Ishq Ki Pehli Manzil By Farwa Mushtaq Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday 24 September 2024

Ishq Ki Pehli Manzil By Farwa Mushtaq Complete Romantic Novel

Ishq Ki Pehli Manzil By Farwa Mushtaq New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ishq Ki Pehli Manzil By Farwa Mushtaq Complete Romantic Novel 

Novel Name:  Ishq Ki Pehli Manzil

Writer Name:Farwa Mushtaq

Category: Complete Novel

آج مہہ جبین کے کوٹھے پر اس لڑکی کی بولی لگ رہی تھی جس نے ساری زندگی اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کی تھی۔سب تماشائیوں کی نگاہیں آنے والی لڑکی پر تھیں جس کا ایک بازو مہہ جبین نے سختی سے پکڑا ہوا تھا۔تبلے اور ڈھولکی کی آوازیں آنا بند ہو گئیں تھیں۔اس نے اسے گھسیٹتے ہوئے درمیان میں لا کر کھڑا کر دیا۔معصومیت اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ سب لوگ اسے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہے تھے۔اس کے گرد لپٹا دوپٹہ مہہ جبین نے جھٹکے سے کھینچ کر دور پھینک دیا۔اس نے بے بس نظروں سے اس جلاد صفت عورت کو دیکھا

"خدا کے لیے ایسا مت کرو۔میں ایسی لڑکی نہیں ہوں"آنسو زمین پر گر رہے تھے۔

مگر مہہ جبین نے اپنی انگلیاں اس کے بازو میں پیوست کر دیں

"شروع کریں بولی"اس کی مکروہ آواز گونجی۔

"دو لاکھ"۔۔۔اک خریدار کی آواز آئی۔

"پانچ لاکھ"۔۔

"سات لاکھ"۔۔۔۔لوگ بڑھ چڑھ کر اس کی قیمت لگا رہے تھے۔

اس کے وجود پہ لرزہ طاری ہو گیا۔اس نے سختی سے اپنی آنکھیں میچ لیں۔

"نہیں اللہ۔۔اللہ پاک اس ذلت کی زندگی سے بہتر ہے آپ مجھے موت دے دیں۔میں یہ زندگی نہیں گزار سکتی۔مجھے عزت کی موت دے دیں۔ان بھیڑیوں سے بچا لیں مجھے۔میں یہ سب نہیں سہہ سکتی۔مجھے اس مشکل میں اکیلا نہ چھوڑیں۔آپ تو شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔میری عزت کی حفاظت کریں مجھے یہاں سے بچا لیں "آنسو اسکی آنکھوں سے نکل کر کارپٹ میں جذب ہو رہے تھے۔ اسکا جھکا ہوا سر کچھ اور جھک گیا۔وہاں بیٹھے تمام "عزت دار" لوگ اس انمول لڑکی کا مول لگانے میں اک دوسرے سے بڑھ رہے تھے۔

لیکن وہ ساکت بیٹھا اسکے لرزتے ہاتھوں کی پشت پر گرتے آنسو دیکھ رہا تھا۔یہ نہیں تھا کہ اس نے کبھی خوبصورت لڑکیاں نہیں دیکھی تھیں لیکن اس لڑکی میں کچھ اور تھا۔وہ سب سے منفرد تھی۔

"دس لاکھ"۔۔۔۔اک اور تماشائی کی آواز آئی۔مہہ جبین کی باچھیں کھل گئیں۔

اردگرد کیا ہو رہا تھا اس سب سے بے خبر وہ یک ٹک اسکو دیکھ رہا تھا۔مہہ جبین نے چاروں طرف دیکھ کر گنتی شروع کی۔

"دس لاکھ ایک"۔۔۔۔۔۔اللہ جی پلیز مجھے بچا لیں۔وہ آنکھیں بند کیے ہوئے اللہ کو پکار رہی تھی۔

"دس لاکھ دو"۔۔۔۔۔اس کی سانس مدھم ہو گئی تھی۔

نہیں اللہ نہیں پلیز نہیں۔

"پچاس لاکھ"۔۔سارے مجمعے کی خاموشی کو اس شخص کی سرد آواز نے توڑا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ہزار بار کہا ہے جلدی اٹھا کرو۔دیر تک سوئے رہنے سے بے برکتی ہوتی ہے مگر مجال ہے جو تیرے کان پہ جوں تک رینگ جائے۔کوئی ڈھول بھی پیٹے تب بھی تیری آنکھ نہیں کھلتی۔پتہ نہیں کونسے گھوڑے بیچ کر سوتی ہو۔کل سے ہرگز نہیں اٹھانا میں نے چاہے سوتی رہنا دوپہر تک۔لوگوں کی بیٹیاں ہوتی ہیں سارے کا سارا گھر سنبھال لیتی ہیں ماؤں کو فکر ہی نہیں ہوتی اور اک تم ہو سورج سر پہ آ جائے مگر تمہاری نیند ہی نہیں ٹوٹتی"۔اماں حسب معمول اسے ڈانٹ رہی تھیں اور وہ چپ چاپ ڈانٹ کھاتے ہوئے تیزی سے ناشتہ کر رہی تھی۔

"آہستہ آہستہ کھاؤ۔اٹھانے نہیں لگی میں تمہارے آگے سے"۔اماں نے غصے سے اسے دیکھا۔

"نہیں اماں! وین نے آ جانا ہے۔لیٹ ہو جاؤں گی میں۔ابھی بکس بھی رکھنی ہیں"۔اسکے بس اتنا کہنے کی دیر تھی اماں پھر سے شروع ہو گئیں۔

ہاں تو کس نے کہا ہے آدھی دوپہر تک سوتی رہا کر۔کتنی بار کہا ہے رات کو ہر چیز تیار کر کے رکھا کرو۔پر تجھے اثر ہو تب نا۔تو کہتی ہو گی ماں کا کیا ہے بولتی ہے تو بولتی رہے۔اک تو نکمی کم تھی کہ دو اور میرے گھر میں آ گئیں ہیں"۔اماں نے بھابی کو کمرے سے باہر آتے دیکھ کر کہا۔

بھابی وہیں سے منہ بناتے ہوئے پلٹ گئیں۔

"بس کردیں نا اماں!پکا آئندہ جلدی اٹھوں گی"۔اس نے اماں کے گلے میں بازو حمائل کرتے ہوئے پیار سے کہا۔

"چل جلدی کر تیار ہو جا پھر شور مچاتا پھرے گی"۔اماں نے ناشتے کے برتن سمیٹتے ہوئے کہا۔وہ فوراً سے تیار ہونے چل دی۔

وین کا وسل سنتے ہی وہ چادر اٹھا کر باہر آئی۔

"اچھا اماں میں جا رہی ہوں۔اپنا خیال رکھیے گا۔اللہ حافظ"۔اس نے گیٹ سے باہر نکلتے ہوئے کہا

"اللہ حافظ"۔اماں نے اس پر آیت الکرسی پڑھ کر پھونکی۔

کچھ دنوں سے انکا دل ہول رہا تھا جیسے کوئی انہونی ہونے والی ہو۔ عجیب سے واہمے ہر وقت گھیرے رکھتے۔عدن جب تک گھر سے باہر رہتی انکا دل مختلف خدشات میں گھرا رہتا۔اب اسے جاتے دیکھ کر انہیں پھر سے بے چینی لگ گئی تھی۔

"اللہ کی امان میں"۔انہوں نے اک بار پھر دور جاتی وین کو دیکھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد عالم کے صرف دو ہی بیٹے تھے۔نواب عالم اور میر عالم ۔نواب عالم جتنے فرمانبردار اور سلجھے ہوئے انسان تھے۔میر عالم اتنے ہی نا فرمان اور شیطانی صفت کے حامل تھے۔مزاج میں زمین آسمان کا فرق ہونے کے باوجود دونوں بھائی اک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ان دونوں کی شادیوں کے بعد محمد عالم نے تمام زمین اور جائیداد ان میں آدھی آدھی تقسیم کر دی چنانچہ وہ دونوں اپنی اپنی فیملیز کے ہمراہ الگ گھروں میں شفٹ ہو گئے۔

نواب عالم کے تین بچے تھے۔عبداللّہ،حیدر اور عدن 

جبکہ میر عالم کے چار بیٹے تھے۔

وہ چاروں ہی آوارہ صفت اور گھٹیا مشاغل کے دلدارہ تھے۔نواب عالم کی جتنی قدر و منزلت تھی میر عالم گاؤں کی اتنی ہی نا پسندیدہ شخصیت تھی۔آئے دن لڑائی فساد،زمینی جھگڑے،لوگوں کی بیٹیوں کو بلا وجہ تنگ کرنا اور بہت سی حرکتوں کی وجہ صرف یہی خاندان ہوتا تھا۔انکی ان غلط حرکتوں کی وجہ سے گاؤں والوں مل کر نے انہیں گاؤں سے نکل جانے پہ مجبور کر دیا۔میر عالم کو دھچکا اس وقت لگا جب پنچایت کے اس فیصلے میں نواب عالم بھی شامل تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اس وقت اپنے تینوں دوستوں کے ہمراہ کلب کی سیڑھیوں پر بیٹھا وہسکی کے گھونٹ پر گھونٹ بھر رہا تھا۔

"اندر چل نا تو ادھر ہی بیٹھ گیا ہے"۔احمر نے اسے سیڑھیوں پہ بیٹھا دیکھ کر کہا۔

"نو آئی ایم اوکے"۔اس نے اک اور گھونٹ بھر کر کہا ۔اسکی آنکھیں آہستہ آہستہ سرخ ہو رہی تھیں لیکن نظریں اب بھی آنے جانے والے لوگوں پر مرکوز تھیں۔

وہ چاروں وہاں آنے والے لوگوں پر اپنا اپنا تبصرہ کرتے ہوئے بے ہنگم قہقہے لگا رہے تھے۔

"فرا نے میرا دماغ چاٹ لیا ہے تیرا پوچھ پوچھ کے"۔احمر نے دوسری بوتل اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

"لیو ہر۔۔زہر لگتی ہیں مجھے ایسی لڑکیاں"۔اس نے دوسری بوتل بھی منہ کو لگا لی۔

"تو تجھے شہد کونسی لگتی ہیں یہ بھی بتا دے"۔ارسلان نے بے ڈھنگے انداز میں ہنستے ہوئے پوچھا۔

لیکن دوسری بوتل سے صرف چند گھونٹ لینے کے بعد ہی وہ جواب دینے سے قاصر تھا۔

یہ شہر کی ایلیٹ کلاس کے بگڑے ہوئے نواب زادے تھے ان تمام خوبیوں سے لبریز جو اپر کلاس کے اس ٹائپ کے کسی بھی لڑکے میں ہو سکتی ہیں۔اس وقت وہ نشے میں دھت،ارد گرد سے غافل کلب کی سیڑھیوں پر گرے پڑے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"گڈ مارننگ ایوری ون۔سوری میں آج لیٹ ہو گیا"۔دائم نے ڈائننگ ٹیبل کی چیئر گھسیٹتے ہوئے کہا

"اٹس اوکے بیٹا۔ہم عادی ہیں"۔طلال احمد کی بات پر وہ بتیسی نکال کر ناشتے کی طرف متوجہ ہو گیا۔

"دائم! آج مجھے سمعیہ کی طرف جانا ہے" ۔کچھ دیر بعد سارہ نے کہا۔

"تو چلی جائیں ممی اس میں پوچھنے والی کون سی بات ہے"۔اس نے لاپرواہی سے کہا۔

"پوچھ نہیں رہی میں۔بتا رہی ہوں کہ تم بھی میرے ساتھ چلو گے۔نیہا کو شاپنگ کروانی ہے اور اتنے دن سے تم ان کی طرف نہیں گئے۔آخر منگیتر ہے وہ تمہاری کچھ تو خیال کیا کرو"۔

"اوہ پلیز مام!!یو نو مجھے ان فضول کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے منگنی کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں اس کے پلو سے ہی لگ کر بیٹھ جاؤں۔میری اپنی بھی مصروفیات ہیں یہ کام آپ ہی کو مبارک ہو"۔اس نے بدتمیزی سے جواب دیا۔

"جانتی ہوں میں اچھے سے تمہاری مصروفیات کو"۔۔انہوں نے دانت پیسے۔

"ویری گڈ۔یہ تو بہت اچھی بات ہے"۔اس نے اب بھی پہلے والے انداز میں کہا

"جسٹ شٹ اپ۔تمیز سے بات کیا کرو میرے ساتھ"۔سارہ کا دماغ کھول گیا

"کول ڈاؤن پلیز کیا ہو گیا ہے آپ دونوں کو"۔طلال احمد جو ناشتہ کرتے ہوئے ماں بیٹے کی تکرار سن رہے تھے اک دم درمیان میں بولے۔

"مجھے تو کچھ نہیں ہوا۔آپ کے بیٹے کا ہی دماغ ساتویں آسمان پر ہے اسی سے پوچھیں کیا ہوا ہے اسے"۔سارہ نے غصے سے کہا۔

"ممی آپ سکون سے بیٹھیں۔میں اٹھ کر ہی چلا جاتا ہوں"۔وہ چاۓ کا کپ ٹیبل پر پٹخ کر باہر نکل گیا۔

"کیا کرتی ہیں آپ۔بچہ نہیں ہے اب وہ بڑا ہو چکا ہے آہستہ آہستہ سیکھ جائے گا سب کچھ۔ہر وقت اسکے پیچھے مت پڑی رہا کریں"۔طلال نے تحمل سے انہیں سمجھایا۔

تبھی باہر سے گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز آئی۔

میں بھی یہی کہہ رہی ہوں بچہ نہیں ہے اب وہ۔اسٹڈیز کمپلیٹ ہے اسکی۔جانتے بھی ہیں آپ آج کل کن لوگوں میں اٹھ بیٹھ رہا ہے وہ۔کیا مصروفیات ہیں اس کی"؟سارہ نے پریشانی سے طلال صاحب کو دیکھا۔

"ڈونٹ وری۔اس عمر میں اولاد ایسی ہی ہوتی ہے۔کرنے دیں وہ جو کرتا ہے۔سمجھ جائے گا آہستہ آہستہ"۔انہوں نے لاپرواہی سے سر جھٹکا۔

"سمجھ جائے گا نہیں آپ سمجھائیے اسے۔کل سے اپنے ساتھ آفس لے کر جائیں۔ذمہ داری جب سر پر پڑے گی تب ہی عقل ٹھکانے آئے گی"۔سارہ نے پھر سے زور دیا۔

"اوکے اوکے ۔جسٹ ریلیکس۔بات کرونگا میں اس سے" ۔انہوں نے آرام سے کہا

ان کی بات سن کر سارہ بھی خاموشی سے جوس پینے لگیں۔

_________________________________

"شانزہ آج وہ گاڑی پھر ہمارا پیچھا کر رہی تھی"۔عدن نے تشویش سے شانزہ کو دیکھا۔

"ہاں دیکھا تھا میں نے۔یار حیرت والی بات ہے آخر کون ہے اتنا فارغ جو دو ماہ سے ہماری وین کا پیچھا کر رہا ہے۔ایسی بھی کیا دلچسپی کوئی بات ہے تو کلئیر کرے اس طرح پیچھا کرنے کی کیا تک بنتی ہے"؟ شانزہ نے بھی پریشانی سے کہا۔

"ہاں نا اور تمہیں تو پتہ ہے گاؤں میں چھوٹی سی بات کا بھی بتنگڑ بن جاتا ہے۔کوئی دیکھے گا تو کیا سوچے گا"۔عدن کی پریشانی کسی طور کم نہیں ہو رہی تھی۔

"چھوڑو بھی۔اچھا ہے نا ہمیں ایک باڈی گارڈ مل گیا وہ بھی مفت میں"۔ہانیہ کی بات پہ وہ دونوں ہنس پڑیں۔

چھٹی کے بعد بھی جب وہ سب وین میں آ کر بیٹھیں تو وین کے چلنے کے کچھ دیر بعد ہی کہیں سے گرے کرولا نمودار ہوگئی۔

"اف کیا مصیبت ہے۔اسے کوئی اور کام نہیں ہے کیا"۔شانہ نے غصے سے پیچھے آتی کار کو دیکھا۔

"دفعہ کرو تم۔ہمیں کیا وہ جو مرضی کرے۔ہمارا پابند تھوڑی ہے وہ"۔اندر سے تو عدن کا دل بھی کانپ رہا تھا مگر بظاہر اس نے مضبوطی سے کہا۔

سب سے زیادہ ٹینشن بھی اسے ہی تھی کہ اسکا گھر ہی سب سے آخر میں آتا تھا اور وہ کار اکثر گاؤں سے باہر ہی مڑ جاتی مگر بعض اوقات وہ عدن کے وین سے اترنے کے بعد ہی واپس جاتی۔اب بھی وہ پریشانی سے شیشے سے باہر نظر آنے والے دوڑتے مناظر کو دیکھ رہی تھی کہ اچانک وہ کار بالکل وین کے برابر آ گئی۔اس نے چونک کر اندر بیٹھے شخص کو دیکھا۔

وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور زن سے گاڑی آگے بھگا لے گیا۔

اسکی صرف آنکھوں سے پتہ چلا تھا کہ وہ مسکرایا ہے۔آنکھوں کے علاوہ سارے چہرے پر ماسک تھا۔

"کون ہو سکتا ہے یہ"؟ اس کے مسکرانے پر وہ جی جان سے کانپ گئی۔

"یہ میری طرف ہی کیوں دیکھ رہا تھا میں تو اسے جانتی تک نہیں"۔وہ اب تک اسی کیفیت میں تھی۔

"شکر ہے مصیبت ٹل گئی"۔ہانیہ نے گاڑی کو آگے جاتے دیکھ کر کہا 

"عدن کیا ہوا تمہارا رنگ کیوں پیلا ہو رہا ہے"؟

"نہیں۔۔نہیں تو میں ٹھیک ہوں"۔اس نے منہ پر ہاتھ پھیر کر خود کو نارمل کیا۔

"کون تھا وہ؟دو ماہ سے کیوں پیچھا کر رہا ہے؟آخر چاہتا کیا ہے وہ"؟ اس کے ہاتھ اب بھی کانپ رہے تھے۔گھر پہنچے تک وہ اسی حالت میں رہی۔

"عدن کیا بات ہے طبعیت تو ٹھیک ہے تیری؟ جب سے آئی ہو اسی طرح لیٹی ہوئی ہو۔کوئی مسئلہ ہے کیا"؟ شام تک بھی جب وہ غائب دماغ رہی تو اماں نے کہا 

"نہیں اماں بس سر میں درد ہے اسی لیے"۔اس نے وقتی بہانہ بنا کر انہیں ٹال دیا۔

لیکن اگلے روز جب وہ پھر کسلمندی سے پڑی رہی تو اماں نے تشویش سے اسے دیکھا۔

"تو بتاتی کیوں نہیں ہے کیا ہوا ہے تجھے۔کالج بھی نہیں گئی آج۔سب ٹھیک تو ہے" ۔وہ تو کبھی بیماری میں بھی چھٹی نہیں کرتی تھی تو پھر آج ۔۔۔اماں کا پریشان ہونا بجا تھا۔

"ٹھیک ہوں اماں بس آج دل نہیں کر رہا جانے کو"۔ 

"بیٹا اولاد چاہے جتنی بھی بڑی ہو جائے ماں باپ جتنا تجربہ کبھی حاصل نہیں کر سکتی کوئی مسئلہ ہے تو بتا نا۔تو مجھے اپنی پریشانی نہیں بتائے گی تو کس سے کہے گی۔چل بتا کیا بات ہے کل سے میں دیکھ رہی ہوں جب سے تو آئی ہے پریشان ہے کسی نے کچھ کہا ہے کیا"؟

"افوہ اماں!آپکی تو سی آئی ڈی والی نظر ہے۔کچھ نہیں ہوا مجھے۔بس بور ہو گئیں ہوں روز روز جا کر اسی لیے سوچ رہی ہوں دو چار چھٹیاں کر لوں۔اسٹڈیز کا برڈن ہے اور کچھ نہیں۔خوامخواہ اتنی ٹینشن نہ لیا کریں"۔وہ ہنستے ہوئے ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی۔

اماں کی اندر تک اتر جانے والی نظروں سے وہ واقعی گھبرا گئی تھی پہلے تو جی میں آیا کہ سب کچھ انہیں بتا دے مگر اماں کو بتانے کا مطلب کالج سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹی تھا۔وہ تو اس کے معاملے میں حد سے زیادہ محتاط تھیں۔اسکا گریجویشن کا آخری سال تھا اب وہ گھر بیٹھ کر اپنی ساری محنت پہ پانی نہیں پھیر سکتی تھی۔ہاں وہ ابھی کچھ دن کالج نہیں جائے گی ہو سکتا ہے سب ٹھیک ہو جائے۔وہ اماں کی گود میں سر رکھے سوچ رہی تھی۔

"میں ٹینشن نہیں لوں گی تو کون پرواہ کرے گا تیری۔بس ایک بات یاد رکھنا ماں باپ سے کبھی کچھ نہیں چھپاتے وہ عمر کے جس بھی حصے میں پہنچ جائیں ان کے پاس اولاد کے ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے اک بار والدین کا سایہ سر سے اٹھ جائے تو کہیں جائے پناہ نہیں ملتی"۔

وہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے سمجھا رہی تھیں۔

اماں کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ وہ مطمئن نہیں ہوئیں مگر پھر بھی انہوں نے اسے دوبارہ نہیں کریدا۔

_____________________________________

"دائم تمہاری ممی بہت پریشان ہیں تمہاری وجہ سے"۔طلال نے ریموٹ سے چینل چینج کرتے ہوئے کہا

"اچھا!! وہ کیوں"؟ وہ موبائل چھوڑ کر باپ کی طرف متوجہ ہو گیا

"تم اب فری ہو تو کل سے آفس جوائن کرو"۔

"اوہ نو ڈیڈی۔۔۔۔مجھے بزنس میں بالکل بھی انٹرسٹ نہیں ہے"۔

"تو تمہیں انٹرسٹ ہے کس چیز میں؟ وہی بتا دو جو کام بھی کہیں تمہیں اس میں انٹرسٹ ہی نہیں ہوتا۔چاہتے کیا ہو آخر تم"؟ سارہ ہر بات کے جواب میں اسکی نہ نہ سے تنگ آ چکی تھیں۔ 

"آپ چپ کریں۔میں بات کر رہا ہوں نا"۔طلال احمد نے فوراً مداخلت کی۔

"اچھا!!!! تو آپکو ممی نے پٹی پڑھائی ہے"۔اس نے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے باپ کی طرف دیکھا۔

طلال قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔

"غلط نہیں کہا میں نے کچھ بھی۔ماں ہوں میں تمہاری،دشمن نہیں ہوں"۔وہ خونخوار نظروں سے اسے دیکھتی ہوئی بولیں۔

"الیکشن سر پر ہیں میں آفس کو پراپر ٹائم نہیں دے سکتا سو تم اب آفس جوائن کرو بلکہ ایسا کرو اپنی کمپنی کو ہی دیکھو تو زیادہ بہتر ہے بہت مانگ ہے اسکی پروڈکٹس کی ۔فی الحال تو سب کچھ مینیجر پر چھوڑا ہوا ہے مگر کب تک؟ اسے خود دیکھو۔سب سے پہلے تو مشینری رینیو کرواؤ۔ نئی تیکنیکس کو فالو کرو۔اسٹاف میں چینجنگ کرنی ہے تو وہ کرو اسے فل ٹائم دو تو وہ ڈبل پرافٹ دے گی"۔ 

"اسکا مطلب ہے آپ نے ممی کی بات لازمی ماننی ہے "۔اس نے بیچاری سی شکل بنا کر کہا۔

"ظاہر ہے یار واپس تو گھر ہی آنا ہوتا ہے"۔طلال نے آہستگی سے کہا وہ دونوں قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔

"حالانکہ میں چاہتا تھا آپ مجھے تھوڑا اور ٹائم دیتے ابھی تو میں ٹھیک سے انجواۓ بھی نہیں کر سکا"۔ 

"نو۔۔۔۔۔۔نو مور ٹائم۔اپنی ایکٹیویٹز کو کم کرو کل سے تم جوائن کر رہے ہو۔مینیجر تمہیں ہر چیز سمجھا دے گا کوئی مشکل نہیں ہو گی"۔

"مگر صرف الیکشن ہونے تک اس کے بعد آپ اپنا کام خود سنبھالیں گے"۔اس نے بھی لگے ہاتھوں شرط رکھ دی۔

"ہاں ہاں ٹھیک ہے"۔طلال نے سر ہلایا۔

اسے مانتے دیکھ کر سارہ نے بھی سکون کا سانس لیا ان باپ بیٹے میں بلا کی انڈرسٹینڈنگ تھی۔وہ شروع سے ہی طلال کے زیادہ قریب تھا مگر سارہ سے اسکی اتنی نہیں بنتی تھی کہ وہ ہر وقت روک ٹوک کرتی رہتیں۔ہائی سوسائٹی سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی انکے اندر وہی ٹیپیکل خاتون تھی اپنے شوہر اور بچوں سے محبت کرنیوالی ہر دم انکے لیے پریشان ۔وہ خود ایک این جی او چلا رہی تھیں زیادہ تر وقت گھر سے باہر ہی گزرتا مگر پھر بھی بچوں کے معاملے میں انہوں نے کبھی بھول چوک نہیں کی۔دائم کے متعلق آج کل کچھ اچھی خبریں نہیں مل رہی تھیں تبھی انکی پریشانی میں اب

اضافہ ہو رہا تھا حالانکہ باقی سب کے نزدیک یہ کلچر کا حصہ تھا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔مگر وہ اپنے بچوں کو آئیڈیل بنانا چاہتی تھیں اسی لیے انہوں نے طلال کے ذہن میں دائم کو آفس لے جانے کا خیال ڈالا۔

_______________________________________

طلال احمد ایک جانے مانے انڈسٹریلسٹ اور نامور سیاست دان تھے۔ان کے چار بچے تھے۔

ریان، عنایہ، صارم اور دائم۔

ریان اور عنایہ دونوں شادی شدہ تھے۔شادی کے بعد ریان کراچی جبکہ عنایہ اپنے شوہر کے ساتھ انگلینڈ میں سیٹل تھی۔صارم بھی انگلینڈ میں اپنی ایجوکیشن کمپلیٹ کر رہا تھا۔جبکہ ریان باپ کے ساتھ مل کر بزنس کو وسیع سے وسیع تر کر رہا تھا۔اب بھی وہ کراچی میں بزنس سیٹ کرنے کی وجہ سے خود بھی وہیں سیٹل ہو گیا۔دائم انکا سب سے چھوٹا اور لاڈلا بیٹا تھا۔سارہ چاہتی تھیں کہ وہ بھی صارم کی طرح باہر سے ہی ڈگری لے کر آئے مگر وہ دائم تھا ہر معاملے میں اپنی مرضی کرنیوالا اس نے یہیں رہ کر پڑھنے کو ترجیح دی اور طلال نے ہمیشہ کی طرح اس کا ساتھ دیا۔

"آج صارم واپس آرہا ہے شام کی فلائٹ سے"۔سارہ نے اسے اطلاع دی۔

"کیوں"؟

"کیا مطلب کیوں؟ گھر آرہا ہے وہ پابندی ہے کیا اس کے آنے پہ"۔

"اف ممی آپ تو میری ہر بات کو الٹا سمجھتی ہیں۔میں یہ پوچھ رہا تھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے پاکستان آ رہا ہے یا کچھ دنوں کے لیے۔یہ تھوڑی کہا ہے کہ وہ گھر ہی نہ آئے"۔اس نے منہ بناتے ہوئے کہا

"ابھی اسکے چند تھیسیز رہتے ہیں پھر ہی وہ ہمیشہ کے لیے آئے گا ۔لیکن تم اپنے آفس کو اس ے حوالے کرنے کے خواب دیکھنا چھوڑ دو۔اپنا کام خود سنبھالو"۔

"کیوں میں کیوں دوں گا اسکو۔آئی کین رن اٹ آن مائی بی ہالف"۔وہ انگلی میں کی چین گھماتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔

صارم سے اسکی گاڑھی چھنتی تھی۔وہ جو بھی کہتا صارم ڈیڈی کی طرح اسکی ہر بات مانتا۔اب بھی اس نے یہی سوچا تھا کہ صارم کے آتے ہی وہ آفس اس کے حوالے کر کے ہر ذمہ داری سے آزاد ہو جائے گا مگر ممی نے ایک بار پھر اسکی ساری خوش فہمیوں پہ پانی پھیر دیا۔

___________________________________

رات کے اس پہر وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ سڑک پر اوآرہ گردی کر رہا تھا۔

"آج ارسلان کیوں نہیں آیا"۔اس نے چیونگم منہ میں ڈالتے ہوئے باقی دونوں سے پوچھا۔

"اس کا ٹھکانہ گرلز کالج ہے میرا تو خیال ہے وہ رات کو بھی وہیں کھڑا رہتا ہے"۔احمر اس کے ہاتھ پہ ہاتھ مار کر ہنسا۔تبھی اسکے موبائل کی بیل ہوئی۔

"ہیلو۔۔۔۔۔۔ہاں لو وہ میرے سامنے ہی ہے خود ہی اس سے بات کر لو"۔احمر نے موبائل اس کی جانب بڑھایا۔

اس نے اچھنبے سے فون پکڑ کر کان کو لگایا۔ہیلو کے جواب میں نسوانی آواز سن کر اس نے فون کان سے ہٹا کر اسکرین آن کی۔سکرین پہ موجود نام دیکھتے ہی ماتھے پر بل پڑ گئے۔اس نے فون کاٹ کر واپس احمر کی طرف اچھال دیا۔

"تجھے کونسی آگ لگی تھی جو پہلی بار میں ہی میرے متعلق ساری انفارمیشن اسے دے دی۔عجیب بلا پیچھے پڑ گئی ہے"۔احمر نے جواب میں ہنستے ہوئے موبائل کیچ کیا 

"تو اسکا فون کیوں نہیں اٹھاتا وہ بیچاری ہمیشہ یہی کہتی ہے میں جب بھی اسے فون کروں اسکا نمبر آگے سے مصروف ہی ہوتا ہے" ۔

"میں نے اسکا نمبر بلیک لسٹ میں ڈالا ہوا ہے"۔اسکی بات سن کر ان دونوں کے منہ سے ہنسی کے فوارے پھوٹ پڑے۔

"ویسے ایک بات تو ہے ہل تو تو بھی گیا تھا وہاں جا کر" ۔شارق نے اسے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔

"ظاہر ہے کوئی بھی نارمل انسان پہلی بار وہاں پر جائے تو ایک بار پاگل تو ضرور ہو جاتا ہے"۔

"پھر دوبارہ کب جانے کا ارادہ ہے"۔صارم نے پوچھا

"فی الحال تو موڈ ہے نا ٹائم۔پھر کبھی دیکھیں گے"۔

"چل جیسے تیری مرضی جب موڈ ہوا تو بتانا" وہ دونوں اسکے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔

_______________________________________

آج وہ ایک ہفتے بعد کالج آئی تھی اور اب سب سے نوٹس اکٹھے کرنے میں مگن تھی۔

"عدن میرے ساتھ بازار تک چلو مجھے کچھ چیزیں خریدنی ہیں"۔ابھی چھٹی میں کافی ٹائم تھا جب شانزہ نے اس سے کہا 

"ہرگز نہیں۔۔۔پاگل ہو گئی ہو کیا۔اماں سے جوتے کھانے کا کوئی شوق نہیں ہے مجھے"۔

"پلیز یار مجھے کچھ چیزیں لینی ہیں ارجنٹ۔ہم وین کے آنے سے پہلے واپس آ جائیں گے۔پلیز منع مت کرنا"۔

"مگر"۔۔۔۔۔

"پلیز نہ منع نہیں کرو۔۔وہ ہانیہ کی بچی بھی نہیں جا رہی اب کس کے ساتھ جاؤں میں"

"اچھا تو پھر وین کے آنے سے پہلے ہی آنا ہے ، دیر بالکل نہ ہو" ۔کچھ پس و پیش کے بعد وہ بالآخر راضی ہو گئی۔

چادر اوڑھنے کے بعد وہ اس کے ہمراہ چل دی۔سڑک پر تیز تیز چلتے ہوئے عجیب سا احساس ہونے پر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔اس نے فوراً شانزہ کا ہاتھ زور سے پکڑ لیا 

"کیا ہوا"؟

"وہ۔۔۔وہ گاڑی ہمارے پیچھے آ رہی ہے"۔

شانزہ نے اک نظر پیچھے مڑ کر دیکھا پھر خاموشی سے دوبارہ چلنے لگی۔ 

"کیا ہوا تم بول کیوں نہیں رہی"۔

"عدن!تم لوگوں کے فیملی ایشوز تو نہیں چل رہے کسی کے ساتھ؟آئی مین کوئی دشمنی وغیرہ"۔

"کیا مطلب" ؟ اس نے حیران نظروں سے شانہ کو دیکھا۔

"تم پچھلا ایک ہفتہ کالج نہیں آئی تو پورا ایک ہفتہ ہی اس گاڑی نے بھی وین کا پیچھا نہیں کیا۔مگر آج ہی یہ گاڑی پھر سے"۔۔۔۔۔۔۔

"جسٹ شٹ اپ شانزہ ۔۔۔۔تم۔۔۔تم مجھے ایسا سمجھتی ہو"۔

"نہیں یار تم غلط سمجھ رہی ہو میں نے اسی لیے پوچھا تھا کہ کوئی فیملی ایشو تو نہیں کسی کے ساتھ"؟؟

اس کے دماغ میں جھکڑ چلنے لگے ۔ہماری تو کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے۔تو پھر یہ کون ہے۔اک بات تو واضح تھی کہ وہ اسی کے پیچھے آتا تھا۔خوف نے چاروں طرف سے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

"شانزہ واپس چلو۔۔مجھے بازار نہیں جانا"۔

اس اب احساس ہو رہا تھا کہ کالج سے نکل کر اس نے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔

"پلیز یار اب ہم اتنا آگے آ گئے ہیں وہ سامنے تو ہی شاپ ہے بس دس منٹ لگیں گے"۔وہ اس کا ٹھنڈا ہاتھ تھامتے ہوئے تیز تیز چلنے لگی۔

اک بار پھر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا لیکن اب وہ گاڑی وہاں نہیں تھی۔ دوکان کے اندر داخل ہو کر ہی اس کی سانس بحال ہوئی۔شانزہ اپنے لئے چیزیں پسند کر رہی تھی مگر وہ غائب دماغی سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔

"کون ہو سکتا ہے وہ؟ کیوں آتا ہے میرے پیچھے۔مجھے اماں کو سب کچھ بتا دینا چاہیے تھا ہاں آج جا کر میں اماں کو سب کچھ بتا دوں گی۔پھر بابا خود ہی سارے معاملے سے نمٹ لیں گے"۔وہ کھڑی سوچ رہی تھی کہ شانزہ نے اسکا کندھا ہلایا۔

"چلو چلیں"۔

"ہو گئی شاپنگ"؟۔

"ہاں ہو گئی"۔ وہ دوکان سے باہر نکل آئیں۔

"پریشان مت ہو ۔تم انکل سے بات کرنا سب ٹھیک ہو جائے گا۔اچھا یہ دیکھو میں نے تمہارے لیے خریدا ہے۔۔۔ہیں ؟؟ کہاں گیا ادھر ہی تو تھا"۔وہ شاپروں کو ایک ہاتھ سے دوسرے میں منتقل کر رہی تھی۔

"اوہ نو"۔۔۔۔۔

"اب کیا ہوا"؟ 

"یار وہ ریڈ بیگ تو وہیں پہ رہ گیا"۔اس نے افسوس سے ماتھے پہ ہاتھ مارا۔ 

"تم پاگل ہو گئی ہو کیا۔ دھیان کہاں تھا تمہارا۔اب پھر واپس جانا پڑے گا ۔۔اگر وین آگئی ہوئی تو"۔۔؟

"سو سوری یار ۔۔۔۔۔۔وہ پیچھے ہی تو ہے دوکان میں ابھی لائی بس ایک منٹ"۔وہ دوڑتے ہوئے واپس اسی دوکان میں گھس گئی۔

عدن وہیں سڑک پر کھڑی پیچھے مڑ کر اسے دیکھ رہی تھی۔

"السلام علیکم مس عدن نواب عالم!! کیسے مزاج ہیں آپکے"۔وہ جو کوئی بھی تھا اس کے بالکل قریب آکر کھڑا ہو گیا ۔

"کو۔۔کون ہو تم" ؟ وہ بدک کر دو قدم پیچھے ہٹی۔

"یہ بھی پتہ چل جائیگا اتنی جلدی بھی کیا ہے" ؟ یہ کہہ کر اس نے اسے بازو سے پکڑ کر پاس کھڑی کار کی جانب گھسیٹا۔

"چھوڑو۔۔۔چھوڑو مجھے۔کون ہو تم کہاں لے کر جا رہے ہو چھوڑو مجھے۔۔۔بچاؤ بچاؤ۔۔"

وہ چیختے ہوئے لوگوں کو مدد کے لیے پکار رہی تھی۔

"چھوڑ دو اسے ۔کون ہو تم اور کہاں لے کر جا رہے ہو" ۔اردگرد کے لوگ یہ منظر دیکھ کر اکٹھے ہو گئے ان میں سے فوراً ایک آگے بڑھ کر بولا۔

مگر سامنے والے کے پاس ریوالور دیکھتے ہی اس کی زبان بند ہو گئی۔

"ایک منٹ کے اندر اندر دفعہ ہو جاؤ سب یہاں سے ورنہ ادھر ہی بھون دوں گا"۔اس نے ریوالور کا رخ ان لوگوں کی جانب کیا دو سیکنڈ میں ہی وہاں سے ہر کوئی غائب ہو گیا۔

اس نے دھکا دے کر عدن کو گاڑی کے اندر ڈالا۔اندر بیٹھی عورت نے فوراً اس کی ناک پہ رومال رکھ دیا ۔

بے ہوش ہونے سے پہلے آخری چیز جو اسے نظر آئی وہ اس ماسک والے شخص کا چہرہ تھا۔

آج اسکا آفس میں پہلا دن تھا دوپہر تک وہ مینیجر کے ساتھ ہی سر کھپاتا رہا پر خاک بھی پلے نہ پڑا۔

"اف ڈیڈی کہاں پھنسا دیا آپ نے مجھے"۔ ابھی مینیجر کے جانے کے بعد وہ ریلیکس ہوا ہی تھا کہ کوئی بے دھڑک انداز میں دروازہ کھول کر اندر آ گیا۔

"واہ بھئی واہ بڑے ٹھاٹ باٹ ہیں لگتا ہے بچہ راہ راست پہ آ گیا ہے"۔آنے والے کو دیکھ کر اسکی پوری آنکھیں کھل گئیں۔

"واٹ آ پلیزینٹ سرپرائز۔کب آیا تو۔بتایا تک نہیں یار"۔وہ علی سے ملتے ہوئے بے پناہ خوشی اور حیرت سے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کہہ رہا تھا۔

"پرسوں ہی آیا ہوں اور آج تجھ سے ملنے چلا آیا۔کب سے جوائن کیا آفس؟ کیوں انکل کا بزنس ڈبونے کا ارادہ ہے"۔

"ڈیڈی کے زور دینے پر ہی آیا ہوں ورنہ مجھے رتی برابر بھی دلچسپی نہیں ہے"۔

علی اسکا بیسٹ فرینڈ تھا دونوں نے اکٹھے گریجویشن کیا۔گریجویشن کے بعد وہ ہائر اسٹڈیز کے لیے باہر چلا گیا۔لیکن پھر بھی ان دونوں کی دوستی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ علی کے ساتھ اس کے فیملی ٹرمز بھی تھے۔آج پھر اتنے سالوں بعد وہ اسکے سامنے تھا۔

"چل اٹھ کہیں باہر چلتے ہیں تمہارے چکر میں لنچ بھی گول ہو گیا ہے"۔ 

"اور گھر میں سب کیسے ہیں"۔

"سب ٹھیک ہیں۔صارم آیا ہوا ہے کل سے۔۔۔"وہ باتیں کرتا اس کے ہمراہ آفس سے باہر نکل گیا۔ 

__________________________________

"ابھی تک عدن نہیں آئی۔میرا دل ہول رہا ہے۔اتنی دیر ہو گئی ہے"۔

"کوئی بات نہیں اماں آ جائے گی دیر سویر تو ہو جاتی ہے"۔

"پہلے تو اس وقت تک آ جاتی ہے پتہ نہیں اب تک کیوں نہیں آئی"۔

"آج اتنے دنوں بعد تو گئی ہے وہ ۔ظاہر ہے جو حرج ہوا ہے وہ بھی تو پورا کرنا ہے"۔بھابی کی تسلی پر بھی اماں کا دل کا نپتا رہا۔

ان کی نگاہیں بار بار گیٹ سے ہو کر پلٹ آتیں۔گھڑی کی سوئیاں آہستہ آہستہ آگے سرک رہی تھیں مگر عدن کو نہیں آنا تھا سو وہ نہ آئی۔

اب تو بھابی کو بھی باقاعدہ پریشانی ہونے لگی۔اماں جلے پیر کی بلی کی طرح صحن میں چکر کاٹ رہیں تھیں۔اتنے میں بابا اور عبداللہ بھی گھر آ گئے۔

"عدن ابھی تک گھر نہیں آئی"۔اماں بابا کو دیکھتے ہی پھپھک کر رو پڑیں۔

"کیا ؟ چھٹی ہوئے کو تو چار گھنٹے ہو چکے ہیں اب تک کیوں نہیں آئی"۔

"وین کب کی آ کر واپس بھی جاچکی ہے"۔ اماں نے روتے ہوئے بتایا۔

"عبداللہ گاڑی نکالو فوراً"۔بابا نے کانپتی آواز میں کہا

عبداللہ نے فوراً گاڑی نکالی انکا رخ عدن کے کالج کی جانب تھا۔

"کہاں جا سکتی ہے وہ اسے تو راستوں تک کا ٹھیک سے علم نہیں ہے۔خدا نہ کرے کچھ غلط نہ ہو گیا ہو ۔"

اماں کے دل میں ہر طرح کے واہمے سر اٹھانے لگے۔

"اللہ نہ کرے اماں پ بس دعا کریں وہ بخیر و عافیت گھر پہنچ جائے"۔بڑی کی نسبت چھوٹی بھابی اماں کے ذیادہ قریب تھی۔

"یا اللہ میری بچی کی حفاظت کرنا اسے اپنے حفظ و امان میں رکھنا"۔وہ جائے نماز پہ بیٹھی رب کے حضور گڑگڑا رہیں تھیں۔

شام ہو چکی تھی۔ عبداللہ اور بابا اب تک واپس نہیں آئے۔اماں کی آنکھیں اک پل بھی نہ سوکھیں۔عشاء کے بعد گاڑی کا وسل سنتے ہی وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔

بابا تھکے قدموں سے صحن میں رکھی چارپائی پر آ بیٹھے

"کیا ہوا کچھ پتہ چلا؟کہاں ہے عدن؟ آپ اسے ساتھ کیوں نہیں لائے"۔اماں بے قراری سے انکی طرف بڑھیں۔

"آپ لوگ بول کیوں نہیں رہے۔میرا دل بیٹھا جا رہا ہے خدا کے لیے کچھ تو بتائیں۔کہاں ہے میری بچی"؟

"ہم نے سارا کالج چھان مارا ہے مگر وہاں سوائے چوکیدار کے اور کوئی نہیں تھا۔عدن کی تصویر دیکھنے پر اس نے بتایا ہے کہ چھٹی سے پہلے اس نے کسی لڑکی کے ساتھ اسے باہر جاتے دیکھا تھا۔سارے ہسپتال بھی چیک کر آئے ہیں کہیں کچھ پتہ نہیں چلا"۔

عبداللہ نے سر ہاتھوں میں گراتے ہوئے بتایا۔

"ہرگز نہیں۔جھوٹ بول رہا ہے وہ۔اس نے بھلا کہاں جانا ہے وہ تو کبھی کالج سے باہر نہیں گئی"۔اماں نے فوراً اسکی بات کو جھٹلایا۔

"اسکی صرف ایک ہی سہیلی ہے شانزہ ۔آپ اس سے جا کر پتہ کریں شاید اسے کچھ علم ہو"۔بھابی کی بات پر بھائی فوراً کھڑے ہوئے۔

"بابا فاطمہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔ہمیں شانزہ سے معلوم کرنا چاہیے"۔

کچھ دیر بعد بابا اور عبداللہ شانزہ کے گھر موجود تھے۔

"خیریت چوہدری صاحب آپ اس وقت رات کو"۔شانزہ کا باپ انہیں اس وقت دیکھ کر ٹھٹکا تھا۔

"علیم الدین تمہاری بیٹی کہاں ہے"۔

"گھر پر ہی ہے جی۔مگر بات کیا ہے سب خیریت تو ہے نا"۔

"ہاں خیریت ہے اسے بلاؤ ہم نے اس سے بات کرنی ہے"۔

انہیں بیٹھک میں بٹھا کر تھوڑی دیر بعد جب وہ لوٹے تو شانزہ ان کے ہمراہ تھی۔

"دیکھو بیٹا ہم تم سے جو کچھ پوچھیں وہ سچ سچ بتانا۔کیا چھٹی سے کچھ دیر پہلے عدن تمہارے ساتھ کالج سے باہر گئی تھی"۔

"جی انکل وہ میرے ساتھ ہی تھی۔دراصل مجھے کچھ چیزیں خریدنی تھیں بازار سے اسی لیے میں اس کو ساتھ لے کر گئی تھی مگر شاپنگ کے بعد جب میں باہر آئی تو اک بیگ دوکان میں ہی بھول آئی۔میں اسے لیکر جب واپس آئی تو عدن وہاں پر نہیں تھی۔میں نے اسے کافی ڈھونڈا مگر وہ نہیں ملی میں سمجھی شاید وہ واپس چلی گئی ہے لیکن وہ کالج میں بھی نہیں تھی"۔اس نے ساری سچائی من و عن بیان کر دی۔

"وہ اب تک گھر نہیں پہنچی کیا ؟

"آئم سو سوری آپ لوگوں کو ڈسٹرب کیا۔ابھی ابھی اسکا میسج آیا ہے کہ وہ وہیں سے خالہ کے گھر چلی گئی تھی۔وہ دوپہر سے آئی نہیں اسی لیے ہم پریشان ہو گئے تھے"۔عبداللہ نے فوراً کہانی بنائی۔

نواب عالم نے آنکھیں میچ لیں۔

"چلو عبداللہ"۔وہ اٹھ کھڑے ہوئے

اس نے بھی فوراً انکی پیروی کی۔

"بھائی!! ابھی وہ دروازے میں ہی تھا کہ شانزہ نے پیچھے سے آواز دی۔

"جی" ؟

"مجھے نہیں پتہ عدن نے آپ لوگوں کو بتایا یا نہیں مگر میں آپکو بتانا چاہتی ہوں"۔۔۔۔۔

"کیا "؟

"پچھلے دو ماہ سے ایک گاڑی ہماری وین کا پیچھا کر رہی ہے۔پہلے پہل تو ہم نے اتنا نوٹ نہیں کیا مگر جب وہ مسلسل پیچھا کرتی رہی رو ہمیں پریشانی ہوئی صبح ٹائم اور چھٹی کے وقت وہ برابر ہمارا پیچھا کرتا تھا۔لیکن پچھلا ایک ہفتہ عدن کالج نہیں آئی تو وہ گاڑی بھی ہمارے پیچھے نہیں آئی"۔

"آپ کہنا کیا چاہتی ہیں"؟ عبداللہ کے ماتھے کی رگ ابھری۔

"پلیز آپ تحمل سے میری بات سنیں اس میں آپ ہی کا فائدہ ہے۔آج جب میں اور عدن بازار جا رہیں تھیں تب بھی وہ گاڑی ہمارا پیچھا کر رہی تھی مگر مارکیٹ میں داخل ہونے کے بعد وہ کہیں نظر نہیں آئی"۔

"نمبر دیکھا تھا آپ نے۔ کیا نمبر تھا اسکا" ۔اس نے بے چینی سے پوچھا۔

"نہیں نمبر کا تو نہیں پتہ۔ہاں مگر وہ گرے کلر کی کرولا ہے بس اتنا پتہ ہے اور اس شخص کے چہرے پر بھی ماسک ہوتا تھا ہم نے کبھی اسکی شکل نہیں دیکھی"۔

شانزہ کی باتیں سن کر اس سے اپنے قدموں پہ کھڑا رہنا مشکل ہو گیا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

___________________________________

اماں انکے انتظار میں دروازے میں ہی کھڑی تھیں۔مگر نواب عالم کے جھکے ہوئے کندھے دیکھ کر ان کی ساری امیدوں پہ پانی پھر گیا۔

"اماں کبھی آپکو عدن نے کسی گاڑی کے متعلق بتایا جو انکی وین کا پیچھا کرتی تھی"۔اسکی بات پر اماں کا دل دہل گیا۔

"کونسی گاڑی؟کون پیچھا کر رہا تھا"؟

عبداللہ نے ساری بات ماں کے گوش گزار کر دی ۔اماں نے سنتے ہی کلیجہ تھام لیا۔

"ہماری تو کسی سے کوئی دشمنی بھی نہیں ہے۔ کون کر سکتا ہے ایسا۔ہائے کس کی نظر لگ گئی میرے ہنستے بستے گھر کو"۔

رات آہستہ آہستہ بیت رہی تھی۔آج رات کی سیاہی انکے چہروں پہ کیا مالک ملنے والی تھی وہ سب اس سے با خبر تھے۔

_____________________________________

اسے یہاں محصور ہوئے کتنے دن ہو گئے تھے وہ حساب رکھنا بھی چاہتی تو نہیں رکھ سکتی تھی۔اغوا ہونے سے لیکر اب تک اس کو بے ہوشی کے انجیکشن دئیے جا رہے تھے۔وہ جب بھی ہوش میں آتی چیخنے چلانے لگتی نتیجتاً ایک اور انجیکشن اس کے بازو میں لگا دیا جاتا۔اب کی بار جب وہ ہوش میں آئی تو ساکت نگاہوں سے چھت کو گھورے جا رہی تھی اس بات سے بے خبر کہ کوئی اس کے انمول وجود کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچ چکا ہے۔

"امی"۔اس کے لبوں سے سسکی برآمد ہوئی۔اک آنسو آنکھ سے نکل کر تکیے میں جذب ہو گیا۔

وہ بمشکل سہارا لے کر اٹھی اور کمرے کی واحد کھڑکی کے پاس آئی جس کے اندرونی سائڈ پہ مضبوط گرل لگی تھی۔

"جہانگیر میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگی۔میری بد دعا ہے تم ساری زندگی سکون کے لیے ترسو۔تمہیں اک پل بھی چین نصیب نہ ہو۔عبرت ناک انجام ہو تمہارا۔آخر کس چیز کا بدلہ لیا ہے تم نے مجھ سے۔اب تک تو سارے گاؤں کو خبر ہو چکی ہو گی۔بابا تو جیتے جی ہی مر جائیں گے۔آہ کس عمر میں کونسا دکھ مل گیا انہیں میری وجہ سے"۔وہ گرل کے ساتھ سر ٹکا کر رونے لگی۔

اتنی دیر میں دروازہ کھلا اور ایک لڑکی کھانے کی ٹرے اٹھائے اندر چلی آئی۔وہ اتنے دنوں سے بھوکی تھی۔اب کھانا دیکھ کر اس میں انکار کرنے کی سکت نہ تھی۔وہ لڑکی کھانا رکھ کر واپس چلی گئی۔

دوسری بار دروازہ کھلا اب وہ لڑکی کھانے والے برتن واپس لے جا رہی تھی۔دروازہ کھلنے پر اسکو باہر سے ڈھولکی،موسیقی اور گھنگھروؤں کی ملی جلی آوازیں آئیں۔خطرے کی گھنٹیاں اس کے چاروں اطراف بجنے لگیں۔مارے خوف کے وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"سنو یہ۔۔۔۔یہ کونسی جگہ ہے پلیز مجھے بتاؤ میں کہا ہوں اس وقت۔تمہیں تو پتہ ہے نا"۔وہ بھاگ کر اس لڑکی کے سامنے آئی۔

"اس سے کیا پوچھتی ہو۔مجھ سے پوچھو میں بتاتی ہوں کہاں ہو تم اور تم یہاں کھڑی منہ اٹھائے کیا دیکھ رہی ہو چلو جاؤ یہاں سے"۔

نہایت ہی نا مناسب لباس میں ایک عورت کمرے میں داخل ہوئی۔لڑکی کھانے کے برتن لیکر فوراً واپس چلی گئی۔

"جہاں تم اس وقت موجود ہو وہ اس شہر کا ریڈ لائٹ ایریا ہے"۔اس نے عدن کے سر پہ بم پھوڑا۔

کچھ پل کے لیے کائنات کی ہر شے تھم گئی۔اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔

"نہیں۔۔۔۔نہیں ایسا نہیں ہو سکتا بکواس کر رہی ہو تم۔جھوٹ بول رہی ہو۔ نہیں میرے ساتھ ایسا نہیں ہو سکتا"۔ساتوں آسمان ایک ہی مرتبہ اسکے سر پہ ٹوٹ پڑے۔

"ایسا ہو چکا ہے ڈارلنگ۔اب تم اپنی تیاری پکڑو۔بہت جلد میں تمہارا بندوبست کر دونگی" ۔

دروازہ پھر سے مقفل ہو گیا۔سیڑھیاں چڑھتی اس عورت کو عدن کی کربناک چیخیں اور دستک سنائی دے رہی تھی

وہ اس وقت اپنے تینوں دوستوں کے ہمراہ گاڑی کے بونٹ پہ بیٹھا کوک کے گھونٹ بھر رہا تھا اور ساتھ ہی ویک اینڈ کے لیے کوئی پلان سیٹ کر رہا تھا جب اس کے موبائل پر ایک انجان نمبر سے کال موصول ہوئی۔

"ہیلو"۔

"جی فرمائیے کیا تکلیف ہے آپکو"۔

"میرے پاس اتنا فالتو ٹائم نہیں ہے اور آئندہ مجھے فون مت کرنا"۔دوسری جانب کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی اس نے لائن کاٹ دی۔

"عجیب مصیبت ہے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئی ہے"۔باقی تینوں اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔

"اسی کا فون تھا"؟ احمر نے مسکراتے ہوئے پوچھا

"اس کے علاوہ بھی کوئی مصیبت ہو سکتی ہے کیا"؟

"تو ایک بار چلا کیوں نہیں جاتا۔چل ایسا کرتے ہیں کل رات ہی چلتے ہیں ویسے بھی سنا ہے کچھ نیا ہے وہاں پہ"۔

"کیا"؟

"یہ تو وہاں جا کر ہی پتہ چلے گا۔مجھے تو صرف اتنا ہی بتایا تھا اس نے"۔

"تم لوگ ہی جاؤ میرے پاس ٹائم نہیں ہے"۔

"کیوں تونے کونسا معرکہ مارنا ہے جو ٹائم نہیں ہے۔بس کل ہم چاروں جائیں گے۔ ڈن ہو گیا"۔

"نو یار پلیز میرا بالکل موڈ نہیں ہے"۔

"پہلے تیرے پاس ٹائم نہیں تھا اب موڈ نہیں ہے۔مسئلہ کیا ہے؟کل کو تو ہمیں بھی کہے گا پلیز میرے پاس ٹائم نہیں ہے اور نہ ہی میرا موڈ ہے تم لوگوں سے ملنے کا"۔

"شٹ اپ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا"۔

"تو پھر چل نا یار کیا بگڑ جائے گا تیرا"۔ارسلان نے بھی کہا۔

"اوکے۔ صرف تم لوگوں کے کہنے پر جا رہا ہوں بٹ میں زیادہ دیر ہرگز نہیں بیٹھوں گا اور اسے بھی اچھی طرح سے سمجھا دینا آئندہ مجھے ہرگز فون نہ کرے"۔

"یہ ہوئی نا بات" ۔احمر سب سے ذیادہ خوش تھا۔اسے خاص طور پر اس کو ساتھ لانے کا حکم ملا تھا۔

___________________________________

عبداللہ یہ معاملہ پولیس میں لے جانا نہیں چاہتا تھا اسی لیے اس نے ذاتی طور پر اپنے دوست ایس پی دانیال سے بات کی ۔

"اس لڑکی کے بیان سے ایک بات تو واضح ہے وہ گاڑی عدن ہی کا پیچھا کرتی تھی۔اگر وہ اس روز مارکیٹ سے ہی کڈنیپ ہوئی ہے تو اردگرد کے لوگوں کو ضرور معلوم ہو گا۔اگر پھر بھی کسی کو نہ پتہ ہوا تو وین کا ڈرائیور تو ہے نا یہ کیسے ہو سکتا ہے دو ماہ سے صبح شام پیچھا کرتی گاڑی کو اس نے نوٹ نہ کیا ہو۔کسی نے تو نمبر دیکھا ہو گا نا گاڑی کا۔اب تم یہ معاملہ مجھ پر چھوڑ دو میں انشاءالَلہ جلد از جلد مجرم تک پہنچ جاؤں گا"۔

اس نے عبداللہ کو تسلی دی۔وہ خفیہ طور پہ عدن کو تلاش کرنے کی مہم شروع کر چکا تھا۔

اس گھر میں موت کا سا سناٹا تھا کوئی پتہ بھی گرتا تو اسکی آواز آتی۔

"چوہدریوں کی بیٹی ایک ہفتے سے گھر سے غائب ہے"۔جو بھی سنتا انگلیاں دانتوں میں دبا لیتا۔

بابا کو تو چپ لگ گئی تھی۔اماں کی آنکھیں ہی خشک نہ ہوتیں۔حیدر اور عبداللہ نے ہر وہ جگہ چھان ماری جہاں عدن کے ہونے کا ذرہ برابر بھی امکان تھا۔

"گاؤں میں بات آخر پھیلی کیسے۔میں تو علیم الدین کے گھر والوں کو بھی مطمئن کر آیا تھا کہ عدن خالہ کے گھر ہے۔پھر کیسے پھیل سکتی ہے یہ بات۔آخر کس نے کی یہ حرکت ہم نے تو کسی کو بھنک بھی نہیں پڑنے دی پھر کسے علم تھا کہ عدن گھر میں نہیں ہے۔کون ہے ہمارا دشمن جو اندر ہی اندر جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے"۔عبداللہ سخت پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر ٹہل رہا تھا۔

بابا سارا دن کمرے میں لیٹے چھت کی طرف دیکھتے رہتے۔اماں نے گھر سے نکلنا ہی چھوڑ دیا۔وہ عورتیں جو سلام کیے بغیر دروازے سے نہیں گزرتی تھیں وہ بھی اب اماں کو طنزیہ نظروں سے دیکھتی سرگوشیاں کرتی گزر جاتیں۔

اب بھی وہ صبح صبح باڑے میں موجود مرغیوں کو دانہ ڈال رہی تھیں جب ساتھ والے باڑے میں کام کرتی کچھ عورتوں کی آوازیں ان کے کانوں میں پڑیں۔

"توبہ توبہ ایک ہفتے سے بیٹی غائب ہے۔ اللہ جانے کس کے ساتھ بھاگ گئی۔ذرا بھی حیا نہ آئی بوڑھے ماں باپ کی عزت کا ہی خیال کر لیا ہوتا"۔

"میں تو شروع سے ہی لڑکیوں کو پڑھانے کے خلاف ہوں میں نے تو دبے لفظوں میں کہا بھی تھا چوہدرائن سے۔پر آگے سے کہتی ہے مجھے اپنی بیٹی پر اعتبار ہے۔ بندہ پوچھے کہاں گیا اب وہ اعتبار"۔

"لو بھلا لڑکیوں کو کون پڑھاتا ہے۔مگر چوہدرائن کا دماغ تو ویسے ہی ساتویں آسمان پر تھا کہتی تھی سولہ جماعتیں کروانی ہیں بیٹی کو۔اب کروالے سولہ کی بجائے بیس جماعتیں"۔

"اے بہن شکل سے تو بڑی شریف لگتی تھی کیا پتہ تھا اندر سے ایسی نکلے گی۔توبہ توبہ اللہ ایسی بے حیا اولاد دشمن کو بھی نہ دے"۔

اماں کے ہاتھ سے دانوں والا برتن چھوٹ گیا۔

"کیسی ہو چوہدرائن؟کچھ پتہ چلا بیٹی کا ۔کہاں

چلی گئی آخر"۔

اک عورت کی انکی جانب نظر اٹھی تو وہ مسکراتے ہوئے لہجے میں بولی۔

اماں خاموشی سے آنسو پیتی اندر چلی آئیں۔

"یا اللہ یہ کس آزمائش میں ڈال دیا۔ایسا کونسا سخت گناہ ہو گیا ہمارے سے۔پتہ نہیں کہاں ہو گی میری بچی کس حال میں ہو گی۔اس کی حفاظت کرنا میرے مولا" ۔وہ دعا مانگتے ہوئے اک بار پھر رو پڑیں۔

_____________________________________

"دائم ابھی جو نیو کانٹریکٹ آیا ہے اس پہ تم نے سائن کیوں نہیں کیے"۔

"ڈیڈی مجھے تو ابھی بزنس کی پوری مسٹری ہی سمجھ نہیں آئی ابھی سے سائن کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں میں۔آپ پلیز اسے کچھ دیر کے لیے ڈیلے کروا لیں۔میں کرونگا اسے سائن ضرور کرونگا بٹ ابھی نہیں"۔

"اوکے۔میں جسٹ دو ماہ کی مہلت لے سکتا ہوں اس سے زیادہ وہ کسی کلائنٹ کا انتظار نہیں کرتے جبکہ میں چاہتا ہوں یہ صرف تمہیں ملے۔بہت پرافٹ ہے اس میں"۔

"ضرور میں ہی لونگا بٹ آفٹر ٹو منتھس"۔

"اوکے اور تمہارا اپارٹمنٹ فری ہے نا۔آجکل کسی کو دیا تو نہیں ہوا"؟

"نہیں فری ہے ۔خیریت"؟

"ہاں اس میں کچھ چینجنگ کروانی ہیں۔الیکشن کی وجہ سے اب آئے دن گیسٹ آتے رہیں گے میں چاہتا ہوں سب کچھ گھر سے باہر رہے"۔

"اوکے۔ایز یو لائک"۔

"میں سوچ رہی تھی اب تمہاری شادی کر دوں۔اب تم نے آفس بھی جوائن کر لیا ہے۔سمعیہ کب سے مجھے کہہ رہی ہے میں ہی ہر بار اسے بیچ میں لٹکا دیتی ہوں"۔

باپ بیٹے کی گفتگو ختم ہونے کے بعد ممی دائم سے مخاطب ہوئیں۔

"نو ۔۔۔نو۔۔۔۔نیور مام۔میں نے آفس جوائن کیا ہے اسٹیبلش نہیں ہو گیا ابھی۔فی الحال میں شادی کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا۔مجھے اپنی آزادی بہت عزیز ہے۔اگر آپ کی بھانجی کو اتنی جلدی ہے تو صارم ہے نا اس سے کروا دیں"۔

اس کی بات پہ صارم کو زوردار اچھو لگا۔

"اس سے شادی کرنے سے بہتر ہے میں ساری عمر کنوارہ رہ لوں"۔صارم کی بات پہ اس نے بے اختیار قہقہہ لگایا۔

"کیوں ایسی کونسی برائی دیکھ لی ہے تم لوگوں نے اس میں"۔

"ممی آپکی بھانجی میں بھلا کوئی برائی ہو سکتی ہے کیا بلکہ میں تو کہتا ہوں دنیا کی ساری نیک لڑکیاں ایک طرف اور آپکی بھانجی ایک طرف۔اسی لیے تو کہہ رہا ہوں صارم سے کروا دیں۔یہ تو ویسے بھی آپکا صابر شاکر بچہ ہے"۔

"فضول باتیں مت کرو۔میں نے اسے ہمیشہ تمہارے لیے سوچا ہے"۔

"تو اب صارم کے لیے سوچ لیں نا۔ایک منٹ ایک منٹ کہیں صارم آپکا سوتیلا بیٹا تو نہیں جس کے بارے میں آپ کبھی اچھا نہیں سوچ سکتیں۔لے صارم بیٹا ڈیڈی سے پوچھ کہاں ہیں تیری ممی"۔اس نے ڈیڈی کو آنکھ مارتے ہوئے صارم سے کہا ۔ڈیڈی اور صارم دونوں اسکی شرارت سمجھ کر ہنس پڑے۔

"چل کیا رہا ہے تمہارے دماغ میں آخر ۔ایک بات کان کھول کر سن لو۔اس گھر میں اگر کوئی لڑکی تمہاری بیوی بن کر آئے گی تو وہ صرف اور صرف نیہا ہے"۔سارہ نے سخت نظروں سے اسے دیکھا۔

"اوکے ممی اوکے۔لیکن پانچ سال سے پہلے تو ہرگز نہیں۔ اگر زیادہ جلدی ہے تو صارم ہے نا" ۔وہ پھر سے صارم کو چھیڑتا ہوا سارہ کا دل ہولا گیا۔

"اوکے ڈیڈی۔ میں چلتا ہوں اب ٹائم ہو رہا ہے"۔

"اوکے" ۔

طلال بھی اسکی طرف سے مطمئن ہو گئے تھے۔وہ پوری دلجمعی سے تو نہیں مگر بھر بھی تھوڑی بہت بزنس میں دلچسپی لے رہا تھا اور بزنس تو فیلڈ ہی ایسی ہے جو ایک بار اس میں قدم رکھ دے وہ ساری زندگی اس کے چارم سے باہر نہیں آ سکتا۔طلال یہ بات اچھے سے جانتے تھے۔

____________________________________

"اب تک تمہارا رونا بند نہیں ہوا۔بھول جاؤ سب کچھ اب یہی تمہاری قسمت ہے"۔رات کو وہ عورت پھر اس کے پاس آئی۔

"نہیں۔۔۔ہرگز بھی نہیں۔میں تمہیں تمہارے گھٹیا ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دونگی۔میں خودکشی کر لوں گی مگر یہ کام نہیں کر سکتی۔تمہارے جیسی گری ہوئی نہیں ہوں جس کی پیسہ دیکھ کر ہی رال ٹیک پڑے"۔وہ ہذیانی انداز میں چلائی۔

مگر اس عورت کا زناٹے دار تھپڑ منہ پر پڑتے ہی وہ اوندھے منہ بیڈ پر گری۔اس نے جھٹکے سے اسے بالوں سے پکڑ کر اٹھایا۔

"امی"! اسکے لبوں سے ہلکی سی چیخ نکلی۔

"ابھی تو امی یاد آئی ہے نا ایک رکھ کر اور دونگی تو نانی بھی یاد آ جائے گی۔جو میں کہہ رہی ہوں چپ چاپ مان جاؤ ورنہ گھی مجھے ٹیڑھی انگلی سے بھی نکالنا آتا ہے"۔

اس کی خطرناک نظریں خود پہ جمی دیکھ کر عدن کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

"دیکھو مجھ۔۔۔۔مجھے چھوڑ دو۔۔۔تم۔۔۔۔تمہیں پیسے چاہیے نا جتنے کہو گی میرے بابا اس سے ڈبل پیسے تمہیں دے دیں گے.میں ہاتھ جوڑتی ہوں تمہارے آگے خدا کے لیے مجھے چھوڑ دو۔میں ایسی لڑکی نہیں ہوں"۔

"تم جیسی بھی ہو اب بالکل ویسی ہو جاؤ گی جیسا میں چاہتی ہوں۔عالیہ اسے اچھا سا تیار کرنا۔ویسے تو اسے ضرورت نہیں ہے مگر پھر بھی کل رات بہت بڑی محفل ہے۔اس کے مطابق کر دینا۔ابھی سے اسکے فیس کی کلینزنگ شروع کرو"۔

"خبردار میرے پاس بھی مت آنا ورنہ ہاتھ توڑ دوں گی تمہارے"۔جیسے ہی وہ لڑکی اس کی جانب بڑھی عدن نے اسے دھکا دیا وہ سیدھا ڈریسنگ ٹیبل کے کارنر سے ٹکرائی۔

پاس کھڑی عورت نے تھپڑوں سے اسکا چہرہ لال کر دیا۔

"سمجھتی کیا ہو تم خود کو۔بڑی آئی نیک پروین۔دوبارہ ایسی حرکت کی تو جان نکال دو گی۔چلو عالیہ اسے ایسے ہی چھوڑ دو۔اس کی اکڑ تو کل رات کو نکالوں گی میں"۔وہ اسے بیڈ پہ پٹخ کر باہر نکل گئی۔مہہ جبین کی ہیل کی ٹک ٹک اس کے دماغ پہ ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھی۔

___________________________________

ساری رات اس نے فرش پہ بیٹھ کر رب کے آگے گڑگڑاتے ہوئے گزاری تھی۔

"یا اللہ! ایسا کونسا گناہ ہو گیا میرے سے جس کی اتنی کڑی سزا مل رہی ہے۔یہ کس امتحان میں ال دیا مجھے۔اللہ پلیز میرے دامن کو داغدار ہونے سے بچا لیں۔میری مدد کریں۔صرف آج کی رات ہے میرے پاس۔کیا ہو گا میرے ماں باپ کا وہ تو کبھی دنیا والوں کے آگے سر نہیں اٹھا سکیں گے۔میرے نامہ اعمال میں کوئی ایک نیکی بھی موجود ہے تو اس کے بدلے مجھے یہاں سے نکال دے ۔اس آزمائش کو ختم کر دے۔میری عزت کی حفاظت کرنا میرے اللہ"۔

وہ ہاتھ اوپر کی جانب اٹھائے بند آنکھوں سے دعا مانگ رہی تھی۔آنسو اسکے ہاتھوں کے پیالے میں جذب ہو رہے تھے۔ 

صبح ہونے تک وہ فرش پہ اکڑوں بیٹھی رہی۔

مہہ جبین نے کمرے سے وہ ہر چیز اٹھوا دی تھی جس سے وہ خود کو کسی بھی طرح کا نقصان پہنچا سکتی۔ہر آدھے گھنٹے بعد کوئی نہ کوئی لڑکی آ کر اسکی خیریت کی یقین دہانی کر رہی تھی۔وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔

وہ بمشکل اٹھ کر بند کھڑکی کے پاس آئی۔کہیں کوئی روزن نظر نہیں آ رہا تھا۔وہ جو اماں کی دس آوازوں پر بھی نہیں اٹھتی تھی اب نیند اس سے کوسوں دور تھی۔اس نے پھر سے آنکھیں بند کر کے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی۔

____________________________________

تمام مالدار لوگ آج رات کی محفل میں شرکت کے لیے جمع ہو رہے تھے۔مہہ جبین نے ہر کسی کو دعوت دی تھی۔

"کیا ہے یہاں پہ۔ بلاوجہ منہ اٹھا کر آ گئے ہو تم لوگ۔ میں جا رہا ہوں مجھ سے نہیں بیٹھا جا رہا"۔وہ بیزار سا آنے والے لوگوں دیکھ رہا تھا۔عجیب سی قسم کی بے چینی ہو رہی تھی۔

"کیوں تو نے جا کر کس جگہ کا افتتاح کرنا ہے۔تھوڑی دیر بیٹھ جا۔چلتے ہیں پھر"۔احمر نے اسے بازو سے پکڑ کر واپس بٹھا لیا۔

لوگوں کی مڈ بھیڑ دیکھتے ہی مہہ جبین اٹھ کر باہر چلی گئی۔اس کا رخ تہہ خانے میں بنے کمروں کی جانب تھا۔

اک جھٹکے سے کمرے کا دروازہ کھلا۔عدن کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔

"چلو"۔

"کہاں۔۔۔کہاں لے جا رہی ہو مجھے"۔

"تمہارے ولیمے پر لے جا رہی ہوں بنو رانی چلو گی نا"۔مہہ جبین نے سختی سے اسکو بازو سے پکڑ کر اٹھایا۔

"خدا کے لیے مجھ پر رحم کرو۔۔۔مجھ۔۔مجھے کہیں نہیں جانا۔کہیں نہیں جانا مجھے۔۔پلیز مجھے چھوڑ دو"۔

"منہ بند کرو اور خاموشی سے چلو۔زیادہ چوں چراں کی تو ٹکرے ٹکڑے کر دونگی"۔اس نے زور سے اسے بالوں سے پکڑ کر جھٹکا دیا۔

"نہیں۔۔۔۔۔۔کہیں نہیں جاؤں گی میں۔۔چھوڑو مجھے"۔

وہ اسی طرح اسے گھسیٹتے ہوئے کمرے سے باہر لے گئی۔

"یار کچھ بھی نہیں ہے یہاں پہ۔اٹھو چلیں۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے"۔

"کیوں کیا ہوا" ؟

"پتہ نہیں۔۔۔۔گھبراہٹ سی ہو رہی ہے"۔

"تم تو ایسے کر رہے ہو جیسے پہلی بار یہاں پہ آئے ہو۔جہاں اتنی دیر بیٹھ گیا ہے وہاں تھوڑی دیر اور بیٹھ جا کونسی قیامت آ جانی ہے۔گئی تو ہے وہ ابھی باہر۔آ تو جائے وہ، پھر چلتے ہیں اکٹھے"۔

احمر کی بات سن کر اس نے پاس پڑی پانی کی بوتل اٹھا کر منہ کو لگا لی لیکن اگلا منظر دیکھتے ہی وہ دوسرا گھونٹ حلق سے نیچے نہ اتار سکا۔

__________________________________

آج مہہ جبین کے کوٹھے پر اس لڑکی کی بولی لگ رہی تھی جس نے ساری زندگی اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کی تھی۔سب تماشائیوں کی نگاہیں آنے والی لڑکی پر تھیں جس کا ایک بازو مہہ جبین نے سختی سے پکڑا ہوا تھا۔تبلے اور ڈھولکی کی آوازیں آنا بند ہو گئیں تھیں۔اس نے اسے گھسیٹتے ہوئے درمیان میں لا کر کھڑا کر دیا۔معصومیت اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ سب لوگ اسے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہے تھے۔اس کے گرد لپٹا دوپٹہ مہہ جبین نے جھٹکے سے کھینچ کر دور پھینک دیا۔اس نے بے بس نظروں سے اس جلاد صفت عورت کو دیکھا۔

"خدا کے لیے ایسا مت کرو۔میں ایسی لڑکی نہیں ہوں"آنسو زمین پر گر رہے تھے۔

مگر مہہ جبین نے اپنی انگلیاں اس کے بازو میں پیوست کر دیں۔

"شروع کریں بولی"اس کی مکروہ آواز گونجی۔

"دو لاکھ"۔۔۔اک خریدار کی آواز آئی۔

"پانچ لاکھ"۔۔

"سات لاکھ"۔۔۔۔لوگ بڑھ چڑھ کر اس کی قیمت لگا رہے تھے۔

ن میں اکثریت ان سیاسی شخصیات کی تھی جو شرافت کا چولا پہنے باقیوں کی نطروں میں دھول جھونک رہے ہوتے ہیں۔ 

اس کے وجود پہ لرزہ طاری ہو گیا۔اس نے سختی سے اپنی آنکھیں میچ لیں۔

"نہیں اللہ۔۔اللہ پاک اس ذلت کی زندگی سے بہتر ہے آپ مجھے موت دے دیں۔میں یہ زندگی نہیں گزار سکتی۔مجھے عزت کی موت دے دیں۔ان بھیڑیوں سے بچا لیں مجھے۔میں یہ سب نہیں سہہ سکتی۔مجھے اس مشکل میں اکیلا نہ چھوڑیں۔آپ تو شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔میری عزت کی حفاظت کریں مجھے یہاں سے بچا لیں "آنسو اسکی آنکھوں سے نکل کر کارپٹ میں جذب ہو رہے تھے۔ اسکا جھکا ہوا سر کچھ اور جھک گیا۔وہاں بیٹھے تمام "عزت دار" لوگ اس انمول لڑکی کا مول لگانے میں اک دوسرے سے بڑھ رہے تھے۔ 

لیکن وہ ساکت بیٹھا اسکے لرزتے ہاتھوں کی پشت پر گرتے آنسو دیکھ رہا تھا۔یہ نہیں تھا کہ اس نے کبھی خوبصورت لڑکیاں نہیں دیکھی تھیں اسکے سرکل میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت لڑکی تھی لیکن سامنے کھڑی لڑکی میں کچھ اور تھا۔وہ سب سے منفرد تھی۔

"میں نہیں جاؤں گا میرے پاس ٹائم نہیں ہے۔کیا رکھا ہے یہاں پہ بلاوجہ منہ اٹھا کر آ گئے ہو تم لوگ"۔احمر نے جب اسے ہر چیز سے غافل سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھتے ہوئے پایا تو فوراً اس کے کچھ دیر پہلے والے الفاظ واپس لوٹائے۔مگر اس کے وجود میں احمر کی بات سننے کے بعد بھی کوئی حرکت پیدا نہیں ہوئی۔

"دس لاکھ"۔۔۔۔اک اور تماشائی کی آواز آئی۔مہہ جبین کی باچھیں کھل گئیں۔

اردگرد کیا ہو رہا تھا اس سب سے بے خبر وہ یک ٹک اسکو دیکھ رہا تھا۔مہہ جبین نے چاروں طرف دیکھ کر گنتی شروع کی۔

"دس لاکھ ایک"۔۔۔۔۔۔"اللہ جی پلیز مجھے بچا لیں۔یہ ظلم۔میرے ساتھ نہ ہونے دیں"۔

وہ آنکھیں بند کیے ہوئے اللہ کو پکار رہی تھی۔

"دس لاکھ دو"۔۔۔۔۔اس کی سانس مدھم ہو گئی تھی۔

"نہیں اللہ نہیں پلیز نہیں"۔

"پچاس لاکھ"۔۔سارے مجمعے کی خاموشی کو اس شخص کی سرد آواز نے توڑا تھا ۔

اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھول کر آواز کی سمت دیکھا۔اس کے دوستوں سمیت سارے مجمعے کو سانپ سونگھ گیا۔مہہ جبین کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔وہ اب بھی اسکو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔

"تو۔۔۔تو۔۔۔پاگل ہو گیا ہے کیا؟ پچاس لاکھ میں لڑکی خریدے گا۔۔۔۔پچاس لاکھ میں؟ انکل تجھے ایک سیکنڈ میں گھر سے نکال دیں گے۔کوئی عقل سے کام لے"۔احمر کو سب سے پہلے ہوش آیا۔لیکن وہ اسکی بات ان سنی کرتا چیک بک نکال کر رقم لکھنے لگا۔

"او بھائی۔۔۔کونسی مصیبت گلے ڈلوانے لگے ہو۔تم نے کیا کرنا یے اسکا۔ہم یہاں اس لیے نہیں آئے تھے۔پلیز ٹرائے ٹو انڈرسٹینڈ۔ڈونٹ دو دس۔"

چیک پر پچاس لاکھ کی رقم لکھے دیکھ کر احمر کا سر واقعی گھوم گیا۔

مگر اس نے اک بار پھر سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا اور چیک پہ سائن کر دئیے۔

"یار ایک با ٹھنڈے دماغ سے سوچ لے۔پچاس لاکھ کوئی معمولی رقم۔نہیں ہے"۔ارسلان بھی آہستہ آہستہ کومہ سے باہر آ ہا تھا۔

وہ ان سب کو نظر انداز کرتے ہوئے اک ٹرانس کی کیفیت میں اٹھا اور اس لڑکی سامنے جا کھڑا ہوا۔اسے قریب آتا دیکھ کر مہہ جبین کی گرفت خود بخود ڈھیلی پڑ گئی۔اس نے جھٹکے سے چیک مہہ جبین کے منہ پر دے مارا۔

"اسکا واقعی دماغ خراب ہو گیا ہے۔میں یہاں اسے اس لیے تھوڑی لایا تھا کہ وہ اکٹھے پچاس لاکھ ایک بار ہی اس کے منہ پہ مار دے"۔احمر کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔

"تجھے ہی آگ لگی ہوئی تھی اسکو یہاں لانے کی۔اب ایک آنہ نہیں دے گی یہ عورت ہمیں"۔شارق کا حال بھی ان سے کم نہ تھا۔

"احمر تو روک اسے انکل کو جانتا ہے نا اسکے ساتھ ساتھ وہ ہمیں بھی کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔کسی طرح سے اسے روک لے"۔

ارسلان نے احمر کو ہلایا۔

احمر کے گلے میں گلٹی بار بار ابھر رہی تھی۔

مہہ جبین اب بھی بے یقینی سے کبھی چیک کو تو کبھی سامنے کھڑے لڑکے کو دیکھ رہی تھی۔آج تک کسی نے پچاس لاکھ قیمت نہیں بھری تھی۔وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا ہوا تھوڑا پیچھے ہٹا اور جھک کر زمین پہ پڑے دوپٹے کو اٹھا کر واپس سامنے کھڑی لڑکی سر پہ ڈال دیا۔اب کی بار عدن کو بھی جھٹکا لگا تھا۔

وہ طوائف کے کوٹھے پر کھڑی لڑکی کے سر پہ چادر ڈالنے والا پہلا مرد تھا۔

وہاں آنے والے مردوں میں وہ واحد شخص تھا جس کی آنکھوں میں اسے ہوس نظر نہیں آئی۔

کیا اسکی دعائیں قبول ہو گئیں تھیں۔کیا واقعی اسے خدا نے بے آسرا نہیں چھوڑا تھا؟

اس نے آہستگی سے عدن کا ہاتھ تھاما اور اسے لیے کوٹھے کی دہلیز پار کر گیا۔وہ بے جان گڑیا کی طرح اس کے ساتھ گھیسٹتی ہوئی چلی گئی۔

سب لوگ آنکھیں پھاڑے اور منہ کھولے اسے جاتا دیکھ رہے تھے۔

"یار پلیز ایسا مت کر ۔دیکھ میری بات سن۔تو کہتا ہے تو میں ابھی مہہ جبین سے بات کر لیتا ہوں۔انکل کو بھنک بھی پڑ گئی تو تجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔میں تجھے یہاں اس لیے تھوڑی لایا تھا کہ تو ایک بار ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"احمر دوڑتے ہوئے اس کے پیچھے آیا تھا۔

"میرے راستے سے ہٹ جاؤ"۔اس کی سرخ آنکھوں اور سرد آواز سے ایک بار تو احمر بھی دہل گیا۔وہ الٹے قدموں پیچھے ہٹتا گیا۔

اس نے فرنٹ ڈور کھول کر عدن کو اندر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔وہ ایک دم ہوش میں آئی۔

"کہاں۔۔۔۔۔کہاں لے کے جا رہے ہو تم مجھے۔۔میں نہیں جاؤ گی تمہارے ساتھ"۔

"خاموشی سے گاڑی میں بیٹھو۔کھا نہیں جاؤں گا میں تمہیں"۔کہتے ساتھ ہی اس نے جھٹکے سے اسے فرنٹ سیٹ پر پٹخ دیا۔

ڈرائیونگ کرتے ہوئے بھینچے ہوئے ہونٹ اور سٹیرنگ پہ سخت گرفت اس کے اندر اٹھنے والے طوفان کا پتہ دے رہے تھے۔وہ بالکل دروازے کے ساتھ چپک کر بیٹھی مسلسل آیت الکرسی کا ورد کر رہی تھی۔

"تم کہاں لے جا رہے ہو مجھے۔۔۔۔پلیز مجھے چھوڑ دو۔میں کوئی ایسی ویسی لڑکی نہیں ہوں۔مجھ پہ رحم کرو۔۔۔۔۔۔۔ مجھے نہیں جانا تمہارے ساتھ"۔

ڈرائیونگ کرتے ہوئے اس نے صرف ایک نظر رحم کی بھیگ مانگتی اس لڑکی پر ڈالی۔اس کی سخت نظروں کے بعد دوبارہ عدن میں سارے راستے اسے مخاطب کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔

گاڑی خوبصورت سے علاقے میں بنے ایک فلیٹ کے سامنے رکی۔

"آؤ میرے ساتھ"۔۔۔۔۔۔اب وہ فلیٹ کا لاک کھول رہا تھا۔

عدن اب تک گاڑی کا دروازہ تھامے کھڑی تھی۔

"اندر آو"۔۔۔۔۔

"نہیں۔۔۔میں نے نہیں آنا"۔۔۔۔وہ روتے ہوئے سر نفی میں ہلا رہی تھی۔وہ کیسے اسکا اعتبار کرتی تھا تو وہ بھی ایک مرد نا۔اور اب اسے پتہ نہیں کہاں لے آیا تھا۔ دنیا پر سے اعتبار تو بہت پہلے ہی اٹھ چکا تھا۔

"اک بار کا کہا سمجھ نہیں آتا کیا؟

"نہیں میں نے نہیں آنا"۔۔۔۔

" بے فکر رہو کچھ نہیں کہوں گا تمہیں۔۔اندر آؤ اب"۔

وہ کانپتی ہوئے اچھی طرح دوپٹہ لپیٹ کر دروازے میں آ کھڑی ہوئی۔

"اس گھر میں کھانے پینے کی ہر چیز موجود ہے۔اب تمہیں یہیں رہنا ہے۔دروازہ میں باہر سے لاک کر کے جا رہا ہوں۔ کوئی بھی آئے تو ہرگز دروازہ نہیں کھولنا۔غلطی سے بھی انٹرکام نہ اٹھانا۔ورنہ انجام کی ذمہ دار تم خود ہو گی"۔

وہ ایک کے بعد ایک بم اس کے سر پہ پھوڑ رہا تھا۔

"کیا۔۔۔۔کیا مطلب ہے آپکا؟کون ہے یہاں پہ؟کیوں چھوڑ کر جا رہے ہو مجھے یہاں۔دیکھیں آپ جو کوئی بھی ہیں پلیز میرے ساتھ ایسا مت کریں۔مجھے ایک دلدل سے نکالنے کے بعد دوسری میں مت ڈالیں"۔

اس،نے بد حواسی سے ایک نظر اس فرنشڈ فلیٹ کو پھر سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا۔

"جو کوئی نہیں ہوں میں دائم طلال نام ہے میرا۔۔۔اور اب آپکو یہیں رہنا ہے۔باہر کی دنیا تو دیکھ ہی چکی ہیں اس لیے جو کہہ رہا ہوں اس پہ عمل کریں۔یہاں آپ بالکل محفوظ ہیں۔گھر میں ہر چیز موجود ہے کوئی تنگی نہیں ہو گی۔ویسے تو یہاں پر کوئی آئے گا نہیں لیکن پھر بھی احتیاط لازم ہے"۔

اس نے دروازے میں منہ کھولے ساکت کھڑی عدن کے پاس آ کر کہا 

"آپکا نیم"؟

"عدن"۔

"برائے مہربانی میرا راستہ چھوڑیے مس عدن"۔

وہ اسے راستے سے ہٹا کر دروازہ باہر سے لاک کرتا ہواچلا گیا۔کچھ دیر بعد گاڑی کے سٹارٹ ہونے کی آواز آئی۔وہ وہیں دروازے کے پاس زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔

وہ کتنی ہی دیر خالی الزہنی کیفیت کے ساتھ وہیں بیٹھی رہی۔صرف ایک کمرے میں مدھم سی لائٹ چل رہی تھی۔رات کا پچھلا پہر گزر رہا تھا وہ وہیں بیٹھی خوفزدہ انداز میں سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔اچانک کوئی ہیولا سامنے والے کمرے میں نمودار ہوا۔بے ساختہ چیخ حلق سے برآمد ہوئی۔زار و قطار روتے ہوئے وہ ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔پھر آہستہ آہستہ ہمت مجتمع کرتی اٹھی۔دوپٹہ ڈھلک کر کندھے پر آ گیا۔ارد گرد کوئی نہیں تھا۔وہ لرزتے قدموں سے سامنے والے کمرے کی جانب بڑھی۔صوفے کے پاس سے گزرتے ہوئے اچانک دوپٹہ صوفے کے کارنر میں پھنس گیا۔بجائے پیچھے مڑ کر دیکھنے کے وہ دوپٹہ وہیں چھوڑ کر دوڑتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔سب سے پہلے دروازہ لاک کیا۔سوئچ بورڈ میں لگے سارے بٹن آن کر دیئے۔کمرہ ایک دم روشنی میں نہا گیا۔کھڑکیوں پر دبیز پردے گرے ہوئے تھے۔دروازے کو ڈبل لاک لگا کر بھی خوف ختم نہیں ہو رہا تھا۔وہ اسی طرح کمرے کے وسط میں رکھے بیڈ پر ڈھے گئی۔ 

"یا اللہ یہ کہاں چھوڑ کر چلا گیا وہ مجھے۔کیسے رہوں گی میں یہاں۔اگر کوئی ادھر آ گیا تو۔۔۔۔۔۔آپ نے وہاں بھی میری حفاظت کی تھی مجھے بخیر و عافیت وہاں سے نکال دیا ۔۔۔۔یہاں بھی مجھے اکیلا مت چھوڑیے گا۔پتہ نہیں اور کتنا بھٹکنا لکھا ہے میری قسمت میں۔مجھے اس دربدری کے دکھ سے بچا لیں۔اگر آپ نے اس انسان کی شکل میں میرے لیے مسیحا بھیجا ہےتو اسکے دل میں خوف خدا کبھی ختم نہ ہونے دینا اللہ"۔

وہ گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے اور ان میں چہرہ چھپائے روتے ہوئے اللہ سے مخاطب تھی۔

"پچاس لاکھ"۔۔۔۔پھر سے وہی آواز کانوں میں گونجی۔اسکا سرد انداز یاد تے ہی ایک بار پھر پورا جسم لرز گیا۔کتنی مضبوطی سے اسکی کلائی تھامے وہ کوٹھے سے باہر آیا تھا۔کلائی پر انگلیوں کے سرخ نشان اب بھی موجود تھے۔

"اگر وہ اچھا انسان ہے پھر وہاں کیوں موجود تھا۔پچاس لاکھ کوئی ایسے ہی تو نہیں دے دیتا۔کیوں دئیے اس نے اتنے پیسے"

۔وہ اب بھی یہی سوچ رہی تھی۔

پہلے عزت کے چلے جانے کے خوف سے راتوں کو نیند نہیں آتی تھی اب ہر طرف سناٹا دیکھ کر وحشت ہو رہی تھی۔

کبھی کبھار سڑک پر سے کسی ٹریفک کے گزرنے کی آواز آتی۔لمحہ بھر کے بعد پر سے وہی خاموشی چھا جاتی۔۔سنسان سی جگہ کا خوف ہر شے پہ غالب تھا۔

_________________________________

اسے فلیٹ پہ چھوڑ کر وہ بلا وجہ سڑکوں پہ گاڑی دوڑاتا رہا۔ذہن اس وقت کچھ بھی سوچنے سے قاصر تھا۔رات گہری ہو رہی تھی۔سڑکوں پہ ٹریفک برائے نام تھی۔وہ کئی کئی کلومیٹر آگے جاتا پھر وہیں سے یو ٹرن لے کے واپس آ جاتا۔نہ جانے ان چند گھٹنوں میں وہ کتنی بار فلیٹ کے آگے سے گزرا تھا۔اب تک کتنی ہی سڑکوں پہ وہ گھوم چکا تھا۔بے سکونی ہر پل بڑھ رہی تھی۔تھک ہار کر اس نے سر سٹیرنگ پہ رکھ دیا۔سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔بالآخر رات کے تین بجے اس نے گاڑی گھر جانے والے راستے پہ ڈال دی۔گھر پہنچ کر گاڑی سے نکلنے کے بعد اس نے اچٹتی سی نظر اردگرد ڈالی۔ہال کی ساری لائٹس آن تھیں۔جلد ہی اس کی وجہ بھی سامنے آ گئی۔نیہا، سمعیہ خالہ،صارم اور ممی سب کے بولنے اور ہنسنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔

"ہائے دائم"۔۔۔

نیہا نے دور سے ہی دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔

وہ ان سب پہ بغیر کوئی نظر ڈالے سیدھا سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔

"دائم۔۔۔۔دائم۔۔۔۔۔اسے کیا ہوا "؟

ممی کی آواز پہ کان دھرے بغیر وہ اپنے کمرے میں چلا آیا۔

"نیہا جا کر دیکھو۔۔۔۔۔کیا ہوا ہے اسے"؟

نیہا کو تو جیسے اجازت ملنے کی دیر تھی تیر کی طرح سیڑھیوں کی طرف لپکی۔

ہینڈل پہ ہاتھ رکھ کر دروازہ کھولا وہ دونوں ہاتھوں سے سر تھامے بیڈ پہ چت لیٹا ہوا تھا۔

"کیسے ہو" ؟

وہ بیڈ کے ساتھ آ کر کھڑی ہو گئی۔

"ٹھیک"۔

"خیریت ہے اس طرح اٹھ کر کیوں چلے آئے"۔

"میں وہاں بیٹھا ہی کب تھا"؟

"تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا"۔

"کیوں مجھے کیا ہونا ہے"۔ 

"سر میں درد ہو رہا ہے کیا؟ میں دبا دوں"؟۔

"فی الحال تو میرا سر درد تم ہو۔پلیز لیو می الون۔جاؤ یہاں سے"۔

"تم۔۔۔تم۔۔مجھے جانے کا کہہ رہے ہو"۔

"اب دیواروں سے مخاطب ہونے سے تو رہا۔ظاہر ہے تمہیں ہی کہہ رہا ہوں"۔ 

"یعنی کہ تم کہنا چاہتے ہو میں آئندہ یہاں پہ نہ آؤں"۔

"آنے کی دعوت تو خیر میں نے تمہیں اب بھی نہیں دی۔پلیز گو فرام ہئیر۔ میں اس وقت کسی سے بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں"۔

"ہنہہ"۔وہ پیر پٹخ کر سارا غصہ دروازے پہ نکالتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔

اس نے زور سے کنپٹیوں پہ ہاتھ رکھ کر دبایا پھر سائڈ ٹیبل کے دراز سے ایک سلپنگ پل نکال کر پانی کے ساتھ نگل لی۔ایک دم کمرے میں گھٹن بڑھ سی گئی۔اس نے فوراً اٹھ کر ساری کھڑکیاں کھول دیں اور خود ٹیرس کی جانب کا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ریلنگ پہ جھک کر گہرے گہرے سانس لے کر خود کو کمپوز کیا۔نیچے لان میں ہر طرف ہو کا عالم تھا۔سارے پودے اور درخت ساکن کھڑے تھے جیسے کائنات میں ہر طرف سکوت چھا گیا ہو۔بس ایک وہی تھا جسے کسی پل چین نصیب نہیں تھا۔بے چینی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔اس نے ریلنگ پہ کہنیاں رکھ کر سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔

اللہ اکبر۔۔۔۔۔اللہ اکبر۔

دور سے آتی مؤذن کی آواز نے کائنات پہ چھایا سکوت توڑا تھا۔

بند آنکھیں اک دم کھلی تھیں۔

" کیوں کیا میں نے ایسا۔کیا ہوگیا تھا مجھے ان لمحوں میں۔کیوں خود پہ ہر اختیار ختم ہو گیا"۔

اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر۔

مؤذن کلمات دہرا رہا تھا۔

"وہاں پہ تو سینکڑوں لڑکیاں روز آتی اور جاتی ہیں۔روزانہ بیچی جاتی ہیں۔میرا کونسا کوئی رشتہ تھا اس سے ۔ پھر کیوں بچا لیا اسکو"۔

اشھد ان لا الہ الا اللہ۔۔۔۔۔۔۔اشھد ان لا الہ الا اللہ

"بغیر سوچے سمجھے پچاس لاکھ منہ پر مار آیا۔کیوں اسکی تکلیف برداشت نہیں ہوئی میرے سے"۔اس نے آنکھیں بند کر کے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی۔ایک بار پھر آنسوؤں سے بھری آنکھیں اور لرزتے ہاتھ آنکھوں کے سامنے آ رہے تھے۔

اشھد ان محمد الرسول اللہ

اشھد ان محمد الرسول اللہ

اذان کے کلمات کا اثر تھا یا کچھ اور ۔ایک آنسو آنکھ سے نکل کر ہلکی بڑھی ہوئی شیو میں جذب ہو گیا۔اپنی کیفیت خود بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔

حی علی الصلاح

حی علی الصلاح

وہ کمرے کی طرف واپس مڑ گیا۔چھوٹی سی شیشی میں سے دوسری گولی بھی نکال کر پانی کے ساتھ گزار گیا۔

حی علی الفلاح

حی علی الفلاح

وہ دکھتے سر کے ساتھ بیڈ پہ گر گیا۔

الصلاۃ خیر من النوم

الصلاۃ خیر من النوم

دو گولیاں کھانے کے بعد آنکھوں کے سامنے دھندلکا چھانے لگا۔

اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر۔

اک عجیب سی کیفیت اذان نے طاری کر دی تھی۔

لا الہ الا اللہ۔

وہ سر جھٹک کر اٹھا۔واش بیسن پہ جھک کر پانی کے چھینٹے منہ پہ مارے۔پھر اک ٹرانس کی کیفیت میں وضو کیا۔

آخری بار نماز کب پڑھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاید بہت سال پہلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں انٹر کا آخری سال تھا جب اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر سختی سے تمام لڑکوں کو کالج کے ساتھ ملحقہ مسجد میں ظہر کی نماز پڑھایا کرتے تھے۔ 

اور آج کتنے سالوں بعد وہ دوبارہ اسی رب کے سامنے سر جھکانے جا رہا تھا۔یہ بالکل لا شعوری عمل تھا۔جائے نماز ملنا تو نا ممکن تھا۔پہلے موبائل سے قبلہ رخ دیکھا پھر الماری سے ایک صاف شال نکال کر زمین پہ بچھائی۔

نیت باندھتے ہوئے اتنے آنسو آنکھوں میں کہاں سے جمع ہو رہے تھے وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔زبان لرز رہی تھی۔رکوع میں جاتے ہوئے اس کے آنسو پاؤں پر گر رہے تھے۔

وہ رونا نہیں چاہتا تھا مگر آنسو خود بخود امڈ رہے تھے۔آخری سجدہ کرتے ہوئے وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔

اک سکون سا تھا جو رگ و جان میں سرایت کر گیا۔دل پہ پڑا ہر بوجھ اتر گیا۔

نماز کے بعد دعا مانگنے کی ہمت نہیں تھی وہ وہیں شال پہ بے خبر سو گیا۔

__________________________________

دوبارہ آنکھ دن کے بارہ بجے کھلی

"اوہ نو"۔۔۔وہ فوراً سے گھڑی دیکھتے ہوئے واش روم کی جانب بڑھا۔

"ممی جلدی سے ناشتہ لگوادیں"۔

آدھے گھنٹے بعد وہ بلیک ٹو پیس میں سلیقے سے بال جمائے بالکل فریش سا سیڑھیاں اتر رہا تھا۔

"اب تو لنچ کا ٹائم ہونے والا ہے کچھ دیر ٹھہر جاؤ"۔

"نہیں آپ ناشتہ ہی لگوائیں۔مجھے آفس جانا ہے۔آل ریڈی اتنی لیٹ ہو چکا ہوں"۔

"کیوں رات کہاں رہے ساری۔جو اتنی دیر سے آنکھ کھلی"۔

اب بولنے والی نیہا تھی۔

"تم سے مطلب"؟

"مستقبل میں تمہارے سارے مطلب مجھ ہی سے وابستہ ہیں"۔

اسکی بات پہ بے اختیار مدھم سی ہنسی دائم کے ہونٹوں پہ بکھر گئی۔

"ویسے کب تک یہاں پڑاؤ ڈالنے کا ارادہ ہے" ؟

"تم سے مطلب؟میری خالہ کا گھر ہے۔جب تک مرضی رہوں"۔

"مستقبل میں تمہارے سارے مطلب مجھ ہی سے وابستہ ہیں"۔

نیہا نے غور سے اسے دیکھا۔آج پہلے والی شوخی غائب تھی۔

"آج رہنے دو آفس جانے کو۔اتنا اچھا موسم ہو رہا ہے کہیں باہر چلتے ہیں"۔

"نیور۔۔۔ آفس سے آف نہیں کر سکتا میں۔ڈیڈی نے سختی سے کہا ہوا ہے"۔

"ہاں۔۔۔جیسے آج تک تم ڈیڈی کی ہی مانتے آئے ہو نا"۔

"ظاہر ہے۔۔۔۔جس دن اپنا منوانے والی مل گئی تب اس کی بھی مانا کروں گا۔فی الحال تو ڈیڈی ہی کی مانتا ہوں"۔

نیہا کا دل سکڑ کر پھیلا ۔

"تو اب تک تمہیں ملی ہی نہیں اپنا منوانے والی"۔اس نے بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے پوچھا۔

"پلیز مجھے چھوڑ دو میں ایسی لڑکی نہیں ہوں۔خدا کے لیے مجھ پہ رحم کرو۔آپ جو کوئی بھی ہیں پلیز میرے ساتھ ایسا مت کریں مجھے ایک دلدل سے نکالنے کے بعد دوسری میں مت ڈالیں"۔

نیہا کی بات پر سوچوں کا رخ اک دم کسی اور جانب مڑ گیا تھا۔لمحے کے ہزارویں حصے میں وہ خود ساکت رہ گیا۔

"مجھے اس کا خیال اس وقت کیوں آ گیا"۔

وہ فوراً خود پہ قابو پاتے اٹھ کھڑا ہوا۔

"ممی میں جا رہا ہوں"۔

"رکو تو سہی۔عظمیٰ کو کہہ آئی ہوں میں ناشتے کا۔کر کے جانا"۔

"نہیں۔۔آفس میں کر لوں گا"۔

وہ خود سے الجھتا ہوا باہر نکل گیا۔

نیہا کی بے چین نظروں نے دور تک اسکا پیچھا کیا۔

____________________________________

وہ گھر جہاں ہر دم رونق لگی رہتی تھی اب وہاں خاموشیوں نے ڈیرے ڈال لیے تھے۔ہر کوئی دوسرے سے نظریں چرائے پھرتا۔ایک اور سورج نکل آیا تھا۔

بھابھیاں اپنے کام نمٹا رہی تھیں۔بابا صحن میں بچھی چارپائی پہ لیٹے آسمان کو تک رہے تھے۔آنکھوں کی نمی بتا رہی تھی وہ کیا سوچ رہے ہیں۔

اماں کو اب بھی ہر آہٹ پہ عدن کا گمان ہوتا۔سارا دن وہ کمرے میں بیٹھی اس کے کپڑوں،کتابوں اور تصویروں کو گلے لگا کر روتی رہتیں۔

"میری بچی اللہ جانے کس حال میں ہو گی۔کہاں ہو گی"۔

وہ بار بار عدن کی تصویر کو چوم رہی تھیں۔

"اماں اگر آہ کی یہی حالت رہی تو باقی سب کو کون سنبھالے گا۔عبداللہ بھائی نے بات کی ہے نا اپنے دوست سے انشاءاللہ بہت جلد ہماری عدن ہمارے پاس ہو گی۔اب اٹھیں باہر آئیں"۔

بھابی اماں کو بازو سے پکڑے باہر لے آئیں۔

تبھی گیٹ کے باہر کسی گاڑی کے ٹائر چرچرانے کی آواز آئی۔

بابا نے آنکھوں میں آئی نمی صاف کرتے ہوئے اٹھ کر دروازہ کھولا۔

گرے کرولا انکے گھر کے سامنے کھڑی تھی۔

سامنے آتے شخص کو دیکھ کر نواب عالم کے ماتھے پر شکنوں جال بکھر گیا۔

"السلام علیکم نواب عالم صاحب"!

"کیا لینے آئے ہو یہاں"؟

"لینے تو میں خیر بہت پہلے آیا تھا اب تو کچھ دینے آیا ہوں۔آندر تو آنے دیں۔کیا یہیں کھڑے کھڑے ساری باتیں کر لینی ہیں۔آئیے میں خود ہی آپکو لے چلتا ہوں۔کہیں میرے آنے کی خوشی میں بے ہوش ہی نہ ہوجائیں"۔

وہ ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اندر آیا۔نواب عالم نے سختی سے اسکا ہاتھ جھٹک دیا۔

"السلام علیکم تائی جان"!

وہ پیار لینے کو انکے آگے جھکا پر اماں نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔

"کمال ہے بھئی۔آپ لوگ تو جواب بھی نہیں دیتے"۔

وہ خود ہی جا کر بڑے ریلیکس انداز میں بیٹھ گیا۔

"ویسے نواب صاحب گھر آئے مہمانوں کو چائے پانی پلانے کا کوئی رواج نہیں ہے آپکے ہاں؟ بھابی! اچھی سی چاۓ بنا کر لے آئیں بغیر چینی کے۔اتنے دنوں سے مٹھائی کھا کھا کر تو ویسے ہی شوگر ہو گئی ہے"۔

بھابی بجائے کچن میں جانے کے ہنکار بھر کر وہیں اماں کے ساتھ بیٹھ گئیں۔

"اور کیسی طبیعت ہے آپکی تائی جان"۔

"کیا لینے آئے ہو تم یہاں"۔

"آپ لوگوں نے آپس میں کوئی صلاح مشورہ کیا ہوا ہے کہ گھر آئے بندے سے سب نے باری باری ایک ہی سوال پوچھنا ہے۔خیر میں تو تایا جان کے پاس افسوس کرنے آیا ہوں۔آنا تو اماں بھی چاہتی تھیں پر میں نے سوچا پہلے مجھے جا کر صورتحال معلوم کر لینی چاہیے آخر دکھ درد میں اپنے ہی اپنوں کے کام آتے ہیں"۔

اماں اور بابا نے الجھ کر اسے دیکھا جس کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی۔

"سچ میں دلی دکھ ہوا تایا جان!میں نے سنا ہے آپکی دختر نیک اختر گھر سے بھاگ گئی ہے۔چچ۔۔۔۔چچ۔۔۔۔کیا فائدہ ایسی اولاد کا اس سے بہتر تھا وہ پیدا ہوتے ہی مر چکی ہوتی۔کم سے کم اتنی کالک تو منہ پہ نہ لگتی"۔

"بکواس بند کرو اپنی"۔۔۔

"چھان بین نہیں کروائی آپ نے۔آخر کس کے ساتھ بھاگی ہے"۔

"میں کہتا ہوں اپنی بکواس یہیں بند کرو اور دفعہ ہو جاؤ میرے گھر سے"۔

مگر وہ بجائے دفعہ ہونے کے ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر تکیے کے ساتھ ٹیک لگا کے پہلے سے بھی زیادہ آرام دہ پوزیشن میں آ گیا۔

"آپ نے پولیس کو انوالو کیوں نہیں کیا۔ایسے معاملے میں تو ہماری پولیس بھی بڑی دلچسپی لیتی ہے۔کوئی نہ کوئی سراغ تو ملے گا ہی۔بلکہ میں تو کہتا ہوں اخبار میں اشتہار دے دیتے ہیں کہ'چوہدری نواب عالم کی اکلوتی دختر نیک اختر کسی اوآرہ لڑکے کے ساتھ رات کے اندھیرے میں گھر سے بھاگ گئی ہے۔اگر کسی کو صحیح سلامت مل جائے تو برائے مہربانی نواب صاحب کے گھر پہنچا دے اور نواب عالم بیٹی کے ساتھ ساتھ داماد کو بھی کھلے دل سے ویلکم کریں گے'۔آخر کو بہت براڈ مائنڈڈ ہیں نا آپ"۔

کہیے کیسا لگا؟

اماں کو بھابی نے فوراً سہارا دیا۔نواب عالم اسکی بات سن کر وہیں پڑی چارپائی پر گر گئے۔آخر کو کتنا سہہ سکتا ہے ایک باپ جس کی جوان بیٹی اتنے دنوں سے گھر سے غائب ہو۔کیسے کر سکتا ہے وہ لوگوں کے منہ بند۔ان کی رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی۔

"ارے نہیں نہیں ابھی سے بے ہوش نہیں ہونا آپ نے ۔پھر میں افسوس کس کے پاس کرونگا۔تائی جان آپ بھی ذرا سنبھالیں اپنے آپ کو۔پھر کیا ہوا اگر جوان بیٹی کچھ دنوں سے غائب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔آجائے گی اس میں فکر والی کونسی بات ہے"۔

وہ بڑی کمینی مسکراہٹ کے ساتھ نشتر پہ نشتر چلا رہا تھا۔

"بھابی چائے بہت مزیدار بنائی آپ نے۔ایمان سے مزہ آ گیا۔کیا آپکو بھی نند نے کچھ نہیں بتایا؟ مجھے تو پتہ چلا تھا آپ دونوں بڑی اچھی سکھیاں ہیں"۔

اتنے میں ہی گھر کا بیرونی گیٹ وا ہوا۔

راستے میں آتے عبداللہ کی نظر اچانک اٹھی۔گھر کے سامنے کار کھڑی تھی۔

"صبح صبح کون آ گیا"؟

وہ آگے بڑھنے ہی لگا تھا کہ قدم زمین نے جکڑ لیے۔

"گاڑی کا نمبر تو مجھے نہیں معلوم مگر ہاں وہ گرے کلر کی کرولا ہے اور اس شخص کے چہرے پہ ماسک ہوتا ہے ہم نے کبھی اس کی شکل نہیں دیکھی"۔

اسکی رگوں میں خون ابلنے لگا گھر میں وہ شخص موجود تھا جس نے ان کی عزت پہ ہاتھ ڈالا تھا۔اس کے قدموں میں برقی سی دوڑ گئی۔

سامنے چارپائی پہ بابا بے سدھ پڑے تھے۔فاطمہ اماں کے ہاتھ سہلا رہی تھی اور دوسری چارپائی پہ شاہانہ انداز میں بیٹھے شخص کو دیکھ کر ایسے لگا جیسے کسی نے کھولتا پانی اس کے سر پہ ڈال دیا ہو۔پل بھر میں ساری کہانی سمجھ آ گئی۔

"ارے آؤ آؤ چوہدری عبداللہ آؤ تمہارا ہی انتظار تھا مجھے۔اب تایا جان تو بالکل ہی ڈھے گئے ہیں باقی بچا افسوس تمہارے پاس ہی کر لیتا ہوں"۔

"کمینے،ذلیل انسان تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی یہ گھٹیا حرکت کرنے کی"۔

عبداللہ بپھرے شیر کی طرح اس پہ جھپٹا۔

"واہ یہ بڑا اچھا طریقہ ہے ویلکم کرنے کا۔لگتا ہے ابھی تک وہ اکڑ اور طنطنہ گیا نہیں"۔

"بکواس بند ۔عدن کہاں ہے"؟

اس نے آتے ہی اس کا گریبان پکڑ لیا۔

اماں نے لرز کر اسے دیکھا۔

"گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کے بھائیوں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اس طرح کی حرکتیں کریں"۔

اسکا اشارہ عبداللہ کے ہاتھوں کی طرف تھا۔

"اپنی زبان کو لگام دے۔صرف اتنا بتا میری بہن کہاں ہے"۔

"آخری اطلاعات کے مطابق تمہاری بہن اپنے کسی ہوتے سوتے کے ساتھ بھاگ گئی ہے"۔

میں نے کہا ہے بکواس نہیں۔صرف اتنا بتا کہاں ہے وہ۔میں جانتا ہوں یہ گھٹیا حرکت تو نے کی ہے۔تو ہی اسکا پیچھا کرتا تھا۔سیدھے طریقے سے بتا ورنہ یہیں گاڑھ دوں گا"۔

عبداللہ کی گرفت اس کی گردن پہ مضبوط ہو گئی مگر سامنے والے کی آنکھوں میں کسی قسم کا کوئی خوف نہ تھا۔

" مجھے گاڑھ کر اپنی بہن کا پتہ میرے فرشتوں سے پوچھو گے کیا" ؟

اس ی بات سن کر عبداللہ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔اماں کو تو سکتہ ہو گیا۔

"دیکھ جہانگیر مجھے بتا کہاں ہے وہ۔کیا کیا ہے تم نے اسکے ساتھ۔میں جانتا ہوں تم نے اسے کڈنیپ کیا ہے۔مجھے بتا دے ورنہ تجھے معلوم ہے میں کیا کرونگا تیرے ساتھ"۔

اس نے بمشکل اپنے حواسوں پہ قابو پایا۔جواب میں جہانگیر نے زور دار قہقہہ لگایا۔

"کیا کر لو گے۔زیادہ سے زیادہ پولیس کے پاس ہی جاؤ گے نا تو چلو میں بھی ساتھ ہی چلتا ہوں۔پر جانے سے پہلے یہ تو سوچ لو کوئی ثبوت ہے تمہارے پاس کہ اسے میں نے ہی کڈنیپ کیا ہے یا میں ہی اسکا پیچھا کیا کرتا تھا۔اب یہ نہ کہنا گاڑی کا کلر گرے تھا۔میرا خیال ہے پاکستان میں لاکھوں گرے کلر کی کارز ہیں اور جس گاڑی کے بارے میں تم آج کل انویسٹی گیشن کروا رہے ہو اسکی تو نمبر پلیٹ ہی جعلی تھی۔اور اس گاڑی والے کا چہرہ بھی ڈھانپا ہوتا تھا۔سو اب بتاؤ کیا ثبوت ہے"۔

اسکی بات سن کر عبداللہ کے چہرے پہ رنگ آ کر گزر گیا۔بابا تو اپنی سدھ بدھ ہی کھو بیٹھے۔

"کیا چاہتے ہو تم "؟

"جو چاہتا تھا وہ تو تم لوگوں نے دیا نہیں۔اب کیا فائدہ"۔

"دیکھو۔۔۔۔۔جہانگیر۔۔۔۔تم جیسا کہو گے میں۔۔۔۔۔ویسا ہی کرونگا۔۔۔۔۔۔۔مگر خدا کے واسطے مجھے بتاؤ عدن کہاں ہے۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔وہ زندہ تو ہے نا۔

"جہاں بھی ہو گی اب تو عیش کر رہی ہو گی۔اور ہو سکتا ہے شادی شدہ بھی ہو چکی ہو۔بھول جاؤ اسکو"۔۔۔۔

"بہن ہے وہ چوہدری عبداللہ کی اس پہ اک آنچ بھی آئی نا تو کتوں کو کھانے کے لیے تمہارے جسم کے ٹکڑے بھی نہیں ملیں گے"۔

"یہ دھمکیاں کسی اور کو دینا ۔جہانگیر عالم ان گیدڑ بھبھکیوں سے ڈرنے والا نہیں ہے"۔

اس نے جھٹکے سے عبداللہ سے اپنا گریبان چھڑوایا اور سر جھکائے بیٹھے نواب عالم کے پاس آ کھڑا ہوا۔

"اب تو یقین آ گیا نا نواب عالم! جہانگیر دوستی نبھائے نہ نبھائے دشمنی قبر تک نبھاتا ہے"۔

"جہانگیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"!

عبداللہ نے اسکے سر پہ پسٹل تان لیا۔

" آخری بار پوچھ رہا ہوں صحیح صحیح بتا دے ورنہ ٹانگوں پہ چل کر واپس نہیں جا سکو گے"۔

"نہیں۔۔۔۔عبداللہ۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔"

اماں کی چیخ پر وہ انکی جانب متوجہ ہوا جو دھڑام سے زمین پر گر کے بے ہوش ہو چکی تھیں۔

"خدا حافظ"۔

جہانگیر اک مسکراہٹ کے ساتھ خدا حافظ کہتا باہر کی جانب چل دیا۔

__________________________________

بابا کے ذہن سے آہستہ آہستہ ماضی پہ چھائے پردے سرکنے لگے۔

میر عالم کو گاؤں سے نکالنے کے بعدن انہوں نے اپنا ہر تعلق اس سے ختم کر لیا۔بہت سالوں تک وہ بالکل ایک دوسرے سے دور رہے۔

وقت گزرتا گیا۔پھر میر عالم کبھی کبھار گاؤں میں کسی خوشی غمی پہ آتے جاتے انہیں سلام کرنے لگے۔کچھ بھی تھا وہ بھائی تھا انکا نواب عالم زیادہ دیر تک سرد مہری نہ برت سکے۔میر عالم کی ملاقات ہمیشہ ان سے مردانے میں ہوا کرتی تھی۔اماں کو ان سب سے سخت بیر تھا اسی لیے میر عالم نے کبھی گھر کی دہلیز پار نہ کی۔

بچے اب جوان ہو رہے تھے۔دونوں کی اولاد اپنے اپنے باپ پر ہی گئی جہاں حیدر اور عبداللہ نے کبھی اونچی آواز میں باپ سے بات تک نہ کی وہیں میر عالم کی اولاد بالکل اپنے باپ جیسی ہی نا فرمان،اوآرہ اور گھٹیا مشاغل کی دلدادہ تھی۔نہ بچوں نے کبھی تمیز مانگی اور نہ ہی پروین چچی نے دینا مناسب سمجھا۔

ابھی کچھ ماہ پہلے ہی کی بات تھی میر عالم اور جہانگیر گاؤں میں ہونے والی کسی شادی میں شرکت کرنے آئے تھے۔رات وہ نواب عالم کے ہاں مردانے میں رکے۔میر عالم تو وہیں بیٹھے باتیں کرتے رہے مگر جہانگیر تائی کو سلام کرنے کی غرض سے گھر کی طرف آ گیا۔ابھی وہ گھر کے اندر ہی داخل ہوا تھا کہ کسی کے کھلکھلانے کی آواز کانوں سے ٹکرائی۔

وہ سامنے جھولے میں بیٹھی بھابھی سے باتیں کرتے ہوئے ہنس رہی تھی۔اتنے سالوں بعد آج وہ اس گھر میں آیا تھا سو فوری طور پہ اسے نہ پہچان سکا۔مگر اس کے نین نقوش میں تائی کی مشابہت واضح تھی۔وہ وہیں دروازے سے پلٹ آیا۔

گھر جا کر اس نے باپ سے عدن کے لیے بات کی۔میر عالم نے اسے سمجھانا چاہا مگر بیٹے کی ضد کے آگے انکی نہ چل سکی۔

نتیجتاً بیوی کے واویلا کرنے کے باوجود چند دنوں بعد وہ پھر سے نواب عالم کے سامنے تھے۔ان کی آمد کا مقصد سن کر کچھ دیر کے لیے نواب عالم بالکل خاموش ہو گئے۔

"بھائی جان۔۔ ہماری تو جیسے تیسے گزر گئی مگر میں چاہتا ہوں ہمارے بچے ایک دوسرے سے دور نہ ہوں"۔

"دیکھو۔۔۔میر عالم یہ نا ممکن ہے بچے اب بڑے ہو چکے ہیں۔میں انکی مرضی کے بنا کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔تم میرے بھائی ہو سو بار بھی آو مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر بچوں کی زندگی کے فیصلے میں یوں ان کی مرضی جانے بغیر نہیں کر سکتا"۔

"پھر بھی بھائی جان آپ ایک بار اچھی طرح سے سوچ لیں۔میری خواہش ہے زندگی کے آخری دنوں میں اب ہم اکٹھے ہو جائیں"۔

وہ نواب عالم کو بغیر کچھ کہنے کا موقع دئیے اٹھ کر چلے گئے۔

گھر آ کر بابا نے اماں سے بات کی۔

"آج میر عالم آیا تھا میرے پاس۔

"خیر تھی"؟

"جہانگیر کے لیے عدن کا رشتہ لینے"۔۔

"کیا"؟۔۔۔۔۔۔

اماں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے بابا کے پاس آ بیٹھیں۔

"کیا کہا آپ نے"۔

دبے لفظوں میں اسے منع کر دیا تھا مگر اس نے کہا ہے ایک بار پھر سے سوچ لیں۔

"آئے ہائے۔۔کس منہ سے آ گیا وہ۔ذرا شرم نہ آئی بھائی کے گھر کا ہی لحاظ کر لیتا۔بھول گیا ہے کیا۔۔ کیوں اسے گاؤں سے نکالا تھا۔جیسا خود ویسی آگے سے اولاد۔نا میں کہتی ہوں ایسی کون سی برائی ہے جو اس کولے کے منہ والے میں نہیں ہے بے شرم کہیں کے۔کس منہ سے میری پھولوں جیسی بچی کا رشتہ اس گدھے کے لیے لینے آ گیا۔در در کی خاک چھان کے اب اسے بھائی کی یاد گئی ہے۔

بھول گیا ہے وہ کس طرح سب نے تھو تھو کر کے اسے باہر نکالا تھا مگر مجھے تو ایک ایک لفظ یاد ہے۔اسی وقت آپ نے اس کے منہ پہ مارنی تھی کہہمیں بخشو۔۔۔۔۔ہم باز آئے تمہاری ان رشتہ داریوں سے۔

ہر دوسرے دن وہ بے شرم کسی نہ کسی کو ساتھ لئے گاڑی میں جھولے دے رہا ہوتا ہے۔شادی بھی کروالے ان سے۔شادی کرانے کو تایا کا گھر ہی نظر آیا کیا" ؟۔

اماں کو تو سنتے ہی پتنگے لگ گئے۔

"میں بتا رہی ہوں آپکو میں اپنی معصوم بچی کو اس جہنم میں نہیں جھونکوں گی"۔

"تو میں کونسا رشتہ پکا کر آیا ہوں۔جب دوبارہ آئے گا تو صاف صاف منع کر دوں گا"۔

"نہ تو اب پروین کی ناک نہیں کٹے گی ۔پھاپھا کٹنی نہ ہو تو"۔

اماں کو تو اب تک ہول اٹھ رہے تھے۔بابا ہی خاموشی سے اٹھ کر باہر چلے گئے۔عدن جو کمرے میں کھڑی ساری گفت و شنید سن رہی تھی بابا کے جاتے ہی اماں کے پاس آئی۔

"اماں آپ چاہے تو مجھے چولہے میں جھونک دیں۔میں مر جاؤں گی پر اس گھر میں کبھی نہیں جاؤں گی"۔

"مریں تمہارے دشمن کیوں اول فول بک رہی ہو اور تجھے کون بھیج رہا ہے وہاں پہ میرے جیتے جی ایسا نہیں ہو سکتا"۔

"ماں تو اسکی کہہ کر گئی تھی کبھی منہ نہیں کرونگی ادھر۔اب کیسے بھیج دیا شوہر کو رشتہ لینے ۔خود آتی ایک بار۔ گنجی کیے بغیر جانے نہیں دینا تھا میں نے۔آئی بڑی۔مجھے تو اس میر عالم۔کا آنا پہلے دن سے ہی کھٹک رہا تھا مگر تمہارے بابا کی وجہ سے خاموش رہی۔

اس کو بھی تو حیا نہ آئی آتے ہوئے۔اپنی بہن بیٹیاں نہیں ہیں تو کیا ہوا بندہ بھائی کی بیٹیوں کو تو اپنا سمجھے۔پر اس نے تو آج تک بھائی کو بھائی نہ سمجھا بھائی کی اولاد کو کیا سمجھے گا۔آتا ذرا ایک بار میرے سامنے سارے کرتوت کھول کر رکھ دیتی۔دل تو کر رہا ہے اس پروین کو جا کے ایسا گھماؤں جو اسکے سر پہ دو بال رہتے ہیں وہ بھی میرے ہاتھ میں آ جائیں"۔

اماں تو جلال میں آ گئیں تھیں۔باوجود پریشانی کے انکی باتوں پہ عدن کی ہنسی نکل گئی۔وہ چپکے سے وہاں سے کھسک لی۔

ہفتے بعد جب میر عالم جواب لینے آئے تو بابا نے صاف صاف لفظوں میں منع کر دیا۔وہ ضبط کے گھونٹ بھرتے واپس ہو لیے۔

__________________________________

گھر جا کر جیسے ہی میر عالم نے نواب عالم کا جواب بتایا جہاں چچی نے سکون کی سانس بھری وہیں جہانگیر کو آگ لگ گئی۔

"کیوں ان کی بیٹی کے لیے آسمان سے شہزادے اتریں گے کیا۔جو انہیں میرے میں برائیاں نظر آنے لگ گئی ہیں۔ابا آپکو تو بات ہی کرنے نہیں آتی سیدھا سیدھا جا کے کہتے کہ اس دن بارات لے کر آئیں گے پھر دیکھتا کس کی ہمت تھی آگے بولنے کی۔

"ارے چھوڑ مٹی ڈال ان پہ تیرے لیے لڑکیوں کی کمی ہے کیا۔ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی ہے پر تجھے ہی پتہ نہیں کونسے سرخاب کے پر نظر آ گئے اس چڑیل میں۔اپنے پتر کے لیے میں خود چاند سی لڑکی لاؤں گی"۔

"بس اماں۔۔۔اب تو دیکھتی جا میں کروں گا کیا۔اب تک تو وہ بد نامی نہیں بھولا جو گاؤں سے نکلتے وقت ہمارے حصے میں آئی تھی۔سارا کیا دھرا آپ کے بھائی کا ہے ابا۔اسے شروع سے ہی ہمارے سے بیر ہے۔آخری فیصلہ تو انہی کا تھا نا وہ نہ چاہتے تو کس کی ہمت تھی ہمیں گاؤں سے نکالنے کی۔مگر میں نے پھر بھی آپکو رشتہ لینے کے لیے بھیجا۔میں نے پہل کی ہر چیز ٹھیک کرنے میں۔لیکن آپ کے بھائی نے برسوں سے چھڑی آگ پہ اور تیل ڈال دیا ہے۔اب اس گھر کی تباہی میرے ہاتھوں لکھی ہے۔دیکھتا ہوں میں کون آتا ہے اس عدن بی بی کو بیاہنے"۔

"کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔۔۔کیا کرنے والے ہو تم"۔

"جب کرونگا تب چل جائے گا پتہ"۔

وہ غصے سے پاگل ہوتا گھر سے باہر نکل گیا۔ 

____________________________________

نواب ہاؤس میں رات کے اس وقت سب صحن میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔جب جہانگیر پاؤں کی ٹھوکر سے دروازہ کھولتا دندناتا ہوا ان کے سر پہ آ کھڑا ہوا۔

"یہ کیا بد تمیزی ہے" ؟

نواب عالم نےفوراً گرجے۔

"اچھا تو یہ بدتمیزی ہے وہ کیا تھا جو آج شام یہاں پہ ہوا۔ایسے بھی کونسے سرخاب کے پر لگے ہیں اس میں جو تم لوگوں کو سارے جہاں کی برائیاں مجھ میں نظر آ رہی ہیں"۔

اس،نے پاس کھڑی عدن کو دیکھ کر چباتے ہوئے کہا۔

"زبان سنبھال کر بات کرو اپنی۔تم دونوں کمرے میں جاؤ"۔

نواب عالم نے اماں اور عدن کو کمرے میں جانے کا اشارہ کیا۔اماں کے پیچھے کھڑی عدن بھاگ کر کمرے میں چلی گئی۔

"نہ اچھائی کونسی ہے تمہارے اندر جو میرے گھر میں آ کے بکواس کر رہے ہو۔دوبارہ میری بیٹی کے بارے میں ایک لفظ بھی کہا تو یہ ڈونگے جیسا منہ مار مار کے نیل و نیل کر دوں گی"۔

اماں کا تو اسے دیکھتے ہی دماغ گھوم گیا۔

"تم کمرے میں جاؤ"۔

بابا نے سخت نظروں سے اماں کو دیکھا وہ جہانگیر کو گھورتے ہوئے اندر چلی گئیں۔

"ایک بات یاد رکھنا نواب عالم!مجھے تو اب تک وہ سب نہیں بھولتا جو تم نے پہلے ہمارے ساتھ کیا تھا۔اب جو دوبارہ ہوا وہ تو ساری عمر نہیں بھول سکتا۔۔۔۔۔۔رکھو سینے سے لگا کے اپنی بیٹی کو۔دیکھتا ہوں میں کس کی ہمت ہے اس دروازے پہ بارات لانے کی۔۔۔۔۔۔تم لوگوں کو گڑگڑا کر مجھ سے معافی نہ مانگنی پڑی تو میرا نام بھی جہانگیر عالم نہیں ہے"۔

"دکھا دی اپنی اوقات ، اگر اب تمہاری بکواس ختم ہو چکی ہے تو اپنا منہ اٹھاؤ اور دفعہ ہو جاؤ یہاں سے"۔

عبداللہ نے مٹھیاں بھینچ کر کہا۔

"اور دوسری بات!جہانگیر دوستی نبھائے نہ نبھائے دشمنی قبر تک نبھاتا ہے"۔

وہ ایک قہر آلود نظر کمرے کی جانب ڈالتا ہوا جیسے آیا تھا ویسے ہی چلا گیا۔

____________________________________

دن یونہی بے کیف گزر رہے تھے۔نیہا اور خالہ تین دن ڈیرہ ڈالنے کے بعد واپس چلی گئی تھیں۔وہ گھر میں بھی غائب دماغ رہتا اور آفس آکر بھی اپنی سوچوں میں ہی الجھا رہتا۔گھر میں اس کی روٹین میں تبدیلی سب سے پہلے طلال ہی نوٹ کرتے تھے مگر انہیں تو آج کل گھر آنے کی بھی فرصت نہیں تھی۔ممی تو اس کو آفس بھیج کے بالکل ہی مطمئن ہو گئیں تھیں۔جیسے آفس آکر وہ ہر چیز ہی بھول جائے گا اور یہ سچ بھی تھا اس نے سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔احمر،ارسلان،شارق کے کالز،میسجز وہ پہلے پہل اگنور کرتا رہا پھر آخرکار ان سے ہر تعلق ہی توڑ لیا۔دوست،کلب،بارز ہر چیز سے ہی وہ منہ موڑ چکا تھا مگر سکون پھر بھی نہ تھا۔سارا دن وہ ایک ہی نقطے پہ سوچتا رہتا۔

"آخر کیا کرنا ہے میں نے اسکا۔کیوں لے آیا۔کب تک رکھ سکتا ہوں اسکو فلیٹ پہ۔۔۔۔اگر ڈیڈی کو پتہ چل گیا۔۔۔۔۔۔لیکن انہیں تو آج کل اپنا ہوش نہیں ہے میری خبر گیری کہاں سے کروائیں گے"۔

"مے آئی کم ان سر "۔۔۔۔

سوچوں کے تسلسل کو مینیجر کی آواز نے توڑا۔

"یس"۔

"سر ۔ہمدانی صاحب کے پروجیکٹ کی فائل دے دیں آج اسے فائنل کرنا ہے"۔

"جی۔۔۔۔کیا کرنا ہے"۔

"سر ۔ہمدانی صاحب کے پروجیکٹ کی فائل دے دیں آج اسے فائنل کرنا ہے"۔

"تو کر لیں آپ"۔

"مگر سر فائل آپکے پاس ہے"۔

"میرے پاس کہاں سے آئی"۔

"سر آپ نے کہا تھا میں چیک کر کے سائن کرونگا"۔

"اوہ شٹ۔۔۔۔۔سوری میں اسے دیکھ نہیں پایا۔۔۔۔۔آپ خود چیک کر لیں جہاں سائن چاہیے میں کر دونگا"۔

"سر آپ ٹھیک ہیں"۔

"یس آف کورس۔آپ فائل چیک کر کے لے آئیں"۔

ان کے جانے کے بعد اس نے پھر سے سر چیئر کے ساتھ ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں۔

تبھی علی نے آفس میں انٹری دی۔

"پتہ نہیں وہ اس جگہ پر پہنچ کیسے گئی۔کیا ہوا ہو گا اسکے ساتھ۔اف کہاں پھنس گیا ہوں میں۔کیا حل نکالوں اسکا"۔

وہ دبے قدموں چلتا اس کے پاس آ کھڑا ہوا۔ آخری فقرے اس نے واضح طور پر سنے تھے۔

"کس کا بیٹا۔مجھے بتا تیرے ہر مسئلے کا حل میرے پاس ہی ہوتا ہے"۔

کان کے پاس ابھرنے والی آواز سن کر وہ سپرنگ کی طرح اچھلا۔

"تم کبھی انسانیت کے دائرے میں نہ آنا"۔

"مسئلہ کیا ہے۔۔۔۔دیکھ اگر کوئی بزنس کا مسئلہ ہے تو ڈیڈی سے بات کر۔۔۔۔۔گھر کا کوئی مسئلہ ہے تو ممی سے کہہ۔۔۔ہاں اگر کسی لڑکی کا مسئلہ ہے تو تیرا بھائی حاضر ہے۔بتا میرے لائق کیا خدمت ہے" ؟

"شٹ۔۔۔۔اپ۔ایسی کوئی بات نہیں ہے"۔

"اچھا تو پھر یہ کیا تھا۔۔۔۔۔۔کہاں پھنس گیا ہوں میں کیا حل نکالوں اسکا"۔

اسکی بات پہ دائم نے بے اختیار شکر کیا پہلے جملے اس تک نہیں پہنچے تھے۔

"بس بزنس ہی کی ٹینشن ہے"۔

" بیٹا بزنس کی تو تجھے الف ب بھی نہیں پتہ۔آفس تو آتا ہی تو صرف کرسی توڑنے کے لیے ہے۔گھر کے معاملے میں کوئی دلچسپی ویسے ہی نہیں ہے۔بس پھر ایک ہی مسئلہ بچتا ہے"۔

"کیوں مجھے کیوں کچھ نہیں پتہ۔۔میرا بزنس ہے آخر کل کو بھی مجھے ہی سنبھالنا ہے اور آج بھی"۔

اس نے بے تاثر لہجے میں کہتے ہوئے لیپ ٹاپ آن کر لیا۔

"دائم"۔

"بولو"۔۔

"میں ایک ہفتے سے نوٹ کر رہا ہوں تم اپ سیٹ ہو۔کیا بات ہے یار کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتا"۔

"نہیں یار۔۔مجھے کیا ہونا ہے کہا تو ہے بس بزنس کی ٹینشن ہے"۔

جس دائم کو میں جانتا تھا وہ تو آج کل کہیں نظر نہیں آرہا بلکہ اب تو بچہ ماشااللہ سے پورے ایک وقت کا نمازی ہے۔ڈیڈی کی انگلی پکڑ کے آفس آتا ہے اور ناک کی سیدھ میں گھر جاتا ہے۔خیر تو ہے نا"!!

علی کے اس تجزیے پہ وہ بے اختیار ہنس پڑا۔

"ہم تو اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں کہیں کوئی عشق معشوقی والا معاملہ تو نہیں ہو گیا"۔

"مجھے عشق فرمانے کے علاوہ بھی بہت سے کام ہیں"۔

"مثلاً کیا" ؟

"مثلاً۔۔۔۔ آفس آ کر کام کرنے کی بجائے تیرے جیسے نکمے انسان کے ساتھ سر کھپانا اور۔۔۔ وغیرہ وغیرہ"۔

"ویسے تو مجھے یقین ہے تیرے ساتھ کسی نے اپنے نصیب نہیں پھوڑنے پھر بھی بتا کون ہے وہ پری پیکر جس نے دائم طلال کو اپنا گرویدہ کر لیا ہے"۔

اسکی بات پہ دائم کا دھیان ایک بار پھر بٹ گیا۔

"پتہ نہیں کیا کر رہی ہو گی وہ ۔ٹھیک بھی ہو گی یا نہیں۔وہاں چھوڑنے کے بعد ایک بار بھی خبر نہیں لی اسکی۔لڑکیاں تو ویسے ہی اتنی ڈرپوک ہوتی ہیں وہ کیسے رہ رہی ہو گی"۔

"اوہ۔۔۔ہیلو۔۔۔۔کہیں تو بھی تو نیا پاکستان بنانے کے بارے میں نہیں سوچ رہا۔تیری اطلاع کے لیے عرض ہے ہمارے لیے عمران خان ہی بہت ہے سو اپنے نادر خیالات سے باہر نکل آ"۔

"آج پیٹ بھرا ہوا ہے کیا جو آتے ہی ٹر ٹر شروع کر دی ہے"۔

"اللہ تیرے جیسا دوست ہر کسی کو دے۔۔۔۔میں آیا ہی اس لیے تھا چل اٹھ کہیں باہر چل کر لنچ کرتے ہیں"۔

"نو۔۔۔نو۔۔۔جب تک یہ فائل کمپلیٹ نہیں ہوتی میں نے ہلنا بھی نہیں ہے یہاں سے"۔

"یعنی کہ میں اکیلا ہی چلا جاؤں"۔

"آف کورس"۔۔

"بس ثابت ہو گیا تو ایک نمبر کا ڈھیٹ اور کھڑوس انسان ہے۔۔۔۔۔۔۔ آج کے بعد میں نے ہرگز تیرے پاس نہیں آنا۔خبردار جو مجھے فون کر کے بلایا۔۔۔۔۔تجھے یہ فائل زیادہ عزیز ہے نا۔۔۔۔۔۔۔تو مر ادھر ہی جا رہا ہوں میں"۔

یہ دھمکی ایک ہفتے میں تیسری بار اسے علی کی جانب سے ملی تھی۔

وہ بغیر اس پہ کان دھرے لیپ ٹاپ پہ مصروف رہا مگر سوچوں کی ڈور اب بھی کسی اور کے گرد الجھی ہوئی تھی۔

آج بہت دنوں بعد طلال احمد ناشتے کی میز پہ موجود تھے اور ناشتے کے ساتھ ساتھ اخبار پہ گزشتہ روز ہونے والی مخالفین کی پریس کانفرنس پڑھ رہے تھے۔

"آفس کیسا جا رہا ہے دائم"؟

انہوں نے خاموشی سے ناشتہ کرتے دائم کو مخاطب کیا۔

"دائم"؟؟

"جج۔۔۔جی ڈیڈی آپ نے کچھ کہا" ؟

"میں نے پوچھا ہے آفس کیسا جا رہا ہے کوئی پرابلم تو نہیں۔۔۔کیا پروگریس ہے" ؟

"میرے خیال میں تو اے ون ہے۔ باقی پروگریس آپ خود دیکھیے گا آ کر"۔

"ہاں چکر لگاتا ہوں میں آج۔کافی دن ہو گئے ہیں بہت سے کام پینڈنگ ہیں۔آج کچھ مصروفیت کم ہے لگے ہاتھوں ایک دو اور کام بھی نمٹا لیتا ہوں"۔

"اوکے۔ایز یو لائک۔۔۔۔۔کتنے پرسنٹ چانسز ہیں جیتنے کے"۔

"اس بار تو جیت ہماری ہی ہو گی۔مخالفین کا حال تو تم دیکھ چکے ہو۔اس بار حکومت بدل جائے گی۔پبلک سپورٹ ہی سب سے زیادہ چاہیے وہ آل ریڈی ہمارے ساتھ ہے"۔

" دیٹس گڈ۔پھر تو آپ کی سیٹ پکی ہے"۔

"آجکل میڈیا بہت آزاد ہو چکا ہے۔چھوٹی سی بات کا بھی ایشو بن جاتا ہے۔ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے۔تم ایسا کرو آفس کی سیکیورٹی بڑھا دو۔جتنی بھی اہم فائلز ہیں اور جو جو پراجیکٹس ہمارے انڈر ہیں۔سب کی فائلز بنک میں رکھوا دو۔خود بھی احتیاط برتو بغیر سیکیورٹی کے ہرگز باہر مت نکلنا۔ان دنوں میں مخالفین سب سے زیادہ بزنس اور فیملی کو ہی نقصان پہنچاتے ہیں۔آفس میں کیش بالکل نہ رکھنا۔کچھ بنک میں جمع کرواؤ باقی سارا گھر میں رکھو۔تنازعات بڑھ چکے ہیں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے"۔

"اوکے ڈیڈی"۔

"بلکہ تم مینیجر سے کہو آج ہی ساری فائلز اکٹھی کرے صرف سافٹ کاپیز اپنے پاس رکھو۔میں ایک دو کام نمٹا لوں پھر لگاتا ہوں چکر اور کسی بھی پارٹی کے بندے کو آفس میں گھسنے نہیں دینا اربوں کی مالیت کا سامان ہے وہاں۔آج کل یہ لوگ بہت اوچھی حرکتوں پہ اتر آئے ہیں۔سو بی وئیر"۔

"ٹھیک ہے پھر میں ابھی نکلتا ہوں۔آپ کے آنے تک سب کچھ کلیکٹ کر لوں گا"۔

"ہاں ضرور ۔میں بھی بارہ بجے تک آتا ہوں تب تک سب کچھ ہینڈل کرو"۔

وہ سر ہلاتا ہوا کی چین اٹھا کر باہر کی طرف بڑھ گیا۔

___________________________________

"ان الیکشنز کی وجہ سے تو میری سوشل لائف بالکل ختم ہو گئی ہے۔جلدی سے ہو جائیں تو جان چھوٹے۔گھر میں رہ رہ کر بور ہو گئی ہوں"۔

طلال کی ہدایات کی وجہ سے سارہ بھی بغیر ضرورت باہر نہیں نکلتی تھیں۔

"بس کچھ تو دن رہ گئے ہیں پھر سب نارمل ہو جائیگا۔آپ لوگوں پہ کوئی آنچ بھی آئے میں برداشت نہیں کر سکتا"۔

"اسی لیے میں احتیاط برتتی ہوں۔صارم نے تو غلطی کر لی پاکستان آ کے۔سارا دن گھر میں بور ہوتا رہتا ہے"۔

"ہاں بس کچھ دنوں تک صارم کی سیٹ بھی کنفرم کرواتا ہوں۔اس کی بھی سٹڈی کا حرج ہو گا"۔۔۔۔۔"ویسے دائم کو آفس بھیجنے کا خیال بہت زبردست تھا۔اسے آفس میں دلچسپی لیتے دیکھ کر اب میں بھی پر سکون ہو گیا ہوں۔وہ لا ابالی ضرور ہے مگر غیر ذمہ دار نہیں ہے"۔

"ہاں اب تو وہ آفس اور گھر کے درمیان گھن چکر بنا ہوا ہے۔سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ہے۔اچھا ہے اس کا یہی شیڈول رہے"۔

سارہ نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔کچھ دیر تک وہ ان کے ساتھ گھریلو معاملات ہی ڈسکس کرتی رہیں۔

"چلیں آج تھوڑا سا فری ہوں۔ایک بار اپارٹمنٹ کا جائزہ لے لوں پھر آفس بھی جانا ہے۔کل سے تو برڈن اور زیادہ ہو جائیگا۔آج ہی سارے کام ختم کرتا ہوں"۔

طلال تیار ہونے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔

____________________________________

شام تک اماں کو ہوش آ چکا تھا مگر انکے لبوں پہ قفل لگ گیا۔وہ خاموشی سے ہر ایک کی صورت دیکھ رہی تھیں۔

"آج یا تو عدن گھر آ جائے گی یا پھر میر عالم کے گھر کے کسی بندے کو صبح کا سورج نصیب نہیں ہو گا"۔

عبداللہ نے میگزین گولیوں سے فل کر کے جیب میں رکھا ۔آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی تھیں۔

"مجھے روکیے گا مت بابا۔۔۔اپنی عزت سے بڑھ کر مجھے کچھ بھی عزیز نہیں ہے۔جان بھی نہیں"۔

نواب عالم بالکل ساکت تھے وہ تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے بھتیجا اتنی کمینگی پر اتر آئے گا۔

"رک جاؤ عبداللہ"۔

وہ دو قدم ہی بڑھا تھا کہ اماں کی آواز پہ اس نے سختی سے آنکھیں بند کر لیں۔

"جوش کی بجائے ہوش سے کام لو۔میری بچی اس کے پاس ہے"۔

"اماں ٹھیک کہہ رہی ہیں بھائی۔ہمیں جذبات کی بجائے عقل سے کام لینا چاہیے"۔

"پھر کیا کروں میں تم بتاؤ مجھے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری بہن اس،کمینے،خبیث انسان کے پاس ہے۔میں کچھ نہیں کر پا رہا میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔مجھے یہ خیال جینے نہیں دے رہا کہ میری بہن اتنے دنوں سے اسکے پاس ہے۔میرا دل کر رہا ہے میں خود کو گولی مار لوں"۔

وہ آنسو چھپانے کو سر جھکا گیا۔

اماں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس کے پاس آ کھڑی ہوئیں۔

"مرد رویا نہیں کرتے عبداللہ۔اپنی بیٹی کو میں نے اللہ کی امان میں دے دیا ہے۔۔۔۔۔۔میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی جہانگیر اتنی ذلیل حرکت کرے گا کہ اپنے خاندان کی عزت کا پاس بھی نہیں رکھے گا۔۔۔۔۔۔اگر وہ اس حد تک جا سکتا ہے تو کچھ بھی کر سکتا ہے ۔۔۔تم۔۔۔تم مجھے اسکے گھر لے چلو۔۔۔۔۔میں ایک ایک بندے کی منت کرونگی۔۔۔۔۔۔پروین کے بھی پاؤں پکڑ لوں گی۔۔۔۔۔۔انہیں جو چاہیے ہو گا ہم انہیں وہ سب دے دیں گے۔۔۔۔۔بس مجھے میری عدن چاہیے اسے کہیں سے لے آؤ عبداللہ۔۔۔۔۔میں اس گھر کے ایک ایک فرد کے آگے ہاتھ جوڑ لوں گی وہ جو کہیں گے میں مانوں گی۔۔۔۔۔بس کہیں سے مجھے میری بچی لا دو میں مر جاؤں گی اس کے بغیر۔۔۔۔مر جاؤں گی میں"۔۔

اپنی رعب دار ماں کو اس حالت میں دیکھ کر عبداللہ اور حیدر دونوں کی آنکھیں برس پڑیں۔

"نہیں اماں آپکے بیٹے زندہ ہیں۔میں ان گھٹیا لوگوں کے آگے آپکو جھکنے نہیں دونگا۔عدن کو میں واپس لا کر رہوں گا یہ وعدہ ہے میرا"۔

"نہیں ۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔ جہانگیر کو کچھ نہیں کہو گے وہ ہمارے کیے کا بدلہ میری معصوم بچی سے لے گا۔تم بس مجھے اسکے گھر لے چلو"۔

"عبداللہ میر عالم کو فون کرو۔اسے کہو مجھ سے آ کر ملے ابھی اور اسی وقت"۔

بابا نے ٹھنڈے لہجے میں عبداللہ سے کہا۔

اس نے فوراً باپ کے حکم کیتعمیل کی۔نواب عالم اٹھ کر مردانے کی طرف چلے گئے۔

آج پہلی بار انہیں میر عالم کا بے چینی سے انتظار تھا۔

____________________________________

"السلام علیکم بھائی جان"۔

"خیریت تو ہے نا۔عبداللہ کا فون آیا میں فوراً اٹھ کر چلا آیا۔سب ٹھیک تو ہے نا"۔

آج سے پہلے کبھی نواب عالم کا بلاوا نہیں گیا تھا سو اسی لیے میر عالم حیران تھے۔

نواب عالم نے تولتی نظروں سے بھائی کو دیکھا۔

"کیا بات ہے بھائی جان"؟

"عدن کہاں ہے"۔

"عدن گھر پہ ہی ہو گی آپ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں"۔

میر عالم کو بہت کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔

"بچے نہیں ہو تم۔جو میری بات نہیں سمجھ رہے۔مجھے لگتا تھا تم سدھر چکے ہو مگر نہیں سانپ ہمیشہ سانپ ہی رہتا ہے اپنے بیٹے سے کہو شام سے پہلے میری بیٹی کو واپس پہنچا دے ورنہ تمہارا ببیٹا صبح کا سورج نہیں دیکھے گا"۔

"یہ۔۔۔۔یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا"۔

"میرے سامنے ذیادہ بھولے بننے کی ضرورت نہیں ہے"۔

"میرا یقین کریں مجھے کچھ علم نہیں ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں۔کہاں ہے عدن"۔

انہیں پہلی بار لگا تھا میر عالم سچ بول رہا ہے۔

"حالانکہ مجھے تمہاری بات پر یقین نہیں ہے پھر بھی سن لو میری بیٹی ایک ماہ سے گھر سے غائب ہے اور آج جہانگیر آیا تھا میرے پاس یہ اطلاع دینے کہ عدن کو اس نے اغواء کیا ہے۔میں جانتا ہوں کمینگی تم لوگوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے مگر تمہاری اولاد تم سے چار ہاتھ آگے ہو گی اسکا اندازہ نہیں تھا"۔

میر عالم صدمے سے گنگ ہو گئے۔

"یہ کیسے ہو سکتا ہے۔جہانگیر اتنا نہیں گر سکتا"۔

وہ یہی دو فقرے دہراتے ہوئے اٹھ کر چلے گئے۔

_______________________________

"تمہارا بیٹا یہ چاند چڑھائے گا کہ میری بھتیجی کو اٹھوا لے گا ۔تم نے کیا سوچا میں تمہیں زندہ چھوڑ دونگا۔بتا کہاں ہے وہ۔کہاں چھپایا ہے اس نے میری بھتیجی کو۔یہ نہ کہنا تم جانتی نہیں ہو ہر کام وہ تمہاری شہہ پر کرتا ہے۔بتاؤ کہاں ہے عدن"۔

میر عالم نے آتے ہی بیوی کو صحن میں گھسیٹ لیا۔

"تم اس منحوس کی وجہ سے میرے پہ ہاتھ اٹھاؤ گے"۔

"میں زبان کاٹ دوں گا تمہاری اگر آئندہ میرے بھائی یا انکے بچوں کو کچھ کہا۔بد زات عورت تم نے اجاڑ دیا میرا گھر۔مجھے میرے بھائی سے دور کر دیا۔۔۔۔۔میری اولاد کو میرے خلاف کر دیا۔۔۔۔۔میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا"۔

جہانگیر گھر آیا تو ابا کو غصے سے پاگل ہوتے اماں کو پیٹتے دیکھا۔

"یہ کیا کر رہے آپ۔دماغ خراب ہو گیا ہے کیا"۔

"بتا کہاں ہے میری بیٹی۔۔۔کہاں چھپایا ہے تو نے عدن کو"۔

انہوں نے اماں کو چھوڑ کر جھٹکے سے اس کا گریبان تھاما۔

"اچھا تو یہ وجہ ہے اس گرج چمک کی۔ واہ بھئی بڑی کوئیک سروس ہے آپکے بھائی کی"۔

"اپنی زبان کو لگام دے ۔بتا کہاں ہے عدن۔تو نے مجھے بھائی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا 

بے غیرت انسان۔اپنے خاندان کی عزت پہ ہاتھ ڈالتے ہوئے حیا نہ آئی تجھے۔میں مر کیوں نہ گیا اپنے بھائی کو اس حالت میں دیکھ کر"۔

میر عالم روتے ہوئے چارپائی پر بیٹھ گئے۔جس اولاد کے لیے سب کچھ کیا آج اس اولاد نے انہیں کنارے سے لگا دیا تھا۔

"بڑے ہول اٹھ رہے آج بھائی کے لیے۔بھول گئے ہیں کیا کیا تھا انہوں نے"۔

"منہ بند کر لے اپنا۔کچھ غلط نہیں کیا تھا انہوں نے۔تم لوگ اسی قابل تھے"۔

"بتا کہاں ہے عدن"؟

"نہیں بتاتا تو کیا کر لیں گے آپ"؟

"اگر تو نے مجھے اسکا نہ بتایا تو میں کھڑے کھڑے تیری ماں کو طلاق دے دوں گا"۔

جہانگیر نے دہل کر باپ کو دیکھا۔

"دماغ تو نہیں ہل گیا۔کیا بول رہے ہیں کچھ پتہ بھی ہے"۔

"وے وے بتا دے اسکو۔کیوں ماں کو اس عمر میں گھر سے نکلوائے گا۔وے آ دیکھ میں ہاتھ جوڑتی ہوں تیرے آگے۔۔۔۔۔۔۔ بتا دے اسکو کہاں ہے وہ"۔

"پروین میں تجھے طلاق دیتا ہوں"۔

اماں تو وہیں گر گئیں۔

"پروین میں تجھے طلاق دیتا ہوں"۔

"رک۔۔۔۔۔رک جائیں ابا۔۔۔میں۔۔۔۔میں بتاتا ہوں"۔

"میں۔۔۔۔۔اسے۔۔۔۔۔۔۔کوٹھے۔۔۔۔۔۔پہ۔۔۔۔۔بیچ آیا تھا۔نہیں برداشت ہوا مجھ سے کہ وہ میرے علاوہ کسی اور کی ہو جائے۔انتقام نے مجھے اندھا کر دیا تھا۔میں نواب عالم۔۔۔۔کو منہ کے بل گرانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔پتہ نہیں۔۔۔۔کیا ہوا۔۔۔۔ابا۔۔۔میں۔۔۔میں کیوں بیچ آیا اسکو۔۔۔۔۔اس۔۔۔۔۔اسکا تو کوئی قصور نہیں تھا۔پھر میں نے کیوں"۔۔۔۔۔

ابا یہ سنتے ہی زمین پہ گر گئے۔انہیں اگلا سانس لینا نصیب نہیں ہوا۔

_________________________________

اسے یہاں پہ قید ہوئے ایک ہفتے سے زائد ہو چکا تھا۔گو کہ پہلے والے خوف میں اب کمی آ گئی تھی مگر تنہائی اور سناٹے کی وحشت کسی طور کم نہیں ہوتی تھی۔وہ سارا دن خاموشی سے بیٹھی دیواروں کو تکتی رہتی۔

"کیا ساری زندگی وہ ادھر گزار دے گی۔اس نے مجھے یہاں چھوڑنے کے بعد ایک بار بھی خبر نہیں لی آیا میں جی رہی ہوں یا مر گئی۔مگر اسے کیا وہ میرا کیا لگتا ہے جو مجھے پوچھنے کو آئے گا"۔

سارا سارا دن وہ ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی رہتی جب بالکل ہمت جواب دے جاتی تو مجبوراً کچن کا رخ کرنا پڑتا۔

"آخر کب تک میری زندگی قید میں گزرے گی۔کیا کیا قیامتیں ٹوٹ پڑی ہوں گی گھر والوں پہ۔کیا وہ مجھے قبول کر لیں گے۔۔۔۔ہاں ان سب کو مجھ پہ یقین ہے۔وہ تو جانتے بھی نہیں ہونگے یہ حرکت کس نے کی ہے۔کیا بیتے گی بابا پر جب انہیں پتہ چلے گا"۔

اب بھی وہ ہال میں صوفے پہ پاؤں اوپر کیے بیٹھی صرف ایک ہی نقطے کو سوچ رہی تھی۔جب ہال کے دروازے سے لاک کھلنے کی آواز آئی۔

وہ ایک دم صوفے پہ اچھل پڑی۔

"یہ کون آ گیا"۔

"وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔تو کہہ رہا تھا یہاں پہ کوئی نہیں آئے گا۔۔تو۔۔۔تو یہ کون کھول رہا ہے دروازہ"۔

اس سے پہلے کہ وہ بھاگ کر کمرے میں چھپ جاتی کوئی بڑے ٹھاٹ سے دروازہ کھولتا ہوا اندر آ گیا۔

وہ جو کوئی تھا اسے دیکھ کر وہیں جم گیا ۔

آنکھوں میں پہلے الجھن ابھری پھر بے یقینی اور آخر میں غصے سے رگیں تن گئیں۔

"کون ہو تم۔۔۔۔۔۔اور یہاں کیا کر رہی ہو" ؟

عدن تو کاٹو بدن میں لہو نہیں کے مصداق ہو گئی۔زبان بالکل گنگ تھی۔

"میں کیا پوچھ رہا ہوں تم سے ۔۔۔۔۔۔کون ہو تم۔۔۔۔۔۔یہاں کیسے آئی۔۔۔کون لایا ہے تمہیں یہاں"۔

وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔میں۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔

وہ کانپتی ہوئے اٹھ کر دور جا کھڑی ہوئی۔

"زبان نہیں ہے کیا منہ میں؟کیسے آئی ہو یہاں پہ"۔

مگر بجائے جواب دینے کے اس کے آنسو گرنے لگ گئے۔

"بند کرو اپنا یہ رونا"۔۔۔۔

دائم لایا ہے کیا تمہیں۔۔۔۔۔اسکے ساتھ آئی ہو یہاں؟

"جج۔۔۔جی۔۔۔۔جی"

انہوں نے اونچی آواز میں دائم کو گالی دی۔

"کب سے ہو یہاں پہ"؟

مگر اس نے آگے سے کوئی جواب نہ دیا۔وہ تو خوفزدہ اندازمیں اس سوٹڈ بوٹڈ شخص کو دیکھ رہی تھی جو مہذب انداز میں گالیاں دیتے ہوئے کسی کو فون کر رہا تھا۔

________________________________

"السلام علیکم ڈیڈی۔۔میں آپ ہی کا انتظار کر رہا تھا کب تک آئیں گے آپ"۔

دائم نے موبائل پہ ڈیڈی کی کال ریسیو کرتے ہی پوچھا۔

"ہیلو ڈیڈی۔۔۔۔۔۔کیا بات ہے آپ بول کیوں نہیں رہے"۔

"دس منٹ کے اندر اندر اپنے اپارٹمنٹ پہ پہنچو"۔

"جج۔۔۔۔جی۔۔۔کیا۔۔۔کیا کہا آپ نے"۔

وہ بے اختیار سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا۔

"اونچا سننے لگ گئے ہو کیا۔دس منٹ کے اندر اندر فلیٹ پہ پہنچو"۔

"مگر۔۔۔آپ ۔۔۔۔آپ وہاں پہ کیا کر رہے ہیں"۔

"تمہاری بہن سے ملنے آیا تھا یہاں۔اگر دس منٹ میں نہ پہنچے تو حال دیکھ لینا اپنا"۔

پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی۔

طلال نے فون بند کر دیا اور اسے لگا تھاجیسے آفس کی چھت سر پہ آ گری ہو۔وہ بے اختیار چکرا گیا۔کی چین اٹھاتے ہوئے وہ اندھا دھند دروازے کی جانب بھاگا۔

"اوہ خدایا! یہ کیا ہو گیا"۔

فل سپیڈ پہ گاڑی بھگاتے ہوئے تین بار ایکسیڈینٹ ہوتے ہوتے بچا۔اس کی گاڑی سے بچتا ہر پاکستانی اسے سو سو گالیوں اور کوسنوں سے نواز رہا تھا۔

"او شٹ"۔۔۔

ٹریفک سگنل پہ ریڈ لائٹ دیکھتے ہی اس نے زور سے سٹیرنگ پہ ہاتھ مارا۔

"ڈیڈی کیسے پہنچ گئے وہاں۔۔۔اوہ مائی گاڈ۔۔۔اب کیا ہو گا"۔

ایک سیکنڈ میں اس کے دماغ نے لائحہ عمل ترتیب دیا۔وہیں کھڑے کھڑے اس نے تیزی سے علی کا نمبر ڈائل کیا۔

بیل جا رہی تھی چوتھی بیل پہ علی کی آواز آئی۔

"اگر تو نے مجھے اس لیے فون کیا ہے کہ میں تیرے ساتھ آ کر لنچ کروں۔تو یہ بھول ہے تیری۔میں بزی بندہ ہوں ہر ایرے غیرے کے ساتھ منہ اٹھا کر نہیں چل پڑتا۔سو خبردار آئندہ مجھے فون نہ کرنا"۔

"منہ بند کر موٹے۔۔۔۔پہلے میری بات سن"۔

"ابھی دس منٹ کے بعد میں تجھے کال کرونگا۔اس وقت ڈیڈی میرے سامنے ہوں گے۔تو نے مجھ سے ایسے بات کرنی ہے کہ کچھ ہفتوں پہلے میری شادی ہوئی ہے گھر والوں کے علم میں لائے بغیر۔اور تم اس میں گواہ کے طور پہ شامل تھے۔اور تمہارے گھر والے بھی اس چیز سے با خبر ہیں"۔

"ہالڈ آن۔۔۔ایک منٹ۔۔۔۔ایک منٹ۔۔کیا بک رہا ہے۔کونسی شادی ۔۔۔کونسا گواہ۔۔یہ کونسی سٹوری ہے دماغ تو نہیں ہل گیا تیرا۔۔۔اب کہیں سے بچے نہ لے آنا"۔

"علی۔۔۔میں جو کہہ رہا ہوں صرف وہ سن۔۔۔میں بعد میں تجھے سب کچھ بتاؤں گا ۔ابھی دس منٹ بعد فون کرونگا۔سپیکر آن ہو گا۔تو نے سب کچھ سنبھالنا ہے کوئی گڑ بڑ نہ ہو"۔

سگنل کھل چکا تھا اس نے گاڑی آگے بڑھا دی۔

"سمجھ گیا ہے نا میں کیا کہہ رہا ہوں کوئی گڑ بڑ نہ۔ہو ورنہ تو زندہ نہیں بچے گا"۔

"ہاں بیٹا میں تو پیدا ہی اس لیے ہوا ہوں۔تو بگاڑتا جا سب کچھ میں پیچھے پیچھے سنوارتا آؤں اور تو اور اب تیرے جھوٹے نکاح کا سچا گواہ بھی بن جاؤں بغیر چھواروں کے"۔۔۔

"منہ بند کر۔۔۔میں پہنچ چکا ہوں۔ دس منٹ بعد فون کرتا ہوں۔پلیز سب کچھ سنبھال لینا مروا نہ دینا کہیں"۔

وہ فون بند کرتا ہوا فلیٹ کی جانب بڑھ گیا۔

ہینڈل پہ ہاتھ رکھتے ہی دروازہ کھلتا چلا گیا۔سامنے بیٹھے طلال خونخوار نظروں سے اسی کی جانب دیکھ رہے تھے۔

عدن دوسرے صوفے کے پاس کھڑی تھی۔

وہ ماتھے پہ آیا پسینہ صاف کرتے ہوئے انکی جانب بڑھا۔

"السلام علیکم ڈیڈی۔۔آپ یہاں پر کیسے۔۔۔۔کوئی کام تھا تو مجھے کہہ دیا ہوتا"۔ 

وہ لہجے میں خوشگواریت سموتا انکی جانب آیا جیسے اسے ڈیڈی کے آنے کی بے انتہا خوشی ہوئی ہو۔

طلال نے ہاتھ کے اشارے سے اسے وہیں روک دیا۔

"کون ہے یہ" ؟

اس نے صوفے کی پیچھے کھڑی عدن کو دیکھا۔

"ڈیڈی۔۔۔یہ۔۔۔۔عدن ہے"۔

"نام نہیں پوچھا میں نے۔۔کس حیثیت سے موجود ہے یہاں پر"۔

وہ غصے میں صوفے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

"ڈیڈی۔۔۔۔۔شی از مائی وائف"۔۔

گلے میں ابھرتی گلٹی واضح نظر آئی تھی۔

عدن نے اس ایسے دیکھا جیسے اسکی دماغی حالت پہ شبہ ہو۔

"جسٹ شٹ اپ۔۔۔میں نے ہر چیز کچھ دن کے لئے تمہارے حوالے کر دی ہے تو اسکا یہ مطلب ہے کہ تم ہر شے میں اپنی من مانیاں کرنے لگو گے"۔

طلال کی دھاڑ پورے فلیٹ میں گونج رہی تھی۔

"جہاں سے اسے لائے ہو وہیں چھوڑ کر آؤ اور تم لڑکی۔۔۔۔۔میرے بیٹے کو تو اچھے برے کی ویسے ہی تمیز نہیں ہے۔تمہارے لئے یہی بہتر ہے ابھی کے ابھی یہاں سے نکلو"۔

طلال جیسے ہی اس کی جانب بڑھے وہ فوراً انکے اور عدن کے درمیان آ کر کھڑا ہو گیا۔

"فار گاڈ سیک ڈیڈی۔۔۔کہاں جانا ہے اس نے۔۔۔میری بیوی ہے۔۔۔۔۔تو میرے ہی گھر میں رہے گی نا"۔

"بکواس مت کرو میرے سامنے۔تمہارا کیا خیال ہے تم کسی بھی راہ چلتی لڑکی کو پکڑ کر لے آؤ اور کہہ دو کہ یہ تمہاری بیوی ہے تو میں یقین کرلونگا۔پاگل سمجھ رکھا ہے کیا "؟

"دیکھ۔۔۔۔دیکھیے انکل۔۔۔آپ کو ۔۔۔۔۔کوئی"۔۔

عدن کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ دائم نے اسے ایسی نظروں سے دیکھا دوبارہ اس میں سر اٹھانے کی بھی ہمت نہ ہوئی۔

"لڑکی۔۔۔تم نے سنا نہیں ہے کیا ؟ اٹھاؤ اپنا بوریا بسترا اور فوراً نکلو یہاں سے۔دوبارہ اس طرف منہ بھی مت کرنا ورنہ جانتی نہیں ہو مجھے۔"

جیسے ہی وہ دوبارہ اس کی جانب بڑھے دائم نے عدن کو بازو سے پکڑ کر اپنے پیچھے کر لیا۔

"ڈیڈی یہ کہیں نہیں جائے گی آپ نے جو کہنا ہے مجھ سے کہیں اسے بیچ میں مت لائیں"۔

بیٹے کی ڈھٹائی پر وہ کھول کے رہ گئے۔

"اگر آپ کو مجھ پہ یقین نہیں ہے تو میں علی سے آپکی بات کروا دیتا ہوں"۔

"یہ علی بیچ میں کہاں سے آ گیا۔۔۔۔ اس کا یہاں پر کیا کام ہے"؟

"وہ گواہ ہے ہمارے نکاح کا بلکہ اس کی پوری فیملی موجود تھی یہاں"۔

دائم کی بات سن کر انہیں واقعی دن میں تارے نظر آ گئے۔

اس نے علی کو فون ملا کےسپیکر آن کر دیا۔بیل جا رہی تھی پانچویں بیل پہ اس نے فون اٹھا لیا۔

"ہیلو علی کیسے ہو۔۔میں دائم بات کر رہا ہوں"۔

"آج کیسے فون کر لیا۔آج کیسے یاد آ گئی ہماری۔شادی کیا کروائی تم تو سب کچھ ہی بھول گئے ہو۔مانا اب تو شادی شدہ ہے کہاں ٹائم ہو گا تیرے پاس ہمارے لیے۔مگر تھوڑی سی شرم بھی ہوتی ہے بندے میں اتنی آسانی سے تو مجھے بھول گیا"۔

"نہیں یار بس آجکل مصروفیت زیادہ تھی۔انفیکٹ آج میں تجھ سے ملنے ہی آنا چاہتا تھا"۔

"ہرگز بھی نہیں۔امی تم دونوں کو ڈنر پہ انوائٹ کرنا چاہتی ہیں اس لیے پہلے آ کر میرا ڈبل خرچہ کرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔بھابی کو ساتھ لے کر ڈنر پر ہی آنا"۔

"انکل کو بتا دیا کیا ویسے میرا خیال ہے جتنا تو گھامڑ ہے تو نے انہیں کو اب تک کچھ نہیں بتایا ہو گا۔دیکھ یار تو انہیں ساری بات کلئیر کر دے وہ بہت براڈ مائینڈڈ انسان ہیں۔ لو میرج کرنا گناہ تھوڑی ہے۔پھر بھابی تو ہیں ہی اتنی اچھی۔۔۔انکل کچھ نہیں کہیں گے تجھے"۔

علی کی نمبر ون پرفارمنس پر اس نے چہرہ پھیر کر بمشکل ہنسی کنٹرول کی۔عدن پھٹی پھٹی آنکھوں سے کبھی اسے اور کبھی اس کے ہاتھ میں پکڑے موبائل کو دیکھ رہی تھی جہاں کوئی عقل سے پیدل انسان نان اسٹاپ شروع ہو چکا تھا۔اس نے کن اکھیوں سے ڈیڈی کو دیکھا جن کا چہرہ سپید پڑتا جا رہا تھا۔

"چل علی ٹھیک ہے۔آنٹی کو بتا دینا ہم دونوں ضرور آئیں گے۔اوکے آج شام آفس کا چکر لگانا۔پھر بات کریں گے"۔

اس نے کہہ کر لائن کاٹ دی۔

فون بند ہوتے ہی ڈیڈی راستے میں پڑی ٹیبل کو ٹھوکر مارتے ہوئے دروازے سے باہر نکل گئے۔

ڈیڈی کے جاتے ہی اس نے اطمینان بھری سانس خارج کی اور کچن کی طرف بڑھ گیا۔فریج سے پانی کی بوتل نکال کر منہ کو لگا لی۔پانی پینے کے بعد اعصاب کچھ نارمل ہوئے تو ذہن سامنے کھڑی لڑکی کی جانب متوجہ ہوا۔جو اب بھی بے یقینی سے منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔

"بیٹھ جائیں ادھر اب کھڑی کھڑی بے ہوش نہ ہو جانا"۔

"آپ نے کیوں کیا یہ سب".

"کیا کیا ہے میں نے"؟

"آپ نے جھوٹ کیوں بولا اپنے ڈیڈی سے"۔

"تو اور کیا کرتا؟ بتا دیتا کیا کہاں سے لایا تھا آپکو۔کیا جواز دیتا کیوں ہیں آپ یہاں پہ"۔

اس کی۔ بات پہ وہ خاموش ہو گئی۔

"میں اس جگہ سے آپکو کسی غلط نیت سے ہرگز نہیں لایا تھا مگر یہ بات صرف آپ اور میں ہی جانتے ہیں۔دنیا نہیں جانتی۔ابھی صرف ڈیڈی کو پتہ چلا ہے آہستہ آہستہ سب کو پتہ چل جائے گا۔اب آپکی یہاں موجودگی میرے لیے پرابلم بن رہی ہے"۔

وہ بات کرنے کے لیے تمہید باندھ رہا تھا۔عدن کی سانس سینے میں اٹک گئی۔

"پھر کیا ہو گا اب"---۔

"آئی کین ہینڈل دس میٹر اگر آپ میرا ساتھ دیں تو"؟

"کیا مطلب ؟ کیا کرنا ہے مجھے"۔

اس،نے ایک نظر صوفے پہ بیٹھی حالات سے سہمی لڑکی کو دیکھا جو بات وہ کہنے جا رہا تھا اگر وہ نہ مانی تو۔۔۔۔۔

"کیا کرنا ہو گا مجھے؟"۔

"جو ڈیڈی کو بتایا ہے وہ سب سچ کرنا ہے آپکو مجھ سے نکاح کرنا ہو گا"۔

"کیا" ؟ 

وہ سپرنگ کی طرح صوفے پر سے اچھلی ۔

"مگر یہ۔۔یہ کیسے ہو سکتا ہے" ؟

"اس مسئلے کا صرف یہی حل ہے میری نظر میں"۔

"مگر۔۔۔۔میں۔۔۔۔میں کیسے کر سکتی ہوں۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔یہ ناممکن ہے۔میں کیسے کر سکتی ہوں آپ سے نکاح۔۔۔۔نہیں۔۔۔میں ہرگز نہیں کر سکتی۔۔۔کبھی نہیں"۔۔۔

وہ نفی میں سر ہلا رہی تھی۔

"محترمہ مجھے کوئی شوق نہیں ہے آپ سے نکاح کرنے کا۔یہ سب صرف آپکی حفاظت کے لئے کر رہا ہوں۔نہیں کرنا تو نہ کریں یہ تو میرے لیے اور بھی اچھا ہے۔میں نے تو بلا وجہ ڈیڈی کو اپنے خلاف کر لیا۔چلیں اٹھیں چھوڑ کے آؤں آپکو واپس"۔

"کہاں۔۔۔کہاں چھوڑ کے آنا ہے مجھے"۔

"جہاں سے لایا تھا اور کہاں۔اٹھیں جلدی کریں میرے پاس ٹائم کم ہے"۔

"نہیں۔۔ہرگز نہیں۔میں وہاں کبھی واپس نہیں جا سکتی"۔

"تو آپ کر کیا سکتی ہیں وہ بتا دیں۔نکاح آپ مجھ سے کر نہیں سکتی۔واپس آپ جانا نہیں چاہتی۔یہاں بغیر کسی رشتے کے میں آپکو نہیں رکھ سکتا۔سو بتائیے کیا کروں میں"۔

"دیکھیئے میں یہاں پر آپ کو مزید نہیں رکھ سکتا۔آہستہ آہستہ میرے سرکل میں یہ بات پھیل جائے گی اور فی الحال تو میں کوئی سکینڈل افورڈ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ابھی تو ڈیڈی چلے گئے ہیں مگر انکا کوئی پتہ نہیں ہے ہو سکتا ہے وہ ممی کو لینے گئے ہوں اور کچھ دیر بعد دوبارہ یہاں پہ ہلّہ بول دیں۔سو اب یہ سب ضروری ہو چکا ہے۔

آپ کے پاس صرف دو آپشن ہیں۔

فرسٹ یہ کہ آپ مجھ سے نکاح کر لیں۔پھر آپ یہیں پر رہیں گی میری ذمہ داری ہوں گی۔آپکے ہر اچھے برے کا ذمہ میرا ہو گا۔

اور دوسری صورت یہ ہے کہ میں آپکو وہیں چھوڑ آؤں جہاں سے لایا تھا کیونکہ میں یہ سب افورڈ نہیں کر سکتا۔حالانکہ میں نہیں چاہتا آپ واپس اس دلدل میں پہنچ جائیں جہاں سے نکلنے کا دوبارہ کوئی راستہ نہیں ملے گا۔ضروری نہیں ہے ہر بار کوئی دائم طلال آ کر آپکو بچا لے۔وہاں جانے کی صورت میں کیا ہو گا یہ آپ مجھ سے بہتر جانتی ہیں۔

پھر بھی میں اپنا کوئی فیصلہ آپ پر نہیں تھوپنا چاہتا۔آخری فیصلہ آپ ہی کا ہو گا۔جو ٹھیک لگے وہ بتائیں۔پانچ منٹ ہیں آپکے پاس۔جلدی سے فیصلہ کریں میں یہیں بیٹھا ہوں"۔

وہ آرام سے ٹانگ پہ ٹانگ رکھے صوفے کی بیک سے ٹیک لگا کر اب فیصلے کا انتظار کر رہا تھا۔

عدن کے آنسو آنکھوں میں ہی ٹھٹھر گئے۔وہ ساری راہیں مسدود کر کے اب فیصلے کی ڈور اسکے ہاتھ میں تھما چکا تھا۔

وہ نظروں میں بے یقینی لیے اسے دیکھ رہی تھی۔تبھی دائم کے موبائل کی بیپ ہوئی۔علی کا میسج تھا۔

"اگر کام نہیں بنا تو دوبارہ فون کر۔۔۔۔دو چار اور ڈائیلاگ میرے ذہن میں آ چکے ہیں۔ایسی ایسی باتیں کہوں گا ڈیڈی بیچاروں کو تیرے ولیمے کی فکر پڑ جائیگی"۔

علی کے میسج پہ۔وہ اپنا قہقہہ نہ روک سکا۔

"آئی لو یو سو مچ"۔

اس نے علی کو ریپلائے دے کر فون سائڈ پر رکھ دیا۔

"آپ بجائے مجھے ایسے دیکھنے کے ہر پہلو پر غور کر لیں۔پانچ میں سے دو منٹ تو گزر ہی چکے ہیں۔اگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو میں یہیں سمجھوں گا کہ آپ نے سیکنڈ آپشن چوز کر لیا ہے"۔

اسکے بولنے پہ عدن کو واقعی ہوش آ گیا۔

"نہیں میں واپس کبھی نہیں جاؤں گی۔جو شخص میری خاطر اپنے باپ کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے وہ مجھے دنیا کے بھیڑیوں سے بھی بچا سکتا ہے۔۔۔۔۔ٹھیک کہہ رہا ہے وہ ضروری نہیں ہے ہر بار کوئی دائم طلال آ کر مجھے بچا لے۔اگر یہ مجھے واپس چھوڑ آیا تو۔۔۔۔۔۔نہیں یہ معاشرہ مجھے کبھی قبول نہیں کریگا۔اگر مجھے خود کو بچانے کا آخری موقع مل رہا ہے تو میں اسے کبھی نہیں گنواؤں گی۔مگر اماں بابا۔۔۔۔۔۔ کیا وہ مجھے تسلیم کر لیں گے"۔

آخری پوائنٹ پہ وہ جھرجھری لے کر رہ گئی۔

یہ آخری موقع تھا ورنہ پھر سے خریدار آئیں گے پھر سے اسکی بولیاں لگیں گی۔یہ سوچ آتے ہی وہ پوری جان سے لرز گئی۔

اب بھی وہ تکلیف یاد آتی تو آنسو بھل بھل آنکھوں سے گرنے لگتے۔اب دوبارہ کسی آزمائش کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔یہ شخص جیسا بھی ہو گا کم از کم مجھے رہنے کے لیے چھت تو دے گا نا"۔

سر پہ آسمان اور پاؤں کے نیچے زمین کا مطلب اب وہ اچھے سے سمجھ چکی تھی۔

"پانچ کی بجائے آٹھ منٹ ہو چکے ہیں۔اسکا مطلب ہے آپکو سیکنڈ آپشن قبول ہے۔سو چلیے ایسا ہی سہی ۔اٹھیں چھوڑ آؤں آپکو"۔

"میں نکاح کے لئے تیار ہوں"۔

اس نے خود کو کہتے سنا۔آواز کسی گہری کھائی سے آرہی تھی۔

اس؟کی بات سن کر دائم نے بے اختیار سر صوفے کی بیک سے ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں۔وہ جانتا تھا عدن مر کے بھی سیکنڈ آپشن قبول نہیں کرے گی اسی لیے اس نے فرسٹ آپشن کے بے انتہا فوائد اور سیکنڈ آپشن کے ڈبل نقصانات اس کے سامنے رکھے تھے۔

"آپ کمرے میں جائیں میں نکاح کا بندوبست کرتا ہوں"۔

وہ روبوٹ کی مانند اٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔ساری حسیات مردہ ہو چکی تھیں۔

عدن کے جانے کے بعد اس نے علی کو فون کیا۔وہ فون اٹھاتے ہی دوبارہ شروع ہو گیا۔

"یار دائم!اگر تو کہے تو میں انکل سے بات کروں۔اب یہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ تو رہے گا نہیں۔الیکشن نزدیک ہیں مخالفین تو اس طرح کی باتیں بہت اچھالتے ہیں۔انکل کو چاہیے بھابھی کو ایکسیپٹ کر لیں ورنہ اگر دشمنوں کو بھنک بھی پڑ گئی تو انکل کی کرسی تو گئی۔میرا خیال ہے انہیں پہلے ہی تمہارا ولیمہ کر کے سب کو اطلاع دے دینی چاہیے"۔

"بس کر دے علی۔۔۔۔۔۔بس کر دے۔۔۔۔۔چلے گئے ہیں ڈیڈی"۔

دائم نے بے تحاشا ہنستے ہوئے اسے درمیان میں روکا۔

"تو پہلے بک دیتا نا۔۔۔۔۔میں تو انکل کو بلیک میل کرنے کے لیے ڈیڑھ سو ڈائیلاگ سوچ کر بیٹھا ہوں"۔"ویسے بھی انکل کو سب سے زیادہ عزیز کرسی ہی ہے جو کام کروانا ہوتا ہے انہی دنوں میں کروایا کر"۔

"مشورے کا شکریہ"۔

"اب ذرا کھل کے بتا معاملہ کیا تھا"۔

"وہ میں تجھے بعد میں بتاؤں گا پہلے ایسا کر ایک نکاح خواں اور چند گواہوں کا بندوبست کر۔صرف آدھے گھنٹے کے اندر۔جلدی سے سب کو فلیٹ پہ لے کر آ جا۔آئی ایم ویٹنگ"۔

"او بھائی۔۔۔۔تیرا دماغ کہیں سیر تو نہیں کرنے گیا ۔بریک پہ پاؤں رکھ لے۔پہلے نقلی نکاح اب اصلی نکاح۔تو بتاتا کیوں نہیں ہے مسئلہ کیا ہے تیرا"۔

"تم آؤ گے تو ہی بتاؤں گا فی الحال سب کو لے کے پہنچ اور صرف اعتماد والے بندے لانا۔۔اور ہاں رابی کو بھی ساتھ لے کے آنا۔آنٹی کو بھنک بھی نہ پڑے"۔

"اچھا ٹھیک ہے آتا ہوں۔۔پر بارات کہاں لے کے جانی ہے"۔

"کونسی بارات۔۔۔۔نکاح یہیں میرے فلیٹ پہ ہو گا"۔

"کیا مطلب ؟ دلہن پہلے سے ہی موجود ہے کیا؟ او مائی گاڈ! دائم طلال آج تو میرے دل کے چاروں خانوں سے اتر گیا ہے"۔

"شٹ اپ۔جتنا کہا ہے بس اتنا کر آدھے گھنٹے کے اندر پہنچو"۔

"آدھا نہیں یار ایک گھنٹہ لگ جانا مجھے"۔

"نہیں نہیں صرف آدھا گھنٹہ۔ڈیڈی فی الحال چلے گئے ہیں ان کے دوبارہ آنے سے پہلے میں یہ سب فکس کرنا چاہتا ہوں"۔

"نہ بیٹا نہ۔آدھا گھنٹہ تو مجھے گواہ اکٹھے کرتے لگ جانا ہے۔باقی آدھے گھنٹے میں چھوارے بھی پیک کروانے ہیں"۔

"کیوں تو نے چھوارے کیا کرنے ہیں۔تو خود یہاں پہ مر میرے لیے وہی بہت ہے"۔

"او پائی۔۔۔۔پاکستان میں کونسا نکاح ہے جو بغیر چھواروں کے ہوا ہو۔کم از کم میں تو سوکھے منہ تیرے گواہوں والے خانے میں دستخط نہیں کر سکتا۔اور میرے پاس جو گواہ ہیں نا جب تک انہیں دو دو چھواروں کی تھیلیاں نہ ملی وہ کسی صورت گواہی نہیں دیں گے۔اس لیے ابھی سے سوچ لے"۔

"تو تجھے کس نے کہا ہے کہ تو اپنے جیسے اکٹھے کر کے لے آ۔دیکھ اس وقت میں بہت ڈپریسڈ ہوں۔اس سے پہلے کہ ڈیڈی دوبارہ آجائیں مجھے یہ سب حل کرنا ہے تو اگر نہیں آ سکتا تو بتا دے تا کہ میں خود کر لوں سب کچھ"۔

دائم کی غصیلی آواز سنتے ہی وہ فوراً لائن پہ آ گیا۔

"اچھا اچھا۔سیریس تو نہ ہو آ رہا ہوں بلکہ نکل پڑا ہوں۔چھواروں والا تو پیچھے رہ گیا بیچارہ"۔

اس،سے پہلے کہ علی کی بک بک دوبارہ شروع ہوتی اس نے فون بند کر دیا۔

_________________________________

"رابی جلدی سے تیار ہو جاؤ۔ہمیں ایک جگہ پہ جانا ہے"۔

"کہاں پہ"۔

"میرے دوست کی شادی ہے صرف دس منٹ ہیں تمہارے پاس اگر ریڈی ہو سکتی ہو تو ہو جاؤ"۔

"صرف دس منٹ میں؟اچھا ٹھہرو میں امی سے پوچھ کے آتی ہوں"۔

"نہیں نہیں امی سے نہیں پوچھنا۔بس تم حلدی سے تیار ہوجاؤ۔صرف ہم دونوں نے جانا ہے"۔

"ہاہ وہ کیوں۔امی کو بتائے بغیر نہیں جانا میں نے"۔

"دیکھو رابی یہ ضروری ہے امی کو بھنک بھی نہ پڑے۔میرے پاس ٹائم کم ہے سو ہری اپ پلیز"۔

اگلے دس منٹ میں وہ جلدی سے تیار ہو کے آئی۔

"امی میں نادیہ سے کچھ نوٹس لینے جا رہی ہوں بھائی کے ساتھ۔ دیر ہو جائے تو پریشان مت ہوئیے گا"۔

وہ امی کا جواب سنے بغیر بھاگتی ہوئی باہر آئی جہاں علی وسل پہ وسل دے رہا تھا۔اس،سے پہلے کہ امی دروازے تک آتیں اس نے جلدی سے گاڑی بھگا لی۔

"اب بتاؤ کہاں جانا ہے۔

"بتایا تو ہے میرے دوست کی شادی ہے"۔

"کونسے دوست کی ہے جو امی کو بھی بتانے نہیں دیا"۔

"جب جاؤ گی تو پتہ چل جائیگا"۔

"تمہاری باتیں مجھے مشکوک لگ رہیں ہیں۔ہائے کہیں تم تو نہیں جا رہے شادی کروانے"۔

"دائم کا نکاح ہے"۔

"کیا دائم بھائی کا"؟

اس کی پر جوش چیخ پہ علی نے کانوں پہ ہاتھ رکھا۔

"پھر تم نے امی کو کیوں نہیں بتانے دیا"۔

"اس لیے کہ وہ گھر والوں کے علم میں لائے بغیر شادی کر رہا ہے"۔

"ہائے اللہ یعنی خفیہ شادی۔کیوں کر رہے ہیں وہ ایسا تمہیں روکنا چاہیے تھا انہیں۔اگر انکل کو پتہ چل گیا تو"۔۔۔

"میرے کہنے پہ تو نہیں رکا تم جا کے روک لینا اسے۔اب برائے مہربانی میرا سر نہ کھاؤ چپ کر کے بیٹھو"۔

"لڑکی کے گھر والے مان گئے کیا اس شادی کے لئے"۔

"یہ دیکھو میں ہاتھ جوڑتا ہوں منہ بند کر لو۔وہاں جا کے سب کچھ پتہ چل جائیگا"۔

اسے چپ کروا کے وہ موبائل پہ مصروف ہو گیا۔

____________________________________

نواب عالم پہ بھائی کی موت کی خبر بجلی بن کے گری تھی۔ساری عمر وہ بھائی سے دور رہے تھے مگر اب اسکی موت نے انہیں ہلا کے رکھ دیا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے جسم کا ایک حصہ مفلوج گیا ہو۔

"ہوا کیا تھا اسے کل تو وہ بالکل ٹھیک ٹھاک گیا تھا میرے پاس سے۔پھر ایک دن میں یہ سب کیسے ہو گیا"۔

"بس آپ کے پاس سے ہی ہو کر آئے تھے آتے ہی طبیعت خراب ہو گئی ان کی"۔

میر عالم کے چھوٹے بیٹے نے روکھے لہجے میں جواب دیا۔نواب عالم ضبط کے گھونٹ بھر کے رہ گئے۔عبداللہ نے انکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔

"جہانگیر کہاں ہے نبیل"۔

عبداللہ نے چھوٹے نبیل سے پوچھا۔جب سے وہ آئے تھے جہانگیر نظر نہیں آیا۔

"مجھے کیا پتہ۔مجھ سے کونسا پوچھ کے جاتا ہے وہ"۔ 

نبیل کہہ کر باقی آئے لوگوں سے تعزیت وصول کرنے لگ گیا۔

اندر اماں پروین چچی کو ساتھ لگائے تسلی دے رہی تھیں۔مگر وہاں پہ اکثر خواتین بجائے دکھ درد بانٹنے کے نواب عالم کی قسمت پہ افسوس کر رہی تھیں۔

"حق ہاہ۔چوہدری نواب تو قسمت ہی ماڑی لکھوا کے لایا ہے۔پہلے بیٹی گھر سے بھاگ گئی اب بھائی بھی سارا کچھ چھوڑ کے اوپر پہنچ گیا"۔

"حالانکہ نمبر تو پہلے چوہدری نواب کا ہی تھا۔پر آئی کو کوں ٹال سکتا،ہے۔ چھوٹا بھرا پہلے ہی چلا گیا"۔

ان جاہل عورتوں کی باتوں پہ اماں نے دہل کر دل پہ ہاتھ رکھا۔

"کچھ پتہ چلا کہاں چلی گئی ہے وہ لڑکی"۔

"اللہ جانے بہن ۔۔۔میرے خیال میں تو کوئی اونچا ہی ہاتھ مارا ہو گا اس نے"۔

"اماں میں اب اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان عورتوں کی زبانیں بند کروا دیتیں۔ان کے آنسوؤں میں روانی آگئی۔یہ سب تو شاید اب تا عمر جھیلنا تھا"۔

باپ کے جنازے پہ بھی جہانگیر موجود نہ تھا۔یہاں تک کہ میر عالم پہ منوں مٹی ڈال دی گئی مگر جہانگیر نہ آیا۔

چچا کے سوئم کے بعد عبداللہ نے ہر چیز ایس پی دانیال سے ڈسکس کی۔

"تم نے مجھے اس وقت کیوں نہ بتایا جب وہ گھر آیا تھا۔ میں کوئی بھی کیس اس پہ ڈال دیتا۔اب خدا جانے وہ کہاں چلا گیا ہے۔ اسکی فیملی تو ہے نا اس سے پتہ کرو"۔

"سوئم کے بعد اس کی ساری فیملی گاؤں سے جا چکی ہے۔کسی کو کچھ علم نہیں وہ کہاں چلے گئے ہیں۔رات کے اندھیرے میں ہی کہیں غائب ہو گئے"۔

"اوہ مائی گاڈ۔۔یہ کیسے ہو سکتا ہے۔یہ تو سب ایک پڑی پلانڈ گیم ہے"۔

"دانیال تم کسی بھی طریقے سے اسکا پتہ چلاؤ۔صرف ایک ہی تو سوراغ تھا اب وہ بھی ہاتھ سے نکل گیا ہے"۔

"پریشان مت ہو۔میں کوشش کرتا ہوں"۔

دانیال کی طفیل تسلی پہ وہ پیشانی مسلتا دروازے کی جانب بڑھ گیا۔

_________________________________

علی رابی کو فلیٹ پہ چھوڑ کر خود گواہوں کو لینے چلا گیا۔دائم نے اسے دیکھ کر سکھ کا سانس لیا۔اس نے اسے بالخصوص عدن کے لئے ہی بلوایا تھا۔اس،موقعے پر اسے واقعی سہارے کی ضرورت تھی۔دائم نے مختصراً اسے کچھ سچ جھوٹ ملا کر بتایا۔وہ پریشانی سے سر ہلاتی عدن کے کمرے کی طرف چلی گئی۔اس نے کمرے کا دروازہ کھولا سامنے ہی ایک ڈری سہمی سی لڑکی بیٹھی تھی۔رابی کو بے اختیار اس پہ ترس آیا۔

"السلام علیکم۔میں رابیل ہوں دائم بھائی کے دوست کی بہن"۔

عدن کو تو سمجھ ہی نہ آیا وہ کیا کہہ رہی ہے ۔

رابی خود ہی آگے بڑھ کر اس کے پاس بیٹھ گئی۔

"کیسی ہیں آپ۔کیا نام ہے آپکا"۔

عدن نے خاموش نظروں سے اسے دیکھا۔ اسکی آنکھوں کی ویرانی دیکھ کر رابی کانپ سی گئی۔اس نے خود ہی آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔وہ اس سے ادھر ادھر کی باتیں کر کے اسے نارمل کرنے کی کوشش کرتی رہی۔

کچھ دیر بعد علی دروازہ ناک کر کے ہاتھ میں رجسٹر تھامے اس تک آیا۔رابیل نے رجسٹر اور پین اسکے سامنے کیا۔اس نے بے تاثر نظروں سے سامنے پڑے رجسٹر کو ددیکھا۔

"آپ مجھے بالکل رابی کی طرح ہیں۔پلیز بغیر کسی ٹینشن کے سائن کریں۔دائم کی گواہی میں آپکو دیتا ہوں۔آپ مجھ پر پورا اعتبار کر سکتی ہیں۔آج سے میری ایک نہیں دو بہنیں ہیں"۔

علی نے آگے بڑھ کر اسکے سر پہ ہاتھ رکھا۔

اس کے ساکت وجود میں جنبش ہوئی۔نکاح نامہ اور پین سامنے پڑا تھا۔کچھ لمحوں بعد وہ اپنے سارے حقوق عمر بھر کے لیے کسی اور شخص کے نام کرنیوالی تھی۔پھر ساری زندگی کے لئے ایک اور نام اس کے نام کے ساتھ جڑ جائیگا۔وہ عدن نواب عالم سے عدن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے ہاتھوں میں تھاما پین لرز گیا۔

پہلے صفحے پہ عدن نواب عالم لکھتے ہی آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی تھی۔ساری حسیات جاگ اٹھیں۔رابیل نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔اسکی یہ حالت دیکھ کر اں دونوں کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔ایک کے بعد ایک صفحے پہ دستخط کرتے ہوئے دھندلائی آنکھوں میں صرف اماں اور بابا کے چہرے تھے۔علی کے جاتے ہی وہ رابیل کے گلے لگ کر بے تحاشا رو دی۔

علی کو باہر آتے دیکھ کر دائم نے پر سکون سانس خارج کی۔اسکا سنجیدہ انداز بتا رہا تھا کہ اندر برسات جاری ہے۔

نکاح کے بعد سب کو فارغ کر کے وہ ہال میں اسکے پاس آ بیٹھا۔

"بھابھی کا خیال رکھنا۔ان کی کنڈیشن ٹھیک نہیں ہے۔وہ پہلے ہی اتنے برے حالات سے گزر چکی ہیں"۔

اسکی بات پہ دائم نے سر ہلایا تبھی رابیل کمرے سے نمودار ہوئی۔

"بھائی تم نے گھر جانا ہے تو چلے جاؤ۔آپی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔مجھے آج رات یہیں رہنے دو۔وہ بہٹ ڈسٹرب ہیں"۔

علی نے کن اکھیوں سے دائم کی طرف دیکھا جو نفی میمیں سر ہلا رہا تھا۔اسکے حلق سے بے اختیار قہقہہ امڈ آیا۔

"اس میں ہنسنے والی کونسی بات ہے"۔

رابیل نے غصے سے اسے دیکھا۔

"نہیں نہیں میں تمہاری بات پہ تو نہیں ہنسا۔ٹھیک ہے اگر تم نے رہنا ہے تو رہ لو کوئی مسئلہ نہیں کیوں دائم"؟

اس نے مسکراہٹ دبا کر دائم سے کہا۔

اور دائم نے اس طرح ارد گرد دیکھا جیسے اس کے سر پہ میں مارنے کے لئے کوئی چیز ڈھونڈ رہا ہو۔رابی واپس کمرے میں چلی گئی جبکہ علی وہیں صوفے پہ لیٹ گیا۔

"اٹھ اور دفعہ ہو جا یہاں سے" ۔

دائم اس کے سر پہ آ کر کھڑا ہو گیا۔

"نہیں یار۔آج میرا دل کر رہا ہے تجھے اکیلا نہ چھوڑوں۔چل آج کی رات تیرے پاس ہی ہوں جتنے دکھ سکھ کرنے ہیں کر لے"۔

"بہت شکریہ۔کوئی ضرورت نہیں ہے مجھے تیرے ساتھ سر پھوڑنے کی"۔

"مجھ سے ذرا تمیز سے بات کر۔ ابھی نیہا کو فون کر کے تیرے تازہ تازہ نکاح کی اطلاع دے دی نا تو تو نے مرہم پٹی کروانے کے لیے بھی مجھے ہی فون کرنا ہے"۔

علی کے کہنے پر اسکے چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی۔

"بک بک کر کے تو نہیں تھکتا جتنی مرضی کروالو"۔

"ہاں مجھے یاد آگیا امی تم دونوں کو ڈنر پہ انوائٹ کرنا چاہتی ہیں۔بتاؤ پھر کب تک آؤ گے"۔

علی کے کہنے پر ان دونوں کے قہقہے ہال میں گونج اٹھے۔

"اگر تو بجائے فون کے سامنے کھڑا ہو کے یہ باتیں کرتا تو ڈیڈی نے میرے ساتھ ساتھ تجھے بھی عالم بالا پہنچا دینا تھا"۔

"اور رابیل سے کہنا آنٹی کو ابھی کچھ نہ بتائے۔یہ نہ ہو وہ مٹھائی لے کر ممی کو مبارکباد دینے آ جائیں"۔

"نہیں امی کو نہیں پتہ۔تو ایسا کر اب کھانے کا بندوبست کر۔چھوارے تو تو نے مجھے لانے نہیں دیے۔سارے گواہ بھی مجھے کوستے ہوئے گئے ہونگے"۔

علی پھر سے سٹارٹ لینے لگا تھا ۔دائم نے وہیں بیٹھے بیٹھے رابی کو آواز دی۔

"اسے کیوں بلا رہا ہے؟ دیکھ ہم نے کہیں نہیں جانا۔آج رات تو یہیں رہنا ہے۔بھلا میں تجھے اس مشکل میں اکیلا چھوڑ کے جا سکتا ہوں"۔

"جی بھائی"۔۔تبھی رابیل باہر آئی۔

"رابی آنٹی کی کال بار بار آ رہی ہے"۔

"اوہ نو۔۔۔۔کافی دیر ہو گئی ہے امی پپریشان ہو رہی ہوں گی مگر آپی"۔۔۔۔

"اٹس اوکے۔۔۔۔تم لوگ گھر جاؤ بلاوجہ آنٹی ٹینشن لیں گی"۔

اس نے سنجیدگی سے کہا جبکہ علی کڑے تیوروں سے اسے گھور رہا تھا۔

"رابی میں امی کو کہہ دیتا ہوں تمہاری دوست کی طبیعت خراب ہے"۔

"کوئی ضرورت نہیں ہے جھوٹ بولنے کی"۔

دائم نے اسے گھور کے دیکھا۔

"بیٹا ہم تیرے نکاح میں بھی جھوٹ بول کے ہی آئے ہیں۔کوئی نا گن گن کے بدلے لوں گا۔چلو رابی امی پریشان ہو رہی ہوں گی"۔

وہ منہ لٹکانے دروازے کی جانب بڑھا۔رابی بھی عدن سے مل کر اس کے پیچھے آ گئی۔

"اب تو مجھ سے کسی شرافت کی توقع نہ رکھنا ابھی کے ابھی نیہا کو فون کر کے بریکنگ نیوز دیتا ہوں"۔

"اللہ حافظ"۔

علی کی دھمکی پہ وہ مسکراتے ہوئے اندر آگیا۔

__________________________________

ہینڈل پہ آہستہ سے ہاتھ رکھ کر اس نے دروازہ کھولا۔عدن اس کو دیکھتے ہی بیڈ پر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔وہ چلتا ہوا اس کے پاس آ رکا۔عدن کا سر مزید جھک گیا۔نظریں اپنے سامنے موجود بلیک شوز پر تھیں۔

"مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ سب اتنی جلدی اور یوں اچانک ہو جائیگا۔آپ پلیز مجھے غلط مت سمجھیے گا۔یہ بہت ضروری تھا جو ہوا وہ سب شاید ایسے ہی ہونا لکھا تھا۔۔۔۔۔۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ڈیڈی یہاں پہ آ جائیں گے۔۔۔۔۔۔سو اسکے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا ۔میں کبھی آپکو اس جگہ پہ واپس نہیں بھیج سکتا اتنا بے غیرت نہیں ہوں کہ جس جہنم سے آپکو نکال کے لایا تھا دوبارہ وہیں چھوڑ آؤں۔۔۔۔۔۔۔اگر آپکو یہاں چھوڑنے کے بعد میں نے کوئی خیر خبر نہیں لی تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ میں آپ سے غافل ہو گیا تھا میں نے اسی لیے کوئی رابطہ نہیں رکھا تاکہ آپ خود کو سیکیور سمجھیں۔اب آپ میری ذمہ داری ہیں۔کسی سے ڈرنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ فون رکھیں اپنے پاس میں نے اپنا نمبر سیو کر دیا ہے۔

کوئی مسئلہ ہو فوراً مجھے کال کرنا۔ٹھیک ہے۔"۔

اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

"چلیں آئیں دروازہ اندر سے لاک کر لیں۔مجھے ابھی آفس جانا ہے۔ڈیڈی یا کوئی بھی اور آئے دروازہ ہرگز نہ کھولنا۔میں شام کو آؤں گا ۔اوکے"۔

وہ اسے خدا حافظ کہتا ہوا چلا گیا۔

اسکے جانے کے بعد وہ کمرے میں آئی اور آتے ہی سجدے میں گر گئی۔وہ بغیر کچھ کہے صرف روئے جا رہی تھی۔خدا نے اس کی عزت کی حفاظت کی تھی اور اب اسے محفوظ ہاتھوں میں سونپ چکا تھا۔اس سے بڑی اور کیا نعمت ہو سکتی تھی۔وہ ہچکیوں سے روئے جا رہی تھی۔

بعض اوقات ہمارے پاس اللہ سے کہنے کو کچھ بھی نہیں ہوتا۔بہت کچھ کہنے کی خواہش کے باوجود زبان الفاظ کا ساتھ نہیں دیتی۔اس وقت زبان بالکل گنگ ہو جاتی ہے۔پھر دل کا غبار صرف آنسوؤں کے ذریعے ہی نکلتا ہے۔اور وہ تو اللہ ہے بندے کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب۔وہ تو پھر سب کچھ جانتا ہے ہمارے ایک ایک انداز سے واقف ہے۔

وہ بھی بغیر کچھ کہے اس کے حضور سر رکھے روئے جا رہی تھی۔

اس وقت اسکی آنکھوں سے گرنے والے قطرے انمول تھے کیونکہ یہ شکرانے کے آنسو تھے۔

_________________________________

سارا دن اسے علی کے دھمکی بھرے میسیجز ملتے رہے۔طلال نے بھی آفس کا چکر نہیں لگایا سو اسے خود ہی سارا کام نمٹانا پڑا۔ساری فائلز اور کیش بنک میں رکھوا کر واپسی پہ اس نے گاڑی مارکیٹ کی جانب موڑ دی۔

آج عدن کے وہی ہفتہ پہلے والے پہنے کپڑے دیکھ کر اسے بے انتہا ندامت ہوئی۔سو اب وہ اس کے لیے کپڑے،جوتے،بیگ،پرفیومز،برش اور جانے کیا الا بلا خرید لایا تھا وہ سارے شاپنگ بیگ گاڑی میں رکھ رہا تھا جب قریب سے آنے والی آواز پہ چونکا۔

"ہائے دائم۔تم یہاں"؟

"ہیلو نیہا۔کیسی ہو"۔

میں بالکل ٹھیک۔تم کیا کر رہے ہو یہاں۔

"کیوں کیا کرتے ہیں مارکیٹ میں"؟

"یہ اتنی ڈھیر ساری شاپنگ کس کی ہے"۔

اس سے پہلے کہ نیہا شاپنگ بیگ کھول کر چیک کرتی اس نے جلدی سے دروازہ بند کردیا۔

"ظاہر ہے میری ہے اور کس کی ہونی ہے"۔ 

"اگر تم آ ہی گئے ہو تو پلیز میرے ساتھ کچھ دیر کے لیے چلو مجھے شاپنگ کرنی ہے"۔

"پلیز نیہا تم خود ہی کرو مجھے ابھی اور بھی کام ہیں۔پلیز سوری"۔

اسے کہہ کر اس نے فوراً گاڑی آگے بڑھا دی۔مگر پچھلی سیٹ پر پڑے شاپنگ بیگ میں سے مہرون

اور گولڈن کلر کا لیڈیز سوٹ نیہا کی نظروں سے نہ چھپ سکا۔

_________________________________

"لیڈیز شاپنگ کا مجھے کوئی تجربہ نہیں ہے اس لیے جو سمجھ آیا وہی لے آیا ہوں آپکے لیے۔سوری مجھے پہلے اس بارے میں خیال نہیں رہا۔چیک کر لیں جو چیز مسنگ ہے وہ بتا دینا"۔

عدن نے جواباً فقط سر ہلانے پہ اکتفا کیا۔

اکیلی عورت کی اس معاشرے میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔تنہا عورت تنکے سے بھی زیادہ ہلکی ہوتی ہے۔یہ لوگ اسے کبھی جینے نہیں دیتے۔اس کے لیے ایک مرد کا ساتھ بہت ضروری ہوتا ہے۔وہ ہفتہ بھر سے یہاں موجود تھی تب اس کو ان چیزوں کا خیال نہیں آیا لیکن اب نکاح کے فقط چند گھنٹوں بعد ہی دائم کو اسکی ہر چیز کی فکر تھی۔مرد ہر عورت کی اتنی پرواہ نہیں کرتا وہ صرف اسکی پرواہ کرتا ہے جو ایک جائز رشتے میں اس کے ساتھ بندھی ہو۔

وہ بیڈ پہ پڑے شاپنگ بیگ کے ڈھیر کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی ۔

صرف اسکو نارمل کرنے کے لیے وہ رات دیر تک بیٹھا اس سے باتیں کرتا رہا مگر عدن نے اس کی کسی بات کا جواب ہوں یا ہاں سے زیادہ نہیں دیا۔ پھر بھی وہ اس سے ایسے بات کر رہا تھا جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔

"عدن آئی نو یہ ساری سیچوئیشن بہٹ ٹف ہے آپکے لیے۔مگر میں پھر بھی چاہوں گا آپ خود کو نارمل کریں۔جتنی جلدی ہو سکتا ہے حالات کو ایکسیپٹ کرلیں۔یہ ہم دونوں کے لیے بہتر ہو گا۔آئندہ میرے گھر میں سے کوئی بھی آئے تو یوں ڈری سہمی مت ملنا۔ٹھیک ہے پہلے کی بات اور تھی بٹ ناؤ ایوری تھنگ ہیز بین چینجڈ۔

خود کو پہچانیں اب آپ وہ نہیں ہیں جو پہلے تھیں"۔

وہ مختصر الفاظ میں بھی اسکو بہت کچھ باور کروا چکا تھا۔

"میرا خیال ہے اب مجھے چلنا چاہیے۔کافی دیر ہو گئی ہے۔ڈیڈی لازمی انتظار کر رہے ہوں گے"۔

وہ ٹائم دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا جہاں اب گھڑی کی سوئیاں بارہ سے آگے جا چکی تھیں۔

"آپ جا رہے ہیں"؟

نکاح سے لیکر اب تک یہ پہلا فقرہ تھا جو اسکی زبان سے ادا ہوا یہ بھی دائم کے پچھلے چار گھنٹے اکیلے بولنے کا ثمر تھا جو اب وہ اس سے کچھ پوچھ رہی تھی۔

"آپ کہتی ہیں تو رک جاتا ہوں"۔

دائم نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا۔

"نن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔میں نے یہ تو نہیں کہا"۔

"اوکے پھر ٹیک کئیر۔نیند کی ٹیبلٹ لے لینا میں رابیل سے کہوں گا وہ کل کو آپکے پاس آ جائیگی"۔ 

وہ جانتا تھا ابھی عدن کو سب سے زیادہ ضرورت صرف اسکی ہے پر اگر وہ رک جاتا تو طلال یقینناً اسکے ٹکڑے کرنے کے لیے صبح یہاں پہنچ جاتے۔

سو نا چاہتے ہوئے بھی وہ اسے خدا حافظ کہہ کر چلا گیا۔

ڈیڈی کے جاتے ہی اس نے اطمینان بھری سانس خارج کی اور کچن کی طرف بڑھ گیا۔فریج سے پانی کی بوتل نکال کر منہ کو لگا لی۔پانی پینے کے بعد اعصاب کچھ نارمل ہوئے تو ذہن سامنے کھڑی لڑکی کی جانب متوجہ ہوا۔جو اب بھی بے یقینی سے منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔

"بیٹھ جائیں ادھر اب کھڑی کھڑی بے ہوش نہ ہو جانا"۔

"آپ نے کیوں کیا یہ سب".

"کیا کیا ہے میں نے"؟

"آپ نے جھوٹ کیوں بولا اپنے ڈیڈی سے"۔

"تو اور کیا کرتا؟ بتا دیتا کیا کہاں سے لایا تھا آپکو۔کیا جواز دیتا کیوں ہیں آپ یہاں پہ"۔

اس کی۔ بات پہ وہ خاموش ہو گئی۔

"میں اس جگہ سے آپکو کسی غلط نیت سے ہرگز نہیں لایا تھا مگر یہ بات صرف آپ اور میں ہی جانتے ہیں۔دنیا نہیں جانتی۔ابھی صرف ڈیڈی کو پتہ چلا ہے آہستہ آہستہ سب کو پتہ چل جائے گا۔اب آپکی یہاں موجودگی میرے لیے پرابلم بن رہی ہے"۔

وہ بات کرنے کے لیے تمہید باندھ رہا تھا۔عدن کی سانس سینے میں اٹک گئی۔

"پھر کیا ہو گا اب"---۔

"آئی کین ہینڈل دس میٹر اگر آپ میرا ساتھ دیں تو"؟

"کیا مطلب ؟ کیا کرنا ہے مجھے"۔

اس،نے ایک نظر صوفے پہ بیٹھی حالات سے سہمی لڑکی کو دیکھا جو بات وہ کہنے جا رہا تھا اگر وہ نہ مانی تو۔۔۔۔۔

"کیا کرنا ہو گا مجھے؟"۔

"جو ڈیڈی کو بتایا ہے وہ سب سچ کرنا ہے آپکو مجھ سے نکاح کرنا ہو گا"۔

"کیا" ؟ 

وہ سپرنگ کی طرح صوفے پر سے اچھلی ۔

"مگر یہ۔۔یہ کیسے ہو سکتا ہے" ؟

"اس مسئلے کا صرف یہی حل ہے میری نظر میں"۔

"مگر۔۔۔۔میں۔۔۔۔میں کیسے کر سکتی ہوں۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔یہ ناممکن ہے۔میں کیسے کر سکتی ہوں آپ سے نکاح۔۔۔۔نہیں۔۔۔میں ہرگز نہیں کر سکتی۔۔۔کبھی نہیں"۔۔۔

وہ نفی میں سر ہلا رہی تھی۔

"محترمہ مجھے کوئی شوق نہیں ہے آپ سے نکاح کرنے کا۔یہ سب صرف آپکی حفاظت کے لئے کر رہا ہوں۔نہیں کرنا تو نہ کریں یہ تو میرے لیے اور بھی اچھا ہے۔میں نے تو بلا وجہ ڈیڈی کو اپنے خلاف کر لیا۔چلیں اٹھیں چھوڑ کے آؤں آپکو واپس"۔

"کہاں۔۔۔کہاں چھوڑ کے آنا ہے مجھے"۔

"جہاں سے لایا تھا اور کہاں۔اٹھیں جلدی کریں میرے پاس ٹائم کم ہے"۔

"نہیں۔۔ہرگز نہیں۔میں وہاں کبھی واپس نہیں جا سکتی"۔

"تو آپ کر کیا سکتی ہیں وہ بتا دیں۔نکاح آپ مجھ سے کر نہیں سکتی۔واپس آپ جانا نہیں چاہتی۔یہاں بغیر کسی رشتے کے میں آپکو نہیں رکھ سکتا۔سو بتائیے کیا کروں میں"۔

"دیکھیئے میں یہاں پر آپ کو مزید نہیں رکھ سکتا۔آہستہ آہستہ میرے سرکل میں یہ بات پھیل جائے گی اور فی الحال تو میں کوئی سکینڈل افورڈ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ابھی تو ڈیڈی چلے گئے ہیں مگر انکا کوئی پتہ نہیں ہے ہو سکتا ہے وہ ممی کو لینے گئے ہوں اور کچھ دیر بعد دوبارہ یہاں پہ ہلّہ بول دیں۔سو اب یہ سب ضروری ہو چکا ہے۔

آپ کے پاس صرف دو آپشن ہیں۔

فرسٹ یہ کہ آپ مجھ سے نکاح کر لیں۔پھر آپ یہیں پر رہیں گی میری ذمہ داری ہوں گی۔آپکے ہر اچھے برے کا ذمہ میرا ہو گا۔

اور دوسری صورت یہ ہے کہ میں آپکو وہیں چھوڑ آؤں جہاں سے لایا تھا کیونکہ میں یہ سب افورڈ نہیں کر سکتا۔حالانکہ میں نہیں چاہتا آپ واپس اس دلدل میں پہنچ جائیں جہاں سے نکلنے کا دوبارہ کوئی راستہ نہیں ملے گا۔ضروری نہیں ہے ہر بار کوئی دائم طلال آ کر آپکو بچا لے۔وہاں جانے کی صورت میں کیا ہو گا یہ آپ مجھ سے بہتر جانتی ہیں۔

پھر بھی میں اپنا کوئی فیصلہ آپ پر نہیں تھوپنا چاہتا۔آخری فیصلہ آپ ہی کا ہو گا۔جو ٹھیک لگے وہ بتائیں۔پانچ منٹ ہیں آپکے پاس۔جلدی سے فیصلہ کریں میں یہیں بیٹھا ہوں"۔

وہ آرام سے ٹانگ پہ ٹانگ رکھے صوفے کی بیک سے ٹیک لگا کر اب فیصلے کا انتظار کر رہا تھا۔

عدن کے آنسو آنکھوں میں ہی ٹھٹھر گئے۔وہ ساری راہیں مسدود کر کے اب فیصلے کی ڈور اسکے ہاتھ میں تھما چکا تھا۔

وہ نظروں میں بے یقینی لیے اسے دیکھ رہی تھی۔تبھی دائم کے موبائل کی بیپ ہوئی۔علی کا میسج تھا۔

"اگر کام نہیں بنا تو دوبارہ فون کر۔۔۔۔دو چار اور ڈائیلاگ میرے ذہن میں آ چکے ہیں۔ایسی ایسی باتیں کہوں گا ڈیڈی بیچاروں کو تیرے ولیمے کی فکر پڑ جائیگی"۔

علی کے میسج پہ۔وہ اپنا قہقہہ نہ روک سکا۔

"آئی لو یو سو مچ"۔

اس نے علی کو ریپلائے دے کر فون سائڈ پر رکھ دیا۔

"آپ بجائے مجھے ایسے دیکھنے کے ہر پہلو پر غور کر لیں۔پانچ میں سے دو منٹ تو گزر ہی چکے ہیں۔اگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو میں یہیں سمجھوں گا کہ آپ نے سیکنڈ آپشن چوز کر لیا ہے"۔

اسکے بولنے پہ عدن کو واقعی ہوش آ گیا۔

"نہیں میں واپس کبھی نہیں جاؤں گی۔جو شخص میری خاطر اپنے باپ کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے وہ مجھے دنیا کے بھیڑیوں سے بھی بچا سکتا ہے۔۔۔۔۔ٹھیک کہہ رہا ہے وہ ضروری نہیں ہے ہر بار کوئی دائم طلال آ کر مجھے بچا لے۔اگر یہ مجھے واپس چھوڑ آیا تو۔۔۔۔۔۔نہیں یہ معاشرہ مجھے کبھی قبول نہیں کریگا۔اگر مجھے خود کو بچانے کا آخری موقع مل رہا ہے تو میں اسے کبھی نہیں گنواؤں گی۔مگر اماں بابا۔۔۔۔۔۔ کیا وہ مجھے تسلیم کر لیں گے"۔

آخری پوائنٹ پہ وہ جھرجھری لے کر رہ گئی۔

یہ آخری موقع تھا ورنہ پھر سے خریدار آئیں گے پھر سے اسکی بولیاں لگیں گی۔یہ سوچ آتے ہی وہ پوری جان سے لرز گئی۔

اب بھی وہ تکلیف یاد آتی تو آنسو بھل بھل آنکھوں سے گرنے لگتے۔اب دوبارہ کسی آزمائش کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔یہ شخص جیسا بھی ہو گا کم از کم مجھے رہنے کے لیے چھت تو دے گا نا"۔

سر پہ آسمان اور پاؤں کے نیچے زمین کا مطلب اب وہ اچھے سے سمجھ چکی تھی۔

"پانچ کی بجائے آٹھ منٹ ہو چکے ہیں۔اسکا مطلب ہے آپکو سیکنڈ آپشن قبول ہے۔سو چلیے ایسا ہی سہی ۔اٹھیں چھوڑ آؤں آپکو"۔

"میں نکاح کے لئے تیار ہوں"۔

اس نے خود کو کہتے سنا۔آواز کسی گہری کھائی سے آرہی تھی۔

اس؟کی بات سن کر دائم نے بے اختیار سر صوفے کی بیک سے ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں۔وہ جانتا تھا عدن مر کے بھی سیکنڈ آپشن قبول نہیں کرے گی اسی لیے اس نے فرسٹ آپشن کے بے انتہا فوائد اور سیکنڈ آپشن کے ڈبل نقصانات اس کے سامنے رکھے تھے۔

"آپ کمرے میں جائیں میں نکاح کا بندوبست کرتا ہوں"۔

وہ روبوٹ کی مانند اٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔ساری حسیات مردہ ہو چکی تھیں۔

عدن کے جانے کے بعد اس نے علی کو فون کیا۔وہ فون اٹھاتے ہی دوبارہ شروع ہو گیا۔

"یار دائم!اگر تو کہے تو میں انکل سے بات کروں۔اب یہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ تو رہے گا نہیں۔الیکشن نزدیک ہیں مخالفین تو اس طرح کی باتیں بہت اچھالتے ہیں۔انکل کو چاہیے بھابھی کو ایکسیپٹ کر لیں ورنہ اگر دشمنوں کو بھنک بھی پڑ گئی تو انکل کی کرسی تو گئی۔میرا خیال ہے انہیں پہلے ہی تمہارا ولیمہ کر کے سب کو اطلاع دے دینی چاہیے"۔

"بس کر دے علی۔۔۔۔۔۔بس کر دے۔۔۔۔۔چلے گئے ہیں ڈیڈی"۔

دائم نے بے تحاشا ہنستے ہوئے اسے درمیان میں روکا۔

"تو پہلے بک دیتا نا۔۔۔۔۔میں تو انکل کو بلیک میل کرنے کے لیے ڈیڑھ سو ڈائیلاگ سوچ کر بیٹھا ہوں"۔"ویسے بھی انکل کو سب سے زیادہ عزیز کرسی ہی ہے جو کام کروانا ہوتا ہے انہی دنوں میں کروایا کر"۔

"مشورے کا شکریہ"۔

"اب ذرا کھل کے بتا معاملہ کیا تھا"۔

"وہ میں تجھے بعد میں بتاؤں گا پہلے ایسا کر ایک نکاح خواں اور چند گواہوں کا بندوبست کر۔صرف آدھے گھنٹے کے اندر۔جلدی سے سب کو فلیٹ پہ لے کر آ جا۔آئی ایم ویٹنگ"۔

"او بھائی۔۔۔۔تیرا دماغ کہیں سیر تو نہیں کرنے گیا ۔بریک پہ پاؤں رکھ لے۔پہلے نقلی نکاح اب اصلی نکاح۔تو بتاتا کیوں نہیں ہے مسئلہ کیا ہے تیرا"۔

"تم آؤ گے تو ہی بتاؤں گا فی الحال سب کو لے کے پہنچ اور صرف اعتماد والے بندے لانا۔۔اور ہاں رابی کو بھی ساتھ لے کے آنا۔آنٹی کو بھنک بھی نہ پڑے"۔

"اچھا ٹھیک ہے آتا ہوں۔۔پر بارات کہاں لے کے جانی ہے"۔

"کونسی بارات۔۔۔۔نکاح یہیں میرے فلیٹ پہ ہو گا"۔

"کیا مطلب ؟ دلہن پہلے سے ہی موجود ہے کیا؟ او مائی گاڈ! دائم طلال آج تو میرے دل کے چاروں خانوں سے اتر گیا ہے"۔

"شٹ اپ۔جتنا کہا ہے بس اتنا کر آدھے گھنٹے کے اندر پہنچو"۔

"آدھا نہیں یار ایک گھنٹہ لگ جانا مجھے"۔

"نہیں نہیں صرف آدھا گھنٹہ۔ڈیڈی فی الحال چلے گئے ہیں ان کے دوبارہ آنے سے پہلے میں یہ سب فکس کرنا چاہتا ہوں"۔

"نہ بیٹا نہ۔آدھا گھنٹہ تو مجھے گواہ اکٹھے کرتے لگ جانا ہے۔باقی آدھے گھنٹے میں چھوارے بھی پیک کروانے ہیں"۔

"کیوں تو نے چھوارے کیا کرنے ہیں۔تو خود یہاں پہ مر میرے لیے وہی بہت ہے"۔

"او پائی۔۔۔۔پاکستان میں کونسا نکاح ہے جو بغیر چھواروں کے ہوا ہو۔کم از کم میں تو سوکھے منہ تیرے گواہوں والے خانے میں دستخط نہیں کر سکتا۔اور میرے پاس جو گواہ ہیں نا جب تک انہیں دو دو چھواروں کی تھیلیاں نہ ملی وہ کسی صورت گواہی نہیں دیں گے۔اس لیے ابھی سے سوچ لے"۔

"تو تجھے کس نے کہا ہے کہ تو اپنے جیسے اکٹھے کر کے لے آ۔دیکھ اس وقت میں بہت ڈپریسڈ ہوں۔اس سے پہلے کہ ڈیڈی دوبارہ آجائیں مجھے یہ سب حل کرنا ہے تو اگر نہیں آ سکتا تو بتا دے تا کہ میں خود کر لوں سب کچھ"۔

دائم کی غصیلی آواز سنتے ہی وہ فوراً لائن پہ آ گیا۔

"اچھا اچھا۔سیریس تو نہ ہو آ رہا ہوں بلکہ نکل پڑا ہوں۔چھواروں والا تو پیچھے رہ گیا بیچارہ"۔

اس،سے پہلے کہ علی کی بک بک دوبارہ شروع ہوتی اس نے فون بند کر دیا۔

_________________________________

"رابی جلدی سے تیار ہو جاؤ۔ہمیں ایک جگہ پہ جانا ہے"۔

"کہاں پہ"۔

"میرے دوست کی شادی ہے صرف دس منٹ ہیں تمہارے پاس اگر ریڈی ہو سکتی ہو تو ہو جاؤ"۔

"صرف دس منٹ میں؟اچھا ٹھہرو میں امی سے پوچھ کے آتی ہوں"۔

"نہیں نہیں امی سے نہیں پوچھنا۔بس تم حلدی سے تیار ہوجاؤ۔صرف ہم دونوں نے جانا ہے"۔

"ہاہ وہ کیوں۔امی کو بتائے بغیر نہیں جانا میں نے"۔

"دیکھو رابی یہ ضروری ہے امی کو بھنک بھی نہ پڑے۔میرے پاس ٹائم کم ہے سو ہری اپ پلیز"۔

اگلے دس منٹ میں وہ جلدی سے تیار ہو کے آئی۔

"امی میں نادیہ سے کچھ نوٹس لینے جا رہی ہوں بھائی کے ساتھ۔ دیر ہو جائے تو پریشان مت ہوئیے گا"۔

وہ امی کا جواب سنے بغیر بھاگتی ہوئی باہر آئی جہاں علی وسل پہ وسل دے رہا تھا۔اس،سے پہلے کہ امی دروازے تک آتیں اس نے جلدی سے گاڑی بھگا لی۔

"اب بتاؤ کہاں جانا ہے۔

"بتایا تو ہے میرے دوست کی شادی ہے"۔

"کونسے دوست کی ہے جو امی کو بھی بتانے نہیں دیا"۔

"جب جاؤ گی تو پتہ چل جائیگا"۔

"تمہاری باتیں مجھے مشکوک لگ رہیں ہیں۔ہائے کہیں تم تو نہیں جا رہے شادی کروانے"۔

"دائم کا نکاح ہے"۔

"کیا دائم بھائی کا"؟

اس کی پر جوش چیخ پہ علی نے کانوں پہ ہاتھ رکھا۔

"پھر تم نے امی کو کیوں نہیں بتانے دیا"۔

"اس لیے کہ وہ گھر والوں کے علم میں لائے بغیر شادی کر رہا ہے"۔

"ہائے اللہ یعنی خفیہ شادی۔کیوں کر رہے ہیں وہ ایسا تمہیں روکنا چاہیے تھا انہیں۔اگر انکل کو پتہ چل گیا تو"۔۔۔

"میرے کہنے پہ تو نہیں رکا تم جا کے روک لینا اسے۔اب برائے مہربانی میرا سر نہ کھاؤ چپ کر کے بیٹھو"۔

"لڑکی کے گھر والے مان گئے کیا اس شادی کے لئے"۔

"یہ دیکھو میں ہاتھ جوڑتا ہوں منہ بند کر لو۔وہاں جا کے سب کچھ پتہ چل جائیگا"۔

اسے چپ کروا کے وہ موبائل پہ مصروف ہو گیا۔

نواب عالم پہ بھائی کی موت کی خبر بجلی بن کے گری تھی۔ساری عمر وہ بھائی سے دور رہے تھے مگر اب اسکی موت نے انہیں ہلا کے رکھ دیا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے جسم کا ایک حصہ مفلوج گیا ہو۔

"ہوا کیا تھا اسے کل تو وہ بالکل ٹھیک ٹھاک گیا تھا میرے پاس سے۔پھر ایک دن میں یہ سب کیسے ہو گیا"۔

"بس آپ کے پاس سے ہی ہو کر آئے تھے آتے ہی طبیعت خراب ہو گئی ان کی"۔

میر عالم کے چھوٹے بیٹے نے روکھے لہجے میں جواب دیا۔نواب عالم ضبط کے گھونٹ بھر کے رہ گئے۔عبداللہ نے انکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔

"جہانگیر کہاں ہے نبیل"۔

عبداللہ نے چھوٹے نبیل سے پوچھا۔جب سے وہ آئے تھے جہانگیر نظر نہیں آیا۔

"مجھے کیا پتہ۔مجھ سے کونسا پوچھ کے جاتا ہے وہ"۔ 

نبیل کہہ کر باقی آئے لوگوں سے تعزیت وصول کرنے لگ گیا۔

اندر اماں پروین چچی کو ساتھ لگائے تسلی دے رہی تھیں۔مگر وہاں پہ اکثر خواتین بجائے دکھ درد بانٹنے کے نواب عالم کی قسمت پہ افسوس کر رہی تھیں۔

"حق ہاہ۔چوہدری نواب تو قسمت ہی ماڑی لکھوا کے لایا ہے۔پہلے بیٹی گھر سے بھاگ گئی اب بھائی بھی سارا کچھ چھوڑ کے اوپر پہنچ گیا"۔

"حالانکہ نمبر تو پہلے چوہدری نواب کا ہی تھا۔پر آئی کو کوں ٹال سکتا،ہے۔ چھوٹا بھرا پہلے ہی چلا گیا"۔

ان جاہل عورتوں کی باتوں پہ اماں نے دہل کر دل پہ ہاتھ رکھا۔

"کچھ پتہ چلا کہاں چلی گئی ہے وہ لڑکی"۔

"اللہ جانے بہن ۔۔۔میرے خیال میں تو کوئی اونچا ہی ہاتھ مارا ہو گا اس نے"۔

"اماں میں اب اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان عورتوں کی زبانیں بند کروا دیتیں۔ان کے آنسوؤں میں روانی آگئی۔یہ سب تو شاید اب تا عمر جھیلنا تھا"۔

باپ کے جنازے پہ بھی جہانگیر موجود نہ تھا۔یہاں تک کہ میر عالم پہ منوں مٹی ڈال دی گئی مگر جہانگیر نہ آیا۔

چچا کے سوئم کے بعد عبداللہ نے ہر چیز ایس پی دانیال سے ڈسکس کی۔

"تم نے مجھے اس وقت کیوں نہ بتایا جب وہ گھر آیا تھا۔ میں کوئی بھی کیس اس پہ ڈال دیتا۔اب خدا جانے وہ کہاں چلا گیا ہے۔ اسکی فیملی تو ہے نا اس سے پتہ کرو"۔

"سوئم کے بعد اس کی ساری فیملی گاؤں سے جا چکی ہے۔کسی کو کچھ علم نہیں وہ کہاں چلے گئے ہیں۔رات کے اندھیرے میں ہی کہیں غائب ہو گئے"۔

"اوہ مائی گاڈ۔۔یہ کیسے ہو سکتا ہے۔یہ تو سب ایک پڑی پلانڈ گیم ہے"۔

"دانیال تم کسی بھی طریقے سے اسکا پتہ چلاؤ۔صرف ایک ہی تو سوراغ تھا اب وہ بھی ہاتھ سے نکل گیا ہے"۔

"پریشان مت ہو۔میں کوشش کرتا ہوں"۔

دانیال کی طفیل تسلی پہ وہ پیشانی مسلتا دروازے کی جانب بڑھ گیا۔

_________________________________

علی رابی کو فلیٹ پہ چھوڑ کر خود گواہوں کو لینے چلا گیا۔دائم نے اسے دیکھ کر سکھ کا سانس لیا۔اس نے اسے بالخصوص عدن کے لئے ہی بلوایا تھا۔اس،موقعے پر اسے واقعی سہارے کی ضرورت تھی۔دائم نے مختصراً اسے کچھ سچ جھوٹ ملا کر بتایا۔وہ پریشانی سے سر ہلاتی عدن کے کمرے کی طرف چلی گئی۔اس نے کمرے کا دروازہ کھولا سامنے ہی ایک ڈری سہمی سی لڑکی بیٹھی تھی۔رابی کو بے اختیار اس پہ ترس آیا۔

"السلام علیکم۔میں رابیل ہوں دائم بھائی کے دوست کی بہن"۔

عدن کو تو سمجھ ہی نہ آیا وہ کیا کہہ رہی ہے ۔

رابی خود ہی آگے بڑھ کر اس کے پاس بیٹھ گئی۔

"کیسی ہیں آپ۔کیا نام ہے آپکا"۔

عدن نے خاموش نظروں سے اسے دیکھا۔ اسکی آنکھوں کی ویرانی دیکھ کر رابی کانپ سی گئی۔اس نے خود ہی آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔وہ اس سے ادھر ادھر کی باتیں کر کے اسے نارمل کرنے کی کوشش کرتی رہی۔

کچھ دیر بعد علی دروازہ ناک کر کے ہاتھ میں رجسٹر تھامے اس تک آیا۔رابیل نے رجسٹر اور پین اسکے سامنے کیا۔اس نے بے تاثر نظروں سے سامنے پڑے رجسٹر کو ددیکھا۔

"آپ مجھے بالکل رابی کی طرح ہیں۔پلیز بغیر کسی ٹینشن کے سائن کریں۔دائم کی گواہی میں آپکو دیتا ہوں۔آپ مجھ پر پورا اعتبار کر سکتی ہیں۔آج سے میری ایک نہیں دو بہنیں ہیں"۔

علی نے آگے بڑھ کر اسکے سر پہ ہاتھ رکھا۔

اس کے ساکت وجود میں جنبش ہوئی۔نکاح نامہ اور پین سامنے پڑا تھا۔کچھ لمحوں بعد وہ اپنے سارے حقوق عمر بھر کے لیے کسی اور شخص کے نام کرنیوالی تھی۔پھر ساری زندگی کے لئے ایک اور نام اس کے نام کے ساتھ جڑ جائیگا۔وہ عدن نواب عالم سے عدن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے ہاتھوں میں تھاما پین لرز گیا۔

پہلے صفحے پہ عدن نواب عالم لکھتے ہی آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی تھی۔ساری حسیات جاگ اٹھیں۔رابیل نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔اسکی یہ حالت دیکھ کر اں دونوں کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔ایک کے بعد ایک صفحے پہ دستخط کرتے ہوئے دھندلائی آنکھوں میں صرف اماں اور بابا کے چہرے تھے۔علی کے جاتے ہی وہ رابیل کے گلے لگ کر بے تحاشا رو دی۔

علی کو باہر آتے دیکھ کر دائم نے پر سکون سانس خارج کی۔اسکا سنجیدہ انداز بتا رہا تھا کہ اندر برسات جاری ہے۔

نکاح کے بعد سب کو فارغ کر کے وہ ہال میں اسکے پاس آ بیٹھا۔

"بھابھی کا خیال رکھنا۔ان کی کنڈیشن ٹھیک نہیں ہے۔وہ پہلے ہی اتنے برے حالات سے گزر چکی ہیں"۔

اسکی بات پہ دائم نے سر ہلایا تبھی رابیل کمرے سے نمودار ہوئی۔

"بھائی تم نے گھر جانا ہے تو چلے جاؤ۔آپی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔مجھے آج رات یہیں رہنے دو۔وہ بہٹ ڈسٹرب ہیں"۔

علی نے کن اکھیوں سے دائم کی طرف دیکھا جو نفی میمیں سر ہلا رہا تھا۔اسکے حلق سے بے اختیار قہقہہ امڈ آیا۔

"اس میں ہنسنے والی کونسی بات ہے"۔

رابیل نے غصے سے اسے دیکھا۔

"نہیں نہیں میں تمہاری بات پہ تو نہیں ہنسا۔ٹھیک ہے اگر تم نے رہنا ہے تو رہ لو کوئی مسئلہ نہیں کیوں دائم"؟

اس نے مسکراہٹ دبا کر دائم سے کہا۔

اور دائم نے اس طرح ارد گرد دیکھا جیسے اس کے سر پہ میں مارنے کے لئے کوئی چیز ڈھونڈ رہا ہو۔رابی واپس کمرے میں چلی گئی جبکہ علی وہیں صوفے پہ لیٹ گیا۔

"اٹھ اور دفعہ ہو جا یہاں سے" ۔

دائم اس کے سر پہ آ کر کھڑا ہو گیا۔

"نہیں یار۔آج میرا دل کر رہا ہے تجھے اکیلا نہ چھوڑوں۔چل آج کی رات تیرے پاس ہی ہوں جتنے دکھ سکھ کرنے ہیں کر لے"۔

"بہت شکریہ۔کوئی ضرورت نہیں ہے مجھے تیرے ساتھ سر پھوڑنے کی"۔

"مجھ سے ذرا تمیز سے بات کر۔ ابھی نیہا کو فون کر کے تیرے تازہ تازہ نکاح کی اطلاع دے دی نا تو تو نے مرہم پٹی کروانے کے لیے بھی مجھے ہی فون کرنا ہے"۔

علی کے کہنے پر اسکے چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی۔

"بک بک کر کے تو نہیں تھکتا جتنی مرضی کروالو"۔

"ہاں مجھے یاد آگیا امی تم دونوں کو ڈنر پہ انوائٹ کرنا چاہتی ہیں۔بتاؤ پھر کب تک آؤ گے"۔

علی کے کہنے پر ان دونوں کے قہقہے ہال میں گونج اٹھے۔

"اگر تو بجائے فون کے سامنے کھڑا ہو کے یہ باتیں کرتا تو ڈیڈی نے میرے ساتھ ساتھ تجھے بھی عالم بالا پہنچا دینا تھا"۔

"اور رابیل سے کہنا آنٹی کو ابھی کچھ نہ بتائے۔یہ نہ ہو وہ مٹھائی لے کر ممی کو مبارکباد دینے آ جائیں"۔

"نہیں امی کو نہیں پتہ۔تو ایسا کر اب کھانے کا بندوبست کر۔چھوارے تو تو نے مجھے لانے نہیں دیے۔سارے گواہ بھی مجھے کوستے ہوئے گئے ہونگے"۔

علی پھر سے سٹارٹ لینے لگا تھا ۔دائم نے وہیں بیٹھے بیٹھے رابی کو آواز دی۔

"اسے کیوں بلا رہا ہے؟ دیکھ ہم نے کہیں نہیں جانا۔آج رات تو یہیں رہنا ہے۔بھلا میں تجھے اس مشکل میں اکیلا چھوڑ کے جا سکتا ہوں"۔

"جی بھائی"۔۔تبھی رابیل باہر آئی۔

"رابی آنٹی کی کال بار بار آ رہی ہے"۔

"اوہ نو۔۔۔۔کافی دیر ہو گئی ہے امی پپریشان ہو رہی ہوں گی مگر آپی"۔۔۔۔

"اٹس اوکے۔۔۔۔تم لوگ گھر جاؤ بلاوجہ آنٹی ٹینشن لیں گی"۔

اس نے سنجیدگی سے کہا جبکہ علی کڑے تیوروں سے اسے گھور رہا تھا۔

"رابی میں امی کو کہہ دیتا ہوں تمہاری دوست کی طبیعت خراب ہے"۔

"کوئی ضرورت نہیں ہے جھوٹ بولنے کی"۔

دائم نے اسے گھور کے دیکھا۔

"بیٹا ہم تیرے نکاح میں بھی جھوٹ بول کے ہی آئے ہیں۔کوئی نا گن گن کے بدلے لوں گا۔چلو رابی امی پریشان ہو رہی ہوں گی"۔

وہ منہ لٹکانے دروازے کی جانب بڑھا۔رابی بھی عدن سے مل کر اس کے پیچھے آ گئی۔

"اب تو مجھ سے کسی شرافت کی توقع نہ رکھنا ابھی کے ابھی نیہا کو فون کر کے بریکنگ نیوز دیتا ہوں"۔

"اللہ حافظ"۔

علی کی دھمکی پہ وہ مسکراتے ہوئے اندر آگیا۔

__________________________________

ہینڈل پہ آہستہ سے ہاتھ رکھ کر اس نے دروازہ کھولا۔عدن اس کو دیکھتے ہی بیڈ پر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔وہ چلتا ہوا اس کے پاس آ رکا۔عدن کا سر مزید جھک گیا۔نظریں اپنے سامنے موجود بلیک شوز پر تھیں۔

"مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ سب اتنی جلدی اور یوں اچانک ہو جائیگا۔آپ پلیز مجھے غلط مت سمجھیے گا۔یہ بہت ضروری تھا جو ہوا وہ سب شاید ایسے ہی ہونا لکھا تھا۔۔۔۔۔۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ڈیڈی یہاں پہ آ جائیں گے۔۔۔۔۔۔سو اسکے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا ۔میں کبھی آپکو اس جگہ پہ واپس نہیں بھیج سکتا اتنا بے غیرت نہیں ہوں کہ جس جہنم سے آپکو نکال کے لایا تھا دوبارہ وہیں چھوڑ آؤں۔۔۔۔۔۔۔اگر آپکو یہاں چھوڑنے کے بعد میں نے کوئی خیر خبر نہیں لی تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ میں آپ سے غافل ہو گیا تھا میں نے اسی لیے کوئی رابطہ نہیں رکھا تاکہ آپ خود کو سیکیور سمجھیں۔اب آپ میری ذمہ داری ہیں۔کسی سے ڈرنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ فون رکھیں اپنے پاس میں نے اپنا نمبر سیو کر دیا ہے۔

کوئی مسئلہ ہو فوراً مجھے کال کرنا۔ٹھیک ہے۔"۔

اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

"چلیں آئیں دروازہ اندر سے لاک کر لیں۔مجھے ابھی آفس جانا ہے۔ڈیڈی یا کوئی بھی اور آئے دروازہ ہرگز نہ کھولنا۔میں شام کو آؤں گا ۔اوکے"۔

وہ اسے خدا حافظ کہتا ہوا چلا گیا۔

اسکے جانے کے بعد وہ کمرے میں آئی اور آتے ہی سجدے میں گر گئی۔وہ بغیر کچھ کہے صرف روئے جا رہی تھی۔خدا نے اس کی عزت کی حفاظت کی تھی اور اب اسے محفوظ ہاتھوں میں سونپ چکا تھا۔اس سے بڑی اور کیا نعمت ہو سکتی تھی۔وہ ہچکیوں سے روئے جا رہی تھی۔

بعض اوقات ہمارے پاس اللہ سے کہنے کو کچھ بھی نہیں ہوتا۔بہت کچھ کہنے کی خواہش کے باوجود زبان الفاظ کا ساتھ نہیں دیتی۔اس وقت زبان بالکل گنگ ہو جاتی ہے۔پھر دل کا غبار صرف آنسوؤں کے ذریعے ہی نکلتا ہے۔اور وہ تو اللہ ہے بندے کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب۔وہ تو پھر سب کچھ جانتا ہے ہمارے ایک ایک انداز سے واقف ہے۔

وہ بھی بغیر کچھ کہے اس کے حضور سر رکھے روئے جا رہی تھی۔

اس وقت اسکی آنکھوں سے گرنے والے قطرے انمول تھے کیونکہ یہ شکرانے کے آنسو تھے۔

_________________________________

سارا دن اسے علی کے دھمکی بھرے میسیجز ملتے رہے۔طلال نے بھی آفس کا چکر نہیں لگایا سو اسے خود ہی سارا کام نمٹانا پڑا۔ساری فائلز اور کیش بنک میں رکھوا کر واپسی پہ اس نے گاڑی مارکیٹ کی جانب موڑ دی۔

آج عدن کے وہی ہفتہ پہلے والے پہنے کپڑے دیکھ کر اسے بے انتہا ندامت ہوئی۔سو اب وہ اس کے لیے کپڑے،جوتے،بیگ،پرفیومز،برش اور جانے کیا الا بلا خرید لایا تھا وہ سارے شاپنگ بیگ گاڑی میں رکھ رہا تھا جب قریب سے آنے والی آواز پہ چونکا۔

"ہائے دائم۔تم یہاں"؟

"ہیلو نیہا۔کیسی ہو"۔

میں بالکل ٹھیک۔تم کیا کر رہے ہو یہاں۔

"کیوں کیا کرتے ہیں مارکیٹ میں"؟

"یہ اتنی ڈھیر ساری شاپنگ کس کی ہے"۔

اس سے پہلے کہ نیہا شاپنگ بیگ کھول کر چیک کرتی اس نے جلدی سے دروازہ بند کردیا۔

"ظاہر ہے میری ہے اور کس کی ہونی ہے"۔ 

"اگر تم آ ہی گئے ہو تو پلیز میرے ساتھ کچھ دیر کے لیے چلو مجھے شاپنگ کرنی ہے"۔

"پلیز نیہا تم خود ہی کرو مجھے ابھی اور بھی کام ہیں۔پلیز سوری"۔

اسے کہہ کر اس نے فوراً گاڑی آگے بڑھا دی۔مگر پچھلی سیٹ پر پڑے شاپنگ بیگ میں سے مہرون

اور گولڈن کلر کا لیڈیز سوٹ نیہا کی نظروں سے نہ چھپ سکا۔

_________________________________

"لیڈیز شاپنگ کا مجھے کوئی تجربہ نہیں ہے اس لیے جو سمجھ آیا وہی لے آیا ہوں آپکے لیے۔سوری مجھے پہلے اس بارے میں خیال نہیں رہا۔چیک کر لیں جو چیز مسنگ ہے وہ بتا دینا"۔

عدن نے جواباً فقط سر ہلانے پہ اکتفا کیا۔

اکیلی عورت کی اس معاشرے میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔تنہا عورت تنکے سے بھی زیادہ ہلکی ہوتی ہے۔یہ لوگ اسے کبھی جینے نہیں دیتے۔اس کے لیے ایک مرد کا ساتھ بہت ضروری ہوتا ہے۔وہ ہفتہ بھر سے یہاں موجود تھی تب اس کو ان چیزوں کا خیال نہیں آیا لیکن اب نکاح کے فقط چند گھنٹوں بعد ہی دائم کو اسکی ہر چیز کی فکر تھی۔مرد ہر عورت کی اتنی پرواہ نہیں کرتا وہ صرف اسکی پرواہ کرتا ہے جو ایک جائز رشتے میں اس کے ساتھ بندھی ہو۔

وہ بیڈ پہ پڑے شاپنگ بیگ کے ڈھیر کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی ۔

صرف اسکو نارمل کرنے کے لیے وہ رات دیر تک بیٹھا اس سے باتیں کرتا رہا مگر عدن نے اس کی کسی بات کا جواب ہوں یا ہاں سے زیادہ نہیں دیا۔ پھر بھی وہ اس سے ایسے بات کر رہا تھا جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔

"عدن آئی نو یہ ساری سیچوئیشن بہٹ ٹف ہے آپکے لیے۔مگر میں پھر بھی چاہوں گا آپ خود کو نارمل کریں۔جتنی جلدی ہو سکتا ہے حالات کو ایکسیپٹ کرلیں۔یہ ہم دونوں کے لیے بہتر ہو گا۔آئندہ میرے گھر میں سے کوئی بھی آئے تو یوں ڈری سہمی مت ملنا۔ٹھیک ہے پہلے کی بات اور تھی بٹ ناؤ ایوری تھنگ ہیز بین چینجڈ۔

خود کو پہچانیں اب آپ وہ نہیں ہیں جو پہلے تھیں"۔

وہ مختصر الفاظ میں بھی اسکو بہت کچھ باور کروا چکا تھا۔

"میرا خیال ہے اب مجھے چلنا چاہیے۔کافی دیر ہو گئی ہے۔ڈیڈی لازمی انتظار کر رہے ہوں گے"۔

وہ ٹائم دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا جہاں اب گھڑی کی سوئیاں بارہ سے آگے جا چکی تھیں۔

"آپ جا رہے ہیں"؟

نکاح سے لیکر اب تک یہ پہلا فقرہ تھا جو اسکی زبان سے ادا ہوا یہ بھی دائم کے پچھلے چار گھنٹے اکیلے بولنے کا ثمر تھا جو اب وہ اس سے کچھ پوچھ رہی تھی۔

"آپ کہتی ہیں تو رک جاتا ہوں"۔

دائم نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا۔

"نن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔میں نے یہ تو نہیں کہا"۔

"اوکے پھر ٹیک کئیر۔نیند کی ٹیبلٹ لے لینا میں رابیل سے کہوں گا وہ کل کو آپکے پاس آ جائیگی"۔ 

وہ جانتا تھا ابھی عدن کو سب سے زیادہ ضرورت صرف اسکی ہے پر اگر وہ رک جاتا تو طلال یقینناً اسکے ٹکڑے کرنے کے لیے صبح یہاں پہنچ جاتے۔

سو نا چاہتے ہوئے بھی وہ اسے خدا حافظ کہہ کر چلا گیا۔

اگلی صبح وہ معمول کے مطابق آفس کے لیے تیار ہو کر نیچے آیا۔

"گڈ مارننگ ایوری ون"۔

ڈیڈی کے علاوہ سب نے ہی اسے جواب دیا۔وہ سنجیدگی سے اپنے سامنے آج کا پیپر پھیلائے اس پہ کچھ پوائنٹس مارک کر رہے تھے۔

وہ ان کے بالکل سامنے آکر بیٹھ گیا۔

"کیا کر رہے آپ ڈیڈی"؟

"نظر نہیں آ رہا تمہیں"۔

"آئی مین میں ہیلپ کر دیتا ہوں اگر آپ کوئی مارکیٹنگ پوائنٹس چیک کر رہے ہیں تو"۔

"تم جو آج کل کر رہے ہو وہی کرو اتنا ہی بہت ہے۔مجھے نہیں چاہیے تمہاری ہیلپ"۔

ان کے دو ٹوک انداز پہ وہ چپ سا کر گیا۔وہ ہمیشہ سے ہی طلال سے بہت اٹیچڈ تھا۔وہ بھی اس کی ہر غلطی کو ہنس کر ٹال جاتے تھے مگر جو اب اس نے کیا اس چیز نے واقعی انہیں دکھ دیا تھا۔سو اب طلال کی یہ بے رخی اس سے بھی برداشت نہیں ہو رہی تھی۔

"صارم!ڈیڈی تو آج کل بزی ہیں۔بزنس نہیں سنبھال سکتے تم جتنے دن یہاں ہو آفس آ جایا کرو۔میرے سے ہینڈل نہیں ہو پا رہا سب کچھ۔اپنا آفس ورک بھی کرنا ہوتا ہے اور ڈیڈی کا بھی"۔

"ہاں بھئی اب تم سے کہاں ہینڈل ہو گا۔تمہارے سر پہ تو اور بھی بہت سی ذمہ داریاں پڑ چکی ہیں"۔

ڈیڈی کی بات پہ اس نے سامنے پڑا پانی کا گلاس اٹھا کر منہ کو لگا لیا۔

"نو ڈیڈی اٹس اوکے۔ٹھیک کہہ رہا ہے یہ۔میں نے کیا کرنا ہوتا ہے۔ فری ہی ہوتا ہوں سارا دن۔نہیں ہو پا رہا اس سے ہینڈل۔میں آپکا آفس دیکھ لیا کرونگا"۔

"بیٹا تمہارے واپس جانے میں دن ہی کتنے رہتے ہیں۔دوستوں سے ملو انجواۓ کرو اور رہی بات آفس کی تو یہ اگر ادھر اُدھر منہ ماری کرنے کی بجاۓ صرف بزنس پہ توجہ دے تو سب کچھ ہینڈل ہو سکتا ہے"۔

صارم کو کسی گڑبڑ کا احساس ہوا۔

"کوئی بات نہیں ڈیڈی میں بھی تو یہی پڑھ رہا ہوں اچھا ہے نا ابھی سے تجربہ ہو جائے گا"۔

"اسکی ہر بات ماننے کی ضرورت نہیں ہے میں پہلے ہی پچھتا رہا ہوں اسکو سر پہ چڑھا کے"۔

سارہ خاموش بیٹھی ان کی باتیں سن رہی تھیں۔ماحول میں کشیدگی واضح رچی ہوئی تھی۔دائم اور طلال تو جب بھی اکٹھے ہوتے تو کوئی نہ کوئی ٹاپک ڈسکس کرتے رہتے۔یہ خاموشی اور تناؤ تو کبھی انکے درمیان نہیں آیا تھا۔

"خیریت تو ہے آج آپ دونوں ایسے کیوں ری ایکٹ کر رہے ہیں"۔

"اپنے بیٹے سے پوچھ لیں وہ بہتر بتا سکتا ہے آپکو"۔

"کیا بات ہے دائم"۔

"کچھ بھی نہیں ممی ۔بزنس کے مسائل ہی ہیں۔اونچ نیچ تو ہو ہی جاتی ہے۔ڈیڈی بلاوجہ ٹینشن لے رہے ہیں ڈونٹ وری ڈیڈی اب صارم بھی آ جائے گا تو ہم دونوں مل کر سب ہینڈل کر لیں گے"۔

طلال نے زیر لب اسے کسی مہذب لفظ سے نوازا۔

اس سے پہلے کہ ڈیڈی کوئی راز افشا کرتے وہ جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا۔

"صارم میں تمہارا انتظار کروں گا جلدی آنا پلیز"۔

اس کی بات پہ صارم نے سر ہلایا۔

"تم جاؤ میں اور ڈیڈی اکٹھے آ جائیں گے"۔

وہ ایک نظر ڈیڈی پہ ڈالتا ہوا چلا گیا۔

___________________________________

آفس آکر اس نے سب سے پہلے علی کو فون کیا۔

"کیا ہے یار۔سو تو لینے دیا کرو۔صبح صبح کیوں فون کھڑکا دیا۔مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی تمہیں میرے بغیر نیند کیسے آجاتی ہے"۔

"ابھی اٹھو اور جا کے رابی کو عدن کے پاس چھوڑ کر آؤ"۔

"یار میں کیسے چھوڑ آؤں۔امی سے کیا کہوں گا"۔

"کچھ بھی کہہ دینا انہوں نے کونسا تم سے تفتیش کرنی ہے"۔

"یار میرا خیال ہے امی کو بتا دیتا ہوں سب کچھ۔اس طرح میں کتنے بہانے کروں گا آخر۔وہ نہیں بتائیں گی کسی کو"۔

"ہاں ہاں تاکہ شام سے پہلے میرے گھر میں زلزلے آ جائیں"۔

"ویسے تو ایک بار سوچ اگر امی مبارکباد دینے پہنچ جائیں تو تیری ممی کو جو غشیاں پڑنی ہیں وہ تو پڑیں گی ہی نیہا بی بی نے تو بغیر ٹکٹ کے اوپر پہنچ جانا ہے"۔

اپنی بات پہ وہ خود ہی قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔

"بس ہو گئی تیری بیٹری چارج صبح صبح۔اب اٹھ اور رابی کو چھوڑ کر آ جلدی سے"۔

"اچھا یار اٹھ رہا ہوں اور بھابی سے کہنا اچھا سا ناشتہ بنا کے رکھیں میں بس کچھ دیر میں پہنچتا ہوں"۔

"جو ٹھونسنا ہے گھر سے ٹھونس کر جانا۔اسکی پہلے ہی طبیعت ٹھیک نہیں ہے"۔

"اوئے ہوئے رانجھے۔بڑے درد اٹھ رہے ہیں۔ نا رابی کو بھیجنے کی بجائے تو خود کیوں نہیں چلا جاتا"۔

"مشورہ اچھا ہے پر میں عمل نہیں کر سکتا کیونکہ ڈیڈی نے آج آفس آنا ہے"۔

"ہائے ہائے ایک تو یہ ڈیڈی بھی نا کسی کی دال نہیں گلنے دیتے"۔

"بس بس زیادہ بک بک نہیں ۔ابھی میں مصروف ہوں۔بائے"۔

کچھ دیر بعد صارم اور ڈیڈی بھی پہنچ گئے۔طلال تو ناک کی سیدھ میں چلتے ہوئے اپنے آفس میں چلے گئے جبکہ صارم اس کے پاس آ گیا۔

"مسئلہ کیا چل رہا ہے تم دونوں میں۔اتنے دنوں سے بھی تو سب کچھ خود ہی سنبھال رہے تھے اب میری یاد کیسے آ گئی۔وہاں ڈیڈی سیدھے منہ بات نہیں کر رہے اور یہاں تمہارا منہ لٹکا ہوا ہے"۔

"ڈیڈی سے نہیں پوچھا تم نے"؟

"پوچھا تھا انہوں نے کہا ہے اپنے لاڈلے سے پوچھ لینا۔اب ممی کی طرح مجھے بھی یہ مت کہہ دینا کہ بزنس کا مسئلہ ہے"۔

"تم ٹھیک کہہ رہے ہو صامی۔بات واقعی بزنس کی نہیں ہے۔مسئلہ میری پرسنل لائف کا ہے"۔

وہ اتنا کہہ کر ہی خاموش ہو گیا۔

"یو کین ٹرسٹ آن می۔بتاؤ کیا بات ہے"۔

"تم پہ ٹرسٹ ہے اسی لیے تو تمہیں یہاں بلایا ہے۔گھر پہ یہ بات نہیں کر سکتا تھا"۔

"میں نکاح کر چکا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

اس نے الف سے لیکر ے تک ساری بات صارم کو بتا دی۔صارم بغیر چونکے مطمئن انداز میں مکمل توجہ کے ساتھ اس کی بات سنتا رہا۔وہ اس معاشرے میں رہتا تھا جہاں یہ سب نارمل بات تھی۔کوئی کسی کی زندگی میں انٹرفئیر نہیں کرتا تھا نہ ہی کسی کے پاس اتنا ٹائم تھا کہ سارے کام چھوڑ کے اکٹھے بیٹھ کر دوسرے کی زندگی پہ تبصرے کیے جائیں۔سو وہ ببھی بغیر کوئی ذہنی صدمہ لئے اسے سنتا رہا۔

"دیکھو مجھے اس میں ایز اٹ کوئی پرابلم نظر نہیں آ رہی اور ڈیڈی کی بھی فکر مت کرو وہ دو چار دن میں نارمل ہو جائیں گے۔اصل مسئلہ صرف ممی کا ہے وہ چاہے جتنی بھی ماڈ ہوں بٹ کبھی اس چیز کو تسلیم نہیں کریں گی۔تم جانتے ہو انہیں نیہا کتنی عزیز ہے"۔

"یس آئی نو اور ڈیڈی بھی صرف ممی کی وجہ سے ہی ایسا کر رہے ہیں ورنہ انہوں نے پہلے تو کبھی میری کسی بات پہ ایسے ری ایکٹ نہیں کیا اور ممی کو بھی کس نے مشورہ دیا کہ جا کے نیہا سے میری بات پکی کر آئیں۔ایک بار بی انہوں نے میری مرضی نہیں پوچھی خود ہی سارے معاملات طے کر لیے جیسے میں تو کوئی گدھا ہوں نا جس کھونٹے سے باندھو وہیں بندھ جاؤں گا۔نیہا کے ساتھ تو میں ایک سیکنڈ نہیں گزار سکتا کجا کے ساری زندگی۔

پر ممی کو یہ بات کون سمجھائے"۔

"جو سب تم نے مجھے بتایا ہے اس کا ایک اور بھی تو حل تھا۔تم اسے اس کے گھر بھی تو پہنچا سکتے تھے"۔

"نیور۔۔۔۔یہ میں کسی صورت نہیں کر سکتا"۔ 

"کیوں"؟

"آئی ڈونٹ نو"۔

"بٹ آئی نو۔اٹس مین تم عشق میں گوڈے گوڈے ڈوب چکے ہو"۔

صارم کی آنکھوں میں شرارت واضح تھی۔

"یہ تم میرے ساتھ علی والی لینگوئیج نہ یوز کرو۔ابھی کہیں سے ٹپک پڑے گا وہ"۔

"اسکی فیملی سے کوئی کانٹیکٹ ہوا۔انہیں علم ہے اس نکاح کے بارے میں"۔

اوہ بھائی۔۔۔۔۔کونسی فیملی۔۔۔پتہ کروانے کی ضرورت ہی کب سمجھی اس نے۔۔۔۔نکاح نامے پہ تو ایسے سائن ٹھوکے جیسے وہ نکاح نامہ نہیں بلکہ دنیا میں آکسیجن کا آخری کنٹینر ہو۔۔۔۔۔۔جو اسکو نہ ملا تو یہ سیدھا اوپر پہنچ جائے گا"۔

اس کی آتے ہی بغیر بریک کی چلتی زبان کو دیکھ کر دائم نے سر پکڑ لیا۔

"کیسے ہو صارم۔۔۔۔۔۔ تم تو محرم کا چاند ہو گئے ہو کبھی نظر ہی نہیں آئے۔۔۔۔۔۔۔یہ نمونہ کم تھا کیا جو تم بھی ڈیڈی کا بزنس ڈبونے آ پہنچے"۔

اس نے صارم سے مل کر اپنی پوزیشن سنبھال لی۔

اس کی بات پہ صارم نے قہقہہ لگایا۔

"آج بھی اس نمونے کے کہنے پر ہی آیا ہوں"۔

"رابی کو چھوڑ آئے ہو نا"؟

"ہاں بمشکل امی کو خالہ کی طرف بھیج کے پھر رابی کو چھوڑ کر ہی آ رہا ہوں"۔

"ہاں بھئی صارم پھر تم کونسے نتیجے پر پہنچے اس کی رام کہانی سن کر"۔

"مجھے تو اس میں کوئی مسئلہ نظر نہیں آیا اسکی زندگی ہے یہ جیسے چاہے گزارے۔یہ رائٹ ہے اسکا۔رہے ڈیڈی تو ان سے میں خود بات کروں گا"۔

"واہ بھئی واہ ۔صارم آج مجھے پتہ چل گیا ہے تم میری طرح ہینڈسم ہی نہیں ہو بلکہ تمہاری سوچ بھی بالکل میری طرح سپر ہے۔لیکن اب ایک مسئلہ ہے"۔

"وہ کیا"۔

"نیہا بی بی سوتن کو برداشت تو کر لے گی نا"۔۔

اس کی بات پہ ان دونوں کا چھت پھاڑ قہقہہ آفس میں گونجا۔

دوپہر تک وہ تینوں وہیں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔

"اچھا اب میں ذرا ڈیڈی کو بھی دیکھوں۔صبح سے تمہارے پاس بیٹھا ہوں یہ نہ ہو وہ مجھے پیار سے گیٹ آؤٹ کر دیں"۔

صارم کے جانے کے بعد علی کو بھی اٹھنے کا خیال آیا۔

"چل دائم میں بھی چلتا ہوں یہ نہ ہو تیرے ڈیڈی کی طرح میرے ڈیڈی بھی میرے خلاف ہو جائیں اس سے پہلے میں انکے پاس پہنچوں"۔

ان دونوں کے جانے کے بعد دائم نے عدن کا نمبر ملایا۔کچھ دیر بعد اسکی آواز سنائی دی۔

"السلام علیکم"۔

"وعلیکم السلام۔کیا حال ہے"۔

"ٹھیک ہوں"۔

"طبیعت کیسی ہے اب؟میڈیسن لی ہے"؟

"جی لی ہے ۔بہتر ہوں"۔

"رابی کیا کر رہی ہے"؟ 

"سو رہی ہے"۔ 

"اور آپ"؟

"میں فری تھی"۔

"آپ بولتی ہی کم ہیں یا صرف میرے سامنے ہی ہوں ہاں کرتی ہیں"؟

"میں بتا تو رہی ہوں۔۔۔۔۔جو آپ نے پوچھا"۔

"مگر مجھ سے تو اب تک کچھ بھی نہیں پوچھا آپ نے"۔

"میں۔۔۔۔کیا پوچھوں"۔

"یہ بھی میں ہی بتاؤں کیا" ؟

"آپ آفس چلے گئے"؟

"آفس سے ہی فون کر رہا ہوں۔آجکل کام کا برڈن ذیادہ ہے میں دو چار دن آ نہیں سکوں گا۔۔۔۔۔"

ابھی وہ بات ہی کر رہا تھا کہ طلال اسکے آفس چلے آئے۔

"ٹھیک ہے میں آپ سے بعد میں بات کروں گا ۔اوکے بائے"۔

طلال کو دیکھ کر اس نے فوراً فون بند کیا۔

"میرا خیال ہے تمہیں اس وقت میٹنگ اٹینڈ کرنے کے لیے ہوٹل میں موجود ہونا چاہیے"۔

"جی ڈیڈی میں بس آ ہی رہا تھا"۔

وہ فوراً فائل اٹھا کر کھڑا ہو گیا۔

"اس کو بھی اٹھا لو۔۔۔۔دوبارہ بھی کوئی اہم کال آ سکتی ہے" ۔

طلال نے اسکے فون کو دیکھتے ہوئے چبا کر کہا۔اس نے مسکراہٹ دبا کر ٹیبل پہ پڑا فون اٹھایا اور انکے پیچھے ہو لیا۔

آج بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ تھی۔آج کی میٹنگ میں تمام کمپنیوں کو ڈھیروں پراجیکٹس ملنے والے تھے۔سب کمپنیوں کے مالکان ایک ایک کر کے اپنی پریزینٹیشن دے رہے تھے۔ہر کسی کی نظریں سکرین پر ابھرنے والی سلائیڈز پر تھیں۔باوجود شدید غصے کے دائم کی پریزینٹیشن دیکھ کر طلال مطمئن ہو گئے تھے۔وہ چاہتے تھے ہمیشہ کی طرح سب سے ذیادہ پراجیکٹس انہی کے حصے میں آئیں اور آج کل تو اس سب کی اشد ضرورت تھی۔وہ دائم کو بزنس میں اتنا مصروف کر دینا چاہتے تھے کہ اسے ادھر اُدھر دیکھنے کی فرصت بھی نہ ملے اور اب دائم پریزینٹیشن دیکھ کر انہیں یقین تھا کہ اگلے کچھ گھنٹوں میں وہ بہت سے پراجیکٹس سائن کرنے والے ہیں۔

_________________________________

نیو پراجیکٹس کو مینیج کرنے اور پھر ان پہ کام سٹارٹ کروانے میں وہ واقعی اگلے تین دن بے حد مصروف رہا۔طلال پھر سے اپنی سابقہ روٹین میں مصروف ہو گئے۔آج چوتھے روز اسے فلیٹ پہ جانے کا خیال آیا۔رات کے اس وقت بھی سڑکوں پہ معمول کی ٹریفک رواں تھی۔فلیٹ پہ پہنچ کر عدن کو کال کی۔کچھ دیر بعد اس نے دروازہ کھولا۔

"السلام علیکم۔کیا حال ہے"؟

"وعلیکم السلام! ٹھیک ہوں"۔

پچھلے دنوں کی نسبت آج وہ کافی بہتر لگ رہی تھی شاید یہ رابیل کی کمپنی کا اثر تھا۔

کچھ بعد ہی وہ پانی کا گلاس لے کر اس کے پاس آئی۔دائم نے موبائل سے نظریں ہٹا کر حیرت سے پانی کے گلاس کو دیکھا اور پھر مسکرا کر پکڑ لیا۔اپنی زندگی کے پچیس سالوں میں اس نے کبھی ممی کو ڈیڈی کی آفس سے واپسی پر انہیں پانی دیتے نہیں دیکھا تھا۔ان کے نزدیک یہ سب ٹیپیکل حرکتیں تھیں۔

"چائے پیئیں گے آپ" ؟

عدن میں آنے والے چینج کو وہ واضح محسوس کر رہا تھا۔

"نہیں میرا موڈ نہیں ہے آپ ہی پیئیں"۔

وہ اسے گلاس واپس تھما کر کمرے کی طرف مڑ گیا۔

کافی دیر بعد وہ چائے بنا کر کمرے کی طرف بڑھی۔کمرہ خالی تھا مگر ٹیرس کا دروازہ کھلا ہوا تھا کچھ سوچ کر وہ کمرے میں بیٹھنے کی بجائے آہستہ آہستہ ٹیرس کی طرف آئی۔

"تھینک گاڈ!چائے بن گئی ورنہ میرا تو خیال تھا آج ساری رات آپ نے کچن میں ہی گزارنی ہے"۔

"نن۔۔نہیں۔۔۔وہ میں کچن صاف کرنے لگ گئی تھی"۔

وہ کہہ کر چائے پینے لگی۔

دائم ریلنگ پہ ہاتھ رکھے باہر سڑک کی طرف دیکھ رہا تھا۔سٹریٹ لائٹس کی مدھم روشنی چہرے پہ پڑ رہی تھی۔

"آپ۔۔۔۔نے۔۔۔۔آج یہیں رہنا ہے کیا "؟

"آپ کہتی ہیں تو چلا جاتا ہوں"۔

اس کی بات پر وہ مسکرا کر اس کی طرف مڑا۔

"آپکا گھر ہے ۔میں کون ہوتی ہوں آپکو کہنے والی"۔

"سارے حقوق تو میں نے آپکو سونپ دئیے ہیں اب تک یہ بھی نہیں پتہ چلا آپ کون ہیں"۔

اس کی بات پر دائم نے مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھ سے چائے کا کپ پکڑ لیا۔عدن مارے حیرت کے اسے دیکھتی رہ گئی۔

"میں۔۔۔۔میں آپکو اور لا دیتی ہوں"۔

"کیوں اسکو کیا ہے"؟

"یہ میری جوٹھی ہے"۔

"بیوی کا جوٹھا پینا گناہ تو نہیں ہوتا"۔

وہ اس کی بات پہ جز بز سی ہو کر باہر دیکھنے لگی۔

"اب خاموش ہی کھڑے رہنا ہے کیا کوئی بات کریں میرے سے"۔

"آپکی فیملی میں کون کون ہوتا ہے"۔

"فیملی میں ممی اور ڈیڈی ہیں۔باقی ہم چار بہن بھائی ہیں۔ریان اور عنایہ میریڈ ہیں۔صارم انگلینڈ میں پڑھتا ہے۔آج کل پاکستان آیا ہوا ہے اور آخری نمبر آپکے شوہر نامدار کا ہے جو آپکے سامنے کھڑے ہیں"۔

اس کے آخری فقرے پہ پزل سی ہو گئی۔

"اور آپکی فیملی میں"؟

"میری فیملی میں اماں اور بابا ہیں۔بڑے دونوں بھائی میریڈ ہیں اور میں پڑھ رہی تھی"۔

"کونسی کلاس میں"؟

"گریجویشن کا لاسٹ ائیر تھا"۔

اس نے دکھ سے کہا۔

"دیٹس گڈ"۔

"بور نہیں ہوتیں آپ گھر میں رہ رہ کے۔میں آج کل بہت بزی تھا آپ کو پراپر ٹائم نہیں دے سکا۔رابیل کو بلوا لیا کریں اس کے ساتھ باہر چلی جایا کریں جب دل چاہے"۔

باہر نکلنے کا نام سن کر اس کے چہرے پہ خوف سا پھیل گیا۔

"نہیں۔میں یہیں ٹھیک ہوں مجھے نہیں جانا کہیں بھی"۔

"کیوں"؟

"ویسے ہی۔۔۔۔۔۔۔میرا دل نہیں کرتا۔کپ دے دیں میں رکھ آؤں"۔

اس نے اسے دیکھتے ہوئے خاموشی سے خالی کپ آگے بڑھا دیا۔کپ دھو کر وہ کچن میں ہی کھڑی رہی اور تو کچھ بھی کرنے کو نہیں تھا۔فلیٹ میں ٹوٹل تین کمرے تھے۔ایک بیڈ روم ،ڈرائنگ روم اور تیسرا کمرہ لاکڈ تھا۔کوئی اور چارہ نہ ہوتے ہوئے وہ واپس کمرے میں آ گئی۔

دائم بیڈ پہ بیٹھا لیپ ٹاپ سامنے رکھے کچھ ٹائپ کر رہا تھا۔

"آپ ہر کام ہی آہستہ آہستہ کرتی ہیں یا آج میرے آنے پہ اتنی سلو ہو گئیں ہیں اب یہ نہ کہنا میں کچن دوبارہ صاف کر رہی تھی"۔

اسکی بات پہ وہ شرمندہ سی ہو کر بغیر کوئی جواب دینے صوفے پہ بیٹھ گئی۔

کافی پل خاموشی سے گزر گئے۔

"وہ۔۔۔۔میں۔۔۔۔آپ۔۔۔۔۔۔سے کچھ بات کرنا چاہتی تھی"۔

"جی بولیں"۔

اس نے ایک لمحے کے لیے سکرین سے نظریں ہٹا کر کہا۔

"وہ۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔۔"

وہ جو کہنے جا رہی تھی شاید وہ اسکی بات کو نہ مانتا۔

"بتائیں بھی۔۔۔کیا بات ہے"۔

"وہ۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔"

اس،سے بولا تک نہیں جا رہا تھا ۔وہ بے چینی سے بار بار ہاتھ مسل رہی تھی کہ دائم بیڈ سے اٹھ کر اس کے پاس صوفے پر آ بیٹھا۔صوفے کی بیک پہ بازو رکھے اور ایک ٹانگ اوپر کی جانب موڑے وہ بالکل اس کی طرف متوجہ تھا۔اس نے نرمی سے اسکا ہاتھ پکڑا۔وہ تو اسکے پاس بیٹھنے پر ہی نروس یو گئی تھی اب تو باقاعدہ کانپنا شروع کر دیا۔

"ہمارے درمیان اتنا گہرا اور مضبوط رشتہ موجود ہے کہ آپکو مجھ سے کوئی بھی بات کرنے میں جھجک محسوس نہیں ہونی چاہیے۔آئی نو یو کڈ ناٹ اکسیپٹ اٹ ٹل ناؤ آپ کو جتنا ٹائم چاہیے اتنا لیں۔ٹھیک ہے جن حالات میں ہماری شادی ہوئی ہے اس میں ایک دم سے ہر چینجنگ کو ایکسیپٹ کرنا واقعی مشکل ہے لیکن اس کے علاوہ ہم دوست بھی تو بن سکتے ہیں۔جو بات کرنی ہے فرینکلی کریں اس ڈر اور خوف کو ایک سائڈ پہ رکھ کر۔آپ مجھ سے کچھ نہیں کہیں گی تو اور کس سے کہیں گی۔جب میں بالکل نارملی ری اایکٹ کرتا ہوں تو مجھے آپ سے بھی یہی ریسپونس چاہیے"۔

وہ سر جھکائے ہونٹ کاٹتے ہوئے اس کی بات سن رہی تھی۔

"اب بتائیں کیا کہنا تھا"۔

"میں اپنے گھر والوں سے بات کرنا چاہتی ہوں"۔

"تو کریں کس نے روکا ہے ۔فون تو ہے آپکے پاس"۔

اس نے خود ہی سائڈ ٹیبل پڑا موبائل اٹھا کر اسکو دیا۔

"کر لوں۔۔۔کیا واقعی"؟

"بالکل۔۔۔کریں"۔

اس نے کانپتے ہاتھوں سے بابا کا نمبر ملایا۔کتنے دنوں بعد وہ آج بابا کی آواز سنے گی۔اس احساس نے ہی آنکھوں میں نمی بھر دی۔

"آپکا ملایا ہوا نمبر کسی کے استعمال میں نہیں"۔۔۔

فون سے آتی آواز سن کے اس نے حیران ہو کر دوبار نمبر ڈائل کیا۔پھر سے وہی جملہ دہرایا گیاگیا۔

"یہ۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔یہ بابا کا ہی نمبر ہے"۔

کیا ہوا؟

"یہ کہہ رہے ہیں کسی کے استعمال میں نہیں ہے۔مگر یہ بابا کا نمبر ہے مجھے اچھے سے یاد ہے"۔

"کسی اور کا ڈائل کر لیں"۔

"ہاں عبداللہ بھائی کا کرتی ہوں"۔

"معزز صارف آپکا ملایا ہوا نمبر اس وقت بند ہے"۔

تین بار ملانے پر بھی یہی جواب آیا۔

"کیوں ہو رہا ہے ایسا۔۔۔۔ سب کے نمبر ہی بند ہیں۔مجھے تو اور کسی کا نمبر بھی نہیں پتہ"۔

اس نے پریشانی سے دائم کو دیکھا جو ساری صورتحال کو ایک منٹ میں سمجھ گیا تھا۔

"ہو سکتا ہے سو گئے ہوں۔صبح ٹرائی کر لینا"۔

دائم کی تسلی پر اس نے پریشانی سے سر ہلایا۔

"عدن اف یو ڈونٹ مائنڈ دین کین آئی آسک یو سم تھنگ"؟

"پوچھیں"۔

"آپ اس جگہ پہ کیسے پہنچی تھیں"۔

اس کا سوال سن کر عدن کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔

خوف کی پرچھائیاں اسکے چہرے پہ واضح ہو چکی تھیں۔

"یہ مت سمجھیے گا میں آپ پر شک کر رہا ہوں یا مجھے یقین نہیں ہے۔ہرگز بھی نہیں۔خود سے زیادہ اعتبار ہے مجھے آپ پر۔میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ مجھ سے وہ تکلیف شیئر کریں جو آپ کو اس رشتے کی حقیقت کو مکمل طور پہ تسلیم نہیں کرنے دے رہی"۔

وہ تکلیف یاد آنے پہ اسکی آنکھوں میں آنسو آ گئے کیا بتاتی وہ اسکو۔کیوں پہنچ گئی وہاں پہ۔خود کو ساری زندگی سینت سینت کر رکھنے کے باوجود کیسے اس اندھے کنویں میں پہنچ گئی۔وہ تو اللہ کا فضل تھا جو وہ بخیر و عافیت وہاں سے نکل آئی ورنہ اسوقت وہ کہاں ہوتی۔

"پلیز بتائیں مجھے کیا ہوا تھا"۔

دائم نے اسکے دونوں ہاتھ تھام کر اسکا رخ اپنی طرف موڑا۔اسکے کہنے پہ وہ آہستہ آہستہ اسے خود پہ بیتی داستان سنانے لگی۔

__________________________________

انتقام کی آگ میں جہانگیر اندھا ہو گیا تھا۔نواب عالم کو تو وہ دھمکی دے آیا تھا لیکن اب کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔سارا سارا دن وہ نواب عالم کو منہ کے بل گرانے کے طریقے ہی سوچتا رہتا۔دوسری طرف نواب عالم بھی اسکی دی گئی دھمکیوں سے پریشان ہو گئے تھے لیکن جب ایک دو ماہ تک جہانگیر کی جانب سے کوئی رد عمل نہ آیا تو وہ بھی مطمئن ہو گئے۔

اس رات بھی جہانگیر مہہ جبین بائی کے کوٹھے پہ نشے میں دھت بیٹھا سامنے جھومتی رقاصہ کو دیکھ رہا تھا کہ یکایک اس کو اس رقاصہ میں عدن دکھائی دینے لگی۔وہ تو آجکل ویسے بھی حواسوں پہ سوار تھی۔ہر دوسری لڑکی پہ اسے عدن کا،ہی گمان ہوتا۔نواب عالم سے نفرت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا۔سب کچھ یاد آتے ہی دوبارہ انتقام کی آگ بھڑ بھڑ جلنے لگی کہ ایک خیال کوندے کی طرح ذہن میں لپکا۔اس خیال نے ہی اسکے انگ انگ میں توانائی بھر دی۔سارا نشہ ہرن ہو گیا۔اب اسے بے چینی سے صبح کا انتظار تھا۔

اگلی صبح سے ہی اس نے عدن کی وین کا پیچھا کرنا شروع کیا۔صبح اور شام برابر وہ اس کالج وین کا پیچھا کیا کرتا۔وہ جب بھی اسے صبح کو گھر سے نکلتے دیکھتا ایک شیطانی مسکراہٹ اس کے چہرے پہ آجاتی۔لیکن دو ماہ کی مسلسل خواری کے بعد بھی کچھ ہاتھ نہ آیا کیونکہ عدن اماں کی ہدایت کے مطابق سیدھا گھر سے کالج اور کالج سے واپس گھر آیا کرتی۔مسلسل پیچھا کرنے سے اسکو تب اپنی غلطی کا احساس ہوا جب اکثر لڑکیاں بار بار مڑ کر پیچھے آنے والی کار کو دیکھتیں۔ایک دو بار وین کے ڈرائیور نے اس سے کچھ پوچھ گچھ کی تو مٹھی میں دبے چند نوٹ دیکھتے ہی اسکی بولتی بند ہو گئی۔

پھر بھی وہ زیادہ دیر تک یہ کھیل نہیں کھیل سکتا تھا۔پھر اچانک عدن نے کچھ روز کالج جانا چھوڑ دیا تب اسکی پریشانی اور بڑھ گئی اگر وہ اب واپس کالج ہی نہ جاتی تو اسکا سارا پلان چوپٹ ہو جاتا۔مہہ جبین سے پہلے ہی وہ اسکے متعلق بات کر چکا تھا اور نیا شکار لانے کی خوشی میں اس نے جہانگیر عالم کی "خدمات" میں اضافہ کر دیا۔

بالآخر ایک ہفتے بعد عدن نے دوبارہ کالج جانا شروع کیا۔اس کا پریشانی سے بار بار پیچھے مڑ کر دیکھنا اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ اسکے "اپنے" پیچھے آنے سے واقف ہو چکی ہے۔اسی دن اس نے کالج سے نکل کر اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی۔جہانگیر گاڑی کی سروس کے لیے پاس ہی موٹر گیراج میں موجود تھا۔جب سامنے سے آتی تیز تیز چلتی لڑکیوں کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔عدن کو تو وہ اب دور سے ہی پہچان لیا کرتا تھا اور اب تو وہ بالکل سامنے سے ہی گزر رہی تھی۔یہی موقع تھا اپنے پلان پہ عمل کرنے کا۔نواب عالم کی ساری اکڑ اور طنطنہ کو پل بھر میں ختم کرنے کا۔اس نے فوراً سے گاڑی نکالی اور کچھ فاصلہ رکھ کر اسکا پیچھا کرنا شروع کیا۔تھوڑی دور جا کر ہی جب ان دونوں لڑکیوں نے باری باری پیچھے مڑ دیکھا تو اس نے فوراً کار ایک سائڈ پہ روک دی۔کوئی پتہ نہیں تھا وہ یہیں پر شور مچا کر لوگوں کو اکٹھا کر لیتیں۔تب اس نے پیدل ہی مارکیٹ تک ان کا پیچھا کیا۔انہیں مارکیٹ میں پہنچ کر گارمنٹس کی دکان می داخل ہوتے دیکھ کر اس نے مہہ جبین کا نمبر ملایا۔وہ فون سنتے ہی اڑتی ہوئی چلی آئی۔مہہ جبین کو ان دونوں کی نگرانی پہ مامور کر کے خود گاڑی لینے چلا گیا۔واپسی پر اس نے عدن کو غصے سے ہاتھ مارتے دوسری لڑکی پر برستے دیکھا۔تب ہی وہ اسکو سڑک پہ چھوڑ کر بھاگتی ہوئی واپس اسی دکان میں چلی گئی۔

صرف یہی پل تھا اسکے پاس اپنے انتقام کی آگ بھجانے کا۔وہ اس گولڈن چانس کو کسی صورت مس نہیں کر سکتا تھا ورنہ اتنے مہینوں کی محنت خاک میں مل جاتی۔اس نے وہیں سے عدن کو گھسیٹ کر کار میں ڈالا۔مہہ جبین نے فوراً اس کی ناک پہ کلوروفام میں بھیگا رومال رکھ دیا۔کچھ سیکنڈز میں ہی وہ ہوش و ہواس سے بیگانہ ہو گئی۔

"کتنی قیمت لو گے"؟

مہہ جبین نے سودا کرنا شروع کیا۔

"تحفے کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔یہ تمہیں تحفہ دیا جہانگیر عالم نے"۔

"مذاق کر رہے ہو میرے ساتھ"۔؟

"ہماری جرأت ایسے گھٹیا مذاق کی۔جب تم نے ہماری خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تو ہمارا بھی فرض بنتا ہے تم جیسوں کا خیال رکھنا"۔

"پھر سے سوچ لو ایک بار۔یہ نہ ہو کل تک تمہارا ارادہ بدل جائے"۔

وہ گھاگ عورت تھی۔بار بار عدن کے چہرے پہ جہانگیر کی بھٹکی ہوئی نظریں اچھےسےمحسوس کر رہی تھی۔

"ارادہ تو میرا ابھی سے بدل رہا ہے مگر جہانگیر عالم زبان دے چکا ہے۔ہاں بس اتنا خیال رکھنا بہت نازک مزاج ہے یہ"۔

اس کی گاڑی اس جگہ کی طرف مڑ گئی تھی جہاں انسانوں کی خرید و فروخت عام تھی۔اسے علم تھا اگر وہ عدن کے بدلے دس لاکھ بھی مانگتا تو مہہ جبین کبھی انکار نہ کرتی لیکن وہ یہاں اسکی قیمت لگانے کے لئے نہیں بلکہ اس کے باپ کی انا اور اکڑ کو ختم کرنے آیا تھا تا کہ وہ نواب عالم کو بتا سکے کہ اسکی بیٹی اتنی ارزاں ہے کہ ایک پائی بھی اسکے بدلے میں جہانگیر نے وصول نہیں کی۔

ریڈ لائٹ ایریا میں گاڑی روکتے وقت اس نے دوبارہ عدن کو دیکھا۔

"چچ۔۔۔۔۔۔۔چچ۔۔۔۔۔۔نواب عالم تم تو جانتے بھی نہیں ہو گے تمہاری نازوں پلی بیٹی اس وقت کہاں موجود ہے"۔

یہ وہ جگہ تھی جہاں پہ صرف پانچ پرسنٹ لڑکیاں اپنی مرضی سے آتی ہیں۔بھوک اور غربت کی وجہ سے مجبوراً انہیں اس جگہ کا انتخاب کرنا پڑتا۔

باقی نوے فیصد لڑکیاں دھوکے،فریب اور محبت کے ہاتھوں رسوا ہو کر ہاتھوں ہاتھ بکتی یہاں تک پہنچ جاتی تھیں۔یہاں پہ نو عمر کی بچیوں سے لیکر پکی عمر تک کی عورتیں موجود تھیں۔ہر کسی کی اپنی کہانی تھی۔

اور ان پچانوے فیصد لڑکیوں میں سارے کا سارا قصور ان کا اپنا ہی ہوتا تھا۔آخر کیوں وہ نا محرموں سے وہ تعلق استوار کر لیتی ہیں جس کی ہمارے مذہب میں سختی سے ممانعت ہے۔مغرب کی اندھا دھند تقلید نے مشرقی روایات کی ساری شرم و حیا اور پاسداری کو ختم کر دیا ہے۔ایک لڑکی رات گئے تک نا محرم مردوں سے بات کرتی ہے۔آہستہ آہستہ وہ مرد اس کو اپنی باتوں سے ٹریپ کرنا شروع کر دیتا ہے۔پھر ایک اندھی محبت ان دونوں میں شروع ہو جاتی ہے۔دن رات ،اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے ایک مسکراہٹ سی چہرے پہ رہتی ہے کہ کیا واقعی وہ کسی کے لیے اتنی اہمیت رکھتی ہے۔پھر آہستہ آہستہ دماغ پر قفل لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔اس سارے میں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ ہمارا ضمیر ہمیں نہ جھنجھوڑے۔وہ تو ہمیشہ غلط اور صحیح کے فرق میں لگا رہتا ہے لیکن کچی عمر کے ذہن اس ضمیر کی آواز کو سننا گوارا نہیں کرتے پھر ایک وقت آتا یے جب دلوں پہ مہر لگ جاتی ہے۔انسان اور حیوان میں اس وقت کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔صحیح اور غلط کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔رات 

گئے تک ماں باپ کا اعتبار روندتے دو نامحرم ایک دوسرے کے بنا مر جانے کی قسمیں کھا رہے ہوتے ہیں۔آخر کار بیوقوف لڑکیاں کسی نا محرم کی بیس بائیس دن کی محبت کے لیے ماں باپ کا بیس بائیس سالہ پیار بھول کر رات گئے بابل کے گھر کی دہلیز پار کر جاتی ہیں۔گھر کی چار دیواری کو پار کر کے کسی بند کمرے میں انکی چیپ محبت آخری ہچکی لے لیتی ہے۔اور اس نام نہاد محبت کے تحفوں سے ایدھی سنٹر اور یتیم خانے بھرتے جا رہے ہیں۔

"ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں بیس لاکھ بچوں کے والدین کے خانے میں بلقیس ایدھی اور عبدالستار ایدھی کا نام لکھا ہوا ہے"۔

بہت سے کیسز میں وہ مرد اس عورت کو وہیں پر چھوڑ دیتا ہے اور بعض اوقات کمینگی کی انتہا دکھاتے ہوئے اس کو ان جگہوں پہ بیچ دیتا ہے جہاں مہہ جبین جیسی عورتیں ان لڑکیوں کو معاشرے کے بھیڑیوں کے لیے تر نوالہ بنا دیتی ہیں۔یہی لڑکیاں بالآخر ان کوٹھوں کی زینت بن جاتی ہیں جہاں سے نکلنے کا پھر کوئی راستہ نہیں بچتا۔اگر خوش قسمتی سے وہ اس دلدل سے نکل بھی جائیں تو ہمارا معاشرہ کبھی انہیں وہ عزت اور مرتبہ نہیں دیتا سو مجبوراً انہیں اپنی باقی ماندہ زندگی بد دعاؤں کے زیر اثر اس غلاظت میں ہی گزارنی پڑتی ہے۔پھر ہمیشہ کی طرح یہ سارا کیا دھرا قسمت کے ماتھے پہ مل دیا جاتا ہے لیکن قسمت تو انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔بھلا ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنیوالا کیسے کسی کا نصیب برا لکھ سکتا ہے اگر یہ بات وہاں آنے والی پچانوے فیصد لڑکیوں کو سمجھ آجائے تو شاید مہہ جبین جیسی عورتوں کا دانہ پانی اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے اٹھ جائے۔

باقی بچنے والی پانچ فیصد لڑکیاں وہ تھیں جو باقاعدہ پلاننگ سے اغوا کر کے اس جگہ پہ لائی جاتیں تھیں۔انہی لڑکیوں کو بولی کے لیے پیش کیا جاتا تھا۔اس دن مہہ جبین ہر بھاری سے بھاری آسامی کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دیتی۔ یہ لڑکیاں اس کے لیے سنہری سکوں کی مانند تھیں جو زیادہ قیمت دے دیتا وہ اسکے حوالے کر دی جاتیں۔ان کی خوبصورتیوں کو کیش کروانا وہ اچھے سے جانتی تھی۔

عدن نواب عالم آخری پانچ پرسنٹ لڑکیوں میں سے ایک تھی۔

__________________________________

پچھلے ایک ماہ کی اذیت اس کو سناتے ہوئے عدن کی آنکھوں سے آنسو اک تواتر سے گر رہے تھے۔وہ بغیر پلکیں جھپکائے اس پہ بیتی داستان کا ایک ایک لفظ سن رہا تھا۔

"اگر وہ اس دن وہاں نہ پہنچتا تو کہاں ہوتی یہ لڑکی"۔

یہ سوچتے ہی اسکے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

"آخر کیوں اس نے مجھے اتنی بڑی سزا دی۔بے قصور ہوتے ہوئے بھی میں ہر کسی کی نظروں میں معتوب ہوں۔کس کس کو گواہی دوں گی میں اپنے کردار کی۔اس نے ایک بار بھی نہیں سوچا کیا ہو گا میرے ماں باپ کا۔اس سب سے تو بہتر تھا کہ مجھے موت آجاتی کم سے کم میں اپنے والدین کے لیے اتنی اذیت کا سبب تو نہ بنتی"۔

اس کی آواز میں گھلا درد دل کو چیر دینے والا تھا۔

دائم نے بے اختیار بازو اسکے گرد پھیلا کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔وہ اسکے کندھے پہ سر رکھے ہچکیوں سے روئے جا رہی تھی۔

سارے زخموں سے کھرنڈ اتر گیا تھا۔

اسکی باتیں سن کر وہ کافی دیر کچھ کہنے کے قابل نہیں رہا۔بعض اوقات دوسرے کا درد سن کر تسلی دینے کے لئے کوئی الفاظ نہیں ہوتے تب صرف ہمارا عمل ہی ہوتا ہے جس سے ہم دوسروں کی اذیت میں کمی کر سکتے ہیں۔

اسکے پاس بھی تسلی کے لیے الفاظ نہیں رہے تھے۔وہ اسے ساتھ لگائے نرمی سے اسکا سر تھپک رہا تھا۔

"آپ کہتے ہیں نا۔۔۔۔میں باہر نکلا کروں۔۔۔۔۔۔نہیں میں کبھی باہر نہیں نکل سکتی۔اصل روپ دیکھ چکی ہوں دنیا کا۔مجھے پتہ ہے۔۔۔۔۔۔۔ اگر میں دوبارہ باہر گئی پھر سے کوئی نہ کوئی شکاری جال پھیلائے بیٹھا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ایک بار اس دوزخ سے نکل آئی ہوں۔۔۔۔اب دوبارہ کچھ سہنے کی ہمت نہیں ہے مجھ میں"۔

"میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ اس ازیت کو بھلا دیں یہ کوئی معمولی تکلیف نہیں ہے جسے منٹوں میں بھلایا جا سکے۔پھر بھی میں آپکو یقین دلاتا ہوں میرا ساتھ آپکو ہر دکھ بھولنے پر مجبور کر دیگا۔اب آپ دائم طلال کی بیوی ہیں کسی کی جرأت نہیں ہے کوئی آپکو غلط نگاہ سے دیکھ بھی سکے۔آپکی حفاظت کرنا اب میری ذمہ داری ہے"۔

اسکے مضبوط لہجے پہ عدن کے آنسو پلکوں پہ ہی ٹھٹھر گئے۔

"میں اتنی عنایات کے قابل نہیں ہوں۔۔۔۔میں ایک بکی ہوئی زات ہوں"۔

اسکی بات پہ دائم نے کرب سے آنکھیں بند کر لیں۔

"کیوں دیے آپ نے پچاس لاکھ میرے بدلے میں۔مجھے آج تک سمجھ نہیں آ سکا۔میرے بارے میں جانے بغیر کیوں نکاح کر لیا مجھ سے۔۔۔۔۔۔۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ مجھے اس جگہ سے لائے ہیں جہاں شریف لوگ منہ بھی کرنا پسند نہیں کرتے۔یہ معاشرہ مجھے کبھی وہ مقام اور مرتبہ نہیں دے گا ۔۔۔۔۔۔پھر کیوں کیا آپ نے یہ سب"؟

"پچاس لاکھ مجھے آپ سے زیادہ عزیز نہیں تھے۔میں خود نہیں جانتا کیوں کیا میں نے یہ سب۔کیوں مجھ سے آپکی تکلیف برداشت نہیں ہوئی۔وہ سب ایک بے اختیاری کی کیفیت تھی۔ہمارا ملنا اسی طرح طے تھا۔اور مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ کیا کہیں گے کیونکہ میں اس حقیقت کو تسلیم کر چکا ہوں کہ آپ عدن دائم ہیں۔۔۔۔۔۔۔دائم طلال کی بیوی۔۔۔۔۔۔آپکا حوالہ اب میں ہوں۔معاشرے میں آپکو ایک مقام دلانا اب میرا کام ہے۔مجھے آپ پر اور آپکی پارسائی پر پورا یقین ہے ۔اس حقیقت کے علاوہ کوئی کچھ بھی کہے وہ سب میرے لیے بے معنی ہے۔

وہ کہہ رہا تھا وہ نہیں جانتا اس نے یہ سب کیوں کیامگر عدن جانتی تھی یہ اسکی دعائیں ہی تھیں جن کی بدولت اللہ نے اسکے دل میں رحم ڈالا تھا۔یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ ساری رات گڑگڑا کر اللہ سے کچھ مانگتی اور وہ اسے بے آسرا چھوڑ دیتا۔

"وعدہ کریں میرے سے آئندہ آپ اپنے لیے ایسا کوئی لفظ استعمال نہیں کریں گی جو آپکے ساتھ ساتھ مجھے بھی تکلیف دے"۔

وہ دھندلائی آنکھوں سے اپنے سامنے پھیلے اسکے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔وہ کبھی بھی اس شخص کے ہاتھوں کو نہیں جھٹک نہیں سکتی تھی جس نے بھرے مجمعے میں اس کے سر پہ چادر ڈالی تھی۔جو وحشیوں کے چنگل سے اسے با حفاظت نکال کر لایا تھا۔

اس نے آہستگی سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پہ رکھ دیا۔

دائم نے اسکی پلکوں پہ ٹھہرے آنسو صاف کئے۔

"اپنے پیرنٹس کا ایڈریس دینا مجھے۔میں وہاں کی صورتحال پتہ کروا لوں گا"۔

"آپ۔۔۔۔آپ وہاں جائیں گے۔۔۔۔میں۔۔۔۔میں بھی آپکے ساتھ چلوں گی۔۔۔۔مجھے لے کر جائیں گے نا آپ"۔

"پہلے مجھے وہاں کی صورتحال پتہ کروانے دیں۔۔۔۔اسکے بعد اگر پوسیبل ہوا تو ضرور"۔۔۔۔

اسکی بات پہ عدن نے سر ہلایا۔

"چلیں اب آرام سے سو جائیں۔رات بہت ہو گئی ہے۔صبح مجھے آفس بھی جانا ہے ورنہ پھر سے ڈیڈی کی ڈانٹ سننی پڑے گی"۔

"آپ کر لیں اپنا کام۔۔۔۔۔۔۔۔ میں یہیں پر ٹھیک ہوں"۔

اسکی بات وہ ہلکے سے مسکرایا۔

"اس تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔اپنی جگہ پہ جا کے لیٹیں میں وہاں بیٹھ کر بھی اپنا ورک سکون سے کر سکتا ہوں"۔

وہ اس کے سر پہ ہلکی سی چپت لگاتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔

کچھ دیر بعد ہی وہ پر سکون سی ہو کر سو گئی۔اغوا ہونے کے بعد سے لیکر اب تک پہلی بار اسکے چہرے پہ اس قدر اطمینان تھا۔وہ اپنے سارے دکھ درد اس شخص کے ساتھ بانٹنے کے بعد پر سکون ہو گئی تھی جو اب اللہ کے علاوہ اس دنیا میں اسکا واحد سہارا تھا۔دائم نے ایک نظر اسکے مطمئن سے چہرے پہ ڈالی۔ وہ اس شخص کو جان سے مار دینا چاہتا تھا جس کی بدولت وہ معصوم سی لڑکی اتنی اذیتوں سے گزری تھی۔

معاشرے کے ان چند ناسوروں کی وجہ سے کب تک حوا کی بیٹیاں ذلیل ہوتی رہیں گی۔صرف ان لوگوں کی وجہ سے کتنی ہی بیٹیاں باپ کی چوکھٹ پہ ہی ساری عمر گزار دیتی ہیں۔آخر کب تک بنت حوا انسانیت سوز ظلم سہتی رہے گی۔

اس نے شہادت کی انگلی سے اسکے ماتھے پہ آئے بالوں کو پیچھے کیا۔پھر گہری سانس بھر کے بمشکل ہر چیز ذہن سے جھٹک کر ساری توجہ لیپ ٹاپ پہ مبذول کر لی۔

صبح جب اسکی آنکھ کھلی تو عدن موجود نہ تھی۔کسی احساس کے تحت اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو وہ رب کے حضور سر جھکائے کھڑی تھی۔ابھی آسمان سے ستارے مکمل طور پہ غائب نہیں ہوئے تھے۔پو پھٹنے میں کچھ وقت باقی تھا۔

ہر شے سے غافل اور مکمل توجہ کے ساتھ وہ اس وقت رکوع میں تھی۔بے چینی سے بلینکٹ ہٹاتا وہ اٹھ بیٹھا۔سجدے میں جاتے ہوئے کتنا سکون تھا اسکے چہرے پہ۔وہ خاموشی سے اسے دیکھے جا رہا تھا۔شہادت کی انگلی کچھ سیکنڈز کے لیے اٹھ کر دوبارہ جھک گئی۔سلام پھیرنے کے بعد بند آنکھوں کے ساتھ دعا کے لیے اٹھتے ہاتھ دیکھ کر دائم کے اندر گھٹن مزید بڑھ گئی۔وہ سست قدموں سے چلتا اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔اس نے جیسے ہی دعائیہ انداز میں ہاتھ منہ پہ پھیرے دائم نے بغیر کچھ کہے اسکے ہاتھ پکڑ کر واپس دعا کے انداز میں پھیلا دئیے۔

"ابھی نہ اٹھیں۔ابھی میرے لیے کچھ مانگیں اللہ سے۔"

"کیا؟"

"سکون۔۔۔۔۔۔سکون نہیں ہے میرے پاس۔اسے کہیں مجھے سکون دے دے۔دنیا کی ہر آسائش ہوتے ہوئے بھی میں اس نعمت سے محروم ہوں۔مجھے صرف دل کا سکون چاہیے۔"

"آپ نماز نہیں پڑھتے؟"

"پڑھتا ہوں۔"

"پھر مانگا بھی کریں اللہ سے۔ب"

"نہیں اتنی ہمت نہیں میرے اندر کہ میں اب اس سے مانگ سکوں۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے شرم آتی ہے اسکے سامنے جاتے ہوئے بھی۔مانگنے کی جرأت نہیں ہے میرے میں۔کیسے مانگوں اس سے اتنے گناہ کیے ہیں میں نے اور گناہ بھی وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ جن کی شاید معافی ہی نہ ہو۔زندگی کے پچیس سال غفلت میں گزارنے کے بعد کیسے ایک دم سے کہہ دوں کہ مجھے معاف کر دے۔میرے بارے میں تو آپ صرف اس چیز سے اندازہ لگا سکتی ہیں کہ میں اس رات اس کوٹھے پہ موجود تھا۔۔۔۔۔۔۔میں تو اس معجزے پہ حیران ہوں آپ میری زندگی میں کیسے آ گئی۔میں نے تو کبھی کوئی نیکی نہیں کی پھر کیوں اللہ نے آپکو مجھے سونپ دیا"۔

وہ دنیا کی خوش قسمت لڑکی تھی جسے اسکا شوہر یہ کہہ کر معتبر کر رہا تھا کہ وہ اسکی زندگی میں کسی نیکی۔کے عوض آئی ہے۔رات کے اس پہر ان دونوں کی آنکھوں میں نمی تھی۔فرق صرف اتنا تھا ایک کی آنکھوں میں تشکر کی جبکہ دوسرے کی آنکھوں میں ندامت کی۔وہ اب بھی سر جھکائے اس کے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ رہا تھا۔اندر کی توڑ پھوڑ کا اندازہ اس کے چہرے سے ہو رہا تھا۔عدن کے آنسو گالوں پہ پھسل آئے مگر وہ مرد تھا اپنی آنکھوں کی نمی کو واپس اندر اتارنا جانتا تھا۔

قرآن کریم میں اللہ کا ارشاد ہے۔

"اے ابن آدم ایسا کوئی گناہ نہیں جو میں معاف نہ کر سکوں۔"

دائم نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔اس کی ساری باتوں کے جواب میں عدن کے صرف ایک جملے نے دل کی دنیا تہہ و بالا کر دی تھی۔

"صراط مستقیم کا مطلب سیدھا راستہ ہے مگر اس پہ چلنا آسان نہیں ہوتا۔قدم قدم پہ مشکلات آتی ہیں۔ہمارا نفس قابو میں نہیں رہتا لیکن ہر مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔ گناہوں کو چھوڑ دینے کا تہیہ تو سب ہی کر لیتے ہیں مگر یہ بڑی بات نہیں ہے بڑی بات تو یہ ہے کہ تہیہ کرنے کے بعد اسے پورا بھی کیا جائے۔جو گرہ لگی ہوئی ہے اسے آپ نے خود کھولنا ہے۔اللہ اور بندے کا تعلق ایسا ہے کہ اس میں کوئی تیسرا خلل ڈالنے کی جرأت بھی نہیں کر سکتا۔

اذان ہو چکی ہے ۔"

وہ ساکت بیٹھا اس کو دیکھ رہا تھا جس کی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔

وہ وضو کر کے واپس اس جگہ پہ آ کھڑا ہوا۔عدن اسے نیت باندھتے دیکھ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔

رات کی اس تاریکی میں وہ سجدے میں جھکا رب کی بڑائی بیان کر رہا تھا۔

نماز کے بعد اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کے دعا کے انداز میں پھیلا کر آنکھیں بند کر لیں اس رب کے سامنے جو خود بندے کو پکارتا ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا تو میں اسے عطا کروں۔

آنکھیں بند کرتے ہی معافی کا لفظ زبان پہ آنے سے پہلے ہی پچھلی زندگی کسی فلم کی طرح ذہن کی اسکرین پہ چلنے لگی۔

کلبز،بارز،غلط دوستیاں،شیراب کی ٹوٹی ہوئی خالی بوتلیں،نیو ایئر نائٹ پارٹیز،ڈانس فلور پہ تھرکتے کپلز،کلبز کی اوپری منزل کے بند کمرے اور بند دروازوں کے پیچھے ہوتے گناہ۔

اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔

کلب میں شاید ہی کوئی ایسا انسان ہو ھو جو دائم طلال کو جانتا نہ ہو۔بارز میں اسے ہمیشہ چیف گیسٹ کی سی حیثیت ملتی۔کتنی ہی لڑکیوں سے اسکی وہاں پہ دوستی تھی۔کتنی بار حرام مشروب اس کے حلق سے نیچے اترا تھا۔

ہاتھ واپس پہلو میں گر گئے۔نہیں اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان گناہوں کی معافی مانگ سکتا جنہیں سوچتے ہوئے بھی شرم آرہی تھی۔وہ وہاں سے اٹھنا چاہتا تھا مگر کوئی انجانی قوت اسے وہاں سے ہلنے بھی نہیں دے رہی تھی۔

"اے ابن آدم ایسا کوئی گناہ نہیں جو میں معاف نہ کر سکوں"۔

اس آیت نے پھر سے حوصلہ پیدا کیا۔اس،نے ہر خیال ذہن سے جھٹک کر دوبارہ ہاتھ اٹھا لیے۔

"صرف ایک بار۔۔۔۔۔۔صرف ایک بار مجھے معاف کر دے اللہ۔پچیس سال میں نے غفلت میں گزارے ہیں مگر اپنی آئندہ زندگی کو میں اس کی نذر نہیں کر سکتا۔میرے میں سر اٹھانے کی بھی ہمت نہیں ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔ پھر بھی میں گناہوں میں لتھڑے وجود کے ساتھ تجھ سے ہر گناہ کی معافی مانگتا ہوں۔۔۔۔۔میرے دل کے ہر کھوٹ کو ختم کر دے۔۔۔۔میرے آنسوؤں کو اپنے لیے خالص کر لے۔۔۔۔۔تیری رحمت ہمیشہ تیرے غضب پہ حاوی رہی ہے۔۔۔۔۔ہمیشہ کیطرح ایک بار پھر دائم طلال پہ نظر کرم کر۔۔۔۔۔۔میں وعدہ کرتا ہوں میں کبھی اس غلط راہ کیطرف نہیں پلٹوں گا بس مجھے راہ راست سے ہٹنے نہ دینا۔"

گرہ کھل رہی تھی۔دل کی گھٹن نے آنسوؤں کے ذریعے باہر کا راستہ دیکھ لیا تھا۔

رات کی اس پر نور تاریکی میں ایک وعدہ تھا جو اس نے چہار سو پھیلی خاموشی کو گواہ بنا کے اللہ سے کیا تھا۔اب ساری زندگی اسے اس وعدے کو نبھانا تھا۔جس دن سے وہ اس روش سے ہٹا تھا دل کی بے چینی بڑھ گئی تھی۔گناہوں کی لذت بار بار خود تک آنے پہ مجبور کرتی۔مگر اب اس وقت اس کے چہرے پہ پھیلا اطمینان اس بات کا گواہ تھا کہ دل کا زنگ اترنا شروع ہو چکا ہے۔

_________________________________

کچھ دیر بعد عدن اسے ناشتے کے لیے بلانے آئی تو وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بالکل تیار کھڑا خود پہ پرفیوم سپرے کر رہا تھا۔اسے ناشتے کا کہہ کر وہ ٹیبل پہ برتن سیٹ کرنے لگی۔

"میں خود لے لوں گا آپ بیٹھ کر ناشتہ کریں۔اس سب کی عادت نہیں ہے مجھے اگر میں بگڑ گیا تو مسئلہ آپ ہی کو ہو گا آگے جا کے۔"

عدن جو ناشتے کی ایک ایک چیز،اس کے سامنے رکھ رہی تھی اس کے برجستہ کہنے پر جھینپ سی گئی۔

"آپ آج پتہ کروائیں گے نا میرے گھر والوں کے بارے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے ابھی ٹرائی کیا ہے نمبر پھر بند ہی جا رہا ہے۔"

"آپ پریشان مت ہوں۔میں جیسے ہی تھوڑا سا فری ہوا فوراً پتہ کروالوں گا۔۔۔۔۔ہو سکتا ہے انہوں نے نمبر چینج کر لیا ہو۔"

"نہیں تو نمبر کیوں چینج کرنا ہے انہوں نے۔اگر ہوا بھی ہو چینج تو کوئی ایک تو فون اٹھائے۔بابا اور عبداللہ بھائی دونوں ہی کا نہیں مل رہا۔"

اس کے لہجے میں اداسی اتر آئی۔وہ اس،چیز کو ماننے کو تیار ہی نہیں تھی مگر دائم جانتا تھا اس کی گمشدگی کی خبر ملتے ہی نجانے کتنی اور کیسی کیسی فون کالز آئی ہوں گی جو انہیں مجبور ہو کر نمبر ہی بند کرنا پڑا۔مگر یہ بات کہہ کر وہ اسے پریشان نہیں کر سکتا تھا۔

"پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔دو چار دنوں میں ہی پتہ چل جائے گا۔"

"اوکے اب میں چلتا ہوں ٹائم ہونے والا ہے آفس کا۔ٹیک کئیر۔"

وہ رسٹ واچ باندھتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔

"آپ آج آئیں گے نا؟"

موبائل چیک کرتے ہوئے دائم کے ہاتھ لمحہ بھر کو رکے۔وہ خوشگوار حیرت سے پیازی رنگ کے دوپٹے میں مقید چہرے کو دیکھتے ہوئے بالکل سامنے آ کھڑا ہوا۔

"آپ کریں گی میرا انتظار؟"

اس کے سوال پہ فوراً سٹپٹا گئی

"نن۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔مم۔۔۔میں نے تو ویسے ہی پوچھ لیا تھا۔"

"یعنی کہ آپ کہنا چاہتی ہیں میں نہ آؤں؟"

"نہیں تو میں نے یہ تو نہیں کہا۔"

"اٹس مین یو ول ویٹ فار می۔"

لہجے میں خودبخود شوخی اتر آئی۔

عدن کو فوراً جلد بازی میں کہے گئے اپنے غلط جملے کا احساس ہوا۔

"اب۔۔۔۔آپکو۔۔۔۔دیر ۔۔۔نہیں ہو رہی آفس سے۔"

وہ اسکی طرف دیکھنے سے بھی گریز کر رہی تھی۔

"آؤں گا میں۔میرے آنے تک تیار رہیئے گا آج ڈنر بار 

کریں گے۔"

وہ اسکا چہرہ تھپتھپا کر خدا حافظ کہتا ہوا چلا گیا۔

_____________________________________

ڈیڈی کو پہلے سے ہی اپنے آفس میں بیٹھا دیکھ کر وہ چونکا۔

"لے بھی دائم بیٹا اب حساب کتاب کے لیے تیار ہو جا۔"

وہ گلا کھنکھارتا ہوا اندر داخل ہوا۔

"السلام علیکم ڈیڈی۔خیریت اتنی صبح صبح آگئے آپ۔"

"یہ ٹائم ہے تمہارے آفس آنے کا۔"

طلال اسے دیکھتے ہی غصے میں آ گئے۔

"سوری۔۔ٹریفک میں پھنس گیا تھا۔"

"چلو اب تو ٹریفک میں پھنسے ہوئے تھے مگر رات کہاں پھنس گئے تھے جو گھر آنا بھی یاد نہیں رہا۔"

"ڈیڈی جب آپکو پتہ ہے تو کیوں پوچھ رہے ہیں۔"

"اگر تمہاری یہی روٹین رہی نا تو اس بزنس کا کباڑہ ہو جائے گا۔اگر تم اسے نہیں مینج کر سکتے تو صاف صاف کہہ دو تا کہ میں کسی اور کا بندوبست کر لوں۔کم از کم تمہارے ہاتھوں تباہ تو نہ ہو یہ۔"

"ایک منٹ۔۔۔۔کس نے کہا ہے کہ مجھ سے مینج نہیں ہو رہا۔نیو پراجیکٹس مجھے بلا وجہ نہیں مل گئے۔اپنا آفس ورک کرتا ہوں تو ساتھ ساتھ آپکا بھی کرتا ہوں۔"

"تو کونسا احسان کر رہے ہو تم میرے پہ"۔

"ڈیڈی پرابلم پتہ کیا یے آپ کو اب مجھ پہ پقین نہیں ہے سو اٹس بیٹر کہ آپ کوئی اور بندوبست کر لیں۔میں نے تو صارم کو آفر کی تھی بٹ آپ نے خود منع کیا ہے اسے"۔

"دیکھو یہ سب تم ہی لوگوں کا ہے۔اسے پوری ذمہ داری سے نبھاؤ۔یہ مت سمجھنا میں کبھی تم سے لا علم تھا۔سارہ کی مخالفت کے باوجود میں نے ہر معاملے میں صرف تمہیں پریفر کیا۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے تم میری نرمی سے نا جائز فائدہ اٹھاؤ۔ یہ جو آجکل تم نے نئی مصیبت پال لی ہے نا اس سے جتنی جلدی ہو سکتا ہے جان چھڑوا لو ورنہ مجھے بہت سے طریقے آتے ہیں تمہیں لائن پہ لانے کے۔میں تمہارا باپ ہوں تم میرے باپ بننے کی کوشش مت کرو۔"

طلال ہاتھ میں پکڑی فائل زور سے ٹیبل پہ مارتے ہوئے باہر چلے گئے۔

________________________________

شام کو اس نے آنے سے پہلے عدن کو فون کر کے تیار ہونے کا کہا۔مگر اسکے گھر آنے تک بھی وہ تیار نہیں ہوئی۔

"مجھے باہر نہیں جانا۔ضروری تھوڑی ہے کہ باہر جا کر ہی ڈنر کرنا ہے"۔

اسکے اندر اب بھی خوف موجود تھا کہ جیسے ہی وہ باہر نکلے گی سب کچھ پھر سے دہرایا جائے گا۔

"ضروری ہے بہت ضروری ہے خاص طور پر آپ کے اس ڈر کو ختم کرنے کے لیے"۔

"اور اگر پھر کوئی ہوا تو؟"

"تو میں کس لئے ہوں۔۔صرف پانچ منٹ ہی جلدی سے تیار ہو کر آئیں۔پہلے شاپنگ کریں گے پھر ڈنر۔"

کچھ دیر بعد وہ اچھے سے چادر اوڑھ کر باہر آئی۔پریشانی اب بھی چہرے سے عیاں تھی۔

دائم اس سے جو بھی بات کرتا وہ آگے سے صرف ہوں ہاں میں جواب دے پاتی۔

شاپنگ مال کے باہر اترنے سے پہلے اس نے اچھی طرح ارد گرد دیکھا پھر مضبوطی سے چادر تھامے باہر نکل آئی۔

"اور کب تک کرنا ہے ایسا؟"

وہ سینے پہ ہاتھ باندھے اس کے مقابل آ کھڑا ہوا۔

"کیا ؟" عدن نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔

"آپ تو ایسے ری ایکٹ کر رہی ہیں جیسے میں آپکو اغوا کر کے لایا ہوں۔کم آن یار۔میں آپکے ساتھ ہوں۔بی بریو۔کچھ نہیں ہو گا۔اگر آپ اسی طرح کرتی رہیں تو کیسے موو کریں گی دنیا میں۔یہاں پہ کوئی اتنا فارغ نہیں ہے کہ ہم پہ چیک رکھتا پھرے۔جب میں آپکے ساتھ ہوں تو کسی سے ڈرنے یا گھبرائے کی ضرورت نہیں ہے۔اوکے۔چلیں آئیں پہلے شاپنگ کرتے ہیں پھر ڈنر کریں گے۔"

وہ اسکا ہاتھ تھامتا ہوا اندر کی جانب پڑھا۔شاپنگ کرتے ہوئے بھی وہ جس چیز میں بھی اس کی چوائس پوچھتا عدن صرف سر ہلانے پہ اکتفا کرتی۔

"یہ ساری چیزیں میں نے یوز نہیں کرنی۔نہ ہی یہ ساڑھی میں نے باندھنی ہے۔اس لیے جو لینا ہے وہ خود لیں اب میں بالکل نہیں بولوں گا۔"

دائم کے کہنے پہ ساڑھی کو دیکھتے ہوئے بے ساختہ مسکراہٹ اس کے چہرے پہ آئی۔بالآخر اس کی بجائے وہ خود چیزیں پسند کرنے لگی۔

اس کو مسکراتے دیکھ کر دائم نے سکون کا سانس لیا۔وہ اسی لیے اسے بھیڑ والی جگہ پہ لایا تھا تا کہ نئے چہرے دیکھ کر اس میں موجود وہ ڈر اور خوف کسی طرح ختم ہو جائے جو کل رات اس کے چہرے پہ تھا۔

جب دو گھنٹے بعد وہ شاپنگ سے فارغ ہوئے تو اپنے پیچھے دائم کے نام کی پکار پڑتے ہی ان دونوں نے بے ساختہ پیچھے مڑ کر دیکھا مگر عدن کو دیکھتے ہی سامنے آتا وجود ٹھٹک کر اپنی جگہ پہ رک گیا۔

"ہائے اسد۔۔۔ہاؤ آر یو۔۔۔"

"آئی ایم فائن۔۔۔۔تم۔کیسے ہو۔"

اسکی نظریں اب بھی عدن پہ تھیں جس نے چادر کا پلو چہرے پر مزید آگے کر لیا۔

"یہ؟؟"

اس،نے جانتے ہوئے بھی عدن کا تعارف ضروری سمجھا مگر دائم کے منہ سے نکلنے والے الفاظ سن کر وہ ساکت ہو گیا۔

"شی از مائی وائف۔۔اینڈ عدن یہ سیاست میں ڈیڈی کے روایتی حریف کا بیٹا ہے اسد لغاری۔اور میرا فیلو بھی۔"

"کیا ؟ تمہاری ۔۔۔۔۔۔۔تمہاری وائف۔۔۔۔۔۔ تم نے شادی کروالی اور بتایا بھی نہیں۔"

"کیوں تم میرے کیا لگتے تھے جو میں سپیشل تمہیں انوائٹ کرتا اور بتاتا کہ میری شادی ہو رہی ہے۔"

وہ اسد کی فطرت سے اچھی طرح واقف تھا اس لیے لہجے میمیں خود بخود تلخی اتر آئی۔

"چلو دوست نہ سہی دشمن ہی سہی ایک بار منہ میٹھا کروانے کا حق تو بنتا تھا نا۔"

اسکی نظریں اب بھی چادر لپیٹے اس لڑکی یہ تھیں جسے وہ پہلی نظر میں ہی پہچان گیا تھا۔

"اچھا یار تم نے تو نہیں کروایا۔میں خود ہی مٹھائی لے کر انکل کو مبارکباد دینے آجاؤں گا۔"

"میرے خیال میں تم مبارکباد کی بجائے اپنے ڈیڈی کے ساتھ الیکشن پہ توجہ دو تو ذیادہ بہتر ہے۔اوکے بائے۔"

وہ اسے وہیں چھوڑ کر عدن کے ساتھ باتیں کرتا مال سے باہر نکل گیا یہ جانے بغیر کہ کوٹھے پہ اس رات تماشائیوں کی قطار میں اسد لغاری بھی موجود تھا۔

"ایکسکیوز می!کیا آپ دائم طلال ہیں؟"

ڈنر کرتے ہوئے اپنے بالکل کان کے ساتھ ابھرنے والی آواز پر وہ چونک کر پلٹا۔

"جی نہیں۔میں ہرگز دائم طلال نہیں ہوں۔آپ پلیز کسی اور ٹیبل پر جائیں۔"

"اوئے خبیث پہلے نہیں بتا سکتا تھا تو یہاں بیٹھا ہے۔خدانخواستہ اگر مجھے اپنے پیسوں سے اس چڑیل کو ڈنر کروانا پڑ جاتا تو۔۔۔"

"علی دائم کے ساتھ والی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔رابیل آتے ہی عدن سے باتوں میں مصروف ہو گئی۔

"تو نے مجھے سکون سے رہنے دینا بھی ہے یا نہیں۔آج پہلی بار صرف کچھ دیر کے لیے میں اپنی بیوی کے ساتھ ڈنر پہ آگیا پر تجھ سے یہ بھی برداشت نہیں ہوا۔تمہیں بتایا کس نے میں یہاں پر ہوں؟"

دائم نے کڑے تیوروں سے اسے گھورا جو اس کی پلیٹ اب اپنی طرف کھسکا کر اس پہ ہاتھ صاف کر رہا تھا۔

"میں تجھے کسی صورت اس ظالم دنیا میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا وہ کہتے ہیں نا سچی یاری سب پہ بھاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویسے تیرے لیے ایک گڈ نیوز ہے میرے پاس میں نے ابھی ابھی نیہا کی گاڑی کو پارکنگ میں رکتے دیکھا ہے اس لیے بیٹا بہتری اسی میں ہے کھانا چھوڑ اور نیواں نیواں ہو کر نکل لے یہاں سے۔" 

"کیا یار۔ یہ ساری مصیبتیں آج ہی نازل ہونی ہیں میرے پر۔ٹھیک کہتے ہیں ڈیڈی باہر کم نکلا کرو خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔"

"رابی جلدی سے ڈنر کرو۔تھوڑی دیر میں تو شو لگ جائے گا یہاں پہ۔پھر بھلا کہاں کھا ہو گا۔"

اس نے دائم کو آنکھ مارتے ہوئے رابی سے کہا۔

"میں تمہارے پیسوں پہ ڈنر کرنے آئی ہوں دائم بھائی کے نہیں۔"

"بیٹا اگر تم نے میرے سے کوئی امید رکھی پھر میں تو صرف ایک فالودہ ہی کھلا سکوں گا تمہیں۔اس لیے بہتر ہے اپنا سمجھ کے جلدی جلدی کھاؤ۔"

"شرم تو نہیں آتی اب کسی اور لڑکی کو ساتھ لاتے تو اگلے دن کا کھانا بھی اس کے لیے یہیں سے پیک کروا لینا تھا اور بہن کو تم ایک ڈنر بھی نہیں کروا سکتے۔"

"ہاں تو وہ لڑکیاں ہوتی ہیں تم جیسی سوکھی سڑی تیلیاں نہیں۔"

"سارا کچھ تو تم خود ہضم کر گئے ہو دائم بھائی کے لیے بھی کچھ چھوڑ دو۔"

"اس بیچارے کی تو شو کا سنتے ہی بھوک مر گئی ہے۔ویسے بھی ہم نے اسکے نکاح کے چھوارے تک نہیں کھائے کیا اب اس ڈنر پر بھی علی مرتضیٰ کا کوئی حق نہیں؟"

عدن دلچسپی سے انکی نوک جھونک سن رہی تھی کبھی وہ اور حیدر بھی اسی طرح لڑا کرتے تھے۔یہ سوچتے ہی اسکے چہرے پہ سایہ سا لہرا گیا۔

"یار مجھے سمجھ نہی آتی میں جہاں بھی جاؤں یہ وہاں کیسے پہنچ جاتی ہے۔"

"او بھائی دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔"

"اگر تم نے اس کے سامنے کوئی بکواس کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔"

"ٹھیک ہے جیسا،تم کہو۔"

علی نے شرافت کے سارے ریکارڈ توڑ کر اس کی بات پہ سر جھکا دیا۔

"او مائی گاڈ۔۔۔۔دائم تم یہاں۔۔۔۔ہاؤ آر یو۔"

نیہا اسے دیکھتے ہی چہکتی ہوئی اسکی طرف لپکی۔

"آئی ایم فائن اینڈ یو۔"

"میں بھی ٹھیک۔فرینڈز کے ساتھ بزی ہو۔میں بھی اپنے فرینڈز کے ساتھ ہی آئی تھی۔ہائے گائز میں دائم کی فیانسی ہوں۔"

وہ ان سب کو ہاتھ ہلاتے ہوئے کہہ کر بے تکلفی سے چئیر پر بیٹھ گئی۔

عدن نے ایک حیران سی نظر دائم پر پھر اس الٹرا ماڈرن لڑکی پہ ڈالی جو ٹاپ اور جینز میں ملبوس ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھی تھی۔

"اور یہ کیا ہم ہمیشہ باہر ہی ملتے ہیں۔کبھی کبھی گھر بھی آ جایا کرو۔ممی اتنا مس کر رہی تھیں تمہیں۔"

"خدا کا،خوف کر بی بی کیوں ممی بیچاری کو بد نام کر رہی ہو۔بندہ سیدھی سیدھی بات کرے۔"

علی کی بڑبڑاہٹ دائم نے واضح سنی تھی۔وہ بالکل نیہا کی موجودگی سے انجان بنا فش پہ ہاتھ صاف کر رہا تھا۔

"کس کے ساتھ آئی ہو تم ؟"

"ابھی تو بتایا ہے فرینڈز کے ساتھ آئی ہوں۔"

"دائم یار تو بھی اچھا ہے بچوں کو گھر ہی چھوڑ آیا ہے۔ابھی دو ماہ کی ہے گڑیا اور آج سے ہی تم دونوں کے سیر سپاٹے شروع ہو گئے ہیں۔اتنے سے بچے کو گورنس کے حوالے کر آئے ہو یعنی کہ حد ہو گئی۔"

علی کی بات پر دائم کو بے اختیار اچھو لگا۔سوائے رابیل کے وہاں بیٹھے تینوں افراد کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔عدن تو پہلے ہی اسکی زبان کے چرچے سن چکی۔تھی اور اب اسکی بات پہ سامنے بیٹھے دائم کو دیکھ کر اسے پسینہ آگیا۔

"کیا مطلب ہے تمہارا؟ کس کے بچے؟"

نیہا نے حیران ہو کر علی کی شکل دیکھی۔

"ارے نیہا تم یہاں۔واٹ آ پلیزینٹ سرپرائز۔کب آئی تم مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا۔کیسی ہو ؟"

"کیا کہہ رہے تھے تم ابھی کس بچے کو چھوڑ کر آیا ہے دائم؟"

"لیو اٹ نیہا تمہیں پتہ تو ہے اسکی عادت کا۔ایسے ہی فضول بولتا رہتا ہے یہ۔"

دائم نے کھا جانے والی نظروں سے علی کو دیکھا۔

"اف ایک نمبر کے بدتمیز ہو تم۔۔دل ہو لا دیا میرا۔۔۔۔پر تم کچھ بھی کہو مجھے پورا یقین ہے دائم پر۔یہ میرے علاوہ کسی کا نہیں ہو سکتا۔"

اس نے آہستگی سے دائم کے ٹیبل پہ دھڑے بازو پہ ہاتھ رکھا۔علی نے ہنسی ضبط کرنے کے لیے پانی کا گلاس اٹھا کر منہ کو لگا لیا۔

"میں تو ایک نمبر ہوں نا جس پہ تمہیں اندھا یقین ہے وہ چار نمبر انسان ہے۔زرا بچ کے رہنا۔۔۔۔اوہ شٹ میں تو سب کا انٹرو کروانا ہی بھول گیا۔"

اسکی بات پہ دائم نے ٹیبل کے نیچے زور سے اسکے پاؤں پہ پاؤں رکھا۔

"مجھے تو تم جانتی ہی ہو آخر کو ہم چار سال اکٹھے پڑے ہیں اور یہ تمہارے دائم بھائی۔۔۔آ۔۔۔آ۔۔۔آئی مین جسٹ دائم۔یہ ہے میری سسٹر رابیل اور یہ ہیں تمہاری سوت۔۔۔۔میرا مطلب ہے ہماری بھابی عدن۔ابھی نئی نئی شادی ہوئی ہے انکی۔"

اس کے تعارف کروانے پر نیہا نے ایک سرسری سی نظر نفیس سی سندھی کڑھائی والی چادر لیے اس خوبرو سی لڑکی پہ ڈالی جو دائم کے بالکل سامنے بیٹھی تھی۔

"نائس ٹو میٹ یو۔ ہزبینڈ کہاں ہیں آپکے؟ آپ تو بہت چھوٹی سی ہیں۔"

"ابھی تو تعارف کروایا ہے میں نے۔وہ بھی یہی پہ ہے۔یہ اگر چھوٹی ہیں تو ہزبینڈ کونسا بہت بڑا ہے ابھی تک تو فیڈر بھی نہیں چھوڑا بیچارے نے۔"

"سوری نیہا تم تو ادھر ہی مصروف ہو گئی۔تمہارے فرینڈز ویٹ کر رہے ہیں تمہارا۔آؤں گا میں کسی دن گھر۔"

علی کی مزید گل افشانی سے پہلے ہی دائم بیچ میں بول پڑا۔

"اوہ۔۔۔میں تو بھول ہی گئی۔اوکے گائز میں چلتی ہوں اور ہاں اب کل کا ڈنر تم ہماری طرف کرو گے۔آئی ول ویٹ فار یو۔"

وہ مسکرا کر کہتی اٹھ کر چلی گئی۔اس کے جانے کے بعد دائم نے جو علی کے ساتھ کیا۔ رابیل کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا۔

__________________________________

"مے آئی کم ان انکل؟"

آفس کے اندر آکر اجازت لینے والے کو دیکھ کر طلال بری طرح چونک گئے۔

یہ یہاں کیا کر رہا تھا۔مے بی کوئی نیا کام کرنے آیا ہو۔صرف تحمل سے بات کرنے میں ہی فائدہ تھا ورنہ ہو سکتا ہے کسی پن کیمرے کے ذریعے ان کی ریکارڈڈ گفتگو آدھے گھنٹے بعد سوشل میڈیا کی زینت بن جاتی اور منٹوں میں ہی کرسی چھن جانی تھی۔آجکل تو سب ہی ان حرکتوں پر اتر آئے تھے۔سو احتیاط لازمی تھی۔ان کے دماغ نے تیزی سے کام۔کیا۔وہ سیاست کے ہر پیچ و خم سے واقف تھے۔فوراً سے پہلے مصنوعی مسکراہٹ چہرے پہ آگئی۔

"آؤ بیٹا آؤ تم یہاں کیسے سب خیریت تو ہے؟"

"مانا انکل مانا الیکشن کے دنوں میں ہر سیاستدان کی زبان میٹھی ہو جاتی ہے میرے ڈیڈی کی بھی ہو جاتی ہے مگر آپکا تو جواب نہیں۔واہ بھئی واہ۔"

اس نے ہنستے ہوئے مٹھائی کا ڈبہ ٹیبل پر رکھا۔

"یہ مٹھائی کس خوشی میں لے آئے ابھی تو ہمارے جیتنے میں تھوڑا وقت باقی ہے۔"

"تب بھی لاؤنگا فی الحال تو آپ کے بیٹے کی شادی کی خوشی میں لایا ہوں۔بڑے چھپے رستم نکلے آپ تو ہوا تک بھی لگنے نہیں دی۔اتنا نیک کام کیا ہے کسی صحافی کو بھی خبر نہیں ہوئی کیا ؟ سچ میں اس خبر نے تو دھوم مچا دینی تھی ایک بار پھر سارے کے سارے ووٹ آپکے۔"

مصنوعی مسکراہٹ فوراً سمٹی۔

"کہنا کیا چاہتے ہو؟"

طلال کے ماتھے پہ رگ ابھر آئی۔

"بھئی اتنا نیک کام کیا ہے آپکے بیٹے نے۔بلیو می آئی ایم امپریسڈ۔بہت بڑا دل ہے آپکا۔۔۔۔۔۔۔۔یا پھر یہ بھی کوئی چال ہے جیتنے کی۔ورنہ کسی کا اتنا دل گردہ نہیں ہوتا کہ ایک طوائف کو اپنی بہو بنا لے۔"

وہ مزے سے منہ میں گلاب جامن رکھتا ان کے حواسوں پہ بم گرا گیا۔

"کیا بکواس کر رہے ہو؟"

وہ فوراً چئیر سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

"یقین کریں اتنا نیک کام میری سات پشتوں میں سے کسی نے نہیں کیا جو آپکے بیٹے نے کھڑے کھڑے کر دیا۔پہلے کوٹھے سے لڑکی خریدی پھر اس سے نکاح کر لیا واہ بھئی کیا لو سٹوری ہے ؟ ویسے پکی بات ہے نکاح کروایا بھی ہے آپ نے اسکا یا۔۔۔۔۔"

"گیٹ آؤٹ فرام مائی آفس۔"

"یہ خبر اخبار میں آنی چاہیے ہے نا۔

ملک کے نامور سیاستدان طلال احمد کے چھوٹے صاحبزادے کا ملک میں تبدیلی کی جانب اہم قدم۔

تفصیل جانیے ایک بریک کے بعد۔

کیا خیال ہے انکل دے دوں خبر۔"

"آئی سے گیٹ لاسٹ۔"

"دھیرج رکھیے انکل دھیرج۔ابھی سے اوپر کا ٹکٹ نہ کٹوا لیجئے گا آخر کو الیکشن بھی تو جیتنا ہے۔یہ مٹھائی میری طرف سے دائم کو دیجئے گا۔اب میں چلتا ہوں کہیں اخبار کے دفتر ہی بند نہ ہو جائیں۔

آپ کہیں تو ڈاکٹر کو فون کر دوں۔"

"آئی سے گیٹ لاسٹ فرام ہئیر۔"

طلال اپنے پورے زور سے دھاڑے۔

"اوکے انکل بائے بائے لو یو۔کل کا اخبار ضرور دیکھیے گا۔"

وہ مسکراہٹ اچھالتا دروازے سے غائب ہو گیا۔

اسکے جاتے ہی طلال نے مینیجر کو بلایا۔

"شہر میں جتنے اخبارات کے دفاتر ہیں سب کو کہہ دو کل کے اخبار میں میرے یا میری فیملی کے متعلق کوئی خبر نہیں آنی چاہیے۔وہ جتنا پیسہ کہیں اتنا دو منہ بھر دو انکا مگر میرے خلاف کسی اخبار میں کوئی خبر آئی تو اس کا مالک زندہ نہیں بچے گا۔بتا دینا سب کو۔فوراً سے پہلے ہر جگہ فون کرو۔"

وہ کھولتے دماغ کے ساتھ حکم دیتے کی چین اٹھا کر باہر کی جانب بڑھے۔

____________________________________

دائم ابھی راستے میں ہی تھا کہ طلال کی کال آ گئی۔

"کہاں پہ ہو تم۔"

"راستے میں ہوں ڈیڈی خیریت۔"

"اگلے آدھے گھنٹے میں گھر پہنچو۔"

"ہوا کیا ہے ؟"

"جب آؤ گے تو چل جائے گا پتہ کیا ہوا ہے۔"

طلال نے کہہ کر فون بند کر دیا۔

"کیا ہوا سب خیریت ہے ؟"

عدن نے فکر مندی سے پوچھا۔

"لگ تو نہیں رہا خیریت ہو گی ورنہ ڈیڈی ایسا تو کبھی نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔میں نے سوچا تھا آج ہم گھر نہیں جائیں گے بھرپور ٹائم ساتھ گزاریں گے پر اب تو میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ آپ کہتی ہیں تو رک جاتا ہوں۔"

اسکے کہنے پہ عدن کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔

وہ جو اتنے دنوں سے گھر سے نکلنے سے ڈر رہی تھی آج کی گزری شام نے وہ خوف ختم کر دیا تھا۔

وہ اسے فلیٹ پہ چھوڑ کر واپس گھر کی طرف مڑ گیا۔

___________________________________

آدھے گھنٹے کی بجائے بیس منٹ میں ہی وہ گھر میں موجود تھا۔الجھتے ہوئے اندر آیا۔اتنا تو ڈیڈی کی آواز سے ہی پتہ چل گیا تھا کہ مسئلہ گھمبیر ہے مگر گھر میں تو ہر طرف سکون تھا۔

وہ ہال میں ممی کے پاس آ بیٹھا جو کوئی ٹاک شو دیکھ رہی تھیں۔

"ممی ڈیڈی کہاں ہیں۔آئے نہیں اب تک۔"

"نہیں آنے والے ہوں گے اور تم کہاں تھے دو دنوں سے۔گھر ہی نہیں آئے۔"

"بزی تھا دوستوں کے ساتھ۔"

وہ ابھی ممی کے ساتھ باتیں کررہا تھا کہ طلال کی گاڑی کے دروازے بند ہونے کی آواز آئی۔کچھ دیر بعد وہ اندر داخل ہوئے۔

"میرے روم میں آؤ۔"

وہ بغیر رکے اسے حکم دیتے اندر کی جانب بڑھ گئے۔

ریموٹ سے چینل چینج کرتا اسکا ہاتھ لمحہ بھر کو رکا۔کچھ تو غلط تھا۔وہ حیران ہوتا انکے پیچھے آیا۔

"واٹ ہیپنڈ ڈیڈی؟"

"تم اتنا گر جاؤ گے مجھے اندازہ نہیں تھا۔اتنا لو اسٹینڈرڈ ہے تمہارا۔۔۔۔۔کیا نہیں دیا میں نے تمہیں۔۔۔۔۔دنیا کی ہر آسائش تمہارے قدموں میں ڈھیر کر دی۔۔۔۔۔تم نے آج تک جو بھی کیا میں نے کبھی پوچھ گچھ نہیں کی۔۔۔۔۔ساری اولاد سے زیادہ صرف تمہیں چاہا۔۔۔۔۔تمہاری ہر جائز و ناجائز کو آنکھیں بند کر کے پورا کیا میں نے۔۔۔۔۔۔مگر تم نے کیا کیا میری ساری زندگی کی کمائی پہ پانی پھیر دیا۔۔۔۔۔ذرا سی بھی غیرت نہیں آئی تمہیں یہ گھٹیا حرکت کرتے ہوئے۔۔۔۔۔۔ایسی کونسی عاشقی کا بھوت سوار ہو گیا جو صحیح اور غلط کی تمیز بھی ختم ہو گئی۔"

طلال کی دھاڑ پورے کمرے میں گونج رہی تھی۔انہوں نے جھٹکے سے کوٹ اتار کر صوفے پہ اچھالا۔وہ خاموش بیٹھا ان کے آگے بولنے کا انتظار کر رہا تھا۔

"ٹھیک کہتی تھی تمہاری ماں۔۔۔۔مجھے اتنی ڈھیل دینی ہی نہیں چاہیے تھی۔۔۔۔یہ سب میرا قصور ہے جو تمہیں اتنا سر پہ چڑھا لیا کہ آج تم ایک طوائف کو بیوی کے طور پہ متعارف کرواتےپھر رہے ہو۔کونسا معرکہ مار لیا ہے جو پورے شہر میں ڈھنڈورا پیٹ رہے ہو۔شاید۔۔۔۔۔شاید میں تمہارے اس سو کالڈ نکاح کو اکسیپٹ کر لیتا اگر اس لڑکی کا کوئی حوالہ ہوتا۔تمہاری عیاشیوں سے میں بے خبر نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔ پر تم اتنا گر جاؤ گے کہ ایک گندی اینٹ کو میرے محل میں سجانے کا خواب سوچو۔۔۔۔"

"انف ڈیڈی انف۔۔۔۔۔۔کس نے کہا ہے یہ آپ سے؟ کس کی جرأت ہوئی یہ بکواس کرنے کی۔میں زبان کاٹ دوں گا اسکی۔"

"کیوں اتنی آگ کیوں لگ رہی ہے ۔ غلط کہا ہے کیا میں نے؟ آج میرے مخالفین میرے سر پہ کھڑے ہو کے اعلان کر رہے ہیں کہ طلال احمد کی بہو ایک طوائف ہے۔"

"بس کر دیں ڈیڈی۔جھوٹ ہے یہ سب بکواس ہے۔اگر وہ طوائف ہوتی تو میری بیوی نہ ہوتی۔بجائے مجھے پروٹیکٹ کرنے کے آپ انکی باتوں پہ یقین کر رہے ہیں۔میں زندہ نہیں چھوڑوں گا اس گھٹیا انسان کو۔مجھے پہلے ہی پتہ تھا یہ کمینی حرکت وہی کر سکتا ہے۔"

"ہاتھ توڑ دونگا میں تمہارے اگر اسے ذرا سا بھی نقصان پہنچایا۔تمہاری وجہ سے سیاست میں میری پوزیشن ڈسٹرب ہوئی تو زندہ نہیں بچو گے تم اور کیوں کروں میں تمہیں پروٹیکٹ کونسا کارنامہ سر اانجام دیا ہے تم نے۔غلط ہے کیا یہ کہ تم نے اسے کوٹھے سے خریدا تھا۔"

"بیوی ہے وہ میری۔۔۔۔نکاح کیا میں نے اس سے۔۔۔۔وہ ایک با عزت خاندان کی بیٹی ہے۔آج کے بعد آپ اسکے لئے یہ لفظ یوز نہیں کریں گے۔"

اسے قابو نہ آتے دیکھ کر اب کی بار طلال نے پینترا بدلا۔

"دیکھو ابھی بھی وقت ہے چھوڑ دو اسکو۔۔۔۔میں ہر چیز سنبھال لوں گا۔سب کچھ فکس کر لوں گا ابھی کے ابھی اسے طلاق دے دو۔۔۔۔۔ورنہ کل کو یہ خبر اخباروں میں آجائے گی اور میری عزت کا جنازہ نکل جائے گا اور اگر ایسا؟ہوا تو میں کھڑے کھڑے تمہیں جائیداد سے عاق کر دونگا۔"

"میں اسے کسی صورت نہیں چھوڑوں گا۔بھگا کر نہیں لایا جو کھڑے کھڑے فارغ کر دوں اسے۔یہ بھول ہے آپکی۔"

کمپنی آل ریڈی اسکے نام تھی۔فلیٹ پہلے سے ہی موجود تھا۔کمپنی کا سارا پیسہ اسکے اکاؤنٹ میں محفوظ تھا۔سو طلال کی دھمکی نے اس پر کوئی اثر نہ کیا۔

"اگر تم نے اسے طلاق نہ دی تو میں اس لڑکی کا وہ حشر کرونگا کہ وہ دنیا میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی۔"

طلال کی اس بار دی جانے والی دھمکی سن کے اسکی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی سی دوڑ گئی۔وہ اپنی کرسی بچانے کےلئے کسی بھی حد تک جا سکتے تھے۔

"اب فیصلہ تمہارا ہے ابھی سے سوچ لو آر یا پار۔"

"ڈیڈی اگر آپکی وجہ سے میری بیوی کو ذرا سا بھی نقصان پہنچا تو ساری عمر آپ اپنے بیٹے کی شکل دیکھنے کو بھی ترسیں گے۔"

اس کے سرد انداز نے طلال کا دماغ بھک سے اڑا دیا۔

"جسٹ شٹ اپ۔تم اس لڑکی کی وجہ سے اپنے باپ کے سامنے کھڑے ہو گئے ہو؟"

"کیا ہو گیا ہے۔سب ٹھیک تو ہے ؟اس طرح کیوں بول رہے ہیں آپ۔"

سارہ ساڑھی کا پلو سنبھالتے ہوئے پریشان سی اندر آئیں۔

"آئیے آئیے بیگم صاحبہ آپ بھی دیکھئے کونسا چاند چڑھایا ہے آپکے سپوت نے۔"

"کیا ہوا ؟"

"یہ پوچھیں کیا نہیں ہوا ۔نکاح کر لیا ہے اس نے وہ بھی ایک طوائف کے ساتھ۔اور کل کے اخباروں میں میری اتنے سالوں سے کمائی گئی عزت کی دھجیاں بکھر جائیں گی صرف اسکی وجہ سے۔"

ان کی بات سن کر سارہ گرتے گرتے بچیں۔

"کتنی بار بتاؤں نہیں ہے وہ طوائف۔۔اب لکھ کر دے دوں کیا میں آپ لوگوں کو؟"

"دائم کیا تم نے۔۔۔۔۔۔تم نے واقعی۔۔۔۔۔"۔

"کیا کر دیا ہے میں نے ممی۔۔۔۔نکاح ہی کیا ہے نا کوئی جرم تو نہیں کر دیا جو آپ سب ایسے ری ایکٹ کر رہے ہیں۔"

ان کی بلند ہوتی آوازیں سن کر صارم بھی ادھر ہی آگیا۔

"کیوں کیا یہ سب۔۔۔۔کون ہے وہ لڑکی۔۔۔۔۔تم جانتے تھے نا تم نیہا سے کمیٹڈ ہو پھر اس سب کی کیا وجہ ہے؟"

"ممی ایک بات کلئیر کر لیں میں نیہا کے ساتھ کبھی بھی کمیٹڈ نہیں تھا یہ سب کیا دھرا صرف آپکا میری مرضی جانے بغیر آپ جا کر سب کچھ طے کر آئیں۔سارا قصور آپکا ہے کس نے مشورہ دیا تھا کہ اسے جا کر میرے ساتھ نتھی کر آئیں۔اسے اس نہج پہ لانےمیں والی صرف آپ ہیں۔میں کبھی اس میں انٹرسٹڈ نہیں تھا۔نہ آج نہ کل۔میرا نکاح ہو چکا ہے سو بہتر ہے آپ اپنی بھانجی کے لئے بھی کچھ اور سوچیں۔"

اس نے ٹھنڈے لہجے میں ماں کو سب کچھ باور کروا دیا۔طلال پانی پی کر اپنا غصہ کنٹرول کر رہے تھے۔

"میں نہیں مانتی کسی نکاح کو۔تم اس دو ٹکے کی لڑکی کی خاطر ہمارے سامنے زبان چلا رہے ہو۔"

"وہ کیا ہے یہ میں اچھے سے جانتا ہوں کوئی مانے یا نہ مانے مگر اب وہ دائم طلال کی بیوی اور طلال ہاؤس کی بہو ہے۔آئندہ اگر میں نے اسکے لیی کوئی غلط لفظ کسی کی زبان سے بھی سنا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔"

"ہاں ہاں تم سے بعا کوئی نہیں ہو گا تمہاری وجہ سے میری عزت بے شک مٹی میں مل جائے پر تمہیں کیا فرق پڑتا ہے۔"

طلال نے پھر سے پوزیشن سنبھال لی۔

"فار گاڈ سیک ڈیڈی۔۔۔کونساگناہ کر دیا ہے اس نے۔۔شادی ہی کی ہے نا تو کیا ہو گیا۔اس،کی زندگی ہے وہ جیسے چاہے جئے۔"

کب سے خاموش کھڑا صارم بالآخر بول پڑا۔

"یو شٹ اپ۔بند کرو اس کیوکالت کرنا۔تم پہ بھی اسکا رنگ چڑھ رہا ہے۔تمہاری تو میں آج ہی سیٹ کنفرم کرواتا ہوں۔ذرا بھی تم لوگوں کو خیال نہیں ہے ہمارا۔"

"کیا منہ دکھاؤں گی میں سمعیہ کو۔۔۔کیا بنے گا نیہا کا جب اسے پتہ چلے گا۔"

سارہ روتے بیڈ پہ بیٹھ گئیں۔

"اب بس کر دیں ممی تنگ آگیا ہوں میں یہ نیہا نامہ سن سن کے۔کان پک چکے ہیں میرے۔اگر ذرا سا بھی خیال ہوتا آپکو تو کم از کم ایک بار مجھ سے پوچھ لیا ہوتا مگر اب پانی سر سے گزر چکا ہے اب کچھ نہیں ہو سکتا۔اتنے دن ہو گئے ہیں میرے نکاح کو آج تک میں اسے گھر نہیں لے کر آیا صرف اس لیے کہ ہماری وجہ سے آپکی لائف ڈسٹرب نہ ہو۔اگر میں اسے یہاں لے آتا تو کون تھا جو مجھے اسے یہاں لانے سے روک سکتا۔"

"تم اسے ایک بار لا کر دکھاؤ یہاں۔میں اپنے گھر میں کسی گھٹیا عورت کا وجود برداشت نہیں کرونگی۔"

وہ بجائے ممی کی بات کا جواب دینے کے دھاڑ سے دروازہ بند کرتا ہوا باہر نکل گیا۔

کھولتے دماغ کے ساتھ وہ اپنے کمرے میں آیا۔ساری کھڑکیاں کھول کر خود ٹیرس پہ جا کھڑا ہوا۔رات آہستہ آہستہ بیت رہی تھی۔یہی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسد کو کیسے اس چیز کی بھنک پڑ گئی۔یہ تو واضح تھا وہ اس خبر کو طلال کے خلاف استعمال کرے گا اور اگر واقعی کل کو اخبار میں خبر آگئی تو طلال اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔سب سے پہلے عدن کو پروٹیکیٹ کرنا ضروری تھا وہ جانتا تھا اب طلال کی طرف سے کوئی مارجن نہیں ملے گا۔

ساری رات بے چینی سے آنکھوں میں کٹی تھی۔

صبح ناشتے کی ٹیبل پہ ہر کوئی خاموش تھا۔طلال بےچینی سے آج کے اخبار کا انتظار کر رہے تھے حالانکہ مینیجر نے یقین دلایا تھا کہ وہ منہ مانگی قیمت دے آیا ہے۔کسی اخبار میں انکے خلاف کوئی خبر نہیں آئے گی۔پھر بھی لگ رہا تھا کچھ غلط ہونے والا ہے۔

"شرفو! شرفو ابھی تک پیپر نہیں آیا کیا ؟"

ان کی بات پہ ملازم باہر سے دوڑتا ہوا ہاتھ میں آج کا پیپر تھامے آیا۔انہوں نے بے چینی سے اخبار کھولا۔انکے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھ کر باقی تینوں نے بھی ناشتہ پڑے ہٹا دیا۔جب کافی دیر تک وہ کچھ نہ بولے تو بالآخر سارہ نے ہمت کر کے پوچھا۔

"کیا۔۔۔۔ہوا۔۔۔۔کوئی۔۔۔۔خبر تو نہیں آئی؟"

طلال نے پیپر زور سے ساتھ بیٹھے دائم کے منہ پہ دے مارا۔۔

"ہو گئی تسلی۔۔۔یہی چاہتے تھے نا تم۔۔۔لو اب ڈھول سر پہ رکھ کہ ناچو۔۔۔کر دیا تم نے آج سب کچھ ختم۔۔۔دیکھو لوگ کیا بکواس کر رہے ہیں میرے بارے میں۔۔۔جنہوں نے کبھی آنکھ اٹھا کر میرے سامنے بات نہیں کی پڑھو کیا کیا بکواس کی ہے انہوں نے۔۔۔اتنی سی بھی تم میں غیرت ہو تو چلو بھر پانی میں ڈوب مرو۔۔۔کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا میں۔اسی لیے میں نے کہا تھا دے دو طلاق اسے۔جان چھڑاؤ ہماری مگر نہیں جب تک باپ سڑک پہ نہ آ جائے تمہیں چین نہیں آنا۔حد ہوتی ہے بے شرمی کی پر تم تو ہر حد پار کرچکے ہو۔اور کتنا ذلیل کروانا ہے مجھے۔۔۔ایک بار ہی سولی پہ چڑھا دو۔۔۔جینا اجیرن ہو گیا ہے میرا۔زندگی عذاب بنا دی ہے تم نے۔"

سارے ملازم کونوں کھدروں میں کھڑے منہ پر ہاتھ رکھے آج پہلی بار طلال کو اپنے جان از عزیز بیٹے پر برستے دیکھ رہے تھے۔

وہ سر جھکائے آج کے پیپر میں چھپی ساری بکواس پڑھ رہا تھا۔مخالفین نے طلال احمد کے اس احسن اقدام کو بہت "سراہا" تھا۔

طلال نے فوراً مینیجر کو فون کیا۔

"کس کو دے کے آئے تھے پیسہ۔ساری بکواس لکھ دی انہوں نے میرے خلاف۔میں نے کہا تھا ہر کسی کو فون کر دو کچھ بھی نہیں چھپنا چاہیے میرے بارے میں۔کیا سوتے ہوئے فون کیا تھا تم نے ۔کیا ہے یہ سب ؟"

"بلیو می سر۔۔۔ میں خود ہر اخبار کے مالک سے ملا تھا۔ایون جس جس کو پیسہ دیا سب کی ویڈیوز میرے پاس ہیں۔مجھے خود سمجھ نہیں آ رہا یہ سب کیسے ہو سکتا ہے۔انہوں نے یقین۔۔۔۔۔۔۔۔"

اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی طلال نے فون کاٹ کر صوفے پہ اچھال دیا۔فون بند کرنے کی دیر تھی دھڑا دھڑ کالز اور میسیجز آنا شروع ہو گئے۔انہوں نے غصے سے فون اٹھا کر سامنے دیوار پہ دے مارا۔

"میرا دل کر رہا ہے اپنا سارا میگزین تم پہ خالی کر دوں۔اگر تمہاری جگہ پہ یہاں کوئی اور ہوتا تو اسے اگلا سانس بھی نصیب نہیں ہونا تھا۔"

"ڈیڈی پلیز آپ۔۔۔۔۔۔"

"شٹ اپ۔جسٹ شٹ اپ۔ایک لفظ بھی کہا تو زبان کاٹ دوں گا میں تمہاری۔۔۔کن دنوں میں کونسی مصیبت میرے سر پہ ڈال دی ہے۔۔۔یہ تو صرف تین اخبار ہیں ملک بھر کے اخباروں میں چھپی ہو گی یہ خبر۔۔۔سارے جہاں کی خاک میرے سر میں پڑ چکی ہے۔"

تبھی سارہ کے فون کی بیل بجی۔سمعیہ کی کال تھی۔

"ہیلو۔۔۔کیا۔۔۔۔۔کیا کہہ رہی ہو تم۔۔۔۔۔کونسے نیوز چینل پہ؟"

فون سارہ کے ہاتھ سے گر گیا۔

ان کی بات پہ طلال نے فوراً آگے بڑھ کر دیوار میں نصب ایل ای ڈی آن کی۔تھوک نگلنے ہوئے نیوز چینل لگایا۔

"ناظرین تازہ ترین ذرائع کے مطابق ملک کے نامور سیاستدان طلال احمد کے چھوٹے صاحبزادے دائم طلال کا خفیہ نکاح منظر عام پر آ چکا ہے۔فوری خبر جو ہمیں موصول ہوئی ہے اسکے مطابق دائم طلال نے چوری نکاح کر رکھا تھا اور ناظرین مخالف پارٹیز کے سربراہان کا کہنا ہے کہ دائم طلال نے ایک طوائف زادی سے نکاح کیا ہے اسی باعث اس چیز کو منظر عام پہ آنے سے روکا گیا۔تاہم کیا وہ لڑکی واقعی ایک طوائف ہے یا نہیں اس بارے میں اب تک ہمیں کوئی اپ ڈیٹ موصول نہیں ہوئی۔ہم ابھی اپنے نمائندے سے بات کرتے ہیں جو ہمیں تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کریں گے۔

جی ارسلان آپ اس وقت طلال احمد کی رہائش گاہ کے باہر موجود ہیں۔ہمارے ناظرین کو تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیجیے دائم طلال کے خفیہ نکاح کے بارے میں مزید کونسا بیان سامنے آ چکا ہے اور کیوں اس نکاح کو خفیہ رکھا گیا۔وہ لڑکی کیا واقعی ایک طوائف ہے یا پھر ہمیشہ کی طرح یہ بھی مخالفین کا دوسروں کو زیر کرنے کا کوئی طریقہ ہے؟"

"جی انعم ہم اس وقت طلال احمد کی رہائش گاہ کے باہر موجود ہیں مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ لڑکی ایک طوائف زادی ہے اسی لیے کسی کو بھی اس نکاح کی بھنک پڑنے نہیں دی گئی۔تاہم اس بارے میں طلال احمد کا کوئی بیان تا حال سامنے نہیں آ سکا۔ہم پوری کوشش کر رہے ہیں ان سے بات کرنے کی لیکن ابھی تک ان سے کوئی بات نہ ہو سکی۔"

"بہت شکریہ ارسلان آپ ہمارے ساتھ لائن پر رہیے گا جیسے ہی طلال احمد کا کوئی بیان سامنے آتا ہے ہم فوراً اپنے ناظرین سے شئیر کریں گے۔"

ناظرین آپ کو ایک بار پھر تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کرتے ہیں۔

"طلال احمد کے بیٹے دائم طلال کا خفیہ نکاح منظر عام پر آ چکا ہے۔"

"ملک کے نامور سیاستدان طلال احمد کے بیٹے دائم طلال کا ملک میں تبدیلی کی جانب مثبت قدم۔۔"

"ملک کے نامور سیاستدان اور مشہور انڈسٹریلسٹ طلال احمد کے چھوٹے بیٹے دائم طلال کا طوائف زادی سے نکاح۔"

"ناظرین مخالف پارٹیز کے سربراہان کے مختلف بیانات سامنے آرہے ہیں۔

فائق لغاری کا کہنا ہے طلال احمد کے اس اقدام سے بہت خوشی ہوئی ہے۔تمام انسان برابر ہیں ہمیں سٹیٹس اور عہدے سے بالاتر ہو کر ہر ایک کو دیکھنا ہے۔ایک طوائف سے نکاح کوئی بری بات نہیں ہے۔"

ناظرین آپ کو بتاتے چلیں مختلف پارٹیز کے سربراہان کے بیانات سامنے آچکے ہیں جس میں فائق لغاری نے اس اقدام کو بہت سراہا ہے۔

ہال میں موجود ہر شخص پھٹی پھٹی آنکھوں سے نیوز کاسٹر کو بریک پہ پاؤں رکھے بغیر بولتے ہوئے سن رہا تھا۔

مختلف نیوز چینلز اس واقعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے تھے۔

طلال دونوں ہاتھوں میں سر تھامے صوفے پہ بیٹھ گئے۔اگر وہ مضبوط اعصاب کے مالک انسان نہ ہوتے تو ضرور اس وقت کسی آئی سی یو میں موجود ہوتے۔لیکن اس وقت انکا ذہن تیزی سے آنے والے لمحات کا سوچ رہا تھا۔

"سر باہر میڈیا کے بہت سے لوگ اکٹھے ہو چکے ہیں۔وہ سب زبردستی اندر آنا چاہ رہے ہیں۔چوکیدار نے گیٹ بند کیا ہوا ہے۔"

ہال میں موجود ہر شخص پہ چھائے جمود کو ملازم کی آواز نے توڑا۔ 

تبھی نیوز کاسٹر نے پھر سے چیخنا شروع کر دیا۔

"ناظرین آپ سکرین پر دیکھ سکتے ہیں اس وقت ہمارے نمائندے ارسلان نعیم طلال احمد کی رہائش گاہ کے باہر موجود ہیں۔میڈیا کے کسی شخص کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔نجی اور سرکاری تمام چینلز کے نمائندے یہاں پہ موجود ہیں۔تاہم ابھی تک کوئی حتمی بیان سامنے نہیں آ سکا۔"

نیوز چینلز پہ انکے گھر کے باہر کی مکمل فوٹیج دکھائی جا رہی تھی۔رپورٹرز زبردستی اندر آنے کی کوشش کر رہے تھے۔

"او مائی گاڈ۔۔۔شرفو تم سب کو لان میں جمع کرو اور دھیان سے کسی کے ساتھ کوئی بدتمیزی نہیں کرنی۔وہ صرف لان کی حد تک رہیں انہیں وہی جمع کرو میں ابھی آرہا ہوں۔"

انہوں نے بمشکل حواس مجتمع کر کے شرفو کو حکم دیا۔

سارہ از حد پریشانی سے انکی جانب بڑھیں۔

"اب۔۔۔اب کیا کرنے والے ہیں آپ۔"

"اس سب کا ایک ہی سولیوشن ہے ۔پارٹی اور فیملی دونوں اس کرائسز سے نکل سکتے ہیں۔"

"وہ کیا۔۔"

"صاحبزادے۔۔۔۔شام سے پہلے وہ لڑکی اس گھر میں موجود ہونی چاہیے۔"

ہال میں موجود تینوں افراد نے جھٹکا کھا کر انکی جانب دیکھا۔

"کیا مطلب ہے آپکا۔۔۔اسکا یہاں پہ کیا کام ہے۔۔۔میں ہرگز اسے اس گھر میں آنے نہیں دوں گی۔کسی صورت وہ یہاں قدم نہیں رکھے گی۔"

"پلیز سارہ بی سائلنٹ۔۔۔میں اس وقت بہت غصے میں ہوں یہ نہ ہو سارا آپ پہ اتر جائے۔وہ لڑکی اس گھر میں آئے گی اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے آپ کیا چاہتی ہیں کل کو اسکے دو بچوں کی خبر بھی آپکو میڈیا کے ذریعے ملے۔ایک بار سب نارمل ہو جائے پھر جو چاہے کرتی رہنا لیکن ابھی میری سنیں۔مجھے اس چیز کو فوری کور کرنا ہے۔کچھ گھنٹوں بعد کیا ہو گا اس کا مجھے علم ہے سب کچھ ختم ہو جائے گا ۔میں فوری طور پہ اس سب کو ہینڈل کرنا چاہتا ہوں۔"

ان کی بات سن کر سارہ خاموش ہو گئیں۔

"اور تم۔۔۔۔۔ایک بات میری کان کھول کر سن لو شام سے پہلے وہ لڑکی یہاں موجود ہو اب کی بار گڑ بڑ ہوئی تو سیدھا گردن اتار کے ہاتھ میں پکڑا دونگا۔"

"مگر اس نے کیا کرنا ہے یہاں آکے؟"

"تو تم کیا چاہتے ہو یہ خبر بھی اب میڈیا پہ آ جائے کہ وہ گھر میں موجود نہیں ہے تاکہ اپنی بچی کھچی عزت کو مٹی میں ملا دوں۔ابھی کے ابھی میں اس سب کو فکس کر لونگا۔ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر تمہاری پھیلائی ہوئی مصیبت سے مجھے ہی نمٹنا ہے۔پتہ نہیں کب میری زندگی میں سکون آئے گا۔اب بت بنے کیوں کھڑے ہو چلو باہر میرے ساتھ اور اگر میڈیا کے سامنے کوئی فضول بکواس کی تو وہیں بھون دونگا کسی غلط فہمی میں مت رہنا۔"

"سارہ فوراً سے تمام دروازے کھڑکیاں بند کروائیں۔شرفو تم ہال کے دروازے کے باہر رہو۔کوئی بھی رپورٹر گھر کے اندر نہیں آنا چاہیے۔"

دروازے سے باہر نکلتے ہوئے انکا دماغ تیزی سے وہ جملے سوچ رہا تھا جو کچھ منٹوں بعد انہیں میڈیا کے سامنے کہنے تھے۔

جیسے ہی انہوں نے لان میں قدم رکھا رپوٹرز کے تابڑ توڑ سوالات برس پڑے۔

"سر کیا واقعی آپکے بیٹے نے خفیہ نکاح کر لیا ہے؟"

"اس نکاح کو اتنی دیر خفیہ کیوں رکھا گیا؟"

"کیا آپ کو اس بارے میں علم تھا یا آپ بھی بے خبر تھے؟"

"اپنے مخالفین کے دئیے جانے والے بیانات کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟"

"کیا دائم طلال کی بیوی واقعی ایک طوائف زادی ہے ؟"

دائم نے بڑی مشکل سے اپنے اندر اٹھتے ابال پہ قابو پایا۔

"میرے بیٹے کا نکاح ہو چکا ہے آج سے دو ماہ قبل اس نکاح سے ہماری ساری فیملی اور سارے ریلیٹوز با خبر ہیں۔الیکشن سر پہ ہونے کی وجہ سے میں کوئی پارٹی ارینج نہیں کر سکا اسی لیے باہر کے لوگ لا علم ہیں لیکن اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ کوئی خفیہ نکاح ہے یا ہماری فیملی کو اس بارے علم نہیں تھا۔ہماری بہو ایک با عزت خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔میں الیکشنز کے بعد ایک گرینڈ پارٹی کے ذریعے سب کو انفارم کرنا چاہتا تھا مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی مخالفین نے اپنی اوقات دکھا دی ہے۔وہ ان اوچھے ہتھکنڈوں پہ اتر آئے ہیں اور میڈیا بغیر کوئی تصدیق کیے اس بات کو اچھال رہا ہے۔اگر میڈیا ایسے ہی بغیر کسی ثبوت کے شرفا کے گھر پہ اٹیک کر دے تو کیسے چلے گا یہ ملک۔۔۔سیاست میں جو بھی ایشو ہیں انہیں سیاست تک ہی محدود رہنا چاہیے۔میری فیملی پہ جھوٹا الزام لگانے اور غلط خبریں دینے کے خلاف میں مخالفین پہ کیس بھی کر سکتا ہوں پھر انکے سب منصوبے دھرے کے ددھرے رہ جائیں گے۔مجھے بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ مخالفین اپنی شکست کا بدلہ اب ان گھٹیا طریقوں سے لے رہے ہیں۔کیا ثبوت ہے انکے پاس جو یہ میرے اور میری فیملی کے خلاف بول رہے ہیں۔لیکن اب یہ کسی بھول میں نہ رہیں میں ان لوگوں کے خلاف کورٹ میں جاؤنگا۔ہمارے ملک میں% 8•2 لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔یہاں پہ PhD حضرات ڈگریاں لئے سڑکوں پہ پھرتے ہیں۔آئے دن مخالفین کے زیر نگرانی علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ اور سٹریٹ کرائمنگ کے سینکڑوں واقعات ہو رہے ہیں۔ہمیشہ سے ان لوگوں کی وجہ سے ملک کا نظام درہم برہم رہا ہے۔مگر ان لوگوں کو اس چیز کی بالکل پرواہ نہیں ہے۔ان اتنے فساد اور لڑائی جھگڑوں کی بجائے اگر ہم یہ سارا وقت اپنے ملک کے مسائل حل کرنے میں لگائیں تو مجھے یقین ہے اگلے چند سالوں میں ہی اس سر زمیں سے کرپٹ لوگوں کا خاتمہ ہو جائیگا۔مگر نہیں یہ لوگ کبھی اس نہج پہ نہیں سوچ سکتے انکا کام صرف ملک میں انتشار پھیلانا ہے۔صرف انہی کی وجہ سے ملکی سیاست خراب ہو رہی ہے۔

بحرحال اب میں بہت جلد ایک گیٹ ٹو گیدر ارینج کرونگا حالانکہ میں الیکشن کی وجہ سے بے حد مصروف ہوں۔لیکن ان لوگوں کے منہ بند کرنے کے لیے مجبوراً ہی سہی مگر کچھ دیر کے لیے مجھے اپنی سرگرمیوں کو ملتوی کرنا پڑے گا اور میں تمام مخالفین کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اس پارٹی میں شرکت کریں تاکہ میں انہیں اپنے بیٹے اور بہو سے انٹروڈیوس کروا سکوں۔"

"یعنی کہ سر آپ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ سارے کا سارا کیا دھرا آپ کے مخالفین کا ہے مگر انہیں کیا فائدہ "پہنچ سکتا ہے اس حرکت سے؟"

دیکھئیے ظاہری سی بات ہے وہ چاہتے ہیں میں غصے میں کوئی ایسا قدم اٹھاؤں جو میری تباہی اور انکی کامیابی کا پیغام لائے۔لیکن وہ شاید بھول رہے ہیں کہ اللہ پاک ہمیشہ حق کا ساتھ دیتا ہے اور ہم حق پہ ہیں۔تھینک یو سو مچ۔"

"دائم صاحب آپ کیا کہنا چاہیں گے آج کے واقعہ کے بارے میں۔"

"دیکھئیے حق کی راہ پہ چلنے میں دشواریاں آیا ہی کرتی ہیں ۔لیکن اپنے گھٹیا مقاصد کی خاطر کسی عزت دار خاندان پہ ایک جھوٹا الزام لگانا اور پھر اسکی پورے ملک میں تشہیر کرنا ایک بہت بڑا جرم ہے اور اس جرم کی سزا ان لوگوں کو ضرور ملے گی۔ جو بھی سیاسی ایشوز ہیں ان کو گھر سے باہر حل کیا جائے۔ہم؟ان لوگوں کی طرح کوئی گھٹیا حرکت نہیں کریں گے لیکن اُنہیں اس حرکت کی سزا ملنا اٹل ہے تاکہ آئندہ ایسا کرنے سے پہلے یہ سو بار سوچیں۔تھینک یو۔"

رپورٹرز دھڑا دھڑ لکھ رہے تھے۔

سارہ منہ پہ ہاتھ رکھے سامنے اسکرین پہ اپنے گھر کے لان کی فوٹیج دیکھ رہی تھیں جہاں طلال ہر سوال کا جواب مسکرا کر ٹھنڈے لہجے میں دیتے۔وہ اس کھیل کے برسوں پرانے کھلاڑی تھے۔ہر اونچ نیچ سے با خبر۔ہمیشہ کی طرح اس مصیبت کو بھی انہوں نے ہنس کر سہا تھا۔

جبکہ اپنے سٹنگ روم میں بیٹھا فائق لغاری اسکرین پہ چلتی طلال احمد کی تقریر سن کر پسینے میں نہا گیا۔

"کیا بکواس کی تھی تم نے کہ یہ سب سچ یے یہی کہا تھا نا۔اگر یہ سب سچ ہے تو وہ اتنے آرام سے کیسے بات کر رہا ہے۔کورٹ میں جانے کی دھمکی دی ہے اس نےاور میں جانتا ہوں اب وہ ایسا کریگا۔ایک بار میں اسکے ہتھے چڑھ گیا تو ساری زندگی جیل کی سلاخوں میں چکی ہی پیستا رہوں گا۔یہ ساری کمینی حرکت تمہاری ہے تم نے کہا تھا یہ اٹل سچ ہے پھر کیسے کہہ رہا ہے وہ کہ اس نکاح سے ہر کوئی با خبر ہے۔اب ساری ہمدردیاں عوام کی دوبارہ سے اسکے ساتھ ہو جائیگی اور میں ہاتھ ملتا رہ جاؤں گا۔بے غیرت تمہارے پاس ایک بھی ثبوت نہیں ہے اسکے خلاف۔ایک بار اگر وہ کورٹ میں چلا گیا اور میرے خلاف جرم ثابت کردیا تو میں تاعمر سیاست سے نااہل ہو جاؤنگا۔"

اس نے سامنے پڑا گلاس اٹھا کر فرش پہ دے مارا۔

"اب دو ثبوت مجھے تاکہ پریس کانفرنس کر کے میں اسے جھٹلا سکوں۔تب تو بڑا یقین تھا کہ وہ منہ کے بل گرے گا۔اب کیوں منہ میں گھنگھنیاں ڈال لی ہیں۔ایک کام ڈھنگ سے نہیں کر سکتے تم۔"

فائق لغاری نے ٹیبل پہ پڑا ایش ٹرے اٹھا کر ساکت بیٹھے اسد کے پاؤں میں دے مارا۔

"نو ڈیڈی نو۔۔۔اٹس ایمپوسیبل۔اس نے 50 لاکھ میں لڑکی خریدی تھی۔میں اس وقت سامنے بیٹھا تھا یہ جھوٹ بول رہا ہے۔جب میں اسکے آفس گیا تب تو یہ ٹوٹے سپرنگ کی طرح اچھلا تھا یہ سن کر ہی کہ وہ لڑکی ایک طوائف ہے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ڈیڈی ہم تو تباہ ہو جائیں گے اگر وہ کورٹ چلا گیا۔وہ جھوٹ بول رہا ہے۔"

اس نے ماتھے پہ آیا پسینہ صاف کرکے پانی کی بوتل منہ کو لگا لی۔

"ہاں تو تم سچ بول لو۔ دو مجھے ثبوت تاکہ میں کوئی پریس کانفرنس کر سکوں۔ورنہ تیار ہو جاؤ جیل کی سیر کے لیے۔میری بنی بنائی ساکھ کا کباڑہ ہو جائیگا۔عقل کے اندھے بغیر ثبوت کے کونسا جاہل کسی پہ ہاتھ ڈالتا ہے۔اگر تم وہاں پہ موجود تھے تو کوئی ویڈیو ہی بنا لیتے کم از کم آج یہ حال تو نہ ہوتا۔

اب فوراً اٹھو اور میری گاڑی پہ حملہ کروانے کی تیاری کرو۔کرائے کے غنڈے تمہیں وسیم بھجوا دے گا۔ فوراً میری گاڑی پہ حملہ کرواؤ۔ دو گارڈز کو موقع پہ ختم کر دو اور اپنے بازو میں بھی ایک گولی مار لو۔اگر ابھی اسکی پریس کانفرنس پہ ردعمل نہ دکھایا تو عوام کی ساری ہمدردیاں اسی کے ساتھ رہیں گی اور میں ایک بار پھر خالی ہاتھ رہ جاؤں گا۔"

"فار گاڈ سیک ڈیڈی کوئی ہوش کے ناخن لیں۔وہ پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ کوئی چیپ حرکت نہیں کریگا اب ایک ہی دن میں آپ پہ حملہ کیا ثابت کرتا ہے ۔کسی کی مذمت آنے سے پہلے ہی اس نے دوسری کانفرنس کر دینی ہے کہ میں تو اپنے بیٹے کے ولیمے کی تیاری میں مصروف تھا۔کیا آئے گا آپکے ہاتھ۔کچھ حقیقت پسندی سے سوچیں۔اب یہ مت کہہ دیجیے گا کہ میں اس نائیکہ کو گواہی کے لیے پیش کر دوں کہ واقعی دائم طلال نے وہاں سے لڑکی خریدی تھی۔اگر وہ مہہ جبین ایک بار آگئی نا میڈیا پہ تو صرف ایک ہی نہیں سارے سیاستدانوں کے چہرے بے نقاب ہو جانے ہیں کیونکہ وہاں پہ جتنے لوگ جاتے ہیں% 70 کا تعلق سیاست سے ہی ہوتا ہے۔میرا یہی مشورہ ہے آپ پریس کانفرنس کریں اور اس سے معذرت کر لیں۔پارٹی بھی بچ جائے گی اور سیٹ بھی ضائع نہیں ہو گی۔"

اسد لغاری نے ہر پہلو باپ کے سامنے رکھ کر انہیں کسی اور نہج پہ سوچنے پر مجبور کر دیا۔

_____________________________________

اس نے طلال کے کہنے پہ عمل کرتے ہوہوئے فوراً عدن کو فون کیا۔

"میں کچھ دیر تک آرہا ہوں آپکو لینے۔آدھے گھنٹے تک پہنچ جاؤں گا۔تیار ہو جائیں اور اپنے کپڑے وغیرہ بھی پیک کر لیں۔"

"کیا مطلب۔۔۔۔کپڑے کیوں۔۔۔کہاں جانا ہے؟"

"آ کے بتاتا ہوں۔میرے آنے تک تیار رہیئے گا۔آدھے گھنٹے تک پہنچتا ہوں۔ بائے۔"

اسکا فون سن کر وہ پرپیشانی سے کپڑے پیک کرنے لگی۔

ابھی اسے گھر سے نکلے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ طلال کی کال آگئی۔

"گاڑی سے ہرگز مت نکلنا ۔شیشے سارے بند کرو۔اور فلیٹ پہ جاکر بھی باہر نکلنے کی ضرورت نہیں ہے یہ نہ ہو پھر سے کوئی میڈیا کا بندہ آکر گھیر لے اور راستے میں بھی کہیں نہیں رکنا سیدھا گھر پہنچو۔"

"جی ٹھیک ہے جیسا آپ کہیں۔"

"کاش اتنی فرمانبرداری کا ثبوت تم نے پہلے دے لیا ہوتا۔"

"آئی ایم سوری ڈیڈی۔"

"ہنہہ۔سوری ڈیڈی۔"

طلال نے لائن کاٹ دی۔ٹریفک سگنل پہ ریڈ لائٹ چلتے ہی گاڑیوں کی لمبی قطار لگ گئی۔وہ سامنے سگنل پہلائٹ کے گرین ہونے کا انتظار کر رہا تھا کہ سڑک پہ پھرتا بکھرے بالوں اور پھٹے ہوئے کپڑوں والا ایک پاگل شخص اس کی گاڑی کے کھلے شیشے پہ آگیا۔

"تم۔۔۔تم نے دیکھا اسے۔۔۔نہیں میں نے اسے کچھ نہیں کہا۔۔۔دیکھو۔۔۔۔اگر وہ تمہیں ملے نا تو اسے ۔۔۔۔۔۔اسے گھر چھوڑ دینا۔بہت دن ہو گئے ہیں۔۔میں نے اسے بہت ڈھونڈا۔۔۔مگر وہ کہیں نہیں ہے۔۔۔میں نے سچ میں کچھ نہیں کیا۔۔۔۔۔نہیں میں جھوٹ نہیں بول رہا میں صحیح کہہ رہا ہوں۔۔۔ وہ سب مر جائیں گے۔۔۔۔تم۔۔۔۔تم اسے چھوڑ کے آؤ گے نا۔۔۔۔۔آؤ گے نا۔"

وہ پاگل آدمی جانے بے ربط انداز میں اس سے کیا کچھ کہہ رہا تھا۔

دائم نے اسکی بات پہ سر ہلا دیا۔

اب وہ شخص دوسری گاڑی پہ جھکے شاید یہی الفاظ دوبارہ دہرا رہا تھا۔

"پتہ نہیں کیا پرابلم ہوئی ہو گی اتنا ینگ ہے اور اس حالت میں۔"

تاسف سے اسے دیکھتے ہوئے سگنل گرین ہونے پر اس نے گاڑی آگے بڑھا دی۔

__________________________________

ڈیڈی کی ہدایت پہ عمل کرتے ہوئے اس نے فلیٹ پہ جاکر عدن کو کال کر کے باہر آنے کا کہا۔کچھ دیر بعد وہ چادر کا نقاب کیے فلیٹ کو لاک کر کے باہر آئی۔اسے آتے دیکھ کر دائم دور سے ہی مسکرایا تھا۔ساری پریشانی ختم ہو گئی تھی اگر طلال نے کہا تھا کہ وہ سب کچھ سنبھال لیں گے تو واقعی انہوں نے سب کچھ سنبھال لیا تھا۔صبح دی جانے والی بریکنگ نیوز کی تردید اب ہر چینل کر رہا تھا۔واقعی انہوں نے ایک بار پھر اس کی پیدا کی ہوئی ہر مصیبت کو ختم کر دیا تھا۔

عدن کے بیٹھنے پہ اس نے فوراً گاڑی آگے بڑھا دی۔

"کہاں جانا ہے کپڑے کیوں پیک کروائے آپ نے۔"

اسکی بات کا جواب دینے کی بجائے دائم نے ہاتھ بڑھا کر اسکا نقاب اتار دیا۔

"اسکی ضرورت نہیں ہے۔"

اس کی اس حرکت پہ وہ فوراً سٹپٹا گئی۔

"آپ۔۔۔۔آپ بتا کیوں نہیں رہے کہاں جا رہے ہیں ہم؟"

دنیا دی اس نکرے

جتھے بندہ نہ بندے دی زات ہووے

اس کی پریشانی کے برعکس وہ شوخ لہجے میں گنگنایا۔

"آپ دو منٹ کے لیے سیریس ہو سکتے ہیں؟"

"اوکے۔آئی ایم سیریس۔اب پوچھیں کیا پوچھنا ہے ؟"

"کہاں جا رہے ہیں ہم؟"

"یار ابھی تو بتایا ہے اب پھر بتاؤں کیا۔۔۔اچھا۔۔۔اچھا۔۔ناراض نہیں ہو۔۔۔ایکچوئیلی آپ کے سسر صاحب کا آرڈر ہے شام سے پہلے بہو گھر میں موجود ہو اور میں ہمیشہ کی طرح انکے حکم پہ سر جھکانے والا فوراً سے پہلے آپکو لینے آ گیا۔بس اتنی سی بات ہے۔"

"کیا۔۔۔۔کیا کہہ رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔نہیں میں وہاں ہرگز نہیں جاؤں گی۔۔۔۔۔۔آپ واپس چھوڑ کے آئیں مجھے۔۔۔۔میں نے نہیں جانا وہاں پہ۔"

طلال پہلی بار جس طرح فلیٹ پہ آکر گرجے تھے اب تک تو وہ ہی نہیں بھولتا تھا اب وہاں جانے کا سن کر تو روح فنا ہو گئی۔

"کچھ نہیں ہو گا ڈونٹ وری۔ڈیڈی نے خود کہا ہے آپکو لانے کے لیے اب یہ تھوڑی ہو گا کہ گھر پہنچنے پہ وہ ہمیں کان سے پکڑ کر باہر نکال دیں۔ویسے ہی کافی عزت افزائی کروا کے آیا ہوں امید ہے اب تک انکا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہوگا۔"

"مگر ایک دم سے کیوں کہا انہوں نے۔"

"شاید ہمارا ولیمہ کرنا چاہتے ہوں۔"

اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔وہ اسے یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ آج میڈیا نے کیا کچھ دکھایا ہے ورنہ گھر کی بجائے ہاسپٹل جانا پڑ جاتا۔

"اچھا اب اتنی پریشان مت ہوں۔کچھ نہیں ہو گا۔ٹھہریں میں اسٹریو پہ ہی کچھ لگا دیتا ہوں۔"

ہر دن ہووے انج ورگا 

ہر رات ساڈی شب برات ہووے 

پیھرا پائیے باگاں دے وچ 

چلدے ہون فوارے آسے پاسے پین پھواراں پجے ہون نظارے

پھول کھلے گلاباں لگدے سونے 

وچ سبز دی سبز کانات ہووے 

چل چلئے دنیا دی اس نکرے

جتھے بندہ نہ بندے دی زات ہووے

اسٹریو پہ چلتا گانا سن کر اس کا پر زور قہقہہ گاڑی میں گونجا۔

عدن نے خفا نظروں سے اسے دیکھا۔

"آئی سوئیر۔۔۔۔آئی سوئیر میں نے اب نہیں لگایا یہ آل ریڈی سیٹ تھا۔اب تو کوئی شک نہیں ہے نا میں نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا۔"

اسکے کہنے پہ عدن کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔میوزک بند کرنے کے لیے بڑھتا ہوا اسکا ہاتھ دائم نے پکڑ لیا۔

"چلنے دیں نا اتنا تو اچھا لگ رہا ہے۔"

اس نے مسکراہٹ دبا کے کہا۔باوجود عدن کے چھڑوانے پہ بھی اس کی گرفت ہلکی نہ ہوئی۔

"کیا پتہ ہمیں گھر جا کے کیا کیا سہنا پڑے۔کم از کم راستے میں تو اچھے موڈ کے ساتھ جائیں۔"

دائم کی بات پہ اس کی گرفت میں موجود عدن کا ہاتھ کانپ گیا۔

کچھ دیر بعد گاڑی ایک خوبصورت بنگلے کے سامنے رکی۔

"ویلکم ہوم۔"

دائم نے مسکراتے ہوئے اس کی جانب دیکھا جو پریشانی سے سامنے دیکھ رہی تھی۔

" چلیں آئیں۔"

پورٹیکو میں گاڑی کھڑی کرنے کے بعد اس نے اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے اندر کی جانب قدم بڑھائے۔عدن کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔

"دائم؟"

اس نے ہلکی سی آواز میں اسے پکارا جسے سنتے ہی وہ ایڑیوں کے بل گھوما۔

"او مائی گاڈ۔۔۔۔۔آپکو میرا نام آتا ہے؟۔۔۔رئیلی۔۔۔دوبارہ کہنا ایک بار۔"

"مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔"

"کیا میری شکل اتنی ڈراؤنی ہے۔"

"پلیز میں اس وقت مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں۔"

"تو آپ ہوتی کب ہیں۔ویسے ہو سکتا ہے ہمارا پر تپاک استقبال ہو بلاوجہ نہ گھبرائیں۔آئیں تو سہی دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ڈیڈی کی تو گاڑی موجود نہیں ہے اسکا مطلب جسٹ ممی اور صارم گھر پہ ہیں۔"

اس نے گلا کھنکھار کر لاؤنج میں بیٹھے دونوں لوگوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔

اسے لاؤنج میں انٹر ہوتے دیکھ کر ممی کا بی پی ہائی ہونے کی بجائے لو ہو گیا۔انہوں نے اسے دیکھتے ہی منہ پھیر لیا۔صارم فوراً چہرے پہ مسکراہٹ سجائے ویلکم کرنے کے لیے کھڑا ہوا۔۔

"آئیں نا۔۔۔رک کیوں گئیں آپ۔"

دائم نے اسے پیچھے کھڑا دیکھا تو خود اس کا ہاتھ "پکڑ کر آگے لایا۔

عدن یہ ہماری ممی ہیں مسز سارہ طلال اور یہ صارم ہے غائبانہ تعارف تو میں پہلے ہی کروا چکا ہوں۔"

"ہیلو۔۔۔۔ہاؤ آر یو؟"

صارم نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

"السلام علیکم۔"

"وعلیکم السلام۔ہاؤ آر یو۔"

"فائن۔"

"آئیں بیٹھیں۔عظمیٰ جلدی سے ہمارے لیے اچھی سی چاۓ لاؤ اور ممی کے لیے ٹھنڈا پانی۔"

اس نے آنکھ مار کے دائم کو دیکھا جو اپنی مسکراہٹ چھپانے کو چہرہ جھکا گیا۔

"ممی اتنی خاموش کیوں ہیں آپ۔آج پہلی بار آپکی بہو گھر آئی ہے آپکو تو خوش ہونا چاہیے۔"

صارم کے کہنے پر انہوں نے ایک سرسری سی نظر سامنے والے صوفے پہ بیٹھی لڑکی پہ ڈالی اور واپس میگزین اٹھا لیا۔

"بھابھی مائنڈ مت کیجئے گا ممی کو زیادہ بولنا پسند نہیں ہے۔اچھا آپ مجھے اپنے بارے میں بتائیں۔کیا نیم ہے آپکا۔"

"عدن"

اس نے ہلکی آواز میں جواب دیا۔

"نائس نیم۔میرا انٹرو تو دائم کروا ہی چکا ہے پھر بھی میں دوبارہ کروا دیتا ہوں۔میرا نام صارم ہے انگلینڈ میں پڑھتا ہوں۔بس اب تھوڑے دنوں تک واپس چلا جاؤں گا۔آپکے شوہر کے پیدا ہونے سے تین سال قبل میں نے اس دنیا میں قدم رکھا۔"

اس کے تعارف پہ عدن کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ آئی ممی نے حیرت سے میگزین سے نظریں ہٹا کر صارم کو دیکھا جو آتے ہی اس سے فری ہو گیا تھا۔تبھی عدن کی نظر اپنی ماڈرن اور خوبصورت سی ساس پہ پڑی جو نفیس ساڑھی میں ملبوس،بال پشت پہ پھیلائے ٹانگ پہ ٹانگ رکھے ایسے میگزین پڑھنے میں مصروف تھی جیسے وہاں پہ اکیلی بیٹھی ہوں۔کہیں سے نہیں لگتا تھا کہ وہ چار بچوں کی ماں ہیں۔

"میری اور دائم کی بہت دوستی ہے۔ایون ووئی آر بیسٹ فرینڈز اور اب میری آپ سے بھی دوستی پکی کیونکہ اس گھر میں میرے علاوہ اور کوئی دوست نہیں بنے گا آپکا۔"

آخری فقرہ اس نے آہستگی سے کہا۔

عدن اس کی باتوں کے جواب میں صرف مسکرا رہی تھی

"آخری بار علی سے کب ملے تھے تم۔"

اسکی چلتی زبان کو دیکھ کر دائم نے پوچھا جس پہ صارم قہقہہ لگایا۔

اتنے میں ہی عظمیٰ چائے لے آئی۔وہ تینوں باتیں کرتے ہوئے چائے پی رہے تھے کہ نیہا چیختی چلاتی ہوئی اندر آئی۔

"تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی یہ سب کرنے کی۔یو چیٹر۔تم نے مجھے چیٹ کیا۔"

اس نے آتے ہی دائم کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔چائے کپڑوں پہ چھلک گئی۔

"واٹ ربش۔۔۔کیا حرکت ہے یہ۔"

وہ فوراً کھڑا ہوا اس کی پیروی میں صارم اور عدن بھی کھڑے ہو گئے۔

"یہ حرکت تمہیں نظر آرہی ہے وہ کیا ہے جو تم نے کیا۔ذرا بھی شرم نہیں آئی۔تم نے مجھے چیٹ کیا۔تین سال سے مجھ سے کمیٹڈ تھے۔پھر کیا ہے یہ سب۔ایک دو ٹکے کی بے حیا لڑکی۔۔۔۔"

"شٹ اپ۔۔۔اس سے آگے ایک لفظ بھی نہیں۔"

"یو شٹ اپ ایک غلطی کی اوپر سے مجھ پہ رعب ڈال رہے ہو۔بتاؤ کون ہے وہ لڑکی۔میں کسی کو تمہارے اور اپنے بیچ برداشت نہیں کر سکتی۔"

"ایک منٹ۔۔۔ایک منٹ۔فرسٹ آف آل میں تم سے کبھی کمیٹڈ نہیں تھا۔یہ سب کیا دھرا تمہاری خالہ کا ہے پوچھو ان سے کیوں کیا انہوں نے ایسا۔تین سال میں ایک بار بھی کبھی محبت کی پینگیں بڑھائی میں نے تمہارے ساتھ۔میں تم میں کبھی انٹرسٹڈ نہیں تھا۔پوچھو ممی سے کیوں انہوں نے میری مرضی کے بغیر فیصلہ کیا۔آج کل کونسے ایسے پیرنٹس ہیں جو بچوں کی مرضی جانے بغیر انکی زندگی کا فیصلہ کریں۔میری شادی ہو چکی ہے۔سو بہتر ہے جذبات کی بجائے ہوش سے کام لو اب۔"

"تین سال ہو گئے ہیں اب تمہیں یہ تقریر یاد آرہی ہے۔بتاؤ مجھے کون ہے وہ۔قتل کر دونگی میں اسکو جو تمہارے اور میرے بیچ آئی۔"

روتے ہوئے اچانک اسکی نظر سامنے کھڑی لڑکی پہ پڑی تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔

"یہ۔۔۔یہ۔۔۔یہی ہے وہ لڑکی۔۔۔۔یہی ہے نا وہ۔۔۔تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی یو ایڈیٹ۔"

وہ جیسے ہی خونخوار انداز میں عدن کی جانب بڑھی دائم نے جھٹکے سے اسے بازو سے پکڑ کر دور کیا۔

"ہاتھ کاٹ دوں گا میں تمہارے اگر اسکی جانب بڑھی بھی تو۔میری زندگی ہے میں جیسے چاہوں گزاروں تم کون ہوتی ہو مجھے روکنے والی۔تمہاری قصوروار صرف اور صرف ممی ہیں۔ان سے لڑو یا مرو جو جی میں آئے کرو۔نہ میں تم میں کل انٹرسٹڈ تھا نہ آج ہوں نہ کبھی ہوں گا اور آج کے بعد اس گھر میں آتے ہوئے اپنی حیثیت کا تعین کر کے آنا کیونکہ جس گھر میں کھڑی ہو کر تم چلا رہی ہو وہ تمہارا نہیں اسکا ہے۔"

اس نے بازو سے پکڑ کر عدن کو سامنے کیا۔

"سن رہی ہیں آپ یہ کیا بکواس کر رہا ہے میرے سے۔"

اس نے خاموش بیٹھی سارہ کو مخاطب کیا جو تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے لاؤنج میں ہونے والا سین ملاحظہ کر رہی تھیں۔

"یہ گھر میرا ہے ہر ایرے غیرے کو میں اسکی سلطنت نہیں سونپ سکتی۔بہتر ہے یہ بات تم اچھے سے اپنے دماغ میں بٹھا لو۔"

انہوں نے دائم کو دیکھ کر چباتے ہوئے کہا۔

"عدن آپ اوپر جائیں۔عظمیٰ انہیں میرے کمرے میں چھوڑ کر آؤ۔"

وہ عظمیٰ کے ہمراہ اوپر چلی گئی۔اس کے جانے کے بعد وہ قدم قدم چلتا ممی کے پاس آرکا۔

"ایک بات آپ بھی واضح کر لیں اور اپنی بھانجی کو بھی سمجھا دیں میں اس گھر میں اسے ڈیڈی کے کہنے پہ لایا ہوں۔۔۔اب وہ اس گھر کا ایک فرد ہے۔۔۔یہ گھر اس کا ہے۔اب وہ میرے حوالے سے جانی جائے گی سو اگر اس کے لیے کسی کی زبان پہ کوئی غلط لفظ آیا تو یاد رکھیے گا میں کسی کا لحاظ نہیں کروں گا۔کسی کا بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔اور تم۔۔۔۔۔اس کی اوقات کا اندازہ لگانے سے پہلے ایک بار اپنی طرف دیکھ لو تو ذیادہ بہتر ہے۔کیونکہ اسکی پہچان کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ وہ دائم طلال کی بیوی ہے۔سو ریمین ان یور لمٹس جسٹ ان یور لمٹس ورنہ آئندہ میں تمہیں اس گھر میں آنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا۔"

دائم کے اس انداز پہ ممی دنگ رہ گئیں۔وہ اس لڑکی کے لیے اتنا کانشئیس ہو گا یہ تو انکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔عدن کے لیے انکے دل میں نفرت مزید بڑھ گئی۔نیہا پھٹی آنکھوں اور کھلے منہ کے ساتھ اس کی طرف دیکھ رہی تھی جو اب سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا تھا۔

"سن لیا آپ نے کیا کہہ کے گیا ہے وہ۔۔۔بس یہی کسر باقی تھی۔۔۔کیا کہا تھا آپ نے کہ وہ میرے علاوہ کسی کا نہیں ہو گا۔۔۔پھر کیا ہے یہ سب۔۔۔برباد کر دیا آپ نے مجھے۔"

"نیہا! پلیز بیٹا ادھر آؤ۔۔۔ادھر بیٹھو۔۔۔صرف چار دن کی عاشقی کا بھوت سوار اس کے سر پہ ایک سیکنڈ میں اتار دوں گی۔۔۔تم چھوڑو اسے۔۔۔ رونا بند کرو۔۔۔لو پانی پیو۔۔"

"نہیں پینا مجھے پانی۔۔۔وہ میرے علاوہ بھی کسی کا ہو سکتا ہے۔مجھے اب تک یقین نہیں آرہا۔اور آپ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہیں۔گھر سے باہر کیوں نہیں نکالا اسے ۔۔۔۔اندر کیسے آگئی وہ۔"

"میں مجبور ہوں الیکشن سر پہ نہ ہوتے تو میں کبھی اسے اس گھر میں نہ آنے دیتی۔صبح جو آج سب ہوا اس؟کا یہی ایک حل تھا۔بس ایک بار الیکشن خیر خیریت سے ہوں جائیں پھر دیکھنا مزید اسے ایک سیکنڈ میں اس گھر میں نہیں رکھوں گی۔میری بہو صرف تم بنو گی تمہاری جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔"

سارہ نے پھر سے اسکی ہمت بندھائی۔نیہا کے آنسو رک گئے۔

"خدا کا خوف کریں ممی کیوں مجھے اس کے پلے باندھ رہی ہیں۔آپ کے سب بچوں کی شادیاں ہو گئیں ہیں ایک میں ہی بچا ہوں اور یہ دیکھیں میرے ہاتھ کھڑے ہیں۔اس،سے شادی کرنے کی بجائے مجھے کنوارہ رہنا منظور ہے۔"

صارم نے فوراً ہاتھ کھڑے کر دئیے۔ممی نے گھور کر اسے دیکھا۔

"تم اپنی زبان بند رکھو اور اس لڑکی کے ساتھ زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔"

"کونسی لڑکی۔۔اچھا۔۔اچھا۔۔بھابھی کی بات کر رہی ہیں۔بلاوجہ ٹینس مت ہوں اس بیچاری نے کیا نقصان پہنچانا ہے ۔اتنی سوبر سی ہے وہ بلکہ ایک دم پرفیکٹ کپل ہے ان دونوں کا۔"

اسکے کہنے پہ نیہا اور ممی دونوں آگ بگولا ہو گئیں۔وہ بمشکل ان سے جان چھڑا کر باہر نکل گیا۔

________________________________

دائم کمرے میں آیا تو وہ پریشان سی بیڈ کے سرہانے بیٹھی تھی۔وہ مسکراتا ہوا اسکے پاس آ بیٹھا۔

"آئی ایم سوری۔۔۔نیہا کی زبان کچھ زیادہ ہی لمبی ہے۔آئندہ وہ آپ سے بدتمیزی نہیں کرے گی۔"

"جب آپکی فیملی راضی ہی نہیں تھی تو کیوں لے آئے مجھے یہاں۔مجھے واپس چھوڑ آئیں.آخر کب تک آپ میرے لیے اسٹینڈ لیتے رہیں گے۔"

"نیہا میری فیملی میں شامل نہیں ہے۔اور کب تک آپ نے وہاں رہنا تھا آخر ایک نا ایک دن تو یہی آنا تھا کیونکہ یہی ہمارا اصلی گھر ہے اور رہی بات اسٹینڈ لینے کی تو میں تا عمر آپکے سامنے اسی طرح کھڑا رہوں گا۔میرے ہوتے ہوئے کوئی ہاتھ آپکی جانب نہیں بڑھ سکتا۔"

اسکی بات سن کر عدن کے آنسو چھلک پڑے۔

"اف یار کتنا روتی ہیں آپ۔تھکتی نہیں ہیں اتنا رو رو کے۔اتنے آنسو آتے کہاں سے ہیں۔"

اسکے کہنے پہ عدن نے فوراً آنسو صاف کئے۔

"ڈیڈی ابھی گھر پہ نہیں ہیں۔کچھ دیر تک آ جائیں گے پھر ان سے ملنا۔۔۔وہ۔۔۔۔ایکچوئیلی۔۔۔۔ڈیڈی ایک پارٹی ارینج کرینا چاہ رہے ہیہیں ایک دو دنوں کے اندر تاکہ وہ ہمارے نکاح کے بارے میں سب کو بتا سکیں۔"

وہ آہستہ آہستہ اسے ذہنی طور پر تیار کر رہا تھا۔

"کیوں؟"

"دراصل سرکل میں یہ خبر پھیل چکی ہے اور ڈیڈی چاہتے ہیں جلد سے جلد آپ کو سب سے متعارف کروائیں۔"

"یہ سب ایک دم سے کیسے ہو گیا۔پہلے گھر میں بلایا پھر ایک دم سے پارٹی سب خیریت تو ہے ؟"

"ہاں سب خیریت ہے اب ڈیڈی کا کہا کون ٹال سکتا ہے۔اچھا ہے نا ایک بار ہو جائے پارٹی جن لوگوں کو نہیں علم وہ بھی جان لیں گے۔"

وہ بیڈ پہ نیم دراز ہاتھ میں موبائل پکڑے ساتھ ساتھ میسج کر رہا تھا۔

"آپ نے میری فیملی کے متعلق پتہ کروایا۔"

"اوہ شٹ۔صبح سے اتنا پریشان تھا یہ بات تو ذہن سے ہی سکپ ہو گئی۔بٹ ابھی یہ پارٹی گزر جائے پھر فورا ہی پتہ کرواؤنگا۔ابھی تو ڈیڈی نے ادھر اُدھر جانے پہ مکمل پابندی لگائی ہے۔"

"ٹینشن کس چیز کی۔۔۔۔کیا ہوا ؟"

"نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔میرا۔۔۔۔مطلب۔۔۔۔ہے۔۔۔۔وہ ڈیڈی نے آپکو ایک دم سے گھر لانے کا کہا بس اسی لیے۔۔اچھا آپ ریسٹ کریں۔مجھے ایک دو کام ہیں۔تھوڑی دیر لگ جائے گی واپس آنے میں۔گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔لنچ نیچے جا کر ہی کرنا۔ اللہ حافظ"

وہ فون پہ آتی علی کی کال ریسیو کرتا باہر نکل گیا۔

"واہ ہیرو بڑی بڑکیں مار رہا ہے ٹی وی پہ۔دی کس نے تھی یہ خبر۔"

"اسد اور اسکے باپ نے۔"

"مجھے پہلے شک تھا اس حرکت کے پیچھے ان دونوں کا ہی ہاتھ ہو سکتا ہے۔بات سن میرے پاس اس اسد کے چار تازہ تازہ افئیرز کی پکی خبریں موجود ہیں۔تو ایک بار کہے تو اسکی بوتھی سمیت سارا کچھ چھپوا دیتا ہوں۔یقین کر گھر سے باہر نکلنے کے قابل نہیں رہے گا وہ۔"

"بہت شکریہ۔اس کے بعد ڈیڈی نے مجھے چلنے کے قابل نہیں چھوڑنا۔"

"اوہ ہاں یاد آیا پھر ڈیڈی سے کتنی لتریشن ہوئی تمہاری۔"

"بد قسمتی سے تیری یہ حسرت پوری نہیں ہو سکی۔"

"آئے ہائے۔یعنی مزہ ہی کرکرا ہو گیا۔بھابھی کو پتہ ہے سب۔"

"نہیں میں نے نہیں بتایا اسے۔وہ گھر پہ ہے۔"

"ظاہر ہے گھر پہ ہی ہونا ہے اور مینار پاکستان جا کے کیا کرنا انہوں نے۔"

"وہ طلال ہاؤس میں ہے اس وقت۔"

اسکی بات پہ دوسری جانب صوفے پہ بیٹھا علی اچھل کر صوفے کے اوپر ہی کھڑا ہو گیا۔

"اوہ تیری خیر۔۔۔۔وہ وہاں کیسے پہنچی۔۔۔کیوں ڈیڈی کے ہاتھوں اتنی سی عمر میں انہیں بیوہ کروانے کا ارادہ ہے۔میں تو انکل کے کہے کے مطابق تمہارے ولیمہ کا سوچ رہا ہوں یہ نہ ہو ولیمے کی بجائے تیری قل خوانی اٹینڈ کرنی پڑ جائے۔"

"جب بھی بولنا کفن پھاڑ کے ہی بولنا۔ڈیڈی کے کہنے پر ہی لایا ہوں۔"

"اوہ بلے بھئی بلے۔پھر میں آ جاؤں تیرے پاس؟"

"کیوں تو نے کیا کرنے آنا ہے ؟"

"نا تو تیرے ولیمے کے انتظامات کس نے کروانے ہیں۔"

"موٹے چپ کر کے گھر میں بیٹھا رہ۔مجھے جان کے لالے پڑے ہیں تجھے ابھی بھی کھانا یاد آرہا ہے۔"

"اچھا پھر پارٹی ہونے سے دو دن پہلے بتا دینا تاکہ میں گھر سے کھانا پینا چھوڑ دوں۔گھر والوں کا رویہ تو سہی ہے نا۔۔۔۔صامی سے تو مجھے کوئی ٹینشن نہیں وہ تو اپنا بندہ ہے۔یہ بتا آنٹی کا بی پی نارمل ہے ؟"

"ہرگز بھی نہیں اور آنٹی کے ساتھ ساتھ انکی چمچی نے بھی آتے ہی اٹیک کر دیا ہے۔"

"ہائے اوئے۔یعنی کے مزے کے سین ہونے ہیں۔تو پہلے بتا دیتا تاکہ تجھے ویلکم کرنے کے لیے میں وہاں پہنچ جاتا۔"

"فی الحال تو پارٹی میں آنے کی تیاری کر۔ڈیڈی ایک دو دن میں ہی کرنے والے ہیں۔چل اب میں فون رکھتا ہوں۔بائے۔"

وہ علی سے بات کرتا ہوا سیڑھیاں اتر رہا تھا ممی اور نیہا نے اسےسے دیکھتے ہی منہ پھیر لیا۔

"صامی خیال رکھنا پلیز میں کچھ دیر کے لیے باہر جا رہا ہوں اگر کوئی مصیبت وغیرہ دوبارہ نازل ہو تو اس سے نمٹ لینا۔"

ایک دائم کی بات اوپر سے صارم کے قہقہے نے نیہا کو آگ لگا دی۔

"تم باہر کیا کرنے جا رہے ہو۔ڈیڈی نے سختی سے منع کیا ہے۔"

"ڈیڈی کا ہی میسج آیا ہے ایک بار آفس کا چکر لگا آؤں میں۔تم خیال رکھنا۔"

"مصیبت ہو گے تم۔اتنا ہی خیال ہے تو اسکو بھی ساتھ ہی لے جاؤ۔ورنہ میں زندہ نہیں چھوڑوں گی اسے۔"

وہ نیہا کی بات پہ کان بند کیے باہر نکل گیا۔

"ویسے نیہا اس نے تو تمہارا نام تک نہیں لیا۔پھر تمہیں اتنا یقین کیسے ہے کہ مصیبت تم ہی ہو؟"

"تم بھی اپنا منہ بند کر لو۔تم کم نہیں ہو اس سے۔میرا بس چلے تو گولی سے اڑا دوں ان دونوں کو۔آیا بڑا مجنوں کہیں کا ۔خیال رکھنا باہر جا رہا ہوں میں ہنہہ۔اس کو بھی ساتھ ہی لے جائے پھر۔ بے شرم نہ ہو تو۔"

"اوہ ہیلو۔۔۔۔آئندہ میرے بھائی کو ایسا کہنے سے پہلے سو بار سوچنا بجائے اس کو مبارکباد دینے کے تم کوسنا شروع ہو گئی ہو۔"

"مبارکباد دیتی ہے اس کو میری جوتی۔اور تمہیں بڑی تکلیف ہو رہی ہے تم بھی کروا آؤ کسی کے ساتھ۔لے آنا کسی کا ہاتھ پکڑ کے گھر۔"

"ہاں بالکل لے کر آؤں گا تمہارا کیا خیال ساری عمر میں نے ایسے ہی رہنا ہے۔ارے کہیں تم یہ تو نہیں سوچ رہی کہ میں تم سے شادی کروا لوں گا۔

نعوذ بااللہ۔۔۔۔۔ہر خوش فہمی کو ذہن سے نکال دو۔اتنے برےمیں دن نہیں آئے میرے۔"

"مری نہیں جا رہی میں تمہاری اس آلو جیسی شکل کے لیے۔زیادہ میرے منہ لگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ایک وہ بے شرم جسے کوئی ملی ہی نہیں طوائف سے اٹھ کر نکاح کر لیا۔"

"بس کر دو نیہا وہ طوائف نہیں ہے۔صبح کیا بتایا تھا طلال نے میڈیا کو۔آئندہ ایسا مت کہنا ورنہ جانتی ہو تم دائم کو۔۔۔۔۔میں سمجھ سکتی ہوں تمہاری فیلینگز۔۔۔بٹ پلیز کنٹرول یور سیلف۔"

مگر وہ کندھے پہ رکھا سارہ کا ہاتھ جھٹک کر تن فن کرتی واپس چلی گئی۔

____________________________________

دائم کے جانے بعد اس نے اٹھ کر سارے کپڑے الماری میں سیٹ کئے اور واپس الجھتے ذہن کے ساتھ اسی جگہ آ بیٹھی۔تین گھنٹوں تک کسی نے کمرے میں جھانک کر بھی نہیں دیکھا۔خود باہر جانے میں عجیب سی جھجک محسوس ہو رہی تھی۔بالآخر عظمیٰ صارم کا پیغام لے کر آئی۔

"بی بی جی۔صارم صاحب کہہ رہے ہیں نیچے آ جائیں۔"

"اور کون کون ہے نیچے؟"

"بس صارم صاحب اور بیگم صاحبہ ہیں۔"

"دائم نہیں آئے اب تک؟"

"نہیں دائم صاحب اور بڑے صاحب ابھی نہیں آئے۔"

"اچھا آپ جائیں میں آتی ہوں۔"

کچھ دیر بعد وہ فریش ہوکر اور ڈریس چینج کر کے نیچے آئی۔

"اچھا ہوا آپ آ گئیں ورنہ میں ابھی عظمیٰ کو دوبارہ ببھیجنے والا تھا۔"

وہ مسکرا کر کچھ کہے بغیر بیٹھ گئی۔پریشانی کا اندازہ چہرے سے ہی ہو رہا تھا۔

"بھابی آپ ریلیکس رہیں۔یہ آپکا گھر ہے۔کوئی کچھ نہیں کہے گا آپکو۔ڈیڈی آنے والے ہیں ان سے دعا سلام کر لینا اسی لیے میں نے بلایا آپکو۔ویسے بھی آپ بور ہو گئی ہونگی کمرے میں رہ کے۔آپ بولتی کیوں نہیں ہیں۔۔۔کہیں خدانخواستہ گونگی تو نہیں۔"

سارہ کو صارم کی یہ فرینکس ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔

"کب۔۔۔۔تک۔۔۔۔آنا۔۔۔۔ہے انکل نے۔"

آخر کار اس نے صارم کو اپنے گونگا نا ہونے کا یقین دلایا۔

"بس ابھی کچھ دیر میں آ جائیں گے۔ایک جلسہ تھا وہیں پر گئے ہیں۔ویسے آپ انہیں انکل کی بجائے ڈیڈی کہیں زیادہ اچھا امپریشن پڑے گا۔"

آخری جملہ اس نے ممی سے آنکھ بچا کر رازداری سے کہا۔

سارہ نے ایک نظر سر تا پیر اسکا جائزہ لیا جو بلیک اور سکون کمبینیشن کا خوبصورت سا سوٹ زیب تن کیے اور سلیقہ سے سر پہ دوپٹہ لیے بیٹھی صارم کی باتوں کے جواب میں مسکرا رہی تھی۔ایک گہری اندر تک اتر جانے والی نظر سے اسکا جائزہ لے کر بالآخر ان کے چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی۔

"کتنی کوالیفیکیشن ہے تمہاری؟"

ساس کی جانب سے آنے والے پہلے سوال پہ اس نے چونک کے دیکھا۔

"گریجویشن کا لاسٹ ایئر ہے۔"

ادھر اُدھر کی باتوں کے دوران طلال کی گاڑی کی آواز آئی۔

"آگئے ہیں ڈیڈی۔نروس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔کچھ نہیں کہیں گے وہ۔"

تھوڑی دیر بعد طلال لاؤنج میں آ گئے۔

"ہیلو ڈیڈی۔۔کیسا رہا جلسہ۔"

"ہاں ایک دم پرفیکٹ۔۔۔۔تھینک گاڈ سب اچھے سے ہو گیا۔"

"السلام علیکم ڈیڈی۔"

صارم کے اشارے پہ اس نے ڈرتے ڈرتے سلام کیا۔طلال نے آواز کے تعاقب میں چونک کر ساتھ والے صوفے کی طرف دیکھا۔

"وعلیکم السلام۔"

اس،پہ ایک نظر ڈال کے وہ ممی کو لنچ کا کہہ کر فریش ہونے چلے گئے۔اگر انہوں نے کوئی اچھی بات نہیں کہی تو سارہ کی طرح کوئی طنزیہ بات بھی نہیں کی۔یہی چیز حوصلہ بڑھانے کو کافی تھی۔

"ابھی نہیں آنا اس نے۔وہ آفس گیا ہے لیٹ آئے گا ۔مجبوراً لنچ اکیلے ہی کرنا پڑے گا۔آئیں ٹیبل پہ چلتے ہیں۔"

عدن کی بار بار دروازے کی جانب اٹھنے والی نظر دیکھ کر صارم نے شرارتاً کہا۔وہ شرمندہ سی ہو کر ڈائننگ ٹیبل کی طرف آئی۔جیسے ہی سب نے لنچ شروع کیا دائم اونچی آواز میں سب کو سلام کرتا اس کے ساتھ والی چئیر پہ بیٹھ گیا۔

"او بھائی تم کدھر۔۔۔۔تم نے تو کہا تھا لیٹ آؤ گے۔"

صارم نے آبرو آچکا کر اسے دیکھا۔

"ہاں تو بس جیسے ہی کام ختم ہوا میں آگیا ویسے بھی ڈیڈی نے کہا تھا زیادہ دیر گھر سے باہر نہیں رہنا۔"

اسکی بات پہ طلال نے ٹیڑھی نظروں سے اسے دیکھا جس نے فوراً مسکراہٹ چھپانے کو چہرہ جھکا لیا۔

"کل رات کو ہی ایک چھوٹی سی گیٹ ٹو گیدر ہو گی۔اپنے سرکل میں سے جس جس کو انوائٹ کرنا ہے کرو۔پارٹی گھر میں ہی ہو گی۔"

"کیا مطلب ولیمہ کر رہے ہیں کل کو۔"

سارہ نے پوچھا۔

"نہیں ولیمہ پارٹی کا ٹائم نہیں ہے صرف چھ دن بعد تو الیکشن ہیں۔جسٹ ایک گیٹ ٹو گیدر ہو گی۔ریلیٹوز کو انوائٹ کریں اور عنایہ اور ریان کو بھی تسلی دیں فون کر کے۔وہ بہت ٹینس ہو گئے ہیں بار بار کالز آرہی ہیں انکی۔"

"ڈیڈی ریان بھی آئے گا؟"

"نہیں ان حالات میں سفر کرنے میں خطرہ ہے۔وہ نہیں آئے گا۔"

طلال۔اگر معمول کی طرح باتیں کرتے ہوئے ہنس نہیں رہے تھے تو غصے میں بھی نہیں تھے۔یہی چیز نوٹ کر کے دائم ریلیکس ہو گیا۔

اگلے دن دوپہر میں ہی رابیل اسکے پاس آگئی۔رابی سے اسکی اچھی خاصی دوستی ہو گئی تھی۔اسی باعث اسے دیکھتے ہی وہ مطمئن ہو گئی۔

"تھینک گاڈ۔۔۔۔تم آگئی کل سے میرا دل ہول رہا تھا۔"

"کیوں دائم بھائی کہاں ہیں کل سے؟"

اس نے شرارت سے عدن کو کہنی ماری۔دائم کے نام پہ اسکی ایک بیٹ مس ہوئی۔

"وہ ارینجمنٹس میں بزی ہیں۔"

"لو جی یہ بھی اچھا بندہ ہے آتے ہی بیوی کو ظالم سسرال میں تنہا چھوڑ کے خود ارینجمنٹس میں بزی ہو گیا۔اچھا یہ بتاؤ گھر والے کیسے لگے۔صارم تو کافی جولی سا ہے۔اپنی ساسو ماں کیسی لگی تمہیں۔انکل نے تو کچھ نہیں کہا۔"

رابی نے آتے ہی تفتیش شروع کر دی۔

"اچھے ہیں سب۔نہیں ڈیڈی نے کیا کہنا ہے۔"

"ہیں۔۔۔ہیں۔۔۔ہیں۔۔۔۔یہ ایک دن میں ڈیڈی کیسے ہو گئے۔"

"صارم بھائی نے کہا تھا ڈیڈی کہو اچھا امپریشن پڑے گا۔"

"ایک تو یہ صارم بھی نا۔۔۔۔وہ نیہا چھپکلی تو نہیں آئی۔"

"آئی تھی۔۔"

عدن نے اسے کل والا سین سنایا تو وہ ہنس ہنس کر پاگل ہو گئی۔

"واہ یار بندہ ہو تو دائم بھائی جیسا۔اب آئندہ وہ چھپکلی تمہیں تنگ نہیں کرے گی۔ویسے بھی وہ آنٹی کی چمچی ہے ۔میری بات مانو اس سے تھوڑی سی ہیلو ہائے کر کے اسے صارم کے پیچھے لگا دو۔تمہارا رستہ تو پہلے ہی صاف ہے مستقبل میں بھی کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔صارم اسے انگلینڈ لے جائے گا۔جان چھوٹے گی۔"

اپنے مشورے وہ خود ہی ہاتھ پہ ہاتھ مار کے ہنس پڑی۔

"رابی مجھے ایک بات سمجھ نہیں آ رہی آخر کیوں ڈیڈی نے ایک دم سے گھر بلا لیا اور ساتھ ہی پارٹی رکھ دی۔پہلے تو وہ اس چیز کو ایکسیپٹ ہی نہیں کر رہے تھے تو فوراً سے کیسے یہ سب۔"

اس کی بات پہ رابی کچھ پل کے لیے خاموش ہو گئی۔

"تو تمہیں کیا مسئلہ ہے بجائے خوش ہونے کے پریشان ہو رہی ہو۔اچھی بات ہے وہ اس سب کو ایکسیپٹ کر رہے ہیں ویسے بھی دائم بھائی انہیں بہت عزیز ہیں۔ آخر کب تک وہ انکی بات سے انکار کرتے۔"

"مگر میں پارٹی کیسے اٹینڈ کروں گی۔میں نے تو کبھی کوئی پارٹی اٹینڈ نہیں کی۔سوچ سوچ کے ہی وحشت ہو رہی ہے اتنے لوگ ہوں گے۔"

"ظاہر ہے بھئی سب نے اپنے پورے پورے سرکل کو انوائٹ کرنا ہے رش تو ہو گا۔بٹ یو ڈونٹ وری جب دائم بھائی ساتھ ہیں تو کیسی ٹینشن۔یہ تو یہاں پہ آئے دن کا کام ہے۔کچھ بھی ہو جائے پارٹی رکھ لو۔اب خود کو آہستہ آہستہ عادی کر لو اس چیز کا۔ویسے آج بہت مزہ آۓ گا ۔"

اتنے میں ہی سارہ دروازہ ناک کر کے ہاتھ میں شاپنگ بیگ پکڑے اندر آئیں۔

"رابیل بیٹا تم۔اس کو اچھے سے تیار کر دینا ۔طلال نے باہر جانے سے منع کیا ہے سو تم ہی کر لینا اب سب کچھ۔یہ اسکا رات کو پہننے والا ڈریس ہے۔"

"اوکے آنٹی ڈونٹ وری میں کر لوں گی۔"

اس کی بات پہ وہ سر ہلاتی ہوئی اپنی مخصوص مسکراہٹ چہرے پہ سجائے کمرے سے نکل گئیں۔

"واؤؤ۔۔۔۔۔۔"

رابی نے سوٹ دیکھتے ہی کہا۔

"ایک سوٹ اتنا زبردست ہے اوپر سے رات کے فنکشن میں جب تم پہنو گی سچ میں قیامت لگو گی۔ہائے ہائے بیچارے دائم بھائی تو پہلے ہی وار میں گئے کام سے۔"

اپنی بات کے جواب میں خاموشی پا کر اس نے عدن کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

"کیا ہوا یار۔۔۔۔امی ابو یاد آرہے ہیں کیا؟"

"وہ بھولتا ہی کب ہیں مجھے دن میں سو بار ٹرائی کرتی ہوں نمبر۔ہر بار بند جاتا ہے۔"

اتنا کہہ کر ہی وہ رونے لگی۔رابی کی اپنی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔

"میں سمجھ سکتی ہوں اس ٹائم تمہاری کیا فیلنگز ہیں۔یہ وقت تو ہر لڑکی پہ آتا ہے اور خوش نصیب ہوتی ہے وہ اولاد جسکے والدین اس وقت میں انکے ساتھ موجود ہوں۔ڈونٹ وری اللہ نے چاہا تو تم ان سے بہت جلد ملو گی۔پلیز اب اور مت رونا۔ورنہ میں نے بھی رونے لگ جانا ہے۔"

کافی دیر وہ اسے دائم کے حوالے سے چھیڑ کر ہنسانے کی کوشش کرتی رہی۔

شام تک سارہ کے مجبور کرنے پہ نیہا بھی نازل ہو گئی۔

"آپ نے مجھے آج کے جشن میں شرکت کے لیے بلایا ہے۔دماغ کھول رہا ہے میرا اس شخص کس نام سن کر بھی پر آپکو میری کیا پرواہ۔"

"نیہا پلیز جان ایسا مت کرو۔تمہیں کیا لگتا ہے مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے۔مجبوری ہے یہ سب کرنا پڑ رہا ہے۔بس ایک بار ان الیکشنز سے جان چھوٹے پھر دیکھنا کیا کرونگی میں۔یقین نہیں ہے کیا تمہیں مجھ پہ۔؟"

"اور یہ صاحبزادہ کہاں ہے آپکا۔۔۔۔۔بیٹھا ہو گا کہیں بیوی کے پلو سے لگ کر۔"

"ارے نہیں اسے تو سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ہے۔کل آدھی رات تک تو آفس میں ہی رہا پھر وہاں سے آتے ہی وہ اور صارم ارینجمنٹس میں بزی ہیں۔طلال نے تو کہا تھا ریسٹ کرو تم لوگ ہو جائے گا سب ۔مگر میں نے ہی کہا کہ نہیں خود سر پہ کھڑے ہو کر کام کرواؤ۔کسی چیز کی کمی نا رہے۔وہ ایک منٹ بھی اس چڑیل کے پاس جائے مجھے ہرگز گوارا نہیں ہے۔"

"واہ خالہ جواب نہیں ہے آپکا۔"

سارہ کے بتانے پر وہ کچھ پل کے لیے اندر تک شانت ہو گئی۔

رات کے فنکشن میں وہ گولڈن اینڈ ریڈ کلر کی میکسی پہنے،لمبے بالوں کو ہلکا سا کرلی کیے واقعی کوئی حور لگ رہی تھی۔دائم کی نظریں بار بار اس کی جانب اٹھ رہی تھیں جو رابیل کا ہاتھ پکڑے ممی کے ساتھ کھڑے ان کی فرینڈز سے مل رہی تھی۔

"اوئے شرم کر لے کچھ۔کتنے لوگ ہیں یہاں پہ اکٹھے ہوئے۔چل ادھر کو دیکھ۔۔"

علی نے اسکی کمر پہ ہاتھ جڑ کے اسے سیدھا کیا۔

"سارہ برائیڈل کے پیرنٹس نہیں آئے پارٹی میں؟"

عدن کے جانے کے بعد سارہ کی دوست نے پوچھا۔وہ ایک پل کو گڑبڑا گئیں۔

"نہیں تو آئے ہیں وہ بھی۔میں ملواتی ہوں میں کچھ دیر میں تم لوگوں کو۔"

وہ کہہ کر طلال کی جانب بڑھیں۔یہ تو انہوں نے سوچا ہی نہیں تھا۔طلال انکی بات سن کر مسکرا دئیے۔

"بیگم صاحبہ آپ اپنے دماغ پہ زور نہ ڈالیں۔میں آل ریڈی انتظام کر چکا ہوں۔آپ بس انجواۓ کریں اور اگر کوئی پوچھے تو کہہ دیجئے گا وہ شام کو آئے تھے مگر کسی وجہ سے انہیں واپس جانا پڑا۔"

"اوکے۔"

سارہ شکر کرتی واپس مڑ گئیں۔تبھی دائم ان کی طرف آیا۔

"ڈیڈی۔۔؟"

"ہاں بولو۔۔۔"

"عدن کی کوئی تصویر میڈیا میں نہیں جانی چاہیے پلیز۔"

اسکی بات پہ طلال نے گھور کر اسے دیکھا۔ 

"تو تم پھرو نا اسکا دم چھلا بن کر۔جیسے ہی کوئی فوٹو گرافر تصویر لینے لگے وہیں اس کی گردن مروڑ دینا۔"

"پلیز ڈیڈی۔۔۔ٹرائے ٹو انڈرسٹینڈ۔"

اس کے کہنے پہ انہوں نے ایک لڑکے کو اپنی جانب آنے کا اشارہ کیا۔

" احمد۔۔پارٹی ختم ہو تو سب فوٹوگرافرز کے کیمرے چیک کرنا۔گھر کی لیڈیز کی تصاویر ہرگز باہر نہیں جانی چاہیے۔"

ان کے کہنے پہ دائم انہیں مسکرا کر تھینک یو کہتے ہوئے واپس مڑ گیا۔

__________________________________

عدن نے اب تک زور سے رابیل کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔

"یہ دیکھو خدا کا خوف کرو۔تمہارا نکاح میرے سے نہیں ہوا اس سے ہوا ہے جو ہزار بار پیچھے مڑ کر دیکھ چکا ہے۔اب چھوڑ دو میرا ہاتھ۔درد کرنے لگ گیا ہے اور تھوڑی سی زبان بھی ہلا لو ورنہ زنگ جائے گا۔جو وش کر رہا ہے اسے صرف مسکراہٹ سے نواز رہی ہو۔بندہ دو بول شکریہ کے ہی بول دیتا ہے۔

چلو آؤ تمہارے شوہر کے حوالے کر کے آؤں تمہیں تاکہ مجھے بھی کوئی سانس آئے۔"

"نہیں میں نے نہیں جانا وہاں پہ۔۔۔پلیز تم میرے ساتھ رہو۔"

وہ اتنے لوگوں کو دیکھ کر ہی نروس ہو گئی تھی۔ہر دو منٹ بعد کوئی نہ کوئی آکر اس سے مل رہا تھا۔

"پاگل ہو گئی ہو۔۔۔کیا سوچیں گے لوگ دلہا دلہن ہی اتنی دور کھڑے ہیں اور وہ دیکھو چھپکلی ہمیں گھور گھور کر دیکھ رہی ہے اگر وہ یہاں آ گئی نا تو میں نے کوئی نہیں بچانا تمہیں۔سو بہتر ہے اسی کے پاس جاؤ جس سے وہ ڈرتی ہے۔"

وہ اس کا ہاتھ تھامے زبردستی اسے دائم کے پاس لائی۔

"یہ لیجیے سنبھالیں اپنی بیگم کو۔۔۔۔میرا تو ہاتھ توڑ دیا ہے اس نے۔۔۔۔اگر یہ سچ مچ ٹوٹ گیا تو میرا تو کل کو کوئی رشتہ ہی نہیں آئے گا۔۔۔رحم کریں مجھ پہ تھوڑا سا۔۔۔۔"

اس کی بات پہ دائم نے ہنستے ہوئے عدن کا ہاتھ تھاما۔رابیل شکر کرتی واپس ہو لی۔

"چل بھئی صارم بیٹا یہ تو اب گیا کام سے۔اب ہم دونوں نیویں نیویں ہو کر کسی کرسی پہ ہی بیٹھ جاتے ہیں۔یہاں پہ تو کوئی لڑکی ہمیں لفٹ ہی نہیں کروا رہی۔کتنی بدذوق لڑکیاں ہیں۔کیا فائدہ ہوا تمہارا بیوٹی پارلر جا کے منہ رگڑوانے کا لڑکیاں تو اب بھی تجھے دور سے دیکھ کر ہی پیچھے مڑ رہی ہیں۔۔۔چل تیرا تو مانا پر میں تو اتنا ڈیسنٹ بندہ ہوں یہاں تو میری دال نہیں گل رہی۔"

علی کی بات پہ انکا مشترکہ قہقہہ گونجا۔

"چلو تم دونوں اب وہاں جا کے بیٹھو۔عدن آئیں میں آپکو اپنے کلائنٹس کی فیملیز سے ملواتا ہوں۔"

وہ ان دونوں کو حکم دے کر خود عدن کا ہاتھ پکڑے ایک ٹیبل کی جانب بڑھا جہاں بیٹھے شخص نے اسے دیکھتے ہی دور سے ہاتھ ہلایا۔

"ہیلو ظفر صاحب۔ہاؤ آر یو۔"

"ہائے۔۔آئی ایم فائن اینڈ کانگریچولیشنز۔"

"تھینک یو سو مچ۔"

عدن نے ظفر صاحب کی بیگم سے مسکرا کر ہاتھ ملایا۔

"واؤ دائم بھائی آپکی وائف تو بہت کیوٹ ہیں۔"

بلیک ساڑھی پہنے اس عورت نے ستائش سے اسے دیکھا۔

"ظاہر ہے بھابی میری وائف ہے کیوٹ تو ہو گی نا۔۔"

اس نے کہتے ہوئے عدن کے کندھے پہ بازو پھیلا کر اسے ساتھ لگایا۔

باوجود اسکے نروس ہونے کے وہ ایلیٹ کلاس کی اس پارٹی کے تمام تقاضے نبھا رہا تھا۔

فوٹوگرافرز دھڑا دھڑ تصویریں بنا رہے تھے۔وہ اسے ساتھ لیے ایک ایک فیملی سے ملوا رہا تھا۔

ہر کوئی دائم کے حوالے سے اسے عزت دے رہا تھا۔وہ جو یہ سوچتی تھی کہ کبھی اس معاشرے میں سر نہیں اٹھا سکے گی اب مسکرا کر ہر کسی سے مبارکباد وصول کر رہی تھی۔اسے پھر سے عزت اور مقام دلا کر دائم نے اپنا کیا وعدہ نبھا دیا تھا۔اس نے تشکر سے اسکی جانب دیکھا تبھی دائم نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔

"یو آر لُکنگ سو آسم۔آئی کانٹ ڈسکرائب مائی فیلنگز ان ورڈز۔"

صارم اور علی چئیرز پہ بیٹھے کہنیاں ٹیبل پہ ٹکائے ایک نظر سامنے کھڑے دائم کو دیکھتے اور دوسری بار ایک دوسرے کو۔

"صامی بہت برا ہوا تیرے ساتھ یار۔نمبر اب تیرا تھا پر لے یہ نمونہ گیا اور تو بیچارہ سدا کا چھڑا چھانٹ میک اپ ہی کرواتا رہ گیا۔"

علی کی بات پہ صارم نے ہنستے ہوئے اسے زوردار دھپ رسید کی۔

جیسے ہی دائم ان کی طرف آیا علی نے ہاتھ جوڑ دئیے۔

"یہ دیکھ بھائی۔۔۔اب ٹک کر بیٹھ جا یہاں اور کتنا پھرنا ہے بھابی بیچاری کا تو منہ تھک گیا ہے مسکرا مسکرا کے۔ادھر آ کے مر تاکہ کسی کو ہم دو غریب بھی نظر آئیں۔ہماری طرف تو کوئی فوٹوگرافر بھی نہیں آرہا۔رابی تم بھی ادھر آ جاؤ۔"

اس نے لڑکیوں کے جھرمٹ میں کھڑی رابی کو آواز دی۔

وہ سب اسکی بات پہ مسکراتے ہوئے ٹیبل کے اردگرد بیٹھ گئے۔

"کوئی فائدہ نہیں ہوا ہمیں تیری پارٹی میں آنے کا۔یہ بھی کوئی بات ہے اتنی بڑی مکسڈ گیدرنگ میں بھی ہم سنگل ہی منہ لٹکا کے گھروں کو چل پڑیں۔"

"بس بیٹا اپنے اپنے نصیب کی بات ہے تمہاری قسمت میں یہی سب کچھ لکھا ہے۔"

"تو چپ کر کے بیٹھا رہ۔بھابھی آپ اسکی شریف سی شکل پہ مت جائیے گا یہ ایک نمبر کا میسنا ہے وہ دیکھیں نیہا بیچاری کیسے منہ لٹکا کے بیٹھی ہے جیسے شادی سے پہلے ہی بیوہ ہو گئی ہو۔بلکہ تم سب رکو میں اسے یہیں لے کر آتا ہوں۔"

"بس کر۔۔۔۔بس کر۔۔۔کیوں رنگ میں بھنگ ڈلوانا ہے۔"

دائم نے اسے واپس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

"لے یار ایسے کیسے ہو سکتا ہے اس کے بغیر مزہ نہیں آنا۔۔۔۔۔آج تو گن گن کے بدلے لینے ہیں اس سے۔۔۔۔تم رکو ایک منٹ میں ابھی آیا۔"

وہ ان کو ہنستا چھوڑ کر ایک ہی جست میں نیہا کے پاس پہنچا۔

"ہیلو نیہا۔۔۔۔ یہاں کیوں منہ لٹکا کر بیٹھی ہو۔تم اکیلی بیٹھی تھی میں نے سوچا میں ہی کمپنی دے دوں۔"

"میں ایسے ہی اچھی ہوں تمہاری کمپنی سے۔وہیں جا کے بیٹھو جہاں سے آئے ہو۔"

دو ٹیبل چھوڑ کے بیٹھے اپنے دشمنوں کی ہنسی اور قہقہے اسے یہاں تک سنائی دے رہے تھے۔

علی اسکے ساتھ ہی چئیر گھسیٹ کے بیٹھ گیا۔

"دائم نے اچھا نہیں کیا تمہارے ساتھ۔تین سال تم سے منگنی رکھ کے اب شادی کسی اور سے کروا لی۔بدتمیز نہ ہو تو۔"

"میرے سامنے نام مت لو اس شخص کا۔"

نیہا نے غصے سے اپنی آنکھیں بڑی کرتے ہوئے کہا۔

"ویسے ہونا بھی یہی چاہیے تھا دیکھو نا وہ دونوں ساتھ بیٹھے کتنے زبردست لگ رہے ہیں۔ایک دم پرفیکٹ۔بلیو می میں نے آج تک اتنا نائس کپل کبھی نہیں دیکھا۔تم خوش ہو نا اپنے بھائی بھابی کی شادی پہ۔"

"تمہیں اتنا شوق ہے ان پہ کمنٹری کرنے کا تو وہیں جا کے کرو۔میرا دماغ نہ کھاؤ ورنہ۔سر پھاڑ دوں گی تمہارا۔"

"اچھا۔۔۔اچھا اتنی کالی پیلی کیوں ہو رہی ہو۔ایسے ہی بیوٹی پارلر والی کی محنت ضائع ہو جائے گی۔جس طرح تمہاری حالت ہو رہی ہے مجھے لگتا ہے کل کو بریکنگ نیوز آئے گی۔"

"دائم طلال کی تین سالہ پرانی منگیتر ان کی شادی کا صدمہ نہ سہتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جا ملی۔"

"شٹ اپ اینڈ گیٹ آؤٹ۔"

"لو ایسے کیسے گیٹ آؤٹ۔تمہارے بھائی بھابی بے چینی سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔اٹھو ہماری ٹیبل پہ آؤ۔"

"مجھے کوئی شوق نہیں ہے تم ہی جاؤ اور میری جان چھوڑو۔"

"لو میں اس مشکل وقت میں تمہیں اکیلا کیسے چھوڑ دوں۔اٹھو بھی۔ورنہ لوگ کیا سوچیں گے بھائی بھابی کی شادی پہ بہن منہ بسور کے ایک طرف بیٹھی ہے۔"

"بس کر دو علی۔اس نے نہیں آنا وہ دائم سے ڈرتی ہے اسی لیے نہیں آ رہی۔"

صارم کی آواز پہ اس نے تپ کر پیچھے مڑ کے دیکھا۔

"کسی بھول میں مت رہنا۔۔۔کسی سے نہیں ڈرتی میں۔آؤ تم بھی وہیں جا کے بیٹھتی ہوں اب۔"

علی پیٹ پکڑ کے ہنستے ہوئے اس کے ساتھ اپنی ٹیبل پہ آ گیا۔

وہ صارم کے ساتھ والی چئیر پہ بیٹھ گئی۔

"تم کیوں اکیلی بیٹھی تھی ہم یہاں اتنا انجواۓ کر رہے ہیں۔"

"تو کرو انجواۓ۔میں نے روکا ہے کیا۔"

وہ صارم کی بات پہ پھاڑ کھانے کو دوڑی۔

"آہم۔۔۔۔آہم۔۔۔جی تو نیہا بی بی آپ اپنے بھائی بھابی کی شادی کی خوشی کو کن الفاظ میں بیان کرنا چاہیں گی۔"

علی ٹیبل پہ آتے ہی پٹری سے اتر گیا۔ہاتھ کا مائیک بنا کے نیہا کے آگے کیا جس پہ اس نے زوردار تھپڑ مارا۔

"بس بس مجھے پتہ چل گیا تمہیں بہت خوشی ہے۔دیکھو یار کتنے زبردست لگ رہے ہیں یہ دونوں۔۔۔۔ ہے نا نیہا۔"

اس،کے کہنے پہ نیہا نے چھبتی ہوئی نظروں سے عدن کو دیکھا جو دائم کے برابر بیٹھی ہنس رہی تھی۔پارٹی شروع ہوتے وقت جو خوف اور پریشانی اسکے چہرے پہ تھی اب اس کا شائبہ تک نہ تھا۔واقعی وہ ہنستے ہوئے بہت اچھی لگ رہی تھی۔

"بس کر دو نیہا کیوں ان بیچاروں کو اتنا گھور گھور کے دیکھ رہی ہو۔ابھی تو نئی نئی شادی ہوئی ہے۔آج سے تمہاری کالی نظر لگ گئی تو آئندہ زندگی کیسے گزرے گی۔"

صارم بھی اسے چھیڑنے سے باز نہیں آیا۔

"اگر تم دونوں نے دوبارہ اب کوئی بکواس کی تو میں اٹھ کر چلی جاؤنگی۔"

"نہیں نہیں اٹھ کے کیوں جانا ہے رکو ہم ایک سیلفی لیتے ہیں۔"

علی نے دائم کا موبائل اٹھا کر فرنٹ کیمرہ آن کر کے سامنے کیا۔

"چلو بھئی سب ادھر دیکھو۔۔۔۔۔۔۔نیہا یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔۔۔ہمارے اتنے سمائلی فیس آرہے ہیں اور ایک تمہارا سڑا ہوا منہ ہماری ساری تصویر ہی خراب کر دے گا۔"

"تو مت بناؤ مجھے کوئی شوق نہیں ہے تم لوگوں کے موبائل میں تصویریں بنوانے کا۔"

"ارے نہیں یہ میرا نہیں بلکہ تمہارے دائم بھائی کا موبائل ہے۔بھلا وہ اپنی بیگم کی تصویر کسی اور کے موبائل میں جانے دے سکتا ہے۔۔۔۔۔اچھا اب اتنا جلنے بھننے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ دیکھو میں نے تمہارے کالے منہ کے ساتھ ہی سیلفی لے لی ہے۔"

علی نے واپس فون دائم کو دیا۔

"شکر کرو تمہاری نظر اس کے نیلے پیروں پہ نہیں پڑی۔"

صارم نے بروقت جملہ بول کے نیہا کو اور تپا دیا۔

"ویسے نیہا میرے پاس تمہارے لئے ایک اچھا رشتہ ہے اگر تم کہو تو بات چلاؤں۔لڑکا انگلینڈ میں پڑھتا ہے ۔ویل سیٹلڈ فیملی ہے۔اپنا بزنس ہے-شادی کے بعد تمہیں بھی انگلینڈ ہی لے جائے گا۔شام سویرے فیر موجاں ہی موجاں۔کیا خیال ہے پھر؟"

علی کی بات کا مطلب سمجھتے ہی صارم نے زوردار مکا اس کی کمر میں مارا۔

"میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے تم اپنی کروا لو یہی بہت ہے۔مگر تمہیں لڑکی کس نے دینی ہے۔خود ہی کہیں رخصت ہو کے جانا پڑے گا۔"

نیہا نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے۔

کے"ارے۔۔۔۔میری تو اب منٹوں میں ہو جانی ہے وہ دیکھو سامنے کیسے لڑکیاں میری امی کے گرد ڈیرہ ڈالے بیٹھی ہیں۔یہ سب یقینناً میرے بارے میں پوچھ رہی ہیں۔رہا صارم تو اسکی قسمت میں شادی ہے ہی نہیں یہ بیچارہ تو اب ستر حوروں کی آس پہ بیٹھا ہے۔بس پیچھے تم ہی بچتی یو اور تم بھی میرا مشورہ نہیں مان رہی۔ویسے تم نے اپنے بھائی بھابی کی دعوت کب کرنی ہے۔"

"شٹ اپ۔۔۔میرا کوئی بھائی نہیں ہے۔"

"ہاں ہاں مان لیا میں اور صارم تمہارے بھائی نہیں ہیں پر دائم کو بھائی کہنا تو اب حق بنتا ہے نا۔ورنہ بھابی صرف دیکھنے میں ہی معصوم ہیں یہ نہ ہو تمہاری یہیں بیٹھے بیٹھے کٹنگ کر دیں۔"

"صارم پلیز تم مجھے گھر چھوڑ آؤ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔"

علی۔کی ٹرٹر سے تنگ آکر اس نے صارم سے کہا۔

"واہ بھئی واہ۔۔۔۔ یعنی کہ دائم کے کنارے لگتے ہی تم نے پارٹی بدل لی۔پر کسی بھول میں نہ رہنا۔صارم ہمارا بیبا بچہ ہے۔اس پہ لائن مارنے کے لیے تمہیں میری لاش پر سے گزرنا ہو گا۔"

علی کی بات پہ اس نے صارم کے آگے رکھا سوفٹ ڈرنک کا گلاس اٹھا کر علی کو دے مارا۔وہ بروقت اچھل کے پیچھے ہوا۔

"تیرا بیڑا تر جائے۔۔۔۔تم تو اٹیم بم سے بھی زیادہ خطرناک ہو۔اب تو مجھے یقین ہو گیا ہے تمہیں اس شادی کی حد سے زیادہ خوشی ہوئی ہے پھر کیوں نہ ایک گانا ہو جائے۔ "

"تمہارے منہ سے تو خوشی کے مارے الفاظ ہی نہیں نکلیں گے چلو میں ہی گاتا ہوں۔"

"بتاؤ بھئی صارم کونسا گانا گائیں۔"

صارم نے اسکے کان میں کچھ کہا۔پہلے تو وہ ہنس ہنس کر دہرا ہو گیا۔

"یو آر گریٹ صارم۔یہی گاتا ہوں۔دائم یاد رکھنا یہ خاص طور پہ نیہا کی طرف سے تمہارے لئے ہے۔"

جیسے ہی اس نے سر بکھیرے نیہا کے علاوہ سب کے منہ سے ہنسی کےے فوارے پھوٹ پڑے۔

اوئے بھائی تیری جوانی دی اینڈ ہو گئی

اوہ تیری ساری دیوانی ساڈی فرینڈ ہو گئی

اوئے ڈی جے نو بلوا دو

بلوا دو،بلوا دو،وادو۔۔۔

اوہ ڈی جے نو بلوا دو

ساڈے ویر دی ویڈنگ ہے

بوتلیں کھلوا دو 

ساڈے ویر دی ویڈنگ ہے۔

اوئے ٹویٹر پہ ہے ٹرینڈنگ

ساڈے ویر دی ویڈنگ ہے

لانگ ٹائم سے ہے پینڈنگ

ساڈے ویر دی ویڈنگ ہے۔

ایک گانے کے الفاظ اور ساتھ علی کے سٹائل سب نے اتنی زوردار قہقہہ لگایا کہ اردگرد کی ٹیبلز والوں نے انہیں پیچھے مڑ کر دیکھا۔

نیہا نے رابی کے آگے پڑا گلاس اٹھا کر اس کو مارا مگر پہلی بار کی طرح یہ نشانہ بھی خطا ہو گیا۔

نیہا جلتی بھنتی ہوئی اٹھ کر چلی گئی۔ان کے پر زور قہقہے پہ ایک فوٹوگرافر متوجہ ہو کر جیسے ہی کیمرہ لیے انکی جانب بڑھا دائم نے اسے سر کے اشارے سے منع کر دیا۔

"اوہ بھائی۔۔۔وہ تیری تصویر لینے نہیں آیا تھا وہ تو میری جانب آیا تھا یہ سوچتے ہوئے کہ میرے ساتھ کوئی حسینہ بیٹھی ہے اب اسے کیا پتہ یہ تو صارم ہے جس نے آج ایسے منہ چھیلا ہوا ہے کہ لڑکیوں کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ہیلو بھائی فوٹوگرافر مانا یہ ہمارا کڑیوں کی شکل کا منڈا ہے مگر یہ لڑکی ہرگز نہیں ہے۔"

اس کی بات عدن اور رابیل کی آنکھوں میں ہنس ہنس کر پانی آگیا۔

"اب تمہیں تیسرا گلاس میں نے اٹھا کر مارنا ہے اور میرا نشانہ ہرگز نہیں چوکتا۔"

صارم نے بیچاری سی شکل بنا کے کہا۔

"نہیں نا صارم میرا خیال ہے مجھے تمہیں گلے لگا کر ایک تصویر بنا ہی لینی چاہیے۔دیکھنا کتنی آوازیں آئیں گی۔واٹ آ نائس کپل۔واؤ علی تمہاری بیوی کتنی کیوٹ ہے۔"

صارم نے وہیں بیٹھے بیٹھے چار پانچ مکے مار کر علی کی کمر توڑ دی۔

خدا خدا کر کے رات کے تین بجے پارٹی ختم ہوئی۔عدن اور رابی فورا ہی سب کو بائے کہتی اٹھ کر چلی گئیں مگر علی نے صبح تک دائم اور صارم کو ہلنے نہ دیا۔

________________________________

"گڈ مارننگ ڈیڈی۔"

"گڈ مارننگ آؤ میں تمہارا ہی ویٹ کر رہا تھا۔"

وہ اور صارم جیسے ہی علی سے جان چھڑا کر اندر آئے سامنے ہی طلال سے ٹاکرا ہو گیا۔

"خیریت کیا ہوا۔۔"

وہ ان کے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔

"جو کانٹریکٹ تم نے ڈیلے کروایا تھا وہ میں سائن کر چکا ہوں اب تمہیں اچھے سے بزنس کی سمجھ آگئی ہے سو میں نہیں چاہتا اب یہ مزید ڈیلے ہو۔اسی لیے میں نے اسے سائن کر لیا ہے اور کل کو میٹنگ ہے سنگاپور میں۔بہت زیادہ پرافٹ ہو گا ہمیں اس سے۔تمہاری سیٹ میں کنفرم کروا چکا ہوں آج شام پانچ بجے کی فلائٹ ہے۔دس دن کا سٹے ہو گا۔ٹوٹل تین میٹنگز ہیں اور تینوں میں مجھے فل ریسپونس چاہیے۔ابھی ریسٹ کرو کچھ دیر۔صارم تمہیں ائیر پورٹ پہ چھوڑ آئے گا۔"

اپنی بات کے اختتام پہ انہوں نے دائم کو دیکھا جس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا۔

"آر یو سیریس؟"

"تو اس میں مذاق والی کونسی بات ہے۔"

"یعنی کہ میں آج ہی چلا جاؤں۔آج شام پانچ بجے۔اتنی جلدی۔"

"کیا مطلب اتنی جلدی جو تم چاہتے تھے وہ سب ہو چکا ہے اب اپنی روٹین میں واپس آؤ۔"

"ڈیڈی یہ کیا کیا آپ نے۔اٹس ناٹ فئیر۔اگر آپ نے بھیجنا تھا تو بھابی کو بھی ساتھ بھجوا دیتے۔گھوم پھر ہی لیتے دونوں۔"

صارم سے بھی یہ ظلم برداشت نہیں ہوا۔

"گھومنے پھرنے کو ساری عمر پڑی ہے لیکن ایک بار یہ کانٹریکٹ ہاتھ سے نکل گیا تو کبھی واپس نہیں ملے گا۔اب جاؤ تم جا کر ریسٹ کرو۔"

وہ آف موڈ کے ساتھ کمرے میں آیا۔

عدن ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی جیولری اتار رہی تھی۔وہ آئینے میں اسکے عکس کو دیکھتا ہوا پیچھے آ کھڑا ہوا۔

"کیسی لگی پارٹی؟"

"بہت اچھی۔۔۔میرا تو ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا ہے۔"

وہ خاموشی سے اسکے مسکراتے ہوئے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔

"کیا ہوا؟"

"میں سنگاپور جا رہا ہوں دس دنوں کے لیے۔آج شام کی فلائٹ ہے۔"

اس نے صوفے پہ بیٹھے شوز اتارتے ہوئے کہا۔

"کیا۔۔۔۔۔سنگاپور۔۔۔۔خیریت ہے۔۔۔۔آج شام ہی۔۔۔؟"

"میٹنگ ہے وہ اٹینڈ کرنی ہے۔"

"آپ نے پہلے تو مجھے نہیں بتایا۔۔۔"

مسکراتا چہرہ ایک دم مرجھا گیا۔

"بدقسمتی سے مجھے خود بھی دس منٹ پہلے پتہ چلا ہے۔ڈیڈی بھی نا حد کر دیتے ہیں۔بجائے اسکے کہ وہ مجھے دس دنوں کی آفس سے چھٹی دیں اور گھومنے پھرنے کے لیے بھجیں۔نیا آرڈر جاری کر دیا۔حیرت ہے۔خیر ڈیڈی تو پھر ڈیڈی ہیں۔بٹ یو ڈونٹ وری وہاں سے واپس آتے ہی ؟سب سے پہلے آپکا پاسپورٹ بنواؤں گا تا کہ نیکسٹ ٹائم ایسا کوئی سین ہو تو مجھے آپکو اکیلے چھوڑ کر نہ جانا پڑے۔

حالانکہ جانا میں اب بھی نہیں چاہتا بٹ میٹنگ بھی ضروری ہے۔"

وہ کوٹ اتارتا اس کی جانب مڑا جو ابھی بھی رات والے ڈریس میں مرجھایا ہوا چہرہ لیے کھڑی تھی۔

"آپکو تو میرے سے بھی زیادہ شاک لگ گیا ہے۔واقعی یار ڈیڈی نے ظلم کی انتہا کر دی ہے۔"

"میں کیسے رہوں گی یہاں پہ۔۔۔"

اسکے کہنے پر دائم کے چہرے پہ جاندار مسکراہٹ آئی۔

"آپ پر آہستہ آہستہ میرا اثر ہوتا جا رہا ہے۔ویری گڈ۔

اچھا پلیز رونا مت۔صرف دس تو دن ہیں چٹکیوں میں گزر جائیں گے۔"

دائم نے اسے رونے کی تیاری کرتے دیکھ کر فوراً ٹوکا۔

"ایسا کریں میرے کچھ فارمل ڈریسز پیک کریں۔کوشش کرونگا جلدی واپس آ سکوں۔اگر ڈیڈی مجھے پہلے بتا دیتے تو میں ہرگز آپکو چھوڑ کے نا جاتا۔لیکن پھر بھی اب مجھے یہ ٹینشن تو نہیں ہو گی کہ آپ فلیٹ پہ اکیلی ہیں۔آئی نو ممی کا رویہ ٹھیک نہیں ہے۔بٹ آہستہ آہستہ ہو جائیں گی وہ نارمل۔آپ نے بالکل پریشان نہیں ہونا میں صارم سے کہہ کے جاؤنگا آپکا خیال رکھے گا بلکہ علی سے بھی کہوں گا رابی کو کچھ دنوں کے لیے یہاں چھوڑ جائے۔اچھا میں شاور لے لوں۔آپ میری پیکنگ کریں۔پھر تھوڑی سی ریسٹ بھی کرنی ہے مجھے دو راتوں سے ایک پل کے لیے بھی نہیں سو سکا۔"

وہ مسکراتے ہوئے اسکا کھلا منہ بند کر کے واش روم کی جانب بڑھا۔

________________________________

"میں ہرگز بھی نہیں رکوں گی ایک منٹ کے لیے بھی نہیں۔آپ نے مجھے سمجھا کیا ہوا ہے۔جانتی بھی ہیں آج کیا کیا ہے پارٹی میں ان سب نے مل کر میرے ساتھ۔اور آپ چاہتی ہیں میں پھر سے آپکے پاس رک جاؤں۔"

سارہ نے جیسے ہی نیہا کو رکنے کے لیے کیا وہ پھٹ پڑی۔

"میں بور ہو جاتی ہوں گھر میں بیٹھ بیٹھ کر۔اسی لیے تمہیں روک رہی ہوں۔"

"حیرت ہے اب تو آپکی بہو بھی آ گئی ہے اب بھی آپکی بوریت ختم نہیں ہو گی۔"

"نام مت لو میرے سامنے اسکا۔پوری پارٹی میں اسے کیسے برداشت کیا ہے یہ صرف میں ہی جانتی ہوں۔اتنی شرمندگی ہوئی مجھے اپنی فرینڈز کے سامنے جب وہ پوچھ رہی تھیں اس کے پیرنٹس کہاں ہیں۔اتنی مشکل سے ان سب کو مطمئن کیا ہے۔دائم کو کہا بھی تھا طلال نے کہ اسکے پیرنٹس کو انوائٹ کرو مگر اس نے ہماری سنی ہی کب ہے آگے سے کہہ دیا آجکل مصروف بہت ہیں آ نہیں سکیں گے بعد میں انہیں انوائٹ کرونگا۔اچھا پلیز اب تم مت جاؤ جس کی وجہ سے تم نہیں رک رہی وہ سنگاپور جا رہا ہے دس دنوں کے لیے۔"

"کیوں؟"

"طلال نے کوئی کانٹریکٹ سائن کیا ہے اسی سلسلے میں۔"

"وہ بھی جا رہی ہے اسکے ساتھ؟"

"نہیں اسکا پاسپورٹ ہی نہیں ہے۔وہ ادھر ہی رہے گی اسی لیے تو تمہیں روک رہی ہوں۔موقع اچھا ہے۔"

سارہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"آہاہ۔۔۔۔۔پھر تو مزہ آ جائے گا۔ایک بار یہ جائے تو سہی۔اوکے پھر یہی رکتی ہوں میں۔"

صارم کو آتے دیکھ کر وہ دونوں خاموش ہو گئیں۔

"نیہا! پارٹی میں آنے والے سارے مہمان جا چکے ہیں۔تم کیوں نہیں گئی اب تک۔اب پھر سے ڈیرہ نہ ڈال لینا یہاں پہ۔"

"کیوں تمہیں کوئی تکلیف ہے میرے رکنے سے۔میری خالہ کا گھر ہے جب تک چاہے رکوں۔"

"بھولو مت اب یہ خالہ کے ساتھ ساتھ خالہ کی بہو کا بھی گھر ہے۔یاد نہیں کیا کہا تھا کل دائم نے۔"

اس نے کہتے ہوئے نیوز چینل آن کیا۔

"ممی ویسے آپکو ڈیڈی کو روکنا چاہیے تھا۔سراسر ظلم ہے یہ۔بیچارے دائم کو شادی کے دوسرے دن ہی سنگاپور بھیج رہے ہیں۔کم از کم بھابھی کو ہی ساتھ بھیج دیتے۔"

"تمہارا کیا خیال ہے اب وہ ساری زندگی شادی ہی انجواۓ کرتا رہے۔ کام نہیں کرنا اس نے اور میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا بلاوجہ اس لڑکی کی فیور مت کیا کرو۔"

وہ ممی کی بات پہ کان بند کیے اسکرین کی جانب دیکھنے لگا۔

"خالہ اس نے واپس کب جانا ہے۔ایک مہینے سے زیادہ ہو گیا ہے اسے یہاں پہ آ کے بیٹھے ہوئے۔"

"کیوں تمہیں کیا مسئلہ ہے میرا گھر ہے تم نکلو یہاں سے۔جب دیکھو یہیں پہ آ کر بیٹھی رہتی ہو۔کبھی اپنے گھر سے بھی روٹی کھا لیا کرو۔"

"واٹس یور پرابلم۔کل سے میں دیکھ رہی ہوں تمہاری زبان کچھ زیادہ ہی چل رہی ہے پہلے تو کبھی اتنا نہیں بولے۔"

"یو مین تم کل سے مجھے دیکھ رہی ہو۔لے بھئی علی صحیح کہتا ہے دال کالی ہوتی جا رہی ہے۔بائی دا وے میری زبان ہے میں یوز کروں یا نہ کروں۔ایک مہینے سے منہ بند کر کے بیٹھا ہوا ہوں۔کوئی ہوتا ہی نہیں میرے سے باتیں کرنے والا۔پر اب کوئی ٹینشن نہیں اب تو میں نے بھابھی سے دوستی کر لی ہے۔کم از کم اب کوئی تو ہو گا مجھ سے بات کرنے والا۔"

سارہ نے اسے غصے سے دیکھا۔

"ایک کم نہیں ہے تمہاری بھابھی کی جی حضوری کو۔اسے تو کل سے کچھ اور نظر ہی نہیں آرہا۔رہی سہی کسر اب تم پوری کر دو۔وہ تو ویسے ہی ہواؤں میں اڑ رہی ہو گی اتنے ہمدرد پا کر۔"

صارم نے ممی کی بات پہ غور سے انہیں دیکھا۔

"ممی۔۔۔۔۔۔ عدن مجھے بالکل عنایہ جیسی ہے۔۔۔بہتر ہو گا آئندہ آپ کوئی فتور اپنے دماغ میں نہ لائیں۔"

وہ سخت نظروں سے ان دونوں کو دیکھتا ہوا ریموٹ پھینک کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔

________________________________

شام تک وہ نک سک سے تیار آئینے کے سامنے کھڑا بالوں میں برش پھیر رہا تھا۔

"اپنا خیال رکھیے گا اور صرف کمرے تک محدود رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امید تو نہیں مجھے کہ نیہا اب دوبارہ کوئی گڑ بڑ کرے گی پھر بھی اسکے منہ مت لگنا۔اور فون پہ ان کانٹیکٹ رہیئے گا میرے ساتھ۔"

وہ اپنی فائلز بیگ میں رکھتے ہوئے اسے ساتھ ساتھ ہدایات دے رہا تھا۔

"فلائٹ میں صرف ایک گھنٹہ رہ گیا ہے اب مجھے چلنا چائیے۔"

عدن کا دل زور سے دھڑکا۔

"مس کریں گی نا مجھے؟"

اس کے اتنا کہنے کی دیر تھی عدن کے آنسو چھلک پڑے۔

"کم آن یار آپ ایسے روئیں گی تو میں سارا راستہ ڈسٹرب رہوں گا۔کونسا ہمیشہ کے لیے جا رہا ہوں صرف دس دن کی تو بات ہے۔اس سے پہلے کہ میں ڈیڈی کے فیصلے کے خلاف جا کر ان سے اپنے لیے زن مرید کا لقب سنوں پلیز مجھے جانے دیں۔"

اس نے اسکے گرد بازو حمائل کر کے اسے ساتھ لگایا۔

"کیا لاؤں آپکے لیے وہاں سے؟"

عدن نے آنسو پونچھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔

"یو مین میں خود آ جاؤں یہی کافی ہے ۔ہے نا۔"

"چلیں آئیں۔مجھے باہر تک تو چھوڑ کر آئیں۔"

وہ اسکا ہاتھ تھامے نیچے لاؤنج میں آیا۔نیہا کو دیکھتے ہی چونکا۔

"یہ گئی کیوں نہیں اب تک؟"

صارم سے ملتے ہوئے سرگوشی میں پوچھا۔

"وہ کہتی ہے دائم کے جانے کے بعد میں نے اپنی بھابھی سے دوستی کر لینی ہے اسی لیے نہیں گئی۔"

صارم کی بات پہ وہ ہنستے ہوئے ڈیڈی کے پاس آیا۔

"میں صرف آپکے کہنے پہ جا رہا ہوں عدن کی ذمہ داری آپ کو سونپ کر۔اسکا خیال رکھیے گا وہ بہت ڈسٹرب ہے۔"

بیٹے کی پریشانی دیکھ کر وہ ہولے سے مسکرائے۔

"ڈونٹ وری تم جاؤ کچھ نہیں ہو گا۔"

ڈیڈی کے بعد وہ سب کو ہاتھ ہلاتے آخری نظر اس پہ ڈال کر صارم کے ہمراہ باہر چلا گیا۔

"صامی ایک بار علی کو فون کر دینا، رابی کو یہاں چھوڑ جائے ایک دو دن کے لیے۔اسکا فون آف جا رہا ہے ابھی۔"

"اوکے۔"

"اور تم بھی خیال رکھنا کوئی گڑبڑ نہ ہو۔"

"او بھائی تم چپ کر کے اپنا کام کر کے واپس آؤ۔وہ بالکل ٹھیک رہے گی کچھ نہیں ہو گا۔رہی نیہا اسے میں خود ہی سیدھا کر دوں گا۔اس میں اور ممی میں کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔مجھے نظر رکھنی پڑے گی ان دونوں پہ۔مگر تم فکر نہ کرو۔بس جلدی سے کام نمٹا کر واپس آنے کی کرو۔روز کی روز تمہیں اپ ڈیٹ کرتا رہوں گا میں۔"

وہ اسے مطمئن کرتا ائیر پورٹ پہ سی آف کر کے واپس آ گیا۔

____________________________________

آج بہت دنوں بعد نواب عالم کے گھر کا دروازہ کھٹکا۔سامنے کھڑی عورت کو دیکھ کر جیسے کسی نے ان پر انگارے پھینک دئیے تھے۔وہ دروازے سے ہٹ گئے۔پروین چچی شرمندہ سی اندر اماں کے پاس آئیں۔

"تم۔۔۔۔تم یہاں پہ کیا کرنے آئی ہو۔یہ دیکھنے آئی ہو میں مر گئیں ہوں یا نہیں۔"

"نہ آپا ایسے نہ کہیں۔مجھے معاف کر دیں۔"

وہ روتی ہوئی اماں کی چارپائی پر بیٹھ گئیں۔

"تم جانتی ہو نا میری بیٹی کہاں ہے۔اب تو آس بھی ختم ہو گئی ہے اس سے ملنے کی۔۔۔دیکھو میں ہاتھ جوڑتی ہوں مجھے بتاؤ وہ کہاں پہ ہے۔۔۔وہ زندہ تو ہے نا۔"

چچی نے تڑپ کر انکے ہاتھ پکڑے۔

"آپا میں خود نہیں جانتی وہ کہاں ہے۔سارا قصور میرا ہے۔کاش میں نے جہانگیر کی تربیت اچھے سے کی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔مجھے نہیں پتہ تھا وہ اتنا گندا نکلے گا اپنے ہی خاندان کی عزت پہ ہاتھ ڈال لیا اس نے۔مجھے پتہ ہوتا تو میں پاتال سے بھی عدن کو نکال کر لے آتی۔مگر میں قسم کھاتی ہوں مجھے نہیں پتہ وہ کہاں پہ ہے۔"

"تمہیں نہیں پتہ تمہارے بیٹے کو تو پتہ ہے نا وہ کہاں پہ ہے۔"

اماں کے کہنے پر وہ دوپٹہ منہ پہ رکھ کر پھپھک کر رو پڑیں۔

"آپا وہ اس قابل نہیں رہا کہ کچھ بتا سکے۔میں نے اسے بہت مارا ہے بہت پوچھا ہے اس سے مگر وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہے۔اپنے ابا کی وفات کے دن سے ہی وہ غائب تھا۔دو دن بعد نبیل کو کسی کا فون آیا کہ ایک گاڑی جہانگیر کو ٹکر مار کے گزر گئی ہے۔وہ ہسپتال میں ہے۔وہاں ایک ہفتہ رکھنے کے بعد نبیل اسے گھر لایا ہے۔ڈاکٹروں نے کہا ہے اس کے دماغ پہ اثر ہوا ہے۔اوپر سے سر میں لگنے والی چوٹ سے وہ بالکل ہی ارد گرد سے غافل ہو گیا ہے۔"

"بس کر دیں چچی۔آپکی اس کہانی پہ مجھے بالکل یقین نہیں آیا۔صحیح صحیح بتائیں کہاں چھپا بیٹھا ہے وہ نامرد۔"

"عبداللہ بیٹا میں سچ کہہ رہی ہوں۔کونسی ایسی بد نصیب ماں ہو گی جو اپنے بیٹے کے بارے میں ایسی بات کہہ دے۔"

وہ روتی ہوئی نواب عالم کے پاس آئیں۔

"بھائی صاحب مجھے معاف کر دیں۔میں آپ لوگوں کی گنہگار ہوں۔میں جانتی ہوں میری معافی عدن کو واپس نہیں لا سکتی۔پھر بھی میں آپکے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔میر عالم آخری وقت میں بھی روتے ہوئے گیا ہے۔خدا کے لیے اسکو معاف کر دیں تاکہ اس کی روح کو چین آ جائے۔میں جانتی ہوں میں معافی کے قابل نہیں ہوں سارا قصور ہی میرا ہے۔پر آپ میرا یقین کریں مجھے نہیں پتہ عدن کہاں ہے۔"

نواب عالم نے سرخ ہوتی آنکھوں سے دل کڑا کر کے ان کے سر پہ ہاتھ رکھا۔

"جاؤ میں نے تمہیں اور میر عالم کو معاف کیا۔۔۔مگر یہ مت سمجھنا۔۔۔۔ میں کبھی جہانگیر کو معاف کر دوں گا۔۔۔اس نے میرے جگر کے ٹکڑے کو مجھ سے دور کیا ہے۔۔۔اسے میں کبھی معاف نہیں کروں گا ۔۔۔کبھی بھی نہیں۔"

_________________________________

میر عالم کی وفات کے بعد جہانگیر گھر سے نکل کر سیدھا مہہ جبین کے پاس گیا۔جو اسے دیکھتے ہی چہرے پہ مسکراہٹ سجائے کھڑی ہو گئی۔

"وہ لڑکی کہاں ہے۔جسے میں اس دن تمہیں دے کر گیا تھا۔"

مہہ جبین کے دماغ کی سوئیاں گھومیں۔فوراً ماتھے پہ تیوری آ گئی۔

"کونسی لڑکی؟"

"بکواس مت کرو میرے ساتھ۔ابھی مجھے دس دن نہیں ہوئے اسے یہاں چھوڑے۔بتاؤ کہاں ہے وہ۔"

"میں نہیں جانتی تم کونسی لڑکی کی بات کر رہے ہو۔جو بھی ہو تم نے اسے کیا کرنا ہے۔یہاں پہ آئی کوئی لڑکی واپس نہیں جاتی بھول گئے ہو کیا۔"

اس نے آگے بڑھ کر وحشیوں کی طرح مہہ جبین کا گلا گھونٹا۔

"میں یہاں تمہاری بکواس سننے نہیں آیا۔بلاؤ اس کو کہاں ہے وہ۔ورنہ یہیں ختم کر دونگا تمہیں۔"

مہہ جبین کی آنکھیں ابل پڑیں۔

"وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔ہے۔۔۔یہاں۔۔۔پہ۔"

اس کے گلے کو دبائے جہانگیر کے ہاتھ کانپ گئے۔

"کہاں۔۔۔کہاں گئی ہے وہ۔۔۔کہاں بھیجا ہے تم نے اسکو۔"

"اسکی بولی لگ گئی ہے۔کوئی لے گیا ہے اسکو۔"

گرفت ڈھیلی ہونے پر وہ فوراً پیچھے ہٹی۔

"کون لے گیا ہے اس کو۔۔۔ایڈریس بتاؤ مجھے اسکا۔۔۔کتنے میں بیچا ہے اسے تم نے۔"

اسکی اونچی آواز سن کر مہہ جبین کے خیر خواہ فوراً اکٹھے ہوئے۔

"اپنی اوقات نہ بھولو آواز نیچی رکھ کے بات کرو۔یہاں پہ آئی کوئی لڑکی واپس نہیں جاتی۔اب نکلو یہاں سے اور آئندہ یہاں کا رخ نہ کرنا۔"

"تمہاری یہ جرأت کہ تم مجھ سے۔۔۔۔۔۔"

وہ جیسے ہی آگے بڑھا مہہ جبین کے چیلوں نے اسے گردن سے پکڑ لیا۔

"اس کو اتنا مارو کہ آئندہ یہاں آنے کا راستہ بھی بھول جائے۔ ہنہہ لڑکی واپس چاہیے اسکو۔"

وہ ہنکار بھرتے ہوئے اندر کی جانب مڑ گئی۔

وہاں جمع ہوئے لوگوں نے مار مار کر جہانگیر کو باہر نکال دیا۔

وہاں سے خالی ہاتھ واپس لوٹے وہ آدھی رات کو قبرستان آیا اور تازہ بنی قبر کے پاس بیٹھ کر ہچکیوں سے رو پڑا۔

"ابا کیوں چلے گئے آپ۔۔۔۔۔آپ ہمیں اکیلا چھوڑ گئے۔۔۔ساری زندگی میں نے آپ کی نا فرمانی کی۔۔۔۔کبھی آپ کی بات نہیں مانی۔۔۔ابا۔۔۔۔میں اتنا بے غیرت ہوں کہ اپنے ہاتھوں اپنے ہی خاندان کی عزت کا جنازہ نکال دیا۔۔۔کیوں کر دیا میں نے ایسا۔۔۔کیوں میں اتنا اندھا ہو گیا کہ صحیح اور غلط میں فرق بھی نہ کر سکا۔۔۔۔پتہ نہیں کہاں ہو گی وہ۔۔۔۔ابا۔۔۔۔میرے سے بہت بڑی غلطی ہو گئی۔۔۔۔۔میں تو محبت کرتا تھا اس سے۔۔۔۔۔۔کیوں اسے وہاں پہ چھوڑ آیا۔۔۔۔ابا ایک بار مجھے معاف کر دیں۔۔۔۔میں اسے پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالوں گا۔۔۔۔میں سب سے معافی مانگ لوں گا۔۔۔۔تایا جان کی دی ہر سزا بھگت لوں گا۔۔۔۔سارے گناہ چھوڑ دوں گا ۔۔۔۔۔۔مگر خدا کے لیے ایک بار مجھے معاف کر دیں۔۔۔۔۔ابا کیوں مجھے اکیلا چھوڑ گئے۔۔۔۔کچھ تو کہا ہوتا۔۔۔۔مجھے مار ہی لیا ہوتا اف تک نہ کرتا میں۔۔۔مگر ایسے دور تو نہ جاتے۔۔۔۔میں اپنی نظروں میں گر گیا ہوں۔۔۔۔یہ میں نے کیا کر دیا۔۔۔۔۔میں اپنے قدموں پہ اٹھنے کے قابل نہیں رہا۔۔۔۔ابا۔۔۔۔۔ایک بار معاف کر دیں۔"

میر عالم کی قبر پہ سر رکھے وہ اونچی آواز میں روتے ہوئے رات کے سناٹے کو چیر رہا تھا۔ساری عمر جس باپ کی نافرمانی کی آج اس کی جدائی پہ دل کے ٹکڑے ہو گئے تھے۔ساری رات وہ ان کی قبر پہ بیٹھا روتا رہا۔صبح ہوتے ہی وہاں سے نکل پڑا۔

"ابا میں اسے ضرور ڈھونڈوں گا۔ہر حال میں واپس لاؤں گا اسکو۔"

وہ اسی طرح روتا ہوا شہر جانے والی سڑک پہ مڑ گیا۔سارا دن وہ پاگلوں کی طرح سڑک پہ پھرتا رہا۔چادر لپیٹی ہر عورت پہ اسے عدن کا گمان ہوتا۔شام نے اپنے پر پھیلانے شروع کر دئیے۔وہ اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے سڑک کراس کر رہا تھا جب نشے میں دھت کسی رئیس زادے کی گاڑی نے زوردار ٹکر مار کر اسے ہوش و حواس سے بیگانہ کر دیا۔خون میں لت پت پڑے وجود کو لوگوں نے اٹھا کر ہسپتال پہنچایا۔اس کے موبائل پہ مسلسل نبیل کی کال آرہی تھی۔کسی راہ گیر نے اسے ہاسپٹل کا ایڈریس بتایا۔تین دن بے ہوش رہنے کے بعد اسے ہوش آیا۔مگر وہ صرف ایک ہی جملہ دہرا رہا تھا۔

"میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔میرا کوئی قصور نہیں ہے۔۔۔۔مجھے نہیں پتہ وہ کہاں پہ ہے۔"

ڈاکٹرز کے مطابق اسے کوئی بہت بڑا شاک لگا تھا اور اوپر سے سر میں لگنے والی چوٹ سے ذہن متاثر ہوا تھا۔

ایک ہفتہ ہاسپٹل میں رکھنے کے بعد نبیل اسے گھر لے آیا۔گھر میں جو چیز اسے نظر آتی وہ توڑ پھوڑ دیتا۔نبیل نے اسے ایک خالی کمرے میں بند کر دیا۔

سارا دن بس وہ ایک ہی جملہ اونچی آواز میں دہراتا رہتا۔کچھ دنوں بعد وہ اپنے سازو سامان کے ساتھ گاؤں واپس آگئے۔

اس دن بھی وہ زور زور سے دروازہ پیٹ رہا تھا۔نبیل گھر پہ موجود نہیں تھا۔اپنے جوان بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر پروین چچی کا دل زخمی ہو گیا۔انہوں نے روتے ہوئے دروازہ کھولا۔

"جہانگیر۔۔۔۔میری جان۔۔۔۔ادھر آ۔۔۔۔ماں کے پاس بیٹھ آ کے۔۔"

مگر وہ انہیں دھکا دیتا بیرونی گیٹ کھول کر باہر نکل گیا۔

شام تک نبیل نے پورا گاؤں چھان مارا مگر وہ کہیں نہیں ملا۔

دوسروں پہ ظلم کرتا ہر شخص یہ بھول جاتا ہے کہ اللہ بھی موجود ہے اس نے صرف رسی ڈھیلی کی ہےمگر وہ کسی شے سے غافل نہیں ہوا۔اگر آج ایک شخص کسی کی بہن بیٹی کو جھانسے میں لا کر اسے رسوا کر دیتا ہے تو اسے اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے جب اس کی اپنی بہن اور بیٹی ماتھے پہ یہی لیبل لگوائے گھر کی دہلیز پہ واپس آ جائے گی۔

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں% 90 کیسز میں مرد ہمیشہ شادی کے بعد اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے۔ پہلے وہ صرف وقت گزاری کے لیے نادان لڑکیوں کو اپنے جال میں پھانس لیتا ہے۔اس طرح کے مرد ان لڑکیوں سے کبھی محبت نہیں کرتے وہ صرف سودے بازی کرتے ہیں۔

اور اس سودے میں کسی کی پاکیزگی جاتی ہے ، کسی کی سادگی ، کسی کا ہنر ، کسی کا جسم ، کسی کی جان اور کسی کا ایمان۔۔

اور نادان لڑکیاں ان مردوں کے دو میٹھے بولوں کے پیچھے اپنا سب کچھ بھول جاتی ہیں۔

دوسروں کی نادانیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس چیز کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے مکافات عمل بھی کسی شے کس نام ہے جو اس دنیا میں لازمی ہو کر رہے گا۔

آج سڑکوں پہ پھرتے بکھرے بالوں اور پھٹے ہوئے کپڑوں والے اس شخص کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی جہانگیر عالم ہے جس نے کبھی اپنے کپڑوں پر ہلکی سی گرد برداشت نہیں کی۔مگر کسی کی آہ اس کا سب کچھ اجاڑ گئی تھی۔وہ سارا غرور اور اکڑ مٹی میں مل گیا تھا۔

قسمت مغرور لوگوں کو ان سے زیادہ مغرور لوگوں سے ضرور ملواتی ہے صرف انکے غرور کو خاک میں ملانے کے لیے۔یہ قدرت کا ایک مشغلہ ہے۔

دن یونہی بے کیف سے گزر رہے تھے۔صرف صارم ہی اس سے نان سٹاپ باتیں کرتا۔نیہا اور سارہ بات بہ بات طنز کرتی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتیں۔

تنگ آ کر اس نے کمرے سے باہر جانا ہی چھوڑ دیا۔اب بھی صارم کے کہنے پہ عظمیٰ اسے نیچے بلا کر لائی تھی۔

"کیا بھابھی۔آپ بھی سارا دن کمرے میں بیٹھی رہتی ہیں۔۔۔بور نہیں ہوتیں۔۔۔۔۔دائم ہی گیا ہے۔ ہم سب تو یہاں پہ ہیں نا۔۔۔۔۔میں نے سوچا تھا آپ آ گئیں ہیں۔۔۔۔اب ہم سارا دن باتیں کیا کریں گے۔۔۔۔مگر آپ تو نیچے ہی نہیں آتیں۔۔۔۔کیا دائم آپکو بولنے سے منع کر کے گیا ہے؟"

اس کے کہنے پہ عدن کے چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی۔

"یہ دیکھیں۔۔۔نیہا کتنی بار پوچھ چکی ہے۔۔۔۔بھابھی نیچے کیوں نہیں آتی۔۔۔۔مجھے ان سے دوستی کرنی ہے۔۔۔۔سر کھا لیا اس نے میرا پوچھ پوچھ کر۔"

کانٹے سے پائن ایپل منہ میں رکھتی نیہا نے اسکی بات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔

"ہیلو نیہا کیسی ہو تم۔"

اس نے مسکرا کر نیہا سے پوچھا۔

"تم سے تو اچھی ہی ہوں۔"

"ہاں ہاں یہ بات ذرا تم دائم کے سامنے کہنا۔۔۔۔پھر وہ بتائے گا تمہیں۔"

صارم نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔

"تمہیں یہ غلط فہمی کیوں ہے کہ میں دائم سے ڈرتی ہوں۔"

"غلط نہیں بالکل صحیح فہمی ہے۔یہ تو مجھے اس روز پتہ چل گیا تھا جس روز بھابی گھر آئی تھیں۔"

صارم نے ہنستے ہوئے اسے وہ دن یاد دلایا۔نیہا کا چہرہ تپ گیا۔

"بھابھی آپکی کوئی دوست بھی نہیں ہے کیا؟"

"نہیں تو ہے رابیل۔۔"

"تو پھر اسے ہی بلوا لیا کریں۔اس طرح خاموش بیٹھنے سے منہ میں جالے بھی پڑ سکتے ہیں۔ بلکہ لائیں مجھے دیں اپنا فون میں ہی اسے بلاتا ہوں۔"

صارم نے کہتے ہوئے اس کے ہاتھ سے فون لے کر رابی کا نمبر ملایا۔

"ہاں بولو عدن خیریت۔"

رابی کی آواز آئی۔

"ہیلو رابیل میں صارم بات کر رہا ہوں۔تم آج آ سکتی ہو ہماری طرف؟"

"کیوں؟"

"بھابھی بور ہو گئیں ہیں تم ہی انہیں آ کر کمپنی دے دو اور مجھے تم سے ایک بات بھی کرنی ہے۔"

"کونسی بات؟"

"تم آؤ گی تو ہی بتاؤں گا نا۔"

"اوکے میں ایک گھنٹے میں آتی ہوں۔"

"آرہی ہے کچھ دیر تک۔"

اس نے فون عدن کی جانب بڑھایا۔

"تم نے اس سے کیا بات کرنی ہے۔"

نیہا نے تجسس سے پوچھا۔

"میں نے اسے کہنا ہے تمہارے لئے کوئی اچھا سا رشتہ دیکھے۔عمر نکلتی جا رہی ہے تمہاری۔"

خلاف توقع اسکی بات پہ تپنے کی بجائے نیہا نے مسکراتے ہوئے ترچھی نظروں سے عدن کی جانب دیکھا۔

"میری فکر نہ کرو۔۔۔۔۔مجھے پتہ ہے مجھے کہاں جانا ہے۔۔۔۔۔۔۔میں اپنی جگہ چھوڑنے والوں میں سے نہیں ہوں۔"

وہ کہہ کر سارہ کے کمرے کی طرف چلی گئی۔

صارم کے اندر خطرے کی گھنٹی بجی۔شک تو اسے پہلے سے ہی تھا وہ جو سارا دن ممی کے ساتھ جڑی انکے کان میں کھسر پھسر کرتی رہتی اور صارم کو دیکھتے ہی خاموش ہو جاتی۔اس سب سے وہ پہلے ہی الرٹ ہو چکا تھا لیکن اب نیہا کی بات نے شک پہ مہر لگا دی تھی۔

___________________________________

"پھر کیسا لگا میرا پلان؟"

سارہ نے جب نیہا کو اپنے پلان کے بارے میں بتایا تو کچھ دیر کے لیے وہ خاموش ہو گئی۔

"خالہ۔۔۔۔آپ ایک بار پھر سے سوچ لیں۔۔۔۔۔یہ نہ ہو لینے کے دینے پڑ جائیں۔۔۔۔۔۔یاد ہے انکل نے کہا تھا انکے نکاح کو دو ماہ ہو چکے ہیں۔۔۔۔۔اور وہ محترمہ یہاں آنے سے پہلے اس کے فلیٹ پہ تھی۔۔۔۔۔۔میرا نہیں خیال ہمارا یہ پلان کامیاب ہو گا۔"

وہ جو بات کھل کے نہیں کر رہی تھی۔سارہ نے اسے سمجھ کر قہقہہ لگایا۔

"نیہا سویٹ ہارٹ۔۔۔جو نظر میرے پاس ہے نا وہ تمہارے پاس کبھی نہیں آ سکتی۔۔۔تم دیکھنا تیر بالکل نشانے پہ بیٹھے گا۔دائم نے آتے ہی اسے طلاق دے کر گھر سے باہر نہ نکال دیا تو میرا نام بھی سارہ نہیں ہے۔۔۔اس گھر میں صرف اور صرف تم آؤ گی۔۔۔تمہاری جگہ میں کسی کو لینے نہیں دوں گی۔"

سارہ کی بات پہ نیہا نے انکے گلے میں بازو حمائل کیے۔

"آئی لو یو خالہ۔۔۔۔اگر آپ کو پورا یقین ہے تو ٹھیک ہے میں بھی آپکے ساتھ ہوں اور آپکی دوست کر دے گی نا کام۔۔۔۔۔یہ نہ ہو وہی منع کر دے اور سارا پلان چوپٹ۔"

"میرے بہت سے احسانات ہیں اس پر۔۔۔یہ ہو ہی نہیں سکتا وہ سارہ طلال کو انکار کر دے۔"

"خالہ وہ سب تو ٹھیک ہے مگر دائم۔۔۔۔۔کیا وہ یقین کر لے گا؟"

نیہا نے ایک اور پہلو اٹھایا۔

"کیوں نہیں کرے گا جب ثبوت اسکے ہاتھ میں ہو گا خود بخود یقین آ جائے گا۔۔۔۔اب تو آنکھیں ترس گئیں ہیں وہ سین دیکھنے کو۔"

سارہ ساتھ ساتھ ناخنوں پہ نیل پینٹ کے مختلف شیڈز کا کوٹ کر رہیں تھیں۔

"چلو ابھی سے ریڈی ہو جاؤ۔طلال کے آنے سے پہلے ہم نے واپس آنا ہے۔تب تک میں بھی تیار ہو لوں۔"

ان کے کہنے پہ وہ فوراً خوشی خوشی تیار ہونے چل دی۔

__________________________________

ایک گھنٹے بعد رابیل مین گیٹ سے نمودار ہوئی۔سن گلاسز بالوں میں اڑستے لاؤنج میں آئی جہاں صارم پہلے سے اس کے انتظار میں بیٹھا تھا۔

"تھینک گاڈ۔تم آگئی۔میں کب سے تمہارا انتظار کر رہا تھا۔"

"کیوں تم کیوں انتظار کر رہے تھے۔عدن کہاں ہے۔"

"بھابھی اپنے کمرے میں ہیں۔تم پہلے ادھر آکر بیٹھو مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔"

صارم کی تفصیلی بات سن کر اس کے چہرے پہ پریشانی کے سائے لہرائے۔

"اوہ گاڈ۔۔۔یہ لڑکی بالکل پاگل ہے تم رکو میں ابھی دیکھتی ہوں جا کر۔"

وہ افسوس سے سر ہلاتی سیڑھیوں کی جانب بڑھی۔

"باہر کونسا کرفیو لگا ہے جو تم اندر منہ گھسیڑے بیٹھی ہو۔"

آتے ہی دروازہ لاک کر کے غصے سے دیکھتی اس کی طرف مڑی۔

"اتنی دیر لگا دی تم نے۔۔۔میں کب سے تمہارا ویٹ کر رہی تھی۔"

اس نے کپڑوں کی تہہ لگا کر الماری میں رکھے۔

"تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے آخر۔۔۔چاہتی کیا ہو تم۔۔۔بچی ہو کیا جو مجھے ایک ایک بات سمجھانی پڑے۔"

"کیا ہو گیا ہے۔۔۔کیا تمہیں بھی نیہا نے آتے ہی میرے خلاف بھڑکا دیا ہے۔"

وہ حیرت سے اسے دیکھتی باقی کپڑے ٹیبل سے اٹھا رہی تھی۔

"اتنی جرأت نہیں ہے اس چھپکلی کی کہ میرے منہ لگ سکے۔وہ صرف انہی کے سامنے بولتی ہے جو تمہاری طرح آگے سے گونگا بہرا ہو۔"

"چھوڑو ان سب کو یہاں آکر بیٹھو اور میری بات سنو۔"

رابی نے اسے پکڑ کر سامنے بٹھایا۔

"یہ بتاؤ تمہیں کسی نے انعام دے دینا ہے کیا جو سارا دن کمرے میں بند رہتی ہو۔دس دن کے لیے گئے ہیں دائم بھائی ہمیشہ کے لیے نہیں چلے گئے۔ باہر کیوں نہیں نکلتی تم۔پتہ ہے ابھی صارم نے مجھے کیا کہا ہے وہ کہتا ہے تم پوچھو جا کے کیا مسئلہ ہے۔ بھابھی ہمارے پاس آ کے کیوں نہیں بیٹھتی۔اب بتاؤ کیا کہوں میں اسے کونسا چلہ کاٹ رہی ہو تم؟"

"تم اچھے سے جانتی ہو میں کیوں نہیں جاتی باہر۔نیہا اور آنٹی بات بات پہ شروع ہو جاتی ہیں۔میں تو کسی کو کچھ کہتی بھی نہیں ہوں پھر بھی وہ باز نہیں آتیں۔میں نہیں چاہتی میری وجہ سے گھر کا ماحول خراب ہو۔"

"واہ بھئی۔۔۔کیا کہنے ہیں تمہارے۔یعنی کہ تم اس چھپکلی سے ڈر رہی ہو۔عدن یہ تمہارا گھر ہے نیہا کا نہیں۔اب تم میریڈ ہو اپنی ترجیحات کو پہچانو۔تمہیں معلوم ہونا چاہیے تمہاری کیا حیثیت ہے اس گھر میں۔میں تو حیران رہ گئی جب صارم نے بتایا نیہا پارٹی کے بعد اپنے گھر ہی نہیں گئی بلکہ یہیں بیٹھی ہوئی ہے۔ خود سوچو کیا مقصد ہو سکتا ہے اسکا۔کیوں اتنے دنوں سے وہ یہاں پہ موجود ہے۔اتنی انسلٹ کی ہے اسکی سب نے مگر پھر بھی وہ اتنی ڈھیٹ ہے واپس تک نہیں گئی اور تم سب کچھ چھوڑ کے کمرہ بند کیے بیٹھی ہو۔ایک بات کان کھول کر سن لو اپنی ساس کے نزدیک تم ایک ناپسندیدہ ہستی ہو۔پارٹی میں دیکھا تھا نا انکا رویہ۔اسکا بس چلے تمہیں ایک دن اس گھر میں نہ گزارنے دے۔"

"یو نو ابھی صارم نے مجھے کہا ہے کہ نیہا اور آنٹی کے درمیان کچھ چل رہا ہے اور مجھے پورا یقین ہے وہ تمہیں اس گھر سے نکالنے کے منصوبے بنا رہی ہیں۔اگر تم اسی طرح خاموش بیٹھی رہی تو وہ دائم کے آنے سے پہلے تمہارا پتہ اس گھر سے صاف کر دیں گی۔یہ دونوں بہت شاطر عورتیں ہیں ان سے بچ کے رہو۔

آج بھی نیہا اس گھر میں آنے کے خواب دیکھ رہی ہے اسے دائم سے کوئی پیار محبت نہیں ہے وہ صرف اس سٹیٹس اور شان و شوکت کے لیے پاگل ہو رہی ہے جو دائم کی بیوی کی حیثیت سے تمہیں ملا ہے۔سارہ آنٹی نے تو ہمیشہ اسے یہاں لانے کا سوچا تھا لیکن قسمت کے کھیل کو کون جانتا ہے۔"

"اگر تم اس طرح انکی باتیں خاموشی سے سہتی رہی پھر انکا راستہ تو خود بخود صاف ہو جائے گا۔کچھ ہوش کے ناخن لو۔کیوں تمہاری مت مار ہو گئی ہے۔ایک بار وہ تمہیں اس گھر سے نکال دیں تو بتاؤ کہاں جاؤ گی تم۔کوئی اور ٹھکانہ ہے کیا ؟ ٹھیک ہے تم آنٹی کے سامنے مت بولو وہ بڑی ہیں۔مگر یہ نیہا کون ہوتی ہے تمہیں بات بہ بات ٹارچر کرنے والی۔ایک بار تم نے اسے ڈھنگ سے اپنی حیثیت باور کروائی ہوتی دوبارہ جرأت نہیں تھی اسکی تمہارے سامنے کچھ بھی بولنے کی۔مگر تمہیں شاید اپنی عزت نفس عزیز ہی نہیں ہے۔"

"شوہر تمہارا تمہارے پیچھے پاگل ہوا پھر رہا ہے۔صارم تمہاری ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔انکل نے کبھی کوئی اچھی بری بات نہیں کی۔ایک آنٹی ہی بچتی ہیں نا کیا تم ان کا بھی ڈھنگ سے مقابلہ نہیں کر سکتی۔جانتی ہو وہ سنگاپور جاتے ہوئے ایک ایک بندے کو تمہارا خیال رکھنے کو کہہ کر گیا ہے۔میلوں دور بیٹھ کر بھی اسے صرف تمہاری ٹینشن ہے۔علی کے اتنی بار کہنے کے باوجود میں تمہارے پاس نہیں آئی صرف اس لیے کہ اپنے مسئلے تم خود حل کرو۔تمہیں کسی سہارے کی ضرورت نہ پڑے مگر تم تو حد سے بھی بڑی بے وقوف نکلی۔میرا تو خیال ہے مجھے اسے فون کر کے کہہ دینا چاہیے کہ بھائی آپ اپنا سکون سے کام کرو کوئی ضرورت نہیں ہے واپس آنے کی کیونکہ تمہارے آنے تک تو تمہاری بیگم کا اس گھر سے ہمیشہ کے لیے صفایا ہو جائے گا۔"

"اللہ نہ کرے۔کیسی باتیں کر رہی تم۔"

اسکا دل لرز گیا۔وہ پریشانی سے اسکی باتیں سن رہی تھی۔

"غلط نہیں کہہ رہی میں دیکھو ابھی بھی تمہارے پاس وقت ہے۔انکی چالوں کو انہی پہ الٹ دو۔یہ گھر تمہارا ہے تم مالکن ہو اسکی۔صارم کی جب شادی ہو گی تو وہ اپنی بیوی کو انگلینڈ لے جائے گا یہاں ممی کا سر دبانے کو نہیں چھوڑے گا۔سو یہ گھر آج بھی تمہارا ہے اور کل کو بھی تمہارا ہی رہے گا اگر تم عقل سے کام لو۔جب تمہارا جینا مرنا اس گھر میں ہے تو کیوں اند چھپ کے بیٹھی ہو کونسا گناہ کیا ہے تم نے۔ "

"اب ذرا میری بات غور سے سنو۔یہاں پہ صرف انکل کا حکم چلتا ہے اور انکل تابعدار شوہروں کی طرح آنٹی کی ہر بات مانتے ہیں اور آنٹی کا دماغ نیہا کے قبضے میں ہے۔یعنی ان ڈائریکٹلی اس گھر میں اگر کچھ غلط ہو تو اس میں کسی نہ کسی طرح نیہا کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔اگر تم اس گھر میں قدم جمانا چاہتی ہو تو سب سے پہلے انکل کو اپنی سائڈ پہ کرو.ان سے باتیں کرو۔فرمانبردار بہو کی طرح ان سے چائے پانی پوچھو۔وہ ان سب کے عادی نہیں ہیں مگر جب تم یہ سب کرو گی تو انہیں خود عادت پڑ جائے گی۔ان سے سیاست پہ بات کرو۔مخالفین کی دو چار برائیاں کر دینا۔وہ آٹومیٹکلی امپریس ہو جائیں گے۔ٹھیک ہے ابھی وہ تم۔سے بات نہیں کرتے مگر کب تک جب تم ان سے ہر چیز ڈسکس کرو گی تو کم از کم وہ چپ کا لیبل تو منہ پہ نہیں لگائیں گے نا۔پھر دیکھنا تمہاری ساس کیسے جل کر کوئلہ ہو گی۔"

"اور صارم سے فرینکنیس بڑھاؤ۔وہ تو آل ریڈی تم سے فری ہے ایک بار کسی ٹاپک پہ بات شروع کر کے دیکھنا لڑی وہ خود ہی ٹوٹنے نہیں دے گا۔ملازمین کے کام پہ نظر رکھو۔گھر میں جو مہمان آئے اس سے اچھے طریقے سے ملو۔انکو اپنی باتوں سے اتنا امپریس کرو کہ اگلی بار وہ آ کر سب سے پہلے تمہارا ہی پوچھیں۔نیہا کی ایک بات کے جواب میں آگے سے دس سنایا کرو۔دیکھنا وہ چھپکلی کیسے سر پہ پاؤں رکھ کر یہاں سے بھاگے گی۔"

"آنٹی صرف انکل کے کہنے پر کچھ دنوں کے لیے گھر میں رکی ہوئی ہیں۔گھر کے معاملات میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔سو بہتر ہے انکی ناک کے نیچے ہر چیز اپنے انڈر کر لو۔ابھی سے سب کچھ سنبھال لو گی تو تمہارا ہی فائدہ ہے ورنہ میں لکھ کے دے دیتی ہوں دائم کے آنے سے پہلے وہ تمہیں اس گھر سے نکال دیں گی۔اس کے تو اب آئے دن ٹور رہا کریں گے کبھی اس ملک تو کبھی اُس ملک۔جب وہ جایا کرے گا تم اسی طرح ڈر کر کمرے میں بیٹھ جایا کرو گی؟ تم میں اتنی بھی ہمت نہیں ہے کہ خود کو پروٹیکٹ کر سکو۔اس کلاس میں موو کرنا سیکھو۔"

"یہ باتیں میں تمہیں آج بتا رہی ہوں روز روز نہیں بتاؤں گی۔اتنی کامن سینس تو ہر لڑکی میں ہوتی ہے تمہاری عقل گھاس چرنے چلی گئی ہے کیا؟ میں تمہیں بتا بھی نہیں سکتی مجھے کتنا غصہ آ رہا ہے تم پہ اور یہ کیا سر جھاڑ منہ پھاڑ حلیے میں بیٹھی ہوئی ہو۔تم سے اچھی تو عظمیٰ ہے کم سے کم بن سنور کے تو رہتی ہے۔اپنے اندر کانفیڈینس پیدا کرو۔یہ دنیا معصوم لوگوں کو جینے نہیں دیتی۔کیوں تم اپنے پاؤں پہ خود کلہاڑی مار رہی ہو۔"

رابیل کی ساری باتیں اسکے دل میں اتر رہی تھیں۔

"پھر اب کیا کروں میں؟"

بمشکل آنکھوں میں آئی نمی کو واپس دھکیل کر پوچھا۔

"سب سے پہلے اٹھو۔شاور لو اور اچھے سے ڈریس اپ ہو کر نیچے آؤ۔اگر آئندہ تم نیہا سے ڈری یا اس کی بات کے جواب میں آگے سے کچھ نہ کہا تو دیکھنا میں کیا حال کرونگی تمہارا۔اب دس منٹ میں فریش ہو کر نیچے آؤ میں نیچے جا رہی ہوں۔اور جو باتیں میں نے کہیں ہیں ان پہ عمل بھی کرو ورنہ تمہارا بوریا بستر یہاں سے گول ہونے میں ٹائم نہیں لگے گا۔"

رابی اسے کہہ کر نیچے چلی گئی۔

صارم ابھی بھی لاؤنج میں بیٹھا اس کے نیچے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔

"کچھ زیادہ ہی لمبی کانفرنس نہیں ہو گئی تم لوگوں کی۔۔۔کچھ سمجھ بھی آیا بھابھی کو یا نہیں؟"

"برین واشنگ کردی ہے میں نے اسکی۔امید ہے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔تم نے واپس کب جانا ہے۔"

"جانا تو میں نے آج کل میں ہی تھا مگر ڈیڈی نے کہا ہے ابھی ایک ماہ رک جاؤ خطرہ ٹل جائے پھر جانا۔"

"ہاں بس تمہاری بار انہیں خطرہ نظر آ رہا ہے۔دائم کی بار کوئی خطرہ نہیں تھا بیچارے کو اتنی دور بھیج دیا۔"

"ارے نہیں ڈیڈی نے تو اسے بھی کہا تھا بلٹ پروف جیکٹ پہن کے جاؤ مگر اس نے کہا نو پرابلم ڈیڈی۔میری بیوی کی دعائیں میرے ساتھ ہیں۔مجھے کچھ نہیں ہو گا۔"

"ہائے اسکی بات پہ نیہا تو جل بھن گئی ہو گی۔"

"تو اور کیا بےچارہ ممی اور نیہا کو دیکھتے ہوئے آل تو جلال تو پڑھتا گیا۔"

"رابی مجھے ممی کے تیور ٹھیک نہیں لگ رہے۔کہیں اب وہ مجھے دائم کی جگہ قربانی کا بکرا نہ بنا دیں۔تمہاری نظر میں کوئی لڑکی ہو تو مجھے ضرور بتانا۔"

"ہاں بالکل ہے یہ چھپکلی۔اس سے کروا لو اور پلیز اسے اپنے ساتھ ہی لے جانا تاکہ عدن بھی کچھ ریلیکس ہو سکے۔"

اس کی بات پہ صارم نے بلند آواز میں استغفار پڑھا۔

"ویسے رابی انگلینڈ بہت زبردست ہے۔"

"ہو گا مجھے کیا۔مجھے اپنے ملک سے زیادہ کچھ بھی عزیز نہیں ہے۔"

اس نے محب وطن ہونے کا پورا پورا ثبوت دیا۔

"تو میں نے کب کہا انگلینڈ مجھے پاکستان سے زیادہ عزیز ہے۔اپنے ملک کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔میں تو گھومنے پھرنے کے لیے کہہ رہا تھا۔تم دیکھنا میں تمہیں وہاں پہ ایک ایک جگہ گھماؤں گا۔"

بات مکمل کرنے کے بعد وہ رابی کے سامنے پڑے کرسٹل واز کو دیکھتے ہوئے احتیاط کے مارے اٹھ کر دوسرے صوفے پہ منتقل ہو گیا۔

اسکی بات پہ رابیل کے دماغ کی سوئیاں مکمل کلاک وائز گھومیں۔کھڑے ہو کر کمر پہ ہاتھ رکھے کڑے تیوروں سے اسے گھورا۔

"کیا مطلب ہے تمہارا؟"

"دیکھو تم مجھے ممی کے عتاب کا نشانہ بننے سے بچا سکتی ہو پلیز۔"

"میں سر پھاڑ دوں گی تمہارا دوبارہ ایسا سوچا بھی تو۔تم نے مجھے اس لیے بلایا تھا کیا؟"

"کیوں تمہارا کیا خیال ہے میں ساری عمر تمہارے بھائی کے بقول ستر حوروں کی آس پہ بیٹھا رہوں۔کیا صارم طلال کا اس دنیا کی خوشیوں پہ۔کوئی حق نہیں۔"

"خبردار اگر تم نے یہ بات کسی اور سے کی نہیں تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔"

"نہیں تو۔۔۔۔نیہا تم سے زیادہ بری ہے۔مجھے کم برے لوگ ہی پسند ہیں۔بس اب میں نے سوچ لیا ہے۔ اٹس فائنل۔"

"شٹ اپ۔جہاں سے آئے ہو وہیں واپس جاؤ اور ساتھ اس چھپکلی کو لے جاؤ۔آئندہ میں ہرگز تم سے بات نہیں کرونگی۔"

"تم نہ کرنا ۔اب میں بات کرونگا تم سے نہیں تمہارے گھر والوں سے۔بلکہ میں تو چاہتا ہوں ایک منتھ بعد ہم لوگ اکٹھے انگلینڈ جائیں۔"

"آؤ آو تم بھی آؤ وہاں کیوں رک گئی۔سنو یہ کیا کہہ رہا ہے۔بس اب یہ میرے ہاتھوں نہیں بچے گا۔"

عدن جو رابیل کے تیوروں دیکھ کر سیڑھیوں پہ ہی رک گئی تھی حیرت سے نیچے آئی۔

"کیا ہوا ہے؟کیوں شور مچا رہی ہو؟"

"پوچھو اس سے یہ کیا بک رہا ہے۔"

"توبہ توبہ۔ابھی مجھے کہہ رہی تھی اگر کسی اور سے بات کی تو تمہارا سر پھاڑ دونگی اب کیسے خوشی خوشی بھابی کو بتا رہی ہو۔کتنی چالاک ہو تم۔بھابھی آپ ادھر آئیں۔سمپل سی بات ہے میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔دائم میرے سے تین سال چھوٹا ہے اسکی ہو گئی ہے کیا میری نہیں ہو سکتی۔اس سے اچھی بات اور کیا ہو گی کہ آپ دونوں سہیلیاں اکٹھی ہو جائیں اور نیہا سے ہماری جان چھوٹ جائے۔کہیے کیسا خیال ہے۔"

"میں ہرگز تم سے شادی نہیں کروں گی۔نکال دو اپنے ذہن سے اس خیال کو۔"

رابیل عدن کو پیچھے کرتی خود اسکے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

"ٹھیک ہے تم نہ کرنا۔میں تم سے کر لوں گا۔اب تو کوئی اعتراض نہیں ہے ؟"

نیہا کوفت سے انکا شور سنتی کمرے سے نکلی۔

"یہ کیا تم سب نے شور مچایا ہوا ہے۔آہستہ نہیں بول سکتے۔"

جینز کے ساتھ وائٹ کلر کی شرٹ پہنے گلے میں رنگ برنگی مالا لٹکائے وہ ماتھے پہ تیوری لیے کھڑی تھی۔

"آئیے آئیے نیہا بی بی۔آپکے لیے ایک گڈ نیوز ہے۔

صارم طلال عنقریب گھوڑی چڑھنے والا ہے۔"

صارم نے دور کھڑی نیہا کو خوشخبری سنائی۔

"نہیں صارم بھائی ایسا کہیں نیہا تمہارے دوسرے بھائی کی بھی شادی ہونے والی ہے۔"

اس کی بات پہ ان تینوں نے جھٹکا کھا کر عدن کی طرف دیکھا۔رابی اور صارم فوراً ہی حیرت کے جھٹکے سے نکل کر ہنس ہنس کر صوفوں پہ گر گئے۔

"اگزیکٹلی بھابھی ایگزیکٹلی۔نیہا کھلواؤ بوتلیں اور بلواؤ ڈی جے کو

تمہارے دوسرے ویر کی بھی ویڈنگ ہے۔"

جبکہ نیہا ابھی تک حیرانگی سے عدن کو دیکھ رہی تھی جو اسے مکمل اگنور کیے صارم اور رابی کا پورا پورا پورا ساتھ دے رہی تھی۔

رابیل کی ڈانٹ کا اثر واضح تھا۔

یہ وہ عدن تو نہیں تھی جو اسکی باتیں سن کر خاموشی سے اٹھ کر چلی جاتی تھی۔وہ حیرت سے اسے دیکھتی سارہ کو بلانے چل دی۔

"ویری گڈ۔بس اسی طرح رہنا ہے۔کسی بھول چوک کی گنجائش نہیں ہے اب۔"

نیہا کے جاتے ہی رابی نے اسکا کندھا تھپک کر داد دی۔

"اب جب انکل آئیں تب بھی اسی طرح رہنا۔واپس اپنے خول میں سمٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔پھر دیکھنا سب کچھ سیٹ ہو جائے گا۔بس تھوڑی سی ہمت کی ضرورت ہے۔"

وہ اسے آہستہ آہستہ سمجھا رہی تھی۔

"یہ تم دونوں کیا کھسر پھسر کر رہی ہو۔"

صارم تک جب انکی آواز نہ پہنچی تو اس نے بے چینی سے پوچھا۔

"تمہیں کیا ہم جو مرضی بات کریں۔تم اپنے کام سے کام رکھو۔"

رابی نے ہنہہ کر کے اسے دیکھا۔

"بھولو مت یہ مشورہ تمہیں میں نے ہی دیا تھا سو سارا کریڈٹ مجھے ہی جاتا ہے۔ چلو مجھے ملے یا تمہیں بات تو اب ایک ہی ہے۔"

"میرے ساتھ زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ہرگز بات نہ کرنا میرے سے۔"

تبھی سارہ بازو میں میچنگ ہینڈ بیگ لٹکاتی باہر آئیں۔

"ہیلو رابیل۔۔۔ کیسی ہو بیٹا؟"

"ہائے آنٹی۔۔آئی ایم فائن۔۔۔آپ کیسی ہیں؟"

اس نے کھڑے ہو کر سارہ کے گال کے ساتھ گال مس کیے۔

"استغفراللہ۔"

منہ پہ ہاتھ رکھے صارم کی بڑبڑاہٹ واضح سنائی دی۔

"کہیں جا رہی ہیں آپ ؟"

"ہاں یہ نیہا نے کچھ شاپنگ کرنی ہے سو اسی لیے۔تم بیٹھو ہاں۔۔۔اوکے سی یو۔"

وہ مسکراہٹ اچھالتی باہر کی جانب بڑھیں۔نیہا بھی انکے پیچھے ہو لی۔

"عظمیٰ جلدی سے لنچ کی تیاری کرو۔ٹائم ہونے والا ہے۔"

لاؤنج سے قدم باہر رکھتی نیہا نے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا جو عظمیٰ کو حکم دے کر اب مسکراتے ہوئے موبائل پہ کچھ ٹائپ کر رہی تھی۔

عدن کی بات پہ صارم کو جو کھانسی سٹارٹ ہوئی وہ پھر رابی کا کرسٹل واز کی طرف بڑھتا ہاتھ دیکھ کر ہی رکی۔ 

"یہ اسے ایک ہی دن میں کیا ہو گیا ہے۔"

نیہا الجھتے ہوئے اسے دیکھتی سارہ کی طرف بڑھی جو اسے آوازیں دے رہی تھیں۔

_______________________________

"وہ سب تو ٹھیک ہے مگر کوئی مسئلہ نہ ہو جائے۔"

شمائلہ (سارہ کی دوست) نے ساری بات سننے کے بعد پریشانی سے ان دونوں کو دیکھا جو ریلیکس انداز میں بیٹھیں اسے مخمصے میں ڈال گئی تھیں۔

"کیوں مسئلہ ہو گا۔۔۔تم۔بس وہ کرو جو میں کہہ رہی ہوں۔"

"سارہ ایک بار پھر سوچ لو۔یہ کوئی معمولی سٹیپ نہیں ہے اگر کوئی انکوائری ہو گئی تو۔۔۔؟"

"کمال کرتی ہو تم بھی۔۔۔ہم نے کونسا یہ کیس عدالت میں لے کے جانا ہے جو انکوائری ہو گی۔"

سارہ نے نخوت سے کہا۔

"آنٹی آپ پلیز وہ کریں جو خالہ نے آپ سے کہا ہے۔ڈرنے یا گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے۔ہم سب کچھ ہینڈل کر لیں گے۔آپ پر کوئی بات نہیں آئے گی۔"

نیہا نے شمائلہ کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔

"اوکے۔۔۔نام کیا ہے اس لڑکی کا؟"

"عدن۔۔۔نہیں نہیں عدن دائم۔"

سارہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ٹ"ھیک ہے بس آدھے گھنٹے تک کام ہو جائے گا۔"

ا"وکے ہم لوگ ویٹ کر رہے ہیں یہیں پر۔۔۔تم آؤ واپس جلدی۔"

وہ سارہ کی بات پہ سر ہلاتی کمرے سے نکل گئی۔

__________________________________ 

کچھ دیر بعد طلال نے گھر میں حاضری دی۔

"السلام علیکم انکل۔"

رابیل نے انہیں دیکھتے ہی سلام کیا۔

"وعلیکم السلام۔۔۔کیسی ہو بیٹا؟"

"میں بالکل ٹھیک۔۔۔آپ کیسے ہیں؟"

"فائن۔۔۔اور مرتضیٰ کیسا ہے کافی دن ہو گئے اس سے ملاقات ہوئے۔"

"ڈیڈی بھی بالکل فٹ۔۔۔بس بزی بہت ہیں انہیں تو گھر آنے کا بھی ٹائم نہیں ملتا۔اسی لیے تو پارٹی میں بھی نہیں آئے۔"

رابیل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

"آئی سی۔۔۔میں تھوڑا سا فری ہو جاؤں پھر لگاؤں گا چکر۔کافی دیر ہو گئی ہے اس سے ملے۔"

"شیور۔۔۔وائی ناٹ۔"

"جی جی۔ڈیڈی آپ بس جلدی سے فری ہوں پھر ہم سب اکٹھے چلیں گے۔دائم بھی آ جائے گا تب تک۔آسانی رہے گی۔"

آخری فقرہ وہ منہ میں ہی بڑبڑایا۔

صارم کی بات پہ رابیل نے آنکھیں گھما کر اسے دیکھا جو طلال کے ساتھ بیٹھا مسکراتے ہوئے چیلنجنگ انداز میں اسے دیکھ رہا تھا۔

"ڈیڈی۔۔۔پانی پی لیں۔"

عدن کے پانی لانے پر ان دونوں نے مسکراہٹ چھپانے کو منہ پہ ہاتھ رکھا۔

طلال نے پانی پی کر گلاس واپس رکھ دیا۔

"تمہاری ممی کہاں ہیں؟"

انہوں نے صارم سے پوچھا جبکہ جواب بہو کی طرف سے آیا۔

"ڈیڈی۔۔۔وہ نیہا اور ممی باہر گئیں ہیں۔"

"کیوں؟"

"نیہا نے شاپنگ کرنی تھی۔۔۔اسی لیے۔"

"اوہ نو۔۔۔اتنی بار سارہ سے کہا ہے ابھی ٹھہر جائیں گھر میں کچھ دن۔۔۔سیکیورٹی لی ہے ساتھ یا ویسے ہی چلی گئیں ہیں؟"

"ریلیکس ڈیڈی۔۔۔ممی کو بے شک جان عزیز نہ ہو مگر نیہا کو اپنی زندگی بہت عزیز ہے۔حالانکہ اسے کسی نے مار کے کیا لینا ہے مگر وہ بغیر سیکیورٹی کے قدم بھی باہر نہیں رکھتی۔"

صارم کی بات پہ وہ مسکراتے ہوئے اٹھ کر کمرے کی جانب بڑھے۔

"ڈیڈی آپ چائے پیئیں گے یا لنچ ہی لگواؤں۔"

عدن کی بات پہ اب کی بار طلال نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔

"نہیں چائے نہیں۔۔۔اب لنچ ہی کریں گے۔ "

وہ کہہ کر کوٹ کے بٹن کھولتے کمرے میں چلے گئے۔

"ویلڈن بھابی ویلڈن۔۔۔آپکی یہ پرفارمنس دائم دیکھ لے نا تو اسے تین دن ہوش نہیں آئے گا۔"

صارم کی بات پہ ہنستے ہوئے وہ کچن میں موجود عظمیٰ سے لنچ کا کہنے لگی۔

____________________________________

"ڈیڈی۔۔۔کل والے دھماکے کے بارے میں کوئی انفارمیشن ملی۔۔۔کس نے کروایا یہ۔۔۔مجھے تو مخالف پارٹی کی سازش لگ رہی ہے۔"

اس نے بریانی کی ڈش طلال کی جانب بڑھاتے (رابیل کی ہدایات پہ پورا پورا عمل کرتے) نارمل انداز میں کہا۔

"آف کورس۔انہوں نے ہی کروایا ہے۔میڈیا اس چیز کو شو آف نہیں کر رہا لیکن بات تو صاف ظاہر ہے۔جلسہ ہونے سے دس منٹ پہلے دھماکہ کیا معنی رکھتا ہے۔وہ چاہتے ہی یہ تھے کہ ہم جلسہ نہ کریں۔"

عدن نے تائیدی انداز میں سر ہلایا۔

"ایگزیکٹلی۔۔۔صرف تین تو دن ہیں پیچھے۔۔۔اس طرح ایک دن میں ایک ہی جگہ پہ دو دھماکے وہ بھی صرف آدھے گھنٹے کے فرق سے اس سے کارکنوں میں بہت خوف و ہراس پھیل گیا ہو گا۔"

"ظاہری بات ہے جان سے زیادہ تو کچھ عزیز نہیں ہوتا۔مگر کب تک کریں گے یہ ایسی حرکتیں۔ہماری جیت اٹل ہو گی انشااللہ۔"

رابیل اور صارم لنچ کرتے ہوئے سسر اور بہو کے درمیان ہونے والی گفت و شنید سن رہے تھے۔بیگانگی کی یہ دیوار آہستہ آہستہ گر جائے گی۔ رابیل کو یقین تھا۔

"ڈیڈی دائم تو ووٹ کاسٹ نہیں کر سکے گا اس بار۔"

صارم نے کہا۔

"ہاں۔۔۔مجھے خود افسوس ہے ایک ووٹ ضائع ہو گیا۔"

"چلیں دائم نہیں ہے بھابھی تو ہیں نا۔۔۔ووٹ تو پھر پورے ہیں ہمارے۔"

طلال نے اس کی بات پہ سر ہلایا۔ 

"انکل ایک بار نیہا سے بھی کنفرم کر لینا تھا کہیں وہ مخالف پارٹی کی طرف ہی نہ ہو۔"

رابیل کی بات پہ آج بہت دنوں بعد طلال کا پر زور قہقہہ گھر میں گونجا تھا۔

"بھئی تم لوگ کیوں اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہو۔وہ اکیلی تم سب پہ بھاری پڑ جائے گی۔"

"نو نو ڈیڈی۔۔۔ہر گز نہیں۔اب ہم سب ایک پارٹی ہیں۔آپ،بھابی،دائم،رابیل اور میں۔ہم پانچوں ایڑی چوٹی کا زور لگا کر نیہا کو یہاں سے نکال دیں گے۔"

ان کے قہقہے پہ گھر میں داخل ہوتی سارہ اور نیہا نے حیرانگی سے سب کو دیکھا۔

"خیریت تو ہے نا آج۔۔۔؟"

سارہ مسکراتے ہوئے ڈائیننگ ٹیبل کی طرف آئیں۔

"ممی آپکا ویٹ کر کر کے ہم نے لنچ سٹارٹ کر دیا۔آئیں آپ بھی جوائن کریں۔"

کسی کے بولنے سے پہلے ہی بہو کی طرف سے آنے والے جواب پہ سارہ کی پیشانی شکن آلود ہو گئی۔

"نو تھینکس۔۔۔ابھی موڈ نہیں ہے میرا۔"

انہوں نے کہتے ہوئے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا جو اب فروٹ ٹرائفل طلال کے سامنے رکھ رہی تھی۔

نیہا کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کر کے وہ اپنے کمرے میں چل دیں۔

رابیل کی نظریں انکے خالی ہاتھوں کی طرف تھیں جہاں کوئی شاپنگ بیگ موجود نہ تھا۔

________________________________

کمرے میں آتے ہی نیہا نے زور سے بیگ زمین پہ مارا۔

"دیکھ رہی ہیں آپ اسکو۔۔۔کچھ زیادہ ہی اوور نہیں ہو رہی یہ۔۔۔کل تک تو منہ میں زبان بھی نہیں تھی۔آج کیا ہو گیا۔۔۔اور انکل کو دیکھا تھا کیسے ہنس رہے ہیں۔"

اس نے آتے ہی فرسٹیشن نکالنی شروع کر دی۔

"بی ریلیکس۔۔۔صرف کچھ دن رہتے ہیں دائم کے آنے میں۔۔۔اڑنے دو اس کو جتنا اڑ ہوتا ہے جتنا اونچا اُڑے گی اتنی بلندی سے زمین پہ آئے گی۔"

"پتہ نہیں۔۔۔آپ کیسے ریلیکس بیٹھی ہیں۔۔۔مجھے تو ہول اٹھ رہے ہیں۔۔۔کیسے بن ٹھن کے پھر رہی ہے وہ۔۔۔؟"

"پلیز نیہا جب ہم اسکا انتظام کر چکے ہیں پھر کیا مسئلہ ہے۔جسٹ دائم کا ویٹ کرو اسکے آتے ہی کچھ ختم۔۔۔"

سارہ نے کہتے ہوئے ہاتھ جھاڑے۔

"اوکے۔پھر اسے سنبھال کر لاکر میں رکھیں۔"

نیہا نے انکے پاس پڑے پرس کی جانب اشارہ کیا۔

"نہیں لاکر میں طلال کے بہت سے ڈاکومنٹس ہیں۔انکے ہاتھ نہیں لگنا چاہیے۔تم اسے اپنے پاس رکھو میں لے لوں گی پھر۔"

"ٹھیک ہے۔"

________________________________

شام تک رابیل اس کی جانب سے مطمئن ہو گئی۔

"بس اب مجھے یقین ہے تم اسی طرح ہر چیز کو کور کر لو گی۔بیسٹ آف لک۔اب میں چلتی ہوں۔امی نے کہا تھا جلدی آنا اب تو شام ہو گئی ہے۔"

"تم کیسے جاؤ گی۔آؤ میں چھوڑ آتا ہوں۔"

صارم نے فورا پیشکش کی۔

"بہت شکریہ۔میرا ڈرائیور آ رہا ہے۔تم اس نیہا کو چھوڑ آؤ یہی احسان عظیم ہو گا۔"

"اب تم میری ذمہ داری ہو۔میں تمہیں کیسے ڈرائیور کے ساتھ بھیج سکتا ہوں۔"

صارم نے خود پہ صدماتی کیفیت طاری کرتے کہا۔

"شٹ اپ۔۔۔چپ کر کے بیٹھے رہو۔میرے منہ سے کچھ سن نہ لینا۔"

تبھی ملازم نے ڈرائیور کے آنے کی اطلاع دی۔

"جا رہی ہوں میں اور آئندہ کبھی اس گھر میں نہیں آؤں گی۔"

"ہاں ہاں ہرگز نہ آنا۔جب تک میں تمہیں ڈھول باجوں کے ہمراہ لینے نہ آؤں۔"

"بھاڑ میں جاؤ۔"

وہ کہہ کر پیر پٹختی ہوئی چلی گئی۔

سارے دن کی پرفارمنس کے بعد وہ رات کو تھکی ہوئی کمرے میں آئی ہی تھی کہ فون کی ٹیون بجنے لگی۔اسکرین پہ ابھرتا نام دیکھ کر چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی۔

"السلام علیکم۔"

"وعلیکم السلام۔۔۔آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے۔۔۔ یہ صارم کیا بتا رہا ہے مجھے؟"

جواب میں دائم کو اسکی ہنسی سنائی دی تھی۔وہ جانتی تھی صارم نے اسے کیا بتایا ہو گا۔

"کیا بتایا ہے صارم نے؟"

"وہ کہہ رہا ہے بھابی فل فارم میں آئی ہوئی ہیں۔"

"ایک تو یہ صارم بھائی کے پپٹ میں کوئی بات نہیں رہتی۔"

"عادی؟"

اس نام پہ عدن کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی تھیں۔وہ جس دن سے گیا تھا اسے اسی نام سے بلا رہا تھا۔اب بھی اس کے اس طرح پکارنے پر میلوں دور بیٹھی عدن کی ہتھیلیوں میں پسینہ اتر آیا تھا۔

"جی ؟"

"پلیز نیہا کے منہ مت لگو۔اسے کسی کا احساس نہیں ہے وہ سب کو ایک ہی طرح ڈیل کرتی ہے۔میں نہیں چاہتا آپکو کوئی بھی نقصان پہنچے۔پلیز میرے آنے تک اپنا خیال رکھو۔"

"میں بالکل ٹھیک ہوں۔آپ بلا وجہ پریشان مت ہوں۔"

"میں آپکے لیے پریشان نہیں ہوں گا تو کون ہو گا ؟"

اس کے کہنے پہ عدن کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

"ہاں بس ڈیڈی کے ساتھ فرینک رہنا۔وہ غصے والے لگتے ہیں مگر ہیں نہیں۔"

"ایک بار مجھے آ لینے دو بس کچھ دن رہ گئے ہیں۔پھر جو چاہے کرتی رہنا۔"

"کب تک آئیں گے آپ ؟"

"میرا بس چلے تو اڑ کے آ جاؤں۔بٹ آئی نو اڑ کے آنے کے بعد ڈیڈی کے جوتے کھا کے مجھے پھر واپس جانا پڑے گا۔اسی لیے بہتر ہے کام ختم کر کے آؤں گا۔بس کچھ دن ہیں۔"

"اوکے۔"

چلیں اب آپ سو جائیں۔۔۔مجھے کل کی پریزینٹیشن تیار کرنی ہے۔۔۔صبح بات ہو گی۔"

"ٹھیک ہے۔"

ٹ"یک کئیر۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔گڈ نائٹ۔۔۔ہیو سویٹ ڈریمز۔"

"سیم ٹو یو۔۔"

عدن نے سارے اسکے سارے الفاظ کے جواب میں فقط ایک جملہ کہا۔

"آئی مس یو سو مچ۔"

اسکے اب کی بار بولے جانے والے فقرے پہ وہ خاموش رہی تھی۔

"اسکے جواب میں بھی سیم ٹو یو کہہ ہو جاتا ہے۔"

دائم کی خفگی بھری آواز آئی۔

"ٹیک کئیر۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔گڈ نائٹ۔۔۔ہیو سویٹ ڈریمز۔"

اس نے مس یو کے جواب میں کہہ کر ہنستے ہوئے فون بند کر دیا۔

____________________________________

دن گزر رہے تھے۔طلال اور اسکے درمیان حائل بیگانگی کی دیوار میں سوراخ ہونے شروع ہو چکے تھے۔

اب بھی طلال باہر جانے کے لیے تیار کھڑے نیوز چینل پہ آتی اپ ڈیٹس کو دیکھ رہے تھے۔

"شرفو!میرے کمرے سے ریڈ کور والی فائل لے کر آؤ۔۔۔ٹیبل پہ پڑی ہے۔"

انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے شرفو کو آواز دی۔

"یہ لیں ڈیڈی۔۔"

کچھ دیر بعد عدن ہاتھ میں فائل تھامے ان تک آئی۔

"تم رہنے دیتی۔۔۔میں نے شرفو سے کہا تھا۔"

"وہ نہیں ہے یہاں پہ۔۔۔آپ انتظار کر رہے تھے اس لئے میں لے آئی۔۔۔اٹس اوکے۔۔۔نو پرابلم۔"

اس نے فائل انکی جانب بڑھائی۔

"تھینک یو بیٹا۔"

طلال مسکراتے ہوئے اس سے فائل پکڑ کر باہر چلے گئے۔

اس نے فاتح نظروں سے صارم کی جانب دیکھا جو بڑے غور سے پنجابی گانے سنتے ہوئے اسے تھمبز اپ کہہ رہا تھا۔

عدن کے ریموٹ کنٹرول سے چینل چینج کرنے پہ اس نے فوراً دہائی دی۔

"ارے۔۔۔۔ وہی چلنے دیں۔ورنہ میں ہار جاؤں گا مجھے یہ سارے لازمی یاد کرنے ہیں۔"

"کیوں؟"

اس نے حیران ہو کے پوچھا۔

"علی نے کہا تھا اگر خدانخواستہ تمہاری شادی ہو گئی تو ٹپے گا گا کے ہم نے دلہن والوں کو ہرا دینا ہے مگر اب تو وہ خود دلہن کی طرف ہو گا۔اس لئے مجھے یاد کرنے دیں کہیں ہم لوگ پیچھے نہ رہ جائیں۔"

"اف اللہ۔۔۔ واقعی علی کو بہت گانے آتے ہیں۔"

اس نے ہنستے ہوئے کہا۔

"تو اور کیا۔اس لئے تو میں کہہ رہا ہوں مجھے یاد کرنے دیں۔آپ نے یہ سیاسی ٹاک شو دیکھ کے کیا کرنا ہے۔واپس لگائیں ادھر"

"ایک لفظ نہیں پتہ مجھے سیاست کے بارے میں۔ڈیڈی سے بات کرنے کے لیے کوئی انفارمیشن تو ہو میرے پاس اس کے متعلق۔"

"اب ضرورت نہیں ہے۔اب ڈیڈی ہماری طرف ہو گئے ہیں۔آپ بس وہی گانا لگائیں۔یو نو میں نے ایک ٹپہ یاد کر لیا ہے۔"

صارم نے فخر سے کالر اکڑائے۔

"کونسے والا؟"

دودھ کڑھ کے ملائی ہو گیا،دودھ کڑھ کے ملائی ہو گیا

ہن میرا ویاہ کرا دو ، منڈا پڑھ پڑھ کے سپائی ہو گیا۔

اس کے کہنے پہ عدن کا پہلی بار زندگی سے بھرپور قہقہہ طلال ہاؤس میں گونجا تھا۔

"واؤ زبردست۔۔"

اس نے ٹالی۔بجا کر داد دی۔

"شکریہ شکریہ۔۔۔یہ میرے دل کے سب سے بڑے خانے کی آواز ہے۔"

تبھی سارہ عظمیٰ کو اسٹابری شیک کا کہتی ہوئی انکی جانب آئیں۔چہرے پہ ہمہ وقت رہنے والی مسکراہٹ عدن کو ہنستا دیکھ کر فوراً غائب ہوئی۔

"کیا ہو رہا ہے؟"

"ممی ہم صارم بھائی کی شادی میں گانے کے لیے ٹپے سیلیکٹ کر رہے ہیں۔"

"یہ میں تمہاری ممی کیسے ہوئی۔۔۔آج کے بعد مجھے ممی مت کہنا۔"

وہ کہہ کر دوسری جانب دیکھنے لگیں۔

"جب آپ دائم کی ممی ہیں تو ان کے حوالے سے میں بھی آپ کو ممی ہی کہوں گی۔"

سارہ نے اسکے جواب پہ سلگ کر دیکھا۔تبھی نیہا انکے کان کے قریب آئی۔

"یہ حوالہ زیادہ دیر نہیں رہنا ممی جی۔"

نیہا کے کہنے پہ ان کے چہرے کے زاویے ڈھیلے پڑ گئے۔

"بھابھی آپ ممی کو بیشک ممی مت کہیں مگر مجھے صارم ہی کہیں جتنی آپ مجھے عزت دیتی ہیں اتنی تو کبھی کسی نے نہیں دی۔ایون میری ہونے والی بیوی بھی مجھے تم کہتی ہے۔"

اس کی بات پہ سارہ نے حیرت سے دیکھا۔

"کونسی ہونے والی بیوی؟"

نو نو۔۔۔اٹس آ ٹاپ سیکرٹ ممی۔ابھی نہیں بتانا میں نے۔بھابھی آپ بھی کسی کو نہ بتانا۔"

"اوہ تو اب تم ماں کی بجائے اس کل کی آئی لڑکی سے ٹاپ سیکرٹ شئیر کرنے لگے ہو۔"

سارہ کے کہنے پہ عدن کا چہرہ پھیکا پڑا۔

"بالکل کیوں کہ یہ کل کی آئی لڑکی میری بہن پہلے اور بھابی بعد میں ہے۔۔۔بھابھی دائم کو بھی نہ بتانا ہم اسے سرپرائز دیں گے۔"

اس کی بات پہ نیہا طنزیہ مسکرائی۔

"اور کتنے سرپرائز دینے ہیں تم لوگوں نے دائم کو۔وہ تو پہلا سرپرائز دیکھتے ہی ڈھے جائے گا باقیوں کی تو ضرورت ہی نہیں پڑنی۔"

نیہا کی بات پہ سارہ نے فوراً سختی سے اسکا ہاتھ دبایا۔

"کیوں تم نے ایسا کونسا سرپرائز دینا اسے۔"

صارم نے اچھنبے سے پوچھا۔

"تمہارے ڈیڈی کی جیت۔۔۔اس سے بڑا بھی کوئی سرپرائز ہو سکتا ہے کیا۔"

سارہ نے فوراً بات سنبھال کے نیہا کو گھور کے دیکھا جو زبان پھسلنے پر کھسیانی سی ہو گئی تھی۔

____________________________________

آج الیکشن تھے۔طلال پچھلے دو دنوں سے گھر نہیں آۓ تھے۔اور اب سب بے چینی سے نیوز چینلز پہ آنے والے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کو ددیکھ رہے تھے۔

"یہ کیوں نہیں بتا رہے ڈیڈی جیت گئے ہیں۔اوپر سے فون بھی آف جا رہا ہے ڈیڈی کا آدھے گھنٹے سے ٹرائی کر رہا ہوں۔"

"بھئی ظاہری سی بات ہے غیر سرکاری نتائج میں بھی تو ہماری ہی پارٹی آگے ہے۔فائنل رزلٹ بھی ڈیڈی کے حق میں ہو گا۔"

عدن نے چہرہ ہتھیلی پہ رکھے اسکرین سے نظریں ہٹا کر کہا۔

"میرا خیال ہے تم لوگ جاؤ اپنے اپنے کمرے میں۔نئے اور نیہا ویٹ کرتے ہیں طلال کا اور کچھ دیر۔شاید آ جائیں۔"

سارہ نے بالخصوص عدن کو کہا جو یہاں بیٹھی کسی طور برداشت نہیں ہو رہی تھی۔

"کیوں ممی ہم ڈیڈی کو مبارکباد دیے بغیر ہی چلیں جائیں۔۔۔بھابھی آپ نے بھی نہیں جانا۔بس ڈیڈی آنے والے ہونگے۔"

تبھی نیوز اینکر کے منہ سے حتمی نتائج کا اعلان سنتے ہوئے ان سب کے چہروں پہ خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

"اوہ مائی گاڈ۔گریٹ ڈیڈی گریٹ۔واؤؤ۔"

صارم خوشی سے جھومتے ہوئے اسکرین کے آگے کھڑا ہو گیا۔

"بہت بہت مبارک ہو آپ سب کو۔"

"آپ کو بھی بہت مبارک بھابھی۔بس ڈیڈی آ جائیں اب۔کہاں رہ گئے ہیں۔فون بھی بند جا رہا ہے۔"

ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے دو گھنٹے تک انکی نظریں لاؤنج کے دروازے کی طرف تھیں جہاں سے ڈیڈی کے آنے کے کوئی آثار نہیں تھے۔

صارم نے پھر سے کال کی کچھ دیر طلال کی آواز آئی۔

"آ رہا ہوں یار۔۔۔آ رہا ہوں۔"

"کانگریچولیشنز ڈیڈی۔آئی کانٹ ٹیل یو ہاؤ مچ ائی ایم ہیپی۔"

"تھینک یو بیٹا میں بس پہنچنے لگا ہوں۔"

"چلو بھئی سب ڈیڈی آ گئے ہیں۔"

وہ چاروں اس وقت لان کے قریب کھڑے ان کی گاڑی کو اندر آتے دیکھ رہے تھے۔طلال خوشی سے تمتماتے چہرے کے ساتھ باہر نکلے۔صارم دوڑ کر انکے گلے لگا۔

"اوہ ڈیڈی یو آر گریٹ۔کانگریچولیشنز سو مچ۔"

"تھینک یو سو مچ میری جان۔"

صارم کے بعد عدن انکے پاس آئی۔

"بہت بہت مبارک ہو ڈیڈی۔"

طلال نے صارم کی طرح اسے بھی ساتھ لگا کر پیار کیا۔

"تھینک یو سو مچ بیٹا۔"

سارہ اور نیہا بھونچکا رہ گئیں۔حیرت سے ایک دوسرے کو تکتی ان دونوں نے بمشکل مسکرا کر کانگریٹس کہا۔

"صارم! دائم کو کال کر دینا۔اس کی کال آئی تھی میں سن نہیں سکا۔"

"اوکے میں ابھی کرتا ہوں۔"

طلال فریش ہو کر صرف آدھے گھنٹے بعد ہی واپس چلے گئے۔

_________________________________

جیت کا جشن منا کر وہ دو دن بعد ابھی گھر لوٹے ہی تھے کہ دائم کی کال آ گئی۔

"السلام علیکم ڈیڈی۔۔۔مینی مینی کانگریچولیشنز۔"

"تھینک یو سو مچ یار۔"

"سب کچھ اچھے سے ہو گیا نا۔۔۔کوئی گڑ بڑ تو نہیں ہوئی۔"

"نہیں نہیں سب اچھے سے ہوا۔گڑبڑ کرنے والے کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہے۔"

"دیٹس گریٹ ۔ کیسی طبیعت ہے پھر فائق لغاری کی۔"

"امید تو ہے ایک ہارٹ اٹیک آ گیا ہو گا اسے۔میں نے ایف آئی آر درج کروا دی تھی۔مگر اسکے کچھ پالتو جانوروں نے پہلے ہی اسے خبر کر دی تھی۔کل وہ اپنے میڈیکل چیک اپ کا بہانہ کر کے آسٹریلیا کےلئے فلائی کر گیا ہے۔مگر کب تک بھاگے گا واپس تو اس نے ادھر ہی آنا ہے۔"

"اور اسد۔۔۔ وہ کہاں گیا؟"

"اس کے خلاف ایف آئی آر نہیں ہے۔وہ صرف اپنے باپ کا ہیلپر ہے۔سیاست میں اسکا نام نہیں ہے نہ ہی وہ اپوزیشن میں بیٹھے گا سو اسکو جیل بھجوانا فضول ہے۔ویسے بھی اب ہمت نہیں ہے اس میں ہمارے خلاف جانے کی۔"

"اوہ آئی سی۔۔۔۔"

"تم سناؤ میٹنگ کیسی رہی؟"

"میٹنگز دو ہو گئیں ہیں اور جیسا آپ چاہتے تھے ویسا ہی ریسپونس ملا ہے۔ہمیں ڈبل بلکہ ٹرپل پرافٹ ہو گا اس سے ۔بس ایک میٹنگ رہ گئی ہے وہ آج شام ہے۔اور میں دو دن بعد کی بجائے کل ہی واپس آرہا ہوں۔"

"ویری گڈ۔۔۔میں صارم سے کہتا ہوں تمہیں پک کر لے گا۔"

"آپ گھر میں کسی کو نہ بتائیے گا میں سرپرائز دوں گا۔"

"تم نے جسے سرپرائز دینا ہے اسے نہیں بتاؤں گا۔باقیوں کو تو بتا لینے دو۔"

طلال کی بات پہ اسکا قہقہہ گونجا تھا۔

"ایز یو لائک۔۔۔آپکا حکم سر آنکھوں پہ۔"

"ڈیڈی۔۔۔؟"

"ہاں بولو۔۔"

"آئی لو یو سو مچ۔"

اسکے لہجے کی نمی کو طلال میلوں دور بیٹھے بھی محسوس کر سکتے تھے۔

"آئی لو یو ٹو مائی سن۔آئی لو یو سو مچ۔"

انکے لہجے میں سچی خوشی کی جھلک تھی۔

"اور گھر میں سب ٹھیک ہیں نا؟"

"دن میں دو بار بات ہوتی ہے تمہاری اس سے۔اب بھی مجھ سے پوچھ رہے ہو۔"

"اٹس ناٹ فئیر۔۔۔میں نے سب کا پوچھا ہے۔"

اس کی چیخ نما آواز پہ طلال پورے دل سے ہنسے۔

"ہاں سب ٹھیک ہیں۔کتنے بجے کی فلائٹ ہے کل۔"

"صبح دس بجے

"چلو ٹھیک ہے پھر۔آئی ایم ویٹنگ۔"

"اوکے اللہ حافظ۔"

دائم میں آنے والے بدلاؤ کو وہ اچھے سے محسوس کر رہے تھےلیکن جس وجہ سے وہ بدلا تھا کچھ دن پہلے وہ وجہ انہیں کسی صورت قابل قبول نہ تھی مگر آج وہ طلال کو اپنے باقی بچوں کی طرح عزیز ہوتی جا رہی تھی۔

"کل دائم آ رہا ہے دس بجے کی فلائٹ سے۔صارم تم اسے پک کرنا ائر پورٹ سے۔عدن کو مت بتانا۔"

انکی بات پہ نیہا اور سارہ کے فوراً کان کھڑے ہوئے۔دونوں کے درمیان مسکراتی نظروں کا تبادلہ ہوا۔۔

"اوکے ڈیڈی میں لے آؤنگا۔بس جلدی سے وہ آجائے پھر ہم علی کی طرف چلیں گے۔"

"ہاں چلیں گے۔۔۔۔علی کو انفارم کر دینا پہلے۔"

"نہیں نہیں ہر گز نہیں اگر اسے بتا دیا تو اس نے کہنا ہے تم لوگ رکو ہم سب اکٹھے ہو کر آ جاتے ہیں۔بہتر ہے بغیر بتائے ہی چلیں گے۔"

"میرا خیال ہے تم گھر میں رکو ہم سب جائیں گے۔"

طلال نے شرارت سے کہا۔

"پھر کیا فائدہ۔۔۔میں نے تو وہاں جا کے گانے کے لیے ایک ٹپہ بھی یاد کر لیا ہے۔"

سارہ اور نیہا انہیں باتیں کرتا چھوڑ کر اٹھ کے چلی گئیں۔

"کونسے والا یاد کیا ہے؟"

عدن نے سیڑھیاں اترتے پوچھا۔

آیا لاڑیے نی تیرا 

سہریاں والا ویاون آیا

"یہ تم نے علی کو جا کے کہنا ہے ؟"

طلال نے صدمے کے مارے پوچھا۔

"استغفراللہ۔۔۔۔اٹس سرپرائز یہ بعد میں بتاؤنگا۔بس آپ اتنا یاد رکھیں کہ آپ کے شادی شدہ بیٹے سے بڑا بیٹا بھی اب شادی کے قابل ہو گیا ہے۔"

وہ طلال کو مسکراتا چھوڑ کر ایک بار پھر ٹی وی اسکرین پہ چلنے والے پنجابی گانے سننے لگا۔

___________________________________

" ہیلو ایوری ون۔۔۔۔۔"

دائم کی پر جوش آواز پہ سارہ دوڑ کر اس تک آئیں۔

"اوہ مائی گاڈ۔۔۔۔دائم میری جان۔۔۔کیسے ہو۔"

انہوں نے اسکی پیشانی چومی۔

"آئی ایم فائن ممی آپ کیسی ہیں۔

اس نے ممی۔کے گلے لگتے پوچھا۔

"بالکل ٹھیک تم آؤ۔ادھر آ کے بیٹھو۔سفر ٹھیک رہا نا۔۔۔دائم میں تمہیں بتا نہیں سکتی میں کتنی خوش ہوں۔۔۔اتنی دیر بعد اس گھر میں خوشی آئے گی۔۔۔میں تو آج ہی انتظار کرنے لگ گئی ہوں۔۔۔۔کتنے سالوں بعد اس گھر میں وہی رونق لگے گی۔۔۔وہی ہنسیاں اور خوشیاں۔۔۔۔۔"

"خیریت تو ہے ممی ہوا کیا ہے۔"

"لو تم خود پڑھو کیا ہوا ہے۔۔۔۔کیوں میں اتنی خوش ہوں۔۔"

"میں تو ترس گئی تھی اس خوشی کو۔۔۔واقعی تمہاری چوائس لا جواب ہے۔جتنی بڑی مجھے خوشی ملی ہے اب عدن سے کوئی گلہ نہیں ہے۔"

انہوں نے دائم کے پتھریلے تاثرات کو دیکھتے مزے سے کہا۔

"بہت بہت مبارک ہو دائم۔۔۔خالہ اب تو ایک پارٹی بنتی ہے اس خوشی میں۔"

نیہا نے بھی سارہ کی خوشی میں حصہ لیا۔

"ہاں ہاں کیوں نہیں ایک گرینڈ پارٹی ہو گی۔"

"بتاؤ دائم۔۔۔۔کب کریں پارٹی۔"

نیہا نے ساکت کھڑے دائم سے پوچھا۔عدن کی پوزیٹو رپورٹ دیکھ کر جس کے سر پہ آسمان ٹوٹ پڑا تھا۔

رپورٹ دیکھتے ہی وہ صحیح معنوں میں چکرا گیا۔

"دائم۔۔۔کیا بات ہے بیٹا تمہیں خوشی نہیں ہوئی؟"

سارہ نے بڑی ساری مسکراہٹ چہرے پہ سجا کے پوچھا۔

"عدن کہاں ہے ؟"

اس کی آواز میں بلا کی سنگینی تھی ایک پل کو تو سارہ بھی خاموش ہو گئیں۔

"وہ اوپر اپنے کمرے میں ہے۔۔۔ہمارے پاس نہیں آتی وہ۔۔۔جتنا مرضی بلا اوپر ہی رہتی ہے۔"

وہ ہاتھ میں رپورٹ پکڑے اوپر کی جانب بڑھا۔

سیڑھیوں سے کمرے تک کا فاصلہ صدیوں پہ محیط تھا۔ ہینڈل پہ ہاتھ رکھ کر دروازہ کھولا سامنے ہی وہ کھڑی بیڈ شیٹ سیٹ کر رہی تھی۔دروازہ کھلنے کی آواز پہ پیچھے مڑ کے دیکھا اور ہاتھ وہیں ساکت ہو گیا۔

"دائم۔۔۔آپ۔۔۔آپ کب آئے۔۔۔اوہ مائی گاڈ! واٹ آ پلیزینٹ سرپرائز۔۔۔ابھی صبح تو ہماری بات ہوئی ہے آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔۔۔؟"

وہ حیرت اور خوشی سے سب کچھ چھوڑ کر اسکی طرف آئی جس نے آتے ہی لیپ ٹاپ والا بیگ زور سے بیڈ پہ پٹخا اور خود سر پکڑ کر صوفے پہ بیٹھ گیا۔

"کیا ہوا۔۔۔آپ اتنی اچانک کیسے آ گئے۔۔۔آپ نے تو کہا تھا دو دن بعد آؤں گا۔۔۔مجھے تو صارم نے بھی نہیں بتایا۔۔۔"

"مجھے پانی دو۔"

اسکی سرد آواز نے عدن کو مزید کچھ کہنے سے روک دیا۔گلاس میں پانی ڈال کر اسکی جانب بڑھایا۔۔

"آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا ؟۔۔۔بتائیں بھی کیا ہوا ہے ؟"

"میرے جانے کے بعد آپ گھر سے باہر گئیں تھیں؟"

"نہیں تو۔۔۔میں کیوں جاؤنگی۔"

"ممی کے ساتھ کسی ہاسپٹل وغیرہ۔۔؟"

"نہیں تو۔۔۔"

اس نے گلاس اٹھا کر دیوار میں مارا۔

"پھر کیسے ہو سکتا ہے یہ۔۔۔ہاؤ از اٹ پوسیبل۔۔۔نو۔۔۔نیور۔۔۔ایک ایمپوسیبل چیز کیسے پوسیبل ہو سکتی ہے۔۔۔کس نے کی یہ حرکت۔۔۔کس نے بنائی یہ رپورٹ۔۔۔کون اتنا گر سکتا ہے؟"

اس کی دھاڑ پہ وہ سہم کر دو قدم پیچھے ہٹی۔

"ہوا۔۔۔کیا ہے۔۔۔آپ۔۔۔کیوں۔۔۔ایسا۔۔۔کر رہے ہیں؟"

دائم نے رپورٹ اٹھا کر اسکے سامنے کی۔

"یہ کیا ہے ؟"

اس نے سہمے ہوئے انداز میں پوچھا۔

"خود پڑھ لیں اسے۔۔۔چل جائے گا پتہ۔"

وہ حتی المقدور اپنے لہجے کو نارمل رکھتے ہوئے اسے رپورٹ تھما کر خود الماری سے کپڑے نکال کے واش روم میں بند ہو گیا۔

لرزتے ہاتھوں سے رپورٹ کھولتے ہی ساری کائنات اس کے گرد گھوم گئی۔

"نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔ایسا نہیں ہو سکتا۔"

وہ رپورٹ ہاتھ میں تھامے صوفے پہ گر گئی۔

"نہیں۔۔۔یہ جھوٹ ہے۔۔۔یہ غلط ہے۔"

وہ ایک بار پھر ان گھاگ عورتوں کی چالوں میں آ گئی تھی۔ایک بار پھر اسکی معصومیت اس کے لیے عذاب بن گئی تھی۔

آدھے گھنٹے بعد وہ ٹھنڈے پانی سے شاور لے کر جیسے ہی باہر نکلا عدن دوڑ کر اسکے سامنے آئی۔

"نہیں۔۔۔دائم نہیں...یہ سب غلط ہے۔۔۔بکواس ہے سب۔۔۔جھوٹ ہے۔۔۔بہتان لگایا گیا ہے مجھ پر۔۔۔آپ کیسے یقین کر سکتے ہیں اس پہ۔۔۔مجھے پھنسایا گیا ہے اس سازش میں۔۔۔یہ سب سراسر جھوٹ ہے الزام ہے مجھ پہ۔۔۔آپ بول کیوں نہیں رہے۔۔۔کیسے یقین کر سکتے ہیں اس جھوٹی رپورٹ پہ۔۔۔آپ نے تو کہا تھا آپ کو مجھ پہ خود سے زیادہ اعتبار ہے پھر کہاں گیا وہ اعتبار۔۔۔جھوٹ بولا تھا مجھ سے۔۔۔اب بولتے کیوں نہیں ہیں؟"

وہ ضبط کھو کے چیخ پڑی۔

"آپ بھی مجھ پہ شک کر رہے ہیں۔۔۔مجھ قصوروار ٹھہرا رہے ہیں آپ۔۔۔کہاں گئے وہ وعدے۔۔۔اب کہاں گیا وہ سب۔۔۔گلا گھونٹ دیں میرا۔۔۔جان سے مار دیں مجھے۔۔۔ یہ روز روز کی ذلت نہیں سہہ سکتی میں۔۔۔ایک بار ہی مجھے اس؟زندگی سے نجات دلا دیں۔۔۔اور کیا کچھ سہوں گی میں۔۔۔کب ختم ہو گی میری آزمائشیں۔۔۔؟"

وہ روتے روتے قالین پہ بیٹھ گئی۔

وہ کیسے شک کر سکتا تھا اس پہ جس کے کردار کا وہ خود گواہ تھا۔اسے اس حالت میں دیکھ کر دل جیسے کند چھری سے ذبح ہو گیا تھا۔

اس نے جھک کر اسے نے کندھوں سے تھام کر اپنے مقابل کیا۔

"میں بے گناہ ہوں۔۔۔میرا کوئی قصور نہیں ہے۔۔۔مجھے نہیں پتہ یہ رپورٹ کس نے بنائی ہے۔"

وہ اب بھی اسے اپنی بے گناہی کا یقین دلا رہی تھی۔

"کیا میں نے آپ سے آپکی بے گنا ہی کا ثبوت مانگا؟میں آج بھی اپنے الفاظ پہ قائم ہوں اور ساری زندگی رہوں گا۔آپ نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ میں آپ پر شک کروں گا؟ کیا میں نے ایک بار بھی آپ سے وضاحت مانگی؟"

دائم کے صرف ایک جملے نے اسے فرش سے عرش پہنچا دیا تھا۔کہنے کو الفاظ ختم ہو گئے تھے۔اس کے آنسوؤں میں مزید روانی آ گئی۔

"پھر آخر کس نے کیا یہ سب۔۔۔کیا بگاڑا ہے میں نے کسی کا۔۔۔اور کیا کچھ دیکھنا باقی ہے؟"

وہ روتے ہوئے بیڈ کی پائپنی پہ بیٹھ گئی۔

"کہاں سے آئی یہ رپورٹ؟ کس نے دی آپکو؟"

اس کے کہنے پہ دائم کی آنکھوں کی پتلیاں سکڑیں۔

"کہاں سے آئی یہ۔۔۔کس نے بنائی۔۔۔ممی کے پاس کیسے آئی۔۔۔ممی۔۔۔کے۔۔۔پاس۔۔"

وہ اتنی آہستہ بولا کہ پاس کھڑی عدن کو سنائی تک نہ دیا۔

اس کے ذہن میں جھماکہ ہوا۔فوراً عدن کے ہاتھ سے رپورٹ پکڑ کر ہاسپٹل اور ڈاکٹر کا نام چیک کیا۔رپورٹ فولڈ کر کے جیب میں رکھی اور دراز سے ریوالور نکال کر میگزین چیک کیا۔

"یہ۔۔۔یہ۔۔۔کیا کر رہے ہیں آپ؟ یہ ریوالور کیوں اٹھا لیا ہے؟ کیا کرنا ہے اسے؟"

وہ بغیر اسے جواب دئیے میگزین گولیوں سے فل کر رہا تھا۔

"میں آپ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔کیا کرنا ہے اسے۔۔۔واپس رکھیں اسکو۔"

"میں جانتا ہوں یہ حرکت کس نے کی ہے مگر بغیر ثبوت کے میں کسی پہ ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔۔۔میرے راستے سے ہٹیں۔"

"جو کرنا ہے آپ ریوالور کے بغیر بھی کر سکتے ہیں۔کس کو مارنا ہے جا کے۔نہیں میں اسے کسی صورت نہیں لے جانے دونگی۔واپس رکھیں اسے۔"

مگر وہ عدن کو راستے سے ہٹاتا جارحانہ انداز میں باہر کی جانب بڑھا۔ہینڈل پہ ہاتھ رکھ کر جیسے ہی دروازہ کھولا باہر دروازے کے ساتھ کان لگائے کھڑی نیہا گیند کی طرح لڑھکتی ہوئی اندر آئی۔

"تم یہاں پہ کیا کر رہی ہو؟"

اس کے گرجنے پہ وہ فوراً قالین سے اٹھ کر کھڑی ہوئی۔

"وہ۔۔۔وہ۔۔وہ۔۔۔خالہ نے کہا تھا چائے بن گئی ہے تمہیں بلا کر لے آؤں۔"

"کیوں؟ تمہاری خالہ نے عظمیٰ کی جگہ تمہیں رکھ لیا ہے کیا۔۔ جو تم اسکی ڈیوٹی نبھاتی پھر رہی ہو۔"

"شٹ اپ۔۔۔دماغ ٹھیک ہے تمہارا۔یہ کیسے بات کر رہے ہو میرے سے۔"

"یو شٹ اپ۔آئندہ میں نے تمہیں اپنے کمرے کے آس پاس بھی دیکھ لیا تو سیڑھیاں چڑھنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا۔گیٹ آؤٹ۔"

آخری سیڑھی پہ کھڑی سارہ دائم کی آواز سنتے ہی فوراً اوپر آئیں۔

"یہ کیا ہو رہا ہے ؟ نیہا آر یو اوکے۔"

"خاک اوکے ہوں میں۔یہ سمجھتا کیا ہے اپنے آپ کو۔۔۔جب دل چاہتا ہے مجھے سنا کے چلا جاتا ہے۔جہنم میں جائے میری طرف سے۔"

"چپ کر جاؤ نیہا۔۔۔دائم کہاں جا رہے ہو بیٹا۔"

وہ انکی بات ان سنی کرتا سیڑھیاں اتر گیا۔

________________________________

"ڈاکٹر شمائلہ آن ڈیوٹی ہیں؟"

اس نے ریسپشن پہ موجود لڑکی سے ڈاکٹر شمائلہ کا پوچھا۔

"یس سر۔"

"کونسے والا روم ہے انکا؟"

"وہ سامنے والا ہے۔۔۔آپکے پاس اپائٹمنٹ ہے؟ کیوں ملنا چاہتے ہیں آپ ان سے؟"

وہ بغیر ریسیپشنسٹ کو جواب دئیے دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔

مریضوں کو چیک کرتی ڈاکٹر شمائلہ نے ایک نظر اس کو دیکھا اور فوراً پہچان گئی۔

"جی کیا مسئلہ ہے آپکو۔۔۔ایسے کیسے اندر آگئے آپ۔"

دائم کو سامنے کھڑا دیکھ کر اس نے بمشکل خود پہ کنٹرول رکھا۔

"میڈم یہ زبردستی اندر آئے ہیں۔"

ریسیپشنسٹ نے فوراً کہا۔

"انہیں جلد سے جلد فارغ کریں۔۔۔مجھے کام ہے آپ سے۔"

دائم کے کہنے پہ اس کے گلے میں گلٹی ابھری۔

"آپ کو جو کام ہے بعد میں آئیے گا۔فی الحال میں بزی ہوں۔پلیز گو۔"

اس کی بات پہ وہ ٹیبل پہ ہاتھ رکھ کر آگے کو جھکا۔

"میں نے کہا ان کو جلد سے جلد فارغ کرو۔اگر اپنی زندگی عزیز ہے تو۔"

اس کی سرخ انگارہ آنکھیں دیکھ کر شمائلہ کا خون خشک ہو گیا۔

"آپ۔۔۔آپ لوگ پلیز سب باہر جائیں۔۔۔میں کچھ دیر میں بلاتی ہوں آپ سب کو۔"

اس نے ارد گرد بیٹھے مریضوں کو کہا۔

"اور جب تک میں اندر ہوں کوئی ادھر نہ آنے۔"

دائم نے ریسپشن والی لڑکی کو کہا جو حیرت سے اسے دیکھتی باہر چلی گئی۔

"اب بولو کیا مسئلہ ہے؟ یہ کونسا طریقہ ہے بات کرنے کا ؟"

"یہ رپورٹ آپ کے ہاسپٹل کی ہے؟"

اس نے رپورٹ شمائلہ کی۔جانب بڑھائی۔

"ہاں میرے ہاسپٹل کی ہے۔"

"آپ نے بنائی ہے؟"

"ظاہر ہے جب نام میرا لکھا ہے تو میں نے ہی بنائی ہے نا۔کیوں تمہیں کیا مسئلہ ہے اس رپورٹ سے۔"

"کس کے کہنے پہ بنائی ہے؟"

"کیا مطلب ہے تمہارا؟ پیشنٹ کا چیک اپ کر کے بنائی ہے۔"

"پیشنٹ تو آپکے پاس آیا ہی نہیں۔۔۔پھر کیسے بن گئی یہ رپورٹ؟"

"کیوں تم کیسے کہہ سکتے ہو ؟ جو آتا ہے چیک اپ کروانے اسی کی رپورٹ بنتی ہے۔"

ڈاکٹر شمائلہ نے ماتھے پہ تیوری سجا کے کہا۔

"لیکن میری بیوی اس ہاسپٹل میں نہیں آئی۔پھر کیسے بن گئی اسکی رپورٹ۔کیا ثبوت ہے آپکے پاس کہ وہ یہاں پہ آئی تھی۔چار دن پہلے کی رپورٹ ہے یہ۔دکھائیں مجھے سی سی ٹی وی فوٹیج۔چیک کروائیں اسکا انٹری نمبر۔۔"

اس کے کہنے پہ شمائلہ کے ماتھے پہ پسینے کے قطرے چمکے۔اسی دن سے وہ ڈرتی تھی۔

"ہم ہر کسی کو نہیں دکھا دیتے یہ انفارمیشن۔اور پلیز تم۔جاؤ یہاں سے مجھے بہت کام ہے۔"

"اٹس مین آپ مجھے نہیں بتائیں گی یہ رپورٹ کس کے کہنے پہ بنائی۔اوکے ایز یو لائک۔"

کہتے ہوئے اس نے پاکٹ سے پسٹل نکال لیا۔

"ڈاکٹر شمائلہ آپکے تین بچے ہیں۔سب سے چھوٹا ابھی صرف ایک سال کا ہے۔پھر بتائیے آپکے بچوں کے لیے ایدھی ہوم بیسٹ رہے گا یا کوئی یتیم خانہ کیونکہ اب آپ تو بچیں گی نہیں۔۔۔ہزبینڈ آپکے یہاں پہ موجود نہیں ہوتے۔سو بتائیے کیا بیسٹ رہے گا۔"

اس نے پسٹل کی نال پہ انگلی پھیرتے ہوئے کہا۔ڈاکٹر شمائلہ اس کے ہاتھ میں پسٹل دیکھ کر کھڑی ہو گئی۔

"دیکھ۔۔۔دیکھو۔۔۔مم۔۔۔میں تم پہ کیس کر سکتی ہوں کہ تم اس طرح سے مجھے دھمکا رہے ہو۔"

وہ اس کی بات پہ ایسے مسکرایا جیسے اس نے کوئی لطیفہ سنایا ہو۔

"میں آپکو اس قابل چھوڑوں گا تو کیس کریں گی نا۔ویسے بھی مجھے گولی چلانے کا بہت شوق ہے ۔کئی دن ہو گئے ہیں چلائے ہوئے۔کیوں نہ پھر آپ کو اوپر پہنچا دوں۔"

اس نے پسٹل سیدھا کر کے شمائلہ پہ تان لیا۔

"یہ مت سوچیے گا آپ کو مارنے کے بعد میں جیل چلا جاؤں گا۔کسی کی ہمت نہیں ہے کوئی طلال احمد کے بیٹے پہ ہاتھ ڈال سکے اور بچوں کی فکر نہ کریں انہیں میں کسی یتیم خانے بھجوا دونگا۔سو بائے بائے۔"

"مم۔۔۔میں۔۔۔مجبور۔۔۔تھی۔۔۔میں نے یہ سب جان بوجھ کے نہیں کیا۔۔۔تم۔۔۔تم اسے پیچھے کرو میں بتاتی ہوں۔"

اسکے کہنے پہ دائم نے ٹریگر سے ہاتھ ہٹا لیا۔

"بولو؟"

"سارہ اور نیہا آئی تھیں میرے پاس۔ان۔۔۔انہوں نے ہی کہا تھا یہ رپورٹ بنانے کو۔۔۔مم۔۔میں مجبور تھی میں اسے انکار نہیں کر سکی۔"

"رپورٹ کس کے کہنے پہ بنائی تھی؟"

سوال پوچھتے ہوئے اس نے شدت سے دعا کی تھی کہ شمائلہ کے منہ سے اسکی ماں کا نام نہ نکلے۔

"سارہ نے کہا تھا۔۔۔"

شمائلہ کی بات پہ اس نے کرب سے آنکھیں بند کر لیں۔

"پلیز مجھے معاف کر دو۔۔۔میں مجبور تھی۔۔۔میرے پاس اسکے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔"

وہ بمشکل کھڑا ہوا۔

"تمہاری آواز میرے فون میں ریکارڈ ہو چکی ہے۔میں جب چاہوں تمہیں جیل بھجوا سکتا ہوں۔۔۔میں یہاں آیا تھا یہ بات صرف میرے اور تمہارے درمیان رہے گی۔کسی تیسرے کو اسکی بھنک نہ پڑے۔"

کہتے ہوئے وہ دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔

________________________________

غصے سے پھٹتے دماغ کے ساتھ وہ واپس گھر پہنچا۔رخ سارہ کے کمرے کی جانب تھا۔اندر سے آنے والی آوازوں پہ وہ باہر ہی کھڑا ہو گیا۔

"بس اب تم دیکھنا شام سے پہلے وہ لڑکی اس گھر سے باہر ہو گی۔"

سارہ کی آواز آئی۔

"اف خالہ مجھے یقین نہیں آ رہا جتنے غصے میں وہ باہر گیا ہے نا یقیناً ایک بار تو طلاق دے دی ہو گی۔جان چھوٹے گی اس مصیبت سے ہماری۔کیسے عذاب بن کر نازل ہو گئی ہے۔بےچارہ دائم۔۔۔چار دن کی عاشی کا بھوت ایک سیکنڈ میں سر سے اتر گیا۔"

نیہا کی بات پہ وہ دروازہ کھول کر بالکل اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

"اب کرو بکواس۔۔۔کیا کہہ رہی تھی ایک بار دوبارہ کہنا۔"

دائم کو ایک دم سامنے کھڑا دیکھ کر ان دونوں کی سانس سینے میں اٹک گئی۔

"تم۔۔۔وہ۔۔۔میں۔۔۔میں۔۔۔وہ۔۔۔"

"اپنی اوقات میں رہو۔اس گھر میں تم مر کر بھی نہیں آ سکتی اور آئندہ اگر عدن کے بارے میں تمہاری زبان سے ایک لفظ بھی نکلا تو زبان کھینچ لوں گا۔"

اس کے کہنے پہ نیہا کو پتنگے لگ گئے۔

"ارے واہ۔۔۔اب تک تمہاری آنکھوں پہ بندھی پٹی نہیں کھلی۔وہ حرافہ جانے کس کا۔۔۔"

اسکی بات ابھی منہ میں ہی تھی کہ دائم کا زور دار تھپڑ پڑتے ہی وہ اوندھے منہ بیڈ پہ گری۔سارہ نے لرز کر منہ پہ ہاتھ رکھا۔ 

"زبان کاٹ دوں گا میں تمہاری، میری بیوی کے بارے میں ایک لفظ بھی کہا تو۔اٹھو اور دفعہ ہو جاؤ یہاں سے۔اگر تم میں ذرا سی بھی انسانیت باقی بچی ہو تو آئندہ یہاں کا رخ نہ کرنا۔گیٹ لاسٹ۔"

اس نے بازو سے پکڑ کر اسے کمرے سے باہر نکال دیا۔

"شرفو! شرفو! کہاں مر گئے ہو سب کے سب ؟"

اس کی دھاڑ پہ شرفو کانپتا ہوا آ کھڑا ہوا۔

"جی صاحب۔"

"چوکیدار کو بتا دو آج کے بعد یہ لڑکی اس گھر کے آس پاس بھی نظر آئے تو فوراً گولی سے اڑا دے اور اسے گیٹ سے باہر نکالو اگر پانچ منٹ بعد یہ مجھے اس گھر کے اندر نظر آئی تو تمہاری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹی۔"

اس نے ساکت کھڑی نیہا کو دیکھتے ہوئے کہا جو ملازموں کے سامنے اس درجہ بے عزتی پہ صدمے سے گنگ کھڑی تھی۔

"دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا۔۔۔ہمت کیسے ہوئی تمہاری نیہا پہ ہاتھ اٹھانے کی۔"

سارہ چلاتی ہوئی اس کے سامنے آئیں۔

"مجھ پہ چیخنے کی بجائے آپ اپنے کمرے میں آئیں۔"

وہ کہہ کر واپس سارہ کے کمرے میں چلا گیا۔

"نیہا میری جان۔۔"

وہ نیہا کی طرف بڑھیں جو انہیں دھکا دے کر روتی ہوئی گھر سے باہر نکل گئی۔

سارہ تھوک نگلتی پیشانی پہ آئے پسینے کے قطرے صاف کرتی اندر کی جانب بڑھیں جہاں وہ سامنے صوفے پہ بیٹھا ٹانگ پہ ٹانگ رکھے،بیک سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیے ہوئے تھا۔

"کیوں کیا تم نے ایسا۔ اتنی بھی تمیز نہیں ہے گھر آئے مہمانوں سے ایسا سلوک کرتے ہیں کیا؟"

وہ چند پل وہیں بیٹھا انہیں دیکھتا رہا پھر اٹھ کر ان سے بالکل ایک قدم کے فاصلے پہ کھڑا ہو گیا۔

"کیوں کیا آپ نے ایسا ؟"

اس کی آواز کا سرد پن سارہ کی رگوں میں چلتے ہوئے خون کو جمانے کے لیے کافی تھا۔

"کیا کیا ہے میں نے؟"

"کیا دشمنی ہے آپ کی عدن سے؟چاہتی کیا ہیں آپ؟کیوں بنوائی یہ رپورٹ۔"

وہ بمشکل خود پہ کنٹرول رکھے نارمل لہجے میں ان سے پوچھ رہا تھا۔

"کیا مطلب ہے تمہارا ؟ جو ہے وہی لکھا ہے رپورٹ میں۔"

"ممی آپ اس حد تک چلی جائیں گی میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔اتنی نفرت ہے آپکے دل میں اس کے لیے۔اتنی زیادہ کہ آپ نے یہ قدم اٹھاتے ہوئے ایک بار بھی نہ سوچا۔ایک سیکنڈ میں اتنا بڑا بہتان لگا دیا آپ نے۔۔۔آخر کیوں؟"

"بکواس بند کرو۔۔۔آتے ہی اس نے تمہارے کان بھر دئیے۔ماں کے ساتھ بولنے کی بھی تمیز نہیں رہی۔میرا دماغ خراب ہے جو میں اس پہ الزام لگاتی پھروں۔اب خود سچی ہونے کی خاطر اس نے مجھے جھوٹا بنا دیا ہے۔جانے کیا کیا پٹی پڑھائی ہے اس نے تمہیں۔۔۔میں کچھ نہیں جانتی۔اس"

"اوہ۔۔۔تو اب یہ بھی کہہ دیں کہ آپ ڈاکٹر شمائلہ کو بھی نہیں جانتی۔"

شمائلہ کا نام سن کر انکے چہرے پہ ایک رنگ آ کر گزر گیا۔

"دیکھو۔۔۔مجھے کچھ نہیں پتہ۔۔۔مجھے یہ رپورٹ صرف نیہا نے لا کر دی تھی۔۔۔آئی ڈونٹ نو اباؤٹ اٹ۔"

"واہ ممی واہ۔۔۔زبردست "

وہ تالی بجاتا ہوا واپس صوفے پہ بیٹھ گیا۔

"یعنی کہ اب آپ کا کیا دھرا آپ کے سامنے آ رہا ہے تو سارا الزام نیہا کے سر پہ رکھ دیں گی۔وہ تو ایک جاہل لڑکی ہے جسے آپ نے مہرے کے طور پہ اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے جہاں دل کیا اسے ساتھ ملا لیا جہاں اسکی ضرورت نہ ہوئی وہاں دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دیا۔"

وہ سینے پہ ہاتھ باندھے پھر سے انکے سامنے آگیا۔

"آپ کیا سمجھتی تھیں اتنا کمینہ ہوں میں کہ ایک کاغذ کے ٹکڑے کے پیچھے میں اپنی بیوی پہ شک کروں گا۔اسے طلاق تھما کر گھر سے نکال دوں گا۔۔۔کیسی ماں ہیں آپ۔۔۔اپنے بچوں کی دشمن بنی ہوئی ہیں۔۔۔میں تو آپ لوگوں کو سرپرائز دینے کی خاطر آیا تھا۔۔۔مجھے کیا پتہ تھا یہاں تو میرے لیے آل ریڈی اتنا بڑا سرپرائز تیار کیا گیا تھا کہ اسے دیکھتے ہی میں اپنی پوری ہستی سے ہل کے رہ جاؤں گا۔کیوں ممی کیوں؟"

"جس کو آپ گھر سے نکالنا چاہتی ہیں وہ آپ کے بیٹے کی محبت ہے۔کبھی نہیں چھوڑوں گا میں اسکو۔۔۔آج لکھ کے رکھ لیں میری بات۔۔۔آپ کچھ بھی کر لیں نہ اسے اس گھر سے نکال سکتی ہیں نہ ہی میری زندگی سے۔"

"پھر میری بھی ایک بات تم کان کھول کر سن لو۔میں اس لڑکی کو اپنے گھر میں ایک سیکنڈ برداشت نہیں کرونگی۔تمہاری شادی نیہا سے ہو گی۔"

"نیہا نیہا نیہا بھاڑ میں جائے یہ نیہا۔عذاب کی طرح چمٹ گئی ہے یہ ہمیں۔آپ کو اسکے علاوہ کچھ نظر بھی آتا ہے یا نہیں۔اس دنیا میں اور بھی لوگ ہیں نیہا کے علاوہ۔۔۔خدا کے لیے ممی۔۔۔خدا کے لیے بس کر دیں۔۔۔اور نہیں سہہ سکتا میں یہ سب کچھ۔۔۔"

"مجھے کچھ نہیں سننا۔بس اس لڑکی کو اس گھر سے باہر نکالو۔"

"کہاں چھوڑ آؤں میں اسکو۔۔۔؟"

"میری طرف سے جہنم میں چھوڑ آؤ مجھے کیا۔"

"کیوں اتنی نفرت کرتی ہیں آپ اس سے۔۔۔کیا بگاڑا ہے اس نے آپکا۔۔۔آج تک اس کبھی آپ کو کچھ کہا۔۔۔پھر بھی آپ نے یہ سب کیا۔۔۔ممی میں آج آپکو آخری بار کہہ رہا ہہوں عدن سے دور رہیں۔اتنا آگے مت بڑھیں کہ اپنی لگائی گئی آگ میں آپ اپنا ہی سب کچھ جلا بیٹھیں۔بس کر دیں۔۔۔بخش دیں مجھے۔۔۔مجھ سے جو غلطی ہو گئی ہے مجھے معاف کر دیں۔میں مزید یہ سب افورڈ نہیں کر سکتا۔آپ میری ماں ہیں۔میں نہیں چاہتا یہ بات اب کسی تیسرے کے کانوں تک پہنچے اور باقیوں کی نظروں میں آپکے لیے احترام ختم ہو جائے۔۔۔۔اٹس آ لاسٹ وارننگ۔۔۔اگر آئندہ آپ نے ایسا کچھ کیا تو آپ سوچ بھی نہیں سکتیں میں کس حد تک چلا جاؤں گا۔"

وہ رپورٹ انکے پاس پھینکتا غصے سے آتش فشاں بنا باہر نکل گیا۔

سامنے ہی صارم اپنے آج کل کے پسندیدہ معمول کے مطابق انگلی میں کی چین گھمایا اور اپنی سریلی آواز میں سر بکھیرتا لاؤنج کی طرف آ رہا تھا۔ 

مینو اے تویتڑی دے نال بڑی خار وے

ونڈ لیا اینے،میرے نال تیر پیار وے

جے میں ہوندی ڈھولنا ہو 

ڈھولنا سونے دی تویتڑی

سامنے سے دائم کو غصے میں آتے دیکھ کر سونے دی تویتڑی کی زبان اور پاؤں دونوں کو بریک لگا۔

"یہ تم آتے ہی کہاں جا رہے ہو؟۔۔۔علی کے پاس جا رہے ہو۔۔۔میں وہیں سے آیا ہوں۔۔۔چلو دوبارہ تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔"

"رکو تو سہی ، مجھے ساتھ لیے بغیر ہی میرے سسرال جا رہے ہو۔"

"ٹھہرو تو ، آ رہا ہوں میں۔"

مگر وہ صارم کی دہائیاں خاطر میں لائے بغیر آندھی طوفان کی طرح گاڑی نکال کر لے گیا۔

"اسے کیا ہوا؟"

وہ حیرت سے دیکھتا اندر آیا۔گھر میں ہر طرف خاموشی تھی۔

"عظمیٰ۔۔۔عظمیٰ۔۔؟"

"جی صاحب جی۔"

فوراً ہی عظمیٰ دوپٹے سے ہاتھ صاف کرتی ہوئی باہر آئی۔

"گھر میں سب کہاں پہ ہیں۔۔۔کوئی نظر ہی نہیں آ رہا۔"

"جی بیگم صاحبہ اپنے کمرے میں آئے ہیں۔"

"اور بھابی؟"

"وہ اوپر ہی ہیں۔"

وہ سر ہلا کر ممی کے پاس گیا جو ہاتھوں پہ کلینزنگ ملک سے مساج کر رہی تھیں۔

"ممی دائم کہاں گیا ہے؟"

"مجھے کیا پتہ۔مجھے بتا کر گیا ہے وہ؟"

"وہ بہت غصے میں تھا اسی لیے پوچھا میں نے ۔ ابھی تو آیا ہے ابھی کہاں چلا گیا۔"

"اپنی چہیتی بھابی سے پوچھو۔۔۔میرے پاس تو بیٹھا ہی نہیں وہ۔۔۔ اسی سے پوچھو کہاں گیا ہے وہ۔"

وہ حیرت زدہ سا ممی کے لہجے پہ غور کرتا باہر نکل گیا۔

"عظمیٰ بھابی کو بلاؤ۔"

کچھ دیر بعد عظمیٰ نے اسے سیڑھیوں پر سے ہی مخاطب کیا۔

"صاحب جی۔۔۔بی بی نہیں آ رہیں۔۔۔وہ بس روئے جا رہی ہیں۔"

"کیوں۔۔۔کیوں رو رہی ہیں؟"

وہ فوراً سیڑھیاں چڑھتا اسکے کمرے میں آیا۔

"بھابھی کیا ہوا۔۔۔کیوں رو رہی ہیں آپ؟"

"کسی نے کچھ کہا ہے کیا؟ نیہا یا ممی نے کچھ کہا ہے ؟ "

وہ اس کو جواب دئیے بغیر روئے جا رہی تھی۔

"بتائیں بھی کیا ہوا ہے ؟ اب تو دائم بھی آ گیا ہے اب کیوں رو رہی ہیں۔۔۔کہاں گیا ہے دائم ؟ کچھ تو بولیں۔۔"

"عظمیٰ تم بتاؤ۔۔۔کچھ ہوا ہے کیا گھر میں؟ کہاں گیا ہے دائم؟"

"پتہ نہیں جی۔۔۔میں تو کام کر رہی تھی۔۔۔مجھے نہیں پتہ۔۔"

اس نے نفی میں سر ہلایا۔

"بھابھی کچھ تو بولیں۔۔۔مجھے تو بتائیں کیوں رو رہی ہیں۔۔۔کیا دائم نے کچھ کہا ہے آپکو؟"

"فار گاڈ سیک۔۔۔کوئی تو مجھے بتائے کیا ہوا ہے۔۔۔میں تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک چھوڑ کے گیا تھا۔۔۔پھر ایسا کیا۔۔۔"

اس کی بات ابھی منہ میں ہی تھی کہ طلال کی کال آ گئی۔

"جی ڈیڈی۔۔"

"کیا۔۔۔۔دائم کا ایکسیڈینٹ؟"

اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ سن کر عدن کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔

"ڈیڈی۔۔۔وہ۔۔ زندہ۔۔۔ تو ہے نا۔۔"

صارم نے لرزتے دل کے ساتھ پوچھا۔

دوسری جانب کا جواب سن کر اسکی آنکھوں میں نمی آ گئی تھی۔

"میں۔۔۔میں ابھی آ رہا ہوں ڈیڈی۔"

اس نے عجلت میں فون بند کیا۔

"صارم کیا ہوا۔۔۔دائم۔۔۔دائم کو کیا ہوا۔۔۔وہ؟ٹھیک تو ہیں نا۔۔۔بول کیوں نہیں رہے۔۔۔کیا ہوا ہے دائم کو؟"

وہ حواس باختہ سی صارم سے پوچھ رہی تھی۔

"اسکا ایکسیڈینٹ ہو گیا ہے وہ ہاسپٹل میں ہے۔میں ہاسپٹل جا رہا ہوں۔"

"میں بھی چلوں گی۔۔۔مجھے بھی لے کر چلو۔"

"آپ کی کنڈیشن ٹھیک نہیں ہے۔آپ گھر پہ رکیں۔عظمیٰ تم بھابھی کا خیال رکھنا۔"

"کچھ نہیں ہوا میری کنڈیشن کو۔۔۔میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔پلیز مجھے دائم کے پاس لے چلو۔"

"مگر ڈیڈی نے کہا ہے آپکو نہ بتاؤں۔"

"مجھے کچھ نہیں سننا۔مجھے صرف دائم کے پاس جانا ہے۔۔۔پلیز مجھے انکے پاس لے چلو۔"

"اوکے آئیں۔۔"

وہ اسی طرح دوپٹہ اوڑھتی صارم کے پیچھے باہر نکلی۔

پورٹیکو سے گاڑی نکالتے ہوئے اس کی نظر سارہ کی گاڑی پہ پڑی جو گیٹ سے باہر نکل رہی تھی۔

"صارم۔۔۔وہ ٹھیک تو ہیں نا۔۔۔ڈیڈی نے کیا کہا ہے؟"

"ایکسیڈینٹ میجر ہے۔دعا کریں۔"

کچھ دیر بعد وہ ہاسپٹل میں تھے۔

عدن بھاگ کر طلال کے پاس آئی۔سارہ پہلے سے موجود تھیں۔

"ڈیڈی۔۔۔دائم کو کیا ہوا ہے۔۔۔وہ ٹھیک تو ہیں نا۔۔۔کہاں پہ ہیں وہ۔۔۔ڈاکٹر نے کیا کہا ہے ؟ڈی"

انہوں نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا۔

"کچھ نہیں ہو گا اسے۔۔۔وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔تم پریشان مت ہو۔"

طلال نے اس سے زیادہ خود کو تسلی دی۔تبھی صارم انکے پاس آیا۔

"ڈیڈی دائم کہاں ہے۔کیا کہا ہے ڈاکٹر نے ؟"

صارم کو دیکھ کر انکے خود پہ باندھے ضبط کے سارے پہرے ٹوٹ گئے۔

"صارم دعا کرو۔۔۔وہ ٹھیک ہو جائے۔۔۔اسے کچھ نہ ہو۔۔۔خدا اس سے پہلے مجھے موت دے دے۔میں اپنے بازو کو کہتا نہیں دیکھ سکتا۔"

وہ فوراً انکے گلے لگا۔زندگی میں پہلی بار اس نے اپنے باپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے۔

"نہیں ڈیڈی وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔آپ حوصلہ مت ہاریں۔اسے کچھ نہیں ہو گا۔اتنی دعائیں ہیں اسکے ساتھ۔وہ بہت جلد پہلے جیسا ہو جائے گا۔"

اس نے ڈیڈی کو پاس پڑے صوفے پہ بٹھا کر جلدی سے پانی دیا۔

خود اسکی حالت بھی باقیوں سے کم نہیں تھی۔کچھ گھنٹے پہلے کا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے چلنے لگا۔

کتنی خوشی تھی دائم کے چہرے پہ جب وہ ائیر پورٹ پہ بیگ گھسیٹتا اسکے سامنے آیا تھا۔کتنی زور سے وہ صارم کو صامی سویٹ ہارٹ کہتے اسکے گلے لگا تھا۔بچپن سے لے کر آج تک کبھی ان دونوں کی لڑائی نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ دونوں مل کر ریان سے لڑا کرتے تھے۔

اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ایک قطرہ آنکھ سے ٹپک پڑا۔

"صارم مجھے کیا پتہ تھا میں دس دن بعد اسے اس حالت میں دیکھوں گا۔اسے کچھ ہو گیا تو میں کیسے رہوں گا اس کے بغیر۔ تم دعا کرو اللہ اسے میری زندگی بھی لگا دے۔ابھی تو اسکی زندگی میں خوشیاں آئی تھیں۔ابھی تو اس نے ڈھنگ سے انہیں محسوس بھی نہیں کیا۔اتنی جلدی وہ ان سے منہ نہیں موڑ سکتا۔اسے ٹھیک ہونا پڑے گا۔"

طلال کی بات پہ اس نے رخ موڑ کر عدن کو دیکھا جس کی روتی ہوئی آنکھیں شیشے کے بند دروازوں کے پار اس وجود کو تلاش کر رہی تھیں جس میں ان سب کی جان تھی۔وہ عدن اور ممی کے پاس گیا۔

سارہ ٹشو سے آنکھوں میں آئی نمی صاف کر رہی تھیں۔

"وہ ٹھیک ہو جائے گا ممی۔ڈونٹ وری۔"

سارہ نے اسکی تسلی پہ سر ہلایا۔

"بھابی! حوصلہ رکھیں۔کچھ نہیں ہو گا اسے پلیز خود کو سنبھالیں۔صرف دعا کریں اسکے لئے۔اسے ہماری دعاؤں کی ضرورت ہے۔"

اس نے روتی ہوئی عدن کے سر پہ ہاتھ رکھا اور واپس ڈیڈی کے پاس جا کے بیٹھ گیا۔

عدن اب بھی روتے ہوئے شیشے کے بند دروازوں کو دیکھ رہی تھی اس کے پار وہ شخص موجود تھا جس کے بغیر وہ ادھوری تھی۔

اس نے دونوں ہاتھ چہرے پہ رکھ لیے۔

"یا اللہ تو کسی انسان کو اس کی برداشت سے زیادہ نہیں آزماتا۔۔۔میری برداشت کی حد اب ختم ہو چکی ہے۔۔۔نہیں اللہ اب میں اور کچھ نہیں سہہ سکتی۔۔۔میں اس انسان کو خود سے دور جاتے نہیں دیکھ سکتی۔۔۔تیرے آسمان تلے اس دنیا میں تیرے بعد وہ میرا واحد سہارا ہے۔۔۔میں نہیں رہ سکتی اس کے بغیر۔۔۔تو میری سانسیں کم کردے مگر دائم کو کچھ نہ ہونے دینا۔۔۔میں مر جاؤں گی انکے بغیر۔"

آنسو دونوں ہاتھوں کے بیچ سے رستہ بناتے ہوئے اسکی جھولی میں گر رہے تھے۔

کچھ دیر بعد دروازہ کھلا اور ڈاکٹر باہر نکلا۔

طلال فوراً انکی طرف لپکے۔

"ڈاکٹر کیسا ہے دائم۔۔۔وہ ٹھیک تو ہے نا ؟"

"ریلیکس سر۔۔۔وہ اب خطرے سے باہر ہیں۔ پیشنٹ کا دایاں بازو اور کندھا زیادہ افیکٹ ہوا ہے۔ایک دم گاڑی کنٹرول نہ ہونے کے باعث شاید وہ ایک سائڈ پہ گرے ہوں اسی لیے شیشے کی کرچیاں بازو اور ٹانگ میں زیادہ چھبی ہیں۔تھینک گاڈ چہرہ بچ چکا ہے۔ کوئی فریکچر نہیں ہوا۔بس ماتھے پہ اور آنکھ کے قریب کچھ سٹیچز آئے ہیں۔کچھ دن احتیاط کرنی پڑے گی۔بازو کو زیادہ ہلانے سے تکلیف بڑھ سکتی ہے۔ہم نے ساری کرچیاں نکال دی ہیں۔رپورٹ کلئیر ہے اب۔ابھی وہ بے ہوش ہیں۔تھوڑی دیر تک انہیں ہوش آ جائے گا۔ابھی کچھ دیر میں ہم انہیں روم میں شفٹ کر دیتے ہیں۔"

ڈاکٹر کی؟تفصیلی بات سن کر عدن تشکر سے اوپر کی جانب دیکھتی واپس بیٹھ گئی۔

صارم فرطِ جذبات میں طلال کے گلے لگا۔

"اللہ نے ہماری سن لی ہے۔شرفو سے کہو اگلے ایک ماہ تک تین ٹائم درس میں کھانا بھجوائے۔"

انہوں نے صارم کو گلے لگاتے نم آنکھوں سے کہا۔

صارم کے چہرے کی رونق بھی بحال ہوئی۔

"ایکسیڈینٹ میجر تھا۔گاڑی ٹرک سے ٹکرائی تھی۔گاڑی کی حالت دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اندر بیٹھا شخص زندہ بچ جائے گا۔یہ ایک معجزہ کہ وہ زندہ سلامت ہمارے درمیان موجود ہے۔"

"ابھی تو دو گھنٹے نہیں ہوئے اسے واپس آئے۔ کہاں جا رہا تھا وہ۔۔۔اور تم کہاں تھے۔آتے ہی ایک دم سے کیوں باہر نکلا وہ۔۔۔اتنی اچھی ڈرائیونگ ہے اسکی۔۔۔کیسے ایکسیڈینٹ ہو گیا۔"

پریشانی ٹلی تو طلال کا دھیان اس جانب گیا۔

"آئی ڈونٹ نو ڈیڈی۔میں تو اسے چھوڑ کر علی کے پاس چلا گیا تھا جب واپس آیا تو وہ بہت غصے میں باہر جا رہا تھا۔"

"گھر میں کچھ ہوا تھا کیا؟"

"مجھے نہیں پتہ۔۔۔میں نے ممی سے بھی پوچھا تھا مگر انہوں نے صحیح سے جواب نہیں دیا۔بھابھی بھی رو رہی تھیں۔ضرور کچھ ہوا ہو گا ورنہ وہ آتے ہی باہر کیوں جائے گا۔"

اس نے تشویش سے کہا۔

"نیہا کہاں ہے؟"

طلال نے چونکتے ہوئے پوچھا۔تبھی صارم نے مڑ کر سارہ کی طرف دیکھا۔

"ہاہ۔۔۔۔نیہا کہاں گئی۔وہ تو ہر وقت ممی کے ساتھ ہی چمٹی ہوتی ہے۔کہیں مر مُک تو نہیں گئی۔"

دائم کی جانب سے ریلیکس ہوتے ہی وہ اپنی لائن پہ آ گیا۔

"چپ کرو۔تمہیں اس وقت بھی یہ سب سوجھ رہا ہے۔"

طلال نے اسے جھڑک دیا۔

"نہیں نہیں۔۔۔میں تو اس لیے کہہ رہا ہوں کہیں نیہا نے ہی کچھ نہ کیا ہو۔ضرور اسی نے کچھ کیا ہو گا۔اسی لیے وہ موقع پا کر فرار ہو گئی ہے۔بس ڈیڈی آپ اس نیہا کی قل خوانی میں پہنچنے کی تیاری کریں۔میرا بھائی اُس کی وجہ سے اس حالت کو پہنچ گیا۔میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔"

صارم نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا۔

"اگر تم نے ایک لفظ بھی اور کہا تو میں تمہیں یہاں سے اٹھا کر نیچے پھینک دوں گا۔کبھی تو سیریس ہو جایا کرو۔"

طلال کے غصے سے کہنے پہ اس نے فوراً مٹھیاں کھول لیں۔

"آپ بھابی سے پوچھیں انہیں پتہ ہے گھر میں کیا ہوا ہے۔ممی ہرگز نہیں بتائیں گی انہوں نے تو مجھے بھی ڈانٹ دیا ہے۔"

اس کی بات پہ طلال نے مڑ کر دیکھا۔وہ سر جھکائے سارہ؟کے ساتھ بیٹھی تھی۔سارہ کے ہونٹ ہل رہے تھے مگر تھوڑا فاصلہ ہونے کے باعث آواز ان تک نہیں پہنچ رہی تھی لیکن عدن کا جھکا ہوا سر اور سارہ کا سرخ ہوتا چہرہ بتانے کے لیے کافی تھا وہ کیا کہہ رہی ہیں۔

"جب سے تم آئی ہو آئے دن کوئی نہ کوئی کام الٹا ہو رہا ہے۔کیوں مصیبت کی طرح پیچھے لگ گئی ہو ہمارے۔جان چھوڑ دو اب میرے بیٹے کی۔پتا نہیں کونسا گناہ ہو گیا جس کے نتیجے میں سزا کے طور پر تم اس کی زندگی میں آ گئی ہو۔آج وہ صرف اور صرف تمہاری وجہ سے اس حالت میں پہنچا ہے۔کسی بھول میں نہ رہنا بہت عیش کر لی تم نے۔اب میں دیکھتی ہوں اور کتنے دن ٹکتی ہو تم میرے گھر میں۔نہ تم ہوتی نہ آج میرے بیٹے کی یہ کنڈیشن ہوتی۔"

"بس کر دیں ممی۔۔۔وہ صرف آپکا بیٹا نہیں ہے۔۔۔میرا بھی کچھ لگتا ہے۔"

وہ کہہ کر آنسو صاف کرتی اٹھ کر طلال اور صارم کے پاس جا کھڑی ہوئی جو اسی کی جانب دیکھ رہے تھے۔

"عدن بیٹا۔کیا ہوا تھا گھر میں؟ دائم کہاں جا رہا تھا؟کوئی بات ہوئی ہے کیا ؟"

"بھابھی کہیں نیہا نے تو کچھ نہیں کیا ؟ کیا اسی لیے وہ جائے وقوعہ سے غائب ہے۔مجھے بتائیں میں اس نیہا کو اگلا سانس لینے نہیں دونگا۔"

طلال نے اسے کچا چبا جانے والی نظروں سے دیکھا۔

"نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔آپ ڈیڈی کو ہی بتائیں کیا ہوا تھا۔"

"بیٹا پلیز مجھے بتاؤ کیا ہوا تھا۔"

وہ ہچکیوں سے رونے لگی۔

اس کے کچھ بولنے سے قبل ڈاکٹر نے دائم کے روم میں شفٹ ہونے کی اطلاع دی۔سارہ اور عدن فوراً روم میں گئیں جبکہ صارم اور طلال ڈاکٹر کے بلانے پہ اس کے ساتھ چل دئیے۔

دروازہ کھولتے ہی عدن نے منہ پہ ہاتھ رکھا۔اس کے کندھے سے کر کہنی تک بینڈیج ہوئی تھی۔ماتھے اور آنکھ کے قریب گہرے کٹ تھے۔

"دائم۔۔"

وہ فوراً اسکی طرف بڑھی۔

"دائم آنکھیں کھولیں۔۔۔"

اس نے روتے ہوئے اس کے چہرے پہ ہاتھ رکھا۔

"اٹھیں نا۔۔۔آنکھیں کھولیں۔۔۔ورنہ میرا دل بند ہو جائے گا۔"

وہ ہاتھ سے اسکا چہرہ تھپتھپا رہی تھی۔سارہ کا دماغ گھوم گیا۔

"یو فول۔ایسے ٹریٹ کرتے ہیں پیشنٹ کو ؟۔ذرا سی ببھی سینس نہیں ہے تمہیں۔پیچھے ہٹو۔دیکھ نہیں رہی وہ بے ہوش ہے۔موت کے منہ سے بچ کر آیا ہے وہ اور آتے ہی تم اسے جھٹکے دے رہی ہو۔"

اس کو ڈانٹتے ہوئے سارہ کی نظر دائم کی لرزتی پلکوں پہ پڑی۔وہ فوراً اسکے پاس آئیں۔

"دائم بیٹا۔۔۔آنکھیں کھولو۔تمہاری ممی تمہارے پاس ہیں۔"

انہوں نے عدن کا ہاتھ اسکے چہرے سے ہٹا کر اسکے پیشانی پہ آئے بالوں کو پیچھے کیا۔

"عادی۔۔۔۔"

اس کے نیم وا لبوں سے ہلکی سی آواز نکلی۔سارہ نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔

"دائم بیٹا۔۔۔دیکھو میری طرف۔۔۔تمہاری ممی تمہارے پاس ہیں۔"

اس نے بمشکل؟بند ہوتی آنکھوں کے پیوٹوں کو کھولا۔آنکھوں کے آگے دھندلکا ہونے کے باعث وہ فوری طور پر خود پہ جھکی سارہ کو پہچان نہ سکا۔دماغ آہستہ آہستہ لاشعور سے شعور کی طرف آ رہا تھا۔

"عادی۔۔۔"

دوسری بار بھی اس کے لبوں سے یہی لفظ نکلا۔

"دائم میں آپکے پاس ہوں۔دیکھیں میری طرف۔میں یہیں ہوں آپکے پاس ۔آنکھیں کھولیں۔"

وہ فوراً بیڈ پہ اسکے پاس بیٹھی۔غصے سے سارہ کے نتھنے پھول گئے۔

"پتا نہیں کیا جادو کر دیا ہے۔بے ہوشی میں بھی ماں کی بجائے اس ڈائن کو پکار رہا ہے۔"

وہ بڑبڑاتی ہوئی غصے سے عدن کو دیکھ رہی تھیں جو بار بار دائم کے چہرے پہ ہاتھ پھیر رہی تھی۔

اتنی تکلیف کے باوجود بھی اسے اپنے پاس دیکھ کر دائم کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آگئی۔

"پلیز ڈونٹ ویپ۔۔۔آئی ایم آل رائٹ۔"

اس نے آہستگی سے کہہ کر عدن کے آنسو صاف کیے۔

"دائم اب کیسا فیل کر رہے ہو بیٹا ؟"

سارہ نامحسوس انداز میں عدن کو پیچھے کرتی خود اسکے پاس کھڑی ہو گئیں۔

"ٹھیک ہوں ممی۔۔۔ڈیڈی کہاں ہیں۔"

نقاہت کے باعث آواز بہت ہلکی تھی۔

"ڈیڈی ڈاکٹر کےپاس گئے ہیں۔میں ابھی بلا کر لاتی ہوں۔"

وہ جیسے ہی دروازے کی جانب بڑھی طلال اور صارم اندر داخل ہوئے۔

"ڈیڈی۔۔۔دائم کو ہوش آ گیا ہے۔"

اس کی بات پہ وہ مسکراتے ہوئے دائم کے قریب آئے۔

"دائم میری جان کیسے ہو بیٹا۔۔۔زیادہ تکلیف تو نہیں ہو رہی۔"

"میں ٹھیک ہوں ڈیڈی۔"

انہوں نے فوراً اسکی پیشانی چومی۔

"کیا حالت کر لی تم نے اپنی۔"

وہ اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لے کر باری باری چوم رہے تھے جیسے اس کے زندہ ہونے کا یقین کر رہے ہوں۔

"کونسا ٹرک تھا وہ۔۔۔نمبر یاد ہے تمہیں اسکا۔"

"غلطی میری تھی۔ٹرن لیتے وقت غور ہی نہیں کیا۔

بٹ اب بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔میں تو آپ سے ملا بھی نہیں۔"

اسکے کہنے پہ طلال خود اسکے گلے لگے۔

"بس تم جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ۔میں تمہیں پہلے کی طرح دیکھنا چاہتا ہوں۔آج کی رات ہاسپٹل میں ہی رکنا ہے اگر کل کو طبیعت بہتر ہوئی تو ڈاکٹر ڈسچارج کر دیگا۔"

وہ اسے پیار کرتے پیچھے ہوئے تبھی صارم کی باری آئی۔

وہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا اس کے پاس آیا۔

"آہم۔۔۔آہم۔۔۔بس آج ہی گھر جا کے میں اپنا صدقہ دیتا ہوں۔ضرور مجھے کسی کی کالی نظر لگ گئی ہے جو میری شادی اتنی تاخیر کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔سوچا تھا تم پاکستان نازل ہو گے تو ڈیڈی سے کہوں گا اب میرے سر پہ بھی سہرا باندھ دیں۔مگر نہیں یار تم نے تو آتے ہی بیڈ سنبھال لیا۔ٹھیک کہتا ہے علی میری قسمت میں شادی ہے ہی نہیں۔"

صارم کی بات پہ اس نے ہنستے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی مگر تکلیف کے باعث منہ سے کراہ نکلی۔

"اوہ لیٹے رہو جانسینا۔۔۔پتہ ہے مجھے بہت طاقت ہے تم میں لیکن فی الحال لیٹے رہو۔میرا خیال ہے میں علی کو فون کر دیتا ہوں تا کہ وہ رابی وغیرہ کو لے کر تمہاری تیمارداری کرنے آ جائے۔کو"

اپنی بات کے اختتام پہ اس نے آہستہ سے سر گھما کے ڈیڈی کو دیکھا جو اسی کو دیکھ رہے تھے۔

"صارم بیٹا ہم اس وقت تیسری منزل پہ ہیں اور ونڈو تمہارے سے زیادہ دور نہیں ہے۔"

طلال کے کہنے پہ اس نے فوراً اچھے بچوں کی طرح منہ پہ انگلی رکھ لی۔

________________________________

ایک دن کی بجائے تیسرے دن ڈاکٹر نے مکمل طور پہ مطمئن ہو کر اسے ڈسچارج کیا۔عدن جی جان سے اس کا خیال رکھ رہی تھی۔

رات کے اس وقت صارم اس کے کمرے میں بیٹھا چٹکلے چھوڑ رہا تھا۔

"بس میں تجھے بتا رہا ہوں میں ابھی علی کو کال کرنے لگا ہوں۔اگر اسے نہ بتایا تو کل کو اس نے میرا سر پھاڑ دینا ہے۔اسی لیے میں اسے کہہ دیتا ہوں ابھی گھر والوں کو لے کر آ جا۔"

تبھی عدن کمرے میں آئی۔

صارم کی بات پہ دائم نے اسکے ہاتھ سے موبائل پکڑ لیا۔

"ذرا آنکھیں کھول کے دیکھ۔رات کے بارہ بج چکے ہیں۔رہنے دے بلاوجہ وہ پریشان ہو گا۔"

"تو دوست ہوتے کس لئے ہیں۔بس میں ابھی اسے بتانے لگا ہوں تاکہ وہ صبح ہوتے ہی گھر والوں کو لے کر آ جائے۔"

"تمہیں علی سے مطلب ہے یا اسکے گھر والوں سے؟"

دائم نے ابرو اچکا کے پوچھا۔

"بالکل ٹھیک سمجھے آپ۔انہیں علی سے نہیں اسکے گھر والوں سے مطلب ہے بلکہ گھر والوں سے بھی نہیں صرف رابیل سے۔"

عدن کی بات پہ دائم نے حیرت سے صارم کو دیکھا جو شرماتے ہوئے سر جھکا گیا۔

"نہیں میں رابیل کی زندگی کبھی برباد نہیں ہونے دونگا۔"

دائم کے کہنے پہ صارم نے غصے سے دیکھا۔

"ایک تھپڑ لگاؤں گا اگر زیادہ اوور ایکٹنگ کی۔بس کل کو تو نے ڈیڈی سے بات کرنی ہے۔میں بتا رہا ہوں اور ابھی میں علی کو کال کرنے لگا ہوں۔"

کہتے ہوئے اس نے علی کا نمبر ملایا۔تھوڑی دیر بعد علی کی نیند میں ڈوبی آواز آئی۔

"ہاں کیا تکلیف ہے۔۔۔آدھی رات کو بھی تجھے چین نہیں آتا۔اگر تو نے مجھ سے جلد شادی کروانے کے لیے کوئی وظیفہ پوچھنا ہے تو صبح بتاؤں گا ابھی مجھے سونے دے۔"

سپیکر سے آتی اسکی آواز سن کر دائم نے زوردار قہقہہ لگایا۔

"یہ دائم کی آواز ہے نا؟ تم دونوں ابھی تک کیوں جاگ رہے ہو؟"

"تیری یہ دو گز کی زبان چلنے سے رکے گی تو ہی کچھ بولوں گا نا۔"

صارم نے موبائل کو اتنے غصے سے دیکھا جیسے ہاتھ میں موبائل کی جگہ علی کو پکڑا ہو۔

"ہاں بولو"۔

"دائم کا ایکسیڈینٹ ہو گیا تھا ٹرک سے۔مجھ کنوارے کی دن رات کی دعاؤں کے باعث اللہ نے اسے زندگی سے نوازا ہے۔اور تجھے اتنی بھی شرم نہیں ہے میرے بھائی کا آکر پتہ ہی کر جاتا۔"

اسکی بات سن کر علی کی نیند منٹ میں اڑن چھو ہوئی۔

"کیا مطلب ہے تمہارا ؟ کیسا ہے دائم۔وہ ٹھیک تو ہے نا۔زیادہ سیریس تو نہیں ہے۔کہاں ہے وہ اس وقت۔اب کچھ پھوٹو گے بھی یا نہیں۔"

"ٹھیک ہے وہ۔۔۔اب گھر میں ہے۔"

"میں ابھی آرہا ہوں۔"

"علی میں بالکل ٹھیک ہوں یار۔آدھی رات ہو گئی ہے اس وقت تم کہاں آؤ گے۔کہا بھی تھا اس سے تمہیں نہ پریشان کرے مگر اسے کہاں اثر ہوتا ہے۔"

"دائم تو ٹھیک ہے نا۔ذیادہ چوٹیں تو نہیں آئیں۔اب کیسی طبیعت ہے۔تو اندھا تھا کیا۔گاڑی کو جہاز سمجھ کے چلا رہا تھا جو ٹرک میں مار دی۔"

صارم نے موبائل اپنے آگے کیا۔

"جو پوچھنا ہوا کل صبح آ کر پوچھ لینا اور گھر والوں کو بھی لے آنا ورنہ انکا اعتراض رہے گا۔"

صارم کی دلی مراد پھر سے زبان پہ آئی۔

"گھامڑ میرا دل کر رہا ہے تیرے سارے دانٹ توڑ دوں۔تو مجھے پہلے نہیں بتا سکتا تھا پتہ نہیں کتنی چوٹیں آئیں ہیں میرے جان سے پیارے دوست کو۔اللہ کرے تو ساری عمر کنوارہ رہے۔"

صارم نے اسکی بات پہ دہل کر فوراً استغفراللہ کہہ کے فون بند کر دیا۔

"چل بھئی اب میرا کام تو ہو گیا۔اب میں جا کے سوتا ہوں۔پھر صبح کو سسرالیوں کو ویلکم بھی کرنا ہے۔"

وہ دائم کو آنکھ مارتا ہوا ان دونوں کو گڈ نائٹ کہہ کر چل گیا۔

"آپ میڈیسن کھا لیں آج صبح بھی نہیں کھائی۔"

وہ جیسے ہی اٹھنے لگی دائم نے بازو سے پکڑ کر اسے واپس بٹھا دیا۔

"میری اتنی خدمت کرنے کی بجاۓ آپ کچھ دیر کے لیے میرے پاس بیٹھ جائیں تو میں زیاد جلدی ٹھیک ہو سکتا ہوں۔"

"کیا بات ہے؟کیوں پریشان ہیں؟اب تو میں بالکل ٹھیک ہوں۔"

"وہ رپورٹ کہاں سے آئی تھی؟کس نے بنوائی تھی؟"

چار دن سے ذہن میں کلبلاتا سوال بالآخر اس نے پوچھ لیا۔

"آپ نے کیا کرنا ہے پوچھ کے۔میں نمٹ لوں گا سب سے۔لیو اٹ۔"

"مجھ پہ بیٹھے بٹھائے اتنا بڑا بہتان لگ گیا ہے۔کوئی میرے کردار کو آپ کی نظروں میں مشکوک کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں لیو اٹ۔"

اس نے حیرت سے کہا۔

"عادی ہمارا رشتہ اتنا کمزور نہیں ہے کہ ایک کاغذ کا ٹکڑا اسے ختم کر دے۔مجھے آپ پر پورا یقین ہے اور آخری سانس تک رہے گا۔کوئی کیا کہتا ہے مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے۔"

اس نے کہتے ہوئے اسکے چہرے پہ آئی لٹ کو کان کے پیچھے کیا۔

"آپ اتنے غصے میں تھے۔مجھے لگا آپ ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور چلے جائیں گے۔"

وہ۔اسکی بات پہ ہوٹل سے مسکرایا۔

"میں جتنے بھی غصے میں ہوں کبھی آپ سے دستبردار ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔آپ میری زندگی ہیں کون پاگل چاہتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی ختم کر لے۔آپ میرے وجود کا حصہ ہیں میں کیسے آپ پر شک کر سکتا ہوں۔کیا کبھی کوئی اپنے بارے میں بھی غلط فہمی میں مبتلا ہوا ہے۔"

وہ مسمرائز سی اسے بولتا سن رہی تھی۔

"آپ نے مجھے پہلے۔۔۔"

وہ کچھ کہنے والی تھی کہ دائم نے اسکے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر اسے مزید کچھ کہنے کا موقع نہیں دیا۔

_______________________________

اگلی صبح صارم کو بے چینی سے علی کا انتظار تھا۔گلاس ونڈو سے اسکی کار کو دیکھتے ہی وہ الٹے قدموں اوپر بھاگا۔

"بھابھی۔جلدی آئیں۔۔۔جلدی آئیں۔"

"کیا ہوا سب خیریت تو ہے ؟"

"ہاں ہاں سب خیریت ہے۔دائم کہاں ہے اسے بھی بلائیں اور نیچے آئیں میرے سسرال والے آۓ ہیں۔"

اسکی بات پہ خود پہ پرفیوم اسپرے کرتا دائم ہنس ہنس کر دہرا ہو گیا۔

"پھر تو نیچے کیا کر رہا ہے۔کسی کمرے میں چھپ کے بیٹھ۔بلکہ کچھ دیر بعد شرمیلی سی مسکراہٹ کے ساتھ ان کے لیے چائے پانی لے کے آنا۔"

دائم کے کہنے پہ اس نے لڑاکا عورتوں کی طرح کمر پہ ہاتھ رکھ کر اسے گھورا۔تبھی علی کے بولنے کی آوازیں آنے لگیں۔

صارم نے چہک کر ریلنگ سے جھک کر نیچے دیکھا اور وہیں کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔

"کیا ہوا تم کیوں سائلنٹ پہ لگ گئے؟"

دائم نے آکر اسے ہلایا۔ جھک کر ریلنگ سے نیچے جھانکا۔

رابیل کے علاوہ علی کی ساری فیملی کو لاؤنج میں موجود دیکھ کر وہ اپنے قہقہے پہ قابو نہیں رکھ سکا۔

"وہ کیوں نہیں آئی؟"

صارم نے منہ لٹکا کر دائم سے پوچھا۔

"علی سے پوچھنا وہ بتا دے گا۔"

"ہاں ہاں اس سے پوچھوں تاکہ وہ اس بیچاری کو گھر بیٹھے ہی بیوہ کر دے۔"

"زیادہ بک بک نہ کر۔اب آ نیچے خوشبو لگا کے آخر کو تیرے سسرال والے آئے ہیں۔"

وہ اس کے کندھے پہ ہاتھ مارتا سیڑھیاں اترا۔طلال اور سارہ انکے پاس بیٹھے تھے۔علی اس کو دیکھتے ہی اس کی طرف لپکا۔

"اب کیسے ہو۔۔۔زیادہ چوٹیں تو نہیں لگیں؟"

"تمہارے سامنے ہوں خود دیکھ لو۔بلاوجہ صامی نے تمہیں پریشان کیا ہے۔"

آنٹی اور انکل سے مل کر انہیں ایکسیڈینٹ کی تفصیلات پہنچانے کے بعد اب وہ سب خوش گپیوں میں مگن تھے۔

صارم کی حالت دیکھ کر عدن نے سلمیٰ آنٹی کو مخاطب کیا۔

"آنٹی جی رابیل کیوں نہیں آئی۔"

صارم نے فوراً کان آنٹی کی طرف کیے۔

"بیٹا اس کا پیپر ہے وہ پڑھ رہی تھی۔اس نے کہا تھا میں خود ہی دائم سے فون پہ بات کر لوں گی۔"

"ہاں اس نے بڑا پڑھنا ہے۔نالائق سی نہ ہو تو۔آتا جاتا ایک لفظ بھی نہیں ہو گا۔وہ جان بوجھ کر نہیں آئی۔پتہ ہے مجھے۔"

صارم جلے دل سے ان دونوں کو کہہ رہا تھا۔

"یہ تم لوگ کیا کھسر پھسر کر رہے ہو؟"

علی اپنے ڈیڈی کے پاس سے اٹھ کر صارم کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا۔دائم مرتضیٰ انکل سے کوئی بات کر رہا تھا۔سارہ'سلمیٰ اور عدن آپس میں باتیں کر رہی تھیں۔ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے وہ تھوڑا سا اور کھسک کر صارم کے بالکل ساتھ لگ گیا۔

"نہیں نہیں۔۔۔یہاں بھی کیوں بیٹھنا ہے میری گود میں آ جا۔"

صارم پہلے سے جلا بیٹھا تھا۔

"صامی۔۔۔گھر کا مین ممبر کدھر ہے۔کہیں نظر ہی نہیں آ رہی۔کہیں اللہ کے حکم سے جہان فانی سے کوچ تو نہیں کر گئی؟"

صارم نے بھی ادھر اُدھر دیکھ کر منہ بالکل اس کے پاس کر لیا۔

"اللہ تمہاری زبان مبارک کرے۔ اصلی بات کا مجھے بھی نہیں پتہ۔بس ممی نے ڈیڈی کے پوچھنے پہ اتنا بتایا ہے کہ وہ سمعیہ خالہ کے کہنے پہ واپس چلی گئی ہے۔حالانکہ بات کچھ اور ہے۔اسے دائم نے یہاں سے بھگایا یے۔"

"تو نے پوچھا نہیں دائم سے ؟"

"پوچھا تھا اس نے کہا ہے آئندہ میرے سامنے اسکا نام نہیں لینا مگر میں نے بھی شرفو کو ایک ڈنگ ڈونگ دے کر معلومات لی ہیں۔اس نے کہا ہے نیہا بی بی گھر سے روتے ہوئے گئی ہے اور دائم نے کہا ہے اگر یہ دوبارہ یہاں آئے تو اسے گولی سے اڑا سے دینا۔"

"اوہ بلّے بھئی بلّے۔یعنی مسئلہ کچھ اور ہے۔اب تو رہنے دے میں خود نیہا سے پتہ کرونگا۔"

"کوئی فائدہ نہیں میں نے اسے بہت کال کی ہے مگر اس نے ایک بار بھی نہیں اٹھایا بلکہ میرا نمبر بلیک لسٹ میں ڈال دیا ہے لیکن میں بھی صارم ہوں۔شرفو کے نمبر سے اسے روز مس کال مارتا ہوں۔کبھی تو اٹھائے گی نا۔"

"دائم کے نمبر سے کرنا پھر اٹھائے گی۔"

"بیٹا دائم نے اسے گھر سے نکالا ہے اب وہ ہماری دشمن نمبر ایک بن چکی ہے۔"

جب دائم نے انہیں ہر شے غافل لڑکیوں کی طرح سر جوڑے بیٹھا دیکھا تو خود بھی فوراً علی کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا۔

"آ جا آ جا شہزادے میں تیرا ہی انتظار کر رہا تھا۔میں نے سنا ہے تیری پہلی محبت گھر چھوڑ کے جا چکی ہے۔"

"نہیں یار۔۔۔۔وہ صارم کی آخری محبت ہے دیکھنا تم ادھر ہی آئے گی۔"

صارم نے فوراً کانوں کو ہاتھ لگائے۔

"لیکن صارم کی محبت کو تو چوکیدار نے دیکھتے ہی گولی سے اڑا دینا ہے۔"

علی کی بات پہ صارم بھی اسکا بھرپور ساتھ دیتے مرتضیٰ انکل کی جانب متوجہ ہوا جو جانے کے لیے کھڑے ہو چکے تھے۔

"مرتضیٰ کچھ دیر تو بیٹھو۔اتنے دن بعد آئے ہو اور ابھی جا رہے ہو۔"

طلال نے انہیں کھڑا ہوتے دیکھ کر کہا۔

"نہیں یار ابھی آفس جانا ہے۔جیسے ہی علی نے بتایا ہم فوراً چلے آئے۔اب تم لوگ آنا کسی روز ہماری طرف۔"

"جی جی انکل ہم بہت جلد آئیں گے انفیکٹ ہم آج کل میں آنے ہی والے تھے۔"

طلال کے بولنے سے پہلے صارم بول پڑا۔

"ضرور بیٹا وائے ناٹ۔تم تو کبھی آئے ہی نہیں۔"

"بس مستقبل میں صرف میں ہی آیا کروں گا۔"

وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔

"کیوں تو نے میرے گھر کیوں آنا ہے۔جب ہم سب آ گئے ہیں تو تیرا آنا ضروری ہے کیا ؟"

ڈیڈی کی موجودگی کے باعث علی نے آواز آہستہ رکھی۔

"بالکل بہت ضروری ہے۔چل اب شاباش۔کل پرسوں تک آئیں گے ہم۔کھانے کا ذرا اچھا سا اانتظام کر لینا۔"

وہ چہکتا ہوا انہیں خدا حافط کہہ کر واپس آ گیا۔

______________________________

"تم کہاں جا رہے ہو ؟"

طلال نے جب کچھ دیر بعد اسے بالکل تیار ر دیکھا تو حیرت سے پوچھا۔

"آفس۔"

"کیوں۔۔۔کوئی ضرورت نہیں ہے۔خاموشی سے گھر میں ریسٹ کرو۔"

"پلیز ڈیڈی میں تھک گیا ہوں گھر میں ریسٹ کر کر کے۔اب اور نہیں ہوتی۔بہت کام پڑے ہوئے ہیں سو آج جانے دیں۔"

"کوئی کام نہیں پڑا ہوا۔میں سب کچھ چیک کر چکا ہوں۔طبیعت تمہاری ٹھیک نہیں ہے اور ابھی سے چل پڑے ہو۔"

"اب بالکل ٹھیک ہوں۔ایون بازو میں بھی درد نہیں ہے۔پلیز ڈیڈی میں بور ہو گیا ہوں گھر میں رہ رہ کے۔اگر ذرا سی بھی طبیعت خراب ہوئی تو واپس آ جاؤں گا۔"

طلال نے مسکرا کر اسے دیکھا یہ وہی تھا جو آفس نہ جانے کے لیے انکی منتیں کرتا تھا اور آج وہ گھر میں بیٹھ بیٹھ کر بور ہو گیا تھا۔

"اوکے بٹ ڈرائیور کو ساتھ لے کر جانا۔خود ڈرائیو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔"

"اوکے۔جیسا آپ کہیں۔"

وہ انہیں مسکراتا چھوڑ کر لاؤنج سے باہر نکل گیا۔

__________________________________

رات کو سارہ کی گاڑی باہر جاتے دیکھ کر فوراً صارم اسکے پاس آیا۔

"چلو تم دونوں اب۔۔۔ممی باہر چلی گئیں ہیں اب ہم ڈیڈی سے بات کرتے ہیں۔آئیں بھابھی جلدی آئیں کہیں ڈیڈی سو ہی نہ جائیں۔"

"کہاں گئیں ہیں ممی ؟"

"انکی کسی دوست کے ہاں پارٹی ہے وہی گئیں ہیں چلو اب تم دونوں جلدی آؤ۔"

"نہیں یار آج میں بہت تھک گیا ہوں۔سچی مجھے بہت نیند آ رہی ہے ۔پھر کبھی بات کروں گا۔"

دائم کی بات پہ وہ اسے گردن سے پکڑ کر طلال کے کمرے تک لایا۔ان تینوں کو اس وقت دیکھ کر وہ حیران ہوئے۔

"کیا ہوا ؟"

انہوں نے کتاب بند کر کے سائڈ پہ رکھی۔

"وہ ڈیڈی ہم نے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔"

عدن نے بیڈ کے سامنے پڑے صوفے پہ بیٹھتے ہوئے کہا۔دائم طلال کے دوسری جانب بیٹھ گیا جبکہ صارم شرمیلی لڑکی بنا انکے پاؤں کے پاس بیٹھا۔

"ہاں بیٹا بولو۔۔۔"

طلال کی بات پہ اس نے دائم کی جانب دیکھا۔

"آہم۔۔۔ایکچوئیلی ڈیڈی آپکا دو نمبر بیٹا آئی مین دوسرے نمبر والا بیٹا جلد سے جلد شادی کا خواہشمند ہے۔آپکی آسانی کے لیے اس نے لڑکی بھی خود ہی ڈھونڈ لی ہے۔بس اب یہ اپنے نکاح کے چھوارے کھانا چاہتا ہے۔"

دائم نے کہہ کر اسے بولنے کا اشارہ کیا۔

"ڈیڈی میں چاہتا ہوں کوئی ایسی لڑکی ہو جو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ایجوکیٹڈ ، ذہین ، ٹیلنٹڈ اور ویل مینرڈ بھی ہو۔جو ہم سب کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے رکھے۔جو ہمارے گھر میں آتے ہی روشنیاں بکھیر دے۔"

اس نے کہہ کر پھر سے سر جھکا لیا۔

"میرا خیال ہے تم نیہا کی بات کر رہے ہو۔"

طلال نے پر سوچ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔دائم کے حلق سے بے اختیار قہقہہ امڈا۔شرمیلی لڑکی نے تڑپ کر سر اٹھایا۔

"خدا کا خوف کریں ڈیڈی۔اس سے بچنے کے لیے تو مجھے یہ پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں۔وہ نا دراصل۔۔۔دائم اور بھابھی کو رابیل پسند ہے اور یقیناً آپ کو بھی ہو گی اور آپ کبھی بھی ان دونوں کی بات کو رد نہیں کریں گے۔سو جو آپکی خوشی وہی میری خوشی۔مجھے کوئی اعتراض نہیں۔"

اسکی بات پہ دائم کا منہ کھل گیا۔

"ارے نہیں یار۔ہم تو نیہا پہ بھی خوش ہیں اس سے بڑی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ وہ ہماری بھابی بن جائے۔ممی کی بھی خواہش پوری ہو جائے گی۔کیوں عادی؟"

"ہاں بالکل۔پھر ہم کل کو رابیل کی بجاۓ نیہا کی طرف چلتے ہیں۔"

عدن نے بھی اسکا بھرپور ساتھ دیا۔

"تم دونوں چپ کر جاؤ۔خبردار کوئی ایک لفظ بھی بولا۔ڈیڈی آپ انہیں چھوڑیں صرف میری بات سنیں۔"

"نہیں یہ دونوں ٹھیک کہہ رہے ہیں۔چلو نیہا نہ بھی ہو رابیل ہی سہی مگر میں چاہتا ہوں تم پہلے اپنی اسٹڈی کمپلیٹ کر کے اچھے سے اسٹیبلش ہو جاؤ۔تین چار سال بعد کریں گے تمہاری شادی۔"

طلال کی بات پہ جہاں ان دونوں کے منہ سے ہنسی کے فوارے پھوٹے وہیں صارم کی آنکھیں ابل پڑیں۔

"میں آپکو بتا رہا ہوں میں پڑھائی چھوڑ دونگا۔کسی صورت انگلینڈ واپس نہیں جاؤنگا جب تک میری شادی نہ ہوئی۔آپ کو میرا ذرا سا بھی احساس نہیں ہے کیا بیتتی ہے میرے دل پہ۔بس میں نے کہہ دیا کل کو ہم انکل مرتضیٰ کی طرف جائیں گے رابیل کا ہاتھ مانگنے بلکہ پوری رابیل مانگنے۔میں انگلینڈ جاؤں گا تو اسے ساتھ لے کر جاؤں گا ورنہ میں نے ہرگز نہیں جانا خواہ میں اس سمیسٹر میں فیل ہی کیوں نہ ہو جاؤں۔"

"رابیل راضی ہے ؟"

طلال نے دائم سے پوچھا۔

"ارے کہاں راضی ہے۔وہ تو اسے منہ تک نہیں لگاتی۔یہی ہے ہاتھ پاؤں دھو کر اسکے پیچھے پڑا ہوا۔ڈیڈی مجھے رابیل بہت عزیز ہے میں کسی صورت اس کی زندگی برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔بہتر یہی ہے آپ اسکی واپسی کی سیٹ کنفرم کروائیں۔"

اسکی بات پہ صارم نے غصے سے بل کھاتے ہوئے سائڈ ٹیبل پہ پڑا لیمپ اٹھا لیا۔

"ڈیڈی اسکا منہ بند کروا لیں۔ورنہ آج یہ لیمپ میں اس پہ توڑ دوں گا۔"

"اوکے اوکے۔کل چلیں گے۔پہلے میرا لیمپ واپس رکھو۔"

ل"یکن اگر مرتضیٰ نے انکار کر دیا تو؟"

"ایسے کیسے انکار کر دیں گے۔اتنا ہینڈسم داماد انہیں چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ڈیڈی میں نے بہت سے ٹپے یاد کر لیے ہیں اب میں اپنی دن رات کی محنت پہ پانی پھرتا نہیں دیکھ سکتا۔ پلیز ڈیڈی پلیز"

"اوکے پھر کل کو سب تیار رہنا۔سارہ سے میں بات کر لوں گا۔کل چلیں گے۔"

"اوہ مائی گاڈ۔ڈیڈی یو آر سو سویٹ۔آئی لو یو سو مچ۔"

وہ فوراً اچھل کر طلال کے گلے لگا۔

"نہیں نہیں ڈیڈی۔۔۔کل نہیں پرسوں چلیں گے۔نہیں"

دائم نے کہنے پہ۔اس نے فوراً ایک مکا اسکی کمر میں مارا۔

"کیوں تمہیں کیا تکلیف ہے۔کیوں تم سے میری خوشیاں برداشت نہیں ہو رہیں۔آخر کیوں تم میرے دشمن بن گئے ہو۔"

"نو وے۔۔۔کل میرے گیسٹ آ رہے ہیں۔کل کسی صورت نہیں پرسوں چلیں گے۔"

"اور اگر پرسوں کو بھی کوئی گیسٹ آیا نا تو میں نے اکیلا ہی چلے جانا ہے پھر کوئی نا کہنا مجھے۔"

وہ کشن اس پہ پھینک کر گڈ نائٹ کہتا باہر چلا گیا۔

"اوکے ڈیڈی ہم لوگ بھی چلتے ہیں گڈ نائٹ۔"

وہ دونوں بھی طلال کو گڈ نائٹ کہہ کر چلے گئے۔

"عادی آؤ باہر چلتے ہیں۔"

اس نے عدن کو سیڑھیوں کی طرف بڑھتے دیکھ کر کہا۔

"اس وقت؟"

"بالکل اسی وقت۔میرا واک کرنے کو دل چاہ رہا ہے۔ آو چلیں۔"

رات کے اس وقت وہ سٹریٹ لائٹ کی مدھم روشنی میں اسکا ہاتھ تھامے سڑک پہ چل رہا تھا۔سڑک کے کنارے لگے درخت ہوا سے جھوم رہے تھے۔تاروں نے پورے آسمان کو ڈھانپا ہوا تھا۔

"واؤ کتنا اچھا لگ رہا ہے ۔ہم روز آیا کریں گے اس وقت واک کرنے ۔"

اس نے دائم کے اس وقت باہر آنے کے آئیڈیے کو سراہا۔

"جو حکم آپکا۔"

"آئی ہیو آ سرپرائز فار یو۔"

"وہ کیا ؟"

عدن نے اشتیاق سے پوچھا۔

"آج نہیں کل بتاؤں گا۔"

"آپ ہمیشہ ایسے ہی کرتے ہیں۔"

"ہاں تو پھر سرپرائز کا مزہ بھی اپنے ٹائم پہ ہی آتا ہے نا۔پہلے بتا دیا پھر کیا فائدہ لیکن پہلے مجھ سے وعدہ کریں سرپرائز دیکھنے کے بعد آپ گھر سے جانے کی ضد نہیں کریں گی۔"

"کیا مطلب؟ میں کیوں جاؤنگی؟"

"مجھے پتہ ہے آپ نے جانے کی ضد کرنی ہے لیکن میں نے ہرگز بھی جانے نہیں دینا۔"

"حیرت ہے ایسا بھی کونسا سرپرائز ہے ؟"

"بس ہے ایک۔پہلے وعدہ کریں ورنہ میں نے کوئی سرپرائز نہیں دینا۔"

"اوکے وعدہ۔۔"

"اب قائم بھی رہنا ہے وعدے پہ۔"

کچھ دیر بعد وہ دونوں اسی طرح باتیں کرتے ہوئے واپس گھر کی طرف جا رہے تھے۔

__________________________________

"آج آپ نے آفس نہیں جانا؟"

اس نے دائم کو ریلیکس بیٹھا دیکھ کر کہا۔

"نہیں۔۔۔آج کچھ گیسٹس نے آنا ہے۔آج نہیں جانا بس آپ اچھے سے تیار رہنا۔۔۔مجھے آپکو ملوانا ہے ان سے۔"

"اوکے۔"

طلال بھی آج گھر پہ ہی تھے۔دوپہر کے وقت عظمیٰ دائم کا پیغام لیے آئی۔

"بی بی جی دائم صاحب کہہ رہے ہیں نیچے آ جائیں مہمان آ گئے ہیں۔"

وہ عظمیٰ کی بات پہ سر ہلا کر اس کے ساتھ چل دی۔

"بی بی جی یہ رنگ آپ پہ بڑا ہی کِھل رہا ہے۔"

پرپل کلر پہنے اس کی رنگت دمک رہی تھی۔عظمیٰ کی بات پہ وہ مسکرا کر ڈرائنگ روم کی طرف بڑھی لیکن اندر سے آتی آوازیں سن کر قدم ایک پل کو وہیں ساکت ہو گئے۔ان آوازوں کو سننے کے لیے تو اسکے کان ترس گئے تھے۔

وہ بے یقینی سے آگے بڑھی۔سامنے بیٹھے افراد کو دیکھتے ہی وہ منہ پہ ہاتھ رکھے آنکھوں میں آنسو لیے دروازے کے بیچ و بیچ کھڑی رہ گئی۔

"عدن دیکھو کون آیا ہے؟"

دائم کی بات پہ اس نے اسکی جانب دیکھا جو طلال اور سارہ کی موجودگی کے باعث سر نفی میں ہلا کر اسے کچھ نہ کہنے کا اشارہ کر رہا تھا۔

"عدن میری جان۔"

اماں فوراً اس کی طرف آئیں۔

زور سے اماں کے گلے لگتے ہوئے اسکی آنکھیں برس پڑیں۔

وہ کتنی دیر بعد آج ان سے ملی تھی اس نے حساب لگانے کی کوشش کی مگر کچھ یاد نہیں آ رہا تھا۔

"تم ٹھیک ہو نا۔"

وہ روتے ہوئے اس کے چہرے کو چوم رہی تھیں۔

اس نے انکی بات پہ سر ہلایا۔آنسوؤں کا پھندا حلق میں پھنسنے کے باعث منہ سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے۔

"اپنے بابا سے ملو۔"

اماں کے کہنے پہ وہ فوراً بابا کے سینے سے لگی۔

"تم ٹھیک ہو نا میری جان۔"

بابا نے اسے زور سے گلے لگایا جیسے اسکے پاس ہونے کا یقین کر رہے ہوں۔اتنی دیر بعد آج اسے گلے لگا کر ان کے اندر ٹھنڈ سی اتر گئی تھی۔

بہت مشکل سے نواب عالم نے اپنے آنسوؤں کو واپس اندر اتارا تھا۔

"میں ٹھیک ہوں بابا۔"

اماں نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔سارہ اسے بیٹھتا دیکھ کر فوراً ایکسکیوز می کہتی اٹھ کر چلی گئیں۔عدن کے لیے انکے دل میں نفرت کسی صورت ختم نہیں ہو رہی تھی۔

"اماں گھر میں سب کیسے ہیں؟ عبداللہ بھائی ، حیدر اور بھابھیاں سب ٹھیک ہیں نا۔"

"ہاں سب ٹھیک ہیں۔"

"عدن بیٹا آپ بھابھی کو اپنے کمرے میں لے جاؤ۔ایزی ہو کے باتیں کرو۔"

طلال کی بات پہ وہ فوراً اٹھی۔

"اوکے ڈیڈی۔۔۔آئیں اماں اوپر چلتے ہیں۔"

طلال نے نواب عالم کے ساتھ اپنا پسندیدہ موضوع "سیاست" شروع کر دیا۔وہ اماں کو لیے اپنے کمرے میں آئی۔

کمرے میں آتے ہی اماں نے دوبارہ روتے ہوئے اسے سینے سے لگایا۔

"تم ٹھیک ہو نا ؟"

"میں بالکل ٹھیک ہوں اماں۔۔۔آپ کیسی ہیں۔۔۔اماں میرا کوئی قصور نہیں تھا۔۔۔یہ سب جہانگیر نے کیا۔"

"میں جانتی ہوں میری جان۔۔۔سب کچھ جانتی ہوں۔"

"میں روز بابا اور عبداللہ بھائی کا نمبر ٹرائی کرتی ہوں۔فون کیوں بند ہیں سب کے؟"

"کیا بتاؤں میں تمہیں۔تمہاری گمشدگی کی خبر جو بھی سنتا دن میں دس دس بار ہر کوئی فون کرتا۔لوگوں کے جتنے منہ اتنی باتیں۔تنگ آکر ان دونوں نے اپنے نمبر بند کر دئیے۔"

"اماں بھائی اور بابا مجھے غلط تو نہیں سمجھ رہے۔میرا کوئی قصور نہیں ہے۔"

"پاگل ہو گئی ہو۔ کیوں غلط سمجھیں گے وہ۔

سب کچھ پتہ ہے انہیں۔"

اماں نے اسکے آنسو صاف کئے۔

"آپ لوگوں کو کیسے پتہ چلا میرا؟"

"دائم آیا تھا کل ہمارے پاس۔تمہارے بابا گجرانوالہ گئے ہوئے تھے۔عبداللہ ہی اسے گھر لے کر آیا۔عبداللہ تو کل ہی آنے والا تھا مگر تمہارے بابا کا انتظار تھا۔ وہ رات آئے اور آج ہم تمہارے پاس چلے آئے۔عبداللہ ، حیدر ، مہوش اور فاطمہ سب کہہ رہے تھے تمہیں ساتھ لے کر آئیں۔"

"تم خوش تو ہو نا۔۔۔گھر میں سب لوگ کیسے ہیں؟"

"میں بہت خوش ہوں۔گھر میں سب بہت اچھے ہیں"۔

"تمہاری ساس کیسی ہے ؟ دائم تو مجھے بہت اچھا لگا۔جب سے وہ تمہارا بتا کر آیا تھا مجھے تو تب سے بے چینی تھی کہ کب صبح ہو اور میں تیرے پاس اڑ کر آ جاؤں۔وہ لڑکا کیا بھلا سا نام تھا اس کا ہاں صارم وہ بھی بہت اچھا ہے۔بڑا شریف سا ہے جب سے ہم آئیں ہیں نظریں جھکا کر ہمارے پاس بیٹھا ہوا ہے۔"

اماں کی بات پہ وہ آنسو پونچھتی ہنس پڑی۔

"وہ صرف مہمانوں کے سامنے اتنا شریف بنتا ہے۔آپ بالکل پریشان مت ہوں ۔یہاں پہ سب بہت اچھے ہیں۔"

"ہاں طلال بھائی تو واقعی بہت اچھے ہیں۔تمہاری ساس کا کیا نام ہے ؟ بڑی نخرے سی والی لگی مجھے؟"

"نہیں اماں۔۔۔بہت اچھی ہیں وہ۔۔"

"تمہیں یہاں پہ خوش دیکھ کر میرے سارے دکھ ختم ہو گئے ہیں۔میں تمہیں بتا بھی نہیں سکتی یہ گزرے دن کیسے گزارے ہیں ہم نے۔"

اماں اسے سینے سے لگائے میر عالم کی موت اور جہانگیر کے انجام کے بارے میں بتا رہی تھیں۔وہ بہتی آنکھوں سے مکافات عمل کو سن رہی تھی۔

"اماں آپ تھک گئی ہوں گی۔کچھ دیر کے لیے لیٹ جائیں۔"

"نہیں تمہیں دیکھ کر میری ساری تھکاوٹ دور ہو گئی ہے۔مجھے اب بھی یقین نہیں آ رہا کہ تم میرے سامنے بیٹھی ہو۔"

انہوں نے کہتے ہوئے اس کے ہاتھ چومے۔

"اچھا میں اب نیچے چلتی ہوں۔تمہاری ساس کے پاس تو میں بیٹھی ہی نہیں۔تم ایسا کرو اپنے کپڑے رکھ لو کچھ دن کے لیے ہمارے ساتھ چلو۔"

"ٹھیک ہے آپ چلیں میں ابھی آئی۔"

ان کے جانے کے بعد دائم کمرے میں آیا وہ ہینگر سے کپڑے نکال کر بیڈ پہ رکھ رہی تھی۔

"پھر کیسا لگا سرپرائز؟"

اسکی آواز پہ وہ نم آنکھوں کے ساتھ مڑی۔خوشی کا اندازہ اسکے چہرے سے ہو رہا تھا۔

"میرے پاس تھینک یو کہنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔"

وہ مسکراتے ہوئے اسکے پاس آیا۔

"مجھے تھینک یو چاہیے بھی نہیں۔میں صرف آپکو خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔آپکے آنسو نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ پلیز آئندہ نہ رونا۔ اٹ ول بی آ بگ تھینکس فار می۔"

"اور یہ کہاں کی تیاری ہے؟"

اس نے بیڈ پہ پڑے کپڑوں کو دیکھ کر کہا۔

"اماں کہہ رہی ہیں کچھ دنوں کے لیے ہمارے ساتھ چلو۔"

"نو۔۔۔نیور۔۔۔کل رات کیا وعدہ کیا تھا میرے سے؟"

"مائی گاڈ۔۔۔آپ نے مجھ سے اس لیے وعدہ لیا تھا۔"

"بالکل اور اب آپ کہیں نہیں جا رہی۔"

"یہ کیا بات ہوئی میرا اتنا دل کر رہا ہے سب سے ملنے کو۔"

"تو میں خود لے کر جاؤں گا نا آپکو ملوانے کے لیے مگر وہاں جا کے رہنا نہیں ہے۔"

"یعنی کہ اب میں وہاں جا کے رہ بھی نہیں سکتی۔"

اس نے حیرت سے پوچھا۔

"بالکل رہ سکتی ہیں۔چاہے پورا دن رہنا۔میں خود کسی دن آفس جاتے ہوئے چھوڑ آؤں گا اور شام کو آتا ہوا واپس لے آؤں گا اور کچھ؟"

اس نے زچ کر دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔

"آپ بہت بڑے چیٹر ہیں آئندہ میں آپ سے کوئی وعدہ نہیں کروں گی۔"

اس نے غصے سے کپڑے واپس الماری میں پھینکنے شروع کیے۔

دائم نے پیچھے سے آکر اسکے ہاتھوں کو تھاما۔

"آفس سے واپسی پر میں ہر روز آپکو گھر میں دیکھنا چاہتا ہوں۔میں ایک پل کے لیے بھی آپکو خود سے دور نہیں کر سکتا۔۔۔پلیز۔"

اس کی گھمبیر لہجے میں کی گئی سرگوشی پہ عدن کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ گئیں۔

"تو۔۔۔میں۔۔۔کونسا۔۔۔کہیں۔۔۔جا۔۔۔رہی ہوں۔۔۔یہیں تو ہوں۔"

اب کی بار اس نے کپڑے آرام سے ہینگر میں لٹکا کر واپس رکھے۔

تبھی عظمیٰ لنچ کا کہنے آئی۔

"انہیں بعد میں سیٹ کر لینا آؤ پہلے لنچ کرتے ہیں سب ویٹ کر رہے ہونگے۔"

ان دونوں کو سیڑھیوں سے اترتا دیکھ کر اماں نے دل ہی دل میں نظر اتاری۔بے شک وہ انکی بیٹی کے لیے پرفیکٹ تھا۔

لنچ کے کچھ دیر نواب عالم جانے کے لیے کھڑے ہو گئے۔

"عدن بیٹا ہمارے ساتھ چلو۔"

اماں نے کہا۔

"ہاہ۔۔۔۔ آپ بھابھی کو ساتھ لے جا رہی ہیں؟"

صارم نے لڑکیوں کی طرح منہ پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔

"ہاں بیٹا۔۔۔جب سے اس کی شادی ہوئی ہے ایک بار بھی رہنے نہیں آئی۔"

"آنٹی جی میرا تو کل کو انہوں نے رشتہ لے کر جانا ہے۔اگر بھابھی نہ ہوئیں تو کیا فائدہ۔۔۔میں مزید اپنی شادی میں تاخیر برداشت نہیں کر سکتا۔"

وہ پھر سے اپنے دکھڑے لے کر بیٹھ گیا۔

"آنٹی جی آپ فکر نہ کریں میں خود عدن کو لیکر آؤں گا ایک دو دنوں تک۔"

دائم کے کہنے پہ انہوں نے مطمئن ہو کر سر ہلایا۔عدن کو ہنستے دیکھ کر اماں اور بابا دونوں کے اندر ڈھیروں سکون اتر آیا تھا۔

"ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔جلدی آنا۔"

انہوں نے دائم کی پیشانی چوم کر کہا۔

"آنٹی آپ میری شادی میں ضرور آئیے گا۔بس اللہ کے کرم سے اسی مہینے میری شادی ہو جانی ہے بلکہ شادی کروا کے میں خود آپ کے گھر دعوت کھانے آؤں گا۔بھابی آئیں نہ آئیں۔میں ضرور آؤں گا کیونکہ پھر تو میں نے انگلینڈ چلے جانا ہے بس آپ میری جلد سے جلد دعوت کر لینا۔"

طلال کے پیچھے مڑ کر دیکھنے پر اسکی زبان کو بریک لگا۔

"ضرور بیٹا کیوں نہیں۔"

"اماں مجھے گھر پہنچ کے فون کر دیجئے گا۔"

اس نے اماں سے ملتے ہوئے کہا۔جب تک انکی کار نظروں سے اوجھل نہیں ہو گی وہ باہر کھڑی انہیں دیکھتی رہی۔

"بس کریں بھابھی ادھر آ جائیں اور اپنی سہیلی کو فون کر کے بتا دیں کل کو بریانی ذرا اچھی سی بنائے۔"

وہ صارم کی بات پہ ہنستے ہوئی اندر آ گئی۔


اگلے روز ناشتے کے فوراً بعد صارم تیار ہو گیا۔

"تم لوگ کیسے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہوئے ہو۔جانا نہیں ہے کیا ؟"

وہ ریسٹ واچ باندھتا ان سب کے سر پہ آ کھڑا ہوا۔

"تم اتنے بے صبرے کیوں ہو رہے ہو۔سسرال والوں کو ناشتہ تو کر لینے دو۔ابھی جا کے ہلہ بول دیں کیا ؟"

دائم کی بات پہ وہ منہ بنا کے بیٹھ گیا۔

"اچھا علی کو مت بتانا۔اچھا ہے وہ آفس چلا جائے گا پھر ہی جائیں گے ہم۔"

"خبردار اگر تم نے وہاں جا کے رابی کو کچھ کہا بہتر میں علی کو کال کر دیتا ہوں۔"

"تم تو میرے پکے دشمن ہو۔آج نیہا نہیں ہے تو اسکی کسر تم پوری کر دو۔ڈیڈی اب اٹھ بھی جائیں نا۔آج تو آپ لوگ ایسے بیٹھے ہیں جیسے کوئی کام دھندا ہی نہیں ہے۔ممی آپ بھی اٹھیں۔بھابھی آپ کیوں بیٹھی ہوئی ہیں۔اگر ایک گھنٹے کے اندر اندر سب تیار ہو کے نہ آئے تو میں اکیلا ہی چلا جاؤں گا۔"

اس کی دہائیوں پہ واقعی ایک گھنٹے کے بعد سب تیار تھے۔

"دائم بیٹا مرتضیٰ کو فون کر دو۔کہیں آفس نہ چلا جائے وہ۔"

"جی میں نے علی کو کال کر دی ہے۔ڈیڈی ویسے اصول کے مطابق تو صامی کو گھر میں رہنا چاہیے۔یہ کیوں ہمارے ساتھ جا رہا ہے۔"

اس نے صارم کو آنکھ مارتے ہوئے کہا۔

"اوہ شٹ۔۔۔یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔"

طلال نے افسوس سے ماتھے پہ ہاتھ مارا۔

"خبردار۔۔۔تم رہو گھر پہ۔میں اپنا رشتہ لے کر خود جاؤنگا۔"

اس سے پہلے کہ طلال دائم کے مشورے پر عمل کرتے وہ بھاگ کے گاڑی میں بیٹھ گیا۔

"مائی گاڈ۔۔۔میں نے آج تک تم جتنا بے صبرا انسان نہیں دیکھا صارم۔"

طلال نے ہنستے ہوئے کہا۔

"وہ اس لیے ڈیڈی کہ آپ میرے دل کی حالت نہیں جانتے۔شادی شادی کا ورد کر کے تو میرے دل کا ایک خانہ دھڑکنا ہی بند ہو گیا ہے۔یعنی کہ حد ہو گئی میرے سے چھوٹا موج مستیاں کرتا پھر رہا ہے اور آپکو میرا خیال ہی نہیں ہے۔آپ تو مجھے اس بار بھی سنگل ٹکٹ پہ واپس بھجوا دیتے اگر مجھے خود اپنا خیال نہ آتا۔اب مجھ پہ تھوڑا سا رحم اور کریں۔انکل مرتضیٰ سے کہیں یہ انگیجمنٹ کے چکروں میں پڑنے کی بجاۓ ہم سیدھا سیدھا نکاح ہی کر لیتے ہیں۔ پھر آپ ہم دونوں کو ایک مہینے کے اندر اندر انگلینڈ بھجوانے کا بندوبست کریں۔کہیں واقعی میں اس سمیسٹر میں فیل نہ ہو جاؤں۔"

اس نے طلال کے آگے ایک اور فرمائش رکھی۔

"تو بیٹا تم مجھے پہلے بتا دیتے ہم مولوی کو بھی ساتھ ہی لے چلتے۔"

"ہائے ڈیڈی آپ کی اور میری سوچ کتنی ملتی ہے۔آئی لو یو سو مچ۔"

اس کی بات پہ دائم نے اسے کڑی نظروں سے دیکھا۔

"ڈیڈی کو زیادہ مصالحے لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔"تمہاری اس سڑی ہوئی شکل کو دیکھ کے وہ بیچاری رشتے کی ہامی بھر لے یہی بہت ہے۔نکاح کا خواب خیال ذہن سے نکال دے۔"

دائم کی بات پہ اس نے فوراً ایک گھونسا اسکے بازو میں مارا۔

"منہ سیدھا کر کے گاڑی چلا۔دوبارہ نہ اب کسی میں مار دینا اور نہ میں بھری جوانی میں بغیر شادی کیے اوپر پہنچ جاؤں۔"

سارہ اور عدن مسکراتے ہوئے باپ بیٹوں کی نوک جھونک سن رہی تھیں۔

"دائم ذرا سمعیہ خالہ کے گھر کی طرف ٹرن لینا۔"

"کیوں؟"

"یار اپنی بہن کو بھی ساتھ ہی لے چلتے ہیں ہم۔"

"پہلے ممی سے پوچھ لو وہ جائے گی بھی یا نہیں۔نمبر تو اس نے تمہارا ابھی تک بلیک لسٹ میں ڈالا ہوا ہے۔"

"ارے نمبر سے یاد آیا اس نے شرفو کا نمبر بھی بلیک لسٹ میں ڈال دیا ہے۔ہائے ربّا اب مجھے عظمیٰ سے فون مانگنا پڑے گا۔"

اس کی بات پہ سوائے سارہ کے سب ہنس ہنس کر دہرے ہو گئے۔

"کیوں اس نے تمہارا نمبر کیوں بلیک لسٹ میں ڈال دیا ہے؟"

طلال نے ہنستے ہوئے پوچھا۔

"بس ڈیڈی۔۔۔کچھ نہ پوچھیں میرے سے۔آپ کو کیا پتہ اردگرد کیا ہو رہا ہے۔آج کل تو لوگ دہشت گردی پہ اتر آئے ہیں۔معصوم لوگوں کو دن دہاڑے بندوق دکھا کر گھر بدر کیا جا رہا ہے۔"

اسکی بات پہ دائم نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا جو اپنی ہنسی چھپانے کو باہر دیکھنے لگا۔

کچھ دیر بعد وہ مرتضیٰ ولا میں موجود تھے۔سامنے علی، رابیل ،مرتضیٰ اور سلمیٰ بیگم انکے استقبال کے لیے موجود تھے۔

صارم نے رابی کو دیکھتے ہی بتیسی نکالی جو اسے دیکھ کر منہ بناتے ہوئے عدن کے ساتھ اندر چلی گئی۔طلال مرتضیٰ کے ساتھ باتوں میں مگن تھے۔علی ان دونوں کے ساتھ جڑ کے بیٹھ گیا۔

"خیریت تو ہے۔۔۔روٹی کے ٹائم ہی تم لوگوں کا قافلہ کیوں ہمارے گھر آ گیا۔۔۔دال میں کچھ کالا لگ رہا ہے۔"

"نہ بیٹا نہ۔پوری کی پوری دال ہی کالی ہے۔بس ابھی کچھ دیر میں پتہ چل جائے گا۔"

دائم نے اس سے بھی آہستہ آواز میں کہا۔

دوپہر ہونے تک طلال نے مرتضیٰ سے اس بارے میں کوئی بات نہ کی۔صارم کو ہول اٹھ رہے تھے۔

"دائم کہیں ڈیڈی بھول تو نہیں گئے۔"

"تو یاد کروا دے نا دوبارہ۔"

دائم نے اسکو دیکھتے مزے سے کہا۔

"یہ علی آج آفس کیوں نہیں گیا۔"

اب کی بار اس نے دوسرا دکھڑا رویا۔

"کیوں تجھے کیا تکلیف ہے خبردار اگر تو نے رابیل کو کچھ کہا۔"

"منہ بند کر۔یہ میرا پرسنل معاملہ ہے۔علی تو آج آفس کیوں نہیں گیا۔"

اس نے دائم کا منہ بند کروا کر علی سے پوچھا۔

"جانا تو تھا یار مگر اب تجھے چھوڑ کے تھوڑی جا سکتا ہوں۔"

"نہیں نہیں تو چلا جا۔ہم تو رات کا کھانا کھا کے جائیں گے۔بے فکر ہو کے جا۔"

اچھا پھر میں ایک چکر لگا ہی آتا ہوں۔میرے آنے سے پہلے لنچ نہ شروع کرنا۔بس میں ایک گھنٹے میں آیا۔"

علی کے جاتے ہی اس نے منہ پہ ہاتھ پھیرے۔اردگرد دیکھا سب اپنی باتوں میں مگن تھے۔

وہ آہستہ سے کھڑا ہوا کہ دائم نے فوراً اسے بلایا۔

"صامی کہاں جا رہے ہو ؟ اچھا اچھا پانی پینے جا رہے ہو۔ایک گلاس میرے لیے بھی لے آنا۔"

"زہر نہ لے آؤں تیرے لیے۔"

"بیٹا تم بیٹھو۔میں لا دیتی ہوں۔"

سلمیٰ آنٹی فوراً کھڑی ہوئیں۔

"نہیں نہیں آپ بیٹھیں۔میں خود ہی لے آتا ہوں۔"

"جلدی لانا مجھے پیاس لگی ہے۔"

دائم کی بات پہ وہ اسے منہ ہی منہ میں گالیوں سے نوازتا ڈرائنگ روم سے باہر نکلا اور کچن کی طرف بڑھا۔

"آہم۔۔۔آہم۔"

رابیل نے اسکی آہم آہم پہ بھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا۔وہ خود ہی اس سے ایک کاؤنٹر کا فاصلہ رکھ کر سلیب کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔

"سب باتوں میں بزی تھے کسی کو تمہارا خیال نہیں ہے۔میں نے سوچا میں ہی تمہاری ہیلپ کروا دوں۔"

"مجھے ضرورت نہیں ہے۔تم بھی جاؤ یہاں سے۔"

وہ بغیر اس پہ دھیان دئیے کیک کے اوپر چاکلیٹ کی تہہ لگا رہی تھی۔

"تم جاتے کیوں نہیں ہو انگلینڈ۔کیوں پاکستان میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے ہو۔"

"ارے میرا دھرنا ناکام نہیں گیا۔حکام اعلیٰ نے میرے دھرنے کا نوٹس لے لیا ہے اور آج وہ دوسری پارٹی سے مذاکرات کرنے کے لیے تشریف لائے ہیں۔سو فیصد مثبت نتائج برآمد ہوں۔"

اسکی بات پہ رابیل کا منہ کھل گیا۔

"ڈونٹ ٹیل می تم یہاں پہ میرا رشتہ لینے آئے ہو۔"

"تو تمہارا کیا خیال ہے میں یہاں پہ بنٹے کھیلنے آیا ہوں۔"

"مائی گاڈ میں بالکل راضی نہیں ہوں۔انکل کو روکو وہ ڈیڈی سے کوئی بات نہیں کریں۔جاؤ جا کے انہیں بتاؤ۔"

"ہاں ہاں میں بتا چکا ہوں کہ ایک مہینے کے اندر اندر ہمیں انگلینڈ بھجوانے کا بندوبست کریں۔"

اس نے سامنے پڑے کیک پہ انگلی لگا کر چاکلیٹ اتاری۔

"بدتمیز۔۔۔ابھی گارنش کر کے ہٹی ہوں میں۔"

"تمہیں کیسے پتہ مجھے چاکلیٹ کیک پسند ہے سچ کہتے ہیں دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔"

اس کی بات پہ رابی نے اسے غصے سے دیکھتے ہوئے کیک اٹھا کے فریج میں رکھا۔

صارم نے فوراً دماغ پہ زور دیا اس وقت کے لیے بھی ایک گانا یاد کیا تھا۔

لٹھے دی چادر اُتے سلیٹی رنگ ماہیا

آوو سامنے آوو سامنے 

کولوں دی رُس کے نہ لانگ ماہیا۔

رابیل نے ہنسی چھپانے کو منہ بالکل فریج کے اندر کر لیا۔تبھی صارم نے ٹیون بدلی۔

ساڈے کولوں سوہنا مکھڑا لُکان لئی

سجناں نے منہ اگے فریج تان لئی

فریج تان لئی۔۔۔۔۔فریج تان لئی

سجناں نے مکھڑے اگے فریج تان لئی۔

اس کے گانے پہ رابیل نے بڑی مشکل اپنے قہقہے کا گلا گھونٹا۔

"تمہیں اس سے بھونڈا گانا نہیں ملا گانے کو۔"

"کیا ہوا تمہیں اچھا نہیں لگا کوئی بات نہیں میں تو اتنے یاد کیے ہیں ساری زندگی تمہیں سناتے ہی گزر جائے گی۔"

"شٹ اپ۔مجھے تنگ مت کرو جاؤ یہاں سے ورنہ میں ابھی علی کو بلاتی ہوں۔"

"لو بھلا تمہیں منائے بغیر تھوڑی جاؤنگا میں۔بس اسی ہفتے ہماری شادی ہو جائے گی۔پھر ہم نے انگلینڈ بھی جانا ہے کہیں واقعی اس سمیسٹر میں فیل ہی نہ ہو جاؤں میں۔"

کہتے ہوئے اس نے چولہے پہ پڑے پتیلے کا ڈھکن اٹھا کر اندر جھانکا۔

"مجھے تمہاری ایک ایک حرکت نظر آ رہی ہے۔واپس رکھو اسکو۔"

رابی نے فوراً بریانی پہ ڈھکن دیا۔

تم ہو اہلِ نظر تو تمہیں کیوں نہیں آتا

آنکھوں کی گزارش کو سمجھنے کا سلیقہ 

اسکے مدھم لہجے میں شعر پڑھنے پہ رابیل کا دل پہلی بار کسی انوکھی تال پہ دھڑکا تھا۔اس نے چہرہ پھیر کے بمشکل لہجے کو سخت بنایا۔

"میں نا بڑی روکھی پھیکی سی لڑکی ہوں۔تمہاری یہ شاعری مجھ پہ کوئی اثر نہیں کرے گی۔"

"اوہ تھینک گاڈ کوئی ایک تو پلس پوائنٹ ملا۔مجھے بھی شاعری بالکل نہیں پسند۔یہ شعر تو میں نے دائم کے کہنے پہ راستے میں آتے ہوئے حفاطت ماتقدم کے طور پہ اسی کے موبائل سے دیکھ کر یاد کیا تھا۔اس نے کہا تھا لازمی ضرورت پڑے گی ایک یاد کر لے۔ہائے کتنا اچھا ہے میرا بھائی۔"

اس کے کہنے پہ رابی نے دل کے دھڑکنے پہ لعنت بھیجتے ہوئے فوراً اسٹینڈ پر سے چھری اٹھا لی۔

"تمہیں پتہ ہے دائم نے تو شادی کے بعد شعر و شاعری میں پی ایچ ڈی کر لی ہے۔"

"نکلو یہاں سے ورنہ میں تمہیں ادھر ہی ذبح کر دوں گی۔"

وہ جیسے ہی چھری لے کر اسکی جانب بڑھی صارم دو ہی چھلانگوں میں کچن سے باہر تھا۔

"تمہیں شعر پسند نہیں آیا؟ تم ٹھہرو میں ابھی اسکے موبائل سے دوسرا یاد کر کے آتا ہوں۔اب تم راضی ہو نا پھر میں ہاں سمجھوں؟"

وہ چھری لے کر اس کے پیچھے کچن سے باہر نکلی۔چھری دیکھ کر بھاگتا ہوا وہ راستے میں آتے دائم سے ٹکرا گیا۔

"تم غالباً پانی لینے آئے تھے۔رابی تم نے یہ چھری کیوں اٹھا لی۔"

"آپ اپنے اس بھائی کو یہاں سے لے جائیں ورنہ میں اسکے ٹکڑے ٹکڑے کر دونگی۔"

اس نے دائم کے پیچھے کھڑے صارم کو دیکھ کر چباتے ہوئے کہا۔

"ہوا کیا ہے ؟"

"کیا ہونا ہے ذلیل جو تو نے مجھے شعر یاد کرنے کو کہا تھا وہ میں نے اسکو سنا دیا اب اسے پسند نہیں آیا تو میرا کیا قصور۔خبیث انسان تو مجھے کوئی کام کا شعر نہیں بتا سکتا تھا کیا ؟"

اسکی بات پہ دائم ہنستے ہوئے وہیں صوفے پہ گر گیا۔عدن انکی آوازیں سنتی باہر آ گئی۔

"ہائے بھابھی میں لُٹ گیا۔آج آپکے شوہر نے میرا رشتہ ہوتے ہوتے رکوا دیا۔ہائے اب میں کیا منہ دکھاؤں گا خود کو شیشے میں۔"

"صامی ڈارلنگ تو کیوں نہیں مان لیتا تیری قسمت میں شادی نہیں ہے۔"

اندر آتے علی نے دائم کی بات پہ قہقہہ لگایا۔

"یار اس پہ کوئی وظیفہ بھی اثر نہیں کرتا۔صامی تو کیوں نہیں مان جاتا تو نے ساری زندگی کنوارہ رہنا ہے۔"

"تمہارے منہ میں خاک۔تم اتنی جلدی واپس کیسے آ گئے۔"

"میں نے سوچا کہیں تم سارا کچھ اکیلے ہی نہ نگل جاؤ بس اسی لیے راستے سے واپس آگیا۔رابی لگواؤ کھانا۔بھوک لگی ہوئی ہے۔"

وہ اسے کہہ کر ان دونوں کو لیے ڈرائنگ روم میں آیا جہاں طلال مرتضیٰ سے بات کر رہے تھے۔

"مرتضیٰ میں آج تمہارے پاس ایک گزارش لے کر آیا ہوں۔"

"گزارش کیسی بولو کیا بات ہے۔"

"آج ہم صارم کے لیے رابیل کا ہاتھ مانگنے آئے ہیں۔رابی مجھے بالکل اپنے بچوں کی طرح عزیز ہے۔میں چاہتا ہوں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہمارے گھر آ جائے۔اور ہمیں جواب ہاں میں ہی چاہیے۔"

ان کی بات پہ مرتضیٰ نے بیگم کی طرف دیکھا جنہوں نے مسکراتے ہوئے عندیہ دیا۔

"ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔رابیل آج سے تہماری بیٹی ہے۔"

"بہت شکریہ یار۔"

طلال کھڑے ہو کر ان کے گلے لگے۔ڈیڈی کی بات پہ علی نے ایک تھپڑ صارم کی گردن میں مارا پھر ہنستے ہوئے اسے گلے لگایا۔

"یہ مہر لگانی بہت ضروری ہے؟"

اس نے ہاتھ پھیر کے گردن سہلائی۔

"مرتضیٰ ایک اور بات ہے میں جلد از جلد یہ فرض ادا کرنا چاہتا ہوں۔صارم کی اسٹڈی کا مسئلہ نہ ہوتا تو میں کبھی تمہیں اس جلد بازی پہ مجبور نہ کرتا۔میں چاہتا ہوں جلد سے جلد نکاح ہو جائے پھر اسی مہینے ان دونوں کو انگلینڈ بھجوا دوں۔"

"اتنی جلدی؟"

سلمیٰ نے حیرت سے مرتضیٰ کی طرف دیکھا۔

"بھابی مجھے رابیل بالکل اپنے بچوں جیسی ہے۔میں نے کہا نا اگر صارم کی اسٹڈیز کا مسئلہ نہ ہوتا تو کبھی آپ لوگوں کو مجبور نہ کرتا۔اسکا لاسٹ سمیسٹر ہے پھر تو یہ ہمیشہ کے لیے پاکستان آ جائے گا۔اسی لیے ہم چاہتے ہیں جلد سے جلد یہ فرض ادا ہو جائے۔"

طلال کی بات پہ دائم فوراً صارم کے قریب آیا۔

"ایسی کونسی آگ لگی ہے سمیسٹر پورا کر کے شادی کروا لینا۔میں کہتا ہوں ابھی رہنے دیتے ہیں۔"

"خبردار اگر تو نے ٹانگ پھنسائی۔اللہ اللہ کر کے کوئی راہ نکلی ہے میرا بھائی نیا مشورہ دے کے اسے نہ بند کروا۔یہ دیکھ ترس کھا میرے پہ۔"

اس نے سب سے نظر بچا کر دائم کے آگے ہاتھ جوڑے۔

"ٹھیک ہے طلال جیسا تم کہو رابیل آج سے تمہاری بیٹی ہے۔"

مرتضیٰ نے کہا۔

"تھینک یو سو مچ پھر اس مہینے کی کوئی ڈیٹ رکھ لیتے ہیں یا پھر تم لوگ فائنل کر کے مجھے بتا دینا۔"

ڈیڈی کی بات پہ صارم نے شکر ادا کرتے ہوئے منہ پہ ہاتھ پھیرے۔

"دائم یاد رکھنا جاتے ہوئے مسجد میں پیسے ڈال کے جانے ہیں۔"

"سلمیٰ۔۔۔رابیل کو تو بلواؤ۔"

سارہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"عدن بیٹا جاؤ رابیل کو لے کر آؤ۔"

سلمیٰ آنٹی کے کہنے پہ وہ فوراً اٹھی۔

"آئیے جٹھانی صاحبہ۔آپکی ساس آپکو یاد کر رہی ہیں۔"

اس نے رابی کے ہاتھ پہ ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔

"ہائے اللہ انکل نے بات کر لی ڈیڈی سے؟"

"نہ صرف بات کی ہے بلکہ اس ماہ کی ڈیٹ بھی فائنل کر رہے ہیں۔"

"ہائے یعنی کہ مجھے اسی ماہ اس بدتمیز کے ساتھ رخصت کر دیں گے وہ۔"

"شرم کرو کچھ۔۔۔اب تو تھوڑی سی عزت کر لو اسکی۔کتنا اس بیچارے نے شادی شادی کا شور مچایا ہوا تھا۔"

رابیل کی آنکھوں میں سچ مچ کے آنسو آگئے۔

"رابی کیا ہو گیا یار۔صارم تمہاری آنکھوں میں ایک بھی آنسو برداشت نہیں کر سکتا۔"

اس کی بات پہ وہ روتے روتے ہنس پڑی۔ڈرائنگ روم میں جاتے ہی سارہ نے فوراً اسے خود سے لپٹا کر پیار کیا اور اپنے ہاتھوں سے کنگن اتار کر اسے پہنائے۔

"سلمیٰ آج سے رابیل ہماری امانت ہے۔"

سارہ نے سلمیٰ کے گرد بازو پھیلا کر کہا۔بیٹی کو دیکھ کر انکی؟آنکھوں میں آنسو آگئے۔

صارم کے دانت ہی اندر نہیں جا رہے تھے۔رابیل شرمائی لجائی سی سارہ کے ساتھ بیٹھی تھی۔جب صارم کی کھانسی پہ اس نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔صارم نے اس کے متوجہ ہوتے ہی ایک آنکھ بند کر لی۔

"امی میں کھانا لگواتی ہوں۔"

وہ اس کی شوخ نظروں سے گھبرا کر فوراً اٹھی۔

خوشگوار ماحول میں کھانا کھا کر طلال نے کچھ دیر بعد اجازت مانگی۔

جاتے جاتے صارم اس کے پاس رکا۔

"بس کچھ دن ہیں پھر گن گن کے بدلے لوں گا تمہارے سے۔"

"فکر نہ کرو اپنی چھری ساتھ ہی لاؤں گی میں۔"

اسے پھر سے پہلے والی ٹون میں آتا دیکھ کر وہ استغفراللہ کہہ کر باہر نکلا جہاں دائم ہارن پہ ہاتھ رکھ کر واپس اٹھانا بھول گیا تھا۔

آج سمعیہ خالہ کی آمد ہوئی تھی اور وہ کب سے سارہ کے ساتھ سر جوڑے بیٹھی تھیں۔صارم کو باوجود ان کی طرف کان لگانے کے بھی کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔

"سچ پوچھو۔آج تمہاری یاد ہی مجھے یہاں کھینچ لائی۔پارٹی میں بھی آنے کا دل نہیں کیا میرا مگر کچھ بھی ہو اولاد کے غلط فیصلوں کی وجہ سے میں تمہیں تو نہیں چھوڑ سکتی نا۔"

سمعیہ نے سارہ کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا۔

"سمعیہ میں تمہیں بتا نہیں سکتی میں کتنی شرمندہ ہوں۔اسی وجہ سے میں اتنی دیر سے تمہاری طرف نہیں آ ئی۔میں نے تو ہمیشہ نیہا کو لانے کا سوچا تھا مجھے کیا پتہ تھا دائم یہ سب کر جائے گا۔کیا سوچا تھا اور کیا ہو گیا۔"

"نیہا تو جس دن سے واپس گئی ہے یہی کہتی ہے آئندہ اس گھر میں قدم بھی نہیں رکھوں گی۔اتنا دل ٹوٹا میری معصوم بچی کا۔"

سمعیہ نے دکھی دل سے کہا۔

"تم اس سے کہنا میری کال تو ریسیو کرے اتنے دن ہو گئے ہیں اس سے بات کیے۔"

"لو تم بات کرنے کا کہتی ہو اور وہ کہتی ہے کوئی میرے سامنے اس گھر کے کسی فرد کا نام تک نہ لے۔دیکھو سارہ جو ہونا تھا ہو گیا اب کب تک تم ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھی رہو گی۔جان چھڑاؤ اب اس بلا سے۔دم نہیں گھٹتا تمہارا اسے دیکھ دیکھ کر۔"

سمعیہ نے عدن کو اپنی طرف آتے دیکھ کر منہ دوسری طرف کر لیا۔

"السلام علیکم آنٹی۔"

وہ انہیں سلام کر کے صارم کے پاس بیٹھ گئی۔

"اٹھو کمرے میں چلتے ہیں۔"

سارہ انہیں لیے اپنے کمرے میں آ گئیں۔

"سارہ کچھ کرو میرا تو اسے دیکھتے ساتھ ہی بی پی شوٹ کر گیا ہے۔تمہیں کچھ نہیں ہوتا کیا ؟"

"تمہارا کیا خیال ہے میں ایسے ہی بیٹھی ہوئی ہوں۔پوچھو مت کتنی تکلیف ہوتی ہے مجھے مگر دائم کی آنکھوں پہ تو پتہ نہیں کونسی پٹی باندھ دی ہے اس نے۔وہ تو ویسے ہی اندھا ہو گیا ہے۔اسکی نظر میں تو صرف میں ہی بری ہوں اور صارم کو دیکھو اسے تو بھابھی کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں ہے۔اور تو اور کل میں حیران ہی رہ گئی جب طلال نے کہا دائم کی چوائس لا جواب ہے عدن بہت فرمانبردار بچی ہے۔

ایک طلال ہی تو خلاف تھے دائم کے فیصلے کے مگر اس ڈائن نے پتہ نہیں کونسا جادو کر کے سب کو اپنی طرف کر لیا ہے۔میں اسے اس گھر سے نکالنے کا منصوبہ کر رہی ہوں اور وہ ہے کہ سب کو اپنی مٹھی میں کرتی جا رہی ہے۔"

سارہ نے از حد پریشانی سے کہتے ہوئے سمعیہ کو دیکھا۔

"سارہ تم تو بھولی ہو میری بہن۔تم کیا جانو یہ آج کل کی لڑکیوں کو۔نیہا اب اس گھر میں آنا بھی پسند نہیں کرتی مگر میں اسکی ماں ہوں اچھے سے جانتی ہوں اسکو۔تم اس مصیبت سے جان چھڑاؤ میں خود نیہا کو دائم سے شادی کرنے پہ راضی کر لوں گی۔"

"تم کیا سوچتی ہو میں نے کچھ نہیں کیا ہو گا۔ خدا خدا کر کے اسکی رپورٹ بنوائی تھی اور وہ بجائے اسے گھر سے نکالنے کے مجھ پر آ کے چڑھائی کرنے لگ گیا۔شکر ہے اس نے طلال کو کچھ نہیں بتایا۔کھٹک تو طلال بھی گئے تھے کہ نیہا ایک دم کیوں چلی گئی مگر میں نے بھی انہیں مطمئن کر دیا ہے لیکن اب تم فکر مت کرو اب کی بار ایسا پتہ پھینکوں گی کہ دائم اسے ڈھونڈتا ہی رہ جائے گا۔"

سارہ کے دماغ میں فوراً سے ایک سوچ لہرائی۔

"یہ ہوئی نا بات۔ تم ماں ہو اسکی کچھ بھی کر سکتی ہو۔ایک بار یہ لڑکی اس گھر سے چلی جائے دائم تو یہ تک بھول جائے گا کہ کبھی اس کی شادی بھی ہوئی تھی۔"

"ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔"

"اچھا اب میں چلتی ہوں نیہا کو پتہ چل گیا تو پھر سے شور مچائے گی۔"

"ٹھیک ہے۔نیہا سے کہنا میرے سے بات کرے۔میں اسے بہت مس کر رہی ہوں۔"

"اوکے کہہ دوں گی۔"

وہ اپنا بیگ اٹھائے باہر چلی گئیں۔

____________________________________

آج پورے چاند کی رات تھی۔وہ دونوں ٹیرس پہ کھڑے کافی پی رہے تھے۔نیچے لان میں درخت ساکن کھڑے تھے۔چاند کی ٹھنڈی سی روشنی ان دونوں کے چہروں پہ پڑ رہی تھی۔

"سب کچھ کتنا اچھا ہو گیا نا۔کبھی میں سوچا کرتی تھی کہ میری زندگی میں اب کبھی کوئی خوشی نہیں آئے گی۔میں کبھی اپنے گھر والوں سے نہیں ملوں گی۔اسی طرح در بدری کا دکھ سہتے ہی زندگی ختم ہو جائے گی لیکن نہیں وہ ایک معجزہ تھا کہ اللہ نے آپکو میری مدد کے لیے بھیجا۔صرف آپکی بدولت میری زندگی میں پھر سے رنگ بھر گئے۔میں اپنے گھر والوں سے مل لی۔ڈیڈی نے سب کچھ ایکسیپٹ کر لیا۔مجھے عزت مقام ہر شے واپس مل گیا۔"

وہ سانس لینے کو رکی۔ 

"آپ نے ٹھیک کہا تھا آپ کا ساتھ مجھے ہر دکھ بھلا دے گا۔آج میں اقرار کرتی ہوں دنیا کا ہر مرد دائم طلال نہیں ہوتا۔"

وہ آنکھوں میں نمی لئے اسے دیکھ رہی تھی جس نے کافی کا کپ رکھ کے دونوں بازو اس کے گرد حمائل کر کے اسکے گھنے بالوں والے سر پہ اپنے لب رکھ دئیے۔

"آئی لو یو مائی لائف۔"

دائم کی بات پہ اس نے مسکراتے ہونے اس کے شانے سے سر ٹکا دیا۔

"حالانکہ ہر چیز ٹھیک ہو چکی ہے۔پھر بھی مجھے لگتا ہے کچھ غلط ہو جائے گا یا کچھ غلط ہونے والا ہے۔"

دائم کی بات پہ اس کی شرٹ کے بٹنوں پہ انگلی پھرتا عدن کا ہاتھ لمحہ بھر کو تھما۔

"کیوں؟ ایسا کیوں لگ رہا ہے۔نہیں اب کچھ غلط نہیں ہو گا۔اب ہماری زندگی میں سکون ہی سکون ہے۔اور سب سے بڑی بات صارم کی شادی فکس ہو گئی۔تھینک گاڈ ممی نے اس کی چوائس کو ایکسیپٹ کر لیا۔"

"ممی ہر چیز ایکسیپٹ کر لیتی ہیں۔وہ صرف آپکو ایکسیپٹ نہیں کر پا رہیں۔"

"کوئی بات نہیں۔مجھے بھی کر لیں گی آہستہ آہستہ۔آپ جو ہیں میرے ساتھ۔"

اسکے کہنے پہ دائم کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

"آپ کبھی مجھے چھوڑ کر تو نہیں جائیں گی۔کبھی دور تو نہیں ہوں گی نا میرے سے۔"

اس نے بازو کا گھیرا تنگ کیا۔

"کیا ہو گیا ہے آپکو۔۔۔کیسی باتیں کر رہے ہیں؟"

"پتا نہیں یار۔مجھے کیوں لگ رہا ہے کچھ ہو جائے گا۔میری چھٹی حس مجھے بار بار سگنل دے رہی ہے۔"

"آپکی چھٹی حس کو اور کوئی کام نہیں ہے کیا ؟ بلاوجہ واہموں کا شکار نہ ہوں۔ہم دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی دور نہیں کر سکتا۔ناؤ ایوری تھنگ از پرفیکٹ۔"

"اپنا خیال رکھا کریں۔۔۔میں آپکے بغیر ہرگز نہیں رہ سکتا۔"

دائم نے چاند کی روشنی میں چمکتے اس کے صبیح چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"ہوا کیا ہے؟ آج سے پہلے تو کبھی آپ نے ایسی باتیں نہیں کیں۔"

اس کی بات پہ وہ ہولے سے مسکرایا۔وہ اس کی مسکراہٹ میں کھو سی گئی تھی۔

"آج سے پہلے آپ نے اظہار بھی تو نہیں کیا۔ کان ترس گئے تھے میرے۔"

"آئی نو آپ میری مسکراہٹ کی بہت بڑی فین ہیں مگر اس طرح نہ دیکھیں مجھے۔ اس طرح دیکھنے سے مجھے یونیورسٹی کے دن یاد آ گئے ہیں۔اف سینکڑوں لڑکیاں مرتی تھیں میری میلینئیر سمائل پہ۔"

اس کی بات پہ عدن نے تپ کر اسکے بازؤں کا حلقہ توڑا۔

"یو نو ایک لڑکی مجھے ابھی بھی یاد ہے کیا نام تھا اسکا ہاں لائبہ۔اسکی بلیو کلر کی آنکھیں تھیں۔"

"آج کی رات ان یادوں کے ساتھ ٹیرس پہ ہی گزارنی ہے۔خبردار جو کمرے میں آئے۔"

وہ چیخ کر کہتی کمرے کی جانب بڑھی۔اس کی دھمکی پہ دائم پورے دل سے ہنستا اس سے پہلے کمرے میں پہنچ گیا۔

_________________________________

"ڈیڈی سنگاپور والے کانٹریکٹ کے سلسلے میں میٹنگ ہے آج۔ایک ڈیلی گیشن آیا ہوا ہے۔آج رات آٹھ بجے میٹنگ ہے۔آپ آئیں گے نا؟"

ناشتے کی ٹیبل پہ اس نے طلال سے کہا۔سارہ کے فوراً کان کھڑے ہوئے۔

"کہاں پر ہے ؟"

"پی سی میں۔"

"نہیں تم اسے خود ہینڈل کرو یہ تمہارا کام ہے۔"

"میں کر لوں گا لیکن آپ آ جاتے تو زیادہ اچھا تھا۔"

"بیٹا میں ہر جگہ پہ تمہارے ساتھ نہیں جا سکتا اسے تم نے کور کرنا ہے۔اینڈ آئی ہوپ تم پہلے کی طرح یہ بھی مینج کر لو گے۔"

"ضرور کر لوں گا۔"

سارہ نے جوس پیتے ہوئے دائم کے ساتھ بیٹھی عدن کو دیکھا۔قسمت انہیں ایک اور موقع دے رہی تھی ہر مصیبت سے جان چھڑانے کا۔اسے وہ کسی صورت ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتی تھیں۔

"اٹس مین تم آج ڈنر پہ ہمارے ساتھ نہیں ہو گے۔"

سارہ نے اس سے اپنے مقصد کی بات پوچھی۔

"ظاہر ہے ممی۔ڈنر مجھے انکے ساتھ ہی کرنا پڑے گا۔"

انہوں نے دائم کی بات پہ مسکرا کر سر ہلایا۔

________________________________

شام کے وقت سارہ چمکتے چہرے کے ساتھ کمرے سے باہر نکلیں۔الیکشن کے بعد طلال اپنی معمول کی روٹین میں مصروف ہو گئے تھے۔صارم کہیں باہر نکلا ہوا تھا۔

وہ ہیل کی ٹک ٹک بجاتی عدن کے پاس آئیں جو اسکرین پہ بی بی سی لگائے بیٹھی تھی۔

"کیا کر رہی ہو؟"

"نتھنگ۔۔۔فری ہوں۔۔۔کیا ہوا ؟"

"فری ہو تو میرے ساتھ چلو۔صارم کی شادی میں کچھ دن رہ گئے ہیں۔ساری شاپنگ کرنے والی ہے۔ریان کی شادی پہ تو عنایہ یہاں تھی مجھے کوئی ٹینشن ہی نہیں تھی لیکن اب رابیل کی چوائس کا مجھے کوئی اندازہ نہیں ہے۔تمہیں تو ہو گا سو تم میرے ساتھ چلو۔"

"میں چلوں؟"

عدن نے حیرت سے پوچھا۔

ساس کی جانب سے ایسی مہربانی پہلے تو کبھی نہیں ہوئی تھی۔

"ہاں تم چلو اور جلدی کرو ٹائم کم ہے۔رات ہونے والی ہے۔ڈنر ٹائم سے پہلے واپس آنا ہے۔"

"اچھا میں چادر لے کر آتی ہوں۔"

کچھ سیکنڈز میں وہ چادر لیے سیڑھیوں سے اتری اور لاؤنج میں ٹیبل پہ پڑا موبائل اٹھایا۔

"یہ موبائل کیا کرنا ہے۔ابھی واپس آ جانا ہے ہم نے۔اسکی ضرورت نہیں ہے۔"

سارہ نے اسے موبائل اٹھاتے دیکھ کر فوراً کہا۔

"اچھا پھر میں پہلے دائم کو کال کر کے بتا دوں۔"

"کیوں تم یہاں دنیا چھوڑ کے جا رہی ہو جو دائم کو پہلے انفارم کرنا ہے۔آج میٹنگ ہے اسکی۔کام کرنے دو اسے۔"

سارہ کے کہنے پہ اس نے موبائل واپس رکھ دیا۔

"عظمیٰ اسے میرے کمرے میں رکھ آؤ۔"

وہ کہہ کر سارہ کے ہمراہ باہر نکلی۔

کچھ ہی دیر بعد وہ مارکیٹ میں موجود تھیں۔

سارہ نے ڈرائیور کو وہیں رکنے کا کہا اور خود اسے ساتھ لیے مختلف شاپس کے چکر لگانے لگیں۔ایک گھنٹے سے وہ ایک سے دوسری اور دوسری سے تیسری شاپ پہ جا رہی تھیں مگر کچھ پسند نہیں آ رہا تھا۔

"ممی رات ہونے والی ہے کچھ تو چوز کر لیں۔ابھی گھر بھی جانا ہے۔"

"کتنی فضول آئٹمز رکھی ہوئی ہیں انہوں نے یہاں پہ۔ایک بھی ڈھنگ کی چیز نہیں ہے۔"

کہیں انہیں کلر پسند نہیں آ رہا تھا اور کہیں میٹیریل ہلکا دیکھ کر وہ دوسری شاپ میں چلی جاتیں۔

دو گھنٹوں میں وہ پورے مال کا چکر لگا چکیں تھیں مگر کوئی چیز سارہ کی ناک کے نیچے نہیں آئی۔

"ممی میرا خیال ہے ہم کل کو کسی اور مال میں چلیں گے۔وہاں سے شاپنگ کر لیں گے۔اب واپس چلتے ہیں۔"

اس نے شام کا اندھیرا پھیلتے ہوئے پھر سے سارہ کو کہا۔

"اب ایسے ہی خالی ہاتھ تھوڑی جائیں گے۔آئے ہیں تو کچھ لے کر ہی جائیں گے نا۔یہاں پہ تو کوئی اچھی چیز نہیں ہے آؤ کہیں اور چلتے ہیں۔"

وہ مال سے نکلتی اسے لے کر کافی دیر چلنے کے بعد ایک سنسان سے بازار میں آ گئی تھیں جہاں پہ رش نہ ہونے کے برابر تھا۔

"یہاں سے آپ نے کیا لینا ہے؟"

عدن نے حیرت سے ارد گرد دیکھا جہاں اکا دکا عورتیں ہی چیزیں خریدتی نظر آ رہی تھیں۔ہر طرف صرف آدمی ہی تھے۔بہت سی دکانوں کے شٹر بند ہو چکے تھے۔

"اوہ شٹ۔۔۔جیولر تو پیچھے رہ گیا۔مجھے ڈائمنڈ رنگ کا آرڈر دینا تھا۔اچھا تم ادھر ہی رکو میں ابھی آرڈر دے کر آئی۔"

"کیا مطلب ہے آپکا۔میں یہاں پہ رکوں۔ہرگز نہیں یہاں پہ تو کوئی بھی نہیں ہے۔میں آپکے ساتھ ہی چلتی ہوں۔"

"کیوں تمہیں کوئی کھا جائے گا یہاں پہ۔ادھر ہی رکو ابھی آتی ہوں میں۔"

"ممی مجھے ڈر لگ رہا ہے۔لوگ کیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہیں۔اوپر سے رات ہو گئی ہے۔ میں نے نہیں رکنا یہاں پہ۔میں آپکے ساتھ ہی جاؤں گی۔"

"ہاں تم تو آسمان سے اتری کوئی حور ہو نا جسے لوگ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھ رہے ہیں اور تو کچھ نظر ہی نہیں آتا لوگوں کو۔رکو ادھر ہی۔وہ سامنے والی سڑک پہ ڈرائیور کھڑا ہے ابھی آتی ہوں میں۔"

سارہ اسے جھڑک کر پیچھے کی طرف مڑ گئیں۔

اسے وہاں پہ کھڑے آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا۔بہت سی دکانیں بند ہو گئیں تھیں۔وہ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھ رہی تھی مگر سارہ کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔اس طرف مکمل اندھیرا ہو جانے کے باعث وہ سامنے والی سڑک پہ جا کھڑی ہوئی جہاں سارہ کے کہے کے مطابق ڈرائیور موجود تھا لیکن اس سڑک پہ بھی کوئی نہیں تھا۔

یہ سڑکیں اور گلیاں تو اس نے کبھی نہیں دیکھی تھیں جہاں سارہ اسے آج لے آئیں تھیں۔سٹریٹ لائٹس روشن ہو گئی تھیں۔کوئی کوئی ٹریفک آ جا رہی تھی۔کچھ اوآرہ سے لڑکے سیٹیاں بجاتے اس کے آگے سے دو تین بار گزر چکے تھے۔خوف کے مارے اب اسے رونا آرہا تھا۔اندھیرا چہار سو پھیل گیا۔اسے سڑک پہ کھڑے دو گھنٹے گزر چکے تھے۔

"عجیب علاقہ ہے۔اس وقت تو شہر کی روشنیاں عروج پہ ہوتی ہیں اور یہاں پہ کوئی بھی نہیں ہے۔یا اللہ ممی کہاں رہ گئیں ایسا کونسا آرڈر ہے جو دو گھنٹوں میں بھی نہیں دے ہوا۔"

وہی لڑکے بے ہنگم قہقہے لگاتے اور ہاتھوں میں بوتلیں پکڑے دوبارہ اس کی طرف آ رہے تھے۔

"کب سے کھڑی ہو بلبل۔میرا خیال ہے تمہارا گھر اس سڑک پہ سیدھا جا کے آتا ہے۔آج تو وہاں پہ بھی میلہ لگا ہوا ہے۔چلو تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔"

ان میں سے جیسے ہی ایک لڑکا اسکی جانب بڑھا اس نے فل سپیڈ میں ایک طرف بھاگنا شروع کر دیا۔وہ لڑکے اونچی آواز میں ہنستے اس کے پیچھے آرہے تھے۔ان کی چال کی لڑکھڑاہٹ سے بوتلوں میں موجود مشروب کا اندازہ ہو رہا تھا۔

وہ جانتی تھی وہ بہت جلد اس تک پہنچ جائیں گے۔وہ بغیر پیچھے دیکھے بھاگ رہی تھی تبھی ایک لڑکے نے اس کے پاؤں میں کانچ کی بوتل ماری۔بند شوز ہونے کے باعث کانچ اس کے پاؤں میں نہیں لگا۔اب وہ گالیاں بکنا شروع ہو گئے تھے۔تبھی اسے سڑک پہ کوئی فیملی پیدل آتی دکھائی دی۔وہ فوراً سے بھاگ کر ان لوگوں کے پاس چلی گئی۔

"پلیز ہیلپ۔پلیز مجھے بچائیں۔یہ لوگ میرے پیچھے آ رہے ہیں۔"

وہ روتے ہوئے ایک عورت کے پیچھے چھپ گئی۔اس فیملی میں دو چار اچھی جسامت والے لڑکے موجود تھے۔انہیں دیکھتے ہی اس کے پیچھے بھاگتے لڑکے واپس مڑ گئے۔

"کون ہیں آپ۔۔۔اس وقت اکیلی اس ایریا میں کیا کر رہی ہیں۔"

اس عورت نے فوراً اسکے کانپتی وجود کو اپنے سامنے کیا۔

"مم۔۔۔میں۔۔۔اپنی۔۔۔فیملی کے ساتھ تھی۔۔۔اچانک وہ لوگ آگے چلے گئے اور میں پیچھے رہ گئی۔"

"کس طرف گئے ہیں وہ؟"

اس ایریا سے دو سڑکیں نکل رہی تھیں۔شہر کی آبادی والے حصے کی طرف جاتی سڑک پہ سٹریٹ لائٹس آن تھیں جبکہ دوسری سڑک پہ مکمل اندھیرا تھا۔

عدن نے انجانے میں ایک طرف اشارہ کیا۔

سامنے والی عورت کی آنکھوں میں حیرت جاگی۔

"آپ۔۔۔آپ ادھر رہتی ہیں کیا ؟"

"نن۔۔۔نہیں۔۔۔میرا گھر سٹی کی دوسری سائڈ پہ ہے۔"

"آپ۔۔۔آپکے پاس فون ہے۔۔۔پلیز مجھے دیں مجھے اپنے ہزبینڈ کو کال کرنی ہے پلیز۔"

اس عورت نے حیرت سے اسے دیکھتے فون آگے بڑھایا۔

عدن نے کانپتے ہاتھوں سے دائم کا نمبر ملایا۔بیل جارہی تھی مگر اس نے کال ریسیو نہیں کی۔

وہ اس وقت میٹنگ میں تھا۔موبائل کو وائبریٹ ہوتا دیکھ اسکرین پہ آنے والے ان ناؤن نمبر کو کٹ کر کے وہ مینیجر کی طرف متوجہ ہو گیا۔

"پلیز جلدی کریں یہاں پہ رکنا ٹھیک نہیں ہے۔یہاں پہ تو دن میں لوگ نہیں آتے اور آپ رات کو کھڑی ہیں۔ہم تو واک کرنے نکلے تھے گھومتے گھماتے بچوں کو آئس کریم دلوانے کے لیے اس شاپ پہ آ گئے۔ورنہ یہاں پہ اس وقت کوئی نہیں آتا۔"

"پلیز صرف ایک منٹ۔مجھے پھر سے ٹرائی کرنے دیں۔"

وہ لڑکے پھر سے سڑک پر سے گزر رہے تھے۔

اس نے دوبارہ نمبر ڈائل کیا لیکن ایک بار پھر بیل بج بج کر بند ہو گئی تھی۔

وہ روتے ہوئے دوبارہ اسکا نمبر ملا رہی تھی۔

وہ نہیں جانتی تھی وہ اندھیری سڑک اس دلدل کی طرف جا رہی تھی جہاں سے وہ ایک بار پہلے صحیح سلامت نکل آئی تھی۔

"دائم خدا کے لیے فون اٹھائیں۔"

وہ پھر سے اس کا نمبر ملا رہی تھی۔میٹنگ کے ٹائم فون اٹینڈ کرنا اصول کے خلاف تھا مگر عجیب سی بے چینی کے باعث نا چاہتے ہوئے بھی اس نے فون اٹھا لیا۔

"ہیلو۔۔۔دائم طلال اسپیکنگ۔"

"دائم۔۔۔میں۔۔۔میں۔۔۔عدن بات کر رہی ہوں میں ممی کے ساتھ بازار آئی تھی اب بہت دیر ہو گئی ہے میں کب سے کھڑی ہوں۔وہ پتہ نہیں کہاں چلی گئیں ہیں آپ پلیز مجھے یہاں سے آ کے لے جائیں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔"

"کہاں پہ ہیں آپ؟ کونسی جگہ ہے؟"

وہ فوراً سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ٹیبل کے ارد گرد موجود لوگوں نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"پپ۔۔۔پتہ نہیں۔۔۔مم۔۔۔میں پوچھ کے بتاتی ہوں۔"

اس نے سامنے کھڑی عورت سے پوچھ کر جگہ کا ایڈریس بتایا۔جگہ کا نام سنتے ہی دائم کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی۔

"میں ابھی آرہا ہوں۔صرف دس منٹ میں۔ان لوگوں سے کہیں آپ کے پاس کھڑے رہیں۔اکیلی مت کھڑی ہونا میں ابھی آ رہا ہوں۔"

وہ اسے کہتے ہوئے فون کان سے لگائے میٹنگ چھوڑ کر اندھا دھند باہر کے دروازے کی جانب بھاگا۔وہ بھول گیا تھا کہ اس میٹنگ میں اسے لاکھوں کا نہیں کروڑوں کا فائدہ ہونا تھا۔اسے نہیں پتہ تھا مینیجر نے اسے پیچھے سے کتنی آوازیں دی تھیں۔یاد تھا تو صرف اتنا کہ اس کی زندگی اسکی عزت خطرے میں تھی۔عدن نے جس جگہ کا نام بتایا تھا وہ ریڈ لائٹ ایریا سے صرف دس منٹ کی ڈرائیو پہ تھا۔

"یا اللہ عدن کی حفاطت کرنا۔"

پی سی سے وہ جگہ آدھے گھنٹے کے فاصلے پہ تھی مگر وہ صرف دس منٹ میں اڑتا ہوا وہاں پہنچا تھا۔

سامنے عدن کے قریب کچھ لوگ کھڑے تھے۔گاڑی سے اسے نکلتا دیکھ کر وہ بغیر ارد گرد کا خیال کیے اس کے گلے لگ کر رو دی۔

"عادی میری جان میں آ گیا ہوں۔دیکھو میری طرف۔آؤ ادھر آؤ اندر بیٹھو۔"

اس نے فرنٹ ڈور کھول کے اسے بٹھایا اور سامنے کھڑے لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ڈرائیونگ سیٹ پہ آ گیا۔

"کب سے کھڑی ہیں یہاں پہ؟ پہلے مجھے فون کیوں نہیں کیا ؟ اور آپکا فون کہاں ہے ؟"

اس نے کندھے سے تھام کر اس کا رخ اپنی جانب کیا۔

"دو گھنٹے ہو گئے ہیں۔۔۔ممی کے ساتھ آئی تھی۔۔۔انہوں نے شاپنگ کرنی تھی۔۔۔پھر اچانک وہ مجھے وہی رکنے کا کہہ کر کسی جیولر کی شاپ پہ چلی گئیں اور ابھی تک نہیں آئیں۔۔۔میرا فون گھر پہ ہے انہوں نے لانے ہی نہیں دیا۔"

دائم نے فوراً پانی کی بوتل اسکی جانب بڑھائی۔تبھی اس کے موبائل کی بیپ ہوئی۔اسکرین پہ آتی سارہ کی کال دیکھ کر اس کے لب بھینچ گئے۔

"ہیلو۔"

"دائم تم کہاں پہ ہو ۔کچھ علم بھی ہے تمہاری بیوی کہاں سیر سپاٹے کرتی پھر رہی ہے۔دوپہر سے گھر سے نکلی ہوئی ہے وہ مہارانی اور اب تک واپس نہیں آئی۔خدا جانے کہاں چلی گئی ہے۔تمہیں اسکی کوئی خیر خبر ہے یا نہیں۔اپنا فون بھی وہ گھر چھوڑ گئی ہے۔اسکی ماں کو کال کی تھی وہ وہاں پہ بھی نہیں ہے۔تمہیں پتہ ہے کہاں گئی ہے وہ ؟"

"آ کے بتاتا ہوں۔"

اس نے کہہ کر لائن کاٹ دی۔

پانی پی کر وہ ریلیکس ہوئی۔آنسو اب بھی نہیں رک رہے تھے۔

"ممی کو کال کریں ان سے پوچھیں وہ کہاں پہ ہیں اتنی دیر ہو گئی ہے پتہ نہیں کہاں رہ گئیں وہ ؟"

اس کی بات پہ دائم نے دونوں بازو اس کے گرد حمائل کر کے اسے زور سے خود میں بھینچ لیا۔

ہارٹ بیٹ اب تک تیز تھی۔یہی سوچ سوچ کے دل ہول رہا تھا اگر وہ اسکی کال ریسیو نہ کرتا اور اس جگہ پہ نہ پہنچتا تو شاید وہ آج ہمیشہ کے لیے عدن کو کھو دیتا۔ وہ تو اتنی معصوم تھی یہ تک نہیں جانتی تھی کہ اس سے کچھ فاصلے پہ کھڑے لڑکے اسے کتنی ہوس زدہ نظروں سے دیکھ رہے تھے اور گاڑی کی ہیڈ لائٹس منہ پہ پڑتے ہی وہ کیسے وہاں سے رفو چکر ہوئے تھے۔سارہ کی اس حرکت نے اسے ایک بار پھر ہلا کے رکھ دیا تھا۔اسے اب تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ عدن صحیح سلامت اسکے پاس موجود ہے۔

اس کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ عدن کا سانس بند ہو رہا تھا۔جب وہ کافی دیر اس پوزیشن میں رہا تو عدن کو خود اسے مخاطب کرنا پڑا۔

"میں ٹھیک ہوں۔۔۔آپ پریشان مت ہوں۔"

چہرہ اب بھی خوف سے لٹھے کی مانند سفید پڑ رہا تھا۔

"عادی میری جان کیوں اتنی معصوم ہو ؟ کیوں دنیا کی چالوں کو نہیں سمجھتی۔جانتی ہیں اگر آج آپکو کچھ ہو جاتا تو کیا حال ہوتا میرا۔"

"آپ کیوں ممی کا انتظار کر رہی تھی۔جانتی بھی ہو یہ علاقہ کیسا ہے۔آپ نے اسی وقت مجھے کال کرنی تھی جب ممی یہاں سے گئی تھیں۔"

"مجھے لگا ممی آ جائیں گی میں خود تو نہیں آئی میں تو ممی کے ساتھ۔۔۔۔"

اچانک اس کے دماغ میں کچھ کلک ہوا۔دائم کے الفاظ نے اسے ایک سیکنڈ میں سب کچھ سمجھا دیا۔

"ممی۔۔۔کہاں۔۔۔ ہے؟"

اس نے لرزتے دل کے ساتھ پوچھا۔

"گھر پہ۔"

دائم کے جواب پہ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

"آج کے بعد ممی ہوں خواہ کوئی اور آپ مجھے بتائے بغیر کسی کے ساتھ باہر نہیں جائیں گی۔کسی کے ساتھ بھی نہیں اور اپنا موبائل گھر سے نکلتے وقت آپکے پاس ہونا چاہیے۔آئندہ گھر میں چھوڑ کے نہیں آنا۔اوکے؟"

"ممی۔۔۔مجھے۔۔۔یہاں چھوڑ کے چلی گئیں۔۔۔اگر۔۔۔اگر وہ لڑکے۔۔۔وہ آ جاتے تو میں۔۔۔"

اسکی یہ حالت دیکھ کر دل کٹ گیا تھا۔

"میں ہوں نا آپکے پاس۔۔۔کچھ نہیں ہوا۔۔۔سب کچھ ٹھیک ہے۔۔۔ڈونٹ وری۔"

دائم نے کہتے ہوئے لب اسکے ماتھے پہ رکھ دیئے۔وہ اب تک اسکے ساتھ لگی رو رہی تھی۔دو گھنٹوں کے خوف نے اسکی ساری ہمت نچوڑ لی تھی۔اسے چپ کرواتے دائم نے سامنے اندھیرے میں ڈوبی سڑک کو دیکھا جہاں آج بھی گناہوں کا بازار گرم تھا۔پچھلے گزرے دس منٹ اس کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھے۔لب بھینچے ہوئے تھے۔سارہ کی حرکت نے ایک بار پھر اس کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔آج وہ ممی کو نہیں چھوڑے گا کسی صورت بھی نہیں۔

اور عدن اسے تو یہ تک نہیں پتہ تھا کہ وہ اس وقت کہاں موجود ہے۔

"عادی۔۔۔بس کرو۔چپ ہو جاؤ۔ہم جا رہے ہیں گھر۔بی ریلیکس۔"

اسکی سسکیاں ابھی بھی جاری تھیں۔دائم نے آہستہ سے اسے خود سے الگ کیا اور خود چند پل سر سیٹ کی پشت سے ٹکا کر ایسے ہی بیٹھا رہا۔وہ سارہ کے دل میں موجود عدن کے لیے نفرت کا اندازہ کبھی نہیں لگا سکتا تھا۔وہ جسے دیکھے بغیر اسکی صبح نہیں ہوتی تھی سارہ اسے ختم کرنے کے لیے اس حد تک چلی گئی تھیں۔

سر جھٹک کر اس نے اگنیشن میں چابی لگائی۔

______________________________

کچھ دیر بعد پورچ میں گاڑی روکی اور اسکے ہمراہ قدم اندر کی جانب بڑھائے۔طلال ہاؤس میں اس وقت سب ڈنر میں مصروف تھے۔لاؤنج کے دروازے میں سے ان دونوں کو انٹر ہوتے دیکھ کر سارہ کے ہاتھ سے چمچ چھوٹ گیا۔

وہ سیدھا چلتا طلال کے پاس آیا۔

"ڈیڈی اپنے روم میں آئیں۔مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔"

اسکی بات پہ سارہ کے گلے میں گلٹی ابھری۔

"کیا بات ہے؟ عدن کیوں رو رہی ہو بیٹا ؟"

طلال نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔

"آپ اپنے کمرے میں آئیں۔میں نہیں چاہتا ملازموں کے سامنے کوئی تماشہ بنے"

طلال فوراً کھانا چھوڑ کر کھڑے ہوئے۔

"کک۔۔۔کیا بات کرنی ہے تم نے طلال سے۔جو کرنی ہے بعد میں کرنا۔پہلے آؤ کھانا کھاؤ بھوک لگی ہو گی۔"

سارہ نے طلال کو اٹھتے دیکھ کر کہا۔وہ آ جا کے صرف طلال ہی سے ڈرتی تھیں۔

"اتنا کچھ تو کھلا چکی ہیں آپ ممی۔۔۔اب کوئی کسر باقی ہے کیا۔۔۔آپ بھی اٹھ کر اندر آئیں۔"

وہ کہہ کر عدن کا ہاتھ تھامے ان کے کمرے میں چلا گیا۔

"کیا کرنے والے ہیں آپ۔۔۔آپ ڈیڈی کو کچھ نہیں کہیں گے۔"

عدن نے اس کے بازو پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔

طلال فوراً اسکے پیچھے کمرے میں آئے۔صارم بھی تجسس سے اٹھ کر انکے پیچھے آیا۔سارہ دروازے میں ہی کھڑی تھیں۔

"آئیں نا ممی۔ادھر کیوں کھڑی ہو گئیں۔"

صارم انہیں بازو سے پکڑ کر اندر لایا۔

"بولو کیا بات ہے ؟"

طلال نے دائم سے پوچھا جو سینے پہ ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔عدن اب تک رو رہی تھی۔

"ڈیڈی۔۔۔مجھے میرے فلیٹ کی چابی چاہیے۔سنگاپور جانے سے پہلے آپ نے مجھ سے لی تھی۔"

"ہاں لی تھی مگر تمہیں کیوں چاہیے۔"

"کیونکہ اب میں مزید اس گھر میں نہیں رہ سکتا مجھے آج ہی وہاں پہ شفٹ ہونا ہے۔"

"کیوں وہاں پہ کیوں جانا ہے۔یہاں پہ کیا پرابلم ہے۔سیدھی طرح بتاؤ کیا بات ہے۔"

"بات آپ ممی سے پوچھیں ان سے پوچھیں انہیں کیا مسئلہ ہے۔کیوں یہ مجھے جینے نہیں دے رہیں۔آخر چاہتی کیا ہیں یہ۔کب تک یہی سب کرتی رہیں گی۔"

سارہ تڑخ کر اسکے سامنے آئیں۔

"کیوں کیا ہے میں نے۔ہر روز تم گھر میں ایک نیا ڈرامہ لگا کے کھڑے ہو جاتے ہو۔مجھے چھوڑو تم بتاؤ تم کیا چاہتے ہو آخر۔روز روز یہ سین کری ایٹ کرنے کا کیا مطلب ہے ؟"

"نہیں آج میں آپ سے بات نہیں کروں گا۔آج میں ڈیڈی کو سب کچھ بتاؤں گا۔میں نے آپکو لاسٹ ٹائم وارن کیا تھا مگر آپ باز نہیں آئیں۔میں نہیں چاہتا تھا باقی سب کی نظروں میں آپ کا مقام زیرو پہ آئے۔مجھ پہ آپکا احترام لازم ہے مگر نہیں آپ نے آج کی حرکت سے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں ہر چیز ڈیڈی کو بتاؤں۔"

اس کی بات پہ اے سی کی کولنگ کے باوجود سارہ کی پیشانی پہ پسینہ آ گیا۔

"ڈیڈی پوچھیں آپ ممی سے کیا کیا انہوں نے آج۔کہاں چھوڑ کے آئی تھیں یہ عدن کو۔کس بازار میں تنہا چھوڑ آئی تھیں۔آج سے پہلے تو انہیں عدن کو باہر لے جانے کا خیال نہیں آیا پھر آج کون سی محبت جاگ اٹھی جو یہ اسے ساتھ لے کر شاپنگ پہ نکل گئیں اور آپ نے آج سے پہلے تو کبھی اس بازار سے شاپنگ نہیں کی آج وہاں پہ کیسے چلی گئیں۔

ممی مجھے نہیں پتہ تھا مائیں آپکے جیسی بھی ہوتی ہیں جنہیں صرف اپنی پرواہ ہوتی ہے جو اپنے ہی بچوں کو خوش نہیں دیکھ سکتیں۔میں تو اب تک آپ کے پہلے سرپرائز کو نہیں بھولا اتنی جلدی آپ نے دوسرا بھی دے دیا۔"

طلال اور صارم حیرت زدہ سے کھڑے دائم کا منہ دیکھ رہے تھے جس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔

"مجھے کھل کے بتاؤ کیا بات ہے ؟ کیا کیا ہے سارہ نے؟"

"کچھ نہیں کیا میں نے طلال۔یہ جھوٹ بول رہا ہے۔بکواس کر رہا ہے۔یہ اس لڑکی کی وجہ سے ماں پہ الزام لگا رہا ہے۔"

"چپ کریں آپ سارہ۔۔۔دائم تم مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے ؟"

"ڈیڈی جس دن میں سنگاپور سے واپس آیا تھا اس دن ممی نے مجھے سرپرائز دیا تھا عدن کی غلط رپورٹ کی صورت میں جو انہوں نے اپنی ایک دوست ڈاکٹر شمائلہ سے بنوائی تھی۔جب میں نے اس ڈاکٹر سے انویسٹیگیشن کی تو اس نے بتایا نیہا اور ممی اسکے پاس گئیں تھیں یہ رپورٹ بنوانے۔اسی لیے میں نے نیہا کو گھر سے نکالا تھا۔آپکے بارہا پوچھنے کے باوجود میں نے آپکو اپنے ایکسیڈینٹ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا صرف اس لیے کہ میں ممی کو دوسروں کے سامنے شرمندہ ہوتے نہیں دیکھ سکتا مگر جو آج انہوں نے کیا اس پہ میں کسی صورت خاموش نہیں رہوں گا آپ جانتے ہیں یہ اسے کہاں پہ چھوڑ کے آئی تھیں۔"

دائم کے منہ سے نکلنے والے الفاظ سن کر سارہ کے علاوہ سبھی شاک میں چلے گئے۔عدن پھٹی پھٹی آنکھوں سے سارہ کو دیکھ رہی تھی۔

"بکواس مت کرو۔میں تھپڑ ماروں گی تمہارے منہ پہ۔طلال آپ اسکی بات پہ ہرگز یقین نہیں کریں گے یہ جھوٹ بول رہا ہے اسے اتنی بھی حیا نہیں ہے کہ ماں سے کیسے بات کرتے ہیں۔سارے فساد کی جڑ یہ لڑکی ہے۔اسکے کہنے پہ یہ اس طرح بول رہا ہے۔آج یہ ماں پہ الزام لگا رہا ہے کل کو یہ آپ پہ بھی لگا دے گا۔"

وہ چیختی ہوئی عدن کی جانب بڑھیں۔

"اب پڑھ گئی تمہارے سینے میں ٹھنڈ۔یہی چاہتی تھی نا تم۔ڈلوا دی نا لڑائی۔تم سے کبھی میرے گھر کا سکون برداشت ہی نہیں ہوا۔"

انہوں نے عدن کو کندھوں سے پکڑ کے جھنجھوڑ دیا۔وہ روتے ہوئے اپنا آپ چھڑوا کر بھاگتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔

"طلال آپ اس کی بات پہ یقین نہیں کریں۔پوچھیں اس سے کوئی ثبوت ہے اسکے پاس۔بیٹھے بٹھائے اس نے مجھ پہ الزام لگا دیا۔میں کیوں بنواؤں گی اسکی رپورٹ۔میرا دماغ خراب ہے۔اگر کوئی ثبوت ہوتا تو ہی یہ دکھاتا نا۔اب کیوں منہ بند کر کے کھڑے ہو۔بتاؤ اب بھی طلال کو۔"

وہ آنکھوں میں گہرا دکھ لئے تاسف سے ماں کو دیکھ رہا تھا۔

"دیکھا۔۔۔اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔اب جاؤ میرے کمرے سے۔تمہارے ان روز روز کے ڈراموں سے تنگ آ گئی ہوں میں۔"

انکی بات پہ اس نے موبائل نکالا اور ریکارڈنگ پلے کی۔یہ وہی ریکارڈنگ تھی جو اس نے شمائلہ سے پوچھتے وقت کی تھی۔ریکارڈنگ سن کے سارہ پسینے میں نہا گئیں۔طلال جہاں کے تہاں کھڑے رہ گئے تھے۔

"ڈیڈی یہ تو تھا پہلا سرپرائز۔اب دوسرا بھی سنیں۔آج یہ عدن کو ریڈ لائٹ ایریا پہ جانے والی سڑک پہ چھوڑ آئی تھیں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسے راستوں کا نہیں پتہ۔وہ کبھی گھر سے باہر نہیں نکلی۔یہ اسے اس بازار میں لے گئیں۔آپ جانتے ہیں اگر میں آج وہاں پہ نہ پہنچتا تو کہاں ہوتی وہ۔پوچھیں ان سے کیوں کیا انہوں نے ایسا۔ان کے سر پہ اب تک اپنی بھانجی کا خبط سوار ہے۔ریان نے بھی تو لو میرج کی تھی۔صارم کی بھی لو میرج ہو گی۔میں نے کروا لی تو کونسی قیامت آ گئی۔ایسی بھی کونسی دشمنی ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔"

اسکی بات پہ طلال کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

صارم اب تک شاک کی کیفیت میں تھا۔

"اور صارم تم۔۔۔تم نے ایک بار بھی نہیں پوچھا عدن کہاں ہے۔تم لوگ سب یہاں مزے سے ڈنر کر رہے تھے تم لوگوں نے ایک بار بھی نہیں پوچھا اسکا۔"

"نہیں دائم میں نے گھر آتے ہی ممی سے پوچھا تھا انہوں نے کہا تم بھابھی کو انکی امی کے گھر چھوڑ آئے ہو کچھ دنوں کے لیے۔میں تو خود حیران تھا ابھی پرسوں ہی تو وہ وہاں سے آئی ہیں پھر اتنی جلدی۔۔۔"

وہ اتنا کہہ کر ہی خاموش ہو گیا۔

"طل۔۔۔طلال۔۔۔آپ۔۔۔آپ۔۔۔اسکی۔۔۔"

سارہ نے انکے بازو پہ ہاتھ رکھا۔

"جسٹ شٹ اپ۔"

طلال نے جھٹکے سے انہیں خود سے دور کر کے بیڈ پہ پھینکا۔

ان کی اتنی اونچی آواز سن کر سارہ مں میں دوبارہ اٹھنے کی ہمت نہ ہوئی۔

"آپ اتنا گر گئیں کہ اپنے بچوں کی خوشیاں تک نگلنے کو تیار ہیں۔میری ناک کے نیچے آپ یہ کھیل کھیلتی رہیں۔کیا قصور ہے عدن کا۔ٹھیک ہے پہلے جو سب میڈیا پہ ہوا اسکی وجہ سے میں اسے ایکسیپٹ نہیں کر پا رہا تھا مگر اب جب میں ہر چیز قبول کر چکا ہوں تو آپکو کیا ایشو ہے۔کبھی آج تک میں نے اسے گھر میں اونچی آواز میں بولتے نہیں سنا۔اب بھی وہ بغیر کچھ کہے چلی گئی ہے۔پھر بھی آپ نے یہ سب کیا۔آپ اب اس گھر میں رہنے کے قابل نہیں ہیں۔میں نہیں چاہتا جو عمر آپکی اپنے پوتا پوتیوں کو دیکھنے کی ہے اس میں آپ طلاق کا لیبل ماتھے پہ لگوا لیں لیکن آپ نے مجھے مجبور کر دیا ہے۔"

ان کی بات کمرے میں موجود تینوں لوگوں کو جھٹکا لگا۔

سارہ کا ہاتھ فوراً دل پہ گیا۔وہ روتے ہوئے دوڑ کر انکے پاس آئیں۔

"نن۔۔۔نہیں۔۔۔طلال۔۔۔آپ۔"

"اگر آپ چاہتی ہیں میرا ہاتھ آپ پر نہ اٹھے تو دور رہیں میرے سے۔"

سارہ فوراً پیچھے ہو گئیں۔

"ڈیڈی پلیز۔۔۔"

دائم انکے سامنے آیا۔

"تم خاموش رہو۔میرا دماغ کھول رہا ہے ۔وہ بچی اتنا سب کچھ سہتی رہی۔۔۔دائم کی لاسٹ وارننگ کو آپ نے کچھ نہیں سمجھا تھا لیکن آج آپکو میں لاسٹ وارننگ دے رہا ہوں اگر آئندہ آپکی وجہ سے میرے بچوں کو خراش بھی آئی تو میں آپکو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فارغ کر دوں گا۔پھر جا کے بیٹھی رہنا ساری زندگی اپنی نیہا کے پاس۔آپ اچھے سے جانتی ہیں میں اپنے قول کا کتنا پکا ہوں۔خاص طور پر عدن کے ساتھ اگر آپ نے دوبارہ کچھ کیا تو میں آپکو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔"

صارم اور دائم تاسف سے ماں کو دیکھ رہے تھے جو روتے ہوئے جھکے سر کے ساتھ بیڈ شیٹ کے ڈیزائن پہ انگلیاں پھیر رہی تھیں۔

"ڈیڈی پلیز میں نے یہ سب آپکو اس لیے نہیں بتایا کہ آپ ممی سے لڑیں۔اسی وجہ سے میں نے آپکو پہلے اس معاملے سے لا علم رکھا۔میں نہیں چاہتا آپ دونوں کے درمیان کوئی ڈسٹربینس پیدا ہو۔ممی یہی چاہتی ہیں کہ عدن اس گھر میں نہ رہے تو ٹھیک ہے میں آج ابھی اور اسی وقت یہ گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔پلیز آپ مجھے میرے فلیٹ کی چابی دیں۔ میں واپس اسے وہیں شفٹ کر دوں گا۔مجھے کوئی شوق نہیں ہے اسے اس گھر میں رکھنے کا۔"

اس کے کہنے پہ طلال نے آکر اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔

"دائم۔۔۔بیٹا میں جانتا ہوں سارہ نے جو کیا وہ معافی کے قابل نہیں ہے لیکن پلیز تم یہ گھر چھوڑ کر نہ جاؤ۔اگر تم مجھے پہلے سب بتا دیتے تو آج کی نوبت ہی نہ آتی۔یہ گھر تم لوگوں کا ہے۔ اسکی رونق تم لوگوں کی وجہ سے ہے۔میں اپنے خاندان کو بکھرتے نہیں دیکھ سکتا۔پلیز مت جاؤ۔میں نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر۔"

ڈیڈی کی بات پہ وہ مزید کچھ کہنے کے قابل نہیں رہا تھا۔طلال کمرے سے باہر چلے گئے۔سارہ اب تک رو رہی تھی۔وہ گہرے ملال کے ساتھ ماں کو دیکھتا ان کے پاؤں میں آ بیٹھا۔

"اب بس کر دیں۔آئندہ کبھی اسکے ساتھ کچھ نہ کیجئے گا۔اگر اسے کچھ ہو گیا نا تو میں بھی زندہ نہیں بچوں گا۔آپ اس کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹے سے بھی ہاتھ دھو لیں گی۔"

وہ انہیں کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔

اب صرف صارم کمرے میں موجود تھا۔

"بہت افسوس ہوا ممی۔بچے ہمیشہ ماں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر ہم سب صرف ڈیڈی کے نزدیک ہیں۔کبھی سوچا آپ نے کیوں۔۔۔کیوں ہم نے کبھی اپنے دل کی بات آپ کو نہیں بتائی۔مائیں تو بچوں کے لیے اپنی خوشیاں بھی قربان کر دیتی ہیں۔۔۔آپ کیسی ماں ہیں؟ جو آج آپ نے بھابھی کے ساتھ کیا ذرا سوچیں اگر وہ سب عنایہ کے ساتھ ہو تو کیا سہہ لیں گی آپ۔"

صارم کی بات پہ انہوں نے لرز کے سر اٹھایا۔

"داد دیں اس کے حوصلے کو۔وہ سب کچھ سہہ کے بھی خاموش ہے۔خدا کا واسطہ ہے بھول جائیں اب نیہا کو۔اس بات کو تسلیم کر لیں جوڑے آسمانوں پہ بنتے ہیں۔آپ کو ہمیشہ دائم سے پرابلم رہی ہے۔صرف اس لیے کہ ڈیڈی سب سے زیادہ پیار صرف اسی سے کرتے ہیں۔ایون وہ آپکی بات پہ بھی جسٹ دائم کو پریفر کرتے ہیں اور اس سب کی وجہ صرف اور صرف آپ ہیں۔آپ نے ہمیشہ دائم کی ہر بات پہ آبجیکشن کیا ہے اور آج صرف اپنی انا کو بچاتے بچاتے آپ اکیلی رہ گئیں ہیں بالکل اکیلی۔"

صارم انہیں کہہ کر اپنی نم آنکھیں صاف کرتا کمرے سے باہر چلا گیا۔

سارہ اپنی قسمت پہ ماتم کرتی آج اکیلی بیٹھی رہ گئیں تھیں۔آج پہلی بار انہوں نے طلال کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت دیکھی تھی۔وہ سب کچھ سہہ سکتی تھیں مگر طلال کی نفرت نہیں۔

وہ جسے گھر سے نکالنا چاہتی تھیں آج گھر کے سارے افراد اس کے ساتھ کھڑے تھے۔ان کی ساری چالیں انہی پر الٹی پڑ گئیں تھیں۔کتنا دکھ تھا دائم کی آنکھوں میں۔کتنے تاسف سے صارم انہیں دیکھ رہا تھا۔ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔

وہ ابھی تک سیڑھیوں پہ کھڑا اوپر کی جانب دیکھ رہا تھا۔وہ جانتا تھا عدن رو رہی ہو گی مگر اس وقت اس میں خود بھی ہمت نہیں تھی اسکا سامنا کرنے کی۔فون پہ مینیجر کی بارہ مس کالز آئی ہوئی تھیں۔وہ اس کے لیے میسج چھوڑ کر گہری سانس خارج کرتا اوپر کی جانب بڑھا۔

اس کی توقع کے عین مطابق وہ بیڈ پہ بیٹھی رو رہی تھی۔تھکے ہوئے قدموں سے وہ اس کی جانب آیا۔

"عادی۔۔۔بس کریں اور کتنا روئیں گی۔"

"کیا بگاڑا ہے میں نے ممی کا ۔کیوں وہ مجھ سے اتنی نفرت کرتی ہیں۔میں تو انہیں کبھی کچھ نہیں کہا۔آج۔۔۔آج وہ مجھے وہاں چھوڑ آئیں۔آپ جانتے ہیں اگر وہ لڑکے مجھ تک پہنچ جاتے تو میں۔۔۔"

اسکی بات پہ دائم نے فوراً اس کے منہ پہ ہاتھ رکھا۔

"میرے ہوتے ہوئے آپکو کوئی ہوا بھی چھو کے نہیں گزر سکتی۔کچھ نہیں ہوا آپ بالکل ٹھیک ہیں۔"

"میں اس گھر میں نہیں رہوں گی۔آپ مجھے واپس فلیٹ پہ چھوڑ کے آئیں۔میں مزید نہیں رہوں گی یہاں پہ۔"

وہ روتے ہوئے اسکے بازو کو جھنجھوڑ رہی۔تھی۔

"ہم اپنا گھر چھوڑ کے کہیں نہیں جائیں گے۔جو ہوا اسے بھول جائیں۔میں نہیں چاہتا اس بات کو سوچ سوچ کر آپ مزید تکلیف سے گزریں۔میں ہوں نا آپکے پاس پھر کس چیز کا ڈر ہے آپکو۔"

وہ اسے ساتھ لگائے نرمی سے سمجھا رہا تھا۔آہستہ آہستہ اسکی سسکیاں مدھم پڑ گئیں۔

"اب بس کریں نا میرا ہاتھ تھک گیا ہے آپکے آنسو صاف کر کر کے۔"

وہ اسکو دیکھتا شرارت سے کہہ رہا تھا جس کی آنکھیں رو رو کے سوج گئیں تھیں۔

"تو نہ کریں آپ۔۔۔۔میں خود کر لوں گی۔"

وہ غصے سے اسے کہتی خود آنسو صاف کرتے ہوئے پیچھے ہوئی۔

دائم نے ہنستے ہوئے اس کی پیشانی پہ لب رکھ دیئے۔

________________________________

سارہ اب تک کمرے میں بیٹھی رو رہی تھیں۔انہوں نے اپنی

اولاد کو اپنے ہاتھوں سے خود سے دور کیا تھا۔تبھی موبائل پہ بیپ ہوئی۔نیہا کی کال تھی۔

"ہیلو نیہا۔۔۔میری جان۔تمہیں پتہ ہے آج یہاں پہ کیا ہوا ہے ؟"

"جو مرضی ہو مجھے کیا۔۔۔پہلے مجھے یہ بتائیں آپ نے مجھے سکون سے رہنے بھی دینا ہے یا نہیں۔کیوں آپ چین سے نہیں بیٹھتی۔کیا پٹی پڑھائی ہے ممی کو جو وہ آتے ہی دائم دائم کا ورد کرنے لگ گئیں ہیں۔خالہ آپ کو مسئلہ کیا ہے ؟ مر نہیں جاؤنگی میں آپکے بیٹے کے بغیر۔ایسے کونسے جواہرات جڑے ہوئے اسے۔نیہا اقبال اتنی گئی گزری نہیں ہے جو اسکا تھپڑ کھانے کے بعد بھی اسی کے خواب دیکھے۔میں تو اب لعنت نہ بھیجوں اس پہ۔"

"نیہا میں جانتی ہوں تم غصے میں ہو۔پلیز میرے پاس آ جاؤ ابھی صارم کی شادی ہے۔۔۔"

"میری طرف سے بھاڑ میں جائے صارم اور صارم کی شادی۔ "

دوسری طرف سے نیہا نے چیخ کر کہا۔

"کیا بکواس کر رہی ہو ؟"

"ارے واہ جب میں آپکے اشاروں پہ ناچتی تھی تب تو آپکو میری ہر بات ارشاد لگتی تھی اب میں حقیقت بیان کر رہی ہوں تو یہ بکواس ہو گیا۔ٹھیک کہتا ہے دائم سارا قصور آپکا ہے۔آپ نے میری زندگی کے تین سال برباد کر دیئے لیکن اب آپکو مزید خود سے کھیلنے کی اجازت ہرگز نہیں دوں گی۔اسی لیے میں نے آپ سے ہر کانٹیکٹ ختم کر لیا تھا۔میں مر کر بھی اب اس گھر میں نہیں آؤں گی۔آپ کیا سمجھتی ہیں میں وہ ذلت بھول جاؤں گی نہیں۔۔۔میں کبھی نہیں بھول سکتی۔اس وقت بت کیوں بنی کھڑی تھیں آپ جب اس نے مجھے گھر سے نکالا تھا تب آپ نے برابر اسکے منہ پہ تھپڑ کیوں نہیں مارا۔

ڈیڈی نے میرا رشتہ طے کر دیا ہے کل تک ممی کو اس سب سے کوئی پرابلم نہیں تھی لیکن آج جب سے وہ آپکی طرف سے ہو کر آئی ہیں مسلسل انکار کر رہی ہیں مگر مجھے یہ رشتہ دل و جان سے قبول ہے کیونکہ وہ آپ کے بیٹے سے ہزار گنا بہتر ہے۔اب میں آپکو شادی کر کے دکھاؤں گی بلکہ میں آپکو بھی دعوت دیتی ہوں ضرور آئیے گا اپنے بہو اور بیٹے سمیت۔"

"یہ کیا کہہ رہی ہو تم۔۔۔نہیں تم ایسا نہیں کرو گی۔"

"کیوں۔۔۔کیوں نہ کروں۔خالہ یو نو واٹ آپکا پرابلم کیا ہے۔آپ ایک سائکو عورت ہیں۔آپ چاہتی ہیں ہر بندہ اپنے کام دھندے چھوڑ کر آپ کی جی حضوری میں لگا رہے۔"

"شٹ اپ۔تم اتنی بدتمیز ہو۔"

"کیوں اب کیوں شٹ اپ۔اب آپ سے سچ برداشت نہیں ہور ہا کیا۔آپ نے مجھے تین سال بے وقوف بنائے رکھا اور میں ایسی اندھی کہ بغیر سوچے سمجھے آپکے پیچھے چل پڑی۔آج میں آپکو بتا رہی ہوں میری ممی کے کان بھرنے کی ضرورت نہیں ہے اگر آپ نے آئندہ ان سے کوئی کانٹیکٹ رکھا تو میں آپکا سارا کیا چٹھا انکل کے سامنے کھول دوں گی پھر بیٹھی رہیے گا ہاتھ پہ ہاتھ ملتی۔"

اس نے کہہ کر فون بند کر دیا۔لائن کب کی کٹ چکی تھی مگر سارہ اب تک فون کان سے لگائے بیٹھی تھیں۔جس کو اس گھر میں لانے کے لیے ہر حد پار کر لی تھی وہ انہیں سائکو کہہ کر اپنی راہیں الگ کر چکی تھی۔کھلی آنکھوں سے آنسو بھل بھل گر رہے تھے۔کمرے کی ہر چیز ان پہ ہنس رہی تھی۔اس وقت یہاں بیٹھے بہتی آنکھوں کے ساتھ اپنے خسارے کا ٹھیک ٹھاک اندازہ ہو رہا تھا۔شوہر اور اولاد سب متنفر ہو گئے تھے۔اپنی لگائی گئی آگ میں اپنا ہی سب کچھ جل گیا تھا اور وہ نام نہاد انا کے ہاتھوں اکیلی بیٹھی رہ گئیں تھیں۔

"نہیں۔۔۔میں کچھ ختم نہیں ہونے دونگی۔کچھ بھی نہیں۔میں سب کچھ ٹھیک کر لونگی۔کسی کو خود سے دور جانے نہیں دونگی۔نہی"

وہ اک عزم کے ساتھ اٹھ کر باہر کی جانب آئیں۔ہر طرف سناٹا تھا۔سبھی ملازم کوارٹرز میں جا چکے تھے۔گیسٹ روم میں جھانکا وہاں کوئی نہیں تھا۔اچانک نظر ہال کی گلاس ونڈو کی جانب اٹھی۔طلال باہر لان میں ٹہل رہے تھے۔

وہ سیدھا چلتی انکے پاس گئیں۔انہیں آتا دیکھ کر بھی طلال نے اپنا مشغلہ جاری رکھا۔

"طلال مجھے معاف کر دیں مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی۔پلیز آئی ایم سوری۔آئی پرامس آئندہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔"

انہوں نے طلال کا راستہ روکا۔

"آئندہ میں آپکو ایسا کرنے کے قابل چھوڑوں گا تب ہی کچھ ہو گا نا۔"

"آئی نو سوری بہت چھوٹا لفظ ہے۔بٹ پلیز میں بہت شرمندہ ہوں۔مجھے معاف کر دیں۔مجھ سے اس طرح بے رخی مت برتیں۔"

"آپکو اب بھی شرمندگی نہیں ہے آپ صرف میری بات سے ڈر گئی ہیں۔آپکو شرمندگی ہوتی تو آپ پہلے بچوں سے ایکسکیوز کرتی۔کیا آپکا ایک سوری اس کے دل پہ لگے سارے زخم مٹا دے گا۔کیا سوچ کے آپ اسکو وہاں پہ لے گئی۔یو نو اگر دائم وہاں پہ نہ پہنچتا تو کہاں ہوتی وہ اس وقت۔مجھے آپ نے بہت بڑا دھچکا لگایا ہے۔نہیں سارہ۔۔۔آپکا سوری اب کچھ ٹھیک نہیں کر سکتا۔"

"پلیز ایسا مت کہیں۔۔۔میں سب سے معافی مانگ لوں گی۔دائم سے عدن سے۔سب سے پہلے آپ مجھے معاف کر دیں۔ٹھیک ہے میں نے جو کیا غلط کیا لیکن غلطیاں بھی تو انسانوں سے ہوتی ہیں۔"

"غلطیوں کی معافی خودبخود مل جاتی ہے مگر گناہوں کی معافی مانگنی پڑتی ہے۔شرمندگی کے ساتھ اکڑ کے ساتھ نہیں۔غلطی ایک بار ہوتی ہے جو بار بار کی جائے وہ غلطی نہیں گناہ ہوتا ہے۔"

طلال کی بات پہ وہ روتے ہوئے گھاس پہ گر گئیں۔

رات کی تاریکی میں حبس بڑھ رہا تھا۔درخت آج بھی ساکن کھڑے تھے۔چاند مکمل طور پہ بادلوں میں چھپا ہوا تھا شاید کچھ دیر میں بارش ہونے والی تھی۔پھر ہی ماحول پہ چھایا جمود ٹوٹے گا۔بارش کے بعد ہی مطلع صاف ہونا تھا۔

طلال لان میں رکھے بینچ پہ بیٹھے انہیں دوبارہ اپنی طرف آتے دیکھ رہے تھے۔وہ انکے گھٹنوں پہ ہاتھ رکھ کر نیچے بیٹھ گئی۔

"کیا آپ مجھے معاف نہیں کر سکتے۔ہاں میں گنہگار ہوں عدن کی۔۔۔دائم کی۔۔۔آپ کی۔لیکن کیا مجھے ایک موقع نہیں مل سکتا۔۔۔ آپکی نظروں میں اپنا مقام دوبارہ حاصل کرنے کے لیے۔۔۔۔میں سب سے معافی مانگ لوں گی۔پہلے آپ مجھے معاف کر دیں۔ہاں میں چاہتی تھی نیہا کو اس گھر میں لانا مگر وہ کل تھا۔۔۔آج کے نکلتے سورج سے پہلے میں اپنے دل کا ہر کھوٹ ختم کرنا چاہتی ہوں۔۔۔نہیں نیہا کو میں کبھی اس گھر میں نہیں لاؤں گی۔یہ گھر دائم اور عدن کا ہے۔۔۔نیہا کہیں بھی نہیں ہے وہ ہماری زندگیوں میں کبھی نہیں آئے گی۔میں نے جو گزرے کل میں کیا ہے اپنے آنے والے کل کو میں اس سے محفوظ رکھنا چاہتی ہوں۔ایک بار۔۔۔صرف ایک بار مجھے معاف کر دیں۔۔۔میں وعدہ کرتی ہوں آپکو کبھی شکایت کا موقع نہیں دونگی۔میں بچوں سے بھی معافی مانگ لوں گی۔آپ جیسا کہیں گے میں ویسا کرونگی بس ایک بار مجھے معاف کر دیں۔"

وہ انکے گھٹنوں پہ سر رکھے رو رہی تھیں۔

طلال نے دکھ سے انہیں دیکھا یہ وہ عورت تھی جس نے ہمیشہ انکے دل کے ساتھ ساتھ اس ساری سلطنت پہ بھی حکمرانی کی تھی۔

بارش کی بوندیں گرنا شروع ہو چکی تھیں۔ساتھ ساتھ ہوا کے ہلکے جھونکے آ رہے تھے۔

"دائم میرا سب سے لاڈلا بیٹا ہے۔اسکے ساتھ ساتھ اب عدن بھی مجھے اتنی ہی عزیز ہوتی جا رہی ہے۔میں دائم کی آنکھوں میں دکھ نہیں دیکھ سکتا۔آج جو اسکی حالت تھی میرے دل پہ چھریاں چل گئیں ہیں۔جانتا ہوں وہ آپکو معاف کر دے گا۔آپ چاہے اسے جیسا بھی سمجھیں وہ آپ سے بہت پیار کرتا ہے۔اسکی محبت کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہو گا جو آپ نے پہلے کیا اس نے مجھے اس سب کی بھنک تک نہیں پڑنے دی صرف اس لیے کہ وہ آپکی آنکھوں میں شرمندگی نہیں دیکھ سکتا۔

ایسے کیسز بہت رئیر ہوتے ہیں جن میں اولاد صحیح اور والدین غلط ہوں۔بچوں کو انکی زندگی گزارنے کا پورا حق ہے۔جب آپ صارم اور ریان کی چوائسز کو ایکسیپٹ کر سکتی ہیں دین دائم سے کیا پرابلم ہے ؟"

وہ سامنے لان میں پھیلے اندھیرے میں دیکھتے ہوئے کہہ رہے تھے۔آسمانی بجلی چمکتی تو ہر چیز ایک لمحے کے لیے روشن ہو کر واپس اندھیرے میں ڈوب جاتی۔

"بچے بہت نازک ہوتے ہیں انہیں ٹریٹ بھی نازک طریقے سے کیا جاتا ہے۔اولاد ہمیشہ والدین کا عکس ہوتی ہے جو ہم آج کریں گے کل کو وہ بچوں کی صورت میں ہمارے سامنے آ جائے گا۔

صارم اور ریان ہمیشہ دور رہے ہیں ہمارے قریب صرف دائم تھا۔ وہ مرضیاں جو آپ نے ریان اور صارم پہ چلانی تھیں وہ سب کی سب صرف دائم پہ چلائی ہیں۔آپ تین بچوں کی فرمانبرداری صرف ایک سے ایکسیپٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ہاؤ از اٹ پاسیبل؟ آپ بغیر ان پٹ دئیے آؤٹ پٹ کا تصور بھی کیسے کر سکتی ہیں۔

وہ ہمیشہ سے اپنی مں مانیاں کرنے والا ہے۔اسکی اپنی لائف ہے وہ جانتا ہے اسے کیسے گزارنا ہے۔میں نے کبھی اس کی لائف میں دخل نہیں دیا۔کبھی اسے روک ٹوک نہیں کی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں کبھی اس سے غافل تھا میں نے صرف اسے اتنی سپیس دی ہے کہ وہ خود غلط اور صحیح میں تمیز کر سکے اور آج مجھے فخر ہے میرا بیٹا ایک ذمہ دار اور اچھا انسان ہے۔"

سارہ بہتی آنکھوں کے ساتھ انہیں سن رہی تھی۔

"وہ بہت لونگ اینڈ کیئرنگ ہے۔آپ نے کبھی اسے خود سے قریب نہیں ہونے دیا۔بچوں کی سائیکولوجی کو صرف پیرنٹس ہی سمجھ سکتے ہیں۔بچوں کو بچوں کی طرح ہی ٹریٹ کرنا پڑتا ہے وہ پیدا ہوتے ہی سمجھ بوجھ کی ڈگریاں اپنے ساتھ نہیں لے آتے۔وہ جیسا ماں باپ کو کرتا دیکھیں گے خود بھی ویسے ہو جائیں گے۔وہ محبت جو وہ آپ سے چاہتا تھا اسے صرف میں نے دی ہے اسی لیے وہ آپکے نہیں میرے قریب ہے۔

سارہ! بچے جتنے بھی بڑے ہو جائیں ماں باپ کی ضرورت ختم نہیں ہو جاتی۔آپ چاہیں تو آج بھی سب کچھ سمیٹ سکتی ہیں۔بچوں کے دل میں دکھ ہے نفرت نہیں ہے آپکے لیے۔اور عدن بہت انوسینٹ ہے اس میں تیز طراری والی کوئی چیز نہیں ہے۔آپ اسے جس طرف موڑنا چاہیں گی وہ مڑ جائے گی۔وہ آپ سے اتنا ہی پیار کرے گی جتنا باقی بچے کرتے ہیں بشرطیکہ آپ اسکے ساتھ ایک ٹیپیکل ساس کی بجائے ایک لونگ ماں والا سلوک کریں۔اگر آپ اب بھی ان دونوں کے ساتھ پہلے والا سلوک کریں گی تو کل کو انکے بچے آپ کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کریں گے۔"

"آپ نے ماضی میں غلطیاں کی ہیں لیکن آپکا مستقبل ابھی محفوظ ہے۔گزرے ہوئے کل کے چھینٹے آنے والے کل پہ نہیں پڑنے چاہیے۔"

سارہ کے آنسو تواتر سے گر رہے تھے۔وہ ذمہ داریاں جو انہیں نبھانی چاہیے تھی وہ سب طلال نے نبھائی تھیں۔

بارش زور پکڑتی جا رہی تھی۔درخت تیز ہوا سے جھوم رہے تھے۔ماحول میں چھائی گھٹن اب ایک خوشگوار احساس میں بدل گئی تھی۔سارہ کی ہچکیاں اب بھی وقفے وقفے سے جاری تھیں۔انہوں نے اوپر دائم کے کمرے کی جانب دیکھا۔

"ابھی وہ سو چکے ہیں۔صبح بات کیجئے گا۔آئیں کمرے میں چلیں۔"

وہ اٹھنے لگے تھے مگر سارہ نے انہیں اٹھنے نہ دیا۔

"تھینک یو سو مچ۔"

"کس چیز کے لیے۔"

"اب تک کی ہر چیز کے لیے۔اتنے سالوں کے ساتھ کے لیے۔میری ہر غلطی پہ پردہ ڈالنے کے لیے۔فار ایچ اینڈ ایوری تھنگ۔"

سارہ نے اپنی آنکھیں صاف کیں۔وہ مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔

"آئیں اندر چلیں۔بارش تیز ہو رہی ہے۔"

طلال نے انکا ہاتھ پکڑ کر اندر کی جانب قدم بڑھائے۔

صبح ناشتے کی ٹیبل پہ صارم اور طلال دونوں بیٹھے باقیوں کا انتظار کر رہے تھے جب دائم اکیلا آ کر چئیر پہ بیٹھ گیا۔

"عدن کہاں ہے ؟"

طلال نے پوچھا۔

"اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ممی کہاں ہیں؟"

اس نے کہتے ہوئے بریڈ پلیٹ میں رکھا۔

"اس کی بھی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔"

انکی بات پہ صارم نے قہقہہ لگا کے تالی کے لیے ہاتھ آگے کیا وہ دونوں اسے گھور کر ناشتہ کرنے لگے۔اس نے ان دونوں کی طرف باری باری دیکھتے ہوئے ہاتھ پیچھے کر لیا۔

"ڈیڈی اتنی بے عزتی بھی اچھی نہیں ہوتی۔"

"اب تم انسان بن جاؤ۔شادی ہونے والی ہے تمہاری۔"

"ارے ہاں۔شادی سے یاد آیا عنایہ میری شادی میں نہیں آئے گی کیا ؟"

"نہیں بچوں کے پیپر ہو رہے ہیں اس لیے وہ نہیں آئے گی۔تم دونوں خود جا کر اس سے مل لینا۔"

"جی جی بالکل مل لوں گا۔پہلے آپ ہمیں بھیجیں گے پھر ہی ہے نا۔مجھے تو لگ رہا ہے میں واقعی فیل ہو جاؤں گا۔ہائے آخری سمیسٹر ہے پیپر کیسے دونگا میں اسکے۔ایک لفظ بھی نہیں پڑھا۔"

"اوہووو۔۔۔یہ تو بہت ٹینشن کی بات ہے۔پھر ایسا کرتے ہیں نکاح کر دیتے ہیں۔نکاح کے فوراً بعد تم انگلینڈ کے لیے فلائی کرو۔رخصتی تمہارے پیپرز کے بعد ہو گی۔۔۔رائٹ؟"

صارم کے ہاتھ سے کانٹا گر گیا۔

"نہیں نہیں ڈیڈی۔۔۔مجھے تو ایک ایک لفظ آتا ہے۔ایون میں نے تو سمیسٹر شروع ہونے سے پہلے ہی پیپرز کی تیاری کر لی تھی۔آپ فکر نہ کریں دیکھئے گا میں ٹاپ کرونگا۔بس آپ شادی کروا دیں میری۔"

تبھی سارہ دھلے ہوئے چہرے کے ساتھ باہر آئیں اور خاموشی سے بیٹھ گئیں۔ٹیبل پہ موجود تینوں نفوس نظروں کے تبادلے کے بعد دوبارہ ناشتہ کرنے لگے۔سارہ نے دائم کی طرف دیکھا اس کے چہرے پہ رات والے واقعے کے کوئی آثار نہیں تھے۔آج اسکے ساتھ والی چئیر خالی تھی۔

صارم سے یہ خاموشی برداشت نہیں ہو رہی تھی۔

"ڈیڈی۔۔۔میری شادی میں کتنے دن رہ گئے ہیں؟"

طلال کے دیکھنے پہ اس نے فوراً بات بدلی۔

"نہیں۔۔۔وہ۔۔۔میرا مطلب تھا شادی کے لیے شاپنگ بھی تو کرتے ہیں۔"

"تو تم کر آنا رابیل کو ساتھ لے کر۔"

"نہ جی نہ۔آپکا کیا خیال ہے میں اسکے ساتھ بازاروں میں لہنگے لیتا پھروں یہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔۔۔ہاں آپ مجھے پی سی میں ایک ڈنر کی اجازت دے دیں آپکا حکم سر آنکھوں پہ۔رہی شاپنگ تو وہ ممی اور بھابھی کر لیں گی۔"

اسکی بات پہ دائم نے جوس کا گلاس واپس ٹیبل پہ رکھا۔

"عدن کسی قسم کی شاپنگ پہ نہیں جائے گی کسی کے ساتھ بھی نہیں۔"

صارم چپ کر گیا۔سارہ کے اندر چھناکے سے کچھ ٹوٹا۔دائم کے علاوہ باقی تینوںن افراد کے درمیان نظروں کا تبادلہ ہوا۔ٹیبل پہ پھر سے خاموشی چھا گئی۔وہ آنسو پیتی، ہونٹ کاٹتی اٹھ کر اس کے ساتھ والی چئیر پہ بیٹھ گئیں۔

"میں معافی کے قابل نہیں ہوں۔میں نے جو کیا غلط کیا۔کبھی تمہاری خواہشات کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ تم بچپن سے ہی مجھ سے دور رہے اور غلطی صرف میری ہے۔میں نے تم پہ کبھی توجہ نہیں دی۔بے جا پابندیاں لگا کر تمہیں خود سےہی دور کر دیا۔مجھے لگا جیسے تم بچپن میں میرے ڈر سے میری ہر بات مان لیا کرتے تھے اب بھی تمہیں پریشرائز کر کے میں سب کچھ منوا لوں گی۔لیکن نہیں میں ایک بار پھر غلط تھی۔میں سراب کے پیچھے بھاگتی رہی۔سونے اور مٹی میں فرق بہت دیر بعد معلوم ہوا۔میں اپنے بیٹے کی زندگی میں زہر گھول رہی تھی۔میں تم لوگوں کی جدائی نہیں سہہ سکتی۔پلیز مجھے معاف کر دو۔مجھ سے بہت بڑا گناہ ہو گیا۔"

انہوں نے روتے ہوئے دائم کے بازو پہ ہاتھ رکھا۔

"پلیز ممی ایسا مت کہیں۔آپ مجھے معاف کر دیں۔میں نے رات آپ سے بہت بدتمیزی کی۔"

"نہیں تم نے کوئی بدتمیزی نہیں کی۔اگر تم مجھے وہ سب نہ کہتے تو مجھے کبھی اندازہ نہ ہوتا میں کیا کچھ کر چکی ہوں۔میری نفرت کی آگ نہ جانے کس کس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔مجھے معاف کر دو۔"

وہ روتے ہوئے دائم کے گلے لگیں۔

"ایسا مت کہیں آپ مجھے گنہگار کر رہی ہیں۔بھلا والدین بھی بچوں سے معافی مانگتے ہیں۔میرے دل میں آپکے لیے کوئی شکوہ نہیں ہے۔"

انہوں نے دائم کے ہاتھوں کو چوما۔

آج احساس ہو رہا تھا فیملی کسے کہتے ہیں۔بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اولاد کے لیے ترس رہے ہوتے ہیں۔خدا کے آگے گڑگڑا کر دعا کرتے ہیں۔جن کی نظروں میں دوسروں کی اولاد کو دیکھ کر حسرت جاگ اٹھتی ہے لیکن اللہ نے انہیں بن مانگے ہر شے سے نوازا تھا اسی لیے غرور ان کے اندر آ گیا۔لیکن گزری رات نے ہر شے عیاں کر دی تھی۔طلال کی صرف ایک دھمکی سے دماغ ٹھکانے پہ آ گیا۔وہ طلال اور بچوں کے بغیر کچھ بھی نہیں تھیں۔

"عدن کہاں ہے ؟"

"اوپر کمرے میں ہے۔"

وہ اٹھ کر سیڑھیوں کی جانب بڑھیں۔نوک کر کے اندر داخل ہوئیں۔وہ بلینکٹ لیے آنکھوں پہ بازو رکھے لیٹی تھی۔انہیں دیکھتے ہی اٹھ کر بیٹھ گئی۔

وہ شرمندہ سے اسکے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔

"اندر کیوں لیٹی ہو۔باہر کیوں نہیں آئی ؟"

انہوں نے کہتے ہوئے پیار سے اسکے چہرے پہ آئے بالوں کو پیچھے کیا۔حیرت سے عدن کی آنکھیں پوری کھل گئیں۔اسکی آنکھوں میں حیرت دیکھ کر سارہ سے سر اٹھانا مشکل ہو گیا۔

"میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔۔۔میں کس منہ سے تم سے معافی مانگوں۔۔۔میں نے تمہارے ساتھ اتنا سب کچھ کیا۔۔۔"

"ممی۔۔۔میں نے کبھی نہیں چاہا گھر میں میری وجہ سے کوئی ڈسٹربینس پیدا ہو یا کبھی میری زات کسی کے لیے تکلیف کا باعث بنے۔پھر بھی آپ کو جب جب میری وجہ سے تکلیف پہنچی فار دیٹ آئی ایم سوری۔"

سارہ نے روتے ہوئے اسے گلے لگایا۔

"نہیں۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔میں تم سے معافی مانگتی ہوں۔۔۔تمہیں کبھی اس گھر کا فرد تسلیم نہیں کیا۔۔۔کبھی دائم کی خوشیوں کا خیال نہیں کیا۔۔۔مجھے معاف کر دو۔۔۔میں نے بہت برا کیا تمہارے ساتھ۔"

"نہیں ممی۔۔۔مائیں معافی نہیں مانگتیں۔آپ اب سب کچھ ایکسیپٹ کر چکی ہیں مجھے آپ سے کوئی گلہ نہیں۔"

سارہ نے اسکی پیشانی کو چوما۔

"تم آج سے میری بہو نہیں میری بیٹی ہو۔تم آج سے میرے لیے میری عنایہ ہو۔"

"تھینک یو سو مچ۔"

"چلو آؤ باہر آؤ۔۔۔ناشتہ کرو آ کے۔"

ان دونوں کو سیڑھیاں اترتے دیکھ کر دائم نے پرسکون سی سانس ہوا کے سپرد کی۔

"آئیں بھابھی آئیں۔۔۔بڑی دیر لگا دی آپ نے۔دیکھیں آپکا شوہر کتنا بے وفا نکلا آپ سے پہلے ہی ناشتہ کر لیا اس نے۔خیر کر تو میں بھی چکا ہوں لیکن میں دوسری شفٹ بھی لگا سکتا ہوں۔چلیں شروع کریں۔"

اسکی بات پہ وہ مسکراتی ہوئی دائم کے ساتھ والی چئیر پہ بیٹھ گئی۔

"ہائے بس کچھ دن رہ گئے ہیں پھر میرے ساتھ والی چئیر پہ بھی کوئی بیٹھا کرے گا۔"

صارم نے منہ پہ ہاتھ رکھ کے ساتھ والی چئیر کو دیکھا۔سارہ سمیت سب کا قہقہہ بے اختیار تھا۔

طلال نے محبت پاش نظروں سے ان سب کو دیکھتے ہوئے انکی ابدی خوشیوں کی دعا کی۔

____________________________________

آج صارم اور رابیل کی شادی تھی۔کچھ دیر پہلے نکاح کی رسم ادا ہوئی تھی۔رابیل گولڈن اور ریڈ کلر کے لہنگے میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔

سارہ کب سے عدن کو ساتھ لیے ادھر ادھر گھومتی مہمانوں سے مل رہی تھیں کہ دائم انکے سر پہ آ کر کھڑا ہو گیا۔

"ممی مہربانی کریں اسے چھوڑ دیں۔وہ ڈیڈی کھڑے ہیں اس سے پہلے کہ آپکی کوئی دشمن انکے پاس جا کے کھڑی ہو جلدی سے آپ ان کے پاس چلی جائیں۔"

سارہ ہنستی ہوئی اس کے کندھے پہ چپت لگاتی سچ مچ طلال کے ساتھ جا کھڑی ہوئیں۔

"شرم کریں۔۔۔کیا سوچ رہی ہوں گی ممی۔"

کیوں کیا سوچنا ہے انہوں نے۔مانا ساس سے صلح ہو گئی ہے مگر بیگم صاحبہ کچھ حق ہمارا بھی بنتا ہے۔"

وہ اسکا ہاتھ پکڑے ٹیبل پہ آیا۔

"یہ علی کہاں مر گیا ابھی تو یہیں تھا۔"

وہ دونوں سامنے اسٹیج پہ بیٹھے دلہا دلہن پہ تبصرے کر رہے تھے۔

عدن گولڈن اور میرون کلر کی ساڑھی میں رات کی مناسبت سے کیے گئے میک اپ کے ساتھ جگمگ کر رہی تھی۔

"گھر چلیں؟"

دائم نے آہستگی سے کہا۔

عدن نے ہتھیلی کا مکا بنا کر اسکے بازو پہ مارا۔

"صارم سے جوتے کھانے کا بہت شوق ہے آپکو؟"

"اف ایک تو یہ صارم بھی نا۔۔۔"

تبھی علی مشن ایمپوسیبل پورا کرتا ہاتھ میں چھواروں کے آٹھ نو پیکٹ پکڑے انہی کی جانب آ رہا تھا۔اس نے جیسے ہی ہاتھ میں پکڑے سارے پیکٹ ٹیبل پہ ڈھیر کیے دائم نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"یہ تو سارے اکٹھے کر کے لے آیا۔باقیوں کے لیے بھی کچھ چھوڑ دے۔"

"خبردار میں نے تیری شادی پہ بھی نہیں کھائے تھے۔اس لیے میں تیری اور صارم دونوں کی شادیوں کے اکٹھے کر کے لے آیا ہوں۔اپنے چھوارے تو پتہ نہیں کب نصیب ہوں مجھے۔یو نو وہ چھواروں والی آنٹی دے نہیں رہی تھی مجھے۔ بڑی مشکل سے چھ سات چھین کے بھاگا ہوں اور یہ والے جو دو پیکٹ ہیں وہ سامنے والے جو انکل ہیں نا وہ اپنی بیگم کے ساتھ بیٹھے قہقہے لگا رہے تھے ان دونوں کے آگے سے اٹھا کے لے آیا ہوں میں۔"

اس نے فخر سے اپنی کارکردگی بتائی۔

سامنے بیٹھے صارم کے دانت ہی اندر نہیں جا رہے تھے وہ جیسے ہی رابیل کو کچھ کہتا وہ غصے سے اسے دیکھ کر واپس نظریں جھکا لیتی۔

سارہ چہرے پہ الوہی مسکراہٹ لیے طلال کے ساتھ کھڑی سلمیٰ اور مرتضیٰ کے ساتھ باتیں کر رہی تھیں۔وہ ان لوگوں میں سے تھیں جو گزری باتوں کو دل پہ نہیں لیتے۔وہ رات گئی بات گئی والے اصول پہ قائم تھیں۔

تھوڑی دیر بعد صارم اور رابیل بھی اٹھ کر انکی طرف آگئے۔

"تم کیوں آگئی۔۔۔وہیں بیٹھو جا کر۔"

عدن نے فوراً رابیل کو کہا۔

"میری توبہ۔۔۔مجھ سے اتنی دیر منہ بند کر کے نہیں بیٹھ ہوتا اور اوپر سے اس نے بول بول کر میرے کان کھا لیے ہیں۔"

وہ کہہ کر ریلیکس انداز میں ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھ گئی۔

صارم کو ہنستا دیکھ کر علی کے دل پہ چھریاں چل رہی تھیں۔

"اوئے مانا اللہ نے تیری سن لی ہے مگر اس میں ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار بننے والی کونسی بات ہے۔چل دانت اندر کر۔کوئی بات نہیں اللہ بہت جلد مجھ پہ بھی نظر کرم کرے گا۔"

"نہ میری جان تجھے میں لکھ کے دے دیتا ہوں تیری کبھی نہیں ہو گی۔پہلے یہ بتا آج کتنے گھنٹے بیوٹی پارلر پہ لگا کے آیا ہے۔"

"خبردار اگر تو نے مجھے میری ہی باتیں واپس لوٹائیں۔"

علی نے کڑے تیوروں سے دیکھتے ہوئے صارم کے ہاتھ پہ تھپڑ مارا جو اسکی پچھلے دس منٹ کی جمع پونجی پہ ہاتھ صاف کر رہا تھا۔

"نیہا ابھی تک کیوں نہیں آئی ؟"

علی نے رسٹ واچ دیکھتے ہوئے کہا۔

"اس نے نہیں آنا۔اگر آنا ہوتا تو وہ اپنی ممی کے ساتھ آ جاتی۔سمعیہ خالہ اکیلی آئی ہیں۔"

صارم نے اسکی معلومات میں اضافہ کیا۔

"نہیں وہ آئے گی۔میں اسے سپیشل انویٹیشن دے کر آیا تھا۔"

"تو شرط لگا لے اس نے کبھی نہیں آنا۔ہماری دشمنی چل رہی ہے اسکے ساتھ۔چل اگر وہ آ گئی تو دائم ہمیں تین پیزے کھلائے گا اگر نہ آئی تو دائم ہمیں چار پیزے کھلائے گا۔"

"میں تجھے جوتے نہ کھلا دوں؟ ویسے بھی مجھے پتہ ہے اس نے نہیں آنا۔"

دائم نے دانت پیستے ہوئے کہا۔

"دشمنی اسکی تم لوگوں کے ساتھ ہے میرے ساتھ تھوڑی۔میں دیکھ کے آتا ہوں کہیں وہ باہر ہی نہ کھڑی ہو۔"

کچھ دیر بعد علی واقعی نیہا کے ساتھ واپس آ رہا تھا۔ٹیبل پہ آتے ہی وہ فخر سے کالر اکڑا کر چئیر پہ بیٹھ گیا۔

"دائم چار پیزے یاد رکھنا۔"

"ہیلو ایوری بوڈی۔"

نیہا مسکراتے ہوئے انکی جانب آئی اور رابیل کے گال کے ساتھ گال مس کیے۔

"مینی مینی کانگریچولیشنز۔"

وہ کہہ کر ساتھ والی چئیر پہ بیٹھ گئی۔

"تھینک یو۔اتنی دیر لگا دی تم نے۔"

رابی نے مسکرا کر پوچھا۔

"ہاں وہ ٹریفک جام میں پھنس گئی تھی۔"

"کیسی ہو نیہا؟"

عدن نے بھی مسکرا کر پوچھا۔

"آئی ایم فائن۔تم کیسی ہو۔"

"میں بھی ٹھیک۔"

اسکی بات پہ وہ مسکرا کر موبائل پہ متوجہ ہو گئی۔

علی ،صارم اور دائم ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔تبھی صارم کی زبان میں کھجلی ہوئی۔

"ہیلو نیہا میں یہاں پہ بیٹھا ہوں۔تمہیں میں نظر نہیں آیا کیا ؟ آج تو میں نے شیروانی پہنی ہوئی ہے۔"

اسکی بات پہ نیہا نے موبائل سے نظریں ہٹا کے دیکھا۔

"ہائے۔ہاؤ آر یو؟"

"وعلیکم السلام۔بہت بہت شکریہ۔خیر مبارک۔"

اس کے خیر مبارک پہ نیہا کو مجبوراً مبارکباد دینی پڑی۔

"بہت مبارک ہو۔"

"تم ہمارے ساتھ کیوں نہیں آئی۔ہم اتنا ویٹ کر رہے تھے تمہارا۔"

صارم کی بات کا جواب دینے سے پہلے سارہ اسکے پاس آئیں۔

"نیہا کیسی ہو۔"

وہ کھڑی ہو کر ان سے ملی۔آج پہلے والی گرمجوشی دونوں جانب نہیں تھی۔سارہ اس سے مل کر واپس چلی گئیں۔

"نیہا یہ گاڑی کس کی ہے ؟"

علی نے اس سے پوچھا۔

"کیا مطلب کس کی ہے؟ میری اپنی گاڑی ہے۔"

"ہیں سچی۔۔۔تمہاری وہ پھٹیچر سوزوکی کہاں گئی جسے تم راستے میں روک کر دس لوگوں سے دھکا لگوایا کرتی تھی۔"

اس کی بات پہ نیہا کا صدمے سے منہ کھل گیا۔

"سچی سچی بتاؤ۔۔۔کہاں سے آئی۔"

"واٹ ڈو یو مین۔۔۔میرے ڈیڈ نے لے کر دی ہے مجھے۔"

"او بلے۔۔۔ڈیڈ اتنے مہربان کیسے ہو گئے تمہیں تو وہ تین پہیوں والی سائیکل نہ لے کر دیں۔"

"شٹ اپ۔۔۔آج میں تمہاری کوئی بات نہیں سنوں گی۔"

"ویسے مجھے بہت خوشی ہوئی تم آج شادی میں آئی ہو۔تمہارے بغیر تو رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں۔آج تو اپنا موڈ ٹھیک کرو۔آج تو صارم کی شادی ہے۔آج منہ کے زاویے نہ بگاڑنا۔دائم کی شادی پہ تم نے اتنے بگاڑے تھے کہ اب منہ ہی ویسا ہو گیا ہے۔"

"کیوں میں کیوں بگاڑوں گی منہ کے زاویے۔میری بلا سے دائم دس شادیاں کر لے مجھے کیا۔"

"اچھا یعنی کہ آج تم میرے سارے گانے سن لو گی۔تم نے دائم کو واقعی بھائی تسلیم کر لیا ہے۔"

"ہر گز نہیں۔۔۔میں تمہارا کوئی گانا نہیں سنوں گی۔میں صرف تمہارے کہنے پہ آئی ہوں وہ بھی رابیل کی شادی پہ۔بائی دا وے میں نے تم لوگوں کو بتایا ہی نہیں میری انگیجمینٹ ہو گئی ہے۔"

اس کی بات پہ سب تڑپ کر سیدھے ہوئے۔

"کب۔۔۔کس کے ساتھ۔۔۔کون ہے وہ دل گردے والا جو تمہیں پلے باندھنے کا سوچ رہا ہے۔"

علی کی آنکھیں ابل پڑیں۔

"کچھ دن پہلے ہوئی ہے۔ڈیڈ کے بزنس پارٹنر کا بیٹا ہے۔"

اس نے اک ادا سے اپنے بال جھٹکتے ہوئے کہا۔

"اچھا ڈیڈ کے بزنس پارٹنر کا بیٹا ہے۔نیہا اتنا جھوٹ نہیں بولتے۔صحیح صحیح بتاؤ لاہور میں کس جگہ پہ وہ سری پائے کی ریڑھی لگاتا ہے۔بس آج سے تم میری سگی بہن ہو۔ان دونوں سے تمہاری دشمنی چل رہی ہے نا لیکن میرا ناشتہ روز تمہاری ریڑھی سے آیا کرے گا۔"

"شٹ اپ۔"

نیہا نے چیخ کر کہتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر علی کے بال کھینچے۔

"ہائے ربا۔۔۔ میرا ہئیر سٹائل خراب ہو گیا۔"

اس نے فوراً موبائل کی اسکرین سامنے کرتے بال سیٹ کئے۔

"بہت بہت مبارک ہو نیہا۔مجھے بہت خوشی ہوئی۔تم جہاں رہو خوش رہو۔آئی نو تم میری وجہ سے بہت ہرٹ ہوئی ہو لیکن یہ قسمت کے کھیل ہیں۔میری یہی دعا ہے تم ہمیشہ خوش رہو۔کچھ بھی ہو ہم لوگ کزنز اور دوست ہمیشہ رہیں گے۔"

دائم کی بات پہ نیہا نے مسکرا کر اسے دیکھا۔

"نہیں مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ڈیڈ نے میری مرضی سے میری انگیجمینٹ کی ہے۔آئی نو آئی واز رونگ۔فار ایوری تھنگ آئی ایم سوری۔عدن میں تم سے بھی سوری کرتی ہوں تم دونوں ہمیشہ خوش رہو۔اور ہاں ہم لوگ ساری زندگی دوست رہیں گے۔"

اس نے عدن کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا۔

"اوہ یس۔۔۔یعنی سب ہیپی ہیپی ہو گیا سو آج سے ہم سب پھر پہلے والے دوست ہیں پھر ملاؤ ہاتھ۔"

علی کے کہنے پہ ان سب نے اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھے۔

"بس نیہا اب تم فکر نہ کرنا ہم سب تمہیں اپنی دعاؤں کے سائے میں رخصت کرنے آئیں گے۔آج تو تصویر بناؤ گی نا ہمارے ساتھ۔"

"شیور وائے ناٹ۔"

اسکے کہنے پہ علی نے ایک ہنستی مسکراتی یاد اپنے موبائل میں محفوظ کی۔

عدن نے اوپر آسمان پہ چمکتے تاروں کی جانب دیکھتے آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کیا۔دائم نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا مگر دائم کے دیکھنے پہ اس نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔جب ہر شے حسب منشا ہو تو تشکر کے آنسو آنکھوں میں آ ہی جایا کرتے ہیں۔

"نیہا اب تمہاری ریڑھی سے ہمارا ناشتہ پکا ہے نا ؟"

علی کے کہنے پہ نیہا سمیت ان سب کا پر زور قہقہہ فضا میں گونجا۔

_________The End____

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Ki Pehli Manzil Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ishq Ki Pehli Manzil written by Farwa Mushtaq .Ishq Ki Pehli Manzil by Farwa Mushtaq is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages