Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 3&4 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 29 September 2024

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 3&4

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 3&4

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Storiesa

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 3&4

Novel Name: Hum Mi Gaye Yuhi 

Writer Name: Ismah Qureshi  

Category: Continue Novel

     روٹھیں گے تم سے،اس طرح سے پھر

   فاتحہ کے سوا کچھ بھی نا پڑھ سکو گے

قبرستان میں خاموش قبروں کے درمیان کھڑے بہراور درانی کی نظر ایک ہی قبر پر ٹکی تھی۔

صبح کا سورج اپنی روشنی بکھیرنے کو بے تاب تھا۔ہر طرف گہری اداس خاموشی تھی۔ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا کا سحر طلسم قائم کرنے میں محو تھا۔ یہ ہوا فضا میں بکھر کر ناجانے کہاں سے چرائ پھولوں کی خوشبو ہر سو بکھیر رہی تھی۔آج یوں معلوم ہوتا تھا جیسے سالوں پہلے کا کوئ سیاہ دن آج پھر سے دہرایا جارہا ہو۔

"بابا۔۔!!!! میں کیسے رہوں گی آپ کے بنا۔مورے سمجھائیے نا بابا کو۔۔!!!! یہ مجھے کیوں ونی کررہے ہیں۔میرا کیا قصور ہے کوئ تو سمجھاۓ انہیں۔۔۔!!!!! لالہ آپ کی تو ہر بات بابا مانتے ہیں نا انہیں کہیں کہ مجھے کہیں نا بھیجیں ۔۔!!!

مجھے ڈر لگ رہا ہے لالہ۔۔۔!!!! لگ رہا ہے میں اب کبھی اس دہلیز پر واپس نہیں آسکوں گی ۔۔!!! کوئ تو مجھے سمجھے ۔۔۔۔۔!!!!!"

ایک آواز تھی کسی کی فریاد میں ڈوبی۔جو بہراور درانی کی سماعتوں سے اکثر و بیشتر ٹکراتی رہتی تھی۔یہ پکار تھی ایک بے قصور کی جسے کسی کے جرم کی سزا بھگتنی پڑی۔وہ بہت روئ تھی اس دن۔۔!!!!

سب کے پیر تک پکڑے تھے اس نے کہ کوئ تو رحم کرے اس پر۔۔۔!!!! پر یہ جو لوگ خود کو زمینی خدا سمجھتے ہیں نا انہیں کسی کے آنسو ،سسکیوں،یا فریادؤں سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔ان کے لیے ان کی انا قیمتی ہوتی ہے جیسے بہراور درانی اور ان کے بابا نے صرف انا کو دیکھا تھا۔اور پھر وہ معصوم سی لڑکی مرگئ پر لوٹ کر اس دہلیز تک نا آسکی۔وہ تو نہیں آئ تھی پر بہراور درانی باقاعدگی سے روز اس جگہ آتے تھے۔

چڑیوں کی چہچہاہٹ انہیں ان کے خیالوں سے نکال لائ۔اپنے ہاتھ میں موجود شاپر سے گلاب کے پھولوں کی پتیاں نکال کر انہوں نے اس قبر پر ڈالیں۔جس کی تختی پر "زکیہ زمان خان" لکھا تھا۔وہ بھی پھر ایسا روٹھی تھی کہ قبر پر شناخت کے لیے بھی اس نے اپنے قاتل کا نام لکھوالیا۔پر باپ کا نام یہاں بھی پسند نہ کیا۔۔!!!

"زکیہ ۔۔!!!!! معاف کر دینا مجھے میں پھر سے سفاک بن گیا۔۔!!!! بیٹے کی خاطر تمہاری پرچھائ قربان کردی ہے میں نے۔۔!!!! اسی مکافات عمل سے ڈرتا تھا میں۔کہ کسی دن انہی ہاتھوں سے کسی اور کا گنہگار نہ بن جاؤں ۔دیکھو پھر سے تمہارا ہی گنہگار بنا ہوں۔۔۔!!!"

انہوں نے اس کے نام کو دیکھتے کہا۔پھول ہوا کے جھونکے کے سنگ اس کی قبر پر پھیل گے۔پھر ایک اور جھونکا چلا اور ان پھولوں کو آہستہ آہستہ اس جگہ سے نیچے گراتا گیا۔جیسے یہ پھول یہاں کے لیے بنے ہی نا ہوں۔یہ بھی روز ہی ہوتا تھا۔تبھی وہ زخمی سی مسکراہٹ سنگ وہیں بیٹھ گۓ۔

 "بہت برا ہوں نا میں تبھی آج تک خود سے نظریں نہیں ملا پایا۔پر اللہ گواہ ہے میں نے زرلشتہ کے معاملے میں کوئ کوتاہی نہیں کی تھی۔میں جانتا تھا تمہیں وہ کتنی عزیز ہے۔تمہاری تو جان ہے نا وہ۔۔!!!! میں اسے زندگی کی ہر خوشی دینا چاہتا تھا۔مکافات عمل سے بچنا چاہتا تھا۔پر نہیں بچ سکا۔میری بچی بھی اس رسم کی بھینٹ چڑھ گئ جس رسم نے تمہیں یہاں پہنچایا ہے۔۔!!!"

ان کی آنکھوں سے آنسو نکلتے گۓ۔انہیں یاد تھا اس گھر سے جانے سے پہلے وہ ان سے کہہ کر گئ تھیں کہ ان کے بابا تو اپنی بیٹی کے معاملے میں بے حس بن گۓ۔پر وہ اپنی بیٹی کے معاملے میں ایسی بے حسی نا دکھائیں۔پر انہوں نے یہ وعدہ بھی نا نبھایا۔۔!!!!

 پھر کافی دیر تک وہ وہیں بیٹھے زکیہ سے معافی مانگتے رہے اور کہتے رہے کہ وہ زرلشتہ کے حق میں اللہ سے سفارش کرے کہ ان کی بیٹی زندہ سلامت ان کے پاس واپس آجاۓ۔اتنی بڑی سزا وہ نہیں جھیل پائیں گے۔۔۔!!!!!

سورج کی روشنی جب چارسو پھیلنے لگی تو وہ ان آنسوؤں کو پونچھ کر اٹھ بیٹھے۔ایک نظر اس کی قبر پر ڈالی جہاں چند پھول ہی بکھرے تھے۔پھر اپنا حسارہ یاد کرتے وہاں سے نکل گۓ۔پر یوں لگا جیسے اس وقت کوئ اور بھی وہاں تھا۔جو بس دور سے ہی یہ سب دیکھتا رہا۔پر پاس نا آیا ۔جیسے کوئ ابھی بھی اسی ویران قبر کو تک رہا تھا۔بہراور درانی تو چلے گۓ پر وہ نفس وہاں سے نا ہلا۔جب تک کہ روشنی گہری نا ہوگئ۔

اس ویرانی میں جیسے کسی کی سسکی گونجی تھی۔کوئ تھا جو رونے کو ایک کونا ڈھونڈ کر وہیں بیٹھ گیا تھا۔

     ملتے ہیں شبُ و روز سبھی لوگ شناسا

      اک تم سے ملاقات کا ارمان بہت ہے _!

"ظالم ہو تم بہراور درانی ظالم۔۔۔!!!!!! فطرت چاہے انسان کی ہو یا جانور کی کبھی نہیں بدلتی ۔!!! یااللہ جو ظلم سترہ سال پہلے ہوا اسے دوبارہ نہ ہونے دینا۔کسی کو زکیہ نا بننے دینا یا الہی۔۔!!!"

اس نفس کی آنکھوں میں درد تھا بہت درد۔۔!!!

وہ کیوں یہاں آیا ۔۔؟؟ کون تھا وہ۔۔؟؟؟ 

اس ویران قبر کے علاؤہ کسی کو نہیں پتہ تھا۔

 •┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

زرلشتہ کا سامان پیک کر کے کار میں رکھ دیا گیا تھا۔وہ جارہی تھی اپنے محل کو چھوڑ کر۔اپنی خواب نگری سے نکل کر اب اسے حقیقت کی دنیا سے ملنا تھا۔جو اس جیسی نازک اندام لڑکی کے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔

"زرلش میری جان ۔!!!! یہ آنٹی کیا کہہ رہی ہیں ۔تم کیا سچ میں ونی ہورہی ہو۔۔!!!"

ژالے نے اپنا بیگ وہیں صوفے پر رکھا اور اداسی کی تصویر بنی زرلشتہ کے پاس آبیٹھی۔اس کے لہجے میں تکلیف تھی اور پشیمانی بھی۔۔!!!!

زرلشتہ اسے دیکھتے ہی اس کے گلے لگ گئ۔کب سے وہ کسی سہارے کی تلاش میں تھی جس کے گلے لگ کر رو سکے۔اس کی آنکھیں رونے کی وجہ سے اب سرخ ہورہی تھیں۔آخر کل سے وہ لگاتار رو رو کر اگلے پچھلے ریکارڈ جو توڑ چکی تھی۔

"ژالے میں اتنی مار کسیے کھاؤں گی۔۔!!!! کوئ کھانے لائق شے ہوتی تو دکھ نہیں تھا۔پر مار تو کریلے سے بھی بری ہوتی ہے ۔کریلے سے یاد آیا وہ ظالم شخص تو مجھے زمین پر سلاۓ گا۔ میری تو کمر ہی اکڑ جاۓ گی۔۔۔!!!

ہاۓ یہ سلوک میں کیسے سہوں گی۔۔!!!!"

زرلشتہ نے رندھی آواز میں کہا۔ژالے کو یہ مزاق بھاری پڑ چکا تھا۔اسے یہاں آکر ابھی پتہ لگا تھا کہ وہ کل سچ کہہ رہی تھی ۔اب اسے فکر تھی کہ یہ ڈرپوک لڑکی جو یہاں سے جانے سے پہلے ہی مرنے والی ہوگئ ہے وہاں کیسے رہے گی ۔اس کی تو ہمت ہی ختم ہوچکی تھی۔۔!!!

"زرلش۔۔!!!! ایسا کچھ نہیں ہوگا۔اگر تم ناول کی وجہ سے یہ سب سوچ رہی ہو تو میری جان وہ بس ایک فرضی کہانی تھی۔حقیقت سے اس کا کوئ تعلق نہیں۔۔۔!!! تم تو بہادر ہونا تو کیوں رو رہی ہو۔۔۔!!!"

ژالے نے اسے خود سے جدا کرکے اب اس کے دماغ سے ناول نکالنا چاہا جو اب تو ناممکن ہی تھا۔زرلشتہ نے زکام زدہ سانس کھینچا۔

"کچھ بھی فرضی نہیں ہوتا سب سچ ہوتا ہے۔میں بھی اب نہیں بچوں گی۔وہ ناول والی حرا کی طرح میں بھی اب مرجاؤں گی۔دیکھو ایسا کچھ ہوا تو تم ظالم پٹھان کو مجھ پر رونے نا دینا ۔اسے میرے حصے کی بھی باتیں سنانا۔یا پھر میرے جنازے سے ہی دور کروادینا۔ بھلا مجھے مار کر اور مگرمچھ کے آنسو بہا کر وہ کیا سمجھتا ہے مجھ سے معافی لے لے گا۔ہمدردیاں بٹور لے گا۔نہیں۔۔!!!

اس کے آنسو مجھے غصہ دلائیں گے تو تم فورا اسے وہاں سے ہٹوادینا ۔کہیں میں بدروح نا بن جاؤں۔صحیح ہے۔۔!!!!"

زرلشتہ نے تو مرنے کے بعد کے لیے وصیتیں بھی شروع کردی تھیں۔ژالے بھی اب اس کے ساتھ ہی روپڑی۔سرخ ناک کو ٹشو سے صاف کرکے زرلشتہ نے اب روتی ہوئ ژالے کو دیکھا۔سچ ہے آپ کو مزاق بھی سوچ سمجھ کر ہی کرنے چاہییں ورنہ نتائج ایسے ہی شرمندگی کی صورت میں نکلتے ہیں۔

"دیکھو زرلش۔۔!!! تم کوئ ناول والی حرا،سائرہ مائرہ نہیں ہو سمجھی۔۔!!!! تو اتنی دور کی پلیننگ نا کرو۔چلو تمہیں یہ تو پتہ چل گیا نا کہ ونی کی زندگی آسان نہیں ہوتی۔اور تمہاری طرح رونے دھونے والی ونی تو جاتے ہی سب کی غلام بن جاتی ہے۔اس لیے اب میں جو سمجھاؤں سمجھ لینا۔۔!!!"

اپنے لفظوں پر زور دے کے اس نے اپنے آنسو پونچھے۔اسے اب اپنی غلطی سدھارنی تھی۔

زرلشتہ نے بچوں کی طرح ہاں میں سرہلادیا۔

"دیکھو سب سے پہلے تو تم کسی کو خود پر حکمرانی نا کرنے دینا۔خاص طور پر ساس کو۔میں نے سنا ہے کہ یہ ونی ہوئ لڑکی کی ساس جو ہوتی ہے نا بڑی ہی مکار اور چالباز ہوتی ہے۔ اپنے بیٹے کے سامنے شریف اور پیٹھ پیچھے شیطان کا دوسرا روپ ۔!!!

 جیسے حرا کی ساس نے اسے کتنی مار پڑوائ تھی اس کے شوہر سے ۔۔!!! بالکل ویسے ہی۔۔!!!"

اس نے اسے سمجھایا جو خیالوں میں اس ساس سے مل بھی چکی تھی۔اس نے جھرجھری لی وہ عورت واقعی مکار تھی تبھی تو زرلشتہ کو اس سے ڈر لگ رہا تھا۔

"تم اب بہادر بن جانا۔تمہارا شوہر تمہیں زمین پر سلانے کی کوشش کرے یا بدتمیزی کرے تو تم الٹا اس پر چڑھ دوڑنا۔وہ وہ باتیں سنانا کہ اگلی بار وہ تم سے بات کرتے وقت بھی ڈرے۔اور مارنے کی اجازت کسی کو نہیں دینی۔

لیکن اگر کبھی بہادری کا انجام اچھا نا ہوتو فورا بھیگی بلی بن جانا اور کہنا میں تو مزاق کررہی تھی۔۔!!! آپ سیریس ہوگۓ۔ !!!"

ژالے نے زبردستی ہنس کر کہا۔ ایسے ہی مشورے دینے والے ہوتے ہیں جن کی مان کر بندہ پچھتاتا ہی ہے بس۔۔!!!! زرلشتہ نے دوسرا ٹشو نکالا اور اسے تھمایا ۔

"ظالم پٹھان کے آگے میں نے زبان چلائ تو وہ میری زبان ہی کاٹ دے گا۔۔۔۔!!!! میں نے مرجانا ہے ژالے ۔۔۔!!!! آخری بار مل لو۔پتہ نہیں پھر قسمت میں تم سے دوبارا ملنا لکھا ہو یا نہ ہو۔۔!!!"

زرلشتہ اس کے گلے لگی جو اب کی بار رونے میں اس کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔

"زرلش ایسے تو نا بولو۔۔۔!!!! تم اتنی پیاری ہو تمہیں کوئ مار ہی نہیں سکتا۔۔!!!! ہم پھر ضرور ملیں گے میری جان۔۔!!"

ژالے نے کمزور سی تسلی دی۔اتنے میں دروازہ کھلا اور رخمینہ بیگم سپاٹ چہرہ لیے کمرے میں آئیں ان کی بے رخی نے زرلشتہ کا دل دکھایا تھا۔کہ جاتے وقت کم از کم یہ بے رخی تو نا دکھائیں۔اس کا دل کیا کہ وہ اسے پیار کریں تاکہ اس آخری لمحے کو یاد کرکے اپنا درد کم کرسکے ۔

لیکن رخمینہ بیگم نے بیڈ سے سیاہ رنگ کی شال اٹھائ اور اس کے سر پر دی وہ پوری طرح اس شال میں چھپ گئ تھی 

"جو تمہارے بابا کہیں وہی کرنا۔تمہارے بھائ کی  زندگی اب تمہارے ہاتھ میں ہے بچا سکتی ہو تو بچا لینا اسے۔۔!!!"

سرد سے انداز میں کہہ کر انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ کھینچ کر لے جانے لگیں۔وہ سخت بن رہی تھیں تاکہ ہمت نا ٹوٹ جاۓ۔وہ اسے دیکھنا نہیں چاہتی تھیں کیونکہ انہیں یقین تھا ایسا کرنے سے وہ اپنا ضبط کھو بیٹھیں گی۔

گاڑی کے پاس بہراور درانی بھی کھڑے تھے۔انہون نے گاڑی کا دروازہ کھولا تو زرلشتہ ایک ناراض نگاہ ان دونوں پر ڈال کر پیچھے کھڑی ژالے کو ہاتھ کے اشارے سے اللہ حافظ کہہ کر گاڑی میں بیٹھ گئ۔ انہوں نے گاڑی کا دروازہ بند کردیا اور فرنٹ سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ گۓ۔

"یا اللہ اب میرا بس تو ہی ہے۔مجھے بہادر بنادے یا اللہ۔۔۔!!!!"

شال مٹھی میں دبوچ کر وہ گاڑی کے دروازے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔

رخمینہ بیگم اس وقت تک گاڑی کو دیکھتی رہیں جب تک وہ نظروں سے اوجھل نا ہوگئ۔ اور ژالے وہیں سے واپسی کے لیے نکل گئ۔

"یا اللہ میری بچی کی حفاظت کرنا ۔اسے زندہ رکھنا ۔اسے کھونے کا حوصلہ نہیں ہے مجھ میں ۔۔!!!"

اپنے آنسو صاف کرتے انہوں نے دعا کی اور اس لمحے میں اجڑے گھر میں واپس داخل ہوگئیں۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

دراب آفریدی اور درمان آفریدی جرگے میں پہنچ چکے تھے۔نکاح خواں وہاں پہلے سے موجود تھا۔درمان بس اپنے بابا کی بلیک میلنگ کی وجہ سے آیا تھا۔ کوئ اسے دیکھ کر مانتا ہی نا کہ یہ بندی کل مرتا مرتا بچا ہے۔بلاشبہ اس کی پرسنیلٹی کسی کو بھی زیر کرنے کو کافی تھی وہ بار بار اپنی کلائی پر بندھی گھڑی سے وقت دیکھ رہا تھا۔

ایک گاڑی دھول اڑاتی جرگے کے مقام سے ذرا فاصلے پر رکی۔اس کے رکتے ہی ان کے پیچھے موجود دوسری گاڑیاں بھی رک گئیں۔دوسری گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول کر بہراور درانی باہر نکلے۔اور پچھلی سائیڈ کا دروازہ کھولا انہیں دیکھ کر درمان کا حلق تک کڑوا ہوا تھا۔اس نے آنکھیں پھیر لیں ۔زرلشتہ منہ بناتے گاڑی سے باہر نکلی اور اپنی شال ٹھیک کی۔جو سنبھالے نا سنبھل رہی تھی۔دل تو اس کا کیا کہ یہیں سے بھاگ جاۓ پر بھاگ کر جاتی کہاں۔۔!!!

اس سے پچھلی گاڑی سے دیار درانی باہر نکلا۔تو اسے دیکھ کر زرلشتہ نے اپنے اس ارادے پر سر جھٹکا۔وہ کم عقل ضرور تھی پر اپنے لالہ پر جان دیتی تھی یہاں جان دینے ہی تو آئ تھی 

بہراور درانی کے پیچھے چلتے اس کی آنکھیں اس جرگے کے مقام کا جائزہ لے رہی تھیں۔اسی دوران اس کا پاؤں کسی شے سے ٹکرایا اور وہ گرتے گرتے بچی۔

"ہاں تم بھی میرے دشمن بن جاؤں ۔نکما۔۔!!"

اس پتھر کو ٹھوکر مار کر وہ بڑبڑائ۔

ایک نشست پر انہوں نے زرلشتہ کو بیٹھنے کو کہا اور خود بائیں طرف کھڑے ہوگۓ۔دیار بھی اس کے دائیں طرف کھڑا ہوگیا نظریں دوسری سمت تھیں۔

درمان بھی اس طرف دیکھنے کو تیار نا تھا۔یہ سب اس کے نزدیک بس ایک فارمیلیٹی تھی۔ کچھ دیر بعد نکاح کی کاروائی شروع ہوئ درمان نے رضامندی کا اظہار یوں دیا جیسے بہت بڑا احسان کررہا ہو ان سب پر۔جبکہ زرلشتہ تھوڑا حیران تھی کہ یہاں نکاح ہی ہورہا ہے نا۔جیسے اس نے پڑھا تھا ویسا تو کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔نہ کوئ چیخا،نہ کسی نے اسے مارا،نہ کوئ دھاڑا ،نہ گولیاں چلیں نا کسی نے گن پوائنٹ پر اسے نکاح کے لیے راضی کیا 

اس نے کندھے اچکاۓ کہ چلو کچھ تو اچھا ہوہی گیا۔باقی کی ہمت اسے حالات دے دیتے ۔

نکاح نامے پر دستخط کرتے اس نے اپنے دائیں طرف کھڑے اپنے بابا کو دیکھا۔

"انگلش میں کروں یا اردو میں یا پھر پشتو میں نام لکھوں۔۔۔۔!!! یہ بھی تو بتائیں بابا جانی ۔۔!!!"

آنکھیں پٹپٹاتے اس نے عجیب سا سوال کیا۔تمام لوگوں کی نظریں اسی طرف اٹھی تھیں جسے نکاح نامے پر دستخط کس زبان میں کرنے ہیں اس بات کی فکر تھی۔درمان بھی چونکا ضرور اس انوکھے سوال پر۔لیکن اس نے سر جھٹک دیا ۔

بہراور درانی نے آنکھیں بند کرکے گہرا سانس خارج کیا۔

"جس زبان میں بھی لکھنا ہے لکھ دو ۔۔!!!!"

انہوں نے اسے سائن کرنے کو کہا جس کی کنفیوژن اب بھی ویسی کی ویسی تھی ۔

"پورا لکھوں یا آدھا نام لکھوں۔۔!!! مطلب میں تو زرلشتہ بہراور درانی ہوں نا تو کیا اتنا بڑا نام اس جگہ پر لکھا جاسکتا ہے۔کہیں جگہ ہی نا ختم ہوجاۓ۔اب یہ کاغذ خراب ہوا تو آپ پھر مجھ پر ہی غصہ ہوں گے۔اب آپ کو میں اچھی جو نہیں لگتی ۔۔!!!"

خفگی سے انہیں دیکھتے زرلشتہ نے منہ بنایا۔سارے لوگوں کی نظریں شال میں چھپے اس وجود پر ہی تھیں۔وہ حیران تھے کہ جن لڑکیوں کی شادی پورے رسم و رواج سے ہوتی ہے وہ ایسے سوال نہیں پوچھتی یہ تو پھر بھی صلح کی خاطر نکاح کررہی ہے۔نا کوئ پچکچاہٹ،نا رونا نا کوئ فریاد ۔۔!!!!

وہ حیران تھے۔۔۔۔!!!!

"کوئ اور ہی مجھے بتادو۔میں ان سے ناراض ہوں۔مجھے نہیں بولنا ان سے۔۔۔!!!"

بھرے جرگے میں ناراضگی کا اعلان کرتے اس نے منہ بسورا۔اسے کوئ فرق نہیں پڑتا تھا کہ لوگ کیا سوچیں گے اس کے بارے میں۔درمان نے اسے نکاح اتنا ڈریگ کرتے دیکھا تو اسے انتہا کا غصہ آیا جسے مٹھیاں بھینچ کر وہ روک گیا ۔

"ڈرامے ہیں سارے اس لڑکی کے ۔۔!!! میری بلا سے بھاڑ میں جاۓ۔۔!!!"

اس نے رخ موڑ لیا۔بہراور درانی بھی لوگوں کی حیرانگی بھانپ گۓ تھے۔تبھی جھک کر اسے سمجھانا چاہا۔

"بیٹا جیسے آپ سائن کرتی ہو اپنے نام کے ویسے ہی کردو۔ٹھیک ہے اب کوئ سوال نہیں۔۔!!!!"

اتنے روکھے انداز میں ہوتے نکاح پر اس نے بیزاریت سے سائن کیے اور معاملہ ختم کیا۔وہ لمحے میں زرلشتہ درمان آفریدی بن چکی تھی۔وہ کسی اور کی ہوچکی تھی۔اور نا اسے فرق پڑا تھا نا اس شخص کو جس کے نام یہ لڑکی ہوئ تھی۔۔۔!!!!

سردار غیث نے اسی وقت انہیں زرلشتہ کو درمان کو سونپنے کو کہا۔تاکہ معاملہ امن سے حل کیا جاۓ۔بظاہر دونوں فریق ٹھنڈے پڑگۓ لیکن آگ اب بھی دونوں طرف برابر لگی تھی 

درمان کو فدیان چاہیے تھا تو اب دیار کو زرلشتہ ۔۔!!!!

زرلشتہ بھی اٹھ گئ اور وہاں کھڑے دیار کو دیکھا۔آنسوؤں کا پھندا اس کے گلے میں اٹکا وہ بس اسے دیکھتی رہی کہ شاید وہ خود آخری بار اس سے مل لے پر وہ بھی پتھر کا بت بنا کھڑا تھا۔

زرلشتہ خود ہی اس کے گلے لگی اور رونے لگی زرلشتہ کی آواز سن کر دیار کا سکتہ ٹوٹا تو اس نے زرلشتہ کے گرد بازوؤں کا حصار بنایا ۔

"معاف کر دو زرلشتہ مجھے۔۔!! میں تمہاری حفاظت نہیں کرسکا "

دیار کی آواز بکھری اور بے رحم آنسو ان سرمئ آنکھوں سے بہنے لگے وہ بے بسی کی انتہا پر کھڑا تھا۔جو اپنی ہی بہن کی تکلیف کی وجہ بن گیا۔

"لالہ میں کیسے رہوں گی آپ کے بغیر۔۔۔!!!!! لالہ مجھے چھپا لیں کہیں۔لالہ جان یہ کیا ہوگیا ۔!!"

روتے ہوۓ اس نے سر اٹھایا۔تو دیار اس کی سوجھی آنکھیں دیکھ کر لب بھینچ کر رہ گیا۔

"لالہ جان روئیں تو مت۔۔!!! جاتے ہوؤں کو ایسے رخصت نہیں کرتے۔آپ بے قصور ہو یہ بات جلد ثابت کردینا۔۔!!!"

دیار کے آنسو پونچھ کر اس نے تائید چاہی تو دیار بس سر ہلا کر رہ گیا۔کسی اور کی سماعتوں تک یہ آواز نا ٹکڑائ تھی۔لیکن بہن بھائ کو روتے ان سب نے دیکھا تھا 

"میرے بچے۔۔!!!! اپنا خیال رکھنا ۔لالہ جلد اپنی بے گناہی ثابت کرنے تمہیں واپس لے آئیں گے۔۔!!!"

اس نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔جو نم آنکھوں سے مسکرانے لگی۔ایک دوسرے کو ہنسانا وہ دونوں باخوبی جانتے تھے ۔

درمان کو لگا اب یہ لڑکی رونا دھونا ڈالے گی کہ اسی کہیں نہیں جانا۔چیخے گی چلاۓ گی۔اور وقت مزید برباد ہوگا۔تو وہ خود سے جڑے اس وجود کو دیکھے بغیر اپنی گاڑی میں تن فن کرتا نکل گیا ۔اسے رتی برابر بھی پرواہ نہیں تھی کہ اس کا نکاح ہوا ہے ابھی۔

بہراور درانی بھی اسی جگہ کھڑے تھے۔ان کا دل چاہا کہ بیٹی کو سینے سے لگائیں۔اس کے آنسو پونچھے ہر یہ ناراضگی کی دیوار انہوں نے ہی کھڑی کی تھی۔

"زرلشتہ جانے سے پہلے ایک بار تو مل لو ۔۔!!!"

انہوں نے دل میں کہا۔

"واہ بابا جانی۔۔!!!!! عجلت میں سامان پیک کرواکر بیٹی کو ونی کردیا ۔پھر خود ہی روٹھی محبوبہ بنے کھڑے ہیں دیکھنا بھی گوارہ نہیں کررہے مجھے۔۔۔!!!! آپ بھول گے کہ میں بھی آپ کا ہی خون ہوں۔ایٹیٹیوڈ دکھانے میں آپ سے دو کیا دس ہاتھ آگے ہوں۔۔۔!!!!"

اس نے چور نظروں سے اس طرف دیکھتے دل میں کہا۔پھر اپنے بھائ سے آخری بار مل کر اپنی شال درست کرکے دراب آفریدی کی طرف بڑھ گئ جو اسی کے انتظار میں کھڑے تھے۔درمان تو جاچکا تھا اب زرلشتہ کو گھر لے جانے کی ذمہ داری ان کی تھی۔

"اگر آرام سے کہہ دیتے کہ تمہارے جانے سے تمہارا بھائ بچ جاۓ گا تو میں نے کونسا دھرنا دے دینا تھا۔یا بغاوت کا اعلان کردیا تھا۔

لیکن مما اور بابا نے تو مجھے خالی ڈبے سے بھی گیا گزرا سمجھا۔اسے بھی مجھ سے زیادہ ہی عزت ملتی ہو گی۔۔۔!!!! پہلے گھسیٹ کر گاڑی میں پھینکا اور پھر منہ پر سامان دے مارا کہ نکلو یہاں سے۔۔۔!!!

 ایسا سلوک تو چوروں کے ساتھ بھی نہیں ہوتا۔جیسا میرے سگے ماں باپ نے میرے ساتھ کیا۔۔۔!!! میرا باپ تو نیوٹن کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔درخت ایسے گھور رہے ہیں جیسے گریویٹی سے اگلا تصور انہوں نے ہی پیش کرنا ہے۔۔!!!"

جاتے وقت وہ انہیں گھور کر گئ جو اس طرف دیکھ ہی نہیں رہے تھے۔پھر بڑبڑاتے ہوئے گاڑی کے پاس آئ یہ بڑبڑاہٹ دراب آفریدی نے بھی سنی تھی۔ جو غور سے اس لڑکی کا غصہ دیکھ رہے تھے۔ یہ باتیں اور طنز کرنے میں انہیں کسی کی یاد دلاگئ تھی۔

وہیں زرلشتہ نے خود ہی گاڑی کا دروازہ دھرام سے بند کیا۔تو دراب آفریدی بھی اگلی سیٹ پر آکر بیٹھ گۓ۔اور گاڑی سٹارٹ ہوگئ۔

"بچ گئ تو پھر ملوں گی ان سب سے۔۔!!! شکر ہے میں خود ہی گاڑی میں آکر بیٹھ گئ ورنہ یہ لوگ مجھے گھسیٹ پر بٹھاتے ۔توبہ کل سے اپنا آپ مجھے سٹور میں پڑی کسی چیز جیسا لگ رہا ہے جسے کبھی یہاں تو کبھی وہاں پھینک کر لوگ مطمئن ہورہے ہیں ۔۔۔!!!!"

اس نے جھرجھری لی۔اور گاڑی کے شیشے سے دور ہوتے اپنے باپ اور بھائ کو دیکھا۔

"اللہ حافظ۔۔!!!"

انہیں دیکھ کر وہ واپس سے اپنی سیٹ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

گاڑی چلنے کی آواز پر بہراور آفریدی اپنے خیالوں سے نکل آۓ۔اور زرلشتہ کو دیکھنا چاہا۔جہاں اب کوئ بھی نہیں تھا۔سب لوگ جاچکے تھے۔ان کا دل دکھا کہ وہ آخری بار اس سے ملی بھی نہیں۔۔!!!! اسے یوں رخصت کرنے کا تصور بھی نہیں کیا تھا انہوں نے۔بیٹیاں یوں تو رخصت نہیں ہوتیں۔

ان کے دل سے آواز آئ۔

"جن کے باپ انہیں بے مول کردیں وہ ایسے ہی بغیر کسی خوشی،اور بغیر دعاؤں کے ہی رخصت ہوتی ہیں۔۔!!!

ان کے ضمیر نے کہا۔تو وہ سر جھکا گۓ۔سچ سے فرار ممکن نہیں ۔!!!!

وہ ناراض گئ تھی۔جیسے ان کی بہن ان سے ناراض ہوکر گئ تھی۔دیار نے بھی خود پر سختی کا خول چڑھایا۔

"باباجان یاد رکھیے گا سالوں پہلے جو پھپھو کے ساتھ ہوا۔وہی سب میری بہن کے ساتھ اگر ہوا تو میں ان لوگوں کو برباد کرکے رکھ دوں گا۔میں بے قصور تھا پر اگر کچھ غلط ہوا تو ان سب کے قتل کا ذمہ دار میں ہی ہوں گا اور آخر میں آپ میری بھی شکل دیکھنے کو ترس جائیں گے۔  !!!"

اپنی بات کہہ کر وہ وہاں رکا نہیں بلکہ وہاں سے چلا گیا۔پیچھے وہ اذیت بھرا سانس کھینچ کر اس جگہ کو تکتے رہے جہاں ان کی بیٹی کی قسمت کا فیصلہ ہوا تھا۔نا اب کچھ کہنے کو تھا نا سننے کو۔وقت لوٹ کر آیا تھا اور انہیں ایک بار پھر خالی ہاتھ کرکے گیا تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"وشہ۔۔۔!!!! میرا خون کھول رہا ہے اس ونی کا سوچ سوچ کر۔۔۔!!! وہ کیسے آسکتی ہے یہاں کیسے۔۔۔!!!!! "

جھنجھلاتے ہوۓ درمان کی والدہ مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ چکر کاٹ رہی تھیں۔بارعب شخصیت ،آنکھوں میں سختی ،اور لہجہ اکڑ سے لبریز تھا۔

"مورے جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔۔۔!!!! قبول کرلیں یہ سب۔۔!!!! یہی ہمارے حق میں بہتر ہے اور اس سب میں اس لڑکی کا کیا قصور ۔۔؟؟؟ وہ بے قصور ہے تو اسے سزا بھی نہیں ملنی چاہیے۔قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ کسی مجرم کے کیے کی سزا کسی بے قصور کو دی جاۓ۔اور اسلام میں بھی تو ہمیں یہ سب کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے ۔تو آپ کیوں گنہگار بننا چاہتی ہیں۔چھوڑ دیں یہ غصہ۔۔!!!!"

وشہ نے مدھم سی آواز میں کہا۔جب شنایہ بیگم کی شعلے برساتی نگاہ دیکھ کر وہ سہم کر آنکھیں جھکا گئ۔

"اسی لیے منع کیا تھا تمہارے بھائ اور باپ کو کہ اس لڑکی کو پڑھنے کے لیے شہر کی راہ نا دکھائیں۔چار کتابیں کیا پڑھ لیں ماں کو ہی صحیح غلط سکھانے لگی ہے ۔وشہ حالات پر سمجھوتہ نہیں کیا جاتا ،حالات سے لڑاجاتا ہے اور جو لڑکی یہاں آرہی ہے میں اسے کبھی قبول نہیں کروں گی اپنے بیٹوں کی تکلیف کا حساب اسی سے لوں گی۔اور تم یہ قانون کی باتیں کسی اور کو سمجھاؤ۔۔ !!!!"

کرخت لہجے میں اپنے اندر کی نفرت کو ظاہر کرتے انہوں نے وشہ کو بھی چپ کروادیا۔جو انہیں سمجھا سمجھا کر تھک چکی تھی کہ اس لڑکی کا کوئ قصور نہیں اس لیے اس سے دور ہی رہیے گا پر وہ تھیں کہ سمجھنے کو تیار نا تھیں۔

وہ کسی کے ناکردہ گناہ کی سزا ایک بے قصور کو دینا چاہتی تھیں جو سراسر غلط تھا ایک غلط فیصلہ جرگے نے کیا تو دوسرا غلط عزم انہوں نے کرلیا تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"گاڑی عالیشان عمارت کی حدود پار کرتی اس محل نما گھر میں داخل ہوئے زرلشتہ نے نظر اٹھا کر شیشے سے ہی اس محل کو دیکھا۔جو ان کے گھر سے کم نہ تھا ۔

گاڑی رک چکی تھی مطلب یہی اس کا قید خانہ تھا۔اس نے گاڑی کا دروازہ زور لگا کر کھولنا چاہا۔یہ کام بھی اس کے بس سے باہر تھا۔آج تک اس نے خود ہل کر پانی بھی نہیں پیا تھا۔البتہ سارے گھر کا کباڑا،سب کا سکون خراب اور جینا مشکل وہ انہی ہاتھوں سے کرتی تھی۔

دراب آفریدی نے گاڑی کا دروازہ کھول کر اس کی مشکل آسان کی جو دیر کیے بنا گاڑی سے باہر نکلی۔

"اگر کوئ کچھ کہے تو جواب نہ دیجۓ گا اسے ۔ہم بات سنبھال لیں گے۔اور درمان کے کمرے سے بھی بلا ضرورت مت نکلیے گا۔سمجھی آپ ۔!!!"

حویلی میں داخل ہوتے انہوں نے اسے ہدایت دی ۔جو شال سنبھال رہی تھی۔

"پورے راستے انہوں نے کوئ بات نہیں کی تھی۔مجھے لگا کہ یہ شاید خدانخواستہ بول نہیں سکتے۔چلو شکر ہے یہ بھی بول سکتے ہیں۔ویسے اگر کوئ دوچار باتیں کرلیتے تو میں نے کیا ان کی جائیداد نام لگوا لینی تھی یا زمینیں چھین لینی تھیں۔۔!!!!!

سارے لوگ ہی غصے والے ہیں۔اب بیٹا پتہ نہیں کیسا ہو گا ان کا۔۔۔!!!!!"

ان کے پیچھے چلتے اس نے ان کی پشت کو گھورا۔پھر درمان کے بارے میں سوچا۔تو ذرا سا ڈری بھی۔

ان کے گھر میں آنے کی دیر تھی لاؤنج میں کھڑی شنایہ بیگم نے ایک حقارت بھری نظر زرلشتہ پر ڈالی جس نے غور سے اس نظر کو دیکھا تھا۔

"سردار اسے آپ یہاں لے آۓ ہیں یہی بہت ہے اس سے زیادہ مجھ سے کوئ امید نا رکھیے گا۔اسے سٹور میں پھینکوادیں۔مجھے یہ اپنی نظروں کے سامنے نا دکھے ۔۔۔!!!"

اپنی بات کہہ کر انہوں نے رخ موڑا۔زرلشتہ تو سٹور کا نام سن کر ہی منہ کھول چکی تھی اسے اپنی ساس سے یہی امید تھی۔

اس نے تو خود کو سٹور میں پھینکا جاتا امیجن بھی کرلیا۔

"سردارنی صاحبہ۔۔۔!!!! میں ونی ہوں کوئ ٹین کا ڈبہ نہیں جسے آپ سٹور میں پھینکوا رہی ہیں۔بھینج بھی نہیں رہیں سیدھا ہی پھینک رہی ہیں۔۔۔!!!!! 

اور آپ سردار صاحب۔۔!!! کیسے سردار ہیں آپ جو بیوی کی باتیں سن رہے ہیں ان کا حکم مان رہے ہیں وہ آپ کے بیٹے کی بیوی کو آپ کی سامنے سٹور میں پھینک دیں گی اور آپ اچھے بچوں کی طرح  ہاں میں ہاں ملادیجۓ گا۔۔۔۔!!!!"

اپنا کھلا منہ بند کرکے اس نے اپنی زبان کھول لی۔جس کے جوہروں سے تو یہ لوگ ناواقف ہی اچھے تھے۔اس نے تہیہ کیا تھا کہ جاتے ہی اپنی بہادری دکھاۓ گی اور وہ دکھا رہی تھی۔شنایہ بیگم کا رعب لمحے کے لیے پھیکا پڑا۔وہیں وشہ اس لڑکی کی باتیں اور اپنی ماں کا چہرہ دیکھ کر ہی اپنی مسکراہٹ دبا رہی تھی۔

"میں نہیں جاؤں گی کسی سٹور روم میں۔۔!!! سن لیں آپ کان کھول کر...!!!!! یہ کیا بات ہوئ کہ بجاۓ جھگڑنے کے آپ لوگ مجھے منظرعام سے ہی ہٹا رہے ہیں ۔!!!"

منہ پھلا کر ضدی بچوں کی طرح اپنا فیصلہ سنایا گیا۔شنایہ بیگم غصہ سے اس لڑکی کی طرف بڑھیں تاکہ اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیں کہ یہ ونی ہوکر کیسے ان کے خلاف جاسکتی ہیں۔پر راستے میں ہی دراب آفریدی انہیں روک گۓ۔

"شنایہ بیگم۔۔۔!!!! یہاں وہ ہوگا جو ہم چاہیں گے۔۔۔!!!! یہ حکمیہ لہجے ہمیں پسند نہیں۔اس لیے آنکھیں نیچی کرکے بات کیا کریں ہم سے۔۔!!!!"

شنایہ بیگم کا سر جھکا ۔پر غصہ اب بھی ویسا کا ویسا ہی تھا۔

زرلشتہ کی جان میں جان آئ کہ یہ سٹور نامی بلا سے اس کی جان تو چھوٹی۔ وہیں شنایہ بیگم کا ضبط سے سرخ ہوتا چہرہ دیکھ کر ان حالات میں بھی وہ ہنسی نا روک سکی۔جو اس کے چہرے پر چھا چکی تھی۔

"وشہ۔۔!!!! زرلشتہ بیٹی کو کمرے میں چھوڑ کر آئیں۔ان کا ساران سامان بھی وہیں شفٹ کروادیجۓ گا۔۔۔!!!"

وشہ کو حکم دے کر وہ وہاں سے نکل گے۔پر جاتے جاتے بھی ایک تنبیہی نگاہ شنایہ بیگم ہر ڈالنا نا بھولے تھے۔جو اندر تک جل بھن چکی تھیں۔

وشہ زرلشتہ کو کمرے میں لے جانے لگی جب انہوں نے زرلشتہ کو بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔زرلشتہ کی چیخ نکلی۔ اس کا بازو اتنی سخت گرفت میں ٹوٹنے والا تھا 

"میرے سامنے زیادہ زبان چلانے کی ضرورت نہیں۔۔!!!! سمجھی تم۔۔۔!!!! ورنہ کھڑے کھڑے مروادوں گی۔تم درمان کے نکاح میں ہو پر بھولو مت ہوتو ایک ونی ہی نا۔۔!!!! جلد یا بدیر اپنی اصل جگہ پہنچ ہی جاؤ گی۔۔۔!!!"

وہ پھنکاریں۔زرلشتہ نے اپنا بازو چھڑوایا۔وشہ اپنی ماں پر افسوس بھری نگاہ ہی ڈال سکی۔جنہیں کسی کی بات سے فرق نہیں پڑتا تھا۔

"سردارنی صاحبہ یہ بات آرام سے بھی ہوسکتی تھی۔مارنے کی ضرورت نہیں تھی۔اور میری زبان چلتی نہیں ہے منہ میں ہی رہتی ہے ۔۔!!!! کیا آپ نے کبھی کسی کی زبان کو چلتے دیکھا ۔۔!!! نہیں نا۔۔۔!!!! 

یا یہ نیوز سنی کی فلاں بندے کی تیز تیز چلتی زبان کسی ٹرک کے نیچے آگئ یا پہاڑی سے گرگئ۔یا کسی بندے کی زبان صبح منہ سے نکلی تھی پر ابھی تک گھر نہیں آئ جسے بھی دکھے فورا اطلاع کرے اطلاع دینے والے کو پیرس کا رٹن ٹکٹ دیا جاۓ گا۔نہیں نا ۔۔!!!!"

وہ بھی زرلشتہ تھی پیچھے رہنا اس نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ اپنا بازو سہلاتے اس نے بھی ویسے ہی کہا۔شنایہ بیگم بوکھلا گئیں۔کہ یہ کیا چیز ہے۔۔۔!!!!

بجاۓ ڈرنے یا رونے کے یہ آگے سے فرفر جواب دے رہی ہے۔پر وہ کہاں جانتی تھیں کہ زرلشتہ کے نزدیک وہ ناول والی ساس یعنی لیڈی ہٹلر جیسی ہیں جس سے بچنا اس کی اولین ترجیح ہے 

"آپ مجھے میرے کمرے کا راستہ بتادیں ۔مطلب میرے کیوٹ پٹھان کے کمرے کا۔۔!!!! ویسے وہ کیوٹ تو ہیں نا۔مطلب زیادہ غصے والے تو نہیں۔۔!!!"

اپنا بازو چھوڑ کر اس نے اب وشہ کو بلایا۔جو اس کی وجہ سے اپنی ماں کا بوکھلایا چہرہ دیکھ کر مخظوض ہورہی تھی۔

"بہت کیوٹ ہیں۔۔!!!!! یہی سمجھیں کیوٹنس ان پر آکر ختم ہوجاتی ہے۔(ختم ہی ہونی ہے اس کے زہر کے آگے بھلا کوئ شے کب تک صحیح سلامت بچی رہے گی) شام میں آئیں گے تو دیکھ لیجۓ گا ۔ابھی چلیں یہاں سے۔۔!!!"

وشہ نے ہنستے ہوۓ کہا۔یہ لڑکی اسے پسند آئ تھی۔اس کا ہاتھ نرمی سے پکڑتے وہ اپنی ماں کی نظروں کے سامنے سے اسے لے گئ۔جو اسے مارنے کی کوشش بھی کرسکتی تھیں۔

پیچھے شنایہ بیگم سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔کہ یہ لڑکی کیا بولنے سے پہلے سوچتی نہیں ہے۔تو جواب تھا وہ بولنے کے بعد بھی نہیں سوچتی ۔

پھر وہ مسکرائیں کی چلو اچھا ہے خود ہی درمان کے ہاتھوں سے ہی مرے گی۔

"سوچا تھا پرستان جاؤں گی اپنے کیوٹ پٹھان کے ساتھ۔پر یہاں تو لگتا ہے کوہِ قاف آگئ ہوں۔۔ !!!! اتنا سادہ کمرہ اللہ دشمن کو بھی نا دے۔۔۔!!!!"

کمرے پر زرلشتہ نے بیزار سی نگاہ ڈالی۔جو جدید دور کے حساب سے بالکل پرفیکٹ تھا۔سٹائلش گرے کرٹنز (جو کھڑکیوں کی رونق بڑھارہے تھے) جہازی سائز بیڈ (جس پر گرے ویلوٹ کی بیڈ شیٹ بچھی تھی۔اور گرے کلر کے ہی پلووز نفاست سے رکھے گۓ تھے)۔

ایک طرف رکھے صوفے (جن کے وسط میں سجے تھری سیٹر صوفے پر گرے کوشنز پوری شان سے براجمان تھے۔) ان کے آگے رکھے ٹیبل پر خوبصورت سا شو پیس۔۔۔۔!!!!!

دیواروں پر لگے فریمز ،اور سب سے خوفناک چیز جسے دیکھ کر زرلشتہ کانپ اٹھی وہ تھا اسلحہ(بندوقیں جنہیں دیواروں کے ساتھ اٹیچ کیا گیا تھا۔یہی نہیں وہاں دوسری طرف ایسی ہی عجیب چیزیں سجا کر بھی رکھی گئ تھیں۔)

"استغفر اللہ ۔۔ !!!!! میں کہیں طالبان کے اڈے پر تو نہیں آگئ۔کھلے عام اسلحے کی نمائش ۔!!!!! انہی پولیس سے ڈر نہیں لگتا کیا۔۔!!!! دیکھنا جس دن بھی چھاپا پڑا نا اسی دن یہ ظالم پٹھان اپنے اسلحے سمیت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوگا۔۔!!!!"

بڑبڑاتے ہوۓ اس نے نظریں پھیریں ۔اس سے زیادہ کمرے کا مشاہدہ کرنے کی ہمت اس میں نا تھی۔ جیسے پورے کمرے میں گرے کلر بکھرا تھا۔اس سے اندازا لگانا آسان تھا کہ یہ رنگ موصوف کو حد سے زیادہ پسند ہے۔تبھی تو وہ اپنی آنکھوں کو ہر جگہ بس یہی رنگ دکھانا چاہتا ہے۔

کمرہ کسی کی نفاست کا منہ بولتا شاہکار تھا۔کہ دیکھنے والا پلک جھپکانا بھی بھول جاۓ۔مگر یہاں یہ شرف جسے حاصل ہوا وہ پنک کلر کی دیوانی تھی۔اس کا پورا کمرہ بے بی پنک کلر میں نہایا ہوا تھا۔

 ٹیڈی بیئرز جو اس کے کمرے کے ہر کونے میں رکھے ہوۓ تھے۔ساتھ ہی للی(lilly )فلاور جو روز بغیر کسی ناغے کے اس کے کمرے کے واس میں رکھے جاتے تھے۔کیونکہ اسے عادت تھی صبح ان کی خوشبو سونگھ کر اٹھنے کی۔

پر یہاں تو ٹیڈی بیئر کیا کسی پھول کی سوکھی ہوئ پتی بھی نہ تھی۔

"سڑا ہوا کمرہ۔۔!!!! 19 وی صدی کی بے رنگ فلم جیسا۔۔۔!!! "

منہ بسور کر وہ وہیں بیڈ پر بیٹھی۔اور تھری سیٹر صوفے کو دیکھتے ہی سکون کا سانس لیا کہ چلو اب زمین پر نہیں سونا پڑے گا۔اب اگر اسے بیڈ نا ملتا تو صوفے پر وہ سکون سے گزارا کر لیتی۔وہ بیڈ پر نیم دراز ہوئ اور فانوس کو دیکھا۔جو اسے اپنی طرف اٹریکٹ کررہا تھا۔اس پورے کمرے میں اسے یہ ہلکی سی مسٹرڈ کلر کی روشنی نکالتا فانوس سب سے زیادہ اچھا لگا تھا۔

"ہاؤ کیوٹ۔۔!!!! جسٹ امیزنگ۔۔!!!!"

اس کی گرے آنکھیں اسی فانوس کی روشنی کی وجہ سے چمکیں۔فانوس کی روشنی بکھرنے کے بعد آہستہ آہستہ سفید ہوگئ تھی۔البتہ فانوس دیکھنے میں کسی خواب جیسا تھا۔حد سے زیادہ خوبصورت۔۔۔!!!!

"پتہ نہیں لوگ اتنے بہادر کیسے ہوتے ہیں میں تو بس کچھ دیر بہادر بن کر آئ ہوں تو ابھی تک دل سہما ہوا ہے۔کاش بہادری بھی کسی سٹور وغیرہ سے ملتی ہوتی تو مجھ سے بہادر کوئ ہوتا ہی نا۔۔!!"

اس کی آنکھیں افسوس سے جھکیں۔پھر وہ اٹھ کر بیڈ گئ۔

"بیڈ تو اچھا بھلا ہے۔سوفٹ سا۔۔!!! وہ ظالم تو کسی کھردرے تحت پر سوتا ہوگا۔یہ بیڈ تو کسی ظالم کے شایان شان ہے ہی نہیں۔۔!!! کاش میں بہادر ہوتی تو اس بیڈ پر قبضہ کرلیتی۔یہ مجھے ہی ملنا چاہیے اگر نا ملا تو خیر ہے پر ملنا چاہیے "

اس نے حسرت سے نرم میٹرس پر ہاتھ پھیرا۔مخملی بیڈ شیٹ اس کے ہاتھوں کی پوروں سے مس ہوئ تو وہ اس احساس پر مسکرائ۔یہ میٹرس اسے الٹی سیدھی حرکتوں پر اکسا رہا تھا۔

"اس بیڈ پر جمپ کرنے کا بھی اپنا ہی مزہ ہوگا۔میرے بیڈ سے بھی اچھا۔۔!!!"

بیڈ شیٹ کو مٹھی میں دبوچتے وہ اس انوکھی سوچ پر شرارتی سا مسکرائ۔اب اس کا دل بیڈ پر بچوں کی طرح کودنے کو کیا۔وہ بیوقوف تھی حد سے زیادہ بیوقوف جسے اب یاد بھی نہیں تھا کہ ناول والا ہیرا کتنا ظالم تھا۔اور اس حرکت کے نتائج خراب بھی نکل سکتے ہیں۔

"نہیں رہنے دو ٹوٹ گیا تو مسئلہ ہوجاۓ گا۔۔!!"

اپنی سوچ کو دل پر پتھر رکھ کر جھٹک کر اس نے نظروں کا زاویہ بیڈ سے پھیر لیا۔دل اکسا رہا تھا اور وہ دل کو ڈپٹ کر سر نفی میں ہلانے کے ساتھ اپنی آنکھیں بھی زور سے بند کرچکی تھی۔

"نہیں مجھے اس پر جمپ نہیں کرنا ۔۔!!!  نہیں میرے دل زیادہ شوخے نا بنو۔یہ میرا کمرہ نہیں ہے کیوں مرواؤ گے مجھے ...!!!!"

وہ وہاں سے اٹھی اور کھڑکیوں سے کرٹنز ہٹا کر باہر کا منظر دیکھنے لگی۔جہاں بس تاریکی ہی تھی۔اور اس تاریکی میں جگمگاتے خوبصورت سے ستارے۔۔!!!

رات ہوچکی تھی اور اس کے کیوٹ پٹھان کی کوئ خبر ہی نا تھی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

رات کے دس بجے کے قریب تھک ہار کر درمان واپس گھر آگیا۔جرگے سے وہ سیدھا پولیس اسٹیشن گیا تھا۔وہاں سے ہوسپٹل ڈید باڈیز کی شناخت کے لیے۔اس وقت اس کا دل کانپا تھا۔جو اپنی تکلیف پر بھی نہیں لرزا تھا۔وہ شناخت کرتے وقت لرزا۔بہت مشکل تھا یہ پتہ لگانا کہ کیا اس کا بھائ زندہ بھی ہے یا مرچکا ہے۔اس کے درد کا اندازا کوئ لگا ہی نہیں سکتا تھا۔

کوئ مرجاۓ تو صبر آہی جاتا ہے اس کی قبر کو دیکھ کر پر جب کوئ لاپتہ ہوجاۓ تب صبر آنا ناممکن سی بات ہوتی ہے۔

کیونکہ ہر لمحے انسان اسی کشمکش میں رہتا ہے کہ ناجانے وہ کس حال میں ہوگا۔زندہ ہوگا بھی یا نہیں۔کہیں کسی تکلیف میں اسے پکار تو نہیں رہا ہوگا۔یہی حال درمان کا تھا۔آخر فدیان اس کا چھوٹا بھائی تھا۔

وہ جتنا باہر کی دنیا کے لیے سخت تھا اتنا ہی خود سے جڑے لوگوں کے لیے نرم تھا۔جب ہاسپٹل سے بھی اسے اپنا بھائ نا مل سکا تو وہ خاموشی سے گھنٹوں کا سفر طے کر کے گھر واپس آگیا۔اسے اس وقت سکون کی ضرورت تھی۔جو اب اس پر ممنوع ہونے والا تھا۔

شکستہ قدموں سے چل کر وہ مضبوط اعصاب کا مالک کمرے میں جانے کی بجاۓ صوفے پر ہی بیٹھ گیا۔کچھ لوگوں کو حالات تھکا دیتے ہیں۔جیسے اسے تھکا رہے تھے۔

سینے میں اب بھی شدید تکلیف تھی۔زخم اب بھی تازہ تھا اور کل سے تو دوبارا رسنا بھی شروع ہوچکا تھا۔جب احتیاط ہی نا کی جاتی تو زخم کیا خاک ٹھیک ہوتا۔اس تکلیف کو نظر انداز کرکے اس نے آنکھیں موند لیں۔وہ چند لمحے اب سکون چاہتا تھا۔تاکہ اس کا دماغ ریلیکس رہے۔

"لالہ۔۔!!! پانی پی لیں۔۔!!"

اسے آتا دیکھ کر وشہ کچن سے پانی لے آئ تھی اس نے گلاس اس کے سامنے کیا۔بہن تھی وہ اپنے بھائ کی تکلیف سے باخبر تھی۔پر اسے ٹوٹنا نہیں تھا اگر سب ہی ٹوٹ جاتے تو پھر انہیں سنبھالتا کون۔

درمان نے آنکھیں کھولیں جن میں تکلیف کا ایک جہان آباد تھا۔نیلی آنکھوں کے کنارے سرخ ہورہے تھے۔پانی کا گلاس تھام کر وہ پینے لگا ۔

"ہم کھانا یہیں لے آئیں آپ کے لیے یا کمرے میں بھجوادیں۔۔!!!"

وشہ نے خالی گلاس ٹرے میں رکھتے پوچھا۔اتنا تو اسے پتہ تھا وہ صبح سے یونہی گھوم رہا ہوگا۔آخر اس غصے کے چلتے کھانا کھانا کس کو یاد رہتا ہے 

"کمرے میں ہی بھجوادو۔تھک گیا ہوں میں وہیں کھالوں گا۔۔!!!"

تھکے ہوۓ انداز میں کہتے وہ وہاں سے اٹھا اور اپنے کمرے کی طرف قدم لیے۔تاکہ میڈیسن لے کر سو سکے۔وشہ کو یاد آیا کہ زرلشتہ بھی وہیں ہے۔اور اس نے بھی ابھی تک کچھ نہیں کھایا۔

"بھابھی کا کھانا بھی ساتھ ہی لے جاتے ہیں ہم۔اپنے کیوٹ پٹھان کے ساتھ کھالیں گی۔۔!!!"

مسکراتے ہوۓ اس نے درمان کی پشت کو دیکھتے کہا اور کچن کی سمت چلی گئ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"یہاں کیا کوئ رہتا ہی نہیں ہے۔۔؟ توبہ ہے دوپہر سے شام اور شام سے رات ہوگئ۔کسی نے مروت میں بھی کھانے کا نہیں پوچھا۔یہ گھر ہے یا قید خانہ۔۔!!! قید خانے سے بھی کوئ اوپر کی جگہ ہے یہ ورنہ قیدیوں کو بھی کھانا تو ضرور ملتا ہے۔"

زرلشتہ نے کرٹنز سیٹ کیے۔اور منہ بناتے ہوۓ دروازے کو گھورا ۔وہ بھوک کی بہت کچی تھی۔صبر نامی شے اس نے سیکھی ہی نہیں تھی۔کہاں اسے آتا تھا بھوک کو برداشت کرنا۔۔!!! پیٹ میں چوہے مارچ پاسٹ کرکر کے تھک چکے تھے۔اب اسے لگ رہا تھا وہ بھی بھوک سے مر چکے ہیں۔منہ پر بارہ کیا تیرہ،چودہ، پندرہ، سولہ سب بج چکے تھے۔آخر کار وہ تنگ آکر بیڈ پر بیٹھی۔اور ہاتھ سے دو تین بار نرم میٹرس کو دبا کر دیکھا۔

"اگر یہ قید خانہ ہی ہوا تو اس کا مطلب ہے یہاں کوئ نہیں آۓ گا میں جو چاہوں کرسکتی ہوں۔۔۔!!! بھوک کو بھگانا ہے تو دھیان بٹانا ہی ہوگا۔زرلش ہوجاؤ شروع۔۔!!! اسے اپنا ہی کمرہ سمجھو۔۔۔!!!!"

اپنے سلیپرز اتار کر وہ بیڈ پر کھڑی ہوئ ۔گرے آنکھیں ان حالات میں بھی خوشی سے چمک رہی تھیں۔پھر ہونا کیا تھا وہ جو دل کی مان کر بیڈ پر جمپنگ کرنے لگی پھر نا رکی ۔

"میں جو چاہے کرسکتی ہوں,,,,,,,,,!!!!!!!!! یہ میرا کمرہ ہے,,,,,,,,,,,!!!!!!!! مجھے کوئ روک نہیں سکتا,,,,,,,!!!!!!"

خوش ہوتے ہوۓ چیخ کر اس نے آنکھیں بند کیں۔اس کے بال بھی اسی کے سنگ اڑ رہے تھے۔پیٹ میں مارچ پاسٹ کرتے چوہے بھی سہم گۓ  ہوں گے۔تبھی تو بھوک بھی اڑ گئ۔

اسے زندگی جینا آتا تھا۔اسی لیے تو ونی ہونے کے باوجود بھی وہ کمرے میں کسی کونے میں بیٹھ کر رونے کے بجاۓ اپنے شوہر کے بیڈ پر اچھل کود کررہی تھی۔وہ اتنی مگن تھی اس کام میں کہ اسے اندازا ہی نا ہوا کسی کی دنیا ہل گئ ہے ایسی بچکانہ اور بدتہذیب حرکت پر۔کسی کا سویا ہوا غصہ اس کی چیخوں کو سن کر بڑھتا جارہا ہے۔

اور بس وہ بندہ پھٹنے کے قریب ہے۔

درمان جب دروازہ کھول کر کمرے میں آیا تو نسوانی آواز سن کر چونک گیا۔بھلا اس کے کمرے میں کسی لڑکی کا کیا کام۔وشہ تو نیچے تھی پھر یہ آواز کس کی ہوگی۔۔!!!!

وہ ٹھٹھکا پر جو منظر اسے سامنے دیکھنے کو ملا اسے سمجھ نا آیا کہ یہ کون سی بلا آگئ ہے یہاں ؟ وہ گہرے صدمے میں تھا۔ایک لڑکی اسی کے کمرے میں اسی کے بیڈ پر کھڑی پاگلوں والی حرکتیں کررہی تھی۔

اس نے دانت کچکاۓ۔اسے گھورا۔جیسے یہیں مار دے گا۔

"بند کرو یہ پاگل پن,,,,,,,!!!!!!!!"

وہ دھاڑا۔اس کی آواز کمرے کے درو دیوار سے ٹکڑائ۔کمرہ ساؤنڈ پروف تھا تبھی آواز یہیں دب کر رہ گئ۔

کسی کی دھاڑ سن کر زرلشتہ کا دل اور وہ خود اچھل پڑی۔آنکھیں فٹ سے کھول کر اس نے آواز کی سمت دیکھا۔جہاں ایک شخص آنکھوں میں طوفان لیے اسے ہی زندہ نگلنے کے درپے تھا۔اس کی شرارت وہیں اڑی۔ننھا سا دل اس شخص کو دیکھ کر ہی بند ہونے والا تھا۔

"ب۔بھوت,,,,,,,,!!!!!! بھوت,,,,,,,,!!!!!! بھوت,,,,,,,,!!!!! کوئ بچاؤ مجھے یہاں بھوت بھی رہتا ہے,,,,,,,!!!!!!!!!! یا اللہ اس جن کو لے جا,,,,!!!!!!!! یہ کہاں سے نکل آیا,,,,,,,!!!!!!!! آیت الکرسی پڑھتی ہوں ۔پر وہ شروع کہاں سے ہونی تھی۔میں بھول گئ,,,,,,,,,!!!!!!!! یا اللہ مجھے کیا ابھی آیت الکرسی بھولنی تھی,,,,,,,!!!!!! کیا پڑھوں اب,,,,,,!!!!!!! "

زرلشتہ نے آنکھیں بند کیں اور چیخی پھر یاد آیا آیت الکرسی پڑھ لے تاکہ جن بھاگ جاۓ۔پر اسے عین ٹائم پر آیت الکرسی بھوک چکی تھی۔خوف میں یہی ہوتا ہے۔درمان کا پارہ ہائ ہوا۔

اسے تو پتہ بھی نہیں تھا یہ آفت کون ہے۔اس نے مٹھیاں بھیچیں۔زرلشتہ اب بھی چیخنے میں اور آیت الکرسی یاد کرنے کی کوششوں میں تھی۔

"کدھر سے شروع ہوتی ہے آیت الکرسی ۔۔!!!"

بند آنکھوں کے ساتھ ہی اس نے بڑبڑاتے سوچا۔

"اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌؕ...!!!!! یہاں سے شروع ہوتی ہے۔۔۔۔!!!!"

اسے بڑبڑاتا دیکھ کر درمان ضبط کے کناروں پر کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

"ہاں یہاں سے ہی شروع ہوتی ہے۔۔۔!!!!! اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌؕ-لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖؕ۔۔۔!!!!!! "

پڑھتے پڑھتے اس کی نظر درمان پر گئ۔اور وہیں اس کے لب سل گۓ۔سرمئ آنکھیں میں حیران ہی حیرت تھی۔درمان لب بھینچے اسے گھور رہا تھا۔

"زما خدایه۔۔۔!!!!! یہاں تو جن کو بھی آیت الکرسی آتی ہے۔۔۔۔!!!!!! اب تو مجھ پر انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا جاۓ گا۔جن بھائ۔۔!!!ته هم مسلمان یې (آپ بھی مسلمان ہو)۔۔۔!!!!"

پہلی باتیں خود سے کرکے اس نے آخر میں درمان سے پوچھا۔جو اس حرکت پر تپا ہوا تھا۔

"منہ بند کرو اپنا۔۔!!!!! کتنا بولتی ہو تم۔۔۔!!!!! اترو میرے بیڈ سے اور بکو تم ہو کون ۔۔۔؟"

بامشکل اشتعال ضبط کرتے اس نے حکم دیا۔

زرلشتہ کانپ اٹھی۔یہ شخص اسے اپنے بھائ کی عمر کا ہی لگا۔دیکھنے میں ہھی اچھا تھا۔پر فلوقت وہ اسے آتش فشاں لگا جو پھٹنے کو تیار تھا۔

"تاسې څوک یاست؟(کون ہو تم),,,,,,؟؟؟؟ بولو بھی,,,,,!!!!!" وہ اب غرایا۔زرلشتہ کو یقین ہوگیا وہ کوئ جن ہی ہے۔جو آج باہر نکل آیا ہے۔

"یا اللہ ونی کو جن بھی دکھتا ہے یہ تو کسی نے مجھے نہیں بتایا تھا۔یا اللہ اس جن سے مجھے بچالے۔ اگر یہ مجھے کھا گیا تو میرا کیوٹ پٹھان سمجھے گا میں بھاگ گئ۔میرے خواب سارے ختم ہو جائیں گے۔زه نه غواړم مړ شم(مجھے نہیں مرنا) !!!!"

ہتھیلیاں منہ پر جما کر اس نے دل میں کہا۔پھر رسان سے بیڈ سے نیچے اتری۔

جن سے بھی وہ کبھی فیس ٹو فیس بات کرے گی اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔

"ز۔زر۔زرلشتہ۔۔۔!!!!!! "

اٹکتے ہوۓ اپنا نام بتا کر اس نے اس سے پیچھے دروازے کو دیکھا ۔اتنا اسے پتہ لگ گیا جب جن کو آیت الکرسی بھی آتی ہے تو وہ اب کوئ بھی سورۃ پڑھ لے کوئ فایدہ نہیں ہونا۔الٹا جہاں سے وہ بھولی جن صاحب وہاں سے اسے یاد دلائیں گے۔اب بھاگنا ہی مناسب تھا۔

درمان کو یہ نام کچھ سنا سنا سا لگا۔اسے یاد بھی نہیں تھا کہ آج اس کا نکاح ہوا ہے۔

"میرے کمرے میں بندر کی طرح تماشے کیوں کررہی تھی۔کون سے جنگل سے بھاگ کر آئ ہو تم۔۔!!!!! مینئرز نہیں ہیں کیا تمہیں کہ کسی کے روم میں یوں ہی منہ اٹھا کر نہیں آجاتے۔۔ !!!!! پاگل لڑکی۔ماں باپ کہاں ہیں تمہارے۔انہیں پتہ ہے کہ تم اوروں کے گھروں کو کھیل کا میدان سمجھ رہی ہو۔۔۔؟؟ آج کل کے بچے بھی نا تمیز لحاظ بھاڑ میں جھونک چکے ہیں ۔!!!!"

اپنے کندھوں سے شاک اتار کر سائیڈ پر رکھتے وہ تندہی سے بولا۔اسے یہ بچی ہی لگی تھی۔اسے لگا شاید گھر میں مہمان آۓ ہوں۔اور یہ لڑکی اس کے کمرے میں غلطی سے آگئ ہو۔جو بھی زرلشتہ کو دیکھتا بچی ہی سمجھتا۔وہ بیس سال کی تھی پر حلیہ ،حرکتیں باتیں بچوں جیسی ہی تھیں۔

زرلش رونی صورت بنا گئ۔

"میں بندر نہیں ہوں۔جن جی۔۔۔!!!!! اور قسم لے لو میں خود نہیں آئ۔مجھے یہاں بھیجا گیا ہے۔ایک پیاری سی لڑکی مجھے یہاں چھوڑ کر گئ ہے۔کہہ رہی تھی یہاں میرے کیوٹ پٹھان رہتے ہیں یہ ان کا کمرہ ہے۔کیوٹ پٹھان وہ جن سے آج بابا اور جرگے والے داداجی نے میرا نکاح کروایا ہے۔ مجھے نہیں پتہ تھا یہ کیوٹ پٹھان کا نہیں جن صاحب کا کمرہ ہے۔۔۔!!!! آپ رہو اپنے کمرے میں۔پر مجھے میرے کیوٹ پٹھان کے کمرے کا بتادو۔میں وہیں چلی جاتی ہوں۔۔۔!!!!"

معصومیت بھرے لہجے میں کہتے وہ مقابل کا پھرا ہوا دماغ ٹھکانے لگاگئ۔وہ جو گھڑی اتار رہا تھا اس کے ہاتھ تھمے۔یہ لہجہ وہ پہلے بھی سن چکا تھا۔جرگے میں ۔۔!!! اسے بے ساختہ وہ بیوقوف لڑکی یاد آئ۔

"یہ نہیں ہوسکتا۔۔۔۔!!!!!! یہ لڑکی کہیں وہ بیوقوف لڑکی تو نہیں ہے۔۔۔۔۔۔!!!!!"

اس کا سر چکرا گیا۔لگا کسی نے اسے کھائ میں دھکا دے دیا ہے۔گھڑی وہیں پھینک کر وہ زرلشتہ کی طرف دو قدم لے گیا۔جس کی نظریں دروازے کی طرف تھیں۔وہ بھاگنے کو تیار کھڑی تھی۔

"تم دیار کی بہن ہو۔۔۔!!!!!!"

شک کے چلتے اس نے پوچھا ۔دل نے خواہش کی کہ کاش وہ کہہ دے وہ کسی دیار کو نہیں جانتی۔پر زرلشتہ کا ہاں میں سرہلا نا اسے آسمان سے زمین پر پھینک گیا۔اس نے اب غور سے اس لڑکی کو دیکھا۔فرنچ کٹ بال،رونے سے سوجھی آنکھیں جو اس کی آنکھوں کا اصل رنگ چھپاچکی تھیں ۔ابھی لگ نہیں رہا تھا اس کی آنکھیں گرے کلر کی ہیں۔

پنک شرٹ جو گھٹنوں سے اوپر تک تھی۔پنک جینز پہنے وہ بچی کہیں سے بھی اس کی بیوی تو دور دیار جیسے شخص کی بہن بھی نہ لگی۔

اسے یاد آیا اس کے بابا نے کہا تھا وہ لڑکی میچور ہے ،سمجھدار ہے ،اسے نکاح کرلینا چاہیے۔اس نے بھی سوچا تھا دیار کو تکلیف دینے کا موقع وہ کیوں ہاتھ سے جانے دے پر اگر یہ وہ سمجھدار اور میچور لڑکی تھی تو وہ کسی دیوار پر سر مارنے کو تیار تھا۔

"یہ کونسی مصیبت میرے گلے پڑ گئ۔۔!!!!! میں نے کبھی نہیں سوچا تھا نکاح کے بعد مجھے میری بیوی میرے کمرے میں بچوں والے حلیے میں بیڈ پر چھلانگیں لگاتی ملے گی۔۔۔!!!!!! 

یہ مصیبت کیا میرے لیے ہی رہ گئ تھی۔مجھے میچور وائف چاہیے تھی جو میرے سامنے چوں چراں نا کرتی ۔تمیز کا مظاہرہ کرتی ۔۔!!!!

پر یہ آفت میرے نصیب میں کیوں آئ ۔۔!!!!"

آنکھیں میچتے وہ افسوس سے سوچ سکا بس۔

"جن جی۔۔!!!! بتائیں نا میرے کیوٹ پٹھان کہاں ہے۔وہ کیوٹ ہیں بھی یا نہیں۔درمان نام ہے ان کا ۔ !!!!! نکاح کے وقت میں نے سنا تھا ۔۔۔!!!! مجھے ان کے پاس چھوڑ آئیں۔اور آپ یہاں سکون سے رہیں۔اس جلے ہوۓ کمرے میں.....!!!!!"

یہ طنز کمرے کے گرے کلر پر ہوا تھا ۔یہ الگ بات تھی کہ اس کی آنکھیں بھی اسی رنگ کی تھیں جو اسے ذرا بھی پسند نا تھیں۔اسے وہ عام سی لگتی تھیں درمان بار بار جن جی جن جی سن کر اکتا گیا تھا ۔

"بہت بولتی ہو تم,,,,,,!!!!! پٹر پٹر کرتی رہتی ہو,,,,,,,,!!!!!! مجھے اپنے سامنے چلتی زبانیں سخت ناپسند ہیں۔اس لیے اس زبان کو منہ میں بند کرکے رکھو ورنہ کات کر پھینک دوں گا۔بیوقوف مصیبت۔۔۔!!!!"

وہ پھنکارا۔آنکھوں میں سختی تھی۔کچھ غصہ اپنے پسندیدہ رنگ پر طنز سن کر بھی آیا تھا۔زرلشتہ کی آنکھوں سے آنسو بہے۔

"جن جی۔۔!!!! مجھے میرے کیوٹ پٹھان کے پاس جانا ہے۔پکا پھر کبھی نہیں آؤں گی ۔!!!!"

آنسو رگڑ کر وہ وہاں سے جانے لگی لیکن راستہ میں ہی درمان اس کی کلائی پکڑ کر اسے پیچھے کی طرف دھکا دے چکا تھا۔جو سیدھا صوفے پر گری۔اس کا میٹر گھوم گیا۔زرلشتہ چیخ اٹھی۔وہ خود درمیانی فاصلہ ختم کر کے وہ آگے بڑھا ایک ہاتھ صوفے کی سائیڈ پر رکھ کر اس نے زرلشتہ کی روئ ہوئ صورت پر اپنی غصیلی آنکھیں ٹکادیں۔

"کیا جن جن لگا رکھی ہے ۔۔!!!!! میں شوہر ہوں تمہارا کوئ جن نہیں ہوں۔۔۔!!!!! میں ہی درمان ہون۔درمان آفریدی تمہارا شوہر۔۔۔!!!!!!اور آئندہ یہ کیوٹ پٹھان والی رٹ نا لگانا ورنہ بے موت ماری جاؤ گی ۔پٹھان ظالم ہوتا ہے کیوٹ نہیں ۔!!!! بہت ظالم ہوں میں ۔تمہیں مار کر یہیں دفنادوں گا۔کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوگی۔سب سمجھیں گے تم بھاگ گئ۔اور اصل میں تم یہاں دفن ہوگی۔۔۔!!!!!!! اس لیے یہ منہ بند رکھو ۔۔"

آواز آہستہ تھی پر اس آواز میں وارننگ تھی۔زرلشتہ کے ننھے ننھے خواب دم توڑ گے۔اب کیا پرستان کیا کوہ قاف۔۔۔!!!!

وہ تو قبرستان میں ہی آگی تھی۔جہاں یہ جن نما شخص بندے مار کر خاموشی سے دفناتا تھا۔

"آپ جن ہو۔۔۔!!!! جھوٹ بول رہے ہو آپ ۔۔!!!! پیاری لڑکی نے کہا تھا میرا شوہر کیوٹ ہے پر آپ تو سیریل کلر ہو۔واہ زرلشتہ تم نے مانگا کیوٹ پٹھان پر اصل میں مل گیا ظالم خان ۔۔۔!!!"

منہ بسورتے ہوۓ وہ بھول گئ کہ درمان کی نظریں اسی پر ٹکی ہیں یہ چلتی زبان تو اس کے قابو میں تھی ہی نہیں۔درمان کے ڈرانے کا خاطر خواہ اثر نا ہوا کیونکہ اسے پتہ تھا ظالم پٹھان قاتل ہی ہوگا۔

درمان خود کو کچھ سخت کہنے سے روک رہا تھا ورنہ زرلشتہ تھپڑ کھا چکی ہوتی اپنی سرد آنکھیں اس کی سوجھی آنکھوں پر ٹکا کر اس نے اسے گھورا۔

"اتنا کہوں جتنا بعد میں سہہ سکو۔شاید تم سمجھی نہیں میں سمجھاتا ہوں ۔۔!!!!!"

اس کی آنکھ سے بہتا آنسو انگوٹھے کی پور سے چنتے وہ پراسرار لہجے میں بولا۔زرلشتہ اب ڈری تھی۔ساتھ میں کانپی بھی تھی۔وہ اتنی دیر سے بہادر بنی ہوئ تھی پر یہ شخص اسے زندہ گاڑنے کو تیار تھا۔زرلشتہ کی بہادری ہوا ہوئ۔ 

اس نے معصوم سی آنکھیں پٹپٹاکر اسے دیکھا۔جس کی کیوٹنس کا کوئی مول تھا ہی نہیں۔درمان اسے ہی دیکھ رہا تھا۔وہ اسے ڈرانا نہیں چاہتا تھا۔پر اگر آج اس پر رعب نا ڈالتا تو یہ اپنے بچپنے سے اسے سب کے سامنے بے عزت ضرور کرواتی۔

"تم تو ڈر گی ۔۔!!!!! میں تو جن ہوں نا۔۔۔!!! ظالم خان۔۔۔!!!!!مت بھولو تم ایک مجرم کی بہن ہو۔جس نے میرے بھائ کو اغواہ کیا،مجھے مارنے کی کوشش کی۔۔۔۔!!!! تم یہاں ونی ہوکر آئ ہو۔اس کا کیا بھگتنے۔۔۔!!!! چھوڑ دو اپنا یہ بچپنہ۔کیونکہ یہاں کوئ تمہاری یہ حرکتیں برداشت نہیں کرے گا۔تمہاری یہاں کوئ حیثیت نہیں ۔۔!!!!! تم بےکار سی شے ہو۔کیا سمجھی بے کار وجود۔۔۔!!!!"

لفظوں کو چب چبا کر اداکرتے وہ اس کا ننھا سا دل توڑ گیا۔اسی درمان سے انہی لفظوں کی امید تھی۔آخر وہ ونی تھی یہی ہونا تھا اس کے ساتھ۔

وہ آنکھیں میچ گئ۔اس شخص کا یہ لہجہ تکلیف دہ تھا۔درمان ہلکا سا مسکرایا اسے قابو کرنا آسان تھا۔

"جی۔۔!!!"

ڈرتے ہوئے زرلشتہ نے کہا۔اس کے بال بھی اس فرمانبرداری کے لیے ساتھ ہل رہے تھے۔درمان کی مسکراہٹ گہری ہوئ۔اپنی جیت پر ۔۔۔!!!!

"ویری گڈ۔۔۔!!!! آئندہ اپنی یہ منحوس صورت میرے سامنے نا لانا۔کمرہ بہت بڑا ہے کسی بھی کونے کھدرے میں پڑی رہو میرے آس پاس منڈلائ تو جان سے جاؤ گی۔ایک اور بات میری ماں اور بہن سے بھی دور رہنا۔اگر کوئ بدتمیزی تم نے کی تو وہ حشر کروں گا نا زندوں میں رہو گی نا مردوں میں ۔۔!!!!!"

اس کا لہجہ انتہا کا سخت تھا۔زرلشتہ کے لیے اب یہاں سانس لینا بھی محال ہوا۔درمان نے غیر ارادی طور پر اس کی تر گال پر بہتے آنسو اپنے دائیں ہاتھ سے صاف کیے۔عجیب تھا وہ بھی جس صورت کو اس نے منحوس کہا پھر اسی کے آنسو بھی صاف کررہا تھا۔زرلشتہ کی آنکھیں پہلے ہی رونے کی وجہ سے سرخ ہوچکی تھیں۔درمان کو عجیب نہیں لگا تھا۔وہ بیوی تھی اس کی اب ڈرانے کے ساتھ ساتھ وہ آنسو تو پونچھ ہی سکتا تھا۔پر جان تو زرلشتہ کی نکلی۔اسے لگا یہ بندہ اسے مارنے والا ہے۔

تبھی اس کا ہاتھ جھٹک کر وہ صوفے سے اٹھ کر بھاگی۔پر احتیاط سے کہ اس ظالم بندے سے دور ہی رہے۔اس کا سانس پھول گیا تھا۔بہادری دکھانے سے اچھا تھا وہ ڈرپوک ہی رہتی۔

اسے جان پیاری تھی اپنی۔درمان نے اس کا ڈرنا محظوظ ہوکر دیکھا تھا۔اس کی ڈری صورت اسے سکون دے رہی تھی۔کچھ لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں خود سے کمزور لوگوں کو ڈرا کر سکون حاصل کرنے والے پر بعد میں یہی لوگ روتے ہیں۔درماں آغاز تو کرچکا تھا اب انجام بھی جلد پتہ لگ جاتا۔ 

وہ دیوار سے لگی تھی۔آنسو بہتے جارہے تھے۔

"چل درمان اب جا یہاں سے۔۔!!!! کہیں یہ یہیں نا مرجاۓ۔ پاگل ہے پوری کی پوری۔۔!!!مصیبت۔۔!!!"

اسے ڈرتا دیکھ کر وہ ڈریسنگ روم کی طرف چلا گیا۔پر دانستہ طور پر دروزہ آواذ سے بند کیا تاکہ زرلشتہ کو پتا چل جاۓ وہ جاچکا ہے۔

دروازے بند ہونے کی آواز پر اس نے آنکھیں کھولیں۔اور اپنے آنسو رگڑ کر صاف کیے۔

"ظالم پٹھان ۔۔!!!!! ب۔بہت برے ہیں آپ۔۔!!! گندے۔۔۔!!!!"

وہ وہیں بیٹھ گئ ۔اس کا دل ابھی بھی سہما ہوا تھا۔

"ناول والے گندے ہیرو جیسے۔۔!!!! ویسی ہی ریڈ آئیز، سکیری فیس(Scary face) غصیلہ لہجہ ۔۔!!! میں نہیں رہ سکتی ان کے ساتھ۔۔!!!"

وہیں بیٹھے بیٹھے اس کا چہرہ یاد کرکے اس نے جھرجھری لی۔

پھر اٹھ کر صوفے کی طرف گئ۔

"کہہ رہے تھے کسی کونے کھدرے میں رہ لینا میں چیونٹی ہو نا جو کہیں بھی ایڈجسٹ ہوجاؤں گی ماں سٹور میں پھینک رہی ہے اور بیٹا کونے کھدرے میں پڑا رہنے کو کہہ رہا ہے زرلش نا ہوگئ ٹین کا ڈبہ ہی ہوگئ۔جس کا دل کیا ہٹ کرکے چلا گیا۔"

کانپتے ہاتھوں سے اپنے بال سنوارتے اس نے اس کی گھڑی کو گھورا جو فرش پر گری تھی۔

"میں نہیں ڈرنے والی ان سے۔۔!!!! "

خود کو کمپوز کرتے وہ صوفے پر بیٹھ گئ۔جو ہمت ابھی ٹوٹی تھی اس نے پھر جمع کی۔کیونکہ اس کے پاس کوئ اور آپشن تھا ہی نہیں۔کشن اٹھا کر خود میں بھینچتے زرلشتہ نے اپنے آنسو روکے۔بس اتنا ہی دکھ تھا اسے درمان کے لہجے کا۔اب وہ کیوں رو رو کر اپنا سر کھپاتی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

کافی دیر بعد درمان چینج کرکے آرام دہ کپڑوں میں کمرے میں آیا تو غیر ارادی طور پر اسی دیوار کی طرف دیکھا جہاں وہ مصیبت(زرلشتہ) بیٹھی تھی۔وہ جگہ خالی تھی تبھی اس نے کمرے میں غیر ارادی طور پر اسے دیکھا۔

"میں کونے کھدروں میں ایڈجسٹ نہیں کرسکتی۔بھول ہے آپ کی کہ میں زمین پر سوؤں گی۔اگر بیڈ پر آپ کا قبضہ ہے تو صوفہ میری ہی ملکیت میں رہے گا۔۔۔۔!!!!!

بہتری اسی میں ہے میرے ساتھ رہنے کی عادت ڈالیں۔یہ منحوس صورت اب آپ کو دیکھنی ہی ہوگی۔"

زرلشتہ کی آواز نے اس کی تلاش ختم کی۔درمان نے صوفے پر بیٹھی اس خفا لڑکی کو دیکھا جس کے گال ناراضگی کے سبب پھولے ہوۓ تھے۔وہ حیران ہوا کچھ دیر پہلے یہ لڑکی بس مرنے والی تھی اور اب یوں بیٹھی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔

اس نے ابرو اچکائیں کہ اتنی ہمت ۔۔۔!!!!

"کہتی ہو تو تمہیں یہیں دفنادوں ۔۔۔!!!! کسی کو خبر بھی نہیں ہو گی۔اتنی ہمت آگئ ہے تم میں۔یہ ہمت مجھ سے برداشت نہیں ہورہی۔"

بیڈ پر بیٹھتے اس نے اسے گھورتے ہوۓ کہا جس کے ہاتھ میں پکڑا کشن بھی لرز اٹھا۔اسے یاد آیا ژالے نے کہا تھا اگر کہیں بہادری سے کام بگڑنے لگا تو کہہ دینا میں مزاق کررہی تھی۔

"میں تو مزاق کررہی تھی آپ سیریس ہی ہوگۓ۔۔۔!!!!! دیکھیں مجھے زیادہ سیریس نہ لیں۔میں پاگل ہی ہوں۔عقل کی تھوڑی کمی ہے مجھ میں۔تو مجھے اگنور کریں۔۔!!!!! مرنے مارنے کی ضرورت نہیں۔امن سے رہیں۔۔!!!"

زبردستی ہنستے ہوۓ وہ اسے پاگل ہی لگی۔درمان کی طبیعت خراب تھی اور وہ اس پر ابھی غصہ نہیں کرنا چاہتا تھا اسے ابھی سونا تھا۔

"عقل نامی شے تمہیں ملی ہی نہی۔۔!!!"

بڑبڑاکر وہ منہ پھیر گیا۔

اتنے میں دروازے پر دستک ہوئ۔

"آجاؤ۔۔۔!!!"

اپنا فون سائیڈ پر رکھتے اس نے کہا۔وشہ دروازہ کھول کر کھانے کی ٹرے سمیت وہاں حاضر ہوئ۔

"بھابھی آپ بھی کھانا کھا لیں ۔!!"

لہجہ دوستانہ تھا زرلشتہ اس آفر پر کشن وہیں رکھتے اس کے پاس آئ وہیں درمان نے کوفت سے نظریں پھیریں ۔کھانے سے وہ اسے منع نہیں کرسکتا تھا۔اب اگر وہ یہیں رہے گی تو کھانا بھی تو یہیں سے ہی کھاۓ گی۔

زرلشتہ نے ابھی ڈھکن ہٹا کر برتن میں  دیکھا ہی تھا کہ اس کا منہ بن گیا۔سامنے فش تھی۔اس کا چہرہ اتر گیا۔

ڈھکن بجھے دل سے واپس رکھ کر اس نے وشہ کو دیکھا پھر سائیڈ پر ہوگئ۔ساری خوشی یہیں ختم ہوگئ تھی۔درمان بھی اس مصیبت کو غور سے دیکھ رہا تھا۔کہ اچانک اسے کیا ہوا۔

"کیا ہوا بھابھی آپ کو کیا یہ پسند نہیں آیا۔۔!!!"

وشہ نے اس کے بجھے چہرے کی وجہ سے پوچھا ۔

"سوری پر میں یہ نہیں کھا سکتی مجھے فش سے الرجی ہے۔میری طبیعت خراب ہوجاۓ گی۔"

زرلشتہ کا جواب سن کر درمان نے آنکھیں گھمائیں۔اسے غصہ آیا اس بات پر بھی۔اسے لگا زرلشتہ نخرے کررہی ہے۔وہ پڑھا لکھا تھا۔پر زرلشتہ کی بات سن کر اسے کوفت ہوئ تھی ۔

"ایک نیا ڈرامہ۔۔۔!!!!!! محترمہ آپ یہاں مہمان بن کر نہیں آئیں۔کیا اپنی اوقات بھول گئ ہو۔لگتا ہے پھر سے سمجھانا پڑے گا تمہیں تم کون ہو ۔!!! جو مل رہا ہے کھالو ۔یہ نخرے اپنے مجرم بھائ کو دکھاتی تو وہ تمہیں یہاں بھیجتا ہی نہ۔میرے گھر میں کوئ تمہارے ڈرامے نہیں برداشت کرے گا۔۔!!!!"

طنز کے تیر چلاتے وہ پھر سے اس کا دل دکھاگیا۔ ابھی اسے اس کے نکاح میں آۓ وقت ہی کتنا ہوا تھا۔بارہ گھنٹے بھی نہیں ہوۓ تھے۔اور اس کا دل بار بار ٹوٹ رہا تھا۔بھوک تو اس ذلت پر مر گئ۔

 اسے اپنا گھر یاد آیا جہاں کوئ اسے کچھ نہیں کہتا تھا۔وہ ہر چیز میں اپنی چلاتی تھی۔اسے یاد تھا جب پہلی بار فش کی وجہ سے اسے الرجک اٹیک آیا تھا۔تب اس بات کے پتہ لگتے ہی اس کے گھر میں یہ سب بننا ہی بند ہوگیا تھا۔تاکہ کبھی اسے فیل نہ ہو کہ وہ ان سے الگ ہے۔اور یہاں یہ شخص جو اس کا شوہر تھا اس کی میڈیکل کنڈیشن کو نخرہ قرار دے چکا تھا۔

"بھابھی کوئ بات نہیں آپ بتائیں کیا کھائیں گی ہم بنوادیتے ہیں۔اور لالہ آپ کب سے اتنے کڑوے ہوگۓ۔اگر انہیں کسی چیز سے کوئ میڈیکل اشو ہے تو آپ کو یا ہمیں ان کا مزاق بنانے کا کوئ حق حاصل نہیں۔آپ کو بھی تو للی فلاورز کی سمیل سے الرجی ہے کیا اب ہم اسے آپ کا نخرہ کہیں۔۔!!!!!

آپ کی وجہ سے اس گھر میں پھولوں کا نام و نشان نہیں کہ کہیں آپ کو کسی اور پھول سے بھی مسئلہ نہ ہو۔۔۔!!!! یعنی آپ بھی نخرے کررہے ہیں ۔!!!"

وشہ کو برا لگا تھا اپنے بھائ کا رویہ تب وہ بھی حساب برابر کرگئ درمان کا منہ کھلا اس بات پر کہ اس کی بہن اس کی بجاۓ اس لڑکی کی سائیڈ لے رہی ہے۔پر وہ انصاف کے ساتھ تھی۔جب زرلشتہ بے گناہ ہے تو وہ کیوں اس کے ساتھ برا کرتی ۔

زرلشتہ نے ان کی باتوں پر دھیان نہ دیا۔

"آپ رہنے دیں پریٹی گرل۔۔!!!! مجھے بھوک نہیں۔پوچھنے کا شکریہ"

محبت سے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے زرلشتہ نے جھوٹ بولا۔اور خود صوفے پر جاکر بیٹھ گئ۔درمان نے اس کی اداسی کو ضد سمجھا۔جبکہ وشہ اپنے بھائ کی سنگ دلی پر منہ بناتے وہاں سے چلی گئ۔

درمان نے سکون سے کھانا کھایا اور زرلشتہ ویسے ہی خود پر اپنی وہی شال اوڑھ کر سوگئ ناچاہتے ہوے بھی اسے رونا آیا ۔

"یا اللہ مجھے یہاں نہیں رہنا۔آپ مجھے میرے گھر بھیج دو۔یہ مجھے اچھے نہیں لگے۔اللہ تعالیٰ میں نے تو آپ سے کیوٹ پٹھان مانگا تھا۔پر یہ گندے ہیں ۔اب مجھے فش سے الرجی ہے تو کیا اس میں میرا کوئ قصور ہے نہیں نا۔پھر بھی انہوں نے مجھے کتنی باتیں سنادیں۔

اللہ جی مجھے واپس بھیج دیں۔۔۔!!!!"

ایک ہی دن میں وہ اس جگہ سے اکتا چکی تھی۔نیند تو اسے آنی نہیں تھی۔تبھی وہ اللہ سے ہی باتیں کرنے لگی۔اس کی آزمائش کا وقت تھا۔شال منہ تک اوڑھے وہ سونے کی ایکٹنگ کرنے لگی

پلیز۔۔!!!

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Hum Mi Gaye Yuhi Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Hum Mi Gaye Yuhi  written by Ismah Qureshi   Hum Mi Gaye Yuhi  by Ismah Qureshi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages