Dasht E Yaram Tera By Samina Seyal Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 22 September 2024

Dasht E Yaram Tera By Samina Seyal Complete Romantic Novel

Dasht E Yaram Tera  By Samina Seyal Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Dasht E Yaram Tera By Samina Seyal Complete Romantic Novel 

Novel Name: Dasht E Yaram Tera 

Writer Name: Samina Seyal 

Category: Complete Novel

پاپا  اتنے سارے گارڈز رکھ دیئے ہیں   آپ نے ۔ایسے لگتا ہے جیسے میں کالج نہیں محاز پہ جا رہی ہوں ۔ وہ گیٹ سے باہر سیکورٹی گارڈز کی فوج دیکھ کر واپس آئی اور اپنے پاپا کے گلے میں بانہیں ڈالے لاڈ سے بولی ۔

 کم آن گڑیا میری یہ تمھاری سکیورٹی کے لیے ہے ۔۔

میری  جاب ایسی ہے کہ ہر پل کھٹکا سا لگا رہتا ہے ۔

 میری ایک ہی تو بچی ہے میرے دشمن بڑھ گئے ہیں بیٹا یہ تمھاری سکیورٹی کے لیے ضروری ہے ۔

جسٹس ظہیر نے اپنی بیٹی کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے  رام کیا ۔

اور خبردار جو  تم نے کوئی ایڈوینچر سوچا بھی تو 

تم چیف جسٹس ظہیر الحسن کی بیٹی ہو تمھاری طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے تو میں اسے پھانسی پہ چڑھا دوں گا 

پاپا آپ میری اتنی فکر نہ کیا کریں میں بیس سال کی ہو گئ ہوں آپ کی بیٹی ہوں اور دشمن کا مقابلہ بھی کر سکتی ہوں لگتی تو تم دس سال کی بچی ہو چھوئی موئی سی ہو ۔

مسسز ظہیر نے اسے ٹوکا ۔

وہ تو آپ کھانے کو کچھ نہیں دیتیں اس لیے ۔غازیہ نے آنکھ ونک کر کے ماں کو چڑایا ۔

دیکھ رہیں ہیں آپ ظہیر صاحب یہ ماں کو کیا سمجھتی ہے۔مسسز ظہیر نے برا مناتے ہوئے شوہر سے شکایت کی ۔ 

مجھے کالج سے دیر ہو رہی ہے ۔غازیہ نے موضوع بدلا ۔

آپ تو افسر بندے ہیں پاپا ۔

 آپ کو کون پوچھے گا مگر میرا فرسٹ لیکچر جس بندے کے پاس ہے وہ خان ہے خان ۔

لحاظ بھی نہیں کرتا کہ لڑکی ہے یا لڑکا باہر کھڑا کر دیتا ہے 

اور آپ کے گارڈ اس وقت باہر کھڑے ہوتے ہیں  

غازیہ نے اپنے میتھس کے ٹیچر کی نقل اتاری ۔

ویسے پاپا آپ اسے اندر کیوں نہیں کروا دیتے مجھے تو لگتا ہے یہ ایگزیمر  کے ساتھ چیٹنگ میں ملوث۔ ہے۔

 بری بات ہے بیٹا ایسے نہیں کہتے۔غازیہ کی ماں نے ٹوکا ۔

 سوری ماما جسٹ کیڈنگ ۔

غازی نے کانوں کو ہاتھ لگایا ۔

اوکے ماما اوکے پاپا بائے اور اللہ حافظ کہتی باہر نکل گئ ۔

پاپا آج میں سیکورٹی نہیں لے کر جانا چاہتی فرینڈز بہت مزاق کرتی ہیں۔ غازیہ نے ایک بار پھر جسٹس ظہیر سے ریکوسٹ کی مگر بے سود ۔

 اس میں نو رعایت جسٹس ظہیر نے وارن کرتے ہوئے خاموش کروایا ۔

 گو ٹو  کالج روکو میں زرا دوبارہ سیکورٹی چیک کر لوں 

سب اپنے اپنے کارڈز دکھاؤ۔ جی صاحب یہ لیں وہ سب کے آئ ڈی کارڈ چیک کرتا 

ان کو وارننگ دیتا اندر بڑھ گیا 

میں غازیہ ظہیر الحسن تن تنہا ان چھ چھ فٹ لمبے تڑنگے گارڈز کے ساتھ روز کیسے ایزی فیل کر سکتی ہوں۔

غازیہ گاڑی میں بیٹھتے ہی سوچنے لگی ۔

ایسا تو کوئی میرے خوابوں کا شہزادہ بھی ڈر جائے گا 

کیسے سمجھاؤں میں پاپا کو آج یہ کلموہی رانیہ بھی نہیں آئی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تین باوردی پولیس اہلکار  پیچھے موجود تھے اور تین آگے درمیان میں وہ کالے موٹے موٹے شیشوں میں بیٹھی اپنی قسمت کو کوس رہی تھی 

ڈرائیور نے گاڑی سائیڈ پہ روکی میڈم سر نے کہا ہے کہ آپ سر باہر نکال کر نہیں بیٹھ سکتی ۔

غازیہ نے تھوڑا شیشہ نیچے کیا اور سر باہر نکال کر دیکھنے لگی ۔

تم گاڑی چلاؤ میرے پہ حکم نہیں۔ غازیہ کو غصہ آ گیا ۔

 دیکھیں یہ سر کے آرڈر ہیں ۔مجھے انھیں انفارم کرنا ہو گا ۔

  وہ جو باہر سر نکال کر چیونگم کو کسی بیل کی جگالی کی طرح چباتی باہر کے نظارے کر رہی تھی 

نئے حکم پر سر اندر کر کے بیٹھ گئ 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩ ابصار عالم آپ کو اپنے  اصول توڑنے ہوں گے دو دن ہیں ہمارے پاس خرم زکی کیس کا فائنل فیصلہ ہے۔

شان نے ابصار عالم کے سامنے آخری بار حل رکھا اور انھیں ایک بار پھر وارن کیا ۔

فیصلہ اگر ہمارے حق میں نہ ہوا تو ہماری ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے گی۔خرم کو کچھ نہیں ہوگا یہ جسٹس ظہیر اسے پھانسی کے پھندے تک پہنچانے  نہیں دوں گا ۔۔

نہیں میں یہ ہرگز نہیں ہونے دوں گا ۔ابصار عالم کچھ سوچ کر بولے ۔

ٹھیک ہے   فیصلہ ڈن ہو گیا ۔ابصار نے ایک رضا مندی کا آرڈر دیا ۔

پھر 

کل ہر صورت کام ہو جانا چاہیے کوئی کوتاہی ہوئی تو جسٹس ہوشیار ہو جائے گا ۔اس لیے ہوشیاری سے کام کرنا ایسا کام کہ جس میں تم لوگوں کی ہار نہیں جیت ہو۔

ابصار عالم نے شان سے کہا اور خود نیوز پڑھنے لگا ۔

اوکے باس آپ فکر نہ کریں۔شان نے ادب سے سر جھکایا ۔

یہ ہمارے بچوں کے فیوچر کا سوال ہے آخر ۔شان نے کہا ۔

میٹنگ برخواست کرو لگ جاؤ اپنے اپنے مشن پہ گو اینڈ کوئیک رسپانس۔

ابصار عالم نے میٹنگ میں سب کو بلا کر کام سمجھا دیا ۔

ہیرے آج کا فرسٹ پریڈ تو خالی ہے۔غازیہ نے ہیر سے کہا ۔

کیوں نہ راؤنڈ لگا کر آئیں ۔یونی  کا ۔غازیہ نے  کہا ۔

چلو لائبریری چلتے ہیں ۔ہیرے نے کہا ۔

چھوڑو لائیبریری میرا ابھی کوئی ارادہ نہیں ہے میں زرا 

آزاد گھومنا پھرنا چاہتی ہوں ایک یہ ہی تو جگہ ہے جہاں میں سکیورٹی کے بغیر گھوم سکتی ہوں ۔

مگر غازیہ کا الگ ہی پلان تھا ۔

غازیہ تمھارے پاپا نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی رکھا ہو گا۔

 ناں ان سب سیکورٹی کو ہیرے نے اسے سمجھایا ۔

 بس مجھے نہیں پسند تو نہیں پسند غازیہ نے ہاتھ کھڑا کر کے کہا۔

مجھے عجیب وحشت ہونے لگی ہے ۔

ان سب چیزوں سے ایسے لگتا ہے میں کسی عام انسان کی بچی نہیں ہوں ۔کسی ولن کی بیٹی ہوں ۔

اس سب سے مجھے ڈر لگنے لگا ہے ۔ہیرے میں کہیں پاگل نہ ہو جاؤں وہ گھومتے پھرتے اپنے دل کی باتیں ہیر سے کر رہی تھی ۔

اچھا زیادہ سر پہ سوار مت کرو ورنہ خوش نہیں رہے پاؤ گی ۔ہیر نے بھی اس موضوع کو بدلہ ۔

آپ دونوں میں سے غازیہ ظہیر الحسن کون ہیں وہ جو لان میں بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف تھیں گن مین انھیں بلانے آیا تھا آپ سے کوئی ملنے آیا ہے اور یہ دیا ہے آپ کے لیے ۔ غازیہ نے اپنا نام بتایا تو سکیورٹی گارڈ نے اسے ایک لفافہ دیا ۔

یہ کیا ہے  غازیہ نے الٹ پلٹ کر دیکھا ۔

آپ کے پاپا ظہیر الحسن پہ کچھ لوگوں نے قاتلانہ حملہ کیا ہے ۔ لفافے میں ایک چٹ تھی ۔

آپ گیٹ پہ آئیں مگر پچھلے دروازے سے آپ۔

اور ہاں  یہ رنگ دی ہے آپ کے پاپا  نے تاکہ آپ کو کوئی شک نہ ہو ۔

کیا یہ رنگ آپ کے پاپا کی ہی  ہے ناں؟ 

 اسے دے کر کہا تھا کہ وہ کسی اجنبی کے ساتھ نہیں آ سکتی مگر میری یہ رنگ دیکھ کر ضرور آئیں گی یہ تو پاپا کی ہے وہ اسے ہاتھ میں لیتی بھاگتے ہوئے گیٹ پہ پہنچی تھی وہاں ایک بلیک کرولا کھڑی تھی 

اس کے ساتھ ہی ایک سوٹڈ  بوٹڈ سا درمیانے قد کا لڑکا گلاسز لگائے کھڑا تھا 

غازیہ ہیر نے اسے پکارا تھا انکل ٹھیک تو ہیں ناں میرے پاپا ٹھیک ہیں جی وہ خطرے سے باہر ہیں 

آپ دیر نہ کریں جلدی چلیں آپ کا یہاں کھڑا ہونا مناسب نہیں وہ اس کے حلیے سے اندازہ لگاتی دھوکہ کھا چکی تھی 

آپ چپ چاپ کر کے بیٹھیں مجھے زیادہ بات کرنا پسند نہیں میں نے بات تو نہیں کی بھائی میں نے تو بس پوچھا ہے میرے پاپا کس ہاسپٹل میں ہیں 

یہ لو ٹشو آنکھوں کے ساتھ ناک بھی صاف کر لو چھوٹے بچوں کی طرح نوشی بہہ رہی ہے تمھاری کیا اس نے جلدی سے ٹشو پکڑ کر ناک صاف کی جیسے واقعی اس کی نوز بہہ رہی ہو 

یہ تو بڑا جھوٹا ہے 

میرے پاپا کا معاملہ نہ ہوتا نہ تو میں ایسے ان کا دماغ کھاتی کہ دماغ چاٹ لیتی 

گاڑی فراٹے بھرتی شہر کی حدود سے باہر آ گئ تھی 

غازیہ ظہیر سوچتے سوچتے  چونکی تھی یہ آپ کہاں لائے ہیں مجھے یہ ہاسپٹل تو نہیں ہے میں بھی تمھارے باپ کا خاص آدمی نہیں ہوں واٹ یہ کیا ہے

اندر چلو میں اندر نہیں جاؤں گی مجھے یہی بتاؤ جانتے بھی ہو میں کون ہوں 

اندر آؤ لڑکی وہ گیراج میں گاڑی سے نکل کر کھڑی ہوگئی تھی 

جب ابصار عالم لان میں ٹہلتا ہوا اس کی طرف آیا تھا 

ابصار عالم نے اسے ایک بار کہا تھا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی تھی 

بہزاد اسے اندر لے کر آؤ مجھے عورت زات پہ ہاتھ اٹھانا پسند نہیں ہے 

اے خبر دار جو کوئی میری طرف بڑھا تو 

اس نے اپنے پرس سے جھٹ سے پن نکالی تھی 

رکو ابصار عالم رکا تھا وہ اعتماد کے ساتھ اس کے سامنے آئی تھی عورت پہ ہاتھ اٹھانا پسند نہیں کرتے ہو مگر عورت کو اٹھوانا پسند کرتے ہو 

اندر آجاؤ بیٹھ کر بات کرتے ہیں بہزاد یہ نہ آئے تو اسے اٹھا کر لے آنا وہ جو تھوڑی دیر پہلے لاجواب ہوا تھا 

اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا آگے بڑھ گیا 

وہ یہ تو جان گئ تھی کہ یہ لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں 

وہ تیزی سے اس کے پیچھے بھاگی تھی آپ کا یہاں لانے کا مقصد کیا ہے کہاں ہیں میرے پاپا آپ جانتے ہیں ان کو وہ چیف جسٹس ہیں پورے پنجاب کی پولیس کو لگا دیں گے میرے پیچھے آپ بچ نہیں سکیں گے 

چپ کر جاؤ لڑکی اب اور کچھ کہا یا تم بولی تو زبان کاٹ دوں گا تمھاری کیوں نہ بولوں میں آپ مجھے ایسے جھوٹ بول کر لے آئے ہیں اور اب میں بولوں بھی نہ مجھے پتہ تو چلے 

میری تو کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور میرے پاپا کے لیے لائے ہیں تو بھی مجھے بتا دیں تمھارے پاس موبائل ہے 

ہاں ہے اس کے یہ بیگ دو بہزاد کو نہیں نہیں اس نے بیگ پہ گرفت مضبوط کی تھی 

دے دو لڑکی ورنہ پھر انجام کی  زمہ دار تم خود ہو گی 

نہیں نہیں میں نہیں دوں گی اس میں کچھ نہیں ہے 

موبائل ہے تو بتا دیا ہے اب آپ کو کیا کرنا ہے بہزاد آگے بڑھا تھا اس نے خود ہی بیگ پکڑا دیا تھا 

کافی سمجھدار ہو گڈ گرل کھانا کھاؤ گی اسے گیسٹ روم لے جاؤ تم دونوں اور کھانا کھلا دو تم کھانا کھا کر آرام کرو تمھیں یہاں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہو گی مگر اس کے لیے تمھیں میری ہر بات ماننی ہو گی 

غلط فہمی ہے آپ کی مجھے دو گھنٹے بھی یہاں آپ نہیں رکھ سکتے وہ اسی زعم میں بہزاد اور کلیم کے ساتھ اندر 

بڑھ گئ تھی 

وہ ایک جنگل میں تھی اور اس جنگل میں ابصار عالم نے کئی طے خانے بنا رکھے تھے اس میں اس نے ایک نئ دنیا بسا رکھی تھی

بہت خوب صورت بینگلو تھا اس کا جس میں اس نے ہر چیز فٹ کر رکھی تھی اس میں کئ قسم کے جانور پال رکھے تھے 

اور کئ قسم کے پرندے بھی تھے 

،⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

وہ گیسٹ روم میں کب سے تنہا بیٹھی بو ہو رہی تھی 

اسے کچھ بھی نہیں سمجھ ا رہا تھا آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے 

اسے اس طرح اٹھا کر لانے کی وجہ کیا ہے 

ان لوگوں کی میرے پاپا کے ساتھ کیا دشمنی ہے 

وہ کتنے پریشان ہوں گے 

وہ اٹھ کر ایک قد آور کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی

اتنا خوبصورت گیسٹ روم سکائی بلیو وال سٹکچر ہم رنگ کرٹن گلاس ڈور گلاس ونڈوز چاروں اطراف 

چار پانچ قسم کی لائٹس کسی کے اعلی ترین زوق کا منہ بولتا ثبوت تھا 

غازیہ ظہیر اگر عام حالات میں دیکھ لیتی تو لٹو ہو جاتی مگر یہاں وہ  کنڈنیپ  ہو کر آئی تھی مگر اسے کوئی پرواہ نہیں تھی ایڈوینچر اسے پسند تھے 

مجھے بھوک لگ رہی ہے کسی نے پلٹ کر پوچھا نہیں ہے یہ کیسے بے حس لوگ ہیں وہ سوچوں میں گم تھی 

جب اس کی نظر ایک عدد چھپکلی پہ پڑی تھی اس کے جان پہ بنی تھی 

اسے چھوٹے سے لے کر بڑے جانور تک ایسے ڈر لگتا جیسے وہ اسے ہی مارنے کے لیے پیدا کیے گئے ہوں 

کاکروچ دیکھ کر ہی اس کی  جان پہ بن آتی تھی وہ چیخیں مار مار کر نوکروں کی پوری فوج گھر میں جمع کر لیتی اور ماں کی آ غوش سے لپٹ جاتی 

اور اب یہ چھپکلی اس کی روح تک فنا ہو گئ تھی 

وہ چیخ رہی تھی مگر اس کی آواز باہر تک نہیں جا رہی تھی 

اس نے سامنے پڑا گولڈن شو پیس  اپنی پوری قوت کے ساتھ گلاس ڈور پہ مارا تھا شو پیس جہاں چکنا چور ہوا تھا 

وہی ایک خطرے کی آواز باہر بیٹھے ابصار عالم کے کانوں تک بھی پہنچی تھی 

وہ گھر میں اس وقت اکیلا تھا سب اپنے اپنے کام پہ نکلے تھے 

وہ تیز تیز قدم اٹھاتا گیسٹ روم بھاگا تھا 

اس کے دروازہ کھولنے کی ہی دیر تھی کہ غازیہ ظہیر اپنی عادت کے عین مطابق اپنی ماں کی آغوش میں ایسے جا کر چھپی تھی

ابصار عالم بھی جیسے سانس لینا بھول گیا تھا 

اتنی شدت سے کوئی آ کر لپٹا تھا وہ پتھر تو نہیں تھا ایک مرد تھا جیتا جاگتا انسان تھا 

احساس سے بھرپور مرد تھا 

ماما چھپکلی وہ اس کو ماما پکارنے پہ ہوش میں آیا تھا 

میں چھ فٹ کا مرد تمھیں ماما گرا ہوں وہ اتنی بھاری مردانہ آواز پہ اچھل کر پیچھے ہٹی تھی ابصار عالم کے چہرے پہ سالوں بعد زرا سی مسکان ابھری تھی مگر وہ پل بھر کی تھی غازیہ ظہیر کی غصے میں بھری آواز اس کے کانوں میں پڑی تھی 

جنگلی جانور 

بے حس انسان بھیڑے تمھیں شرم نہیں آتی ایک کمزور عورت کے ساتھ یہ سب کرتے ہوئے اسے کمرے میں بند کرتے ہوئے تم مرد ہوتے تو مرد سے مقابلہ کرتے می۔ نہیں مانتی تمھیں مرد میرے ہاتھوں میں چوڑیاں ہوتیں تو میں ابھی تمھیں پہناتی شٹ اپ لڑکی اب ایک لفظ اور مت نکالنا چلو میرے ساتھ وہ اس کی کلائی پکڑتا باہر نکل گیا اسے گاڑی میں پٹختا خود گاڑی ڈرائیو کرتا اپنی زندگی خود ہی خطرے میں ڈال گیا تھا 

یہ میری چادر لے لو اوپر ہم تھوڑی دیر میں شہر  پنہچ جائیں گے 

اتنی رات میں چادر جو کہا ہے وہ ہی کرو 

وہاں سے ٹیکسی لے دوں گا تمھیں کوئی کچھ نہیں کہے گا 

اور 

اتنی رات میں آپ مجھے اکیلا چھوڑ دیں گے 

اب چپ ہو جاؤ 

وہ گہرے اور گھنے جنگل سے گزر کر پل کراس کر رہے تھے 

جب اسے کال آئی تھی باؤ کہاں ہیں آپ 

میں اس لڑکی کو اس کے گھر چھوڑنے جا رہا ہوں 

باہر ناکے لگے ہوئے ہیں 

ہر ایک روڈ پہ 

آپ کو اسے بھیجنا ہی تھا تو مجھے کہے دیتے آپ کو اس طرح اکیلے نہیں جانا چاہیے تھا 

بس ہمارا کام ہو گیا ہے شان میں یہ پل کراس کر کے اسے کوئی ٹیکسی کروا دوں گا 

وہ چلی جائے گی 

میں نہیں جاؤں گی اکیلی مجھے جس طرح آپ لے کر گئے تھے چھوڑ بھی آئیں گے وہ پل سے اتر آئے تھے 

مگر اچانک گولیوں کی آوازوں نے اس کی گاڑی کو نشانے پہ رکھ لیا تھا 

باؤ یہ آواز کیسی ہے پتہ نہیں فون مت بند کرنا 

ہم سب وہاں پہنچ رہے ہیں 

نیچے لیٹ جاؤ لڑکی چیخو مت خاموش ہو جاؤ 

غازیہ ظہیر کی چیخیں آسمان کو چھو رہی تھیں

جب ایک نقاب پوش نے گاڑی کا گلاس توڑ دیا تھا 

ابصار عالم اسی انتظار میں تھا شاید اس نے آپ لوڈڈ پسٹل 

اس کی گردن پہ جمایا تھا 

مگر دوسری سائیڈ سے 

کچھ لوگوں نے غازیہ ظہیر کو گھسیٹ کر نیچے اتارا تھا 

بچاؤ مجھے چھوڑو مجھے خدا کے لیے چھوڑ دو مجھے 

وہ گلہ پھاڑ کر چلا رہی تھی 

وہ سنسان سی ایک جگہ تھی  جہاں۔ اس کی آواز شاید کوئی 

جانور سن سکتا ہے یا پھر اس اندھیری رات کا وہ ڈر جو اس  وقت غازیہ ظہیر  کے جسم سے روح نکالنے کے لیے 

کافی تھا 

پاشا کے آدمیوں نے گھسیٹ کر غازیہ ظہیر کو باہر نکال لیا تھا 

اس کی چیخ نکلی تھی مگر اس کے چہرے پہ پڑنے والے 

پاشا کے تھپڑ نے اس کی سانس تک بند کر دی تھی

لڑکی کو چھوڑ دے پاشا مجھے جو کہنا ہے کہہ لو 

میرے ساتھ جو مرضی سلوک کرو مگر لڑکی زات پہ 

آنچ نہیں آنے دوں گا یہ تم بھی اچھے سے جانتے ہو مجھے 

پاشا اپنا شکار نہیں چھوڑتا 

یہ تو تم بھی اچھے سے جانتے ہو 

ابصار عالم تم جانتے نہیں ہو یہ لڑکی کون ہے اسے تم ایک قدم بھی آگے نہیں لے جا سکتے 

آج تک بازی تم جیتتے آئے ہو 

باؤ عالم مگر آج بازی میں جیت گیا ہوں لڑکی تم نے اٹھوائی

قانون کی نظر میں تم ہو پولیس تمھارے پیچھے ہے 

پاشا جنگ تمھارے اور میرے بیچ ہے عورت زات کو بیچ میں لا کر 

خود کو اتنا مت گراؤ 

باؤ ہم آگئے ہیں آپ گھبرانا نہیں ہاہاہاہاہاہا 

تو تمھارے شکاری کتے بھی آن پہنچے 

سب نے اپنی اپنی جگہ سنبھالی تھی 

سب اسلحے سے لیس تھے 

میں چاہوں تو تمھیں اور تمھارے ساتھیوں کو ادھر ہی زندہ گاڑ دوں مگر وہ کیا ہے ناں کہ 

مرے ہوؤں کو کا مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ وہ کتنی 

تکلیف میں ہیں  

تمھیں زندہ رکھ کر مجھے درد دینا ہے 

تمھیں پتہ تو چلے استاد کے ساتھ غداری مہنگی پڑتی ہے 

پاشا تم مجھے مار کر لے جا سکتے ہو لڑکی مگر زندہ میں ایسا نہیں ہونے دوں گا 

غازیہ ظہیر بے بسی کی تصویر بنی ان دو غنڈوں کی بکواس سن رہی تھی 

اس کی نظر میں شدید نفرت ابھری تھی 

اس ابصار عالم کی وجہ سے 

اس کی وجہ سے وہ اس حالت میں پہنچی تھی اس کی وجہ سے وہ اتنے سارے مردوں کے درمیان ایک تماشا 

بنی ہوئی تھی میرے پاپا کتنے ہلکان ہو رہے ہوں گے یا خدا 

تو ہی میری مدد فرما 

بس پاشا نے اسے مزید بولنے سے روک دیا 

اور غازیہ ظہیر کے قریب آیا 

چاند کی اس روشنی میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا 

مگر خوف وہراس کی وجہ سے 

اس کی حالت قابل رحم تھی 

وہ آسمان کی جانب منہ کر کے 

کچھ بڑبڑا رہی تھی اپنے کتوں سے کہہ دو ہتھیار پھینک دیں ورنہ یہ لڑکی بے موت ماری جائے گی 

شان سب ہتھیار پھینک دو سرنڈر کر دو 

کاشی ہتھار اٹھا لو جا کر 

غازیہ کو دو غنڈوں نے پکڑا ہوا تھا 

ان میں سے ایک کو حکم دیا تھا پاشا نے 

ایک گن تانے ابصار عالم کے سر پر کھڑا تھا 

ابصار عالم تاک میں تھا کاشی نے جیسے ہی شان کے سامنے جھکا تھا ا

شان نے بڑی پھرتی سے اس کی کمر توڑدی دی تھی 

وہ چیخا تھا مگر گن اس کی کنپٹی پہ تھی 

ابصار عالم پہ تنی ہو ہی بن والا بھی 

اس چیخ کی طرف زرا سا متوجہ ہوا تھا جب 

ابصار عالم نے اس کی کلائی موڑ دی تھی 

اس سوچوئیشن کو شاید دیر ہو چکی تھی کیوں کہ 

پاشا غازیہ کو لے کر وہاں سے بھاگ چکا  

تھا 

ابصار عالم کے پیرو سے آج صحیح سے زمین سرکی تھی 

وہ حواس باختہ ہوا تھا 

کوئی کام کامیابی ہوئی یا نہیں ایس پی کمال 

بارہ گھنٹے ہو چکے ہیں  میں  اب خاموش نہیں رہ سکتا 

رات بیت گئی تو میری عزت کا جنازہ نکل جائے گا 

میں مزید انتظار نہیں کر سکتا 

آپ ریلیکس رہیں سر ہمیں ایک جگہ اطلاع ملی ہے 

ہر شہر میں ناکہ بندی بہت سخت ہے ہماری 

اور 

تم کچھ نہیں۔ کر سکتے تم صبح سے مجھے بس تسلی دے سکتے ہو 

اب جو کروں گا میں خود کروں گا 

باؤ تم پاگل ہو گئے ہو وہ جیسے ہی پاشا کے پیچھے بھاگا  تھا 

شان نے اسے روکنے کی 

بہت کوشش کی تھی

مگر وہ ابصار عالم تھا 

جس نے پچیس سالہ پریکٹس میں کبھی کسی 

عورت کو بزرگوں کو 

بوڑھوں کو اور بچوں کو 

کسی کھیل کا مہرہ نہ بنایا تھا 

ابصار عالم وہ انسان تھا 

اس حیوانیت کے قانون میں 

جو اپنے سے کمزوروں کی مدد کرتا تھا 

بے سہارا کو سہارا دیتا تھا 

یتیم 

بچوں کی کفالت کرتا تھا 

اور ایسے قانون دانوں کے 

خلاف کھڑا ہوتا تھا 

جو وردی کی آڑ میں 

اپنی تجوریاں بھرتے تھے 

ان کے کالے دھندے سے پیسے نکلوانے کا ہنر آتا تھا اسے 

یہی وجہ تھی کہ قانون نافذ کرنیوالے اس کے خلاف تھے 

تم قانون سے نہیں بچ سکتے ابصار عالم 

پوری کنٹری کی پولیس میرے ایک اشارے پہ 

تیرے چھوٹے سے شہر کا چپہ چپہ چھان مارے گی 

میں جسٹس ہوں اور تم ایک ملک دشمن دہشت پھیلانے والے 

غنڈے ہو جسٹس آواز نیچی رکھ کر بات کرو میں کیا ہوں یہ اچھی طرح جانتے ہو 

تمھاری ایک بیٹی نہیں مل رہی اور تمھاری جان پہ بن آئی ہے 

میرے لاکھوں بچوں کا سوچ جب انھیں ایک وقت کا کھانا 

کوئی نہیں دیتا تو میرے بھی کیا بیتتی ہوگی 

تمھارے ملک کے نام نہاد سیاسی کتے 

جنہیں تم معزز شخصیات کہہ کر سیلوٹ پیش کرتے ہو 

وہ ہیں اس ملک کو کھانے والے غنڈے 

ان معصوم بچوں کو نوچنے والے 

سور اور اگر تم نے میرے کسی بھی بچے کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو 

قسم کھاتا ہوں اپنی ماں کی تمھاری بیٹی کو زندہ گاڑ دوں گا 

اور اونچی آواز میں بات کی تو 

میں وہ کروں گا جو تم سوچ بھی نہیں سکتے 

جاؤ لگا دو پولیس میرے پیچھے 

اور بگاڑ لو جو میرا بگاڑنا ہے 

میں نیک کام کے لیے لڑتا ہوں اگر میرے اللہ کو پسند آیا تو 

تم جیسے جواری میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے 

شٹ اپ 

ابصار عالم تمھیں دیکھ لوں گا میں 

تم نے کس شیر کی کھچار میں ہاتھ ڈالا ہے تمھیں پتہ لگ جائے گا 

وہ جان بوجھ کر بات کو طول دے رہا تھا 

چیف جسٹس ظہیر الحسن  کو اسے چیمبر لگا کر پکڑوانا تھا 

مگر وہ ابصار عالم اسی کی گلی میں کھڑا ہو کر اسی کے نیٹ ورک سے بات کر رہا تھا 

اور وہ اپنے علاقے میں موجود نفری کو الرٹ کر چکا تھا

سر جس سم سے ابھی بات ہوئی ہے وہ آپ کے ایریا میں ہے 

کیا وہ بدمعاش میرے ایریا میں ہے اور مجھے یہ خیال بھی نہیں آیا وہ اتنا 

نڈر ہے کہ وہ میرے ہی گھر کے آس پاس ہے 

میں نے اس علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے 

ابصار عالم ہم سے بچ کر اب کہیں نہیں جا سکتا 

نہیں تم ایسا کچھ نہیں کرو گے اس کے ساتھ میری بیٹی ہے 

کمال فرید وہ جان بوجھ کر 

ایسا کر رہا ہے 

اس سے میں بات کرتا ہوں اپنے طریقے سے 

جاؤ لڑکی تمھارا گھر آ گیا ہے 

تم نے مجھے اتنی بڑی مصیبت میں ڈال دیا عورت ہوتی ہی فتنہ ہے 

اوہ شٹ اپ آپ نے اچھا کام کیا ہے جو مجھے فتنہ کہہ رہے ہیں میں خود نہیں آئی تھی 

آپ کی ہی نوازش تھی جاؤ اب واقعی ہی مروانا چاہیتی ہو 

مجھے وہ جو اس سے بحث کرنے لگ گئ تھی 

اس نے اسے تنبیہ کی 

یہ آپ کی شال لے جاؤ اس طرح تمھیں کوئی پہچانے گا نہیں 

اور سنو اس سب کے لیے معزرت خواہ ہوں 

معاف کر دینا پلیز 

اور وہ سر جھٹکتی گلی میں مڑ گئ تھی 

ابصار عالم کو کال آ رہی تھی مگر وہ کال ڈسکنٹ کر کے 

شان کے ساتھ اپنے مشکی گھوڑے پہ بیٹھ کر جا چکا تھا 

وہ ٹیکسی ڈرائیور کو جلدی نکلنے کا اشارہ کر کے خود مشکی گھوڑے کو لیے 

کچے راستے پہ اتر چکا تھا 

جان ہتھیلی پہ رکھنے والے جان بچانے کے گر بھی جانتے ہیں 

وہ بھی جانتا تھا صبح ہونے والی تھی 

جب وہ اپنے گھر پہنچا تھا 

بیٹا اللہ کا شکر ہے تم آ گئ ان لوگوں نے تمھیں کوئی نقصان تو نہیں پہنچایا 

اور وہ الف سے لے کر  زیڈ تک کی کہانی بتاتی چلی گئ 

بیٹا وہ غنڈہ نہیں ہے اس کا طریقہ کار غلط ہے بس وہ کچھ ایسے لوگوں سے کھار کھانے لگا ہے جنہوں نے قانون کو بدنام کر رکھا ہے 

وہ ایسی کالی بھیڑوں سے الجھنے لگا ہے پاپا اس نے مجھے اغواء کیا ہے 

اور آپ اس کی تعریفیں کر رہے ہیں 

جو لوگ حق پہ ہوں ناں ان کا ساتھ اللہ بھی دیتا ہے 

تم نہیں سمجھو گی 

میری پری آرام کرو تم وہ اپنی ماں کے ساتھ کسی ننھے بچے کی طرح لپٹ کر سوئی تھی 

مگر باپ کی آنکھوں کی نیند جوان بیٹی کے اغواء نے 

اڑا دی تھی 

وہ ایک فیصلے پہ پہنچ چکے تھے اور وہ تھی اس کی شادی 

دو دن بعد

ساری تیاریاں مکمل ہو گئ ہیں ناں کہیں کوئی کمی بیشی تو نہیں ہے 

نہیں باس کوئی کمی نہیں ہے آپ بے  فکر رہیں 

باس زیشان اندر داخل ہوا 

میڈیا والے آئے  ہیں وہ آپ کا انٹرویو تھا آج اور اس ایونٹ کی بھی ویڈیوز شوٹ کرنے کا کہہ رہے ہیں 

ان کو لائیو شو میں بھی آپ کو شوٹ کرنا ہے 

لیکن تمھیں پتہ ہے شان مجھے دکھاوا پسند نہیں ہے تم منع 

کر دو 

نہیں ابصار یہ پروگرام ان کو کرنے دو 

لوگوں کو پتہ چلے ہم غنڈے موالی 

چور اچکے نہیں ہیں 

کیمرے  سیٹ کرو جلدی تم زکی نے اینکرز کو اندر بلایا تھا 

جلدی ختم کرنا وقت کا ضیا ع نہیں چاہیے مجھے

وہ آستین کو فولڈ کرتا صوفے کے بیک پہ سر ٹکاتا ہوا بولا 

آپ کچھ بتائیں ہمیں اس فیلڈ میں آنے کی کوئی خاص وجہ

بس انسانیت ہی سب سے بڑی وجہ ہے 

سنا ہے آپ لوگوں سے زبر دستی کرتے ہیں ان سے پیسے

 نکلوانے کے لیے مار پیٹ بھی کرتے ہیں 

آپ مجھ سے پرسنل سوال نہیں پوچھ سکتیں 

مس فروا حیات ایسا کچھ نہیں ہے میں یہاں آپ سب کے سامنے ہوں 

ورنہ کسی جنگل میں چھپ کر بیٹھا ہوتا 

میرا ادارہ  ابصار کڈز ہاؤس کسی کی بھیک کا محتاج نہیں ہے 

انھیں کھلانے پلانے والا اللہ ہے 

میں کسی سے کیا چھنیوں گا 

میں کسی کا نصیب نہیں چھین سکتا 

اور کوئی ان بچوں کا نصیب نہیں چھین سکتا 

سنا ہے آپ غیر قانونی طریقے سے بچوں کو باہر ممالک میں 

بھیجتے ہیں اور ان کو پڑھا لکھا کر 

ان سے پیسہ وصول کرتے ہیں 

بس مس انف اور ایک لفظ نہیں سنوں گا 

وہ یکدم بھڑکا تھا 

آپ میری بات سنیں مس فروا حیات 

ہم اس دور کی نوجوان نسل کے اچھے فیوچر کے لیے کس قدر کوشاں ہیں آپ جانتی ہوں گی 

ابصار کڈز ہاؤس کی کامیابی کا علم تو  ہو گا آپ کو اس سے آگ لگتی ہے کچھ اس 

ملک کے شریفوں کو اگر ان کی شرافت کا بھانڈہ پھوڑ دوں

 تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں 

ان کو بتا دو کہ جن بچوں کو تم کوڑا کرکٹ میں پھینک دیتے ہو ابصار عالم انھیں اپنا نام دیتا ہے 

ہم ان کی پرورش کرتے ہیں 

ہم انھیں انسان بناتے ہیں 

کیا غلط ہے کیا یہ گناہ ہے 

اگر یتیم بچوں کی بچیوں کی پرورش کرنا گناہ ہے 

ان کے سر پر ہاتھ رکھنا گناہ ہے 

تو ہاں میں یہ گناہ کرتا ہوں 

تم جن بچوں کو سڑکوں پہ بھیک مانگنے پہ مجبور کرتے ہو 

ہم ان کی کفالت کرتے ہیں ان کو چھت دیتے ہیں کھانا دیتے

 ہیں کیا یہ گناہ ہے اگر ہے تو ہاں میں اس کو بھی کرتا ہوں

جن ماؤں کے سروں سے چادریں اتار کر اپنے دلوں کو تسکین

 دیتے ہو میں سروں پہ چادر ڈال کر ان کو تحفظ فراہم کرنے

 کی ادنی سی کوشش کرتا ہوں کیا یہ گناہ ہے 

اگر غریب کو دبا کر میں سکون حاصل کروں تو میں اعلی

 درجے کا انسان ہوں مجھ سے نہیں ہوتی یہ منافقت 

ابصار عالم اندر باہر ایک جیسا ہے وہ انسان ہے اور آپ

 مجھے انسان ہی رہنے دیں میرا آج یہ آخری انٹرویو ہے 

مجھے اس کیمرے کے سامنے لا کر آپ مہان ثابت نہ کریں میں ان بچوں کے سامنے شرمندگی محسوس کر رہا ہوں جو 

اپنے اپنے پیروں پہ آج الحمدللہ کھڑے ہیں 

ان کی تزلیل ہو میں ایسا نہیں ہوں آپ مجھے معاف ہی

 رکھیں تو بہتر ہے

میرا لائیو انٹرویو بھی دیکھ رہے ہوں گے 

مجھے معاف کر دینا میرے بچوں وہ ٹی وی سکرین پہ براہ راست دیکھ کر بولا 

بہت سے نوجوان اسے زندگی کی دعا دینے لگے بہت سے 

چہرے مسکرا اٹھے اور بہت سے فون پہ لپکے تھے 

ابصار عالم  درد سے چور لہجے میں کہتے ہوئے پھر سے سٹارٹ ہوا 

تم جن بچیوں کی عزت تار تار کر کے کوٹھے پہ بٹھا آتے ہو 

ہم ان کو اس درندگی سے بچاتے ہیں 

جن کے گھر میں چولہا نہیں جلتا 

ہم انھیں بھوکا سونے نہیں دیتے

یہ گناہ ہے تو جی میں کرتا ہوں یہ بھی گناہ 

تم جنھیں اپنی گندگی سمجھ کر  کوڑا دان میں پھنکباتے ہو

 ابصار عالم ان کو اپنے سینے پہ سلاتا رہا ہے 

کتنے کامیاب انسان ہیں آج وہ فخر ہے مجھے آج ان پہ 

میں وعدہ کرتا ہوں آپ سب سے ان کو ایک دن آپ کے سامنے لے آؤں گا 

ہر ادارے میں بھیجوں گا میں انھیں 

وہ پولیس ہو 

فوج ہو 

آرمی ہو 

سول انجینئرنگ ہو 

ڈاکٹر ہو 

عدالت ہو ۔جج ہو 

ہر ایک شعبہ میں ے آؤں گا 

ابصار عالم مر بھی گیا تو اپنی روح چھوڑ جائے گا ان بچو

 میں میرا بچا ہوا کام وہ سر انجام دیں گے 

جتنا ہو سکا میں ان کالی بھیڑوں سے بچا کر رکھوں گا ان سے جو چاہیتے ہیں میں ان کو یہ بچے دے دوں تاکہ وہ بھیک منگوا کر اپنے خزانے بھر سکیں 

میں ان کی آنکھیں پھوڑ ڈالوں گا

میری مجھے مت بھولنا میری آنکھیں ہر پل ہر وقت 

میرے بچوں پہ ہیں میں آنکھ اٹھا کر ان کی جانب بڑھے 

ہاتھوں کو کاٹ ڈالوں گا 

وہ پر زور سپیچ کرتے ہوئے بول رہا تھا 

ایسے جیسے اس کے سامنے اس کے دشمن بیھٹیں ہیں

ہمارا کام ہمیں کرنے دو جب تک ابصار عالم اور خرم زکی

 زندہ ہے 

ہم ہر اس بے سہارا بچوں کے لیے 

کھڑے بھی ہوں گے 

اپنی اپنی جان بھی دے سکتے ہیں 

اور ضروت پڑی تو لے بھی سکتے ہیں 

ٹی وی چینل پہ ان کا انٹر ویو آن ائیر جا رہا تھا 

ابصار عالم وائٹ کرتے شلوار میں صوفے پہ براجمان 

کسی سلطنت کا شہزادہ لگ رہا تھا 

اس کی روشن پیشانی پہ دو مہراب چمک رہے تھے 

اس کی گھنی مونچھیں جیسے اسی پہ سج رہی ہیں 

اتنا خوبصورت بے مثال سا روشن چہرہ 

تیری آنکھوں سے کبھی کیوں نہیں گزرا 

غازیہ ظہیر وہ دو گھنٹوں سے 

ٹی وی کے آگے براجمان بنا پلک جھپکائے 

ابصار عالم کے ایک ایک  زاویے کو دیکھ رہی تھی اس کی ایک ایک بات اپنی نوٹ بک پہ لکھ رہی تھی 

وہ اپنی ڈائری کو کھولتی اس کے لب ہلتے اس کی قلم رفتار

پکڑ لیتی وہ خاموش ہوتا وہ ٹکٹکی باندھے اس کو دیکھنے لگتی 

اس کی دھڑکنوں میں ارتعاش پیدا ہو رہا تھا 

جیسے ابصار عالم اس کے سامنے بیٹھا ہو 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

یار کوئی رکواو اس انٹرویو کو وہ ہماری طرف اشارے کر رہا ہے 

اس نے عوام کے سامنے ہمار نام لے لیا تو ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے

ظہیر تم کرو منع تم تو آن ڈیوٹی ہو 

پولیس تمھارے اشاروں پہ چلتی ہے 

ابصار عالم کا منہ بند کرواؤ 

تمھاری بیٹی کے اغواء کی تفصیل بھی دے سکتا ہے 

ان ایکنرز کو تو موقع چاہیے مرچ مصالحہ لگا کر 

انٹرویو چھاپیں گے 

جمالی تم پریشان نہ ہو وہ ایسا کچھ نہیں کرے گا 

وہ جتنا بھی بڑا بن جائے 

خیالات اس کے بلند ہی ہیں 

وہ کسی کا نام بھی نہیں لے گا 

اور کسی لڑکی کی عزت بھی نہیں اچھالے گا 

تم اس کی طرف داری کر رہے ہو 

میں اس کی تعریف کر رہا ہوں 

مجھے کام ہے میں ابھی چلتا ہوں تم لوگ بھی بند کر دو یہ ٹی ۔وی ورنہ جلتے کڑھتے رہو گے 

ظہیر الحسن مسکراتا ہوا باہر نکل گیا تھا 

ویلڈن ابصار عالم تم واقعی ہی دوستی کے قابل ہو 

انسان ہو تو تمھارے جیسا میں اتنے اختیار رکھ کر بھی 

کچھ نہیں کر پاتا اور تم ایک عام انسان ہو کر بھی 

کتنے خاص ہو 

ایک لمحے کے مجھے تم سے نفرت محسوس ہوئی تھی 

ایک دن نفرت بھی ہوئی تھی تم نے میری بیٹی کا جس طرح خیال رکھا میں مان گیا ہوں تمھیں 

میرے اندر سے نفرت مر گئ ہے 

تمھارے لیے 

جمالی اور فخری تمھارے خلاف جو بولتے تھے میں سمجھتا تھا وہ حق پہ ہیں مگر آج تم نے ثابت کر دیا 

آج میں ہی نہیں بہت سے اچھے لوگ تمھارا اس نیک کام میں ساتھ دیں گے 

ان میں آج مجھے بھی شامل کر لو آج سے میں کروں گا تمھاری حفاظت تمھارا خیال 

وہ سوچتے ہوئے اپنے گھر پہنچ چکے تھے 

اصفہان یہ چیک کیش کروا کر ابصار کڈز ہاؤس جمع کروا دو 

مگر انھیں خبر نہیں ہونی چاہیے کہ یہ کس نے کیا ہے 

چاہے اپنا نام ڈال دینا 

وہ اپنے سکیورٹی آفیسر  سے مخاطب ہوا 

جی بہتر سر وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

ہیرے میرا اتنا اچھا نام کیوں بگاڑتی ہو تم 

پاگل پیار سے کہتی ہوں ہیرے کا مطلب پتہ ہے ناں 

کتنا اچھا ہے 

ہیرے کا مطلب ڈائیمڈ ہوتا ہے 

تمھاری اردو اتنی ویک ہے تو انگلسغ میں سن لو اور سمجھ بھی لو اور خبر دار جو مجھے اب ٹوکا تو 

میری بات سنو تم نے ٹی۔وی پہ آج ابصار عالم  کو دیکھا 

کیسا ہے 

بہت ڈیسینٹ پرسنلٹی ہے اور کتنا پیارا بولتا ہے 

اس کا انداز میں تو دو گھنٹے بس اسے ہی دیکھتی رہی 

کیا تم بھی دیکھتی رہی ہو 

ہاں غازیہ بہت اچھا انسان ہے 

آج پہلی بار اس نے کسی کو انٹرویو دیا ہے 

میں تو کہتی ہوں ہر لڑکی کا ہیرو ہوتا ہے ایسا 

شخص میں تو محبت میں گرفتار ہو گئ ہوں اس کی 

اے لڑکی ہوش کے ناخن لو 

وہ میرا ہیرو ہے غازیہ ظہیر الحسن کا ہیرو 

غازیہ ظہیر نے ہیر ماہم  کی بولتی بند کی تھی 

کیا پاگل ہو گئ ہو تم میں تو مزاق کر رہی ہوں مگر تم کیا بکواس کر رہی ہو میں سچ کہہ رہی ہوں ہیرے مجھے محبت ہو گئ ہے 

اور یہ وہی ابصار عالم ہے جو مجھے ان غنڈوں سے بچا کر 

میرے گھر چھوڑ گیا تھا 

اس پہ میں غصہ تو بہت تھی مگر آج اس کی شکل دیکھ کر دل آ گیا ہے اس پہ تم پاگل ہو گئ ہق

تم بیس سال کی مٹیار سی چھوئی موئی نازک سی لڑکی  ہو 

وہ تیس سال کا بھرپور جواب مرد ہے 

اور تم نے سن نہیں اس نے لاسٹ میں کیا کہا تھا 

شادی نہ کرنے کی وجہ میرے یہ ہی بچے ہیں میر ایہ ہی گھر ہے میرا یہ ہی فیملی ہے اور مکمل ہے مجھے 

اب کسی چیز کی خواہش نہیں ہے 

میں آئیڈیل لائف گزار رہا ہوں 

وغیرہ وغیرہ 

ہیر ابصار عالم کی نقل اتارتے ہوئے بولی 

جبکہ غازیہ ظہیر کو پتنگے لب گئے تھے 

غازیہ ظہیر کو تم پھر جانتی نہیں ہو 

میں بھی کسی سے کم نہیں ہوں اسے اپنا نہ بنایا تو میرا بھی نام بدل دینا 

محبت سچی ہو تو کسی کی منزل نہیں رکتی 

مگر غازیہ تمھارے پاپا 

جسٹس ہیں اور وہ ایک غنڈا مشہور ہے 

اوپر سے اس کی عمر کے حساب سے بڑا لگتا ہے وہ تم سے 

تم تو بیس کی بھی نہیں لگتی 

تمھارے ماما پاپا مجھے نہیں لگتے کہ مانیں گے 

اے لڑکی اچھی باتیں نہیں کر سکتی تو بد دعائیں مت نکالو 

دعا کرو میرے لیے 

میں واقع ہی محبت میں گرفتار ہو چکی ہوں 

بس کر دو یار مزاق بند کرو 

اور مجھے ماما بلا رہی ہیں جا رہی ہوں میں باہر 

اور سو جاؤ تم تمھارے دماغ پہ اثر ہو گیا ہے 

مجھے لگتا ہے 

وہ کہتے ہی کال ڈسکنیٹ کر گئ 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

بہت دیر سے وہ آنے ہی نمبر پہ کال کر رہی تھی مگر پھر اس نے اسے ملتوی کر دیا 

ماما میں بازار جا رہی ہوں 

اکیلی جاؤ گی نہیں میں عزا کو ساتھ لے جاتی ہوں 

میرا موبائل گم ہو گیا ہے مجھے وہ لینا ہے 

تم نہیں جا سکتی تمھارے پاپا نے سختی سے منع کیا ہے تمھیں باہر نکلنے سے 

وہ تمھاری شادی ابھی نہ کرنے سے تو رک گئے ہیں مگر ابھی

تمھیں باہر جانے کی اجازت نہیں دیں گے 

ماما پلیز میں ایسے کیسے قید ہو کر رہ سکتی ہوں 

یونی آپ نہیں جانے دے رہے 

باہر اپ نہیں نکلنے دے رہے 

میں جاؤں تو کہاں جاؤں 

کیا ہو گا میرا یا رب یہ ابصار عالم کی وجہ سے سب ہوا ہے 

چھوڑوں گی نہیں میں بھی تمھیں 

آپ پھر مجھے موبائل منگوا دیں اور سم بھی ہاں وہ میں منگوا دیتی ہوں میں لا دوں گی 

مجھے ابھی چاہیے ماما 

بات کرنی ہوتی ہے فرینڈز سے مگر 

بار بار نیچے آنا پڑتا ہے اس سٹینڈ فون کے لیے اچھا امیں ابھی کہتی ہوں تم میرا فون لے لو میں تب تک منگوا لوں گی 

ہاں یہ بھی ٹھیک ہے 

وہ ماما کا موبائل لیتی مسکراتی ہوئی اپنے روم میں دوبارہ 

چلی گئ 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩

اس نے اپنا نمبر ڈائل کیا اور خود کو کمپوز کرنے لگی 

بیل مسلسل جا رہی تھی مگر کوئی بھی اٹھا نہیں رہا تھا  

کہیں میرا موبائل پھینک تو نہیں دیا ان ظالموں نے 

افف وہ غصے سے مٹھیاں بھنچتی دوبارہ کال ملانے لگی 

اس بار کال اٹینڈ  ہو چکی تھی 

دشت تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہیں

تیری آواز کے سائے تیرے ہونٹوں کے سراب

یہ کون ہے بھئ ابصار عالم نے پڑھ کر پہلو بدلا 

دشت تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے 

کھل رہے ہیں۔ تیرے پہلو کے سمن اور گلاب 

کوئی محبت کا مارا لگ رہا ہے 

وہ کچھ سوچتے ہوئے اگلی سطر پڑھنے لگا 

اٹھ رہی ہے کسی قربت سے تیری سانس کی آ نچ

     اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی مدھم مدھم

 زبردست انتخاب کوئی سلجھا ہوا شخص لگتا ہے 

اس کی ہونٹوں پہ مسکان آئی تھی

اسے دل چسپی محسوس ہوئی 

وہ مزید اشتیاق سے پڑھنے لگا 

دور افق پار چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ

گر رہی ہے تیری دلدار نظر کی شبنم

سو رومنٹک آ ہستہ سے اس کے لب ہلے 

"دلدار نظر"

اس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے

 دل   کے رخسار پہ اس وقت  تیری یاد نے ہاتھ

لگتا ہے اسے کال کر نی پڑے گی 

یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے صبح  ابھی  فراق 

ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات

اتنی رات کو اس لڑکی کے نمبر پہ کون یہ نظم سینڈ کر رہا ہے 

مجھے اسے بتا دینا چاہیے کہ یہ نمبر گم ہو گیا  ہے آپ کسی اور طریقے سے غازیہ ظہیر سے رابط کریں 

وہ جو تانے بانے بن رہا تھا کہ آخر کیسے وہ اس کی وضاحت کرے گا 

ایک سکیم اس کے زہین میں آئی تھی 

یہ کوئی لڑکا لگ رہا ہے 

شاید غازیہ کا کوئی  ہو 

وہ کچھ سوچتے ہوئے اس نمبر کو ڈائل پیڈ پہ ملانے لگا 

معزز صارف آپ کے موبائل میں اس کال کے لیے بیلنس ناکافی ہے 

برائے مہربانی کال سے پہلے 

اس نے کال ڈسکنٹ کر دی 

اس نے اپنا پبلک سیل نکالا کیونکہ وہ اپنے گھر اور اس کے ارد گرد صرف اپنا پرائیویٹ سیل یوز کرتا تھا جو صرف چند خاص لوگوں کے پاس تھا نمبر ابصار عالم کا 

اور ابھی بھی اسے کسی اجنبی کو کال کرنی تھی 

سو احتیاط ضروری تھی اس کے لیے 

بیل جاری تھی مگر ابھی اٹینڈ نہیں ہوئی تھی

اسلام وعلیکم

ابصار عالم نے سلام کرنے میں پہل کی تھی 

مگر دوسری طرف مکمل خاموشی تھی 

غازیہ ظہیر کی دھڑکنوں میں ارتعاش برپا  ہوا تھا 

مگر وہ سنبھلی تھی کیونکہ دوسری طرف سے مسلسل ہیلو کی آوازیں آ رہی تھیں 

وہ اوندھی لیٹی ہوئی تھی کان سے موبائل لگائے وہ اپنے دونوں پیروں کو جھلا رہی تھی 

ٹھیک ہے آپ جو کوئی بھی ہیں 

اللہ حافظ

لگتا ہے تمھیں میری آواز پسند نہیں آئی 

آپ کون بات کر رہے ہیں میں کون بات کر رہا ہوں 

یہ اتنا اہم نہیں ہے آپ بتائیں کہ آپ کون ہیں 

جی لال آپ نے کی ہے میں نے نہیں 

جس مقصد کے لیے اس نے کال کی تھی وہی وہ بھول گیا 

آپ ابصار عالم سے میری بات کروا سکتے ہیں 

نہیں جی وہ تو اس وقت سو رہے ہیں صبح بات کروا سکتے ہیںطط

پلیز کروا دیں ناں یا پھر ؟

وہ رکی تھی کچھ دیر کے لیے 

یا ان کا نمبر دے دیں آپ کو ان سے کیا بات کرنی ہے 

وہ بات مجھے ان سے ہی کرنی ہے 

آپ سے کرنے والی ہوتی تو آپ سے کرتی ناں 

اے لڑکی بتاؤ تم کون ہو 

اور سو جاؤ رات کے اس پہر اچھی لڑکیاں نہیں جاگا کرتیں 

ساتھ ہی اس نے کال ڈسکنٹ کر دی

اتنا ایٹیوڈ تمھارا ہی ہو سکتا ہے 

ابصار عالم 

غازیہ ظہیر کا کام کا کام ہو گیا ہے 

مجھے اب اس سے ملنا ہے 

اسے کچھ بتانے کے لیے کچھ تو کرنا پڑے گا ناں 

مس غازیہ ظہیر  پہلے اس شخص سے یہ تو پوچھ لو کہ 

وہ کہیں شادی شدہ تو نہیں ہے 

یا پھر محبت  وحبت کرتا ہو 

اس سے یہ تو پوچھ لوں یا کون ہے 

غازیہ بی بی آپ کو صاب بلا رہے ہیں

خیر تو ہے اس وقت اچھا میں آتی ہوں 

ابصار کو ایک مسیج بھیج دیتی ہوں 

جواب تو دے ہی دے گا 

ابصار عالم 

پلیز ایک بات کا جواب دے دیں پلیز 

کیا آپ نے کبھی محبت کی ہے 

سینڈ کا بٹن پریس کرتے ہی وہ باہر کو بھاگ گئ 

اسلام وعلیکم 

پاپا آپ نے مجھے بلایا 

ہاں میری گڑیا میرے بچے تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے 

جی پاپا میں بلکل ٹھیک ہوں 

یہ آپ کی مسز ہیں نے بلاوجہ آپ کو پریشان کر دیتی ہیں 

سن رہی ہوں میں غزہ اوففففففففففف آپ نے کان ادھر ہی

 لگائے ہوئے ہیں ماما 

وہ ماں کے گلے میں جھولتے ہوئے لاڈ سے بولی 

سوری ماما میں تو بس پاپا کو پٹا رہی تھی 

غازیہ تم اب سیریس ہو جاؤ بڑی ہو گئ ہو تم 

میری پری ادھر آؤ میرے پاس 

جی پاپا بولیں ادھر میرے پاس بیٹھو 

وہ اپنے پاس جگہ دیتے ہوئے بولے  

میرے اور تماری ماما کے کچھ خواب تھے 

تمھیں آزادی دی تمھیں پڑھایا لکھایا 

آگے بھی  پڑھانا چاہتا تھا 

مگر جو کچھ ہو چکا ہے اس نے میری روح نکال دی ہے

تمھیں کچھ ہو جاتا تو میں جیتے جی مر جاتا 

تو میں جیتے جی مر چکا ہوتا اللہ نہ کرے پاپا 

وہ قریب ہو کر باپ کے بازو پہ سر ٹکاتے ہوئے بولی  

ہماری تم اکلوتی اولاد ہو 

زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے 

مگر سوچتا تو ہر کوئی ہے 

کہ اس سے پہلے ہی وہ اپنے فرائض نبھا لے 

غازیہ میں اپنے ہاتھوں سے اپنی بیٹی کو رخصت کرنا چاہتا ہوں 

میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے 

تمھاری ماما اس ظالم دنیا کا سامنا نہیں کر سکتی 

جو لوگ تمھیں اغوا کروا سکتے ہیں وہ اور بھی کچھ کر

 سکتے ہیں وہ بہت خطرناک ہیں 

وہ غنڈے ہیں ان کی کوئی ماں بیٹی بہن بیوی نہی۔ ہوتی 

اگر لوگ مجھے غنڈہ سمجھتے ہیں تو 

سمجھتے رہیں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا 

میں ایسے شریفوں سے پناہ مانگتا ہوں 

جو معصوم بچوں کو بھیک مانگنے کے لیے مجبور کرتے ہیں 

غازیہ ظہیر کے کانوں میں ابصار عالم کی آواز ٹکرائی تھی

تو کیا وہ واقعی ہی ایک برا شخص ہے

نہیں میری محبت بری نہیں ہو سکتی میری چھٹی حس کہتی ہے 

وہ ایک سچا کھرا 

اور محب وطن شہری ہے 

اٹھارہ گھنٹے میں اس کے ساتھ رہی ہوں 

اس نے پاشا پہ جس طرح حمہ کیا تھا 

وہ شخص مجھے چھوڑ کر بھاگ بھی سکتا تھا 

وہ اس دریا میں کیوں کودا تھا 

اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز میری عزت کیوں تھی 

اس کا تو کچھ بھی نہیں تھا اس پاشا نامی ڈاکو کے پاس 

پھر اس نے کیسے مجھے بچایا 

اگر اسے کسی بہن ماں  بیٹی بیوی کی پرواہ نہ ہوتی تو 

وہ لاکھوں کی ث میں 

بچے بوڑھے جوان عورتیں مرد 

سب ہی اس کی زندگی کی دعائیں نہیں مانگ رہے ہوتے 

مجھے اتنی سمجھ بوجھ تو ہے 

اسی لیے میں نے تمھاری شادی کر دینے کا فیصلہ کیا ہے 

پاپا میں ابھی شادی نہیں کر سکتی آپ جانتے ہیں مجھے

 جرنلسٹ بننا ہے ابھی 

آپ نے ہی مجھے یہ سکھایا ہے 

جو سوچو تو پھر اس پہ ڈٹے رہو 

وہ کر کے دکھاؤ جو تم نے کرنے کا سوچا ہے 

لیکن گڑیا 

پاپا آپ نے ہی کہا ہے ناں کہ زندگی اور موت کا تو کسی کو

 بھی پتہ نہیں ہے 

بس آپ اللہ پہ چھوڑ دیں 

عزت اور زلت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے 

وہی ہماری حفاظت کرنے والا ہے 

میں اب کوئی ایسی بے وقوفی نہیں کروں گی جس سے آپ 

دوبارہ پریشان ہوں 

پلیز پلیز پلیز 

وہ پاپا کے گلے میں بانہیں پھیلائے لاڈ سے بولی 

تو اس کے پاپا موم کی طرح پگھلے تھے 

وہ دنیا جہان سے بڑھ کر اپنی بیٹی کو چاہتے تھے 

انہوں نے ایک بار پھر اپنی بیٹی کو منانے کی کوشش کی 

مگر بے سود تھا 

وہ آنے روم میں چلی گئ اس کے پاپا نے بھی ضد نہیں چھوڑ تھی 

وہ ڈرا ہوا شخص اپنی بص کو سمجھا نہیں سکتا تھا کہ 

وہ کس حد تک ڈر چکا ہے 

مگر اپنی بیٹی کی خوشی بھی عزیز تھی 

اس کی ایک دن کی بھوک ہڑتال نے ظہیر الحسن کو گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کر دیا تھا 

مے آئی کم ان سر 

یس کم ان 

غازیہ ظہیر نے پرنسپل ہمایوں کے آفس میں انٹر ہو نے سے پہلے 

اجازت طلب کی اور اندر انٹر ہو گئ 

سر یہ میری ایپلیکیشن ہے میں کسی وجہ سے یونی ورسٹی نہیں آ سکی 

جس کی وجہ سے بہت حرج ہوا ہے میرا 

مجھے ایکسٹرا کلاسز کے لے اپائنٹمنٹ چاہیے 

ٹھیک ہے آپ کو بتا دیا جائے گا ابھی آپ جا سکتی ہیں ۔

جی ابصار عالم آپ کا کام ہو جائے گا آپ بے فکر رہیں 

آپ نے آنے میں۔ زحمت کی ہے آپ کال کر دیتے تو آپ کا کام ہو جاتا 

ابصار عالم وہ واپس مڑی 

آپ یہاں اب کس کو اغواء کرنے آئیں ہیں 

اچھا تو سر آپ بھی ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں 

وہ بلا جھجک ابصار عالم پہ چڑھ دوڑی

میں اب آپ کو یہ سب نہیں کرنے دوں گی 

میں ابھی پاپا کو کال کرتی ہوں 

آپ کی جرات کیسے ہوئی یہاں آنے کی 

ابصار عالم پہلے حیران ہوا پھر ایک جھٹکے سے اٹھا تھا 

مس غازیہ ظہیر یہ کیا بدتمیزی ہے 

سر ہمایوں نے اسے ٹوکتے ہوئے بولے 

آپ تو چ ہی رہیں سر آپ بھی ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں 

کیا بکواس کر رہی ہو لڑکی ۔

بکواس میں نہیں آپ کر رہے ہیں 

غازیہ ظہیر جاؤ یہاں سے تم 

تمھارے پاپا میرے اچھے دوست نہ ہوتے تو میں ابھی تمھیں 

فائر کر دیتا 

غازیہ ظہیر نے ابصار عالم کا گریبان پکڑ کر کھینچا 

آپ اتنے گھٹیا 

اننف مس غازیہ ظہیر انفف اب ایک اور لفظ منہ سے نکالا

 تو کیوں برا لگ رہا ہے کیا آ پ  نے مجھے 

شٹ اپ اس سے پہلے کہ غازیہ ظہیر سچ بولتی 

اس کے پھولے پھولے گلابی خوبصورت گالوں پہ ابصار عالم 

کی پانچ انگلیوں کے نشان بنے تھے 

میرے ساتھ آؤ باہر 

آپ پریشان نہ ہوں 

میں سب سنبھال لوں گا 

پرنسپل ہمایوں اپنی چئیر سے سے اٹھے تو ابصار عالم نے

 انھیں تسلی دی تھی شان تم گاڑی میں پہنچو میں ابھی آتا ہوں 

باس یہ لڑکی جاؤ تم میں اسے دیکھتا ہوں 

تم چلو میرے چھوڑو مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو

وہ اسے گھسیٹتے ہوئے گیٹ سے باہر لے گیا 

عظیم بابا یہاں کسی کو بھی پتہ نہیں چلنا چاہیے کہ یہ

 لڑکی میرے ساتھ گئ ہے 

میں اسے بہت جلد چھوڑ جاؤں گا 

اچھا تو یہ سب ملے ہوئے ہیں 

میں کتنی  بڑی غلط فہمی کا شکار تھی

چپ کرو تم 

اور چلو میرے ساتھ 

میں چیخوں گی چلاؤں گی 

مار دوں گا میں تمھیں اگر تم اب بولی تو شان زرا چھ

 گولیاں تو ڈال دو میرے پسٹل میں ایک گولی سے تو اس

 کی زبان بند کروں گا 

کیا کر رہے ہیں باس شان سریس ہوا 

دو ناں مجھے وہ پچھلی سیٹ پہ غازیہ کے ساتھ بیٹھا تھا 

زرا فاصلے پہ اور اسے مسلسل گھور رہا تھا 

یہ کیا کر دیا میں نے میں اتنی بڑی بے وقوفی کیسے کر

 سکتی ہوں 

میرے پاپا وہ کیسے جئیں گے اب اور میری ماما

کیا یہ مجھے پھر جا کر بند کر دے گا 

اب تو پاپا بھی کبھی نہیں مانیں گے 

ہائے میرے اللہ میں نے یہ کیا کر دیا 

پلیز مجھے معاف کر دو ۔میں  کسی کو کچھ بھی نہیں کہوں گی 

کچھ نہیں بتاؤں گی

مجھے چھوڑ دو پلیز 

تم کیا پاگل ہو 

لڑکی ہو تم جانتی ہو تم اپنا ہی نقصان کر رہی ہو 

جس جس کو بھی بتاؤ گی کہ تمھیں اغواء کیا گیا تھا 

وہ تمھیں اچھی نظر سے نہیں دیکھیں گے وہ تمھیں غلط سمجھیں گے 

تمھاری عزت کی دھجیاں اڑا دیں گے

اس دن بھی تمھاری ہی بے وقوفی کی وجہ سے 

تم خود کو نقصان پہنچا رہی تھی 

تمھیں دریا میں کودنے کی ضرورت نہیں تھی 

میں وہاں تھا میں دیکھ لیتا سب کو 

تم اتنی جلد باز کیوں ہو ابھی بھی اگر منہ بند رکھتی تو یہ

 دن نہ دیکھنا پڑتا مجھے

آپ مجھے سمجھا رہے ہیں 

تو آپ لڑکیوں کو اغواء کیوں کرتے ہیں 

میں نہیں کرتا کسی کو بھی اغواء اس دن بھی غلط فہمی

 ہو گئ تھی 

اور ابھی جو آپ پرنسپل سے کسی کام کا کہہ رہے تھے 

وہ 

ابصار عالم کے ہونٹوں پہ مسکان آئی تھی 

اچھا تو تمھیں۔ برا لگا ظاہر ہے آپ اتنے بڑے ادارے کے

 سربراہ ہیں 

اس یونی ورسٹی کے ڈونر ہیں 

بہت عالی شان محل ہے آپ کا تمھیں پسند آیا تھا کیا 

جی میرا مطلب ہے سب کچھ ہے آپ کے پاس تو پھر یہ سب کیوں کرتے ہیں 

مار پٹائی 

غنڈہ گردی 

ساتھ ہی اس نے اپنے منہ پہ دونوں ہاتھ رکھے تھے 

اور کیا کیا جانتی ہو میرے بارے میں 

ک۔وو چھ نہیں وہ ہچکچائی 

گاڑی واپس یونیورسٹی کے چلو 

یہ دیکھوں یہ وہ ڈاکومنٹس ہیں جو میں ہمایوں صاحب کو دینے آیا تھا 

کچھ بچوں کو سکالرشپ پہ باہر بھیج رہے ہیں ہم سب 

مل کر یہ کام ہی کرنے کا کہے رہے تھے 

پرامس کرو لڑکی آئیندہ مجھے کہیں بھی دیکھ کر غلط نہیں سمجھو گی 

وعدے نبھانے آتے ہیں ناں تمھیں 

یہ کیسے الفاظ تھے غازیہ ظہیر 

کے حواس بحال ہوئے

جی نبھانے آتے ہیں 

لیکن میں آپ سے پرامس کر رہی ہوں میں اب کبھی آپ کو غلط نہیں سمجھوں گی اور 

اپنا وعدہ کبھی نہیں توڑوں گی 

باس یونیورسٹی آ گئے ہیں ہم اب کیا کرنا ہے

تم نیچے اترو گیٹ کھلواو 

میں اور یہ لڑکی کیا نام ہے تمھارا غازیہ ظہیر

آتے ہیں جی باس اوکے 

وہ نیچے اتر گیا 

ایک اور بات جی یہ نمبر تمھارا ہے ناں 

جو تم راتوں کو مجھے تنگ کرتی ہو 

اور نظریں غازیہ ظہیر کے چہرے پہ گاڑ دیں 

نہیں نہیں تو وہ اٹک اٹک کر بولی 

آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں تمھاری آواز ریکارڈ ہے 

میرے پاس 

جلدی بتاؤ ورنہ واپس نہیں لاؤں گا اب لے گیا تو 

میں اتنا اچھا نہیں ہوں 

ہاں یہ تو ہے

غازیہ کے منہ سے اچانک ہاں برآمد ہوا 

بتاؤ پھر جی میرا ہی ہے 

وہ بلش ہوئی تھی 

کیا تم مجھے پسند کرتی ہو

ہاں 

نہیں نہیں نہیں 

ایسا کچھ نہیں ہے 

وہ تو میں شان کا سمجھیں تھی 

اس کی بوکھلاہٹ پہ ایک زور دار قہقہہ پڑا تھا 

اور ساتھ بات بدلنے پہ بھی 

آپ میرا مزاق اڑایا رہے ہیں 

نہیں میں تمھاری بچگانہ حرکتوں پہ ہنس رہا ہوں 

سنو لڑکی تمھارا بھول جاتا ہوں

غازیہ ظہیر کے سوالیہ نظروں کو دیکھ کر 

ابصار عالم نے اسے بتایا 

میری ایک بات اپنے دماغ میں بٹھا لو میں اچھا آدمی نہیں ہوں 

جو تم نے ابھی اقرار بھی کیا ہے 

میرے سے دور رہو 

میں تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتا 

مجھ سے پرامس کر آج کی بات کسی کو نہیں بتاؤ گی 

ٹھیک ہے پرامس 

لیکن آپ بھی مجھ سے ایک پرانا کریں 

کیا آپ کو وعدے نبھانے آتے ہیں 

ہاں مجھے بھی آتے ہیں 

جہاں نہ نبھانے ہوں وہاں میں وعدے نہیں کرتا 

سٹوڈنٹس باہر آنا شروع ہوگئے ہیں 

اب تم چلی جاؤ اندر 

میں آپ کو رات کو کال کروں گا پھر مجھے بتا دینا 

سچی ہاں سچی اب جاؤ تم 

اچھا ٹھیک ہے اللہ حافظ 

وہ گاڑی سے تیزی سے باہر بھاگی تھی 

ابصار عالم نے دل پہ ہاتھ رکھ کر 

دل کو ایک بار پھر ڈپٹا تھا 

یااللہ تیرا شکر ہے 

اس نے مجھے چھوڑ دیا ورنہ پاپا 

اوففففففففففف 

اس نے یونی ورسٹی داخل ہوتے ہی 

لمبا سانس لیا 

سامنے سے ہیر آ رہی تھی کہاں رہ گئ تھی تم 

اتنی دیر سے ویٹ کر رہی تھی 

اور یہ تمھیں اتنے پسینے کیوں آ رہے ہیں 

کچھ نہیں میرا پرس کہاں ہے 

پاپا کی کال آ رہی ہو گی 

ؤہ آج کل میرے لیے بہت پریشان رہتے ہیں 

میں اب ایسا کوئی کام نہیں کروں گی 

جس سے میرے پاپا کو کوئی نقصان پہنچے 

چلو میں۔ بھی تمھارے ساتھ چل رہی ہوں 

اچھا آ جاؤ پھر غازیہ ظہیر ہیر کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے گئ 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩

باس ہم اس گیٹ پہ کیوں کھڑے ہیں کسی نے ہمیں دیکھ

 لیا تو خواہ مخواہ کسی مصیبت میں پڑھ جائیں گے 

شان غازیہ ظہیر پہ نظر رکھو یہ لڑکی بہت سادہ مزاج ہے 

کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور کرے گی 

اور یہاں موجود سارے سٹوڈنٹس سے بھی کہہ دو اس لڑکی کا 

خیال رکھیں 

اسے کوئی نقصان نہ پہنچائے 

خیر ہے باؤ یہ چکر کیا ہے آخر آپ کو کب سے 

کسی صنف نازک میں دلچسپی ہونے لگی 

بکواس بند کر اپنی اور جو کہا ہے وہ کرو 

وہ آ گئ ہے وہ اس کے ساتھ یہ کیوٹ سی لڑکی کون ہے 

غازیہ پہ نظر رکھنی ہے اسکے آس پاس والوں پہ نہیں 

ہاہاہاہاہاہا شان نے قہقہہ لگایا 

چلو نکلتے ہیں غازیہ ظہیر کی گاڑی جیسے سے 

آنکھوں سے اوجھل ہوئی 

وہ دونوں بھی نکل گئے 

ابصار کڈز ہاؤس میں

پچاس سے زائد ٹیچرز کی 

ضرورت 

جن کی تعلیم کم سے کم بی۔اے ۔بی۔ایڈ

اور زیادہ سے زیادہ اعلی تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہے 

اور اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ 

اعلی تربیت کے افراد رابطہ کریں 

زیلیہ داور تو تو ہو گئ کامیاب یہ بلکل پرفیکٹ ہے 

جاب تمھارے لیے 

تم نے آگے نیوز پڑھی ہیں 

اتنا دقیا نوسی بندہ میں نے تو اپنی لائف میں نہیں دیکھا

 یار 

حد ہو گئ 

لیڈیز حضرات مکمل حجاب میں تشریف لائیں 

اور مرد حضرات شلوار قمیض میں

عورتیں تو عورتیں ارے مردوں کو بھی نہیں چھوڑا اس نے 

مجھے نہیں لگتا کہ یہ شخص زندگی میں کامیاب ہو گا 

اور جو اس کے زیر پرورش  ہیں 

وہ تو بہت ہی مشکل سے سانس لیتے ہوں گے یار 

اچھا تمھیں تو ٹیچنگ کا شعبہ پسند نہیں ہے 

پھر تم یہ کیوں پڑھ رہی ہو 

یار میں کچھ سوچ رہی ہوں 

مجھے یہ جاب چاہیے میں بھی دیکھتی ہوں 

اس کی بینڈ نہ بجا دی تو میرا بھی نام زیلیہ داور

نہیں 

تم یہ جاب کرو گی وہ بھی ایک یتیم بچوں کے ادارے میں 

اور وہ بھی اتنی پابندیوں کے ساتھ 

مکمل حجاب ہونہہ مائی فٹ 

وہ کچھ اور ہی سوچ رہی تھی 

میں ایسے ہی جاؤں گی 

اور وہ لوگ مجھے میری زہانت کی وجہ سے 

ایکسپٹ کر لیں گے 

زمین پہ واپس آجائیں زیلیہ داور 

آپ ان کی کسی بھی شرط پہ پورا نہیں اترتی 

عمارہ نے اسے تنبیہ کی مگر وہ سنتی ہی کب تھی 

تم صبح یونی ورسٹی جاؤ گی اور گیارہ بجے 

ابصار کڈز ہاؤس

ہاں تو کیا نہیں جا سکتی وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولی 

پاگل ہو گئ ہو تمھارے پاپا کبھی اجازت نہیں دیں گے تمھیں

اور تمھیں۔ یہ جاب کرنی ہی کیوں ہے  

تمھارے پاس کس چیز کی کمی ہے 

ایڈوینچر میری جان ایڈونچر بس تم دیکھتی جاؤ 

اور ہاں تم بھی چل رہی ہو میرے ساتھ 

انٹرویو کے لیے 

کیا تم پاگل ہو گئ ہو 

تم تو سچ مچ پاگل ہو گئ ہو

حوصلہ رکھو کل کی تیاری کرو 

مجھے تو معاف ہی رکھو میں نہیں جانے والی تمھارے ساتھ

ماما اور میں اپنی پھوپھو کے ہاں جا رہے ہیں کچھ دن تک.

 رک کر آئیں گے  

میرے کزن آ رہے ہیں دبئی سے 

اوہو کوئی چکر وکر  ہے کیا 

چکر تو کچھ بھی نہیں ہے 

وہ اپنی فیملی کے ساتھ آ رہے ہیں 

اس لیے تم بے تکی باتیں چھوڑو 

اب میں چلتی ہوں 

سنو صبح یونی ورسٹی تو آؤ گی ناں 

نہیں میں ابھی نہیں آ رہی 

اللہ حافظ

وہ جاتے جاتے مڑی اور 

دو حرف بول کر باہر نکل گئی

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

بھائی دیکھیں ناں میں کیسا لگ رہا ہوں 

آج انٹرویوز لینے جا رہے ہو یا پھر اپنا رشتہ دیکھنے 

یہ سب کیا ہے اتنی تیاری 

کوئی خاص بات ہے کیا 

باؤ آپ تو ہیں ہی بد زوق 

ابصار عالم کی نظر کے سامنے ایک چہرا نمایاں ہوا تھا 

شان ٹیچر اپنے بچوں کے لیے ماڈل ہوتا ہے 

جب تم ہی اس بات کا خیال نہیں رکھو گے تو 

تمھارے پاس آنے والے وہ کچے پکے زہن کے بچے 

جو تم سے نہ صرف تعلیم حاصل کریں گے

بلکہ وہ تم سے تربیت بھی حاصل کرتے ہیں 

تمھیں دیکھ کر بولنا سیکھیں گے 

تمھارے رنگ میں رنگنے کی بھر پور کوشش کریں گے

اسکول ابتدائی درس گاہ ہے 

ان بچوں کے لیے بھی جن کے والدین حیات ہوتے ہیں 

جب تک بچے اسکول سے نکل کر کالج تک جاتے ہیں 

وہ پک چکے  ہوتے ہیں ان کے زہن پختہ اینٹوں کی وہ دیوار بن جاتے ہیں 

جن کو  اگر تم گراؤ گے تو پورا ملبہ گر جائے گا 

اس لیے یاد رکھنا جس گھر کی بنیاد مضبوط رکھی جائے 

وہ خالی بھی رہیں تو خطرات سے محفوظ رہتے ہیں 

اس لیے آج جس کو بھی چنو ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ 

ان کے بولنے کا انداز 

چال چلن بھی اعلی ہو 

ان کا لباس معیاری ہو 

کسی کو بھی رایت مت دینا

اور ہاں آخری بات اس بات کا خاص خیال رکھنا کہ جاب

 ضرورت مند کو ہی ملنی چاہیے 

شوقیہ حضرات کو ایسے ہی نمٹا دینا 

آپ میرے ساتھ نہیں چل رہے کیا 

چل رہا ہوں مگر وہاں سے مجھے کہیں کالج کے لیے زمین کی بات کرنے جانا ہے 

پسند ہے وہ اراضی مجھے مگر دیکھتا ہوں وہ ہے کس کی 

میں گیارہ تک آ جاؤں گا اگر لیٹ ہو جاؤں تو تم اور خرم

 سنبھال لینا 

اچھا بات سنو میری مزاق مستیوں میں نہیں رہنا 

اچھے سے بات کرنا سب سے 

اور انھیں اپنا رولز سمجھا دینا 

میں پہنچوں گا مگر زرا بعد میں مجھے ایک کام ہے باہر جا رہا ہوں میں 

کڈز ہاؤس سے تھوڑا دور

خرم زکی بھی ہے ناں تمھارے ساتھ 

 کوئی پرابلم ہو تو بتا دینا 

اوکے باس آپ بے فکر رہیں میں سب سنبھال لوں گا 

مگر آپ نے ہی لینا ہے لاسٹ ڈیسین

(last decision)

Ok see you soon

اوکے جلدی  ملتے ہیں اللہ حافظ

۔۔۔۔   ________________________

کیا آپ کو حجاب پسند ہے

غازیہ ظہیر نے ابصار عالم کو ٹیکسٹ کیا

وہ اپنے ہی کسی خیال میں گم تھا سمجھ نہیں سکا

کیا مطلب میں سمجھا نہیں 

آپ کے اسکول میں جاب کا اشتہار پڑھا میں نے 

اس کے رولز اچھے ہیں 

کیا آپ کو حجاب پسند ہے

غازیہ ظہیر نے دوبارہ ٹیکسٹ کیا 

ہاں میں آدھے ادھورے لباس میں ملبوس عورت کو عورت نہیں سمجھتا 

جانور سمجھتا ہوں کیوں کہ جانور لباس نہیں پہنتے 

ان کو شعور نہیں ہوتا 

تو کیا جو پردہ نہ کرے وہ لڑکی جانور ہے آپ کے نزدیک 

انسان کو مرنے کے بعد بھی لباس میں ہی دفن کیا جاتا ہے 

مرد کے کفن میں تین کپڑے ہوتے ہیں 

مگر عورت کے کفن میں پانچ کپڑے شامل ہیں 

کبھی اسلامک ہسٹری پڑی ہے 

ایک بات تو بتاو لڑکی تم کال پہ بات کیوں نہیں کرتی 

میرے پاس اتنا ٹائم نہیں ہوتا کہ میں ٹین ایجرز کی طرح 

ٹائیپنگ (typing) کرتا رہوں 

اب چپ کیوں ہو بولو اور کوئی سوال ہے تو پوچھو

ابصار عالم کی باتوں نے غازیہ کو لاجواب سا کر دیا تھا 

اور نہ ہی کسی کو ساری ساری رات لمبی کالز کر سکتا ہوں 

اب کال مت کرنا مجھے میں ہر وقت بزی ہوتا ہوں 

اب بند کرو فون اپنا کام ہیں مجھے بہت سارے 

اللہ حافظ

سنگدل انسان 

وہ جو بس بات کرنے کا بہانہ ڈھونڈ رہی تھی 

منہ ہی منہ میں بڑبڑائی 

تمھیں کسی نے تمیز نہیں۔ سکھائی کس سے کیا بات کرتے ہیں 

کتنے تیز کان ہیں آپ کو تو کوئی ضروری کام تھا 

چلو بند کرو یہ بہانے بہانے سے کال کرنا مجھے 

آپ کو بھی تو نہیں آتا کسی کا دل رکھنا 

غازیہ ظہیر کے لبوں سے پھسلا تھا 

اللہ حافظ 

ہونہہ 

پتھر سے زیادہ سخت انسان سب کا باپ بنا پھرتا ہے 

تمھیں اپنا نہ بنایا تو میرا نام نہیں 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

ماما ناشتہ تیار  ہو گیا ہے تو دے دیں لیٹ ہو جاؤں گی میں 

آج تمھیں بہت زیادہ جلدی نہیں ہو رہی ہے ۔سب خیر تو ہے

 ناں 

کہاں تمھیں میں اٹھا اٹھا کر تھک جاتی ہوں کہاں آج تم

 میرے سر پہ کھڑی ہو 

فرید بابا آپ لگا دیں ناشتہ 

وہ کہہ کر رکی نہیں ٹیبل پہ جا بیٹھی 

مجھے تو کوئی ایکسپرینس بھی نہیں ہے 

کیا کروں گی وہاں جا کر اور یہ پینٹ شرٹ

دیکھتے ہی وہ تو مجھے ریجکٹ ہی کر دیں گے 

نہیں میں۔ اپر لے لیتی ہوں مناسب رہے گا 

وہ اسی طرح کنفیوز ہو رہی تھی 

اسی شش و پنج میں اس نے صحیح سے ناشتہ بھی نہیں کیا

اس نے اپنا بیگ چیک کیا اور ڈرائیور کو گاڑی نکانے کا کہتی 

گاڑی میں جا بیٹھی

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

بائے ماما بائے پاپا غازیہ ظہیر دونوں کو الوداع کہتی باہر نکل گئی

ایک تو لوگ گھر سے سوچ کر نکلتے ہیں کہ خود بھی مرنا ہے

اور دوسروں کو بھی مارنا ہے سٹوڈنٹ ساتھ ہے اس کے وہ

 بھی لڑکی اور اتنی ریش ڈرائیونگ

خان بابا چھوڑیں آپ دھیان نہ دیں

آرام سے گاڑی چلائیں 

ڈرائیور گاڑی سلو( slow)کرو

تھوڑی گرے گاڑی کے ساتھ لگاؤ اچھا بیٹی 

اے بلیک اینڈ وائٹ ڈول 

ریس ہو جائے کیا میرے سے کچھ کہہ رہی ہو 

کیوں تمھارے علاؤہ یہاں کوئی ہے کیا 

نہیں مجھے ایسے کام نہیں آتے 

لوفر لوگوں جیسے 

ارے یوں کہو ناں تم ڈر گئ ہو 

میں کسی سے نہیں ڈرتی سمجھی تم 

تو پھر دکھاؤ ناں کہ تم نہیں ڈرتی ہو 

نہیں بیٹی غازیہ تم دھیان مت دو 

جاؤ بھائی صاحب آپ اس لڑکی کو لے کر 

میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا کوئی کام نہیں کیا 

اب اس عمر میں بھی نہیں کرنا چاہتا 

دونوں ہی ڈرپوک ہیں 

زرا گاڑی ان کے ساتھ آپ ٹچ تو کریں 

یہ کیا کر رہو ہو بیٹا 

یہ کوئی اچھی بات تو نہیں 

آپ سکھائیں گے مجھے اپنی اوقات میں رہو 

گاڑی سائیڈ پہ لگاؤ جلدی جلدی لگاؤ اس نے دوبارہ اور بھی 

 زرا چیخ کر کہا 

جی مگر لگاؤ

باہر نکلو جی وہ باہر نکل آیا چابی مجھے دو 

اور یہ لو رکشے کا کرایہ گھر چلے جاؤ 

ماما کو کچھ مت بتانا اور نہ ہی بابا کو ورنہ جانتے ہو میں

 کیا کر سکتی ہوں 

جاب سے پہلے بھی نکلوا چکی ہوں جانتے ہو ناں 

جی جی آپ جاؤ بیٹا 

گڈ مین(good man)

وہ گاڑی میں بیٹھتے ہی ہواؤں میں اڑنے لگی تھی 

یاہو اس نے برابر لا کر  گاڑی کی سپیڈ آہستہ کی اور گاڑی

 کی سائیڈ سامنے والی گاڑی جو سگنل پہ رکی تھی 

اس کے ہیڈ لائٹ توڑ دی 

کیا ہوا خان بابا 

خان بابا باہر نکلنے لگے تو غازیہ نے پوچھا وہ دوبارہ اندر

 بیٹھ گئے اور گاڑی آگے بڑھا لے گیا کیونکہ سگنلز گرین ہو

 چکا تھا 

کیا ہوا ڈرپوک لوگو پیچھے سے گاڑی کو کراس کرتی وہ برابر

 لائی اپنی  گاڑی 

اور ایک بار پھر ان کو اکسانے لگی خاں بابا گاڑی سائیڈ پہ

 لگائیں 

ایسے لوگوں کو سبق سکھانا ضروری ہے 

جی بیٹا 

زیلیہ داور نے بھی گاڑی کو بریک لگائے تھے 

باہر نکلو 

ان کے پیچھے ایک گاڑی کے پہیے بھی چرچرائے تھے 

مجھے کہہ رہی ہو ہاں تمھیں کہہ رہی ہوں 

غصہ آ رہا ہے کیا وہ گاڑی سے باہر نکلتے ہوئے اتراتے اٹھلاتے

 ہوئے بولی 

غازیہ ظہیر نے کس کر ایک تھپڑ رسید کیا زیلیہ داور کے منہ پہ 

وہ اس آفت کے لیے تیار نہیں تھی وہ زرا لڑکھڑائی 

اس سے پہلے کہ وہ جوابی کارروائی کرتی خان بابا ان کے

 بیچ آئے تھے 

تم تو ہٹو بڈھے اس نے خان بابا کو دھکا دیا 

خان بابا دور جاتے ہوئے گرنے والے تھے جب دو مضبوط

 ہاتھوں نے ان کو سہارا دیا تھا 

تمھیں کسی نے تمیز نہیں سکھائی 

ہاتھ چھوڑو میرا نہیں چھوڑوں تو کیا کرو گی 

تم جانتی نہیں ہو میں کون ہوں 

اچھا کیا ہو تم 

غازیہ نے اس کی کلائی کو پیچھے موڑا ہوا تھا

مجھے چھوڑو پھر بتاتی ہوں

لو چھوڑ دیا 

غازیہ نے اسے دھکا دیا تھا جیسے 

واہ بھئی لڑکی تم تو بہت بہادر ہو

آپ یہاں کیسے کیوں یہ پبلک روڈ ہے اس پہ میں نہیں آ سکتا 

یا تمھارے نام کے آگے جو نام لگتا ہے 

ان کی جاگیر ہے یہ کیا 

اس نے غازیہ کو چڑاتے ہوئے کہا 

نہیں یہ آپ کی زبان کی طرح کسی کی بھی جاگیر نہیں ہے 

نان سٹاپ چلے ہر جگہ 

چلیں خان بابا یہاں سے 

رکو یہی

غازیہ ظہیر جانے لگی تو ابصار عالم نے اسے روک دیا 

تم انسان ہو کیا لڑکی 

اے مسٹر ایکس وائے زیڈ

تم کون ہوتے ہو مجھ سے اس طرح بکواس کرنے والے 

شٹ اپ مس وائلنس

غازیہ ظہیر کی ہنسی چھوٹ گئی

مگر وہ منہ سائیڈ پہ کر گئ 

یہ بے ہودہ حرکت کسی شریف لڑکی کو زیب نہیں دیتی 

مس غازیہ نے جو کیا صحیح کیا آپ کے ساتھ 

یو ایڈیٹ تم ہو کون کہیں اس شریف لڑکی کے عاشق تو

 نہیں ہو

اگر اب تم نے ایک لفظ بھی بولا تو 

میں تمھیں۔ تمھاری  گاڑی سمیت آگ لگا دوں گا 

تمھارے  جیسی سر پھری والدین کی عزت پامال کرنے والی 

ان کو بے عزت کروانے والی تمھارے ہی جیسی ہوتی ہیں

 شاید 

چھوڑو بیٹا بس ہو جاتی ہیں غلطیاں جوان خون ہے 

ایسا ہی دیوانہ بنا دیتا ہے انسان کو 

کیا بابا یہ لڑکی جوان نہیں ہے 

بلکہ اس سے زیادہ طاقتور آدمی کی بیٹی بھی ہے 

شرم آنی چاہیے تمھیں 

جاؤ دفع ہو جاؤ یہاں سے ورنہ میں تمھیں پولیس کے حوالے

 کر دوں گا 

دیکھ لوں گی میں تمھیں بچ 

ایک منٹ کیا کہا تم نے 

ابصار عالم دو قدم آگے بڑھا تھا 

غازیہ نے درمیان میں آ کر ابصار عالم کا ہاتھ پکڑ لیا تھا 

جو زیلیہ داور کے منہ پہ پڑنے والا تھا

آپ جانے دیں اسے 

چلیں خان بابا 

اس نے کلائی چھوڑ دی اور جانے کے لیے قدم بڑھا دیئے

زیلیہ داور گاڑی میں بیٹھ کر کال ملانے لگی تھی 

ابصار عالم کی نظریں اسی پہ تھیں 

رکو لڑکی غازیہ جے قدم ایک بار پھر رکے تھے 

خان بابا آپ گاڑی لے  کر گھر چلیں جائیں میں انھیں

 یونیورسٹی چھوڑ دیتا ہوں لیکن بیٹا 

وہ دیکھیں یہ لڑکی مجھے ٹھیک نہیں لگی وہ ضرور کچھ

 نہ کچھ الٹا کرے گی 

میں ظہیر صاب کو فون کرتا ہوں 

ہرگز نہیں خان بابا 

چلیں آپ گاڑی میں بیٹھیں 

رش بڑھ رہا ہے یہاں 

چلو تم میری گاڑی میں بیٹھو

خان بابا یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں 

میں انھیں جانتی ہوں پاپا بھی جانتے ہیں 

آپ پریشان مت کیجئے گا پاپا کو اور نہ ہی ماما کو یہ سب بتا کر 

میں گھر آ کر آپ کو سب بتا دوں گی 

ٹھیک ہے بیٹی جیتی رہو

فرنٹ پہ بیٹھ جاؤ لڑکی میرا نام غازیہ ظہیر ہے 

کیا لڑکی لڑکی لگا رکھا ہے 

غصہ نکال تو دیا تم نے 

کیا تم نے پاکستانی  ہیروئینوں والا تھپڑ مارا ہے 

آج سے مجھے بھی ڈر لگنے لگ گیا ہے تم سے 

ہاں ڈرانے والے بھی ڈرنے لگیں تو ملک سدھر بھی سکتا ہے 

آج تو تم بہت وہ پہلے والی نڈر لڑکی لگ رہی ہو 

کون سے پہلے دن والی وہ جو چھپکلی سے ڈر کر مجھے۔

 اپنی ماما سمجھ کر لپٹ گئی تھی 

آپ مجھے شرمندہ کرنے کے لیے ساتھ لائیں ہیں 

ایم سوری تمھارا موڑ اچھا کر رہا ہوں 

ہاں بھئی جیسے بہت فکر ہو 

وہ گاڑی سے باہر دیکھنے لگی تھی

⁦❤️⁩⁦❤️⁩

غازیہ تمھیں اپنے ساتھ گارڈز لانے چاہئیں 

تمھارے پاپا کی وجہ سے لوگ تمھیں نقصان پہنچا سکتے ہیں 

آپ بھی تو اٹھوا کر لے گئے تھے 

گارڈز تو تب بھی تھے 

بدلہ لے رہی ہو مجھ سے 

کون سا بدلہ 

مجھے شرمندہ کرنے کی ناکام سی کوشش 

جی نہیں میں بس ایسے ہی بتا رہی ہوں 

مجھے بہت عجیب لگتا ہے 

میں نے پاپا کو بہت مشکل سے منایا ہے  

اب اس بات کا پتہ چلا تو وہ مجھے آنے ہی نہیں دیں گے

وہ میرے معاملے میں بہت ڈرپوک ہیں اپنی جگہ وہ صحیح ہیں 

تمھیں وعدہ نبھانا آتا ہے ناں 

تو آج بھی ایک وعدہ کرو تم آئیندہ اکیلی نہیں آؤ گی 

اپنے پاپا کی بات مانو گی 

اور غازیہ ظہیر دس سال سے جس بات پہ کڑھتی تھی 

ابصار عالم نے لمحوں میں منوا لیا تھی 

اچھا پرامس 

مسکراتی رہا کرو اچھی لگتی ہو 

جاؤ یونیورسٹی آ گئ ہے 

اور سنو 

"جی "

اگر کوئی بھی پرابلم ہو تو مجھے کال کر دینا ٹھیک ہے 

بائے 

وہ اندر بڑھ گئی 

مگر ابصار عالم کو ایک نئی ٹینشن میں ڈال گئ 

وہ جو کسی کام سے جا  رہا تھا 

گاڑی کو سائیڈ پہ پارک کر کے  پرنسپل ہمایوں 

کے آفس جا بیٹھا 

آئیے آئیے ابصار عالم کیسے آنا ہوا 

مجھے بتا دیتے کوئی کام تھا تو 

کچھ معاملات دیکھنے ہیں یہاں 

چھٹی تک میں ادھر ہی ہوں 

آپ بھی زرا محتاط رہیے گا

میں نے کچھ محسوس کیا ہے 

ابصار عالم نے زیلیہ داور کو ریڈ گاڑی کو اسی یونی ورسٹی

 میں لے جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور وہ اکیلی نہیں تھی 

ابصار عالم جو کڈز ہاؤس واپس جانے کا سوچ رہا تھا 

اپنا ارادہ بدل گیا

غازیہ ظہیر کلاس میں انٹر ہوتے ہی ادھر ادھر نظر دوڑانے

 لگی

ہیر ماہم اسے کہیں بھی نظر نہیں آئی تھی 

ایک تو میں اس ہیرے سے بہت تنگ ہوں 

حد ہے یار آئے دن یونی نہیں  آتی اور پھر بتانا بھی مناسب

 نہیں سمجھتی 

اس کی تو کلاس لیتی ہوں 

وہ موبائل نکالتی  اپنی سیٹ پہ جا بیٹھی 

میری آج طبیعت نہیں ٹھیک اس لیے میں یونی نہیں آ

 سکوں گی 

تم کال پک نہیں کر رہی تھی اس لیے ٹیکسٹ کر دیا 

اچھا  تو میں کی کال نہیں دیکھ سکی اور مسیج بھی 

چلو خیر اب آ ہی گئ ہوں تو کیا کر سکتی ہوں

آج کے دن کی شروعات پتہ نہیں کیسے ہوئی ہے 

صبح ابصار عالم نے خواہ مخواہ لیکچر دے دیا 

پھر وہ ماڈرن لڑکی اللہ اسے ہدایت دے 

اب ہیر ماہم بھی نہیں آئی یونی 

اففففففففففف

پھر راستے کی تمام کاروائی سوچ کر اس کے لبوں پہ مسکان

 در آئی 

ٹیچر کلاس سٹارٹ کر چکا تھا وہ بھی 

سٹٹڈی کی طرف مشغول ہو گئ 

__________________________

تمھیں اس کی کلاس کا پتہ ہے کون سا ڈیپارٹمنٹ ہے اس کا

 ہاں مجھے معلوم ہے میں اس کے پیچھے گئ تھی معلوم

 کرنے ۔اور تمھیں پتہ ہے زیلیہ داور جو ٹھان لے وہ پھر کر

 کے ہی دم لیتی ہے 

ہاں چار سال سے ہمارا ساتھ ہے جانتا ہوں میں تم کتنی اڑیل سی ہو 

ہاہاہاہاہاہا وہ  قہقہ لگا کر ہنسی تھی 

فرقان تم ریڈی ہو ناں 

ہاں تم بے فکر رہو لاسٹ پریڈ کے بعد اسے ایسا سبق

 سکھاؤں گا کہ یہ یونی ہی چھوڑ جائے گی 

مجھے بس تم سے ہی یہ امید تھی تمھارا پلان کیا ہے 

مجھے بھی تو بتاؤ ناں ابھی نہیں تم خود ہی دیکھ لینا

 اوکے ایز یو وش( ok as you  wish) 

چلو اب کلاس میں چلتے ہیں 

ہاں چلو فرقان اس کے ساتھ قدم ملاتا ہوا اپنی کلاس میں

 چلا گیا 

ہوں ں ں ں ں ں 

تو یہ کچھ الٹا سیدھا کرنے کا سوچ رہے ہیں 

ابصار عالم کا سٹوڈنٹ جو ان کے پیچھے ہی بنچ پہ بیٹھا تھا 

اس نے ساری گفتگو سن لی تھی 

ابصار عالم نے جس مقصد کے لیے اسے یہاں بیٹھایا تھا 

وہ معلوم تو نہیں ہو سکا تھا 

مگر پتہ چل چکا تھا 

وہ موبائل فون کان سے لگاتا وہاں سے اٹھ چکا تھا 

ابصار عالم چاہتا تو پہلے ہی پرنسپل کو بتا کر اور اس

 فرقان نامی لڑکے کو آفس میں بلوا کر معاملہ سیٹ کر سکتا تھا 

مگر جب تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل جاتا وہ خاموش

 رہا تھا 

زیشان اندر داخل ہوا 

اور ابصار عالم کو ساری بات بتائی ابصار عالم کسی گہری

 سوچ میں پڑ گیا 

ٹھیک ہے باقی سٹوڈنٹس کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے 

ہاں ایک اور بات زیشان مڑنے لگا تو ابصار عالم نے اسے پکارا 

یہاں کسی کو اس بات کی خبر نہیں ہونی چاہیے کہ میں

 یہاں موجود ہوں 

اوکے باؤ آپ بے فکر رہیں 

ہوں ں ں ں ں اس نے لمبی سی ہوں کی اور نیوز پیپرز

 دیکھنے لگا 

باس آپ کہاں رہے گئے ہیں انٹرویوز شروع ہو چکے ہیں 

خرم زکی  نے ابصار عالم کو کال کر کے یاددہانی کروائی 

میں ابھی بہت بزی ہوں نہیں آ سکتا 

تم دیکھ لینا سب اور شان کو میں سب سمجھا کر آیا تھا

ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی 

💎💎💎

یہ میری سی وی ہے 

ریسیپشن پہ بیٹھی اس نے لڑکی سی وی سب منٹ کرواتی

 اس ماڈرن سی لڑکی کو دیکھا 

جس نے جدید جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی پینٹ اور جسم کو

 نمایاں کرتی ہوئی  شرٹ کے اوپر ایک اپر لیا ہوا تھا 

وہ بھی با مشکل گھنٹوں تک  آرہا تھا

ایکسکوزمی مس آپ نے اس انٹرویو کے رولز پڑھیں ہیں 

ہاں پڑھیں ہیں آپ میری سی وی دیکھیں اور اندر پہنچا دیں 

مجھے امید ہے کہ انکار نہیں کریں گے 

سوری میں یہ سی وی سب منٹ نہیں کروا سکتی 

وجہ آپ جانتی ہیں 

اوکے میں خود ہی کروا دیتی ہوں 

رکو تم اس طرح اندر نہیں جا سکتی 

یہ کیا بدتمیزی ہے وہ بے خوف و خطر اندر داخل ہوئی تھی

شان اپنی کرسی سے اچھلا تھا جب کہ خرم زکی کے 

چہرے کے رنگ بدلے تھے 

واٹ نان سینس اس میں نان سینس والی کون سی بات ہے 

کیا آج آپ انٹرویو نہیں لے رہے ہیں

ہم معزرت کے ساتھ آپ کو ریجیکٹ کرتے ہیں 

آپ نے ہمارا وقت ضائع کیا ہے 

اگر آپ میری سی وی پہ ایک نظر ڈال لیں تو آپ مجھے

 سلیکٹ کیے بنا نہی۔ رہ سکیں گے

تم سے مجھے ایک سوال پوچھنا ہے 

کیا آپ نے قرآن پڑھا ہے جی میں نے بچپن میں پڑھا تھا 

اس کے بعد نہیں پڑھا

یعنی آپ منے ناظرہ پڑھا ہے اور اس کے علاؤہ کوئی سورت زبانی یاد ہے 

نہیں سورت فاتحہ آتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ کو وہ

 بھی صحیح سے نہیں آتی ہو گی

وہ میرا مسلہ ہے آپ اس میں کون ہوتے ہیں مجھ سے اس 

 طرح اٹیک کرنے والے ۔یہ مسلہ آپ کا نہیں ہے 

یہ مسلہ یہاں پہ پلنے والی اس نوجوان ہوتے چھوٹے چھوٹے

 بچوں کا ہے 

ہمارے اس ادارے میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی ہے 

قرآن کریم کی تعلیم بھی ہے 

قائد اعظم کا قول تو آپ نے پڑھا  ہو گا 

 تم لوگ خود کو سمجھتے کیا ہو یہ بھکاری سا ادارہ بنا کر 

ہمارے جیسے امیر لوگوں سے بھیک لے کر اسے چلانے والے

ہمیں سبق سکھا رہے ہیں 

شان اس لڑکی کو اٹھا کر باہر کسی کچرے کے ڈبے میں

 پھینک آؤ 

اصل حقدار تو یہ ہیں ایسے کچروں کے ڈبوں کے جاؤ یہاں

 سے ورنہ 

خرم زکی کے ضبط نے جواب دیا تو اس نے کھری کھری سنا

 دی 

زیلیہ داور کو پتنگے لگے تھے

تمھی۔ تو میں دیکھ لوں گی یاد رکھنا مجھے بھولنا مت

تم دور رہو مجھ سے ہاتھ مت لگانا مجھے 

میرے ہاتھ صاف ہیں قسم سے 

بانسبت تمھاری زبان کے 

شان جو اس کے پاس آیا تو اس نے چلا کر کہا 

اب جاؤ یہاں سے اتنا اچھا انٹرویو ہو گیا تھا 

مگر یہ آخری آفت کی پڑیا نے آ کر سارا بیڑا غرق کر دیا 

آخری الفاظ خرم نے اپنے منہ میں کہے تھے 

کتنے لوگ بے روزگار ہیں ناں شان 

شان دوبارہ اپنی سیٹ پہ آ کر بیٹھا تو خرم اس سے

 مخاطب ہوا 

دو ہزار سے زائد اپلیکیشنز تھیں ایک سے بڑھ کر ایک ذہین

 تھا 

چلو اللہ مالک ہے 

کینڈیڈیٹ ختم ہو چکے ہیں 

سلیکشن آ کر باؤ کریں  گئے 

چلو کھانا لگواو اور سب بچوں کا بھجوا دو  

شان بیٹھو ایک بات پوچھنی تھی شان کھڑا ہوا تو 

خرم نے اسے ایک بار پھر بٹھا لیا جی بھائی بولیں آپ 

یہ آج کل باؤ کن چکروں میں پڑھ گیا ہے

کیا ہوا ہوا بھائی کو 

شان پریشان ہو گیا 

ہوا کچھ نہیں ہے تم جانتے ہو وہ اس وقت کہاں ہے 

ہاں مجھے معلوم ہے 

وہ کوئی نیو کالج کے لیے جگہ دیکھنے گے ہیں 

وہ اس وقت یونیورسٹی میں موجود ہے 

تو اس میں حیران ہونے والی کون سی بات ہے 

یونی تو وہ اکثر جاتے ہیں اور آج کل کچھہ سٹوڈنٹس کی

 سکالرشپ پہ کام کر رہے ہیں 

شان آنکھیں کھلی رکھا کرو مجھے لگ رہا ہے 

اپنا بھائی محبت کے چکر میں پڑھ رہا ہے

کیا پاگل ہو گئے ہو بھائی 

شان ایک دم اچھلا تھا 

وہ کبھی بھی چار گھنٹے ایک جگہ پہ نہیں بیٹھتا تم جانتے

 ہو ناں اس بات کو  ۔ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں بھائی مجھے

 سمجھ نہیں آ رہی ۔وہ صبح سے یونی میں کیا کر رہا ہے 

وہ انٹرویو میں نہیں آتا سمجھ میں آتا ہے کہ وہ پہلے بھی

 ہم ہی کرتے ہیں مگر اتنی دیر تک ایک ہی جگہ پہ رکنا

 سمجھ میں نہیں آتا ۔اپ کو یہ سب کیسے پتہ ہے بھائی

شام تم جانتے ہو ناں کہ وہ اپنا کتنا خیال رکھتے ہیں 

اسی طرح میں بھی ان کے ہر پل کی خبر رکھتا ہوں 

اور میں نہیں چاہتا وہ کسی مصیبت میں پڑے 

اب پتہ یہ کروانا ہے کہ آج یہ اتفاق تھا یہ کوئی اور وجہ ہے 

اور یہ کام تم زیادہ کر سکتے ہو 

زیشان بھی وہی موجود ہے 

بھائی کو میں جانتا ہوں وہ ایسا کچھ نہیں کریں گے 

اس معاملے میں وہ ایک پتھر ہے 

وہ کسی لڑکی کی خاطر یونی نہیں گیا ہو گا

یہ دیکھو خرم نے سامنے پڑے لیپ ٹاپ پہ اسے وہ ویڈیو

 دیکھائی جس میں وہ ایک ریڈ اور ایک گرے گاڑی کے

 پیچھے جا رہا ہے ۔

اور پھر وہ نیچے اتر کر ان کے درمیان آیا تھا 

وہ صرف ہمدردی نہیں لگ رہی تھی  ۔

آپ بھی ناں بھائی خواہ مخواہ ہی باؤ پہ شک کر رہے ہیں 

آپ کو پتہ ہے وہ ایسے ہی ہیں 

لوگوں کی مدد کرنی ہو 

ان کو سیدھے راستے پہ لانا ہو 

تو وہ یہ ہی سب کچھ کرتے ہیں 

اور یہ معاملہ مجھے سنگین لگ رہا ہے اسی لیے وہ

 یونیورسٹی میں ہی موجود ہیں ۔

لنچ کا ٹائم ہو گیا ہے میں نکلتا ہوں 

اوکے میں بھی یہ کام دیکھتا ہوں 

ایک منٹ یہ لڑکی اس نے ویڈیو پہ ایک نظر دوبارہ ڈالی 

یہ تو غازیہ ظہیر ہے 

کون غازیہ ظہیر 

چیف جسٹس ظہیر کی بیٹی ۔

جس کی وجہ سے تم باہر آئے ۔اچھا تو یہ وہ لڑکی ہے 

ہاں مگر یہ یہاں کیا کر رہی ہے اس لڑکی کے ساتھ 

شان دوبارہ اپنی چئیر  پہ بیٹھ گیا

اور یہ لڑکی ارے یہ تو ابھی جو انٹرویو دینے آئی تھی 

یہ تو وہ ہے 

اچھا ہوا نہیں سلیکٹ کیا بے ہودگی تو دیکھو 

پاگل کھسکی ہوئی لگ رہی ہے۔

نہ دوپٹہ نہ اسکارف اور اس میں تو اپر کوٹ بھی نہیں 

کہیں یہ لڑکی کسی کی بھیجی ہوئی تو نہیں ہے 

کافی مشکوک سی لگ رہی ہے 

اچھا دیکھ لیں گے اسے بھی 

اب میں چلتا ہوں آپ زرا باؤ کو کال کر کے 

سب معاملات پوچھ لیں شامت نہیں چاہیے مجھے اپنی 

اور باؤ کو پتہ چل گیا ناں کہ آپ کس طرح 

ان کی ریکی کر رہیں ہیں تو سچ میں تم گئے کام سے 

اچھا جاؤ تم وہ اتنے بھی ظالم نہیں ہیں 

بس وہ مجھے بہت  عزیز ہیں 

مجھے نہیں ہیں کیا ۔اچھا اب جاؤ بچوں کو بھوک لگی ہو

 گی 

اور مجھے بھی لگ رہی ہے ۔ایک تو دماغ الجھ گیا ہے میرا 

خرم نے لیپ ٹاپ بند کر دیا 

شان بھی تیزی سے اپنے کام کے لیے باہر نکل گیا

مگر اس کے زہن میں بھی یہ بات گردش کر رہی تھی کہ 

اس دن یونی ورسٹی کے باہر بھی وہ بہت دیر تک  کھڑے

 رہے تھے ۔

اور آج بھی اسی کے ساتھ موجود ہیں 

خرم کی باتوں میں کہیں نہ کہیں تو سچائی ہے ۔

باؤ ان کاموں میں کب سے پڑ گئے ہیں ۔

خیر میں پوچھوں گا تو ضرور ان کا موڈ دیکھ کر 

وہ اسی طرح سوچتے سوچتے اپنے کام میں لگ گیا 

💎💎

کیا آپ کو قرآن پڑھنا آتا ہے 

یہ ہمارے جوان ہوتے ان بچوں کی تربیت کا سوال ہے 

ہمیں انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت بھی دینی ہے 

لباس مسلمانوں کی پہچان کرواتا ہے

اور آپ مغرب سوسائٹی کا اشتہار لگ رہی ہیں 

مائی فٹ وہ گاڑی ڈرائیو کرتی مسلسل سوچ رہی تھی 

میں تمھیں۔ دیکھ لوں گی مشرقی لوگو۔

وہ تن فن کرتی ڈی ۔سی۔آفس پہنچی تھی 

ڈیڈ  کہاں ہیں آپ کون  ہیں محترمہ

ہٹو تم میرے راستے سے ڈی۔ سی آفس کہاں ہے 

وہ اس طرف ہے 

کانسٹیبل اسے دیکھ کر ایک سائیڈ پہ ہو گیا 

وہ بہت کروفر سے اندر داخل ہوئی تھی 

زیلیہ تم یہاں تم یہاں کیا کرنے آئی ہو وہ بھی اس طرح بنا

 بتائے سب خیر ہے ناں بیٹا ڈیڈ مجھے کچھ لوگوں کو سبق

 سکھانا ہے ۔

مجھے آپ سے اکیلے میں بات کرنی ہے تم چلو گھر چل کر

 بات کرتے ہیں سب ٹھیک ہے ناں ۔بیٹا یہ جگہ عورتوں کے

 لیے مناسب نہیں ہے 

تم چلو میرے ساتھ وہ اپنی کیز اٹھاتے 

زیلیہ کو ساتھ لیتے باہر نکل گئے 

💎💎

ہائے غازیہ ظہیر جیسے ہی کلاس ختم کر کے باہر نکلی 

فرقان اس کے ساتھ چلنے لگا 

غازیہ ظہیر نے اسے اگنور کر دیا اور تیزی سے چلنے لگی 

کیا ہوا میں پسند نہیں آیا تمھیں غازیہ ظہیر نے اسے گھور

 کر دیکھا ۔اوئے اوئے میں ڈر گیا فرقان نے ڈرنے کی ایکٹنگ

 کی 

غازیہ ظہیر کے بڑھتے قدموں کو بریک لگی تھی 

یہ کیا بدتمیزی ہے فرقان نے غازیہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھا تھا 

یہ رومینس ہے میری جان جو آج تمھیں دیکھ کر میرے اندر

 سے باہر نکل رہا ہے ۔

بکواس بند کرو اپنی میں ابھی جا کر تمھاری (complain)

 شکایت  کرتی ہوں ۔

ہائے جان من پہلے کچھ کر تو لینے دو

 اس نے  بے ہودہ فقرہ 

بڑے شاہانہ انداز سے ادا کیا 

بعد میں کر لینا (complain) بھی غازیہ نے اس کی بات (complete )

 ہونے سے پہلے ہی اس نے اپنی چپل جو الریڈی اتار چکی تھی ۔

تیزی سے اٹھائی اور اس کے منہ پہ مار دی 

یو بلڈی گرل 

اب بس بہت ہو گیا ہے یہ ثبوت کافی ہیں اس نیچ کے لیے 

زیشان جو ان کے پیچھے ہی چل رہا تھا نے اسے ایک لات

 رسید کی تھی ۔

وہ منہ کے بل زمین بوس ہوا تھا 

زیشان کے اور بھی ساتھی اس پہ چڑھ دوڑی تھے 

چھوڑ دو اسے جان سے مارو گے کیا ۔فرقان کے کچھ دوست 

بیچ میں آ گئے تھے ۔

ابصار عالم مسکرایا تھا واہ لڑکی کیا سٹائل سے جوتا مارا ہے 

وہ آفس کی ونڈو سے سب دیکھ رہا تھا

غازیہ ظہیر 

وہاں سے ہٹ گئ تھی ۔

ابصار عالم بھی ونڈو سے ہٹ چکا تھا 

غازیہ ظہیر یونی ورسٹی کی بیک سائیڈ سے باہر نکل گئی تھی

اس کی آنکھیں زاروقطار برس رہی تھیں 

میں پاگل ہو جاؤں گی کیا بگاڑا ہے میں نے کسی کا 

کیوں ایک سے ایک بڑھ کر انسیڈینٹ ہو رہے ہیں

میرے ساتھ 

ابصار بہت تیزی سے اس کے پیچھے لپکا تھا 

کیا ہوا ہے سب خیر تو ہے ناں ۔

غازیہ نے دوسری طرف منہ پھیر لیا 

کچھ نہیں ہوا آپ یہاں کیا کر رہے ہیں 

کیا آپ میرا پیچھا کر رہے ہیں 

صبح بھی آپ موجود تھے اس روڈ پہ 

اور ابھی بھی آپ میری یونی ورسٹی کے اس موجود ہیں

کوئی پرابلم ہے کیا 

نہیں نہیں کوئی پرابلم نہیں ہے مجھے ہمایوں سر  سے کام تھا 

تمھیں یوں سڑک پہ چلتے ہوئے دیکھا تو ادھر ہی آ گیا 

کیا تمھیں  برا لگ رہا ہے 

مجھے سمجھ نہیں آ رہی میرا دماغ الجھا ہوا ہے پلیز آپ

 مجھے اکیلا چھوڑ دیں اس روڈ پہ اکیلا چھوڑ دوں چلو تم

 گھر چلی جاؤ گھر کال کیوں نہیں کی ڈرائیور کیوں نہیں

 آیا لینے 

اوہ میرے خدا وہ الٹے قدموں واپسی بھاگی کیا ہوا ہے 

بتاؤ تو وہ بھی اس کے ساتھ تیز تیز چلنے لگا 

ہوا کیا ہے بتاؤ تو سہی خان بابا فرنٹ گیٹ پہ میرا ویٹ کر

 رہے ہوں گے

اور مجھے وہاں ۔موجود نہ دیکھ کر پاپا کو کال کر دیں گے 

آرام سے چلو اور خان بابا کو کال کر لو 

شکریہ آپ کا صبح کے لیے بھی اور ابھی کے لیے بھی 

وہ زرا رکی تھی 

میں اکیلے رہنا چاہتی ہوں ابھی پلیز 

یہ لو رومال آنکھیں صاف کر لو تمہیں ایسے خان بابا دیکھ کر 

سوال کریں گے 

اور ٹھیک ہے میں فرنٹ والے گیٹ تک چلتا ہوں میری بھی

 گاڑی وہی پارک ہے ۔

وہ اس سے تھوڑا فاصلے پہ چلنے لگا ۔

وہ تیز تیز چل رہی تھی تاکہ اس کے مزید آنسو 

ابصار عالم نہ دیکھ لے ۔

وہ گاڑی میں بیٹھتے ہی آنکھیں۔ بند کر کے ریلیکس کرنے

 لگی خود کو 

اس کا ہاتھ دوبارا اپنی آنکھوں تک آیا تھا 

مگر بھیگی بھیگی سی عطر کی وہ خوشبو 

اس کے دل کو سکون سا بخش گئ تھی

اس کے ہاتھ میں موجود وہ رومال سے اٹھی تھی وہ 

 خوشبو

یہ  اتفاق ہے یا ابصار عالم میرے راستے میں آنے لگا ہے 

وہ جان بوجھ کر ایسا تو نہیں کر رہا پتہ نہیں کیا ہو رہا ہے

 مجھے میں کیوں اتنا الجھ رہی ہوں 

ابصار عالم کی گاڑی بھی اس کے پیچھے ہی تھی اور یہ

بھی ایک اتفاق تھا کیونکہ کہ اگلے چوک تک وہ اسی طرح

 ساتھ تھے 

کتنا خوبصورت دل ہے اس پاگل سی لڑکی کا کبھی یہ

 چھپکلی سے ڈر جاتی ہے  ۔مگر انسانوں سے مقابلے کے وقت 

بھول جاتی ہے اپنا سب ڈر ۔

وہ رات کتنی اندھیری سی تھی کتنی ڈراؤنی 

اور اس کے ارد گرد گولیوں کی آوازیں 

بھاری بوٹوں کی آوازیں بھاگتے ہوئے

چیخ و پکارا پولیس کا سائیرن 

اور پاشا کی کلائی پہ کاٹ کر اس نے اس پانی میں چھلانگ لگا  دی تھی

پاشا تو پولیس کے ڈر سے بھاگ گیا تھا 

مگر مجھے اسے بچانا تھا میری تو جیسے جان پہ بن آئی

 تھی ۔

تب سے ہی حواسوں پہ سوار ہے یہ لڑکی 

اپنی عزت کو بچانے کے لیے اسے جو مناسب لگا تھا 

اس نے کیا تھا اور ایسی ہی ہونی چاہیے عورت نڈر 

جہاں صورت حال مشکل ہو چکی ہو وہاں سے نکلنے کا بھی

 ہنر جانتی ہو 

خود کو اس وقت بھی اپنے حواس بحال رکھنے کی مہارت

 رکھتی ہو ۔

گڈ اینڈ بریو گرل 

وہ کب سے آگے نکل گیا تھا اسے خبر ہی نہیں ہوئی تھی 

،💎💎

سنو لڑکی دل جب اداس ہو ۔یا  بوجھل ہو 

روح بے چین ہو جائے تو ۔ویسے تو دل کو اللہ کے آگے جھکا دو 

سارے مسلے حل ہو جائیں گے ۔ 

اور اس کے بعد ایک اچھی سی چاکلیٹ کھاؤ 

اور یہ  فنی ویڈیوز دیکھو مجھے داد دو گی 

سچ میں یہ چاکلیٹ بلکل تمھارے جیسی سویٹ ہے 

اس نے جیسے ہی ایک پھولا پھولا سا لفافہ کھولا اس کے

 اندر بہت خوب صورت پیکینگ میں چاکلیٹ کا ایک جار 

 تھا 

اس میں ایک آدھ  کھلا گلاب 🌹 پنک کارڈ کے  ساتھ نتھی

تھا ۔

اس نے کارڈ کو  الٹ پلٹ کر دیکھا مگر اسے سمجھ نہیں آیا

 کہ یہ کس نے بھیجا ہے ۔

یہ کیا ہے غازیہ یہ کس نے بھیجا ہے 

اور تم نے سیکورٹی کو چیکنگ بھی نہیں کرنے دی ۔

ماما آپ بھی ناں بس اس میں کچھ پرسنل چیزیں تھیں جو

 میں نے ان لائن منگوائی تھیں ۔آپ بھی آرام کریں میں بھی

 سونے جا رہی ہوں ۔

پاپا آئیں گے تو پھر سب مل کر بیٹھیں گے باتیں کریں گے 

اچھا جاؤ میرا بچہ رنگ بھی کتنا ڈم ہو  رہا ہے کوئی مسلہ

 تو نہیں ہے ناں غازی میری جان اوہ ماما آپ کیوں پریشان

 ہو رہی ہیں میں بلکل۔ ہٹی کٹی ہوں 

غازیہ نے ماں کے گلے میں بانہیں حمائل کرتے ہوئے لاڈ سے کہا ۔

ماں سچ میں ماں ہوتی ہے غازیہ نے سوچا اور اوپر بھاگ گئ 

اس کے موبائل پہ واٹس ایپ مسیج تھے 

اتنی ساری ویڈیوز وہ اسکرین کو اوپر کی جانب بھگا رہی تھی 

جب اس کے ہاتھ کی انگلیاں ساکت ہوئیں تھیں

تو کیا یہ آپ نے مجھے سینڈ کیا ہے 

💎💎💎

باؤ کچھ پوچھنا تھا آپ سے ۔ہوں پوچھو ابصار جو 

لیٹا ہوا ٹی وی دیکھ رہا تھا 

شان نے اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی 

ابصار عالم بھی ۔

شان کی جانب متوجہ ہوا 

بولو شان کیا مسلہ ہے چپ کیوں ہو گئے 

آپ ناراض تو نہیں ہو جائیں گے 

تو ناراض کرنے والی کوئی بات ہے 

آپ آج سارا دن یونی کیوں تھے 

اچھا تو تم لوگوں کو میری خبر ہو گئ ہے 

کوئی جاسوس چھوڑے ہوئے ہیں کیا 

نہیں نہیں وہ زیشان سے ملاقات ہوئی تھی 

اچھا تو اس نے اور کیا کیا بتایا ہے ۔

کچھ نہیں آپ بات کو ٹالیں نہیں خرم نے

میں نے زیشان نے بھی یہ بات محسوس کی ہے 

آپ اس جسٹس کی بیٹی کے گرد زیادہ نہیں  ٹائم زیادہ

  گزار رہے کیا مطلب ہے تم لوگ مجھ پہ شک کر رہے ہو 

نہیں باس خرم بھی چلا آیا شک نہیں ہے یقین ہے مجھے تو 

تم لوگ مجھے جانتے ہو پھر بھی ایسی بات کر رہے ہو 

اسے اغواء کر کے جو غلطی ہم سب سے ہوئی ہے جو اس

 وقت کا  مداوا ہے جب تک انسانوں سے معافی نہ مانگ لو 

اللہ بھی معاف نہیں کرتا ۔اور میں وہی کر رہا ہوں 

میرے ارد گرد جتنے بھی لوگ ہیں میں ان سب کی اسی

 طرح کئیر کرتا ہوں کیا تم نہیں جانتے ۔یہ ہزاروں بچے ہوں

یا روڈ پہ چلنے والا کوئی لاچار انسان کیا میں ان کے ساتھ

 یہ برتاؤ نہیں کرتا ۔کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے 

پھر تم لوگوں نے یہ بات کیوں سوچ لی۔

اس لیے کہ آپ ہمیشہ ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو کمزور ہوں 

اور وہ لڑکی جسٹس کی بیٹی ہے ۔وہ اپنے باپ کے ڈر سے

 اسے کچھ نہیں بتاتی ۔جسٹس نے یونی ورسٹی نہیں آنے

 دینا 

اور یہ سب کس کی وجہ سے ہوا ہے ہم جیسے شریف لوگوں کی وجہ سے 

اس کا باپ ڈر گیا ہے اور ایک بات اور ہے پاشا کے کچھ بچے

 یونی ورسٹی جھوٹ موٹ کا داخل ہو گئے ہیں 

اسے ان سب سے بھی خطرہ ہے 

وہ جسٹس کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے ۔اس کے لیے  وہ مہرہ بنائے گا ۔

غازیہ ظہیر کو ۔اور اس رات بھی وہ میری وجہ سے مصیبت 

میں پھنس تھی۔

وہ ایک لڑکی ہے اور اس کی عزت بھی مجھے اتنی ہی عزیز ہے 

جتنی میرے ادارے کی۔

 بچیوں کی وہ بہت بہادر ہے  یہ جان کر مجھے بہت خوشی

 ہوئی ہے مگر ہے تو صنف نازک ہی ناں۔

اب کچھ اور کہنا ہے کیا اور ہاں ایک اور بات 

جب جب وہ کسی مشکل میں پڑے گی میں اس کا ساتھ دوں گا ۔

یہ میرے ضمیر کا بوجھ ہے جو شاید اس طرح سے کم ہو

 جائے ۔اور اب میں اسے بھی سمجھا دوں گا ۔

بس اس کے علاؤہ تم لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت

 نہیں ہے 

اگر وہ اس کو غلط رنگ دے بیٹھی تو آپ تب کیا کریں گے 

وہ جسٹس تو پہلے ہی اپنی جان کا دشمن بنا ہوا ہے 

تم بے فکر رہو ۔

باپ نہ بنو میرے جاؤ اب سو جاؤ ایک تو ساری ساری رات

 سوتے نہیں ہو ۔اور صبح اٹھتے نہیں ہو 

اچھا باؤ ہم چلتے ہیں مگر آج لگا ہے کہ کچھ ہے ضرور 

پھپھے کٹنی اماں نہ بنو شان 

اور تمہیں بہت اندازہ ہے بہت تجربہ ہے ادھر آؤ ناں زرا 

باؤ اللہ حافظ مجھے بہت نیند آ رہی ہے 

ہاہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہاہا۔

خرم کی ہنسی نہیں رکے رہی تھی 

اور وہ دونوں باہر نکل گئے۔

خرم آج میٹنگ ہے جمالی اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ 

ہم دونوں چلیں گے شان اور زیشان یہاں ہی رکیں گے 

نیو ٹیچرز کی بھی سلیکشن ہو چکی ہے 

وہ دونوں ابصار کڈز ہاؤس میں صبح سے بزی تھے 

آج  کچھ نیو برن( new born) بچے آئے تھے وہ کس کے

 تھے کہاں کے تھے ۔کدھر سے آئے تھے 

کس جرم کی سزا تھے 

کسی جزباتی لمحے کی سزا تھے 

یا کسی گناہ کا بوجھ 

جو بھی تھے ابصار عالم کڈز کئیرز جھولے میں آ چکے تھے 

ابصار عالم  ہمیشہ کی طرح آج بھی بہت اداس تھا 

وہ وہ بہت دیر تک ان بچوں کو دیکھتا رہا اور پھر نرسری ہوم 

بھیجوا دیا 

خود ایک راؤنڈ لگا کر تھرڈ فلور پہ مسلسل بے چینی سے

 ٹہل رہے تھے ۔

باؤ آپ اداس نہ ہوا کریں آپ سے جو بھی ہوتا ہے آپ کرتے ہیں اور 

اس میں آپ کا تو کوئی بھی قصور نہیں ہے 

آپ پریشان نہ ہوں ۔

خرم نے ابصار عالم کے کندھے پہ ہاتھ رکھا 

اور اسے تسلی دیتے ہوئے کہا 

پتہ نہیں کیسے ہوتے ہیں یہ لوگ اپنے وجود کے حصے کو

 الگ کر کے کیسے پھینک دیتے ہیں ۔ایک دن بھی برداشت

 نہیں کرتے ۔باس یہ لیں گرما گرم لسی 

اور ٹھنڈی ٹھار چائے ۔کیا شان ہوش میں تو ہو 

باؤ کیا ہوا کچھ غلط کہہ دیا کیا میں نے 

جی ہاں جی ہمیشہ کی طرح ۔کیا مطلب اب کیا کر دیا 

میں معصوم نے 

تم نے کسی کو گرم کر دیا اور چائے کو ٹھنڈا 

نہیں بلکل بھی نہیں یہ دیکھیں چائے گرم ہے 

اور کسی ٹھنڈی ہے 

کیوں باؤ سہی کہہ رہا ہوں ناں میں 

ہاں شان میں جانتا ہوں اس وقت تم مجھے ریلکس کرنے کی

 کوشش کر رہے ہو ۔

باؤ آپ اداس نہ ہوا کریں آپ ہی تو ہمارا سب کچھ ہیں 

ہماری فیملی ہمارا داتا ہمارا مائی باپ 

آپ خوش ہوتے ہیں تو ہم بھی خوش ہوتے ہیں ۔

وہ بچے دیکھیں ابھی بولنا شروع کیا ہے انہوں نے اور وہ آپ 

کو ہی اپنا باپ سمجھتے ہیں بولنے سے پہلے س کا ہی نام

 لینا سیکھتے ہیں ۔

شان کی طرح انھیں بھی کبھی نہیں لگے کہ وہ کتنے چھوٹے

 تھے جب آپ کے جھولے میں آئے تھے ۔

شان کی آنکھوں سے دو قطرے گرے تھے ۔

اچھا جزباتی نہیں ہو میری جان ابصار نے اسے گلے 

لگایا ۔مجھے جلدی سے دو گرم گرم لسی اور ٹھنڈی ٹھار چائے 

ہاہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہاہا ۔

خرم بھی روتے روتے ہنس دیا تھا 

اور ابصار عالم کو ہنستے دیکھ کر شان بھی ہنس دیا تھا 

وہ سب ایسے ہی تھے ابصار کے ہسنے پہ ہنستے تھے 

اور اس کے رونے پہ روتے تھے ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

کیا کھائیں گے آپ سب احباب ۔تم نے اپنی پسندیدہ جگہ پہ بلایا ہے 

ابصار عالم تم ہی جانتے ہو گے یہاں سب سے بہترین کیا ملتا ہے 

یہاں سب کچھ ہی بہترین ہے آپ بہترین کی تلاش تو کریں 

اچھا چلو پھر دیکھتے ہیں لاؤ بھئ زرا مینیو تو چیک کرواؤ

جمال الدین عرف جمالی ۔

فخر زمان عرف فخری اور ان کے کچھ دوست 

ایک شاندار ہوٹل میں ابصار عالم کے ساتھ موجود تھے 

ابصار عالم  کو بہت اہم مسلے پہ بات کرنا تھی ۔

وہ سب کھانے کا آرڈر دے کر ہلکی پھلکی گپ شپ میں بزی

 تھے ۔

خرم نے بات کا آغاز کیا تھا ۔

آپ سب جانتے ہوں گے کہ یہ میٹنگ بھائی نے کیوں کی ہے 

آپ کے ساتھ ۔ہاں کچھ باتیں اڑتی اڑتی پہنچی ہیں میرے پاس 

مگر میں ابصار عالم کے منہ سے سننا چاہتا ہوں 

ابصار عالم اپنے موبائل پہ غازیہ ظہیر کے مسیجیز ریڈ کرتے ہوئے 

اپنے سر کو اوپر کرتے ہوئے ان سب کی جانب بادی باری دیکھا 

اور پھر موبائل پہ آخری مسیج پڑھتے ہوئے 

اس کے لبوں پہ مسکان آئی مگر وہ اسے دباتے ہوئے سریس ہوا 

آپ جانتے ہیں کہ کچھ زمین خالی  پڑی ہے جو ابصار کڈز

 ہاؤس کے قریب ہے۔ میں اس کو خریدنا چاہتا ہوں

کھانا لگ چکا تھا ۔وہ کچھ دیر خاموش ہوئے۔

آپ کو جو مناسب رقم چاہیے ہو گی وہ میں دے دوں گا 

تمھارے پاس تو خود بہت بڑا کڈز ہاؤس ہے 

اس کے علاؤہ دو سو مربع اراضی کے مالک ہو 

پھر ہماری چھوٹی سی جگہ کی کیا ضرورت پڑھ گئ تمھیں

کچھ سمجھ نہیں آئی ۔

ہم وہاں گودام بنا رہے ہیں آپ کو وہ جگہ نہیں مل سکتی

آپ گودام کہیں بھی بنا سکتے ہیں ۔

لیکن میں وہاں کالج بنانا چاہتا ہوں۔جس کی وہاں زیادہ

 ضرورت ہے ۔

اچھا تو اب ہمیں تم بتاؤ گے کہ کیا کہاں اچھا ہے ۔

ایک منٹ فخری جمالی نے ہاتھ اٹھا کر فخری کو خاموش کروایا ۔

دیکھو جمال الدین تم اچھے سے سمجھ رہے ہو کہ میں کیا

 کہنا چاہتا ہوں ۔مجھےاس  رقبے کی اس وجہ سے ضرورت

 ہے

کیونکہ وہ کڈز ہاؤس کے قریب ہے 

سمپل سی بات ہے ۔

ہماری ایک شرط ہے ۔شرط؟

ابصار عالم نے پرسوچ  نظروں سے جمالی کو دیکھا 

یہ ہم تمھیں سوچ کر بتائیں گے ۔

کھانا واقعی ہی اچھا تھا ۔شکریہ اس کے لیے 

ہم سب سوچ بچار کر کے تمھیں دو دن تک جواب دے دیں گے 

۔جمالی شرط اس بار مناسب رکھنا۔

لاسٹ ٹائم والی شرط مت رکھنا۔

ورنہ اس بار برداشت نہیں کر پاؤ گے

دھمکی لگا رہے ہو۔

اس نے خرم کو اٹھنے کا اشارہ کیا 

خود بھی کھڑا ہوا اپنی کیز اٹھائیں ۔

اور جھک کر جمالی کے کان کے قریب جا کر سرگوشی میں بولا

جمال الدین نے اپنا موبائل نکالا ایک نمبر ڈائل کیا 

اور پش کر کر کان سے لگاتے ہی تھوڑی دور جا کھڑا ہوا 

ظہیر مجھے تم سے آج ہی ملنا ہے 

کام پڑ گیا ہے تجھ سے ۔ کیا کام ہے بتاؤ زرا 

رات کو فری ہوں میں گھر پہ ہی ہوں 

تو گھر ہی آ جاؤ۔تم ٹھیک ہے میں ابھی ادھر ہی آتا ہوں پھر

 بیٹھ کر تفصیل سے بات کرتے ہیں ۔

وہ کال ڈسکنٹ کرتا ہوا واپس اپنی ٹیبل کے پاس آیا اور

 سب کے ساتھ باہر نکل گیا ۔بل بھی جمالی کو ہی ہے کرنا پڑا تھا ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

ان کا پیچھا کرو یہ اب کہاں جاتے ہیں یہ دیکھنا ہے مجھے 

کیوں کہ اب یہ کوئی نئی چال چلے گا ۔

اور میں اس کی ہی چال اسی پہ الٹ دوں گا 

اوکے بھائی ۔

ابصار عالم نے خرم کو مخاطب کیا اور ان سے تھوڑے فاصلے

 پہ ان کے پیچھے جانے لگے۔

یہ راستہ تو جسٹس کے گھر کو جاتا ہے 

خرم اس کا مطلب ہے کہ جسٹس بھی ملا ہوا ہے

کیا پتہ بھائی یہ کہیں اور جا رہے ہوں 

ہاں ہو سکتا ہے ۔کوئی بات نہیں ابھی دودھ کا دودھ اور

 پانی کا پانی ہو ہی جائے گا ۔

بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی 

ابصار عالم کو اب کچھ سوچنا پڑے گا 

وہ ملک کے دشمن عناصر اگر نہ ہوتے تو یہ ملک بہت ترقی کر چکا ہوتا 

عورتوں کی عزتیں محفوظ رہ سکتی تھیں 

آج کی عورت کو ان جیسے مردوں نے ہی کیا سے کیا بنا دیا ہے 

بیوہ ہو جائے عورت تو مرد کا معاشرہ کوشش کرتا ہے 

اسے اپنی رکھیل بنا کر رکھے 

کوئی نکاح کو ترجیح نہیں دیتا 

اور جاب دینے کی بجائے اسے اور بھی دباتے ہیں تاکہ 

اسے نوچ سکیں ۔

گھن آتی ہے مجھے ایسے لوگوں سے ۔خرم میں تمھی۔ صاف

 بتا رہا ہوں ۔اس بار ان پلوں نے اگر ویسی ہی کوئی شرط 

رکھی تو میں سب کچھ فنا کر دوں گا میں ان کی نسل جڑ

 سے ختم کر دوں گا ۔اور اگر یہ جسٹس بھی ان کے ساتھ

 ملا ہوا ہے۔تو پھر یہ بھی گیا اپنی جاں سے بھی اور اپنی

 بیٹی سے بھی ۔اس کی بیٹی کو بھی مار دوں گا پھر کس

 کے لیے دولت جمع کرے گا ۔اتنی دولت کا کرے گا کیا 

کیا قبر میں لے کر جائے گا ۔باؤ ریلکس ہو جائیں آپ کیسی

 باتیں کر رہے ہیں ۔آپ ایک ادنی سے جانور کو نہیں مار سکتے 

ایک کاکروچ کو  بھی  نہیں مارتے دیکھا  اور آپ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں ۔

کیا ہو گیا ہے آپ کو ۔

اتنا غصہ کیوں آ رہا ہے آپ کو آپ تو بہت کول مائیڈڈ ہیں 

(Cool minded)

پھر تمھیں یہ بھی پتہ ہو گا کہ تمھیں اریسٹ کروانے میں۔

 جن جن لوگوں کا ساتھ تھا ۔تمھیں پھانسی تک لے آئے تھے 

اور جانتے ہو کیا شرط رکھی تھی انہوں نے بتاؤں گا تسلی سے 

ابھی تم گاڑی ڈرائیو کرو ۔

وہ اپنے دائیں ہاتھ کی مٹھی بھینچتا ہوا  ضبط کی انتہاؤں پہ تھا 

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

بلیک مرسڈیز جسٹس کے گھر کے باہر رکی تھی 

گلی کے آخری کونے پہ ابصار عالم کی بھی گاڑی رکی تھی 

یہ تو واقعی ہی ظہیر الحسن کا گھر ہے 

باؤ آپ کو کیسے پتہ یہ اسی کا گھر ہے 

غازیہ ظہیر کو میں ادھر ہی چھوڑ کر گیا تھا 

اچھا باؤ تو یہ بات ہے ۔

غازیہ ظہیر اس نے رپیٹ کیا 

باؤ ایک بات کہوں پلیز برا  مت ماننا ہاں بولو شرماؤ نہیں 

بچیوں کی طرح ۔  غازیہ ظہیر کیسی لڑکی ہے 

کیا مطلب کیسی لڑکی ہے ۔مطلب میچور ہے امچور ہے 

اس کے سامنے اگر ہم یہ مسلہ لے کر آئیں تو وہ اپنی ہیلپ

 کر سکتی ہے ۔تم پاگل ہو گئے ہو کیا میں اسے اس کے ہ

 باپ کے خلاف کیوں کروں گا ۔ابصار ہمیں جسٹس کے بارے

 میں جاننا ہے تو اس میں ان کی بیٹی ہے سب سے زیادہ

 قریب جو ہمیں اس سب کے بارے میں آگاہ کر سکتی ہے 

تمھارا مطلب ہے میں اسے یوز کروں اور اگر جسٹس بھی

 ایسا ویسا آدمی نکلا تو تمھیں پتہ ہے وہ لڑکی کتنا ٹوٹ

 جائے گی اور جب اسے پتہ چلے گا کہ میں نے بھی اسے

 مطلب کے لیے اس کے جزبات کو یوز (use) کیا تو وہ کیسے

 سہہ آئے گی یہ سب ۔نہیں نہیں میں ایسا نہیں کر سکتا 

 چلو ہم سب خود ہی دیکھ لیں گے ۔میں خود ہی اس بات

 کو کرید لوں گا بس تم دو دن صبر کرو مجھے ان سب کی

 شرط سننے دو ۔اس بار جو میں کروں گا ان کے ساتھ یہ

 تاحیات یاد رکھیں گے مجھے بھی اور اور میرے بچوں کے

 بارے میں بھی نہیں سوچیں گے ۔

اچھا باؤ آپ ریلکس ہو جائیں ۔خرم نے ایک ہاتھ ابصار کے

 ہاتھ پہ رکھتے ہوئے ۔تسلی دیتے ہوئے کہا 

خرم دو دن ہیں اپنے پاس تم سب لگ جاؤ ایک ایک پل پہ

 نظر رکھو ان کے تمام راستے بند کر دو تا کہ یہ کہیں سے

 بھی نکلنے نہ پائیں  ۔ انشاللہ میں سب سنبھال لوں گا آپ

 بے فکر رہیں ۔

غازیہ ظہیر کو کال کر کے بول دو میں ملک سے باہر چلا گیا

 ہوں کل رات سے ہی ۔میں نہیں چاہتا وہ کسی بھی مسلے

 میں پڑے اور میرے لیے کوئی جزبات بھی رکھے وہ اچھی

 سی لڑکی  میری وجہ سے کبھی ہرٹ نہیں ہونی چاہیے 

یہ الفاظ اس نے دل میں ادا کیے تھے ۔

اب بتاؤ آرام سے کیا ہوا ہے تم اتنے غصے میں کیوں ہو 

پاپا ابصار عالم کڈز ہاؤس کے لیے ٹیچرز کی ضرورت تھی 

عمارہ کے ساتھ گئ تھی میں بھی آپ جانتے ہیں عمارہ کے

 فادر کی ڈیتھ کے بعد ان کے حالات کچھ اچھے نہیں۔ رہے

 مالی حالات۔وہ بھی انٹرویو دینے گئ تھی۔

زیلیہ داور نے سفید جھوٹ بغیر پروں کے بڑے اچھے انداز

 سے بولا تھا۔

تو؟ داور نے سوال کیا انداز تفتیشی تھا 

ان لوگوں نے ہماری بہت انسلٹ کی پاپا 

میں نے آپ کا بھی تعارف کروایا   مگر انہوں نے کہا کہ

 جیسا وہ کچرا ہے ویسی ہی کچرے جیسی اولاد ہے 

وہ ایسے کہہ رہے تھے ۔

یقین نہیں آتا ۔ابصارعالم ایک سلجھا ہوا نہایت معزز انسان ہے 

ہم دونوں کی ملاقات ہوتی رہتی ہے ۔

اور یہ بات جو تم ابھی مجھے بتا رہی ہو ۔یہ جانے سے پہلے

 کہنی چاہیے تھی ۔اگر وہ ضرور مند تھی تو ابصار عالم

 ضرور اسے جاب دے دیتا مگر اس کے قوائف دیکھ کر تم

 دونوں اتنی مہنگی یونی ورسٹی میں پڑھتی ہو ۔اور اسے

 جا کر کہتی ہو کہ ہمیں ضرورت ہے ہم ضرورت مند ہیں .

اب تم مجھے سچ بتاؤ گی ۔تم نے کیا کیا ہے ۔زیلیہ داور نے

 پہلو بدلہ تھا ۔کچھ نہیں پاپا آپ کا مجھے پتہ تھا آپ کبھی

 میرا ساتھ نہیں دیں گے ۔اسچلیے آپ سے بات کرنا ہی

 فضول ہے۔

اب جو بھی کروں گی میں کروں گی ۔وہ تن فن کرتی اپنے

 روم میں چلی گئ ۔

مہوش بیگم اپنی بیٹی کی ایکٹویز پہ تھوڑا دھیان دیں 

مجھے اس کے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے ۔

وہ اپنے کمرے جا کر پلین ترتیب دینے لگی ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

غازیہ تمھیں کیا ہو گیا ہے  تم اپنی شکل دیکھو 

تم ایسی تو نہیں تھی ۔پتہ نہیں ہیر مجھے کچھ بھی اچھا

 نہیں لگتا نہ کھانا نہ پینا 

نہ وہ مہندی جو میں ہر وقت لگاتی رہتی تھی 

نہ وہ چوڑیاں ہرے رنگ کی اور اس میں میرون کلر تم

 مکس کر کے پہنتی ہو ۔

ہیر نے اسے یاد کروایا  ۔

دو دن ہو گئے ہیں ۔میں نے اسے نہیں دیکھا ہیر 

مجھے ایسا لگتا ہے میری روح نکل رہی ہے 

میرے دل کو کسی پل بھی سکون نہیں رہا 

میں کیا کروں ہیر میں کیا کروں میں مر رہی ہوں پل پل

 مجھے نیند نہیں آتی ۔مجھے بھوک نہیں لگتی ماما الگ

 پریشان ہیں پاپا الگ سے فکرمند ہو رہے ہیں۔

وہ مجھ سے بات نہیں کر رہا میں اسے مسیج کر کر کے تھک

 گئی ہوں۔اس نے مجھے ایک مسیج بھی کا بھی  جواب نہیں دیا 

پتہ ہے اس کا کوئی دوست کہتا ہے وہ باہر چلا گیا ہے ہمشیہ

 کے لیے ۔وہ اپنا نمبر ادھر ہی چھوڑ گیا ہے 

وہ یہاں رہتا ہی نہیں ہے 

کبھی کبھی یہاں کا چکر لگاتے ہیں ۔

تم بہکی بہکی باتیں کر رہی ہو کس کی بات کر رہی ہو

 تمھیں کیا ہوا ہے ۔دو دن پہلے تم بہت خوش تھی تم چہک

 رہی تھی ۔پھر آج کیا ہوا ہے۔

محبت جب بے پناہ ہو تو ہر تیسرا شخص برا لگتا ہے 

ہیرے ۔ابصار عام نے مجھے اغواء کیا میرے پاپا کو تکلیف دی 

میں نے بارہا چاہا اس سے نفرت ہے مجھے مگر جب جب میں

 نے ایسا سوچا وہ مجھے اور بھی اچھا لگا  ۔

میں نے اسے بنا پلک جھپکے ٹی وی اسکرین پہ گھنٹوں

 دیکھا ۔وہ محرم نہیں ہے تیرا غازیہ تم اسے جتنا سوچو گی 

تم اتنا ہی اپنی نظر میں گرو گی خدا کی نظروں میں گرو گی 

اس طرح تم برباد ہو جاؤ گی 

سب پریشان ہیں تمھاری وجہ سے 

غازیہ ظہیر اپنے بیڈ کراؤن کے ساتھ ٹیک لگائے 

ا

کسی اور ہی جہان کی باسی لگ رہی تھی 

دو دن میں مرجھا گئ تھی ۔رنگت پیلی زرد پتوں جیسی ہو رہی تھی 

خون جیسے کسی نے نچوڑ لیا ہو ۔

آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ رہے تھے۔

کلر وائٹ اور فئیر ہونے کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی بلیک لگ رہے تھے 

 مجھے وہ کچھ برا لگا ہی نہیں ہے مجھے سمجھ ہی نہیں آ

 رہی ہیر میں ۔کیا کر رہی ہوں ۔مجھے رات کو اس کے

 دوست نے کال کی تو مجھ سے نفرت محسوس ہوئی 

مجھے اس کی آواز سے بھی نفرت ہوئی ۔

اور اگر ابصار عالم کو پتہ چل جائے تو وہ کیا سوچے گا

 میرے بارے میں ۔نہیں ہیرے مجھے خود کو سنبھالنا ہو گا 

میں اس ہ یہ ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتی ۔

میں نے سنا ہے وہ  اچھا انسان نہیں ہے میرا دل ابھی یہ

 ماننے کو تیار نہیں اگر وہ سچ مچ ایسا نکلا تو میں پھر

 بھی مر ہی جاؤں گی اندر ہی اندر ۔مجھے ابھی سے خود کو

 کنٹرول کرنا چاہیے ۔میں نے کل پاپا کے فرینڈز کی باتیں

 سنی ہیں ۔

پتہ ہے ہیرے وہ کوئی مافیا کی بات کر رہے تھے 

کچھ پاپا اور ان کے دوستوں کی ساتھ میں اراضی ہے ۔

وہ اس پہ قبضہ کرنا چاہتا ہے ۔وہ ایلیگل(illegally)

کام کرتا ہے وہ اس کو اریسٹ کروانے کی باتیں کر رہے تھے 

شاید اسی لیے وہ باہر بھاگ گیا ہے 

وہ اگر ایسا ہے تو پھر میرا آئیڈیل کیسے ہو سکتا ہے 

میرا آئیڈیل تو میرے پاپا۔ جیسا ہو گا ناں 

وہ روتے روتے  آنسوؤں کو رگڑتی ہوئی اٹھی 

اور واش روم گھس گئ ۔وہ خود پہ ضبط کر کے بھی خوب

 روئی ۔شاور لیا اور باہر نکل آئی ۔اپنا فیورٹ بلیک سوٹ

 نکالا زیب تن کیا۔ کیا کر رہی ہو یہ تم ہیرے نے اس کی

 حرکات پہ اس کو ٹوکا اسے اس وقت اس کی دماغی حالت 

پہ شعبہ ہوا ۔کیا ہوا ہیرے میں اچھی نہیں لگ رہی کیا 

اس نے خود کو آئینے میں دیکھا ۔بالوں میں برش کیا 

فیس پہ عرق گلاب کا اسپرے کیا ۔ہلکی سی خوشبو لگائی 

اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا ۔

چلو ہیر ماہم آج میں تمھیں پورٹ گرانٹ کی تفریح کروا کر لاؤں 

تم سچ کہہ رہی ہو لڑکی تم واقعی ہی آؤٹینگ پہ جا رہی ہو 

ابھی دو گھنٹے تم نے میرا دماغ کھایا ۔آج سنڈے ہے پاپا

 بھی گھر پہ ہیں آج پاپا کی گاڑی میں چلتے ہیں ۔سرکاری

 گاڑی میں چلیں گے سرکاری پروٹوکول ملے گا پاگل ہو گئ

 ہو انکل سکیورٹی کے بغیر نہیں جانیں دیں گے۔تو کیا

 سیکورٹی کے ساتھ چلے چلیں گے۔تم پہلے نیچے تو چلو

 صورت حال دیکھتے ہیں۔

آج کوئی بھی نہیں  نظر نہیں آ رہا راستہ صاف ہے مگر چابی 

وہ کہاں ہو گی ہاں وہ گیٹ کے پاس کیز سٹینڈ ہے  اس پہ

 ہی سب کیز ہوتی ہیں ۔یاہو وہ خوش ہوتے ہوئے بولی ۔

غازیہ ہم کسی مصیبت میں نہ پھنس جائیں ۔غازیہ تم جا

 رہی ہو کہیں جی ماما میں ابھی آپ کے پاس ہی آ رہی تھی

ہیر اور میں پورٹ گرانٹ جا رہے ہیں ۔

بہت دنوں سے کہیں بھی نہیں گئ آج دل کر رہا ہے تو 

ہاں ہاں جاؤ بیٹا مگر اصفہان کو ساتھ لے جانا جی جی ماما

 آپ ٹینشن نہ  لیں میں لے جاؤں گی ۔کھانا تو کھا لو میں

 وہی کھاؤں گی آج فل انجوائے کروں گی ماما کچھ پیسے

 تو دے دیں مجھے اچھا جاؤ میرے روم میں پرس سے لے لو 

اوکے ماما اللہ حافظ۔

وہ دونوں بغیر اصفہان کے ہی نکل گئ تھیں ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

آپ نے پھر کیا سوچا ہے ہم سب تمھارا انتظار کر رہے ہیں 

جمالی آپ اکیلے آئیں گے پورٹ گرانٹ کے پاس جو بیچ

 لگژری ہوٹل ہے وہاں آ جاؤ ۔لیکن آپ اکیلے آئیں گے کسی اور

 کو ساتھ نہیں لائیں گے ۔

کیا کیا مطلب ہے میں اکیلا وہاں آجاؤں مجھ سے ڈر رہے ہو

 کیا جمالی ۔تم بھی پھر وہاں اکیلے آؤ گے میں اکیلا ہی ہوں

ٹھیک ہے ۔پھر میں وہاں آتا ہوں ۔

ایاز امیر تم تیار ہو ناں اپنی کارروائی کے لیے وہ جیسے ہی

 میرے پاس پہنچے ۔بلکہ وہ وہاں سے پہنچ چکا ہے تم نے

 اپنے آدمی بھاری اسلحہ اور منشیات کی وافر مقدار کا

 ذخیرہ ابصار کڈز ہاؤس سے برآمد کرنا ہے اور جیسے ہی

 میں ابصار عالم سے اپنی شرائط کا کہوں وہ مان گیا تو تم

 نے کوئی کارروائی نہیں کرنی اور اگر نہیں مانا تو لگژری

 ہوٹل میں موجود پولیس ابصار کو بھی اریسٹ کر لے گی 

اور وہاں سے کافی مقدار میں بڑے لڑکے اریسٹ کرنا تم 

تاکہ وہ مار کے ڈر سے اپنی زبانیں ہمارے پڑھائے ہوئے سبق 

کے مطابق کھولیں سمجھ گئے ہو ناں کوئی گڑ۔ بڑ نہیں ہونی

 چاہیے ۔اور اس بے وقوف ظہیر کو بھی کال کر دینا اسے بتا

 دینا کہ کتنا اسلحہ اور منشیات برآمد کیں ہیں ۔اس کو بھی

 وہ بہت اچھا لگتا  ہے ۔اج یہ ہیرو تو گیا کام سے ۔

ہاہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہاہا

جمال الدین بہت دیر تک ہنستا رہا تھا  ۔

خرم داور کو کال کر کے ادھر بلا لو 

کڈز ہاؤس میں پریس والوں کو بھی بلا لو اور ہاں سنو یہ

 کام خاموشی سے ہونا چاہیے ۔سکیورٹی کو الرٹ کر دو۔

جمالی کو آج اسی کے جال میں پھنسانا ہوں 

ظہیر الحسن بھی آ رہا ہے ناں ۔پھر

ادھر ابصار عالم بھی اس کی چال الٹنے والا تھا ۔

ابصار عالم جو گرانٹ پورٹ کے سامنے گاڑی میں بیٹھا

 جمالی پہ نظر رکھے ہوئے تھا ۔خرم کو گاہے بگاہے کال کرتا 

وہ تمام صورت حال سے آگاہ ہو رہا تھا اور اسے بتا بھی رہا تھا ۔

غازیہ ظہیر جیسے ہی پورٹ گرانٹ واے روڈ پہ انٹر ہوئیں 

اسکی نظر ایک سائیڈ پہ کھڑی ہوئی۔وائٹ گاڑی میں بیٹھے 

ابصار عالم پہ پڑی تھی ۔

وہ ہمیشہ کی طرح وائٹ لان کے سوٹ میں بہت شاندار لگ

 رہا تھا ۔

گاڑی تم مجھے کیوں ریورس کر رہی ہو ۔

بتاتی ہوں ایک منٹ ویٹ کرو ۔

اس نے گاڑی ریورس کی اور وائٹ مرسڈیز کے پیچھے لے

 آئی ۔

آنکھیں بند کر لو ہیرے تم یہ کیا کر رہی ہو تم 

 تم بس دیکھتی جاؤ 

 دیکھتی جاؤ کہ میں اس کے ساتھ کرتی کیا ہوں 

مجھ سے جھوٹ بولا ۔یہاں پہ بھی ضرور کسی مشن پہ آیا

 ہوا گا ابھی بتاتی ہوں۔غازیہ نہیں کرو یار یہ کای کر رہی ہو

مجھے بھی ساتھ پاگل کر دو گی ۔مگر اس کے چیخنے کے

 باوجود بھی غازیہ ظہیر نے بڑی کمال مہارت سے گاڑی

 مرسڈیز کو ٹھوک دی تھی ۔ابصار اس افتاد پہ ہڑبڑا کر

 نیچے اترا تب تک وہ ایک بار پھر اس  کی گاڑی کی دوسری  

ہیڈ لائٹ بھی

 توڑ چکی تھی ۔

اففففففففففف اللہ کون پاگل ہو گیا ہے  وہ نیچے اترا تو اس

 نے ونڈو

 اسکرین کے اندر دیکھا مگر لائٹ پڑنے کی وجہ سے نہ دیکھ

 پایا ۔

وہ تیزی سے اس گاڑی کے پاس آیا مگر وہ زن سے گاڑی آگے

 بھگا  لے گئ ۔ابصار عالم نے سائیڈ سے نکلتی وہ بلیو لائٹ

 والی گاڑی کو پہچان لیا تھا ۔اور اس میں موجود شخصیت کو بھی 

اس کا غصہ منٹوں میں اڑنچھو ہوا تھا ۔

وہ مسکراتا ہوا گاڑی میں جا بیٹھا گاڑی کی دونوں ہیڈ

 لائیٹس  ٹوٹ چکی تھیں مگر ابھی اسے وہ مشن پورا کرنا تھا 

اس لیے وہ گاڑی کو وہاں سے بھگا لے گیا ۔

غازیہ ظہیر نے بھی اس کا پیچھا کیا ۔

تم کر کیا رہی ہو وہ خطرناک لوگ ہیں ہم بری طرح پھنس

 سکتے ہیں ۔ہمیں ایسے کام نہیں کرنے چاہیے ۔

ایسا مت کرو غازیہ مجھے یہ شخص ٹھیک نہیں لگ رہا ۔

ہیرے مجھ سے اس نے جھوٹ بولا میرے جزبات کے ساتھ

 مزاق کیا جب وہ یہاں موجود تھا تو مجھ سے کیوں کہا وہ

 یہاں نہیں ہے ۔تم نے دو گھنٹے پہلے مجھ سے کہا تمھیں

 اس کی پرواہ نہیں ہے۔ہاں تو مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ

 یہاں میرے سامنے آجائیگا ۔ہاں تو تم نے سبق سکھا تو دیا

 اب اس کے پیچھے جانے کا کیا مقصد ہے ۔

یہ یہاں کیا کر رہا ہے ۔اگر گیدرنگ ہوتی تو میں سوچتی کہ 

چل( chill ) کرنے آئے ہوں گے افففف تم تو انکل کے ساتھ ساتھ 

خود بھی جج بن گئ ہو وہ بھی مشکوک والی ۔

اور وہ دونوں ہنس دیں ۔

لگژری بیچ اتنا دور نہیں تھا سو وہ فوراً ہی وہاں پہنچے تھے

 ابصار عالم ادھر ادھر دیکھ کر ہوٹل میں داخل ہو گیا  تھا۔

بیٹھو ابصار عالم جمالی مصافحہ کرتے ہوئے خباثت سے

 مسکرایا ۔

ہاں شیور (sure) ابصار بھی ہاتھ ملاتے ہوئے چئیر پہ ایزی

 ہو کر بیٹھا تھا۔ 

اپنا فون یہاں سامنے رکھ دو ۔کیا ہوا ڈر رہے ہو کیا 

نہیں یہ رہا میرا فون ہم بات کے دوران کوئی کال نہیں کریں گے 

اور سنیں گے ۔

یہ جمالی انکل کے ساتھ کیا کر رہے ہیں ۔ہو گا کوئی مسلہ تم 

چلو یہاں سے مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔

تم کب سے ڈرپوک ہو گئ ہو تم غازیہ ظہیر کی فرینڈ ہو 

اتنی ڈرپوک ہو غازیہ نے اسے لتاڑا اور اب مجھے دیکھنے دو

 آخر کیا مسلہ کیا ہے ۔اففففف ہیر ماہم لمبا سانس لے کر

 خاموش ہو گئ ۔

کھانا آرڈر کریں کیا ۔نہیں میں آج کھانا نہیں کھاؤں گا 

مجھے آفس جلدی جانا ہے ابصار عالم نے کھانے سے منع کرتے

 ہوئے 

جمالی کو جواب دیا ۔چلو تو کوئی ٹھنڈا ہی منگوا لیتے ہیں 

اوکے  ۔گریپ فروٹ جوس لے آؤ اس نے ویٹر کو آرڈر دیا اور

جمالی کی جانب متوجہ ہو گیا۔

ہاں تو پھر کیا سوچا تم نے 

جمالی کے ماتھے پہ ننھے ننھے پسینے کے قطرے ابھرے ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

 تمھیں شرط بتانے کا وقت آ گیا ہے ابصار عالم 

وہ بچے جو تمھارے زیرنگرانی ہیں وہ تمھاری ملکیت تو

 نہیں ہیں ۔تم پھر ان پہ خرچ کر رہے ہو تمھیں بھی تو کچھ

 وصول ہونا چاہیے ۔مشورہ دینے کا شکریہ جمالی بات بتاؤ

  کہنا کیا چاہیتے ہو ۔ت۔ھارے پاس جوان ہوتی لڑکیاں ہیں 

میرے ساتھ ڈیل کر لو وہ جگہ بھی تمھاری ففٹی پرسینٹ

 بھی تمھارا۔ بس رات کو ہی وہ دھندہ کریں گی دن کو 

تمھارے پاس یہ ہی کریں گی جو ابھی کر رہی ہیں ۔

کیا بکواس کر رہے ہو ۔

اور بچوں کو بھی مختلف چوکوں پہ چھوڑ دیں گے 

نوٹوں میں کھیلو گے اور ہم بھی دوستی کر لیں گے 

لڑکیوں کی بات سن کر ہی اس کے تن بدن میں آگ لگ گئ

 تھی

اور اوپر سے اس کی مزید وضاحت 

بسسسسس کتے تیری ہمت کو داد دیتا ہوں 

ابصار عالم نے چئیر کو ٹھوکر ایسے ماری کہ جمالی کی پیٹھ

  دیوار پہ جا کر گی تھی ۔

سیکورٹی منیجمنٹ نے وارن کیا 

کوئی آنی جگہ سے نہیں ہلے گا ۔

ابصار نے دونوں ہاتھوں میں پسٹل تھاما 

اندر سے کوئی باہر نہ جانے پائے اور باہر سے کوئی اندر داخل

نہ ہو سنا تم سب نے وہ ویٹرز پہ چیخا تھا ۔

اپنی بہن بیٹی کا سودا کرتا ہے 

ڈالے 

تجھے میں بیٹھاوں گا چوک میں ابصار عالم کا کسی طرح

 بھی غصہ کنٹرول نہیں ہو رہا تھا ۔

وہ جمالی کو لاتوں کے نشانے پہ رکھ چکا تھا ۔

ایکشن شروع ہو چکا تھا ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

آپ یہاں ایس ایچ او صاحب پولیس موبائلز سے نکل کر میں

 گیٹ پہ آئی تھی ۔مجھے کچھ اطلاع ملی ہے ۔اس لیے

 مجھے چیکنگ کرنی ہے۔آپ پہلے ایس ایس پی سے تو مل

 لیں اور ان کے ساتھ  جسٹس ظہیر الحسن بھی باہر نکل آئے تھے جو 

جو گیٹ کے ساتھ بنے ہوئے آفس میں اسی پل کا انتظار کر

 رہے تھے ۔

داور سر آپ ایاز امیر نے سلیوٹ کیا تم یہاں کیسے ایاز امیر 

سب خیر ہے ناں 

ایاز امیر کا چہرہ اترا تھا ۔سر کچھ اطلاع ملی تھی آپ یہاں

 کیسے آ ئے ہیں ۔کیسی اطلاع اس نے اصفہان اور دیگر

 ساتھیوں کو اشارہ کیا تھا ۔

 جاؤ اندر کی چھان بین کر لو مگر اس سے پہلے تمھیں

 مجھے ان چیزوں کے بارے میں بتانا ہو گا  ۔وہ گاڑی سے

 بھاری مقدار میں اسلحہ اور منشیات کی طرف اشارہ کرتی 

ہوئے بولا ۔وہ مین گیٹ سے اسے اس کی موبائل تک لے آیا

 تھا 

جس میں یہ سب رکھا تھا ۔ سوری سر مجھے معاف کر دیں

 مجھ سے غلطی ہو گئ ۔داور نے بہت زور سے اس کے منہ پہ

 چانٹا مارا تھا۔تمھارے جیسی کالی بھیڑ یں ہوتی ہیں 

جو پولیس کے محکمے کو بدنام کرتی ہیں ۔یہ سب اپنے اندر

 کرو اور تم آؤ زرا میرے ساتھ وہ اصفہان اور دیگر پولیس 

نوجوانوں کو کہتا ہوا ۔

اسے اندر لے گیا ظہیر الحسن کی سمجھ میں ابھی تک کچھ

 نہیں آیا تھا ۔

باقی سب جاؤ یہاں سے اس نے باقی نفری کو واپس بھیج دیا 

اور ایاز امیر کو لے کر آفس چلا گیا جہاں وہ کچھ دیر پہلے

 ہی سب کاروائی دیکھ رہے تھے۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

آپ قانون کو ہاتھ میں مت لیں چھوڑ دیں اسے 

فخری  بھی کہیں سے ہانپتا کانپتا ہوا وہاں پہنچا تھا 

ان کی خریدی ہوئی  پولیس کو کال موصول ہو چکی تھی 

اس لیے وہ وہاں سے بھاگ چکے تھے ۔

پولیس ایمرجنسی میں وہاں پہنچ چکی تھی  ۔

یہ سب ہو کیا رہا ہے وہ کیوں مار رہا ہے ضرور اس نے کچھ 

منوانے کی کوشش کی ہو گی ۔

راستہ صاف کرو سب ادھر سے جاؤ پولیس سب کو ہٹا رہی تھی 

ابصار عالم نے اسے ایک مزید لات رسید کی 

تمھیں جان سے مار دوں مگر میں اپنے ہاتھ گندے نہیں کرنا

 چاہتا ۔لیکن تم اب جی میں سڑو گے اور میں تمھیں اس 

بکواس کے لیے کبھی نہیں معاف کروں گا ۔

غازیہ ظہیر ہیر کا ہاتھ پکڑ کر پولیس کے پیچھے اندر داخل

 ہوئی تھی۔

گاڑی سرکاری ہونے کی وجہ سے وہ سمجھے تھے کوئی

 ہمارے ساتھ ہی آ فیسر آیا ہے ۔

وہ زمین تم مجھے خود اب دینے آو گے اچھا تو وہی ہوا جو

 سچ تھا ۔ اسی لیے وہ اسے مارنے لگا تھا ۔

پولیس نے ابصار عالم کو پکڑ لیا اور ساتھ میں جمالی کو

 بھی ۔

مجھے ایک کال کرنی ہے کرنے دو یہ تو اب تم تھانے میں جا

 کر کرنا جو بھی کرنا ہے ابصار عالم نے انسپکٹر کو دیکھا 

ہاتھ چھوڑو میرا ۔

اس نے ٹیبل سے اپنا سیل فون اور کیز اٹھائیں جمالی نے

 بھی اپنی چیزیں اٹھائی تھیں۔یہ ہمارا زاتی معاملہ ہے 

ہم خود رفع دفع کر لیں گے ۔ 

تمھارا آپسی مسلہ ہوتا تو تم یہاں پبلک پلیس پہ نہ لڑائی کر رہے ہوتے 

جمالی کو اس افسر نے قرارا سا جواب دیا۔

ابصار عالم میرے ساتھ جائیں گے انسپیکٹر 

وہ جب ہوٹل سے باہر آئے تو غازیہ ظہیر نے ابصار کو اپنے

 ساتھ چلنے کا کہا ۔ےم پاگل ہو گئ ہو ۔ہیرے نے اس کے کان

 میں سر گوشی کی ۔

اس سے پہلے کہ انسپکٹر اس سے کچھ پوچھتا 

اس نے اپنی گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔

اس سچویشن میں بھی ابصار عالم کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ 

آ گئ تھی ۔

غازیہ گاڑی روکو میں کہہ

 رہا ہوں گاڑی روکو 

یہ کیا بدتمیزی ہے 

سمجھائیں ناں آپ اس کو 

ابصار گاڑی میں تو کسی مصلحت کے تحت بیٹھ گیا تھا

 مگر تھوڑے فاصلے پہ جا کر گاڑی نے سپیڈ پکڑی تھی ابصار

 عالم کے ماتھے کی لکیریں ابھریں تھیں ۔ہیر ماہم نے کانوں

 پہ ہاتھ رکھے چیخ رہی تھی ۔

جبکہ غازیہ ظہیر پرسکون گاڑی کو ہوائی جہاز بنا چکی

 تھی ۔

ابصار عالم جو غازیہ کی پچھلی ہی سیٹ پہ بیٹھا تھا 

نے آگے بڑھ کر گاڑی کے ہیڈل کو پکڑا تھا ۔

تمھی۔ آخر غصہ کس بات کا ہے ہم آرام سے بات کریں گے تم

 اس کو سلو کرو۔وہ غازیہ کو پیار سے سمجھاتے ہوئے بولا 

مگر غازیہ کو اس وقت کسی کی پرواہ نہیں تھی 

وہ ابصار عالم کے ہاتھوں کو نوچتے ہوئے سپیڈ دوبارا بڑھا چکی تھی ۔

وہ ہیر کی بھی پرواہ نہیں کر رہی تھی

 گاڑی ادھر ادھر ہچکولے کھا رہی تھی۔

تمھیں تمھارے پاپا کی قسم ہے غازیہ گاڑی سائیڈ پہ لگا دو 

غازیہ نے قسم کا سن کر گاڑی کو سائیڈ پہ بریک لگ دئیے 

اففففففففففف اللہ شکر  ہے میں آج زندہ بچ گئ 

ابصار عالم بھی نیچے اترا تھا 

آپ کی دوست کھسکی ہوئی ہے کیا آج یہ کیا مجھے مارنے

 نکلی ہے 

آپ کو تو پتہ ہو گا آپ تو اس کے ساتھ ہی ہیں 

وہ بھی ہیر کے قریب آ کر بولا تھا۔

مجھے نہیں پتہ پلیز مجھے تو معاف ہی رکھو چلو گاڑی

 میں ۔ بیٹھو ہیر غازیہ ظہیر نے ہیر کو دوبارہ بیٹھنے کی

 آفر کی مجھے معاف ہی رکھو۔ جاؤ تم سوری  بات مت کرنا

 مجھ سے 

غازیہ ظہیر بھی نیچے اتر آئی تھی ۔سوری ہیر ماہم تمھیں

 پتہ ہے آج  شٹ اپ ہیر آگے بڑھ گئ تھی غازیہ ظہیر اس

 کے پیچے لپکی تھی۔مگر ہیر نے اس کی بات کاٹ دی تھی 

چابی اگنینشن  میں لگی  ہوئی تھی ابصار عالم وہی کھڑا ہوا تھا 

اس نے جلدی سے فرنٹ  سے آگے گھوم کر فرنٹ سیٹ 

 سنبھالی تھی۔ اس کی گاڑی سٹارٹ ہوئی تھی غازیہ ظہیر

 جو تھوڑی ہی آگے بڑھی تھی ۔

چونک کر پیچھے مڑی مگر ابصار وکٹری کا نشان بناتا گاڑی 

زن سے آگے بڑھا لے گیا ۔وہ جب آگے نکل آیا تو اس نے خرم

 کی کال اٹینڈ کی تھی ۔میں ابھی پہنچتا ہوں سب ٹھیک ہے 

جسٹس کو بٹھا کر رکھو ۔میں ابھی آتا ہوں بس پہنچنے والا ہوں ۔۔خرم نے بتایا 

داور نکل گیا ہے ایاز کو لے کر اس نے ساری بات بتا دی ہے 

جسٹس کے سامنے ۔الللہ کا شکر ہے نیت صاف ہو تو راستے 

آسان ہو  ہی جاتے ہیں ۔جی باؤ بلکل اوکے کال رکھتا ہوں 

 میں ۔خرم سنو کسی کو بھیج دو بیچ کے سامنے میری گاڑی

 کھڑی ہے وہ لے آئے سب ٹھیک ہے ناں باؤ آپ کس پہ ہیں

 میں جسٹس ظہیر الحسن کی گاڑی میں ہوں ۔کیا بتاتا ہوں

 تم پریشان نہیں ہو ۔ اللہ حافظ

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

آج میں تو گئ کام سے ہیرے پاپا نے مجھ پہ کبھی بھی

 بھروسہ نہیں کرنا وہ پہلے ہی ابصار کو پسند نہیں کرتے میں اب کیا کروں جو مرضی کرو آرام سے بات کر لیتی وہ بھی تو یہ کہے رہے تھے مگر نہیں تمھیں تو آج ریس لگانی تھی اب بھگتو 

میرے ہینڈ بیگ سب کچھ اسی میں ہے 

میں اس سے بات بھی نہیں کرنا چاہیتی اور ایسے ہم گھر

گئے تو بہت برے پھنسیں  گے کیا کروں ۔ہیرے پلیز ناراض مت ہو ۔

 مجھے کوئی مشورہ دو پلیز غازیہ نے اس کے بازوؤں پہ

 ہاتھ رکھا مگر ہیر نے ایک بار پھر جھٹک دیا ۔بس کر دو یار

 پلیز وہ روڈ پہ کھڑی ہو گئ اور اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ 

 آنسو نکل آئے ۔ہیر ماہم نے بھی اسے رکتے دیکھا تھا  

وہ جو آنکھیں جھپک جھپک کر آنسو پینے کی کوشش کر رہی تھی 

ہیر کو اس پہ رحم آ ہی گیا تھا 

کال ملا کر دو مجھے میں بات کرتی ہوں اس ابصار سے 

ایک ہی بیل پہ کال اٹینڈ ہو گئ تھی 

جی مس اب آپ کی طبیعت کیسی ہے 

قدرے سنبھل گئ ہو گی ۔ابصار بھائی آپ نے اچھا نہیں کیا 

ہماری گاڑی لے جا کر  اچھا تو آپ ان کی ؟ سسٹر ہیں 

جی یہ ہی سمجھ لیں میرے بھائی اپ ہمیں گاڑی دے دیں 

ہمارے پاپا کی ہے یہ گاڑی اور وہ بھی سرکاری گاڑی ہے۔

آپ کی سسٹر مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہی ہیں  ۔

میری بات کرواؤ ان سے وہ بات نہیں کرنا ۔

اوکے پھر میں بھی گاڑی نہیں دے رہا ۔

غازیہ کر لو بات اگر گاڑی واپس لینا ہے تو میں بتا دوں گی

 پاپا کو سچ سچ تم چلو ہم ٹیکسی میں چلتے ہیں 

میں پولیس میں بھی جا سکتی ہوں ۔

غازیہ نے زرا پاس آ کر زور سے ابصار عالم کو سناتے ہوئے بولا ۔

ہاہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہاہا۔

وہ قہقہ لگا کر کال بند کر گیا ۔ 

غازیہ ظہیر غصے سے آگ بگولہ گھر روانہ ہوئی تھی ۔

یہ جانے بغیر کہ ایک اور مصیبت اس کے سر پہ سوار پہ آ 

چکی تھی ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

ابصار عالم نے گاڑی گاڑی یونیورسٹی پارک کی اور خود

 پیدل ابصار کڈز ہاؤس روانہ ہو گیا ۔

یونیورسٹی کڈز ہاؤس کے قریب ہی روڈ پار تھی 

مجھے غصہ کیوں نہیں آتا اس لڑکی پہ اس نے آج پہ اپنے

 دائیں سینے پہ ہاتھ رکھ کر اسے فیل کیا تھا جہاں وہ ڈر کر 

آن چھپی تھی۔ وہ مسلسل اسی کو سوچتا ہوا کڈز ہاؤس

 تک پہنچا تھا۔

آئیے آئیے ابصار عالم آپ کا ہی ویٹ کر رہے تھے ہم 

سب ٹھیک ہے ناں ۔جسٹس ظہیر الحسن ابصار عالم کے گلے

 ملتے ہوئے لگژری ہوٹل کۓ متعلق پوچھا۔اس نے تمام تفصیل

بتا دی اور یہاں کا بھی آپ نے سب دیکھ لیا ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

ایم سوری ابصار بیٹا اس سب کے لیے جو میں نے جانے انجانے میں کیا 

مجھے آج بھی پتہ نہیں چلتا اگر تم میری آنکھیں نہیں کھولتے 

اس رات تم مجھے سب کچھ نہ بتاتے تو میں وہی سمجھتا

 رہتا جو وہ مجھے بتانے  آئے تھے۔ آج سب کچھ جان کر

 افسوس ہو رہا ہے کہ یہ میرے کلاس فیلوز اور دوست ہیں 

اللہ کا شکر ہے سب ٹھیک ہے اسے پولیس کے گئ ہے 

مگر مجھے ابھی وہاں تھانے جانا ہو گا ۔یہاں سب ویڈیوز۔

 بنی ہیں ناں سب ریڈی ہے ۔وہاں  کے بھی سب پروف ریڈ ہیں 

ابھی ان سب کی ضرورت عدالت میں پڑے گی ۔

جسٹس کے موبائل کی بیل بجی تھی ۔

میں اب نکلتا ہوں مگر تم سب اور بھی چوکنے رہنا

زخمی شیر زیادہ خطرناک ہوتا ہے 

۔

یہ لوگ آپ کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں جسٹس خیال

 رکھیے گا اپنا آپ کو بھی یہ لوگ نقصان پہنچا سکتے ہیں

اللہ مالک ہے ۔چلو ہم نکلتے ہیں خدا حافظ

وہ کہتے ساتھ ہی باہر نکل گئے

اصفہان بھی ان کے ساتھ ہی تھا ۔ ٹائیگر کہاں ہے ۔

کچھ خاص کام ہے جب پتہ ہے تو پوچھ کیوں رہے ہو ۔

ٹائیگر بہت خاص کام کے لیے رکھا ہوا تھا جو ابصار عالم کو

 پرسنل کام لینا ہوتا تھا وہ اسے ہی بھیجتے تھے ۔وہ اس

 سب کا حصہ نہیں لگتا تھا ۔اور آج اسے گاڑی چھوڑنے جانا تھا 

جسٹس کے بنگلے پہ ۔

وہ اسے کام بتاتا باہر نکل گیا خرم زکی 

زیشان اور شان بھی آج اس کے ساتھ تھے ۔

وہ داور کے پاس گئے تھے  ۔

انہوں نے اس کی ایف آئی آر کٹوائی اور اپنے ادارے کی

 سکیورٹی بھی بڑھا دی ۔

وہ تھک ہار کر جب گھر لوٹے تو بہت رات بیت چکی تھی 

۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

ابصار عالم جیسے ہی اپنے روم میں بیڈ پہ لیٹا تو 

۔اس کی آنکھوں  کے سامنے وہ غصہ سے بھرا چہرہ چھم

 سے آ سمایا تھا  ۔غصے کی وجہ تو مجھے سمجھ آ گئی تھی 

لڑکی مگر آج جو کچھ نظر آیا وہ نظر انداز کرنا آسان نہیں ہے 

میری گاڑی کو ہٹ کرتی وہ غصے میں ضرور تھی 

مگر اس کی آنکھوں کی وہ روشنی وہ ابھی تک نہیں بھول

 پایا ۔وہ خوشی جو اسے مجھے دیکھ کر ہوئی تھی وہ کیا تھا ۔

آج جو جو اس نے دیکھا وہ کیا سوچے گی کیا آج وہ مجھے

 غلط سمجھے گی ۔کیا سوچ رہی ہو گی وہ میرے بارے میں 

چلو دیکھتے ہیں اس کا نیکسٹ ریکشن بھی ۔

مگر میں اتنا آسان کے بارے میں کیوں سوچ رہا ہوں 

وہ بار بار یہی سوچتے ہوئے کب نیند کی آغوش میں چکا

 گیا اسے خبر ہی نہ ہو سکی ۔

آپ دونوں تو اپنی گاڑی پہ گئ تھیں پھر ٹیکسی والے کو کرایا کیوں دینا ہے 

غازیہ ظہیر نے انٹر ہوتے ہی ماں سے پیسے مانگے تھے 

وہ ماما پاپا کی گاڑی خراب ہو گئ تھی 

اس لیے ہم واپسی ٹیکسی میں آ گئے اس نے ماں سے نظر

 چراتے ہوئے بات بدلی ۔یہ لو دے دو جا کر گن مین کو پیسے

 دے گا ٹیکسی والے کو ۔جی ماما میں ابھی آ تی ہوں 

ہیر کو اشارہ کرتی ہوئی وہ باہر نکل گئ ۔

اشارہ اس کی اڑتی ہوئی رنگت کے لیۓ تھا 

کیا ہوا بیٹا ہیر تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے تم اتنی زرد پیلی

 کیوں ہو رہی ہو ۔کچھ نہیں آنٹی بس تھوڑی طبیعت خراب ہو رہی ہے 

کھانا بھی نہیں کھایا ماما اس کی وجہ سے اسے وومٹنگ شروع ہو گئ تھی 

اچھا تو دونوں صبح سے بھوکی ہو ۔کھانا بھی نہیں کھایا 

ماں تھی تو ان کو تو فکر ہونے تھی ۔ 

اچھا میں کھانا لگاتی ہوں تم دونوں منہ ہاتھ دھو لو 

وہ کھانا نکالنے لگی اور وہ دونوں  غازیہ کے روم میں فریش

 ہونے چلی گئیں۔

ویسے غازیہ مجھے تم پہ بہت غصہ ہے مگر ایک بات ہے یہ

 ابصار عالم ہے بہت ڈیسینٹ پرسنلٹی کا مالک ۔لیکن آج وہ

 مجھے زہر سے زیادہ خطرناک لگا ہے ۔غازیہ نے اسے ٹوکتے

 ہوئے بولا ۔ غازیہ مجھے تمھاری سمجھ بلکل بھی نہیں آئی 

جب تم نے آج تہیہ کر ہی لیا تھا تو خود کو کسی مصیبت میں ڈالنے کی کیا ضرورت تھی ۔

میری پیاری دوست ہیرے وہ شخص جب میرے سامنے 

آ جاتا ہے ناں تو میں سب کچھ بھول جاتی ہوں  ۔

لیکن اب میں اسے چھوڑوں گی نہیں میں بچپن سے جمالی انکل کو جانتی ہوں 

وہ بہت عرصے سے اچھے دوست ہیں پھر ابصار عالم کیوں آج ان پہ پسٹل تان کر کھڑا تھا 

آج مجھے ایسے دیکھ کر وہ ایک غنڈہ ہی لگا ہے 

اور اب شاید وہ جزبات نہیں رہے میرے دل میں اب چلو

 باتیں تو ہوتی رہیں گی کھانا کھاتے ہیں ۔

ہاں مجھے بھی گھر جانا ہے ماما ویٹ کر رہی ہوں گی ہیر نے

غازیہ ظہیر سے کہا اور نیچے آ گئیں ۔وہ کھانا ختم کر کے

 اٹھی تھیں دونوں جب غازیہ ظہیر کے گھر پہ کال آئی

 تھی۔ ماما میں دیکھتی ہوں وہ نیپکن سے ہاتھ صاف کرتی

 فون اسٹینڈ تک آئی ۔جسٹس ظہیر الحسن پہ کسی نے

 اندھا دھند فائرنگ کر دی ہے ۔غازیہ کے ہاتھ سے ریسور

 پھسلا تھا ۔اور یہ فائرنگ ابصار عالم اور اس کے ساتھیوں

 نے کی ہے۔میں نے ان کو اپنی آنکھوں سے ان کے کڈز ہاؤس سے نکلتے دیکھا ہے ۔

وہ وہ وہ ٹھ۔ک تو ہیں ناں انہیں سول ہاسپٹل لے گئے ہیں 

میں کچھ کہہ نہیں سکتا آپ کون ہیں غازیہ نے اس سے

 پوچھا ۔

 میں اس واقعہ کا چشم دید ہوں ۔کیا ہوا غازیہ سب ٹھیک

 تو ہے ماما مار دیا پاپا کو ابصار عالم نے جان لے لی میرے

 باپ کی وہ پاگلوں کی طرح چیخ رہی تھی ۔

میرے پاپا ماما پاپا ہاس پی ٹل وہ تھوک نگل کر آنسو کو

 پیچھے دھکیلتے ہوئے با مشکل بولی تھی۔

ہیر ماہم کو بھی جیسا سکتہ ہو گیا تھا 

مگر اس کے سیل پہ مسلسل کال آ رہی تھی ۔

اس کے پاپا کامران خان کی تھی ۔

کہاں ہو بیٹا غازیہ ظہیر کے پاپا کا سنا ہو گا ناں تم نے 

وہ کیسے ہیں پاپا وہ پچھلے کئی منٹوں میں بس اپنے پاپا

 سے یہںی بول سکی تھی۔پتہ نہیں بیٹا حالت بہت کریٹیکل ہے بس دعائیں ہی اسے بچا سکتی ہیں 

ہیر کے پاپا کامران خان نے اسے بتایا میں اور تمھاری والدہ

 ہاسپٹل ہی ہیں گھر آتے ہیں  ۔انھیں ہماری ضرورت ہو گی 

جی جی پاپا آپ دونوں آ جائیں یہاں میں بہت ڈر رہی ہوں 

تم غازیہ کے پاس رہو ہم پہنچتے ہیں وہاں  ۔جی پاپا ٹھیک ہے

کامران خان نے کال ڈسکنٹ کر دی ۔

ہیر غازیہ کے پاس نیچے جا بیٹھی جہاں وہ دونوں ماں

 بیٹاں ایک دوسرے کو حوصلہ بھی نہیں دے رہی تھیں ۔

غازیہ ظہیر ماں کے گلے لگ کر زاروقطار رو رہی تھی 

اس پہ تو جیسے ایک جنونیت سی طاری ہو گئی تھی ۔

غازیہ انکل ٹھیک ہیں وہ بس زخمی ہوئے ہیں ۔

ہیر نے اسے اپنی طرف موڑتے ہوئے تسلی دیتے ہوئے کہا ۔

غازیہ ظہیر اور بھی زور سے رونے لگی تھی ۔

نسیم بیگم آٹھ کر وضو کرنے چلی گئیں تھیں ۔

ہیر نے انھیں اپنے والدین کی آ مد کا بتا دیا تھا 

اور وہ ان کے آنے سے پہلے ہی حاجت کے نوافل ادا کرنے لگیں تھیں ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

ابصار عالم کا دروازہ دھڑدھڑایا تھا وہ ہڑابڑا کر اٹھا تھا 

اس نے یس کہا تو خرم زکی گھبرایا ہوا اندر داخل ہوا 

باؤ جسٹس ظہیر صاحب کو گولیاں لگیں ہیں ۔

وہ ہاسپٹل میں شدید زخمی حالت میں ہیں۔

نیوز آگ کی طرح چل رہی ہے ۔کسی نے اپنا نام لیا ہے  

اس سب کے پیچھے جمالی کے ساتھیوں کا کام ہے ۔

کیوں کہ وہ جان گئے ہیں کہ جسٹس سب سچ جان چکا ہے 

ابصار عالم بلیک نائٹ ڈریس میں نیچے منہ کر کے بہت غور

 سے خرم زکی کی باتیں سن رہا تھا ۔

گاڑی نکالو ہمیں ابھی وہاں پہنچنا ہو گا کون سے ہاسپٹل

 میں ہیں وہ بس نائٹ ڈریس اور گھر کی سلیپر میں ہی باہر 

بھاگا تھا ۔

ہاسپٹل میں پولیس کی نفری موجود تھی ۔

جن میں ایس ایس پی ۔

ڈی ایس پی۔

داور بھی موجود تھا وہ داور کو ساری صورتحال بتا کر اندر

 داخل ہو گیا  ۔داور بھی اس کے پیچھے گیا تھا ۔

ڈاکٹرز کسی کو اندر نہیں جانے دے رہے تھے  ۔مگر ابصار

 عالم کو داور نے اندر بھیجا اور خود باہر ہی اس کا انتظار کرنے لگا 

جسٹس صاحب کیسے ہیں اب ابصار عالم نے ایک سینئر

 ڈاکٹر سے پوچھا  ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے ۔

بس دعائیں ہی انھیں واپس لا سکتی ہیں ۔

اللہ تعالیٰ انھیں صحت دے ۔ابصار نے مشینوں میں جکڑے

 اس بہادر شخص کو دیکھتے ہوئے کہا ۔

اس کے جسم میں بہت ساری گولیاں لگی تھیں ۔

ڈاکٹرز انھیں نکالنے کی کوشش کر رہے تھے ۔

ابصار عالم سے مزید دیکھا نہیں گیا تھا وہ دو آنسو جو اس 

کی آنکھوں سے باہر آئے تھے۔وہ ان کی پرواہ کیے بنا باہر نکل آیا

وہ داور کی طرف بڑھ رہا تھا جب اس نے غازیہ ظہیر کو

 روتے دیکھا ۔ایک لمحے کے لیے اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا

 محسوس ہوا۔ وہ بے اختیاری میں اس کی جانب بڑھا تھا ۔

غازیہ آپ کے والد ٹھیک ہو جائیں گے ۔

وہ کھڑا ہوا تھوڑا غازیہ ظہیر کی جانب جھکا تھا ۔

اگلے ہی پل بہت زور دار چانٹا اس کے منہ پہ لگا تھا 

تم میرے سامنے کیسے آئے وحشی درندے غنڈے 

غازیہ ظہیر کھڑی ہوئی اور چبا چبا کر الفاظ ادا کرنے لگی 

وہ اس کے گریبان کو پکڑ کر جھنجوڑ رہی تھی ۔

غازیہ ہوش میں آؤ کیا کر رہی ہو تم ہیر ماہم اس کے پاس

 بیٹھی تھی ۔وہ ایمرجنسی وارڈ کے باہر  ہی بیٹھی تھی اور

 اس کے ساتھ ہیر ماہم بھی وہاں ہی آ گئ تھی ۔

جبکہ اس کی ماما اور ہیر کے والدین باہر بیٹھے تھے۔

ہیر ماہم نے غازیہ ظہیر کے ہاتھ پکڑے اور چھڑوانے کی

 کوشش کی ۔میں نے نہیں چھوڑوں گی اس زلیل انسان کو 

یہ بھیڑیا ہے بھیڑیا میرے پاپا کو کھا گیا 

میرا گھر اجاڑ دیا یتیم کر دیا مجھے وہ اسے مسلسل

 جھنجھوڑ رہی تھی ۔ابصار عالم اس کے الفاظ میں ہی یوں

 صدمے میں تھا ۔وہ سوچ رہا تھا کہ جو کچھ باہر عوام کہہ

 رہی ہے وہی سب کچھ غازیہ کہہ رہی ہے ۔

غازیہ کے الفاظ ہتھوڑے کی طرح اس کے سر برس رہے تھے ۔

غازیہ ظہیر تھک کر اور کچھ ہیر کی مسلسل کوشش سے وہ 

نیچے ڈھے سی گئ تھی۔ابصار عالم کی شرٹ کے بٹن ٹوٹ چکے تھے 

وہ خود کو پیچھے دھکیلتے ہوئے آگے نکل گیا 

ایمرجنسی وارڈ سے باہر اور پھر وہاں سے پارکنگ ایریا 

آیا اور ادھر سے سیدھا تھانے پہنچا تھا ۔

ابصار عالم ہاسپٹل سے نکل کر سڑکوں پہ آوارہ گردی کرنے لگا تھا 

غازیہ ظہیر کے الفاظ اس کی سماعتیں چیر رہے تھے 

اس کی آنکھوں سے کسی موسلا دھار بارشِ کی طرح آنسو

 بہے جا رہے تھے۔ وہ اپنے لیفٹ (Left) ہاتھ کی پشت سے

 کبھی آنسو صاف کرتا اور کبھی بہنے دیتا ۔

ابصار عالم اتنا کبھی نہیں رویا غازیہ ظہیر 

تب بھی نہیں جب اس کی ماں اسے چھوڑ کر دنیا سے

 رخصت ہوئی ۔تب بھی نہیں جب باپ نے اسے سوتیلی ماں

 کے کہنے پہ گھر سے نکال دیا۔

بہت تکلیفیں اٹھائیں ہیں میں نے مگر مجھے۔ ہر قدم

 مضبوط بناتا گیا ۔میں کامیاب ترین انسان ہوں آج 

میرے پاس ہزاروں کی تعداد میں کامیابیاں ہیں ۔

مجھے سب کچھ بھول گیا تھا ۔مگر آج تمھاری بے اعتباری

 نے توڑ دیا ہے  ۔میں ابصار عالم تمھارے آ گے ہار گیا ہوں 

میں نہیں دیکھ پایا تمھاری آنکھوں کی نفرت 

وہ گاڑی سے اتر کر اس کے بونٹ پہ کھلے آسمان کے نیچے 

لیٹ کر غازیہ ظہیر سے ایسے مخاطب تھا جیسے وہ سب سن رہی ہو 

وہ اس کی آنکھوں کی نفرت یاد کر کے پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا ۔

وہ ہزاروں لاکھوں افراد کے دکھ درد بانٹنے والا خود ایک

 کونے میں تن تنہا ساری رات روتا رہا ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💓💗💗💗💗💗💗

غازیہ ظہیر روتے روتے غنودگی میں چلی جاتی ہوش آتا تو پھر رونا شروع کر دیتی 

نسیم بیگم نے ( غازیہ ظہیر کی ماں) اسے سمجھا سمجھا

 کر تھک گئی تھیں ۔ رات تو پہلے ہی بہت بیت چکی تھی

 جب وہ گھر سے نکلے تھے ۔ظہیرالحسن نے مسز ظہیر کو

 کال کر کے راستے میں ہوں بتایا تھا۔ 

اور اس کے بعد کیا ہوا وہ بھی نہیں جانتی تھیں 

غازیہ ظہیر بار بار آٹھ کر جاتی اپنے پاپا کے روم کے سامنے 

کھڑے کھڑے رونے لگ جاتی ہاتھ اٹھا کر دعا کرتی ۔

اور نفرت سے ابصار عالم کو سوچتی پھر واپس آ جاتی 

بینچ پہ ۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس کے سامنے ہو 

اور وہ اس کا گلہ دبا دے ۔

دو دل  ایک ہی لے پہ دھڑک رہے تھے مگر ایک نہایت جذباتی

 ہو کر اور ایک نہایت دکھی ہو کر ۔

فجر کی نماز کے بعد سب اپنی اپنی مخصوص جگہوں پہ جا

 کر بیٹھے تھے۔

کچھ لوگ چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے 

شاید یہ وہ لوگ تھے جن کے پیشنٹ خطرے سے باہر تھے 

غازیہ ظہیر کو تو ایسا ہی لگا تھا ۔

کچھ بہت اداس تھے 

اور کچھ نارمل تھے 

زیادہ رش نہیں تھا ۔کامران خان بھی چائے لے آئے تھے 

انہوں نے غازیہ ظہیر کے سر پہ شفقت کا ہاتھ رکھا اور

 انھیں تسلی دی ۔مگر اس کی چائے اس کے ہاتھوں میں ہی

 ٹھنڈے پانی جیسی ہو گئ تھی ۔

ہیر ماہم بھی اسے کہہ کہہ کر تھک گئی تھی ۔مگر وہ سب

 ہی جانتے تھے کہ وہ اپنے باپ سے کس قدر محبت کرتی ہے ۔

اس لیے اسے زیادہ فورس (Force ) بھی نہیں کر رہے تھے 

چھے گھنٹے بعد ایمرجنسی روم کا دروازہ کھلا تھا ۔

سب سے پہلے غازیہ ظہیر ہی ان ڈاکٹرز کی طرف لپکی تھی

 جو اپنے اپنے اوور کوٹ اپنے بازوؤں پہ منتقل کیے باہر آئے تھے

میرے پاپا ٹھیک ہیں ناں ڈاکٹر صاحب غازیہ ظہیر نے

 چھوڑتے ہی سوال کیا ۔اس کے پیچھے ہیر ماہم 

کامران خان اور ان کی بیوی 

اور نسیم بیگم بھی آن رکے تھے آپ ریلکس ہو جائیں آپ کے

 والد صاحب ہوش میں آ گئے ہیں مگر ۔۔ 

مگر کیا کامران خان نے بھی سوال کیا 

وہ ابھی ابصار عالم سے ملنا چاہیتے ہیں فوری اور اپنی

 بیٹی غازیہ ظہیر سے ۔

کیا واقعی وہ خوشی سے رو پڑی مگر ابصار عالم کا نام سن

 کر ۔وہ کسی سوچ میں پڑھ گئ 

ابھی انھیں روم میں شفٹ کر دیا جائے گا اس کے بعد آپ ان

 سے مل سکتے ہیں ۔ ایک  ڈاکٹر وضاحت دیتے ہوئے آ گے بڑھ گیا 

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗۔

ابصار عالم کے پرائیویٹ نمبر پہ بار بار کال آ رہی تھی 

جو کہ داور کے پرسنل نمبر سے تھی 

ابصار عالم نے داور کے ساتھ ساتھ خرم زکی 

زیشان اور شان کو بھی منع کر دیا تھا کہ اسے کوبھی بھی

 ایمرجنسی کے علاؤہ کال نہ کی جائے ۔اور اگر ایمرجنسی ہو

 تو وہ کال اسے اس کے پرائیویٹ نمبر پہ کی جائے ۔

جی داور صاحب بولیں آپ سب ٹھیک ہے ناں جسٹس ٹھیک ہیں ناں 

داور کی کال اٹینڈ کرتے ہی اس نے تشویش سے 

جسٹس کی خیریت کا  پوچھا ۔

ابصار وہ اب ٹھیک ہے خطرے سے باہر ہے مگر کچھ اور

 ٹیسٹ ہیں جو ابھی آنے پہ ہی پتہ چلے گا۔

تمھیں ظہیر نے فوراً اپنے پاس بلایا ہے  وہ جلد از جلد آپ

 سے ملنا چاہتا ہے داور نے اسے تفصیل بتاتے ہوئے کہا ۔ٹھیک

 ہے میں آتا ہوں ۔ابصار نے کہہ کر کال بند کر دی اور گاڑی کو 

ہاسپیٹل کی جانب موڑ دیا ۔

غازیہ ظہیر اپنے والد کے روم میں شفٹ ہونے کے بعد ایک

 لمحہ ضائع کیے بغیر ان کے پاس پہنچی تھی۔

آدھی رات میں ہی وہ اتنے نچڑ سے گئے تھے۔

خون بھی بہت بہہ چکا تھا  ۔مگر صد شکر کہ جان بچ گئی تھی

پاپا  غازیہ بے تابی سے آگے بڑھی اور ان کو پکارا 

میرا بچہ انہوں نے آنکھیں زرا سی کھول کر غازیہ ظہیر

 کی طرف دیکھا اور مسکرائے ۔پاپا میں تو مر ہی جاتی اگر

 آپ کو کچھ ہو جاتا تو غازیہ ظہیر کے آنسو پھر سے بہنے لگے 

رو مت میرا بچہ میں ٹھیک ہوں وہ کافی تکلیف میں تھے 

دوائیوں کے زیر اثر بھی تھے تو ان کے حلق سے آواز بھی با 

مشکل ادا ہو رہی تھی۔

وہ اپنے پاپا کا ہاتھ پکڑ کر دیو انہ وار چوم رہی تھی 

جب ابصار عالم نے اندر انٹری دی تھی ۔ کیسے ہیں آپ اللہ

 نے آپ کو نئ زندگی دی ہے ۔میں بھی رب کا شکر گزار ہوں 

اُنہوں نے مجھے رسوا ہونے سے بچا لیا وہ بیڈ کے پاس

 کھڑے کھڑے ہی حال احوال پوچھنے لگا ۔غازیہ ظہیر کو

 دیکھنے سے وہ گریز کر رہا تھا۔غازیہ نے بھی اپنے پاپا کے

 ہاتھ چومنے چھوڑ دئے تھے ۔مگر ہاتھ یوں ہی اس کے

 دونوں ہاتھوں میں تھا ۔مگر غصہ اس کے چہرے پہ ووڈ کر

 آ یا تھا ۔

غازیہ مجھے تم سے کچھ کہنا ہے اپنے پاپا کی بات مانوں

 گی ناں ۔وہ الفاظ ٹوٹ ٹوٹ ادا کر رہے تھے ۔

غازیہ ہاتھ چھوڑ کر کھڑی ہوئی  ۔ماسک ہٹایا ہوا تھا ظہیر

 الحسن نے ان کی سانس اکھڑنے لگی تھی ۔ابصار عالم آگے 

بڑھا  اور ان کا اکسجن ماسک لگاتے ہوئے انہیں تسلی دینے 

لگا ۔غازیہ بھی آگے بڑھی مگر ابصار عالم کے ہاتھ ماسک کی 

جانب بڑھے تو غازیہ ظہیر نے بری طرح جھٹکے تھے ۔

ابصار عالم نے ایک لمحے کے لئے نظریں اوپر اٹھائیں تھیں 

جسٹس ظہیر الحسن نے آنکھیں کچھ دیر کے لیے بند کر لی

 تھیں جیسے وہ الفاظ ترتیب دے رہے ہوں ۔ابصار پیچے ہو

 گیا تھا۔پاپا آپ ٹھیک ہیں ناں غازیہ ظہیر نے اپنے پاپا کے

 ماتھے سے بال پیچھے ہٹاتے ہوئے بولی ۔رونے جی وجہ سے

 اس کا گلا بھی بیٹھ گیا تھا۔ ظہیر الحسن نے اپنے سیدھے

 ہاتھ سے ماسک دوبارہ اپنے منہ سے نیچے کیا ۔

غازی میری بچی میں ٹھیک ہوں انہوں نے اپنی بیٹی کے

 ہاتھ پہ اپنا رائٹ ہاتھ رکھتے ہوئے اسے تسلی دی۔

ابصار عالم دور کھڑا سینے پہ ہاتھ باندھے دونوں کی محبت 

دیکھ رہا تھا  ۔مجھ  س۔ے و۔ع۔ہ۔ وعدہ کرو بیٹے اپنے پاپا

 کی بات سے انکار نہیں کرو گی ناں  ۔آپ حکم کریں پاپا

 میں آپ کی ہر بات مانوں گی  ۔

تمھیں ۔ آج ہی ابصار عالم سے نکاح کرنا ہو گا ۔ غازیہ ظہیر

 تو کیا ابصار عالم بھی چونکا تھا ۔غازیہ ظہیر نے ایک بار

 پھر نفرت سے ابصار  عالم کو دیکھا تھا ۔

آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں جسٹس میں اپنی بیٹی کا ہاتھ

 تمھارے ہاتھ میں دیتا ہوں۔بیٹا ہوتا تو مجھے اتنی فکر نہ

 ہوتی۔تمھیں سب کچھ پتہ ہے اس لیے مجھے تم پہ ہی

 بھروسہ ہے انکار مت کرنا میری التجا ہے تم سے۔

پاپا   آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں میں ان سے نکاح کیسے کروں گی 

وہ ابھی کچھ اور بھی کہنے والی تھی کہ ظہیر الحسن تیز

 سانس لینے لگے ۔ابصار آگے بڑھا تیزی سے اس نے ماڈل لگایا

 اور باہر نکل گیا  ۔مگر نکلنے سے پہلے اس نے غازیہ کو بھی

 باہر آنے کا اشارہ کیا ۔وہ پہلے ریسیپشن پہ گیا وہاں سے

 ڈاکٹرز اور نرس کو جسٹس کے روم میں بھیجا ۔کیوں کہ

 نرسسز اور ڈاکٹرز کو پولیس نے منع کیا تھا اندر جانے سے ۔

نرس نے تیزی سے ان کو انجکشن لگائے اور انھیں ایک بار

 پھر زیادہ بولنے سے منع کیا ۔مگر وہ ایک جج تھا جسٹس تھا 

پولیس کو بیان دے دیا تھا انہوں نے میڈیا کا منہ بند کیا 

مگر سچائی ابھی کسی کو پتہ نہیں تھی سوائے پولیس کے 

میری مسسز کو بلا دیں فورا آپ ابھی بات نہیں کر سکتے 

ارجنٹ ہے بیٹا یا پھر میرا پیغام دے دو ان کو آپ مجھے

 بتائیں آرام سے بات کریں ٹھہر ٹھہر کر وہ لمبا سانس لیتا 

نرس کو ہدایت کرتا نرس کے باہر نکلنے سے پہلے ہی نیند کی

 آغوش میں چلا گیا۔

ماہین ( نرس) آپ میں سے مسسز ظہیر الحسن کون ہیں 

ہیر ماہم کی ماما اور پاپا بھی وہاں موجود تھے کچھ ان کے

 اور بھی جاننے والے آ چکے تھے  ۔ نرس کی آواز پہ نسیم

 بیگم کھڑی ہوئیں نرس انھیں اپنے ساتھ ایک پرائیویٹ روم

 میں لے گئیں ۔اپ یہاں آرام سے بیٹھیں میرے ہسبینڈ ٹھیک

 تو ہیں ناں جی جی وہ بلکل ٹھیک ہیں مگر ابھی تازہ زخم

 ہیں جس کی وجہ سے انھیں زیادہ بولنا الاؤ)allow) نہیں ہے ۔

ابھی بھی میں ان سے ہی مل کر آ رہی ہوں انھیں میڈیسن

 دی ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ ریلیکس ہو سکیں ۔نرس

 اپنے پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ انھیں سب تفصیل سے 

بتاتے ہوئے بولی اور پھر ایک کاغذ فولڈ کیا ہوا ان کی طرف 

بڑھایا ۔

اس میں کچھ باتیں میں نے نوٹ کی ہیں جو انہوں نے مجھ

 سے کی ہیں آپ یہ پڑھ لیں ۔

نسیم بیگم نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے وہ فولڈ کیا ہوا لفافہ تھاما 

اور وہی کھول کر پڑھنے لگیں ۔

میں ابھی زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا نسیم بیگم۔

میری ایک درخواست ہے اس پہ فوراً عمل کر دو  

غازیہ اپنی اکلوتی بیٹی ہے ۔اس کی جان کو خطرہ ہے

اور اس سے زیادہ اس کی عزت کو ۔غازیہ کا نکاح ابصار سے

 کر دو اور اسے آج ہی رخصت کر دو ۔اپنی بیٹی کا محافظ

 اس سے بڑھ کر کوئی نہیں ہو سکتا ۔الللہ نے چاہا تو میں

 ٹھیک ہو جاؤں گا  ۔ تم بھی خیال رکھنا اپنا اور باقی 

ایک بات یہ ہے کہ فخری یا جمالی میں سے یا کوئی بھی

 تمھاری مدد کو آئے تو ان سے مت لینا ۔میری جان کے دشمن

 اور مجھ پہ حملہ کروانے والے وہی ہیں ۔بس اور نہیں

 برداشت ہو رہا نیند گہری ہو رہی ہے۔

آخری الفاظ نیند میں تھے شاید ان کے  ۔

نسیم بیگم ایک مضبوط عورت تھیں ۔وہ کاغز کو فولڈ کرتیں 

اٹھیں اور کامران خان اور ان کی مسسز کوثر کے پاس گئیں

 اور سب کے سامنے ظہیر کی بات رکھی سب ہی تھوڑا

 پریشان ہوئے مگر جب ظہیر الحسن یہ چاہتے تھے 

نسیم بیگم یہ چاہتی تھیں تو پھر ان کو کیا اعتراض ہو

 سکتا تھا ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

ابصار عالم ریسپشنٹ سے بات کر کے ایس ایس پی داور کے

 پاس گیا تھا ۔ ایس پی آپ اپنے دوست جو سمجھائیں یار

 وہ کیا کہہ رہے ہیں میری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں۔ آ

 رہا ۔وہ ابھی ہاسپٹل میں ہیں ان کی حالت ابھی سنبھلی

 نہیں ہے ۔کیا وہ ڈر کر یہ سب کچھ کرنا چاہا رہے ہیں 

ابصار عالم کے کندھے پہ ہاتھ رکھا داور نے اور اسے بیٹھنے

 کا اشارہ کیا ۔وہ باہر لان میں ہی تھے وہ ایک سنگی بینچ پہ

 ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ خرم زکی بھی ان کے قریب چلا آیا 

جبکہ شان اور زیشان ابھی وہی لیٹے ہوئے تھے ۔

میں نے جب بیان لیا ہے تو اُنھیں کال کی گئ تھی فخرالدین

 اسے کال کر رہا تھا ۔ فائرنگ سے پہلے جب وہ آپ کے کڈز

 ہاؤس سے نکل رہے تھے تب کی بات داور نے انھیں بتاتے

 ہوئے کہا ۔فخری اسے راستے میں ملا تھا وہ ان کی گاڑی

 میں بیٹھا  اور انھیں سمجھانے لگا اصہفان بھی ساتھ تھا 

اسے فخری نے اتار دیا تھا کہ ہماری دوستوں کی کچھ۔

 پرسنل باتیں ہیں ۔مجھے اکیلے میں ڈسکس کرنی ہیں ۔

ظہیر الحسن نے بھی دوستی کی بنا پہ اشارہ کیا اور اسے

 پبلک پلیس پہ اتار دیا تاکہ وہ گھر چلا جائے ۔ابصار جو

 بہت توجہ سے سن رہا تھا ۔ابھی اصفہان کہاں ہے 

وہ ایک خفیہ جگہ پہ ہے کیوں کہ وہ ان کے پیچھے ہی ایک

 ٹیکسی میں تھا ۔اس کے پیچھے جمالی اور فخری کے بندے

 لگے ہوئے ہیں ۔مجھے کال کرنے والا بھی فخری ہے اور 

میڈیا پہ بھی جھوٹی خبر چلوانے والا بھی یہںی ہے۔

مگر خود سامنے نہیں آیا ۔فخری نے ہی اس پہ گولیاں چلائی ہیں 

اور چونکہ وہ زیادہ بات نہیں کر سکتا تھا تو اتنا ہی بتا پایا ہے وہ 

آخری بات جو وہ مجھ سے کر پایا ہے ابھی تک وہ یہ ہے کہ 

میں تمھیں سمجھاؤں اور وہ یہںی ہے کہ وہ چاہتے ہی۔ تم

 ہی ان کی بیٹی کا خیال رکھ سکتے ہو ۔

فخری اور جمالی کی ایک گینگ ہے بہت بڑی 

ظہیر الحسن کی جان کو ابھی بھی خطرہ ہے ۔

وہ ایک قانون پاس کرنے والا سپریم کورٹ کا جج ہے 

وہ زندہ بچ گیا تو یہ سب زندہ نہیں بچیں گے ۔

انھیں آج ہم خفیہ جگہ پہ منتقل کر دیں گے  ظہیر کی بیٹی

 اور بیوی کو بھی ہم خفیہ طور پہ چھپا سکتے ہیں۔

مگر تم جانتے ہو نوجوان بچی کی حفاظت کرنا کوئی آسان نہیں ہے 

جگہ جگہ برائی پھیلی ہوئی ہے۔

پولیس میں بہت سی کالی بھیڑیں موجود ہیں 

تم محرم بن کر لے جاؤ اسے ظہیر الحسن کو تسلی رہے گی ۔

ابصار عالم کی نظروں کے سامنے وہ نفرت بھری دو آنکھیں آ دھمکی تھیں 

وہ جو مجھ سے اتنی بدگمان ہوئیں بیٹھی ہے ۔

کیا سوچ رہے ہو بیٹا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے  ۔

انکار بھی کر سکتے ہو نہیں میں تیار ہوں ۔

وہ جلدی سے کہہ کر کھڑا ہوا اور رکا نہیں تھا 

اندر بڑھ گیا تھا ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

ہیر میں کیسے پاپا کے ہی مجرم سے شادی کر لوں ۔

غازیہ تم بہت بے وقوف ہو ۔وہ اگر مجرم ہوتا ۔انکل کیوں

 تمھیں ایک مجرم سے شادی کا کہتے کچھ تو ضرور ہے ۔جو

 ہم سے تم سے پوشیدہ ہے۔تمھارے پاپا نے سوچ سمجھ کر

 یہ بات کہی ہے تم وہی کرو جو انکل نے کہا ہے  ۔ہیر نے اسے

 سمجھاتے ہوئے اور اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولی تھی۔

ہیر ٹھیک کہہ رہی ہے بیٹا نسیم بیگم بھی آن دونوں کو 

ڈھونڈتی ہوئی وہی آ گئ تھیں ۔ماما کیا آپ سے بھی پاپا نے

 یہی کہا ہے غازیہ ظہیر ہیر ماہم  سے الگ ہوتے ہوئے بولی ۔

ہاں بیٹا وہ اس وقت بھی تمھارے لیے فکرمند ہیں ۔الللہ

 انھیں صحت عطا کرے ۔ان کی خوشی کے لیے یہ سب کر لو بیٹا 

وہ کچھ بھی بولنا چاہتی تھی مگر اپنی ماں کی آخری بات

 پہ خاموش ہو گئ ۔لیکن میری ایک درخواست ہے ماما آپ

 سب سے میں نکاح کر کے آپ اور پاپا کے ساتھ ہی رہوں گی۔

اور ابھی ہاسپٹل میں بھی میں پاپا کو ایک پل بھی اکیلا

 نہیں چھوڑوں گی ۔غازیہ ہم سب ابھی یہاں سے جا رہے ہیں 

تمھیں نکاح کے بعد کچھ باتیں بتاؤں گی ۔تم اب مزید

 پریشان نہ ہو ۔نسیم بیگم کچھ سوچتے ہوئے بولیں ۔

تمھارے پاپا ایک جج ہیں بیٹا ان کو سکیورٹی کی ضرورت ہوتی ہے 

وہ ہم لوگوں کی وجہ سے پریشان نہ ہوں اس لیے ہم یہاں

 نہیں رہ سکتے ۔چلو ہم چلتے ہیں نسیم بیگم نے اس کی

 حالت دیکھتے ہوئے اسے سب کچھ نہ بتانے کا فیصلہ کیا

 اور اسے لے کر باہر نکل گئیں  جہاں ابصار عالم کی گاڑی اور

 کچھ سکیورٹی گارڈز تھے اور کچھ پولیس کی بھی گاڑیاں

 تیار کھڑی تھیں ۔ غازیہ ظہیر نسیم بیگم اور ہیر ماہم 

یہ دونوں ابصار عالم کی گاڑی میں بیٹھے تھے ۔

غازیہ ظہیر اس وقت اتنی ٹینشن میں تھی کہ وہ یہ بھی نہ

 دیکھ سکی کہ وہ کس کی گاڑی میں بیٹھی ہے ۔اس نے اس

 وقت سر اٹھا کر دیکھا جب فرنٹ سیٹ پہ ابصار عالم

 براجمان ہوا تھا اور اس کے ساتھ شان نے سیٹ سنبھالی تھی

غازیہ ظہیر نے ایک ہی نظر ڈالی تھی اور پھر اتنی ہی تیزی

 سے اپنا رخ بدلہ تھا ۔چلیں آنٹی ابصار عالم نسیم بیگم سے مخاطب ہوا 

ہاں بیٹا چلو وہ ایک نظر پارکنگ ایریا کے سامنے کھڑی

 بلڈنگ جو کہ ہاسپٹل تھی ۔پہ نگاہ دوڑائی ابصار عالم نے

 گاڑی کو سٹارٹ کیا اور دس منٹ میں وہ اس جگہ جا

 پہنچے جہاں انھیں جانا تھا ۔یعنی کڈز ہاؤس بلڈنگ کے

 رہائشی حصے میں آئے تھے وہ باری باری سب گاڑیاں آکر

 رکی تھیں ۔ابصار عالم کا  نکاح بھی ایک حادثے کی طرح ہوا تھا 

یہ دنیا کا پہلا نکاح ہو گا باؤ جس میں پولیس بھی شامل ہے 

پولیس نسیم بیگم اور غازیہ ظہیر کی حفاظت کے لیے

 موجود تھی۔ 

تم چپ نہیں ہو سکتے شان جاؤ تم مٹھائی بانٹو تم پہ 

یہی کام اچھا لگتا ہے ۔

باس مجھ پہ تو بہت کچھ اچھا لگتا ہے وہ بھابھی کے ساتھ 

جو تیز طرار لڑکی بیٹھی ہے ناں وہ بھی میرے ساتھ ہی

 اچھی لگے گی ۔میں بتاتا ہوں اسے جا کر تم کتنے بند لفظوں میں 

اس کی تعریف کر رہے ہو ۔کیا کچھ غلط تعریف کر دی کیا میں نے 

 نہیں وہ تو تیز طرار ہے اور ایک تم ہو دنیا جہاں کے سیدھے 

آدمی آپ لڑکا بھی کہیے سکتے تھے مجھے باؤ 

شان مصنوعی منہ بناتا ہوا بولا ۔

ویسے تمھیں وہ چاہیے ناں تو وہ سامنے اس کی ماما اور

 پاپا کامران بیٹھے ہیں ۔ان کی جا کر زرا خوشامدیں کر  لے

 شاید تیرا کام بن جائے  ۔ہیر نے بھی اپنے اوپر کسی کی

 نظریں محسوس کی تھیں  ۔شان نے فوراً وہاں سے اٹھنا ہی

 مناسب سمجھا ۔

قاضی صاحب نکاح شروع کروائیں کامران خان نے آگے بڑھ کر 

قاضی سے کہا ۔جی تو آپ کا نکاح ہے وہ نائٹ سوٹ میں

 ملگجا سا ہلکی ہلکی شیو بڑھی ہوئی اور رنگت بھی آڑی

 ہوئی تھی وجہ غازیہ ظہیر کی نظر تھی جو اب بھی اسے

 نہیں دیکھ رہی تھی  وہ اپنی گود میں دونوں ہاتھ 

رکھے پنک وائٹ کرتا جو اس کا بھی ملگجا ہی لگ رہا تھا 

دونوں شوخ کلر تھے جلدی خراب ہونے والے پنک بھی اور

 وائٹ بھی وہ مرجھائی ہوئی افسردہ سی نیچے ہی سر کر

 کے بیٹھی تھی۔مرد حضرات سب لان میں تھے جب کہ ٹی

 وی لاونج میں خواتین بیٹھی تھیں ۔اور آمنے سامنے ابصار

 عالم اور غازیہ ظہیر اور اس کی دوست اور والدہ بیٹھیں

 تھیں ۔وہ مسلسل اسے ہی سوچ رہا تھا  ۔

جب قاضی نے اس سے حق مہر کی بابت پوچھا تھا ۔

مجھے دے دو اسے حق مہر میں اگر وہ قبول کرے تو 

مگر یہ الفاظ اس کے ہونٹوں پہ نہیں تھے ۔

اس کے دل کے نہاں خانوں سے نکلے تھے ۔

میرا ایک گھر ہے وہ اس کو حق مہر میں دیتا ہوں ۔

جہاں اس نے غازیہ ظہیر کو پہلی بار دیکھا تھا وہ گھر اس

 نے ہمیشہ کے لیے غازیہ ظہیر کو دے دیا ۔

نکاح ہو چکا  تو سب نے دونوں کو ڈھیروں دعائیں دیں 

اور پھر ابصار عالم نے کھانے کا اہتمام کیا تھا ۔

کیوں کہ ان کے ساتھ آنے والے تمام مہمان بھوکے پیاسے تھے 

پریشانی اب بھی ان کے چہروں پہ تھی مگر بہت سے لوگ

 سکون میں آ چکے تھے۔

غازیہ ظہیر تم نے اپنی نفرت کیا دیکھائی تم تو 

چوبیس گھنٹے سے پہلے ہی میری ہو گئ  ۔

وہ اسے دیکھ کر باہر نکل گیا جہاں سب کھانا کھا رہے تھے 

اس نے بہت سے بکرے صدقے کے بھی بانٹ دئے تھے

غازیہ ظہیر کھانا نہیں کھا رہی تھی ۔

نکاح کے بعد اسے ایک روم میں بٹھا آئے تھے 

جہاں وہ اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر مسلسل روئے جا رہی تھی 

غازیہ اور کتنا رو گی تم بس کر دو میری بچی 

ساری رات گزر گئ ہے روتے ہوئے ابھی دن بھی پورا ہونے والا ہے 

ماشاءاللہ سے ٹھیک ہیں تمھارے پاپا بس تھوڑی احتیاط

 ضروری ہے ۔ماما پاپا ٹھیک ہو جائیں گے ناں ہاں میری بچی

 وہ ٹھیک ہیں ۔آپ کیوں رو رہی ہیں وہ تو ابھی تک اپنے

 شوہر سے مل بھی نہیں پائی تھیں ۔الللہ انھیں سلامت رکھے 

نسیم بیگم نے دل میں سوچا اور ان کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں 

بہت خوب صورت گھر ہے ابصار بیٹے کا مجھے بھی لگتا ہے

 میری بچی بہت خوش رہے گی وہ بہت نیک دل لڑکا لگا ہے

 مجھے ۔تمھارے پاپا اکثر مجھ سے اس کا زکر کرتے رہے ہیں 

آپ سے ابصار عالم کا زکر پاپا کرتے رہے ہیں وہ ماتھے پہ

 پرسوچ انداز میں بل لاتی ماں کی گود سے اٹھی تھی 

ہاں بیٹا وہ مجھے بہت کچھ بتاتے ہیں جیسا کہ ابصار عالم

 ایک نہایت سلجھا ہوا شخص ہے ۔

ابصار کڈز ہاؤس میں وہ جو کچھ بھیجتے تھے اس کو

 نسیم بیگم نے دانستہ چھپا لیا کہ اب وہ اس کی بیوی ہے 

کبھی شوہر کو احساس نہ دلا دے ۔

اس نے بہت جہدوجہد کی ہے اپنے ادارے کو بنانے کے لیے 

اور اچھے انسانوں کی تو کمی ہی جیسے ہو گئ ہے 

اس ملک میں ۔دوست کون ہے دشمن کون ہے کوئی نہیں

 جان پاتا ۔ڈب رشتوں سے لحاظ اور احساس ختم ہو گیا ہے 

کچھ لوگوں کے پیٹ دولت سے نہیں بھرتے ۔

جیسے ابصار عالم کا یہ بات اس نے دل میں سوچی 

وہ جمالی پہ تانا ہوا پسٹل اور پاپا سے سنی ہوئی گفتگو

 اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی ۔اٹھ جاؤ اب تم منہ ہاتھ

 دھو لو اور کھانا کھا لو رات سے تم نے کچھ نہیں کھایا  

ہیر بچی بھی تمھارے ساتھ ہی ہلکان ہو رہی ہے۔اس کو بھی

 کھلاؤ وہ بھی بھوکی پیاسی تمھارے ساتھ ہے ۔

جی ماما مجھے یہ خیال ہی نہیں آیا کتنے سارے لوگ میرے

 ساتھ بھوکے پیاسے ہیں ۔جزاک اللہ ہیرے تم نے میرا اس

 مشکل گھڑی میں ساتھ دیا اور کوئی شکوہ تک نہیں کیا  ۔

معزز خواتین و حضرات شان دروازہ ناک کرتے اندر داخل ہوا ۔

کھانا تیار ہے ٹیبل پے لگا دیا ہے آپ سب سے گزارش ہے کہ آپ 

آجائیں اور کھانا کھا لیں ۔کامران خان تو باہر تھے مگر کوثر خان 

ان کے ساتھ ہی تھیں ۔غازیہ ظہیر بھی ان سب کا خیال

 کرتے ہوئے ۔ان کے ساتھ اٹھ گئ ۔

ابصار عالم نے اسے باہر نکلتے ہوئے دیکھا تو دل ہی دل میں

 خوش ہو گیا ۔کم از کم کھانا تو کھا لے گی کل سے کچھ

 بھی نہیں کھایا ۔ارے کھانا تو کل کا میں نے بھی نہیں کھایا۔

کیونکہ غازیہ کے گھر گاڑی بھیجنے کے بعد وہ تھانے نکل گئے تھے 

اور تھانے میں کافی ٹائم لگ گیا اس کے بعد گھر آیا تو 

تھکاوٹ فیل ہو رہی تھی لیٹتے ہی شاید نیند آ گئی تھی 

اور پھر ہاسپٹل کے چکر تو وہ آگے پھر کچھ سوچ ہی نہ سکا 

اور کچھ لوگ جو اس کے ساتھ ٹیبل پہ بیٹھے تھے ان کے

 ساتھ گپ شپ میں بزی ہو گیا  ۔

وہ کھانا کھلا کر سب سے فری ہوا تو کچھ قریبی دوست اور 

کامران خان اور کچھ ظہیر الحسن کے عزیز موجود تھے 

وہ بھی اب رخصت چاہا رہے تھے ۔

غازیہ ظہیر بھی کھانا کھانے کی کوشش کر رہی تھی ۔

ابصار عالم ان کو رخصت کر کے ڈائننگ ٹیبل پہ آن بیٹھا تھا 

نسیم بیگم بیٹا آپ نے کھانا کھایا یا سب کو کھلانے پہ لگے ہو 

نہیں آنٹی ابھی نہیں کھایا میں فریش ہو کر آرام سے

۔

 کھاؤں گا آپ کھائیں میری فکر نہ کریں ۔اس نے کن اکھیوں

 سے غازیہ کو دیکھا تھا وہ ابصار کے چئیر پہ بیٹھتے ہی

 کھانا کھانے سے ہاتھ روک چکی تھی ۔وتنہ بہت عرصے بعد 

ابصار نے سوچا کہ میں اس اپنی فیملی کے ساتھ کھانا

 کھاؤں گا ۔مگر وہ غازیہ ظہیر کے رویے کی وجہ سے یہ

 حسرت اپنے دل میں لیے وہاں سے یہ کہہ کر کہ میں فریش

 ہو کر آتا ہوں کہہ کر اٹھ گیا تھا ۔

غازیہ ظہیر نے اس پہ دوسری نظر بھی نہیں ڈالی تھی ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

شان خرم کہاں ہے اور زیشان بھی نظر نہیں آ رہا 

باؤ وہ دونوں بازار تک گئے ہیں آج کچھ بچوں کی کھانے ینے

 کے لیے چیزیں  ختم ہیں نرسری میں وہ لینے گئے ہیں آپ

 سے ملنا چاہا رہے تھے مگر ٹائم نہیں مل سکا ۔اچھا چلو

 کوئی بات نہیں باہر جاؤ اپنی بھابھی اور باقی افراد سے

 بھی پوچھو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے ۔

اچھا باؤ جی میں جاتا ہوں ابصار عالم کے چہرے کی

 سنجیدگی دیکھ کر شان بھی انھیں چھیڑنا مناسب نہ

 سمجھا ۔وہ ونڈوز سے کھڑا دیکھ رہا تھا  

غازیہ ظہیر ہیر کے کہنے پہ پھر سے کھانے کے چھوٹے چھوٹے

 نوالے لے رہی تھی ۔اسے ہیر پہ رشک ہوا کم از کم اس کی

 بات تو مان لیتی ہے ۔

باس کی کال ہے زیشان اچھا سنو تو کوئی کام ہوگا ۔

ابصار عالم وہی کھڑکی میں کھڑے ہو کر ہی خرم زکی کو

 کال کرنے لگا تھا ۔ کتنی دیر لگے گی خرم تم دونوں کو

 واپسی میں ۔کچھ ہی دیر لگے گی شاید آدھا گھنٹہ باس

 خیر تو ہے۔ہاں یہ کام نمٹا کر آؤ تو پھر بتاتا ہوں تم دونوں

 کو کہیں آج جانا ہے  ۔ابصار عالم نے اسے بتایا 

اوکے باس ہم آتے ہیں۔خرم زکی نے بھی جواب دیا اور کال

 ڈسکنٹ کر دی۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

خرم لدا پھندہ باہر نکل رہا تھا جب اس کے ساتھ کوئی

 ٹکرایا تھا ۔ایم سوری وہ اس افلاطون سے سوری کرتا نیچے 

جھکنے لگا تھا مگر اگلے ہی پل وہ اپنے گال پہ ہاتھ رکھتا 

بری طرح ٹھٹکا تھا ۔تمھاری جرآت کیسے ہوئی مجھے۔

 چھونے کی مجھے چھیڑنے کی تم پاگل ہو کیا لوگ جمع ہو گئے 

کیا ہوا آپ ٹھیک تو ہیں مس کسی منچلے نوجوان نے اسے

 مخاطب ہو کر پوچھا ۔یہ لڑکا مجھے چھیڑ رہا تھا اسی لیے

 میں نے اس کے منہ پہ چانٹا مارا تم نے بلکل ٹھیک کیا بیٹا 

ایک خاتون بھی اس کی ہمدرد بنی تھیں ۔

پاگل ہو کیا زیلیہ داور ہمارے گھر کا معاملہ ہے ہم گھر جا کر

 سلجھا لیں گے ۔وہ زیشان بھی واپس چلا آیا تھا جو وہ

 پہلے پارکنگ ایریا سے گاڑی نکالنے گیا تھا ۔

کیا ہوا بھائی دیکھ یار تیری بھابھی یہاں بھی شروع ہو گئ 

کیا تم جانتے ہو اسے جانتا بھی ہوں اور بیوی ہے یہ میری 

کیا یہ سہی کہہ رہا ہے زیلیہ داور تو اس کی اس بات کی

 ہی ہکا بکا رہ گئ تھی وہ جو اپنی انسلٹ کا بدلہ لینا چاہتی تھی 

اور بھی گڑبڑا گئ ۔وہ خرم زکی تھا مجرموں کی گردن

 توڑنے والا۔ابصار عالم کا شاگرد وہ کیسے مار کھا سکتا تھا 

وہ بھی ایک عورت زات سے ۔

آپ سب جائیں خرم پھر مخاطب ہوا ان زہنی توازن درست

 نہیں ہے ۔یہ مجھے نہ تو اپنا شوہر مانتی ہیں اور نہ ہی ان

 اپنے دیور کو پہچانتی ہیں ۔خرم نے زیشان کی جانب اشارہ کیا 

وہ اس کی طرف لپکی تھی اسے اکسا رہا تھا خرم تا کہ وہ

 کوئی ایسی حرکت کرے اور وہ اسے پاگل قرار دے دے  ۔

۔خرم نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑے آج کل کی لڑکیاں بھی

 توبہ ۔

نہ جگہ دیکھتی ہیں اور نہ ہی موقع محل ایک خاتون پان

 چباتے ہوئے ۔زیلیہ کی طرف منہ کر کے اونچا اونچا بولی 

چلو بھئی یہاں سے یہ تو واقع ہی کوئی نفسیاتی عورت

 لگتی ہے۔کچھ عورتیں کانوں کو ہاتھ لگا رہی تھیں تو کچھ

 لڑکیاں مسکرا رہی تھیں ۔ کچھ تو ہمدردی دکھا رہے تھے

 خرم کو بھی ۔وہ بہت سریس ہو کر سب کی توجہ حاصل

 کر چکا تھا ۔ 

اس نے ایک کلائی جھٹک دی اور زیشان کو اشارہ کرتا

 سامان اٹھانے کا وہ اسے لے کر گاڑی کی جانب بڑھ گیا 

مجھے میرے استاد نے عورتوں کی عزت کرنا سکھایا ہے 

وہ اس کے ہاتھوں سے اپنی کلائی چھڑواتی ہوئی غرائی تھی 

اور وہ اس سے بھی اونچی آواز میں چیخا تھا ۔

مگر ایک چیز یہ بھی سکھائی ہے کہ جس معیار کے لوگ

 ہوں انھیں اسی معیار میں سبق بھی سکھاؤں ۔

اور آج میں تمھیں سبق سکھاؤں گا ۔سمجھی اور چپ چاپ

 میرے ساتھ چلو ۔نہیں جاؤں گی میں شور مچا دوں گی ۔

وہ دو قدم پیچھے ہوئی مگر خرم نے اس کی کلائی نہیں

 چھوڑی تھی مجھے درد ہو رہا ہے ۔

عورت کو عورت کی طرح بی ہیو کرنا چاہیے ۔

میرا کوئی جرم ہوتا تو میں تم سے معافی مانگ لیتا 

تم تو خواہ مخواہ آ بیل مجھے مار والا قصہ کر رہی ہو۔

زیشان سارا سامان گاڑی میں رکھ کر ڈرائونگ سیٹ پہ آن

 بیٹھا ۔

بھائی باؤ جی کی کال آ رہی ہے ہاں چلو سٹارٹ کرو گاڑی 

بیٹھو تم اندر جلدی سے میں نہیں بیٹھوں گی 

بچاؤ بچاؤ مجھے کوئی بچاؤ یہ غنڈے ہیں مجھے اغواء کر

 رہے ہیں ۔وہ چیخنے چلانے لگی ۔

خرم نے سیل فون نکالا اور ایک نمبر ڈائل کیا ۔

جلدی آئیں پلیز وہ اس کے منہ پہ ہاتھ رکھتا ہوا 

خاموش کروانے کی کوشش کرنے لگا۔

مگر زیلیہ نے اس کے ہاتھ پہ کاٹ لیا خرم نے ہاتھ یکدم

 پیچھے ہٹایا ۔گاڑی آ گئ تھی کہاں ہیں پیشنٹ ۔

چلو پکڑ لو اسے یہ ک۔ک۔ککک۔کیا کر رہے ہو تم سب 

پاگل نہیں ہوں چھوڑو مجھے ۔ہر پاگل یہی کہتا ہے کہ میں

 پاگل نہیں ہوں خرم نے اس کے کان کے قریب جا کر کہا 

اور خود گاڑی میں بیٹھ گیا ۔واہ بھائی کیا کام کیا ہے 

اسے پاگل خانے بھیج دیا اس کی جگہ ہی وہی ہے 

اچھا ہوا میں نے اسے پہچان لیا ورنہ آج یہ میری بہت بے

 عزتی کروانے والی تھی ۔پاگل لڑکی جیسے میں کسی دشت

 (صحرا)

 میں رہتا ہوں وہ زیشان کو سناتے ہوئے بولا ۔

جلدی چلو باس بھی پریشان ہو جائیں گے ۔

ویسے بہت ہی گھٹیا طریقہ اختیار کیا ہے اس لڑکی نے 

خرم کا غصہ بھی کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا 

اس کا وہ بلا وجہ کا تھپڑ کی گونج اور تپش ابھی بھی اسے

 محسوس ہو رہی تھی ۔امید ہے آ ئینہ میرے سامنے نہیں آئے گی ۔

بھائی وہ تو اسے واقعی ہی شارٹ دے کر پاگل ہی کر دیں گے 

زیشان میں انسانیت پھڑپھڑائی تھی 

لگنے دے اسے ایک دو شارٹ ڈاکٹر صاحب کو بعد میں کال

 کر کے کہہ دوں گا اسے چھوڑ دے اور مجھ سے معافی

 مانگے گی تو ہی معاف کروں گا ورنہ رہے وہ پاگل خانے ہی 

خرم زکی کو ہمیشہ یاد تو رکھے گی ۔

اور دونوں بارہ گھنٹوں میں پہلی بار مسکرا رہے تھے ۔

کیونکہ ابصار عالم اور ان سب پہ نشر ہونے والی وہ خبر 

سب کو پریشان کر گئ تھی ۔

وہ دونوں  گاڑی میں ہلکی پھلکی موسیقی سے لطف اندوز ہوتے 

ابصار کڈز ہاؤس نکل گئے ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

پوری نفری تیار ہے سر ایس ایس پی داور ہاسپٹل کے روم

 کے باہر ہی بیٹھے تھے ظہیر الحسن اس کے بہت اچھے

 دوست بھی تھے ۔اور ایک پولیس آفیسر ہونے کے ناتے 

اپنی ڈیوٹی بھی پوری ایمانداری سے نبھاتے آئے تھے  ۔

پولیس کے محکمے میں ہونے کی وجہ سے وہ جانتے تھے کہ 

جسٹس ظہیر الحسن کے ساتھ وہ کیا کیا کر سکتے تھے 

اور اوپر سے سخت ترین آرڈرز بھی تھے ۔

جج صاحبان بھی کورٹ میں ہڑتال کا اعلان کر چکے تھے 

ابھی تو بارہ گھنٹے ہی بیتے تھے ۔

اس لیے انھیں کسی ایسی جگہ پہ لے جانا ضروری تھا جہاں

 ان کی جان کی حفاظت کی جا سکے ۔اور یہ سب کچھ داور

 اپنی زیر نگرانی کروا رہے تھے ۔

ڈاکٹرز ریڈی ہیں جی سر سب ریڈی ہے اوکے گو 

وہ اس انسپکٹر کے ہمراہ ظہیر الحسن کو لے کر ایمبولینس 

میں لے جانے لگے ایمبولینس میں بھی داور ڈاکٹرز اور اپنے ساتھی 

پولیس اہلکاروں کے ساتھ موجود تھے ۔

وہ کمال مہارت سے انھیں لے کر خفیہ جگہ پہ پہنچے تھے 

فخری بھی آرام سکون سے نہیں بیٹھا تھا ۔

ایمبولینس پہ فائزنگ شروع ہو گئ تھی  

سٹریچر پہ لیٹے وہ چند پولیس اہلکار چونکنے ہوئے 

ڈرائیور بھی پولیس کا ہی آدمی تھا  ۔

بلٹ پروف گاڑی استعمال کی تھی انہوں نے 

اور اسے پہلے پلان کے مطابق روانہ کر دیا تھا جبکہ وہ عام

 ایمبولینس میں دوسرے راستے سے اپنے مقام پہ پہنچ چکے تھے ۔

دشمن سمجھا تھا اس گاڑی میں جسٹس ظہیر الحسن کو لے

 کر جا رہے ہیں مگر وہ ان کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں تھا 

پولیس نے انھیں گھیر لیا تھا اور اپنے ساتھ تھانے کے گے 

داور ایس ایس پی کو ساری صورتحال سے آگاہ کرتا وہ

 پولیس آفیسر کال ڈسکنٹ کر گیا ۔

داور نے فخری کو کال ملائی تم سب اتنے گھٹیا ہو سکتے ہو

 یہ میں نے بھی کبھی نہیں سوچا تھا ۔فخری نے کال اٹینڈ

 کی تھی کہ کوئی خوشخبری ہو گی مگر وہ تو اس کی

 انسلٹ کر کے کا ڈسکنٹ کر گیا تھا ۔

اب ظہیر الحسن محفوظ ہے انشاللہ وہ اس آدمی کو دیکھتا

 ہوا بولا جو بہت ساری پٹیوں میں جکڑا پڑا تھا ۔

ابھی کل کی ہی بات ہے جب وہ اپنی کرسی پہ براجمان 

آرڈرز دے رہا تھا ۔

اور آج یہاں بے بس پڑا ہے 

واہ انسان تیری بھی کیا عجیب کہانی ہے ۔اپنی مرضی سے

 نہ سوتا ہے نہ جاگتا ہے ۔نہ روتا ہے نہ ہنستا ہے 

نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے 

اس کی نظر خوراک لگی نالیوں پہ پڑی تھی ۔

اور اللہ کو یاد کر کے اس کی آنکھیں بھی بھر آئیں تھیں۔

داور کے نمبر پہ بیگم داور کی کال آ رہی تھی ۔۔

وہ کال ریسیو کرتا باہر نکل آیا تاکہ اس کی آواز سے ظہیر

 الحسن ڈسٹرب نہ ہو ۔

جی بیگم صاحبہ اداس تو نہیں ہو گئیں آپ میں رات سے

 غائب ہوں  ۔کیا ہوا خاموش کیوں ہو داور پاگل خانے سے

 کال آئی ہے حلیمہ خاتون نے بتایا ۔زیلیہ کی کککککک کیا پاااااگل خانہ وہ بہت

 زیادہ گھبرا گیا ۔۔

جی وہ پاگ خانے ہے انہوں نے تھوک نگلتے ہوئے ایس اسی پی کو بتایا ۔

اس کے مزید ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ۔وہ وہاں کیا کر رہی ہے 

وہ پاگل ہو گئ ہے اس نے کسی کے ساتھ جھگڑا کیا اور 

انہوں نے اسے پاگل کہہ کر پاگل خانے والوں کو بلوا کر 

اسے ان کے ساتھ بھیج دیا اس کی گاڑی حیدری مارکیٹ

۔

 میں کھڑی ہے وہ ایک ہی سانس میں سب کچھ بتاتی چلی گئ 

میں نے کہا تھا ناں یہ لڑکی کوئی نہ کوئی کام ضرور کرے

 گی پتہ نہیں یہ کس مخلوق کی اولاد ہے ۔

وہ بیگم صاحبہ کو تسلی دیتا کال ڈسکنٹ کرتا 

پاگل خانے بھاگا تھا 

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

شان ابصار عالم شاور لے کر تازہ دم ہو چکے تھے ۔

وائٹ شلوار قمیض پہنے وہ کسی حد تک ترو تازہ سا لگ رہا تھا ۔

باہر آ کر اس نے شان کو آواز دی وہ سب اب ٹی وی لاونج

 میں بیٹھے تھے ۔نسیم بیگم ظہیر الحسن کے پاس جا چکی

 تھیں غازیہ ظہیر بھی ضد کر رہی تھی مگر نسیم بیگم نے

 اسے سختی سے منع کر دیا ۔ہیر بھی اپنے پاپا سور ماما کے

 ساتھ بعد میں آنے کہہ کر جا چکی تھی کیوں کہ وہ کل سے

 ہی ایک ہی سوٹ میں تھی اور یہاں بھی کوئی کپڑے نہیں تھے 

اس لیے وہ چلی گئ تھی ۔

ورنہ اس کا بھی دل اپنی دوست کو چھوڑ کر جانے کو نہیں

 کر رہا تھا ۔غازیہ اکیلا پن محسوس کر رہی تھی مگر شان

کڈز ہاؤس سے کچھ لڑکیاں بلا لایا تھا جو اس کے ساتھ اسے

 کمپنی دیں سکیں ۔

وہ سب کے درمیان بھی چپ چاپ اکیلی بیٹھی ہوئی تھی ۔

اسلام وعلیکم ( باؤ جی ) سب لڑکیاں ادب سے کھڑی ہوتیں 

ابصار عالم کو سلام کرنے لگیں ۔

وعلیکم السلام جیتے رہو میرے بچو 

خوش رہو وہ ہمیشہ ہی ایسے ہی سب کو مخاطب کرتا 

اتنے ہی پیار سے عزت سے مان سے ۔شان بھی ایک سائیڈ سے

 نکل کر سامنے آیا غازیہ ظہیر کے ماتھے پہ تیوریاں آئیں

 تھیں ۔باؤ جی آپ کی شادی ہو گئ ہے ۔اب ہم انھیں کیا

 بلائیں ۔کیا کہہ کر پکاریں ۔

ایک لڑکی نے معصومیت سے سوال کیا وہ لگ بھگ چودہ یا

 پندرہ سال کی ہی کم عمر بچیاں تھیں ۔ آپ سب انھیں

 بھابھی کہہ سکتی ہیں ۔ابصار عالم کو ساتھ ہی ایک

 شرارت سوجھی آپ ان کو آنٹی بھی کہہ سکتی ہیں۔

انھیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا ۔

کیوں اعتراض نہیں ہو گا میں کیا آنٹی لگتی ہوں ۔

خبردار جو مجھے کسی نے آنٹی کہا بلکہ مجھے کسی نے

 بھابھی بھی نہیں کہنا میرا نام غازیہ ظہیر ہے مجھے سب

 نام سے بلائیں ۔غازیہ نے ان کی طرف اپنی شہادت کی انگلی گھماتے ہوئے بولا ۔

ابصار عالم بھی سامنے والے ہی صوفے پہ سر ٹکاتے بیٹھ گیا تھا 

وہ اس کی بات پہ مسکرایا جو وہ جو چاہتا تھا وہ کامیاب ہو گیا تھا 

وہ بہت دیر سے خاموش تھی اسے بولتے ہوئے سننا تھا

 ابصار کو اور وہ بول بھی رہی تھی بلکل پہلے والی غازیہ

 ظہیر بن کر ۔

جی باؤ آپ مجھے بلا رہے تھے چائے بنا دو مجھے 

باؤ ہم بنا دیں لڑکیاں تیار ہوئیں تھیں وہ ابصار عالم کی

 خدمت میں اسی طرح ہمہ وقت تیار رہتی تھیں مگر 

ابصار عالم سارے کام خود کرتا تھا اپنے 

سوائے کھانے کے اور چائے بنانے کے نہیں میرے بچے آپ لوگ

 مہمان ہو سور ابھی چھوٹی چھوٹی سی بھی ہو ۔

ہاں البتہ آپ لوگوں کی بھابھی بنا دیں تو ضرور پیوں گا 

غازیہ ظہیر نے آنکھیں دکھائیں ابصار عالم کو جبکہ وہ بچیاں 

غازیہ ظہیر کی منتیں کرنے لگیں اسے مجبوراً اٹھنا ہی پڑا

 مگر وہ پھر فوراً بیٹھ گئ مجھے چائے نہیں بنانی آتی میں

 نے کبھی نہیں بنائی ۔بھابھی ہم آپ کو سکھا دیں گی 

کیا تم لوگوں کو چائے بنانی آتی ہے ۔

آف کورس آتی ہے ۔

باؤ باقاعدہ کمپیٹیشن کرواتے ہیں ہر چیز کا 

تعلیم کے ساتھ ساتھ سلیقہ بھی سکھاتے ہیں 

وہ انھیں لے کر کچن میں چلی گئ ۔

غازیہ ظہیر کو پہلی بار نہ جانے کیوں احساس ہوا کہ اسے

 بھی چائے تو بنانی آنی چاہیے تھی ۔

ابصار نے بھی مزید اسے تنگ کرنا مناسب نہ سمجھا ہاں

 البتہ  ۔شان کی بات اس نے سن لی تھی باؤ آپ نے کل سے

 کچھ بھی نہیں کھایا پہلے کھانا کھا لیں بعد میں چائے پینا 

غازیہ ظہیر کو بھی ایک لمحے کے لیے احساس ہوا کہ 

وہ آج کم از کم صرف اس کی فیملی کے لیے بھوکا رہا ہے 

اس نے طاہرہ نامی لڑکی کو کھانا گرم کر کے دیا 

اور باہر بھجوا دیا اچھا تو میرے بچوں نے شان کی بات سن

 لی تھیں ۔اور یہ بھابھی نے بھجوایا ہے غازیہ کے منع کرنے

 کے باوجود بھی طاہرہ نے سچ بتا دیا تھا ۔

وہ دانت میچتی سائیڈ پہ کھڑی منزہ کو چائے بناتے دیکھ رہی تھی ۔

ابصار عالم بھی چپ چاپ بیٹھ کر کھانا کھانے لگا 

ابھی اسے محسوس ہوا کہ واقعی ہی اسے بھوک لگ رہی تھی

ایس ایس پی داور مینٹل ہاسپٹل پہنچا تھا ۔ایس ایس پی

 خیر تو ہے اتنی رات گئے آپ ہمارے پاس آئے ہیں ۔میری

 بیٹی کو آپ لے آئیں ہیں ۔کسی نے شرارت کر کے آپ کو 

کال کر دی اور آپ نے اس کی بات ہی نہیں سنی 

کیا لوگوں کی پہچان نہیں ہے آپ کو۔معاف کیجیے گا ایس

 ایس پی داور صاحب ہمیں جس شخص نے کال کی وہ

 سلجھے ہوئے لوگ ہیں ۔اور  آپ کی بیٹی پبلک پلیس پہ 

جس طرح چیخ رہی تھی چلا رہی تھی اس سے ہمیں بھی

 یہی لگا ۔شٹ آپ ڈاکٹر بلاؤ میری بیٹی کو جی جی ضرور 

داور تھوڑا غصہ ہوا تو ڈاکٹر بھی خاموش ہو گیا۔

کال کر زیلیہ داور کو بلانے کا کہا ۔

پاپا اس نے  اندر آتے ہی باپ کو آواز دی۔

شکریہ ڈاکٹر صاحب ہم چلتے ہیں ۔داور نے اٹھتے ہوئے ڈاکٹر

 سے اجازت لی مگر اپنی بیٹی کو اگنور کر دیا ۔زیلیہ نے

 غصہ سے ڈاکٹر کو دیکھا اور باہر نکل گئ آپنے پاپا کے ہمراہ ۔

وہ پولیس کی گاڑی میں ہی تھے کیونکہ کہ وہ گںھر سے 

نہیں آئے تھے ڈیوٹی سے آئے تھے  ۔کچھ پولیس اہلکار بھی

 ساتھ تھے ۔وہ جتنا سخت خلاف تھے اس بات کے کہ اس

 کی بیٹی کو لوگ میرے حوالے سے نہ پہچانے 

وہ یوں بے پردگی کے ساتھ کسی کے سامنے نہ آیا کرے 

انہوں نے کبھی اس پہ روک ٹوک بے جا سختی نہیں کی تھی 

مگر اسے اتنی بھی آزادی راس نہیں آئی تھی ۔وہ دن بدن

 خود سر منہ پھٹ بدتمیز ہوتی جا رہی تھی ۔

داور نے بھی خاموشی اختیار کی ہوئی تھی۔اور ابھی زیلیہ

 میں بھی ہمت نہیں ہو رہی تھی ان سے بات کرنے کی اسے 

شرمندگی بھی ہوئی کہ اس کا باپ تھکا ہارا ڈیوٹی سے 

واپس گھر آرام کرنے کی بجائے اس کے پیچھے خوار ہو رہا ہے

مگر وہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے خرم زکی پہ ہی

 ہاتھ 

صاف کرنے کا سوچنے لگی ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

آ گئے تم دونوں وہ کھانا کھا کر فری ہی ہوا تھا جب زیشان

 اور خرم زکی کڈز ہاؤس سے رہائشی حصے میں آئے تھے ۔

تم دونوں نے کھانا کھا لیا وہ کسی باپ کی طرح فکر مندی

 سے دونوں کی طرف منہ کر کے بولا۔جی باؤ کھا لیا 

سٹڈی روم میں چلو میں وہی آتا ہوں ۔چائے وہی لے گا شان 

جی باؤ ضرور شان نے بھی تابعداری دیکھائی ۔

وہ دونوں اٹھ کر بیک پہ بنی اسٹڈی روم کی جانب بڑھ گئے ۔

غازیہ ظہیر ابھی بھی کچن میں رکھے ڈائیٹنگ ٹیبل پہ بیٹھی 

ان بچیوں سے ادھر ادھر کی باتیں سن رہی تھی 

خود تو وہ دور کہیں اپنے پاپا کے اس تھی ۔

وہ ابھی سے اداس ہو رہی تھی چند گھنٹوں میں ہی اپنی

 ماں اور باپ دونوں کے لیے ۔مگر حالات ایسے تھے ۔

جس کی وجہ سے اسے چپ ہی بہتر لگی تھی ۔

مگر  ابصار عالم کے چند الفاظ پہ اس کے کان کھڑے ہوئے تھے ۔

تم چلو اسٹڈی روم میں میں بھی وہی آتا ہوں ۔یہاں بچوں

 کے سامنے بات کرنا ٹھیک نہیں ہے ۔

ان باتوں نے اسے چوکنا کیا تھا ۔مجھے آنکھیں بند کر کے

 یہاں نہیں رہینا چاہیے مجھے آنکھیں۔ کان ناک بلکہ اپنی ہر 

اک حس کو بیدار رکھنا ہو گا ۔مجھے جاننا ہو گا کہ آخر ہر 

راز کے پیچھے کیا چھپا ہے ۔

اس خوبصورت ترین آدمی کے پیچھے کون ہے ۔

ایک شیطان  ۔یا ایک مسیحا میرے پاپا پہ قاتلانہ حملہ کس نے 

کیا ہے ۔میں بیٹی ہوں تو کیا اپنے ماں باپ کے لیے کچھ

 نہیں کر سکتی ۔نہیں میں بھی بہت کچھ کر سکتی ہوں ۔

مجھے اپنے سامنے سچائی کو خود ہی لانا ہو گا ۔

وہ سوچتی ہوئی اپنے زہن کو کسی پلان کے مطابق تیار کر رہی تھی ۔

یعنی پلان ترتیب دے رہی تھی ۔

سنو تم سب سب اپنے اپنے روم میں جاؤ مطلب اپنے گھر جاو

میں تھک گئ ہوں سونا چاہتی ہوں ۔

ٹھیک ہے بھابھی آپ بہت پیاری ہیں آپ دونوں کی جوڑی

 سلامت رہے ہمیشہ سب نے باری باری اسے پیار کیا اور اپنے

 ساتھ والے اپارٹمنٹ میں چلی گئیں ۔

غازیہ ظہیر انھیں جاتا دیکھتی رہی اور پھر شان کو کہہ کر 

وہ ابصار عالم کے روم میں چلی گئی ۔

شان جب چائے لے کر اسٹڈی روم میں گیا تو وہ بھی کھڑکی

 سے ہٹ کر اس کے پیچھے دبے قدموں گئ تھی ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

خرم ہمارے پلان کے مطابق آج ہمیں وہاں پہنچنا ہے ۔

کیوں کہ ابھی لوہا گرم ہے ابھی سے چوٹ لگانا ضروری ہے 

اس سے پہلے کہ سب چوکنے ہو جائیں ہمیں اس موقع کا

 فائدہ اٹھانا چاہیے ۔داور بھی وہاں پہنچ جائے گا اسے بھی

 ساری صورتحال کا پتہ ہے جمالی ابھی اندر ہے اور فخری

ابھی اکیلا ہے ۔جسٹس کو بھی ٹکانے لگا دیا ہے ۔

غازیہ ظہیر نے منہ پہ ہاتھ رکھا تھا۔

حیرت سے اور صدمے سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہے گیا تھا 

اچھا تو میں سہی تھی وہ سسکی تھی ۔

مگر دروازے سے  نہیں ہٹی تھی ۔ سوچ غازیہ ظہیر تمھیں

 ان غنڈوں کے چنگل سے کیسے نکنا ہے ۔

ابصار عالم ایک لمحے کے لیے چپ ہوا اور پھر گویا ہوا ۔

اپنی تحقیق کے مطابق وہ بلیک منی وہی ہونی چاہیے ۔

اور اسے آج ہر حالت میں اپنی تحویل میں لینا ہوگا ۔

اب چلو گاڑیاں تیار کرو اور شان تم یہی رہو گے ۔

غازیہ اکیلی ہیں ۔اس پہ نظر بھی رکھنا وہ بہت جزباتی ہیں ۔

ابصار عالم نے کسی اور لحاظ سے کہا تھا مگر غازیہ ظہیر

 اسے بھی غلط رنگ دے رہی تھی وہ وہاں سے ہٹ گئ تھی۔

وہ تیزی سے اپنے روم میں آئی تھی اسے ابھی کرنا تھا جو

 بھی کرنا تھا ۔وہ سوچتے ہوئے پہلے ٹہلنے لگی مگر بعد میں

 کمبل اوڑھ کر سوتی بن گئ  ۔

قدموں کی آواز اس کے قریب آ کر رکی تھی ۔وہ سوتی بن گئ 

ابصار عالم نے ڈراز سے پسٹل نکالا اسے اپنی مطلوبہ جگہ پہ

 رکھا ۔اور پھر بیڈ کی سائیڈ سے گھوم کر دوسری سائیڈ پہ

 آیا  ۔جہاں غازیہ ظہیر کمبل سر تک تان کر سو رہی تھی ۔

اس نے بہت آہستگی سے کمبل سر سے ہٹایا ۔

چند لمحے اسے دیکھتا رہا ۔اس کے کافی کلر کے جیسے بال

 بہت خوب صورت لگ رہے تھے ۔ ابصار عالم کو اس پہ بہت

 پیار آیا ۔آج اپنا پلان کینسل کرنے کو چاہتا ہے ۔

اس نے ماتھے پہ آئے ننھے سے پانی کے قطرے کو انگھوٹھے

 سے صاف کیا ۔اور اپنے بلیک سلکی بالوں میں انگلیاں

 پھنساتا ۔بے اختیار اس پہ جھکا تھا ۔زرا سے ہونٹ 

اس کے لبوں پہ رکھے تھے ۔مگر اگلے ہی پل غازیہ ظہیر سارا

 ڈرامہ بھول چکی تھی اس نے دونوں ہاتھ ابصار عالم کے

 سینے پہ رکھے اور منہ دوسری سائیڈ پہ کرتی اٹھنے لگی تھی ۔

ابصار نے اس کی حرکت پہ اپنا ہاتھ تکیہ سے ہٹا لیا تھا 

ایم سوری غازیہ میں سمجھا تم سو رہی ہو ۔وہ بلاوجہ۔

 شرمندہ ہوا ۔اور تم نے سوچا میں اس کے سونے سے فائدہ

 اٹھا لوں  ۔کیوں بلاوجہ غصہ کر رہی ہو غازیہ میں بس

 تمھیں اپنا محرم سمجھ کر ہی قریب ہوا اور ایسا بھی میں

 نے کوئی ظلم نہیں۔ کیا میں نے۔وہ کول سا بندہ ابھی بھی

 کول ہی رہا ۔تم نے جو سمجھنا ہے سمجھو میں اس

 زبردستی کے رشتے کو نہیں مانتی ۔تمھارے پھینکے ہوئے

 جال میں ۔ میں آ تو گئ ہوں مگر مجھے اسے کترنا بھی آتا ہے 

میں اپنی حفاظت کرنا جانتی ہوں اور اپنے والدین کی بھی ۔

غازیہ ظہیر کبھی اپنا عقل بھی استعمال کر لیا کرو ۔

اتنا ہی آج مجھے سناؤ جتنا تم کل کو سن سکو ۔

اچھے برے میں پہچان کی صلاحیت پیدا کرو خود میں 

اپنے اور بیگانوں میں فرق کرنا سیکھو ۔

میں ابھی جا رہا ہوں آرام سے سو جاؤ ۔کل بات کریں گے ۔

اور ایک بات اپنا دماغ میں بٹھا لو ۔ابصار عالم کا جیسا ظاہر ہے 

ویسا ہی باطن ہے ۔آزما لو اور یہ گاڑی کی چابی ہے ۔

اور اکیلی مت جانا کہیں بھی ٹائیگر کو بول دینا مجھے

 بتائے بغیر تمھیں کہیں بھی لے جائے گا۔ میرے ہاتھ صاف

 ہیں ۔یہ دیکھ لو اس نے اپنے ہاتھ غازیہ ظہیر کے سامنے کیے ۔

اور پھر باہر چلا گیا ۔ہاتھ صاف سے مراد اس کی یہ تھی کہ

 میں نے کوئی جرم نہیں۔ کیا ۔کبھی کوئی خون خرابا نہیں کیا 

غازیہ ظہیر اس سے الجھنا نہیں چاہتی غ مگر اس کی ۔

 آخری بات پہ اور چابی دینے پہ ٹھٹھکی ضرور تھی ۔کہیں

 انھیں پتہ تو نہیں چل گیا ۔اونہہ جیسے میں اسی کی کہنے

 پہ تو چلوں گی آیا بڑا مجھے سمجھانے والا ۔

وہ سر کو جھٹکا دیتی ڈریسنگ کے سامنے آئی اپنی شرٹ کو

 کھینچ تان کر سیدھا کیا ۔کچن میں آئی خان کچن میں ہی تھا 

کام والی اپنے کوارٹر میں جا چکی تھیں ۔

شان اپنے لیے کافی بنا رہا تھا بھابھی آپ سوئیں نہیں ابھی

 تک ۔شان بھائی میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے ۔

کوئی گولی ہے تو مجھے دے دو اچھا میں لے کر آتا ہوں۔ 

وہ جیسے ہی باہر نکلا غازیہ ظہیر نے اپنی مٹھی میں پکڑی 

ٹیبلیٹ جو کہ سلیپنگ پلز تھیں ابصار عالم کے روم سے ملی

 تھیں اسے ۔ظہیر الحسن بھی یہ ہی یوز کرتے تھے ۔ کبھی

 کبھی ابصار عالم کو بھی ضرورت پڑھ جاتی تھی ۔

ورنہ وہ سوتا ہی کتنا تھا ۔اس کی نیند دس منٹ میں پوری

 ہو جاتی تھی ۔جتنی محنت اس نے کی تھی اسے عادت ہو۔

 گئ تھی نہ تھکنے کی وہ گوشت پوست کا بنا ہوا ایک نرم

 پتھر تھا۔کیوں کہ اس کا دل سخت نہیں ہوا تھا ۔

وہ دوبارہ اپنی جگہ پہ آن کھڑی ہوئی  ۔شان بھی ٹیبلیٹ لے آیا 

یہ لیں  ٹیبلیٹ آپ لے لیں اور آپ کافی پئیں گی ۔نہیں

 مجھے پھر نیند نہیں آ ئے گی ۔غازیہ ظہیر نے انکار میں سر

 ہلایا اور اپنے روم میں جا کھڑی ہوئی قد آور کھڑکی میں

 لاونج کی تمام ایکٹویز نظر آتی تھیں۔شان کا اور دیگر کا وہ 

بڑا سا بیڈ روم جس میں بہت سارے صوفے رکھے ہوئے تھے 

وہ عام صوفے نہیں تھے وہ رات کو بیڈ کا کام دیتے اور دن

 کو سٹنگ روم کا  وہ ڈرائنگ روم بھی تھا  ۔

بہت جدید طرز پہ بنا ہوا وہ گھر کسی کی شاندار  

چوائس کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔

غازیہ ظہیر نے شان کو اپنے روم جاتے دیکھا اور خود اپنی

 چادر ٹھیک کرتی ۔ابصار عالم کی دی ہوئی چابی اٹھاتی باہر

 نکلی تھی ۔مگر وہاں کافی سخت پہرہ دیکھ کر وہ چونکہ

 تھی۔یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا  ۔وہ مایوس واپس

 پلٹنے لگی تھی جب ایک دیو ہیکل جیسا شخص اس کے

 سامنے آیا وہ ڈر کر پیچھے ہٹی تھی اس کی آنکھیں ہی نظر

 آ رہی تھیں باقی وہ ایک نیب کے جیسا ماسک لگائے ہوئے تھا 

اس کی ہائیٹ بہت بڑی ہونے کی وجہ سے غازیہ ظہیر کو وہ

 کوئی جن بھوت جیسا لگا تھا۔بھابھی آپ کو کوئی کام ہے

 تو میں آپ کو لے چلتا ہوں اس کی آواز بھی دھاڑ تے ہوئے 

ہوئے کسی ٹائیگر جیسی ہی تھی ۔کہاں لے جائیں گے مجھے

 جہاں آپ کہیں گی ۔باس کا حکم ہے کہ آپ اکیلی کہیں

 نہیں جا سکتیں ۔یہ باس بھی کوئی بلا ہے مجھے تو لگتا ہے ۔ 

وہ بڑبڑاتی کچھ سوچتے اس کے ساتھ باہر نکل گئ۔

یہ جانے بغیر کہ اسے جانا کہاں تھا ۔

آپ کا نام کیا ہے ٹائیگر  ۔ٹائیگر نے بلکل سیدھ ؟یں دیکھتے ہوئے جواب دیا ۔

ٹائیگر بھی کوئی نام ہوتا ہے ۔

یہ تو جانوروں کا نام ہوتا ہے ۔مجھے باؤ ٹائیگر کہتے ہیں ۔

تب سے ہر کوئی ٹائیگر کہتا ہے ۔اوع مجھے بھی اب یہ نام پسند ہے 

تبھی ٹائیگر جیسی کھال پہنی ہے ۔وہ خاموش ہو گیا ۔

اس نے ادب سے سر جھکایا ۔غازیہ ظہیر کے سامنے نہیں 

ابصار عالم کے سامنے ۔

💓💗⁦❤️⁩💓💗⁦❤️⁩💗💓💗⁦❤️⁩💗💓💗⁦❤️⁩💗💓💗

باؤ وہاں کتنا خطرہ ہو سکتا ہے آپ نے بھابھی کو کیوں 

آنے کی اجازت دی ۔

خرم زکی اور ابصار عالم کچھ سکیورٹی کے ساتھ ایک گاڑی

 میں موجود تھے ۔جبکہ دو اور بھی گاڑیاں  ان کے ہمراہ

 موجود تھیں ۔ایک آگے اور ایک پیچھے تھی ۔

ابصار عالم کی گاڑی میں جو سسٹم لگا ہوا تھا وہ تقریباً 

ہر ایک گاڑی میں موجود تھا اس کے اندر لگا وہ سسٹم 

سے وہ سب کچھ جان جاتا تھا جیسا کہ اس گاڑی میں کیا

 ہو رہا ہے ۔اس کے تمام لوکیشن اس میں موجود تمام 

سکیورٹی گارڈز کی چیکنگ ان کی ایکٹیویٹیز (activities)

ان کے پاس کون آ رہا ہے کون جا رہا ہے وہ کس سے مل رہے

 ہیں ۔ اپنا کام کیسے انجام دے رہے ہیں ۔وہ سب کچھ ابصار

 عالم اپنی گاڑی میں لگے اس لیپ ٹاپ کی اسکرین پہ دیکھ

 سکتے تھے ۔اور یہ بات بے حد خفیہ تھی سوائے چند خاص 

لوگوں کے ۔جس میں خرم زکی۔ زیشان ۔شان ۔اور ٹائیگر

 شامل تھا ۔اس کے گھر سے لے کر گاڑی تک اور صرف یہ ہی

 نہیں اس کے ادارے کڈز ہاؤس میں بھی یہ سسٹم تھا ۔

اور کچھ ایسے سائرن بھی نسب تھے  جس سے اگر کوئی 

خطرہ لاحق ہو تو وہ سب تو کیا پورا محلہ الرٹ ہو سکتا

 تھا۔ غازیہ ظہیر جب سب بچیوں کو بھیج کر ابصار عالم۔

 کے روم میں گئ اسی وقت اسٹڈی روم میں لیپ ٹاپ آن تھا 

غازیہ ظہیر شان کے جانے کا ویٹ کرتے کرتے ۔خود کو بھی

 تیار کر چکی تھی۔جیسے ہی شان چائے کی ٹرے لے کر وہاں

 پہنچا ۔اس کے پیچھے ہی غازیہ ظہیر لپکی تھی۔

ابصار عالم جو اسے پہلے ونڈو میں پرسوچ نظروں سے 

شان کو دیکھتے ہوئے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا ۔

اس کا اسٹڈی روم کی طرف آنا کھٹکا تھا۔ اور جیسے وہ 

باہر آ کر کان لگا کر گیٹ پہ رکی تھی ۔ابصار عالم کی چھٹی

 حس بیدار ہوئی تھی ۔اس لیے اس نے اشارے کنایوں میں

 بات ختم کی اور پھر ان سب کو جانے کا کہا ۔وہ نظریں

 لیپ ٹاپ پہ جمائے ہوئے اس کے تیز تیز قدم اٹھاتا دیکھتا رہا 

وہ جب میں روم میں آئی اس سے لے کر کمبل اوڑھنے تک وہ 

اسے دیکھتا رہا ۔

اور پھر وہ ایک فیصلہ کرتے ہوئے اٹھا ۔اور ٹائیگر کے پاس گیا 

جو اسٹڈی روم کے برابر تھوڑے ہی فاصلے پہ تھا ۔

ابصار عالم نے اسے ساری۔ ات سمجھائی اور اسے کہا کہ

 جیسے وہ کہے جہاں وہ کہے اسے لے آنا تاکہ وہ مجھے سے

 بد گمان ہونا چھوڑ دے۔یہ بات اس نے صرف سوچی تھی 

لبوں پہ نہیں لایا تھا۔کیمرا آن کر لینا تاکہ مجھے ایک ایک

 پل کی خبر ہو۔ اگر تم وہاں کسی بھی قسم کا خطرہ دیکھو 

تمھیں صرف شک بھی ہو تو تمھیں میری نہیں ۔

اپنی بھابھی کی حفاظت کرنا ہوگی ۔بلکل میری طرح جیسے 

تم میری کئیر کرتے ہو ۔

سمجھنا ابصار عالم کھڑا ہے اور اس کو خطرہ ہے۔

جی باؤ ان سب باتوں کے جواب میں بس اس نے اتنا ہی کہا ۔

ٹائیگر نے ۔اور سر جھکا لیا 

 ⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

ہمیں کہاں چلنا ہے تمھارے باؤ کے پیچھے جی ۔

ٹائیگر پلان کے مطابق چل رہا تھا ۔ابصار نے اسے کہا تھا کہ

 اسے شک نہیں ہونا چاہیے  ۔آپ مزاق کر رہی ہیں کیا ۔

نہیں میں سیریس ہوں مگر میں آپ وہاں نہیں لے جا سکتا 

یہ تمھارے باس کا حکم ہے ۔انہوں نے ہی مجھ سے کہا تھا 

کہ آپ میرے ساتھ وہی چلیں گے جہاں میں کہوں گی۔ 

تو اب میں تمھیں حکم دیتی ہوں۔کہ تم وہی چلو اور ا۔ اور

 کچھ مت پوچھنا ۔اور وہ مؤدب ہو کر سر جھکا گیا ۔

اس کے کان میں لگے ہوئے بلیو ٹوتھ میں آواز ابھری تھی ۔

ٹائیگر گاڑی مووو کرو ادارے میں کچھ مشکوک افراد نظر آ

 رہے ہیں ۔

ابصار عالم نے ٹائیگر کو خبردار کیا ۔اپنی گاڑیاں بھی موڑ

 لیں ۔شان گولیوں کے زیرِ اثر تھا ۔مگر اس کی سکیورٹی

 الرٹ ہو چکی تھی۔

کچھ لوگوں نے جیسے ہی اوپر دیواروں پہ پھلانگنے کی

 کوشش کی ۔سائرن بجنا شروع ہو گئے تھے۔

گاڑی تیز تیز چلاؤ خرم وہ بہت گھبرا گیا تھا۔بلکل ایسے

 جیسے اس کے اپنے بچے ہوں ۔جیسے اسی زمہ داری تھے 

جیسے وہ ہی تو ان کا باپ تھا ۔ان کی ماں تھی ۔

ایس پی کڈز ہاؤس میں کچھ افراد گھسنے کی کوشش ۔

کر رہے ہیں ۔ میں آتا ہوں اور قریبی تھانہ کی پولیس بھیجتا ہوں  ۔

ابصار عالم شاید تھوڑا لیٹ ہو گیا تھا ۔وہاں ایک زور دار

 دھماکا ہوا اور سب کچھ دھویں میں تبدیل ہو گیا ۔

ابصار عالم کا وہاں سے رابط ڈسکنیٹ ہو گیا ۔

💓💗⁦❤️⁩💗💓💗⁦❤️⁩💗💓💗⁦❤️⁩💗💓💗⁦❤️⁩💗

ابصار عالم کے موبائل پہ ایک ان ناون (un known) کال آ

 رہی تھی ۔ابصار نے عالم نے کال  عجلت میں اٹینڈ کی اور کان سے فون

 لگایا ۔کیا ہوا گھبرا گئے باؤ جی فخر الدین کی آواز ماوتھ

 پیس سے ابھری تھی ۔اچھا تو رسی جل گئ مگر بل  ابھی 

باقی ہے ۔فخر الدین جس کی جتنی لکھی ہے اس سے زیادہ 

میں دے نہیں سکتا ۔کیوں فون کیا اس کی آواز بہت بھاری

 ہو گئ تھی ۔دھماکہ معمولی سا تھا۔

داور کو کال کر کے بول دے جمالی کو چھوڑ دے 

اور شپ  دو گے جو ہمیں پاکستان سے دور لے جائے گی 

 ۔اور اعتراف کر لو کہ جسٹس ظہیر

 الحسن پہ قاتلانہ حملہ تم نے کیا ۔

لیپ ٹاپ  کی اسکرین دوبارا روشن ہوئی تھی  ۔  

کچھ نقاب پوش اندر داخل ہو کر کچھ بچیوں اور ۔

بچوں اور ان کے ساتھی ٹیچرز کو یرغمال بنا چکے تھے 

فخری اسی لیے ابصار عالم کو کال کر کے شیر بن۔ رہا تھا 

ٹھیک ہے فخری مجھے منظور۔ ہے تمھاری شرط ۔

میں ابھی داور سے کہہ کر جمالی کو رہا کرواتا ہوں  ۔

اور وہاں تب تک پولیس نہیں پہنچنی چاہیے ۔ورنہ تمھارے

 سب بچوں کو میرے آ دمی آگ لگا دیں گے ۔

آگ تو تم نے لگا دی ہے ۔اب بجھتی کیسے ہے یہ میں نہیں

 جانتا  ۔ابصار نے کہہ کر کال ڈسکنٹ کر دی ۔

ابصار عالم نے گاڑی ٹائیگر کے برابر لے آیا اور اسے گاڑی

 روکنے کا کہا  ۔ٹائیگر نے گاڑی روک دی تھی۔

کیوں کہ غازیہ ظہیر  ٹائیگر پہ چلا رہی تھی گاڑی ٹرن کرنے پہ 

وہ سمجھی تھی کہ ٹائیگر اس کی بات سن کر کہ کہاں جانا ہے 

گاڑی ریورس کی ہے ۔

تبھی ابصار عالم نے اسے گاڑی روکنے کا کہا ۔

خرم۔ زیشان تم وہاں جاؤ اور میری کال کا انتظار کرو 

۔مگر باؤ آپ یوں اکیلے وہ دونوں بیک وقت پریشان ہو کر

 بولے اس وقت تم لوگوں کو میری نہیں ان معصوم بچوں

 کی جان بچانی۔ چاہیے ۔ 

میں اب مر بھی  گیا تو خرم زکی اور تم سب اس مقصد کو

 بھولنا مت ۔اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو آمین

آپ ایسی باتیں نہ کریں ۔میں ٹائیگر کو ساتھ لے جا رہا ہوں 

اور تمھاری بھابھی بھی ساتھ ہی ہیں ۔

جاؤ تم اب جلدی وہاں سب کو ایسا لگنا چاہیے کہ میں گھر

 پہ ہوں ۔یہ میرا فون رکھو تمھیں میری آواز میں بات کرنا

 آتی ہے ۔فخری کی ہر بات سے مجھے آگاہ رکھنا ۔اور اسے

 باتوں میں لگائے رکھنا ۔اسے یہی لگے گا کہ میں گھر پہ ہوں ۔

اوکے باؤ اللہ آپ کی حفاظت کرے ۔دونوں نے مل کر کہا اور

 آگے بڑھ گئے ۔غازیہ ظہیر گاڑی سے نیچے اترنے کی بار بار

 کوشش کر رہی تھی۔مگر ٹائیگر اندر سے لاک کر چکا تھا گاڑی

۔ابصار عالم نے بیٹھتے ساتھ ہی لیپ ٹاپ آن کیا۔

وہاں بچے سب پریشان ایک کونے میں دبکے بیٹھے تھے۔

غازیہ ظہیر نے بھی سامنے اسکرین پہ نظریں جمائی تھیں۔

کچھ نقاب پوش گنیں لے کر ان کے سروں پہ شکاری کتوں

 کی طرح چکر لگا رہے تھے۔غازیہ کے رونگٹے کھڑے ہوئے ۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

یہییییی یہ سب کیا ہو رہا ہے ابصار عالم  غازیہ ظہیر نے

 کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔ ابصار نے جیسے

 سنا ہی نہیں تھا ۔وہ اس وقت کچھ سننا بھی نہیں۔ چاہتا تھا 

کم از کم غازیہ ظہیر کو تو بلکل بھی نہیں کیوں اس نے

 شان کی کافی میں سلیپنگ پلز ملائی تھیں ۔اگر وہ سویا نہ

 ہوتا تو کوئی چڑیا بھی وہاں پر نہیں مار سکتی تھی ۔

ابصار عالم کی روشن سی پیشانی پہ بہت سی ننھی ننھی۔

 سے لکیریں ابھری ہوئی تھیں۔ایسے بتا تھا وہ ضبط کی

 انتہاؤں پہ تھا۔

مجھے اتار دیں آپ یہی مجھے آپ کے ساتھ کہیں نہیں جانا

غازیہ ظہیر نے ایک بار پھر اسے متوجہ کرنے کی کوشش کی۔

ٹائیگر گاڑی روکو۔باو یہاں ویرانے میں کیا ہوا تم نیچے اترو

ٹائیگر تابعداری سے نیچے اتر آیا۔ابصار فرنٹ سیٹ سے ۔

ڈرائیونگ سیٹ پہ آیا۔اور گاڑی کو ہواؤں کی روش  پہ رکھ

 دیا غازیہ ظہیر ابصار عالم کا یہ روپ دیکھ کر اندر تک

 خوف زدہ ہوئی تھی۔

ابصار عالم کے روشن سے ماتھے پہ صرف لکیریں نہیں ابھریں 

اس کے ہاتھوں کے اوپر بنا وہ نسوں کا جال بھی بہت نمایاں 

ہو رہیں تھیں ۔وائٹ سوٹ پہ وائٹ واسکٹ پہنے 

وہ صدیوں کا تھکا ہوا پژمردہ سا لگا غازیہ ظہیر کو ۔

کچھ تو ہے جو غلط ہے جو میری آنکھوں سے اوجھل ہے  ۔

غازیہ ظہیر اس  بھا گتی  ہوئی گاڑی میں بس یہ ہی ایک 

 بات سوچ رہی تھی ۔

ٹائیگر اپنا ماسک لگائے کسی اسٹیچو  کی طرح فرنٹ سیٹ پہ 

بیٹھا تھا۔گاڑی میں ہوووووو کا عالم تھا ۔غازیہ کی حالت 

بہت ہی عجیب ہو رہی تھی ۔بچے لیپ  ٹاپ کی اسکرین پہ 

سسک رہے تھے ۔اور یوں دبکے بیٹھے تھے ۔جیسے کسی

 انسان کو دیکھ کر کچھوے اپنے خول میں مقید ہو جائیں ۔

غازیہ ظہیر کی نظریں بار بار اسکرین پہ اٹھتی تھیں اور

 پھر ابصار عالم کی حالت پہ ۔کیا واقعی ہی غازیہ ظہیر تم

 نے اسے سمجھنے میں غلطی کر دی ہے ۔وہ خود کو پھر سے

 ٹٹولنے لگی ۔مگر اس کے اندر بھی گاڑی کے اندر جیسی 

دبیز خاموشی تھی ۔

رات اندھیری ترین ہو رہی تھی ۔شہر کی ان گنت روشیناں 

اس اندھیرے کو نگلنے میں ناکام ہو رہی تھیں ۔

ابصار عالم تو جیسے اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھا تھا ۔

گاڑی ہچکولے کھا رہی تھی ۔کہیں جمپ کر رہی تھی ۔

کہیں وہ اچھل کر اگلی سیٹ کے ساتھ جا لگتی تو کبھی وہ ۔

سہم کر دل پہ ہاتھ رکھتی ۔وہ وقت ہی کوس رہی تھی جب

 ابصار عالم کے گھر سے نکلی تھی۔اتنی خوفناک ڈرائیونگ ۔

اور اس پہ اسے منہ کھولنے کی بھی اجازت نہیں تھی ۔

وہ جیسے ہی کچھ پوچھتی ابصار عالم تپ کر کوئی نیا 

ہی کام کر دیتا اور وہ اپنی بے عزتی پہ دبک کر بیٹھ جاتی 

اس نے دو دفعہ بات کر کے دیکھ لی تھی ۔اور نتیجہ اس کے

 سامنے تھا ۔ ایک گاڑی ایک شاندار بلڈنگ کے سامنے رکی۔

 تھی۔

ابصار عالم نیچے اترا تھا اور پھر ٹائیگر کو سر کے اشارے

 سے اترنے کا  کہا ۔خود غازیہ ظہیر والی سائیڈ پہ آیا جہاں

 وہ سر اٹھائے اپنی گود میں دونوں ہاتھ رکھے ۔ابصار 

عالم کے کسی حکم کا انتظار کر رہی تھی۔

نیچے اترو ابصار عالم نے نرم لہجے میں مگر حکم دیتے ہوئے

 کہا ۔غازیہ کو تو یہںی لگا تھا  وہ بلا چوں چراں نیچے اتر گئ ۔ 

بات سنو غور سے میری ٹائیگر گاڑی سے اپنا سارا سامان اٹھاؤ ۔

تم اپنی چپل گاڑی میں رکھو وہ غازیہ ظہیر سے مخاطب ہوا ۔

گاڑی کچھ فاصلے پہ کھڑی تھی ۔غازیہ نے چپل اتار کر گاڑی

 میں رکھی ۔غازیہ تمھیں آج ان معصوم بچوں کی زندگی

 بچانے میں میرا ساتھ دینا ہو گا ۔دو گی میرا ساتھ اس نے

 اپنا آگے بڑھایا ۔غازیہ نے بھی فوراً ہاتھ ابصار کے ہاتھ پہ رکھا

ابصار عالم نے محسوس کیا کہ اس کے ہاتھ یخ ٹھنڈے ہو۔

 رہے ہیں ۔مگر اس وقت اسے سب سے زیادہ اس کام کی فکر

 تھی جو وہ کرنے آیا تھا۔میں ساتھ ہوں تم ڈرنا مت ۔وہ سر

 جھکائے فرمانبرداری سے سننے لگی ۔

تم یہاں سے جتنا ہو سکے تیز تیز بھاگو گی اتنا تیز کہ تمھارا

 سانس پھول جائے ۔ٹائیگر ایک غنڈہ بن کر تمھیں پکڑنے کی۔

 کوشش کرے گا ۔وہ تھوڑا فاصلے پہ رہے گا ۔تم چوتھے گھر

 کا دروازہ اور بیل یوں بجاؤ گی کہ جیسے واقعی ہی تم۔

 بہت ڈری ہوئی ہو ۔اندر سے کوئی پوچھے تو اسے کہنا ۔

پلیز دروازہ کھولیں میں مصیبت میں ہوں ۔جو بھی واسطے

 آتے ہوں سب دے ڈالنا ۔اور ویسے بھی تمھیں دیکھ کر وہ

 گیٹ بلا حیل و حجت ہی کھل جائے گا ۔تم نے تب تک

 دروازہ بند نہیں۔ کرنا جب تک ٹائیگر وہاں نہ پہنچ جائے ۔

وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی آگے بڑھنے لگی ۔ایک لمحے کے لیے 

غازیہ نے  اپنی آنکھیں بند کیں  ۔خود کو تیار کر کے بچوں

 کے وہ اترے ہوئے چہرے یاد کرتی خود کو تیار کرنے لگی اور

 پھر جیسے اسے ابصار عالم نے  کہا تھا اس نے ایسے کیا ۔

ٹائیگر بھی اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا بلیو ٹوتھ کان سے

 لگائے ۔ابصار نے بھی ان کے پیچھے ہی جانا تھا مگر پہلے وہ 

گیٹ کھلنا ضروری تھا ۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

خرم کیا سچوئین ہے سناؤ فخری بار بار کال کر رہا ہے 

مگر ڈسکنٹ بھی جلدی کر جاتا ہے ۔شاید اسے کال ٹریپ

 ہونے کا ڈر ہے ۔داور بھی جمالی کو لے کر آ رہا ہے۔

آپ سنائیں سب ٹھیک ہے ۔میں ابھی اندر ہی جانے کی 

تیاری کر رہا ہوں ۔انشالللہ ہم حق پہ ہیں خرم جیت ہماری ہی ہو گئ ۔

اسے شک نہیں ہو گا اب جب جمالی بھی آ رہا ہے ۔

تو وہ خود کو پاور آف مین سمجھ رہا ہو گا ۔

چلو میں اندر جاتا ہوں دیکھو کیا صورت حال ہے ۔

ہاں تم کمپوٹر سنبھالو تاکہ تم بھی ہر خبر کے لیے تیار رہو ۔

جی جی باؤ آپ ٹینشن مت لیں ہم بہت بڑی بڑی مصیبتوں 

سے باہر آ گئے ہیں تو اس کو بھی سب مل کر جھیل لیں گے ۔

انشاللہ ابصار نے کہا اور آگے بڑھ گیا۔

ابصار عالم نے داور کو کا کے ساری شرائط بتا دی تھی ۔

داور نے بھی اوکے کیا انھیں اور جمالی کو تھانے سے لے کر

 کڈز ہاؤس پہنچنے کا کہہ کر خود کاشان ولا آ گیا تھا۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

غازیہ ابصار دھڑ دھڑ  دروازہ پیٹ رہی تھی گیٹ کیپر نے

 ہڑ بڑا کر آنکھیں کھولیں ۔گیٹ پہ بھی سسٹم لگا تھا ۔

مگر اندر سب سونے کی وجہ سے کوئی بھی الرٹ نہیں تھا ۔

گیٹ کیپر نے بڑا سا گیٹ کھولا لڑکی کی ابتر حالت دیکھی 

وہ ننگے پیر اور دوپٹہ آدھے سے زیادہ زمین پہ لٹک رہا تھا ۔

بال کیچر سے باہر بے ترتیب ہو رہے تھے ۔ 

گیٹ کیپر نے اس کی حالت دیکھی تو جالی دار گیٹ بھی 

کھول دیا ۔اور  اسے اندر بلایا وہوہ ویہہ۔وہ میں رے پیچھے 

وہ بہت مشکل سے بولنے کی کوشش کرنے لگی تبھی

 دوسرے گیٹ کیپر کے سر پہ ٹائیگر پہنچ چکا تھا ۔

ٹائیگر نے مین لائن آف کی اور پورے گھر میں  

  اندھیرا چھا گیا ۔ابصار عالم نے بھی اندر قدم رکھے ۔

ٹائیگر نے دونوں گیٹ کیپرز کو ایک پلر کے ساتھ باندھ دیا 

اس مشن میں غازیہ ظہیر بھی پیش پیش تھی ۔

کچھ چارجنگ لائٹس تھیں جو آن ہو چکی تھیں ۔

ابصار عالم ان دونوں کو ساتھ لیے اندر بڑھے تھے۔ 

جب سامنے سے ایک موٹی تازہ بلی نے غازیہ ظہیر کو گھورا

 تھا ۔بلکہ وہ فوراً اس کے قدموں کے قریب آئی تھی۔

غازیہ ظہیر دو آدمیوں کو باندھ کر آ رہی تھی تب نہیں وہ

 ڈری تھی ۔مگر اس بلی نے اس کی جان نکال لی تھی وہ

 اچھل  کر واپس مڑی اور ابصار عالم کے گلے جا لگی 

صد شکر کہ ابصار عالم ٹائیگر سے آگے تھا ۔ورنہ وہ 

ٹائیگر کے جا گلے لگتی اور شرمندگی الگ اٹھانی پڑتی۔

غازیہ ظہیر نے اتنے زور سے چیخ ماری کہ گھر کے سب

 مکین ادھر بھاگے آئے تھے ۔ابصار عالم اس افتاد کے لیے تیار 

نہیں تھا ۔ابصار عالم تو اس کی ایک جھلک کے لیے گھٹنوں 

بتا دیتا تھا ۔وہ جب دیکھتا تھا تو خود کے حواسوں میں۔

 نہیں رہتا تھا  ۔اور ابھی تو وہ عزیز از جان لڑکی اس کی

 بیوی بن چکی تھی۔اس پہ اس کے ہونٹوں کا وہ لمس بھی

 ابھی تک اسے یاد تھا ۔مگر سچویشن ایسی ہو گئ تھی کہ 

وہ سب بھول گیا تھا ۔

ٹائیگر نے تیزی سے ایک تیرہ سالہ لڑکے کو دبوچا تھا ۔

اور اس کی چیخ سن کر ہی ابصار عالم ہوش میں آیا۔

اور آنکھیں بند کر کے کھڑی غازیہ ظہیر جس نے 

۔

ابصار عالم کی کمر کے گرد اپنی دونوں بانہوں کا گھیرا کیا

 ہوا تھا۔ہڑا۔بڑا کر پیچھے ہٹی تھی ۔

اگر تم دونوں میں سے کوئی بھی ہلا  تو  میں اس بچے 

کی کھوپڑی اڑا دوں گا ۔ٹائیگر اپنی بھاری آواز میں دھاڑا تھا ۔

ابصار عالم غازیہ کو اپنے پیچھے کرتا آگے بڑھا۔

کون ہو تو۔و۔وو۔م ۔ثمرینہ فخر الدین نے ڈرتے ڈرتے اور

 کپکپاتے ہوئے پوچھا ۔ان دوں میاں بیوی کی حالت غیر

 ہوئی تھی ۔کیا چاہتے ہوئے تم فخری کا داماد بھی ہمت کر

 کے بولا ۔وہ اتنا سوکھا سا تھا کہ غازیہ ظہیر کو لگا اگر میں۔

 اسے پھونک مار دوں تو یہ تو یوں ہی اڑ جائے گا ۔ وہ ابصار

 عالم کے پیچھے چھپی ساکت ان سب کو پٹر پٹر دیکھ رہی تھی ۔

اپنے باپ کو کال ملاؤ ۔ابصار عالم نے احترام سے اس لڑکی

 کو  کہا ۔مگر کیوں مجرم باپ کی بیٹی نڈر بھی ہے ابصار عالم 

نے اسے کہا کیا کہا میرا باپ مجرم ہے ۔تو تم کیا ہو ابصار۔

عالم ۔اچھا تو تم نے مجھے پہچان لیا ہے تو پھر پوچھ کیوں

 رہی تھی۔خرم کام ہو گیا ہے ۔الرٹ رہو ۔آخری الفاظ وہ ہمشہ

 یہی ہی ادا کرتا تھا  ۔

داور کو اطلاع کر دو میں۔ زرا بزی ہوں ۔ابصار عالم ریلیکس

 ہوا۔آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں گی تو آپ کے ہے آسانی ہو گی۔

ابصار عالم ٹی وی لاونج میں رکھے صوفے پہ بیٹھتا ہوا۔

بولا ۔اڈ نے غازیہ ظہیر کا ہاتھ پکڑ کر اسے بھی اپنے برابر

 بٹھا لیا۔میرا ہسبینڈ تو ہیرو ہے۔غازیہ نے پہلی بار دل سے 

اور دل میں ہی اس کی تعریف کی۔

ٹائیگر بچے کو گاڑی میں لے جاؤ ۔ٹائیگر اپنا پسٹل اس بابر 

 صمد کی کنپٹی پہ رکھا ہوا تھا ۔چلو باہر ٹائیگر نے اسے آگے 

چلنے کو کہا ۔پلیز میرا اکلوتا بیٹا ہے اسے چھوڑ دیں اس نے

 کیا بگاڑا ہے آپ کا صمد آغا نے بھی حصہ لیا جو بابر کا باپ 

تھا ۔بگاڑا تو ہم نے بھی کچھ نہیں تمھارے باپ فخری کا 

اور نہ ابصار کڈز ہاؤس کے بچوں نے ۔اس نے موبائل آن کیا 

اور فلیش دیوار پہ ماری جہاں اندھیرا تھا ۔

وہ جیسے سیونٹی ٹو اسکرین واضح ہوئی تھی ۔

دونوں میاں بیوی نے گردنیں اٹھائیں تھیں ۔جہاں کچھ نقاب

 پوش بچوں پہ چیخ رہے تھے ۔جو بچے ڈر کر رو رو رہے تھے

 ان پہ غازیہ ظہیر نے بھی اس منظر کو ایک بار پھر دیکھا 

یہ سب تمھارے باپ نے کیا ہے ۔

ان کو کال  کرو ان غنڈوں کو بلا لے اور جو جو میں کہوں 

وہ مانتا جائے ۔ورنہ اس کی اکلوتی بیٹی کی کے اکلوتے بیٹے 

کی شکل دیکھنی نصیب نہیں ہو گی۔

وہ اٹھا غازیہ ظہیر کا ہاتھ اس نے یوں ہی پکڑا ہوا تھا 

جیسے وہ کوئی بچی ہو اور ہاتھ چھوڑ نے پر گم ہو جائے 

 گی۔ماما مجھے بچائیں پلیز مجھے بچائیں ٹائیگر کے آگے وہ

 بچہ چلا رہا تھا رو رہا تھا ۔غازیہ کو ایک لمحے کے لیے ترس آیا 

مگر وہ چپ چاپ ابصار عالم کے پہلو میں چلتی جا رہی تھی۔

قسمت کے کھیل نرالے دیکھے 

انسان ایک گورکھ دھندا ہے ۔کہیں گندگی سے چھپتا ہوا 

خود کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔

پاؤڈر عطر کریمیں استعمال کرتا ہے ۔

مگر من میلا ہی چھوڑ دیتا ہے ۔اس کا کبھی سوچتا ہی

 نہیں ۔کبھی نماز چھوڑ دیتا ہے ۔کبھی غسل کرنا بھول جاتا ہے 

مگر کبھی لالچ نہیں چھوڑتا ۔اولاد اللہ کی سب سے بڑی

 نعمت ہے۔

اللہ کی آزمائشیں کبھی ایک عام انسان سمجھ نہیں سکتا 

وہ کم فہم نہیں۔ ہے ۔وہ کم عقل بھی نہیں ہے ۔

کہیں پہاڑوں کے سینے چیر کر سفر کو آسان بنانے والا انسان

 ہی ہے ۔جہازوں کی اڑان بھرنے والا پروں کے بغیر ہی 

آسمانوں پہ اڑتا پھرتا ہے ۔مگر یہ سب تو ۔عارضی ہے ۔

تمھارے پاس تو بس ایک سانس ہی ہے جو اصلی ہے۔

مگر یہ سانس بھی تمھارے اپنے بس میں نہیں ہے ۔

پھر دنیا کو کیسے تم اپنی مرضی سے  کیسے چلا سکتے ہو ۔

تو بات یہ کیوں ہو رہی ہے ۔ یہ بات اس لیے یہاں زرا سی

 ضروری تھی کہ ۔میں آپ کو فخر الدین اور اس کے دوست 

کے گھر کا حال بتانے جا رہی ہوں ۔

مت لے کر جاؤ ابصار عالم میرے بیٹے کو وہ بیمار ہے ۔

اسے کینسر ہے میں مر جاؤں گی اپنے بچے کے بغیر ۔

مگر ابصار عالم سے پہلے ہی ٹائیگر ہی مین گیٹ عبور کر گیا تھا 

ابصار عالم کی آنکھ سے دو موٹے موٹے  پانی کے قطرے نکلے

 تھے ۔وہ ایک لمحے کے لیے رکا تھا۔مگر اسے غازیہ ظہیر 

کے ہاتھ نے آگے کھینچ لیا تھا ۔

وہ گیٹ سے باہر نکلے ہی تھے کہ ایک وجود دھڑام سے نیچے

زمین پہ گر کر  دنیا و مافیہا سے بیگانہ ہوا تھا ۔

جی ہاں ثمرینہ فخر بے ہوش ہو چکی تھیں ۔

صمد آغا نے کال ملائی ۔مگر فخری کا سیل مسلسل بزی جا

 رہا تھا  ۔

وہ کال دھڑا دھڑ ملا رہے تھے ۔مگر سیل مسلسل انگیجڈ  

 تھا ۔

وہ گھر کے نمبر کی طرف بھاگا تھا۔

پہلی ہی بیل پہ کال اٹینڈ ہو گئ تھی ۔کسی ملازمہ نے فون

 اٹھایا تھا۔

فخری صاحب سے بات کروائیں میری 

وہ سوکھا سا بانس جیسا آدمی جو فخری کا داماد تھا ۔

بولنے سے بھی قاصر ہو رہا تھا ۔جی میں ان کے روم میں

 جاتی ہوں ۔وہ اپنے روم میں بیٹھا امریکہ سٹائل لائف

 سٹائل میں اپنی بغل میں صنف نازک کے بیچ بیٹھا ۔خود 

کو تخت و تاج کا  شہزادہ سمجھ رہا تھا۔

مسلسل ابصار عالم کے نمبر پہ اسے ٹارچر کرنے پہ لگا ہوا تھا 

نام کی طری اس کا سر بھی فخر سے بلند ہو رہا تھا ۔

سریا بھی غیر معمولی نہیں تھا جو اس کی گردن اٹھائے

 ہوئے تھا  ۔ وہ بھی تو  دولت کے سرور  میں تھا  ۔

ہو شرابا حسیناؤں کا سرور تھا ۔

اور آج تو اس کی چھب ہی نرالی تھی ۔وہ اپنے عزیز از جان 

دوست جمال الدین عرف جمالی کی رہائی میں کامیاب ہوا

 تھا ۔ابصار عام کو ہرا کر اسے ایک غنڈا ثابت کرنے والا تھا۔

اور پھر خود کچھ دن کے لیے دبئی کی دنیا میں  

مزید عیاشی کرنے والا تھا۔

یہ صرف انسان ہی پلان کر سکتا ہے۔مگر اسے پورا کیسے

 کرنا ہے ۔وہ تو بس ایک ہی اللہ کی زات  ہی کر سکتی ہے ۔

دروازہ ناک ہوا کون ہے ۔سر آپ کے داماد جی کی کال ہے ۔

ارجنٹ ہے۔

اوکے تم جاؤ وہ کال ڈسکنٹ کرتا صمد کو کال بیک کرنے لگا 

ساتھ  ہی اس نے ایک حسینہ کو اپنے اور قریب کیا تھا۔

اور ایک کے شولڈر پہ لیفٹ ہینڈ رکھا تھا فولڈ کر کے کال 

کی وجہ سے ۔

کککککک ۔ککککککککک۔کککککککک۔کیا بکواس کر رہے ہو 

وہ غصے سے دھاڑا  تھا ۔

ثمرینہ بے ہوش ہو گئ ہیں ۔ماوتھ پیس سے دوبارا 

آواز ابھری ۔تم تو ہٹو پرے ۔

اپنے ساتھ چپکائے اس روبوٹ کو پرے دھکیلتا ہوا اوور

 کنٹرول ہوا تھا۔تم کیا جھک مار رہے تھے وہ اتنی سکیورٹی 

گیٹ کا سسٹم سب کیا منہ دیکھنے کے لیے لگایا تھا ۔

وہ دھاڑ رہا تھا ۔لڑکیاں شکل بگاڑتی کھڑیں ہوئیں تھیں اور

 ایک دوسرے کے پیچھے ایک پرائیویٹ روم میں گھس گئیں۔

صمد صرف منمناتا ہی رہے گیا تھا۔

وہ تیزی سے باہر نکلا اس کی سانس اکھڑ رہی تھی ۔

فخری کی حالت اب دیکھنے کی لائق تھی۔

شان اسے دیکھ لیتا تو اس پہ دو چار لطیفے سنا چکا ہوتا ۔

تم ثمرینہ کو دیکھو میں دیکھ لوں گا اس کو ۔

جائے نماز پہ بیٹھی مسسز نور فخر کے کانوں پہ چیخنے کی 

کی آواز آئی تو وہ جائے نماز فولڈ کرتیں کھڑکی میں آن

 کھڑی ہوئیں ۔ 

ایک سر د آہ بھر کر انہوں نے تاسف سے دھاڑتے ہوئے اس 

شیر کو دیکھا تھا ۔جو اندر باہر خباثت کا نمونہ لگ رہا تھا ۔

عرصہ ہو ا فخری میرے اور تمھارے ساتھ کو مگر آج تک

 میری کوئی دعا تمھیں واپس انسان نہ بنا سکی ۔وہ سوچتے ہوئے

مسلسل اسے ہی دیکھ رہی تھیں ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

ابصار عالم میرا فون اٹھاؤ بیل مسلسل جا رہی تھی مگر 

کوئی بھی کال ریسیو نہیں کر رہا تھا ۔اس نے اپنے بھیجے 

ہوئے ان غنڈوں کو کال ملائی ۔تم سب کسی بچے کو کوئی 

تکلیف مت دینا اور جب تک میں نہ کہوں کوئی کاروائی مت 

کرنا ۔میں کچھ کرتا ہوں لیکن سر آپ نے تو کہا تھا کہ 

جتنے بچے اور بچیاں ہاتھ لگیں ان کو ساتھ لے آئیں ۔

شٹ اپ بکواس بند کرو اور جو کہا ہے وہ کرو ۔فخری کے

 منہ سے جھاگ نکل رہی تھی وہ بے بسی سے بس کمزور

 لوگوں پہ غرا رہا تھا ۔اس بار ابصار عالم تم نے حد کر دی ۔

اس نے غصے سے کہہ کر کال دوبارہ ملائی ۔

بے شمار کالز کے بعد آخر کار کال پک ہو رہی تھی ۔

اور اس آدھے گھنٹے میں فخری آدھا ختم ہو چکا تھا۔

ان کی اکلوتی بیٹی تھی اور وہ بھی شادی کے سترہ سال

 بعد پیدا ہوئی تھی ۔اس میں تو ان کی جان تھی ہی 

اب بابر میں ان کی جان اس سے بھی زیادہ تھی ۔

اوپر سے اس بچے کو کینسر جیسی موزی بیماری تھی ۔

بے تحاشا دولت ہونے کے باوجود وہ نہ اولاد جیسا سکھ پا

 سکا اور نہ کبھی بیوی جیسے پاکیزہ رشتے کا بھرم رکھ

 سکا وہ سمجتا رہا گھر کی عورت دال برابر ہے ۔

وہ صرف دو ہی عورتوں کو عزت دیتا تھا ۔بیوی کو اور

 بیٹی کو۔فخری کی بیٹی ہونے کے بعد بھی نا زیبا حرکات 

کی بنا پہ خود کو ہی الگ کر لیا تھا ۔اور اللہ سے لو لگا لی 

 تھی ۔ 

کال اٹینڈ ہو چکی تھی ۔فخری کی آواز میں نرمی اور۔

 عاجزی بھی آ چکی تھی۔وہ جو آ دھے گھنٹہ پہلے شیر بنا

 پھر رہا تھا ابھی بھیگی بلی بنا ابصار عالم کے آگے گڑ گڑا رہا  تھا ۔

کہو فخری کیسے یاد کیا میں زرا باہر نکلا ہوا تھا ۔جانتا ہوں

فخری نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے کہا ۔

میرا نواسہ بابر بیمار ہے ۔ابصار اسے چھوڑ دو اچھا تو اس 

لیے کال کی تم نے مجھے ۔تم جانتے ہو میں تمھارے جیسا 

نہیں تھا ۔پھر  کیوں میرے ساتھ آئے دن پنگے لیتے ہو ۔ 

سوری کہو مجھ سے ۔فخری ابصار نے اسے ایک بات میں

 چت کیا ۔وہ ایسا ہی تو تھا کام کی بات کرتا تھا۔

کم بولتا تھا مگر اچھا بولتا تھا ۔گالی دشمن کو بھی نہیں۔

 دیتا تھا اور اخلاق سے گری ہوئی حرکت نہیں کرتا تھا ۔

کیا چاہیے تمھیں ۔فخری کی آواز ماوتھ پیس سے ابھری تھی۔

تمھیں پتہ ہے مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔

ابصار نے کہتے ساتھ ہی کال ڈسکنٹ کر دی ۔

فخری نے اپنے غنڈے واپس بلوا لیے ۔

پھر ابصار عالم کو کال کی ۔تمھارا کام ہو گیا ہے بابر کو

 چھوڑ دو ۔جمالی کا کیا کرنا ہے ۔داور اور جمالی ساتھ 

انٹر ہوئے تھے ۔ابصار عالم نے اسپیکر فون پہ لیا ۔ابصار  نے

 داور اور جمالی کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔وہ لاونج میں 

بیٹھا تھا ۔بابر روتے روتے سو گیا تھا ۔غازیہ کے روم میں ہی تھا 

غازیہ ظہیر بھی اس معصوم سے بچے کو سلا کر کھڑکی

 میں آن کھڑی ہوئی تھی ۔صبح ہونے والی تھی چند ہی

 گھنٹے رہ گئے تھے ۔وہ جمالی کو داور ایس ایس پی کے

 ساتھ دیکھ کر حیران ہوئی ۔جمالی کو جیل میں ڈال دو

 میری بلا سے کچھ بھی کرو پھانسی پہ چڑھا دو ثبوت بھی

 دینے کو تیار ہوں۔جمالی کو بھی تیش آیا تھا۔

اور میں تو جیل میں تھا ۔جسٹس پہ قاتلانہ حملہ تم نے کیا 

تو کیا تم بچ جاؤ گے ہر جرم میں میرے آدھے پارٹنر ہو۔

تمھیں ایسے ہی جانے دوں گا کیا ۔جمالی نے ابصار عالم کے ہاتھ 

سے موبائل لے کر اپنے سارے راز خود ہی پاش کر دئیے ۔

نہ صرف غازیہ ظہیر کی عقل ٹھکانے آئی تھی ۔بلکہ داور کے

 ہاتھ  بھی ثبوت لگ چکا تھا ۔

جمالی یہ چال چل رہا ہے ۔اس کے پاس بابر ہے میری بیٹی

 ہاسپیٹل میں ہے ۔وہ بے ہوش ہے اسپیکر ابھی بھی آن تھا 

تو کیا ان کے لیے تو مجھے پھانسی لگائے گا ۔

اب میری بات سنو ابصار عالم نے واپسی کان سے لگایا فون ۔

شان زیشان اور خرم زکی کڈز ہاؤس پہنچ کر سب اوکے 

کر کے ابصار عالم کو تسلی دے چکے تھے۔

آجاؤ تم کڈز ہاؤس سے باہر کو لے جاؤ ۔وہ تو روڈ پہ ہی

 پاگلوں کی طرح گھوم رہا تھا ۔فورا پہنچا تھا۔

ایس پی آپ کا کام ہو گیا ہے۔باہر پولیس کی گاڑی کھڑی

 تھی۔کانسٹیبلز نے فخری کو ہتھ کڑی لگا لی تھی۔

اور دوبارا سے جمالی بھی گاڑی میں جا بیٹھا ۔

ان کے جانے کے بعد ہی ۔ابصار عالم نے ٹائیگر کو بھیج کر بابر 

کو گھر بحفاظت چھوڑا دیا تھا ۔

ابصار عالم کے ماتھے پہ  بل ایسے غائب ہوئے تھے جیسے کچھ

 ہوا ہی نہ ہو ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

غازیہ ظہیر نے جیسے ہی ابصار عالم کو اٹھتے دیکھا 

وہ صوفے پہ بلینکیٹ اوڑھے سوتی بن گئ ۔

ابصار نے چینج کیا فجر کی اذانیں شروع ہو گئیں تھیں ۔

اس نے وضو کیا کف فولڈ کیے ہی وہ واش روم سے باہر آیا 

غازیہ کو دیکھا ۔اسے اٹھا دوں نماز ہی پڑھ لے ۔مگر پھر دل

 کہتا کہ وہ دو دن سے نہیں سوئی ہے ۔ 

مگر اسے پھر سے خیال آیا نماز نیند سے بہتر ہے ۔

اس نے آواز دی غازیہ نماز پڑھ لو اور پھر بیڈ پہ آ کر سو

 جانا ۔وہ آواز دے کر باہر نکل گیا ۔تاکہ آرام سے نماز ادا 

کر سکے ۔

ابصار عالم نماز پڑھ کر واپس آیا تو غازیہ ظہیر ویسے ہی

 لیٹی ہوئی تھی ۔ابصار نے اس کی تھکن محسوس کی ۔

وہ پرسوچ نظروں سے اپنی ٹھوڑی پہ ہاتھ پھیرتا اسے

 دیکھنے لگا۔ وہ سر تک کمبل تانے ہوئے تھی۔ مگر ابصار عالم

 کو وہ کمفر ٹیبل نہیں لگی تھی۔اس کی گردن صوفے کے۔

 دہانے پہ تھی جہاں عادت ہو گی اسے ایسے سونے کی 

اپنے گھر میں وہ کیسے رہتی ہو گی ۔شہزادیوں کی طرح۔

وہ سوچنے لگا ۔نیند کا تو وہ ڈھیٹ ہی ہو چکا تھا ۔

مگر بے حس نہیں ہو سکا تھا۔ 

خود سے زیادہ اپنے عزیزوں کی پرواہ کرتا تھا ۔

میں اسے اگر اٹھا کر بیڈ پہ لیٹا دوں تو یہ غصہ تو نہیں 

کرے گی ناں وہ خود سے بات کرنے لگا ۔

کیوں غصہ کرے گی بیوی ہے تمھاری حق ہے تمھارا اس پہ 

اس کے اندر کوئی چٹخا تھا ۔

وہ چند قدم کے فاصلے پہ ہی تھا اس لیے اسے زیادہ 

قدم نہیں۔ اٹھانے پڑے تھے ۔ غازی اٹھو پہلے نماز پڑھ لو ۔

اسے اس کی پھر سے نماز کی فکر ستانے لگی ۔

وہ اس کے اوپر سے کمبل ہٹاتا ایک بار پھر وہی الفاظ دہرانے 

لگا ۔مگر اس کے چہرے کا رنگ اتنا سرخی مائل ہو رہا تھا ۔

جیسے کسی کو بخار کے وقت ہوتا ہے ۔اس نے جلدی سے اس

 کے ماتھے پہ ہاتھ رکھا ۔وہ بخار سے تپ رہی تھی ۔

یہ تھکن کے ساتھ ساتھ اس کی ٹینشن کی وجہ بنا تھا ۔

ابصار عالم نے اس کے اوپر سے بلیکنکٹ ہٹایا بیڈ پہ رکھا 

اور پھر اسے اپنے بازوؤں میں بھرتا وہ بیڈ تک لے آیا ۔

تم لگتی تو نہیں ہو کہ اتنی موٹی ہو مگر تمہارا وزن 

وہ منہ  میں ہی بڑبڑایا ۔ 

اس پہ کمبل اڑاتا وہ کچن میں گیا ایک باؤل لیا اور 

اس میں پانی بھرا  اور روم میں واپس آیا اپنا رومال 

جو اس نے سائیڈ ٹیبل پہ رکھا تھا نماز سے پہلے ۔اسے ہی

 اٹھایا پانی میں بھگویا اور پھر اس کے ماتھے پہ الٹ پلٹ

 کر کے پٹیاں رکھنے لگا ۔

اس کے گالوں پہ سرخی بہت بھلی لگ رہی تھی ۔

اگر یہ شرمائے تو بلکل اسی کی طری بلش کریں گے اس کے

 گال ۔وہ ان میں۔ کھونے لگا تھا ۔وہ بہت دیر تک اس کے

 ماتھے پہ پٹی رکھ کر اس پہ اپنا داہنا ہاتھ رکھے مسلسل 

 اس کے چہرے کے خدو خال دیکھ رہا تھا ۔ٹھنڈک ملنے پہ 

غازیہ ظہیر کسمسائی تھی ۔

ابصار نے مسکرا اس کا گال تھپتایا ۔اب کیسا محسوس ہو

 رہا ہے ۔میں کہاں ہوں اس نے آنکھیں کھولتے ہی پہلا سوال

 یہی کیا ۔

وہ غنودگی میں تھی شاید یا بخار سر کو چڑھ گیا تھا ۔

غازیہ تم اپنے گھر ہو ۔اپنے ابصار کے پاس ۔ابصار نے اس کا

 ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور پیار سے اس پہ تھوڑا سا جھکا 

مگر اگلے ہی پل سنبھل گیا ۔اسے وہ شام یاد آ گئ تھی۔

تم رو کیوں رہی ہو ۔غازیہ ظہیر ایک پل بھی چین سے نہیں

 رہی تھی۔اپنے والد جسٹس کا پٹیوں میں جکڑا وہ بے سدھ 

بیڈ پہ پڑا وجود یاد آتا تو وہ تڑپ اٹھتی مگر ماں کی وہ

 قسم اسے یاد تھی جو جاتے وقت انہوں نے دی تھی ۔کہ

 جب تک میں تمھیں کال کر کے وہاں نہ بلاؤں تب تک تم

 اکیلی گھر سے باہر نہیں نکلو گی ۔

وہ اسے اس کے پاپا کی قسم دے گئیں تھیں ۔تو وہ کیسے۔

 توڑ دیتی ورنہ وہ اب تک وہاں پہنچ چکی ہوتی اسے اپنے 

پاپا سے ماما سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں عزیز تھا ۔

ابصار کے پوچھنے پہ اسے مزید رونا آیا اور وہ سسک سسک

 کر رونے لگی ۔وہ  اٹھ کر بیٹھنے لگی ابصار نے اسے کندھا 

پکڑ کر سہارا دیا ۔

کیوں رو رہی ہو سب ٹھیک ہو گیا ہے  ۔الحمدللہ 

تمھارے پاپا بھی ٹھیک ہیں ۔میری بات ہوئی ہے ان سے 

وہ اب بلکل ٹھیک ہیں ۔

مگر اس کی آواز میں تھوڑی سی لرزش تھی ۔

مجھے جانا ہے ان کے پاس وہ سسکیوں میں ہی بولی ۔

اچھا ٹھیک ہے ہم چلتے ہیں ابھی تو بہت تیز بخار ہے تمھیں 

میں ان سے کبھی بھی دور نہیں ہوئی ابھی میں نے ان کو

 دیکھا بھی نہیں ہے ۔وہ کیسے ہیں میں جب تک اپنی

 آنکھوں سے نہ دیکھ لوں مجھے سکون نہیں آ سکتا اچھا

 ٹھیک ہے ایک منٹ رکو ابصار اسے کہہ کر باہر چلا گیا ۔

اس نے ایک گلاس میں نارمل پانی لیا اور پھر واپس روم 

 میں آ کر اپنے ڈراز سے ایک ٹیبلیٹ کا باکس نکالا اس میں 

سے فیور کی ٹیبلیٹ نکالی اور غازیہ کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔

یہ ٹیبلیٹ لے لو پھر ہم چلتے ہیں ۔میں نہیں کھاتی ٹیبلیٹ 

مجھے نہیں اچھی لگتیں ۔غازیہ نے روتے ہوئے ہی جواب دیا۔

ابصار اس کے سامنے بیٹھ گیا اوپر دیکھا اس نے اوپر دیکھا 

منہ کھولو ۔میں نے کہا ناں مجھے نہیں لگتیں اچھی یہ

 گولیاں وولیاں ۔غازیہ بہت سی چیزیں ہم نا پسند کرتے ہیں ۔

مگر کسی مصلحت کے تحت ان کو یوز بھی کرتے ہیں ۔

تم اپنے پاپا کے پاس ایسے بخار کی حالت میں تو نہیں۔ جا

 سکتی ہو ۔میں ٹھیک ہوں وہ دوسری سائیڈ سے نیچے اترنے

   لگی بیڈ سے ۔غازیہ مجھے تکلیف مت دیا کرو تم میری۔

 کئیر نہ کرو مجھے پرواہ نہیں ہے ۔

مگر مجھے اپنی کئیر سے تم نہیں روک سکتی ۔

وہ بھی کھڑا ہوا اور اس کو زبردستی ٹیبلیٹ کھلا دی ۔

پانی کا گلاس اس کو  پکڑاتے  ہوئے وہ پھر سے اس سے

 مخاطب ہوا ۔کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھ سے 

کہہ دینا میں تمھارے آنسو نہیں دیکھ سکتا ۔

ورنہ میں زبردستی کسی بھی چیز میں بھی نہیں کرتا اب

 تم آرام کرو گی یا پھر میرے ساتھ اپنے پاپا کے ساتھ چلو گی ۔

غازیہ جو اٹھ کر بیڈ سے کھڑی ہوئی تھی۔دوبارہ بیڈ پہ 

بیٹھ گئ ۔چلو تھوڑی دیر آرام کرتے ہیں پاپا بھی ابھی سو

 رہے ہوں گے ۔اس نے اس کا نام لینے سے گریز کیا ۔ 

وہ اس سے شرمندہ تھی ۔اور ابصار عالم کے اس رویے پہ

 مزید شرمندہ ہو رہی تھی۔وہ اس کی بدتمیزی کو کیسے

 اگنور کر رہا تھا ۔وہ  کیسا انسان تھا انسان بھی تھا یا کوئی

فرشتہ سا ہے ۔

اب لیٹ جاؤ کیا سوچ رہی ہو بیٹھ کر وہ دوبارہ لیٹ گئ ۔

اسے پسینہ آ رہا تھا شاید اس کا بخار ٹوٹ رہا تھا ۔

ابصار بھی دوسری سائیڈ پہ لیٹ گیا اور غازیہ کے سونے کا

 انتظار کرنے لگا ۔کوشش کے باوجود بھی ابصار عالم کو نیند

 نہیں آ رہی تھی۔وہ دس پندرہ منٹ تک کے لیے سو گیا 

اور تسلی کرتے ہوئے کہ غازیہ سو گئ ہے ۔وہ اٹھا شاور لیا 

شیو بنائی ۔

اور تیار ہو کر کڈز ہاؤس چلا گیا ۔وہ سب بچوں کے درمیان 

گھرا ہوا ایک ایک بچے کی بات غور سے سن رہا تھا۔

بچے بھی انھیں بہت خوب لاڈ کر رہے تھے ۔

کوئی ان کا سر دبا رہا تھا ۔تو کوئی ان کی گود میں چڑھ کر 

بیٹھا تھا ۔ابصار عالم کی دنیا اسی پہ شروع اسی پہ ختم تھی 

ٹیچرز بھی اس کے سامنے آن بیٹھی تھیں ۔

وہ سب میں دوستوں کی طرح بیٹھا کرتا تھا ۔ہر چھوٹا بڑا

 بچہ اسے ہر اپنی بات بتاتا تھا ۔

شئیر کرتا تھا اور وہ گھنٹوں ان کے ساتھ اسی طرح بتاتا 

تھا ۔

آج بھی وہ جب سے آیا تھا اسے سکون نہیں ملا تھا جب تک

 اس نے اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھ نہیں لیا تھا ۔

اور ان سب کو خوش دیکھ کر ڈھیروں اطمینان اتر آیا اس

 ابصار کے رگے و پے میں ۔

وہ سب کو الوادع کہتا واپسی اپنے روم میں آ گیا ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗 

غازیہ بھی اٹھ گئ تھی اسے بھی دن میں سونے کی عادت

 نہیں تھی ۔ تم اتنی جلدی اٹھ گئ ۔ابصار اس کے حلیے کو 

دیکھتا ہوا تھوڑا شرمندہ ہوا۔یہ لڑکی میری وجہ سے 

کتنی بڑی مصیبت سے نکلی ہے ۔

ابصار عالم کے ہاتھ میں ٹرے تھی۔وہ میس سے ہی ناشتہ 

بنوا کر لایا تھا۔لو ناشتہ کر لو مجھے تو ابھی بھوک نہیں ہے 

وہ بہت آہستہ آواز میں بولی ۔چلو پھر میں بھی نہیں کھاتا

چلو پھر ہم دونوں چلتے ہیں تمھارے پاپا کے پاس ۔

ابصار عالم نے بھی اسے فورس کرنا مناسب نہیں سمجھا 

وہ کچھ سوچتا ہوا اس کے تھوڑا پاس آیا ۔میں نے سوچا

 نہیں تھا غازیہ تم اس طرح میری دلہن بنو گی ۔

ابصار نے اس کی کلائی پکڑی اور اپنے سینے تک لے گیا ۔

پھر کھوئے سے انداز میں بولا ۔بنا عروسی ملبوسات سے 

بنا کسی چوڑی کے کنگن کے منہ دکھائی میں تمھیں پوری رات 

روڈ کہ سیر کرواؤں گا ۔وہ اسے پکڑ کر بیڈ تک لایا ۔

غازیہ زرا فاصلے پہ جا بیٹھی ۔ابصار اس کی حیا سمجھ کر 

مسکرا دیا ۔

میرے ساتھ چلو میں تمھیں باہر لے چلتا ہوں ۔

جی اچھا وہ بہت فرمانبرداری سے اس کی ہر بات مان رہی

 تھی ۔ابصار کو بھی حیرت ہوئی مگر وہ اپنی کیز اٹھاتا ۔

باہر نکل گیا ۔غازیہ بھی اپنی چادر لیتی اس کے پیچھے ہی

 نکل گئ ۔

ابصار مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔میں تمھیں ہی سننا چاہتا ہوں 

جان ابصار عالم وہ زرا رومینٹک ہوا ایسے تو میں بات نہیں

 کر سکوں گی ۔اچھا اگر اتنی ہی سیریس ہے تو پھر بولو 

وہ سنجیدہ ہوا ۔گاڑی ان کی مین روڈ پہ آ چکی تھی ۔

وہ ایک مارکیٹ کے سامنے رکے ۔غازیہ نے ابصار سے کہا 

ہم تو پاپا کے پاس جا رہے تھے ۔آپ مجھے یہاں کیوں لے آئے ۔

بخار تو نہیں ہے ناں اب تمھیں ابصار نے اس کے ماتھے کو

 چھوا ۔میں نے آپ سے کچھ پوچھا ہے لے چلتا ہوں پہلے تم

 میرے ساتھ تو چلو میں نہیں چاہتا تمھارے پاپا تمھیں

 ایسی حالت میں دیکھیں ۔چلو تھوڑا خود کو فریش کرو ۔

تمھیں خوش دیکھ کر جلدی ٹھیک ہو جائیں گے۔

پہلے میری بات سنیں آپ ہاں سناؤ میں سن رہا ہوں ۔

ابصار عالم آپ نے جس مجبوری کے تحت مجھ سے شادی کی ہے 

اسے اپنے سر سے اتار دیں ۔ میں کسی پہ بوجھ نہیں بننا چاہتی 

غازیہ کیا تم ابھی کے لیے چپ ہو سکتی ہو۔ مجھے بہت جلدی ہے 

تم چلو میرے ساتھ ابصار نے گاڑی اپنی سائیڈ سے لاک کی

 اور دوسری سائیڈ سے آ  کر دروازہ کھولا اس کی گود میں۔

 رکھی ہوئی کلائی کو پکڑا ۔غازیہ نے اسے گھور کر دیکھا 

مگر وہ پلیز کہتا اسے دیکھنے لگا ۔

وہ بھی نیچے تر آئی ۔کال آ رہی تھی تم تیاری کرو میں ابھی 

آتا ہوں اللہ مالک ہے ۔وہ کہہ کر کال بند کرتا آگے بڑھ گیا۔

اس نے غازیہ کی رائے لیے بنا ہی ایک خوبصورت فراک 

اس کی طرف بڑھایا اور اسے چینج روم میں چینج کرنے کا

 کہہ کر اس کے جانے کا ویٹ کرنے لگا ۔

مگر اس نے کپڑے کا ہینگر نہیں پکڑا تھا ۔کہا ناں مجھے 

آپ کا احسان نہیں چاہیے  ۔حد ہے غازیہ تمھارے پاپا تمھیں

 بلا رہیں ہیں ۔ہمھیں وہاں جلدی پہنچنا ہے۔کیا واقعی ہی

 مجھے پاپا بلا رہے ہیں  اب کیا ایک دن میں تمھیں ان کی 

محبت پہ بھی شک ہو گیا ہے ۔مشکوک لڑکی اچھا بھی کبھ

 سوچ لیا کرو ابصار عالم نے اس کے سر پہ ہلکی سی بہت

 لگائی ۔وہ اس کی بات کو نہ سمجھتے ہوئے کپڑے لے کر 

چینج روم میں چلی گئ ۔

ابصار عالم نے پھرتی سے بہت سارے ڈیزائینر سوٹ لے لیے 

چپلیں کیچرز جیولری کچھ میک اپ کٹس 

مجھے ان چیزوں کا اندازہ نہیں ہے ۔اس نے ایک ہیلپر لڑکی

 سے کہا اور وہ اسے دیکھتی گئی اور وہ بیگز سائیڈ پہ 

کرتا گیا ۔اسے جو بھی خوب صورت لگ رہا تھا ۔وہ اسے لے 

رہا تھا ۔اور اج تو ابصار کو سب کچھ ہی بہت خوب صورت

 لگ رہا تھا ۔غازیہ کو بھی زیادہ دیر نہیں لگی تھی۔

وہ اپنی چادر گرد لپیٹے ابصار کے سامنے آئی ۔

ماشاءاللہ بہت خوب۔وہ کہہ کر اس کے پاس آیا  ۔یہاں

 تمھیں چادر کے بغیر نہیں دیکھ سکتا مگر بتا پھر بھی

 سکتا ہوں تم بیت خوبصورت لگ رہی ہو ۔مجھے کلرز

 سمجھ نہیں آتے مگر آج لگتا ہے وائٹ کلر پہ یہ کلر جچتا 

بہت ہے ۔ابھی آپ کو دیر نہیں ہو رہی ۔غازیہ نے اسے بہکتے 

دیکھا تو فورا اسی کی بات یاد کروائی ۔

اوہ ہاں چلیں لے لیا سب وہ اس کے پیچھے ہو لیا ۔

دونوں کسی باعث کے بغیر ہی گاڑی میں جا بیٹھے 

اور ابصار نے بھی مزید اسے تنگ کرنا مناسب نہ سمجھا 

اس وقت وہ بس جسٹس ظہیر الحسن کے بارے میں سوچ 

رہا تھا ۔

وہ لوگ ایک بڑے سے کوارٹر میں پہنچے تھے ۔

ابصار عالم نے غازیہ ظہیر کو اس کی ماں کے پاس چھوڑا 

اور خود۔ باہر نکل گیا۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

ایس پی داور کیا ہوا ہے سب خیر تو ہے ناں ابصار بیٹا 

ظہیر کے دونوں گردے متاثر ہوئے ہیں ۔ایک تو گولی لگنے سے 

ضائع ہوا ہے دوسرا گردے میں خون جم گیا ہے  ۔اس لیے فوری 

گردہ ٹرانسپلانٹ کرنا ضروری ہے ۔اور اتنی جلدی گردہ ملنا 

ناممکن ہے ۔تمھیں اسی لیے بلایا ہے کہ کیا تم کچھ کر

 سکتے۔  ہو اس کا انتظام  ۔

اللہ پاک خیر کرے ابصار عالم نے 

ایس پی کی ساری گفتگو سنی اور 

انہیں ساتھ لے کر ڈاکٹر کے پاس چلے گئے  ۔

میں اپنا گردہ دینے کو تیار ہوں  آپ فورا تیاری کریں ۔

ابصار تم کیا واقعی ہی ایسا چاہیتے ہو ۔ایس پی داور نے 

پوچھا ۔میں سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے نہیں دے سکتا 

اور دوسری بات یہ ہے کہ میں اب جوان بھی نہیں ہوں۔ 

آپ پریشان نہ ہوں میں کسی کی زندگی بچا سکتا ہوں تو 

سودا برا نہیں ہے ۔وہ ایماندار شخص ہیں مجھے بہت۔ 

  خوشی ہو گی ان کے کام آ کر آپ فوراً آپریشن کی تیاری

 کیجے اوکے شیور ۔ڈاکٹرز نے فوراً تیاری کر لی تھی ۔

ابصار عالم تھوڑی دیر کے لیے غازیہ کے پاس گیا  ۔

وہ اپنی ماں کے ساتھ بہت افسردہ سی بیٹھی تھی ۔شاید

 اپنے باپ کی حالت دوبارہ دیکھ لی تھی اس نے ۔وہ غازیہ

 کو مخاطب کیے بغیر ہی آپریشن تھیٹر واپس چلا گیا ۔

آپریشن کامیاب ہو گیا تھا ۔مگر دونوں ابھی ہوش میں نہیں

 آئے تھے  

ابصار عالم نے اپنا گردہ دے کر ظہیر الحسن کو اپنا گرویدہ 

بنا لیا تھا ۔

ظہیر الحسن کو ہوش ابھی  نہیں آیا تھا کیونکہ ان کا

 میجر آپریٹ تھا ۔مگر ابصار عالم کو چند گھنٹوں بعد ہوش 

آ گیا تھا وہ غنودگی میں جانے سے پہلے بھی غازیہ کو سوچ

 رہا تھا ۔اور ہوش کی دنیا میں واپس آنے کے بعد بھی اسے

 بس وہی نظر آ رہی تھی ۔شان کی کال آ رہی تھی ابصار

 عالم کے پاس  ۔

بھائی آپ کہاں ہیں آپ صبح سے نظر نہیں آئے سب ٹھیک

 ہے ناں ۔شان نان اسٹاپ بول رہا تھا وہ سب کے سب ۔کئی

 بار کال کر چکے تھے مگر ابصار عالم نے ایک مسیج چھوڑ

 دیا تھا ۔ 

میں تمھاری بھابھی کے ساتھ ان کے پاپا کے پاس ہوں ۔

کوئی ٹینشن نہ لے میں فری ہو کر خود رابط کر لوں گا ۔

مگر کسی کو پھر بھی چین نہیں آیا تھا۔وہ سب ابصار عالم

کی بہت کئیر کرتے تھے ۔وہ اکیلا جب بھی کہیں جاتا۔شان

 زیشان اور خرم اور ٹائیگر بھی یوں ہی اس کے لیے پریشان

 ہو جاتے تھے ۔ہاں ہاں سب ٹھیک ہے میں یہاں ہی ہوں ۔

تم سب خیال رکھنا اپنا اور خرم  تمھیں ایڈریس سینڈ کرتا

 ہوں۔ تم وہاں آ جاؤ جی اچھا باؤ میں آتا ہوں ۔

کال ڈسکنٹ کر کے ابصار تھوڑا سا اوپر اٹھ کر بیٹھ گیا۔

نرس اس کے پاس آئی تھی ۔

آپ ابھی بیٹھ نہیں سکتے سر ۔چلیں میں احتیاط کروں گا 

بہت بے چین ہو رہا ہوں لیٹا لیٹا سر داور کو آپ بھیج دیں میرے پاس۔

ابصار عالم نرس سے کہہ کر خود موبائل پہ غازیہ کے 

پرانے مسیج اور شاعری پڑھنے لگا ۔اس کے ہونٹوں پہ مسکان تھی ۔

بہت سی ایسی بھی چیزیں اس نے لکھی تھیں جس میں 

اسے صاف صاف دھمکیاں لگائی گئیں تھیں ۔

خاص کر تب جب  وہ اسے جھوٹ بول کر رابطہ ختم کر چکا تھا ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

ماما پاپا کو تو آپریشن تھیٹر لے گئے تھے وہ اب واپس روم

 میں بھی شفٹ ہو چکے ہیں مگر ابصار عالم تب سے ہی

 غائب ہے ۔غازیہ کو کچھ عجیب سا فیل ہوا ۔

ماما وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہوگا ۔ہاں بیٹا میں بھی بھی 

یہی سوچ رہی تھی وہ کافی گھنٹوں سے نظر نہیں آیا ۔

تم  سے کچھ نہیں کہہ کر گیا تھا کیا وہ ۔نہیں ماما مجھے

 تو۔ بس کہہ رہے تھے جلدی ہے اور یہاں آپ سے مل کر پھر

 واپس ہی نہیں آئے ۔چلو گیا ہو گا کسی کام سے آ جائے گا ۔

بہت اچھا انسان ہے غازیہ ابصار عالم آج کل کے دور میں 

کہاں ملتے ہیں ایسے لوگ ۔اس کی قدر کرنا اور اس 

کی عزت بھی ۔جی ماما وہ اب کیا کہتی ماں سے کہ وہ کیا

 سوچے بیٹھی تھی۔

صبح سے شام ہو گئ تھی غازیہ اپنے پاپا کے روم میں  آ گئ تھی ۔

اور آتے ہی اپنے باپ کو اتنا بے بس دیکھ کر رونا شروع کر

 دیا ۔ادھر آؤ میرے پاس وہ نسیم بیگم کے پہلو سے نکل کر 

ظہیر الحسن کے پہلو میں جا بیٹھی ۔میں اب بلکل ٹھیک ہوں ۔

میں بہادر بیٹا اتنا کمزور تو نہیں ہے ۔میری گڑیا رخصت 

ہو کر اور بھی پیاری ہو گئ ہے ۔انہوں نے اس کے لباس 

کی تعریف کی تھی ۔پاپا وہ کہہ کر ان کے سینے سے جا لگی ۔

آپ بہت ویک ہو گئے ہیں پاپا میں تو بہت ڈر گئ تھی ۔

موت سے ڈرنا نہیں چاہیے یہ تو برحق ہے بیٹا ۔اور جس کی

 جیسے لکھی ہے ویسے ہی آنی ہے ۔

تمھارے ساتھ ابصار نہیں آیا کیا ۔وہ خاموش ہو کر ماں کو

 دیکھنے لگی ۔آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائیں پھر سب کچھ 

دیکھ لینا ۔

اور اس سے خود ہی آپ پوچھ لینا پاپا جانی نسیم بیگم 

کی بات کو ٹوک کر اس نے بھی ماحول کو خوشگوار 

کرنے کی کوشش کی ۔وہ بہت دیر تک چہکتی رہی اپنے پاپا

 کے ساتھ اور ابصار عالم جو تھوڑی دیر کے لیے ہی اس کے 

زہن میں آیا تھا کہ وہ کہاں ہو گا اور کیوں چلا گیا ۔اس 

کے دماغ سے محو ہو گیا ۔وہ بس اپنے ماما پاپا کے ساتھ

 خوش تھی ۔اور ان کے ساتھ بیٹھ کر سب کچھ بھول گئ

 تھی۔

مگر ایک بات اسے بہت ناگوار گزری تھی کہ ابصار عالم 

اس کے پاپا کے لیے نہیں رک سکا اور اسے میری بھی پرواہ 

نہیں کی ۔

ویسے بھی ابصار عالم کے لیے ایسے ہی تھی ۔اسے بغیر 

سوچے سمجھے جج کرنے لگتی تھی۔

اور سزا سنا دیتی تھی ۔ہر بار اسے ابصار عالم نے بچایا تھا ۔

وہ اغواء ہوئی تھی ابصار عالم خود اسے گھر چھوڑ گیا تھا ۔

حالانکہ پاشا کے آدمیوں نے گھیر لیا تھا اور پھر پاشا غازیہ

 کو لے کر جنگل کی جانب بڑھا تھا مگر اپنی پرواہ کیے بنا

 وہ اس کے پیچھے بھاگا مگر غازیہ ظہیر اسے کاٹ رہی تھی 

مکے مار رہی تھی ۔اور یکدم اس کے چنگل سے نکل کر اس

 نے ایک بہتی ہوئی ندی میں چھلانگ لگا دی تھی۔ 

ابصار عالم اس لڑکی کے حوصلے کو داد دیے بنا نہ رہ سکا تھا 

ابصار نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر اس کے پیچھے اس

 ندی میں کودا تھا ۔رات اندھیری تھی مگر غازیہ کی چیخ 

نے اسے سمت بتا دی تھی ۔اور اسے دیر بھی نہیں ہوئی تھی ۔

وہ اسے باہر نکال لایا ۔مگر تب تک وہ بے ہوش ہو چکی تھی ۔

پاشا یوں تو کچھ بھی نہ کر سکا مگر اس نے ظہیر الحسن 

۔کو کال کر دی تھی ۔پولیس نے اسے گھیر لیا تھا شان

پولیس کو دیکھ کر سائیڈ پہ ہو گیا تھا۔خرم جیل میں تھا  

۔تب ابصار عالم نے غازیہ ظہیر کے باپ کو کال کی اور اسے

 کہا کہ آپ کی بیٹی کو میں کچھ نہیں ہونے دوں گا ۔

آپ اپنی پولیس واپس بلا لیں اور میں آپ کی بیٹی کو 

آپ کے گھر چھوڑ آؤں گا ۔اس طرح کسی کو بھی پتہ نہیں 

چلے گا کہ وہ ایک رات کئی غنڈوں کے ساتھ گزار کر آئی ہے

 وہ پاک دامن ہے یہ صرف آپ ہی کہہ سکتے ہیں دنیا نہیں ۔

میری ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔

لوگ میرے پہ بھروسہ نہیں کریں گے ۔مگر آپ کی بیٹی پہ

 بھی کوئی بھروسہ نہیں کرے گا۔

اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے میں چاہوں تو آپ کی

 بیٹی کو ہتھیار بنا سکتا ہوں مگر میں ایسا نہیں کروں گا 

ابصار عالم بولتے بولتے خاموش ہوا ۔اور ایک بات آپ کی 

بیٹی کو پاشا سے میں نے آزاد کروایا ہے ۔

اس کی حالت ابھی خراب ہے وہ ندی میں کود گئ تھی ۔

بتاؤ اب کیا کرنا ہے ۔

ظہیر الحسن کو ابصار عالم کہ باتیں ٹھیک لگی تھیں ۔

اس لیے اس نے پولیس کو واپس جانے کا کہا اور ابصار عالم 

کو گاڑی بھجوائی جس میں وہ غازیہ جو گھر چھوڑ آیا تھا۔

اور خود شان کے ساتھ اپنے مشکی گھوڑے پہ واپس چلا گیا تھا 

اس کا یہ احسان بھی تھا ابصار پہ ورنہ وہ پولیس مقابلے

 میں مر بھی سکتا تھا اور ندی میں بھی اس کی جان جا

 سکتی تھی ۔کیونکہ اسے تیرنا نہیں آتا تھا ۔

وہ وہاں سے بھاگ بھی سکتا تھا غازیہ کو ہتھیار بنا کر 

مگر وہ چھپکلی سی ڈری سہمی اس کے چوڑے سینگ کے ساتھ

لگی وہ بے ضرر سی لڑکی اس کے سوئے ہوئے جذبات جگا گئ تھی۔

اگر وہ کچھ دیر یوں ہی اسے اپنے ساتھ لگے رہنے دیتا تو

وہ بہک سکتا تھا ۔

اور وہ اپنا ایمان کمزور نہیں کرنا چاہتا تھا ۔

اس لیے بھی وہ اسے چھوڑنے جا رہا تھا ۔اور ا۔ تو وہ 

اسے کسی حالت میں بھی اسے دکھ نہیں دے سکتا تھا ۔

اس نے سوچا تھا اس کے دل میں اپنے لیے محبت اور عزت 

پیدا کروں گا ۔

نہ کہ زبردستی اسے اپنی طرف مائل کروں گا ۔ورنہ وہ بہت 

کچھ کر سکتا تھا ۔

مگر جو جو بھی ہوتا گیا باقی سب ایک اتفاق تھا ۔

اور وہ میرے اور بھی قریب ہوتی گئ ۔

اسی لیے اس نے جسٹس کو سب کچھ بتا دیا تھا ۔

جب جمالی اور فخری اس سے ملنے گئے ۔اسے لگاکہ وہ بھی 

اس میں انوالو( involved) ہے شامل ہے مگر ان کے جانے

 کے بعد ابصار عالم نے پہلے غازیہ سے تعلق ختم کرنے کا

 سوچا اور پھر جسٹس سے ملاقات کا ٹائم لیا اور اس کے پاس 

کورٹ چلا گیا ۔جسٹس ظہیر نے اسے زیادہ انتظار نہیں

 کروایا ۔اور جلد ہی ان سے ملنے آ گئے ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

 ابصار عالم نے اٹھ کر ان سے مصافحہ کیا خرم بھی ان کے

 ساتھ ہی تھا ۔

جسٹس ظہیر الحسن صاحب ابصار عالم کی عادت تھی وہ

 ان کا پورا نام لیتا تھا ۔

آپ کو پتہ ہے کہ جمالی اور فخری آپ کے پاس کیوں آئے تھے 

ہاں وہ مجھے کہہ رہے تھے کہ تم ان کی کچھ اراضی پہ 

قبضہ کرنا چاہتے ہو ۔اور تم نے انھیں دھمکی دی ہے ۔

فل حال تم بتاؤ کیوں ملنے آئے ہو ۔جبکہ جو حرکت تم نے 

کی اس کے بعد میں تمھاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔

جسٹس نے اپنی بیٹی کے اغواء کی حرکت جتلاتے ہوئے 

اسے شرمندہ کیا ۔اس کا شرم سے سر جھک بھی گیا ۔

کیوں کہ وہ واقعی ہی اس حرکت پہ شرمندہ تھا ۔

ایم سوری جسٹس ظہیر الحسن مگر جس شخص کو آپ 

نے جیل میں رکھا ہوا تھا وہ بے گناہ تھا ۔

اور وہ سارے ثبوت ۔جسٹس نے جواب دیا ۔

ابصار عالم نے ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائی۔ وہ جعلی تھے ۔اور آپ 

بات سننے کو تیار نہیں تھے ۔

خیر وہ قصہ چھوڑو تم مجھے اپنے آنے کا مقصد بتاؤ۔

میں  نے جمالی اینڈ گروپ کو  کوئی دھمکی نہیں لگائی ۔

ان سے زمین خریدنے کی بات کی ہے اور وہ ایک شرط رکھنا 

چاہتے ہیں۔میں جانتا ہوں ان کی شرط کو جسٹس نے کہا ۔

بری تو نہیں ہے تمھیں مان لینی چاہیے ۔وہ عرصے سے 

دوست ہیں میرے ۔ابصار نے بات کاٹ دی ۔

کیا کیا کہا ابصار عالم نے بھنویں چڑھائی ٹانگ کو ٹانگ سے

 نیچے اتارا اپنے قمیض کے دامن کو ایک جھٹکا دے کر

 سیدھا کیا اور خرم کو دیکھا ۔جسے اسے کہہ رہا ہو ۔

دیکھا میں نے کہا تھا ناں کہ یہ بھی ملوث ہے ۔

آپ کا کہنا ہے کہ میں ان کی شرط مان لوں  وہ بچے ان کو

 بھیک مانگنے کے لیے دے دوں ۔

اور لڑکیاں دھندے کے لیے دے دوں واہ جسٹس ظہیر الحسن۔

شٹ اپ کیا بکواس کر رہے ہو ۔جسٹس نے ابصار کو جھاڑا ۔

ابصار عالم خاموش ہو کر جسٹس کے بلا وجہ غصے کو 

کو دیکھنے لگا ۔

اس کے ہاتھوں کی اور کنپٹیوں کی رگیں ابھر چکی تھیں ۔

وہ ضبط کا عادی تھا ۔کول مین شخص ہر بات آرام سے 

۔ہی کر جاتا تھا اور سہہ جاتا تھا ۔چیخنا ۔چلانا دھاڑنا 

ابصار عالم کی عادت نہ تھی ۔اسی لیے لوگ اس سے ڈرتے

 بھی تھے ۔کیونکہ اس کی اس ٹھنڈی طبیعت میں ایک ۔

طوفان چھپا ہوا کرتا تھا جو وہ کر جاتا تھا ۔اور وہ سوچتے 

رہ جاتے تھے ۔

وہ اسے جوش دلاتے جو دشمن تھے ۔تاکہ وہ غصہ کرے 

ہم پہ چیخیے ہم پہ چلائے اور ہم اسی کو ہتھیار بنائیں 

اور اسے جیل بھجوا کر چکی پسوائیں ۔

کیوں کہ وہ ایسا کر کے دیکھ چکے تھے ۔ابصار عالم کا کسی

 کے ساتھ کنٹریکٹ ختم ہوا تو ان کے ساتھ مزید کام نہیں 

کرنا چاہتا تھا مگر انہوں نے اس سے اس بے عزتی کا بدلا 

لینے کی ٹھانی اور اپنے ایک ورکر پیسے دے کر زخمی کر دیا 

اور پولیس کو اطلاع دے دی ۔پولیس نے اس سے بیان لیا ۔

اس نے ابصار عالم کا نام لے لیا ۔

جب یہ بات کچھ اور افسران کے پاس پہنچی جن میں 

ایس ایس پی داور بھی شامل تھے ۔انہوں نے کہا کہ 

ابصار عالم کبھی مار پیٹ نہیں کرتا اور غریبوں پہ تو بلکل

بھی نہیں کرتا وہ اپنے سے کمزوروں پہ اونچی آواز میں بات

 تک نہیں۔ کرتا اس میں ضرور دشمن کی چال ہے ۔

اور اس طرح وہ خود ہی اس کیس سے بری ہو گیا ۔کیونکہ 

ورکر کو سچ بولنے پہ اکسایا پولیس نے تو اس نے بھی سچ

 سچ بول دیا ۔

نیکی ہمیشہ ابصار کے کام آتی تھی۔

میں نے کب کہا کہ تم یہ سب کرو ۔ایک منٹ جسٹس 

ابصار نے اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا جیسے کچھ سمجھ گیا ہو وہ ۔

اور اس نے جسٹس کی بات ٹوک دی ۔اپ کہنا کیا چاہتے ہیں ۔

یہی شرط رکھی تھی انہوں نے جب خرم کو اندر کروایا 

مجھے یہی کہا کہ میں ان کے ساتھ یہ دھندہ کروں ۔ابصار 

نے جسٹس کو کھلم کھلا کہا۔تاکہ انھیں بھی کچھ شرم آئے ۔

تم میرے سامنے خود کو سچا کیوں ثابت کرنا چا رہے ہو۔

جسٹس نے ابصار عالم کی وضاحت کو غلط رنگ دیا ۔

قانون اندھا ہے جسٹس صاحب مگر آپ تو اندھے نہیں ہیں ۔

شٹ اپ ابصار تم اپنی لمٹس کراس کر رہے ہو ۔

ٹھیک ہے میں خاموش ہو جاتا ہوں ۔آپ ہی بتائیں کیا سچ ہے ۔

ابصار عالم نے خاموش ہوتے ہوئے جسٹس کو ریلیکس کیا ۔

تمھارے پاس کیا ثبوت ہے ان باتوں کا آپ کو مجھ سے ثبوت

 چاہیے تو آپ کو انتظار کرنا ہو گا کل کا ٹھیک ہے ۔جسٹس

 نے اوکے کہا۔

ابصار عالم نے اجازت چاہیے ۔اور اٹھتے ہوئے ایک بات کرتا

 باہر نکل گیا ۔میں آ پ کو کال کروں گا ۔انتظار کیجئے گا ۔

اوکے مجھے انتظار رہے گا ۔

جسٹس نے بیٹھے بیٹھے ہی ۔جواب دیا 

اور اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے موبائل پہ بزی ہو گیا ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

اب اسے کیا ثبوت دیں گے ہم ہمارے پاس تو کوئی ثبوت

 نہیں ہے ۔خرم چور جب چوری کرتا ہے تو اپنے نشان ضرور 

سوچتا ہے آج تک تمھارا بھائی کسی کام کو نہیں کر پایا تو

 بول وہ رہلکیس ہوا اب دیکھ میں کیا کرتا ہوں ۔

ابصار عالم نے سیل اٹھایا جو اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی

موبائلل سائیڈ پہ رکھا تھا ۔ 

ایس ایس پی داور اسپیکنگ ۔

میں ابصار عالم بات کر رہا ہوں داور صاحب ۔

زہے نصیب ابصار عالم آج ہماری یاد کیسے آ گئ ۔

آپ سے ایک کام ہے کل کے لیے ہمیں سکیورٹی فورسز چاہیے ۔

جو خالص ہونی چاہیے ۔ابصار نے کچھ جتاتے ہوئے کہا  ۔

آپ بے فکر رہو بیٹا میں سب دیکھ لوں گا ۔کوئی پرابلم ہے۔

 کیا جی کچھ ایسا ہی ہے ۔اپ کو مزید میں کال کر مے آگاہ 

کر دوں گا ۔

ٹھیک ہو گیا ناں ابصار نے خرم سے کہا۔

اب جو بھی کرے گا اپنا ٹائیگر کرے گا ۔

وہ گھر پہنچے اور ابصار عالم نے سب سے پہلے ٹائیگر سے

 ملاقات کی ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

ٹائیگر تمھاری ضرورت پڑ گئ ہے مجھے ۔

یہ ایڈریس ہیں جمالی اور فخری ٹیم کے ان کے پیچھے رہنا ہے 

تمھیں وہ کس سے ملتے ہیں 

کیا پلاننگ کر رہے ہیں کون کون سے لنکس ہیں ان کے یہ

 سب دیکھنا ہے ۔ےتمھیں اوکے باس آپ فکر نہ کریں ۔

اپنی پرسنل گاڑی لے جانا تاکہ کسی کو شک نہ ہو کہ تم

 ہمارے آدمی ہو یہ وئیرلیس ہے تم جہاں بھی جاؤ گے 

میں تمھیں۔ دیکھتا رہوں گا ۔اور اس طرح اس میں سب

 ریکارڈ بھی ہو جائے گا ۔

اس سے ہمیں ان کے مشن کا پتہ چل جائے گا ۔

اور وہ اسے سب سمجھا کر اپنے روم میں واپس آ گیا۔

ابصار عالم ٹائیگر کو ساری صورتحال سمجھا کر اپنے روم

 میں آیا ۔اور پھر اپنا کمپیوٹر آن کر کے ٹائیگر کا سارا کام 

دیکھنے لگا ۔

وہ لوگ کسی پرانے سے علاقے میں ایک شخص سے ملنے آئے

 ہیں ۔اب اندر سے کیسے پتہ چلے گا باس یہ سوچ رہا ہوں ۔

تم دیر نہیں کروں یہ اگر علاقہ پرانا ہے تو یہاں کوئی فیملی 

نہیں ہو گی یہ ان لوگوں کا خفیہ جگہ ہو گی تم اس کے گرد

 گھوم کر جائزہ لو اور جہاں سے جگہ ملے اندر گھس جاؤ ۔

اوکے باس ٹائیگر اس کی باتوں پہ عمل کرتا وہ ایک فقیر سا

 بھیس بدلے ایک قوالی گنگناتا ایک گلی سے دوسری میں

 چکر کاٹتا وہ اس گھر کی بیک سائیڈ سے آیا ۔

ایک چھوٹا سا دروازہ جو بہت ہی بوسیدہ نظر آ رہا تھا۔

ٹائیگر نے گلی میں ادھر ادھر دیکھا رات کا ٹائم تھا ۔گلیاں

  سنسان پڑی تھیں ۔ 

اس نے تھوڑا سا لاک کو ہلا  کر دیکھا مگر لاک زنگ آلود 

تھا اس کا مطلب ہے کہ عرصہ ہوا اسے کسی نے ہاتھ بھی

 نہیں لگایا  ۔ٹائیگر نے ہاتھ میں ایک آری نما آزار پکڑا 

اور لاک کو کاٹ دیا ۔

وہ اندر چلا گیا اندر گھپ اندھیرا تھا ۔ٹائیگر کو سمت

 سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ منزل کے قریب پہنچ کر کوئی گڑ

بڑ نہیں کرنا چاہتا تھا اندھیرے کی وجہ سے ابصار کو بھی

 وہ نظر نہیں۔ آ رہا تھا ماوتھ پیس سے آواز ابھری ۔

ابصار عالم الرٹ ہوا ایوری تھنگ از اوکے 

( everything is  ok)

سب ٹھیک ہے باس بہت اندھیرا ہے اس نے سرگوشی کی 

ٹارچ آن کروں کیا ۔نہی تم روشنی ڈھونڈو اگر وہ ادھر ہی

 ہیں تو روشنی کہیں ضرور ہو گی ۔

ابصار عالم کی۔ ات ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ اسے 

سامنے سے ایک ریمبو کے جتنی موٹی روشنی کی لکیر نظر 

آئی ۔

باس راستہ مل گیا ۔اوکے ابصار نے جواب دیا ۔

وہ جیسے ہی تھوڑا آگے بڑھا اس دیوار کے اس پار ایک

 گلاس ونڈو تھی اور سامنے دروازہ کھلا تھا ۔

آوازیں سنائی دیں رہی تھیں۔

ونڈو پہ کوئی کرٹن موجود نہیں تھا۔اس لیے ٹائیگر تھوڑا

 دروازے والی سائیڈ پہ آیا ۔اور وہاں سے سب نہ صرف وہ

 سن چکا تھا بلکہ بہت کچھ دے بھی چکا تھا ۔اور اس رات

 کو یہی وہ ثبوت دکھانے آ رہے تھے ۔ایس ایس پی داور کے 

ساتھ ان کا اس جگہ پہ چھاپہ مارنے کا پروگرام ۔

جو بعد میں ان کے چنگل میں میں وہ خود ہی آ گئے تھے ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

باؤ کیا ہوا ہے یہ سب آپ یہاں ہاسپیٹل میں اس طرح۔

میں ٹھیک بہوں خرم تھوڑی سی طبیعت خراب ہو گئ تھی ۔

وہ موبائل سائیڈ پہ رکھتا ہوا ۔خرم سے کہنے لگا ۔اس بات

 کا کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے کہ میں ہاسپیٹل بنیں ہوں ۔

اپنی بھابھی کو گھر لے جانا اگر وہ جانا چاہے تو اور باؤ 

اسے میں آپ کا کیا بتاؤں گا کہ آپ کہاں ہیں ۔کہہ دینا 

اپنے گاؤں گیا ہے ۔باقی میں سب سنبھال لوں گا ۔

اور اسے کال کر لوں گا ۔

کیا آپ دونوں ینگرز کو  میں بھی جوائن کر سکتا ہوں۔

کیوں نہیں داور صاحب آپ سب کی دعاؤں سے تو آج 

میں زندہ ہوں ۔ابصار عالم نے داور کی جانب مسکرا کر دیکھا۔

اللہ تمھیں اور ترقی دے داور نے ابصار کا کندھا سہلایا۔

اور اس کے ساتھ رکھی چئیر پہ بیٹھ گیا۔

وہ گپ شپ کر رہے تھے ۔

ابصار خرم بھی آج یہاں ہے یہ جگہ تو مناسب نہیں ہے ۔

مگر میری ہہاں ڈیوٹی ہے اور تم یہاں موجود ہو ۔

خرم کو دیکھ کر ہی مجھے کچھ آئیڈیا آیا ہے۔ 

تمہید کیوں باندھ رہے ہیں داور صاحب بولیں ناں آپ کیا۔

کہنا چاہتے ہیں۔

میں اپنی بیٹی دینا چاہتا ہوں خرم کو ۔

خرم نے پہلو بدلا اس کی آنکھوں کے سامنے وہ پاگل لڑکی

 آئی تھی۔ کیوں نہیں داور صاحب آپ سے ریلیشن شپ۔

 ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے ۔

خرم سے میں بات کر لوں گا آپ بے فکر رہیں ہ۔ انشا اللہ

 کچھ اچھا ہی سوچیں گے۔

اوکے پھر میں زرا راؤنڈ لگا لوں تم ریسٹ کرو ۔

وہ خرم اور ابصار عالم کو الوداع کہتے باہر نکل گئے۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

کیا ہوا تمھاری رنگت کیوں اڑ گئ باس میں ایسے کیسے ایک

 انجان سے شادی کر لوں۔کوئی بھی انجان نہیں ہوتا خرم ۔

میں اور تم کیا رشتے دار تھے ۔

اب دیکھو جیسے ہم واقعی ایک دوسرے کا حصہ ہیں ۔

جڑنے سے پہلے سب ہی اجنبی ہی تو ہوتے ہیں ۔میں سوچ

 بھی نہیں سکتا تھا۔غازیہ جیسی لڑکی میری لائف پارٹنر 

بنے گی ۔کیا میں اسے جانتا تھا نہیں ناں لیکن مزاج میں

 بہت فرق ہے بھائی وہ آپ جتنی سمجھدار نہیں ۔ خرم نے

 ڈرتے ڈرتے کہا ۔

خرم ابصار عالم سامنے دیوار کو دیکھنے لگا ۔

وہ بہت سمجھدار ہے اسے پتہ ہے کہاں اسے خود کو بچانا ہے۔

وہ بہادر بھی ہے ۔سمجھدار بھی ہے ۔اور مجھے پسند بھی ہے۔

اس کے علاؤہ وہ ایک بہت حساس لڑکی ہے ۔

خود کو نقصان پہنچا سکتی ہے ۔مگر دوسروں کو نہیں ۔

اور یہ ہی کافی ہے۔اس نے پھر چہرہ موڑ کر خرم کو دیکھا۔

ہم جا کر دیکھ لیں گے داور  کی بیٹی کو اچھا بھائی اگر وہ 

مجھے پسند نہ آئی تو پھر ایس پی کی دل آزاری نہیں ہو

 گی کیا ۔داور سمجھدار اور تجربہ کار آدمی ہے ۔انہوں نے اگر 

یہ بات کی ہے تو اس میں ضرور کوئی بات ہو گی ۔لوگوں 

کو پرکھنا سیکھو تم بھی خرم اب ۔جاو زیادہ نہیں سوچو 

ہم دونوں کی غیر موجودگی باقیات کو پریشان کر دے گی ۔

اب کیا کروں بھابھی کو لے جاؤں اس سے پوچھ لو ۔

اور انھیں کہنا کہ میں نے لینے بھیجا ہے۔

اچھا باس میں پھر چلتا ہوں ۔خرم کہہ کر باہر نکل گیا ۔

مگر وہ تھوڑی دیر بعد واپس آیا ۔اس کے ہاتھ میں بہت

 سارے فروٹس چھری اور کچھ سالٹ لے آیا تھا ۔

باؤ امید ہے آپ اپنا بہت خیال رکھیں گے ۔مجھے سب پتہ

 چل گیا ہے ۔اپ کو اب اپنا بہت خیال رکھنا ہے پہلے سے

 بھی زیادہ آپ نہیں تو ہم بھی کچھ نہیں ہیں ۔وہ ابصار عالم

کے پاس بیڈ پہ جا بیٹھا اور اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ 

آنسو ٹپکنے لگے ۔

خرم تم میں پوری عورت چھپی ہوئی ہے ۔قسم سے 

ابصار عالم نے اس کے آنسوؤں پہ چوٹ کرتے ہوئے ۔

ختم کو گلے لگایا ۔وہ اور بھی رونے لگا نرس انٹر ہوئی تو وہ

 بھی یہ سین دیکھ کر ہنس دی ۔

اب جاؤ خرم  ابصار عالم  خرم کی پیٹھ کو پیار سے تھپکا ۔

لیکن میری ایک شرط ہے باس خرم ابصار عالم سے الگ ہوتے

 ہوئے بولا ۔

ہوں واقعی ۔ابصار عالم کچھ کچھ سمجھتے ہوئے شرارت

 سے بولے۔میں آپ کے پاس رہوں گا ۔اچھا میں  بھی یہاں

 ہوں ۔تم بھی یہاں رہو گے تو پیچھے جون سب دیکھے گا ۔

شان اور زیشان ابھی بچے ہیں ۔

میں کچھ دن یہاں سے کسی پرسکون جگہ جانا چاہتا ہوں۔

بس ظہیر الحسن ٹھیک ہو جائیں پھر تب تمھیں ہی سب

 دیکھنا ہے  ۔تو آج سے کیوں نہیں۔

باس ابھی پاس رہنے کی اجازت دے دیں یا پھر بھابھی کو 

اپنے پاس رہنے دیں ۔

کیا تم پاگل ہو گئے ہو ۔آپ کے پاس کسی کو ہونا چاہیے۔

خرم نے کہا۔خرم یہ بات تمھیں پتہ چل بھی گئ ہے تو  ۔

اب یہی دفن ہو جانی چاہیے۔کسی کو بھی اس کا زکر مت 

کرنا۔اود غازیہ ظہیر کو تو کبھی بھی نہیں ۔

اچھا باس میں پھر بھابھی سے پوچھ کر آتا ہوں ۔

وہ چلیں گی تو میں انھیں چھوڑ کر گھر وآپس آجاؤں گا ۔

میں نے کب تمھاری شرط مانی ہے ۔

وہ ان سنی کرتا باہر نکل گیا ۔ابصار عالم بھی ایک ہاتھ  

میں موبائل پکڑتا اور دوسرا ہاتھ بالوں میں پھیرتا مسکرا دیا۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

اسلام وعلیکم ایوری ون ۔خرم غازیہ ظہیر کی والدہ کو 

دیکھ کر مشترکہ سلام کیا ۔وعلیکم اسلام کیسے ہیں آپ

 انکل خرم ان کے بیڈ کے پاس آیا اور جھک کر جسٹس کو 

سلام کیا اور ان کی خیریت پوچھی ۔

اب کیسی طبعیت ہے آپ کی اللہ کا شکر ہے بیٹا ۔

وہ لیٹے لیٹے مسکراتے ہوئے بولے ۔

بھابھی کو لینے آیا تھا  ۔بھائی اپنے گاؤں گئے ہیں ۔ 

ظہیر الحسن کے سوا کسی کو اس بات کا علم نہیں تھا۔

غازیہ سے پوچھ لو بیٹا ویسے اسے جانا چاہیے میں جب گھر 

آ گیا تو ان دونوں کو گھر پہ بلواوں گا ۔پاپا آپ نے مجھے 

پھر سے کنفیوز کر دیا ۔

بیٹا گھر جاؤ ابھی تمھارا یہاں رکنا ٹھیک نہیں میں دو دن

 تک گھر آجاؤں گا تو تم وہی میرے پاس آ کر رہینا ۔

اچھا پاپا میں آپ کے کہنے پہ چلی جاتی ہوں ۔

ابصار عالم کو اس نے صبح سے دیکھا نہیں تھا ۔اسے خود

 بھی چین نہیں۔ آ رہا تھا ۔

وہ یہ سوچ گھر چلی آئی کہ ابصار رات تک واپس آجائیں

 گے۔

وہ گاڑی میں بیٹھی ہی تھی جب اس کے موبائل نے بپ 

کیا تھا ۔غازیہ نے انباکس میں جا کر ایس ایم ایس ۔اوپن 

کیا ۔اس پہ ابصار عالم کی ایک رومانوی سی پوئم

 ( poem )

تھی۔

پیار ہو گیا ہے تم سے ۔۔۔

خود سے زیادہ۔

سب سے زیادہ۔

حد سے زیادہ۔۔۔ 

غازیہ ظہیر کی سوئی دھڑکنیں بیدار ہوئیں اسے ایسے لگا 

جیسے ابصار اس کے سامنے ہو اس کے آس پاس ہو ۔

اس کے رو برو ہو ۔

پھر ٹون بجی تھی۔

غازیہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ مسیج پھر اوپن کیا۔

رکھ کے تیرے لب پہ لب ۔

سب شکایتیں مٹا دیں گے ۔

وہ بلش ہوئی اوففففففففففف یہ کئی مجھے دیکھ تو نہیں رہے 

غازیہ نے اس کی دو دن پہلے کی حرکت یاد کی ۔

ہیر نے چکر نہیں لگایا وہ ادھر ادھر دھیان بٹانے لگی ۔

موبائل پہ پھر مسیج ٹون بجی تو اس نے پچھلے مسیج کو 

دیکھ کر اوپن ہی نہیں کیا ۔اسے خود سے بھی حیا سی 

آ رہی تھی ۔

غازیہ ظہیر چپ چاپ کر کے اپنی عادت کے مطابق سر 

کھڑکی سے لگائے وہ بس باہر کا نظارہ کرتی رہیتی ۔

مگر آج وہ بہت اداس تھی ۔مگد سمجھ نہیں پا رہی تھی ۔

خرم بھائی یہ ابصار عالم واقعی ہی کہیں گئے ہوئے ہیں ۔

ابصار عالم اپنی ڈیوائس آن کیے ان کی طرف متوجہ ہوا۔

جی بھابھی ایسا ہی ہے ۔آئیں گے کب وہ گھر پہ رات تک 

آ جائیں گے ناں خرم کو شرارت نے اکسایا  نگر وہ رشتے 

کا لحاظ کر گیا ۔اور وہ اتنا بے تکلف تھا بھی نہیں کی کہیں 

بھی کچھ بھی کہے دے ۔

پتہ نہیں بھابھی آپ کال کر کے پوچھ لیجیے گا ۔

خرم نے ٹالتے ہوئے کہا ۔

غازیہ ظہیر کو برا لگا تھا۔اس کا یوں ٹالنا اسی لیے وہ

 کھڑکی میں سر دیئے منہ پھلا کر بیٹھ گئ ۔ابصار کے لبوں

 پہ مسکراہٹ در آئی وہ بہت پیار سے غازیہ ظہیر کے زاویے

دیکھنے لگا ۔مگر نرس نے اسے پکار کر سارا مزا کرکرا کر دیا ۔

سر آپ کی میڈیسن کا ٹائم ہو گیا ہے۔اچھا لا دو وہ بیزاری

 سے مگر نرم سے لہجے میں بولا ۔

ابصار عالم نے میڈیسن کھائی اور موبائل سائیڈ پہ رکھ کر 

لیٹ گیا۔یہ سوچ کر کہ جتنا آرام کروں گا اتنی جلدی ٹھیک 

ہو جاؤں گا ۔وہ آنکھوں میں غازیہ ظہیر کو سموئے ہوئے تھا ۔

جب اسے ایک خیال آیا۔سسٹر مجھے پیڈ اور پین مل سکتا ہے ۔

مل سکتا ہے سر مگر آپ دوبارہ آٹھ کر بیٹھ نہیں سکتے ۔

مانا کہ آپ بہت ہمت والے ہیں مگر آپ کے سٹیچز  ابھی 

کچے ہیں اس لیے آج رات آپ کو لیٹ کر ہی گزارنی ہو گی ۔

ورنہ آپ کا زخم ادھڑ سکتا ہے ۔

اوکے جیسے آپ کی مرضی میں سہی ہو۔

وہ اچھے بچوں کی طرح ۔دوبارہ موبائل لے کر اپنے ہاتھ میں 

غازیہ کو دیکھنے لگا جو رو رہی تھی ۔یاالللہ ایک تو یہ لڑکی

 روتی بہت ہے ۔ابصار عالم اسے ابھی کال نہیں کرنا چاہتا تھا ۔

مگر اسے روتے دیکھ کر سب بھول گیا ۔اور کال ملا دی ۔

ابصار عالم کی کال کیوں آ رہی ہے۔مجھے سننی ہی نہیں ہے۔

وہ غصے سے بڑبڑائی بھابھی آپ نے کچھ کہا ۔

وہ منہ دوسری سائیڈ پہ کر کے باہر دیکھنے لگی۔ خرم

 سمجھ گیا ۔وہ ابھی غازیہ کو خوش کرنے کا سوچ رہا تھا ۔

کہ ان سے ایک گاڑی آن ٹکرائی۔اوہ میرے خدا غازیہ سیدھی 

ہو کر بیٹھی ۔خرم نے گاڑی کو روکنا مناسب نہیں سمجھا 

وہ بال بال بچے تھے ۔وہ گاڑی انھیں زن کر کے آگے بڑھ گئ 

تھی ۔خرم نے بھی گاڑی اس کے پیچھے لگا دی۔

زیلیہ داور نے خرم کی گاڑی کو اپنے پیچھے آتے دیکھا ۔

وہ ایک ویرانے میں اتر گئ ۔خرم بھی اس کے پیچھے اتر گیا ۔

غازیہ ظہیر جو کب سے چپ کر کے بیٹھی تھی آخر میں

 اسے ٹوک دیا ۔خرم بھائی آپ یہ کیا کر رہے ہیں ۔

بھابھی معاف کیجئے گا ایسی لڑکیوں کو سبق سکھانا 

بہت ضروری ہے۔اپ کے کوئی دشمن کی چال بھی ہو سکتی ہے 

اور آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک لڑکی ہے ۔یہ گاڑی 

مجھے یاد ہے اس سے پہلے بھی میری ملاقات ہو چکی ہے ۔

آپ پلیز ریلکس ہو جائیں ۔غازیہ نہ سمجھتے ہوئے ۔

پیچھے سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئ ایسا لگ رہا تھا 

جیسے کوئی بندر کا تماشا لگنا والا ہو اور غازیہ چار پانچ

 سال کی بچی ہو اور اس سے انتظار نہ ہو رہا ہو۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

خرم اس گاڑی کے پیچھے ہی رکا تھا ۔مگر زیلیہ داور کے چہرے 

کی ۔مسکراہٹ اسے پریشان کر گئ۔بھابھی مجھے اس لڑکی

 کے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے وہ ایک سنسان سی جگہ کو

 دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ معاملہ کچھ سریس ہے۔ 

اب گاڑی سے اترو بھی غازیہ ظہیر نے خرم سے کہا ۔بھابھی 

میں کچھ سوچ رہا ہوں ۔یہ لڑکی کچھ کرنے والی ہے۔

الٹا سیدھا ہاں آپ کو ہی پتہ ہوا آخر جانتے جو ہو ۔

ایک منٹ غازیہ زرا آگے ہوئی ۔کہیں تم نے فلرٹ کرکے اس 

لڑکی کو چھوڑ تو نہیں دیا ۔کیا بھابھی آپ کو میں ایسا لگتا

 ہوں ۔وہ برا مان گیا غازیہ کو بھی اپنی غلطی کا احساس

 ہوا مگر اس نے پھر وضاحت جاننی چاہی ۔آخر کیوں وہ 

آپ کی دشمن بنی ہوئی ہے۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦

آپ گھر چلیں مجھے گھر چھوڑ دیں پلیز وہ کچھ دیر انتظار

 کے بعد اکتا گئ کیونکہ خرم گاڑی بند کر کے بیٹھ گیا تھا ۔

اور اس کے سامنے کھڑی گاڑی میں سے بھی کوئی نہیں نکلا تھا ۔

خرم نے گاڑی سٹارٹ کی  ۔زیلیہ کو پریشانی ہوئی کہ خرم

 باہر کیوں نہیں آیا وہ نیچے اتر آئی ۔

زیلیہ داور ایک بڑی سی بوتل اپنی پیٹھ کے پیچھے چھپائے۔

آگے بڑھی ۔خرم تیز لائٹس پہ کچھ چھپاتا اسے دیکھ چکا تھا ۔

وہ ڈرپوک نہیں تھا مگر دشمن پہ بھروسہ کبھی نہیں کرتا 

تھا ۔ااور یہ ابصار عالم کی تربیت تھی۔بھابھی مجھے ایک 

فیور دیں گی ۔ہوں بولو۔غازیہ نے سرسری ہوں ہی بولا ۔

آپ اس لڑکی کو باتوں میں لگائیں اس سے پوچھیں کہ یہ

 کیا چاہتی ہے آج اپنی جان بھی جا سکتی تھی ۔گاڑی الٹ

بھی سکتی تھی ۔اور میرے ساتھ ساتھ آپ کو بھی نقصان 

پہنچ سکتا تھا ۔اس لیے یہ یہاں بھی کسی مقصد کے لیے ہی

 لائی ہے۔کہے تو آپ ٹیھک ہی رہے ہو۔بھائی اچھا ویسے کیا

مجھے وہ سب بتا دے گی ۔آج وہ ضرور بتائے گی ۔مجھ پہ

 بھروسہ رکھیں ۔اوکے میں باہر جاتی ہوں ۔غازیہ اپنی چادر 

سیٹ کرتی نیچے اتر گئ ۔

زیلیہ داور خرم والی سائیڈ سے آئی اور اسے باہر آنے کا

 اشارہ کیا ۔خرم نے گردن موڑ کر پیچھے دیکھا جہاں غازیہ 

ظہیر اتر رہی تھیں ۔

غازیہ ظہیر اتر کر اس کے قریب آئی ۔تم زیلیہ داور نے اچھل 

کر غازیہ ظہیر کو کہا ۔تم غازیہ نے  بھی چونک کر اس سے 

یہی پوچھا ۔کیا چیز ہو تم دو دو مرد کو لے کر ساتھ پھرتی

 ہو  اس دن ابصار عالم اور آج یہ خر۔اس کی بات مکمل 

ہونے سے پہلے ہی اس کے منہ پہ چماٹ رسید ہوئی تھی۔

تم یوں نہیں سدھرو گی تمھیں معلوم ہی نہیں۔ عورت 

زات کا مطلب کیا ہے ۔

تم نے آپ ے ساتھ دوسروں کو بھی زلیل کرنے کا سوچ رکھا 

ہے ۔خرم اس پہ چڑھ دوڑا غازیہ ظہیر اس کی باتیں سن کر 

پہلے ہکا بکا ہوئی اور بعد میں گاڑی میں بیٹھ کر رونا شروع

 کر دیا ۔بھابھی آپ یہ گاڑی لے جائیں۔میں بھی آپ کے

 پیچھے ہی آتا ہوں۔غازیہ بھی اس وقت تنہائی بھی چاہتی

 تھی ۔ اور فرار بھی اس لیے وہ جلدی سے  ڈرائیونگ سیٹ

 پہ آئی ۔چھوڑو مجھے آج میں تم سے سارے حساب چکتا 

کر کے جاؤں گی ۔بجواس بند رکھو ۔اج کے بعد تم کسی کو 

منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہو گی ۔

آج اس کو سبق سکھا کر ہی آنا برو غازیہ ظہیر خرم کو

 تنبیہہ کرتی ۔گاڑی آگے بڑھا لے گئ۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

خرم نے اس کی وہ کلائی مروڑ دی جس میں اس نے وہ

 بوتل پکڑی ہوئی تھی خرم نے اس کے پلٹ کر غازیہ سے 

بحث کرنے پہ تیزاب کی بوتل دیکھ لی تھی ۔اور اوپر سے 

غازیہ پہ رونگ کمنٹس نے خرم کو آگ ہی لگا دی ۔

آخر  کو وہ ان کے محبوب بھائی کی بیوی تھیں ۔

جگہ سنسان تھی گھپ اندھیرا سا تھا ۔خرم جا پارہ 

ہائی فائی سے بھی اوپر تھا ۔اس نے اس سے تیزاب کی وہ

 بوتل جھپٹ لی۔یہ تیزاب ہی تمھارے منہ پہ ڈال دوں دل 

تو یہی چاہتا ہے میرا ۔مگر میں ایسا نہیں کروں گا میں

 تمھیں آج وہ سبق سکھاؤں گا کہ تم اپنی غلطی پہ پچھتاؤ 

گی بھی اور مجھ سے معافی بھی مانگو گی ۔

خرم نے اسے دونوں کندھوں سے پکڑ کر گاڑی کے بونٹ پہ 

گرا دیا ۔زیلیہ داور کی جان پہ بن آئی وہ تو یہ سوچ کر کی

 اس کا پیچھا کر رہی تھی کہ وہ اسے ہٹ کرے گی اور کئی 

دور لے جائے گی ۔وہاں جب وہ گاڑی سے نکل کر اس سے ۔

بدتمیزی پہ لیکچر دے گا تو وہ اس کے منہ پہ تیزاب ڈال کر 

فرار ہو جائے گی ۔اور وہ ایس ایس پی داور کی بیٹی ہے۔

 وہ سب ہینڈل کر لیں گے ۔مگر یہاں بھی وہ ہمیشہ کی طرح

 منہ کی کھا چکی تھی ۔

خرم زکی پوری طرح اس پہ جھک چکا تھا جب ابصار عالم

 کی کال اس کو موصول ہوئی ۔تماری بھابھی گاڑی میں 

اکیلی ہیں تم کہاں ہو۔وہ باؤ میں وہ بری طرح گھبرا گیا ۔

باس میں آپ کو گھر جا کر ساری صورتحال سے آگاہ کرتا

 ہوں۔کوئی ایمرجنسی تو نہیں ہے ناں سب ٹھیک ہے ناں جی

 جی سب ٹھیک ہے ۔جلدی گھر پہنچو اور مجھے کال کرو ۔

خرم نے عجلت میں کال بند کی ۔خرم کے ہاتھ پہ وہ بری

 طرح کاٹ رہی تھی جب کہ خرم نے اس کا منہ بند کیا ہوا

 تھا  اسے ابصار عالم کے الفاظ یاد آئے ۔

آنکھ جائے پر ساکھ نہ جائے ۔تم اندھے ہو جانا میرے نوجوانوں

مگر کسی عورت کی عزت پامال مت کرنا خرم اس کے 

اوپر سے اٹھا تھا جوخرم نے  ہلکا سا جھک کر اسے پکڑ رکھا تھا۔

مگر میں آج تمھیں معاف نہیں کر سکتا بی بی وہ پسینہ

 پسینہ ہوتا اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔زیلیہ نے اپنی

 سانس بحال کی ۔چاہو تو مجھ سے معافی مانگ کر دفع ہو 

سکتی ہو۔

معافی تم سے مائی فٹ ۔زیلیہ داور نے کہا اور ساتھ ہی اس۔

 نے اندھیرے کا بھرپور فایدہ اٹھایا۔اس کے مسلسل ایڑیاں۔

 رگڑنے کی وجہ سے ہیل والی سینڈل اتر چکی تھی۔

زیلیہ داور نے ہیل والی سائیڈ خرم کے سر میں پوری قوت

 سے دے ماری تھی ۔خرم کے سر سے ایک سرخ  پتلی لکیر 

بڑی  تیزی سے اس کی گردن سے نیچے اس کے گریبان کو

 بھگو رہی تھی ۔

خرم اپنے چکراتے سر کے ساتھ زیلیہ داور کو دیکھ رہا تھا ۔

وہ آگے بڑھا مگر وہی ڈگمگا کر گر گیا چوٹ سر میں نہیں 

دماغ میں جا لگی تھی۔

زیلیہ داور خرم کا سر سے بھل بھل کرتا خون دیکھ کر ۔

۔گھبرا گئ اور وہاں سے گاڑی لے کر میں روڈ تک بڑی مشکل

 سے پہنچی اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے ۔

اس کے اندر کوئی بہت زور سے چیخا تھا ۔زیلیہ داور اس 

شخص سے تمھاری کیا دشمنی تھی ۔وہ اپنے اصول نہیں توڑ 

سکا محض اس ب۔ا پہ تم نے اس کی جان لے لی ۔

جان لے لی زیلیہ داور بڑبڑائی ۔نہیں زیلیہ تم اسے یوں

 چھوڑ کر چلی گئ تو وہ مر جائے گا ۔

اس کے اندر سے آواز آئی۔ہاں تو مر جائے اس نے پھر لب 

ہلائے ۔نہیں زیلیہ تم اتنی ظالم اتنی کھٹور اتنی سنگدل

 نہیں۔ ہو سکتی۔تمھارا باپ ایک نیک د انسان ہے ۔وہ لوگوں

 کی جان بچاتا ہے ان کی جان  و مال کی حفاظت کرتا ہے ۔

مگر تم اس شخص کی بیٹی ہو کر کسی کی جان کیسے لے

 سکتی ہو وہ بھی بلا وجہ ۔وہ چاہتا تو آج تمھاری عزت 

کو تار تار کر سکتا تھا۔دعوت ویرانے کی اس نے اسے خود ہی

 دی تھی ۔وہ ایک خوبصورت جوان مرد تھا ۔

۔

زیلیہ داور کے پورے بدن میں کانٹے اگ آئے تھے ۔وہ ہر ممکن 

کوشش کے باوجود بھی آگے نہ بڑھ سکی ۔

اسے واپس آنا ہی پڑا اسے واپس آنا ہی تھا ۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

وہ بہت ہی مشکل سے خرم کو گھسیٹ کر گاڑی میں لے آئی

 تھی وہ پسینہ سے بھرپور اور اس کی سانسیں کسی آندھی

 طوفان کی طرح چل رہی تھیں ۔

وہ ہاسپیٹل پہنچے تو وہاں کے ڈاکٹرز نے اسے فوراً طبعی

 امداد دی تھی ۔

خرم کا زخم گہرا نہیں تھا مگر پھر بھی ابھی تک اسے ہوش

 نہیں آیا تھا۔

خرم تم ابھی تک گھر نہیں پہنچے میں کب سے تمھیں کال

 کر رہا تھا ۔وہ برو خرم ہاسپیٹل میں ہے ۔ککککک۔کیا ابصار

عالم یہ سن کر گھبرایا سب ٹھیک ہے ناں کیا ہوا ہے اسے 

ابصار عالم سنبھلا جی جی وہ ٹھیک ہیں بس تھوڑی سی

 سر میں چو ٹ لگ گئ تھی ۔زیلیہ نے ابصار عالم کی بے

 چینی دیکھ کر جلدی سے وضاحت کی ۔تم کون ہو جی وہ 

میں ہی لائی ہوں ان کو یہاں ۔زیلیہ نے گول مول جواب دیا ۔

بات کرواؤ میری اس سے ۔جی وہ ابھی اندر ہیں ان کی

 ڈریسنگ چل رہی ہے ۔

کون سے ہاسپیٹل میں ہے وہ جلدی بتاؤ۔ ابصار عالم کچھ

 سوچتے ہوئے بولا ۔جی وہ جناح میں ہے ۔اچھا میں آتا ہوں ۔

تم وہی رہو جی برو اچھا وہ بہت فرمانبردار بنی جی جی

 کرتے ہوئے بولی ۔ ابصار عالم اپنے درد بھول گیا ۔

نرس کو اندر بلوایا اور اس سے ڈاکٹر کو اندر بھجنے کا کہا ۔

خرم نے آنکھیں کھولیں تو سامنے ہی زیلیہ داور سر جھکائے

 بیٹھی تھی ۔ خرم کی پہلے تو رگیں اُبھری پھر وہ انجام بن

 گیا ۔وہ  ہاسپیٹل کی چھت کو گھور رہا تھا ۔جب زیلیہ داور

 کی اس پہ نظر پڑی تھی۔ 

زیلیہ داور پھرتی سے اٹھ کر خرم کے پاس آئی ۔کیسا فیل کر

 رہے ہو تم۔تم کون ہو اور میں یہاں کہاں ہوں ۔خرم نے

 بھرپور اداکارہ کی ۔میں زیلیہ ہوں آپ خرم ہیں اور یہ 

ہاسپٹل ہے ۔اپ کو چوٹ لگ گئ تھی تو میں آپ کو یہاں لے 

 آئی ہوں ۔ وہ شرمندہ ہوتے ہوئے بولی۔

مجھے کچھ یاد کیوں نہیں آ رہا ۔خرم نے اپنے ماتھے کو

 انگلیوں کی پوروں سے دباتے  ہوئے کہا۔ کیا مطلب چوٹ

 اتنی گہری تو نہیں تھی کہ یاد داشت چلی جائے ۔

وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی ۔

چوٹ کیسے لگی مجھے وہ مزید اسے تنگ کرتے ہوئے بولا ۔

زیلیہ داور کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا ۔

وہ پتہ نہیں میں تو جا رہی تھی آپ گرے پڑے تھے ۔

وہ حیلے بہانے گھڑنے لگی ۔کہاں پہ خرم نے پھر سوال کیا ۔

زیلیہ داور کے سیل پہ ایس پی داور کی کال آ رہی تھی ۔

وہ ہاتھ میں پکڑے موبائل کو سامنے لاتی نمبر دیکھتی ۔

خرم سے ایکسیوز کرتی روم سے باہر نکل گئی۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦

ڈاکٹر رتشی مجھے جانا ہو گا ایمرجنسی ہے ۔ڈاکٹر رتشی سے 

ابصار عالم نے بیٹھتے ہوئے ریکوسٹ کی۔ مگر ڈاکٹر رتشی 

نے ۔مسکراتے ہوئے ابصار عالم کے کندھے پہ ہاتھ رکھا ۔آپ 

یہاں سے نہیں جا سکتے ابصار عالم مجھے نہ صرف داور

 صاحب کی جانب سے سختی سے تاکید ہے ۔

بلکہ مجھے جسٹس ظہیر صاحب کی جانب سے بھی 

سٹریکٹ (strict orders)  آرڈرز ہیں ۔

میں جب خود کہہ رہا ہوں تو اس کا کیا ۔ابصار یہ آپ کی

 صحت کے لیے  ہے صرف ۔بس آج رات کی ہی بات ہے کل آپ کو

 ڈسچارج کر دیں گے۔

چلو تھوڑا واک کرنے کے لیے باہر لے چلتا ہوں ۔

اگر آپ میری بات نہیں مانیں گے تو مجھے داور صاحب کو

 کال کرنا پڑے گی ۔

ابصار مسکرا دیا ۔ابصار نے بے بس ہوتے ہوئے اپنا سیل اٹھاتا 

آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا باہر نکل آیا ۔

ڈاکٹر رتشی بھی اسے کمپنی دے رہے تھے۔

جسٹس صاحب کے پاس چلتا ہوں میں ۔شکریہ ابصار عالم

 نے ڈاکٹر کا کندھا تھپتایا۔  اور جسٹس کے روم کی 

جانب بڑھ گیا ۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️

⁩پاپا می۔ آ رہی ہوں ایک دوست کو چوٹ لگ گئ تھی اسے

 ہاسپیٹل لے آئی تھی ۔تم نے پھر کچھ کر دیا ہے کیا ۔زیلیہ 

میں۔ تم سے بہت پریشان ہوں پاپا کہا ناں ایم سوری میں نے 

اب کچھ نہیں کیا وہ جھوٹ بول کر شرمندہ ہوئی ۔مگر دل

 میں پرامس کرتے ہوئے ایس پی داور کو مطمئن کر گئ۔

تم اب جلدی گھر پہنچو تمھاری ماں پریشان ہو رہی ہے ۔

میں بھی گھر آ رہا ہوں ۔

جی پاپا میں جا رہی ہوں گھر وہ الوداع کہتی اندر بڑھ گئی

خرم ابصار عالم کو کال کر کے تسلی دے رہا تھا ۔جب 

زیلیہ داور نے اندر قدم رکھا زیلیہ داور کی ہیل کی ٹک ٹک 

نے خرم کو چوکنا کیا ۔باو میں بعد میں بات کرتا ہوں ۔

وہ کہتے ساتھ ہی چھت کو گھورنے لگا ۔زیلیہ داور سوچنے 

لگی کہ آخر اب کیا کرنا چاہیے ۔خرم نے اپنی پوزیشن چینج 

نہیں کی وہ بہت سریس نظر آ رہا تھا۔

زیلیہ اس کے بیڈ کے قریب گئ ۔اپ کو گھر چھوڑ دوں  

کیا میرا کوئی گھر بھی ہے ۔نہیں آپ میرے گھر رہتے تھے۔

زیلیہ اپنی جنونی طبیعت کی وجہ سے بھڑکی ۔

تو کیا ہم رشتے دار ہیں ۔ہاں جی ہم رشتے دار ہیں اور چلیں 

پلیز گھر پہ سب ہمارا ویٹ کر رہے ہوں گے ۔

خرم اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے ساتھ چل پڑا 

وہ خرم کو اس کے گھر پہ ڈراپ کرتی ۔واپس جانے لگی تھی ۔

جب خرم اس کی گاڑی کے آگے آیا ۔اب کیا ہوا اس نے شیشہ 

نیچے کیا۔ شکریہ میرا خیال رکھنے کا ۔

تو کیا تو تم ڈرامے کر رہے تھے اس کی حیرت سے آ نکھیں۔

 پھیلیں۔خرم سنو یز مجھے معاف کر دو اس نے اپنے دونوں۔

 کانوں کو ہاتھ لگایا۔ایک شرط پہ معاف کروں گا ۔اپنا نمبر۔

 دے دو مجھے ۔کیا لائین مار رہے ہو مجھ پہ توبہ توبہ ۔

لڑکی مجھے پھر سے زخمی  نہیں ہونا ۔میں کسی کو اپنا۔

 نمبر نہیں دیتی ۔مجھے گر  ڈھونڈنا ہو تو ایس پی داور

 اقبال 

کے گھر آ جانا ۔وہ خرم کو حیران کرتی آگے بڑھ گئ۔

تو کیا داور صاحب جانتے ہیں کہ اسے میں نے ہی پاگل خانے 

بھیجا تھا ۔اوففففف میں کوئی اور ہی داور سمجھتا رہا 

۔خرم وہی کھڑے سوچتا ہوا ۔اپنے سر پہ ہاتھ مارتا آگے بڑھ

 گیا۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

ابصار عالم جسٹس ظہیر الحسن کے روم سے واپس اپنے

 روم میں آ گیا مگر اسے بہت بے چینی ہو رہی تھی۔

روم کی لائیٹس آف تھیں۔جس کا مطلب تھا کہ وہ غازیہ کو

 نہیں دیکھ سکتا ۔وہ کیا کر رہی ہو گی ۔اس نے کچھ کھایا ہے ۔

میرے متعلق سوچ رہی ہو گی یا نہیں ۔

دو دن ہی تو ساتھ تھے پھر بھی اتنی بے چینی وہ کروٹ

 نہیں بدل سکتا تھا مگر اسے اپنی حالت پہ بہت حیرانگی۔

 ہو رہی تھی ۔اس نے اپنی عادت کے مطابق اپنے دل پہ ہاتھ 

رکھ کر کچھ پلوں کے لیے لمبے لمبے سانس لیے ۔مگر بے سود

 رہا ۔ابصار لاکھوں افراد میں محبتیں بانٹی ہیں تم نے ۔

بہت سی عزیز ہستیاں   اپنے ہاتھوں سے دفنائی 

ہیں ۔بے چینی اتنی کبھی نہیں ہوئی ۔بس وہ تو مجھ سے

 دو قدموں کے فاصلے پہ ہے پھر کیوں اتنا بے چین ہوں ۔

اس کو بخار بھی تو تھا ۔اس کو ایک دم خیال آیا ۔

شان کو کال کرتا ہوں ۔مگر وہ سب سو گئے ہوں گے ۔شان

 بھی پریشان ہو جائے گا ۔مجھے یہ رات نکالنی چاہیے ۔

اس  کو بھی تو ٹائم ملنا چاہیے ۔

اسے سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملی ۔اسے تھوڑا ٹائم دینا

 چاہیے ۔ابھی وہ اپنے پاپا کے گھر بھی نہیں جا سکتی ۔

ابصار سو جاؤ اسے تھوڑا گیپ دو وہ اسی طرح سوچوں 

کے تانے بانے بن رہا تھا ۔

جب اس نے اپنے موبائل کی لائٹ جلتی دیکھی ۔ تو فوراً

 موبائل اٹھایا ۔

اس نے اپنے چہرے کے سامنے موبائل کیا۔

اسکرین روشن ہوئی ابصار عالم کی آنکھوں کے سامنے اپنے

 روم کا منظر تھا ۔ابصار عالم کے گھر کی پالتو بلی جو اس

 کے ساتھ روم میں ہی سوتی تھی ۔وہ کسی اجنبی کو اس

 کے روم میں نہیں سونے دیتی تھی ۔پنجے مار مار کر اسے

 بھگا دیتی ۔ابصار عالم بھول گیا تھا کہ وہ بھی اج روم میں

 اکیلی ہو گی ۔اود وہ بلی مجھے نہ پاکر اس پہ حملہ کر دے

 گی ۔ ابصار عالم کو وہ لمحہ یاد آیا جس سے وہ ڈر کر اس

 کے ساتھ لپٹ گئی تھی ۔اس ایک لمحے نے اسے اور بھی بے

 چین کر دیا ۔غازیہ چیخ رہی تھی۔ بلی اس کے پیچھے۔

 پیچھے بھاگ رہی تھی اور وہ چیخوں کے ساتھ گول گول 

۔بھاگ  رہی تھی ۔اوہ میرے خدایا ابصار کی آنکھیں بھر

 آئیں ۔ 

اس نے جلدی سے شان کو کال ملائی ۔میعے روم سے بلی کو 

نکالو وہ غازیہ کو پریشان کر رہی ہے ۔کیا شان اچھل کر۔

 نیچے اترا روم ساؤنڈ پروف ہونے کی وجہ سے آواز باہر۔

 نہیں آتی تھی۔باو میں ابھی جاتا  ہوں ۔وہ روم کی طرف 

بھاگا ۔ غازیہ بھاگتے بھاگتے چینج روم میں گھس گئ اور 

دروازہ آٹومیٹک تھا سو بند ہو گیا ۔وہ دیوار کے ساتھ 

لگی کانپ رہی تھی ۔ابصار بے بسی سے اسے بہت دیر تک 

دیکھتا رہا۔

بھابھی بھابھی آپ پریشان نہ ہوں میں آ گیا ہوں ۔لے جاتا

 ہوں ۔ اس کو وہ بلی کو اپنے پاس بلاتا باہر لے گیا ۔

غازیہ ڈرتے ڈرتے باہر آئی ۔اور لائٹ آف کیے بنا بیڈ پہ سمٹ

 کر بیٹھ گئ ۔ابصار سے مزید دیکھنا مشکل ہو رہا تھا ۔

اس نے کیب منگوائی اور چپ چاپ ہاسپیٹل سے باہر نکل

 گیا۔ 

ابصار عالم بڑی مشکل سے گھر پہنچا تھا اسے پین ہو رہا تھا 

مگر اسے اپنی غازیہ کے پاس جانے کی اتنی خوشی تھی کہ

 وہ سب بھول گیا۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

اس نے جیسے ہی  روم میں قدم رکھا ۔

غازیہ اپنے گٹنوں پہ سر رکھے سسک رہی تھی ۔کیا ہوا غازیہ

ابصار عالم کے بولنے کی ہی دیر تھی کہ وہ اٹھی اور ابصار 

کے گلے جا لگی ۔

آپ وعدہ کرو مجھ سے اب کبھی نہیں جاؤ گے مجھے اکیلا

 چھوڑ کر وہ اپنی سسکیوں کے دوران سہی سے بات نہیں

 کر پا رہی تھی ۔مگر ابصار عالم کے گلے لگی اسے بے حد

 سکون محسوس ہوا  ۔ابصار اس کی کمر کے گرد اپنی

 بانہیں حمائل کرتا اس کو بیڈ پہ لیٹا کر اس کے پہلو میں 

اسے سلانے لگا ۔

وہ اس کے سینے پہ سر رکھے ابھی بھی ڈری سہمی سسک 

رہی تھی ۔

ابصار عالم اس کو سینے میں بھینچے اپنے اندر سموئے 

اس کے بال سہلا رہا تھا۔

اچھا ہوا میں آ ہی گیا ۔ غازیہ کو کچھ کچھ گیلا لگا تھا ۔

غازیہ نے ابصار سے الگ ہوتے ہوئے جب وہاں دیکھا تو 

ابصار کے وائٹ سوٹ سے خون کے قطرے ابل رہے تھے ۔

اس کی ایک بار پھر حالت غیر ہوئی تھی ۔

یہ یہ یہ ککککک کیا ہوا ہے آپ کو ابصار جو اس کی جانب

 کروٹ بدل کر لیٹا ہوا تھا ۔زور پڑنے سے خون رسنے لگ تھا ۔

سوٹ وائٹ اور باریک ہونے کی وجہ سے راز راز نہ رہا تھا ۔

غازیہ ظہیر گھبرا کر اٹھ کر بیٹھی تھی اور پھر بیڈ سے

 چھلانگ لگا کر کھڑی ہو گئ ۔یہ کیا ہے ابصار یہ اتنا خون

 کیوں چل رہا ہے  ۔تم بھی تو میرے ارمانوں کا خون کرتی

 پھرتی ہو۔ابصار پیٹھ کے بل سیدھا ہوا ۔اپنا رومال اس نے 

اپنے زخموں پہ رکھا تھا  ۔ایک منٹ ابھی آتا ہوا ۔وہ ابصار

غازیہ کے ہر سوال اور اس کی آنکھوں میں چھپی حیرت کو  

اگنور کرتا ۔واش روم میں گھس گیا ۔

ایسا نہیں۔ ہونا چاہیے تھا ۔میں نے بہت ہی بچوں والی

 حرکت کی ہے۔وہ ایک ہاتھ سے اپنے رومال سے خون والی 

جگہ پہ رومال رکھے  اور دوسرا ہاتھ اپنے بالوں میں پھنساتا ۔

شرمندگی سی محسوس کرنے لگا۔

کچھ سوچ ابصار کچھ سوچ اب کیا کرنا ہے ۔غازیہ کو

سٹیسفائیڈ (satisfied) کرنا ہے ۔واش روم میں لگے دیوار

 گیر آئینے کے سامنے جا کر خود کو نارمل کرنے کی کوشش ۔

کی ۔جن سے محبت ہو جائے انھیں دکھ دینے کو دل نہیں 

چاہتا ناں آپ کا بھی نہیں چاہتا ہو گا میرا بھی جیسے نہیں

 چاہتا ۔تو ابصار بھی تو محبت کرتا ہے نا۔ پھر وہ کیسے اسے 

دکھی کرے کیسے اسے بتائے کیسے اس کو جھکا دے ۔

وہ احساس طبیعت کو احسان کا نام نہ دے دے ۔

ابصار عالم کے اندر سے آواز ابھری  ۔وہ میری اس عادت 

کو احسان نہ سمجھ بیٹھے اور اس کے بوجھ کے تلے دب 

نہ جائے ۔میں ایسا نہیں کر سکتا مجھے یہ زخم چھپانا ہو گا 

مجھے اس کے دل میں گھر بنانا ہے نہ کہ اسے اپنے سامنے 

زیر کرنا ہے ۔ابصار باہر نکلیں مجھے بتائیں ۔مجھے ٹینشن 

ہو رہی ہے ۔غازیہ اپنا ڈر بھول گئ ۔اپنے شکوے بھول گئ۔

وہ بھول گئ کہ وہ مجھے ہاسپٹل میں چھوڑ کر کہاں چلا 

گیا تھا اسے بس ابھی یاد تھا تو وہ ابصار کا ٹپ ٹپ کرتا

 خون ایسا کیا ہوا ہے ۔وہ واش روم کے دروازے کے ساتھ ہی

 لگ کر رونے لگی ۔وہ ایسی ہی تو تھی من موجی کبھی 

بڑے سے بڑے دکھ کو بھی چٹکیوں میں اڑا جاتی اور 

کبھی ہلکے پھلکے دکھ بھی اسے توڑ دیتے ۔اپنے پاپا اور 

ماما کے بعد اسے اگر محبت تھی تو وہ ابصار سے ہوئی تھی۔

مگر وہ ایک لڑکی تھی اس بات کو عیاں نہیں ہونے دینا

 چاہتی تھی ۔مگر کبھی آنسوؤں پہ بھی اختیار ہوا ہے کیا ۔

کبھی عشق مشق چھپے ہیں کیا ۔

غازیہ ظہیر کو بھی ابصار عالم سے عشق تھا ۔وہ بھی۔

 جنونی ۔وہ گاڑی میں ابصار عالم کی خاموشی پہ ٹوٹ 

گئ تھی ۔مگر جب اسے ابصار نے کام کہا تو وہ ڈرپوک 

اپنا ڈر بھگا کر اس کام میں جت گئ ۔ابصار نے جب بلی کے

 ڈرنے پہ اس کا ہاتھ باہر گاڑی تک بھی نہیں چھوڑا تو 

اس محبت نے اسے اور بھی نڈر کیا تھا ۔

تو پھر ابھی کیسے وہ نہ تڑپتی اس کے دکھ تو سیر سے ۔

سوا سیر ہو رہے تھے ۔اپنے باپ کی وہ حالت پھر باپ کے

 بغیر نکاح پھر ابھی تک اس کو ملنے والے مسلسل دکھ ۔

اور ابھی ابصار عالم کی یہ حالت وہ ایک دم دشت میں 

تھی۔کسی بھٹکتی ہوئی بد روح کی طرح چاروں اور 

بھاگتے بھاگتے وہ تھک گئی ۔تو اس کا یارم اس کا محبوب

اس کے پاس چلا آیا۔میری جان میری ملکہ میری رانی 

میری گڑیا میرا خیال میرا تصور ۔میری جاگی ہوئی راتوں کا 

سلا ۔میری کھوئی ہوئی خواہشات کا مطلب۔

میرے چاند کے ٹکڑے میری روح کے ساتھی ۔تم کیوں

 بھٹکتے ہو میں ہوں ناں تمھارے ساتھ ہر پل ہر جگہ ۔

ہر تصویر کے آگے ہر تعبیر کے ساتھ ۔ابصار عالم اس کی

 ہچکیاں سن کر باہر بھاگا تھا۔بس اس نے اتنا کیا تھا کہ 

کپڑے بلیک پہن لیے تھے ۔جو واش روم  بنی ہوئی کبڈ میں

ہی نائٹ ڈریس موجود ہوتے تھے  ۔ابصار کا تھوڑا پریس کر

 کے رکھنے سے زخم سے خون رسنا بند ہو گیا تھا ۔مگر ابصار 

کو تکلیف ہو رہی تھی ۔مگر اس وقت وہ بس غازیہ کے ساتھ 

رہنا چاہتا تھا۔اس کے آنسو اسے کمزور کرتے تھے ۔اس کی۔

 ہنسی اسے عرش پہ کے جاتی تھی ۔

وہ خیالات کی رو میں بہہ گیا غازیہ گم سم دیوار کے ساتھ 

لگی ہوئی تھی۔جب ابصار نے اسے کندھے سے پکڑ کر اپنے

 سینے لگایا اور اس سے وہ کہتا گیا جو اسے سوچنے کا بھی

 کبھی موقع نہیں ملا۔ابصار اس اپنے ساتھ لگائے ۔

۔اس کی آنکھوں پہ جھکا تھا ۔اس کی آنکھوں کا وہ نمکین

 سا پانی اس کے ہونٹوں پہ کسی گلاب کی خوشبو جیسا تھا ۔

یا اس بے ہوش کرنے والی کسی کلون جیسا تھا ۔جسے

 چکھ کر ابصار عالم مدہوش ہونے لگا ۔

غازیہ کی بھی حالت غیر ہونے لگی ۔وہ بھی ایک انسان تھی ۔

اور محبت کرتی تھی ابصار سے ابصار کی کنڈیشن دیکھ کر 

اس کے بھی جزبات ابھرے تھے ۔اس نے بھی کوئی مزاحمت 

نہیں کی تھی ۔بلکہ اسے تو ہوش ہی نہیں رہا تھا ۔وہ دماغی

 طور پہ غیر حاضر تھی ۔وہ ابصار کی چوڑی چھاتی کے

 ساتھ لگی مدہوش ہو چکی تھی۔ابصار اس کے گالوں پہ

 اپنے پیار کی مہر ثبت کرتا اس کے ہونٹوں پہ آن جھکا تھا۔

اس کے رسیلے سے وہ لب ابصار کے ہوش اڑانے کے لیے ۔

کافی ثابت ہوئے تھے ۔مگر ابصار عالم اتنا بھی مدہوش نہیں

 تھا کہ وہ کچھ بھی نوٹ کر کر پاتا ۔غازیہ کی بند آنکھیں 

اور ہونٹ بلکل ساکت ہو چکے تھے ۔۔

ابصار کے کس کرنے پہ بھی جب وہ کسی بھی قسم کی

 مزحمت نہیں کر رہے تھے ۔تو ابصار نے اسے لب چھوڑ کر 

اس کے چہرے کے دونوں ہاتھوں کے پیالوں میں لیا ۔

اس کی رنگت زردی مائل ہو رہی تھی ۔ابصار کا سارا خمار 

لمحوں میں غارت ہوا تھا ۔وہ ہچکیوں کے درمیاں کب کیسے 

بے ہوش ہوئی تھی۔ابصار کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوئی

 تھی ۔ابصار نے غازیہ کو اپنے دونوں بازوؤں میں ویسے ہی 

بھرا جیسے وہ کھڑے تھے ۔وہ بیڈ کے قریب آیا ۔غازیہ کو

 آرام سے بیڈ پہ لٹایا ۔

ابصار کی شرٹ کے بٹن غازیہ ظہیر کی گلے  کی نازک سی

 چین سے الجھ گئے تھے ۔ابصار پھر اس پہ گرتے گرتے بچا 

۔کیوں کہ اس چین کے ساتھ غازیہ ظہیر کے بال بھی اٹکے

 تھے ۔ابصار نے ایک شدید درد کی لہر اپنے اندر محسوس

 کی ۔وہ دوہرا ہو کر اٹھا اور سائیڈ پہ لیٹ گیا ۔

کیا ہوا آپ کو آپ ٹھیک تو ہیں ناں ۔،

غازیہ ظہیر جو ناٹک کر رہی تھی فورا سیدھی ہوئی ۔اور

 اٹھ کر ابصار کے اوپر جھک کر  تشویش سے بولی ۔

کیا ہوا تم تو بے ہوش تھی ۔ابصار نے نقاہت زدہ آواز میں کہا ۔

آپ مجھے بتائیں یہ سب کیا ہے ۔غازیہ نے اس کے پیٹ کی

 طرف اشارہ کیا ۔ابصار عالم غازیہ جا اشارہ آگنور کرتا 

پیار بھرے لہجے میں بولا ۔اسے محبت  کہتے ہیں ۔اور ادھر

 آؤ میرے پاس ابصار نے اسے پکڑ کر اپنے اوپر گرایا مگر

 تھوڑی احتیاط سے وہ پہلے ہی تکلیف میں تھا ۔

چھوڑیں مجھے ابصار بتاؤ کہ معاملہ کیا ہے ۔آپ کہاں تھے ۔

کل غازیہ ابصار کے حصار میں مچلتے ہوئے بولی ۔

مجھے محبت ہو گئ ہے تم سے غازیہ ظہیر ۔

وہ گھمبیر لہجے میں مخاطب ہوا ۔مجھے آپ سب نے بے

 وقوف سمجھ رکھا ہے ۔ہر کوئی مجھ سے سب کچھ چھپاتا 

پھرتا ہے میں کیا کسی کی بھی کچھ نہیں لگتی وہ ابصار 

کے حصار سے نکلنےکی کوشش کر رہی تھی ۔مگر ابصار 

نے اسے اپنے۔  بازوؤں میں ایسے بھینچا ہوا تھا کہ ۔

وہ نازک سی لڑکی کچھ نہیں کر سکی تھی ۔

تم کیوں مجھے تنگ کرتی ہو ہر پل ہر جگہ جب سے ملی ہو ۔

مجھ سے دور جانے کی بات کیوں کرتی ہو ۔

آپ کیوں مجھ سے چھپا رہے ہو ۔وہ ضبط کی انتہا پہ تھا 

غازیہ کا وزن عین وہی محسوس ہو رہا تھا ۔

ابصار نے آنکھیں بند کر لی ۔غازیہ تیزی سے اوپر سے اٹھی 

تھی ابصار عالم کے ایک دن کے کچے سے وہ سٹیچز کھل

 چکے تھے ۔اور وہ غنودگی میں جا چکا تھا ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

غازیہ نے پہلے تو بہت کوشش کی ابصار کو اٹھانے کی ۔

اس سے باتیں کرتی رہی وہ سمجھ رہی تھی وہ بدلہ لے رہا ہے ۔

مگر وہ سچ مچ میں غنودگی میں تھا مگر اس کے لب ابھی

 بھی غازیہ کے لیے ہل رہے تھے ۔اسے پکار رہے تھے ۔

غازیہ نے باہر دوڑ لگائی ۔سب کے سب جمع ہو چکے تھے ۔

سوائے کڈز ہاؤس کے مکینوں کے ۔

کیا ہوا ہے بھابھی بھائی کب آئے وہ سب چمکے سب غازیہ 

سے سوال پہ سوال کر رہے تھے ۔ابصار ان کو روکنے کی ناکام

 کوشش کر رہا تھا ۔کیوں وہ سب کچھ دیکھ بھی رہا تھا ۔

سن بھی رہا تھا مگر اس کے لب اور اس کی آواز اس کا

 ساتھ نہیں دے رہے تھے ۔ایمبولینس کو کال کر دی ہے ۔

وہ آ گئ ہے ۔باؤ کو ہاسپیٹل لے جانا ہو گا ۔

میں بھی چلوں گی ساتھ ابصار کا رائٹ ہینڈ غازیہ کے ہاتھ

 پہ آن گرا تھا۔

غازیہ اس کا ٹھنڈا یخ بستہ ہاتھ دیکھ کر اور بھی  گھبرا

 گئ ۔جلدی لے چلو آخر ہوا کیا ہے ۔انھیں یہ بلڈ کیوں اتنا

 بہہ رہا ہے ۔خرم سمجھ گیا تھا۔غازیہ نے اپنا دوپٹہ اتار کر

 ابصار عالم کے بہتے خون پہ رکھ کر خون روکنے کی

 کوشش کر رہی تھی ۔سب ٹھیک ہے پریشان نہ ہوں چلو لے

 چلو ابصار عالم کو ایمرجنسی وارڈ میں لے گے تھے ۔

ڈاکٹرز نے انجکشن لگائے تھے ۔تب اسے لگا کہ وہ مکمل

 اندھیرے میں کہیں غائب ہو گیا ہے ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

بھائی جا کر دیکھو ناں ابصار کیسے ہیں ۔غازیہ تھوڑی دیر 

بیٹھ جاتی اور پھر اٹھ کر خرم کے پاس جا پہنچتی ۔

غازیہ رکی نہیں تھی گھر ساتھ ہی آنے کی ضد کی تھی ۔

ہوا کیا تھا بھائی آپ تو بتاؤ ناں مجھے ۔اس کا رو رو کر 

برا حال تھا ۔اس کی آنکھیں رونے کی وجہ سے سوج گئیں

 تھیں ۔اس کی ناک سرخ انگارا جیسی ہو رہی تھی ۔

خرم کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ اسے کیا بتائے ۔بھابھی 

بھائی کو اپنڈکس کا پرابلم تھا ۔اسی کا آپریشن ہوا تھا ۔

آج دوپہر میں ہی ہوا  ہے ۔آٹھ دن ریسٹ کرنا تھا۔انھیں 

پتہ نہیں کیا سوجی  کہ وہ رات و رات گھر پہنچ گئے ۔

خرم نے بھی فکرمندی سے جواب دیا ۔اور ساتھ میں ایک 

سوالیہ نشان بھی چھوڑ دیا ۔مجھے بھی نہیں پتہ کہ وہ

 رات کو کیسے آ گئے ۔ایک منٹ غازیہ کو کچھ یاد آیا ۔

آپ تو کہے رہے تھے  کہ وہ اپنے گھر گئے ہیں گاؤں ۔

جی بھابھی بھائی نے ہی منع کیا تھا ۔وہ آپ کی وجہ سے 

ہی کہے رہے تھے ۔اصل میں آپ اپنے والد صاحب کے پاس 

تھیں تو اس لیے ایم سوری وہ شرمندہ سا کہتا آگے بڑھ گیا ۔

غازیہ ظہیر وہاں اکیلی کھڑی ہوئی سوچ رہی تھی کہ وہ

 کتنی خوش نصیب ہے ۔وہ واقعی ہی مجھ سے محبت کرتے

 ہیں۔مگر ابھی یا اللہ وہ ٹھیک ہو جائیں میں کبھی بھی

 انھیں اب تنگ نہیں کروں گی۔

یا اللہ انھیں صحت دے آمین۔ میں تیری زات سے مایوس 

نہیں ہوں یااللہ میں ہر نماز کے بعد ان کی لمبی زندگی کے

 لیے دو نوافل  ادا کروں گی ۔ان کے نام کا صدقہ اتاروں گی ۔

یا اللہ میں وہ سب کچھ کروں گی جو وہ پسند کرتے ہیں ۔

جو تو پسند کرتا ہے ۔جو تیرا نبی پسند کرتا ہے۔اپنے جاہ و

 جلال کے صدقے انھیں صحت والی  لمبی زندگی عطا فرما

 دے ۔آمین خرم نے اس کی دعا سن کر آمین کہا ۔

اس نے بھی جلدی سے اپنے پھیلائے ہاتھ منہ پہ پھیر کر ہاتھ 

نیچے گرا دئیے ۔

بھائی کیسے ہیں ابصار وہ بالکل ٹھیک ہیں بس تھوڑی بد

 احتیاطی کی وجہ سے بلڈینگ سٹارٹ ہو گئ تھی ۔

آئیں آپ کو بھائی بلا رہے  ہیں ۔خرم غازیہ کو اپنے ساتھ ۔

لیتا ابصار کے روم میں لے گیا ۔وہ جب اندر داخل ہوئی تو 

ابصار عالم لیٹے ہوئے اسی کا انتظار کر رہا تھا ۔

غازیہ کو دیکھ کر اس کے چہرے پہ وہی ازلی مسکراہٹ آئی

 تھی۔کیسے ہیں آپ ۔تمھیں دیکھ کر پھر سے جی اٹھا ہوں ۔

مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ اتنے وہ بھی ہیں ۔کیا ہوں اتنا 

وہ ۔کچھ نہیں ابصار عالم نے غازیہ کا ہاتھ پکڑا تھا ۔

آپ بیمار بھی ہیں اور ہاسپیٹل میں بھی ہیں ۔تمھہں کس

 نے کہا میں بیمار ہوں مجھے اٹھ کر بٹھنا ہے ۔تھوڑی ہیلپ 

کر دو پلیز غازیہ نے ابصار کو کندھے سے پکڑ کر تھوڑا 

آگے جھکایا اس کی پیٹھ کے پیچھے تکیہ سیٹ کیا ۔

ابصار کے ہاتھ پھر اس کی کلائی تک پہنچے تھے۔

وہ پہلے ہاتھ لبوں تک لے گیا ۔اور پھر اپنے دل پہ رکھ دیا ۔

میں بیمار نہیں تھا ۔مگر تمھیں دیکھ کر بیماری کی

 شروعات ہوئی ۔چھوڑو نہ میرا ہاتھ پلیز وہ بلش ہو 

رہی تھی ۔اس کی پلکیں ایک دوسرے ہی جھکیں تھیں ۔

اس کی سانسیں ڈوبتی ہوئی محسوس ہوئی تھیں ۔

پھر چھوڑنے کی بات کی تم نے مطلب ابھی چھوڑ دیں  ۔

یہ ہاسپیٹل ہے ۔اچھا تو ہاسپیٹل میں رومینس منع ہے ۔

نہیں بیماری کی حالت میں منع ہے ۔میں بیمار ہوں تو تم

 ہی ۔۔میری شفا ہو تم سامنے ہو میں بلکل ٹھیک ہوں ۔

وہ اور بھی بلش ہوئی اور اس کے گال دہک اٹھے ۔

ویسے ہی جیسے ابصار نے اسے بخار میں تصور کیا 

تھا ۔

💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗

(چند دنوں بعد) 

آپ کو بہت بہت مبارک ہو جسٹس ظہیر الحسن صاحب۔

ظہیر الحسن ڈسچارج ہو کر گھر آ چکے تو غازیہ اور ابصار 

عالم بھی ان کے گھر پہنچے ہوئے تھے ۔

ہیر اور اس کے والدین بھی سب ان کی صحت کی کامیابی 

کے لیے مبارک باد دے رہے تھے ۔

ابصار عالم بھی اپنے مخصوص وائٹ شلوار قمیض پہ 

سنہری آنکھوں کے ساتھ بہت جچ  رہا تھا ۔

وہ ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے مردانہ محفل کی جان بنا ہوا تھا۔

ظہیر الحسن کو اپنے مخصوص انداز میں بلاتا ہوا مبارکباد ۔

دینے لگا ۔ابصار اب تم میرے بیٹے بھی ہو داماد بھی ہو ۔

اور وہ کچھ اور بھی کہنا چاہا تھا ۔ مگر ابصار نے بات بدل 

دی ۔اور آپ کو پاپا بلایا کروں ۔ہے تو تھوڑا مشکل مگر 

ادب کا تقاضا ہے کہ میں آپ کو پاپا ہی پکاروں ۔

البتہ اگر کبھی بھول چوک ہو جائے تو ایڈوانس میں معزرت

 خواہ ہوں۔ابصار کی بات پہ سب ہنس دئے ۔اور وہ خود بھی

مسکرا دیا۔ وہ آپس میں ہر موضوع پہ بات چیت کر رہے تھے ۔

ابصار عالم اور دیگر چئیر پہ ہی بیٹھے تھے جب کہ جسٹس

صاحب کے لیے تخت پہ میٹریس بچھا کر بٹھایا گیا تھا تاکہ

انھیں زیادہ تر آرام ہی ملے ۔ابصار جو بھی تین ماہ تک۔۔

 ریسٹ کا بولا گیا تھا مگر وہ کسی کو بھی اپنی کمزوری 

شو آف نہیں کرتا تھا۔اور دیکھنے میں بھی وہ بلکل فٹ لگ

 رہا تھا ۔

قسمے غازیہ تم بہت لکی ہو ۔بھائی کتنے ہی ہینڈسم ہیں ناں ۔


وہ غازیہ کے روم میں کھڑکی کھولے باتوں میں مگن ہونے

 کے ساتھ ساتھ کام میں بیٹھے ابصار عالم پہ بھی تذکرے 

کر رہی تھی ۔ہیرے میں نے ابصار عالم کی خوبصورتی سے 

محبت نہیں کی میں نے ان کے اندر کی خوبصورتی کو

 دیکھا ہے ۔غازیہ کھوئے ہوئے انداز میں بولی ۔وہ جتنا 

باہر سے خوبصورت ہے اس سے کی گنا زیادہ اندر سے ۔خوب

صورت ہے ۔وہ عورت کی اس دور میں بھی اتنی ہی عزت 

کرتا ہے ۔جتنی اپنے گھر والوں کی عورتوں کی کرتا ہے ۔

ہر چیز میں پرفیکٹ تو میں بھی نہیں ہوں ۔لیکن ہیرے 

مجھے لگتا ہے کہ وہ ہر چیز میں ہر لحاظ سے پرفیکٹ ہے ۔

وہ انسان کے روپ میں مسیحا ہے ۔میں نے اسے غلط سمجھا ۔

اس نے مجھے غلط ثابت کر دیا ۔ہر جگہ پہ مجھے حیران 

کرتا گیا ۔اور نکاح کے وقت مجھے لگا کہ وہ دباؤ ڈال رہا ہے ۔

پاپا پہ مگر ایسا نہیں تھا وہ بھی مجھ سے اتنی ہی محبت

 کرتے ہیں جتنی میں کرتی ہوں ۔اوہ ہوووووو "کرتے ہیں "

ہیر ماہم اس کو گد گداتے ہوئے کھلکھلا دیں دونوں ۔ 

اسلام وعلیکم۔ان کے دروازے پہ دستک کے ساتھ ہی سلام

 بھی موصول ہوا ۔بھابھی آپ کو سب نیچے بلا رہے ہیں۔

وعلیکم السلام ۔وہ دونوں سلام کا جواب دیتے ہوئے واپس 

پلٹیں ۔

ان کے چہرے پہ ابھرتی حیرانگی کو دیکھتے ہوئے شان نے 

انھیں وضاحت کر دی ۔

میرون اور وائٹ کنٹراسٹ میں ہیر ماہم بھی چندہ ماہتاب

  لگ رہی تھیں ۔بھابھی غازیہ زینہ اترنے لگی تو شان نے

 اسے پکارا ۔مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے کیا آپ سن

 سکتیں ہیں۔ہاں بولو شان وہ بہت سریس ہوئی ۔

ایک آفر ہے آپ کے لیے ۔کیا بولو بھی۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ

اکیلی ہوتیں ہیں۔تو کیوں نہ آپ کے لیے دیورانی لے آؤں  

اب میرا تو کوئی ہے ہی نہیں آپ دونوں کے سوا 

مطلب بھابھی اور بھائی آپ دونوں ہی سوچ سکتے ہیں ۔

اچھا تو کوئی لڑکی ہے نظر میں تو بتاؤ ۔غازیہ پہلے تو 

اس کی شرارت سمجھی مگر بعد میں وہ بھی سریس

ہو گئ ۔

اتنی تمہید کیوں باندھ رہے ہو شان بولو ناں کیا کہنا چاہتے

 ہو۔آپ کو بتانا اتنا مشکل ہو رہا ہے تو اسے کیسے بتا پاؤں گا ۔

وہ نازک سا سمارٹ سا ہینڈسم شان جو بولتے ہوئے کبھی 

ابصار سے بھی نہیں جھجھکتا تھا  ۔ان دو لڑکیوں کے

 درمیان اس کا منہ ہی نہیں کھل رہا تھا ۔شان نے منہ ہی

 منہ بات کی جو غازیہ دوسرے زینے کے سٹیپ پہ پاؤں

 رکھے کھڑی تھی ۔شان دو زینے نیچے بلیک جینز پہ بلیو 

شرٹ پہنے ہوئے کھڑا تھا اور سب سے پہلی سیڑھی پہ 

ہیر ماہم ان دونوں کی تکرار سن رہی تھی ۔

شان نے نیچے چھلانگ لگا دی ۔اور اونچی آواز میں بڑبڑایا 

کچھ نہیں بھابھی آپ کو خود ہی سوچنا چاہیے ۔

اور باہر لان میں بھاگ گیا ۔پاگل ہے یہ بھی بلکل ۔ہیر تمھیں 

سمجھ آئی اس کی نہیں مجھے تو کچھ بھی سمجھ نہیں 

چلو میں اس سے پوچھوں گی گھر جا کر ہی۔ 

وہ جیسے ہی نیچے آئی سب لاونج میں بیٹھے کھانا شروع 

کرنے والے تھے ۔مگر غازیہ اور ہیر کا انتظار کر رہے تھے۔ 

شان نے انھیں آ کر کہا کہ وہ آ رہی ہیں ۔

غازیہ ابصار کے ساتھ والی چئیر کی بجائے اپنے پاپا کے۔

 ساتھ جا بیٹھی بہت مس کیا میں نے ان پلوں کو پاپا ۔

میری گڑیا تمھارے پاپا بھی تو تمھیں دیکھ کر ہی جیتے 

ہیں ۔میں آج اپنے پاپا کو سارا کھانا اپنے ہاتھوں سے کھلاؤں

 گی ۔آپ کے ہسبینڈ کو کھانا کھلا دوں آپ کو کوئی اعتراض 

تو نہیں ہے ناں ۔غازیہ نے اپنی ماں کو شرارت سے کہا ۔

جس پہ سب نے مشترکہ قہقہ لگایا۔ بری بات غازیہ نسیم

 بیگم نے اسے ٹوکہ بچگانہ حرکتیں چھوڑو کھانا کھاؤ ۔

کسی کا لحاظ ہی کر لیا کرو ۔بیگم چھوڑو ناں بچی اتنے 

دنوں بعد تو اسے یوں کھلکھلاتے دیکھ رہا ہوں ۔ظہیر نے

 اپنی بیٹی کے سر کا بوسہ لیا۔چلو چلو سب شروع کرو 

وہ ابصار کو اگنور کرتی بس اپنے پاپا کو اہمیت دے رہی

 تھی۔ابصار نے اپنا موبائل اٹھایا اس پہ کچھ کام شروع 

کر دیا ۔کیا ہوا بیٹا تم کھانا نہیں کھا رہے آ نٹی ۔آنٹی نہیں 

ماما بولو میں اگر پاپا ہوں تو وہ ماما ہی ہوئی ناں ۔

جی کھا رہا ہوں بس ایک میل کر لوں بیٹا کھانے کو ویٹ 

نہیں کرواتے ۔غازیہ نے اسے غور سے دیکھا مجھے بھی کھلاؤ 

ابصار نے غازیہ کو اشارہ دیا ۔وہ جان بوجھ کر اسے تنگ  

کر رہا تھا  ۔غازیہ نیچے منہ کر گئ مگر اسے بے چینی ہو رہی

 تھی اور اپنے پاپا کے پاس بھی اسی لیے جا بیٹھی تھی ۔

تا کہ وہ ابصار عالم کے بے موقع رومینس سے بچ سکے ۔

حالانکہ وہ بہت سوبر انسان تھا ۔سنجیدہ رہینے والا ۔اپنے

 کام سے کام رکھنے والا کسی قسم کا مزاق اس کی فطرت 

میں ہی نہ تھا ۔مگر وہ غازیہ کے گال کی سرخی دیکھنے 

کے لیے شرارت کر جاتا ۔اور وہ ان سب کے بیچ خواہ مخواہ 

شرمندہ ہو جاتی ۔اسے لگتا جیسے سب مجھے ہی دیکھ رہے ہوں 

حالانکہ ایسا تھا نہیں وہ سب کو بزی دیکھ کر ہی ایسا کر

 رہا تھا۔میری بھولی بھالی غازی اس نے دل میں سوچا 

وہ جانتا تھا وہ نہیں کھلا سکے گی کھانا پھر بھی وہ جان۔

 بوجھ کر اسے تنگ کرتا پھر کھانا کھانے لگا ۔

وہ اتنے سریس موڈ میں کھانا کھا رہا تھا کہ غازیہ کو لگا 

وہ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے ۔

اس کی آنکھوں میں پانی بھر آیا مگر وہ پانی کا گلاس اٹھا 

کر پانی پینے لگی ابصار اسے نوٹ کر رہا تھا ۔مگر سریس تھا  

کھانا کھا کر سب لاونج میں آن بیٹھے تھے جو سٹنگ روم

تھا ۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

چائے کا ابھی دور باقی تھا جب زیلیہ داور اور مسسز داور

 نے اندر قدم رکھا تھا ۔زیلیہ داور کی سب سے پہلی نظر

 غازیہ پہ پڑی تھی اس کا شرمندگی سے رنگ بدلہ تھا ۔

وہ جینز پہ شرٹ پہنے کافی ڈیسینٹ حلیے میں لگ رہی۔

 تھی ۔ غازیہ ظہیر سمجھ گئ تھی اس لیے وہ کھڑی ہو کر 

آگے بڑھی اور اسے اپنے گلے لگایا ۔کیا تم انکل جسٹس ظہیر

 کی بیٹی ہو۔زیلیہ  نے اس کے کان میں سرگوشی کی  ۔

کیا آپ انکل داور کی بیٹی ہو ۔وہ دونوں کھلکھلا دیں ۔

ایس ایس پی داور ظہیر الحسن اور ابصار کے برابر جا 

بیٹھے ۔ہن نے ابھی ابھی کھانا کھایا ہے داور صاحب آپ لیٹ 

ہو گئے ۔میں ابھی ڈیوٹی سے واپس آیا تو سیدھا یہی چلا

 آیا ۔کھانا ہم سب کھا کر آئے ہیں۔ہاں البتہ چائے ضرور 

پیئں گے ۔

یہ میری بیٹی زیلیہ ہے اور زیلیہ یہ جسٹس صاحب کی

 بیٹی اور ابصار عالم کی مسسز بن چکی ہیں ۔

داور نے سب کا اپنی بیٹی سے تعارف کروایا ۔ابصار نے بھی

 اسے مسکرا کر دیکھا ۔

زیلیہ شرم سے پانی پانی ہو گئ اسے اپنی خطائیں یاد آ رہی

 تھیں ۔

غازیہ نے اس کی مشکل آسان کر دی ۔وہ اٹھ کر اس کے پاس 

آن بیٹی اور اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی ۔

ہیر بھی ان کی باتیں سن کر مسکرانے پہ اکتفا کر رہی تھی ۔

ابصار عالم کو بھی کوئی کام تھا تو وہ بھی اجازت لینے 

لگا ۔مگر جسٹس ظہیر الحسن نے اسے بیھٹنے کا کہا ۔اور 

پھر بیٹھ گیا ۔ میں سب کے درمیان ایک اعلان کرنے والا ہوں۔

سب ظہیر الحسن کی جانب متوجہ ہوئے ۔جیسا کہ آپ سب

 جانتے ہیں کہ میں اپنی بیٹی کا نکاح ابصار سے ایمرجنسی

میں کروا چکا ہوں ۔اب میں جب خیر خیریت سے گھر آ گیا

 ہوں تو ۔میں اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی دھوم دھام سے 

کرنا چاہتا ہوں ۔ابصار بیٹا یہاں موجود ہے ۔تو میں چاہتا

 ہوں کہ میں باقاعدہ شادی کی ڈیٹ فکس کروں اور پھر

 سارے فنکشنز کر کے اپنی بیٹی رخصت کروں اپنی دعاؤں 

کے ساتھ ۔ہیر ماہم کی باچھیں کھل اٹھیں ۔زیلیہ کو بھی یہ 

سب بہت اچھا لگ رہا تھا ۔

ہلہ گلہ مستی کسے اچھی نہیں لگتی ۔اور اتنی فریسٹریشن

کے بعد تو یہ سب ہونا بھی چاہیے تھا ۔غازیہ پہ بھی بہت

 دنوں کی چھائی اداسی کی وہ دھند چھٹنے لگی تھی ۔

ابصار عالم کے بھی لبوں پہ مسکان تھی۔کیونکہ یہ سب 

ظہیر الحسن کو اس رات آئیڈیا بھی ابصار ہی دے کر آیا تھا۔

وہ چاہتا تھا کہ غازیہ ظہیر اپنے سارے ارمان پورے کرے ۔

شاپنگ کرے دل کھول کر مہندی کا فنکشن ہو ۔

اور وہ دونوں بے قرار اس دن کا بے صبری سے انتظار کریں ۔

مگر یہ سب وہ سوچ رہا تھا ۔غازیہ کے لیے تو یہ سرپرائز

 تھا ۔کیوں بیٹا تمھیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے ۔۔وہ ہمیشہ

کی طرح بس مسکرا دیا۔مگر غازیہ کو کچھ عجیب سا

 احساس ہوا ۔نہ جانے کیوں وہ اداس ہو گئ ۔

غازیہ تم خوش تو ہو ناں میری بچی ۔جی پاپا میں بھی

 خوش ہوں۔چلو پھر تم اسی جمعہ کو برات لے آنا ۔ایک ہفتہ 

ہے تمھارے پاس جو تیاریاں کرنی ہیں کر لو ۔

اور ہیر میرے پاس رہے گی ۔غازیہ نے پہلے ہی بکنگ کروا لی ۔

اور زیلیہ آج سے آپ بھی ہمارے ساتھ ہوں گی ہر فنکشن

 میں ۔غازیہ نے اسے ڈس ہارٹ کرنا مناسب نہ سمجھا اور 

اسے بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا۔اور میں کس کے ساتھ یوں ۔

شان بھی چلا آیا  ۔شان ادھر ہی اپنے انکل کے ساتھ سارے 

کام نمٹائے گا ۔ابصار نے لقمہ دیا ۔تمھاری ڈیوٹی ہے کہ 

تم ان کے ساتھ ہر شاپنگ پہ جاؤ گے ۔

ساتھ ساتھ میں آپ سب سے بھی ایک بات کرنا چاہتا ہوں ۔

داور سر اجازت ہے کیا ۔کیا میں یہاں ہی آپ سے کچھ مانگ

 سکتا ہوں ۔ہاں ہاں بیٹا ضرور ۔میں اپنے بھائی خرم کے لیے

 آپ سے آپ کی بیٹی مانگنا چاہتا ہوں ۔زیلیہ داور کے کان

 کی لوئیں پہلی بار سرخ ہوئیں تھیں ۔لیکن ہاں سے پہلے آپ 

آپ زیلیہ سے پوچھ لیں ۔اور آنٹی سے بھی ۔ میری بیگم تو 

بہت سعادت مند ہے ۔میرے ہر فیصلے سے سٹیسفائیڈ رہیتی

 ہے ۔البتہ میں زیلیہ سے پوچھ کر تمھیں بتا دوں گا ۔

لڑکیاں باہر لان میں نکل گئیں تھیں ۔

کامران انکل آپ سے بھی ایک ریکوئسٹ کرنی ہے مجھے ۔

مناسب تو نہیں ہے مگر کیوں کہ آپ سب بھی ایک فیملی۔

 کی طرح ہی ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

کامران خان بھی متوجہ ہوئے ۔اور ان کی بیوی بھی ۔میں

 شان کے لیے ہیر ماہم کے لیے دست دراز ہوں ۔

ابصار بیٹا میں بھی بہت انساپائر ہوں تم سے ۔تم نے

 انسانیت سکھائی ہے لوگوں کو ت۔ھارے زیر نگرانی ہر

 نوجوان بہت اچھی تربیت کا حامل ہے ۔مجھے خوشی ہو۔

 گی تم سے رشتہ جوڑ کر مگر مجھے بھی اپنی بیٹی سے

 پوچھنا ہو گا اور ابھی وہ زیر تعلیم ہے۔اس لیے اس کی

 جلدی شادی نہیں کر سکوں گا ۔کوئی بات نہیں۔ تعلیم وہ 

دونوں دوستیں وہی سے حاصل کرتیں رہیں گی ۔غازیہ کی

 بھی تو شادی ہو گئ ہے ۔وہ بھی تعلیم تو نہیں چھوڑ دے

 گی ۔کامران نے اپنی وائف کو دیکھ اور پھر ظہیر الحسن کو

 دیکھا ۔بچہ اچھا ہے شان بھی بچی خوش رہے گی اور اپنی 

دوستی اور بھی مضبوط ہو جائے گی ۔

سب نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی ۔اس رشتے کے لیے

 سب ہی خوش تھے ۔ ظہیر یار تونے کیا داماد چنا ہے ۔ہم

 سب اس سے بڑے ہیں مگر کام بڑے ابصار عالم کے ہیں ۔

سب کھلکھلا کر ہنس پڑے ۔

وہ سب ہنسی خوشی گپ شپ کرنے لگے ۔شان ساری باتیں

 سن کر باہر نکل گیا ۔ابصار عالم کی محبت پہ تو اسے پہلے

 ہی  کوئی شک نہ  تھا ۔نگر آج اسے اس بات پہ بھی یقین 

ہو گیا تھا کہ وہ کیسے ان بن ماں باپ کے بچوں کی دل کی

 باتیں سن لیتا تھا ۔ان کی خوشی کو ہر طرح سے پورا کرتا

 تھا ۔خوشی سے اس کی آنکھوں سے آنسو پھسل رہے تھے ۔

اور وہ خود پہ قابو نہیں رکھ پا رہا تھا۔

ابصار عالم گلا کھنکارتا لان میں آیا ۔اس جی عادت تھی وہ 

کسی کے گھر جائے یا اپنے گھر وہ اس طرح کھانا کر متوجہ 

ضرور کرتا تھا ۔ابھی بھی چونکہ وہاں زیلیہ داور ۔

ہیر ماہم اور غازیہ ظہیر موجود تھیں تو اس نے وارن کیا ۔

وہ غازیہ کے پاس آن رکا ۔غازی بات سنو  غازیہ ایک دم

 کھڑی ہوئی۔اور اس کے پاس گیٹ کے سامنے جا کھڑی ہوئی ۔

ابصار عالم نے اپنے دونوں موبائل رائٹ ہینڈ سے لیفٹ 

میں منتقل کیے ۔گھر چلو گی یا یہی رکو گی ۔ابصار نے جان

 بوجھ کر اسے تنگ کرنے کا سوچا وہ بس بات کرنا چاہا ۔

رہا تھا ۔غازیہ ظہیر بھی جسٹس ظہیر الحسن کی بیٹی

 تھی ۔حاضر جواب آپ کو کیا لگتا ہے ۔ابصار مسکرایا 

اور تھوڑا نیچے اس پہ جھکا غازی تھوڑا پیچے پیچھے ہٹی ۔

ہ۔ کان میں ہیں نہ کہ گھر میں ابصار ۔وہ مسکرا دیا۔

تم اس طرح تنگ کرو گی تو کبھی ادھر نہیں آنے دوں گا ۔

وہ اسے تنگ کرتا باہر نکل گیا ۔بدتمیز غازیہ بڑبڑائی ۔

وہ واپس لان میں چئیرز پہ آن بیٹھی ۔ 

وہ ابھی بیٹھی ہی تھی کہ اس کے موبائل کی اسکرین

 جگمگاتی ہوئی چنگھاڑی ۔ابصار کالنگ یہ اب مجھے پھر 

کیا کال کر رہے ہیں ایکسکوزمی وہ دونوں کو کہتی ہوئی

 سائیڈ پہ جا کھڑی ہوئی ۔زیلیہ داور اسے رشک سے دیکھنے 

لگی ۔کتنی لکی ہے ناں غازیہ ظہیر اسے مخلوق کا سب سے 

کئیرنگ شخص ملا ہے ۔ہاں یہ تو ہے ہیر نے بھی اس کی ہاں

 میں ہاں ملائی ۔جی فرمائیں تم مجھے اگنور کیوں کر رہی

 ہو ۔میں نے کب اگنور کیا میری ایسی جرآت و جسارت ۔

صبح سے ایک منٹ کا بھی ٹائم نہیں دیا تو یہ کیا ہے ۔

آپ جانتے ہیں ہم گیسٹ تھے وہاں اور پاپا ماما بھی موجود تھے ۔

ابھی میرا سفر نہیں کٹ رہا ۔مجھے تمھارے ساتھ رہنا ہے ۔

ہم کیسے ساتھ رہیں گے ۔موبائل پہ وہ کیسے وہ میں تمھیں

بعد میں سکھاؤں گا ۔اچھا ابھی مجھے زیلیہ اور ہیر کو

 کمپنی دینی ہے ۔سور مجھے کس نے دینی ہے ۔پلیز آپ۔

 مجھے ان مینرڈ بنانا چاہ رہے ہیں۔ ۔

غازیہ نے ابصار سے ڈرتے ڈرتے بات کی ۔مبادہ وہ ناراض ہی

 ہو جائے ۔مجھے تو ابھی سے تمھاری کمی فیل ہو رہی ہے ۔

میں کہتا ہوں کہ تم ساتھ چلو میرے ۔بارات والے دن ساتھ 

ہی آجائیں گے ۔واہ کیا شادی ہو گی اپنی پھر تو غازیہ اس

 کی یہ خواہش سن کر بہت بدمزا  ہوئی ۔حد ہے ابصار آپ 

مجھے بارات والے ساتھ لائیں گے اور یوں ہی ساتھ لے جائیں

 گے ۔کمال ہے ۔ہاں تو اس میں کیا حرج ہے ۔ابصار نے اسے

 سب کیا ۔میں فلحال کال ڈسکنٹ کر رہی ہوں ۔بعد میں بات

 کریں گے مناسب نہیں لگتا ۔میرے سے زیادہ اہم ہے کیا

 دنیا ۔تمھیں غازی لو کر دیا آف اور وہ سچ میں کال ڈسکنٹ

 کر گیا ۔غازیہ کی جان پہ بن آئی ۔مجھے تو اسے منانا بھی

 نہیں آتا اوپر سے میں اس کے پاس بھی نہیں ۔غازیہ واپس 

اپنے چئیر  پہ آن بیٹھی ۔داور اور مسسز داور باہر آتے

 دیکھائی دئیے ۔وہ زیلیہ کے پاس آن رکے اور اسے ساتھ 

لیتے باہر نکل گئے ۔غازیہ نے بھی شکر ادا کیا وہ خواہ 

مخواہ شرمندگی محسوس کر رہی تھی ۔

ہیر ماہم اور اس کے والدین نے بھی اجازت چاہی ۔

غازیہ ان سب کو الوداع کرتی ۔کچھ دیر اپنے پاپا کے پاس 

بیٹھی مگر پھر ان کو دوا دے کر سلا کر اپنے روم میں چلی

 آئی ۔اس نے کال ملائی مگر ابصار نے کوئی رسپانس نہیں دیا ۔

پلیز کال اٹھاؤ ناں مجھے تنگ مت کرو پلیز ۔

وہ اسے مسیج پہ مسیج کرنے لگی مگر ابصار نے اسے کسی

 بھی قسم کا رسپانس نہ دیا ۔وہ بہت گھبرا گئ ۔

ابصار نے سب کو اس کی کال پک کرنے سے منع کر دیا۔

اور اگر کوئی اٹھا بھی کے تو اسے کہنا کہ میں گھر ہی نہیں 

آیا ۔وہ تھوڑا سا غازیہ کو تنگ کرنے کا سوچ رہا تھا ۔

مگر اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ خود ہی پریشان ہو جائے گا۔ 

آخری بار کال کر رہی ہوں اگر آپ نے میری کال نہ اٹھائی تو 

میں وہ کر جاؤں گی جو آپ کی سوچ بھی نہیں ہو گی ۔

اس نے ایک دھمکی آمیز مسیج سینڈ کیا ۔

اور آخری بار اسے کال ملائی ۔مگر ابصار نے اس بار بھی کال 

پک نہیں۔ کی ۔

غازیہ ظہیر نے اپنی چادر اور حجاب اٹھایا اور کسی کو

 بتائے بغیر باہر نکل گئ ۔

چوکیدار کو بھی منع کر دیا ۔وہ روڈ پہ گاڑی لے آئی ۔وہ بہت 

ریش ڈرائیو کر رہی تھی ۔غازیہ گاڑی میں جب بھی بیٹھتی

 تھی ۔وہ بھول جاتی تھی کہ وہ گاڑی ہے جہاز نہیں ۔مگر

 اسے ریش ڈرائیونگ پسند تھی ۔اس لیے بھی اسے جسٹس 

ڈرائیور نے ساتھ ہی بھیجتے تھے ۔

رات چونکہ زیادہ ہو رہی تھی ۔شہر میں ٹریفک بھی کم ہی

 تھی ۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

غازیہ ظہیر نے بیل پہ ہاتھ رکھا اور اٹھانا جیسے بھول گئ 

وہ اتنے غصے میں۔ تھی کہ شاید ابصار کا گلا دبا دیتی ۔

ابصار کے ہومز کمپیوٹرز الرٹ ہوئے تھے ۔

غازیہ؟ وہ آپ ے ماتھے پہ تیوریاں چڑھاتا بڑبڑایا ۔ساتھ ہی

 شان کو آواز دی۔

 شان خان بابا سے کہو گیٹ کھول دے ۔جی باؤ وہ جی کہتا 

گیٹ تک آیا تھا ۔ابصار جانتا تھا وہ روم میں ہی آئے گی ۔

اس لیے وہ سٹنگ روم میں چھپ گیا ۔

غازیہ کی ہیل کی ٹک ٹک اس کے روم میں آر ہی تھی ۔

شان ابصار کہاں ہیں بھابھی وہ اپنے روم میں ہیں ۔اچھا ۔

اس نے نفی میں سر ہلایا ۔اور آگے بڑھ گئ ۔

وہ روم میں ادھر ادھر دیکھنے لگی مگر ابصار نہیں تھا ۔

ابصار کی کٹن بیڈ پہ موجود تھی ۔غازیہ نے ابصار کو 

پکارا جب کہ کٹن کو اپنی نیند خراب ہونے پہ بے حد غصہ 

آیا ۔وہ اچھل کر اس پہ جمپ کرتی اس سے پہلے ہی ۔ابصار 

نے اسے اپنی بانہوں میں اٹھا لیا ۔بری بات کٹن ۔شی از یور 

نیو روم میٹ ۔چھوڑو مجھے پھر چھوڑنے کی بات کی۔

تمھاری تو جمعہ کو شادی نہیں ہے ۔تم یہاں کیا کر رہی ہو۔

وہ اسے اپنی گود میں ایسے اٹھائے ہوئے تھا ۔جیسے دو سال 

کا کوئی بچہ اٹھاتا ہے۔

میں نے کہا مجھے نیچے اتاریں وزن تو میں نے اٹھایا ہوا ہے

 تم نے نہیں ۔پھر کیا مسلہ ہے وہ بری طرح بلش ہوئی ۔

آپ سے حساب کرنے آئی ہوں ۔مجھے بتاؤ میری کال کیوں

 نہیں پک کی ۔تم سے ناراض ہوں اچھا تو ابھی گود میں 

۔کیوں اٹھایا ہوا ہے ۔وہ کٹی یعنی بلی کا بچہ ۔اس سے

 بچانے کے لیے ہاں جیسے بہت فکر ہے میری ۔

بہت برے ہو تم ابصار عالم۔برا ہوتا تو تم مجھ پہ کیسے مر

 مٹی۔بڑی خوش فہمی پال رکھی ہے ۔خوش فہمی نہیں دور 

اندیشی کہو ۔وہ اسے یوں ہی اٹھا کر اپنے ساتھ لگائے 

۔باتیں ۔۔کر رہا تھا ۔ آپریشن ہوا ہے آپ کا آپ کو وزن منع ہے ۔

وزن اٹھانا منع ہے ۔تمھیں نہیں۔ وہ اسے بیڈ تک لے آیا ۔

کیا اتنی محبت کرتی ہو مجھ سے 

۔اتنی سی بھی نہیں کرتی اس نے اپنی دو انگلیوں کی چٹکی 

بنائی اور اسے اور بھی چڑایا ۔اچھا نہیں کرتی مجھ سے

 محبت۔پھر میرے کال نہ اٹھانے پہ یہاں تک چلی آئی ہو ۔

۔جب کہ اتنی رات ہو چکی ہے ۔اور وہ بھی اکیلی ۔

می۔ آپ سے یہ کہنے آئی ہوں وہ اٹھنے لگی مگر ابصار 

اس کے پہلو میں لیٹ گیا اور اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر

 اسے اپنے قریب کر لیا ۔دور نہ جاؤ نہ اب دل نہیں۔ لگتا 

تمھارے بنا جھوٹ نہ بولو مجھے اتنا تنگ کرتے ہوئے ۔میں

 اتنی ریش ڈرائیونگ کر کے آئی ہوں ۔اگر کچھ ہو جاتا تو۔

مجھے بھی کچھ ہو جاتا ۔وہ اداس ہوتے ہوئے بولا ۔

بہت برے ہو تم سچ میں میں آنی ماما پاپا کو بتا کر نہیں 

آئی ۔چوکیدار ان کو بتا دے گا ۔کال کر کے بول دو میرے

 پاس ہو ۔وہ کیا کہیں گے وہ مجھے اکیلے گاڑی نہیں۔ لے 

 جانے دیتے ۔آپ کال اٹھا لیتے تو یہ نوبت ہی نہیں۔ آتی ۔

اچھا ماما کو کال کر دو پاپا تو دوا کے اثر سے سو رہے ہوں گے ۔

میں اب جا رہی ہوں وہ پھر اٹھنے کی کوشش کرنے لگی ۔

مگر ابصار نے اسے اپنے اندر جیسے سمو سا لیا ۔وہ بے بس

 ہونے لگی ۔اس کے جسم سے اٹھتی وہ بھینی بھینی سی 

مہک اسے مدہوش کرنے لگی ۔مجھے جانے دیں پلیز پاپا کیا

 سوچیں گے ۔اس کے شرم سے گال سرخ ہونے لگے ۔ہماری

 ڈیٹ فکس ہوئی ہے اور میں یہاں ہوں ۔اٹھ دن بھی نہیں

 رہ سکی ۔وہ ضد کر کے دیکھ چکی تھی اب منتوں ہ اتر 

آئی تھی ۔رات بہت ہو گئ ہے غازیہ میں صبح خود چھوڑ

 آؤں گا ۔اور کچھ نہ کچھ سوچ ہی کیں گے بہانہ بھی ۔

عاشق تو سولی چڑھ جاتے ہیں ۔تو بے شرم کیوں نہیں ہو سکتے ۔

اوووفففف آپ سے سب کچھ کہنا بے کار ہے ۔

اچھا اب مجھے منانے آئی ہو تو مجھے مناؤ ناں میں تو

۔ ناراض ہوں تم سے ۔ابصار اس کی کمر سے ہاتھ ہٹاتا ہوا 

مصنوعی ناراضگی سے بولا ۔اچھا وہ کھڑی ہوئی میں آپ کو

منانے نہیں کچھ بتانے آئی تھی ۔وہ دروازے تک پہنچی ۔

اس نے کال کھولنے کی کوشش کی مگر ابصار اس کی۔

حرکت پہ مسکرا رہا تھا ۔یہ فنگرز لاک ہے تم سے نہیں کھلے 

 گا ۔کوشش بے کار ہے ۔وہ رونے بیٹھ گئ دروازے کے پاس

 ہی ۔ابصار حقیقیت میں گھبرایا وہ اٹھ کر اس کے پاس چلا 

آیا اور گھنٹوں کے بل بیٹھ کر اس کے کان پکڑ لیے ۔

پلیز معاف کر دو مجھے ۔غازیہ کو اس کی اس حرکت پہ 

ہنسی چھوٹ گئ ۔یہ ہوئی ناں بات ایم سوری وہ وہی بیٹھا 

اسے اپنے ساتھ لگاتا ۔پیار سے اس کے سیدھے گال کے نیچے

 ہاتھ رکھے اسے بہلانے لگا ۔

ہاتھ مت لگاؤ مجھے مگر غازیہ ابصار کی حرکتوں سے تپ 

کر دور جا کھڑی ہوئی ۔مجھے ابھی اپنے گھر جانا ہے بس ۔

غازی کیا تمھارا دل نہیں کرتا کہ تم مجھے محسوس کرو وہ اس 

کے سامنے جا کر کھڑا ہوا اور دونوں ہاتھ اپنے سینے پہ باندھ لیے ۔

وہ بلیک ٹی شرٹ میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔

غازیہ نے اتنی دیر میں پہلی بار اسے نظر اٹھا کر دیکھا ۔

باتوں میں مت الجھاؤ مجھے تنگ کرنے میں مزا آتا ہے ناں 

آپ کو نہیں غازی یہ تو میرے پیار کا انداز ہے اور ایک 

اور بات اپنے زہن۔ میں بٹھا لو ۔میں تم سے ناراض نہیں ہو 

سکتا بس تمھیں تنگ کر رہا تھا ۔تم اسے سریس مت لیا

 کرو ۔وہ اسے چھوئے بغیر ہی اس سے باتیں کرنے لگا ۔

مبادی وہ دوبارہ پھر نہ بھڑک جائے ۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💢💓💓💓💓💓

غازی ابصار نے اسے کال کی آج مہندی کا فنکشن تھا ۔

وہ نیند آلود آواز میں کیا مصیبت ہے ہیرے سونے کیوں ۔

۔نہیں دے رہی ۔میں ابصار بات کر رہا ہوں اس کی آنکھیں 

پوری کھلیں اور وہ آنکھیں پھاڑ کر اسکرین کو دیکھنے لگی۔

تم ابھی تک سو رہی ہو اور میں باہر گیٹ پہ ہوں ۔

کیا وہ بیڈ سے تقریباً چھلانگ لگا کر کھڑی ہوئی تھی۔ ۔

جی ہاں بھول گئ کیا ۔ہمیں مہندی کے لیے شاپنگ مل کر

 کرنی ہے ۔یاد ہے مجھے میں ابھی آئی وہ عجلت میں 

بس اپنی چادر اور حجاب اٹھا کر نیچے بھاگی تھی۔ 

ماما آپ نے مجھے اٹھایا کیوں نہیں ابصار کے ساتھ مجھے 

کچھ چیزیں پرچیز کرنی تھیں آپ کو بتایا تو تھا ۔

سو بار جا کر انعم( ملازمہ)  اٹھانے گئ ہے مگر تمھاری آج 

کل نیند ہی پوری نہیں ہو رہی ۔ہاں  تو رات کو سو بھی تو

 دیر سے رہی ہوں ۔وہ جاتے جاتے جواب دے گئ ۔

ابصار عالم وائٹ سوٹ پہ بلیک واسکٹ پہنے آنکھوں پہ 

گولڈن گاگلز لگائے ۔جیسے آج وہ دولہا بن کر آیا ہو ۔

اور اس کی نسبت غازیہ ظہیر بلیک کنٹراسٹ سوٹ 

وہ بھی سلوٹ زدہ رات کا پہنا ہوا ۔اس پہ سکن  چادر لپیٹے

میرون اسکارف سے حجاب کیے وہ عام سے حلیے میں بھی 

منفرد ہی لگ رہی تھی ابصار عالم کو ۔

تمھیں یاد ہے ناں ہمیں کیا لینا ہے ۔ہاں جی میں اتنی بھی

 بھلکڑ نہیں ہوں ۔پھر بتاؤ کیا لینا ہے ۔ابصار گاڑی گلی سے 

نکالتا ہی اس سے تنگ کرنے لگا  ۔اور وہ ہمیشہ کی طرح ہی

 چڑ گئ ۔لڑکج ایک تو میں تمہاری اس عادت سے بیزار ہوں ۔

وہ اس کی باتیں سن کر چڑ گئ ۔اور سونے پہ سہاگہ ابصار 

نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا ہوا تھا اور ایک ہاتھ

 سے ڈرائیو کر رہا تھا ۔ 

ابصار دھیان سے گاڑی چلائیں ۔مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔میرے

 ساتھ بھی تمھیں ڈر لگ رہا ہے ۔غازی جانتی ہو شوہر کا

 مطلب کیا ہوتا ہے ۔ش سے شفاء اور ش سے ہی شفقت۔

و سے وعدہ عمر بھر ساتھ نبھانے کا ۔اس کے ساتھ دکھ اور 

سکھ میں ساتھ رہنے کا ۔غازہہ اس کی باتوں میں کھونے۔

جی

 لگی ۔وہ ایسا ہی تو جادو گر سا تھا آپنی باتوں سے اصل  

موضوع سے ہٹا دیتا تھا ۔وہ اس کی جھجھک سمجھ رہا تھا۔ ۔

مگر وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر ہمیشہ احساس دلاتا تھا کہ 

میں تمھارے ساتھ ہوں ت۔ میرے ساتھ ہو ۔مگر غازیہ ابھی

 ایسی باتیں نہیں سمجھتی تھی ۔وہ چھپا لیتی تھی اپنے

 جزبات مگر ابصار بولڈ  تھا اور ایک مرد تھا ۔وہ بولڈ  ضرور

 تھی ۔مگر شرم و حیا کا ایک پیکر تھی ۔اس میں 

 شرم و حیا  رچی  ہوئی تھی ۔جیسے وہ لڑکی ۔محبت بے

 اختیار جزبہ سہی ۔مگر مرد ہو یا عورت اس پہ قابو پانا 

اس کے بس میں ہے ۔وہ اسے چاہے تو عیاں کر دے اور چاہے ۔

تو چھپا لے ۔غازیہ کو بھی بے اختیاری میں محبت ہوئی

 تھی۔مگر وہ نکاح کے بعد بھی اسے چھپائے ہوئے تھی۔

یہ اس کا خیال تھا کہ ابصار نہیں جانتا ۔

وہ اس سے محو گفتگو تھا ۔غازیہ اس کی آواز کے سحر میں 

بھول گئ تھی جیسے کہ اس کا ہاتھ ابھی بھی ابصار کے

 ہاتھ میں تھا ۔

 ہ سے ہمرائی اور رتبہ وہ جو اسے اپنے گھر میں لا کر دیتا

 ہے ۔بے وقوف ہوتے ہیں وہ مرد جو عورت کو اپنا غلام 

بناتے ہیں اور خود کو بے سکون کر لیتے ہیں ۔

مرد عورت کو ملکہ بنائے تا کہ خود بادشاہ بن کر اس پہ راج 

کر سکے ۔

باتوں باتوں میں وہ مارکیٹ پہنچ چکے تھے۔ 

غازیہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ مہندی کے فنکشن 

کے لیے کیا خریدے گی ۔

کیوں کہ ان دونوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا ۔

وہ دونوں ایک ساتھ شاپنگ کریں گے ۔مایوں کی بھی اور

 مہندی اور بارات کی بھی مگر ابصار عالم غازیہ کے لیے 

شاپنگ کرے گا اور غازیہ ابصار کے لیے ۔

غازیہ اسی لیے پریشان تھی ۔

اپنی شاپنگ تو وہ آنکھیں بند کر کے کر لیتی مگر ابصار 

کے لیے وہ سمجھ ہی نہیں پا رہی تھی ۔۔۔۔

ابصار عالم لیڈیز ایریا میں جب کہ غازیہ ظہیر جینٹس 

ایریا میں گھوم رہی تھی ۔وہ مہندی کے فنکشن کے لیے 

بہت ساری چیزیں دیکھ چکی مگر اسے سمجھ کچھ بھی 

نہیں آیا ۔

غازیہ ظہیر کو ایک آئیڈیا سوجھا ۔

سنیے سسٹر ۔وہ ایک اسسٹنٹ کے پاس پہنچی ۔

مجھے ایسا جنٹس ڈریس دیکھائیے ۔جو مہندی کے حساب

۔

 سے بھی ہو اور سوبر بھی لگے ۔وہ لڑکی مسکرائی ۔

آئیے میرے ساتھ وہ اسے لے کر ایک سٹال کے پیچھے کے گئ 

 غازیہ نے بیت سارے کپڑوں میں سے ایک ڈریس سلیکٹ کیا 

گولڈن واچ لی گولڈن زری کھسہ لیا ۔

اور ساتھ ہی ایک یلیو کرتا لے لیا ۔

اور اپنی شاپنگ مکمل کرتی ابصار عالم کے پیچھے آن کھڑی

 ہوئی ۔ابصار بھی شاپنگ کمپلیٹ کر چکا تھا ۔

وہ دونوں باہر آ گئے ۔برابر میں ایک ریسٹورنٹ ہے ۔

ہم وہاں سے اچھا سا کھانا کھاتے ہیں مجے بہت بھوک لگ

 رہی ہے ۔نہیں میں تمھیں کہیں اور لے کر جا رہا ہوں ۔

ہم کہاں  جا رہے  ہیں ۔سر پرائز فار یو ابصار نے گاڑی 

کسی انجانے سے راستے پہ ڈالی تو غازیہ نے چونک کر

 پوچھا ۔

 ابصار عالم اور غازیہ ابصار عالم ہیر ماہم کے گھر کے سامنے 

رکے تو غازیہ نے ابصار کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا  ۔

ہیرے تو گھر جا چکی ہو گی  میں نے اسے رات کو ہی کال

 کر دی تھی ۔اچھا تم چلو تو سہی ابصار اس کا ہاتھ 

پکڑنے لگا مگر وہ تھوڑا پیچھے ہو گئ ۔ابصار اس کی حرکت

 پہ مسکرا دیا ۔

واپسی پہ بتاؤں گا ابھی تو چلو ابصار غازیہ کی جانب

 تھوڑا جھک کر بولا اور آگے بڑھ گیا ۔

غازیہ ظہیر اس کی پیٹھ کو گھورتے ہوئے اس کے پیچھے

 چلنے لگی۔

اسلام وعلیکم ۔ہیر اور اس کے والدین ان کے استقبال کے لئے

پہلے سے ہی موجود تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ پہلے ہی 

ان کا انتظار کر رہے تھے ۔ہیر کے گلے لگتے ہی غازیہ نے اس 

سے پوچھا یہ کیا ہے ہیرے ۔تم آؤ تو سہی بیٹھو وہ اسے لان

 سے لے ڈرائنگ روم میں بڑھ گئ ۔ابصار سامنے رکھے سنگل 

صوفے پہ بیٹھ گیا ۔کامران بھی برابر رکھے تھری سیٹر 

پہ بیٹھ گئے تھے ۔مگر ہیر کی مام کچن میں چلی گئی تھیں

 تاکہ ان کے لیے انتظامات دیکھ سکے ۔

غازیہ ہیر کے ساتھ اس کے روم میں جانے لگی مگر ابصار نے 

اسے آواز دے کر اپنے پاس بلا لیا ۔ہمیں جلدی نکلنا ہے بہت

 سارے کام ہیں ۔غازیہ اس کی بات سمجھتی ہوئی سامنے

 والے صوفے پہ جا بیٹھی ہیر بھی اس کے ساتھ ہی تھی ۔

آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے کامران صاحب میں نے کال کی 

بجائے خود آنا زیادہ مناسب سمجھا اور ہم ہی اس کا 

خاندان ہیں تو آپ اب مجھے کوئی ریزن ایبل کی جواب دے 

سکتے ہیں ۔

ہیر ماہم کی والدہ کوثر کامران بہت سارے لوازمات لے آئیں 

تھیں ۔اس می۔ مٹھائی بھی شامل تھی۔ 

بیٹا ہیر تم زرا اپنی والدہ کے ساتھ چکن میں کام دیکھ لو ۔

ہمیں یہ رشتہ منظور ہے ۔غازیہ اٹھنے لگی تھی ماہم کے

 ساتھ ہی مگر ابصار نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔

غازیہ ہم دونوں اپنے شان کے لیے ہیر کا رشتہ پکا کرنے 

آئے ہیں ۔کیا واقعی وہ خوشی اور حیرانگی سے اچھلی  ۔

اچھا تو یہ تھا سر پرائز یوں تو ہماری دوستی اور بھی

 مضبوط ہو جائے گی۔ وہ خوشی سے جھوم اٹھی اور ہیر کے

 پاس کچن میں بھاگی ۔گھنی تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں 

پہلی بات تو یہ ہے کہ مجھے بھی رات کو ہی پتہ چلا ۔اور 

دوسری بات یہ کہ میں تمھیں۔ صبح کال کر کر تھک گئی ۔

مگر تم نے مجھے جواب ہی نہیں دیا۔ ہیرے ہاں بولو ۔غازیہ ۔

ہیر کو اپنے سامنے کرتی اس سے مخاطب ہوئی۔تم 

 خوش ہو ناں اس رشتے سے ہاں میں بیت خوش ہوں اور 

سب سے زیادہ میں اس لیے خوش ہوں کہ میں اور تم ایک

ساتھ رہیں گے ہمیشہ وہ دونوں ایک دوسرے کے گلے لگیں ۔

مسکرا دیں ۔

کوثر اور کامران نے انھیں کھائے بغیر اٹھنے نہیں دیا تھا سو 

وہ کھانا کھا کر ہیر کو بھی ساتھ لے گئے ۔ابصار ہیر کا لحاظ 

کرتے ہوئے پرسکون تھا ۔ وہ تینوں داور کے گھر پہ موجود

 تھے ۔اور یہ بات بھی غازیہ کو گاڑی میں پتہ چلی اور یہ

 بھی کہ خرم اسے پسند کرتا ہے ۔ ایس پی داور تو آل ریڈی 

تیار بیٹھے تھے ۔بس فارمیلٹی تھی جو اسے نبھانی آتی تھی ۔

تو ایس پی  صاحب ہم اپنی بارات کے اگلے دن آپ کے ہاں 

آئیں گے اور اسں سے نیکسٹ ڈے شان کی بارات جائے گی۔

اس کا بھی رشتہ پکا ہو گیا ہے ۔اپنی ہیر ماہم بچے کے ساتھ

وہ پیار اور شفقت سے ہیر کو دیکھتے ہوئے بولا ۔ہیر کو بھی

 بہت خوشی ہوئی ابصار کے اتنے اچھے طرز تخاطب پہ  ۔ 

وہ بھی کھانے پہ روک رہے تھے مگر ابصار نے انھیں اپنی

 مہندی کا انویٹیشن دیا اور اللہ حافظ کہہ کر ۔غازیہ کے 

گھر پہ چلے آئے ۔

غازیہ کو ڈراپ کرتا وہ سیدھا گھر گیا تھا کیوں کہ اسے بہت

 سارے کام کرنے تھے ۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

ابصار عالم غازیہ ظہیر کے خریدے ہوئے کپڑے دیکھنے لگا ۔

مہمان آ گئے تھے اور ان کو مہندی لگانے جانا تھا غازیہ کو 

ظہیر الحسن نے کہا تھا کہ نکاح پہلے ہی ہونے کی وجہ سے 

وہ دونوں اب محرم ہیں تو تمام رسمیں ساتھ ساتھ ہونی

 چاہیے ۔اس لیے ابصار بھی وہی جا رہا تھا ۔مگر وہ کپڑوں 

کا کلر دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا ۔وہ اتنا چیپ کلر پہننا تو کیا 

دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا ۔عورتوں جیسا پیلا کرتا ۔

اور اس  پہ دو لائینز جو گرین کلر کی تھیں اس کا پارہ ہائی

 ہوا ۔مگر وہ اپنے کول سے دماغ کی وجہ سے چپ کر گیا ۔

میں اسے نہ پہن کر تمھارا دل نہیں توڑنا چاہتا ۔وہ مسکراتا 

ہوا تیار ہونے لگا ۔ 

ابصار تیار ہو کر باہر نکلا تو سب ہی نے اسے غور سے دیکھا۔

وہ کھسیانا ہوا ۔وہ عالم لوہار جیسا لگ رہا تھا ۔

مگر وہ کسی کو بھی خاطر میں لائے بغیر گاڑی میں جا۔

 بیٹھا وہ تصور میں غازیہ کا سراپا لاتا ہوا مسکرا دیا ۔

وہ جلد ہی غازیہ کے گھر پہ موجود تھے ۔

کون میں ہی فنکشن رکھا گیا تھا ۔سٹیج پہ ابصار کو بٹھایا 

غازیہ نے ابصار کو کال کی ۔آپ میرے روم میں آئیں مجھے

۔

 آپ سے کوئی ضروری بات کرنی ہے ۔میں ادھر بیٹھا ہوں

 سب رسم سٹارٹ کرنے والے ہیں ۔مجھے نہیں پتہ آپ آ رہے

 ہیں تو ہی میں نیچے آؤں گی ۔وہ کال ڈسکنٹ کر گئ ۔

ابصار پہلو بدلنے لگا وہ سب کے درمیان گھرا بیٹھا تھا۔

ایسے میں وہ کیسے سب کو چھوڑ کر اوپر چلا جاتا ۔مگر

 غازیہ کی وہ آخری بات کہ گا آپ تو بہت بولڈ ہیں ۔مجھے

 سمجھاتے ہیں اب آپ کیوں گھبرا رہے ہیں۔ ۔

ابصار نے شان کو مسیج کیا چم چم کی پلیٹ میرے اوپر گرا

۔

 دو شان جو سامنے ہی کھڑا تھا ابصار کی جانب دیکھا وہ

 سریس تھا ۔شان نے پلیٹ اٹھائی اس میں میں سے ایک چم

 چم اٹھایا ابصار کی جانب بڑھا جان کر ٹانگ ٹیبل سے

 اٹکائی اور پلیٹ سمیت ابصار کے اوپر گرتے گرتے بچا ۔

اللہ خیر کرے ابصار کرتا جھاڑتا ہوا کھڑا ہوا ۔شان اتنے ۔

۔بوکھلائے ہوئے کیوں ہو یار سارے کپڑے خراب کر دیے ۔

ایم سوری بھائی وہ ٹیبل سے اچانک میرا پاؤں اٹک گیا تھا۔

وہ بھرپور ڈرامہ کرتا ہوا بولا ۔سچھا چلو کوئی بات نہیں ۔

وہ شان کے کندے کو تھپک کر بولا ۔ایکسکیوزمی وہ سب

 سے ایکسکیوز کرتا اندر بڑھ گیا ۔

ابصار عالم اپنے بالوں میں انگلیاں پھنساتا ہوا 

جلدی جلدی زینے چڑھنے لگا ۔

غازیہ نے اپنے روم سے دیکھ لیا تھا اس لیے وہ اپنے 

گول پنک بیڈ کے بیک پردے کی پیچھے چھپ گئ 

ہیر اور زیلیہ کو نیچے بھیج دیا تھا 

غازیہ نے ۔ابصار نے ہلکا سا  ڈور ناک کیا مگر کوئی رسپانس

 نہ ملا اس نے گلے کو صاف کیا اور اندر قدم بڑھا دئیے ۔

غازیہ کے بیڈ پہ میک اپ کی کچھ چیزیں بکھری پڑی تھیں۔

ابصار نے اسے آواز دی مگر کوئی آواز نہیں آئی ۔مگر کمرے

 میں بھینی بھینی سی خوشبو آ رہی تھی۔

ابصار کو یقین تھا کہ وہ اندر ہی ہے ۔وہ بھی ابصار تھا اپنے

 قدموں پہ  پیچھے گھوما دو چار قدم چل کر دروازے کے

 پاس آیا ۔اور اندر سے لاک کر دیا غازیہ کو لاک کی آواز سن 

کر غش سا آیا وہ فوراً پردے کے پیچھے سے باہر آئی ۔

یہ کیا کر رہے ہیں آپ وہ لاک کر کے دروازے کے آگے ہی ہاتھ ۔

۔سینے پہ ہاتھ باندھے کھڑا مسکرا رہا تھا ۔ییلو کلر میں تازہ

 دم سا وہ کھلا کھلا لگ رہا تھا غازیہ نے اسے نظر بھر کر

 دیکھا ۔ابصار خاموشی سے مسکراتا رہا مگر اسے اتنے انہماک

 سے دیکھ بھی رہا تھا ۔وہ گرین اور سلور اور اس کے ساتھ 

ریڈ پلازو اور گرین دوپٹہ سر پہ سیٹ کیے وہ بہت خوب

 صورت لگ رہی تھی ۔

ابصار اس کے قریب چلا آیا ۔لو آ گیا ہوں میں یہ تو تمھارا 

روم ہے غازیہ تم مجھے دشت میں بھی پکارو گی تو یارم تیرا

ننگے پاؤں چلا آئے گا۔ وہ اس کی کانوں کی لووں پہ بوسہ 

دیتا ہوا بولا غازیہ اپنے آپ میں سمٹ گئ ۔

کیا میرے ساتھ نیچے چلو گی یا پھر یہی اپنے جزبات تم پہ

 وار دوں ۔عہ بے قابو ہو ہٹو پیچے پیچھے تم نے ہی بلایا ہے 

مجھے میں تو اچھا خاصا شریف سا بندہ بن کر بیٹھا تھا ۔

ابصار نے غازیہ کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر اس کے لبوں پہ

جھکا مگر غازیہ نے منہ سائیڈ پہ کر لیا۔ میری لپ سٹک خراب

ہو جائے گی ۔غازیہ کے ہونٹ شرم سے کپکپا رہے تھے ۔

پلیز کوئی آ جائے گا آپ کو کچھ دینا تھا مجھے ابصار کو

 بھی ۔اس چیز کا احساس تھا مگر وہ غازی کا سجا سنورا 

روپ دیکھ کر بہک رہا تھا۔ابصار ایک بار پھر اس کے ہونٹوں

 پہ جھکا مگر دروازے پہ دستک ہوئی تھی اور ساتھ ہی ہیر

 نے آواز لگائی غازیہ تو غازیہ ابصار کے ماتھے پہ بھی پسنے 

کے قطرے ابھرے تھے ۔وہ شرم سار سا ہوا تھا ۔

میں ہیر کے ساتھ نیچے جا رہی ہوں اس نے الماری سے کچھ 

چیزیں نکالیں اور ابصار کے سامنے رکھ دیں ۔

یہ چینج کر کے نیچے آ جائیں ۔غازیہ کہتے ساتھ ہی باہر نکل گئ ۔

ابصار بھی بس اسے جاتے دیکھتا رہا  ۔اور پھر اپنی چیزوں پہ

 جھک گیا ۔ابصار وائٹ پہ گولڈن واسکٹ پہنے

گولڈن واچ اور گولڈن کھسے وہ کسی ہینڈسم ماڈل سے زیادہ 

جچ رہا تھا  ۔ابصار بڑے اعتماد کے ساتھ چلتا ہوا سٹیج پہ 

آیا اور غازیہ کے پہلو میں آن بیٹھا ۔ایس پی داور ابصار کے 

 پاس آیا بہت جچ رہے ہو یار اللہ نظر بد سے بچائے ۔

سب نے پاس آ آ کر اس بیسٹ کپل کی تعریف کی تھی ۔

وہ بس مسکرا رہا تھا ۔اسے موقع نہیں مل رہا تھا غازیہ سے

 بات کرنے کا دونوں مووی کیمرے کے سامنے بیٹھے 

ریاست کے بادشاہ اور رانی سے کم نہیں لگ رہے تھے ۔

شان نے موقع دیکھ کر ہیر کے پاس جا کھڑا ہوا ۔

شکریہ ہیر ۔ہیر نے گردن اٹھا کر دیکھا شان کو اپنے برابر دیکھ 

کر شرما گئی اور گردن جھکا لی ۔کس بات کا شکریہ 

میری زندگی میں آنے کے لیے شکریہ ۔میری لائف میں آنے والی 

ت۔ واحد لڑکی ہو جس نے مجھے اٹریکٹ کیا۔

ورنہ باؤ کی زات کے علاؤہ مجھے کوئی پسند نہیں آتا تھا۔

میری دوسری محبت تم ہو ۔ہیر نے اس کے لہجے میں وہ

 اپنائیت محسوس کی اور وہاں سے بھاگ لی ۔

خرم اور زیلیہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے اچھے لگ رہے تھے 

مگر دونوں کرتے ہوئے دیکھائی دے رہے تھے۔

یہ کیسا ڈریس پہنا ہے تم نے پوری چڑیل لگ رہی ہو ۔

اور آپ اس زرد رنگ میں بلکل شیر لگ رہے ہیں۔ وہ اس کے 

گولڈن کلر پہ چوٹ کر رہی تھی ۔

دونوں یوں ہی نوک جھوک میں لگے تھے ۔خبردار تم نے میرے 

سے پوچھے بغیر شادی کا جوڑا لیا تو میں پہلی رات ہی ڈرنا 

نہیں چاہتا ۔اوہ شٹ اپ زیلیہ اپنی جزباتی طبیعت کے باعث 

جلدی چڑ گئ اور وہاں سے ہٹ گئ ۔خرم مسکرا دیا ۔

ابصار سب کو خوش دیکھ کر بھی مسکرا رہا تھا ۔اود اپنی 

محبت کے حصول پہ بھی خوش تھا ۔

وہ غازیہ کے قریب ہوا ۔اتنا خوبصورت گفٹ دینے کا بہت 

شکریہ ۔غازیہ مسکرا دی ۔

💎💎💎💎💎💎💎💎💎💎💎💎💎💎💎

فنکشن جاری تھا رات بہت ہو گئ تھی ۔

دور سے آئے ہوئے لوگ جا چکے تھے ۔رسمیں جاری تھیں  ۔

جب اصفہان جسٹس ظہیر الحسن کے قریب آ کر رکا تھا۔

وہ ابھی بھی اپنی ڈیوٹی پہ تھا ۔باہر سکیورٹی گارڈز کے 

علاؤہ پولیس کی بھاری نفری بھی موجود تھی ۔

جسٹس ظہیر الحسن چونک کر کھڑا ہوا تھا ۔ابصار کے بھی 

کان کھڑے ہوئے اور وہ فوراً جسٹس ظہیر الحسن کے پاس

 چلا آیا ۔

سب ٹھیک ہے ناں۔ پاپا ابصار نے آتے ہی سوال کیا ہاں آؤ 

میرے ساتھ وہ باہر کی جانب بڑھے تھے ۔۔۔

تم دونوں یہاں کیا کرنے آئے ہو ۔ہم تم سے معافی مانگنے آئے

 ہیں۔ظہیرانکل ہمیں معاف کر دو ۔ فخری کی بیٹی اور ان کا

 تیلی جیسا داماد  ان کے آگے ہاتھ  باندھے کھڑے تھے ۔ظہیر

 الحسن نے اسماہ کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا ہمیں تم سے

 کوئی گلہ نہیں بیٹا ۔پاپا کو بھی معاف کر دیں وہ بہت

 شرمندہ ہیں ۔اور انکل جمالی نے بھی اپنی پوتی کو ہمارے

 ساتھ بھیجا ہے وہ بیت چھوٹی ہے گاڑی میں سو گئ ہے ۔

ہم سب آپ سے شرمندہ ہیں ۔پلیز انھیں معاف کر دیں ۔

وہ بیٹی زات کی عزت کرتے تھے اور یہ سب جانتے تھے وہ

 دونوں اس لیے انھیں بھیجا تھا مگر خود اچھی جیل میں ہی 

تھے ۔ٹھیک ہے میں نے انھیں معاف کیا ۔مگر انھیں کہنا 

وہ کچھی میرے سامنے نہ آئیں ۔

رات کا فنکشن تھا ۔بارات بگھیوں میں آئی تھی ابصار عالم

پیور وائٹ واسکٹ سوٹ زیب تن کیے ۔

سٹیج پہ بیٹھا غازیہ ظہیر کا انتظار کر رہا تھا ۔

غازیہ پرپل اور فیروزی سوٹ میں محفل لوٹ گئیں تھیں ۔

دلہن آ گئ کا شور برپا ہوا تو ابصار بھی کب سے جھکا ہوا 

سر اٹھا کر سامنے سے آتی دلہن کو دیکھنے لگا۔

وہ بہت سی خواتین کے جھرمٹ میں ملکہ عالیہ کی طرح

 چلی آرہی تھی۔جب وہ قریب آئی تو ابصار عالم کھڑا ہوا۔

غازیہ ظہیر کے بیٹھنے کے بعد وہ دونوں مختلف تصاویر 

کا سامنا کرتے ہوئے کسی حد تک پرسکون تھے ۔

دودھ پلائی کی رسم شروع ہوئی ۔اور اس کے ساتھ ہی 

جوتا چھپائی کے بھی منصوبے بننے لگے ۔ہیر ماہم ۔زیلیہ داور 

عمارہ اور چند اور بھی فرینڈز تھیں جو آج اس رسم میں ۔

 شامل تھیں غازیہ کے کان کے قریب ابصار نے سر گوشی کی ۔

تجھ پہ فدا ہیں سارے حسن و جمال والے ۔

جل گئے جلال والے مر گئے مثال والے ۔

غازیہ نے سر جھکا لیا ۔ابصار کے دل کے تار ہلا گئے 

اس کے دہکتے ہوئے انگارا جیسے گال ۔

باؤ زرا دھیان سے خرم نے کان میں سرگوشی کی آپ کے 

جوتوں پہ نظر ہے بہت سے لوگوں کی  ۔اس نے زیلیہ داور کی

طرف منہ کر کے بولا ۔زیلیہ نے نہ سمجھتے ہوئے پہلو بدلا 

 ایک دن بعد ان کی بھی بارات تھی ۔ مگر سب اپنی شادی 

سے زیادہ ابصار عالم اور غازیہ ظہیر کی شادی پہ ایکسائیٹڈ 

تھے ۔

ابصار   سجی سنوری غازیہ کے سراپے میں کھویا  ہوا تھا ۔

خرم کی سرگوشی پہ ابصار عالم 

نے سر ہلانے پہ ہی اکتفا کیا۔  ابصار عالم نے ہیر کو

 اشارہ کیا ۔ہیر ماہم نے جھک کر ابصار کی منہ کے پاس کان 

کیا سب ہی ادھر متوجہ ہوئے۔تمھیں جوتا چھپائی کے میں

 ڈبل پیسے دے سکتا ہوں کیا وہ ایکسائٹمٹ سے چیخی ۔

آہستہ بچے میرے آہستہ راز رکھنا سیکھو ۔ابصار نے اس کے 

چیخنے پہ سمجھایا۔ چیٹنگ نہیں چلے گی ۔ہیر ماہم کے 

پارٹنرز نے دہائی دی ۔وہ بھی کسی خطرے کی بو محسوس 

کر رہے تھے۔ وہ سیدھی کھڑی ہو گئ ۔ابصار کے جوتوں کو

 وہ مسلسل دیکھ رہی تھی ۔غازیہ کا ارادہ بھی ان کی ہیلپ 

کرنے کا تھا مگر ابصار ابھی جوتے پہنے ہوئے بھی تھا ۔

اور وہ تھوڑے فاصلے پہ بھی تھی ۔ابصار نے شان کو اشارہ

 کیا۔شان نے کان آگے کیا تو ابصار عالم نے اسے کہا ۔

اگر تم ہیر کو کنوینس کرو تو غازیہ کی چپل بھی چھپا لو ۔

اسے کہو میں دگنے پیسے دوں گا اسے اور یہ بے ہودہ رسم

 بھی ختم ہو جائے ۔دلہن کی چوری کیا کریں۔ دلہا کو ہی کیوں 

یہ قربانی دینا پڑتی ہے ۔شان مسکرا کر کھڑا ہوا ۔

یہ چیٹنگ ہے یہ فاؤل ہے ۔مینرز کے خلاف ہے یہ سب ۔کھسر 

پھسر کرنا بری بات ہے ۔خرم آگے بڑھا اور شان ہیر کے قریب

 ہوا۔آپ سب بھی تو منصوبہ بندی کر رہی ہو ہم بھی وہی کر

 ہیں ۔خرم نے بھی زرا اکڑ کر کہا ۔

مگر اس کی نوبت ہی نہیں آئی تھی ۔ایک خوبصورت لڑکی 

اندر داخل ہوئی تھی اس کے ساتھ چار پانچ سال کا گول

 مٹول بچا بھی تھا۔وہ زبردستی اندر داخل ہوئی تھی اس

 کے   پیچھے گارڈز بھی لپکے تھے ۔مگر جسٹس ظہیر نے

 انھیں واپس جانے کا کہا ۔وہ لڑکی ابصار عالم کے سامنے 

جا کر رکی تھی ۔ ابصار نے سر اٹھا کر اس انجان عورت ۔

پہ غور کیا آپ میرے ساتھ ایسے کیے کر سکتے ہیں ۔

اس لڑکی نے ابصار عالم کو  براستہ  مخاطب کیا ۔

ابصار عالم آپ میرا نہیں تو کم از کم اس بچے کا تو خیال 

کرتے شان اور خرم آگے بڑھا کیا بات ہے آپ کون ہیں ۔ہٹو 

میرے راستے سے تم دونوں وہ ان پہ غرا کر بولی ابصار نے 

بھی ان کو ہاتھ کے اشارے سے پیچھے ہٹنے کو  کہا۔جسٹس 

ظہیر الحسن اور کامران خان ایس پی داور بھی ان کے پاس

سٹیج پہ چلے آئے ۔دھوکہ دیا آپ نے مجھے یہ کیا کہہ رہیں

 ہیں۔ آپ ابصار اب تک پرسکون تھا جسٹس ظہیر الحسن

۔

 آگے بڑھے ۔کون ہو بیٹا تم مجھے سکون سے بتاؤ ۔

وہ جج تھے تو اس وقت بھی دلائل سننا چاہیتے تھے ۔

 وہ لڑکی رونے لگی میں اس شخص کی بیوی ہوں ۔اور یہ 

ان کا بیٹا ہے ہماری شادی کو چار سال سے زیادہ ٹائم ہو گیا 

ہے ۔دھوکہ دیا انہوں نے مجھے ۔کیککک ککککک کیا کہہ رہی

 ہو تم لڑکی جسٹس ظہیر بھی گھبرائے ۔

غازیہ ظہیر اپنا شرارا  سنبھالتی کھڑی ہوئی۔ ابصار میں یہ 

کیا سن رہی ہوں غازیہ تم بیٹھو ۔ابصار نے اس کا ہاتھ پکڑ 

کر بٹھانے کی کوشش کی وہ خود بھی کھڑا ہوا تھا ۔

پاپا غازیہ ہاتھ چھڑوا کر اپنے پاپا کے گلے آن لگی ۔میرا بچہ 

ظہیر الحسن نے اپنی بیٹی کے سر پہ ہاتھ رکھا ۔

مجھے نہیں یقین آتا پاپا وہ سینے سے لگی تو رہی تھی ۔

رونے کی وجہ سے اس سے بولا نہیں جا رہا تھا۔  

ابصار عالم اس سے مخاطب ہوا جس نے بھیجا ہے آپ 

کو آپ آخر کیوں انڈین سین کریٹ کر رہی ہیں ۔میں کوئی

 انڈین سین کریٹ نہیں کر رہی جو سچ ہے وہی بتا رہی ہوں ۔

میں جو کچھ نہیں جانتا وہ آپ مجھ پہ کیوں مسلط 

کر رہی ہیں ۔

ابصار تم مجھ سے بات کرو یہ سب کیا ہے ۔اگر تم شادی 

شدہ تھے تو تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں پہلے ۔مجھے تم

 سے یہ امید ہرگز نہیں تھی ۔ ابصار مجھے بھی نہیں تھی۔ 

غازیہ بھی شوں شوں کرتی ہوئی بولی ۔اور پھر اپنے 

پاپا کی بانہوں میں جھول گئ ۔

یہ سب کیا ہو رہا ہے ۔غازیہ ابصار کی نظر سب سے پہلے پڑی

 تھی ۔وہ غازیہ کی جانب بڑھا تھا ۔

جسٹس ظہیر نے ابصار کو ہاتھ کے اشارے سے روک دیا ۔

مگر ابصار رکا نہیں تھا وہ آگے بڑھا اور غازیہ کو اپنے

 بازوؤں میں اٹھا لیا ۔جسٹس صاحب میری صرف اور صرف 

ایک ہی بیوی ہے اور وہ غازیہ ہے ۔رخصتی لے کر جا رہا ہوں 

میں ایم سوری مگر یہ سچ ہے ۔

اور ایک بات وہ جاتے جاتے پلٹا آپ جج صاحبان میں سے ہیں۔

آپ بہتر جانتے ہوں گے۔لوگوں کے چہرے پہ اور رنگ بھی ۔

ابصار آ ۔۔اس لڑکی کی بات پوری نہیں ہونے دی تھی ابصار

 نے اور اسے بری طرح جھڑک دیا ۔شٹ اپ مس ایکس 

وائے۔ زیڈ مجھے لگتا ہے آپ کو کسی سائیکا ٹرسٹ کی

 ضرورت ہے ۔فورا جاؤ اپنا علاج کرواؤ ۔ابصار نے اسے وارن

 کیا اور باہر نکل گیا ۔سب اس کے پیچھے لپکے تھے ۔

ظہیر الحسن اور کامران خان ابصار کے پیچھے لپکنے لگے 

تو ایس پی داور نے ان دونوں کو منع کیا ۔

ظہیر صاحب اپنا ناتھا پکڑ کر بیٹھ گئے ۔نسیم بیگم کی بھی 

کچھ ایسی ہی حالت تھی ۔

لوگوں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئ تھی۔ 

وہ لڑکی پرسکون سے انداز سے وہی کھڑی تھی ۔وہ ابصار

 کے اس طرح رخصتی سے حیران پریشان تھے ۔

اس لیے اسے بھول گئے تھے ۔یعنی لڑکی کو ۔وہ آگے بڑھی

 تھی ۔

⁦⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

ابصار نے راستے میں گاڑی روکی اور ایک سٹور پہ شان کو 

کولڈ ڈرنک لینے بھیجا وہ کولڈ ڈرنک کے آیا ۔ابصار نے 

سادہ پانی کے قطرے غازیہ پہ چھڑکاؤ کی طرح چھڑکے اور 

اس کی آنکھوں پہ پھونک ماری ۔

غازیہ تلملائی اور جھٹ سے آنکھیں کھول دیں ۔

پہلے تو اسے سمجھ ہی نہ آئی کہ میں کہاں ہوں ۔ابصار 

نے گاڑی سائیڈ پہ لگوائی اور اس کے منہ کے ساتھ کولڈرنک 

لگا دی غازیہ ظہیر کے بھی گلے میں کانٹے سے اگے تھے ۔

اس نے بھی فٹا فٹ چار پانچ گھونٹ بھر لیے ۔

مگر پھر فوراً جیسے اسے کچھ یاد آیا ۔وہ اپنے حواسوں 

میں آئی میں یہاں اور آپ کے ساتھ ۔گاڑی چلاؤ 

خرم جو گاڑی ڈرائیو کر راہ تھا ۔ابصار نے اسے حکم دیا ۔

غازیہ نے ابصار کے سینے پہ دو مکے جڑ دئیے ۔مجھے اتارو 

مجھے آپ کے ساتھ نہیں جانا ۔اپ نے دھوکہ دیا ہے ۔مجھے

آپ شادی شدہ تھے ۔ایک بچے کے باپ بھی پھر مجھے کیوں 

پیار کا جھانسا دیا کیوں جھوٹ بولا ۔

وہ بے بس ہو کر اونچا اونچا رونے لگی ۔ابصار نے اسے اپنے 

ساتھ لگایا ۔اور اس کی آنکھوں کو باری باری  بوسہ دیا ۔

وہ اور بھی بھڑک گئ ۔دور رہو مجھ سے میں جانتی ہوں آپ 

میری بے جا محبت کا  فائدہ اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔ ورنہ میرے

 پاپا یوں مجھے کبھی بھی نہ رخصت کرتے ۔

غازیہ بس کر دو میں نے کوئی شادی نہیں کی ۔مجھ پہ

 بھروسہ نہیں ہے یہ مت کہنا میں سہہ نہیں پاؤں گا 

اگر تمھیں مجھ پہ بھروسہ نہیں ہے تو میں تمھیں کوئی

 وضاحت نہیں دوں گا  ۔

وہ غازیہ کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں سے پکڑے سامنے

 دیکھنے لگے ۔

کیوں کہ غازیہ شیشوں پہ مسلسل ہاتھ مار رہی تھی ۔

وہ گھر پہنچے تو غازیہ نے گاڑی سے نیچے اترنے سے انکار کر 

دیا ۔ابصار نے سب کو رخصت کیا اور خرم اور شان کو بھی 

اندر جانے کا اشارہ کیا ۔

ابصار نے غازیہ کو زبردستی گاڑی سے نکالا اور پھر اسے

 بازوؤں میں بھرا اور اندر کی جانب بڑھا ۔غازیہ ہاتھ پاؤں 

مار رہی تھی مگر ابصار کی گرفت بہت مضبوط تھی ۔

ابصار اسے اپنے روم میں لے جانے لگا مگر ٹائیگر نے اسے 

اندر جانے سے منع کر دیا ۔اب تمھیں کیا ہوا ٹائیگر ۔

میرا نیگ دیں ہمیں بھائی  وہی لڑکی ابصار کے آگے آن کھڑی

 ہوئی۔ابصار نے غازیہ کو نیچے  اتار دیا غازیہ بھی ۔

ہکا بکا کھڑی رہ گئ ۔معافی چاہتی ہوں بھائی  آپ سے ۔

وہ پھر غازیہ کے سامنے آئی میں ابصار بھائی کی بہت اولڈ 

فین ہوں اور میں ایک ماڈل ہوں میں پاکستان میں نہیں

 رہتی آج ہی آئی ہوں بس تھوڑا شاک دینا چاہتی تھی۔

اس سب کے لیے معزرت خواہ ہوں ۔تم نے میری بیوی کو

پہلے دن ہی رولا دیا ۔اور شک بھی کرنے لگی تھی ۔

غازیہ سر جھکا گئ ۔

بہت ساری گاڑیاں ابصار ولا میں آن رکی تھیں ۔

غازیہ ظہیر کے پاپا کامران خان اور ان کے ساتھ 

سب فیملیز موجود تھیں ۔ابصار کو سب ہی رخصت کرنے 

گھر پہ آن پہنچے تھے ۔

غازیہ اپنے ماما پاپا کو اور زیلیہ اور ہیر کو دیکھ کر مسکرا

 دی ۔

میری تو جان ہی نکل گئ تھی ہیرے ہیر اس کو گلے 

لگائے ہوئے تھی جب اس نے ہیر سے کہا۔

سب نے بہت ساری دعائیں دیں ۔

غازیہ کو اس کے روم میں لے گئے اس کا روم ایسا ہی تھا 

جیسے عام دنوں میں ہوتا ہے وہ لباس سے تو دلہن ہی لگ

 رہی تھی مگر کمرے اور گھر سے وہ بلکل بھی شادی والا

 گھر نہیں لگ رہا تھا ۔یہ بات صرف غازیہ ظہیر نہیں جانتی 

تھی ۔شان خرم اور ٹائیگر نے ابصار عالم کے ساتھ مل کر 

ایک سرپرائز پلان کیا تھا ۔

مگر دانیہ ابرار (ماڈل )نے سارا مزا خراب کر دیا تھا ۔

ابصار اور غازیہ کو سب نے الوداع کہا اور سب رخصت ہو گئے ۔

ابصار گلا کھنکھار کر اندر انٹر ہوا تو غازیہ نے چہرہ اٹھا کر 

ابصار  کو دیکھا ۔

ابصار اس کے سامنے  جھکا اس کی ٹھوڑی سے  چہرہ اوپر  

اٹھایا ۔تمارے لیے ایک سرپرائز ہے میرے پاس ۔

اگر تم تھک نہیں گئی تو چلو میرے ساتھ وہ اس کی تھکن 

کا بھی احساس کر رہا تھا ۔

غازیہ کی آنکھیں اوپر اٹھ کر نہیں دے رہی تھیں ۔

ابصار نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیا اور پھر اسی 

طرح ہاتھ کو پکڑ کر اسے اٹھایا ۔اس کی نازک سی ہیل والی 

چیپل کے سٹیپ بند کیے کیونکہ غازیہ کے آرٹیفشل نیلز 

کام میں رکاوٹ ڈال رہے تھے ۔غازیہ ہیل پہن کر کھڑی ہوئی 

تو ابصار کے سر کے برابر آن لگی تھی ۔

ابصار نے آپنا سر اس کے سر پہ ٹچ کیا اور اس کا شرارا 

سنبھالے اسے باہر لے گیا ۔

ابصار نے غازیہ کا ہاتھ اپنی گود میں رکھا ہوا تھا ۔

اور گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا ۔میری غازی آج کچھ نہیں بولے

 گی کیا ۔جی غازیہ جو کب سے خاموش ہی بیٹھی تھی۔

بس جی ہی بولی اس کی شرم و حیا سے بار بار آنکھیں 

جھک رہی تھیں ۔نکاح والے دن وہ غصہ کر رہی تھی رو رہی

 تھی ابصار کو محسوس نہیں کر رہی تھی تو اسے کوئی

 فرق نہیں پڑا تھا مگر آج  وہ اس کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے 

اس کے لیے اتنی سجی سنوری ہوئی اس کے پہلو میں بیٹھی 

بار بار شرم سے لال ہو رہی تھی ۔اس کا دل اس کی پسلیوں

سے باہر آنے کو تھا ۔اسکا یخ پڑتا ٹھنڈا ہاتھ  ابصار محسوس

 کر رہا تھا ۔غازیہ کے جی بولنے پہ ابصار نے اس کا ہاتھ لبوں 

سے لگایا ۔غازیہ تمھارے ہاتھ تمھاری طرح بہت خوبصورت 

ہیں ۔وہ بار بار غازیہ کے ہاتھ اپنے ہونٹوں کے ساتھ لگاتا ۔

اس کی جھجھک دور کرنے کی کوشش کر رہا تھا  ۔

ابصار کو آج وہ کچھ زیادہ ہی نروس لگ رہی تھی ۔

وہ فل اے ۔سی گاڑی میں بھی پسینہ پسینہ ہو رہی تھی ۔

کچھ ہی دیر بعد وہ ایک بہت ہی خوبصورت بنگلو کے

 سامنے آن رکے تھے ۔

ابصار نیچے اتر کر اس کے پاس دوسری سائیڈ سے گھوم 

کر آیا تھا اس نے غازیہ کو بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا تو ۔وہی 

سٹیچو بنی رہی ۔

ابصار نے اسے اپنا ہاتھ دیا غازیہ نے بھی اس کا ہاتھ پکڑا 

اور اپنا شرارا سنبھالتی نیچے اتر آئی ۔

وہ سہج سہج کر چلتی ابصار کے برابر چل رہی تھی ۔

ابصار کے جسم سے اٹھتی وہ اصیل عطر کی خوشبو غازیہ 

کو بہت ڈسٹرب کر رہی تھی ۔غازیہ مدہوشی میں اس کے

 ساتھ چلتی جب لان میں قدم رکھا تو بہت سی روشنیاں 

روشن ہوئیں تھیں اس بنگلو کو دلہن سے بھی زیادہ

 خوبصورت سجایا گیا تھا ۔اس کو وہاں روک دیا گیا ۔

بہت سے بچے اور بچیاں جن کے ہاتھوں میں ڈف تھیں 

وہ بہت خوب صورت انداز میں بجا رہے تھے ۔

وہ ابصار عالم اور غازیہ ظہیر کے گرد گول گول گھوم 

کر کسی تازہ پھول کے جیسے کھل جاتے اور کبھی ایک ساتھ 

آگے آ کر سمٹ جاتے ۔

وہ بانسری کی سریلی دھن پہ آگے چلنے لگے اور  بڑھنے لگے۔ 

غازیہ کے پاؤں نہیں لگ رہے تھے جیسے زمین پہ وہ بہت 

خوبصورت دھن تھی ۔

گھر آیا میرا پردیسی ۔

پیاس بجھی میری اکھین کی ۔۔۔

وہ دس دس بارہ سال کے بچے اتنی مہارت سے بانسری 

بجا رہے تھے کہ غازیہ ان کی زہانت پہ مسکرا دی ۔

ابصار اور غازیہ ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے ۔

آگے بڑھ رہے تھے ۔ کچھ بچے اور بچیاں ان پہ تازہ پھول 

پھینک رہے تھے ۔اور کچھ اس بانسری کی دھن کے ساتھ 

وہ دھن دھرا رہے تھے ۔ 

تو میرے من کا موتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔

وہ جب لان کے اختتام پہ پہنچے تو اس گیٹ پہ لگے کچھ 

گلدستے جو پھولوں سے ہی بنے ہوئے تھے ان کے اوپر ایسے 

گرے جیسے بارش زاروقطار برسے ۔

وہ رنگ برنگ پھول ان کا استقبال کر رہے تھے ۔

وہ شاہی جوڑا کسی مغلیہ سلطنت سے کم نہیں لگ رہا تھا۔

غازیہ کو اپنے یارم کے ساتھ ساتھ اپنا شاندار استقبال بھی

 مدہوش کر رہا تھا ۔ابصار جب اسے لیے کمرے میں انٹر ہوا 

تو وائٹ لائٹ آن ہوئی تھی ۔

میٹرس کی طرح بچھائے گئے پھول اور اس پہ 

فلاورز کے ہی بنے بہت سارے ہارٹ اس کا اپنا دل دھڑکا گئے 

وہ سہج سہج کر قدم رکھتی اپنے بیڈ تک آئی تھی۔

ابصار نے اپنا کلہ اتارا اور ایک ہاتھ سینے پہ باندھ کر اس

 کے سامنے ایسے جھکا جیسے کوئی بادبان بادشاہ کے سامنے 

کوئی عرض پیش کرتا ہے ۔

میں ہوں آپ کا ابصار عالم اور آج سے یہ ابصار ولا 

تمھارا ابصار بھی تمھارا ۔اس کا دل بھی تمھارا 

اس کی روح بھی تمھاری اس کا لوں لوں تمھارا ۔

دل و جان سے تم پہ ہارا یہ شخص پاگل بیچارا ۔

وہ قافیے ملاتا اس کے سامنے جھکا ہوا تھا ۔

غازیہ کو اپنی قسمت پہ ڈھیروں رشک آیا ۔

اسے ایسے لگا وہ کسی دشت سے نکل کر خواب جیسے 

یارم ( محبوب) کے پاس آ گئ ہو ۔اس کے چاروں طرف 

سرسبز باغات ہیں اور وہ اس کی حور ہے ۔اور ابصار اس کا 

دیکھا ہوا وہ خواب ہے جس کی تعبیر کم لوگوں کو ہی ملتی ہے ۔

غازیہ نے ابصار کو  کندھوں سے پکڑ کر سیدھا کیا 

اور خود اس کی چوڑی چھاتی سے جا لگی ۔

وہ یوں ہی لپٹے ایک دوسرے میں سمو رہے تھے ۔

لائٹ وائٹ سے ریڈ ہوئی اس کے بیڈ پہ بچنے سرخ 

گلاب اس لائٹ میں ایک جیسے ہو رہے تھے ۔ 

وہ دونوں جب ایک دوسرے کے ساتھ لپٹے بیڈ پہ گرے تو 

ان کے چھت پہ لگے فانوس کی لائٹ بلیو ہوئی تھی ۔

یہ گھر تمھاری منہ دیکھائی ہے ۔

اور اس کے ساتھ ہی اس نے بہت خوب صورت کنگن 

غازیہ کی کلائیوں کی نظر کیے ۔

دونوں مدہوش ہو رہے تھے ۔اور رات بھی ان پہ رشک کرتے 

ہوئے پھولوں کی مہک کے ساتھ بھیگ رہی تھی ۔

غازیہ کا دشت ختم ہوا اس کے یارم کی پناہوں ۔

میں ۔اس کی بے پناہ چاہت کے ساتھ ۔

دونوں ایسے تھے ایک دوسرے میں مست جیسے 

ملا ہو کوئی صدیوں بعد ۔کسی دشت کے پیاسے جیسا 

کسی یارم کی مانگی مدتوں کی دعا جیسے پوری ہوئی ہو

 ابھی ابھی ۔ وہ پیاس تھی یا وہ چاہت تھی ۔

بڑھتی جا رہی تھی ۔اور رات بھیگتی جا رہی تھی۔ 

(ختم شد )

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Dasht E Yaram Tera Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dasht E Yaram Tera written by Samina Seyal  .Dasht E Yaram Tera by Samina Seyal is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages