Manzilen Lapata By Samreen Shah New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday 3 August 2024

Manzilen Lapata By Samreen Shah New Complete Romantic Novel

Manzilen Lapata  By Samreen Shah New Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Manzilen Lapata By Samreen Shah Complete Romantic Novel 

Novel Name: Manzilen Lapata

Writer Name: Samreen Shah

Category: Complete Novel


میروں کی حویلی میں آج جشن کا سماں تھا ہوتا بھی کیوں نہ آج میر خاندان کے پہلے پوتے کا نکاح تھا خاندان کی لاڈلی پوتی سے آج حویلی کے ساتھ ساتھ گاؤں میں بھی جشن کا ماحول بنا ہوا تھا   

آخر کیوں نہ ہوتا اس گاؤں کے ہونے والے سردار کا نکاح تھا

________

مولوی صاحب آگئے ہیں آغا سائیں  

اخضر ان کے پاس آیا 

ساحر سائیں کہا ہیں ؟میر حاکم سائیں نے اپنے چھوٹے پوتے سے استفسار کیا 

گستاخی معاف آغا سائیں مگر اس سے  میرے بیٹے کی خوشی برداشت نہیں ہے اس لیے غائب ہے میر جواد حقارت سے کہتے وہاں سے چلے گئے

اخضر کے بولنے سے پہلے ہی میر جواد سائیں بول پڑے  

خیر چھوڑو آغا سائیں آج کے دن اپنا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتے تھے اس لیے بات درگزر کر گئے 

اخضر سائیں تم اپنے ادا سائیں کو بلا کر لاؤ میر حاکم سائیں نے مسکرا کر اس سے کہا 

جی آغا سائیں میں ابھی بلا کر لایا وہ بھی خوشی خوشی اندر کی جانب بڑھا

میر حاکم سائیں سے ان کی خوشی چھپائی نہ چھپ رہی تھی 

ان کے پوتے نے ان کا مان رکھ لیا تھا وہ سرشار سے تھے 

مگر یہ تو وقت نے بتانا تھا کہ کس نے کتنا مان رکھا تھا 

________

قبول ہے !!!!

مائک سے اس کی گھمبیر آواز گونجی 

جو زنان خانے تک بھی پہنچی تھی

تیسری دفعہ" قبول ہے" کہتے ہی میر حاکم سائیں نے اپنے پوتے کو گلے لگایا 

نکاح بہت بہت مبارک ہو میر زاویار جواد سائیں 

میر حاکم سائیں کے چہرے کی چمک اس بات کی گواہ تھی کہ وہ کتنا خوش ہیں اس نکاح پر 

مگر ان کے چہرے کی چمک سے کہیں زیادہ چمک میر زاویار کی آنکھوں میں تھی 

مگر یہ چمک نکاح کی تو نہیں لگی تھی 

یہ چمک عجیب سی تھی 

باغی سی!!!!

اپنے وجیہہ چہرے پر جاندار مسکراہٹ کے ساتھ اس نے دوبارہ مائک پکڑا 

میں میر زاویار سائیں، میر حاکم سائیں کا پوتا اس خاندان کا پہلا چشم و چراغ ،،،،

اس گاؤں کا ہونے والا سردار ،،،،

اس کی آواز جو ہی گونجی مردان خانے میں خاموشی چھاہ گئی

میر حاکم سائیں نے فخر سے اپنے پوتے کا تحمکانہ انداز دیکھا 

جس کا نکاح ۔۔۔۔۔۔۔

آنکھوں کی چمک کچھ اور واضح ہوئی تھی میر حاکم سائیں کو کچھ غلط ہونے کا احساس شدت سے ہوا

جس کے دادا نے جائیداد سے عاق کرنے کی دھمکی پر اپنی پینڈو پوتی سے میرا زبردستی نکاح کردیا مگر ۔۔۔۔

میں بھی انہی کا پوتا ہوں 

میں میر زاویار سائیں اپنے پورے ہوش وحواس میں اپنی چند سیکنڈ پہلے کی دلہن کو طلاق دیتا ہوں 

زاویار

ثمینہ جواد حاکم چیخی۔۔۔

میں حانم کو 

طلاق دیتا ہوں

طلاق دیتا ہوں 

دادا سائیں ادھر ہی موجود ہوں میں اب میرا دوبارہ نکاح کروا کر دیکھائیں 

ہونٹوں پر دل جلانے والی مسکراہٹ لیے وہ بھرے مجمعے میں ان سے مخاطب ہوا جن کے کندھے کبھی جھکے نہیں تھے

آپ شاہد بھول گئے تھے میں کون ہوں ؟؟؟

تمسخر اڑایا لہجہ

________

کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟؟؟؟

مولوی صاحب کی آواز پر اس نے گھونگھٹ کی آڑ میں چونک کر اپنے دائیں کندھے پر موجود ہاتھ کو دیکھا 

وہ ہاتھ اس کی ماں کا تھا جو اسے تسلی دینے کے لیے رکھا گیا تھا  بے شک نکاح اس کی مرضی سے ہورہا تھا وہ خوش تھی بلکہ یہ کہنا مناسب تھا کہ مطمئن تھی 

مگر جو بھی ہو ان لمحات میں ایموشنل ہونا فطری بات تھی 

ق۔قبول ہے 

ایک آنسو اس کی نرم و ملائم گال سے پھسل کر تھوڑی سے ہوتے نکاح کے کاغذات پر گڑا

اس کے کندھے پر اس کی ماں کی گرفت بھی مضبوط ہوئی

یقیناً وہ بھی رو رہی ہوں گی 

مگر ان کے آنسو بھی خوشی کے ہوگے اپنی بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہونے کی خوشی !!!!

لڑکی کی طرف سے نکاح مکمل ہوتے ہی اس کی ماں نے اسے گلے لگایا 

ابھی اس کی کزنز اسے مبارک باد دیتیں باہر سے اس کی آتی آواز پر کمرے میں سانپ سونگھ گیا 

اور پھر اسے ہر چیز چکراتی نظر آئی 

اپنے کانوں میں اپنی دوستوں رشتے داروں کی بہت پہلے کہی گئی آواز سنائیں دیں

کتنے خوش نصیب ہیں ادا سائیں ان کی شادی تم

 سے ہورہی ہے ۔۔۔۔۔

میرا زاوی خوش نصیب ہے اس کی قسمت میں 

تم ہو ۔۔۔۔۔۔

یاری لالہ اور تمہاری جوری پرفیکٹ ہے ۔۔۔۔۔

تم جیسی نڈر اور بہادر ہی ہمارے شیر پوتے کے 

لیے صحیح ہے ۔۔۔۔۔۔

پھر دماغ اور آنکھیں اندھیرے میں کھو گئی

چھوٹی بی بی بے ہوش ہوگئی نورا کی آواز مردان خانے تک گونجی

_________

میر حاکم سائیں کا تعلق راجن پور کے گاؤں سے تھا زندگی میں انہیں ہر طرح کی آسائش میسر تھی کسی بھی چیز کی کوئی کمی نہیں جدی پشتی رائس اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد  تمام تر جائیداد کے اکلوتے وارث اور اس سے بھر کر گاؤں کے گدی نشین 

پورے گاؤں میں میروں کا سکہ چلتا تھا

وجاہت اور طاقت سے مالامال سونے پہ سہاگا دولت نے ان کے کم تعلیم ہونے کے عیب کو بھی ڈھانپ دیا خیر اس وقت تعلیم کی اتنی کوئی اہمیت بھی نہ تھی 

میر حاکم سائیں اپنے نام کی طرح حکم چلانے والے اپنی وجاہت اور دولت کی وجہ سے جتنے مغرور تھے ان کی شریک حیات صفیہ بانو اتنی ہی نیک صاف اور نرم دل تھیں 

صفیہ بانو ان کی چچا زاد تھیں جن سے ان کی شادی ان کی ہی خواہش پر ہوئی تھی ۔

اللّٰہ نے انہیں اولاد جیسی نعمت سے بھی نوازا پہلے دو بیٹے جواد اور جاوید پھر دو بیٹیاں شائستہ اور آنسہ اور پھر سب سے آخر میں آغا سائیں اور اماں سائیں کا لاڈلہ میر اسعد حاکم سائیں ہوبہو میر حاکم سائیں کی کاپی وہ ہی وجاہت وہی ذہانت مگر دو باتیں اس کی حاکم سائیں سے مختلف تھی پہلی وہ رحم دلی کے معاملے میں وہ اماں سائیں پر گیا تھا اور دوسری اسے پڑھائی کا جنون تھا۔۔۔۔۔

_______

وقت تو مانو پر لگا کر اڑا تھا جواد سائیں کی شادی خاندان میں ہی ثمینہ بیگم کے ساتھ ہوئی جن کی دو اولادیں ہیں میر زاویار اور بیٹی صنم جواد اس کے بعد جاوید سائیں ان کی شادی بھی خاندان میں ان کی پسند سے ہما بیگم سے ہوئی اور ان کی چار اولادیں ہیں پہلے علینہ جاوید اخضر جاوید اور پھر دو جڑواں بیٹیاں امیمہ اور آمنہ 

پھر تیسرے نمبر پر شائستہ بیگم عمر میں وہ آنسہ بیگم سے دو سال بڑی تھی مگر آنسہ بیگم کی شادی ان سے پہلے  ہوئی تھی جن کا ایک ہی بیٹا تھا ساحر، ساحر کی پیدائش کے دو سال بعد ہی آنسہ بیگم بیوگی کی چادر اوڑھے واپس میر حویلی آگئی پھر شائستہ بیگم کی شادی بھی ان کے خاندان میں ثمینہ بیگم کے ماموں زاد منہ بولے بھائی سے ہوئی ان کی بھی دو اولادیں تھیں سونیا اشرف اور ابرار اشرف وہ زیادہ تر میر حویلی میں ہی پائی جاتی تھیں اور سب سے آخر میں اسعد حاکم سائیں جن کی شادی حالہ سے ہوئی تھی جو آغا سائیں کے دوست کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ اسعد کی یونیورسٹی فیلو بھی تھی انہیں کی طرح نرم دل پڑھی لکھی اور چنچل سی!!!!

ان کی ایک بیٹی تھی نورِ حانم جس میں میر اسعد کی جان بستی تھی 

نورِ حانم تھی بھی بہت پیاری معصوم جس سے ملتی اس کو  اس پر بے ساختہ پیار آتا 

ثمینہ بیگم تو نورِ حانم کو اتنی سی عمر میں ہی اپنی بیٹی مان چکی تھیں 

________

دس سالہ نورِ حانم اپنی چھوٹی کزنوں کے ساتھ کھیل رہی تھی امیمہ اور آمنہ بھی اپنی ننھے ننھے ہاتھوں سے تالیاں بجاتی کھلکھلا رہی تھیں جب کچھ یاد آنے پر حانم اپنے پھولے پھولے گالوں لان کا چکر لگانے لگ پڑی 

کیا ہوا ہے ہانی آپی سات سالہ صنم حانم کے پاس آئی صنم بابا سائیں ابھی تک نہیں آئے انہوں نے مجھے آج پارک کے جانے کا وعدہ کیا تھا 

حانم اداسی سے کہتی جھولے پر بیٹھ گئی

آجائیں گے چاچو سائیں تم فکر نہ کرو نو سالہ علینہ بھی اپنی گڑیا چھوڑ کر حانم کے پاس آئی 

ہمممم 

مما مما سائیں حانم سے جب اور انتظار نہ ہوا تو وہ حالہ بیگم کے پاس پہنچی ہمم بولو حانم کیوں تنگ کر رہی ہو حالہ بیگم جو صغراں سے کام کروا رہی تھی حانم کے بار بار بلانے پر جھنجھلائی 

مما سائیں بابا سائیں ابھی تک کیوں نہیں آئے ؟؟؟

وہ ضروری کام سے گئے ہیں حانم اب جاؤ کھیلو مجھے تنگ مت کرو 

حانم نے اپنے ہونٹ باہر نکالے 

اس سے پہلے اس کے آنسو بہتے ثمینہ بیگم نے اسے اپنے پاس بلایا

کیا ہوا میری ہانی پری کو 

بڑی مما سائیں بابا سائیں نے مجھ سے آج پارک کے کر جانے کا وعدہ کیا تھا وہ ابھی تک نہیں آئے

وہ دادو سائیں کو کسی کام سے لے کر گئے ہیں میری جان آجائیں گے تھوری دیر تک  ثمینہ بیگم نے اس کی نرم گال کو پیار سے سہلاتے ہوئے کہا 

ٹھیک ہے 

ٹھیک ہے بڑی مما سائیں حانم نے جھک کر ثمینہ بیگم کی گال پر پیار کیا اور وہاں سے بھاگ گئی

_______

شام کا وقت ہوگیا تھا اب حانم کو زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا جب ایمبولینس کی آواز پر سب ہی دہل کر حویلی کے لان میں آئے جہاں دو وجود سفید چادروں میں پڑے تھے 

آغا سائیں لڑکھڑا گئے  ایک ان کی لاڈلی اولاد دوسری ان کی جان عزیز شریک حیات 

اسعددددد !!!!

حالہ کی چیخ دل دہلا دینے والی تھی اس سے پہلے ثمینہ بیگم انہیں حوصلہ دیتی ان کے قریب آتی وہ شدید شکر کھا کر گری..

سب ہی رو رہے تھے جاوید جواد سب ہی غم سے نڈھال تھے آنسہ بیگم اپنی والدہ اور جان عزیز بھائی کی موت کے صدمے میں بالکل خاموش ہوگئیں شائستہ بیگم دھاڑے مار کر رو رہی تھی 

حانم ویران نظروں سے اپنے بابا سائیں اور بی بی سائیں کو دیکھ رہی تھی ابھی کل بی بی سائیں نے خاص اس کے لیے اس کی پسند کا حلوہ بنایا تھا بابا سائیں بھی اس کے پاس تھے اب۔۔۔

نورِ حانم !!

جی بی بی سائیں حانم فوراً سارے کام چھوڑ کر ان کے پاس میری چندا میں نے تمھارے اور ساحر کے لیے گاجر کا حلوہ بنایا ہے گاجر کا حلوہ حانم خوشی سے اچھلی ابھی وہ حلوے کا باؤل پکڑتی جب بھیچ میں ہی اسعد سائیں نے باؤل پکڑ لیا واہ اماں سائیں میرا فیورٹ حلوہ اسعد سائیں نے حلوے کا  چمچ بھر کر منہ میں رکھا 

بابا سائیں حانم نے اپنے ہونٹ لٹکائے مطلب میڈم رونے کے لیے تیار تھی 

اسعد سائیں کیوں میری پیاری پوتی کو تنگ کر رہے ہو مصنوعی خفگی سے ڈانٹا 

واہ پیاری پوتی اور بیٹا؟؟

صحیح کہتے ہیں اصل سے سود پیارا ہوتا ہے 

اسعد سائیں !!!.

سوری اماں سائیں مگر آپ کی بہو اور پوتی کو چھیڑنے کا اپنا ہی مزہ ہے 

بابا سائیں 

ارے میرا بچہ میری جان میرا شیر بیٹا اسعد سائیں نے فوراً حانم کو گود میں بٹھا کر حلوہ کھلایا 

اب وہ اس کے موبائل پر کارٹون دیکھتی اس کے ہاتھ سے حلوہ کھانے میں مصروف ہوگئی تھی 

ساحر سائیں ادھر آؤ دور کھڑے ساحر کو خود کو اور حانم کو یوں حسرت سے دیکھتا پا کر اسعد بے چین ہوا ادھر آؤ میرا بچہ آپ بھی کھاؤ آپ کا بھی فیورٹ حلوہ ہے

جی بابا سائیں  

ساحر سائیں کو بھی گاجر کا حلوہ بہت پسند ہے 

اسعد سائیں کے موبائل میں مگن سی لگی حانم نے اس کے علم میں اضافہ کیا

  اسعد نے تیرہ سالہ ساحر کو بھی اپنے ہاتھوں سے حلوہ کھلایا جس کا چہرہ خوشی کے مارے کھل اٹھا 

________

حانم کو سمجھ نہیں آرہی تھی وہ روئے چیخے یاں یہاں سے بھاگ جائے 

وہ اٹھ کر اسعد سائیں کے پاس آئی چہرہ غیر واضح تھا اس نے جھک کر ان کے ماتھے پر پیار کیا 

بابا سائیں میں پارک جانے کی ضد نہیں کروں گی آپ یہاں سے اٹھ جاؤ آپ کے کپڑے گندے ہو جائیں گے 

بی بی سائیں دیکھیں نہ بابا سائیں اٹھ نہیں رہے آپ آپ نہ گاجر کا حلوہ بناؤ پھر دیکھنا بابا سائیں اٹھ جائیں گے بابا سائیں پلیز بی بی سائیں آپ اٹھ جائیں 

حانم آپی صنم علینہ بھی حانم کو روتا دیکھ کر رونے لگی 

ہما بچے بچو کو کمرے میں لاجاؤ جی ادا سائیں ہما بیگم سب بچوں کو کمرے میں لے گئی مگر حانم وہاں سے ہل ہی نہیں رہی تھی 

نورِ حانم آنسہ بیگم نے پیار سے اس کے سر ہاتھ پھیرا حانم ان کے گلے لگی رونے لگ پڑی تھوڑی ہی دیر بعد وہ ان کی گود میں ہی سو گئی 

ساحر سائیں حانم کو دیکھ رہا تھا ایک اسعد ہی تو تھا اس گھر میں اس کی ماں کے علاوہ جو اس سے پیار کرتا تھا 

اسے حانم پر بھی ترس آیا باپ کی شفقت سے محرومی کتنی اذیت ناک ہوتی ہے وہ جانتا تھا

حانم مت رو بارہ سالہ زاویار بھی اپنے چاچو سائیں کی حالت کو دیکھ کر رو رہا تھا حانم کو۔بے تحاشہ روتے دیکھ کر اس کے پاس آیا 

_______

حالہ بیگم کے لیے یہ صدمہ کافی گہرا تھا مگر انہوں نے 

نورِ حانم کے لیے جینا تھا اپنی بیٹی کے لیے اسعد کی لاڈلی کےلئے اس لیے اپنے زخم دل میں چھپائے انہوں نے حوصلہ کیا مگر حانم تو ابھی چھوٹی تھی وہ کہاں سے صبر کرتی رو رو کر خود سخت بیمار کرلیا تھا سب ہی حانم کی بیماری کی وجہ سے بہت پریشان تھے ڈاکٹرز بھی بلا ناغہ اسے چیک کرکے جاتے مگر اس کی ایک ہی رٹ تھی اسے بابا سائیں چائیے 

حانم بیٹا سوپ پی لو تھوڑا سا لان کے سفید سوٹ میں حانم کے سرہانے اپنی سوجھی ہوئے آنکھیں لیے بیٹھی حالہ بیگم نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا 

نہیں پینا نہیں کھانا مجھے بابا سائیں چائیے مجھے بابا چائیے مجھے بابا چائیے 

کہاں سے لا کر دوں میں ہاں کہاں سے لا کر دوں حالہ بیگم ہزیانی انداز میں چیخی پھر حانم کو گلے لگائے رونے لگیں ۔۔۔

________

 تھوڑی دیر بعد حانم کے کمرے کا دروازہ کھٹکا 

حالہ بیگم جو حانم کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی دروازے کی جانب متوجہ ہوئیں 

کون ؟؟

آہو ۔۔۔۔ میر حاکم سائیں کے گلا کھنکھارنے کی آواز پر حالہ بیگم نے اپنا دوپٹہ چہرے کے آگے کیا

حانم بھی فوراً اٹھ کر بیٹھی

آغا سائیں !!!

مجھے نورِ حانم سے بات کرنی ہے اکیلے میں 

جی بہتر حالہ بیگم کمرے سے باہر چلی گئی 

نورِ حانم آغا سائیں کی آواز میں نرمی تھی 

ج۔جی 

آغا سائیں اسی کرسی پر بیٹھ گئے جہاں کچھ دیر پہلے حالہ بیگم بیٹھی تھیں 

میرے پاس آؤ میرا بچہ آغا سائیں کا یہ روپ شاید وہ پہلی ہی تھی جو دیکھ رہی تھی نہیں تو جب سے اس نے ہوش سنبھالا ہے آغا سائیں کو سخت ہی پایا ہے ایسا نہیں تھا کہ وہ صرف اپنے پوتوں سے محبت کرتے تھے انہیں اپنے سب بچے عزیز تھے مگر وہ سب کو حدود میں رکھنے کے قائل تھے 

نورِ حانم انہوں نے پھر پکارا حانم ان کا گھٹنوں پر ہاتھ دھرے اس پر پیشانی ٹکائے رونے لگ پڑی 

آغا سائیں نے بھی اپنا ہاتھ نورِ حانم کے سر پر رکھ دیا 

"دادا سائیں" بابا سائیں کیوں چلے گئے" نورے" وہ ہمارے پاس ہے ہمارے دل میں تمہارے دل میں تمہیں اس طرح روتے دیکھ کر تکلیف میں ہوگا اور تمہاری بی بی سائیں وہ بھی تمہیں روتے دیکھ کر اداس ہو جائیں گی 

اس دن میر حاکم سائیں نور حانم کے لیے" دادا سائیں" اور

 نور حانم ان کے لیے "نورے" بن گئی تھی ....

حانم کو جب ہوش آیا تھا وہ اپنے بستر پر موجود تھی ابھی بھی اسی سرخ جوڑے میں ہی تھی

بھوری آنکھیں اوپر دیوار پر لگے پنکھے کو بلاوجہ ہی گھور رہی تھی اور چہرہ بالکل سپاٹ 

بیڈ سے تھوڑے سے فاصلے پر کرسی پر ایک وجود بیٹھا تھا جو یقیناً میر حاکم سائیں ہی تھے 

بنا پلکے جھپکے مسلسل ایک ہی جگہ دیکھنے پر حانم کی آنکھوں پر مرچیں لگنے لگ پڑی ایک آنسو اس کی بائیں آنکھ سے نکل کر کنپٹی سے ہوتا اس کے بھورے بالوں میں کھو گیا 

حانم درد سے پھٹتے سر کے ساتھ بیڈ سے اتری  اور خاموشی سے واش روم کی جانب بڑھ  گئی 

میر حاکم کو اپنی "نورے" کا یو نظر انداز کرنا دکھ میں مبتلا کرگیا

مگر وہ بھی خاموشی سے اٹھ کر وہاں سے چلے گئے

تنہائیوں کو سونپ کے تاریکیوں کا زہر

راتوں کو بھاگ آئے ہم اپنے مکان سے۔۔۔۔۔

 دو دن ہوگئے تھے حانم بالکل کمرے میں بند ہوکر رہ گئی سب ہی پریشان تھے خاص طور پر ثمینہ بیگم حانم اور حالہ دونوں کے آگے شرمندہ تھیں اور زاویار کو بھی کہیں دفعہ فون ملا چکی تھی مگر وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہورہا تھا

 حانم کی حالت کے زیر نظر سب اسے وقت دینا چاہتے تھے اس لیے اسے زیادہ تنگ نہیں کیا  یہ کوئی چھوٹی موٹی بات تو تھی نہیں 

ملازموں میں بھی حانم کا ہی ٹوپک سرگرم رہتا کوئی اس کے لیے دکھی تھا تو کسی کو تفریح کے لیے موضوع مل گیا تھا 

حالہ بیگم بھی غم کی کرچیاں دل میں سمیٹے لوگوں کی ہمدردی میں چھپے طعنے ضبط سے برداشت کر رہی تھی  

کتنے سفاک جملے تھے لوگوں کے کہ 

ماں بھری جوانی میں بیوہ ہوگئی اور بیٹی نکاح کے چند منٹ بعد ہی طلاق یافتہ 

________

حانم !!!! حالہ بیگم حانم کے کمرے میں آئی جو اپنے بابا سائیں کی تصویر کو سینے سے لگائے لیٹی تھی 

حانم میرا بچی تھورا سا کھانا کھالو 

مما مجھے بھوک نہیں ہے 

حانم تم نے کل کا دودھ کا گلاس پیا ہے تمہاری طبیعت خراب ہوجائے گی میری جان 

نہیں لگ رہی بھوک مما کیا کرو آپ اس میں بھی زبردستی کریں گی 

آپ پلیز دروازہ بند کر کے جایئے گا 

حانم !!! حالہ بیگم کی آواز بھر آئی میرا کیا قصور ہے حانم بس یہ ہی خواہش تھی کہ مرنے سے پہلے تمہاری خوشیاں دیکھ لوں تم شادی کے بعد میری آنکھوں کے سامنے رہو 

لوگوں کی اپنی بیوگی پر باتیں سن سن کر میں تھک چکی تھی حانم مگر شاہد تمہاری خوشیوں کو میری ہی نظر لگ گئی 

حانم تڑپ اٹھی اور ان کے گلے لگی نہیں ماما سائیں آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں 

یہ سب میرے نصیب میں لکھا تھا میں ہی پاگل ہوں جو ابھی تک دکھ منا رہی ہوں 

منہ تو وہ چھپائے جس کی غلطی ہے 

آپ بتائیں کیا بنا کر لائیں ہیں  

واؤ میری پسندیدہ بریانی 

چلیں اب اپنے پیارے ہاتھوں سے کھلا دیں حانم نے آنکھوں کو جھپک جھپک کر ان میں آئی نمی کو اندر دھکیلا 

حانم آغا سائیں بہت پریشان ہیں نہ کھانا کھا رہے ہیں نہ  دوائی لے رہے ہیں

حانم ان کی طرف اسبات میں سر ہلاتی کمرے سے باہر نکل گئی 

حانم کے کمرے سے باہر نکلتے حالی بیگم نے بیڈ پر اسعد سائیں کی تصویر اٹھائیں 

سائیں بہت بڑی زمہ ساری سونپ کر چلے گئے ہیں آپ میں تو آپ کے پاس آنے کی خواہش بھی نہیں کر سکتی 

________

حانم آغا سائیں کے کمرے میں آئی 

بیڈ سے تھوڑے سے فاصلے پر کرسی پر حاکم سائیں بیٹھے ہوئے تھے

ہمیشہ کی طرح میر حاکم سائیں کے گھٹنوں پر ہاتھ دھرے ان پر پیشانی ٹکائے آنکھیں موند گئی 

نورے!!!!

میر حاکم سائیں اپنے گھٹنوں پر وزن محسوس کرکے جاگے اپنی نورے کو اس حالت میں دیکھ کر لب بھینج گئے 

نورے!!!

مگر اس بار بھی اس نے کوئی جواب نہیں دیا 

نورِ حانم!!!! خوف کے زیر اثر حانم کے سر پر دھرا ان کا ہاتھ کانپا 

ان کی خوفزدہ آواز سن کر نور تلخی سے مسکرائی 

دادا سائیں!!!

میرا بچہ مجھے معاف۔۔۔۔

دادا سائیں  آپ کو پتا ہے یہ تحکم یہ غصہ یہ غرور ہمیں وراثت میں ملا ہے آنکھیں ابھی بھی بند تھیں 

جیسے زاویار!!!! ۔۔۔۔۔

سائیں لگانے کی زہمت نہیں کی گئی 

زاویار کے اندر آپ کے آگے نہ جھکنے کی انا ۔۔۔۔

آپ کی برابری کرنے کا جنون ۔۔۔۔۔

(پر میں کیوں پس گئی اس میں )دل کی دہائی

 آپ کے اندر ہمیں  باغی بنانے کا غرور ۔۔۔۔۔۔

میر حاکم سائیں کے گھٹنے پر اپنا سر رکھے ان سے ہی خفا ہوئے  شکواہ کر رہی تھی 

نورے!!!

تو پھر آپ نے کیسے سوچ لیا میں معاف کردوں گی اپنے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو میں بھی اسی خاندان کا خون ہوں اور مجھ میں بھی انا ہے 

بہت ہوگیا سوگ اب میں اپنے خواب پورے کروں گی 

مگر اس بار بند دروازے میں نہیں کُھلی فضاؤں میں 

صحیح کہتے تھے سب وہ بہت بہادر تھی۔۔۔۔

تھی.... تو کیا ،،،،،،

 تھی تو ایک لڑکی نہ 

صنف نازک !!! 

مگر اب بس نہ تو وہ لوگو کے فضول طعنے سنے گی اور نہ ہی ان کی ہمدردی میں کی گئی باتیں

 اب وہ ہوگی اور اس کا خواب جس کو پورا کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا

میں کھانا بھیجواتی ہوں دادا سائیں آپ دوائی وقت پر کھالیجئے گا 

زمین سے اٹھ کر وہ دروازے کی طرف بھری 

میر حاکم سائیں کو نورے کی پائل کی آواز دور جاتی ہوئی محسوس ہوئی 

وہ اس سے یہ نہ پوچھ سکے کہ آج انہیں دوائی وہ خود نہیں کھلائے گی 

 لاڈ سے !!

سختی سے !!!

__________

حانم باہر لان میں آگئی سیاہ سادے سی شلوار کمیز میں اس کی دودھیا رنگت دمک رہی تھی بھوری آنکھیں ہلکی ہلکی سرخی مائل ہوئی دلکش لگ رہی تھی 

حانم حویلی کے وسیع لان میں پیچھے حصے بنے شیلٹر کے نیچے آگئی یہاں زیادہ حویلی کی خواتین کا آنا جانا تھا

لان کے بیچ و بیچ بنا یہ شیلٹر دھوپ اور بارش سے بچانے کے لئے تھا اور بیٹھنے کے لیے بھورے رنگ کی کرسیاں اور ٹیبل لگائے گئے تھے

حانم نے ہاتھ بڑھا کر ہوا میں گھلی بارش کی نمی کو محسوس کیا بارش رفتہ رفتہ تیز ہونے لگی  ہوا کے تیز جھونکے اسے شال کو سختی سے اپنے گرد باندھنے پر مجبور کرگئے 

حانم دو قدم چلتی کھلے آسمان کے نیچے آگئی بارش کے شبنمی قطرے اسے فوراً بھگونے لگ پڑے 

بارش کے قطرے اس کی بھوری آنکھوں سے بے مول ہوتے نمکین پانی کے قطروں کے ساتھ مل کر ان کا بھرم رکھ گئے

تیری دنیا سے ربا یہ صلہ ملا ہے

خوش رہیں خدائی تیری تجھ سے نہ گلا ہے

جی لوں گا میں کسی بھی طرح دل کو سمجھائے 

بارشوں میں رو لوں گا میں آنسو چھپائے

کوئی نہ ستائے مجھے کوئی نہ ستائے

تو رنگ مولا رنگ دے نصیباں مارا ہو 

ہے جگ خودغرض بڑا 

میں جگ سے ہارا ہوں

ان بارشوں میں کھوئی وہ اپنی اب تک کی زندگی یاد کرنے لگ پڑی

وہ بچپن میں اپنے بابا سائیں کی موت کے بعد سے سب سے زیادہ دادا سائیں کے قریب ہوگئی تھی 

اور بچوں میں ساحر سائیں کے ساتھ اس کی گہری دوستی تھی زاویار تو دو ماہ بعد ہی اپنی خالہ کے پاس کینیڈا چلا گیا تھا اسے باہر پڑھنا تھا اس لیے اس سے کبھی بات ہی نہیں ہو پائی ساحر پچپن سے ہی روڈ نیچر کا تھا مگر اس کی بھی صرف حانم سے ہی بنتی اور کوئی نہ تو اس سے بات کرتا تھا نہ ہی خود ساحر سائیں کو شوق تھا ۔۔۔۔

وہ نورا صنم علینہ سب کتنا کھیلتے تھے 

اس کی شرارتیں آغا سائیں کی لاڈلی ہونے کی وجہ سے معاف کردیں جاتی 

بچپن میں ایک دفعہ حانم نورا صنم اور علینہ کے ساتھ

 اپنے گاؤں کے باغ دیکھنے گئی تھی 

وہ تینوں تو پھلوں اور پھولوں سے بڑھے باغ کو دیکھ کر اس کی خوبصورتی میں ہی کھو ہوئی تھی جبکہ حانم کا الٹا دماغ کچھ اور سوچ رہا تھا 

ہانی کیا کر رہی ہو علینہ نے اسے اپنی شال کے نیچے سے گلیل نکالتی دیکھ کر پوچھ  اس سے پوچھا 

یار بھوک لگ رہی ہے کیوں نہ کچھ پھل کھا لیے جائیں

تینوں اس کی مسکین صورت دیکھ کر چونکیں 

حانم بی بی نہ کریں کیوں سانس سوکھا رہیں ہیں

نہیں نہیں آدی سائیں مالی کاکا آگئے تو ڈانٹ پٹے گی 

کس میں اتنی ہمت میر حاکم سائیں کی پوتی کو ڈانٹے 

میں نورِ حانم اسعد حاکم سائیں ہوں حانم نے گردن اکڑا کر کہا 

 حانم کے اتنا لمبا نام بولنے پر دونوں نے مسکراہٹ دبائی

حانم نے گلیل سے سیدھا نشانہ درخت پر لٹکے رسیلے آم کی طرف کیا اور نشانہ لگتے ہی آم زمین پر جا گڑا  

واہ آدی سائیں آپ کا نشانہ کتنا اچھا ہے 

یے نہ ساحر سائیں سے زبردستی سیکھا ہے میں نے 

حانم نے ایک اور نشانہ کیا مگر اس بار وہ آم کے قریب سے گزرتے درخت کے پچھلے حصے میں بندھے کتے کی آنکھ پر لگ گیا 

بھاؤ بھاؤ کتے کی درد سے تڑپتی دھار پر حانم بھی اچھلی کتا تیز رفتاری سے حانم کی طرف لپکا مگر بھیچ میں ہی بڑا پتھر کھا کر زمین پر گڑا 

حانم نے دیکھا ساحر ہاتھ میں بڑے بڑے پتھر پکڑے کتے کو ان سے دور بھگا رہا تھا 

تینوں لڑکیاں ہی ساحر کے پیچھے چھپی ہوئی تھیں 

دوسرے پتھر پر ہی کتا وہاں سے بھاگ گیا 

ساحر ادا سائیں نورا صنم کے ساتھ ساتھ کا بھی گلا خشک ہوا 

مگر نورِ حانم کتے کے دور جانے سکون کی سانس لیتی ساحر کے پاس آئی

ساحر سائیں آپ کو کیسے پتا لگا ہم یہاں ہیں 

نورِ حانم کے اتنے پر سکون انداز میں پوچھنے پر وہ سر جھٹک کر رہ گیا 

میں تم ۔۔۔۔تم لوگوں سے قطے غافل نہیں ہوں

چلو اب حویلی اور آج کے بعد اکیلی مجھے ادھر نظر نہ آؤ اس کی آواز میں سختی تھی 

جی وہ تینوں حقیقتاً سہمی ہوئی تھی 

تم بھی وہ نورِ حانم کی جانب  دیکھ کر بولا مگر اب آواز میں سختی نہیں تھی  مگر وہ جواباً

اپنی بھورے آنکھیں مٹکا گئی

تقریباً شام کا وقت تھا گاؤں کے لوگوں کو زیادہ تر جلدی سونے کی عادت تھی اس لیے سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے 

گھر کے باہر لگی لال ٹینوں کی مدہم سی روشنی میں ایک عکس نمودار ہوا لال گھوگھنٹ میں وہ عکس اس وقت خوفناک لگ رہا تھا اس کے پیروں سے چھن چھن آتی پائل کی آواز ماحول کو اور خوفناک کر رہی تھی 

صغراں ماسی  اور اس کا بیٹا اپنے چھوٹے سے برآمدے میں اس منظر کو دیکھ کر چیخیں مارنے لگے 

چڑیل چڑیل آس پاس کے لوگ بھی اس کی آواز سن کر ادھر اکٹھے ہوگئے 

مگر تب تک وہ وجود وہاں سے ہوا کی طرح غائب ہوگیا 

_______

سردار سائیں میں سچ کہہ رہی ہوں مجھے میرے بیٹے کی قسم میں نے سرخ گھونگھٹ والی چڑیل کو اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھا تھا اور اس کی پائل 

صغراں ماسی نے جھرجھری لی 

دادا سائی۔۔۔۔۔ نورِ حانم جو ان کے کمرے آنے لگی تھی وہقں صغراں ماسی کو اپنے بیٹے کے ساتھ دیکھ کر دروازے پر ہی رک گئی 

اچھا صغراں ماسی تم آج رات اپنے بیٹے کے ساتھ ہماری حویلی کے کواٹر میں رک جاؤ صبح میں راشد کو بھجوا گا دیکھنے کے لیے 

شکریہ سردار سائیں اللّٰہ سائیں آپ کو سلامت رکھے 

نورِ حانم وہاں سے جانے لگی جب آغا سائیں نے اسے آواز دی 

نورے 

حانم آنکھیں میچ کر اندر داخل ہوئی فوراً ان کے پاس زمین پر بیٹھی 

دادا سائیں صغراں ماسی جھوٹ بول رہی ہے 

مگر اس نے تو مجھے کچھ کہا ہی نہیں 

حانم اپنی جلد بازی اور اپنی زبان اپنے دانتوں تلے دبا گئی

دادا سائیں بھولا( صغراں کا بیٹا )لڑکیوں کو تنگ کر رہا تھا انہیں چڑیل کہ رہا تھا اور تو اور نوراں کے بال بھی کھینچے مگر جب میں نے صغراں ماسی کو بتایا تو وہ کہنے لگی 

"میرا بھولا تو بڑا معصوم ہے " 

ٹیڑے میرے منہ بناتی انہیں ہنسنے پر مجبور کر گئی

مگر نورے آج کے بعد تم اس وقت حوالے سے باہر گئی تو میں تم سے ناراض ہوجاؤں گا اب ان کا لہجہ سخت تھا 

حانم کی مسکراہٹ تھمی نہیں دادا سائیں آج کے بعد ایسا نہیں ہوگا آپ مجھ سے ناراض مت ہوئیے گا ۔۔۔

ہممم ان کا ہاتھ پھر حانم کے سر پر تھا 

بچپن میں جس جس چیز کی خواہش ہوتی حانم کی پوری کہ جاتی 

گھڑ سواری سیکھنا ہو یاں شہر جا کر پڑھائی

..........

حانم دھیرے دھیرے قدم چلتی آغا سائیں کے کمرے میں آئی جو اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھے کسی کتاب کے مطالعہ کرنے میں مصروف تھے

حانم ان کے پیچھے کھڑے ہوکر ان کے کندھے دبانے لگی 

نورے میر حاکم نے کتاب بند کرکے مسکراتے ہوئے حانم کو پکارا حانم اپنے مخصوص انداز میں ان کے گھٹنے پر سر ٹکائے بیٹھ گئی 

پتا نہیں اسے کیا سکون ملتا تھا جب وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھتے تھے

دادا سائیں !!!!

حانم کی آواز میں لجاہٹ تھی وہ سمجھ گئے تھے ان کی لاڈلی ضرور کچھ نہ کچھ منوانے آئی ہے

نورے ،،،،،

دادا سائیں ہماری حویلی کے استبل میں کتنے خوبصورت گھوڑے ہیں 

نہیں حاکم سائیں نے صاف انکار کیا

پلیز۔پلیز دادا سائیں پکا پھر کبھی نہیں کہوں گی

نہیں نورے وہ باغی گھوڑے ہیں تمہیں چوٹ لگ جائے گی

نہیں لگتی نہ دادا سائیں آپ کی نورے بہت بہادر ھے 

نورے ،،،، انہیں نے آنکھیں دیکھائی 

پلیزززز معصوم سے منہ بنا کر آنکھیں گیلی کی اور بس !!!

اچھا ٹھیک ہے مگر تم کس سے سیکھو گی 

وہ نیم رضا مند ہوئے ساحر سائیں سے پلیز دادا سائیں 

ساحر کے نام پر ان کا چہرہ سپاٹ ہوا 

اچھا مگر اگر تمہیں ذرا سی بھی چوٹ لگی تو بھول جانا

اوکے میرے پیارے دادا سائیں

نور حانم عقیدت سے ان کے ہاتھوں پر پیار کرتی وہاں سے دوڑ گئی

اور پھر کچھ دنوں بعد پھر دادا سائیں مجھے پڑھنا ہے آگے پلیز پلیز  

گاؤں میں انٹر  کے بعد کوئ یونیورسٹی نہیں تھی مگر حانم نے حاکم سائیں سے ضد کرکے شہر میں دو سال لگا کر  اپنا بی بی اے پورا کیا تھا گو کہ یہ اس کے لیے مشکل تھا روز شہر آنا جانا مگر اسے پڑھائے کا شوق تھا

سو اس کی یہ بات بھی مان لی گئی تھی 

________

 گھر کے سب بڑے آغا سائیں کے کمرے میں موجود تھے

جی آغا سائیں آپ نے ہمیں یاد کیا 

ہاں جواد سائیں سناو گاؤں کے کیا حالات ہیں پچھلے جرگے کا فیصلہ ہوگیا ہے 

جی آغا سائیں لڑکی کا قصور تھا اور اسے سخت سزا مل ہے جواد سائیں نے ایک حقارت آمیز نظر آنسہ بیگم پر ڈال کر بات جاری کی 

ہمممم ۔۔۔۔میں نے تم لوگوں کو یہ بتانے کے لیے بلایا ہے کہ میر زاویار سائیں اگلے ہفتے واپس آرہے ہیں 

کیا زاویار سائیں ثمینہ بیگم اپنے بیٹے کے آنے کی خبر سن کر خوشی سے نہال ہوئی

یہ تو بہت اچھی خبر ہے آغا سائیں جاوید سائیں بھی اپنے بھتیجے کی آنے کی خبر سن کر خوش ہوئے 

جیسا کہ تم لوگ جانتے ہو وہ حویلی کا پہلا وارث ہے اس گاؤں کی گدی کا حقدار بھی اس کے آتے ہی میں اسے گدی نشین کرنا چاہتا ہوں 

اور دوسری بات سب ایک دفعہ پھر ان کی طرف متوجہ ہوئے 

میری خواہش ہے کہ میر زاویار سائیں کی شادی نورِ حانم سے ہو 

کسی کو کوئی اعتراض؟؟؟

یہ خبر سن کر جہاں ثمینہ بیگم خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھیں 

وہی شائستہ بیگم کے ماتھے پر تیوریاں چڑھیں 

اور آنسہ بیگم کے بھی چہرے پر ایک سایہ سا آکر کر لہرایا

نہیں آغا سائیں نورِ حانم میری بھتیجہ ہے اور مجھے اپنے بچوں جتنی عزیز بھی 

حالہ بہو آغا سائیں کی آواز پر وہ چونکی 

آغا سائیں میرے لیے بہت بڑی بات ہے اس سے بڑھ کر مجھے کیا چائیے کہ میری بیٹی میرے سامنے رہے گی مگر بچوں کی خواہش

ہمممم۔۔ تم فکر مت کرو دونوں کی رضامندی پر ہی ہوگا 

_________

مگر دادا سائیں میں ابھی آگے پڑھنا چاہتی ہوں 

تم  پڑھ لینا ویسے بھی ابھی صرف نکاح ہوگا آغا سائیں نے اس کے اعتراض پر کہا 

نورے تمہارے دادا سائیں تمہارے لیے کبھی کوئی غلط فیصلہ نہیں کرسکتے تمہے یقین نہیں 

نہیں مجھے خود سے بڑھ کر آپ پر یقین ہے دادا سائیں 

مگر وہ کنفیوز ہوئی 

کھل کر کہو نورے مجھ سے چھپانے کی ضرورت نہیں 

مطلب ( مجھے تو عرصہ ہوئے اسے دیکھے اس سے بات کیے میں کیسے) وہ یہ بات دل میں ہونے کے باوجود بھی ان سے نہ کہ سکی اتنی بے باک نہیں تھی وہ 

 آپ ادھر سے رضامندی لے لیں پھر جب نکاح ہوگا بتا دیجئے گا میں تیار ہوجاؤں گی 

اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ اس نے اپنے دادا سائیں پر چھوڑ دیا 

جیتی رہو میری نورے اللّٰہ سائیں تمہے ہر خوشی سے نوازے

اس کے سر پر دست شفقت رکھ کر وہ وہاں سے چلے گئے 

________

زاویار کے واپس آنے کی خبر اسے ہوگئی تھی 

کچھ فطری جھجھک تھی وہ اس کے سامنے جانے سے کترا رہی تھی اس کی طرف سے رضامندی مل چکی تھی  پھر کیوں کیوں اس نے ایسا کیا اس کے الفاظ ہتھوڑے کی طرح برس رہے تھے اس کے دماغ پر

۔۔۔۔۔۔۔

بادل گرجنے کی آواز پر وہ ہوش میں آئی بارش اسے مکمل بھیگا چکی تھی 

اس کی غیر ارادی طور پر نظر اپنے مہندی سے سجا ہاتھوں پڑی 

وہ وقت یاد آیا جب صنم وغیرہ اسے چھیڑ رہے تھے 

ادی سائیں اللّٰہ آپ کے ہاتھوں پر مہندی کا رنگ کتنا گہرا آیا ہے لالہ سائیں تو آپ کے ہاتھ چپ۔۔۔۔۔ بے شرم  

حانم تلخی سے مسکرادی

آج تین دنوں بعد ساحر حویلی واپس آیا تھا اور وہ کس دل سے آیا تھا یہ بات تو اللّٰہ اور اس کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا 

"وہ" کسی اور کی ہوچکی ہے یہ بات اذیت کی کن گہری کھائیوں میں پہنچا چکی تھی اسے وہ بس ضبط ہی کر سکا 

ساحر نے جب سے ہوش سنبھالا تھا اس نے سب بڑوں کا اپنی ماں اور اپنے ساتھ سرد رویہ ہی محسوس کیا تھا سوائے اسعد سائیں کے وہ ہمیشہ اس سے شفقت سے پیش آتے 

مگر جب حانم پیدا ہوئی تو اسے لگا اسعد سائیں اب اس سے دور ہو جائیں گے شروع شروع میں وہ حانم سے بھی چڑنے لگا مگر جہاں دوسرے بچے اس سے دور رہتے حانم ہر وقت اس کے سر پر سوار رہتی کبھی کوئی مزاق کر دیتی تو کبھی کوئی کام زبردستی کرواتی آہستہ آہستہ اس نے حانم کو زندگی کے اہم حصے کی طرح قبول کر لیا

اور پھر وہ اسے عزیز ہوتی گئی 

 اسے چند سالوں پہلے کا واقع یاد آیا ۔۔۔۔

رات کے دو بجے کا وقت تھا ساحر ابھی دوسرے شہر سے لونگ ڈراؤ کرکے واپس آیا تھا بھوک تو بہت لگ رہی تھی مگر تھکاوٹ اتنی تھی کہ بھوک کو بھاڑ میں جھونک کر اپنے کمرے کی طرف کا رخ کر گیا مگر اپنے کمرے کے دروازے کے باہر کھڑی حانم کو دیکھ کر چونک گیا 

تم اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو؟؟؟ 

رات کے اس پہر حانم کا یہاں کھڑا ہونا ٹھیک نہیں تھا اس لیے لہجے میں تھوری سختی کا عنصر نمایاں تھا 

کیوں یہاں پر کھڑا ہونا بین ہے وہ حانم ہی کیا جو کسی بات کا ٹھیک سے جواب دے دے 

دیکھو اس وقت تمہارا یہاں پر کھڑا ہونا ٹھیک نہیں تم۔۔۔۔

اچھا تو پھر چلیں اس کی بات کاٹ کر بولی

کہاں؟؟؟؟

ساحر نے چونک کر اسے دیکھا 

کیچن !!!

کیچن ؟؟؟ کیوں؟؟؟

اففف ساحر سائیں خود ہی تو کہا ہے یہاں پہ کھڑے ہو کر بات کرنا ٹھیک نہیں آپ کیچن میں آئیں آپ کو پوری بات بتاتی ہوں 

ساحر نفی میں سر جھٹکتا اس کے پیچھے جانے لگا کیونکہ بنا بات منوائے وہ کہاں ٹلنے والی تھی 

یہ لیں۔۔۔۔ حانم نے کیچن میں پہنچ کر اسے مختلف کیبنٹ سے سامان نکال کر اس کے آگے رکھا 

یہ سب کیا ہے ؟؟ ساحر کو اب سچ میں تعجب ہوا 

پاستے کا سامان مجھے پاستہ کھانا قسم سے ساحر سائیں مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے

نور حانم کی فرمائش پر ساحر صاحب کی تیوری چڑھی   تمہے ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں تمہیں پاستا بنا کر کھلاؤں گا

اور آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ آپ پاستا نہیں بنائیں گے

نور حانم نے اپنے ہاتھ اپنی کمر پر رکھے 

ساحر سائیں نے اس کی اس ادا پر نظر چرائی

دیکھو اس  وقت میں بہت تھکا ہوا ہوں تم۔۔۔۔۔۔

نورِ حانم،،،، نورِ حانم نام ہے میرا یہ تم تم کیوں کرتے ہیں آپ ساحر سائیں اور دوسری بات مجھے بھوک لگ رہی تھی میں نے رات کو بھی کھانا نہیں کھایا تھا آپ کو دوست سمجھ کر کہہ دیا کیا ہوگیا اگر مجھے کوکنگ نہیں آتی 

"نورِ حانم اسعد حاکم "نام ہے میرا کوکنگ بھی سیکھ لوں گی پھر آپ کو پوچھوں گی تک نہیں حانم نے غصے سے رخ موڑ لیا 

یہ لو ساحر کی آواز پر حانم نے چونک اسے دیکھا جس نے ایک سیب نفاست سے کاٹ کر پلیٹ میں رکھ کر اس کی جانب بڑھایا اور اب مہارت سے سبزیاں کاٹ رہا تھا 

تھوڑی دیر میں پاستہ بنا کر اس نے حانم کے سامنے رکھا 

ساحر سائیں مجھے اکیلے کھانا کھانے کی عادت نہیں ہے اسے کچن سے باہر جاتے دیکھ کر بولی تو وہ چار و ناچار خاموشی سے تھوڑا پاستہ اپنے لیے بھی نکال کر کھانے لگا 

واہ کیا ٹیسٹ ہے واہ ساحر سائیں آپ کی بیوی بہت لکّی ہوگی اپنے دھیان میں کھاتی مزے سے بولی 

حانم کی بات پر ساحر کو بہت برا پھندا لگا حانم نے فوراً پانی کا گلاس س اس کی طرف بڑھایا جسے وہ فٹافٹ پکڑ کے گھٹک گیا 

یہ سوچیں تمہے آتی کہاں سے ہیں ؟؟؟ درد ہوتے گلے سے اس نے بامشکل پوچھا 

افکورس ون اینڈ اونلی دی گریٹ گریٹ نورِ حانم کے دماغ سے 

ویسے میں نے سوچا ہے آج دی کھڑوس آئی مین دی گریٹ ساحر سائیں نے مجھے پاستہ بنا کر کھلایا ہے تو میں بھی گاجر کا حلوہ بنانا سیکھ کر ضرور کھلاؤ گی وہ یہ کہہ کر اپنی پلیٹ سنک میں رکھتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی 

جبکہ وہ اس کے جانے کے بعد اس کی خالی کرسی کو دیکھتا رہ گیا 

حانم کا خود پر رعب جمانا اسے بالکل برا نہیں لگتا تھا اس کی الٹی سیدھی حرکتیں اسے عزیز تھی مگر اسے گھر والوں کا اپنے ساتھ سرد رویے پر خوف اتھا تھا۔۔۔

اور پھر جس بات کا ڈر تھا وہ ہی ہوا جب آنسہ بیگم نے اسے آکر بتایا کہ زاویار آرہا ہے اور اس کے ایک ہفتے بعد اس کا نکاح نورِ حانم سے کردیا جائے گا 

اس رات نہ ساحر سویا تھا نہ ہی آنسہ بیگم وہ اپنے بیٹے کو دکھ میں دیکھ کر کیسے سو سکتی تھی 

مگر جب اسے پتا لگا کہ حالہ بیگم کی خواہش ہے کہ حانم کا رشتہ اس کی رضامندی سے کیا جائے تو اس کے دل میں آس تھی جو اگلے ہی دن آغا سائیں کی بات پر ختم ہوگئی کہ حانم اس رشتے پر راضی ہے 

رہی بات زاویار کی جب ساحر زاویار سے ملا تھا اسے بہت مغرور لگا جہاں رہی بات حسن و وجاہت کی وہ تو میروں کو وراثت میں ملا تھا 

سفید رنگت اونچا لمبا قد اور چوڑے شانے ایبروڈ کی ڈگری اور گاؤں کے مستقبل کا سردار غرور تو پھر آنا ہی تھا 

مگر دونوں میں ہی پہلی ملاقات بالکل بھی اچھی نہیں تھی جس طرح زاویار نے ساحر کو جھتلایا تھا کہ وہ ان کے ٹکڑوں میں پل رہا ہے 

اگر اس کا تعلق حانم سے نہ جڑا ہوتا تو وہ اسے اچھے سے بتاتا کہ وہ کیا ہے 

مگر ہر شہ کی طرح یہ بات بھی ساحر درگزر کرگیا 

ان کے نکاح سے ٹھیک ایک دن پہلے اسے ایک ضروری کام سے جانا پڑا گو کہ کام زیادہ بھی ضروری نہیں تھا مگر اسے تو صرف ایک بہانہ چائیے تھا جو اسے مل گیا 

اس نے سوچا تھا جب وہ حویلی جائے گا ہر طرف قہقہے اور کھکھلاہٹوں کا دور چل رہا ہوگا وہ بھی مسکراتی تتلی کی طرح ادھر اّدھر اڑتی پھر رہی ہوگی اور وہ اسے خوش دیکھ کر اس دل کو سمجھا لے گا 

مگر اس کی سوچ کے برعکس حویلی میں خاموشی چھائی ہوئی تھی دوپہر کا وقت تھا بارش اب قدرے ہلکی ہو چکی تھی  وہ لان کی دوسری طرف سے حویلی میں داخل ہوا سامنے کا منظر اس کے قدموں کو زنجیر کر گیا

نورِ حانم سیاہ لباس میں اس وقت مکمل بارش میں بھیگی لان کے بیچ و بیچ کھڑی تھی 

حانم کو بارش بہت پسند تھی اتنی کے سردیوں کی بارش میں بھی وہ کسی کی نہ سنتی 

ساحر نے آنکھیں میچ کی وہ پہلے بھی اسے دیکھنے پر احتیاط برتتا تھا مگر اب تو وہ کسی اور کی ہوچکی ہے 

ساحر کو اسے دیکھ کر ایک شعر یاد آیا جسے اس نے زیر لب دہرایا 

گنگناتی ہوئی آتی ہیں فلک سے بوندیں۔

کوئی بدلی تیری پازیب سے ٹکرائی ہوگی 

ساحر نے بھی ہاتھ بڑھا کر ان بارش کے قطروں کو تھمنا چاہا مگر وہ پھلتی ہوئی اس کی مٹھی سے جدا ہوگئی جیسے نورِ حانم!!!

محبت تو بارش ہے

جس سے چھونے کی تمنا

 ہر کوئی رکھتا ہے ۔زید

مگر ہاتھ ہمیشہ خالی رہ جاتے ہیں

حانم کو ایک ہی جگہ کافی دیر سے بغیر ہلے کھڑے دیکھ کر ساحر کو تشویش ہوئی اس لیے اس نے قدم حانم کی طرف بڑھائے

________

صنم سائیں صنم جی جی آدی سائیں علینہ کے چھوتی دفعہ جھنجھوڑ کر بلانے پر صنم کو ہوش آیا کہاں کھوئی ہوئی ہو تم صنم ہوش ہے کب سے دودھ ابل رہا 

صنم نے آگے ہوکر دیکھا دیکچی میں دودھ پک پک کر آدھا رہ گیا تھا 

می۔میں ٹھیک ہوں 

ادی سائیں 

ہممم بولو صنم 

ادی سائیں اگر آپ سے مزاق مزاق میں کسی کا بہت بڑا نقصان ہوجائے تو اس کا گناہ ملتا ہے 

صنم نے کھوئے ہوئے لہجے میں پوچھا 

پہلی بات تو ایسا مذاق کرنا ہی نہیں چاہیے جس سے کسی کو نقصان ہونے کا خدشہ ہو

دوسری بات تم یہ کیوں پوچھ رہی ہو کیا کیا ہے تم نے؟؟

علینہ نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا 

نہیں وہ نہ مجھ سے مزاق مزاق میں سونیا ادی سائیں کی ڈریس خراب ہوگئی تو کیا ہوا تم ان سے معافی مانگ لوں سمپل!!!

وہ معاف کردیں گی

افکورس اگر پھر بھی ناراض رہی تو اخضر ادا سائیں کے ساتھ جا کر اس کے لیے نیا ڈریس لے آنا 

جھلی علینہ نے صنم کے سر پر ہلکی سی چپت لگائی اور اپنے کام میں مگن ہوگئی

میں معافی مانگ لوں گی اوکے بائے اینڈ تھینک یو آدی سائیں وہ علینہ کا گال کھینچ کر بھاگ گئی

ہممم پاگل علینہ مسکرا کر رہ گئی 

________

سونیا صنم کو حانم کے کمرے کی طرف جاتے دیکھ کر چونکی

 صنم تم یہاں کیا کر رہی ہو؟؟

سونیا کی آواز پر صنم اچھلی 

وہ ۔وہ میں میں حانم ادی کو سب سچ بتانے جارہی ہوں 

سونیا کے ماتھے پر تیوریاں چڑھیں

پھر وہ صنم کو بازو سے پکڑے اپنے کمرے میں لے گئی 

کیا سچ بتانے جا رہی تھی تم ہاں بولو 

سونیا ادی مجھے انہیں اس دن کی سب باتیں بتانیں ہیں ہانی آپی کی قصور وار ہوں میں زاوی لالہ کو ہماری وجہ سے غلط فہمی ہوئی تھی ۔۔۔۔

مزاق ۔۔۔۔ 

سونیا کو ان کے نکاح سے ایک دن پہلے کا منظر یاد آیا 

________

سونیا نے جب سے زاویار کو دیکھا تھا اسے حانم سے حسد ہورہا تھا حانم ہر چیز میں اس سے آگے تھی پڑھائی دوسرے کام اور اس کی خوبصورتی نے جلتی پر تیل کا کام کیا رہی کثر آغا سائیں کا اس سے بے انتہا لاڈ پیار اور اب وہ اس گاؤں کے سردار کہ بیوی بن کر بیگم سردار بن جائے گی 

نہیں یہ کیسے 

سونیا اپنے کمرے کی کھڑکی کھول کر کھڑی ہوگئی اس کا کمرہ لان کے ساتھ اٹیچ تھا 

_______

ہاں یار بول 

ہممم ابھی تو آنا مشکل ہے ارے یار آغا سائیں میرا نکاح کر رہے ہیں 

ارے یار میرا کوئی ریلیشن تو تھا نہیں اس لیے میں ہاں کردی

دیکھا!!!! نہیں یار ابھی تو نہیں دیکھا اب تو دو دن رہ گئے ہیں اب نکاح کر ہی ملاقات ہوگی 

ہاہاہاہا زیادہ بکواس نہ کر 

مقابل کی کسی بات پر قہقہ لگا کر فون بند کر گیا 

سونیا نے حسرت سے اس کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھا 

________

صنم کیا کر رہی ہو 

سونیا نے صنم کو پکارا جو پھولوں کو جمع کیے نہ جانے کیا کر رہی تھی 

جی سونیا ادی صنم نے اسے دیکھا ادھر آؤ پھر بتاتی ہوں 

جی صنم ہاتھ جھاڑتی سونیا کے ساتھ آئی جو اسے لان میں لے آئی تھی 

ہم نے نہ زاویار سائیں کو تنگ کرنا ہے 

تنگ زاوی لالہ سائیں کو کیوں ؟؟ صنم نے نا سمجھی سے کہا 

ارے بدھو زاویار سائیں نے ابھی تک حانم کو نہیں دیکھا ہم نہ ان کے سامنے حانم کو بد صورت مطلب حانم کے لیے الٹی سیدھی باتیں کریں گے اور پھر کل نکاح پر وہ وہ حانم کو دیکھیں گے تو شوک ہوجائیں گے 

صنم کے چہرے پر بھی شرارتی مسکراہٹ آئی

ٹھیک ہے آدی سائیں

________

زاویار اپنے دوست سے بات کرکے ادھر لان میں بیٹھ گیا 

جب اسے اپنے پس سے سے سونیا اور صنم کی آوازیں آئیں 

یار زاویار سائیں کیسے گزارا کریں گے حانم کے ساتھ زاویار سائیں اتنے پیارے اور پڑھے لکھے اور کہاں ان پڑھ حانم نہ ڈھنگ کا  کھانا بنانا آتا یے اور نہ ہی دوسرے کام اوپر سے اتنی موٹی 

سونیا نے صنم کو آنکھ ماری 

کیا بتاؤں سونیا ادی مجھے خود زاوی لالہ سائیں کے لیے اتنا برا لگ رہا ہے حانم آپی تو کسی کو منہ نہیں لگاتی 

آغا سائیں کو بھی اتنی عزیز ہے اپنی پوتی کہ اسے سامنے رکھنے کے لیے زاویار سائیں کے گلے کا ڈھول بنانے لگے ہیں 

وہ دونوں تو وہاں سے چلی گئی مگر پیچھے زاویار کے دل و دماغ کو بالکل بدگمان کرگئیں

________

تم اگر یہ ساری باتیں حانم کو بتاؤ گی تو وہ تمہے معاف کردے گی

نہیں ہرگز نہیں

مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے مگر میں ضمیر کے اس بوجھ

کو نہیں اٹھا سکتی اس سے پہلے صنم وہاں سے جاتی سونیا کی آواز پر اس کے قدم تھمے 

یہ۔یہ آ۔آپ کیا کہہ رہی ہیں سونیا ادی

تم ساحر سائیں کو پسند کرتی ہو نا

اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہوا 

 سچ کہہ رہی ہوں میں اور مجھ سے چھپانا مت تمہارے کمرے میں پڑھیں ڈائری پر بڑا بڑا لکھا ساحر سائیں اس بات کی گواہی ہے کہ تمہارے دل میں اس کے لیے کچھ ہے 

دیکھو صنم اگر تم نے یہ مزاق والی بات حانم کو بتائی تو ساحر سائیں۔ کو بھی پتا لگ جائے گی اور تم انہیں کھو دو گی تم نے ہی بتایا تھا نہ ساحر سائیں نے بھولے کو صرف حانم کا نام بگاڑنے پر کتنا مارا تھا 

اس لیے اگر تم ساحر سائیں کو نہیں کھونا چاہتی تو یہ بات  یہی دبا دو یہ بات تمہیں اور مجھے نہیں پتا ہے

میں کسی کو نہیں بتاؤ گی 

صنم کی نظر کھڑکی سے باہر لان میں کھڑے ساحر اور حانم پر پڑی جو دونوں ہی بارش میں بھیگے ہوئے تھے

 اس کے دل کو کچھ ہوا

تم مکمل بھیگ چکی ہوں تمہارا یہاں پر کھڑا رہنا مناسب نہیں ہے 

ساحر کی آواز پر نورِ حانم نے چونک کر اسے دیکھا 

کیا ؟؟؟؟ اسے سمجھ نہ آئی کہ ساحر نے اسے کیا کہا ہے 

جی ؟؟؟ حانم نے پھر نا سمجھی سے اسے دیکھا

اتنی خوشی ہے نکاح کی اس موسم کی بارش میں بھیگ رہی ہو 

ساحر خود کو باور کروانے کی غرض سے بولا مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اپنے الفاظ سے وہ حانم کو کتنی بڑی اذیت دے چکا ہے 

نکاح!!! حانم نے زیر لب کہا 

ہاں نکاح سوری مجھے دوسرے شہر جانا پڑگیا تھا نہیں تو تمہاری خوشی میں ضرور شرکت کرتا ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ سجائے اس کے غم سے بے خبر بول رہا تھا 

ساحر سائیں۔۔۔۔ جانے کیا تھا اس کی پکار میں ساحر ساکت ہوا 

آپ نے تو کہا تھا کہ آپ کبھی ہم سے غافل نہیں ہوئے

میں۔۔۔۔ خیر ویسے نکاح کی مبارکباد دے رہے تھے 

خیر مبارک!!!

یہ کہہ کر خاموشی سے وہاں سے چلی گئی

ساحر پریشان سا کھڑا رہ گیا 

ایسا کیا ہوا ہے جو حانم اس پر اتنا گہرا طنز کر گئی تھی

کوئی صلح کرا دے زندگی کی الجھنوں سے

بڑی طلب لگی ہے ہمیں بھی آج مسکرانے کی

________

پیرس !!!!

ہے یار کیسا ہے تو اور کب آیا مجھے ابھی اپنی پی اے سے پتا لگا زارون آکر زاویار کے گلے ملا

میں ٹھیک ہوں میں کل ہی آیا ہوں 

اچھا ڈائرکٹ پاک سے پیرس ہممم اور سنا بھابھی کیسی ہیں ؟؟؟

نہیں پاک سے آئے ڈیرھ ہفتہ ہوگیا ہے

لندن میں تھا کل ہی پیرس آیا ہوں 

کیا ڈیرھ ہفتہ کیا نکاح کے اگلے دن ہی اٹھ کے آگیا تھا زارون نے دو کپ کافی اوڈر کرکے  اس کے پاس آفس میں لگی گلاس ونڈو کے پاس آ کر مزاحیہ انداز میں کہا

نہیں نکاح والی رات ہی 

زارون نے چونک کر زاویار کے چہرے پر دیکھا مگر اسے مزاق کی کوئی رمک تک نہیں نظر آئی 

تو کیا کہہ رہا ہے زاویار مطلب اتنی بھی کون سی آفت آگئی  تھی جو تو اپنی اپنے نکاح والی رات ہی واپس آگیا 

کیا سوچتی ہوں گی بھابھی 

وہ تیری بھابھی نہیں ہے 

آف کورس وہ میری بھابھی ہے 

مگر اب نہیں ہے 

زارون زاوی کی فضول بات پر جھنجھلایا 

کیا مطلب؟؟؟

۔۔۔۔

زاویار ریلیکس انداز میں کرسی سے ٹیک لگائے گھونٹ گھونٹ کافی پی رہا تھا جبکہ زارون مسلسل آفس روم میں ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہا تھا 

تجھے تجھے اب میں کیا کہوں کمینے تو اسے طالاق دے آیا ہے تو کیسے ایسا کرسکتا ہے زاویار 

کیوں نہیں کر سکتا آغا سائیں نے میری انا کو للکارا ہے 

انہیں کیا لگتا ہے میں ان کی دولت کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا 

زاویار بھی آپے سے باہر ہوکر چیخا 

_________

زاویار کو وہ دن یاد آیا  

جب آغا سائیں نے اسے بتایا تھا کہ وہ اسے گاؤں کا سردار بنانے کے ساتھ اس کا نکاح اس کی کزن کے ساتھ کر رہے ہیں 

سردار والی بات پر وہ خاموش ہوگیا حالانکہ اس کا مستقبل میں اس گاؤں میں رہنے کا کوئی موڈ نہیں تھا پھر بھی وہ فلحال خاموش ہوگیا 

مگر دوسری بات پر اس نے آغا سائیں کو صاف منع کردیا اس نے ابھی شادی کے بارے میں نہیں سوچا تھا اور ابھی سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا 

میر زاویار سائیں کیا تم کسی کو پسند کرتے ہو ؟؟؟

آغا سائیں نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر سوال کیا 

نہیں آغا سائیں ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ میں ۔۔۔۔۔

تو پھر انکار کرنے کی وجہ ؟؟؟ انہوں نے اسے بھی میں ٹوک کر کہا 

میں ابھی شادی کے لیے تیار نہیں ہوں آغا سائیں

کیوں تم کوئی دودھ پیتے بچے ہو ان کا۔طنز سے بڑا تیر اسے چبھا 

ماشاءاللہ سے پڑھ لکھ لیے اور اللّٰہ سائیں کے کرم سے اسی ہفتے تمہیں گاؤں کی زمہ دادی بھی سونپ دیں گے 

اس لیے کوئی معقول وجہ بتاو آغا سائیں نے اپنی گھڑی کی طرف دیکھ کر کہا 

آغا سائیں کیا ہے نہیں کرنی نہ مجھے شادی 

بغیر کسی معقول وجہ کے تم مجھے انکار نہیں کرسکتے میر زاویار سائیں اور دوسری بات تمہے یہ خوش فہمی کیوں ض1 ہوگئی کہ ہم تمہاری شادی کر رہے ہیں ابھی بس ہم تمہارا نکاح اپنی نورے کے ساتھ کریں گے 

رخصتی ابھی نہیں ہوگی 

صرف نکاح !!!!

زاویار نے پر سوچ انداز میں انہیں دیکھا 

ہمممم۔۔۔

ٹھیک ہے میں اس نکاح کے لیے راضی ہوں 

(جب میں کسی کو پسند نہیں کرتا تو کیا فرق پڑتا ہے

آپ ے خاندن کی لڑکی ہے اچھی ہی ہو گی  )

اس نے دل میں سوچا 

آغا سائیں کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی ہمیں تم سے یہ ہی امید تھی میر زاویار سائیں آغا سائیں نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی

دن تیزی سے گزر رہے تھے کل اس کا نکاح تھا حانم سے جس سے ملے ہوئے بھی اسے دس سال ہوگئے تھے اور وہ اسے اتنی خاص یاد بھی نہیں تھی 

حویلی میں موجود ہونے کے باوجود بھی وہ اپنی ہونے والی منکوحہ سے مل نہ سکا 

چلو کل ہی سہی اتان بھی اسے کوئی شوق نہیں تھا ملنے کا 

اپنے دوست سے فون میں بات کرنے کے بعد وہ لان میں لگی کرسیوں میں ہی بیٹھ کر اپنے بزنس پلینز سوچ رہا تھا 

جب اسے صنم اور سونیا کی سرگوشیاں سنائیں دیں 

ان کی سرگوشیاں اسے صاف سنائیں دے رہی تھیں خاص طور پر حانم کا زکر سن کر اس کے کان کھڑے ہوگئے 

کہاں حانم کہاں زاویار

وہ ان پڑھ تو وہ پڑھا لکھا 

اور بہت سی باتیں زاویار کا دل بدگمان ہونے لگ پڑا ابھی وہ وہاں سے اٹھتا سونیا کی اگلی بات پر اس کے قدم تھمے 

نا جانے اس میں ایسی کیا کمی ہے جو آغا سائیں اسے زاویار سائیں کے گلے کا ڈھول بنانا چاہتے ہیں 

وہ لوگ تو وہاں سے چلی گئیں تھیں مگر زاویار کا دل مکمل بے زار اور بدگمان کر گئیں تھیں 

نہیں ہر گز نہیں میں کسی پوہڑ لڑکی سے شادی نہیں کرسکتا میں کسیے اسے اپنے سوشل اور بزنس سرکل میں انٹروڈیوز کرواؤ گا 

مجھے ایک ایسی بیوی چائیے جو میرے شانا بہ شانہ ہو کر چلے یہ سلی حانم نہیں میں ابھی آغا سائیں سے بات کرتا ہوں

ابھی وہ آغا سائیں کے کمرے میں جاتا راستے میں اسے روتی ہوئی سونیا مل گئی 

کیا ہوا سونیا تم تو کیوں رہی ہو ؟؟؟

رہنے دیں میں ٹھیک ہوں 

پھر بھی بتاؤ تو سہی

 زاویار سائیں آپ خواہ مخواہ ہی پریشان ہورہیں ہیں کچھ نہیں ہوا مجھے 

سونیا،،،،،

زاویار اس کے بار بار انکار کرنے پر چڑتا  ہوا وہاں سے جانے لگا جب سونیا بولی 

وہ میں حانم کو مہندی لگانے گئی تھی تو اس نے مجھے جھٹک کر کمرے سے نکال دیا کہ رہی تھی اس کے پاس ان فضولیات کا وقت نہیں ہے 

پہلے تو زاویار کا دل کیا وہ اندر جا کر دیکھ ہی لے اس

 بد تمیز لڑکی کو مگر اپنا ارادہ بدلتا وہ آغا سائیں کے کمرے کی جانب بڑھا

آؤ زاویار سائیں بتاؤ کیسے آنا ہوا۔۔

آغا سائیں میں آپ سے ایک ضروری بات کرنے آیا ہوں 

ہمم۔بتاو میں سن رہا ہوں آغا سائیں مکمل اس کی جانب متوجہ ہوئے 

آغا سائیں میں یہ نکاح نہیں کرسکتا اپنی بات کہ کر اس نے آغا سائیں کی طرف نظر اٹھائی وہ بالکل سپاٹ انداز میں اسے دیکھ رہے تھے 

اپنے کمرے میں جا کر آرام کریں میر زاویار سائیں کل کا دن خاصا تھکا دینے والا ہوگا آپ کے لیے گاؤں کے بڑے لوگ بھی آپ سے مل کر آپ کو نکاح کی مبارکباد دیں گے 

میں آپ سے کیا کہ رہا ہوں آغا سائیں آپ اپنی ہی بولے جارہے  ہیں  زاویار کی آواز تیز ہوئی 

آواز نیچی رکھیں میر زاویار سائیں کیا آپ بھول گئے ہیں آپ کس سے مخاطب ہیں 

میں بہت اچھے سے جانتا ہوں میں کس سے مخاطب ہوں 

گاؤں کے ظالم سردار سے جنہیں بس اپنے فیصلے سنانے آتے ہیں دوسروں کی زندگی جائے بھاڑ میں لفظوں میں گستاخی شامل ہوئی 

کون سی زبردستی تم سے پوچھ کر ہی ہم نے اس رشتے کے لیے ہاں کی تھی تم اب آج بتا رہے ہو جبکہ کل نکاح ہے 

ہاں تو اب میں ہی انکار کر رہا ہوں نہیں کروں گا میں اس سے شادی 

زاویار سائیں تمیز سے ہم نے تمہے چھوٹ دی ہے تو ہم تمہے باندھ بھی سکتے ہیں 

کل تمہارا حانم سے نکاح ہوگا یہ ہی میرا آخری فیصلہ ہے 

اس کی مسلسل بدتمیزی پر آغا سائیں کو طیش آئی

میں بھی دیکھتا ہوں کیسے کرتے ہیں آپ میرا اس سے نکاح مقابل کی انا کا بت بن کر ان کے سامنے کھڑا ہوا 

اگر تم نے حانم سے نکاح نہ کیا تو میں تمہے جائیداد سے عاق کرودں گا 

زاویار کے قدم تھمے 

میر حاکم سائیں کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آئی 

تمہارے باپ کا بھی باپ ہوں میں 

کیا کرو گے خالی ہاتھ 

زاویار کی انا پر گہری چوٹ تھی کہ وہ ان کے سامنے بے بس ہوا تھا 

مگر وہ بھی جانتے میر زاویار نام ہے میرا جس نے کبھی ہارنا نہیں سیکھا 

نکاح کے ہوتے ہی حاکم سائیں کے چہرے سے پھوٹتی مسکراہٹ دیکھ کر زاویار طنزیہ ہنسا 

اسے طلاق دیتے وقت تیرے  دل میں ایک دفعہ بھی اس لڑکی  کا خیال نہ آیا ایک دفعہ بھی تیرے  ضمیر نے تجھے نہیں جھنجھورا کہ وہ تو اپنی انا کی تسکین کے لیے کسی کی زندگی برباد کرنے جارہا ہے اپنے دادا سے خودساختہ جنگ میں ایک لڑکی کے جزبات کو روندنے جارہا ہے۔۔۔۔۔۔

تو چاہتا ہے میں یہاں سے چلا جاؤ زاویار نے کرسی سے کھڑے ہوکر اپنے کوٹ کو جھاڑتے ہوئے خفگی سے پوچھا 

 خیر اب جو ہونا تھا وہ ہوگیا تو بتا اب تو مجھ سے کیا چاہتا ہے ناراض ناراض لہجے میں بولا 

میں تیرے بزنس میں پاٹنر شپ کرنا چاہتا ہوں اس لیے آیا ہوں میں 

یار۔۔۔ مگر 

کیا ؟؟؟ زاویار نے ائیبرو آچکائی

تو تو جانتا ہے نہ اس کمپنی کا میں اکلوتا اونر نہیں ہوں میرا دوست ہے ففٹی پرسنٹ شئیر کا مالک 

ہاں تو تم اپنے شیرز کے خود مالک ہو اگر تمہے کوئی مسئلہ ہے تو بتا دو میں کچھ اور دیکھ لیتا ہوں 

نہیں یار ایسی کوئی بات نہیں تم تو جان ہو 

میں پیپرز تیار کرواتا ہوں 

اوکے بائے 

________

حانم نہا کر باہر نکلی اپنے بال سکھا رہی تھی 

جب صنم دروازہ کھٹکا کر اندر آئی 

آؤ صنم بیٹھو

نہیں میں ٹھیک ہوں آپ کو آغا سائیں بلا رہے ہیں 

سپاٹ سے انداز میں کہتی وہاں سے چلی گئی پیچھے حانم اس کا رویہ روڈ رویہ دیکھتی رہ گئی 

اسے کیا ہوا ہے ؟؟ پھر سر جھٹک کر آغا سائیں کے کمرے کی طرف بڑھی وہاں سب بڑوں کو دیکھ کر اسے تعجب ہوا 

آؤ نورے دادا سائیں کی نرم آواز سن کر وہ سب کو سلام کرتی  اپنی ماما سائیں کے پاس صوفے پر جا کر بیٹھ گئی 

ہمیں معاف کر دو حانم بچے ہمیں نہیں پتا تھا کہ زاویار کوئی ایسی حماقت کرے گا 

آپ کو مجھ سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے بڑی مما سائیں تایا سائیں میں جس کی غلطی ہوتی ہے اسی کو سزا دینے کی قائل ہوں آپ۔مجھ سے معافی مانگ کر مجھے شرمندہ نہ کریں 

حانم کی بات پر ثمینہ بیگم سائیں نے اس چادر سے ڈھکے سر پر پیار کیا 

جیتی رہو میری بچی 

داد سائیں آپ نے مجھے بلایا تھا 

حانم آغا سائیں سے مخاطب ہوئی 

ہمم نورے تم نے کہا تھا کہ تم ہمیں ایک ہی شرط پر معاف کو گی جب ہم تمہاری مانگ پوری کریں گے

نورے تم نے کہا تھا کہ تم نے اپنا خواب پورا کرنا چاہتی ہو 

کیا مانگنا چاہتی ہو نورے ؟؟؟

میں فرانس سے اپنا ایم ۔بی۔ اے پورا کرنا چاہتی میری خواہش ہے کہ میں بزنس وومن بنوں اور اسلیے ہر گز نہیں کہ میں اپنے آگے سے "پینڈو " کا دھبہ ہٹانا چاہتی ہوں بلکہ اس لیے یہ میرے باب سائیں کی خواہش تھی 

اگر آپ لوگ چاہتے ہیں میں آپ لوگو کو معاف کردوں تو یہ ہے میری شرط 

مگر حانم سائیں تم اکیلی 

جاوید سائیں نے تعجب سے آغا سائیں کو دیکھا 

چاچو سائیں بد تمیز پینڈو اور اب طلاق یافتہ جیسا ٹیگ بھی میں اکیلے ہی برداشت کر رہی ہوں 

ہمیں منظور ہے  

آغا سائیں کی رضامندی پر سب خاموش ہوگئے

تمہے مہینہ تو انتظار کرنا پڑے گا تمہارے ویزا اور یونیورسٹی کے داخلے کے لیے ڈوکومنٹس پورے ہونے میں

اس کی فکر مت کریں میرا اون لائن اینٹری ٹیسٹ ہوچکا ہے بس ویزے کے لے ابھی اپلائی کردوں گی تو ہفتے دو ہفتے تک وہ بھی ہوجائے گا 

وہ تو جیسے سب تہہ کرکے بیٹھی تھی 

__________

ساحر کو جب حانم کی طلاق کا پتا لگا اسے سمجھ نہیں آیا وہ روئے خوش ہوئے یاں حانم کے دکھ میں افسردہ اور پھر اس کی فرانس جانے کی بات وہ بھی اکیلے 

ساحر کچھ سوچتا ہوا آغا سائیں کے کمرے کی جانب بڑھ گیا 

_________

اور سناؤ کزن سائیں سنا ہے تم فرانس جارہی ہو پڑھائی کرنے لیے  سونیا نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا 

ویسے کیا فرق پڑتا ہے پیڈو کا ٹیگ تو لگ گیا سونیا بہت دھیمی آواز میں بولی کو صرف حانم کو ہی سنائی دی 

ہاں حانم تم فرانس جارہی ہو مگر تم نے لندن میں نہیں اپلائی کیا تھ۔۔۔۔علینہ بولتے بولتے چپ ہوئی 

آؤ تو پہلے سے ہی پلیننگ ہورہی تھی۔۔۔

حانم نے سونیا کو فراموش کرکے صنم کو پکارا 

کیا کر رہی ہو صنم؟؟؟

آپ سے مطالب صنم نے لٹھ مار انداز میں کہا 

صنم یہ کیسے بات کر رہی ہو علینہ نے صنم کو ڈپٹا 

کیا غلط کہا ہے آدی سائیں ان کی وجہ سے اتنے سالوں بعد لالہ سائیں آئے تھے وہ واپس چلے گئے پتا نہیں اب کب واپس آئیں گے 

ماما سائیں رات کو روتے ہوئے انہیں یاد کرتی ہیں 

صنم۔۔۔۔بے یقینی سے کہتی حانم وہاں سے چلی گئی

_________

اتنے لمبے سفر سے وہ فرانس کے شہر پیرس میں آئی تھی جسم تھکن سے چوڑ تھا اپنے پرس سے پلیٹ کے دروازے کی چابی نکالی اور دروازہ کھولا 

واو۔۔۔۔۔ 

اٹس بیوٹیفل نفاست سے سجا دو کمروں کا فلیٹ ساتھ اٹیچ باتھ ٹیوی لاؤنج کی لیفٹ سائیڈ پر کیچن اور رائیٹ سائیڈ پر گلاس وال لگی ہوئی تھی وہ  گلاس وال شاہد ٹیرس کو کھلتی تھی یہ امیرکن طرز سے بنا فلیٹاسے بہت پسند آیا تھا ۔۔۔۔ق

اپنا سارا سامان اور ٹیچی وغیرہ ٹیوی لاؤنج میں رکھ کر وہ ٹیرس کی طرف بڑھی سامنے کا منظر بہت خوبصورت تھا آسمان میں  ہلکی  ہلکی سرخی اور سرمئی چادر اوڑھے ہوئی آئفل ٹاور کی بلند و بالا عمارت خوبصورتی کی شاہ کار فیری لائٹ سے سجا ہوا تھا

نورِ حانم بالکل مہبوت ہو کر اس منظر کو دیکھ رہی تھی 

"پیرس کی حسین گلیوں تمہے میروں کی نورِ حانم اسعد حاکم اپنا شرف بچشنے آئی ہے "

اتنا کہ کر وہ کھلکھلائی 

نورِ حانم نے جہاں اپنے سامنے کے منظر کو مہبوت ہوکر دیکھا تھا 

ٹھیک اوپری فلیٹ کے ٹیرس پر کھڑے ساحر نے اس کی کھکھلاہٹ کو مہبوت ہوکر دیکھا تھا

گلاس وال کے پاس پڑی کرسی میں بیٹھے وہ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے باہر کے منظر سے لطف اندوز ہورہا تھا 

پیرس جسے محبت کا شہر کہتے ہیں اسے آج سے پہلے کبھی اتنا پیارا نہیں لگا 

ٹرن فون کی رنگ پر ساحر فون کی طرف متوجہ ہوا 

ہیلو ہاں 

میں ٹھیک تو سنا ؟؟

اچھا چل میں چار بجے کے قریب آؤں گا پھر بات ہوگی اس بارے میں 

اوکے  

ٹھاہ !!!! 

نیچے والے فلیٹ سے دھماکے کی آواز پر ساحر کے ساتھ سے چائے کا کپ زمین پر گر کر چکنا چور ہوگیا منٹ کے ہزارویں حصے میں وہ سیڑھیوں کی طرف دوڑا 

حانم ؟؟؟

دروازہ کھولو 

حانم !!!

کیا ہوا ہے ؟؟ دروازہ کھولو

شٹ ڈیم اٹ چابی ... ساحر کو سمجھ نہیں آرہی تھی وہ کیا کر گزرے ڈیوبلیکیٹ کی اس کی الماری میں تھی 

اس سے پہلے وہ واپس اوپر مڑتا حانم کے فلیٹ کا دروازہ آہستہ سے کُھلا

ساحر پورا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا مگر اندر کا منظر دیکھ کر اس کا سر چکرا گیا 

یہ۔یہ۔۔سب ۔کیا ہے ؟؟؟

ساحر نے حانم کی حالت کو دیکھا جس کے چہرے اور بالوں میں جگہ جگہ خشک میدہ لگا ہوا تھا اور ایپرن کی حالت تو نہ قابل بیان  تھی ساحر اپنے دل کی تیز ترین دھڑکن اپنے کانوں سے سن سکتا تھا وہ کتنا ڈر گیا تھا 

مجھے بھوک لگ رہی تھی حانم نے ہونٹ لٹکا کر کہا 

ساحر کو بیک وقت اس کی حالت پر غصے پیار اور ہنسی آئی

یہ سب کیا ہے حانم اور یہ دھواں ساحر کیچن کی طرف گیا 

جہاں سے سرمئی دھواں نکل رہا تھا 

ہاں تو آپ جب میرے ساتھ آ ہی گئے  تھے تو آپ کو نہیں پتا تھا کہ مجھے کھانا بنانا نہیں آتا میری بھوک کا احساس کیا تھا پتا بھی ہے کب سے بھوک لگ رہی تھی خود ہی کچھ کرنا پڑا 

دِکھ رہا  ہے کیا کچھ کیا ہے ہلکی آواز میں بڑبڑایا 

جسے حانم کے خوبصورت کانوں نے سن لیا تھا 

اس سب کے زمہ دار آپ خود ہیں 

حانم اور خود پر الزام برداشت کرلے ہر گز نہیں

میں وہ حیران ہوا مگر کہا کچھ نہیں کیا پتا وہ کونسا الزام لگا دے 

ساحر نے مائیکرو ویو چیک کیا جو اللّٰہ ہی حافظ ہوچکا کیونکہ حانم میڈم نے نہ صرف سٹیل کا چمچ بلکہ پورا کا  پورا سٹیل کا سانچہ مائیکرو میں فل پاور کے ساتھ لگایا ہوا تھا۔۔۔۔

_________

تقریباً گھنٹہ ہی لگ گیا تھا ساحر کو سب دوبارہ ٹھیک کرتے ہوئے حانم مزے سے کیچن میں پڑی کرسی پر چونکری مار کر بیٹھی آئسکریم کھانے کا شگل فرما رہی تھی 

یہ کب ٹھیک ہوگا آئسکریم کھانے کے بعد وہ پھر ساحر کر سر ہوئی 

یہ بالکل خراب ہوچکا ہے ویلڈر کو ہی بلانا پڑے گا 

اووو حانم نے ایسا منہ بنایا جیسے اسے واقع ہی افسوس ہوا ہو

مگر مجھے بھوک لگ رہی ہے 

حانم نے اب کہ آہستہ آواز میں کہا 

ساحر کو پہلی بار اندازہ ہوا کہ حانم بھوک کی کتنی کچی ہے

اچھا تم چینج کر آؤ لنچ باہر کرتے ہیں 

ساحر سائیں ٹشو سے اپنے سیاہی مائل ہوئے ہاتھوں کو صاف کرتا بولا 

ہمم میں پانچ منٹ میں آئی ۔۔۔

ساحر صوفے میں جا کر بیٹھ گیا 

اپنی ایک ٹانگ کے گھٹنے پر دوسری ٹانگ رکھ کر وہ مسلسل اپنا پاؤں ہلا رہا تھا 

اسے وہ دن یاد آیا جب وہ آغا سائیں کے کمرے میں گیا 

جب سے اسے مورے نے اپنی زندگی اور گھر والوں کے بڑوں کے سرد رویے کی حقیقت بتائی تھی اس کا دل سب سے ہی اُچاٹ ہوگیا تھا

مگر اسے حانم کے لیے جانا پڑا تھا 

اسلام علیکم آغا سائیں !!!!

میر حاکم سائیں اپنے سامنے ساحر کو دیکھ کر چونک گئے 

کیسے آنا ہوا ساحر سائیں 

اپنی حیرانی چھپاتے ہوئے بولے

آغا سائیں آپ ن۔نورِ حانم کو فرانس بھیج رہے ہیں اکیلے؟؟؟

اس معاملے سے تمہارا کوئی لینا دینا نہیں ہے ساحر سائیں اس لیے اچھا ہے کہ تم اس معاملے سے دور رہو 

آغا سائیں نے ماتھے پر بل ڈالے اسے جتلایا 

بے شک آپ مجھے اپنا خون نہیں ۔انتے مگر وہ ہمارے خاندان کی عزت ہے اسے اکیلے بھیجنا صحیح ۔۔۔۔

ہمیں اپنی نورے کا خیال رکھنا آتا ساحر سائیں تمہے ہمیں سیکھانے کی ضرورت نہیں ہے 

کتنا خیال رکھ لیا ہے آپ نے اپنی نورے کا میں نے دیکھ لیا ہے 

وہ دل میں ہی سوچ سکا ابھی معاملہ گھمبیر تھا اور ویسے بھی وہ یہاں صرف حانم کے لیے ہی آیا تھا اس لیے ان کے طنز کو خاموشی سے برداشت کرگیا 

میں جس کمپنی میں جوب کرتا ہوں وہ لوگ مجھے پیرس بھیج رہے ہیں وہاں پر رہائش کے لیے فلیٹ بھی دے رہے  ہیں 

یہ اس بلڈنگ کے فلیٹ کا پتا 

آپ مجھ پر نہیں تو آنسہ میر کے بیٹے پر تو یقین کر ہی سکتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان کی عزت پر کوئی حرف نہیں آنے دے گا ۔۔۔۔

سیکھ نہ پایا میں میٹھے جھوٹ کا ہنر ......!

کڑوے سچ نے کئی لوگ چھین لیے مجھ سے .....!!

________

ساحر سائیں کہا کھو گئے چلیں

مونگیاں رنگ کی فل فراک جس پر کریم رنگ کا دھاگے کا کام ہوا ہوا تھا ساتھ کریم رنگ کا حجاب لیے وہ اس کے سامنے کھڑی تھی

اور بلاشبہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی 

ہممم چلو ....

ساحر نے جیسے ہی حانم کے دروازے کو لوک لگایا اسے یاد آیا کہ ہڑبڑی میں اپنا دروازہ تو وہ کھلا ہی چھوڑ آیا ہے 

ایک منٹ میں زرا اپنے فلیٹ کا دروازہ چیک کرکے آیا

اپنے فلیٹ کو لاک لگا کر جب وہ نیچے اترا تو اسے حانم کے ساتھ ایک لڑکا کھڑا نظر آیا 

یکالک ساحر کے ماتھے پر بل پڑے اور مٹھیاں بھینج گئیں

ساحر بڑے بڑے قدم لیتا نیچے اترا 

اوو حانم کی نظر ساحر پر پڑی 

ساحر سائیں اس سے ملیں یہ جیک ہے یہ دھماکے کی آواز سن کر آیا ہے 

ساحر نے سرخ و سفید رنگت والے دبلے پتلے لڑکے کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا 

یس آئی ایم ویری سکئیرڈ 

Yes I was very scared

Were you both ok??? Na 

جیک نزاکت سے کہتا حانم کو مسکراہٹ دبانے میں مجبور کرگیا 

 شکریہ مسٹر جیک تم آئے مگر ہم ٹھیک ہیں تم سے مل کر اچھا لگا

ساحر کے شائستگی سے انگریزی میں جیک کو جواب دینے پر حانم نے آنکھیں گھمائیں

اوو بے بی تھینکس کی کیا بات ہے اب تو آنا جانا لگا رہے گا 

جیک ساحر کو آنکھ مار کر وہاں سے چلاگیا 

جبکہ ساحر اور حانم دونوں ہونک بنے ایک دوسرے کو دیکھتے رہ گئے 

پھر بات سمجھ آنے پر حانم کا بلند قہقہ گونجا ہنس ہنس کر اس کے پیٹ میں درد ہونے لگ پڑی 

اللّٰہ ساحر سائیں 

میرے پیٹ میں درد ہورہی ہے 

ہاہاہا اب تو آنا جانا لگا رہے گا 

حانم پھر سے ہنسنے لگی 

ساحر نے کھجالت اور بے بسی سے حانم کو دیکھا 

حانم!!!!

ایک دم سے حانم چپ ہوئی 

ساحر بھی اس کے چپ ہونے پر سیریس ہوا 

ابھی آپ نے مجھے کیا کہا ؟؟

حانم نے آنکھیں چھوٹی کی 

ک۔کیا کہا 

ابھی آپ نے 

میں نے حانم کہا تھا 

ساحر کو اس کے اس طرح دیکھنے کی سمجھ نہ آئی

او مائی گاڈ آپ نے مجھے میرے نام سے بلایا 

یہ تم تم والا دم چھلا نہیں لگایا 

شکر اللّٰہ تیرا

لگتا ہے پیرس کی ہوا آپ کو راس آرہی ہے 

ساحر اس کی بات پر نفی پر سر ہلاتے ہوئے لفٹ کی طرف بڑھ گیا 

مگر اندر گرد کی ہواؤں نے اس کی مونچھوں تلے آئی ہلکی سی مسکراہٹ دیکھ لی تھی

________

ساحر حانم کو پیرس کے سب سے خوبصورت حلال فوڈ ریسٹورنٹ میں لے آیا 

واؤ یہ کتنا خوبصورت ہے اور ایکپینسوز بھی 

حانم نے ریسٹورنٹ کی خوبصورتی کو سہرایا جہاں تقریباً ہر چیز گلاس کی تھی 

ساحر سائیں آپ تو بہت چھپے رستم نکلے اتنے امیر ہیں کبھی ایک اپنے پیسوں سے ایک آئسکریم کھلانے کی تکلف نہیں کیا 

سٹیک کو نائف سے کٹ کرتے ہوئے حانم نے کہا 

کھاتے ہوئے بولتے نہیں ہیں 

کولڈرنک کا سپ لیتے ہوئے ساحر نے سنجیدگی سے کہا 

حانم کے ہاتھ تھمے 

حانم کے روکے ہوئے ہاتھ دیکھ کر ساحر نے بھی کھانے سے ہاتھ پیچھے کیے شاہد اسے حانم کو نہیں ٹوکنا چاہیے تھا 

ایم۔۔۔۔

ابھی وہ کچھ بولتا حانم اس سے مخاطب ہوئی

آپ نے کبھی بتایا نہیں...

کیا ؟؟؟؟

 آپ کی ادھر ایک گرل فرینڈ سوری بوائے فرینڈ بھی ہے 

ساحر نے دیکھا حانم کی آنکھوں میں واضح شرارت ناچ رہی تھی

ساحر کا ہاتھ بے ساختہ اپنے سیٹ بالوں میں گیا 

ہاہاہاہا 

اس بار حانم کی کھکھلاہٹ کے ساتھ ساحر کی ہلکی سے مسکراہٹ بھی شامل تھی

ہیلو ہاں زاوی میں نے خان سے بات کرلی ہے

اسے کوئی اعتراض نہیں ہے 

میں پیپرز بنوا لیتا ہو ایک مہینہ تو لگ ہی جائے دوسرے ڈاکومنٹس کو مکمل  ہونے میں تو چاہے تو کل سے ہی آجا آفس 

پہلی بات تو تمہارے اس خان کو اعتراض ہونا بھی نہیں چائیے کیونکہ تم پچاس فیصد کے مالک ہو دوسری بات میں ابھی لندن کے لیے نکل رہا ہوں کچھ ضروری کام ہیں وہ سب سیٹ ہو جائیں تو تب تک ڈوکومنٹس کلیر کروا میں مہینے بعد ہی تجھے جوائن کروں گا 

زاوی کی پہلی بات مغرور انداز میں کہنے پر زارون نے سر جھٹکا یہ بندہ نہیں بدل سکتا 

اچھا ٹیک یور ٹائم بائے !!!!

_________

آؤ جاوید سائیں خیریت سے آنا ہوا آغا سائیں جو ابھی حویلی کے باغات کی نظر سانی کرکے آئے تھے میر جاوید کو اپنے کمرے میں دیکھ کر بولے 

اسلام علیکم آغا سائیں

وعلیکم السلام ہم بولو 

آغا سائیں آپ نے نور حانم کو ساحر کے ساتھ بھیجا ہے پیرس 

جاوید سائیں کے لہجے کی سختی محسوس کرکے آغا سائیں کے اپنی شال ٹھیک کرتے ہاتھ تھمے 

تم ہم سے جواب سانی کرنے آئے ہو جاوید سائیں

آغا سائیں کا لہجہ سپاٹ تھا 

نہیں آغا سائیں مگر آپ ساحر کو کیسے بھیج سکتے ہیں حانم کے ساتھ 

میں نے اسے نہیں بھیجا جاوید اس کے آفس والوں نے اسے کام کے سلسلے میں بھیجا ہے 

میں نے بس نورے کو اسی بلڈنگ میں فلیٹ لے کر دیا ہے 

مگر آپ اس پر کیسے یقین کرسکتے ہیں آغا سائیں

جاوید سائیں کو کسی صورت یہ بات برداشت نہیں ہورہی تھی کہ ساحر بھی حانم کے ساتھ پیرس میں ہے

تمہاری نفرت ایک طرف جاوید سائیں 

گر ہم نورے کے معاملے میں غیر پر یقین نہیں کرسکتے ویسے بھی پہلے اس نے اکیلے جانا تھا تب ہمیں اس کی زیادہ فکر لگی رہتی 

صرف میری نفرت آغا سائیں آپ کو نہیں نفرت اس سے آپ کو یاد نہیں کس طرح اس کے باپ نہیں ہماری عزت پر وار کیا تھا 

وہ شخص اب اس دنیا میں نہیں ہے اور ویسے بھی جاوید سائیں تاکہ ایک ہاتھ سے نہیں بجتی جتنا قصور ساحر کے باپ کا ہے اتنا ہی اس کی ماں کا ہے 

ساحر پر اس لیے یقین کیا کہ وہ ہمارے سامنے پلا بڑا ہے 

ہمارے سامنے پرورش تو ساحر کی ماں نے بھی پائی تھی 

میں صرف آپ کو مستقبل کا آئینہ دیکھا رہا ہوں آغا سائیں باقی آپ کی مرضی کیونکہ حانم میرے چھوٹے بھائی کی اکلوتی اولاد ہے اور مجھے عزیز بھی 

یہ کہ کر جاوید سائیں کمرے سے باہر چلے گئے بنا دروازے کے ساتھ لگی آنسہ بیگم کو دیکھے جن کی آنکھیں آنسوؤں

سے بھری ہوئی تھیں 

آج اتنے سالوں بعد اپنے باپ بھائی کے منہ سے اپنا زکر سن کر دل جہاں خوش فہم ہوا خود کے لیے ان کے الفاظ سن کر دل چھلنی ہوگیا اندر زکر تو ان کا تھا مگر مجرم کی صورت میں ساحر کی ماں کی صورت میں 

کہاں کی بہن !!!!

کہاں کی بیٹی !!!!

بائس سال بائس سال تھوڑے تو نہیں ہوتے ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے ان کے بڑے بھائی اور بابا سائیں اس سے لا تعلق تھے مگر وہ پھر بھی راتوں کو اپنے آغا سائیں کے پیروں میں بیٹھ کر کتنے ہی گھنٹے گزار دیا کرتی تھی اور آج 

آنسہ کا دل کیا کہ ابھی انہیں موت آجائے اور اسی وقت گھر والوں کے سامنے سچ 

غم زندگی، غم بندگی، غم دو جہاں ،غم کارواں 

میری ہر نظر تیری منتظر ،تیری ہر نظر میرا امتحان

_________

ڈیڑھ ماہ بعد !!!!

حانم کو پی ۔ایس ۔بی (پیرس سکول اوف بزنس ) میں پڑھتے ہوئے شروع شروع میں اسے وقت کی تبدیلی اور کھانے کی وجہ سے مسئلہ ہوا تھا مگر وہ بھی ساحر نے حل کردیا تھا  ایک میڈ روزانہ اس کے گھر آنے پر کھانا بنا کر چلی جاتی اور پک۔اینڈ ڈروپ ساحر دے دیتا 

........

ساحر حانم کو پک کرکے فلیٹ چھوڑنے کا رہا تھا

مجھے بھوک لگ رہی ہے کچھ باہر کا کھانا ہے 

ساحر نے گاڑی ریسٹورنٹ کی طرف بڑھا دی 

آج فادرز ڈے  تھا جگہ جگہ بیلون اور کارڈز بنے دیکھنے کو مل رہے تھے

فادرز ڈے یاد کرکے حانم کی آنکھیں نم ہوئیں

ایک بات پوچھوں ساحر سائیں

ہمممم ۔۔۔۔ کھانے کے دوران حانم کی باتوں کی عادت تو اسے بھی ہوچکی تھی

گھر والوں کا رویہ آپ کے ساتھ اتنا سرد کیوں ہے 

ساحر کے ہاتھ تھمے 

تم کیوں جاننا چاہتی ہو 

بتائیں نہ ساحر سائیں آپ کو بھی تو میرے بارے میں سب پتا ہے 

چھوڑو تم جلدی کھانا کھاؤ مجھے تمہے گھر چھوڑ کر آگے بھی جانا ہے 

That's not fair

آپ کو تو میرے بارے میں سب پتا ہے اپنی باری بات چھوڑو 

آپ کو پھوپھو سائیں کی قسم 

نورِ حانم ساحر نے اس کی قسم دینے پر بے بسی سے اسے دیکھا

حانم نظریں چڑا گئی 

_________

تم یہاں پر کیا کر رہے ہو میں نے منع کیا تھا نہ کہ آج کے بعد مجھ سے رابطہ مت کرنا تم سیدھا حویلی میں ہی گھس گئے ہو شائستہ حماد پر دبا دبا سا چیخی 

دیکھو شائستہ میرے ساتھ ایسا مت کرو میں تم سے محبت کرتا ہوں تم کیوں مجھے نظر انداز کر رہی ہو 

اس کے محبت محبت کی رٹ پر وہ چڑ گئی مگر اس وقت معامل گھمبیر تھا اس لیے گہری سانس لے کر اسے سمجھانے لگی دیکھو میری بات سمجھنے کی کوشش کرو اگر کسی نے تمہے اس وقت میرے ساتھ چھت پر دیکھ لیا تو قیامت آجائیے گی اور اگر جواد یا جاوید ادا سائیں میں سے کسی نے بھی دیکھ لیا تو وہ دونوں کو ہی زندہ زمین میں گاڑ دیں گے 

پلیز چلے جاؤ حماد

شائستہ نے جھرجھری لیتے اسے مستقبل کا نقشہ دیکھایا ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا میں قسم کھاتا ہوں میں اپنی محبت پر کبھی کوئی آنچ نہیں آنے دوں گا تم بس وعدہ کرو ہمیشہ میرا ساتھ دو گی 

کیا ساتھ ساتھ کی رٹ لگائی ہوئی ہے میں تم کنگلے سے شادی کروں گی میں چاہوں تو ابھی کہ ابھی ادھر تمہاری قبر بنوا سکتی ہوں اس لیے تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ تم یہاں سے دفعہ ہوجاؤ 

شائستہ کی اب بس ہوگئی تھی حماد کو واضح لفظوں میں  اس کی اوقت یاد دلا کر یہاں سے چلتا کرنا چاہتی تھی

ابھی وہ اسے اور کچھ کہتی اسے اپنے پیچھے سے کانچ کے ٹوٹنے کی آواز آئی شائستہ کا رنگ متغیر ہوا 

وہ ایک دم پیچھے مڑی 

_________

آنسہ جو پانی لینے کی غرض سے کیچن میں جارہی تھی جب چھت سے کھٹ پٹ کی آواز آئی پہلے تو وہ ڈر گئی مگر جب اسے شائستہ کی آواز محسوس تو آنسہ ہمت کرتی سیڑھیوں پر چڑھی 

شائستہ ادی اس وقت چھت پر مگر شائستہ کو کسی لڑکے کے قریب دیکھ کر اس کا رنگ متغیر ہوا ہاتھ میں پکڑا پانی کا جگ زمین پر گر کر چکنا چور ہو گیا

شائستہ آنسہ کو دیکھ کر جہاں تھورا سکون میں آئی وہاں نیچے سے جواد سائیں کی آواز سن کر اس کے صحیح معنوں میں اوسان خطا ہوئے 

کون ہے اوپر کون ہے جواد سائیں کے ساتھ جاوید بھی آواز سن کر اوپر سیڑھیوں کی طرف لپکا 

شائستہ نے آنسہ کو اسی حالت میں کھڑا دیکھ کر اسے حماد کی جانب دھکا دیا اور خود چور چور آوازیں دینے لگی حماد تو  ابھی بھی شائستہ کے لفظوں کے زیر اثر زمین کو گھور رہا تھا ہوش تو تب آیا جب آنسہ کا ہاتھ اس کے کندھے پر لگا 

آنسہ شاہستہ کے دھکے پر سنبھل بھی نہ پائی گرنے سے بچنے کے لیے اس کا ہاتھ حماد کے کندھے سے مس ہوا اور اس کے سر پر لپٹی چادر ڈھلک کر کندھوں پر آگئی 

اس نے غائب دماغی سے اپنے قریب کھڑی لڑکی کو دیکھا جب ایک بھاری ہاتھ کا مکا اس کے گال پر لگا وہ لڑکھڑا کر دور گڑا آنسہ کی چیخ بے ساختہ تھی 

تم دونوں یہاں پر کیا کر رہی ہو جاوید سائیں نے آنسہ کا بازو سخت گرفت میں پکڑا 

ادا سائیں میں پانی پینے آئی تھی چھت سے آوازیں آئیں تو مجھے لگا چور ہے مگر جب میں نے اوپر آکر دیکھا تو 

آن۔آنسہ اس ۔۔ شخص ک۔کےے قریب کھڑی تھی شائستہ نے آنسہ کے بولنے سے پہلے ہی تیزی سے کہا 

آنسہ کو تو چُپی لگی ہوئی تھی جو کبھی بغیر حجاب کے بھائیوں کے سامنے نہیں گئی آج اسے اپنی شال کا بھی ہوش نہیں تھا 

چٹاخ!!!!

جواد سائیں نے ایک زناٹے دار تھپڑ آنسہ کی گال پر جڑھا 

بے حیا ۔۔۔۔

آغا سائیں نے ایک نظر اپنی بیٹی کے حُلیے پر ڈالی اور ایک نظر اس شخص پر جس کا منہ خون سے رنگا ہوا تھا 

کرب سے آنکھیں میچ کر ایک فیصلہ کیا 

جواد سائیں مولوی صاحب کو بولاؤ ان دونوں کا نکاح ہوتے ہی ان کو حویلی سے چلتا کرو اور کہ دینا اس لڑکی سے اگلی بار اس در پر آئی تو سامنے اس کا باپ نہیں اس گاؤں کا سردار ہوگا اور باغی لوگوں کا انجام تم لوگوں کو اچھے سے پتا ہے 

ایک نفرت انگیز نظر آنسہ پر ڈال کر وہ اندر بڑھ گئے

________

حماد اسے لے کر اپنے گھر آگیا 

حماد یہ کیا سن رہے ہیں ہمم

صوفے کی پشت پر سر لگا کر آنکھیں موندا حماد مورے کی آواز پر جھنجھلایا

کیا سن لیا آپ نے مورے 

تم ۔۔تم اس لڑکی کو شادی کرکے لے آئے ہو

خان تم ایسا کیسے کر سکتے ہو میں ہرگز نہیں اس لڑکی کو اپنی بہو مانوں گی 

مورے کی گرجدار آواز پر حماد نے بے زاری سے کہا 

تو مت مانیں۔۔۔۔

حماد گھر سے باہر نکل گیا 

________

آنسہ کو سمجھ ہی نہ آیا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے اس کی بہن اس کی ماں جایا نہ اس پر اتنا بڑا اور گھٹیا الزام لگا دیا اس کے ادا سائیں جو اس پر جان چھڑکتے تھے انہوں نے اس سے بغیر کوئی وضاحت مانگے اس پر ہاتھ اٹھا چکے تھے اور آغا سائیں کسی کے بھی ہاتھ میں اس ہاتھ پکڑا کر احسان کرتے ہوئے کہا کہ شکر کرو جان بخش دی اس سے اچھا تو اس سے جان سے ہی مار دیتے 

اور وہ شخص جس کے ساتھ اس کی زندگی جڑ گئی تھی وہ کیسے بے کار شہ کی طرح

باہر لاونج سے آتی ایک عورت( جو شاہد اس لڑکے کی ماں تھی ) کی سرد آواز اسے سہمنے پر مجبور کرگئی 

آہ۔۔۔ لڑکی ادھر آہ تجھے شرم نہیں آتی اپنے گھر والوں کی عزت خراب کرتے ہوئے 

یہاں پھر تیرا خاندان ہی ایسا ہے 

آنسہ ان کی بات پر تڑپ اٹھی نہیں میں ایسی نہیں میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے میں ایسی نہیں ہوں 

اتنا کہ کر آنسہ چکراتے سر کے ساتھ زمین پر گر گئی ۔۔۔

مورے اس کے بے ہوش ہونے پر تشویش میں آئیں 

_______

حماد کے والد کو جب حماد کی حرکت کا پتا لگا ان کا ردعمل شدید تھا کس لڑکی کو اٹھا کر لائے ہو حماد خان 

بابا وہ ۔۔۔

جہاں سے لائے ہو اسے وہی چھوڑ آؤ حماد خان اس سے پہلے میرا دماغ خراب ہو 

خان بابا  آپ ایک دفعہ میری بات سن لیں 

پھر آپ کا جو فیصلہ ہوگا 

حماد نے سب سچ انہیں بتا دیا 

تمہے شرم نہ آئی حماد خان رات کے پہر کسی کے گھر میں گھستے ہوئے

اور وہ بچی کتنا برا ہوا اس کے ساتھ 

میں نے بھی اسے کافی کھڑی کھوٹی سنا دی 

مورے کو افسوس ہوا 

کہاں ہے اب وہ بچی خانم ہم جاتے ہیں اس کے گھر 

وہ بے ہوش پڑی ہے اندر 

کیا بے ہوش آپ نے ڈاکٹر کو اطلاع دی 

نہیں ۔۔۔۔۔

کیوں بڑے خان کے ماتھے پر بل پڑے 

مجھے اس پر غصہ تھا خان صاحب مجھے لگا وہ لڑکی ناٹک کر رہی ہے 

.........

مورے اور بڑے خان جب کمرے میں گئے تو آنسہ اپنی شال کو زمین میں بچھائے اس پر بیٹھ کر ہچکیاں لیتی رو رہی تھی 

اللّٰہ میری مدد فرما 

اللّٰہ!!!!

مورے نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا 

آنسہ چونک گئی 

میں ایسی نہیں ہوں

ہاں میری بچی مجھے معاف کر دو مورے نے اسے گلے لگا لیا 

دونوں کا ہی آنسہ کے ساتھ رویہ ٹھیک ہوگیا تھا مگر حماد رات رات کو دیر سے گھر آتا اس کا آنسہ کے ساتھ نہ ہونے کے برابر تعلق تھا 

_______

حماد خان رات کے دو بجے گھر واپس آیا تھا جب مورے اسے دروازے پر ہی مل گئیں 

مورے آپ ابھی تک جاگ رہی ہیں 

تم اتنی اتنی دیر تک باہر رہتے ہو میں کیسے بے فکر ہوکر سو سکتی ہوں 

حماد خان حماد ابھی اپنے روم جانے ہی لگا تھا کہ مورے کی آواز پر تھما 

جی مورے 

حماد وہ بچی بہت اچھی ہے 

مورے اگر آپ نے اس کی بات کرنی ہے تو میں جاؤ

کب تک اس دھوکے باز لڑکی کا روغ دل میں لیے پھیرو گے ارے اس نے تو اپنی بہن کو نہیں چھوڑا

شکر کرو تم کہ تمہے اتنی نیک سیرت بیوی ملی ہے خوش نصیب ہو تم 

تم خان ہو حماد اور خان اپنی بیویوں کو سر کا تاج بناتے ہیں پاؤں کی جوتی نہیں سنبھل جاؤ حماد یہ نہ ہو اسے کھو دو وہ تم سے زیادہ دکھ میں ہے اسے تمہاری ضرورت ہے تم اس کا واحد سہارا ہو ۔۔۔۔

________

مورے کی بات اب تک اس کے دماغ میں گونج رہی تھی 

کیا واقعی وہ اب بھی شائستہ کو یاد کرتا ہے ؟؟

نہیں وہ اسے یاد نہیں کرتا تھا  

نہیں وہ لالچی لڑکی تھی جو اپنے مطالب کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی تھی اس نے تو اپنی بہن کو بھی نہیں چھوڑا 

پچھلے کچھ دنوں سے وہ پریشان تھا اس کے بابا کے کزن نے ان کی جائیداد پر نا حق قبضہ کیا ہوا تھا جس کا کیس پچھلے دو سال سے چل رہا تھا حماد اسے لے کر پریشان تھا 

حماد کو وہ گندمی رنگت والی لڑکی یاد آئی آنسہ ہاں آنسہ نام تھا اس کا اس کا کیا قصور تھا 

اس کے تو گھر والوں نے ہی اسے گھر سے نکال دیا اور اب حماد نے اس سے لا تعلقی برتلی 

حماد کے قدم بے ساختہ ڈرائنگ روم کی طرف بڑھے آنسہ جاہ نماز پر بیٹھی دعا کر رہی تھی اس کی گندمی رنگت سے سنہریاں چھلک رہی تھی 

حماد کو لگا اس نے آج سے پہلے کبھی اتنا خوبصورت منظر نہیں دیکھا اس کے آنسو اس کے گال پر موتیوں کی طرح چمک رہے تھے ..

حماد خان کے قدم بلا جھجھک ہی آنسہ کی طرف بڑھے 

آپ آنسہ جاہ نماز تہہ کر رہی تھی حماد کو سامنے کھڑے دیکھ کر چونکی 

آنسہ کی آنکھوں میں ڈر دیکھ کر حماد شرمندہ ہوا

بیٹھو بیڈ کے پاس جگہ بنائی 

آپ میری بات کا یقین کریں مجھے اس دن کے بارے میں کچھ نہیں پتا 

میں بہت برا ہوں نہ اور بزدل بھی اس وقت تمہاری بہن کی سچائی بھی نہ کھول سکا اور تمہے بھی نہ بچا سکا 

مجھے معاف کر دو 

حماد نے نم آنکھوں سے ہاتھ جوڑے 

نہیں پلیز آپ میرے آگے ہاتھ نہ جوڑیں آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی ان سب چیزوں کی قصور وار کون ہے 

اگر تم کہوں گی تو میں تمہے تمہارے گھر چھوڑ آؤں گا 

آپ کو لگتا ہے میرے گھر والے مجھے وہاں آنے دیں گے زیادہ زیادہ جان سے مار دیں گے 

نم لہجے میں کہا 

اگر تم چاہو تو تم۔میرا مطلب ہے کہ اس رشتہ 

میرا ماننا ہے جو ہوتا ہے اس میں اللّٰہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے 

اس رشتے میں بھی میرے رب کی رضا ہوگی

________

اس دن کے بعد سے حماد کا رویہ بھی آنسہ کے ساتھ ٹھیک ہوگیا تھا 

کچھ مہینوں بعد ۔۔۔۔۔۔

مورے مورے خوشی سے تیز تیز آواز دیتا گھر میں داخل ہوا 

مگر سامنے لیڈی ڈاکٹر کو دیکھ کر اس کا رنگ اڑا 

مورے یہ ڈاکٹر یہ یہاں کیا کر رہی تھی 

آرام سے خان اتنا اتولا کیوں ہورہے ہوں 

مورے آپ بتائیں آنسہ ٹھیک ہے 

ہاں بھائی ٹھیک ہے آنسہ یہ پکڑ جوس اسے پلادے میں تو بہت تھک گئی ہوں ان دونوں کو خیال رکھتے ہوئے 

جوس کمرے تک لے جاتا حماد ایک دم مڑا دونوں 

ہاں میرے باؤلے خان دونوں 

مورے نے ہنس کر کہا 

حماد کا چہرا بھی خوشی سے چمکا 

کیا ہے خان سائیں ایسے کیوں دیکھ رہیں ہیں 

آنسہ نے حماد کو مسلسل خود کو دیکھتے پا کر آخر کہہ ہی دیا 

اففف تمہارا "خان " "سائیں" کہنا 

 آنسہ شرما گئی

تم کسی نیکی کا پھل ہو آنسہ جب سے تم آئی ہو میری زندگی میں سب اچھا ہورہا ہے 

پتا ہے ہمارا جو کیا پچھلے تین سالوں سے اٹکا ہوا تھا وہ سولو ہوگیا ہے ہمیں ہماری جائیداد واپس ملنے لگی ہے 

حماد نے خوشی خوشی اسے بتایا 

یہ تو بہت اچھی خبر ہے خان سائیں

آپ نے مورے اور خان بابا کو بتایا وہ بہت خوش ہوں گے 

ہاں ان کو ہی بتانے جار ہا ہوں تم جوس پیؤ میرے آنے تک ختم ہوچکا ہو 

_________

آنسہ نے ایک خوبصورت بیٹے کو جنم دیا جس کا نام انہوں نے ساحر حماد خان رکھا 

.....

آج ساحر نے پہلی دفع بابا بولا تھا 

اس کے توڑ کے بابا بولنے پر حماد اور آنسہ دونوں کی ہی آنکھیں نم ہوگئیں 

_____

آپ خوش ہیں نہ آنسہ 

حماد خان جانے کس رو میں تھے جو آنسہ کے پاس بیٹھے ان سے پوچھنے لگے 

میرے چہرے کی مسکراہٹ کو دیکھنے کے باوجود آپ کو کوئی شک ہیں خان سائیں 

نہیں مگر 

کیا بات ہے خان سائیں ایسے بات دل میں رکھنے سے بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں 

آنسہ نے رسان سے کہا 

آپ کا کہیں رشتہ طہ تھا ؟؟؟

جی میری شادی میری بڑی بھابھی کے مامو زاد بھائی کے ساتھ تہ تھی اور میں اس شادی کے لیے راضی بھی تھی 

حماد نے آنسہ کے چہرے پر درد کے آثار کھوجنا چائیے مگر اس کے پر نور چہرے پر کسی قسم کے کوئی تاثرات نہیں تھے ہر طرح کے تاثرات سے پاک چہرہ 

مگر ۔۔۔۔۔

مگر؟؟؟ حماد کا دل زور سے دھڑکا 

آنسہ اب ان کی بیوی تھی نہ صرف بیوی ان کے بیٹے کی ماں اور ان کی محبت بھی ان کی منہ سے کسی اور کا زکر سننے کا حوصلہ بہت مشکل سے پیدا کر پائے تھے وہ ۔۔۔

مگر ؟؟؟ 

میرے دل میں ان کے لیے کوئی جزبات نہیں تھے

میں نکاح سے پہلے کسی غیر محرم کی سوچ اور خیال دل میں پیدا کرکے گناہ گار نہیں ہونا چاہتی تھی اب چائے وہ میرے منگیتر ہی کیوں نہ تھے

آنسہ عام سے انداز میں کہتی ان کا دل سرشاری سے بھر گئی تھیں

_________

آج ساحر کی دوسری سالگرہ تھی

بڑے پیمانے پر فنکشن رکھا گیا تھا 

خان ویلا کو ہر طرف سے سجایا گیا تھا بڑے خان اور

 بی بی صاحب دربار کھانا بانٹنے گئے تھے 

اللّٰہ کے کرم سے ان کے گھر خوشیاں آئیں تھیں

حماد خان گھر کی سجاوٹ میں مصروف تھے

آنسہ آنسہ کہا ہیں آپ ؟؟

حماد خان آنسہ کو ڈھونڈتے کمرے میں آئے اور ادھر ہی سٹل ہوگئے 

جی خان سائیں میں بس ساحر کو تیار کر رہی تھی بہت شرارتی ہوگیا ہے آپ کا شیر ایک جگہ ٹکرا ہی نہیں صبح کے تیسری دفعہ کپڑے بدل چکی ہوں اس کے مگر۔۔۔۔

سرخ رنگ کی لمبی فراک پہنی ہوئی تھی اور بالوں کو جوڑے میں قید کیا گیا تھا میک اپ اسے اتنا کوئی خاص پسند نہیں تھا تو صرف لائنر کی ہلکی سی لکیر بھوری آنکھوں پہ جچ رہی تھی

اپنے ہی دھیان میں ساحر کو شوز پہنا رہی تھی جب حماد خان نے ان کے ہاتھ سے شوز پکڑ کر ساحر کو پہنائے اور خود آنسہ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں شیشے کے سامنے لے آئے

کیا ہوا خان سائیں ؟؟؟

بہت پیاری لگ رہیں خانم سائیں 

حماد خان نے ایک عقیدت اور محبت بھری نظر ان پر ڈالی

خان سائیں ساحر دیکھ رہا ہے آنسہ نے نظریں جھکا کر کہا 

تو کیا ہوا میں اپنے شیر کی مما کو دیکھ رہا ہوں 

حماد خان نے چھوٹے سے ساحر کو گود میں اٹھا کر ہوا میں اچھالا جس کی کھکھلاہٹ پورے کمرے میں گونجی  

یہ لیں یہ گجرے 

یہ تو بہت پیارے ہیں خان سائیں آنسہ نے گجرے اپنی ناک کے قریب کیے 

تو پھر انہیں اپنے بالوں پے لگائیں نہ

حماد خان نے اس کے بالوں کے بنے جوڑے کی طرف اشارہ کرکے کہا 

کیا فائدہ خان سائیں میں نے تو حجاب کر لینا ہے 

تو کیا ہوا دیکھنے تو میں نے ہی ہیں نہ 

آنسہ نے مسکرا کر گجرے اپنے جوڑے میں بندھے بالوں میں سجا لیے 

آپ مورے اور بابا کو لے آئے ہیں خان سائیں 

آنسہ حجاب پر پن لگاتی بولی 

سس۔۔۔

کیا ہوا حماد خان آنسہ  کی سسکی پر فوراً اس کی طرف ہولیے 

کچھ نہیں خان سائیں بس پن لگ گئی 

حماد خان نے آنسہ کی انگلی تھامی جہاں سے نکتا برابر  خون نکل رہا تھا 

کچھ نہیں ہوتا خان سائیں آپ ساحر کو مجھے پکرائیں اور جا کر مورے وغیرہ کو لے کر آئیں دیر نہ ہو جائے 

اچھا بابا جا رہا ہوں 

حماد خان کو باہر جاتے دیکھ ساحر ان کی طرف لپکا 

نو بے بی نہیں آپ صبح سے پہلے ہی بہت تھکا چکے ہیں مما کو پھر کپڑے خراب کرو گے 

آنسہ نے ساحر کو گود میں اٹھا لیا ۔۔۔۔

________

کچھ ہی لمحوں کی بات تھی آنسہ کی خوشیوں کو نظر ہی لگ گئی 

حماد اکیلا نہیں تھا اس کے ساتھ مورے اور بابا سائیں تھے ان کی گاڑی کی بریکیں فیل کردی گئی تھی 

ایکسیڈنٹ شدید تھا تینوں ہی موقع پر ہی دم توڑ گئے تھے 

ویلا میں گونجتی آنسہ کی درد ناک چیخیں سن کر آس پاس کے لوگوں کے ساتھ ساحر بھی کڑلا گیا

________

اکیلی عورت کو کبھی معاشرے نے رہنے دیا وہ حویلی کسی اور کی دولت کہ کر ضبط کرلی گئی تھی

آنسہ جس حالت میں واپس حویلی آئی تھی کسی نے تو کیا خود آنسہ نے بھی نہیں سوچا تھا 

اس قابل رحم حالت پر گھر والوں نے اسے رہنے دیا تھا مگر 

سلوک ایسا ہی کیا جاتا جیسے وہ کوئی ہے ہی نہیں 

آنسہ نے اپنی مجرم کو تلاش کیا تھا مگر بھابھی کے ہی باتوں سے پتا چلا تھا شائستہ کی شادی اشرف سے ہوگئی ہے اور اب وہ امریکہ میں سیٹل ہیں 

دونوں بڑی بھابھیوں کا انداز تو لیا دیا تھا مگر حالہ بیگم چونکہ اس معاملے سے واقف نہیں تھی ان کا رویہ ٹھیک تھا 

تو بس یہ ہی تھی گھر والوں کی ہمارے سے سرد رویے کی وجہ 

ساحر نے طنزیہ انداز میں کہا 

حانم کی بھوری آنکھیں بھیگی ہوئی تھی 

اس نے ایک نظر ساحر نے سرخ ہوتی سرمئی آنکھوں میں دیکھا

ہستے ہوئے چہروں کو غموں سے آزاد مت سمجھو

تبسم کی پناہوں میں ہزاروں درد ہوتے ہیں

میں کبھی بھی اس بات پر یقین نہ کرتی کی بڑی پھوپھو سائیں ایسی ہیں ساحر سائیں اگر یہ بات مجھے کسے اور سے سننے کو ملتی 

حانم نے اپنے آنسو صاف کیے

تو بس یہ ہی تھی گھر والوں کی ہمارے سے سرد رویے کی وجہ 

ساحر نے طنزیہ انداز میں کہا 

حانم کی بھوری آنکھیں بھیگی ہوئی تھی 

اس نے ایک نظر ساحر کی سرخ ہوتی سرمئی آنکھوں میں دیکھا

ہستے ہوئے چہروں کو غموں سے آزاد مت سمجھو

تبسم کی پناہوں میں ہزاروں درد ہوتے ہیں

میں کبھی بھی اس بات پر یقین نہ کرتی کی بڑی پھوپھو سائیں ایسی ہیں ساحر سائیں اگر یہ بات مجھے کسے اور سے سننے کو ملتی 

حانم نے اپنے آنسو صاف کیے

ساحر نے چونک کر اسے دیکھا تو کیا وہ اس کے لیے خاص تھا 

مگر دل میں آئی خوش فہمی کو دماغ نے بری طرح جھٹکا ۔۔۔۔

تو آپ نے کیا اب تک اپنے بابا کے قاتلوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا اور بڑی پھوپھو ابھی تک پوری شان و شوکت کے ساتھ حویلی آتی ہیں آپ نے اور چھوٹی پھوپھو سائیں نے سچ ثابت کرنے کی کوشش نہیں 

بتائیں ساحر سائیں ابھی تک وہ سب کی نظروں میں مجرم ہیں میری نظروں میں ظالم اور ظلم برداشت کرکے خاموش رہنے والا ایک برابر ہیں 

آپ اتنے بزدل کیسے ہو سکتے ہیں مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی حانم تو سچ جان کر شوک میں تھی 

میں بزدل نہیں ہوں تمہے کیا لگتا ہے میں نے کوئی کوشش نہیں کی ان لوگوں کے خلاف جانے کی مگر تم بتاؤ نہ میں دو سال کا تھا جب میرے گھر والوں کا قتل ہوا مورے کی طرف سے کون انہیں انصاف دلاتا کون کھرا ہوتا ان کا باپ جنہوں نے ان پر یقین نہیں کیا یاں ان کے بھائی جو ان کا قتل کرنے کے در پے تھے 

وہ اس گھر میں صرف اسعد ماموں سائیں کی ضد کی وجہ سے ہیں 

 اور رہی بات حقیقت کی تو چند سال پہلے مجھے مورے سے حقیقت معلوم ہوئی تمہے کیا لگتا میں بس خاموشی سے ان کی بات سنتا رہا خون خول رہا تھا میرا مگر نا تو میں فائینینشلی سٹرونگ تھا اور نہ ہی اتنا مجھے معلوم تھا کسے کہتا میرا بس نہیں چل رہا تھا اس شخص کا قتل کرکے خود جیل میں چلا جاؤ تو بتاؤ کون کرتا میری ماں کی دیکھ بھال ان سے ان کا آخری سہارا بھی کھینچ لیتا تو کیا وہ زندگی رہتی 

حانم کی بات پر اس کی رگیں تنی وہ پھٹ ہی پڑا 

ان دس سالوں میں اس نے کیا کچھ نہیں کیا تھا اکیلے ہر شہ سے لڑا تھا آج اس کے سچ سے صرف حانم واقف ہوئی تھی یہاں تک کہ آنسہ بیگم کو بھی نہیں معلوم تھا 

اور رہی بات شائستہ بیگم کی اس معاملے میں بےبس ہوں مورے کی قسم کے آگے 

مگر مجھے اللّٰہ پر پور یقین ہے جھوٹ جتنا مرضی طاقت ور ہو مگر جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے 

اب چلو مجھے دیر ہورہی ہے 

ساحر نیپکین سے ہاتھ صاف کرتا پل کارڈ میں پیسے رکھے حانم کو اشارہ کرتا باہر کی طرف بڑھا 

.........

گاڑی میں سفر خاموشی سے ہی گزرا تھا 

نہ حانم کی کوئی آواز آئی اور ساحر تو پہلے ہی کم بولتا 

تھا 

ساحر اسے فلیٹ کے باہر چھوڑ کر اسکے اندر جاتے ہی وہاں سے نکل گیا 

________

اتنی دیر ہوگئی ساحر سائیں نہیں آئے 

میں نے زیادہ ہی سنا دی ساحر سائیں

حانم تم بھی نہ کتنے دکھی ہوں گے مجھ سے زیادہ انہیں دکھ تھا اپنے بابا کے قتل اور گھر والوں کے رویے کا اور

یہ بڑی پھوپھو سائیں ایک دفعہ حویلی تو پہنچوں میں ان کو تو میں دیکھتی ہوں 

پھوپھو سائیں کی زندگی خراب کردی 

اور پھوپھو سائیں انہوں نے ساحر سائیں کو سب بتانے سے کیوں منع کیا 

کیا کوئی اتنا بھی رحم دل ہوسکتا ہے 

..........

ساحر کافی دیر سے باہر تھا حانم کی ہی باتیں اس کے دماغ میں گونج رہی تھیں

اب واپس جارہا تھا مگر راستے پر ٹریفک جیم تھا 

ساحر کو حانم کا خیال آیا 

حانم اکیلی ہوگی ساحر نے فون نکالا مگر اسے احساس ہوا اس کے پاس حانم کا نمبر نہیں ہے 

شٹ !!!

گاڑی گھما کر دوسری طرف ڈالی 

________

اففففف اب تو کافی دیر ہوگئی ہے 

ساحر سائیں کو کال ملاتی ہوں حانم نے اپنا فون پکڑا مگر رک گئی اسے یاد آیا اس کے پاس تو ساحر سائیں کا نمبر ہی نہیں ہے ۔۔

ڈیڑھ ماہ ہونے کو آیا تھا دونوں کو پیرس آئے مگر ان کے پاس ایک دوسرے کا نمبر ہی نہیں ہے 

________

دروازہ بجنے کی آواز پر حانم نے دروازے کے سوراخ سے دیکھا تو ساحر کھڑا تھا 

حانم نے گہرا سانس لے کر دروازہ کھولا اور خود ٹیوی لاؤنج کی طرف بڑھ گئی 

راستے میں ٹریفک جیم ہوگیا تھا اس لیے مجھے لیٹ ہوگئی یہ لو کھانا نکال کر کھا لینا 

میں تمہے اپنا نمبر نوٹ کرواتا ہوں 

 اگر کوئی مسئلہ ہوا تو تم مجھے کال کر لینا 

۔۔۔۔۔۔۔۔

سوری ساحر سائیں میں کچھ زیادہ ہی بول گئی 

حانم کی نادم آواز پر ساحر تھما اٹس اوکے تم نے ایسا بھی کچھ غلط نہیں کہا تھا

آ۔آپ کھانا نہیں کھائیں گے؟؟؟

نہیں میں باہر سے کھا کر آیا ہوں 

تم اندر سے دروازہ اچھے سے لاک کرلو اور کسی کے لیے بھی مت کھولنا

۔۔۔۔۔۔

کھڑوس!!!! 

________

اگلی صبح ساحر حانم کو پی۔ ایس ۔بی چھوڑنے جارہا تھا جب حانم نے اسے مخاطب کیا 

ساحر سائیں!!!

ہممم مجھے جوب کرنی ہے کیا آپ کو کسی کمپنی کا پتا ہے جہاں ویکینسی خالی ہو ۔۔۔

حانم کی اس عجیب و غریب بات پر ساحر نے گاڑی کی بریک لگائی 

کیا مطلب کہ تم نے جوب کرنی ہے 

تمہے جوب کی کیا ضرورت ہے آغا سائیں نے تمہاری ضرورتوں کے لیے معقول سے زیادہ رقم تمہارے اکاؤنٹ میں دلوائی ہے پھر 

میں نے کب کہا کہ میں پیسوں کے لیے جوب کرنا چاہتی ہوں 

تو پھر ساحر نے نظر سامنے صاف ستھری روڈ پر ڈالی 

میں پیرس اپنا خواب پورا کرنے آئی ہوں اپنے بابا سائیں کی خواہش پوری کرنے 

ماموں سائیں؟؟؟ ساحر نے چونک کر حانم کو دیکھا 

جی بابا کی خواہش تھی میں بہت پڑھوں ایک بڑا نام کرو لوگ مجھے پہچانیں 

میری خواہش بزنس وومن بننے کی ہے 

اگر خالی پڑھنا ہی ہوتا تو میں پاکستان میں ہی پڑھ لیتی جہاں دادا سائیں نے مجھے گریجویشن کرنے کی اجازت دی تھی تو وہاں ایم ۔بی ۔اے بھی کرنے سے نہیں روکتے 

مگر آغا سائیں نہیں مانیں گے وہ تمہارا اتنی دور پڑھنے کے لیے کن حالات میں مانیں ہیں تم جانتی ہو 

تو ان کو بتائے گا کون ویسے بھی دو سال ہیں میرے پاس 

پلیز ساحر سائیں پلیز حانم نے اپنی آنکھوں جھپکائیں

ساحر نے چہرہ موڑ لیا 

تمہے کیا لگتا ہے صرف پاکستانی گریجویشن کی ڈگری پر تمہے جوب مل جائے گی 

ساحر نے اسے ٹالنے کی آخری سی کوشش کی

ہاں تو آپ کس کام آئیں گے ساحر سائیں اور اگر آپ سے کوئی کام نہ بنا تو میرا کلاس فیلو ہے ریچرڈ وہ میری ہیلپ کردے گا 

حانم نے اس آخری کوشش کو بھی رد کردیا 

لڑکے کے زکر پر ساحر لب بھینج گیا 

میں کرتا ہوں کچھ تم یہاں دوست بنانے سے پرہیز کرو خاص طور پر لڑکے

مگر وہ تو بس کلاس فیلو ہے 

حانم نے کندھے اُچکا کر عام سے انداز میں کہا 

اچھا میں دیکھتا ہوں تم جاؤ اور نمبر ہے نہ میرا تمہارے پاس کوئی مسئلہ ہوا تو تم۔مجھے کال کرلینا 

تم۔تم۔تم مجھے اس تم سے چڑ ہوگئی ہے ساحر سائیں کتنی دفعہ کہا میرا نام نورِ حانم ہے 

اب جب اپنی بات پوری ہوگئی تھی تو حانم واپس اپنی ٹون میں آئی

_________

حانم کو چھوڑ کر وہ زی کے پاس آگیا 

ارے خان کیسا ہے تو  زارون خان کے گلے لگا 

ہممم ٹھیک ہوں تو سنا تمہارا دوست آرہا ہے آفس ؟؟؟

ہاں ڈوکومنٹس میں سائن وغیرہ ہوگئے ہیں اچھا ہوا کہ تو بھی آگیا تو بھی سائن کردے تجھے تو پتا ہے ان فارمیلیٹیز کا 

ہممم کا پیپر کر دیتا ہوں سائن خان نے اپنی پینٹ کی جیب سے سگریٹ اور لائٹر نکالا 

سگریٹ منہ میں دبائے سگرٹ سلگانے لگا 

کیا ہوا خان تو ٹھیک تو ہے آنٹی ٹھیک ہیں 

زارون نے خان کو سگریٹ سلگاتے دیکھ کر کہا 

جب وہ زیادہ پریشان ہوتا تب ہی سگریٹ پیتا تھا 

ہممم ٹھیک ہیں وہ 

غیر مرعی نقطے کو دیکھ کر بولا 

اتنی دیر میں زارون پیپرز اور جوس لے آیا 

بس کر جا خان یہ چوتھا سگریٹ تھا

میں سوچ راہا ہوں اب مجھے وہ کام کردیا چاہیے جس کے لیے میں نے اتنے سال محنت کی ہے 

مگر خان ابھی ؟؟؟

زارون مضطرب ہوا

وہ لوگ ابھی بھی بہت طاقتور ہیں خان 

طاقتور زات صرف اللّٰہ کی ہے زی اور میں اب اور انتظار نہیں کر سکتا اب ان لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنا ضروری ہے 

میں تیرے ساتھ ہوں زارون نے خان کے شانے پر ہاتھ رکھا 

نہیں تو نے میرے لیے جو کیا بہت ہے اب تیری جان خطرے میں نہیں ڈال سکتا 

خان نے زی کی طرف دیکھ کر کہا 

کہاں یار یہ جان تیری ہی بچائی ہوئی ہے 

بے شک جان مال عزت سب اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے مگر وسیلہ تو تو بنا تھا اگر اس دن ایکسیڈینٹ میں مر جاتا تو کیا ہوتا میری دولت کا کون ہے میرے آگے پیچھے 

اچھا اچھا بس کتنی دفعہ یاد کروائے گا تو نے بھی تو میری مدد کی پیرس جیسے شہر میں میرا اپنا کاروبار ہے تیری سپورٹ کی وجہ سے خان نے سیگریٹ ایش ٹرے پر مسلی

پیپر دیکھا میں سائن کروں ۔۔۔

اس سے پہلے ساحر کاغزات پر دستخط کرتا اس کے فون پر کال آئی 

پاکستانی نمبر 

ہیلو اسلام علیکم

جی کیا ؟؟

اب کیسی ہیں مورے 

میں میں آتا 

ہوں ۔۔۔۔

کیا ہوا خان ؟؟؟؟

زارون خان کی ہڑبڑاہٹ دیکھ کر پریشان ہوا 

مورے وہ ٹھیک نہیں میری ایمرجنسی فلائٹ بک کرو پاکستان کی 

یار فکر نہ کر کچھ نہیں ہوتا آنٹی کو میں پاکستان کی پہلی فلائٹ بک کرواتا ہوں اچھا تو پیپرز دے خان نے پیپرز پکڑ کر دستخط کیے اور وہاں سے ریش ڈرائیو کرتا نکل گیا

_________

حانم کو انسٹیٹیوٹ سے واپس لے کر گھر چھوڑا 

حانم یہ لو یہ کارڈ کل تم اس آفس میں چلی جانا اور سر زی سے مل لینا وہ تمہارا انٹرویو کرلیں گے 

ارے واہ ساحر سائیں آپ تو بہت فاسٹ ہیں 

حانم ابھی کچھ کہتی ساحر نے اسے بلایا 

حانم میں صبح پاکستان کے لیے نکل رہا ہوں مجھے ضروری کام ہے کل سے کچھ دنوں کے لیے تمہے اکیلے ہی سب ہینڈل کرنا پڑے گا میڈ کے جانے کے بعد دھیان سے دروازہ بند کرلینا کسی کے لیے بھی دروازہ مت کھولنا 

یہ میرا پاکستان والا نمبر ہے اسے بھی سنبھالو 

ساحر نے عجلت سے دو کارڈ حانم کی طرف بڑھائے 

آرام سے ساحر سائیں کیا ہوگیا ہے میں بچی تھوری نہ ہوں ویسے بھی پہلے بھی میں نے اکیلے ہی سب ہی دل کرنا تھا 

حانم نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ کہا 

ویسے خیریت ہے ؟؟؟

ہاں بس نورے کی طبیعت نہیں ٹھیک 

کیا ہوا پھوپھو سائیں کو حانم نے بھی پریشانی سے پوچھا

کچھ نہیں انہیں بلڈ پریشر کا مسئلہ ہے 

بس میں کل جا رہا ہوں پھر دیکھتا ہوں 

اچھا میں اپنا سامان پیک کرنے جارہا ہوں تم دروازہ لاک کرلو 

________

ساحر کے جانے کے بعد حانم نے دروازہ لاک کیا اور ہاتھ میں پکڑے کارڈ کو دیکھا بے شک پہلے اس نے اکیلے آنا تھا مگر اب کیا وہ سب کچھ اکیلے ہینڈل کرلے گی  

_________

ساحر فجر ٹائم پہ ہی ائیرپورٹ کے لیے نکل گیا تھا 

آج وہ پبلک ٹیکسی سے انسٹیٹیوٹ پھر ساحر کے بتائے ہوئی بلڈنگ پر گئی تھی 

بلند وبالا عمارت دکھنے میں بہت خوبصورت تھی 

حانم اللّٰہ کا نام لے کر اندر گئی 

اندر سے وہ بلڈنگ باہر سے بھی زیادہ خوبصورت تھی

وہ ریسیپشنسٹ کے ڈیسک کی طرف بڑھی۔۔۔۔۔

ایکسکیوز می کیا آپ بتا سکتی ہیں سر زی کا روم کونسا ہے 

حانم نے اپنے سامنے کھڑی ماڈرن سی ریسیپشنسٹ سے پوچھا حانم ان سب میں مختلف اور نمایا تھی جہاں کسی نے ماڈرن تو کسی نے الٹرا ماڈرن کپڑے پہنے ہوئے تھے وہی حانم نے پستہ رنگ کی شلوار کمیز ساتھ اوف وائٹ کلر کا حجاب لیا ہوا تھا آدھے سے زیادہ سٹاف اسے گھور رہا تھا مگر اس کے کانفیڈنس میں کوئی کمی نہیں آئی تھی 

ایکسکیوز می میں نے سر زی کے روم کا پوچھا ہے 

حانم نے ریسیپشنسٹ کے آگے چٹکی بھائی جو اسے جواب دینے کی بجائے گھوری جارہی تھی 

آپ کے پاس کوئی اپوائنٹمنٹ ہی بوس سے ملنے کے لیے

ریسیپشنسٹ نے ایک آئی برو اوپر اٹھا کر پوچھا 

اپوائنٹمنٹ،،،،،،،

وہ تو نہیں ہے حانم کو اب کنفیوژن ہونے لگے 

ہمم۔ تو بغیر اپوائنٹمنٹ میں آپ کو باس سے ملنے کی اجازت نہیں دے سکتی 

حانم ابھی واپس مڑتی اسے ساحر کا دیا ہوا کارڈ یاد آیا 

اس نے فوراً اپنے ہینڈ بیگ سے کارڈ نکال کر ریسیپشنسٹ کی طرف بڑھایا 

ریسیپشنسٹ نے ایک نظر کارڈ پر پھر ایک نظر حانم پر ڈال کر اسے راستہ بتایا 

اوکے تھینک یو حانم تیز تیز قدم اٹھاتی لیفٹ کی جانب بڑھی جب اس کی ٹکر زاوی کے ساتھ ہوئی 

سوری !!!!

حانم ایک جھٹکے سے مڑی

سو سوری حانم نے نیچے گڑی زاوی کی گاڑی کی چابی اور اپنی فائیلز اٹھائی 

چابی اسے پکڑائی

سوری زاوی حانم کو دیکھ کر سٹل ہوا  

بیوٹیفل گرل !!!

 حانم اسے اگنور کرکے آگے بڑھی 

پیرس جائے ماڈرن سٹی میں ایسے کومنٹس عام سی بات تھی اس لیے وہ اس بندے کے کمنٹ کو اگنور کرتی مسٹر زی کے آفس کی جانب بڑھی 

______

زاوی کا موڈ آج بہت فریش تھا وہ آفس زارون سے ملنے آیا تھا ساتھ یہ بھی بتانے کہ آج نہیں آسکتا 

گاڑی کی چابی کو اپنی انگلی میں گھماتا آتی میں اپنی پسندیدہ دھن بجاتا وہ زی کے آفس سے باہر نکلا ابھی لفٹ کراس کی ہی تھی ایک لڑکی کی ٹکر اس کے ساتھ ہوئی 

وہ لڑکی اپنے پہناوے اور نقوش کی وجہ سے ایشین لگ رہی تھی مگر تھی بلا کی خوبصورت

زاوی کے منہ سے بے ساختہ بیوٹیفل گرل نکلا 

مگر اس لڑکی کے زاوی کو نظر انداز کرنے پر زاوی اس کی طرف اور ایٹریکٹ ہوا

ہممم بیوٹی وید ایٹیٹیوڈ نوٹ بیڈ 

_______

زاوی نے ریسیپشنسٹ کے پاس جاکر اس کی ڈیسک پر نوک کیا 

ہائے سر سینڈرا فوراً اپنی سکرٹ ٹھیک کرتی کھڑی ہوئی 

زاوی نے سینڈرا کی حرکت کو برمے زاری سے دیکھ کر کہا

ہائے سینڈی ابھی وہ جو لڑکی اندر گئی ہے وہ کون تھی؟؟؟

کون سی سر؟؟؟ سینڈی ابھی بھی زاوی کی ہی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی 

وہ ہی پستہ کلر کے سوٹ والی 

آؤ وہ سینڈی بد مزہ ہوئی 

پتا نہیں آر زی کے روم کا پوچھ رہی تھی اس کے پاس ریفر کارڈ بھی تھا 

اوکے تھینک یو سینڈی 

مینشن نوٹ سر 

ہممم تو مس ایٹیٹیوڈ جوب کے لیے آئی ہیں 

ہممم پھر تو ملاقات ہوتی رہے گی۔۔۔

حانم نے اللّٰہ کا نام لے کر دروازہ نوک کیا 

کم ان !!!

اندر سے بھاری مردانہ آواز سن کر حانم اندر کی جانب بڑھی 

زی جو فائلز دیکھنے میں مصروف تھا اپنے سامنے غیر شناسہ لڑکی دیکھ کر چونکہ

جی آپ کون؟؟

وہ میں یہاں انٹرویو دینے آئی ہوں حانم نے اپنی فائل اس کی ٹیںل پر رکھ کر کنفیوژن سے کہا 

انٹر ویو مگر .....

ابھی وہ کچھ کہتا کہ اس کے فون پر خان کی کال آئی

ایکسکیوزمی!!!

ہیلو ہاں ہاں اچھا ٹھیک ہے اوکے اللّٰہ حافظ

جی تو بیٹھیں 

مس نور حاکم!!!!!

زارون نے حانم کی فائل پکڑ کر اس پر لکھا اس کا نام کال کیا 

نور حاکم ۔۔۔۔

جی تو بتائیں اپنے بارے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ادھر سے رائٹ جا کر پہلا کیبن میری سکریٹری  ہے کہ نور العین وہ تمہے کام سمجھا دے گی میں اسے فون کردوں گا 

________

حانم کیبن کی طرف بڑھی وائٹ لانگ ٹاپ اور بلیو جینز میں بیٹھی ایک لڑکی فون پہ بات کرتی نظر آئی 

اوکے ۔۔اوکے سر آئی ول ہینڈل ۔۔۔۔

یو نور حاکم 

نور العین نے سنجیدگی سے حانم کو اوپر سے نیچے تک دیکھا 

حانم کو لگا وہ بھی اسے پہلی ریسیپشنسٹ کی طرح حقارت سے دیکھے گی 

کچھ کہے تو سہی ابھی نورِ حانم کو جانتی نہیں 

آئی ایم نور العین زی سر کی پی۔اے نائس ٹو میٹ یو سویٹ گرل 

نور العین نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ حانم کی طرف بڑھایا 

حانم نے بھی مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔۔

_________

ساحر اگلی دوپہر کو حویلی پہنچا تھا اور سیدھا آنسہ بیگم کے کمرے میں گیا 

مورے مورے وہاں بیٹھی صنم اس کے پاس آئی

ساحر سائیں ابھی میں نے دوا کھلا کر سلایا ہے آپ شور نہ کریں 

تمہارا بہت بہت شکریہ صنم تم نے مورے کا خیال رکھا 

ساحر بستر پر دراز آنسہ بیگم کے پاس گیا 

کوئی بات نہیں ساحر سائیں پھوپھو سائیں کا دھیان رکھنا میرا فرض تھا 

تم چاہو تو جا سکتی ہو میں ہوں اںمب مورے کے پاس 

ساحر نے آنسہ بیگم کے بالوں پر ہاتھ پھیرا 

جی۔۔۔

اپنی پریشانی میں ساحر یہ محسوس نہ کر سکا کہ

ہمیشہ کی طرح ادا یاں لالہ تو صنم نے کہا ہی نہیں 

_______

صنم کمرے میں آکر گول گول گھمانے لگی

 اففف ساحر سائیں پھر دونوں ہاتھوں سے چہرا ڈھانپ لیا 

شکریہ کہنے کی کیا ضرورت ہے آگے بھی تو پھوپھو سائیں۔ کا دھیان میں نے ہی رکھنا ہے 

ہاہاہا۔۔۔۔۔

کیا بات ہے چھوٹی کشن اتنا مسکرایا کیوں جارہا ہے خیریت 

سونیا صنم کی کھلکھلانے کی آواز پر اس کے کمرے میں آئی 

صنم سٹپٹائی نہیں۔ توں

اچھا اب اپنی دوست سے چھپاؤ گی 

سونیا نے صنم کا ہاتھ پکڑ کر مصنوعی افسردگی سے کہا

ساحر سائیں آئیں ہیں 

اوہو ساحر سائیں

جی شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ صنم کمرے سے باہر نکل گئی

او ہو صنم بی بی آپ کے تو پر نکل آئے ہیں 

ہمیں کیا مزہ تو تب آئے گا جب منہ کی کھاؤ گی کیونکہ ماموں سائیں اور آغا سائیں تو ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے

سونیا کی شاطرانہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنے بالوں کی لٹ کو انگلی میں گھمایا 

________

مورے ساحر دھیرے دھیرے ان کے بال سہلا رہا تھا 

میرا بچہ کیسا ہو میری جان پہلے تو پھر بھی حویلی میں مل جاتے تھے اب تو بالکل بھی نظر نہیں آتے 

آنسہ بیگم نے ساحر کے چہرے پر ہاتھ رکھا

مورے بہت ضروری کام تھا مجھے دوسرے ملک گیا ہوا تھا میں 

دوسرے ملک !!!

جی مورے بس سمجھ لیں میری زندگی ک مقصد ہے نہیں تو آپ کو چھوڑ کر میں کبھی نہ جاؤں

آپ بتائیں میری مورے تو اتنی بہادر ہے تو پھر بیمار کیسے ہوگئی آپ ۔۔۔

نہیں میری جان اپنے بچے کو دیکھ لیا ہے نہ میں نے اب میں صحیح ہوں 

مورے آپ مجھ سے کچھ چھپا رہی ہیں 

ساحر نے ان کے ہاتھوں کو عقیدت سے چوم کر کہا 

نہیں بیٹا سائیں آنسہ بیگم نے نظریں چرائیں 

مورے کیا گھر والوں میں سے کسی نے کچھ کہا ہے ؟؟؟

نہیں بیٹا سائیں کو کچھ کہتا ہی تو نہیں ہے آنسہ بیگم کی آنکھیں بھر آئیں مورے آپ بتا کیوں نہیں دیتی سارا سچ آغا سائیں کو کیوں جل رہیں اس آگ میں مجھے بھی قسم میں باندھ لیا ہے 

ساحر نے بے بسی سے کہا

بیٹا کیا فایدہ اب گڑھے مردے اکھاڑنے نے کا جب گھر والوں کی ضرورت تھی ان کے اعتبار کی ضرورت تھی تب انہوں نے کچھ نہیں کیا اب عمر کے اس حصے میں کسے سزا دلواؤں ۔۔۔

مورے یہ غلط ہے ساحر نے ان کے آنسو صاف کیے 

________

آغا سائیں کو جب آنسہ بیگم کی بیماری کا پتا لگا تھا تو وہ خود کو نہیں روک پائے دوپہر کا وقت تھا عورتیں ساری کیچن میں تھیں اور جاوید اور جواد ڈیڑھے پر 

آغا سائیں کے قدم آنسہ بیگم کے کمرے کی طرف بڑھے مگر اندر بیٹھے ساحر کو دیکھ کر وہ تھمے 

ساحر یہاں ہے تو نورے ؟؟؟؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساحر سائیں آغا سائیں کی آواز پر ساحر اور آنسہ بیگم چونکے 

تم۔یہاں ہر کیا کر رہے ہو؟؟؟

آغا سائیں مورے کی طبیعت خراب تھی اس لیے میں واپس آیا ہوں 

ادھر اور بھی لوگ ہیں ساحر سائیں مگر ادھر نورے اکیلی 

آغا سائیں نے سنجیدگی سے کہا 

ہوں گے ادھر بہت سے لوگ آغا سائیں مگر دھیان رکھنے والا میں اکیلا ہی ہوں ساحر واپس آنسہ بیگم کے بیڈ کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا 

ساحر سائیں ،،،،

جی مورے 

تمہارا حانم کے ساتھ کیا تعلق؟؟

مورے حانم بھی اسی ملک میں پڑھ رہی ہے جہاں میں جوب کے سلسلے میں جاتا ہوں 

اچھا تم تو ادھر آگئے حانم اکیلی ہوگی بچے 

مورے آپ فکر مت کریں میرے اس سے بات ہوتی ہے وہ ٹھیک ہے 

آپ اپنی فکر کریں اور میں آپ کے جوس منگواتا ہوں 

  بہت ہی پیاری بچی ہے حانم اکثر میرے ساتھ وقت گزارنے آجایا کرتی بہت بڑا ہوا اس کے ساتھ

 زبردستی کی شادی کا صلہ ایسا ہی ہوتا ہے 

میرا بس چلے تو میں اسے اپنی بیٹی بنا لوں 

آنسہ بیگم کی بات پر ساحر کا دل زور سے دھڑکا

مگر ان کی اگلی بات پر دل دھڑکنا ہی بھول گیا 

مگر گھر والے ایسا نہیں ہونیں دیں گے

________

دو ہفتے ہوگئے تھے ساحر کو گئے ہوئے اور دو ہی ہفتے ہوگئے تھے حانم کو اس کمپنی میں جوب کرتے ہوئے

 زیادہ لوگوں سے تو نہیں سر زی  کی سیکریٹری نور العین سے اس کی اچھی خاصی دوستی ہوگئی تھی 

دو ہفتوں میں ساحر کی کال بلاناغہ آتی رہی تھی 

پہلے جب وہ ادھر تھا تب تو اسے اتنی فیل نہیں ہوا مگر اس کے جانے کے بعد اسے احساس ہوا کہ وہ اس کا کتنا خیال رکھتا تھا 

اتنے دن ایک ہی روٹین کی وجہ سے حانم بور ہوگئی تھی اس لیے کل نور العین اسے sceaux ٹاؤن لے گئے تھی بہار کے موسم میں پیرس آئے اور سکیوکس ٹاؤن نہیں دیکھا تو کیا دیکھا اور بلاشبہ نور العین کی بات سچ تھی وہ جگہ بہت خوبصورت تھی

مزہ آرہا ہے ؟؟؟

نور العین نے حانم کے چہرے کی مسکراہٹ دیکھ کر پوچھا 

افکورس

اور تم بتاؤ اپنے بارے میں کچھ دونوں آئسکریم پارلر میں گلاس وال کے ساتھ والی ٹیبل میں بیٹھ گئی

میرے بارے میں نور العین نے آئسکریم کے کپ پر اپنی انگلی کی ٹپ رکھی میں میرا تعلق اورفنیج سے ہے جب سے ہوش سنبھالا ہے خود کو یتیم کھانے میں ہی پایا ہے 

اس کی ادارنے نے تعلیم دلوائی پھر میری ملاقات زی سر سے  ہوئی اینڈ انہوں نے مجھے جوب دے دی 

اووو ایم سوری حانم کو دکھ ہوا 

نو نو اٹس اوکے 

ویسے تم سر زی کے نام پر بلش کیوں کرتی ہو حانم نے ماحول کو بدلنا چاہا 

ن۔نہیں نہیں تو ایسی تو کوئی بات نہیں ہے 

نور العین نے ادھر ادھر دیکھا

نور ،،،،

حانم نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تمہارے گالوں پر کچھ لگا ہے لال لال 

کیا ؟؟؟ نور العین نے اپنے گالوں۔ پر ہاتھ پھیرا 

چھوڑو بلش ہے 

اففففف نور حاکم 

نور العین نے اس کے بازو پر چٹکی کاٹی

بائے دا وے سر زی بہت اچھے ہیں مگر جو دوسرے سر ہیں وہ تھوڑے عجیب ہیں فلرٹی ٹائپ  

ہاہاہاہا سر زاوی نہیں وہ سب کے ساتھ فری ہیں ابھی نیو نیو جوئن کیا نہ انہوں نے 

اچھا 

اب تم اپنے بارے میں بھی بتاؤ نور العین نے حانم کو اشارہ کیا 

اپنے بارے میں کچھ خاص نہیں 

نور ،،،،،،

نور العین نے منہ پھلا یا 

ویسے تمہے بلاتی ہوں تو لگتا ہے خود کو ہی کہہ رہی ہوں نور العین نے ہنس کر کہا 

ویسے میرا پورا نام نورِ حانم اسعد حاکم ہے 

اچھا مگر تمہاری گائک پر تو نور حاکم لکھا ہے 

یس نور حانم کی جگہ نور حاکم پرنٹ ہوگیا اور پھر میرے پاس ٹائم نہیں تھا کریکٹ کروانے کا اور یہ نام بھی ٹھیک ہے 

او آئی سی۔۔۔۔ 

اب بتاؤ اپنے بارے میں تم بات نہ گھماؤ 

اچھا بابا حانم نے اسے اپنی لائف کے بارے میں بتایا زاویار والی بات چھوڑ کر 

اوووو تم گاؤں کے سردار کی پوتی ہو 

مگر انہوں نے تمہے اتنی دور کیسے آنے دیا آئی مین میں نے سنا ہے ان گاؤں میں بچے سپیشلی لڑکیوں کے لیے پڑھائی آلاؤ نہیں اور تم اتنی دور آئی اپنے بابا کا خواب پورا کرنے کے لیے نور العین نے اشتیاق سے اسے دیکھا 

ارے نہیں اب وہاں بھی انٹر تک کی سٹڈی کے لے کالجز ہیں اور اتنی سختی بھی نہیں ہے  

_______

آئسکریم کھانے کے بعد حانم اور نور العین گلاس بوٹل شوٹ والے کارنیول میں لے آئی 

میرا نشانہ ہمیشہ مس ہوجاتا ہے 

نور العین نے منہ بنا کر گن حانم کی طرف بڑھائی 

ٹک ٹک ٹک حانم نے تینوں ہی گلاس باٹلز کو صحیح شوٹ کیا 

واؤ حانم تمہارا نشانہ کتنا اچھا ہے 

ویلکم ویلکم مس عینی حانم اپنا ایک ہاتھ باندھ تعریف سمیٹنے کے انداز میں جھکی 

اوو عینی ساؤنڈ گوڈ

 ہاہاہاہا

دونوں ہی کھلکھلا کر ہنس دی

________

زاوی کہاں کھو گیا 

ایبک نے زاویار کا کندھا ہلایا جو حانم کو ہی دیکھ رہا تھا 

ہاں کچھ نہیں 

پتا نہیں جب سے آیا ہے چپ ہے 

ڈیویڈ نے بھی کین سے آپ کے کر کہا 

کچھ نہیں یار چلو ۔۔۔۔

_________

حانم آفس سے واپس آئی تو اسے اوپر والے فلیٹ سے کھٹ پٹ کی آواز آئی 

ایک پل کو حانم چونکی پھر اپنا دروازہ بند کرکے اوپر کی طرف دوڑی

ساحر سائیں ،،،،،،

_________

آفس ٹائم ختم ہوچکا تھا کولیگز بھی آہستہ زاویار آفس سے باہر نکل کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھا  مگر اپنی گاڑی سے تھوڑے فاصلے پر ساحر کو کھڑا دیکھ کر چونک گیا

ساحر !!!!

زاویار کے قدم ساحر کی طرف بڑھے 

اوو ہو کزن سائیں تم یہاں پر کیا کر رہے ہو ؟؟؟

زاویار نے اپنی گاڑی کی چابی سے اپنی کنبٹی سہلاتے ہوئے سوچنے والے انداز میں کہا 

او مزدوری کرنے کرنے آئے ہو مگر تمہے لگتا ہے علم نہیں ہے یہاں پر کھیتی باڑی نہیں ہوتی

اور آتی ہی کیا ہے تمہے

مگر سوچنے والی بات ہے  تم یہاں آ کیسے گئے 

اوو ہاں آغا سائیں نے ہی بھیجا ہوگا مگر ان کو خدمت خلق کا بہت شوق ہے مگر اس بار ان کے پیسے ضائع ہی ہوئے ہیں

زاویار نے اپنی تھوری پر گاڑی کی چابی مس کی پھر طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اور مخاطب ہوا 

یہ کمپنی دیکھ رہے ہو مالک ہوں میں یہاں کا اگر صاف صفائی والی نوکری چائیے تو بتا دینا اب اتنا تو میں کر ہی سکتا ہوں آفٹر آل ہمارے ہی ٹکڑوں میں پل رہے ہو 

ساحر خاموشی سے زاویار کی بکواس سن رہا تھا مگر اس کی اگلی بات نے اسے آگ لگا 

ویسے کیسی ہے میری پینڈو کزن پلس سابقہ بیوی

زبان سنبھال کر بات کرو میر زاویار اور اس کا نام اپنی گندی زبان سے مت ہی لو اس وقت میں وہاں پر نہیں تھا اگر ہوتا تو تجھے یوں چوروں کی طرح منہ چھپا کر بھاگنے نہیں دیتا

ساحر نے زاویار کا گریبان پکڑا 

تجھے کیوں آگ لگ رہی ہے تو شادی کرلیتا کچھ تو ہمارے احسان اُتارتا اس کے ہاتھوں سے اپنا گریبان چھڑواتا زاویار سائیڈ پر ہٹا ۔۔۔

ساحر غصے سے سر جھٹکتا اپنی گاڑی میں جا بیٹھا 

حانم آفس سے واپس آئی تو اسے اوپر والے فلیٹ سے کھٹ پٹ کی آواز آئی 

ایک پل کو حانم چونکی پھر اپنا دروازہ بند کرکے اوپر کی طرف دوڑی

ساحر سائیں ،،،،،،

مگر وہاں کھڑے جیک کو دیکھ کر چونکی 

جیک تم یہاں پر کیا کر رہے ہو ؟؟؟؟

حانم نے ساحر کے فلیٹ کے دروازے کے باہر کھڑے جیک کو دیکھ کر بولا

تم مجھ سے بات مت کرو ڈئیر میں تم سے ناراض ہوں 

جیک نے غصے سے منہ موڑا 

اور وہ کیوں ؟؟؟ 

حانم نے بازو آگے لپیٹ کر استفسار کیا 

ساحر پورے" ٹو ویکس" سے یہاں ہر نہیں ہے اور تم نے مجھے ایک بار بھی نہیں بتایا 

جیک دو انگلیاں کھول کر حانم کو اشارہ کرکے خفگی سے بولا

کیا ہورہا ہے یہاں پر 

ساحر کی آواز پر جہاں حانم چونک کر مڑی وہی 

جیک غصیل محبوبہ کی طرح ایک ہاتھ کمر اور دوسرا منہ پر رکھ کر بولا 

آگئی تمہے" ٹو ویکس" کے بعد یاد

ساحر نے جیک کے عجیب سے انداز کو دیکھا

ابھی وہ زاویار کے ساتھ سر کھپا کر آیا تھا اب یہ نیا عجوبہ نوٹ آگین ،،،،

جبکہ حانم اپنا قہقہ ضبط کرنے کے چکر میں سرخ ہو گئی تھی...

دیکھیں مسٹر جیک !!!!

واٹ ساحر کال میں جیکی سب کے لیے جیک مگر تمہارے لیے جیکی 

حانم جب زیادہ برداشت نہ کر پائی تو اس کا بلند قہقہ ہوا میں گونجا ساحر اسے گھور کر رہ گیا 

مگر حانم آس پاس کی پروا کیے بغیر ہنسی جارہی تھی 

جیک ؟؟جیکی ؟؟؟؟

ساحر کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا 

اففف جو بھی تم ہو جاؤ یہاں سے اس وقت میرا دماغ گھوما ہوا ہے 

ون منٹ ایک کال لے لوں 

ابھی ساحر کچھ اور بولتا جیک کا موبائل رنگ ہوا

جیک نے اپنی ریڈ جینس کی پاکٹ سے فون نکال کر کال اٹینڈ کیا 

آہاں !! یا یا ہم آہاں اپنے ناخنوں سے کھیلتا نزاکت سے بولا 

ہممم میں نے تو کہا تھا مجھ سے اچھا ہئیر سپا جینی کو کوئی نہیں دے سکتا یا ۔۔ اوکے ڈارلنگ آئی ایم کمنگ 

جی تو ساحر ڈئیر کیا کہہ رہے تھے 

دیکھو مجھے غصہ نہ چڑھاؤ میں لڑکی۔۔۔۔میں ۔میرا ہاتھ اٹھ جائے گا 

ساحر کو سمجھ نہ آئی اسے کیسے بھگائے یہاں سے 

افف تم تو غصے میں بھی ہینڈسم لگتے ہیں 

آئی ایم گوئینگ 

یہ مت سمجھنا تمہارے کہنے پر جارہا ہوں ایک امپورٹنٹ کلائینٹ آیا ہے 

نہیں تو میں تم سے اب بھی ناراض ہوں 

منہ موڑ کر خفگی سے وہاں سے چلا گیا 

جیک کے جانے کے بعد ساحر نے سکون کا سانس لیا جب نظر حانم پر پڑی جس کا ایک ہاتھ منہ پر تھا اور دوسرے ہاتھ سے دروازے کا سہارا لیا ہوا تھا ۔۔۔

سرخ رنگت اس بات کی چغلی کر رہی تھی کہ جناب اپنا قہقہ ضبط کیے کھڑی ہیں 

ساحر نے سر جھٹک کر اپنے فلیٹ کا دروازہ کھولا 

بس اس کے یہ کرنے کی اتنی سی دیر تھی حانم زور زور سے ہنستی صوفے پر بیٹھی 

اللّٰہ اکبر

اللّٰہ کی یہ کیا دیکھ لیا میں نے ہاہاہاہا

بس بھی کر جاؤ اب 

میں کیا کروں میری ہنسی ہی نہیں رک رہی حانم اپنے گالوں کو دباتے بولی جو اب دُکھ رہے تھے 

________

ہم تو کیسی جارہی ہیں سٹڈیز اور آفس ساحر نے کھوجتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا

ساحر نے دوسرے صوفے پر بیٹھ اس سے پوچھا وہ زاویار کو پیرس میں دیکھ کر تشویش میں تھا اس لیے شی سے ملے بغیر ہی حانم سے ملنے گھر 

دونوں ہی اے ون حانم نے آکسائیٹڈ ہوکر کہا 

ہممم۔ ۔۔ یہ تو اچھی بات ہے کوئ مسئلہ تو نہیں ہوا

آفس میں

 نظریں ابھی بھی حانم پر تھی 

جس کے اکسپریشن عام سے تھے

نہیں مسئلہ تو کوئی نہیں ہوا بلکہ سر زی بہت اچھے ہیں 

ہمممم۔۔۔۔ 

ساحر گہری سوچ میں چلا گیا ۔۔۔۔۔

__________

پاکستان!!!!!

اسلام علیکم آغا سائیں شائستہ بیگم آغا سائیں کے کمرے میں آئیں 

وعلیکم السلام آؤ شائستہ بچے کیسی ہو اور اشرف سائیں کیسے ہیں 

آغا سائیں نے مسکراتے ہوئے ان کے سر پر ہاتھ رکھا۔

اللّٰہ سائیں کا بہت کرم ہے آغا سائیں سب ٹھیک ہیں 

ہممم شکر اللّٰہ سائیں کا 

اچھا آغا سائیں میں آپ سے ایک ضروری کام کے سلسلے میں آئی ہوں بلکہ یہ سمجھ لیں کچھ مانگنے آئی ہوں 

کیا چاہیے شائستہ سائیں میرا سب کچھ تم بچوں کا ہی تو ہے 

نہیں آغا سائیں میں آپ سے آپ کی عزیز چیز مانگنے آئی ہوں 

میں حانم اپنے ابرار کے لیے مانگنے آئی ہوں آپ کو تو پتا ہے نہ مجھے اسعد سائیں سے کتنی محبت تھی میرا بھائی بھری جوانی میں ہمیں چھوڑ گیا مگر اب میں۔اس کی امانت اس کی آخری نشانی کو سینے سے لگانا چاہتی ہوں 

مگر حانم کی ماں بھی اس پر حق رکھتی ہے

حالہ کو کیا مسئلہ ہوگا آغا سائیں اس کو تو خوشی ہوگی اس کی بیٹی کا گھر بس جائے گا اسے اور کیا چائیے اور جہاں حانم کی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق وہ تو آپ کے پاس ہے حانم تو سب سے زیادہ آپ ہی کہ قریب ہے 

دیکھیں  آغا سائیں میں تو نیکی ہی کرنا چاہتی ہوں

آپ تو جانتے ہیں نہ حانم کی طلاق کے بعد لوگوں کو موقع مل گیا میروں کی بچی پر باتیں کرنے کا مگر میں اپنی بچی کے دکھ ختم کرنا چاہتی ہوں 

شائستہ بیگم نے مصنوعی آنسو لا کر آخری پتہ پھینکا 

حانم کی طلاق والی بات سن کر آغا سائیں بھی بے بس ہوگئے اچھا میں دیکھتا ہوں 

آغا سائیں مجھے ہاں میں ہی جوب چائیے 

اللّٰہ میری بچی کے نصیب اچھے کرے 

اچھا میں چلتی ہوں ابرار باہر انتظار کر رہا ہوگا 

_______

لالا ہممم۔ہمم لالا 

آج موسم کتنا اچھا ہے نہ صنم میں سوچ رہی ہوں کیو نہ پکوڑے بنا لو علینہ کیچن کے اوپر والے کیبنٹ سے بیسن نکالتے بولی 

اچھا زرا ریک سے چھوڑی تو پکڑانا میں پیاز کاٹ لوں 

علینہ نے وہی کھڑے کھڑے ہاتھ پیچھے کرکے صنم سے چھوڑی مانگی 

اففف صنم دو بھی چھوڑی بیسن گھل گیا ہے 

یہ لیں 

آہ۔۔۔۔

مردانہ آواز پر چھوڑی پکڑتے علینہ کے ہاتھ ڈگمگائے اور تیز دھار چھوڑی اس کی انگلی پر گہرا کٹ لگا گئی 

سس زخم سے خون نکل رہا تھا اور علینہ کی آنکھوں سے آنسو

شش کچھ نہیں ہوا ابرار نے اس کا ہاتھ پانی کے آگے کیا 

چھوڑیں پلیز علینہ نے کسمسا کر اس کے ہاتھ سے ہاتھ چھڑوانا چاہا 

پلیز کوئی دیکھ لے گا تو غلط سمجھے گا

ابرار جو پانی پینے کی غرض سے کی ن میں ہی چلا آیا تھا 

اپنے چھوٹے مامو کی بیٹی کو اکیلے خود سے باتیں کرتے دیکھ مسکراہٹ دبا گیا وہ صنم کو پانے پیچھے سمجھ کر اس سے باتیں کر رہی تھی مگر صنم صاحبہ تو غائب تھیں

ابرار نے گہرا سانس لے کر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا 

وہ جانتا تھا یہاں کے لوگوں کے لیے یہ واقع بڑی بات تھی 

ریلیکس چھوڑ دیا ہے یہ نائف بہت تیز ہے نیکسٹ ٹائم احتیاط کیجیے گا علینہ

ابرار بغیر پانی پیے ہی  کیچن سے باہر نکل گیا 

________

کیا مما مگر آپ نے آغا سائیں سے اس حانم کا رشتہ کیوں مانگا بھائی سے میں قطع ہی اس لڑکی کو اپنی بھابھی نہیں بناؤ گی پہلے سب اس کے گھن گاتے ہیں اب آپ چاہتی ہیں بھائی بھی ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے 

سونیا کو جب یہ بات پتا لگی تھی کہ شائستہ بیگم نے ابرار کے لیے حانم کا ہاتھ مانگا ہے وہ تو آپے سے باہر ہو گئی تھی 

تم چپ کرو سونیا میں نے کچھ سوچ کر ہی ایسا کیا ہے نہ 

کیا سوچ آخر کیا سوچ کر آپ نے اس حانم کا رشتہ لیا مجھے بھی بتائیں 

حانم آغا سائیں کی لاڈلی ہے 

پتا ہے مجھے سونیا نے منہ بنایا 

مگر وہ اسعد کی اکلوتی اولاد ہے مطلب اسعد کے نام کی ساری جائیداد کی اکلوتی وارث اسکے علاوہ آغا سائیں بھی تو اسے بہت کچھ دیں گے اور سب سے بڑی بات ایک دفعہ حانم کا نکاح ابرار سے ہوجائے میں ابرار کو اس گاؤں کا گدی نشین کرو ہی لوں گی 

اور تم نے کو بدلے لینے ہیں تم بھی لے لینا مگر خدا کے واسطے بہت مشکل سے آغا سائیں کو منا کر آئی ہوں رنگ میں بھنگ مت ڈالنا شائستہ بیگم نے نخوست سے کہا 

واہ ماں آپکا دماغ تو بہت تیز چلتا ہے 

تم ابھی شائستہ میر کو جانتی نہیں ہو شائستہ بیگم نے تکبر سے کہا ۔۔۔۔۔

________

حالہ بیگم دھیرے دھیرے قدم لیتی اپنے کمرے میں آگئیں 

شکر اللّٰہ کا وقت سے پہلے ہی سارا سچ ان کے سامنے آگیا تھا اب انہیں ایک کام کرنا تھا  چکر کھاتے سر کے ساتھ کے لیے انہوں نے ہاتھ فون پکڑنے کے بڑھایا  

ہیلو ۔۔۔۔۔۔

_________

علینہ ادی یہ کیا ہوا 

صنم نے علینہ کے بینڈیج لگے ہاتھ کو تھام کر فکرمندی سے کہا کچھ نہیں صنم ہلکا سا کٹ لگ گیا تھا 

آپ دھیان رکھا کریں ادی سائیں

میری پیاری چھوٹی ہے نہ علینہ نے صنم کی گال کھینچی

اففف ادی سائیں اب اتنی بھی چھوٹی نہیں ہوں میں 

ہممم ٹھیک کہہ رہی ہے صنم اتنی بھی چھوٹی نہیں ہے 

سونیا جانے کہاں سے آئی تھی وہاں 

معنی خیزی نظروں سے صنم کو دیکھ کر بولی جو نظریں جھکا گئی 

ہممم سونیا مگر میرے لیے میری چھوٹی ہی ہے 

علینہ نے سونیا کے عجیب انداز کو محسوس نہ کیا 

________

جاوید سائیں!!!!

ہممم بولو ہما جاوید میر زمین کے کاغذات دیکھ رہے تھے ہما بیگم کے بلانے پر ان کی جانب متوجہ ہوئے 

جاوید سائیں آپ نے آغا سائیں سے بات کی ؟؟؟

کیسی بات ہما سائیں ہم سمجھے نہیں

گاوں کی سرداری کی بات 

گاؤں کی سرداری ؟؟؟ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آئی کھل کے بتاؤ 

دیکھیں نہ سائیں 

زاویار خاندان کا بڑا ہوتا تھا اس حساب سے سردار اس نے بننا تھا مگر وہ تو بھاگ گیا 

باقی نواسوں میں سب سے بڑا ساحر اس کو آغا سائیں تو کیا نہیں جیٹھ سائیں نے ہی نہیں بننے دینا سردار اس سے پہلے شائستہ ادی سائیں ابرار کی بات کریں آغا سائیں سے آپ اخضر کی بات کریں نے وہ پوتا ہے اصولً وہ گدی تو اب ہمارے اخضر کی ہے نا

مگر اخضر ابھی چھوٹا ۔۔۔۔۔

اتنا بھی چھوٹا نہیں ہے سائیں پورے ستارہ سال کا ہے

اچھا میں صبح ہی بات کروں گا آغا سائیں سے

پیرس !!!!

چلو حانم میں تمہے آفس چھوڑ دوں 

ساحر سائیں آپ نے نہیں جانا آفس اتنی چھوٹیاں کریں گے تو باس اصلی۔کی ہی چھوٹی کر دیں گے 

تم میری چھوڑو اور جلدی سے لیفٹ میں بڑھو اس سے پہلے۔۔۔۔۔

آپ کی ناراض گرل فرینڈ نہ آ جائے 

حانم نے مسکراہٹ دباتے ہوئے جملہ پورا کیا 

بہت بولنے نہیں لگی تم 

آپ سے ہی سیکھا ہے حانم نے بتیسی دکھائی

________

حانم کو آفس چھوڑ کر گاڑی گھما گیا ابھی ساحر کو ضروری کام تھا اس لیے فلحال وہ ابھی آفس نہیں جا پارہا تھا ۔۔۔۔

_________

ساحر کو تنگ کرکے پتا نہیں اسے کیوں مزہ آتا تھا 

پھر اس کے ایکسپریشن یاد کرکے پہروں ہنستی 

آو ہو نور جان آپ تو بہت مسکرا رہی ہیں 

کیبن میں داخل ہوتے ہی اسے نور العین نے ہو لیا 

نہیں کچھ خاص نہیں حانم سیریس ہوئی عینی کا کیا پتا بات کو کہا سے کہا لے جائے 

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے 

کچھ نہیں عینی حانم نے نظریں فائل کی طرف جھکا لیں 

کچھ تو ہے ڈئیر پتا میں لگا لوں گی 

اف او عینی میں ویسے ہی ہنس رہی تھی تم بھی نہ 

اوو زی سر گڈ آفٹر نون 

حانم نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کھڑے ہو کر کہا 

او کم اون نور اب تم مجھے زی سر زی سر کہہ کر چراؤ گی اور میں چپ ہو جاؤں گی بات کو گھماؤ نہیں مجھے بتاؤ 

اہم اہم مس نور العین 

زارون کے کھانسنے پر عینی ہڑ بڑا کر مڑی 

زی سر !!!

 جی زی سر بائے دا وے مس نور حاکم آپ کو میرے نام سے کیوں چرائیں گی 

زارون نے بظاہر سنجیدہ انداز میں پوچھا مگر دل میں من ہی من ہنس رہا تھا

چراء نہیں نہیں سر آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ڈرا میں ڈرانے کا کہہ رہی تھی

اچھا تو میں آپ کو کوئی ڈریکولا لگتا ہوں جو آپ مجھ سے ڈریں گی 

جی ۔۔۔ ن۔نہیں نہیں سر عینی بری طرح سٹپٹا گئی

ہمممم تو پھر کیا 

ابھی زارون اس کی اور کلاس لیتا ایک کولیگ نور العین کے پاس آیا 

زاوی سر بلا رہے ہیں مس نور کو 

نور العین نے دل ہی دل میں شکر کرتی زاویار کے آفس کی طرف بڑھی

_________

مے آئی کم ان سر ؟؟

یس ،،،،

زاویار ڈیسک چئیر کے ساتھ ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھا تھا دروازہ نوک ہونے پر سیدھا ہوا 

سر آپ نے بلایا نور العین نے اس کی چئیر کے پاس آتے ہوئے کہا 

آر یو نور حاکم 

زاویار نے سنجیدگی سے کہا 

نو۔۔۔۔ نور العین نے ناسمجھی سے کہا

تو پھر یہاں پر کیا کر رہی ہو اب کی بار زاویار کا لہجہ سخت تھا 

سر اآپ 

گیٹ آؤٹ اور نور حاکم کو بھیجو 

سر 

آئی سیڈ گیٹ آؤٹ

_______

کیا ہوا ہے عینی حانم روتی ہوئی نور العین کے پاس آئی 

جو سو سو کر رہی تھی 

عینی بتاؤ 

سر زاوی نے ڈانٹا ہے 

کیوں حانم کے ماتھے پر بل ڈلے 

انہوں نے اس کولیگ سے نور حاکم یعنی تمہے بلانے بھیجا تھا اس نے غلط فہمی میں مجھے بلا دیا میں جب ان کے کیبن میں گئی تو انہوں نے مجھے غصے سے اپنے کیبن سے نکال دیا 

بہت اکڑ سے اس نئے سر میں مجھے بہت زہر لگتا ہے 

حانم کو بھی غصہ چڑھا

تم کہا جارہی ہو عینی نے حانم کا ہاتھا پکڑا 

اس نئے باس کا دماغ سیٹ کرنے سمجھتا کیا ہے خود کو 

پلیز نور کنٹرول سر کا آج موڈ بہت خراب ہے 

دیکھا جائے گا  

________

زاویار ڈیسک پر پڑے پیپر ویٹ کو اضطراب کی کیفیت میں گھما رہا ابھی تھوڑی دیر پہلے آفس آتے ہوئے اس نے نور حاکم کو کسی لڑکے ساتھ دیکھا تھا تب سے ہی اس کا دماغ گھوما ہوا تھا 

نور پورے آفس میں صرف نور العین کے ساتھ ہی بات کرتی تھی یاں زارون کیونکہ وہ باس تھا کبھی کسے لڑکے سے زیادہ فری ہوتے نہیں دیکھا تھا تو ابھی گاڑی میں وہ لڑکا کون تھا جس کا ساتھ وہ ہنس کر باتیں کر رہی تھی 

سب سے بڑی بات اسے خود پر بھی غصہ آرہا تھا کہ آج سے پہلے تو کبھی اسے اس طرح کی سچویشن سے نہیں گزرنا پڑا کہ اسے کسی سے جیلیسی ہو 

تب ہی دروازہ نوک کرکے کوئی اندر آیا 

________

ہیلو خان ہمم کہاں ہے تو آج آفس نہیں آیا 

ایک ضروری کام تھا تو مل آج آفس میں 

زارون اپنے کیبن سے باہر نکلتے ہوئے فون پہ بولا 

مس نور العین ،،،،،

ی۔یس سر نور کو روتا دیکھ کر زی اس کے پاس چلا آیا 

Why are you crying??

N..nothing sir 

Tell me 

کسی سٹاف میمبر نے کچھ کہا ہے 

نہیں سر 

پھر مس نور العین بتائیں مجھے کیوں  رو رہی ہیں آپ

سر وہ سر زاویار ۔۔۔۔۔۔

ہممم پہلے تو آپ اپنے آنسو صاف کریں بالکل بچوں کی طرح رو رہی ہیں 

اینڈ دوسرا میں زاویار سے بات کرتا ہوں 

ہر بندے کی اپنی سیلف ریسپیکٹ ہوتی ہے اس طرح کسی سے بات کرنے کی اجازت میں اسے بھی نہیں دیتا  

________

حانم دروازہ نوک کرکے اندر آگئی 

اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے 

یس سر آپ نے بلایا 

انداز ایسا تھا کہ جیسے پوچھ رہی ہو کہ کیوں بلایا 

میں ۔۔۔۔ جی سر آپ نے ہی اور آپ کا ایسا بھی کیا خاص کام تھا جو آپ نے میری جگہ نور العین کے آنے پر اسے ڈانٹ دیا 

ہر بندے کی سیلف ریسپیکٹ ہوتی ہے اور مجھے وہ لوگ زہر لگتے ہیں جو خود کو بیت اعلیٰ سمجھتے ہیں آپ کی وجہ سے بچاری میری دوست رو رہی تھی

حانم تو اس پر جھپٹنے والے انداز میں بولی 

دیکھیں نور

واٹ سر اب بتائیں بھی ایسے بھی کیا۔بات تھی جو مجھ سے ہی ہونی تھی۔۔۔

________

زاویار کا تو سر ہی گھوم گیا 

مگر وہ اسے کہہ بھی نہیں پارہا تھا 

وہ اتنا بے بس کیوں ہورہا تھا 

مس نور میں اس وقت غصے میں تھا

تھا تو کیا سر آپ کسی بھی انسلٹ کردیں گے 

مس نور ریلیکس!!!

 میں معافی مانگ لوں گا آپ کی دوست سے آپ یہ پانی پیئے

زاوی نے ٹیبل پر پڑا پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا 

نو تھینکس !!!!

لٹھ مار انداز میں جواب دیا 

کوئی کام تھا 

جی میں نے کل جو فائلز دی تھی چیک کرنے کے لیے 

ہوگئی؟؟؟

جی ہوگئی ہے 

اوکے گریٹ وہ میرے کیبن میں لے کر آؤ۔۔۔۔

چاہنے کے باوجود بھی زاویار حانم سے اس لڑکے کا نا پوچھ سکا ۔۔۔۔

________

زی ۔۔

زاویار زارون کے کیبن میں آیا 

ہممم زاروں نے سنجیدگی سے اسے دیکھا 

مجھے ضروری کام ہے 

اچھا 

زاویار زی کا سنجیدہ لہجہ محسوس نہ کرسکا یاں شاہد محسوس کرکے بھی اگنور کرگیا 

زارون کو زاویار کا رویہ عینی کے ساتھ بہت برا لگا تھا 

_______

ساحر کو اپنے گھر والوں کے قاتلوں کے خلاف ایک کلو تھا اسی مسئلے کی وجہ سے ساحر آفس کو وقت نہیں دے پارہا تھا 

مگر زارون کی ایمرجنسی کال پر اسے آفس آنا پڑا 

ہممم زی 

وہ سیدھا زی کے آفس میں آیا 

ہاں خان کیسے ہو تم 

میں ٹھیک تو بتا کیا بات تھی 

بات کو چھوڑ پہلے  تو یہ بتا آنٹی کیسی ہیں؟؟

اللّٰہ کا شکر ہے مورے اب بہتر ہیں 

اچھا زی پلین کا کیا بنا 

پلین ایک دم کلاس کا بنا ہے بس اب ایکشن کی باری ہے 

ہممم

خان ،،،،

زی کی سنجیدہ آواز پر ساحر نے اسے دیکھا 

تجھے مجھ پر یقین ہے نہ 

آف کورس زی تم پر یقین ہے تو تمہے یہ بات بتائی ہے 

خان مجھ پر یقین رکھیں میں جو بھی کروں گا تمہارے لیے بہتر ہوگا 

ساحر نے بھی اب سنجیدگی سے زی کو دیکھا پھر سر اسبات میں ہلا گیا 

اچھا تو یہ بتا تو نے بات کرلی نور العین سے 

ساحر نے اس کی ٹیںل سے فائنل اٹھا کر اس سے پوچھا 

وہ ۔۔۔ یار نہیں زی نے سر کھجایا تو تو جانتا ہے نہ میرا کام کس طرح کا ہے 

تو کیا ساری زندگی ہی اسے نہیں بتاؤ گے 

بال دیکھو سفید ہورہیں یہ نہ ہو کہ بوڑھے ہوجاؤ اور وہ تمہے منہ بھی نہ لگائے 

یہ چھوڑو خان صاحب آپ بتائیں اب تو آپ ٹھیک ٹھاک سیٹھ بن جائیں گے آگے کیا کرو گے 

تمہے تو پتا ہے نہ زی مجھے اس دولت میں کوئی انٹرسٹ نہیں میرا مقصد مجرموں کو موت دینا ہے 

اچھا جی تو بھابھی جی کو جھونپڑی میں رکھو گے 

بھابھی جی ساحر چونکہ 

ارے ہماری نور حاکم صاحبہ

ایسی کوئی بات نہیں ہے زی ساحر نے نظروں کا زاویہ بدلہ 

اچھا جی خان صاحب کافی عرصے سے جانتا ہوں تمہے 

دی موسٹ گرلز الرجک مسٹر ساحر حماد خان کی اچانک سے کزن پیرس میں آتی ہیں پھر بغیر ڈگری کہانیوں جوب بھی مل جاتی ہے اور تو کہہ رہا ہے ایسا کچھ نہیں۔ 

یہ زاویار میر کی فائل۔یہاں پر کیا کر رہی۔ہے 

زی کی اگلی بات بولنے سے پہلے ہی ساحر نے چونک کر زاویار کی فائل کی طرف اشارہ کیا 

تو اسے جانتا ہے خان؟؟؟

میر زاویار میرا کزن ہے 

کیا زارون شوک ہوا 

اور تو کسیے جانتا کے اسے ساحر نے پیپر ویٹ ہلاتے کہا۔۔۔

آفس کے پچیس فیصد شیئرز اسی نے خریدے ہیں 

25 فیصد شیئرز ؟؟؟

حانم!!!

زی کیا کوئی بات یوئی تھی میرے پیچھے ساحر ایک دم سیدھا ہوا اسے تو لگا تھا کہ زاویار اونچی اونچی چھوڑ رہا

ہے 

اور حانم

کیا حانم اور زاویار کی ملاقات ہوئی تھی میری غیر موجودگی میں ؟؟؟

کون حانم ؟؟؟

میرا مطلب ہے نور میری کزن 

ہاں ہوئی تھی مگر ان دونوں میں سے کسی کے رویے سے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ دونوں کزنز ہیں 

کیا وہ اس سے اپنی اور زاویار کی ملاقات چھپا رہی ہے یاں معاملہ کچھ اور ہے  

ساحر اور ہی الجھ گیا 

ساحر تو کچھ پریشان لگ رہا ہے کیا کوئی مسئلہ ہے مجھے بتا 

زی یہ۔۔۔۔۔۔۔

او مائی گاڈ یہ بندہ اس حد تک بھی جا سکتا ہے میں نے کبھی سوچا نہیں تھا پہلے ہی مجھے زارون پر غصہ تھا 

تم ابھی میروں کی اصلیت سے واقف نہیں ہو 

ساحر نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ سر جھٹکا 

اففف مجھے بالکل بھی نہیں پتا تھا میں ڈیڑھ دو سال سے جانتا ہوں زاویار کو لا ابالی سا ہے مغرور بھی ہے مگر اس حد تک جا سکتا ہے 

اچھا میں اب چلتا ہوں 

اب تو اوف ٹائم بھی شروع ہوگیا ہے 

________

حانم سامان سمیٹ رہی تھی جب ساحر اس کے کیبن میں آیا 

ساحر سائیں!!!

ہوگئی ہو فری تو آجاؤ میں گاڑی میں تمہارا انتظار کر رہا۔ہوں ۔۔۔

اوکے میں آئی

..........

تم سر خان کو کیسے جانتی ہو ؟؟؟ نور العین ساحر کو حانم کے پاس سے جاتے دیکھ کر اس کے پاس آئی

سر خان ؟؟؟

حانم نے نا سمجھی کے ساتھ نور کو دیکھا 

ارے وہ وہی وائٹ شرٹ بلیک پینٹ والے سر خان ۔۔۔

مگر وہ تو ساحر سائیں،،،،

مطلب یہاں کے باس سر خان 

ساحر سائیں 

اچھا عینی میں چلتی ہوں تم سے فون پر بات کروں گی اوکے بائے۔۔۔

اففف یہ لڑکی ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتی ہے 

نور العین نے سر جھٹکا اور کام پر جھٹ گئی آج زیادہ ہی کام تھا اسے

_________

مس نور العین؟؟؟؟

عینی سامان سمیٹ رہی تھی کہ جب زی ادھر آیا 

یس سر 

آپ کا کام نہیں ہوا ابھی 

یس سر بس ہوگیا ہے کام 

اچھا تو چلیں میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں ٹائم کافی ہوگیا ہے 

اٹس اوکے سر میں چلی جاؤں گی 

نوٹ اوکے میں باہر گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں آپ کا جلدی آئیں 

ساحر سائیں،،،

ساحر سائیں آپ نے مجھ سے اتنی بڑی بات چھپائی اپنے فلیٹ کے دروازے کے پاس آکر حانم نے سنجیدگی کے ساتھ کہا 

کون سی بات ؟؟؟ساحر نے حیرانگی سے کہا 

زیادہ بننے کی ضرورت نہیں ہے 

پھر بھی کون سی بات

آفس کے باس کی حانم کی سنجیدگی میں کوئی کمی نہیں آئی

باس ،،،،، ساحر لب بھینج گیا

دل میں یہ ڈر بھی تھا کہ اگر اسے زاویار کا پتا لگ گیا تو کہی حانم اسے غلط نہ سمجھ بیٹھے

 دیکھو حانم مجھے بھی نہیں پتا ۔۔۔۔۔۔

آپ نے مجھ سے اتنی بڑی بات آخر کیسے چھپائی ساحر سائیں آپ کمپنی کے باس ہیں

اس میں چھپانے والی کون سی بات ہے تم۔کبھی

پوچھا ہی نہیں

 یعنی میرا کزن اس کمپنی کا بوس ہے جہاں میں جوب کرتی ہوں  اور میں فضول میں ہی اس سٹوپڈ زاوی سر کے رعب میں آرہی تھی 

اگر آپ نے مجھے پہلے خود ہی بتایا ہوتا تو اس مغرور انسان کی ٹون تو میں سیدھی کرتی اس کی ہمت کیسے ہوئی بدتمیزی کرنے کی حانم اپنے فلیٹ کا دروازہ کھول کر اندر آتے ہوئے بولی 

اووو آفس کا باس ساحر کی سکھ کا سانس لیا 

مطلب واقع حانم نے بھی زاویار کو نہیں دیکھا ہوا تھا 

مگر حانم کی بد تمیزی والی بات پر غور کرنے پر وہ ٹھٹھکا

کیا مطلب اس نے تمہارے ساتھ کوئی بدتمیزی کی ہے ؟؟

ساحر کو پل میں ہی غصہ چڑا

مجھ سے نہیں نور العین سے اس بچاری کو اتنا ڈانٹا مجھے کچھ بول کر تو دیکھائے اس کی ایسی کی تیسی میں بھی نورِ حانم اسعد حاکم ہوں 

اففففف میں نے اپنی لائن کو کتنا مس کیا بیڑا غرق ہو ان اون لائن فارم والوں کا میرا آدھا ادھورا نام چھپوا دیا 

حانم کے ہاتھ نچا نچا کر کہنے پر ساحر دھیرے ڈال مسکرا دیا 

حانم نے کیچن ریک سے دو گلاس پکڑے 

ساحر صوفے پر بیٹھا اسی کی کاروائی دیکھ رہا تھا

مگر پھر کچھ یاد آنے پر اٹھا

تمہے کل سے آفس جانے کی ضرورت نہیں ہے ساحر اس سے فاصلے پر کھڑا تھا 

شکر ہے حانم کا زاویار کا نہیں پتا مگر اب وہ کوئی رسک نہیں لے سکتا جس سے بعد میں حانم کا دل دکھے

دونوں کی جب بھی ملاقات ہوئی تھی دونوں نے ہی ہمیشہ فاصلہ رکھنے کی پوری کوشش کی تھی

اچھا اور وہ کیوں حانم نے فریج سے پانی کی بوتل نکال کر پانی دونوں  گلاسوں میں انڈیلا 

ایک گلاس ساحر کے آگے ٹیبل پر رکھا اور دوسرے سے پانی پینے لگی 

کیونکہ۔ابھی تمہے صرف اپنی پڑھائی پر فوکس کرنا چائیے اور تمہاری ڈگری بھی کمپلیٹ نہیں ہے اس لیے ابھی تم اس جوب کی اہل نہیں ہو 

ساحر نے اسے مناسب الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی ۔۔

میں کر لیتی ہوں مینیج سٹڈی بھی ساتھ ہی اور جہاں رہی بات جوب کی تو وہ تو مجھے مل چکی ہے اور آپ کو یاد ہو تو میں دو ہفتوں سے آفس جا بھی رہی ہوں اور سر زی کو میرے کام سے کوئی برابلم بھی نہیں ہے 

دیکھو حانم،،،،،

ابھی ۔۔۔۔ ابھی ساحر اس سے کوئی بات کرتا اس کا فون بجا ۔۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے میں کرتا ہوں کچھ ساحر نے اپنی پیشانی مسلتے ہوئے کہا 

اوکے پھر کل ملاقات ہوتی ہے 

کیا ہوا ساحر سائیں آپ پریشان لگ رہے ہیں ؟؟؟

ہاں نہیں پریشانی کوئی نہیں ہے  بس ہم کافی عرصے کے ساتھ جس کمپنی کے ساتھ ڈیلینگ کرنا چاہ رہے تھے کل ان کے ساتھ میٹنگ فکس ہوگئی ہے اور یہ میٹنگ ہماری کمپنی کے لیے بہت ضروری ہے اگر کلائینٹس کو کنوینس کر لیا تو کروڑوں کا فائدہ ساتھ پبلیسٹی بھی 

ہمممم ۔۔۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے ساحر سائیں پھر ٹینشن کیسی ؟؟؟

نہیں مجھے کل لنچ ٹائم بہت ضروری کام ہے ٹائم مینیج کا پروبلم ہوسکتا ہے 

اس میں ٹینشن والی کونسی بات ہے آپ کے علاوہ بھی ایس کے کمپنی کے دو اور پارٹنر بھی ہیں آپ بس کل آفس جلدی پہنچنے کی کوشش کرئیے گا باقی تب تک ہم ہینڈل کرلیں گے ویسے بھی کل میری پی۔ ایس ۔بی  سے چھٹی ہے 

ہمم گڈ اچھا میں چلتا ہوں تم لوک کر لو 

اوکے آپ جائیں ہو جائے گا کل سب ہینڈل ۔۔۔

________

ہیلو زارون ہوگئی تمہاری بات زاویار کے ساتھ تمہاری

 کل کی میٹنگ کا اسے بتا دیا ہے ساحر نے اپنی گود پر رکھے لیپ ٹاپ پر کچھ ٹائپ کرتے اپنے کندھے اور کان کے درمیان پھنسے فون میں کہا 

ہاں ہوگئی ہے میری بات زاویار سے وہ کہہ رہا تھا کہ کل جلدی آ جائے گا 

اچھا خان تو کل مینیج کرلے گا 

ہممم ہاں ہاں تو فکر نہ کر ۔۔۔

چل اوکے بائے 

کل کا دن واقع مشکل ہونے والا ہے۔۔۔۔۔

________

اگلا دن ۔۔۔۔

حانم ٹیکسی میں آفس آئی تھی ساحر تو صبح جلدی ہی اپنے کام کے کی وجہ سے چلا گیا تھا 

افف یار عینی بھی نہیں آئی ابھی تک نہ سر زی اور نہ ہی سر زاوی 

یار کیا ہورہا ہے اتنی امپورٹنٹ میٹینگ ہے اور کوئی بوس ادھر موجود نہیں ہے حانم اضطرابی میں اپنے کیبن سے لے کر زارون۔کے کیبن تک چکر کاٹ رہی تھی جب اس کی کالیگ پوجا نے اس کے پاس آکر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا   نور مس نور 

ا ہاں حانم ڈر کر اچھلی 

واٹ واٹ ہیپینڈ کیا ہوا پوجا 

نور آئی تھنک وہ لوگ میٹنگ کے لیے آگئے ہیں مجھے جیس نے بتایا ہے وہ انہیں پک کرنے گئی ہے 

اففف افف میں کیا کروں 

ساحر سائیں کو کال کرتی ہوں حانم نے اپنے ہینڈ پرس سے فون نکالا

اچھا اچھا پوجا ریلیکس میں نے بوس کو کال کی ہے ہمیں تب تک انہیں ہینڈل کرنا ہے 

اوکے 

ہمم آئی ایم ویری نروس پوجا سہی میں بوکھلائی ہوئی لگ رہی تھی 

ریلیکس حانم ریلیکس وقت آگیا ہے خود کو ثابت کرنے کا 

یو کین ڈو اٹ حانم 

خود کو حوصلہ دیتی ساتھ ساتھ ساحر کو کال ملا رہی تھی 

میں نے انہیں میٹینگ روم میں بھیج دیا ہے 

جیس نے نور کے پاس آ کر اٹھلا کر اسے بتایا 

جیس وہ واحد بندھی تھی جس کی حانم کے ساتھ اب تک نہیں بن پائی تھی

واٹ!!! تم نے انہیں ڈائریکٹ آفس روم بھیج دیا جیس 

حانم چیخ اٹھی

اللّٰہ میری مدد کر اور تم سے تو میں بعد میں پوچھتی ہوں

پہلے اپنے ہاتھ ہوا میں بلند کیے پھر غصے سے میٹینگ روم کی طرف بڑھی

مگر جانے سے پہلے ساحر کے نمبر پر وائس میسج چھوڑ گئی ۔۔۔۔

کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد کلائنٹس کے چہروں پر واضح بے زاری کے آثار نظر آنے لگے 

اففف اللّٰہ سائیں پلیز بچا لیں ساحر سائیں کے لیے یہ میٹنگ بہت ضروری ہے میرے خوابوں کو ہموار کرنے کا راستہ ہے پلیز اللّٰہ سائیں

حانم آنکھیں میچیں دعائیں مانگنے میں مشغول تھی جب میٹنگ روم کا دروازہ کھلا اور ساحر اپنی ساحرانہ پرسنیلٹی کے ساتھ اندر داخل ہوا 

آئی ایم سو سوری لیڈیس اینڈ جینٹل مین ایکچولی اس کمپنی کے پارٹنر زارون کی فیانسی جو یہاں کولیگ بھی ہیں ان کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا سو اس وجہ سے ہمیں لیٹ ہوگی 

اوو سو سیڈ 

اینی ہو کین وی سٹارٹ اور میٹنگ

یس یس شور 

میٹنگ سٹارٹ ہوئی 

حانم مسلسل ساحر کو نوٹ کر رہی تھی وہ کچھ پریشان سا تھا 

اففف ساحر سائیں یہ آپ کیا کر رہے ہیں حانم نے اس کے اٹکنے پر دل میں سوچا 

کیونکہ کلائنٹس کے چہروں پر مطمئن اثرات نہیں نظر آرہے تھے ۔۔۔۔۔

ہمم۔۔۔ بات تو ٹھیک ہے آپ کی مگر کیا گرینٹی ہے کہ ہمیں آپ کے ساتھ ڈیلینگ کرنے پر زیادہ پروفٹ ملے گا دوسری کمپنیوں کی نسبت؟؟؟؟

کیا میں کچھ کہوں ؟؟؟

ان کے سوال پر حانم نے ہاتھ کھڑا کیا 

یس آفکورس ہیڈ کی طرف سے اشارہ ملتے ہی حانم نے ایکسپلینشن دینی شروع کردی ۔۔۔۔۔۔

سو ڈیٹس وائے ہماری کمپنی کے ساتھ ڈیلینگ آپ کے لیے زیادہ فائدے مند ہے 

 ہیڈ اوف میٹنگ نے پہلے سنجیدگی کے ساتھ حانم کو دیکھا پھر مسکرا دیے 

گریٹ !!!

تالیوں کے ساتھ حانم کی ایکسپلینشن کو ایپریشیاٹ کیا گیا ساحر نے بھی مسکراہٹ کے ساتھ تالی بجا کر اسے داد دی ۔۔۔۔

ایکیوزمی ہاسپٹل سے کال ہے ساحر کال اٹینڈ کرنے کے لیے سائڈ میں ہوا تبھی میٹینگ روم میں زاویار آیا جہاں دوسری کمپنی سے آئی فی میل مینیجر حانم سے ہاتھ ملا رہی تھی 

نو ڈاؤٹ ینگ لیڈی تم بہت آگے جاؤ گی 

آج جس طرح تم نے کلیریفیکیشن کی

 امیزنگ!!! فینٹیسٹک!!!!

تھینک یو سو مچ حانم نے بھی مسکرا کر داد وصول کی 

اوکے مسٹر خان ہم اپنی طرف سے یہ ڈیل فائنل کرتے ہیں  

ہیڈ نے ساحر کے ساتھ ہاتھ ملا 

زاویار ابھی بھی سب کچھ فراموش کیے حانم کو دیکھ رہا تھا جو فیل ریڈ کلر کی فراک کے ساتھ بلیک اور ریڈ لائنز حجاب اور ریڈ ہیل میں نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔

ساحر زاویار کی پیٹھ سے ہوتا ان سب ممبرز کو چھوڑنے باہر چلاگیا 

زاویار بس ساحر خان کی پیٹھ ہی دیکھ سکا 

اب سب کولیگز اور سٹاف ممبرز کھڑے ہوکر حانم کے لیے تالیاں بجا رہے تھے واقع نور آپ نے ہمیں بچا لیا روہت نے مسکر کر اسے داد دی روہت کے حانم کو داد دینے پر زاویار کے مسکراتے لب سکھڑے 

نو ڈاؤٹ مس نور حاکم آج یہ ڈیل ہمیں آپ ہی کی وجہ سے ملی ہے 

جب بوس لاپروا ہوں تو سٹاف ممبرز کو ہی کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے 

حانم نے زاویار کو دیکھ کر کہا 

جو اسے دیکھ کر ابھی بھی ڈھیٹائی سے مسکرا رہا تھا۔۔۔

________

تھینک یو سو مچ آج تمہاری وجہ سے یہ میٹنگ

 سسیکس فل ہوئی ہے 

ویلکم ویلکم اب میری سیٹ پکی ہوگئی اس کے کمپنی میں خان سر 

حانم نے مودبانہ انداز میں ساحر سے پوچھا 

ہممم۔۔۔

ویسے ساحر سائیں یہ تو بیلڈنگ کا راستہ نہیں ہے ہمم کہاں جارہے  ہیں 

ہمم ہاسپٹل جارہے ہیں 

ہاسپٹل زارون سر کی فیانسی کی عیادت کرنے؟؟؟؟ میں تو اسے جانتی بھی نہیں ہوں حانم نے اپنی پریشانی بتائی

ملو گی تو جان جاؤ گی ساحر نے فلاور شوپ سے ایک بوکے لے کر حانم کو پکڑایا

بائے دا وئے آپ آج اتنے پریشان کیوں تھے میٹنگ بھی صحیح سے اٹینڈ نہیں کر پارہے تھے 

پریشانی ،،،،،

ساحر کو آنسہ بیگم کی کال یاد آئی جب انہوں نے ساحر کو فون کرکے بتایا تھا کہ حالہ  بیگم کی طبیعت خراب  ہے

اسے تب سے ہی حانم کی ٹینشن لگی ہوئی تھی کہ وہ کیسے ری ایکٹ کرے گی اوپر سے نور العین کا ایکسیڈنٹ 

نور العین اسے بہنوں کی طرح عزیز تھی اور زارون کے رشتے کی وجہ سے اور بھی اہم ہوگئی تھی 

________

عینی حانم عینی کو ہاسپٹل کے بیڈ پر دیکھ کر پریشان ہوگئی 

آئی ایم فائن حانم رو تو نہیں معمولی سا ایکسیڈنٹ تھا یار عینی نے حانم کے آنسو صاف کیے سچ تو یہ تھا کہ حانم کو روتا دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بھی آنسو آرہے تھے کوئی تو تھا اس کے لیے بھی رونے والا

تم۔مجھے بتاؤ یہ ہوا کیسے ؟؟؟

کچھ نہیں صبح واک کے لیے گئی تھی راستے میں ایک کار والے سے ٹکر ہوگئی جب ہوش آیا تو ہاسپٹل کے بیڈ پر تھی زی سر ڈاکٹر سے بات کر رہے تھے 

اففف ڈیش کار والا اندھا کہی کا میری پیاری دوست کو ٹھوک گیا اللّٰہ کرے وہ گنجا ہوجائے اللّٰہ کرے اسے کالی بیوی ملے

عینی حانم کی الٹی سیدھی بد دعائیں سن کر ہنسی 

ہاہاہہاا بس کر جاؤ نور ہنس ہنس کر میرے سٹیچیس میں پین ہوگئی عینی نے اپنے سر پر لگی بینڈیج پر ہلکا ہاتھ رکھا اُپس 

ہاہاہاہ

اچھا تو یہ سب چھوڑو مجھے بتاؤ آج کی میٹنگ کا کیا بنا

میٹنگ وہ تو اے ون فرسٹ کلاس رہی 

ہاہاہاہ مبارک ہو نور جان 

ویسے تم تو کمال ہو تم نے زاوی سر کے منہ پر ہی بول دیا 

ہاں تو اتنے غیر زمہ دار ہیں وہ بس رعب جھڑ والو ان سے 

ہاہاہاہا یار تم مجھے ہنسا ہنسا کر آج ہی میرے سٹیچیس کھوا دینا 

آؤچ میرا بازو عینی نے اپنا بازو سہلایا جو کھینچ پرنے پر دکھ رہا تھا 

دھیان سے یار حانم نے اس کا تکیہ سیٹ کیا 

ویسے تمہے پتا ہے عینی آفس میں سب کو یہ ہی پتا ہے زارون سر کی فیانسی کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے تبھی وہ آج نہیں آسکے 

فیانسے!!!

 مگر مجھے تو ان کی کسی کمٹمنٹ کا نہیں پتا نہ ہی منگنی کا پل میں ہی عینی کی آنکھوں میں پانی اترا 

اففف سٹوپڈ تمہارا ہی تو ایکسیڈنٹ ہوا ہے تو مطلب تم ہی ان کی فیانسی ہوئی

حانم نے کھلکھلاتے ہوئے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا اب عینی بے چاری کو تو مارنے سے رہی 

جبکہ عینی اپنا ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ گئی

________

خان تم نے بتا دیا ہے آنٹی کا نور کو ؟؟؟

زارون نے ساحر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا 

یار مجھے سمجھ نہیں آرہی میں حانم کو کیسے بتاؤں

اس کا ری ایکشن کیا ہوگا کیا وہ برداشت کر پائے گی

تم ایسا کرو ارجنٹ فلائٹ بک کراو اپنی اور اس کی اور 

اسے پاکستان لے جاؤ او وہاں جا کر ہی بتانا سب 

ہم فلائٹ تو میں نے بک کروا لی ہے 

مگر اسے ابھی کیا کہوں گا ۔۔۔۔

مسٹر زارون ڈاکٹر کی آواز پر زارون ساحر کا بندہ تھپتھپا کر وہاں سے چلا گیا 

__________

حانم اپنا ضروری سامان پیک کرو 

ہماری صبح فجر ٹائم کی فلائٹ ہے 

ساحر نے فلیٹ میں داخل ہوتے ساتھ ہی عجلت سے کہا

صبح فجر ٹائم کی فلائٹ کہاں کی؟؟؟

پاکستان!!!!

پاکستان حانم کے ماتھے پر بل پڑے 

کیوں پلیز مجھے بتائیں ساحر سائیں میرا دل بیٹھا جا رہا ہے مجھے بتائیں

وہاں سب ٹھیک تو ہے نہ

________

نورِ حانم اسعد ولد اسعد حاکم آپ کا نکاح ساحر خان ولد حماد خان سے کیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟؟

بے شمار آنسوؤں حانم کی آنکھوں سے بہہ نکلے پھر وہی کلمات جس نے پہلے اس کی زندگی برباد کی تھی 

حانم!!!!

 اسے اپنے اعتراف سے بھیگی ہوئی سرگوشی سنائی دی 

قبول ہے ،،،،

کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟؟

قبول ہے ،،،،

قبول ہے !!!!

ایک بار پھر اس کی زندگی کا مالک کوئی اور بننے جا رہا تھا 

بغیر اس کی مرضی کے

کیسی ہو اب تم نور العین

زارون نے نور العین کے پاس آکر پوچھا 

عینی نے اپنے دائیں بازو کو سہلاتے ہوئے کہا 

میں ۔میں ٹھیک ہوں زی سر 

کیا تمہے اس گاڑی کا نمبر یاد ہے جس نے تمہے ہٹ کیا تھا ؟؟؟

،زارون نے تشویش سے پوچھا 

مگر نور العین تو حانم کی فیانسی والی بات کر ہی کھوئی ہوئی تھی 

مس نور العین!!!

زارون نے اب کہ تھوڑا انچا کہا 

ج۔جی سر جی آپ کیا کہ رہے تھے ؟؟

نور العین کے چونک جانے پر زارون اسے دیکھ کر رہ گیا 

تم ٹھیک ہو عینی ؟؟؟

زارون کے عینی کہنے پر نور العین نے بھی چونک کر اسے دیکھا

(کیا واقعی زی سر مجھ میں انٹرسٹڈ ہیں ؟؟

ہو سکتا ہے نورِ حانم کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے میں عام سی یتیم لڑکی ان کے آفس کی سٹاف ورکر)

جی سر میں ٹھیک ہو 

تم نے اس گاڑی کا نمبر دیکھا تھا 

نو سر میں نے دھیان نہیں دیا تھا 

زارون کو نور العین کچھ کھوئی کھوئی سی لگ رہی تھی خیر جو بات اس نے نور العین سے کرنی تھی اس کے لیے ہمت جھٹانے لگا 

نور العین مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے 

جی سر کہیں کیا کہنا چاہتے ہیں آپ نور العین بھی سیدھی ہوئی۔۔۔

میں ابھی زارون اس سے کچھ کہتا نرس نور العین کے بیٹے کے قریب آئی

ایکسکیوز می سر سائیڈ ہوگے میں نے پیشنٹ کی بینڈیج چینج کرنی ہے 

یس زارون تھوڑے فاصلے پر جا کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔

سس ۔۔۔۔

نرس شاہد زیادہ ہی دبا کر اس کے سٹیچیس صاف کر رہی تھی جس کی وجہ سے نور العین سسکی دباتے ہوئے بیڈ شیٹ کی چادر کو مٹھی میں بھینج گئی

آرام سے اسے پین ہورہی ہے 

زارون نے نور العین کا برینلا لگے سرخ ہاتھ کو تھام کر حوصلہ دیا۔۔

نور العین زارون کو ہی دیکھ رہی تھی جبکہ زارون کی نظریں نور العین کے زخم پر تھی ۔۔۔

نرس نور العین کو پین کیلر دے کر کمرے سے باہر چلی گئی 

دیکھو نور العین،،،، میں جانتا ہوں اس وقت یہ بات کرنے کا نہ تو مناسب موقع ہے نا محل مگر یہ ہم دونوں سے لیے ضروری ہے 

سر کیا بات ہے آپ کلیرلی بات کریں نور العین نے سنجیدگی سے کہا 

مس نور العین ایسے معاملے تو اصولً لڑکا لڑکی کے گھر والے ہی آپس میں تہ کرتے ہیں مگر تم بھی جانتی ہو اور میں بھی کہ ہمارے آگے پیچھے کوئی بھی نہیں ہے 

لڑکا لڑکی ایسے معاملے ۔۔۔۔ نور العین کا دل زور سے دھڑکا کیا جو وہ سوچ رہی ہے اس بات کا وہ ہی مطلب ہے 

کون سے معاملے سر ؟؟؟

نور العین نے دھڑکتے دل کے ساتھ سوال کیا 

کیا تم مجھ سے شادی کرو گی نور العین

دیکھو پلیز جلد بازی میں فیصلہ مت لینا میں تمہے پورا ٹائم دونگا سوچنے کے لیے 

تم سوچو میں تب تک یہ چند دوائیاں لے کر آیا زارون 

نور العین کا ہاتھ ہلکا سا دبا کر کمرے سے باہر نکل گیا 

پیچھے نور العین اپنے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ آنکھیں موند گئی۔۔۔۔۔

_________

ساحر سائیں مجھے بتائیں سب خیریت ہے نہ حویلی میں  جہاز پر اپنی سیٹ بیلٹ باندھتی حانم نے یہ بات چھتیس مرتبہ پوچھی تھی ساحر سے 

سب ٹھیک ہے حانم حالہ ممانی سائیں کی طبیعت تھوڑی سی خراب تھی وہ اداس تھی تمہارے لیے اور ویسے بھی تمہاری چھٹیاں چل رہی ہیں تو میں نے سوچا تمہے حویلی کے جاؤں تم مل بھی لینا سب سے ساحر نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی 

حانم بھی نہ چاہتے ہوئے خاموش ہوگئی۔۔۔

ساحر نے ایک نظر حانم کے ہاتھ پر ڈالی جو وہ مسلسل اضطراب کی کیفیت میں مسل رہی تھی ساحر نے خاموشی کے ساتھ سیٹ سے سر لگا کر آنکھیں موند لیں۔۔

________

تقریباً سہ پہر کا وقت تھا جب ساحر اور حانم حویلی پہنچے تھے مگر حویلی میں اس وقت خاموشی چھائی ہوئی تھی نورا جو ماسیوں سے کام کروا رہی تھی حانم کو دیکھ کر سب چھوڑ چھاڑ کر اس کے قریب آئی 

حانم بی بی سائیں کیسی ہیں آپ میں آپ کو کتنا یاد کیا 

بی بی سائیں اب تو نہیں جائیں گی آپ کہیں 

میں ٹھیک ہوں نورا تم سناؤ گھر میں سب کیسے ہیں اور حویلی میں خاموشی کیوں 

جی حانم بی بی سائیں ان گاؤں میں کوئی بہت بڑا جرگہ تھا تو آغا سائیں سمیت سارے مرد ادھر ہیں رات کو آئین گے اور بڑی اور چھوٹی بیگم سائیں علینہ اور صنم بی بی سائیں کو لے کر میلاد پر گئیں ہیں اور حالہ بیگم سائیں اپنے کمرے میں اور آنسہ بیگم سائیں ان کے ساتھ ہیں ان کے کمرے میں ۔۔۔

اچھا میں جارہی ہوں تم ابھی فلحال کسی کو میرے آنے کا مت بتانا 

جی حانم بی بی سائیں آپ جائیں میں آپ کے لیے کھانا لے کر آتی ہوں 

________

حانم حالہ بیگم کے کمرے میں آئی تو وہاں آنسہ بیگم کے ساتھ ساحر بھی موجود تھا جو حالہ بیگم کے آگے جھکے ان سے پیار کے رہا تھا 

ماما سائیں حانم انہیں پکارتے ہوئے ان کے گلے لگ گئی 

میری جان میری حانی کیسی ہے میری بچی کتنی کمزور ہوگئی ہو میری جان 

حالہ بیگم نے حانم کے چہرے کو ہاتھوں میں تھامہ 

حانم نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ حالہ بیگم کی زرد رنگت کو دیکھا۔۔۔

ماما سائیں کیا حالت کر لی ہے آپ نے اب میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی حانم دوبارہ ان کے گلے لگی 

نہیں میری جان ابھی تم نے اور آگے بڑھنا ہے ابھی تم نے پڑھنا ہے اپنے بابا سائیں کا خواب پورا کرنا ہے اور ان کے سامنے مجھے سرخ روح کرنا ہے 

انشاء اللہ ہماری نور حانم ہمارے اسعد سائیں کا۔خواب ضرور پورا کرے گی 

آنسہ بیگم نے بھی حانم کی گال پر ہاتھ رکھا

پھوپھو سائیں حانم ان کے گلے لگی 

جب سے حانم کو آنسہ بیگم کی حقیقت کے بارے میں پتا لگا تھا اسے ان پر ترس کیا رونا ہی آرہا تھا  

اس کے گھر والے کتنے خود غرض تھے ۔۔۔۔

حانم !!!

حالہ بیگم کی پکار پر حانم ان کے قریب آئی اور ان کا ہاتھ تھامہ 

ساحر اور آنسہ بیگم ان کے کمرے سے باہر چلے گئے

________

مورے آپ کو لگتا ہے کہ حانم مانے گی؟؟؟

ساحر آنسہ بیگم کی گود میں سر رکھے آنکھیں موندے بولا 

میری جان وہ کیوں نہیں مانے گی تمہاری سچی محبت ہے ہے اس کے لیے انشاء اللہ وہ ضرور مانے گی

انشاء اللہ ساحر بھی دل میں کہتا حالہ بیگم کے بلاوے ک انتظار کرنے لگا 

________

جی ماما سائیں میں ادھر ہی ہوں آپ کے پاس آپ کی حانم

حانم بچے میری جان میں نے تمہاری زندگی کے لیے ایک فیصلہ کیا ہے 

جی ماما سائیں آپ کا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر 

میں نے تمہارے اور ساحر سائیں کے نکاح کا فیصلہ کیا ہے 

حانم کی آنکھوں بڑی ہوئی اس کا لگا اس نے غلط سنا ہے 

جی ماما سائیں کیا کہا آپ نے 

ہاں میری جان میں نے تمہارے اور ساحر سائیں کے نکاح کا فیصلہ کیا ہے

نہیں ماما سائیں مجھے شادی نہیں کرنی 

نہیں میری جان انکار مت کرو 

تم جانتی نہیں ہو یہ فیصلہ میں نے سوچ سمجھ کر کیا ہے 

ایسی بھی کیا جدی ماما سائیں میں نہیں تیار شادی کے لیے 

حانم روہانسی ہوئی 

حانم تمہارے آغا سائیں تمہاری شادی تمہاری بڑی پھوپھو کے بیٹے ابرار سائیں سے کرنا چاہتے ہیں تمہاری پھوپھو سائیں نے یہ بات تمہارے آغا سائیں کے دل میں ڈال دی ہے 

اور میں ایسا مر کر بھی نہیں ہونے دوں گی

ایسی بھی کیا جلدی ہے آپ سب کو مجھے بیاہنے کی ایک دفعہ شوق پورا کرکے آپ لوگ خوش نہیں ہوئے 

حانم   نے دکھتے سر کے ساتھ ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا ۔۔۔۔

حانم تم ابھی اپنی پھوپھو سائیں کی حقیقت کو نہیں جانتی 

تم۔۔۔۔ میں سب جانتی ہوں ماما سائیں شائستہ پھوپھو کی حقیقت کو بھی جانتی ہوں مجھے سب بتا دیا ہے ساحر سائیں نے مگر میں پھر بھی شادی کے لیے راضی نہیں ہوں اور دادا سائیں کی آپ فکر مت کریں انہیں میں سمجھا دوں گی 

حانم ابھی دروازے کی جانب بڑھی مگر حالہ بیگم کی اگلی بات پر جیسے پوری حویلی کی چھت اس پر آن گڑی ہو 

ہاں حانم مجھے بلڈ کینسر ہے 

حانم کانپتے قدموں کے ساتھ مڑی 

ماما سائیں ہاں حانم میرا علاج چل رہا ہے مگر زندگی کا کیا بھروسہ میں مڑنے سے پہلے تمہے محفوظ ہاتھوں میں سونپ کر جانا چاہتی ہوں اور تمہارے لیے ساحر سے بھر کر کوئی اور اچھا آپشن نہیں 

ساحر سائیں بغیر کسی غرض کے تمہاری حفاظت کرے گا میری جان مان لو میری بات 

حانم نے سائیڈ ٹیبل کا سہارا لیا جب آنسہ بیگم نے اسے پیچھے سے تھامہ 

پھوپھو سائیں یہ ماما سائیں کو بھوری آنکھیں چھلک پڑی میری جان کچھ نہیں ہوتا حالہ کو ابھی فرسٹ سٹیج ہے علاج ہورہا ہے حالہ کا تمہے یقین ہے نہ مجھ پر 

جی جی پھوپھو سائیں

ساحر نے لب بھینجے کچھ نہیں ہوتا چھوٹی ممانی سائیں کو حانم سنبھالو خود کو ۔۔۔۔۔

________  

نورا حالہ کی طبیعت نہیں سہی ہم۔اسے ہاسپٹل لے کر جارہے  ہیں تم۔پیچھے سے دھیان رکھنا 

جی آنسہ بیگم سائیں آپ دھیان سے لے کر جائے ۔۔۔۔

________

ساحر نے اپنے چند دوستوں  کو مولوی صاحب کو ساتھ لانے کا کہہ دیا 

نورِ حانم اسعد ولد اسعد حاکم آپ کا نکاح ساحر خان ولد حماد خان سے کیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟؟

بے شمار آنسوؤں حانم کی آنکھوں سے بہہ نکلے پھر وہی کلمات جس نے پہلے اس کی زندگی برباد کی تھی 

حانم!!!!

 اسے اپنے اعتراف سے بھیگی ہوئی سرگوشی سنائی دی 

قبول ہے ،،،،

کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟؟

قبول ہے ،،،،

قبول ہے !!!!

ایک بار پھر اس کی زندگی کا مالک کوئی اور بننے جا رہا تھا 

بغیر اس کی مرضی کے

مگر اس بار مقابل سحر حماد خان تھا 

________

نکاح کے بعد وہ لوگ حویلی واپس آگئے تھے 

حانم بالکل خاموش سی تھی

خواتین وغیرہ بھی گھر آ چکی تھیں سب حانم سے ملیں 

علینہ تو کتنی ہی دیر حانم کے گلے لگی رہی مگر صنم کا رویہ لیا دیا ہی تھا حانم اس وقت پریشان تھی تو صنم کے رویے پر اس نے بھی کوئی ردعمل نہ دیا 

________

حانم اپنے کمرے کے ٹیرس پر کھڑی تھی جب اسے اپنی پیچھے سے ساحر کی آواز آئی 

نور حانم میں جانتا ہوں کہ تم ابھی نکاح کے لیے راضی نہیں تھی  

تمہارے ساتھ جو ہوا اس وجہ سے تم اتنی جلدی کسی پر بھی اعتبار نہیں کر پاؤ گی مگر ۔۔۔۔۔

آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ اس واقعے کے بعد میں پھر کبھی کسی پر بھی اعتبار نہیں کر پاؤں گی

حانم نے دونوں ہاتھ آگے باندھ کر سنجیدگی سے ساحر کی دیکھا ۔۔۔۔

میں نورِ حانم ہوں ساحر سائیں میں جس کی غلطی ہوتی ہے اسی کو سزا دینے کی قائل ہوں 

ہاں میں ابھی نکاح کے لیے دماغی طور پر تیار نہیں تھی مگر اب تو ہوگیا نکاح

بلا وجہ کے چونچلے کرنا مجھے پسند نہیں حانم اتنا کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئی

پیچھے ساحر اس کی پشت کو دیکھتا رہ گیا 

ہو کیوں بھول جاتا تھا کہ سامنے میروں کی نورِ حانم تھی کوئی عام لڑکی نہیں۔۔۔۔

________

آغا سائیں کو جب علم ہوا تھا کہ ان کی نورے واپس آئی ہے ان کے چہرے کی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی 

انہوں نے حانم کو فوراً اپنے کمرے میں بلوایا

میری نورے کیسی ہے آغا سائیں نے نور حانم کا بالوں پر ہاتھ پھیرا حانم آنکھیں میچ گئی 

اب کیسے نظریں ملائے گی وہ اب دادا سائیں سے۔۔۔۔

آغا سائیں کو جب علم ہوا تھا کہ ان کی نورے واپس آئی ہے ان کے چہرے کی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی 

انہوں نے حانم کو فوراً اپنے کمرے میں بلوایا

میری نورے کیسی ہے آغا سائیں نے نور حانم کا بالوں پر ہاتھ پھیرا حانم آنکھیں میچ گئی 

اب کیسے نظریں ملائے گی وہ اب دادا سائیں سے۔۔۔۔

کیا بات ہے نورے ادھر کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا یا ابھی بھی ناراض ہو اپنے دادا سائیں سے

نہیں دادا سائیں ادھر کوئی مسئلہ نہیں ہوا اور نہ ہی میں آپ سے ناراض ہوں بس تھوڑا تھک گئی ہوں سفر لمبا تھا نہ 

ہاں ہاں میرا بچہ تم ایسا کرو تم آرام کرو 

حانم وہاں سے اٹھی 

پھر کچھ سوچ کر مڑی 

ایک بات پوچھوں دادا سائیں ؟؟؟

ایک چھوڑو جتنی مرضی پوچھو میرے بچے آغا سائیں نے شفیق مسکراہٹ کے ساتھ کہا 

 آپ نے ساحر سائیں کو ہی میرے ساتھ کیوں بھیجا ،،،،

مطلب ؟؟؟ میں سمجھا نہیں آغا سائیں نے نا سمجھی کے ساتھ کہا 

مطلب یہ کہ آپ لوگ ساحر سائیں کو پسند نہیں کرتے تو پھر اپنی عزت کی رکھوالی کے لیے انہیں بھیج دیا ان پر یقین کرلیا کیسے 

حانم کا لہجہ عجیب سا تھا یا انہیں ایسا لگا 

کیا اس نے کچھ کیا ہے ؟؟؟ آغا سائیں کے ماتھے پر ان گنت بل پڑے 

نہیں دادا سائیں انہوں نے تو کچھ نہیں کیا البتہ یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے کہ آخر آپ نے کیسے یقین کیا بڑے تایا سائیں چھوٹے تایا سائیں آپ تو ان کو بلانا پسند نہیں کرتے تو اتنی بڑی زمہ داری 

حانم کی نظریں ان کے کمرے میں موجود کھلی کھڑکی پر پڑی جہاں سے لان میں کھڑا ساحر نظر آرہا تھا جو کسی سے فون پر بات رہا تھا

وہ ہمارے سامنے پلا بڑا ہوا ہے اتنا تو یقین ہمیں تھا کہ وہ کبھی خاندان کی عزت پر آنچ نہیں آنے دے گا 

اچھا اور آنسہ پھوپھو سائیں کیا  وہ آپ کے سامنے نہیں پلی بڑی  ہوئی تھیں 

نور کا لہجہ تھوڑا تیز ہوا 

نورے تم اس بارے میں کچھ نہیں جانتی 

جی نہیں جانتی میں دادا سائیں مگر ہم بڑے ہوگئے ہیں ہمارے پاس بھی کان آنکھیں ہیں 

ہم بھی سنتے دیکھتے ہیں 

یہ بھی نہیں کہ سکتے کہ آپ اپنی بیٹیوں کی نسبت اپنے بیٹوں سے زیادہ محبت کرتا ہیں

کیونکہ شائستہ پھوپھو سائیں جب حویلی آتی ہیں ان کا استقبال شان سے کیا جاتا ہے تو آنسہ پھوپھو سائیں سے

 لا تعلقی کیوں ان کی بیماری بیماری نہیں ہے ۔۔۔

جنازہ نکالا تھا اس نے ہماری عزت کا اور کچھ سننا چاہتی ہو تم 

جواد سائیں اندر آکر سختی سے بولے

نور بھی ایک پل کے لیے ڈر کر اچھلی تھی

نور حانم تم سے سب پیار کرتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم سر پر چڑ جاؤ اس معاملے سے جتنا دور رہو گی اتنا ہی اچھا ہوگا اب تم یہاں سے جا سکتی ہو۔۔۔۔

________

ہیلو اسلام علیکم

ہاں زارون وہاں سب ٹھیک ہے ؟؟

ہاں ٹھیک ہے ادھر بھی سب 

نور العین کیسی ہے اب ؟؟

چلو یہ تو اچھی بات ہے تم نے اسے آخر کار کہہ ہی دیا 

فکر نہ کر نہیں کرتی وہ انکار 

تجھے ایک میسج سینڈ کیا ہے دیکھ لے میں رکھتا ہوں فون 

اوکے بائے۔۔۔۔

________

ساحر سائیں کافی ؟؟؟

ساحر ابھی لان سے اندر ہی جانے والا تھا جب صنم ہاتھ میں کافی کا کپ پکڑے نمودار ہوئی 

اس کا اس وقت کافی پینے کو دل تو نہیں کر رہا تھا مگر شاہد صنم بہت دل سے بنا کر لائی تھی اس لیے ساحر نے کافی کا کپ پکڑ لیا 

شکریہ صنم بچے مگر آئیندہ دھیان رکھنا یہ تمہارا کام نہیں۔ ہے 

ساحر وہاں سے چلا گیا کیونکہ میر جواد سائیں گھر پر ہی موجود تھے ۔۔

_______

صنم جب میلاد سے گھر آئی تھی تو اسے خبر ملی ساحر حویلی آیا ہوا ہے جہاں وہ خوش ہوئی حانم کی موجودگی کا سن کر وہی بد مزہ بھی ہوئی

مگر پھر بھی کیچن میں ساحر کے لیے کافی بنا کر اسے ڈھونڈنے لگی اسے زیادہ محنت بھی نہ کرنی پڑی کیونکہ ساحر اسے حویلی کے لان میں ہی فون پر بات کرتا مل گیا 

ساحر کے کافی تھامنے پر جہاں اس کا دل خوشی سے ناچا وہی اس کا بچے کہہ ے پر صنم منہ بسور گئی 

اففف ساحر سائیں یہ اب میرے ہی کام ہونے والے ہیں دل ہی دل میں بڑبڑاتی لان میں لگے جھولے میں بیٹھ گئی 

_______

شائستہ بیگم کو جب سے پتا لگا تھا کہ حانم آئی ہے وہ سونیا اور ابرار کو لیے میر حویلی آگئی

حانم کو پاس بٹھا کر اس کی بلائیں لینے لگی 

میری بچی کے ی کمزور ہوگئی ہے حانم سائیں اپنا دھیان نہیں رکھتی تم 

آج سونیا کا رویہ بھی حانم کے ساتھ قدرے بہتر تھا اور ان سب کے پیچھے کی وجہ سے حانم با خوبی واقف تھی 

کشن سائیں کیسی ہو ابرار نے بھی حانم کا حال چال پوچھا 

اللّٰہ سائیں کا کرم۔ہے ابرار ادا سائیں 

حانم کے جہاں ادا سائیں چبا کر کہنے پر شائستہ بیگم کا منہ بنا وہی ٹی وی لاؤنج سے گزرتا ساحر دھیرے سے مسکرا کر وہاں سے گزر گیا 

جبکہ ابرار کندھے اُچکا گیا

چھوٹی بھابھی سائیں کہاں ہے ؟؟ حانم بچے شائستہ بیگم نے حالہ بیگم کی غیر موجودگی محسوس کرکے کہا 

آج موقع ملا ہے انہوں نے سوچا آج ہی سب کے سامنے حانم کا ہاتھ مانگا لیں ۔۔۔

وہ ماما سائیں کی طبیعت نہیں صحیح وہ پانے کمرے میں ہیں 

یہں کیا ہوا حالہ کو میں دیکھتی ہوں 

شائستہ بیگم مصنوعی فکرمندی کے ساتھ اندر کی جانب بڑھی ۔۔۔۔

________

اوہو کیا بات ہے صنم سائیں بہت مسکرایا جارہا ہے 

سونیا جھولے پہ بیٹھی صنم کے قریب آئی تو صنم دھیما سا مسکرا دی سونیا ادی سائیں ساحر سائیں آئے ہوئے ہیں حویلی 

اووو تو یہ بات ہے صنم کے صنم آئے ہوئے ہیں 

ادی سائیں نہ تنگ کریں 

اچھا بابا میں زرا بھائی کو دیکھ کر آئی 

سونیا لان کی راہ داری سے حویلی کے پچھلے حصے کی طرف بڑھی جہاں اس نے ابرار کو جاتے دیکھا تھا 

________

شائستہ بیگم حالہ بیگم کے کمرے میں آئیں تو وہاں آنسہ کو دیکھ کر آئی برو چکا گئی 

اوو یہاں تو نندھ بھابھی کی باتیں ہورہی ہیں میں غلط وقت پر تو نہیں آگئی

نہیں نہیں ادی سائیں آپ آئیں حالہ بیگم نے انہیں بلایا 

چھوٹی بھابھی سائیں ہمیں تو جیسے ہی پتا لگا کہ آپ بیمار ہیں ہم سے رہا نہیں گیا ہم دورے چلے آئے 

شائستہ بیگم نے ان کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا

یہ تو آپ کا پیار ہے ادی سائیں

آنسہ تم زرا باہر جاتے ہوئے نورا کو فریش جوس کا کہہ دینا ہم اپنی چھوٹی بھابھی کو خود اپنے ہاتھوں سے جوس پلائیں گے دیکھو تو زرا رنگ زرد پڑا ہوا ہے 

جی اچھا آنسہ کمرے سے باہر نکل گئی

حالہ بیگم آنسہ بیگم کی چالاکی دیکھ کر رہ گئیں 

انہیں وہ وقت یاد آیا جب کچھ ہفتوں پہلے ساحر حویلی آیا تھا 

________

چند ہفتے پہلے!!!!

حالہ بیگم کو جب ساحر کی واپسی کا پتا لگا تو وہ حانم کی خیر خبر کا پوچھنا آنسہ بیگم کے کمرے کی طرف بڑھیں وہاں جا کر انہیں آنسہ بیگم کی سخت بیماری کا پتا لگا تو وہ شرمندہ ہوگئیں کہ کیسے وہ ایک ہی چھت میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے اتنا کا تعلق تھے اس لیے وہ کیچن میں ان کے لیے سوپ بنانے چکی گئیں 

جیسے کی سوپ لے کر ان کے کمرے کے اندر جانے لگی اندر سے آتی آنسہ بیگم کی نقاہت سے بھرپور آواز میں شائستہ بیگم کا زکر سن کر چونکی 

ساحر ان سے کسی بات پر خفا ہورہا تھا 

شاہد پہلی بار ہی ساحر آنسہ بیگم سے ناراض ہورہا تھا 

مگر ان کی باتیں سن کر حالہ کے ہاتھ لرزے کوئی بہن اس قدر سفاک بھی ہوسکتی ہے 

اور تمام گھر والے حالہ بیگم کی آنکھوں میں بے ساختہ ہی آنسو آگئے سوپ لیے واپس مڑنے لگی تھی مگر جب آنسہ بیگم کے منہ سے حانم کا زکر سنا تھا تو ان کے قدم تھمے گئے۔۔۔۔۔

حالہ بیگم نے دھیرے سے ان کے کمرے کا دروازہ کھولا تو وہ دونوں کی چونک گئے 

حالہ بیگم نے سوپ کا باؤل سئڈ ٹیبل پر رکھا اور آنسہ بیگم کے آگے ہاتھ جوڑ دیے 

مجھے معاف کردیں ادی سائیں میں بہت بری ہوں آدی سائیں مجھے معاف کردیں 

کیا ہوا ہے حالہ تم کیوں معافی مانگ رہی ہو 

میں گناہ گار ہوں آپ کی آدی سائیں آپ کی گناہ گار اسعد سائیں کی گناہ گار 

میں نے جب جب ان سے پوچھا تھا کہ گھر والے آپ سے لاتعلق کیوں ہیں اسعد سائیں نے ہمیشہ مجھے یہ ہی کہا کہ انہیں اپنی ادی سائیں پر یقین ہے میں بھی کبھی آپ کو غلط نظر سے نہ دیکھوں انہیں ساحر کتنا عزیز تھا مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا مگر میں بھول گئی ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد میں بھول گئی آپ کا خیال رکھنا ساحر کا خیال رکھنا 

ساحر بیٹا سائیں تم بھی مجھے معاف کر دو 

حالہ بیگم نے اس کے آگے اپنے ہاتھ کیے

نہیں نہیں چھوڑی ممانی سائیں آپ کیوں مجھے گناہ گار کر رہی ہیں ہمیں آپ سے کوئی غلہ  نہیں جب اپنے ہی نہیں اعتبار کر پائے تو آپ کو کیا کہنا 

میں سوچ بھی نہیں سکتی شائستہ ادی سائیں یہ کام کر سکتی ہیں وہ بھی اپنی سگی بہن کے ساتھ 

اب جو ہونا تھا وہ ہوگیا حالہ جب گھر والوں کو یقین کرنا چائیے تھا تب انہوں نے یقین نہیں کیا اب کوئی فائدہ ہے بھی نہیں 

ساحر بیٹا سائیں میری حانم کیسی ہے وہ پڑھ رہی ہے نہ ٹھیک سے 

جی ممانی سائیں الحمدللہ وہ ٹھیک ہے ابھی وہاں رات ہوگی میں آپ کی بات کرواؤ گا 

تم تم اس کا دھیان رکھو گے نہ وعدہ کرو تم رکھو گے دھیان اپنے ماموں سائیں کی حانم کا 

جی جی آپ فکر مت کریں ممانی سائیں

...........

اس کے بعد شائستہ بیگم اور سونیا کی باتیں انہیں ان کی لالچی فطرت کا بھی اندازہ ہوگیا تھا اور اب یہاں جس مقصد کے لیے موجود تھیں اس سے بھی با خوبی واقف تھیں 

مگر مطمئن تھیں حانم کی زندگی اب وہ محفوظ ہاتھوں میں تھامہ چکی تھیں ۔۔۔۔

جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ میری بہن شائستہ بیگم نے نورا کے ہاتھ سے جوس کا گلاس لے کر حالہ بیگم کی طرف بڑھایا

جسے انہوں نے تھام لیا  

________

کیسی ہو علینہ ؟؟؟

علینہ حولی کے پچھلے حصے میں بیٹھی پینٹنگ کر رہی تھی جب ابرار بھی وہی چلا آیا 

آہ۔۔۔۔ ڈر کے مارے تصویر رنگتے علینہ کے ہاتھ کانپے 

اففف میری تصویر علینہ نے افسوس سے پینٹنگ پر پڑی اضافی ترچی لائن کو دیکھا 

میں کوئی جن ہوں مجھے  دیکھ کر ہمیشہ ہی ڈر جاتی ہو 

حرکتیں تو جن والی ہی ہیں علینہ آہستہ آواز میں بڑبڑائی

آپ نے میری پینٹنگ خراب کردی ۔۔۔

واؤ یہ تم نے بنائی تھی تم تو بہت ٹیلینٹڈ ہو 

ابرار اس کی بات کو نظر انداز کیے اس کی پینٹنگ کو چونکنے والے انداز میں تھامے اس کی تعریف کر رہا تھا 

جی میں نے ہی بنائی ہے اور کوئی نظر آرہا ہے یہاں پر 

علینہ نے ابرار کے ہاتھ سے اپنی پینٹنگ جھپٹنے والے انداز میں لی ۔۔۔

واؤ واقع بہت خوب صورت تصویر بنائی ہے میری بھی بنا دو گی 

علینہ نے اس کے چہرے پر مزاق کے تاثرات جانچنے چائے مگر وہاں سنجیدگی تھی 

اہم اہم اتنے میں اسے اپنے پیچھے سے سونیا کے کھانسنے کی آواز آئی 

جو دونوں کو زو معنی نظروں سے گھور رہی تھی 

علینہ نے اس کے چہرے پر مزاق کے تاثرات جانچنے چائے مگر وہاں سنجیدگی تھی 

اہم اہم اتنے میں اسے اپنے پیچھے سے سونیا کے کھانسنے کی آواز آئی 

جو دونوں کو زو معنی نظروں سے گھور رہی تھی 

اوو تو یہ بات ہے سونیا دل ہی دل میں بڑبڑائی

کیا ہو رہا ہے بھائی؟؟؟

ہمیں بھی تو بتائیں ایسی کونسی باتیں ہورہی ہیں

کچھ خاص نہیں سونیا میں تو بس علینہ کی بنائی پینٹنگ دیکھ رہا تھا

ہممم بہت خوبصورت بنا لیتی ہو

معنی خیزی انداز میں کہا

علینہ نے چونک کر دیکھا

پینٹنگ!!!

بھائی میں  تمہیں بلانے آئی تھی ماما بلا رہی ہیں

اچھا اوکے چلو ابرار سونیا کو ساتھ لیے مڑا

 پیچھے علینہ سر جھٹک کر بڑبڑاتے ہوئے اپنی پینٹنگ صحیح کرنے لگ پڑی  

________

اہم اہم بھائی صاحب اِدھر اُدھر نظر نہ گھمائیں تو ہی آپ کے لیے اچھا ہے۔۔

سونیا نے ابرار کے کندھے پر تھپکی دے کر کہا 

کیا مطلب کیا تم سمجھ رہی ہو ویسا کچھ نہیں ہے ابرار نے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرا

ایسا ہونا بھی نہیں چائیے بھائی نہیں تو آپ دونوں کا دل ٹوٹ جائے گا 

سونیا نے مصنوعی ہمدردی کے ساتھ کہا

کیا مطلب ابرار کے قدم اس کی عجیب و غریب بات پر تھمے 

مطلب یہ کہ مما نے آغا سائیں کے ساتھ مل کر آپ کا رشتہ گھر والوں کی چہیتی نور حانم کے ساتھ تہہ کردیا ہے 

واٹ!!!

ابرار کا سر گھما یہ کہا بکواس ہے مما مجھ سے پوچھے بغیر ایسا کیسے کر سکتی ہیں 

تو آپ کسی اور کو پسند کرتے ہیں ؟؟؟ سونیا نے بے تابی کے ساتھ پوچھا 

آف کورس نوٹ مگر میں حانم سے بھی شادی نہیں کرسکتا میں ابھی جا کر مما سے بات کرتا ہوں وہ کسیے کر سکتی ہیں ایسا ۔۔۔۔

ابرار کے وہاں سے جانے کے بعد سونیا کے قدم پھر حویلی کے پچھلے حصے کی طرف بڑھے جہاں علینہ اپنے کام میں مشغول تھی ۔۔۔

________

ہیلو علینہ !!!

جی ؟؟؟ علینہ سونیا کو واپس اپنے سامنے دیکھ کر بدمزہ ہوئی

تم ابھی تک یہاں پر کھڑی ہو وہاں گھر والے اتنا بڑا فیصلہ کرنے والے ہیں 

سونیا نے ڈرامائی انداز میں کہا

کیسا فیصلہ ؟؟؟؟علینہ نے مصروف سے انداز میں کہا 

ابرار بھائی کی شادی کا اب آخر وہ ہی بڑے ہیں ہم سب میں 

یکلخت علینہ کے ہاتھ تھمے اور دل دھڑکا 

اچھا کس کے ساتھ علینہ نے خود مصروف دکھانے کی کوشش کی مگر سامنے بھی چالاک سونیا تھی وہ اس کے ہاتھوں کا تھمنا محسوس کر کی تھی 

ارے آپ ی نور حانم کے ساتھ 

بچاری کے ساتھ پہلے ہی اتنا برا ہوا مما کے تو لاڈلے بھائی کی بیٹی ہے 

سونیا اور بھی بہت کچھ کہہ رہی تھی مگر علینہ خالی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی 

کزن سائیں کہا کھو گئی؟؟؟

بہت بہت مبارک ہو تمہے سونیا 

علینہ نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ کہا 

تمہے بھی تو مبارک ہو علینہ حانم تمہاری کتنی اچھی دوست ہے 

سونیا نے نمک چھڑکنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی 

اچھا علینہ میں چلتی ہوں تم بھی آجاؤ 

ہاں میں یہ سمیٹ کر آئی علینہ نیچھے جھک کر پینٹ برش اٹھانے لگی ۔۔۔

_________

پوری رات زارون ہاسپٹل میں ہی رہا تھا کیونکہ نور العین کا دائیاں بازو فریکچرڑ ہوا تھا اور ساتھ ساتھ اس کے ماتھے کے سٹیچیس بھی ابھی نہیں کھلے تھے اس لیے ایک رات کے لیے اسے ہاسپٹل میں ہی ایڈمٹ رکھا گیا تھا۔۔۔

_______

صبح جب زارون نور العین کے لیے ناشتہ لے کر اس کے روم میں آیا تو نور العین نرس سے لڑ رہی تھی 

کیا ہوا ہے عینی ؟؟؟

زارون ان کے قریب آگیا 

سر ہم نے پیشنٹ کے سٹیچیس کھولنے ہیں مگر یہ مان ہی نہیں رہی 

کیوں عینی تم۔کیوں نہیں کھولنے دے رہی سٹیچیس پھر زخم ٹھیک کیسے ہوگا شی نے فکر مندی کے ساتھ کہا 

نہیں نہیں۔۔نہیں مجھے نہیں کھلوانے ان کا۔ہاتھ اتنا سخت ہے یہ بہت دباتی ہیں مجھے درد ہوتی ہے 

بچاری نرس نور العین کی بات پر خجل ہوگئی 

دیکھیں میڈم میں کہہ رہی ہوں نہ کی نہیں پین ہوتی میں آہستہ سے کروں گی پھر آپ کا پلاسٹر بھی چیک کرنا ہے میں نے 

عینی کچھ نہیں ہوتا انہیں چیک کرنے دو زارون نور العین کے پاس آکر بولا

اچھا مگر آرام سے 

نور العین نے آنکھیں زور سے میچ کر زارون کی شرٹ کا کف مٹھی میں بھینج لیا ۔۔۔۔

پانچ منٹ بعد نور العین نے آنکھیں کھولیں تو نرس اس کے زخم پر بینڈیج لگا رہی تھی 

ہوگیا؟؟؟ نور العین نے بے یقینی سے نرس کو دیکھ کر پوچھا 

جی میڈم بس اتنی سی بات تھی نرس نے پیشہ وارانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا 

آہ ۔۔۔شکر عینی نے سکون کا سانس لیا 

سر آپ انہیں ناشتہ کروا کر یہ میڈیسن دین 

اور آپ اپنا بازو زیادہ موو مت کیجئے میں ڈال کو بلا کر لاتی ہوں وہ ہی آپ کو آگے بتائیں گے 

میڈیسن کا پتہ زارون کو دے کر نور العین کو تاکید کرتی روم سے باہر نکل گئی

اوکے تھینک یو زارون نے نرس کے ہاتھ سے میڈیسن پکڑی 

زارون چئیر کھینچ کر نور العین کے پاس ہی بیٹھ گیا 

جی تو میڈم کیا سوچا آپ نے ؟؟؟

کس بارے میں؟؟؟ نور العین جان کر بھی انجام بنی

اسی کے بارے میں جس کے بارے میں میں نے کل تم سے پوچھا تھا 

اووو اس کے بارے میں نور العین نے اپنا اپنے بائیں ہاتھ کی انگلی اپنی تھوڑی پر رکھی۔۔

جی میڈم اسی کے بارے میں زارون نے دانتوں کو پیس کر کہا  

میں نے تو ابھی کچھ بھی نہیں سوچا آپ نے ہی کہا تھا جتنا مرضی ٹائم لے لوں سوچنے کے لیے 

نور العین نے مسکراہٹ دبا کر کہا 

اففف زارون کہاں پھس گیا ہے یہ کمینہ دل 

تو اس کا مطلب اگر تم پوری زندگی ہی لے لی سوچنے کے لیے تو 

تو کیا آپ پوری زندگی انتظار کرلینا 

نور العین اسے فل تپا رہی تھی اور بیچارہ زارون تپ بھی رہا تھا 

اففف نور العین زارون جھنجھلا گیا 

اچھا اچھا سیریس 

مجھے آپ سے چند سوال کرنے ہیں اس کے بعد میں آپ کو اپنے جواب کے بارے میں بتا دوں گی 

زارون بھی سیدھا ہوا 

اچھا پوچھو۔۔

سب سے پہلے تو آپ مجھ سے شادی کیوں کرنا چاہتے ہیں ؟؟؟

مطلب یہ کیسا عجیب سا سوال ہوا بندہ شادی کیوں کرتا ہے ؟؟؟

زارون نے منہ بسورا عینی سے سنجیدگی کی امید جو کر بیٹھا تھا ۔۔

افف میرے سوال کا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ مجھ سے ہی کیوں شادی کرنا چاہتے ہیں ؟؟؟ مینز میرے سے بھی پیاری اور زیادہ پڑھی لکھی  لڑکیاں آپ کو مل سکتی ہیں تو میں ہی کیوں 

نور العین بہت سنجیدگی سے اس سے سوال کر رہی تھی 

زارون بھی سیدھا ہو کر بیٹھا 

تم ہی کیوں ؟؟

کیا تم معزور ہو 

کہ پڑھی لکھی نہیں ہو ؟؟

نہیں مطلب میں اورفن ہاؤس۔۔۔

یتیم تو میں بھی ہوں فرق صرف اتنا ہے کہ تم اورفن ہاؤس میں رہتی ہو 

زارون نے اس کی بات کاٹ دی  

تو پھر ؟؟؟اس سے پہلے نور العین کچھ کہتی زارون بول پڑا

تم کیا سننا چاہتی ہو ؟؟

ن۔نہیں ۔میں کیا سننا چاہوں گی 

کچھ نہیں میں بس وجہ۔۔۔۔

میں محبت کرتا ہوں تم سے نور العین

نور العین ایک دم ساکت ہوئی 

(دل بھنگڑے ڈال رہا تھا مگر چہرہ ساکت تھا )

ہاں میں تم سے محبت کرتا ہوں آج سے نہیں جب سے تمہے دیکھا ہے تب سے 

یہ بات میں تمہے نکاح کے بعد بتانا چاہتا تھا مگر کچھ باتوں کا وقت سے پہلے اشکار ہوجانا ضروری ہوتا ہے 

آپ نے کبھی بتایا نہیں 

نور العین کے منہ سے پھسلا 

سچ کہوں تو میری جوب مجھے ابھی اجازت نہیں دے رہی تھی 

جوب کون سی جوب خود باس ہیں آپ کمپنی کے آپ کو اگر یاد ہو تو 

زارون سے اظہار سننے کے بعد نور العین سرشار سی واپس اپنی ٹون میں آئی

ہاں میں کمپنی کا اونر ہوں مگر اس کے علاوہ بھی میں ایک  جوب کرتا ہوں

اور ویسے بھی میں نے تمہے کتنی ہنٹ دیے 

کون سے ہنٹ ؟؟؟ نور العین نے آئی برو اُچکائی

تمہے جوب دی تھی میں مفت میں تو نوکرایاں نہیں بانٹ رہا تھا  اور تو اور میں ہر امپلوئے کو تو پک اینڈ ڈراپ سروس نہیں دے رہا ہوتا۔۔

یہ ہنٹ تھی اففف اللّٰہ نور العین بے دھیانی میں اپنے ماتھے پر ہاتھ مار گئی

سسس آہ۔۔۔۔ سسکی لیتی آنکھیں میچ گئی

افف عینی 

کیا زور کی لگی ہے ؟؟؟

تو اور میں ڈرامے کر رہی ہوں 

نور العین نے دائیں آنکھ کھول کر زارون کو گھورا

نہیں نہیں میں ڈاکٹر کو بلاؤ

نہیں ضرورت نہیں بس بھوک لگ رہی ہے 

نور العین نے معصومیت سے آنکھیں ٹپٹپائی

زارون نظریں چڑا گیا 

کیا کھاؤ گی میں ابھی لے آتا ہوں 

میں پائن ایپل پیزا نور العین نے زبان ہونٹوں پر پھیری 

پائن ایپل پیزا اِئیو۔۔۔۔۔

آپ ابھی سے میرے کھانے میں نقص نکالنے لگے ہیں شادی کے بعد تو آپ مجھ میں بھی نقص نکالے گے 

نور العین نے سو سو کرتے ہوئے کہا ...

شادی کے بعد ؟؟؟ مطالب تمہاری طرف سے ہاں ہے 

یےےےے میں ابھی تمہارے لیے پائن ایپل پیزا لے کر آیا تم بس دس منٹ روکو میں ابھی گیا اور ابھی آیا۔۔۔

زارون خوشی سے اچھلتا کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔

پیچھے عینی اپنے دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپانے کے چکر میں اپنے دائیں بازوں پر کھینچ پروا گئی 

________

اور شائستہ بیٹا سائیں کیسے ہیں اشرف سائیں اور کب کی واپسی ہے ان کی دبئی سے 

جواد سائیں نے شفقت سے اپنی بہن سے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا 

جی ادا سائیں وہ کہہ رہے تھے کل پرسوں تک وہ پاکستان آجائیں گے اور سیدھا حویلی ہی آئیں گے کافی عرصہ ہوگیا ہے آپ سب سے اور آغا سائیں سے ملے ہوئے 

یہ تو اچھی بات ہے آغا سائیں بھی خوش ہوئے 

آغا سائیں میں نے اشرف سائیں سے بات کی تھی ہم بچوں سے اب شہر میں نہیں رہا جاتا ویسے بھی میرے ابرار بیٹا سائیں کو بھی گاؤں میں ہی اچھا لگتا ہے اور سونیا کی دونوں سہیلیاں ہی ادھر اس حویلی میں ہیں تو میں سوچ رہی تھی اسی گاؤں میں ایک گھر لے لیتے ہیں اشرف سائیں تو کام کے سلسلے سے  زیادہ تر  دوسرے ملکوں میں ہی رہتے ہیں 

ارے یہ کیسی بات کردی شائستہ سائیں یہ اتنی بڑی حویلی کس لیے ہے پھر تمہے گاؤں میں گھر لینے کی کیا ضرورت ہے دونوں بھائیوں نے اپنی بہن کی بات پر احتجاج کیا

بیٹا سائیں تمہارے لالہ صحیح کہہ رہیں ہیں اتنی بڑی حویلی کے ہوتے ہوئے بھی تم لوگ ایک ہی گاؤں میں رہتے ہوئے الگ اور اکیلے ہی رہو گے 

ہر گز نہیں ۔۔۔

نہیں آغا سائیں ایسے اچھا تھوڑی نہ لگتا ہے اشرف سائیں نے بھی کہا ماننا ہے 

تم اشرف سائیں کی فکر مت کرو اسے ہم منا لیں گے تم بس اپنا چند ضروری سامان لے آؤ جاوید سائیں کے ساتھ جا کر باقی 

ماشاء اللہ سب کچھ حویلی میں موجود ہے۔۔۔

نہیں آغا سائیں شادی شدہ عورتیں میکے میں رہتی ہوئی اچھی تھوڑی نہ لگتی ہیں 

تو کیا ہوگیا شادی شدہ ہو اس گھر سے تعلق تھوڑی نہ ٹوٹ گیا ہے تمہارا یہ گھر آج بھی تمہارا ہے 

جواد سائیں شائستہ بیگم کے پاس آکر بیٹھے۔۔

آنسہ بیگم اپنے بہن بھائیوں کا آپس میں پیار دیکھ کر اپنی گیلی آنکھیں میچ گئیں 

علینہ اپنے کمرے میں آئی اور اپنا پینٹنگ کا سامان الماری میں رکھ کر الماری بند کرکے اس کے ساتھ اپنی پشت لگا کر کھڑی ہوگئی 

سامنے شیشے میں اسے ابھی تھوڑی دیر پہلے کا ہوا منظر دکھنے لگا

میری تصویر بناؤ گی ؟؟

میں کوئی جن ہوں جس سے تم  ڈر جاتی ہو 

اپنے ابرار بھائی کی شادی اپنی حانم سے !!!

تمہے بھی مبارک ہو تمہاری تو بیسٹ فرینڈ ہے نورِ حانم!!!!

اللّٰہ سائیں میری حانم کو خوش رکھنا اس کی زندگی کے ہر دکھ دور کر دینا 

ایک آسودہ سی مسکراہٹ کے ساتھ علینہ نے ایک سچے دوست کی طرح حانم کو دعا دی۔۔۔

________

پیرس !!!!

زارون نور العین کے ڈسچارج پیپرز بنوا لایا تھا اب وہ دونوں نور العین کے آرفینیج جارہے تھے 

عینی یہاں چند ضروری کاغزات جمع کروانے ہیں پھر ہم یہاں سے کسی اسلامک سینٹر چلیں گے 

اسلامک سینٹر کیوں ؟؟

عینی نے نا سمجھی کے ساتھ زارون کو دیکھا 

آف کورس ہم دونوں کے نکاح کے لیے زارون نے اسٹیرنگ گھماتے ہوئے کہا 

ن۔نکاح ابھی اتنی جلدی عینی ہکلائی

تو پھر کب ؟؟؟ زارون نے گاڑی کو۔بریک لگایا 

دیکھو عینی میں جانتا ہوں ابھی نکاح زرا جلدی ہے مگر میں تمہے اس حالت میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا 

میں چاہتا ہوں میں قانونی اور شرعی حیثیت سے تمہیں اپنے ساتھ رکھ سکوں تمہاری دیکھ بال کر سکوں اور پھر جب وہ دونوں واپس آجائیں تو  ہماری شادی پوری دھوم دھام کے ساتھ ہوگی 

نور العین اس کی بات سمجھتے ہوئے اسبات میں سر ہلا گئی 

 میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا مجھے نکاح سے کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر ایسے بے شک ہم دونوں اکیلے ہیں مگر تھوڑے سے وقت میں نور مجھے بہت عزیز ہوگئی ہے اور خان سر انہوں نے ہمیشہ مجھے اپنی بہن سمجھا ہے ان دونوں کے بغیر اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ میں اپنی زندگی کی اتنی بڑی خوشی میں ان کو شامل کرنا چاہتی ہوں 

ہوگیا تمہارا زارون نے سنجیدگی سے اسے دیکھ کر کہا 

جی کیا مطلب...

مطلب یہ ڈئیر عینی جن کے لیے تم نکاح پوسٹ پونڈ کر رہی ہو وہ دونوں وہاں اپنے نکاح کے چھواڑے کھا چکے ہیں زارون نے تپ کر کہا

کیااااا نور العین چیخی 

آہ آہستہ لڑکی کیوں مجھے شادی سے پہلے بہرہ کرنے پر تلی ہو 

کیا واقعی نور اور خان سر کا نکاح ہوگیا ہے مجھے بتائیں نہ پلیز زی سر 

افف پہلے یہ زی سر کہنا بند کرو 

اٹس زارون اوکے 

اچھا نہ زارون بتائیں کیسے ہوا ان کا نکاح ایمرجنسی میں ہوا مگر تم یہ بات کسی کو بھی نہیں بتاؤ گی سپیشلی آفس میں تو بالکل بھی نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔

آورفن ہاؤس سے چند ضروری کاروائیاں پوری کرنے کے بعد وہ لوگ اسلامک سینٹر میں گئے وہاں دونوں کا نکاح ہوا جس  میں سے ایک گواہ  آرفن ہاوس کی ہیڈ بھی تھیں جنہوں نے اپنی بھرپور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا 

زارون نور العین کو اپنے گھر لے آیا 

واؤ زی آپکا  گھر کتنا پیارا ہے 

میرا نہیں ہمارا گھر  اچھا اوپر جاکے فرسٹ رائٹ پر میرا کمرہ ہے ساتھ والا کمرہ میں دینی سے کہہ کر صاف کروا دیتا ہوں تم تھوری دیر ریسٹ کرو میں آفس سے ایک چکر لگا کر آیا 

ہمم اوکے ۔۔۔۔

_______

زاویار جب سے آفس آیا تھا اس کی نظر اس دشمن جاں کو تلاش کر رہی تھیں جو حقیقتاً اس کی جان کی دشمن بنی ہوئی تھی دو دن سے وہ غیر حاضر تھی دل میں کہیں نہ کہیں یہ خوف بھی تھا کہ کہیں اسے کچھ ہو تو نہیں گیا یہ ہی بات اس کا دل دہلا دینے کے لیے کافی تھی۔۔۔

ابھی پرسوں کی ہی بات تھی جب اس نے نور حاکم کو دوسری مرتبہ کسی لڑکے کے ساتھ دیکھا تھا اس وقت وہ بالکل آپے سے باہر ہوگیا تھا مگر جب تک وہ ان تک پہنچتا وہ لوگ وہاں سے چلے گئے تھے 

پھر وہ غصے میں ہی اپنے دوستوں کے ساتھ بار میں چلا گیا اور زندگی میں پہلی بار اس نے حرام مشروب کو جوس سمجھ کر منہ لگایا تھا غصے میں اتنا پاگل ہوگیا تھا کہ محسوس ہی نہیں کر پایا کہ وہ کیا پی رہا ہے 

تقریباً پوری رات ادھر بار میں گزارنے کا بعد اسے میٹنگ کا یاد آیا تھا دکھتے سر کے ساتھ ریش ڈرائیونگ کرتے وہ اپنے گھر کی طرف نکلا مگر راستے میں ہی اس کی گاڑی کے ساتھ کسی کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا 

مگر زاویار بنا رکے گاڑی چلاتا گھر پہنچا اور سیدھا بستر پر دراز ہوگیا 

تھوڑی دیر بعد اس کی آنکھ کھلی تو کافی وقت ہوگیا تھا نشہ بھی کافی حد تک اتر چکا تھا 

جب وہ آفس پہنچا تو اسے ڈیزی سے پتا لگا کہ ٹیم آ چکی ہے اور اندر میٹنگ ہورہی ہے 

اور پھر جب اسے پتا لگ کہ کمپنی کو اتنا بڑا ٹینڈر نور حاکم کی وجہ ملا ہے 

زاویار اس کی قابلیت کا قائل ہوگیا 

مے آئی کم ان سر 

اتنے میں ریسیپشنسٹ زاویار کے کمرے میں آئی 

یس کم ان مس ڈیزی 

جی سر آپ نے مجھے بلایا 

یس مس نور حاکم دو دنوں سے آفس کیوں نہیں۔ آرہی ہیں 

جی سر ان کی لیو ہے سر دو ہفتوں کی 

واٹ !!! زاویار اپنی چئیر سے اٹھ کھڑا ہوا کس نے ایپرو کی ان کی لیو 

سر وہ سر زی اور سر خان کے سائن ہیں 

بغیر مجھ سے پوچھے بغیر مجھ سے اجازت لیے وہ کیسے چھٹیوں پر جا سکتی ہیں 

زاویار کا غصہ سوا نیزے پر پہنچا 

کیا ہورہا ہے یہ سب اتنے میں زارون آفس میں آیا 

کیوں چلا رہے ہو تم زاویار؟؟؟

زارون کے ماتھے پر بل پڑے 

نور حاکم اور مس نور العین دونوں لیو پر ہیں 

زاویار نہیں معا دونوں کا نام ساتھ لیا 

ہمم ہیں تو 

کس سے پوچھ کر چھٹیاں کر رہیں ہیں یہ دونوں 

فرسٹلی زاویار نور العین کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے سو وہ میڈیکل لیو پر ہیں جس کی اپروول میں نے دی ہے اور دوسری بات مس نور حاکم آؤٹ اوف کنٹری گئیں ہیں لیو لے کر 

کس کی اجازت کے ساتھ ان کی لیو ایپرو ہوئی میں باس ہوں اس کمپنی کا زاویار نے اپنا غصے سے ٹیبل پر ماڑا جس کی وجہ سے ڈیزی ڈر کر اچھلی 

خان کی اجازت کے ساتھ تم شاہد بھول رہے ہو زاویار اس کمپنی کے ففٹی پرسنٹ شیئرز کا اونر ہے خان تمہے تو اس کی اجازت کی ضرورت ہوسکتی ہے اسے نہیں 

اور نیکسٹ ٹائم مجھ سے تمیز سے بات کرنا دوست ہونے کا لحاظ کرجاتا ہوں میں مگر ضروری نہیں کہ ہر بار لحاظ کروں ۔۔۔۔

________

 دوپہر کے وقت حانم کی آنکھ کھلی 

میں آج اتنی دیر کیسے سو گئی کسی نے اٹھایا بھی نہیں۔۔

حانم کی نظر اس کے کمرے میں لگی وال کلاک پر پڑی جہاں دو بجے ہوئے تھے 

آہ۔۔۔۔ ایک دم سے بستر سے اٹھنے پر اس کا سر چکرا گیا 

اس سے پہلے حانم گرتی دو شفیق ہاتھوں نے حانم کو تھام لیا 

بابا سائیں حانم بے یقینی سے اپنے سامنے کھڑے اسعد حاکم کو دیکھ رہی تھی 

حانم گڑیا !!! حانم بے قرار ہو کر ان کے گلے لگی کہاں چلے گئے تھے بابا سائیں آپ ہمیں چھوڑ کر کیوں بابا سائیں یہ دنیا بہت بڑی دوھکے باز ہے  یہ ہمیں جینے نہیں دیتی بابا سائیں پلیز واپس آجائیں 

ہم کسی کو نہیں بتاتے بابا سائیں مگر ہم آپ کو ہر وقت یاد کرتے ہیں پلیز بابا سائیں آ۔آپ ہمارے پاس واپس آجائیں ۔یا یا آپ ایسا کریں مجھے اپنے ساتھ لے جائیں مجھے نہیں رہنا یاں پر 

کسی کے سامنے نہیں رونے والی نور حانم اس شفیق آغوش میں چھپ کر بلک اٹھی یہاں تک کہ اس کی ہچکیاں بندھ 

نور حانم میر اسعد نے اسے پھر پکارا 

جی بابا سائیں حانم بھی ہمہ تن غوش ہوئی 

میرا بہادر بچہ 

انہوں نے حانم کے چہرے پر ہاتھ پھیرا 

نہیں ہوں میں بہادر بابا سائیں مجھے آپ چائیے نہیں ہوں میں بہادر حانم نے انہیں زور سے تھامہ کہ کہیں وہ اسے چھوڑ نہ جائیں

بابا سائیں آپ مجھے لے کر جائیں گے نہ اپنے ساتھ اس فریبی دنیا سے دور 

حانم نے کسی ضدی معصوم بچے جیسی فرمائش کرتے ہوئے آس کے ساتھ ان کا پر نور چہرہ دیکھا 

جو دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ نفی میں سر ہلا گئے 

بابا سائیں حانم کا گلا رندھا 

میری نور حانم بہت زمہ دار ہے اب تم اکیلی نہیں ہو میری بچی اگر تم بھی میرے ساتھ آگئی تو تم سے جڑے لوگوں کا کیا ہوگا 

میری ایک بات یاد رکھنا میری جان جو ہوتا اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی کوئی نہ مصلحت اور ہماری آزمائش ہوتی ہے اچھا مسلمان تو وہ ہی ہے نہ جو اپنے رب کی رضا میں راضی ہو جو اس کے فیصلے کو دل سے قبول کرے اس کے بالوں کو دھیرے دھیرے سہلاتے اسے پر سکون کر رہے تھے 

میری بات مانیں گی نہ میری حانم گڑیا 

بابا سائیں حانم اسبات میں سر ہلا گئی 

میں آپ کی ہر بات مانوں گی بابا سائیں با آپ مجھے چھوڑ کے مت جائیے گا حانم نے بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ کہا 

مگر جوب نادار 

بابا سائیں آپ سن رہیں ہیں نہ 

مگر ابھی بھی وہاں خاموشی تھی 

بابا سائیں حانم چیختی ہوئی آٹھ بیٹھی

مگر کمرے میں اس کے سوا کوئی نہیں تھا 

بابا سائیں حانم کانپتے قدموں کے ساتھ بیڈ سے اتری اور وضو کرنے کے لیے واش روم کی طرف بڑھی

بے شک سکون اللہ کے زکر میں ہے 

نماز ادا کرنے کے بعد حانم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے 

اے میری پاک پروردگار اے پیرے مالک و مولا

اے رب رحیم مجھ پر اپنا رحم کر مجھے بخش دے میں بہت گناہ گار ہوں میرے گناہ اپنے سوہنی حبیب کے صدقے معاف کردے میرے دل میں سکون بڑھ دے میرے بابا سائیں کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کر میری ماما سائیں  کو صحت و تندرستی والی زندگی عطا کر 

اس کے رخساروں سے بہتے وہ شفاف موتی اس کے چہرے کے نور میں اضافہ کر رہے تھے 

حانم کو اپنی ایک دفعہ کی پڑھی حدیث یاد آئی

اے ابن آدم !!

ایک میری چاہت ہے

اور ایک تیری چاہت ہے

ہوگا تو وہی

جو میری چاہت ہے

پس اگر تو نے

سپرد کر دیا اپنے آپ کو اس کے 

جو میری چاہت ہے

تو وہ بھی تجھے دوں گا

جو تیری چاہت ہے

اگر تو نے مخالفت کی اس کی

جو میری چاہت ہے 

تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اس میں

جو تیری چاہت ہے 

پڑھ پھر بھی ہوگا وہی

جو میری چاہت ہے

اے مالک مجھے تیرا ہر فیصلہ دل وجان سے قبول ہے مجھے اس رشتے کو نبھانے کی ہمت دے اللّٰہ پاک تاکہ میں روز محشر آپ کے سامنے سرخرو ہو سکوں 

جاہ نماز سمیٹ کر حانم کمرے سے باہر نکل کر بیٹھک میں آگئی جہاں جواد سائیں شائستہ بیگم سے باتیں کر رہے تھے

ہمم خوش نصیب ہیں جو ہمیں شائستہ سائیں جیسی بہن ملی جس نے ہمیشہ ہمارے فیصلوں پر سر خم کیا جاوید سائیں بھی مسکراتے ہوئے بولے 

جب حانم آنسہ بیگم کے ساتھ بیٹھ کر ان کے شانوں پر بازوں کا ہار بنا گئی 

ٹھیک کہا آپ نے تایا سائیں خوش نصیب تو میں بھی ہوں جو مجھے اتنی اچھی اور پیار کرنے والی پھوپھو سائیں ملیں 

آنسہ بیگم نے حانم کو پیار بھری نظروں سے دیکھا 

ساحر کو بھی حانم کا سب کے بھیچ آ کر آنسہ بیگم کو گلے لگانا بہت اچھا لگا مگر حانم کی سرخ ہوتی بھوری آنکھیں دیکھ کر بے چین ہوا 

مگر سوائے اس کی سرخ آنکھوں سے نظریں چڑانے اور بے چین ہونے کے وہ کر ہی کیا سکتا تھا ۔۔۔

ارے میری بچی ادھر آؤ دو دن سے تم سے بات ہی نہیں ہو سکی شائستہ بیگم فورا حانم کے سر ہوئیں ارے حانم بچے تہماری یہ آنکھیں کیوں لال ہورہیں ہیں 

تم روہی ہو میری جان شائستہ بیگم نے اسے گلے لگایا 

کیا ہوا ہے نورے آغا سائیں بھی پریشان ہوئے ۔۔۔

کچھ نہیں دادا سائیں آنکھوں میں صابن چلا گیا تھا 

حانم نے آنکھوں کو سہلاتے ہوئے کہا 

مت چھیڑو اور درد کریں گی ،،،، ساحر صرف دل میں ہی سوچ سکا سب کے درمیان کیسے کہ سکتا تھا ۔۔۔۔

_______

جی تو سب یہی پر جمع ہیں تو میں نے سوچا کیوں نہ بات کر لی جائے 

کیسی بات شائستہ سائیں ثمینہ جواد سائیں نے چائے کا کپ پکڑتے پوچھا 

جی تو بات یہ ہے کہ میں حانم کو اپنی بیٹی بنانا چاہتی ہوں 

ان کی بات پر جہاں ساحر نے مٹھیاں بھینج لی وہی دوسری طرف ابرار نے بھی پہلو بدلا وہ نظریں گھما کر علینہ کو ڈھونڈ رہا تھا جو ابھی تک بیٹھک میں نہیں آئی تھی

جی تو شائستہ ادی سائیں حانم آپ لوگوں کی ہی بیٹی ہے مجھے پتا ہے کہ آپ سونیا اور حانم میں کوئی فرق نہیں کرتی یہ بھی ان دونوں کی بہن ہے حالہ بیگم نے شائستہ بیگم کی بات کو گھماتے ہوئے کہا 

ارے نہیں نہیں حالہ تم غلط سمجھ رہی ہو میرا مطلب ہے حانم کو میں اپنی بہو بنانا چاہتی ہوں اپنے ابرار کے لیے میں نے حانم کو چنا ہے میں تو پہلے بھی یہ ہی چاہتی تھی مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا خیر اب بھی وقت سر کے نہیں گزرا 

کیوں چھوٹی بھابھی سائیں 

م۔میں کیا کہوں جو بھی فیصلہ ہوگا وہ میری حانم کا ہوگا اگر اس کی طرف سے انکار ہوا تو معزرت میری طرف سے بھی انکار ہے 

کیوں آغا سائیں 

آغا سائیں سے کیوں پوچھ رہیں ہیں آپ چھوٹی بھابھی سائیں ان کی طرف سے تو ہاں ہے 

حانم بچے آپ بتاؤ ۔۔۔۔

سب کی نظریں حانم کی طرف مڑی مگر حانم آغا سائیں کی طرف دیکھ رہی تھی 

ابھی حانم کچھ کہتی نورا وہاں آئی

سائیں جی سائیں کچھ لوگ آنسہ بی بی سائیں سے ملنے آئیں ہیں 

ابھی حانم کچھ کہتی نورا وہاں آئی

سائیں جی سائیں کچھ لوگ آنسہ بی بی سائیں سے ملنے آئیں ہیں 

آنسہ سے ملنے 

دونوں بھائیوں کے ساتھ شائستہ بیگم کے بھی ماتھے پر بل پڑے 

کون آیا ہے انہیں ادھر ہی بھیج دو 

آغا سائیں نے تشویش کے ساتھ کہا 

اسلام علیکم 

ایک درمیانی عمر کی لڑکی اور ایک سیاہ کوٹ میں آدمی اندر آئے 

وکیل صاحب آپ یہاں ؟؟؟

میر جواد سائیں آٹھ کر وکیل صاحب کے گلے ملے 

جی جواد سائیں ہم ایک بہت ہی ضروری کام کے سلسلے میں یہاں حاضر ہوئے ہیں 

جی جی آئیے وکیل صاحب جاوید سائیں بھی کھڑے ہوئے

اسلام علیکم آغا سائیں وکیل صاحب سب سے پہلے

میر حاکم سائیں کے پاس جا کر ان سے ملے 

جی تو کیسے آنا ہوا یہاں ؟؟اور یہ بی بی 

آغا سائیں نے وکیل کے ساتھ کھڑی اس درمیانی عمر کی لڑکی کا پوچھا 

آغا سائیں میرا نام شمائلہ ہے میں آنسہ حماد خان کو ان کی امانت دینے آئی ہوں 

آنسہ سائیں کی امانت کیسی امانت سب چونک گئے 

ساحر نے بھی حیرانگی سے اس عورت کو دیکھا جاے شاہد وہ پہلی بار ہی مل رہا تھا 

آغا سائیں ہم یہاں پر ساحر حماد خان کے حصے کی جائیداد انہیں دینے آئے ہیں 

آغا سائیں میرے سسر زبیر خان جو  رشتے میں  حماد خان کے چچا لگتے ہیں انہوں نے دوھکے سے ان کی جائیداد پر قبضہ کرلیا تھا جس کا کیس برسوں سے چل رہا تھا اس جائیداد کے وجہ سے بہت لڑائیاں ہوئیں ہیں بہت قتل ہوئے ہیں میرے شوہر کو میرے سسر کے کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی انہوں نے بارہا کہا کہ یہ جائیداد جن کا حق ہے انہیں واپس کردی جائے مگر میرے جیٹھ اور دیور ہمارے خلاف ہوگئے یہاں تک کہ میرے شوہر پر جان لیوا حملہ بھی کروایا میرے شوہر اب ہاسپٹل میں قومہ میں ہیں میرے دیور نے جائیداد کی لالچ میں میرے بڑے جیٹھ کا قتل کردیا میرے سسر کی فیکٹری میں آگ لگ گئی اور وہ اسی میں جل کر کرگئے یہاں تک کہ ان کے جسم کے مکمل ٹکڑے بھی نہیں مل سکے میرا بیٹا پیدائشی طور پر معزور ہے یہ اتنی ساری جائیداد دولت کچھ بھی میرے شوہر کو دوبارہ صحت یاب نہیں کرسکتی نہ ہی میرے بیٹے کو عام زندگی دے سکتی ہے 

میں نے شروع میں بہت بار کوشش کی کہ میں کچھ تو کرسکوں پھر میں نے وکیل صاحب کے ساتھ رابطہ کیا پلیز آنسہ مجھے اور میرے شوہر کو معاف کردو ہم اس وقت بہت مشکل میں ہیں اولاد بہت بڑی آزمائش ہوتی ہے میں اس وقت بہت تکلیف میں ہوں آنسہ ایک طرف میرا بیٹا دوسری طرف میرا شوہر تم ہمیں معاف کردو گی تو شاہد اللہ پاک بھی ہم پر رحم کر دے گا 

پلیز آنسہ شمائلہ اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوگئی 

اس جائیداد کا میں کیا کروں گی کیا اس سے میرا شوہر میرے ماں باپ واپس آجائیں گے 

آنسہ بیگم نے بھیگے لہجے میں پوچھا 

________

ساحر لمبے لمبے ڈاگ بھرتا وہاں سے سیدھا اپنے کمرے میں آگیا 

ساحر کی سرخ ہوتی سرمئی آنکھیں دیکھ کر ایک لمحے کے لیے تو حانم بھی کانپ گئی 

اور سب کی نظروں سے بچ کر خاموشی سے اس ساحر کے پیچھے اس کے کمرے کی طرف بڑھی

آہ۔۔۔ نہیں یہ نہیں ہوسکتا کیسے کیسے اتنی آسانی سے میرا مجرم مر گیا اسے تو میں نے مارنا تھا بدلہ لینا تھا اپنے گھر والوں کا ساحر اپنے کمرے میں پڑھیں چیزوں کو پوری طاقت کے ساتھ زمین بوس کر رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا کر گزرے اپنے خون آلود ہاتھ میں پکڑا برانڈڈ پرفیوم کی بوتل پوری طاقت کے ساتھ ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے پر دے ماری  جو چھناکے کی آواز کے ساتھ چکنا چور ہوکر زمین پر بکھر گیا 

اسی اثناء میں حانم اس کے کمرے میں داخل ہوئی کمرے سے زیادہ ساحر کو برے حال میں دیکھ کر اس کے دل کو کچھ ہوا 

ساحر سائیں

حانم بیڈ کی سائیڈ پر  بکھرے حال  بیٹھے ساحر کے ساتھ ہی بیٹھ گئی 

ساحر سائیں !!!!

حانم نے ساحر کا زخمی ہاتھ جس میں سے تیزی کے ساتھ خون بہہ رہا تھا 

حانم کو جب آس پاس کوئی چیز نظر نہیں آئی تو اس نے بیڈ شیٹ کا کونا پھاڑ کر ساحر کے زخم پر خون روکنے کی غرض سے  باندھ دیا 

ساحر ویران نظروں سے حانم کا چہرہ دیکھ رہا تھا جہاں اس کے لیے واضح فکر مندی تھی 

مجھ سے میرا مقصد چھین گیا نورِ 

ساحر نے کرب کے ساتھ کہا

نہیں آپ کا مقصد پورا ہوگیا ہے حانم نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا 

کیسے پورا ہوگیا میرا مقصد کیا ان پیسوں سے میرے گھر والے واپس آجائیں گے 

ساحر کا گلا رندھ گیا 

میں اپنے گھر والوں کے قاتل کو اپنے ہاتھوں سے تڑپا تڑپا کر مارنا چاہتا تھا مگر وہ کیسے اتنی آسان موت مر گیا جب میں اسے پانے ہاتھوں سے مار ہی نہیں سکا تو کیسے میرا بدلہ پورا ہوگیا 

کیسے؟؟؟

کیونکہ اللّٰہ سائیں آپ کے ہاتھ اس مجرم کے گندے خون سے نہیں رنگنا چاہتے تھے 

ساحر حانم کے شانے پر سر رکھ کر آنکھیں موند گیا ۔۔۔

حانم نے بھی اسے پیچھے نہیں کیا وہ اس کا محرم تھا اور ویسے بھی وہ اس رشتے کو دل سے قبول کر لی تھی تو وہ کیسے ساحر کو ہٹاتی جبکہ سب سے زیادہ ساحر کو  اسی کے سہارے کی ضرورت تھی ......

ہے شام تو   تعریف میں 

تو چین ہے  تکلیف میں

تجھ سے ملا تو پالیا 

ہر چیز میں 

ہے خواب تو  تعبیر میں 

مانا تجھے تقدیر میں 

تیرا ہوا اس بھیڑ میں

 اس بھیڑ میں!!!

آنسہ بیگم ساحر کے غصے سے با خوبی واقف تھیں مگر حانم کو اس کے پیچھے جاتا دیکھ کر اپنا ارادہ بدلتی اپنے کمرے کی طرف بڑھی ۔۔۔۔

________

کیا ہوا مما کیا سوچ رہیں ہیں ؟؟

سونیا شائستہ بیگم کو کمرے میں مسلسل ادھر سے ادھر چکر لگاتے دیکھ کر جھنجھلا کر بولی 

آج جو لوگ آئے تھے ان کے بارے میں سوچ رہی ہوں شائستہ بیگم صوفے پر بیٹھ کر بولی 

آج کونسے لوگ آئے تھے سونیا نے چونک کر پوچھا 

بے وقوف لڑکی وہ وکیل اور وہ عورت شائستہ بیگم نے سونیا کی عقل پر ماتم کیا

اچھا وہ لوگ جو خالہ کی جائیداد کے کاغذات دینے آئے تھے ویسے ماما یہ تو بڑی امیر پارٹی نکلی اگر خالہ کا مرحوم شوہر اتنا امیر تھا تو خالہ حویلی کیوں آئیں جہاں ان کی ٹکے کی عزت نہیں ہے ۔۔

اس لیے کیونکہ اس کے سسرال والوں اور شوہر کا قتل اسی جائیداد کی وجہ سے ہوا تھا اور اب جب یہ کیس عدالت کی طرف سے حل ہوگیا تو ان لوگوں کو ان کی جائیداد مل گئی

شائستہ بیگم نے گہری سوچ میں کھوئے ہوئے کہا 

.......

حماد تم کب رشتہ لاؤ گے میرے گھر میں نے پہلے ہی آغا سائیں سے اپنی پڑھائی کی ضد کرکے ان کو بہت مشکل سے ٹالا ہے اب تو میرا انٹر بھی پورا ہوگیا اب اس سے آگے میں نے پڑھنا بھی نہیں ہے اور ویسے بھی میری چھوٹی بہن کا رشتہ بھی ہوگیا ہے اب میں آغا سائیں کو اور نہیں ٹال سکتی شائستہ نے اپنی شال سے اپنا آدھا چہرہ چھپاتے ہوئے کہا 

یار شائستہ میں بات کروں گا مورے اور خان بابا سے مگر ایک مسئلہ ہے 

کیسا مسئلہ شائستہ نے حماد کا وجہہ چہرہ دیکھ کر کہا جا کی سرمئی آنکھیں دھوپ میں چمک رہیں تھیں 

یار میں نے تمہے بتایا تھا نہ کچھ لوگوں نے ہماری جائیداد پر قبضہ کیا ہوا ہے 

ہاں تو شائستہ کے ماتھے پر بل پڑے 

تو یہ شائستہ وہ کیس ابھی بھی اڑا ہوا ہے اس کا کچھ کہہ نہیں سکتے تو 

تو کیا حماد سیدھا سیدھا بتاؤ 

تو یہ کہ تب تک تم ہمارے چھوٹے سے گھر میں ایڈجسٹ کرلو گی دیکھو شائستہ تم فکر مت کرو یہ کیس ہم ضرور جیت لیں گے ہماری گاوں میں بہت ساری زمینیں اور جائیدادیں ہیں بس تھوڑا سا وقت لگے گا 

کتنا وقت شائستہ کے چہرے کی سنجیدگی ہنوز قائم تھا 

چھ ماہ سال یا دو سال یا۔۔۔

اس سے بھی زیادہ یا ساری زندگی آگے کی بات شائستہ نے پوری کی ۔۔۔

شائستہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں تمہاری ہر فرمائش پوری کروں گا بس تم میرا ساتھ دینا 

حماد اور بھی بہت کچھ کہہ رہا تھا مگر شائستہ خاموشی سے آکر گاڑی میں بیٹھ گئی ۔۔۔

شائستہ حویلی آئی تو حویلی میں تیاریاں عروج پر تھیں 

بھابھی سائیں یہ تیاریاں خیریت

شائستہ سائیں اشرف ادا سائیں آرہے ہیں کینیڈا سے 

وہ کینیڈا میں تھے شائستہ نے پھل کی ٹوکری میں سے سیب نکال کر دانتوں سے کترتے ہوئے پوچھا 

ہاں وہ کینیڈا میں تھے اب تو ہماری آنسہ سائیں بھی شادی کے بعد ان کے ساتھ کینیڈا چلی جائیں گی 

شائستہ کے سیب کھاتے ہاتھ تھمے

اچھا جی اب ہماری چھوٹی آنسہ سائیں سات سمندر پار چلی جائیں گی 

شائستہ نے آنسہ کے کندھے پر ٹہوکہ دے کر شرارت کے ساتھ کہا 

پھر اپنا بیگ اٹھا کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں 

اپنے کمرے میں آکر دروازہ بند کیا اور اپنا بیگ اٹھا کر زور سے دیوار پر دے مارا 

آنسہ کینیڈا جائے گی 

ہر گز نہیں 

کاش میں اس کنگلے حماد کی باتوں میں نہ آتی نہ میں آغا سائیں کو شادی کے لیے ٹالتی اور نہ ہی آنسہ کا رشتہ اتنی اچھی جگہ ہوتا 

شائستہ غصے سے ادھر اُدھر چکر کاٹنے لگی 

اسے اپنی بے بسی پر غصہ آرہا تھا 

شام کے وقت چھپکے سے بیٹھک میں لگے لینڈ لائن پر کال کرکے شائستہ نے حماد سے ہر تعلق ختم کرنے کا فیصلہ سنا دیا تھا اور اب حماد کی وہی جائیداد اب آنسہ کو ملنے جا رہی تھی 

ساری محنت میری ہوتی اور ہر چیز آنسہ کی جھولی میں ڈال دی  جاتی ہے مگر اس بار  نہیں ہر گز نہیں  

________

کہاں کھو گئیں ہیں آپ مما 

سونیا نے انہیں ہلایا 

ہاں ۔۔۔کیا کہہ رہی ہو 

آپ کہاں کھو گئیں ہیں

تمہارا رشتہ میں ساحر کے ساتھ تہہ کرنے والی ہوں شائستہ بیگم نے مکرو مسکراہٹ کے ساتھ سونیا کو دیکھ کر کہا جو پہلے تو چونک گئی پھر اپنی ماں کی طرح شاطرانہ مسکراہٹ ہونٹوں پر لیے ماں کے گلے لگ گئی 

مجھے منظور ہے مما 

_______

مما مما اتنے میں ابرار کمرے میں آیا 

ہاں بولو میرے بچے 

شائستہ بیگم ابرار۔ کے قریب آئیں 

مما آپ نے کس کی اجازت کے ساتھ میرا رشتہ حانم کے ساتھ تہہ کیا ہے 

کیا مطلب کس کی اجازت کے ساتھ میں ماں ہوں تمہاری مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے 

شائستہ بیگم کے ماتھے پر بل پڑے 

نہیں مما یہ میری زندگی ہے اور میں اسی کے ساتھ شادی کروں گا جس کے ساتھ میں نے زندگی گزارنی ہوئی 

مما یہ علینہ کی بات کر رہیں ہیں 

سونیا نے آگ لگائی 

تم اپنی بکواس بند کرو ابرار دھاڑا

ایک ایک منٹ علینہ کہاں سے آگئی ابرار میری بات کان کھول کر سن لو تمہارے شادی صرف اور صرف نور حانم کے ساتھ ہی ہو گی 

میں بی آپ ہی کا بیٹا ہوں اور اب یہ فیصلہ بابا ہی دبئی سے آکر کریں گے۔۔۔۔

________

پیرس !!!!

ہیلو اسلام علیکم جی خیال سے اب تک وکیل صاحب حویلی پہنچ چکے ہوں گے 

آپ یہ بتائیں آپ کب جارہے ہیں واپس میرے ساتھ حویلی

چلیں پھر ٹھیک ہوگیا انشاللہ پھر میں کل کی فلائٹ بک کرواتا ہوں اوکے 

اللّٰہ حافظ!!!!

زی !!!!

نور العین کی آواز پر زارون نے موبائل اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ڈالا 

کس کا فون تھا زی 

نور العین ٹیرس میں ہی اگئی

میرے سینیر کی کال تھی تم بتاؤ تمہارے بازو یا ماتھے میں درد تو نہیں ہورہا

نہیں زی بھوک لگی ہے اچھا اندر چلو میں کچھ آڈر کرتا ہوں  زارون نور العین کو شانے سے تھام کر اندر کی جانب بڑھ گیا 

نہیں زی آپ کچھ گھر پر بنا کر دیں 

اوکے مسسز زی جو آپ کا حکم 

ہاہاہاہا 

ساحر اور حانم کو ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے کافی وقت ہوگیا تھا حانم کا کندہ درد کر رہا تھا مگر وہ ہنوز بت بنی بیٹھی رہی جب ساحر کے کمرے کا دروازہ کھٹکا دونوں کو ہی ہوش آیا 

ساحر اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھا جبکہ حانم وہاں سے تھوڑا سائیڈ پر ہوگئی تاکہ آنے والی کی نظر اس پر نہ پڑے ۔۔۔۔

ساحر سائیں وہ آپ کو آغا سائیں۔۔۔۔۔

 اللّٰہ ساحر سائیں آپ کے ہاتھ سے تو خون بہہ رہا ہے صنم ساحر کے ہاتھ پر بندھی سرخ ہوتی پٹی کو دیکھ کر بوکھلائی 

کچھ نہیں ہوا میں ٹھیک ہوں تم کس لیے آئی ہو یہاں ہر ساحر نے سختی سے کہا وہ محسوس کر رہا تھا صنم اس کے معاملوں میں کافی دلچسپی لینے لگی ہے 

وہ ۔وہ آغا سائیں بلا ۔۔رہے تھے 

کیا انہوں نے تم سے کہا کہ مجھے بلاؤ

چہرے پر ہنوز سخت تاثرات قائم تھے

ن۔نہی۔ نہیں وہ ادا سائیں نے کہا

آج کے بعد تم مجھے میرے کمرے کے پاس نہ دیکھو 

جج۔جی۔۔ صنم اپنے آنسو کو اندر دکھیلتی  وہاں سے دوڑتی ہوئی چلی گئی 

ساحر واپس کمرے میں آیا تو حانم زمین پر گرے کانچ کے ٹکڑے اٹھا رہی تھی 

مت اٹھاو انہیں تمہے لگ جائیں گے 

ساحر نے اسے روکا 

اگر میں نے نہیں اٹھائیں تو آپ کو لگ جائیں گے حانم اس کی سرمئی آنکھوں میں دیکھ کر بولی 

تو لگ جانے دو ساحر بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا لہجے میں چھپی اذیت حانم کو آپ نے دل میں محسوس ہوئی

لگ لینے دیتی اگر آپ سے کوئی رشتہ نہ ہوتا مگر اب آپ سے  میرا رشتہ ہے اور میں اپنے رشتوں کے معاملے میں بہت پوزیسو ہوں 

کانچ کے ٹکڑے سائیڈ ٹیبل کے پاس پڑی بن میں ڈال کر حانم اس کے پاس سے ہوتی گزر گئی 

ساحر نے ایک نظر اس کی پشت کو دیکھا پھر آنکھیں بند کرکے گہرے گہرے سانس لینے لگا

_________

آغا سائیں نے ابرار کو ساحر کو بلانے کے لیے بھیجا تھا مگر راستے میں ہی علینہ کو دیکھ کر ابرار نے صنم کو ساحر کو بلانے کے لیے بھیج دیا 

تم کہاں تھی علینہ ؟؟؟

میں کب سے ڈھنڈ رہا تھا تمہے 

میں نے کہاں جانا ہے ادا سائیں

ادا سائیں؟؟؟ ابرار اس کے ادا کہنے پر حیران ہوا  

تم مجھے ادا کیوں کہہ رہی ہو علینہ 

ہمم اپنے سے بڑے کزنز کو ادا سائیں ہی کہتے ہیں ابرار ادا سائیں علینہ نے تحمل کے ساتھ کہا 

اففف اللہ علینہ تم۔۔۔۔

ویسے آپ کو مبارک ہو سونیا ادی سائیں نے بتایا آپ کا رشتہ پکا ہوگیا ہے 

سونیاااا۔۔۔ ابرار نے دانت پیسے 

آپ سے ایک درخواست ہے آپ پلیز حانم کو خوش رکھیے گا 

اپ۔۔۔

چپ ایک دم چپ کوئی رشتہ نہیں پکا ہوا میرا فضول بول کر گئی ہے وہ تمہے

کوئی نہیں ہورہی میری شادی حانم کے ساتھ غصے سے پیر پٹھکتا وہ وہاں سے نکل گیا 

________

صنم اپنے آنسو صاف کرتی کیچن میں آئی جب نورا دودھ گرم کرکے اس میں ہلدی ڈال رہی تھی

یہ ہلدی والا دودھ کس لیے 

یہ صنم بی بی سائیں حانم بی بی سائیں نے رکھوایا ہے اور ساحر ادا سائیں کے ہاتھ پر چوٹ لگ گئی ہے نہ اس کے لیے ۔۔۔۔

ہوگیا ہے دودھ تیار نورا 

اتنے میں حانم وہاں آگئی 

جی حانم بی بی سائیں حانم دودھ کا کپ لیکر کیچن سے جانے لگی جب اسے اپنے پیچھے سے صنم کی آواز آئی

آپ کیوں جارہی ہیں ان کے کمرے میں صنم کا لہجہ سنجیدہ تھا حانم نے اس کی طرف مڑ کر ایک آئی برو اُچکائی

کیوں صنم سائیں اب مجھے تمہاری اجازت کی ضرورت ہے اس بار حانم کے لہجے میں بھی نرمی غائب تھی 

ابھی تو نہیں مگر بہت جلد پڑے گی صنم پیر پٹھک کر وہاں سے چلی گئی ۔۔

اس کی عجیب و غریب بات پر حانم کے ماتھے پر بل پڑے

مگر وہ سر جھٹک کر ساحر والے پورشن کی جانب بڑھی

________

ہیلو زارون تو یہاں پاکستان میں 

اچھا کب 

کہاں آنا ہے اچھا میں پہنچ جاؤں گا۔۔۔

ساحر کی بات زارون سے ہوئی تھی جس نے اسے بتایا تھا کہ وہ صبح پاکستان لینڈ کر رہا ہے 

ساحر اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا جب اس کے کمرے کا دروازہ کھٹکا کر حانم اندر آگئی ایک ہاتھ میں دودھ کا گلاس اور دوسرے ہاتھ میں فرسٹ ایڈ کٹ پکڑی ہوئی تھی 

ہلدی والے دودھ سے زخم  جلدی بڑھ جاتے ہیں حانم نے آگے بڑھ کر دودھ سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور خود اس کے پاس صوفے پر جا کر بیٹھی 

یہ کپڑا خون سے بڑھ گیا ہے اس لیے نئی پٹی کروا لیں

نئی ٹھیک ہے ساحر نے اپنے زخمی ہاتھ کی مٹھی بند کھول کر کہا

میں نے پوچھا نہیں ہے میں نے کہا ہے پٹی کروا لیں 

ساحر حانم کا تحکم بڑھا انداز دل میں اتار رہا تھا ساحر کی نظریں اسی کی طرف تھیں جو اپنے کام میں مشغول اس کے ہاتھ کی پٹی بدل رہی تھی 

حانم کی باتوں کا اس کے دل ہی نہیں دماغ میں بھی خاصہ اثر پڑا تھا وہ اب ریلیکس تھا 

درد تو نہیں ہورہا مجھے لگتا ہے سٹیچیس لگوانے پڑیں گے زخم کا معائنہ کرتے ہوئے حانم نے کہا 

ہاں نہیں تم بس پٹی کردو مجھے کہیں جانا ہے 

خاموشی سے پٹی کرکے اٹھی اور واش روم سے ہاتھ دھو کر واپس جانے لگی 

ساحر کو اس کی خاموشی بری لگی تھی وہ شاہد ناراض ہوگئی 

اس نے سرعت میں حانم کا ہاتھ تھما 

ناراض ہو ؟؟؟

فرق پڑتا ہے ؟؟؟ حانم کا اندازہ استہزائیہ نہ تھا مگر سوالیہ ضرور تھا 

حانم کے سوال پر ساحر کو کچھ ہوا وہ کیا بتاتا جس دن ان کا نکاح ہوا تھا ساحر کتنا ہی وقت اپنے اللہ کی بارگاہ میں سجدہ شکر بجا لایا تھا تو اسے کیسے نہ فرق پڑتا

بہت فرق پڑتا ہے وہ حانم کے پاس ہوا 

تو پھر ابھی کہی مت جائیے گا 

اتنا کہہ کر حانم کمرے سے باہر نکل گئی

_________

صنم حانم کے پیچھے آئی اسے لگا تھا ساحر سائیں حانم کو بھی اسی کی طرح ڈانٹے گے مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا حانم دروازہ کھٹکا کر اندر چلی گئی جب پانچ منٹ تک حانم باہر نہیں آئی تو صنم غصے اور بے بسی سے وہاں سے چلی گئی۔۔۔

کیا ہوا صنم سائیں کہا جارہی ہو ۔۔۔۔

راستے میں ہی اس کو سونیا نے اچک لیا 

کیا ہوا ہے صنم اتنا غصہ 

غصہ نہ کروں تو کیا کروں میں جب ساحر سائیں کو بلانے گئی تو انہوں نے مجے ڈانٹ دیا مگر جب حانم ادی گئیں تو انہیں کچھ نہیں کہا

میں نے تو تمہے پہلے ہی کہا تھا صنم یہ جو تمہاری حانم ادی سائیں ہیں نہ وہ صرف اپنا بھلا چاہتی ہیں وہ کسی کی سگی نہیں ہے 

ویسے ساحر سائیں ہیں کہا پر 

کہاں ہوگے اپنے کمرے میں ہیں ان کے ہاتھ پر چوٹ لگی ہوئی ہے 

اچھا میں دیکھتی ہوں میرا مطلب میں دیکھتی ہوں حانم کو کیا کر رہی ہے تم ایک کام کرو زاویار سائیں کی تصویریں ہیں نہ تمہارے پاس 

لالہ سائیں کی تصویریں جی ہیں مگر ان کا کیا کرنا ہے

صنم نے نا سمجھی سے کہا 

تم سب گھر والوں کی نظروں سے بچا کر اسے زنان خانے کی طرف لگا دو وہاں حانم کے کہیں چکر لگتے ہیں خود ہی جب اس کی نظر ان تصویروں پر پڑے گی تو اسے تکلیف ہوگی پھر اسے احساس ہوگا تکلیف کسے کہتے ہیں 

م۔۔میں مگر کیسے سونیا آدی سائیں اگر کسی نے دیکھ لیا آگر آغا سائیں نے دیکھ لیا تو وہ مجھے چھوڑیں گے نہیں انہوں نے سختی سے منع کیا ہے ان کا زکر بھی نہ ہو تصویر تو دور کی بات ہے 

کیوں یہ گھر صرف اس حانم کا ہے تمہارا نہیں ہے ہم اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کرسکتے یاں پھر تمہے اپنے لالہ سائیں سے زیادہ حانم ادی عزیز ہے 

سونیا نے اس کا مائنڈ واش کیا

نہیں نہیں میں لے کر آتی ہوں ان کی تصویر ماما سائیں نے ان کے کمرے میں لگوانی تھی ۔۔

________

پیرس!!!!

کیا ہوگیا ہے عینی کیوں رو رہی ہو 

زی کیا آپ کا جانا ضروری ہے 

ہاں ۔۔۔قسم سے اگر میرا جانا ضروری نہ ہوتا تو میں کبھی تمہے اس حالت میں چھوڑ کر نہیں جاتا

نور العین !!!!!

زارون اپنی پیکنگ چھوڑ کر سیٹر پر بیٹھی نور العین کے پاس آیا

زی میرا دل گھبرا رہا ہے کیا میں نہیں چل سکتی آپ کے ساتھ پاک 

ضرور لے جاتا تمہے مگر ابھی تمہارے لیے سفر ٹھیک نہیں ہے

اچھا ٹھیک ہے عینی نے کیوٹ سا منہ بنایا 

اب دیکھ لو خود ہی ایسے ایکسپریشن بناتی ہو بندہ بشر اپنا ننھا سا دل لے کر کہا جائے زارون نے گال کھینچا آہ۔۔۔

زی  چپ کرکے پیکنگ کریں اور میرے لیے پائن ایپل پیزا آرڈر کرکے جائے گا 

اِئیو ۔۔۔ پیزا ود پائن ایپل یہ لڑکی میرے ٹیسٹ خراب کرے گی 

کیا کہاااا 

اندر سے عینی کی آواز آئی

کچھ نہیں میری جان ابھی کرتا ہوں آڈر ۔۔۔۔۔

________

کیسے ہیں آپ سر زارون اپنے سینئر کے گلے ملا 

الحمدللہ بچے تم بتاؤ اور ہماری بیٹی کیسی ہے ؟؟

الحمدللہ وہ بھی ٹھیک 

اچھا سر آپ تیار ہیں 

فلائٹ کی اناؤنسمنٹ ہو چکی ہے

ہممم ۔۔۔۔ 

________

پاکستان!!!!

حانم تمہے خالہ سائیں بلا رہیں ہیں وہ زنان خانے کے پچھلے حصے پر 

ماما سائیں حانم اپنے لیپ ٹاپ پر کام کرتی چونکی

ہممم خالہ سائیں

اچھا چلو حانم لیپ ٹاپ بند کرکے سونیا کے ساتھ زنان کھانے کی طرف بڑھی جب اس طرف ہاتھ میں بڑا سارا فریم پکڑے کرسی پر کھڑی صنم تصویر دیوار پر لگانے کی سعی کر رہی تھی 

دھیان سے صنم گڑ جاؤ گی حانم نے اس کے لڑکھڑاتے پاؤں دیکھ کر اس کے پاس آکر کہا 

اہ۔۔۔ ایک دم سے صنم کا پاؤں پھسلا حانم نے اسے سہارا دیا اسی اثنا میں صنم کے ہاتھ میں پکڑا وہ پریم زمین پر گر کر چکنا چور ہوگیا 

چھناکے کی آواز پر علینہ بھی اسی طرف اگئی

صنم نے حانم کا ہاتھ زور سے جھٹک کر فریم سیدھا کیا جس کا شیشہ ٹوٹ چکا تھا مگر حانم کی نظریں تو تصویر پر ہی ٹھہری ہوئیں تھیں 

سر زاوی !!!!

اس کے لبوں سے بے آواز سرگوشی نکلی 

یہ آپ نے جان بوجھ کر کیا ہے نہ حانم ادی آپ سے ہماری خوشی کیوں نہیں دیکھی جاتی پہلے ہی آپ کی وجہ سے زاویار ادا سائیں سے آغا سائیں نے سب تعلق تور لیے ہیں اب آپ سے ان کی ایک تصویر بھی نہیں برداشت ہورہی صنم نم آنکھوں سے فریم پکڑے حانم پر چیخی 

بس کرو صنم کس طرح بات کر رہی ہو تم حانم سے بڑی ہے تم سے 

بڑی ہے تو کیا علینہ بی بی یہ گھر صرف اسی کا ہے یاں آغا سائیں کی چہیتی ہونے کا شرف اسی کے پاس ہے اب ہم اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کر سکتے 

سونیا نے بھی کوئی کثر نہیں چھوڑی 

اچھا اپنی مرضی سے یہ تصویر لگاؤ گے حالانکہ تم لوگ اچھے سے جانتے ہوں آغا سائیں نے سختی سے منع کیا ہے

اور صنم تم سے مجھے یہ امید نہیں تھی علینہ اسے تاسف سے دیکھ کر حانم کی طرف بڑھی جس کی نظریں ابھی بھی اسی تصویر پر تھیں 

حانم حانم !!!

آہ ہاں علینہ

 تم ٹھیک ہو 

مجھے کیا ہونا ہے میں ٹھیک ہوں 

اور ٹھیک کہا انہوں نے یہ حویلی ان لوگوں کی بھی ہے تم لوگ جو چائے کرو مگر اپنے رحم و کرم پر میں نورا کو بھیجتی ہوں وہ اس تصویر کو صاف کرکے کوڑے میں مطلب اس کی اصلی جگہ پر ٹھکانے لگا آئے گی ۔۔۔۔۔

حانم کی یہ ہی بات بہت اچھی تھی وہ زیادہ باتوں کو دل پر نہیں لیتی تھی اور مشکلیں اپنے حواس نہیں کھوتی تھی ۔۔۔۔۔

________

آنسہ بیگم نماز پر کر اپنے بیڈ پر بیٹھی تسبی کر رہیں تھیں جب شائستہ بیگم ادھر ہی چلیں آئیں 

شائستہ ادی سائیں آنسہ بیگم چونک کر کھڑی ہوئیں 

بیٹھو بیٹھو آنسہ تم۔اے کوئی خدمت نہیں کروانے آئی میں 

شائستہ بیگم غرور کے ساتھ اپنی ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے آنسہ بیگم کے سامنے صوفے پر بیٹھ گئیں

کیوں آئیں ہیں آپ یہاں آنسہ بیگم کا لہجہ سخت ہوا 

ارے میری چھوٹی تم سے رشتہ جوڑنے آئیں ہوں 

رشتہ کیسا رشتہ ماتھے پر بل نمودار ہوئے 

ارے تمہارے ساحر کے لیے اپنی سونیا کو رشتہ 

آخر کون منہ لگائے گا تمہارے بیٹے کو یہ تو میں تمہاری بہن ہوں تم پر احسان کر رہی ہوں 

مت کریں مجھ پر اور میرے بیٹے پر احسان 

اچھا تو پھر کون کرے گا ساحر سے شادی جبکہ سب جانتے ہیں اس کی ماں کیسی ہے 

مگر حقیقت تو کچھ اور ہے شائستہ سائیں اور آپ بہت اچھے سے واقف ہیں حقیقت میں کون پاک دامن ہے اور کون داغدار 

ہاں میری چھوٹی مجھے اچھے سے یاد ہے وہ دن جب تم رات کے پہر چھت پر آئی تھی اور مجھے حماد کے ساتھ دیکھ کر چیخی تھی مگر کیا ضرورت تھی تمہے چیخ مارنے کی پھس گئی نہ تم خود ہی  خیر جتنا میں نے کہا ہے اتنا کرو ساحر اور سونیا کا رشتہ تہ کرنے آئی ہوں میں  

مگر میں ایسا نہیں کروں گی 

کرنا تو میں بھی نہیں چاہتی میری چھوٹی مگر وہ کیا نہ سونیا کی مت ماری گئی ہے 

اسے ساحر چائیے 

میرا بیٹا چائیے یاں اس کی دولت 

کیسی باتیں کر رہی ہو جب ساحر اس کا ہوگا تو دولت بھی تو اس کی ہوگی 

میری طرف سے صاف انکار ہے آپ جا سکتی ہیں 

اچھا تم شاہد ابھی اپنی بہن کو جانتی نہیں ہو آنسہ 

اگر برسو پہلے تمہے بدنام کرکے حویلی سے نکلوا سکتی ہوں تو ابھی بھی مجھے زیادہ وقت نہیں لگے گا ساتھ ساتھ خاندان کے ہر بچے کو تمہاری کرتوت بتاؤ گی تو اچھے سے سوچ لو ۔۔

اللّٰہ سائیں کے عزاب سے ڈریں اس نے آپ کی رسی دراز کی ہے تو اس کا مطلب کچھ بھی کریں گی جس دن رسی کھینچی گئی تو آپ کی روح تڑپ جائے گی

جاؤ جاؤ تمہاری بد دعاؤں سے کچھ نہیں ہو گا مجھے

شائستہ بیگم منہ بھاڑ کر وہاں سے چلی گئیں 

_________

ہیلو بابا جی کب تک آرہیں ہیں آپ ابرار فون پر موجود اشرف صاحب سے بولا

بس بیٹا سٹے کے لیے فلائٹ  کویت میں رکی ہے یہاں سے پاکستان کی فلائٹ لینی ہے پھر تمہے فون کروں گا مجھے حویلی لے جانا 

اوکے ٹھیک ہے بابا آپ اپنا دھیان رکھیے گا ۔۔۔۔۔

_________

رات ہوگئی ہے ساحر سائیں ابھی تک نہیں آئے حانم لان میں مسلسل ساحر کے انتظار میں چکر کاٹ رہی تھی جب اس کی نظر حویلی کی چھت پر پڑی 

__________

تم یہاں پر کیا کر رہے ہو میں نے منع کیا تھا نہ کہ اب مجھ سے رابطہ مت کرنا حویلی کا ایڈریس تمہے کس نے دیا ایک نسوانی سرگوشی چھت پہ گونجی جو مقابل کو ڈانٹ رہی تھی 

تم کیسے مجھ سے رابطہ ختم کر سکتی ہو

دیکھو یہاں سے نکل جاؤ اس سے پہلے کوئی اوپر آجائے 

میں کیسے چل جاؤ پہلے تم وعدہ کرو اپنے گھر والوں سے ہمارے رشتے کی بات کرو گی 

میں کیسے بات کروں میرا رشتہ تہہ ہوگیا ہے 

کیا مطلب رشتہ تہہ ہوگیا ہے اور میں میں کہاں گیا 

دیکھو یہ میرے گھر والوں کا فیصلہ ہے 

اچھا اور جب مجھ سے ڈھیروں گفٹ لیتی تھی تب کہاں گئے گھر والے مقابل نے اسے کندھے سے پکڑ کر جھنجھورا 

کب دونو کو اپنے پیچھے سے کسی کی آہٹ کی آواز آئی 

دونوں چونک کر مڑے 

تم یہاں پر کیا کر رہے ہو میں نے منع کیا تھا نہ کہ اب مجھ سے رابطہ مت کرنا حویلی کا ایڈریس تمہے کس نے دیا ایک نسوانی سرگوشی چھت پہ گونجی جو مقابل کو ڈانٹ رہی تھی 

تم کیسے مجھ سے رابطہ ختم کر سکتی ہو

دیکھو یہاں سے نکل جاؤ اس سے پہلے کوئی اوپر آجائے 

میں کیسے چل جاؤ پہلے تم وعدہ کرو اپنے گھر والوں سے ہمارے رشتے کی بات کرو گی 

میں کیسے بات کروں میرا رشتہ تہہ ہوگیا ہے 

کیا مطلب رشتہ تہہ ہوگیا ہے اور میں میں کہاں گیا 

دیکھو یہ میرے گھر والوں کا فیصلہ ہے 

اچھا اور جب مجھ سے ڈھیروں گفٹ لیتی تھی تب کہاں گئے گھر والے مقابل نے اسے کندھے سے پکڑ کر جھنجھورا 

کب دونو کو اپنے پیچھے سے کسی کی آہٹ کی آواز آئی 

دونوں چونک کر مڑے 

صنم !!!!!

سونیا ادی سائیں !!!!

صنم نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لیے اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ سونیا اس طرح حویلی میں کسی لڑکے سے مل سکتی ہے 

یہ۔یہ آپ ۔۔۔

دیکھو صنم چپ کر جاؤ یہ بات ادھر ہی ختم کردو

م۔م آپ ۔۔۔۔

اور تم جاؤ یہاں سے سونیا نے عزیم کو دھکیلا 

صنم میری بہن دیکھو یہ بات کسی کو مت بتانا میں نے بھی تو تمہاری ساحر سائیں والی بات چھپائی ہے سب سے 

سونیا کسی طریقے صنم کو قابو کرنا چا رہی تھی 

مگر سونیا ادی سائیں یہ لڑکا 

یہ میں اسے نہیں جانتی صنم یہ ہی میرے پیچھے پڑا ہوا تھا اب حویلی آگیا۔۔۔

صنم میں سچ۔۔۔۔۔ 

واہ واہ کیا کہنے ہیں تمہارے سونیا سائیں اتنے میں حانم زور زور سے تالیاں بجاتی وہاں پر آئی 

تم نے تو گھر پر ہی بلا لیا اپنے شہر جانے کا انتظار تو کرلیتی 

عزیم اپنے سامنے حویلی کی لڑکیوں کو دیکھ کر بوکھلا گیا اسی بوکھلاہٹ میں اس کا ہاتھ چھت کی دیوار پر لگا جہاں ٹانگے گئے تین سے چار گملے بیک وقت شور کے ساتھ حویلی کے برآمدے میں گرے

اسی شور کی عوض گھر والے برآمدے میں جمع ہونے لگے 

دیکھتے ہی دیکھتے پوری حویلی لائٹوں سے روشن ہوگئی

کون ہے اوپر میں بولتا ہوں کون ہے ؟؟ میر اخضر فوراً سیڑھیوں کی جانب دوڑا 

اس کے پیچھے سب گھر والے بھی چھٹ پر آئے 

عزیم جو تقریباً چھت سے لٹک چکا تھا اس سے پہلے چھلانگ لگاتا اخضر نے ہاتھ میں پکڑا پتھر اس کے سر پر مارا اور وہ وہی گر کر بے حوش ہوگیا 

سب ہی حویلی کی چھت پر موجود تھے آنسہ بیگم بھی اس منظر کو دیکھ کر ششدر رہ گئیں انہیں ایسا لگا کہ وقت خود کو دہرا رہا ہے مگر دیکھنا یہ تھا کہ اس بار سزا  کس کے مقدر میں لکھی جائے گی ۔۔۔

واہ کیا رکھوالی کی جاتی ہے حویلی کی آج سے پچیس سال پہلے بھی کوئی ہماری عزت پر گندی نگاہ رکھے حویلی میں گھس آیا تھا آور آج پھر دوسری دفعہ حویلی میں کوئی گھس آیا ہے ثمینہ جواد میر نے طنزیہ انداز میں کہا 

کون ہے یہ تم لوگ اس وقت چھت پر کیا کر رہی ہو۔۔۔۔ ستارا سالہ اخضر میر ان پر دھاڑا تھا 

کیا کر رہی تھی تم لوگ اوپر نورے میں کچھ پوچھ رہا ہوں اب کہ آغا سائیں نے سختی سے پوچھا 

اس سے پہلے حانم کچھ کہتی سونیا بول اٹھی آغا سائیں حانم اوپر چھت پر اس لڑکے کے ساتھ تھی میں اور صنم  

تو صرف ٹہلنے کے لیے آئے تھے 

کیوں صنم سونیا سچ کہہ رہی ہے 

میر جواد سائیں نے صنم کا بازو پکڑ کر پوچھا 

صنم تو سونیا کے الزام پر چپ ہوئی 

ہاں صنم بتاؤ سچ سب گھر والوں کو حانم نے پر سکون لہجے میں کہا 

ہاں ہاں صنم بتاؤ نہ گھر والوں کو کہ ہم اوپر آئے تھے

اور حانم اس لڑکے کے ساتھ کھڑی ہوکر باتیں کر رہی تھی

حانم ادی سائیں صنم نے دھیمی آواز میں کہا 

جب اس کے دماغ میں صبح والا منظر گھوما جب حانم ساحر کے کمرے میں گئی تھی 

جی آغا سائیں سونیا ادی سائیں سچ کہہ رہی ہیں 

میری طبیعت خراب ہورہی تھی تو سونیا ادی سائیں نے کہا کہ ہم چھت پر چکر لگا لیتے ہیں مگر جب ہم اوپر آئے تو۔۔۔۔۔ صنم نے بات ادھوری چھوڑی 

حانم کو صنم سے اتنے بڑے جھوٹ کی توقع نہیں تھی

دادا سائیں یہ جھوٹ۔۔۔۔۔حانم ابھی آغا میر حاکم سائیں سے کچھ کہتی میر جواد سائیں نے اشتعال میں آکر حانم کے منہ پر تھپڑ مارا

بھاری ہاتھ کے تھپڑ پر حانم کا ہونٹ پھٹ کر خون رسانے لگا 

آہ ۔۔۔ کیوں بولے گی میری بیٹی جھوٹ تم ہی رہ رہی ہو تن تنہا دوسرے ملک اور پتا نہیں کونسے گل کھلاتی رہی ہوگی 

شائستہ بیگم فوراً آگے ہوئیں 

وہ ہی شائستہ بیگم جو کل حانم کے صدقے واری جارہی تھیں 

آج اپنی بیٹی کو بچانے کی خاطر اس کے خلاف ہوگئیں 

حانم نے بے یقینی سے اپنے دادا سائیں کو دیکھا جنہوں نے نظریں پھیر لیں تھیں اس سے 

بڑے تایا سائیں کے تھپڑ کو تو فراموش کردیا تھا مگر آغا سائیں کا نظریہ چرانا 

حانم لب بھینچ کر آغا سائیں کے سامنے آئی 

اب آپ کیا کریں گے آغا سائیں مجھے قتل کردیں گے یاں آنسہ پھوپھو سائیں کی طرح مجھ پر احسان کرتے ہوئے کسی اجنبی سے میرا نکاح کردیں گے حانم کی بھوری آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں جیسے ابھی ہی خون چھلکا دیں گی 

اللّٰہ اللّٰہ کیسی تربیت کی ہے تم نے اس کی حالہ بیگم کیسے بے شرموں کی طرح گناہ کرکے بھی منہ پھاڑ کر کھڑی ہے آغا سائیں کے سامنے 

شائستہ بیگم نے دونوں ہاتھوں سے اپنے گال پیٹے حالہ بیگم خاموشی سے کھڑی اپنی حانم کو دیکھ رہی تھیں اس لیے نہیں کہ انہیں حانم ہر یقین نہیں تھا

 بلکہ اس لیے کہ انہیں  حانم پر پورا یقین تھا وہ کبھی بھی خود پر اس جھوٹے بہتان کو ثابت نہیں ہونے دے گی

آج کے بعد ہمیں اپنا چہرہ مت دکھانا  مت دکھانا آغا سائیں نے اشتعال انگیز لہجے میں کہا

کیا مطلب آغا سائیں صرف قطع تعلقی اسے تو سنگسار کردینا چاہیے 

شائستہ بیگم آگے آئیں 

میر جاوید سائیں کی بھی آنکھوں میں حقارت تھی

سنگسار تو آپ ہوں گی شائستہ بیگم حانم کی آنکھوں میں چمک آئی شائستہ بیگم بھی ایک پل کو ڈری

بکواس بند کرو بد زبان لڑکی اس سے پہلے جواد میر دوسری دفعہ حانم پر ہاتھ اٹھاتے کسی نے ان کا ہاتھ ہوا میں ہی روک لیا

حانم کو ہاتھ بھی مت لگائے گا مومو سائیں نہیں تو میں لحاظ نہیں کروں گا۔۔

تم ہوتے کون ہو مجھے روکنے والے ساری زندگی ہمارے ٹکروں میں پلنے والے اب ہمیں روکو گے میر جواد سائیں بھڑکے اور زور سے اپنا ہاتھ جھٹکا 

ساحر سائیں حانم اس لڑکے کے ساتھ پکڑی۔۔۔۔۔

سونیا نے آگے ہوکر ساحر کو حانم سے بدگمان کرنا چاہا

بکواس بند کرو تم لڑکی 

ساحر کی دھاڑ پر اچھل کے پیچھے ہوئی

ساحر حانم کے پاس آیا جس کے ہونٹ سے خون نکل رہا تھا 

ساحر نے اپنی کمیز کی جیب سے ٹشو نکال کر اسے پکڑایا 

اور پھر آغا سائیں کے سامنے کھڑا ہوا آپ کو تو بہت محبت بہت من تھا اپنی نورے پر تو کہاں گیا وہ یقین وہ مان 

تم ہمارے گھر کے معاملوں سے دور رہوں ساحر سائیں یہ نہ ہو کہ ہم تمہے بھی اس حویلی سے چلتا کریں 

اب ٹھرنے کا کوئی جواز بنتا بھی نہیں ہے آغا سائیں ساحر نے غصے سے کہا 

اور لڑکی نکلو تم بھی آغا سائیں نے حانم کی طرف اشارہ کیا 

ضرور میر حاکم سائیں ضرور۔

جب وہ ان کی نورے نہیں رہی تو وہ کہاں اس کے دادا سائیں رہے تھے 

مگر میں جانے سے پہلے اپنی بے گناہی ضرور ثابت کروں گی 

وہ کیا ہے نہ دشمنوں کو ابھی پتا نہیں اس بار ان کا سامنا آنسہ بیگم سے نہیں بلکہ نور حانم سے ہوا ہے 

حانم دھیرے چلتی چھت کے دروازے کی طرف بنی کھڑکی میں پڑے اپنے فون کو لے کر آئی

سب سے پہلے تو بڑے تایا سائیں کیا بات ہے آپ کی غیرت کی

حانم جواد سائیں کے پاس آئی

آپ شکر کریں آپ کی بیٹی کو بچا لیا میں نے آج میں یہاں نہ ہوتی تو آج یہ الزام صنم کے اوپر آتا مگر میرا ایک سوال ہے کیا آپ ایسے ہی صنم کے منہ پر بھی تھپڑ مارتے اس کا بھی نکاح اس شخص سے کروا دیتے یا قتل والا اوپشن چنتے 

حانم نے طنزیہ لہجے میں کہا جواد میر سے کہا جن کی مٹھیاں بھینجی ہوئی تھی 

صنم کی روح ایک پل کو لرز گئی

کیوں لگتا الزام میری بچی پر ثمینہ جواد بھرکی 

تائی سائیں خود ہی دیکھ لیں 

حانم نے اپنے فون پر ویڈیو چلائی جس میں چھت کا منظر نظر آرہا تھا 

اور ویڈیو میں نظر آنے والی اور کوئی نہیں سونیا تھی جس کا ہاتھ اس لڑکے نے پکڑا ہوا تھا ابھی وہ باتیں کر ہی رہے تھے جب صنم اوپر آئی سونیا صنم کو منانے کی کوششوں میں لگی تھی تب حانم کا وہاں آنا 

صنم کو اپنے چہرے پر پسینے کی بوندیں محسوس ہوئیں 

آغا سائیں بھی بے یقینی سے یہ سب دیکھ رہے تھے 

______

کیا ہوا تایا سائیں سانپ کیوں سونگھ گیا 

ابھی تو آگاہی کے لمحے شروع ہوئے ہیں ابھی تو بہت کچھ جاننا باقی ہے آپ لوگوں کا 

حانم نے پرسو والی ویڈو چلائی جو اس نے شائستہ بیگم اور آنسہ بیگم کی چھپ کر بنائی تھی۔۔۔۔

ہاں میری چھوٹی مجھے اچھے سے یاد ہے وہ دن جب تم رات کے پہر چھت پر آئی تھی اور مجھے حماد کے ساتھ دیکھ کر چیخی تھی مگر کیا ضرورت تھی تمہے چیخ مارنے کی پھس گئی نہ تم خود ہی  خیر جتنا میں نے کہا ہے اتنا کرو ساحر اور سونیا کا رشتہ تہ کرنے آئی ہوں میں

حانم کے لیپ ٹاپ میں موجود وہ ویڈیو دیکھ کر سب بے یقین تھے پچیس سال پہلے ہوئے واقع کا سچ آج سب کے سامنے اس گھناؤنی سازش کے پیچھے کا مجرم خود اپنے منہ سے اپنے گناہ کا اعتراف کر رہی تھی 

شائستہ بیگم آنکھیں پھاڑے اپنی اور آنسہ کی کل کی گفتگو کی ویڈیو دیکھ رہی تھی 

یہ ۔یہ جھوٹ ہے 

یہ سب ابھی ان کے الفاظ پورے بھی نہیں۔ ہوئے ان کے منہ پر تھپڑ پرا 

اشرف سائیں!!!! آپ 

ہاں میں اچھا ہی ہوا تمہارے سچائی میرے سامنے اگئی

کتنی مکار عورت نکلی تم شائستہ

مجھے لگا تمہے صرف دولت کی لالچ رہی ہے مگر پھر بھی ساری زندگی تمہارے ساتھ صرف اپنے بچوں کی خاطر گزار دی 

مگر تم اس حد تک گزر جاؤ گی ابرار نے بھی بے یقینی سے اپنی ماں کا یہ روپ دیکھا

آنسہ آغا سائیں کی تکلیف سے بھر پور آواز نکلی

آنسہ بیگم نے اپنے آنسو صاف کیے آج وہ سرخ رو ہوگئیں تھیں تو آج کیسے آنسو 

میں خوش ہوں آغا سائیں میں بہت خوش ہوں میں آج سرخ رو ہوگئی 

آپ لوگوں نے تو مجھے دربدر کردیا مگر میرے اللہ نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا جب میرے آگے مجھ پر یقین نہیں کر پائے تو میری مورے میرے خان بابا نے مجھ پر یقین کیا حماد خان نے مجھے عزت دی میں نے اپنی زندگی کے حسین

چار سال ان کی سنگت میں گزارے 

اور وہ چار سال اور میرا بیٹا ہی میری زندگی کے کل اثاثے ہیں اور آج میری حانم نے مجھ پر سے سارے الزامات ہٹا کر مجھے سرخ رو کردیا اب بس ایک ہی دعا ہے کبھی زندگی آپ لوگوں کا چہرہ نہ دیکھو مجھے موت آجائے اور میں اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤں 

مورے ساحر نے تڑپ کر انہیں پکارا

شائستہ بیگم نے غصے سے پاگل ہوتے آنسہ بیگم کو دھکا دیا اس سے پہلے وہ سیڑھیوں کی جانب گڑتیں کسی نے انہیں تھامہ

شائستہ بیگم نے غصے سے پاگل ہوتے آنسہ بیگم کو دھکا دیا اس سے پہلے وہ سیڑھیوں کی جانب گڑتیں کسی نے انہیں تھامہ۔۔

وہ سرمائی آنکھیں آنسہ کیسے انہیں بھول سکتی تھی

وہ سب کچھ بھلائے ان آنکھوں میں دیکھ رہیں تھیں جب حماد خان نے انہیں سہارا دے کر اپنے ساتھ کھڑا کیا 

جہاں باقی گھر والے حماد کو دیکھ کر حیرت میں ڈوب گئے وہی آنسہ بیگم کی بے یقین آنکھیں حماد خان پر ٹکی ہوئی تھی 

مجھے افسوس ہے آپ لوگوں پر جو آنکھیں ہونے کے باوجود اندھے رہے 

مگر بس میرا بیٹا اور میری بیوی اب ایک لمحے کے لیے بھی اس حویلی میں نہیں رہیں گے 

چلیں آنسہ حماد خان نے پورے حق کے ساتھ آنسہ بیگم کا ہاتھ تھامہ جنہوں نے بغیر کسی مزاحمت کے اپنا ہاتھ انہیں تھما دیا 

برسو پہلے آپ نے ہم سے سارے رشتے توڑ کر ہمیں یہاں سے نکال دیا تھا آج میں کہتا ہوں میری بیوی اور بیٹے کا اس حویلی اور ان حویلی والوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔

چلیں ۔

ساحر سائیں آغا سائیں نے اسے پکارا 

ساحر حماد خان آغا سائیں تصیح کرلیں 

حماد خان نے ایک ہاتھ آنسہ بیگم کا تھاما اور دوسرا ہاتھ ساحر کا ۔۔۔۔

حانم دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی آغا سائیں کے سامنے آئی

میں سنا تھا میر حاکم سائیں کہ میری طرح آنسہ حاکم آپ کی لاڈلی بیٹی تھی مگر اپنی لاڈلیوں کو محبت دینے کے ساتھ ساتھ چند مہریں اعتبار کی بھی تھما دیتے تو آج آپ شرمندہ نہ ہوتے  خیر اب جانا تو ہے ہی میں نے اپنے شوہر کے ساتھ

شوہر ایک اور جھٹکا تھا 

آج شاہد آگہی کا دن تھا حویلی والوں کے لیے لمحہ بہ لمحہ ایک نیا راز کھلتا 

حانم نے ایک نظر حالہ بیگم کو دیکھا جنہوں نے مسکرا کر حانم کواپنی رضا مندی کا عندیہ دیا 

کہاں جارہے ہیں ساحر سائیں مجھے چھوڑ کر کیا اس لیے نکاح کیا تھا میرا ساتھ 

نکاح !!!!

حانم کی آواز پر ساحر کے بڑھتے قدم تھمے بے ساختہ اس کی نظر حالہ بیگم پر گئی انہوں نے اسبات میں سر ہلایا 

ساحر خان نے بھی بنا دیر کیے اپنا ہاتھ حانم کے آگے پھیلایا 

حانم صنم کے کندھے کو ٹک کرتی اس کے پاس سے گزرتی ساحر کا ہاتھ تھام گئی 

وہ چاروں وہاں سے ہوتے حویلی سے باہر نکل گئے کبھی نہ واپس آنے کے عہد کے ساتھ

نورے آغا سائیں کے قدم لہرائے

شائستہ بیگم جو ان کے پاس ہی کھڑی تھیں 

انہیں تھامنے آگے ہوئیں 

دور رہو مجھ سے اپنا ہاتھ بھی نہ لگانا مجھے آغا سائیں اس کا ہاتھ جھٹک گئے 

سب ہی اپنی جگہ شرمندہ تھے صنم کو باقائدہ کانپ رہی تھی 

جس کی خاطر اس نے اتنے گناہ کیے حانم پر بہتان لگائیے وہ تو اس کا تھا ہی نہیں 

________

وہ چاروں خان ولا میں داخل ہوئے آنسہ بیگم اتنے سالوں بعد خان ولا کو دیکھ کر رو پڑی انہیں اپنی زندگی کے وہ خوبصورت سال یاد آئے جو انہیں نے خان ولا میں گزارے تھے وہ آخری دن بھی جب ساحر کی سالگرہ کا فنکشن تھا۔۔۔

یار آنسہ آپ اس طرح روئیں گی تو مجھے تکلیف ہوگی حماد خان نے ان کے آنسو صاف کیے 

خان سائیں مورے اور خان بابا 

ایک بار پھر ان کی آنکھیں چھلکنیں لگیں 

حماد خان نے ان پاس بیٹھ کر انہیں سہارا دیا 

ساحر اور حانم دوسرے پورشن میں جا چکے تھے دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما ہوا تھا اوپر آکر حانم نے  غصے سےاپنا ہاتھ چھڑوا لیا 

کیا ہوا ساحر اس کا غصہ کرنے پر چونکا اور پھر اس کا ہاتھ پکڑ لیا 

مجھے بھول گئے تھے ادھر اکیلا ہی چھوڑ کر آرہے تھے اب کیوں ہاتھ تھام رہیں ہیں چھوڑیں  

حانم نے نتھے پھلا کر شکوہ کناں لہجے میں کہا

پہلی بات تمہے کیسے بھلا سکتا ہوں اور دوسری بات یہ ہاتھ چھوڑنے کے لیے تھوڑی نہ تھاما ہے

پھر بھی میں آواز نہ دیتی تو آپ تو چلے ہی گئے تھے لہجے میں ابھی بھی خفگی تھی

مجھے لگا اس سچویشن میں تمہے ساتھ لے کر جانا

ٹھیک نہیں اور حالہ ممانی سائیں بھی تو ادھر ہی تھی 

دیکھیں ساحر سائیں میں نے آپ کو پہلے ہی کہا تھا میں اپنے رشتوں کو لے کر بیت پوزیسو ہوں اور آپ کے ساتھ جڑے رشتے کو بھی قبول کر لی ہوں 

اور رہی ماما سائیں کی بات انہیں میں وہاں اس حویلی میں ہرگز نہیں رہنے دوں گی 

انشاللہ ممانی سائیں کو بھی ہم ادھر ہی لے آئیں گے ویسے آج تم نے جس عقل مندی کے ساتھ خود کے ساتھ ساتھ مورے کے اوپر سے سارے الزام جھوٹے ثابت کیے ہیں میں ساری زندگی تمہارا احسان مند رہوں گا

ساحر نے اس کے دونوں ہاتھ تھامے

مگر ساحر سائیں میرے ثبوت دکھانے سے پہلے ہی آپ نے میرا ساتھ دیا اور مجھ سے کوئی سوال نہیں کیا تھا کیا آپ کو مجھ پر یقین تھا حانم نے کب سے اپنے دل میں پلتے سوال کو لبوں کے راستے آزاد کیا۔۔۔۔

جب تم میری ہر بات پر بغیر کسی عزر کے مان لیتی تھی تو میرا تو معاملہ ہی الگ تھا میرے نزدیک "محبت" میں اعتبار پہلی شرط ہے 

حانم چونک گئی اگر وہ نکاح کا لفظ استعمال کیا ہوتا کہ نکاح جیسے رشتے میں اعتبار ضروری ہے تو وہ اتنا نہ چونکتی مگر اس نے معاً "محبت" کا لفظ استعمال کیا تھا 

حانم کا دل زور سے دھڑکا یہ احساس تو نیا تھا

کیا ہوا تم ٹھیک ہو؟؟

ساحر نے اسے مہو ہوکر دیکھنے پر مخاطب کیا 

تم نہیں ساحر سائیں نور حانم اللّٰہ سائیں کا واسطہ ہے میرا نام نورِ حانم ساحر میر ہے ساحر شاہد اس نے لاشعوری طور لگا دیا پھر زبان دبا گئی

اس کے نام کے ساتھ اپنے نام کا اضافہ ساحر کو سرشار کرگیا 

ایک گہرہ مسکراہٹ اس کے منچھوں تلے عنابی لبوں پر آئی

تم جاننا چاہو گی کہ میں تمہے تمہارے نام سے کیوں نہیں پکارتا 

ہم جی بتا ہی دے آج حانم نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی کمر پر رکھے 

اس لیے کہ تمہے نورِ ساحر کہنا چاہتا تھا میں نے کبھی نہیں سوچا تھا مجھ گناہ گار پر بھی اللّٰہ اتنا مہر بان ہوگا کہ میری یہ خواہش پوری ہو جائے گی 

حانم اس کے لہجے میں کھو گئی 

مگر آج میں ہوتا حق رکھتا ہوں تمہے نورِ ساحر کہنے کا ساحر نے ایک بار پھر اس کے ہاتھ تھام لیے 

حانم کے چہرے پر بے شمار رنگ بکھرے 

وہ ۔وہ ساحر سائیں شاید وہ پہلی دفع ساحر کے سامنے کنفیوژ ہورہی تھی 

ساحر سائیں آپ نے بتایا نہیں حماد انکل سائیں یہاں کیسے مطلب وہ تو ۔۔۔۔۔

ساحر سائیں آپ نے بتایا نہیں حماد انکل سائیں یہاں کیسے مطلب وہ تو ۔۔۔۔۔

کچھ دیر پہلے !!!!

ہیلو زارون ہاں یار میں پہنچ گیا ہوں تیرے فارم ہاؤس پہ ہاں 1215 پہ اچھا 

تھوری دیر بعد زارون نے دروازہ کھولا تو ساحر اس کے ساتھ ہی اندر بڑھ گیا 

کیا ارجنٹ بات تھی زی جو تو اتنی دور پاکستان ہی آ۔۔۔۔۔۔

ساحر کا باقی کا جملہ اپنے سامنے کھڑے حماد خان کو دیکھ کر منہ میں ہی رہ گیا 

وہ بے یقینی سے اپنے سامنے کھڑے حماد خان کو دیکھ رہا تھا جن کی آنکھیں میں نمی اور ہونٹوں پر دھیمی سی مسکراہٹ تھیں ۔۔۔

خان ان سے مل یہ میرے سینیر آفسر ہیں حماد خان ۔۔۔

کیا بات ہے میرے شیر باپ کے گلے نہیں لگو گے ؟؟

حماد خان نے اپنے بازو واہ کیے ساحر بنا دیر کیے اپنے باپ کے گلے لگا جس کا لمس اس نے اس عمر میں کھو دیا تھا جب بچے کو پہچان نہیں ہوتی آج اپنے بابا کے گلے لگ کر وہ بالکل بچوں کی طرح رویا 

بابا آپ کہاں تھے ؟؟بابا سائیں

میرا شیر بہت بہادر ہے ماشاءاللہ بہت ترقی کی ہے میرے چھوٹے خان نے حماد خان نے فخر کے ساتھ کہا

کہاں تھے آپ بابا ہمیں ان سفاک لوگوں کے رحم کرم میں چھوڑ کر 

میرے بچے میں مجبور تھا ان کے لہجے میں بے بسی تھی۔۔

ایسی بھی کیا مجبوری تھی ساحر بے تاب تھا جاننے کے لیے 

  اگر بات میری زندگی کی ہوتی ہو میں کسی کی بھی پروا کیے بغیر تم لوگوں کو وہاں سے نکال لیتا مگر بات تمہاری اور آنسہ کی زندگی کی تھی جس کے آگے میں بے بس تھا 

ہوا کیا تھا بابا سائیں ؟؟

پچیس سال پہلے۔۔۔۔

آنسہ ہماری جائیداد ہمیں واپس مل گئی ہے آنسہ حماد خان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا 

مگر یہ خوشی چند دنوں کی تھی انہیں اپنے چچا کی طرف سے دھمکی بھرے پیغام آنے لگ پڑے ایک دو دفعہ تو اس کی اپنے کزنز کے ساتھ ہاتھا پائی بھی ہوچکی تھی مگر حماد نے یہ بات گھر میں کسی کو بھی نہ بتائی آنسہ کی طبیعت بھی اسے کسی طرح کا سٹریس لینے کی اجازت نہیں دے رہی تھی 

حماد کا انٹرسٹ شروع سے ہی آرمی یا پولیس جوائن کرنے کا تھا مگر وہ دونوں ہی اپنی مجبوریوں اور کچھ گھر کے حالات کی وجہ سے جوائن نہیں کر پایا کچھ خان بابا کی بگڑتی طبیعت اس نے اپنا خواب فراموش کردیا پھر ایک دن جب وہ اپنے چچا سائیں کے گھر ان سے اپنے حق کی بات کرنے گیا تھا اس کے ہاتھ چند فائلیں لگیں جنہیں اس نے صرف تجسس کے ہاتھوں ہی پکڑی تھی مگر وہ ان لوگوں کی گھناؤنی سازشوں کا انبار  خود میں سمائی ہوئی تھیں

انہیں دنوں میری ملاقات زارون کے بابا سے ہوئی جو ایک کوپ تھے کوپ ان کا ڈائریکٹ تعلق آرمی یا پولیس کے ساتھ نہیں تھا یہ ایک الگ تنظم تھی جس کا کام بھی ملک میں امن کی فضا قائم کرنا تھا مگر ان کا کوئی مخصوص لباس یا مخصوص ٹھکانہ نہیں تھا 

اکرم کے ساتھ حماد کی کافی اچھی دوستی ہوگئی تھی اکرم کا ایک بیٹا تھا آٹھ سال کا اور بیوی کا انتقال ہوچکا تھا اکرم اپنی جوب کے ساتھ ساتھ  ایک بزنس کو بھی رن کر رہا تھا  اب جائیداد تو حماد خان کو مل ہی چکی تھی تو اس نے بھی اکرم کے ساتھ بزنس میں حصہ ڈالا اور دوسری طرف حماد نے کوپ میں آنے کا انٹرسٹ شو کیا 

 ان کا پہلا کیس ہی حماد کے چچا کے خلاف تھا اور خوش قسمتی کے ساتھ حماد کے پاس ان کے خلاف کافی ثبوت تھے مگر جب وہ اس کیس میں پوری طرح انواو ہوا تو ان دونوں کو ہی احساس ہوا یہ کوئی چھوٹے موٹے مجرم نہیں یہ لوگ بیک وقت کہیں کاموں میں ملوث ہیں 

 سالگرہ والی رات ۔۔؟۔

حماد خان گاڑی میں بیٹھا ہوا مورے اور خان بابا کا انتظار کر رہا تھا جب وہ دونوں گاڑی میں آکر بیٹھے 

اففف آج تو بہت تھک گئے مورے نے گہرا سانس لینے ہوئے کہا 

کہاں مورے گھر جاتے ہی آپ نے ساحر کو پکڑ لینا ہے پھر کہاں کی تھکن 

حماد خان نے انہیں چڑایا 

ہاں تو ساحر ہماری جان ہے خان بابا نے بھی مورے کی ہاں میں ہاں ملائی

اچھا اب وہ کل کا آیا بچہ جان ہوگیا 

صحیح کہتے ہیں اصل سے سود پیارا ہوتا ہے

وہ کسی بچے کی طرح روٹھے 

شرم کرو چھوٹے خان تمہارا بیٹا ہے 

ہاہاہا او شٹ یاد آیا آنسہ نے مجھے ایک اور کیک لانے کا کہا تھا راستے میں حماد نے گاڑی بیکری کا آگے رکوائی

اففف ہماری بچی کو کام پر لگایا ہوا ہے خود چیزیں بھول جاتے ہو مورے نے پھر طعنہ دیا

ہائے ہماری حسرتوں میں سے ایک حسرت ساس بہو کی لڑائی دیکھنا 

ہاہاہا حماد خان کے ساتھ خان بابا کا بھی قہقہ گونجا 

مارا لڑے تمہارے دشمن وہ ہماری دھی ہے سمجھے اور تم سے بھی زیادہ عزیز ہے ہمیں ۔۔۔

واللہ

اچھا آپ لوگ روکے میں پانچ منٹ میں کیک لے کر آیا 

حماد جب بیکری سے باہر نکل کر آیا جو کچھ لوگ مورے اور خان بابا پر گولیاں چلا رہے تھے حماد کے ہاتھ سے کیک کا ڈبہ گڑا مورے وہ چیخا ایک گولی اس بازو چیرتے ہوئے وہاں سے نکل گئی اور پھر ایک دھماکہ ہوا ۔۔۔۔۔

مجھے جب ہوش آیا تو میں بستر پر تھا میرے بازوؤں سے بیک وقت کہیں ساری مشینیں جڑی ہوئیں تھی 

نرس آئی سی یو میں مجھے ہوش میں دیکھ کر ڈاکٹر کو بلانے چلی گئی پھر اکبر اندر ایا اور اس نے مجھے بتایا کہ میں پچھلے دو سال سے قومہ میں تھا 

 یہ بات سن کر صدمے میں چلاگیا مجھے یقین ہی نہیں آیا پھر چھ مہینے مجھے صحیح ہونے میں لگے میں بے تاب تھا اپنے گھر والوں کے بارے میں جاننے کے لیے مگر جب مجھے یہ خبر ملی کہ مورے اور بابا تو ڈھائی سال پہلے ہی مر چکے ہیں اور اس کی ساری جائیداد دشمنوں نے ہتھیالی ہے تو مجھے سب سے پہلے آنسہ اور اپنے چھوٹے سے بیٹے کا خیال آیا ان کا تو میرے سوا کوئی بھی نہیں یے میرے اندر بدلہ لینے کا خون سر پر سوار ہوا مگر یہ سب اتنا آسان نہیں تھا دشمن رفتہ رفتہ اور طاقتور ہوگئے تھے 

میں نے جب شروع شروع میں آنسہ سے ملنے کی خواہش اپنی ٹیم کے سامنے کی تو انہیں نے مجھے اجازت نہیں دی بقول ان کے آنسہ کے نزدیک میں مر چکا ہوں اس دن انہوں نے کسی اور کی جلی ہوئی لاش کو میرے کپڑے پہنا کر خان ولا میں بھیجا تھا اس کا مقصد دشمنوں کو راہ سے بھٹکانہ تھا جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے اور یہ آنسہ اور ساحر کی زندگی کے لیے بھی ضروری تھا اگر ان کا پتا لگتا کہ ساحر خان کی اولاد بھی ہے اس کی جائیداد کا وارث تو وہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیتے

حماد کی شادی جن حالات میں ہوئی تھی اس کی خبر بہت کم ہی لوگوں کو تھی اس لیے وہ اس مسلئے سے بچ گیا تھا 

حماد اپنے فرض اور ان دونوں کی زندگیوں کی خاطر ان سے دور ہوگیا تھا مگر ان پر نظر بھی رکھی ہوئی تھی 

مسئلہ تو تب بنا جب حماد کو خبر ہوئی کہ حویلی ہوالے آنسہ کی زبردستی شادی کروانا چاہتے ہیں تو اسکی بس ہوئی اور وہ بھیس بدل کر حویلی تک پہنچا مگر جانے کیسے دشمنوں کو آنسہ اور ساحر کی خبر ہوئی ان دونوں پر حملہ ہوا جس کو حماد اور اس کی ٹیم نے صفائی کے ساتھ ہینڈل کیا 

حماد اس حادثے کے بعد حقیقتاً ڈر گیا تھا اپنے بچے اور بیوی کو کھونے کے ڈر سے پھر اس کا ایک اور سہارا اکرم شہید ہوگیا اور اٹھارہ سالہ زارون یتیم 

زارون بھی اپنے باپ کی طرح محب وطن تھا اور اس کا مقصد بھی وہ ہی تھا حماد نے زارون کو فردر ٹرینگ کے لیے اور پڑھائی مکمل کرنے لیے پیرس بھیج دیا 

پیرس سے واپس آکر زارون کی ملاقات ساحر سے ہوئی جو صرف اتفاق تھا ساحر نے ایکسیڈنٹ میں اس کی جان بچائی تھی پھر زارون کو ساحر کے قریب رہنے کا موقع مل گیا اور پھر ساحر نے چند پیسوں سے اور اپنی محنت سے زارون کے ساتھ پیرس میں اپنا بزنس سٹارٹ کیا 

حماد خان بھی اپنے بیٹے کے قریب ہوگیا ۔۔

حماد کے دونوں کزنز کا آپس میں ایک دوسرے کا قتل بھی انہیں لوگوں کی سوچیں سمجھی سازش تھی ان سالوں میں کتنے ہی لوگوں کو ان کے انجام تک پہنچایا تھا ہاتھ نہیں جا رہا تھا تو کبیر خان پر نہیں جارہا تھا 

مگر کہتے ہیں کچھ کاموں کا وقت تعین ہوتا ہے سو اس کام کو بھی وقت لگنا تھا پر حماد خان نے کبیر کو خود اپنے ہاتھوں سے جہنم واصل کرکے اس سمیت اس کی پوری فیکٹری کو آگ لگوائی تھی 

اور اب جب سب کچھ ان کو واپس مل گیا تھا تو حماد خان نے بھی منظر عام پر آنے کا سوچا 

یار خان مجھ سے ناراض مت ہوئیں میں واقع مجبور ۔۔۔۔۔۔

ابھی زی آگے کچھ بولتا ساحر اس کے گلے لگ گیا 

زارون نے بھی مسکرا کر اپنی گرفت مضبوط کی۔۔۔

________ 

چاروں کی ہی آنکھیں نم تھی ماضی یاد کرکے نیچھے والے پورشن پر ٹیوی لاؤنج میں موجود آنسہ اور حماد کی اور اوپر والے پورشن میں کمرے میں  موجود ساحر اور حانم کی ۔۔۔۔

_________

حویلی کے سب لوگ اس وقت بیٹھک میں موجود تھے آغا سائیں اپنے سربراہی صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے ان کے سامنے شائستہ بیگم سر جھکائے کھڑی تھیں 

جود اور جاوید میر خود سے ہی نظریں نہیں ملا پارہے تھے وہ دونوں جس حقارت کے ساتھ آنسہ کو دیکھتے تھے آج ان کا دل کیا خود ہی ڈوب مریں ۔۔۔

وہ لڑکا عزیم نام کا اسے بھی ہوش آچکا تھا اس نے سب سچ بتا دیا کہ کس طرح اس کی ملاقات سونیا سے ہوئی سونیا کی پیش قدمی اس سے تحفے منگوانا 

اشرف میر نے ایک کڑاکے دار تھپڑ سونیا کے چہرے پر رسید کیا تھا 

وہ باپ جس نے کبھی اونچی آواز میں ڈانٹا تک نہیں تھا آج اس کے ہاتھ سے تھپڑ کھا کر سونیا کا روم روم کانپ اٹھا 

وہ نکر پر کھڑی رونے لگ پڑی 

حال برا تو صنم کا بھی تھا ابھی اس کا حساب ہونا باقی تھا 

بولو شائستہ اتنی نفرت تھی تمہارے دل میں آنسہ کے لیے کہ اس کی زندگی عزاب بنادی تم نے بتاؤ نہ 

بولو شائستہ آغا سائیں کی آواز اب بہت بلند تھی 

نفرت کرتی ہوں میں اس سے بہت نفرت کیا تھا ایسا اس میں جو سب کو وہ ہی عزیز تھی 

ایک دفعہ ادا سائیں نہ کہا کہ نہ پڑھو آگے آنسہ اس نے کہہ دیا نہیں پڑھنا تو وہ اور چہیتی بن گئی اس میں میرا کیا قصور تھا مجھے تھا پڑھائی میں شوق اسے نہیں ہوگا نہ نہیں آنسہ چھوٹی ہے مگر سمجھ دار ہے آنسہ یہ کرتی ہے آنسہ وہ کرتی ہے زہر لگتی ہے مجھے

اور بھابھی سائیں کے ابروڈ والے کزن کا رشتہ بھی آنسہ کے لیے 

مجھے نفرت تھی اس سے اس کی کامیابی سے 

مگر میرے ساتھ ساتھ اسے بھی جلن تھی مجھ سے اس دن چھت پر اگر اس نے مجھے دیکھ ہی لیا تھا تو شور کیوں کیا کیوں میرا تماشہ بنانا چا رہی تھی میں میں نے اسی کا تماشہ بنادیا 

ہاہاہہا عجیب پاگلوں کی طرح ہنسی

کتنی بے شرمی سے اپنے شوہر بیٹے باپ اور بھائیوں کے آگے اپنے سیاہ کرتوت کھول رہی تھی 

اشرف سائیں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا انہوں نے ایک اور تھپڑ شائستہ کے منہ پر دے مارا 

دیکھ لیا آپ نے آغا سائیں جو لڑکی اپنی سگی بہن کی نہ ہوسکی وہ میری کیا ہوگی بہت کر لیا میں نے اپنی زندگی میں سمجھوتا مگر اب بس اب میں اس عورت کے ساتھ ایک لمحہ بھی نہیں گزارنا چاہتا 

تمہارا جو فیصلہ ہوگا اشرف سائیں ہمیں قبول ہے آغا سائیں نے تھکے پسماندہ انداز میں کہا

کون سا لمحہ اشرف سائیں میں پوچھتی ہوں کون سا لمحہ 

شادی کے بعد سے ہی آپ کا انداز لیا دیا ہی رہا ہے آپ تو آنسہ کی بے وفائی میں تڑپ رہے تھے سچ تو یہ ہی تھا کہا آپ اسے بھولے نہیں تھے تو کیا نہ ہوتی مجھے اس سے نفرت وہ نہ ہونے کے باوجود سب کے دل میں تھی 

میں ایک دم سے تمہارے ساتھ نکاح ہونے پر کچھ وقت کے لیے اس بات کو نہیں قبول کر پارہا تھا مگر تم نے کونسا مجھے کوئی سکھ دیا تمہے بھی بس پیسوں کی لالچ تھی ہر وقت پیسا پیسا اور تمہیں کچھ چائیے ہی نہیں ہوتا تھا تمہاری وجہ سے میں کبھی اپنے بچوں کے اتنے قریب نہیں ہوسکا تمہاری وجہ سے آج میری بیٹی تمہارے نقش قدم پر چل رہی ہے ۔۔۔

ایک عجیب سی جنگ چل رہی تھی ان دونوں کے درمیان شائستہ بیگم کی ساری سچائی کھل کر سب کے سامنے آگئی تھی 

بچوں کے قریب تب ہوتے جب اس کی جدائی کے روغ سے نکلتے جب وہ بیوہ ہوکر اس حویلی میں واپس آئی تھی تمہاری اس کے لیے ہمدردی اور رنگ ڈھنگ دیکھ کر سمجھ چکی تھی کہ سوئی محنت جاگ رہی ہے 

کیا کچھ نہیں کیا میں نے اسے سب کے دل سے اتارنے کے لیے اپنے رشتے کو بچانے کے لیے سب گھر والوں کو آنسہ کی دوسری شادی کے لیے رضا مند کیا کتنے پاپڑ بیلے مگر نہ اسے اس حویلی سے نکال پائی نہ تمہارے دل سے 

میں کہہ رہا ہوں اپنی بکواس بند کرو شائستہ میں کچھ کر گزروں گا 

کیا کرو گے ہاں کیا کرو گے چھوڑ دو گے جاؤ جاؤ مگر بچے نہیں دوں گی جاؤ اب تو تمہیں اس سے بڑا روگ ملا ہے تمہاری محبوبہ کا شوہر زندہ۔۔۔۔۔۔

ایک اور شدید تھپڑ جو آغا سائیں کی طرف سے شائستہ کے چہرے پڑا تھا

  اور اشرف میر نے ایک ہی سانس میں تین طلاق شائستہ کے منہ پر دے ماری

ایک پل کو ہر شہ ساکت ہوگئی 

اشرف میر وہاں سے جانے لگے جب ابرار کی آواز آئی ٹھہریں بابا میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا 

نہیں نہیں ابرار تم تم کسیے جا سکتے ہو مجھے چھوڑ کر تمہیں تو ابھی اس گاؤں کا سردار بننا ہے ابرار نہیں جاسکتے تم مگر وہ بغیر ان کی جانب دیکھے وہاں سے چلاگیا 

کیا تم اس لڑکی سے نکاح کے لیے تیار ہو 

جاوید سائیں نے عزیم سے سونیا کے لیے پوچھا 

ہاں جی جی مجھے قبول ہے 

نہی۔نہی۔ نہیں مامو سائیں مجھے نہیں کرنا یہ نکاح میں نے نہیں 

چھوڑیں ادا سائیں نہیں کرے گی میری بیٹی یہ نکاح میں کہہ رہی ہوں چھوڑ دیں 

شائستہ بیگم کی روک ٹوک کے باوجود ان دونوں کا نکاح ہوگیا تھا 

کچھ دنوں بعد!!!

شائستہ بیگم کی حالت عجیب سی ہوگئی تھی مگر ان کا غرور ابھی تک نہیں ٹو رہا تھا

ابھی بھی نوکروں پر رعب جماتیں

سونیا کا نکاح تو ہوچکا تھا سو اسے اسی وقت اس لڑکے کے ساتھ رخصت کردیا گیا تھا 

گھر میں اول تو کوئی شائستہ بیگم کو بلاتا نہیں تھا اگر کوئی بات ہو بھی جائے تو شائستہ بیگم اسے کاٹ کھانے کو دوڑتی

آغا سائیں بھی بہت بیمار رہنے لگ پڑے تھے 

بچی صنم اسے کوئی بھی نہیں بلا رہا تھا اسے احساس ہوا کہ وہ سونیا کہ پیچھے لگ کر اپنے ساتھ کیا کر چکی ہے

ثمینہ بیگم نے تو اسے دن اتنی کھڑی سنائیں تھیں کہ وہ کسیے کسی پاک دامن پر بہتان لگا سکتی ہے انہوں نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ انہیں اپنی پرورش پر شرم آتی ہے ان کے دونوں بچے ہی ایسے نکلے اس سے اچھا تھا کہ کو بے اولاد رہتی 

علینہ بھی صنم کے پاس سے گزرتی تو حقارت سے منہ موڑ لیتی صنم صرف خود کو کوس کر ہی رہ جاتی ۔۔۔۔

اس طرف خان ولا میں ماحول پر سکون تھا زارون اسی دن واپس اپنے کیس کی وجہ سے پیرس چلاگیا تھا حالہ بیگم کو ساحر اور حانم خان ولا میں ہی لے آئے تھے ان کا علاج ویسے ہی جاری تھا ڈاکٹرز کی طرف سے مثبت تاثرات ملے تھے ۔۔۔ آنسہ بیگم تو جیسے دوبارہ جی اٹھیں تھیں ان کے خان سائیں زندہ تھے سلامت تھے ان کے پاس ان بیٹا تھا ان کے پاس اب ان کی بہو بھی تھی باقی وہ سفاک لوگوں سے ان کی جان چھوٹ چکی تھی اب انہیں زندگی میں اور کچھ نہیں چائیے تھا ۔۔۔۔۔

حانم اور حالہ بیگم ایک کمرے میں رہتے تھے حانم ان کا اچھے سے خیال رکھتی تھی 

سب ٹیوی لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے جب آنسہ بیگم نے بات شروع کی حالہ سائیں خیر سے اب سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے اس لیے میں چاہتی ہوں کیوں نہ بچوں کے نکاح کا با قائدہ اعلان کرتے ہوئے ان کی پوری رسموں کے ساتھ رخصتی  ہوجائے

چائے پیتی حانم کو ٹھسکا لگا ساحر اپنی مسکراہٹ چائے کے کپ کی آر میں چھپا گیا کیا ہوا حانم بچے آنسہ بیگم فوراً پانی کا گلاس لے کر اس کی پشت پر آئیں اس میں کوئی شک نہیں تھا انہیں اس واقعے کے بعد سے حانم اور بھی زیادہ عزیز ہوگئی تھی 

وہ پھوپھو سائیں میری پڑھائی ابھی جاری ہے میں نے اپنے بابا سائیں کا خواب پورا کرنا ہے ایسے میں رخصتی۔۔۔ حانم نے جھجھک کر کہا 

میرے بچے آپ ضرور اپنے بابا سائیں کا خواب پورا کریں حماد خان نے اس کے سر پر دست شفقت رکھا مگر ہم چاہتے ہیں کہ باقاعدہ رسم کے ساتھ آپ کے  نکاح کا اعلان ہوجائے باقی اس سے آپ کی پڑھائی اور خواب میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی کیوں چھوٹے خان 

جی بابا سائیں جیسے آپ لوگوں کا حکم

ساحر کو کوئی مسئلہ نہیں تھا اب وہ اس کی تھی تو پھر کس بات کا ڈر اور ویسے بھی حانم کے خواب اسے حانم سے زیادہ عزیز تھے 

ٹھیک ہے جیسے آپ لوگوں کی مرضی مگر میں چاہتی ہوں اس فنکشن سے پہلے ایک دفعہ ہم پیرس سے ہوں آئیں ایک تو وہاں میری دوست ہے جسے میں انوائیٹ کرنا چاہتی ہوں اور دوسرا ہماری کمپنی نے ایک بہت بڑا آڈر لیا تھا جو تقریباً پورا ہونے والا ہے کیوں ساحر سائیں حانم نے وجہ بتا کر ساحر کو پوچھنے والے انداز پر مخاطب کیا 

جی مورے نورِ ٹھیک کہ رہی ہے تب تک آپ لوگ تیاریاں کر لیجئے گا 

حانم جہاں ساحر کے سب کے سامنے نورِ کہنے پر جھینپ گئی وہی سب ساحر کی بات سے متفق ہوئے جی بیٹا ٹھیک ہے آپ لوگ ہوں آئیں پیرس سے پھر 

۔۔۔۔۔۔۔۔

ساحر سائیں!!!

حانم نے اپنے کمرے کی طرف جاتے ساحر کو دیکھ کر اسے پکارا 

جی نورِ ساحر 

پہلے وہ اس کے تم تم کی رٹ سے چڑ جاتی تھی اب اس کے نورِ ساحر کہنے پر جھینپ جاتی تھی اور شاہد ساحر بھی یہ محسوس کرچکا تھا تبھی اسے بارہا نور ساحر کہ کر اس کے چہرے پر آئے رنگوں سے حفظ اٹھاتا تھا 

ساحر سائیں آپ نے ٹکٹ بک کروا لی ہے ہماری مجھے تو لگتا ہے اس بات عینی نے خفا ہوجانا ہے مجھ سے اور وہ کھڑوس زاوی سر حانم نے کان کر ساحر کی آنکھوں میں دیکھ کر زاوی سر بولا تھا تاکہ وہ اس کے ایکسپریشن جان سکے 

جس کی مسکراہٹ زاوی کے نام پر تھمی 

تمہے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا آفٹر آل تم کمپنی کے باس کی بیوی ہو 

ہممم آپ مجھے بتادیں کب کی فلائٹ ہے تاکہ میں اپنی پیکنگ کر لو 

فلائٹ کل دوپہر کی ہے تم کر لو پیکنگ

ہممم اوکے ۔۔۔

_______

حانم اپنے کمرے میں آگئی اس نے آگے کے لیے بہت کچھ سوچ رکھا تھا 

اس دن جب اس نے زاویار کی تصویر دیکھی تھی تو وہ بری طرح چونک گئی تھی اس کے آفس کا باس ہی اس کا کزن اور سابقہ شوہر تھا 

مگر زاویار کے رویے نے اسے حیران کیا تھا وہ تو اس سے ایسے بات کرتا تھا جیسے ان کی پہلی ملاقات ہو 

پھر اسے خیال آیا کہ جس طرح اس نے کبھی زاویار کو نہیں دیکھا تھا ہو سکتا ہے زاویار نے بھی اسے نہیں دیکھا ہو تو وہ بغیر اس سے ملے اسے دیکھے اسے دھتکار کر چلا گیا 

یاں یہ اس کی کوئی چال ہو 

کاش میں نے اس شخص کی تصویر پہلے دیکھ لی ہوتی 

حانم کو اپنی مہندی والا دن یاد آیا جب صنم اسے چھیڑ رہی تھی 

صنم کیا مسئلہ ہے اگر دکھانی ہے تصویر تو دکھاؤ نہیں تو اس کو میرے سامنے سے گم کرو 

میں کیوں دکھاؤ آدی سائیں کل آپ نے ویسے ہی لایؤ دیکھ ہی لینا ہے 

دفعہ ہوجاؤ تم حانم تنگ آگئی 

اچھا یہ لے دیکھ لیں 

نہیں اب نہیں دیکھنی میں نے اس دن حانم نے بھی اس کی تصویر نہیں دیکھی 

اور اوپر سے ساحر سائیں کا پاٹنر زاویار کیسے ہو سکتا ہے چلو میں نے انہیں نہیں دیکھا انہوں نے مجھے نہیں دیکھا مگر ساحر سائیں اور وہ تو آپس میں ایک دوسرے سے مل اور دیکھ چکے تھے 

ان سب باتوں کا جواب تو اسے اب پیرس جا کر ہی ملنا تھا 

پیرس !!!

آج ڈیڑھ دو ہفتے ہونے کو ائے تھے مگر نور حاکم کا کچھ اتا پتا نہیں تھا

زاویار پاگل ہوا جارہا تھا 

آج نور العین بھی زارون کے ساتھ آفس آئی تھی زارون کے لاکھ منع کرنے کے باوجود مگر چلنی تو پھر عینی کی ہی تھی 

میں پھر کہہ رہا ہوں نور العین اگر تم نے زیادہ برڈن لیا تو میں آج کے بعد تمہارا آفس جانا ہی بند کردوں گا 

زارون جب عینی سے خفا ہوتا تھا اسے نور العین ہی بلاتا تھا 

اووو سر زی آپ کو اپنے سٹاف کا کتنا خیال ہے آپ کو چاہے آپ ہم سے نظر ہٹا کر اپنی معصوم بیوی پر دھیان دیں 

لیفٹ میں موجود دنوں بچوں کی طرح کر رہے تھے 

مسز زی میں اپنی بیوی پر ہی دھیان دے رہا ہوں زارون نے اس کے بازو میں اپنا بازو اڑایا نور العین اس کے پوزیسو انداز پر مسکراہٹ دبا گئی

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زاویار لیفٹ سے  زارون اور نور العین کو ایک دوسرے کا  ہاتھ پکڑ کر اینٹر ہوتے دیکھ کر چونک گیا 

زارون نور العین کو اس کے کیبن کے پاس چھوڑ کر ایک ضروری کال اٹینڈ کرنے چلا گیا 

نور العین ادھر ہے تو اسے نور حاکم کا بھی پتا ہوگا 

اوو مس نور العین آج آفس آئیں ہیں میڈیم آپ آج بھی نہ آتی 

زاویار نے طنزیہ انداز میں کہا 

نور العین دانت پیس کر رہ گئی 

جی سر میں ہی اگئی اس ڈوبتے آفس کو بچانے سامنے بھی نور العین تھی 

اوو آپ کا احسان ہے ویسے آپ کس سے لیو لے کر گئیں تھیں اتنے دنوں کے لیے 

سر میں سر زی اور سر خان سے لیو لے کر گئی تھی آپ کو کئی پرابلم ہے 

زاویار نے اس کے لاپروا انداز میں جواب دینے پر مٹھیاں بھینج لیں 

یم نے یہاں خیراتی ادارہ نہیں کھولا ہوا جو آپ لوگوں کو سیلیری بھی دیں اور اتنی لمبی لیو بھی 

میں آپ سے سیلیری نہیں لیتی اور نہ ہی آپ کے انڈر کام کرتی ہوں سو آپ مجھ سے سوال کرنے کا حق نہیں رکھتے

عینی نے سختی سے کہا 

خوامخواہ ہی یہ بندی سب پر رعب جما رہا ہوتا ہے  

مجھے پتا ہے کس کے انڈر اور انڈر کام کرتی ہو تم 

ویسے میرا معصوم دوست پھس کیسے گیا 

زاویار کا لہجہ حقارت آمیز ہوا تھا  

زاویار زارون نے ایک مکا زاویار کے منہ پر مارا تمہاری ہمت کیسی ہوئی نور العین سے اتنی گھٹیا بات کرنے کی 

زارون اس لڑکی نے تمہارا دماغ خراب کردیا ہے اس دن بھی تو اس کے لیے مجھ سے لڑ گیا تھا 

جس لڑکی کی بات کر رہا ہے نہ تو وہ میری بیوی ہے اور تو میرا کچھ بھی نہیں لگتا 

ایسے کیسے کچھ بھی نہیں لگتا اس کمپنی کا ٹونٹی فائز پرسنٹ کا مالک ہوں میں 

اس کا انتظام بھی میں بہت جلد کرتا ہوں تو دوست کہلانے کا بھی لائک نہیں ہے چلا جا میری نظروں سے اس سے پہلے تجھے دھکے مار کر نکالوں یہاں سے ۔۔۔۔

زاویار وہاں سے چلا گیا 

زی آپ ٹھیک ہیں عینی نے پانی کا گلاس  اس کی طرف بڑھایا 

ہمم میں ٹھیک ہوں زارون نے پانی کا گلاس اس کے ہاتھ سے پکڑا 

اور اپنی پینٹ کی پاکٹ سے فون نکالا اور کسی کو کال ملائی 

ہیلو ہاں جو کام میں نے تمہیں دیا تھا کیا تم نے وہ کر لیا ہے

اوکے مجھے اس کے پیپرز آج ہی چاہیے

_________

ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی وہ دونوں اپنے فلیٹ پر پہنچے تھے 

حانم اور ساحر حانم کے  فلیٹ کا دروازہ کھول کر اندر آگئے

آہ۔۔۔۔ ویلکم بیک حانم نے اپنے دونوں بازو کھول کر گہرا سانس لیا  

ساحر بھی اپنا کوٹ اتار کر صوفے پر بیٹھ گیا 

پچھلی بار جب وہ حانم کے فلیٹ پر آیا تھا تو کافی انکمفرٹیبل تھا ایک جھجھک تھی تب اس کا حانم کے ساتھ کوئی گہرا رشتہ نہیں تھا مگر اب حانم اس کی محرم تھی وہ بنا جھجھک اس کے پاس آسکتا تھا 

اففف اللّٰہ میں بہت تھک گئی ہوں حانم نے پانی کا گلاس ساحر کے آگے رکھا خود دوسرے صوفے پر گڑنے والے انداز میں بیٹھی 

اچھا پھر تم آرام کرو میں زارون سے مل کر آتا ہوں ساحر نے اپنی گھڑی کی طرف دیکھ کر بولا 

ابھی حانم کچھ کہتی اس کے فلیٹ کا دروازہ زور زور سے کھٹکا ۔۔۔۔

ابھی حانم کچھ کہتی اس کے فلیٹ کا دروازہ زور زور سے کھٹکا ۔۔۔۔

حانم اور ساحر دونوں ہی بری طرح چونک گئے 

میں دیکھتا ہوں 

ساحر دروازہ کھولنے کے لیے بڑھا ساحر نے جیسے ہی دروازہ کھولا 

تو اس کی محبوبہ مطلب جیمز تیزی سے اندر داخل ہوا اس کی پھرتی پر ساحر اور حانم دونوں ہی ہڑبڑا گئے 

جیک کو دیکھ کا ساحر کے منہ کے زاویے بگڑے اس بلا کو تو وہ بھول ہی گئے تھے۔۔۔

وہی دوسری طرف حانم نے ہنسی دبائی یہ بندہ ساحر کو خوب تپاتا تھا

تم واپس آگئے مجھے  یقین تھا تم مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ گے 

ساحر پہلے ہی تھکا ہوا تھا 

دیکھو مسٹر جیک تم چپ کرکے یہاں سے نکل جاؤ نہیں تو میں تمہے چھوڑو گا نہیں ساحر نے دانت پیس کر کہا

چھوڑنا کون چاہتا ہے 

وہ تقریباً اس کے گلے ہی لگ گیا 

اب کہ حانم کو بھی عجیب لگا یہ بندہ تو حد سے بڑھ رہا ہے 

او مسٹر یا مس واٹ ایور نکلو میرے گھر سے تم تو شوکھے ہی ہوگئے ہو 

حانم نے ساحر کا بازو پکڑ کر جیک کو اس سے دور کیا 

کیوں کیوں نکلو یہ ساحر ڈئیر کا گھر ہے اس حساب سے میرا بھی ہے جیک نے پھر ساحر کا ہاتھ پکڑا

تم۔۔۔۔۔ ساحر نے ہاتھ جھٹکا اس کو سمجھ نہیں آرہی تھی اس چپکو مخلوق کو خود سے دور کیسے کرے 

اوو اووو کہا چھوڑو ساحر سائیں کا ہات

Stay away from my husband

دور رہو میرے ہسبنڈ سے 

 اور نکلو میرے گھر سے یہ گھر بھی میرا ہے اور ساحر سائیں بھی میرے ہیں دفعہ ہوجاؤ اس سے پہلے میں تمہاری ہڈیاں توڑو

واٹ!!!!

ہسبنڈ!!!!! جیک کی صدمے سے بھر پور آواز نکلی

_________

آج نور کے بازو سے پلاسٹر اترنا تھا 

تو زارون کا ہاسپٹل سے ہوکر  زارون نے گاڑی کا رخ ساحر اور حانم کے فلیٹ کی طرف کیا

زی ہم کدھر جارہے ہیں عینی نے زارون سے پوچھا 

ہمم ساحر اور نور کے فلیٹ جارہے ہیں 

اوو واؤ وہ دونوں کب واپس آئے  

آج ہی آئے ہیں ساحر کا نمبر فرانس میں ایکٹیو شو ہورہا ہے ہممم۔۔۔۔ ایک دو منٹ خاموش رہنے کے بعد عینی بول پڑی 

بندہ کوئی سونگ ہی لگا لیتا ہے یہ کہہ کر خود ہی اس  نے اوڈیو پلیر اون کیا مگر وہاں کسی انگلش سونگ کی بے باک لائینز سن کر کھسیاتے ہوئے دوبارہ اوڈیو پلیر بند کر گئی

جبکہ زارون لب بھینج کر مسکراہٹ دبا گیا ۔۔۔

________

how could you cheat me 

تم مجھے کیسے دھوکہ دے سکتے ہو

یو لائیر ایےےےے تم نے شادی کرلی تم کسیے کر سکتے ہو 

ایےےےے

ساحر جیک کو دیکھ ہی کہا رہا تھا وہ تو حانم کا تپا تپا سا روپ دیکھ رہا تھا 

صوفے پر بیٹھا جیک ٹیشو باکس میں سے آخری ٹشو نکالتا آنکھیں اور ناک پہنچتا اس ٹشو کو بھی باقیوں کے پاس  زمین پر پھینک چکا تھا 

حانم نے گہرا سانس لیا اس سکھی کانگڑی کو بازو سے پکڑ کر آپنے فلیٹ کے دروازے کے باہر پٹکھنے والے انداز میں نکالا 

تم نے مجھ سے میرا ساحی چھین لیا دیکھنا تمہے پیرس کے کسی سلون میں آنے کی اینٹری نہیں ملے گی جیک نے دھایا دی

نکلو 

تم جارہے ہو کہ میں پکڑو جوتی حانم نے ہاتھ اپنی سینڈل کی طرف بڑھائے یہ دیکھ کر جیک وہاں سے رفوچکر ہوگیا۔۔۔۔۔

ساحر کے فلیٹ کی طرف جاتے زارون اور نور دونوں ہی یہ منظر دیکھ کر رکے

نور !!!!

نور العین دوڑ کر حانم کے گلے لگی عینی حانم بھی عینی کو دیکھ کر خوشی سے چیخی 

حانم کی چیخ سن کر ساحر بھی دروازے پر آیا

خان زارون بھی آگے بڑھ کر اس کے گلے لگا میں ابھی تیری طرف ہی آنے والا 

وہ تو ٹھیک ہے مگر یہ بندہ کون تھا جسے نور نے نکالا کیا کوئی تنگ کر رہا تھا 

وہ چاروں اندر ٹیوی لاؤنج میں آئے 

ارے نہیں زی سر کسی کی ہمت وہ چھڑ کر دیکھائے وہ تو ساحر سائیں کی گرل فرینڈ تھا 

مطلب۔۔۔۔ نور اور زارون نے نا سمجھی سے پوچھا 

یہ کہ وہ ساحر سائیں کے پیچھے پڑا ہوا تھا آج تو اس نے حد ہی کردی 

ہاہاہاہا نور اور زارون کتنی دیر ہنستے رہے 

خان تو نے مجھے تو کبھی نہیں بتایا کہ تیری گرل فرینڈ بھی ہے ہاہاہا 

اچھا اب بس بھی کر جاؤ ساحر ان کی مسلسل ٹانگ کھینچنے ہر جھنجھلایا

اچھا۔۔۔ ہاہاہا ایک بار پھر وہ تینوں قہقہ لگا گئے 

تم لوگ ادھر خیریت اور زی تجھے کیسے بتا لگا کہ ہم آگئے ہیں 

ساحر نے تشویش سے پوچھا کیونکہ اس نے تو ابھی کسی کو بھی اپنے پیرس آنے کا بتایا تھاہاں تیرا فرانس والا نمبر ادھر پیرس میں ایکٹو شو رہا تھا اس لیے مجھے پتا لگ گیا 

اچھا ۔۔۔۔ساحر نے سر اسبات میں ہلایا 

اچھا خان مجھے تجھ سے ایک ضروری بات کرنی ہے 

کون سی ضروری بات 

ایک امپورٹنٹ فائل پر سائن کروانے ہیں اور فائنل گاڑی میں ہے میں لے کر آیا۔

اچھا چل تو لے کر میرے والے فلیٹ میں ہی آجائیں 

حانم دروازہ لاک کرلو میں اور زی اوپر جارہی ہیں 

جی اچھا ۔۔۔

________

اب کیسی طبعیت ہے تمہاری عینی وہ دونوں بیڈ پر آمنے سامنے بیٹھی ہوئیں تھیں

حانم نے اس کے ہاتھ تھام کر پوچھا میری طبیعت ٹھیک ہے مگر میں تم سے ناراض ہوں عینی نے ناراضگی سے اپنا رخ بدلہ 

کیوں ؟؟؟؟ عینی 

تمہارا نکاح ہوگیا خان سر کے ساتھ اور تم نے مجھے بلایا ہی نہیں 

یار عینی نکاح بہت ایمرجنسی میں ہوا تھا میں تمہے پیرس سے کیسے بلاتی 

ناراض تو نہ ہو اب میرے نکاح کا فنکشن ہے پاکستان میں اور میں تمہارے بغیر دلہن ہی نہیں بنوں گی پکا 

حانم نے اسے منانے کی کوشش کی 

اچھا اتنا کہہ رہی ہو تو مان ہی جاتی ہوں عینی نے احسان کرنے والے انداز میں کہا 

شکریہ جنابِ عالیہ 

اچھا نور وہ میں نے بھی تمہے ایک بات بتانی تھی 

عینی نے جھجھک کر کہا 

کون سی بات 

وہ ۔۔۔عینی اٹکی

کیا وہ حانم نے اپنی دونوں آئی برو اُچکائی

وہ میرا بھی زی سر سے نکاح ہوچکا ہے 

عینی تیزی سے بولتی آنکھیں میچ گئی 

کیا عینی حانم نے بیڈ سے تکیہ پکڑ کر اس پر حملہ کیا 

اہ نور لگ رہی ہے مجھے عینی نے اپنا بازو تھاما

حانم بھی فوراً سٹل ہوئی اوو سوری سوری عینی مگر کچھ یاد آنے پر حانم نے پھر تکیہ زور سے اس کی تھامی ہوئی بازو پر ماڑا جھوٹی فریکچر تو تمہارا دائیاں بازو تھا 

عینی کھسیا کر رہ گئی

اچھا بتاؤ کیسے یہ کارنامہ پیش آیا 

وہ میں جب ایڈمٹ تھی نہ ہاسپٹل میں تب ہی زی نے مجھے پرپوز کردیا 

اووو واؤ یعنی زی سر نے ہاسپٹل میں ہی تمہے پرپوز کردیا اور ابھی تم کہتی تھی 

ایسا ویسا کچھ نہیں ہے 

ہی ہی عینی نے بتیسی دیکھائی 

اچھا تو کہا پر کیا نکاح تم لوگوں نے حانم نے اپنا تھوڑی کے نیچے رکھ کر پوچھا 

اسلامک سینٹر میں ہوا تھا ہمارا نکاح

یار میری تو خواہش تھی کہ میری شادی بہت گرینڈ ہو جسٹ لائک ایشین میرج یو نو میں نے ایشن شادی کے فنکشن دیکھے ہیں مجھے اتنا فیسینیٹ کیا ہے 

بٹ نہ میرا کوئی ہے نہ ہی زی کا عینی اداس ہوئی 

اوئے میں ہوں نہ تمہاری بہن پھر فکر کس بات کی ایشین ٹائپ ہی فنکشن ہوں گے تمہاری شادی کے فکر مت کرو ۔۔۔ 

اوو تھینک یو سو مچ نور عینی اس کے گلے لگی 

مینشن ناٹ ...

________

ارے مبارک ہو فائنلی زی تو نے بھی ہمت کی نہیں تو مجھے لگا ہی تھا کہ تو بڈھا ہو کر ہی شادی کرے گا 

ساحر نے اسے مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ طنز بھی کیا 

چل ہٹ بڈھا ہوگا تو 

اچھا چھوڑ تو نے کونسا یقین کرلینا ہے تو یہ بتا یہ فائنل کس چیز کی ہے 

تو کھول کر دیکھ لے زارون سنجیدہ ہوا 

ساحر نے فائنل کھولی 

زی کیا یہ ضروری ہے ساحر نے سنجیدگی سے پوچھا 

بہت ضروری ہے یہ خان کسی کو اس کی اوقات دیکھانے کے لیے اور دوسرا میں نے اب اپنی رئیل جوب کو بھی صحیح ٹائم دینا 

جوب کو یا گھر کو ساحر نے مسکراہٹ دبا کر کہا 

ایک ہی بات ہے زارون نے بھی ڈھیٹوں کی طرح کہا

_________

حانم ساحر کے ساتھ آفس میں آئی لیفٹ سے باہر نکلتے وہ اپنے کیبن کی طرف بڑھی جہاں عینی اس کا انتظار کر رہی تھی اور ساحر اپنے کیبن کی طرف جہاں زارون اس کا 

ابھی ساحر اپنی چئیر میں جاکر بیٹھا ہی تھا کہ زاویار دندناتذ ہوا وہاں آیا 

کیسی ہو عینی میں ٹھیک اے ون آج لیٹ ہوگئی 

ہاں یار وہ کل کی اتنی تھکاوٹ تھی ٹائم کا پتا ہی نہیں لگا حانم نے اپنے پرس سے اپنا فون تلاش کرتے ہوئے کہا 

اوو یار شٹ میرا فون لگتا ہے ساحر سائیں کی گاڑی میں رہ گیا ہے

اچھا میں لے کر آتی ہوں  

ہممم ۔۔۔اچھا جاؤ لے آؤ پھر خان سر کی ایس ٹی انڈسٹریل والوں کے ساتھ لنچ اور میٹنگ ہے 

اچھا حانم ساحر کے کیبن کی طرف بڑھی جب اندر سے نظر آتے زاویار کو دیکھ کر اس کے قدم تھمے

_______

ہاں زی تم نے مجھے بلایا 

زاویار زی کے بلانے پر اس کے آفس آیا وہاں ساحر کو دیکھ کر چونک گیا 

تم یہاں پر کیا کر رہے ہو 

زاویار نے ساحر کو عجیب سی نظروں کے ساتھ دیکھ کر کہا۔۔

اوو اچھا جوب لینے آئے ہو گے 

میرا ریفرینس چاہیے

بی ہیو زاویار یہ خان ہے اس کمپنی کہ سیونٹی فائیو پرسنٹ کا مالک اور  میں نے تمہیں یہ پتا نہیں بلایا تھا کہ میں نے اپنی ٹوئنٹی فائیو پرسنٹ شیئرز خان کو بیچ دئے ہیں

سو اب سے تمہارا باس ہے خان ۔۔۔۔۔

زاویار کو لگا کسی نے اس کے منہ پر کَس کے تماچہ ماڑا ہو 

مجھے تو نہیں البتہ اگر تمہے میرا ریفرینس چاہیے تو بتا دینا کیونکہ جتنا گندا تمہارا رسپونس ہے مجھے ہیڈ اوف ڈائریکٹرز کے ساتھ میٹنگ کرنے میں دیر نہیں لگے گی پھر اس کے بعد تو تمہے یہاں سوئیپر کی جوب نہیں ملے گی ۔۔۔

ساحر اپنا ڈارک گرے کوٹ جھٹک کر کھڑا ہوا جس میں اس کی پرسنیلٹی اس کے نام کی طرح ساحرانہ لگ رہی تھی 

حانم یہ سب دیکھ کر وہاں سے ہٹ گئی زاویار کے لیے اس کے دل میں نفرت اور بھی بڑھ گئی

_______

زی تم ایسا کیسے کر سکتے ہو 

ساحر کے آفس سے باہر جانے پر زاویار نے غصے سے پوچھا 

جو مجھے ٹھیک لگا میں نے وہی کیا جو مجھے ٹھیک لگا

 یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے تم بس اپنے کام پر دھیان دو یہ نہ ہو کہ خان تمہے واقعی اس آفس سے  نکال دے

زی بھی سر جھٹک کر آفس سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔

______

ہائے خان سر ڈیزی ساحر کو دیکھ کر اس کی طرف لپکی 

اپنے کیبن سے جھانکتی حانم نے شولے بار نظروں سے اس منظر کو دیکھا تھا 

چپکو !!!! ساتھ ساتھ بڑبڑایا بھی تھا

ہائے میں مر جاواں کڑیے جیلسی عینی نے انگلش پنچابی میں مکس کرکے کہا 

ہاں تو ....

He is mine 

اسے تو میں بتاتی ہوں 

حسن نے ڈیزی کے راستے میں ٹانگ اڑائی (اصلی والی ہاہاہا)

ڈیزی جو ساحر کی پشت کو دیکھتی بے دھیانی میں آرہی تھی ٹکر لگنے پر دھرم سے گڑی۔۔۔

اوو مس ڈیزی اگر آپ سے نہیں چلا جاتا تو اتنی ہائی ہیل مت پہنا کریں نہیں تو یو ہی گرتی پھیڑیں گی 

سٹاف کا باقی لوگ ڈیزی کو۔ گڑا دیکھ کر ہنسنے لگ گئے 

شٹ اپ ڈیزی شرمندہ ہوتی وہاں سے غائب ہوئی

آئی بڑی خان سر 

پتا نہیں اسے اتنی زیادہ جیلیسی کیوں ہورہی تھی 

جبکہ عینی اپنا قہقہ دبانے میں مصروف تھی

_______

زاویار غصے سے اپنے آفس سے باہر نکلا مگر اپنے کیبن کے باہر کھڑی نور کو دیکھ کر اسے اپنا سارا غصہ ہوا ہوتا محسوس ہوا 

مس نور حاکم ویلکم بیک 

زاویار نے پر جوش ہوکر اسے پکارا 

جی زی سر آپ نے مجھے بلایا تھا ڈیزی نے بتایا حانم نے جان کر ڈیزی کا نام لیا 

حانم کا لہجہ میٹھا تھا جسے محسوس کرکے زاویار خوش ہوا۔۔

مس نور مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے 

جی جی زاوی سر لہجہ ہنوز میٹھا تھا۔۔۔

کیا تم آج میرے ساتھ لنچ پر چلو گی 

واٹ !!!!

(کمینے مجھ پر لائن مار رہا ہے تیری تو )دل کی آواز 

واٹ دو یو مین سر 

نہیں نہیں نور پلیز مجھے غلط مت سمجھنا مجھے تم سے بہت ہی زیادہ ضروری بات کرنی ہے 

اور وہ بات یہاں پر بھی ہوسکتی ہے پلیز مائی ریکوئسٹ 

اوکے حانم نے کچھ سوچ ہاں کردی

______

ساحر سائیں میں آج نور العین کے ساتھ جارہی ہوں لنچ کرنے وہاں سے گھر چلی جاؤں گی آپ فکر 

ت کیجئے گا ۔۔۔۔۔

ساحر ریسٹورنٹ میں بیٹھا حانم کا وائس میسج سن رہا تھا وہ یہاں ایس ٹی انڈسٹریل کے مینیجر کے  ساتھ لنچ کے لیے آیا تھا پھر ان کی میٹنگ تھی

حانم نے جھوٹ کیوں بولا زارون تو بتا رہا تھا آج اس نے اور نور العین نے لنچ کرنے جانا ہے پھر حانم ۔۔۔۔

کیا حانم کچھ چھپا رہی ہے مجھ سے 

مگر وہ فون واپس ٹیبل پر رکھ گیا۔ 

 یقین کے ساتھ 

اعتبار کرتے ہوئے۔۔۔۔

________

زاویار نے حانم کو آئفل ٹاور کے قریب ترین ریسٹورنٹ میں بلایا تھا لنچ وہ لوگ کر چکے تھے

اور زاویار کے ترلے منتوں کے بعد واک پر آئے تھے

 حانم کب سے اس کی بات کا انتظار کر رہے تھی

سر میرے خیال سے آپ نے میرا ٹائم ویسٹ کرنا تھا 

حانم نے غصے سے کہا 

نو نو پلیز 

وہ دونوں آئفل ٹاور کے فینسی ایریا پر آئے

 ایسا لگ رہا تھا وہ جگہ کسی کے لیے سپیشل سجائی گئی ہو

زاویار آج کر ہی لے بات 

نور حاکم 

میں میر زاویار  تم سے اپنے پورے ہوش ہو حواس میں ان پیرس کی گلیوں کو گواہ بنا کر اپنی محبت کا اعتراف کرتا ہوں 

نور کیا تم مجھ سے شادی کرو گی میں تم سے بہت محبت کرتا اتنا۔ کہ میں لفظوں میں نہیں بتا سکتا 

پہلے پہل مجھے یہ صرف ایٹریکشن لگی تھی مگر ان پچھلی دو ہفتوں میں تمہاری غیر موجودگی نے مجھے پاگل کردیا تھا تب مجھے ادارک ہوا کہ واقع مجھے تم سے بے انتہا محبت ہوگئی ہے 

تم ہو وہ لڑکی جس کے آگے زاویار جھک گیا 

اپنا ایک گھنٹہ زمین پر ٹکائے زاویار آج حانم سے اپنی محبت کا اعتراف کر رہا تھا ۔۔

حانم میں جتنی ہمت تھی اس نے اپنے دائیں ہاتھ کا تھپڑ زاویار کے منہ پر جڑا 

تم ہو وہ لڑکی جس کے آگے زاویار جھک گیا 

اپنا ایک گھنٹہ زمین پر ٹکائے زاویار آج حانم سے اپنی محبت کا اعتراف کر رہا تھا ۔۔

حانم میں جتنی ہمت تھی اس نے اپنے دائیں ہاتھ کا تھپڑ زاویار کے منہ پر جڑا

زاوی ابھی اس کے ایک تھپڑ سے نہیں سنبھلا تھا  کہ دوسرا تھپڑ حانم نے اس کے بائیں گال پر رسید کیا 

ن۔۔ور 

نورِ ساحر نام ہے میرا تمہاری اتنی اوقات کہ تم مجھے پرپوز کرو میرا دل کرتا ہے تمہیں سولی پر لٹکا دوں گھٹیا انسان بھگوڑے تمہاری تو۔۔۔۔۔

یس یس !! یس 

کراؤڈ کے یس یس کے شور پر حانم ہوش کی دنیا میں واپس آئی 

نور پلیز 

ایک گھنٹہ زمین پر ٹکائے زاویار ابھی بھی اسی پوزیشن میں بیٹھا ہوا تھا 

یہ کیا طریقہ ہے مسٹر زاویار 

نور میں تم سے محبت کرتا ہوں اور اس  بات کا میں پوری دنیا میں اعلان کردینا چاہتا ہوں

حانم نے آس پاس دیکھا ایک آدھ لوگ ان کی ویڈیو بھی بنارہے تھے 

مسٹر زاویار کسی عزت دار لڑکی کو پرپوز کرنے کا یہ طریقہ ہے حانم بھڑک اٹھی

نہیں نور میں تمہاری بہت عزت کرتا ہوں زاویار سیدھا کھڑا ہوگیا 

مسٹر زاویار ایک بات یاد رکھنا  اگر دو ہم دونوں کی کوئی کپل فوٹو سوشل میڈیا میں ائی نہ تو تم میرا چہرہ دیکھنے کے لئے ترس جاؤ گے 

یہ سب رسکی تھا حانم نے ہوش سے کام لیا 

ن۔نہین نہیں جیسا تم کہو گی ویسا ہی ہوگا نور جو تم

 کہو گی

زاویار نے با قائدہ ان لوگوں کے پاس جا کر ان سے ویڈیو ڈیلیٹ کروائی۔۔۔

نور پلیز مجھے بتاؤ تمہارا کیا جواب ہے 

اچھا اور میں کہوں میرا جواب نہ ہے تو حانم نے پراسرار لہجے میں پوچھا 

تو میں تمہاری نا کو ہاں میں بدلنے کے لئے کچھ بھی کروں گا زاویار نے جیسے اس کا چیلنج ایکسیپٹ کیا 

ok than wait for me to agree 

ٹھیک ہے پھر میری رضامندی کا انتظار کرو

مگر اس کے کچھ رولز ہیں حانم نے احسان کرنے والے انداز میں کہا

کیسے رولز ؟؟ زاویار نے چونک کر کہا

سب سے پہلے تو تم مجھے آفس میں بالکل تنگ نہیں کرو گے ہم ویسے ہی رہیں گے جیسے ابھی ہیں

دوسرا یہ فضول کے لنچ ڈنر تو بالکل بھی ارینج کروگے 

اور آج جو احمقانہ حرکت تھی وہ تو ہر گز نہیں 

حانم کا لہجہ عجیب بے زاری لیا ہوا تھا مگر زاویار تو اس کا لہجہ سرے سے ہی فراموش کیے ہوئے تھا 

مجھے منظور ہے !!!

ہممم اوکے دین بیسٹ اوف لک مسٹر میر زاویار 

تمہاری اولٹی گنتی شروع ہوتی ہے 

اسے وش کرکے دوسری بات دھیرے سے بڑبڑاتی وہاں سے نکلنے کے پر تولنے لگی 

میں چھوڑ دیتا ہوں زاویار بھی اس کے پاس آیا 

آپ آپ میرے شوفر بھی بنے گے حانم نے بظاہر ہنس کر کہا 

نہیں وہ زاویار خجل ہوگیا ۔۔۔

________

حانم اپنے فلیٹ کا دروازہ کھول کر اندر آئی تو اسے کیچن سے کھٹ پٹ کی آواز آئی ایک لمحے کے لیے حانم کو چوڑ کا خیال آیا لمحے کے ہزارویں حصے میں حانم نے کی ریک کے نیچے پڑے ڈیکوریشن پیس کو ہاتھ میں تھاما اور جلدی سے کیچن کی طرف بڑھی اس سے پہلے وہ بھاری بھرکم شو پیس سے ساحر کا سر پھاڑتی ساحر نے ایک ہی جست میں اس کا ہاتھ تھام لیا  

نور!!!

ساحر سائیں 

آہ۔۔۔۔۔ اللہ میں تو ڈر ہی گئی تھی 

حانم نے شو پیس کیچن کے شیلف پر رکھا خود شیلف سے ٹیک لگا کر گہرے گہرے سانس لینے لگ پڑی 

خود کو کمپوز کرنے کے بعد حانم نے ساحر کے ہاتھ پانی کا گلاس پکڑا جو اس نے حانم ہی کے لیے بھرا تھا 

بیٹھ کر پیو

اففف پتا میں کتنا ڈر گئی کہ پتا نہیں کون گھس گیا میرے فلیٹ میں حانم نے کرسی میں بیٹھتے ہوئے کہا 

خیر آپ یہاں پر کیا کر رہے تھے 

نکاح کے بعد سے حانم اور ساحر کے پاس اپنے اپنے فلیٹ کے علاوہ ایک دوسرے کے فلیٹ کی چابی بھی موجود تھی ۔۔۔

میں تمہارا انتظار کر رہا تھا پھر سوچا کیوں نہ پاستہ بنا لیا  جائے پہلے تو تم زبردستی بنواتی تھی آج میں نے بنالیا

 ویسے بھی میں نے لنچ ٹھیک نہیں کیا تھا اور اب تو ڈنر ٹائم ہوگیا 

خیر لنچ سے یاد آیا تم تو نور العین کے ساتھ لنچ کرنے گئی تھی کیسا گزرا دن تمہارا 

م۔میرا ۔۔ہم اچھا گزرا دن 

انجوائے کیا حانم نے نظریں چرائیں ان فیکٹ میرا پیٹ تو بہت زیادہ بڑھ گیا ہے مجھے نہیں لگتا پاستے کے لیے گنجائش ہوگی

حانم اس سے نظریں نہیں ملا پارہی تھی 

کوئی بات نہیں پھر تم جا کر ریسٹ کرو میں سب سمیٹ کر فلیٹ لاک کرکے چلا جاؤ گا ۔۔  

آپ اسے ڈش آؤٹ کریں میں آئی 

حانم  فورا کمرے کی طرف بڑھی 

باتھ لے کر واش روم سے باہر آئی آج کے واقع نے اس کے اعصاب جھنجھلا دئیے تھے اوپر سے اس کا ساحر سے جھوٹ بولنا شیشے کے سامنے کھڑی ہوکر وہ کتنی ہی دیر وہ انہیں باتوں کو سوچتی رہی سب سے بڑا تو اسے ساحر سے جھوٹ بولنے کا گلٹ تنگ کر رہا تھا 

ہوش تو اسے تب آیا جب اپنے فلیٹ کا دروازہ لاک ہونے کی آواز آئی 

بے دھیانی میں حانم کی نظر گھڑی پر پڑی وہ گھنٹے سے شیشے کے سامنے کھڑی تھی

وہ فوراً کمرے سے باہر نکلی 

پاستہ ڈش میں ڈھکہ ہوا پڑا تھا 

ساحر سائیں شٹ !!! حانم تم کیسے کر سکتی ہو ساحر سائیں کے ساتھ ایسا 

کیا وہ ناراض ہوگئے یک دم حانم کا دل اداس ہوا 

وہ اپنے کمرے میں آکر چت بستر میں گڑی ایک آنسو اس کی آنکھ سے ہوتا اس کے نم بالوں میں جذب ہوگیا 

_________

ساحر کافی دیر حانم کا انتظار کرتا رہا یہاں تک کے حانم کا نظریں چرانا بھی محسوس کر چکا تھا جب کافی دیر بعد بھی حانم باہر نہیں آئی تو ساحر کھانا ڈھانپ کر اس کے فلیٹ کو لاک کرکے اوپر آگیا 

بھوک تو اڑ ہی چکی تھی اس لیے چپ چاپ آکر بستر پر دراز ہوگیا دماغ میں ہزاروں باتوں کے ساتھ شکوے نے بھی حنم لیا مگر دل سے ایک ہی آواز آئ تھی

 نورِ ساحر تمہاری ہے 

________

صبح حانم کی جلد ہی آنکھ کھل گئی تھی کچھ سوچ کر فورا بستر سے اٹھی اور کیچن کی طرف بڑھی 

ساحر سائیں آپ کو تو منا ہی لوں گی 

کیا ناشتہ بناؤ حانم نے فورا یو ٹیوب اون کیا 

اففف اللّٰہ کتنے اوکھے اوکھے ناشتے ہیں 

بلا ساحر سائیں کو کیا پسند ہوگا حانم نے اپنے ہاتھ کی انگلی اپنی تھوڑی کے نیچے رکھ کر سوچنے والے انداز میں کہا 

ہاف فرائی یگ اور ایواکاڈو ٹوسٹ 

حانم اللّٰہ کا نام لے کر شروع ہوجا ہو کین ڈو اٹ 

بریڈ پر بٹر لگا کر اسے ٹوسٹرمیں ڈالا اور فریج سے ایواکاڈو 

نکال کر اس کے سلائس کرنے لگی 

اوو یہ تو ایزی تھا نور ساحر بہت جلد تم بھی ایک بہترین شیف بنو گی 

اب ایگ کی باری 

ہائے اللہ یہ بس قطرہ سا اوئل ڈالنا ہے پین میں حانم نے ہاف فرائی ایگ کی ویڈیو دیکھ کر بولا 

چلو دیکھ لیتے

 ارے یہ تو دو قطرے ہوگئے کچھ نہیں ہوتا خیر ہے حانم نے سر جھٹک کر شلف سے انڈا پکڑا 

اللّٰہ خیر اللہ کا نام لے کر انڈا پین میں ڈالا سر کرکے چند چھینٹیں اس کے ہاتھ پر گڑی 

اللہ سائیں ماما سائیں  حانم نے بے ساختہ کہا 

آفووو پھر گہرا سانس لے کر اپنے کام جھٹ گئی

فائنلی ایک گلاس میں جوس ڈال کر اس نے ٹرے میں رکھا 

جہاں ہاف فرائی ایگ کے ساتھ دو بٹر ایواکاڈو ٹوسٹ رکھے ہوئے تھے 

حانم ٹرے اٹھا کر اوپر والے فلیٹ کی طرف بڑھی 

ساحر کے فلیٹ کے دروازے کے باہر کھڑی ہوکر وہ چابی سے دروازہ کھولنے لگی جب وہاں سے جیک گزرا 

حانم نے ترچھی آنکھ کر کے جیک کو دیکھا پھر اپنا ہونٹ دانتوں تلے دبا کر اپنا سر ہلا کر اسے ڈرایا 

بے چارہ جیک دروازہ کے ساتھ لگتا گرتا پڑتا وہاں سے دوڑا 

ہاہاہاہا حانم ساحر کے فلیٹ میں داخل ہوئی 

واؤ ساحر سائیں تو بہت نفاست پسند ہیں صاف ستھرے فلیٹ کو دیکھ کر حانم نے کہا 

حانم جھجھکتی ہوئی ساحر کے کمرے کی طرف بڑھی اندر وہ اڑا تڑچھا لیٹا ہوا تھا 

ساحر سائیں آٹھ جائیں آفس نہیں جانا 

حانم نے آواز دی مگر جواب ناداد 

ساحر سائیں حانم نے اب زرا آونچی آواز دی 

مگر اب بھی وہاں سے کوئی حرکت نہیں ہوئی 

حانم نے اس کے بازو سے ہلایا ساحر سائیں آٹھ جائیں آفس نہیں جانا 

حانم اسے ہلا کر وہاں سے ہٹنے لگی جب ساحر نے اس کا ہاتھ پکڑا 

سس۔۔۔ اور حانم کی سسکی پر ایک دم اٹھ کر بیٹھا اپنے سامنے کھڑی حانم کو دیکھ کر آنکھیں جھپکی پھر اس کے چہرے پر درد کے آثار دیکھ کر اثر نے حانم کا ہاتھ چھوڑا 

وہ تو اس سب کو خواب سمجھ رہا تھا 

سوری 

مگر اس کا سرخ ہوتا ہاتھ دیکھ کر تشویش میں آیا 

یہ کیا ہوا ہے نور اب زرا نرمی سے ہاتھ تھامہ 

افف ساحر سائیں اسے چھوڑیں اور یہ لیں ناشتہ میں نے خود بنایا ہے 

پکڑیں کہیں ٹھنڈا نہ ہو جائے 

حانم نے سائیڈ ٹیبل پر پڑی ٹرے ساحر کے سامنے کی

ساحر خاموشی سے حانم کو دیکھ رہا تھا 

حانم اس کی خاموشی نوٹ کرکے اداس ہوئی

آئی ایم سوری ساحر سائیں مجھے کل ایسا نہیں کرنا چائیے تھا آپ نے ویٹ ۔۔۔۔

ابھی حانم اور کچھ بولتی ساحر نے سائیڈ ٹیبل کے دراز میں پڑے فرسٹ ایڈ باکس میں سے برنال نکال کر حانم کے ہاتھ پر لگائی 

تم کتنی لاپروا ہو نور ساحر اپنا ہاتھ بھی جلا لیا اور اوپر کچھ لگایا بھی نہیں 

حانم ایک دم خاموش ہو گئی

تم کتنی لاپروا ہو نور ساحر اپنا ہاتھ بھی جلا لیا اور اوپر کچھ لگایا بھی نہیں 

حانم ایک دم خاموش ہو گئی

آئی ایم سوری ساحر سائیں مگر میں ایسا نہیں چاہتی تھی وہ مجھے پتا نہیں لگا کیسے نیند آگئی 

کوئی بات نہیں نور یقین تم کل تھکی ہوئی ہوگی نہیں تو وہ پاستہ تمہارا فیورٹ تھا تم کیسے چھوڑ سکتی ہو اسے 

خیر میں زرا فریش ہو آئوں پھر ٹیسٹ کرتا ہوں کہ مس شیف نے کیسا بنایا ہے بریک فاسٹ ساحر بیڈ سے اٹھتا 

واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

_________

پاکستان!!!!!

شائستہ بیگم ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی ملازمہ سے اپنے پاؤں دبوا رہیں تھیں جب سونیا اپنا بیگ گھسیٹتے اندر آئی 

سونیا۔۔۔۔

 شائستہ بیگم سونیا کی ابتر ہوتی حالت دیکھ کر اس کی طرف لپکی جس کا ایک گال سوجھا ہوا تھا اور آنکھوں کے نیچے ہلکے پڑے ہوئے تھے 

سونیا میری بچی شائستہ بیگم اس کے گلے لگنے کو آگے بڑھی جب سونیا نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ انہیں خود سے دور جھٹکا 

دور رہیں آپ مجھ سے 

سونیا میں تیری ماں 

کوئی ماں نہیں ہے میری آپ صرف ڈائن ہیں ڈائن میری اس حالت کی زمہ دار ہیں آپ دور رہیں مجھ سے سونیا پاگلوں کی طرح چیخ رہی تھی 

یہ کیسا شور ہے ؟ شور کی آواز سن کر گھر کی خواتین اور  آغا سائیں باہر آئے 

آغا سائیں دیکھیں کیسے اس وحشی نے میری بچی کو مارا ہے کتنا روئی تھی میں کہ نہ کرواؤ اس سے میری بچی کی شادی میری پھول سی بیٹی شائستہ بیگم پھر سونیا کے قریب آئیں 

پھول جیسی بچی آپ کی اور  آنسہ کیا وہ ماں کی بیٹی نہیں تھی یاں اس کے پاس دل نہیں تھا اللہ سائیں نے اس نیک کی قسمت میں نیک شوہر لکھا تھا اور تمہاری بیٹی کی جو حرکتیں تھیں اسے ویسا ہی شوہر ملا ہے اب پھر واپس آ گئی ہے ہم سب کے سر پر عزاب بننے مگر آغا سائیں اب یہ عورت اور اس کی بیٹی اس گھر میں نہیں رہے گی ہماری بھی جوان بیٹیاں ہیں اب یہ تو یہ دونوں ادھر رہیں گی یہ ہم  ہما جاوید بھی سونیا کا ہال دیکھ کر بول پڑیں 

جی آغا سائیں پہلے ہی اس سونیا نے میری صنم کو بھی جانے کیا پٹی پڑھائی تھی 

اچھا بھابھی سائیں تمہاری صنم کوئی دودھ پیتی بچی ہے جو باتوں میں آگئی شائستہ نے طنزیہ انداز میں  کہا 

بس کر جاو شائستہ بہت ہوگیا تمہارا اب میں تمہے ایک لمحہ یہاں برداشت نہیں کرسکتا 

آغا سائیں کی دھاڑ پر سناٹا ہوا 

آغا سائیں وہ باہر وہ سونیا بی بی سائیں کو لینے ۔۔۔۔۔

نوراں نے وہاں آکر جھجھکتے ہوئے کہا 

نہیں ۔نہیں آغا سائیں میں آپ کے پاؤں پکڑتی ہوں پلیز مجھے اس شخص کے ساتھ نہ بھیجیں آپ جو سزا دیں گے مجھے قبول ہوگی پلیز یہ ظلم مت کریں آپ آپ میرا قتل کردیں مگر اس شخص کے ساتھ نہ بھیجیں میں میں نے نہیں جانا 

سونیا زارو قطار روتی آغا سائیں کے قدموں میں گڑی  شائستہ بیگم کے بھی دل کو کچھ ہوا 

نہیں جائے گی میری بیٹی یہاں سے شائستہ بیگم نے سونیا کو تھاما

جائے گی ضرور جائے گی تمہاری بیٹی بھی اور تم بھی ہم تمہے اب اس حویلی میں اور برداشت نہیں کرسکتے ہیں 

یہاں سے دور چلی جاؤ اور پھر جو جی میں آئے کرو ہمیں کوئی غرض نہیں 

جاوید سائیں بھی وہاں آئے 

کیوں نکالیں گے آپ ہمیں نہیں نکال سکتے حصہ ہے میرا اس حویلی میں شائستہ بیگم بھڑکی 

بس کر جائیں ماں خدا کے لیے بس کر جائیں پیسہ پیسہ پیسہ کیا کریں گی آپ اس کا قبر میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہے آپ کی دولت کے لیے ہوس نے مجھے آپ جیسا بنا دیا ہے کاش میں بھی بھائی کے ساتھ چلی جاتی 

مامو سائیں میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں آپ چائے ایک کمرہ ہی دے دیں مگر یو گھر سے نہ نکالیں میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں سونیا روتے ہوئے ہاتھ جوڑ گئی 

________

بہت بہت مبارک ہو حالہ اللّٰہ سائیں نے کرم کیا آنسہ بیگم حالہ بیگم کے گلے لگیں 

ادی سائیں یہ میرے پاک رب کی شان ہے نہیں تو میں نے تو بالکل ہی امید چھوڑ دی تھی 

نہیں حالہ نا امیدی کفر ہے آنسہ بیگم نے اسے اپنے ساتھ لگایا 

بے شک رب کائنات ہمیشہ ہم گناہ گاروں کو نوازتا ہے 

بے شک حالہ بیگم نے بھی نم آنکھوں سے کہا 

واہ کیا بات ہے یہاں تو نندھ بھاوج میں تو آپس میں پیار ہورہا  ہے

تبھی حماد خان وہاں آئے 

جی خان سائیں میں آج بہت خوش ہوں حالہ کی رپورٹس بہت اچھی آئیں ہیں ڈاکٹرز کا کہنا ہے اس کے کینسر کی پکڑ ہوچکی ہے اب بس صرف چند مہینے دوائیاں کھانی پڑیں گی 

آنسہ بیگم کے لہجے میں صاف خوشی عیاں تھی ۔۔

ماشاءاللہ یہ تو اچھی بات ہے بہنا حماد خان نے حالہ کے سر پر ہاتھ رکھا 

شکریہ حماد ادا سائیں

اچھا میں یہ خبر حانم کو دے کر آئی 

حالہ بیگم اپنے کمرے کی طرف بڑھی 

_______

آنسہ !!!

آنسہ جو مسکرا کر حالہ بیگم کی خوشی دیکھ رہیں تھیں حماد خان کے پکارنے ہر چونکی 

جی خان سائیں

خان کی خانم سائیں جب شوہر کام سے آتا ہے تو اس کے لیے اپنے ہاتھوں سے چاہے شاہے بنائی جاتی ہے۔۔۔

جی میں ابھی بنا کر لائی آنسہ مسکرا کر کیچن کی طرف بڑھ گئی۔۔۔

________

ہائے کیسی ہو نور عینی حانم کے کیبن میں آئی 

میں ٹھیک ہوں تم سناؤ کیسی ہو 

میں تو بہت اچھی وہ ی نے کھلکھلا کر کہا 

ہاہاہاہا حانم بھی جواب میں ہنس دی جب اس کی نظر عینی کے ہاتھ میں تیسری انگلی میں پہنی انگھوٹھی پر پڑی 

واؤ عینی یہ تو بہت خوبصورت ہے 

نور نے عینی کا ہاتھ پکڑا

زی نے دی ہے کل عینی نے شرما کر کہا 

اوہو زارون سر نے دی ہے یہ تو بہت پیاری ہے 

نور کل مجھے اور زی کو بہت مزا آیا ہماری طرف سے ایک بار پھر خان سر کو تھینکس کہنا 

تھینکس؟؟؟ مگر کس لیے حانم نے نا سمجھی سے پوچھا 

ارے تمہے نہیں بتایا خان سر نے کل انہوں نے مجھے اور زارون کو لنچ ٹریٹ دی تھی خود تو ان کی میٹنگ تھی نہیں تو وہ کہ رہے تھے کہ تم اور وہ بھی ضرور ہمیں جوائن کرتے خیر کل لنچ کے بعد ہم نے تھوری واک کی پھر زی نے مجھے پرپوز کرنے کے سٹائل میں رنگ دی ۔۔۔۔

عینی اور بھی بہت کچھ بتا رہی تھی مگر حانم تو اسی بات میں اٹکی ہوئی تھی

" ساحر سائیں میں آج نور العین کے ساتھ جارہی

 ہوں لنچ کرنے وہاں سے گھر چلی جاؤں گی آپ فکر 

مت کیجئے گا "

کیا کوئی کسی پر اتنا بھی ٹرسٹ کر سکتا ہے جتنا ساحر سائیں اس پر کرتے ہیں 

پہلے میں نے ان سے جھوٹ بولا جسکا انہیں پتا بھی تھا کہ میں جھوٹ بول رہیں ہوں پھر میں نے ان کا دل دکھایا حانم کی آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں 

نور کیا ہوا ؟؟ عینی نے چونک کر حانم کی سرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھ کر پریشانی کے ساتھ پوچھا 

کچھ نہیں بس آنکھ میں کچھ چلا گیا ہے میں زرا چیک کرکے آئی حانم وہاں سے اٹھی ۔۔۔۔

اس کا رخ ساحر کے آفس کی طرف تھا 

حانم اندر گئی تو زاویار پہلے سے ہی اندر موجود تھا 

مس نور آپ یہاں زاویار اسے دیکھ کر چونکہ مگر حانم اسے اگنور کیے ساحر سے مخاطب ہوئی 

سا ۔خان سر مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے 

یس میں ۔۔۔۔ سر ابھی وہ بھی اکیلے میں حانم نے ایک نظر زاویار کو دیکھا 

دیکھنے کا انداز ایسا تھا جیسے کہہ رہی ہو جائیں

اوکے مسٹر زاوی آپ یہاں سے جاسکتے ہیں باقی بات بعد میں ہوگی 

زاویار ایک نظر ساحر کو دیکھ کر مٹھیاں بھینج کر وہاں سے چلا گیا 

سر۔۔۔۔

 مس نور 

یہ سب کیا ہورہا ہے ساحر سائیں حانم کی آواز بھرائی ہوئی تھی 

ساحر ایک دم چونکا کیا ہوا ہے نورِ ؟

ساحر پریشان ہوا 

آپ۔۔۔ حانم کی آنکھ سے ایک آنسو نکلا ساحر فورا اپنی چئیر سے اٹھ کر اس کے قریب آیا 

کیا ہوا نور مجھے بتاؤ 

نہیں حانم زور زور سے نفی میں سر ہلانے لگ پڑی  ساحر حانم کا ہاتھ پکڑ کر آفس سے باہر لے گیا اسے گاڑی میں بٹھایا اور خود گاڑی چلانے لگ پڑا ۔۔۔۔

حانم گاڑی کی سیٹ سے اپنی پشت لگا کر آنکھیں موند گئی

اور گاڑی کے رکنے پر حانم نے آنکھیں کھولیں 

ساحر اس کا ہاتھ تھام کر اپنے فلیٹ میں لے آیا 

حانم کو صوفے پر بٹھا کر خود زمین پر پنجوں کے بل بیٹھ کر اس کے ہاتھ تھام گیا 

کیا ہوا ہے نور مجھے بتاؤ کیوں رو رہی ہو؟؟

حانم نے شکوہ کناں نظروں سے ساحر کو دیکھا

آپ کو پتا تھا نہ کہ میں نے جھوٹ کہا ہے کہ میں نور کے ساتھ جارہی ہوں پھر بھی آپ نے مجھ سے نہیں پوچھا 

کیوں ساحر سائیں کیوں نہیں پوچھا آپ نے مجھ سے 

ساحر خاموشی سے اسی پوزیشن میں بیٹھا ہوا تھا 

میں کچھ پوچھ رہی ہوں ساحر سائیں کیوں نہیں پوچھا آپ مجھ سے پوچھنے کا حق رکھتے تھے 

حانم نے اپنے ہاتھ اس کی گرفت سے چھڑوائے 

آپ بتائیں مجھے ساحر سائیں 

آپ کو پتا ہے میں کل نور العین کے ساتھ نہیں زاویار سر کے ساتھ لنچ پہ گئی تھی 

حانم نے سنجیدگی سے ساحر کو دیکھ

آپ کو پتا ہے اس شخص نے مجھے کل پرپوز کیا ہے 

ساحر کی گرفت حانم کے ہاتھوں پر سخت ہوئی

اس کے کسے ہوئے جبڑے اس کے اشتعال میں آنے کا ثبوت تھے

وہ شاہد اس کا ضبط آزما رہی تھی 

آپ نے مجھ سے کیوں چھپایا ساحر سائیں کہ سر زاوی ہی میر زاویار ہے اب حانم کے لہجے میں شکوہ تھا کرب تھا  

مجھے جواب چائیے ساحر سائیں اب کہ حانم نے ساحر کے ہاتھ تھامے

ساحر نے اس کے کرب زدہ لہجے پر تڑپ کر اس کی طرف دیکھا 

نور مجھے نہیں پتا تھا

مجھے نہیں پتا تھا کہ کہ زاویار اس آفس کا باس ہے 

نہیں پتا تھا کہ جسے  ٹونٹی پایو پرسنٹ کی پارٹنرشپ زارون نے دی تھی  وہ میر زاویار ہے 

مجھے نہیں پتہ تھا تم جب اس آفس میں جوب کرنے لگی تو میں پاکستان چلا گیا تھا جب وہاں سے واپس آیا تو مجھے زاویار آفس کے باہر ملا اس نے جب مجھے  بتایا کہ وہ اس آفس کا باس ہے  مجھے لگا کہ وہ میرے صرف چڑا  رہا ہے مجھے تب بھی معلوم نہیں تھا 

مگر ۔۔۔۔۔

پھر مجھے زارون سے پتا لگا کہ وہ یہاں کا  شیئر ہولڈر ہے  مجھے اس وقت صرف تمہاری فکر  تھی 

 کہ تم اس کو دیکھ کر اپنا فیصلہ نہ بدلو راہ فرار نہ چن لو اپنے خواب کو نہ ادھورے چھوڑ دو 

مگر حیرانی مجھے تب ہوئی جب گزاروں اور تم آپس میں بالکل عام سے رویہ کے ساتھ مل رہے تھے

 پھر مجھے پتا لگا کہ تم لوگ آپس میں دوسرے کو نہیں جانتے مجھے پیار کو تو ویسے ہی میں نے آفس سے نکلوا دینا تھا اس لئے میں نے تمہیں بتایا کہ کہیں تمہارے خواب کے راستے میں رکاوٹ نہ بن جائے یہ بات  

اور جا رہ گئی  تم سے نہ پوچھنے کی بات تو مجھے تم پر یقین تھا کہ میروں کی نور حانم اسعد حاکم کبھی ہمارا سر جھکانے والا کام نہیں کرے گی

ساحر کے لہجے میں مان تھا 

نور حانم تو کمزور ہوسکتی ہے مگر نور ساحر نہیں 

حانم روتے ہوئے اس کے شانے پر اپنی پیشانی ٹکا گئی 

کیا کوئی کسی پر اتنا اندھا اعتبار بھی کرسکتا ہے  ساحر سائیں سر ہنوز شانے پر تھا حانم نے بھیگے لہجے میں رشک کے ساتھ کہا ہاں اسے خود پر رشک ہورہا تھا اپنی قسمت پر رشک ہورہا تھا 

میں نے پہلے بھی کہ تھا نورِ ساحر کہ میرے نزدیک محبت کا پہلا اصول اعتبار ہے اور تمہارے جھوٹ کو جاننے کے باوجود تم پر یقین کرنا میری محبت کا امتحان تھا !!!!

آپ مجھ پر اعتبار کرتے ہیں مگر مجھے آپ کا ساتھ بھی چائیے ساحر سائیں حانم سیدھی ہوئی 

ایک لڑکی کے لیے اس کا کردار بہت معنے رکھتا ہے ساحر سائیں اور ہر لڑکی کو اپنے کردار کو صاف کرنے کے لیے آپ جیسا ہم سفر نہیں ملتا

ہر کردار کے سوراخ کے لیے پیوند نہیں ملا کرتے 

میں سزا دینا چاہتی ہوں ساحر سائیں ایسے لوگوں کو جو اپنی انا میں کسی کی زندگی برباد کر دیتے ہیں آپ میرا ساتھ دیں گے نہ حانم نے اس کی سرمئی آنکھوں میں جھانکا تھا اس کی بھوری آنکھوں میں آس کے دیے روشن تھے

مجھے پاکستان میں پتا لگا تھا صنم کے ہاتھ میں تصویر دیکھ کہ میر زاویار کون ہے  میں حیران ہوگئی تھی

پھر  ان کا رویہ خود کے ساتھ یاد آیا 

 اس لیے میں اس کے ساتھ گئی تھی

تاکہ جان سکوں ہو سب کیا فریب تھا اس شخص کے اتنے اچھے رویے کے پیچھے کیا مکاری چھپی ہے میں کل سب صاف اور واضح کرنے گئی تھی مگر ۔۔۔

مگر میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ شخص مجھے پرپوز کردے گا اس س

وقت میرا دل کر رہا تھا اسے اتنا ماروں اتنا ماروں کو وہ اپنی ،شناخت بھول جائے 

پھر خیال آیا کہ قسمت بھی کیا چیز ہے نہ کیسے کیسوں کو کہاں لا پٹکتی ہے 

اس شخص کے حقارت آمیز الفاظ میرے دماغ میں ہتھوڑے کی طرح برستے ہیں جن کا ازالہ اسے کرنا پڑے گا 

غیر مرائی نقطے کی طرف دیکھتے ہوئے حانم نے اٹل لہجے میں کہا تھا 

نور ساحر تم اپنے ساحر سائیں کو اپنے ہر فیصلے پر ہر راستے میں اپنے ساتھ پاؤ گی۔۔۔۔

ساحر نے جیسے بات ہی ختم کردی 

______

کہاں گئے تھی تم نور حانم جب آفس آئی تو نور العین اسے ہولی 

کہیں نہیں یار بس گھر گئی تھی وہ میرا فون گھر رہ گیا تھا 

اچھا ابھی نور العین کوئی اور بات کرتی حانم کا فون بجا 

ہیلو اسلام علیکم جی مما سائیں 

جی کیا ؟؟؟ حانم اپنی چئیر سے اٹھی میں میں بتا نہیں سکتی مما سائیں میں کتنا خوش ہوں اوکے اوکے میں سائیں کو بھی بتا کر آئی 

اففففف عینی میں کتنا خوش ہوں حانم نور العین کے گلے ملی 

میری مما سائیں عینی میری مما کو کینسر تھا مگر اب وہ ٹھیک ہیں۔ ان کی رپورٹس بہت اچھی آئیں ہیں 

واؤ نور یہ تو بہت اچھی خبر ہے تمہیں تو بہت بہت مبارک ہو

ہاں میں سائیں کو بتا کر آئی 

حانم ساحر کے آفس میں گئی 

ساحر سائیں ساحر سائیں

کیا ہوا ہے حانم ساحر مما حانم سانس لینے لگ پڑی 

کیا ہوا ممانی سائیں کو 

ان کی رپورٹس بہت اچھی آئیں ہیں میں بہت خوش ہوں ساحر سائیں ڈاکٹرز نے بہتری بتائی ہے حانم خوشی کے مارے اس کے ہاتھ سے پکڑ چکی تھی جب زاویار اور زارون اندر آئے 

حانم سائیڈ پر ہوئی 

زاویار نے خون آشام نظروں سے اس منظر کو دیکھا

میں چلتی ہوں حانم وہاں سے چلی گئی 

اففف نورِ حوصلہ ہی نہیں ہے تجھ میں 

آج حانم خوش تھی بہت خوش پہلے تو اس نے ساحر کو منا حل یا دوسرا صاحب سب کو شیئر کرکے اپنے دل کا بوجھ اتارا

اور اب مما سائیں کی خبر 

وہ اپنا سامان سمیٹ رہی تھی جب زاویار ادھر چلا آیا

میں بھی سوچ ہی رہی تھی کہ اب تک دن اتنا اچھا کیسے گزر گیا حانم اسے دیکھ کر دل ہی دل میں بڑ بڑائی

نور تم ساحر سے دور رہا کرو 

نور نے ائی برو اچکائیں 

اس نے تمہارا ہاتھ پکڑا ہوا تھا

تم مجھ پر شک کر رہے ہو 

حانم کا لہجہ سپاٹ تھا 

نہیں نور مگر تم خان سے دور رہو وہ اچھا انسان نہیں ہے 

کیوں انہیں کیا مسئلہ ہے وہ بھی میرے باس ہیں تمہاری طرح 

میری بات الگ ہے نور وہ گاؤں کا ایل مینیرڈ بندہ ہے مجھے وہ بالکل اچھا نہیں لگتا 

آپ کی بات الگ کیسے ہوئی آپ میں کوئی ہیرے جڑے ہوئے ہیں اور گاؤں کے پینڈوں کی کیا بات کی میں بھی گاوں

 کی ہوں میرا تعلق بھی گاؤں سے ہی ہے میں بھی گوار ہوئی پھر 

حانم کو تیز چڑا اب یہ غصہ گاؤں والوں کو گوار کہنے کا تھا یہاں ساحر کی برائی کرنے کا 

نہیں  وہ ۔۔نہیں کیا اگر خان سر المینرڈ ہوتے تو آج آپ سے اونچی پوسٹ پر نہیں بیٹھے ہوتے 

حانم نے اسے شیشہ دیکھایا 

سر جھٹک کر وہاں سے چلی گئی ۔۔۔۔۔

جاری ہے ۔۔۔

میں بس اتنا کہوں گی اتنی جلدی کسی کے لیے اپنی رائے نہیں دیتے پچھلی بائس قسطوں سے حانم کے کریکٹر کو پڑھ رہیں ہیں آپ بس ایک ایپی سے ہی اس کی ایمیج خراب ہوگئی 

حانم گاڑی میں آکر بیٹھی اور دروازہ زور سے بند کیا 

اس کی اتنی ہمت کہ ہمیں گاؤں کا پینڈو کہے گا خود کیا ہے پڑھا لکھا جاہل گدھا وہ میں منہ میں بڑبڑانے لگی

نور آر یو اوکے ؟؟

ساحر نے حانم کے اتنی زور سے گاڑی کا دروازہ بند کرنے پر استفسار کیا 

ساحر سائیں اس وقت میں بہت غصے میں ہوں مجھ سے کچھ مت پوچھیں 

حانم نے تپے ہوئے لہجے میں کہا

ساحر بھی کندھے اچکا کر گاڑی سٹارٹ کرنے لگ پڑا

کچھ دیر یوں ہی خاموشی سے گزر جانے کے بعد حانم پھر بول پڑی 

ساحر سائیں ہاؤ مین ہو ار

  آپ کو پتہ ہے نا میں اس وقت غصے میں ہوں آپ پوچھ بھی نہیں رہے مجھے کیا ہوا ہے

حانم نے آنکھیں چھوٹی کرکے دکھی لہجے میں کہا 

مگر تم نے ہی تو کہا ہے کہ تم سے اس وقت کچھ بھی نہ پوچھو ساحر بوکھلا ہی  گیا 

ہاں توں وہ میں نے کہا ہے نا 

پوچھنا تو آپ کا فرض بنتا ہے  حانم نے منہ موڑ کر خفگی کے ساتھ کہا

اچھا تو نورِ ساحر کیا آپ اس خادم کو بتائیں گی کہ آپ کو کس چیز کا غصہ چڑا ہوا ہے 

ساحر نے بہت ہی دل فریب انداز میں پوچھا  تو نہ چاہتے ہوئے بھی حانم مسکرا دیں دی

پھر اپنا غصہ یاد آنے پر پھٹ پڑی 

اس سٹوپڈ زاویار اس کی ہمت کیسے ہوئی آپ کو گاؤں کا گوار کہنے کی مجھے کہتا آپ سے دور رہو اس کی ہمت کسیے ہوئی آپ کی برائی کرنے کی حانم نون سٹوپ شروع ہوگئی 

ون منٹ ۔۔۔ساحر نے اس کی بات کاٹی 

جی۔۔۔ پھاڑ کھانے سے انداز میں جواب دیے جیسے اسے اپنی بات کاٹنا نا گوار گزرا یے

یہ غصہ گاؤں والوں کو گوار کہنے کا ہے یہاں میری برائی کرنے کا ساحر نے آنکھوں میں شرارت لیے بظاہر سنجیدگی ںسے پوچھا 

آف کورس آپ کی برائی کرنے حانم بولتی اپنی زبان اپنے دانتوں میں دبا گی

نہیں مطلب ۔۔۔دونوں باتوں پر غصہ ہے بالاخر جھنجھلا کر بولی تو ساحر اپنی مسکراہٹ نہ روک سکا 

کیا ہے کیوں مسکرا رہے ہیں حانم نے آنکھیں ترچھی کرکے ساحر کو دیکھا 

نہیں میں کب ہنس رہا ہوں ساحر نے مسکراہٹ دبا کر اپنا چہرہ سامنے کیا 

آئسکریم کھاؤ گی گاڑی کا رخ آئس کریم پارلر کی طرف موڑ کر ساحر نے حانم کے تپے ہوئے چہرے کی طرف دیکھ کر  پوچھا

اس کا تپا تپا چہرہ بہت کیوٹ لگ رہا تھا 

نہ حانم زور زور سے نفی میں سر ہلایا 

پکا نہ میں واپس موڑ لو گاڑی ویسے  ڈیزی  مجھے کل سے کہ رہی کہ خان سر اتنی بڑی ڈیل ملی ہے آئسکریم ہی کھلا دیں 

اسے لے جاؤ 

ساحر  اپنا چہرہ تھوڑا سا ٹیرا کر کے حانم کے سرخ ہوتے چہرے کی طرف دیکھ کر بولا

حانم نے گہرا سانس لیا پھر بولی جیسے پھول جھڑ رہی ہو 

ساحر سائیں

واہ کیا انداز تخاطب تھا 

ساحر ہمہ تن گوش ہوا 

جی نورِ ساحر

آپ ڈیزی کو ہی لے جائیں 

مگر پھر اس کے بعد اس کی ٹانگیں سلامت بچیں گی اس بات کی گرنٹی نہیں دے سکتی میں 

پہلی بات انتہائی نرم لب و لہجے سے کہہ کر دوسری بات دانت پیستے ہوئے کہتی ساحر کے چودہ طبق روشن کر گئی

نہیں میں کیوں لے کر جانے لگا کسی اور کو جب نورِ ساحر ہے میرے ساتھ 

۔۔۔۔۔۔۔۔

آئسکریم پارلر میں بیٹھی نور مزے سے اپنی آئسکریم کھانے کے بعد ساحر کی آئسکریم کھانے میں مصروف تھی جب ساحر نے اسے پکارا 

نور 

ایک لمحے کو نور نے اپنا چہرہ اوپر کیا اس کے دائیں گال پر لگی آئسکریم دیکھ کر ساحر اپنی مسکراہٹ دبا گیا ایک چاکلیٹ اور ایک آئسکریم حانم ان دونوں چیزوں کی دیوانی تھی اور اس کا کھانے کا طریقہ بھی نرالہ تھا 

گال پر لگ گئی ہے آئسکریم ساحر نے ٹشو پیپر اس کی طرف بڑھایا 

نور نے لاپرواہی سے اپنا گال صاف کرکے اپنا دھیان دوبارہ اپنی پگلتی آئسکریم کی طرف مرکوز کیا 

ساحر اس کی آئس کریم ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ جب تک آئسکریم ختم  نہیں ہو جاتی حانم اس کی بات نہیں سنے گی

آئسکریم ختم ہونے کے بعد حانم نے التجائیہ نظروں سے ساحر کی طرف دیکھا 

نو ۔۔۔۔نور دو آئسکریم کھالیں ہیں بس اور نہیں یار گلہ خراب ہو جائے گا ابھی موسم بھی نہیں ہے 

نہیں میں نے کھانی ہے تو کھانی اگر آپ کو یاد ہو تو آپ ہی مجھے ادھر لائے تھے میں نے ضد نہیں کی تھی حانم نے ناک منہ چڑایا 

نور ،،،،، ساحر نے تنبیہ کی 

مگر اثر کسے ہونا تھا حانم نے ویٹر کو بلایا 

ون ڈبل چاکلیٹ 

ساحر گہرا سانس بھر کر رہ گیا 

سچ میں وہ ہی تو لایا تھا اسے یہاں اب تحمل سے بیٹھا اسے اپنے سٹائل میں آئسکریم کھاتا دیکھ رہا تھا جو اپنی حرکتوں سے اس کا ضبط آزما رہی تھی

اہ ۔۔۔ مزا آگیا زبردستی آئسکریم کا  تیسرا کپ ختم کرکے ہی حانم نے سانس لیا 

کھالیا ساحر نے اپنی تسلی کے لیے پوچھا 

تو اور کیا اب کیا میں آئسکریم سے ہی پیٹ بھر لوں آپ نے پاستہ بنا کر بھی کھلانا ہے 

اففف یہ نخرہ 

بیل ہے کرکے ساحر اور حانم کے گاڑی کے پاس آئے 

اور تمہے ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں تمہے پاستہ بنا کر کھلاؤں گا ساحر نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا 

ساحر کے لفظوں پر دونوں کو ہی اس دن والا واقع یاد آیا 

تب بھی ساحر نے یہ ہی کہا تھا وہ واقع یاد کرکے دونوں ہی کھلکھلا کر ہنسے 

حانم نے چھپکے سے ایک نظر ساحر کی مسکراہٹ پر ڈالی اور دل میں ماشاءاللہ کہا

آج سے پہلے اس نے کبھی ساحر سائیں کو  اتنا ہنستے نہیں دیکھا تھا 

ساحر میں نے تو تب آپ سے پاستہ بنوالیا تھا جب ہمارا کوئی خاص رشتہ نہیں تھا اب تو میرا پورا پورا حق ہے 

حانم نے رعب سے کہا تو ساحر نفی میں سر ہلا کر مسکرانے لگا 

جب من چاہی محبت مل جائے وہ بھی تب جب اسے پانے کی کوئی امید کوئی سرا پاس نہ ہو تو اس کے ناز  نکھرے بھی اٹھائے جاتے ہیں اور لاڈ  بھی 

پھر مسکرائٹ یو ہی لبوں کا حصہ بن جاتی ہے 

جیسے ساحر کی اپنی نور ساحر کو پاکر 

__________

مسز زی مسز زی  زارون کا موڈ آج کافی خوشگوار تھا تبھی عینی کو پکارتا گھر میں داخل ہوا مگر گھر تو ایسے جیسے سنسان پڑا ہوا تھا 

عین !!!عین!!! نور العین!!!!

کہا ہو یار؟؟؟

 عینی کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر زارون اب پریشان ہوا 

اپنے روم کیچن ٹیوی لاؤنج وہ کہی بھی نہیں تھی زارون کا دل دھڑکا جب اس کی نظر گیسٹ روم کے بند دروازے کے نیچے سے لائٹ کی چمک نظر آئی

زارون دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا گیسٹ روم کی طرف بڑھا اور دھیرے سے ہی گیسٹ روم کا دروازہ کھولا 

عینی میڈم صوفے پر ایک جگہ سمٹ کر بیٹھی سامنے لگی ایل آئی ڈی پر کوئی ہارر مووی دیکھ رہیں تھیں لائٹس ساری اوف تھیں صوفے کے آگے پڑی ٹیبل پر پاپ کارن بکھرے پڑے تھے اور عینی میڈم کبھی ایک ہاتھ آنکھ پر رکھ لیتی تو کبھی ہٹا دیتی 

عینی کو ادھر دیکھ کر  جہاں زارون نے سکون کا سانس لیا وہ ہی اس کا اتنا مگن ہو کر مووی دیکھنے پر اسے تپ چڑی 

پھر کچھ سوچ کر زارون دھیرے دھیرے قدم بھرتا صوفے تک گیا 

کیونکہ صوفے کی پشت دروازے کی طرف تھی اس لیے عینی بھی زارون کو نہیں دیکھ پائی

اس سے پہلے زارون اسے ڈراتا 

عینی زور ،ور سے چیخیں مارتی اس کے ساتھ لگی

۔۔۔۔۔۔۔۔

عینی جب آفس سے واپس آئی تھی تو زارون کو کسی کام کے لیے جانا پڑھ گیا اس لیے زارون کے لیے کھانا بنا کر وہ کمرے میں آگئی کافی دیر بعد جب زرقون واپس نہ آیا تو عینی نے موی دیکھنے کا پلین بنایا ایک عدد پاپ کارن کا بول اور ہاتھ میں ہارر مووی کی یو ایس بی لیے وہ گیسٹ روم کی طرف بھری کیونکہ وہ جانتی تھی جتنے تہزیب کے دائرے میں رہ کر وہ پاپ کارن کھاتی ہے زارون سے اسے ضرور ڈانٹ پٹ جانی ہے کیونکہ اس معاملے میں زارون بہت سٹرکٹ تھا اسے اپنا کمرہ صاف ستھرا پسند تھا 

پہلے پہل مووی انجوائے کرنے کے بعد جب مووی زیادہ ہارر ہوئی تو عینی کی سیٹی بھی گم ہوئی اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ صوفے سے اٹھ کر کمرے کی لائٹ جلا لیتی 

اس لیے اس نے صوفے پر ہی سمٹ کر زارون کے آنے کی دعا کرنا غنیمت جانا 

جب کوئی ہارر سین آتا آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیتی جب ختم ہوتا تو ہاتھ اٹھا لیتی ایک دم سے اس کی نظر ایل سی ڈی کے پاس لگے کانچ کے ڈیکوریشن پیس پر اپنے پیچھے کھڑے بھوت( بقول اس کے ) کا عکس نظر آیا عینی کا رنگ پھیکا پڑا پھر ایک دم سے ایل سی ڈی میں ایک خوفناک چڑیل خوفناک آوازوں کے ساتھ نمودار ہوئی  

ادھر ہی عینی کی بس ہوئی وہ زی زی چیختی زارون کے ساتھ لگی 

اہ ۔اہ ۔۔۔ زارون بچارا خود عینی کی چیخ سے ڈر چکا تھا ۔۔۔۔۔

تین منٹ تک عینی کی چیخیں کمال ضبط کے ساتھ برداشت کرنے کے بعد زارون نے کمرے کی لائٹ اون کی 

عین ابھی بھی بھوت بھوت چیخ رہی تھی 

چپ ایک دم چپ زارون کی آواز پر عینی کو ہوش آیا زر

آرون نے دیکھا عینی کا رنگ زرد پڑھ چکا تھا 

زارون نے اسے تھام کر صوفے پر بٹھایا اور خود اس کے لیے پانی لانے کے لیے کمرے سے جانے لگا جب عینی زور زور سے نفی میں سر ہلاتی اس کو وہاں سے جانے سے روک گئی زارون گہرا سانس لیتا اس کے پاس ہی بیٹھ گیا اور ٹیبل پر پڑا بوتل کا گلاس عینی کی طرف بڑھایا جسے کانپتے ہاتھوں سے عینی تھام کر گھونٹ گھونٹ پینے لگی

________

واؤ مزہ آگیا 

بہت ٹیسٹی آپ کے ہاتھ میں جادو ہے ساحر سائیں

پاستہ فنش کرکے حانم نے ساحر کی تعریف کی 

جسے ساحر نے سر خم کرکے وصول کی 

تو تم مانتی ہو نہ کہ تم خوش نصیب ہو 

مطلب؟؟ حانم نے نا سمجھی سے ساحر کی طرف دیکھا 

اس دن تم ہی تو کہہ رہی تھی کہ ساحر سائیں آپ کی بیوی بہت خوش نصیب ہوگی جب مجھ سے پاستہ بنوایا تھا 

حانم کو کھانسی لگی آہو اہو ساحر نے پانی اس کی طرف بڑھایا نور تم ٹھیک ہو 

آہو ۔۔جی آہو میں ٹھیک ہو 

ہاں تو اس دن مجھے نہیں پتا تھا نہ کہ وہ خوش نصیب عزیم ہستی میں ہی ہوں آہو 

کھانسی میں اٹک اٹک کر بولتی ساحر کو مسکرانے پر مجبور کرگئی ۔۔۔۔

اچھا نور مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی تھی 

ساحر نے اپنی چئیر حانم کے قریب کھینچی 

جی ؟؟؟

نور مجھے مورے کا فون آیا تھا وہ کہہ رہی تھیں کہ اب وہ اور تاخیر نہیں کرنا چاہتی 

تاخیر کس لیے حانم شاہد واقع بھول گئی تھی یہاں انجان بن رہی تھی 

ہمارے فنکشن کے لیے 

اوو اچھا ہمم ٹھیک ہے ساحر سائیں پھر ہم چلیں گے میں اپنی لیو ایپرو کروا لوں 

حانم مورے چاہتی ہیں کہ اسی فنکشن میں  رخصتی بھی ہوجائے اور ممانی سائیں بھی کیونکہ فنکشن کے بعد ویسے ہی ہم دونوں نے پیرس واپس آجانا ہے تو وہ دونوں چاہتی ہیں کسی کو بات کرنے کا موقع نہ ملے کے بغیر رخصتی ۔۔۔۔۔ ساحر خاموش ہوا 

حانم خاموش تھی ۔۔۔۔

نور تمہارے خواب مجھے بہت عزیز ہیں تم فکر مت کرو اگر تم نہیں چاہو گی تو میں مورے سے بھی بات۔۔۔۔

مجھے منظور ہے ساحر سائیں

مجھے آپ پر خود سے زیادہ یقین ہے اور ویسے بھی آپ ہی کہتے ہیں کہ محبت میں پہلی شرط اعتبار اور یقین ہوتی ہے اور مجھے بھی آپ پر آپ ہی کی طرح یقین کرنا ہے بنا کسی" پر" یا 'مگر " کہ 

آج نور ِساحر نے بھی اپنے لفظوں سے اپنے ساحر سائیں کو معتبر کردیا تھا 

_________

 خود کو کمپوز کرنے کے بعد عینی نے  نظر اٹھا کر سامنے دیکھا جہاں زارون اسے خشمگین  نظروں سے دیکھ رہا تھا بلکہ گھور رہا تھا

یہ کیا حرکت تھی عین؟؟؟

جب اتنا ہی ڈر لگتا ہے ہارر مویز دیکھنے سے تو پھر الٹے کام کرتی ہی کیوں ہو اور اپنے کمرے کا ٹی وی خراب ہو گیا تھا جو گیسٹ روم میں آ گئی ہو 

نہیں آپ کو کچرا بالکل نہ پسند ہے اور وہاں پر کھلاڑا ڈلتا نہ اس لیے ادھر آگئی عینی نے ایسے بتایا جیسے کوئی معارکہ مارا ہو

یو آر امپوسیبل عین تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا ہے 

زارون نے تاسف سے کہا تو عینی کی گول مٹول نیلی آنکھیں پانیوں سے بھر گئی اور ہونٹ باہر کو لٹک گئے 

آپ بالکل بھی اچھے نہیں ہیں زی ایک تو میں اتنا ڈری ہوئی ہوں اور اوپر سے آپ مجھے ڈانٹ رہیں ہیں 

عینی کے رونے پر زی تھوڑا نرم پرا یار میں کب ڈانٹ رہا ہوں ۔۔

ڈانٹ رہیں ہیں میں ۔میں نہ خان سر کو بتاؤں گی آپ بالکل نہیں اچھے

خان۔۔۔ خان کو کیوں زارون نے اس وقت کو کوسا جب ساحر نے نور العین کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ زی اگر اسے تنگ کرے تو وہ اپنے بھائی کو بتائے 

میں تو بتاؤں گی 

میں جارہی ہوں مجھے مت بلائیے گا اب 

عینی سو سو کرتی گیسٹ روم سے باہر نکل گئی 

یہ کمرہ کون صاف کرے گا عین 

عین یار!!!!

زارون تاسف سے صوفے اور ٹیبل پر بکھرے سامان (پاپ کارن) کو دیکھتا انہیں سمیٹنے لگا 

شادی کرکے پھنس گیا یار اچھا خاصا تھا کنوارا

ہاہاہا

__________

حانم ابھی فریش ہوکر لیٹنے ہی لگی تھی جب اس کے موبائل پر بل ہوئی 

آئی ایم سوری نور 

میں شرمندہ ہوں مجھے ایسے نہیں کہنا چائیے تھا 

پلیز ناراض مت ہو ۔۔۔۔

تمہارا زاوی 

اس کے پاس میرا نمبر کہاں سے آیا 

حانم کے ماتھے پر بل پڑے 

پھر اس کے میسج سین کرکے اگنور کرتی بستر پر دراز ہوگئی کیونکہ اس کا موڈ بہت اچھا تھا وہ یہ بات سوچ کر اپنا موڈ اور دماغ خراب نہیں کرنا چاہتی تھی 

آپ کہاں سے واپس آرہے ہیں اتنی رات کو گھر میں داخل ہوتے ساتھ ہی زارون عینی کے ہتھے چڑھا 

تم سوئی نہیں ابھی تک صوفے پر بیٹھ کر اپنے شوز اتارتا ریلیکس سے انداز میں بولا 

میں نے آپ سے کچھ پوچھا ہے زی عینی نے اس کا اپنی بات کو نظر انداز کرنا برا لگا 

ہاں میں ضروری کام سے گیا تھا انداز ابھی بھی لاپروا تھا۔۔

زی۔۔۔بس ایک لمحہ لگا تھا عینی کو اپنی نیلی آنکھوں میں آنسوؤں لانے میں اور صوفے پر ریلیکس سے بیٹھے زارون کو ایک دم سیدھا ہونے میں 

زارون کا موڈ عینی کو تھوڑا تنگ کرنے کا تھا 

پرسو رات کمرے کی خود صفائی کرنے کے باوجود بھی  وہ اسے منا رہا تھا مگر میڈم کے نکھرے ختم ہونے کو ہی نہیں دے رہے تھے اب اس نے سوچا تھوڑا ایٹیٹیوڈ وہ بھی دکھا لے مگر یہ اس کی خام خیالی تھی کیونکہ عینی نے پہلے موقع پر ہی اپنا ہتھیار آنسو نکال لیے تھے

یار رو کیوں رہی ہو عین ،،،،۔زی فورا اس کے پاس آیا آپ مجھے اگنور کر رہے ہیں پتہ ہے میں نے آپ کے لیے اپنے ہاتھوں سے ڈنر بنایا ایک تو آپ لیٹ ہوگئے اوپر سے میری بات کو جواب بھی نہیں دے رہیں ہیں۔۔

سو سو کرتی عینی دکھ سے بولی 

اووو میری عین نے میرے لیے ڈنر بنایا ہے تو چلو کرتے ہیں ہم پھر ساتھ ڈنر زارون نے اس کے شانے پر بازو رکھا 

جسے جھٹکتے ہوئے عینی نے انکار کیا 

نہیں کرنا ڈنر پہلے مجھے بتائیں کہاں تھے آپ کس کے 

ساتھ تھے

 اور یہ لیڈیس فارفیوم کی خوشبو 

زی مجھے سچ سچ بتائیں کہاں سے آرہے ہیں آپ 

عینی نے تو اس کا کالر ہی پکڑ لیا

تم مجھ پر شک کر رہی ہو عین زارون متحیر ہوا 

تو پھر بتا کیوں نہیں رہے آپ مجھے عینی کی آواز رندھ گئی 

اففف میں ساحر کے ساتھ تھا یار 

جھوٹ خان سر کیا لیڈیس فارفیوم یوز کرتے ہیں ؟؟؟ عینی نے ماتھے پر بل ڈال کر اسے گھورا

اففف لڑکی اس نے نور کے لیے سرپرائز ارینج کیا ہے وہ اس کے لیے گفٹ کر رہا تھا تب میرے ہاتھ سے فارفیوم کی باٹل ٹوٹ کر گر گئی تو یہ اس کی سمیل ہے 

 پکا نہ عینی نے آنکھیں چھوٹی کی 

واؤ خان سر نور کے لیے سر پرائز ارینج کر رہیں ہاؤ رومنٹک ایک آپ ہیں کبھی آپ نے کیا میرے لیے سرپرائز ارینج عینی نے منہ بسورا 

اچھا ابھی اس دن تمہے لنچ پر لے کر نہیں گیا تھا میں 

اوو وہ لنچ  تو خان سر کی طرف سے تھا عینی نے منہ بنایا

اچھا اور یہ رنگ زارون نے عین کے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی پر پہنی رنگ پر انگوٹھا پھیرا 

ہاں تو بیوی ہوں میں آپ کی ۔۔۔۔۔ عینی نے اٹھلا کر کہا

ہاں مگر یہ شک۔۔۔۔

 کیا تمہے مجھ پر یقین نہیں ہے عین؟؟؟؟ زارون نے خفا لہجے میں  سنجیدگی سے پوچھا عینی نے اس کے چہرے پر واضح خفگی

وہ۔۔۔۔۔مطلب تمہے واقعی مجھ پر یقین نہیں ہے نور العین

زارون دکھی لہجے میں کہتا وہاں سے جانے لگا جب عینی نے اسے بازو سے روکا 

زی۔۔۔

زی مجھے یقین ہے آپ پر مگر مجھے اپنی قسمت

 سے ڈر لگتا ہے کہ کوئی آپ کو مجھے چھین نہ لے مجھے

 یہ سوچ کر خوف آتا ہے کہ اگر آپ کی زندگی میں کوئی

 اور آگئی تو میں جی نہیں پاؤں گی نیلی۔آنکھیں

 یک دم گیلی ہوئی

 اور تمہے ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں تمہے چھوڑ دوں گا 

یاں میری زندگی میں تمہارے علاوہ کسی اور کے لیے جگہ ہے کیا کبھی تمہے میری محبت میں کھوٹ دیکھا عین مجھے بتاؤ کیا اتنے ٹائم میرے ساتھ رہنے کے باوجود بھی میں تمہارے دل میں اپنے لیے بھروسہ قائم نہیں کرسکا 

زارون کا لہجہ دکھ سے بھر گیا 

نہیں زی بالکل بھی نہیں آگر آپ پر یقین نہ ہوتا تو کبھی آپ کے ساتھ میں اپنی زندگی شروع نہیں کرتی 

میرا اس وقت آپ کی بیوی کے روپ میں یہاں ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ مجے آپ پر یقین ہے میں بس ڈر گئی تھی 

آئی ایم سوری اگر آپ کو میری کوئی بھی بات بری لگی ہو 

عینی نے اپنے کان پکڑے

اچھا اب یہ کیوٹ فیس نہ بناؤ میں نہیں آنے والا تمہاری باتوں میں زی نے اس کے ہاتھ کانوں سے ہٹائے 

زی میرے پیارے زی نہیں عین کے زی نہیں عینی نے آنکھیں پٹپٹائی نہ چاہتے ہوئے بھی زارون کے ہونٹوں پر مسکراہٹ

 آ گئی۔۔۔

_________

نور ۔۔

نور ساحر نے نور کو ہلایا 

نور اٹھو 

اہ ایک دم سے حانم اُٹھ کر بیٹھی 

ساحر سائیں آپ اس وقت یہاں فلائٹ کا ٹائم ہوگیا ہے کیا؟؟

نہیں چلو میرے ساتھ ساحر نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر اٹھایا 

کہاں ؟؟؟ حانم نے ہاتھ سے جمائی روکتے ہوئے کہا

چلو تو پھر بتاتا ہوں۔۔۔۔

ساحر سائیں رات کے تین بج رہیں ہیں آپ کو پتا بھی ہے صبح ہماری فلائٹ ہے اس وقت کہاں لے کر جا رہے ہیں آپ مجھے

حانم نے بند ہوتی آنکھوں سے کہا تو ساحر اسے ایسے ہی تھامے باہر کی طرف بڑھا 

گاڑی میں بھی حانم سیٹ کے ساتھ ٹیک لگائے سوتی رہی 

مطلوبہ جگہ پر پہنچ کر ساحر نے حانم کو ہاتھ سے پکڑ کر گاڑی سے باہر نکالا 

ساحر سائیں گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگائے وہ انگھتی ہوئی ساحر کو مخاطب کر رہی تھی 

نورِ ساحر اوپن یور آئیز 

ساحر نے سرگوشی کی 

حانم نے اپنی نیم واہ آنکھیں کھولیں تو اپنے زمانے کا منظر دیکھ کر مہبوت رہ گئی 

وہی آئفل ٹاور کی جگمگاتی روشنیوں سے نہایا پیرس رات کے اس وقت اکا دکا ہی لوگ تھے جہاں پہ حانم اور ساحر کھڑے تھے وہاں کوئی بھی نہیں تھا یہ سب ایک خواب سا منظر لگ رہا تھا 

حانم کو بے ساختہ اپنے پیرس میں پہلی رات یاد آئی تب اس نے اپنے فلیٹ کے ٹیرس سے یہ منظر دیکھا تب وہ اکیلی تھی اداس سی مگر آج اس کے ساتھ اس کا ہم سفر تھا آج اداسیاں کہیں دور جا سوئیں تھیں 

ایک دم  نورِ ساحر کی کھلکھلاہٹ ہوا میں ہر سو جلترنگ بجا گئی 

مثبوت سا ہوکر ساحر نے اس منظر کو پورے حق کے ساتھ  اپنے موبائل میں قید کیا 

نورِ ساحر ساحر نے ایک دفعہ پھر سرگوشیانہ انداز میں اسے پکارا 

جو اس وقت  سیاہ ڈھیلے ٹراؤزر کے ساتھ سیاہ لونگ کرتا اور اوپر سیاہ شال جو کہ جلدی میں ساحر نے اسے پہنائی تھی وہ اس خوبصورت سیاہ سرمئی رات کا حصہ لگ رہی تھی 

ساحر سائیں یہ سب کچھ بہت خوبصورت ہے مانوں خواب سا جیسے ابھی میری آنکھ کھلے گی اور سب کچھ ہوا میں تحلیل ہو جائے گا 

حانم خواب ناک لہجے میں بولی

مگر یہ خواب نہیں ہے یہ حقیقت ہے ایک خوش کن حقیقت حانم نے آنکھیں بند کرکے اس خوشبو میں بسی ہواؤں کو خود میں انڈیلا 

جب ساحر نے اس کا ہاتھ تھاما 

چلو ۔۔۔

کہاں ابھی تو ٹھیک سے دیکھا۔۔۔۔۔۔حانم کچھ کہتی جب ساحر اسے کونے میں لے گیا جہاں اندھیرا تھا 

ساحر سائیں حانم نے دائیں بائیں مڑ کر دیکھا وہاں کوئی بھی نہیں تھا 

ساحر سائیں

حانم نے پھر آواز لگائی 

سا۔۔۔۔۔

ایک دم لائٹس آون ہوئیں اور حانم ساکت رہ گئی 

ایک خوبصورت سی ٹیبل جس کے گرد دو کرسیاں پڑی تھیں ان کے ارد گرد آف وائٹ کلر کے نیٹ کے پردے لگے ہوئے تھے اور ان پر سجی فیری لائٹس منظر کو اور خواب ناک بنا رہے تھے 

ہیپی برتھڈے مسز نور ساحر وہ ابھی اسی میں کھوئی ہوئی تھی جس اسے اپنے کان کے پاس سرگوشی سنائی دی 

چلیں کاٹ لیں کیک 

ساحر نے حانم کے آگے ہاتھ پھیلایا 

حانم نے جاندار مسکراہٹ کے ساتھ اس کے ہاتھ پر اپنا کومل مومی ہاتھ رکھ دیا 

ٹیبل پر حانم کا فیورٹ چاکلیٹ لاوا کیک پڑا تھا جس کے اوپر وائٹ کریم کے ساتھ ہیپی برتھڈے مسز نور ساحر لکھا ہوا تھا 

ساحر سائیں یہ سب بہت خوبصورت ہے تھینک یو سو مچ 

پہلے کیک کاٹ لیں ساحر نے کیک پر لگی کریم اس کے ناک پر لگائی 

پھر دونوں نے مل کر کیک کاٹا 

ہیپی برتھڈے ٹو یو 

ہیپی برتھڈے ٹو یو

ہیپی برتھڈے مسز نور ساحر

حانم نے کیک کاٹ کر ساحر کو کھلایا پھر ساحر نے حانم کو 

چلیں میرا گفٹ دین 

گفٹ وہ دے تو دیا یہ سب کچھ میں نے ہی ارینج کیا ہے 

ساحر نے اس سب ڈیکوریشن کی طرف اشارہ کرکے کہا 

مگر یہ تو سرپرائز ہے میرا گفٹ 

حانم نے پھر اپنا ہاتھ آگے کیا 

گفٹٹٹٹ۔۔۔۔۔

ایک منٹ ساحر نے اپنے شرٹ پینٹ پر ہاتھ مارا 

کہاں گیا ؟؟؟

کہاں گیا یار

ہمم یہ رہا ساحر نے گلاب کا خوبصورت سا پھول نکال کر حانم کے سامنے کیا اور ایک گھٹنے پر بیٹھا 

بے ساختہ ہی حانم کا دل زور سے دھڑکا

So Mrs Noor e Sahir will you be mine ?

ایک اور گلاب کا پھول نکالا 

Will you be mine for ever ?

 اب دو پھول 

With the deep corner of my heart 

اب ایک ساتھ چار پھول نکالے

Will you be mine till the last breath?

حانم کا رواں رواں اسے ہاں کہنے کو بے تاب تھا 

حانم نے ہاتھ آگے بڑھا کر پھول تھامے پھر اپنے مخصوص انداز میں اپنا ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھ کر سوچنے والے انداز میں کہا

سوچوں گی پھر مسکراہٹ دبا کر ساحر کا گال کھینچ کر وہاں سے بھاگی 

اس کی کھلکھلاہٹیں ہوائوں کے ساتھ ساتھ ساحر کو بھی اپنا اسیر بنا رہیں تھیں 

ایک دم سے نور کا پاؤں اٹکا اس سے پہلے وہ سامنے آتی سیڑھیوں سے گرتی ساحر نے اسے تھاما دونوں کی ہی دھڑکن تیز اور سانسیں پھولی ہوئیں تھیں

دھیان سے نور 

آپ ہیں نہ دھیان رکھنے کے لیے 

تم نے جواب نہیں دیا ساحر نے بھاگنے کی وجہ سے اس کے منہ پر آئی لٹوں کو پیچھے کیا 

ہمممم۔۔۔۔

نورِ

اچھا میری کچھ شرطیں ہیں وہ دونوں ہی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے 

اچھا تو کیا ہیں محترمہ نور حانم صاحبہ کی شرطیں

ہممم شرط نمبر ون میں اپنی سٹڈیز آگے کمپلیٹ کروں گی 

منظور ہے 

شرط نمبر ٹو میں جوب بھی کنٹینیو رکھوں گی 

اوکے ۔۔۔۔۔

شرط نمبر تھری میں جیسا بھی کھانا بناؤ گی کھانا پڑے گا 

اوووکے ساحر نے اوو کو کھینچا تو حانم نے اسے گھورا 

اوکے اوکے 

شرط نمبر تھری آپ روز میرے لیے چاکلیٹس لائیں گے

موٹی ہوجاؤ گی ساحر نے زبان پہ لانے کی غلطی نہیں کی 

اوکے 

شرط نمبر فور جب میں کہوں گی مجھے پاستہ بنا کر کھلائیں گے 

اور تمہے ایسا کیوں لگتا ہے کہ تمہے پاستہ بناکر کھلاؤں گا یہ بات تو ہر گز نہیں کریں گے 

ساحر کے کچھ بولنے سے پہلے ہی حانم بول پڑی تو ساحر نفی میں سر ہلاتا اوکے کہ گیا 

اور لاسٹ بٹ نوٹ لیسٹ۔۔

اچھا ابھی ایک اور رہتی ہے 

فلحال آگے کا پتا نہیں حانم نے آنکھیں مٹکا کر کہا 

زیادہ نہیں ہوگی 

تو میں نے ابھی جواب نہیں دیا 

حانم نے گردن اکڑائی

آپ بھول رہیں کہ آپ مسز نور ساحر ہیں گوٹ اٹ نور حانم ساحر خان 

آپ بھی شاہد بھول رہیں کہ ابھی رخصتی نہیں ہوئی 

اچھا بتاؤ پانچویں شرط ۔۔۔۔

آپ کو کبھی میری بات بری لگے یاں کبھی کوئی مس انڈر سٹینڈنگ ہوجائے تو پلیز سب سے پہلے وہ بات مجھ سے پوچھئے گا کیونکہ بدگمانیاں رشتے چاٹ جاتی ہیں 

نور ساحر نے اس کا ہاتھ تھاما اول تو ایسا کچھ ہونے  نہیں دوگا 

مگر ہم انسان ہیں فرشتے تو نہیں ہیں پھر بھی میری پوری کوشش ہوگی حانم کہ میں اپنے رشتے میں کوئی بدگمانی نہ آنے دوں اگر ہمیں آپس میں کوئی مسئلہ ہوا تو اسے سلجھانے کی واحد جگہ ہمارا کمرہ ہوگا اور یہ میرا وعدہ ہے اب بتاؤ کوئی اور شرط نہیں تو پھر گھر چلیں صبح فلائٹ ہے 

ساحر سائیں حانم نے شانے پر سر رکھا 

پہلے جب میں نے قبول کیا تھا تو مجھ سے زیادہ  تب مما سائیں کی خواہش تھی مگر اب مجھے دل و جان سے

 قبول ہے 

مجھے قبول ہے آپ کا ساتھ بھی اور ہم سفری بھی 

ساحر نے اپنی پینٹ کی پاکٹ سے ایک بریسلٹ نکال کر حانم کو پہنایا جس پر چھوٹا چھوٹا نورِ ساحر 

 ملا کر کندھا  ہوا تھا 

__________

اپنے دوستوں کے ساتھ شہر میں رات کے اس پہر آوارہ گردی کرتے زاویار کی نظر دونوں پر پڑی نشے سے بند ہوتی آپنی آنکھیں کھول کر اس نے لڑکی کو دیکھنے کی کوشش کی جس پر اسے نور حانم کا گمان ہورہا تھا 

نور تم میرے حواسوں پر بری طرح چھائی ہوئی ہو کہ اب ہر جگہ تم ہی نظر آتی ہو

مگر بہت جلد میں آؤں گا اپنے گھر والوں کو لے کر

 تمہے لینے  

کس سے بات کر رہی ہوں ثمینہ سائیں

میر جواد نے ثمینہ بیگم کو فون پر کسی سے روتے ہوئے بات کرتے دیکھ کر پوچھا 

وہ وہ میر سائیں۔۔۔ ثمینہ سائیں جو زاویار سے بات کر رہیں تھیں اپنے سامنے جواد میر کو دیکھ کر بوکھلا گئیں 

وہ ۔۔۔۔

انہوں نے ثمینہ سائیں کے ہاتھ سے فون پکڑا

زاویار

 فون والے ہاتھ کی مٹھی کسی 

ثمینہ بیگم نظریں جھکا گئیں کیا کرتی ماں تھی وہ۔۔۔۔

________

اسلام علیکم ،،،،،،،

حانم اور ساحر خان ولا کے ٹیوی لاؤنج میں داخل ہوئے 

باتوں میں مصروف حالہ اور آنسہ بیگم چونکی

حانم چھوٹے خان سائیں دونوں مائیں اپنے بچوں کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہی ہوگئی 

جب حماد خان بھی اندر داخل ہوئے 

خان سائیں آپ تو کہہ رہے تھے بچے شام کو آئیں گے ابھی کھانہ بھی تیار نہیں ہوا

بچے اتنی دور سے آئیں ہیں 

 آنسہ بیگم نے خفا لہجے میں کہا 

اوہو پھوپھو سائیں ہم کون سا پیدل آئیں ہیں اور حماد پھوپھا سائیں کو ہم نے ہی منع کیا تھا ہم اپنی سوئٹ سی ماؤں کو سرپرائز دینا چاہ رہے تھے تو بتائیں سویٹ لیڈیز

کیسا لگا آپ لوگوں کو ہمارا سرپرائز حانم نے دونوں کو ایک ساتھ گلے لگا کر کہا ۔۔

میری جان تم دونوں ہی تو ہماری کل کائنات ہو 

تم لوگوں کو اپنے پاس دیکھ کر اتنی خوشی ہورہی ہے کہ میں بتا نہیں سکتی 

اچھا تم لوگ جاؤ فریش ہوجاؤ میں کھانا لگواتی ہوں تم لوگوں کے لیے ۔۔۔

نہیں نہیں مما سائیں میں بس تھوڑی دیر آرام کروں گی

مجھے بھوک نہیں ہے 

اچھا میری جان تم لوگ آرام کرو پھر۔۔۔

_________

نیم اندھیر کمرے میں اپنی آرام دے راکنگ چئیر پر بیٹھے اس وقت ایک گہری سوچ میں محو میر حاکم سائیں ماضی کی یادوں میں کھوئے۔۔۔۔

دادا سائیں آپ کو یاد ہے نہ کل کیا دن ہے آغا سائیں کے کمرے میں بیٹھی اپنا ہوم ورک کرنے میں مشغول حانم ایک دم چونک کر سیدھی ہوئی کچھ یاد آنے پر آٹھ کر آغا سائیں کے پاس گئی جو زمینوں کا حساب کر رہے تھے 

آغا سائیں کے بھی ہاتھ تھمے انہیں کیسے بھول سکتا تھا کہ کل کیا ہے مگر وہ انجان بن گئے 

نہیں مجھے نہیں یاد کل کیا ہے ؟؟؟

کیا ہے کل نورے انداز سوچنے والا تھا 

دادا سائیں حانم نے منہ بنایا 

ارے ہم کیسے بھول سکتے ہیں اپنی نورے کی سالگرہ دیکھنا اس بار بھی ہم اپنی نورے کی سالگرہ دھوم دھام سے کریں گے

یےےےےے اور سب سے سپیشل گفٹ بھی آپ کا ہوگا 

نورے نے جیسے حکم دیا 

جو حکم ہماری پرنسس میر حاکم نے اسے اپنی شفقت کی آغوش میں لیا 

میر حاکم کو جب ہوش آیا تو ان کا پورا چہرہ بھیگا بھیگا سا تھا 

یک دم ان کے دل میں درد سا بڑھا اور وہ ادھر ہی ڈہ گئے 

_________

حانم اٹھی اور فریش ہو کر نیچے  آئی تو ہر طرف خاموشی سی چھائی ہوئی تھی

مما سائیں

پھوپھو سائیں 

ابھی وہ کچھ اور بولتی کہ ایک دم سے  اس پر پھولوں کی برسات ہوئی 

ہیپی برتھ ڈے ٹو یو،،،،

 ہیپی برتھ ڈے ٹو یو،،،

 ہیپی برتھ ڈے ڈئیر حانم

 ہیپی برتھ ڈے ٹو یو 

وہاں آنسہ بیگم حالہ بیگم ساحر خان حماد خان اخضر اور علینہ بھی موجود تھے 

حانم علینہ کو دیکھ کر چیختے ہوئے اس کے گلے لگی 

لینہ۔۔۔ہیپی برتھڈے حانم سائیں سالگرہ بہت بہت مبارک علینہ نے گفٹ اس طرف بڑھایا جسے حانم نے تھام لیا 

ادی سائیں سالگرہ بہت بہت مبارک  ہو شر مندہ لہجے میں کہتا اخضر سر جھکا گیا 

جب حانم نے آگے بڑھ کر اسے پیار سے اپنے ساتھ لگایا

بہت شکریہ چھوٹے سردار سائیں خان نے بیک وقت شرارت اور پیار سے کہا

ساحر بھی آگے بڑھ کر اخضر کے گلے لگا 

حانم اب دونوں ماؤں کو گلے لگا رہی تھی

حماد خان نے بھی آگے بڑھ کر اس کے سر پر پیار دیا

تم لوگوں کو یہاں کا کیسے پتہ لگا

حانم نے استفسار کیا

ہمیں ساحر ادا سائیں لائے ہیں

حانم نے مسکرا کر ساحر کو دیکھا جس نے جواب میں سر خم کیا 

اچھا چلو اب کیک کاٹ لیں 

حانم نے سب بڑوں کی دعاؤں میں کیک کاٹا اور سب کو کھلایا 

حانم خوش تھی مگر کہیں اندر دل میں تکلیف بھی تھی۔۔۔۔

اخضر اور علینہ واپس چلے گئے تھے شام کا کھانا کھا کر 

حماد خان اور آنسہ نے بھی حویلی جانا تھا 

_________

حانم اپنے کمرے میں آئی دادا سائیں سب سے اچھا گفٹ ہمیشہ آپ کا ہوا ہے آپ بیسٹ ہو

حانم کو اپنی کہی بات یاد آئی 

دادا سائیں آپ نے مجھے ہمیشہ قیمتی اور خوبصورت تحفہ دیا ہے سب سے الگ مگر آپ کو پتا ہے اس سالگرہ میں سب سے خوبصورت تحفہ مجھے کس نے دیا؟؟

ساحر سائیں نے ....

ہاں میرے شوہر نے کیونکہ انہوں نے مجھے یقین کا تحفہ دیا ہے ہے کاش آپ بھی مجھے یقین کا تحفہ دیتے یہ سونا یا چاندی یہ قیمتی چیزیں  میرے کسی کام کی نہیں آئی جس وقت مجھے صرف آپ کے اعتبار کی ضرورت تھی۔۔۔

حانم نے اپنے لب بھینجے ایک دفعہ تو منانے آتے اپنی نورے کو دادا سائیں 

 بس ایک دفعہ

میں پھر آپ کے گھٹنے پر سر رکھ کر رو لیتی

_________

آنسہ اور حماد خان حویلی میں داخل ہوئے جہاں واپس نہ آنے کی عہد کیا تھا مگر یہ خوش کے رشتے عہدوں پیما سے کہیں آگے ہوتے ہیں 

آنسہ جواد میر اور ثمینہ جواد ان دونوں کا دیکھ کر کھڑے ہوئے

آنسہ میری بہن 

وہ آگے بڑھے جب آنسہ بیگم نے انہیں بیچ میں ہی روک لیا

آپ پلیز آغا سائیں کو بلا دیں ان سے ضروری بات کرنی ہے

جواد میر کو دکھ ہوا مگر انہوں نے بھی کون سی کوئی کثر چھوڑی تھی

کیسی ہو آنسہ ؟؟؟ اور حالہ ثمینہ بیگم ان کے قریب آئیں

ٹھیک ہو بھابھی سائیں اللّٰہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے 

شادی کر رہی ہو میں اپنے ساحر کی

مانتی ہوں میرا بیٹا ہے اس کی خوشی عزیز نہیں آپ لوگوں کو مگر ساحر کے ساتھ جڑنے والی حانم  اس کا تو رشتہ ہے  آپ لوگوں کے ساتھ اس خاندان کی پوتی ہے وہ 

اس کے ساتھ جو سلوک  حویلی والوں نے کیا ہے میں یہاں آنا تو نہیں چاہتی تھی مگر میں نہیں چاہتی کہ کل کو کوئی میری بہو کے خاندان  پر سوال کھڑا کرے

آنسہ بیگم کا لہجہ اٹل تھا 

اتنے میں ہما بیگم وہاں آئیں 

جواد ادا سائیں آغا سائیں

آغا سائیں اپنے کمرے میں بے ہوش پڑے ہیں 

ہما بیگم ہانپتے کانپتے لہجے میں بولیں 

آغا سائیں آنسہ اور حماد سمیت سارے ہی آغا سائیں کے کمرے کی طرف بڑھے 

آغا سائیں کو فوراً ہاسپٹل لے کر گئے

آنسہ بیگم روئے جا رہیں تھیں 

کہاں کی ناراضگی؟؟

کہاں کی لاتعلقی؟؟

________

حانم کو جب ساحر کے زریعے آغا سائیں کی طبیعت خرابی کی خبر ہوئی تو وہ بھی سب کچھ بھلائے حالہ بیگم کے ساتھ ہاسپٹل میں موجود تھی 

ڈاکٹر کیا ہوا ہے میرے دادا سائیں کو آپ بتائیں

حانم ڈاکٹر کے روم سے باہر نکلتے ساتھ ہی ان کے سر ہوئی

دیکھیں وہ اس وقت شدید زہنی دباؤ کے شکار ہیں اور ان کی پلس ریٹ بھی کم ہے جو ہارٹ آٹیک کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے جو ان کی صحت اور عمر دونوں کے لیے خطرناک ہے اس لیے انہیں زیادہ سے زیادہ خوش رکھنے کی کوشش کریں تاکہ انہیں ذہنی دباؤ نہ ہو ۔۔۔۔

انہیں ہوش کب تک آئے گا 

آنسہ بیگم نے پوچھا 

ہمم انہیں روم میں شفٹ کردیا ہے تھوری دیر تک انہیں ہوش آجائیے گا کوشش کریں زیادہ لوگ نہ جائیں ان سے ملنے اس طرح انہیں گھٹن ہوگی 

_______

اس وقت آغا سائیں کے کمرے میں حانم اور آنسہ ہی موجود تھیں اور شاہد آغا سائیں کو اس وقت انہیں دونوں کی ضرورت تھی 

آغا سائیں کو جب ہوش آیا تو ان کے ایک طرف آنسہ اور دوسری حانم بیٹھی ہوئیں تھیں 

نورے آنسہ نقاہت کی وجہ سے بہت دھیرے سے پکار پائے دونوں ہی ان کے پاس ہوئیں

 جی آغا سائیں

دادا سائیں

تم دونوں مجھے معاف کردو بیٹا سائیں

نہ میں ایک اچھا باپ بن سکا نہ ہی ایک اچھا دادا

 سہی کہتی ہے نورے کہ اگر میں نے تم دونوں کو لاڈ کی جگہ اعتبار دیا ہوتا تو آج میں یوں شرمندہ نہ ہوتا مجھے معاف کردو 

آغا سائیں کی آنکھیں بھر گئیں 

نہیں نہیں آپ ہمیں شرمندہ مت کریں آغا سائیں دونوں نے ہی ایک ساتھ میر حاکم سائیں کے ہاتھ تھامے وہ ان کے آنسو دیکھ کر تڑپ ہی تو گئیں تھیں 

سب سے زیادہ میں تمہارا مجرم ہوں آنسہ اتنے سال اتنے سال میں نے تم سے لا تعلقی رکھی میری انگلی پکڑ کر چلنے والی آنسہ جو میرے بغیر کبھی باہر نہیں نکلی اس پر لگے الزام میں جھوٹے ثابت نہیں کر سکا میں اس قابل ہی نہیں تھا بس میری آخری خواہش ہے کہ میری بیٹیاں مجھے معاف کردیں تاکہ میں روز محشر اسعد اور صفیہ بانو کے آگے شرمندہ نہ ہوں 

پلیز دادا سائیں ایسی باتیں نہ کریں آپ کہیں نہیں جارہے آپ ہمارے پاس ہیں آگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کو معاف کردیں تو پلیز ایسی باتیں مت کریں اور جلدی سے ٹھیک ہو جائیں ابھی تو آپ نے اپنی نورے کی شادی بھی دیکھنی ہے آنسہ بیگم نے آگے بڑھ کر آغا سائیں کے آنسو صاف کیے تو آغا سائیں نے اپنے کانپتے ہاتھ دونوں کے سروں پر رکھ دئیے ۔۔۔۔۔

__________

آغا سائیں کو حویلی لے آئے تھے اب ان کی طبیعت قدرے بہتر تھی حانم نے سب گھر والوں کو معاف کردیا تھا 

شائستہ اور سونیا کو اسی دن گاؤں اور شہر کے راستے میں پڑتے ایک گھر میں شفٹ کردیا گیا تھا جو کہ آغا سائیں کی ہی ملکیت تھا شائستہ بیگم نے بہت واویلہ کیا تھا مگر ان کی سنسنی کس نے تھی

 اس لیے حانم کی ان سے صد شکر ملاقات نہیں ہوئی

آنسہ بیگم نے بھی سب کو معاف کردیا تھا مگر ایک خلا تھا جو ان کی زندگی میں رہ گیا تھا اور انہیں کوئی شک نہیں تھا کہ ان کے خان سائیں اس خلا کو بھی پر کردیں گے 

حماد خان کو پوری عزت اور مرتبے کے ساتھ حویلی میں بلایا گیا تھا 

اسی ہفتے حانم کی رخصتی اور پھر اگلے دن ولیمہ تھا جو حماد خان کے فارم ہاؤس میں رکھا گیا تھا 

آغا سائیں کی خواہش تھی کہ حانم اسی حویلی سے رخصت ہو مگر پہلے کا واقع یاد کرکے وہ خاموش ہوگئے 

__________

تم یہاں پر کیا کر رہی ہوں صنم سائیں

جھولے پر تن تنہا بیٹھی کھوئی ہوئی صنم کے پاس اخضر آیا 

وہ وہ سردار سائیں کچھ نہیں 

صنم ہڑبڑا کر اٹھی 

بے شک وہ اس سے چار ماہ بڑی تھی مگر اب وہ گاؤں کا سردار تھا 

بیٹھ جاؤ صنم سائیں اخضر نے اسے بیٹھنے کے لیے کہا 

صنم چپ کرکے بیٹھ گئی 

تم جانتی ہوں حانی آدی سائیں آئی ہوئی۔ ہیں 

اخضر کی نظریں صنم کے زرد چہرے پر تھیں 

ج۔جی پتا ہے 

تم ملی ان سے ؟؟؟

نہ۔نہیں کیا وہ مجھ سے ملے گی وہ تو میری طرف دیکھیں گی بھی نہیں 

صنم نے کرب سے بولا 

تمہے ایسا کیوں لگتا ہے انہوں نے سب کو معاف کردیا ہے ہم سب برابر کے شریک ہیں اس جرم میں اخضر سائیں نے گہرا سانس لے کر دکھ سے کہا 

نہیں میں زیادہ مجرم ہوں میں نے اپنی ادی سائیں پر ہی الزام لگا دیا میں اتنا گر گئی کہ اس سونیا کی باتوں میں آگئی 

صنم کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے 

اگر اتنا دکھ ہے اپنے کیے پر تو منا کیوں نہیں رہی اپنی ادی سائیں کو 

کیا اتنا نہیں یقین ان پر کہ وہ تمہے معاف کرکے گلے لگا لیں گی 

اخضر نے اس کا حوصلہ بڑھایا تو صنم اٹھ کھڑی ہوئی میں میں منا لوں گی آدی سائیں کو میں منا لوں گی صنم اندر چلی گئی پیچھے اس خالی جگہ کو دیکھ رہا تھا جہاں سے صنم اٹھ کر گئی تھی 

_________

حانم  اپنے ہاتھ میں سوپ کا باؤل پکڑے آغا سائیں کے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی جب اسے راستے میں صنم ملی زرد رنگت اور وہ اسے پہلے کی نسبت زیادہ کمزور لگی 

ہر وقت شوق و چنچل سی صنم تو نہیں تھی وہ اخضر کو ہمیشہ ستاتی پڑھائی سے جان چھڑائی الٹی سیدھی حرکتیں کرتی صنم تو کہیں کھو ہی گئی تھی یہ تو کوئی اور تھی ویران سی

مجھے معاف کردیں حانم ادی سائیں میں بہت بری ہوں میں نے بہت غلط کیا آپ کے ساتھ

 میں ۔۔۔میں  سونیا کی باتوں میں آکر آپ کو دکھ دیتی رہی

 وہ مجھے آپ کے خلاف کرتی رہی اور میں اس کا کہا مانتی رہی آج میں بھگت رہی ہوں ادی سائیں ایک ان دیکھی آگ میں جو میں نے ہی جلائے تھی آدی سائیں مجھے معاف کردیں علینہ آپی سائیں بھی مجھے نہیں بلاتی اخضر بھی ناراض ہے نہ گھر والے ٹھیک سے بات کرتے ہیں میں مانتی ہوں میری غلطی بہت بڑی ہے مگر آپ تو بہت بڑے دل کی ہیں نہ آپ مجھے معاف کردیں سب۔۔۔

 سب معاف کردیں گے پلیز آدی سائیں مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی جب یہ  سنتی ہوں کہ کسی پا ک دامن کے کردار پر الزام لگانے کی سزا کیا ہے تو میری روح کانپ جاتی ہے  مجھے معاف کردیں مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں دن بہ دن ختم ہوتی جارہی ہوں حانم ادی سائیں مجھے معاف کردیں صنم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ پڑی حانم نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا ۔آج صنم کے دل کا بھی غبار نکل رہا تھا 

میری جان میں نے تمہے معاف کیا 

حانم کے ایک الفاظ اس کے جلتے دل پر اوس کی ٹھنڈی پھوار کی طرح برسے ۔۔۔۔

_________

حانم جب صبح اٹھی تو نیچے سے ہنسنے کی آواز سن کر نیچے پہنچی 

اففففف عینی اور زی سر آپ یہاں 

ان دونوں کو حویلی میں موجود پا کر حانم تو پھولے نہیں سما رہی تھی اس کی دوست اس کی بہن نور العین فرانس سے آ چکی تھی

 نہیں تو کل تک تو وہ مایوس ہی ہو چکی تھی کیونکہ عینی کے ڈاکومنٹس میں کوئی مسئلہ آرہا تھا 

دیکھا میں نے کہا تھا نہ کہ میں ضرور آؤں گی 

عینی نے گردن اکڑائی تو حانم اور عینی دونوں ہی کھلکھلا کر ہنس دیں ۔۔۔۔

_________

عینی کو بھی یہاں بالکل حانم ہی کی طرح ٹریٹ کیا جارہا تھا اس کی آنکھیں اتنی محبت پر بار بار نم ہورہیں تھیں 

آنسہ بیگم نے تو صاف کہا تھا کہ ساحر کی بہن ہونے کی حیثیت سے نور العین میری اور حماد خان کی بیٹی ہے جس پر حماد خان نے بھی پورا ساتھ دیا تھا 

جبکہ زارون اپنے خان سر کے یو پلٹنے پر خفا ہوا 

خان سر آپ بھی زارون کی بے یقین سی آواز پر حماد خان کا قہقہہ گونجا 

ہاں بھائی اتنے سال ایک جوان جہان لڑکے کا باپ بنا ہوں اب جا کر بیٹی ملی ہے تو تم گلا کر رہے ہو۔۔۔۔

_________

حانم جب خان ولا ہوتی تو ساحر میر حویلی جب ساحر خان ولا آتا تو میر حویلی پہنچی ہوتی اتنے دنوں سے دونوں کی کوئی ملاقات نہیں ہوپائی  

پھر جس دن ساحر نے واپس آنا تھا 

تب بھی حانم اس سے نہیں مل پائی جی اس کا ساحر سے پردہ تھا 

بقول ان کے اس طرح دلہن کو زیادہ روپ آتا ہے 

بچارے ہاہاہا۔۔۔

عینی ان سب رسموں کو خوب انجوائے کر رہی تھی 

_________

مما سائیں پھوپھو سائیں میں نے نہ عینی اور زارون سر کو سرپرائز دینا ہے آپ پلیز تیاریاں پکی رکھئے گا حانم نے دونوں کو رازداری کے ساتھ کہا تو دونوں ہی اسبات میں سر ہلا گئیں تھیں

کیا باتیں ہورہیں ہیں لیڈیز عینی وہاں آئی 

کچھ خاص نہیں شاپنگ کی باتیں ہورہیں ہیں 

تم نے کر لی شاپنگ ؟؟؟

ہاں کر تو لی۔نور مگر میں یہ کپڑے کیسے پہنوں گی 

تمہے پتا تو ہے میں نے کبھی پہلے ایسے کپڑے نہیں پہنے 

یو نو ہیوی ہیوی ٹائپ 

کوئی بات نہیں میں ہوں نہ حانم نے اسے ہے کیا 

یو آر مائی سویٹ ڈارلنگ اس نے حانم کے گال کھینچے 

__________

زاویار بھی پاکستان آچکا تھا 

ثمینہ بیگم نے اسے اس دلائی تھی 

اب اس کا دل بے چین تھا نور حاکم کو دیکھنے کے لیے اس لیے اس نے اسے میسج کیا 

جب دو بیلوں پر کال پک کر لی گئی 

ہیلو نور نور میں زاویار 

جی بولیں سر 

نور میں پاکستان آگیا ہوں 

جی تو؟؟؟

زاویار کو اس کی بے رکھی پر دکھ ہوا 

مگر ہائے رے یہ بے بسی کبھی کسی کو محبت نہ ہو 

تم اپنے گھر کا ایڈریس بتاؤ تب ہی میں ملوں گا تمہارے گھر والوں سے 

آپ کو کیوں ہی اتنی جلدی میں گھر والوں سے ملنے کی اور ویسے بھی میری بہن کی شادی ہے ہم اس کی تیاریوں میں مصروف ہیں 

حانم نے سراسر جان چھڑائی

تو کیا تم مجھے اپنی بہن کی شادی پر انوائیٹ نہیں کرو گی ؟؟؟

حانم جو فون رکھنے والی تھی ایک لمحے کو چونکی

ضرور مسٹر زاویار کیوں نہیں آپ کے بغیر تو یہ شادی ادھوری ہے حانم پراسرار سا مسکرائی تو دوسری طرف زاویار اتنی سی توجہ پر خوس ہوگیا 

میں ضرور آؤں گا شادی پر ۔۔۔

________

خیر سے وہ دن آہی گیا تھا جس کا سب کو انتظار تھا 

مگر دوسری جانب زاویار کو بھی اس دن کا انتظار تھا مگر اس بات سے بالکل فراموش کہ یہ دن اس کی زندگی کا سب سے تلخ دن بننے والا ہے ۔۔۔۔

__________

یہ منظر ایک بڑے اور خوبصورت سے فارم ہاؤس کا تھا جسے نہایت ہی خوبصورت سے دلہن کی طرح سجایا

 گیا تھا 

زاویار فارم ہاؤس کی چکا چوند دیکھ کر ایک لحمے کو تھم سا گیا تھا اسے نہیں پتا تھا کہ نور حاکم اتنی امیر ہے 

خیر اس نے اپنے کورٹ کی پاکٹ سے فون نکال کر نور کو میسج کیا ۔۔۔۔۔

________

حانم برائڈل روم میں بالکل تیار شیار بیٹھی تھی

بیوٹیشن کو کیونکہ ادھر ہی بلا لیا گیا تھا تو ابھی حانم کسی سے نہیں ملی تھی  

گھر کے سب لوگ تیاریوں میں مصروف تھے تھوڑی دیر میں جب ساحر نے آنا  تھا تب اس کا اور ساحر کا فوٹو شوٹ تھا پھر رسمیں شروع ہونی تھیں 

اپنی بوریت دور کرنے کے لیے حانم نے فون اٹھایا تو بیک وقت دو میسج موصول ہوئے

زاویار میر کا میسج 

وہ یہاں پہنچ چکا تھا اور اسے بلا رہا تھا ۔۔۔

ساحر سائیں حانم نے چونک کر اس کا میسج کھولا 

سب سے پہلے اپنی نور ساحر کو دیکھنے کا حق صرف ساحر سائیں کا 

حانم شش و پنج میں مبتلا ہوئی پھر کچھ سوچتے ہوئے انٹریس کی طرف بڑھی جہاں زاویار کھڑا تھا 

_________

پانچ منٹ  ہی گزرے تھے جب زاویار کی نظر بے دھیانی میں  اپنے بائیں طرف بنی راہ داری پر پڑی اور اسے لگا جیسے وقت تھم سا گیا 

نور سرخ رنگ کے لہنگے میں بھاری بھرکم زیور پہنے  قدم قدم چلتی اس کے پاس آئی

سرخ خوبصورت جوڑے میں وہ بلا کی حسین لگ رہی تھی مہارت سے کیا گیا میک اپ اس کے نقوش میں نکھار پیدا کرہا تھا ۔۔۔۔

نور۔۔۔۔زاویار مہبوت سا بس یہ ہی کہہ سکا ۔۔۔

کہاں کھو گئے کزن سائیں

حانم نے زاویار کے آگے چٹکی بجائی

ہاں وہ نہیں  زاویار ابھی تک مہبوت  تھا کہ اس کے منہ سے اپنے لیے کزن سائیں سن کر بھی حیران نہ ہوا

مسٹر زاویار سکتے میں چلے گئے ہو کیا 

حانم نے زور سے تالی بجائی 

زاویار کو ہوش آیا 

تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو نور 

نورِ حانم پورا نام ہے میرا سو کال می نورِ حانم

حانم نے سپاٹ لہجے میں کہا 

نورِ حانم،،،،، زاویار تھوڑا سا چونکا ۔۔۔۔

خیر تمہارے گھر والے کہاں ہیں نور میں نے اپنی مما سے بات کی ہے وہ آئیں گے ۔۔

وہ اپنے مستقبل کو لے کر ایکسائٹڈ تھا

مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ آئیں یا نہ آئیں حانم نے بے زار سے لہجے میں کہا 

نور مجھے پتا ہے کہ تم مجھ سے ناراض ہو اس طرح پرپوز کرنے پر مگر مجھے نہیں پتا تھا میں اب لے کے آؤ گا نہ انہیں

زاویار کی حالت مسکینوں جیسی ہوگئی تھی 

زاویار اور بھی بہت کچھ بول رہا تھا مگر حانم کی اگلی بات پر اس کو چپ لگ گئی

جلدی بولو جو تم بولنے آئے ہو میر زاویار بارات کے آنے کا وقت ہوگیا ہے میرے سسرال والے پہنچتے ہی ہوں گے 

اسے لگا اس نے سننے میں غلطی کی ہے

کیا کہا مطلب تمہارا مطلب تمہاری بہن کے سسرال والے ۔۔۔ نہیں مسٹر زاویار میں اپنے سسرال والوں کی بات کر رہی ہوں لگتا ہے آپ کے کان خراب ہوگئے ہیں 

یہ یہ کیسا مذاق ہے حانم

یہ مزاق نہیں ہے مسٹر زاویار 

تم نے تو کہا تھا کہ تمہاری بہن کی شادی ہے 

یس آفکورس میری رخصتی کے بعد اسی کی شادی ہے 

یہ کیا بکواس ہے ہی جھوٹ ہے تمہاری رخصتی

یہ کوئی بکواس یا مزاق نہیں ہے مسٹر زاویار جواد میر 

یہ حقیقت ہے

میری زندگی کی سب بڑی حقیقت اور پتا ہے میری زندگی کی سب سے تلخ حقیقت کیا ہے میرا تم سے سامنہ ہونا ہے 

اس سے بڑی تلخ حقیقت یہ ہے کہ  تم زاویار جواد میر ہو اور میں نورِ حانم اسعد میر اس سے بڑی حقیقت میں تمہاری سابقہ بیوی ہوں جس سے تم بغیر ملے بغیر دیکھے طلاق دے کر جا چکے تھے

جس کی ذات کے پرخچے تم نے اپنی انا کے زعم نکالے تھے

اس سے بھی بڑی حقیقت کے آج میری شادی ہے 

پتہ ہے کس سے

جہاں اتنے جھٹکے دیئے ہیں وہاں ایک اور سہی  حانم نے طنزیہ لہجے میں کہا

 میٹ مائی سیلف مسز نورِ حانم ساحر حماد خان!!!

حانم کے لہجے میں تفخر تھا 

نہیں۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔۔یہ سب جھوٹ ہے تم جھوٹ بول رہی ہو تم تم وہ نہیں ہوسکتی تم تو نور ہو نور حاکم بہادر ،عقلمند ،خوبصورت تم وہ نہیں ہوسکتی 

تم کیسے وہ ہوسکتی ہو 

میں وہ ہی ہوں جس کی ذات کا تماشا بنایا تھا تم نے نے میں وہی ہوں ہو جس کے کردار کو سوالیہ نشان بنا دیا تھا تم نے

تم نے مجھے دھوکہ دیا ہے بدلہ لیا ہے مجھ سے 

زاویار غم غصے اور دکھ بھرے لہجے میں حانم کو دونوں بازوؤں سے تھامے جھنجھور کر بولا 

اس کا لہجہ اور آواز بلند ہوگئی

جب وہاں ساحر آیا ساحر کی آنکھوں میں شولے بھڑک رہے تھے ۔۔۔

حانم کا اس کی سرمئی سرخ آنکھیں دیکھ کر دل سہما 

حانم نے پوری قوت سے زاویار کو دور جھٹک کر اس کے منہ پر تھپڑ دے مارا

میں نے پہلے بھی کہا تھا مسٹر زاویار مجھے ہاتھ لگانے کی جرات بھی مت کرنا 

اور جا رہی دھوکے اور بدلے کی بات تو یہ سب تمہاری فطرت ہے میری نہیں  میں نے کبھی تمہاری حوصلہ افزائی نہیں کی تھی 

تم ہی رال ٹپکا کر آئے تھے

 تم پر میں تھوکنا پسند نہ کروں 

میری خواہش تھی کہ میری کبھی تمہارے ساتھ ملاقات نہ ہو ہو مگر شاید قسمت کو بھی تم جیسے انا پرست غرور کے پتلے کو خاک کرنا تھا

یاد تو ہوں گے ہی تمہے اپنے الفاظ۔۔۔

 آج تمہے اس حال میں دیکھ کر میں  تم سے اپنا آخری نفرت کا رشتہ بھی ختم کرتی ہوں۔۔۔

حانم جاتے جاتے مڑی 

ہاں اب آ ہی گئے ہو شادی پر  تو کھانا کھا کر جانا ہم گاؤں والے بہت بڑے دل کے ہوتے ہیں 

حانم نے حقارت آمیز لہجے میں کہہ کر ساحر کا ہاتھ تھامہ اور اسے وہاں سے کے گئی 

نہیں نہیں نور میں مر جاؤ گا تمہارے بغیر  زاویار گھٹنے کے بل بیٹھتا چلا گیا 

دوسری والی سائیڈ سے مہمان آنے لگ پڑے تھے اور زاویار ادھر ہی ساکت گھٹنے کے بل بیٹھا تھا تھکے ہارے لٹے ہوئے جواری کی مانند اسے وہ تھپڑ تکلیف دہ نہیں لگا جتنا یہ سن کر کہ وہ ساحر کی بیوی ہے اور اس سے بڑھ کر اس کی سابقہ بیوی ہے جسے پانے کے تمام راستے وہ  کھو چکا تھا نور!!!!!

زاویار وہاں سے اٹھا اور ایکزٹ کی طرف تنے ہوئے اعصاب کے ساتھ بڑھا 

تم روم میں جاؤ میں دیکھتا ہوں مورے یا ممانی سائیں آگئی ہیں تو میں ان کو روم میں بھیجتا ہوں ساحر نے حانم کا ہاتھ چھوڑ کر اسے برائڈل روم میں جانے کو کہا 

ہمم۔۔۔حانم مسکرا کر اسبات میں سر ہلاتی اپنا لہنگا تھامے روم کی طرف چلی گئی۔۔۔۔

ساحر ک سرخ واپس اسی جگہ پر تھا جہاں ابھی کچھ دیر پہلے زاویار موجود تھا 

_________

زاویار شدید غصے میں کیب کروا کر حویلی پہنچا 

یہاں کے راستوں سے اسے کوئی واقفیت نہیں تھی نہیں تو جتنے طیش اور غصے میں وہ تھا اگر خود گاڑی ڈرائیو کرکے حویلی جاتا تو راستے میں اپنا خطرناک قسم کا ایکسیڈنٹ ضرور کروا لیتا۔۔

اپنی جیب میں موجود پیسے بغیر گنے پھینکنے والے انداز میں ڈرائیور کے منہ پر ماڑا کر لمبے لمبے ڈھاگ بھرتا اندر کی طرف بڑھا 

میر حویلی کو بھی پھولوں اور لائٹوں سے سجایا گیا تھا 

اتنی سجاوٹ دیکھ کر زاویار کو اپنے اندیشے سچ ہوتے ثابت ہوئے 

زاویار سیدھا آغا سائیں کے کمرے میں گیا 

وہاں لگی بڑی بڑی حانم کی تصویریں دیکھ کر اس کے قدم لڑکھڑائے

ایک دم دل میں ٹیس سی اٹھی

اس کی آنکھوں کی سرخی اس بات کی گواہ تھی

صنم سونیا اس کے اعتاب کی شکار ہونے والی تھیں 

زاویار شدید اشتعال میں حویلی کے بیٹھک میں آ کر چیزیں توڑنے لگا 

صنم ،،،،

سونیا ،،،،،

صنم سونیا زور زور سے آوازیں لگاتا ہاتھ میں آئی ہر چیز زمین بوس کر رہا تھا 

شور کی آواز سن کر تیار شیار سی خواتین بیٹھک میں آئیں 

سد شکر تھا کہ مرد حضرات فارم ہاؤس کے لیے نکل چکے تھے اب بس خواتین تھیں جنہیں لے جانے کی زمہ داری اخضر سائیں نے خود لی تھی

صنم جو پہلے ہی ساحر اور حانم کی شادی پر دکھی تھی زاویار کی دھاڑ سن کر اس کی روح لرزی 

تو کیا اس بات سے بھی پردہ اٹھنے والا ہے کیا زاویار ادا سائیں کو سب پتا لگ گیا ہے  

صنم کو اپنے جسم سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی 

۔۔۔۔۔

زاویار سائیں ثمینہ جواد زاویار کو دیکھ کر بیک وقت خوش اور پریشان ہوگئی 

اگر کوئی واپس آگیا تو 

زاویار سائیں ہما جاوید میر بھی اسے دیکھ کر حیران ہوئیں 

صنم صنم کہاں ہے مما اور وہ سونیا آج میں ان دونوں کو جان سے مار دوں گا مجھے بتائیں کہاں ہیں وہ دونوں 

زاویار بیٹا کیوں کیا کیا ہے صنم نے تم کیوں اسے مارو گے 

ثمینہ بیگم پریشان ہوئیں۔ 

تبھی ڈرتے ڈرتے صنم وہاں آئی 

زاویار چیل کی طرح صنم کی طرف لپکا ۔۔۔

________

حانم برائڈل روم میں آکر تھوڑی دیر پہلے کا واقع سوچنے لگی 

زاویار اور ساحر دونوں کا میسج دیکھ کر حانم کچھ سوچ کر اینٹرس کی طرف بڑھی 

برائیڈل روم سے باہر نکل کر حانم کے قدم خود بہ خود فارم ہاؤس کی بیک سائیڈ کی طرف مڑے جہاں ساحر کھانے اور سجاوٹ کا انتظام کروا رہا تھا 

اپنی بے اختیاری پر حانم کو یقین ہو چلا تھا کہ دوسرے تمام کاموں سے زیادہ اہم اس کے لیے اس کے ساحر سائیں کا حکم تھا

وہاں ساحر کو اکیلا بیٹھے دیکھ کر حانم کے ہونٹوں پر شرارتی سی مسکراہٹ آئی 

وہ اپنا لہنگا تھامے دھیرے دھیرے قدم چلتی اس کے پیچھے آئی اور اس کی آنکھیں ڈھک گئی

________

آج کا دن خاصا تھکاوٹ والا تھا سارے انتظامات بھی ساحر کو خود ہی دیکھنے پڑے وہ بڑی بڑی سجاوٹ سے لے کر چھوٹی موٹی سجاوٹ بھی حانم کی پسند کے مطابق کروانا چاہتا تھا غرض یہ کہ وہ ہر چیز اپنی نگرانی میں نور حانم کی پسند کے مطابق کروانا چاہتا تھا 

سارے انتظامات کروانے کے بعد وہ ادھر ہی بیٹھ گیا ابھی اس نے اپنے گھر  جاکر فریش ہوکر تیار بھی ہونا تھا 

جب ایک دم سے کسی نے اس کی آنکھوں پر اپنے مومی ہاتھ رکھ دئیے

ہاتھوں سے آتی مہندی اور پھولوں کی خوشبو محسوس کیے ساحر کے مونچھوں تلے سرخ لبوں پر گہری مسکراہٹ دوڑ گئی

چوریوں کی چھنکار اس کے دل میں بھی ارتعاش پیدا کر گئیں 

ساحر نے دھیرے سے ان ہاتھوں کو ہٹا کر حانم کو پکارا 

جو اس کے پیچھے کھڑی تھی 

سوچ لیں ساحر سائیں یہ نہ ہو مجھے دیکھ کر ہوش ہی کھو بیٹھے حانم نے شرارت بھرے لہجے میں کہا 

تو ساحر بھی اس کی بات کا جواب دئے بغیر نہ رہ سکا 

سوچ لیا نور ساحر آپ کو دیکھ کر ہوش بھی کھو بیٹھے تو کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔

حانم ایک دم سے اس کے سامنے آئی اور ساحر واقع ساکت رہ گیا 

خوبصورت نہیں وہ حسین ترین لگ رہی تھی 

کیا ہوا ساحر سائیں آج سے پہلے کبھی اتنی خوبصورت لڑکی نہیں دیکھی حانم نے مسکراہٹ دبا اس کے آگے چٹکی بجائی جو مہبوت ہوکر حانم کو دیکھ رہا تھا  

کبھی کسی اور کو دیکھنے کی چاہ ہی نہیں کی  ہمیشہ ایک ہی لڑکی کو دل سے چاہا ہے اور میری محبت کی صداقت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ لڑکی میری بیوی کے روپ میں میرے سامنے کھڑی ہے 

یہ اتنا خوبصورت لب و لہجہ حانم کو خود پر رشک کرنے پر مجبور کرتا تھا 

بے ساختہ اس کے گال سرخیاں جھلکانے لگے 

حانم بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئی

شکریہ ساحر نے اس کے خوبصورت روپ کو دیکھ کر دل میں ماشاءاللہ کہا 

شکریہ ؟؟؟ کس لیے ؟؟

حانم نے اپنی جھلی پلکیں اٹھا کر پوچھا 

میرا مان رکھنے کے لیے 

آپ کا حکم ماننا میرا فرض ہے حانم نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ سر خم کیا ۔۔

پھر کچھ یاد آنے پر سنجیدہ ہوئی ہوئی

ساحر سائیں

 میرے بدلے کا وقت آگیا ہے جب قسمت اس شخص کو منہ کے بل گرائے گی 

میں۔ نے بہت انتظار کیا ہے اس وقت کا اس شخص کو آج پتا لگے گا کسی کے کردار کو مشکوک بنانا کیا ہوتا ہے 

غرور کا انجام کیا ہے 

حانم کے لہجے میں نفرت ہی نفرت تھی 

نورِ،،،، ساحر نے بہت دھیمے لہجے میں اسے پکارا تھا 

جانے کیا تھا اس کے لہجے میں حانم نے چونک کر اسے دیکھا تھا 

جی ساحر سائیں

ساحر کی نظریں سامنے درخت پر لگیں فینسی لائٹس پر تھیں جو بار بار جل بھج رہیں تھیں 

میں تمہارا سکون چاہتا ہوں ؟؟

سکون؟؟؟؟ حانم خاموش تھی یاں پھر ساحر کی بات سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی 

آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ساحر سائیں حانم نے نا سمجھی سے پوچھا اسے واقع اس کی بات سمجھ نہیں آئی تھی 

حانم ساحر نے اپنا رخ حانم کہ طرف کیا اور اس کا بھاری چوریوں سے بھرے ہاتھ تھامے 

نور ساحر مجھے تمہارا سکون بہت عزیز ہے اور خدا کی قسم اگر اس شخص کی تذلیل سے تمہے سکون ملتا ہوتا تو اس شخص کو بہت پہلے ہی میں اس کی اوقات بتا دیتا 

مگر میں جانتا ہوں میری حانم ایسی نہیں ہے وہ سب سے جدا ہے جس کا دل بہت نرم اور خوبصورت ہے 

بالکل اپنے نام کی طرح

لائٹ اوف ڈیوائن 

اسے دوسروں کو رسوا کرکے کہاں سکون ملے گا وہ تو۔۔۔۔

نور سرمئی آنکھوں سے ہوتے سرمئی دھوئے میں کہیں 

کھو گئی ہر شہ کہیں پیچھے چلی گئیں 

حانم میری جان میری لاڈو کیوں رو رہی ہے 

اسعد حاکم نے روتی ہوئی حانم کو گود میں اٹھایا 

بابا سائیں زاویار سائیں بالکل نہیں اچھے وہ مجھے سب دوستوں کے سامنے موٹی موٹی کہ کر میرا مزاق اڑا رہے ہیں

حانم نے روہانسے لہجے میں کہا

ارے میرا بچہ اس میں رونے کی کیا بات ہے آپ اسے آنے دو اسے میں دیکھ لوں گا 

نہیں بابا سائیں آپ دیکھنا کل میں بھی ان کے دوستو کے سامنے انہیں کالا کالا کہوں گی پھر انہیں پتا لگے گا حانم نے اپنے ننھے ہاتھوں سے اپنے آنسو انصاف کیے 

نہ میری جان ایسے کسی کا مزاق نہیں اڑاتے اللّٰہ سائیں ناراض ہوتے ہیں 

اسعد حاکم نے اسے ٹوکا 

مگر بابا سائیں وہ بھی تو میرا مزاق اڑا رہے تھے 

تو کوئی بات نہیں اللّٰہ سائیں اس سے ناراض ہوں گے آپ نے تو نہیں کرنا نہ اللہ کو ناراض

اور اگر ویسے بھی آپ اس کا مزاق اڑاؤ گی تو کیا فرق رہ جائے گا اس میں اور میری نور حانم میں

آپ تو سب سے مختلف ہو اپنے بابا سائیں کی چندا 

سوری بابا سائیں

سوری اللّٰہ سائیں مجھ سے ناراض مت ہوئیے گا میں کسی کا مزاق نہیں اڑاؤں گی ۔۔۔۔

 حانم ابھی بھی اسی منظر میں کھوئی ہوئی تھی 

جب وہ ساحر کی اگلی بات پر ہوش میں۔ آئی

 مگر پھر بھی تمہارا فیصلہ کچھ اور ہے تو تم اپنے  ہر راستے میں اپنے ہر فیصلے میں  ساحر حماد خان  کو اپنے ساتھ پاؤ گی 

حانم نے نم دیدہ آنکھوں سے اس شخص کو دیکھا جو نہ صرف اسے اس سے زیادہ جاننے کا دعویدار تھا بلکہ اسے بے حد عزیز بھی تھا اپنے بدلے سے زیادہ اپنے ہر کام سے زیادہ 

حانم نے گہرا سانس ہوا میں سپرد کیا اور کھڑی ہوئی

ہاتھ ابھی بھی ساحر نے تھاما ہوا تھا 

تو کیا فیصلہ ہے نور ؟؟؟

وہ ہی جو نورِ ساحر کا ہونا چائیے

حانم نے اپنا ہاتھ آزاد کروایا 

ہاتھ چھوڑئیے ساحر سائیں مہمان نوازی کا وقت ہے ہم گاؤں والے بہت مہمان نواز ہوتے ہیں اب باہر مہمان آئیں ہیں تو انہیں یہ بھی نہ کہیں کہ کھانا کھا کر جائیے گا۔۔۔۔

نور حانم واقع سب سے جدا تھی 

کیا اس کا کردار اتنا بے مول تھا کہ اس کی وضاحت کے لیے وہ اپنے اصول توڑتی 

اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ اس کا شوہر اس پر یقین کرتا ہے اس کے گھر والوں کو یقین تھا اس پر 

"پھر لوگ کیا کہیں گے " اس کی کوئی گنجائش بچتی کہاں ہے ۔۔۔۔

ساحر نے محبت بھری نظر اس پر ڈالی جو اس کو جان رہی تھی اس کا مان رکھتی تھی اور اس کے ایک بار کہنے پر مان جایا کرتی تھی ۔۔۔۔

__________

زاویار چیل کی طرح صنم پر لپکا 

اور ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر رسید کر گیا 

ثمینہ اور ہما بیگم کا ہاتھ بے ساختہ منہ پر گیا 

یہ کیا کر رہے ہو زاویار ثمینہ بیگم نے صنم کو پانے پیچھے کیا 

ہٹ جائیں سارے آج میں اسے چھوڑوں گا نہیں اس کی وجہ سے میں آج برباد ہوگیا ہوں میری نور کی شادی ہورہی ہے اس ساحر سے اس کی وجہ سے میں نے اپنی بیوی کھوئی ہے 

اس نے اور سونیا نے ورغلایا تھا مجھے جھوٹی باتیں بتائی نور کے خلاف 

کیا کہی جارہے ہو زاویار ثمینہ چیخیں

نہیں چھوڑوں گا میں دونوں کو 

میرا گھر برباد کیا آپ کی بیٹی نے

 اسے تو میں ابھی زاویار ایک اور تھپڑ مارتا کہ اخضر نے ہوا میں ہی اس کا ہاتھ روک لیا 

صنم تو زاویار کے ایک ہی تھپڑ سے بے ہوش ہونے کو تھی دوسری دفعہ اسے ہاتھ ہوا میں بلند دیکھ کر زور سے آنکھیں اور مٹھیاں بھینج گئی

زاویار نے اپنے ہاتھ کو سختی سے تھامے اخضر کو دیکھ کر اپنا ہاتھ جھٹکا 

اسے ہاتھ بھی مت لگانا میر زاویار

اخضر کی دھاڑ پر زاویار کے ماتھے پر بل آئے 

تمیز سے بار کرو مجھ سے اور کیوں نہ لگاؤں اسے ہاتھ تم ہوتے کون ہو مجھے روکنے والے 

اس گاؤں کا سردار ہوں میں اور اپنے خاندان کی عزت پر ہاتھ اٹھانے والے کے ہاتھ کاٹ سکتا ہوں 

 اور تمہے تو اس حویلی سے نکال دیا گیا ہے تو پھر کس منہ سے واپس آئے ہو کس منہ سے نام لے رہے ہو میری ادی سائیں کا جس کو نکاح کے روز طلاق دے کر بھاگ گئے تھے 

اخضر نے اسے دھکا دیا 

تمیز سے رہو اخضر نہیں تو میں بھول جاؤں گا کہ تم چھوٹے ہو 

تمیز کی بات تو تم مت ہی کرو تمہارے منہ پر جچ نہیں رہا اور نکلو اس حویلی سے تم جیسا کچے کانوں کے انسان سے وقت رہے ہی جان چھوٹ گئی میری ادی سائیں کی اگلی بار ان کا نام لیا تو زبان نکال دوں گا 

وہ کہیں سے بھی اٹھارہ سالہ اخضر نہیں لگ رہا تھا 

زاویار اخضر کے پاس کھڑے تین بارودی گارڈز کو دیکھ کر ہاتھ ملتا رہ گیا 

مگر اب اسے پتا کرنا تھا کہ سونیا کہاں ہے کیونکہ ان سب میں وہ بھی شریک تھی صنم ہر تو اس کا بس نہیں چلا مگر سونیا کو اس نے چھوڑنا نہیں تھا ۔۔۔۔

_________

اپنا حلیہ ٹھیک کرو آغا سائیں کا فون آیا ہے

اخضر واپس اندر آکر کانپتی صنم کو کہہ کر واپس مڑ گیا ہما اور ثمینہ بیگم گاڑی میں بیٹھ چکی تھیں صنم بھی جلدی سے اپنا حلیہ درست کرتی گاڑی میں آکر بیٹھی دل ابھی بھی اندر سے ڈر کے مارے سُکھڑ پھیل رہا تھا ۔۔۔۔

_________

علینہ عینی اور حالہ بیگم حانم کے ساتھ برائڈل روم میں بیٹھی ہوئیں تھیں جب آغا سائیں اور اخضر حانم کو لینے اندر آئے

پھولوں کی چادر کے سائے میں ایک طرف سے اخضر نے اور دوسری طرف سے آغا سائیں نے حانم کے بازو سے تھاما ہوا تھا دونوں کے درمیان میں حانم قدم قدم اٹھاتی سٹیج میں اس کے انتظار میں کھڑے آف وائٹ شیروانی کے ساتھ سرخ رنگ کے کلّے میں شہزادہ لگ رہا تھا اپنی شہزادی کے انتظار میں اس کی عزت میں کھڑا 

ساحر کے ساتھ زارون اس کے بھائی کی حیثیت سے ادھر موجود تھا تو عینی دونوں کی ہی سائیڈ پر تھی ایک طرف ساحر کی بہن تو دوسری طرف حانم کی دوست 

عینی بھی مہرون اور سیاہ رنگ کے امتیاز کا بھاری ڈریس پہن کر سنبھلتی بہت خوبصورت لگ رہی تھی مشرقی طرز کے کپڑے اس پر واقع بہت سوٹ کیے تھے جس کی تعریف زارون سب کے سامنے ہی کر چکا تھا بنا عینی کی

 گھوریوں کا اثر لیے ۔۔۔

حانم نے جیسے ہی ساحر کے آگے بڑھائے ہوئے ہاتھ اپنا ہنائی ہاتھ رکھا ہر طرف تالیاں ہوٹنگ کا شور گونجا اور ایک دم سے دونوں کے اوپر گلاب کی برسات ہونے لگی 

حانم کو لگا جیسے کسی نہ اس کا دل پڑھ کر سجاوٹ کروائی ہو ۔۔۔۔

پھر رسموں کا دور چلا دوں پلائی کی رسم میں علینہ عینی اور صنم پیش پیش تھیں 

بالآخر وہ وقت آہی گیا جس کے لیے بیٹی کے ماں بات خوش بھی ہوتے ہیں اور دکھی بھی

حانم کو قرآن پاک کے سائے تلے ساحر کے ساتھ رخصت کرنے کا وقت آچکا تھا حانم سب سے پہلے آغا سائیں کے ساتھ لگی آنکھوں سے بے شمار آنسوؤں نکل کر بہہ گئے آغ سائیں نے ڈھیروں دعائیں اس کے سپرد کی پھر آہستہ آہستہ سب کے گلے لگی جواد اور جاوید سائیں نے بھی اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر ڈھیروں دعائیں دی سب سے آخر میں حالہ بیگم کے گلے لگ کر بہت روئی دونوں کو ہی اسعد حاکم کی کمی شدت سے محسوس ہوئی 

اس کمی کو محسوس کرکے حماد خان آگے بھرے اور انہوں نے حانم کے سر پر دست شفقت رکھا 

یو نورِ حانم اپنے ساحر سائیں کے سنگ خان ولا رخصت ہوئی

________

آسان نہیں تھا ساحر سائیں اور حانم کو دیکھنا مگر یہ آگ بھی تو میری ہی جلائی ہوئی ہے سونیا نے تو بس تیل کا کام کیا تھا 

کاش مجھے پہلے ہی پتہ ہوتا کہ کم عقلی کی ایک طرفہ محبت صرف زخم دیتی ہے جو ناسور بن کر ساری زندگی رستا ہے 

تو شاید میں اپنے قدم روک لیتی مگر پھر سوچتی ہوں کہ یہ میری سزا ہے کسی پاک دامن پر الزام لگانے کی سزا کسی کا دل دکھانے کی سزا 

میں صنم جواد میر بس اتنا ہی کہوں گی بے شک محبت ایک فطری عمل ہے یہ بتاتی نہیں ہے کہ کب کہاں اور کیسے یہ دل میں اترے گی مگر جب لگے کہ یہ یک طرفہ ہے تو خود پر پہرے بٹھا لو کیونکہ جب یہ ہی محبت ناسور بنتی ہے تو ساری زندگی صرف تکلیف کا ہی باعث بنتی ہے 

صنم نے ڈائری بند کی یہ ہی تھی وہ ڈائری جس کی وجہ سے سونیا نے اسے استعمال کیا تھا جس نے اس کے دل کے تہہ خانوں۔ میں چھپے راز کو فاش کیا تھا 

صنم نے اپنے ہاتھ میں پکڑے لائٹر سے آگ جلائی اور اسے ڈائری کے قریب لے گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ نے پوری ڈائری پر اپنا قبضہ جمالیا 

کمرہ دھواں دھواں ہوگیا تھا 

صنم ہنوز ڈائری کو ہاتھ میں ہی پکڑے بیٹھی تھی اسے اپنے ہاتھ میں جلن بھی محسوس نہیں ہورہی تھی 

جب کوئی دروازہ کھول کر اندر آیا 

تو پیسے بھیج رہی ہے کہ وائرل کرو تیری تصویریں فون 

کے اس طرف سے مقابل کی مکروہ آواز گونجی

پلیز میرے ساتھ ایسا مت کرو بیوی ہوں میں تمہاری 

سونیا گڑگڑائی۔۔۔

ہووو۔۔۔بیوی جو مجھ سے خلع لینا چاہتی ہے میں بھی دیکھتا ہوں تو کسیے مجھ سے آزادی لیتی ہے کوئی نہیں مدد کرے گا تیری نہ تیرے گھر والے نہ تیارا باپ اب تو صرف میری غلام ہے پتا لگا گیا ہے میں نے  تو کہاں چھپ کر بیٹھی ہے آرہا ہوں صبح لینے پیسوں کا انتظام کر کے رکھنا نہیں تو اس دن کی مار تو یاد ہی ہوگی 

اگر ایسا کرنا تھا تو کیوں کی شادی مجھ سے اس دن انکار کردیتے سونیا چیخی 

مجھے لگا تھا اتنے امیر خاندان کی ہے کچھ تو دیں گے تجھے مگر تیرے گھر والوں نے تو کھالی ہوکر ہی تجھے رخصت کر کے میرے سر ڈال دیا اب فون رکھ دماغ نہ خراب کر۔۔۔

نہیں۔ نہیں سونیا فون دیوار پر مار کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی وہ مکار شخص اسے پیسوں کے عوض بلیک مل کر رہا تھا 

پھر درشتگی سے اپنے آنسو رگڑتی اٹھی اور سیڑھیاں اترتی نیچے کی جانب بڑھی

سونیا نیچے آئی تو شائستہ بیگم صوفے پر بیٹھی ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھی 

اسے بے ساختہ ہی پانی ماں سے نفرت ہوئی آج سونیا کا حال میں کھڑی تھی اور اس کی ماں کو کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا تھا 

وہ ایک آخری نفرت انگیز نظر ان پر ڈال کر کیچن کی جانب بڑھی 

__________

زاویار نے حویلی میں کام کرنے والی کو پیسے دے کر شائستہ بیگم کی رہائش کا پتا لگوایا وہ جلد از جلد ادھر پہنچنا چاہتا تھا اپنے ضمیر کے گلٹ سے آزادی چاہتا تھا اور آزادی پانے کا ایک ہی راستہ تھا سارا مدعا سونیا اور صنم کے سر پر ڈالنا ۔۔۔۔

__________

صنم ہنوز ڈائری کو ہاتھ میں ہی پکڑے بیٹھی تھی اسے اپنے ہاتھ میں جلن بھی محسوس نہیں ہورہی تھی 

جب کوئی دروازہ کھول کر اندر آیا ..

__________

حانم کی رخصتی کے بعد حالہ بیگم بھی میر حویلی ہی واپس آگئیں گو کہ آنسہ بیگم نے بھی حانم کے ساتھ انہیں خان ولا میں رکنے کو کہا تھا پہلے تو مجبوری تھی  مگر اب انہیں اپنی بیٹی کے سسرال رہنا مناسب نہیں لگا سو وہ

انہیں خوبصورتی سے انکار کرتی اپنے سسرال آگئی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اخضر عجیب سی کیفیت میں لان میں ٹہل رہا تھا آج کے ہوئے واقع کے بارے میں آغا سائیں اور دونوں مردوں سے کسی نے کوئی بات نہیں کی تھی مگر اخضر نے تو سب دیکھا سنا تھا اسے حیرانگی بھی ہورہی تھی کہ صنم اور سونیا اس حرکت میں بھی ملوث تھیں سونیا سے تو اسے کوئی غرض نہیں تھا وہ کیسی ہے کیونکہ شہر میں رہنے کی وجہ سے وہ بہت آزاد خیال تھی اور شائستہ پھوپھو سائیں کی پوری شہ ملی ہوئی تھی اسے مگر صنم بھی ایسی تھی

صنم اس سے عمر میں چار ماہ بڑی تھی 

مگر وہ اسے پسند کرتا تھا اور یہ بات اپنے گھر والوں کو بھی بتانے والا تھا مگر اسے لگا ابھی نہ تو اس کی عمر ہے اور نہ ہی صنم کی مگر پچھلے چند مہینوں سے ہوئے ناگریز واقعات کی وجہ بہت کچھ بدل گیا تھا 

اب جب اسے آغا سائیں نے گاؤں کا سردار بنا دیا تھا وہ صنم والی بات جلد گھر والوں سے کرنے کا ارادہ رکھتا تھا اور اسے پورا یقین تھا کہ کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا 

مگر آج کے ہوئے واقعے پر اس کا دماغ سن ہوگیا 

اب یہ کیا نیا معاملہ تھا 

اخضر اس کا جواب صبح صنم سے لینے کا مکمل ارادہ رکھتا تھا 

اپنی پیشانی ملتے اخضر کی بے دھیانی میں لان سے نظر سماتی صنم کے کمرے کی کھڑکی پر نظر گئی جہاں سے سرمئی دھواں نکل رہا تھا 

اخضر کو کچھ غلط ہونے کا احساس شدت سے ہوا وہ پوری تیزی سے اوپر کی طرف دوڑا  

__________

 اخضر نے زور سے صنم کے کمرے کے دروازے پر ہاتھ مارا تو وہ کھلتا چلا گیا 

تم پاگل ہوگئی ہو اخضر نے اس کے سرخ ہوتے ہاتھ سے  آدھی سر چکی ڈائری پکڑ کر زمین پر پھینکی 

اگر جلنے کا اتنا ہی شوق ہے تو یہ شوق کیچن میں جا کر پورا کرو اتنی سی آگ سے تمہارا کچھ نہیں ہوگا اخضر نے غصے سے طنز بھرے لہجے میں کہا 

صنم نے کھالی نظروں سے اخضر کو دیکھا اسے اتنا بھی ہوش نہیں تھا کہ اس کا ڈبٹہ سر پر نہیں ہے 

پھر صنم نے اپنی کھالی ویران نظریں ادھ جلی ہوئی ڈائری پر ڈالی پھر وحشت زدا ہوکر ڈائری اٹھائی اسے پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کرنے لگی 

سب اسی کی وجہ سے ہوا ہے نہ سونیا اسے پڑھتی نہ اسے مجھے بلیک میل کرنے کا موقع ملتا 

کاغز کے ایک ایک ٹکڑے کے چیتھڑنے کرنے کے بعد پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔۔۔

__________

زاویار غصے سے کھولتا ان کے گھر کے باہر موجود زور زور سے دروازہ پیٹ رہا تھا 

اہ سونیا دیکھ باہر کون آیا ہے 

صوفے پر بیٹھی شائستہ بیگم نے سونیا کو آواز لگائی مگر جواب ناداد

سونیا کہاں مر گئی دیکھ باہر کون آیا 

ایک تو منحوسوں کو چین نہیں اتنی رات کو کون آگیا ؟؟

شائستہ بیگم سونیا کو بھاڑ میں جھونک کر خوف ہی دروازہ کھولنے باہر کی جانب بڑھی 

دروازے کھولنے پر اپنے سامنے کھڑے زاویار کو دیکھ کر گویا ان کے منہ سے پھول ہی برسنے لگے 

ہائے میرا زاوی بیٹا آیا ہے 

مجھے پتا تھا میرا بچہ اپنی پھوپھو سائیں کو اس حال میں نہیں دیکھ سکتا اس لیے مجھے لینے آگیا

شائستہ بیگم شروع ہوگئیں 

مگ زاویار ان کے پیار کو نظرانداز کیے اندر کی جانب بڑھا

سونیا ،،،،

سونیا زور زور سے چیختا سونیا کو تلاش کرنے لگ پڑا 

پھوپھو کہاں ہے سونیا آج نہیں میں چھوڑو گا اسے 

زاویار سیدھا اوپر کی طرف بڑھا مگر سونیا کا کہی آتا پتا نہیں جب شائستہ بیگم کی چیخ پر وہ نیچے کیچن میں آیا 

وہاں سونیا زمین پر گڑی ہوئی تھی اور اس کے دائیں ہاتھ کی کلائی سے خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا 

ہائے سونیا میری بچی شائستہ بیگم ادھر ہی بیٹھی ماتم کرنے لگ پڑی

ہٹیں زاویار نے ایمبولنس کو کال ملائی۔۔۔۔

_________

صنم چپ کر جاؤ

کیوں چاہتی ہو تمہاری آواز پر سب ادھر اکٹھے ہو جائیں اخضر نے سختی سے کہا تو صنم اپنی سسکیاں دبانے کے لیے اپنی ہتھیلی منہ میں دے گئی 

بس کر جاؤ صنم 

آپ ۔۔آپ نہیں جانتے اخضر سائیں اگر آپ مجھے جان جائیں تو یہاں میری ہمدردی میں آنے کی بجائے جان سے مارنا پسند کریں

صنم نے ازیت سے کہا 

اگر ایسا ہے تو میں تمہاری اصلیت جاننا بھی نہیں چاہتا یا یہ سمجھ لو مجھے تمہارے فیصلے میں خوش فہم رہنا ہے 

وہ کتنی آسانی سے اتنی بڑی بات کہہ کر اس کے کمرے سے باہر نکل گیا پیچھے صنم ساکت و جامد بیٹھی رہ گئی ۔۔۔۔

_________

حانم کو کافی دھوم دھام سے خان ولا لایا گیا تھا

رسمیں کرنے کے بعد اسے کمرے میں بھیج دیا گیا 

حانم کب سے بیٹھی ساحر کا انتظار کر رہی تھی جو جانے کہاں رہ گیا تھا 

اب پتا نہیں کہاں رہ گئے حانم  بے زاری سے گھڑی کی  طرف دیکھتی تو کبھی ہاتھوں کہ چوڑیوں کو چھیرتی

ایک منٹ میرا بریسلٹ حانم نے اپنے دائیں ہاتھ میں پہنی چوڑیوں کو آگے پیچھے کیا مگر وہاں بریسلٹ نہیں تھا جو ساحر نے اسے دیا تھا 

بریسلٹ کہا چلا گیا حانم اٹھ کھڑی ہوئی میرا بریسلٹ پورے کمرے میں پھڑتی وہ بریسلٹ ڈھونڈ رہی تھی 

کبھی زمین پر بچنے دبیز قالین پر پاؤں پھیرتی تو کبھی دروازے کے پاس جا کر دیکھتی 

اللّٰہ جی میرا بریسلٹ حانم روہانسی ہوئی 

_________

نہ بالکل نہیں ۔۔۔خان سر پیسے دیں گے تو ہی اندر جانے دوں گی عینی اپنے دونوں ہاتھ کمر میں رکھے ساحر کے کمرے کے دروازے کے آگے دیوار بن کر کھڑی تھی 

یہ کیا بات ہوئی حال میں تم لڑکی والوں کی طرف تھی تب بھی خان کی جیب ہلکی کی اب یہاں آکر لڑکے کی بہن کا رول پلے کر رہی ہو یہ تو نہ انصافی ہے خان ایک روپیہ نہ دینا اسے 

کیوں کیوں آپ چپ رہیں یہ میرا اور میرے بھائی کا معاملہ ہے

عینی کے اتنے مان سے بھائی کہنے پر ساحر نے اپنی جیب سے پیسے نکال کر عینی کی طرف بڑھائے 

یےےےے ۔۔۔۔ خان سر زندہ باد 

عینی سائیڈ پر ہٹی اب آپ مت بلائیے گا مجھے زارون کو منہ چڑھا کر وہاں سے نکلتی بنی 

پیچھے ساحر اور زارون دونوں ہی اس کے پچپنے پر 

مسکرا دیے 

چل بھائی تو اپنے راستے میں اپنے ابھی تمہاری تازہ تازہ بنی بہن کو منانا بھی ہے 

زارون ساحر کے گلے لگ کر اس طرف گیا جہاں ابھی کچھ دیر پہلے عینی گئی تھی 

_________

ساحر سلام کرتا کمرے میں داخل ہوا تو حانم پریشان سی کمرے کے بیچ و بیچ کھڑی تھی

کیا ہوا نورِ اتنی پریشان کیوں ہو اور یہاں پر کیوں کھڑی ہو؟؟؟

ساح۔ر ساحر سائیں حانم کی آنکھیں نم ہوئیں

نور پلیز مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے ؟؟؟

ساحر پریشان ہوا 

ساحر سائیں مجھ سے آپ کا بریسلٹ گم گیا 

حانم روہانسے لہجے میں کہتی اسے پیاری لگی تو

 یہ آنسوؤں بریسلٹ کا گم ہونے کے ہیں ساحر نے پوچھا 

حانم اسبات میں ہر ہلا گئی 

آپ نے مجھے پہلا گفٹ دیا تھا میں نے وہ کھو دیا 

میں نے پہنا ہوا تھا پتا نہیں کہاں چلا گیا میں نے جان کر نہیں گمایا 

کالم ڈاؤن نور وہ بریسلٹ ان آنسوؤں سے زیادہ قیمتی نہیں تھا۔۔۔

مگر مجھے وہ چائیے آپ مدد کریں ادھر ہی کہیں گڑا ہوگا حانم پھر سے دروازے کے پاس گئی 

روکو ساحر نے اپنی شیروانی کی جیب سے وہ بریسلٹ نکالا 

یہ ۔۔یہ آپ کے پاس کہاں سے آیا مجھے یاد ہے میں نے خود تیار ہوتے وقت پہنا تھا 

ہاں جب تم نے زاویار کو تھپڑ مارا تھا تب اس کی ہک ٹوٹ گئی تھی اور یہ وہیں گڑ گیا تھا 

مگر یہ تو ٹھیک ہے حانم نے بریسلٹ کی ہک دیکھی جو سہی تھی 

ہاں میں اسے ہی کروانے گیا تھا تبھی لیٹ ہوگیا 

شکر ہے حانم نے سکون کی سانس لی ۔۔۔۔

حانم نے بریسلٹ ساحر کی طرف بڑھایا جس نے وہ حانم کے ہاتھ پر پہنا دیا 

میں یہ اتار دوں یہ جیولری بہت تنگ کر رہی ہے اتنی ہیوی ہے یہ 

ہاں ایک منٹ ساحر نے اپنی الماری میں سے سرخ رنگ کا بوکس نکالا اور اسے حانم کی طرف بڑھایا 

یہ لو تمہاری منہ دکھائی 

منہ دکھائی اس میں کیا ہے  حانم نے اشتیاق سے وہ باکس تھاما اور اسے جیسے ہی اوپن کیا اس کی آنکھوں میں بے ساختہ ہی خوشی کے مارے نمی آگئ

ساحر سائیں وہ بس اتنا ہی کہ سکی 

مجھے مورے نے جب کہا کہ تمہارے لیے کوئی تحفہ خرید لوں تو مجھے سمجھ ہی نہیں آیا کہ تمہے ایسا کیا دوں کہ تمہے وہ ہمیشہ یاد رہے 

پھر میرے دل نے گواہی دی کہ تم جیسی نیک شریک سفر کے لیے قرآن پاک سے افضل اور پیارا تحفہ کیا ہوسکتا ہے 

بے شک اس سے افضل کیا ہوسکتا ہے  حانم نے نم آنکھوں سے اس باکس میں پڑے قرآن پاک کو عقیدت سے چوما 

میری یہ ہی خواہش ہے کہ میں تمہے یہ تحفہ دنیا میں بھی دوں اور آخرت میں بھی کیونکہ مجھے تمہارا ساتھ اس فانی دنیا کے علاوہ ابدی دنیا میں بھی چائیے 

تم بہت تھک گئی ہوگی اتنا ہیوی ڈریس ہے تم جاؤ چینج کرلو تب تک میں بھی وضو کرکے آیا پھر ساتھ نماز پڑھتے ہیں آپنے رب کے آگے سجدہ شکر بجا لاتے ہیں جس نے ہمیشہ ہمیں نوازا ہے ۔۔۔۔۔

حانم تھوڑی دیر بعد سادہ سے سوٹ میں دھلے ہوئے چہرے کے ساتھ کمرے میں آئی تو ساحر نے دو جائے نماز آگے پیچھے بچھائیں ہوئیں تھیں 

حانم چل کر اس کے قریب آئی 

پھر حانم نے اپنی نئی زندگی کی پہلی نماز اپنے ساحر سائیں کی امامت میں پڑھی

بے شک وہ خوش نصیب تھی اس کا شوہر اس کا ساتھ آخرت میں بھی چاہتا تھا

اور وہ لوگ قابل رشک اور خوش قسمت ہوتے ہیں جن کہ

 ہم سفر ان کی دنیا اور آخرت دونوں سنوار دیتے ہیں ۔۔۔۔

_________

سوری یار عین 

مان جاؤ نہ میں مزاق کر رہا تھا

زارون بچارا اسے منا رہا تھا جو اس کی کسی بات کو خاطر میں ہی نہیں لا رہی تھی

جائیں زی مجھ سے بات مت کریں میں ناراض ہوں آپ سے 

اچھا اگر ابھی پائین ایپل پیزا آرڈر کرکے دوں تب بھی نہیں

مانو گی  

زارون نے لالچ دی

جی تب بھی نہیں مگر عینی ابھی بھی نہیں مانی 

اچھا یار سوری نہ مان جاؤ 

چپ کرکے سو جائیں صبح ولیمہ بھی ہے نور کا اور مجھے فریش اٹھنا ہے ۔۔۔

________

آئی ایم سوری شی از نو مور 

ان کا خون بہت زیادہ بہت زیادہ بہہ گیا تھا  ہم ان کو نہیں بچا سکے ۔۔۔۔

زاویار لب بھیج گیا

شائستہ بیگم ادھر ہی بیٹھتی چلی گئیں 

صبح چار بجے فجر کے وقت حانم کی آنکھ کھلی

ساحر سائیں فجر کا وقت ہوگیا ہے اٹھ جائیں حانم ساحر کو آواز دیتی وضو کرنے کے لیے اٹھی 

حانم نماز کی طرح حجاب باندھ کر کمرے میں آئی تو ساحر کسلمندی سے اٹھ کر بیٹھا ہوا تھا 

اففف ساحر سائیں دیر ہورہی ہے حانم نے اسے بازو سے تھام کر کھڑا کرنا چاہا جو اس کے لیے بہت  مشکل تھا 

میں جاہ نماز بچھا رہی ہوں جلدی کریں اور پھر آپ نے مسجد بھی جانا ہے دیر مت کریں 

حانم الماری سے جاہ نماز نکالتے ہوئے بولی 

تھوڑی دیر بعد ساحر بھی وضو کرکے باہر آیا حانم نے دو جاہ نماز آگے پیچھے بچھائیں ہوئیں تھیں 

دونوں نے ساتھ سنت ادا کیں پھر ساحر فرائض کی ادائیگی کے لیے مسجد چلا گیا جبکہ حانم اپنی نماز مکمل کرنے لگی ۔۔۔۔۔

_________

ساحر نیچے گیا تو حماد خان بھی وضو کرکے مسجد جانے کے لیے تیار تھے ساحر کو آپ ے سامنے دیکھ کر خوشی سے مسکرائے کیسا ہے میرا شیر وہ پر جوش ہوکر ساحر کے گلے ساحر بھی گہری مسکراہٹ کے ساتھ ان کے گلے سے لگ گیا 

اللّٰہ نے بہت کرم کیا تھا وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے بابا واپس آجائیں گے وہ کبھی ان کے گلے بھی لگے گا 

مگر اللّٰہ بے نیاز وہ تب نوازتا ہے جب جس کی کوئی امید نہیں ہوتی جس کا کوئی گمان نہیں ہوتا 

چلیں نماز کے لیے دیر ہورہی ہے وہ دونوں گھر سے باہر نکلے ۔۔۔۔

__________

فجر کے وقت زاویار سونیا کی میت کو حویلی لایا تھا 

ہاسپٹل والے اس کی باڈی کو ریلیز ہی نہیں کر رہے تھے کیونکہ یہ سوسائیڈ کیس تھا وہ لوگ پولیس کو کال کرنا چاہ رہے تھے مگر ہاسپٹل کے نئے اور چھوٹا ہونے کی وجہ سے وہاں کے  لوگ زاویار کے رعب میں آگئے تھے 

       حویلی میں اتنی صبح ایسے سونیا کی لاش کا آنا ان اکسپیکٹڈ تھا سب ہی سکتے میں چلے گئے تھے

شائستہ بیگم عجیب عجیب حرکتیں کرتی تو کبھی بے ہوش ہو جاتی

سب حویلی آگئے تھے ابرار اور اشرف صاحب بھی سوائے خان ولا والوں کے  آغا سائیں نے انہیں یہ بات بتانے کے لیے سختی سے منع کیا تھا وہ نہیں چاہتے تھے کہ حانم کو  کسی بھی طرح کا ذہنی دباؤ یا پریشانی ہو  ابھی تو حانم کی نئی زندگی شروع ہوئی تھی ۔۔۔۔

تو فل۔وقت کے لیے یہ خبر حانم سے چھپالی گئی تھی 

خیر اس کی تدفین کے بعد سب ہی خاموش ہوگئے تھے کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس نے خود خوشی جیسا انتہائی قدم کیوں اٹھایا 

صنم تو پہلے ڈری سہمی رہنے لگ پڑی تھی اپنے سامنے سونیا کی لاش دیکھ کر اس کا حال اور ہی برا ہونے لگ پڑا 

اور وہ ادھر ہی پانے ہوش کھو بیٹھی 

_________

ساحر جب نماز پڑھ کر واپس آیا تو حانم کو۔زمین پر بیٹھے اپنی گود میں قرآن پاک رکھے اس کی تلاوت کرتے پایا 

سورت یٰس کی تلاوت اس کے کانوں کو سرور پہنچا رہی تھی 

کچھ حانم کی قرآٔت میٹھی تھی کچھ وہ حروف سحر انگیز تھے ساحر وہی کھڑے کھڑے دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر آنکھیں موند گیا 

اسے اپنی رگ و پے سکون سا اترتا محسوس ہوا 

حانم کے خاموش ہونے پر وہ جیسے ہوش میں آیا 

شاہد وہ سورت مکمل کر چکی تھی اب قرآن پاک کو غلاف میں لپیٹ رہی تھی جب ساحر اس کے پاس آیا اور اسکے ہاتھ سے قرآن پاک لے کر اسے چوم کر اس کی مخصوص اونچی جگہ پر رکھا 

تمہاری آواز بہت خوبصورت ہے نور 

لہجہ کھویا کھویا تھا 

کیا۔تم مجھے روز ہی کسی ایک سورت کی تلاوت کرکے سناؤ گی 

ساحر نے فرمائش کی 

انشاء اللہ

حانم نے بھی فوراً حامی بھر لی 

ساحر سائیں آپ کو یاد ہے نہ آج کے پلین 

حانم شیشے کے پاس کھڑی ہوکر اپنا حجاب کھولنے کے ساتھ اپنے بالوں کو سلجھانے لگی 

آف کورس یاد ہے سب کچھ تیار بھی ہے

ساحر نے حانم کے لمبے بھورے بالوں کی طرف دیکھ کر کہا جن کی خوشبو کمرے میں پھیل گئی تھی حانم کے کھلے بال وہ دوسری دیکھ رہا تھا 

پہلی بار اس نے نکاح کے بعد جب اس نے پیرس میں حانم کو پرپوز کیا تھا تب دیکھے تھے مگر تب اندھیرا تھا 

تمہارے بال بہت خوب صورت ہیں نور ساحر 

بنا کسی تردید کے تعریف کی گئی 

حانم کے لبوں پر تبسم پھیلا 

_________

تھوڑی دیر میں وہ دونوں ساتھ نیچے اترے تو ناشتے کی ٹیبل پر موجود آنسہ بیگم اور عینی نے بے ساختہ ماشاءاللہ کہا تھا ہلکے نارنجی رنگ کے ہلکی امبرائیڈری والے سوٹ میں وہ ہلکا سا میک اپ کیے حانم بہت خوبصورت لگ رہی

 تھی

او آؤ بچوں بیٹھو میں ناشتہ لگواتی ہوں 

ابھی آنسہ بیگم کا اتنا ہی کہنا تھا کہ علینہ اخضر اور حالہ بیگم کے ساتھ آغا سائیں خان ولا میں داخل ہوئے 

ناشتہ کیوں ہم لائے ہیں نہ اپنے بچوں کے لیے ناشتہ نوراں نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ٹوکرے کیچن میں جا کر رکھے 

اس کی کیا ضرورت تھی آغا سائیں آنسہ نے کہا 

ارے کیوں ضرورت نہیں یہ تو رسم ہے 

چلو کھانا لگواو بچوں کو بھوک لگی ہوگی 

۔۔۔۔۔

کھانا کھانے کے بعد حالہ بیگم حانم کے پاس آئی میری جان کیسی ہو؟

انہوں نے پیار سے حانم کی تھوڑی چھوئی

میں ٹھیک ہو مما سائیں

تم خوش ہو نہ حانم ؟؟؟

میری آنکھوں میں جلتے دیے دیکھ کر بھی کسی دلیل کی کوئی گنجائش رہتی ہے 

حانم نے گہری مسکراہٹ لبوں پر سجا کر کہا 

ہمیشہ خوش رہو میری جان سدا آباد رہو تمہارے سر کا سائیں تمہاری حفاظت کرے ڈھیروں دعائوں کے ساتھ

 آغا سائیں اخضر اور حالہ بیگم وہاں سے رخصت ہوگئے 

جبکہ علینہ کو حانم نے ادھر ہی روک لیا 

________

لینو یہ تمہاری آنکھیں کیوں ریڈ ہورہیں 

تم ٹھیک ہو حانم علینہ کی آنکھیں نوٹ کرکے بولی 

آہ۔ہاں ہاں وہ الرجی ہوگئی تھی تمہے تو پتا ہے نہ میری آنکھیں کتنی سینسٹو ہیں علینہ نے نظریں چرائیں

ہاں دھیان رکھا کرو اور صنم کیون نہیں آئی

صنم وہ صنم کے نہ سوٹ میں کوئی مسئلہ آگیا تھا تو چاچی سائیں کے ساتھ وہ ٹھیک کروانے چلی گئی تمہے تو پتا ہے نہ اس کا 

اچھا چلو چھوڑو میں تمہے اس کا سوٹ دکھاتی ہوں اور آگے کا پلین بھی بتاتی ہوں ۔۔۔۔

ہممم۔۔چلو 

__________

حانم ہاتھ میں ہلدی کی چھنی لے کر لاونج میں آئی جہاں بیٹھی عینی فروٹ سیلڈ کھاتے ہوئے ٹیوی دیکھ رہی  تھی 

علینہ بھی اس کے پاس ہی اگئی 

لینو تجھے پتا ہے نہ ہلدی لگانے سے فیس کتنا گلو کرتا ہے 

حانم نے چور نظروں سے عینی کو دیکھا جس کا دھیان ابھی بھی ٹیوی پر تھا 

ہاں حانم سائیں اس سے رنگ بھی پیارا ہوتا ہے میں نے تو ابھی کل لگایا تھا دیکھو کتنا اچھا ریزلٹ آیا ہے علینہ نے تو باقاعدہ اپنے گورے بازو آگے کیے 

اچھا واقع عینی بھی فروٹ سیلڈ کا باؤل میز پر رکھ کر ان کی طرف اشتیاق سے مڑی 

یس ادھر آؤ عینی میں تمہے بھی لگا دوں آفٹر آل دلہن کی بیسٹی ہو تمہے بھی روپ آنا چاہیے 

تم کھاؤ ہم خود لگا دیں گے

 کھاؤ کھاؤ علینہ نے سیلڈ کا باؤل واپس اس کی طرف بڑھایا 

تم ایسا کرو آنکھیں بند کرلو ایسے زیادہ ریلیکس رہو گی 

ہمم اوکے 

حانم نے اپنے موبائل کا کیمرہ اوپن کیا اور ویڈیو پر لگا دیا 

اور بھاگ کر کیچن میں کھڑی آنسہ بیگم کو باہر لے آئی 

افف یار اب تو کافی دیر ہوگئی کھول لوں آنکھیں اور یہ کیا ہلدی سے میرے ہاتھوں پر ڈیزائن بنارہے ہو گدگدی ہورہی ہے مجھے 

عینی نے جھنجھلا کر کہا 

نور یار میں تھک گئی ہوں 

بس کچھ دیر اور پھر نکھار نہیں آئے گا زی سر کے ساتھ اچھی کیسے لگی گی 

حانم نے پتہ پھینکا 

نہیں نہیں تم کرو میں نے کی ہیں آنکھیں بند 

اس کی جلد بازی پر علینہ نے مسکراہٹ دبائی۔۔

__________

آج دو بیوٹیشنز کو بلایا گیا تھا ایک حانم کے لیے دوسری نور العین کے لیے 

یار یہ سب کیا ہورہا ہے پہلے تم لوگوں نے مجھے بغیر بتائے مہندی لگا دی  اب بیوٹیشن اور یہ اتنا ہیوی ڈریس میں کوئی دلہن ہوں عینی اپنے سامنے اتنا ہیوی ڈریس دیکھ کر جھنجھلائی آج کی نسبت اس کا کل والا ڈریس  قدرے ہلکا تھا مگر اسے اس میں ہی اپنی نانی یاد آ گئی تھی کجا کے وہ یہ ڈریس پہنتی تھی 

نہیں نور پلیز یہ بہت ہیوی ہے 

عینی نے آپ ے سامنے پڑا کریم گولڈن کلر کا لہنگا دیکھا جس پر شیشے اور موتی کا بھاری کام ہوا ہوا تھا اور ساتھ اس کے جیولری بھی خاصی فینسی تھی عینی کو تو اپنی موت نظر آرہی تھی 

عینی تمہے میری قسم اگر تم نے یہ ڈریس نہیں پہنا تو میں آج اپنے ولیمے پر ہی  نہیں جاؤں گی 

افف ایک تو تمہاری ایموشنل بلیک میلینگ

عینی ڈریس چینج کرکے آئی 

واؤ عینی ماشاءاللہ اللّٰہ سائیں نظر بد سے بچائے بہت خوبصورت لگ رہی ہو

تم 

تم بھی نور ٹی پنک کلر کی ہیوی میکسی میں مہارت سے ہوئے میک اپ میں حانم حسین تر لگ رہی تھی سر پر اس نے حجاب کروایا تھا جو اس کی خوبصورتی اور وقار کو بڑھا رہا تھا ۔۔۔

حانم نے اپنے ہاتھوں میں پنک اور وائٹ اور عینی کے ہاتھوں میں سرخ گجرے ڈالے عینی کو تو سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ آج اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے 

افف شکر ہے ڈبٹہ سادا ہے عینی نے ہلکی کڑھائی والے سرخ ڈبٹے کو دیکھ کر شکر کیا 

_________

 تھوڑی دیر میں وہ لوگ فارم ہاؤس میں پہنچے 

حانم اور ساحر ساتھ ساتھ ایک حسین اور مکمل کپل لگ رہے تھے بیک وقت کہیں رشک اور حاسد نظریں ان کی جانب اٹھیں 

وہ دونوں سٹیج پر پہنچ کر بیٹھنے کی بجائے کھڑے ہوگئے 

ساحر نے مائک تھاما لیڈیس اینڈ جینٹل مین پلیز اٹینشن 

آج اس خوشی کے موقع پر ہم آپ لوگوں کو مدعو کرتے ہیں

آپ میرے دوست کے نکاح میں شامل ہوں اور اس کی خوشی کو بھی دوبالا کریں 

حانم اپنی میں کسی سنبھالتے سٹیج سے اتر کر عینی  کی طرف بڑھی اور اسے تھام کر سٹیج پر لے آئی جہاں سیاہ رنگ کی شیروانی میں زارون تیار کھڑا تھا 

زارون بے چارہ حیران اس کو خود ساحر نے زبردستی شیروانی پہنائی تھی 

عین نے بے یقینی سے سب کو دیکھا ہوش تو اسے تب آیا جب حانم نے اسی کے سرخ ڈبٹے سے اس کے چہرے کو ڈھانپہ 

کیا آپ کو قبول ہے ؟؟؟

زارون آج اسے تمام گواہان کے بیچ سپنوں کے بیچ اسے قانونی اور شرعی طور پر دوبارہ قبول کر چکا تھا

سائن کرتے وقت عینی کے ہاتھ کپکپائے جنہیں حانم نے تھاما 

عینی کھڑی ہو کر زور سے حانم کے گلے لگی 

شادی مبارک ہو میری جان ایک ویڈیو بھیجی ہے دیکھ لینا حانم نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔۔

_________

آج تمام رسموں کے ساتھ عینی زارون کی دلہن بنی تھی 

دونوں ہی اتنی محبت پا کر بے حد خوش تھے یہ لوگ ان کے اپنے نہیں تھے نہ ہی ان سے کسی قسم کا کئی خون کا رشتہ تھا پھر بھی بعض دفعہ احساس کے رشتے خون کے رشتوں سے زیادہ گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں 

عینی اور زارون اس وقت کمرے میں بیٹھے حانم کی بھیجی ویڈیو دیکھ رہے تھے جس میں 

عینی میڈم ریلیکس سی آنکھیں بند کیے فروٹ کھا رہیں تھیں ایک لڑکی اس کے پیروں پر مہندی لگا رہی تھی ایک اس کے ہاتھوں پر اور حانم علینہ وغیرہ عینی کے منہ پر ہلدی لگا کر اس کے سر سے پیسے وار وار کر رکھ رہے تھے 

اففف یہ کتنے تیز ہیں نہ میری بند آنکھوں میں میری رسم کر لی عینی بے یقینی سے ہنسی 

ہنس تو زارون بھی رہا تھا 

واقع یہ سرپرائز ان دونوں کے لیے ہی ورلڈ بیسٹ سرپرائز تھا ۔۔

_________

ساحر سائیں آج کتنا مزہ آیا نہ حانم اپنی جیولری اتارتی آکسائٹمنٹ سے بولی 

ہممم زی سر اور عینی کے ایکسپریشن تو دیکھنے والے تھے حانم نے قہقہ لگایا

حانم ساحر اٹھ کر اس کے پاس آیا 

جی حانم مصروف سے انداز میں اپنی جیولری اتارتی ہوئی بولی 

سونیا نے سوسائڈ کر لی ہے ۔۔۔

حانم کے ہاتھ تھمے 

ک۔کیا اااا؟؟

سونیا نے سوسائیڈ کرلی ہے کل رات کی آج صبح ہی اس کی تدفین ہوئی ہے 

سو۔سا۔۔۔ مگر کیوں ؟ اور کسی نے مجھے بتایا کیوں نہیں  حانم نے دونوں ہاتھ اپنے ہونٹوں پر رکھے 

اس بات کا ابھی پتا نہیں لگا نہ ہی کسی نے پولیس میں کیس کیا ہے سب کا یہ کہنا ہے اس نے اپنی وین کاٹ لی تھی اور گھر والوں کو آغ سائیں نے مع کیا تھا تاکہ ہمیں پریشانی نہ ہو آج کے دن 

افف اللہ حانم کا سر ہی چکرا گیا 

حانم اسے معاف کردو تاکہ اس کا آگے کا سفر آسان ہو جائے 

ہممم میں نے اسے معاف کیا ساحر سائیں۔ 

میں نے اسے معاف کیا اللّٰہ سائیں آپ بھی اسے اس کے اس قدم پر معاف کردیں

 رو مت نورِ ساحر یور ٹئیرز  ہرٹ می 

__________

آج وہ ہار گیا تھا سب کچھ ہی ختم ہوگیا نور حاکم 

بلکہ نور حانم ساحر اب ساحر خان کی ہوچکی تھی اسے اس نے اپنی انا میں گنوادیا 

کاش وقت واپس لوٹ آتا 

 کاش نور اس کی ہوجاتی 

کاش وہ اس سے ملتا ہی نہ 

کاش اسے نور سے محبت ہی نہ ہوتی 

کاش !!!! وقت پچھتاوے اور کاش کہ اس کے پاس رہ ہی کیا گیا تھا 

تم میری نہیں تو کسی کی بھی نہیں 

انہیں پچھتاؤں میں ڈوبے وہ بے دھیانی میں گاڑی غلط رخ کو موڑ گیا اور اس کی گاڑی سامنے موجود درخت پر جا لگی 

نور !!!!! آخری الفاظ اس کے نور ہی تھے ۔۔۔۔

_________

آغا سائیں آپ تو جانتے ہیں میری نوکری کی نوعیت مجھے اور ابرار کو جانا ہے مگر اس سے پہلے میں اپنے ابرار کے لیے علینہ کا رشتہ مانگنے آیا ہوں 

ابرار واقع اس سے بہت محبت کرتا ہے اور اسے بہت خوش رکھے گا اس بات کی گارنٹی آپ مجھ سے لیں لیں آغا سائیں ۔اشرف صاحب آغا آئیں کے پاس بیٹھ گئے 

نہیں ہر گز نہیں میں اس عورت کے بیٹے کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی ہر گز نہیں کروں گی ہما بیگم  بھڑکیں 

تو جاوید سائیں نے انہیں گھورا آغا سائیں میں واقع علینہ کے معاملے میں سنجیدہ ہوں اگر آپ کو مجھ میں کوئی کوتاہی نظر آئی تو میں اور میرا سر ہوگا آپ کو چائیے کرئیے گا ابرار کی آنکھوں میں اس کے لفظوں کی سچائی واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی 

علینہ سائیں کو بلاؤ جو فیصلہ میری بچی کا ہوگا میرا بھی وہ ہی فیصلہ ہوگا ۔۔۔۔

دو سال بعد!!!!!

پاکستان

علینہ کی شادی ابرار سے چھ مہینے پہلے ہی  ہوچکی تھی 

اور صنم کی منگنی اخضر سے

سونیا کی موت کے بعد شائستہ بیگم کو پاگل پن کے دورے بڑنے لگ پڑے جن کا علاج چل رہا تھا مگر 

تقریباً ایک سال پہلے شائستہ بیگم اپنی نگرانی میں بیٹھی نرس کا سر پھاڑ کر حویلی سے بھاگ گئیں تھیں انہیں ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی تھی مگر وہ نہیں ملیں

اور

زاویار اپنے دو سال پہلے ہوئے ایکسیڈنٹ کی وجہ ایک بازو سے معذور ہوچکا تھا جس کا علاج وہ امریکہ میں کروا رہا تھا ایکسیڈنٹ کے بعد جب اس نے اپنا چہرہ دیکھا تو خوف کا مارے اس کی چیخیں نکل گئیں دوسروں کو خوبصورتی پر جج کرنے والا اپنی خوبصورتی پر مغرور آج اپنا چہرہ شیشے میں نہیں دیکھ پارہا تھا 

ڈاکٹرز نے بازو کی ریکوری کی امید دلائی تھی مگر فیس سرجری جان لیوا ہوسکتی تھی اب زارون کو ساری زندگی اسی چہرے کے ساتھ گزارنی تھی 

__________

پیرس!!!!! 

جی ناظرین آج ہمارے سامنے ہیں مسز خان 

بزنس کلاس کی ٹاپ ٹرینڈ  

 اتنی ینگ ایج میں  اتنی سسیکس فل بزنس ویمین 

جی تو مسز خان آپ نے اتنے تھوڑے عرصے میں اپنا نام بنایا 

آف کورس آپ اتنے بڑے بزنس مین کی وائف ہیں تو کیا اس شہرت کے پیچھے مسٹر خان ہاتھ ہے یاں آپ کی محنت 

اینکر کے سوال پر ساحر کے ماتھے پر بل پڑے وہی

حانم کے ایکپریشن پر سکون تھے 

فرسٹ آف آل میں اپنے اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں جس کی وجہ سے میں آج یہاں ہو اور دوسرا آپ لوگوں نے تو سنا ہوگا کہ ایک کامیاب شخص کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے مگر میری کامیابی کے پیچھے میرے خان کا ہاتھ ہے ان کا سپورٹ ہی تھا جو آج میں یہاں ہوں اپنے بابا کا خواب پورا کر رہی ہوں 

حانم نے اپنے لفظوں سے اسے معتبر کیا ۔۔۔

اور بتائیں آپ نے اتنے بڑے ٹینڈر کمپلیٹ کیے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

مسز خان آپ یوتھ کو کیا پیغام دینا چائیں گی سپیشلی لڑکیوں کو جو اپنے خواب پورے کرنا چاہتی ہیں 

یاں پھر اپنی زندگی سے کوئی ایکسپیرینس اینکر زور و شور سے حانم سے سوال کر رہے تھے 

میری زندگی میں تین کٹھن راستے آئے 

ریجیکشن ،  موو اون  اور سیکنڈ چانس

یہ وہ کٹھن راستے ہیں جس پر چلنے پر دل اور قدم دونوں ہی ڈگمگا جاتے ہیں مگر میں نے انہیں پار کیا کیونکہ  میرے ہاتھوں کو میرے ہم سفر نے تھاما تھا جس نے کبھی مجھے ڈگمگانے نہیں دیا جس نے کبھی میری حوصلہ شکنی نہیں کی ہمیشہ یہ ہی کہا کہ تمہارا ساحر سائیں تمہارے ساتھ ہے 

میں نورِ حانم اسعد حاکم

 نور حانم ساحر حماد خان 

نورِ ساحر ایک پیاری سی مسکراہٹ آئی

یہ کہوں گی اگر ایک عورت زاد بغیر کسی مجبوری کے تن تنہا ہی اپنے خواب پورے کرنے گھر سے نکل پڑے   تو اسے اپنے راستے میں ملے  ہر دوسرے مرد میں شکاری دِکھے گا اور خود شکار۔۔۔۔

 مگر جب یہ ہی خواب کسی محافظ کہ حصار میں رہ کر پورے کرو گی تو کسی کی اتنی مجال نہیں ہوگی کہ کوئی تمہے آنکھ اٹھا کر دیکھے 

محافظ صرف شوہر نہیں باپ اور بھائی بھی ہوتے ہیں 

جب اپنے محافظ کے شانہ بہ شانہ چلنے کی ریس میں اس سے دو قدم آگے نکل آؤ گی تو نقصان تو تمہارا ہوگا نہ۔۔۔۔

مگر اگر تم خود ہی ایک قدم پیچھے چلو گی تو وہ ہمسفر تمہے اپنا کندہ دے گا اپنے ساتھ لے کر چلے گا اور پھر جب کوئی مصیبت آن ٹپکے گی تو وہ خود کسی مضبوط دیوار کی طرح تمہارے آگے کھڑا اس مصیبت کے سامنے ڈٹ جائے گا 

محبتوں  كے  سفیر  آءیں گے

كر  یقین  باضمیر  آءیں  گے

وہ سناتا  ھے كب سے افسانے

ھم تو لكھی تحریر لاءیں گے

ظلمتوں  كے حصار  ٹوٹیں گے

كرنیں  وہ  بےنظیر  لاءیں گے

ھم الٹ دیں گے شام كا منظر

شاہ  بن  كے  اسیر  آءیں گے

سید علی عباس 

حانم جواب دے رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ ساحر پر سکون سی مسکراہٹ لیے اس کے تھکے تھکے سے چہرے کو دیکھ رہا تھا 

پھر آگے کو بڑھا 

گارڈز نے بھی ان دونوں کے لیے راستہ صاف کیا 

نو مور کوسٹنز 

مسز خان صرف لاسٹ کوسٹن

آپ کی لو میرج ہوئی تھی کہ ارینج میرج

کسی منچلے اینکر نے پوچھا تو حانم بھی رک گئی 

پھر مسکرا کر ساحر کو دیکھتی شرارتی لہجے میں گویا ہوئی

"فورسڈ میرج"

اتنی سے بات ساحر کے ہونٹوں پر بھی تبسم پھیلا گئی

حانم ساحر کے ساتھ گاڑی میں آکر بیٹھی 

اللّٰہ سائیں 

ساحر نے گاڑی کے شیشے پر کے اے سی فل تیز کیا

حانم شیشے بند ہونے کے بعد اپنا حجاب ڈھیلا کرتی سیٹ کے ساتھ اپنا سر لگاتی آنکھیں موند گئی

بہت تھک گئی ہو پہلے گھر چلیں ساحر نے اس کا ہاتھ پکڑا 

اوہو ۔۔۔ حانم نے نفی میں سر ہلایا 

نہیں ساحر سائیں عینی نے مجھے کچا کھا جانا ہے پہلے ہاسپٹل چلیں وہ تو کہہ رہی تھی میرے بغیر اپنے بے بی ہی نہیں دیکھے گی 

حانم نے مسکرا کر اسے بتایا ۔۔۔

زی کی کال آئی تھی ٹریپلیٹس ہوئے ہیں تینوں ہی بیٹے ہیں 

ساحر نے زارون کی کال کے بارے میں بتایا 

واؤ ماشاء اللہ

اب تو مجھے بی ان تینوں کو دیکھنے کی آکسائیڈ منٹ ہو رہی ہے

________

ساحر اور حانم اس وقت پیرس کے بیسٹ ہاسپٹل میں موجود تھے جہاں ایک طرف بیڈ اور دوسری طرف ایک

 بڑا سارا بےبی کاٹ پڑا تھا حانم فورا کاٹ کی طرف لپکی تو عینی اپنے ہونٹ باہر نکال گئی

ظالم عورت میں نے تمہارے انتظار میں بھی اپنے بچے بھی نہیں دیکھے اور تم مجھے ہی نظر انداز کر گئی

عینی کی روہانسی آواز پر حانم اپنی زبان ہونٹوں تلے دبا گئی 

اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا پیارا سا گڈا ساحر کی طرف بڑھایا اور خود عینی کے گلے لگ گئی بہت بہت مبارک ہو میری جان اللّٰہ سائیں نے اتنے پیارے بیٹوں سے نوازا ہے 

تمہے بھی مبارک ہو بچوں کی آنی عینی نے بھی حانم کے گرد بازو باندھے 

چلو ہٹو مجھے میرے بچے دکھاؤ ماں صدقے میں نے ابھی تک انہیں پکڑا بھی نہیں 

تبھی کمرے میں۔ زارون داخل ہوا جس کے ہاتھ میں ڈھیر سارے بالونز اور چاکلیٹس تھیں جنہیں اس نے عینی کی طرف بڑھایا 

تھینک یو سو مچ عینی اتنے خوبصورت تحفے کے لیے زارون نے بیبی کاٹ سے ایک بچہ پکڑ کر عینی کو دیا جسے اس نے نرمی سے تھام لیا عینی نے اپنے ہاتھ میں پکڑے سرخ و سفید رنگت کے بچے کو دیکھا جس نے اپنی نیلی آنکھیں کھولیں پھر مسکرا کر آنکھیں موند گیا جیسے اپنی ماں کے لمس کو محسوس کیا ہو 

عینی نے بے ساختہ اس کی نیلی آنکھوں پہ پیار کیا

ساحر نے بھی اپنے ہاتھ میں پکڑے بچے کو زارون کو تھمایا جس کی خود کی آنکھیں بھی نم تھیں دوسرا بچہ بھی اپنی بڑی بڑی نیلی آنکھیں پٹر پٹر کھولے آس پاس دیکھ رہا تھا 

عینی یہ دونوں آپس میں کتنے ملتے ہیں اور ان کی آنکھیں بھی تمہاری طرح نیلی ہیں  مگر یہ دیکھو یہ تیسرا ان دونوں سے مختلف ہے اور آنکھیں بھی سیاہ ہیں حانم نے تیسرا بے بی عینی کے سامنے کیا جو واقع ان دونوں کی نسبت زیادہ شارپ تھا اور جاگ رہا تھا 

کہیں میرا بچہ کو نہیں ایکسچینج ہوگیا عینی نے چونک کر کہا تو زارون کا دل چاہا اپنا سر پیٹ کے نہیں عین کیوں ہوگا ہمارا بچہ ایکسچینج

دیکھیں نہ زی اس کی آنکھیں نہ آپ کی طرح ہیزل ہیں نہ میری اور اپنے بھائیوں کی طرح نیلی 

افف اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ یہ ہمارا بچہ نہیں ہے 

اس کی آنکھیں اپنے دادا بو پر گئیں ہیں بابا کی آنکھیں بھی سیاہ تھیں زارون نے نم آنکھوں سے کہا۔۔۔۔

پھر ساحر نے تینوں کے کانوں میں باری باری آذان دی اور 

ان کے نام تجویز کیے 

ان دو نیلی آنکھوں والوں میں سے ایک کا نام زین اور دوسرے کا زرک اور سیاہ آنکھوں والے کا نام حانم نے ثمر رکھا تھا جو سب کو ہی پسند آیا تھا 

___________

چند سالوں بعد۔۔۔۔

وہ دونوں ہاتھ باندھ کر اپنے سامنے کھڑے ڈیرھ فٹ کی ملکہ عالیہ کے آگے کھڑے تھے 

جی ملکہ عالیہ 

چار سالہ نورِ سحر 

جس کی خفا خفا سی سرمئی آنکھیں اور پھولے پھولے گال

ان دونوں کو اس پر پیار کرنے پر اکسا رہے تھے 

ان کا جرم اتنا تھا کہ آج دونوں ہی اپنی مصروفیات کی وجہ سے نور سحر کو عین کی طرف نہیں لے جا سکے۔۔۔

ساحر نے جھک کر اس کے پھولے گال پر پیار کرکے سوری کہا مگر مقابل شان بے نیازی سے اپنا گال رگڑ گئیں یہ خفگی جتانے کا مخصوص طریقہ تھا 

اس بار حانم نے گال پر پیار کرکے سوری کہا 

تو میڈم پھر اپنا گال رگڑ گئیں

اس بار دونوں نے ساتھ پیار کیا 

سوری نہ نورِ سحر دونوں نے اپنے کانوں کو پکڑا 

میں نلاج ہوں 

(میں ناراض ہوں )نورِ سحر پھر اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اپنے گال رگڑ گئیں 

معاملہ گھمبیر ہے حانم نے ساحر کے کان میں سرگوشی کی تو ساحر نے اسبات میں سر ہلایا 

دونوں نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ اس ڈیرھ فٹ کی ملکہ عالیہ کو گدگدانہ شروع کردیا جس کی چیخیں کمریں میں گونجی 

(اتھا تھا چھولیں نہیں ہو نلاج )

اچھا اچھا چھوڑیں نہیں ہو ناراض

دونوں نے اسے چھوڑ کر اس کے گال پر پھر پیار کیا اس بار نور سحر نے بھی گال نہیں صاف کیے 

آپ مجھے نہیں لگ تے دیے نہ عین آنی تے دھر 

(آپ مجھے نہیں لے کر گئے نہ عین آنی کے گھر )

مجھے زین ادا اور زرک ادا تے ساتھ تھیلنا تھا 

نورِ سحر ابھی بھی تھوڑی تھوڑی ناراض تھی 

صبح پکا بابا سائیں کی جان ساحر نے بے ساختہ اسے

 بھینجا اس کی اور حانم کی تو جان تھی اس میں اور صرف ان کی ہی نہیں پاکستان میں اپنے ماموں خالہ دادا دادی نانی آغا سائیں سب کی ہی جند تھی وہ 

اگر وہ عین کی دیوانی تھی تو عین خود نور سحر کی دیوانی تھی

زین اور زرک تو اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھے  

زارون کی بھی پری تھی اگر کوئی کھاڑ کھاتا تھا تو وہ تھا ثمر زارون تھا 

سحر اور ثمر کی کبھی نہیں بنی تھی 

پلومش نور سحر نے حانم اور ساحر دونوں کے آگے اپنا ننھا ہاتھ کیا تو دونوں ہی اس کی ننھی ہتھیلی چوم گئے پرومس چلو اب سونا ہے پھر تبھی صبح جلدی اٹھیں گے

 ۔۔۔۔

____________

عین عین کہاں ہیں تمہارے فتنے صبح صبح حسب معمول زارون کی آوازیں اور ان تینوں کا چوہوں کی طرح کیچن میں عینی کے پیچھے چھپنا 

کیا ہوا ہے زی 

عینی جانتے بوجھتے زارون کو تپا گئی 

آج نہیں بچتے یہ تینوں کہاں چھپ کر بیٹھے ہیں نہ میری بیلٹ مل رہی ہے نہ ٹائی نہ والٹ 

زین زرک ثمر سامنے آجاؤ تینوں نہیں تو آج تمہاری سویٹ ہارٹ بھی نہیں بچا پائی گی تم لوگوں کو زارون کبھی فریج کے پیچھے تو کبھی بڑے والے کیبنیٹ کھول کر ان تینوں کو ڈھونڈ رہا تھا  جب تینوں دوڑتے ہوئے زارون کو ٹکر مارتے 

"سویٹ ہارٹ سیو اس"

 "سویٹ ہارٹ سیو اس" کا نعرہ لگاتے عین کی آغوش میں چھپے مگر بچارا زارون ان تینوں کی ٹکر سے لڑکھڑایا جس کی وجہ سے شلف پر پڑے باؤل پر زور سے اس کا ہاتھ لگا اور باؤل میں پڑا خشک آٹا زارون کو کسی ہارر مووی کی چڑیل کی طرف سفید کر گیا 

ہاہاہہاا زارون کو اس حالت میں دیکھ کر عین سمت تینوں بچوں کے قہقہے گونجے میں ابھی بتاتا ہوں زارون کو اپنی طرف آتا دیکھ کر  وہ چاروں وہاں سے لان کی طرف دوڑے 

اب کہاں جاؤ گے تم لوگ 

زارون نے عین شین اور زرک کو پکڑ لیا 

سوری زی سوری عین نے زرک اور زین کو خود میں چھپایا 

سویٹ ہارٹ واٹر پائپ کے پاس کھڑے ثمر نے عین کو آواز دی اور پانی چلا کر زی کی طرف کردیا 

اور دوڑ کر عینی کے پاس گیا زی اب بھیگ تو چکا ہی تھا اس لیے پانی کا پائپ ان چاروں کی طرف کرکے انہیں بھی آپ ے ساتھ ہی بھگو گیا 

لان میں ان پانچوں کی کھلکھلاہٹیں گونج رہیں تھیں جو سب کچھ بھلائے پانی میں بھگو رہے تھے ۔۔۔۔۔

__________

سحر صاحبہ مشکل سے سوئیں تھیں

 حانم اپنے اور ساحر دونوں کے لیے کافی لے کر ٹیرس میں آگئی جہاں ساحر جھولے پر بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا 

یہ لیں ساحر سائیں

حانم نے کپ اس کی طرف بڑھایا 

ساحر نے بھی کپ پکڑ کر اس کے لیے جگہ بنائی 

حانم نے گہری سانس لے کر اس خوشبو میں بسی ہواؤں کو خود میں انڈیلا 

تھینک یو !!!!

حانم نے چاند کی طرف دیکھ کر کہا 

کس لیے ساحر نے بھی نظریں چاند کی طرف مرکوز کر دیں

میرے ساتھ اس لاپتہ منزل کے مسافر بننے کے لیے 

مجھے میری منزل تک پہنچانے کے لیے 

مجھے مان اور عزت دینے کے لیے 

مجھے محبت دینے کے لیے 

میری زندگی میں آنے کے لیے 

حانم نے اس کے شانے پر سر رکھا 

اچھا ان سب کے لیے تو پھر تمہارا بھی تھینک یو ساحر نے محبت سے چور لہجے میں کہا 

کس لیے ؟؟

میرا سکون بننے کے لیے 

میری روح بننے کے لیے 

میرا سفر بننے کے لیے 

یہ بات تو تہہ تھی شاہد حانم ساحر سے ان مان بھری باتوں میں نہیں جیت پائے گی 

مگر یہاں کمپیٹیشن تو نہیں تھا 

یہ تو زندگی تھی 

ابھی وہ کوئی اور بات کرتے اندر سے فل والویوم  میں کارٹون کی آوازوں  کے ساتھ نورِ سحر کی کھلکھلاہٹوں کی 

آوازیں بھی آرہی تھی مطلب صاف تھا ملکہ عالیہ جاگ چکی ہیں 

دونوں اپنی کافی وہی چھوڑ کر اندر کی طرف دوڑے 

جہاں ان کی جند جان اپنی شرارتوں سے ان کی زندگی حسین بنانے والی تھی

زندگی حسین تھی 

زندگی حسین ہے اگر غم کو بھی اسی طرح شکر اور صبر کے ساتھ گزارو جس طرح خوشی کے موقع کو گزارتے ہو ۔۔۔۔

ختم شد۔۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Manzilen Lapata Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Manzilen Lapata written by Samreen Shah. Manzilen Lapata by Samreen Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages