Aseer E Dilbarram By Fari Sha New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday 13 September 2024

Aseer E Dilbarram By Fari Sha New Complete Romantic Novel

Aseer E Dilbarram By Fari Sha New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Aseer E Dilbarram By Fari Sha New Complete Romantic Novel 

Novel Name: Aseer E Dilbarram 

Writer Name:Fari Sha 

Category: Complete Novel

ہال اس وقت مہمانوں سے بھرا پڑا تھا بارات آچکی تھی اور نکاح کی رسم ادا ہوگئی تھی۔

ڈریسنگ روم میں بیٹھے اس نے پریشانی سے ادھر ادھر دیکھا دل میں ایک عجیب سی بے چینی نے ڈیرا جمایا ہوا تھا۔

"کیا ہوا پریشان کیوں لگ رہی ہو بھئی زرا مسکراؤ."اس کی دلی کیفیت سے انجان آسیہ نے اسے کہا مگر چہرے پر مسکراہٹ آ ہی نہیں سکی۔

جب دل میں ویرانیوں کا راج ہو تو باہر کا شور بھی کچھ نہیں کر پاتا۔۔

"آسیہ آپی امی کہہ رہی ہیں آپی کو لے آئیں ۔۔" اپنا شرارہ سنبھالتے اس کی چھوٹی بہن اندر آئی تو باہر سے حکم ملتے ہی وہ اور آسیہ اسے لئے باہر اسٹیج کی جانب بڑھیں تھیں۔

کمرے کے فلش اسکے چہرے پر پڑ رہے تھے کئی نگاہوں میں ستائش تھی تو کہیں رشک۔۔

دولہن بن کر اسکا روپ ہی الگ تھا وہ کسی ریاست کی شہزادی لگ رہی تھی ہمیشہ سے خود کو سنبھال کر رکھا تھا زمانے کی رنگینیوں سے بہت دور۔۔

اپنے دل کو مار کر اس نے یہ قربانی دی تھی ۔

اسے لے کر اسٹیج پر بیٹھایا ہی گیا تھا کہ دولہا کی آمد کا شور مچ گیا اور اسکی آمد کا سن سجی سنوری اس دولہن کا دل ہتھیلیوں کی دھڑکا تھا

وہ پوری شان سے اسٹیج پر آکر اسکے سامنے کھڑا ہوا تو لوگوں نے ان کی جوڑی سراہا۔

مگر یہ سراہنا محض کچھ وقت کا تھا۔

"اپنی آوارگی چھپانے کو میں ہی ملا تھا تمہیں مگر اچھا ہوا وقت رہتے مجھے تمہاری بدکاری کا علم ہوگیا۔۔" لوگوں کے شور کو چیرتی اس شخص کی تیز آواز گونجی تو سب کو سانپ سونگھ گیا۔۔

"یہ یہ کیا بکواس کررہے ہو؟" سب سے پہلے دولہن کا بھائی آگے آیا تھا۔

"بکواس نہیں حقیقت ہے اپنی بدکردار بہن کو میرے پلے باندھتے شرم نہیں آئی " اس دولہن کے منہ پر تصویریں پھینکتے اس نے زہر اگلا تو مہندی میں سجے ہاتھ کپکپائے تھے۔۔

اس میں ہمت نہیں تھی کہ اپنے لئے کچھ بول سکتی۔۔

"دماغ خراب ہوگیا ہے تیرا کیا بکواس کر رہا ہے کیا ہے یہ سب۔۔"اتنے لوگوں کے سامنے اس طرح کا تماشہ دولہے کا باپ آگے آیا تھا مگر وہ تو جیسے سب سوچ کر بیٹھا تھا۔

"میں مزید اس تماشے کا حصہ نہیں بن سکتا اور نا اسے اپنی بیوی کی حیثیت سے قبول کرسکتا ہوں اس لئے میں اسے آپ سب کی موجودگی میں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں۔۔", اسکے منہ سے جملے ادا ہوتے ہی ایک زناٹے دار تھپڑ اسکے منہ پر پڑا تھا۔

اسکا باپ دل تھام کے ایک طرف لڑکھڑایا وہیں اس کی ماں نے اپنی آنکھوں سے قیامت دیکھی۔

کچھ لمحے پہلے جو تین لفظ اسے اس شخص سے باندھ گئے تھے اب یہ تین لفظ اسے سہاگن سے طلاق یافتہ و بدکردار بنا گئے تھے۔

یہ صدمہ اتنا شدید تھا کہ وہ بنا کچھ بولے ہی ہوش وحواس سے غافل ہوئی تھی۔۔۔

_________________

سڑکوں پر رواں دواں ٹریفک لوگوں کی بھیڑ اور اسی بھیڑ ایک ایک حصہ وہ۔۔

تپتی دھوپ میں کتاب کا سایہ خود پر کئے گاڑی کی منتظر ۔۔۔

"افف اللہ جی یہ گاڑی کیوں نہیں آئی آج اب تو اتنا ٹائم ہوگیا ہے۔" چادر کے پلو سے چہرہ صاف کرتے اس نے گھڑی پر ایک نظر ڈالی جو اس وقت ساڑھے بارہ کا ہندسہ دیکھا رہی تھی یعنی اسے یہاں دھوپ میں جلتے ہوئے آدھا گھنٹہ ہونے کو آیا تھا کالج تو کب کا بند ہوچکا تھا۔

"ہائے اللّٰہ آج ہی سب کچھ ہونا تھا کاش موبائل ہی لے آتی کم از کم بابا کو ہی کال کر لیتی۔۔" دھوپ سے بے حال وہ سخت مضطرب تھی۔۔

ادھر ادھر دیکھتے وہ کبھی کھڑی دیکھتی تو کبھی ناک پر ٹکا چشمہ ٹھیک کرتی۔۔۔

اب تو روڈ پر بھی سناٹا ہونے لگا تھا کہ اتنی گرمی میں کوئی پاگل ہی یوں کھڑا ہوگا۔۔

ہاتھ کی پشت سے چہرہ صاف کرتے اس نے ایک بار پھر امید بھری نظروں سے روڈ کے بائیں جانب دیکھا تو آنکھوں میں چمک سی آئی تھی چہرے پر چھائی بیزاری ایک دم خوشی میں تبدیل ہوئی تھی۔۔

یہ مزاج کی تبدیلی سامنے آتی گاڑی کو دیکھ مزید بڑھتی جارہی تھی کہ اتنے میں ایک سیاہ مہران اسکے سامنے آکر رکی تو اسکی اٹکی سانس بحال ہوئی۔

"شکر ہے تم آگئے میں کب سے انکل کا انتظار کر رہی ہوں مگر وہ آئے ہی نہیں۔۔" کھڑکی سے اندر دیکھتے اسنے فوراً دکھڑا رویا۔۔

"پہلے اندر بیٹھ جاؤ پھر سارے رونے رو لینا اور میری بھی کچھ سن لینا بہنا۔۔"عزیر کی بات پر وہ جلدی سے دروازہ کھولتی اندر بیٹھی اور پھر اسکے بیٹھتے ہی عزیر نے گاڑی اسٹارٹ کی تھی۔

"اب بتاؤ نا اب کیوں چپ بیٹھے ہو ؟ پتا ہے میں کب سے اتنی گرمی میں کھڑی ہوں اوپر سے سناٹا مجھے تو وحشت سی ہونے لگی تھی ۔"

"ارے انکل کی وین خراب ہوگئی تھی تو انہوں نے بابا کو کال کر دی تھی میں ایک جگہ پھنس گیا تو آنے میں وقت لگ گیا۔"

"اوو چلو کوئی نہیں ویسے بھی کچھ دنوں کی بات ہے پھر جان چھوٹے گی ان راستوں سے۔۔" کتاب بیگ میں واپس رکھتے اسنے اپنا رخ کھڑکی کی جانب کرلیا کیونکہ ایک یہی تو کام تھا جو اسے بے حد پسند تھا۔

مختلف لوگوں کو دیکھنا ان کے چہروں کو کھوجنا اور پھر خود سے ہی کہانی بننا۔۔

"اپیا تمہارے سسرال والے آرہے ہیں پرسوں۔۔۔" وہ جو باہر کے مناظر کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی عزیر کی بات پر اسکے مسکراتے لب سمٹے تھے خود کو کمپوز کرتے اسنے مسکرا کر عزیر کو دیکھا۔

"کوئی نئی بات بتاؤ عزیر تایا ابو اور تائی امی تو ہر دوسرے تیسرے دن ہی آئے ہوئے ہوتے ہیں۔۔."خود کو نارمل ظاہر کرتے وہ ہنس کر بولی تو عزیر بے ساختہ ہنس دیا۔۔

"بات تو تمہاری بھی سہی ہے اب مہمان کم ہی پڑوسی زیادہ لگتے ہیں۔۔"عزیر کے شرارتی انداز پر وہ بے ساختہ ہنس دی۔۔

"چلو دھیان سے گاڑی چلاؤ اور مجھے میرا کام کرنے دو۔۔",عزیر کو کہتے وہ واپس سے کھڑکی کی جانب متوجہ ہوئی تھی مگر چہرے پر چھائی مسکراہٹ اب کہیں چھپ سی گئی تھی۔

_______________

"اسلام وعلیکم امی۔۔"گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے زور سے سلام کیا تو صوفے پر بیٹھی کوثر بانو نے کھڑکی سے جھانک کر اسے دیکھا۔

"وعلیکم السلام شکر آگئیں مجھے تو فکر لاحق ہورہی تھی اوپر سے تمہارے بابا بھی آج مصروف تھے۔۔

اسکا بیگ لے کر سائیڈ پر رکھتے انہوں نے کہا تو فریج سے پانی کی بوتل نکال وہ ان کے پاس آ بیٹھی۔

"امی آج اتنی گرمی ہے کہ حد نہیں اوپر سے کوئی شیلٹر ہی لگا دے یہ گورنمنٹ مجھے تو لگا تھا میں نے ہوش ہوجاؤ گی۔۔"

"بس میں بابا سے بات کرتی ہوں خود لانے کی ڈیوٹی سنبھالیں یا عزیر کو دیں ویسے ہی حالات اتنے خراب ہیں۔۔"

"نہیں امی ایسے نہیں کرینگے آپ جانتی ہیں نا وین والے انکل کو کتنی ضرورت ہے پیسوں کی میری وجہ سے ان کی سیٹنگ میں مسئلہ ہو جائے گا اور وہ کون سا روز لیٹ آتے ہیں۔۔"عادت سے مجبور اس نے فوراً سے انہیں منع کیا تو گہرا سانس بھر کر رہ گئیں۔۔

"اچھا تم جاؤ کپڑے تبدیل کرو میں کھانا لگاتی ہوں۔۔"

"ٹھیک ہے مگر عائشہ کہاں ہیں نظر نہیں آرہی؟"ادھر ادھر نظر دوڑاتے اس نے اپنی چھوٹی بہن کو ڈھونڈا۔

"یہاں نہیں ہے مدرسے گئی ہے تم بھی کھانا کھا کر نماز پڑھو مجھے بازار بھی جانا ہے تمہارے تایا تائی آئیں گے۔۔" اسے طویل جواب دیتے وہ کچن کی جانب بڑھی گئی تو اندر کمرے میں آگئی۔

آنے والے مہمانوں کا نام سن کر حلق تک کڑوا ہوجاتا تھا مگر وہ اچھی بیٹی تھی اسے اچھی بیٹی بن کر ہی رہنا تھا۔۔

کھانا کھا کر نماز سے فارغ ہو کر وہ بیڈ پر لیٹی تو دل و دماغ میں کئی الجھنیں تھیں۔

میٹرک کرتے دوران ہی تایا تائی نے اسے اپنے بڑے بیٹے کے لئے مانگ لیا تھا وہ اس رشتے کے خلاف تھی بھی نہیں مگر اب گزرتا وقت اسے عجیب سے الجھن میں لپیٹ لیتا۔

یہ تو اسکی زندگی کا مقصد نہیں تھا۔

"افف ایک تو یہ دماغ میرا "اپنی سوچوں سے جھنجھلاتے اس نے کروٹ لی اس بار نیند میں خلل لائٹ نے ڈالا تھا جو اپنا وقت ہوتے ہی یوں غائب ہوتی تھی جیسے گدھے کے سر سے سنگ۔۔

سخت جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتے وہ اپنی جگہ سے اٹھ بیٹھی تھی نیند تو اب اسکے نصیب میں تھی نہیں۔۔

______________

"وہاج۔۔۔ وہاج دیکھو زرا اس لڑکے کو ایسے کانوں میں روئی ٹھونس کر بیٹھتا ہے کہ بندہ آوازیں دے دے کر پاگل ہو جائے مگر مجال ہے جو یہ سن لے.."سیڑھیاں چڑھتے سلمہ بیگم اوپر اسکے کمرے میں داخل ہوئیں تو بستر پر اوندھے منہ لیٹا وہاج ایک دم سے سیدھا ہوا تھا اور فوراً سے موبائل سائیڈ پر رکھا

"یہ کیا طریقہ ہے امی بندہ آنے سے پہلے دروازہ ہی بجا دیتا ہے۔۔"

"نواب صاحب میں تجھے کب سے آوازیں دے رہی ہوں مجال ہے جو تیرے کانوں پر جوں دینگے تو مجھے خود آنا پڑا۔۔"اسکے کمر پر دھپ رسید کرتے انہوں نے کہا تو اسکے منہ کے زاویے بگڑے تھے۔

"اب بولیں بھی کیا کام ہے کیون آوازیں دے رہی تھی اور کیوں اوپر آنا پڑا۔۔"

"تیرے ابا کا فون آیا تھا ٹھیکیدار نے بلایا ہے تجھے ان کے ۔۔"

"اففف بھئی کتنی بار کہا ہے مجھے نہیں کرنی کسی کی غلامی ابا کو آخر سمجھ کیوں نہیں آتی۔۔۔"

"تو کیا یونہی بے روزگار بیٹھا رہے گا پرسوں جارہے ہیں شادی کی بات کرنے اور تو ہے کہ بے روزگار۔۔"

"تو یہ بات چچا کو کون سا پتا ہے اور امی میں پہلے ہی بتا رہا ہوں بنفشے کو گھر بیٹھانے کی ضرورت نہیں ہے پہلے ہی بول دینا چچا کو کہ شادی کے بعد نوکری کرواؤ گا میں اسے۔۔"

"تو اسکی نوکری کو چھوڑ اپنی ڈھونڈ تیرے چچا پوچھیں گے تو کیا جواب دینگے ہم۔۔"

"ارے بھئی وہی بولنا جو اتنے وقت سے بولتے آرہے ہو کون سا چچا نے جا کر وہاں معلوم کرلینا ہے۔۔"ڈھٹائی سے کہتے وہ اپنی جگہ سے اٹھا تو سلمہ بیگم سر تھام کر رہ گئیں۔

"یہ لڑکا تو ہاتھوں سے ہی نکلتا جارہا ہے کرتی ہوں اسکے ابا سے بات جلد از جلد شادی کریں تاکہ کچھ زمہ داری کا احساس ہو ۔۔" غصے سے بڑبڑاتے وہ اسکا پھیلاوا سمیٹنے لگیں۔

جب کے ان کے بڑبڑاتے دیکھ وہ موبائل اٹھا کر باہر آگیا اور موبائل میں نمبر ڈائل کر اس نے موبائل کان سے لگایا دوسری طرف سے کال فوراً اٹھائی گئی۔

"سوری جان یار ڈیڈ کی کال تھی ایک اہم کال تھی لاکھوں کا نقصان ہوجاتا میرا ۔"

"اوو سوری وہاج مجھے پتا نہیں تھا خیر آپ کام کرلیں۔۔"

دوسری طرف سے اس بیچاری نے شرمندگی سے کہا۔

"ارے میری جان اٹس اوکے میں بس جا ہی رہا تھا ڈرائیور گاڑی نکال رہا ہے میں بعد میں بات کرتا ہوں۔۔" اسے کہتے فون کاٹ اسنے گہرا سانس بھرا۔۔

"اففف آج تو امی نے جان ہی نکال دی تھی۔

اپنی کھٹارہ بائیک نکالتا وہ ایک بار پھر آوارہ گردی کے لئے نکل چکا تھا۔

_______________

"امی میں جارہی ہوں خیال رکھئے گا۔۔"چادر کو اچھے سے لیتے اسنے گیٹ کھولتے اس نے وہی سے ہانک لگائی اور چھپاک سے باہر غائب ہوئی تھی وین آ چکی تھی اور اسکا مزید لیٹ ہونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔

"افف ایک تو یہ لڑکی ہمیشہ ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتی ہے۔۔" گیٹ بند کرتے وہ اندر آئیں تو سامنے ہی تخت پر عبد العزیز صاحب براجمان تھے۔

"کیا ہوگیا بھئ؟

"کچھ نہیں خیر آپ ابھی مجھے سامان کا دیجئے گا کل بھائی بھابھی نے آنا ہے۔۔" ٹرے ان کے سامنے سے سائیڈ کرتے وہ اپنی جگہ پر بیٹھی تو موبائل میں مصروف انہوں نے سر ہلا دیا۔۔

"میں ایک بار سوچ رہی تھی۔۔"

"کیا کہوں۔۔"

"آپ برا مت مانئے گا مگر ناجانے کیوں مجھے اپنی بیا اور وہاج کا کوئی جوڑ ہی نہیں لگتا وہ کسی کام میں دلچسپی نہیں دیکھاتا ناجانے شادی کے بعد کیا ہوگا؟؟" وہ ماں تھیں جانتی تھی بنفشے لاکھ اس رشتے کو ناپسند کرے مگر وہ کبھی خود سے کچھ انہیں نہیں بولے گی۔

"ارے یہ کیا بات کر رہی ہیں آپ ماشاءاللہ سے اتنا قابل ہے میرا بھتیجا اور کام میں کیا دلچسپی دیکھائے بھائی صاحب بتا رہے تھے اپنا بزنس شروع کرنا چاہتا ہے اور بھئی اس عمر میں سارے لڑکے ایسے ہی ہوتے ہیں لاابالی آپ فکر نا کریں۔۔ بلکہ سامان لکھ کر دیں میں عزیر کے ہاتھ بھیج دونگا۔۔"اپنی بات مکمل کر کے وہ باہر کی طرف بڑھ گئے تو ان کی بات پر وہ بس خاموش ہوکر رہ گئیں اب کیا بتاتی اور کیا کرتیں ان کی سمجھ سے باہر تھا۔

_____________

وہ کالج کے پاس پہنچی تو اسکی آنکھیں حیرت سے پھٹی تھیں سامنے کا منظر اسکے لئے حیران کن تھا مگر اتنے لوگوں کی موجودگی میں وہ وہاں مزید نہیں رک سکی لیکن پورا دن اسکا دھیان باہر کی طرف ہی رہا۔

"بیا کیا ہوگیا ہے صبح سے سوچوں میں گم ہو خیریت ہے؟؟" آسیہ صبح سے اسکے سوچوں میں گھرا دیکھ رہی تھی جب رہا نا گیا تو آخر کار اس نے پوچھ ہی لیا۔

"آسیہ پتا ہے آج باہر جہاں ہم گاڑی کا ویٹ کرتے ہیں نا کسی نے بس شیلٹر بنایا ہے مطلب یار راتوں رات اتنا اچھا اور زبردست ۔۔"

"ہاں تو کسی کو آگیا ہوگا تم جیسی مظلوم پر ترس جو کل اتنا وقت دھوپ میں کھڑی رہی ہے ۔"آسیہ کی بات پر اس نے کھینچ کر ایک مکا اسے مارا تو وہ کھل کر ہنس دی

"اس میں جھوٹ بھی تو نہیں ہے ایک کم سن لڑکی گہری کالی غلافی آنکھوں والی جس کے گال پر پڑتا ڈمپل اسے سب سے منفرد بناتا ہے اوپر سے متضاد یہ چشمہ۔۔" آسیہ کی تعریف پر وہ ایک دم جھینپ گئی اور اسکے انداز پر آسیہ نے اسے اپنے ساتھ لگایا۔۔

"حد ہوگئی ہے آسیہ کوئی بہت ہی بدتمیز ہو تم۔۔"

"لو جی میں نے کیا کیا اب سامنے والا تعریف کے قابل ہے تو۔۔"

"اچھا اچھا بس۔۔۔" اسکی بات کاٹتے اس نے آسیہ کو اسٹاپ کیا تھا۔

"ایک بات بتاتی چلوں میں میں منگنی شدہ ہوں کوئی شہزادہ آ بھی گیا تو میری زندگی میں اسکی کبھی جگہ نہیں بنے گی۔۔" اپنی بات بولتے بولتے اچانک اسکے لہجے میں اداسی گھلی تھی مگر اسے اپنا آپ چھپانا آتا تھا۔

کالج سے باہر نکلتے وہ اس شیلٹر کے نیچے کھڑی ہوئی تو سائڈ میں لگے فین نے اسے مزید حیرت سے دوچار کیا تھا۔

"یہ کون لینڈ لارڈ آگیا ہے؟"آسیہ کی حیرت بھری آواز پر اس نے کندھے اچکائے۔

"یقین کرو کوئی ہیرو ہی ہوگا جس نے یہ کیا۔۔٫"

"بس کردو آسیہ ہماری زندگی میں کسی ہیرو کی اینٹری نہیں ہوسکتی نکل آؤ اس خیالی دنیا سے۔۔"اسے کہتے وہ سامنے سے آتی وین کی طرف بڑھ گئی۔

کمرے میں اس وقت اندھیرا تھا فقط ایک چیز تھی جو اس کمرے کو روشن کی ہوئی تھی وہ تھی کھڑکی سے آتی سنہری روشنی۔۔

سیگریٹ کا گہرا کش لیتے اس نے سامنے ٹیبل پر ایش ٹرے میں سیگریٹ کو مسلا تو ساتھ رکھی فائل پر اسکی نظر پڑی۔۔

اس پر بڑے بڑے حرفوں میں کسی کا نام لکھا تھا

وہ نام پڑھتے اسکے سامنے کسی کا عکس نمایاں ہوا تھا۔

"بنفشے عبد العزیز"

اس نام کو زیر لب دہراتے وہ دھیما سا مسکرایا تھا۔

_________________

یونیورسٹی میں آج معمول سے زیادہ بھیڑ تھی اور وجہ تھی آج ہونے والا اسٹوڈنٹ ویک جس میں کبھی نا آنے والے بھی آکر یونی کو ملاقات کا شرف بخشتے تھے۔

"زین حد ہوگئی ہے یار وہاں سب انجوائے کر رہےہیں اور تو یہاں لائبریری میں سر کھپا رہا۔۔"ریاض کب سے اسے ڈھونڈتا پھر رہا تھا جو اسے بلآخر مل ہی گیا تھا۔

"مجھے قطعی کوئی شوق نہیں ہے ان فضول چیزوں کا مجھے اپنا اسائمنٹ کمپلیٹ کرنا ہے اور اب میں گھر جارہا ہوں۔۔"بکس اٹھاتا وہ بیگ پہنتا باہر کی جانب بڑھا تو ریاض اسکے پیچھے لپکا۔

"ابے یار رک جا نا تھوڑی دیر ہی سہی۔۔"

"ریاض پلیز پھر کبھی سہی ابھی بہت کام ہے اوپر سے میں کافی دنوں سے گھر نہیں گیا ہوں تو امی سے ملنے بھی جانا ہے۔۔"ریاض کو سہولت سے انکار کرتا وہ باہر کی جانب بڑھا تھا کاریڈور سے نکلتے وہ مڑا تھا جب سامنے سے آتا شخص بہت بری طرح سے اس سے ٹکرایا۔۔

"اففففف اففف دیکھتا نہیں ہے اندھے ہو کیا یا آنکھیں گھر بھول آئے ہو۔۔" اپنے سر کو مسلتے وہ بری طرح اس پر چلائی تو زین نے تعجب سے اس مغرور لڑکی کا دیکھا تھا جو خود موبائل میں دیکھ کر چل رہی تھی اور الزام اس پر لگا رہی تھی

"میری آنکھیں یہی ہیں برائے مہربانی اپنی آنکھوں اور زبان کا علاج کروائیں۔۔" اسے جواب دیتا وہ اسکی سائیڈ سے نکلا تھا جب اسے رکنا پڑا کیونکہ اسکا ہاتھ سامنے والی کی گرفت میں تھا۔

اس اچانک حملے پر وہ ایک دم شاکڈ ہوا وہیں وہ غصے سے پلٹتے اسکے سامنے آئی تو لمحے کو اسکی شخصیت نے سامنے والی کو حیران کیا تھا مگر خود کو سنبھالتے وہ اپنی ٹون میں فوراً واپس آئی۔

"میرے آگے زبان چلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا شرافت سے مجھ سے معافی مانگو تم"

غصے سے اسکا ہاتھ جھٹکتے وہ غرائی تو زین نے بغور اسکا جائزہ لیا جو میک اپ کی دوکان بنی اسکے سامنے تھی اسے سخت کوفت ہوئی تھی اسکے حلیے سے۔۔

"نا میری غلطی ہے نا میں معافی مانگو اب میرے راستے میں مت آنا میرے پاس تم جیسی لڑکیوں سے بحث کا" دوٹوک انداز میں اسے کہتا وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا جب کے اسکے اتنے برے طریقے سے جواب پر وہ سر تا پا سلگ اٹھی۔۔

"آرزو کیا ہوا یہاں کیوں کھڑی ہوں ؟؟"

"یہاں سے چلو مجھے یہاں ایک پل نہیں رہنا ردا۔۔۔"

"کیا ہوا ہے تمہارا موڈ کیوں خراب ہے؟؟"

"کچھ نہیں ہوا فلحال چلو یہاں سے اس سے پہلے میں یہاں کا سارا فنکشن برباد کردوں۔۔"غصے سے کہتے وہ واک آؤٹ کر گئی تو درا اسکے پیچھے بھاگی کیونکہ اس سے واقعی کوئی بعید نہیں تھی کہ وہ کیا کر جائے ۔

"آرزو بات سنو کیا ہوگیا ہے اتنا بھی کیا غصہ "

"میرا دماغ مت کھانا ورنہ انجام بہت برا ہوگا۔۔" غصے سے کہتے وہ اپنی گاڑی میں بیٹھتے زن سے گاڑی بھگا گئی تو اس کے اسپیڈ پر ردا نے سر پکڑا۔۔

___________

"اب کیا مسئلہ ہوگیا ہے تمہیں کیوں منہ لٹکا کر بیٹھی ہو؟"

اسے کلاس میں منہ لٹکا کر بیٹھے دیکھ آسیہ نے پوچھا تو وہ جو کب سے برداشت کر رہی تھی آخر کو اسکے آنسو جھلک پڑے۔

"میرا فارم ریجکٹ کر دیا ہے یار کہتے ہیں کچھ ایشوز ہیں کل لاسٹ ڈیٹ ہے اب میں کیسے سب کروں کیا کروں میری کچھ سمجھ نہیں آرہا اوپر سے آج تائی امی نے آنا ہے میرا سر درد سے پھٹ رہا ہے اب۔۔" آنکھوں میں آنسو لائے وہ بے بسی کی انتہا تھی۔

اسکا فیس واچر مل نہیں رہا تھا اور آفس والوں کو ناجانے کون سی مصیبت پڑ گئی تھی۔

"ایسے کیسے تو ایک کام کر گھر جا اور گھر پر جاکر واچر ڈھونڈ تاکہ پھر یہ مسئلہ حل ہوسکے کچھ نہیں ہوگا اب یہ کالج والے اتنے پاگل نہیں ہیں کہ تیرا سال ضائع کردیں۔"

"وہی تو مگر سر تو میری بات سننے کو تیار نہیں ہیں کہتے ہیں لاپرواہی کی سزا ہے یہ یار اب اس میں میری کیا غلطی ہے۔۔۔" چادر سے چہرہ صاف کرتے اس سر جھکا لیا

"کوئی بات نہیں ہم کل مل کر چلیں گے اور بات کرینگے ان سے ابھی گھر چلتے ہیں تیری وین بھی آنے والی ہے۔۔"اسکا موڈ بحال کرتے وہ اسے لئے آگے بڑھی تھی مگر اسکا خراب موڈ ٹھیک نہیں ہو پایا

پورا راستہ وہ اپنی الجھنوں میں گرفتار رہی گھر جانے کا زرا سا بھی دل نہیں تھا پہلے اسے خیال آیا عارفہ کے گھر چلی جائے مگر پھر اسکی جاب کا یاد آنے پر اسکا دل برا ہوگیا۔

گھف پہنچ کر بھی وہ خاموش ہی رہی۔

"کیا ہوگیا ہے آج کیوں خاموش خاموش ہو طبعیت ٹھیک ہے؟"اسے اوندھے منہ بستر پر لیٹے دیکھ کوثر بیگم کو پریشانی ہوئی تھی۔

"کچھ نہیں ہوا بس تھک گئی ہوں نیند آرہی ہے ۔"

"سونا نہیں تمہارے تایا تائی آنے والے ہونگے جلدی سے جا کر تیار ہو جاؤ ورنہ پھر ان کے شکوہ شکایتوں کی ایک لمبی لسٹ برداشت کرنی پڑے گی ۔" اسکے کپڑے نکال کر سامنے رکھتے وہ خود باہر چلی گئیں تو کپڑوں کو دیکھ کر ہی اسکا موڈ خراب ہوگیا مگر وہ لاکھ چاہنے کے باوجود اس رشتے سے انکاری نہیں ہو سکتی تھی باپ کی خواہش کے آگے وہ اپنی خوشیوں کو ترجیح نہیں دے سکتی تھی۔۔

"آپی آپ کچھ بولتی کیوں نہیں ہے آپ کو وہاج بھائی نہیں پسند تو صاف انکار کردیں ورنہ میں کر دونگی",

"دماغ خراب ہے عائشہ چپ کر جاؤ بابا نے سنا تو کیا سوچیں گے ؟"

"کیا سوچیں گے کیا مطلب آپی یہ کوئی ایک دو دن کی بات تو ہے نہیں نا"

"کچھ نہیں ہوتا ویسے بھی تائی اماں نے کہا ہے شادی کے بعد بھی میں آگے پڑھ سکتی ہوں تو"

"آپ کو کچھ بھی بولنے کا فائدہ ہی نہیں ہے۔"

"میں جارہی ہوں باہر تائی امی لوگ آگئے لگتا ہے "

اسکی باتوں کو نظر انداز کرتے وہ باہر آگئی جہاں اسکے تایا تائی بیٹھے تھے انہیں سلام کرتے وہ کچن میں آگئی۔

باہر سے ان لوگوں کی باتوں کی آوازیں آرہی تھیں اور موضوع گفتگو اسکی شادی تھی۔

وہ لوگ شادی کی بات کرنے آئے تھے تو بالآخر وہ دن آنے والا تھا۔۔

یہ محفل رات تک چلی مگر اسکا دل ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا تھا۔

اسکی اور وہاج کی شادی تین مہینے بعد کی رکھی گئی تھی تائی نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر وہ نوکری کرنا چاہتی ہے تو کر سکتی ہے

سب کچھ تو اسکے حق میں تھا مگر پھر بھی ایک خلش سی تھی جو اسے چبھ رہی تھی۔۔

اگلے دن وہ اپنی پریشانی میں کالج آئی تھی مگر حیرت انگیز طور پر بنا اسکے کچھ کئے اسکا مسئلہ حل ہوچکا تھا یہ دوسری بار تھا جب بنا کچھ کئے اسکے مسئلے حل ہوئے تھے آسیہ تو اس سب کے پیچھے کسی خفیہ عاشق کو ڈھونڈ رہی تھی مگر وہ کہاں ان باتوں پر یقین رکھتی اسکی زندگی میں سوائے اسکے گھر والوں کے کوئی تھا ہی نہیں۔

____________

اس اپارٹمنٹ میں اس وقت سناٹے کا راج تھا لائٹس آف تھیں جبکہ بالکونی سے آتی روشنی اس کمرے کو روشن کر رہی تھی۔

اپارٹمنٹ میں قدم رکھتے اس نے ہاتھ بڑھا کر لائٹس آن کیں تو پورا اپارٹمنٹ روشنی میں نہا گیا۔

کورٹ اتار کر سائیڈ پر رکھتے اس نے شرٹ کے اوپری دو بٹن کھول اپنے قدم بالکونی کی طرف بڑھائے تھے۔

آستین کو کہنیوں تک فولڈ کرتے اس نے جیب سے ایک سیگریٹ نکال کر لبوں سے لگایا۔۔

تا حد نگاہ اندھیرے کا راج تھا پورا چاند اپنی روشنی بکھیر رہا تھا ایسے میں وہ تھا اور اسکی تنہائی اپنوں سے کوسوں دور وہ یہاں تھا۔

گہری کالی آنکھیں سرخ ہوتیں جارہی تھیں۔

انگلیوں کی پور سے سر کو مسلتے اس نے گہری سانس فضا میں چھوڑی اور اپنے کمرے میں آکر بیڈ پر گرنے کے سے انداز میں لیٹا۔

پر سوچ انداز ماتھے کر پڑے بل۔۔

سوچوں کے گرداب میں الجھا وہ ایک دم سے مسکرایا۔

"یشم یوسفزئی اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ۔۔"موبائل نکال کر ایک نمبر ڈائل کرتے وہ خود سے بڑبڑایا۔

"فون پہلی ہی بیل پر ریسو ہوا تھا اور اسکے بنا پوچھے ہی دوسری طرف والا جانتا تھا اسے کیا جواب دینا تھا۔

اسکے جواب سے مطمئن ہوتا وہ موبائل سائیڈ رکھتے آنکھیں موند گیا مگر آنکھیں موندتے ہی کسی نے اپنا عکس اسکی آنکھوں میں بسایا تھا۔۔

______________

اسٹوڈنٹ ویک ختم ہوتے ہی روٹین معمول پر آگئی تھی۔

اپنی کلاس لے کر وہ تیزی سے باہر کی جانب بڑھ رہا تھا جب عجیب سے شور نے اسکی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی تھی۔

اسٹوڈنٹس کا رش اور کسی کے چلانے کی آواز

وہ وہی تھی اس دن والی وہ پہچان گیا تھا اور آج بھی وہ اپنی طاقت اور پیسے کا زور دیکھاتی کسی کو زلیل کر رہی تھی۔

زین کا دل کیا جا کر اس مغرور لڑکی کو سبق سیکھائے مگر بے فضول وہ اسکے منہ لگنا نہیں چاہتا تھا اس لئے آگے بڑھ گیا اور اس نے آگے بڑھتے ہی چیختی چلاتی آرزو ایک دم چپ ہوئی۔

" چلو ہوگیا تماشہ نکلو اب"مزے سے کہتے وہ آگے بڑھی تو سب نے حیرت سے اسے دیکھا کہ اب کیا نیا تماشہ تھا۔

"آرزو تمہارے اس طرح کرنے سے تو کچھ نہیں ہوا" اسے پانی کی بوتل تھماتے ردا نے کہا تو وہ ایک دم قہقہ لگا اٹھی۔

"کچھ ہونا بھی نہیں تھا مجھے اب سمجھ آگئی ہے اس کھڑوس انسان سے کیسے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینا ہے خود آئے گا گھٹنوں کے بل مجھ سے معافی مانگنے "

اس کے لہجے میں غرور تھا وہ ان لوگوں میں سے تھی جنہیں سوائے اپنے کسی سے غرض نہیں ہوتی اور زین اسکا اگنور کرنا ہی تو اسے آگ لگا گیا تھا مگر یہ بات بول وہ اپنا مذاق نہیں بنوا سکتی تھی۔

"اگر اس نے معافی نہیں مانگی تو؟" ردا کے سوال پر وہ بے ساختہ ہنسی

"تو اسکی سزا اسکا خاندان بھگتے گا"

ردا کو جواب دیتے وہ اپنی جگہ سے اٹھی تو ردا اسے دیکھ کر رہ گئی۔

_____________

"آگئی آپ کو میری یاد آپو"عارفہ کے گلے عائشہ نے شکوہ کیا تو عارفہ بےاختیار ہنس دی

"ارے چندا عمرہ کرنے جانا ہے تو جو ادھورے کام ہیں ان میں بزی تھی اور پھپھو آپ سے ایک اہم بات بھی کرنی تھی"عائشہ کو جواب دیتے وہ کوثر بیگم کی جانب متوجہ ہوئی۔

"پہلے چائے پی لیں آپ ٹھنڈی ہوجائے گی"چائے کا کپ رکھتے بنفشے اسکے پاس بیٹھی تو عارفہ نے مسکرا کر اسکا ہاتھ تھاما۔

"پھپھو میں عمرہ کرنے جارہی ہوں مگر آفس میں مجھے اپنی جگہ کسی کو رکھ کر جانا ہے اور آپ تو جانتی ہیں میں کسی پر بھروسہ نہیں کرسکتی تو کیا بنفشے ایک مہینے کے لئے میری جگہ آفس جوائن کر سکتی ہے؟؟" عارفہ کی بات پر وہ بری طرح چونکی تھی اسکا خواب یوں پورا ہوگا اس نے سوچا نہیں تھا۔

"بچے مجھے تو کوئی اعتراض نہیں تم اپنے پھوپھا سے اجازت لے لو"

کوثر بیگم نے بال اپنے شوہر کے کورٹ میں پھینکی مگر سامنے بھی عارفہ تھی اس کی صلاحیت سے تو ہر کوئی متاثر تھا اور پھر اس نے اپنے طریقے سے عبد العزیز صاحب کو منایا اور پھر یہ طے ہوگیا کہ بنفشے اسکی جگہ سنبھالے گی۔۔

وہ خوش تھی بے تحاشہ خوش یہ جانے بغیر کہ آنے والا کل اسکے لئے ایک نیا موڑ لانے والا ہے..

_____________

"ہمت کیسے ہوئی میری اجازت کے بغیر میٹنگ کینسل کرنے کی ۔" فائل زور سے ٹیبل پر پھینکتے وہ چلایا تو سامنے کھڑے بیگ صاحب نے بے بسی سے اسے دیکھا۔

"سر۔۔ وہ بڑے سر.."

"کیا بڑے سر ہاں ؟" ان کی بات کاٹتے اس نے پیپر ویٹ زور سے زمین پر پھینکا۔

"مسٹر بیگ آج کے بعد میرے معاملات سے انہیں جتنا ہو سکے دور رکھئے گا اور آئندہ کے بعد جو ہوگا یہاں میری مرضی سے ہوگا بڑے سر کی مرضی سے نہیں ۔" ایک ایک لفظ چبا کر کہتے اس نے انہیں جانے کا اشارہ کیا۔

ان کے جاتے ہی اس نے اپنا دھیان لیپ ٹاپ کی جانب کیا تھا۔

نگاہیں لیپ ٹاپ پر جمائے مٹھی ہونٹوں پر رکھے وہ انحماک سے کام میں مصروف تھا جب آفس کا ڈور اوپن ہوا اور کوئی اندر آیا۔

"کس بات پر آگ برسا رہے ہیں آپ محترم"واثق کے سوال پر اسنے واثق کا سوال بری طرح اگنور کیا تو وہ گہری سانس بھر کر رہ گیا۔

"یہ روڈ پر شیلٹر لگانے کا حکم کس خوشی میں صادر کیا گیا ہے؟" سامنے چئیر پر بیٹھتے واثق نے آئی برو اچکاتے اس سے سوال کیا تو اسکے سوال پر یشم نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔

"کیا میں تیرے آگے جواب دہ ہوں؟" اسے کے انداز میں سوال کرتے وہ سیدھا ہوکر بیٹھا تو واثق نے بھرپور گھوری سے اسے نوازہ۔

"کچھ وقت پہلے ہی آپ پاکستان آئے ہیں اپنے گاؤں جانے کے بجائے آپ نے کام کو ترجیح دی اور اب آپ کو خدمت خلق کا بھی شوق چڑھ آیا واہ کیا بات ہے یشم یوسفزئی صاحب آپ کی" ایک ایک دم چبا کر کہتا وہ یشم کو مسکرانے پر مجبور کرگیا.

"میرے بارے میں اتنی اہم معلومات آپ نے رکھیں میں آپ کا شکر گزار ہوں اب آپ برائے مہربانی اپنا یہ منحوس چہرہ یہاں سے گم کریں۔۔ اور اپنے بڑے صاحب کو بتا دیں کہ میرے معاملات سے دور رہیں ورنہ انجام کے زمہ دار وہ ہونگے میں نہیں"

"یشم اتنے سال گزر گئے ہیں بس کردے ان نفرتوں میں کچھ نہیں رکھا۔"

"اگر نفرتوں میں واقعی کچھ نہیں رکھا ہوتا نا واثق تو یہ پوری دنیا نفرتوں کی آگ میں جل کر ایک دوسرے سے لڑ نا رہی ہوتی ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے در پر نا ہوتی اس سب کے پیچھے ایک ہی جذبہ چھپا ہے اور وہ ہے نفرت اور میں اس شخص سے اتنی ہی نفرت کرتا ہوں کہ اس شخص کی شکل دیکھنا بھی مجھے گوارہ نہیں۔"

سپاٹ لہجے میں کہتے وہ اسے لاجواب کر گیا۔

پڑھائی ختم ہوچکی تھی اور آگے پڑھنے کا اسکا ارادہ اسکی شادی نے ختم کردیا تھا۔

لیکن وہ خوش تھی ایک مہینے کے لئے ہی سہی مگر وہ جاب کرنے والی تھی عارفہ عمرہ کرنے جارہی تھی اور بابا سے اس نے ہی پرمیشن لی تھی جانے سے پہلے وہ اسے اپنی جگہ پر سیٹ کرکے جانا چاہتی تھی تاکہ اسے کام آجائے اس لئے آج وہ اس کے ساتھ جانے کے لئے تیار تھی۔

بلیک شرٹ اور ٹراؤزر کے ساتھ میچنگ دوپٹہ لئے وہ بالکل تیار تھی ۔

"اپنا خیال رکھنا اور محتاط رہنا بیٹا عارفہ ایک عرصے سے جاب کر رہی ہے اس لیے میں نے اور تمہارے بابا نے ہامی بھر لی مگر اپنی حفاظت خود کرنی ہے کچھ وقت بعد شادی ہے تمہاری تمہاری تائی تو بہت خوش ہیں اس نوکری کا سن کر اور یہی بات مجھے مطمئن کر رہی ہے"

"آپ بے فکر رہیں امی ایسا کچھ نہیں ہوگا میں بہت خوش ہوں سچ میں آپ سوچ بھی نہیں سکتیں " خوشی اسکے ہر ایک انداز سے عیاں تھی۔

"اچھا اب جلدی سے چادر کو عارفہ آتی ہی ہوگی"اسکا ماتھا چومتے وہ باہر بڑھ گئیں تو ان کے جاتے ہی اس نے ایک بار پھر اپنا جائزہ لیا جلدی سے چادر اوڑھ کر وہ باہر آئی تو سامنے ہی عارفہ صوفے پر براجمان تھی اسے دیکھتے ہی وہ اپنی جگہ سے اٹھی تو بنفشے بھی اسکے ہم قدم ہوئی۔

"عارفہ آپی تھینک یو سو مچ"

"کوئی تھینک یو نہیں تم میں تو اتنی ہمت ہے نہیں کہ پھوپھا کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کرو اس لئے میں نے ہی یہ کام سر انجام دے دیا۔۔"

عارفہ کی بات پر وہ سر ہلا کر رہ گئی۔

گاڑی آفس کی بلڈ بلڈنگ کے سامنے رکی تو اتنی بڑی بلڈنگ دیکھ اسکے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوئے تھے۔

کراچی میں رہنے کے باوجود وہ سوائے گھر سے کالج اور کالج سے گھر کے کہیں نہیں گئی تھی۔۔

عارفہ کی ہمراہی میں اندر آتے وہ کافی متاثر ہوئی آفس کا ایک ایک کونہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔

کانچ کی دیواروں کے پیچھے کام کرتے لوگ۔۔

لفٹ کی مدد سے وہ لوگ اوپری منزل پر آئے تو عارفہ اسے لئے ایک کمرے میں آئی جہاں عارفہ کی ڈیکس تھی اور اسی کے ساتھ سامنے گلاس وال جس کے پیچھے سے اسے کچھ بھی نظر نہیں آیا۔

"آپی یہ اس وال کے پیچھے کیا ہے؟"

"یہ میرے باس کا آفس ہے اور تم ان کے سارے کام کرنے کی پابند ہو جو جو کام میں کرتی ہوں وہ تمہیں کرنے ہونگے۔۔۔"

عارفہ نے بتانے کے ساتھ ساتھ ایک ڈائری اسکے حوالے کی۔۔

"اور ایک بات انہیں کام میں کوئی غلطی برداشت نہیں بندے کو کھڑے کھڑے فائر کردیتے ہیں اوپر سے اس جیسا کھڑوس انسان پورے اگست

پورا دن اسکا ہر چیز کو سمجھنے میں لگا تھا وہ خوش تھی پرجوش تھی وہیں ایک ڈر بھی تھا مگر وہ اس ایک مہینے میں اپنی خواہش کو پورا کرنا چاہتی تھی آگے بڑھنے کی خواہش تو شاید کبھی پوری نا ہو سکے مگر وہ یہاں خود کو ثابت کرنا چاہتی تھی اور اس بات کا اس نے خود سے وعدہ کیا تھا۔۔

______________

ریسٹورنٹ میں بیٹھا وہ مسلسل موبائل کو دیکھ رہا تھا جیسے کسی کے میسج کا انتظار ہو ۔

"اففف ایک تو ان امیر زادیوں کا بھی کوئی حال نہیں بندہ انتظار کرتے کرتے سوکھ جائے۔۔" گھڑی کو دیکھتے وہ بیزار سی شکل بنائے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا جب سامنے سے اسے وہ آتی نظر آئی۔

اسے دیکھتے ہی چہرے پر چھائی بیزاری فوراً غائب ہوئی۔ چہرے پر مسکراہٹ لاتا وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا۔

"وہاج تم تو واقعی وقت کے پابند ہو " اپنی سیٹ پر بیٹھتے وہ مسکرا کر بولی تو وہ ہنس دیا۔۔

"بس کیا کریں ڈرائیور آج چھٹی پر تھا تو میں خود ہی نکل آیا تیز ڈرائیو کی اور سب یہاں۔۔" خوش مزاجی سے کہتے اس نے سامنے بیٹھی جدید تراش خراش کے کپڑوں میں ملبوس سنبل کو دیکھا جو ایک ادا سے بال جھٹکتے پیچھے کو ہو کر بیٹھی تھی۔

اسکے ہاتھ میں موجود کھڑی چیخ چیخ کر اپنی قیمت بتا رہی تھی۔۔

"وہاج یہ تمہارے لئے میں دبئی سے لائی تھی مجھے امید ہے تمہیں پسند آئے گا یہ گفٹ" گفٹ بیگ اسکے سامنے رکھتے وہ وہاج کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بولتے اسے کرنٹ سا لگا گئی۔

"ارے جان اس کی کیا ضرورت تھی تم آگئیں واپس یہی میرے لئے بہت ہے ویسے میں نے سوچ لیا ہے اس بار کینیڈا ٹور پر جاؤ گا تو تمہیں ساتھ لے کر جاؤ گا۔۔" اسکے ہاتھ پر گرفت مضبوط کرتا وہ خوشگوار لہجے میں کہتا کھانا آرڈر کرنے لگا۔

"بل میں پے کرونگی "اس سے پہلے وہ کچھ آرڈر کرتا وہ فوراً سے بول اٹھی اور بھلا اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں۔

تھوڑی تگ ودو کے بعد وہ راضی ہوگیا۔

اور پھر اس ملاقات کے بعد اس نے کون سا دوبارہ اس لڑکی سے ملنا تھا۔

اچھا خاصا ڈنر اور پھر اس سے مہنگا ترین تحفہ وصول کرتے وہ خوش باش سا گھر میں داخل ہوا مگر سامنے بیٹھے اپنے باپ کو دیکھتے ہی اس نے چہرے کے تاثرات بگڑے۔

"یہ وقت ہے گھر آنے کا ٹائم دیکھا ہے کیا ہورہا ہے اگر یوں ہی آوارہ گردی کرنی ہے تو بتا دے مجھے تاکہ میں دوسروں کے آگے شرمندہ نا ہوں تجھے کہا تھا سیٹھ کے پاس چلے جانا تیری نوکری کی بات کی ہے مگر مجال ہے جو تجھے کچھ سمجھ آجائے۔۔۔"

"بس کردو یار ابا ابھی گھر میں آیا بھی نہیں ہوں تم شروع ہوگئے "

"اور تو کیا کروں شادی ہے تیری اور تجھے کام نہیں کرنا کیا کھلائے گا اسے؟" ان کا بس نہیں چل رہا تھا آج وہاج کی چھترول کر جائیں

"میں نے نہیں کہا تھا کہ میری شادی اس سے کرو اب آئے گی تو خود ہی کمائے اور کھائے اماں بھی تو سلائی کرتی ہیں وہ بھی کرلے گی "وہ ڈھیٹ بنا آج ہر حد پار کر رہا تھا۔

"میرے سر پر لاد دیا ہے اسے ارے عجیب کوئی دبو سی تو ہے کوئی ڈھنگ نہیں ہے نا بات کرنے کی تمیز ہے اور لے کر میرے گلے باندھ رہے سے چپ ہوں تو ابا چپ ہی رہنے دو خود لا رہے ہو تو خود ہی کھلانا اسے میری زمہ داری نہیں ہے وہ۔۔"تڑخ کر انہیں کہتا وہ سیڑھیاں چڑھتا اوپر چلے گیا اور اسکی بات پر وہ سر تھام کر رہ گئے۔

"وہاج کے ابا پریشان نا ہوں دیکھنا شادی کے بعد سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔" ان کو پریشان دیکھ انہوں نے دلاسہ دیا۔

لوگ اپنے بگڑے بیٹے کی شادی کروانے پر باضد ہوتے ہیں کہ آنے والی اسے ٹھیک کردے گی مگر اس چکر میں آنے والی کا پورا مستقبل روتے سسکتے گزرتا ہے اور یہی بات یہاں لوگوں کو سمجھ نہیں آتی اپنی خراب اولاد کو سدھارنے کے چکر میں وہ دوسروں کی بیٹی کی زندگی داؤ پر لگا دیتے ہیں ۔

_________________

اپنے آفس میں بیٹھا وہ لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے بیٹھا تھا کچھ دیر بعد اس کی ایک میٹنگ تھی اہم پوائینٹس پر نظر ڈالتے اسنے انٹر کام سے کافی منگوائی اور واپس سے اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔

ایک ہاتھ گال پر ٹکائے دوسرے سے کی بورڈ چلاتے وہ حد سے زیادہ مصروف تھا جب ڈور ناک ہونے کی آواز نے اسکی توجہ آہنگ کام سے ہٹائی تھی۔

"یس" باہر والے کو اندر آنے کی پرمیشن دیتا وہ واپس سے اپنے کام میں مصروف ہوا تھا جب کسی نے اسکی ٹیبل پر کافی کا مگ رکھا تھا۔

اور کافی کا مگ رکھتے کپکپاتے ہاتھوں نے بہت اچانک ہی اسکی متوجہ اپنی طرف کھینچی تھیں۔

اسنے سر اٹھا کر سامنے دیکھا جو جیسے اسے لگا وقت تھم سا گیا ہے۔

کی بورڈ پر چلتا اسکا ہاتھ ساکت ہوا تھا۔

وہ سامنے تھی کیا یہ خواب تھا یا اسکا وہم وہ سمجھ نہیں سکا مگر اسے یوں اپنے اتنے قریب دیکھ وہ سانس لینا بھول گیا تھا۔

"سر آپ کی کافی" اسکی نظروں سے گھبراتے اس نے جلدی سے کافی اسکے سامنے رکھی تھی وہ نہیں جانتی تھی کیوں مگر اس شخص کی نظروں نے اسے اچانک سے بوکھلا دیا تھا۔

کافی رکھتے ہی وہ جیسے ہی واپسی کے لئے تو اسے ہوش آیا اپنی بے اختیاری پر شرمندہ ہوتے یشم نے اسے پکارا۔

"مس آپ یہاں مس عارفہ کہاں ہیں؟" اتنا نرم لہجہ اگر کوئی دوسرا سنتا تو یقیناً بت ہوش ہوجاتا۔

"سر وہ۔۔وہ مس عارفہ عمرہ کرنے۔۔"

"اٹس اوکے میں سمجھ گیا" اسکی گھبراہٹ دیکھتے وہ اسے ٹوک گیا۔

"آپ جاسکتی ہیں" اجازت ملتے ہی وہ تیر کی تیزی سے باہر اپنی سیٹ پر آئی تھی دل بری طرح دھڑک رہا تھا جو کچھ عارفہ نے اسے باس کے بارے میں بتایا تھا اسے جاننے کے بعد اسکا خوفزدہ ہونا بنتا بھی تھا

"یا اللّٰہ یہ تو دیکھنے میں ہی اتنے کھڑوس ہیں ۔" دل پر ہاتھ رکھتے اس نے خود کو پرسکون کیا اور پھر سارا دھیان اپنے کام پر لگایا عارفہ کی ساری باتوں پر دھیان میں رکھتے اس نے پھر سے اپنا کام شروع کیا تھا۔

______________

"سر آپ نے بلایا۔۔" کمرے میں داخل ہوتے بیگ صاحب نے اس سے سوال کیا جو ناجانے کیا سوچنے میں مصروف تھا ان کی آواز پر چونکا۔

"اہا۔۔ہاں۔۔ بیگ صاحب یہ جو باہر لڑکی ہے یہ کون ہے مطلب پچھلے ہفتے تو یہ نہیں تھیں"؟

"سر میں نے آپ کو بتایا تھا نا کہ آپ کی اسسٹنٹ جو ہے وہ عمرہ کرنے جارہی تو میں نے آپ سے بات کی تھی کہ وہ اپنی جگہ اپنی کزن کو بھیجیں گی۔۔" مسٹر بیگ کے یاد دلانے پر اسے یاد آیا اسے یہ پتا تھا کہ اس کی اسسٹنٹ جارہی ہے مگر اسکی جگہ کون آئے گا اس بات کا اسے زرا بھی اندازہ نہیں تھا۔

"بنفشے عبد العزیز آپ کی اسسٹنٹ ہیں جب تک عارفہ نہیں آجاتی"

"ہممم ٹھیک کام سمجھا دیجئے گا انہیں تاکہ کوئی مسئلہ نا ہو۔۔"انہیں کہتا وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر گلاس ونڈو تک آیا جہاں سے باہر کا منظر صاحب نظر آرہا تھا۔

وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا اسکی موجودگی کو یہاں پر ۔

سامنے دیکھتے اسے وہ منظر یاد آیا جب اس نے پہلی بار اسے دیکھا تھا۔

ائیرپورٹ سے سیدھا وہ آفس کی طرف نکلا تھا جب گاڑی اچانک رکی تھی۔

ڈرائیور گاڑی چیک کرنے باہر نکلا تو اسنے غیر ارادی طور پر ادھر ادھر دیکھا تو ایک جگہ آکر اسکی نظریں ٹہر سی گئی تھیں

کتاب کا سایہ کئے وہ معصوم سا چہرہ اسکی نظروں میں آکر ٹہر سا گیا تھا۔

وہ بار بار پریشانی سے کبھی گھڑی دیکھ رہی تھی تو کبھی روڈ کو۔۔۔

آنکھوں پر ٹکا چشمہ بار بار ٹھیک کرتے وہ یشم یوسفزئی کے دل میں ایک عجیب سا احساس بیدار کر گئی۔

وہ جو اپنی دنیا کا بادشاہ تھا جس کے آگے کوئی ٹک نہیں سکتا تھا آج ایک معمولی سے لڑکی کی ایک جھلک نے اسے ساکت کیا تھا وہ سمجھ نہیں سکا کہ ایسا اس میں کیا ہے مگر ہاں وہ ٹھٹکا تھا وجہ وہ جان نہیں سکا مگر وہاں سے نکلنے سے پہلے وہ اپنے بندے کو ایک کام کر لگا گیا تھا۔

اگلے دن اسکے لئے شیلٹر وہاں موجود تھا۔

وہ اسے بھولنا چاہتا تھا مگر اس کا بار بار یشم کے سامنے آنا۔۔

وہ اس کھیل کو سمجھ نہیں پارہا تھا جو قدرت نے اسکے کھیلا تھا۔

اس کے وہم و گمان میں نہیں تھا جس لڑکی کو دیکھ وہ ٹھکٹکا تھا وہ یوں آج اسکے روبرو ہوگی مگر وہ اسے کچھ کہہ نہیں سکے گا بنفشے کی فائل ابھی بھی اسکے پاس تھی مگر وہ اسے کھول نہیں سکا۔

اسے یوں دیکھ وہ ناجانے کیوں واپس سے اپنے خول میں سمٹا تھا۔

"نہیں یشم یوسفزئی محبت نہیں کرنی یہ ایک لفظ نہیں ہے یہ وہ زہر ہے جو تمہیں مار دے گا۔۔" اسکی فائل سے نظر ہٹاتے اس نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔۔

"یار زین اس ہفتے ہم لوگ پارٹی کر رہے تو آئے گا نا؟" علی نے اسکے ساتھ چلتے اس سے پوچھا تو اسکا سر فوراً سے نا میں ہلا تھا۔

"تو جانتا ہے میں اس طرح کی چیزوں کو پسند نہیں کرتا پھر بھی بار بار پوچھتا جب کے جواب تو جانتا ہے میرا۔۔"

"بار بار اس لئے پوچھتا ہوں کہ کیا پتا تیرا مائنڈ چینج ہوجائے"

"ناممکن مجھے ایسی خرافات میں پڑنے کا کوئی شوق ہے تو جانتا ہے مجھے آگے بڑھنا ہے اپنے ماں باپ کا خواب پورا کرنا ہے میں محنت کرونگا تو ہی کامیابی حاصل کرسکوں گا"سیڑھیاں اترتے اس نے رسان سے علی کو سمجھایا۔

"اچھا چل جیسے تجھے ٹھیک لگے ویسے پروفیسر باقر تجھے بلا رہے تھے" اچانک یاد آنے پر اسنے بتایا تو زین اسے گھور کر رہ گیا۔

"کام کی بات تو ہمیشہ لاسٹ میں ہی بتایا کر مجھے۔۔" اسے کہتے اس نے آفس کی طرف رخ کیا سر باقر سے مل کر وہ باہر تو اسے علی کہیں نظر نہیں آیا۔

واپسی کے لئے مڑتے وہ جیسے کی آگے بڑھا کسی نے اچانک اسکے آگے اپنی ٹانگ اڑائی تھی اگر وہ دیوار کو نا تھامتا تو بری طرح زمین بوس ہوتا۔

"یہ کیا بدتمیزی ہے " سامنے کھڑی آرزو کو دیکھ اسکے ماتھے پر بل آئے۔

"بدتمیزی یہ نہیں وہ ہے جو تم نے اس میرے ساتھ کی تھی۔"

"تمہاری حرکت اسی لائق تھی اور مس تمہارا جو بھی نام ہے آئندہ میرے راستے میں مت آنا ورنہ اچھا نہیں ہوگا آئی سمجھ " اسے تنبیہ کرتے وہ آگے بڑھا جب وہ دوبارہ اسکے راستے میں آئی۔

"اپنی بہنوں سے بھی ایسے ہی بات کرتے کو تم مسٹر زین ؟" وہ اسکے بارے میں ساری معلومات لے کر بیٹھی تھی

"ہر گز نہیں کیونکہ میری بہنیں تمہاری طرح نہین ہیں جنہیں نا اپنی عزت کی پرواہ ہے نا اپنے ماں باپ کی میری جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید اب تک اچھے سے سبق سیکھا چکا ہوتا آئندہ اگر میرے سامنے آئیں تو اچھا نہیں ہوگا اور ہاں ایک بات۔۔" آگے بڑھتے وہ ایک دم رکا تھا۔

"آئندہ خود کو میری بہنوں سے کمپئر مت کرنا کیونکہ تم ان کی برابری کبھی نہیں کر سکتیں۔۔" اسے کہتا وہ وہاں رکا نہیں تھا۔۔

پہلے ہی کام پڑھائی کو لے کر اتنا بوجھ تھا اوپر سے اس لڑکی کا یوں بار بار سامنے آنا۔۔

وہ ناچاہتے ہوئے بھی اسے سنا گیا تھا۔

جبکہ دوسری طرف اسکے لفظوں پر وہ سر تا پا سلگ اٹھی تھی۔

"بہت غرور ہے تمہیں زین اپنی بہنوں پر مگر افسوس تم ابھی مجھے جانتے ہی نہیں ہو اب دیکھنا تمہارا یہ غرور نا توڑا تو میرا نام بھی آرزو مشارب نہیں ہے۔۔"خود سے کہتی وہ موبائل کی طرف متوجہ ہوگئی۔

آرزو مشارب۔۔۔۔ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی لاڈلی جو ہر ایک کو پاؤں کی جوتی سمجھتی تھی کوئی اسکے آگے کچھ بولے وہ اس شخص کا جینا حرام کر دیتی تھی ہر کوئی اس سے بچتا تھا مگر زین کے آئینہ دیکھانے پر وہ بلبلا اٹھی تھی۔۔۔

_____________

"سر میں آجاؤ ؟" دروازہ ناک کرتے اس نے زرا سا جھانک کر اندر دیکھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔

خالی کمرہ دیکھ اسکی جان میں جان آئی۔

"اللّٰہ کا شکر ہے نہیں ہیں ورنہ اس انسان کو دیکھتے ہی مجھے ہارٹ اٹیک ہونے لگتا ہے۔۔" ادھر ادھر نظریں دوڑاتے فائل ٹیبل پر رکھتے وہ جیسے ہی مڑی سامنے دیوار کے سہارے اسے کھڑا دیکھ اسکا سانس اٹکا تھا۔

"ارے ارے ریلکس ہارٹ اٹیک نا ہوجائے" اسکے قریب آتے اسنے کہا تو بنفشے کا دل کیا یہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔۔

"آپ ٹھیک ہیں آپ کا دل ٹھیک ہے؟" اسکے ہوائیاں اڑنے چہرے کو دیکھ یشم کا دل کیا قہقہ لگا کر ہنس پڑے۔

"سوری سر۔۔" سر جھکاتے وہ حد سے زیادہ شرمندہ تھی اسکا بس چلتا تو زمین میں دھنس جاتی۔۔

"فائل کے علاؤہ کوئی کام آپ کو؟" اسکے جھکے سر کو دیکھ وہ مسکراہٹ دباتا اپنی جگہ پر بیٹھا۔

"مسٹر مشارب آج وزٹ کریں گے اس کے علاؤہ کچھ نہیں سر۔۔۔"دھڑکتے دل کے ساتھ جلدی جلدی کہتے وہ واپسی کے لئے مڑی مگر برا ہو اسکی قسمت کا کہ دروازہ کھولنے کے بجائے وہ سیدھا بند دروازے سے جا ٹکرائی

"اہہہہ۔۔۔۔افففف"

"بنفشے آر یو اوکے۔۔" وہ ایک دم اپنی جگہ سے اٹھا تھا مگر اس سے پہلے وہ اس تک پہنچتا وہ تیر کی سی تیزی سے کمرے سے باہر نکل چکی تھی۔

"اففف اتنا بھی کیا ڈر بیوقوف لڑکی۔۔۔" پریشانی سے اسے دیکھتے سر پر پکڑ کر رہ گیا۔۔

دوسری طرف تیزی سے اپنی سیٹ پر بیٹھتے اس نے سر تھاما۔

"بنفشے کیا ضرورت تھی فضول بولنے کی کیا سوچ رہے ہونگے وہ کہیں میری فضول گوئی کی وجہ سے آپی کو مسئلہ نا ہو" مسلسل گھبراتے اسکی جان نکل رہی تھی جب انٹر کام بجا۔

اسکی آواز پر وہ ایک دم چونک کر سیدھی ہوئی تھی۔

جلدی سے فون ریسیو کیا تو دوسری طرف یشم تھا۔۔

" مس بنفشے میرے روم میں آئیں" بھاری گھمبیر آواز جسے سن کر ہی اسکے ہاتھ کانپے تھے۔

دل تو نہیں تھا مگر مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق خود کو مضبوط بناتے وہ اسکے کمرے میں آئی تو وہ کام میں مصروف تھا اسکی موجودگی محسوس کر یشم نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"آجائیں بیٹھیں" اسے اشارہ کرتے یشم نے فائل کھولی تھی۔

" تھینک یو سر" سیٹ پر بیٹھتے اس نے قدرے آہستہ آواز میں اس کا شکریہ ادا کیا۔

"مس بنفشے کیا میں بہت خوفناک دیکھتا ہوں؟" اسکی نظریں فائل پر تھیں مگر سوال بنفشے سے کیا تھا

"جی۔۔میرا مطلب ہاں مطلب نہیں آپ خوفناک تو نہیں ہیں..' وہ جو پہلے ہی حواس باختہ تھی اس سوال پر گڑبڑا گئی۔

"ہاں یا نہیں ؟؟ ایک بتائیں"

"سر آپ خوفناک نہیں دیکھتے"

" تو مجھ سے ڈرنا چھوڑ دیں میں کوئی جن نہیں ہوں جو آپ اتنی خوفزدہ رہتی ہیں آپ یہاں کام سیکھیں تجربہ حاصل کریں ڈر کر رہیں گیں تو سیکھیں گی کیسے ؟ ریلکس ہو کر کام کریں کوئی آپ کو کچھ نہیں کہے گا ٹھیک ہے نا؟" اپنی بات مکمل کرتے اس نے بنفشے کی رائے مانگی تو وہ جلدی سے سر ہاں میں ہلا گئی۔

"گڈ اب آپ جا کر میری فائل ریڈی کریں" اسکی اجازت ملتے ہی وہ فوراً سے باہر آئی تھی۔

اور آج اسے احساس بھی ہوا تھا کہ اس پورے وقت میں یشم نے ایک بار بھی اسکی طرف نہیں دیکھا تھا۔

فضول سوچوں سے سر جھٹکتے وہ اس کے دئیے گئے کام میں مصروف ہوگئی۔۔۔

____________

"بنفشے فائل میٹنگ روم میں لے کر آؤ" آفس سے باہر نکلتے اسنے فائل پر جھکی بنفشے کو کہا اور خود میٹنگ روم کی جانب بڑھا تو اسکا حکم ملتے ہی وہ اسکے پیچھے لپکی تھی۔

"ہیلو مسٹر یشم کیا حال ہیں ؟" وہ میٹنگ روم میں داخل ہوا ہی تھا کہ اسکے کانوں میں نسوانی آواز گونجی تو یشم نے سامنے دیکھا جہاں وہ بکو جینس اور وائٹ ٹاپ میں کھلے بالوں کے ساتھ موجود تھی جسے دیکھتے ہی یشم یوسفزئی کے ماتھے پر کئی بلوں کا اضافہ ہوا تھا۔

"بس یہی فیس دیکھنے کے لئے میں اتنی دور آتی ہوں" اسکے تاثرات کا مزہ لیتے وہ ہنس کر بولی تو اپنا رخ پھیرتے وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔

"کم آن یشم ہم کزنز ہیں اتنی بھی کیا بیزاری مجھ سے۔۔" اسکے قریب آتے آرزو نے کہا تو اس نے موبائل فون کانوں سے لگایا۔

"مسٹر مشارب اگر آپ نہیں آسکتے تو کم از کم اپنی لاڈلی کو بھی مت بھیجا کریں میں زرا بھی فارغ نہیں ہوں اسکی بکواس سننے کے لئے۔۔"اپنی بات مکمل کر اسنے کھڑاک سے فون بند کیا تو اس بدتمیزی پر وہ اسے گھور کر رہ گئی۔

"ہم بچے نہیں ہیں اب کہ ہر بات کا تم بابا کو بتاؤ یشم"

"اگر تمہاری حرکتیں درست ہوتیں آرزو تو شاید میں یہ نا کرتا مگر میں مجبور ہوں اب برائے مہربانی اپنی شکل یہاں سے گم کرو اور اگر آئندہ میرے آفس میں قدم رکھنا ہے تو اپنے لباس کا خیال رکھنا۔۔"دو ٹوک انداز میں کہتے وہ آگے بڑھا۔

"ہونہہ یہاں ہر کوئی آنکھیں ماتھے پر رکھ کر گھوم رہا ہے پتا نہیں کس بات کا غرور ہے خیر یشم یوسفزئی پر تو ججتا بھی ہے غصہ مگر اس دو ٹکے کے لڑکے کو تو ایسا سبق سیکھاؤ گی کہ ساری زندگی یاد رکھے گا"

غصے سے بڑبڑاتے وہ باہر آئی تو سامنے کھڑی بنشے جو دیکھ اسکے چہرے کے زاویے مزید بگڑے تھے وہ جو ہمیشہ خود کو اوپر رکھتی تھی آج اسکے معصوم حسن سے بری طرح چونکی تھی۔۔

_________

""امی یہ سب کیا لے کر بیٹھی ہیں"؟ کوثر بیگم کو سوٹبکیس کھولے دیکھ وہ چائے کا کپ لیتی ان کے پاس آ بیٹھی۔

"تمہاری شادی کی تیاریاں شروع کرنی ہیں تمہاری تائی نے تو کہہ دیا ہے نکاح پہلے کرینگے اگلے مہینے کی تاریخ مانگ رہی ہیں اب دیکھو تمہارے بابا کیا جواب دیتے ہیں مگر میں تو اپنی تیاری پوری کر کے رکھوں نا.٫"

وہ اپنی دھن میں بولتی جارہی تھیں بنا اسکے تاثرات دیکھے جس کے چہرے پر سایہ سا لہرایا تھا۔

"جا نا بیا دیکھ الماری میں ایک سوٹ رکھا ہے وہ لا کر دے میں اسے بھی رکھوں"

"جی امی "بے دلی سے کہتے وہ اپنی جگہ سے اٹھ گئی۔

کیا ضروری تھا یہ سب اسکے ساتھ ہی ہوتا۔۔

ان کو کپڑے دے کر وہ باہر صحن میں آگئی موسم اب جا کر کچھ ٹھنڈا ہوا تھا مگر دن میں گرمی اب بھی ناقابل برداشت تھی۔

کوثر بیگم کو بتا کر وہ اوپر چھت پر آگئی۔

منڈیر کے پاس کھڑے ہوتے اسنے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔

"کیا ضروری ہے جو چیز دسترس میں نا ہو اسکی خواہش کی جائے" چاند کو دیکھ کر کہتے اسنے دونوں ہاتھوں کو منڈیر پر رکھ اپنا چہرہ ان پر ٹکایا تھا۔

"کیا سوچا جارہا ہے بہنا" وہ جو اپنی سوچوں میں مگن تھی آواز پر اچانک اچھلی۔

"زین بدتمیز ڈرا دیا ۔"اسکے بازو پر ہاتھ مارتے وہ غصے سے بولی تو ہنس پڑا

"یہ ڈرنے کی عادت ناجانے کب جائے گی تمہاری۔٫"

"یہ تب جائے گی جب تم مجھے ڈرانا بند کردو گے ویسے بڑی جلدی نہیں آگئے تم اس بار۔۔"

"ارے یار لاسٹ سیمسٹر ہے تو تمہیں پتا ہے میرا"

"ہاں میرا قابل بھائی کچھ عزیر کو بھی سیکھا دو "

"ارے اپنا من موجی بندہ ہے وہ خوش رہنے دو اسے" اسی کی طرح منڈیر پر ہاتھ رکھتے وہ باہر دیکھنے لگا۔

"بیا ایک بات کہوں؟"

طویل خاموشی کے بعد اسکی آواز نے اس سکوت کو توڑا۔

"ہمم پوچھو۔۔"

"تم اس رشتے سے خوش نہیں ہو نا؟"

اسکا سوال اتنا غیر متوقع تھا کہ وہ لمحے کو کچھ بول ہی نا سکی۔

"بتاؤ بیا میں بات کروں گا تایا ابو سے "

"میں خوش ہوں اگلے مہینے نکاح ہے میرا فضول نا سوچو اور نا مجھے سوچنے پر مجبور کرو پاگل لڑکے "

"پکا نا ؟"وہ ابھی بھی مطمئن نہیں تھا۔

"ہاں بابا اب چلو نیچے کھانا کھاتے ہیں"اسے ساتھ لئے وہ نیچے بڑھ گئی۔

عبد العزیز صاحب تین بھائی تھے۔

بڑے عبدلرحمن پھر عبدالعزیز اور سب سے چھوٹے عبدالباسط۔۔۔

عبد الباسط اور ان کی بیوی کی جوان موت نے سب کو ہلا ڈالا تھا زین اس وقت بہت چھوٹا تھا جب عبدالعزیز صاحب نے اسے اپنی سر پرستی میں لے لیا ان کے اس وقت صرف بنفشے تھی زین کے آجانے سے اسکے بھائی کی کمی پوری ہوئی اور پھر عزیر اور عائشہ کی آمد نے ان کی فیملی کو مکمل کیا تھا

عبد الرحمن اور سلمہ بیگم کی وہاج کے بعد ایم بیٹی تھی جس کی شادی کچھ ہی سال پہلے ہوئی تھی۔

عبد الرحمن صاحب کی خواہش پر ہی بنفشے اور وہاج کی منگنی ہوئی تھی اور اب شادی کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں۔

__________

"اچھا امی میں جارہی ہوں "

"رکو بیا میں چھوڑ دیتا ہوں " اسے تیار دیکھتے بائیک کی چابی لیتا زین آگے بڑھا تو وہ مسکرا کر اسکے پیچھے باہر آئی۔

"شکر آج بس کی خواری نہیں ہوگی"بائیک پر بیٹھتے اس نے کہا تو وہ ہنس پڑا۔

"کوئی نہیں ابھی ہم تمہیں جہیز میں گدھا گاڑی دینگے" شرارت سے کہتے اس نے بائیک اسٹارٹ کی تو وہ بدلہ بھی نا لے سکی۔

آفس پہنچ کر وہ بائیک سے اتری تو زین نے اسکا بیگ اسکے حوالے کیا۔

"خیال رکھنا اپنا "اسے ہدایت دیتے وہ وہاں سے نکلا تو اس کے یوں کہنے وہ مسکراتی اندر بڑھی

جبکہ کسی نے منظر بڑی حیرت سے دیکھا اور پھر اس چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ آئی۔

"مجھے آوارہ بولنے والے کا کیریکٹر آج خود سامنے آگیا۔"

ہنس کر کہتے وہ اندر بڑھ گئی۔

یشم کی ٹیبل پر فائل رکھتے وہ اسکی کافی لینے نیچے آئی تو اسکے سامنے اچانک سے کوئی آیا تھا۔

"آئی ایم سوری میں نے دیکھا نہیں"معذرت خواہ انداز میں کہتے اسنے سامنے دیکھا تو وہاں آرزو کو دیکھ اسے حیرت ہوئی۔

کل جتنی بے عزتی یشم نے اسکی کی تھی اس کے بعد بھی وہ یہاں تھی۔

"کوئی بات نہیں یہ لو یہ گارڈ کو ملا ہے کہہ رہا تھا تمہارے منگیتر کا گرا تھا"

زین کا بریسلٹ اسے تھماتے اس نے جان بوجھ کر منگیتر کا لفظ استعمال کیا تو اس نے بے ساختہ نفی میں سر ہلایا

"وہ بھائی ہے میرا گارڑ کو غلط فہمی ہوئی ہے"جلدی سے کہتے اس نے آرزو کی غلطی فہمی دور کرنا چاہی تو وہ سمجھ کر سر ہلا گئی۔

"اوو اچھا کوئی بات نہیں."ایک ادا سے کہتے وہ آگے بڑھ گئی تو اسکے عجیب سے انداز کر وہ سر جھٹکتی کچن کی جانب بڑھ گئی۔

آرزو آگے بڑھ کر رکی اور اس نے پیچھے مڑ کر اسے اندر جاتے دیکھا۔

"بہن یہاں اور بھائی یونی میں واہ کیا بات ہے آرزو قسمت تجھے خود موقعے دے رہے ہے اس انسان سے بدلہ لینے کے لئے چلو آرزو مشارب لگ جاؤ کام پر۔" خود سے کہتے وہ ہنستے ہوئے آگے بڑھ گئی۔

وہ زرا سی لڑائی پر کسی کی زندگی برباد کرنے کا پورا انتظام کر چکی تھی۔

_______________

سارا کام مکمل کرتے وہ اپنی سیٹ پر آکر بیٹھی تو نظریں غیر ارادی طور پر گلاس وال کی جانب اٹھیں جس کی دوسری جانب وہ موجود تھا۔

بلیک شرٹ پہنے وہ لیپ ٹاپ پر نگاہیں مرکوز کئے ہوئے تھا۔

وہ نہیں جانتی تھی کیوں مگر وہ بے اختیار اسے دیکھے گئی۔

کھڑی ستواں ناک ہلکی بڑھی شیو سلیقے سے بنے بال۔۔

اسے یہاں کام کرتے ایک ہفتہ ہوا تھا اور یہ انسان اسے ہمیشہ سے ہی اپنے عمل سے متاثر کرتا آیا تھا۔

وہ خاص تھا بہت خاص۔۔۔

وہ یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی کہ اچانک اسے اپنی بے اختیاری کا احساس ہوا۔

نظروں کا زاویہ تبدیل کرتے اس نے اپنی توجہ کام پر مبذول کی وہ ایسا کیسے کر سکتی تھی خود کو ملامت کرتے وہ اٹھ کر نیچے روم میں آگئی۔

"بنفشے باہر سر کا پارسل آیا ہے ہمیشہ عارفہ ریسو کرتی تھی اب تم کرلو۔۔" اسکی ایک کولیگ نے اسے کہا تو اسے عجیب سی الجھن ہوئی۔

"باہر جانا ہے؟"

"ارے باہر مطلب ریسپشن پر"اسکے تاثرات پر ہنستی وہ باہر گئی تو ہمیشہ کی طرح اپنی بیوقوفی پر سر پیٹتی اور نیچے آئی اور یشم کا پارسل ریسو کیا۔

"افف اللّٰہ یہ کتنا بھاری ہے" پارسل دونوں ہاتھوں کی مدد سے پکڑے وہ لفٹ میں داخل ہونے لگی پر خرابی کا بورڈ دیکھ اس نے گہری سانس بھری۔

"بیا آج دن ہی خراب ہے چل بیٹا اوپر"سیڑھیاں چڑھتے وہ وہ ہانپتی کانپتی یشم کے روم تک آئی اور دروازہ کھول کر جیسے ہی اندر داخل ہوئی دروازے کی دہلیز سے اسکا پیر بری طرح ٹکرایا اس سے پہلے کے وہ منہ پر بل گرتی دو مہربان ہاتھوں نے اسے گرنے سے بچایا۔

بے اختیار اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے وہ تھا۔

"دھیان سے بنفشے۔۔۔" اس کے ہاتھ سے پارسل لیتے وہ فوراً سے اس سے دور ہوا۔

"آپ ٹھیک ہیں لگی تو نہیں پلیز بیٹھیں"اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتا وہ جلدی سے پانی اسکے لئے لے کر آیا اور اسکی طرف بڑھایا جس کا سر شرمندگی سے جھکا ہی جارہا تھا۔

ہر بار اسی شخص کے سامنے کیوں ایسا ہوتا تھا۔

"بنفشے پانی پیئے اٹس اوکے کچھ نہیں ہوا"

نرمی سے کہتے وہ زمین پر بیٹھا تو اس نے بے ساختہ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔

جس کے بارے میں اس نے اتنا کچھ سن رکھا تھا مگر وہ کیسے یقین کرتی جو کچھ اس نے سنا وہ سچ تھا۔

"آئی ایم سوری میری وجہ سے آپ کا پارسل گر جاتا"شرمندگی سے کہتے وہ سر جھکا گئی تو یشم نے افسوس سے اسکا جھکا سر دیکھا اسے یوں شرمندہ دیکھ اسکے دل کو کچھ ہوا تھا۔

"بنفشے آئی سیڈ اٹس اوکے یہ میرے ساتھ بھی ہوسکتا تھا آپ سوری مت کریں پارسل سے زیادہ آپ کو اپنی حفاظت کرنی تھی دیکھیں لگ گئی آپ کے پیر پر"اسکے انگوٹھے سے رستا خون دیکھ اس نے اپنا رومال اسکے پیروں پر رکھا مگر ایسے کہ اسکا ہاتھ زرا بھی بنفشے کے پاؤں سے ٹچ نا ہو سکے۔

اسکا انداز دیکھ بنفشے کو بے اختیار وہاج یاد آیا جب اسکی بہن کی شادی تھی۔

وہ سیڑھیاں اترتے نیچے آرہی تھی کہ اسکا پیر فراک میں الجھا تھا اور وہ بری طرح زمین پر گری اس سے پہلے وہ اٹھتی کسی کے قہقے کی آواز نے اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہاں وہاج کو کھڑا پایا جو مدد کرنے کے بجائے مسلسل ہنسے جارہا تھا

"ابے بھئی تجھ سے دیکھ کر نہیں چلا جاتا کیا "اسے بیٹھے دیکھ وہ پھر ہنسا مگر اس بار اسکی ہنسی کو بریک سامنے چیز کو دیکھ کر لگا۔

"یہ میری گھڑی تیرے پاس کیا کر رہی ہے بنفشے اور یہ گر گئی " اپنی گھڑی دیکھ اسے ہارٹ اٹیک آیا تھا۔

"تائی امی نے کہا تھا تو۔۔۔"درد کی شدت اتنی تھی کہ اس سے بولا ہی نہیں گیا۔

"ابے تجھ سے کوئی کام نہیں ہوتا امی کو پتا نہیں کیا شوق چڑھا ہے تجھ سے کام کروانے کا پتا ہے کتنی مہنگی گھڑی تھی اب تو بنوا کر دے گی کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی ہوگی ایسی گھڑی اور لے کر خراب کر دی۔۔"جھپٹنے کے انداز میں گھڑی اٹھاتا وہ تیزی سے باہر نکل گیا تو اسکی آنکھوں سے کب کے رکے آنسو رواں ہوئے۔

وہ شخص اسکا ہمسفر بننے والا تھا مگر اس نے ایک بار بھی یہ نہیں دیکھا کہ وہ ٹھیک ہے یا نہیں۔

آنسو خود بخود اسکا گال بھگو رہے تھے اسکے گرتے آنسو دیکھ یشم بے اختیار چونکا۔

"بنفشے کیا ہوا ہے درد ہورہا ہے ڈیم مجھے بتاؤ آپ میں ڈاکٹر کو کال کرتا ہوں۔"وہ تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھا مگر بنفشے نے اسے فوراً تو روک لیا۔

"میں ٹھیک ہوں سر آپ پریشان نہیں ہوں پلیز"

"تو رو کیوں رہی ہیں اگر آپ میرے سامنے انکمفرٹیبل ہیں تو میں کسی کو بلاتا ہوں اوکے"وہ ناجانے کیا سمجھ رہا تھا کہ بنا اسکے جواب کا انتظار کئے فوراً سے آفس سے نکل گیا اور پھر تھوڑی دیر بعد اسکی کولیگ اندر آئی جس کے ہاتھ میں فرسٹ ایڈ باکس تھا۔

"افف بنفشے کیا کرتی ہوں میں تو ڈر گئی تھی جب سر نے کہا تمہیں لگی ہے"

اسکے پیر کو دیکھتے اس نے کہا۔

"اتنی نہیں لگی بس اچانک سے سب ہوا تو۔۔٫"

"اٹس اوکے کچھ نہیں ہے میں نے صاف کردیا ہے پریشان نہیں ہو۔۔"

"ہمم"

"ویسے پتا ہے یشم سر کتنے بھی سخت کیوں نا ہوں مگر ہمیشہ سے عورتوں کی عزت کرنے والے ہیں۔ سوائے آرزو میڈم کے"سنجیدگی سے اسے بتاتے وہ ایک دم سے شرارت سے بولی تو بنفشے نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"ایسا کیوں ؟"

"بھئی وہ الگ ہی لیول کی ہیں اپنی بے عزتی خود کرواتی ہیں ایسے مزاج کی لڑکیوں سے سخت چڑ ہے انہیں نکال چکے ہیں کئی لڑکیوں کو اور بھئی جب انہیں اپنی عزت کا خیال نہیں تو ان کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئے"وہ آفس کی پوری ہسٹری سے واقف تھی جبھی اسکی زبان تیزی سے چل رہی تھی۔

وہ دونوں باہر آئیں تو بنفشے اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی مگر دھیان کے دھاگے کئی اور ہی الجھے ہوئے تھے اور سرا پکڑنے سے وہ قاصر تھی۔

____________

"خیریت ہے بھئی سنا ہے یشم دی گریٹ اپنی نئی سیکرٹری سے بڑی نرمی سے بات کرتے ہیں"

وہ کافی بنانے میں مصروف تھا جب واثق اسکے پاس رکھی چئیر پر آکر بیٹھا۔

"آفس کب سے جوائن کر رہا ہے بہت چھٹیاں ہوگئی ہیں"اسکی بات کو نظر انداز کرتے وہ اپنے مطلب کی بات پر آیا تو واثق نے برا سا منہ بنایا۔

"سوال پہلے میں نے کیا تھا"

"جس سوال میں دوسری لڑکیوں کے بارے میں بات ہو وہ ایسے ہی اگنور کرونگا اور آئندہ اسکا نام اپنی زبان پر مت لانا واثق کوئی خرافات دماغ میں لانے کی ضرورت نہیں۔"دوٹوک انداز میں کہتا وہ کافی کا مگ اٹھائے بالکونی میں آگیا تو واثق کو اس کے رویے پر حیرت ہوئی۔

"یشم کچھ ایسا ہے جو تو مجھ سے چھپا رہا ہے"اسکے پاس آتے واثق نے پوچھا مگر وہ ہنوز سامنے دیکھتا رہا۔

"یشم تو میری باتیں اگنور کررہا ہے اس بات سے کیا مطلب اخذ کروں میں؟"

"میں نے کہا نا واثق فضول باتیں میں سننا نہیں چاہتا تو اس سوال کو دہرا کر کیوں اپنا اور میرا وقت برباد کر رہا ہے ؟"

"وقت برباد نہیں کررہا میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں ہمیشہ اپنی سیکٹری سے فاصلہ رکھنے والا آخر ایک نئی لڑکی کے لئے اتنا فکر مند کیوں ؟؟ تو ایسا تو نہیں تھا کبھی بھی.."

"ضروری تو نہیں ہر بار انسان پہلے جیسا ہی رہے اور میں کوئی انوکھا کام نہیں کر رہا اس لئے بکواس کرنے سے بہتر ہے اپنا کام کرو۔۔٫"

"قسم سے مجھے زلیل کرنے میں تو نے پی ایچ ڈی کیا ہوا ہے مجال ہے کبھی عزت سے بات کرلے اور ویسے بھی بےعزتی کر کے ٹاپک بدلنے کی کوشش نا کر۔۔"

"تیرے ساتھ تیری خرافات میں ساتھ تو میں دینے سے رہا اور ہاں وہ لڑکی ہے اسکی بھی عزت ہے تو آئندہ اسکا ذکر مت کرنا ایسے"دوٹوک انداز میں کہتے وہ اپنی جگہ سے اٹھ گیا تو واثق گہری سانس بھر کر رہ گیا۔

وہ چاہتا تھا گزرے وقت کو بھول کر وہ آگے بڑھے جب اسے پتا چلا کہ وہ کسی کے لئے اتنا کر رہا تو خوش تھا کہ وہ اپنے خول سے نکل رہا ہے مگر پھر سے وہی رویہ اسکا دل دکھ سے بھر گیا۔۔

____________

"سر آپ کی میٹنگ جو تھی آج وہ کینسل ہوگئی ہے تو ابھی آپ فری ہیں ۔۔"ڈائری میں دیکھتے وہ یشم جو آج کی ڈیٹیلز بتاتی جارہی تھی کہ یشم کا ہاتھ اسکے ماتھے پر آیا اسکے اچانک اس طرح کرنے پر اسکا دل بےاختیار دھڑکا اور اسنے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تو سامنے دیوار سے اسکا سر بچانے کے لئے یشم کا ہاتھ بیچ میں آیا تھا۔

"مس بنفشے میں چاہتا ہوں کچھ دنوں بعد جب آپ یہاں سے جائیں تو صحیح سلامت جائیں نا کے دیواروں سے ٹکر مار مار کر خود کو زخمی کرتے ہوئے"وہ نہایت سنجیدگی سے کہہ رہا تھا مگر آنکھوں میں شرارت تھی جسے دیکھ وہ خفت سے سر جھکا گئی۔

وہ کوئی بچی تو تھی نہیں مگر ناجانے یہاں ہر بار ایسا کیوں ہوتا تھا کہ وہ لڑکھڑا جاتی تھی اور اسے سنبھالنے کے لئے وہ موجود ہوتا تھا۔

"بنفشے آر یو اوکے؟" اسکا جھکا سر دیکھ اس نے زرا سا جھک کر اس کا چہرہ دیکھنا چاہا مگر اسکے دیکھنے سے پہلے ہی وہ بھاگتی ہوئی وہاں سے چلی گئی بنفشے کے اس طرح جانے پر وہ گہری سانس بھر کر رہ گیا ۔

اس لڑکی کے آگے جتنا وہ روڈ رہنے کی کوشش کرتا اتنا ہی وہ کچھ ایسا کر بیٹھتی جس سے وہ مجبور ہوجاتا تھا اس کی پرواہ کرنے پر مگر اتنا تو طے تھا کہ وہ بنفشے کو کوئی امید نہیں دے سکتا تھا۔

"وہاج آج تیرے نکاح کا جوڑا لینے جانا ہے تو چل ساتھ ورنہ پھر سو باتیں سنائے گا" بیگ میں سامان رکھتے انہوں نے بیڈ پر لیٹے وہاج کو کہا تو اسکے چہرے کے زاویے بگڑے۔۔

"دولہن تو میری مرضی کی ہے نہیں سوٹ مرضی کا لے کر اچار ڈالوں گا"

"شرم کر تھوڑی عزیز کا احسان ہے جو اتنی پیاری بیٹی تجھے دے رہا ہے ورنہ تجھ جیسے نکمے کو کون اپنی اولاد دے گا" ان کے آئینہ دیکھانے پر وہ بلبلا اٹھا

"تم میری ماں ہو یا اسکی زرا کو مجھ پر رحم آجائے مگر نہیں تم اور ابا کہاں مجھ پر رحم کھاؤ گے"

"تو اس قابل تو بن وہاج دیکھ زرا زین کو کیسے اپنے مرے ماں باپ کا خواب پورا کرنے میں لگا ہوا عزیر پڑھ رہا ساتھ کام میں کر رہا عائشہ مدرسہ پڑھاتی ہے اب تو اپنی بیا بھی نوکری کر رہی صرف تو ہے جو ناکارہ ہے"

"ان سب کے پاس میری جیسی شکل نہیں ہے نا۔۔"

"اچار ڈال تو اچھی شکل کا۔۔۔ جا اب منہ دھو اور ہاں ایک چکر لگا کر آ اسکے آفس کا پتا تو چلے کیسے ماحول میں کام کر رہی ہے"

"اچھا اچھا چلا جاؤ گا اب سونے دو مجھے "تکیے میں منہ دیتے وہ ان کا خون جلا گیا۔

"سوتا ہی رہنا تو ہمیشہ"غصے سے بڑبڑاتے وہ نیچے آئیں تو عبدالرحمن صاحب نے انہیں دیکھا۔

ب"بول دیا اسے کہ آج جانا ہے بنفشے کے آفس چیک کرنے ارے اتنے بڑے ادارے میں کام کر رہی ہے ہوسکتا ہے اس ناہنجار کا ہی کچھ بندوست کردے"

"بول دیا ہے میں نے صاحب کا موڈ ہوگا تو چلے جائے گا۔۔چائے لاتی ہوں آپ کے لئے"سر جھٹک کر کہتے وہ آگے بڑھ گئیں۔۔

_____________

اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے بھی اسکا سارا دھیان اندر کام کرتے یشم پر تھا۔

وہ نہیں جانتی تھی کیوں مگر یہ احساس بہت عجیب تھا کہ کچھ نا ہونے کے باوجود ایسا تو کچھ تھا کہ وہ ہر بار اس شخص کے سحر میں مبتلا ہوتی جارہی تھی کوئی ایسی کشش جو اسے یشم کی طرف کھینچتی چلی جارہی تھی۔

وہ چاند تھا اسکی دسترس سے بہت دور۔۔۔

اور وہ کسی کی امانت تھی اسے اپنی اصل جگہ پتا تھا اور یہی بات تو اسے بے چین کر رہی تھی کہ کسی کی امانت ہوتے ہوئے بھی وہ ہر بار کیوں اس انسان کی طرف کھینچتی جارہی تھی وہ تو پلٹ کر دیکھتا بھی نہیں تھا اسے۔۔

اپنی سوچوں سے گھبرا کر وہ نیچے آئی مگر اسے رکنا پڑا وہاں اسی کے متعلق بات ہورہی تھی۔

"یار یشم سر نے اس سے پہلے تو کسی اسسٹنٹ کو اتنی اہمیت نہیں دی جتنی بنفشے کو دے رہے ہیں"

"ارے یہ امیر زادے ہوتے ہی ایسے ہی شرافت کا لبادہ اوڑھے۔۔ جہاں موقع ملتا ہے وہاں کام کر جاتے ہیں اور بنفشے تو ہے بھی بیوقوف اسے پاگل بنانا کون سا مشکل ہے" دوسرے والے کے لہجے میں اسکے لئے تمسخر تھا

"بات تو سہی ہے مگر میری دعا ہے وہ یشم یوسفزئی سے محبت ہی نا کر بیٹھے۔۔"

"محبت کرتی ہے تو کرے یشم یوسفزئی اسے منہ تک نہیں لگائے گا ابھی تو دل بہلانے کے لئے کافی ہے وہ ورنہ مڈل کلاس کی ایک دبو سی لڑکی کو کون منہ لگانا پسند کرے گا؟"

وہ مزید بھی کچھ کہہ رہے تھے مگر اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مزید یہاں رکتی اور اپنے بارے میں ایسی باتیں سنتی ہمیشہ اپنے کردار کو صاف رکھا تھا ہر قدم پر احتیاط مگر اب کیا ہوا۔۔

یہ سوچ آتے ہی اسکی آنکھوں میں نمی آئی تو ہاتھ کی پشت سے اس نے بے دردی سے آنکھوں کو مسلا۔۔

اپنی سیٹ پر بیٹھتے اس نے نم آنکھوں سے اپنی ہتھیلیوں کو دیکھا۔

"یا اللّٰہ مجھے اس آزمائش میں مت ڈال میرے مالک میرے دل سے یشم کا خیال نکال دے۔۔",ڈیسک پر سر ٹکاتے وہ بے آواز روئے گئے۔۔

خود کو سنبھالتے وہ اپنی جگہ سے اٹھی تھی اب مزید یہاں رہنا اسکے لئے اچھا نہیں تھا۔

خود کو کنٹرول کرتے وہ اندر آئی تو یشم نے بغور اسکا چہرہ دیکھا۔

"سر مجھے گھر جانا ہے میرے سر میں درد ہے بہت کیا میں جاسکتی ہوں؟"نظریں جھکائے وہ اس سے جانے کی اجازت مانگ رہی تھی۔

"خیریت ہے بنفشے زیادہ طبعیت خراب ہے تو ڈاکٹر۔۔"

"مجھے گھر جانا ہے سر۔۔"اسکی بات کاٹتے اسنے دوٹوک انداز میں کہا تو یشم نے اسکا بدلہ بدلہ انداز دیکھا

"ٹھیک ہے میں ڈرائیور کو بولتا ہوں آپ کو چھوڑ دے"

"کیا باقی ورکرز کو بھی آپ ایسے ہی ڈرائیور کے ساتھ بھیجتے ہیں ؟"اسکی بات پر انٹرکام کی طرف بڑھتا یشم کا ہاتھ رکا تھا اس نے بے یقینی سے بنفشے کو دیکھا۔

"بنفشے۔۔"

" سر اگلے ہفتے میرا نکاح ہے تو میں زیادہ دن نہیں ہوں عارفہ اگلے ہفتے تک ہی آئیں گی مگر کل میرا یہاں آخری دن ہے امید ہے آپ میری جگہ کسی کو دے دینگے"

"نکاح؟؟؟"

"جی نکاح اگلے ہفتے نکاح ہے میرا خیر میں چلتی ہوں۔۔"بنا اسکی سنے وہ نکلتی چلے گئی یہ جانے بغیر کہ اسکے اس انکشاف نے سامنے موجود شخص کی ہستی ہلا دی تھی۔

اسکا باہر کی جانب بڑھتا ایک ایک قدم اسکے دل پر پڑ رہا تھا بے یقینی کی کیفیت سے نکلتے وہ تیزی سے لاکر کی جانب بڑھا اور اسکے نام کی فائل نکالی تھی۔

جسے اس نے آج تک نہیں کھولا تھا آج دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر کھول رہا تھا۔

"یہ ناممکن ہے بنفشے کیسے ایسا ہوسکتا ہے میرے ساتھ ایسا کیوں ۔"بے یقینی سی بے یقینی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کرے تو کیا کرے وہ جاچکی تھی اور وہ بے بس تھا جبھی اسکے پیچھے لپکا تھا۔

________________

تیز تیز قدم بڑھاتی وہ یہاں سے دور جانا چاہتی تھی جب اچانک اپنے پیچھے کسی کے قدم محسوس ہوئے تو اسے احساس ہوا کہ وہ اس تپتی دوپہر میں اکیلی ہی روڈ پر ہے۔

ڈر کے مارے اسکے قدموں میں پھرتی آئی مگر اس سے پہلے کے وہ آگے بڑھ پاتی کسی نے اسکا ہاتھ پکڑا کر گھمایا۔۔

لمحوں کا کھیل تھا ڈر کے مارے اسکی چیخ نکلی وہیں سامنے والے کا قہقہ گونجا۔

"ارے پیاری بھاگ کیوں رہی ہے زرا میرے ساتھ تو چل"

وہ آوارہ کھلے گریبان منہ میں گٹکا کھائے اسکا ہاتھ سختی سے دبوچے ہوئے تھا۔

"چھوڑو۔۔۔چھوڑو۔مجھے جانے دو ۔۔۔" اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے چھڑانے کی کوشش میں وہ رو دی تھی ۔

"ارے ارے کچھ نہیں ہوگا چل نا زرا"وہ خبیث انسان اپنی خباثت دیکھاتا اسے اپنے ساتھ گھسیٹتے لگا وہ پوری طاقت سے اس سے ہاتھ چھڑا رہی تھی مدد کے لئے پکار رہی تھی مگر اس تپتی دوپہر میں کوئی اسکی مدد کے لئے موجود نہیں تھا۔

"کوئی ہے پلیز مجھے بچاؤ چھوڑو مجھے چھوڑو۔۔۔۔"

"چپ کر بے*****"اس نے گندی سی گالی اسے دی اور تبھی اسکا منہ بند ہوا تھا کہ کسی کی لات اسکے منہ پر پڑی ۔

اس آدمی کے منہ سے خون نکلتا دیکھ اسکی چیخ نکلی تھی مگر تبھی یشم اسکے سامنے آیا اور پھر وہ رکا نہیں تھا

"چھوڑیں اسے وہ مر جائے گا"وہ جنونی انداز میں سے مار رہا تھا بنفشے کو اس سے خوف محسوس ہوا۔

"سر وہ مر جائے گا چھوڑ دیں اسے"یشم کو اس آدمی سے دور ہٹاتے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تو وہ گہری سانس بھر کر رہ گیا۔

"اب کس لئے رو رہی ہیں آپ بنفشے بہت شوق تھا نا آپ کو اکیلے آنے کا ہوگیا شوق پورا تو خاموشی سے گاڑی میں بیٹھئے" سختی سے کہتے وہ آگے بڑھ گیا تو اسکے آنسوؤں میں روانی آگئی۔

"بنفشے اب کسی دوسرے کے آنے کا انتظار کر رہی ہیں آپ جلدی آکر بیٹھیں"

اسکی آواز اتنی تیز تھی وہ شرافت سے آکر اسکی گاڑی میں بیٹھ گئی مگر پورے راستے اس نے اپنے رونے کا شغل کیا تھا اور اسکا رونا برابر والے کی طبعیت پر اس قدر گراں گزر رہا تھا مگر وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔۔

_________________

بائیک روک کر اس نے تنقیدی نظروں سے اس بڑی سی عمارت کا جائزہ لیا۔

"واہ بھئی اتنی بڑی جگہ پر نوکری کیا ہی بات ہے"خود سے کہتا وہ بائیک سے اترا تبھی ایک بڑی سی گاڑی اسکے سامنے آکر رکی تھی۔

اتنی بڑی گاڑی دیکھ اسکی آنکھیں پھٹی تھیں۔

تبھی اس گاڑی سے آرزو باہر آئی ہمیشہ کی طرح کھلے بال بلیک ٹائٹ جینز شرٹ پہنے۔۔

گاڑی سے اترتے ہی اسکی نظر سامنے کھڑے وہاج پر پڑی تو لمحے کو وہ اپنی نظریں وہاں سے ہٹا ہی نا سکی.

"آپ کون؟"گلاسس سر پر ٹکاتے وہ آہستہ سے چلتی اسکے پاس آئی تو وہ بے اختیار چونکا

"میں۔۔۔"؟

"جی بالکل کیونکہ آپ کو آفس میں تو نہیں دیکھا آج تک۔۔"

"ہاں وہ میں اپنی منگیتر کو لینے آیا ہوں"اسکے منگیتر کہنے پر آرزو کا حلق تک کڑوا ہوا تھا

"کون منگیتر؟"

"بنفشے عبدالعزیز"یہاں اس نے نام لیا تھا وہی دوسری طرف آرزو کے آگ لگ گئی۔

ہمیشہ یہ بنفشے ہی کیوں اسکے آگے آرہی تھی۔

"کیا ہوا میڈم"

اسے سوچ میں دیکھ وہاج نے اپنا ہاتھ اسکے آگے لہرایا ۔

"اہہ۔۔ہاں کچھ نہیں میں بس سوچ رہی تھی کہیں وہی بنفشے تو نہیں جو بہت عام سی شکل کی ہے"کل جو بنفشے کی خوبصورتی سے متاثر ہورہی تھی آج اسے عام سی شکل وصورت والی کہہ رہی تھی

"ہاں ہاں وہی عام سی شکل والی"یہ بولتے ہوئے اسکے چہرے کے تاثرات اتنے عجیب تھے کہ جنہیں دیکھ بےاختیار وہ قہقہ لگا اٹھی۔

اسکی ہنسی اتنی دلکش تھی کہ وہاج اسکے سحر میں کھو سا گیا

"ویسے تمہیں وہی ملی تھی منگنی کرنے کے لئے"اسکی ہنسی کو بریک لگا تو اسنے اپنا اگلا پتا پھینکا۔

"بس ماں باپ کے آگے چلتی کس کی ہے ویسے تم بہت خوبصورت ہو"بولتے بولتے وہ عادت کے مطابق ٹریک سے اترا تو آرزو نے معنیٰ خیز نظروں سے اسے دیکھا۔

قسمت خود اسکا ساتھ دے رہی تھی تو وہ کیوں پیچھے ہٹتی۔۔

"آجاؤ اندر کافی پیتے ہیں تب تک اپنی منگیتر کو بھی دیکھ لینا" اسے آفر کرتے وہ خود آگے بڑھ گئی تو وہاج اسکے پیچھے ہولیا۔

_________________

گاڑی اسکے گھر کے آگے روک یشم نے ایک نظر اسے دیکھا جو سر جھکائے بیٹھی اپنے ہاتھوں کو گھور رہی تھی۔

"گھر آگیا ہے جاؤ اب"سختی سے کہتے اس نے دروازہ ان لاک کیا تو وہ بنا انتظار کئے فوراً سے گاڑی سے اتر گئی اور اسکے جاتے ہی یشم نے اپنا سر اسٹیرنگ پر ٹکایا۔

"اففففف"گہرا سانس لیتے اسنے خود کو کمپوز کیا اور آفس جانے کے بجائے وہ سیدھا اپنے گھر آیا تھا۔

گھر آتے ہی وہ کمرے میں بند ہوا تھا۔

جس چیز سے وہ ہمیشہ بھاگتا آیا تھا وہ ہوگئی تھی اور ایسے ہوئی کہ اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا وہ خالی ہاتھ تھا۔

"نہیں یشم یوسفزئی تم کمزور نہیں ہو تم کسی غلط راہ پر نہیں چل سکتے وہ تمہارے نصیب میں نہیں تھی یہ بات سمجھ لو تم۔۔"ایک ہی بات بار بار دہراتے وہ بے بسی سے رو دیا۔۔

بجھے دل کے ساتھ گھر میں قدم رکھا تو اندر سے آتی آوازوں نے اسکی توجہ کھینچی تھی۔

"ارے بیا آج جلدی آگئیں"

کوثر بیگم کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی تو وہ سر ہلاتی اندر آئی تو اچانک ہی کوئی پیچھے سے اسکے گلے لگا تھا

"سرپرائز" زور سے اسے خود میں بھینچتے آسیہ قہقہ لگا کر ہنسی تو وہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی۔

"آسیہ تم۔۔"خوشگوار سی حیرت نے اسے لپیٹ میں لیا تھا۔

آسیہ پیپرز کے بعد سے گاؤں چلے گئی تھی اور اب اسکی اچانک آمد نے اسے حیران ہی تو کر دیا تھا۔

"ہاں بھئی ہم محترمہ آپ نکاح کر رہی ہیں اور ہمیں خبر تک نہیں اگر آج بھی میں نہیں آتی تو مجھے پتا ہی نہیں چلنا تھا۔۔"

"وہ.."اس سے جواب نہیں دیا گیا تو اسکی مشکل عائشہ نے آسان کی۔

"آسیہ آپی ساری باتیں یہاں ہی کرینگی کیا چلیں اندر روم میں"اسے کہتی وہ تینوں اندر کمرے میں آئیں تو عائشہ نے آسیہ کو اشارہ کیا اور خود وہاں سے چلے گئی۔

"اب بتاؤ کیا مسئلہ ہے بیا ؟"اسکے یوں ٹون بدلنے پر بنفشے نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"مسئلہ تو کوئی نہیں ہے آسیہ "

"مسئلہ نہیں ہے یہ تم بولوں گی اور میں یقین کرلوں گی تو یہ تمہاری بھول ہے بنفشے عبدالعزیز تم اس نکاح سے خوش نہیں ہو یہ بات تمہارا چہرہ ہی بتا رہا ہے اور یہ جو آنکھیں ہیں ان میں آنسو بے وجہ تو نہیں ہوسکتے نا"

اسکے پھیلے کاجل پر چوٹ کرنے پر اسنے فوراً سے آنکھیں صاف کیں تو آسیہ نے تاسف سے سر ہلایا۔

"یشم یوسفزئی کون ہے ؟"

آسیہ نے ایک دھماکہ اس کے سر پر کیا تھا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آسیہ اس سے یشم کے بارے میں سوال کرے گی۔

"تم۔۔تم کیسے جانتی ہو انہیں"

"میں نے پہلے سوال کیا ہے بنفشے کون ہے یشم؟"

"کیا ہوگیا ہے آسیہ باس ہیں میرے۔۔"اسکی باتوں سے خائف اسنے خود کو سنبھالا تھا جو راز وہ خود سے بھی چھپا رہی تھی کیسے کسی دوسرے پر آشکار ہونے دیتی۔

"بیا میں پاگل نہیں ہوں عائشہ نے مجھے بتایا ہے کہ یشم تمہارا باس ہے مگر یہ جو تاثرات تمہارے چہرے پر ابھی آئے اسکے نام پر میں کیا سمجھو اسے"

"کیا فضول کی بات ہے میں حیران ہی ہونگی نا جب تم اچانک ان کا نام لوگی"خفگی سے کہتے وہ رخ موڑ گئی تو آسیہ نے اسکی پشت کو گھورا اور اٹھ کر اسکے سامنے آکر بیٹھی۔

"یہ نکاح مت کرو میری جان پوری زندگی برباد ہو جائے گی میں نے ایک نظر میں اس انسان کو پہچان لیا تھا تو تمہارے امی ابو کیوں نہیں پہچان پارہے "

"آسیہ پلیز امی باہر ہی ہیں کوئی فضول بات مت کرو"

"فضول بات یہ فضول بات ہے تم آخر بتاتی کیوں نہیں انکل آنٹی کو کہ تم نے خود اسے کئی دفعہ لڑکیوں کے ساتھ دیکھا ہے"

"اور یہ بات بتانے کے بعد کون میرا یقین کرے گا آسیہ یہاں اگر لڑکی ایسا کرتی پائی جائے تو اسکی چمڑی ادھیڑ دی جاتی ہے لیکن اگر یہی غلط کام لڑکا کرے تو اسے یہ کہہ کر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ یہ لڑکا ہے لڑکے ایسے ہی ہوتے ہیں وہ ایک کیا دس لڑکیوں کے ساتھ بھی گھومے گا تو کوئی اس کے کردار پر بات کرنے نہیں آئے گا اور اگر یہی کام لڑکی کرے گی تو یہ زمانہ اسے جینے نہیں دے گا۔۔"

"تو کیا اس ڈر سے ساری زندگی گھٹ گھٹ کر جیو گی جب ہمیشہ خود کو اس سب سے دور رکھا ہے تو تم ایسا انسان تو ڈیزرو نہیں کرتیں "

"میں ایسا ہی انسان ڈیزرو کرتی ہوں کیونکہ کہیں نا کہیں میں بھی اس جرم کی مرتکب ہوگئی ہوں آسیہ "وہ ٹوٹ گئی تھی اور اسکی آخری بات پر آسیہ بری طرح چونکی۔

"کیا مطلب ہے اس بات کا بیا؟"

"مجھے وہ اچھا لگنے لگا ہے آسیہ میں نہیں جانتی جب کیسے کیوں ہوا یہ سب مگر میرا دل اسکی جانب مائل ہوگیا آسیہ کیوں میں تو جانتی تھی نا کہ میں کسی اور کی امانت ہوں تو کیوں میرا دل مجھ سے بغاوت کرتا ہے اس شخص کا لہجہ انداز نرمی اسکی آنکھیں مجھے نہیں پتا کس بات نے مجھے اسکے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا مگر اب میرے پاس کچھ نہیں بچا ساری زندگی خود کو بچا کر رکھا اپنے ماں باپ کے لئے خود تک کو قربان کردیا مگر میرے دل نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا آسیہ "اسکے گلے لگتے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

اسکا یوں رونا آسیہ کا دل کرلا رہا تھا

"تمہارا اس میں کوئی قصور نہیں ہے میری جان تم ایسے ماحول میں پلی ہو جہاں عورت کو اہمیت نہیں دی جاتی اسے اپنے حق میں بولنے کا حق نہیں ہے انکل چاہے لاکھ اچھے سہی مگر کیا انہوں نے کبھی تم سے رضامندی پوچھی کسی چیز کے لئے؟"

"ان سب باتوں کا اب فائدہ کیا ہے اگلے ہفتے نکاح ہے میرا اور میں خود کا تماشہ نہیں بنا سکتی میں نے سب کچھ وقت پر چھوڑ دیا ہے جو میرے نصیب میں ہے مجھے ملے گا"اپنے آنسوؤں کو صاف کرتے وہ پرانی واپس سے اپنے خول میں سمٹی تو آسیہ بس اسے دیکھ کر رہ گئی۔

_______________

"آپ کے ساتھ کافی اچھا وقت گزرا امید ہے آپ سے بات ہوتی رہے گی"وہاج کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے وہ ایک ادا سے بولی تو اس نے بے یقینی سے اپنے ہاتھ پر رکھے اسکے ہاتھ کو دیکھا۔

"مجھے بھی بہت اچھا لگا بہت وقت بعد کسی سے یوں اپنے لیول کی بات ہوئی ہے"

"کیوں بنفشے سے بات نہیں ہوتی آپ کی؟"اس نے حیرت سے کہا تو وہاج نے نفی میں سر ہلایا۔

"اسکا اور میرا لیول ملتا ہی نہیں ہے میں تو یہ شادی بھی نہیں کرنا چاہتا۔"

"شادی نہیں کرنا چاہتے تو منع کردیں "

"ایسا ممکن ہوتا تو کر دیتا میرے ابو کے پاس بنفشے اور زین کی شان میں پڑھنے کو اتنے قصیدے ہیں کہ حد نہیں"وہ پہلی ملاقات میں اتنی بے تکلفی دیکھا رہا تھا کیونکہ اسکا نیچر ہی ایسا تھا۔

"زین کون؟"زین کے نام پر اسکے کان کھڑے ہوئے تھے۔

"کزن ہے میرا دوسروں کو نیچا دیکھانے کا بہت شوق ہے اسے زہر لگتا ہے وہ مجھے"

"اوو ویسے تو مجھے بولنے کا حق نہیں مگر کیونکہ ابھی ہماری دوستی ہوئی ہے تو میں تو ایک ہی مشورہ دونگی اس رشتے سے فوراً سے جان چھڑاؤ کیونکہ بنفشے زرا اچھی لڑکی نہیں "

وہ اپنے تیئں ایک نیا کھیل کھیل رہی تھی۔

"کیا مطلب میں سمجھا نہیں ؟"

اسکی بات پر آرزو اپنے مطلب کی بات پر آئی تھی

____________

"آرزو مشارب آج آپ کے چہرے پر الگ ہی چمک ہے؟"ردا کے پوچھنے پر اس نے ایک ادا سے بال چھٹکے۔

"اس بار میری جگہ کس نے لی تھی کلاس میں؟"

"زین نے دیکھو آرزو وہ تو قسمت تھی اسکی."

"ہمم قسمت یو نو درا میں بھی قسمت پر آج کل بڑا یقین کر رہی ہوں ویسے جو شخص ایک وجہ سے مجھ سے ٹکرایا اور جب جب ملا اسنے مجھے نیچا ہی دیکھایا یہاں تک کہ اس نے میری جگہ تک چھین لی میں آرزو مشارب جس نے ہمیشہ سب کو پیچھے چھوڑا اس نے میری زندگی جہنم کر دی اور اب دیکھو قسمت نے مجھے بھی ایک موقع دیا ہے تو میں اسے کھلے دل سے مانوں گی."

"کیسا موقع ؟؟"

"وقت آنے پر پتا چل جائے گا"مسکر کر کہتے وہ لائبریری میں داخل ہوئی تو سامنے ہی زین موجود تھا اسکی سیٹ پر بیٹھا ہوا۔

"یہ میری جگہ ہے اٹھو یہاں سے"اسکے پاس جا کر اس نے اپنا بیگ ٹیبل پر پٹخا تو زین نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر واپس سے اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔

"میں نے تم سے کچھ کہا ہے سمجھ نہیں آرہی ہے کیا تمہارے میری جگہ سے اٹھو۔۔

"تمہیں شوق ہے نا مجھ سے الجھنے کا تو میں بتا دوں تم جیسی لڑکی کے منہ لگنا میں پسند نہیں کرتا کجا کہ تمہاری جگہ پر بیٹھنا مگر افسوس کہ جگہ تمہاری نہیں ہے تو مجھ سے فضول میں بحث مت کرو"دو ٹوک انداز میں کہتا وہ واپس سے کتاب پر جھکا تو غصے سے اسکا چہرہ سرخ ہوا تھا۔

"مجھ جیسی لڑکی سے بات کرنا نہیں پسند مگر میرے ہی جیسی لڑکی کے بھائی تو ہو تم" تمسخر سے ہنستے اس نے دونوں ہاتھوں کو ٹیبل پر جمایا تو اسکی بات پر زین نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"ارے ارے بہن کی بات پر برا لگ گیا چلو کوئی نہیں بہت پاک صاف بہن کے بہت پاک صاف بھائی سنبھال کر رکھنا اپنا یہ پاکیزہ روپ"ایک ایک لفظ چبا کر کہتی وہ اپنا بیگ سنبھالتی وہاں سے نکلتی چلے گئی اور اسکے لفظوں نے زین کا دماغ خراب کیا تھا

آخر ہمیشہ وہ ہی کیوں اس سے الجھتی تھی وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔

_________

"تمہاری پسند تو کوئی انتہا کی گھٹیا ہے آخر کہاں کی پڑھی لکھی ہو تم"وہ سب اس وقت نکاح کی شاپنگ کے لئے آئے تھے مگر وہاج اسکی ہر پسند کی ہوئی چیز کو بری طرح ریجکٹ کررہا تھا۔

"کچھ پسند کرتے ہوئے اپنی شکل کا بھی خیال کرلو تم پر اچھا بھی لگے گا"غصے سے بڑبڑاتے وہ آگے بڑھا تو وہیں کھڑی رہ گئی اس انسان سے بحث کرنا بیکار تھا۔

اسکے جانے کا فائدہ ہوا نہیں تھا سب کچھ سلمہ بیگم کی پسند کا لے کر وہ واپس آئے تو بنفشے آفس کی تیاری کرنے لگی کل آخری دن تھا عارفہ لوگ آ چکے تھے تو اسکا اب جانا بیکار تھا مگر وہ ایسے نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔

اس لئے صبح معمول کے مطابق وہ آفس آئی تو وہاں آکر پتا چلا کہ یشم تو آج آیا ہی نہیں۔

بجھے دل سے اپنے نکاح کا کارڈ مینجر کو دیتے وہ وقت سے پہلے ہی گھر واپس آگئی اب اس انسان سے تعلق ختم تھا اب وہ کبھی اسکی شکل نہیں دیکھ سکے گی اسنے صبر کیا تھا ہمیشہ۔

گھر آکر بھی اسکا دل اداس ہی رہا لاکھ کوشش کے باوجود وہ خوش نہیں ہو پا رہی تھی۔

__________

"یشم یوسفزئی صاحب کدھر غائب ہیں آپ ٫؟"گھر میں اس وقت اندھیرے کا راج تھا لائٹس آن کرتے واثق نے اسے ڈھونڈتا اوپر اسکے کمرے میں آیا تو سیگریٹ کے دھوئیں نے اسکا استقبال کیا۔

"یشم"لائٹس آن کر اسنے سامنے دیکھا تو اسے حیرت کا جھٹکا لگا۔

وہ سامنے ہی بیڈ پر اوندھے منہ پڑا تھا ساتھ ہی سیگریٹ کا ایک ڈھیر تھا جو ایش ٹرے میں پڑا تھا

اسکی حالت دیکھ واثق کا دل خوف سے سکڑا۔

"یشم تو ٹھیک ہے ؟"پیروں میں آئی چیزوں کو سائیڈ کرتے وہ اسکے پاس آیا اور اسکا ہاتھ پکڑا وہ بخار میں جھلس رہا تھا۔

"یشم یار۔۔۔۔"غصے سے کہتے وہ اس پر جھکا تھا

"میں ٹھیک ہوں واثق "غنودگی بھری آواز میں اسے تسلی دیتا وہ واثق کا میٹر شاٹ کر گیا

"بکواس بند کر اپنی یہ ٹھیک ہے تو پھر اسموکنگ کی ہے نا تو نے مر جا نا ایک ہی بار یوں بار بار کیوں خود کو اذیت دے رہا ہے بتا مجھے اب کیا ہوا ہے میں جان نکال لونگا اس انسان کی"غصے سے کھولتا وہ جگہ سے اٹھا تو یشم نے نفی میں سر ہلایا۔

"کسی نے کچھ نہیں کہا اب کی بار خود کو میں نے ہی تکلیف دی ہے واثق ایسی تکلیف جو ساری زندگی میرے ساتھ رہے گی۔۔" نم آنکھوں سے کہتا وہ آنسو چھپانے کو آنکھوں پر ہاتھ رکھ گیا

وہ بخار میں تپ رہا تھا اور واثق اسے یوں دیکھ اسکی جان نکل رہی تھی۔

اس دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو اس پر اثر انداز ہو سکے مگر اب اسکی حالت دیکھ اسکا دل تڑپ اٹھا تھا۔

وہ بظاہر مضبوط دیکھنا والا انسان اندر سے کتنا ٹوٹا ہوا تھا یہ بات صرف وہی جانتا تھا۔

ابھی ابھی ڈاکٹر اسے نیند کا انجیکشن دے کر گئے تھے اور اب وہ گہری نیند میں تھا۔

اسکا بخار چیک کر واثق دروازہ بند کرتا باہر آگیا۔

زرا سا اسکے چپ ہونے سے یہ گھر آج واثق کو بھی کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا۔

ناجانے اسے کیا سوجھی کہ ایک نظر اوپر اسکے کمرے کو دیکھ وہ یشم کی اسٹڈی میں آیا اور وہاں موجود دراز سے چابیاں نکالیں۔

اب اسکا رخ نیچے روم کی طرف تھا جہاں اسکا جانا بھی منع تھا۔

اس نے جیسے ہی دروازہ کھولا ایک خوشگوار خوشبو اسے معطر کر گئی۔

اندر ایک الگ ہی دنیا تھی یہ وہ دنیا تھی جسے یشم یوسفزئی نے دنیا سے چھپا کر رکھا تھا اس سے پہلے وہ اندر قدم رکھتا کچھ گرنے کی آواز نے اسے بری طرح چونکایا اور یشم کا خیال آتے ہی وہ دروازہ واپس سے بند کرتا اوپر کی جانب بھاگا۔

"یشم ٹھیک ہے تو؟"زمین پر کانچ کا گلاس ٹکڑوں میں پڑا ہوا

"پانی"اپنا سر تکیے پر رکھتے اس نے گہرا سانس بھرا۔

واثق نے اسے اٹھا کر پانی پلایا تو نقاہت کے باوجود وہ اپنی جگہ سے اٹھ بیٹھا۔

"مجھے آفس جانا ہے واثق"

"پاگل ہوگیا ہے تو حالت دیکھ رہا ہے اپنی"

"یہ معمولی سا بخار میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تو ریلکس کر"اسکا ہاتھ تھپتھپاتے وہ ہولے سے مسکرایا تو واثق نے بغور اسے دیکھا

"میں نے یشم یوسفزئی کو کبھی کمزور پڑتے نہیں دیکھا تو اب کیا ہوا ہے ایسا یشم بڑے سے بڑا طوفان جسے ہلا نا سکا وہ زرا سے بخار سے ڈھیر ہو جائے یہ تو ناممکن سی بات ہے نا۔۔"

"کیوں کیا میں انسان نہیں ہوں یا میں بیماری فری ہوں ؟"سیگریٹ کی طرف ہاتھ بڑھاتے اس نے کہا تبھی واثق نے اپنا ہاتھ اسکے بڑھتے ہاتھ پر مارا۔

"خبردار جو باتوں کو گھمایا یا اس زہر کو اپنے اندر اتارا تو مجھے بھلے نا بتائے میں معلوم کر کے رہوں گا ہر حال میں آرام کر میں جا رہا آفس دیکھتا ہوں کیا حال ہے کھانا ریڈی ہے میڈ کو بول کر بھیج رہا ہوں"

اسے کہتا وہ نیچے آیا اور میڈ کو کھانے کا بول وہ گاڑی لے کر آفس آیا تھا۔

"معلوم کر کے رہوں گا کہ ایسی کون سی بات ہے جو تو مجھ سے چھپا رہا ہے یشم"اسکے آفس کی طرف بڑھتے وہ عزم کر چکا تھا۔

اسکے روم میں آکر وہ اسکی سیٹ پر بیٹھا اور ضروری فائلز چیک کرنے لگا تبھی مسٹر بیگ اندر آئے تھے۔

"آپ نے بلایا"

"جی بیگ صاحب دراصل یشم بیمار ہے تو آج میں اسکی جگہ کام کرونگا تو ایک کام کریں پچھلے مہینے کی اکاؤنٹس ڈیٹیلز مجھے چیک کروائیں۔

ان کے باہر جانے کے بعد وہ اٹھ کر لاکر تک آیا تھا مقصد ایک فائل نکالنا تھا مگر سامنے پڑی چیز پر نظر پڑتے ہی اسکے ہاتھ اسکی طرف بڑھے تھے۔

________________

آئینے میں خود کو دیکھتے وہ وہ پھیکا سا مسکرائی۔

ٹیبل پر رکھے اپنے نکاح کا کارڈ دیکھتے اس نے آہستہ سے اسے اٹھا کر اپنے بیگ میں ڈالا۔

"ہوگئیں تیار چلو بچے جلدی جانا جلدی آنا"

"امی ضرورت کیا ہے اسکی ؟"

"ایسے کیسے ضرورت نہیں ہے بھلے ایک مہینے ہی سہی تم نے وہاں کام کیا ہے تو نکاح کا کارڈ دے کر آؤ اور جلدی آنا پرسوں نکاح ہے تو آسیہ آئے گی آج پھر پارلر چلی جانا"

"جی ٹھیک ہے امی"بے دلی سے کہتی وہ باہر آئی تو زین اسکا منتظر تھا

"عزیر کہاں ہے زین؟"

"وہاج بھائی کے ڈریس لے لئے گیا ہے مجھے نکاح ہر اتنی فضول خرچی سمجھ نہیں آرہی"بائیک اسٹارٹ کرتے وہ منہ بنا کر بولا تو وہ ہنس دی۔

"کوئی بات نہیں بعد میں سمجھ لینا ابھی جلدی سے چلو"

پورے راستے وہ خاموش ہی رہی زین اسکی خاموشی کو اچھے سے سمجھ رہا تھا مگر اسکے پاس کوئی آپشن ہی نہیں تھا کیا کہتا کیسے کہتا بڑوں کے فیصلوں کے آگے اس نے ہمیشہ سر جھکایا تھا اب کیسے ان کے سامنے زبان چلاتا دنیا تو پہلے ہی سو باتیں کرتی تھی وہ خود پر ہر چیز برادشت کر سکتا تھا مگر اسکے پیاروں پر کوئی آنچ آئے یہ تو وہ مر کر بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا۔

"تم یہیں رکو میں کارڈ دے کر آتی ہوں"آفس پہنچ کر وہ بائیک سے اتری اور زین جو رکنے کا بول اندر بڑھ گئی۔

"ارے بنفشے بیٹا"اسے دیکھ بیگ صاحب کو خوشگوار حیرت ہوئی۔

"اسلام وعلیکم سر کیسے ہیں"

"وعلیکم السلام میں ٹھیک ہوں آپ سناؤ سب خیریت ؟"اسکے سر پر ہاتھ رکھتے انہوں نے نرمی سے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

"سب ٹھیک ہے سر پرسوں نکاح ہے تو اسی کا کارڈ دینے آئی تھی یشم سر کو"کتنا مشکل ہوتا ہے وہی بات بار بار کہنا جس پر آپ کا دل ہی راضی نا ہو۔

"اوو ارے مبارک ہو پر یشم سر تو آفس آ ہی نہیں رہے"ان کے بتانے پر اسے جھٹکا لگا۔

"کیوں خیریت سر؟"اپنی بے اختیاری پر اسنے سر جھکایا۔

"ہاں ان کی طبعیت نہیں ٹھیک ہے آج بھی ان کی جگہ واثق صاحب آئے ہیں لیکن آپ فکر نہیں کرو بیٹا میں کارڈ ان تک پہنچا دوں گا"

وہ جو اس امید کے ساتھ تھی کہ اس دشمن جان کو ایک آخری بار دیکھ لے گی وہ آخری امید بھی اس سے چھین لی گئی تھی۔

"اوکے تھینک یو."کارڈ انہیں تھماتے وہ بجھے دل سے باہر آگئی تو بیگ صاحب نے ایک افسوس بھری نظر اس پر ڈالی یشم کے ناہونے کا سن کر جو مایوسی انہوں نے محسوس کی تھی اس نے ان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔

سر جھٹک کر وہ اندر آئے اور لارڈ واثق کے سامنے رکھا۔

"یہ کس کا کارڈ ہے ؟"کارڈ کو دیکھتے اس نے حیرت سے پوچھا تو بیگ صاحب نے گہری سانس بھری.

"بنفشے کا کارڈ ہے واثق صاحب"

"بنفشے کون اسکی اسسٹنٹ جو آئی تھیں؟"

اس نے کارڈ پڑھتے تصدیق چاہی جس پر بیگ صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔

"آپ کے دماغ میں کچھ چل رہا ہے بیگ صاحب ؟"

ان کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ وہ ایک دم سے سیدھا ہوکر بیٹھا۔

"پتا نہیں یہ بات سچ ہے یا نہیں مگر مجھے ایسا لگتا ہے یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے جذبات رکھتے ہیں"

"ایسا کیسے ہوسکتا ہے ناممکن ہے یشم کبھی لڑکیوں میں انولو نہیں رہا اب کیسے رہ ناممکن"

وہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا۔

"شاید آپ کی بات درست ہو مگر پچھلے مہینے سر کے ایک کالج کے باہر شیلٹر لگوایا تھا لوگوں کے لئے اور پھر اسی کالج کی کسی طلبہ کا کوئی مسئلہ ہوا تھا جو یشم سر کے کہنے پر حل ہوا۔"

"تو اس سب سے بنفشے کا کیا تعلق ہے وہ ایسے کام کرتا رہتا ہے"

"کرتے رہتے ہیں مگر سب کے لئے کسی ایک انسان کے لئے نہیں آپ جانتے ہیں جس لڑکی کے لئے انہوں نے کام کروایا وہ کون تھی؟"

"کون؟"ان کی بات میں کچھ ایسا تھا کہ وہ چپ نہیں رہ سکا۔

"بنفشے تھیں نا صرف یہ بلکہ وہ اسی کالج میں بھی پڑھتی ہیں "

"تو آپ کے کہنے کا مطلب ہے یشم نے یہ سب اس کے لئے کیا ہے؟"

"مجھے تو ایسا ہی لگ رہا ہے اور جب سے بنفشے نے آفس چھوڑا ہے اس دن کے بعد سے سر بھی آفس نہیں آئے اور آج وہ اپنے نکاح کا کارڈ دینے آئی تو اسکی آنکھوں کو نمی و خالی پن کہیں سے نہیں لگ رہا تھا پرسوں اسکا نکاح ہے واثق صاحب کہیں کچھ تو ایسا ہے جو غلط ہورہا ہے٫"وہ یشم کے پرانے ورکر تھے وہ چاہتے تھے وہ زندگی میں آگے بڑھے۔

ان کی باتوں پر وہ لاجواب ہوگیا تھا اسکے پاس کوئی جواب نہیں تھا وہ کیسے اتنی بار بات اس سے چھپا سکتا تھا۔

__________

اسے ایک آخری بار دیکھنے کی امید بھی ٹوٹ گئی تھی پارلر سے آکر بھی اسکا دل اسی بات میں اٹکا رہا۔

"آپی کیا ہوا ہے ٹھیک ہو؟" اسے یوں سوچ میں گھیرے دیکھ عائشہ اسکے پاس آکر بیٹھی تو وہ بےاختیار چونک اٹھی۔

"ہاں ٹھیک ہوں کیا ہوا؟"

"کچھ نہیں آپ کب سے ایک ہی حالت میں بیٹھی ہیں آپ کو کیا ہوا ہے؟"

"مجھے کیا ہونا ہے پاگل بس ویسے ہی کچھ سوچ رہی تھی تم بتاؤ سارے کام ہوگئے تمہارے ؟"

"ہاں کام تو کب کے ہوگئے بس اب کل مہندی لگانی ہے آسیہ آپی آئینگی نا ان سے لگواوں گی "

"ہممم "

"آپی میں جانتی ہوں آپ خوش نہیں ہیں مگر جب اتنا بڑا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو خوش ہونے کا ناٹک ہی کرلیں "

"کس بات کا ناٹک کرنا ہے؟" جواب اسکی بجائے کمرے میں داخل ہوتے عبدالعزیز صاحب کی طرف سے آیا تو ان دونوں کے چہرے کے رنگ اڑے تھے۔

"کک۔کچھ نہیں ابو وہ۔۔ بس نکاح میں کچھ چیزیں کرنی ہیں ان کا بول رہی تھی میں"خود کو سنبھالتے وہ فوراً سے بات بنا گئی۔

"ہمم اچھا جاؤ میرے لئے چائے لے کر آؤ"اسے وہاں سے ہٹاتے وہ خود بنفشے کے سامنے آکر بیٹھے.

"پرسوں نکاح ہے تمہارا اور مجھے خوشی ہے کہ تم میرے بھائی کے گھر جارہی ہو میرا بھائی بہت اچھا ہے وہ سب بہت اچھے ہیں اور اب اس نکاح کے بعد تمہارا رشتہ ہم سے ٹوٹ کر ان لوگوں سے جڑ جائے گا ایک باپ کے لئے یہ تھوڑا مشکل عمل

ہی سہی مگر بعد میں مجھے سکون ہوگا کہ میرے کندھے کا بوجھ کچھ کم ہوا آج کل ویسے بھی بیٹی کی شادی سب سے مشکل کام ہے۔"

"جی ابو"ان کی اتنی تمہید وہ سمجھ نہیں سکی تھی جبھی فقط اتنا ہی کہہ سکی۔

"نکاح کے بعد جلد ہی رخصتی کر دینگے بس اپنے باپ کی عزت رکھ لینا وہاج میرے دل کے بہت قریب ہے ایسا کچھ نا کرنا کہ اسکا دل دکھے کیونکہ اسکا دل دکھے گا تو میرا بھی دکھے گا"اسکے سر پر ہاتھ رکھ وہ اٹھ گئے تو وہ ان کے آنے کا مقصد سمجھ نہیں سکی وہ کیا کہنا چاہ رہے تھے کیا وہ اسکے دل کا راز جان گئے تھے یا اسے یہ بتانے آئے تھے کہ ان کی زندگی میں اس سے زیادہ وہاج کی اہمیت ہے۔

آنسو ایک ایک کر اسکی آنکھوں سے گرے تھے دل اس بے حسی پر کرلایا تھا

_________________

لاونج میں صوفے پر بیٹھے وہ سامنے ٹیبل کو دیکھ رہا تھا جہاں اسکی شادی کا کارڈ پڑا تھا مگر اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ایک بار کارڈ اٹھا کر اسے دیکھتا۔

"کیا ہوا ایسے اسٹل کیوں بیٹھا ہے طبعیت ٹھیک ہے ؟"کافی کا مگ اسکے آگے رکھتے واثق اسکے سامنے صوفے پر بیٹھا تو اس نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"تو یہ کارڈ یہاں کیوں لایا ہے؟"

"تیری اسسٹنٹ کا نکاح ہے مجھے لگا تو جائے گا اس لئے یہاں لے آیا"

کافی کا سپ لیتے وہ مزے سے بولا۔

"میں آج تک کتنی شادیوں میں گیا ہوں جو تجھے ایسا لگا واثق ؟" آگے ہوکر اس نے بغور واثق کو دیکھ آئی برو اچکائی مگر اسکے اطمینان میں زرا فرق نہیں آیا۔

"جب تو اس کے لئے اتنا کچھ کر سکتا ہے جیسے کالج میں اسکے مسئلے حل کر سکتا ہے تو نکاح میں جانا تو پھر بنتا ہی ہے نا"مزے سے کہتا وہ اسکا سکون غارت کرگیا۔

"تو محبت کرتا ہے نا اس سے ؟"

"فضول بکواس مت کر واثق"اسکے اس اچانک وار پر وہ غصے سے بولا تو واثق اپنی جگہ سے اٹھا۔

"کیوں کیوں نا بولوں میں یہی تو سچ ہے نا مگر تیری انا تیرا غرور تجھے یہ بات قبول کرنے سے روک رہا ہے کہ تجھے بنفشے سے محبت ہوگئی ہے مگر تجھ جیسا انسان کہاں یہ بات قبول کرے گا تیرے لئے تو محبت جیسی چیز کا کوئی وجود ہی نہیں تھا نا اب محبت ہوگئی ہے تو اپنی بات سے پھیرنا تیری شان کے خلاف ہوگا نا"

"شٹ اپ واثق "غصے سے واس زمین پر پھینکتے وہ واثق کو خاموش کروا گیا۔

اسٹڈی میں بیٹھا وہ بے دریغ سیگریٹ پی رہا تھا واثق کی باتوں نے ایک بار اسے دوراہے پر لا کھڑا کیا تھا۔

"خود کو چھپا لینے سے حقیقت چھپ نہیں جائے گی یشم"اسٹڈی میں داخل ہوتے وہ ایک بار تیار تھا اس سے مقابلہ کرنے کے لئے

"تو کیا چاہتا ہے واثق۔۔؟"

"میں صرف ایک ہی بات پوچھنا چاہتا ہوں یشم دل سے جواب دے مجھے اسکا۔"

"کیا؟"

"جب اس سے محبت تھی تو کہا کیوں نہیں ؟؟"

"کہنے سے کیا ہوتا کیا حقیقت بدل جاتی؟" سیٹ کی پشت سے ٹیک لگاتے اس نے جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کیا۔

"تو اسے بتاتا کہ تو اس سے محبت کرتا ہے تو ہوسکتا تھا اسکا دل بدل جاتا۔۔"واثق کی بات پر پیپر ویٹ پر چلتا اسکا ہاتھ تھما تھا۔

"محبت بھیک نہیں ہوتی ہے جو آپ مانگوں التجا کرو اور آپ پر ترس کھا کر آپ کی جھولی میں ڈال دی جائے محبت دل میں خود اترتی ہے وہ میرے نصیب میں ہوگی تو دنیا کی کوئی بھی رسم اسے مجھ سے دور نہیں کر سکتی۔۔"

"تو ان افسانوی باتوں میں الجھا رہے اور کل وہ رخصت ہوجائے گی۔

واثق کا بس نہیں چل رہا تھا وہ کیا کر جائے۔ پتا نہیں کیسی محبت تھی اپنی محبت کو کسی اور کا ہونے دے رہی تھی۔

"رخصت نہیں ہورہی بس نکاح ہے شاید تو نے کارڈ غور سے نہیں پڑھا۔"

"یشم میں مذاق نہیں کر رہا جب اس سے محبت کرتا ہے تو اسے بتاتا نا اور اگر وہ نہیں مانتی تو اور بھی طریقے تھے ہمارے پاس"

"کیسے طریقے ؟"

"یشم تو اتنی طاقت تو رکھتا ہی ہے نا کہ اپنی محبت کو حاصل کر سکے سیدھے طریقے سے نہیں تو دوسرے طریقے سے۔"

"تو تم چاہتے ہو میں اسے زبردستی اپنی زندگی میں شامل کروں ؟"اپنی جگہ سے اٹھتا وہ واثق کے سامنے آیا۔

"ہاں بعد میں سب ٹھیک ہوجاتا ہے وہ تجھ سے محبت کرنے لگے گی زندگی نارمل ہو جائے گی"وہ اپنی بات پر ڈٹا ہوا تھا۔

"نارمل ہو جائے گی؟۔۔۔۔۔تو میرا ماضی بھول گیا ہے؟"

"ساری کہانیاں مختلف ہوتی ہیں یشم یوسفزئی تمہیں یہ بات سمجھنی ہوگی"

"میں سمجھ بھی جاؤں تو اسے زبردستی اپنی زندگی میں کبھی نہیں لاؤں گا کیونکہ زبردستی کے رشتہ تو بن جاتا ہے مگر محبت و احترام نہیں رہتا اور اسکی نظروں میں اپنے لئے نفرت دیکھنے سے بہتر یشم یوسفزئی مرنا پسند کرے گا"اپنے لفظوں پر زور دیتے ہیں وہ اسے خاموش کرگیا۔

"تو کیا کہہ رہا تھا اسے حاصل کرلوں تجھے لگتا ہے واثق یہ میرے لئے ناممکن ہے؟ لیکن میں ایسا نہیں کر رہا جانتا ہے کیوں؟ کیوں میں نے اس سے اپنی محبت چھپائی اور کیوں اسکی آنکھوں میں اپنے لئے ایک احساس دیکھتے ہوئے بھی میں پتھر بنا رہا جاننا چاہتا ہے؟" اسکی آخری بات پر واثق کا جھکا سر ایک جھٹکے سے اٹھا تھا۔

تو کیا وہ جانتا تھا کہ بنفشے اسکے لئے فیلنگز رکھتی ہے؟

"میں جانتا تھا مگر یہ وہ راز تھا جو اسکا تھا وہ کسی اور سے منسوب تھی اور پتا ہے واثق اذیت کیا ہوتی ہے جب آپ کو پتا ہو آپ کو کسی اور کا ہونا ہے مگر پھر بھی آپ کو محبت ہو جائے وہ اپنے ماں باپ کا مان رکھنے والی میں اسے ہارتے نہیں دیکھ سکتا۔

اسے لگتا ہے یہ ایک طرفہ محبت ہے اور یہی چیز اسے آگے بڑھنے میں مدد کرے گی اور میں چاہتا ہوں وہ اپنا سر بلند کرتے آگے بڑھے۔ میں ایک ٹوٹی ہوئی شخصیت کا انسان اسے کچھ نہیں دے سکتا مگر ہاں میرا یہ خود سے وعدہ ہے اس کے ہر کڑے وقت میں یشم یوسفزئی اسکے ساتھ رہے گا ظاہر یا چھپ کر مگر ریے گا ضرور"

"یشم میں ایک بار پھر کہوں گا ابھی بھی وقت ہے بعد میں پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا "

"میں ایک بار کہوں گا اس کے بعد نہیں ہمارے نصیب میں جو ہوتا ہے وہ ہی ہمیں ملتا ہے اگر میرے نصیب میں اسکا ساتھ ہے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارے بیچ نہیں آئے گی اور اگر ہمارا ساتھ نہیں لکھا تو میں ایڑی چوٹی کا بھی زور لگا لوں ناکام رہوں گا۔"

"ایک کوشش تو بندہ کرتا ہی ہے نا یشم"

"کوشش ضرور کرتا واثق خدا کی قسم کوشش کرتا اگر وہ منسوب نا ہوتی میری ایک کوشش اسکی زندگی برباد کردے گی اس پر اسکے اپنے سوال اٹھائیں گے اور میری محبت اتنی خود غرض تو ہر گز نہیں ہے"

اسکی باتوں نے واثق کو لاجواب کردیا تھا اسکے پاس اب بچا کیا تھا کہنے کو۔

"مجھے کبھی کبھی تو انسان نہیں لگتا تھا یشم ایک روبوٹ۔۔ دنیا جسے خودغرض کہتی ہے وہ ہیرا ہے "اسکے گلے لگتے وہ اسے خود میں بھینچ گیا۔

______________

مہندی لگے ہاتھوں دیکھتے اس نے سامنے رکھا نکاح کا جوڑا تھا کچھ دیر میں پارلر جانا تھا۔

"کاش میں آپ کا دیکھ سکتی "

"تم ٹھیک ہو بیا؟"

"ہاں ٹھیک ہوں"ہلکا سا مسکراتے اس نے ایک بار پھر اپنے ہاتھوں کو دیکھا۔

"نکاح میں بہت طاقت ہوتی ہے تمہیں وہاج اچھا لگنے لگے گا بیا"آسیہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیسے اسے سمجھائے۔

"ایک بار جو دل کو پسند آ جائے نا آسیہ اسکے بعد دل کو کوئی اور پسند نہیں آتا مگر دیکھو مجھے وہاج کو پسند کرنا ہے یہ میرا نصیب ہے ایک طرفہ محبت ایسی ہی ہوتی ہے انسان کو اندر سے کھا لیتی ہے"

"بیا مت کرو ایسے خدا کا واسطہ ہے"اسے یوں ٹوٹا دیکھ آسیہ کا دل دکھا تھا۔

"جب وہ میرے نصیب میں تھا ہی نہیں تو کیوں میرے دل میں اسکی جگہ بنی میں نے تو آج تک کسی کو اس دل تک رسائی نہیں دی تو کیوں وہ کچھ نا کرتے ہوئے بھی اس دل تک آگیا آسیہ میرے سادہ سی زندگی میں بھونچال آگیا ہے میرا دل کرتا ہے میں پھوٹ پھوٹ کر روؤں"اسکے گلے لگ کر روتے وہ اپنا سارا غبار نکال گئی۔

"سب ٹھیک ہوجاؤ گا اللہ پر یقین رکھو میرے جان اب رونا نہیں جلدی سے آجاؤ پارلر بھی جانا ہے"اسکا گال تھپھتاتے وہ بجھے دل سے باہر آگئی اسے وقت دینا بہت ضروری تھا حد سے زیادہ اسے خود کو اکیلے اس وقت سے نکالنا تھا۔

_____________

ہال اس وقت مہمانوں سے بھرا پڑا تھا بارات آچکی تھی اور نکاح کی رسم ادا ہوگئی تھی۔

ڈریسنگ روم میں بیٹھے اس نے پریشانی سے ادھر ادھر دیکھا دل میں ایک عجیب سی بے چینی نے ڈیرا جمایا ہوا تھا۔

"کیا ہوا پریشان کیوں لگ رہی ہو بھئی زرا مسکراؤ."اس کی دلی کیفیت سے انجان آسیہ نے اسے کہا مگر چہرے پر مسکراہٹ آ ہی نہیں سکی۔

جب دل میں ویرانیوں کا راج ہو تو باہر کا شور بھی کچھ نہیں کر پاتا۔۔

"آسیہ آپی امی کہہ رہی ہیں آپی کو لے آئیں ۔۔" اپنا شرارہ سنبھالتے اس کی چھوٹی بہن اندر آئی تو باہر سے حکم ملتے ہی وہ اور آسیہ اسے لئے باہر اسٹیج کی جانب بڑھیں تھیں۔

کمرے کے فلش اسکے چہرے پر پڑ رہے تھے کئی نگاہوں میں ستائش تھی تو کہیں رشک۔۔

دولہن بن کر اسکا روپ ہی الگ تھا وہ کسی ریاست کی شہزادی لگ رہی تھی ہمیشہ سے خود کو سنبھال کر رکھا تھا زمانے کی رنگینیوں سے بہت دور۔۔۔

اپنے دل کو مار کر اس نے یہ قربانی دی تھی ۔

اسے لے کر اسٹیج پر بیٹھایا ہی گیا تھا کہ دولہا کی آمد کا شور مچ گیا اور اسکی آمد کا سن سجی سنوری اس دولہن کا دل ہتھیلیوں کی دھڑکا تھا۔

وہ پوری شان سے اسٹیج پر آکر اسکے سامنے کھڑا ہوا تو لوگوں نے ان کی جوڑی کو سراہا۔

مگر یہ سراہنا محض کچھ وقت کا تھا۔

"اپنی آوارگی چھپانے کو میں ہی ملا تھا تمہیں مگر اچھا ہوا وقت رہتے مجھے تمہاری بدکاری کا علم ہوگیا۔۔" لوگوں کے شور کو چیرتی اس شخص کی تیز آواز گونجی تو سب کو سانپ سونگھ گیا۔۔

"یہ یہ کیا بکواس کررہے ہو؟" سب سے پہلے عزیر آگے آیا تھا۔

"بکواس نہیں حقیقت ہے اپنی بدکردار بہن کو میرے پلے باندھتے شرم نہیں آئی " اس کے منہ پر تصویریں پھینکتے اس نے زہر اگلا تو مہندی میں سجے ہاتھ کپکپائے تھے۔۔

اس میں ہمت نہیں تھی کہ اپنے لئے کچھ بول سکتی۔۔

"دماغ خراب ہوگیا ہے تیرا کیا بکواس کر رہا ہے کیا ہے یہ سب۔۔"اتنے لوگوں کے سامنے اس طرح کا تماشہ۔۔

غصے سے کھولتے عبدالرحمن صاحب آگے آئے مگر وہ تو جیسے سب سوچ کر بیٹھا تھا۔

"میں مزید اس تماشے کا حصہ نہیں بن سکتا اور نا اسے اپنی بیوی کی حیثیت سے قبول کرسکتا ہوں اس لئے میں اسے آپ سب کی موجودگی میں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں۔۔", اسکے منہ سے جملے ادا ہوتے ہی ایک زناٹے دار تھپڑ اسکے منہ پر پڑا تھا۔

اسکا باپ دل تھام کے ایک طرف لڑکھڑایا وہیں اس کی ماں نے اپنی آنکھوں سے قیامت دیکھی۔

کچھ لمحے پہلے جو تین لفظ اسے اس شخص سے باندھ گئے تھے اب یہ تین لفظ اسے سہاگن سے طلاق یافتہ و بدکردار بنا گئے تھے۔

یہ صدمہ اتنا شدید تھا کہ وہ بنا کچھ بولے ہی ہوش وحواس سے غافل ہوئی تھی۔۔۔

"بیا" اسکے گرنے پر سب اسکی طرف بڑھے تھے لمحوں کا کھیل تھا قیامت آکر گزر گئی تھی۔

کوثر بیگم کو سینے سے لگائے زین کی آنکھیں نم تھیں وہ کچھ نہیں کر سکا تھا اپنی بہن کے لئے

اسی ہال کے کونے میں کھڑی آرزو مشارب دل کھول کر مسکرائی تھی اسکی نظریں زین پر تھیں اسے دیکھ آرزو کے چہرے پر بھرپور مسکراہٹ آئی۔

"چچ مجھے برا تم نے صرف میرے سامنے کہا تھا مگر دیکھو تمہاری بہن کو برا دنیا کے سامنے بولا گیا ہے اب میں بھی دیکھتی ہوں کیسے فخر کرو گے اپنی بہن پر تم"خود سے کہتے وہ جیسے آئی تھی ویسے ہی واپس چلے گئی۔

______________

"یہ کیا کر کے آیا ہے تو وہاج کچھ ہوش ہے سب تباہ و برباد کردیا تو نے"سلمہ بیگم نے رو رو کر پورا گھر سر پر اٹھا لیا تھا۔

"اماں تم شکر کیوں نہیں مناتی کہ اس آوارہ سے جان چھوٹ گئی وقت رہتے مجھے اس کے کرتوت پتا چل گئے ورنہ میرے ساری زندگی برباد ہوجاتی۔٫"

"بس کردے وہاج بس کرے تو کیا سمجھتا ہے ہم کچھ جانتے نہیں اس کے اوپر الزام لگا کر تو اس رشتے سے آزاد تو ہوگیا مگر اس پر اتنی بڑی تہمت لگائی ہے جانتا ہے کیا عذاب ہے تیرے لئے "اسکا گریبان پکڑتے سلمہ بیگم نے اسے آئینہ دیکھایا تو وہ ساکت ہوگیا

"تو اپنے مفاد میں اتنا گر جائے گا میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی اس سے اچھا تھا کہ میں بے اولاد رہتی یا اس یتیم کو ہی گود لے لیتی کم از کم زندگی میں سکون تو ہوتا"

"واہ امی واہ کیا کہنے اس دو کوڑی کے شخص سے میرا موازنہ کر رہی ہو آج مجھے فخر ہے خود پر جو کیا میں نے ٹھیک کیا اس کے ساتھ یہی ہونا چاہیے تھا اور ہاں اب ضرورت نہیں ہے مجھے تمہاری یا تمہارے شوہر کی جا رہا ہوں میں"

غصے سے کہتا وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

ایک قیامت تھی جو ان لوگوں پر ٹوٹی تھی وہ ہوش و حواس سے بیگانہ اسپتال کے بستر پر تھی وہیں اسکا باپ اسپتال کے دوسرے کمرے میں تھا۔

کوثر بیگم کی حالت رو رو کر خراب ہوگئی تھی عائشہ اور زین سب کو سنبھال رہے تھے اتنا بڑا حادثہ ہوا تھا وہ تو شکر تھا عبدالرحمن صاحب کی وجہ سے کوئی بیا کو کچھ بول نہیں سکا مگر کو داغ اسکے دامن پر لگا تھا وہ کبھی مٹ نہیں سکتا تھا

"یہ کیا ہوگیا زین کیوں ہوا میری بہن نے تو کبھی کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تھا تو اللّٰہ نے یہ اتنی بڑی آزمائش اس کے لئے کیوں رکھی"زین کے کندھے سے سر ٹکاتے عائشہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی اور وہ اسے کیا جواب دیتا خود کو سنبھالے وہ تو اپنی بہن کی قسمت پر رو بھی نہیں سکا تھا۔

عزیر گھر گیا تھا پیسے لینے اس وقت ان کے پاس کوئی نہیں گا انہیں ہی ایک دوسرے کا سہارا بننا تھا۔

"انہوں نے کیوں کیا ایسا زین انہیں نہیں کرنی تھی شادی تو بتا دیتے کیوں میری بہن کے دامن پر اتنا بڑا داغ لگا دیا"

"کیونکہ وہ ایک کم ظرف انسان ہے اور وہ اپنے مفاد کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے تم یہ کیوں نہیں سوچتیں شادی کے بعد یہ سب نہیں ہوا تب ہماری بیا زیادہ ٹوٹ جاتی بابا کی کیا حالت ہوتی اب انہیں احساس تو ہوگا"

اسکا ہاتھ تھامے وہ رسان سے اسے سمجھا رہا تھا۔

"زین سب ٹھیک ہو جائے گا ؟"اس نے آس بھری نظروں سے زین کو دیکھا

"انشاء اللہ پریشان نہیں ہو میں کچھ لے کر آتا ہوں تم کھاؤ اور پھر آرام کرنا بہت وقت ہوگیا ہے "اسکے سر پر ہاتھ رکھتے وہ نیچے آیا تھا مگر سامنے آرزو مشارب کو کھڑے دیکھ اس کے قدم ٹھٹھکے۔

وہ کم از کم اسکی موجودگی کی توقع نہیں رکھتا تھا۔

"تمہاری بہن کا سنا چچ بہت افسوس ہوا یہ وہی بہن ہے نا جس کے کردار کی باتیں تم کر رہے تھے"

معصومیت کا ناٹک کرتے وہ زین کے سر تا پیر آگ لگا گئی

"اپنی بکواس بند کرو آرزو تم اس لئے آئی ہو تاکہ میرا مذاق بنا سکو مگر ایک بات بتا دوں میری بہن اس حال میں تم جیسی لڑکی سے لاکھ گنا زیادہ اچھی ہے اور تم اپنا مقابلہ میرے گھر کے کسی فرد سے مت کرنا کیونکہ تم اس قابل بھی نہیں کہ انکا نام اپنے منہ سے لے سکو کجا کہ ان سے اپنا موازنہ کرنا"ایک ایک لفظ چبا کر کہتے وہ آرزو کو سلگا گیا۔

"اپنی طلاق یافتہ بہن پر اتنا غرور ارے ایک بدکردار...."

اس سے پہلے وہ مزید آگ اگلتی زین کا ہاتھ اٹھا اور اسکے منہ پر اپنی چھاپ چھوڑ گیا۔

"بس۔۔۔۔۔ ایک لفظ مزید نہیں ورنہ اس زبان کو گدی سے کھینچ کر الگ کردوں گا اور پھر بھی سکون نہیں ملا تو تمہارے ٹکڑے کر دوں گا میں آرزو مشارب "اسکا منہ دبوچے وہ اسکے منہ پر غرایا تو آرزو کو اپنی ریڈھ کی ہڈی میں سنسناہٹ محسوس ہوئی خود سے اسکے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔

یہ کیسا روپ تھا اسکا۔۔

اسے جھٹکے سے پیچھے دھکیلتے وہ اندر بڑھ گیا۔

جب کہ وہ اس سے آگے کچھ بول ہی نہیں سکی۔۔

_____________

آنکھیں موندے وہ کب سے ایک ہی زاویے میں لیٹا تھا آج تو سیگریٹ بھی ختم ہوگئی تھی مگر اسکی بے سکونی عروج پر تھی رات کے پانچ بج گئے تھے مگر نیند تھی کہ اسکی آنکھوں سے کوسوں دور۔۔۔

بے چینی حد سے بڑھی تو وہ بے اختیار اٹھ بیٹھا دل کو کسی پل چین نہیں تھا دل ڈوبا جارہا تھا دل پر ہاتھ رکھتے وہ اپنی جگہ سے اٹھتا بالکونی میں آگیا۔

تاحد نگاہ اندھیرے کا راج تھا ٹھنڈی ہوا بھی اسکے دل کو سکون نہیں پہنچا سکی۔

دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے موبائل میں چھپا وہ فولڈر نکالا تھا۔

فولڈر کھولتے ہی بنفشے کی کئی تصویریں اسکرین پر روشن ہوئی تو اسکی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر اسکرین کو بھگو گیا

ہونٹوں کو سختی سے بھینچتے اسنے آنکھوں کو بند کر کے کھولا۔

تکلیف اتنی تھی کہ برادشت کرنا مشکل تھا۔

"میں بزدل ہوں بنفشے مجھے معاف کردو اسکی تصویر کو سینے سے لگاتا وہ آنکھیں موند گیا۔

وہ ناجانے کتنی دیر یونہی بیٹھا رہتا گر جو اذان کی آواز اسکے کانوں سے نہیں ٹکراتی۔۔

اذان کی آواز پر موبائل رکھتا وہ اٹھا وضو کر مسجد کا رخ کیا۔

ناجانے کتنی دیر وہ سجدے میں جھکا روتا رہا۔

"میں شکوہ نہیں کرتا میرے اللّٰہ میں تیری رضا میں خوش ہوں بس اسے خوش رکھنا میں تجھ سے نہیں مانگتا اسے کیونکہ میں جانتا ہوں تو نے اسکا نصیب اس شخص کے ساتھ جوڑا ہے جس سے کل اسکا نکاح ہوا ہے میں اس پر کوئی اختیار نہیں رکھتا لیکن پھر بھی میں تیرے آگے اسکا خوشیوں کی دعا کر رہا ہوں مجھے وہ بہت عزیز ہے اسے دنیا کی خوشیاں دینا یا رب کوئی غم اسے چھو بھی نا سکے اور۔۔۔ وہ لمحے کو تھما تھا۔

"میں نہیں بول سکوں گا تو سمجھ لے میری فریاد "سسک سسک کر روتے وہ سجدے سے اٹھا تو آنکھیں لال سرخ تھیں آنکھوں کو صاف کرتے وہ مسجد سے باہر آیا تو صبح کا اجالا چاروں سو پھیل چکا تھا۔

آہستہ سے چلتے وہ گھر کے اندر آیا تو موبائل کی آواز پر وہ چونکا۔

وہ موبائل گھر ہی چھوڑ کر گیا تھا جو اب مسلسل بج رہا تھا

وہ تیزی سے اوپر کمرے میں آیا تو موبائل کی اسکرین اندھیری ہو چکی تھی۔

موبائل اٹھا کر اس نے کال کرنے والے کا نام دیکھا تو بری طرح چونکا۔

اس سے پہلے کہ وہ کال بیک کرتا موبائل ایک بار پھر سے بجا تو بنا لمحے کی دیری کئے اس نے کال ریسیو کی تھی۔

"خیریت ہے اتنی صبح کیوں کال کر رہے؟"چھوٹتے ہی اس نے سب سے سوال کیا تو دوسری طرف سے اسے جو کچھ سننے کو ملا اس نے یشم یوسفزئی کو چکرا کر رکھ دیا تھا۔

"کیا بکواس ہے ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟"

"معلوم کرو اسکا ہمت کیسے ہوئی اسکی "غصے سے فون بند کرتا وہ کپڑے چینج کر فوراً وہاں سے نکلا تھا۔

___________

پوری رات اسپتال میں گزری تھی فجر کے وقت اسے ہوش آیا تو چیک اپ کے بعد اسے ڈسچارج کر دیا گیا۔

وہ ایسی حالت میں نہیں تھی کہ اس سے بات کی جاتی۔

عبدالعزیز صاحب کی حالت بھی سنبھل چکی تھی تبھی وہ لوگ واپس گھر آگئے تھے۔

وہ اندر کمرے میں اپنی قسمت پر ماتم کناں تھی۔

"بیا کچھ کھا لو پلیز دیکھو ایسے مت کرو"ٹیبل پر کھانا رکھتے آسیہ اسکے پاس آکر بیٹھی جو منہ موڑے لیٹی تھی۔

"بیا پلیز دیکھو سب پریشان ہیں میری جان ایسے مت کرو"اسکا ہاتھ تھامے وہ نرمی سے بولی اسکے دل کی حالت اچھے سے سمجھتی تھی۔

"مجھے اکیلا چھوڑ دو آسیہ مجھے نہیں بات کرنی کسی سے مجھے کچھ نہیں کھانا"غصے سے کہتے وہ رخ موڑ گئی تو آسیہ کا اسے دل دکھ سے بھر گیا۔

کیا پہلے کم تکلیفیں تھیں اسکی زندگی میں جو ان تکلیفوں میں اس اذیت کا اضافہ ہوگیا تھا۔

"ایسے مت کرو خدا کے لئے مجھ سے بات کرو بیا"اسکا ہاتھ تھامے وہ عاجزی سے بولی تو بنفشے نے ایک زخمی نظر اس پر ڈالی

"کیا بات کروں آسیہ کیا بات کروں دیکھو جس محبت کو اپنے دل کے نہاں خانوں میں قید کر دیا تھا وہ ہی میری رسوائی کا باعث بن گئی۔۔۔ کیا کروں گی میں وہ کیا سوچیں گے میرے بارے میں سب کیا سوچ رہے ہونگے میں تو اچھی بیٹی بن گئی تھی نا میں تو زبان پر ایک بار بھی اسکا نام نہیں لائی تو پھر کیوں اسی کے نام سے مجھے رسوا کردیا گیا برباد کردیا گیا کہ میں خود سے بھی نظریں ملانے کے قابل نہیں رہی۔۔۔ آخر کیوں اتنی بڑی آزمائش میرے حصے میں ڈال دی گئی میں تو محبت پر صبر کر گئی تھی اسے میرا امتحان کیوں بنا دیا کیوں مجھے رسوا کیا گیا کیونکہ میرے دامن کو داغدار کردیا میں تو سر اٹھانے کے قابل بھی نہیں رہی آسیہ۔۔۔۔ مجھے محبت کرنے کی اتنی بڑی سزا کیوں ملی آسیہ کیوں مجھے توڑ دیا گیا آسیہ "

"ایسا نہیں ہے تم اسے اپنے حق میں بہتر کیوں نہیں سمجھتیں دیکھو تمہاری اس شخص سے جان چھوٹ گئی۔۔"

"ایسے کہ اسے کوئی فرق نہیں پڑے بس میری عزت کا جنازہ نکل گیا"اسکے گلے لگ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔

"ایسا نہیں ہے تم دیکھنا اللّٰہ نے اس سے اچھا دینا ہے تمہیں"اسکی کمر سہلاتے وہ مسلسل اسے تسلی دے رہیں تھی تبھی اچانک باہر سے آتے شور نے ان دونوں کی توجہ کھینچی تھی۔

_____________

گاڑی اسکے گیٹ پر رکی تو یشم نے گہری سانس بھری۔

خود کو سنبھالتے وہ گاڑی سے اترا تو اسکے ساتھ اسکا گارڈ بھی اسکے پیچھے آیا مگر ہاتھ کے اشارے سے اسے روکتے وہ اسکے گیٹ کر آیا اور بیل پر ہاتھ رکھا۔

زندگی کا سب سے مشکل کام تھا جو کرنے آیا تھا۔

دروازہ کھلا تو سامنے زین کھڑا تھا یشم کو دیکھ وہ بے اختیار چونکا۔

"آپ یہاں ؟ یہاں کیا کر رہے ہیں آپ ؟"ناچاہتے ہوئے بھی اسکا لہجہ تلخ ہوا۔

"مجھے آپ کے والد سے بات کرنی ہے۔۔"

"آنے دو انہیں زین۔۔"کوثر بیگم کی آواز پر اس نے ناچاہتے ہوئے بھی یشم کو اندر آنے کا راستہ دیا تو وہ زین کے پیچھے ہی گھر میں داخل ہوا۔

سامنے ہی عبدالعزیز صاحب بیٹھے تھے۔

وہ آہستہ سے چلتا ان کے سامنے کرسی پر بیٹھا تھا۔

"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ۔"

"اب بچا ہی کیا ہے ہمارے پاس بچے ؟"

"بہت کچھ بچا ہے انکل ۔۔ خدا گواہ ہے میرے اور بنفشے کے بیچ ایسا کچھ نہیں تھا وہ بے قصور ہے میں جانتا بھی نہیں تھا میرا نام لے کر اس کے ساتھ یہ سب ہوگا اگر معلوم ہوتا تو اس شخص کو میں زمین میں گاڑ دیتا "ناچاہتے ہوئے بھی اسکا لہجہ تلخ ہوا تھا۔

"بنفشے بے گناہ ہے ہم جانتے ہیں مگر آپ کے آفس کی تصویریں کیسے وہاج کے پاس آئیں اس بات کا کوئی جواب ہے آپ کے پاس ؟"عزیر کی بات پر یشم نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"فلحال تو نہیں مگر یقین رکھیے جس دن پتا چلا اس دن وہ شخص سلامت نہیں رہے گا میں نے کبھی نہیں چاہا میری ذات سے کسی کو تکلیف ہو مگر کو کچھ بنفشے کے ساتھ ہوا مجھے دکھ ہے "

"جو ہونا تھا ہوگیا بچے ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ میری بچی کی جان اس بے غیرت انسان بچ گئی۔

"بالکل مگر میں اپنی طرف سے اس بات کو کرنے آیا تھا کہ بنفشے کے کردار کی گواہی میں دیتا ھوں وہ بے قصور ہیں"اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیسے سب کہے وہ یہاں تک آ تو گیا تھا مگر اب لفظوں کا چناؤ اسکے لئے مشکل تھا بے حد مشکل۔۔۔

"دیکھو تو زرا ہم کل سے اپنے بیٹے کو برا سمجھ رہے تھے اور یہاں تو حقیقت ہی آشکار ہوگئی ہے ہم پر"سلمہ بیگم کی کاٹ دار پر آواز پر سب نے پلٹ کر دروازے کی طرف دیکھا جہاں وہ اور عبدالرحمن صاحب موجود تھے۔

"یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ تائی اماں "سب سے پہلے زین ان کے سامنے آیا تو ان کے ماتھے پر تیوری چڑھی.

"بس زین تو بیچ میں مت آ اگر بنفشے اتنی پاک دامن ہے تو یہ لڑکا یہاں کیا کر رہا ہے "

"یہ کیا بول رہی ہیں آپ بھابی بنا اصل بات جانے"

"ارے بس کردو بنا بات جانے اس لڑکے کی موجودگی نے ہمیں ہمارے سارے جواب دے دئیے ہیں شکر ہے میرا بیٹا بچ گیا اس۔۔"

"بسسسس۔۔۔۔۔۔۔"اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتی اپنا ضبط کھوتے وہ چلایا تھا۔

اسکی آواز اتنی تیز تھی کہ اندر موجود وہ دونوں اس آواز پر بری طرح چونکی۔

"آسیہ یہ یشم کی آواز وہ یہاں" اپنی بات مکمل کئے بغیر ہی وہ باہر کی جانب بھاگی تھی۔

"بس بہت ہوگیا ہے شرم نہیں آتی آپ کو کسی کے کردار پر بات کرتے ہوئے اور اپنے بیٹے کی بات تو کرنا بھی نہیں میرے سامنے جاننا چاہتی ہیں آپ کا بیٹا اس وقت کہاں ہے؟ لے کر چلوں میں آپ کو اس جگہ جہاں آپ کا بیٹا موجود ہے یقین جانئے اس جگہ کو دیکھ کر آپ کبھی اپنا سر نہیں اٹھا سکیں گے۔۔"

"فضول بکواس مت کرو"اسکے سچ بولنے پر وہ دونوں ہی بھڑکے تھے۔

" دوسروں کے بارے میں کچھ بولنے سے پہلے اتنا ضرور جان لیا کریں کہ آپ کی اپنی اولاد کے کرتوت کیا ہیں اور رہی بنفشے کی بات تو ان کے کردار کی گواہی ان لوگوں کو آپ کو دینے کی ضرورت نہیں ہے"ایک ایک لفظ پر زور دیتا وہ ان لوگوں کی بولتی بند کر گیا۔

"آئندہ اپنی زبان سے ان کے لئے کچھ مت بولئے گا ورنہ انجام کے زمہ دار آپ لوگ خود ہونگے" انہیں وارن کرتا وہ رخ پھیر گیا تو اتنی ذلت پر وہ لوگ بھی وہاں نہیں رکے تھے۔

"معذرت آپ کے گھر کے معاملے میں بولا مگر یہ ضروری تھا"عبدالعزیز صاحب سے کہتے اس کی نظر بے ساختہ سامنے پڑی تھی جہاں وہ لٹی ہوئی حالت میں اسکے سامنے تھی۔

نظروں کا تصادم ہوا تو وہ فوراً سے اندر ہوئی تھی۔

"انکل میں جانتا ہوں یہ صحیح وقت نہیں مگر۔۔۔"اس نے لمحے کا توقف کیا۔

"میں بنفشے سے شادی کرنا چاہتا ہوں آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا" اپنی بات سے وہ وہاں لوگوں کے سروں پر پہاڑ گرا گیا تھا۔

وہ سب اپنی جگہ ساکت تھا اپنی بات کہہ کر وہ رکا نہیں تھا۔

عبدالعزیز صاحب شش وپنج کا شکار تھے اتنی جلدی یہ سب انکی سمجھ سے باہر تھا وہ کیوں ایسا کر کے گیا تھا وہ اسی پریشانی میں تھے جب ٹھیک ایک ہفتے بعد واثق اپنی مدر کے ساتھ آیا۔

اسے یشم نے بھیجا تھا۔

"دیکھیں بھائی صاحب جو بھی ہوا اس میں بنفشے کی تو کوئی غلطی نہیں ہے اور ویسے بھی نکاح پانچ منٹ بھی نہیں رہا تو کیوں آپ اس پر یہ ظلم کر رہے ہیں اسے بھی زندگی جینے کا حق ہے"

"دیکھیں میں ایسے کیسے اسکی شادی اسی انسان سے کردوں جس کی وجہ سے اسے۔۔۔۔ اپنی بات کہتے کہتے وہ ایک دم سے چپ ہوگئے۔

"یہ ناممکن ہے لوگ باتیں بنائیں گے۔"

"لوگوں کے ڈر سے آپ اپنی بیٹی کو زندہ درگور کر دینگے ؟ کیا یہ ظلم نہیں ہے آپ خود سوچیں اگر وہ غلط ہوتا تو کیا یوں رشتہ دیتا اسے احساس ہے اسکی وجہ سے یہ ہوا ہے اور بھائی صاحب میں اس لڑکے کو بچپن سے جانتی ہوں میرے سامنے کا بچہ ہے جب میں اسکی گواہی دے سکتی ہوں تو کیا آپ اپنی بیٹی کر بھروسہ نہیں کر سکتے آپ نے تو اسے خود پالا ہے آپ کو لگتا ہے وہ ایسا کچھ کرے گی؟"

ان کی باتوں نے واقعی عبدالعزیز کو لاجواب کیا تھا۔

"انکل میں نے وہاج کے بارے میں سب معلومات حاصل کی ہیں اور یقین جانئے مجھے حیرت ہوئی کہ آپ اسکے چچا ہو کر اسکی سرگرمیوں سے لاعلم رہے"

اسکی کل ہی تصاریر اور بہت سے چیزیں واثق نے ان کے سامنے رکھی تو ان کے لمحے کو ہاتھ کانپے تھے۔

"وہ کوئی کام نہیں کرتا تھا جوا کھیلتا تھا اور مجھے یقین ہے آپ کو یہ بات معلوم ہی نہیں ہوگی یہ رشتہ ہی جھوٹ کی بنیاد پر بن رہا تھا آپ تو شکر ادا کریں کہ وہ اس جہنم میں جانے سے بچ گئیں۔"

وہ لوگ اپنی پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے حقیقت جان کر کوثر بیگم اور عبدالعزیز صاحب دونوں ہی بولنے کے قابل نہیں رہے تھے۔

"انکل ابھی بھی دیر نہیں ہوئی وقت آپ کے ہاتھ میں ہے یشم کو ایک دنیا جانتی ہے اس ملک کا سب سے نمبر ون بزنس مین ہے وہ"

"دیکھیں بھائی صاحب کوئی زبردستی نہیں ہے ہم بس رشتہ لے کر آئیں ہیں آخری فیصلہ آپ کا ہی ہوگا کہ آپکی بیٹی کے لئے کیا صحیح ہے اور کیا غلط " واثق کی والدہ نے بال ان کے کورٹ میں ڈال دی تھی۔

وہاج کی سچائی جان کر وہ حیرت زدہ تھے وہ کیسے اپنی بیٹی کو ایسے دلدل میں جھونک رہے تھے۔

"بنفشے نہیں مانے گی"ان کی اگلی بات پر وہ دونوں چونکیں تھے اسکا مطلب وہ راضی تھے۔

"آپ بس اپنا بتائیں بنفشے کو راضی کرنا ہمارا کام یے"انہیں کہتے وہ اب جواب کی منتظر تھیں۔

کوثر بیگم نے ایک امید بھری نظروں سے اپنے شوہر کو دیکھا تھا۔

ان دونوں کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا اپنی بیٹی کو خوشیاں دینے کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتی تھیں۔۔

__________

جب سے اسے اس رشتے کا پتا تھا چلا تھا اسکا بس نہیں چل رہا تھا کیا کر جائے اپنی تکلیف درد سب ایک بار پھر یاد آیا تھا

"سمجھتے کیا ہیں وہ خود کو ہمت کیسے ہوئی یہ سب کرنے کی"

"آپی ریلکس ہو جاؤں کیا ہوگیا ہے اگر پرپوزل آیا ہے تو کیا برائی ہے "

"تم کچھ نہیں جانتیں وہ ایسے ہی ہیں سب سے ہمدردی کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے مگر یہ ہمدردی کر کے وہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں "وہ پاگل تھی بہت بڑی جو الٹا ہی سوچ رہی تھی۔

"عائشہ آسیہ کو بلاؤ پلیز"جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو آخر میں آسیہ کا ہی خیال ہے۔

اور پھر جب تک آسیہ نہیں آئی وہ چلے پیر کی بلی کی طرح گھومتی رہی۔

"خیریت ہے اتنے اچانک بلایا ؟"بیگ رکھتے اس نے پوچھا تو بنفشے نے نم آنکھوں سے اسکی طرف دیکھا۔

"بیا کیا ہوا ہے کیوں ایسے پریشان ہو بتاؤ مجھے"اتنی مشکل سے تو اسے سنبھالا تھا۔

"یشم یوسفزئی نے رشتہ بھیجا ہے اپیا کے لئے"عائشہ نے اس کے سر دھماکہ کیا۔

"کیا واقعی کون آیا تھا ؟"

"ان کے دوست اور انکی مدر آئی تھیں اور تب سے آپی کا سکون نہیں ہے"آسیہ کو بتاتے وہ اپنا سامان اٹھاتے باہر گئی تو آسیہ نے اسے گھور کر دیکھا۔

"بیا تو پاگل ہے یہ سب اللّٰہ کی طرف سے ہے"

"پلیز ان کی ہمدردی اور ترس کو دوسرے معنیٰ نہیں دوں آسیہ مجھے ان سے بات کرنی ہے پلیز مجھے لے کر چلو"اسکی منت کرتے وہ آسیہ کو بےبس کر گئی۔

"تم سے بڑا بیوقوف میں نے آج تک نہیں دیکھا۔"

"کوئی مسئلہ نہیں ابھی جاؤ اور امی سے بات کرو "

غصے سے اسے گھورتے آسیہ باہر گئی اور پھر کوثر بیگم سے اجازت لیتے وہ دونوں باہر آئی تھیں۔

"تم آخر کہو گی کیا ان سے؟"

"انہوں کہوں گی کہ اپنی ہمدردی اپنے پاس رکھیں مجھے کسی کی ضرورت نہیں ہے ایک طلاق یافتہ لڑکی سے شادی کر اگر وہ سب کی تعریف وصول کرنا چاہتے ہیں تو میں ایسا ہر گز نہیں ہونے دونگی۔۔"

"بیا جذباتی فیصلے مت کرو خدا کے لئے یہ پوری زندگی کا معاملہ ہے اپنی محبت کو انا کی بھینٹ مت چڑھنے دو"

"آسیہ میں کسی کی ہمدردی بھری نظریں نہیں دیکھ سکتی خود پر وہ صرف اس لیے مجھ کر ترس کھا رہے کیونکہ ان کی وجہ سے ہوا ہے جو کچھ ہوا ہے اور میں کسی کو خود پر ترس کھانے نہیں دونگی میں نے اپنے کردار پر بہت کچھ برادشت کیا ہے مگر اب مزید نہیں کرونگی یہ میری زندگی ہے اب میں مزید خود کو رسوا نہیں ہونے دونگی چاہے کچھ بھی ہو جائے "

"تمہیں تو ان سے محبت تھی نا"؟

آسیہ کی بات پر اس نے سر جھکایا تھا۔

"میرے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے اور نا آئندہ تم مجھ سے یہ سوال کرنا تمہیں خدا کا واسطہ ہے"اس سے التجا کرتے وہ اندر آفس میں داخل ہوئی تھی۔

__________

"ہمت کیسے ہوئی میرے گھر رشتے بھیجنے کی؟" کمرے کا دروازہ دھاڑ سے کھولتے وہ اندر آئی اپنے کام میں مصروف وہ بری طرح چونکا۔

"ہمت ایسے ہوئی کہ بس ہوگئی۔"ہاتھ کی مٹھی بنا کر ٹھوڑی پر رکھتے اس کے اطمینان سے جواب دینے پر اسکا پارہ ہائی ہوا۔

"مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی ہے آخر یہ بات آپ کو سمجھ کیوں نہیں آتی ہے؟؟"

اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا کرجائے۔۔

اسکے مطالبے پر وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے روبرو آیا تو اسکے یوں قریب آنے پر وہ ایک دم سے پیچھے ہوئی۔

"کیوں نہیں کرنی آپ کو مجھ سے شادی؟؟"

"یا تو آپ کو کچھ نہیں پتا یا واقعی آپ انجان بن رہے ہیں مگر میری بات کان کھول کر سن لیں مسٹر یشم یوسفزئی میں ایک طلاق یافتہ لڑکی ہوں اور میری زندگی میں آپ کی کوئی گنجائش نہیں۔۔"ایک ایک لفظ چبا کر کہتی وہ اس پر بہت کچھ باور کروا گئی مگر سامنے بھی وہ تھا۔

"لیکن میری زندگی میں تو آپ کی گنجائش ہے مس بنفشے۔۔"

"ایک طلاق یافتہ لڑکی کسی کی بیوی نہیں بن سکتی یشم۔۔"

"تو ٹھیک ہے میں اس لڑکی کو پہلے دولہن بناؤ گا اور پھر ساری دنیا سے اسے اپنی بیوی کی حیثیت سے ملواؤں گا۔۔اور پھر اسکی طرف اٹھنے والی ہر انگلی جڑ سے الگ ہوگی کیونکہ تب وہ لڑکی یشم یوسفزئی کی بیوی ہوگی اسکی محبت" اسکی آنکھوں میں جھانک کر کہتے وہ اسکا دل دھڑکا گیا تھا۔

"فضول بات مت کریں میرے ساتھ مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی تو نہیں کرنی کیوں اپنا اور میرا تماشہ بنا رہے ہیں بس کردیں خدا کے لئے"اسکے آگے ہاتھ جوڑتے وہ یشم کا دل چیر گئی۔

"مت کریں ایسے بنفشے مت کریں مجھے مجبور نا کریں کچھ غلط کرنے پر آپ کو ایسے ٹوٹا بکھرا نہیں دیکھ سکتا میں"اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیتا وہ اسے کرنٹ لگا گیا۔

ایک چھٹکے سے اپنے ہاتھ اسکی گرفت سے نکال وہ بھڑکی تھی۔

"اپنی حد میں رہیں اور یہ خیال دل سے نکال دیں کہ میں آپ سے شادی کرونگی اپنی ہمدردی اور ترس کسی اور کے لئے رکھیں میرا آپ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے آئندہ مجھ سے دور رہیے گا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا"اسے وارن کرتی وہ وہاں سے واک آؤٹ کر گئی اسکی بولتی نظریں اسے خود میں چبھتی محسوس ہوئی تھیں۔

"نہیں یشم یوسفزئی آپ کی باتوں میں نہیں آؤ گی میں کیونکہ حقیقت مجھے پتا ہے"

خود سے کہتے وہ گھر آکر اپنے کمرے میں بند ہوئی تھی۔

"وہ خود بھی نہیں جانتی تھی وہ کیا کر رہی ہے مگر اتنا تو اس نے سوچ لیا تھا اسکی زندگی میں یشم یوسفزئی کی کوئی جگہ نہیں تھی۔

_____________

پورا ہفتہ ہوگیا تھا وہ گھر نہیں گیا تھا نا اسے جانے میں دلچسپی تھی۔

اسکی دلچسپی صرف ایک جگہ تھی جہاں سے اسے پیسہ ملنا تھا۔

اس وقت اسکا رخ اپنی منزل پر تھا چہرے پر ایک معنی خیز سے مسکراہٹ تھی۔

وہ مخصوص جگہ پہنچا تو گارڈ نے اسکا راستہ روکا تھا۔

"اپنی آرزو میڈم کو کہو وہاج ملنے آیا ہے ایک بہت ضروری ہے"اسکی بات پر گارڑ اندر گیا تھا اور پھر تھوڑی دیر بعد ہی اسے اندر بلایا گیا تھا وہ اندر داخل ہوا تو اس عالیشان بنگلے کو دیکھ اسکی آنکھیں چمکیں تھیں۔

"تم یہاں کیوں آئے ہو ؟"اندر آتے ہی آرزو نے سوال کیا تو اس نے ایک مسکراتی نظر اس پر ڈالی تھی۔

"اپنی ہونے والی بیوی سے ملنے آنا پڑا کیونکہ اس نے تو میری خیر خیریت معلوم کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔"

"دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا کیا بکواس کر رہے ہو نشے میں ہو کیا؟"وہاج کی بات پر اسکا دماغ گھوما تھا۔

"ہاں نشہ تو ہوگیا ہے تمہارا "اسکا ہاتھ تھام وہ انتہائی برے طریقے سے اسے اپنے قریب کرگیا تھا تبھی آرزو کا ہاتھ اٹھا اور وہاج کے چہرے پر نشان چھوڑ گیا۔

"اپنی اوقات میں رہو سمجھ آئی تم جیسے کیچڑ آدمی سے اس سے زیادہ کی توقع کی بھی نہیں تھی میں نے دفع ہوجاؤ یہاں سے اور آئندہ اپنی شکل مت دیکھانا"غصے سے کہتے وہ جیسے ہی آگے بڑھی اسکا ہاتھ وہاج کی سخت گرفت میں آیا تھا۔

اس سے پہلے وہ کوئی کاروائی کرتی اسے ایک جھٹکے سے موڑتے وہاج نے اسکا میں دبوچا تھا۔

"تیری وجہ سے گھر بدر ہوا اپنی کزن کو طلاق دی اور تو مجھے کیچڑ بول رہی بتاؤ کہ اصل کیچڑ ہوتی کیا ہے مگر نہیں اتنی آسانی سے کیسے "اسکے کان کے قریب کہتے وہاج نے اپنا موبائل اسکے آگے کیا تو ایک وڈیو اسکے سامنے تھی جسے دیکھ اسکا دل کیا زمین میں گڑ جائے"

"زلیل انسان ڈلیٹ کرو اسے "اپنی انتہائی پرنسنل وڈیو اسکے پاس دیکھ وہ آپے سے باہر ہوئی تھی مگر افسوس وہ کچھ نہیں کر سکی کیونکہ وہاں کی گرفت بہت مضبوط تھی۔

وہ لاکھ بری سہی مگر بدکردار نہیں تھی اسکا دامن صاف تھا مگر وہاج کے پاس اسکی وڈیو نے اسے پاگل کردیا تھا وہ کیسے اتنا گر سکتا تھا اور وہ وڈیو کب بنائی گئی وہ نہیں جانتی تھی.

"اگر یہ وڈیو چاہتی ہو ڈلیٹ ہوجائے تو ایک بھاری بھرکم اماونٹ میرے اکاؤنٹ میں بھیج دینا اور ہاں بہت جلد ماں باپ کو بھیجوں گا رشتہ لے کر ہاں کردینا ورنہ انجام تو پھر.."اپنی بات اُدھوری چھوڑ وہ قہقہ لگا کر ہنس پڑا۔

"میری جان تم اس بار غلط بندے سے ٹکرا گئی ہو مگر کوئی نہیں ہر عروج کو زوال ہوتا ہے اسی طرح ایک برے انسان پر اس سے بھی برا انسان حاوی ہوجاتا ہے"اسے ایک جھٹکے سے زمین پر پھینکتے اس نے حقارت بھری نظر اس پر ڈالی۔

"میرے پاس آنے کے لئے تیار رہنا کیونکہ تمہیں مجھ سے تو کوئی نہیں بچا سکتا مگر بھی جاؤ گی تو قبر سے نکال لونگا تمہیں تو دور جانے کا تو سوچنا بھی نہیں"

اسے وارن کرتا وہ نکلتا چلا گیا اور اسکے جاتے ہی وہ بھاگ کر کمرے میں آتے ہی بیڈ پر گر کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔

"ٹھیک کہا تھا وہاج نے برا کرنے والے کے اوپر ایک اور برا کرنے والا آجاتا ہے"بےبسی کے احساس سے وہ زمین میں بڑھتی چلے گئی۔

واثق اسکی والدہ سب بار بار اس سے بات کر رہے تھے مگر وہ تھی کہ مان کہ نہیں دے رہی تھی۔

سب حیران تھے اسکی ضد پر وہ ضدی تو کبھی رہی ہی نہیں تھی مگر اس بار اسکی ضد سمجھ سے باہر تھی۔

کوئی اسکے ساتھ زبردستی بھی نہیں کرسکتا تھا کیونکہ جو کچھ اسکے ساتھ ہوا تھا اسکے بعد اپنا فیصلہ اس پر وہ تھوپنا تو ہر گز نہیں چاہتے تھے۔

مسلسل دو مہینے سے وہ لوگ کوشش کر رہے تھے مگر وہ ناجانے کیا سوچ کر بیٹھی تھی۔

اس سے محبت کی دعویدار وہ اب اسکی چاہت سے منکر تھی اسکے اندر کیا چل رہا تھا کوئی نہیں جانتا تھا اور جو کچھ وہ کہہ رہی تھی اس پر کوئی یقین نہیں کر رہا تھا۔

اسکے الفاظ اسکی آنکھوں کا ساتھ نہیں دے رہے تھے ناجانے کیوں؟

وہ چپ تھا وہ انتظار میں تھا کب وہ کھول کر اس سے اپنی بات کا اظہار کرے گی مگر اتنے وقت بعد بھی اس کی طرف سے انکار نے یشم یوسفزئی کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا جبھی آج وہ اس واقعے کے بعد پہلی بار اسکے سامنے آیا تھا۔

وہ آسیہ کے ساتھ اسکے گھر پر تھی جب آسیہ باہر گئی اور پھر اندر یشم یوسفزئی آیا۔

اس ستم گر کو سامنے دیکھ اسکا دل زور سے دھڑکا تھا۔

"کیوں آئے ہیں آپ یہاں میرا جواب آپ کے پہنچ تو گیا ہے اسکے سامنے بیٹھنے پر وہ چٹخ کر بولی تو یشم نے ایک نگاہ اس پر ڈالی اس ایک نگاہ میں پتا نہیں ایسا کیا تھا کہ وہ بری طرح گھبرا گئی۔

"مجھ سے شادی کرلو بنفشے۔۔" اپنی ساری ضد انا کو چھوڑے وہ اسکے در پر آیا تھا۔

"میں مر جاؤ گی مگر یہ شادی نہیں کروں گی خود کو مت تھکائیں آپ کو خدا کا واسطہ ہے یشم۔۔", اسکے آگے ہاتھ جوڑے وہ بے بسی سے رو دی اور اسکے رونے پر یشم یوسفزئی کے دل کو کسی نے مٹھی میں لیا تھا۔

"مجھے صرف وجہ بتا دو تا کہ مجھے یہاں دوبارہ نا آنا پڑے۔۔" وہ آج باضد تھا۔

"وجہ جاننا چاہتے ہیں؟؟ ہمت ہے؟ اگر میں کہوں میرے طلاق کی وجہ صرف اور صرف یشم یوسفزئی ہے تو کیا کرو گے؟ آپ کی وجہ سے میں برباد ہوگئی ہوں بدنام ہو کر رہ گئی ہوں کیا مجھے میرا گزرا وقت لوٹا دو گے نفرت ہے مجھے آپ سے یشم یوسفزئی نفرت۔۔۔۔ اتنا کافی ہے یا اور بتاؤ کہ میں آپ سے کتنی نفرت کرتی ہوں آپ اس دنیا کے آخری مرد بھی ہوئے تب بھی میں آپ سے تو ہر گز شادی نہیں کرونگی اب چلے جائیں یہاں سے دوبارہ کبھی مجھے اپنی شکل مت دیکھانا۔۔" بہتے اشک کانپتے لبوں سے اس نے یشم کی دنیا ہلا دی تھی۔

"اگر یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے تو اسے ٹھیک بھی مجھے کرنا چاہیے اگر تمہیں لگتا ہے تمہاری یہ نفرت بھری تقریر سن کے میرے قدم رک جائیں گے تو بنفشے عبد العزیز اس بات کو کہیں لکھ کر رکھ لو جب تک تمہیں اپنی دولہن نہیں بنا لیتا میں ہار نہیں مانوں گا اور ہاں اگلی بار تقریر میں تھوڑی جان لانا میں زرا متاثر نہیں ہوا۔۔"اپنی بات کہتے وہ مزید وہاں رکا نہیں تھا۔

"میں کوئی تقریر نہیں کر رہی ہوں آئی سمجھ آپ کو؟"

"اچھا ویسے پتا ہے جب اتنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں نا تو آپ جناب کا تکلف نہیں کرتے"

اس پر چوٹ کرتا وہ اپنی جگہ سے اٹھا تھا مگر جاتے جاتے وہ ایک دم پلٹا۔

"اب بھی مانیں آپ تو میں دوبارہ آؤ گا اور تب تک آؤ گا جب تک آپ مان نہیں جاتیں"اسے کہتا وہ مزید رکا نہیں تھا۔۔

___________

خود کو کمرے میں قید کئے وہ مسلسل رو رہی تھی ہمیشہ لوگوں کو تنگ کیا تھا نیچا دیکھایا تھا مگر خود کے ساتھ ایسا ہوگا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔

"یاللہ میری مدد کریں میں کیا کروں ؟" دوسروں کی زندگی برباد کرنے والی کو آج اپنی باری پر خدا یاد آیا تھا۔

کوئی اور بات ہوتی تو وہ خود سے مقابلہ بھی کر لیتی مگر خود کو کیسے اس ذلت کے گڑھے سے نکلتی۔۔

سوچ سوچ کر دماغ شل ہوگیا تھا یشم تو اسے ویسے ہی غلط سمجھتا تھا وہ اس سے تو کبھی کر بھی یہ بات نہیں کر سکتی تھی۔

سوچتے سوچتے اب سر دیکھنے لگا تھا جب اسے اچانک اسکا خیال آیا۔۔

"زین۔۔۔ ہاں وہ میری مدد کر سکتا ہے میں اپنے کئے کی معافی مانگ لونگی وہ جانتا ہے اپنے کزن کے کرتوت وہ مدد کر سکتا ہے میری"خود سے بول پر وہ فوراً سے اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔

جس کی بہن کی زندگی برباد کردی تھی اج اسی سے اپنی زندگی کی بھیک مانگنے جارہی تھی۔

اللّٰہ برے لوگوں کو سزا ضرور دیتا ہے مگر اسے اتنی جلدی ملے گی یہ تو سوچا بھی نہیں تھا ہاں یہی تو نظام قدرت ہے وہ ہوجاتا ہے جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔۔۔

_________

گھنٹوں کے گرد بازو باندھے وہ چھت پر بیٹھی آسمان کو تک رہی تھی جب کوثر بیگم اس کے پاس آکر بیٹھیں۔۔

"کیوں خود کو تھکا رہی ہوں بیا"ان کی آواز پر اس نے چونک کر انہیں دیکھا اور پھر ان کا سوال سمجھتے وہ سر جھکا گئی۔

"آپ وجہ جانتی ہیں امی میں نہیں کر سکتی شادی نا۔یشم سے نا کسی اور سے میری زندگی میں کوئی خوشیاں نہیں ہیں میں نے مان لیا ہے آپ بھی مان لیں نا۔۔"ان کا ہاتھ تھامے وہ عاجزی سے بولی تو ان کا دل کیا تھا۔

"پہلے تو کبھی اتنی ضدی نہیں رہی تم"

"پہلے اتنا سب کچھ ہوا بھی تو نہیں تھا نا امی میرا دامن اور کردار دونوں صاف تھے اب میرے دامن پر طلاق کا داغ اور میرے کردار پر بد کرداری کی کیچڑ پڑ گئی ہے میں کیسے نا خود کو بدلوں ؟"

"میں جانتی ہوں میری جان ہمارے ایک غلط فیصلے نے تمہاری زندگی کو مشکل کر دیا۔۔۔"

"یہ میرا نصیب تھا امی خود کو مت تھکائیں خود کو قصوروار مت سمجھیں آپ لوگ بس خوش رہیں میں بھی خوش رہنا چاہتی ہوں بھول جائیں جو ہوا شادی ضروری نہیں ہے امی مجھے وقت دیں تھوڑا پلیز "

ان کے آگے ہاتھ جوڑے وہ التجا کر رہی تھی اب ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا اس لئے خاموشی سے اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ نیچے چلے گئیں۔

"آپ لوگ کیوں نہیں سمجھتے مجھے کیوں آپ لوگ میرے ساتھ یہ کر رہے ہیں میں نے اس شخص کی محبت کی تمنا کی تھی میں ٹوٹ جاؤں گی مجھے اس شخص سے نفرت کرنی ہے جتنی میں اس سے محبت کرتی ہوں میں اس سے بھی زیادہ اس سے نفرت کرنا چاہتی ہوں اور اب اس بات سے میں پیچھے نہیں ہٹوں گی چاہے کچھ بھی ہو جائے "

مگر وہ کہاں جانتی تھی کہ جس قسمت نے اسکے ساتھ یہ کھیل کھیلا ہے آگے بھی وہی قسمت اسکے سارے فیصلے کرے گی۔۔

__________

"بیا بیا جلدی اٹھو دیکھو تمہارے بابا کو کیا ہورہا ہے بیا"وہ نیند میں تھی جب کوثر بیگم کی آواز پر ایک دم ہڑبڑا کر اٹھی۔

"امی کیا ہوا ہے سب خیریت ہے"اٹھتے ہی وہ بنا سوچے سمجھے تیزی سے باہر کی جانب بھاگی تھی۔

"بیا اپنے بابا کو دیکھو بیٹا یہ اٹھ کیوں نہیں رہے ہیں"وہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی سامنے بستر پر اپنے بابا کو یوں پڑے دیکھ اس کے ہاتھ پیر پھولے تھے۔۔

"بابا اٹھیں کیا ہوا ہے آپ کو بابا..."انکا ہاتھ سہلاتے وہ مسلسل انہیں پکار رہی تھی۔

گھر میں سوائے ان تینوں کے کوئی تھا بھی نہیں عائشہ اور عزیر دونوں عارفہ کی طرف رکے تھے اور زین ہاسٹل میں تھا۔۔

"امی آپ رکیں میں ایمبولینس کو کال کرتی ہوں آپ بابا کو سنبھالیں۔۔"

کوثر بیگم کو کہتی وہ جلدی سے اپنے کمرے میں آئی اور بار بار کال کرکے کے باوجود دوسری طرف سے کوئی رسپانس نہیں دیا تھا۔

"یا اللّٰہ پلیز میری مدد کریں "

ایک بار پھر موبائل کان لگائے وہ باہر آئی تو حیرت کا زور دار جھٹکا اسے لگا تھا۔

"بیا جلدی سے اپنے بابا جی رپورٹس دو"چادر پہنے انہوں نے اسے کہا تو وہ چونکی۔

"آپ کہاں جارہی ہیں گاڑی نہیں آئی ابھی"

"یشم آگیا ہے لینے تک جاؤ جلدی وہ باہر انتظار کر رہا ہے"

ان کی پکار پر وہ جلدی سے رپورٹس لینے اندر بھاگی جب تک وہ باہر آئی کوثر بیگم گاڑی میں بیٹھ چکی تھیں اس نے جلدی سے رپورٹس انہیں تھمائیں۔

"خیال رکھنا دروازہ لاک رکھئے گا اور فکر کرنے کی ضرورت نہیں میں ہوں ان لوگوں کے ساتھ"اپنے پیچھے مردانہ آواز پر وہ جھٹکے سے مڑی تو سامنے وہ تھا۔

بکھرے بال سرخ ہوتی آنکھیں۔

وہ یقیناً نیند سے اٹھ کر یہاں آیا تھا۔

"جائیں بنفشے اندر"اسے اندر جانے کا کہتا وہ جلدی سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تو وہ ہوش میں آتی جلدی سے اندر چلی گئی۔

اور پھر ان کے جانے تک وہ جھری سے انہیں دیکھتی رہی

"مجھے معاف کر دیں بابا آپ کی حالت کی زمہ دار صرف میں ہوں"خود سے کہتے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی آج وہ اکیلی تھی اسے کوئی روک نہیں سکتا تھا رونے سے اپنے دل کا غبار نکالتے وہ ناجانے کتنی دیر تک روتی رہی۔۔۔

___________

بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے وہ بے حس و حرکت بیٹھی تھی۔

اتنے وقتوں سے وہ زین سے بات کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر وہ اس سے ملنا ہی نہیں چاہتا تھا وہاج کی حرکتیں بڑھتی جارہی تھیں۔

اسکے پیسوں کے مطالبے میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔

وہ تھک گئی تھی خود سے اگر اسکی وڈیوز اسکے پاس نہیں ہوتیں تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔۔

مشارب صاحب کافی عرصے سے ملک سے باہر تھے اور ایسا اکثر ہوتا تھا وہ مہینے دو مہینے کے لئے ملک سے باہر لازمی جاتے تھے ڈائیورس کے بعد اسکی ماں نے تو پلٹ کر بھی خبر نہیں لی تھی۔

کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اگر وہ وہاج کو پیسے نا دیتی تو وہ اسکی وڈیو سوشل میڈیا پر لیک کردیتا اور اس سے نا صرف اسکی بلکہ مشارب صاحب کی ساکھ بھی بہت بری طرح متاثر ہوتی ان دونوں کی عزت کی دھجیاں اڑ جاتیں۔۔

اسکی نظر میں ایک زین ہی تھا جو اسکی مدد کر سکتا تھا کیونکہ وہ وہاج کا کزن تھا مگر اتنا کچھ ہونے کے بعد وہ اسکی شکل دیکھنے کا روادار نہیں تھا یہ آگ اسکی اپنی لگائی ہوئی تھی جس میں وہ خود بری طرح جھلس گئی تھی۔

وہ خود کو ختم کر دینا چاہتی تھی مار دینا چاہتی تھی مگر مرنے سے پہلے وہ ایک آخری بار اپنے کئے کی معافی زین سے مانگنا چاہتی تھی۔

اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوتے وہ آج ایک بار پھر اسکے ہاسٹل کے باہر کھڑی تھی۔

گارڈ اندر زین کو بلانے گیا تھا اسکا بار بار یہاں آنا زین کی امیج خراب کر رہا تھا اور اسکی آج یہاں آمد نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا جبھی غصے سے کھولتا وہ آخرکار اسکے روبرو آیا تھا۔

اسے سامنے دیکھ وہ اپنی گاڑی سے اتر کر اسکے سامنے کھڑی ہوئی۔

"کیا چاہتی ہو تم کیوں میرا پیچھا لے لیا ہے جان چھوڑ دو میری زرا شرم نام کی چیز نہیں ہے نا تم میں"اسکے باہر آتے ہی وہ بری طرح اس پر چڑھ دوڑا ۔

"مجھے معاف کرو زین پلیز مجھے معاف کردو دیکھو میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں مجھے معاف کردو ایک بار میری سن لو.."

"پلیز آرزو تمہارے اب کسی ناٹک میں نہیں آنے والا میں "

"کوئی ناٹک نہیں ہے میں اعتراف کرتی ہوں کہ جو کچھ اب تک ہمارے درمیان ہوا میں کر بار حد سے گزرتی چلی گئی تم وہ واحد انسان تھے جس نے مجھے اگنور کیا تھا مجھے میری حیثیت بتائی تھی میری انا پر بہت گہری چوٹ لگی تھی مجھے نہیں سمجھ آرہا تھا میں کیا کروں تبھی میں نے وہاج کے ساتھ مل کر تمہاری بہن کی زندگی برباد کردی میں ہی تھی وہ جس نے یشم کے ساتھ اسکی تصویر لی تھیں میں تمہیں برباد کرنا چاہتی تھی مگر دیکھو میرے ساتھ۔۔"

اس سے پہلے وہ مزید کچھ بولتی زین کا ہاتھ اٹھا تھا جو اسکے چہرے کر نشان چھوڑ گیا۔

"دفع ہوجاؤ یہاں سے اس سے پہلے میں کچھ کر جاؤ تم جیسی لڑکی معافی کے قابل نہیں ڈوب کر مر جاؤ تم"

"مرنے ہی جارہی تھی جبھی معافی مانگنے آئی ہوں ہوسکے تو معاف کر دینا ۔۔۔۔"

اسکے ہاتھ جوڑ معافی مانگنے کے بعد وہ رکی نہیں تھی۔

وہ اسے پیچھے چھوڑ آئی تھی برستی آنکھیں منظر کو دھندلا رہی تھیں مگر اسکی زندگی میں تو اندھیرا ہو ہی گیا تھا

اتنی ذلت کب آرزو مشارب کے حصے میں آئی تھی۔

بے بسی سے روتے اس نے گاڑی کی اسپیڈ تیز کی تھی جب اچانک سامنے سے آتی وین اس کی گاڑی کے سامنے آئی تھی۔

لاکھ کوششوں کے بعد بھی اسکی گاڑی بری طرح اس وین سے ٹکرائی تھی۔

چاروں طرف ہولناک چیخوں نے ڈیرہ جمایا وہیں زخموں سے چور اسکا سر ایک طرف ڈھلکا تھا۔۔۔

رات سے صبح اور اب پھر سے شام ہوگئی تھی عبدالعزیز صاحب اسپتال میں ہی تھے عزیر اور عائشہ بھی واپس آگئے تھے۔۔

"عزیر تم جاؤ نا ہاسپٹل"وہ کب سے کبھی ادھر تو کبھی دور چکر کاٹ رہی تھی۔

"یار اپیا جب بابا آرہے ہیں تو میں کیسے جاؤ وہاں؟"

اسکے چوتھی بار اپنی بات دہرانے پر وہ بے بسی سے بولا تو عائشہ نے بغور اسکا چہرہ دیکھا۔

"مجھے پتا ہے آپ کو کس بات کی زیادہ ٹینشن ہے تو بے فکر رہیں یشم بھائی نہیں آرہے ہیں وہ"

"کیا فضول بول رہی ہو اور میں کیوں ٹینشن لینے لگی اور یہ بھائی کون ہے تمہارے صرف دو بھائی ہیں زین اور عزیر ہر ایک کو اپنا بھائی نا بنایا کرو"غصے سے کہتی وہ وہاں سے واک آؤٹ کر گئی تو عزیر نے بیچارگی سے اسے دیکھا۔

"چھوڑو انہیں ان کا دماغ آج کل خراب ہے ان کا"

"واقعی ہے وہاج بھائی کی باری پر راضی تھیں جبکہ ان کے بارے میں سب پتا تھا مگر یشم بھائی کے لئے نہیں مان رہی ہیں حیرت ہوتی ہے مجھے "سر جھٹک کر کہتا وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر کی جانب بڑھا تو عائشہ نے اسے روکا۔

"تم کہاں جارہے ہو بھئی ؟"

"ارے امی لوگ آنے والے ہیں تو باہر کھڑا ہو رہا ہوں "

اسے جواب دیتا وہ باہر نکل گیا تو اسکے جاتے ہی وہ اپنی جگہ سے اٹھتی اندر بنفشے کے پاس آئی تھی جو بستر پر اوندھے منہ پڑی تھی۔

"آپ کو کیا ہوگیا ہے اپیا ایسے کیوں کر رہی ہیں آپ ؟"

"میں کیا کر رہی ہوں بتانا پسند کرو گی مجھے "؟اسکی بات پر وہ جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھی تو عائشہ نے اسے گھورا۔

"یہ بھی اب میں بتاؤ آپ کو کہ آپ کیا کر رہی ہیں؟ آپ ایک ایسے انسان کو سزا دے رہی ہیں جس کی کوئی غلطی ہے بھی نہیں اور جس کی غلطی تھی اور جو ہمیشہ سے غلط تھا اس کے ساتھ ساری زندگی گزارنے کے لئے راضی تھیں حیرت کی بات نہیں ہے۔

مجھے افسوس ہے اپیا میں تم سے اس سنگدلی کی توقع ہر گز نہیں کر رہی تھی مگر اب کچھ کہنا ہی فضول ہے سمجھایا انہیں جاتا ہے جو سمجھنا چاہیں آپ تو اپنی انا اور اپنی ضد میں مخلص انسان کے ساتھ ایسا کر رہی ہیں اور یقین کریں اگر آپ کو ایسا لگتا ہے کہ آپ کے ایسا کرنے سے سب آپ کی تعریف کریں گے تو معاف کیجئے گا آپ ایک نہایت مغرور اور انا پرست لگ رہی ہیں جسے اپنی انا عزیز ہے میری بہن ایسی تو نہیں تھی وہ تو ہر ایک کو معاف کردیتی تھی اپنوں کی خاطر وہ ایک ایسے انسان تک سے شادی کرنے کو تیار تھی جو اسے پسند ہی نہیں تھا مگر اب وہی اپنی انا میں اس انسان کو ٹھکرا رہی جس سے وہ محبت کرتی ہے ابھی بھی وقت ہے اپیا پلیز سوچ لیں کیونکہ بعد میں سوائے پچھتانے کے آپ کے پاس کچھ نہیں رہے گا"اسے رسان سے سمجھاتی وہ عزیر کی آواز پر باہر بڑھ گئی۔

__________

عبدالعزیز صاحب گھر آگئے تھے ان کی آمد کا سن وہ بھی باہر آئی تو نگاہوں نے بےساختہ کسی کو تلاشا تھا۔

خود کو سرزنش کرتی وہ ان کے کمرے میں آئی جہاں وہ آنکھیں بند کئے پڑے تھے ان کی حالت دیکھ اسے برا لگا تھا بہت برا ۔

ان کا بی پی خطرناک حد تک کو ہوگیا تھا

وہ اس سے شرمندہ تھے ان کے ایک غلط فیصلے نے آج کیا کردیا تھا وہ انہیں قصوروار نہیں مانتی تھی مگر وہ مانتے تھے خود کو کہ اپنے بھائی کی محبت میں وہ اتنے اندھے ہوگئے کہ اپنی بیٹی کی خوشیوں کو بھی قربان کردیا۔

وہ انہیں تنگ نہیں کرنا چاہتی تھی جبھی واپس باہر آگئی۔

رات کے گیارہ بج گئے تھے موسم تبدیل ہونے لگا تھا پلر سے ٹیک لگائے وہ وہیں صحن میں بیٹھ گئی۔

کتنی سادہ تھی اسکی زندگی اور پھر اچانک اس کی زندگی میں وہ شخص آیا اور پھر سب تبدیل ہوتا چلا گیا ان چند مہینوں میں اسکی زندگی کتنی تبدیل ہوگئی تھی وہ سوچتی تو اسے حیرت ہوتی تھی۔

"ایسے کیوں بیٹھی ہیں بیا؟"اپنے پاس اس ستمگر کی آواز سن وہ پوری طرح ٹھٹھکی۔

"آپ۔۔۔۔؟"

"ہاں نا آپ یاد کر رہی تھیں تو آگیا میں آپ کے پاس مت پریشان ہوا کریں بیا مجھے تکلیف ہوتی ہے"اسکا ہاتھ تھامے وہ نرمی سے بولا تو اسکی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔

اس سے پہلے وہ اس سے کچھ کہتی خواب ٹوٹا تھا وہ کہیں نہیں تھا۔

ہونقوں کی طرح ادھر ادھر دیکھتے اس نے یشم کو تلاشنا چاہا مگر وہ ہوتا تو اسے ملتا۔

اپنے بھیگے گالوں کو بے دردی سے صاف کرتے چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی۔۔۔

________

باہر سے آتی آوازوں پر اس کی آنکھ کھلی تو ناجانے کتنی دیر وہ یوں ہی غائب دماغی سے چھت کر گھورتی رہی۔

جب کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو وہ اٹھ کر فریش ہوئی اور باہر آئی تو سامنے اسے صحن میں بیٹھے دیکھ اسکے قدم رکے تھے۔

اسے اپنی نظروں کا دھوکا سمجھ اس نے سر جھٹکا تھا مگر نگاہیں اٹھانے پر اسے پھر سامنے دیکھ اسکا دل کیا اپنا سر دیوار پر مار لے کیوں وہ شخص اسے ہر جگہ نظر آتا تھا۔۔

"آجاؤ بیا ناشتہ کرلو بیٹا"اسے یوں کھڑے دیکھ کوثر بیگم نے پکارا تو ان کی پکار پر ہوش میں آتے اس نے سامنے دیکھا۔

وہ تھا وہ واقعی تھا یہ سوچ آتے ہی اس پر گھڑو پانی گرا تھا۔

وہ کب سے پاگلوں کی طرح اسے گھور رہی تھی اتنا وہم سمجھ کر۔۔

خود کو لعنت ملامت کرتی وہ آہستہ سے چلتی صحن میں آئی تو یشم نے اشارے سے اسے بیٹھنے کا کہا۔

"بات کیوں نہیں مان جاتے آپ میری؟"

"بیٹھ جائیں پھر بات کرتے ہیں ویسے بھی آپ کو شاید پتا نہیں مگر ضد کا بہت پکا ہوں میں آپ سے بھی زیادہ"کرسی کھسکاتے اسکے لئے بیٹھنے کی جگہ بناتا وہ دونوں ہاتھ سینے پر باندھتے کرسی سے ٹیک لگا گیا۔

اس وقت اپنے گھر میں اسکی موجودگی اور ہر والوں کی اتنی آزادی اسے چبھ رہی تھی۔

"مجھ سے شادی نا کرنے سے آپ کی فیکٹری کو کتنا نقصان ہو سکتا ہے میں یہ جاننے آیا ہوں۔۔"

"میری کوئی فیکٹری نہیں ہے تو نقصان کیسا؟.."

اپنا دوپٹے کا پلو گود میں رکھتے اس نے ناسمجھی سے اس شاطر انسان کو گھورا.

"اوووو اچھا۔۔۔ مجھے لگا آپ کے پاس انا ،غصہ اور نفرت کی فیکٹری ہیں اور مجھ سے شادی کر کے ان کو بڑا نقصان ہوجائے گا۔۔"

"مجھے لفظوں کے جال میں نا الجھائیں کیونکہ میں اپنا فیصلہ نہیں بدلنے والی۔" دوٹوک انداز میں کہتے اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگانی چاہی تھی مگر تبھی اسکا ہاتھ یشم یوسفزئی کی گرفت میں آیا تھا۔

"بیوی تو تم یشم یوسفزئی کی ہی بنو گی بنفشے عبدالعزیز اگر تمہیں لگتا ہے کہ میں اس انکار کو دل کے اوپر لوہے سے لکھ کر انا میں آجاؤ گا تو یہ بھول ہے یشم یوسفزئی کا اور اس انا کا کوئی تعلق نہیں اور محبت کے معاملے میں تو بلکل بھی نہیں تو تم بھی اس تعلق کو یہی ختم کردو اور میرے ساتھ چلو میرے نگر برف کی وادی میں جہاں تمہاری نفرت ختم ہوجائے گی اور میری محبت تمہارے دل میں برف ہوئی محبت کو اپنی محبت کی آنچ سے پگھلا دے گی ۔"

اسکی لہجے کی تپش سے گھبراتے اس نے جلدی سے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے آزاد کیا اور اٹھ کر کھڑی ہوئی۔

"چلیں جائیں آپ یہاں سے پلیز یشم۔۔۔"دھڑکتے دل سے کہتے وہ وہاں مزید نہیں رکی تھی۔

______________

"زین تو نے سنا کیا ہوا ہے ؟"علی تیزی سے اسکے پاس آیا تو لیپ ٹاپ پر کام کرتے اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"کیا ہوا مجھے کیا پتا میں تو یہاں ہوں کب سے؟"

"آرزو مشارب کا بہت برا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اسکی کار بری طرح تباہ ہوگئی ہے اتنی بری طرح کے اس جگ بچنے کے کوئی چانسس نہیں"علی کی بات پر ہاتھ میں پکڑا پین اسکے ہاتھ سے چھوٹ زمین بوس ہوا تھا۔

ابھی کچھ دیر پہلے تو وہ اسکے سامنے تھی تو ایسا کیسے ہوسکتا تھا۔

"زین زین۔۔۔۔"اسے سوچوں میں گھرے دیکھ علی نے اسکا کندھا ہلایا تو وہ بے ساختہ چونکا۔

"کیا ہوا؟"

"کچھ نہیں تو نے اتنی اچانک اتنی بری خبر دی تو"اسے سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دے

"زین سننے میں آیا ہے کہ آرزو تجھ سے ملنے آئی تھی کیا بات ہوئی تھی تم دونوں کی۔۔۔؟" علی نے انداز پر وہ چونکا وہ جانتا تھا یہ سوال اس سے کیا جائے گا۔

"اپنی غلطی کی معافی مانگنے آئی تھی میں نے معاف نہیں کیا اور اس سے زیادہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔"سپاٹ لہجے میں کہتے وہ لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ ہوگیا تو علی نے تاسف سے اسے دیکھا۔

جو بظاہر انجان بن گیا تھا مگر اسکے دل میں پکڑ دھکڑ مچ گئی تھی کیا زندگی اتنی جلدی ختم ہوجاتی ہے لمحوں میں ایک انسان اس دنیا سے غائب ہوجاتا ہے"

گہرا سانس بھرتے اسنے بالوں میں ہاتھ چلایا اور خود کو پرسکون کیا۔

__________

"بابا اب کیسی طبعیت ہے آپ کی؟" ان کے پاس بیٹھے ان کا ہاتھ تھامے وہ ان سے خیرت پوچھ رہی تھی۔

"میں ٹھیک ہوں اور ٹھیک ہوجاؤ گا جب میری بیٹی مجھے معاف کردے گی "

ان کی بات پر وہ تڑپی۔

"ایسا تو نہیں کہیں بابا میں آپ سے ناراض نہیں ہوں آپ ایسے باتیں کیوں کر رہے ہیں "؟

"اگر مجھ سے ناراض نا ہوتی تو کیا یشم کا رشتہ ٹھکراتی؟" ان کی بات پر لمحے کو چپ ہوئی تھی۔

"بابا آپ میری خوشی چاہتے ہیں میں جانتی ہوں مگر کیا آپ کو لگتا ہے میں اس انسان کے ساتھ خوش رہوں گی وہ ایک مکمل انسان ہیں اور میں ۔۔۔ میرے دامن پر ایک داغ ہے طلاق یافتہ کا داغ جسے کوئی نہیں مٹا سکتا میں ان سے شادی کر بھی لیتی ہوں تو تب بھی یہ داغ نہیں مٹے گا میں تب بھی ان کی دوسری بیوی کہلاؤ گی اور جب جب میں یہ لفظ سنوں گی مجھے اپنی ذات کمتر لگے گی میں ان کی آنکھوں میں اپنے لئے ترس و ہمدردی نہیں دیکھنا چاہتی"

"اگر تم اسکی آنکھوں میں دیکھ لیتیں تو آج تک یہ بات نا کہتیں بچے تم آج مجھے بھلے خود غرض سمجھ لینا مگر میں چاہتا ہوں تم یشم یوسفزئی سے شادی کرو وہ شام میں آئے گا میں اسے ہاں کرنے لگا ہوں اور میں چاہتا ہوں ایک آخری بار تم اپنے باپ کا مان رکھ لو اتنے وقت تک میں نے فیصلہ تم پر چھوڑا تھا مگر اب جب مجھے لگتا ہے میری زندگی کب میرا ساتھ چھوڑ۔۔۔"

"بابا پلیز "ان کی بات پر اسکا دل دہل اٹھا۔

"یہ حقیقت ہے سب کو اس دنیا سے جانا ہے جلد یا بدیر موت کا ذائقہ سب نے چکھنا ہے میں بس ایک آخری بار میری التجا سن لو اس سے شادی کر لو"اس کے آگے ہاتھ جوڑے وہ اسے بے بس کرگئے.

ان کے جوڑیں ہاتھوں کو تھام ان پر سر رکھتے وہ سسک اٹھی۔

"ایسے نا کہیں بابا آپ حکم کرتے اچھے لگتے ہیں التجا کرتے نہیں اور میرے ساتھ جو ہوا وہ میرا نصیب تھا اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں میرے ساتھ یہ ہونا تھا یہ میرے اللّٰہ کا فیصلہ ہے اس نے ایک آزمائش میں ڈالا تھا اور وہ اب ختم ہوئی خود کو نا تھکائیں آپ جیسا کہیں گے میں ویسا ہی کرونگی بس کچھ فضول نا سوچیں"وہ ہار گئی تھی وہ مان گئی ایک بار پھر ایک بیٹی نے اپنے باپ کا مان رکھا تھا۔۔۔

_____________

گاڑی پارک کرتا وہ اوپر آیا تو کچھ غیر معمولی محسوس کر اس کے قدم ٹھٹکے۔

اپنے اپارٹمنٹ کی لائٹس آن دیکھ اسے تعجب ہوا۔

اور پھر جیسے ہی اس نے اندر قدم رکھا سامنے موجود ہستی کو دیکھ وہ ساکت ہوا تھا۔

"یشم۔۔۔۔"ان کی آواز میں اسکے لئے صرف اور صرف محبت تھی۔

"مام۔۔۔۔"اسکے لب سرگوشی کے سے انداز میں ہلے تھے اور پھر آگے بڑھ کر اسنے بے اختیار انہیں بازوؤں کے گھیرے میں لیا تھا۔

"آپ کب آئیں بتایا کیوں نہیں آپ آرہی ہیں ؟"ان کے سر پر بوسہ لیتے وہ نم آنکھوں سے مسکرایا۔

"بھئی آپ نے تو ہمیں بتانا گوارا نہیں کیا تو سوچا اپنی بہو سے ہم باذات خود ملاقات کرلیں اور نکاح کی تاریخ بھی فکس کر کے آجائیں۔۔"

"وہ جو بہت توجہ سے ان کی بات سن رہا تھا نکاح اور بہو پر اس نے جھٹکے سے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔

"نکاح؟؟ کیا مطلب ؟"

مبارک ہو شہزادے بنفشے عبدالعزیز نے آپ کا پروپوزل بالآخر قبول کر لیا ہے اور ہم کل جارہے ہیں نکاح کی ڈیٹ رکھنے "اسکے سر پر بوسہ دیتے وہ محبت سے بولی تو وہ کئی لمحے وہ کچھ بول ہی نہیں سکا۔

آج کے دن اپنی ماں کو دیکھنا اور پھر بنفشے کا راضی ہونا۔۔۔۔"

"تھینک یو سو مچ نام"ان کے گلے لگتے وہ ناجانے کس بات کو شکریہ ادا کر رہا تھا مگر ان کے لئے یہی بہت تھا کہ وہ آگے بڑھ رہا تھا اس نے اپنا بھی سوچا۔

بے یقینی سی بے یقینی تھی کل تک جس رشتے سے وہ انکاری تھی اج اسی شخص کے نام کی انگوٹھی اسکے ہاتھ میں جگمگا رہی تھی۔

امینہ یوسفزئی نے اسکے سر پر پیار کیا تو کئی آنسو ٹوٹ کر اسکی جھولی میں گرے۔۔

"میرا بیٹا بہت خوش نصیب ہے جسے اتنی پیاری لڑکی ملی "اسکے آنسو صاف کرتے وہ وہ محبت سے بولی تو وہ سر جھکا گئی۔

"بھائی صاحب میں جانتی ہوں یہ تھوڑا جلدی ہے مگر ہم پرسوں نکاح کر سکتے ہیں "

انہوں نے عبدالعزیز صاحب سے اجازت لی اور انہیں بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔

"جیسا آپ کو ٹھیک لگے ."

"کیونکہ یہ بیا کی خواہش ہے کہ سب سادگی سے ہوں تو نکاح اور رخصتی ہم سادگی سے کر لیتے ہیں البتہ ولیمہ گرینڈ ہوگا,"اسکا ہاتھ تھامے وہ آگے کی پلیننگ کر رہی تھیں۔

اور وہ اسکا دل کر رہا تھا کہ اٹھ کر بھاگ جائے اتنی اہمیت بھلا کب اسے کسی نے دی تھی۔۔

"بچے اب آپ بتائیں نکاح کا جوڑا ساتھ چل کر لینگی ؟

"آپ کو جو ٹھیک لگے " اسکی آواز اتنی آہستہ تھی کہ انہیں بمشکل ہی سنائی دی۔

اس سے مزید وہاں بیٹھا نہیں گیا جبھی اٹھ کر کمرے میں آگئی۔

دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتی کیا تھی اسکی زندگی پل میں کچھ اور پل میں کچھ اور یہی زندگی کا اصول بھی ہے۔۔

شام اسکے لئے گاڑی آئی تھی ناچاہتے ہوئے بھی کوثر بیگم کی ضد پر وہ پارلر گئی۔

کچھ بھی تو پہلے جیسا نہیں تھا نا دل نا دماغ نا خوشی۔۔۔

اگلی صبح بہت روشن تھی مگر اسکے لئے گزرتا ہر پل بھاری تھا ایسا کی اسے لگ رہا تھا اسکا دل بند ہو جائے گا۔۔

سادگی کے باوجود اس کے گھر میں الگ ہی رونق تھی۔

مہندی والی بھی آگئی تھی اسکی آواز نقار خانے میں طوطی کی طرح ہی تھی۔

اسکی ضد جیسے کہیں بے معنیٰ ہوگئی تھی ہو تو وہی رہا تھا جو وہ چاہتا تھا۔

اپنے ہاتھ پر اسکے نام کی مہندی دیکھ وہ ایک نئے سرے سے تڑپی تھی۔

کتنا چاہا تھا کہ وہ شخص اسکی زندگی سے دور ہو جائے مگر یہ تو پہلے سے طے تھا جب جب وہ گرے گی اسے تھامنے کے لئے یشم یوسفزئی کا ہاتھ سب پہلے تھا۔۔۔

لیکن اس بار اسکی چوٹ زیادہ تھی وہ سنبھل نہیں پارہی تھی۔

____________

مسلسل گنگناتے وہ اپنے کام میں مگن تھا جب دروازہ کھول واثق اندر آیا۔

"واہ بھئی واہ مینگنیاں ہورہی ہیں نکاح ہورہے ہیں ہمیں کوئی پوچھ نہیں رہا"

"آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے منگنی بھی ایک ہی ہوئی ہے اور نکاح بھی ایک بار ہی ہوگا "

"ہاں وہی وہی اور آپ محترم نے بتایا ہی نہیں وہ تو امی اور آنٹی ساتھ گئیں تو مجھے پتا چلا "

"چلو پتا چل گیا نا "وہ خاصا اچھے موڈ میں تھا اور ہوتا بھی کیوں نا۔۔

"ہاں ٹھیک ہے اب پتا چل گیا ہے تو شرافت سے اٹھو ہمیں شاپنگ پر جانا ہے "

"میں اپنی شاپنگ کر چکا ہوں"مزے سے چئیر سے ٹیک لگاتے اس نے کہا تو واثق نے تیکھے چتونوں کے ساتھ اسے گھورا۔

"تیری شاپنگ کی بات نہیں کر رہا میں اپنی بات کر رہا ہوں آیا بڑا ہونہہ"اسکا انداز ایسا تھا کہ یشم بے اختیار قہقہ لگا اٹھا۔

"ویسے مشارب صاحب کو بلایا ہے یا نہیں آرزو کو پتا چلے گا مزہ آجائے گا"

"فلحال نکاح ہوجائے پھر دیکھتے ہیں"

"ہاں یہ بھی ٹھیک ہے ویسے آرزو ہے کہاں کافی ٹائم سے آفس بھی نہیں آئی "

"میں اسکا پرسنل اسسٹنٹ نہیں ہوں اور ویسے بھی اسے عادت ہے غائب ہونے کی آجائے گی اپنا موڈ ہونے پر"

ٹیبل سے چابیاں اٹھاتے اس نے جواب دیا تو اسکا موڈ دیکھ واثق جلدی سے اٹھا۔

"یشم میری شاپنگ تو کروائے گا دیکھ میرے جوتے گھس گئے ہیں بھابھی کے گھر جاتے جاتے"

اسکی بات پر اسکا قہقہ گونجا تھا واثق نے حیرت سے اسے دیکھا وہ ناجانے کتنے عرصے بعد یوں ہنس رہا تھا۔

واثق نے بےاختیار ماشاءاللہ کہا وہ نہیں چاہتا تھا اسکے دوست کو کسی کی بھی نظر لگے۔۔

____________

آج ایک بار پھر اسکے گھر میں چہل پہل تھی خوشی سب کے چہروں سے نمایاں تھی۔

آج بالآخر وہ یشم یوسفزئی کے نام ہونے جارہے تھی۔

بے چینی حد سے سوا تھا پارلر والی کو گھر ہی بلایا گیا تھا۔

مہندی بھرے ہاتھ بار بار نم ہورہے تھے۔

اسکے میک اپ ہو آخری ٹچ دیتے پارلر والی نے وائٹ دوپٹہ اسکے سر پر اوڑھایا جس کے کناروں پر گولڈن بھاری کام تھا۔

پارلر والی کے کہنے پر اس نے نظریں اٹھا کر آئینے میں اپنا عکس دیکھا تو لمحے کو مہبوت رہ گئی۔

ماتھے پر سجا ٹیکا ناک میں موجود نتھ گھنیری خم دار پلکیں سرخ ہونٹ۔۔۔

وہ کسی کو بھی پاگل کر سکتی تھی اپنے حسن سے۔

اسے کچھ خاص لگا خود میں کیا وہ نہیں سمجھ سکی پہلے بھی تو وہ دولہن بنی تھی تو تب کیوں اسے یہ تبدیلی محسوس نا ہوئی۔۔

"ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہو"اسکے کان کے پیچھے کاجل لگاتے آسیہ نے کہا تو وہ بےساختہ نظریں جھکا گئی۔

"تمہیں پتا ہے آنٹی بتا رہی تھی یہ نکاح کا ڈریس یشم بھائی کی پسند ہے"

اسکا دوپٹہ ٹھیک کرتے وہ اپنی رو میں ہی اسے بتا رہی تھی یہ جانے بغیر کہ اسکا دل اس نام پر دھڑکنا بھول جاتا ہے۔۔

"بیا میری جان میں جانتی ہوں یہ مشکل ہے مگر تمہیں یشم بھائی کا ساتھ دینا ہوگا تم محبت کرتی تھیں ان سے یہ بات یاد رکھو انا کے ہاتھوں اپنی محبت کا دم نا گھوٹنا۔۔۔" اسکے ہاتھوں کو تھامے وہ ایک دوست ہونے کا فرض ادا کر رہی تھی۔۔

__________

سفید شلوار قمیض پر گولڈن واسکٹ پہنے بالوں کو سیٹ کئے اسنے ایک نظر آئینے میں خود کو دیکھا اور پھر اپنے پیچھے کھڑی اپنی ماں کو جن کی نظروں میں اس کے لئے ستائش تھی محبت تھی۔۔

"ماشاءاللہ" اسکی نظر اتارتے انہوں نے پیسے ملازمہ کو دیئے اور اسکے کندھوں پر روایت کے مطابق شال پہنائی۔

"اس شال کو رخصتی کے وقت بنفشے جو پہنانا اس سے وہ ہمیشہ تمہارے سایے میں رہے گی تمہاری خوشبو سے مہکے گی"

اسکی شال سیٹ کرتے وہ شرارت سے بولی تو اسکے وجہہ چہرے پر دلفریب مسکراہٹ نے احاطہ کیا۔

"آپ ابھی بھی ان رسومات کو مانتی ہیں حالانکہ مجھے ان سب پر یقین نہیں "انہیں بازوؤں کے گھیرے میں لیتے یشم نے آہستہ سے ان کے سر پر بوسہ دیا۔

ایک اس کی خاطر کتنا کچھ سہتی آئی تھیں وہ۔۔۔

"چلو جلدی سے وہاں سب انتظار کر رہے ہونگے "ٹائم دیکھتے وہ اس سے جلدی سے بولیں تو وہ ان کے ساتھ ہی نیچے آیا جہاں واثق کی فیملی اور اسکے کچھ قریبی لوگ موجود تھے۔

ان کے نیچے آتے ہی وہ سب گاڑی میں بیٹھے۔۔

وہ وقت قریب تھا جب وہ اسکی دسترس میں آنے والی تھی یہ سوچتے ہی اسکے چہرے پر دلفریب سی مسکان اپنی جھپ دکھلا کر غائب ہوئی تھی۔

بنفشے کے گھر پہنچتے ہی ان کا اچھے سے استقبال ہوا تھا۔

تقریب گھر میں ہی رکھی گئی تھی اور ان کی طرف سے سوائے چند ایک لوگوں کے کوئی نا تھا۔

وہ جانتا تھا وہ راضی نہیں تھی مگر اسے راضی کرنا اب یشم کا کام تھا.

"نکاح کی کاروائی شروع کریں بھائی صاحب"مسزز یوسفزئی کی اجازت پر انہوں نے ہاں میں سر ہلایا اور پھر کاضی صاحب کو لئے وہ اندر کی جانب بڑھے تھے جہاں وہ موجود تھی۔

بیڈ پر بیٹھے سر پر گھونگھٹ ڈالے وہ ایک بار پھر اسی عمل سے گزر رہی تھی۔

نکاح خواں نے کارؤائی شروع کی تو اس نے سختی سے کوثر بیگم کا ہاتھ تھاما۔

دل باہر آنے کو بیتاب تھا۔

"بنفشے عبدالعزیز کیا آپ کو یشم ولد ذولفقار یوسفزئی سے نکاح قبول ہے؟"

نکاح خواں کے الفاظ ایک چابک کی طرح اس کے دل پر پڑے تھے۔

بہتے اشکوں نے سامنے کا سارا منظر دھندلا دیا تھا۔

"ہاں بولے بچے"مسزز یوسفزئی کی آواز پر اس نے آہستہ سے اپنا سر اثبات میں ہلا کر اپنے سارے حقوق اس انسان کے نام کردئیے جو اسکے دل کی سلطنت میں بنا دستک دیئے داخل ہوا تھا۔

اسکی طرف سے اقرار ہوتے ہی یشم کی رضامندی معلوم کی گئی ایجاب و قبول کے مراحل طے ہوئے تھے اور پھر بنفشے عبدالعزیز یشم یوسفزئی کی ہوگئی تھی۔۔

اس کے باہر آنے پر یشم نے بےاختیار سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

وائٹ گولڈن فراک پہنے لال دوپٹے کا گھونٹ لئے ہاتھوں میں اسکے نام کی مہندی لگائے وہ اسکے پہلو میں آکر بیٹھی تو یشم یوسفزئی کو احساس ہوا اسکا وجود کتنا طلبگار تھا اسکا وہ اسکے دل کو اپنے نام سے دھڑکانے والی پہلی لڑکی تھی جو یشم یوسفزئی کی زندگی بن گئی تھی وہ بس اسکی خوشی چاہتا تھا۔

رخصتی کا شور اٹھا تو اس نے تڑپ کے روتی بلکتی بنفشے کو دیکھا جو اپنی ماں کے گلے لگے ناجانے کس کس باپ پر اشک بہا رہی تھی۔

اسکے یوں سسکتے دیکھ یشم نے بےاختیار اپنے لب سختی سے بھینچتے تھے۔

"بس بچے طبعیت خراب ہو جائے گی"ہانیہ یوسفزئی نے آگے بڑھ کر اسے کوثر بیگم سے الگ تو کرلیا مگر اسکا وجود ابھی تک کپکپا رہا تھا۔۔

اسکے گاڑی میں بیٹھتے ہی یشم عبدالعزیز صاحب کے پاس آیا۔

"آپ کی بیٹی کی آنکھوں میں یہ آنسو آخری بار آئے ہیں میرا وعدہ ہے آج کے بعد سے وہ کبھی نہیں روئے گی آپ مجھ پر بھروسہ کردیں"

"تم پر بھروسہ ہے بیٹا"

"ہمارے لئے دعا کیجئے گا اور آج کے بعد سے آپ کو کوئی بھی بات کرنی ہو آپ کا یہ بیٹا حاضر ہے"جھک کر ان کے ہاتھوں کو لبوں سے لگاتا وہ انہیں سرشار کرگیا یہ اسکا طریقہ تھا اپنے بڑوں سے اظہارِ عقیدت کا۔۔۔

____________

گھر پہنچ کر اسکا شایان شان استقبال کیا تھا ایسا تو اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔

ہانیہ یوسفزئی اسے کمرے میں لے کر آئیں تو اسکے قدم تھمے تھے کمرے کی سجاوٹ دیکھ

سرخ گلابوں سے سجا وہ کمرہ اسکا دل بری طرح دھڑکا گیا تھا اسے لگا اسکا دل باہر آجائے گا۔

"آجاؤ بچے پریشان نہیں ہو۔۔"اسے رکتے دیکھ وہ نرمی سے بولتیں اسے اندر لائیں اور بیڈ پر بیٹھایا۔

"آپ کا ویسے استقبال نہیں کر سکی جیسے یوسفزئی خاندان کی بہو کا ہونا چاہیے تھا مگر ہمارا وعدہ ہے آپ سے جب آپ حویلی آئیں گی تو اپنا استقبال آپ کے شایان شان کیا جائے گا آپ وہ شہزادی ہیں جس نے ایک منجمد انسان جو پگھلایا ہے اسکے اندر احساس کو زندہ کیا ہے میں نہیں جانتی آپ یشم کو کتنا جانتی ہیں اور اس نے آپ کو کتنا بتایا ہے مگر بنفشے میں صرف ایک بات کہنا چاہوں گی میرے بچے نے کبھی کوئی خوشی نہیں دیکھی ماں باپ کی طرف سے تو بالکل بھی نہیں اسکا خوشیوں پر حق ہے اور وہ خوشیاں آپ ہی اسے دے سکتی ہیں کیا آپ ایک ماں کی یہ خواہش پوری کرینگی؟"اسکا ہاتھ تھامے وہ التجا کر رہی تھیں۔

اپنا ہاتھ آگے کئے وہ اس سے وعدہ لے رہی تھی اور پھر بنفشے عبدالعزیز نے ان کی بات کا مان رکھ اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا تھا۔۔۔

______________

پھولوں سے مہکتے سجے کمرے میں پھولوں سے سجے بیڈ پر بیٹھی وہ بے چین سی تھی۔

کچھ دیر پہلے کیا وعدہ بھولے وہ آہستہ سے بیڈ سے اتری۔

"میں وعدہ نبھاؤ گی مگر آپ کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتی میں"خود سے کہتے وہ واشروم کی طرف بڑھی ہی تھی کہ روم کا دروازہ ایک قدم کھلا اور واسکٹ بازو پر ڈالے وہ پوری شان سے کمرے میں داخل ہوا مگر اسے یوں کمرے کے بیچ کھڑے دیکھ وہ ٹھٹکا تھا مگر محض لمحے کو۔

آہستہ سے دروازہ بند کرتے اس نے واسکٹ کو پاس رکھے صوفے پر پھینکا اور آہستہ سے اسکی طرف قدم بڑھائے۔

"خںر۔۔خبردار۔۔۔ وہیں رک جائیں میرے قریب بھی مت آئیے گا ا۔۔۔آپ۔۔"لڑکھڑاتا لہجہ پیچھے کو ہوتے قدم یشم نے بغور اسکا جائزہ لیا۔۔

"مجھے روک رہی ہیں آپ ؟"اسکی طرف قدم بڑھاتے وہ اسے حواس باختہ کرگیا۔۔

"میں کہہ رہی ہو آپ جائیں یہاں سے نہیں دیکھنی آپ کی شکل جب جب آپ کی طرف دیکھتی ہوں مجھے آپ کی آنکھوں میں اپنے لئے صرف ترس نظر آتا ہے ہمدردی نظر آتی ہے اور مجھے نہیں دیکھنا یہ سب میں مر جاؤ گی پلیز چلیں جائیں یہاں سے"اسکے آگے ہاتھ جوڑے وہ ناچاہتے ہوئے بھی اپنی دلی کیفیت اس پر آشکار کر گئی۔۔

"آپ کو میری آنکھوں میں اپنے لئے ے ترس نظر آتا ہے بنفشے یوسفزئی ؟؟"اسکے لہجے میں ایک عجیب سی آنچ تھی۔۔۔

اسکے بڑھتے قدم دیکھ وہ پیچھے ہوتے ہوتے دیوار سے لگی تھی۔

فرار کا کوئی راستہ نہیں تھا اس سے پہلے وہ وہاں سے ہٹتی اسکے دونوں اطراف ہاتھ رکھے وہ اسکا راستہ روک گیا۔۔

"ہٹی۔۔۔ہٹیں۔۔۔"

"آپ کو میری آنکھوں میں اپنے لئے ترس نظر آتا ہے ہمدردی نظر آتی ہے مگر آپ کو میری آنکھوں میں اپنے لئے محبت کیوں نظر نہیں آتی کیوں میری الفت میری شدت نظر نہیں آتی آپ جانتی بھی ہیں مجھے ان آنکھوں سے کتنا عشق ہے ؟"اسکی نم آنکھوں پر سلگتے لب رکھتے وہ اسے ساکت کرگیا۔۔۔۔

آنکھیں موندے وہ اپنی آنکھوں پر وہ اسکا سلگتا لمس محسوس کر ساکت رہ گئی تھی۔

"جج۔۔۔جھوٹ مت بب۔۔بولیں آپ"اسکے پیچھے ہٹنے پر لڑکھڑاتے لہجے میں کہتے وہ یشم یوسفزئی کے ماتھے پر بل ڈال گئی۔

"کیا جھوٹ لگتا ہے آپ کو ؟"انگلیوں کی پوروں سے اسکے ماتھے پر سجی بندیا جو چھیڑتے وہ اسے پزل کر رہا تھا

"آپ۔۔کی باتیں سب جھوٹ۔۔۔ کک۔۔۔کوئی محبت نہیں ہے"اسکے ہاتھ جھٹکتے وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر سسک اٹھی اور اسکی اس حرکت نے نے یشم کو پاگل کیا تھا۔

اپنا ہاتھ اسکی کمر میں ڈالے اس نے اچانک اسے اپنی طرف کھینچا تو وہ جو اس حملے کے لئے تیار نہیں تھی سیدھا اسکے سینے سے ٹکرائی۔۔

"آپ کو ایسا لگتا ہے محبت نہیں ہے آپ کو لگتا ہے ترس ہے وہ بھی ٹھیک ہے سب مان لیتا ہوں مگر آج ایک بات کہوں گا آخری بار "اسکے گال پر سلگتے لب رکھے وہ سرگوشی میں بولا تو بنفشے کو اپنا گال دھکتا محسوس ہوا۔

"میں صرف ایک ہی لڑکی سے محبت کرتا ہوں اور وہ ہے بنفشے یوسفزئی اور یہ بات آپ کبھی مت بھولیئے گا کیونکہ جب جب آپ بھولنے لگیں گی میں آپ کو اچھے سے یاد دلا دوں گا کہ میری زندگی میں آپ کی کیا اہمیت ہے۔۔"

اسکی نتھ پر لب رکھتے یشم نے جھک کر اسکی ٹھوڑی کو لبوں سے چھوا تو اسکی رہی سہی جان بھی ہوا ہوئی تھی اس سے پہلے وہ بے ہوش ہوتی یشم نے اسے خود سے دور کیا تھا۔۔

"جائیں فریش ہو جائیں ورنہ میں خود پر سے کنٹرول کھو دوں گا"زومعنی لہجے میں کہتے وہ پیچھے ہوا تو بنا وقت ضائع کئے وو چھپاک سے واشروم میں بند ہوئی تھی

اسکے یوں غائب ہونے پر گہرا سانس بھرتے اسنے بالوں میں ہاتھ چلایا تھا۔

اپنے کمرے لئے وہ ڈریسنگ میں بند ہوا تھا اور جب وہ چینج کر کے باہر آیا تو وہ ابھی تک واشروم میں تھی۔

"بنفشے کیا آج رات وہیں سونے کا ارادہ ہے آپ جا تو بتادوں رات میں واشروم میں کاکروچ آتے ہیں اور چھوٹے بھی نہیں کافی بڑے بڑے"دانتوں تلے لب دبا کر کہتا وہ مزے سے بیڈ پر بیٹھا تھا۔

اور جو اندر دیوار کے سہارے کھڑی تھی اسکی بات پر بے اختیار اچھلی۔

کاکروچ سے اسکا ڈر کسی سے ڈھکا چھپا تو نہیں تھا۔۔

"رہ لیں وہیں مجھے بعد میں مت بولئے گا کہ میں نے بتایا نہیں"ایک بار پھر اسکی آواز بنفشے کے کانوں سے ٹکرائی تو ناچاہتے ہوئے بھی دروازہ کھولتی باہر آئی تو اسے بیڈ پر براجمان پایا۔

"آجائیں رات بہت ہوگئی ہے تھک گئی ہونگی نا"بیڈ کے دوسرے سائیڈ اشارہ کرتے وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھا تو اس نے ایک نظر اسے دیکھا۔

"یہ شادی میری مرضی سے نہیں ہوئی تو برائے مہربانی مجھ سے دور رہیے گا اب"غصے سے اسے وارن کرتی وہ صوفے پر لیٹی تو یشم نے صوفے پر موجود اسکے نازک سے وجود کو دیکھا اور پھر وہ آہستہ سے اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔

"مجھے پتا ہے آپ کی مرضی سے نہیں ہوئی شادی مگر میری مرضی سے تو ہوئی ہے نا تو آپ مجھ سے دور رہ لیجئے گا مگر میں نہیں رہوں گا"اپنی بات مکمل کرتے اس نے جھک کر اسے بازوؤں میں بھرا تو وہ حواس باختہ ہوگئی اس سے پہلے وہ چیختی یشم نے نرمی سے اسکے لفظوں کو قید کیا تھا۔

اسکے لمس کی حدت پر بنفشے نے بے اختیار اسکی شرٹ کو مٹھی میں جکڑا تھا۔

اسے بیڈ پر لیٹتے وہ اس پر ابر بن کر چھایا تھا۔۔۔

"آئندہ مجھ سے دور ہونے کی کوشش مت کیجئے گا جتنا دور رہنا تھا آپ رہ چکی ہیں مگر اب مجھ سے دور جانے کا سوچا بھی تو یاد رکھئے گا میں آپ کی سانسوں تک پر اختیار رکھتا ہوں مجھے مجبور مت کریں بنفشے کہ میں وہ کرجاؤں جس کے بعد آپ اپنے کئے پر پچھتاتی رہیں"اسکے ماتھے سے ماتھا ٹکائے وہ شدت بھرے لفظ اسکے کانوں میں انڈیل رہا تھا اور اس شخص کی دیوانگی بنفشے کے اوسان خطا کر رہی تھی بھلا وہ کب ایسے اسکے سامنے آیا تھا۔۔۔

"مزید تنگ نہیں کرونگا اور نا آپ مجھے کریں"اسکے برابر لیٹتے یشم نے اسکا سر اپنے سینے پر رکھ اسے خود میں سمویا تھا۔۔"

"بے فکر ہو کر سوجائیں آج سے آپ کی ساری تکلیفیں میری ہیں کوئی برا سایہ بھی آپ کو چھو نہیں سکتا کیونکہ اب آپ کی ڈھال یشم یوسفزئی ہے جو صرف اور صرف بنفشے کا ہے"اسکے ماتھے پر مہر ثبت کر وہ آنکھیں موند گیا اور اسکی قربت کی آنچ میں دھکتی وہ نم آنکھیں موند گئیں وہ بھلا کب ایسے التفات کی عادی تھی۔۔۔

_________

اسپتال کے بیڈ پر پڑی وہ زخموں سے چور تھی خود میں اتنی سکت تک نہیں تھی کہ اٹھ کر پانی پیتی۔۔

سوائے مشارب صاحب اور چند ایک لوگوں کے اسکے ایکسیڈنٹ کی خبر کسی کو نہیں تھی کیونکہ وہ یہ سب افورڈ نہیں کر سکتی تھی اور سب سے وہاج کو اسکی خبر نہیں ہونی چاہیے تھی اس لئے اسکے ایکسیڈنٹ کی خبر کو چھپا لیا گیا تھا۔

"تم ٹھیک ہو آرزو ؟"اسکے پاس بیٹھی ردا اسکے کرہانے پر ایک دم سے اٹھ کر بیٹھی تھی۔

"میں ڈاکٹر کو دیکھتی ہوں "اسکے نظروں کے اشارے پر وہ جلدی سے باہر بھاگی تھی

تبھی سامنے سے آتے زین کو دیکھ اسکے قدم ٹھٹکے تھے۔

"تم یہاں کیا کر رہے ہو زین؟"ردا ہر گز نہیں چاہتی تھی کہ اسے آرزو کے بارے میں پتا چلے۔

"دوست سے ملنے آیا ہوں مگر تم یہاں ؟"وہ جان کر انجان بن گیا تھا۔

"میں یہاں ایک جاننے والے کے پاس آئی تھی اللّٰہ حافظ "بنا وقت ضائع کئے وہ فوراً وہاں سے نکلی تو وہ آہستہ سے چلتا اس کمرے تک آیا تھا جہاں آرزو موجود تھی۔

دروازے سے ہی اسے دیکھتے وہ واپس آگیا بنا کچھ کہے۔

وہ نہیں جانتا تھا کیا چیز اسے بے چین کر گئی تھی وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ یہاں آیا کیوں؟؟

ہاسٹل آکر بھی وہ بے چین ہی رہا اس نے جتنا برا کیا تھا اسکے باوجود وہ اسکے لئے دل میں ہمدردی رکھ رہا تھا اور یہی بات اسے پریشان کر رہی تھی۔۔

_______

"دیکھ لیا آپ نے ٹھیک کیا جو میں نے اس کے ساتھ کیا شادی کر لی اس نے "وہ پاگلوں کی طرح کبھی ادھر چکر لگا رہا تھا کبھی ادھر۔۔

سلمہ بیگم نے افسوس سے اسے دیکھا جس کی حالت ہی عجیب ہو رہی تھی۔

"اچھا ٹھیک ہے پرسکون ہوجاؤ وہاج"

"پرسکون ہوجاؤ مجھے اس لڑکی کی وجہ سے گھر سے نکالا تھا اور دیکھیں کیسے وہ شادی کر کے بیٹھ گئی اب کہاں ہیں آپ کے وہ شوہر نامدار بلائیں نا زرا انہیں میں بھی تو دیکھتا ہوں اب بھتیجی کی محبت میں کیا کہیں گے."اسے کسی پل سکون نہیں تھا ایک طرف آرزو لاپتہ تھی تو دوسری طرف بنفشے کی شادی کی خبر نے اسکے ہلا کر رکھ دیا تھا۔

"اچھا بس۔۔۔ ہم لڑ آئے ہیں ان لوگوں سے اور اب کوئی تعلق بھی نہیں رکھنا ان سے تو سکون سے بیٹھ جا وہاج "

"میں تو اب سکون سے نہیں بیٹھو گا اس بنفشے کو اپنے کئے کی سزا بھگتنی پڑے گی مجھے دھوکہ دے کر شادی کی ہے نا اب میں بتاؤ گا کہ وہاج آخر ہے کیا چیز "غصے سے کھولتا وہ وہاں سے واک آؤٹ کرگیا تو اسکی باتوں پر وہ سر تھام کر رہ گئیں۔

جتنا وہ جنونی ہورہا تھا کوئی بعید نہیں تھی اس سے کہ کیا کر جائے۔۔

وہ غصے سے کھولتا اپنے اڈے پر آیا تھا۔

"کیا ہوگیا آج کیوں غصے سے کھول رہا ہے؟"

"تو کیا کروں وہ سونے کی چڑیا تو ایسی غائب ہوئی ہے دور دور تک کوئی آتا پتا نہیں چل رہا ہے اور جسکی وجہ سے یہ سب ہوا ہے وہ خود شادی کر کے بیٹھ گئی ہے کچھ نہیں آیا میرے ہاتھ "

"تو اس میں کون سی بڑی بات ہے بڑی بڑی مچھلیوں کو پھانسنا تو تیرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور رہی بات تیری اس منگیتر کی تو پہلے ایک طلاق ہوگئی تھی اب دوسری ہوجائے گی اس میں کیا؟"خباثت سے کہتا وہ قہقہ لگا کر ہنس پڑا۔

"اتنا آسان نہیں ہے اسے طلاق دلوانا اس کا شوہر بڑا نامی گرامی آدمی ہے"

"کتنا بھی نامی گرامی آدمی کیوں نا ہو بیوی کے معاملے میں سارے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں کم طرف کم سوچ کے"

اسکی باتوں میں دم تھے۔

پہلے ہی زندگی برباد کرے اسے سکون نہیں ملا تھا کہ ایک بار پھر وہ اسکی زندگی برباد کرنے کی تیاریوں میں تھا۔

_____________

اسکی آنکھ کھلی تو وہ اسکے سینے پر سر رکھے گہری نیند میں تھی۔

گھڑی صبح کے چھ بجا رہی تھی۔

ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھا کر اس نے چیک کیا تو ایسا کوئی خاص کال اور میسج نہیں تھا۔

موبائل سے دھیان ہٹا تو نظریں بے ساختہ اپنے پہلو میں سوئی بنفشے پر پڑی تھیں۔

چہرے پر آئے بالوں کو سائیڈ کرتے اسنے آہستہ سے اسکے ماتھے کو لبوں سے چھوا۔

"بیا اٹھیں نماز کا وقت ہوگیا ہے"اسکے کان میں کہتے وہ اپنے لب سے اسکی کنپٹی چھوتا بولا تو اسکی آواز پر بیا نے کسمسا کر آنکھیں کھولیں تو اسے خود پر جھکا پایا۔

"مارننگ جان دلبرم"مسکرا کر کہتا وہ اسے بوکھلا گیا۔

اسنے جلدی سے بلینکٹ خود پر ٹھیک کیا تو وہ اسکی معصوم سی حرکت پر بے اختیار ہنس پڑا۔

"سارا غصہ مجھ پر ساری احتیاط میرے سامنے قسم سے زرا اعتبار نہیں آپ کو مجھ معصوم پر"

"معصوم آپ جیسے نہیں ہوتے ہیں اب پلیز اٹھیں میری جان نکل جائے گی"اسکے سینے پر ہاتھ رکھتے وہ اسے پیچھے کرنے لگی مگر اس چکر میں وہ مزید اسکے قریب ہوا تھا۔

"کل تک تو آپ کہہ رہی تھیں مر جاؤں گی مگر آپ کے پاس نہیں آؤ گی آج آپ خود کو میرے قریب کر رہی ہیں"شرارت سے کہتا وہ اسکی گردن پر جھکا تو اسکی داڑھی کی چبھن محسوس کر اس نے کئی مکے اسکے کندھے پر مارے تھے۔

"آپ ہٹ جائی۔۔۔جائیں پلیز۔۔۔۔"اسکی قربت سے گھبراتی وہ روہانسے لہجے میں بولی تو گہرا سانس بھر اس سے دور ہوا۔۔

"یہ سب ہمیشہ نہیں چلے گا جاناں آپ کو وقت اس لئے دے رہا ہوں تاکہ آپ کے دماغ میں جو خناس بھرا ہوا ہے وہ نکل جائے اور ایک نارمل بیوی کی طرح میرے ساتھ زندگی گزاریں"

"میرے دماغ میں کوئی خناس نہیں بھرا ایک مہینے تک تو کوئی فیلنگ نہیں تھی آپ میں لیکن جیسے ہی میری طلاق کوئی اسکے اگلے دن ہی آپ کو مجھ سے اس قدر محبت ہوگئی کہ مجھ جیسی طلاق یافتہ کو اپنی بنا لیا اور اب ترس۔۔"اسکے باقی لفظ ادھورے رہ گئے تھے کیونکہ وہ جھک کر ان لفظوں کو قید کرگیا۔

وہ اس کے لئے تیار نہیں تھی۔

وہ دیوانہ سا اسے خود میں قید کرگیا تھا۔

بنفشے کو جب لگا وہ اگلا سانس نہیں لے سکے گی تب اسے آزادی بخشتا وہ دور ہوا۔

"آئیندہ میری محبت کو اگر ترس کا نام دیا تو میں اس سے بھی زیادہ برا پیش آؤ گا یاد رکھئے گا۔"اسے وارن کرتا وہ اٹھ کر واشروم میں بند ہوا مگر وہ ویسے ہی ساکت پڑی تھی یہ لمحوں کا کھیل تھا وہ سمجھ ہی نہیں سکی وہ تو بس اسکے لمس کی شدت پر ساکت سی بیٹھی تھی۔

_____________

فریش ہو کر وہ نیچے آئی تو مسزز یوسفزئی اسی کے انتظار میں بیٹھی تھیں۔

"اسلام وعلیکم"

"وعلیکم السلام بچے"اس کے سامنے جھکنے پر انہوں نے محبت سے اسکے سر پر پیار کیا اور اسے اپنے ساتھ بیٹھایا۔

"رشیدہ بچے اٹھ گئے ہیں ناشتہ لگائیں"ملازمہ کو کہتے وہ انہوں نے اٹھ کر ٹیبل پر رکھا باکس اٹھایا تھا۔

"میں نے سوچا تھا شاید ہی بہو کو دیکھ سکوں مگر قدرت کے فیصلے سب کے فیصلوں سے زیادہ بڑے ہوتے ہیں دیکھو جس انسان کی شادی کی دعائیں کرتے کرتے میں تھک گئی تھی آج اسکی بیوی میرے سامنے ہے"ہنس کر کہتے وہ اسے کنفیوز کر گئیں۔

"کیا یشم شادی نہیں کرنا چاہتا تھا"اس نے خود سے سوال کیا تھا۔

"یہ کڑے میں نے بہت سالوں پہلے بنوائے تھے اپنے یشم کی دولہن کے لئے اور آج آخر کار وہ وقت آگیا ہے جب یہ کڑے اسکے اصل مالک تک۔پہنچ گئے ہیں"باکس میں سے کڑے نکال کر انہوں نے اسکا ہاتھ تھاما اور وہ نفیس سے کنگن اسکی نازک کلائی کی زینت بنائے۔

"ماشاءاللہ بہت خوبصورت لگ رہے ہیں یہ تمہارے ہاتھوں پر"

ان کے محبت بھرے لہجے پر وہ ہلکا سا مسکرائی تھی۔

"بہو ہی تعریف ہوگئی ہو تو تھوڑی میری بھی کرلیں"یشم کی شرارت بھری آواز پر وہ دونوں چونکیں اور پھر مسزز یوسفزئی کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔

"میرا شہزادہ اتنا پیارا ہے تبھی تو اسے پری جیسی دولہن ملی ہے"اسکا ہاتھ لبوں سے لگاتے وہ محبت سے بولی تو وہ ہنس دیا

"اپنی پری سے پوچھ تو لیں انہیں شہزادہ لگتا ہوں یا دیو ؟"ایک آنکھ دبا کر کہتے وہ انہیں قہقہ لگانے پر مجبور کرگیا جب کہ اسکی ان باتوں پر وہ بس پہلو بدل کر رہ گئی۔

سنہری دھوپ اسکے چہرے پر پڑتی اسکی آنکھوں کے رنگ کو مزید نمایاں کر رہی تھیں۔

بدلتا موسم فضا میں خنکی کا رنگ لئے ہوئے تھے۔

یشم کسی کام سے باہر گیا تھا ماما بھی اسکے ساتھ گئی تھیں۔

وہ فلحال اکیلی تھی اس لئے بالکونی میں آکر کھڑی ہوگئی۔

"بٹیا آپ کی چائے"وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب ملازمہ کی آواز پر اس نے بےساختہ چونک کر اسے دیکھا۔

"تھینک یو "مسکرا کر انہیں کہتی وہ کرسی پر بیٹھی تو وہ اس کے لئے چائے بنانے لگیں۔

"آپ رہنے دیں میں کر لوں گی پریشان نا ہوں."

"ارے بیٹا پریشانی کیسی آپ تو ہمارے یشم بابا کی بیوی ہیں اس گھر کی بہو آپ کو کام کرنا تو ہماری خوش قسمتی ہے"

"خوش قسمتی کیوں میری جگہ کوئی بھی تو ہوسکتی تھی"

"شاید نا ہوتی"ان کی اس بات پر اسکا چائے کے کپ کی طرف بڑھتا ہاتھ ساکت ہوا۔

"مطلب کیا آپ مجھے سب بتا سکتی ہیں؟"

وہ ناچاہتے ہوئے بھی پوچھ بیٹھی تھی۔

"آپ بے فکر رہیں یہ بات ہمارے درمیان ہی رہے گی"انہی۔ ہچکچاہٹ کا شکار دیکھ اسنے جلدی سے کہا تو سر ہلا گئیں۔

اور پھر کو کچھ انہوں نے بتایا وہ سے بالکل سن کر گیا تھا اس نہج پر جا کر تو وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔

ہانیہ علی کا تعلق کراچی سے تھا اور ابو بکر یوسفزئی بزنس کی دنیا کا ابھرتا نام۔۔۔

انہوں نے ایک شادی میں پہلی بار ہانیہ علی کو دیکھا تھا اور اس پر بری طرح فریفتہ ہوگئے مگر معلوم کرنے پر پتا چلا وہ کسی کی منگیتر ہیں انہوں نے ابو بکر یوسفزئی کو انکار کیا تھا اور یہ انکار ابو بکر یوسفزئی کی انا پر لگا تھا۔

اور پھر اپنی انا کی تسکین کے لئے ٹھیک ان کی شادی کے دن انہوں نے ہانیہ یوسفزئی کا اغوا کروایا اور پھر خود ان سے نکاح کر لیا۔

اور تب ایک ایسی زندگی کا آغاز ہوا جو وہ کبھی نہیں چاہتی تھیں ایسا رشتہ کیسے نبھا سکتی تھیں وہ جس میں ان کی ذات کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہوں۔۔

یشم کی پیدائش کے بعد ابو بکر کا ان سے بھی دل بھر گیا اور پھر آئے دن کی لڑائیاں۔۔۔

انہیں یشم کے لئے سمجھوتہ کرنا تھا مگر اس معصوم کا بچپن ان سب نے چھین لیا تھا اسے سب سے نفرت ہوگئی تھی۔

لڑکپن کی دہلیز پر قدم رکھتے وقت وہ سوچ چکا تھا نا اسے محبت کرنی ہے نا شادی کیونکہ جس طرح اسکے باپ نے اسکی ماں کے ساتھ کیا آخر وہ بھی تو ان کا ہی بیٹا ہے یہ ڈر اسکے دل می۔میں ناسور کی طرح پلتے اسے ختم کر رہا تھا اور پھر ایسے میں بنفشے کی آمد اور اس سے شادی۔۔

وہ ایک نیا یشم بن کر سب کے سامنے آیا تھا تکلیفوں کو بھولے وہ بس اسکی خوشی چاہتا تھا وہ اپنے باپ جیسا ہر گز نہیں بن سکتا تھا اس کی ماں نے ایڈجسٹ کرلیا تھا مگر وہ ایسے مر کر بھی نہیں کرسکتا تھا کبھی نہیں۔۔۔۔

___________

وہ روم میں آیا تو وہ بیڈ پر گم صم سی بیٹھی تھی۔

"بیا "اسکی پکار پر بنفشے نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو اسکی سرخ ہوتی آنکھیں دیکھ وہ تڑپ کر اسکے پاس آیا۔

"کیا ہوا ہے آپ روئی ہیں ؟"اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرے وہ پریشان ہوگیا تھا۔

"نن۔۔نہیں بس سر میں درد"اتنا کہہ کر وہ سر جھکا گئی تو یشم نے اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔

"آپ یہاں لیٹیں میں آپ کا سر دباؤ دیکھئے گا کیسے ٹھیک ہو جائے گا آپ کا درد "اپنی گود کی طرف اشارہ کرتے وہ اسے پہلے سے کئی گنا زیادہ پیارا لگا۔۔

"میں ٹھیک ہوں آپ بیٹھیں میں مما کو دیکھ لوں"نرمی سے کہتے وہ اسکے برابر سے نکلتی چلی گئی تو یشم نے حیرت سے اسکا یہ انداز تھا۔

کچھ تھا جو اسے ٹھٹکا تھا

سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس لگاتے وہ کچھ سوچ رہا تھا جب اسکا موبائل رنگ ہوا۔

انجام نمبر دیکھ وہ لمحے کو تھما مگر پھر اسنے کال ریسیو کی اور دوسری طرف سے جو کچھ اسے سننے کو ملا اس نے صحیح معنوں میں اسے ہلا دیا تھا۔

گلاس ویسے ہی اپنی جگہ رکھ وہ فوراً وہاں سے نکلا تھا۔

"یشم کہاں جارہے ہو؟"اسے یوں باہر جاتے دیکھ ہانیہ یوسفزئی پریشانی سے بولی کیونکہ اسکے چہرے کے تاثرات بہت خطرناک لگ رہے تھے۔

"کام سے جارہا ہوں آکر بات کرتا ہوں"بنا بنفشے کی طرف دیکھے وہ انہیں جواب دیتا وہاں سے نکلتا چلا گیا تو بنفشے نے پریشانی سے انہیں دیکھا۔

"کچھ نہیں ضرور کوئی کام ہوگا پریشان نہیں ہو"اسکے گال تھپھتاتے وہ اس سے زیادہ خود کو تسلی دے گئیں۔

"مما کیا میں ایک بات پوچھ سکتی ہوں ؟"

"ہاں بیٹا پوچھوں نا "

"مجھے آپ کے اور انکل کے بارے میں پتا چلا۔۔۔"اس نے بات ادھوری چھوڑ دی ناجانے کیوں اس کی بات پر انہوں نے گہرا سانس بھرا اور پھر اسکا ہاتھ تھاما۔

"جو گزر گیا وہ ماضی کا حصہ تھا ہم میں سے کوئی اس بارے میں بات کرنا نہیں چاہتا نا کرتا ہے یشم کے بابا نے خود کو بہت بدل لیا ہے مگر یشم کی ضد انہیں بھی ضد دلا دیتی ہے آخر خون تو ایک ہے نا"اپنی بات کہتے وہ ہولے سے ہنسیں۔

"میں نے انہیں معاف کردیا کیونکہ یہاں بات میرے بچے کی تھی مگر یہ بات ہم دونوں نے ہی دیر سے سمجھی ان کی خطاؤں کا پلڑا بھاری رہا ہے ہمیشہ میں چاہتی ہوں ان دونوں کے درمیان سب ٹھیک ہو جائے مگر وہ ان کا نام سنتے ہی ہتھے سے اکھڑ جاتا ہے تو میری یہی ریکوسٹ ہے کہ کبھی ان کے سامنے اس بارے میں بات نہیں کرنا بیٹا "ان کے ریکوسٹ کرنے پر وہ جلدی سے سر ہلا گئی۔

"میں جانتی ہوں تم میاں بیوی کے معاملے میں بولنے کا مجھے کوئی حق نہیں ہے مگر اس نے ترس کھا کر شادی نہیں کی ہے اسے وہ خوشیاں دے دینا بیٹا جس کا وہ حقدار ہے"اس کے ہاتھ مضبوطی سے تھامے وہ التجا کر رہی تھی اس وقت بنفشے کو اپنا آپ بہت چھوٹا لگا تھا اپنی محرومی کا بدلہ وہ اس شخص سے لے رہی تھی جس کا سرے سے کوئی قصور ہی نہیں تھا یہ سوچ آتے اسکا دل کیا وہ ڈوب مرے۔

"آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی میں بس یہ سوچتی ہوں ان جیسا مکمل انسان میں ڈیزرو نہیں کرتی مجھے کہیں نا کہیں یہ ڈر ہے کہ ایک وقت آئے گا اور انہیں اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہوگا میں ان کی آنکھوں میں اجنبیت دیکھنے سے ڈرتی ہوں"اپنے دل کا ڈر ان کے سامنے بیان کرتے اس کی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔

"یہ ڈر دل سے نکال دو کیونکہ اس دنیا اگر کوئی واحد انسان بھی ہوگا نا جو تمہارے لئے کھڑا ہوگا وہ یشم یوسفزئی ہوگا یہ میرا یقین ہے "

_____________

"تم ٹھیک ہو آرزو "اسے بیڈ پر بیٹھاتے ردا نے اس سے پوچھا تو اثبات میں سر ہلا گئی۔

"کیا ہوا ہے ایسے چپ کیوں ہو؟"

"کیا بولوں بولنے کو میرے پاس بچا کیا ہے ردا ساری زندگی اپنے ماں باپ کی توجہ کے لئے تڑپتی رہی اور اب جب موت کی دہلیز پر تھی تب بھی میرے باپ نے ایک بار آکر مجھ سے بات نہیں کی مجھے تو لگا تھا وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے محبت کرنے والا اس دنیا میں کوئی نہیں میں ایک قابل نفرت انسان ہوں "اشک اسکی آنکھوں سے رواں تھے وہ جو دنیا کی نظر میں ایک بگڑی ہوئی ضدی لڑکی تھی اسے ایسا اسکے اپنوں نے بنایا تھا۔

"میں نے ایک لڑکی کی زندگی برباد کردی ردا اسکی زندگی میں سیاہی بھر دی یہ ناسور مجھے چین نہیں لینے دے رہا دوسروں کے گرانے کے چکر میں مجھے بہت بری ٹھوکر لگی ہے ایسی ٹھوکر کہ میں سنبھلنا بھی چاہوں تو نہیں سنبھل پاؤ گی "

"ایسا مت کہو تم شرمندہ ہو یہی بہت ہے تمہیں احساس تو ہوا اپنی غلطی کا"

"ایسے احساس کا فائدہ کیا ہے ردا جو خود کو مصیبت میں دیکھ کر ہو؟اپنی عزت اپنا غرور سب کچھ تو کھو دیا میں نے اب بچا کیا ہے میرے پاس؟"

وہ زندگی کے اس موڑ سے گزر رہی تھی جہاں سوائے پچھتاؤں کے اس کے پاس کچھ نہیں تھا۔

دروازے کے باہر کھڑے زین نے ضبط سے مٹھیاں بھینچیں تھیں اسکی بہن کی زندگی برباد کرنے والی آج حال میں تھی اسے تو خوش ہونا چاہیے تھا مگر ناجانے کیوں اسے تڑپتا دیکھ وہ وہاں مزید رک نہیں پایا۔

__________

"اب کیوں آئے ہیں یہاں؟"سرخ چہرے کے ساتھ اس نے سامنے چئیر پر پیچھے اپنے باپ سے پوچھا تو جن کا پیپر ویٹ گھوماتا ہاتھ اسکی آواز پر تھما تھا۔

"اس سوال کا مطلب ؟"

آئی برو آچکا کر انہوں نے الٹا اس سے سوال کیا تو ضبط سے ہونٹ بھینچتا بہت کچھ کہنے سے خود کو روک گیا۔

"نئی شادی ہوئی ہے کیا آفس کے بکھیڑوں میں خود کو پریشان کرو گے اس لئے سوچا بہو کو وقت دو یہاں میں سب سنبھال لونگا"

"مجھے آپ کی مدد نہیں چاہیے اور اپنا کام کرنا میں اچھے سے جانتا ہوں مسٹر ابو بکر "ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہو انہیں ہنسنے پر مجبور کرگیا۔

"لوگ کہتے ہیں تم اپنی ماں جیسے ہو مگر برخودار شکل پہلے ماں کی چرائی ہو مگر انداز سارے میرے جیسے ہیں "وہ جان بوجھ کر اسکی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ گئے اور وہ واقعی اس بات پر بلبلایا تھا۔

"آپ جیسا کبھی نہیں تھا میں نا ہو گا اپنی غلط فہمی دور کر لیں آپ ایک خود غرض انسان ہیں لیکن میں نہیں ہوں "

"چلو مان لیتا ہوں مگر فلحال دیکھو یہ خود غرض انسان چاہتا ہے تم بنفشے کو وقت دو کچھ چیزیں ایسی ہیں جن سے اسے خطرہ ہے اس کی حفاظت کرو " وہ ناجانے اسے کیا سمجھانا چاہ رہے تھے وہ سمجھ نہیں سکا مگر ان کی باتوں پر وہ ٹھٹکا ضرور تھا۔

"کیا مطلب ہے اس بات کا میں سمجھا نہیں"

"مطلب مت سمجھو کو کہا ہے وہ کرو اور ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا باپ باپ ہوتا ہے اولاد کتنی ہی بڑی ہو جائے باپ سے چار قدم پیچھے ہی رہتی ہے

"جاؤ گھر اسکا خیال رکھو یہاں ہوں میں "وہ ضدی تھا تو وہ اس سے کئی گنا زیادہ ضدی تھے ان سے بحث وہ کرنا ہی نہیں چاہتا تھا جبھی وہاں مزید نہیں رکا۔۔

___________

"پانی"وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے آنکھیں بیٹھا تھا جب اسکی آواز پر آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔

"پانی"پانی کی طرف اشارہ کرتے اس نے گلاس اسکے آگے کیا تو اپنی حیرت چھپاتا وہ پانی کا گلاس اس سے لیتے لبوں سے لگا گیا۔

"امی کی کال آئی تھی مجھے گھر جانا ہے "اس کے سامنے بیٹھتے وہ آہستہ سے بولی تو یشم نے بغور اسکے بدلے انداز کو دیکھا دو دن سے جو غصہ و نفرت کا اظہار ہو رہا تھا اسکی جگہ نرمی دیکھ وہ جتنا حیران ہوتا کم تھا۔

"ٹھیک ہے ریڈی ہوجائیں میں چھوڑ آؤ گا"

"میں ریڈی ہی ہوں"اسکی بات پر وہ جلدی سے بولی تو یشم نے اسے دیکھا جو سادہ سے لباس میں بنا میک اپ کے موجود تھے۔

"بنفشے آپ شادی ہے بعد پہلی بار اپنے گھر جارہی ہیں اس حلیے میں جائیں گی تو سب کو لگے گا آپ خوش نہیں ہیں میں جانتا ہوں آپ خوش نہیں ہیں مگر ایسے گھر والے پریشان ہونگے آپ کے"

"میں تیار ہوکر آتی ہوں "بنا بحث کئے وہ شرافت سے اٹھی اور وارڈروب سے اپنا ڈریس لیتی ڈریسنگ روم میں بند ہوئی تو وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔

اسکا یہ بدلہ رویہ اسے عجیب سا لگ رہا تھا مگر پھر سر جھٹک وہ نیچے چلا گیا تاکہ ہانیہ بیگم کو اپنے جانے کا بتا سکے۔

وہ روم میں آئی تو روم خالی تھا۔

پنک ٹخنوں کو چھوتی فراک پہنے ہاتھوں میں ہانیہ بیگم کے دئیے کنگن پہنے اس نے ہلکا سا میک کیا اور ایک نظر خود کو آئینے میں دیکھا۔

اپنا یہ روپ دیکھ اسکے چہرے پر خود بخود ہی مسکراہٹ آئی تھی مگر یہ مسکراہٹ تب سمٹی جب اپنے عکس کے ساتھ یشم کا عکس آئینے میں نمایاں ہوا۔

یشم نے اسکے پاس کر اسے اپنے حصار میں قید کیا تو اسکی نظریں جھکی تھیں۔

"اچھی لگ رہی ہیں اپنی اپنی سی اسکے بالوں کو سائیڈ کرتے وہ آہستہ سے وہاں اپنے لب ثبت کرگیا تو بنفشے نے مٹھیاں بھینچیں۔

"میرا تحفہ تو میں نے آپ کو دیا نہیں سب پوچھیں گے تو کیا بولیں گی"اسکے کندھے پر ٹھوڑی ٹکاتا وہ اسکے کنگن سے کھیلتے اسکے دل کی رفتار بڑھا رہا تھا۔۔

"ا۔۔آپ۔۔ نے دیا نہیں"اسکی آواز اتنی آہستہ تھی مگر وہ سن چکا تھا اور بات سنتے ہی اسکے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔

ہاتھ بڑھا کر دراز سے مخملی کیس نکالتے یشم نے اسکے سامنے کیا تو اسنے ناسمجھی سے آئینے میں اسے دیکھا۔

تب یشم نے وہ کیس کھول اس نے میں پینڈنٹ نکال کر اسکے سامنے کیا۔

"یہ آپ کی منہ دیکھائی "اس کی گردن میں وہ پینڈنٹ پہناتے وہ آہستہ سے اسکی گردن چھو کر بولا تو بنفشے نے سختی سے اپنی آنکھیں بند کیں۔

اسکے کانوں میں ایرننگ پہناتے اسکے ان پر لب رکھے۔

"ہممم۔۔۔۔ہمیں دیر۔۔"یشم کی جسارتوں کے ساتھ اسکی دھڑکنیں بھی بڑھ رہی تھیں۔

"جانتی ہیں آپ کی خوشبو مجھے اپنا دیوانہ بنا رہی ہے"اسکے گال پر لب اپنے دہکتے لب رکھتے وہ سرگوشی کرتے اسکی ہوش اڑا رہا تھا۔

اس سے پہلے وہ مزید کوئی گستاخی کرتا دروازے پر ہونے والی دستک نے جہاں اسکے ماتھے پر بل ڈالے تھے وہیں اس نے سکون کا سانس لیا تھا۔

اس سے دور ہوتا وہ صوفے پر جاکر بیٹھا تبھی دروازہ کھولے ہانیہ بیگم اندر آئی تھیں۔

"بیا بیٹا گھر جاتے ہوئے کچھ سامان میں نے لاونج میں رکھوا دیا ہے اسے ساتھ لے کر جانا ہے ٹھیک ہے"

"آپ کہاں جارہی ہیں؟"

"میں کسی کام سے جارہی ہوں تم دونوں اپنا خیال رکھنا "یشم کو جواب دیتے وہ آگے بڑھ گئیں تو یشم نے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھا۔

اس سے پہلے وہ کچھ کرتا وہ پھرتی سے کمرے سے باہر نکلی تھی کہ یشم کے قہقے نے باہر تک اسکا پیچھا کیا تھا۔

تم جو میرا ساتھ دو۔۔۔

سارے غم بھلا دوں جیوں مسکرا کر۔۔

زندگی۔۔

تو دے دے میرا ساتھ ،تھام لے ہاتھ

چاہے جو بھی ہو بات ۔۔

تو بس دے دے میرا ساتھ۔۔۔

گاڑی میں سوائے گانے کے اور کوئی دوسری تیسری آواز نے نہیں وہ دونوں ہی خاموش تھے۔

ایک بہترین وقت گزار کر اب وہ دونوں واپس گھر جارہے تھے جب اس خاموشی کو توڑنے کے لئے یشم نے میوزک آن کیا۔

گانے کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی گنگنانے لگا تو بنفشے نے چور نظروں سے اسے دیکھا۔

کھڑی ناک ماتھے پر بکھرے بال ہلکی بڑھی شیو آستین کو کہنیوں تک فولڈ کئے وہ اس سادہ سے حلیے میں بھی اسکی توجہ اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔

خود کو سرزنش کرتے اس نے رخ موڑ کر کھڑکی کی جانب کیا تو یشم کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔

آسیہ نے اسے بتایا کہ وہ اسے پسند کرتی تھی مگر وہ یہ سب بول کر اسے کسی بھی طرح پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا مگر یہ جاننے کے بعد کہ وہ اس کے کئے جذبات رکھتی ہے اسکا دل ہمک ہمک کر اسکے ساتھ کا طلبگار ہورہا تھا۔

گاڑی سگنل پر رکی تو یشم نے اپنی سائیڈ کی ونڈو کھول تازہ ہوا کو اندر آنے کا راستہ دیا۔

"سر جی گجرے"باہر سے آتی لڑکے کی آواز پر اس نے بنا سوچے سمجھے پیسے نکال کر اسکے ہاتھ میں تھمائے اور گجرے لے کر گود میں رکھے۔۔

وہ منتظر تھی کہ وہ گجرے اسے پہنائے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا اور اسی بات نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔

پہلے ہی اسکے نظر انداز کرنے پر وہ چڑی بیٹھی تھی مزید چڑ گئی۔۔

گاڑی اپارٹمنٹ کے باہر رکتے ہی بنا اسکا انتظار کئے وہ فوراً سے گاڑی سے نکلی تو اسکے تپے تپے انداز پر وہ بے اختیار ہنس دیا۔۔

گاڑی پارک کر کے وہ ہانیہ یوسفزئی سے ملتا اوپر آیا تو وہ چینج کر بستر میں گھس چکی تھی۔

"یار بیا اتنی جلدی سوگئیں اب یہ گجرے کون پہنے گا؟"شرارت سے کہتے وہ بیڈ پر اسکے پاس بیٹھا تو وہ اور خود میں سمٹی۔۔

"بیا۔۔۔"جذبوں سے بوجھل آواز میں پکارتے یشم نے ہاتھ بڑھا کر اسکا بلینکٹ سے ہاتھ نکالا تو اسنے دانتوں تلے لب دبایا۔

اسکی ہتھیلی پر انگلی پھیرتے وہ مسلسل اسے تنگ کر رہا تھا.

"بیا یار"اسکے مسلسل ایسے ہی لیٹے رہنے پر اس نے جھنجھلا کر کہا تو اسکا قہقہ گونجا تھا۔

وہ پہلی بار اسے یوں کھل کر ہنستے دیکھ رہا تھا۔

"آپ اتنی جلدی پریشان کیوں ہوجاتے ہیں ؟"

"کسی اور کام سے تو کبھی نہیں ہوا ہاں آپ مجھے بہت پریشان کرتی ہیں وہ الگ بات ہے "

"آپ کو جھوٹ بولتے زرا شرم نہیں آتی نا میں نے کب آپ کو پریشان کیا یشم؟"مصنوعی غصے سے اسے گھورتے کہا تو اس نے اسکا ہاتھ تھام ان میں گجرے پہناتے اس کے دونوں ہاتھوں پر لب رکھے۔

اسکے لمس سے وہ خود میں سمٹی تھی۔

اسکی حیا سے جھکی پلکوں پر لب رکھتے اس نے آہستہ سے اسکی ناک کو چھوا تو اسے لگا اسکا دل باہر آجائے گا۔۔

"یہ آنکھیں مجھے بہت پسند ہیں"ایک بار پھر اسکی آنکھوں کو چھوتے اس نے بالوں کو سائیڈ رکھ اسکے کاندھے پر لب رکھے تو وہ خود میں سمٹتی اسکے سینے سے لگی تھی۔

اسکی پیش قدمی دیکھ یشم نے اسکے ماتھے پر مہر ثبت کی اور اسکا ہاتھ تھام اپنے دل کے مقام پر رکھا۔۔

"آپ کو پتا ہے میں جب جب آپ کو دیکھتا ہوں مجھے حیرت ہوتی ہے میں وہ انسان جسے شادی محبت جیسے لفظوں سے سخت چڑ تھی کیسے ایک ایسی لڑکی سے محبت کر بیٹھا جس کا وہ نام تک نہیں جانتا تھا۔۔"

اسکی بات پر وہ چونکی مگر اسے ٹوکا نہیں۔۔

"جاننا چاہیں گی مجھے آپ سے محبت کب ہوئی ؟"اس کے سوال پر اس نے آہستہ سے سر ہلایا تو وہ مسکرا اٹھا۔

"جب میں کسی کام سے آپ کے کالج کے پاس سے گزر رہا تھا میں نے آپ کو روڈ پر کھڑے دیکھا۔

چہرے پر بیزاری غصہ مسلسل غصے سے کچھ بولنا مجھے آپ کہیں سے بھی آج کے زمانے کی لڑکی نہیں لگیں آپ میں سادگی تھی معصومیت تھی جو مجھے آپ کی طرف کھینچنے لگی۔۔۔"

"تو وہ آپ تھے جس نے وہ شلٹر ؟"اس نے دانستہ بات ادھوری چھوڑی جس پر وہ ہولے سے ہنس پڑا۔

"آپ کے معاملے میں ایسا بہت کچھ کیا ہے میں جسے سوچ کر ہنستا ہوں اب میں کیونکہ ایسا تو میں کبھی نہیں رہا۔۔۔ لیکن پھر کہتے ہیں نا قسمت آپ کے ساتھ کھیل کھیلتی ہے آپ میرے پاس آئیں میرے آفس میں میری نظروں کے سامنے مگر آپ کو دیکھ میں ڈر گیا کیونکہ میں محبت نبھا ہی نہیں سکتا تھا میں محبت نہیں کرسکتا تھا کسی سے۔

آپ کے نکاح کی خبر نے مجھے ہلا دیا تھا میں خود سے بے خبر ہوگیا تھا مجھے پرواہ تھی تو آپ کی بس آپ کی میں اپنے باپ جیسا نہیں بن سکتا تھا۔۔۔ مگر قسمت نے آپ کو ایک بار پھر میرے سامنے لا کھڑا کیا مجھے آپ کا پتا چلا میں تڑپ میں نے خود سے سوال کیا تو کیا آپ واقعی میرے نصیب میں تھیں ؟ آپ میرے نصیب میں تھیں آپ کو مجھ تک ہی آنا تھا تو یہ خیال دل میں کبھی مت لائیے گا کہ میں نے ہمدردی اور ترس کھا کر آپ سے شادی کی ہے بیا آپ سے میری محبت بہت الگ ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میں آپ سے مرتے دم تک ایسی ہی محبت کرتا رہوں آپ کو بری ہوا چھو کر بھی نا گزرے یا آپ مجھ پر بھروسہ کریں گی مجھ سے محبت کرینگی ؟"وہ اس کے سامنے دست سوال تھا۔

بنفشے نے محض لمحے کو سوچا تھا اور پھر آہستہ سے آگے بڑھ اسنے یشم کے ماتھے کو نرمی سے اپنے لبوں سے چھوا تھا۔

ایک سکون تھا جو اسکے رگ و پے میں اترا تھا

"مجھے فخر ہے آپ پر یشم"اسکی آنکھوں کو اپنے لمس سے مہکاتے وہ اسکا دل دھڑکا گئی۔

یشم نے اسکی گردن کو اپنے لبوں سے چھوا اور پھر آہستہ سے وہاں اپنا لمس چھوڑنے لگا۔

اسکے لمس سے گھبرا کر اس نے سختی سے یشم کی شرٹ کو مٹھیوں میں جکڑا تھا۔

اسکی شہہ رگ پر لب رکھتے اسنے آہستہ سے اسکے لبوں کو اپنی گرفت میں لیا۔

وہ شدت سے اسے اپنے لمس سے مہکا رہا تھا اسے جب لگا کہ وہ اگلا سانس نہیں لے پائی گئی وہ آہستہ سے اس سے الگ ہوا۔

اسکے دور ہونے پر اس نے گہرے سانس بھر کر خود کر پرسکون کرنا چاہا۔

اسے اپنے حصار میں قید کرتا وہ اس پر ابر بن کر چھایا تھا اور پھر آہستہ سے لائٹس آف کرتے وہ اسے اپنا بنا گیا۔۔۔۔۔

دونوں کی دھڑکنیں ایک ہوئی تھیں اسکے گلے میں بانہوں کو حصار باندھے وہ اسے یشم کے سپرد کر گئی تھی۔۔۔

_________

مسلسل کمرے میں ٹہل لگاتا وہ پاگل ہورہا تھا ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس نے بنفشے اور یشم کو دیکھا تھا اور تب سے ہی اسکے سینے پر سانپ لوٹ رہے تھے۔

"بیٹھ جا وہاج کیا ادھر سے ادھر گھوم رہا ہے"الیاس کی بات پر اسنے گھور کر اسے دیکھا۔

"عیش کر رہی ہے وہ اور میرے ہاتھ کچھ نہیں آیا وہ منحوس بھی غائب ہے۔۔"

"عیش کر رہی ہے تو کیا ہوا تو بھی عیش کر سکتا ہے اسکے ساتھ جا اسکے پاس اور درس دھمکا پیسہ حاصل کر اس سے اس میں کون سی بڑی بات ہے؟"

الیاس کی بات پر اس نے غور سے اسے دیکھا۔

"تجھے لگتا ہے وہ مجھے پیسہ دے گی؟"

"مجھ سے زیادہ تو اپنی اس کزن کو جانتا ہے"خباثت سے کہتے وہ قہقہ لگا کر ہنس پڑا اور ویسی ہی ہنسی اب کے وہاج کے چہرے پر بھی آئی تھی۔۔

___________

"کیا ہوا کن سوچوں میں گم ہیں؟"وہ چھت پر بیٹھا کسی غیر موئی کو دیکھنے میں مصروف تھا عائشہ کی آواز پر چونکا۔

"ہاں۔۔؟"

"میں پوچھ رہی ہوں کیا سوچ رہے ہیں آپ ؟"چائے کا کپ اسکے سامنے رکھتے اس نے اپنا سوال ایک بار پھر دھرایا تو اب کی بار اس نے نفی میں سر ہلایا۔

"کچھ نہیں بس ویسے ہی بیٹھو تم"اسے بیٹھنے کا کہتے اس نے کپ لبوں سے لگایا تو عائشہ نے بغور اسکا چہرہ دیکھا۔

"ایسی کون سی بات ہے جو آپ کو پریشان کر رہی ہے مگر آپ شئیر نہیں کرنا چاہتے؟"

"ایسی تو کوئی بات نہیں اور بھلا میں نے کبھی کچھ چھپایا ہے ؟"

"لیکن اب تو چھپا رہے ہیں نا زین پلیز مجھے بتائیں ایسے اپنے اندر مت رکھیں۔۔"

"ارے میرا مسئلہ ہوتا تو میں بتا دیتا دراصل ایک دوست کا ایشو تھا "وہ نہیں جانتا تھا کیوں مگر وہ اس سے جھوٹ بول گیا۔

"کیسا ایشو ؟"

"اسکی بہن کے ساتھ ایک لڑکی نے غلط کیا اور اسکی بہن کی طلاق کروا دی مگر اب وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہے معافی مانگ رہی ہے حال میں ہی اسکا ایکسیڈنٹ بھی ہوا ہے " سچ جھوٹ ملا کر اس نے کہانی بتائی تو عائشہ نے بغور اسکا چہرہ دیکھا۔

"ایک بار جو اس حد تک جا سکتا ہے وہ بار بار جا سکتا ہے اور مومن ایک ہی سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا آج وہ شرمندہ ہے کل کو وہ دوبارہ اپنی اصلیت دیکھا گئی تو؟ معاف کردینا ٹھیک ہے مگر اس پر بھروسہ کبھی دوبارہ مت کرنا"

آہستہ سے کہتے وہ اپنی جگہ سے اٹھی مگر نیچے جانے سے پہلے اس نے ایک نظر مڑ کر زین کو دیکھا۔

"رات بہت ہوگئی ہے سوجاؤ کل اپیا کے ولیمے کی تیاری بھی کرنی ہے آنٹی واپس جانے سے پہلے ولیمے کی دعوت کرنا چاہتی ہیں "اسے کہہ کر وہ رکی نہیں اور اسکے تاثرات سے زین کو لگا وہ اس سے ناراض ہو کر گئی ہے۔

___________

اگلی صبح بے حد روشن و خوبصورت تھی اسکے حصار میں قید وہ گہری نیند میں تھی جب موبائل نے یشم کی نیند میں خلل ڈالا تھا ۔

خاص نمبر دیکھ وہ ایک دم الرٹ ہوا اور پھر ایک نظر اپنے بازو پر سر رکھے سوئی بیا پر ڈالی۔۔

اسکا سر تکیے پر رکھتے وہ آہستہ سے اٹھ کر بالکونی میں آیا اور کال بیک کی۔

"ہاں جمشید بولو ؟"کاک ریسیو ہوتے ہی اس نے سوال کیا اور دوسری طرف سے جو بتایا گیا اس نے یشم کے کشادہ ماتھے پر بلوں کا اضافہ کیا تھا۔

"ٹھیک ہے میں خود جا کر اس سے بات کرتا ہوں فلحال اسکی حفاظت تمہاری زمہ داری ہے جمشید"سامنے والے کو وارن کرتا وہ جیسے ہی پلٹا سامنے بنفشے کو کھڑے پایا۔

"آپ یہاں کیوں آگئے یشم"نیند سے بوجھل آنکھیں لئے وہ اس کی غیر موجودگی محسوس کر اٹھی تھی اور پھر اسکی آواز سن یہاں آئی تھی۔

"کچھ نہیں جاناں ایک ضروری کام تھی ریسو کرنا ضروری تھا آپ کی نیند خراب نا ہو اس لئے یہاں آگیا"اسکے اپنے حصار میں لیتے یشم نے دائیں ہاتھ سے اسکے بال سنوارے تو بنفشے نے آہستہ سے اسکے کندھے کر سر رکھ کر آنکھیں موند لیں۔

اسکے یوں کرنے پر وہ مسکراتا اسے بیڈ تک لایا اور اسے لٹایا۔

"شادی کے بعد لڑکیاں میچور ہوجاتی ہیں اور آپ میچور سے بچی بن گئیں ہیں"اسکے گود میں سر رکھنے پر وہ شرارت سے کہتا اسکے گال پر چٹکی کاٹ کر بولا تو مندی مندی آنکھیں سے بیا نے اسے گھورا۔

"زیادہ باتیں نہیں بنائیں سونے دیں مجھے بہت نیند آرہی ہے"اسکے پہلو میں منہ چھپاتے وہ ایک بار پھر آنکھیں موند گئی۔

اسکے آنکھیں بند کرتے ہیں چہرے پر آئی مسکراہٹ سمٹی تھی اسکا سارا دھیان فون کال پر تھا

جب جب چیزیں ٹھیک ہونے لگتی تھیں تب تب کچھ ایسا ہوجاتا تھا جو سب کچھ برباد کردیتا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہوا تھا مگر اب وہ اپنی خوشیوں کو تباہ نہیں ہونے دے سکتا تھا۔۔

____________

یشم کے نکاح کی خبر اس کے لوگوں کو ملی تو سب ہی خوش تھے اور اسکی طرف سے باقاعدہ طور پر اناوئسمنٹ کا انتظار کر رہے تھے اسی لئے اس نے اور ہانیہ بیگم نے مل ریسیپشن پارٹی کا اہتمام کیا تھا۔

یشم کے بزنس سرکل کے لوگوں کو انوائیٹ کیا گیا تھا۔

"مشارب صاحب سے بات ہوئی ؟" وہ باہر سے آیا تھا جب ہانیہ بیگم نے اس سے ان کا پوچھا۔

"جی کسی کام کے سلسلے میں باہر ہیں آرزو بھی ٹرپ پر گئی ہے معذرت کر رہے تھے کہ نہیں آ سکیں گے"سنجیدگی سے کہتے اس نے ملازمہ سے پانی کا گلاس تھام کر لبوں سے لگایا

"اوو چلو کوئی بات نہیں۔۔ تم جاؤ ریڈی ہوجاؤ بیا کو پارلر بھیج دیا ہے میں بھی جارہی ہوں تم ہمیں وہیں سے پک کرلینا"اسے کہتے وہ اٹھیں تو اس نے سر ہلا دیا۔

اپنی تیاری مکمل کر کے وہ ڈائریکٹ ہاٹل آیا تھا کیونکہ ہانیہ بیگم نے اسے کال کر کے کہا تھا کہ وہ خود آرہی ہیں سارے انتظامات دیکھنے کے بعد اب وہ خود باہر انٹرنس پر ان کا انتظار کر رہا تھا کہ تبھی ان کی باری آکر رکی تھی۔

گاڑی سے سب سے پہلے ہانیہ بیگم نکلی تھیں

اور پھر ان کے پیچھے اس نے قدم نکالا تو اسے دیکھ وہ مہبوت سا رہ گیا۔۔

پیروں کو چھوتی لائٹ پرپل میکسی پر دوپٹہ سر پر ٹکائے فل میک اپ میں وہ اس قدر حسین لگ رہی تھی کہ یشم کی نظر اس پر ہٹنا بھول گئی۔

اپنی بے ساختگی پر شرمندہ ہوتے اسنے ہاتھ بڑھایا تو بیا نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ میں رکھا تھا۔

کمرے کے فلیش دھڑا دھڑ ان پر پڑ رہے تھے ہر کسی کو ان کی مکمل تصویر چاہئے تھی۔۔

اس کا ہاتھ تھامے وہ اندر آیا تو دونوں اطراف انار جل اٹھے۔

یہ منظر کسی فیری ٹیل سے کم نہیں تھا لوگوں کے ہجوم میں وہ دونوں سب سے نمایاں تھے۔

اس نے تو کبھی یہ سب سوچا بھی نہیں تھا یشم نے مضبوطی سے اسکا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔

اسٹیج پر پہنچ کر ان کا فوٹو شوٹ ہوا اور پھر یشم نے اسے اپنے سرکل میں متعارف کروایا۔۔

"ہم سے نہیں ملواؤ گے ہماری بہو کو؟"مردانہ آواز پر جہاں اسے حیرت ہوئی وہیں یشم کے چہرے پر چٹانوں کی سی سختی آئی تھی۔

بنفشے نے گردن موڑ کر دیکھا تو وہ سرخ و سفید رنگت لئے کھڑے انسان تقریباً پچاس سال کے تھے وہ جو کوئی بھی تھے مگر تھے بہت خوبصورت اور ان کی آنکھیں بالکل یشم جیسی تھیں اور اسی بات نے اسے چونکایا تھا۔

"ماشاءاللہ جیسا سنا تھا میری بہو واقعی جیسے سے بھی زیادہ خوبصورت ہے"اسکے سر پر ہاتھ رکھ انہوں نے شفقت سے کہا تو وہ ہولے سے مسکرا دی اور پھر انہوں نے کئی نوٹ ان دونوں پر وار کر ویٹر کے حوالے کئے تھے۔

"یشم بات کرنی ہے سائیڈ آؤ"اس سے بات ختم کرتے وہ اس سے مخاطب ہوئے تو ناچاہتے ہوئے بھی وہ اسے ایک طرف کھڑا کرتا ان کے پیچھے ہوا تھا۔

وہ سب کو دیکھ رہی تھی کہ اچانک اسکی نظریں دروازے پر جا کر ساکت ہوئی تھیں۔

وہاج کو دیکھ وہ ساکت ہوا تھا

وہ اسے شعلہ بار نظروں سے گھور رہا تھا اسکی نظریں بنفشے کو اپنے اندر تک گھسی محسوس ہوئی تھیں

اسے نظروں ہی نظروں میں دھمکاتے وہ وہاں سے غائب ہوا مگر وہ پتھر کی ہو گئی تھی۔۔

وہ پتھر کی ہوگئی تھی اسکا دل دھڑکنا بھول گیا تھا۔۔

"بیا یشم بھائی وہاں بلا رہے ہیں"عائشہ نے آکر اسے کہا مگر وہ ہوش میں ہوتی تو سنتی۔

"اپیا۔۔۔؟"اس کی غائب دماغی محسوس کر عائشہ نے اسکا کندھا ہلایا تو وہ جیسے ہوش کی دنیا میں آئی۔

"ہاں کیا ہوا؟"

"ایسے کن خیالوں میں گم ہو یشم بھائی وہاں بلا رہے ہیں چلو"اسکا ہاتھ تھام کر عائشہ آگے بڑھی تو خود کو سنبھالتے وہ اسکے پیچھے چل پڑی۔

"آجائیں"اسے آتے دیکھ یشم نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھاما اور اسے اپنے قریبی لوگوں سے ملوانے لگا۔

اسکا دل عجیب ہو رہا تھا دل کر رہا تھا یہاں سے بھاگ جائے مگر یشم کی خاطر چہرے کے مصنوعی مسکراہٹ سجائے وہ سب سے ملتی رہی۔۔

"بیا آپ ٹھیک ہیں؟"اسکی اڑی اڑی رنگت دیکھ یشم نے اسکی جانب جھک کر پوچھا تو وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔

"میں ٹھیک ہوں "مسکرا کر کہتے اس نے یشم کو تسلی دی تھی مگر وہ مطمئن نہیں ہوا

"یشم میں ٹھیک ہوں بس تھک گئی ہوں عادت نہیں ہے نا اتنا ہیوی پہننے کی تو تھوڑا عجیب لگ رہا"اسکا ہاتھ نرمی سے تھام اسنے کہا تو وہ سر ہلا گیا۔

رات گیارہ بجے تک فنکشن اپنے اختتام کو پہنچا تو ڈرائیور کو بول اس نے بنفشے کی پوری فیملی کو گھر بھیجا اور ہانیہ بیگم کو بھی گھر روانہ کیا

"آپ اوپر روم میں جا کر چینج کرلیں"

"ہم گھر کب جائیں گے"سب کو جاتے دیکھ اس نے پوچھا تو وہ ہولے سے مسکرایا۔

"چلیں گے مگر اس سے پہلے ایک اور جگہ جانا ہے اوپر آپ کے لئے ایک ڈریس ہے چینج کر کے آجائیں"اسکا گال تھپھتاتے وہ بولا تو ناچاہتے ہوئے بھی وہ اوپر چلے گئی۔

جب تک وہ چینج کر کے واپس آئی تو یشم کو گاڑی سے ٹیک لگائے اپنا منتظر پایا.

جو وائٹ ہائی نیک پر بلیک کورٹ پہنے اچھا خاصا ہینڈسم لگ رہا تھا۔

"یشم اوپر میرا سارا سامان"

"اسکی فکر نہیں کریں وہ سب سامان گھر پہنچ جائے گا پریشان نا ہوں آپ آجائیں گاڑی میں بیٹھیں"اسکا ہاتھ تھام یشم نے اسے گاڑی میں بیٹھایا اور پھر خود ڈرائیونگ سیٹ پر آکر بیٹھا۔

"ہم جا کہاں رہیں ہیں پہلے ہی اتنا لیٹ ہوگیا ہے"

"آپ تو ایسے خوفزدہ ہورہی ہیں جیسے میں آپ کو اغوا کر کے لے کر جارہا ہوں"

"اغوا نہیں کر رہے مگر اتنی رات کو لے کر جا کہاں رہے ہیں یہ بھی تو نہیں بتا رہے"

"آپ کو ایسی جگہ لے کر جارہا ہوں جہاں سوائے آپ کے اور میرے کوئی نہیں ہوگا وہاں ہم ہونگے اور صرف ہماری محبت"اسکا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگاتے وہ اسکے سرخ کرگیا۔

"آپ راستے پر دھیان دیں نا"اسکی گرفت سے ہاتھ چھڑاتی وہ آہستہ سے بولی تو یشم نے اسکے ہاتھ پر اپنی گرفت مزید سخت کی تو اس نے بھی مزاحمت ترک کر دی۔

گاڑی سمندری علاقے میں داخل ہوئی تو اس نے حیرت سے یشم کو دیکھا۔

ٹھنڈی ہوا نے اسکا استقبال کیا تھا۔

"یشم سمندر"سدا کی پانی کی شوقین وہ دیوانی ہوئی تھی۔

"جی میری جان"گاڑی پارک کرتے وہ اسکی جانب آیا اور اسکا ہاتھ تھام اسے باہر نکالا۔

"یشم مٹی کی خوشبو" وہ دیوانی تھی اس خوشبو کی۔

"آجائیں "اسکا ہاتھ تھامے وہ اسے لئے ہٹ میں داخل ہوا تو اسکا ہاتھ چھڑاتے وہ باہر بالکونی میں آئی تھی سامنے ہی ٹھاٹھیں مارتا سمندر پوری شان سے وہاں موجود تھا۔

"یشم ہم وہاں چلیں"پانی کی طرف اشارہ کرتے اسنے بچوں کی طرح ضد کی تو وہ مسکرا اٹھا۔

ساتھ لائے بیگ سے کورٹ نکال کر اس نے بیا کو پہنایا اور اسکے چہرے پر آئے بال سیٹ کئے.

"چلیں"اسکا ہاتھ تھام کر وہ اسکے ساتھ باہر آیا تو پانی کے پاس آتے ہی وہ بھاگ کر لہروں کے ساتھ بھاگی تھی۔

ٹھنڈا ٹھنڈا پانی دل کو سکون دے رہا تھا۔

دیوار سے ٹیک لگائے یشم نے اس دیوانی کو دیکھا۔

"یشم آئیں نا"ہاتھ کے اشارے سے اسے بلاتے وہ زور سے بولی تو اس نے آہستہ سے اپنے قدم اسکی جانب بڑھائے اور اسکے قریب پہنچ کر اسکے کمر کے گرد ہاتھ باندھ اسے اپنے قریب تر کیا تھا۔

"یہ ساحل یہ موجیں اور یہ رات کا پہر

بانہوں میں محبوب ہو تو واللہ ان کو دیکھنا بنتا نہیں ہے۔۔۔"

سرگوشی کرتا وہ اسکی کنپٹی پر لب رکھتا شرمانے پر مجبور کر گیا۔

"میرا دل کرتا ہے کہ ساری زندگی یونہی اپنے حصار میں قید کئے تمہیں اس دنیا سے بہت دور میں چھپ جاؤں جہاں بری ہوا کا گزر بھی نا ہو تم یوں ہی آغوش میں قید میری محبت میں کی بارش میں بھیگتی رہو اور تمہارے لئے میری محبت کا یہ دریا وسیع تر ہوتا چلا جائے"اسکے لبوں کو نرمی سے چھوتا وہ اسے بانہوں میں بھر کر اندر کی جانب بڑھا تو بنفشے کی جان لبوں پر آئی تھی۔

ٹھوکر سے دروازہ بند کرتا وہ اسے لئے ایک کمرے میں آیا جو پھولوں سے مہک رہا تھا کمرے کا دلفریب منظر دیکھ اسنے اسکی گردن میں منہ چھپایا تھا۔

اسے بیڈ پر لٹاتے یشم نے آہستہ سے اسکے ماتھے کو اپنے سلگتے لبوں سے چھوا تو اسنے گھبرا کر اسکا کندھا پکڑا.

"یش۔۔۔"باقی کے لفظ یشم نے چرائے تھے۔

اسکی حالت پر رحم کھاتے وہ اس سے الگ ہوا تو بنفشے نے بھیگی پلکوں کے ساتھ اسے دیکھا۔

"ان آنکھوں میں میرے عکس کے سوا کچھ اچھا نہیں لگتا یہ آنسو بھی نہیں خبردار آج کے بعد ان میں سے یہ موتی نکلے "اسکے آنسوؤں کو اپنی پوروں پر چنتا وہ ان نم آنکھوں پر لب رکھ گیا۔

"اس کائنات کی ہر شے میں مجھے آپ کا عکس دیکھتا ہے اگر کوئی کہے کہ یشم یوسفزئی پاگل ہے تو مجھے بالکل برا نہیں لگے گا کیونکہ میری محبت رفتہ رفتہ عشق میں تبدیل ہوتی جارہی ہے میرا بس چلے تو میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ آپ کے نام لکھ دوں"اس کی ہتھیلی پر لکھے اپنے اور اسکے نام پر لب رکھتے وہ اسے اپنے لفظوں سے معتبر کر رہا تھا۔

اس وقت وہ خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی تصور کر رہی تھی کیونکہ اسکے حصے میں یشم یوسفزئی آیا تھا۔

وہ اسکی طرح بےباک نہیں تھی وہ اپنے لفظوں اور لمس سے اسے مہکا رہا تھا اور وہ پاگل دیوانی اس شخص کے رنگ میں رنگنے کو تیار تھی۔

اتنا آج اس نے جان لیا تھا کہ محبت کے معاملے میں یشم کا پلڑا ہر صورت اس سے بھاری رہنے والا ہے وہ کبھی اسکے جتنی محبت اس سے نہیں کر سکے گی کیونکہ وہ سراپا محبت تھا بنفشے کو اس سے محبت تھی وہ قابل محبت تھا مگر وہ بنفشے کو عشق جیسے بڑے مرتبے پر فائز کر اسے فرش سے عرش پر بیٹھا گیا تھا.

_______________

رات آہستہ آہستہ سرد ہوتی جارہی تھیں چھت پر اس وقت سوائے چاندنی کے کوئی روشنی نہیں تھی۔

شال کو اچھے سے اپنے گرد لپیٹے وہ واک کر رہی تھی جب اسکے قدموں کے ساتھ کسی اور کے قدم بھی شامل ہوئے تھے۔

عائشہ نے چونک کر سر ہٹایا تو ساتھ زین کو کھڑے پایا۔

"امی بابا سو گئے ؟"اسے ساتھ چلتے دیکھ اس نے سوال کیا تو زین نے اثبات میں سر ہلایا۔

"تم ناراض ہو مجھ سے ؟" اسے آگے بڑھتا دیکھ زین نے پوچھا تو عائشہ نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔

"بابا تمہارے اور میرے نکاح کی ڈیٹ فائنل کر رہے ہیں اپنا فیصلہ انہیں بتا دینا "بنا اسکی بات کا جواب دئیے اس نے اپنی بات کہی تو وہ چپ کا چپ رہ گیا۔

"تم مجھ سے بدگمان ہورہی ہو عائشہ"اسکا ہاتھ تھامے وہ اسے نیچے جانے سے روک گیا تو اس نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔

"میں بدگمان ہونے کا حق نہیں رکھتی مگر ہمارے بیچ آئے فاصلے کو دیکھ مجھے یہ بہتر لگ رہا ہے کہ اپنے دل سے پوچھو اور پھر فیصلہ کرو کیونکہ ان چاہی ہمسفر بننے سے بہتر ہے ہمارے راستے جدا ہوجائیں۔۔"اسکی گرفت سے اپنے ہاتھ چھڑاتی وہ آگے بڑھی مگر پھر رک کر اسنے ایک اسے دیکھا۔

"میں بچی نہیں ہوں زین جو چیزیں سمجھ نا سکوں آئندہ اپنی بات کسی اور سے منسوب کرنے کی ضرورت نہیں"اپنی بات کہہ کر وہ رکی نہیں تھی۔

وہ جانتا تھا وہ حساس ہے اور وہ ناچاہتے ہوئے بھی اسے تکلیف دے گیا تھا۔

اپنے اصولوں پر کھڑا رہنے والا انسان اج اس دوراہے پر کھڑا تھا کہ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے کس طرح سب چیزوں کو نارمل کرے زندگی اچانک ہی بہت مشکل ہوگئی تھی اور اتنی ہوا میں بھی اسے سانس لینا دشوار ترین کام لگا تھا۔

بچپن کے رشتے یوں ہی تو ختم نہیں ہوتے۔۔

وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا مگر کر نہیں سکا جس لڑکی نے اتنا کچھ کیا صرف اس سے بدلہ لینے کے لئے اس سے ہمدردی اسے ہونی نہیں چاہیے تھی مگر وہ خود کو اسکے ایکسیڈنٹ کا زمہ دار سمجھ رہا تھا۔

خود سے لڑتے لڑتے وہ تھک گیا تھا جبھی خاموشی سے آکر اپنے کمرے میں بند ہوگیا۔

کل صبح اسے ہاسٹل چلے جانا تھا وہ عائشہ سے بات کرنا چاہتا تھا مگر وہ کیا بات کرتا۔

انہیں سوچوں کے گرداب میں الجھے کب اسکی آنکھ لگی اسے پتا نہیں چل سکا۔۔

_____________

کروٹ لیتے اس نے اپنے پہلو پر ہاتھ رکھا تو کچھ غیر معمولی احساس نے اسکی نیند اڑائی تھی۔

نیند سے بوجھل آنکھیں کھولتے اس نے برابر میں دیکھا تو بنفشے کو غائب پایا۔

اسکی غیر موجودگی پر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور شرٹ پہنتے باہر آیا مگر پورا ہٹ خالی پڑا تھا۔

وہ اچھے سے سمجھ گیا کہ وہ اس وقت کہاں ہوگی۔

شال اٹھاتے وہ باہر آیا تو وہ سامنے ہی تھی۔

سمندر کی لہروں کھیلتی۔۔

سیڑھیاں اترتے وہ آہستہ سے اسکے پیچھے جا کر کھڑا ہوا اور شال پہناتے اسے پیچھے سے اپنے حصار میں قید کیا اور اسکے کندھے کر اپنی ٹھوڑی ٹکرائی تو اسکے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔

"مارننگ مسٹر یشم"اسکے گال کو محبت سے چھوتی اس نے کہا تو یشم نے اسکے گال پر اپنے لب رکھے۔

"میری نیند صبح صبح خراب کر آپ یہاں مزے کر رہی ہیں یہ تو بہت غلط بات کے جانم"

"آپ نے بھی میری نیند خراب کی ہے بھولیں نہیں آپ "اسکے کہتے بنفشے نے اپنا رخ اسکی طرف کیا اور اسکی کمر کے گرد ہاتھ باندھ اپنی ٹھوڑی اسکے سینے پر ٹکائی۔

"خیریت ہے آج بہت پیار آرہا ہے مجھ پر"اسکے چہرے پر آئے بالوں پر پھونک مارتے وہ آنکھ دبا کر بولا تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

"کیوں نہیں آسکتا کیا؟"آئی برو آچکا کر اسنے پوچھا تو یشم تو اسکے انداز پر بے ہوش ہوتے ہوتے بچا.

"بیگم بندہ بشر پہلے ہی گھائل ہے آپ کیوں اپنی اداؤں سے اسے مزید گھائل کرنا چاہتی ہیں؟"

"بس کردیں گھائل تو نہیں ہیں آپ "اسکے ٹھوڑی سے ناک رگڑتے وہ آج شرارت پر آمادہ تھی مگر یہ شرارت اسے تب مہنگی پڑی جب یشم نے اسے بازوؤں میں بھرا تھا۔

"کافی شرارت کرلی آپ نے اب تھوڑی سی میری باری"اسکی بات پر بنفشے نے کئی مکے اسکے سینے پر برسائے تھے۔

______________

بھیگے بالوں کو ہلکا سا موڑ کر کیچر میں قید کئے اس نے باقی سارے بال کھلے چھوڑے تھے۔

یشم کسی کام سے گیا تھا اس لئے وہ سارا سامان بیگ میں رکھ رہی تھی کیونکہ ان دونوں کو اب گھر کے لئے نکلنا تھا۔

سارا سامان پیک کر وہ ابھی فارغ ہی ہوئی تھی جب باہر سے کھٹکے کی آواز پر وہ چونکی۔

"یشم آپ آگئے ؟"یشم کو پکارتے وہ باہر آئی تو کسی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ اسے دبوچ کر دیوار سے لگایا تھا

سامنے وہاج کو دیکھ اسکی آنکھیں پھٹی تھیں۔

"کیا ہوا حیرت ہوئی مجھے یہاں دیکھ کر ؟کیوں یار"اسکے کان میں کہتا وہ اسکا دل دہلا رہا تھا۔

"مجھ سے بے وفائی کی اور اب خوش رہ رہی چچ۔۔۔۔ دوسری شادی کرلی خوش بھی ہے اور میں ۔۔"وہ اسکے کان میں غرایا۔۔

"اتنا پاگل تیری چال سمجھ ہی نہیں سکا مگر یاد رکھنا تو میری بیوی ہے طلاق دی تھی تو کیا ہوا بیوی تو میری ہی تھی نا اور اب اگر تو اس انسان کے قریب گئی یا اسے میرے بارے میں بتایا تو دوبارہ اسکی شکل دیکھنے کے لئے ترس جائے گی جلد آؤ گا دوبارہ تجھے لے جانے کے لئے تیار رہنا "اسکے گال پر انگلی پھیرتا وہ جیسے آیا تھا ویسے ہی غائب ہوا تھا اور اسکے جاتے ہی وہ زمین بوس ہوئی تھی۔۔۔۔

اسپتال کے کاریڈور سے گزرتا وہ ایک کمرے کے سامنے آکر رکا تھا۔

ہاتھ میں پکڑے گلدستے کو اسنے مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔

دوسرے ہاتھ سے دروازے کی ناب گھما کر وہ اندر داخل ہوا تو بیڈ پر بیٹھی آرزو نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو ایک جھٹکا تھا جو اسے لگا تھا۔

وہ اس وقت ہر چیز سوچ سکتی تھی سوائے اس شخص کی موجودگی کے۔۔

آہستہ سے قدم بڑھاتا وہ اسکے سامنے آ رکا تھا۔

"کیسی ہو؟"اسکی گرد میں وہ پھول رکھتا وہ پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔

"زندہ ہوں اپنے پچھتاؤں اور گناہوں کے ساتھ"

"یہی زندگی ہے "اسکی بات پر وہ فقط اتنا ہی کہہ سکا۔

"کیا تم نے مجھے معاف کردیا ؟"

اپنے ہاتھوں کو دیکھتے وہ آہستہ سے پوچھ بیٹھی جس پر زین نے اسکا جھکا سر دیکھا۔

"میری بہن نے تمہیں معاف کردیا ہے"

"اور تم نے؟"اب کی بار اس نے سر اٹھا کر زین کو دیکھا تھا جو اسکی گود میں رکھے پھولوں کو دیکھ رہا تھا۔

"تم میری گناہگار نہیں تھیں"

"تو کیا تم مجھے ایک موقع دو گے زین اپنی غلطیاں سدھارنے کا؟"وہ ایک امید سے اس دیکھ رہی تھی۔

"میں کون ہوتا ہوں تمہیں موقع دینے والا تمہیں قدرت نے یہ ایک موقع دیا ہے امید کرتا ہوں تم ماضی میں کی گئی غلطیوں کو دہراؤ گی نہیں "اتنا کہہ کر وہ اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھا تھا۔

"مجھ سے شادی کرسکتے ہو میں ایک مکمل زندگی گزارنا چاہتی ہوں"اپنی انا کچلتے اس نے بہت ہمت جمع کر یہ کہا تو ضبط سے زین نے مٹھیاں بھینچیں۔

"میں کسی اور کی امانت ہوں جلد شادی کرنے والا ہوں میرے سہارے کے بغیر بھی تم آگے بڑھ سکتی ہو"سرد لہجے میں کہتا وہ وہاں مزید رکا نہیں تھا جانتا تھا رکا تو شاید آج وہ ہوجائے جس کی خواہش وہ مر کر بھی نہیں کرسکتا تھا۔

اس کے انکار پر کئی آنسو ٹوٹ کر اسکے عارضوں پر بہے تھے۔

اچھے سے برا بننا جتنا آسان ہوتا ہے برے سے اچھا بننا اتنا ہی مشکل۔

جب آپ اچھے ہوتے ہو اور پھر برے کی طرف چلے جاتے ہو آپ کسی کو جوابدہ نہیں ہوتے مگر جب آپ برے ہوتے ہو اور اچھے بننے لگتے ہو تو یہ دنیا یقین نہیں کرتی اسے یقین دلاتے دلاتے آپ ٹوٹ جاتے ہو اور یہی اب اسکے ساتھ ہوا تھا۔

اپنی خامیاں چھپانے کو وہ دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوگئی تھی وہ ایک بار زین سے بات کرنا چاہتی تھی مگر کچھ بھی نہیں کر سکی وہ۔۔۔

________

وہ اپنا کام کر کے واپس ہٹ میں آیا تو غیر معمولی احساس نے اسے اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔

وہ جیسے ہی ہٹ میں داخل ہوا سامنے زمین پر بنفشے کو بے ہوش دیکھ اسکی جان لبوں کو آئی تھی۔

"بیا۔۔۔۔۔۔۔"وہ تقریباً بھاگتے اس تک پہنچا اور اسکا سر زمین سے اٹھا کر اپنی گود میں رکھا۔

"بیا آنکھیں کھولیں کیا ہوا ہے آپ کو بیا؟"اسکا چہرہ تھپتھائے وہ اسے اٹھانے کی کوشش کررہا تھا جس کا وجود سرد پڑھ رہا تھا۔

بنا وقت ضائع کئے وہ اسے بانہوں میں اٹھائے اندر بیڈ روم لایا اور اسکے چہرے پر پانی چھڑکا۔

مسلسل اسکے ہاتھوں کو مسلتے وہ اسے گرمائش پہنچا رہا تھا

اس کے لمس کی حدت تھی یا کیا مگر وہ آہستہ سے ہوش میں آئی تھی۔

آہستہ سے آنکھیں کھولے اس نے پریشان سے یشم کو خود پر جھکے دیکھا تو اسے اپنی حالت کا احساس ہوا۔

"بیا خدا کا شکر ہے آپ کو ہوش آگیا پتا ہے میں کتنا ڈر گیا تھا"

اسے ہوش میں آتے دیکھ یشم نے اسکا ماتھا چوما تو بیا نے بےساختہ اسکے گال پر اپنا سرد ہاتھ رکھا

"میں ٹھیک ہوں یشم آپ پریشان نہیں ہوں"

"آپ ٹھیک ہیں آپ بیہوش ہوگئی تھیں بیا"

"کچھ کھایا نہیں ہے نا بس کمزوری ہوگئی تھی اب ٹھیک ہوں نا میں"وہ ہر ممکن طریقے سے اسے تسلی دے رہی تھی۔

"سب میری غلطی ہے آپ کی صحت کا خیال نہیں رکھ سکا دراصل ہٹ کے مالک کے پاس گیا تھا ان سے کچھ کام تھا آئی ایم سوری "اسکے سرد ہاتھوں کو اپنی گرفت میں مضبوطی سے تھامے وہ ایسے ہی لبوں سے لگا گیا تو اسکی فکر پر اسے شرمندگی ہوئی۔

"میں ٹھیک ہوں اب ہم گھر جائیں گے تو اور ٹھیک ہوجاؤ گی"اسے ٹینشن فری کرنے کو وہ مسکرا کر بولی اور اسے احساس ہوا مسکرانا اس سے زیادہ پہلے کبھی مشکل نہیں لگا تھا۔

اسکی ضد پر وہ مزید وہاں نہیں رکے تھے راستے میں یشم نے اسے ناشتہ کروایا اور پھر ہاسپٹل سے اسکے منع کرنے کے باوجود چیک اپ کروایا۔

اور ڈاکٹر کے مطابق وہ سٹریس کی وجہ سے بے ہوش ہوگئی تھی.

ڈاکٹر کے پاس سے وہ لوگ سیدھا گھر آئے تھے اور پھر ہانیہ بیگم اس کے پاس سے ہلی نہیں تھیں۔

"نظر لگ گئی ہے بچی کو دیکھو تو زرا کیسا منہ نکل آیا ہے یشم جاؤ اور صدقہ دو۔۔"

"مما کچھ نہیں ہوا آپ پریشان نہیں ہوں نا پلیز "

"ایسے کیسے پریشان نہیں ہوں بیٹا میں کل واپس چلی جاؤ گی یشم آفس ہوگا کیسے تم اپنا خیال رکھو گی "

"میں رکھوں گی نا آپ ایسے تو پریشان نہیں ہوں"اسے شرمندگی محسوس ہورہی تھی انہیں اپنے لئے پریشان دیکھ کر۔۔۔

"مام باہر میں نے سامان رکھوایا ہے آپ چیک کرلیں"

"ٹھیک ہے اس کے پاس بیٹھو میں جا دیکھ لیتی ہوں"

اسے کہتے وہ باہر نکل گئیں تو بنفشے نے نروٹھے انداز میں اسے دیکھا

"اتنی سی بات کو اتنا کردیا یشم کیا سب بیمار نہیں ہوتے کیا؟"

"بیمار ہوتے ہیں سب ہوتے ہیں"

"تو پھر میری باری پر ایسا کیوں "

"کیونکہ آپ میری بیوی ہیں اور میں چاہتا ہوں میری بیوی کو زرا سی ہوا بھی نا چھو کر گزرے"

"اتنے شدت پسند نہیں ہوں اگر کل کو مجھے کچھ ہوگیا تو کیا کریں گے؟"چہرے پر سنجیدگی لائے وہ یشم کے دل پر کچوکہ لگا گئی۔

"تو میں خود کو ختم کرلوں گا"سختی سے کہتا وہ وہاں مزید رکا نہیں تھا۔

اسکی شدت پسندی پر وہ سر جھکا گئی وہ کیسے اس سے دور رہے گی کتنا مشکل تھا۔۔۔

"کوئی ایسی بات ہے جو آپ کو پریشان کر رہی ہے ؟"

"نہیں تو بالکل بھی نہیں "وہ اپنی وجہ سے اسے مصیبت میں نہین ڈال سکتی تھی یشم نے بغور اسکا چہرہ دیکھا اور پھر سر ہلاتا وہ وہاں سے اٹھ گیا۔

اسکے جاتے ہی اس نے بیڈ کراؤن سے سر ٹکایا تھا آخر کیوں جب سب ٹھیک ہونے لگتا ہے کوئی نا کوئی ایسی بات ہو ہی جاتی تھی ۔

_____________

"یہ پھول کون دے کر گیا ہے؟"ردا کمرے میں آئی تو اسکی گود میں پھول ویسے کے ویسے ہی رکھے تھے۔

"زین"

"زین آیا تھا تم نے بات کی اس سے ؟"

ردا بےچینی سے اسکے پاس آکر بیٹھی تو آرزو نے نم آنکھیں اٹھائیں اسے دیکھا

"میں اس ملک سے جانا چاہتی ہوں ردا میں ایک نئی پہچان بنانا چاہتی ہوں یہاں رہی تو کبھی آگے نہیں بڑھ سکوں گی"

"اس نے تمہیں معاف نہیں کیا؟"

"وہ معاف کرگیا ہے مگر موقع نہیں دینا چاہتا آخر وہ مجھے کیوں موقع دے گا میں نے اس سے بھیک مانگنی چاہی مگر وہ مجھے بھیک بھی نہیں دے سکے گا کیونکہ وہ تو کسی اور کا ہے"

اسکی بات پر ردا چونکی تھی۔

"اسکا نکاح ہے بہت جلد تم بابا سے بات کرو اور انہیں کہو مجھے یہاں سے نکالیں"

"آرزو اپنے ساتھ ایسا مت کرو خدا کے لئے تم نے جو کچھ بھی کیا تم شرمندہ ہو تم بدل گئی ہو پھر کیوں یہاں سے جانا چاہتی ہو؟"

"کیونکہ جب تک میں یہاں رہوں گی میرے ماضی کی سیاہی میرے دامن پر پڑتی رہے گی ہر ایک قدم پر پلیز میری مدد کرو"

اسکی التجا پر وہ سر ہلا گئی۔

"ٹھیک ہے مگر اس سے پہلے اس وہاج کا اصلی چہرہ تمہیں دنیا کے سامنے لانا ہوگا یشم یوسفزئی کو اس بارے میں بتاؤ تاکہ وہ مزید کسی کی زندگی برباد نا کرے",

اس سے پہلے وہ مزید کچھ دروازے پر ہوئی دستک نے ان دونوں کو الرٹ کیا تھا۔

ردا فوراً سے سیدھی ہو کر بیٹھی تھی اور اندر آنے والوں کو دیکھ اس کی سانس اٹکی تھی۔

"یش۔۔۔ واثق؟"ان دونوں کو یوں اتنے وقت بعد اپنے سامنے دیکھ سے جھٹکا لگا تھا۔

"ردا مجھے آرزو سے بات کرنی ہے کیا کچھ دیر آپ ہمیں اکیلا چھوڑ سکتی ہیں؟"یشم کی نظریں آرزو پر تھیں مگر وہ مخاطب ردا سے تھا جبھی وہ فوراً سے سر ہلاتی کمرے سے باہر نکل گئی۔

"اتنے دن اس ہاسپٹل میں نظر بند ہونے کی وجہ جان سکتا ہوں آرزو مشارب ؟"کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے یشم نے بغور اسے دیکھا جو اب بری طرح اپنی انگلیاں چٹخا رہی تھی۔

"آرزو یہ خاموشی ؟"اسکے جھکے سر کو دیکھ یشم نے طنز کیا تھا۔

"ہاں خاموشی کیونکہ کہنے کو اب کچھ نہیں ہے کیونکہ اب میں وہ آرزو نہیں جو سر اٹھا کر چلتی تھی"

"وجہ؟"

"میں نے"

"تم نے بنفشے کے ساتھ وہ سب کیا اس کے علاؤہ کچھ ؟؟"وہ سب کچھ جانتا تھا آرزو کو دھچکا لگا تھا یہ جان کر

"اس بحث میں نہیں پڑوں گا کیوں کیا کیسے کیا کیونکہ تم پہلے ہی شرمندہ ہو مگر ایسی بھی کیا مجبوری کہ لوگوں کو اپنے باہر ملک جانے کا بتا کر تم یوں چھپی بیٹھی ہو؟"

"شرمندہ ہوں اس لئے منہ نہیں چھپا رہی بلکہ اس لئے منہ چھپا رہی ہوں کیونکہ میں اپنے اوپر کالک ملتے نہیں دیکھ سکتی"اتنا کہتے وہ رو دی تھی اور یہی بات یشم اور واثق کے لئے حیران کن تھی

وہ روتی گئی اور ان دونوں کو سب کچھ بتاتی چلے گئی کہ دنیا میں شاید یہی لوگ تھے جن پر وہ اعتماد کرتی تھی۔

"مجھے معاف کردو یشم پلیز"

اسکے آگے ہاتھ جوڑے وہ التجا کر رہی تھی۔

"یہ سب وہاج نے کیا اور اسکے اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی تم چپ ہو؟"بات بدلتے اسنے سخت لہجے میں اس سے پوچھا تھا

"میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا میں بہت مجبور ہوگئی تھی مجھے کوئی نہیں مل رہا تھا ایسا جس کے سامنے میں رو سکوں اپنا حال بتا سکوں یشم میں دوسروں کے ساتھ برا کر رہی تھی مجھے میری غلطی کی سزا اسی دنیا میں مل گئی"چہرہ ہاتھوں میں چھپائے وہ سسک رہی تھی۔

"بنفشے تمہیں معاف کرچکی ہے یہ قمست تھی ہماری یہ سب ایسے ہی ہونا طے تھا خود کو اس گلٹ سے نکال دو کیونکہ اگر یہ سب نا ہوتا تو وہ میری نا ہوتی اور رہی بات وہاج کی تو اس کے ساتھ تو ہمارے بہت بڑے بڑے حساب نکلتے ہیں وقت آنے پر فرصت سے سارے حساب برابر کرینگے"

"یشم میں یہاں سے بہت دور جانا چاہتی ہوں کچھ وقت کے لئے"

"وجہ؟"وہ وجہ جان کر بھی انجان بن رہا تھا۔

"میں ایک ایسی جنگ لڑ رہی ہوں اگر مزید یہاں رہی تو مر جاؤ گی پلیز بابا سے کہو مجھے نکالیں یہاں سے"

"دبئی والی کمپنی جا کر سنھبال لینا میں انکل سے بات کرلوں گا اور ہاں "اپنی بات کہتے کہتے وہ اچانک بیچ میں ہی رکا تھا۔

"بزدلوں کی یہاں اب کوئی جگہ نہیں یہاں لڑنا پڑے گا اپنے لئے تمہارے فیصلے کی قدر کرتا ہوں اس لئے واثق بھی تمہارے ساتھ دبئی جائے گا تم اس کے انڈر کام کرو گی" وہ فیصلہ کر چکا تھا واثق نے اسکے فیصلے پر فوراً سے سر ہلایا تھا۔۔

_________

شام ہوتے ہی سرد لہر نے سب کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا کرسی پر پاؤں کئے بیٹھی وہ گہری سوچ میں تھی جب کوثر بیگم اسکے پاس آکر بیٹھیں.

"کن سوچوں میں گم ہو عائشہ ."

"کچھ نہیں امی بس ویسے ہی "مسکرا کر کہتی وہ سیدھی ہو کر بیٹھی تھی۔

"موسم میں خنکی بڑھتی جارہی ہے لحاف نکال لینگے کل"

"جی"

"تمہارے بابا کہہ رہے تھے زین سے بات کر کے نکاح کی تاریخ رکھ لیں مگر وہ اتنا مصروف ہوگیا ہے کہ بات کرنے کا وقت ہی نہیں مل رہا"ان کی بات پر اسکے دل سے ہوک سی اٹھی تھی مگر وہ کچھ نا بول سکی۔

"امی ایک بات پوچھوں ؟"لمحے کو توقف کے بعد اس نے اُنہیں پکارا تو کوثر بیگم نے اثبات میں سر ہلایا۔

"امی کیا ہو اگر میں یہ نکاح نا کرنا چاہوں یا زین اس نکاح سے منع کردے؟"

اس کے سوال پر وہ زرا سا مسکرائی تھیں۔

"تو تم دونوں کی مرضی کو اہمیت دی جائے گی ایک بار جو غلطی کر چکے ہیں اسے دہرا نہیں سکتے بنفشے کے وقت جو ہوا وہ بہت بڑا سبق ہے ہمارے لئے کہ رشتہ کرتے ہوئے ایک بار بچوں کی مرضی پوچھ لینی چاہیے انہیں حق ہے اس بات کا کیونکہ کبھی کبھی ماں باپ کا کیا فیصلہ بھی اولاد کو ساری زندگی تڑپاتا ہے ماں باپ کو کم از کم اپنی اولاد کو اتنا اعتماد تو دینا ہی چاہیے اور ہمیں افسوس ہے کہ کم تم تینوں کو وہ سب نہیں دے سکے "

"ایسا تو مت بولیں امی آپ نے اور بابا نے ہمیں تمام آسائشیں دی ہیں اور رہی بات بیا کی تو اسکے ساتھ ایسا ہونا اسکا نصیب تھا اور کہیں نا کہیں ہم سب کے لئے بھی کی چاہیے کوئی کتنا بھی اپنا کیوں نا ہو بنا چھان بین کئے رشتہ نا دیں اور اپیا کتنا خوش ہیں کیونکہ انہیں بدترین سے گزار کر بہترین سے نوازہ گیا ہے۔

"اللہ تمہیں بھی ایسے ہی خوش رکھے "اسکے سر پر ہاتھ رکھ وہ وہاں سے اٹھ گئیں اور ان کی بات پر ایک پھیلی سی مسکراہٹ اسکے چہرے پر آئی تھی۔

_________

یشم روم میں داخل ہوا تو وہ کوئی کتاب پڑھنے میں مصروف تھی اسے دیکھتے ہی وہ سیدھی ہو کر بیٹھی مگر وہ نظر انداز کرتا اپنے کپڑے لئے واشروم میں بند ہوگیا۔

اسکی ناراضگی کا سوچ بنفشے کی جان ہوا ہوئی تھی۔

لب کچلتے اسنے پریشانی سے واشروم کے بند دروازے کو دیکھا تھا۔

تھوڑی دیر بعد وہ گیلے بالوں کے ساتھ باہر آیا تو وہ فوراً سے اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔

"آپ کے لئے کھانا لاؤں ؟"اسکے سامنے آتے وہ جلدی سے بولی تو بنا اس پر یک نظر ڈالے وہ الماری کی طرف بڑھ گیا۔

"یشم۔۔۔۔۔"

"مجھے بھوک نہیں ہیں جا کر سوجائیں "

"یشم آپ نے دن میں بھی کچھ نہیں کھایا تھا پلیز کھا لیں ورنہ میری طرح آپکی طبعیت بھی بگڑ جائے گی"

اسکی بات پر طنزیہ ہنسی ہنستا وہ اسکے سامنے آیا تو اسنے ناسمجھی سے یشم کا چہرہ دیکھا۔

"میرے لئے اتنی فکر مند نا ہوں کیونکہ اگر کل کو مجھے کچھ ہوگیا اور میں مر"اس سے پہلے وہ اپنی بات مکمل کرتا بنفشے نے تڑپ کر اسکے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا تھا۔

"ایسی بات کیوں کر رہے ہیں یشم مجھ سے ناراضگی ہے تو مجھے سنائیں یوں مرنے کی باتیں مت کریں"

"شروعات تو آپ نے ہی کی تھی نا مسزز یوسفزئی "اسکا ہاتھ ہونٹوں سے ہٹاتے وہ سرد لہجے میں بولا تو وہ بے ساختہ اسکے سینے سے لگی تھی۔

"جانتی ہوں غلط بولا تھا مگر آپ کو حق نہیں ہے آپ غصے میں بھی ایسی بات کریں یشم یوسفزئی"اسکے سینے پر ہاتھ مارتے وہ غصے سے بولی تو بے ساختہ مسکرایا تھا مگر فوراً سے اپنی مسکراہٹ چھپائے وہ سنجیدہ ہوگیا اور اسکا چہرہ اوپر اٹھائے اسکی آنکھوں کو لبوں سے چھو کر پیچھے ہوا۔

"کچھ آفس کا کام ہے اسٹڈی روم میں جا رہا ہوں میرا انتظار مت کیجئے گا "اسکا گال تھپھتاتے وہ آگے بڑھا مگر بنفشے نے اسکا ہاتھ تھام اسے روکا

"ناراض ہیں ابھی بھی"

"نہیں میں ناراض نہیں ہوں لیکن آئندہ کچھ بھی ایسا بولنے سے پہلے میرا ایک بار سوچ لیجئے گا اب آرام کریں بھوک لگے گی تو میں خود کھا لونگا ٹھیک ہے "اسکے ماتھے پر لب رکھتے وہ چلا اور وہ وہیں کھڑی رہ گئی۔

وہ اداسی سے بالکونی میں کھڑی ڈھلتی شام کا منظر دیکھ رہی تھی۔

ہانیہ بیگم آج واپس چلے گئی تھیں اور یشم آفس میں تھا اسکا دل تھا وہ اپنے گھر جائے مگر سفر کا سوچ ہی اسکا دل خراب ہوا تھا دوسرا وہاں وہاج کی موجودگی اسے اپنے ارادے سے باز رکھ رہی تھی۔

گھر میں زین اور عائشہ کے نکاح کی بات چیت ہورہی تھی مگر ان دونوں کی طرف سے ہی عجیب سے رویے پر وہ دونوں پریشان تھے۔

کوثر بیگم نے اس سے کہا تھا کہ وہ بات کرے ان دونوں سے اور اس نے وعدہ کر بھی لیا تھا۔

کچھ وقت پہلے زین نے اسے آرزو کے بارے میں بتایا تھا اور اس نے معاف بھی کردیا تھا اس نے زین کی آنکھوں میں آرزو کے لئے ہمدردی دیکھی مگر کیا وہ محبت تھی وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی عائشہ اور زین بچپن سے ساتھ تھے ایک دوسرے کے لئے پسندیدگی رکھتے تھے تو اب زین کا یوں کسی اور کی طرف رجحان۔۔۔۔

وہ اسے الزام نہیں دے سکتی تھی کیونکہ وہ خود بھی تو کسی کی محبت میں گرفتار ہوئی تھی وہ کھل کر زین سے بات کرنا چاہتی تھی تبھی اس نے زین کو گھر آنے کا کہا تھا اور اس نے ہامی بھی بھر لی تھی ۔

ان سب فکروں کو لئے وہ یونہی بالکونی میں کھڑی تھی جب کسی نے پیچھے سے اسے اپنے حصار میں قید کیا تھا۔

مخصوص خوشبو اور لمس محسوس کر اسکے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی سارے فکریں خود ہی ختم ہوگئی تھیں۔

"ویلکم ہوم"اپنے کندھے پر اسکے لب محسوس کر خود میں سمٹی تھی۔

"تھینکس ڈارلنگ ویسے آپ اتنی ٹھنڈ میں یہاں کیوں کھڑی ہیں؟"اسکا رخ اپنے طرف کرتے وہ پوچھ بیٹھا۔

"کچھ نہیں اکیلے دل نہیں لگ رہا تھا تو یہاں یہ شور دیکھنے آگئی خیر آپ فریش ہو جائیں میں چائے بناتی ہوں پھر چائے پیئے گے"اسکے گال پر ہاتھ رکھ کہتے وہ باہر کی جانب بڑھی تو یشم نے گردن موڑ اسے جاتے دیکھا۔

اسکی الجھن سے انجان تو وہ ہر گز نہیں تھا۔

فریش ہو کر وہ باہر آیا تو وہ اسکا ہی انتظار کر رہی تھی۔

"کوئی بات پریشان کر رہی ہے بیا؟"اسے مسلسل خاموش دیکھ یشم نے اسکا ہاتھ تھاما تو وہ نفی میں سر ہلا گئی۔

"آپ جانتی ہیں نا مجھ سے کچھ بھی چھپانا مشکل ہے آپ کے چہرے پر سب لکھا ہوا ہوتا ہے عائشہ اور زین کی وجہ سے پریشان ہیں؟"

یشم کی بات پر اس نے چونک کر اسے دیکھا تھا

"آپ کو کیا لگتا ہے میں اپنے اپنوں سے اتنا بے خبر ہوں؟"

"نہیں مگر میری کچھ سمجھ بھی تو نہیں آرہا امی چاہتی ہیں میں ان دونوں سے بات کروں جبکہ مجھ سے زیادہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے بات کرنے کی ضرورت ہے"

"ہمم وہ دونوں کریں گے بات انہیں وقت دیں "

"یشم میں زین کو غلط نہیں کہہ سکتی اس کے امی پاپا کی جس طرح ڈیتھ ہوئی تھی اس کے بعد اسکا آرزو سے ہمدردی کرنا میں اچھے سے سمجھ رہی ہوں وہ ایسے دور سے گزر رہا ہے جہاں اسے سمجھنے کی ضرورت ہے اور میں چاہتی ہوں کہ عائشہ اسے سمجھے تو دوسری طرف میں عائشہ کا سوچتی ہوں جس نے ہمیشہ ہی اسکا سوچا اور اب اسکا بدلہ رویہ عائشہ کو توڑ رہا ہے وہ اپنے رشتوں کو لے کر بہت حساس ہے یشم میں نے چاہتی ایک غلط فیصلہ سب تباہ کر دے۔۔"

اس نے اپنا دل کھول کر اسکے آگے رکھ دیا تھا۔

یشم نے آگے بڑھ کر اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرا۔

"مجھے خوشی ہے کہ آپ ایک طرف کی بات نہیں سوچ رہیں آپ دونوں کو سمجھ رہی ہیں مگر آپ پریشان نہیں ہوں آرزو یہاں سے جانا چاہتی ہے اور واثق اسکے ساتھ جارہا ہے زین اور عائشہ کے درمیان بھی سب ٹھیک ہو جائے گا ڈونٹ وری"اسکے ماتھے پر لب رکھتے وہ اسے پرسکون کرنا چاہتا تھا اور وہ ہو بھی گئی تھی۔۔

____________

اپنے گھر میں قدم رکھتے ایک اجنبی سا احساس اسے ہوا تھا کتنے وقت سے وہ اپنے گھر سے دور تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی انجانی جگہ پر آگئی ہے۔

دل میں ہوک سے اٹھی تھی مگر خود کو سنبھالتے وہ ردا کے ساتھ اوپر آئی تھی اور اپنا سامان پیک کرنے لگی۔

"آرزو ایک بار پھر سوچ لو میری جان ایسے اپنا ملک چھوڑنا آسان تو نہیں ہے"

ردا نے ایک بار پھر اس نے سمجھانا چاہا تھا اور وہ یہ کام کل سے کر رہی تھی۔

"ہر گز نہیں ردا میں اب یہاں نہیں رک سکتی "

"کیوں آخر صرف زین کی وجہ سے تو میں بات کرتی ہوں میں کہتی ہوں اسے تمہیں ایک موقع دے دیکھنا وہ مان جائے گا "

"میں نہیں چاہتی ردا کہ وہ مانے"اسکی بات پر ردا کو جھٹکا لگا تھا۔

"کیوں ؟"

"وہ کسی کی امانت ہے اور میں اس سے التجا کر اسے اپنوں سے دور نہیں کر سکتی میں پہلے ہی بری کسی کی خوشیوں کو لات مار میں اپنی خوشیاں نہیں حاصل کر سکتی میں اب یہ نہیں کر سکوں گی۔۔

اگر وہ کسی کا نا ہوتا تو شاید میں اس سے التجا کر لیتی اس سے اپنی محبت کی بھیک مان لیتی وہ محنت جو میں جانے انجانے میں اس سے کر بیٹھی ہوں مگر اب جبکہ میں جانتی ہوں کوئی ہے جو اس شخص کے خواب سجائے بیٹھی اسکا حق زیادہ ہے زین پر میں ان دونوں کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں میں ایک ابھی لڑکی بننا چاہتی ہوں تاکہ مجھے ایک اچھا ہمسفر مل سکے میں ایک مکمل زندگی چاہتی ہوں ردا اور یہ سب مجھے اس جگہ سے دور جا کر ہی مل سکتا ہے۔"

"تم خود کو اذیت دینے جارہی ہو آرزو مت کرو تم ایسی تو نہیں تھیں کبھی بھی میں جانتی ہوں غلطی ہوئی ہے ہر انسان سے ہوتی ہے مگر تم آرزو مشارب ہو تم خود کو سنبھال سکتی ہو"

"میں آرزو مشارب ضرور ہوں مگر ہوں تو انسان ہی نا مجھ میں شاید اب وہ پہلے والی بات نہیں رہی تم جانتی ہو ردا کتنا درد ہوتا ہے جب کوئی آپ کی ہی وڈیو آپ کے سامنے پیش کردے اور آپ کا سر شرمندگی سے ایسا جھکے کی آپ کو لگے کہ اب یہ سر جب بھی اٹھے گا سب کی نفرت بھری نظریں آپ کے وجود پر پڑ کر آپ کو فنا کر دینگی"

وہ حد سے زیادہ ٹوٹ گئی تھی ردا کو اس پر ترس آیا تھا.

"میں نہیں چاہتی ردا میرے بابا کو میرے بارے میں کچھ بھی بتا چلے میں ایک اچھی بیٹی بننا چاہتی ہوں تم دعا کرنا میرے لئے پلیز"

اسکی بات پر ردا نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا تھا جو تھا جیسے بھی تھا اب شاید وقت آگیا تھا ان کے الگ ہونے کا۔۔۔

"میں ایک آخری بار اس سے ملنا چاہتی ہوں میں اسے بتانا چاہتی ہوں سب ردا اس سے میری طرف سے ریکوسٹ کرنا کہ وہ ایک بار آکر مجھ سے مل لے"

"اچھا ٹھیک ہے میں کہوں گی اسے تم بس خوش رہو "اسکے گال پر رکھتے وہ نم آنکھوں سے بولی تو وہ اسکے گلے لگ گئی۔

__________

وہ آج بہت دنوں بعد اپنے گھر آئی تھی ڈرائیور اسے چھوڑ کر گیا تھا مجاز کو ایمرجنسی میں جانا پڑ گیا تھا اس لئے وہ ڈرائیور کے ساتھ آئی تھی۔

"امی"کوثر بیگم کچن میں مصروف تھیں جب وہ پیچھے سے ان کے گلے لگی تھی۔

"ارے بیا"اسے دیکھ انہیں خوشگوار حیرت ہوئی تھی کام چھوڑ انہوں نے اسے گلے لگایا۔

"کیسا لگا سرپرائز ؟"

"بہت اچھا چلو آجاؤ اندر بیٹھتے ہیں"اسکا ہاتھ تھامے وہ اندر لائیں ۔

"امی عائشہ کہاں ہے؟"

"ارے وہ اپنی دوست کے گھر گئی ہے کہہ رہی تھی امی لینے آجانا جب سے عزیر گیا ہے مسئلہ ہوگیا ہے "

عزیر اپنی جاب کے سلسلے میں لاہور گیا تھا۔

"اچھا پھر آپ ایک کام کریں اسے لے کر آجائیں پھر ہم تینوں مل کر چائے پیئے گے میں پکوڑے بنا لیتی ہوں"

"ارے ایسے کیسے اتنے دنوں کے بعد آئی ہو اور کام کرو گی"

"بھئی امی یہ گھر میرا بھی ہے نا میں سب بنا لوں گی پلیز "ان سے لاڈ کرتے اس نے کہا تو اس کے انداز پر وہ بےساختہ ہنس دیں۔۔

"اچھا بابا ٹھیک ہے جو دل کرے بناؤ میں زرا اسے لے کر آجاؤ"اسے کہتے وہ اٹھیں اور پھر انہیں بھیج وہ کچن میں آگئی۔

سارا کام جلدی جلدی سے کر اس نے پکوڑے بنائے۔

وہ ابھی کام سے فارغ ہی ہوئی تھی کہ دروازے پر کھٹکا سا ہوا۔

"ارے امی آگئیں"خود سے کہتے وہ باہر آئی تو سامنے دیکھ اسکے قدم ساکت ہوئے تھے۔

"ارے واہ میری جان کیا بات ہے میرے استقبال کے لئے خود آئی ہو"آگے قدم بڑھاتا وہ خباثت سے مسکرایا وہیں اسکے بڑھتے قدم دیکھ اسنے پیچھے کی طرف قدم بڑھائے تھے۔

"د۔ور رہیں خخ۔۔خبردار جو۔۔ میرے قریب آئے"مسلسل پیچھے کی طرف قدم بڑھاتے وہ اسے وارن کر رہی تھی جو اسکا ڈرا سہما روپ دیکھ قہقہ لگا اٹھا۔

"تجھے لگتا ہے تیری اس دھمکی سے ڈروں گا ؟"اسکی طرف بڑھتے وہ غصے سے چیخا تو بنفشے کو لگا اسکا دل بند ہو جائے گا۔

"آج تو اور میں یہاں ہیں اور دیکھ اگر کسی نے دیکھا تو وہ کیا سوچے گا شوہر کو چھوڑ سابق شوہر سے تعلقات۔۔۔"

"بس منہ بند رکھو اپنا میرا تمہارے جیسے انسان سے کوئی تعلق نہیں ہے آئی سمجھ نفرت کرتی ہوں میں تم سے مر جاؤ تم وہاج مر جاؤ "

غصے سے روتے چیختے کہا تو اسکی ذہنی حالت کے وہاج نے دل کھول کر قہقہ لگایا۔

"آج جو کہنا ہے کہہ لے تجھے تو آج اپنا بنا کر ہی رہوں گا"یہ کہتا وہ اسکی جانب بڑھا اور اسکے آگے بڑھنے پر وہ تیزی سے اندر بھاگی تھی۔

اسے اندر بھاگتے دیکھ وہ خود بھی اسکے پیچھے آیا تھا کہ اچانک کسی نے پیچھے سے اسکا گریبان پکڑ اسے زمین پر دھکیلا تھا۔

گرنے کی آواز پر بنفشے کے اندر بڑھتے قدم رکے تھے اس نے جھٹکے سے مڑ کر دیکھا تو اسکی آنکھیں پھٹی تھیں۔

بیچ صحن میں وہاج زمین پڑا تھا اور اسکا گریبان یشم کے ہاتھ میں تھا

"یشم۔۔۔"اسے دیکھ بنفشے کا دل دھڑکا تھا

"ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی"اسکا گریبان پکڑے وہ وہاج کے منہ پر غرایا تھا۔

اور پھر ایک کے بعد ایک کئی مکے اسکے منہ پر رسید کئے تھے۔۔

"ہمت کیسے ہوئی گھر میں قدم رکھنے کی میری بیوی کے اوپر گندی نظر ڈالنے کی"وہ بے دردی سے اسے مار رہا تھا۔

اور اسکا یہ روپ بنفشے کے لئے بالکل نیا تھا منہ پر ہاتھ رکھے وہ پیچھے ہوتی دیوار سے لگی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔

"جانتا ہے کون ہے وہ میری بیوی ہے میری۔۔۔"اسکی کمر میں ٹھوکر مارتا وہ پاگل ہوگیا تھا۔

"یشم۔۔۔مت کر چھوڑ اسے مر جائے گا وہ"واثق بھاگتا گھر کے اندر داخل ہوا تھا اور اسے وہاج سے دور کیا تھا جس کا بس چل رہا تھا اسکا قتل کر دے۔۔

"میں اسکی جان لے لوں گا اس کی ہمت کیسے ہوئی میری بیوی پر گندی نظر ڈالنے کی میں اسکی آنکھیں نکال دوں گا۔۔"

گھر میں داخل ہوتے عائشہ اور کوثر بیگم کو دھچکا لگا تھا یہ سب دیکھ کر ۔

واثق نے بہت مشکل سے اسے سنبھالا تھا اور پھر پولیس آئی تھی اور وہاج کو اپنے ساتھ لے گئی۔

یہ سب اتنا جلدی ہوا تھا کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آیا وہ بس ساکت دیوار کے سہارے کھڑی تھی۔

یشم نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا جو دیوار سے لگی تو رہی تھی۔

آہستہ سے قدم بڑھاتا وہ اسکے روبرو آیا تو بنا کسی کا لحاظ کئے وہ اسکے سینے سے لگی تھی۔

"یش۔۔۔۔وہ"

"شش کچھ نہیں ہوا میں آگیا ہوں نا کچھ نہیں ہوا چپ ہو جائیں"اسکی کمر سہلاتے وہ اسے چپ کروا رہا تھا کو چپ ہونے کے بجائے اسکا سہارا ملنے پر مزید روانی سے رو رہی تھی۔

"وہ اچھا نہیں ہے یشم وہ میرے ساتھ"اسکے سینے سے لگے وہ سسک رہی تھی اور اسے یوں دیکھ کوثر بیگم اور عائشہ کی آنکھیں بھی نم تھیں۔۔۔

"بیا ایسے مت کریں بیا ورنہ جتنے آنسو اور نکلیں گے ان آنکھوں سے اس سے کئی زیادہ بری سزا میں آپ کو دونگا اسکا چہرہ صاف کرتے وہ سرگوشی میں بولا تو اس نے بھیگی پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا۔

"میں جارہا ہوں رات کو آؤ گا لینے اب نہیں رونا"

"امی بیا کو سنبھالیں"اسے کہتا وہ کوثر بیگم کی طرف متوجہ ہوا اور پھر اسکا گال تھپھتاتے وہ وہاں رکا نہیں تھا۔

اس کے جاتے ہی بنفشے کوثر بیگم کے گلے لگتی ایک بار پھر سسکی تھی۔۔

"بیا رونا بند کرو یشم کو پتا چلا تو وہ غصہ ہوگا"اپنی گود میں سسکتی بنفشے کو دیکھ ان کا دل اداس ہوگیا تھا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں حالات اس نہج ہے پہنچ جائیں گے۔۔

وہ چاہتی تھیں یہ بات عبدالعزیز صاحب کو پتا نا چلے مگر انہیں پتا چل چکی تھی اور اب وہ ناجانے کہاں تھے۔

گھر کا ماحول ایک دم سے گھٹن زدہ ہوگیا تھا۔

"بیا پلیز چپ ہوجاؤ دیکھو تمہیں ایسے دیکھ یشم بھائی کو کتنی تکلیف ہوگی "

"عائشہ اگر یشم نا آتے تو ؟"اتنا کہہ کر وہ ایک بار پھر سسکی اور یہ الفاظ اندر آتے یشم کے کانوں سے ٹکرائے تھے۔

"اسلام وعلیکم"اندر آتے اس نے سلام کیا تو اس نے چہرہ ہاتھوں میں چھپایا تھا۔

"وعلیکم السلام آجاؤ بیٹا"

"امی آپ انہیں تیار کر دیں میں بابا کو لینے جارہا ہوں "فقط اتنا کہتا وہ واپس مڑا تو بنفشے کی جان لبوں پر آئی تھی۔

کیا وہ اس سے ناراض ہوگیا تھا اتنا سوچنا تھا کہ فوراً سے اٹھ کر بیٹھی۔

"امی وہ ناراض ہوگئے ہیں نا مجھ سے ؟"

اسکی بے تابی دیکھ عائشہ کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔

"ظاہر ہے انہوں نے کہا تھا تمہیں رونے نہیں دینا مگر تم نے سنی نہیں اب دیکھو "

"امی میں کیا کروں مجھے رونا آرہا ہے مجھ سے چپ نہیں ہوا جارہا امی"بے بسی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔

"کچھ نہیں ہے گڑیا وہ ناراض نہیں ہے بس پریشان ہے میرے بچے تم تیار ہو اسکے ساتھ جاؤ اور اب خود کو تکلیف مت دینا۔"

"امی وہ واپس آگیا تو؟"اسکے دل میں کہیں نا کہیں وہاج کا ڈر ابھی بھی موجود تھا۔

"نہیں آئے گا وہ اپیا جیل میں ہے وہ اور اس سب کے بعد بھائی اسے اتنی آسانی سے باہر نہیں آنے دینگے مجھے اتنا یقین ہے تو آپ کو کیوں نہیں ہے اب بس کریں رونا اور مضبوط بنیں آپ کی اسی کمزوری نے سب کو شیر بنایا ہے کب بہادر بنیں گی آپ اگر آپ کا یہی حال رہا تو کوئی آئے گی اور یشم بھائی جو آپ سے چھین کر لے جائے گی"

عائشہ نے جان کر بات کر دوسرا رخ دیا تھا اور یہ پلین کامیاب بھی ہوا تھا دوسری عورت کا ذکر وہ ایک دم سیدھی ہو کر بیٹھی تھی۔

"دماغ خراب ہے کیا فضول بول رہی ہو وہ ایسے نہیں ہیں"اس نے فوراً سے تڑخ کر کہا تو عائشہ نے سر جھٹکا۔

"بس لڑکے ایک جیسے ہوتے ہیں آج ایک کے کل کو کسی اور کے۔۔۔ اور آج کل تو یہ دور ہے کہ آپ اپنے سایہ پر بھی بھروسہ نہیں کر سکتے تو دوسروں پر کیسے کرینگے"

"تم زین سے ناراض ہو اسی بات پر"بات کا رخ بدلتے بدلتے یہاں تک آیا تو وہ ایک دم چپ ہوئی تھی۔

"مجھے پتا ہے تم اس سے ناراض ہو عائشہ مگر اسکی بات ایک بار سن لو"

"میں اس سے کیوں ناراض ہونگی اپیا ؟ میری اور اسکی تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی ناراضگی تو تب ہوگی نا جب ہمارے درمیان کچھ ہوگا آپ فکر نا کریں "

"میرے علاؤہ بھی لوگ ہیں جنہیں تم دونوں کی فکر ہے بات کرو اور اپنا مسئلہ حل کرو "

"آپ اپنی بات کا رخ بدل کر فضول ٹاپک پر نا آئیں"

عائشہ کے گھور کر کہنے پر وہ سر جھکا گئی۔

"اپیا خود کو اتنا بہادر بنائیں کے اگر کوئی آپ کے اوپر انگلی اٹھائے تو آپ وہ انگلی توڑ کر رکھ دیں آپ سمجھ رہی ہیں نا کہیں یہ نا ہو کہ کوئی یشم بھائی کو آپ سے چھین لے"

"اللّٰہ نا کرے کیا فضول بول رہی ہو مجھے سننا ہی نہیں ہے تمہیں عائشہ "غصے سے اسے جھڑکتے وہ تکیے میں منہ دے گئی تو عائشہ بس گہری سانس بھر کر رہ گئی۔

___________

غصے سے کھولتے وہ اندر آئے تو چائے پیتی سلمی بیگم ایک دم کھڑی ہوئی تھیں۔

"ہمت کیسے ہوئی ہمارے گھر آنے کی ؟"

"ہمت ہمت کی بات مت کریں بھابی کیونکہ جو ہمت آپ کے بیٹے نے آج کی ہے اسکا حساب آپ سب کو دینا ہوگا "

ان کی بات پر وہ چونک اٹھیں

"ایسا کیا کیا ہے میرے بیٹے نے "

"جو کیا ہے اسکا حساب وہ جیل میں دے گا اور اگر اب میرے بچیوں پر ایک انگلی بھی اٹھائے تو ان پر اٹھی ہر انگلی توڑ دونگا میں بنا کسی لحاظ کے یہ ایک باپ کا آپ سے وعدہ ہے"

انہیں وارن کرتے وہ وہاں سے نکلے تو سامنے ہی یشم کی گاڑی آکر رکی تھی۔

"بابا"

"میں ٹھیک ہوں یشم آزاد ہوں ان نام نہاد رشتوں کی ڈور سے جن کے چکر میں مجھے اپنوں کو تکلیف دینی پڑی میری اولاد کو برداشت کرنا پڑا سب کچھ اب اور نہیں"

اتنا کہتے وہ گاڑی میں آکر بیٹھے تو یشم بھی خاموشی سے آگے بڑھ گیا۔

_________

اس بڑے سے بنگلے کے سامنے کھڑے اس نے ایک نظر اس گھر کو دیکھا اور پھر نگاہیں نیچے کرلیں

وہ آنا نہین چاہتا تھا وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کیوں وہ آخر آیا ہے مگر اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔

"آپ اندر آجائیں"گارڈ کے بلانے پر وہ گہرا سانس بھرتا انڈر بڑھا تھا وہ سوچ چکا تھا اسے کیا فیصلہ کرنا ہے۔

وہ اندر داخل ہوا تو وہ سامنے وہ صوفے پر بیٹھی تھی اسکے اندر آتے ہی وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی آنکھوں میں عجیب سی چمک آئی تھی۔

"اسلام وعلیکم زین پلیز بیٹھو"

"وعلیکم السلام" اتنا کہتا وہ اسکے سامنے بیٹھا تو ایک عجیب طرح کی خاموشی ان دونوں کے بیچ در آئی تھی۔

"کیسے ہو ؟"اس خاموشی کو آرزو کی آواز نے توڑا تھا۔

"ٹھیک ہوں"

"میں پاکستان چھوڑ کر جارہی ہوں زین سوچا ایک بار تم سے مل لوں" اس کی بات زین نے بےساختہ سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"ایسے اچانک ؟"

"اچانک تو نہیں بس مجھے لگتا ہے پاکستان میں اب میری زندگی ویسے نہیں ہو سکتی جیسے میں چاہتی ہوں اس لئے یہاں سے جانا ہی بہتر ہے مگر جانے سے پہلے میں ایک بار تم سے ملنا چاہتی تھی تمہیں بتانا چاہتی تھی کہ تم سے نفرت کی تھی مگر اب جو میں تمہارے لئے محسوس کرتی ہوں وہ محبت ہر گز نہیں ہے ایک پچھتاوا ہے افسوس ہے میں اسے محبت کا نام نہیں دے سکتی اور میں یہ بھی جانتی ہوں تمہارے دل میں میرے لئے سوائے ہمدردی اور ترس کے کچھ نہیں ہے "اتنا کہتے وہ لمحے کو رکی تھی۔

"میں ایک نئی شروعات کرنا چاہتی ہوں دوبارہ سے خود کو ایک مضبوط لڑکی بنانا چاہتی ہوں اور اس لئے میں یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جارہی ہوں امید ہے تم مجھے معاف کردو گے"

اس نے مسکراتے چہرے کے ساتھ زین کو دیکھا جس کے چہرے پر ہنوز سنجیدگی طاری تھی۔

"کچھ کہو گے نہیں ؟"

"تمہاری باتیں سوچ کر میں حیران ہوں واقعی جس بات کا جواب میں ڈھونڈ رہا تھا وہ مجھے مل گیا ہے میں دعا کروں گا کہ تم زندگی میں آگے بڑھو کامیاب ہو اور ایک بہترین ہمسفر تمہیں ملے "

"آمین شکریہ میری بھی دعا ہے کہ تم بھی اپنی زندگی میں کامیاب ہو"

"شکریہ خیر میں اب چلتا ہوں خدا حافظ "محض اتنا کہتا وہ وہاں سے اٹھ گیا اور اسکے جاتے وہ آرزو کے مسکراتے چہرے پر تاریک سایہ سا لہرایا تھا۔

ایک آخری بار اس نے جھوٹ کہا تھا کہ اسے زین سے محبت نہیں ہے اسے تھی اس شخص سے محبت بہت پہلے سے مگر جب تک احساس ہوا بہت دیر ہوگئی تھی بہت زیادہ۔۔۔۔

_______________

آج کا دن حد سے زیادہ تھکا دینے والا تھا وہ سب کو سلا کر خود چائے کا کپ لئے چھت پر آگئی۔

شال کو اچھے سے لپیٹے سے اس نے منڈیر سے نیچا جھانکا تو دور دور تک سناٹوں کا راج تھا۔

کچھ ہی دیر پہلے یشم اور بنفشے گئے تھے اور پھر ان کے جانے کے بعد سب کچھ سمیٹ وہ سب کو سلا کر معمول کے مطابق وہ چھت پر موجود تھی۔

کرسی پر بیٹھ اس نے چائے ٹیبل پر رکھی اور آسمان پر نظریں جمائیں جو آج بے حد صاف تھا کہ چمکتے تارے آنکھوں کو خیرہ کر رہے تھے۔

وہ اپنے خیالوں میں گم تھی جب کوئی اسکے پاس آکر بیٹھا تھا۔

کسی کی موجودگی محسوس کر وہ بری طرح چونکی تھی۔

گردن موڑ کر دیکھا تو سامنے زین کو کھڑا پایا۔۔

"کیسی ہو۔۔؟"

"ٹھیک ہوں تم کیسے ہو؟"اسے جواب دیتے عائشہ نے واپس سے اپنا رخ آسمان کی طرف کیا تو زین نے بغور اسکا چہرہ دیکھا۔

ان کچھ دنوں میں کتنے فاصلے آگئے تھے ان دونوں کے درمیان۔۔

"ناراض ہو مجھ سے؟"

"کس بات کے لئے؟"

اسکے سوال پر زین نے لمحے کو اسے دیکھا۔

"اس سب کے لئے جو ہمارے بیچ کبھی نہیں ہوا "

"یہ کیسا جواب ہے زین؟"

"جیسا سوال تھا ویسا ہی جواب ہے"

"پہلیاں کیوں بجھا رہے ہو"

"کیونکہ ہمارے درمیان لگی اس ناراضگی کی آگ بڑھتی جارہی ہے"

"کونسا افسانہ پڑھ کر آئے ہو؟"

"افسانوں میں جلنے جلانے کی باتیں نہیں ہوتی وہاں بس محبت ہوتی ہے"

"وہی محبت جو ہم دونوں کے درمیان سے کب کی نکل گئی ہے"

"ایسا کیوں لگتا ہے"

"جب انسان کسی اور کے لئے ہمدردی محسوس کرنے لگے نا تو پہلی محبت کی حیثیت دو کوڑی کی رہ جاتی ہے "

"تم نے کسی کا ڈائیلاگ چرایا ہے عائشہ "

"ہاں ڈائیلاگ چرانا کسی کا منگیتر چرانے سے تو بہتر ہے"

آخر وہ دل کی بات زبان پر لے ہی آئی تھی اور اس بات کا اندازہ ہونے پر اس نے بری طرح لبوں کو کچلا تھا۔

"جو چیز چوری ہو جائے وہ پھر اپنی کب رہتی ہے؟"

"جیسے تم نہیں رہے میرے "اب کی بار عائشہ نے اسکی آنکھوں میں براہ راست دیکھا تھا نظروں کا تصادم ہوا تو دونوں کا دل عجیب سے انداز میں دھڑکا تھا۔

ایک کے دل میں کسی کو کھو دینے کا ڈر تھا تو دوسرے کے دل میں سب کچھ پھر سے ٹھیک کرنے کی امید۔۔۔۔

"ایسا تمہیں لگتا ہے"

"اپنے دل سے پوچھو کیا اب بھی تمہارے دل میں میری وہی جگہ ہے جو پہلے تھی ؟ اب تمہاری آنکھوں میں مجھے اپنا عکس کیوں نہیں دیکھتا زین؟"

"کیونکہ تم نے یہ سوچ لیا ہے کہ زین بدل گیا حالانکہ ایسا نہیں ہے "

"آرزو سے محبت ہوگئی ہے نا تمہیں "

اب کی بار اس نے زین کی آنکھوں میں جھانکا تھا اور اس نے نظریں ہٹائی نہیں تھیں۔۔

"آرزو وہ لڑکی ہے جس نے ہمیشہ وہ سب کیا جس سے مجھے اس سے چڑ ہوئی غصہ آیا اور پھر اس نے میری بہن کے ساتھ وہ کیا جس نے میری بہن کی زندگی کا رخ ہی بدل گیا جو کچھ بیا نے کیا وہ بہت تکلیف دہ تھا مگر میں خوش تھا کہ اسے اسکے حصے کی ساری خوشیاں مل گئیں۔

جب آرزو میرے پاس آئی تو مجھے اسکا چہرہ دیکھ اسکی حالت دیکھ ترس آیا مگر وہ گناہگار تو تھی کیسے معاف کردیتا؟ میں نے اسے معاف نہیں کیا اور وہ چلے گئی۔ اور پھر مجھے بتایا گیا کہ اسکا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے میں فریز ہوگیا مجھے لگا وہ میری وجہ سے اس حالت کو پہنچی ہے کوئی لاکھ برا کیوں نا ہو مگر ہمیں یہ حق تو حاصل نہیں نا کہ ہم اسے اس مقام تک لے جائیں میں ڈر گیا تھا عائشہ کہ میری وجہ سے اسکا باپ تڑپے گا کہیں نا کہیں میں بھی تو اسکا زمہ دار ہونگا نا وہ ہمدردی وہ تکلیف جو میں نے برادشت کی بہت مشکل وقت ہوتا ہے وہ سب"

"تو تمہیں اس سے اتنی ہمدردی تھی کہ تم اس سے شادی کرنے کے خواہشمند ہوگئے ؟"

"شادی؟ ہمدردی تھی دکھ تھا مگر واللہ میں نے شادی کا نہیں سوچا تھا "

"جھوٹ ایسے ہی کوئی لڑکی امید نہیں لگا کر نہیں بیٹھتی جب تک لڑکے کی طرف سے کچھ نا ہو "

"تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے؟"

"یقین نہیں ہوتا تو شاید آج تم صحیح سلامت میرے سامنے نا بیٹھے ہوتے مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ تم نے مجھے بتانا ضروری نہیں سمجھا کیا میں تمہیں غلط سمجھتی یا تمہیں کسی بھی عمل سے روکتی ہم ساتھ پلے بڑھے ہیں ہم ایک دوسرے کو خود سے بھی زیادہ جانتے ہیں تو تمہارا یوں بدلہ رویہ مجھے اذیت دینے لگا تھا میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ کوئی بھی رشتہ زبردستی کی بنیاد پر نا بنے"

"زبردستی کی بچی "اسکے سر پر چپت لگاتا وہ بے اختیار ہنس دیا۔

"میں چپ تھا صرف اس لئے کیونکہ مجھے کچھ چیزوں کو سمجھنا تھا میں خود کو سمجھنا چاہ رہا تھا ایک نیا رشتہ شروع کرنے سے پہلے میں اپنا دل دیکھنا چاہتا تھا اگر میں بے ایمانی سے رشتہ بناتا تو نا خود خوش رہتا نا تمہیں رکھ سکتا تھا "

"تو اتنے دنوں کے سوچ و بچار کے بعد کیا فیصلہ کیا تم نے؟"

یہ سوال کرتے اسکا دل بری طرح دھڑک اٹھا تھا۔

اور اسکے سوال پر وہ ایک دم ہنس دیا۔

"ہنس کیوں رہے ہو مذاق کر رہی ہوں کیا میں ؟"اتنے سیریس ماحول میں زین کا یوں ہنسنا اسے ٹھیک ٹھاک غصہ دلا گیا جبھی وہ ایک دم اپنی جگہ سے اٹھی تھی مگر اسکی کلائی زین کی گرفت میں آئی تھی۔

"ہنس تمہارے شکل دیکھ کر رہا ہوں کیونکہ دل میں تمہارے کچھ اور ہے اور شکل ایسے بنائی ہوئی جیسے تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔"

"زین"اسکے شرارتی انداز پر وہ بری طرح تڑخی تھی۔

"میں یہاں ہوں کیا یہ کافی نہیں ہے اپنا فیصلہ بتانے کے لئے ؟ محبت ایک بار ہی ہوتی ہے اور میں نے ایک ہی بار محبت کی اور اسے مرتے دم تک نبھانا چاہتا ہوں بابا کو پہلے ہی اپنا فیصلہ سنا دیا تھا اس لئے فضول کی ٹینشن میں نہ آؤ تم"اسکے روبرو آتا وہ اسکا دوسرا ہاتھ بھی اپنی گرفت میں لے گیا۔۔

"زین "

اپنا ہاتھ اسکی گرفت میں دیکھ عائشہ نے بے ساختہ اسے پکارا تو زین نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔

"تم واقعی یہ فیصلہ دل سے لے رہے ہو نا؟"وہ اب بھی شاید اسی ایک خوف کے زیر اثر تھی اسے کھونے کا ڈر محبت روٹھ جانے کا ڈر۔۔

"میں اتنا کم ظرف تو نہیں ہوں نا میں اتنا بزدل ہوں کہ جس سے محبت کروں اسے اپنا نام نا دے سکوں ۔۔ اگر میں کہتا ہوں مجھے تم سے محبت ہے اور میں تمہارے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہوں تو اس بات کا یقین کرو اگر مجھے کسی اور سے زرا سی بھی محبت ہوتی تو میں تمہیں ایک ادھوری زندگی میں شامل نا کرتا کیونکہ اس وقت شاید میں تمہارے ساتھ ہوتا مگر میرا دل و دماغ نہیں۔۔

اس کے سامنے بھی میرے دل و دماغ کے دھاگے تم میں الجھے تھے مجھے تمہاری فکر تھی اب بھی تمہیں صفائیاں دوں؟"زرا سا جھک اس نے پوچھا تو سر جھکاتے وہ نا میں سر ہلا گئی۔

"اب یقین کرنا میرا بس کچھ وقت بعد میرے پاس آنا ہے"شرارت سے کہتا وہ اسکے شرمانے پر مجبور کرگیا۔۔

____________

گاڑی اپارٹمنٹ کے باہر رکی تو اس نے بے چینی سے یشم کو دیکھا جو پورے راستے ایسے چپ بیٹھا تھا جیسے کچھ بولے گا تو گناہ ملے گا۔

وہ بولنا چاہتی تھی اس سے بات کرنا چاہتی تھی مگر اسکے سنجیدہ تاثرات دیکھ اسکی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔

گاڑی پارک کرتا وہ باہر نکلا تو وہ خاموشی سے اسکے پیچھے آئی تھی۔

آج ایسا پہلی بار تھا نا اس نے کوئی بات کی نا اسکا ہاتھ پکڑا۔۔

وہ اوپر بڑھا تو اس نے اپنے قدم روک لئے۔

اپنے پیچھے آہٹ نا پاتے وہ ایک دم سے رکا اور پھر مڑ کر دیکھا تو وہ نہیں تھی۔

ماتھے پر بل ڈالے وہ واپس آیا تو وہ باہر کھڑی تھی۔

اسکے ماتھے پر پڑے بلوں کو نظر انداز کرتے اس نے نروٹھے انداز میں اپنا آگے کیا تو یشم آہستہ سے آگے بڑھا اور اسکا ہاتھ تھام اندر بڑھا مگر بات اس نے اب بھی نہیں کی تھی۔۔

دروازہ ان لاک کرتا اندر آیا اور اسکا ہاتھ چھوڑ کمرے میں چلا گیا۔

وہ جانتی تھی وہ غصہ ہے غلطی اسکی تھی وہ اسے نہیں بتا سکی تھی وہاج کے بارے میں مگر اب منائے تو منائے کیسے یہ سب سے ضروری تھا۔۔

گھڑی رات کے بارہ بجا رہی تھی۔

ایک ڈر بھی تھا دل میں کہ وہ ڈانٹے گا مگر ہمت کرتے وہ آگے بڑھی اور جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا ایک جھٹکا تھا جو اسے لگا تھا۔

یشم بیڈ پر اپنی جگہ پر سو رہا تھا۔

کیا وہ اتنی جلدی ہوگیا؟"اسکی آنکھوں کے پر رکھے ہاتھ دیکھ اسکا دل کیا خوب زور زور سے روئے.

"اٹھیں کوئی نہیں سوئے گا آج آئی سمجھ"اے سی فل کرتے وہ غصے سے چلائی۔

اتنی سردی میں اے سی آن کر وہ اسے جگانا چاہتی تھی۔

"اٹھیں یشم یہ کوئی ٹائم نہیں سونے کا"غصے سے اسکے سر پر چلاتے وہ دیوار بجانے لگی مگر وہ بھی ڈھیٹ بنا لیٹا رہا۔۔

"یشم اٹھ جائیں"اسکا ہاتھ ہلاتے وہ روہانسی ہو گئی تھی۔

"یشم میں رو دوں گی اور چپ بھی نہیں ہونگی "نم آنکھوں کے ساتھ کہتی وہ اسے اٹھانے کو جھکی تھی جب اچانک یشم نے اپنا ہاتھ اسکی کمر میں ڈال اسے خود پر گرایا تھا۔

ابھی وہ اس ایک جھٹکے سے نہیں سنبھلی تھی کہ کروٹ لیتا وہ اسے بیڈ پر لیٹاتا اس پر حاوی ہوا تھا۔۔۔

"کیوں تنگ کر رہی ہیں مجھے دیکھ نہیں رہا تھا آپ کو کہ میں سو رہا ہوں"

ماتھے پر بل ڈال کر کہتا وہ اسے پاگل کر رہا تھا۔

"کیوں سونے دوں ؟پہلے کبھی سوئیں ہیں ایسے جو آج سو رہے ہیں"

"ہاں ہمیشہ سے اکیلے ہی سوتا آیا ہوں میں"

"کیونکہ پہلے میں نہیں تھی "

"پہلے تو میں بھی نہیں تھا تو آپ کو اب کیوں اتنا فرق پڑ رہا ہے؟"

"یشم میں آپ کے ساتھ بہت برا پیش آؤ گی"

"اس سے زیادہ کیا برا پیش آئیں گی آپ کے مجھے بے اعتبار سمجھا ہوا ہے"

"یشم۔۔۔۔۔"اسکے شکوے پر وہ تڑپ اٹھی

"بنفشے جائیں مجھے نیند آرہی ہے"اسکے اوپر سے ہٹتا وہ اپنی جگہ پر لیٹا تو وہ تڑپی تھی اس فاصلے پر۔۔

"واپس آئیں جہاں تھے آپ"غصے سے کہتے اس نے یشم کو دیکھا۔

"بیا سوجائیں مجھے نیند آرہی ہے"آنکھوں پر ہاتھ رکھتے وہ اس سے بالکل انجان بن گیا اور یہاں بنفشے کی بس ہوئی تھی۔

اپنے آنسو چھپانے کو وہ بیڈ سے اتر بالکونی میں آگئی اور دروازہ بند کردیا۔

آنسو پلکوں کو بھگو کر اسکے عارضوں پر بکھرتے جارہے تھے۔۔

"کیا اب میں ناراض بھی نہیں ہوسکتا آپ سے "ناراضگی بھری آواز اسکے کانوں میں ٹکرائی مگر وہ ہنوز روتی رہی بنا اسکی طرف رخ کئے۔۔

تبھی اس نے پیچھے آکر اسے اپنے حصار میں قید کیا اور اسکا لمس پاتے ہی وہ ٹوٹ کر ایک بار پھر بکھری تھی۔

سسکیوں سے روتے وہ اسے تکلیف میں مبتلا کر رہی تھی۔

"بیا اگر آپ نے رونا تو ہے میں چلا جاؤ"اسکی دھمکی پر جلدی سے نفی میں سر ہلاتے اس نے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کیے۔

یشم نے آہستہ سے اسکی کنپٹی پر اپنے لب رکھے۔

"آئی ایم سوری میں ڈر گئی تھی یشم بہت زیادہ ڈر گئی تھی آئی ایم سوری"

"جان ہیں آپ میری آپ کے بغیر میرا کوئی وجود نہیں ہے میں مر جاؤ گا اگر آپ کو کچھ ہوا بیا مجھ سے مت چھپائیے گا کبھی کچھ آج مجھے لگا میں جان نکال کسی نے میرا دل مٹھی میں لے لیا میری زندگی کا سب سے اہم حصہ ہیں آپ۔۔"

"یشم آپ مجھ سے ناراض ہو کر دوسری شادی تو نہیں کرینگے نا؟"کب سی دماغ میں اٹکی بات بالآخر لبوں پر آگئی تھی۔۔۔

"آپ کو مجھ پر شک ہے میری محبت پر ؟"

اسکے گرد اپنا حصار مزید سخت کرتا وہ اسکی پچھلی گردن پر اپنے سلگتے لب رکھ گیا۔

"مجھے خود پر یقین نہیں ہے میں بری ہوں ہمیشہ اپنوں کو تکلیف دیتی ہوں"

"لیکن آج کے بعد میں آپ کو یہ موقع ہی نہیں دوں گا آپ کو اپنی شہہ رگ سے زیادہ قریب رکھو گا اتنا کہ آپ کا دل میرے ساتھ دھڑکے گا"اسکی لو پر لب رکھتا وہ گردن تک آیا اور پھر اسکا رخ اپنی طرف کرتے وہ اسکے لبوں کو اپنی دسترس میں لے گیا۔

"میں لے چلوں گا آپ کو اپنی دنیا میں اس تکلیف بھرے ماحول سے دور چلیں گی میرے ساتھ؟"

اسکے لبوں کو آزادی بخشتے اس نے اپنا ماتھا اسکے ماتھے سے ٹکا کر سرگوشی کی تو بنفشے اسکے سینے سے لگی تھی۔

اسے بانہوں میں اٹھاتے وہ اندر کی جانب بڑھا لے جا کر بیڈ پر لیٹاتا اس پر جھکا تھا۔

"آنکھوں میں اپنے کئے اعتبار دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ آج کے بعد کوئی بات آپ مجھ سے چھپائیں نہیں "اسکی آنکھوں پر لب رکھتے وہ آہستہ سے گویا ہوا۔

"ان لبوں کو چھو کر میں اپنی مسکراہٹ آپ کو دینا چاہتا ہوں۔"سرگوشی کرتا وہ اسے اپنے لمس سے مہکا گیا تھا۔

وہ اسکی محبت تھی جنون کی حد تک وہ اس سے محبت کرتا تھا اور آج وہ اسے شدت سے یہ احساس دلا رہا تھا کہ وہ اسکے لئے کیا ہے۔

گزرتی رات اور معنی خیز خاموشی ۔

وہ اسے آج محبت کہ ایک اور بڑی سنگھاسن پر بیٹھا گیا تھا۔

اسکے ہاتھوں میں بنفشے کے ساتھ قید تھے وہ چاہ کر بھی اس سے فرار نہیں پا سکتی تھی۔۔

بھیگی بھیگی سے صبح نے دسمبر کو خوش آمدید کہا تھا۔

باہر ہر شے اس بارش کے رنگ میں بھیگی سی تھی اتنی حسین صبح کا منظر شاید ہی کسی نے دیکھا ہو۔

یشم کو حصار میں قید وہ اسکے سینے سے لگی گہری نیند میں تھی۔

رات باہر دنیا بارش میں بھیگی تھی مگر یہاں وہ اس شخص کی محبت میں بھیگی تھی اور اس بارش کی بات ہی الگ تھی اپنے محبوب کی سنگت میں قیمتی وقت گزارنا۔

وہ اسکے بانہوں کے حصار میں مقید دنیا کو بھلا گئی تھی۔

اس شخص کی قربت میں ناجانے ایسا کیا جادو تھا کہ وہ دنیا کو بھول جاتی تھی اپنا ہر دکھ تکلیف اسے سب بے معنی سے لگتا تھا۔

خنکی کا احساس بڑھا تو اس نے کسمسا کر آنکھیں کھولیں اور پھر اپنے پہلو میں گہری نیند سوئے یشم کو دیکھا۔

گھڑی صبح کے سات بجا رہی تھی مگر ایسا لگتا تھا جیسے ناجانے کتنی رات ہو رہی ہو۔

اسکے ہاتھ پر اپنا سر رکھتے اس نے اپنا ہاتھ اسکے اوپر رکھا تو یشم نے بے ساختہ اسے خود می۔ بھینچا۔

"آپ جاگ رہے ہیں ؟"اسے حیرت ہوئی تھی کیونکہ ایسا تو کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ جاگ رہا ہے۔۔۔

"محبت پہلو میں ہو تو نیند کا کم بخت کو جاتی ہے جاناں"اسکے ماتھے پر لب رکھتے وہ آہستہ سے بولا تو شرمگیں مسکراہٹ نے اسکے لبوں پر بسیرا کیا تھا۔

"اپ کو پتا ہے آج کی صبح کتنی حسین ہے؟"اسکے بالوں کو سنوارتے وہ آہستہ سے لب اسکے ماتھے پر ثبت کرتا مسکرایا۔

"بہت کیا میں سانگ پلے کروں"ہاتھ بڑا کر موبائل اٹھاتے اس نے پوچھا تو آنکھیں بند کرتے وہ اثبات میں سر ہلایا اسکے ماتھے پر لب رکھ گیا۔۔اس نے موبائل اٹھا کر سانگ پلے کیا اور ایک ہاتھ سر کے نیچے رکھ زرا سا اٹھ اس نے آنکھیں موندے لیٹے یشم کو دیکھا۔

"یہ گانا اس شخص کے نام جس کے نام میں نے اپنی ساری زندگی کی ہے" اسکی گال پر لب رکھتی وہ سرگوشی کے انداز میں کہتی اسے مسکرانے پر مجبور کر گئی۔

تیرے ہاتھوں کی طرف

میرے ہاتھوں کا سفر

روزانہ،روزانہ..

تیری آنکھوں سے کہے

کچھ تو میری نظر

روزانہ،روزانہ..

روزانہ میں سوچوں یہیں

کہاں آج کل میں ہوں لا پتا

تجھے دیکھ لوں تو ہنسنے لگے

میرے درد بھی کیوں خوامخواہ

ہواوں کی طرح

مجھے چھو کے تو گُزار

روزانہ،روزانہ..

تیرے ہاتھوں کی طرف

میرے ہاتھوں کا سفر

روزانہ،روزانہ..

ان آنکھوں سے یہ بتا

کتنا میں دیکھوں تجھے

رہ جاتی ہے کچھ کمی

جیتنا بھی دیکھو تجھے۔

روزانہ میں سوچوں یہی

کہ جی لونگی میں بے سانس بھی

ایسے ہی تو مجھے ملتا رہے اگر

روزانہ،روزانہ..

تیرے ہاتھوں کی طرف

میرے ہاتھوں کا سفر

روزانہ،روزانہ..

یوں آ ملا تو مجھے

جیسے تو میرا ہی ہے

آرام دل کو جو دے

وہ ذکر تیرا ہی ہے۔

روزانہ میں سوچوں یہث

کہ چلتی رہے باتوں تیری

آتے جاتے یونہی میرے لیے ٹہر

روزانہ،روزانہ..

تیرے ہاتھوں کی طرف

میرے ہاتھوں کا سفر

روزانہ،روزانہ..

روزانہ، روزانہ۔۔۔

اسکی آنکھوں پر لب رکھتے اس نے آہستہ سے اسکے کشادہ پر پڑے بالوں کو سمیٹا تھا۔

"میں چاہتی ہوں جب ہم برف سے ڈھکی اس جائیں تو آپ مجھے بتائیں کہ مجھ سے کتنی محبت آپ کو۔۔۔ وہ پہاڑ ہماری محبت کے گواہ ہونگے۔

دہکتا الاؤ ہمارے سامنے ہوگا ستاروں بھری رات ہوگی میں یونہی وہ کے کندھے سے سر ٹکائے بیٹھی رہوں گی اور آپ میرے کانوں میں محبت کا ساز انڈیلنا"

اسکی پلکوں کو انگلی کی پور سے چھوتے وہ اپنے دل کا حال اسے بتا رہی تھی۔

"اور میں چاہتا ہوں بلند وبالا پہاڑوں کی وادی میں ہمارا نام لکھ آؤ تاکہ جب ہمارے بچے بڑے ہوں تو وہ وہاں جاکر دیکھیں"

اسکی کمر کے گرد گرفت مضبوط کرتا وہ وہ اسے مزید خود پر جھکا گیا۔

کہ اسکے بال آبشار کی طرح بکھرے تھے۔

چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن

کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن

رازوں کی طرح اترو مرے دل میں کسی شب

دستک پہ مرے ہاتھ کی کھل جاؤ کسی دن

پیڑوں کی طرح حسن کی بارش میں نہا لوں

بادل کی طرح جھوم کے گھر آؤ کسی دن

خوشبو کی طرح گزرو مری دل کی گلی سے

پھولوں کی طرح مجھ پہ بکھر جاؤ کسی دن

گزریں جو میرے گھر سے تو رک جائیں ستارے

اس طرح مری رات کو چمکاؤ کسی دن

میں اپنی ہر اک سانس اسی رات کو دے دوں

سر رکھ کے مرے سینے پہ سو جاؤ کسی دن۔

(امجد اسلام امجد)

سرگوشی کے سے انداز میں اسے غزل سناتا وہ سکے کان لو کا چھوتا اسکی کنپٹی کو چھوتا اسے مکمل طور پر اپنے بانہوں کے مضبوط حصار میں باندھتا اس پر دسترس حاصل کرگیا۔

کسی روز تو ملے مجھے

اپنی بے تابیاں بیان کروں تجھ سے

تیرے آنے سے پہلے کی اذیتیں شمار کروں

تیرے لمس سے مہکتا میں جاناں

اپنا دل تیرے نام کروں میں۔۔۔۔

اسکے لبوں کو چھوتے وہ اسکا سر اپنے سینے پر رکھتا آنکھیں موند گیا۔

"یشم سونا نہیں ہے نا" اسکا یوں آنکھیں موند لینا اسے سخت برا لگا تھا تبھی اس نے زرا سی چٹکی اسکے گال پر کاٹی تو وہ بے ساختہ مسکرایا۔

"سوئے شیر کا جگا رہی ہیں غلط کر رہی ہیں"اسکی طرف کروٹ لیتا وہ اس پر اپنا ہاتھ رکھ گیا تو ایک چپت اس نے یشم کے ہاتھ پر ماری تھی۔

"اتنا حسین موسم ہورہا ہے ٹھنڈا ٹھنڈا باہر چلتے ہیں نا۔۔"کھڑکی سے آتی ہوا محسوس کر وہ بے چین ہوئی تھی۔

یہ موسم اسکا پسندیدہ تھا۔

"ویسے شوہر سے زرا محبت نہیں ہے وہ بیچارہ آپ کے وقت کے لئے ترستا ہے اور آپ کو موسم کی پڑی ہے"

"ہائے اللہ "اسکی ناک کھینچتے وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

یشم نے اسکے سرخ پڑتے چہرے کو لمحے کو دیکھا اور پھر وہ اچانک سے اسے تکیے پر گراتا اس پر حاوی ہوا تھا۔

اس حملے کے لئے وہ تیار نہیں تھی تبھی بے ساختہ اسکی چیخ نکلی تھی۔

"یشم۔۔۔۔جان نکال دی میری"اسکے کندھے پر ہاتھ مارتے وہ غصے سے بولی

مگر وہ ڈھیٹ بنا اسکی گردن پر جھک لمحوں میں اسکا حال سے بے حال کرگیا۔

______________

عبدالعزیز صاحب کے گھر آج معمول سے زیادہ رونق تھی ہر طرف خوشیوں بھرے گیت گائے جارہے تھے۔

پورے گھر کو برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا۔۔

آج بالآخر زین اور عائشہ کے نکاح کی تقریب تھی ۔

"امی آپ لوگ کب تیار ہونگے ؟"

کوثر بیگم کو ایسے کی گھومتے دیکھ وہ ناراضگی سے بولی تو انہوں نے مسکرا کر اسے دیکھا۔

"بھئی اب تو لڑکے والے ہم پر رعب جمائیں گے"

وہ زین کی طرف سے بارات لانے والی تھی اور اسی بات پر انہوں نے اسے شرارت سے تنگ کیا تو وہ ہنس دی۔

"آپ کی بیٹی کو نند بن کر تنگ بھی تو کرنا ہے نا ساری بدلے لوں گی میں"

"چلو یہ بھی اچھا ہے اپیا میری بیوی کم از کم آپ کے عتاب سے بچ جائے گی"عزیر کی آواز پر اس نے گھور کر اسے دیکھا جو دروازے پر استادہ بالکل تیار کھڑا تھا

"ماشاءاللہ بھئی میرا بھائی تو شہزادہ لگ رہا ہے" وائٹ شلوار قمیض میں ملبوس وہ اسے شہزادہ ہی تو لگا تھا۔

"امی نظر اتار دیجئے گا میرے بھائی کی ورنہ کئی چڑیلیں آج عاشق نا ہوجائیں"اس گال پر رکھتے اس نے شرارت سے کہا تو وہ اسے اپنے ساتھ لگا گیا۔

"امی اپیا تو سادگی میں اتنی پیاری ہیں ان کی نظر پہلے اتاریں آپ"

"اگر آپ دونوں بھائی بہنوں کی محبت ختم ہوگئی ہو تو زرا ماں کی بھی تعریف کردو دونوں مجھ پر ہی گئے ہو۔"

"یار اپیا امی جیلس ہو رہی ہیں"وہ دونوں اب ان کو تنگ کر رہے تھے

"جارہی ہوں میں تیار ہونے کرتے رہو ایک دوسرے کی تعریف " ان دونوں کو ایک ایک چپت رسید کرتیں وہ اندر بڑھ گئی تو ان کے قہقہوں کے دور تک ان کا پیچھا کیا۔

اب آپ بھی تیار ہوجائیں میں جارہا یشم بھائی کے پاس تاکہ وہ ریڈی ہونے آسکے"

"ویسے وہ ایسے بھی ہیرو ہی لگتے ہیں لوگوں کی طرح تیار ہو کر نہیں "شرارت سے کہتے اس نے عزیر کو چڑایا

"کیسی دوغلی ہو یارا اپیا"۔

اسکے انداز پر وہ قہقہ لگا اٹھی

"ویسے تم نکاح کے بعد یشم بھائی کے گھر جارہی ہو ؟"

"ہاں فائنلی انہیں فرصت مل گئی اب وہاں جا کر ایک بہت ضروری کام ہے جو مجھے کرنا ہے"

"خوشی ہوگی اگر اپنے کام میں کامیاب ہونگی آپ "وہ اسکا اچھے سے جانتا تھا تبھی اسے بیسٹ وشزز دیتا وہ چلا گیا تو وہ تیار ہونے روم میں آئی تھی۔

عائشہ نے کہا بھی تو پارلر چلے مگر وہ کمفرٹیبل نہیں تھی۔

اپنی تیاری مکمل کر اس نے آئینے میں خود کو دیکھا تو اپنے ساتھ کسی اور کا عکس بھی آئینے میں نمایاں ہوا تھا۔

رف سی شرٹ و ٹراؤزر پہنے میسی بالوں کے ساتھ وہ پاکٹ میں ہاتھ ڈالے دروازے سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔

اسے اپنے ساتھ دیکھ اسکے لبوں پر ایک بھرپور مسکراہٹ آئی تھی آنکھوں کی چمک میں اضافہ ہوا تھا۔

"یش میں کیسی لگ رہی ہوں؟" اسکی طرف پلٹتے اس نے پوچھا تو یشم نے بغور اسے ریکھا۔

آئس گرین کی گھٹنوں تک آتی فراک جس پر کوپر کی ایمبرائیڈری تھی۔

گولڈن غرارہ پہنے بالوں کو سائیڈ کر اس نے جھومر لگایا تھا۔

یشم کی پسند کی جیولری پہنے وہ ایک بار پھر اسکا دل دھڑکا گئی۔

"ہمیشہ سے بھی زیادہ حسین خوبصورت دلکش پیاری شہزادی "اسکے قریب آتا وہ وہ ایک ایک لفظ پر زور دے رہا تھا جب بنفشے نے اسکے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ اسے مزید کچھ کہنے سے روکا۔

"یہ لفظوں کی تعریف سے زیادہ مجھے یہاں اپنا عکس دیکھنا پسند ہے"اسکی آنکھوں کو اپنی پوروں سے چھوتے وہ دلفریب سا مسکرائی۔

"پہلے ہی بندہ فدا ہے آپ پر ہر بار کیوں ایسے جان لیوا بن جاتی ہیں میرے لئے"؟

"کیونکہ مجھے آپ سے عشق ہے بے تحاشہ عشق اگر اپنی محبتوں کا شمار کرنے بیٹھوں تو سارے پلڑے کم پڑ جائیں گے لیکن آپ شمار نہیں کر پائیں گے کہ محبت کے کس درجے پر رکھا ہے آپ بنفشے یشم یوسفزئی نے"

"آپ کو اس کا جواب اس سے زیادہ دلکش انداز میں دیتا اگر تو دیر نا ہو رہی ہوتی"اسکے ماتھے سے ماتھا ٹکائے وہ منہ بنا گیا تو وہ ہنس پڑی۔

"کوئی نہیں کوئی نہیں ہوتا ہے ہوتا ہے"شرارت سے اسکے دونوں کانوں کو پکڑتے وہ اسکا چہرہ دائیں بائیں ہلاتے بولی تو اسکے اس انداز پر وہ بے ساختہ ہنس دیا۔

"ہنس کیوں رہے ہیں"؟

"دن بہ دن بچی بنتی جارہی ہیں آپ"

"خوش نصیب ہوں نا کہ میرے بچپنے کو ختم نہیں کرنے دیتے آپ اور ایسا شوہر تو پھر نصیب والوں کو ملتا ہے امی کہتی ہیں ہر کوئی آپ کا بچپنا برداشت نہیں کرتا نا قبول کرتا ہے بہت نصیب والی ہوتی نہیں وہ لڑکیاں جن کے شوہر ان کا بچپنا زندہ رکھتے ہیں خود ان کے ساتھ بچے بن جاتے ہیں انہیں ایسا محسوس کرواتے ہیں کہ وہ ان کے لئے کتنی خاص ہیں"اپنے چہرے پر رکھے اسکے ہاتھ پر آہستہ سے لب رکھتے وہ اسے معتبر کر گئی تھی۔

یشم نے جھک کر اسکے ماتھے کو اپنے لبوں سے چھوا تھا۔

"اب آپ ریڈی ہوجائیں میں زین کو دیکھ لوں وہ تیار ہوا کہ نہیں"بیڈ پر رکھے کپڑوں کی طرف اشارہ کرتے اس نے کہا اور پھر وہ باہر آگئی اندر رہتی تو یقیناً رو جاتی

اس شخص کے سحر سے نکلنا بہت مشکل تھا وہ اس سے اتنی محبت کرتی تھی جس کا اسے خود بھی پتا نہیں تھا۔

سیڑھیاں چڑھتے وہ اوپر آئی تو زین بالکل تیار تھا۔

نیرون شیروانی پہنے وہ آئینے کے سامنے کھڑا تھا۔

"کیا بات ہے دولہا صاحب تو پوری شان کے ساتھ تیار ہیں"

"دولہن سادی حالت میں قبول نہیں کرتی نا"

اسکی شرارت کا جواب شرارت سے دیتے وہ صوفے پر بیٹھا تو بنفشے نے کلا اسے پہنایا۔

"یشم تیار ہو رہے ہیں پھر چلتے ہیں ہم امی بابا پہنچ گئے ہیں وہاں اور دولہن بھی بالکل تیار ہے"

"چلیں پھر دیر نہیں کرواتے نا میری دولہن کو"جلدی سے کہتا وہ اسے ہنسنے پر مجبور کرگیا۔۔

___________

پھولوں سے سجے اس خوبصورت اسٹیج پر دولہن بنے بیٹھی وہ زین کی منتظر تھی۔

اسکے سامنے ہی پھولوں کی دیوار بیچ و بیچ بنائی گئی تھی جہاں نکاح کی رسم ادا ہونی تھی۔

گولڈن شرارہ پہنے بیا تو کو سب سے پیاری دولہن لگی۔

وہ لوگ ساتھ نکلے تھے عزیر اسے لینے آیا تھا اور ساتھ کوثر بیگم اور عبدالعزیز صاحب کو ساتھ لایا تھا وہ دولہا دولہن دونوں کی طرف سے اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔

"ماشاءاللہ بہت پیاری دولہن"بارات کا شور اٹھا تو وہ اسکی تعریف کرتی اسکے چہرے پر گھونگھٹ ڈال گئی۔

زین کو پھولوں کے پردے کے دوسری طرف بیٹھایا گیا تو وہ اسے لئے اسٹیج سے اتری اور دوسری طرف اسے بٹھایا۔

اپنا وقت یاد آتے آنکھیں اپنے آپ ہی نم ہوئی تھیں۔

نکاح کہ رسم شروع ہوئی اور پھر ایجاب و قبول کے مراحل کے بعد وہ دونوں ایک خوبصورت رشتے میں بندھ گئے تھے۔

اپنی جگہ سے اٹھ زین نے وہ پردہ ہٹایا اور پھر اسکے گھونگٹ کو الٹتے اس نے آہستہ سے اس کے ماتھے پر لب رکھ اسے اس خوبصورت رشتے کی مبارکباد دی تھی۔

فوٹو شوٹ ہوا اور پھر رخصتی کا مرحلہ آیا تھا۔

ابو بکر یوسفزئی اسپیشلی اسکی خواہش پر نکاح اٹینڈ کرنے آئے تھے ہانیہ بیگم چاہ کر بھی نہیں آ سکی تھیں۔

ایک گھر میں جانے کے باوجود اسکی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔

زین نے عائشہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما تھا۔

"بیا وہ دولہن ہے اس لئے رو رہی ہے آپ کیوں رو رہی ہیں؟"اسکی نم آنکھیں دیکھ وہ چڑ کر بولا کیونکہ اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھنا کتنا اذیت ناک تھا یہ صرف وہ ہی سمجھ سکتا تھا.

"آپ مجھے رونے کیوں نہیں دیتے؟"

اسکے چڑنے پر وہ غصہ ہوئی تو بس گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔

عائشہ اور زین کے لئے اس نے اسپیشل ارنجمںٹ کروایا تھا اس لئے انہیں وہاں روانہ کرتا وہ اندر آیا جہاں بنفشے ابو بکر یوسفزئی سے بات کرنے میں مصروف تھی

"باہر آجائیں میں انتظار کر رہا ہوں" انہیں نظر انداز کرتے وہ اسے کہتا مزید وہاں نہیں رکا تو بنفشے نے اداسی سے انہیں دیکھا۔

"میں سب ٹھیک کر دوں گی وہ آپ سے نارمل بات کرنے لگے گے آئی پرامس"

"مجھے یقین ہے اپنی گڑیا پر"اسکے سر پر ہاتھ رکھتے وہ اسکے ساتھ ہی باہر نکلے تھے۔

____________

فون پر بات کرتا وہ اپنی کار کے پاس آکر کھڑا ہوا تھا۔

اسکا سارا دھیان کال پر تھا جسے سن اسکے ماتھے کے بلوں میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔

وہ خود سے اتنا لاپرواہ ہوگیا تھا کہ اپنے دل کے مقام پر وہ لال ڈاٹ اسے نظر ہی نہیں آیا۔

سامنے جھاڑیوں میں چھپا وہ نقاب پوش اس کا نشانہ باندھے کھڑا تھا۔۔

اسکی شاطر نظریں اپنے نشانے پر تھیں۔

اندر سے آتے ابو بکر یوسفزئی اور بنفشے باتوں میں مصروف تھے کہ اچانک بنفشے کی نظر یشم کی طرف اٹھی تھی۔

"بابا وہ رہے یشم"اسکی انگلی کی سمت ابو بکر یوسفزئی نے سامنے دیکھا تو انہیں جھٹکا لگا تھا اسکے سینے پر اس نشان کو دیکھ۔

"یشم۔۔۔۔۔"وہ وہیں سے چیخے تھے۔

ان کی چیخ پر بنفشے کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا۔۔

اور پھر۔۔۔

وہ چیخی تھی۔

"یشم۔۔۔۔۔۔۔"اس سے پہلے وہ اس تک پہنچتی اس شوٹر نے ٹریگر دبایا تھا۔

سرخ سیال سے اسکا دامن بھیگا تھا۔

"یشم۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

وہ گھنٹوں کے بل گری تھی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔

پولیس کے سائرن کی آواز چاروں اور گونجنے لگی تھی۔

"بابا"اپنے آگے ابو بکر صاحب کو دیکھ یشم ساکت ہوا تھا کو لہو میں رنگے اسکے سامنے گرے تھے۔

اسکے حصے کی گولی انہوں نے کھائی تھی۔

"بابا"اس سے پہلے ان کا سر زمین پر لگتا یشم نے انہیں تھام ان کا سر اپنی گود میں۔ رکھا تھا۔

"بابا۔۔۔۔۔۔ "بہتے اشک وہ پاگل ہوگیا تھا۔

بنا وقت ضائع کئے انہیں گاڑی میں ڈال اسپتال لے کر آئے تھے بنفشے دوسرے وارڈ میں تھی اسکا بی پی خطرناک حد تک لو تھا

یہ دوسرا صدمہ تھا جو انہوں نے برادشت کیا تھا۔

ابو بکر یوسفزئی اندر آپریشن تھیٹر تھے

"یشم بابا"ہوش میں آتے ہی اس نے سب سے پہلے ان کا پوچھا کو سر جھکائے اسکے پاس بیٹھا تھا۔

"یشم بابا کو کیا ہوگیا ہے یشم مجھے بابا کے پاس جانا ہے پلیز"

"بیا وہ آپریشن تھیٹر میں ہیں آپ ریلکس کریں پلیز"اسکی طبعیت کی وجہ سے وہ اسے سنبھال رہا تھا ورنہ دل تو تھا کہ چیخ چیخ کر روئے۔

جس باپ سے اس نے ناجانے کتنے سالوں سے بات نہیں کی تھی آج وہ ناراض ہو کر اسپتال کے کمرے میں پڑا تھا آج وہ ان سے بات کرنا چاہتا تھا مگر آج وہ چپ تھے آنکھیں موندے۔

یشم کا دل پھٹ رہا تھا انہیں اس حال میں دیکھ ۔

"یشم آپ ان سے بولیں نا وہ آپ سے بات کریں وہ تو تڑپ رہیں ہیں آپ سے بات کرنے کے لئے پلیز یشم انہوں نے کہا تھا کہ وہ منا لینگے آپ کو وہ ایسے تو نہیں کر سکتے نا یشم"اسکے سینے سے لگی وہ سسک رہی تھی۔

آنکھ سے نکلتا آنسو بیا کے بالوں میں جذب ہوا تھا

آج اس نے جانا تھا ماں باپ چاہیے کچھ بھی کرلیں اور ہم چاہیں ان سے کتنا ہی خفا کیوں نا ہوں مگر ہمارے دل میں ان کی محبت رہتی ہے ان کا رتبہ بہت بڑا ہوتا ہے ۔

جب وہ ہماری خطائیں معاف کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔

وہ غلط تھے مگر انہیں احساس تھا اسکا اور آج اسے احساس ہوا کہ اپنوں سے قطع تعلق کرنا کتنا بڑا گناہ ہے اگر وہ دل میں بات لئے چلا جائے تو؟

وہ بیا ہے سات باہر آیا تھا اس کمرے تک یہاں وہ موجود تھے۔

اس نے ایک نظر دروازے کے اس پار بے ہوش وجود کو دیکھا تھا۔

"وہ ٹھیک ہو جائیں تو آپ بات کرینگے ان سے ساری غلط فہمیاں دور کرینگے"

اس کا ہاتھ تھامے وہ اسے سمجھا رہی تھی جس پر یشم نے آہستہ سے ہاں میں سر ہلایا تھا۔

______________

دولہن بنی وہ زین کے انتظار میں بیٹھی تھی جب وہ اسکے پاس آکر بیٹھا اور آہستہ سے اسکا گھونگھٹ اٹھایا تھا۔

"ماشاءاللہ"اتنا کہتا وہ آہستہ سے اسکے ماتھے پر لب رکھ گیا تو حیا سے اسکی پلکیں جھکی تھیں۔

"مانتا ہوں بہت برا ہوں مگر تم سے بہت محبت کرتا ہوں"اسکے حنائی ہاتھوں کو تھامتے اسنے انگلی کی پور اپنے نام پر رکھی تو عائشہ نے نظریں اٹھا کر اس انسان کو دیکھا تھا جس سے وہ بے تحاشہ محبت کرتی تھی حد سے زیادہ۔

"کچھ کہوں گی نہیں ؟"زرا سا اسکی طرف کو جھکتے اسنے پوچھا تو عائشہ نے فوراً سے نفی میں سر ہلایا۔

"ہمم آج بولنے کا دن ہے بھی نہیں ویسے"معنی خیزی سے کہتے اس نے آہستہ سے اپنے لب اسکے رخسار پر رکھے اور پھر اسکی ٹھوڑی پر لب رکھتا وہ اسکے لبوں کو اپنی گرفت میں لے گیا

"زین"رہائی ملتے ہی وہ گہرے سانس لیتی اسے پکار بیٹھی

"آج رہائی ممکن نہیں ساری باتیں کل کے لئے چھوڑتے ہیں آج میں تمہیں یہ احساس دلانا چاہتا ہوں کہ تم میرے لئے کیا ہو "اسکی بند آنکھوں پر لب رکھتے اپنی انگلیاں اسکی انگلیوں میں الجھاتا وہ آج اپنی محبت اس پر لٹا گیا تھا کو ایک عرصے سے اسکی دیوانی تھی۔

اور آج اسے اس دیوانے کا دیوانہ پن جھلینا تھا

وہ اپنے ہر عمل سے اسے بتا رہا تھا کہ کتنی خاص ہے وہ اسکے لئے۔

کھڑکی سے جھانکتا چاند اس پیارے سے جوڑوں کو ڈھیروں دعائیں دے گیا تھا۔۔

__________

پانچ سال بعد۔۔۔۔

تاریک رات کی سیاہی آہستہ آہستہ افق پر ابھرتے آفتاب کی کرنوں تلے کہیں گم سی ہورہی تھی۔۔

اونچے اونچے دیوہیکل پہاڑ برف کی چادر اوڑھے دیکھنے والے کو مہبوت کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

دور کہیں سے آتی بہتے جھرنے کی آواز ماحول میں ایک سرور سا بکھیرتی جارہی تھی۔

پھولوں کی خوشبو سے مہکتی فضا۔۔

اس نے پردے سائیڈ کرتے سنگ مر مر سے مزین بالکونی میں قدم دھرے تھے اور گہرا سانس بھرتے اس خوشبو کو سانسوں کے زریعے اپنے اندر اتارا تھا کہ دل و دماغ میں سکون سا بھر گیا تھا۔

رات پھر مینہ نے برس کر موسم کو مزید سرد کردیا تھا۔

شعاعیں بکھیرتے سورج کی ہلکی سی حرارت محسوس کر اس نے نیچے جھانک کر اپنے ہمسفر کو دیکھا تھا جو اس وقت نیچے لگے پھولوں کے پاس بیٹھ کر ان کو تراش رہا تھا۔

نگاہوں کی تپش پر اس نے زرا سی نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔

نگاہوں کا تصادم ہوا تو اس کے چہرے پر دلفریب سی مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا۔

"بنفشے یوسفزئی ۔ وہاں کھڑے رہ کر شوہر کو انتظار کی سولی پر لٹکانے سے بہتر ہے تھوڑا اس حسین چہرے کو مزید رونق بخشتے اپنے نازک سے کندھوں پر اپنے چھوٹے سے بیگ کا بوجھ لاد آپ ہمیں اپنی مہمان نوازی کا موقع دیں۔۔" اس کے شرارتی انداز پر اسکے چہرے پر مسکراہٹ نے بسیرا کیا تھا۔

کیا یہ وہی تھا جسے وہ جانتی تھی ؟ اس نے خود سوال کیا تھا۔

"جان یشم باخدا آپ کے یوں سوچ میں ڈوبے رہنے سے آپ جادو سے ہمارے پہلو میں نہیں آ سکیں گی زرا اپنے ان نازک قدموں کو خدمت کا موقع دیں"

"یشم۔۔۔" اسکی بات پر اس نے دانت پیس کر اسے کہا تو اس خاموش فضا میں اسکا قہقہ گونج کر چاروں اور جلترنگ بکھیر گیا۔

تھوڑی ہی دیر بعد وہ اسکے روبرو تھی۔

یشم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر دلکشی سے مسکراتے اپنا ہاتھ اسکی جانب بڑھا کر اسکا مومی ہاتھ اپنی گرفت میں قید کیا تھا۔

"یہ موسم کا کمال ہے یا ہماری محبت کا

ہمارا محبوب دلکشی کی انتہا کو جا پہنچا ہے۔"

اسکے کان میں سرگوشی کرتے وہ محبت سے اسکی کنپٹی چھوتے بولا تو اسکی گھنیری پلکیں حیا کے بوجھ سے جھک گئی معصوم سے چہرے پر حیا کے رنگوں نے اپنا ڈیرا جمایا تھا۔

کیا یہ وہی بنفشے تھی۔۔؟"

وہ براؤن لیدر جیکٹ پہنے اسکا ہاتھ تھامے دھیان سے آگے بڑھ رہا تھا۔

جبکہ دوسرے ہاتھ سے اس نے باغ سے توڑا سیب اسکی طرف بڑھایا تھا۔

"یوں چوری کرکے کھانا خانوں کو زیب نہیں دیتا یشم یوسفزئی۔۔۔" اس نے زرا سی گردن موڑ اسکے یوں دھڑلے سے دوسرا سیب جیب میں رکھنے پر اس پر چوٹ کی تو اسنے حیرت سے اسے پھر ہاتھ میں پکڑے سیب کو دیکھا تھا۔

"اللّٰہ کی زمین ہے اور اللّٰہ کی طرف سے جو ملے وہ خوشی خوشی قبول کرنا چاہیے۔۔" اسکی بات کے پیچھے چھپے مفہوم کو وہ بہت اچھے سے سمجھ چکی تھی۔

اسے وہ دن یاد آیا جب اسکے مسلسل انکار کے بعد وہ باذات خود اسکے روبرو آیا تھا۔

"مجھ سے شادی نا کرنے کی وجہ نا پوچھنا یشم ۔" اسکے آنے کا مقصد اخذ کرتے اس نے صاف لفظوں میں اسے کہا تو اسکے وجہہ چہرے پر دل کو موہ لینے والی مسکان نے ایک جھلک دکھلائی تھی۔

"مجھ سے شادی نا کرنے سے آپ کی فیکٹری کو کتنا نقصان ہو سکتا ہے میں یہ جاننے آیا ہوں۔۔"

"میری کوئی فیکٹری نہیں ہے تو نقصان کیسا؟.."

اپنا دوپٹے کا پلو گود میں رکھتے اس نے ناسمجھی سے اس شاطر انسان کو گھورا.

"اوووو اچھا۔۔۔ مجھے لگا آپ کے پاس انا ،غصہ اور نفرت کی فیکٹری ہیں اور مجھ سے شادی کر کے ان کو بڑا نقصان ہوجائے گا۔۔"

"مجھے لفظوں کے جال میں نہ پھنساؤ کیونکہ میں اپنا فیصلہ نہیں بدلنے والی۔" دوٹوک انداز میں کہتے اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگانی چاہی تھی مگر تبھی اسکا ہاتھ یشم یوسفزئی کی گرفت میں آیا تھا۔

"بیوی تو تم یشم یوسفزئی کی ہی بنو گی بنفشے خانزادہ اگر تمہیں لگتا ہے کہ میں اس انکار کو دل کے اوپر لوہے سے لکھ کر انا میں آجاؤ گا تو یہ بھول ہے یشم یوسفزئی کا اور اس انا کا کوئی تعلق نہیں اور محبت کے معاملے میں تو بلکل بھی نہیں تو تم بھی اس تعلق کو یہی ختم کردو اور میرے ساتھ چلو میرے نگر برف کی وادی میں جہاں تمہاری نفرت ختم ہوجائے گی اور میری محبت تمہارے دل میں برف ہوئی محبت کو اپنی محبت کی آنچ سے پگھلا دے گی ۔"

اور آج اسکی ہمراہی میں یوں کھڑے پہاڑوں کو دیکھ اسے لگا اسکے اندر جو ایک آتش فشاں ہر وقت پھٹنے کو تیار رہتا تھا وہ کہیں برف سا ہوگیا تھا اور اب جو اس دل و دماغ میں تھی وہ تھی بس اس بے غرض انسان کی بے حد اور بے تحاشہ محبت۔۔۔

وہ پرسوں سے اس جگہ موجود تھے برف باری کا سلسلہ رک چکا تھا اس لئے گھر جانے کی جلدی اسے سب سے زیادہ تھی۔

_________

چاروں طرف خوبصورت پھولوں سے ڈھکی ان کی حویلی جس کی راہداری برف سے ڈھکی تھی جسے اب صاف کیا جارہا تھا۔

گاڑی سے اترتے شال کو اچھے سے لپیٹ اسنے فوراً سے اندر قدم بڑھائے تو سامنے ہی لاونج میں ہیٹر کے پاس وہ سب بیٹھے تھے۔

"اسلام وعلیکم مما بابا"سلام کرتے وہ ہانیہ بیگم کے پاس آئی اور ان سے مل کر اس نے مسکرا کر ان کے پاس کمبل میں دبکی بیٹھی اپنی شہزادی کو دیکھا تھا جسے ضرورت سے زیادہ ہی سردی لگتی تھی۔

"ماہے نور مما آگئی ہیں"اسکے ناراضگی سے پھولے پھولے گالوں کو پیار کرتے اس نے اپنی لاڈلی کو گود میں بھرا تھا۔

"اسلام وعلیکم"لاونج میں داخل ہوتے یشم نے زور سے سب کو سلام کیا اور آگے بڑھ ابو بکر یوسفزئی کے گلے لگا تھا

جو گولی انہوں نے کھائی تھی اسکا زخم تو مندل ہوگیا تھا اور وہ اپنے ساتھ ساری پرانی تلخیاں بھی لے گیا تھا۔

"آبان کہاں ہیں مما؟"اپنے بیٹے کو نا پا کر اس پوچھا تو جواب ابو بکر صاحب کی طرف سے آیا تھا۔

پچھلے حصے میں گیا ہے کہتا کہ برف دیکھنی ہے "

"مما زین اور عائشہ آرہے بچوں کے ساتھ چھٹیوں پر"

اپنی لاڈلی کو گود میں لیتے یشم نے بتایا اور پھر ایک نظر چھوٹی ماہے کو دیکھا۔

سرخ و سفید پٹھانوں جیسی۔۔

کتنی مکمل ہوگئی تھی ان کی زندگی۔

اسکے ماتھے پر لب رکھتے وہ اسے سینے سے لگا گیا۔۔

"وہاج نے خود کشی کر لی ہے "یشم کے بتانے پر اس نے حیرت سے اسے دیکھا۔

یشم پر حملہ کرنے کے بعد وہ وہاں سے فرار ہوتا اپنے ایک دوست کے پاس گیا تھا جنہوں نے ایک لڑکی کو اغوا کر اسکا ریپ و قتل کردیا مگر قمست ان کی خراب تھی کہ وہ لوگ فوراً ہی پکڑے گئے تھے اسکی سزا بڑھتی جارہی تھی اور آج بالآخر وہ چلے گیا تھا۔

اولاد کی صحیح پرورش بہت ضروری ہوتی ہے ورنہ قسمت بہت برا سلوک کرتی ہے ان کے ساتھ۔۔۔

____________

"تمہارے بابا مر گئے بیٹا اور یہ سب اس لڑکی کی وجہ سے ہوا ہے یشم یوسفزئی کی وجہ سے ہوا ہے۔۔"

پانچ سالہ بچے کو سینے سے لگائے وہ رو رہی تھی سسک رہی تھی۔

اور وہ بچہ حیرانگی سے اپنی ماں کو روتے سسکتے دیکھ رہا تھا۔

"مجھ سے وعدہ کرو میرے بچے اس انسان کی اولاد کی زندگی برباد کردو گے وہ بھی ایسے تڑپیں گے جیسے میں تڑپ رہی ہوں وعدہ کرو مجھ سے "اپنا ہاتھ اس معصوم کے آگے پھیلائے وہ اسے غلط راہ کی طرف لے جارہی تھی

اپنی ماں کی حالت دیکھ اس نے اپنا چھوٹا سا ہاتھ اپنی ماں کے ہاتھ میں رکھا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ برباد کردے گا یشم یوسفزئی کو ۔۔

آج اور کھیل کی ابتدا ہونے کو تھی۔۔۔۔۔...

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Aseer E Dilbarram Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Aseer E Dilbarram  written by Fari Sha .Aseer E Dilbarram  by  Fari Sha  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages