Ishq E Mehram By Umm E Omama New Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Ishq E Mehram By Umm E Omama New Complete Romantic Novel |
Novel Name: Ishq E Mehram
Writer Name: Umm E Omama
Category: Complete Novel
ڈور بیل بجانے کے چند منٹ بعد دروازہ کھل چکا تھا اور اسے دیکھتے ہی خاتون کے چہرے پر شفیق سی مسکراہٹ آگئی
"وصی کیسے ہو بیٹا"
اسے لے کر وہ اندر آگئیں
"جی بلکل ٹھیک ہوں آپ شاید سورہی تھیں"
اسنے شرمندگی سے کہا کیونکہ انکے چہرے سے ہی لگ رہا تھا کہ وہ ابھی سو کر اٹھی ہیں
"ہاں بس آج کافی دیر ہوگئی میں تو شاید اب تک سوتی رہتی اگر ابھی تم نہیں آتے اچھا تم بیٹھو بتاؤ کچھ کھاؤ گے"
رقیہ اسے لے کر ڈرائینگ روم میں آگئیں
"نہیں بس آپ کے ہاتھ کی چاے پینی ہے اور بھابھی کو بھی بلادیں میں انہیں لینے کے لیے آیا ہوں"
"شہناز تو کہہ رہی تھی فرہاد اسے لینے کے لیے آے گا"
"بھائی کو ضروری کام آگیا تھا اسلیے انہوں نے مجھے بھیج دیا ورنہ وہی آتے "
شہناز ایک ہفتے کے لیے اپنی ماں کے گھر آئی ہوئی تھی آج فرہاد اسے لینے کے لیے آنے والا تھا لیکن ضروری کام کی وجہ سے اسنے اپنی جگہ اپنے چھوٹے بھائی وصی کو بھیج دیا
"اچھا رکو میں شہناز کو اٹھا دیتی ہوں وہ اپنی تیاری کرلے اور پھر تمہارے لیے چاے بھی بناتی ہوں"
انکے جاتے ہی وہ وہاں موجود کمرے میں لگی ڈیکوریٹ چیزوں کو دیکھنے لگا جب چند منٹ بعد رقیہ ہانپتی ہوئی اسکے پاس آئیں
"وصی شہناز کو ہوش نہیں آرہا ہے اسے ہاسپٹل لے کر چلو"
انکے کہنے پر وہ شہناز کے کمرے کی طرف بھاگا اور اگلے ہی پل اسے اپنی بانہوں میں اٹھاکر گھر سے نکل گیا
اسکے پیچھے پیچھے رقیہ گھبرائی ہوئی سی آرہی تھی اور دل میں اپنی بیٹی اور اسکی ہونے والی والاد کے لیے مسلسل دعا کررہی تھی
°°°°°
فجر کی آذان ہوتے ہی موبائل پر لگایا الارم شور مچانا شروع ہوگیا
کمبل کے اندر سے اپنا ہاتھ نکال کر اسنے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اپنا موبائل اٹھایا اور الارم بند کردیا کمرے میں پہلے کی طرح خاموشی چھاگئی
نورتھ ناظم آباد میں اس وقت فجر کی آذان کا وقت ہورہا تھا
اسنے کمبل اپنے اوپر سے ہٹایا اور ہر روز کی طرح زہہن مکمل بیدار ہوتے ہی اسے یہ خیال آچکا تھا کہ وہ اپنے گھر میں نہیں ہے وہ اپنے گھر والوں کے پاس نہیں ہے ان سے دور ہے
ساری باتوں کو جھٹک کر اسنے گہرا سانس لیا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر واشروم میں چلی گئی شاور لے کر اسنے نماز ادا کی جاے نماز طے کرکے اسنے سائیڈ پر رکھی
جب نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھی اس انگوٹھی پر گئی جس پر باریک سا پی اور ڈبلیو لکھا ہوا تھا
یہ انگھوٹھی اسکی تھی لیکن اسنے ایک بار کے علاوہ کبھی اسے نہیں پہنا تھا کبھی کبھی اسکا دل چاہتا کہ اسے پھینک دے لیکن وہ ایسا بھی نہیں کرسکتی تھی کیونکہ یہ انگوٹھی اسے اسکے گھر والوں کی یاد دلاتی تھی جو اسکی جان سے عزیز خالا نے اسے دی تھی
اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے دھکیل کر اسنے اپنے بالوں کو ڈراے کرکے ڈھیلا سا جوڑا بنایا مفلر اسٹائل میں ڈوپٹہ ڈالا اور اپنا کوٹ اور سامان اٹھا کر گھر سے نکل گئی
کیونکہ اسکی ڈیوٹی کا ٹائم شروع ہونے والا تھا
°°°°°
"مبارک ہو بیٹا ہوا ہے"
ڈاکٹر کی بات سنتے ہی ان دونوں کے چہرے پر موجود پریشانی ختم ہوکر اب اطمینان بھری مسکراہٹ آچکی تھی
"اور میری بیٹی کیسی ہے"
رقیہ نے آگے بڑھ کر شہناز کے بارے میں پوچھا
"وہ بھی بلکل ٹھیک ہیں اور بےبی بھی بلکل ٹھیک ہے آپ لوگ میرے ساتھ آئیں مجھے بےبی کے بارے میں کچھ ڈسکس کرنا ہے"
انہیں تسلی دے کر ڈاکٹر نے انہیں اپنے پیچھے آنے کا کہا
°°°°°
"نرس ڈاکٹر ثمینہ کہاں ہیں"
اپنے پیشنٹس کو چیک کرکے اسنے نرس سے ڈاکٹر ثمینہ کے بارے میں پوچھا
"ڈاکٹر وہ اپنے کیبن میں ہیں"
نرس کی بات سن کر وہ ڈاکٹر ثمینہ کے کیبن کی طرف بڑھ گئی جہاں وہ اپنے کیبن سے نکل رہی تھیں انکے ساتھ ایک مرد اور عورت کھڑے تھے جن کی پشت اسکی طرف تھی
وہ وہیں تھوڑے فاصلے پر کھڑی ہوکر انکے جانے کا انتظار کرنے لگی
وصی مڑ کر جانے لگا جب نظر تھوڑے فاصلے پر کھڑی لڑکی کی طرف گئی اور اسکے قدم اپنی جگہ جم گئے
اس پر نظر پڑتے ہی سن تو پریشے بھی ہوچکی تھی لیکن فورا ہوش میں آتے ہی وہ الٹے قدموں وہاں سے بھاگ گئی
"پری رکو"
وصی تیز تیز قدم اٹھاتا اسکے پیچھے بھاگا اور اسکی آواز سنتے ہی پریشے کے بھاگتے قدم مزید تیز ہوگئے
وہ تیزی سے بھاگ رہی تھی اسکا سانس بری طرح پھول رہا تھا لیکن پھر بھی وہ رک نہیں رہی تھی
گھر ہاسپٹل کے قریب ہی تھا اسلیے پانج منٹ بھاگنے پر ہی وہ گھر پہنچ چکی تھی گھر میں داخل ہونے سے پہلے اسنے مڑ کر پیچھے دیکھا وہاں وصی نہیں تھا اپنے آپ کو نارمل کرکے وہ لاک کھول کر اندر چلی گئی
یہ جانے بنا کہ وصی تھوڑے فاصلے پر دوسرے گھر کی اوٹ میں چھپ کر وصی اسکی ہر حرکت دیکھ رہا تھا
°°°°°
کافی دیر اسکا زہہن انہی خیالات میں الجھا پڑا تھا
کیا اسنے جو کیا وہ ٹھیک تھا بلکل بھی نہیں اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا
وہ جب سے ہاسپٹل سے آئی تھی کونے میں بیٹھی بس پرانی باتیں سوچ رہی تھی اور اسی طرح سوچتی رہتی اگر ڈور بیل نہ بجتی
ڈور بیل کی آواز سن کر اسکا دل زوروں سے دھڑکا یہاں پر بھلا کون آ سکتا تھا
ڈھڑکتے دل کے ساتھ اسنے دروازہ کھولا اور اسکا اندازہ سہی تھا
وہاں وصی سمیت اسکے سب گھر والے موجود تھے
°°°°°
"دو تولے کی مندری لادے"
"تین تولے کا کنگنا"
"منہ دکھائی دے دے پھر تو لے جا اپنے آنگنا"
"نہ سمجھ تو چیز پرانی"
"چہرہ میرا پیس نرانی"
"دیکھے گا تو کھا جاے گا سو سو جھٹکے"
فل آواز میں گانا چل رہا تھا
لاؤنج میں شور مچا ہوا تھا وہاں موجود سب لڑکیاں عینہ کو دیکھ کر زور زور سے تالیاں بجا رہی تھیں جو کمر کے گرد کس کے ڈوپٹہ باندھے مہارت سے ڈانس کررہی تھی
"بس کرو لڑکیوں جاؤ جا کر کھانا کھالو کب سے اس کھیل میں لگی ہوئی ہو"
اماں جان جو ابھی وہاں پر آئی تھیں ان سب کو دیکھ کر کہنے لگیں کیونکہ وہ سب کافی دیر سے یہی کام کررہی تھیں
"ہمیں بھوک نہیں ہے اماں جان"
عینہ نے ان لڑکیوں کے درمیان بیٹھ کر اپنی دادی کو دیکھتے ہوے کہا
"ہاں کل آپی جارہی ہیں جتنا وقت مل رہا ہے ہمیں ان کے ساتھ گزارنے دیجیے"
پریشے نے حفصہ کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوے کہا جس پر حفصہ نے مسکراتے ہوے اسے دیکھا
"میری پیاری بہن تمہیں میرے دور جانے کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ایک بار وصی آجاے تمہیں تو میں اپنے پاس بلالوں گی"
وصی کا نام سن کر جہاں عینہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری وہیں اسکا نام پریشے کے ساتھ سن کر وہ مسکراہٹ پھیکی پڑ گئی
الماس بیگم حفصہ اور پریشے کی خالا تھیں جن کے تین بیٹے تھے فرہاد احسان اور وصی انکا ارادہ اپنے تینوں بیٹوں کے لیے اسی گھر کی لڑکیاں لینے کا تھا
لیکن انہوں نے آج تک اپنے بچوں کے ساتھ کسی معاملے میں زبردستی نہیں کی تھی اور اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا
انکے پوچھنے پر فرہاد نے اپنی کلاس میٹ شہناز کا نام لے لیا اور احسان نے حفصہ کا وہ دونوں بہترین دوست تھے اور بقول احسان کے اسے حفصہ سے زیادہ اچھا لائف پارٹنر نہیں مل سکتا اسلیے اسکی چوائس وہی تھی اور وصی کے لیے انہیں کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی وہ جانتی تھیں کے وصی بچپن سے پریشے کو پسند کرتا ہے
فرہاد اور شہناز کی شادی انکی پڑھائی مکمل ہوتے ہی ہوچکی تھی جبکہ الماس بیگم کا حفصہ اور احسان کے بارے میں بھی یہی خیال تھا کہ انکی شادی انکی پڑھائی ختم ہونے کے بعد ہو
اور ایسا ہی ہوا تھا
حفصہ کے گریجویشن کرنے کے بعد فورا ہی شادی کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں الماس بیگم کا ارادہ پریشے اور وصی کی شادی بھی انہی کے ساتھ کرنے کا تھا لیکن وصی اس بات سے انکار کرچکا تھا وہ چاہتا تھا کہ پریشے اپنی ہاؤس جوب مکمل کرلے جو کے ہونے ہی والی تھی
اور جب تک وہ خود بھی اپنی پڑھائی مکمل کرکے کینیڈا سے واپس آجاتا اسکا بی-بی-اے کا لاسٹ ائیر چل رہا تھا اسکے امتحان ہونے والے تھے اسلیے وہ ابھی تک واپس نہیں آیا تھا
جہاں حفصہ کو ہمیشہ احسان کے نام سے چڑایا جاتا تھا وہیں پریشے کو بھی وصی کے نام سے یہی سب کچھ سننے کو ملتا تھا
عینہ جانتی تھی کہ پریشے اور وصی ایک دوسرے کے ساتھ منسوب ہیں لیکن پھر بھی وہ خود کو اسے سے محبت کرنے سے روک نہیں پائی وصی اسکا اچھا دوست تھا لیکن اسنے کبھی عینہ کو اس نظر سے نہیں دیکھا تھا جس نظر سے وہ اسے دیکھتی تھی
اسنے آج تک یہ بات کسی کو نہیں بتائی تھی اور نہ ہی کبھی اپنے رویے سے کسی کو ایسا محسوس ہونے دیا تھا جس سے کوئی بھی اسکے دل کا حال جان پاتا وہ بس رب سے دعا کرتی تھی کہ وصی کا خیال اسکے دل سے نکل جاے کیونکہ وہ کسی اور کا تھا اور وہ خود بھی اپنے دل میں بس اپنے محرم کو رکھنا چاہتی تھی لیکن جب بھی وہ اپنے دل سے وصی کی محبت نکل جانے کی دعا کرتی تھی اسے وصی مزید اپنے دل کے قریب محسوس ہوتا تھا
"جی نہیں اپنا وصی اپنے پاس رکھیں مجھے نہیں کرنی اس بندر سے شادی"
"غلط بات پری ہم تو آپ کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور آپ کہہ رہی ہیں آپ کو بندر سے شادی نہیں کرنی ویسے میں بندر کہاں سے لگتا ہوں"
وصی کی آواز سن کر ان سب نے حیرت سے اس آواز کی طرف دیکھا
جہاں بلیک جینز اور جیکیٹ میں وہ خوبرو مرد کھڑا گہری نظروں سے پریشے کو دیکھ رہا تھا
"وصی تم کب آے"
اسے دیکھ کر حفضہ اپنی جگہ سے اٹھ کر خوشی خوشی اس سے ملی
"بس جب میری شان میں ڈاکٹر پری قصیدے پڑھ رہی تھیں"
اپنی بات کہتے ہوے اسنے دوبارہ پریشے کی طرف دیکھا اور وہاں بیٹھی اماں جان سے ملنے لگا جبکہ پریشے اٹھ کر اپنے کمرے میں جاچکی تھی کیونکہ بھلے وصی سب سے مل رہا تھا لیکن نظریں اسی پر ٹکی ہوئی تھیں جو اسے کنفیوژ کررہی تھیں
°°°°°
شادی کا دن تھا ہر طرف گہما گہمی تھی برات آنے والی تھی اسلیے سب لڑکیاں ہاتھوں میں پھولوں کی پلیٹ پکڑے انتظار میں کھڑی تھیں
لیکن سب کو پلیٹ تھما کر وہ بیچاری خود خالی ہاتھ رہ گئی تھی
اسلیے پچھلی طرف چلی گئی جہاں پر پھول رکھے ہوے تھے تاکہ اپنے لیے بھی پھول لے سکے وہ پھولوں کی ٹوکری لے کر جاہی رہی تھی جب اچانک وصی اسکے سامنے آگیا
پہلے تو اچانک اسے اپنے سامنے دیکھ کر وہ گھبرائی لیکن پھر خود پر قابو پا کر اسے ڈپٹنے والے انداز میں کہا
"کیا مسلہ ہے"
"مسلہ میرے ساتھ نہیں تمہارے ساتھ ہے یار جب سے آیا ہوں مجال ہے جو تم پانچ منٹ بھی اکیلی میرے ساتھ بیٹھی ہو"
"میں تمہاری طرح فالتو نہیں ہوں مجھے تمہارے پاس بیٹھنے کے علاؤہ اور بھی بہت کام ہیں"
اپنی بات کہہ کر وہ جانے لگی جب وصی اسکے سامنے آگیا وہ دوسری طرف سے جانے لگی جب وصی نے پھر وہی حرکت کی وہ بار بار اسکے سامنے اسکے راستے میں آرہا تھا
"وصی میں تم سے بعد میں بات کرونگی ابھی پلیز مجھے جانے دو برات آنے والی ہوگی"
اسنے منت بھرے انداز میں کہا اور شاید وصی کو اسکے کہنے پر ترس آگیا تھا اسلیے اسکا راستہ چھوڑ دیا
ویسے بھی برات آنے والی تھی تو پریشے کو وہیں پر موجود ہونا چاہیے تھا
ویسے تو اسے بھی برات کے ساتھ ہی آنا تھا لیکن پریشے کو دیکھنے کی جلدی اور اس سے بات کرنے کو بے چینی نے اسے پہلے ہی یہاں آنے پر مجبور کردیا تھا
°°°°°
"بدتمیز جاہل فالتو"
خود سے بڑبڑاتی ہوئی وہ جارہی تھی جب عینہ اسکے پاس آگئی
"کس سے باتیں کررہی ہو"
"کسی سے نہیں بس ایک لوفر مل گیا تھا اسی پر غصہ ہے"
اسنے ایک نظر مڑ کر پیچھے دیکھا جہاں اب وہ نہیں تھا
"کون لوفر خیر جو بھی تھا چھوڑو اسے اور چلو میرے ساتھ برات آگئی ہے"
اسکا ہاتھ پکڑ کر عینہ اسے اپنے ساتھ لے گئی اور پھر چند گھنٹوں بعد حفصہ رخصت ہوکر اپنے پیا گھر چلی گئی
°°°°°
شادی تقریبات ختم ہوتے ہی سب پھر سے اپنی اسی روٹین میں آگئے اور دن تیزی سے پر لگا کر اڑ گئے پریشے کی ہاؤس جوب مکمل ہوچکی تھی اور وصی بھی اپنی اسٹڈیز مکمل کرکے آنے والا تھا اور اسکے آنے سے پہلے ہی الماس بیگم اسے وصی کے نام کی انگھوٹھی پہنا کر جاچکی تھیں
جس پر باریک سا پی اور ڈبلیو لکھا ہوا تھا لیکن اسے اس سب سے کوئی خوشی نہیں ہورہی تھی
اپنے اس رشتے کی وجہ سے وہ تو پہلے ہی پریشان رہتی تھی اور اسکی پریشانی میں مزید اضافہ صائمہ بیگم کے ایکسیڈنٹ نے کردیا
وہ اور پریشے شاپنگ پر گئی تھیں جب ایک تیز رفتار ٹرک انہیں ٹکر مار کرچلا گیا وہ حواس باختہ سی ہوکر انہیں ہاسپٹل لائی تھی
اسنے سب گھر والوں کو انفارم کردیا تھا جو اسکی بات سنتے ہی ہاسپٹل آگئے تھے سب اسے سمجھا رہے تھے چپ کرا رہے تھے لیکن وہ بس روے جارہی تھی اور وہ جب تک روتی رہی جب تک صائمہ بیگم کو ہوش نہیں آگیا
اسکی شادی کی بات جو دبی ہوئی وہ صائمہ بیگم کے صحت یاب ہوتے ہی پھر سے اٹھ چکی تھی اور یہی تو وہ نہیں چاہتی تھی وہ بھلا وصی سے شادی کیسے کرسکتی تھی اسنے صائمہ بیگم کو اپنا انکار سنادیا جس کے بعد اسے اچھی خاصی ڈانٹ پڑ چکی تھی اور ساتھ یہ تاکید بھی کی گئی کہ اسے آئیندہ ایسی بات اپنے زہہن میں بھی نہیں لانی ہے
انکی طرف سے مایوس ہوکر وہ ظفر صاحب کے پاس جانا چاہتی تھی تاکہ اپنے باپ سے کہہ سکے کہ اسے وصی سے شادی نہیں کرنی ہے یا پھر انہیں حقیقت بتادے لیکن وہ ایسا کچھ بھی نہیں بتا سکی تھی اسکی شادی کو لے کر انکے چہرے پر پھیلی خوشی اسے کچھ کہنے ہی نہیں دے رہی تھی
اسلیے اسنے وصی سے اس بارے میں بات کرنے کا سوچا
"ہیلو وصی میں پری بول رہی ہوں"
"ایسا مت بولا کرو مجھے رونا آتا ہے کیا پری اتنی خوفناک ہوتی ہے"
اس نے شرارت بھرے انداز میں کہا کوئی اور وقت ہوتا تو پریشے اسے اچھی خاصی سنا چکی ہوتی لیکن اس وقت اسکا زہہن ان باتوں کی طرف تھا ہی نہیں
"وصی پلیز میں سیریس ہوں"
"تو میں نے کب مذاق کیا"
"وصی میں تم سے شادی نہیں کرسکتی"
اسکے کہنے پر دوسری طرف گہری خاموشی چھا چکی تھی لیکن چند سیکنڈ بعد اسے اسپیکر میں وصی کے قہقہے کی آواز سنائی دی
"اوہ مائی گاڈ پری میں نے تو ایک چھوٹا سا مذاق کیا تھا لیکن تم نے تو دل پر ہی لے لیا اوکے تم بہت خوبصورت ہو بلکہ اپنے نام کی طرح ہو"
اسکی باتیں وصی کو مذاق لگ رہی تھیں وہ اور کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن شاید اسکے کمرے میں کوئی آچکا تھا اسلیے اسنے بعد کا کہہ کر فون رکھ دیا
اسنے حفصہ سے بات کرنی چاہی لیکن وہ بھی اسے ہی سمجھا کر چلی گئی
کوئی اسکی بات سن ہی نہیں رہا تھا اسے سمجھ ہی نہیں رہا تھا گھر کا ماحول اسے گھٹن زدہ لگ رہا تھا اور اس سب میں اسکی شادی کی ڈیٹ رکھی جا چکی تھی
اسے بس گھر سے دور جانا ہی اس سب کا حل لگا اور اسنے ایسا ہی کیا
وہ کراچی میں ہی رہتی تھی اور گھر چھوڑ کر بھی وہ اسی شہر میں رہی فرق بس اتنا تھا کہ اسنے علاقہ بدلا تھا
جس گھر میں وہ رہ رہی تھی اس گھر کے قریب ہی موجود ہاسپٹل میں وہ جوب کرنے لگی اسے گھر چھوڑے ہوے چند ماہ ہوچکے تھے اسکی پوری فیملی سب رشتے دار یہیں موجود تھے وہ جانتی تھی کہ کبھی نہ کبھی تو وہ اسے ڈھونڈ ہی لینگے اور شاید وہ کبھی آ چکی تھی
°°°°°
"یہ کیا بے وقوفوں والی حرکت تھی مجھے جواب دو پریشے شاہ"
وہ لوگ اسے گھر واپس لے کر آ چکے تھے اور وہ سر جھکائے مجرموں کی طرح ان سب کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی جب ظفر صاحب کی چنگھاڑتی آواز اسے سنائی دی
"بھائی بچی ہے اسے ڈانٹنے کے بجاے نرمی سے اس سے گھر چھوڑنے کی وجہ پوچھیں"
مظفر صاحب نے ظفر صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے کہا
"اس سے نرمی سے بات کروں جو اپنی شادی کے دنوں میں یہ گھر چھوڑ کر ہمیں رسوا کرنے کے لیے چلی گئی اسے زرا اس بات کا احساس نہیں ہوا کے اسکے جانے سے اسکی بہن کی اور ہماری زندگی میں کیا اثر پڑے گا لوگوں کو ہم کیا جواب دینگے یہ تو شکر ہے کہ الماس ایسی نہیں ہے وہ حفصہ کو کچھ کہتی ہے ورنہ کوئی اور ہوتا تو ان سب باتوں کے طعنے دے دے کر اسکا جینہ حرام کردیتا"
"بابا"
اسنے آنسو ضبط کرکے کچھ کہنا چاہا لیکن ظفر صاحب نے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید کچھ کہنے سے روک دیا
"بہت نازوں میں پالا تھا میں نے تم دونوں کو لیکن تم نے مجھے بہت مایوس کیا ہے پریشے شاہ" وہ انکی پری سے پریشے شاہ بن چکی تھی
"میں آج ابھی اسی وقت تمہارا اور وصی کا نکاح کرواؤنگا"
انکی بات سن کر اسنے جھٹکے سے اپنا سر اٹھایا اور پہلے انہیں پھر وصی کی طرف دیکھا اسے یہی لگا تھا کہ شاید وصی اس سے شادی سے انکار کردے گا
بھلا وہ کیسے ایک ایسی لڑکی سے شادی کرسکتا تھا جو اسے شادی سے پہلے چھوڑ گئی ہو اور اتنے ماہ سے پتہ نہیں کہاں غائب تھی
اسے امید تھی کہ وصی انکار کردے گا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اسکے چہرے پر تو سکون پھیل چکا تھا جیسے یہی تو اسکی بھی مرضی تھی
"میں وصی سے شادی نہیں کرونگی"
اسکے کہنے پر ظفر صاحب نے بمشکل اپنے اشتعال کو قابو میں کیا
"بیٹا آخر مسلہ کیا ہے"
الماس بیگم نے آگے بڑھ کر کہا لیکن اسنے کوئی جواب نہیں دیا
"پری بتاؤ تمہیں نکاح کیوں نہیں کرنا ہے"
یہ آواز مظفر صاحب کی تھی اسے ہر کسی کی آواز سنائی دے رہی تھی جو اس سے یہ جاننا چاہ رہا تھا کہ اسے نکاح کیوں نہیں کرنا
"بتاؤ کیا مسلہ ہے"
"پری بتادو"
"بیٹا بولو"
سب کی آوازیں جیسے اسکے کان کے پردے پھاڑ رہی تھیں اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر اسنے چیختے ہوے کہا
"کیوں کہ میں پہلے ہی کسی کے نکاح میں ہوں"
اسکی یہ بات جہاں سب کو سکتے میں ڈال گئی تھی وہیں وصی کی تو جیسے دنیا ہی لوٹ چکی تھی
"دل پے پتھر رکھ کے منہ پے میک اپ کرلیا"
"دل پے پتھر رکھ کے منہ پے میک اپ کرلیا"
"میرے سائیاں جی سے آج میں نے بریک اپ کرلیا"
"میرے سائیاں جی سے آج میں نے بریک اپ کرلیا"
"صبح سویرے اُٹھ کے میں نے یہ سب کرلیا"
آج وہ بےانتہا خوش تھی اور گانا گانے کے ساتھ ساتھ ناچ بھی رہی تھی
اسکی خوشی کی وجہ یہ تھی کہ آج اسکی ٹیوشن ٹیچر کی بات پکی تھی اسی وجہ سے اب وہ اسے پڑھانے نہیں آئیں گی اور وہ سدا کی پڑھائی چور اسی بات کی خوشی منا رہی تھی
اسے پڑھنے کا کبھی بھی شوق نہیں تھا بابا سائیں کی خواہش تھی کہ وہ خوب پڑھے لکھے لیکن اسکا پڑھائی کی طرف لگاؤ نہ دیکھ کر انہوں نے یہی درخواست کردی تھی کہ وہ اپنا انٹر مکمل کرلے کیونکہ میٹرک جو اسنے بمشکل پاسنگ نمبر لے کر پاس کی تھی اسکے بعد اسکا مزید پڑھائی کا کوئی ارادہ نہ تھا
لیکن بابا سائیں کے کہنے پر اسنے زبردستی خود کو مزید دو سال کی پڑھائی کے لیے تیار کرلیا
اسے جو بھی ٹیوشن پڑھانے آتا وہ اسے اتنا تنگ کرتی کہ وہ خود ہی بھاگ جاتا اور اگر وہ نہیں بھی بھاگتا تو وہ خود یہ کہہ کر بھاگا دیتی کہ اسے اسکے پڑھانے کا طریقہ سمجھ نہیں آرہا
آج تک وہ ایسا ہی کرتی آئی تھی لیکن اس بار جو اسکی ٹیوشن ٹیچر تھیں وہ کافی سخت تھیں جنہیں اماں سائیں یہ حکم بھی دے چکی تھیں کہ اگر یہ نہ پڑے تو اسے مارنے سے بھی گریز نہ کرنا اور وہ بلکل ایسا ہی کرتی تھی
لیکن اب وہ نہیں آنے والی تھی کیونکہ انکی شادی جو ہونے والی تھی اور وہ جانتی تھی کہ اتنی خوشی تو استانی جی کو بھی اپنی شادی کی نہیں ہورہی ہوگی جتنی اسے ہورہی تھی
دو دن بعد اسکا پہلا پیپر تھا لیکن اسے پرواہ نہیں تھی کیونکہ اسکی تیاری مکمل تھی اسنے ہر سوال کے چھوٹے چھوٹے پرچے بنا لیے تھے
اس وقت تو بس وہ اپنی خوشی میں مگن تھی جب اسے کسی کی دھاڑتی آواز سنائی دی
"یہ کیا بےہودگی ہے" اسکی آواز سن کر کسوا نے ہڑبڑا کر اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑے اس شخص کو دیکھا
چہرے پر موجود گھنی سیاہ مونچھوں کو اسنے تاؤ دیا ہوا تھا گندمی رنگت اور سیاہ کمیز شلوار پر اسنے کریم کلر کی شال ڈالی ہوئی تھی
اور اس وقت وہ خوبرو مرد اپنی لال سرخ ہوتی آنکھوں سے کسوا شاہ کو گھور رہا تھا
"کیا ہے یہ سب"
"و-وہ عصیم ل-لالا میں تو بس وہ میں تو" اسے دیکھ کر وہ الفاظ بھی ٹھیک سے ادا نہیں کرپارہی تھی
"کیا وہ وہ کس بات کے لیے اتنا ناچ گانا ہورہا ہے"
اسکے پوچھنے پر اپنا سارا ڈر خوف بھلا کر کسوا نے اسے بھی اپنی خوشی بتادی
"ارے آپ کو پتہ ہے استانی جی کی بات پکی ہوگئی ہے میں تو بس اسی لیے خوش ہورہی تھی"
"اچھا ہوگئیں تم خوش دو دن بعد پیپر ہیں تمہارے بتاؤ پہلا کونسا ہے"
"ا-اردو" اسنے تکا مارا تھا ویسے بھی سامنے کھڑے شخص کو کیا پتہ کہ اسکا کونسا پیپر ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ عصیم شاہ تھا جو کسوا شاہ کی ہر بات کی خبر رکھتا تھا
"اردو نہیں انگلش ہے" اسکے کہنے پر اسنے گڑبڑا کر اسے دیکھا
"ہاں م مطلب وہی تھا"
"اپنی کتابیں لے کر ڈرائینگ روم میں آؤ" وہ کہہ کر جا چکا تھا اور کسوا اسے منع بھی نہ کرسکی ویسے بھی منع کرتی بھی تو کونسی اسکی سننی تھی
"کسی کو میری خوشی برادشت نہیں ہے" اپنے پیر پٹھخ کر وہ اپنا بیگ اٹھا کر اپنے کمرے سے نکل گئی
°°°°°
"جی بابا سائیں آپ نے بلایا تھا" عفان شاہ نے دادا سائیں کے کمرے میں داخل ہوکر کہا جس پر انہوں نے اپنا سر ہلا کر انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا
"تمہیں یاد دلانا تھا"
"کیا یاد دلانا تھا بابا سائیں"
"آج کی تاریخ"
"بابا سائیں میں جانتا ہوں آج کیا تاریخ ہے"عفان شاہ نے ناسمجھی سے کہا تو کیا اسلیے انہوں نے اسے اپنے کمرے میں بلایا تھا
"اگر یہ یاد ہے تو پھر تو یہ بھی یاد ہوگا کہ دو دن بعد تمہاری بیٹی اکیس سال کی ہوجاے گی اور تمہارے کہے کے مطابق تم اسکے اکیس سال کا ہوتے ہی اسے حویلی لے آؤ گے" دادا سائیں کی بات سن کر عفان شاہ خاموش ہوچکے تھے
"بابا سائیں معذرت چاہتا ہوں لیکن میں اسے یہاں نہیں لاسکتا تھا"
"تم اپنی بات سے مکر رہے ہو عفان شاہ"دادا سائیں نے انتہائی غصے میں کہا
"جی بابا سائیں میں مکر رہا ہوں" انہوں نے اقرار کیا
"کیا تم بھول گئے ہو کہ تم نے خود کہا تھا جب تمہاری بیوی ہماری پوتی کو لے کر یہاں سے گئی تھی تم نے کہا تھا کہ جب وہ اکیس سال کی ہوجاے گی تو تم اسے واپس حویلی لے آؤ گے اور عالم شاہ اور اسے رشتے میں باندھ دیا جاے گا"
"مجھے سب یاد ہے بابا سائیں لیکن اب حالات بدل چکے ہیں آپ اس بچپن کی منگنی کی بات کررہے ہیں جو کسی کو یاد نہیں یہاں تک کہ عالم کو بھی نہیں میں جانتا ہوں کہ میری بیٹی کبھی بھی اس ماحول میں گزارا نہیں کرسکتی اور عالم کے ساتھ تو بلکل بھی نہیں"
"تم کیا کہنا چاہتے ہو ہمارا عالم شاہ تمہاری بیٹی کے لائق نہیں" وہ غصے سے دھاڑے تھے
"بابا سائیں میرے کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا میں بس یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک بےجوڑ رشتہ ہے میں معذرت چاہتا ہوں لیکن آپ اب اس رشتے کو بھول جائیں" وہ تو اپنی کہہ کر جاچکے تھے لیکن دادا سائیں کا غصے سے خون کھول رہا تھا
انکا بیٹا تو اپنی بات سے مکر چکا تھا اور وہ جانتے تھے کہ اب صرف عالم شاہ ہی ہے جو انکی پوتی کو انکے پاس لے کر آے گا یہی سب سوچتے ہوے انہوں نے ملازم کو آواز دی
"کرم دین" انکی غصیکی آواز سن کر کرم دین بھاگتا ہوا انکے پاس آیا
"حکم شاہ سائیں"
"عالم شاہ کو بلاؤ"
"وہ تو شہر گئے ہوے ہیں" کرم دین نے نظریں جھکا کر ادب سے کہا
"وہ جیسے ہی آے اسے میرے پاس بھیجنا"انکا غصے سے برا حال تھا اور یہ سب ایسے ہی رہنا تھا جب تک عالم شاہ انکے پاس نہیں آجاتا
°°°°°
بالوں کی اونچی پونی بناے ہر طرف نظریں دوڑا کر وہ تیز تیز سائیکل چلاتی ہوئی اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی
فلاور شوپ پر رک کر اسنے پھول خریدے اور سائیکل کے آگے لگی باسکٹ میں ڈال دیے
نظریں سامنے بنے کیفے کی طرف گئیں جہاں سے اگر چھوٹو اسے دیکھ لیتا تو بھاگ کر اسکے پاس آجاتا
شعیب کیفے کی مالکن روزینہ کا بیٹا تھا جسے وہ چھوٹو کہتی تھی گھر پر کسی کے نہ ہونے کی وجہ سے روزینہ اسے اپنے ساتھ لاتی تھیں اور وہ اپنا کام کرتی رہتیں اور چھوٹو کیفے کے باہر کھیلتا رہتا تھا اور ایک دن اسی طرح کھیلتے کھیلتے وہ کافی دور نکل آیا تھا
اور اس بات کا احساس ہوتے ہی وہ رونا شروع ہوچکا تھا کیونکہ اسے کیفے کا رستہ نہیں پتہ تھا ایسے میں اسے روتا دیکھ کر وہ ہی اسکے کیفے کا نام بتانے پر اسے کیفے چھوڑ کر آئی تھی جس کے بعد سے وہ روز اس راستے سے گزرتی تھی اسکی روزینہ کے ساتھ اچھی دوستی ہوچکی تھی اور چھوٹو کے ساتھ بھی
جہاں چھوٹو اسکا دوست تھا وہیں چھوٹو کے لیے آئرہ شاہ بھی اسکی موسٹ فیورٹ پرسن تھی
وہ جانے ہی والی تھی جب اسے دیکھ کر چھوٹو کیفے سے نکلتا ہوا خوشی خوشی اسکی جانب بڑھا
"آئرہ"
وہ بھاگتا ہوا اسکی طرف آرہا تھا جب اچانک ایک بلیک پراڈو نے اسے ٹکر ماردی اور وہ دوسری طرف جاگرا
اسے دیکھتے ہوے آئرہ بھاگتی ہوئی اسکی جانب لپکی اور اسکا سر اپنی گود میں رکھ لیا وہ بےہوش ہو چکا تھا
شعیب کے اور اسکے کپڑے خون میں ہوچکے تھے اسنے اپنا مفلر اتار کر اسکی خون والی جگہ پر رکھ دیا اور مڑ کر خونخوار نظروں سے بلیک پراڈو میں موجود اس شخص کو دیکھا جو اپنی گاڑی سے اتر کر اسی طرف آرہا تھا
°°°°°
وہ خوبرو چوڑا مرد اسی طرف آرہا تھا اسنے سفید کمیز شلوار پر بھورے رنگ کی شال اوڑھی ہوئی تھی چہرے پر گھنی گھنی داڑھی مونچھیں تھیں اور سفید پیشانی پر کئیں بل نمودار تھے
"تم گاڑی میں بیٹھنے والے زمین پر چلنے والوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہو کچھ نہیں دیکھتے بس انہیں روند کر چلے جاتے ہو" اسکے قریب آتے ہی آئرہ نے سخت لہجے میں کہا جس سے عالم شاہ کی سفید پیشانی پر موجود بل میں اضافہ ہوچکا تھا
"دیکھو لڑکی مجھ سے زیادہ زبان درازی کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں نے کچھ جان بوجھ کر نہیں کیا ہے اور ویسے بھی غلطی اس بچے کی ہے"
"اس بچے کی غلطی نہیں ہے غلطی تمہاری ہے اور اب تم اسے ہاسپٹل لے کر جاؤ گے"آئرہ کے کہنے پر عالم شاہ نے غصے سے اسے گھور کر دیکھا
ہاسپٹل تو وہ اس بچے کو ویسے بھی لے کر ہی جاتا لیکن مردوں کے سامنے اس طرح بات کرنے والی لڑکیاں اسے ہرگز پسند نہیں تھیں اسکا بس چلتا تو ایسی لڑکیوں کی زبان کھینچ لیتا
آئرہ کے کہنے پر اب سب اسکے سر پر کھڑے ہوکر اسے بچے کو ہاسپٹل لے کے جانے کا کہہ رہے تھے روزینہ بھی گھبرائی ہوئی باہر آئی شاید کسی نے اسے شعیب کی حالت بتادی تھی اسنے روتے ہوے اپنے بیٹے کو اپنے سینے سے لگایا
عالم شاہ نے ان دونوں کو اپنی گاڑی میں بٹھایا روزینہ خاموشی سے اسکی گاڑی میں بیٹھ گئی اسے اس وقت بس جلد از جلد اپنے بیٹے کو ہاسپٹل پہنچانا تھا
انکے جاتے ہی آئرہ نے گہرا سانس لیا نظر اپنے کپڑوں پر گئی جن پر خون لگا ہوا تھا سوچا گھر جاکر بدل لے لیکن پھر اپنا ارادہ ترک کرکے واپس سائیکل اس جانب چلانے لگی جہاں اسے جانا تھا
"نرس ڈاکٹر پریشے کہاں ہیں" ہاسپٹل میں داخل ہوکر اسنے پریشے کے بارے میں پوچھا
"وہ تو آج نہیں آئیں ہیں"
"کیوں"
"یہ مجھے نہیں پتہ" نرس اپنے شانے آچکا کر وہاں سے چلی گئی
جبکہ آئرہ اس سوچ میں گم ہوچکی تھی کہ آج پریشے ہاسپٹل کیوں نہیں آئی ہوسکتا ہے شاید اسکی طبیعت خراب ہو یہ سوچ آتے ہی اسنے اپنا فون نکالا اسکا ارادہ پریشے کو فون کرنے کا تھا
لیکن موبائل پر پہلے سے ہی اسکا میسیج آیا ہوا تھا جس میں لکھا تھا
کہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ جارہی ہوں فری ہوکر تم سے فون پر بات کروں گی وہ جانتی تھی کہ اسکی ہاسپٹل میں غیر موجودگی دیکھ کر آئرہ ضرور اسکے گھر جاے گی اسلیے اسنے اسے پہلے ہی میسیج کردیا تھا جو اسنے ابھی دیکھا تھا
گہرا سانس لے کر وہ وہاں سے جانے لگی جب مڑتے ہی اسکی ٹکر چٹانی وجود سے ہوئی اپنا ماتھا سہلا کر اسنے گھور کر اس شخص کو دیکھا جو خود غصے سے اسے ہی دیکھ رہا تھا
"تم" اسے پھر سے سامنے دیکھ کر آئرہ نے حیرت سے کہا
"ہاں میں" عالم نے دانت پیستے ہوے کہا جیسے اسکا بس چلتا تو آئرہ کو ہی چبا جاتا
"تم پیچھا کررہے ہو میرا"
"لڑکی تم پر مجھے پہلے ہی غصہ آرہا ہے تو بہتر ہے کہ میرے سامنے سے چلی جاؤ"
آئرہ نے جو ایک بات اس میں دیکھی تھی وہ تھا اسکا ڈمپل جو اسکے بائیں گال پر پڑھ رہا تھا اسکی داڑھی مونچھیں بےانتہا گھنی تھیں جس میں اسکا گہرا ڈمپل صاف دکھ رہا تھا اور وہ اتنا گہرا تھا کہ اسکے ہلکے سے کچھ کہنے پر بھی نمودار ہورہا تھا
"تمہیں لڑکیوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے"
"مجھے بدتمیزی دکھانے پر مجبور مت کرو"
"پتہ ہے کیا تم دکھنے میں کافی سلجھے ہوئے انسان لگ رہے ہو لیکن جب تمہارا منہ کھلتا ہے نہ اور اس میں سے لفظ نکلتے ہیں تب حقیقت سامنے آتی ہے تمہارے لہجے سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ تم بمشکل پانچویں پاس ہو"
"تم ہوتی کون ہو مجھے بتانے والی کہ میں کتنا پڑھا ہوں بہتر ہوگا کہ آیندہ میرے سامنے نہ آؤ ورنہ تم جانتی نہیں ہو کہ عالم شاہ کس مصیبت کا نام ہے" اسکے کہنے پر آئرہ نے ایک طرفہ مسکراہٹ لیے اسے دیکھا
"میں جاننا بھی نہیں چاہتی ہوں مسٹر پانچ جماعت" دل جلا دینے والی مسکراہٹ لیے وہ وہاں سے جانے لگی
لیکن پھر اپنے قدم روک کر اسنے مڑ کر عالم کو دیکھا جو غصے سے گھورتے ہوے اسے ہی دیکھ رہا تھا آئرہ نے اپنا ہاتھ ہلا کر اسے باے کیا جس سے وہ مزید تپ چکا تھا اسلیے اپنا غصہ ضبط کرکے وہاں سے چلا گیا جس پر آئرہ بھی مسکراتے ہوئی وہاں سے چلی گئی
°°°°°
"کتابیں کھولو" اسکے بیٹھتے ہی عصیم نے حکم دیا جس پر منہ بناتی ہوئی وہ اسکا کہا گیا سبجیکٹ نکال کر بیٹھ گئی
"زیادہ نہیں کم از کم اتنی تیاری تو کروا ہی سکتا ہوں کہ تم پیپرز میں پاسنگ نمبر لے لو میں تمہیں امپورٹینڈ سوال یاد کرادوں گا اور اب جب تک تمہارے پیپر نہیں ہوتے تب تک تم روز میرے پاس بیٹھ کر تین گھنٹے پڑھو گی"
اسکی باتیں کسوا کا سر گھما رہی تھیں
"نہیں نہیں آپ کیوں میرے اوپر وقت ضائع کررہے ہیں میں اپنی تیاری خود کرونگی"
"مجھے کوئی شوق نہیں ہے تمہارے ساتھ بیٹھ کر اپنا سر کھپانے کا چاچا سائیں نے کہا ہے کہ اب تمہاری ٹیوشن ٹیچر نہیں آئینگی اسلیے تمہارے پیپرز تک میں روز تین گھنٹے تک تمہاری یہ شکل دیکھوں یہ والا سوال میں سمجھا رہا ہوں پھر مجھے یاد کرکے سناؤ"
عصیم نے جرنل اسکے سامنے رکھ کر اسے وہ سوال سمجھایا اسکا چہرہ دیکھ کر ہی لگ رہا تھا کہ اسکے کچھ پلے نہیں پڑھا جس کی وجہ سے اسنے اسے دوبارہ وہ سوال سمجھایا جو اس بار اسے سمجھ آگیا تھا
لیکن اسنے پھر بھی یہی کہا کہ اسے سمجھ نہیں آیا اسے یہی لگا کہ شاید اس چیز سے وہ تنگ آکر اٹھ کر چلا جاے گا لیکن اسکے چار بار پوچھنے پر بھی وہ اسے اچھے طریقے سے سمجھا چکا تھا جس کے بعد اسنے غصے سے اس جرنل کو اٹھا کر اپنے سامنے کیا
"اگر اب بھی سمجھ نہیں آیا تو بتادو"
"نہیں شکریہ بہت اچھے سے سمجھ آگیا ہے" اسنے منہ بناکر کہا پہلے ہی چار بار سن کر وہ اچھی خاصی بیزار ہوچکی تھی
"ٹھیک ہے پندرہ منٹ بعد مجھے اس کا جواب سناؤ"
اسکی بات جیسے اسنے ہوا میں اڑائی تھی اور جلدی جلدی ٹائم ختم ہونے کا انتظارکرنے لگی تاکہ اسکی یہاں سے جان چھوٹ جائے پندرہ منٹ تک وہ بس اپنے سامنے لکھے سوال اور اسکے جواب کو گھورتی رہی جب پندرہ منٹ مکمل ہوتے ہی عصیم نے جرنل اسکے ہاتھ سے لے لیا
"سناؤ"
"و-وہ یاد نہیں ہوا عصیم لالا یہ سوال بہت بڑا ہے"
"سیریسلی کسوا تمہیں یہ ایک بیچ کا سوال بڑا لگ رہا ہے پرائمری کی سٹوڈنٹ نہیں ہو تم"
"پلیز اسے تھوڑا چھوٹا کردیں" اسنے منت بھرے انداز میں کہا جس پر عصیم نے سوال کے مین پوائنٹس نکال کر اسے دے دیا
اور اسکے دیتے ہی وہ ہل ہل کر رٹے لگانے لگی کیونکہ اسے پتہ تھا بنا یہ سوال سنے تو وہ اسے یہاں سے جانے نہیں دے گا اسلیے یہاں بیٹھنے سے بہتر تھا وہ جلدی سے رٹے لگا کر اسے سوال سنا کر چلی جاتی
"ہوگیا" اسنے خوشی خوشی اسے جرنل دیا لیکن اسکے پوچھتے ہی وہ سب کچھ بھول گئی زہہن میں چند لفظ یاد تھے وہی سنا دیے جس پر اسنے جرنل واپس اسکے پاس رکھ دیا
"ٹھیک سے یاد کرو"
اور پھر پانچویں مرتبہ سنانے پر اس سات لائن کے سوال میں اسکی صرف بارہ غلطیاں نکلیں تھیں جو کسوا کے لیے بہت بڑی بات تھی
"ایک اور بار یاد کرو"
"نہیں پلیز نہیں اتنا اچھا تو سنایا ہے"
"سات لائن کا سوال تم نے مجھے پانچ بار سنایا ہے اور وہ بھی غلطیوں سمیت چالیس منٹ میں"
"نہیں آپ کوئی دوسرا سوال یاد کروالیں یہ ہوگیا" اسکے کہنے پر عصیم نے دوسرا سوال اسکے سامنے کیا اور اسے سمجھانے لگا جبکہ واقعی میں اسے اپنے سامنے دوسرا سوال لگاتے دیکھ کر اسنے خود کو قوصہ
"امی سائیں ٹھیک کہتی ہیں کسوا کب کہاں کیا بات بولنی چاہیے تمہیں پتہ ہی نہیں ہے" وہ اسے سوال سمجھا رہا تھا جو اسکے سر کے اوپر سے جارہا تھا لیکن پھر بھی وہ اپنا سر ہاں میں ہلا رہی تھی
عصیم کے سمجھانے کے بعد اسنے جلدی جلدی وہ سوال یاد کرنا شروع کردیا اور پھر اسکی پچیس منٹ کی محنت کے بعد بالآخر اسنے جواب یاد کرکے اسے سنا ہی دیا تھا
وہ تیسرا سوال کھولنے والا تھا لیکن کسوا کی حالت دیکھ کر رک گیا ایسا لگ رہا تھا ابھی وہ اسکے سامنے ایک اور سوال یاد کرنے کی بات کرے گا اور وہ بےہوش ہوجاے گی
"چلو جاؤ اٹھاؤ سامان اور کل ہم پورے تین گھنٹے پڑھیں گے اور یہ سوال میں تم سے پھر سے سنوں گا"اسکے کہنے پر وہ اپنا سارا سامان خوشی خوشی بیگ میں ڈالتی اسکی بات پر اپنا سر ہلا کر وہاں سے بھاگ گئی جبکہ عصیم نے دلکشی سے مسکراتے ہوے اسکی پشت کو دیکھا
°°°°°
"جی دادا سائیں کرم دین نے کہا تھا آپ نے مجھے یاد کیا ہے" اجازت ملتے ہی اسنے دادا سائیں کے کمرے میں داخل ہوکر کہا
لیکن انکے ہاتھ میں موجود کتاب دیکھ کر اسکا منہ بن چکا تھا جبکہ اسکے اس طرح سے منہ بنانے پر داد سائیں نے مسکرا کر اسے دیکھا انہیں معلوم تھا کہ عالم شاہ کو پڑھائی سے کتنی چڑ ہے
حویلی کے باقی لڑکوں نے اپنی پڑھائی شہر سے مکمل کی تھی لیکن عالم شاہ نے نہیں اسنے چیٹنگ کر کے میٹرک پاس کی تھی بلکہ ہر کلاس ہی چیٹنگ سے پاس کی تھی اسلیے اسے انگلش کے چند لفظوں کے علاؤہ انگلش میں اور کچھ نہیں آتا تھا اسے پڑھائی کا شوق نہیں تھا اسلیے سب کے لاکھ بار کہنے پر بھی اسنے میٹرک کے بعد کچھ نہیں کیا بقول دادا سائیں کے وہ دونوں بہن بھائی ایک جیسے ہیں پڑھائی سے دور بھاگنے والے
"ہاں بیٹھو یہاں پر" انہوں نے اسے اپنے سامنے رکھے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا
"عالم مجھے تمہیں ایک ضروری بات بتانی ہے تمہاری منگنی تمہارے بچپن میں ہوچکی ہے کیا تمہیں یاد ہے"
"نہیں دادا سائیں مجھے ایسا کچھ نہیں یاد"یہ بات اسکے لیے کافی حیران کن تھی
"مجھے معلوم تھا تمہیں یاد بھی کیسے ہوگا وہ تمہارے بچپن کی بات تھی اور اس بات کا زکر آج تک کسی نے نہیں کیا تھا"
"عالم تمہاری منگنی ہم نے بچپن میں ہی عفان شاہ کی بیٹی سے کردی تھی"
"عفان چاچو کی بیٹی ہے" اسے حیرت ہوئی تھی اسے تو بس یہی پتہ تھا کہ انکی بیوی انہیں چھوڑ کر چلی گئی تھی
"ہاں اسنے اپنی پسند سے شادی کی تھی جب وہ پڑھائی کے لیے شہر گیا تھا ہم سب نے بھی اسکی پسند کو قبول کرلیا لیکن شاید اسکی بیوی مبشرہ نے ہمیں قبول نہیں کیا تھا وہ شہر کی لڑکی تھی یہاں اس حویلی میں اور حویلی والوں کے ساتھ وہ نہیں رہ پاہ رہی تھی وہ اکثر عفان سے یہی کہتی تھی کہ اسے علیحدہ گھر چاہیے وہ یہاں نہیں رہنا چاہتی تھی اسلیے ہمارا بیٹا ہم سے دور نہ ہوجاے اس ڈر سے ہم نے اپنی ایک سال کی پوتی اور دس سال کے پوتے عالم شاہ کو منگنی کے رشتے میں باندھ دیا لیکن اسکے بعد وہ ہماری پوتی کو لے کر چلی گئی وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکی بیٹی بھی اس خاندان میں رہے''
"ہم اسے واپس بلانا چاہتے تھے لیکن عفان شاہ نے ہمیں روک دیا اسنے اس وقت وعدہ کیا تھا کہ جب اسکی بیٹی اکیس سال کی ہوجاے گی تو وہ اسے اور اپنی بیوی کو خود حویلی لے آے گا لیکن اب وہ اپنی بات سے مکر رہا ہے وہ کہتا ہے کہ اسکی بیٹی یہاں نہیں رہ سکتی اور نہ ہی تم دونوں کا کوئی جوڑ ہے اسنے ہم سب کو منع کیا تھا کہ جب تک صحیح وقت نہیں آجاتا ہے تمہارے سامنے اس رشتے کا زکر نہیں کیا جاے اور شاید یہی وہ صحیح وقت ہے ہم نہیں جانتے کہ اسنے اپنی بیوی اور بیٹی کو کہاں رکھا ہےہم چاہتے ہیں کہ تم اسے ڈھونڈو عالم شاہ کیونکہ تمہارے علاؤہ یہ کام اور کوئی نہیں کرسکتا"
اسنے آگے بڑھ کر دادا سائیں کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے
"آپ فکر مت کریں دادا سائیں میں ڈھونڈ کر لاونگا آپ کی بہو کو بھی اور پوتی کو بھی جو آپ کے عالم کی ہی دلہن بنے گی منگ ہے وہ عالم شاہ کی اور بھلا ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ عالم شاہ اپنی منگ چھوڑ دے دو دن میں وہ دونوں آپ کے سامنے موجود ہوں گے"اپنے پوتے کی بات سن کر دادا سائیں نے سکون بھری سانس لی انہیں پتہ تھا اگر عالم شاہ نے دو دن بولا ہے تو دو دن میں ہی وہ ان لوگوں کو لے کر آجاے گا
°°°°°
"کیوں کہ میں پہلے ہی کسی کے نکاح میں ہوں"
اسکی یہ بات جہاں سب کو سکتے میں ڈال گئی تھی وہیں وصی کی تو جیسے دنیا ہی لوٹ چکی تھی
"یہ کیا بکواس ہے" ظفر صاحب نے صدمے کی کیفیت میں کہا
"بابا یہ سچ ہے میں وصی سے اسی لیے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ میں پہلے ہی کسی کے نکاح میں تھی"
"کب ہوا تمہارا نکاح اور کس کے ساتھ ہوا ہے" یہ سوال مظفر صاحب نے کیا تھا لیکن وہ انکا جواب دینے کی کیفیت میں بھی نہیں تھی وہ تو بس روے جارہی تھی
"بتاؤ پری کون ہے وہ"یہ سوال حفصہ نے کیا تھا اور اس بار جواب بھی ملا تھا لیکن اسنے نہیں دیا تھا بلکہ آواز پیچھے سے آئی تھی جسے سنتے ہی سب لوگوں نے مڑ کر دیکھا
"معتصم شاہ"
"بتاؤ پری کون ہے وہ"یہ سوال حفصہ نے کیا تھا اور اس بار جواب بھی ملا تھا لیکن اسنے نہیں دیا تھا بلکہ آواز پیچھے سے آئی تھی جسے سنتے ہی سب لوگوں نے مڑ کر دیکھا
"معتصم شاہ"
سب نے مڑ کر اس وجاہت سے بھرپور مرد کو دیکھا وہ اتنا خوبصورت تھا کہ عینہ کی نظریں اس پر جم چکی تھیں ایسا نہیں تھا وہ اسے کسی غلط نگاہ سے نہیں دیکھ رہی تھی بس اس کی خوبصورتی اسے کہیں اور دیکھنے نہیں دے رہی تھی
اسنے بلیک کلر کا ویسٹ کوٹ بلیک ٹائی کے ساتھ بلیک جینز پہنی ہوئی تھی وائٹ شرٹ کی آستین کو فولڈ کیا ہوا تھا چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی مونچھیں تھیں اسکا بلیک کوٹ اسکے پیچھے کھڑے اسکے گارڈ نے احتیاط سے پکڑا ہوا تھا
"میں ہوں معتصم شاہ اور یہ ہیں" اسنے پریشے کی طرف دیکھا
"یہ ہیں مسز معتصم شاہ"
°°°°°
"شٹ" اسنے غصے سے اپنی گاڑی کے ٹائر پر لات رسید کی اسکی گاڑی خراب ہوچکی تھی آس پاس کوئی مکینک بھی نہیں دکھ رہا تھا اور اس وقت وہ بنا کسی گارڈ اور ڈرائیور کے تھا
اسنے اپنا فون نکال کر ڈرائیور کو کال کری اور اسے اپنے موجودہ ایڈریس پر دوسری گاڑی لانے کو کہا
اور خود وہیں کار سے ٹیک لگا کر اسکا انتظار کرنے لگا جب اپنے قریب سے اسے ایک آدمی کی آواز آئی
"سر آپ یہاں کیا کررہے ہیں" اس نے معتصم کے قریب آکر کہا جس پر اسنے حیرت سے اس آدمی کو دیکھا وہ اسے نہیں جانتا تھا
"آپ شاید مجھے پہچان نہیں رہے میں ریحان ہوں اور آپ کی کمپنی میں جوب کرتا ہوں آپ مجھ سے صرف چند بار ہی ملے ہیں"
"ایم سوری"
"نہیں سر کوئی بات نہیں آپ یہاں کیا کررہے ہیں"
"میری کار خراب ہوچکی ہے میں اپنے ڈرائیور کا ویٹ کررہا ہوں وہ دوسری کار لانے والا ہوگا"
"تو آپ جب تک میرے ساتھ چلیں میرے کزن کی شادی ہے آپ جب تک وہاں بیٹھ جائیں"
"نہیں آپ جاکر انجواے کیجیے میں یہیں ٹھیک ہوں''
"سر پلیز آئی انسسٹ"اسکے اتنے اسرار پر معتصم اسکے ساتھ میریج ہال میں چلا گیا
سب اسکے لیے اجنبی تھے اسے یہاں آنا بےحد عجیب لگ رہا تھا اسے بٹھا کر ریحان خود بھی اسکے پاس بیٹھ گیا لیکن ہر کوئی بار بار اسے بلا رہا تھا
"پلیز آپ جائیں میں یہاں ٹھیک ہوں" معتصم نے اسے دیکھتے ہوے کہا جو اپنے کام چھوڑے اسکے پاس بیٹھا ہوا تھا
"آپ یہاں بیٹھے میں آپ کے لیے کولڈرنک لے کر آتا ہوں"
اسکے جانے کے بعد معتصم ارد گرد دیکھنے لگا جب نظر دور کھڑے بات کرتے لڑکے اور لڑکی کی طرف اٹھی اس لڑکی نے گولڈن کلر کا لہنگا پہنا ہوا تھا اور منت بھرے لہجے میں اپنے سامنے کھڑے لڑکے سے کچھ کہہ رہی تھی اسکے ہاتھوں میں پھولوں کی ٹوکری تھی
اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ اسکے قریب جانے لگا پتہ نہیں اس لڑکی میں ایسی کیا کشش جو اسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی
"وصی میں تم سے بعد میں بات کرونگی ابھی پلیز مجھے جانے دو برات آنے والی ہوگی" اسنے منت بھرے انداز میں کہا اور شاید وصی کو اسکے کہنے پر ترس آگیا تھا اسلیے اسکا راستہ چھوڑ دیا
اسکے ایسا کرتے ہی وہ وہاں سے چلی گئی اسنے ٹوکری میں موجود پھولوں کی چند پتیوں کو ہاتھ میں لیا جب سامنے سے آتے شخص سے اسکی زور دار ٹکر ہوئی لیکن اس سے پہلے وہ گرتی وہ وجود اسے سنبھال چکا تھا
اسکے ہاتھ میں موجود پھول کچھ اسکے کپڑوں پر جبکہ باقی سارے زمین پر گر چکے تھے
"تم نے میرے سارے پھول گرا دیے برات آنے والی ہوگی" اسنے صدمے سے اپنے پھولوں کو دیکھتے ہوے کہا
"تو کیا ہوا یہ پھول اٹھا لیتے ہیں" زمین پر گرے پھولوں کو دیکھ کر معتصم نے اپنا مفت مشہورہ دیا جبکہ نظریں بار بار اسکے حسین چہرے کا طواف کررہی تھیں
"اپنا مشہورہ اپنے پاس رکھو"
"میں تو آپ جناب کہہ رہا ہوں لیکن شاید آپ کو یہ تکلف پسند نہیں ہے اچھا تو بتاؤ تمہارا نام کیا" پریشے منہ کھولے اس اجنبی کو دیکھ رہی تھی جو آپ سے تم تک اور پھر نام پوچھنے تک پہ آچکا تھا
"تمہیں کیا کرنا ہے میرا نام جان کر"
"تعارف کروانا ہے"
"ام کلثوم" اپنی بات کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئی جبکہ معتصم نے مسکرا کر اسکی پشت کو دیکھا اسکا نام پری تھا یہ بات وہ اسکے ہاتھ میں موجود بریسلیٹ دیکھ کر جان چکا تھا جس پر پری لکھا ہوا تھا
گہرا سانس لے کر وہ میریج ہال سے باہر چلا گیا کیونکہ اسکے فون پر ڈرائیور کی کال آرہی تھی یقینا وہ گاڑی لے کر آچکا تھا
°°°°°
"بدتمیز جاہل فالتو"خود سے بڑبڑاتی ہوئی وہ جارہی تھی جب عینہ اسکے پاس آگئی
"کس سے باتیں کررہی ہو"
"کسی سے نہیں بس ایک لوفر مل گیا تھا اسی پر غصہ ہے" اسنے ایک نظر مڑ کر پیچھے دیکھا جہاں اب وہ نہیں تھا
"کون لوفر خیر جو بھی تھا چھوڑو اسے اور چلو میرے ساتھ برات آگئی ہے" اسکا ہاتھ پکڑ کر عینہ اسے اپنے ساتھ لے گئی
°°°°°
"اس لڑکی کا کچھ پتہ چلا رفیق" اسنے گاڑی میں بیٹھتے ہی اپنے ڈرائیور سے کہا
جب سے اسنے پریشے کو دیکھا تھا تب سے اس نے رفیق کو اسے ڈھونڈنے پر لگایا ہوا تھا ایک ہفتہ ہوچکا تھا اس رات کو جب وہ پریشے سے ملا تھا لیکن رفیق ابھی تک اسے ڈھونڈنے میں ناکامیاب رہا تھا
وہ بس ایک بار اور اس لڑکی سے ملنا چاہتا تھا اس لڑکی میں اسے ایک عجیب سی کشش محسوس ہورہی تھی
کراچی میں اسکی کمپنی تھی جسے وہ اور عصیم مل کر چلاتے تھے جبکہ عالم شاہ گاؤں میں موجود وہاں کے حالات دیکھتا تھا اور ہر چیز کا دھیان رکھتا تھا ہر ہفتے وہ گھر والوں سے ملنے جایا کرتا تھا
لیکن اس ہفتے اسنے یہ کام بھی نہیں تھا کیونکہ اسے اس لڑکی سے ملنا تھا پتہ نہیں کیوں
"نہیں سر سوری ابھی تک کچھ پتہ نہیں چلا"
"کسی کام کے نہیں ہو تم" اسکا موڈ بدمزہ ہوا
"سر ہمیں اس لڑکی کا نام کے علاؤہ اور کچھ نہیں پتہ ہم اسے کیسے ڈھونڈے"
"رہنے دو میں خود اسے ڈھونڈ لوں گا یہ کام تم سے نہیں ہوگا" ابھی وہ اپنی بات کہہ ہی رہا تھا جب گاڑی کا شیشہ توڑتی ایک گولی اسکے بازو پر لگی
گاڑی ان بیلنس ہوچکی تھی انکا ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا تھا
رفیق نے فورا گاڑی روک دی اور پیچھے دوسری گاڑی میں موجود اسکے گارڑذ فورا گاڑی سے اترے لیکن گولی جس نے چلائی تھی اور کس طرف سے چلائی تھی اسکا انہیں اندازہ نہیں ہورہا تھا یہ کوئی نئی بات نہیں تھی حویلی کے ہر شخص کے ساتھ دادا سائیں گارڈ کو انکی حفاظت کے لیے بھیجتے تھے کیونکہ انکے دشمن انکی تاک میں بیٹھے ہوتے تھے اور وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے
اسکے بازو سے تیزی سے خون نکل رہا تھا اسلیے رفیق وہاں قریبی بنے ہاسپٹل میں اسے لے کر چلا گیا
°°°°°
"ہاے پری" اسنے ہاسپٹل میں قدم رکھا ہی تھا جب اسکی دوست رمشہ نے اسکے قریب آکر کہا
"ہاے رمشہ کیسی ہو"
"میں تو بلکل ٹھیک تم بتاؤ حفصہ آپی کی شادی کیسی گزری"
"فینٹاسٹک اور تم کیوں نہیں آئی تھیں"
"بس تمہں تو پتہ ہے نہ ہاسپٹل گھر بچے اس میں ٹائم ہی نہیں ملا اوپر سے میرے بیٹے کو بخار ہوگیا اسلیے میں نہیں آسکی آئی ایم ایکسٹریملی سوری" رمشہ نے اسکے ہاتھ پکڑ کر معذرت خواہانہ انداز میں کہا
"اوکے میں نے سوری ایکسیپٹ کرلی ہے لیکن میری شادی میں تو تمہیں آنا ہے اس وقت میں یہ سب نہیں سنوں گی"
"پہلے تم اپنی شادی کا دن تو دکھاؤ پھر دیکھنا سب سے پہلی مہمان تمہاری میں ہی ہوں گی"
"ڈاکٹڑ پریشے کیسی ہیں آپ" ڈاکٹڑ عرفان نے اسکے قریب آکر کہا
"میں بلکل ٹھیک ڈاکٹر آپ کیسے ہیں"
"فائن مجھے یہ فائل آپ کو دینی تھی یہ پیشنٹ دو دن پہلے یہاں ایڈمٹ ہوے تھے انہیں گولی لگی تھی وہ آپ کے پیشنٹ ہیں اور یہ انکی فائل ہے"مکمل تفصیل سے آگاہ کرکے وہ فائل اسے تھما کر وہاں سے چلا گیا
اسکے جانے کے بعد پریشے نے اپنے ہاتھ میں موجود فائل ریڈ کی اور اس کمرے میں چلی گئی جہاں پر وہ پیشنٹ تھا
°°°°°
"کیا حال ہیں معتصم"عالم نے اسکے کمرے میں داخل ہوکر کہا جس پر اسنے منہ بنا کر اسے دیکھا
"دکھ نہیں رہا کیا حال ہیں میں بیمار نہیں ہوں لیکن اس ہاسپٹل میں رہ کر میں ضرور بیمار ہوجاؤں گا"
"تو کس نے کہا تھا گولی کھانے کو"
"دل چاہ رہا تھا گھر میں کھانا نہیں مل رہا تھا نہ تو اسلیے میں نے گولی کھالی" معتصم نے گھور کر اسے دیکھا
"ہاہاہا اچھا چل اب بس جلدی سے ٹھیک ہوجا دادا سائیں بھی تجھے بہت یاد کررہے ہیں اور گھر میں بھی سب پریشان ہیں"
"میرے کون سے ماں باپ ہیں جو میرے لیے پریشان ہوں گے"
"معتصم ماں باپ کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا لیکن اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ باقی گھر والے تم سے محبت نہیں کرتے ہیں"
"میں نے یہ کب کہا عالم میں جانتا ہوں سب مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں اور میں انکے پیار کی قدر بھی کرتا ہوں لیکن ابھی کے لیے بس تم مجھے یہاں سے نکال لو"اسنے معصوم چہرہ بناکر اسے دیکھا جب کمرے میں کوئی داخل ہوا عالم پیچھے موجود صوفے پر بیٹھ گیا
جبکہ معتصم نے منہ بنا کر اپنے چہرے کا رخ دوسری طرف کرلیا کیونکہ اسے پتہ تھا پھر کوئی ڈاکٹر آئی ہوگی وہ جب سے یہاں آیا تھا کتنی ڈاکٹر اور نرس اسے امپریس کرنے کی کوشش کر چکی تھیں
کیوںکہ سب جانتے تھے کہ معتصم شاہ کون ہے وہ شاہ انڈسٹری کا مالک اور جمال شاہ کا پوتا تھا
"آپ کی اب طبیعت کیسی ہے"اسکی آواز سن کر معتصم نے اپنے چہرے کا رخ موڑ کر اسکی طرف دیکھا یہ آواز وہ پہچانتا تھا اور یہ چہرہ بھی وہی تھا جسے وہ ڈھونڈ رہا تھا
"مسٹر شاہ آپ کی طبیعت کیسی ہے"پریشے نے اسکے زخم کا معائنہ کرتے ہوے دوبارہ کہا وہ شاید اسے پہچان نہیں پائی تھی ایسا معتصم کو لگا
"میں اب بلکل ٹھیک ہوں"معتصم نے اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا جس پر اسنے اپنا سر ہلا دیا
جب تک وہ وہاں رہی تھی معتصم کی نظروں کے حصار میں رہی تھی جن سے اسے بےحد الجھن ہورہی تھی
°°°°°
"کیا بات ہے ویسے تو مجھے یہاں سے جانا ہے کہہ کہہ کر کان پکا دیے تھے اب دو دن سے اتنے خاموش پڑے ہو" عصیم نے اسکے قریب بیٹھ کر کہا جس پر وہ فقط مسکرا کر رہ گیا
وہ اسے کیا بتاتا کہ ہاں اب تو اسے یہاں رہنا واقعی میں اچھا لگ رہا ہے اسے وہ لمحہ وہ وقت بہت خاص لگتا ہے جب پریشے اسے چیک کرنے کے لیے آتی ہے
"عصیم مجھے لگ رہا ہے کہ اسے یہاں کی کوئی ڈکٹر یا نرس پسند آگئی"عالم نے اپنے دماغ میں چلتی بات اسکے گوش گزاری
"میرے بھائی ڈکٹر نہیں ہوتا ڈاکٹر ہوتا ہے"عصیم نے اسکی غلطی درست کی جس پر اسنے کندھے اچکا دیے
"جو بھی ہو مجھے کیا کرنا ہے"
"خیر تمہارے لیے خوش خبری ہے معتصم کل تم ڈسچارج ہو جاؤ گے" عصیم کے کہنے پر اسنے اپنا سر ہلا دیا
عالم آج گاؤں واپس جارہا تھا وہاں پر ایک مسلہ زیر بحث تھا جو اسی نے سلجھانا تھا جبکہ عصیم کو خود بھی آفس جانا تھا کیونکہ معتصم کی غیر موجودگی میں اس پر کافی کام آ چکا تھا
اسلیے وہ لوگ رفیق کو اسکے پاس چھوڑ کر گئے تھے جبکہ گولی لگنے کی وجہ سے دادا سائیں نے تینوں کے ساتھ موجود گارڈز میں اضافہ کردیا تھا
گھر والے اسکے پاس آنا چاہتے تھے لیکن معتصم انہیں سختی سے منع کر چکا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کوئی اسکی وجہ سے پریشان ہو گھر کی خواتین اور دادا سائیں سے اسکی روز بات ہوتی تھی جبکہ مرد حضرات اس سے ملنے کے لیے آ چکے تھے
°°°°°
"کیا خبر ہے رفیق"ان دونوں کے جاتے ہی رفیق اسکے پاس آکر نظریں جھکائے کھڑا ہوگیا جب اسنے رفیق سے پوچھا
"سر سب معلوم ہوچکا ہے وہ کلفٹن میں رہتی ہیں انکا نام پریشے ظفر ہے دو بہنیں ہیں بڑی بہن کی شادی ہوچکی ہے اور" آگے کی بات کہتے ہوے وہ جیسے اٹک رہا تھا
"اور کیا"
"اور وہ بھی اپنے کزن کے ساتھ منسوب ہیں اسکا نام وصی ہے اور جلد ہی انکی شادی ہونے والی ہے"
اسکی بات سنتے ہی اسنے سختی سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں
"جاؤ یہاں سے"
"سر "
"گیٹ آؤٹ" اسکے چلانے پر رفیق کمرے سے چلا گیا جبکہ وہ اپنے اشتعال پر قابو پانے کی کوشش کررہا تھا جب پریشے کمرے میں داخل ہوئی
"ہیلو مسٹر شاہ" اسنے پیشوارانہ مسکراہٹ لیے اسے دیکھا
اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ اسکے سامنے جاکر کھڑا ہوا اسکی اس حرکت پر وہ پیچھے ہٹی لیکن اسکے دونوں کندھوں کو پکڑ کر اسنے اسے اپنے قریب کرلیا
"یہ کیا حرکت ہے چھوڑو مجھے"
"مجھے شاید تم نے پہچانا نہیں ہے"
"پہچان چکی ہوں تم وہی لوفر ہو جو مجھے شادی میں ملے تھے لیکن اس وقت تمہارا خیال رکھنا میری ڈیوٹی ہے"
"تم اس لڑکے سے شادی نہیں کرو گی"
"میں کسی سے بھی شادی کروں تمہیں کیا چھوڑو مجھے"
"میری ایک بات کان کھول کر سن لو تم اپنے اس کزن سے شادی نہیں کرو گی تم نے کرنی بھی چاہی تو میں ایسا ہونے نہیں دوں گا تو بہتر ہے پہلے ہی اس سب سے انکار کر دو" اپنی بات کہہ کر اسنے اسے آزاد کیا اور اسکے ایسا کرتے ہی وہ اسکے کمرے سے بھاگ گئی
اگلے دن وہ ہاسپٹل بھی نہیں گئی تھی اسکی باتیں یاد کرکے اسے اس شخص سے خوف محسوس ہورہا تھا
چھٹی کرکے اگلے دن وہ ہاسپٹل گئی جب اسے پتہ چلا کہ معتصم وہاں سے جاچکا تھا جس پر اسنے شکر کا سانس لیا لیکن وہ باتیں بار بار اسکے زہہن میں آرہی تھیں
گھر آتے ہی اسے جو سرپرائز ملا وہ خالا کی موجودگی کا تھا جسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی لیکن انکے آنے کا مقصد جان کر وہ پریشان ہوچکی تھی
انہوں نے اسے وصی کے نام کی انگھوٹھی پہنائی لیکن اسے اس سب سے کوئی خوشی نہیں ہوئی تھی کیونکہ اسکا زہہن تو اب تک معتصم کی باتوں میں تھا
اسنے اپنے ہاتھ میں موجود اس انگھوٹھی کو دیکھا جو آج اسے پہنائی گئی تھی
"شاید میں کچھ زیادہ ہی سوچ رہی ہوں ہوسکتا ہے وہ مزاق کررہا ہو میں بھلا کیوں اسے سوچ کر خود کو پریشان کررہی ہوں" اپنے آپ کو تسلی دے کر وہ اپنی جگہ سے اٹھی جب اسے پیچھے جہاں کھڑکی تھی وہاں کچھ ہلچل محسوس ہوئی اسنے مڑ کر دیکھا لیکن اس سے پہلے وہ چیختی وہ اپنا مظبوط ہاتھ اسکے لبوں پر رکھ چکا تھا وہ وہی تھا وہی شخص جسے وہ سوچ سوچ کر پریشان ہورہی تھی
اسنے اس وقت بلیک جینز اور بلیک ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی جس میں اس کے مظبوط بازو صاف دکھ رہے تھے ایک بازو پر زخم موجود تھا جو اسے گولی لگنے کی وجہ سے ملا تھا ابھی تک اسکا بازو مکمل ٹھیک نہیں ہوا تھا
"کیا کہا تھا میں نے تم سے کہ تم اس شادی سے انکار کردو لیکن نہیں تم نے کیا کیا"اسکا ہاتھ اٹھا کر اسنے اسکی انگلی میں موجود اس انگھوٹھی کو دیکھا اور پھر اسے انگلی سے نکال کر پھینک دیا جو بیڈ پر جاگری
"چھوڑو میرا ہاتھ یہاں کیا کررہے ہو تم نکلو یہاں سے"
"لگتا ہے تم نے میری بات سنی نہیں ہے میں تمہیں کل تک کا وقت دے رہا ہوں اس رشتے سے انکار کردینا ورنہ انجام کی ذمیدار تم خود ہوگی"
"کیوں انکار کروں گی میں ، میں وصی سے ہی شادی کروں گی ہو کون تم میرے" اسنے معتصم کو زور سے دھکا دیا جس پر اسنے اپنی سرخ انگارہ ہوتی آنکھوں سے گھور کر اسے دیکھا اور جھٹکے میں اسکے قریب جاکر اسکی کمر کے گرد اپنا حصار باندھ دیا
"آئیندہ اس شخص کا نام اپنی زبان پر مت لانا میری ہو تم صرف میری صرف معتصم شاہ کی" اسکے مزاحمت کرتے انداز کو نظر انداز کرکے اسنے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور جس راستے سے آیا تھا اسی راستے سے واپس چلا گیا
اسکے جانے کے بعد پریشے نے زور سے اپنا ماتھا رگڑا جیسے اس پر سے اس شخص کا دیا گیا لمس مٹا رہی ہو
دل میں خیال آیا کہ کسی کو اس سب کے بارے میں بتادے لیکن پھر سب کی پریشانی کا سوچ کر وہ خود ہی خاموش ہوگئی ایک بار اسکی وصی سے شادی ہوجاتی تو وہ خود ہی اسکا پیچھا چھوڑ دیتا لیکن یہ پریشانی اسے رہنی تھی جب تک اسکی وصی سے شادی نہیں ہوجاتی
°°°°°
اس وقت بھی وہ شوپنگ کرنے لیے صائمہ بیگم کے ساتھ گئی تھی جب ایک تیز رفتار ٹرک انہیں ٹکر مار کر چلا گیا
وہ پریشانی سے لوگوں کی مدد سے انہیں ہاسپٹل لے کر پہنچی تھی انہیں بس چند چوٹیں لگی تھیں اور یہ سب سن کر اسنے اطمینان بھرا سانس لیا اور گھر فون کرکے عینہ کو انکے ایکسیڈنٹ کا بتادیا تاکہ وہ گھر میں سب کو یہ بات بتادے
اسے فون کرکے وہ ہاسپٹل کے روم میں داخل ہوئی جہاں پر صائمہ بیگم موجود تھیں لیکن اندر کا منظر دیکھ کر اسکے قدم جم چکے تھے
جینز ٹی شرٹ اور بلیو جیکیٹ میں وہ صوفے پر بیٹھا اپنے دونوں پاؤں ٹیبل پر کینچی کی شیب میں دیے بیٹھا تھا
،"تم یہاں کیا کررہے ہو"
"آج یہ قصہ ختم کرنے آیا ہوں" اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ چلتا ہوا اسکے قریب آکر کھڑا ہوگیا
"کیا کہا تھا میں نے تم سے کہ منع کردو اس رشتے سے ورنہ انجام کی ذمیدار صرف تم ہوگی اب دیکھ لو اپنی غلطی کا نتیجہ" اسنے بیڈ پر موجود بےہوش صائمہ بیگم کو دیکھتے ہوے کہا
"تو یہ سب تم نے کیا ہے گھٹیا انسان" اسنے غصے سے اسکا گریبان پکڑ لیا
" ہاں یہ سب میں نے کیا ہے" اسنے اپنا گریبان اسکے ہاتھوں سے چھڑاتے ہوے اطمینان سے کہا
"کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا کیوں میرے پیچھے پڑھے ہو چھوڑ دو میری جان میں ہاتھ جوڑتی ہوں تمہارے آگے" اسنے اپنے دونوں ہاتھ اسکے سامنے جوڑتے ہوے کہا
"جان تو تم میری بن چکی ہو اس حساب سے میں اپنی جان کو بھلا کیسے چھوڑ دوں" اسکے چہرے پر جھولتی لٹ کو اسنے پیچھے کیا جب پریشے نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا
اور ہلچل ہونے پر دروازے کی طرف دیکھا جہاں کمرے میں چند مرد حضرات داخل ہوے
"نکاح کے لیے تیار ہوجاؤ میری جان"
"میں تم سے نکاح نہیں کروں گی"
"سوچ لو پہلے ہی تمہاری غلطی کی سزا یہ بھگت رہی ہیں میں اس سے آگے بھی بڑھ سکتا ہوں جس کا مجھے کوئی افسوس نہیں ہوگا تو بہتر ہے کہ میری بات مان لو" اسنے آنسو بھری نظروں سے بیڈ پر لیٹی اپنی ماں کو دیکھا
اور ہچکیوں سے روتے ہوے نکاح نامے پر سائن کردیے اسکی ماں کے سامنے اسکا نکاح ہوا تھا لیکن انہیں اس بات کا علم ہی نہیں تھا کیونکہ وہ اب تک ہوش میں ہی نہیں آئی تھیں
نکاح ہوتے ہی وہاں موجود افراد باہر چلے گئے سواے معتصم شاہ کے
اسنے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے مقابل کھڑا کیا پریشے نے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا لیکن وہ معتصم کی سخت گرفت میں تھا
"نکاح مبارک ہو جان" اسنے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے
"دور رہو مجھ سے" اسنے اپنا آپ اس سے چھڑوانا چاہا لیکن اسکی مزاحمت کو نظر انداز کرکے وہ اسکے گلابی لبوں پر جھک گیا
اسکی اس حرکت پر وہ پھڑپھڑا کر رہ گئی اپنے ہاتھوں کی پوری طاقت لگا کر اسے خود سے دور کرنا چاہا لیکن وہ اپنے کام میں مصروف رہا اور کافی دیر بعد اسکے لبوں کو آزادی بخشی
"جارہا ہوں واپس آوں گا اور تمہیں اسی طرح اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا جس طرح ہر لڑکی رخصت ہوکر جاتی ہے"
"اگر تمہیں یہی سب کرنا تھا تو اسی طرح سے رشتہ لاتے جو طریقہ ہوتا ہے"
"تمہیں کیا لگتا ہے کہ تمہاری شادی کے دنوں میں ، میں تمہارے گھر رشتہ لاتا تو وہ تمہارے کزن کو چھوڑ کر تمہاری شادی مجھ سے کردیتے"
"تو کیا اب کردینگے"
"ہاں بلکل کیونکہ تم اب مکمل طور پر میری ہو اجازت مانگوں گا ان سب سے اگر مل گئی تو ٹھیک نہیں تو تمہیں گھر سے اٹھانے میں بھی دیر نہیں کروں گا کیونکہ اب تم صرف میری ہو"
اسکے ماتھے پر دوبارہ اپنا لمس چھوڑ کر وہ وہاں سے چلا گیا اور وہ وہاں پر بیٹھ کر رونے لگی
سب گھر والے آچکے تھے صائمہ بیگم کو ہوش آچکا تھا لیکن اسکے رونے میں کمی نہیں آئی تھی
°°°°°
اسکی شادی کی بات جو دبی ہوئی وہ صائمہ بیگم کے صحت یاب ہوتے ہی پھر سے اٹھ چکی تھی اور یہی تو وہ نہیں چاہتی تھی وہ بھلا وصی سے شادی کیسے کرسکتی تھی
اسنے صائمہ بیگم کو اپنا انکار سنادیا جس کے بعد اسے اچھی خاصی ڈانٹ پڑ چکی تھی اور ساتھ یہ تاکید بھی کی گئی کہ اسے آئیندہ ایسی بات اپنے زہہن میں بھی نہیں لانی ہے
انکی طرف سے مایوس ہوکر وہ ظفر صاحب کے پاس جانا چاہتی تھی تاکہ اپنے باپ سے کہہ سکے کہ اسے وصی سے شادی نہیں کرنی ہے یا پھر انہیں حقیقت بتادے لیکن وہ ایسا کچھ بھی نہیں بتا سکی تھی اسکی شادی کو لے کر انکے چہرے پر پھیلی خوشی اسے کچھ کہنے ہی نہیں دے رہی تھی
اسلیے اسنے وصی سے اس بارے میں بات کرنے کا سوچا
لیکن وہ اسکی سنی کب رہا تھا وہ تو اپنی ہی خوشی میں مگن تھا اسنے اپنے قریب موجود ہر شخص کو سچائی بتانی چاہی لیکن ہر کوئی بس اپنی سنا کر اسے سمجھانے بیٹھ جاتا
گھر کا ماحول اسے گھٹن زدہ لگ رہا تھا اور اس سب میں اسکی شادی کی ڈیٹ رکھی جا چکی تھی
اسے بس گھر سے دور جانا ہی اس سب کا حل لگا اور اسنے ایسا ہی کیا وہ جانتی تھی کہ اسکا اٹھایا یہ قدم اسکے ماں باپ کے لیے بہت تکلیف دہ ہوگا لیکن وہ بھی مجبور تھی اسے سب سے زیادہ غصہ تو اس شخص پر تھا جو اسے اس رشتے میں زبردستی باندھ چکا تھا
اس وقت بھی وہ کیب میں بیٹھی جارہی تھی اس وقت اسنے یہی سوچا کہ وہ رمشہ کے پاس چلی جاے گی لیکن راستے میں ہی اسنے ڈرائیور کو رکنے کا کہا اور گاڑی سے اتر کر باہر نکلی
"کیا ہوا ہے انہیں" اسنے آئرہ کے قریب جاکر کہا جو مبشرہ بیگم کا سر اپنی گود میں رکھے مدد کے لیے چلا رہی تھی
"مجھے نہیں پتہ یہ اک دم سے گر کر بےہوش ہوگئیں" اس نے روتے ہوے دوبارہ انکا گال تھپتھپایا
"پلیز آپ میری ہیلپ کیجیئے انہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہے"
"آپ کا گھر کہاں ہے"
"وہ والا میرا گھر ہے" آئرہ نے کچھ فاصلے پر موجود گھر کی طرف اشارہ کیا
"ہم باہر جارہے تھے اور پھر اچانک یہ بےہوش ہوگئیں"
"میں ڈاکٹر ہوں آپ انہیں گھر میں کے کر چلیے میں انہیں چیک کرتی ہوں"ڈرائیور کی مدد سے وہ دونوں مبشرہ بیگم کو گھر میں لے کر آئیں ویسے تو سب ٹھیک ہی لگ رہا تھا بی پی کی مشین سے اسنے انکا بی پی چیک کیا وہ ہلکا سا لو تھا لیکن اتنے ہلکے بی پی لو میں انکی حالت ایسی نہیں ہونی چاہیے تھی اسنے انکی شوگر چیک کی جو کافی زیادہ لو تھی
انہیں ٹریٹمنٹ اور آئرہ کو چند ہدایتیں دے کر وہ وہاں سے باہر نکل گئی جب آئرہ بھاگتی ہوئی اسکے پیچھے آئی
"ایکسکیوز می" آئرہ بھاگتی ہوئی اسکے پاس آئی جس پر پریشے نے مڑ کر اسے دیکھا
"جی"
"مجھے آپ کا شکریہ ادا کرنا تھا تھینک یو فار ایوری تھنگ"
"کوئی بات نہیں یہ تو میرا کام ہے"
"اچھا ویسے آپ کا نام کیا ہے"
"پریشے"
"بہت پیارا نام ہے"
"آپ کا نام"
"آئرہ"
"نائس نیم یہ میرا نمبر ہے کبھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے ضرور یاد کیجیے گا" الوداعی کلمات ادا کرکے وہ وہاں سے چلی گئی اور یہیں سے پریشے ظفر شاہ کو ایک نئی دوست ملی تھی
°°°°°
اپنے ایک ہاتھ میں بیگ لیے وہ جارہی تھی رمشہ کا گھر قریب ہی تھا اور ابھی کے لیے تو اسے وہیں جانا تھا
وہ چلتی ہوئی جارہی تھی جب بلیو کلر کی بی-ایم-ڈبلیو اسکے سامنے آکر رکی اسنے اپنے چلتے قدم جھٹکے سے روک لیے
گاڑی سے ڈارک بلیو پینٹ کوٹ میں ملبوس شخص باہر نکلا اپنی آنکھوں پر اسنے لائٹ بلیو کلر کے سن گلاسیس لگاے ہوے تھے
"گاری میں بیٹھو"
"نہیں بیٹھونگی"
"پری مجھے زبردستی کرنے پر مجبور مت کرو شرافت سے گاڑی میں بیٹھ جاؤ" اسکے سخت لہجے میں کہنے پر وہ گاڑی میں بیٹھ گئی وہ یہاں سڑک پر کوئی تماشہ نہیں چاہتی تھی
"کہاں جارہی تھیں" اسنے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوے کہا
"گھر سے بھاگ رہی تھی"
"کس لیے"
"کیونکہ میرے گھر میں میری شادی کی ڈیٹ رکھی جاچکی ہے اور میں یہ شادی نہیں کرسکتی کیونکہ میں پہلے ہی کسی کے نکاح میں ہوں اور میں یہ بات کسی سے کہہ بھی نہیں سکتی تھی کوئی میری سن ہی نہیں رہا ہے اور جس کے ساتھ میرا نکاح ہوا ہے وہ اتنے دنوں سے غائب تھا اور مجھے اسکے نام کے علاؤہ کچھ بھی نہیں پتہ ہے"
"میں تمہیں تمہارے گھر لے کر چلتا ہوں اور پھر میں ان سب سے بات کروں گا اور میں غائب نہیں ہوا تھا بس کچھ زیادہ ہی مصروف ہوگیا تھا"
"میں اس وقت صرف اکیلی رہنا چاہتی ہوں جانتی ہوں کہ جب میرے نکاح کی خبر گھر میں ہوگی تو تماشہ لگے گا اور میں اس وقت کوئی تماشہ نہیں چاہتی میں صرف تنہائی چاہتی ہوں"اسکے کہنے پر معتصم نے بنا کچھ کہے گاڑی دوسری جانب موڑ کی
وہ اجنبی راستوں پر گاڑی لے کر جارہا تھا وہ کہاں جارہا تھا اسے نہیں پتہ تھا اور اسے جاننا بھی نہیں تھا اسنے گاڑی ایک چھوٹے لیکن خوبصورت گھر کے آگے روکی
"چلو اترو"
"یہ کس کا گھر ہے"
"یہ میرا گھر ہے"
"مجھے یہاں نہیں رہنا ہے"
"مجھے نہیں پتہ تم کہاں جارہی تھیں لیکن اگر اپنے گھر سے دور جارہی تھیں تو یقیناً کسی اور کے گھر میں ہی جارہی ہوگی لیکن میں یہ نہیں چاہتا یہ میرا گھر ہے اور تمہارا بھی اور تم جب تک اپنے گھر واپس نہیں جاؤگی تب تک تم یہیں رہو گی"
اسے زبردستی گاڑی سے نکال کر وہ اندر لے کر آیا اور گارڈ کو باہر رکنے کا اشارہ کیا جو اسکے ساتھ ہی اسکی گاڑی کے پیچھے ایک الگ گاڑی میں موجود تھے
"میں ہر ہفتے یہاں کی صفائی کرواتا ہوں"
یہ بات اسے کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ صاف ستھرا گھر اس بات کی گواہی دے رہا تھا
"تمہں پسند آیا"اسنے ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالا
"تم سے جڑی کوئی چیز مجھے نہیں پسند"
"ویسے تم بھی اب مجھ سے ہی جڑ چکی ہو"جھٹکے سے اسنے اسے اپنی جانب کھینچا اور بنا اسے کچھ سمجھنے کا موقع دیے اسکے لبوں پر جھک گیا
وہ مدہوش سا اسکے لبوں پر جھکا ہوا تھا جب پریشے نے اسے دھکا دیا جس سے وہ اس سے چند قدم کے فاصلے پر ہوگیا وہ لڑکھڑایا تھا لیکن گرا نہیں تھا
"یہ کیا حرکت ہے پری"
"یہ بات مجھ سے مت پوچھو کہ یہ کیا حرکت ہے تم ںے اپنی حرکتیں دیکھی ہیں"
"کیا ہیں میری حرکتیں نکاح میں ہو تم میرے"
"ہاں اسی لیے تو تم نے مجھ سے نکاح کیا ہے شاہ انڈسٹری کا مالک معتصم شاہ بھلا مجھ سے شادی کیوں کرے گا ایک پل میں محبت ہوگئی اس لیے نہیں مانتی میں اس سب کو میں جانتی ہوں تم نے مجھ سے اسلیے نکاح کیا ہے تاکہ نکاح کی آڑ میں تم اپنی حوس پوری کرسکو" اسکے لفظ سن کر اسکا ہاتھ اٹھا تھا لیکن وہ ہوا میں ہی رک چکا تھا اسنے اپنے ہاتھ کو مٹھی بنا کر زور سے بھینچا
اور تیز تیز قدم اٹھاتا گھر سے نکل گیا
"کوئی میرے پیچھے نہیں آے گا" گارڑذ جو اسکے پیچھے آنے والے تھے اسکی تیز آواز پر وہیں رک گئے
وہ اپنی گاڑی لے کر تیزی سے وہاں سے چلا گیا اور اسکے جانے کے بعد گارڈز بھی اسکے پیچھے گئے کیونکہ اگر اسکے سامنے ہی اسکے پیچھے جاتے تو معتصم شاہ نے نہیں چھوڑنا تھا لیکن یہ جمال شاہ کا حکم تھا اس وجہ سے وہ اسے اکیلا بھی نہیں چھوڑ سکتے تھے
وہ تیزی سے اپنی گاڑی چلارہا تھا سپیڈ تیز سے تیز ہوتی جارہی تھی
جب اچانک سامنے سے ایک ٹرالر آیا اسںنے تیزی سے گاڑی کا رخ موڑا اور گاڑی الٹی ہوتی ہوئی دوسری طرف جاگری
گارڑذ جو اسکے پیچھے ہی تھے تیزی سے بھاگتے ہوے اسکے پاس آے اور اسے گاڑی سے باہر نکالا وہ بہت زیادہ زخمی ہوچکا تھا ان لوگوں نے فورا ایمبولینس بلائی اور جمال شاہ کو فون کرکے اسکی حالت بتائی جسے سن کر حویلی کے سارے فرد وہاں ہر آگئے جہاں انہیں یہ خبر ملی کہ وہ کوما میں جاچکا ہے
°°°°°
معتصم جو گیا تھا تو کتنے دنوں تک واپس نہیں آیا تھا وہ اس سے نفرت کرتی تھی لیکن اس اکیلے گھر میں اسے ڈر لگ رہا تھا اسے اپنی کہی باتوں کا پچھتاوا ہورہا تھا لیکن اب تو کہہ دیا تھا
اسنے گھر کے قریب ہی موجود ہاسپٹل میں جوب شروع کردی تھی وہ جانتی تھی کہ کبھی نہ کبھی تو گھر کا کوئی فرد اسے ڈھونڈ لے گا اور ایسا ہی ہوا وصی اسے دیکھ چکا تھا جہاں اب پتہ نہیں کتنے سوال کے جواب اسے دینے تھے
وہ سب کو کیا بتاتی کہ وہ کسی کے نکاح میں ہے اور جس کے نکاح میں ہے وہ چار ماہ سے اس سے ملا ہی نہیں ہے پتہ نہیں وہ کہاں تھا کہیں وہ اسے بھول نہ گیا ہو اسے یہ پرواہ ہرگز نہ تھی کہ معتصم نے اسے یاد رکھا تھا یا نہیں وہ بس یہ چاہتی تھی کہ وہ اسے اس نام نہاد رشتے سے آزاد کر دے
لیکن یہ سب سوچتے ہوے وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ شخص جو اس کے عشق میں ڈوب چکا ہے وہ اس وقت کومے میں تھا جسے ہوش پری کے اپنے گھر جانے سے پانچ دن پہلے آیا تھا اور اپنی حالت میں بہتری دیکھتے ہی وہ اپنی امانت لینے چلا آیا
"تو تم نے میری بیٹی کی زندگی برباد کی ہے"ظفر صاحب غصے سے اپنی جگہ سے اٹھے
"ظفر صاحب ایسے مت بات کیجیے تھوڑی تو میری عزت کیجیے داماد ہوں آپ کا"
"بند کرو اپنی یہ بکواس نہیں مانتا میں اس سب کو ابھی کے ابھی میری بیٹی کو طلاق"
"یہ بات تو کبھی سوچیے گا بھی مت کہ میں آپ کی بیٹی کو چھوڑوں گا"
"یہ فیصلہ پری کا ہوگا تم کون ہوتے ہو یہ بات کہنے والے" وصی بھی غصے سے انکے قریب آکر کہنے لگا جس پر معتصم نے بھنویں اچکا کر اسے دیکھا
اسکے تاثرات دیکھ کر اسے یہ جاننے میں دیر نہیں لگی تھی کہ سامنے کھڑا شخص وہی ہے جس نے اسکی ملکیت کو اپنا بنانا چاہا تھا
"جانتا ہوں تمہیں بہن کی پرواہ ہورہی ہوگی لیکن جب دو بندے بات کررہے ہیں تو بہتر ہے کہ تم اپنی چونچ بند رکھو"
"وہ کچھ غلط نہیں کہہ رہا ہے میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی میں پہلے ہی یہ بات سب کو بتا دینا چاہتی تھی لیکن ڈرتی تھی کوئی مجھے غلط نہ سمجھے اسلیے میں خاموش رہی تھی لیکن اب میں خاموش نہیں رہوں گی" پریشے نے چیختے ہوے کہا جسے سن کر مظفر شاہ بھی اسکے پاس آگئے
"سن لیا کیا چاہتی ہے ہماری بچی اب بہتر ہے اس معاملے کو یہیں ختم کر دو"
"بھول ہے آپ کی کہ میں اسے خود سے دور کر دوں گا بہتر ہوگا کہ اس نکاح کو قبول کرلیں ورنہ اگر آپ لوگ نہیں بھی مانتے تو بھی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ میرے نکاح میں ہے اور میں اسے زبردستی بھی اپنے ساتھ لے جاسکتا ہوں"
"بند کرو اس تماشے کو" اماں جان کی تیز آواز سنتے ہی ماحول میں سناٹا چھا چکا تھا وہ چلتی ہوئی معتصم کے قریب آئیں
"دیکھو لڑکے یہ معاملے ایسے نہیں ہوتے اگر واقعی میں ہماری بچی کو بیاہنا چاہتے ہو تو اسی طرح اپنے بڑوں کو رشتے کے لیے بھیجو جو طریقہ ہوتا ہے"
"اماں جان یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں" صائمہ بیگم نے انکے قریب آکر انہیں سمجھانا چاہا جب انہوں نے اپنا ہاتھ اٹھا کر انہیں مزید کچھ کہنے سے روک دیا
"میں کچھ غلط نہیں کہہ رہی نکاح وہ کرچکا ہے اسنے راستہ غلط اختیار کیا تھا لیکن نیت غلط نہیں تھی ویسے بھی میں نہیں چاہتی طلاق جیسا لفظ میری بچی کے اوپر لگے"صائمہ بیگم سے کہہ کر انہوں نے معتصم کی طرف دیکھا
"یقینا تم میری بات سمجھ گئے ہوگے"
"بہت اچھے سے سمجھ گیا آپ فکر مت کیجیے میں اپنے بڑوں کو لاؤں گا اور آپ کی پوتی کو ویسے ہی لے کر جاؤں گا جیسے ہر لڑکی اپنے گھر سے رخصت ہوتی ہے"
"اماں جان آپ ایسا کیسے کرسکتی ہیں" اماں جان کا مان جانا یعنی اس رشتے کو قبول کرنا تھا لیکن وہ ایسا نہیں چاہتا تھا اسلیے اسنے پھر سے کچھ کہنا چاہا جس پر معتصم نے گھور کر اسے دیکھا لیکن وصی کو اسکے گھورنے سے کوئی فرق نہیں پڑا
"آپ ایسا نہیں کرسکتی ہیں اسکی وجہ سے پری نے کتنا کچھ سہا ہے آپ بھلا کیسے اسے ہاں کہہ سکتی ہیں اور اگر یہ اتنا ہی سچا ہے تو پوچھیے اس سے اتنے وقت سے یہ کہاں تھا"
"میں کوما میں تھا چند دن پہلے ہی وہاں سے آیا ہوں تم بھی وہاں جانا بہت مزہ آتا ہے"وہ اسے اپنے کوما میں جانے کی بات ایسے بتا رہا تھا جیسے وہ بات ورلڈ ٹوئر گھومنے کی ہو
جبکہ اسکے یہ بات کہتے ہی پریشے نے اپنا جھکا سر اٹھا کر اسے دیکھا وہ تو سمجھتی تھی کہ وہ اسے بھول گیا ہوگا اسکی باتیں سن کر اس سے نفرت کررہا ہوگا لیکن ایسا نہیں تھا بلکہ وہ تو اپنی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا
"تمہی کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے وصی میں ابھی زندہ ہوں اور اپنی بچی کے لیے میں بہتر فیصلہ کرسکتی ہوں" انہوں نے وصی کو دیکھتے ہوے سختی سے کہا اور معتصم کے سر پر ہاتھ پھیرا
اسکا قد لمبا تھا اسلیے انکے ایسا کرتے ہی اسنے اپنا سر تھوڑا جھکا لیا اور ایک آخری نظر اس دشمن جان پر ڈال کر وہاں سے چلا گیا
°°°°°
"چھوٹے سائیں آپ نے بلایا تھا" دانش نے ادب سے نظریں جھکا کر کہا جس پر اسنے اپنا سر ہلا دیا
"ہاں میں نے تمہیں ایک کام دیا تھا"
"جی ہو گیا چھوٹے سائیں یہ رہا انکا ایڈریس وہ اس وقت کراچی میں موجود ہیں" دانش نے ایک پرچہ عالم شاہ کی طرف بڑھاتے ہوے کہا جس پر ایڈریس لکھا ہوا تھا
"بہت خوب کیسے معلوم کیا"
"آپ نے کہا تھا کہ شاہ سائیں(عفان شاہ)کا خاص آدمی ہر روز انکے گھر کا چکر لگاتا ہے تاکہ انکی ہر خبر شاہ سائیں تک پہنچاتا رہے تو بس میں نے اسکا پیچھا کیا اور پتہ معلوم کرلیا" دانش نے دانت نکال کر اپنا کیا ہوا کارنامہ بتایا
"تو پھر دیر کس بات کی چلتے ہیں اپنی امانت لینے" کرسی پر رکھی شال اٹھا کر اسنے اپنے کندھوں پر ڈالی اور کمرے سے باہر نکل گیا
°°°°°
دھم دھم کرتی وہ سیڑھیاں اتر رہی تھی جب اچانک سامنے وہ آکر کھڑا ہوگیا
"اف عصیم لالا آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا" اسنے اپنا نازک ہاتھ دل پر رکھ کر سامنے کھڑے عصیم سے کہا جو فرصت سے اسے دیکھ رہا تھا
کندھوں پر مردانہ شال ڈلی ہوئی تھی جبکہ اسنے ڈارک براؤن کلر کا کمیز شلوار پہنا ہوا تھا اور گھنی مونچھوں کو ہمیشہ کی طرح تاؤ دیا ہوا تھا
"پیپر کیسا ہوا تمہارا"
"پیپر زبردست ہوا تھا ایسا لگ رہا تھا میں نے پہلی بار کوئی پیپر اچھا دیا ہے اور آپ کو ایک خاص بات بتاؤں سارے سوال وہی آے تھے جو آپ نے مجھے یاد کروانے تھے"
"بہت خوب چلو اب جلدی سے آجاؤ کل کے پیپر کی تیاری کرتے ہیں"اسکی بات سن کر اسکا خوشی سے ٹمٹماتا چہرہ بجھ چکا تھا
"نہیں نہیں اسکی کیا ضرورت ہے مجھے کل کا پیپر یاد ہے"
"یہ تو اور بھی اچھی بات ہے تمہاری تیاری میں اور آسانی ہوجاے گی چلو جلدی سے آؤ"
"اس سے اچھا تو یہ کہہ دیتی کہ اچھا نہیں ہوا" یہ بات اسنے دل میں ہی کہی تھی جب عصیم جو وہاں سے جارہا تھا اسنے رک کر کسوا کو دیکھا
"یہ ہرگز مت سوچنا کہ اگر تم یہ کہتی کہ تمہارا پیپر اچھا نہیں ہوا تو میں چھوڑ دیتا جب میں تمہارا ٹائم مزید بڑھا دیتا" وہ کہہ کر چلا گیا لیکن کسوا یہ سوچ کر پریشانی ہورہی تھی کہ اسے کیسے پتہ چلا کہ وہ کیا سوچ رہی تھی
وہ اور معتصم زیادہ تر شہر میں ہی رہتے تھے اور معتصم کی بیماری کی وجہ سے تو وہ بہت کم ہی گاؤں آتا تھا لیکن آج کل وہ یہیں موجود تھا صرف اسکی پڑھائی کی وجہ سے
"پانی کے بہانے سے آؤنگی اور چھپ جاؤنگی اور ایسی جگہ چھپوں گی کہ یہ مجھے ڈھونڈ ہی نہیں پائینگے"
"کسوا جلدی آؤ مجھے اور بھی کام ہیں" عصیم ی سخت پر وہ منہ بناتی ہوئی اپنے کمرے میں بیگ لینے چلی گئی اس وقت اسے ایک ایک مٹ ایک گھنٹے کے برابر لگ رہا تھا
°°°°°
"رک جاؤ آرہی ہوں"دو منٹ میں ہی باہر موجود شخص ناجانے کتنی بار دستک دے چکا تھا جسے سن کر مبشرہ بیگم نے تنگ آکر کہا اور اپنا دوپٹہ اوڑھتی ہوئی دروازے کی جانب بڑھ گئیں
جہاں دروازے کھولتے ہی انہیں ایک اجنبی چہرہ نظر آیا جس نے گرے کلر کے کمیز شلوار پر شال ڈالی ہوئی تھی چہرے پر گھنی داڑھی مونچھیں تھیں
"آپ کون "مبشرہ بیگم کے کہنے پر اسکے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی جس کی وجہ سے بائیں گال پر موجود گہرا ڈمپل دکھائی دیا
"مجھے پہچانا نہیں چاچی سائیں" کہتے ہوے وہ خود ہی گھر کے اندر داخل ہوگیا جبکہ ہاتھ کے اشارے سے گارڈز جو باہر رکنے کا اشارہ کیا
"تم ھو کون اور ایسے کیسے اندر آرہے ہو"
"لگتا ہے تعارف کروانا پڑے گا میں ہوں عالم شاہ عفان شاہ کا بھتیجا اور بہروز شاہ کا بیٹا" اسکے کہنے پر مبشرہ کا بیگم کا جیسے سانس رک چکا تھا
"ت-تم یہاں کیا کررہے ہو" انہوں نے اپنے لہجے لڑکڑاہٹ پر قابو پاتے ہوے کہا
"میں یہاں اپنی امانت لینے آیا ہوں اپنی منگ کو لینے آیا ہوں"
"کوئی امانت نہیں ہے تمہاری کوئی منگ نہیں ہے تمہاری یہاں ہر یہاں پر"انہوں نے غصے سے چلاتے ہوے کہا انکا لہجہ کپکپا رہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ڈر رہی ہوں
اور ہاں وہ ڈر رہی تھیں اسی دن سے اسی دن کا تو انہیں ڈر تھا وہ جانتی تھیں کہ کبھی نہ کبھی یہ دن ضرور آے گا
"کیا ہورہا ہے یہاں پر" نرم آواز پر جہاں عالم نے مڑ کر دیکھا وہیں مبشرہ بیگم کے جیسے اوسان خطا ہوچکے تھے
اسے عالم شاہ کے سامنے نہیں آنا تھا کیونکہ وہ جانتی تھیں اگر عالم کی نظر اس پر پڑی تو وہ اسے لیے بنا نہیں جاے گا وہ اپنی منگ کو اپنے ساتھ لے کر جاے گا اور عالم شاہ اسے نہ صرف دیکھ چکا تھا بلکہ کافی حیرت میں بھی تھا
"تم یہاں کیا کررہے ہو"اسکی نظر جیسے ہی عالم شاہ پر پڑی اسنے غصے سے کہا جو حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا
"یہ آپ کی بیٹی ہے" اسے جواب دینے کے بجاے اسنے مبشرہ بیگم سے پوچھا
"ہاں میں ہی انکی بیٹی ہوں اور تم میرے گھر میں کیا کررہے ہو" انکے کچھ کہنے سے پہلے ہی آئرہ نے سختی سے اسکے قریب آکر کہا
"ٹیھڑھی ہے لیکن مجھے بھی سیدھا کرنا آتا ہے" اسنے خود سے بڑبڑاتے ہوے کہا
"کیا کہہ رہے ہو تیز آواز میں بات کرو"
"لڑکی تمیز سے بات کرو اور آپ" اسے گھور کر اسنے مبشرہ بیگم کو دیکھا
"آپ جاکر گاڑی میں بیٹھ جائیں اور تم بھی"
"ہم کہیں نہیں جارہے" اس سے پہلے آئرہ کچھ کہتی مبشرہ بیگم نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پیچھے کرلیا جیسے اسے عالم شاہ سے چھپانا چاہ رہی ہوں
"میں کسی ایک کو بھی زبردستی لے جاؤنگا تو دوسرا خود ہی آجاے گا لیکن میں زبردستی کا قائل نہیں ہوں تو بہتر ہوگا کہ آپ لوگ میری بات مان لیں"
"تم ہو کون اور کیا بک بک کیے جارہے ہو میری بات تمہیں سمجھ نہیں آرہی ہے نکلو ابھی میرے گھر سے" مبشرہ بیگم کے پیچھے سے نکل کر اسنے دروازے کی طرف اشارہ کیا
"تم میرے لیے ابھی غیر ہو میں تمہیں چھونا نہیں چاہتا تھا لیکن لگ رہا ہے آسانی سے تم مانو گی بھی نہیں" اپنی بات کہہ کر اسنے جھٹکے سے آئرہ کی نازک کلائی اپنے مظبوط ہاتھ میں لی اور اسے لے کر باہر کی طرف جانے لگا اسے اس طرح کرتے دیکھ کر مبشرہ بیگم بھی گھبرا کر انکے پیچھے بھاگیں
"عالم شاہ چھوڑ دو اسے"
"چھوڑو میرا ہاتھ جاہل انسان" وہ اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کررہی تھی لیکن یہ اسکے بس کی بات نہیں تھ
گاڑی کا دروازے کھول کر عالم نے اسے زبردستی بٹھایا اور اپنے برابر کھڑی مبشرہ بیگم کو دیکھا
"عالم شاہ مت کرو ایسا ہم نے کیا بگاڑا ہے تمہارا چھوڑ دو میری بیٹی کو "انہوں نے نم آنکھوں سے اپنی بیٹی کو دیکھا جو گاڑی سے نکلنا چاہ رہی تھی لیکن گاڑی کے چاروں طرف اب اسکے گارڑز کھڑے ہوچکے تھے جو اسے باہر بھی نہیں نکلنے دے رہے تھے
"بہتر ہوگا کہ آپ گاڑی میں بیٹھ جائیں کیونکہ اسے لیے بنا تو میں یہاں سے جاؤں گا" اسنے سخت لہجے میں اپنی بات کہی جسے سن کر انہوں نے اپنی آنکھیں ضبط سے میچ کیں اور پھر خود بھی اسکی گاڑی میں بیٹھ گئیں کیونکہ اپنی بیٹی کو وہ وہاں اکیلے نہیں جانے دے سکتیں تھیں
°°°°°
عفان شاہ گھر کے سب سے چھوٹے اور لاڈلے بیٹے تھے اسی وجہ سے انکی ہر خواہش کو پورا کیا جاتا تھا
اور اسی وجہ سے انکے شہر جاکر پڑھنے کی خواہش بھی پوری کردی تھی جبکہ انکے باقی تین بھائی نے اپنی پڑھائی گاؤں میں ہی کی تھی جہاں اس وقت دسویں تک کی سہولت موجود تھی جبکہ اب اس وقت وہاں پر بی اے اور بی اے سی بھی ہوتا تھا
وہ لاہور کی ایک بڑی یونیورسٹی میں پڑھنے گئے تھے جہاں انکی ملاقات اپنی کلاس فیلو مبشرہ سے ہوئی اور انہوں نے دوستی کا پہلا قدم اٹھایا
جس کہ بعد پسندیدگی اور پھر محبت درمیان میں آگئی جسے جلد ہی دونوں نے اپنے گھر والوں کو بتا دیا
اور بغیر کسی بحث کے دونوں طرف رشتے کی بات شروع ہوگئی جہاں عفان شاہ گھر کے لاڈلے تھے اور انکی ہر بات مانی جاتی تھی اسی طرح مبشرہ بھی اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی جو بہت نازوں میں پلی بڑھی تھی
"ایک بار پھر سوچ لو مبشرہ تمہیں شادی کے بعد اسی حویلی میں سب کے ساتھ رہنا ہوگا اور تم اس سب کی عادی نہیں ہو جذبات میں آکر کوئی قدم مت اٹھاؤ ابھی بھی وقت ہے تم انکار کرسکتی ہو"عفان شاہ نے فون کی دوسری طرف موجود مبشرہ سے کہا
"تم میرے ساتھ ہو تو سب ٹھیک ہے بس تم ہر حال میں میرا ساتھ دینا اگر کہیں غلط ہوں تو غصہ مت کرنا بس پیار سے سمجھا دینا
تمہں یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں ہے میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا"
اور پھر رخصت ہوکر مبشرہ اپنے شہر کو چھوڑ کر گاؤں میں آگئی
°°°°°
اسنے جیسی زندگی سوچی تھی ایسا کچھ نہیں تھا اسے لگتا تھا یہاں کہ لوگ تنگ زہہن کے ہوں گے اسے شاید ہر بات پر روکا ٹوکا جاے گا اور گاؤں کا ماحول شہر سے بہت الگ ہوگا
لیکن اسکی سوچ غلط تھی ہاں یہاں کا ماحول شہر سے مختلف تھا سوتے جلدی تھے اور اٹھتے بھی جلدی تھے وہ سب فجر کے وقت ہی اٹھ جاتے تھے
ناشتے اور کھانے میں اسے ہر چیز گھی اور تیل میں بھری ہوئی ملتی تھیں جو کہ بہت مزے کی ہوتی تھیں وہ اپنے گھر اس طرح کی چیزیں نہیں کھاتیں تھی اور کوئی بناتا بھی نہیں تھا کیونکہ وہاں اسکے ساتھ ساتھ اسکے والدین بھی ہلکی پھلکی غزائیں ہی کھاتے تھے
ہر روز وہ عفان کے ساتھ گھر میں بنے جم میں جاتی اور پھر گھر میں بنائی گئی وہ مزے دار ڈشز کھاتی جسے بنانا وہ خود بھی سیکھ رہی تھی کیونکہ اسے پتہ تھا عفان کو ایسے کھانے بہت پسند ہیں
اسکی ساس نہیں تھی لیکن بڑی تینوں جیٹھانی اسکے لیے ساس جیسی ہی تھیں جو اسکا بہت خیال رکھتی تھیں
گھر کے ساری بچے جن میں سب سے بڑا معتصم شاہ اس سے دو ماہ چھوٹا عالم شاہ اور اس سے دس ماہ چھوٹا عصیم شاہ ہر وقت اسکے پاس ہوتے تھے
انہیں اپنی چچی بہت پسند تھیں جو انہیں روزانہ انگلش سکھاتی تھی کبھی عالم اسے مل جاتا تو اسے بھی بٹھا لیتی ورنہ اس وقت وہ گھر کے کسی کونے میں چھپا بیٹھا ہوتا تاکہ اسے انگلش نہ سیکھنی پڑے
پورے گھر میں دادا سائیں عفان شاہ اور وہ ہی سب سے زیادہ پڑھے لکھے تھے اسکے تینوں جیٹھ نے میٹرک تک پڑھا تھا اور جیٹھانیوں نے پانچویں یا چھٹی تک
جب ان سب کو اسکے امید سے ہونے کی خبر ہوئی تو جیسے پوری حویلی میں شور مچ چکا تھا ہر طرف مٹھائی باٹی جارہی تھی صدقہ دیا جارہا تھا اور یہاں جو اسکی یہ سوچ تھی کہ گھر والے باقی تین لڑکوں کی طرح اس سے بھی بیٹے کی فرمائش کرینگے یہاں بھی وہ غلط ہوگئی
"بھئ الحمدللہ لڑکے تو ہیں اب تو ہمیں ننھی گڑیا چاہیے کیوں ثمرین میں ٹیھک کہہ رہی ہوں نہ" اسکی سب سے بڑی جٹھانی صدف نے اپنے سے چھوٹی ثمرین کو دیکھتے ہوے کہا جس نے بھی انکی بات پر زور و شور سے اپنا سر ہلا دیا اور شاید یہ انکا قبولیت کا وقت تھا جو واقعی خدا نے انکے گھر ایک ننھی پری بھیج دی تھی
خوشیوں کی مہلت چند دن کی ہوتی ہے ایسا اسے لگ رہا تھا اسکے انداز میں عجیب سا چڑچڑاپن آچکا تھا وہ اب کسی سے بات نہیں کرتی تھی
"مبشرہ اگر کچھ ہوا ہے تو مجھے بتاؤ کیوں اتنے غصے میں ہو بھابھی بتا رہی تھیں تم نے آج کھانا بھی نہیں کھایا"عفان شاہ جو ابھی زمینوں سے لوٹے تھے اسے غصے میں دیکھ کر پیار سے پوچھنے لگے
"یہ دیکھ رہے ہو" انہوں نے اپنی دس ماہ کی بیٹی آئرہ کا چھوٹا سا ہاتھ اٹھا کر انہیں دکھایا
وہ اس وقت نیند میں تھی اور اس کے ہاتھ کی چھوٹی سی انگلی میں چھوٹی سی سونے کی انگھوٹھی تھی
"یہ کیا ہے"
"یہ انگھوٹھی ہے"
"مبشرہ مجھے بھی دکھ رہا ہے یہ انگھوٹھی ہے لیکن تم مجھے کیوں دکھا رہی ہو"
"کیونکہ یہ انگھوٹھی تمہارے باپ نے اسے پہنائی ہے یہ کہہ کر کہ یہ اب عالم کی ہوئی انکا کہنا ہے کہ انکے یہاں رشتے بچپن میں ہی طے ہوجاتے ہیں اور تمہارا بھی طے تھا لیکن میری وجہ سے انہیں تمہارے بچپن کے رشتے کو انکار کرنا پڑا"
"مبشرہ وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں میری منگنی بلکہ ہم سب بھائیوں کی منگنی بچپن میں ہی ہوچکی تھی ان تینوں نے شادی کرلی لیکن میں نہیں کرسکا ایک میں اسے کبھی پسند نہیں کرتا تھا اور نہ وہ مجھے اور دوسرا میری زندگی میں تم آگیئں تھیں" لہجہ اب بھی نرم تھا
"لیکن میں آئرہ کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہتی عفان میں نہیں چاہتی یہ اس قید میں بندھ جاے میں نہیں چاہتی کہ جس ماحول میں میں رہ رہی ہوں یہ بھی اسی ماحول میں رہے" انکے کہنے پر عفان شاہ کے ماتھے پر بل پڑے
"کہنا کیا چاہتی ہو میں نے تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ جو فیصلہ کرو سوچ سمجھ کر کرنا اور اب تم کہہ رہی ہو کہ جس ماحول میں تم رہ رہی ہو اس میں یہ نہ رہے"
"عفان تمہارے بابا سائیں دو دن بعد اسکا اور عالم کا نکاح کروارہے ہیں اور میں ایسا نہیں چاہتی پلیز مجھے یہاں سے کے چلو میں یہاں نہیں رہ سکتی" انہوں نے عفان شاہ کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ رکھتے ہوے کہا جسے انہوں نے چھڑوالیا
"عفان پلیز میں نہیں رہ سکتی یہاں میرا دم گھٹتا ہے یہاں پر"
"میں تمہیں یہاں سے دور لے جاؤنگا لیکن خود یہاں سے کہیں نہیں جاؤنگا"
"تم یہیں رہو میں تمہیں تمہارے گھر والوں سے جدا نہیں کررہی بس مجھے اور میری بیٹی کو کہیں اور چھوڑ آؤ"
"آئرہ کہیں نہیں جاے گی"
"آئرہ میرے ساتھ جاے گی عفان ہم سے دور ہوجانے سے تم سے ہمارا رشتہ تو ختم نہیں ہوجاے گا نہ تم اسکے باپ ہو اور یہ تمہاری ہی بیٹی رہے گی لیکن میں اسے یہاں ہر نہیں چھوڑ سکتی"
"تم اسے سب سے دور لے کر جس وجہ سے جارہی ہو نہ اسکا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ بابا سائیں فیصلہ کر چکے ہیں آج نہیں تو کل وہ اسے عالم کے ہی نام کرینگے"
"میں کل کا کچھ نہیں جانتی بس تم ہمیں یہاں سے لے جاؤ" وہ رو رہی تھیں انداز منت بھرا تھا
°°°°°
"تم یہیں رہو گی یہاں سے کہیں مت نکلنا میں تم سے جب بھی وقت ملا ملنے کے لیے آونگا" ایک گھر کے سامنے گاڑی روک کر انہوں نے مبشرہ بیگم سے کہا
"عفان گھر میں کسی کو مت بتانا میں کہاں ہوں" انکی بات ہر انہوں نے فقط اپنا سر ہولے سے ہلادیا اور انکی گود میں موجود آئرہ کو اپنی گود میں لے کر پیار کرنے لگے پتہ تھا کہ مبشرہ یہ سب باتیں صرف ابھی کے لیے کررہی ہے بھلا وہ کیسے اس سے دور رہ سکتی تھی
وہ اپنے باپ سے کہہ دے گا کہ آئرہ کا کوئی نکاح نہیں ہوگا اور پھر سب سیٹ ہوتے ہی مبشرہ واپس حویلی آجاے گی
لیکن ایسا نہیں ہوا یہ بات پتہ چلتے ہی اسکا باپ ایک تماشہ کھڑا کر چکا تھا وہ اپنی بات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھا اگر مبشرہ یہاں پر موجود ہوتی تو شاید یہ بات اتنی نہ بگڑتی لیکن اسکے گھر چھوڑنے کی وجہ سے اب یہ انکی ضد بن چکی تھی کہ آئرہ شاہ انکے عالم شاد کی ہی ہوگی
انہوں نے ہر طرف اپنے آدمیوں کو لگا دیا تھا اور عفان شاہ جانتے تھے کہ وہ اسے ڈھونڈ بھی لینگے اسلیے انہیں ٹھنڈا کرنے کے لیے انہوں نے یہ کہہ دیا کہ اسکے اکیس سال کا ہوتے ہی وہ خود اسے لے آئینگے اور وہ عالم شاہ کی ہی ہوگی
وہ ہر ہفتے اپنی بیٹی اور بیوی سے ملنے جاتے تھے لیکن حویلی میں کسی کو اس بات کی خبر نہیں تھی
اسے یہی لگا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ سب اس بات جثو بھوک جائینگے مبشرہ واپس اپنے گھر آجاے گی لیکن ایسا نہیں ہوا تھا نہ وہ اس ڈر سے واپس آئی تھی کہ اسکی بیٹی کو زبردستی کسی رشتے میں باندھ دیا جاے گا اور نہ ہی دادا سائیں اپنی بات سے پیچھے ہٹے تھے
ماضی کی یاد سے انہیں دروازے پر ہوتی دستک نے نکالا
"آجاؤ"اپنے آنکھ کے بھیگے کنارے کو صاف کرکے انہوں نے اسے اندر آنے کے لیے کہا جہاں سے ملازم نے تھوڑا سا دروازہ کھول کر انہیں دیکھا
"آپ کو شاہ سائیں بلارہے ہیں" اسکی بات سن کر انہوں نے اپنا سر ہلایا
"تم جاؤ میں آتا ہوں"
انکے ایسا کہتے ہی وہ وہاں سے چلا گیا
°°°°°
"جی بابا سائیں بلایا آپ نے"
"ہاں عفان تم سے کوئی ملنے آنے والا" دادا سائیں کی مسکراہٹ دیکھ کر انہوں نے اچھنبے سے انہیں دیکھا وہ پوچھنا چاہتے تھے کون لیکن پوچھنے کی ضرورت نہ پڑی
"چھوڑو مجھے"عالم نے اسکا ہاتھ مظبوطی سے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا جسے چھڑوانے کے لیے وہ اسکے مظبوط ہاتھ پر مکے برسا رہی تھی لیکن سامنے والا بنا کوئی تاثر دیے اسے کھینچتا ہوا اندر لے گیا
"لیجیے دادا سائیں آپکی پوتی اور بہو "اسنے فاتحانہ مسکراہٹ سے کہا
"مجھے پتہ تھا میرا شیر دو دن کہہ کر گیا ہے تو دو دن میں ہی لے آے گا" دادا سائیں نے اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکا کندھا تھپتھپایا اور مڑ کر اپنی پوتی اور بہو کو دیکھا
جہاں ڈوپٹہ سر پر اوڑھے مبشرہ بیگم سہمی ہوئی نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھیں وہیں بلیو جینز گرین کرتی اور کلرفل مفلر ڈالے آئرہ انہیں گھور رہی تھی
"بابا سائیں کیا ہے یہ سب"
"عفان شاہ یہ وہ سب ہے جو تمہیں کرنا چاہیے تھا لیکن عالم شاہ نے کیا ہے"عالم شاہ کا نام لیتے ہی انکے لہجے میں فخر محسوس ہورہا تھا
انہوں نے آگے بڑھ کر آئرہ کے سر پر اپنا ہاتھ رکھنا چاہا لیکن وہ پیچھے ہو کر اپنے باپ کے پاس چلی گئی اسکی اس حرکت پر عالم غصے سے اسکی طرف بڑھا جس پر دادا سائیں نے اسے روک کر اپنا سر نفی میں ہلادیا مطلب اسے کچھ نہیں کرنا تھا جس پر وہ ضبط سے مٹھیاں بھینچ کر وہاں سے چلا گیا
"آپ دونوں میرے کمرے میں جاؤ ہم بعد میں بات کرینگے" انہوں نے نرمی سے آئرہ کے ماتھے پر لب رکھ کر پیار سے کہا جس پر اسنے اپنا سر ہلا دیا
"مبشرہ جاؤ کمرے میں" اب کی بار انہوں نے اپنی بیوی سے کہا جو انکی بات سنتے ہی آئرہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگیں
°°°°°
"کیا ہوا میری گڑیا یہاں کیوں بیٹھی ہے"اسنے سیڑھیوں پر بیٹھی کسوا سے کہا اور خود بھی اسکے ساتھ ہی بیٹھ گیا
اپنے ہاتھ میں چپس کا پیکٹ پکڑے وہ ادھر ادھر نظریں دوڑا رہی تھی جیسے یا تو کسی کو ڈھونڈ رہی ہو یا پھر کسی سے چھپ رہی ہو
"میں چھپ رہی ہوں"
"اور کس سے چھپ رہی ہو"
"آپ کے دوست سے قسم سے عصیم لالا نے میرا دماغ خراب کردیا ہے میں یہاں پر بیٹھی ہوں جیسے ہی وہ مجھے دیکھینگے میں یہاں سے بھاگ جاؤں گی"
"میری بیچاری بہن کتنا ظلم ہورہا ہے اس نازک جان پر" اسنے کسوا کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوے کہا جبکہ کسی کی ہمدردی پاکر اس مظلوم نے معصومیت سے اپنا سر ہلاکر اسکے کندھے پر رکھا اور چپس کا پیکٹ اسکے سامنے کردیا جس میں سے اسنے بھی دو تین لے لیں
"قسم سے لالا پتہ نہیں وہ کوسنے گھر والے ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کیا کرنا ہے لڑکی کو اتنا پڑھ لکھ کر کرنی تو اسنے گھر داری ہے"
"بس میرا بچہ کیا کرسکتے ہیں یہ دنیا ہے ہی ایسی ظالم میں نے تمہارے لیے کتنی آواز اٹھائی کہ اسے نہیں پڑھنا تو مت پڑھاؤ لیکن کسی نے میری نہیں سنی"
"واہ کمال ہے ویسے" معتصم کے آتے ہی کسوا نے گھبرا کر دل پر ہاتھ رکھا
"اف لالا آپ نے تو ڈرا ہی دیا تھا میں سمجھی عصیم لالا ہیں"
"کتنی کمال کی بات کی ہے نہ تم عالم بجاے اس کے اسے سہی راستہ بتاؤ اپنی لائن پر لگا رہے ہو"
"میری کیا غلطی ہے جب وہ پڑھنا نہیں چاہتی ہے تو کیوں اسکے ساتھ تم سب زبردستی کررہے ہو"
"تم سے تو میں بعد میں بات کرتا ہوں عالم پہلے بتاؤ دادا سائیں کہاں ہیں"
"وہ تو شاید لاونج میں ہیں" جواب کسوا نے دیا تھا جس پر معتصم نے گھور کر اسے دیکھا
"کتنے مزے سے یہاں بیٹھی تم چپس کھارہی ہو اور وہاں عصیم تمہیں ہر جگہ ڈھونڈ رہا ہے"
"ہاں وہ مجھے ڈھونڈ رہے ہیں میں جانتی ہوں بلکل ویسے ہی جیسے دادا سائیں آپ کو صبح سے ڈھونڈ رہے تھے کتنا غصہ کررہے تھے وہ کہ ابھی آپکی طبیعت ٹھیک نہیں ہوئی ہے اور آپ باہر چلے گئے وہ بھی بنا بتانے"
"میں ان سے خود بات کروں گا فلحال تم اپنا سوچو ، عصیم"اسنے مسکرا کر اس سے کہا اور عصیم کو پکارا جبکہ اسکے پکارنے پر کسوا نے وہاں سے بھاگنا چاہا لیکن معتصم نے اسکی کلائی پکڑ لی
"لالا چھوڑ دیں جو آپ بولیں گے وہ کروں گی بس ابھی چھوڑ دیں" وہ جلد سے جلد یہاں سے بھاگنا چاہتی تھی لیکن معتصم کا اسے چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اسلیے دوبارہ عصیم کو پکارا
"عصیم"
"کیا ہو" وہ جو اسکی آواز سن کر وہاں پر آیا تھا کسوا کو دیکھ کر الفاظ رک گئے
"تم یہاں ہو اور میں تمہیں پوری حویلی میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں"
"پوری حویلی دیکھ لی بس یہ جگہ نہیں دیکھی پکڑو اپنا شاگرد" اسنے کسوا کی کلائی چھوڑی
"اب چلو بھی کیا یہیں رہنا ہے اور آج سزا کے طور پر تم مزید دو گھنٹے پڑھو گی"
"بس کردے وہ بےہوش ہوجاے گی" عالم نے اپنی بہن کی حالت دیکھتے ہوے کہا جسے دیکھ کر لگ رہا تھا کسی بھی پل رو دے گی
"تو منہ بند رکھ" عصیم کے کہنے پر وہ گہرا سانس کے کر اپنی جگہ سے اٹھ گیا
"معتصم لالا میں آپ سے کبھی بات نہیں کروں گی" غصے سے کہتی ہوئی وہ دھم دھم کرتی چلی گئی جس پر معتصم نے مسکرا کر اسکی پشت کو دیکھا وہ ناراض ہوگئی تھی لیکن اسے منانے کے لیے معتصم کو صرف دو چپس اور آئسکریم کی ضرورت تھی
"یہ سب کیا ہے بابا سائیں"ان دونوں کے وہاں سے جاتے ہی عفان شاہ نے دادا سائیں کی طرف دیکھتے ہوے کہا
"بلاوجہ بات کو مت بڑھاؤ عفان گھر کی بچی تھی اسے گھر میں ہی آنا تھا تم اپنی بات سے مکر گئے تھے تم بھول گئے وہ رشتہ جو ہم نے ان دونوں کے درمیان طے کیا تھا لیکن ہم نہیں بھولے"
"کون سا رشتہ بابا سائیں رشتے ایسے زبردستی نہیں بنتے میری بیٹی کبھی بھی یہ رشتہ بنانا نہیں چاہے گی اور میں اسکی مرضی کے بنا اس رشتے کو ہونے بھی نہیں دوں گا" وہ چلاتے ہوے کہہ رہے تھے اور انکا لہجہ دادا سائیں کو پسند نہیں آیا تھا اسلیے اپنی جگہ سے اٹھ کر انکے قریب آکر کھڑے ہوگئے
"بھولو مت عفان یہاں بات عالم شاہ کی ہے وہ تمہاری بیٹی کو اب جان سے مار دے گا یا ساری زندگی اسی گھر میں بٹھا کر رکھے گا لیکن اسے کسی اور کے ساتھ شادی نہیں کرنے دے گا کیونکہ وہ اب آئرہ شاہ کو اپنی عزت مان چکا ہے اور تم جانتے ہو عزت کے نام پر پہلے بھی قتل ہوچکا ہے" دادا سائیں کے بات مکمل کرتے ہی عفان شاہ اپنی جگہ جم چکے تھے
یہ سچ تھا کہ پہلے بھی ایک قتل ہوا تھا جو انکی اپنی ماں اور چاچا کا تھا
مزید وہاں رکے بنا وہ اپنے قدم تیز تیز اٹھاتے وہاں سے چلے گئے انکے جاتے ہی دادا سائیں نے سکون سے اپنی آنکھیں موندے لیں انہیں اندازہ تھا کہ اب عفان شاہ اس رشتے سے انکار نہیں کرے گا
انکی آنکھیں ہنوز بند تھیں جب اپنے پیچھے انہیں معتصم کی آواز سنائی دی انہوں نے مڑ کر اپنے خوبرو پوتے کو دیکھا
"کہاں تھے تم معتصم طبیعت تمہاری ٹھیک نہیں ہے اور تم گھر سے باہر نکل رہے ہو کہاں تھے صبح سے"
"دادا سائیں میری طبیعت بلکل ٹھیک ہے بس آپ سے کچھ بات کرنی ہے"
"کہو" دادا سائیں نے گہرا سانس لے کر کہا
جب وہاں پر ثمرین بیگم اور فارینہ بیگم آگئیں انہیں باتیں کرتے دیکھ کر وہ واپس جانے لگیں لیکن معتصم نے انہیں روک لیا
"رک جائیں چچی آپ دونوں بھی میری بات سن لیں" اسکے کہنے پر وہ دونوں بھی وہاں ہر آکر بیٹھ گئیں
"میں شادی کرنا چاہتا ہوں"
"کیا واقعی یہ تو بہت اچھی بات ہے میں آج ہی تمہاری خالا سے بات کرتا ہوں کہ اپنی عشل کو تیار کرلیں معتصم شاہ اپنی منگ لینے آرہا ہے"
"دادا سائیں میں عشل سے شادی نہیں کرنا چاہتا میری زندگی میں کوئی اور ہے" اسکے کہنے پر دادا سائیں نے غصے سے اسے دیکھا
"دماغ ٹھیک ہے تمہارا جانتے نہیں ہو تمہاری منگنی بچپن میں ہی عشل سے ہوچکی تھی"
"دادا سائیں وہ بچپن تھا اسے بھول جائیں ویسے بھی میں نکاح کر چکا ہوں" کوئی بم ہی تو تھا جو اسنے دادا سائیں اور اپنی دونوں چچی پر بھاڑا تھا
"معتصم اندازہ ہے کہ تم کیا کہہ رہے ہو"
"جی دادا سائیں" اسنے اطمینان سے کہا اور اسکا یہ اطمینان دادا سائیں کو مزید تپ دلا چکا تھا
"اگر نکاح کرہی لیا ہے تو ہم سے اجازت کیوں مانگنے آے ہو"
"میں آپ سے اجازت نہیں مانگ رہا دادا سائیں آپ کو بتا رہا ہوں میں نے اس سے نکاح کیا تھا اور وہ بھی اپنے ایکسیڈینٹ سے پہلے اور اب وقت آگیا ہے کہ میں اپنی امانت کو یہاں لے آؤں میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ جاکر اسکا رشتہ مانگیں اور آپ کو خالا جانی کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں ان سے بات کر لوں گا اور مجھے یقین ہے وہ میری بات سمجھ جائینگی" اپنی بات مکمل کرکے وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور وہاں سے جانے لگا جب اسے اپنے پیچھے سے دادا سائیں کی آواز سنائی دی
"اگر ہم اس رشتے سے انکار کردیں اور اسکے گھر رشتہ لے کر نہ جائیں تو"
"تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا جیسے نکاح کیا ہے ویسے یہاں پر بھی لے آوں گا" اسنے بنا مڑے جواب دیا اور وہاں سے چلا گیا
جبکہ دادا سائیں کا غصے سے برا حال تھا معتصم شاہ انکی ہی طرح تھا اگر اسنے کوئی بات کہہ دی تو مطلب وہ اسے پورا کرکے چھوڑے گا
°°°°°
تکیے پر اپنا سر رکھے وہ گم سم سی لیٹی تھی جب کمرے کا دروازہ کھلا اور اماں جان داخل ہوئیں اسنے اپنا رخ موڑ لیا
"میری بیٹی ناراض ہے"اماں جان نے مسکراتے ہوے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا
"اماں جان یہ آپ نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ"اسنے منہ پھلا کر انہیں دیکھا
"وقت آنے پر تمہیں پتہ چل جاے گا کہ یہ فیصلہ تمہارے لیے اچھا ہے وہ لڑکا تمہارے لیے اچھا ہے"
"اور یہ آپ کیسے کہہ سکتی ہیں آپ اسے نہیں جانتی اماں جان"
"اگر کوئی آپ سے محبت کرتا ہے نہ پری تو سب سے پہلے آپ کو خود پر حلال کرتا ہے"
"لیکن آپ بھی جانتی ہیں کہ اسنے مجھ سے نکاح کیسے کیا تھا"
"پرانی باتوں کو جتنا سوچو گی بدگمانیاں اتنی ہی جنم لیں گی بہتر ہے اپنے کل کے بارے میں سوچو" اسکے ماتھے پر پیار کرکے اماں جان وہاں سے جانے لگیں جب اسنے انکا ہاتھ پکڑ لیا
"میں کیسے بھول جاؤں اسکی وجہ سے میں کتنی اذیت میں رہی میں کیسے بھول جاؤں اسکی وجہ سے میری ماں ہسپتال کے بستر پر چلی گئی اس نے کہا تھا اسکے ماں باپ نہیں ہیں اسی لیے شاید اسے اس بات کا احساس ہی نہیں کہ ماں باپ کیا ہوتے ہ"
"شش" وہ اور بھی بہت کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن اماں جان اسے خاموش کرا چکی تھیں
"ایسا نہیں کہتے پری جن کے ماں باپ نہیں ہوتے انہیں ہی تو اس بات کا زیادہ احساس ہوتا ہے تصویر کہ ہمیشہ دو رخ ہوتے ہیں ضروری نہیں جیسا ہم سوچیں ہمیشہ ویسا ہی ہو اس لڑکے کا اور تمہارا ساتھ ایسا ہی لکھا تھا میں نہیں چاہتی کہ تمہارے اوپر طلاق جیسا دھبہ لگے اور اس سب سے تمہارا باپ جو پہلے ہی تکلیف میں مزید تکلیف سے دو چار ہوجاے بہتر ہے اب یہ ماضی کا باب بند ہوجاے"
وہ اٹھ کر چلی گئیں لیکن وہ کتنی دیر تک انکی کہی باتوں کو سوچتی رہی زہہن میں خیال آیا ہوسکتا ہے معتصم ایک اچھا انسان ہو لیکن وہ جتنا اسے سوچ رہی تھی اتنی ہی اسکے لیے ناپسندیدگی بڑھتی جارہی تھی
°°°°°
وہ اپنے کمرے میں داخل ہوے جہاں آئرہ اور مبشرہ بیگم پہلے سے ہی انکا انتظار کر رہی تھیں انہیں دیکھ کر وہ دونوں اپنی جگہ سے اٹھ گئیں
"بابا میں یہاں نہیں رہنا چاہتی مجھے یہاں نہیں رہنا ہے پلیز مجھے یہاں سے بھیج دیں"
"میرا بچہ ہم بعد میں اس بارے میں بات کریں گے ابھی تم اپنے کمرے میں جاؤ"
"میرا کمرہ"اسنے اچھنبے سے کہا اسکا یہاں کونسا کمرہ آگیا
"ہاں تمہارا کمرہ میں نے اسے بہت پہلے بنوایا تھا کیونکہ میں جانتا تھا تم ایک نہ ایک دن تو حویلی واپس آو گی لیکن اس طرح سے آؤ گی یہ نہیں سوچا تھا" انکے لہجے میں ملال تھا اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے باہر لے کر آے اور ملازمہ سے کہہ کر اسے اسکے کمرے میں بھجوایا لیکن جانے سے پہلے وہ یہ بات کہنا نہیں بھولی تھی کہ وہ یہاں نہیں رہے گی
وہ واپس کمرے میں آے جہاں مبشرہ بیگم پریشان کھڑی تھیں
"پلیز مبشرہ مجھے آج وہ وجہ بتادو جس نے تمہیں حویلی چھوڑنے پر مجبور کیا تھا میں جانتا ہوں کوئی بات تو ہے جس کی وجہ سے تم نے یہ حویلی چھوڑی تھی"
"یہی بات ہے عفان کے میں اپنی بیٹی کو اس ماحول میں نہیں رکھنا چاہتی تھی"
انکی بات سن کر عفان شاہ بنا مزید کچھ کہے صوفے پر جاکر بیٹھ گئے جب مبشرہ بیگم نے آگے بڑھ کر انکے ہاتھ تھام لیے
"عفان میں اپنی بیٹی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہونے دوں گی میں کبھی بھی اسکی شادی عالم سے نہیں کروں گی"
"میں کچھ نہیں کرسکتا مبشرہ"
"کیا مطلب تم کچھ نہیں کرسکتے باپ ہو تم اسکے تمہیں پورا اختیار ہے کہ اسکی زندگی کا فیصلہ لے سکو"
"میں نہیں لے سکتا" انکی آواز میں بےبسی تھی
"عالم شاہ اسے نہیں چھوڑے گا کیونکہ اسکے نزدیک اب آئرہ اسکی عزت ہے وہ اسے مار تو سکتا ہے لیکن چھوڑ نہیں سکتا"
"ایسے کیسے وہ کچھ بھی کرلے گا وہ کیوں نہیں چھوڑے گا ہماری بیٹی کو"انہوں نے تڑپ کر کہا
"بھول گئی ہو میری ماں کو کیوں مارا تھا عزت غیرت کے نام پر" انکے کہتے ہی وہ وہیں بیٹھ کر رونے لگیں عفان شاہ نے انہیں اپنے سینے سے لگا لیا یہاں سے جانے کے سارے راستے بند ہوتے نظر آ رہے تھے
°°°°°
آج وہ خاموشی سے اسکا دیا گیا ہر سبق یاد کررہی تھی یاد کرنے میں ٹائم بیس سے پچیس منٹ ہی لگ رہا تھا لیکن اسکی زبان بند تھی جو کہ بہت حیرت والی بات تھی
"کیا بات ہے آج اتنی خاموشی کیوں ہو" اور وہ تو شاید کسی کے بولنے کا ہی انتظار کررہی تھی تاکہ اپنی بھڑاس نکال سکے
"معتصم لالا نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ میں نے اتنے پیار سے بولا تھا لالا میرا ہاتھ چھوڑ دیں جو بولینگے کروں گی لیکن انہوں نے نہیں چھوڑا جب تک آپ نہیں آگئے اور اب آپ دیکھیے گا میں ان سے کبھی بات نہیں کروں گی انہیں کیا لگتا ہے ہر بار وہ مجھے چپس اور آئسکریم لا کردیں گے تو میں مان جاؤں گی اس بار ایسا کچھ نہیں ہونے والا انہں تو میری قدر کرنی چاہیے ایک ہی تو بہن ہے انکی چلو سگی نہیں میں انکے چاچا کی بیٹی ہوں لیکن بہن تو بہن ہوتی ہے نہ آپ مجھے بتائیں لالا میں نے کچھ غلط کہا ہے"
اپنی زبان کو بریک لگا کر اسنے عصیم سے پوچھا
"نہیں بلکل نہیں اور اب تم اسکے چپس اور آئسکریم دینے پر نہیں مان جانا بلکہ ساتھ میں چاکلیٹ بھی لینا"
"ارے آپ کو کیسے پتہ میں نے یہی تو سوچا تھا"
"بس مجھے سب پتہ ہے" معنی خیزی مسکراہٹ لیے اسنے کسوا کو دیکھا
"اور ہاں یہ جو تم نے کہا نہ ایک ہی بہن تو اب یہ بات ختم ہوچکی ہے کہ تم اسکی اکلوتی بہن ہو کیونکہ اسکی ایک اور بہن آچکی ہے"
"ہیں یہ کب ہوا"
"پوری تفصیل تو تمہیں ثمیرین چچی ہی بتائینگی انہی سے پوچھنا"
"اوکے میں پوچھ کر آتی ہوں" وہ خوشی خوشی جانے لگی جب عصیم نے اسے دوبار بٹھادیا
"بیٹھو یہاں پر پہلے اپنا کام مکمل کرو پھر جانا"اسکے کہنے پر وہ جلدی جلدی اسکا دیا ہوا سبق یاد کرنے لگی کیونکہ اسے پتہ تھا کہ بنا یاد کرے تو وہ اسے جانے نہیں دے گا اور وہ جب تک اپنی ماں سے ساری بات نہیں جان لیتی تب تک اسکے پیٹ کی گدگدی ختم نہیں ہونی تھی
°°°°°
ملازمہ اسے اسکے کمرے میں چھوڑ کر چلی گئی اسنے نظریں دوڑا کر پورے کمرے کا جائزہ لیا جہاں اسکی بچپن کی تصویر بھی لگیں ہوئی تھیں
ایک تصویر میں وہ ایک چھوٹے لڑکے کی گود میں موجود تھی جو اسکی چھوٹی انگلی میں سونے کی انگھوٹھی پہنا رہا تھا اسے یہ جاننے میں دیر نہیں لگی کہ وہ لڑکا کون ہے انگھوٹھی پہنا رہا تھا تو ظاہر تھا اسکا منگیتر ہی ہوگا جو اسے اپنی منگ منگ کرتا پھر رہا تھا
اس تصویر کو دیکھ کر وہ غصے سے اپنے کمرے سے باہر نکل گئی اسے حویلی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا بس ایک سیدھا راستہ تھا جہاں سے روشنی آرہی تھی وہ وہیں پر چلی گئی وہ شاید حویلی کی بیک سائیڈ تھی
نظریں گھما کر وہ ارد گرد کا جائزہ لینے لگیں جب پیچھے سے بھاری مردانہ آواز آئی
"یہاں کیا کررہی ہو" اسنے مڑ کر دیکھا اور پارہ مزید ہائی ہوگیا
"جب تک میں یہاں ہوں نہ تم مجھے اپنی شکل مت دکھانا" اسنے دانت پیستے ہوے کہا لیکن عالم کا مسکراتا چہرہ مونچھوں کو تاؤ دیتا انداز اسے اندر تک سلگا گیا تھا
"یہاں سے تو اب تم کہیں نہیں جاؤ گی تمہیں زندگی بھر یہیں رہنا ہے اور آج کے بعد بلاوجہ تم اس جگہ پر مت آنا یہاں پر ملازم کام کرتے ہیں اور اپنا دوپٹہ سر پر لو" اسنے اسکے گلے میں موجود مفلر کو دیکھتے ہوے کہا
"یہ ڈوپٹہ نہیں ہے مفلر ہے"آئرہ نے جیسے اسکی نولیج میں اضافہ کرنا چاہا
"یہ جو بھی بلا ہے اسے اپنے سر پر لو"
"نہیں لوں گی تم ہوتے کون ہو مجھ پر حکم چلانے والے"
"ابھی تو کچھ نہیں ہوں لیکن بہت جلدی بن جاؤں گا اور پھر تمہیں سارے ادب سکھاؤنگا فلحال یہ ڈوپٹہ سر پر لو اور اپنا چہرہ لے کر یہاں سے گم ہو جاؤ"
"یہ مفلر ہے" اپنے لفظوں پر زور دے کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے چلی گئی عالم شاہ نے اسکی پشت کو گھورا
ٹیوشن ٹائم ختم ہوتے ہی وہ ثمرین بیگم کے پاس گئی تاکہ ان سے ساری بات جان سکے کہ اسکے معتصم لالا کی کون سی بہن آگئی
اسکے پوچھنے پر ثمرین بیگم نے اسے مختصر لفظوں میں بات بتادی جسے کے بعد اب وہ آئرہ کے کمرے کے سامنے کھڑی تھی
"وہ کیسی ہوں گی اگر غصے والی ہوئیں تو اگر مجھے ڈانٹ کے بھگا دیا تو" اسکے کمرے کے باہر کھڑی وہ کشمکش میں مبتلا تھی جب کمرے کا دروازہ کھلا اور آئرہ باہر جانے لگی لیکن اسے اپنے کمرے کے سامنے کھڑے دیکھ کر وہ وہیں رک گئی
"تم کون ہو اور یہاں کیا کررہی ہو"
"وہ میں کسوا ہوں اماں سائیں نے بتایا کے آپ عفان چاچو کی بیٹی ہیں تو میں بس آپ سے ملنے آئی تھی میں آپکی بہن ہوں" کسوا نے جھجکتے ہوے کہا پتہ نہیں آئرہ اسکی بات سن کر کس طرح ری ایکٹ کرے گی
"اگر بہن ہو تو یہاں کیوں کھڑی تھیں دھڑام سے دروازہ کھول کر اندر آجاتیں چلو آجاؤ" اسکے گال کھینچ کر آئرہ نے مسکراتے ہوے اسے اپنے کمرے میں بلایا
اسے پتہ تھا کہ وہ عالم شاہ کی بہن ہے لیکن اسکا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ اگر اسے عالم شاہ نہیں پسند تھا تو وہ اسکی بہن کو بھی ناپسند کرتی
°°°°°
"بابا سائیں ہم پریشے کے گھر جارہے ہیں" انہوں نے دادا سائیں کے کمرے میں داخل ہوکر کہا دروازہ پورا کھلا ہوا تھا اسلیے دستک کی ضرورت نہ پڑی
"کون پریشے" دادا سائیں نے غائب دماغی سے کہا
"معتصم کی"
"اچھا میں سمجھ گیا"انکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی دادا سائیں نے ہاتھ اٹھا کر مزید کچھ کہنے سے روک دیا
"آپ نہیں چلیں گے" فارینہ بیگم نے پوچھا
"نہیں ہم اسکی شادی میں شرکت کریں گے یہی بہت ہے اور نکاح ہوچکا ہے بس کوئی بھی تاریخ طے کر لینا تاکہ ان دونوں کی شادی ساتھ ہی کردیں گے" انکی بات سن کر وہ جانے کے لیے مڑیں جب انہوں نے اپنی بہو کو آواز دی
"فارینہ"
"جی بابا سائیں"
"جانے سے پہلے ثقلین اور ثمرین کو ہمارے پاس بھیجو ہمیں کچھ بات کرنی ہے" وہ اپنا سر ہلا کر وہاں سے چلی گئیں جب تھوڑی دیر بعد ثقلین صاحب اور ثمرین بیگم وہاں پر آے
°°°°°
"جی بابا سائیں آپ نے بلایا"ثقلین صاحب نے انکے قریب آکر کہا وہ دونوں ہی تیار کھڑے تھے یقینا وہ دونوں بھی وہاں جانے کے لیے ہی تیار کھڑے تھے
"ہاں گھر میں دو شادیاں ہورہی ہیں تو پھر تیسری کی تیاری بھی کرلیتے ہیں" دادا سائیں کے کہنے پر ان دونوں میاں بیوی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا
"کہیں عفان کی طرح تم بھی تو اس رشتے سے نہیں مکر جاؤ گے" لہجے میں خفگی لیے انہوں نے ثقلین صاحب کو دیکھا
"نہیں بابا سائیں مجھے اچھے سے یاد ہے کہ کسوا کے پیدا ہوتے ہی آپ نے اسے عصیم کے نام کی انگھوٹھی پہنا دی تھی لیکن میرا خیال ہے کے کسوا ابھی بہت چھوٹی ہے"
"کوئی چھوٹی نہیں ہے پڑھائی اسے مزید کرنی نہیں ہے جب بعد میں بھی یہ کام کرنا ہے تو بہتر ہے اب ہی کردیا جاے" انکے رعب دار لہجے پر ثقلین صاحب نے اپنا سر جھکا دیا
"جی بابا سائیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے آپ بڑے ہیں جو فیصلہ کرینگے وہ بہتر ہوگا" جواب ثمرین بیگم کی طرف سے آیا تھا
اور باہر کھڑا عصیم جو دادا سائیں سے بات کرنے آیا تھا انکی بات سنتے ہی اسکے مونچھوں تلے عنابی لب دلکشی سے مسکرا اٹھے
اسے آج بھی وہ پل یاد تھا جب اسنے کسوا کے چھوٹے سے ہاتھ میں انگھوٹھی پہنائی تھی یہ بات گھر کا ہر فرد جانتا تھا سواے اس پاگل کے جو اپنی ہی دنیا میں مگن رہتی تھی
اسے تو اندازہ بھی نہیں تھا کہ عصیم شاہ کی اسکے لیے محبت رفتہ رفتہ عشق بنتی جارہی تھی ثمرین بیگم کا کہنا تھا کہ کسوا کے تھوڑا سمجھدار ہوتے ہی وہ اسے اس رشتے کے بارے میں بتادیں گی لیکن عصیم انہیں منع کر چکا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسکا معصوم دماغ ان سب باتوں میں پڑے اسکی خاموش چھپی ہوئی محبت کو جان کر وہ کچھ الٹا سیدھا سوچے
اسکے لالا بولنے پر اسے ہمیشہ بےانہتا غصہ آتا تھا لیکن اسنے کبھی اس پر یہ بات ظاہر نہیں ہونے دی لیکن چھوڑتا تو وہ اسے پھر بھی نہیں تھا وہ جب جب اسے لالا بولتی تھی وہ اسے ڈانٹ دیتا اور وہ بیچاری ہمیشہ اپنی غلطی ڈھونڈتی رہ جاتی اور اب تو اسکے پاس ایک اچھی چیز آچکی تھی جو اسکے پیپرز تھے تو وہ اسے سزا کے طور پر مزید بڑھاتا جو کسوا کے لیے سزا تھی لیکن اسکے لیے تو خوبصورت لمحات تھے جن میں اسکی محبت اسکے پاس بیٹھی ہوتی تھی
اب وقت آگیا تھا جب اسے اسکے صبر کا پھل ملنے والا تھا اسے اسکی کسوا ملنے والی تھی
"اب جاؤ تم لوگ دیر ہورہی ہے" دادا سائیں کے کہتے ہی ان دونوں کے کمرے سے نکلنے سے پہلے ہی عصیم وہاں سے چلا گیا
°°°°°
ڈارک بلیو کلر کے کمیز شلوار میں وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا بالوں کو جیل سے سیٹ کیا ہوا تھا اپنے کمرے سے نکل کر وہ سیڑھیاں اترتا ہوا نیچے جانے لگا جب سیڑھیوں پر کھڑی کسوا نے اسکا راستہ روک لیا اسنے اپنا چہرہ دوسری طرف پھیرا ہوا تھا جس کا مطلب تھا کہ اسے معتصم کی شکل نہیں دیکھنی ہے
"میں تمہارے پاس ہی آرہا تھا لیکن تم یہاں کیا کررہی ہو میرے خیال میں تم تو مجھ سے ناراض تھیں"
"وہ تو اب بھی ہوں"
"اچھا واقعی" اسنے اپنے ہاتھ میں موجود خاکی رنگ کا بیگ اسکے سامنے کیا اور اسکی طرف بڑھادیا جسے اسنے فورا ہی تھام لیا اس کے اندر چاکلیٹس چپس اور آئسکریم ٹپ تھا
"میں ناراض اب بھی ہوں بس مجھے ایک بات پوچھنی تھی"
"پوچھو"
"گھر میں کیا بات چل رہی ہے ساری لیڈیز اپنے مردوں کے ساتھ مل کر آپ کا رشتہ دیکھنے گئی ہیں"
"مائی ڈئیر سسٹر وہ میرا رشتہ نہیں دیکھنے گئیں ہیں بلکہ میری شادی کی تاریخ رکھنے گئی ہیں" جتنے آرام سے اسنے کہا تھا اس سے کہیں زیادہ حیرت کسوا کو ہوئی تھی
"اتنی جلدی ابھی تو وہ پہلی بار ہی جارہے ہیں اور میں نے تو بھابھی کو دیکھا بھی نہیں"
"ہاں اتنی جلدی کیونکہ دادا سائیں چاہتے ہیں کہ گھر کی باقی دو شادیوں کے ساتھ ساتھ میری بھی ہوجاے اور جہاں تک رہی بھابھی کو دیکھنے کی بات تو اسے ہمیشہ اسی گھر میں رہنا ہے دیکھتی رہنا تم اسے"اسے جواب دے کر وہ وہاں سے جانے لگا جب وہ پھر اس کے راستے میں آگئی اسکے چہرے پر ابھی بھی الجھن تھی
"اماں سائیں نے بتایا کہ عالم لالا کی شادی آئرہ آپی کے ساتھ ہوگی لیکن دوسری شادی کونسی ہورہی ہے"
"بہت جلد پتہ چل جاے گا تھوڑا صبر کرلو"
"نہیں مجھے ابھی جاننا ہے" وہ بضد ہوئی
"تمہارے لیے سرپرائز ہے جو تمہارے ہوش اڑا دے گا اور یہ بات تمہیں چچی سائیں ہی بتائینگی اگر میں نے بتایا تو وہ مزہ نہیں آے گا جو انکی زبانی سن کر آے گا اور پھر تمہارا سرپرائز خراب ہوجاے گا تم ایسا چاہو گی" اسکے کہنے پر اسنے اپنا سر نفی میں ہلادیا بھلے بات جاننے کا کتنا ہی اسے تجسس کیوں نہ ہو لیکن وہ اپنا سرپرائز تو خراب نہیں کرے گی
"ٹھیک ہے اب میں اماں سائیں سے ہی پوچھوں گی" معتصم کا دیا ہوا بیگ اٹھا کر وہ مٹکتی ہوئی وہاں سے چلی گئی
°°°°°
"آپ نے بلایا تھا بابا"
"ہاں میرا بچہ اندر آجاؤ" اسے دروازے پر کھڑے دیکھ کر عفان شاہ نے پیار سے کہتے ہوے اسے اپنے قریب بٹھایا
"آئرہ مجھے تم سے کچھ بات کرنی یے" انہوں نے ایک نظر تھوڑے فاصلے پر بیٹھی اپنی بیوی کو دیکھا جو نظریں جھکائے بیٹھی تھیں
"جی کہیے"
"بیٹا میں چاہتا ہوں آپ عالم سے شادی کرلو" اپنے باپ کے الفاظ سن کر اسنے بے یقینی سے انہیں دیکھا
"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں"
"یہی تمہارے لیے اچھا ہے"
"یہ بھلا کیسے میرے لیے اچھا ہوگا بابا اگر یہ سب کچھ یہ ماحول میرے لیے اچھا ہوتا تو سالوں پہلے میری ماں مجھے لے کر یہاں سے نہیں جاتی آپ بھی جانتے ہیں میرا اور اس آدمی کا کوئی جوڑ نہیں ہے" اسنے نرم لہجے میں اپنی بات سمجھانی چاہی
"آئرہ میرا بچہ"
"بابا پلیز آپ کیوں کسی کی بات سن رہے ہیں مجے پتہ ہے آپ کے والد نے آپ کو یہ سب کہا ہے لیکن آپ انکی کیوں سن رہے ہیں میں آپ کی بیٹی ہوں آپ پورا حق رکھتے ہیں میری زندگی کا فیصلہ کرنے کا آپ فیصلہ کیجیے میرے لیے" اب کی بار نہ چاہتے ہوئے بھی اسکا لہجہ تلخ ہوچکا تھا
"میں نہیں کرسکتا تمہارے لیے کوئی فیصلہ" انہوں نے نم آنکھوں سے اپنی بیٹی کے چہرے پر ہاتھ رکھا
"تمہیں پتہ ہے میری ماں کا قتل ہوا تھا جو میرے باپ نے کیا تھا انہوں نے بتایا تھا کہ میری والدہ اور چاچا ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے لیکن وہ بابا سائیں کے ساتھ منسوب تھیں اسلیے انہیں زبردستی بابا سائیں کے ساتھ بیا دیا گیا لیکن وہ پھر بھی میرے چاچا سائیں میں ہی انوالو رہیں انہیں شاید کبھی یہ بات پتہ نہیں چلتی اگر وہ انہیں اپنی آنکھوں سے ایک ساتھ نہ دیکھ لیتے اور وہ بھی ایسی" آگے کے لفظ انکے اپنی بیٹی کے سامنے ادا نہیں ہو پارہے تھے لیکن آئرہ انکی بات اچھے سے سمجھ چکی تھی
"جب انہوں نے ان دونوں کو ایک ساتھ اس طرح کی حالت میں دیکھا تو غصے میں آکر اپنی بیوی اور بھائی کو جان سے مار دیا انہوں نے ایک پل بھی یہ نہیں سوچا کہ انکے سامنے کون ہے بس انہیں یہ بات پتہ تھی کہ ان کے سامنے کھڑے دو وجود وہ ہیں جنہوں نے انکی عزت خراب کردی اور میں نہیں چاہتا کہ ماضی پھر سے خود کو دوہراے"
"عالم شاہ تمہیں جان سے مار دے گا یا پھر ساری زندگی اسی گھر میں رکھے گا بھلے تم اس سے شادی کرو یا نہیں لیکن وہ تمہیں یہاں سے جانے نہیں دے گا اور اگر تم نے کسی اور شخص کے بارے میں بات بھی کی تو وہ اپنے دادا والی حرکت کرنے میں دیر نہیں لگاے گا میں اکیلا تمہارے لیے نہیں لڑ سکتا اگر میں نے آواز اٹھائی تو پورا گاؤں میرے خلاف ہوجاے گا کیونکہ ہمارے یہاں یہی رواج ہے کہ بچوں کی منگنی بچپن میں ہی انکے اپنوں میں کردی جاتی ہے میں نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی اور پورے خاندان میں میرے گھر والوں کے علاؤہ کسی نے مبشرہ۔کو نہیں اپنایا یہاں تک کہ میرے باپ نے بھی نہیں"
"لیکن یہ غلط ہے آپ کا بھتیجا بھی تو اپنی مرضی سے شادی کررہا ہے اس پر کسی نے اعراض نہیں اٹھایا" اسکا اشارہ معتصم کی طرف تھا
"کیونکہ یہاں ہر طرح رواج لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں کے لیے ہوتے ہیں اگر معتصم کی بات نہیں مانی تو وہ کرے گا وہی جو اسنے کہا ہے یہ حویلی چھوڑ دے گا اپنی بیوی کو یہاں نہیں رکھے گا لیکن اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹے گا معتصم شاہ اپنی ضد کا پکا ہے اگر اسکی کہی کسی بات کی نفی کی جاے تو وہ یہ حویلی چھوڑنے میں بھی دیر نہیں لگاے گا اور بابا سائیں ایسا ہونے نہیں دینگے کیونکہ وہ ہمارے لالا سائیں کی اکلوتی نشانی ہے اور بابا سائیں اسے کبھی بھی خود سے دور نہیں کرینگے"
"تو ہم پولیس کے پاس چلتے ہیں نہ" اسکے کہنے پر عفان شاہ کے لبوں پر تلخ مسکراہٹ آئی
"یہاں کی پولیس بھی جمال شاہ کے آگے سر جھکاتی ہے اب بس ایک ہی راستہ ہے کہ تم عالم سے شادی کے لیے رضامند ہوجاؤ کیونکہ میں اپنی بیٹی کے ساتھ کچھ برا نہیں ہونے دے سکتا"
آئرہ نے نم آنکھوں سے اپنا سر نفی میں ہلایا
"یہ مت سمجھنا آئرہ کہ میں نے اس سب کی وجہ سے تمہاری زندگی برباد کردی ہے نہیں میرا بچہ عالم بہت اچھا ہے اور تمہارے لیے ایک بہترین ہمسفر ثابت ہوگا اس بات کا میں تم سے وعدہ کرتا ہوں"
انہوں نے اسکے روتے وجود کو اپنے سینے سے لگا لیا
اپنے ہاتھوں میں موجود گھڑی اتار کر اسنے شیشے میں نظر آتا اپنا وجود دیکھا آج اسے دیکھنے کے لیے معتصم کے گھر والے آے تھے
اپنی شادی سے چند دن پہلے وہ گھر سے بھاگ گئی تھی اور یہ بات اس وقت ہر اس شخص کی زبان پر موجود تھی جو انہیں جانتا تھا
ظفر صاحب بس جلد از جلد اسکی شادی کر دینا چاہتے تھے تاکہ لوگوں کی یہ زبان بند ہوجاے اور ان سب کی زندگی میں سکون آجاے
آج بدھ کا دن تھا اور اس جمعے کو چھوڑ کر اگلے جمعے کو اسکا نکاح تھا ساتھ ہی رخصتی بھی انکا نکاح ہوچکا تھا لیکن یہ بات گھر والوں کے علاؤہ کوئی نہیں جانتا تھا اور پہلے جب نکاح ہوا تھا تو گھر کا کوئی فرد موجود نہیں تھا اسلیے انکا نکاح دوبارہ ہونے والا تھا اس بار سب کے سامنے
"کیا میں اندر آجاؤں"عینہ نے دروازے میں سے اپنا سر نکال کر کہا جس پر اسنے اداسی سے مسکرا کر اسے اندر آنے کا اشارہ کیا
"تم سے کچھ بات کرنی تھی پری" اسکے انداز میں جھجک تھی اور ایسا پہلی بار ہوا تھا وہ اس سے کوئی بات کرتے ہوے جھجک رہی تھی
"عینہ کیا بات ہے"
"تمہاری خالا نے وصی کے لیے میرا رشتہ مانگا ہے اور تایا جان نے بابا سے پوچھ کر ہاں کردی ہے" اسنے اپنا سر جھکا کر کہا
"تو اس میں اداس ہونے والی کیا بات ہے" پریشے کے کہنے پر اسنے اپنا سر اٹھا کر اسے دیکھا
"تمہیں برا نہیں لگا"
"نہیں مجھے کیوں برا لگے گا وصی میرا کل تھا تمہارا رشتہ مانگا گیا یے میں یہ بات جانتی ہوں اور میں تمہارے لیے بہت خوش ہوں تم بھی خوش ہوجاؤ آخر تمہیں تمہاری محبت ملنے جارہی ہے" اسکے کہنے پر عینہ نے حیرانگی سے اسے دیکھا یہ بات تو آج تک اسنے کسی سے نہیں کہی تھی
"ایسے مت دیکھو میں یہ بات اس دن ہی جان گئی تھی جب خالا نے مجھے وصی کے نام کی انگھوٹھی پہنائی تھی اور جب میں نے پہلی دفعہ تمہارے چہرے پر موجود وہ کرب دیکھا تھا جسے دیکھ کر کوئی بھی یہ بات جان جاتا کہ تم اس وقت کس تکلیف میں ہو میں اس وقت تم سے اس معاملے میں بات کرنا چاہتی تھی لیکن میں خود اپنی الجھنوں میں پھنسی ہوئی تھی"
"لیکن پری وصی تو تم سے محبت کرتا ہے"
"لیکن تمہاری محبت میں زیادہ طاقت تھی جب ہی تو خدا نے اسے تمہارے نصیب میں لکھ دیا خالا نے یہ بات مجھے پہلے ہی بتادی تھی کہ وہ تمہارے بارے میں یہ سب سوچ رہی ہیں اور مجھے انکا یہ فیصلہ بہت پسند آیا تھا اسلیے سب گھر والوں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ میرے ساتھ ساتھ وہ تمہاری بھی رخصتی کردینگے اور میں تمہیں یہی کہوں گی عینہ کہ تم وصی کو اتنی محبت اتنا پیار دینا کہ وہ مجھے بھول جاے اور تمہارے ساتھ اپنی ایک خوش حال زندگی گزارے" اسکی بات پر عینہ نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوے اپنا سر اثبات میں ہلادیا دل پر رکھا بوجھ جیسے اتر گیا تھا
"میں پوری کوشش کرونگی" وہ اٹھ کر وہاں سے جا چکی گئی جب اسکا فون بجنے لگا اسنے دیکھا آئرہ کی کال آرہی تھی پہلے سوچا کہ کاٹ دے کتنے دن سے وہ اسے فون ملا رہی تھی اور میڈم کو آج خیال آیا تھا لیکن پھر اسنے فون اٹھا کر اپنے کان سے لگا لیا
"کیسی ہو پری"
"یاد آگئی تمہیں میری" اسنے چھوٹتے ہی گلہ کیا
"سوری تم بتاؤ تم اپنے گھر چلی گئی تھیں نہ کیا ہوا"
"میرا جس لڑکے سے نکاح ہوا تھا نہ گھر والوں نے میری اس کے ساتھ شادی طے کردی ہے"
"یہ تو اچھی بات ہے" آئرہ کے کہنے پر اسنے اپنے فون کو گھورا جیسے اسے ہی گھور رہی ہو
"کیا اچھی بات ہے کیا تم نہیں جانتی ہو اسنے میرے ساتھ کیا کیا تھا اسنے زبردستی نکاح کیا تھا مجھ سے"
"نکاح ہی کیا تھا کچھ غلط تو نہیں کیا تھا اور کیا کہا تھا اسنے تمہیں اسی طرح لے کر جاؤں گا جیسے ہر لڑکی رخصت ہوتی ہے دیکھ لو اپنی بات کا کتنا سچا ہے" معتصم کی تعریف وہ بھی اپنی دوست کے منہ سے اسے بلکل اچھی نہیں لگ رہی تھی وہ اسکے بدلے اسے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن اسکا اداس لہجہ پریشے کو کھٹکا گیا تھا
"تم اداس ہو"
"نہیں"
"روئی ہو"
"نہیں"
"تو کیا ہوا ہے دیکھو جھوٹ مت بولنا جو بات ہے مجھے سچ سچ بتاؤ آئرہ" اسکے کہنے پر آئرہ نے گہرا سانس بھرا
"تمہیں میں نے کیا بتایا تھا اپنے بارے میں"
"تم نے بتایا تھا کہ تمہارے ددیال والے گاؤں میں رہتے ہیں اور تمہاری امی تمہں وہاں سے لے آئی تھیں کیونکہ وہ لوگ تمہارا نکاح تمہارے کزن سے کروارہے تھے اور وہ ایسا نہیں چاہتی تھیں" اسے جو جو بات یاد تھی اسنے بتادی تھی
"بلکل پری اور اب میں اپنے دادا کے گھر پر ہی موجود ہوں اور اس آنے والے اگلے ہفتے میرا اس سے نکاح ہے جس کے ساتھ میری بچپن میں منگنی ہوئی تھی اور وہ دسویں جماعت پاس ہے"
"کیا" اسکی بات سن کر شاک سے پریشے کا منہ پورا کھل چکا تھا
"اور تم اس سے شادی کرسکتی ہو"
"میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے"
"آئرہ تم ایک پڑھی لکھی لڑکی ہو اپنے لیے لڑو آواز اٹھاؤ" بات کہتے کہتے اسکے لب خاموش ہوگئے وہ اسے کہہ بھی تو کیا رہی تھی
اسنے آواز اٹھائی تھی اپنے گھر والوں کے سامنے یہ کہا تھا کہ اسے معتصم شاہ نہیں قبول لیکن کیا ہوا اب وہ مکمل طور پر اسی کی ہونے جارہی تھی
"پری کیا ہوا ہے" آئرہ کی اسپیکر سے آتی آواز سن کر وہ چونکی
"کچھ نہیں"
"ویسے اس سب میں میرے پاس تمہارے لیے ایک خوش خبری ہے"
"اور وہ کیا ہے"
"یہی کہ تم میری جیٹھانی بننے جارہی ہو"
"کیا مطلب"
"مطلب یہ کہ تم نے مجھ سے کہا تھا تمہارے شوہر کا نام معتصم شاہ ہے جمال شاہ کا پوتا اور شاہ انڈسٹری کا مالک تو بھلا مجھے اور جاننے کی کیا ضرورت ہے جب میں یہاں آکر معتصم لالا سے ملی تو اس وقت مجھے شک ہوا تھا اور وہ شک یقین میں اس وقت بدلہ جب وہ لوگ تمہارے لیے رشتہ لے کر آرہے تھے اور ایک بات کہوں پری میں معتصم لالا کو اتنا نہیں جانتی مگر آج تک انکے بارے میں جتنا سنا ہے اور جتنا جانا ہے اس سے تو یہی اندازہ لگا پائی ہوں کہ وہ رشتے پورے خلوص سے نبھاتے ہیں"
"اچھا تم بتاؤ ان دسویں جماعت کا نام کیا ہے" اسکی بات کاٹنے کے لیے زہہن میں جو پہلا سوال آیا اسنے کرلیا کیونکہ وہ اس وقت معتصم کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی
"میں اس کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی ہاں لیکن تمہیں ایک بات بتاؤں تم میری جیٹھانی بنو گی تو زرا مجھ پر رعب جھاڑنا" اسکے کہنے پر پریشے کھلکھلا کر ہنسی پتی نہیں کتنے وقت بعد وہ ہنسی تھی
"ہاں بلکل یہ موقع میں ہاتھ سے کیسے جانے دے سکتی ہوں" مزید چند منٹ باتیں کرکے اسنے فون رکھ دیا کیوں کہ ڈنر کا ٹائم ہورہا تھا
°°°°°
ابھی اسنے فون رکھا ہی تھا جب اسکے کمرے کا دروازہ کھلا اسے لگا شاید پھر سے عینہ آچکی ہے اسنے مڑ کر دیکھا وہاں اماں جان تھیں
"اماں جان آپ یہاں کیا کررہی ہیں مجھے بلالیتیں"
"بس تم سے کچھ باتیں کرنی تھیں" اماں جان نے اسکے قریب بیٹھ کر کہا
"تمہیں پتہ ہے پری میں نے تمہارے اس رشتے کے بارے میں بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے اور یہ بات میں تمہیں آج ہی بتا دینا چاہتی ہوں تاکہ تمہارے دل میں میری طرف سے کوئی میل نہ رہے"
"اماں جان ایسی باتیں نہیں کریں میرے دل میں آپ کے لیے کوئی میل نہیں ہے"
"میں جانتی ہوں میری بچی پھر بھی میں یہ بات تم سے آج کہنا چاہتی ہوں جو میں نے آج تک کسی کو نہیں بتائی تم جاننا چاہتی تھیں نہ ہمیشہ سے کہ تمہارے دادا جان تمہارے بابا کو پسند کیوں نہیں کرتے تھے" انکے کہنے پر اسنے آہستگی سے اپنا سر ہلایا وہ اس سے کیا کہنے آئی تھیں اسے سمجھ نہیں آرہا تھا
انہوں نے آہستہ سے اپنی بات کا آغاز کیا اور جیسے جیسے وہ بتاتی جارہی تھیں پریشے شاہ کی بےیقینی بڑھتی جارہی تھی
°°°°°
"تم اس وقت یہاں کیا کررہی ہو" وہ جو اپنے کمرے کی طرف جارہا تھا اسے سیڑھیوں پر بیٹھا دیکھ کر وہیں آگیا
"بات کررہی تھی"
"کس سے"
"تمہیں کیوں بتاؤں"
"کیونکہ میں تمہارا ہونے والا شوہر ہوں"
"ہونے والے ہو نہ ہوے تو نہیں"
"ہو بھی جائینگے ویسے سنا ہے تم شادی کے لیے مان گئی ہو اچھی بات ہے زبردستی کرنا مجھے پسند نہیں ہے"
"میں صرف اپنے باپ کی وجہ سے راضی ہوئی ہوں"
"راضی تو تمہیں ہونا ہی تھا اب چاہے وہ تم چاچا سائیں کی وجہ سے ہوتیں یا اپنی مرضی سے کیونکہ شادی تو تمہاری مجھ سے ہی ہونی تھی تم میری منگ جو ہو" اسکے کہنے پر آئرہ نے اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بنا کر جیسے اپنا غصہ ضبط کرنا چاہا
"منگ منگ بول کر تم نے میرا دماغ خراب کر دیا ہے اب تو دل چاہ رہا ہے کوئی یہ لفظ میرے سامنے بولے تو اس کے منہ پر ایسیڈ پھینک دوں" ایسیڈ لفظ کا مطلب اسے سمجھ تو نہیں آیا تھا لیکن آئرہ کے تاثرات بتارہے تھے کہ وہ کوئی اچھی چیز کے بارے میں نہیں بول رہی ہے
اس لفظ کو اپنے دماغ میں بٹھا کر اسنے یاد کرلیا تاکہ عصیم سے بعد میں اسکا مطلب پوچھ لے وہ ہمیشہ یہی کرتا تھا جس بات کا مطلب اسے سمجھ نہیں آتا تھا اسکو یاد کرلیتا اور پھر بعد میں عصیم سے اسکا مطلب پوچھ لیتا
"اور یہ جو تم مجھ سے شادی کے پیچھے لگے ہوے ہو نہ تو دیکھنا شادی کے بعد اگر تمہیں سکون سے بیٹھنے دیا تو میرا نام بھی آئرہ عفان شاہ نہیں" اسکے کہنے پر عالم کے سنجیدہ چہرے پر مسکراہٹ دوڑی
آئرہ پہلی بار اسکی مسکراہٹ دیکھ رہی تھی کیونکہ اگر اس سے پہلے وہ کبھی اسکے سامنے مسکرایا تھا تو اسنے اتنا غور نہیں کیا تھا اسکی مسکراہٹ بےحد دلکش تھی اور اس سے بھی زیادہ اچھا اسکی گھنی داڑھی میں چھپا ڈمپل تھا اس بات کا اقرار تو اسنے دل سے کیا تھا کہ عالم شاہ کی مسکراہٹ بہت پیاری ہے
"یعنی تم مجھے سکون سے رہنے دو گی کیونکہ شادی کے بعد تم آئرہ عفان شاہ نہیں آئرہ عالم شاہ بن جاؤ گی" آئرہ کو اب اسکے مسکرانے کی وجہ سمجھ آئی تھی وہ دو قدم اٹھا کر اسکے قریب کھڑی ہوگئی
"تو ٹھیک ہے آئرہ عالم شاہ تمہیں سکون نہیں لینے دے گی تمہیں پتہ ہے کیا تم مجھے بلکل پسند نہیں ہو اور تم سے زیادہ ناپسند مجھے تمہاری یہ مونچھیں لگتی ہیں" اسنے اپنا ہاتھ اسکے مونچھوں کے کونوں پر رکھا جبکہ عالم شاہ حیرت سے اسکی اس حرکت کو دیکھ رہا تھا لیکن اگلے ہی پل وہ اسکی مونچھیں دونوں طرف سے زور سے کھینچ کر وہاں سے بھاگ گئی اور اسکے اتنی زور سے کھینچے پر عالم شاہ نے بمشکل اپنے لبوں سے نکلتی آواز کو روکا
"جنگلی" اپنے دکھتے حصے کو سہلا کر اسنے اسے ایک لقب سے نوازا اور اس جگہ کو گھور کر وہاں سے چلا گیا جہاں سے آئرہ گئی تھی
"اوے اٹھ میری بات سن"زور سے اسکے کندھے پر ہاتھ مار کر اسنے اسے نیند سے جگایا اور عصیم جو اپنی نیند کے مزے لوٹ رہا تھا اسکے ایسا کرتے ہی بدمزہ ہوکر اسے دیکھا
"کیا مسلہ ہے"
"یہ اسیڈ کا مطلب کیا ہوتا ہے" زہہن میں جو لفظ تھا وہ اسنے عصیم کو بتا دیا جو اسکی بات سن کر حیرت سے اسے دیکھنے لگا
"کیا اسیڈ میں ایسے کسی لفظ کو نہیں جانتا"
"اچھا تو پھر فضول میں کہہ کے گئی بتا مجھے کیا مطلب ہوتا ہے اسکا"
"جس نے کہا ہے نہ اس سے ہی جاکر پوچھ" اسے کہہ کر وہ دوبارہ کمبل اوڑھ کر لیٹ گیا
"دیکھ عصیم بتادے"
"اگر پڑھائی پر دھیان دے دیتا تو یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا"
"ہوگیا فلسفہ شروع اب بتادے مجھے اسکا کیا مطلب ہوتا ہے"
"کس نے کہا ہے تجھ سے یہ لفظ" اب کی بار اسنے تنگ آکر کہا
"وہ بس بتایا تھا کسی نے کہ وہ اسیڈ پھینک دے گا"
"ایسیڈ ہوگا"
"ہاں ہاں یہی تھا"
"اسکا مطلب تیزاب ہوتا ہے اب اپنے کمرے میں جا اور مجھے سونے دے" خود پر دوبارہ کمبل اوڑھ کر وہ سونے لگا
"بڑی خطرناک لڑکی ہے تیزاب شیزاب کی باتیں کررہی ہے" خود سے بڑبڑاتے ہوے اپنی شال صوفے پر پھینک کر وہ بھی اسکے بیڈ پر لیٹ گیا
"اب کمرے میں کون جاے گا سونا ہی تو ہے یہیں سوجاتا ہوں" اسکے اوپر سے کمبل چھین کر اسنے خود اوڑھ لیا جبکہ اسکی اس حرکت پر عصیم نے گھور کر وہ کمبل اپنی طرف کھینچا جو عالم نے واپس اپنے پاس کرلیا
°°°°°
معتصم اور عصیم صبح ہی ناشتہ کرکے شہر کے لیے نکل چکے تھے جبکہ عالم بھی زمینوں پر گیا ہوا تھا
ڈائیننگ ٹیبل پر اس وقت سب بیٹھے ناشتہ کررہے تھے جو وہ وہاں پر آگئی
"آجاؤ بیٹا ناشتہ کرو" اسے وہاں دیکھ کر دادا سائیں نے خوشدلی سے کہا انہیں امید نہیں تھی کہ وہ انکے ساتھ آکر کھاے گی اسلیے اسکی یہاں موجودگی سے انہیں بڑی خوشی ہوئی تھی وہ آکر کسوا کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گئی
"امی نہیں آئیں" مبشرہ بیگم کی غیر موجودگی دیکھ کر اسنے عفان شاہ سے پوچھا
"ہاں وہ ساری رات سو نہیں پائی اسے نیند نہیں آرہی تھی ابھی بھی نیند کی گولی دی تھی تب جاکر سوئی ہے"
"انکی طبیعت ٹھیک ہے" اسکے لہجے میں فکرمندی تھی
"ہاں میرا بچہ آپ ناشتہ کرو"انکے کہنے پر اسنے ایک نظر ٹیبل پر رکھی ہر چیز کو دیکھا جس میں سے کچھ بھی وہ نہیں تھا جو وہ کھاتی تھی
اچار آلو کے براٹھے سادے پراٹھے رائتہ لسی اور چاے تھی جسے لسی نہ پینی ہو وہ چاے پی لے ناشتے کے لیے روزانہ صبح ہی ہر روز نیا سالن بن جاتا تھا جیسا کہ آج مٹر قیمہ بنا تھا
"کیا ہوا بیٹا تم کھا کیوں نہیں رہی ہو" اسکے رکے ہاتھ دیکھ کر ثمرین بیگم نے کہا اور انکے کہتے ہی سب اسکی طرف متوجہ ہوگئے
"بھابھی سائیں میں بتانا بھول گیا تھا یہ ناشتے میں اورینج جوس اور بریڈ پر جیم کے علاؤہ کچھ نہیں کھاتی"
"اچھا رکو میں ابھی جوس بنواتی ہوں"
"نہیں رہنے دیجیے آپ بلاوجہ زحمت کررہی ہیں"
"بیٹا اس میں زحمت والی کیا بات ہے تم رکو میں ابھی بنواتی ہوں اور اگر کچھ اور کھانا ہو تو مجھے وہ بھی بتا دینا" مسکراتے ہوے وہ اپنی جگہ ڈے اٹھ کر وہاں سے چلی گئی جب آئرہ نے ایک نظر اپنے برابر بیٹھی کسوا کو دیکھا اسنے بڑی سی پلیٹ میں اپنے لیے سب کچھ ڈالا ہوا تھا
ایک سائیڈ پر اچار دوسری سائیڈ پر رائتہ اور تیسری سائیڈ پر قیمہ اور دوسری پلیٹ میں اسنے آلو اور سادے دونوں پراٹھے رکھے ہوے تھے سامنے ہی لسی کا بھرا ہوا گلاس تھا
وہ کبھی سادے پراٹھے سے قیمہ کھاتی تو کبھی آلو کے پراٹھے کو اچار میں ڈال لیتی وہ چھوٹے چھوٹے نوالے بناکر کھا رہی تھی گھی میں تلے پراٹھوں کی وجہ سے اسکا ہاتھ جس سے وہ کھارہی تھی چکنا ہوچکا تھا
"تم کیسے اتنا آئلی کھانا کھارہی ہو کسوا تم کیا ہمیشہ ایسا ہی کھانا کھاتی ہو"
اسکے کہنے پر کسوا نے اپنا کھاتا ہاتھ روک کر اسے دیکھا
"یہی تو میرا راز ہے آپی میں ہمیشہ سے ایسا ہی کھانا کھاتی ہوں لیکن میرا ویٹ ہی نہیں بڑھتا ماشاءاللہ ماشاءاللہ تھو تھو" اپنی بات کہہ کر اسنے خود ہی اپنے آپ پر پھونک ماری
"اور یہ اچھی بات ہے ورنہ اگر میں زرا سی موٹی ہوئی نہ تو عصیم لالا مجھے بھی اٹھا کر اپنے ساتھ جم لے جائینگے "
"یہاں پر جم بھی ہے "اسنے حیرت سے کہا کیونکہ گاؤں میں جم ہوگا اسکا اسے اندازہ نہیں تھا
"ہاں گاؤں شروع ہوتے ہی ایک چھوٹا سا بنا ہوا ہے لیکن لالا وہاں نہیں جاتے حویلی میں معتصم لالا نے جم بنوایا تھا تو وہ وہیں جاتے ہیں ویسے تو وہ دونوں زیادہ تر شہر سے باہر ہی رہتے ہیں لیکن جب یہاں آتے ہیں تو وہ جم۔میں جاتے ہیں اور آپ کو پتہ ہے" ایک بات جو آئرہ نے اس میں دیکھی تھی وہ یہ تھی کہ ایک بار اسکا ٹیپ ریکارڈر کھل جاتا تو اسے بند کرنا بہت مشکل تھا اور اسے بند کروانا بھی نہیں تھا کیونکہ اسکی باتیں اسے اچھی لگتی تھیں اس وقت بھی وہ کالج یوفارم پہنے یقینا کالج جانے کے لیے تیار بیٹھی تھی لیکن آئرہ کے آتے ہی اسکا ٹیپ ریکارڈر کھل چکا تھا
"معتصم لالا بھی یہ سب نہیں کھاتے وہ لائٹ سا کھانا کھاتے ہیں ہاں عصیم لالا یہ سب کھاتے ہیں لیکن وہ اپنی فٹنیس کا بہت دیھان رکھتے ہیں اور عالم لالا بھی یہ سب کھاتے ہیں"
"اچھا دیکھ کر تو نہیں لگتا"
"وہ اسی لیے کیونکہ وہ بھی جم جاتے ہیں"
"اچھا میں تو سمجھی تھی کسی میدان میں جاکر چھلانگے لگاتا ہوگا" اسنے بڑبڑاتے ہوے کہا جسے یقینا کسوا نے نہیں سنا تھا
"کیا"
"کچھ نہیں تمہارے عالم لالا بھی جم جاتے ہیں یہ سن کر کافی حیرت ہوئی"
"ہاں وہ بھی جاتے ہیں انہیں پہلے اس سب کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم تھا لیکن معتصم لالا نے انہیں سب سکھایا تھا" معتصم کا نام لیتے ہی اسے وہ سرپرائز والی بات یاد آئی جو وہ اماں سائیں سے پوچھنا بھول گئی تھی
"کسوا جلدی ناشتہ کرو لیٹ ہوجاؤ گی" اسکے مسلسل بولنے پر فارینہ بیگم نے اسے ٹوکا
"میرا تو ویسے بھی ہوگیا میں جارہی ہوں اللہ حافظ"بات تو اب وہ بعد میں ہی پوچھتی کیونکہ اس وقت وہ لیٹ ہورہی تھی اسلیے اپنی جگہ سے اٹھ کر اسنے تیز آواز میں اللہ حافظ کہا اور وہاں سے چلی گئی
آئرہ نے اسکی پلیٹ دیکھی اسنے بھلے اتنا کچھ لیا تھا لیکن کھایا آدھا پراٹھا بھی نہیں تھا
"اسلام وعلیکم" بھاری مردانہ آواز پر اسنے گہرا سانس لے کر چند لمحوں کے لیے اپنی آنکھیں بند کرلیں کیونکہ اسے پتہ تھا یہ آواز کس کی ہے اور اسکا صبح صبح اس شخص کی شکل دیکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا
"تم صبح صبح کہاں چلے گئے تھے عالم" اسکے سلام کا جواب دے کر دادا سائیں نے اسے دیکھ کر پوچھا جو آئرہ کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ رہا تھا
"زمینوں پر گیا تھا دادا سائیں چھوٹا سا مسلہ ہوگیا تھا" اسکی بات سمجھ کر دادا سائیں نے اپنا سر ہلایا جب نظر ناشتہ کرتی آئرہ پر پڑی جو ابھی ابھی ثمرین بیگم اسکے سامنے رکھ کر گئی تھی
"آئرہ کو شاپنگ پر لے جانا یہ اپنے لیے ولیمے کا سوٹ لے آے گی" انکی بات سن کر عالم نے اسے اور آئرہ نے دادا سائیں کو دیکھا
"مجھے کہیں نہیں جانا"
"بیٹا چلی جانا اپنی پسند کا لے آنا ویسے تو برات اور ولیمے دونوں تقریب کا دلہا ہی اپنی مرضی سے لاتا ہے لیکن بابا سائیں کہہ رہے ہیں تو تم خود اپنی مرضی سے لے آنا"عفان شاہ کے کہنے پر اسنے بنا کچھ کہے جیم لگی بریڈ اپنے منہ میں رکھی
"اور کسوا کے لیے عصیم ہی لاے گا نہ" عالم کے کہنے پر اسنے مشکل سے اپنے منہ میں چلتا نوالہ حلق سے اتارا گھر میں اسکے ساتھ ساتھ کسوا کی شادی کی تیاریاں بھی چل رہی تھیں لیکن اس پاگل کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا وہ تو اپنی ہی دنیا میں مگن تھی
"جس کی شادی کا فیصلہ کیا جارہا ہے پہلے ایک بار اس سے پوچھ تو لیں" آئرہ کے کہنے پر عالم سمیت سب نے اسکی طرف دیکھا
"ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں آپ سب"
"ہمارے یہاں لڑکیوں سے پوچھا نہیں جاتا"
"وہ تو دکھ بھی رہا ہے" ناچاہتے ہوے بھی اسکا لہجہ تلخ ہوچکا تھا
"لڑکی تمیز سے بات کرو" عالم نے اسے گھورتے ہوے کہا
"کیوں میں نے کچھ غلط کہا"
"آئرہ بیٹا ناشتہ کرو"
"کیوں بابا آپ ہی بتائیں میں نے کچھ غلط کہا یہاں کے مرد اپنی مرضی سے جو چاہے وہ کرسکتے ہیں لیکن لڑکی سے اسکی راے تک بھی پوچھی نہیں جاتی بس گائیں بھینسوں کی طرح کہیں پر بھی باندھ دو "غصے سے کہتی ہوئی وہاں اپنی جگہ سے اٹھ کر وہاں سے چلی گئی
عالم بھی اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے پیچھے جانے لگا ارادہ اسے سبق سکھانے کا تھا لیکن دادا سائیں اسکا ہاتھ پکڑ چکے تھے
"عالم بیٹھ کر ناشتہ کرو اسے وقت دو اس ماحول میں ایڈجسٹ ہونے میں اسے وقت لگے گا"دادا سائیں کے کہنے پر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا کیونکہ ناشتہ تو اب اس سے ہونا نہیں تھا
°°°°°
"مائی نیم از کسوا"
"کسوا کی جوانی"
آج پھر سے ناچتی ہوئی وہ اپنی خوشی کا چشن منارہی تھی لیکن اس بار دروازہ بند کرنا نہیں بھولی تھی
اسکی خوشی کی وجہ یہ تھی کہ آج اسکا لاسٹ پیپر تھا اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ اسکی جان عصیم سے بھی چھوٹ چکی تھی اب کم از کم روزانہ اسکی ڈانٹ سن کر زبردستی پڑھنا تو نہیں پڑے گا لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ جس سے جان چھوٹنے پر وہ خوشیاں منا رہی تھی اب وہی جان کے پیچھے لگنے والا تھا
"کسوا" آواز پر اسنے ڈر کر دیکھا لیکن ثمرین بیگم کو دیکھ کر سانس میں سانس آئی
"اف اماں سائیں آپ نے تو ڈرا ہی دیا تھا"
"تم سے کچھ بات کرنی ہے بیٹا ادھر بیٹھو" انہوں نے بیڈ پر بیٹھتے ہوے اسے پیار سے اپنے قریب بلایا جس پر کسوا نے مشکوک نظروں سے انہیں دیکھا بھلا اسے کب سے کوئی اتنی عزت سے بلانے لگا
"ادھر آؤ"ان کے دوبارہ کہنے پر وہ جاکر انکے پاس بیٹھ گئی
"جی کہیے"
"ہم نے تمہاری شادی طے کردی ہے عالم کے ساتھ ہی تمہاری شادی ہوگی"
"ہیں یہ کب ہوا مجھ تو لڑکے والے دیکھنے بھی نہیں آے اور آپ نے مجھے لڑکے کی تصویر بھی نہیں دکھائی ایک منٹ ایک منٹ کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی لڑکے نے مجھے دیکھ لیا ہو اور مجھ پر اپنا دل ہار بیٹھا ہو اور کہہ رہا ہو کہ شادی کروں گا تو صرف کسوا شاہ سے اسی لیے آپ لوگوں نے میری شادی بھی طے کردی"اسکے کہنے پر ثمرین بیگم نے اسکے سر پر چپت لگائی
"بات تو سن لو ہر وقت اپنی ہی بولنے میں لگی رہتی ہو ہم کیوں تمہاری شادی کسی اور سے کرینگے جب گھر میں اتنا پیارا لڑکا ہے"
"ہمارے گھر میں کون پیارا لڑکا آگیا"
"عصیم" انکے کہنے پر اسکا جوش مانند پڑچکا تھا لیکن پھر خود ہی ہنسنے لگی
"ہی ہی ہی اپریل فول اپریل فول لیکن اماں سائیں یہ اپریل کا مہینہ نہیں ہے اور ایک اور بات آپ کو مذاق کرنے بلکل نہیں آتے"
"کسوا اب بڑی ہوجاؤ عصیم اور تمہاری منگنی بچپن میں ہی ہوگئی تھی اور سب ہم سب نے مل کر تم دونوں کی شادی کی تاریخ طے کردی ہے" ثمرین بیگم نے اسکے گال پر ہاتھ پھیرا اور اٹھ کر جانے لگیں لیکن پھر مڑ کر اسے دیکھا جو سن سی بیٹھی تھی
"تمہیں وقت دے رہے ہیں یہ سوچنے کے لیے نہیں کہ تمہیں عصیم سے شادی کرنی ہے یا نہیں بلکہ اس لیے تاکہ تم اس رشتے کو قبول کرلو "وہ تو کہہ کر جاچکی تھیں لیکن وہ غائب دماغی سے وہیں بیٹھی رہی
"عصیم لالا میری بات سنیں آپ کو پتہ ہے اماں سائیں کیا کہہ رہی ہیں"دھڑام سے دروازہ کھول کر وہ اسکے کمرے میں داخل ہوئی
جہاں وہ سادے سے ٹراؤزر اور شرٹ میں اپنے لیپ ٹاپ پر جھکا کوئی کام کررہا تھا
اسے ایک نظر دیکھ کر وہ دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا وہ اسکے کمرے میں ہمیشہ ایسے ہی آتی تھی جس پر وہ اسے کچھ نہیں کہتا تھا کیونکہ بقول اسکے یہ کمرہ کسوا کا بھی تھا لیکن یہ بات کسوا نے آج تک نوٹ ہی نہیں کی تھی کہ اس طرح کمرے میں داخل ہونے پر عصیم نے اسے آج تک نہیں ڈانٹا تھا
"کیا کہا ہے"
"آپ کی اور میری شادی ہورہی ہے استغفِرُاللہ" کہتے ساتھ ہی اسنے دونوں کانوں کو ہاتھ لگا کر استغفِرُاللہ کہا
"بہت جلدی نہیں پتہ چل گیا" عصیم کے انداز نے اسے کھٹکنے پر مجبور کردیا تھا
"مطلب"
"مطلب یہ کہ سارا گھر یہ بات جان چکا ہے سواے تمہارے لیکن اچھی بات ہے تمہیں بھی پتہ چل گیا"
"آپ جانتے ہیں"
"ہاں میں جانتا ہوں"
"تو آپ منع کردیں نہ اس شادی سے"
"اور میں کیوں منع کرونگا اس شادی سے"اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ اسکے سامنے جاکر کھڑا ہوگیا
"کیونکہ آپ مجھے پسند نہیں کرتے ہیں"
"اور یہ میں نے کب کہا کہ میں تمہیں پسند نہیں کرتا ہوں"
"آپ نے نہیں کہا لیکن میں جانتی ہوں اور میں آپ سے شادی نہیں کرسکتی کیونکہ آپ میرے لیے میرے بھائی ہیں" اسکے کہنے پر عصیم نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے جھٹکے سے اپنے قریب کیا
"یہ آپ کیا کررہے ہیں عصیم لالا چھوڑیں مجھے" اسنے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے چھڑوانا چاہا لیکن وہ اسکی بات کا کوئی جواب دیے بنا بس یک ٹک اسکے معصوم چہرے کو دیکھ رہا تھا اسکی آنکھوں میں عجیب سا تاثر تھا جو آج سے پہلے کسوا نے نہیں دیکھا تھا
"جاکر سکون سے اپنی شادی کی تیاریاں کرو اور آج کے بعد غلطی سے بھی تمہاری زبان سے میرے لیے لالا نہیں نکلنا چاہیے ورنہ جس طرح سے میں تمہیں بتاؤں گا کے میں تمہارا لالا نہیں ہوں وہ طریقہ تمہیں یقینا پسند نہیں آے گا"اسکا گال تھپتھپا کر عصیم نے اسے چھوڑا اور اسکے ایسا کرتے ہی وہ اپنی بھیگی آنکھیں لیے اسکے کمرے سے بھاگ گئی
°°°°°
" کسوا کیا ہوا ہے تمہیں" کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ پریشانی سے اسکے پاس گئی
وہ تو یہاں اس سے باتیں کرنے آئی تھی لیکن اسے روتا ہوا دیکھ کر وہ اچھی خاصی پریشان ہوچکی تھی
"آپی یہ سب لوگ زبردستی میری شادی عصیم لالا سے کروا رہے ہیں" ہچکیوں سے روتے ہوے وہ آئرہ سے سب کی شکایت لگارہی تھی اور آئرہ کو اس وقت وہ انتہا کی معصوم لگ رہی تھی
"تو اس میں کیا ہوا شادی تو تم نے کرنی ہے نہ تو عصیم لالا سے کیوں نہیں" اسنے اسے سمجھانا چاہا کیونکہ اسکے علاؤہ وہ اسکے لیے اور کچھ نہیں کرسکتی تھی
"میں انہیں واقعی میں بھائی سمجھتی ہوں میں ان سے شادی کیسے کرسکتی ہوں مجھے نہیں کرنی ان سے شادی آپ پلیز کچھ کریں"اسکے آنسو صاف کرکے آئرہ نے اسے اپنے ساتھ لگل لیا
وہ جانتی تھی کہ وہ کسوا کہ لیے کچھ بھی نہیں کرپاے گی وہ تو شہر میں رہتی تھی ایسی جگہ جہاں کا پتہ بھی کوئی نہیں جانتا تھا لیکن پھر بھی اسے زبردستی یہاں لایا گیا اور اب اسکی مرضی کے خلاف اسے اس ان چاہے رشتے میں باندھا جارہا تھا تو پھر کسوا تو ہمیشہ سے یہیں رہی تھی وہ کتنی ہی کوشش کرلیتی فلحال اسکے بس میں ایسا کچھ نہیں تھا جس سے وہ کسوا کے لیے کچھ کرپارتی
°°°°°
رات کے دو بج رہے تھے جب اسکا فون چلانے لگا اسنے کوفت سے سائیڈ لیمپ آن کرکے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اپنا موبائل اٹھایا جہاں ایک انجان نمبر سے کال آرہی تھی
وقت دیکھتے ہی اسے کال کرنے والے پر غصہ آیا جو رات کے اس وقت اسے پریشان کررہا تھا وہ ایک ڈاکٹر تھی اور کوئی ایمرجنسی بھی ہوسکتی تھی اسلیے اس کے پاس رات کے اس وقت فون آنا نارمل بات تھی لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ یہ فون کال ہاسپٹل سے نہیں ہے بلکہ معتصم کی ہے اور یہی اسکے غصے کی وجہ تھی پہلے سوچا کاٹ دے لیکن پھر زہہن میں یہی خیال آیا کہ اس شخص کا کوئی بھروسہ نہیں فون نہ اٹھانے پر وہ اسکے گھر کے باہر آکر کھڑا ہوجاے اسلیے مجبورا اسنے کال اٹھالی ویسے بھی وہ اس وقت اسی شہر میں تھا
"ہیلو"اور اسکی توقع کے مطابق دوسری طرف وہی تھا
"سورہی تھیں"وہ جو پہلے ہی نیند اور غصے میں تھی اسکے اس طرح پوچھنے پر غصہ مزید بڑھ گیا
"نہیں تو پارک میں واک کررہی تھی" اسنے جہاں تپ کر کہا تھا دوسری طرف کا جواب سن کر اسے مزید تپ چڑ چکی تھی
"میری جان یہ بھی کوئی وقت ہوتا ہے واک کرنے کا تمہیں سوجانا چاہیے"
"تم نے میرا دماغ کھانے کے لیے فون کیا ہے"
"نہیں تمہاری آواز سننے کے لیے"
"تو سن لی نہ اب میں فون بند کررہی ہوں"
"ارے بات تو سنو" اسنے کچھ کہنا چاہا لیکن دوسری طرف سے کال کٹ چکی تھی
"بڑی بے مروت لڑکی ہے یار معتصم شاہ تمہیں بھری دنیا میں یہی ایک لڑکی ملی تھی"ایک سرد آہ بھر کر اسنے بڑبڑاتے ہوے کہا اور پھر سے اسکے خیالوں میں کھو گیا
°°°°°
اپنے کمرے سے نکل کر وہ منہ بناتی ہوئی عالم کے پاس آکر کھڑی ہوگئی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا اتنی صبح شاپنگ پر کون جاتا ہے اور سامنے کھڑے شخص پر بے انتہا غصہ آرہا تھا جو اسکی نیند خراب کر چکا تھا اور اب اسے ہی دیکھ رہا تھا
"اب مجھے ہی دیکھتے رہو گے یا چلو گے بھی"
"ایسے حلیے میں جاؤ گی"
"کیوں کیا ہوا ہے میرے حولیے کو" اسنے ایک نظر اپنے کپڑوں کو دیکھا بلیو جینز کے ساتھ اسنے وائٹ کلر کی گھٹنوں تک آتی فراک پہن رکھی تھی اور اپنے دوپٹے کو گلے میں مفلر کی طرح ڈالا ہوا تھا
"جاؤ چادر اوڑھ کر آؤ"
"مجھے نہیں اوڑھنی کوئی چادر ایک تو تم نے میری نیند خراب کردی اتنی صبح صبح مجھے اٹھادیا اور اب حکم دے رہے ہو"
"ہاں تو اسلیے جلدی جارہے ہیں تاکہ جلدی واپس آجائیں اور جہاں تک بات ہے اتنی صبح کی تو دس بج رہے ہیں ہم سب فجر میں ہی اٹھ جاتے ہیں لیکن تم شہر سے آئی لڑکی ہو تمہارے لیے یہ صبح کا وقت ہی ہوگا اور تم اس وقت گدھے گھوڑے بیچ کر سوتی ہوگی"
"میرے پاس گھوڑا نہیں ہے ، البتہ گدھا اب مل گیا"دوسری بات اسنے بڑبڑاتے ہوے کہی تھی
"کیا بولا تم نے"
"میں نے بولا کہ میرے پاس گدھے اور گھوڑے نہیں ہے اب میں جارہی ہوں باہر اگر تم پانچ منٹ تک نہیں آے تو میں واپس اندر آوں گی اور پھر میں سونے چلی جاؤں گی" تیز لہجے میں کہتی ہوئی وہ باہر چلی گئی
"کرلو اپنی نیند پوری شادی کے بعد تو ویسے بھی تمہاری نیندیں حرام ہونے والی ہیں" زیر لب بڑبڑا کر وہ باہر جانے کے بجاے مبشرہ بیگم کے پاس چلا گیا
°°°°°
وہ باہر آیا تو وہ اپنی کمر پر ہاتھ رکھے اسکا ہی انتظار کررہی تھی اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرکے وہ اپنی پراڈو کی طرف بڑھ گیا
اسکی گاڑی راستے کی جانب بڑھ رہی تھی جب ایک دم رکی آئرہ جو اپنے موبائل میں مگن تھی گاڑی کے رکتے ہی اسکی طرف دیکھنے لگی
"کیا ہوا ہے یہ رک کیوں گئی"
"کیونکہ میں نے اسے روکا ہے" اپنی بات کہہ کر اسنے بلیک کلر کی چادر جو آئرہ نے گھر سے نکلتے وقت اسکے ہاتھ میں دیکھی تھی اسکی طرف بڑھائی
"یہ لو مبشرہ چاچی سے لایا ہوں تمہارے لیے پہن لو"
"مجھے نہیں پہننی"
"سوچ لو اگر تم نے اسے نہیں پہنا تو نہ ہی تو میں تمہیں اس گاڑی سے نکلنے دوں گا اور نہ ہی واپس گھر لے کر جاؤں گا"
"میں خود گھر چلی جاؤں گی" وہ گاڑی سے اترنے لگی جب عالم نے اپنے مظبوط ہاتھ میں اسکا ہاتھ پکڑ لیا
"سیدھی شرافت سے اسے پہن لو آئرہ بی بی ورنہ"
"یہ مت کہنا کہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا کیونکہ میں بتا دوں تم سے برا واقعی میں کوئی نہیں ہے" آئرہ نے اسکی بات کاٹ کر کہا اور اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے چھڑوانا چاہا جبکہ اسکی بات عالم کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑا چکی تھی
"نہیں میں یہ کہنے والا تھا کہ تم سے برا کوئی نہیں ہوگا"
"ہاتھ چھوڑو گے تو پہونگی نہ" اسکے کہنے پر عالم نے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا اور اسکے ایسا کرتے ہی وہ بڑبڑاتے ہوے چادر اوڑھنے لگی
"یہ والا کیسا ہے" پنک کلر کی ہیوی میکسی نکلوا کر اسنے آئرہ کے سامنے رکھوا کر اسکی راے پوچھی
انہیں اس مال میں آے پچاس منٹ ہوچکے تھے جس میں سے اسنے اب تک صرف ایک سوٹ لیا تھا جو شادی کے حساب سے تو بلکل نہیں تھا اسکا کہنا تھا یہ سوٹ وہ اپنی پیاری دوست پریشے کی برات میں پہنے گی
لیکن جس کام کے لیے عالم اسے لایا تھا وہ اسنے ابھی تک نہیں کیا تھا
"اچھا نہیں ہے" اسنے منہ بنایا
"تو کیا چاہیے اتنی دیر سے تم نے مجھے خوار کیا ہوا ہے" اسنے اپنے لہجے کو نارمل رکھتے ہوے کہا
"میری کیا غلطی ہے خود ہی نے کہا تھا نہ کہ چلو ولیمے کا ڈریس لینے چلو اب بندہ لے رہا ہے تو اچھے سے دیکھ کر ہی لے گا نہ" اسنے عالم کو گھورتے ہوے کہا جب نظر ایک سوٹ پر پڑی اسنے سیلز بواے سے وہ والا ڈریس نکالنے کے لیے کہا
"واؤ یہ کتنا پیارا ہے"وہ بےبی کی کلر کی میکسی تھی جو پر ستاروں کا کام ہورہا تھا وہ اتنی ہیوی نہیں تھی اور عالم کے مطابق ولیمے کے لحاظ سے بھی نہیں تھی لیکن اسکا دل تو اس میکسی پر آچکا تھا
"نہیں یہ ولیمے کے حساب سے نہیں ہے کوئی دوسرا دکھاؤ"اسنے سیلز بواے کو اشارہ کیا جو دوسرے ڈریسس لا کر اسکے سامنے رکھ رہا تھا
"یہ والا خوبصورت ہے"اسنے ایک سلور کلر کی بھاری کامدار فراک دیکھ کر کہا وہ سوٹ دکھنے میں ہی کافی بھاری لگ رہا تھا لیکن تھا وہ بےانہتا خوبصورت
"میں اتنے ہیوی ڈریس نہیں پہنتی" اسنے منہ بنا کرکہا اسکا موڈ ویسے بھی خراب ہوچکا تھا کیونکہ اسکی پسندیدہ چیز اسے نہیں دلائی تھی
"لیکن میں تو یہی لوں گا"
"تو پھر لے لو جب اپنی مرضی کرنی تھی تو مجھے ساتھ کیوں لاے"جگہ کا لحاظ کرتے ہوے وہ دبا دبا سا غرائی
"میں جارہی ہوں"
"کہاں جارہی ہو"
"میں نہیں بتانے کے میں فوڈ کورٹ جارہی ہوں" اسنے جاتے ہوے بتانا ضروری سمجھا کہ وہ کہاں جارہی ہے
تاکہ عالم کو اسے ڈھونڈ نے میں آسانی رہے کیونکہ اسکے ساتھ آئی تھی تو جانا بھی تو اسکے ساتھ ہی تھا نہ لیکن یہاں سے جاکر تھوڑے نخرے بھی دکھانے ہیں کیونکہ اسکا پسند کیا ہوا سوٹ چھوڑ کر عالم نے اپنی پسند کا سوٹ جو لے لیا ہے
اس وقت اسکے پاس پیسے بھی نہیں تھے جو خود وہ سوٹ خرید لیتی کیونکہ وہ تو یہاں عالم کے کیش پر عیش کرنے آئی تھی اسلیے اپنے بیگ میں جو اسنے کندھے سے گزار کر ڈالا ہوا تھا اس نے چند ہزار ہی رکھے ہوے تھے
عالم نے مسکراتے ہوے اسکی پشت کو دیکھا اور اپنی پسند کی ہوئی فراک کے ساتھ اسکی پسند کی ہوئی میکسی بھی لے لی
بھلا ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ عالم شاہ کی منگ کو کوئی چیز پسند آے اور عالم شاہ اسے نہ دلاے
اسے خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ لڑکی اس کے لیے کتنی عزیز ہوتی جارہی تھی ایسا لگ رہا تھا وہ دنیا کی کوئی بھی شے مانگتی تو عالم شاہ اسکے قدموں میں ڈھیر کردیتا
°°°°°
فوڈ کورٹ میں وہ اسے سامنے ہی کرسی پر بیٹھی شیک پیتی ہوئی نظر آچکی تھی
"چلیں" اسنے اسکے پاس جاکر کہا
"میں نے کچھ کھایا نہیں ہے اسنے اپنے چہرے کا رخ موڑ کر کہا یقینا اسے عالم کی شکل نہیں دیکھنی تھی
"اتنا منہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے لے لیا تھا تمہارا پسندیدہ سوٹ" اسنے شاپنگ بیگ اسکے سامنے رکھے
اسنے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا جیسے اسکی بات پر یقین نہ ہو پھر بیگ کے اندر جھانکا وہاں واقعی وہ میکسی تھی جو اسنے پسند کی تھی
"تم واقعی میں لے آے" اسنے خوشی سے تمتماتا چہرہ لیے اسے دیکھا
"میرے خیال سے اگر دکھ رہا ہے تو میں یقینا لے کر ہی آیا ہوں" اسنے طنزیہ کہا
"لیکن میں تھینک یو نہیں بولوں گی" اسنے ٹیبل پر رکھا اپنا ونیلا شیک اٹھایا اور اسے دوبارہ پینے لگی
"کھانا کیوں نہیں کھایا"
"اب اتنی بھی بے مروت نہیں ہوں تم میری وجہ سے ایک گھنٹے سے خوار ہوے ہو نہ تو میں نے سوچا تم آؤ تو ایک ساتھ آرڈر کرتے ہیں"
"اچھا تو پھر یہاں سے چلتے ہیں ویسے بھی یہاں پر میرے مطلب کا کھانا نہیں ملے گا" اسنے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوے کہا
"تمہارے مطلب کا کیا ہونا چاہیے"
"دیسی کھانا" اسکے کہنے پر آئرہ نے منہ بنا کر اسٹرہ اپنے لبوں سے لگائی
"گھر میں یہ سب کھاکر تمہارا من نہیں بھرا جو یہاں پر بھی یہی سب کھانا ہے"
"ہاں نہیں بھر اب چلو مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے اور زیادہ دیر ہوئی تو تمہیں ہی نہ کھا جاؤں" اسکی بات آئرہ نے سنی ہی نہیں تھی
°°°°°
"اللہ تعالیٰ پلیز یہ سب جھوٹ ہو عصیم لالا سے شادی کی بات صرف مذاق ہو کوئی آکر مجھ سے کہہ دے کسوا تمہیں بیوقوف بنایا ہے" نماز مکمل کرکے وہ اپنی دعا مانگ رہی تھی جب سے اسے اپنی اور عصیم کی شادی کا علم ہوا تھا تب سے اسکی ہر نماز کے بعد کی دعا یہی تھی
وہ بھلا کیسے اس سے شادی کرسکتی تھی وہ تو اسے اپنا بھائی مانتی تھی اور عصیم جیسا شخص تو کبھی بھی اسکا آئیڈیل نہیں تھا
اسے کبھی کبھی یہ سب صرف مذاق لگتا کیونکہ اسکا تو شادی کا سوٹ تک بھی نہیں آیا تھا اور اگر اسکی شادی ہوتی تو اسکا کچھ تو سامان ہوتا لیکن ایسا نہیں تھا ایسا کچھ نہیں تھا
جبکہ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ عصیم اسکا سارا سامان پہلے ہی لاچکا تھا اور اسکی شادی کی ساری تیاریاں تو کب سے مکمل تھیں
°°°°°
آج معتصم اور پریشے کا نکاح تھا شادی میں صرف برات اور ولیمے کی تقریب ہونی تھی آج ان دونوں کی برات تھی کل عصیم اور عالم کی اور پرسوں ان تینوں کا ولیمہ تھا
ہر طرف گہما گہمی مچی ہوئی تھی پورا ہال لوگوں سے بھرا ہوا لیکن پھر بھی ہر طرف خاموشی تھی صرف مولوی صاحب کے بولنے کی آواز آرہی تھی
"پریشے شاہ ولد ظفر شاہ آپ کا نکاح معتصم شاہ ولد یاور شاہ کے ساتھ پچاس لاکھ حق مہر سکہ رائج الوقت طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے"
اسنے پھولوں کے بنے پردے سے معتصم شاہ کو دیکھا جس نے بلیک کلر کا پرنس کوٹ پہنا ہوا تھا بال جیل سے جمے ہوے تھے اور کوٹ میں سونے کا بروچ لگایا ہوا تھا جبکہ نظریں خود کو دیکھتی پریشے پر تھیں
"میری ایک بات کان کھول کر سن لو تم اپنے اس کزن سے شادی نہیں کرو گی تم نے کرنی بھی چاہی تو میں ایسا ہونے نہیں دوں گا تو بہتر ہے پہلے ہی اس سب سے انکار کر دو" معتصم کا کہا گیا جملہ اسکے کان میں گونجا اسنے دھیرے سے خود کو کہتے ہوے سنا
"قبول ہے"
"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے"
"آئیندہ اس شخص کا نام اپنی زبان پر مت لانا میری ہو تم صرف میری صرف معتصم شاہ کی" اسکے کانوں میں پھر معتصم کا کہا گیا جملہ گونجا
"قبول ہے"
"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے"
"میں تم سے نکاح نہیں کروں گی"
"سوچ لو پہلے ہی تمہاری غلطی کی سزا یہ بھگت رہی ہیں میں اس سے آگے بھی بڑھ سکتا ہوں جس کا مجھے کوئی افسوس نہیں ہوگا تو بہتر ہے کہ میری بات مان لو" معتصم کی آواز پھر اسکے کانوں میں گونجی جس پر اسنے آنکھیں موند کر آہستہ سے کہا
"قبول ہے"
اسکے تیسری بار کہنے پر معتصم نے سکون سے اپنی آنکھیں موند لیں
وہ اسکے نکاح میں تھی اسکی ہی تھی لیکن آج وہ اسے پوری دنیا کے سامنے مکمل رسم و رواج کے ساتھ اپنا چکا تھا
کپکپاتے ہاتھوں سے اسنے سائن کردیے وہ پہلے ہی اس شخص کے نکاح میں تھی لیکن پہلے وہ اتنا نہیں ڈری تھی کیونکہ اسے یہ امید تھی کہ وہ اس رشتے سے آزاد ہوجاے گی لیکن اب یہ امید ختم ہوچکی تھی
اس وقت اسے سب سے زیادہ یاد جس کی آئی وہ اماں جان تھیں جو اس وقت اسکے اتنے اہم موقعے پر اسکے ساتھ نہیں تھیں اسکے پاس نہیں تھیں
نکاح ہوتے ہی ہر طرف مبارک باد کا شور مچ اٹھا
انکا نکاح ہونے کے بعد عینہ اور وصی کا نکاح ہوا تھا دلہن بنی عینہ نے اپنے سامنے موجود وصی کو دیکھا جو اب مکمل طور پر اسکا تھا سامنے بیٹھے شخص کے چہرے پر بےزاری تھی جیسے وہ یہاں زبردستی بیٹھا ہو لیکن عینہ کو اس بات سے فرق نہیں پڑنا تھا خدا نے اسکی پاک محبت کو اسکا محرم بنادیا تھا اور بہت جلد وہ اپنے محرم کے دل میں اپنے لیے جگہ بنالے گی یہ عہد اسنے خود سے کہا تھا
رسمیں ختم ہوتے ہی رخصتی کا شور اٹھا پہلے جہاں ماحول میں خوشی تھی اب وہیں آنسو بھی آچکے تھے
"وصی عینہ کا خیال رکھنا"اسنے وصی کے قریب کھڑے ہوکر کہا جس پر وصی نے دکھ سے اسے دیکھا کل تک اس لڑکی کو اسکی زندگی میں آنا تھا لیکن آج وہ کسی اور کے ساتھ رخصت ہوکر جارہی تھی
وہ نم آنکھوں سے اسے جب تک دیکھتا رہا جب تک وہ مکمل طور پر اسکی نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی
°°°°°
گھر آکر گھر کی خواتین نے کتنی ہی رسمیں کرلی تھیں تھکن سے اسکا برا حال تھا اوپر سے نیند بھی آرہی تھی لیکن جھجک ایسی تھی کہ وہ یہ بات کسی کو بول بھی نہیں سکتی تھی اور اس وقت اسے آئرہ بھی نہیں دکھ رہی تھی
جو اس سے ہی کچھ کہہ کر یہاں سے اٹھنے کا کہہ دیتی لیکن شاید اسکی یہ تھکن فارینہ بیگم دیکھ چکی تھیں اسلیے آئرہ کو بلا کر اسے کمرے میں چھوڑنے کے لیے کہا
"رک جاؤ بہو مجھے بھی تو اپنی بیٹی کو تحفہ دینا ہے" آئرہ جو اسے معتصم کے کمرے میں لے کر جارہی تھی دادا جان کے کہنے پر اسنے اسے واپس بٹھادیا
"یہ لو بیٹا" انہوں نے ایک سرخ مخمل کا بوکس اسکی طرف بڑھایا اسنے اپنی آنکھیں اٹھا کر سامنے کھڑے اس شخص کو دیکھا دل چاہا انکے ہاتھ میں موجود اس بوکس کو لے کر پھینک دے لیکن وہ ان سب لوگوں کے بیچ میں کوئی تماشہ نہیں چاہتی تھی اسلیے خاموشی سے اس باکس کو تھام لیا جس میں سونے کا کافی بھاری سیٹ تھا
"یہ معتصم کی ماں کا تھا اسکا کچھ سامان معتصم نے رکھا تھا اور باقی کا اسکی نشانی کے لیے سب نے لیکن یہ میں نے اپنے پاس رکھا تھا کیونکہ یہ میرے معتصم کی دلہن کی امانت تھا خوش رہو خدا جوڑی بناے رکھے" انہوں نے مسکراتے ہوے اسکے سر پر ہاتھ رکھا اور آئرہ کو اسے کمرے میں لے جانے کے لیے کہا
°°°°°
نیند آنکھوں میں بھری پڑی تھی اپنا لہنگا سنبھالتی ہوئی وہ اپنے کمرے میں جارہی تھی جب کسی نے اسکی کلائی پکڑ کر اسے اپنی جناب کھینچا
جس کی وجہ سے وہ چوڑےسینے سے ٹکرائی اسنے نظریں اٹھا کر اپنے سامنے کھڑے عصیم کو دیکھا جس نے اس وقت بلیک کمیز شلوار پر بلیک کلر کا کوٹ پہنا ہوا تھا اور گھنی مونچھوں کو ہمیشہ کی طرح تاؤ دیا ہوا تھا
"میری کلائی چھوڑیں"
"مجھ سے بھاگ کیوں رہی ہو"
"میں تو نہیں بھاگ رہی" اسنے اسکے ہاتھ میں موجود اپنی کلائی چھڑانی چاہی اور اسکے ایسا کرتے ہی عصیم نے اسکی کلائی کو مزید سختی سے پکڑ لیا
"ناراض ہو مجھ سے"
"اگر میں کہوں ہاں تو آپ کیا کریں گے"
"میں تمہاری ناراضگی دور کروں گا بتاؤ کیا کروں"
"پلیز ش-شادی سے انکار کردیں عصیم لالا مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی ہے" اسکے کہنے پر عصیم نے جھٹکے سے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے قریب کیا اور اسکے اتنے قریب آنے پر کسوا کا سانس جیسے حلق میں اٹک چکا تھا اس وقت سب اپنے کمرے میں جاچکے تھی اسلیے کسی کا بھی یہاں پر آنے کا کوئی چانس نہیں تھا
"کسی کو پسند کرتی ہو تم"وہ اپنی سرخ آنکھیں اسکی آنکھوں میں ڈالے پوچھ رہا تھا جس پر اسنے جان بوجھ کر اپنا سر اثبات میں ہلادیا شاید یہ بات سن کر ہی عصیم شادی سے انکار کردے
"م-میں اسے پسند کرتی ہوں اسکا ن-نام ثوبان"
"چٹاخ" اسکے بات مکمل کرنے سے پہلے ہی عصیم کا بھاری ہاتھ اسکے نازک گال پر پڑا جس پر کسوا کی آنکھوں سے آنسو تیزی سے بہنے لگے وہ اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے غصے سے دیکھ رہا تھا جس سے کسوا کو خوف آرہا تھا اسنے پہلی بار عصیم کا یہ انداز دیکھا تھا
"اپنے کمرے میں جاؤ" اسے چھوڑ کر عصیم نے اسکے کمرے میں جانے کا اشارہ کیا یقینا وہ یہ باتیں نہیں سننا چاہتا تھا اسکے چہرے پر جہاں تھوڑی دیر پہلے مسکراہٹ تھی اب اس کی جگہ سنجیدگی نے لے لی تھی
"عصیم لالا پلیز"
"اپنے کمرے میں جاؤ اور کل نکاح سے پہلے مجھے اپنی شکل مت دکھانا" اسکے سخت لہجے کو دیکھ کر اسنے سہمی ہوئی نگاہوں سے اسے دیکھا اور وہاں سے بھاگ گئی
اسکے جانے کے بعد عصیم نے اپنے گھنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر جیسے خود کو کرسکون کرنا چاہا لیکن غصہ تھا جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا
وہ جانتا تھا کہ کسوا کسی کو پسند نہیں کرتی اسکی زندگی میں کبھی ایسا کوئی آیا ہی نہیں تھا جسے وہ اس طرح دیکھتی
لیکن غصہ اسے اس بات پر تھا کہ اس شادی سے انکار کے لیے اسنے جھوٹ بولا اور اس سے زیادہ غصہ اس بات پر آرہا تھا کہ اسنے اپنی زبان سے کسی اور کا نام لیا
وہ تو اسکے خواب میں بھی اپنے علاؤہ کسی کو نہ آنے دے یہاں تو پھر وہ حقیقت میں کسی اور کا نام لے رہی تھی
اسنے اپنے ہاتھ کو دیکھا جو اسنے کسوا پر اٹھایا تھا خود کا ہاتھ اٹھانا اور کسوا کی نم آنکھیں یاد کرکے اب اسے خود پر بھی غصہ آرہا تھا وہ اسے کیسے تکلیف دے سکتا تھا
اسنے غصے سے اپنا ہاتھ دیوار میں مارا درد کی ایک لہر اٹھی لیکن وہ نظر انداز کیے اپنا ہاتھ دیوار پر جب تک مارتا رہا جب تک وہ اچھا خاصا زخمی نہیں ہوگیا
اسنے اپنے زخمی ہاتھ کو دیکھا اس میں تکلیف ہورہی تھی لیکن اسے یہ تکلیف اس تکلیف سے چھوٹی لگ رہی تھی جو اسنے اپنی کسوا کو دی تھی
°°°°°
اسنے پورے کمرے پر نظریں دوڑائیں وہ کمرہ کافی بڑا تھا شاید حویلی کا ہر کمرہ ہی اتنا بڑا تھا اور بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ کافی خوبصورت بھی تھا اور اسکی خوبصورتی میں اضافہ کمرے کی ڈیکوریشن نے کیا تھا پھولوں سے سجا کمرہ اور پورے کمرے میں پھولوں کی دلفریب خوشبوں
اسکا لہنگا اچھے سے بیڈ پر پھیلا کر آئرہ وہاں سے جانے لگی جب پریشے نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا
"کیا ہوا پری"
"تم کہاں جارہی ہو یہیں بیٹھو میرے پاس"
"تمہارا دماغ ٹھیک ہے پری معتصم لالا آنے والے ہوں گے"
"ہاں تو آنے دو مجھے فرق نہیں پڑتا تم یہاں بیٹھو ہم باتیں کریں گے نہ"
"پری ہم کل بات کریں گے ٹھیک ہے ابھی میں سونے جارہی ہوں اور ریلیکس ہوجاؤ کچھ نہیں ہوگا گڈ نائٹ" اسکا گال تھپتھپا کر آئرہ وہاں سے چلی گئی
°°°°°
کمرے سے نکلتے ہی اسنے اپنی چیخ روکی جو سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر اسکی نکلنے والی تھی
"تم یہاں کیا کررہے ہو"اسنے گھور کر عالم کو دیکھا
"کچھ نہیں بس تمہیں دیکھ رہا تھا پوری تقریب میں بجلیاں گراتی پھر رہی تھیں"اسکے کہنے پر آئرہ نے ضبط سے گہرا سانس لیا عالم نے اسکی تعریف کری تھی لیکن تعریف بھی اپنے طریقے سے کری تھی
"کیوں دیکھ رہے ہو تم مجھے"
"کیونکہ میں حق رکھتا ہوں تمہیں دیکھنے کا"
"کوئی حق نہیں رکھتے تم مجھ پر"
"رکھتا ہوں تم میری,,,"
"خبردار خبردار جو تم نے یہ م ن گ والا لفظ اپنی زبان سے نکالا مجھ سے برا واقعی کوئی نہیں ہوگا" اسکے کچھ کہنے سے پہلے ہی آئرہ ایک ہی جست میں اس تک پہنچ کر کہا انداز تنبیہہ کرنے والا تھا
"میں تو بولوں گا کیا بنا م ن گ ہاں اتنا تو مجھے پتہ ہے یہ منگ بنا اور اس میں کچھ غلط نہیں ہے تم میری"
"بے بے بے بے" زور سے چلاتی ہوئی وہ وہاں سے بھاگ گئی چلانے کا مقصد یہ تھا کہ عالم کی کہی بات اسے سنائی نہ دے
اسنے مڑ کر عالم کو دیکھا وہ اب چلا نہیں رہی تھی کیونکہ عالم شاہ بھی خاموش ہوچکا تھا اسلیے مطمئن ہوکر وہ وہاں سے جانے لگی
"تم میری منگ ہو" اسنے اتنی تیز آواز میں کہا تھا کہ تھوڑے فاصلے پر کھڑی آئرہ نے آرام سے اسکی بات سنی تھی لیکن پھر بنا مڑے وہ غصے سے وہاں سے چلی گئی
عالم شاہ نے مسکراتے ہوے اسے دیکھا اسکی مسکراہٹ جتنی گہری ہورہی تھی گال کا ڈمپل بھی اتنا ہی گہرا ہورہا تھا
کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی پہلی نظر بیڈ پر بیٹھی اپنی دلہن پر گئی جو چہرہ جھکائے بیٹھی یقینا اسی کے انتظار میں تھی گہرا سانس لے کر وہ اسکے پاس جاکر بیڈ پر بیٹھ گیا
"دیکھو عینہ تم بھی جانتی ہو یہ شادی کن حالات میں ہوئی ہے میں نے کبھی تمہارے بارے میں ایسا نہیں سوچا تھا" گلا کھنکار کر اسنے بات کا آغاز کیا
"میں جانتا ہوں کہ یہ سب تمہارے لیے بھی مشکل ہے شاید تمہارے ساتھ بھی زبردستی ہوئی ہے تم بھی یقیناً کسی ایسے شخص سے شادی نہیں کرنا چاہتی ہوگی جس کی زندگی میں پہلے ہی کوئی اور ہو"
اسکی بات سن کر وہ سر مزید جھکائے اپنے آنسو ضبط کررہی تھی اسے تو یہ لگا تھا کہ وصی اسکا ہوگیا لیکن نہیں وہ آج بھی پریشے کا ہی تھا وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ اسنے ایسا کچھ نہیں سوچا وہ تو اسکے ساتھ شادی ہونے پر اپنے آپ کو خوش نصیب تصور کررہی تھی لیکن گلے میں موجود آنسووں کا گولا اسے کچھ کہنے ہی نہیں دے رہا تھا
"میں کچھ وقت چاہتا ہوں یہ سب بہت اچانک ہوا ہے امید ہے تم میری بات سمجھو گی جاؤ شاباش چینج کرکے سوجاؤ" نرم مسکراہٹ لیے وصی نے اسے دیکھا اور پھر اپنے کپڑے نکال کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا
عینہ نے اپنا جھکا سر اٹھایا آنسو جو وصی کے سامنے رکے ہوے تھے وہ بہہ نکلے وہ جانتی تھی کہ وہ وقت اس رشتے کو سمجھنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی زندگی میں واپس پریشے کو لانے کے لیے مانگ رہا ہے
وہ جانتا تھا کہ پریشے کو اس رشتے میں زبردستی باندھا گیا ہے اور کہیں نہ کہیں اس کے دل میں یہ امید بھی تھی کہ پریشے ایک دن اس زبردستی کے رشتے سے نکل کر واپس اسکی زندگی میں آجاے گی
°°°°°
اسے یہ سب خواب سا لگ رہا تھا اسکا من چاہا ہمسفر اسکا عشق اس وقت اسکے کمرے میں اسکے بیڈ پر بیٹھا ہوا تھا مسکراتے ہوے وہ جاکر اسکے پاس بیٹھ گیا اور اسکے ایسا کرتے ہی وہ اپنے چہرے کا رخ موڑ کر بیٹھ گئی
"اسلام وعلیکم"اسکی بھاری آواز کمرے میں گونجی لیکن وہ ہنوز ویسے ہی بیٹھی رہی
"کم از کم سلام کا جواب تو دے دو"
"وعلیکم اسلام"
"تو کیسا لگ رہا ہے یہاں بیٹھ کر میری زندگی میں آکر" وہ اس سے باتیں کرنے کی کوشش کررہا تھا
"سچ بتاؤں تو اپنا آپ ایسا لگ رہا ہے جیسے میں کوئی بوجھ ہوں جسے ماں باپ نے اپنے سر سے اتار کر کسی کے بھی پلے باندھ دیا" معتصم کو اس سے ایسے جواب کی امید نہیں تھی
'میں اگر یہاں تمہارے سامنے بیٹھی ہوں تو اسکی وجہ صرف اماں جان ہیں ورنہ میں مرجاتی لیکن تم سے شادی نہ کرتی"اسکے کہنے پر معتصم نے اسکے بالوں میں ہاتھ پھنسا کر اسے اپنے قریب کیا
"میرے سامنے آج کے بعد مرنے کی بات مت کرنا ورنہ سچ میں بتاؤنگا کہ مرنا کسے کہتے ہیں" پریشے نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا
"میرے بال چھوڑو" اسکا ڈوپٹہ جس کی پن اسنے پہلے ہی نکال دی تھی وہ بھی اسکے بال پکڑنے کی وجہ سے سر سے اتر چکا تھا اسکی بات کا بنا کوئی جواب دیے معتصم اسکے لپسٹک سے سجے لبوں پر جھک گیا جو کب سے اسے بہکا رہے تھے
اسکے انداز میں بےحد نرمی تھی وہ نرمی سے اسکے لبوں پر جھکا ہوا تھا لیکن اسکا اتنے قریب آنا پریشے کو ناگوار گزرا تھا اسلیے اسکے کندھے پر ہاتھ مار کر وہ اسے خود سے دور کرنے لگی
اسکے ایسا کرنے پر وہ خود ہی اس سے دور ہوگیا
"میں جانتا ہوں تمہارے لیے اس رشتے کو قبول کرنا مشکل ہے اسلیے میں تمہیں وقت دیتا ہوں تم جتنا چاہو لے سکتی ہو جب تک تم اپنے دل سے راضی نہیں ہوجاؤ گی تب تک میں تمہارے قریب نہیں آوں گا ہاں لیکن میری یہ شرارتیں تمہیں برداشت کرنی پڑیں گی" اسکا شرارتوں سے کیا مطلب تھا وہ سمجھ چکی تھی اسے ہونٹوں پر ابھی تک اسکا لمس محسوس ہورہا تھا
"ہاں لیکن میرا نہ سہی اپنا خیال ضرور کرلینا کیونکہ میں اپنی ہر تڑپ کا بدلہ تم سے لوں گا تو اتنا ہی تڑپانا جتنا تم برداشت کر سکو"اسکے ماتھے پر پیار بھرا لمس چھوڑ کر وہ اٹھ کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا
جبکہ پریشے ابھی تک حیرت میں مبتلا تھی وہ اسے وقت دے رہا تھا وہ اسے وقت دے گا یہ اسنے کبھی نہیں سوچا تھا
°°°°°
وہ ڈریسنگ روم سے نکلا تو وہ ابھی تک اسی طرح بیٹھی تھی جیسے وہ چھوڑ کر گیا تھا
"بیوی اگر ارادے کچھ اور ہیں تو تم مجھے بتادو اس طرح یہاں بیٹھ کر میری نیت کیوں خراب کررہی ہو"معتصم کی آواز پر وہ خیالوں کی دنیا سے باہر نکلی
"تم نے مجھے وقت دیا ہے تاکہ میں اس رشتے کو سمجھ سکوں لیکن اس سب کا بھی کوئی فایدہ نہیں ہے کیونکہ مجھے جیسے ہی موقع ملے گا میں یہاں سے چلی جاؤں گی مجھے تم جیسے انسان کے ساتھ اپنی زندگی نہیں گزارنی ہے"
اسکے کہنے پر معتصم کو جیسے کوئی فرق ہی نہیں پڑا تھا اسنے چینج کرکے بلیک ٹراؤزر اور ڈارک بلیو شرٹ پہنی ہوئی تھی
"ہوگیا تو جاکر چینج کرلو تمہارے کپڑے تمہاری وارڈروب میں موجود ہیں" اسکے کہنے پر وہ بھی بنا کچھ کہے وہاں سے اٹھ کر واشروم میں چلی گئی
معتصم نے اپنے سجے ہوے کمرے کو دیکھا اور ایک نظر واشروم کے بند دروازے کو پھر گہرا سانس لے کر اپنے کمرے میں موجود اسٹڈی روم میں چلا گیا تاکہ دھیان پریشے سے دور ہوجاے لیکن وہ جانتا تھا اسکا بھی کوئی فایدہ نہیں ہوگا کیونکہ دل و دماغ ہر جگہ وہ پری قابض تھی
°°°°°
وارڈروب کھولتے ہی اسکی نظر اس میں موجود کپڑوں پر گئی وہاں سمپل ہیوی نائٹ سوٹ ہر طرح کے کپڑے میں موجود تھے
اور وہ بس حیرت سے ان کپڑوں کو دیکھ رہی تھی جن سے پوری وارڈروب بھری ہوئی تھی وہاں پر ہر طرح کے کپڑے تھے جو کے سارے ہی بے انتہا خوبصورت تھے
یہاں سارے کپڑے انہی کلر کے تھے جس کلر کے وہ پہنتی تھی اور اتنا علم تو اسے تھا کہ یہ کام آئرہ کا ہے بھلے سارے کپڑے معتصم لایا ہوگا لیکن وہ کس طرح کے اور کونسے کلر کے کپڑے پہنتی ہے یہ بات آئرہ کے علاؤہ اس گھر میں بھلا اور کون جانتا ہو گا
°°°°°
آہستہ سے دروازہ کھول کر وہ کمرے میں داخل ہوا کمرے کی لائٹ جل رہی تھی اور وہ بیڈ پر سمٹی ہوئی ہر چیز سے بےخبر سورہی تھی
وہ آہستہ سے چلتا ہوا اسکے قریب چلا گیا
نظر سب سے پہلے اسکے گال پر پڑی جہاں اسکی انگلیوں کے نشان کے ساتھ ساتھ آنسو کے نشان بھی تھے یقیناً وہ روتے روتے ہی سوگئی تھی
اسنے اپنی انگلیوں کے پوروں سے اسکے گال کو چھوا دل چاہا اسکے گال پر اپنے لب رکھ دے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا کیونکہ سامنے سوئی ہوئی یہ لڑکی اسکے لیے نامحرم تھی
"آئی ایم سوری کسوا"وہ اسکے گال کو چھوتے ہوے کہہ رہا تھا لہجے میں ملال تھا
"تمہیں اندازہ نہیں ہے تمہارے معاملے میں ، میں کیسا ہوں بلکہ مجھے خود بھی اندازہ نہیں ہے کہ میں تمہارے معاملے میں کیسا ہوں بس مجھے یہ پتہ ہے کہ تم میرے لیے بہت ضروری ہو اور میں آئیندہ ایسا کبھی نہیں کرونگا کبھی تم پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا"اسکے ماتھے پر گری چند لٹیں کان کے پیچھے کرکے اسنے کمرے کی لائٹ آف کی اور کمرے سے چلی گیا
°°°°°
اپنا سوٹ ہاتھ میں سمبھال کر وہ آئرہ کے کمرے میں جارہی تھی بیوٹیشن وہیں تھی اور کسوا اور آئرہ بھی وہیں تیار ہورہی تھیں آج انکی برات تھی اور گھر میں ہر طرف شور مچا ہوا تھا
گاؤں سے تھوڑے فاصلے پر ایک بڑا میریج ہال بنا ہوا تھا جو کچھ ماہ پہلے ثقلین شاہ نے بنوایا تھا آج انکی برات اسی ہال میں تھی اور کل ان تینوں کا ولیمہ بھی اسی ہال میں تھا
جاتے ہوے اسکی نظر عالم پر پڑی جو فون پر بات کرتے ہوے جارہا تھا انداز مصروف سا تھا اسے دیکھ کر اسکی آنکھو میں غصہ بھر گیا پل بھر میں وہ اسکے سامنے جا کر کھڑی ہوگئی
"میں بعد میں بات کرتا ہوں" اسنے پریشے کی طرف دیکھتے ہوے فون پر موجود دوسرے شخص سے کہا اور فون بند کرکے اسکی طرف متوجہ ہوا
"جی بھابھی کہیے"
"آپ کو شرم نہیں آرہی آپ اس طرح زبردستی کرکے میری دوست کی زندگی برباد کررہے ہیں"
"یہ آپ کا معاملہ نہیں ہے"
"کیوں نہیں ہے وہ دوست ہے میری اور میں اسکے لیے لڑوں گی"
"ٹھیک ہے تو لڑیے چند گھنٹے بعد نکاح ہے میرا آپ کی دوست سے روک سکتی ہیں تو روک لیجیے" اطمینان سے کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا جبکہ پریشے بس اسکی پشت کو گھورتی رہی گئی وہ بھی جانتی تھی کہ وہ آئرہ کا نکاح نہیں رکوا سکتی لیکن اسے اپنی دوست کے لیے جو دکھ تھا اور عالم پر جو غصہ تھا وہ بھی تو اتارنا تھا
°°°°°
"واؤ میم آپ تو بہت خوبصورت لگتی ہیں سر دیکھیں گے تو کیا ہوگا"بیوٹیشن نے اسے دیکھتے ہوے کہا انہیں شہر کے ایک بڑے سیلون سے بلایا گیا تھا
آئرہ نے نظریں اٹھا کر خود کو دیکھا وہ واقعی میں حسین لگ رہی تھی اس بات کا اقرار تو اسنے خود کیا تھا اسکا اور کسوا کا لال رنگ کا شرارہ تھا لیکن ڈیزائن الگ تھا
اسنے لال رنگ کا شرارہ پہنا ہوا تھا بالوں کا خوبصورت جوڑا بناے اسنے اپنا لال بھاری کامدار ڈوپٹہ سر پر سلیقے سے سیٹ کیا ہوا تھا جیولری میں بھی اسنے سب چیزیں پہنی ہوئی تھیں جو کہ سب عالم ہی لایا تھا اور اس سب کے اوپر برائڈل میک اپ اسکے حسن کو چار چاند لگا رہا تھا اسنے پہلی بار یہ سب کچھ کیا تھا نہ ہی تو اسنے آج تک اتنا ہیوی سوٹ پہنا تھا اور نہ ہی یہ سب جیولری
عالم کا سوچتے ہی اسے اسکی کی گئی کل والی تعریف یاد آگئی کہ وہ بجلیاں گرا رہی تھی اگر کل کو بجلیاں گرا رہی تھی تو آج تو عالم کی نظروں میں وہ طوفان مچارہی ہوگی
اف ،، عالم شاہ اور اسکی تعریفیں
"انکا میک اپ ہوگیا" اسنے دوسری بیوٹیشن کو دیکھتے ہوے کہا جو کسوا کو تیار کررہی تھی
"نہیں میم یہ بار بار روے جارہی ہیں"
"ٹھیک ہے آپ لوگ جائیں میں خود تیار کروں گی" اسکے کہنے پر دونوں باہر کی جانب چلی گئی
"کسوا ادھر دیکھو میری طرف کیا ہوا ہے بتاؤ مجھے" اسنے پیار سے اسکی تھوڑی سے اسکا چہرہ اوپر کرکے کہا لہجہ بلکل بڑی بہنوں کی طرح تھا
"آئرہ آپی مجھے یہ شادی نہیں کرنی ہے "آنسو جن پر مشکل سے بندھ باندھا ہوا تھا وہ پھر سے بہنے لگے
"کیوں نہیں کرنی ہے شادی کچھ ہوا ہے عصیم لالا نے کچھ کہا ہے"
"انہوں نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا ہے"
"کیا انہوں نے تم پر ہاتھ اٹھایا ہے" یہ آواز پریشے کی تھی جو ابھی ابھی اندر آئی تھی
"تم نے گھر میں یہ بات کسی کو بتائی ہے" اسنے اسکے قریب آکر پوچھا جس پر اسنے اپنا سر نفی میں ہلادیا
"کیوں نہیں بتایا تمہیں تو اس شخص سے شادی ہی نہیں کرنی چاہیے جس نے تم پر ہاتھ اٹھایا ہے"
"پری پلیز" آئرہ نے گھور کر اسے دیکھا جس پر وہ خاموش ہوکر ایک طرف بیٹھ گئی
"کیا اس حویلی میں کوئی ایسا مرد نہیں ہے جو شادی سے پہلے لڑکی کی راے لے"اسنے خود سے بڑبڑاتے ہوے کہا لیکن آئرہ اسکی طرف متوجہ نہیں تھی
"بتاؤ مجھے انہوں نے تم پر ہاتھ کیوں اٹھایا کسوا کوئی بات ہوئی تھی"اسکے پوچھنے پر کسوا نے اسے سب بتادیا
"ادھر دیکھو میری طرف کوئی بھی مرد یہ برادشت نہیں کرتا کہ اسکی بیوی یا اس سے منسوب ہوئی لڑکی کسی اور لڑکے کا نام لے ہاں یہ انکی غلطی تھی انہیں ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا لیکن انہوں نے خود کو اس بات کی سزا بھی دی تھی" اسکے کہنے پر کسوا کے ساتھ ساتھ پریشے نے بھی اپنا سر اٹھا کر اسے دیکھا
"کل رات کو جب میں نیچے جارہی تھی تو میں نے دیکھا تھا کہ انکا ہاتھ بہت زخمی تھا دیوار پر بھی خون لگا ہوا تھا کوئی بھی دیکھ کر آرام سے بتادیتا کہ انہوں نے اپنا ہاتھ دیوار پر مارا ہے میں ان کے پاس جانا چاہتی تھی تاکہ ان سے کچھ پوچھ سکوں لیکن وہ اس سے پہلے ہی اپنے کمرے میں چلے گئے اب اپنے آنسو صاف کرو اور اپنی شادی کو انجواے کرو تم اگر اس رشتے کے لیے راضی نہیں ہو تو ان سے وقت مانگ لینا تاکہ تم اپنے اور انکے رشتے کو سمجھ سکو"
"ہاں میں یہی کروں گی میں ان سے وقت مانگو گی" اسکے بات سن کر اسنے خود سے کہا وہ عصیم سے وقت مانگ لے گی بھلے کچھ وقت کے لیے ہی سہی کم از کم وہ اس سے دور تو رہے گی
"چلو میں تمہیں تیار کرتی ہوں اور تم جاؤ جاکر چینج کرو میں تمہارے بال بھی بناتی ہوں" کسوا سے کہہ کر اسنے پریشے سے کہا
"تم دلہن بنی ہوئی ہو آئرہ"
"تو یہ کہاں لکھا ہے کہ کوئی دلہن کسی کو تیار نہیں کرسکتی ہے" اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسنے پریشے کو جانے کا اشارہ کیا اور خود کسوا کے آنسو صاف کرکے اسے تیار کرنے لگ گئ
اسٹیج پر بیٹھے وہ دونوں اپنی دلہنوں کا انتظار کررہے تھے جن سے کچھ دیر پہلے ہی انکا نکاح ہوا تھا ان دونوں نے ایک جیسی کریم کلر کی شیروانی پہنی تھی اور دونوں ارد گرد نظریں دوڑاتے ہوے اپنی دلہنوں کے منتظر تھے
جب وہ دونوں ایک ساتھ انہیں اسٹیج کی طرف آتی دکھائی دیں انکے برابر موجود لڑکیاں انکا شرارہ سمبھال کر انہیں اسٹیج تک لگارہی تھیں جبکہ وہ دونوں مبہوت ہوکر اپنی دلہنوں کو دیکھنے میں مصروف تھے
عصیم شاہ بنا پلک جھپکاے اپنے قریب آتی کسوا کو دیکھ رہا تھا جو بےانہتا حسین لگ رہی تھی لال رنگ کا شرارہ اسکی گوری رنگت پر خوب جج رہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ رنگ بنایا ہی اسی کے لیے ہے
اسکے اسٹیج کے قریب آتے اسنے مسکراتے ہوے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے برابر بٹھالیا آج وہ اسکی بیوی اسکی محرم بن چکی تھی آج وہ لمحہ آگیا تھا جس کا اسے کب سے انتظار تھا
جب کہ دوسری طرف موجود شخص کا حال بھی اس سے مختلف نہ تھا وہ بس اپنے سامنے کھڑی آئرہ کو دیکھنے میں مصروف تھا جو کہ بےحد خوبصورت لگ رہی تھی اسنے ابھی تک اسے جب بھی دیکھا تھا سادے حولیے میں ہی دیکھا تھا یہ پہلی بار تھا کہ وہ اسے اتنا تیار ہوا دیکھ رہا تھا اسے خود بھی احساس نہ ہوا تھا کہ آئرہ کو دیکھتے دیکھتے کب اسکا ڈمپل نمایاں ہوا
"عالم لالا"وہاں موجود لڑکی کے چلانے پر وہ ہوش میں آیا
"آپ ہی کی ہیں بعد میں دیکھتے رہیے گا ابھی بیٹھنے تو دیں"اسکے کہنے پر عالم نے بنا کچھ کہے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے لے جاکر بٹھادیا اور خود بھی اسکے برابر میں بیٹھ گیا
"کیا بات ہے تم تو آج قیامت لگ رہی ہو دیکھو میں نے تمہاری تعریف کردی بعد میں مجھے یہ مت کہنا کہ میں نے تمہاری تعریف نہیں کی" عالم کے کہنے پر اسنے مصنوعی مسکراہٹ لیے اسے دیکھا
"مجھے تم سے اسی تعریف کی امید تھی"
"دیکھ لو میں تمہاری امید پر پورا اترا اب تم بھی میری امید پر پورا اترنا"اسنے اپنی مونچھوں کو تاؤ دے کر کہا جب آئرہ نے ہاتھ بڑھا کر اسکی مونچھ کا کونا پکڑ کر ہلکا سا کھینچ دیا
"یہ کیا حرکت ہے تمہیں پتہ ہے پہلے تمہاری اس حرکت سے مجھے کتنی تکلیف ہوئی تھی"
"چڑ ہے مجھے تمہاری ان بڑی بڑی مونچھوں سے میرا بس چلے تو کاٹ کے پھینک دوں"
"اچھا تو تمہیں چڑ ہے" اسکے کہنے پر عالم نے مسکراتے ہوے اپنی انگلی کی پشت سے اپنی مونچھ کا کونا ٹھیک کیا
"پھر تو اور بڑھانی پڑے گی" اسکے کہنے پر آئرہ نے اسے گھور کر دیکھا
اس بھری محفل میں وہ اسکے علاؤہ اور کر بھی کیا سکتی تھی
°°°°°
برائڈل روم میں جاکر اسنے اپنا میک اپ ٹھیک کیا روم اس وقت خالی تھا وہ خود بھی اپنا میک اپ ٹھیک کرکے باہر جانے لگی جب اس سے پہلے ہی کوئی اندر آکر اسکا راستہ روک چکا تھا
"یہ کیا حرکت ہے"
"دور بھاگے جارہی ہو خود کو دیکھنے بھی نہیں دے رہی ہو مجھے بتانے تو دو کہ تم کتنی خوبصورت لگ رہی ہو" معتصم نے گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوے کہا جس نے اس وقت لال رنگ کا غرارہ اور ہم رنگ لپسٹک لگائی ہوئی تھی
"مجھے نہیں سننی تمہاری کی ہوئی تعریف" اسنے اسے سائیڈ پر کرنے کی کوشش کی لیکن یہ اسکے بس کی بات نہیں تھی
"ہٹو مجھے جانا ہے"
"پہلے میرا نام لو پھر جانے دوں گا" اسکی فرمائش پر اسنے ضبط سے آنکھیں بند کیں اور پھر دانت پیس کرکہا
"معتصم ہٹو" وہ کبھی بھی اسکی بات نہ مانتی لیکن اس وقت بس اسے معتصم کی نظروں سے دور جانا تھا
"اپنی یہ لپسٹک صاف کرو"
"کیا"
"ہاں اسے صاف کرو یہ بہت ڈارک ہے"
"میں نے کل بھی اتنی ہی ڈارک لگائی ہوئی تھی"
"کل کی بات تو الگ تھی کل تم برائیڈ تھیں آج ایسا نہیں ہے" اسکی فضول بات پر پریشے کا دل چاہ رہا تھا کہ اسکے بال نوچنا شروع کردے
"نہیں ہٹاؤں گی میں تمہاری غلام نہیں ہوں جو تمہاری ہر بات مانوں"
"بلکل تم میری بیوی ہو اور مجھے شوہر والا طریقہ آزمانہ پڑے گا" ایک ہی جست میں اسنے پریشے کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے قریب کیا اور اسکے لبوں پر جھک گیا پریشے کو اس سے ایسے کسی عمل کی توقع نہیں تھی
تھوڑی دیر بعد معتصم نے اسکی سانسوں کو آزادی بخشی اور مسکراتے ہوے اپنا سر انجام دیا ہوا کام دیکھا اسکی لپسٹک ساری پھیل چکی تھی
"اسے صاف کرکے باہر آجانا" وہ جانے لگا جب پریشے نے اسکا بازو پکڑ لیا اور اپنے بیگ سے ٹشو نکال کر اسے دیا اسکا منہ پھولا ہوا تھا جیسے معتصم کی یہ حرکت اسے بلکل بھی پسند نہیں آئی
اسکے ٹشو دینے کا مطلب وہ اچھے سے سمجھ گیا تھا اسنے مرر میں اپنا چہرہ دیکھا جہاں اسکے ہونٹوں پر بھی لپسٹک لگ چکی تھی اسنے مسکراتے ہوے اسے دیکھا اور اسے صاف کرنے لگا
"اچھا ہوا جو بتادیا ورنہ لوگ کیا کہتے میری بیوی کتنی شرارتی ہے میریج ہال میں ہی شروع ہوگئی" اسکی اس بات پر وہ گلاب کی طرح سرخ ہوچکی تھی معتصم گہری نظروں سے اسکا سرخ چہرہ دیکھ رہا تھا
'میں جارہا ہوں اور آج کے بعد یہ مت لگانا بہت خراب ٹیسٹ ہے"
"ہاں تمہارے لیے تو چیری کے فلیور کی منگوا دوں گی" اسکی بات ہر پریشے نے جل کر کہا
"نہیں اسٹرابیری" اپنا فلیور بتاکر وہ وہاں سے چلا گیا جبکہ وہ تلملاتی ہوئی اپنی پھیلی ہوئی لپسٹک صاف کرنے لگی
°°°°°
تقریب اپنے اختتام کو پہنچی اور رخصتی کا وقت آگیا جہاں کسوا اپنے ماں باپ سے ملتے ہوے خوب رو رہی تھی آنکھیں تو ان دونوں کی بھی نم تھیں بھلے وہ اسی گھر میں رہنے والی تھی لیکن پھر بھی وہ اپنی لاڈلی کسی اور دے رہے تھے اور اب وہ انکے لیے پرائی ہوچکی تھی
"تمہاری بھی تو رخصتی ہورہی ہے تم بھی رو لو" عالم نے اپنے پاس کھڑی اپنی بیوی کے کان میں سرگوشی کی جس پر اسنے منہ بناکر اسے دیکھا
"ایک ہی گھر میں تو جانا ہے رو کر کیا کروں صبح پھر وہی چہرے دیکھنے ہیں" اسکی بات سن کر عالم بس ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا اسنے اپنی روتی ہوئی بہن کو دیکھا اسکی اپنی آنکھیں بھی بار بار نم ہورہی تھیں
اسے حیرت ہورہی تھی کہ اسکی چھوٹی سی گڑیا کب اتنی بڑی ہوگئی
گھر پہنچ کر رسموں کے بعد ان دونوں کو عالم اور عصیم کے کمرے میں پہنچا دیا
°°°°°
پریشے نے اسکا شرارہ اچھے سے بیڈ پر پھیلایا اور مسکراتے ہوے اسے گڈ نائٹ کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی
اسکے جاتے ہی آئرہ اپنی جگہ سے اٹھی اسکا ارادہ عالم کے کمرے میں آنے سے پہلے ہی کپڑے چینج کرنے کا تھا
وہ اس رشتے کو ابھی وقت دینا چاہتی تھی اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسے اس طرح بیڈ پر بیٹھے دیکھ کر عالم کچھ اور سوچے
اسنے سب سے پہلے اپنا دوپٹہ اتار اور اپنے بالوں کو پنوں سے آزاد کیا سلکی بالوں کے کھلتے ہی اسکی آدھی کمر ڈھک چکی تھی
ساری جیولری اتار کر اسنے وارڈروب سے اپنے کپڑے نکالے لیکن اس سے پہلے وہ واشروم میں جاتی عالم کمرے میں داخل ہوچکا تھا
°°°°°
اسنے کمرے میں داخل ہوتے ہی اپنی بیوی کو ڈھونڈا جو کمرے میں موجود نہیں تھی واشروم کا دروازہ بند تھا یقینا وہ اس وقت واشروم میں ہی تھی وہ وہیں صوفے پر بیٹھ گیا
جب چند منٹ بعد واشروم کا دروازہ کھول کر وہ باہر نکلی نظر سب سے پہلے صوفے پر بیٹھے معتصم شاہ پر گئی اسے نظر انداز کرکے وہ جاکر بیڈ پر لیٹ گئی اور دوسری طرف کروٹ لے کر سونے کی کوشش کرنے لگی
لیکن اپنی پشت پر اسے کسی کی گہری نظریں محسوس ہورہی تھیں جو اسے سونے نہیں دے رہی تھیں
"مجھے گھورنا بند کرو" اسنے بنا مڑے کہا
"میں تمہیں کچھ تھوڑی کہہ رہا ہوں میں تو بس دیکھ رہا ہوں" اسکے کہنے پر اسنے بنا کچھ کہے بیڈ پر رکھے کمبل میں خود کو اچھے سے ہر طرف سے پیک کرلیا جیسے اسکی نظروں سے بچنا چاہ رہی ہو جبکہ اسکی اس حرکت پر معتصم کے چہرے پر گہری مسکراہٹ آئی
کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی پہلی نظر بیڈ پر بیٹھی ہوئی سہمی سی کسوا پر گئی دل میں جیسے ڈھیروں سکون اتر گیا اس پل کا اسے کتنا انتظار تھا یہ بات وہ لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا تھا
اسکے پاس بیٹھنے کے بجاے وہ اپنے کپڑے لے کر واشروم میں چلا گیا کیونکہ اسے اس وقت اپنی اس شیروانی سے الجھن ہورہی تھی
"میں ان سے وقت مانگنے کا کہہ رہی ہوں اگر انہوں نے نہیں دیا تو میں کیا کروں گی میں ان کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں بنانا چاہتی میں انہیں بھائی سمجھتی ہوں"
"سب کو لگتا ہے کہ بولنے سے کوئی بھائی نہیں بن جاتا لیکن میں یہ بات کس کس کو سمجھاؤں کہ میں تو انہیں واقعی میں بھائی سمجھتی تھی میں نے کبھی انکے بارے میں اس طرح نہیں سوچا میرے لیے تو وہ میرے لالا ہیں پھر بھلا میں کیسے اس رشتے کو قبول کرسکتی ہوں" واشروم کے بند دروازے کو دیکھتی ہوئی وہ دل میں سوچ رہی تھی
وہ تیزی سے بیڈ سے اتری اور دروازے کی طرف بھاگنے لگی جب اسے اپنے پیچھے سے بھاری آواز آئی یقینا وہ واشروم سے نکل چکا تھا
°°°°°
"رکو"
اسنے مڑ کر عصیم کو دیکھا جو چلتا ہوا اسکے قریب آرہا تھا
"کہاں جارہی تھیں"
"و--وہ وہ میں اپنے کمرے میں جارہی تھی" اسکے کہنے پر عصیم نے بنا کوئی جواب دیے سائیڈ ٹیبل پر رکھا چھوٹا سا باکس اٹھایا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اس میں موجود بریسلیٹ اسے پہنانے لگا کسوا نے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا لیکن اسکی گرفت سخت تھی
"یہ تمہاری منہ دکھائی ہے" اسنے اسکے ہاتھ پر بریسلیٹ پہناتے ہوے کہا ڈائمنڈ کا بریسلیٹ اسکی نازک گوری کلائی پر بےحد پیارا لگ رہا تھا
عصیم نے جھک کر اسکے ہاتھ کی پشت پر اپنے لب رکھ دیے
"چھوڑیں میرا ہاتھ عصیم لالا"
"دماغ ٹھیک ہے تمہارا کیا بول رہی ہو"اسنے تھوڑی ہمت پیدا کرکے اسکے سامنے بولنا چاہا لیکن عصیم کی سخت آواز پر وہ ہمت اڑن چھو ہوچکی تھی
"مجھے اپنے کمرے میں جانا ہے"
"یہی تمہارا کمرہ ہے"
"نہیں مجھے اپنے اصلی والے کمرے میں جانا ہے" اسکی آواز رندھ چکی تھی
"کسوا یہی تمہارا اصلی کمرہ ہے"
"پلیز مجھے جانے دیں"
"تمہیں کیوں لگتا ہے کہ تمہیں جانے دوں گا اور وہ بھی آج کی رات"
"د-دیکھیں میرے لیے یہ سب بہت اچانک ہوا ہے پلیز مجھے تھوڑا وقت دے دیجیے"
"تمہارا وقت اب پورا ہوچکا ہے اور مجھ میں اتنا صبر نہیں ہے کہ میں تمہیں آج کی رات چھوڑ دوں میں نے اس وقت کا بہت انتظار کیا ہے اب تم سے دوری ممکن نہیں ہے" اسکے بالوں میں ہاتھ پھنسا کر وہ اسکے لبوں پر جھک گیا
کسوا نے اپنے ہاتھ اسکے سینے پر مار کر اسے خود سے دور کرنا چاہا لیکن سامنے والے کو جیسے کوئی فرق ہی نہیں پڑا تھا
وہ اسکے لبوں کو قید کرکے جیسے آزاد کرنا بھول چکا تھا اس وقت اسے کسوا کی رکتی سانسوں کی پرواہ بھی نہیں تھی وہ اسکے رحم و کرم پر کھڑی تھی ورنہ اب تک وہ زمین بوس ہوچکی ہوتی
اس میں اتنی ہمت بھی نہیں بچی تھی کہ ہاتھ پیر چلا کر اسے خود سے دور ہی کر دیتی اسے لگ رہا تھا جیسے اسکا سانس رکنے والا ہو اور شاید اسی بات کا خیال کرکے عصیم نے اسکے لبوں کو آزاد کیا اور وہ اسی کے سینے پر سر رکھ کر لمبے لمبے سانس لینے لگی
"میری جان ایک کس سے تمہارا یہ حال ہوگیا مجھے کیسے جھیلو گی" اسنے جھٹکے سے اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا اور اپنے قدم بیڈ کی جانب بڑھا دیے جب کے اسے بیڈ کی طرف جاتے دیکھ کر وہ گھبرائی ہوئی لڑکی مزید گھبرا چکی تھی
"د-دیکھیں پ--پلیز مجھے نیچے اتاریں میری بات سنیں" اسنے کچھ کہنا چاہا لیکن عصیم نے پھر سے اسکے لبوں کو قید کرلیا لیکن اس بار جلد ہی انہیں آزاد کرکے اسکی گردن پر جھک گیا
اسکی بڑھتی گستاخیاں کسوا کا حلق تک خشک کر چکی تھیں اسے اس وقت اسکی بانہوں میں اپنا آپ بہت بےبس لگ رہا تھا اسکی آنکھوں سے آنسو گررہے تھے
"پ--پلیز چھوڑیں مجھے آپ جو بولیں گے کروں گی پڑھائی بھی کرلوں گی لیکن ابھی مجھے چھوڑ دیں پلیز ع-عصیم لا"اسکے لفظ مکمل کرنے سے پہلے ہی عصیم جو اسکی گردن پر جھکا ہوا تھا دوبارہ اسکے لبوں پر جھک گیا
یقینا آج اسکا کسوا کو چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اسکے سینے پر ہاتھ مار کر کسوا نے اسے خود سے دور کیا اور اپنا رخ موڑ لیا
جب اسے اپنے گردن پر عصیم کا لمس محسوس ہوا وہ جھٹکے سے سیدھی ہوئی اور اسے خود پر سے ہٹانا چاہا لیکن عصیم اسکے دونوں ہاتھ بیڈ سے لگا کر اسے ہر طرح سے اپنا بناگیا
°°°°°
اسے واشروم کی طرف جاتے دیکھ کر عالم نے فورا اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا اور آنکھیں چھوٹی کرکے اسے گھورنے لگا
"کہاں جارہی تھیں"
"مجھے نیند آرہی ہے چینج کرنے جارہی تھیں"
"اتنی معصوم تو تم ہو ہی نہیں جو تمہیں کچھ پتہ نہ ہو میرے آنے سے پہلے چینج کرنے کیوں جارہی تھیں" اسکے گال کو اپنے ہاتھ کی پشت سے سہلاتے ہوے اسنے نرمی سے کہا جبکہ آئرہ تو بس اسکی لو دیتی نظروں سے دور جانا چاہتی تھی
"د-دیکھو مجھ سے نہ تم دور ہی رہو"
"آج کی رات تو دوری ناممکن ہے"
"تم میرے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے" اپنے ہاتھ زبردستی چھڑا کر وہ اپنے کپڑے اٹھانے لگی جو عالم کے اسکا ہاتھ کھینچنے کی وجہ سے زمین پر گر چکے تھے
اسکے ہاتھ چھڑانے پر عالم نے گھور کر اسے دیکھا یقینا اسکی یہ والی حرکت اسے پسند نہیں آئی تھی
"یہاں آؤ" اسکی بات جیسے آئرہ نے سنی ہی نہیں تھی اپنے کپڑے اٹھا کر وہ واشروم میں جانے لگی اور اسکی یہ حرکت عالم کو مزید تیز دلا چکی تھی
اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا اور لے جا کر بیڈ پر پٹھخ دیا اور اس کے اوپر جھک گیا یہ سب اتنی اچانک ہوا تھا کہ اسے کچھ سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملا
"یہ ک-کیا کر-رہے ہو تم ہٹو میرے اوپر سے"اسنے گھبرا کر اسے خود کے اوپر سے ہٹانا چاہا لیکن وہ بنا کچھ کہے اسکے نازک لبوں پر جھک گیا
جب سے وہ اس سے ملی تھی اسنے ہمیشہ اس کے سے نظریں چرائیں تھیں کیونکہ تب وہ اس پر کوئی حق نہیں رکھتا تھا لیکن اب وہ اسکی ملکیت تھی اور عالم کا اسے چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا
اسکے کندھے پر مکے برسا کر اسنے عالم کو دور کرنا چاہا جو شاید آج اسکی سانس ہی روک دینا چاہتا تھا
اسکے لبوں کو آزادی بخشی کر وہ اسکی گردن اور بیوٹی بون پر کس کرنے لگا
"د-دیکھو پلیز دور رہو مجھ سے پلیز چھوڑو م---مجھے" اسنے اپنے ہاتھوں کی مدد سے اسے دور کرنا چاہا لیکن وہ اسکے دونوں ہاتھ اپنے ایک ہاتھ میں قید کرکے دوسرے سے اسکی ڈوریاں کھولنے لگا جس سے آئرہ کی جان لبوں پر آچکی تھی
آج عالم اپنے ہر انداز سے اسے ڈرا رہا تھا اسکا اپنے کام سے پیچھے ہٹنے کا کوئی ارادہ نہیں لگ رہا تھا
اسلیے آئرہ نے آخری حربہ وہی آزمایا جو ہر لڑکی کرتی ہے
"رونا بند کرو" اسکے تیز تیز رونے پر عالم نے اسکے منہ پر اپنا بھاری مظبوط ہاتھ رکھ دیا
"یہ کیا حرکت ہے" اسکے رونے میں کمی دیکھ کر عالم نے اسکے لبوں سے اپنا ہاتھ ہٹا کر اسے گھورتے ہوے کہا
"ہاں تو تم میرے ساتھ زبردستی کررہے ہو میں ابھی اس سب کے لیے راضی نہیں ہوں" وہ روتے ہوے کہہ رہی جبکہ عالم تو حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا وہ پہلی بار اسکا یہ انداز دیکھ رہا تھا گہرا سانس لے کر عالم نے اسے چھوڑ دیا جذبات چاہے کتنے ہی بے قابو ہوتے وہ اسکے ساتھ کسی طرح کی زبردستی نہیں کرنا چاہتا تھا
"جاؤ یہاں سے" اسکے کہنے پر وہ جلدی سے بیڈ سے اٹھ کر واشروم میں بھاگ گئی جبکہ عالم تو بس اسکی بھاگنے کی اسپیڈ دیکھتا رہ گیا
"دل کے ارمان آئرہ کے آنسوؤں میں بہہ گئے" اسنے بڑبڑاتے ہوے کہا اور کمرے سے باہر چلا گیا کیونکہ یہاں رک کر اپنی بیوی کو مزے سے سوتے ہوے دیکھنا اسکے بس میں نہیں تھا
°°°°°
بظاہر تو وہ لیپ ٹاپ پر کام کررہا تھا لیکن نظریں بار بار بیڈ پر سوئی ہوئی اپنی بیوی کی طرف جارہی تھیں جو مزے سے سورہی تھی لیکن اسکے جذبات جگارہی تھی
لیپ ٹاپ سائیڈ میں رکھ کر وہ اپنے کمرے سے باہر نکل آیا کیونکہ نظریں بھٹک بھٹک کر اس دشمن جان پر جارہی تھیں جو اسکی نیندیں اڑا کر خود مزے سے سورہی تھی
کمرے سے نکلتے ہی اسکی نظر سامنے بنے اپنے کمرے سے نکلتے عالم پر پڑی اسنے اچھنبے سے اسے دیکھا
"تو یہاں کیا کررہا ہے" اسنے عالم کے قریب جاکر کہا
"وہی جو تو کررہا ہے"
"اچھا تو پھر آجا دونوں نیچے چل کر اپنا دکھ بانٹتے ہیں" ان دونوں نے ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور نیچے لان میں جانے لگے جب معتصم نے مڑ کر عصیم کے کمرے کی طرف دیکھا
"کیا دیکھ رہا ہے" عالم نے اسے دیکھتے ہوے پوچھا
"دیکھ رہا ہوں کیا پتہ اسکا دروازہ بھی کھل جاے"
"یہ نہیں کھلے گا تو آجا میرے ساتھ" اسے کے کر وہ نیچے چلا گیا جبکہ معتصم نے ایک بار پھر مڑ کر دیکھا جہاں اسکا دروازہ بند ہی پڑا تھا
نیند سے بھری آنکھیں کھول کر اسنے اپنی اس جگہ کو دیکھا جہاں وہ سویا ہوا تھا
ٹانگیں زمیں پر پھیلائے وہ صوفے پر سورہا تھا اسکے سامنے رکھی ٹیبل پر کچھ کاغذ اور فائل رکھی ہوئی تھیں
اسے یاد تھا کمرے میں آنے کے بعد وہ زمینوں کا حساب کرنے بیٹھ گیا تھا اور وہیں بیٹھے بیٹھے اسکی آنکھ لگ گئی اور آج اسکی فجر بھی قضا ہوچکی تھی
اپنی آنکھیں مسلتے ہوے اسنے بیڈ پر سوئی ہوئی آئرہ کو دیکھا
"زرا سا بھی خیال نہیں ہے اس لڑکی کو شوہر یہاں بےآرام سورہا تھا اور خود مزے سے پورے بیڈ پر پھیل کر سورہی ہے" بڑبڑاتے ہوے وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور الماری سے اپنے کپڑے نکالنے لگا کیونکہ ناشتے کا وقت ہونے ہی والا تھا
لیکن پھر اسنے مڑ کر بے خبر سوئی ہوئی آئرہ کو دیکھا اور اسکے سر پر جاکر کھڑا ہوگیا
"آئرہ اٹھو" اسکا کندھا ہلکے سے تھپتھپا کر اسنے اسے اٹھایا لیکن وہ ہنوز اسی حالت میں لیٹی رہی
"اٹھو" اس بار اسنے تھوڑا سختی سے کام کیا جس کی وجہ سے کسمسا کر اسنے دوسری طرف کروٹ لی البتہ نیند سے وہ ابھی تک بیدار نہیں ہوئی تھی لیکن اس بار اسنے اسے اٹھانے کی کوشش نہیں کی تھی بلکہ اپنا چہرہ اسکی گردن پر رکھ کر اپنی داڑھی رگڑنے لگا
اپنی گردن پر چھبن محسوس کرکے آئرہ نے کوفت سے اپنی نیند سے بھری آنکھیں کھولیں لیکن اسے اپنی گردن پر جھکا دیکھ کر وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی نیند ساری اڑ چکی تھی
"یہ تم کیا کررہے تھے"
"تمہیں جگانے کی کوشش اٹھو اور میرے کپڑے نکالو"
"میں کیوں نکالوں"
"کیونکہ تم میری بیوی ہو"
"جب میں نہیں تھی جب بھی تو خود نکالتے تھے اب بھی نکال لو"
"وہ اس لیے کیونکہ جب تم میرے پاس نہیں تھیں چلو اب اٹھو" اسکا ہاتھ پکڑ کر اسنے اسے بیڈ سے اتارا
"میرے کپڑے نکالو مجھے نہانا ہے ناشتے کا وقت ہونے والا ہے" آئرہ نے گھڑی کی طرف دیکھا جو سات بجارہی تھی
"پتہ نہیں یہ حویلی والے اتنی جلدی ناشتہ کیوں کرتے ہیں" بڑبڑاتے ہوے اسنے جلدی سے اسکی الماری کھولی تاکہ کپڑے نکال کر واپس سوجاے
"یہ مت سوچنا کہ تم واپس سوؤگی تم بھی میرے ساتھ نیچے چلو گی ہم ساتھ جائینگے" اس نے فقط ایک نظر گھور کر اسے دیکھا اور اسکے کپڑے آگے پیچھے کرکے دیکھنے لگی اسکی پوری الماری ہیں صرف شلوار کمیز موجود تھے جن میں بھی آدھے سے زیادہ سفید رنگ کے تھے
"تمہارے پاس کوئی اور پکڑے ہیں بس یہی پہنتے ہو"
"ہاں کیونکہ میں اس میں خود کو آرام دہ محسوس کرتا ہوں پتہ نہیں معتصم اور عصیم کیسے جینز وغیرہ پہن لیتے ہیں"اسکی بات پر وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی اسکی بھورے رنگ کی شلوار کمیز نکالنے لگی
لیکن عالم نے وہ ہینگ کیا ہوا سوٹ واپس رکھ کر سفید رنگ کی کمیز شلوار اٹھالی
"مجھے یہ رنگ پسند ہے آئیندہ اسی رنگ کا نکالنا"
"جب خود ہی نکالنا تھا تو مجھے کیوں اٹھایا"اسنے اسنے دیکھتے ہوے میں کہا
"میں تمہیں بتارہا ہوں یہ میرا پسندیدہ رنگ ہے تو تم میرے لیے یہی رنگ نکالا کرو"
"ہاں یہ ٹھیک ہے اور تمہارے پاس شال ہے نہ تو کوئی گرین کلر کی شال لے لینا اور باہر لان میں جاکر دل پر ہاتھ رکھ کر کرنا دل دل پاکستان" وہ باقاعدہ اسے کرکے بتارہی تھی کہ باہر لان میں جاکر اسے کس طرح سے گانا گانا ہے
"بہت ہی مزاحیہ بات بولی تم نے میرا تو ہنس ہنس کر برا حال ہے" عالم نے اسے گھورتے ہوے کہا جس پر اپنے کندھے اچکا کر اسنے اسکا نکالا ہوا سوٹ واپس رکھ کر وہی بھورے رنگ کی شلوار کمیز نکال لی
"تم یہی پہنو گے"
"ٹھیک ہے میں یہی پہن لیتا ہوں لیکن پھر تم بھی میری مرضی کا پہنو گی "اسکے کہنے پر آئرہ نے بھنویں آچکا کر اسے دیکھا
"میں کیوں پہنو گی"
"کیونکہ میں تمہاری مرضی کا پہن رہا ہوں"
"تم نے میری"آئرہ نے اسے کچھ کہنا چاہا لیکن وہ دونوں کے بیچ کا فاصلہ جو چند قدم کا تھا مٹاتے ہوے اسکے قریب آگیا
"میری ایک بات کان کھول کر سن کو آج کے بعد تم مجھے آپ کہہ کر بلاؤ گی"
"میں جب سے تم سے ملی ہوں نہ تو تمہیں تم ہی کہہ کر بلارہی ہوں"
"وہ اس لیے کیونکہ جب تم میری بیوی نہیں تھیں لیکن اب ہو مجھے یہ بات بلکل اچھی نہیں لگ رہی کہ میری بیوی مجھے تم بلاے"
"میں تو بلاؤں گی تم تم تم"
"آئرہ تم مجھے غصہ دلا رہی ہو"
"تم تم ت"اسکے دوبارہ وہی بات کہنے پر عالم نے اسکی پشت کو آلماری سے لگایا اور بےدردی سے اسکے لبوں پر جھک گیا
آئرہ نے سختی سے اسکی کمیز کو اپنی مٹھیوں میں دبوچ لیا کچھ دیر بعد جب اسے آزاد ملی تو اسے اپنے ہونٹوں پر جلن کا احساس ہوا
اسنے ہاتھ لگا کر اپنے ہونٹوں کو چھوا جہاں اسکی انگلیوں پر خون کی بوند لگ چکی تھی
عالم نے مسکراتے ہوے اسکے لبوں پر اپنا انگھوٹھا پھیر کر خون صاف کیا اور اپنا چہرہ اسکے بےانہتا قریب کرلیا
دونوں کی سانسیں ایک دوسرے کے چہرے پر پڑرہی تھیں
"تو تم کیسے مخاطب کروگی"
"آ--آپ بول کر"
"لیکن اسکا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے میں تمہارے ان نازک لبوں کو بخش دونگا" کہتے ساتھ ہی وہ دوبارہ اسکے لبوں پر جھک گیا
دروازے پر دستک ہونے کی وجہ سے وہ بدمزاح ہوکر پیچھے ہٹا
"کون ہے"
"شاہ سائیں میں ہوں وہ بڑے شاہ سائیں نے کہا کہ آپ سب کو ناشتے کے لیے بلاؤں آج ولیمہ ہے نہ تو آپ سب کو جگا دوں"اسکی تیز آواز سنتے ہی باہر کھڑی ملازمہ جلدی جلدی اپنی بات مکمل کرنے لگی
"آپ جائیں ہم آرہے ہیں" اسنے گہرا سانس لے کر کہا اور ایک نظر آئرہ کے جھکے سر کو دیکھ کر وہاں سے چلا گیا
اسکے جانے کے بعد آئرہ نے دل ہی دل میں اس ملازمہ کو ڈھیروں دعائیں دی
°°°°°
نیند میں اسے اپنے اوپر کسی چیز کا وزن محسوس ہورہا تھا اسنے اپنی نیند سے بھری آنکھیں کھول کر دیکھا جہاں اسکے سینے پر معتصم کا بھاری ہاتھ رکھا ہوا تھا
اسنے جھٹکے سے اسکا ہاتھ اپنے اوپر سے ہٹایا جس کی وجہ سے وہ کسمسا کر کروٹ بدل کر سوگیا
اسے گھور کر وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور واشروم میں چلی گئی کیونکہ اسے پتہ تھا کہ سب حویلی والے اس وقت اٹھ چکے ہوتے ہیں
شاور لے کر وہ باہر نکلی جب دروازے پر دستک ہوئی اسنے جاکر کمرے کا دروازہ کھولا جہاں ملازمہ کھڑی تھی
"بیگم صاحبہ بڑے شاہ سائیں نے کہا ہے آپ لوگوں کو جگادوں آج ولیمہ ہے نہ"
"جی آپ جائیے ہم آرہے ہیں" اسے بھیج کر اسنے واپس دروازہ بند کردیا اور ایک نظر سوتے ہوے معتصم جو دیکھا
"اب انہیں کیسے اٹھاؤں" خود سے بڑبڑاتے ہوے وہ اسکے قریب گئی
"سنو" اسکا کندھا ہلکے سے تھپتپاتے ہوے اسنے اسے اٹھانے کی ناکام کوشش کی وہ ہنوز لیٹا رہا
جب پریشے کی نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھے پانی کے جگ پر گئی اسنے اٹھا کر وہ جگ پورا کا پورا اسکے اوپر ڈال دیا جس سے وہ ہڑبڑا کر اٹھا
"یہ کیا حرکت ہے"
"تم اٹھ نہیں رہے تھے میں نے تو بس اٹھایا ہے" اسنے معصومیت سے کہا جسے دیکھ کر معتصم کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر جھٹکے سے اسے اپنی جانب کھینچا
"تمہیں شوہر کو اٹھانے کا طریقہ نہیں آتا سکھانا پڑے گا"
"مجھے کچھ نہیں سیکھنا" پریشے نے اس سے دور ہونا چاہا کیونکہ اسکے بال جو گیلے ہوچکے تھے ان سے پانی ٹپک رہا تھا اور اسکے چہرے اور کپڑوں پر گررہا تھا جبکہ تین گیلی لٹیں ماتھے پر جھول رہی تھیں
"لیکن میں تو سیکھانا چاہتا ہوں"
"فلحال تم جاکر اپنے کپڑے بدل لو دیکھو معتصم تم مجھے بھی گیلا کررہے ہو" اسکے کہنے پر معتصم اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ کر اس سے دور ہوگیا
°°°°°
بیس منٹ پہلے اسکی آنکھ لگی تھی لیکن اسے مسلسل کسی کے رونے کی آواز آرہی تھی پہلے تو وہ اگنور کرتا گیا لیکن جب وہ آواز مسلسل آتی رہی تو اسنے نظریں اپنے بیڈروم میں دوڑائیں
جہاں وہ صوفے پر سہمی ہوئی بیٹھی اپنا سر گھٹنوں میں دیے رونے میں مصروف تھی اسنے اس وقت عصیم کی ہی شرٹ پہنی ہوئی تھی
غصے سے وہ بیڈ سے اتر اور اسکے دونوں بازو پکڑ کر اسے اپنے سامنے کھڑا کیا
"کس بات کا سوگ منا رہی ہو"
"آ---آپ نے ٹھیک ن-نہیں کیا میرے ساتھ"
"کیا غلط کیا ہے میں نے حلال ہو تم مجھ پر بیوی ہو میری میں نے کچھ غلط نہیں کیا میں نے اپنا حق لیا ہے" اسکی لہجے میں جتنی سختی تھی انداز میں بھی اتنی ہی سختی تھی اسکی اتنی سخت گرفت سے کسوا کو لگ رہا تھا کہ اسکا بازو ٹوٹ جاے گا
"چ--چھوڑیں مجھے عصیم لال"
"کچھ الٹا سیدھا کہہ کر مجھے مزید غصہ مت دلانا لگتا ہے رات کو میں نے تمہیں ٹھیک سے بتایا نہیں کہ میں تمہارا لالا نہیں ہوں پھر سے بتانا پڑے گا"
"ن--نہیں نہیں پلیز چھوڑیں مجھے" اسکی مزاحمت کو نظر انداز کرکے عصیم نے اسے بیڈ پر دھکا دیا اور اسکے اوپر جھک کر اسکی گردن پر اپنا لمس چھوڑنے لگا
"پلیز دور ہٹیں" کسوا نے روتے ہوے اسے خود سے دور کرنا چاہا لیکن وہ اپنے کام میں مگن رہا
اسکے کندھے سے شرٹ سرکا کر اس نے وہاں پر اپنے لب رکھ دیے جب دروازے پر دستک ہوئی جسے پہلے تو اسنے نظر انداز کیا لیکن دوبارہ دستک ہونے پر اسنے غصے سے دروازے کو گھورا
"کیا مسلہ ہے"
"شاہ سائیں وہ بڑے سائیں نے کہا کہ آپ لوگوں کو جگادوں"
"جاؤ تم ہم آرہے ہیں" اسنے اپنا چہرہ موڑ کر دوبارہ کسوا کو دیکھا جس نے اپنی آنکھیں زور سے میچی ہوئی تھی
"ابھی چھوڑ رہا ہوں بعد کے لیے تیار رہنا" ہلکے سے اسکے لبوں کو جھک کر وہ اسکے اوپر سے ہٹ گیا اور اسکے ایسا کرتے ہی وہ سیدھی واشروم میں بھاگ گئی
صبح سے گھر میں ہر طرف شور مچا ہوا تھا کیونکہ آج ولیمہ تھا ساری تیاری ہونے کے باوجود بھی کسی لڑکے کے سوکس نہیں مل رہے تھے تو کسی کی گھڑی
جبکہ انکے برعکس لڑکیاں اپنا سارا سامان عصیم کے روم میں لاچکی تھیں اور اب آرام سے بیوٹیشن انہیں تیار کررہی تھی جو کہ وہ تینوں مکمل ہو ہی چکی تھیں
انہیں مکمل تیار کرکے وہ کمرے سے چلی گئیں جب آئرہ نے اکتا کر پریشے کو دیکھا جو کب سے ٹیڑھی ٹیڑھی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی
"کیا مسلہ ہے پری"
"دراصل وہ صبح سے تمہارے ہونٹوں پر ایک نشان دیکھ رہی ہوں تو بس مجھے وہی جاننے کا تجسس ہورہا ہے کہ وہ نشان کیسے پڑا"پریشے کے کہنے پر اسکے زہہن میں صبح والا منظر چلنے لگا ساتھ ہی عالم شاہ کا انداز یاد کرکے اسنے جھرجھری لی
"کچھ نہیں بس شاید لپسٹک کی وجہ سے" زہہن میں جو سب سے پہلا بہانہ بنا اسنے بتادیا لیکن پریشے کی شرارتی نظریں ابھی تک اسی پر ٹکی ہوئی تھیں
"کون سی لپسٹک"
"ہاں وہی لپسٹک جو تم سمجھ رہی ہو" آئرہ باتیں تو اس سے کررہی تھی لیکن نظریں بار بار سر جھکائے بیٹھی کسوا پر جارہی تھیں جو خاموش بیٹھی ہوئی تھی اور اس ٹیب ریکارڈر پر یہ خاموشی اچھی نہیں لگ رہی تھی
اس وقت وہ تینوں ہی بےحد حسیں لگ رہی تھیں لیکن کسوا پر ایک الگ ہی روپ آیا ہوا تھا جو اسے مزید حسین بنارہا تھا
°°°°°
"کیا بات ہے تم خاموش کیوں ہو" معتصم نے اپنے برابر بیٹھی پریشے سے کہا جس نے اسکی لائی ہوئی گولڈن اور براؤن کومبینیشن کی میکسی پہنی ہوئی تھی
یہ کلر اس پر جج رہا تھا خود وہ بھی کسی سے کم نہیں لگ رہا تھا اسنے بلیک کلر کا تھری پیس پہنا ہوا تھا بال جیل سے جمے ہوے تھے اور کوٹ میں ریڈ کلر کا رومال لگایا ہوا تھا
"میرا موڈ آف ہے مجھ سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے"
"وہ تو ویسے بھی رہتا ہے" اسنے بڑبڑاتے ہوے کہا جس پر پریشے کے کان کھڑے ہوچکے تھے
"کیا کہا تم نے"
"کچھ نہیں موڈ کیوں آف ہے"
"تم جانتے تھے نہ آج عینہ اور وصی کا ولیمہ ہے اسی لیے تم نے جان بوجھ کر آج کی تاریخ اپنے ولیمے کے لیے رکھی تھی تاکہ میں وہاں نہ جاؤں"
"بیوی ہماری شادی کی تاریخ تمہارے اس بھائی کی تاریخ رکھنے سے پہلے رکھی جاچکی تھی ہاں یہ ہوسکتا ہے اسنے خود اپنا ولیمہ اسی دن رکھا ہوگا تاکہ تمہارا اور اسکا سامنا نہ ہو اور بقول تمہارے کے میں نے اس لیے آج کی تاریخ رکھی ہے کہ تم جا نہ سکو تو ایسا کچھ نہیں ہے تم جب چاہے جہاں چاہے جاسکتی ہو میں تم پر پورا اعتبار کرتا ہوں میں جانتا ہوں تم مجھ سے دور جانے کی کوشش تو کرسکتی ہو لیکن میری امانت میں خیانت نہیں کرسکتیں"
اسنے کہنے پر پریشے نے اپنے چہرے کا رخ موڑ کر اسکی طرف دیکھا ہاں یہ تو سچ تھا وہ اس سے دور جانے کی کوشش ضرور کرے گی لیکن اب وہ اسکی امانت تھی اور اسکی امانت میں خیانت وہ بلکل نہیں کرے گی
اسے خود بھی پتہ نہیں چلا کہ کب اسکے لب مسکراہٹ میں ڈھل گئے
"اس مسکراہٹ کا میں کیا مطلب سمجھوں" اسے اپنے کان کے قریب شرگوشی سنائی دی اسنے چونک کر اسے دیکھا
"کچھ بھی نہیں"کہتے ہوے وہ اس سے تھوڑے فاصلے پر ہوکر بیٹھ گئی
اس میریج حال میں تیں اسٹیج بناے گئے تھے تینوں جوڑیوں کے لیے جہاں اس وقت وہ براجمان تھے
°°°°°
"کیا مسلہ ہے کیوں خود سے بڑبڑاتی جارہی ہو" اسے مسلسل خود سے بولتا دیکھ کر عالم نے تپ کر کہا
جس پر آئرہ نے اپنا چہرہ اسکی طرف موڑ کر گھور کر اسے دیکھا
"مجھے تم پر بہت غصہ آرہا ہے"
"کیا بولا زرا پھر سے بولو" اسے گھورتے ہوے عالم نے اپنا چہرہ اسکے قریب کرلیا
"آ-آپ پر غصہ آرہا ہے"
"ہاں اب بولو غصہ کیوں آرہا ہے"
"ولیمے پر شلوار کمیز کون پہنتا ہے" آئرہ نے ایک نظر اسکا مکمل جائزہ لے کر پھر سے اپنا رخ موڑ لیا
اسنے وہی سوٹ پہنا ہوا تھا جو عالم نے اسے مال میں دلوایا تھا وہ کبھی بھی یہ سوٹ نہیں پہنتی اگر عالم اسے دھمکی نہیں دیتا
اسکی دھمکی سے ڈر کر اسنے یہ سوٹ زیب تن کیا تھا اور جب سے وہ یہاں بیٹھی تھی وہ مسلسل اسے دیکھ بقول آئرہ کے گھور رہا تھا جبکہ وہ تو اسکی گھورتی نظروں کی وجہ سے اسے گھور بھی نہیں پارہی تھی
ورنہ اس وقت اسے عالم شاہ پر بےانہتا غصہ آرہا تھا جو اپنے ولیمے پر بھی کمیز شلوار پہن کر آچکا تھا لگ تو وہ ہمیشہ کی طرح بےحد خوبرو رہا تھا ڈارک بلیو کلر کے کمیز شلوار پر اسنے بلیک کلر کی شال کندھوں پر ڈالی ہوئی تھی اور ٹانگ پر ٹانگ چڑاے بیٹھا ہوا وہ شخص کسی ریاست کا شہزادہ ہی لگ رہا تھا
"میری جان تم مجھے اس وقت دیکھ رہی ہو کہ میں نے کمیز شلوار پہنا ہوا ہے وہ بھی اپنے ولیمے پر پھر بھی پوچھ رہی ہو کہ کون پہنتا ہے"
"ہاں ایسا فیشن صرف آپ ہی کرسکتے ہیں"
"بلکل کیونکہ عالم شاہ ہمیشہ منفرد کام ہی کرتا ہے"اسنے اپنے ڈمپل کی بھرپور نمائش کرتے ہوے کہا اور اسٹیج سے اتر کر لوگوں سے ملنے چلا گیا
آئرہ نے مسکراتے ہوے اسکی پشت کو دیکھا وہ پیارا لگ رہا تھا بہت پیارا لیکن وہ اسکی تعریف نہیں کرنے والی تھی جب تک تو بلکل نہیں جب تک اسکا یہ غم دور نہیں ہوجاتا کہ اسکا شوہر اپنے ولیمے پر کمیز شلوار پہن کر آیا تھا
°°°°°
"کیوں اپنا یہ حسیں چہرہ بگاڑ کر اداسی بھرا منہ بنا کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کررہی ہو"
"م-میں تو کچھ نہیں کررہی"
"بلکل تم اس بار واقعی میں کچھ نہیں کررہی ہو بلکہ تمہارے چہرے کے ایکسپریشن یہ سارے کام کررہے ہیں اپنے بابا کو دیکھا ہے تم نے صبح سے تمہارا یہ لٹکا ہوا منہ دیکھ کر وہ پریشان ہورہے ہیں" عصیم نے آہستہ سے اسے سخت لہجے میں کہا اور اسکا یہ سخت لہجہ کسوا کی آنکھیں نم کرچکا تھا
"سب کو اپنی پریشانی دکھ رہی ہے کوئی مجھ سے کیوں نہیں پوچھ رہا پہلے میری زبردستی شادی کروادی اور اب بول رہے ہیں کہ زبردستی ہنس کر بھی دیکھاؤ" وہ بھیگے ہوے لہجے میں کہہ کر اپنی آنکھیں میں موجود آنسو کو باہر نکلنے سے روک رہی تھی
اور ایسا کرتے ہوے اسکا دلکش سراپا مزید دلکش لگ رہا تھا عصیم جو اتنی دیر سے اسکے وجود سے نظریں چرا رہا تھا اب یہ کام اور مشکل لگ رہا تھا
اسکی نظریں بس اپنی معصوم بیوی پر جمی ہوئی تھیں
جو لائٹ بلیو کلر کی میکسی میں پری لگ رہی تھی بلیک کلر کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس عصیم کے برابر بیٹھی وہ معصوم سی پری لگ رہی تھی
"بند کرو یہ رونا لوگ دیکھیں تو کیا سوچیں گے" عصیم نے آہستہ نے اسے کہا کیونکہ کسوا کی اتنی کوشش کے باوجود بھی بار بار وہ موتی آنکھ سے گرے ہی جارہے تھے
"میری غلطی نہیں ہے یہ خود ہی گررہے ہیں"
"اچھا تو ان سے کہو کہ یہ رک جائیں کیونکہ اگر یہ نہیں رکے تو میں اس بھری محفل میں کچھ ایسا کروں گا جو تمہیں شرم کے مارے یہاں بیٹھنے بھی نہیں دے گا پھر شاید تمہارے یہ آنسو رک جائیں" اسکے کہنے پر کسوا نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے
"مجھے ولیمے کے بعد کام سے جانا ہے کچھ دیر ہوجاے گی لیکن میرے آنے سے پہلے چینج مت کرنا ورنہ کل سے زیادہ برا پیش آونگا سمجھ آئی بات" اسکے کہنے پر کسوا نے معصوم بچوں کی طرح اپنا سر زور زور سے ہلادیا جیسے کہنا چاہ رہی ہو کہ میں آپ کی بات سمجھ گئی
°°°°°
"تم اس وقت یہاں کیا کررہے ہو" آواز پر اسنے مڑ کر دیکھا جہاں حفضہ کھڑی تھی اسکے ہاتھ میں پانی کا جگہ تھا یقینا وہ یہی لینے آئی تھی
"کچھ نہیں بس ایسے ہی اندر کمرے میں گھٹن محسوس ہورہی تھی"
"وصی تم" اسنے کچھ کہنا چاہا لیکن وصی اپنا ہاتھ اٹھا کر اسے روک چکا تھا
"پلیز بھابھی ابھی میرے بارے میں کوئی بات مت کیجیے گا آپ بتائیں آج پری کا ولیمہ تھا نہ آپ وہاں گئی تھیں"
"ہاں میں یہاں رہنا چاہتی تھی لیکن خالا"
"کوئی بات نہیں کیسی ہے وہ خوش ہے" اسکے انداز میں بےچینی تھی وہ بس یہ سننا چاہتا تھا کہ حفصہ کہہ دے کہ پریشے خوش نہیں ہے اور اسکے پاس ایک وجہ ہوجاے اسے معتصم سے الگ کرنے کی
"وصی اسکی شادی ہوچکی ہے اور تمہاری بھی پریشے اگر میری بہن ہے تو عینہ بھی ہے اور میں نے ہمیشہ دونوں کے لیے ایک جیسا سوچا ہے اور میں اب بھی یہیں چاہوں گی کہ پریشے اپنے گھر میں خوش رہے اور عینہ اپنے تم کوشش کرو اسے بھولنے کی مشکل ہے ناممکن نہیں چلو شاباش کمرے میں جاؤ"
"جی جارہا ہوں" اسکے کہنے پر وہ گہرا سانس لے کر وہاں سے چلی گئی اسے پتہ تھا وصی ساری رات یہیں بیٹھا رہے گا لیکن اپنے کمرے میں نہیں جاے گا جہاں عینہ بیٹھی اسکا انتظار کررہی ہوگی
°°°°°
اپنے کمرے میں آتے ہی اسنے پہلا کام اپنے کپڑے بدلنے کا کیا اپنا نائٹ سوٹ نکال کر اسنے چینج کیا وہ عالم کے آنے سے پہلے ہی سوجانا چاہتی تھی لیکن بری قسمت کہ اسکے واشروم سے نکلتے ہی وہ آچکا تھا اور اسے دیکھتے ہی پیشانی پر بل پڑ چکے تھے
"کیا ہوا" آئرہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھتے ہوے کہا
جب اسکے قریب آکر اسنے اسکے دونوں ہاتھ اسکی کمر پر باندھ کر اسے اپنے بےحد قریب کرلیا اتنا کے ان میں اب چند انچ کا فاصلہ بھی نہیں رہا تھا
"ک-کیا کررہے ہو مطلب ہیں"
"میرے آنے سے پہلے تم نے کپڑے بھی بدل لیے مجھے ٹھیک سے خود کو دیکھنے بھی نہیں دیا"
"مجھے پتا نہیں تھا کہ آپ کو مجھے دیکھنا ہے ورنہ میں چینج نہیں کرتی"
"خیر اب تو تم کر چکی ہو تو اس کی سزا بھی تمہیں ملے گی" اسکے سزا لفظ بولنے پر آئرہ کی جان اٹک چکی تھی
"کیا س-سزا" اسکی بات کا بنا کوئی جواب دیے عالم نے اسکی پہنی ہوئی شرٹ کا پہلا بٹن کھولا اور اسکی اس حرکت پر اسنے گھبرا کر اسکی گرفت سے اپنے ہاتھ چھڑانے چاہے
"کیا کررہے ہیں" اس نے بمشکل لفظ ادا کیے لیکن اس بار بھی اسنے بنا کوئی جواب دیے اسکی شرٹ کا دوسرا بٹن کھولا جسے دیکھتے ہی آئرہ نے سختی سے اپنی آنکھیں میچ لیں
"پ-پلیز مت کریں"اسنے آنکھیں میچ کر کہا جس پر عالم اسکی گردن پر جھک گیا اور نرمی سے وہاں پر اپنا لمس چھوڑنے لگا
اسکی نرمی سختی میں بدل گئی اور پھر آئرہ کو اپنی گردن پر جلن کا احساس ہوا اسکے منہ سے سسکی نکلی لیکن وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ دونوں ہاتھ اس ظالم کی قید میں تھے
عالم نے اپنا چہرہ اسکی گردن سے نکالا اور مسکراتے ہوے اسکی گردن پر اپنا چھوڑا ہوا نشان دیکھنے لگا
جبکہ آئرہ بنا دیکھے جانتی تھی کہ جتنی جلن اسکی گردن پر ہورہی ہے یقینا خون کی بوند بھی نکل چکی ہوں گی
عالم نے اسکے ہاتھ چھوڑے اور اسکے ایسا کرتے ہی وہ بیڈ کی طرف بھاگ گئی اور سب سے پہلے اپنی شرٹ کے بٹن لگاے جو عالم نے کھولے تھے
نظر اپنی کلائی پر گئیں جہاں عالم شاہ کی سختی کا نشان موجود تھا
"تمہیں بتانا تھا کہ کل"
"ہاں مجھے پتہ ہے اماں سائیں مجھے پتہ چکی ہیں کہ کل ہم گھومنے جارہے ہیں" اسکے کہنے سے پہلے ہی آئرہ نے کہہ دیا
یہ بات اسے ثمیرین بیگم نے پہلے ہی بتادی تھی کے ولیمے کے اگلے روز عالم اسے گھومانے لے کر جارہا ہے اور جب سے ہی وہ بہت ایکساٹیڈ تھی
"اچھا تو تمہیں پتہ ہے"
"ہاں میں نے تو پیکنگ بھی کرلی ہے الماری کھو لینگے تو بیگ رکھے ہوے مل جائینگے میں نے دونوں کی پیکنگ کرلی ہے"گھومنے کا سن کر وہ اتنی خوش ہوگی یہ اسے اندازہ نہیں تھا اسے تو لگا تھا کے اس معاملے میں بھی زبردستی کرنی پڑے گی
"تم خوش ہو"
"بہت ویسے ہم کہاں جائینگے"
"بہت سی جگہ پر لاہور مری اسلام آباد" اسکے کہنے پر آئرہ کی مسکراہٹ دھیمی ہوئی
"اف آئرہ تم نے کیسے سوچ لیا کہ عالم شاہ تمہیں پاکستان سے باہر لے جاے گا" اسنے بڑبڑاتے ہوے کہا جو عالم بھی سن چکا تھا
"تمہیں باہر جانا ہے پاکستان اتنا پیارا ہے مجھے لگا تھا تم خوش ہوگی"
"نہیں میں سب یہ نہیں سوچ رہی تھی کے آپ مجھے پاکستان ٹوئر پر لے کر جارہے ہیں مجھے لگا ہم کہیں اور جائینگے لیکن پھر بھی میں بہت خوش ہوں پتہ ہے میں نے آج تک کراچی کے علاؤہ کچھ نہیں دیکھا تو میرے لیے تو لاہور اسلام آباد دیکھنا بھی لنڈن پیرس دیکھنے جیسا ہوگا میں جلدی سے سوجاتی ہوں تاکہ جلدی اٹھ جاؤں"اپنے چہرے پر کمبل ڈال کر وہ مکمل سونے کی تیاری کر چکی تھی
اسکے بچوں جیسے انداز کو دیکھ کر عالم کے لبوں پر تبسم بکھرا
°°°°°
اپنے کمرے میں آکر اسے کافی حیرت ہوئی کیونکہ خلاف توقع اسکی بیوی بیڈ پر بیٹھی یقینا اسکا ہی انتظار کررہی تھی
اسے تو لگا تھا کہ وہ اب تک سوچکی ہوگی لیکن اسنے تو کپڑے بھی نہیں بدلے تھے
"کیا بات ہے بیوی تم میرے انتظار میں بیٹھی ہو"
"ہاں میں تمہارے انتظار میں بیٹھی تھی مجھ سے جھوٹ مت بولنا میں نے خود تمہیں کسی سے فون پر بات کرتے سنا ہے"
"قسم لے لو یار اچھا خاصا شریف بندہ ہوں میرا کوئی چکر وکر نہیں چل رہا"
"معتصم میں اس طرح کی کوئی بات نہیں کررہی ہوں"اسنے اپنا لہجہ نارمل رکھتے ہوئے کہا
"اچھا تو پھر ارادے کچھ اور ہیں جو میرا انتظار ہورہا تھا" شرارت بھری آنکھوں سے معتصم نے اپنے سامنے کھڑی پری کو دیکھا
"میں نے تمہیں بات کرتے ہوے سنا تھا تم کس چیز کی ٹکٹ بک کررہے ہو اگر تمہارا ارادہ مجھے اپنے ساتھ کہیں لے جانے کا ہے تو میں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گی"
"میں تمہیں لے جاکر بھی کیا کروں گا میں تمہیں گھورتا رہوں گا اور تم اپنے اوپر پورا کمبل ڈال کر سوتی رہو گی اگر اسی چیز کے لیے پیسے ضائع کرنے ہیں تو یہ کام تو یہاں بھی بہت اچھے سے ہورہا ہے"کہتے ہوے اسنے اپنی گھڑی اتار کر سائیڈ پر رکھی
"تم مجھے اپنی ان باتوں سے بہلا نہیں سکتے"
"میں تمہیں نہیں بہلا رہا ہوں میں نے ٹکٹ بک کرواے تھے ترکی کے وہ بھی عصیم اور کسوا کے لیے کیونکہ کسوا کو ہمیشہ وہاں جانے کی خواہش تھی میں نے بس اسے خوش کرنے کے لیے یہ چھوٹا سا گفٹ دیا ہے ہاں عالم بھی جارہا ہے عصیم بھی جارہا ہے تو دادا سائیں کا حکم ہے ہم بھی جائیں"
"میں کہیں نہیں جاؤں گی" اسنے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر کہا
"ہم کہیں نہیں کراچی جارہے ہیں تاکہ عصیم کی غیر موجودگی میں ، میں آرام سے کام بھی کرلوں اور سب کی نظروں میں ہمارا ہنی مون بھی ہوجاے اور تم چاہو تو اپنے گھر والوں سے بھی مل لینا" اپنے کپڑے نکال کر وہ واشروم میں جانے لگا جبکہ پریشے تو بس حیرت سے اسکی ہر بات سن رہی تھی اسنے ساری پلیننک پہلے ہی کرلی تھی
"بیوی یہ مت سمجھنا میں تمہیں کراچی پر ٹرکھا رہا ہوں جب ہمارے بیچ کی یہ دوریاں مٹ جائیں گی نہ تب میں تمہیں فرانس لے کر جاؤں گا اور وہاں جاکر اچھے سے اپنا ہنی مون مناؤں گا ابھی تمہیں لے جانے کا کیا فایدہ بعد میں لے کر جاؤں گا جب تم مجھ سے راضی ہوگی تاکہ ہمارے پیار بھرے ان لمحوں میں ہمیں کوئی ڈسٹرب نہ کرے"
اسکی بات سن کر پریشے کے کان تک سرخ ہوچکے تھے اور اسکا سرخ چہرہ دیکھ کر کمرے میں معتصم کا قہقہہ گونجا
°°°°°
جلدی جلدی کرتے ہوے بھی اسے آنے میں بہت دیر ہوچکی تھی حویلی میں داخل ہوتے ہی وہ تیز تیز قدم اٹھاتا اپنے کمرے کی جانب چلا گیا
جہاں کا منظر دیکھ کر عصیم کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا
سر بیڈ کراؤن سے ٹکا کر وہ سورہی تھی اسنے اپنی جیولری تک بھی نہیں اتاری تھی صرف اسکے ڈر سے
اپنا کوٹ اتار کر اسنے صوفے پر پھینکا اور قریب جاکر فرصت سے اپنی بیوی کو دیکھنے لگا جو آج ضرورت سے زیادہ حسین لگ رہی تھی
اپنا ہاتھ اسکے گال پر رکھ کر عصیم نے اسکا گال سہلایا اور اسکے لبوں کو اپنی قید میں لے لیا
اپنی رکتی سانسوں کی وجہ سے کسوا کی آنکھ کھلی اور پہلی نظر عصیم پر پڑی جو اسکی سانسوں کو روکنے میں مصروف تھا کسوا نے زور سے اپنی آنکھیں میچ لیں
جب عصیم نے اسکے لبوں کو آزادی بخشی اور اپنی پیشانی اسکی پیشانی سے ٹکا دی
"جاؤ چینج کرکے آؤ" اسکے کہنے پر کسوا بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی خود وہ بھی ڈریسنگ روم میں جاکر اپنے کپڑے بدل کر آگیا
ارادہ تو اسے آج بھی کسوا کو چھوڑنے کا نہیں تھا لیکن اسے اپنی بیوی کا بھی تو خیال رکھنا تھا شادی کی وجہ سے وہ پہلے ہی کافی تھکی ہوئی تھی اوپر سے کل پوری رات عصیم نے اسے جگا کر رکھا تھا
جھجکتے ہوئی وہ بیڈ پر لیٹ گئی جب عصیم نے اسے اپنے قریب کیا اور اسے اپنے حصار میں لے کر سوگیا اسکی اس حرکت پر کسوا نے کسی طرح کی مزاحمت نہیں کری تھی کیونکہ ایسا کرنے پر سامنے والے کا موڈ بدل بھی سکتا تھا
صبح فجر کے بعد ناشتہ کرتے ہی سب سے مل کر وہ دونوں اپنے سفر پر نکل چکے تھے
اتنی جلدی نکلنے کا مقصد یہی تھا کہ وہ وقت سے وہاں پر پہنچ جاتے
اسے لگا تھا کے اسکی بیوی ساتھ ہے تو یہ سفر رومانی ہوگا لیکن گاڑی شہر میں داخل ہوتے ہی آئرہ سوچکی تھی کیونکہ ساری رات اسے اس خوشی میں نیند نہیں آئی تھی کے صبح وہ گھومنے جارہی ہے
کافی دیر تک وہ خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرتا مسلسل ڈرائیو کرنے سے تھکن ہورہی تھی وہ مسلسل گاڑی چلا رہا تھا اسکا ارادہ بنا رکے سیدھا ہوٹل پہنچنے کا تھا لیکن تھکن سے زیادہ اسے بوریت ہورہی تھی
اسنے جھنجوڑ کر آئرہ کو اٹھایا جس نے اپنی نیند سے بھری آنکھوں سے اسے دیکھا
"ہم پہنچ گئے"
"نہیں"
"تو مجھے کیوں اٹھایا" منہ بنا کر اسنے اپنا سر سیٹ سے ٹکا دیا اسکا ارادہ دوبارہ سونے کا تھا
"کیونکہ تمہیں اپنے شوہر کا زرا سا بھی خیال نہیں ہے وہ بیچارا کب سے گاڑی چلا رہا ہے اور تم مزے سے سورہی ہو تمہیں تو میرا خیال رکھنا چاہیے میں تمہیں گھومانے لے کر جارہا ہوں"
"ہاں تو پلین میں چل لیتے شوہر کو اتنی ڈرائیو نہیں کرنی پڑتی اسی بہانے میں بھی پلین کا سفر کرلیتی"
"مجھے پلین کا سفر نہیں پسند"
"ہاں تو اب مزے سے ڈرائیو کرتے رہیں ورنہ کچھ دیر کے لیے کسی جگہ رک جائیں" اسنے بند آنکھوں سے کہا
"ضرورت نہیں ہے ہم بیس پچیس منٹ میں پہنچ جائینگے میں کہیں رک کر وقت برباد نہیں کرنا چاہتا تم مجھ سے باتیں کرو تاکہ میری یہ بوریت دور ہوجاے"
"اپنی بوریت خود دور کریں"
"میں واقعی میں اپنی بوریت خود دور کرنے لگ جاؤں گا آئرہ جو کام میں نے اپنے کمرے میں نہیں کیا وہ کام مجھے اس گاڑی میں کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوگی"اسکی اس بات پر آئرہ اسے گھور بھی نہ سکی جبکہ عالم تو بس مسکراتے ہوے اسکے چہرے پر پھیلی سرخی دیکھ رہا تھا
"شرم نہیں آتی"
"تم نے میری بےشرمی ابھی دیکھی کہاں ہے دیکھنا چاہو گی"اسنے آئرہ کی طرف دیکھتے ہوے سوالیہ انداز میں پوچھا جیسے اگر آئرہ اسے بےشرمی دکھانے کا کہہ دیتی تو وہ دکھانے میں بلکل بھی دیر نہیں لگاتا
"نہیں مجھے نہیں دیکھنی میں تم سے باتیں کرلیتی ہوں اور اتنی باتیں کروں گی کے تمہارے کان پک جائینگے" اسکے کہنے پر عالم نے اپنا کان اسکے چہرے کے تھوڑا نزدیک کیا
"کیا کہا تم نے"
"آپ بولا میں نے"
"لیکن میں نے تو تم سنا"
'غلط سنا"
"ہاں غلط سنا ہوگا ورنہ تم مجھے آپ کہنا بھولنا بھی چاہو تو بھول نہیں سکتی کیونکہ تم بولنے کے انجام میں تمہارے لبوں پر دیا میرا نشان ابھی تک موجود ہے" اسکے بے باکی سے کہنے پر آئرہ نے اپنے چہرے کا رخ موز لیا جبکہ زہہن میں اسکی اس دن کی گئی جسارت یاد آئی
"اچھا ادھر دیکھو میری طرف نہیں کہہ رہا میں کچھ چلو مجھ سے باتیں کرو" اسکے کہنے پر آئرہ گہرا سانس لے کر جو شروع ہوئی وہ لاہور کے ہوٹل پہنچنے تک رکی نہیں
جبکہ عالم کو حیرت ہورہی تھی کے کوئی لڑکی کسوا سے بھی زیادہ بول سکتی ہے
°°°°°
ہوٹل میں معتصم پہلے سے ہی روم بک کروا کا تھا یہ ہوٹل معتصم کے دوست کا تھا جہاں انکے جانے سے پہلے ہی مینیجر انکا انتظار کررہا تھا یقینا معتصم نے اپنے دوست کو اسکے یہاں آنے کے بارے میں بتادیا تھا
ان کا روم پہلے ہی بک تھا اسلیے انہیں انکے روم میں پہچادیا جو کے ہوٹل سا سب سے بہترین کمرہ تھا
اسے بےحد تھکن ہورہی تھی اسے سب سے پہلے شاور لینا تھا
اسنے اپنا بیگ کھولا جو آئرہ نے خود پیک کیا تھا بیگ کھولتے ہی اسے بےحد حیرت ہوئی اسنے ایک ایک سوٹ نکال کر دیکھا
اس میں جیکیٹ جینز ٹی شرٹ ہر طرح کے کپڑے بھرے ہوے تھے سواے اسکے پسندیدہ شلوار کمیز کے
"آئرہ یہ سب کیا ہے"اسنے آئرہ کو دیکھتے ہوے کہا جو خود اپنا سوٹ بیگ سے نکال رہی تھی اسکے کہنے پر اسکی طرف متوجہ ہوئی
"کیا کیا ہے"
"یہ کیا ہے" اسنے اپنے بیگ کی طرف اشارہ کیا
"وہ یہ میں نے معتصم لالا سے منگوائے تھے اماں سائیں نے مجھے پہلے ہی بتادیا تھا کے ہم گھومنے جارہے ہیں تو میں نے ان سے کہہ کر اپنی پسند کے کپڑے آپ کے لیے منگوائے تھے مجھے پتہ نہیں تھا نہ ہم کہاں جارہے ہیں اسلیے میں نے سرد اور گرم دونوں طرح کے کپڑے منگوالیے" وہ فخر سے اپنا کیا ہوا کارنامہ بتارہی تھی
جبکہ عالم کو تو اب اسکے معتصم کے ساتھ اتنے بھائی چارے کی وجہ سمجھ آئی تھی
"تم جانتی ہو میں یہ سب نہیں پہنتا"
"ہاں تو میں آپ کو یہاں پر کمیز شلوار نہیں پہننے دوں گی یہی پہنے پڑینگے میں نے آپ کو کبھی دیکھا بھی نہیں ہے ان کپڑوں میں"کہتے ہوے اسنے خود ہی بیگ سے وائٹ شرٹ اور ڈارک بلیو جینز نکال کر بیڈ پر رکھ دی اور اٹھ کھڑی ہوئی
"تم کہاں جارہی ہو"
"نہانے"
"میں جاؤنگا"
"میں جاؤنگی"
"آئرہ میں جاؤنگا"
"عالم میں جاؤنگی" کہتے ہوے وہ جلدی سے واشروم کی طرف بھاگنے لگی جب عالم نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے بیڈ پر تھکا دیا اور خود واشروم میں گھس گیا
"عالم شاہ" اسنے غصے سے واشروم کا دروازہ بجایا لیکن اندر سے کوئی ریسپانس نہیں ملا
جبکہ اندر عالم کتنی دیر تک اپنی کی ہوئی حرکت پر ہنستا رہا
"یہ لڑکی مجھے بھی اپنے جیسا بنادے گی" خود سے بڑبڑاتے ہوے اسنے شاور آن کر لیا
°°°°°
اسے آئرہ کی طرف سے خاموشی کی تو امید نہیں تھی لیکن اسکا غصے سے نام لینے کے علاؤہ اسنے کچھ نہیں کیا تھا
جو اسکے لیے حیرت کی بات تھی ورنہ اسے تو لگ رہا تھا چابی سے دروازہ کھول کر وہ واشروم میں ہی داخل ہوجاے گی
لیکن جلد ہی عالم کو اسکی خاموشی کی وجہ سمجھ آچکی تھی وہ اپنے کپڑے لانا بھول گیا تھا اتارے ہوے کپڑے وہ دوبارہ پہن نہیں سکتا تھا کیونکہ اسے باتھ لے کر اتارے ہوے کپڑے پہننے سے الجھن آتی تھی
واشروم میں بس ایک ٹاول لٹکا ہوا تھا جو اسکے حصاب سے کافی چھوٹا تھا
"آئرہ"
"کیا ہے" انداز لاپرواہ سا تھا
"میرے کپڑے دو"
"میں تو نہیں دے رہی"
"میں ایسے ہی باہر آجاؤں گا مجھے کوئی شرم نہیں آے گی" اسنے جتنے اطمینان سے کہا تھا دوسری طرف بھی اسی اطمینان سے جواب دیا گیا
"بھلے آجائیں میں آپ کی ویڈیو بنا کر سب کو سینڈ کردیں گی"
"پالیز یار دے دو"
"کیوں دوں مجھے بیڈ پر تھکا دے کر چلے گئے تھے اور پالیز نہیں ہوتا پلیز ہوتا ہے"
"اچھا پلیز دے دو سوری" اسکے کہنے پر وہ گہرا سانس لے کر اپنی جگہ سے اٹھی اور جاکر اسے اسکے بیڈ پر رکھے ہوے کپڑے دے دیےp
°°°°°
باتھ لے کر وہ تھوڑی دیر کے لیے روم سے باہر چلا گیا یہاں آنے تک اسکی گاڑی کا ٹائر خراب ہوچکا تھا جسے وہ ٹھیک کروانے جارہا تھا
ساتھ ہی نظر بار بار اپنے کپڑوں کی طرف چلی جاتی اور لبوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی
"تم نے میرے لیے اتنے کپڑے لیے ہیں کچھ میں بھی تمہارے لیے لے لیتا ہوں"
ٹائر ٹھیک کرواکر وہ آئرہ کے لیے اپنی مرضی کا تحفہ لینے چلا گیا جو جلدی ہی اسے پسند بھی آچکا تھا اسے لے کر وہ واپس ہوٹل کی جانب بڑھ گیا
اس وقت اسے بہت بھوک لگ رہی تھی اور ہوٹل جاکر اسکا ارادہ سب سے پہلے کھانا کھانے کا تھا صبح کے ناشتے کے علاؤہ سفر میں اسنے بس راستے سے لیے دو سینڈوچ کھاے تھے جس میں اس دیسی کھانا کھانے والے مرد کا بھلا کیا ہونا تھا
°°°°°
کمرے میں داخل ہوکر اسنے اپنے ہاتھ میں موجود بیگ سائیڈ پر رکھ دیا کمرہ خالی تھا آئرہ یقینا واشروم میں تھی گہرا سانس لے کر وہ بیڈ پر بیٹھنے لگا
جب نظر بیڈ پر رکھے آئرہ کے پرسنل سامان پر گئی جو یقیناً غلطی سے وہ یہاں بھول چکی تھی اسے ہاتھ میں لے کر عالم اسے ہر اینگل سے دیکھنے لگا لبوں پر ایک دم مسکراہٹ رینگ گئی
جب آئرہ واشروم سے باہر نکلی اسکے گیلے بال بکھرے پڑے تھے اور اسنے گھٹنوں تک آتا ٹاول پہن رکھا تھا یقینا وہ اپنا بھولا ہوا سامان ہی واپس لینے آئی تھی
لیکن عالم کی وہاں موجودگی دیکھ کر جلدی سے سے واپس بھاگنے لگی لیکن اس سے پہلے ہی عالم نے اسکی کلائی پکڑ کر جھٹکے سے اسے اپنی جانب کھینچا
"ایسے نظارے دکھا کر بھی تم مجھ سے یہ امید رکھتی ہو کے میں تم سے دور رہوں کہاں سے لاؤں اتنا صبر"
اسکی گردن سے گیلے بال ہٹا کر وہ اسکی بیوٹی بون پر جھک گیا
"ع---عالم پلیز مجھے جانے دیں"
"کہاں سے لاؤں اتنا صبر" اپنا چہرہ اسکے مقابل کرکے عالم نے سوال کیا
"پ--پلیز جانے دی-یں"
''ایسے کیسے جانے دوں تم نے بھی تو مجھے اتنا ستایا ہے تھوڑا حق تو میرا بھی بنتا ہے" اپنی بات کہہ کر وہ اسکے کپکپاتے لبوں پر جھک گیا آئرہ نے سختی سے اسکی شرٹ کو اپنی مٹھیوں میں دبوچ لیا
وہ مدہوش سا اسکے لبوں پر جھکا ہوا تھا ارد گرد کیا ہورہا تھا ، کیا تھا اسے پرواہ نہیں تھی وہ بس آئرہ میں کھویا ہوا تھا اور اسی سب کا فائدہ اٹھا کر آئرہ نے اسے دھکا دیا اور تیزی سے واشروم میں بھاگ گئی
اسے تو یہ بھی یاد نہیں رہا تھا کے وہ باہر کچھ لینے آئی تھی
اسکے اس طرح جانے پر عالم کے لبوں پر ڈمپل والی دلکش مسکراہٹ نمودار ہوئی سمجھ نہیں آرہا تھا اسکی اس حرکت پر غصہ کرے یا پھر ہنسے
"خیال رکھنا اسکا اور خبردار جو تم نے اسے ڈانٹا" عماد صاحب نے تھوڑے فاصلے پر کھڑی اپنی بہو کو دیکھتے ہوے بیٹے سے کہا
انکی فلائٹ کا ٹائم ہونے میں ابھی وقت باقی تھا لیکن ائیرپورٹ وقت سے پہنچ جائیں اسلیے وہ جلدی نکل رہے تھے
اس وقت بھی سب گھر والے ان سے مل کر انہیں رخصت کررہے تھے
"بابا سائیں آپ کو یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں ہے"
"مجھے سمجھ نہیں آرہا عصیم کیا ثقلین لالا نے کسوا کے ساتھ کوئی زبردستی کی ہے جب سے شادی ہوئی ہے وہ اتنی خاموش رہنے لگی ہے ہمیں کہاں عادت ہے اسکی خاموشی کی"
"فکر مت کریں بابا سائیں جب واپس لے کر آؤں گا نہ تو آپ کو وہی پرانی کسوا ملے گی" ان سے گلے مل کر اسنے کسوا کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر باہر نکل گیا انکا سامان ملازم پہلے ہی گاڑی میں رکھ چکے تھے
°°°°°
آنکھیں بند کرکے وہ گہرے گہرے سانس لینے لگی پلین میں یہ اسکا پہلا سفر تھا شوق تو اسے پلین میں بیٹھنے کا ہمیشہ سے تھا لیکن آج جب یہ شوق پورا ہورہا تھا تو بےحد ڈر لگ رہا تھا
عصیم فرصت سے اپنی ڈری ہوئی بیوی کو دیکھ رہا تھا اسے پتا تھا کے کسوا اپنے پلین کے اس پہلے سفر میں ضرور ڈرے گی
لیکن اتنا گھبرائے گی یہ اسے نہیں پتہ تھا اسکے اتنے گھبرانے کی وجہ معتصم تھا جس نے اسے مذاق میں یہ بات کہہ دی تھی کے کسوا دھیان سے بیٹھنا ابھی ہی میں پلین کریش کی خبر پڑھ کر آیا ہوں
اسکی مذاق میں کہی یہ بات کسوا اپنے حواسوں پر سوار کر چکی تھی
عصیم نے ٹیشو سے اسکی پیشانی پر موجود پسینے کے قطرے صاف کیے جس سے کسوا نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا
عصیم نے نرمی سے اسکا سر اپنے کندھے پر رکھ کر اسے اپنے حصار میں لے لیا
"ڈرنے کی کیا ضرورت ہے میں ساتھ ہوں نہ کچھ نہیں ہوگا" اسنے اسکا کندھا سہلاتے ہوے اسے پرسکون کرنا چاہا جو کے وہ ہو بھی چکی تھی
جب ہی تو تھوڑی دیر میں ہی وہ عصیم کے کندھے پر سر رکھے رکھے سوچکی تھی
°°°°°
فلائٹ لینڈ ہوتے ہی اسنے کسوا کو نیند سے جگایا وہاں پر انہیں ڈرائیور مل چکا تھا جو انکا ہی انتظار کررہا تھا
ان کے پاس آتے ہی ڈرائیور نے انہیں سلام کیا
İslam ve selam üzeriniz(اسلام وعلیکم)
Ve aleyküm sslam(وعلیکم اسلام)
انکا سامان گاڑی میں رکھ کر ڈرائیور نے انکے لیے دروازہ کھولا
"آپ کو ترکی کی زبان آتی ہے" گاڑی میں بیٹھتے ہی اسنے حیرت سے کہا
"ہلکی پھلکی تم سیکھو گی" اسکے کہنے پر کسوا نے منہ بنا کر اپنا سر نفی میں ہلایا جس پر اسنے مسکراتے ہوے اسے اپنے ساتھ لگالیا
گاڑی ایک خوبصورت سے گھر کے آگے رکی ڈرائیور نے جلدی سے گاڑی سے اتر کر انکے لیے دروازہ کھولا
"یہ کونسا شہر ہے"
"انطالیہ"
اسے لے کر وہ گھر میں داخل ہوگیا
"یہ کس کا ہے"اسکا اشارہ گھر کی طرف تھا
"میرا تمہارا ہمار" پیار بھرے لہجے میں کہہ کر وہ ڈرائیور سے ترکش میں کچھ پوچھنے لگا
جبکہ کسوا ہر طرف نظریں دوڑا کر اس چھوٹے لیکن خوبصورت گھر کو دیکھ رہی تھی
اندر بھی ہر چیز بڑی نفاست سے رکھی ہوئی تھی جبکہ باہر جو چھوٹا سا لان بنا ہوا تھا وہ بھی بےحد پیارا اور صاف ستھرا تھا
یہ گھر عصیم کا تھا یہ بات اسکے لیے حیرت والی نہیں تھی معتصم اور عصیم بزنس کے سلسلے میں کافی جگہوں پر جاتے ہیں
اسلیے جس جگہ انکا جانا زیادہ ہوتا تھا وہاں ان کا کوئی نہ کوئی گھر موجود تھا
"یہ کافی صاف ستھرا ہے" اسکے قریب آتے ہی کسوا نے کہا
"ہاں زارا نے اسکی صفائی کردی تھی"
"کون زارا"
"سرفراز کی بیوی"اسنے ڈرائیور کی طرف اشارہ کیا
"زارا اور سرفراز میرے دوست تاشفین کے پاس کام کرتے ہیں وہ یہیں رہتا ہے تو جب میں نے اسے ہمارے یہاں آنے کی خبر دی تو اسنے یہاں کی صفائی کروادی وہ ویسے بھی ہر مہینے یہاں کی صفائی کروادیتا ہے ابھی وہ یورپ گیا ہوا ہے ورنہ ہمیں لینے کے لیے وہی آتا"
"میں نے کچن کا سارا سامان پہلے ہی وہاں پر سیٹ کروادیا تھا تو تمہیں کچھ کھانا ہو تو کھا سکتی ہو زارا نے کھانا بھی بنادیا تھا بھوک لگے تو کھا لینا مجھے ضروری کام سے جانا ہے" اسکے ماتھے پر پیار کرکے وہ وہاں سے جانے لگا جب کسوا نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا
"آپ مجھے چھوڑ کر جارہے ہیں"
"میری جان ضروری کام ہے جلد ہی واپس آجاؤں گا کھانا کھا لینا اور اپنا خیال رکھنا" اسکا گال تھپتھپا کر وہ وہاں سے چلا گیا
جبکہ وہ جو پہلے اطمینان سے کھڑی تھی اب وہی اطمینان ڈر میں تبدیل ہوچکا تھا وہ کہاں کبھی اکیلی رہی تھی چاہے کچھ گھنٹوں کے لیے ہی سہی لیکن وہ کبھی اکیلی نہیں رہی تھی
اسنے پہلے ہی عصیم کو فون پر بات کرتے ہوے سن لیا تھا کے وہ یہاں اپنی میٹنگ کے لیے آیا تھا اور اسے پتہ تھا کے اس وقت وہ اپنی میٹنگ ہی اٹینڈ کرنے گیا ہوگا
°°°°°
فریج میں پلاؤ بنا رکھا ہوا تھا اسنے نکال کر اسے گرم کرکے کھالیا وہ کافی مزے کا بنا تھا
عصیم کو گئے ہوے کافی وقت ہوچکا تھا رات ہوچکی تھی اور باہر موسم کسی بھی وقت برسات شروع کرنے والا تھا
جو اسکے ڈر میں اضافہ کررہا تھا بجلی زور زور سے کڑک رہی تھی جس سے اسے ہمیشہ ڈر لگتا تھا گھر میں جب بھی بارش ہوتی تھی وہ اماں سائیں کے کمرے میں انکے پاس چھپ جاتی تھی
لیکن اس وقت تو وہ یہاں نہیں تھیں جو بارش اور بجلی کڑکتے ہی وہ انکے پاس چلی جاتی
سوچا گھر میں کسی کو فون کرلوں لیکن وہ ایسا بھی نہیں کرسکتی تھی کیونکہ سب سے بڑا مسلہ اسکا فون حویلی میں ہی رہ چکا تھا اور ڈانٹ کے ڈر سے اسنے عصیم کو بھی نہیں بتایا تھا ورنہ ایک لمبا لیکچر مل جاتا
°°°°°
وہاں بنے کمروں میں سے وہ ایک میں چلی گئی اسکا ارادہ تو پورا گھر دیکھنے کا تھا لیکن اس وقت ڈر اتنا لگ رہا تھا کے وہ بس اس کمرے میں ہی بند رہنا چاہتی تھی
بارش شروع ہوچکی تھی اور زور زور سے بجلی کڑک رہی تھی اسے اس وقت بےتحاشہ رونا آرہا تھا دل چاہ رہا تھا کونے میں بیٹھ کر ڈھیر سارا روے اور وہ ایسا ہی کررہی تھی
کمرے میں کونے میں بیٹھ کر وہ رو رہی تھی جبکہ دل عصیم کو برا بھلا کہہ رہا تھا جو اسے یہاں لاکر بھول ہی چکا تھا
وہ کتنی ہی دیر تک بجلی کی وجہ سے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر روتی رہی لیکن آواز پھر بھی آرہی تھی وہ اسی طرح روتی رہتی جب اسے باہر سے آواز سنائی دی وہ جھٹکے سے اٹھی اور باہر کی طرف بھاگی
جہاں عصیم کھڑا تھا تیز بارش کی وجہ سے وہ پورا بھیگا ہوا تھا وہ اندر ہی آرہا تھا لیکن کسوا نے اتنا بھی انتظار نہیں کیا اور بھاگ کر اسکے سینے سے لگ گئی اس تیز برستی بارش میں بھی عصیم اسکے آنسو دیکھ سکتا تھا
اسے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی کے کسوا کیا ہوا ہے کیونکہ وہ جانتا تھا کے اسے کڑکتی بجلی سے ڈر لگتا ہے اور آج تو وہ سارا دن ہی گھر پر اکیلی رہی تھی اور ایسا پہلی بار ہوا تھا
اسے روتے دیکھ کر عصیم کو خود پر غصہ آرہا تھا کے کیا ضرورت تھی کسوا کو اکیلا چھوڑنے کی کام جاے بھاڑ میں اسے اپنی بیوی کے علاؤہ کچھ عزیز نہیں تھا
جلدی جلدی کرتے ہوے بھی اسے آنے میں کافی دیر ہوچکی تھی اسکا ارادہ آج ہی سارا کام نمٹانے کا تھا تاکہ باقی کے دن وہ کسوا کے ساتھ آرام سے گزار لے اسی وجہ سے اسے آنے میں دیر ہوچکی تھی
"کسوا اندر تو چلو" عصیم نے اسے خود سے دور کرنا چاہا تاکہ اسے لے کر اندر جاسکے لیکن وہ اسی طرح اسکے سینے سے لگی رہی
اسے دور نہ ہٹتے دیکھ کر عصیم نے اسے اپنی بانہوں میں اٹھادیا اور اسے لے کر اندر کی طرف جانے لگا وہ دونوں ہی مکمل بھیگ چکے تھے
°°°°°
اسے لے کر وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا جو اس گھر میں اسنے اپنے استعمال کے لیے رکھا ہوا تھا
اسے لاکر عصیم نے بیڈ پر بٹھایا باہر اتنی روشنی نہیں تھی لیکن اندر پورا گھر روشن ہوا پڑا تھا جس کے ذریعے وہ آرام سے اپنی بیوی کا بھیگا ہوا روپ دیکھ رہا تھا جو اسے آرام سے بہکانے کا کام کر رہا تھا
عصیم نے اسکے گلے سے گیلا ڈوپٹہ نکال کر دور پھینکا اور اسکی گردن پر جھک گیا اس اچانک افتاد پر کسوا نے گھبرا کر اسکے سینے پر اپنے ہاتھ رکھے وہ ایسا کچھ کرے گا یہ تو اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا
"یہ آپ کیا کررہے ہیں"
"پیار" ایک لفظی جواب دے کر اسنے کسوا کو بیڈ پر لٹا دیا
"د-دیکھیں پ--پلیز پلیز دور رہیں"
"جب دور ہی رکھنا تھا تو اتنی قریب کیوں آئیں تھی"
"م-میں ڈر گئی تھی"
"میں تمہارا ہر ڈر دور کردونگا"
"م--مجھے نہیں کروانا میں ا-اب ٹھیک ہوں" اسنے اسے روکنے کی ایک ناکام کوشش کی
"لیکن میں اب ٹھیک نہیں ہوں" اپنی انگلی اسکی پیشانی سے ہونٹوں تک لاتے ہوے وہ بہکے بہکے لہجے میں کہہ رہا تھا
"پلیز" اسنے اپنی جگہ سے اٹھنا چاہا لیکن عصیم اسکے دونوں ہاتھ بیڈ سے لگا کر اسکے لبوں پر جھک گیا اور کسوا ایک بار پھر اسکی قید میں بےبس ہوکر رہ گئی
°°°°°
نیند میں ہی اسنے اپنا ہاتھ بیڈ کے دوسری سائیڈ پر رکھا لیکن اسے خالی دیکھ کر اسنے فورا اپنی آنکھیں کھولیں کسوا کمرے میں نہیں تھی
اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ باہر نکل گیا تاکہ اپنی بیوی کو دیکھ لے جو اتنی صبح کہاں گئی تھی ابھی تو فجر ہوے بھی صرف بیس منٹ ہوے تھے
کمرے سے باہر آتے ہی وہ اسے نظر آچکی تھی اپنی آنکھیں بند کیے وہ دعا مانگ رہی تھی اسے اسی طرح چھوڑ کر وہ اطمینان بھری سانس لیے اندر چلا گیا
فریش ہوکر اسنے خود بھی نماز ادا کی اور کمرے سے باہر چلا گیا جہاں اب وہ کچن میں کھڑی شاید نہیں یقینا ناشتہ بنارہی تھی
اسکے قریب جاکر عصیم نے پیچھے سے اپنی بانہوں کے حصار میں لے لیا کسوا نے گھبرا کر پیچھے دیکھا پھر اسے دیکھ کر دوبارہ اپنے کام میں مگن ہوگئی
گیلے بالوں میں بےبی پنک فراک پہنے ڈوپٹہ گلے میں ڈالے وہ نکھری نکھری سی سیدھا اسکے دل میں اتر رہی تھی
"کیا کررہی ہو"
"ناشتہ بنا رہی تھی"
"اتنی صبح"
"مجھے بھوک لگ رہی تھی" وہ نظریں جھکا کر کہہ رہی تھی
عصیم نے اسکا رخ اپنی طرف موڑا اور اسکے دونوں طرف کچن سلپ پر ہاتھ رکھ کر اسکے بےحد قریب ہوگیا
"ناراض ہو"
"نہیں"
اسکے کہنے پر عصیم نے اسکا چہرہ تھوڑی سے اوپر کیا
"کیا تمہیں لگتا میں نے تمہارے ساتھ جو کیا وہ غلط ہے" اسکے کہنے پر کسوا کی نظریں دوبارہ جھک گئیں
"نہیں"
"تو پھر جب سے شادی ہوئی ہے تم اتنی اداس کیوں رہنے لگ گئی ہو"
"میں بس وقت چاہتی تھی تھوڑا ، میرے لیے یہ سب فوری قبول کرنا بہت مشکل تھا"
عصیم نے اسکی کمر میں بازو حمائل کرکے اسے اپنے قریب کرلیا
"تو اب تم نے قبول کرلیا اس سب کو" اسکے کہنے پر کسوا نے جھکی نظروں سے مسکرا کر اپنا سر اسکے سینے پر رکھ دیا اسکے ایسا کرتے ہی ڈھیروں سکون عصیم کے دل میں اترا اسنے سختی سے اپنی جان کو خود میں قید کرلیا
"قبول کرلیا تو پھر میرا نام کیوں نہیں لیتی ہو مجھے میرے نام سے پکارو"
"مجھے عجیب لگتا ہے میں ہمیشہ سے آپ کو لالا بلاتی تھی تو اسلیے مجھے صرف آپ کا نام لینا اچھا نہیں لگتا"اسنے معصومیت سے جواب دیا
"اچھا تو پھر تم میرا نام مت لینا تم مجھے شاہ بلانا"
"شاہ"
"ہاں شاہ تم مجھے اب سے شاہ بلایا کرو گی" اسکے کہنے پر کسوا نے معصومیت سے اپنا سر ہلادیا
"تو اب جب تم دل سے راضی ہو تو ہم چلتے ہیں اپنے کمرے میں"
اسے اپنی بانہوں میں اٹھا کر وہ اپنے کمرے میں لے جانے لگا
"پلیز مجھے نیچے اتاریں مجھے بھوک لگ رہی ہے"
"میں دس بجے باہر جاؤں گا جب تم اپنی بھوک کا علاج کرلینا"
"آپ کیوں جائینگے" کسوا نے گھبرا کر اسے دیکھا
"صرف ایک گھنٹے کے لیے جاؤں گا پرامس ایک گھنٹے میں واپس آجاؤں گا"
"ہاں کل کی طرح"
"کسوا آئی پرامس میں ایک گھنٹے میں ہی واپس آجاؤں گا" اسنے اپنی ٹانگ سے کمرے کا دروازہ کھولا
"اور تمہارا فون میرے بیگ میں ہے"
"میں تو اسے گھر بھول آئی تھی"
"تم بھول آئی تھیں نہ میں تو نہیں کل ہی تمہیں دے دیتا لیکن پھر کام سے چلا گیا اور بھول گیا"اسنے کسوا کو بیڈ پر بٹھایا
"ابھی مجھے جانے دیں مجھے سچ میں بہت بھوک لگ رہی ہے"
"اب تم جب ہی اس کمرے سے باہر نکلو گی جب میں اپنے کام پر جاؤں گا"کسوا نے گھڑی کی طرف دیکھا جو چھ بجا رہی تھی اور عصیم کو دس بجے جانا تھا اور اسے پتہ تھا کے اس سے پہلے تو عصیم اب اسے چھوڑے گا نہیں اسلیے بنا کچھ کہے اسکی ہر من مانی برادشت کرتی رہی عصیم نے اسکا ڈوپٹہ اس سے دور کیا اور دروازہ بند کردیا
نیند سے جاگ کر اسنے بھرپور طریقے سے آنگڑائی لی نظر سیدھی سامنے رکھے صوفے پر بیٹھے عالم پر گئی جو اپنے موبائل میں لگا ہوا تھا بلیک پینٹ کے ساتھ اسنے وائٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی جس کی آستین کو کونیوں تک فولڈ کیا ہوا تھا
آئرہ نے مسکراتے ہوے اسے دیکھا وہ اسے بتا نہیں سکتی تھی کے وہ ان کپڑوں میں کتنا پیارا لگ رہا تھا کل تو اسکی بےباک نظروں سے بچنے کے لیے کھانا کھاتے ہی وہ کمبل میں گھس کر سوگئی لیکن آج وہ اسے غور سے دیکھ رہی تھی اور بس دیکھے ہی جارہی تھی
"کیا بات ہے بہت پیارا لگ رہا ہوں جو نظریں ہی نہیں ہٹ رہی ہیں" اسنے نظریں موبائل پر جھکاے ہوے کہا جبکہ اسکے کہنے پر آئرہ نے نظریں فورا اس پر سے ہٹائیں
"میں تو تمہیں نہیں دیکھ رہی تھی" اسکے کہنے پر عالم نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا گال پر ڈمپل نمایاں ہوا
"میری نظریں چاروں طرف رہتی ہیں ویسے کل سے تم مجھ سے نظریں کیوں چرا رہی ہو"
"میں تو نظریں نہیں چرا رہی" کل کی بات یاد کرکے اسکے گال پھر سے لال ہونے لگے
"نہیں تم چرا رہی ہو اور اب تو لال بھی ہورہی ہو وہ تو تم نے تولیہ باندھا ہوا تھا جب تمہارا یہ حال ہورہا ہے" عالم نے اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوے بےباکی سے کہا
"سوچو اگر تم بنا"
"کچھ مت بولنا پلیز"چیختے ہوے وہ دوبارہ کمبل میں گھس گئی جس سے کمرے میں عالم کا قہقہہ گونجا
اسکے قریب آکر اسنے آئرہ پر سے کمبل اٹھادیا
"اچھا نہیں کہہ رہا کچھ اٹھو ناشتہ کرو پھر ہم گھومنے چلتے ہیں کمرے میں رہنے کا بھی کیا فائدہ بتاؤ کہاں جاؤ گی" وہ وہیں اسکے پاس بیٹھ گیا
"فیصل مسجد"
"آئرہ فیصل مسجد یہاں نہیں ہے"
"مجھے پتہ ہے میں بس دیکھنا چاہ رہی تھی کے آپ کو پتہ ہے یا نہیں"
"اچھا تو پتہ چل گیا اب بتاؤ کہاں جاؤ گی"
"مجھے نہیں پتہ مجھے بس بادشاہی مسجد جانا ہے باقی جہاں آپ کی مرضی ہوگی ہم وہیں جائینگے" اسکے کہنے پر عالم نے پیار بھری نظروں سے اسے دیکھا
"تم ایسے بات کرتی ہوئی کتنی پیاری لگتی ہو" اسکے گال پر پیار کرکے وہ بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا
"ایک بات پوچھوں"
"ہاں پوچھو"
"آپ کو تھکن نہیں ہورہی مطلب اتنی لمبی ڈرائیو کی ہے اور اسکے بعد باہر چلے گئے اور پھر ابھی بھی بس چند گھنٹے کی نیند لی"
"ہاں تھکن تو بہت ہورہی ہے لیکن کیا کروں میری بیوی میری تھکن اتارتی ہی نہیں ہے" اسے پٹری سے اترتے دیکھ کر وہ اٹھ کر واشروم میں فریش ہونے کے لیے بھاگ گئی
وہ اس سے سیدھے جواب کی امید کیسے رکھ سکتی تھی وہ عالم شاہ تھا جو سیدھی سی بات کو بھی اپنے مطلب کی طرف لے آتا تھا
°°°°°
گھر میں داخل ہوتے ہی وہ کمرے میں جانے لگی جہاں وہ پہلے رہ رہی تھی لیکن اسکے جانے سے پہلے ہی معتصم نے اسکی کلائی پکڑ لی
"کہاں جارہی ہو"
"کمرے میں"
"میرا کمرہ وہاں ہے"اسنے کچن کے برابر بنے کمرے کی طرف اشارہ کیا
"لیکن میں اسی کمرے میں جاؤں گی جہاں میں پہلے رہ رہی تھی"
"جب تم میرے بنا رہ رہی تھیں اب تم میرے ساتھ ہو تو سیدھی اسی کمرے میں جاؤ اور کوئی بحث نہیں میں زبردستی کرسکتا ہوں لیکن میں کرنا نہیں چاہتا تو خاموشی سے وہاں چلی جاؤ" اسکے کہنے پر وہ غصے سے معتصم کے بتاے ہوے کمرے میں چلی گئی وہ خود بھی اسکے پیچھے ہی چلا گیا
"میں نے کھانا آرڈر کردیا تھا آنے والا ہوگا تمہاری طبیعت ٹھیک ہے"
"میری طبیعت کو کیا ہوا ہے"
"کافی تھکی ہوئی لگ رہی ہو"
"نہیں میں ٹھیک ہوں تمہیں میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے" اسکا انداز لٹھ ماردینے والا تھا
"اچھا تو کل کی تیاری کرلینا"
"کل کیا ہے" پریشے نے بھنویں اچکا کر اسے دیکھا
"کل ایک پارٹی ہے جہاں میرے سارے بزنس پارٹنر ہوں گے اور مجھے اور میری مسز کو اس میں انوئت کیا ہے"
"میں کہیں نہیں جاؤں گی" معتصم کی کوئی بات ماننا اسکے لیے تو شاید ویسے بھی گناہ تھا اسلیے اسنے پہلی فرصت میں انکار کردیا جبکہ دوسری وجہ تھکن اور حرارت تھی وہ خود ایک ڈاکٹر تھی لیکن اپنا خیال وہ کبھی بھی نہیں رکھتی تھی
"میں زبردستی نہیں کروں گا تمہاری مرضی ہوگی تم جانا چاہو تو ٹھیک نہیں جانا چاہو تو کوئی بڑی بات نہیں" مسکراتے ہوے کہہ کر وہ باہر چلا گیا جہاں ڈور بیل بج رہی تھی اور اسے پتہ تھا کے اسکا آرڈر کیا ہوا کھانا ہی آیا ہوگا
°°°°°
عصیم کے جاتے ہی اسنے سب سے پہلے ناشتہ کیا کیونکہ بھوک سے اسکا برا حال ہورہا تھا
وہ ناشتہ کرکے فارغ ہوئی تھی جب دروازے پر دستک ہوئی اسنے جاکر دیکھا وہاں ایک لڑکا کھڑا تھا سر پر کیپ پہنے وہ اسکی طرف کچھ بڑھا رہا تھا
وہ کیا کہہ رہا تھا اسکے کچھ پلے نہیں پڑھ رہا تھا اسے بس اسکی ساری باتوں میں سے شاہ بے ہی سمجھ آیا تھا
جس سے وہ یہ تو سمجھ گئی تھی کے سامنے کھڑا شخص شاہ اسکے شوہر کو ہی کہہ رہا ہے لیکن اسکے بے کہنے پر اسے اچھا خاصہ غصہ آیا وہ بھلا کیسے اسکے شاہ کو بے کہہ سکتا تھا
اس لڑکے کے جانے کے بعد اسنے وہ باکس زور سے صوفے پر پھینکا
"مجھے جواب دینا چاہیے تھا وہ پتلی پتلی داڑھی مونچھوں والا شخص کیسے میرے شاہ کو بے کہہ رہا تھا اور وہ تھا کون اور یہ مجھے کیوں دے کر گیا اف کسوا کتنی بدھو ہو تم وہ شاہ کہہ رہا تھا یقینا عصیم لال مطلب شاہ نے ہی بھجوایا ہوگا" وہ خود سے باتیں کرنے میں مصروف تھی جب اسکا فون بجا جسے اٹھاتے ہی اسنے سلام کیا اور پیار بھرے لہجے میں جواب ملا
"وعلیکم اسلام کیا ہورہا تھا جان"
"کچھ نہیں"
"میں نے تمہارے لیے کچھ بھجوایا تھا"
"ہاں مجھے مل گیا لیکن آپ کو ایک بات بتاؤں شاہ جو لڑکا آیا تھا نہ وہ بہت بدتمیز تھا"
"کیوں اسنے کچھ کہا ہے تمہیں"عصیم کے ماتھے پر بل پڑے
"نہیں اسنے مجھے کچھ نہیں کہا لیکن آپ کو بار بار بے بے بول رہا تھا"
اسکے کہنے پر عصیم کی ہنسی چھوٹی
"میری جان ترکی میں بے سر کو کہتے ہیں" اسکے کہنے پر کسوا تھوڑی شرمندہ ہوچکی تھی لیکن پھر خود ہی اپنی شرمندگی کو بھگا دیا اسے بھلا کیا پتہ ترکی میں کس چیز کو کیا کہتے ہیں
"میں نے جو بھیجا ہے اسے پہن کر میرے آنے سے پہلے تیار رہنا"
"ہم باہر جارہے ہیں"وہ ایکسائیٹیڈ ہوکر بولی
"نہیں تم بس میرے لیے تیار ہونا"
"ہم باہر نہیں جائینگے تو میں ان کپڑوں کو گھر میں پہن کر کیا کررہی گی"
"جب تم باکس کھول کر دیکھو گی تو اسے پہن کر باہر جانا بھی نہیں چاہو گی میں تھوڑی دیر میں گھر پہنچ رہا ہوں جب تک مجھے میری بیوی تیار چاہیے اللہ حافظ"
اسکے فون رکھتے ہی کسوا نے اس باکس کو اٹھایا اور جلدی سے کھولا لیکن اسے کھولتے ہی اس کی ساری خوشی ختم ہوچکی تھی
°°°°°
"بادشاہی مسجد پاکستان کی دوسرے نمبر کی سب سے بڑی مسجد ہے"
مسجد میں داخل ہوتے ہی اسنے عالم کی طرف دیکھتے ہوے کہا
"اور آپ کو پتہ ہے اسکا پورا نام کیا ہے"
"ہاں بادشاہی مسجد"
"نہیں اسکا پورا نام مسجد عبدل ظفر موحی الدین محمد عالمگیر بادشاہ غازی ہے"
"یہ بات میرے لیے نئی ہے تمہیں کیسے پتہ"
"میں نے پڑھا ہے"
"اور تمہیں اتنا لمبا نام یاد بھی ہے"
"نہیں میں بھول گئی تھی ابھی اینٹرینس گیٹ پر دیکھا تھا تو یاد آیا"
"پتہ ہے آئرہ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے تمہارے ساتھ غلط ہوا تھا" اسکی بات پر آئرہ نے چہرہ اٹھا کر حیرت سے اسے دیکھا
"مطلب"
"مطلب تم ایک پڑھی لکھی لڑکی ہو اور میں گاؤں کا عام سا دسویں جماعت پاس بندہ جس نے دسویں جماعت تک بھی صرف نام کے لیے پڑھا ہے مجھے انگریزی کے چند لفظوں کے علاؤہ کچھ نہیں آتا ہے میرا نہیں خیال کے تم میرے جیسے بندے کے لیے ہو"
"اچھا تو پھر چھوڑ دیں گے مجھے" آئرہ نے شرارت سے کہا لیکن اسکی یہ بات سامنے والے کے ماتھے پر کئیں بل ڈال چکی تھی
"ہرگز نہیں رہنا تو تم نے ہمیشہ میرے ساتھ ہی ہے"
"تو پھر یہ تقریر کس لیے"
"بس ایسے ہی دل میں بات آئی تو کہہ دی" آئرہ نے پیار سے اپنے مونچھڑ شوہر کو دیکھا اور اپنے دونوں ہاتھوں میں اسکے ہاتھ پکڑ لیے
"عالم زندگی میں پڑھائی کے علاؤہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے ضروری نہیں کہ آپ پڑھے لکھے نہیں ہو تو آپ اچھے نہیں ہو میں نے ایسے بہت سے لوگ دیکھیں ہیں جو بہت پڑھے لکھیں ہیں لیکن ان میں شعور نام کی چیز نہیں ہے آپ ایسے نہیں ہو"
"آپ کو پڑھنے کا شوق نہیں تھا اسلیے نہیں پڑھائی کی یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے میرے لیے اہم یہ ہے کے آپ نے میری مرضی کو اہمیت دی مجھے وقت دیا میں آپ کے اتنی قریب رہتی ہوں لیکن پھر بھی آپ کبھی بہکے نہیں ہیں"
"تو میں اب تمہیں برا نہیں لگتا"
"نہیں بس آپ کی مونچھیں بری لگتی ہیں ہاں پہلے آپ مجھے برے لگتے تھے بہت برے آپ مجھے زبدستی یہاں لاے بابا کے کہنے پر میں مجبورا اس شادی کے لیے راضی ہوئی تھی یہ رشتہ میرے لیے ایک بوجھ جیسا تھا لیکن اب نہیں ہے اب میں دل سے اس رشتے کو نبھانا چاہتی ہوں"
"مطلب تم نے مجھے قبول کر لیا" اسنے آئرہ کو اپنے قریب کیا
"جب قبول کروں گی تو بتادوں گی"
"اسکی ضرورت نہیں ہے تم نے دیکھا میں تمہارے لیے سوٹ لایا تھا"
"ہاں"
"تو جب تم اس رشتے کو نبھانے کے لیے راضی ہو جاؤ تو اسے پہن لینا میں تمہاری مرضی جان لوں گا" اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے اندر کی طرف لے جانے لگا
"ایک اور بات کیا تم مجھے تھوڑی بہت انگریزی سکھا سکتی ہو" اسنے جھجکتے ہوتے ہوے کہا
"اس میں جھجکنے کی کیا بات ہے بلکل میں آپ کو سکھادوں گی" اسکے کہنے پر عالم نے اسکے ہاتھ کی پشت پر اپنے لب رکھ دیے
اسکی اس حرکت پر آئرہ نے جلدی سے اپنا ہاتھ اس سے چھڑانا چاہا لیکن وہ اسی طرح اسکا ہاتھ پکڑے کھڑا رہا
"عالم میرا ہاتھ چھوڑیں کوئی دیکھ لے گا"
"مجھے پرواہ نہیں" لاپروائی سے کہتے ہوے اسنے اسکا ہاتھ مزید سختی سے پکڑ لیا
°°°°°
گھر آکر اسے وہی منظر ملا جس کی اسے توقع تھی
"تم یہاں کیا کررہی ہو" اچانک اپنے پیچھے سے کسی کی مردانہ آواز سن کر اسنے ڈر کر پیچھے دیکھا
"آپ نے تو ڈرا دیا تھا مجھے"
"تم یہاں کیا کررہی ہو کسوا"
"میں آپ کے لیے کھانا بنارہی تھی آپ نے بس فلائٹ میں کھانا کھایا تھا رات کو بھی کچھ نہیں کھایا صبح ناشتہ بھی نہیں کیا"
"میں نے کہا تھا تو تم تیار کیوں نہیں ہوئیں"
"وہ آپ نے غلط چیز بھجوادی تھی"اسنے نظریں جھکا کر کہا
"نہیں میں نے وہی چیز بھجوائی تھی جو تم نے پہنی نہیں چلو میں پہناتا ہوں" اسکا ہاتھ پکڑ کر عصیم اسے اپنے ساتھ لے جانے لگا جب کسوا نے جلدی سے اپنا ہاتھ چھڑالیا جس پر عصیم نے گھور کر اسے دیکھا
"آپ پہلے کھانا کھالیں" وہ کھانے کی ڈش اٹھا کر ٹیبل کی طرف لے جانے لگی لیکن عصیم اسکے ہاتھ سے وہ ڈش لے چکا تھا
اسنے ڈش سلپ پر رکھی اور اس میں موجود کھانا نکال اور اس کھانے کے چند نوالے لے کر کسوا کو اپنی بانہوں میں اٹھا کر کمرے میں لے جانے لگا
"شاہ مجھے نیچے اتاریں کھانا تو کھالیں"
"میں کھا چکا ہوں"
"کوئی نہیں کھایا بس جلدی جلدی چند نوالے منہ میں ڈال لیے"
"چپ کرو مجھے تم پر پہلے ہی غصہ آرہا ہے جب میں نے کہا تھا تو تم تیار کیوں نہیں ہوئیں"
"میں بھلا وہ کیسے پہن سکتی تھی" اسکے کہنے کے انداز پر عصیم کو بے ساختہ ہنسی آگئی
"ہاں تم اسے نہیں پہن سکتی ہو لیکن میں تو پہنا سکتا ہوں نہ" کمرے میں لاکر اسنے کسوا کو نیچے اتارا
جو نائٹی اسنے بھیجی تھی وہ باکس سمیت بیڈ پر ہی رکھی ہوئی اسنے نائٹی اٹھا کر کسوا کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی جانب کھینچا اور اسکے گلے میں موجود ڈوپٹہ نکال کر پھینک دیا
"یہ آپ کیا کررہے ہیں مجھے نہیں پہنی"
"لیکن مجھے تمہیں اس میں دیکھنا ہے"
"تو آپ خود پہن لیں" اسنے تپ کر کہا لیکن عصیم نے بنا کوئی جواب دیے اسکے کندھے سے شرٹ سرکا کر وہاں اپنے لب رکھ دیے
اپنے شوہر کے ارادے دیکھ کر کسوا نے جلدی سے اسکے ہاتھ سے نائٹی لی
"می--یں خود پہن لوں گی" کپکپاتے لہجے میں کہہ کر وہ تیزی سے واشروم میں بھاگ گئی
°°°°°
"کسوا تم کیا اندر پہاڑ توڑ رہی ہو" پندرہ منٹ بعد بھی جب وہ باہر نہیں نکلی تو عصیم نے جھنجھلا کر دروازے پر دستک دی
"آرہی ہوں بس تھوڑی دیر"
"دو منٹ میں باہر آؤ ورنہ میں اندر آجاؤں گا" اسکے کہنے پر وہ گہرے گہرے سانس لیتی آہستہ سے دروازہ کھول کر باہر نکل گئی کیونکہ اسے پتہ تھا اگر باہر نہیں نکلی تو عصیم اپنی بات پر عمل بھی کرلے گا
عصیم کی نظریں اس پر پڑتے ہی پلٹنا بھول چکی تھیں سلک کی بلیک نائٹی اسکے گٹھنوں سے بھی اوپر جارہی تھی کندھوں پر باریک سی پٹی تھی اور اسکا چاندی جیسا وجود اس بلیک نائٹی میں دمک رہا تھا
دھیرے دھیرے قدم بڑھاتا ہوا وہ اسکے قریب آیا جو گھبرائی ہوئی سی نظریں جھکائے کھڑی تھی اور اس نائٹی کو کھینچ کر لمبا کرنے کی ناکام کوشش کررہی تھی
اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر عصیم نے اپنا چہرہ اسکے بالوں میں چھپالیا
"بہت خوبصورت لگ رہی ہو اتنی کے میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا"
"آ--آپ نے د-دیکھ لیا نہ مجھے تو میں اب چینج کرلوں"
"نہیں پہلے مجھے بتانے تو دو کے تم کتنی حسیں لگ رہی ہو" گمبھیر لہجے میں کہہ کر اسنے کسوا کے دل کے مقام پر اپنے لب رکھ دیے
جس پر اسنے سختی سے اپنی آنکھیں میچ لیں اسکے سرخ گال مزید سرخ ہوچکے تھے
اسے اپنی گود میں اٹھا کر عصیم نے اسے بیڈ پر لٹایا اور اسکے لبوں پر جھک کر اسکے گھبراتے ہوے وجود کو خود میں سمیٹ لیا
اپنی کیفیت کو دیکھتے ہوے اسنے دوائی کھالی تھی سر میں درد کے ساتھ ساتھ اسے بخار بھی ہوچکا تھا جو اتنا زیادہ نہیں تھا اسلیے اسے کوئی فکر بھی نہیں تھی
دوائی کھا کر وہ دوبارہ لیٹ گئی جب میسیج رنگ ٹون بجی اسنے کروٹ لے کر دیکھا وہ رنگ ٹون معتصم کے موبائل پر بجی تھی اسنے ایک نظر واشروم کے بند دروازے کو دیکھا جہاں وہ باتھ لینے گیا تھا اور پھر اسکا موبائل اٹھا کر دیکھنے لگی
موبائل کھولتے ہی اسے میسیج نظر آگیا جو جیسمین کی طرف سے آیا ہوا تھا جہاں لکھا ہوا تھا
"See you tonight at the party at 8pm"
"I am very excited to meet you sam"
اسنے آنکھیں چھوٹی کرکے اس میسیج کو گھورا جیسے میسیج کو نہیں اسے کرنے والی لڑکی کو گھور رہی ہو
"اسنے مجھے فورس نہیں ورنہ وہ ہر بات میں مجھے فورس کرتا ہے کہیں مجھے پارٹی کا کہہ کر اس جیسمین سے تو ملنے نہیں جارہا"وہ خود سے بڑبڑاتے ہوے کہہ رہی تھی جب واشروم کا دروازہ کھلا
اسنے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا جہاں اسنے ڈارک بلیو جینز کے ساتھ سمپل سی وائٹ کلر کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی گیلی بال ماتھے پر بکھرے پڑے تھے جبکہ پیچھے گردن سے لے کر دونوں کندھوں پر تولیہ ڈالا ہوا تھا
"کیا ہوا ہے کسی کا فون آیا تھا"اسکے ہاتھ میں اپنا فون دیکھ کر اسنے پوچھا
"ہاں کسی جیسمین کا میسیج آیا تھا"اسنے جیسمین کو کھینچ کر کہا
"اچھا لاؤ دکھاؤ مجھے"اسنے نوٹ کیا تھا کے جیسمین کا نام لیتے ہی معتصم کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی
"نہیں دکھا رہی میرے خیال سے اسنے غلط جگہ میسیج کردیا ہے میں نے میسیج پڑھا تھا اس میں سیم لکھا ہوا ہے"
"اس سے میرا نام نہیں لیا جاتا وہ کہتی ہے میرا نام بہت مشکل ہے اسلیے وہ مجھے سیم بلاتی ہے" اسکے ہاتھ سے اپنا موبائل لے کر وہ کمرے سے باہر جانے لگا لیکن پھر مڑ کر پریشے کو دیکھا
"کراچی ہی سہی ہنی مون پر تو آے ہیں نہ تو میں کل تمہیں گھومانے لے کر چلوں گا جہاں تم چاہو" اپنی بات کہہ کر وہ کمرے سے چلا گیا
جبکہ وہ تو بس حیرت سے اسے جاتا دیکھ رہی تھی اسے اب معتصم کی آواز آرہی تھی جو یقیناً فون پر کسی سے بات کررہا تھا اور اسے پتہ تھا کے وہ فون پر اس جیسمین سے ہی بات کررہا ہوگا
"اچھا تو اسلیے فورس نہیں کیا مجھے چلنے کے لیے لیکن اب میں بھی جاؤں گی اور جاکر دیکھوں گی اس آلہ دیں کی جیسمین کو بھلا ہے کیسی جس سے اتنے ہنس ہنس کر باتیں ہورہی ہیں" اسنے غصے سے کہا کیونکہ معتصم کا قہقہہ وہ اس بند کمرے میں بھی آرام سے سن رہی تھی
°°°°°
وہ سورہی تھی یا سونے کا ناٹک کررہی تھی یہ اسے نہیں پتہ تھا لیکن اسکے ڈسٹرب ہونے کے خیال سے وہ دوسرے کمرے میں تیار ہونے چلا گیا
مکمل تیار ہوکر جب وہ کمرے سے نکلا تو باہر کا منظر بہت مختلف تھا
جہاں اسکی بیوی ریڈ کلر کی سمپل لانگ فراک پہنے صوفے پر بیٹھی اپنے پیروں میں ہائی ہیل پہن رہی تھی
وہ کب اٹھی کب اتنی جلدی تیار ہوئی اسے پتہ ہی نہیں چلا اور وہ پتہ کرنا بھی نہیں چاہتا تھا اسکی نظریں تو بس اس وقت اپنی تیار شدہ بیوی پر جمی ہوئی تھیں
اسنے ریڈ فراک کے ساتھ ڈارک ریڈ لپسٹک لگائی ہوئی تھی اسکی ہیل ریڈ کلر کی تھی اسکے ائیر رنگز میں بھی گولڈن اور ریڈ کلر آرہا تھا وہ جانتا تھا کے اسکی بیوی کو ریڈ کلر بےحد پسند ہے اسکی وارڈروب میں آدھے کپڑے ریڈ کلر کے ہی بھرے ہوے تھے
"کہاں جانے کی تیاری ہورہی ہے" بینٹ کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ اسکے قریب آیا جس پر اسنے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور اپنی جگہ سے اٹھی لیکن اٹھتے ہی قدم لڑکھڑائے جس پر اسکے گرنے سب پہلے ہی معتصم اسکی کلائی پکڑ چکا تھا
"میں تمہارے ساتھ پارٹی میں جارہی ہوں"
"تمہیں بخار ہورہا ہے" اسنے فکر مندی سے پہلے اسکے ماتھے اور پھر گردن کو چھوا جو گرم ہورہی تھی
"مجھے کچھ نہیں ہورہا ہے"
"ہورہا ہے اور کب سے ہورہا ہے"
"یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے"
"ہم کہیں نہیں جارہے" حتمی لہجے میں کہتے ہوے وہ اپنی ٹائی ڈھیلی کرنے لگا مطلب جانا کینسل
"تم نہیں جاؤ میں پھر بھی جاؤں گی مجھے پتہ ہے کونسے ہوٹل میں جانا ہے" اسنے جلدی سے کہا اسے بس وہاں جانا تھا اور اس آلہ دین کی جیسمین کو دیکھنا تھا
"کل تو تم راضی نہیں تھیں"
"ہاں تو اب راضی ہوں نہ چلو" کہتے ہوے وہ باہر جانے لگی جب قدم ایک بار پھر لڑکھڑائے لیکن اسنے بروقت خود کو سنبھال لیا اسنے پہلی بار اتنی ہائی ہیل پہنی تھی
"اتارو اسے معتصم نے اسکی ہیل کو دیکھتے ہوے کہا جس پر اسکا منہ بن چکا تھا
"کیوں اتاروں"
"اگر جانا ہے تو اسے اتارو ورنہ یہیں رہو" اسکے کہنے پر پریشے نے منہ بنا کر اپنی ہیل اتاریں اور کمرے میں چینج کرنے کے لیے چلی گئی
دو منٹ میں ہی اسکی واپسی ہوگئی اب اسنے ریڈ کلر کی نازک سی سلیپر پہنی ہوئی تھی جس پر لگے چھوٹے چھوٹے سفید موتی چمک رہے تھے
°°°°°
وہ اسے سب سے ملوا رہا تھا اور یہاں کے لوگ اسے مسز شاہ کہہ کر جو عزت دے رہے تھے اس سے اسے لگ رہا تھا کے اتنی عزت تو شاید اسے کبھی اپنے گھر پر بھی نہیں ملی
جس جیسمین کے لیے وہ آئی تھی اس سے بھی مل چکی تھی وہ ایک شادی شدہ عورت تھی جو کے معتصم کی بہت اچھی دوست تھی اسنے اپنے آپ کو ملامت کی وہ جیسا سوچ رہی تھی ایسا کچھ نہیں تھا
جیمیسن اس سے کافی خوش دلی سے ملی تھی اس میں کوئی شک نہیں تھا کے وہ گولڈن بالوں والی جیسمین واقعی بہت خوبصورت تھی
وہ تیس سال کی تھی یہ بات اسے معتصم نے بتائی تھی جسے جان کر اسے بہت حیرت ہوئی کیونکہ وہ بائیس تیئیس سے کم کی نہیں لگ رہی تھی
کھڑے کھڑے اسکی ٹانگیں درد کرنے لگیں تھیں اچھا تھا جو معتصم نے اسے ہیل نہیں پہنے دی تھی ورنہ اس میں تو چلا بھی نہیں جانا تھا
وہ ایک طرف جاکر بیٹھ گئی بوریت سے برا حال تھا ایسا لگ رہا تھا وقت کتنا رک رک کر چل رہا ہے
لیکن یہ بات وہ معتصم کو نہیں کہہ سکتی تھی کیونکہ وہ زبردستی خود یہاں آئی تھیں اسے پتہ تھا اسکے کہنے پر معتصم پارٹی چھوڑ کر اسے گھر لے جاے گا لیکن وہ اپنی وجہ سے اسکی یہ پارٹی خراب نہیں کرنا چاہتی تھی
اسنے معتصم کی طرف دیکھا جس کے ساتھ اب کوئی لڑکی کھڑی ہوئی تھی اسنے ساڑھی پہنی ہوئی تھی جس کی ہاف سلیوز تھیں بالوں کا جوڑا بنانے کے باعث بیک پوری نظر آرہی تھی اور وہ ہنس ہنس کر معتصم کے کندھے پر بار بار ہاتھ رکھ لیتی تو کبھی خود ہی اسکا ہاتھ پکڑ لیتی جسے مسکراتے ہوے وہ نامحسوس انداز میں چھڑالیتا
غصے سے اسنے اپنے چہرے کا رخ موڑ لیا غصہ کس بات کا تھا اسے نہیں پتہ تھا شاید اس بات کا کے کوئی غیر لڑکی اتنی بے تکلف ہوکر اسکے شوہر کے ساتھ کھڑی تھی اور بار بار اسے چھو رہی تھی
اسے نہیں یاد پڑتا اسنے کبھی ایسے معتصم کو چھوا ہو غصے سے وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور ہوٹل سے باہر چلی گئی کہاں جانا تھا اسے نہیں پتہ تھا بس اس گھٹن زدہ ماحول میں نہیں رہنا تھا
°°°°°
اس لڑکی کے جاتے ہی معتصم نے گہرا سانس لیا اسے اس طرح کی لڑکیاں بلکل نہیں پسند تھیں لیکن وہ اسے برداشت کررہا تھا صرف اسکے باپ کی وجہ سے جن سے اسکے کافی اچھے تعلقات تھے اور وہ یہ تعلقات اس فضول لڑکی کی وجہ سے خراب نہیں کرسکتا تھا
اسنے نظریں دوڑاتا کر اپنی بیوی کو تلاش کیا لیکن اسے نہ پاکر اسکے ماتھے پر شکن نمودار ہوئی
اسنے مہمانوں کے بیچ ہر طرف اسے دیکھا لیکن وہ وہاں نہیں تھی اور یہ بات اسے کافی پریشان کرچکی تھی
بنا کچھ سوچے وہ باہر کی طرف گیا جہاں تیز بارش ہورہی تھی
"وہ باہر کیوں گئی ہوگی اور وہ بھی اتنی تیز بارش میں" اسنے خود کو تسلی دی شاید وہ اندر ہی ہو اسلیے اسنے اندر جاکر دوبارہ اسے تلاش کیا لیکن اسے نہیں ملنا تھا کیونکہ وہ وہاں تھی ہی نہیں وہ واپس باہر کی طرف بھاگا
"کیا یہاں سے کوئی لڑکی گئی تھی اسنے ریڈ فراک پہن ہوئی تھی"
"جی سر دو گئی تھیں ایک نے ریڈ فراک پہنی تھی اور دوسری نے ریڈ ساڑھی"
"جس نے ریڈ فراک پہنی تھی وہ کس طرف گئی ہے" اسنے بےچینی سے پوچھا جس پر گارڈ نے اسے اشارہ کرکے بتادیا کے وہ لڑکی کس طرف گئی اسکے اشارہ کرتے ہی وہ اپنی گاڑی نکال کر اس طرف گیا جہاں کا گارڈ نے اشارہ کیا تھا
°°°°°
تیز بارش میں وہ پوری بھیگ چکی تھی بخار تو پہلے ہی ہورہا تھا لیکن اب مزید بڑھ چکا تھا اسے سردی لگ رہی تھی اسنے اپنا دوپٹہ اچھے سے خود پر اوڑھ لیا تاکہ سردی سے بچ سکے لیکن یہ کوشش ناکام ٹہری
گھر ہوٹل سے زیادہ دور نہیں تھا اسلیے ہوٹل سے نکلتے ہی وہ گھر کی طرف بڑھ گئی لیکن اب جیسے ٹانگیں بےجان ہورہی تھیں سردی اتنی لگ رہی تھی کے مزید قدم اٹھانا مشکل لگ رہا تھا لیکن پھر بھی وہ اپنے قدم بڑھا رہی تھی اسے احساس بھی نہیں ہوا کب ایک گاڑی اسکے قریب آگئی
"یہاں کیا کررہی ہو بےقوف لڑکی دماغ درست ہے تمہارا" معتصم نے اسے کونی سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچا
"چلو میرے ساتھ تم ہوٹل سے کیوں نکلی تھیں پتہ ہے نہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے پھر بھی اس بارش میں بھیگ رہی ہو"
"چھوڑو مجھے"اسنے اسکی گرفت سے نکلنے کی ایک کمزور سی کوشش کی لیکن بنا اسکی کچھ سنے معتصم نے اسے گاڑی میں ڈال دیا اور خود آکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا
"خود ڈاکٹر ہوکر تم اپنا خیال نہیں رکھ سکتیں" اسنے سختی سے اسے دیکھتے ہوے کہا لیکن پھر چونک گیا
"پری" اسنے اسکا گال تھپتھپایا لیکن وہ ہوش میں نہیں تھی اور اسکی حالت معتصم کو پریشان کرچکی تھی اسنے گاڑی تیزی سے اپنے گھر کی جانب بڑھائی
اسنے گھر کا لاک کھولا اور اسے اپنی بانہوں میں اٹھاکر اپنے کمرے میں لے آیا جو پہلا کام اسنے کیا تھا وہ ڈاکٹر کو فون تھا
"ہیلو معتصم کیسے ہو"
"فیروز پلیز گھر آؤ میری وائف کو بہت تیز بخار ہے تم اسے چیک کرو میں اس وقت کراچی میں ہی ہوں"
"میں نہیں آسکتا معتصم میں اس وقت کراچی میں نہیں ہوں"
"تو میں کیا کروں ہاسپٹل لے جاؤں" اسنے پریشان سے کہا اس وقت اسے کیا کرنا تھا کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا
"نہیں تمہارے گھر سے ہاسپٹل کافی دور ہے لے جاتے ہوے کافی وقت لگے گا"
"تو پھر میں کیا کروں"
"اسے میڈیسن دو اور گرمائش بھی"
"میں کیسے"
"یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے معتصم فلحال تم یہی کرو ابھی کے لیے یہی ایک طریقہ ہے تم ابھی کے لیے یہی کرو کوشش کرو اسکا بخار کم ہوجاے مزید نہ بڑھے میری بہن ہے میں اسے فون کرتا ہوں شاید وہ تمہاری کچھ مدد کردے" اسکے فون رکھتے ہی اسنے اپنا ماتھے سے سہلایا اور بیڈ پر بخار میں تپتی اپنی بیوی کو دیکھا
بیڈ پر اسکے قریب بیٹھ کر معتصم نے اپنے ہاتھ کی پشت سے اسکا گال سہلایا اور گہرا سانس لے کر اپنی جگہ سے اٹھا اسنے اپنی الماری سے اپنا نائٹ سوٹ نکالا اور واپس اسکے قریب آگیا
اسنے کمرے کی لائٹ آف کری لیکن پھر بھی باہر لگی لائٹ کی وجہ سے کھڑکی سے ہلکی سی روشنی آرہی تھی جس سے زیادہ کچھ نہ سہی لیکن بیڈ پر لیٹی پریشے کا چہرہ اور گردن دکھ رہے تھے کیونکہ وہ روشنی سیدھا بیڈ پر پڑھ رہی تھی
معتصم نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور اسکے گیلے کپڑے تبدیل کیے اسکے بعد آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اسکی شرٹ پریشے کے لیے کافی بڑی تھی
اسکی نظر سب سے پہلے پریشے کی گردن پر پڑی
آخر کب تک وہ ضبط کرتا رہتا اسکے گیلے بالوں میں ہاتھ پھنسا کر وہ اسکے لبوں پر جھک گیا لیکن جلدی ہی انہیں آزاد کرکے نرمی سے اسکی گردن پر اپنے لب رکھ کر پیچھے ہٹ گیا
اسنے تولیے سے اسکے گیلے بال خشک کیے اور مشکل سے ہی سہی اسے میڈیسن کھلادی یہ بھی شکر تھا کے اسنے ہوٹل میں ہلکا پھلکا کھانا کھالیا تھا
بارش اب پہلے سے کم ہوچکی تھی اور ڈاکٹر بھی آچکی تھیں جو اسکا ٹریٹمنٹ کرکے وہاں سے چلی گئیں
اسے اپنے کپڑوں کا خیال آیا وہ وہی گیلے کپڑے پہنے گھوم رہا تھا اسنے سب سے پہلے بیڈ شیٹ اتاری کیونکہ پریشے کے گیلے کپڑوں کی وجہ سے وہ بھی گیلی ہوچکی تھی
پھر اپنے کپڑے چینج کرکے وہ اسکے پاس آکر لیٹ گیا اسنے اسے مظبوطی سے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ کر دونوں پر کمبل ڈال لیا
اسکے قریب آتے ہی پریشے مزید اسکے قریب ہوگئی معتصم کے وجود کی گرمائش سے اسے سکون مل رہا تھا وہ اس وقت دوائیوں کے زیر اثر تھی
اسے اپنی بانہوں میں بھرے وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھا وہ جسے اپنا عشق سمجھتا تھا آج احساس ہوا وہ تو عشق سے بھی کہیں زیادہ بن چکی ہے اسکی اس حالت میں یہ چند گھنٹے اسنے کس طرح گزارے یہ صرف وہ خود جانتا تھا
اسے نہیں پتہ تھا اسکی بانہوں میں موجود یہ لڑکی اسکے لیے کیا ہے بس یہ پتہ تھا کے اسکے بنا معتصم شاہ ادھورا ہے
نیند سے اٹھتے ہی اسنے پورے کمرے کو دیکھا وہ اس وقت اپنے گھر میں اپنے کمرے میں موجود تھی
اسنے رات کا منظر یاد کرنا چاہا جہاں بس اتنا ہی یاد آیا کے وہ ہوٹل سے نکل گئی تھی اور بارش میں بھیگ رہی تھی اسکے بعد کیا ہوا تھا
شاید کسی نے اسکا ہاتھ پکڑا تھا یا کچھ اور زہہن پر زور ڈال کر وہ رات کا منظر یاد کرنے کی کوشش کرنے لگی
لیکن نگاہ تب ہی اپنے وجود پر پہنے معتصم کے کپڑوں پر گئی پل بھر میں اسکا دل گھبرا گیا اسے نہیں یاد تھا اسنے یہ سوٹ کب پہنا
وہ کشمکش میں مبتلا تھی جب باتھ روم کا دروازہ کھول کر معتصم باہر نکلا اپنے گیلے بال وہ تولیہ رگڑ رہا تھا
اسے دیکھتے ہی اسنے تولیہ صوفے پر پھینکا اور جاکر اسکے قریب بیٹھ گیا
"کیسی طبیعت ہے تمہاری"
"ر-رات کو ک-کیا ہوا تھا" اسکا سوال نظر انداز کرکے اسنے گھبرائے ہوے لہجے میں کہا
"رات کو"
"ہاں رات کو م-میں نے تمہارے کپڑے کیوں پہنے ہیں"
"تم اتنی ناسمجھ تو نہیں ہو پھر بھی بتادیتا ہوں میں ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن تمہارا بخار بہت زیادہ بڑھ گیا تھا میں نے تو بس وہی کیا جو مجھے ڈاکٹر نے کرنے کے لیے کہا تھا" اسنے اپنی مسکراہٹ دبا کر معصومیت سے کہا لیکن اسکی بات سن کر پریشے کا تو جیسے سانس ہی رک چکا تھا
"تم جھوٹ بول رہے ہو تم ایسا نہیں کرسکتے" آنسو اسکی آنکھوں سے تیزی سے بہنے لگے
"تم ایسا نہیں کرسکتے ہو تم جھوٹ بول رہے ہو" وہ اب باقاعدہ تیز آواز میں رو رہی تھی
"پری میری بات سنو" اسکے قریب آکر معتصم نے کچھ کہنا چاہا لیکن اپنے ہاتھ چلاتی وہ اسے خود سے دور کرنے لگی جبکہ رونے میں اب اضافہ ہوچکا تھا
"دور رہو مجھ سے پلیز دور رہو تم" اسکے چیخنے پر معتصم نے سختی سے اسکے دونوں ہاتھ کمر سے لگا کر اسے اپنے بےحد قریب کرلیا
"پریشے اب ایک لفظ مت کہنا اور رونا بند کرو کونسا ظلم کیا ہے میں نے تمہارے اوپر جو یہ رونا دھونا مچا رہی ہو شوہر ہوں تمہارا حق رکھتا ہوں تم پر لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ، کیا کہا تھا میں نے تم سے کے جو بھی کروں گا تمہاری اجازت سے کروں گا اور معتصم شاہ اپنی بات سے نہیں مکرتا جو بات کہتا ہے اسے پورا کرتا ہے"
"میں نے تمہارے ساتھ کچھ غلط نہیں کیا ساری رات بس تمہارے قریب رہا تھا تاکہ تمہیں گرمائی دے سکوں اور تمہارے گیلے کپڑے بدل واے تھے وہ بھی اندھیرے میں ایسا انسان نہیں ہوں میں جو تمہاری بےہوشی کا فائدہ اٹھاتا اگر مجھے کچھ کرنا ہوگا تو تمہارے پورے ہوش و حواس میں بھی کرلوں گا تم کچھ نہیں کرسکتی ہو لیکن میں منتظر ہوں تمہاری اجازت کا" اسے بیڈ پر تھکا دے کر وہ کمرے سے چلا گیا
جبکہ اسکی ساری باتیں سن کر وہ اپنا رونا بھول چکی تھی
°°°°°
اسکے ہزار بار منت کرنے پر آج وہ اپنا رومینس موڈ آف کرکے اسے گھومانے لایا تھا جہاں سب سے پہلے وہ اسے ڈیوڈن واٹر فال لے کر گیا تھا
اسنے وہاں جاکر کتنا انجواے کیا یہ اسے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی اسکے چہرے پر بچوں جیسی خوشی اس بات کا صاف پتہ دے رہی تھی گھومانے کے بعد وہ اسے لے کر ریسٹورنٹ چلا گیا
عصیم نے تین سے چار ڈشز منگوائی تھیں لیکن ہر ڈش کو چکھتے ہی اسکی بیوی کا منہ بن رہا تھا
"کسوا کھانا کھاؤ"
"یہ بلکل بھی اچھا نہیں ہے میں گھر جاکر خود بنا کر کھاؤں گی"
"میں تمہیں کسی اور ریسٹورنٹ میں لے کر چلتا ہوں لیکن گھر جاکر تم کچھ نہیں بناؤ گی گھر جاکر تم بس میرے پاس میری بانہوں میں رہو گی" اسکے کہنے پر کسوا کے گال دہک چکے تھے جنہیں وہ بڑی فرصت سے دیکھ رہا تھا
"مجھے کیوں دیکھ رہے ہیں کھانا کھائیں اور کچھ اور آرڈر کریں" اسکے کہنے پر بھی جب عصیم نے اس پر سے نظریں نہیں ہٹائیں تو اسنے اپنے ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپالیا
°°°°°
وہ دونوں اس وقت اسلام آباد کے سینٹارس مال میں آے ہوے تھے جہاں آئرہ کتنا کچھ خرید چکی تھی اور پھر بھی اسے اپنی کی ہوئی شاپنگ کم لگ رہی تھی
"آئرہ اور کتنی چیزیں لینی ہیں"
"رک جائیں ابھی میری شاپنگ رہتی ہے ابھی میں نے اماں سائیں اور پری کے لیے کچھ نہیں لیا انکے لیے بھی لینی ہے اور اب آپ اپنا منہ بند رکھیے گا تین دفعہ مجھے ٹوک چکے ہیں آپ کا کیا جارہا ہے جو بھی لے رہی ہوں اپنے شوہر کی کمائی سے لے رہی ہوں" اسنے ناک چڑا کر کہا
"شوہر کی کمائی سے کیوں لے رہی ہو"
"کیونکہ انکی ہر چیز پر میرا حق ہے"
"اسی طرح تمہارے شوہر کا بھی تم پر حق ہے وہ بھول گئی ہو" آئرہ نے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں وہ پھر بات کا رخ اپنے مطلب کی طرف لے آیا تھا
"آپ میرے پیچھے کیوں کھڑے ہیں جاکر وہاں سائیڈ میں سکون سے کھڑے ہوجائیں"
"ہاے سائیڈ میں کھڑے ہونے سے بھلا کس بےوقوف کو سکون ملتا ہے میرے لحاظ سے سکون کی جگہ تو بیوی کی بانہیں ہوتی ہیں" اسکے بےباکی سے کہنے پر آئرہ شاپ سے باہر نکل گئی جبکہ مسکراتے ہوے وہ بھی اسکے پیچھے چلا گیا
°°°°°
"آپ کو پتہ ہے یہ میری فیورٹ ڈش ہے" اسنے چاؤ مین عالم کی طرف بڑھاتے ہوے کہا آج سارا کھانا اسنے اپنی پسند کا آرڈر کیا تھا جس میں کچھ بھی عالم کو پسند نہیں آیا لیکن وہ خاموشی سے کھارہا تھا البتہ اسکے چہرے کے تاثرات اندر کا حال صاف بتارہے تھے
وہ شہر بہت کم آتا کھانا بھی زیادہ دیسی کھاتا تھا اسلیے آئرہ کو پتہ نہیں تھا کے اسے اپنے کھانوں کے علاؤہ کسی اور ڈش کے نام پتہ ہوں گے لیکن اسے ہر ڈش کا نام پتہ تھا
"یہ سب کھاتی ہو جب ہی تو تمہارا یہ حال ہورہا ہے"
"کیا حال ہورہا ہے میرا" اسنے آنکھیں چھوٹی کرکے اسے گھورا
"خود دیکھو اپنے آپ کو اتنی سوکھی ہو تم کبھی کبھی تو میں سوچ میں پڑجاتا ہوں کے تمہارا وجود مجھے برادشت کیسے کرے گا"
"کچھ تو خیال کریں ہم پبلک پلیس پر موجود ہیں"
"میں نے کونسا کوئی گستاخی کردی ہے جو تم اتنی لال گلابی ہورہی ہو چلو کھانا کھاؤ" اسکی حالت کو انجواے کرتے ہوے وہ خود کھانا کھانے لگ گیا
°°°°°
سارا دن وہ کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی اپنے کہے لفظوں کو یاد کرکے وہ کافی شرمندہ ہورہی تھی
"ہاں اسی لیے تو تم نے مجھ سے نکاح کیا ہے شاہ انڈسٹری کا مالک معتصم شاہ بھلا مجھ سے شادی کیوں کرے گا ایک پل میں محبت ہوگئی اس لیے نہیں مانتی میں اس سب کو میں جانتی ہوں تم نے مجھ سے اسلیے نکاح کیا ہے تاکہ نکاح کی آڑ میں تم اپنی حوس پوری کرسکو"
خود کا بہت پہلے معتصم کو کہا گیا جملہ اسکے کانوں میں گونجا اور وہ مزید شرمندہ ہوگئی
پہلے بھی اسنے یہی سب کہا تھا اور آج بھی یہی کہہ دیا
"پریشے اگر اسے تمہارے وجود کی چاہ ہوتی تو اب تک تمہاری اجازت کے انتظار میں کیوں بیٹھا ہوتا نکاح میں ہو تم اس کے اگر اسے یہی سب کرنا ہوتا تو یہ اسکے لیے کوئی مشکل تو نہیں تھا تم ایک کمزور لڑکی ہو جو اسکا مقابلہ بھی نہیں کرسکتی ہو پھر بھی وہ تمہیں وقت دے رہا ہے" ضمیر نے اسے ملامت کری اپنے کہے لفظ یاد کرکے اسے بہت برا لگ رہا تھا
وہ انہی سوچو میں گم تھی جب ڈور بیل بجی اپنے آنسو صاف کرکے وہ جلدی سے دروازہ کھولنے کے لیے اٹھی کیونکہ اسے پتہ تھا کے آنے والا معتصم ہی ہوگا جو اپنے آفس گیا تھا
اسکے دروازہ کھولتے ہی وہ بنا اسکی طرف دیکھے اندر چلا گیا اپنا بریف کیس اور کوٹ اتار کر اسنے صوفے پر پھینکا
"دوائی کھالی تھی تم نے" اسنے پریشے کی طرف دیکھتے ہوے سنجیدہ لہجے میں پوچھا جس پر اسنے اپنی گردن ہاں میں ہلادی
"کھانا لگاؤں"
"بھوک نہیں ہے" ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرکے وہ وہاں سے جانے لگا جب اسنے پھر پکارا
"میں نے تمہارے انتظار میں نہیں کھایا میں نے سوچا دونوں ساتھ کھا لینگے"
"تم کھالو جب مجھے بھوک ہوگی تو میں کھالوں گا"پریشے نے آج سے پہلے اسے اتنا سنجیدہ کبھی نہیں دیکھا تھا
"نہیں کھاتا تو نہیں کھاے" اسکے کمرے میں جانے کے بعد خود سے بڑبڑا کر وہ کچن میں جاکر اپنے لیے کھانا نکالنے لگی لیکن بھوک تو اسکی بھی اڑ چکی تھی پتہ نہیں معتصم کی ناراضگی بری لگ رہی تھی یا پھر اسکے محبت بھرے رویے کی عادت ہوگئی تھی اپنی کیفیت وہ خود بھی سمجھ نہیں پارہی تھی
اسے پتہ تھا عالم کو پڑھنے کا شوق نہیں ہے لیکن یہ فرمائش اسنے خود کی تھی کے اسے انگلش سیکھنی ہے لیکن تھوڑا بہت سمجھنے کے بعد ہی اسکا دماغ جیسے بند ہورہا تھا اسلیے وہ خود ہی اپنی بات سے پیچھے ہٹ گیا
جبکہ اسکی حالت دیکھ کر آئرہ نے بس اسے مین چیزیں بتادیں تھیں وہ اب خود اسکے سامنے انگلش بولتی تھی اور عالم کو اپنے کہے لفظ کا مطلب بھی بتاتی تھی
تاکہ عالم ان لفظوں کو سمجھ سکے اور اب وہ خود بھی ایسا ہی کرتا تھا اپنی کہی باتوں میں وہ انگلش کے وہ لفظ ایڈ کردیتا جو اسنے آئرہ کے منہ سے سنے تھے جبکہ وہ کافی حیران ہوتی تھی کے اسکے ایک بار کہے لفظ اسکے زہہن میں اتنی آسانی سے بیٹھ بھی جاتے تھے
°°°°°
"اس میں نمک کم ہے آپ نے مرچیں بہت تیز کردی ہیں کچھ اور کمی بھی محسوس ہورہی ہے لیکن کیا مجھے وہ سمجھ نہیں آرہی ہے"
"حد ہوتی ہے کسوا میں ایک گھنٹے سے کچن میں کھڑا تمہارے لیے کھانا بنارہا ہوں اور تم اس میں نقص نکال رہی ہو" اپنا بنایا ہوا کھانا سائیڈ پر کرکے اسنے کسوا کو گھور کر دیکھا
"میں تو بس بتارہی تھی اس میں ان چیزوں کی کمی ہے نہیں بتانا تھا" چہرے پر معصومیت سجاے وہ عصیم سے پوچھ رہی تھی
"نہیں"
"ٹھیک ہے آپ مجھے دوبارہ ٹیسٹ کروائیں میں پھر سے راے دوں گی"
"نہیں اب بس تمہیں اسکی سزا ملے اور تمہاری سزا یہ ہوگی کے اب تمہیں کھانا صبح ہی ملے گا"
"میں چھپ کر کھالوں گی جب آپ سوجائینگے" اسنے اپنے دماغ میں چلتا آئیڈیا اسکے غوش گزارا
"اور میں کیوں سوؤنگا میں تو اپنی بیوی کو کمرے میں لے جاکر اس پر اپنا پیار نچھاور کروں گا" اسکی کمر کے گرد بازو حمائل کرکے اس نے کسوا کو اپنے قریب کیا
"یہ تو ظلم ہے مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے"
"تمہاری اس بھوک کا مجھے سمجھ نہیں آتا جو میرے قریب آتے ہی شروع ہوجاتی ہے"
"قسم سے مجھے بھی سمجھ نہیں آتا" اسکے معصومیت سے کہنے پر عصیم نے مسکراتے ہوے اسکی بےداغ پیشانی پر اپنا پیار بھرا لمس چھوڑ دیا
°°°°°
کمرے میں داخل ہوتے ہی اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا
"کہیں میں غلط کمر میں تو نہیں آگیا"خود سے بڑبڑاتے ہوے اسنے کمرے کا دروازہ بند کیا اور نظریں پورے کمرے میں دوڑائیں
جہاں پورے کمرے میں گلاب کے پھولوں کی مہک بکھری پڑی تھی پھول جگہ جگہ پر پھیلے ہوے تھے کمرے کی ساری لائٹس آف تھیں لیکن کمرے میں جگہ جگہ جلتی خوشبودار کینڈلز نے کمرے میں روشنی پھیلائی ہوئی تھی
آئرہ کی غیر موجودگی دیکھ کر اسنے اسے پکارنا چاہا لیکن تب ہی نظر آئینے کی طرف چلی گئی جہاں سے اسے وہ صاف دکھ رہی تھی
اسنے مڑ کر اسے دیکھا جو کینڈل اسٹینڈ میں موجود کینڈلز وہڈین اسٹک کی مدد سے جلارہی تھی
اسنے اس وقت وہی سوٹ پہنا ہوا تھا جو عالم نے اسے لاکر دیا تھا بلیک کلر کا گاؤن کھلے سلکی بال اور سرخ رنگ کی لپسٹک وہ اس وقت کوئی آپسرا ہی لگ رہی تھی عالم کو تو ایسا ہی لگا
اسکے قدم آہستہ آہستہ آئرہ کی طرف بڑھ رہے تھے وہ ایک قدم اسکے قریب بڑھاتا اور آئرہ ایک قدم پیچھے ہوجاتی اسی طرح کرتے ہوے وہ دیوار کے ساتھ لگ چکی تھی
اسکی نظریں جھکی ہوئی تھیں اور کینڈل کی روشنی اسکے چہرے پر پڑھ رہی تھی جس کے باعث عالم کو وہ مومی گڑیا لگ رہی تھی اسنے دیوار پر دونوں طرف اپنے ہاتھ رکھ لیے
"پتہ ہے نہ میں نے کیا کہا تھا کے جب تم یہ سوٹ پہنو گی تب میں اسے تمہاری رضامندی سمجھوں گا" اسکے کان کے قریب جھک کر اسنے سرگوشی کی
"میں جانتی ہوں" اسکے کہنے پر عالم نے اسکا جھکا چہرہ اوپر اٹھایا آئرہ نے اپنی جھکی نظریں اٹھا کر اسے دیکھا
ماتھے پر دو لٹیں جھول رہی تھیں گھنی داڑھی مونچھوں میں بھی اسکا گہرا ڈمپل دکھ رہا تھا کیونکہ عالم کے لب مسکرا رہے تھے
"آپ کو پتہ ہے عالم مجھے آپ کا یہ ڈمپل بہت پسند ہے سمجھ نہیں پاتی کے آپ کی مسکراہٹ اچھی ہے یا اس ڈمپل کی وجہ سے اچھی لگتی ہے"اسنے اپنا ہاتھ اسکے ڈمپل پر رکھا
"یہ سب بہت خوبصورت ہے" اسنے کمرے کی سجاوٹ کو دیکھتے ہوے کہا
"پتہ ہے میں نے یہ سب کیوں کیا ہے"
"نہیں مجھے نہیں معلوم تم بتادو"
"ان رومینٹک کا مطلب پتہ ہے"آئرہ نے اسکے کان کے قریب ہوکر اس سے پوچھا
"بلکل پتہ ہے میری ٹیچر بہت اچھی ہیں انہوں نے اتنے کم وقت میں مجھے بہت کچھ سکھا دیا ہے"
"میرے شوہر بہت ان رومینٹک ہیں وہ تو میرے لیے ایسا کچھ کرتے نہیں ہیں میں نے سوچا میں ہی کردوں"
"یہ سب دیکھ کر میں بس ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں کیا تم میرا ساتھ قبول کرتی ہو" اسکی کمر پر ہاتھ رکھ کر عالم نے اسے اپنے قریب کرلیا
"ہ-ہاں" اسکے کہتے ہی عالم بنا لمحہ ضائع کیے اسکے لبوں پر جھک گیا
شدت تو اسکے انداز میں ہمیشہ ہی رہتی تھی لیکن آج تو جیسے وہ اسکی سانسیں ہی روک دینا چاہتا تھا
عالم نے کچھ دیر بعد اسکے لبوں کو آزاد کیا اور اپنے ہونٹوں پر جلن محسوس کرکے اسنے ہاتھ لگایا جہاں لبوں کا خون اب اسکے ہاتھ پر لگ چکا تھا
"اب بہت ظالم ہیں چھوڑیں مجھے"خفگی سے کہتے ہوے اسنے اپنا آپ عالم سے چھڑانا چاہا لیکن اسکی خفگی کو نظر انداز کرکے عالم نے اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا اور بیڈ پر لٹا کر اسکے اوپر جھک گیا
"عادت ڈال لو کیونکہ میرا یہ ظلم تو تمہیں اب ساری عمر سہنا ہے" اسکے بال کان کے پیچھے کرکے وہ اسکی بیوٹی بون پر جھک گیا
عالم کی داڑھی مونچھوں کی چھبن نے اسے کھلکھلانے پر مجبور کردیا اور اسکی یہ کھلکھلاہٹ سن کر عالم کا انداز مزید شدت اختیار کرگیا
"عالم" اسکی شدتوں سے گھبرا کر آئرہ نے اپنا ہاتھ اسکے سینے پر رکھ کر اسے خود سے دور کرنا چاہا
جب عالم نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور اسکے دیکھتے ہی آئرہ کی نظریں جھک گئیں
عالم نے اسکی پیشانی پر اپنے لب رکھے اور اسکے ایسا کرتے ہی آئرہ نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور اگلے ہی لمحے اسے اپنی بند آنکھوں پر عالم کا لمس محسوس ہوا
اس سے دور ہٹ کر عالم نے اپنی شرٹ اتار کر دور پھینکی اور اسکے لبوں کو اپنی قید میں لے کر اس پر کالی گھٹا کی مانند چھا گیا
°°°°°
"ہیلو" کال پک کرتے ہی اسکے کانوں میں معتصم کی گھمبیر آواز گونجی
"تم صبح ناشتہ کرکے کیوں نہیں گئے"
"میرا موڈ نہیں تھا" اسکی سنجیدہ آواز سن کر وہ بات کرنے کے لیے دوسرے لفظ سوچنے لگی
"وہ مجھے کچھ کہنا تھا"
"پریشے جلدی کہہ دو جو کہنا ہے مجھے اور بھی کام ہیں" اسکی جھنجھلائی ہوئی آواز سن کر پریشے کی آنکھیں نم ہوچکی تھیں بھلا کہاں اس نے معتصم کا یہ انداز دیکھا تھا
"میرا نام پری ہے"
"تمہارا نام پریشے ہے پری لوگ تمہیں پیار سے کہتے ہیں"
"ہاں تو تم بھی کہہ دو پیار سے" معتصم کے کہنے پر اسنے جلدی سے کہا جس پر خود ہی شرمندہ ہوگئی پتہ نہیں وہ اسکے بارے میں کیا سوچ رہا ہوگا
"تم اپنا کام کرو" اسنے جلدی سے فون بند کردیا اور اپنی کہی باتوں پر شرمندہ ہوتی رہی کاش معتصم اسکے سامنے ہوتا اور اپنی کہی بات پر وہ اسکا مسکراتا چہرہ دیکھ لیتی تو اتنی شرمندہ نہیں ہوتی
°°°°°
صبح اٹھے ہی اسکی پہلی نظر عالم کے شرٹ لیس چوڑے سینے پر پڑی جسے دیکھ کر شرمیلی سی مسکراہٹ اسکے لبوں پر دوڑ گئی
اسنے عالم کے سینے پر رکھا اپنا سر اٹھا کر اسے دیکھا اور اسکی مونچھ کو کھینچ کر دوبارہ اپنا سر اسکے سینے پر رکھ کر آنکھیں موند لیں
اسنے عالم کی مونچھ اتنی زور سے کھینچیں تھیں کے اک دم ہوتی تکلیف سے اسکی آنکھ کھل چکی تھی اسکی سب سے پہلی نظر اسکی نظر اپنے سینے پر لیٹی آئرہ پر گئی
"کیا بات ہے میں سکون سے سوتا اچھا نہیں لگ رہا ہوں جو مجھے اٹھادیا یا پھر تمہاری یہ شکایت دور نہیں ہوئی کے میں ان رومینٹک ہوں" اسے بیڈ پر لٹا کر وہ اسکے اوپر جھک گیا
"پلیز عالم مجھے سونے دیں"
"میری نیند تم نے خراب کی ہے"
"میں نے تو صرف تھوڑی سی مستی کی تھی" اسنے منمناتے ہوے کہا
"میں بھی تھوڑی سی کرلوں"
"نہیں مجھے نیند آرہی ہے مجھے سونے دیں"
"اور جو میری نیند تم نے خراب کی ہے"
"میں نے آپ کی نیند خراب نہیں کی"
"بلکل نیند نہیں تم نے میری نیت خراب کردی ہے" اسے رات والے موڈ میں واپس آتے دیکھ کر اسے اپنی کی ہوئی مستی مہنگی لگ رہی تھی
"نو عالم پلیز"
"یس آئرہ پلیز" اسکے ہاتھوں کو اپنی قید میں لے کر وہ اسکے لبوں پر جھک گیا
"اتنی جلدی آنے کی کیا ضرورت تھی کچھ دن اور رک جاتے"
"میں نے تو کہا تھا آپ کی بہو نہیں مانی ، ویسے بھی میرا اصل ہنی مون تو شروع ہی اب ہوا تھا"دوسری بات اسنے بڑبڑاتے ہوے کہی
"کیا بڑبڑا رہے ہو عالم"
"اماں سائیں آپ انہیں چھوڑیں میں آپ کو گفٹس دکھاتی ہوں"
"بلکل بچہ میں ضرور دیکھوں گی لیکن ابھی تم لوگ جاکر آرام کرو سفر سے آے ہوے ہو میں کھانا بھی بھجوادیتی ہوں کمرے میں فریش ہوجاؤ پھر سب سے مل بھی لینا" انہوں نے پیار سے اسکا گال تھپتھپا کر کہا جس پر مسکراتے ہوے وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی
"تم یہاں کیوں بیٹھے ہو جاؤ کمرے میں یہ سامان ملازم کے ہاتھ میں کمرے میں بھجوادوں گی" ثمرین بیگم نے اسے وہیں بیٹھے دیکھ کر کہا
"نہیں اماں سائیں میں پہلے زمینوں پر جاؤں گا پھر آکر آرام کروں گا" موبائل جیب میں رکھ کر وہ وہاں سے جانے لگا جب ثمرین بیگم نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکا رخ اپنی طرف کیا اور پیار بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگیں
"ماشاءاللہ بہت پیارے لگ رہے ہو" انہوں نے اپنے خوبرو بیٹے کو دیکھتے ہوے کہا جس نے اس وقت نیوی بلیو شرٹ کے ساتھ بلیک جینز پہنی ہوئی تھی اسکا یہ حولیہ گھر کے ہر فرد کے لیے ہی نیا اور حیران کن تھا
"یہ سب آپ کی بہو کی کارستانی ہے"
"خوش ہو عالم"
"آپ کو کیا لگ رہا ہے" اس نے الٹا سوال پوچھا
"مجھے تو بہت خوش لگ رہے ہو جبکہ تمہاری شادی سے پہلے میں بہت فکر مند تھی کے پتہ نہیں آئرہ کیسی ہوگی تمہارے ساتھ کیسی رہے گی لیکن اب تم دونوں کو دیکھ کر سارے خدشے دور ہوگئے" انہوں نے مسکراتے چہرے کے ساتھ اسے دیکھتے ہوے کہا
"ہاں فکر مند تو ہونا چاہیے پتہ ہے نہ کیسی پٹاخہ ہے وہ"
"ہاں وہ ایسی ہے اور میں تو جیسے تمہیں جانتی ہی نہیں ہوں"
"میں تو چھوٹا معصوم سا بچہ ہوں اماں سائیں" مسکراتے ہوے عالم انکی پیشانی پر پیار کرکے گھر سے نکل گیا
°°°°°
"اپنی تیاری کرلو" اسنے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا
"ہم واپس جارہے ہیں"
"میں جارہا ہوں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دوں گا"
"گھر کیوں چھوڑو گے" اسکا دل زوروں سے دھڑکا
"تمہارے بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آنٹی کا فون آیا تھا میرے پاس انہوں نے بتایا ہے تمہیں بہت یاد کررہے ہیں میں نے سوچا تم کچھ دن وہاں رہ لو گی"
"معتصم" کمرے میں رکھی فائلز میں سے ایک نکال کر وہ کمرے سے جانے لگا جب اسے پریشے کی آواز سنائی دی اسکے قدم رک گئے تھے لیکن وہ مڑا نہیں تھا
اپنی انگلیاں مڑوڑتے ہوے اسنے معتصم کی پشت کو دیکھا الفاظ جیسے زبان پر آہی نہیں رہے تھے
"کچھ نہیں" اسکے کہتے ہی وہ مظبوط قدم اٹھاتا وہاں سے چلا گیا
°°°°°
"تم اندر جاؤ میں تھوڑی دیر میں آرہا ہوں" گاڑی حویلی کے قریب روک کر اسنے کسوا سے کہا
"آپ کہاں جارہے ہیں"
"فائل پر میرے سائن چائیے امپورٹینڈ ہیں تو آفس ورکر آنے والا ہے اسے لے کر"
"اسے یہیں بلا لیں اور اندر چلیں"
"میں بس ابھی آرہا ہوں کسوا تم اندر جاؤ"
"پہلے سب سے مل تو لیں کسی کو پتہ بھی نہیں ہوگا ہماری آمد کا"
"کسوا تم اندر جاؤ اور جاکر سب کو بتاؤ ہم آگئے ہیں جب تک تم سب سے ملو گی میں پہنچ جاؤں گا" اسنے پیار سے اسکی پیشانی پر اپنے لب رکھے جس پر مسکراتی ہوئی وہ اندر چلی گئی
°°°°°
"کسوا تم کب آئیں"حویلی میں واپس آتے ہی جس پہلے انسان سے اسکا سامنا ہوا وہ کسوا تھی جو اسکی طرف پشت کیے کھڑی یقینا اندر جارہی تھی
"لالا" اسکی آواز سن کر کسوا نے مڑ کر اسے دیکھا لیکن اس سے پہلے وہ عالم کے قریب جاتی چکر آنے کے باعث وہیں زمیں بوس ہوگئی جسے دیکھ کر عالم بھاگ کر اسکے پاس آیا اور اسکا گال تھپتھپانے لگا
"کسوا میرا بچہ کیا ہوا ہے" اسنے پریشانی سے اسے پکارا لیکن اسکے ہوش میں نہ آنے پر ثمرین بیگم کو آواز دے کر اسے اپنی بانہوں میں اٹھاے عصیم کے کمرے کی طرف لے گیا
°°°°°
عالم کی کال سنتے ہی وہ پریشانی میں ڈرائیونگ کرکے حویلی پہنچا تھا جہاں عالم باہر ہی اسے مل گیا
"کیا ہوا ہے کسوا کو"
"کچھ نہیں بس جو امتحان تو نے دیا تھا اسکا نتیجہ ہے"
"عالم کیا بول رہا ہے"
''مجھے بتاتے ہوے اچھا نہیں لگ رہا اندر اپنے کمرے میں جاکر پوچھ لے"اسکا شرارت بھرا انداز عصیم نے نوٹ ہی نہیں کیا تھا بس اسکی بات سنتے ہی وہ اپنے کمرے کی طرف چلا گیا جہاں اسکے کمرے میں فارینہ ثمیرن اور مبشرہ بیگم بیٹھیں تھیں
"ماشاءاللہ میرا بچہ بہت بہت مبارک ہو" فارینہ بیگم نے اپنی جگہ سے اٹھ کر اسے پیار کیا
"اماں سائیں کیا ہوا ہے عالم کی کال آئی تھی کیا ہوا ہے کسوا کو" اسنے بیڈ پر سر جھکائے بیٹھی کسوا کو دیکھا
"عصیم اس میں پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں ہے کسوا بےہوش ہوگئی تھی حویلی سے کچھ فاصلے پر ایک ڈاکٹر رہتی ہے تو ہم نے اسے بلایا تھا اس نے بتایا کے ہمارے گھر میں ایک نیا مہمان آنے والا ہے ماشاءاللہ میرا بچہ باپ بننے والا ہے اب بس تم کسوا کا خیال رکھنا اور شہر لے جاکر کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھا دینا میں مٹھائی تو منگوا لوں" اسے حیرت میں چھوڑ کر وہ تینوں کمرے سے چلی گئیں
انکے جاتے ہی اسنے حیرت سے کسوا کو دیکھا اور جاکر اسکے قریب بیٹھ گیا جبکہ اسکے بیٹھے ہی وہ بیڈ پر رکھے کمبل میں چھپ گئی
"کسوا باہر نکلو میری طرف دیکھو"
"مجھے نہیں دیکھنا شاہ" اسنے اسی پوزیشن میں لیٹے ہوے ہی کہا جس پر عصیم نے کمبل سمیت اسے خود میں بھینچ لیا
"آئی لو یو آئی لو یو سو مچ مائی لائف"نم آواز میں کہتے ہوے اسنے کسوا کا چہرہ باہر نکالا اور اسکے چہرے پر اپنا پیار بھرا لمس چھوڑ کر دوبارہ اسے خود میں بھینچ لیا
°°°°°
"کہاں جارہی ہو تم"
"میں کسوا سے ملنے جارہی ہوں مجھے ملازمہ نے بتایا وہ آگئی ہے اور مجھے یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ ایک نیا مہمان بھی آنے والا ہے"آئرہ کے کہنے پر عالم حیرت سے اسے دیکھنے لگا وہ شرما کر تو ایسے بتارہی تھی جیسے یہ نیا مہمان کسوا نہیں بلکہ اسکی خود کی وجہ سے آنے والا ہوگا
"اچھا مجھے تو لگا تھا تمہیں جلن ہوگی کے کسوا نے یہ خبر دے دی اور تم نے نہیں دی" اسے اپنے حصار میں لے کر عالم نے شرارت سے کہا
"توبہ ہے عالم میں کیوں جیلیس ہوں گی وہ بہن ہے میری یہ تو خوشی کی بات ہے میں خالا بننے والی ہوں"
"تم خالا نہیں ممانی بننے والی ہو"
"نہیں میں خالا بننے والی ہوں"
"کسوا میری بہن ہے"
"ہاں تو وہ میری بھی بہن ہے"
"چھوڑو اس بات کو مجھے یہ بہن بہن نہیں کھیلنا"اسنے جیسے تنگ آکر کہا
"اچھا پھر مجھے تو جانے دیں چھوڑیں مجھے" آئرہ نے اسکی گرفت سے نکالنا چاہا لیکن وہ اسی طرح مظبوطی سے اسے اپنے حصار میں لیے کھڑا رہا
"میں اتنی ٹینشن میں ہوں اور تمہیں کسوا کے پاس جانے کی لگی ہوئی ہے مل لینا صبح اس سے ابھی ویسے بھی عصیم اسکے پاس ہے اچھا تھوڑی لگے گا"
"کیا پریشانی ہوگئی ہے آپ کو"
"عصیم نے سب کو خوش خبری سنادی ہے ہم کب سنائیں گے"
"اف عالم مجھے لگا آپ واقعی میں کوئی سیریس بات کررہے ہیں"
"اس سے زیادہ سیریس بات بھلا اور کیا ہوگی میری جان"
"عالم سدھر جائیں"
"میں نے سنا عالم بگڑ جائیں تو ہم بگڑ جاتے ہیں" جھٹکے سے اسنے آئرہ کو اپنی بانہوں میں اٹھایا اور اسکی ہر مزاحمت کو نظر انداز کرکے اپنی اپنی کرتا چلا گیا
صبح کے دس بجے وہ حویلی میں داخل ہوا تھا جہاں اسکی پہلی نظر دادا سائیں پر پڑی انہیں سلام کرکے وہ اپنے کمرے میں جانے لگا جب اپنے پیچھے اسے انکی آواز سنائی دی
"بیوی کہاں ہے تمہاری"
"انکل کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی"
"تو تم اسے وہاں چھوڑ آے اسکے منگیتر کے پاس" انکے کہے جملے نے اسکے چونکنے پر مجبور کردیا
"آپ کہنا کیا چاہتے ہیں"
"سیدھی اور صاف بات تمہاری بیوی اپنے باپ کے گھر پر ہے تو ہو سکتا ہے وہ لڑکا بھی وہاں موجود ہو ہم بس تمہیں بتارہے ہیں جو پہلے ہوا تھا کہیں وہ دوبارہ نہ ہوجاے" دادا سائیں کی بات سنتے ہی اسکی پیشانی پر لاتعداد بل پڑے
"دادا سائی وہ بیوی ہے میری"
"تمہاری دادی بھی تو بیوی تھی میری پتہ ہے نہ اسنے کیا ، کیا تھا"
"دادا سائیں مجھے اپنی بیوی پر پورا بھروسہ ہے"
"ٹھیک ہے دیکھ لیتے ہیں وہ تمہارے بھروسے کا کتنا بھرم رکھتی ہے" انہوں نے طنزیہ مسکراہٹ لیے اسے دیکھا
"دادا سائیں وہ میرا بھروسہ نہیں توڑے گی"
"اور جس دن توڑا تو اسے یہاں لانا اور اپنے ہاتھوں سے اسے گولی مارنا ویسے ہی جیسے میں نے ماری تھی" انہوں نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا جس پر وہ اپنی مٹھیاں بھینچ کر وہیں سے باہر نکل گیا
°°°°°
"کیسی ہو" آواز پر اسنے مڑ کر دیکھا جہاں وصی کھڑا تھا لائٹ بلیو شرٹ کے ساتھ ڈارک بلیو جینز پہنی ہوئی تھی
وہ کب سے اس سے بات کرنے کی کوشش کررہا تھا لیکن سب کی موجودگی میں ٹھیک سے کر نہیں پارہا تھا لیکن اب اسکے کمرے سے باہر آتے ہی وہ خود بھی اسکے پیچھے آگیا
"بابا کی طبیعت خراب تھی کسی نے مجھے بتایا کیوں نہیں" اسکے سوال کا جواب دیے بنا اسنے خفگی سے کہا
"ہمیں انکل نے ہی منع کیا تھا وہ نہیں چاہتے تھے تم پریشان ہو لیکن اب انکی طبیعت زیادہ خراب تھی وہ تمہیں یاد بھی کررہے تھے تو آنتی نے تمہیں بلوا لیا" اسنے اسے تفصیل سے بتایا
"تم خوش ہو"
"اس سے کیا فرق پڑتا ہے"پریشے کے کہتے ہی اسنے دونوں کے درمیاں موجود چند قدم کا فاصلہ مٹایا
"کیوں نہیں پڑتا اگر تم خوش نہیں ہو تو یہاں آجاؤ اپنے گھر والوں کے پاس ہم ہیں تمہارے ساتھ معتصم تمہارے ساتھ کچھ برا نہیں کرسکتا"
"وصی پلیز میرے معاملے سے دور رہو اپنے گھر اور بیوی پر توجہ دو"
"میں چاہ کر بھی عینہ کے بارے میں ایسا کچھ نہیں محسوس کررہا ہوں جیسا تمہارے لیے کرتا ہوں پریشے مجھے تم پسند ہو اور میں تمہیں تم پلیز میرے پاس لوٹ آؤ میں لڑوں گا تمہارے لیے معتصم سے پہلے میں سب گھر والوں کی خاطر عینہ سے شادی کے لیے مان گیا تھا لیکن اب ضرورت پڑی تو میں ان گھر والوں سے بھی لڑ لوں گا" پریشے کے دونوں کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر اسنے اسے اپنے قریب کرنا چاہا
جب ہی بھاری ہاتھ کا زور دار پنچ اسکے منہ پر پڑا جس سے وہ تھوڑی پیچھے کی طرف جاگرا
"معتصم تم یہاں کیا کررہے ہو" اسے اس وقت یہاں دیکھ کر پریشے کو کافی حیرت ہوئی تھی
آواز سن کر تقریبا سب گھر والے ہی باہر آچکے تھے اور حیرت سے یہی پوچھ رہے تھے کہ وہ اس وقت یہاں کیا کررہا ہے کیونکہ پریشے انہیں بتاچکی تھی کے وہ گاؤں جاچکا ہے
"ہاتھ لگانا تو دور اگر آج کے بعد تم نے میری بیوی کی طرف دیکھا بھی تو تمہاری آنکھیں نکالنے میں بلکل دیر نہیں کروں گا" اسنے سخت لہجے میں وصی کو دیکھتے ہوے کہا جو اپنی ناک سے نکلتا خون صاف کررہا تھا
"معتصم یہاں کیسے آنا ہوا وصی نے کیا کردیا ہے" حفصہ نے آگے بڑھ کر اس سے پوچھا لیکن وہ بنا کسی کی بات کا جواب دیے پریشے کا ہاتھ پکڑ کر لے جا چکا تھا
°°°°°
"معتصم میرا ہاتھ چھوڑو یہ کیا طریقہ ہے" اسنے اپنا ہاتھ چھڑانے کی جدو جہد کی لیکن اسنے بنا اسکی کسی بات کا جواب دیے اسے گاڑی میں بٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر کار اسٹارٹ کردی جس کی رفتار وہ تیز سے تیز کرے جارہا تھا
"تم یہاں کیا کررہے ہو تم مجھے میرے گھر سے زبردستی لے کر جارہے ہو پتہ نہیں سب لوگ کیا سوچ رہے ہوں گے اور تم نے وصی پر ہاتھ کیوں اٹھایا"
"بہت تکلیف ہورہی ہے تمہیں"
"ہاں ہورہی ہے" اسکی گرفت اسٹیرنگ پر سخت ہوگئی اور پریشے کے کہتے ہی اسنے گاڑی کی اسپیڈ مزید تیز کردی
"معتصم پلیز اسپیڈ سلو کرو" اسنے چلاکر کہا لیکن وہ اسکی سن ہی کب رہا تھا
اسکی رویے پر وہ پریشان ہورہی تھی پتہ نہیں ایسی کیا بات ہوئی جو معتصم کو اتنا غصہ دلا دیا اس وقت ویسے بھی اس سے کچھ کہنا بےکار تھا وہ اس وقت اسکی سن ہی کہاں رہا تھا
اسنے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور تب ہی زہہن میں شادی سے پہلے اماں جان کی کہی باتیں گونجنے لگیں
°°°°°
"تمہیں پتہ ہے پری میں نے تمہارے اس رشتے کے بارے میں بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے اور یہ بات میں تمہیں آج ہی بتا دینا چاہتی ہوں تاکہ تمہارے دل میں میری طرف سے کوئی میل نہ رہے"
"اماں جان ایسی باتیں نہیں کریں میرے دل میں آپ کے لیے کوئی میل نہیں ہے"
"میں جانتی ہوں میری بچی پھر بھی میں یہ بات تم سے آج کہنا چاہتی ہوں جو میں نے آج تک کسی کو نہیں بتائی تم جاننا چاہتی تھیں نہ ہمیشہ سے کہ تمہارے دادا جان تمہارے بابا کو پسند کیوں نہیں کرتے تھے" انکے کہنے پر اسنے آہستگی سے اپنا سر ہلایا وہ اس سے کیا کہنے آئی تھیں اسے سمجھ نہیں آرہا تھا
"میری تمہارے دادا سے دوسری شادی ہوئی تھی جن سے میری پہلی اولاد یعنی تمہارے چاچا ہوے تھے تمہارے دادا نے اسلیے کبھی بھی ظفر کو پسند نہیں کیا کیونکہ وہ انکی اولاد نہیں تھا وہ کسی اور کی اولاد تھا"
"کس کی"
"جمال شاہ کی"
"کون جمال شاہ"
"معتصم شاہ کا دادا"
"میری پہلی شادی جمال شاہ سے ہوئی تھی ہم نے یہ نکاح بنا کسی کو بتاے کیا تھا وہ ہمیشہ مجھے یہ بات کہتے تھے کہ انکی پہلے ہی ایک شادی ہوچکی ہے لیکن وہ اس عورت کو پسند نہیں کرتے صرف زبردستی کا رشتہ ہے کبھی یہ تک بھی نہیں بتایا تھا کے انکی اولاد بھی ہے"
"جب مجھے یہ خبر ملی کے تمہارا باپ اس دنیا میں آنے والا ہے تو میں گھبرا چکی تھی ہم نے نکاح کیا تھا لیکن یہ بات ہم کس کس کو بتاتے پھرتے میں نے تو یہ بات اپنی ماں اپنے واحد رشتے سے بھی چھپائی ہوئی تھی کے میرا نکاح ہوا ہے وہ پہلے ہی بیمار رہتی تھیں جب انہیں میرے امید سے ہونے کی خبر ملی تو انہیں بھی یہی لگا کے میں نے کچھ غلط کیا ہے اور اسی صدمے میں وہ چلی گئیں"
"ظفر کے پیدا ہوتے ہی میں اسے حویلی لے گئی کیونکہ اسکے آنے کی خبر ملتے ہی جمال نے مجھ سے ملنا بھی ترک کردیا اور فون بھی اٹھانا چھوڑ دیا تھا میں اسکے گھر گئی تو وہ اس وقت حویلی میں اکیلا تھا میں نے جب اس سے بات کی اسے اسکا بیٹا دکھایا تو اسنے اسی وقت مجھے طلاق دے دی یہ کہہ کر کہ مجھ جیسی عورتیں صرف وقت گزاری کے لیے ہوتی ہیں"آہستہ آہستہ وہ اسے ہر بات بتاتی چلی گئیں اور وہ حیرت سے بت بنی انہیں سنتی جارہی گئی
"میں تمہارے باپ کو لے کر وہاں سے آگئی میرے پاس کوئی رشتہ نہیں تھا اسلیے میں اپنی دوست کے پاس چلی گئی وہ میرے بارے میں سب کچھ جانتی تھی اور مجھ پر بھروسہ بھی کرتی تھی میں نے اسے ہر طرح کا ثبوت بھی دکھایا جسے دیکھنے کے بعد وہ مجھ سے یہی کہتی تھی کے میں جمال شاہ کو سزا دلواؤں لیکن مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کے میں ایسا کچھ کرپاتی''
"اسنے اپنے بھائی سے یعنی تمہارے دادا سے میری شادی کروادی وہ بہت اچھے تھے میرے بارے میں سب کچھ جانتے تھے لیکن انہوں نے ظفر کو کبھی نہیں اپنایا انکے نزدیک وہ ایک پرائی اولاد تھا تمہارے باپ نے بچپن سے ہی بہت تکلیفیں اٹھائیں ہیں اسلیے میں نہیں چاہتی کہ بیٹی پر طلاق کا دھبہ لگ جانے سے وہ مزید تکلیف میں آجاے"
"تمہاری میری ظفر حفضہ ہم سب کی جگہ وہیں ہے پری بھلے جمال نے مجھے چھوڑ دیا لیکن تم سب کا اصل گھر ہے تو وہی اور میری یہی خواہش تھی کہ تم لوگ اپنے اس اصل گھر میں جاؤ میرے باقی بچے نہیں جاسکے پری لیکن تمہیں یہ موقع ملا ہے اور میں اسے ضائع نہیں کرنا چاہتی ہوں"
"آپ مجھے اس گھر میں بھیجنا چاہتی ہیں اماں جان جہاں سے آپ کو نکالا گیا تھا"
"ہاں کیونکہ وہ سب میری نصیب میں نہیں تھا لیکن تمہارے نصیب میں ہے مجھے لوگوں کی پہچان ہے پری اور میں جانتی ہوں معتصم اپنے دادا سے الگ ہے بہت الگ وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا لیکن بدلے میں تم بھی اسے وہی خوشی وہی سکون دینا جو وہ تمہیں دے گا"
°°°°°
حویلی پہنچتے ہی وہ اسے لے کر اندر چلا گیا جہاں سب لاؤنج میں بیٹھے تھے جبکہ دادا سائیں کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی
سب کو سلام کرکے وہ اسے لے کر اندر کی طرف جانے لگا جب دادا سائی کی بات نے اسکے ںڑھتے قدم روک دیے
"لے آے اپنی بیوی کو معتصم کیا ہم نے کچھ غلط کہا تھا"
"کیا کہا تھا آپ نے" پریشے نے انہیں دیکھتے ہوے کہا
"پری اندر چلو"
"نہیں مجھے جاننا ہے انہوں نے کیا کہا تھا"
"ہم نے یہ کہا تھا کہ اگر تمہاری بیوی تمہیں اپنے سابقہ منگیتر کے ساتھ ملے تو اسے یہاں لے کر آنا اور اپنے ہاتھوں سے اسکا قتل کردینا" انکے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ چلتے ہوے انکے قریب آگئے
"قتل کے علاؤہ کچھ اور نہیں آتا آپ کو دادا سائیں" اسنے "دادا سائیں" پر زور دے کر کہا
"بتا چکی ہے آئرہ مجھے کہ کس طرح آپ نے اپنی جھوٹی غیرت کے نام پر اپنی بیوی اور بھائی کا قتل کیا تھا" اسنے کہتے ہی دادا سائیں کا چہرہ غصے سے سرخ ہوچکا تھا جبکہ معتصم اور وہاں موجود باقی سب افراد کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا بھلا کس نے آج تک ہمت کی تھی جمال شاہ سے اس طرح بات کرنے کی
"پریشے کمرے میں چلو یہاں تماشہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے" سختی سے اسکا بازو پکڑ کر وہ اسے لے جانے لگا جب اسنے اپنا بازو اس سے چھڑالیا
"میں تماشہ لگا رہی ہوں تماشہ تمہارے دادا سائیں نے لگایا اپنی سو کالڈ غیرت کے نام پر جھوٹ بول کر"
"اپنی بکواس بند کرو لڑکی" دادا سائیں کی دھاڑتی آواز اس جگہ گونجی
"اگر یہ آپ کو بکواس لگتی ہے تو بکواس ہی سہی کروں گی میں یہ بکواس جو سچ ہے بتاؤں گی سب کو" اسکے چلانے پر دادا سائیں کا ہاتھ اٹھا جو بیچ میں ہی روک لیا جا چکا تھا انہوں نے حیرت سے معتصم کی طرف دیکھا
"تم نے ہمارا ہاتھ روکا"
"معاف کیجیے گا دادا سائیں آپ کا ہاتھ روکا لیکن اگر کوئی میری بیوی پر ہاتھ اٹھاے گا تو یہ میں برادشت نہیں کروں گا"
"تمہیں دکھ نہیں ہے وہ کیا بکواس کررہی ہے" عماد صاحب نے اپنی جگہ سے اٹھ کر غصے سے کہا
"بلکل دکھ رہا ہے چاچا سائیں لیکن یہ کوئی بھی غلطی کرے گی بدتمیزی کرے گی یا کچھ بھی کرے گی اسے سزا میں خود دوں گا لیکن کوئی اور ایسا کرے یہ حق میں نے کسی کو نہیں دیا ہے چلو میرے ساتھ" انہیں جواب دے کر وہ اسے وہاں سے لے جانے لگا جب دوبارہ اپنا ہاتھ چھڑاتی وہ دادا سائیں کے قریب جاکر کھڑی ہوگئی
"مجھے جانتے ہیں میں کون ہوں" اسکا پراسرار انداز سب کو کھٹکنے پر مجبور کرچکا تھا
"میں ہوں پریشے شاہ ظفر شاہ کی بیٹی وریشہ اور جمال شاہ کی پوتی" اسکے کہے الفاظ دادا سائیں کو سن کر چکے تھے
"آپ نے یہ بات سچ کہی تھی کہ آپ نے اپنی بیوی اور بھائی کو مارا تھا لیکن کیوں مارا تھا یہ جھوٹ بولا تھا بتائیں سب کو سچ کے آپ نے کیوں مارا تھا اپنی بیوی اور بھائی کو" انکے سفید پڑتے چہرے کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوے اسنے ایک ایک لفظ چپا کر کہا
"تمہیں اندازہ ہے لڑکی تم کہہ کیا رہی ہو"ثقلین صاحب نے اسکے قریب آکر سخت لہجے میں کہا
"جی مجھے بلکل اندازہ ہے میں کیا کہہ رہی ہوں میں سچ بتارہی ہوں اس جھوٹ سے پردہ اٹھا رہی ہوں جو انہوں نے سالوں پہلے سب سے کہا تھا"
°°°°°
"جمال یہ تمہاری اولاد ہے" انہوں نے کمبل میں موجود وہ ایک ماہ کا بچہ ان کے سامنے کیا جسے دیکھتے ہی جمال شاہ نے چہرہ پھیر لیا
"میں کیسے مان لوں یہ میری اولاد ہے جس طرح تم میرے ایک کہنے پر آسانی سے میرے پاس آگئی تھیں کیا پتہ کسی اور کے پاس بھی چلی گئی ہوگی" انکے الفاظ وریشہ شاہ کے قدموں سے جیسے زمین نکال چکے تھے
"تم یہ کیا کہہ رہے ہو نکاح کیا تھا تم نے مجھ سے بیوی ہوں میں تمہاری یہ ہماری اولاد ہے میرے پاس سارے ثبوت ہیں ٹیسٹ رپورٹ ہمارا نکاح نامہ" انہوں نے اپنے بیگ سے چند کاغذات نکال کر جمال شاہ کے سامنے رکھے
"شاید تم اب بھی خود کو میری بیوی سمجھ رہی ہو اگر ایسا ہے تو ان باتوں سے باہر نکل آؤ اور اگر تمہیں یہ لگ رہا ہے کہ میں نے تم سے نکاح تمہاری محبت میں کیا تھا تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے تم مجھے اچھی لگیں تھیں مجھے بس تمہارے ساتھ چند لمحے گزارنے تھے جو میں نے گزار لیے اور میں اب یہ قصہ ختم کر دینا چاہتا ہوں میں جمال شاہ"
"جمال نہیں پلیز تمہارے سوا میرا کوئی نہیں ہے میری ماں تمہاری وجہ سے مر گئی پلیز اب تم مجھے مت مارو" انہوں نے چیختے ہوئے کہا لیکن جمال شاہ انکے اور اپنے درمیان موجود رشتہ ختم کرچکے تھے
"اب میرا تمہارا کوئی رشتہ نہیں ہے حویلی سے نکل ہوجاؤ سب اس وقت شادی پر گئے ہوے ہیں آنے والے ہوں گے اور میں چاہتا ہوں کہ ان کے آنے سے پہلے تم اپنی یہ شکل لے کر یہاں سے دفع ہوجاؤ" انہیں گم سم چھوڑ کر وہ وہاں سے جانے لگے جب دروازے پر کھڑے وجود کو دیکھ کر انکے قدم رک گئے
وہاں عاقب شاہ اور یاسمین شاہ کھڑی تھیں انہیں دیکھ کر ہی لگ رہا تھا کہ وہ یہاں ہوئی ان دونوں کی ساری باتیں سن چکے تھے
"لالا سائیں آپ ایسے ہوں گے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا" عاقب شاہ نے بےیقینی سے انہیں دیکھتے ہوے کہا
"تم دونوں غلط سمجھ رہے ہو"
"کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے جمال ہم سب کچھ سن چکے ہیں اب آپ کے جھوٹ سے پردہ اٹھ چکا ہے" یاسمین کے لہجے میں افسوس تھا
"یہ ابھی کے لیے یہیں رہے گی اب گھر کے بڑے ہی یہ فیصلہ کریں گے"
"کوئی فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے جب سب سن ہی چکی ہو تو پھر بات کیوں بڑھا رہی ہو میں اسے طلاق دے چکا ہوں اب اسکا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے"انہوں نے ایک نظر وریشہ کو دیکھا جو آنکھوں میں آنسو لیے انہیں ہی دیکھ رہی تھیں انکی گود میں موجود وہ چھوٹا سا وجود رو رہا تھا
"میں نے کوئی انوکھا کام نہیں کیا ہے اس بات کو یہیں ختم کر دو"
"کیوں ختم کردوں تم نے مجھے سکھایا ہے کہ ایک عورت کو اپنے لیے لڑنا چاہیے اور میں تمہاری ان باتوں پر ضرور عمل کروں گی میں اس عورت کے لیے لڑوں گی تم نے مجھے آج تک بنا چادر کے اپنے کمرے سے نہیں نکلنے دیا کیونکہ تمہیں اچھا نہیں لگتا تھا کہ کوئی بھی تمہاری بیوی کو دیکھے پورے گھر میں پورے گاؤں میں تم سب کو یہ بتاتے پھرتے ہو جمال کے تم کتنے غیرت مند ہو میں دکھاتی ہوں سب کو کہ تم کتنے غیرت مند ہو"
"کیا کرو گی تم"
"ہم کچھ نہیں کریں گے جو کریں گے وہ بابا سائیں کریں گے" جواب عاقب کی طرف سے آیا تھا اور انکی یہ باتیں جمال شاہ کو ڈرنے پر مجبور کررہی تھیں
آج تک انکی بیوی بنا چادر کے اپنے کمرے سے نہیں نکلی تھی پورا گاؤں انکی عزت کرتا تھا اگر سب کو معلوم ہوجاتا کہ جمال شاہ نے صرف چند حسین لمحوں کے لیے کسی سے نکاح کیا تھا اپنی بیوی کے ساتھ بےوفائی کی تھی اور اپنی ہی اولاد کو ماننے سے انکار کردیا تھا تو اس سب کے بعد انکی کیا عزت رہ جانی تھی
"تم چلو میرے ساتھ" انہوں نے وریشہ کا ہاتھ تھاما اور ایک نظر اپنے شوہر کو دیکھ کر وہاں سے جانے لگیں جب اگلے ہی لمحے جمال شاہ نے دیوار پر لٹکی بندوق اتار کر اسکا رخ اپنی بیوی کی طرف کردیا
"یاسمین میں کہہ رہا ہوں اسے یہاں سے بھیج دو تم جانتی ہو میرے نزدیک میری عزت میری غیرت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے اس سب کے خاطر میں تم دونوں کو مارنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا اور تمہیں مارتے وقت میں یہ بھی نہیں سوچوں گا کہ تم میرے بچوں کی ماں ہو"
"یوں کہیں کہ آپ ڈرتے ہیں لالا سائیں آپ ڈرتے ہیں لوگوں کی ان نظروں سے جن سے ساری حقیقت جاننے کے بعد وہ آپ کو دیکھیں گے"
"میں کہہ رہا ہوں عاقب تم دونوں اسے یہاں سے بھیج دو یہ معاملہ یہیں ختم ہوجاے گا"
"کیوں بھیج دیں ہم اسے یہاں سے تاکہ موقع ملتے ہی اسکی طرح تم کسی اور لڑکی کی زندگی خراب کردو میں بابا سائیں کو فون کررہی ہوں" اپنے آنسو صاف کرکے وہ وہاں سے جانے لگیں جب غصے میں آکر جمال شاہ نے گولی چلائی
پہلی گولی عاقب شاہ کو لگی جبکہ دوسری گولی یاسمین شاہ کو لگی تھی تکلیف سے تڑپ کر وہ وہیں گرچکے تھے
"یہ کیا کردیا تم نے پاگل انسان"وریشہ نے چیختے ہوے جمال شاہ کی طرف دیکھا اور فکرمندی سے یاسمین کے قریب بیٹھ گئیں
"آپ فکر مت کریں میں ابھی ڈاکٹر بلاتی ہوں آپ دونوں کو کچھ نہیں ہوگا" وریشہ نے سسکیوں سے روتے ہوے کہا
"ن--ہیں تم ی-یہاں سے چ-چلی جاؤ اگر تم یہیں رہو گی تو و--وہ تمہیں بھی م--ما-مار دے گا" تکلیف سے تڑپتے ہوے انہوں نے وریشہ سے کہا
وریشہ نے اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے جمال شاہ کو دیکھا جو بت بنا زمین پر موجود خون میں لت پت وجود کو دیکھ رہا تھا انکی آنکھوں میں بےیقینی تھی جیسے انہیں یقین ہی نہیں آرہا ہو کہ زمیں پر گرے وہ وجود جن کی سانس بھی اب رک چکی تھی وہ انکی وجہ سے رکی تھی
وریشہ کب وہاں سے گئی انہیں کچھ علم نہیں ہوا انکی نظریں تو بس یک ٹک زمیں پر پڑے ان بےجان وجود پر تھیں اپنی اس کیفیت سے وہ باہر تب نکلے جب باہر گاڑی کی آواز سنائی دی
جسے سن کر وہ فورا ہوش کی دنیا میں لوٹے نظر سب سے پہلے زمین پر گرے ان کاغذات پر گئی جو وریشہ نے انہیں دکھانے کے لیے رکھے تھے تیزی سے اٹھ کر انہوں نے ان کاغذوں کو اپنی کمیز کی جیب میں ڈالا
نظریں پھر سے عاقب شاہ اور یاسمین شاہ کی طرف چلی گئیں
وہاں کا منظر سب سے پہلے بابا سائیں نے دیکھا تھا زمین پر گرے بندوق اور خون میں لت پت عاقب اور یاسمین
بابا سائیں کو یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی کہ وہاں کیا ہوا تھا انہوں نے بس یہی پوچھا تھا کہ یہاں جو ہوا تھا وہ کیوں ہوا تھا
جس پر جمال شاہ نے یہ کہہ دیا کہ وہ اپنے دوست سے ملنے گئے تھے اور حویلی واپس آتے ہی انہوں نے عاقب اور یاسمین کو ایسی حالت میں دیکھا تھا جسے وہ برداشت نہ کرسکے اور ان دونوں کو وہیں مار دیا
انکی اس بات پر سب یقین بھی کرچکے تھے کیونکہ سب جانتے تھے کہ عاقب اور یاسمین ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے جمال اور یاسمین کی شادی صرف اسلیے ہوئی تھی کیونکہ وہ جمال شاہ کی منگ تھی
شادی کے بعد یاسمین نے اس رشتے کو پورے خلوص سے نبھایا تھا اور یہ سب جانتے تھے لیکن یہ اچانک ہوا واقعہ ان سب کی یاسمین کے لیے سوچ بدل چکا تھا
°°°°°
"یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے" اسکی ساری بات سن کر دادا سائیں نے چیخ کر کہا جس عزت کے لیے انہوں نے یہ سب کیا تھا تو کیا آج وہ ان سے چھننے جارہی تھی
"یہ جھوٹ نہیں کہہ رہی ہے"پریشے کی بات پر کسی کو بھی یقین نہیں آیا تھا لیکن مبشرہ بیگم کی آواز سنتے ہی ان سب کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا
"پری سب کچھ سچ کہہ رہی ہے"
''مبشرہ دماغ درست ہے تمہارا یہ کیا کہہ رہی ہو" انکے قریب آکر عفان شاہ نے غراتے ہوے کہا
"مجھے پتہ ہے میں کیا کہہ رہی ہوں عفان اور میں سچ کہہ رہی ہوں اسی لیے میں حویلی چھوڑ کر گئی تھی"
°°°°°
فون کی پہلی بیل پر ہی انہوں نے بنا نمبر دیکھے تیزی سے کال پک کرلی
"ہیلو"
"کیا حال ہیں"دوسری طرف عفان شاہ کی آواز سنائی دی
"عفان کام پر جاکر تم کرتے کیا ہو تین گھنٹے کے لیے جاتے ہو جس میں سے پانچ بار تو مجھے ہی فون کرلیتے ہو ابھی تو پانچ منٹ پہلے بات کی تھی"
"تمہاری یاد آرہی تھی اسلیے دوبارہ فون کرلیا"
"تو کرلی بات اب میں فون رکھ رہی ہوں دوبارہ مت کیجیے گا آئرہ سورہی ہے اتنی مشکل سے سلایا ہے میں نے اسے اگر وہ جاگی نہ تو آپ کو گھر بلاؤں گی کہ آکر اسے سلائیں" انہوں نے بیڈ پر لیٹی اپنی بیٹی کو دیکھتے ہوے کہا جو اپنا انگھوٹھا منہ لیے مزے سے سورہی تھی
"سلا دوں گا اپنی شہزادی کو لیکن پہلے تم میرا ایک کام کرو بابا سائیں کے کمرے میں جاؤ اور انکی وارڈروب میں ایک سلور کلر کی فائل ہوگی وہ نکال لو میں نے ملازم بھیجا ہے اسکے ہاتھ بھجوادینا"
"میں انکے کمرے میں جاؤں"
"ہاں وہ اس وقت باہر گئے ہوے ہیں ورنہ میں انہیں ہی فون کرتا میں بھابھی سائیں سے کہہ دیتا لیکن وہ بھی گھر پر نہیں ہیں"
اسنے اوکے کہہ کر فون رکھ دیا اور گہری سانس لے کر اپنی جگہ سے اٹھ گئیں
وہ آج تک اپنے سسر کے کمرے میں نہیں گئی تھی کبھی ضرورت بھی نہیں پڑی وہ ویسے بھی ان سے فاصلہ بنا کر ہی رکھتی تھی کیونکہ اسے ان کی خود پر ٹکی نظریں عجیب لگتی تھیں
انکے کمرے میں آکر وہ انکی وارڈروب کھول کر اس میں سے فائل ڈھونڈنے لگی اوپر پتہ نہیں کون کون سی فائل اور کاغذات پڑے ہوے تھے اسنے ڈھونڈ کر نیچے دبی وہ سلور فائل نکال لی جب ساتھ ہی کچھ کاغذ اسکے قدموں میں آگرے
اسنے اٹھا کر انہیں واپس رکھنا چاہا لیکن ان پر لکھے لفظ دیکھ کر وہ حیرت سے اپنی جگہ کھڑی رہ گئی
کچھ کاغذ بہت پرانے تھے مڑے ہوے جن پر لکھے لفظ تقریباً مٹ ہی چکے تھے بس کچھ لفظ ہلکے ہلکے نظر آرہے تھے اگر کچھ صاف دکھ رہا تھا تو وہ تھا نکاح نامہ جو جمال شاہ اور وریشہ کا تھا پلاسٹک کوڈنگ کی وجہ سے اسکی حالت باقی کے کاغذات کی طرح نہیں ہوئی تھی
"تم یہاں کیا کررہی ہو"دادا سائیں نے جھپٹنے کے انداز میں اسکے ہاتھوں سے وہ نکاح نام چھینا جبکہ انکی آواز سنتے ہی وہ گھبرا کر پیچھے ہوئی وہ کمرے میں کب آے تھے اسے پتہ ہی نہیں چلا
"ک-کیا ہے یہ سب"
"تمہارا اس سے کوئی واسطہ نہیں نکلو میرے کمرے سے اور یہ بات تم کسی کے سامنے نہیں کہو گی"
"کیوں نہیں کہوں گی میں ضرور کہوں گی آپ کے اس نکاح کے بارے میں سب کو بتاؤں گی" انکے کہنے پر دادا سائیں کا قہقہہ کمرے میں گونجا
"میں نے تو نکاح کے علاؤہ بھی بہت کچھ کیا ہے میں نے تو اپنے بھائی اور بیوی کو بھی مارا ہے صرف اس عورت کی وجہ سے" انہوں نے اپنے ہاتھ میں موجود نکاح نامے کی طرف دیکھا
"لیکن آج تک کسی کو یہ بات پتہ نہیں چلی کہ میں نے اصل میں انہیں مارا کیوں تھا جیسے انہیں مار دیا ویسے تمہیں بھی مار دوں گا اور پھر کوئی کہانی بنا دوں گا کوئی مجھے کچھ نہیں کہے گا"
"میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آپ اتنے گھٹیا انسان نکلیں گے"
"میں بہت گھٹیا ہوں اور تمہارے ساتھ میں تمہیں مارنے کے علاوہ بھی بہت کچھ کرسکتا ہوں"
"آپ کو شرم نہیں آتی میں بہو ہوں آپ کی"
"تم میرے بیٹے کی بیوی ہو باقی جو عورتیں اس گھر میں موجود ہیں وہ میری بہو ہیں کیونکہ وہ میرے خاندان کا حصہ ہیں تم نہیں ہو میرا بیٹا کل کی ملی لڑکی کے لیے اپنے باپ کو نہیں چھوڑے گا بلکہ اپنے باپ کے کہنے پر اس لڑکی کو ضرور چھوڑ دے گا تو اگر عزت سے یہاں رہنا چاہتی ہو تو اپنا منہ بند رکھنا"
آج پہلی بار اسے اپنے سامنے کھڑے اس شخص سے خوف آرہا تھا یہ کیسی حقیقت تھی جس کا اس پر انکشاف ہوا تھا
انہوں نے عفان شاہ کو ہر بات بتانی چاہی لیکن دل میں یہ ڈر بیٹھ چکا تھا کہ یہ سب باتیں انکا رشتہ نہ خراب کردیں
ایسے میں آئرہ اور عالم کی منگنی انہیں اور پریشان کرچکی تھی اگر یہ حقیقت انکے علم میں نہ آتی تو وہ بھی اس رشتے پر خوش ہوتیں لیکن اب ایسا نہیں تھا
وہ بس کسی بھی طرح اپنی بچی کو اس ماحول سے دور لے جانا چاہتی تھیں وہ نہیں چاہتی تھیں کہ انکا ایک اور رشتہ اس خاندان کے ساتھ جڑے دل میں اندر ڈر بیٹھ چکا تھا
عفان شاہ کو کھونے کا ڈر اپنی عزت کا ڈر اور اس نکاح کا ڈر جو گھر والے عالم اور آئرہ کا کرنا چاہ رہے تھے اور یہی ڈر انہیں اس گھر سے انکے محبوب شوہر سے بہت دور کر چکا تھا
°°°°°
"اگر یہی سب بات تھی تو تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا"
"کیونکہ میں ڈر گئی تھی مجھے ان کی بات سچ لگی کہ اپنے باپ کو چھوڑ کر میری بات پر کیوں یقین کرو گے"
"ہاں وہ ہمارا بیٹا ہے وہ تمہاری بات پر یقین نہیں کرے گا عفان تم اس عورت کی بات بلکل مت سننا تم سب جانتے ہو نہ ہمیں" دادا سائیں کے کہنے پر پریشے کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ آئی
وہ بھاگ کر اپنے کمرے میں گئی اور دو منٹ بعد ہی اسکی واپسی ہوگئی اسکے ہاتھ میں پیپرز تھے جو اسنے لاتے ہی ٹیبل پر پھینک دیے
"جو پیپرز اماں جان آپ کے پاس لائی تھیں وہ فوٹو کاپی تھی شاید آج کے دن کے لیے ہی اماں جان نے مجھے یہ سارے پیپرز دیے تھے آپ کو پتہ ہے یہ سب کچھ کتنا سمبھال کر رکھا تھا اس میں نکاح نامہ ٹیسٹ رپورٹ ہر طرح کے ثبوت ہیں میرا نہیں خیال یہ دیکھنے کے بعد آپ کچھ اور کہنا چاہیں گے"
اسکی بات سنتے ہی معتصم نے ٹیبل پر رکھے ان پیپرز کو اٹھایا اور دادا سائیں کی رنگت جیسے سفید ہوچکی تھی وہ یہ سب کرے گی یہ تو انکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا
"یہ کیا ہے معتصم" عماد صاحب نے معتصم کے ہاتھ میں موجود ان پیپرز کے بارے میں پوچھا جس کے جواب میں اسنے وہ پیپرز انکی طرف بڑھا دیے
"یہ سب دیکھنے کے بعد آپ کیا کہنا چاہیں گے دادا سائیں اب بھی آپ اس سب کو جھوٹ قرار دیں گے چاچی سائیں جھوٹ کہہ رہی ہیں بھابھی جھوٹ کہہ رہی ہیں اور یہ پیپرز بھی جھوٹ کہہ رہے ہیں"عصیم کی سنجیدہ آواز سن کر دادا سائیں نے اپنا جھکا سر اٹھا کر عالم کو دیکھا
جو بےیقینی سے انہیں دیکھ رہا تھا عالم شاہ انکا لاڈلا پوتا انکا ہر حکم ماننے والا لیکن آج یہ عالم وہ نہیں لگ رہا تھا جو انکا ہوتا تھا آج اسکی آنکھوں میں انکے لیے عضہ اور بےیقینی تھی
"دیکھو تم سب ہماری بات سنو" انہوں نے کچھ کہنا چاہا جب پریشے کا موبائل بج اٹھا جہاں حفضہ کی کال آرہی تھی جسے دیکھ کر اسنے فورا پک کرلی معتصم اسے جس طرح غصے میں زبردستی گھر سے لے کر آیا تھا یقیناً گھر میں یہ بات سب کو پریشان کرچکی ہوگی
"پری تم پلیز جلدی سے آجاؤ بابا کو ہارٹ آٹیک ہوا ہے وہ اس وقت ہاسپٹل میں ہیں"اسکی بات سن کر اسنے اپنے شل ہوتے حواس کو قابو میں کیا اور اس سے ہاسپٹل کا نام پوچھا
"میرے بابا ہاسپٹل میں ہیں مجھے انکے پاس جانا ہے"کال کٹتے ہی اسنے بھیگی آواز میں کہا
"فکر مت کرو ہم ابھی ہاسپٹل چلتے ہیں نام بتاؤ" ثقلین صاحب نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا اور اسکے ہاسپٹل کا نام بتاتے ہی عالم کی طرف دیکھا
"عالم گاڑی نکالو" انکے کہنے پر عالم اپنا سر ہلاکر باہر چلا گیا
°°°°°
وہ سب پریشانی میں ہاسپٹل پہنچے تھے ظفر صاحب کو میجر ہارٹ آٹیک آیا تھا اور اس وقت انکی حالت بہت خراب تھی
سب انکے لیے دعا گو تھے اس وقت بھی وہ عصر کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکل رہا تھا جب جیب میں رکھا اسکا موبائل وائیبریٹ ہونے لگا اسنے موبائل جیب سے نکال کر دیکھا دادا سائیں کی کال آرہی تھی یہ تیسری کال تھی جو وہ اسے کررہے تھے اس سے پہلے انکی کی گئی کالز اسنے نہیں اٹھائی تھیں لیکن اسے یہ بھی پتہ تھا کہ جب تک وہ ان سے بات نہیں کرے گا وہ اسی طرح فون کرتے رہیں گے اسلیے چند پل سوچ کر اسنے کال پک کرلی
"کیسا ہے وہ" انہوں نے اسکے فون اٹھاتے ہی پوچھا
"آپ کو کوئی فرق پڑتا ہے"
"اپنے دادا سائیں سے ناراض ہو عالم"ایک تلخ مسکراہٹ انکے لبوں پر آئی
"دادا سائیں میں اب تک اس بات پر یقین نہیں کر پارہا ہوں میرے نزدیک تو آپ دنیا کے سب سے اچھے انسان تھے لیکن جو سچائی آج میرے سامنے آئی ہے اس نے مجھے اپنی سوچ پر افسوس کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ میں ایسے انسان جیسا بننا چاہتا تھا ایسے انسان پر آنکھیں بند کرکے یقین کرلیتا تھا"
"تمہیں پتہ ہے عالم تم ہمارے سب سے لاڈلے پوتے ہو جب تم ہماری عزت کرتے ہو ہمیں ادب سے بلاتے ہو تو قسم سے سینہ چوڑا ہوجاتا ہے ہمیں خود اپنے آپ پر بےحد فخر محسوس ہوتا ہے جب تم سب لوگ ہماری عزت کرتے ہو لیکن اب ہمیں لگ رہا ہے ہم اب تم سب کے سامنے شاید نظریں بھی نہ اٹھا سکیں گے غلطی ہماری تھی اور ہمیں کبھی نہ کبھی تو اسکی سزا ملنے ہی تھی"
"وہ سزا اب لکھی تھی ہم بس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے بیٹے کا خیال نہیں رکھ سکے اس بیٹے کا جس کا نام بھی ہمیں نہیں پتہ ہے تم لوگ اسکا خیال رکھ لینا اکثر جب ہم یہ باتیں سوچتے تھے تو خود پر بہت افسوس ہوتا تھا غصہ آتا تھا لیکن ہم کچھ نہیں کرسکتے تھے کیونکہ ہم ماضی کے ان باب کو کھولنا نہیں چاہتے تھے ڈرتے تھے کہ جس عزت کے لیے یہ سب کیا ہے وہ نہ چھن جاے لیکن اس سب کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا جس عزت کے لیے اتنا کچھ کیا تھا اب وہی نہیں رہی ہم اپنے بچوں کی نظروں میں گر گئے ہوسکے تو ہمیں معاف کر دینا"انکی آواز رندھ چکی تھی جبکہ عالم کو کچھ گڑبڑ کا احساس ہورہا تھا
"دادا سائیں آپ ٹھیک ہیں" اسنے بےچینی سے پوچھا لیکن دوسری طرف سے رابطہ کٹ چکا تھا
اسنے اگلے کی لمحے آئرہ کا کال ملائی
"آئرہ فورا دادا سائیں کے پاس جاؤ جاکر انہیں دیکھو" اسنے بےچینی سے کہا اور اسکی بےچینی دیکھ کر وہ بنا سوال کیے دادا سائیں کے کمرے کی طرف بھاگ گئی
°°°°°
"ظفر اب ٹھیک ہے لیکن اسے ابھی تک ہوش نہیں آیا"اسکے ہاسپٹل میں آتے ہی ثقلین صاحب نے اسکے قریب آکر کہا لیکن پھر اسکی حالت دیکھ کر چونک اٹھے
"عالم کیا ہوا ہے سب ٹھیک ہے"
"دادا سائیں انہوں نے خود خوشی کرلی ہے ملازم انہیں گاؤں میں موجود ہاسپٹل لے کر گئے ہیں اور پتہ نہیں وہاں کیا حالات ہیں"
"ہم سب ابھی گاؤں چلتے ہیں تم فکر مت کرو بابا سائیں کو کچھ نہیں ہوگا"
اسکی بات سن کر وہ خود بھی گھبرا چکے تھے لیکن اس وقت عالم کی حالت زیادہ خراب لگ رہی تھی
°°°°°
گاؤں میں موجود ہاسپٹل پہنچتے ہی انہیں جو خبر ملی تھی وہ انکے پیروں سے زمین نکال چکی تھی
عالم کے فون کاٹتے ہی آئرہ انہیں دیکھنے جارہی تھی اور جب ہی حویلی میں تیز آواز گونجی اسکے چلتے قدم مزید تیزی سے دادا سائیں کے کمرے کی طرف بڑھے
جب اسنے کمرے کا دروازہ کھولا تو خوف سے اسکے قدم وہیں جم گئے انہوں نے اپنی بندوق سے خود کو گولی مار لی تھی
ملازموں سے کہہ کر وہ انہیں ہاسپٹل پہچانے میں کامیاب ہوئی تھی اس کام کے بعد اسنے عالم کو فون کرکے یہاں کی صورتحال بتادی کیونکہ سارے مرد تو شہر جاچکے تھے
جب تک وہ نہیں آے تھے سارے معاملات اسی نے سمبھالے تھے اور ان سب کے آنے سے چند منٹ پہلے ہی جو کوشش ڈاکٹر کررہے تھے وہ ناکام ہوچکی تھی
°°°°°
آج دادا سائیں کو گئے ہوے تیسرا دن تھا پریشے صبح ہی واپس شہر جاچکی تھی کیونکہ ظفر صاحب ابھی تک ہاسپٹل میں موجود تھے
جبکہ باقی کے گھر والوں کے ہوتے ہوے بھی حویلی میں سوگ چھایا ہوا تھا کس نے سوچا تھا کہ یہ سب کچھ ہوجاے گا اس سب کا سب سے زیادہ اثر جس نے لیا تھا وہ عالم تھا کیونکہ وہی دادا سائیں کے سب سے زیادہ قریب تھا
"عالم کھانا کیوں نہیں کھایا" اس کی آواز سن کر عالم نے چونک کر اسکی طرف دیکھا
"میں کھا چکا ہوں"
"کوئی نہیں کھایا بس چند نوالے ہی لیے تھے وہ کوئی کھانا نہیں ہوتا"
"آئرہ مجھے کچھ نہیں کھانا بس تم میرے پاس بیٹھو یہاں آؤ" اسے اپنے قریب بٹھا کر عالم نے اسے اپنے حصار میں لے لیا
"آپ ٹھیک ہیں"
"ہاں بس دادا سائیں کی یاد آرہی تھی تمہیں پتہ ہے آئرہ میں ان سے بہت محبت کرتا تھا اپنے ماں باپ سے زیادہ قریب میں انکے تھا میرے لیے وہ اس دنیا میں سب سے زیادہ اہم تھے"
"لیکن اب وہ نہیں ہیں ہم انکے لیے دعا کے علاؤہ اور کچھ نہیں کرسکتے عالم آپ ان کے لیے دعا کریں"اپنے نرم ہاتھوں سے اسنے عالم کے گالوں پر موجود آنسو کو صاف کیا
جبکہ اسکی بات پر اپنا سر ہلاکر مسکراتے ہوے عالم نے اسے مزید سختی سے اپنے حصار میں لے لیا
°°°°°
"تم سے کچھ بات کرنی ہے پری باہر چل سکتی ہو" اسکی آواز سن کر پریشے نے اسکی طرف دیکھا سفید رنگ کے کمیز شلوار میں وہ بہت تھکا تھکا لگ رہا تھا
آج ظفر صاحب نے ڈسچارج ہوجانا تھا حویلی سے آے ہوے آج اسے دوسرا دن تھا یہاں رہ کر بھی اسکا سارا دھیان معتصم کی طرف تھا اسے اس وقت اپنی بیوی کی ضرورت تھی لیکن وہ یہاں تھی یہ بات سوچ کر اسے خود پر غصہ آرہا تھا اسے اپنے شوہر کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا
اسلیے اسنے یہی سوچا تھا کہ ظفر صاحب کے ڈسچارج ہوتے ہی وہ واپس حویلی چلی جاے گی لیکن اس سے پہلے ہی معتصم اب یہاں موجود تھا
"میں انتظار کررہا ہوں تم باہر آجاؤ" بنا اسکی بات سنے وہ باہر چلا گیا جس پر کچھ دیر سوچ کر وہ بھی باہر ہی چلی گئی ہاسپٹل کے باہر بنی بینچ پر وہ ٹانگ پر ٹانگ جماے بیٹھا تھا
خاموشی سے جاکر وہ بینچ پر اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گئی
"کیا یہ سب میری وجہ سے ہوا"
"کیا" اسنے اچھنبے سے کہا
"تمہارے بابا کی جو حالت ہے شاید اسکا ذمیدار میں ہوں"
"اور تم کیسے ذمیدار ہوے انکی حالت کے"
"ڈاکٹر نے کہا ہے انہوں نے کسی چیز کا اسٹریس لیا ہے میں نے کتنا تماشہ لگایا تھا وہاں تمہارے گھر پر کس طرح زبردستی کرکے تمہیں وہاں سے لے کر آیا تھا میں بس تمہیں گھر لے جانے کے لیے آیا تھا تاکہ دادا سائیں جو تمہارے بارے میں کچھ کہنے کا موقع نہ ملے لیکن پھر تمہیں اس شخص کے اتنے قریب رکھ کر میں غصے پر قابو نہیں رکھ پایا"
''معتصم اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے" پریشے کی بات سن کر اسنے اپنے گھنے بالوں میں ہاتھ پھنسا کر گہرا سانس لیا
"پری ماں باپ کیا ہوتے ہیں میں بہت اچھے سے جانتا ہوں انکی اہمیت کیا ہوتی ہے میں جانتا ہوں میں بہت چھوٹا تھا جب ایک کار ایکسیڈنٹ میں وہ دونوں مجھے چھوڑ کر چلے گئے شاید دس سال یا بارہ یاد نہیں" اسنے اپنے شانے آچکاے
"میں اس بھری دنیا میں اپنے اپنے آپ کو بہت تنہا محسوس کرنے لگا تھا سب کو میری یہ تنہائی محسوس ہورہی تھی اسلیے ہر کوئی مجھے بھرپور توجہ اور محبت دینے لگا سب نے مجھے لاڈو میں پالا تھا میں جس چیز کی فرمائش کردیتا اسے میرا کردیتے اور میری یہی عادت تمہارے معاملے میں بھی رہی"
"مجھے تم سے محبت ہوئی تھی اور پھر تم میری ضد بن گئیں میں بس کسی بھی طرح ہمیشہ اپنی پسند کی ہوئی چیز کو اپنانا چاہتا تھا اسکے لیے مجھے جو راستہ ٹھیک لگا میں نے اپنا لیا تم میری محبت تھیں اور پھر تم میری محرم بنیں اور مجھے اپنے محرم سے عشق ہوگیا بےانہتا ، میں نے تم سے زبردستی نکاح صرف اسلیے کیا تھا تاکہ مجھے یہ اطمینان رہے کہ تم میری ہو" اسنے ایک گہری سانس اندر کی طرف کھینچی
"تم اپنی ضد میں میری ماں کو بھی بیچ میں میں لے آے تم نے کہا تمہیں اندازہ ہے کہ ماں باپ کیا ہوتے ہیں پھر بھی تم نے وہ ایکسیڈنٹ کروادیا"
"نہیں میں نے کچھ نہیں کیا تھا وہ سب صرف ایک حادثہ تھا جو کسی بھی انسان کے ساتھ ہوجاتا ہے میں نے بس اس سب کا فائدہ اٹھایا تھا تاکہ تم ڈر کر مجھ سے نکاح کرلو" یہ بات پریشے کے لیے کافی حیران کن تھی
"لیکن میں نے جو کیا تھا وہ غلط تھا میں کون ہوتا ہوں تمہیں اپنی زندگی میں زبردستی شامل کرنے والا یہ تمہاری زندگی ہے اور تمہیں اس پر پورا اختیار ہے میں جانتا ہوں کہ ، کہ وصی آج بھی تمہارا منتظر ہے میں پرسوں کی فلائٹ سے کینیڈا جارہا ہوں ہمارے گھر میں تمہارا انتظار کروں گا اگر تم آگئیں تو میں یہی سمجھوں گا کہ تم نے اس رشتے کو قبول کرلیا ہے"
"اور اگر میں نہیں آئی تو"
"تو میں تمہیں" اسے جیسے الفاظ ادا کرنے مشکل لگ رہے تھے
"میں تمہیں آز--آزاد کردوں گا" اپنی بات کہہ کر وہ رکا نہیں تھا
گھر کے ماحول میں عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی ظفر صاحب گھر آچکے تھے اور اسے یہ بات بھی پتہ چل چکی تھی کہ اماں جان اسکی شادی کے فورا بعد ہی ظفر صاحب جو ساری باتیں بتاچکی تھیں
یہ جان کر کہ انکے اپنے انکے اتنے قریب ہیں دل میں ملنے کی خواہش تو کافی پیدا تھی لیکن یہ سوچ کر اس خواہش کو دبالیا کہ دوسری طرف تو کسی کو اس بات کا علم بھی نہیں تھا کہ انکا ایک بھائی بھی ہے
لیکن اب سب کچھ جاننے کے بعد حویلی والے یہ چاہتے تھے کہ اماں جان سمیت سب گھر والے حویلی آجائیں کیونکہ ان سب کی اصل جگہ وہ حویلی ہی تھی
°°°°°
بابا کو میڈیسن دے کر وہ کمرے سے نکلی باہر کھلی ہوا میں جاکر سانس لینے لگی جب اسے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا اسنے مڑ کر دیکھا وہاں وصی کھڑا تھا اسکی ناک پر ابھی بھی ہلکا سا زخم تھا معتصم کی دی وہ چوٹ اب کافی کم ہوچکی تھی
"تم نے کیا سوچا ہے پری"
"میں نے کیا سوچا ہے" اسنے لاپروائی سے پوچھا
"معتصم ہے بارے میں کیا تم اب بھی اسکے ساتھ رہنا چاہتی ہو بھول تو نہیں گئیں کہ وہ تمہیں کس طرح اس گھر سے لے کر گیا تھا"
"وصی تم کیا چاہتے ہو"
"میں تمہیں چاہتا ہوں پری اور میں آج بھی اس انتظار میں ہوں کہ تم کب میرے پاس واپس آؤ گی"
"تمہیں اندازہ ہے جو تم چاہ رہے ہو اگر وہ ہوگیا تو کتنے رشتے خراب ہوجائینگے"
"مجھے پرواہ نہیں ہے"
"لیکن مجھے ہے" اسنے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا
"میں بھلا کیوں اپنی بہن کا گھر برباد کروں گی ہم دونوں صرف ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے درمیان میں ایک رشتہ جڑا ہوا تھا اسکے علاؤہ ہمارے درمیان اور کچھ نہیں تھا عینہ سے زیادہ تمہیں اور کوئی اچھا ساتھی نہیں مل سکتا ہے وصی چاہنے سے زیادہ چاہے جانے کا احساس خاص ہوتا ہے اور میں یہ بات جانتی ہوں تم بھی جان لو اسکی محبت کو اور مت آزماؤ"
"وہ مجھ سے محبت نہیں کرتی ہے ہم بس دوست تھے"
"کرتی ہے تم نے کبھی دیکھا ہی نہیں کہ وہ تم سے کتنی محبت کرتی ہے لیکن اسنے کبھی اس بات کا اقرار ہی نہیں کیا پتہ ہے وصی میں معتصم کو نہیں چھوڑ سکتی ہوں کیونکہ مجھے احساس ہوچکا ہے کہ وہ شخص میرے لیے کتنا اہم ہے خدا نے بن مانگے ہی مجھے وہ شخص دے دیا جس کی خواہش پتہ نہیں کتنی لڑکیوں نے کی تھیں معتصم میرے لیے خدا کا تحفہ ہے اور میں اب اس تحفے کی مزید ناشکری نہیں کروں گی میں معتصم کے ساتھ خوش ہوں جو مجھے چاہتا ہے اور میں بھی اسے چاہنے لگی ہوں تم بھی عینہ کے ساتھ زندگی شروع کرو جو تمہیں چاہتی ہے اور مجھے یقین ہے تم بھی اسے چاہنے لگو گے" اسکے چہرے پر ایک الگ ہی سکون تھا
اطمینان بھرے لہجے میں کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئی
°°°°°
اسکا سارا تیار شدہ سامان اسکے سامنے پڑا تھا جبکہ نظریں بار بار دروازیں کی طرف اٹھ رہی تھیں
تیں گھنٹے بعد اسکی فلائٹ تھی اور اس وقت وہ اپنے گھر کے لاؤنج میں بیٹھا اسکا انتظار کررہا تھا جبکہ سوچو کا رخ اپنی ہی کہی باتیں تھیں
"میں نے اس سے کہہ دیا کہ میں اسے چھوڑ دوں گا لیکن کیا میں اسے چھوڑ سکتا ہوں نہیں معتصم شاہ مر تو سکتا ہے لیکن پریشے شاہ کو چھوڑ نہیں سکتا اگر اسنے مجھ سے علیحدگی کا کہہ دیا تو میں کیا کروں گا"
بے چینی سے کہتے ہوے وہ اپنی جگہ سے اٹھا اس سے جدا ہونے کا خیال ہی جیسے سانس روک رہا تھا وہ انہی سوچو میں گم کھڑا تھا جب پیچھے سے اسے نرم آواز سنائی دی
"معتصم" حیرت سے مڑ کر اسنے وہاں کھڑی لڑکی کو دیکھا اور رکا ہوا سانس جیسے بحال ہونے لگا
"پری" ہولے سے اسکے لبوں پر حرکت ہوئی
پریشے نے مسکراتے ہوے اسے دیکھا اور بھاگتے ہوے زمین سے چند انچ اوپر ہوکر اسکی گردن میں اپنی بانہیں ڈال کر اسکے گلے لگ گئی اور اسکے ایسا کرتے ہی معتصم کو احساس ہو چکا تھا کہ وہ کوئی خواب نہیں ہے وہ حقیقت ہے
"اگر تم نہیں آتیں تو میں مرجاتا شکریہ مجھے زندگی دینے کے لیے"معتصم نے اسکے بالوں پر اپنے لب رکھ کر اسنے مزید سختی سے خود میں بھینچ لیا
"معتصم تمہاری اتنی سخت گرفت پر میرا سانس رک رہا ہے" اسنے اس سے دور ہونے کی کوشش کی اور زمین سے چند انچ اوپر اپنے پاؤں ہلاے اسکے ایسا کرتے ہی معتصم نے اپنی گرفت ہلکی کردی
"اب تم خود میرے پاس آئی ہو اب تمہیں دور نہیں جانے دوں گا"
"میں اب تم سے دور جانا بھی نہیں چاہتی" اسکے کہتے ہی معتصم نے اسکے بالوں میں ہاتھ پھنسا کر اسکے لبوں کو اپنے لبوں میں قید کرلیا اسکی اس حرکت پر پریشے نے سختی سے اسکے کالر کو اپنی مٹھیوں میں بھینچ لیا
فون بجنے پر معتصم نے اسکی سانسوں کو آزاد کیا اور گھور کر فون کو دیکھنے لگا جو معتصم کا تھا جس پر اس وقت آفس ورکر کی کال آرہی تھی
"اٹھا لو"
"نہیں کوئی لاکھ فون کرے میں نہیں اٹھاؤں گا میں اس وقت ہم دونوں کے درمیاں کسی تیسرے کی موجودگی نہیں چاہتا ہوں" اسنے نرمی سے اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا اور اپنے کمرے کی طرف لے جانے لگا
"معتصم تم پک کرلو ضروری کام بھی تو ہوسکتا ہے"
"مجھے پرواہ نہیں ہے"معتصم نے اسے بیڈ پر لٹا دیا اور اسے پھر سے کچھ کہتا دیکھ کر اسکے لبوں پر اپنی انگلی رکھ دی
"کچھ مت کہنا" اسکے ہونٹوں سے انگلی ہٹا کر وہ اسکے لبوں پر جھک گیا اور انہیں آزاد کرکے اسکا چہرہ دیکھنے لگا سرخ چہرہ لیے وہ گہرے گہرے سانس لے رہی تھی
"معتصم" اسے دوبارہ خود پر جھکتے دیکھ کر اسنے گھبرا کر کہا
"بہت تڑپایا ہے تم نے مجھے اسکا حساب تو دینا پڑے گا" اسکے کندھے سے شرٹ سرکا کر اسنے وہاں اپنے لب رکھ دیے اور اسکی گردن پر جھک گیا
پریشے نے سختی سے اپنی آنکھیں بند کرلیں جبکہ اسکی اس حرکت پر وہ مسکراتے ہوے اسکی بند آنکھوں پر اپنے لب رکھ کر اس پر حاوی ہوتا چلا گیا
°°°°°
گہرا سانس کے کر اسنے خود کو بیڈ پر گرا لیا جب کمرے کا دروازہ کھول کر عینہ داخل ہوئی اسنے غور سے اسے دیکھا کیا وہ اتنا انجان تھا کہ اسے علم ہی نہیں ہوسکا کہ اسکی دوست اس سے محبت کرتی ہے
"کھانا لاؤں وصی" اسکے کہنے پر وصی نے اپنا سر نفی میں ہلادیا اور اسے اپنے پاس بلایا جبکہ اسکے بلانے پر وہ حیران ہوتی اسکے قریب جاکر بیٹھ گئی
"تمہیں پتہ ہے عینہ آج پری نے مجھے ایک بات بتائی"
"کیا"
"کہ میری بیوی مجھ سے محبت کرتی ہے"
"افسوس ہے کہ یہ بات آپ کو کسی اور سے پتہ چلی ہے"
"تم نے کبھی مجھے بتایا کیوں نہیں"
"موقع نہیں ملا اور میں ڈرتی بھی تھی کہ یہ بات جاننے کے بعد آپ ہماری دوستی ختم نہ کردیں کیونکہ میں جانتی تھی آپ ہمیشہ سے پری کو پسند کرتے تھے"
"ہاں میں کرتا تھا اب بھی کرتا ہوں بس ایسا کوئی موقع چاہتا تھا جس سے میں پری اور معتصم کے بیچ دوری پیدا کردوں لیکن میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے ہونا تو وہی ہے جو رب کی رضا ہے اور یہی رب کی رضا تھی پری معتصم کے نصیب میں تھی اور تم میرے میں ساری پرانی باتوں کو بھول کر نئی زندگی شروع کرنا چاہتا ہوں عینہ" وہ حیرت سے اسکا یہ بدلا ہوا روپ دیکھ رہی تھی
''جب سے شادی ہوئی ہے میرا تمہارے ساتھ رویہ"
"وصی آپ نے ہی تو کہا نہ کہ پرانی باتوں کو بھول کر نئی زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں تو پھر بھول جائیں ان باتوں کو مت دہرائیں"
"میں پوری کوشش کروں گا کہ تمہارے ساتھ یہ رشتہ ایمانداری اور خلوص سے نبھاؤں اور تمہیں میری طرف سے کبھی کسی چیز کی شکایت نہ ہو" اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ کر وصی نے اسے اپنے حصار میں لے لیا
اور عینہ نے اپنی آنکھیں سکون سے موند کر دل میں خدا کا شکر ادا کیا جس نے اسکی محبت کو آج مکمل طور پر اسکا بنادیا تھا
(پانچ سال بعد)
"ایسے گھور کیوں رہی ہو"
"دو گھنٹے پہلے میں نے فون کیا تھا اور تم اب آرہے ہو"
"سوری جان کام میں پھنس گیا تھا تم غصہ مت کرو تمہاری صحت کے لیے اچھا نہیں ہے" معتصم نے نرمی سے اپنی ناراض بیوی کو دیکھتے ہوے کہا جو باہر بیٹھی اسکا ہی انتظار کررہی اور اب اس کے وہاں پہنچتے ہی اس کمرے میں جارہی تھی جہاں عینہ تھی
"سب پتہ ہے مجھے میری کوئی فکر نہیں ہے بس اپنے بےبی کی فکر ہے"
"ہاں بےبی کی فکر تو ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بےبی سے زیادہ اپنی بیوی کی فکر ہے"
معتصم نے گہری نظروں سے اسکے وجود کو دیکھتے ہوے کہا اور اسکے ساتھ ہی کمرے میں داخل ہوگیا
جہاں عینہ مظفر صاحب الماس بیگم حفصہ اور وصی موجود تھے جبکہ باقی گھر کے افراد بھی ان سے ملنے کے لیے آنے والے تھے
اسنے سب سے پہلے وصی کو مبارک باد دی اور اسکے بعد کاٹ میں لیٹے اس ننھے وجود کو دیکھا
"کیسی لگی"وصی نے راے مانگنا ضروری سمجھا
"ماشاءاللہ بہت پیاری ہے اپنے باپ پر جو نہیں گئی"اسکے کہنے پر وہاں سب کی ہنسی چھوٹی جس پر وصی فقط منہ بنا کر رہ گیا
ظفر صاحب کے ٹھیک ہوتے ہی ثقلین صاحب ان سب کو حویلی لے جاچکے تھے کیونکہ انکا یہی کہنا تھا کہ یہ حویلی ہی انکی اصلی جگہ ہے اور اب وہ سب وہیں شاہ حویلی میں رہتے تھے جہاں اب پہلے سے زیادہ چہل پہل ہوتی تھی
°°°°°
"ہم حویلی نہیں جائینگے" ہاسپٹل سے واپسی پر جب گاڑی اسکے گھر کی طرف جاتی دکھائی دی تو پریشے نے اچھنبے سے پوچھا
"نہیں ڈاکٹر نے تمہیں ویسے بھی سفر سے منع کیا تھا حویلی سے یہاں بھی میں صرف تمہاری ضد پر لایا تھا کہ تمہیں عینہ کی بیٹی دیکھنی ہے ہم یہیں رکیں گے کم از کم آج تو حویلی نہیں جائینگے"اسے گاڑی سے اتار کر وہ اندر گھر کے اندر لے گیا
°°°°°
رات کے کسی پہر تکلیف سے اسکی آنکھ کھل چکی تھی اسنے تکلیف میں ہی معتصم کی طرف ہاتھ مارا
نیند تو اسکی ویسے بھی کچی تھی جبکہ ان دونوں پریشے کی وجہ سے وہ نیند میں بھی الرٹ ہوکر سوتا تھا اسکے ہاتھ مارنے پر وہ نیند سے اٹھا لیکن پھر اسکی حالت دیکھ کر نیند بھک کر اڑ گئی بنا وقت ضائع کیے اسنے پریشے کو اپنی گود میں اٹھالیا اور تیزی سے گاڑی ڈرائیو کرکے اسے لے کر ہاسپٹل پہنچا
پریشانی میں اسنے سب سے پہلے صائمہ بیگم کو کال ملائی کیونکہ عینہ سے ملنے کی وجہ سے وہ سب لوگ اسی شہر میں موجود تھے
°°°°°
"میں ہوں عالم شاہ ایک زمیندار" زریام شاہ نے اپنے ڈمپل کی بھرپور نمائش کرتے ہوے کہا اسنے اپنے سائز کے مطابق لائٹ ییلو شرٹ کے ساتھ بلیو جینز پہنی ہوئی تھی جبکہ پریشے کے مفلر کو اس اسٹائل میں اوڑھا ہوا تھا جس طرح عالم اپنی شال ڈالتا ہے
"میں ہوں معتصم شاہ شاہ انتستری کا مالک" ماہر شاہ نے فخر سے کہا
"تم نہیں ہو میں معتصم شاہ میں ہوں معتصم شاہ" یہ آواز ساحر شاہ کی تھی
"تم عصیم شاہ ہو کیونکہ تم انکے بیٹے ہو"
"ہاں تو تم بھی انکے بیٹے ہو ماہر" ساحر نے ناک چڑھا کر کہا
"کتنی بار بولا ہے مجھے لالا بولا کرو بڑا ہوں تم سے"
"صرف چار منٹ بڑے ہو"
"بڑا بڑا ہوتا ہے" وہ اب بھی اپنی بات پر قائم تھا
"بس کرو تم دونوں اسلیے میں نہیں کھیلتا تم دونوں کے ساتھ ہر وقت لڑتے رہتے ہو" زریام نے تنگ آکر کہا جس پر وہ دونوں بھی اپنے کھیل کی طرف متوجہ ہوچکے تھے
"بس بہت ہوا یہ کھیل جاکر جلدی سے تیار ہوجاؤ"
"کیوں مامی سائیں کیا ہوا ہے"
"کتنی بار بولا ہے کہ یہ بڑی امی ہیں" اپنے چھوٹے سے ماتھے پر ہاتھ مار کر ماہر نے جیسے ساحر کی عقل پر ماتم کیا
"جی نہیں یہ مامی ہیں"
"نہیں یہ بڑی امی ہیں"آئرہ نے گہرا سانس لے کر ان دونوں کو دیکھا ساحر اور ماہر جن میں پیار محبت کم اور لڑائی جھگڑا زیادہ پایا جاتا تھا دکھنے میں وہ دونوں بلکل ایک جیسے تھے اگر کپڑے ایک جیسے پہن لیتے تو گھر کے افراد بھی کنفیوژ ہوجاتے تھے کہ ساحر کون ہے اور ماہر کون
"بس بند کرو یہ بحث خالا چچی مامی بڑی امی جو بولنا ہے بولو لیکن ابھی جاکر تیار ہوجاؤ"
"تیار کس لیے اماں سائیں ہم کھیل رہے ہیں" زریام نے منہ بنا کر اپنی ماں کو دیکھا
"تیار اس لیے میرے لال کیونکہ آپ سب کی پرنسسز آچکی ہے"
"کیاااا" وہ تینوں ایک ساتھ چیخ مار کر وہاں سے بھاگ گئے کیونکہ انہیں تیار ہوکر اپنی پرنسسز کے پاس جانا تھا حویلی میں ان بچوں کو جس چیز کی خواہش تھی وہ تھی ایک لڑکی جسے وہ اپنی پرنسسز کہتے اور اب انکی پرنسسز آگئی تھی
°°°°°
"بابا سائیں اٹھ جائیں پرنسسز آگئی ہے"وہ بھاگتا ہوا کمرے میں آیا اور سوتے ہوے عالم کی مونچھ کھینچ کر اسے جگانے لگا
"تم دونوں ماں بیٹے کو پتہ نہیں میری مونچھ سے کیا دشمنی ہے"
"بابا سائیں پرنسسز آگئی ہے اس سے ملنے جانا ہے اٹھ جائیں" اسے دوبارہ لیٹتے دیکھ کر وہ اسکے پیٹ پر بیٹھ کر اسے اٹھانے لگا جب آئرہ کمرے میں داخل ہوئی
"اٹھ گیا میں بس خوش جاؤ جلدی سے تیار ہوجاؤ ایسی حالت میں تو نہیں جاؤ گے نہ اپنی پرنسسز سے ملنے کے لیے جاؤ اماں سائیں کے پاس وہ تیار کردیں گی"
"اماں سائیں تیار کردیں" بیڈ سے اتر کر وہ آئرہ کے قریب آیا
"اپنی نہیں میری اماں سائیں کے پاس جاؤ"
"اوہ اچھا"عالم کی بات سنتے ہی وہ کمرے سے بھاگ گیا کیونکہ اسے تیار ہونے کی جلدی تھی
اسکے کمرے سے جاتے ہی وہ آئرہ کے قریب آیا اور اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لے لیا جو الماری سے اپنے کپڑے نکال رہی تھی
"تم نے میری نیند خراب کردی ہے"
"میں نے کب کی آپ کے لاڈلے نے کی ہے"
"لیکن اسے بھیجا تو تم نے ہی ہوگا"
"ہاں تو اگر میں اٹھانے آتی تو آپ پھر مجھے تنگ کرتے"
"وہ تو میں اب بھی کروں گا"
"عالم نہیں جاکر تیار ہوجائیں" اسکی بات کو نظر انداز کرکے اسنے آئرہ کے بھرے بھرے وجود سے چادر ہٹائی اور جھک کر اسکے پیٹ پر اپنے لب رکھ دیے
"عالم"
"جان عالم اتنے پیار سے مت بولا کرو پھر میری نیند نہیں نیت خراب ہو جاتی ہے" اسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لے کر وہ اسکے لبوں پر جھک گیا
°°°°°
اپنی گود میں دو سال کے شاہ میر کو لیے وہ جلدی سے کمرے سے نکلی ہاتھ میں اسنے شاہ میر کا سارا سامان پکڑا ہوا تھا تاکہ اسے جلدی سے تیار کرکے عصیم کے آتے ہی فورا باہر سے ہی ہاسپٹل کے لیے نکل جائیں جو آدھے گھنٹے کا کہہ کر ایک گھنٹے میں بھی نہیں آیا تھا
وہاں رکھے چھوٹے سے کاؤچ پر اسنے شاہ میر کو لٹا دیا اور اسکے کپڑے پہنانے لگی کیونکہ اس وقت اسنے صرف پیمپر پہنا ہوا تھا
"اماں سائیں"ساحر کی آواز پر اسنے مڑ کر دیکھا اور حیرت سے اسکا منہ کھلا رہ گیا کیونکہ اسکے سارے کپڑوں پر کیچپ گرا ہوا تھا
"یہ کیا کردیا"
"میں نے نہیں کیا اماں سائیں یہ ساحر نے میرے اوپر گرایا ہے" اسنے تھوڑے فاصلے پر کھڑے ماہر کی طرف اشارہ کیا
"نہیں اماں سائیں یہ جھوٹ بول رہا ہے یہ اسنے خود اپنے اوپر گرایا تاکہ مجھ پر الزام لگا سکے اور میری ڈانٹ پٹے اور یہ ساحر ہے میں ماہر ہوں" اسنے جلدی سے صفائی پیش کی
"چلو تم میرے ساتھ دماغ خراب کردیا تم لوگوں نے میرا سب ہاسپٹل جاچکے ہیں ایک میں ہی ان آفتوں میں پھنسی ہوئی ہوں" ساحر کا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے اندر کی طرف لے گئی اور جلدی جلدی اسکے کپڑے چینج کروا کر باہر نکلی
لیکن کاؤچ پر اب شاہ میر نہیں تھا خالی کاؤچ دیکھ کر اسنے پریشانی سے ارد گرد دیکھا اور پھر وہ اسے مل گیا پیمپر پہنے چھوٹے چھوٹے قدموں سے بھاگتا ہوا وہ باہر کی طرف بھاگ رہا تھا کیونکہ اسکا باپ جو آگیا تھا
عصیم نے جھک کر اسے اپنی گود میں اٹھایا اور اسکے گال پر پیار کردیا
"ادھر آؤ شرم تو آ نہیں رہی ہے ایسے ہی پیمپر پہنے پورے گھر میں گھوم رہے ہو اور آپ بڑی جلدی آگئے" اسے اپنی گود میں کے کر اسنے عصیم کو گھورا
"یار مجھے کیوں ڈانٹ رہی ہو کام میں تھوڑا پھنس گیا تھا اور اسے بھی مت ڈانٹو تم بھی تو پیمپر پہن کر پورے گھر میں گھومتی رہتی تھیں"اسکی بات سن کر کسوا کا منہ کھلا رہ گیا
"آپ کو شرم نہیں آتی میں پیمپر میں گھومتی تھی اور آپ مجھے دیکھتے تھے"
"ایسے نظارے کون مس کرے گا" شرارت سے اسنے کسوا کو دیکھا اور اسکے چہرے کے تاثرات دیکھ کر اسکا قہقہہ گونجا
°°°°°
"بڑے بابا ہمیں بھی پرنسسز دیکھنی ہے" شرافت سے ایک لائن میں کھڑے ہو کر ان تینوں نے کہا
جس پر مسکراتے ہوے معتصم نے اپنی ننھی سی جان کو اپنی گود میں لیا اور ان تینوں کے برابر بیٹھ گیا تاکہ وہ ٹھیک سے اپنی پرنسسز کو دیکھ سکیں جس کا انہیں کب سے انتظار تھا
"کتنی ملائم ہے" زریام نے اسکے گلابی گالوں کو چھوتے ہوے کہا جس کی آنکھیں بند تھیں لیکن اچانک ہی وہ رونا شروع ہوچکی تھی اور اسے روتے دیکھ کر زریام گھبرا چکا تھا
"بڑے بابا میں نے تو کچھ نہیں کیا"
"ہاں میری جان تم نے کچھ نہیں کیا گھبراؤ مت" اسے گھبراتے دیکھ کر معتصم نے پیار سے کہا
"لالا اسکا نام کیا رکھیں گے" کسوا نے معتصم کی گود سے اسے لے کر کہا
"میرے خیال میں یہی اسکا نام رکھ دیں گے انہیں ہی تو اتنا انتظار تھا پرنسسز کا" اسنے ایک ساتھ بیٹھے ساحر ماہر اور زریام کو دیکھتے ہوے کہا
"جمیلہ رکھ دیتے ہیں" ماہر نے فورا کہا جس پر ساحر نے منہ بنا کر اسے دیکھا
"یہ بھی کوئی رکھنے والا نام ہے ہم تو آصفہ رکھیں گے"
"چھی آصفہ بھی کوئی رکھنے والا نام ہے ہم رائمہ رکھیں گے"
"جی نہیں میرا والا نام رکھیں گے" ساحر نے اپنا ہاتھ اپنی کمر پر رکھا جبکہ اپنے بھائی کی دیکھا دیکھی ماہر بھی میدان میں آگیا
"نہیں میرا والا"ان تینوں کی لڑائی دیکھ کر معتصم گہری سانس لے کر رہ گیا
"میرا خیال ہے ہم خود ہی اسکا نام رکھ لیں گے"
"بلکل اور اسکا نام میں رکھو گی" اب وہ بچی آئرہ کی گود میں تھی
"ویسے اسے دیکھ کر اسکا نام رکھا جائے تو گوری یا گلابو اچھا لگے گا"
"بہت اچھا ہے اگر تمہارے بیٹی ہوئی تو اسکا نام رکھ لینا"عالم کی بات سن کر معتصم نے اپنا مشہورہ دے دیا
"میں تو بس ایک بات بتا رہا تھا نہیں رکھنا تو مت رکھو" اسکی بات سن کر وہ کندھے اچکا کر رہ گیا جبکہ ان سب کو نظر انداز کرکے آئرہ بس اس بچی کا نام سوچ رہی تھی
جو تھوڑی ہی دیر بعد وہ سوچ بھی چکی تھی اور اسکا بتایا ہوا نام سب کو پسند بھی آیا تھا جب ہی سب لوگ جہاں پہلے اسے بےبی یا پرنسسز بلا رہے تھے اب اسکی جگہ نور پکار رہے تھے
°°°°°
حویلی آتے ہی اسکا شاندار استقبال ہوا ثمرین بیگم نے اسکے اور نور کے سر پر نوٹ وار کر ملازم کو دے دیے
پوری حویلی کو سجایا ہوا تھا ہر طرف غبارے پھیلے ہوے تھے جس سے بچے کھیل رہے تھے اور دیوار پر ویلکم بےبی گرل لکھا ہوا تھا اور وہ مسکراتے ہوے اس سجی ہوئی حویلی کو دیکھ رہی تھی
°°°°°
"شاہ آپ یہاں کیا کررہے ہیں"پوری حویلی میں دیکھنے کے بعد بھی جب وہ اسے کہیں نہیں ملا تو اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ چھت پر آگئی جہاں وہ اسے مل چکا تھا
"میں تمہارا انتظار کررہا تھا" کسوا کا ہاتھ پکڑ کر عصیم نے اسے اپنے قریب کرلیا
"جیسے آپ تو جانتے تھے میں آنے والی ہوں"
"بلکل مجھے پتہ تھا تم مجھے ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں تک آجاؤ گی"
"اچھا تو میں نے آپ کو ڈھونڈ لیا اب نیچے چلیں مجھے ٹھنڈ لگ رہی ہے"
''میں تھوڑی دیر میں آرہا ہوں تم تب تک کمرے میں موجود ان طوفانوں کو بابا سائیں کے کمرے میں پھینک وادو"
"کوئی اپنی اولاد کے لیے اس طرح کہتا ہے"
"اولاد ہی ایسی ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں بہت غصہ آتا ہے مجھے جب یہ لوگ میرے رمینس میں اپنی چھوٹی سی ٹانگ آڑاتے ہیں"اسکے کہنے کے انداز پر کسوا کو بے ساختہ ہنسی آگئی
"میں انہیں چچا سائیں کے کمرے میں بھجوا بھی دوں گی تو بھی کوئی فائدہ نہیں وہ واپس اٹھ کر کمرے میں آجائیں گے تو اپنی یہ پلینینگ بند کریں اور نیچے چلیں"
"تو ہم نیچے ہی نہیں جاتے ہیں تاکہ وہ طوفان ہمیں ڈسٹرب ہی نہ کرسکے"
"آپ کیوں میرے معصوم بچوں کے پیچھے پڑے ہیں" اسنے اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر کہا
"ہاں ایک تمہارے بچے معصوم اور انکی ماں معصوم بس ایک باپ ظالم ہے"
"ہاں یہ تو ہے" اسکی بات سن کر بےاختیار کسوا کے لبوں سے نکلا لیکن اپنی کہی بات کا اندازہ ہوتے ہی قدم پیچھے کی طرف کیے وہ بھاگنے لگی
لیکن اس کے نیچے جانے سے پہلے ہی عصیم اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جاب کھینچ چکا تھا
"بہت ظالم ہوں میں تو تھوڑا ظلم کردیتا ہوں"
"شاہ نہیں میں مذاق" اسکے باقی کے لفظوں کو عصیم نے اپنے لبوں میں قید کرلیا اور کافی دیر بعد اسکی سانسوں کو آزاد کیا
"آپ بہت برے ہیں"
"وہ تو میں ہوں" مسکراتے ہوے اسنے کسوا کو اپنے سینے سے لگا کر آنکھیں موند لیں
°°°°°
اسنے زریام کے بالوں میں ہاتھ پھیرا جو ابھی کچھ دیر پہلے ہی سویا تھا جبکہ سوتے میں بھی اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی جو اسکے گال پر پڑتے ڈمپل کو نمایاں کررہی تھی
آئرہ نے جھک کر اسنے ڈمپل پر اپنے لب رکھے جب اپنے پیچھے سے آتی عالم کی آواز پر اسنے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا جو ابھی کمرے میں آیا تھا
"یہ تو غلط بات ہے میرے ڈمپل پر تو تم نے کبھی پیار نہیں کیا"
"ہاں تو آپ کا ڈمپل میرے بیٹے جتنا پیارا نہیں ہے"
"تمہارے بیٹے نے یہ ڈمپل بھی مجھ سے ہی لیا ہے تو ایک جیسا ہی ہوا چلو میرے ڈمپل پر بھی پیار کرو"اسے حکم دے کر اسنے اپنا گال اسکے لبوں کے قریب کیا
چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی اور اس ہلکی سی مسکراہٹ میں بھی اسکا گہرا ڈمپل دکھ رہا تھا
آئرہ نے اسکے ڈمپل پر اپنے لب رکھ دیے
"آئرہ نور کو دیکھ کر اب میرا بھی دل چاہ رہا ہے کہ ہمارے بھی بیٹی ہو" اپنی شال صوفے پر پھینک کر وہ آئرہ کی گود میں لیٹ گیا
"یہ بات تو آپ نے جب بھی کہی تھی جب زریام ہونے والا تھا"
"ہاں اور میں اب بھی کہہ رہا ہوں اور جب تک کہتا رہوں گا جب تک میرے بیٹی نہیں ہوجاتی ہے"
"لیکن میرا اب ایسا کوئی ارادہ نہیں اگر اب بھی بیٹا ہی ہوا تو میرے لیے یہ دونوں ہی کافی ہیں"
"لیکن میرا ارادہ تو ہے"
"تو خود ہی کرتے رہیے گا اور بیٹی بھی خود ہی پیدا کرلیے گا"آئرہ نے اسی اپنی گود سے اٹھانا چاہا لیکن وہ اسی طرح لیٹا رہا اور اسکی گردن پر ہاتھ رکھ کر عالم نے اسکا سر جھکایا اور اپنی پیشانی پر اسکی پیشانی ٹکا دی
"میں کیسے کروں گا میں تو تم سے مکمل ہوں اور تمہارے بنا ادھورا ہوں تو اسلیے تمہیں ہی اس کام میں میری ہیلپ کرنی ہوگی" اسنے معصومیت سے کہا جبکہ اسکی بات سن کر آئرہ نے مسکراتے ہوے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے جبکہ اسکا لمس پاکر عالم نے سکون سے اپنی آنکھیں موند لیں
°°°°°
"یہ کتنی پیاری ہے نہ معتصم"
"تم نے اب دیکھا ہے"
"نہیں کہا آج ہے" اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ بیڈ پر اسکے قریب آکر لیٹ گیا اور اسکی گود میں موجود نور کو اپنی گود میں لے لیا
"پیاری کیسے نہیں ہوگی معتصم شاہ کی بیٹی ہے" اسکی بات سن کر پریشے نے گھور کر اسے دیکھا
"ہاں اسے دنیا میں تم ہی تو لاے تھے"
"بیوی لانے کا سبب تو میں ہی بنا تھا"
"کتنے بدتمیز ہو تم"
"شاید تم بےشرم کہنا چاہ رہی ہو"
"نہیں میں اس سے بھی بڑا لفظ کہنا چاہتی ہوں لیکن سمجھ نہیں آتا کیا کہوں کیونکہ بےشرم لفظ تمہارے لیے بہت چھوٹا لفظ ہے"
"اب جیسا بھی ہوں تمہارا ہی ہوں"نور کو اپنے سینے پر لٹا کر اسنے پریشے کو اپنے بازو کو حصار میں لے لیا
"میرے ہی رہنا"
"تمہارا ہی رہوں گا" اسکے کہنے پر پریشے نے کھلکھلا کر اسے دیکھا اور دوبارہ اپنا سر اسکے کندھے پر رکھ لیا اور اسکے ایسا کرتے ہی معتصم نے بھی سکون سے اپنی آنکھیں بند کرلیں کیونکہ اسکا سکون اسکی زندگی اسکی بیوی اور بیٹی اسکے پاس تھیں
°°°°°
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Ishq E Mehram Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ishq E Mehram written by Umm E Omama. Ishq E Mehram by Umm E Omamais a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment