر پکڑے حیرت زدہ ہوتے اس کے روبرو کھڑی ہوئی... 

"تم میری دوست ہو کر اس آہل خان کا ساتھ دے رہی ہو؟؟؟ 

تمہیں یاد ہے ناں کہ میرے ساتھ کیا کیا تھا اس نے.... "

منہاء سوالیہ انداز سے ثمر کو بے یقینی نظروں سے دیکھتی چلائی... 

" یاد ہے سب یاد ہے مجھے.... 

مگر تم اب بھول رہی ہو سب منہاء !!!." 

ثمر تاسف ہوئی تو منہاء ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی.…

" تم جو بار بار کہہ رہی ہو ناں کہ اس نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟؟ !!! 

یاد کروں یاد کروں!!!!" 

ثمر بے ڈھنگ منہ چڑاتے بھڑکی.... 

"مت بھولو اس کی سزا اسے مل چکی ہے...." 

ثمر منہاء کے کندھے کو دھکا بھرے سرد ہوئی جو منہ بگاڑے اسے گھور رہی تھی...... 

"جیسے تم نے ناز آنٹی کو کھویا ہے اس نے بھی اپنے دادا کو کھویا ہے.... 

تو اب تو یہ بات کرنا چھوڑ ہی دو تم!!!!" 

"تم جو مرضی کہہ لو!!!! 

میرا دل کبھی بھی اس کی جانب سے صاف نہیں ہوگا...." 

منہاء زہر آلود ہوئی.. 

"کیونکہ میری زندگی کو بے ہنگم اور تباہ کرنے والا وہی واحد ایک شخص ہے.... "

" اور سنوارنے والا بھی!!! "

ثمر نے سنا تو ایک بار پھر تکیہ منہاء کے سر پر دے مارا اور ہنستے ہوئے پیچھے کو ہوئی.... 

منہاء جو اس وار سے بلکل بے خبر تھی بیڈ پر اوندھے منہ جا گری.... 

" ثمر کی بچی!!!! 

تجھے تو میں آہل خان سمجھ کر مارو گی اب!!!! "

منہاء سر تھامے تکیہ اٹھاتے غرائی اور اس کی جانب شدت انداز سے بھاگی.... 

"بڑا شوق ہے ناں اس کی طرفداری کرنے کا اب دیکھنا!!!! "

کہ کچھ ہی پل میں دونوں کے درمیان ایک سنگین قسم کی پلو فائیٹ شروع ہوگئی.... 

اور دونوں ایک دوسرے کو زیر کرنے کے چکر میں مسلسل ایک دوسرے پر تکیوں سے وار کرنے لگیں... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل جو منہاء کے جانے کے بعد بیڈ پر بیٹھے کافی کی چھوٹی چھوٹی چسکیاں بھرتے منہاء کو یاد کررہا تھا.... 

مدہم سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ کافی کے خالی مگ کو دیکھنے لگا.... 

کہ تبھی مگ میں اسے منہاء اور اپنی قربت کے مناظر صاف دکھائی دیے... 

جسے دیکھتے ہی وہ گہری دلچسپ مسکراہٹ لیے مسرور ہوتے اٹھ کھڑا ہوا کہ اسے اپنے ہاتھ پر لگے گہرے شیشے کے زخم بھی یاد نہ رہے جو کچھ دیر پہلے اس نے منہاء کیلئے ہی کھائے تھے.... 

"جانتا ہو جو کیا میں نے غلط کیا...." 

آہل دل ہی دل میں سوچتے سامنے دیوار پر لگی تصویر کو دیکھتے اس جانب بڑھا جس میں آہل خان بابا کے ساتھ کھڑا مسکرا رہا تھا.... 

"مگر اب جو کررہا ہو صیحح کررہا ہو دادا !!! 

کیونکہ مجھے محبت نہیں عشق ہے اس سے.... 

اور وہ میری ہی ہے... 

اور اس بات کا یقین اس کے ناک پر موجود غصے اور میرے سنگین تیور کو بھانپ کر ہی ہوگیا ہے مجھے !!!" 

آہل ایک چمک لیے خان بابا کی تصویر سے ایسے باتیں کررہا تھا جیسے وہ سامنے بیٹھے سب سن کر مسکرا رہے ہو.... 

" ویسے آپ بہت چالاک نکلے دادا.... 

عین وقت پر سہی چھکا مارا... 

اور منہاء کو منہاء آہل خان کر گئے.... 

جس کا میں مرتے دم تک شکر گزار رہو گا اپکا!!!" 

آہل خود کلام کرتے قہقہ آور ہوا اور دو قدم پیچھے کو ہٹا.... 

کہ تبھی آہل کی نظر دروازے پر کھڑے افگن پر پڑی جو آہل کو بے تکے ہنستا دیکھ کر اسے بھونچکا نظروں سے گھور رہا تھا.... 

" آپ یہاں؟؟؟ "

آہل اپنے تاثرات کا سنبھالے دوسری جانب چہرہ کرتے بولا..... 

" کوئی کام تھا آپکو؟؟؟ "

"جی صاحب جی وہ میں برتن لینے آیا تھا!!!" 

افگن ششدر ہوتے برتنوں کی جانب اشارہ کرتے بولا کہ اس کی نظر سامنے بکھرے شیشوں کے ٹکروں پر پڑی جو پورے کمرے پر اب جا بجا بکھرے ہوئے تھے.... 

"صاحب جی یہ شیشہ کیسے؟؟" 

افگن شیشے کو اٹھانے کی غرض سے آگے کو بڑھا... 

"نہیں افگن!!! "

آہل نے فورا بولتے افگن کے قدم روک ڈالے.... 

"مت اٹھانا انہیں!!!" 

"مگر صاحب جی یہ چب جائے گے آپکو!!! 

مجھے صاف کرنے دے مہربانی ہوگی آپکی!!!" 

افگن ضدی ہوا... 

"افگن میں یہ صاف کروا دونگا تم بس یہ برتن لے جاؤ...." 

آہل نے افگن کو برتنوں کی جانب اشارہ دیا.... 

تو وہ بناء کچھ کہے سر گرائے برتن اٹھائے باہر کی جانب کو ہوا.... 

افگن یہ آپکی بہو بیٹا کہاں ہے اس وقت اپکو پتہ ہے کیا؟؟ 

آہل بظاہر لاپرواہی سے پوچھتے اپنے بیڈ کی مڑا تھا تجسسی سوالیہ ہوا... 

" صاحب جی وہ تو اپنی سہیلی کے ساتھ گیسٹ روم میں ہی ہے!! 

آپ کہے تو بلا دو؟؟؟ "

"نہیں نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے... 

مجھے کوئی بھی بات کرنی ہوگی. میں خود بلا لونگا....." 

آہل نے سنا تو بناء دلچسپی دکھائے اپنے موبائل کی جانب متوجہ ہوا... 

آپ بس یہ لے جائے!!!!"

 افگن نے سنا تو ناسمجھی سے دونوں کندھے اچکاتے وہاں سے چلتا بنا.... 

یہ" لڑکی آرام سے سیدھی ہونے والوں میں سے نہیں ہے آہل خان..."

افگن کے جانے کے بعد آہل سوچتے زیر لب بڑبڑایا.... 

"اتنی ہی ٹھیڑھی ہے جتنے تم خود ہو... 

اب اس کو اپنے ہی انداز سے سیدھا کرنا پڑے گا جس کی اس کو اچھے سے سمجھ آتی ہے.…."

آہل گہری رومانوی مسکراہٹ لیے اٹھ کھڑا ہوا اور کمرے سے باہر کو لپکا..... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"ہار مان جاؤ منہاء اب!!! 

اور کہہ دو کہ ثمر تم ٹھیک کہتی ہو ہمیشہ!!!! "

ثمر نے تکیہ منہاء کو دے مارا.... 

" ہرگز نہیں!!!! 

میں اور ہارو کبھی نہیں ثمر کی بچی!!! "

منہاء ثمر کا تکیہ کھاتے ہی واپس ایک زور دار تکیہ ثمر کو جوابا مارتے بولی.... 

"تم تو میرے سامنے آہل خان ہو جس کو زیر کر کے ہی مجھے سکون ملے گا.!!!!" 

دونوں کا اس جنگ سے حال بحال ہوچکا تھا جبکہ بری تھکنے کے باوجود بھی وہ دونوں ہار ماننے کو تیار نہیں تھی.... 

کہ تبھی دروازہ کھلا اور آہل اندر کی جانب بڑھا.... 

مگر اندر کا ماحول دیکھا تو وہ منہاء اور ثمر کو چونکتی نظروں سے منہ کھولے دیکھنے لگا... 

جو اس کی موجودگی سے بے خبر مسلسل ایکدوسرے پر تکیوں کی اندھا دھند بارش کررہی تھی.... 

دونوں کے بال بری طرح بکھر چکے تھے جبکہ دونوں ہی تھکنے کے باوجود ہمت نہیں ہار رہی تھیں!!!! 

"یہ سب کیا ہورہا ہے یہاں؟؟؟؟" 

آہل جو مبہوت نظروں سے دیکھ رہا تھا اونچی آواز سے بولا... 

کہ دونوں جو خود کی جنگ میں مگن تھی آہل کی آواز سنتے ہی وہی سکتے اور بت کی صورت میں اسے دیکھنے لگی... 

"یہ کیا حال بنا کر رکھا ہوا ہے کمرے کا؟؟؟" 

آہل کمرے کا حال دیکھتے اندر کو پریشانی سے بڑھا... 

"وہ!!!! 

وہ آہل بھائی...." 

ثمر جو اپنا تکیہ واپس نیچے پھینکتے بیڈ سے اترنے کو تھی منہاء نے ایک تکیہ کا وار کیا تو وہ واپس بستر پر گر پڑی.... 

"یووووووووو!!!! 

میں جیت گئی!!! "

منہاء خوشی سے چلاتے پرجوش بیڈ پر اچھلی...  

"منہاء منور جیت گئی تم سے!!!!" 

جبکہ ثمر جو اوندھے منہ گری تھی اسے دھکتی نظروں سے گھورنے لگی.... 

"منہاء منور نہیں منہاء آہل خان!!" 

آہل نے سنا تو تیکھا ہوا... 

"ایک بار ہی یاد کر لیں آپ تو بہتر ہوگا.... 

کیونکہ بار بار مجھے بتانے کی عادت نہیں!!!!" 

آہل نے سنا تو سخت لہجے سے منہاء کو گھورنے لگا... 

"اور میں کیسے سمجھاتا ہو یہ آپ اچھے سے جانتی ہے...." 

جبکہ منہاء جو اپنی جیت کی جوشی میں جھومتے ایک دم رک سی گئی اور عتاب نظروں سے اسے گھورنے لگی.... 

" آپ اس کو ایک بار ہی سمجھا دے تو ہی اچھا ہے آہل بھائی...." 

ثمر خود کو سنبھالتے سہی ہوتے بستر سے اتری اور آہل کے روبرو جا کھڑی ہوئی... 

" کیونکہ یہ بار بار سمجھنے والوں میں سے نہیں ہے...." 

"تم چپ رہو اچھا!!!" 

منہاء آہل کو انگلی دکھاتے پھنکاری.... 

" میری دوست ہو تم اس کی کچھ نہیں لگتی ہو!! 

جو اتنا ساتھ دے رہی ہو انکا!!!!" 

"کس نے کہا کچھ نہیں لگتی یہ میری؟؟؟" 

آہل نے سنا تو منہاء کی جانب ہوتے طنزیہ ہوا... 

جس پر منہاء دو قدم پیچھے کو لیتے ہٹی.... 

" تم بہن مانتی ہو ناں اسے؟؟؟؟" 

آہل منہاء کو. دیکھتے گو ہوا.... 

جس پر وہ ثمر کی جانب دیکھتے حامی ہوئی... 

" مانتی نہیں ہو یہ ہے میری بہن..... "

" ہاں تو بس ہمارے رشتے کے لحاظ سے یہ میری سالی بھی ہے اور بہن بھی...." 

آہل فاتحانہ مسکراہٹ لیے منہاء کو دیکھنے لگا... 

جبکہ ثمر کے چہرے پر اب ایک بڑی سی مسکراہٹ ابھر آئی.... 

"اچھا ثمر اپکو اپکے ڈاکومنٹس مل گئے ہیں؟؟؟ "

آہل واپس ثمر کی جانب مڑا.... 

"جی آہل بھائی آج ہی ملے ہیں!!! "

ثمر مسکرائی.... 

" بہت شکریہ اپکا... "

"نہیں اس میں شکریہ کی کوئی بات نہیں اتنا تو میں کرسکتا ہو اپنی بیگم کیلئے !!!." 

آہل نے سنا تو منہاء کو طنزیہ انداز سے دیکھنے لگا.... 

جبکہ منہاء منہ بسورے بیٹھی سب سنتی رہی.... 

"اچھا ویسے ثمر!!!! 

 اگر آپ چاہے تو جاب کرسکتی ہے میری کمپنی میں.....

آپکی سیٹ ابھی بھی خالی ہے....

آپ جب چاہے واپس اپنی پوسٹ پر آ سکتی ہیں!!!"

آہل برجستگی ہوا.... 

ثمر نے آہل کی آفر سنی تو منہاء کی جانب دیکھنے لگی جو آہل کے پیچھے کھڑی اسے انکاری اشارے کررہی تھی....

" ہاں ہاں!!!

آہل بھائی کیوں نہیں!!!"

ثمر جو فورا حامی بھری مسکرائی تھی...

منہاء سنتے ہی غصے سے اپنی پیشانی کو پیٹتے بستر پر بیٹھ گئی.... 

"میں تو ویسے بھی جاب ڈھونڈ رہی ہو.... 

آپ نے تو میری مشکل ہی حل کردی...." 

ثمر پرجوش انداز مسکرائی.... 

"یہ تو بہت اچھا ہوگیا ہے...." 

آہل نے سنا تو متحیر ہوا.... 

"انشاء اللہ کل سے میں واپس آفس جوائن کرونگا تو سب سے پہلے اپکو کال کرواؤ گا.... 

امید ہے آپ اپنا بیسٹ دے گی!!!! "

" جی بھائی بلکل!!!! 

انشاء اللہ!!!! "

ثمر تاسف ہوئی.... 

جبکہ منہاء جس سے یہ سب اب برداشت نہیں ہورہا تھا پھوں پھاں کرتے کمرے سے باہر جانے کو ہوئی.... 

کہ تبھی آہل نے زخمی شیرنی کا ہاتھ تھاما اور اس کے قدم وہی روک دیے.... 

منہاء نے اپنا ہاتھ آہل کی گرفت میں پایا تو اسے کاٹ کھانے کو دیکھنے لگی.... 

"مجھے لگتا ہے مجھے اب چلنا چاہیے..... 

میں گھر جا کر بات کرونگی تم سے منہاء.... 

خدا حافظ!!!" 

ثمر نے ماحول کی نازکی دیکھی تو اپنا دامن بچائے وہاں سے نکلنے کو ہوئی.... 

"ثمر!!!!. روکوں تو یار!!!" 

منہاء اپنا ہاتھ آہل کہ گرفت سے کھینچنے چلائی مگر ثمر تب تک جاچکی تھی... 

جبکہ آہل نے گرفت ڈھیلی نہ کی اور دبی مسکراہٹ لیے اسے دیکھنے لگا........ 

" میرا ہاتھ چھوڑ دے اب!!!! 

روکنا چاہتے تھے مجھے روک لیا آپ نے..…" 

منہاء آہل کی انگلیوں کو کھولنے کی کوشش کرتے بپھڑی.... 

"اب چھوڑے مجھے آزاد کرے میری کلائی کو..." 

"ایک شرط پر چھوڑو نگا تمہارا ہاتھ.….

اگر آرام سے مان جاؤ گی تو اچھا ہے تمہارے لیے...." 

آہل منہاء کو زیر کرتے گو ہوا... 

" ورنہ میرا تو پتہ ہی ہے تمہیں...." 

منہاء نے سنا تو مبہم نظروں سے اسے دیکھنے لگی.... 

"بتاتا ہو سب بتاتا ہو مگر اس سے پہلے میرے ہاتھ پر اچھے سے پٹی کرو!!!!! "

آہل نے منہاء کی جانب اپنا زخمی ہاتھ بڑھایا جس پر خون اب تک جم چکا تھا جبکہ کٹ گہرا اور سرخ ہی تھا.  

" یہ!!! "

منہاء نے آہل کے ہاتھ کو دیکھا تو گھبرا سی گئی.... 

"یہ کیا ہوا ہے آپ کو؟؟؟ "

" حیرت ہے زخم دینے والا ہی پوچھ رہا ہے کہ زخم کیسے لگا؟؟؟ "

آہل دوغلی باتیں کرتے دلکش نگاہوں سے منہاء کو دیکھنے لگا... 

جبکہ منہاء جو کمرے میں بکھرے شیشے کو یاد کر چکی تھی اب اس کے ہاتھ کو دیکھنے لگی.... 

"تمہاری ہی وجہ سے ہوا ہے ناں .... 

اب تم ہی اس کو ٹھیک کروگی بہتر ہے اچھے سے پٹی کرو اس کی...

اور محبت اپنائیت کے ساتھ!!!" 

آہل منہاء کا ہاتھ کھینچتے بیڈ کی جانب ہوا اور سائیڈ ٹیبل کے دراز سے فرسٹ ایڈ بوکس نکالے منہاء کے دوسرے ہاتھ میں تھمایا اور خود اس کے سامنے ہاتھ بڑھائے بیٹھ گیا.…..

منہاء جو آہل کی پھرتی کو دیکھ کر دنگ تھی بناء کچھ کہے خاموشی سے آہل کے روبرو بیٹھی گئی اور آہل کا ہاتھ نرم ہاتھوں سے تھامے اس کا زخم صاف کرنے لگی... 

آہل جو منہاء کو مسحور کن نظروں سے دیکھ رہا تھا منہاء اس کی نظروں کو اچھے سے دیکھ رہی تھی مگر نظر انداز کرتے سر جھکائے پٹی کرنے لگی.... 

"آہ؟!!!!!!!" 

آہل جو ڈرامائی انداز سے چلایا تھا منہاء اسے ہکا بکا نظروں سے دیکھنے لگی.…

"کیا ہوا؟؟؟ 

کیا ہوا؟؟؟" 

منہاء آہل کے زخم کو داسہم ہوتے دیکھنے لگی.….

"میں نے تو کچھ نہیں کیا؟؟؟" 

آہل نے منہاء کی بے چینی دیکھی تو دبی مسکراہٹ اسے دیکھنے لگا... 

جبکہ منہاء آہل کی چال کو اچھے سے سمجھتے ہوئے واپس اٹھ کھڑی ہوئی اور فرسٹ ایڈ بوکس رکھے آگے کو ہوئی.... 

" میرے سارے کام آئندہ سے تم کروگی!!!!!" 

آہل نے منہاء کو جاتے دیکھا تو اونچی آواز آور ہوا.... 

"کیا مطلب؟؟؟؟ *

منہاء مڑتے ششدر ہوئی.... 

" مطلب وہی جو تم نے سنا ہے... "

آہل اپنے ہاتھ کی پٹی کو دیکھتے اس کی جانب بڑھا.... 

" میرے آج سے سارے چھوٹے بڑے کام تم کرونگی نہ کہ کوئی نوکر!!!! 

چاہے کام جیسا بھی ہو مجھے تمہارے ہاتھ سے ہوا کام چاہیے!!! "

منہاء جو آہل کی باتیں سن کر اسے اشتعام انگیزی سے دیکھ رہی تھی دانت پسیجتے غرائی... 

"اور میں تمہاری بات کیوں مانو؟؟؟؟" 

"کیونکہ میں کہہ رہا ہو!!! 

تمہارا شوہر!!!. 

تمہارا مجازی خدا!!!! "

آہل منہاء کی جانب دھیمے قدم بڑھائے فرطِ جذبات ہوا.... 

" مگر میں اس رشتے کو نہیں مانتی!!! 

یہ رشتہ محض مجبوری ہے میرے لیے بوجھ ہے!!!" 

منہاء نے آہل کو اپنی جانب ہوتے دیکھا تو پیچھے کو قدم لیتے تلملائی... 

" یہ تمہاری سوچ ہے جس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا... 

تم مانو یا نہ مانو.... 

میں مانتا ہو اور نبھاؤ گا.... "

آہل پرخلوص ہوا.... 

جبکہ منہاء جس کے قدم اب دیوار کی وجہ سے رک گئے تھے آہل نے اپنی دونوں بازوؤں کو دیوار سے ٹکائے اس کے گرد اپنا ایک حصار بنایا.... 

" مجھے نفرت ہے تم سے!!! "

منہاء آہل کی گہری آنکھوں میں دیکھتے زیر لب غرائی... 

" اور مجھے عشق ہے تم سے!!" 

آہل منہاء کے قریب ہوتے محو ہوا.... 

"یہ رشتہ بہت مشکل ہے آہل!!!!" 

منہاء التجائی ہوئی.... 

"پلیز میری بات سمجھو.... 

انا کا مسئلہ مت بناؤ!!!!" 

"تو آسان بناؤ اسے.... 

خود کیلئے بھی اور میرے لیے بھی...." 

آہل نے سنا تو سنجیدہ ہوا.…

" بہت مشکل ہے سب!!!!" 

منہاء منہ پھیرے بولی..... 

"میری جانب سے جتنا وقت چاہیے لے سکتی ہو تم!!!!" 

آہل نے سنا تو ایک قدم پیچھے کو ہوا.... 

" مگر اس کے بعد بھی تم ضد پر رہی تو یقین جانو میں سچ میں برا بن کر دکھاؤ گا تمہیں..." 

آہل منہاء کو تنبیہ کرتے دروازے کی جانب ہوا... 

" پھر نہ کہنا آہل جانور ہے...  "

جبکہ منہاء اسے حواس باختگی سے دیکھ رہی تھی.... 

"مگر میرا کام تم ہی کرو گی.... 

اس بات کو تم اپنی عقل سے باندھ لو.... "

آہل نے منہاء پر سخت نظر ڈالی.... 

" کمرے میں شیشے. بکھرے ہیں آ کر صاف کرو وہ اور اپنا سامان بھی اسے کمرے میں شفٹ کرو.... 

ابھی سے ہی تم اس کمرے میں میرے ساتھ رہو گی.... 

اور اس بات کو بھی مذاق نہ سمجھنا.... 

کیونکہ مجھے بلاوجہ مذاق کرنے کی عادت نہیں!!!!" 

آہل غیض و غضب ہوتے وہاں سے چلتا بنا.... 

جبکہ منہاء آہل کی باتیں سن کر زمین پر بیٹھے روہانسی ہوئی... 

آہل منہاء کو دوٹوک سمجھانے کے بعد واپس اپنے کمرے میں آیا تو داخل ہوتے ہی ایک گہری لمبی مسکراہٹ لیے سیدھا مزے سے بیڈ کی جانب بڑھ گیا...... 

اور سگار جلائے منہ میں دبائے فاتحانہ انداز سے کش بھرنے لگا....

"ایسا نہیں کرونگا تو تم میرے سر پر ناچو گی منہاء!!!!" 

آہل دھواں چھوڑے دل ہی دل میں سوچتے متحیر ہوا... 

"اور شاید مجھے چھوڑ بھی جاؤ گی جو کہ میں ہرگز ہونے نہیں دونگا....

چاہے جو بھی ہوجائے!!!!" 

"تو مسز منہاء آہل خان یہ تو سب ہوگا اب!!!!

کیونکہ تم جیسی ٹیڑھی کے ساتھ مجھ جیسا بگڑا ہی نمپٹ سکتا ہے.…"

آہل پٌرمسرت انداز سے زیر لب بڑبڑایا اور سگار کا دھواں اپنے اندر انڈیلنے لگا....

" اور میں بہت اچھے سے تیار ہو!!!!" 

آہل جو اکیلے بیٹھا مسکرا رہا تھا کہ تبھی اسے دروازے پر مدہم دستک کی آواز سنائی دی....

" آجاؤ اندر!!!!"

آہل پر لطف انداز سے بولا...

کہ منہاء جو تذبذب کا شکار ہوتے ہاتھ میں صفائی کا سامان لیے اندر کو داخل ہوئی تھی اندر کمرے میں سگار کا دھواں دیکھ کر ناک پر ہاتھ جمائے برا سا منہ بنائے آہل کو گھورنے لگی...

جبکہ آہل جو اسی کے انتظار میں ہی بیٹھا تھا منہاء کے تاثرات دیکھ کر اس کے سامنے دھواں  چھوڑتے ہنسا....

منہاء جو آہل کے چڑھائی تاثرات کو بھانپ چکی تھی اندر کو آتے منہ ہر ہاتھ رکھے سیدھا بکھرے شیشوں کی جانب بڑھی.....

ڈوپٹے سے اپنا منہ اچھے سے ڈھانپا اور پھر فرش پر بکھری کرچیوں کو سمیٹنے لگی....

"اچھے سے صاف کرنا...

ایک بھی میرے پاؤں میں چبھا نہ تو اچھا نہیں ہوگا تمہارے لیے زوجہ محترمہ!!" 

آہل منہاء کو طنزیہ انداز سے پھنکارے قہقہ آور ہوا...

جبکہ منہاء اسے مکمل نظر انداز کرتے فرش صاف کرنے لگی....

"نوکرانی سمجھ رکھا ہے مجھے!!!!" 

منہاء جسے آہل کی باتیں زہر سے زیادہ مہلک معلوم ہورہی تھی زیر لب دانت پسیجتے غرائی....

" دل تو کررہا ہے یہی شیشے اس کے جسم میں اتار دو اور سکون لے لو پوری زندگی کا!!!! "

"جو بھی کہنا ہے منہ پر کہو.!!!!" 

آہل جو منہاء کی بھن بھن کو سنتے ہنسا تھا بولا....

"یوں منہ میں لفظ چبانے کا کوئی فائدہ نہیں....

اور ویسے بھی مجھے پیٹھ پیچھے بات کرنے والوں سے نفرت ہے !!!" 

"میں پیٹھ پیچھے بات کرنے والوں میں سے نہیں ہو...."

منہاء تیکھا لہجہ ہوئی....

"اتنی سی بات تو اب تک سمجھ آ ہی جانی چاہیے اپکو اور ویسے بھی مجھ سے نفرت کرے یا نہ کرے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا!!!" 

منہاء لاپرواہی سے کندھے اچکاتے برجستہ ہوئی... 

جبکہ آہل جو اس سے مزید کچھ کہتا اس کا فون زورُ شور سے بجنے لگا.... 

"نبیل کی کال؟؟؟؟" 

آہل نے دیکھا تو زیر لب تاسف ہوا...

اور پھر ایک تیکھی نظر نیچے بیٹھی صفائی کرتی منہاء پر ڈالی جو اپنے کام میں مصروف تھی کو دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور پھر فون سننے کی غرض سے کمرے سے باہر نکل پڑا...

منہاء نے آہل کو باہر جاتے دیکھا تو وہی جھاڑو پٹختے غصے سے بلبلاتے اپنا سر پیٹنے لگی....

"ناجانے کس انجانے گناہ لہ سزا ہو تم میرے لیے آہل خان....

جس کی سزا مجھے دنیا میں ہی تمہاری صورت میں ہی مل رہی ہے...." 

منہاء حقارت بپھڑتے روہانسی ہوئی اور پھر واپس نیچے جھکتے شیشے صاف کرنے لگی....

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"ہاں بولو کیوں فون کیا ہے تم نے مجھے اس وقت؟؟؟؟

کوئی ضروری کام ہے؟؟؟؟"

آہل گررل کے پاس کھڑے نیچے لاؤنچ کو دیکھتے سوالیہ ہوا....

" السلامُ علیکم!!!!

کیسے ہیں آپ؟؟؟" 

نبیل فارمل انداز ہوا....

"میں ٹھیک ہو.... 

تم بتاؤ فون کرنے کی کیا وجہ ہوئی؟؟؟!!!" 

آہل دوٹوک ہوا....

" سر وہ میں نے فون اپکو یہ بتانے کو کیا ہے کہ کوئی مسٹر بلال دو دن سے آفس کے چکر لگا رہے ہیں!!!!" 

نبیل متحیر ہوا

"اور بار بار اپکا پوچھتے ہیں!!! "

" بلال اور میرے اور آفس کے چکر؟؟؟؟"

آہل سوالیہ ہوا.....

" جی سر!!!!

وہ آج بھی آئے تھے اور کافی غصے میں تھے....

میں نے ان کو وجہ بھی بتائی آپ کے نہ آنے کی تو مزید فضول بولنے لگے.…

یہی وجہ ہوئی کہ تنگ آ کر میں نے اپکو کال کر دی...."

نبیل تفصیلاً ہوا....

تو آہل جو سن کر مبہم ہوا تھا سوچنے لگا....

"تم نے آنے کی وجہ پوچھی تھی اس سے؟؟؟؟"

" جی سر میں نے پوچھی تھی!!! "

نبیل متحیر ہوا... 

" تو کیا جواب دیا اس نے پھر؟؟؟ "

آہل تجسسی ہوا.... 

" سر وہ کہہ رہے تھے کہ ان کے پاس اپکا دیا ہوا ایک چیک ہے جو وہ کیش کروانا چاہتے ہیں.... 

میں نے کہا بھی کہ مجھے دیکھائیے.... 

مگر انہوں نے صاف انکار کردیا.... 

کہتے یہ معامل میرا اور تمہارے سر کا انہی سے ہی بات کرونگا جو بھی کرونگا...." 

نبیل تفصیل گو ہوا.... 

جبکہ آہل نے سنا تو سوچنے کی غرض سے ٹہلنے لگا..... 

" آج تو ان کو بھیج دیا ہے میں نے سمجھا کر.... 

اب وہ پھر سے کل آئے تو سنبھالنا مشکل ہوجائے گا میرے لیے سر!!!! "

نبیل گھنگولا.... 

" نہیں ایسا کچھ نہیں ہوگا.... "

آہل سنجیدہ ہوا..... 

" کیونکہ کل سے میں واپس آفس جوائن کرونگا.... 

تو اس کی تم فکر مت کرو.. "  

"جی سر!!!!" 

" بلکہ تم ایک کام کرو فنانس ڈیپارٹمنٹ کو کال کرو اور کہوں کہ کوئی نبیل نامی شخص اگر کمپنی کے نام کا کوئی چیک کیش کروانے کی کوشش کرے تو اس کے خلاف سخت کروائی.... "

آہل تاسف ہوا... 

"اور ساتھ تم اسے فون کر کے بھی کہوں کہ وہ کل پورے دس بجے مجھ سے آ کر ملے.….. 

اور اگر وہ نہ آیا تو میں ذمہ دار نہیں ہونگا کسی بھی چیز کا!!! "

" جی سر میں کہتا ہو!!!" 

. آہل سنگین ہوا تو نبیل نے حامی بھرتے فون بند کردیا..... 

" اس کا بھی معاملہ اب ہمیشہ کیلئے ختم کرتا ہو!!!! "

آہل عقب لہجے سے زیرِ لب بڑبڑایا اور واپس کمرے میں داخل ہوا.... 

مگر جیسے ہی وہ اندر کی جانب ہوا تو سامنے بیٹھی روتی منہاء کو دیکھ کر حیران ہوا.... 

"اب اسے کیا ہوا؟؟؟ 

ٹھیک تو چھوڑ کر گیا تھا اسے میں پھر کیوں رو رہی ہے یہ؟؟؟ "

آہل جو بیگانگی سے منہاء کو دیکھ رہا تھا کہ نظر اچانک منہاء کے ہاتھ کی جانب گئی جس پر ایک بڑا کانچ کا ٹکڑا دھنسا ہوا تھا اور خون تیز رفتاری سے بہتے ہوئے زمین کو سرخ کررہا تھا...... 

" اوہ میرے اللہ!!!!*

آہل نے دیکھا تو فوراً گھبراتے ہوئے موبائل بیڈ پر پھینکا اور منہاء کی جانب بھاگا.... 

" منہاء یہ کیا کردیا ہے تم نے اپنے ہاتھ پر؟؟؟؟ "

آہل منہاء کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے پریشانی سے چلایا... 

" شیشہ جھاڑو سے صاف کرنے کا کہا تھا ہاتھ سے نہیں!!! "

" وہ!!!! 

وہ میں!!!! "

منہاء جس کا اپنا ہاتھ دیکھ کر خوف سے برا حال تھا بچوں کی مانند بلبلائی.... 

"وہ میں اٹھ رہی تھی کہ پتہ نہیں کیسے لڑکھڑا گئی اور شیشے پر گر گئی....." 

"تو دھیان کہاں ہوتا ہے تمہارا بیوقوف لڑکی!!!! ؟؟ 

آہل غصے سے غرایا.... 

" ویسے تو زمانے بھر کا دھیان رکھوا لو تم سے!!! 

مگر اپنی زرہ برابر بھی پرواہ نہیں تمہیں!!! "

جبکہ منہاء جو پہلے ہی تکلیف کی وجہ سے بلک رہی تھی اب مزید زور زور سے رونے لگی..... 

"کیوں ڈانٹ رہے ہو مجھے آپ؟؟؟ 

میں نے جان کر تھوڑی کیا ہے سب!!!! "

"اچھا بس!!! 

رو مت اور چلوں میرے ساتھ بیڈ تک!!!! 

دیکھو کتنا زیادہ خون بہہ رہا ہے ہوش بھی ہے تمہیں!!!!" 

آہل منہاء کا ہاتھ تھامے بیڈ کی جانب بڑھا جبکہ اس کے اپنے ہاتھ کی پٹی تک خون آلود ہوگئی.... 

" بہت درد ہورہا ہے مجھے!!!!" 

منہاء اپنے ہاتھ کو دیکھتے بولی.... 

" بہت زیادہ!!!" 

جبکہ آہل جسے منہاء پر شدید غصہ آرہا تھا اب اس کی معصومیت دیکھ کر محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگا.... 

"اچھا بس کچھ نہیں ہوا ہے!!!! 

چپ بس رونا نہیں!!!!" 

آہل سائیڈ دراز سے فرسٹ ایڈ باکس نکالے منہاء کے سامنے بیٹھتے بولا....

*ابھی ٹھیک ہوجائے گا ہاتھ !!! 

اور پھر بلکل درد نہیں ہوگا!!!! "

جبکہ منہاء مسلسل اپنے ہاتھ پر چبھے شیشے کو دیکھ دیکھ کر مزید پریشان ہو رہی تھی..... 

آہل جو منہاء کے ہاتھ میں دھنسے شیشے کو نکالنے کا سوچ رہا تھا اب منہاء کو مبہم نظروں سے دیکھنے لگا.... 

*منہاء!!!!" 

آہل نے کچھ سوچتے ہی منہاء کو اپنی جانب متوجہ کیا جو بھیگی آنکھوں سے آہل کو بیچارگی سے دیکھنے لگی..…

" دیکھا اللہ کا انصاف!!!!"

آہل منہاء کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے اسے اپنی باتوں میں مگن کرتے بولا....

" تم مجھے چھوڑنا چاہتی تھی ناں...

مجھے تکلیف دینا چاہتی تھی 

دیکھو اللہ نے کیسی سزا دی تمہیں!!!

میری طرح تمہارا ہاتھ بھی زخمی ہوگیا!!! "

"یہ صرف میری جانب سے لاپرواہی تھی مسٹر!!!!

ہر تکلیف اللہ کی سزا نہیں ہوتی...." 

منہا نے سنا تو بپھڑی...

"کچھ اللہ پاک کی جانب سے آزمائشیں بھی ہوتی ہیں...

جیسے ایک آزمائش آپ ہو میرے لیے....."

" اچھا تو پھر یہ سب کیا!!! 

جس ہاتھ پر مجھے چوٹ لگی شیشے سے....

اسی ہاتھ پر تمہارے ہی کیوں؟؟؟؟"

آہل نے توجہ اب شیشے کی جانب کی جبکہ منہاء جو سن کر پھٹنے کو تیار تھی لاوا اگلنے لگی....

" تو یہ سب بھی آپکی ہی وجہ سے ہوا ہے مسٹر!!!!

نہ آپ شیشہ توڑتے نہ مجھے اٹھانے کا کہتے اور نہ ہی مجھے لگتی!!"

" ویسے ایک بات کہوں!!!"

آہل منہاء کے قریب ہوتے مدہم مسکرایا.....

جبکہ منہاء جو اسے تجسسی نظروں سے گھور رہی تھی اس کی بے تکی بات کا انتظار کرنے لگی...

" تم!!!!"

آہل لفظوں پر دباؤ ڈالے منہاء کو اپنی باتوں میں الجھانے لگا....

" میں؟؟؟؟"

منہاء دہرائی

" تم سچ میں بہت ہی بڑی بیوقوف ہو!!!!!" 

آہل نے کہا اور کہتے ساتھ ہی شیشے کو منہاء کے ہاتھ سے کھینچ نکالا!!!!

کہ منہاء جو ایک شدت کی تکلیف سے چلا اٹھی تھی اب سامنے ہنستے آہل کو دیکھنے لگی.….

"بہت برے ہو تم آہل خان!!!!

نفرت کرتی ہو تم سے میں....

بہت نفرت!!!!"

منہاء اپنا خون آلود ہاتھ دیکھتے روہانسی ہوئی...

"ہاں ہاں جانتا ہو جانتا ہو!!!

مگر ابھی مجھے پٹی کرنے دو!!!!.

یہ نہ ہو نفرت بہہ جائے تمہاری اور تمہیں مجھ سے محبت ہوجائے!!!" 

آہل آنکھ مارتے قہقہ آور ہوا....

جبکہ منہاء کا دل کیا کہ اس کا سر وہی پھوڑ دے...

مگر ہاتھ کی تکلیف کی وجہ سے وپ ضبط کیے بیٹھی رہی....

آہل نے پٹی. کی تو منہاء فوراً اٹھ کر باہر نکلنے کو ہوئی....

" کہاں جارہی ہو اب؟؟؟؟"

آہل فوراً سوالیہ ہوا.…

" اپنے کمرے میں!!!!" 

منہاء دوٹوک ہوئی...

"یہی تمہارا کمرہ ہے اور تم کہیں نہیں جارہی ہو!!!!" 

آہل باکس رکھتے اس کی جانب بڑھا.....

"میں یہاں نہیں رہو گی...." 

منہاء غرائی...

"تو ٹھیک ہے میں وہاں آجاؤ گا....

مت آؤ تم یہاں!!!"

آہل مزے سے کندھے اچکائے واپس بیڈ کی جانب مسکراتے بڑھا...

جبکہ منہاء بناء کچھ کہے پیر پٹختے باہر کی جانب ہوئی....

" واپس آتے ہوئے افگن کو لیتی آنا زوجہ محترمہ!!!!"

آہل نے منہاء کو جاتے دیکھا تو پیچھے سے چلایا....

" ہہ شیشے تو صاف کردے آ کر وہ!!!"

آہل نے بولا مگر منہاء جا چکی تھی جبکہ آہل منہاء کے جانے کے بعد مسلسل بیٹھے کئی بار اس شکل کو یاد کرتے ہنستا رہا....

"کیا ہوگا اس لڑکی کا؟؟؟

یہ تو دیوانہ بنا چھوڑے گی مجھے!!!" 

آہل ہنستے ہوئے خود کلام ہوا اور خود افگن کو بلانے کو باہر کی جانب ہوا....

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

رات ہوچکی تھی جبکہ منہاء اب تک اپنے کمرے میں بند دوپہر اھ اب تک باہر نہیں آئی تھی....

آہل جو کئی بار منہاء کے بارے میں افگن سے پوچھ سے چکا تھا اب خود اس کے کمرے کے باہر کھڑا دروازے پر دستک دینے لگا...

"منہاء!!!!!!

منہاء دروازہ کھولو!!!!" 

آہل زور دار آواز سے دروازہ بجاتے بولا.....

"تنگ مت کرے مجھے آپ!!!" 

منہاء جو اندر بیٹھی سن رہی تھی چیختے چنگاری....

"زندگی تو عذاب بنا دی ہے اب رات تو سکون کی لینے دے مجھے!!!" 

"منہاء بچگانی حرکتیں چھوڑو اور دروازہ کھولو ابھی اور اسی وقت!!!!"

آہل غرایا....

"میں نے کہا تھا کہ تم میرے ساتھ میرے کمرے میں رہو گی تو ایک بار بات سمجھ میں کیوں نہیں آئی!!! "

"نہیں مجھے نہیں رہنا اپ کے ساتھ اور نہ ہی یہ دروازہ تو نہیں کھلے گا اب!!!" 

منہاء زچ ہوئی....

" جب میری مرضی ہوگی تب ہی یہ دروازہ کھلے گا اور میں باہر آؤنگی...."

" مجھے تنگ مت کرو منہاء!!!

کیونکہ اگر میں تنگ ہوا تو تم بہت رو گی!!!!"

آہل شدت ہوا.....

" اب بھی کونسی شاداب زندگی گزر رہی ہے میری!!!!

رلا ہی تو رہے ہو کب سے...."

منہاء روہانسی ہوئی... 

"اور رلا لواور سکون حاصل کر لو....

مگر دروازہ نہیں کھولنا میں نے"

"مطلب تم ایسے نہیں مانو گی؟؟؟"

آہل سنگین ہوا....

" نہیں!!!"

منہاء دو ٹوک ہوئی....

"تو ٹھیک ہے پھر....

جو ہوگا تمہارا قصور ہوگا میری کوئی غلطی نہیں ہوگی..."

آہل دو قدم پیچھے کو ہٹتے چلایا....

" افگن!!!!!

افگن!!!"

" جی صاحب جی!!!"

افگن. جو آہل کی پکار پر بھاگا آیا تھا سر جھکائے بولا....

"گیسٹ روم کی ایکسٹرا چابی لے کر فوراً!!!!" 

"جی صاحب جی ابھی لایا!!!"

آہل کا حکم سنتے ہی افگن وہاں سے بھاگتا نکلا....

جبکہ آہل واپس دروازے کی جانب ہوا....

"اب بھی وقت ہے کھول لو دروازہ....

ورنہ مجھے مت کوسنا بعد میں!!!!" 

آہل نے ایک بار پھر دھمکی بھری....

مگر جب اندر سے کوئی جواب نہ پایا تو سرد مہری سے پیچھے کو ہوا....

"ٹھیک ہے مرضی ہے تمہاری اب!!!!" 

آہل کہتے ہی پیچھے کو ہوا اور اونچی آواز سے چنگارا...

"افگن!!!

جلدی لاؤ چابی.…."

اس سے پہلے افگن چابی لاتا منہاء خاموشی سے دروازہ کھولے آنکھیں جھکائے آہل کے روبرو کھڑی ہوگئی.....

آہل جو منہاء کو یوں سامنے کھڑا دیکھ کر فاتحانہ مسکراہٹ ہوا تھا....

آگے کو بڑھتے بناء کچھ کہے منہاء کا ہاتھ تھاما اور اپنے ساتھ لیتے سیدھا سیڑھیوں کی جانب بڑھا...

جبکہ افگن جو چابی لے کر آیا تھا دونوں کو جاتے دیکھ کر ناسمجھی سے سر کھجاتے واپس کیچن کی جانب ہوا.....

آہل منہاء کو کمرے میں لے کر گیا تو سب سے پہلے دروازے کی چٹکی چڑھائی....

منہاء جو آہل کو یوں کرتا دیکھ کر اس کی جانب لپکی تھی آہل واپس اس کی جانب پلٹتے اسے حسین مسکراہٹ لیے دیکھنے لگا....

"جب کمرے سے باہر آ ہی جانا تھا تو یہ سب تماشا کیوں لگایا؟؟؟" 

"مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی ہے...." 

منہاء سنگین ہوتے صوفے پر جا بیٹھی....

"اور بہتر ہے آپ بھی مت بلائے... "

"مجھے سمجھ نہیں آتی اتنی نفرت مجھ سے کیوں؟؟؟

اپنی ہر خطا کا اعتراف کرچکا ہو میں پھر بھی!!!"

آہل نے منہاء کی حقارت محسوس کی تو اضطراری ہوتے اس کے روبرو ہوا...

" کیونکہ آپ اسی قابل ہے!!!!.

نفرت حقارت اور ناپسندیدگی کے!!!!" 

منہاء غرائی...

" اور میں وجہ جان سکتا ہو اس کی!! ؟؟؟"

آہل بازوؤں باندھے سپاٹ ہوا.....

" میں بتانا مناسب نہیں سمجھتی آپکو!!!" 

منہاء تحقیر ہوئی....

"مگر میں جاننا چاہتا ہو؟؟؟" 

آہل جس کی برداشت اب ختم ہورہی تھی منہاء کو دونوں بازوؤں سے جکڑتے اٹھاتے اسے اپنے قریب کیا....

" میں جاننا چاہتا ہو کہ کیوں نفرت ہے مجھ سے اتنی!!!!

کیوں مجھ سے محبت نہیں کرنا چاہتی!!!"

" میں کہہ رہی ہو ناں کہ میں بتانا مناسب نہیں سمجھتی!!!!

تو چھوڑے مجھے!!!!" 

منہاء آہل کو دھکا بڑھتے بولی....

جبکہ آہل جو اب طیش میں آگیا تھا واپس اسے دبوچے اپنے قریب کیا....

" صاف صاف کیوں نہیں کہتی ہو کہ آج بھی اس بلال سے محبت کرتی ہو....

جس نے تمہیں مجھے بیچ دیا تھا...."

آہل کی آنکھوں میں خون اترا... 

" اس کی محبت ابھی تک تمہارے دل میں زندہ ہے کہ تم. اس نکاح کو بھی کچھ نہیں سمجھتی!!!!" 

منہاء جو آہل کی باتیں سن کر ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی ہکا بکا ہوئی....

" اب کوئی جواب نہیں ہے تمہارے پاس...

اب کیوں نہیں میرا منہ نوچنے کی کرتی!!!

اب کیوں چپ لگ گئی ہے تمہیں؟؟؟"

آہل منہاء کو دھکا بھرے اسے صوفے پر پھینکتے پھنکارا....

" کیونکہ میں سچ کہہ رہا ہو اب.....

اور اب تم اسے سے جھٹلا نہیں سکتی ہو.....

لیکن اگر یہی سلسلہ رہا تو تم نہیں میں تمہیں چھوڑونگا اور کسی لائق نہیں چھوڑونگا!!! "

آہل جو غصے سے بہت کچھ بول گیا تھا نظر منہاء کے روہانسی تاثرات پر پڑی تو سر تھامے ایک پل کو پیچھے کو ہوا.... 

منہاء جو پہلے پہر تو خاموشی سے سب سن رہی تھی اب چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپائے رونے لگی....

آہل نے منہاء کو یوں روتے دیکھا تو ایک قدم اس کی جانب ہوا مگر پھر کچھ سوچتے پیچھے کو ہوا اور تیز قدموں سے کمرے سے باہر کو نکل گیا....

جبکہ آہل کو یوں جاتے دیکھ کر منہاء اس کے پیچھے کو روتی ہوئی ہو مگر اس کو یوں بھاگتا دیکھ کر واپس صوفے پر دونوں ٹانگیں جمائے جا بیٹھی اور رونے لگی....

آہل جا چکا تھا مگر اس کے طنز اور بے یقینی سے بھرے زہر آلود تاثرات نے منہاء کو بے سکون کردیا تھا.....

"وہ ایسا سوچ بھی کیسے سکتا ہے؟؟؟" 

منہاء جو ایک گھنٹے سے سر گرائے رونے میں مصروف تھی اب سر درد ہونے کی وجہ سے صوفے پر سر ٹکائے آنسوں بہاتی آنکھوں سے  چھت کو دیکھتے زیر لب کپکپائی.....

"محبت کا دم بھرتا ہے مجھ سے.....

اور اب بولتے ہوئے زرہ برابر بھی شرم نہیں آئی کہ  کیا بول رہا ہو اور کسے بول رہا ہو!!!"؟؟؟ "

منہاء اپنا چہرہ صاف کرتے اٹھ بیٹھی...

" شاید سارے مرد ایک جیسے ہی ہوتے ہیں "

منہاء اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپائے خود کلام ہوئی.....

"پہلے بلال اور اب میرا نام نہاد شوہر آہل!!! 

سب کی ذہنیت ایک جیسی گھٹیا اور نیچ!!! "

کہ تبھی دروازے پر دستک ہوئی...

"جی آجائے!!!!" 

. منہاء فوراً اپنا چہرہ صاف کرتے خود کو نارمل کرنے لگی....

" بیٹا وہ آہل صاحب؟؟؟؟" 

گل افگن جو خاصا پریشان تھا اندر آتے  بولا.....

" کیا ہوا ہے افگن چچا؟؟"

منہاء اپنے بال باندھے صاف لہجے سے متحیر ہوئی.... 

"آہل تو شاید باہر گئے ہیں!!!! 

آپ آہل کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہیں؟؟؟"

" بہو بیٹا رات کے دس بج رہے ہیں اور صاحب جی ابھی تک نہیں آئے!!!" 

افگن نے اپنی پریشانی بیان کی....

"بس مجھے فکر ہوئی تو پوچھنے آ گیا!!! 

کیا وہ بتا کر گئے ہیں آپکو کہ کہاں جا رہے ہیں اور کب تک آئے گے؟؟؟؟" 

"نہیں چچا وہ مجھے کچھ نہیں بتا کر گئے اور ویسے بھی چچا اس میں کونسی اتنی بڑی بات ہے!!!!"

منہاء نے گل افگن کی پریشانی بھانپی تو گھڑی کی جانب دیکھتے پرسکون ہوئی....

"ابھی تو بس دس ہی بجے ہیں آجائے گے وہ آپ پریشان نہ ہو!!!!."

" نہیں بہو بیٹا!!!!

بات عادت کی ہے دیر سویر کی نہیں....."

افگن جو کافی پریشان تھا پھر سے متحیر ہوا....

" جب سے میں یہاں ہو میں نے کبھی آہل صاحب کو لیٹ گھر سے باہر رہتے نہیں دیکھا.....

وہ تو خود گھر سے باہر دیر سے رہنے کو برا مانتے تھے...."

منہاء نے گل افگن کی بات سنی تو اب اسے بھی پریشانی سی ہوئی...

" اچھا چچا آپ فکر مت کرے میں ابھی کال ملاتی ہو آہل کو!!!! 

بس ایک منٹ دیں میں اپنا فون لے کر آتی ہو کمرے سے!!! "

منہاء نے کہا تو سیدھا باہر نکلتی گیسٹ روم کی جانب بھاگی اور واپس اپنا موبائل تھامے اندر کو ہوئی جہاں افگن پریشان کھڑا گھڑی کی چلتی سوئیوں کو دیکھ رہا تھا...

منہاء نے افگن کی پریشانی کو دیکھا تو فوراً فون ملائے کمرے میں ٹہلنے لگی.... 

مگر دوسری جانب سے کوئی جواب نہ پا کر وہ مایوسی سے افگن کو دیکھنے لگی..... 

"کیا ہوا ہے بہو بیٹا؟؟؟" 

افگن سوالیہ ہوا.... 

" آہل صاحب فون نہیں اٹھا رہے کیا؟؟؟؟ "

"چچا ان کا نمبر بند جا رہا ہے!!!!" 

منہاء بے چین آور ہوئی.... 

"نمبر ہی بند ہے تو بات کیسے ہوگی ان سے؟؟؟" 

"اوہ میرے اللہ!!!!" 

افگن اپنا سر تھامے مبہوت ہوا..... 

"صاحب جی کا فون تو کبھی بند نہیں ہوتا تو آج ہی کیوں؟؟؟؟. "

" چچا ہوسکتا ہے فون کی بیٹری ختم ہوگئی تبھی فون بند ہوگیا ہو آپ کیوں اتنا پریشان ہورہے ہیں؟؟" 

منہاء افگن چچا کو سمجھاتے گو ہوئی.... 

" ہاں شاید بہو بیٹا ہوسکتا ہے ایسا ہے... 

مگر ان کو اب تک آجانا چاہیے!!!. 

وہ جانتے ہیں کہ بڑے صاحب کو ناپسند لگتا تھا ان کا گھر سے زیادہ دیر تک باہر رہنا اور وہ خود بھی شام کے بعد کہیں نہیں جاتے تھے.... 

بس یہی بات مجھے پریشان کررہی ہے!!!" 

افگن برجستہ ہوا.... 

جبکہ منہاء افگن کی باتیں سن کر اب خود بھی پریشان ہوگئی.... 

" خیر بہو بیٹا.... "

افگن نے منہاء کے چہرے پر چھائی اضطراری دیکھی تو بظاہر خود کو پرسکون کرتے بولا..... 

" آپ آرام کرو جیسے ہی آہل بابا آئے گے میں آپکو بتا دونگا.... 

ٹھیک ہے!!!" 

منہاء نے سنا تو حامی میں سر ہلائے جواباً بدقت مسکرائی جبکہ افگن کہتے ساتھ ہی وہاں سے چلا گیا.... 

افگن کے جانے کے بعد ہی منہاء نے دوبارہ آہل کو فون کرنا شروع کردیئے مگر دوسری جانب سے مسلسل نمبر بند ہونے کا ہی عندیہ موصول ہوا..... 

" فون کیوں بند کیا ہوا ہے آہل آپ نے؟؟؟ "

منہاء اضطرابی ہوتے کمرے میں تیزی سے ٹہلتے خود کلام ہوئی.... 

"اتنی بھی کیا لاپرواہی کے فون کی ہی ہوش نہ ہو!!!! "

منہاء کو اب آہل کہ اس حرکت پر غصہ آرہا تھا مگر وہ اب سچ میں خاصا پریشان بھی تھی.... 

وقت گزرتا گیا اور ہر گزرتا لمحہ منہاء کو مزید بے چین اور اضطراب کرتا گیا...... 

کہ اب رات کے تین بجنے کو تھے اور منہاء جس کا دل اب ڈوبا جا رہا تھا آنکھوں میں آنسوں لیے سامنے لگی آہل کی تصویر کے روبرو جا کھڑی ہوئی.... 

"یہ سب کیا تماشا لگا رکھا ہے آپ نے آہل؟؟؟؟" 

منہاء جس کے ضبط کے آنسوں اب ٹوٹ کر اس کی گال پر بکھر رہے تھے ہچکیاں بھرے رونے لگی.... 

"مانا کہ مجھے آپ سے نفرت ہے!!!!" 

منہاء کی آواز بھاری ہوئی جبکہ اب اس کے وجود میں کپکپاہٹ ای آ گئی.... 

"مگر نفرت اس قدر بھی نہیں کہ مجھے آپ کی پرواہ نہ ہو!!!!" 

" شوہر ہے آپ میرے!!!! 

میں نہ بھی مانو مگر یہی حقیقت ہے اب....." 

منہاء تصویر سے سر ٹکائے روتے بولی.... 

" کیوں ایسا کررہے ہیں آپ میرے ساتھ؟؟؟ 

کیوں مزید اذیت دے رہے ہیں مجھے؟؟؟؟" 

"پلیز واپس آجائے.... 

پلیز یہ سب مت کرے!!!!. "

منہاء چہرے کو ہاتھوں سے چھپائے پیچھے کو ہوئی اور آہل کے بیڈ پر بیٹھتے رونے لگی..... 

" مجھے ایک بار پھر ڈر لگ رہا ہے آہل اسی طرح جیسے امی کی وقت لگا تھا..... 

پلیز مجھے مت ڈرائے!!! 

پلیز واپس آجائے!!! "

منہاء جس سے اب صبر نہ ہوا ایک بار پھر آہل کو کال کی مگر پھر سے دوسری جانب سے کوئی جواب نہ ملا..... 

کہ منہاء نے فون کو بیڈ پر پٹخا اور روتے ہوئے سیدھا سیڑھیوں سے اترتے لاؤنچ کی جانب بڑھی جہاں پہلے سے ہی موجود گل افگن جائے نماز بچھائے دعا گو تھا..... 

منہاء نے افگن کو یوں اللہ سے درخواست کرتے دیکھا تو واپس الٹے پاؤں آہل کے کمرے کی جانب ہوئی.... 

اور پھر خود واش روم کی جانب ہوتے کچھ ہی دیر میں وضو کرتے جائے نماز بچھائے آہل کی سلامتی کیلئے نفل ادا کرنے لگی..... 

اب تک صبح کے پانچ بج رہے تھے اور آہل کی واپسی کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہ آرہا تھا... 

جبکہ اب ہر جانب فجر کی اذان کی گونج گونجی.... 

تو منہاء جو افگن سے قرآن پاک لیے آہل کے کمرے میں بیٹھے روتے ہوئے سورتیں پڑھ رہی تھی اب فجر کی اذان سنتے ہی واپس جائے نماز کی جانب ہوئی.... 

اور نیت باندھے نماز پڑھنے لگی...... 

نماز مکمل ادا کی تو ہاتھ اٹھائے روتے ہوئے دعا گو ہوئی.... 

پہلے پہر تو منہاء سے ہچکیوں اور سسکیوں کی وجہ سے کچھ بولا نہ گیا مگر جب ضبط مزید نہ رہا تھا یونہی بناء دعا مانگے روتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی.... 

کہ تبھی نظر سامنے دروازے پر کھڑے آہل کی جانب پڑی جو ناجانے کب سے کھڑا منہاء کی بے چینی اور اضطراری کیفیات کو دیکھ کر دنگ تھا..... 

منہاء نے آہل کو اپنے سامنے کھڑا پایا تو خوشی اور بے تابی کے ملے جلے تاثرات لیے اس کی جانب ہزاروں شکووں اور شکایتوں کے ہمراہ تیزی سے بڑھی مگر اس سے پہلے وہ اسے کچھ کہتی اس کے روبرو ہوتے ہی اپنے قدم بے رخی اور روکھے پن سے واپس کھینچ لیے اور پلٹ گئی.... 

آہل جو منہاء کی اس بےتابی کو دیکھ کر دل سوز ہوا تھا ایک پرمسرور مسکراہٹ لیے کمرے میں داخل ہوا.... 

"رک کیوں گئی ہوں؟؟؟؟" 

آہل فرط جذبات سے ہوتے منہاء کی جانب بڑھا.... 

"واپس پلٹوں اور لگوں میرے سینے سے اور پھر کروں ہزار شکوے شکایتیں جو تمہاری زبان پر دعا کے دوران آنے سے قاصر رہی!!!" 

منہاء نے آہل کی بات سنی تو بناء پلٹتے آہل کو کینی آنکھوں سے دیکھنے لگی.... 

"م.... م.. مجھ... مجھے کس بات کے ش... ش... شکوے ہیں آپ سے؟؟؟" 

منہاء ہچکیاں بھرتے بمشکل اپنے آنسوؤں کو صاف کرتے خود کو دلاسہ گو ہوئی.... 

"اور کیوں کروں م... میں آپ س... سے کسی بھی قسم کی بات! ؟؟؟ "

" یہی کہ میں پوری رات کہاں تھا؟؟؟ 

اور میرا فون کیوں بند تھا؟؟؟ 

تم ڈر گئی تھی اور پوری رات میرا انتظار کیا!!!" 

آہل محبت بھرے انداز سے بولتے ہوئے منہاء کے روبرو جا کھڑا ہوا اور بے لوث جذبے سے اسے دیکھنے لگا... 

"ایسے ہی کچھ شکوے جو تم میرے دل پر مارتے کرو!!! 

اور مین بس مسکراتے ہوئے تمہارے شکوؤں کو سہوں!!! "

" یہ بس آپکی سوچ ہے کہ میں ایسا کچھ کہوں گی مگر مجھے آپ سے کوئی ایسی ویسی بات نہیں کرنی ہے؟!!!" 

منہاء جو اب تک خوف اور روہن ہان تھی آہل کے کندھے پر چست بھرے چلائی.... 

" تو پلیز میرے راستے سے ہٹیے!!!" 

اور اگر میں نہ ہٹوں تو!!!! 

آہل گہری نظروں سے منہاء کو دیکھنے لگا.…

" تو مجھے اپنا راستہ بنانا آتا ہے... "

منہاء آہل کو انگاری نظروں سے دیکھتے دوسری جانب سے آگے کو بڑھی.... 

جبکہ آہل نے منہاء کو یوں جاتے دیکھا تو اس کی کلائی تھامے اپنی جانب کھینچتے اسے خود کے روبرو کیا.. ... 

" اچھا تو اگر ایسی بات ہے تو میرا رات بھر انتظار کیوں کررہی تھی پھر!!! .... "

" پاگل ہوگئی تھی جو اپکا انتظار کررہی تھی !!!! "

منہاء نے سنا تو زچ ہوتے مدہم ہوئی... 

"ہاں سچ میں پاگل ہوگئی تھی کہ اب میری توبہ جو ایسا گناہ بھی کرو!!! "

آہل نے منہاء کے چہرے پر چھاتی سرخی کو دیکھا تو لب اس کے ہاتھ پر ٹکائے بوسہ دیا.…

"کاش اپنا انتظار کرتے میں تمہیں خود اپنی آنکھوں سے دیکھتا!!! "

آہل زیر لب ہنسا.... 

" افسوس میں اس حسین لمحات کو دیکھ نہ پایا.... "

" آپ نہیں بدل سکتے!!!! "

منہاء اپنا ہاتھ آہل کی گرفت سے نکلاتے دروازے کی جانب بڑھی...

آپ" کبھی نہیں بدل سکتے آہل!!!! "

"تو تم نے بھی تو بدلنے کی کوشش نہیں کی مجھے!!!!! "

آہل نے منہاء کو یوں جاتے دیکھا تو وہی افسردگی سے کھڑا اسے جاتے دیکھنے لگا... 

"پوچھوں گی نہیں کہ کہاں گیا تھا میں؟؟؟؟ "

" مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تو پوچھ کر کیا کرونگی!!!" 

منہاء جاتے ہوئے پلٹی اور جواباً ہوئی.... 

"ویسے کیا پتہ میں کسی خوبصورت لڑکی کے ساتھ ہو پوری رات!!!" 

آہل شرارتی انداز ہوا.... 

"اس کی بانہوں میں بیٹھے تمہارے نام کی محبت کو اس پر لٹا رہا ہو!!!! 

کیا اب بھی سن کر تمہیں کسی بھی قسم کا فرق نہیں پڑے گا؟؟؟"

آہل جو منہاء کو تنگ کرتے بول رہا تھا منہاء دروازے سے ٹیک لگائے دونوں بازوؤں باندھے اس کی جانب سپاٹ نظروں سے دیکھتے کھڑی ہوئی.... 

" یقین جانیے اتنا سا بھی فرق نہیں پڑے گا مجھے..... 

کہ آپ کسی لڑکی کی بانہوں میں بیٹھے تھے یا وہ آپکی بانہوں میں موجود تھی!!!!" 

منہاء تمسخر انداز ہوئی... 

"سمجھتی کیا ہو خود کو تم؟؟؟" 

آہل نے منہاء کا جواب سنا تو غصے سے بپھڑتے اس کی جانب ہوا.... 

"محبت کرتا ہو تم سے مگر تم ہو کہ نخرے ہی ختم ہونے کو نہیں آرہے ہیں تمہارے!!!! "

" تو کس نے کہا ہے کہ میرے نخرے اٹھائے!!!!؟؟ "

منہاء پھنکاری.... 

"کس نے کہا ہے محبت کرے مجھ سے!؟؟؟؟ 

دے طلاق اور فارغ کرے مجھے.... 

کیوں برداشت کررہے ہیں مجھے اگر اتنی ہی تکلیف ہورہی ہے آپکو!!!!" 

منہاء جو شدت انگیز ہوئی تھی آہل نے سنا تو غیض و غضب ہوتے ایک طمانچہ منہاء کے منہ پر دے مارا... 

جس سے منہاء ایک دم لڑکھڑا سی گئی کہ گرتے گرتے بچی.... 

جبکہ اس کا سر آہل کے وزنی ہاتھ کی وجہ سے گھوم سا گیا اور ایک پل کو آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا.... 

"بہت ہوگئی ہیں بکواس تمہاری منہاء!!!!!" 

آہل سفاک ہوتے منہاء کو دبوچے چلایا.... 

"اور بہت سن لی میں نے اب!!!!! "

"ایک بار کہہ دیا ناں کہ تم میری ہو تو مطلب میری!!!!! 

ایک بار کی بات سمجھ نہیں آتی تمہیں کیا؟؟؟" 

آہل سنگین ہوتے چیخا..... 

جبکہ منہاء گال پر ہاتھ جمائے سکتے کی صورت میں آہل کو پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی.... 

"چھوڑنے کا سوال تو دور میں تمہیں اس گھر سے باہر جانے کا حق نہیں دیتا..... "

آہل منہاء کو جھنجھوڑتے چنگارا.... 

اگر میں تم سے نرمی کررہا ہو تو بس دادا کے منہ اور اپنہ محبت کی وجہ سے.... 

ورنہ مجھے طریقے اور بھی آتے ہیں اور وہ بہت بھیانک ہے. یقین جانو!!!!! "

" آہل!!!" 

جبکہ منہاء جو آہل کی خونخواری دیکھ کر سہمی سی گئی تھی اب کپکپا سی گئی... 

جبکہ آہل نے منہاء کے وجود پر خوف کو طاری ہوتے محسوس کیا تو جھٹ سے اسے خود سے دور کرتے جھنجھلاتے ہوئے واپس کمرے سے باہر نکل گیا.... 

اور منہاء وہی اپنی سرخ پڑتی گال پر ہاتھ جمائے ساری صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی...... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل جو بناء ناشتہ کیے سیدھا آفس آگیا تھا ابھی تک صبح کی بات کے متعلق سوچ رہا تھا....

"مجھے اس پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا....." 

آہل اپنی پیشانی جکڑے مبہم ہوا...

"وہ آگے ہی مجھ سے دور ہورہی ہے اور میں ہو کہ مسلسل اسے موقع دے رہا ہو....."

آہل افسردہ ہوا....

"بہت غلط کردیا ہے تم نے آہل خان.... ۔

بہت غلط کردیا!!!!!"

"مگر میں بھی کیا کرو وہ بات ہی ایسی کرتی ہے کہ مجھے غصے آجاتا ہے..." 

آہل اپنے ہاتھ کو دیکھتے خود کلام ہوا.... 

" اور پھر ہاتھ!!!" 

کہ تبھی نبیل اجازت لیتے اندر کو آیا...

" السلام علیکم سر!!!!

گڈ مارننگ!!!!"

نبیل تاسف مسکرایا....

" وعلیکم السلام!!!!!"

آہل سامنے پڑے آدھ جلے سگار کو سلگاتے بولا..... 

" جی نبیل کیا خبر لائے ہیں صبح صبح؟؟؟؟"

" سر آپ کے کہنے کے مطابق میں نے بلال سے بات کر لی تھی...." 

نبیل متحیر ہوا..... 

"اور وہ آنے کو تیار تھے بس کسی بھی وقت آجائے گے تو میں آپکو انفام کردونگا.... "

" ہمممم وہ تو ٹھیک ہے مگر مجھے اب پچھلے دنوں کی ساری رپورٹ لا کر دو.... 

ناجانے میرے پیچھے کیا کچہری پکتی ہوگی کام میں.... "

آہل تمحیر ہوا... 

تو نبیل حامی میں سر ہلائے باہر کو نکل پڑا..... 

جبکہ آہل نبیل کے جانے کے بعد واپس منہاء کے بارے میں سوچنے لگا

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

" کیا؟؟؟؟؟؟؟

آہل بھائی اور ہاتھ؟؟؟؟

وہ بھی تم پر؟؟؟ "

ثمر جو سنتے ہی سکتے میں آئی تھی منہ کھولے سوالیہ ہوئی.... 

" ایسا کیسے ہوسکتا ہے یار؟؟؟؟" 

"ایسا ہی ہوا ہے ثمر!!!!" 

منہاء بجھے انداز سے گو ہوئی....

"تمہارے آہل بھائی کو زرا برابر بھی احساس نہیں ہے کہ سامنے موجود شخص کے ساتھ تعلق کیا ہے انکا....

بس اپنا عتاب اتارنا ہی جانتے ہیں وہ اسکے علاوہ اور کچھ نہیں آتا انہیں !!!!" 

"مجھے بلکل یقین نہیں آریا ہے کہ وہ تم پر ہاتھ بھی اٹھا سکتے ہیں؟؟؟ !!" 

ثمر بے یقینی ہوئی..... 

"وہ تو تم سے بے پناہ محبت!!!! "

ثمر کہتے کہتے رکی جبکہ منہاء اسے سپاٹ نظروں سے دیکھنے لگی..... 

" سب  مرد ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ثمر!!!! 

بس انداز الگ الگ ہے سب کے زلیل کرنے کا!!!! "

منہاء کی آنکھ نم ہوئی تو ثمر. منہاء کو خود سے لگائے اسے حوصلہ دینے لگی.….

" بلال مجھے آہل کے نام کے طعنے دیتا تھا اور اب آہل بلال کے!!!!" 

"اللہ سب بہتر کرے گا منہاء!!!! 

جہاں اتنا حوصلہ کیا وہاں تھوڑا اور سہی!!!! "

ثمر سمجھاتے بولی جبکہ منہاء خاموش بیٹھی رہی..... 

مگر" ایک بات یقینی ہے منہاء!!!" 

ثمر منہاء کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھامے گو ہوئی جبکہ منہاء اسے خالی آنکھوں سے دیکھنے لگی... 

" وہ بلال نہیں ہے جو بیچ چوڑاہے پر تمہیں چھوڑ دے گے آہل خان ہے وہ جو تم سے بہت سچی محبت کرتے ہیں بے لوث اور بناء ملاوٹ کے.... 

اور یہ میں نے ان کے چہرے کو دیکھ کر نہیں بلکہ ان کی آنکھوں میں موجود کھرے جذبوں کو دیکھ کر کہا رہی ہو .... 

اور دعا کرتی ہو تم کو اس پر یقین بھی آجائے!!!! "

منہاء نے ثمر کی بات سنی تو کوئی جواب دیے بلکل خاموش رہی... 

"اچھا یہ سب چھوڑو!!!!"

ثمر نے منہاء کی خاموشی دیکھی تو گھڑی کی جانب نظر دہرائی... 

"میں نے مدرسے میں بات کی تھی میلاد کیلئے تو وہ گیارہ بجے تک  بچے بھیج دیں گے پڑھائی کرنے کو.... "

" اچھا تو پہلے کیوں نہیں بتایا مجھے یار!!!!"

منہاء مبہم ہوئی... 

"وقت تو بہت کم رہ گیا ہے!!!!  

اور ابھی تو بلکل تیاری نہیں کی میں کسی بھی قسم کی.... "

" تو اس میں پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں ہے منہاء... "

ثمر منہاء کی جانب ہاتھ بڑھائے مسکرائی.... 

"چلوں اٹھو اور آؤ مل کر تیاری کرتے ہیں ساتھ افگن چچا کو بھی بلا لیتے ہیں ....  

مل کر کرے گے کام تو جلدی ختم ہوجائے گا!!!! "

 منہاء نے سنا جواباً مسکراہٹ دیتے اس کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی اور دونوں میلاد کی تیاریوں میں لگ گئیں.... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

بلال آہل کے روبرو بیٹھا اسے انگاری نظروں سے گھور رہا تھا جبکہ آہل جو بلال کے تاثرات کو پہلے ہی بھانپ چکا تھا مزے سے سگار سلگائے دھواں چھوڑنے لگا.....

"آپ نے میرا چیک کیوں روک دیا؟؟؟؟" 

بلال لفظوں کو چبائے انگارا..... 

"کونسا چیک کیسا چیک؟؟؟؟" 

آہل سگار کو ایش ٹرے میں دبوچے پرسکون انداز سے بیٹھا.... 

"میں کچھ سمجھا نہیں مسٹر بلال!!!  

کہ آپ کس حوالے سے بات کر رہے ہیں؟؟؟ "

"کیا مطلب کونسا چیک!!!!" 

بلال میز پر ہاتھ پٹختے چنگارا..... 

" میرے ساتھ کسی بھی قسم کا کھیل کھیلنے کی کوشش مت کرو آہل؟!!!!! 

تم اچھے سے جانتے ہو کہ میں کس چیک کے حوالے سے بات کررہا ہو.... "

 آہل جو مطمئین انداز سے بلال کے غیظ و غضب کو دیکھ کر مسکرا سا گیا جسے بلال ناسمجھی سے دیکھنے لگا....

"اچھا اچھا!!!! 

یاد آیا!!!!! 

وہ چیک!!!! "

آہل اپنی کرسی سے اٹھتے سیدھا بلال کی جانب ہوا اور اس کے روبرو جا کھڑا ہوا.... 

جس کو آہل کی بات سن کر تھوڑا حوصلہ ملا تھا خوشگوار مسکراہٹ ہوا... 

"وہ تو اب کبھی بھی کیش نہیں ہوگا مسٹر بلال..... "

آہل کندھے اچکائے مسکرایا.... 

"کیونکہ میں اسے کبھی کیش نہیں ہونے دونگا!!!" 

"کیوں نہیں ہوگا وہ چیک کیش؟؟؟؟ 

اور اس کی وجہ کیا ہے ہاں؟؟؟ 

تم نے جو بھی کہا میں نے سب کیا!!!!" 

بلال نے سنا تو سٹپٹا سا گیا.... 

"تو اب میرے حق کی رقم کیوں نہیں مل رہی مجھے... 

کیوں اپنی بات سے مکر رہے ہو تم آہل خان!!!" 

"کیونکہ وہ رقم میں نے تمہیں منہاء کے نام کی دی تھی..... "

آہل سنگین تاثرات دیے بولا.... 

" چونکہ اب منہاء ہی میرے نام ہوگئی ہیں تو وہ رقم میں اب تمہیں کس کے کھاتے میں دو بولو؟؟؟؟ "

" مطلب؟؟؟؟ "

بلال نے آہل کی دومعنی بات سنی تو استفہامیہ انداز ہوا.... 

"میں کچھ سمجھا نہیں؟؟؟

کیا کہنا چاہ رہے ہو تم صاف صاف بولو!!" 

"مطلب یہ!!!!" 

آہل واپس اپنی نشست پر فخریہ انداز سے براجمان ہوا اور ایک بڑی مسکراہٹ لیے گو ہوا.…

" منہاء اب صرف منہاء منور نہیں بلکہ منہاء آہل خان ہے.... 

اور جب وہی آہل کے نام کی ہے تو یہ چیک بھی اب تمہارے کسی کام کا نہیں..... "

" تو بہتر ہے اب اپنی تشریف یہاں سے اٹھاؤ اور چلتے بنوں..... 

اور اگر واپس یہاں پلٹنے کی کوشش کی تو اچھا نہیں ہوگا..." 

آہل سفاک انداز ہوا.... 

جبکہ بلال جو تذبذب کا شکار کرسی پر بیٹھے سب سمجھنے کی کوشش میں تھا ایک دم بوکھلاتے ہوئے سیدھا آہل کی جانب ہوا اور اسے گریبان سے جکڑتے چیخنے چلانے لگا..... 

" تم میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے!!!!! ؟؟"

بلال آہل کے گریبان کو جھنجھوڑتے چلایا....  

"تم مجھے اتنا بڑا دھوکا نہیں دے سکتے ہو آہل خان...." 

جبکہ آہل جو اب بلال کی بد تمیزی کو برداشت کررہا تھا اس کے دونوں ہاتھوں کو جھٹکتے اسے خود سے دور کرتے پیچھے کو پھینکا.... 

" اپنی حد میں رہ بلال.... 

یہ میرا آفس ہے جہاں تجھ جیسا کیمنہ انسان میرے گریبان کو پکڑنے کی کوشش کررہا ہے...." 

آہل شدت ہوا... 

"بھول مت میں آہل خان ہو.…

جو تجھ سے منہاء کو چھین سکتا ہے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے.... 

اور اگر میں اپنی آئی پر آیا ناں تو تُو یہاں سے اپنی ٹانگوں پر نہیں جائے گا...... 

یہ بات تو طے ہیں...." 

"کیا کرے گا تو ہاں؟؟؟؟ 

بول کیا کرے گا!!!! 

تو کر بھی کیا سکتا ہے سالے!!!! "

بلال جو برہم ہوتے واپس آہل کی جانب لپکا تھا اسے 

دھکے  مارتے متلاطم ہوا..... 

" اپنی حد میں رہ بلال!!!! 

بار بار کہہ رہا ہو میں!!!! 

اگر میں کچھ نہیں کہہ رہا تو اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ کچھ نہ کہوں گا!!!! "

آہل جو ضبط کررہا تھا بلال کو خود سے دور کرتے چیخا.... 

"بہتر ہے یہاں سے دفع ہوجاؤ ورنہ!!!!" 

"ورنہ کیا؟؟؟؟ 

ورنہ کیا کرے گا تو ہاں!!! "

بلال آگ بگولہ ہوا.... 

" تو نے کہا اس کا تیرے ساتھ تعلق ہے میں نے مان لیا.... 

تو نے کہا میں اسے چھوڑ دو.... 

میں نے وہ بھی مان لیا... 

مگر اب تو اپنے وعدے سے مکر رہا ہے جو میں ہرگز ہونے نہیں دونگا....." 

" اچھا تو جو کر سکتا ہے کر اب!!!.

 دیکھتا ہو میں بھی کہ کیسے پیسے نکلوا سکتا ہے تو مجھ سے!!!!" 

آہل بلال کو تنبیہ کرتے سنگین ہوا.... 

" میں منہاء کو سب سچ بتا دونگا!!!! 

کہ کیسے تو نے مجھے استعمال کر کے اس سے شادی کی!!!! "

بلال آہل کی ساری سکیم سمجھتے بپھڑا.... 

" کیونکہ اگر میں سکھی نہیں رہا تو تجھے بھی چین سے جینے نہیں دونگا!!!" 

" اور تجھے لگتا ہے وہ تیری بات مانے گی؟؟؟؟" 

آہل مسکرایا.....

" ہاں مانے گی...

کیونکہ وہ مجھ سے محبت کرتی تھی....."

بلال فخریہ انداز سے شدت ہوا.... 

"میں ایک بار ہی کہوں گا تو وہ ضرور مانے گی اور تجھے چھوڑ کر واپس میرے پاس بھی آئے گی... "

" وہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گی بلال!!!!

کیوں کہ وہ تجھ سے نفرت کرتی ہے!!!!!" 

آہل دوٹوک ہوا....."

" نفرت تو وہ تم سے بھی کرتی ہے ناں.....

اور جب میں اسے یہ سب بتاؤ گا تو تجھے لازم چھوڑ دے گی وہ...."

بلال جواباً ہوا.…

"لکھ کر دے سکتا ہو میں!!! "

"اتنا یقین تو ٹھیک ہے تو جو بھی کرنا چاہتا ہے کر اب!!! 

اگر وہ مان گئی تیری بات تو منہاء اور چیک تیرا...." 

آہل سودا بازی کرتے  سرد ہوا... 

" مگر اگر وہ نہ مانی تو اپنی شکل ہمیشہ کیلئے گم کردینا ہماری زندگیوں سے.... "

آہل عقب آلود لہجے سے بولتے بلال کو گھورنے لگا.... 

جو آہل کی بات سن کر کچھ سوچنے لگا اور پھر حامی میں سر ہلائے مسکرانے لگا.... 

"ٹھیک ہے ایسا ہی ہوگا..…

اور امید کرتا ہو تم مکرو گے نہیں اب اپنی بات سے!!!!" 

بلال خدشہ ظاہر کرتے بولا.... 

" منہاء کی قسم!!!! 

جو کہا ہے وہی ہوگا..... "

آہل سنجیدہ ہوا تو بلال پرسکون ہوتے مزید کوئی بات کیے وہاں سے چلا گیا.... 

جبکہ بلال کے جانے کے بعد آہل جو اپنی ہی کی گئی بات پر اب ششدر تھا سر تھامے پریشان سا ہوگیا..... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

شام ہوچکی تھی اور میلاد بہت اچھے سے اختتام پذیر ہوگیا تھا ثمر جا چکی تھی جبکہ منہاء جو ثمر کی باتوں کو ہی سوچ رہی تھی لاؤنچ میں بیٹھے پرسکون انداز سے چائے نوش کرنے لگی.... 

چہرے پر ابھی تک آہل کی انگلیوں کے نشان موجود تھے جبکہ دل پر آہل کی سختی کا عکس چسپاں تھا..... 

"بہو بیٹا!!! 

سب بچے چلے گئے ہیں اور میں نے سب کو پیسے بھی دے دیئے ہیں جو آپ نے مجھے دینے کو کہا تھے ...." 

افگن جو باہر سے ہی آرہا تھا منہاء کو دیکھتے ہی اس کی جانب ہوا... 

"بہت اچھا کیا آپ نے چچا!!!" 

منہاء نے سنا تو مسکرائی.... 

"اب آپ ایسا کرے جو دیگ بچ گئی ہے اسے کسی مزار. پر دے آئے اور سب سے میری امی اور انکل کیلئے دعا کرنے کا ضرور کہیے گا.... "

" جی ٹھیک ہے بہو بیٹا جیسا آپ کہے.... 

میں ابھی ڈرائیور کے ساتھ جا کر یہ کام بھی ختم کرواتا ہو.... "

افگن سنتے ہی واپس الٹے پاؤں باہر کو نکلا جبکہ تبھی آہل بھی تیز رفتاری سے اندر کو داخل ہوا.... 

جبکہ منہاء جو مزے سے چائے کی چسکیاں بھر رہی تھی آہل کو دیکھتے ہی ٹھٹک سی گئی جبکہ بخود آہل بھی منہاء کو یوں سامنے بیٹھے دیکھ کر رک گیا..... 

منہاء نے آہل کو اپنے سامنے یوں کھڑا دیکھا تو نظریں گھومائے دوسری جانب دیکھنے لگی.…..

"ابھی تک ناراض ہو مجھ سے؟؟؟" 

آہل منہاء کی بے رخی دیکھتے بولا.... 

"کیوں ناراض نہیں ہونا چاہیے کیا؟؟؟" 

منہاء تلخ ہوئی.... 

"بلکل ہونا چاہیے.... 

حق رکھتی ہو تم!!!" 

آہل منہاء کے روبرو کھڑے مسکرایا..... 

"کھانا لگا دو آپ کیلئے؟؟" 

منہاء نے آہل کی گھرتی نظروں کو محسوس کیا تو وہاں بھاگ نکلنے کو ہوئی.... 

"ہاں لگا دو مگر میرے کمرے میں..... "

آہل نے منہاء کا نرم لہجہ دیکھا تو پرسکون ہوا..... 

" ٹھیک ہے آپ چلے میں لاتی ہو آپ کیلئے کھانا!!" 

منہاء کہتے ساتھ ہی وہان سے چلتی بنی جبکہ آہل منہاء کو یوں جاتے دیکھ کر دبی مسکراہٹ ہوا اور اب سیرھیوں کی جانب بڑھ گیا....... 

منہاء کھانا لے کر آہل کے کمرے میں داخل ہوئی تو بیڈ پر رکھتے واپس دروازے کی جانب پلٹی.. 

"باہر کہاں جارہی ہو؟؟؟" 

آہل جو واش روم سے فریش ہو کر ہی نکلا تھا منہاء کو جاتے دیکھ کر بولا اور خود بیڈ کی جانب ہوا.....  

"واپس یہاں آؤ مجھے بات کرنی ہے تم سے کچھ ضروری !!!! "

"جو بات کرنی ہے آپ نے یہی سے کر لے...."

منہاء جس کا لہجہ ابھی تک سرد تھا بناء پلٹے جواباً ہوئی.....  

"مجھے کچھ کام ہے نیچے مجھے وہ کرنے جانا ہے.... "

"میں نے اتنا پیسہ اس لیے نہیں بنایا کہ اپنی بیگم سے سارے کام کرواؤ اور نوکروں کو بیٹھا کر کھلاؤ.... "

آہل نے منہاء کو گھوری ڈالی.….

" بہتر ہے چپ چاپ سامنے آ کر بیٹھ جاؤ ورنہ تمہاری وجہ سے سب کو فارغ کردونگا میں .... "

منہاء نے آہل کی سختی محسوس کی تو بناء کچھ کہے منہ لٹکائے سامنے صوفے پر جا بیٹھی..... 

آہل جو چھوٹے چھوٹے نوالے بنائے کھا رہا تھا مسلسل منہاء کو گھور رہا تھا..... 

"اب بات کرے آپ!!!! 

کیا بات کرنا چاہتے ہیں مجھ سے اب؟؟؟ !!! "

منہاء بے روکھی ہوئی.... 

" تھپڑ تو مار ہی دیا ہے مجھے آپ نے اب بھی کچھ ہے کہنے کو آپ کے پاس تو کہہ دیجیے!!! "

آہل جو منہاء کے شکوے سن کر ایک دم دبی مسکراہٹ ہوا تھا منہاء کی خود پر نظر پڑنے پر فورا کھنگارے پانی پینے لگا..... 

" مذاق اڑا رہے ہیں آپ میرا؟؟؟" 

 منہاء غرائی.... 

"نہیں بلکل نہیں میری کہاں اتنی ہمت کہ آپ کا مذاق اڑا سکوں بیگم صاحبہ!!! "

آہل نے سنا تو تاسف ہوا.... 

"وہ تو آپ چھوڑ ہی دے آپکی ہمت!!! 

میں صبح اچھے سے دیکھ چکی تھی....." 

منہاء اپنی گال کو مسلتے روہانسی ہوئی.…

" کہ کیسے آپ نے مجھے زور کا تھپڑ مارا...." 

"تو کیا کرتا میں پھر بولو؟؟؟؟ "

آہل نے سنا تو زچ ہوا.... 

" روز مجھ سے طلاق کا مطالبہ روز علیحدگی کی فرمائش.... 

سن سن کر تنگ آگیا ہو اور کہہ کہہ کر تھک گیا ہو کہ میں تم سے محبت!!!!" 

آہل جو ایک دم کہتے رکا  منہاء اسے ایک بار پھر پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگی جبکہ وہ خود اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور بے چینی سے سیدھا کھڑکی کی جانب بڑھا.…

" میری محبت کا تماشا بناتی ہو تم جب جب مجھ سے طلاق کی فرمائش کرتی ہو...."

آہل کا لہجہ بھیگا....

جبکہ منہاء جو اب سر گرائے بیٹھی تھی نم ہوئی...

"اور آپ اچھے سے جانتے ہیں کہ میں آپ سے یہ مطالبہ کیوں کرتی ہو!!!!" 

منہاء پھنکاری.....

"اور تم بھی اچھے سے جانتی ہو کہ میں یہ مطالبہ مرتے دم تک نہیں مانو گا....."

آہل سنگین ہوتے پلٹا....

جبکہ منہاء اسے نم آنکھوں سے دیکھنے لگی....

"میرے لیے یہ سب قبول کرنا بہت مشکل ہے آہل....."

منہاء تذبذب سی ہوئی....

" جانتا ہو مانتا بھی ہو...." 

آہل صاف گو ہوا.... 

" مگر تم کوشش نہیں کرتی ہو کیونکہ اگر کوشش کرو سب ماننے کی تو مجھے کبھی تمہارے ساتھ زبردستی نہ کرنی پڑے...." 

"تو اب کیا چاہتے ہیں آپ مجھ سے؟؟؟؟"

منہاء سوالیہ ہوئی....

" تمہیں چاہتا ہو صرف تمہیں!!!!!" 

آہل منہاء کی جانب بڑھتے اس کے قریب زمین پر بیٹھتے اسے دیکھنے لگا....

جبکہ منہاء جو آہل کی آنکھوں میں اپنے لیے ایک فولادی جذبے کو دیکھ کر مسرور ہوگئی تھی سچ میں اس کی باتیں سننا چاہتی تھی...

" میں جانتا ہو میں نے بہت غلط کیا ہے تمہارے ساتھ!!!!

اس قدر کے اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو کبھی معاف نہ کرتا...." 

آہل منہاء کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ کی گرفت میں لیے پشیمان ہوا....

"مگر میں یہ بھی جانتا ہو کہ تم میں اور مجھ میں بہت فرق ہے....

تمہارا ظرف تمہارا صبر اور تمہاری تربیت مجھ سے کئی گناہ اعلیٰ ہے..."

آہل اپنا سر منہاء کے سامنے جھکائے محبت انداز ہوا....

" اور یہی وجہ ہے کہ آہل خان تمہارے سامنے جھک گیا ہے... "

جبکہ منہاء جس نے کبھی بھی بلال کی جانب سے ایسا جذبہ محسوس نہ کیا تھا آہل کو اپنے سامنے یوں جھکا دیکھ کر اشکبار ہوگئی....

کہ منہاء کی آنکھ سے ٹوٹا آنسوں کا ایک گرم قطرہ آہل کے ہاتھ پر جا گرا....

جس کے لمس کو محسوس کرتے ہی آہل سامنے روتی منہاء کو دیکھنے لگا.....

"مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کہوں؟؟ !!!!" 

منہاء ہکلائی....

آہل نے منہاء کا جواب سنا تو آگے کو ہوتے اپنا سر منہاء کی گود میں رکھ دیا.... 

جبکہ منہاء جو آہل کی اس صورت کو آج پہلی بار دیکھ رہی تھی بے یقینی حالت سے اسے دیکھنے لگی.... 

"میری زندگی کے ہر صفحے سے واقف ہو تم.....

میں بظاہر مضبوط نظر آنے والا آہل اندر سے بہت ٹوٹا ہوا ہو منہاء ..." 

آہل جس آنکھیں اب بہت سرخ پڑ چکی تھی نمی سے تر ہوئی... 

"چاہتا ہو کوئی ہو جو مجھے سمیٹے!!!! 

میرے درد پر روئے میری خوشی پر مسکرائے...."

آہل جو آج ایک شکستہ انسان ہوتے خود کو کھلی کتاب کی مانند کھولے منہاء کے سامنے بیٹھا تھا برجستہ ہوا....  

" اور اب یہ امید میں تم سے لگا بیٹھا ہو منہاء..... "

منہاء جو اپنے دامن میں بکھرتے آہل کی کرچیوں کو محسوس کررہی تھی اپنا ہاتھ آہل کے بالوں میں پھیرتے رونے لگی.... 

آہل نے منہاء کے لمس کو محسوس کیا تو سر اٹھائے اس کو اپنی سرخ بھیگی آنکھوں سے دیکھنے لگا.....

جبکہ منہاء کی آنکھیں خود بھی آہل کی باتیں سن کر تر ہوچکی تھی....

وہ خود بھی اس بکھرے ہوئے آہل کے درد کو محسوس کر کے اس کے ساتھ اشکبار تھی....

آہل نے منہاء کو یوں روتے دیکھا تو اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں تھامے پیشانی اس کے ماتھے سے ٹکائے اسے محسوس کرنے لگا.....

منہاء جس کا وجود اس وقت تپش میں تھا اپنی آنکھوں کو اٹھائے سامنے نرم آہل کو دیکھنے لگی....

"مجھے ضرورت ہے تمہاری منہاء!!!!!" 

آہل منہاء کی پیشانی پر اپنے لب رکھے مدہم ہوا...

جبکہ منہاء جس کے ہاتھ خودبخود آہل کے دل پر جا ٹکرائے تھے اب اس کے حصار کو محسوس کرتے تحفظ کا احساس جذب کرنے لگی....

"بولوں دو گی ساتھ میرا!!!!" 

آہل منہاء کی آنکھوں میں ڈوبتے اسے آس بھری نظروں سے سوال گو ہوا....

منہاء جو آہل کا سوال سن کر اسے مبہوت ہونے لگی تھی ٹکٹکی باندھے اسے دیکھنے لگی....

آہل نے منہاء کی جانب سے جب جواب نہ پایا تو اس کے چہرے پر بکھرے ننھے آنسوں کے قطروں پر اپنے ہونٹ رکھے اسے اپنے خلوص کا احساس دلانے لگا....

جبکہ منہاء آہل کے لب کا محسوس کرتے آنکھیں موندھے کھڑی رہی... 

"وعدہ کرتا ہو تم سے...

کبھی نہیں رلاؤ گا!!!!" 

آہل منہاء کے چہرے کو جکڑے بولا جبکہ منہاء جو اس وقت کسی بھی قسم کی سوچ و جواب دینے کی کیفیت میں نہ تھی ایک دم آہل کے حصار کو توڑتے آٹھ کھڑی ہوئی....

آہل نے منہاء کی جانب سے ایسا رویہ دیکھا تو فورا تعجب حواس باختگی سے آٹھتے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا....

"وہ!!!

م... م... میں!!!" 

منہاء شش و پنج میں بوکھلاتے آہل سے پیچھے کو ہوئی...

جبکہ خود سے منہاء کو دور ہوتے دیکھ کر آہل کا دل جیسے ڈوب سا گیا....

منہاء آہل کو وہی سوالیہ چھوڑتے مبہم ہوتے کمرے سے باہر کو نکل بھاگی.... 

آہل نے منہاء کو جاتا دیکھا تو بیڈ کی جانب ہوتے کھانے کی ٹرے کو ایک ہاتھ سے جھٹکا دیتے اسے زمین بوس کردیا اور خود غصے سے بپھڑتے کمرے سے باہر کو لپکا.....

منہاء آہل کے کمرے سے باہر نکلی تو سیدھا سیڑھیوں سے نیچے اترے اپنے کمرے کی جانب بھاگی اور اندر سے کمرہ لاک کرتے دروازے سے ٹیک لگائے زمین پر بیٹھ گیا..... 

"دروازہ کھولو منہاء؟!!!!" 

آہل جو منہاء کی بے روی سے دل برداشتہ ہوتے اس کے پیچھے کو خونخوار انداز سے لپکا تھا دروازہ پیٹنے لگا.... 

منہاء نے آہل کی آواز سنی تو چندھیاتے ہوئے دروازے سے پیچھے کو ہوتے رونے لگی.... 

"میں کہہ رہا ہو دروازہ کھولو ؟؟؟؟" 

آہل سفاک چلایا.... 

جبکہ منہاء جو آہل کی دیوانگی سے خوف کھا رہی تھی منہ پر ڈوپٹہ رکھے اپنی آواز کو دبانے لگی.... 

"تم بہت غلط کررہی ہو منہاء!!!!" 

آہل دروازے پر ٹانگ مارے چنگارا.... 

"تم مجھے بہت تڑپا رہی ہو اب!!!" 

"پلیز آہل!!! "

منہاء بمشکل مدہم ہوئی.... 

"پلیز جائیے یہاں سے!!!!!" 

"نہیں منہاء!!!!! 

بہت ہوگیا اب!!!!!" 

آہل جنونی ہوا.... 

"باہر نکلوں اور سامنا کرو میرا!!! "

" نہیں!!!!! "

منہاء بیڈ پر دبکتے بیٹھے نفی میں سر ہلائے جبکہ آہل جو باہر آپے سے باہر ہو رہا تھا دو چار ٹانگیں دروازے پر پٹختے چلایا.... 

کچھ دیر آہل یونہی دروازے پر ٹیک لگائے منہاء کو آوازیں دیتا رہا مگر منہاء جو خود تذبذب کا شکار تھی خاموشی سے سر ٹانگوں سے ٹکائے بیٹھی رہی.... 

کہ منہاء کو خود خبر نہ ہوئی کہ کب وہ اسی حالت میں سو گئی... 

رات کے گیارہ بجے تو منہاء کا فون جو بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر ہی پڑا تھا ایک دم زور زور سے ناچنے لگا.... 

کہ ٹانگوں پر  سر ٹکائے سوتی منہاء ایک دم اس شور سے گھبرا کر جاگ اٹھی.…

نظر گھڑی کی جانب گئی تو رات کے گیارہ بج رہے تھے جبکہ اب باہر سے بھی آہل کی جانب سے کسی بھی قسم کا شور معلوم نہ ہورہا تھا.... 

معلوم ہورہا تھا کہ اپنا سر کئی بار پیٹنے کے بعد آہل واپس اپنے کمرے میں جا چکا تھا.... 

آہل کے متعلق سوچنے کے بعد منہاء کا دھیان اب اپنے فون کی جانب گیا.... 

اپنا چہرہ ہاتھوں میں دبوچے اپنی آنکھیں ملتے وہ بیڈ پر سے رینگتی موبائل کی جانب ہوئی.... 

"اس وقت کون فون کرسکتا ہے مجھے؟؟؟" 

منہاء اپنے فون کی جانب جھکی اور اٹھائے دیکھنے لگی.... 

"بلال؟؟؟؟؟؟ 

یہ تو بلال کا فون؟؟؟؟" 

منہاء جو ابھی تعجب ہوتے سوچ ہی رہی تھی کہ بلال کا فون ایک بار پھر سے آنے لگا..... 

منہاء نے دیکھا تو فون کاٹا اور موبائل واپس ٹیبل پر رکھتے خود فریش ہونے کی غرض سے واش روم کی جانب اٹھ کھڑی ہوئی.. 

کچھ دیر میں فریش ہوکر واپس آئی تو واپس نظر فون کی جانب ہویی جس پر اب تک بلال کی دس کالز آ چکی تھی.... 

جبکہ فون کو دیکھتے ہوئے اس کے ہاتھ میں فون ایک بار پھر سے بجنے لگا..... 

منہاء جو اس وقت بلال کی کالز سے تنگ آ چکی تھی فون اٹھائے کان سے لگائے خاموش رہی.... 

"میں ملنا چاہتا ہو تم سے!!!!" 

بلال جو ایک لمبی خاموشی کے بعد بولا تھا سنگین ہوا... 

"میں تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتی اور تم ملنے کی بات کررہے ہو!!!!" 

منہاء زہر آلود ہوئی.... 

"دیکھو منہاء!!!! 

وہ جو کچھ بھی تھا ناں سب اس آہل کی چال تھی!!!!" 

بلال جو اپنی چال کو اپنائے بولا تھا منہاء کو پھسلانے لگا.... 

"بس ایک بار تم مجھ سے مل لوں.... 

میں سب تمہارے سامنے صاف کرنا چاہتا ہو.... "

" تمہیں ایک بار میں سمجھ نہیں آتی ہے کہ مجھے تم سے نہیں ملنا ہے تو نہیں ملنا ہے.…."

منہاء شدت ہوئی.... 

" اور جو کچھ بھی آہل نے کیا تم اپنا بتاؤ تم نے بھی جو کیا کیا خوب کیا.!!!! 

مجھے ہی بیچ ڈالا تم نے.... 

تم نے چند پیسوں کی خاطر مجھے ہی بیچ دیا!!! "

"م... م... میں مانتا ہو... "

بلال نے سنا تو بوکھلا سا گیا.... 

" میں مانتا ہو کہ میں نے غلطی کی.... 

میں بھٹک گیا تھا مگر یہ سب بھی اس کی وجہ سے ہی ہوا ہے.... "

بلال اپنی غلطی کا سہرا آہل کے سر پر ڈالے منہاء کو پھنسانے لگا... 

"تبھی کہہ رہا ہو منہاء بس ایک بار!!! 

ایک بار مجھ سے مل لوں!!! 

اس کے بعد پکا وعدہ کبھی نہیں آؤ گا تمہارے سامنے.... "

" نہیں میں نہیں!!!!" 

" تمہیں اس تعلق اس دوستی کی قسم منہاء جو ہمارے درمیان کبھی ہوا کرتی تھی منہاء.... 

بس ایک بار مل لوں مجھ سے.. 

بس ایک بار!!!!" 

بلال نے منہاء کا جواب سنا تو ضد پکڑے اسے منانے لگا.... 

جبکہ منہاء جو بلال کے پرزور اسرار پر انکار نہ کرسکی تھی بناء کچھ کہے فون بند کرتے سوچنے لگی..... 

"اب یہ سب کیا تماشا ہے اسکا؟؟؟ "

منہاء فون بند کرتے خود کلام ہوئی.….

"اب یہ کیوں مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے اور کس بات کی صفائی دینا چاہتا ہے اب..... 

بیچ کر کھا تو چکا ہے مجھے اب مزید کیا چاہتا ہے؟؟؟" 

منہاء جو سوچ سوچ کر پگلا سی گئی تھی سر تھامے سوچنے لگی....

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

رات بھر آہل کی باتوں کو سوچ سوچ کر گزاری تو صبح صادق فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد منہاء اپنے کمرے سے باہر نکلی تو لاؤنچ میں افگن کو صفائی کرتے دیکھ کر اس کی جانب بڑھی...

" السلام علیکم چچا!!!!" 

منہاء برجستہ ہوئی....

"وعلیکم السلام بہو بیٹا کیسی ہو آپ؟؟؟؟" 

افگن تاسف مسکرایا....

"میں ٹھیک ہو چچا....

وہ میں نے پوچھنا تھا کہ!!!!" 

منہاء جو آہل کے بارے میں پوچھتے خاموش ہوگئی تھی....

گل افگن نے منہاء کی پریشانی دیکھی تو خود ہی بول پڑا....

" وہ اپنے کمرے میں ہی ہے بیٹا....

پوری رات بہت ہی بے قراری اور اذیت سے کاٹی ہے انہوں نے...." 

منہاء نے افگن کی بات سنی تو چندھیائی نظروں سے انہیں دیکھنے لگی....

"کیا وہ اٹھ گئے ہیں؟؟؟؟" 

"اٹھتا وہ ہے جو پوری رات سویا ہو بیٹا.... 

 وہ تو رات بھر سوئے ہی نہیں ...

رات بھر ہی مجھے ان کے کمرے سے آوازیں آرہی تھی....

کبھی کسی چیز کی ٹوٹنے کی تو کبھی کسی!!! 

اب شاید ہوسکتا ہے کہ انکی آنکھ لگ گئی ہو...." 

افگن تفصیلاً متحیر ہوا.... 

جبکہ منہاء جو سن کر وہی خاموش کھڑی آہل کے کمرے کو دیکھنے لگی تھی افگن نے دیکھا تو ایک بار پھر بول پڑا... 

" بہو بیٹا آپ بیٹھو میں آپ کیلئے جوس لے کر آتا ہو.... "

افگن کہتے ہوئے وہاں سے چلتا بنا جبکہ منہاء افگن کے جانے کے بعد صوفے پر بیٹھتے سر تھامے سوچنے لگی.... 

آفس جانے کا وقت قریب ہوا تو منہاء آہل کیلئے ناشتہ بنانے کی غرض سے سیدھا کیچن کی جانب ہوئی اور اس کیلئے ناشتہ تیار کرنے لگی.....

" افگن چچا!!!!

افگن چچا!!!!" 

منہاء کیچن سے چلائی....

"جی بہو بیٹا!!!!" 

"چچا یہ ناشتہ تیار کر لیا ہے میں نے آپ پلیز آہل کو دے آئے انہوں نے رات کو بھی کچھ نہیں کھایا تھا...." 

منہاء نے افگن کو دیکھا تو ٹرے اس کی جانب بڑھائے بولی....

"مگر بیٹا وہ تو چلے گئے!!!"

افگن ششدر جواباً ہوا....

"کیا؟؟؟؟

آہل چلے گئے؟؟؟

مگر کب کہاں کس وقت؟؟؟"

منہاء ٹرے وہی رکھتے باہر کی جانب بھاگی....

" بس کچھ دیر پہلے ہی وہ آفس کیلئے تیار تھے اور بناء کچھ کہے سیدھا باہر کی جانب بڑھ گئے...

میں ایک پل کو بھاگا بھی ان کے پیچھے مگر!!!!"

گل افگن تاسف ہوا....

"آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں چچا.... 

آپ آواز تو دیتے مجھے!!! "

منہاء وہی کھڑی دروازے کو دیکھتے بولی ....

" کیسے بتاتا وہ تھے ہی اس قدر رفتار میں!!!! "

افگن کہتے ہوئے واپس کیچن کی جانب ہوگئے جبکہ منہاء جس کا دل بجھ سا گیا تھا واپس منہ لٹکائے اپنے کمرے کی جانب ہوئی.….

" میں بات کرنا چاہتی تھی آپ سے آہل!!!

کل کے رویے پر شرمندہ تھی معافی مانگنا چاہتی تھی.…

مگر آپ؟؟؟؟"

منہاء بجھے لہجے سے خود کلام ہوئی....

کہ تبھی اسکا فون پھر سے بجنے لگا....

فون دیکھا تو بلال کا نام. جگمگ کرتے سکرین پر چمکنے لگا....

"بلال کیا مسئلہ ہے تمہیں؟؟؟؟" 

منہاء جو پہلے ہی آہل کی وجہ سے پریشان تھی بھڑک کر پڑی...

" کیون بار بار فون کررہے ہو مجھے تم؟؟؟"

"تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا مجھے ابھی تک؟؟؟؟ 

جب تک نہیں دو گی یونہی تنگ کرتا رہو گا تمہیں!!! "

بلال بضد ہوا.... 

"کیا مصیبت ہے؟؟؟ "

منہاء اکتاہٹ ہوئی.... 

"میں تمہیں جگہ اور وقت ٹیکسٹ کردیتا ہو... 

امید ہے تم ضرور آؤگی.... 

اور بلکل نہیں چاہو گی کہ میں خود تمہارے نام نہاد گھر آ کر تمہارے نام نہاد شوہر کے سامنے تم سے بات کرو.... "

بلال نے دھمکی بھری اور فون بند کردیا..... 

جبکہ منہاء اب اسی نئی مصیبت پر سر سٹپٹائے رہ گئی..... 

آہل جو کل رات سے منہاء کے رویے اور اس کی جانب سے کی جانے والی حرکت سے بہت ڈسٹرب تھا اپنے کیبن میں بیٹھا مسلسل اپنی پیشانی کو مسل رہا تھا....

"وہ یہ سب کب تک یونہی کرتی رہے گی دادا؟؟؟؟" 

آہل آنکھیں موندھے سر نشست سے لگائے لبِ مدہم ہوا....

"کب تک وہ مجھے دھتکارے گی؟؟؟ "

"مان تو چکا ہو سب؟!!!

کھو بھی چکا ہو آپکو پھر بھی یہ سزا ختم کیوں نہیں ہورہی ہے میری ؟؟؟؟" 

آہل مسلسل اسی سوچ میں گم خان بابا کو اپنے خیال میں سوچتے شکوہ کناں ہوا.... 

" سر مے آئی کمنگ!!!! ؟؟؟" 

نبیل جو کافی دیر سے دروازے پر کھڑے دستک بھر رہا تھا اب خود اندر کی جانب جھکتے اجازت طلب ہوا..... 

آہل جو دروازے کی دستک سے مکمل بے خبر تھا سنتے ہی طریقے سے بیٹھ گیا اور نبیل کو اندر آنے کا اشارہ دیا....

"سر آپ ٹھیک تو ہے؟؟؟" 

نبیل نے اندر آتے ہی آہل کے چہرے پر بکھری بیزاری دیکھی تو سوالیہ ہوا... 

"آپکی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ  رہی ہے مجھے!!!!

آپ کہے تو میڈیسن یا کافی لادو؟؟؟" 

"نہیں کچھ نہیں چاہیے مجھے اور نہ ہی کچھ ہوا ہے!!!!" 

آہل اکتاہٹ انداز ہوا...

َ"تم بتاؤ کیا کام ہے؟؟؟" 

"سر یہ کچھ فائلز ہے جو منیر انڈسٹری کی جانب سے آئی ہے...."

نبیل نے فائلز آہل کے سامنے رکھی جو تجسسی انداز سے انہیں تھامے پڑھنے لگا.... 

" سر منیر صاحب کا آج صبح ہی مجھے فون آیا تھا "

منیر کا اور تمہیں فون کیوں؟؟؟؟ 

آہل نے تیکھی نظر نبیل پر ڈالی.... 

سر وہ آپ کے ساتھ میٹنگ رکھنا چاہتے ہیں!!! 

وہ چاہتے ہیں کہ آپ سے بات کی جائے اور جو بھی اختلافات آئے ہیں ڈیل اور آل دونوں کے درمیان ان کو ختم کیا جائے...

نبیل تفصیلاً ہوا.... 

جبکہ ساتھ ہی ان کی جانب سے درخواست بھی کی گئی ہے کہ ان سے کسی بھی قسم کی پارٹنر شپ ختم نہ کی جائے.… 

اور جو نقصان ان کی وجہ سے خان انڈسٹری کو اٹھانا پڑا ہے وہ سب بڑھنے کو بھی تیار چاہے جتنا بھی کیوں نہ ہو وہ پیچھے نہیں ہٹے گے....

آہل جو فائل ہاتھ میں تھامے سپاٹ بنے نبیل کی ساری باتیں تحمل سے سن رہا تھا اب فائل ناپسندیدہ انداز سے پٹختے واپسی نبیل کی جانب دھکیلی جو اسے ششدر نظروں سے گھور رہا تھا.... 

"یہ ڈیل تو ختم ہوگئی ہے نبیل اور اس کو ختم ہونے کو بھی ایک مہینہ مکمل ہونے کو ہے اب ...." 

آہل سخت لہجہ ہوا... 

"تو اب ان سب باتوں کا کوئی فائدہ نہیں تو بہتر ہے ان کی فائلز اور ان کی درخواست واپس ان کے منہ پر مار دی جائے...." 

"جی سر آپ صیحح کہہ رہے ہیں لیکن اگر ایک بار!!!! "

نبیل جو  آہل کو منانے کی کوشش میں تھا مزید بولنے کو ہوا تو آہل نے انگلی سے خاموش رہنے کا اشارہ دیا.….

" جن کے وکیل تم چند ٹکوں پر بن کر آرہے ہو میرے سامنے  یاد رکھو تمہارے گھر کا چولہا خان انڈسٹری نے کبھی بجھنے نہیں دیا.... "

آہل سخت الفاظ ہوا تو نبیل سر گرائے کھڑا ہوگیا.... 

"بہتر ہے وہ کرو جو خان انڈسٹری کے حق میں بہتر ہو نہ کہ تمہارے.... 

ورنہ پھر خان انڈسٹری اپنا سوچے گی چاہے تمہارے گھر میں کتنے ہی فاقے کیوں نہ ہو!!! "

آہل نے نبیل کو دھمکی بھری تو وہ خاموشی سے فائلز تھامے پشیمان ہوا.... 

"سوری سر!!!!" 

"سوری تم نہیں بلکہ منیر صاف کو بولنی چاہیے تھی !!!! 

جس کی مجھے اب قطعاً ضرورت نہیں.... 

تو بہتر ہے ان سے صاف صاف کہہ دو کہ اب معافی کا نہیں سزا کا وقت ہے..."

آہل  اپنی نشست سے اٹھتے سنگین ہوا.... 

" جو پیسہ انہوں نے نقصان میں بڑھنا ہے اپنی ضمانت پر خرچ کرے تو زیادہ بہتر ہوگا...."

نبیل نے آہل کی بات سنی تو سر گرائے فائلز آٹھائے خاموشی سے چلتا بنا.....

جبکہ آہل نبیل کے جانے کے بعد سگار سلگائے کش بھرتے کھڑکی کی جانب ہوا..... 

"سمجھتا ہے ہماء کو چھوڑ دیا ہے تو سب ٹھیک ہوجائے گا.... 

بھول ہے اس کی سراسر بھول ہے.... "

آہل باہر چلتی سڑک کو دیکھتے سوچنے لگا... 

" پہلے تو اس کے لحاظ سے کچھ نہیں کہتا تھا اس دھوکے باز انسان کو مگر اب اس کو رگڑو گا اور اچھے سے رگڑو گا...." 

آہل ابھی اسی متعلق سوچ رہا تھا کہ تبھی اس کا فون وائیبریٹ کیا جس کو دیکھتے ہی آہل واپس اپنے ٹیبل کی جانب ہوا اور موبائل اٹھائے دیکھنے لگا.... 

"بلال کا میسج؟؟؟؟ "

آہل نے نوٹیفکیشن دیکھی تو تذبذب سا ہوتے ہی سگار پھینکتے متوجہ ہوا..... 

” مسٹر آہل خان!!!! 

 اپنی بیگم اور میرا چیک مجھے واپس کرنے کی تیاری پکڑ لوں!!!! 

کیونکہ وقت تمہارے پاس بس اب چند گھنٹوں کا ہی.... 

پھر نہ کہنا بتایا نہیں مجھے!!!!! “

آہل نے بلال کا بھیجا گیا میسج پڑھا تو بے ہنگم سا ہوتے موبائل دور پٹختے پیچھے کو ہوا.....

"یہ سب کیا بکواس ہے؟؟؟؟" 

آہل غصے سے غرایا اور پھر کچھ سوچتے ہی واپس اپنے فون کی جانب لپکا اور ایک نمبر ملائے اضطراری کیفیت ہوا....

"فون اٹھاؤ منہاء!!!!" 

آہل بے چینی سے دبدبا ہوا.....

"فون اٹھاؤ!!!!!" 

"شٹ!!!!!!" 

آہل نے جب دوسری جانب سے کوئی جواب نہ پایا تو کرسی کو ٹانگ مارے سفاک ہوا.....

"ایسا کیسے کرسکتی ہیں وہ میرے ساتھ؟؟؟؟؟

میں اسے ایسا ہرگز کرنے نہیں دونگا!!!!" 

آہل غیض و غضب سے چنگارا اور پھر واپس فون سے ایک اور نمبر ملائے مشتعل ہوا....

" ہان افگن!!!!

مجھے بس یہ بتاؤ کہ تمہاری منہاء بی بی کہاں ہے؟؟؟" 

آہل نے دوسری جانب سے جواب پایا تو فوراً چران بھرے چلایا.…

" صاحب جی وہ تو ابھی باہر گئی ہیں!!!!"

افگن نے آہل کا غصہ بھانپا تو متحیر ہوا.…

"کہاں گئی ہے اور کس کے ساتھ؟؟؟؟

کوئی آیا تھا انہیں لینے کیا؟؟؟؟"

آہل تجسسی ہوا....

" نہیں صاحب جی وہ تو ڈرائیور کے ساتھ ہی گئی ہے کوئی نہیں آیا تھا لینے انہیں ....

بس کہہ کر گئی ہے کہ کسی سے ملنے جارہی ہے جلد واپس آجائے گی...." 

افگن تاسف ہوا....

جبکہ آہل نے سنا تو فون پٹختے میز پر پڑی چابیوں کا گچھا تھامے سیدھا کیبن سے باہر لی جانب بھاگتے ہوئے نکلا....

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

بلال جو اسی ریسٹورنٹ میں بیٹھا منہاء کے آنے کا انتظار کررہا تھا جہاں وہ پہلے ملا کرتے تھے منہاء کو اندر آتے دیکھ کر ہی فوراً اپنی جانب آنے کا اشارہ دیا.....

منہاء جو داخل ہوتے ہی نظریں گھومائے بلال کو  ڈھونڈ رہی تھی اشارہ پاتے ہی اس کی جانب ہوئی اور تیزی سے بڑھتے اپنا بیگ میز پر جمائے کرسی کھینچتے اس کے روبرو جا بیٹھ گئی.... 

بلال جو منہاء کی اس رفتاری پر دبی مسکراہٹ ہوا تھا فوراً ویٹر کو اشارہ دیتے اپنی جانب بلایا اور آرڈر دیا.... 

"یہ کیا کررہے ہو تم؟؟؟؟" 

منہاء نے دیکھا تو سخت ہوئی.... 

"میں نے سوچا جیسے ہمارے پہلے ملنے پر تمہیں بہت بھوک لگا کرتی تھی شاید آج بھی عادت ویسی ہو؟؟ ...." 

بلال مسکراہٹ گو ہوا.... 

"پہلے والی اب یہاں کوئی عادت نہیں ہے بلال...." 

منہاء غرائی.... 

"بہتر ہے جس بات کیلئے بلایا تھا بس وہ کروں.….." 

"کیوں ڈر لگتا ہے تمہیں اپنے شوہر سے کہ کہیں تمہیں میرے ساتھ دیکھ کر چھوڑ نہ دے....؟؟؟ "

بلال طنزیہ پھنکارا.... 

"تو بالآخر تمہیں بھی پتہ چل ہی گیا ہے!!! "

منہاء مطمئن انداز ہوئی.... 

" ظاہر سی بات ہے.... 

جس شخص کی نیت تم پر شروع سے ہی خراب ہو تمہیں آذاد پاتے دیکھ کر جھپٹا تو ضرور مارے گا.... 

اور دیکھو وہی ہوا.... "

بلال نفرت انگیز ہوا...... 

"دیکھو بلال میں یہاں کسی بھی قسم کی بکواس سننے کو نہیں آئی ہو.... 

اگر یہی سب بکنا ہے تو جارہی ہو میں یہاں سے.... "

منہاء اپنا بیگ تھامے تیزی سے جانے کو اٹھ کھڑی ہوئی کہ تبھی بلال نے منہاء کی کلائی کو سختی سے جکڑا اور اس کے قدم وہی روک دیے.... 

منہاء نے اپنی کلائی بلال کی جکڑ میں دیکھی تو بپھڑ سی گئی.... 

" تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرا ہاتھ پکڑنے کی؟؟؟؟ "

منہاء چلائی تو اردگرد بیٹھے افراد ان دونوں کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے..... 

"منہاء پلیز!!!!" 

بلال نے لوگوں کی نظریں دیکھی تو منہاء کی جانب ہاتھ بڑھائے اس کی جانب ہوا.... 

"ہاتھ پیچھے بلال!!!!!" 

منہاء نے بلال کے ہاتھوں کو غصے سے جھٹکا.... 

" اور اپنی حد میں رہو اب!!!! 

اب ہاتھ لگایا ناں تو منہ پر ایسا طمانچہ مارو گی کہ یاد رکھو گے....." 

" اچھا ٹھیک ہے!!! 

ٹھیک ہے!!!" 

بلال نے منہاء کی شدت دیکھی تو ہاتھ پیچھے کرتے اسے پرسکون کرنے لگا.... 

" اب ٹچ نہیں کرونگا اور نہ ہی کوئی الٹی بات کرونگا.... 

پلیز واپس بیٹھ جاؤ تماشا مت بناؤ.... 

سب دیکھ رہے ہیں ہمیں بہتر ہے خاموشی سے میری بات سن لو!!!" 

منہاء نے بلال کی بات سنی تو اردگرد دیکھتے واپس اپنی کرسی پر پھوں پھاں کرتے بیگ تھامے بیٹھ گئی.... 

بلال نے منہاء کو واپس بیٹھتے دیکھا تو ایک گہری سانس بھری.... 

" کیوں مجھ سے اس قدر نفرت کررہی ہو منہاء؟؟؟؟ "

بلال نے بات کا آغاز کیا..... 

" کیا بھول گئی ہو کہ ہمارے درمیان کیا تعلق تھا؟؟؟ " 

"کیونکہ تم اسی قابل ہو...." 

منہاء سنگین ہوئی....

"اور رہی بھولنے کی بات تو ہاں بھول گئی ہو میں تمہیں بھی اور تمہارے ساتھ ہونے والے تعلق کو بھی.... "

" یہ سب کچھ اس شخص کا کیا دہرا ہے...." 

بلال آہل کو دبے لفظوں میں گھسیٹتے بولا.... 

" وہ آیا ہے ہمارے درمیان اور چھین لیا ہے تمہیں مجھ سے.... "

"وہ شخص میرا شوہر ہے بلال.... 

تو تمیز سے بات کرو اس کے حوالے سے.... "

منہاء نے بلال کو سختی سے تنبیہ کی.... 

"وہ اس قابل نہیں ہے!!!! "

" کون کس قابل ہے میں اچھے سے جانتی ہو اب...." 

منہاء نے سنا تو دوٹوک ہوئی.... 

" تم کیوں نہیں سمجھ رہی ہو منہاء.... 

وہ ایک دھوکے باز اور شاطر شخص ہے..... 

یہ سب اسکا ایک مکمل سوچا سمجھا منصوبہ تھا....

کہ کس طرح تمہیں مجھ سے الگ کرنا اور کیسے تم سے شادی کرنی؟؟ "

بلال ایڑی زور لگائے بولا.... 

" اچھا تو اسکا مطلب وہ کامیاب ہوگیا ہے!!!! "

منہاء طنزیہ مسکرائی.... 

" ہاں وہ بہت اچھے سے کامیاب ہوگیا ہے.... "

بلال دانت پسیجتے بولا.... 

" اور اس کو کامیاب کرنے میں تمہارا سب سے بڑا ہاتھ ہے منہاء.... 

تم ذمہ دار ہو اسکی.... 

تم اچھے سے جانتی تھی کہ تمہاری ماں کو مارنے میں وہ سب سے بڑا ذمہ دار ہے.... 

مگر حیرت کی بات ہے کہ تم نے اپنی ماں کے قاتل سے ہی شادی کر لی؟؟؟؟" 

بلال منہاء کو جذباتی طور پر جھنجھوڑنے کی کوشش کرتی بھڑکا.... 

جبکہ منہاء کو منہ کو ہاتھ سے سہارا دیے بناء تاثرات دیے اسے گھور رہی تھی سنتے ہی ایک قہقہ لگائے پیچھے کو ہوئی.... 

" تم ہنس رہی ہو سب سن کر؟؟؟؟" 

بلال حیرت زدہ ہوا.... 

" مطلب تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ان سب باتوں کا؟؟؟ "

" ہاں نہیں پڑتا مجھے فرق اب.... . 

بلکہ مجھے یہ سب تمہارے منہ سے سن کر اس قدر ہنسی آرہی ہے کہ سمجھ نہیں آرہی کہ تمہارا منہ نوچوں پہلے یا ایک زور کا تھپڑ لگاؤ..." 

منہاء ہنستے ہوئے ایک دم سنگین ہوئی.... 

"کیا کہہ رہی ہو تم؟؟؟؟ "

بلال نے سنا تو مبہوت ہوا.... 

"ہوش میں تو ہو؟؟؟ "

" ہوش میں تو اب آ چکی ہو میں بلال.... 

مگر یہ بات تمہیں ابھی تک سمجھ نہیں آرہی ہے.... "

منہاء مسکرائی.…

"  کس قدر  بیوقوف بنانا چاہتے ہو مجھے اب؟؟؟ .... 

اور کس قدر مجھ سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو.... 

بیچ تو چکے تھے ناں مجھے تم.... 

کیا اب بھی کوئی کسر رہ گئی ہے تمہاری جو میری ازواجی زندگی خراب کرنا چاہتے ہو؟؟؟" 

منہاء خشمگین لہجہ آور ہوئی... 

" وہ سب اس کی چال تھی منہاء !!!! "

بلال غرایا..... 

" وہ نہایت ہی گھٹیا اور نیچ انسان ہے!!!!

تم اسے ابھی جانتی ہو نہیں اچھے سے میں جانتا ہو اسے!!!" 

" کون کس قدر نیچ اور گھٹیا ہے وہ مجھے اچھے سے دکھ رہا ہے... 

بہتر ہے اپنی زبان سنبھال کر بات کرو.... 

جس کے سامنے تم یہ سب بول رہے ہو ناں وہ منہاء آہل خان ہے...." 

منہاء فخریہ انداز سے بولی.... 

" آہل خان کی بیوی اور اسکی محبت!!!!" 

منہاء جو لفظوں کو پرزور انداز سے بول رہی تھی بلال کے چہرے پر ناگواری اور نفرت کے تاثرات دیکھ کر مسرت ہوئی... 

"اور رہی بات اس کی چال کی.... 

تو تم جو اب میرے سامنے اپنی سچائی کا دعوٰی کرنے بیٹھے ہو.... 

تب اس کی چال کیون نہیں سمجھ آئی تمہیں.... 

تب کیوں آنکھوں پر محبت کے بجائے لالچ کی پٹی بندھ گئی تھی تمہارے .... 

کیوں تم نے تب میرا یقین نہیں کیا تھا؟؟؟" 

منہاء کی آنکھیں نم ہوئی.... 

" میں جانتا ہو مجھ سے غلطی ہوئی ہے مگر منہاء!!! "

بلال خود کو ثابت کرتے بولا.... 

" چپ!!! 

بس چپ!!!! "

منہاء بلال کو انگلی کا اشارہ دیتے سرد ہوئی جسے دیکھتے ہی بلال خاموش ہوگیا اور کچھ نہ بولا .... 

" میری ماں کی موت کے اصل ذمہ دار تم ہو....." 

منہاء نفرت انگیز ہوئی....

"تم تھے جس نے انہیں اس قدر تکلیف دی کہ وہ برداشت نہ کر سکی....." 

منہاء کی برداشت ٹوٹی تو وہ آنسوں جھلک پڑے.... 

"بس مجھے ایک سوال کا جواب دو بلال!!!! 

سب باتیں سائیڈ پر کرتے ہیں..." 

منہاء اپنا چہرہ صاف کرتے ایک گہرا سانس بھرے بولی جبکہ بلال جو نظریں گرائے بیٹھا تھا متوجہ ہوا.... 

" کیا اگر میری جگہ تمہاری بہن ہوتی.... 

تو کیا تم اس کو بھی پیسوں میں بیچ دیتے؟؟؟؟" 

منہاء نے ایک سنگین چوٹ لگائی کہ بلال اسے پھٹی تذبذب نظروں سے دیکھنے لگا... 

"اگر تمہیں اس سوال کا جواب مل گیا ناں.... 

تو مجھے ضرور بتانا.... 

میں جاننا چاہتی ہو اس کا جواب.... 

اور جس دن تمہیں یہ جواب مل گیا سمجھ لینا میں نے تمہیں معاف کردیا.... "

منہاء مبغوض ہوتے بلال کو دھتکارے اپنی کرسی سے اٹھی کہ تبھی اس کی نظر سامنے کھڑے آہل پر پڑی جو اسے اور بلال کو سپاٹ نظروں سے گھور رہا تھا..... 

منہاء نے آہل کو اپنے سامنے کھڑا دیکھا تو حواس باختگی سے بلال کو دیکھنے لگی.... 

جو اتنی باتوں کے بعد بھی اسے طنزیہ مسکراہٹ سے دیکھ رہا تھا.... 

منہاء نے بلال کی مسکراہٹ دیکھی تو عقب آلود نگاہوں سے اسے گھورنے لگی..... 

"منہاء!!!!" 

آہل جو اب باقاعدہ منہاء کی جانب بڑھا تھا بلال کو گھورتے مدہم ہوا.... 

"ج.. ج.. جی!!!" 

منہاء ہکلائی.... 

"چلوں یہاں سے ابھی اسی وقت!!!!" 

آہل کا لہجہ وحشت کدہ ہوا.... 

"آ.... آ... آہل.!!!!" 

منہاء نے آہل کی ناگواری کو محسوس کیا تو گھبرا سی گئی..... 

آہل نے منہاء کے چہرے کی پیلاہٹ کو بھانپا تو آگے کو بڑھتے منہاء کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما اور تیز رفتاری سے اسے اپنے ساتھ عنقریب گھسیٹتے ہوئے باہر کی جانب بڑھ گیا.... 

بلال جو یہ سب دیکھ کر محظوظ ہورہا تھا ایک بڑی مسکراہٹ لیے ان دونوں کو جاتے دیکھتا رہا.... 

"اب آئے گا اصل مزہ!!!" 

بلال زیر لب نفرت انگیز ہوا اور ہنس پڑا.... 

جبکہ آہل منہاء کو اپنے ہمراہ لیے سیدھا گاڑی کی جانب بڑھا دروازہ کھولا اور اسے اندر بیٹھنے کا اشارہ دیا.... 

منہاء جو آہل کو بھونچکا نظروں سے دیکھ رہی تھی روہنس ہوئی... 

"آہل جو آپ سوچ رہے ہیں ایسا کچھ نہیں ہے!!!!" 

منہاء روہانسی ہوئی..... 

"منہاء گاڑی میں بیٹھو فوراً!!!! "

آہل سفاک ہوا.... 

"ایک بار میری بات سن لے آہل...." 

منہاء التجائی ہوئی....  

"ایسا کچھ نہیں ہے جیسا آپ سمجھ رہے ہیں!!!!" 

"تو تم اس طرح نہیں مانو گی.... "

آہل نے منہاء کی ضد دیکھی تو دروازہ کھولے منہاء کو اندر کی جانب دھکا دیا اور دروازہ غصے سے پٹختے اپنی نشست پر تیزی سے آ کر بیٹھ گیا.…

منہاء جو آہل کی ناراضگی کو بھانپ چکی تھی اب آنکھوں سے آنسوں بہاتے اسے دیکھنے لگی..... 

آہل نے منہاء کی مدہم سسکیاں محسوس کی تو کینی نظروں سے اسے دیکھا جو دوسری جانب منہ کیے رو رہی تھی.... 

مگر اب اس کے رونے کی پرواہ کیے بناء گاڑی کو چابی بھری اور وہاں سے بھگا دی.... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل اپنا کوٹ اتارے شرٹ کی سلیویس چڑھائے صوفے پر بیٹھا سپاٹ تاثرات لیے سگار پیتے منہاء کو گھور رہا تھا... 

جو ایک مجرم کی مانند اس کے سامنے ایک انگلی منہ میں دبائے پریشانی سے نظریں گرائے کھڑی تھی..... 

"کیوں گئی تھی اس سے ملنے سے؟؟؟؟" 

آہل نے سگار ایش ٹرے پر مسلتے ہی پہلا سوال بے رخی سے کیا.... 

"ایسا کچھ نہیں ہے جیسا آپ سمجھ رہے ہو آہل!!!!" 

منہاء جو آہل کو دیکھ کر سہم سی گئی تھی مدہم ہوئی... 

"میرے سوال کا یہ جواب نہیں منہاء ..... 

مجھے جواب چاہیے جو میں نے پوچھا ہے تم سے...." 

آہل متلاطم ہوا

"میرے پاس کوئی جواب نہیں اس سوال کا!!!!" 

منہاء زیر لب بڑبڑائی..... 

" اچھا!!!! "

آہل نے سنا تو غصے سے سر ہلائے سناٹ ہوا.... 

"تو  ٹھیک ہے ناں بتاؤ تم مجھے کچھ بھی.... 

میں یہی. بلال کو بلا لیتا ہو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا..." 

آہل نے منہاء کی ہٹ دھرمی دیکھی تو فوراً اپنا فون نکالے کندھے اچکاتے بولا.... 

منہاء نے آہل کو نمبر ملاتے دیکھا تو تیزی سے اس کی جانب لپکی اور فون اس کے ہاتھ سے کھینچتے بیڈ پر پھینک دیا.... 

" کوئی ضرورت نہیں کسی سے بھی بات کرنے کی..... "

منہاء پھنکاری.... 

"اب ہمارے درمیان ہونے والہ بات کیلئے آپ کسی تیسرے کو بلاۂے گے کیا؟؟؟؟" 

"تو یہ سب اس سے ملتے کیوں نہیں سوچا تھا...." 

آہل نے سنا تو دونوں بازوؤں باندھے پھنکارا.... 

"تب وہ تیسرا کیوں نہیں بنا تھا ہم دونوں کے درمیان؟؟؟؟ "

" اففففففف میرے اللہ!!!!" 

منہاء اپنا سر پٹختے چنگاری..... 

" جب میں کہہ رہی ہو کہ ایسا کچھ نہیں ہے تو سچ میں ایسا کچھ نہیں آپ سمجھ کیوں نہیں رہے ہیں میری بات؟؟؟؟"

"کیوں سمجھو میں تمہاری بات!!! ؟؟؟"

آخر کیوں سنوں میں تمہاری اب!!!!"

آہل نے منہاء کی سٹپٹاہٹ دیکھی تو ایش ٹرے دور پٹختے منہاء پر چلاتے اس کی جانب بڑھا جو دو قدم پیچھے کو لڑکھڑائی....

"آہل!!!!!" 

"تم نے میری سنی تھی کل رات؟؟؟؟" 

آہل منہاء کو بازوؤں سے دبوچے اسے اپنے وجود سے لگائے جھکتے چلایا....

" جو میں تمہاری سنوں اب؟؟؟

بولوں ؟؟؟؟" 

"مجھ سے بدلا لے رہے ہیں ناں آپ رات کا؟؟؟؟" 

منہاء آہل کے چہرے کو بھیگی آنکھوں سے دیکھتے بولی.....

"تم سے اگر بدلہ لینا ہوتا ناں تو وہی تمہیں طلاق دے کر بلال کے پاس چھوڑ آتا میں منہاء...." 

آہل عتاب ہوا.... 

"طلاق؟؟؟؟"

منہاء نے آہل کے منہ سے طلاق کا لفظ سنا تو ہکا بکا اسے دیکھنے لگی....

" ہاں طلاق!!!!

تمہاری بھی تو یہی خواہش ہے ناں کہ مجھ سے الگ ہوجاؤ!!!!"

آہل منہاء کی بازوؤں پر دباؤ ڈالے بے ہنگم ہوا....

جبکہ منہاء جو آہل کی طرف سے دی جانے والی تکلیف  کو بھی محسوس نہیں کر پارہی تھی اس کی گرفت کو توڑتے چندھیائی نظروں سے دیکھتے پیچھے کو ہوئی....

" آپ مجھے سچ میں طلاق دے دیتے؟؟؟؟"

منہاء آہل سے دور ہوتے روہانسی ہوئی....

"ہاں دے دیتا!!!!

تم بھی تو یہی چاہتی ہو ناں!!!!" 

آہل طنزیہ مسکراہٹ ہوا....

جبکہ منہاء جو آہل کی مسکراہٹ کو دیکھ کر لڑکھڑا سی گئی تھی بیڈ پر بیٹھتے سر تھامے زور زور سے رونے لگی....

آہل جو پہلے تو طنزیہ مسکراہٹ سے اسے دیکھ رہا تھا منہاء کو یوں روتے بلکتے دیکھ کر ایک دم بجھ سا گیا اور فوراً اس کی جانب بے تابی سے بڑھا....

"اب رو کیوں رہی ہو؟؟؟؟؟

وہی بولا ہے جو تم چاہتی ہو؟؟؟؟" 

منہاء نے آہل کی بات سنی تو آتشی نظروں سے دیکھتے اس کی جانب ایک شیرنی کی مانند جھپٹی.....

"آپ مجھے طلاق دیتے ہاں؟؟؟؟" 

منہاء آہل کا گریبان پکڑے روتے چلائی...

جبکہ آہل جو منہاء کی جانب سے اس طرح کے رویے کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوا منہ کھولے منہاء کو دیکھنے لگا....

"سوچا بھی کیسے کہ آپ مجھے چھوڑ دیتے؟؟؟؟" 

منہاء نے ایک چست آہل کے سینے پر لگائی جس پر وہ ایک دم کراہ سا گیا....

"محبت کرتے ہیں ناں مجھ سے؟؟؟" 

منہاء روتے سوالیہ ہوئی....

جس پر آہل جو پہلے ہی کشمکش میں تھا حواس باختگی سے سر حامی میں ہلانے لگا....

"تو پھر کیوں چھوڑتے  آپ مجھے؟؟؟؟" 

منہاء نے ایک اور زور کی چست آہل کے سینے پر دھڑی اور پھر روتے ہوئے اس کے ساتھ لپک گئی....

"مانتی ہو کہ میں نے بہت تنگ کیا ہے آپکو آہل!!!! 

اور چاہتی تھی کہ آپ مجھے چھوڑ دے مگر اب!!!" 

منہاء جو کہتے کہتے رکی تھی آہل نے منہاء کی ادھوری بات سنی تو تجسسی ہوا.... 

" مگر اب کیا؟؟؟ 

مگر اب کیا منہاء!! ؟؟؟" 

"میں آپکی محبت کو سمجھنا چاہتی ہو آہل!!!! 

میں آپکے نام سے الگ نہیں ہونا چاہتی!!!!" 

منہاء سر اٹھائے آہل کی آنکھوں میں اپنی سرخ پڑتی آنکھیں گاڑھے روتے بولی.... 

" بہت غلطیاں کی ہیں میں نے... 

اب مزید کچھ غلط نہیں کرنا چاہتی!!!!" 

آہل جو منہاء کی جانب سے ہونے والے اقرار کو دیکھ کر ابھی تک شش و پنج میں تھا منہاء کا اقرار سنتے ہی اسے خود سے لگائے فوراً اپنی بانہیں اس کے گرد مائل کی اور. گرفت مضبوط کرتے پرسکون انداز سے آنکھیں موندے منہاء کی بہتی ہچکیوں اور دل کی تیز رفتار دھڑکن کو محسوس کرنے لگا.... 

کچھ دیر یونہی ساتھ رہنے کے بعد منہاء آہل سے الگ ہوتے بیڈ کی جانب جا بیٹھی جبکہ آہل پانی کا گلاس تھامے منہاء کی جانب بڑھاتے اسے محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگا....

منہاء نے گلاس تھاما اور ایک گھونٹ میں سارا انڈیل لیا اور گہرے سانس بھرنے لگی....

"جب محبت کرتی تھی تو کیوں تڑپاتی تھی مجھے تم؟؟؟؟" 

آہل منہاء کا چہرہ تھامے محبت گو ہوا....

"پتہ نہیں!!! 

شاید خود بھی نہیں جانتی تھی...." 

منہاء آہل کے ہاتھوں کو تھامے پریشان ہوئی....

"مگر آج جب مجھے بلال کی باتوں اور آپ کے رویے نے جھنجھوڑا تو میں بہت ڈر گئی تھی اور اب خود کے دل کو سنبھال نہ سکی!!!! "

"کیا میری منہاء اور ڈر گئی میں نہیں مانتا !!!!"

آہل منہاء کی پیشانی پر بوسہ دھڑے مسکرایا....

"ڈر لگتا ہے آہل بہت ڈر لگتا ہے.... 

جب اپکا کوئی اپنا عزیز اپ سے دور ہورہا ہو تو بہت ڈر لگتا ہے... "

 منہاء جس کا چہرہ ابھی بھی اترا ہوا تھا کشمکش ہوتے اسے دیکھنے لگی.....

" مگر اب تو میں پاس ہو ناں!!! "

آہل منہاء کی گال پر تھپکی بھرے بولا.... 

جبکہ منہاء جو ابھی تک شش و پنج میں تھی مبہم گو ہوئی... 

" آپ کو مجھ پر یقین تو ہے ناں؟؟؟؟"

" یقین ہر رشتے کی بنیاد ہوتی ہے اتنا تو میں تم سے سیکھ ہی چکا ہو.....

اور میری بنیاد بہت مضبوط ہے...."

آہل نے  منہاء کی آنکھوں میں بکھرتے موتی دیکھے تو اس کے ساتھ بیٹھتے اس کے ہاتھوں کو تھامے مسکرایا....

"میں بلال سے ملنے نہ جاتی اگر وہ مجھے دھمکی نہ دیتا آہل....

یقین جانیے مجھے اس کی کسی بھی بات کا یقین نہیں تھا وہ جو بھی!!!!"

منہاء اپنا دل ہلکا کرتے بولی جبکہ آہل نے سنا تو منہاء کی بات کاٹتے ناگواری سے بولا....

"کیا دھمکی دی تھی اس نے؟؟؟؟" 

"چھوڑیے آہل!!!

میں بھولنا چاہتی ہو آپ بھی بھول جائیے!!!"

منہاء بات ٹالے اٹھی....

" منہاء اس نے کیا دھمکی دی تھی تمہیں؟؟؟؟"

آہل نے منہاء کو بات پلٹتے دیکھا تو ہاتھ تھامے دوبارہ سوالیہ ہوا....

جس پر منہاء جو پہلے سوچنے لگی تھی اب آہل کے روبرو کھڑے صاف گو ہوئی....

" یہی کہ وہ یہاں آجائے گا مجھ سے ملنے اور پھر آپ میرا یقین نہیں کرے گے اور چھوڑ دے مجھے...."

منہاء منہ لٹکائے بولی....

جبکہ آہل جس کو سن کر پورے بدن میں ایک آگ سی دوڑ گئی تھی تلملاتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور تیزی سے دروازے کی جانب ہوا....

"کہاں جارہے ہیں آپ آہل؟؟؟"

منہاء نے آہل کی خونخواری دیکھی تو اس کے پیچھے کو لپکی....

مگر آہل جو سر پھرا سا تھا منہاء کی پکار نا سنتے تیزی سے نیچے کو اترا اور باہر کی جانب نکل پڑا....

"انہیں کیا ہوا ہے اچانک؟؟؟" 

منہاء جو ٹیرس پر کھڑی آہل کو بپھڑتے جاتا دیکھ رہی مبہم بڑبڑائی...

منہاء جو ایک گھنٹے سے آہل کا انتظار کرتے کرتے کیچن کی جانب ہوئی تھی گل افگن کے ساتھ مل کر رات کے کھانے کی تیاری کرنی لگی..... 

"چچا ایک بات پوچھوں آپ سے؟؟؟ "

منہاء تجسسی انداز ہوئی... 

"جی جی بہو بیٹا پوچھوں!!!!" 

افگن جو سبزی بنانے میں مگن تھا نے سنا تو اپنائیت انداز ہوا.... 

"آپ کو کچھ بھی پوچھنے کیلئے اجازت کی ضرورت نہیں ہے بیٹا.... 

بلاجھجھک ہر بات کیا کروں آپ مجھ سے!!!" 

"اتنی محبت کا شکریہ چچا!!!! "

منہاء مسکرائی... 

"اچھا تو میں پوچھنا چاہتی تھی آپ سے کہ کیا یہ آہل شروع سے ہی ایسے ہی؟؟؟؟" 

منہاء برا سا منہ بنائے رکی.... 

" شروع سے کیسے مطلب؟؟؟ "

افگن جو سبزی بنا رہا تھا سنتے ہی چونکا.... 

" میں کچھ سمجھا نہیں بیٹا!!! ؟؟"

" اب جیسے کہ بات بات پر غصہ آجانا!!! 

الٹی حرکتیں کرنا.…"

منہاء جو کہتے کہتے ہنس پڑی تھی گل افگن بھی دبی مسکراہٹ ہوا.... 

"اور تو اور کسی کی بات نہ سننا اور اپنا ہی سر پھوڑ دینا!!!" 

"نہیں نہیں بیٹا!!!! 

آپ نے تو ان کی ذات کے بلکل ہی منافی باتیں کر ڈالی ہیں!!! "

افگن ہنستے بولا.... 

" وہ بلکل ایسے نہیں تھے جیسے آپ کہہ رہی ہو!!!

وہ تو بہت ہی چلبلے نٹ کھٹ اور ہنس مکھ انسان تھے... "

جبکہ منہاء جو افگن کی بات سنتے ہی حیران ہوئی تھی ساکت انہیں دیکھنے لگی.... 

" چچا مجھے دادا نے کچھ بتایا تو تھا کہ ان کو کسی ہما نامی لڑکی نے دھوکا دیا تھا!!!! "

منہاء جو سوچتے سوچتے بول رہی تھی تعجب زدہ ہوئی... 

" مگر کوئی کسی کی وجہ سے اس قدر سنگدل کیسے ہوسکتا ہے مطلب خود کو اس قدر بدل لینا کہ سب اس سے دور ہوجائے سمجھ سے باہر ہے؟؟؟؟ "

" ہمممممم یہ بات تو ہے بیٹا...." 

افگن جو سبزی بنا کر فارغ ہوا تھا اب خانساماں کی جانب ہوتے اس کی مدد کرنے لگا... 

"مگر جب محبت اتنی شدت سے کی جائے کہ سامنے والے کی ہر خواہش اور ہر سوال کو حکم سمجھ کر پورا کیا جائے تو اس کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے... 

پھر کہہ سکتی ہو آپ کہ انسان ایسا ہی بدلتا ہے جیسے ہمارے آہل صاحب..." 

منہاء جو کیچن کی سلیب پر مزے سے چڑھتے ہاتھ میں کچے مٹر تھامے کھاتے سن رہی تھی حیرت زدہ ہوئی... 

" اچھا ہاں!!!!!! 

پھر کہہ سکتے ہیں ہم!!! "

منہاء چونکتے بولی.... 

" تو آپ پھر بتائیں مجھے کہ کیسے تھے آہل؟؟؟ 

کیا عادات تھی انکی؟؟؟. "

منہاء فرحت انداز سے اضطراری ہوئی... 

"کس بات سے خوش ہوتے تھے؟؟؟ 

کیا چیز انہیں اچھی لگتی تھی سب!!! 

سب بتائے مجھے!!!" 

منہاء پرجوش ہوئی تو گل افگن جو منہاء کی دلچسپی کو دیکھتے مسکراہٹ ہوئے تھے اب اس کی جانب بڑھے.... 

" محبت میں کچھ جاننے کی ضرورت نہیں ہوتی منہاء بیٹا..... 

آپ کچھ جانے بناء ہی سب کچھ جان جائے گی ان کے بارے میں...." 

افگن متحیر ہوا..... 

" مگر ایک بات کہہ دیتا ہو آپکو!!!" 

"وہ کیا چچا؟؟؟" 

منہاء گھنگولی... 

"آہل صاحب کی چاہت شدت اور سنگین ہوتی ہے اگر ان کی محبت سنبھالنا چاہتی ہے تو اس شدت کا جواب شدت سے ہی دیجیے گا.... 

یقین جانیے کائنات آپ کے قدموں میں رکھ دے گے وہ..." 

افگن تاسف ہوا جبکہ منہاء ششدر ہوتے سن رہی تھی... 

"اور میں منہ بولتا ثبوت ہو ان کی پہلی محبت کا... "

افگن بولتے ہوئے واپس خانساماں کی جانب ہوا جبکہ منہاء جو افگن کی باتیں سن کر ہکا بکا ہوئی تھی واپس کیچن سے باہر آتے اپنے کمرے کی جانب ہوئی.... 

" چچا نے تو مجھے ڈرا ہی دیا ہے آہل سے!!! 

بھلا ایسا بھی ہوتا ہے کہیں؟؟ "

منہاء بات کو ہلکا کرنے کی کوشش کرتے بیڈ کی جانب ہوئی اور اپنا فون تھامے بیٹھ گئی....

"کہ کسی کیلئے اس قدر پاگل ہوجائے؟؟؟ "

"مگر میں خود بھی چچا کی باتوں کے علاوہ آہل کی شدت دیکھ چکی ہو.... 

اور مجھے خود بھی لگتا ہے کہ چچا کی باتوں میں بہت حد تک صداقت ہے...." 

منہاء جو مبہم ہوتے خود کلام ہوئی تھی کہ تبھی اس کا فون بجنے لگا جس نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی....

" ثمر کا فون؟؟؟ "

منہاء نے دیکھا تو فوراً فون کان سے لگائے اس سے آج کے ہونے والی باتوں کے متعلق آگاہ کرنے لگی... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

آہل جو تھکاوٹ سے چور گھر کو واپس آیا تھا سیدھا اپنے کمرے کی جانب بڑھا کہ کمرے کے دروازے پر پہنچتے ہی اسے منہاء کی جانب سے کیے جانے والے محبت کے اقرار کی یاد آئی جسے سوچتے ہی ایک گہری مسکراہٹ اس کے چہرے پر بکھر گئی اور وہ فرط جذبات انداز لیے کمرے میں داخل ہوا.... 

مگر کمرے میں داخل ہوتے ہی منہاء کو ڈھونڈتی آہل کی بے صبر نظروں نے اسے چاروں اطراف نہ پایا تو آہل بے ہنگم سا ہوتے سیدھا واش روم کی جانب بڑھا.... 

"منہاء تم اندر ہو کیا؟؟؟؟" 

آہل دروازے پر دستک کرتے سوالیہ ہوا..... 

مگر جب اندر سے جواب نہ پایا تو دروازہ کھولے وہ اندر کو بڑھا.... 

"یہ کہاں گئی ہے؟؟؟؟" 

آہل واش روم سے نکلتے ہی سیدھا کمرے میں آیا اور بے چینی سے تیز قدموں کے ساتھ باہر کو نکلا اور ٹیرس پر کھڑے آواز لگانے لگا... 

"منہاء؟؟؟؟؟؟؟ 

منہاء کہاں ہو تم؟؟؟" 

آہل چلاتے ہوئے سیدھا لاؤنچ کی جانب دوڑا جہاں افگن آہل کی آواز سنتے ہی کیچن سے باہر نکلتے اسے پریشانی سے دیکھ رہا تھا.... 

"کیا ہوا ہے صاحب جی؟؟؟" 

افگن پریشان ہوا.... 

"آپ منہاء بیٹا کو ایسے کیوں بلا رہے ہیں؟؟؟" 

"افگن منہاء کہاں ہے؟؟؟ "

آہل کہتے ہوئے سیدھا خان بابا کے کمرے کی جانب دوڑا...  

"وہ اوپر کمرے میں نہیں ہے میں اسے وہی چھوڑ کر گیا تھا!!!!" 

"صاحب جی منہاء بہو ابھی میرے ساتھ کیچن میں ہی تھی.... 

شاید وہ اب اپنے کمرے میں نہ ہو؟؟ "

افگن آہل کی پریشانی کو دیکھتے تاسف ہوا اور آگے کو بڑھا.. 

"آپ یہی رکے میں ابھی دیکھ کر آتا ہو!!!" 

" نہیں افگن میں خود دیکھ لونگا...." 

آہل نے سنا تو تیزی سے گیسٹ روم کی جانب بڑھا.....

" انہیں اچانک کیا ہوا ہے؟؟؟ 

اللہ خیر ہی کرے سب!!! "

افگن دعائیہ ہوتے واپس کیچن کی جانب بڑھا.…

"منہاء!!!! 

منہاء!!!!" 

آہل جو پریشان سے پکارتے ہوئے گیسٹ روم میں بناء دستخط دیے داخل ہوا تھا اندر منہاء کو بیڈ پر پرسکون انداز سے سوتے دیکھ کر ٹھٹک سا گیا.... 

کانوں میں ہینڈ فری لگائے وہ پرسکون بیڈ پر ایک بچے کی مانند سمٹی سی لیٹی سو رہی تھی.... 

جبکہ آہل جو منہاء کو دیکھتے ہی پل بھر میں پرسکون ہوا تھا اب مطمئین انداز سے اس کی جانب بڑھنے لگا... 

بکھرے بالوں میں سوئی منہاء کے چہرے پر اس کی بھوری چمکتی زلفوں کا بسیرا تھا جبکہ اس بسیرے کے نیچے منہاء کا گلابی پڑتا چمکتا چہرہ ایک معصوم ننھے بچے کی طرح چاند نما تھا جو کسی کا دل بھی اپنی جانب مونہہ لینے کی سکت رکھتا تھا.... 

آہل جو منہاء کے پاس بیٹھتے اسے ساکت نظروں سے محو تھا اب غیر ارادی طور پر منہاء کے. چہرے کی جانب ہاتھ بڑھائے اس کے چہرے پر سے بالوں کو ہٹانے لگا.….

"کس قدر پیاری اور معصوم ہے یہ!!! ؟؟" 

آہل دل ہی دل میں سوچتے بے خود ہوا.... 

"کتنے دکھ دیے میں نے اسے ناجانے کیسے سہتی گئی یہ کسی اور کی سزا کو؟؟؟" 

آہل منہاء کے چہرے کو زلف سے پاک کرتے اب اس کا چہرہ بناء رکاوٹ دیکھ پا رہا تھا..... 

"مگر اب اسے کوئی دکھ نہیں دونگا.... 

اتنی محبت دونگا اسے.... 

اتنی محبت دونگا کہ یہ سب درد بھول جائے گی جو میں نے اسے دیے تھے..." 

آہل سوچتے ہی لاشعوری طور پر منہاء کی جانب جھکا اور قریب ہوتے اس کے چہرے پر جھکتے اس کے ساکت ہوئے لبوں کو اپنی ملکیت میں لیتے اپنے لمس سے چھونے لگا... 

منہاء جو نیند کی وادیوں میں گم تھی خود پر کسی کے احساس کو محسوس کیا تو فوراً آنکھ کھولے گھبرا سی گئی.... 

جبکہ آہل نے منہاء کی جاگ دیکھی تو اپنا حصار مزید بڑھاتے اس کے ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں الجھائے اسے اپنی قربت کا احساس دینے لگا.... 

منہاء جو آہل کے جذبات کو بھانپ گئی تھی فوراً اپنا ہاتھ چھڑواتے آہل کو خود سے دور دھکلیتے ہڑبڑاتے اٹھ بیٹھی.... 

"آہل!!!!!" 

منہاء آہل کے سینے پر ہاتھ دھڑے ایک دم پیچھے کو ہوئی جو اپنے بالوں میں مست انداز سے ہاتھ پھیرتے مسکرا رہا تھا... 

"ایوووووووووں!!!!" 

منہاء اپنے ہونٹوں کو صاف کرتے منہ بگاڑے چلائی .... 

"جی آہل کی جان!!!!" 

آہل منہاء کا ہاتھ اپنے سینے سے لگائے دل سوز ہوا... 

"ایسا کون کرتا ہے یار؟؟؟" 

منہاء اپنا ہاتھ کھینچتے ڈوپٹے سے ہونٹوں کو رگڑتے بیڈ سے اتری....

"کیا ہوا ہے؟؟؟ 

اچھا نہیں لگا کیا؟؟؟" 

آہل تنگ کرتے مسکرایا....  

"بہت ہی گندے ہو آپ یار!!!" 

منہاء منہ بگاڑے بیڈ سے اترتے سیدھا واش روم میں تیزی سے بڑھی..... 

"گندہ اور میں؟؟؟؟" 

آہل مستی سے بازوؤں باندھے جوشیلے انداز سے کھڑا اس کے پیچھے ہوا.... 

"کیوں جی وجہ؟؟؟"  

"ایسے کون کسی کے؟؟؟" 

منہاء جو باہر آتے بولتے بولتے شرمائی رکی تھی آہل کی جانب دیکھتے ٹھٹکی... 

"کسی کے نہیں اپنی بیگم کے!!! "

آہل پُراعتماد ہوتے آگے منہاء کے قریب ہوا.... 

"اچھا بس!!! 

شروع مت ہوجائیے گا اب آپ!!!" 

منہاء آہل کو فل سٹاپ لگاتے اپنا ڈوپٹہ سیٹ کرتے دروازے کی جانب بڑھی.... 

"یہ بتائے آپ گئے کہاں تھے اتنی اجلت میں ؟؟؟" 

"میں؟؟؟؟" 

آہل نے سنا تو اشارتاً گھنگولا.... 

" آپ کے علاوہ یہاں کوئی اور ہے تو بتا دے مجھے شاید وہی جواب دے دیں مجھے!!! "

منہاء ہنستے ہوئے مڑی... 

"بس ایک بہت ہی ضروری کام تھا مجھے...." 

آہل کچھ سوچتے ہی تلخ ہوا.... 

" جو آج نہ کرتا تو شاید دل میں رات بھر کسک رہ جاتی مجھے...." 

"ایسا کونسا کام تھا اپکو آہل؟؟؟ 

کہ آپ میری آواز پر بھی نہ رکے؟؟؟ "

منہاء سنجیدہ ہوتے اسے گھورنے لگی.... 

تو آہل جس کے پاس مزید اس کی باتوں کے جواب نہ تھے الجھن سے اس کی جانب بڑھا.... 

"بہت سوال کرتی ہو تم منہاء!!!! 

بھوک لگی ہے مجھے بہت زیادہ.... "

آہل دروازے کی جانب اپنا دامن بچاتے بات بدلتے بڑھا.... 

" افگن سے کہوں کھانا لگائے ڈائینگ پر میں بس فریش ہو کر آتا ہو....." 

آہل کہتے ہی وہاں سے چلتا بنا جبکہ منہاء جو آہل کی اس آنکھ مچولی کو دیکھ کر کھٹکی تھی تذبذب سی ہوتی اس کے پیچھے کو چل پڑی....

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء آہل کے ساتھ ڈائینگ پر موجود ڈنر نوش کررہی تھی جب افگن تیزی سے دوڑتا ہوا منہاء کی جانب بڑھا....

" بہو بیٹا اپکا فون!!!!" 

افگن نے فون منہاء کی جانب بڑھایا....

یہ" کب سے آپ کے کمرے میں بج رہا تھا اب بھی کسی کا فون آرہا تھا اس پر....

لگتا ہے کسی کو بہت ضروری بات کرنی ہے اپ سے تبھی میں لے آیا یہاں!!!" 

"کس کا فون ہے منہاء اس وقت؟؟؟" 

آہل جو کینی نظروں سے دیکھ رہا تھا نوالہ بناتے بولا....

"ثمر کا!!!!

اور اب تک بیس فون کر چکی ہے مجھے وہ!!!"

منہاء فون دیکھتے مبہم گو ہوئی.....

" ابھی تو بات ہوئی تھی اس سے میری پھر بھی ناجانے کیوں؟؟؟" 

" تو فون کر لو شاید کوئی کام ہوگا جو بات کرنا چاہتی ہے!!!" 

"پتہ نہیں پوچھتی ہو ابھی میں...." 

منہاء نے آہل کی بات سنی تو فوراً ثمر کو فون ملا دیا....

" ہاں ثمر سب خیریت؟؟؟؟

اتنے فون کیے ہوئے تھے تم نے آنٹی تو ٹھیک ناں؟؟؟"

منہاء برجستہ ہوئی....

مگر جب دوسری جانب سے ثمر کی طرف سے ملنے والی اطلاع سنی تو حیرت زدہ نظروں سے آہل کو دیکھنے لگی....

جیسے جیسے ثمر بتا رہی تھی منہاء کی حیرت و پریشانی بڑھتی جارہی تھی....

جبکہ آہل جو سامنے بیٹھا منہاء کے اڑتے رنگ دیکھ کر ایک دم رکا تھا اب اسے مسلسل دیکھنے لگا....

"کیا ہوا ہے منہاء؟؟؟؟

سب ٹھیک تو ہے ناں؟؟؟" 

آہل حیرت میں مبتلا منہاء کو دیکھتے بولا....

جو فون رکھتے اب تک آہل کو سنجیدگی سے دیکھ رہی تھی اور پھر خاموشی سے کرسی پیچھے کرتے اٹھ کھڑی ہوئی....

"کیا ہوا؟؟؟

کہاں جارہی ہو؟؟؟" 

آہل سوالیہ ہوا.…

"بس ہوگیا ہے !!!!

پیٹ بھر گیا ہے میرا...."

منہاء داسہم ہوتے سیدھا اپنے کمرے کی جانب ہوئی.... 

جبکہ آہل نے منہاء کو یوں جاتے دیکھا تو خود بھی اس کے پیچھے کو چل پڑا.... 

منہاء جو کمرے میں پریشانی سے ٹہلتے سوچ رہی تھی آہل کی آہٹ پر پیچھے مڑی.... 

"منہاء!!!! "

" آپ نے بلال کو مارا ہے؟؟؟؟ "

منہاء دوٹوک ہوئی.... 

"یہ کیسا سوال ہے؟؟؟؟" 

آہل نے سنا تو سنگین ہوا.... 

"وہ جس ضروری کام کا آپ کہہ رہے تھے وہ یہی تھا ناں؟؟؟" 

منہاء آہل کے روبرو سوالیہ ہوئی.... 

"منہاء!!!!" 

"آہل جھوٹ نہیں مجھ سے پلیز!!!! "

منہا آہل کے دونوں ہاتھوں کو تھامے یقینی انداز آور ہوئی...

"سچ بتائیے آپ نے بلال کو پیٹا ہے ناں؟؟؟" 

آہل جو منہاء کی سوالی نظروں کا سامنا کررہا تھا سر جھکائے حامی ہوا.... 

جبکہ منہاء جو بس شک میں تھی آہل کے اقرار پر صدمے سے دوچار ہوئی... 

" مگر کیوں؟؟؟؟" 

منہاء مبہم ہوتے بولی.... 

"آپ نے اسے کیوں؟؟؟" 

"کیوں کہ اس نے میری محبت پر نظر رکھی تھی.... "

آہل کا لہجہ سرد پڑا... 

"جو کہ مجھ سے برداشت نہیں ہوا... 

اس نے تمہیں برا کہا تھا اور سزا تو واجب تھی اس پر.... 

بس پھر وہی دے کر آیا ہو اسے کے اب کبھی تمہارے بارے میں سوچے گا بھی نہیں ..." 

" آہل!!!!"

منہاء آہل کے سینے پر ہاتھ دھڑے بلبلائی... 

" میں ایسا ہی ہو منہاء...." 

آہل منہاء کا چہرہ تھامے محبت انداز ہوا.... 

" محبت میں پاک اور شدت پسند..... 

بہت مشکل ہوگا تمہارا مجھ سے محبت کرنا اور مجھے بہت مزہ آنے والا ہے.... "

آہل کے چہرے پر شرارت سوجھی تو منہاء شش و پنج ہوتے اسے دیکھنے لگی... 

"آپ مجھے ڈرا رہے ہیں؟؟؟؟ "

" نہیں حقیقت بتا رہا ہو میں منہاء ...." 

آہل منہاء کا ہاتھ تھامے اسے کمرے سے باہر لاتے بولا..... 

" بہت گہرا سمندر رکھتا ہو اپنے اندر.... 

پھنس گئی ہو اب تو تیرنا تو پڑے گا مجھ میں...." 

"بہت مشکل انسان ہے آپ قسم سے!!!" 

منہاء گھنگولی.... 

" تو میں ہو ناں سمجھا دونگا تمہیں آسانی سے... "

آہل منہاء کی تھوڑی کو چھوتے اپنے کمرے کی جانب بڑھا... 

"ہم اوپر کیوں جارہے ہیں اب؟؟؟ 

میرا کمرہ تو نیچے ہیں ناں؟؟؟ "

" جی نہیں ہمارا کمرہ اوپر ہے نیچے نہیں !!!! 

اور ویسے بھی جہاں شوہر رہتا ہے وہی اس کی بیوی بھی... "

آہل شرارت انداز ہوا تو منہاء اس کی چالاکی کو سمجھتے ہنس پڑی.... 

"باتوں باتوں میں ہی مجھے لے آئے اوپر چالاکوں!!!! 

بہت تیز ہے آپ آہل خان!!! "

منہاء آہل کی ناک پر چٹکی کاٹے ہنسی تو آہل منہاء کو اپنی گود میں بھرے اسے تنگ کرتے کمرے کی جانب ہوا....

" اب اتارے مجھے!!! 

میں بچی نہیں ہو جس کو آپ گود میں لیے جھومے گے!!!!" 

منہاء آہل کے ناک کو چھوتے مسکرائی... 

" اچھا تو مرضی ہے بھئی... "

آہل منہاء کو بیڈ پر پھینکتے ہنسا... 

"ایک تو میں مفت میں آپکو سواری دے رہا تھا اوپر سے جناب کو راس ہی نہیں!!!!" 

َ"اوچ!!!! "

منہاء جو دھڑم کرتے گری تھی پھنکاری... 

" آہل!!!! 

اتارنے کو کہا تھا پھینکنے کو نہیں...." 

منہاء آہل کو گھورتے سنگین ہوئی جبکہ آہل جو اج کسی اور ہی موڈ میں تھا منہاء کے قریب جھکتے اس کی پیشانی پر لب رکھے مسکرایا..... 

" دادا کا جتنا بھی شکریہ کہوں لگتا ہے کم ہے.... 

اتنا انمول تحفہ دے گئے مجھے وہ یقین نہیں آتا.... "

" ہاں اور مجھے ایک عجیب سا نمونہ دے گئے مجھے بھی یقین نہیں آتا.." 

منہاء نے پاس پڑے تکیے کو آہل کے سینے پر دے مارا اور ہنستے ہوئے پیچھے کو ہوئی.... 

"اوہ تو پلو فائیٹ کا ارادہ رکھتی ہے محترمہ!!! "

آہل اپنی شرٹ کی آستین چڑھائے تکیہ کی جانب بڑھا.... 

" مجھ سے جیت کر دکھائے تو مانو؟؟؟ "

منہاء فخریہ ہوئی.... 

" اگر میں جیتا تو تم یہی میرے کمرے میں رہو گی میرے پاس...." 

آہل نے شرط رکھی.... 

"اور اگر میں جیتی!!!!" 

" میں اس کی نوبت ہی آنے نہیں دونگا یقین جانو!!! "

آہل نے منہاء کی بات کاٹی اور آگے کو ہوتے تکیہ منہاء کی جانب دھکیلا.... 

منہاء جو آہل کے اس وار سے ایک دم چونکی تھی لڑکھڑاتی ہوئی بیڈ پر گر گئی.... 

جبکہ آہل جو منہاء کی اس لڑکھڑاہٹ کو دیکھتے اس پر ہوا تھا اب فاتحانہ انداز سے مسکرایا..... 

" بس اتنا سا دم تھا...." 

آہل منہاء کی بازوؤں کو اپنی گرفت میں لیے اس پر جھکا.... 

"ابھی تو کھیل شروع ہی ہوا تھا آہل ایک اور دفعہ کرتے ناں پلیز!!!" 

منہاء آہل کے ارادے دیکھتے بے چین ہوئی.... 

"نہیں اب پلو نہیں لوو فائیٹ ہوگی!!!" 

آہل جو کہتے ہی ہنسا تھا منہاء پر فرطِ جذبات لیے جھکا.... 

"آہل نہیں ناں!!!! 

پلیز یار!!!! "

جبکہ منہاء جو پہلے تو آہل کو روک رہی تھی اب آہل کی گرفت میں خود کو نرم کرتے خود کو اس کے حوالے کردیا.... 

جبکہ آہل جو منہاء کی جانب سے کسی بھی قسم کی رکاوٹ کو محسوس نہیں کررہا تھا اپنا حق اس پر جمائے اسے اپنے نام لکھ رہا تھا..... 

اور اب کمرے میں پہلے جہاں منہاء اور آہل کے قہقے کچھ دیر پہلے گونج رہے تھے اب خاموشی میں ان دونوں کی سرگوشیاں اور آہٹیں بکھرنے لگی تھی.... 

یونہی ایکدوسرے کی نزدیکیوں میں کھوتے منہاء آہل اس رشتے کو ایک نئی مضبوط راہ کی جانب دھکیل رہے تھے.... 

صبح کی کرن پھوٹی تو پورے خان ویلہ میں ایک اجلی دھلی امید کی نئی روشنی نے اپنا دامن بچھایا.... 

آہل کے کمرے میں جہاں ابھی تک پردے چاک نہ ہوئے تھے اور رات کی مہک ابھی تک کمرے میں چہک رہی تھی خوبصورت اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا.... 

کہ تبھی آلارم کی پُرزور آواز کے گونجنے پر مستی میں سوئے آہل اپنی آنکھوں کو مسلتے انگڑائی بھرتے اٹھا اور اپنا ہاتھ آلارم پر مارتے پاس پڑی گھڑی کو اونگھ بھری نظروں سے دیکھنے لگا.... 

"یہ کیا یہ تو دس بج رہے ہیں؟؟؟؟" 

آہل نے وقت دیکھا تو ہڑبڑاتے ہوئے بیڈ سے اٹھنے لگا کہ تبھی اس کا ہاتھ کسی گرفت میں محسوس ہوا اور آہل کی سرسراہٹ وہی تھم گئی.... 

مڑ کر دیکھا تو منہاء کے ڈوپٹے میں اپنا ہاتھ جکڑا پایا... 

جسے دیکھتے ہی اس کی نظر سامنے اوندھے منہ پرسکون سوتی   منہاء پر پڑی جو دنیا کی ہر فکر سے آزاد چھوٹے چھوٹے سانس بھر رہی تھی.... 

آہل نے منہاء کو سوتے پایا تو رات کی یاد اس کی آنکھوں میں چکرا سی گئی جسے سوچتے ہی وہ واپس منہاء کے قریب جا لیٹا اور اس کے چہرے کے قریب ہوتے ناک کو اپنی ناک سے چھونے لگا.... 

"اوووہ!!!!. 

اونہہہہہ!!!" 

منہاء جو آہل کی اس حرکت پر تنگ ہوئی تھی اپنے ہاتھ سے ناک کو چھپاتے کھسیائی.... 

"جتنی جاگتے ہوئے خوبصورت لگتی ہو منہاء اس سے کئی گناہ سوتی ہوئی معصوم لگتی ہو مجھے !!!!" 

آہل اب منہاء کے ہونٹوں پر اپنی انگلی پھیرے بے لوث ہوا.... 

" آہل!!!!! "

منہاء جو آہل کی حرکت سے مسلسل تنگ آگئی تھی اب جھنجھلاتے ہوئے دوسری جانب چہرہ کرتے بڑبڑائی.... 

" پلیز سونے دے مجھے!!! 

بہت نیند آرہی ہے مجھے اس وقت.... "

" اچھا جی سونا چاہتی ہو تم؟؟؟؟" 

آہل منہاء کو کھینچتے اپنی بانہوں میں بھرے دل سوز ہوا...

"خود  تو تم مزے سے سو رہی ہو جو میری نیند اڑا دی ہے تم نے اس کا کون حساب بھرے گا...؟؟؟ 

اگر میں نہیں سو گا تو منہاء بھی نہیں سوئے گی.…" 

آہل منہاء کی نرم گردن پر لب رکھے اسے اپنی محبت کا احساس دلانے لگا.... 

"آہل بس بھی اب!!! "

منہاء آہل کو خود سے دور کرتے اس کے سینے پر سر دھڑے تنگ ہوئی.... 

" کیا کروں نہیں ہوتا بس!!!! 

تم ہو ہی اتنی پیاری کہ دل کرتا بس!!!! "

آہل واپس فرطِ جذبات سے منہاء کی جانب ہوا... 

کہ منہاء آہل کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھے پیچھے کو کھسکی.... 

" آپ نے آفس نہیں جانا کیا؟؟؟؟" 

"کیسی بیوی ہو یار تم؟؟؟؟ "

آہل خفا ہوا.... 

"کیا مطلب کیسی کا؟؟؟" 

منہاء تیکھی ہوئی.... 

" یہی کہ بیویاں چاہتی ہیں کہ ان کے شوہر ان کے پاس رہے انہیں پیار کریں اور ایک میری بیوی ہے.... 

مجھے دھکے بھر رہی ہے جانے کا کہہ رہی ہے.…"

آہل ڈرامائی انداز سے مصنوعی افسردہ ہوا.... 

"نہیں آہل میں نے تو بس!!!!" 

منہاء مبہم ہوتے سر جھکائے بولی... 

جبکہ منہاء کو یوں اداس دیکھتے ہی آہل ایک قہقہ بھرے منہاء کی گال پر چٹکی کاٹے بولا.... 

"مذاق کررہا ہو میری جان.... 

میرا جانا بیت ضروری ہے آفس میں .... "

آہل  ناراض منہاء کی  زلفوں کو اپنی انگلیوں سے لپیٹتے  کھیلتے گو ہوا.... 

"کچھ امپورٹینٹ میٹنگ ہیں آج میری وہ نمپٹانی ہیں مجھے.... "

"مجھ سے بھی زیادہ ضروری؟؟؟" 

 آہل نے منہاء کی ناراضگی دیکھی تو منہاء کو زلف سے کھینچتے واپس اپنے دل کی جانب لایا اور بانہیں اس کے گرد مائل کردی.... 

"تم سے ضروری کچھ نہیں ہے اب منہاء میرے نزدیک.... "

آہل بول رہا تھا جبکہ منہاء انس تاثرات سے آہل کے سینے پر سر بازوؤں کے سہارے سے ٹکائے اسے سن ری تھی.... 

"مگر میں چاہتا ہو دنیا کی ہر وہ خوشی تمہارے قدموں میں رکھو جس کی تم حقدار ہو...." 

"تو اس سب کیلئے میرا اب جانا بھی تو ضروری ہے ناں.... "

آہل منہاء کی گال چھوتے مسکرایا جس پر وہ حامی میں سر ہلائے اپنے بال سمیٹتے اٹھ بیٹھی.... 

"تو ٹھیک ہے پھر آپ پہلے فریش ہوجائے.... 

میں تب تک ناشتے کا کہہ کر آتی ہو آپ پھر آفس کیلئے تیار ہوجائیے گا اور اس کے بعد ہم مل کر ناشتہ کرے گے.... "

منہاء یکے بعد دیگرے حکم صادر کرتے بیڈ سے اٹھی اور اپنا ڈوپٹہ سنبھالے دروازے کی جانب ہوئی.... 

آہل نے منہاء کو یوں روایتی بیویوں والا رویہ اپنائے دیکھا تو اس کے پیچھے کو ہوتے کلائی تھامے اپنی جانب  کھینچا.... 

" پھر تم کہتی ہو کہ میں بس کرو؟؟؟ "

آہل منہاء کو کمر سے کھینچتے اس پر جھکا.... 

"جبکہ اپنی حرکات کا تمہیں پتہ نہیں ہے!!!!" 

"میں نے کیا کیا اب؟؟؟؟" 

منہاء نے سنا تو ششدر ہوتے دیکھنے لگی.... 

"جادو!!!! 

اپنی محبت کا جادو!!!!" 

آہل منہاء کے چہرے پر دھیرے دھیرے جھکنے لگا.... 

جبکہ منہاء نے آہل کے مچلتے جذبات کو محسوس کیا تو آہل کے سینے کو اپنے ہاتھوں کے زور سے پیچھے کو دھکیلتے ہنستے ہوئے فوراً کمرے سے باہر کو بھاگی...

جبکہ آہل جو منہاء کی اس شرارت پر ہنس پڑا تھا ایک پل کو اس کی جانب لپکا.... 

مگر منہاء بجلی کی رفتار سے لاؤنچ میں داخل ہو گئی تھی اور نیچے سے آہل کو دیکھتے ہنستے ہوئے کیچن کی جانب بڑھی... 

آہل نے منہاء کو جاتے دیکھا تو اپنے بالوں میں دیوانگی سے ہاتھ پھیرتے واپس کمرے میں داخل ہوا اور سیدھا واش روم کی جانب بڑھا.... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

"آہل!!!! 

آہل!!!!" 

منہاء جو عنقریب آدھے گھنٹے کے بعد کیچن سے واپس کمرے میں آئی تھی آہل کو ابھی تک واش روم میں ہی بند دیکھ کر کمرہ سمیٹنے لگی.…

"ابھی تک فریش ہو کر باہر نکلے یہ تو؟؟؟" 

منہاء بیڈ شیٹ بدلتے خود کلام ہوئی.... 

"ایسے تو مزید لیٹ ہوجائے گے یہ؟؟؟ "

منہاء نے کمرہ سیٹ کیا تو ایک آواز واش روم کے باہر ہانکتے دروازے کی جانب ہوئی...

"آہل آپ جب فریش ہوجائے گے تو مجھے آواز دے دیجیے گا پلیز!!!! 

مجھے بھی فریش ہونا ہے... "

جس کا جواب آہل نے بخوبی اونچی آواز سے دیا.... 

" اتنی دیر ہوگئی ہے ناجانے پانی پانی کھیل رہے ہیں بیٹھ کر اندر!!! "

منہاء زیر لب بڑبڑائی اور پھر دروازے کی جانب ہوئی کہ تبھی اسے فون کی رنگ ٹون سنائی دی.... 

منہاء نے فون کی آواز سنی تو واپس پلٹی.... 

" آہل اپکا فون آرہا ہے!!!!" 

منہاء نے آہل کے فون کو بجتے دیکھا تو بولی... 

مگر پانی کی آواز کی وجہ سے آہل منہاء کی آواز نہ سن سکا..... 

منہاء جو فون کی مسلسل بیل سن کر اس کی جانب بڑھی تھی جیسے ہی فون کو پکڑنے لگی فون بند ہوگیا.... 

منہاء نے فون بند دیکھا تو واپس کندھے اچکاتے دروازے کی جانب ہوئی کہ ایک بار پھر سے فون بجنے لگا..... 

"پھر سے کال؟؟؟؟ 

اور آہل کا پتہ نہیں کہ کب باہر نکلے گے یہ؟؟؟" 

منہاء دروازے کی جانب دیکھتے گھنگولی اور اب آہل کا فون تھامے دیکھنے لگی.... 

جس کی سکرین پر جان نام جگمگ کررہا تھا..... 

"جان"!!!! 

منہاء نے دیکھا تو تذبذب سی ہوئی.... 

مگر پھر کچھ سوچتے ہی فوراً فون اٹھایا اور بناء کچھ بولے کان سے لگائے دوسری جانب کی آواز سننے لگی.... 

"تو بالآخر تم نے میرا فون اٹھا ہی لیا.....

بھلا ایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ میں فون کرو اور تم نہ اٹھاؤ.…." 

منہاء نے دوسری جانب سے ایک لڑکی کی آواز سنی تو حیرت ہوتے فون کو پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگی مگر پھر واپس تیزی سے فون کان سے لگائے بیڈ پر بیٹب گئی.... 

"میں جانتی تھی تم مجھے کبھی اگنور نہیں کرسکتے تو بھولنے کی بات تو دور کی ہے میری جان!!!! "

وہ للچائے لہجے سے بول رہی تھی جبکہ منہاء پر مسلسل ایک سکتے کی کیفیت بکھر رہی تھی... 

"تم جانتے ہو میں یہ عدت کے دن کیسے کاٹے!!!" 

وہ سوالیہ ہوئی جبکہ منہاء جس سے اب یہ برداشت کرنا ناگوار تھا منہ پر ہاتھ جمائے خود کو کنٹرول کرنے لگی.... 

" ہر اس یاد کو یاد کیا جس میں تم میرے ساتھ تھے...." 

وہ محو ہوتے بولنے لگی.... 

"ہر اس پل کو یاد کیا جو بہت خاص تھا.... 

ہر اس رات کو یاد کیا جو میں نے تمہاری بانہوں میں گزاری تھی..." 

ہاتھ میں ڈرنک تھامے وہ نشیلی ادا سے بول رہی تھی جبکہ منہاء جس کا چہرہ یہ سب سن کر سرخ جبکہ آنکھیں اب بھیگ رہی تھی ضبط لیے اس کی ہر گھٹیا بات کو سن رہی تھی.... 

" میں چاہتی ہو میری جان.... 

وہ سب واپس آجائے اب.... 

میری عدت بھی ختم ہوگئی ہے اور قید بھی.... 

اب تم جب چاہو اپنی ہما کو اپنے نام کر سکتے ہو آہل...." 

منہاء نے ہما کا نام سنا تو تذبذب ہوتے زیر لب بڑبڑائی... 

"بہت تکلیف دی ہےمیں نے تمہیں .... 

بہت تڑپایا ہے.... 

مگر اب بس اور نہیں.... 

اب ہمارے درمیان منیر جیسے گھٹیا انسان کا نام و نشان نہیں ہے تو اب جلدی سے اپنا لو مجھے اور وہی زندگی کا آغاز کرو میرے ساتھ جیسا تم سوچا کرتے تھے.... "

منہاء جس کی اب برداشت ہما کی باتیں سن کر ختم ہوگئی تھی فون بند کرتے بیڈ پر پٹختے سر تھامے بیٹھ گئی اور رونے لگی.... 

" منہاء؟؟؟؟!!! "

آہل جو پیچھے کھڑا کافی سے دیر یہ سب دیکھ رہا تھا اب اپنا فون باضابطہ طور پر تھامے دیکھتے بولا.….

" اپکا ناشتہ تیار ہوگیا ہے آہل!!!" 

منہاء نے آہل کی آواز سنی تو بناء پلٹے اپنا چہرہ صاف کرتے دروازے کی جانب تیز گام ہوئی... 

"جلدی سے نیچے آجائے لیٹ ہورہی ہے آپکو....." 

"واپس آؤ منہاء....." 

آہل سپاٹ لہجے سے چلایا.….

جبکہ منہاء جس کی ہچکیاں یہ سب سن کر جاری ہوگئی تھی دروازے کی جانب منہ کیے کھڑی رہی..... 

"منہاء!!!!" 

"آہل پلیز!!!!!" 

منہاء نے آہل کی آواز سنی تو اذیت زدہ ہوئی...  

" مجھے نہیں کچھ سننا مزید..... 

نہیں ہوگا برداشت مجھ سے کچھ بھی اب...." 

"تو اسکا مطلب تم نے اس کی باتوں کو مان لیا ہے..." 

آہل منہاء کے پیچھے کھڑے مدہم ہوا.... 

"نہیں!!!!! 

بلکل نہیں....." 

منہاء جو آہل کی آواز اپنے عقب سے سنتے ہی نفی میں سر ہلائے مڑی تھی اپنے آنسوؤں کو صاف کرتے سسکی بھری.... 

تو پھر یہ آنسوں؟؟ 

آہل منہاء کے آنسوں کو اپنی انگلی سے چھوتے مسکرایا..... 

" اس نے اپکا نام اتنی محبت سے کیوں لیا؟؟؟؟" 

منہاء جو ضبط کیے تھی اب ہچکیاں لیتے زور زور سے رونے لگی... 

"اس کی ہمت کیسے ہوئی میرے شوہر کے ساتھ یوں بے باک باتیں کرنے کی؟؟؟؟ 

میرے شوہر کا نام اپنے ساتھ جوڑنے کی...؟؟؟" 

"بس اتنی سی بات؟؟؟؟" 

آہل جو منہاء کے رونے اور اس کی تڑپ سے محظوظ ہورہا تھا اب کندھے اچکاتے مسکراتے ہیچھے کو ہوا.…

"آپ کے نزدیک یہ اتنی سی بات ہے؟؟؟؟ "

منہاء انیزوی انداز ہوتے اس کی جانب ہوئی... 

" تو اور نہیں تو کیا؟؟؟؟ "

آہل مطمئن انداز سے صوفے پر بیٹھتے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بولا.... 

"بھئی میری پہلی محبوبہ ہے وہ!!!! 

اب اگر مجھے واپس پانا چاہتی ہے تو اس میں برائی کیا ہے.... "

" اچھا تو اس میں برائی کیا ہے ہاں؟؟؟" 

منہاء جو سنتے ہی غصے سے پھنکاری تھی آہل کا گریبان جکڑتے اس کھینچتے کھڑا کرتے تلملا سی گئی.... 

جبکہ آہل جو منہاء کی جنونیت کو دیکھ کر چونک سا گیا تھا ہکا بکا ہوا.... 

" مجھے چچا نے ایک بات کہی تھی آہل!!!! "

منہاء خونخواری انداز ہوئی.... 

" شدت کی محبت کا جواب شدت سے دو.... 

تبھی زندگی پرسکون پاؤ گے... 

میں تو ویسا ہی کرونگی جیسے آپ کرو گے میرے ساتھ...." 

منہاء آہل کے گریبان کو کھینچتے جھنجھوڑتے چلائی.…

"مجھ سے وفا کرو مرتے دم تک وفا پاؤ گے.... 

منہاء کے ہونٹ کپکپائے جبکہ آہل دبی مسکراہٹ لیے اسے دیکھ رہا تھا.... 

"مجھ سے دغا کیا تو اللہ قسم مجھ سے جیسا کہیں نہیں پاؤ گے..." 

منہاء جو آہل کو جھٹکے سے پیچھے کو دھکیلتے ہوئے روتے کمرے سے باہر کو نکلی تھی.... 

آہل وہی کھڑا دلکش مسکراہٹ لیے منہاء کی سنگینی کو دیکھتے مسکرانے لگا..... 

"شاید یہی ہوتا ہے عشق!!!!" 

آہل خود کلام کرتے ہی واپس ڈریسنگ کی جانب ہوا.... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء سوجھی آنکھوں اور بگڑے لہجے سے چیزیں میز پر پٹخ پٹخ رکھ رہی تھی جبکہ افگن جو منہاء کے مزاج کو اچھے سے محسوس کررہا تھا بیگانگی سے منہاء کو دیکھ رہا تھا....

کہ تبھی آہل جو اپنے کوٹ کے کف کے بٹن بند کرتے سیڑھیوں سے اکڑتی چال لیے اتر رہا تھا جب منہاء کو سامنے دیکھتے ہی مسکرانے لگا....

"افگن!!!!" 

آہل شرارتی انداز سے ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھتے کھنگارا.... 

"جی صاحب جی!!!" 

افگن فوراً اس کی جانب لپکا.…

جبکہ منہاء جو آہل کو سامنے بیٹھتے دیکھ کر ناشتہ لگاتے ہی بے رخی سے تیزی سے وہاں سے جانے کو ہوئی تھی آہل کی بات سنتے ہی رکی..... 

"افگن اپنی بہو بیگم سے کہے آج پارلر جانے کی تیاری کرے...." 

آہل جو ناشتہ لیتے مزے سے بول رہا تھا کینی آنکھوں سے دیکھتے بولا.... 

" آج ہماری شادی کا گرینڈ ریسپشن ہے.... 

میں نہیں چاہتا کہ میری بیگم آج کے خاص دن کسی سے بھی کم لگے...." 

"جی صاحب جی!!!!" 

افگن خوشی سے نہال ہوتے جواباً ہوا.... 

" میں سب انتظام کروا دونگا اور ڈرائیور کو بھیج دونگا کہ وہ انہیں لے جائے وقت پر پارلر میں.... "

" جی صاحب جی بہتر!!!!" 

افگن جوشیلا ہوا.... 

جبکہ منہاء جو آہل کی بات سن کر پل بھر کو ٹھٹکی تھی اب ظاہری ناراضگی دکھاتے وہاں سے چلتی بنی.... 

جبکہ آہل نے منہاء کو جاتے دیکھا تو کھل کر مسکرانے لگا... 

" تو تیاری پکڑ لے آپ بھی افگن اج سب سامان مہیا کروا دونگا آپکو.... 

اچھے سے سجا دے اس خان. ویلہ کو ایسے. جیسے اس شہر نے کبھی نہ دیکھا...." 

آہل ناشتہ کرتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور کہتے ہی وہاں سے چلتا بنا.... 

جبکہ افگن نے سنا تو تیاری کی غرض سے بھاگ دور میں لگ گیا.... 

منہاء بظاہر آہل کے سامنے اپنی ناراضگی کا برملا اظہار تو کر آئی تھی مگر جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی خوشی سے نہال ہوتے سیدھا بیڈ پر جھومتے جا گری.....

"امید نہیں تھی کھڑوس آدمی سے کہ کچھ ایسا بھی سوچ سکتے ہیں یہ...." 

منہاء سامنے دیوار پر لگی آہل کی تصویر کو دیکھتے شوخ چنچل ہوئی.....

"مگر کبھی کبھی کچھ چیزیں امید سے بڑھ کر بھی ہوجاتی ہے تو بہت اچھا لگتا ہے...." 

منہاء اپنی انگلی منہ میں دبائے فرطِ مسرت ہوئی....

" اتنی خوشی کی بات تو سب سے پہلے میں ثمر کو ہی بتاؤ گی ....

ویسے بھی اس کے علاوہ اب میرا ہے ہی کون جو میری خوشی پر خوش ہو اور میرے دکھ پر غمزدہ " 

منہاء جس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی سوچتے ہی سائیڈ ٹیبل پر پڑے موبائل کو اٹھائے نمبر ملانے لگی اور ملاتے ہی فون کان سے لگائے انتظار کرنے لگی.... 

" جب میں اسے یہ سب بتاؤ گی کہ آج میرا ولیمہ ہے تو یقیناً وہ تو سن کر ہی سکتے میں آجائے گی......."

منہاء زیرِ لب جوشیلے انداز سے گو ہوئی... 

"یہ فون کیوں نہیں اٹھا رہی ہے میرا؟؟؟؟"

منہاء نے ثمر کی جانب سے جواب نہ پایا تو دوبارہ ملاتے کان سے لگائے انتظار کرنے لگی.....

مگر جب دوسری جانب سے پھر سے جواب نہ ملا تو وہ منہ پھولائے بیٹھ گئی.... 

"جب جب مجھے اس لڑکی کی ضرورت ہوتی ہے تب تب یہ مدہوش ہوجاتی ہے.... "

منہاء فون واپس ٹیبل پر رکھتے پھنکاری.... 

"اللہ جانے اب یہ لڑکی کہاں گم ہے؟؟؟؟ 

جو میرا فون نہیں اٹھا رہی.!!!!

ابھی تو اس کی شادی بھی نہیں ہوئی جو اس کے بچے رو رہے ہونگے پھر بھی ناجانے کہاں غائب ہے یہ؟؟؟ "

منہاء جو ثمر کو کوستے بدگوئی کررہی تھی اب سامنے لگی آہل اور خان بابا کی تصویر کو دیکھ کر اس جانب بڑھی اور روبرو کھڑی ہوگئی... 

" کتنے خوش دکھائی دے رہے ہیں اس میں انکل!!! "

منہاء تصویر کو چھوتے بولی.... 

" کاش آپ آج ہمارے ساتھ ہوتے تو یہ سب دیکھ کر مزید خوش ہوتے.... 

مگر پتہ نہیں اچھے اور کھڑے لوگ اتنی جلدی کیوں چلے جاتے ہیں؟؟؟؟ "

منہاء جو ابھی تصویر کو محو ہوتے دیکھ ہی رہی تھی باہر کی کھٹ پٹ نے اسکا دھیان اپنی جانب سمیٹا جسے سنتے ہی منہاء تیزی سے باہر کی جانب بڑھی....

کہ باہر نکلتے ہی اسے لاؤنچ میں مردوں کی ایک پوری فوج دکھائی دی جو مل کر اس پورے ویلہ کو اچھے سے سجانے کیلئے دوڑ بھاگ میں مصروف تھے....

منہاء نے ٹیرس سے لاؤنچ کی ہلچل کو دیکھا تو سامنے سے بھاگتے افگن کو دیکھتے ہی آواز دے ڈالی....

"افگن چچا!!!!!

اوپر آئیے گا پلیز!!!!" 

"جی بہو بیٹا ابھی آیا!!!!" 

افگن نے سنا تو ایک ٹانگ سے بھاگتا سیدھا سیڑھیوں کی جانب ہوا....

جبکہ منہاء جو اب اپنے کمرے میں موجود افگن کے انتظار میں تھی اسے اندر آتے دیکھ کر فوراً اس کی جانب بڑھی....

"جی بہو بیٹا آپکو کوئی کام ہے تو فوراً بتائیے...."

افگن جو ہانپتا ہوا آیا تھا سانس بھرے بولا.... 

"چچا یہ سب نیچے کیا ہورہا ہے؟؟؟" 

منہاء ناسمجھی سے سوالیہ ہوئی....

"مطلب اتنے زیادہ لوگ کیا کررہے ہیں نیچے؟؟؟؟" 

"بہو بیٹا آہل صاحب نے بتایا تو تھا آپکو کہ آج دعوتِ ولیمہ ہے....

تو یہ بس اسی کی تیاری ہے !!!!"

افگن تاسف مسکرایا ....

"ہاں چچا بتاتا تو تھا...."

منہاء واپس باہر کو نکلتے نیچے دیکھنے لگی....

"مگر یہ سب اتنا زیادہ ہوگا میں نے سوچا نہیں تھا...."

" بہو بیٹا آہل صاحب خان انڈسٹری کے اکلوتے وارث ہے...."

افگن نے منہاء کی پریشانی دیکھی تو متحیر ہوا....

" اور اس شہر کا ہر جانا مانا شخص ان کے کام اور ان کی شخصیت سے اس قدر متاثر ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے کو. ایکدوسرے لڑتے ہیں...."

افگن بول رہا تھا جبکہ منہاء ششدر ہوتے سن رہی تھی....

" بس آج ان سب کو دعوت دی گئی ہیں....

ایک ایسی عالیشان اور شاندار دعوت جو برسوں تک زبانِ عام رہے گی....

اور یاد کر کے لوگ رشک کرے گے.... "

افگن فخریہ گو ہوا.... 

جبکہ منہاء سن کر واپس نیچے کی ہلچل کو دیکھنے لگی.... 

"اگر اپکو کچھ بھی چاہیے تو آپ مجھے بلا لیجیے گا بیٹا... 

ابھی مجھے بہت کام ہے میں جاتا ہو اب.…"

افگن کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا جبکہ منہاء جو یہ سب سن کر خود پر رشک کرتے ہوئے واپس اپنے کمرے میں آگئی تھی بیڈ پر لیٹتے ہی آہل کے متعلق سوچتے سوچتے سو گئی....

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

" بہو بیٹا!!!!! 

بہو بیٹا!!!!! "

افگن آہل کے کمرے کے باہر کھڑا تقریباً پندرہ منٹ سے دروازہ پیٹ رہا تھا...... 

دوپہر کے دو بج چکے تھے جبکہ منہاء جس کو سوتے ہوئے اب تین گھنٹے ہوگئے تھے دروازے پر جا بجا دستک کی آوازیں سن کر اونگھ بھری آنکھوں کو مسلتے اٹھ بیٹھی.... 

" جی.... 

جی کون؟؟؟؟ "

"بیٹا افگن چچا!!!!" 

افگن نے سنا تو فوراً جواباً ہوا.... 

"جی چچا آجائیں اندر آپ!!!" 

منہاء جمائی بھرتے اپنا ڈوپٹہ اوڑھتے اٹھ بیٹھی اور خود کو ہوش دلانے لگی..... 

"بہو بیٹا کیا ہوا ہے؟؟؟ 

آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟؟؟" 

افگن نے منہاء کا بجھا چہرا دیکھا تو بولا.... 

" میں کب سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا کوئی جواب ہی نہیں ملا مجھے؟؟؟ "

" جی چچا وہ بس رات کو دیر سے سوئی تھی ناں تو اب بہت نیند تھی...." 

منہاء پانی کا گلاس پکڑے پیتے بولی.... 

" خیر آپ بتائیے کیا ہوا کوئی کام تھا اپکو مجھ سے؟؟؟" 

منہاء افگن کی جانب متوجہ ہوئی.... 

" ہاں وہ ڈرائیور آ گیا ہے آپکو لینے..... 

انتظار کررہا ہے اپکا آپ جلدی سے چلیے یہ نہ ہو کہیں دیر ہوجائے.... "

افگن تاسف ہوا.... 

"صاحب نے سختی سے کہا ہے کہ دیر ہونے کی گنجائش بلکل بھی نہیں ہے....." 

" مجھے لینے آگیا ہے؟؟؟ 

کیوں؟؟؟ " 

منہاء جو ابھی بھی نیند کے جھونکوں میں تھی اونگتے بولی.... 

" کیوں لینے آیا ہے مجھے ڈرائیور اور کہاں جانا ہے مجھے؟؟؟" 

" بیٹا پارلر جانا ہے آپکو..... 

ولیمہ ہے آپکا آج!!!! 

کیا اپ بھول گئی ہے؟؟؟ "

افگن سوالیہ ہوا.... 

"ابھی صبح ہی تو آہل صاحب نے بتایا تھا!!!! "

 منہاء جس نے جیسے ہی افگن کی بات سنی تو بوکھلاتے ہوئے جھٹ پٹ کرتے بیڈ سے اچھل پڑی اور سیدھا واش روم کی جانب بھاگی.... 

میں" سچ میں بھول گئی تھی چچا.... 

مجھے تو بلکل یاد نہیں رہا نیند کی وجہ سے!!!!" 

منہاء منہ پر دو چار پانی کی چھینٹے اڑاتے واپس باہر کو نکلی اور ڈوپٹہ طریقے سے لیتے افگن کے سامنے جا کھڑی ہوئی....

"اچھا ہوا آپ نے اٹھا لیا مجھے..... " 

جبکہ افگن جو منہاء کی افراتفری کو دیکھ کر ہنس پڑا تھا اب اسے مسکراہٹ دیتے دیکھنے لگا... 

" سدا خوش رہو سدا آباد رہو سہاگن رہو!!!! "

افگن اپنائیت بھرا ہاتھ منہاء کے سر پر رکھتے اسے دعا دینے لگا.... 

"اللہ پاک ہر بری نظر سے بچائے آپکو اور آپکی جوڑی کو!!!" 

"آمین ثم آمین...." 

جبکہ منہاء نے سنا تو مسکرائی.... 

"اچھا چلوں بیٹا اب.... 

آگے ہی بہت دیر ہوگئی ہے!!!! "

افگن باہر کو نکلتے بولا.... 

"صاحب جی نے سارا سامان پہلے سے ہی پارلر بھیج دیا ہے....  

بس اب آپ بھی جلدی سے وہاں پہنچ جاؤ!!! "

 منہاء جو افگن کے نقشے قدم پر تھی پہلے ہی افراتفری کا شکار ہوتے اپنا موبائل وہی چھوڑتے وہاں سے نکل پڑی.... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

" ہاں افگن وہ میں نے پوچھنا تھا کپ منہاء چلی گئی ہے کیا؟؟؟؟ "

آہل جو اپنے آفس میں ایک میٹنگ سے کچھ دیر پہلے ہی فارغ ہوا تھا اب پرسکون انداز سے کرسی سے ٹیک لگائے پرمسرت ہوا... 

جی" صاحب جی ڈرائیور آ گیا تھا تو میں نے بھیج دیا انہیں اس کے ساتھ....." 

آفگن تاسف ہوا.... 

" ہمممم ٹھیک ہے.... 

اور یہ بتاؤ تیاریاں کہاں تک پہنچی ہے؟؟؟" 

آہل اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کی بھاگتی سوئیوں کو دیکھتے کہا.... 

" جانتے ہو ناں وقت محض تین گھنٹے رہ گیا ہے....  "

" جی صاحب جی یہاں سب تیاریاں مکمل ہوگئی ہیں.... "

افگن مطمئن انداز ہوا.... 

"بس اب کھانے کا کام رہ گیا وہ کرنے جارہا ہو.... "

" اچھا ٹھیک ہے...." 

آہل متحیر ہوا.... 

"اچھا افگن میں سیدھا منہاء کو لے کر ہی گھر آؤنگا امید ہے تم ساری ذمہ داریاں سنبھال لوگے...." 

آہل برجستہ ہوا....

" یقین کرسکتا ہو تم پر میں کہ نہیں؟؟؟ !!!  "

"جی صاحب میں اپکا یقین کبھی نہیں توڑو گا اس بات کا عہد کرتا ہے گل افگن...."

افگن جوشیلا ہوا....

"آپ بے فکر رہیں بس!!! 

یہ دعوت ایسی دعوت ہوگی کہ لوگ صدیوں یاد رکھیں گے.... "

جبکہ آہل نے سنا تو فون بند کرتے ہی کرسی سے ٹیک لگائے آنکھیں موندھے بیٹھ گیا....

کہ تبھی اس کا فون وائیبریٹ ہوا....

فون دیکھا تو سکرین پر میسج چمک رہا تھا....

"آہل تم نے صبح بھی مجھ سے بات نہیں کی تھی اور اب بھی کوئی رابطہ نہیں کررہے ہو میری جان....

یہ کیا بات ہوئی بھلا یار یوں کوئی اپنی محبت کو ستاتا ہے کیا؟؟کیا بس یہی محبت تھی تمہاری جس کا دم بھرتے تھے تم؟؟؟ " 

آہل نے ہما کی جانب سے آئے میسج کو پڑھا تو فوراً اس کے نمبر پر  کال ملا دی....

دو تین بیلز کے بعد دوسری جانب سے جواب موصول ہوگیا....

" جانتی تھی تم بھی ویسے ہی تڑپ رہے ہو جیسے میں تڑپ رہی ہو تمہارے بناء!!!!"

ہما جو نازیبا لباس میں ملبوس اپنے لہجے میں شراب جیسی چال اور لفظوں میں ناگن جیسے بل لیے بول رہی تھی لبھاہٹ زدہ ہوئی....

"تو کیوں تڑپا رہے ہو مجھے بھی اور!!!!" 

"ہما آج تمہارے لیے ایک بہت بڑا سرپرائز پلین کیا ہے میں ہے...."

آہل جو ہما کی آواز سن کر ہی چڑچڑا سا گیا تھا فوراً بات کاٹتے بولا....

"سرپرائز؟؟؟" 

ہما جو سنتے ہی اچھل پڑی تھی فوراً بیڈ پر بیٹھتے اضطرار ہوئی...

"تم جانتے ہو ناں مجھے سرپرائز بہت پسند ہے!!!!"

" ہاں بہت اچھے سے جانتا ہو تبھی تمہیں سب سے بڑا اور آخری سرپرائز دینا چاہتا ہو....." 

آہل جو تلخ اور طنزیہ لہجہ اپنائے بول رہا تھا ہما اپنی خوشی میں گم کچھ محسوس نہ کر سکی....

"اور چاہتا ہو کہ یہ سرپرائز تمہیں عمر بھر یاد رہے کبھی نہ بھولے..."

" آئی لوو یو آہل!!!!"

ہما جو سنتے ہی جوشیلی ہوئی تو فون پر بوسہ دھڑے قہقہ آور ہوئی...

" آئی لوو یو سو مچ!!!!

میں اب تمہیں کہیں چھوڑ کر نہیں جاؤ گی!!!! 

ہمیشہ تمہارے ساتھ رہو گی تم سے محبت کروگی.... "

" میں تمہیں جگہ اور وقت ٹیکسٹ کردونگا....

آنا ضرور کیونکہ تمہارے بناء آج کی شام اور اسکا نشہ ادھورا ہوگا ہمارے لیے ..." 

آہل نے تلخ انگیز ہوتے فون بند کردیا....

ہما جو ابھی تک بے یقینیبکے عالم میں فون کان سے لگائے بیٹھی تھی سکتے میں منہ ہاتھوں میں دبوچے خود کلام ہوئی....

" اففففففف وہ مجھ سے ابھی بھی محبت کرتا ہے!!!!! 

   اور وہ مجھے پرپوز کرنا چاہتا ہے!!!! "

اوہ یس!!!!! 

ہما جو سوچتے ہی ناچنے کو تھی بیڈ پر اچھلنے لگی... 

"اور میں اب ہرگز انکار نہیں کرونگی.... 

اب میں اسے اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دونگی....

وہ میرا ہے صرف میرا!!!! 

ہما کا دیوانہ ہما کا عاشق مجنوں!!!! "

ہما اپنی فتح کو محسوس کرتے فخریہ انداز سے ہوئی اور پھر خوشی سے نہال ہوتے پہ بیڈ پر اچھلنے لگ گئی کہ تبھی اس کی نظر گھڑی کی جانب پڑی جسے دیکھتے ہی ہما نے ایکسائٹمنٹ ظاہر کرتے شام کی تیاری پکڑنے لگی....

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

شام کے پانچ بج چکے تھے آہل جو آج خود روح کی تسکین اور خوشی کو بخوبی محسوس کررہا تھا چہرے پر بکھری رونق اور لبوں پر چمکتی مسکراہٹ اس کی خوشی کو عیاں کررہی تھی....

"سر آپ بہت ہی ہینڈ سم لگ رہے ہیں ماشاء اللہ!!!!" 

پاس کھڑا ڈریسر آہل کو دیکھتے مسکرایا....

جبکہ آہل جو بظاہر خود شیشے کے سامنے کھڑا اوپر سے نیچے تک خود کا معائنہ کررہا تھا دلکش مسکرا دیتے فخریہ ہوا....

"کہہ تو تم صیحح رہے ہو...." 

آہل اپنے کف کے بٹنوں کے ساتھ کھیلتے بولا...

" مگر جو میرے سامنے میرے مقابلے میں ہے ناں ڈر ہے کہیں آج کی شام وہ مجھے بری طرح شکست ہی نہ دے دیں!!!!" 

آہل منہاء کو سوچ میں سوچتے لفظِ محبت ہوا....

"آپ بلکل فکر نہ کریں سر!!!! 

میں دعا کرونگا کہ جیت آپکی ہی ہو!!!!" 

آہل جو منہاء کو ہی سوچ رہا تھا سنتے ہی اس کی جانب سپاٹ تاثرات لیے پلٹا.... 

جسے دیکھتے ہی سامنے کھڑا ڈریسر جو مسکرا رہا تھا آہل کو دیکھتے ہی ایک دم خاموش ہوگیا..... 

"نہیں وہ کبھی بھی مجھ سے نہ ہارے یہ دعا کرو بس.... 

اس کی جیت کی خوشی میری ہار کے غم پر اتنی بھاری ہے کہ مجھے خبر نہیں ہوگی کہ میری ہار ہوئی اور اس کی جیت!!!" 

آہل دل سوز ہوا.... 

"اور ویسے بھی اس کو ہارتا میں دیکھ نہیں سکتا اور اس کی خوشی میں کبھی مرنے نہیں دونگا" 

آہل ڈریسر کے کندھے پر تھپکی دیتے اکڑتے وہاں سے چلتا بنا.... 

جبکہ ڈریسر آہل کی بات کو سن کر ناسمجھی سے اسے جاتا دیکھتا رہا..... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

منہاء کو پچھلے دو گھنٹوں سے میک آپ آرٹسٹ کے سامنے بیٹھی تھک چکی تھی اب اکتا سی گئی.... 

" اللہ اتنا میک آپ مجھے مت کرے پلیز....." 

 منہاء پریشان سی ہوئی.... 

"یہ نہ ہو میں منہ دھو اور آہل مجھے پہنچانے سے ہی انکار کردے!!!" 

 پاس کھڑی میک اپ آرٹسٹ جو اپنے کام کو بخوبی انجام دے رہی تھیں نے سنا تو سنتے ہی قہقہ آور ہوئیں.... 

"نہیں میم آپ پریشان ہرگز مت ہو...". 

ان میں سے ایک آگے کو آئی اور بولنے لگی.... 

"ہمیں جو ہدایت دی گئی ہیں ہم بلکل ویسا ہی میک آپ کررہی ہے اپکا .... 

ماشاء اللہ اپکی اسکن بہت اچھی ہے تو بہت سوچ کر میک اپ کررہی ہیں ہم!!! 

بس اسی وجہ سے دیر ہوگئی ہیں...." 

"ہاں وہ تو ٹھیک ہے مگر اب وقت دیکھے کتنا زیادہ ہوگیا ہے.... 

یہ نہ ہو ڈرائیور آجائے اور میں تیار ہی نہ ہو!!! "

منہاء جس نے ابھی خود کو بھی شیشے میں نہ دیکھا تھا مبہم ہوئی.... 

" نہیں میم آپ سے ہم کہہ رہی ہیں ناں آپ بلکل فکر نہ کریں.... "

وہ منہاء کو مطمئن کرتے بولی.... 

" ویسے ایک بات کہوں آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں ماشاءاللہ سے... 

اللہ بری اور بد نظروں سے بچائے آپکو...." 

وہ دعا گو ہوئی.…

جبکہ منہاء مصنوعی مسکراہٹ لیے انہیں دیکھنے لگی.... 

" اچھا سنوں میم کا ڈریس اور جیولری لے آؤ جلدی سے.... 

ان کو مکمل تیار کر کے ہی شیشے سے پردہ ہٹانا ہے..... "

ایک لڑکی نے دوسری لڑکی سے کہا جس پر وہ حامی میں سر ہلائے منہاء کا ڈریس لینے کو بڑھی... 

"میم ماشاءاللہ سے اپکا ڈریس اس قدر خوبصورت ہے کہ آنکھ بند نہیں ہوتی ایک بار دیکھ لے تو.... "

وہ بول رہی تھی جبکہ منہاء جو اب بیٹھ بیٹھ کر تھک گئی تھی اکتاہٹ زدہ ہوئی.... 

کہ تبھی ایک لڑکی کالے رنگ کا چمچم کرتا لہنگا ہاتھ میں تھامے وہاں آئی.... 

منہاء جو اکتا سی گئی تھی اپنا ڈریس سامنے دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی.... 

" یہ دیکھیے میم کس قدر حسین ہے!!!!" 

وہ ڈریس منہاء کی جانب بڑھاتے بولی..... 

"آپ پہنے گی تو بلکل ایک پری لگی گی....پرستان کی خوبصورت پری!!! "

جبکہ منہاء جو ڈریس کو دیکھ کر حیرانگی سے حامی میں سر ہلانے لگی.... 

"چلے آپ آئیں ہم اپکو مکمل ڈریس آپ کردے.... 

تاکہ ڈرائیور کے آنے سے پہلے آپ تیار ہوجائے مکمل!!!" 

وہ کہتے ہی منہاء کو تھامے ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گئی... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

چھ بج چکے تھے جبکہ آہل جو پارلر کے باہر ہی کھڑا منہاء کے انتظار میں تھا گھڑی پر نظریں گھومائے دروازے کو دیکھنے لگا.... 

" کہاں رہ گئی ہے یہ؟؟؟؟ "

آہل بڑبڑایا..... 

" ابھی تک تیار نہیں ہوئی ہے کیا یہ؟؟

لگتا ہے خود ہی جا کر دیکھنا پڑے گا...." 

آہل جو خود کلام ہوتے ہی انتظار کر کر کے تھک گیا تھا اب آگے کو بڑھا..... 

کہ اس سے پہلے وہ پارلر کے دروازے تک پہنچتا دروازہ کھلا.... 

اور سامنے سے بلیک رنگ کے لہنگے میں ملبوس منہاء نظریں گرائے ایک ہاتھ سے لہنگا تھامے باہر کو آ نکلی.... 

جبکہ آہل جو منہاء کو یوں دیکھتے ہی ایک دم ٹھٹھک سا گیا تھا وہی رک گیا.... 

بلیک لہنگے کے ساتھ سفید سونے کی جیولری پہنے، لبوں پر سرخ لالی اور کلائیوں میں خوبصورت کنگن پہنے وہ دھیمے قدموں سے آہل کی جانب آ رہی تھی.... 

جبکہ آہل جو منہاء کو پہلی بار یوں تیار دیکھ کر مدہوش سا ہوگیا تھا خود بھی محو ہوتے اس کی جانب بڑھنے لگا.... 

منہاء جو چلتے ہوئے آہل کے روبرو کھڑی تھی مسکراہٹ دیتے اسے دیکھنے لگی... 

"تو بتائیے کیسی لگ رہی ہو میں؟؟؟" 

منہاء شوخیہ ہوئی.... 

"بہت خوبصورت!!!! 

بلکل ایک پری کی مانند!!! 

وہ پری جو صرف میری ہے.... 

صرف میری.." . 

آہل منہاء کے چہرے کو تھامے اس کے قریب ہوا..... 

"آپ بھی بس ٹھیک ہی لگ رہے ہیں!!!" 

منہاء نے آہل کا بغور جائزہ لیا تو ہنسی.... 

جبکہ آہل جو اس وقت اپنے بس میں نہ تھا منہاء کے لبوں کو چھونے کو ہوا.... 

" آہل سب دیکھ رہے ہیں!!!! 

کیا کر رہے ہیں آپ؟؟؟ "

منہاء جو اردگرد نظریں گھومائے شرمائی تھی آہل کو خود سے دور کرتے آگے کو بڑھی.... 

" منہاء!!!!" 

آہل نے منہاء کو گاڑی کی جانب جاتے دیکھا تو آواز آور ہوا.... 

جسے سنتے ہی منہاء مسکراتے ہوئے پلٹی... 

"کچھ نہیں!!! "

آہل جس کے لبوں پر الفاظ آتے آتے رکے تھے کہتے ساتھ ہی گاڑی کی جانب بڑھا... 

جبکہ منہاء جو آہل کا جواب سنتے ہی بگولہ ہوئی تھی منہ چڑھاتے نشست پر جا بیٹھی.... 

آہل نے منہاء کی ناراضگی کو محسوس کیا تو کینی نظروں سے اسے. دیکھنے لگا.... 

"آہل ہمیں آگے ہی بہت دیر ہوگئی ہیں.... 

بہتر ہے مجھے یوں دیکھنے کی بجائے سامنے نظریں جمائے اور گاڑی چلائے...." 

منہاء تلخ ہوئی... 

جبکہ آہل نے منہاء کی بات سنی تو دبی مسکراہٹ لیے گاڑی بھگا دی.... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

خان ویلہ بہت خوبصورت انداز سے سجایا گیا تھا کہ ہر کوئی اس کی سجاوٹ اور روشنیوں کو دیکھ کر تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا.... 

سب ہی دعوت میں موجود آہل کے ہی منتظر تھے جبکہ عالیشان انداز سے سجا خان ویلہ اور وہاں موجود عجب غضب کے لذت سے بھر پور کھانوں نے بھی لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا تھا .... 

کہ تبھی سفید ساڑھی میں ملبوس ہما ایک خوبصورت بلا کی مانند وہاں داخل ہوئی.... 

کمر اور سینے سے نظر آتا اسکا سفید جسم جبکہ پیٹ سے ہٹا ساڑھی کا پلو وہاں موجود ہر شخص کے دماغ پر اپنی ٹھاک بیٹھا رہا تھا.... 

اپنی مخصوص چال سے چلتی آتی ہما مسکراتے ہوئے اندر کو داخل ہوئی تو ہر کوئی مڑ مڑ کر اس کی ناگن چال اور چہکتے حسن کو دیکھ کر اش اش کرنے لگا.... 

ہما اندر آئی تو آہل کو دیکھنے لگی کہ تبھی اس کی نظر سامنے سے آتے افگن پر پڑی.…

"افگن!!!!" 

ہما نے اسے اشارہ بھرا تو وہ نظریں گرائے شرمندہ ہوتے اس کے سامنے جا کھڑا ہوا.... 

"جی میم!!!!" 

افگن نظریں جھکائے بولا.... 

"آپکو کچھ چاہیے!!!! "

"آہل کہاں ہے؟؟؟؟ 

اسے بتاؤ کہ میں آگئی ہو...." 

ہما جو فخریہ انداز سے چہکی تھی حکم صادر کرتے بولی....

" وہ تو ابھی نہیں آئے...." 

افگن نے سنا تو جواباً ہوا.... 

"کیا مطلب وہ کہاں سے نہیں آئے؟؟؟؟ 

کیا آہل کہیں گیا ہوا ہے؟؟؟؟" 

ہما سنتے ہی سوالیہ ہوئی.... 

" جی میم وہ بہو بیٹا کو لینے گئے ہیں پارلر سے.... 

بس آ ہی رہے ہونگے...." 

افگن کہتے ہوئے وہاں سے چلتا بنا.... 

جبکہ ہما جس کو افگن کے جواب نہ الجھا دیا تھا ناسمجھی سے اردگرد دیکھنے لگی.... 

" بہو بیٹا؟؟؟ 

بہو؟؟؟؟؟ "

ہما ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ تبھی پوری محفل میں ایک شور سا برپا ہوا.... 

کہ ہر کوئی دروازے کی جانب بھاگنے کو لپکا.... 

جبکہ ہما جو اس افراتفری کی وجہ کو ناسمجھ پارہی تھی خود بھی دیکھنے کو آگے کو ہوئی.... 

کہ تبھی نظر سامنے گاڑی سے نکلتے آہل پر پڑی جسے دیکھتے ہی ہما مسکراتی ہوئی اس کی جانب کو ہوئی.... 

مگر جب گاڑی سے نکلتی ایک خوبصورت دلہن کے لباس میں ملبوس لڑکی کو دیکھا تو ہما کے قدم وہی رک گئے.... 

آہل منہاء کے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامے اسے خود سے لگائے پُراعتماد انداز سے آگے کو بڑھا.…

کہ ہر اب ہر کیمرے کا رخ سامنے سے آتی اس حسین جوڑی پر جا لگا جس کو دیکھ کر ہر کوئی تعریفوں کے پل باندھ رہا تھا.... 

َ"ماشاءاللہ کس قدر حسین و جمیل اور پیاری بیوی ہے آہل صاحب کی.... 

اللہ پاک نے صیحح ٹکر کی جوڑی بنائی ہے دونوں کی!!! "

ہما کے اردگرد کھڑے کچھ لوگ جو آہل اور منہاء کو دیکھ کر گفتگو میں مصروف تھے ہما نے سنا تو گھنگول سی گئی.... 

"بیوی؟؟؟؟ 

آہل کی بیوی؟؟؟" 

ہما سنگین بے اعتباری سے زیر لب بڑبڑائی.... 

" آہل نے شادی کر لی ہے؟؟؟ "

 دوسری جانب آہل جو منہاء کا ساتھ پا کر خود کو پوری دنیا کا سب سے خوش نصیب شخص سمجھ رہا تھا اس کا ہاتھ سینے سے لگائے اسٹیج کی جانب ہوا.... 

منہاء جو اس ہجوم سے تھوڑا سا خوف کھا رہی تھی آہل کی بازوؤں کو تھامے پریشان سی ہوئی.... 

آہل نے منہاء کو یوں خوفزدہ ہوتے دیکھا تو جھکتے ہی اسے اپنی بانہوں میں اٹھائے اسٹیج کی جانب بڑھا... 

کہ آہل کی اس حرکت کو دیکھ کر وہاں موجود ہر شخص شور و غل کرنے لگا اور آہل کی محبت کے گن گانے لگا.…

منہاء جو آہل کے چہرے پر بکھری محبت کو دیکھ کر فرطِ مسرت ہوئی تھی شرما سی گئی جبکہ آہل نے احتیاط سے اسے اسٹیج پر بیٹھایا اور پھر خود بھی اس کے ساتھ براجمان ہوگیا.... 

ہر کوئی اس قابلِ تعریف جوڑی کی تصویریں کھینچ رہا تھا اور آگے بڑھتے مبارکباد دے رہا تھا.... 

جبکہ دور کھڑی ہما جس کے تن بدن میں ایک آگ سی دوڑ گئی تھی اب آنکھوں میں خون اور غصہ لیے اسٹیج کی جانب ہوئی.... 

آہل نے ہما کو آتے دیکھا تو فوراً منہاء کے کان میں سرگوشی بھری.... 

جسے سنتے ہی منہاء نے بے یقینی سے سامنے آتی ہما کو دیکھا.... 

آہل کہتے ساتھ ہی وہان سے اٹھ کھڑا ہوا اور ہما کے پاس سے گزرتے ہوئے اسٹیج سے نیچے اتر گیا.... 

ہما نے آہل کو جاتے دیکھا تو رخ سامنے بیٹھی منہاء کی جانب دیکھا جو اسے خالی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی.... 

ہما منہاء کے پاس گئی اور اسے گلے لگاتے اس کے پاس جا بیٹھی.... 

"تم جانتی ہو کہ میں کون ہو؟؟؟؟" 

ہما جو اندر تک سے جل گئی تھی بولی.... 

"ہاں آہل کی پہلی محبت!!!!" 

منہاء نے سنا تو جواباً ہوئی.…

"پھر بھی اس سے شادی کر لی؟؟؟ 

یہ جان کر بھی کہ وہ کسی اور سے محبت کرتا ہے تم نے اسے اپنا لیا؟؟؟" 

ہما منہاء کے دل میں زہر گھولنے کو ہوئی.... 

اپنایا" میں نے نہیں انہوں ہے مجھے...." 

منہاء جو ہما کی چال سمجھ گئی تھی مسکرائی... 

"اور رہی بات پہلی محبت کی تو آہل کب کا بھول چکا ہے.... 

کیونکہ اگر وہ نہ بھولتا تو کبھی مجھ سے اپنے عشق کا اظہار نہ کرتا.... 

اور آج میری جگہ تم یہاں بیٹھی ہوتی.….." 

"وہ تم سے محبت نہیں کرتا ہے!!!! "

ہما شدت ہوئی.... 

جبکہ منہاء نے ہما کے تاثرات بھانپے تو آہل کو آواز آور ہوئی.…

" آہل!!!!!

پلیز آئیے گا!!!! "

منہاء نے آواز دی تو آہل سب کچھ چھوڑتے ہوئے اس کی جانب لپکا.…

" جی آہل کی جان!!!! "

آہل منہاء کو خود سے لگائے اس کی تھوڑی کو چھوتے مسکرایا.... 

"کیا ہوا ہے حکم کرے بس آپ؟!!!" 

"ہما کہہ رہی ہے کہ آپ کو مجھ سے محبت نہیں.... 

اب آپ بتائیے کیا آپکو مجھ سے محبت نہیں؟؟؟؟" 

منہاء جو آہل کے جواب کو سننے کی منتظر تھی اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے بولی..... 

"نہیں مجھے تم سے محبت نہیں!!!!" 

آہل نے منہاء کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ کو نکالا اور تلخ ہوا.... 

جبکہ منہاء جو جواب سنتے ہی ششدر ہوئی تھی ہما نے سنا تو ایک خوشی کی لہر اس کے چہرے پر دور سی گئی.... 

"کہا تھا ناں کہ آہل کو تم سے محبت نہیں...." 

ہما آہل کے قریب ہوتے اس کے ساتھ چپکنے لگی.... 

"کیونکہ وہ!!!!" 

"کیونکہ مجھے اپنی منہاء سے عشق ہے...." 

آہل جس نے ہما کی بات کو مکمل نہ ہونے دیا تھا اسے خود سے دور دھکیلتے منہاء کو خود سے لگائے فرطِ جذبات ہوا.... 

" ایسا عشق جو مرتے دم تک میری سانسوں میں بہے گا اور خون میں دوڑے گا... 

بہت عشق کرتا ہو تم سے منہاء میں... 

بہت عشق!!!! "

آہل بول رہا تھا جبکہ منہاء کی آنکھ میں نمی سی اتر آئی اور وہ آہل کے سینے پر سر لگائے اس کے عشق کا جواب عشق سے دینے لگی.... 

جبکہ ہما جو یہ سب دیکھ کر پگلا سی گئی تھی غصے سے بپھڑتے وہاں سے چلتی بنی.... 

" منہاء!!!!! "

ثمر جو دور کھڑی سب دیکھ رہی تھی تیزی سے منہاء کی جانب ہوئی... 

آہل نے ثمر کو دیکھا تو منہاء کو خود سے الگ کرتے واپس اسٹیج سے اتر گیا اور مہمانوں سے ملنے لگا.... 

"کہاں تھی تم یار؟؟؟" 

منہاء ثمر کے گلے لگے خفا ہوئی... 

"صبح سے اتنی کالز کی میں اور تمہارا اتہ پتہ ہی نہیں تھا؟؟؟ "

"مجھے آہل بھائی نے منع کیا تھا اس لیے غائب تھی...." 

ثمر مسکرائی... 

"وہ پہلے ہی سب مجھے بتا چکے تھے بس اس لیے ان کے ساتھ مل گئی تھی.... "

" یہ آہل بھی ناں بس!!!!" 

منہاء نے سنا تو مسرت ہوئی... 

" اچھا ویسے بہت خوبصورت لگ رہی ہو منہاء تم!!!! "

ثمر منہاء کا ڈریس دیکھتے اس کی تعریف کرنے لگی.... 

اور پھر دونوں یونہی بیٹھتے باتیں کرنے لگیں اور ہنسنے لگیں..... 

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

دعوت کا شاندار اختتام ہوگیا تھا.... 

ہر کوئی اس دعوت کی تعریفیں بھرتے وہاں سے جا چکا تھا... 

منہاء جو اب آہل کے کمرے میں داخل ہوئی تھی کمرے کو پھولوں سے سجا دیکھ کر چونک سی گئی.... 

آگے کو بڑھتے پھولوں کی سیج کو چھوتے وہ اس کی مہک کو خود میں اتارنے لگی.…

پورے کمرے کو سرخ گلاب کے پھولوں سے سجایا گیا تھا جبکہ اس سرخ میں کھڑا ایک خوبصورت گلاب ان گلاب میں سب سے الگ اور خوبتر معلوم ہورہا تھا..... 

آہل جو منہاء کو یوں پھولوں کو چھوتے سونگھتے دیکھ کر مسکرایا تھا اب دروازہ بند کرتے چٹکی چڑھائے اس کی جانب بڑھا.... 

منہاء نے آہٹ سنی تو فوراً پیچھے کو دیکھتے پلٹی.... 

"آہل یہ سب؟؟؟؟ "

وہ چاروں اطراف اشارہ کرتے مسکرائی.... 

"کل رات حسین تھی بہت حسین!!!!" 

آہل فرطِ جذبات لیے دلکش ادا سے اس کی جانب ہوا.... 

جبکہ منہاء جو آہل کی باتیں سن کر شرما سی گئی تھی دوسری جانب چہرہ کیے کھڑی ہوگئی... 

"مگر کمی تھی ان پھولوں کی.... 

اس مہک کی.... 

اس ماحول کی!!! "

آہل بولتے بولتے منہاء کے پشت پیچھے جا کھڑا ہوا... 

اور اپنے گرم لمس لب منہاء کی نرم گردن پر ٹکا دئیے.... 

"اور میری دلہن کی!!! "

"آہل!!!!! "

منہاء جو آہل کی اس حرکت پر کھسکائی تھی فوراً ڈریسنگ کی جانب ہوئی.... 

"مجھے فریش ہونے دے اچھا... 

میں بہت تھک ہوگئی آگے ہی!!!! "

منہاء اپنا ڈوپٹہ کھولتے بیزار سی ہوئی.…

"اگر اجازت ہو تو میں اتار دو!!!!" 

آہل منہاء کے قریب ہوتے اس پر جھکا اور اس کی گردن پر بندھے نیکلس کو اپنے ہاتھوں سے چھوتے اتارنے لگا.... 

"ایک بات کہوں آپ سے!!!!! "

منہاء جو ابھی تک یہ سب ایک خواب سمجھ رہی تھی بولی.... 

"اجازت نہیں بس بولا کرو جو بھی بولنا چاہتی ہو!!! "

آہل منہاء کو ایک بار پھر چھوتے مسکرایا....  

"آہل سب سنے گا جو میری منہاء کہے گی!!!" 

"میں بہت ڈر گئی تھی جب آپ کے ہما کھڑی ہوگئی تھی.... "

منہاء کا چہرہ اتر سا گیا.... 

جبکہ آہل نے منہاء کی اداسی دیکھی تو اس کے کانوں سے جھمکے اتارتے اس کا چہرہ اپنی جانب کیا... 

"اور پھر تھوڑی دیر بعد میں نے ڈر ختم بھی تو کیا تھا ناں!!!! "

آہل منہاء کی کلائی کو تھامے اسے بیڈ کی جانب لے کر بڑھا.... 

" ہاں!!!! 

یہ تو ہے!!!" 

منہاء کا چہرہ چہک سا گیا.... 

"اس کا اترا چہرہ دیکھا ناں تو سچ میں احساس ہوا.... 

سچی محبت کو ٹھکرانا انسان کی سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے... 

اور یہاں تو معاملہ ہی عشق کا ہے... 

اور میں یہ غلطی کبھی نہیں کرونگی!!!!" 

منہاء آہل کے دل پر سر رکھے محبت سوز ہوئی.... 

جبکہ آہل نے منہاء کو خود سے لگے دیکھا تو چہرہ ہاتھوں میں تھامے اپنا چہرہ اس پر جھکا لیا....

ایک دوسرے کو محسوس کرتے وہ دونوں اب بناء کسی بغاوت ایک دوسرے کے ہو چکے تھے.... 

منہاء آہل سے پل بھر کو الگ ہوئی تو ایک بار پھر سوال گو ہوئی... 

"آہل اپکو مجھ سے عشق کب ہوا تھا؟؟؟؟" 

آہل جو منہاء کو اپنی قربت میں رنگنے کو تھا.... 

منہاء کا سوال سنا تو پل بھر کو رکا..…

"تب سے جب پہلی بار تم سے ملا تھا...." 

آہل منہاء کے اوپر ہوتے مسکرایا... 

"اچھا تو پھر آپکو کب پتہ چلا کہ آپکو مجھ سے محبت ہے؟؟؟ "

منہاء جو مسلسل سوال گو تھی شرارت انداز ہوئی .….

آہل نے منہاء کو گھورا جس پر ہنس پڑی.... 

منہاء کی ہنسی دیکھی تو آہل اس کی شرارت کو اچھے سے بھانپ گیا اور اب سختی کا اظہار کرتے منہاء کے منہ پر ہاتھ رکھے اسے چھونے لگا.... 

جبکہ منہاء اب آہل کو اس کا حق دے رہی تھی بناء اعتراض اب مکمل طور پر منہاء آہل خان ہوگئی تھی.... 

ختم شد!!!!

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Diyar E Dil  Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Diyar E Dil  written by Rabia Bukhari. Diyar E Dil  by Rabia Bukhari  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages