Sartab E Ulfat By Minal Meher New Complete Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Sartab E Ulfat By Minal Meher Complete Romantic Novel |
Novel Name: Sartab E Ulfat
Writer Name: Minal Meher
Category: Complete Novel
مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔
کمرے کی جامد خاموشی میں اس کی کانپتی آواز گونجی۔ آپ مان جائیں اُن کی بات جو وہ چاہتی ہیں ویسا ہی کریں۔ آپ مجھے۔۔۔۔
اس کی دھاڑ نما آواز پر اس کے الفاظ درمیان میں ہی رہ گۓ۔ مہربانی کرکے اپنی بکواس بند رکھو۔ اس کی بےتکی بات اسے غصہ دلا گئ۔
اس کی دھاڑ پر وہ سہم کر دو قدم پیچھے ہٹی۔ پھر ہمت مجتمع کرتی ہوئی بولی۔ مجھے نہیں رہنا آپ کے ساتھ یہ میری لائف ہے میں اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہوں۔ آپ کی یہ زور زبردستی اب نہیں چلے گی۔ وہ بھی چیختی ہوئی بولی۔
وہ اس کی اتنی دیدہ دلیری پر حیران ہوتا اس کی طرف متوجہ ہوا۔ تمہارا دماغ خراب ہوچکاہے جب ٹھکانے پر آۓ گا تب بات کرنا۔ وہ اسے ہاتھ سے سائیڈ پر ہٹاتا آگے کی طرف بڑھا۔
وہ بھاگتی ہوئی پھر سے اس کے سامنے آئی ۔ میرا دماغ بالکل ٹھیک ہے مجھے ابھی آپ سے بات کرنی ہے۔
اس نے غصے سے سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے گھورا۔
وہ ایک پل سہم سی گئ تھی ۔ کیا اس نے یہ بات چھیڑ کے سہی کیا تھا۔ اسے صرف اپنی تکلیف نظر آرہی تھی ۔ سامنے کھڑے وجود کو اس کی باتوں سے کتنی تکلیف ہوئی ہوگی یہ تو اس نے سوچا ہی نہ تھا۔
مجھے تم سے اس قسم کی کوئ امید نہیں تھی ۔ تم سوچ بھی نہیں سکتی تمہاری باتوں نے مجھے کتنی تکلیف دی ہے۔
وہ بغیر اس کی مزید کوئ بات سنتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔
اس کے باہر نکلتے ہی وہ سسکتے ہوئے نیچے بیٹھتی چلی گئ۔ رفتہ رفتہ اس کی سسکیوں کی آواز بلند ہوتی چلی گئ۔
کوئ مجھے نہیں سمجھتا آپ بھی نہیں ۔
وہ روتی ہوئی خود سے شکوہ کناں تھی ۔ اس وقت جیسے وہ سب سے خفا تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمجھتے کیا ہیں خود کو ۔ میں اُن کے لیے مری جا رہی ہوں۔
بالکل ! حفضہ کے لقمہ دینے پر اُس نے بری طرح اُسے گھورا۔
تم میری دوست ہو یا اُنکی۔ اپنا منہ بند رکھ۔ وہ چڑتی ہوئی بولی۔ مجھے دیکھ کر اُن کے ماتھے پر ایسے بل آجاتے ہیں۔ اور اُس میک اپ کی دکان سے کیسے ہنس ہنس کر بات کر رہے تھے۔ دیکھا تھا تم نے۔ وہ اُس کی طرف مڑتی ہوئی بولی۔ حفضہ نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولنا چاہا۔ جب وہ ایک دفعہ پھر نان سٹاپ شروع ہوچکی تھی۔ تم نے کیسے دیکھا ہوگا تم تھوڑی نا وہاں تھی۔
تم ہی بتاؤ حفضہ کیا اُنہیں مجھ جیسی خوبصورت ،خوب سیرت ، کم عُمر ، حیا دار لڑکی کہی مل سکتی ہے۔ وہ مصنوعی آنسو صاف کرتی بھرپور اداکاری کرتی اس کی ہمدردی سمیٹنے کے چکروں میں تھی۔
خیر جتنی خوبیاں تم گِنوا چکی ہوں یہ آج تک مجھے نظر نہیں آئی انہیں کیا خاک نظر آۓ گی۔
حفضہ کی گوہر افشانیاں سُن کر اس کا پارہ چڑھا۔ وہ اس کی طرف مُڑتی ایک دھموکا اس کی کمر میں رسید کر چکی تھی۔ کیا مطلب ہے تمہاری اس بات کا بتانا پسند کرو گی۔
اس کی گھوریوں کو دیکھتی وہ اپنی کمر سہلاتی معصو میت سے بولی۔ میرا مطلب ہے بالکل تمہارے جیسی اتنی خوبیوں کی مالک لڑکی انہیں کہاں ملے گی۔
بالکل وہ فخریہ گردن اکڑا کر بولی۔
حفضہ نے تاسف سے اس کی پیٹھ کو گھورا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت کی تجارت میں خسارہ کون دیکھے گا
سمندر کون دیکھے گا ، کنارہ کون دیکھے گا
تمہیں دلکش بنایا ہے مری ساحر نگاہوں نے
مرے انداز سے چہرہ تمہارا کون دیکھے گا
یہ کارزارِ عشق ہے اپنے پراۓ ایک ہیں
تیر کس نے کس کو مارا کون دیکھے گا
تو بچھڑے گا ترے ہمراہ جائیں گی مری آنکھیں
تموارے آنے جانے کا نظارہ کون دیکھے گا
جو عاشق ہے وہ جائے گا اگر سوہنی پکارے گی
بپھرتے تیز دریاؤں کا دھارا کون دیکھے گا
ذرا سا فاصلہ ہوتا ہے ملنے میں بچھڑنے میں
تری خاطر ٹریفک کا اشارہ کون دیکھے گا
وہ مسلسل ایک ہی زاویے بر بیٹھی اُسے گھورنے میں مصروف تھی جب اس کی دوست ملائکہ نے اسے ٹہوکا دیا۔
ماہ نور ! خدارا اپنی نظروں کو قابو کرو ۔ آنکھیں کھولو اور اپنے اور اس کے بیچ کے فرق کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ وہ تو دوستی بھی حیثیت دیکھ کر کرتا ہے تمہیں لگتا ہے وہ تم سے محبت جیسے جذبے میں بندھے گا وہ تم سے دوستی کرنا بھی پسند نہیں کرے گا۔
ماہ نور نے چہرہ موڑ کر خُفی سے اسے گھورا۔
اس کی گھوریوں کو دیکھتی ہوئی وہ ایک دفعہ پھر بولی۔ میں تمہاری مخلص دوست ہوں اس لیے کہہ رہی ہوں ۔ یوں کہہ لو تمہیں حقیقت کا آئینہ دکھا رہی ہوں۔
مجھے لگتا ہے ملائکہ میری محبت کی شدت کو ددیکھنے ہوئے وہ مجھے قبول کرلے گا۔ وہ آس سے بولی۔
یہ تمہاری خام خیالی ہے وہ تاسف سے بڑبڑائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دیکھ وہ ماہ نور آج بھی تمہیں ہی دیکھ رہی ہے۔ اس نے ہارب کی توجہ کچھ فاصلے پر بیٹھی ماہ نور کی طرف دلوائی۔
ہارب نے ایک نظر بھی ماہ نور پر ڈالنا گوارہ نہ کیا۔ پاگل ہے وہ لڑکی اُسے لگتا ہے وہ یہ سب کر کے مجھے امپریس کرلے گی تو یہ اُس کی غلط فہمی ہے۔ اُس کے اور میرے اسٹیٹس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک معمولی سے ڈرائیور کی بیٹی ہے تجھے لگتا ہے کہ میں کبھی اُس کے بارے میں سوچ بھی سکتا ہوں۔ وہ نخوت سے سر جھٹکتا ہوا بولا۔
ویسے سوچنے والی بات ہے کہ ان مڈل کلاس لڑکیوں کو محبت بھی امیر لڑکوں سے ہوتی ہے۔ سب ڈرامے ہیں ۔ امیر لڑکوں کو پھنسا کر امیر ہونے کا پلان ہے اور کچھ نہیں۔ تیری جگہ میں ہوتا تو اچھی خاصی باتیں سُناتا اس سرپھری کو۔ اس کی بات پر ارسم جواباً بولا۔
چھوڑ اسے چل کینٹین پر چلتے ہیں۔ سر کے کلاس سے جاتے ہی ہارب بولا۔
ہارب اور ارسم رشتے دار ہونے کے ساتھ ساتھ بچپن کے دوست بھی تھے ۔ ان دونوں کے والد کزن تھے اور ساتھ ساتھ بزنس پارٹنر بھی تھے۔ اسی لیے دونوں گھروں میں آنا جانا لگا رہتا تھا ۔ اس کے علاوہ ایک ہی سکول میں پڑھے تھے۔ اُس کے بعد کالج بھی ایک ہی تھا ۔ اب وہ دونوں چار سال سے پڑھائی کے سلسلے میں یورپ میں ہی مقیم تھے۔ یہ اُن کا آخری سال تھا دونوں کا تعلیم مکمل کرتے ہی واپس جانے کا ارادہ تھا۔
ہارب کی والدہ کچھ ماڈرن سی اور اسٹیٹس کانشیئس تھی انہوں نے اپنی سوچ کچھ حد تک اس میں بھی منتقل کردی تھی۔ یہ بھی چھوٹی چھوٹی باتوں میں اسٹیٹس کو درمیان میں لے آتا تھا۔ ہارب کی دیکھا دیکھی ارسم بھی ویسا ہی ہوگیا تھا۔
ایک تو اعلٰی خاندان کا ٹیگ دوسرا دونوں ہی ایک سے بڑھ کر ایک پرسانیلٹی رکھتے تھے۔ ان کی ڈریسنگ بھی باکمال ہوتی تھی۔ کچھ لڑکیوں کا آگے پیچھے گھومنا انہیں مغرور کرگیا تھا۔
اب دیکھنا یہ تھا کہ اپنی اس مغروریت میں وہ کتنا نقصان اُٹھاتے ہیں۔یا ان کی ذات کسی اور کے لیے تکلیف کا باعث بننے والی تھی۔
_______________________________________________
اس کی لینڈ کروزر آفس کی عالیشان بلڈنگ کے سامنے آکر رُکی۔ ڈرائیور گاڑی روکتا جلدی سے باہر نکلا۔ مؤدب سے اس کی سائیڈ کا دروازہ کھولا۔
گاڑی سے اُتر کر اس نے ایک نظر کلائی پر بندھی گھڑی پر ڈالی پھر شاہانہ چال چلتا اندر کی طرف بڑھ گیا۔ سارہ سٹاف اس کے آنے پر الرٹ ہوچکا تھا۔ وہ مسکرا کر ہر ایک کے سلام کا جواب دیتا اپنے کیبن کی طرف بڑھ گیا۔
اس کی سٹڈی کمپلیٹ ہوۓ دو سال ہوگۓ تھے۔ سب بڑوں کے مشورے پر اسلام آباد والی نئ برانچ میں اسے بھیج دیا گیا تھا۔ اپنی ذہانت کی بنا پر کمپنی کو پیک پر پہنچا چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج کی روشنی ہر سو پھیلی صبح ہونے کا پتہ دے رہی تھی۔ روشنی کی کرنیں اس خوبصورت سفید بنگلے پر پڑتی ایک خوبصورت منظر پیش کر رہی تھی۔
یہ بنگلہ جتنا باہر سے خوبصورت تھا اندر سے بھی اتنا ہی عالیشان تھا۔ اس عالیشان سے گھر میں دو فیملیز رہتی تھی۔
وجاہت صاحب اور آمنہ بیگم کا ایک ہی بیٹا تھا ۔ ذوہان وجاہت جو گھر کا پہلا چشم و چراغ تھا۔ دو سال سے اپنی سٹڈی کمپلیٹ کرکے وہ بزنس کے سلسلے میں اسلام آباد میں ہی مقیم تھا۔
وجاہت سے چھوٹے شہریار تھے جن کی شریکِ حیات سارہ بیگم تھی۔ ان کی دو اولادیں تھی۔ ہارب جو اس وقت سٹڈی کے لیے یورپ میں مقیم تھا اُس سے چھوٹی اور گھر بھر کی لاڈلی منسا۔ جو یونی کے پہلے سال میں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کب سے یہاں خاموش بیٹھی اپنی قسمت پر ماتم کناں تھی۔ اسے یہاں بیٹھے ایک گھنٹے سے اوپر کا وقت گزر چکا تھا۔ اس کا نام نہاد شوہر اسے یہاں بٹھا کر بھول گیا اسے سب میں اپنی وائف کے طور پر انٹروڈیوز کرواتے ہوۓ شرم آتی تھی۔
وہ اسے یہاں بٹھا کر کسی لڑکی کے ساتھ مصروف ہوچکا تھا۔ وہ ماڈرن سی لڑکی جس کے سامنے وہ خود شاید کچھ بھی نہ تھی دوسری اس میں موجود خامی اسے سب کے سامنے شرمندہ کرواتی تھی۔
وہ اس کی عیاش طبیعت سے بخوبی آگاہ تھی۔ہر مہینے وہ ایک نئ لڑکی کے ساتھ ہوتا تھا پر گھر والوں کے سامنے وہ ایک شریف انسان تھا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ اگر انہیں اس کے بارے میں بتا بھی دے تو کوئی بھی اس پر یقین نہیں کرے گا۔ اسے تو وہ صرف مجبوری کے تحت ساتھ لاتا تھا۔ اسے نفرت تھی اُس انسان سے جو اس کا ہمسفر تھا۔
اب بھی وہ کسی نامحرم کے ساتھ اپنی فطرت کے مطابق عیش میں مصروف تھا۔ وہ کتنی دیر باہوں میں باہے ڈالے ڈانس فلور پر ایک دوسرے میں مگن رہے ۔ اس نے کرب سے اپنے محرم کو کسی اور کے باہوں کا ہار بنتے دیکھا۔
اب وہ اس کے نزدیک آتا حکمیہ لہجے میں بولا۔ چلو ہم آلریڈی لیٹ ہوچکے ہیں۔
وہ کہنا تو چاہتی تھی کہ تمہاری عیاشی کے چکر میں لیٹ ہوۓ ہیں پر مصلحتاً خاموش رہی۔ اس نے خاموشی سے ایک نظر اُن دونوں پر ڈالی اور آگے کی طرف بڑھ گئ۔
اس نے آکر فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر بیٹھنا چاہا جب اس کی سرد آواز اس کے کانوں میں ٹکرائی ۔ تم پیچھے بیٹھو ۔
وہ خاموشی سے کار کا پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھ گئ۔اس نے اُن دونوں پر نظر ڈالنا بھی گوارا نہ کیا۔
کبیر نیازی اس کا کزن اور منکوح تھا۔ ان کے نکاح کو ایک سال ہوچکا تھا۔ رخصتی ابھی اس کی پڑھائی تک ملتوی تھی۔ اس شخص سے نکاح کے بعد وہ ایک لمحہ بھی خوش نہ ہوپائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں یونی کے گراؤنڈ میں بیٹھی تھی جب اُن میں سے ایک کی آواز گونجی۔ تم خود پر ظلم کر رہی ہو یہ سب کرکے۔ وہ شخص تمہارے قابل نہیں ہے۔ اُسے یونہی خاموش بیٹھا دیکھ اسے تپ چڑھی۔
تو کیا کروں تو ہی بتا ۔ اگر میں اس رشتے کو ختم بھی کردوں تو میں جانتی ہوں یہ چیز میرے ماں باپ کے لیے تکلیف کا باعث ہوگی۔ وہ اداسی سے بولی۔
فار گوڈ سیک مصفرہ ! تم یہ سب کر کے کیا ثابت کرنا چاہتی ہو کہ تم بہت مہان ہو۔ یہ سراسر بیوقوفی ہے پاگل لڑکی۔ مجھے تو وہ انسان زہر سے بھی برا لگتا ہے۔ دل کرتا ہے وہ سامنے ہو تو اُس کا گلہ دبا دوں۔ وہ غصے سے دانت کچکچاتی ہوئی بولی۔
تم اپنے بارے میں کیا کہو گی۔ مصفرہ اس کی باتوں پر جواباً بولی۔
اس کی بات پر اس کے چہرے کا رنگ بدلہ جسے وہ مہارت سے چُھپا گئ۔ میرا معاملہ اس سے بہت الگ ہے۔ اُسے تم بیچ میں مت گھسیٹو۔ ہم تمہارے بارے میں بات کر رہے ہیں نہ کے میرے بارے میں۔
چھوڑو ان سب باتوں کو آئرہ میں نے اپنا معاملہ اللّہ پر چھوڈ دیا ہے وہ بہتر سنبھال لے گا۔
اس کی بات پر آئرہ خاموش ہوگئ۔ اسے کیسے سمجھاتی کہ خود بھی کوئی قدم اُٹھانا پڑتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے نوٹس بناتی ملائکہ کو پکارہ تھا۔ ملائکہ نے سر اُٹھا کر سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا۔ اس نے گہرہ سانس بھر کر پنسل نیچے رکھی اور پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ وہ جو اسے مخاطب کرکے خود ہونٹ کاٹ رہی تھی۔ کیا بات ہے ماہ نور۔ اس نے ماہ نور کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں قید کیا۔
ملائکہ! یہ ہمارا لاسٹ سمسٹر ہے اُس کے بعد وہ چلا جاۓ گا ۔اور شاید میں پھر کبھی اُسے دیکھ بھی نہ پاؤں۔ وہ ہونٹ کاٹتی ہوئی بولی۔
دیکھو نور میں تمہیں ہزار دفعہ منع کر چکی ہوں۔ ایک دفعہ پھر کہوں گی کہ اُس خبطی انسان کا پیچھا چھوڑ دو۔ وہ کبھی تمہارے جذبات کی قدر نہیں کرے گا۔ پر تم نے پہلے کبھی میری بات مانی ہے جو اب مانو گی۔ اب بتاؤ کیا چل رہا ہے تمہارے دماغ میں۔
میں چاہتی ہوں کہ میں ایک بار اُسے اپنے جذبات سے آگاہ کر دوں۔ میں خود کو ایک موقع دینا چاہتی ہوں۔ کیا پتہ جیسا ہم سوچ رہے ہو ویسا نہ ہو۔ وہ آنکھوں میں اِک چمک لیے بولی۔
ملائکہ نے اس کی بے تُکّی بات پر اسے گھورا۔ تم پاگل تو نہیں ہوگئ کیوں اپنی بنی بنائی عزت خراب کرنا چاہتی ہو ۔ ملائکہ کو اس کی بات ذرا بھی پسند نہیں آئی۔ میری بات سمجھو نور میں تمہارے بھلے کے لیے کہہ رہی ہوں۔ کہ ہمارے سمسٹر کے کچھ دن ہے اسے سکون سے گزار کر واپس جاؤ۔ یقین مانو اپنے گھر جا کر جب تم اپنوں کے درمیان ہوگی تو تمہیں یہ شخص یاد بھی نہیں رہے گا۔ یہ صرف تمہاری وقتی اٹریکشن ہے جسے تم نے اپنے سر پر سوار کر رکھا ہے۔
تم نہیں سمجھو گی ملائکہ۔ پر جانے سے پہلے میں ایک بار اُس سے ضرور بات کروں گی۔ وہ جیسے اس کی بات سُن ہی نہیں رہی تھی۔
ملائکہ نے تاسف سے نفی میں سر ہلایا۔ جیسے کہنا چاہتی ہو کہ اس لڑکی کا کچھ نہیں ہوسکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گھر والوں سے شدید ناراض تھا ۔ اُسے اُن کی یہ بات ذرا پسند نہیں آئی تھی کہ وہ اپنا فیصلہ اُس پر تھوپنا چاہتے تھے وہ اُن سے خفا ہو کر آیا تھا۔ اسی وجہ سے اُسے چار سال ہوگۓ تھے وہ ایک دفعہ بھی واپس نہیں گیا تھا۔
چار سال ہوگۓ تھے اس کے باپ نے اس سے بات کرنا بھی گوارہ نہیں گیا وجہ تھی وہ لڑکی جو شاید انہیں اپنے بیٹے سے بھی عزیز تھی۔ اس کی ماں کا کئ بار فون آچکا تھا وہ ہر دفعہ اسے واپس آنے کا کہتی تھی وہ بارہا انہیں ٹالتا آیا تھا۔ اب اسے یہ مشکل لگ رہا تھا پر اس کی بھی ضد تھی جب تک اُس کا باپ اس کی بات مان نہیں لیتا اس کا بھی واپس جانے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔
اس سب کی وجہ تم ہو اگر تم چاہتی تو سب ٹھیک ہوسکتا تھا پر نہیں تم کیوں سوچو گی ان سب کے بارے میں ۔ تم تو وہاں سکون سے ہو اپنوں کے درمیان۔ یہاں سب سے دُور تو میں ہوں۔ وہ نفرت سے بڑبڑایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ انہماک سے کل والے ٹیسٹ کی تیاری میں مصروف تھی۔ جب کسی نے اس کے روم کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس نے سر اُٹھا کر آنے والے کو دیکھا۔
تائی جان ! آئیے نا۔ انہیں وہی دروازے میں کھڑا دیکھ وہ کتاب بند کرتی ہوئی بولی۔
وہ چلتی ہوئی اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئ۔ کیا کر رہی تھی میری بیٹی ۔
کچھ نہیں کل ٹیسٹ تھا وہی ریڈی کر رہی تھی۔
وہ محبت سے اس کا چہرہ تکتی ہوئی بولی۔ چار سال میں وہ کتنا بدل چکی تھی۔ ہمیشہ چہچہانے والی اب بات بھی سوچ کر کرتی تھی۔ وہ اپنے خول میں سمٹ کر رہ گئ تھی۔ یہ سب صرف اُس کے بیٹے کی بدولت تھا۔ پر وہ کیا کرتی وہ ماں تھی کیسے اپنے بیٹے سے اور دور رہ سکتی تھی۔ وہ بھی ایسا ناراض ہوکر گیا تھا کہ چار سال گزر گۓ تھے اُس نے چہرہ بھی نہیں دکھایا۔
تائی جان کوئی کام تھا۔ وہ کچھ دیر ان کے بولنے کا انتظار کرتی رہی پر انہیں گہری سوچ میں ڈوبا دیکھ کر وہ انہیں مخاطب کر بیٹھی۔
وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوئیں۔ اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں قید کرتی ہوئی بولی۔ آج میں تم سے کچھ مانگنے آئی ہوں۔
اس نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔
شاید تمہیں لگے کہ میں کتنی خودغرض ہوں۔ لیکن تم ایک سکینڈ کے لیے خود کو میری جگہ رکھ کر دیکھو کہ اُس ماں کا کیا حال ہوگا جس نے چار سال سے اپنے بیٹے کو دیکھا تک نہیں ہے۔ بس اُسے واپس آنے کی اجازت دے دو۔
پر میں نے نہ ہی کبھی انہیں یہاں سے جانے کا کہا ہے اور نہ ہی واپس آنے سے روکا ہے۔ وہ اپنے لرزتے لہجے پر بمشکل قابو پاتے ہوۓ بولی۔
میں جانتی ہوں میری بیٹی بہت اچھی ہے پر تمہارے پڑے پاپا کو یہ لگتا ہے کہ تمہیں دُکھ ہوگا اگر وہواپس آۓ گا ۔ وہ اپنی ضد کے اتنے پکّے ہیں کہ اِن چار سالوں میں انھوں نے ایک دفعہ بھی اُس سے بات نہیں کی۔ میں جانتی ہوں کہ وہ اُسے بےحد یاد کرتے ہیں پر کبھی کہے گے نہیں یہ سوچ کر کے تمہارے ساتھ زیادتی نہ ہوجائے ۔
وہ جو خاموشی سے لب کاٹتی ان کی باتیں سُن رہی تھی ان کے خاموش ہونے پر بولی۔ آپ مجھ سے کیا چاہتی ہیں۔؟
کیا تم میری خاطر ایک بار اپنے بڑے پاپا سے بات کرسکتی ہو کہ تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہیں اگر وہ واپس آجاۓ۔
آپ خود ان تک میری بات پہنچادیں۔ مجھے واقعی کوئی اعتراض نہیں ہے۔
تمہیں لگتا ہے میں نے یہ کوشش نہیں کی ہزار دفعہ اُن سے بات کر چکی ہوں پر وہ اس بارے میں بات ہی نہیں کرتے۔ اگر تم خود بات کرو گی تو ہی وہ مانے گے۔ وہ منت بھرے لہجے میں بولی۔
آپ فکر مت کریں تائی جان میں بڑے پاپا سے بات کر لوں گی۔
شکریہ میری بچی ۔ وہ محبت سے اس کا ماتھا چوم کر باہر نکل گئ۔
وہ جو کب سے ضبط کیے بیٹھی تھی ان کے جاتے ہی ایک آوارہ آنسو گال پر بہہ گیا پھر تو جیسے آنکھوں میں سمندر اُتر آیا جسے اس نے روکنے کی ذرا بھی کوشش نہیں کی۔
ان سب میں تائی جان کا بھی کوئی قصور نہیں تھا وہ کتنی دیر اپنے بیٹے سے دور رہ سکتی تھی۔ اسے واقعی اُن سے ہمدردی تھی۔ اب وہ اور اپنی وجہ سے انہیں ان کے بیٹے سے دور نہیں رکھ سکتی تھی ۔ اس نے آج ہی بڑے پاپا سے اس بارے میں بات کرنے کا سوچا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حفضہ ! اس نے مسرت سے اُسے پکارا۔
ہاں بولو منسا ! میں سُن رہی ہوں ۔ فون کے دوسری طرف سے وہ مصروف سی بولی۔
حفضہ ! پہلے میری بات سُنو جو بھی کام کرنا ہے بعد میں کرنا۔ وہ جھنجھلاتی ہوئی بولی۔
بولو یار تمہیں ہی سُن رہی ہوں۔ وہ پوری طرح سے اس کی متوجہ ہوئی۔
حفضہ میں بہت خوش ہوں یار وہ واپس آرہے ہیں آج۔ ابھی ماما اور تائی جی کی بات سُن کر آئی ہوں۔ ہاۓ مجھ سے تو ویٹ ہی نہیں ہورہا۔ وہ بیڈ پر گرتی ہوئی بولی۔
پاگل ابھی اتنی خوش ہورہی ہو جب وہ تمہیں ڈانٹے گے پھر تم ہی اُن کی شکایت لگاؤ گی۔ حفضہ جواباً بولی۔
ہاں تو اور کیا کروں ہر وقت مجھے ڈانٹتے رہتے ہیں ۔ مِنسا یہ مت کرو۔ مِنسا تمیز کرو۔ مِنسا یہ مِنسا وہ ۔ وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
حفضہ اس کے شکایتی انداز بر قہقہ لگا گئ۔
بس یہی بتانے کے لیے فون کیا تھا تمہیں پتہ تو ہے جب تک تم سے شیئر نہ کرلوں مجھے چین نہیں آتا۔ چلو باۓ فون رکھو مجھے بہت سے کام ہیں۔
اوکے باۓ۔ حفضہ فون رکھتی ہوئی بولی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سٹڈی روم میں بیٹھے کسی فائل کو سٹڈی کر نے میں مصروف تھے۔
بڑے پاپا میں آجاؤں۔ وہ دروازے پر اجازت ملنے کے انتظار میں کھڑی تھی۔
آجاؤ بچے۔ انہوں نے فائل ٹیبل پر رکھتے اسے اندر آنے کی اجازت دی۔
بڑے پاپا آپ کی چاۓ۔ اس نے ہاتھ میں پکڑا چاۓ کا کپ ان کی جانب بڑھایا۔
ارے یہ تو ہم آپ ک تائی جان سے کہہ کر آۓ تھے انہوں نے آپ کو بھیج دیا ۔ وہ شفقت سے بولے۔
نہیں ہمیں آپ سے کچھ بات کرنی تھی ہم نے ہی اِن سے کہا تھا کہ ہم لے جاتے ہیں۔ وہ انگلیاں مڑوڑتے ہوۓ بولی۔
بیٹھو نا بچے کھڑی کیوں ہو۔
جی بڑے پاپا۔ وہ کنفیوژ تھی کے بات کیسے شروع کریں۔
اس کنفیوژ دیکھ کر وہ خود ہی بول پڑے ۔ کیا بات کرنی تھی ہماری بیٹی کو ۔
بڑے پاپا ہم چاہتے ہیں آپ ہماری بات سے منع مت کریں۔ وہ تائی جان چاہتی ہیں کہ آپ انہیں واپس بلا لیں۔ وہ اس کا نام لیے بغیر بولی۔
بیٹا ہم آپ کی تائی کو سمجھا لیں گے آپ اس بات کی ٹینشن مت لیں۔
نہیں بڑے پاپا آپ انہیں واپس بلا لیں۔ یہ ہم بھی چاہتے ہیں۔ آپ کتنی دیر یوں اسے روک سکتے ہیں۔ ہوگا وہی جو وہ چاہتے ہیں۔ اور میں خود کسی زبردستی کے رشتے کی قائل نہیں ہوں۔ میں جانتی ہوں آپ میرا برا نہیں سوچتے پر جو میری قسمت میں ہوگا وہ مجھے ہر صورت مل کر رہے گا۔
آپ میری بات مان کر انہیں واپس بلا لیں ۔ میں نہیں چاہتی میری وجہ سے ایک ماں اپنے بیٹے سے دور رہے۔ یہ تو تائی جان کے ساتھ زیادتی ہوگی اُن کا اس سب میں کیا قصور ہے۔ آلریڈی وہ بہت ہرٹ ہو چکی ہیں اب اور نہیں۔ مانیں گے نا آپ میری بات۔ وہ اُمید سے ان کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔ وہ نہیں چاہتی تھی اس کی وجہ سے کسی کو تکلیف ملے۔
یوں اچانک آپ نے یہ فیصلہ کیسے کر لیا۔ وہ غور سے اس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولے۔
اچانک نہیں کیا میں تو کب سے چاہتی تھی آپ سے بات کرنا مجھے احساس تھا کہ سب تکلیف میں ہیں ۔ کبھی ہمت نہیں ہوئی آج ہمت کرکے آہی گئ۔
ہماری بیٹی بڑے بڑے فیصلے لینے لگی ہے ۔بڑی سمجھدار ہوگئ ہے۔
کاش وہ نالائق بھی آپ کی قدر کرتا۔ پر اب ہم دُعا کریں گے کہ آپ جہاں بھی رہے خوش رہے۔ ہم نے تو یہ فیصلہ بس اسی لیے کیا تھا تاکہ ہمیشہ کے لیے آپ کو اپنے پاس روک سکیں ۔
ان کی باتوں پر اس کا چہرہ بالکل سپاٹ ہوگیا۔ جیسے اُس انسان کے ساتھ اس کا کوئی سروکار ہی نہ ہو۔
بڑے پاپا ہم جائیں۔ وہ بمشکل بولی۔
ہاں بچے جاؤ ۔ وہ اجازت دیتے ہوۓ بولے۔
وہ خاموشی سے اُٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئ۔ انہوں نے غور سے اس کی پُشت کو دیکھا۔
برخودار اب لگتا ہے تم سے بھی بات کرنی ہوگی۔ وہ غائبانہ اپنے بیٹے سے مخاطب تھے۔ اگر وہ خود ضد کے پکّے تھے تو وہ بھی ان پر ہی گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پاگل ہے خبطی انسان تیری وجہ سے مجھے بھی چار سال ہوگۓ ہیں میں گھر نہیں گیا۔ اس نے گھور کر اسے دیکھا جو انتہا کا ضدی تھا۔
تو میں نے تجھے کب روکا ۔ میں تو تجھے ہر چھٹیوں پر کہتا تھا کہ تو ایک چکر پاکستان کا لگا لے اپنے گھر والوں سے مل آ۔ وہ جواباً دھیمے لہجے میں بولا۔
تجھے پتہ ہے میں تیرے بغیر نہیں جاؤں گا ۔ کبھی اکیلے کوئی کام کیا ہے جو اب تجھے چھوڑ کر چلا جاؤں۔ میں تجھے بتا رہا ہوں کہ میں ایگزام کے بعد کی ٹکٹ کروا رہا ہوں ۔ہم واپس چل رہے ہیں۔ وہ وارننگ دینے والے لہجے میں بولا۔
تو ناراض اپنے گھر والوں سے ہے پورے پاکستان سے نہیں ۔ جو روٹھی محبوبہ بن کر نہ نہ کی تکرار کر رہا ہے۔
تو جو بھی کہہ لیں میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ جب تک پاپا مجھے خود آنے کے لیے نہیں کہے گے تب تک میں پاکستان نہیں جاؤں گا۔
پاگل انسان انکل پوری زندگی نہ بلائیں تو پوری زندگی اِدھر ہی بیٹھا رہے گا۔ اگر وہ تجھے کال نہیں کر رہے تو تُو ہی کرلے پر نہیں یہاں ایک سیر ہے تو دوسرا سوا سیر۔ کوئی ایک ہی جھک جاؤ۔
میری غلطی ہوتی تو دس دفعہ جھک جاتا پر مجھے نہیں لگتا کہ میں غلط ہوں ۔ اب انسان کو اپنی زندگی کے فیصلے لینے کا بھی رائٹ نہیں۔ وہ سنجیدگی سے بولا۔
برو میری کل والی بات پر غور کیا۔ کیا کہتا پھر کروا لوں پاکستان کی ٹکٹ کنفرم۔ وہ دُھپ سے اس کے ساتھ صوفے پر آکر بیٹھا۔
وہ جو ناجانے کن سوچوں میں گُم تھا اس کے قریب بیٹھنے پر چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔ ابھی وہ اس کے جواب میں کچھ کہتا جب اس کا موبائل رِنگ ہوا۔ اس نے حیرانی سے فون کی سکرین کو دیکھا جہاں ڈیڈ کالنگ لکھا جگمگا رہا تھا۔ اس نے ایک بھی منٹ ضائع کیے بِنا کال پِک کی۔
دوسری جانب کچھ دیر خاموشی کے بعد اس کا نام پکارہ گیا۔ کیسے ہو ؟ محبت سے لبریز لہجے میں پوچھا۔ جو بھی تھا وہ جتنی بھی ناراضگی ظاہر کرتے ۔ تھا تو ان کا لاڈلا بیٹا ۔ یہ وہ خود ہی جانتے تھے کہ اتنے سال کیسے انہوں نے خود کو اس کے معاملے میں بےپرواہ ظاہر کیا تھا ۔
ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں ؟ گھر میں سب کیسے ہیں ؟ اتنے سالوں بعد یوں بات کرنے میں جھجھک محسوس ہورہی تھی۔ کہاں وہ اس کے باپ ہونے سے پہلے اس کے بیسٹ فرینڈ تھے ۔ وہ اپنی ہر بات بچپن سے ان سے ہی شیئر کرتا آیا تھا۔ اور کہاں اب ان کے درمیان ایک خلش سی آگئ تھی۔
سب ٹھیک ہیں برخودار۔ تمہاری ماں تمہیں بہت یاد کرتی ہیں۔ تم واپس آرہے ہو اپنی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد۔ وہ حکمیہ لہجے میں بولے۔
سچ میں آپ چاہتے ہیں میں واپس آجاؤں۔
ہہمم ! نہوں نے محض ہنکار بھرا۔
آپ کو میری شرط تو یاد ہوگی۔ کیا وہ بھی منظور ہے آپ کو۔
بالکل منظور ہے ۔ کیونکہ اب ہم سمجھ چکے ہیں کہ زبردستی کے رشتے کبھی پروان نہیں چڑھتے۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کر لیا ہے آپ کے واپس آتے ہی میں تم دونوں کی راۓ سے ہی اس رشتے کا اختتام کروں گا۔ کیونکہ میں جان چکا ہوں ان سب میں تو دونوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔
شکریہ ڈیڈ مجھے سمجھنے کے لیے اور میں وعدہ کرتا ہوں سمسٹر ختم ہوتے ہی واپس آجاؤں گا۔ وہ اپنی بات کے پورے ہونے پر بےحد مسرور نظر آرہا تھا۔ وہ کال بند ہوتے ہی اس کی ظرف مُڑا جو کب سے اشاروں سے اس سے معاملہ جاننے کی کوشش کر رہا تھا۔
کنفرم کروالے سیٹ۔ وہ اس کی طرف مڑتا مزے سے صوفے پر گرنے والے انداز میں بیٹھا۔
سچ۔ وہ خوشی سے چلایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں اُسے اکیلے کھڑا دیکھ کر اس کے پاس آگئ ۔
سمعیہ نے نفرت سے اسے دیکھا تھا ۔ ہمیشہ اُس سامنے کھڑے وجود کو اس پر فوقیت دی گئ۔ وہ پورے خاندان میں سب سے حسین لڑکی کے نام سے مشہور تھی۔ پھر بھی اسے ہمیشہ اس لڑکی کے نام سے طعنے ملتے تھے۔
کہنے کو تو سمعیہ اس کی کزن تھی اس کی پُھپھو کی بیٹی ۔ پر اُسے یہ لڑکی زہر لگتی تھی۔ ہر کوئی اسی کی تعریفیں کرتا تھا ایسا کیا تھا اِس میں۔
چچ بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم سب کزنوں میں کھڑی کہی دب سی جاتی ہو۔ ویسے تمہیں اپنی چھوٹی ہائٹ پر دُکھ تو ہوتا ہوگا۔ مزے کی بات بتاؤں خاندان کا کوئی لڑکا تم سے شادی کرنا تو دُور اس بارے میں سوچے گا بھی نہیں۔ بھئ اب ہر کسی کو رائٹ ہے ایک مکمل لائف پارٹنر ڈھونڈنے کا۔
اس کی باتیں سُن کر وہ طیش میں آکر چلائی۔ تمہیں کیا تکلیف ہے کوئی مجھے پسند کریں یا نہ۔ تم اپنے کام سے کام رکھو۔ اس نے سائیڈ پر ہوکر نکلنا چاہا۔ جب سمعیہ ایک دفعہ پھر اس کی راہ میں حائل ہوئی۔
سچی باتیں ویسے بھی کم ہی ہضم ہوتی ہیں۔ بیچارے چھوٹے ماموں تمہارے لیے رشتہ ڈھونڈ کر ہی بوڑھے ہوجائے گے ۔ ترس آتا ہے ماموں پر۔ وہ مصنوعی افسوس سے بولی۔
سمعیہ ! پیچھے سے آتی چنگھاڑتی آواز سے اس کا حلق خشک ہوا۔ کیا بکواس لگا رکھی ہے تمہیں شرم آتی ہے کہ نہیں جو یہ بے فضول کی ہانک رہی ہو۔ تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ تم اس سے دُور رہو۔ تمہیں لاسٹ ٹائم وارن کر رہا ہوں اگر تم اپنی ان اوچھی حرکتوں سے باز نہ آئی تو بڑوں کو تمہاری شکایت کردوں گا۔ جاؤ یہاں سے اب۔
وہ منہ بناتی ہوئی وہاں سے چلی گئ۔ اس نے سمعیہ کے ساتھ کھڑی اُس کی بہن کو آنکھیں دکھائی وہ فوراً نو دو گیارہ ہوئی۔
اِس نے اُن سے نظریں ہٹا کے اُس چھوٹے طوفان کو دیکھا جو پورا دن گھر میں اُدھم مچاۓ رکھتی تھی۔
اوۓ چھوٹے طوفان تو کیوں رو رہا ہے تُو تو سب کو رُلا دیں۔ وہ اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی دیکھ کر مزاحیہ انداز میں بولا۔ چلو اندر سب ویٹ کر رہے ہونگے۔ وہ اس کے کندھوں پہ ہاتھ جماتا ہوا بولا۔
آرُو ! کہاں ہو تم! اپنے نام کی پکار پر اس کا ذہن ماضی سے لوٹ کر حال میں پہنچا۔
میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔ بےشک تمہیں لوٹ کر آنے کی اجازت دے دی ہے ۔ وہ بھی صرف تائی جان کی وجہ سے۔ وہ بے دردی سے گال رگڑتی ہوئی بولی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج کتنے مہینوں بعد گھر لوٹا تھا کام کا اتنا پریشر تھا کہ اسے بالکل فرصت نہ تھی۔ اب بھی وہ اپنی بیزی روٹین سے وقت نکال کے آیا تھا۔ اسے پتہ تھا کہ اس کی ماں اس سے سخت ناراض تھی۔ کچھ یہ بھی وجہ تھی کہ وہ واپس آیا تھا۔
وہ جب سے آیا تھا آمنہ بیگم اس سے خفا خفا تھی۔ وہ کب سے اِن کو منانے کی کوشش کر رہا تھا۔ مما میری بات تو سُنیے ۔
رہنے تو ذوہان میں جانتی ہوں تمہارے پاس آ جا کے ایک ہی بہانہ ہوگا کہ کام بہت تھا۔ وہ خُفی سے رُخ موڑ گئ۔
مما سریسلی بہت کام تھا پر صرف آپ کی ناراضگی کے ڈر سے آیا ہوں۔ وہ ان کے ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔ اچھا چلے بتائیے اب کیسے مانے گی۔ وہ محبت سے ماں کا چہرہ تکتا ہوا بولا۔
تم نے پہلے کبھی میری بات سُنی ہے جو اب سُنو گے ۔ وہ ناراضگی جتاتے ہوۓ بولی۔
مما آپ حکم کریں۔ وہ سینے پر ہاتھ رکھتا نیچے کی طرف جھکتا ہوا مزاحیہ انداز میں بولا۔
ٹھیک ہے میں نے اب فیصلہ کر لیا ہے کہ تمہاری شادی کروا کر ہی یہاں سے بھیجوں گی۔
میری شادی کہاں سے آگئ۔ وہ چونک کر بولا۔
اور کیا تمہارا پلین ہے بڈھے ہوکر شادی کرنے کا۔ اگر میری ناراضگی دور کرنی ہے تو ہاں کر دو۔ پہلے تو تمہارے پاس بہانہ تھا کہ تم سیٹلڈ نہیں ہو۔ اب تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ فُل تیاری کے ساتھ آئی تھی۔ ذوہان بیچارہ بُرا پھنسا تھا۔
مما فی الحال اس ٹاپک کو کلوز کردیں پھر بات کریں گے۔
بالکل بہی نہیں آج ہی بات ہوگی۔ اگر تمہیں کوئی پسند ہے تو بتا سکتے ہو۔ وہ دو ٹوک لہجے میں بولی۔
اوکے۔ جیسے آپ کو ٹھیک لگے اور مجھے کوئی نہیں پسند۔ وہ ہار ماننے والے انداز میں بولا۔
سچ ! وہ ایکسائیٹڈ سی بولی۔ میرا پیارا بیٹا۔ مجھے پتہ تھا تم میری بات ٹال ہی نہیں سکتے۔ وہ اس کا ماتھا چومتی باہر کی طرف بڑھ گئ۔
وہ ان کے پل پل بدلتے انداز پر حیران ہوتا ہولے سے ہنس دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت ساری فیملی ایک ساتھ جمع تھی ۔ وجہ آج کی دعوت تھی جو کبیر کی پرموشن کی صورت میں تھی۔دو سال ہوگۓ تھے اُسے اس کمپنی میں کام کرتے ہوۓ۔
کبیر اور مصفرہ دونوں ہی مڈل کلاس فیملی سے بلانگ کرتے تھے۔ مڈل کلاس فیملی سے بلانگ کرنے کے باوجود اس کے شوق بڑے تھے اکثر پرٹیز میں وہ اپنے دوستوں سے کار ایک دن کے لیے اُدھار لیتا تھا تاکہ سب کے سامنے خود کو امیر ثابت کر سکے۔
مصفرہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ اس کے والد پچھلے کئ سالوں سے ایک امیر و کبیر فیملی کے ہاں ڈرائیور کی نوکری کرتے تھے۔ پچھلے سال ایک ایکسیڈنٹ میں اُن کی دونوں ٹانگیں ناکارہ ہوچکی تھی۔ تب سے مصفرہ اپنی سٹڈی کے ساتھ کچھ ٹیوشنز وغیرہ بھی دیتی تھی۔
جہاں اس کے والد ڈرائیور تھے وہی مجبوراً اس کی ماں کو کام کرنا پڑا۔ وہ لوگ بھی کافی اچھے تھے انہوں نے ان کا اس مشکل وقت میں کافی ساتھ دیا۔ اب یہ لوگ وہی ان کی انیکسی میں رہائش پذیر تھے ۔ یہ بھی ان لوگوں کے لیے غنیمت تھا۔
اس مشکل وقت میں اس کے چچا چچی نے تھوڑی بہت مدد کرنا چاہی لیکن مصفرہ نے ان لوگوں سے کسی بھی طرح کی مدد لینے سے انکار کردیا۔
آج بھی اس کا یہاں دعوت میں آنے کا کوئی ارادہ نہ تھا پر اُس کی ماں اسے زبردستی بھیج چکی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ اس کے سُسرال کا معاملہ ہے اسے ضرور جانا چاہیے اس کی چچی بے حد اصرار کر کے گئ تھی۔ وہ خود تو بے حد بیزی تھی پر اسے بھیج چکی تھی۔
اس ک چچی اسے دیکھ کر نہال ہوچکی تھی۔ وہ مصفرہ کو بالکل بیٹیوں کی طرح چاہتی تھی ان کی خود کی کوئی بیٹی نہ تھی وہ اپنے سارے ارمان اس پر محبت نچھاور کرکے نکال لیتی تھی۔ کبیر اور اس کے درمیان اس رشتے کی وجہ بھی وہی تھی۔
کبھی کبھی اس کا دل چاہتا تھا وہ سب کے سامنے اس کی حقیقت اشکار کر دیں۔ پر پھر اپنے بابا کی حالت اور گھر کے حالات اسے خاموش کروا دیتے تھے۔
چچی ۔۔۔ میں آپ کی مدد کروا دوں۔ وہ چچی کے پاس کچن میں آتی ہوئی بولی۔ جہاں تقریباً ساری خواتین موجود تھی۔
نہیں میری جان ! سارا کھانا باہر کا ہے تم کہاں اِدھر بوڑھوں میں آرہی ہو۔ اوپر چلی جاؤ سب وہی ہیں۔
پر چچی ۔۔۔ میں یہی ٹھیک ہوں۔ وہ جھجھکتی ہوئی بولی۔
ارے جاؤ بچے۔۔۔ تم یہاں بیٹھ کر کیا کرو گی۔ جاؤ شاباش۔
جی وہ سر ہلاتی اوپر کی طرف بڑھ گئ۔ وہ سب جو چھت پر جمع تھے اسے آتا دیکھ کچھ سکینڈ کے لیے خاموش ہو کر پھر سے شروع ہوچکے تھے۔
ویسے کبیر تمہیں اس میں کیا نظر آیا۔ ایک کزن اسے دیکھ کر طنزیہ انداز میں بولی۔
مجھے نہیں ماما کو۔ وہ بے نیازی سے بولا۔
نہیں یار یہ مت کہہ۔ یہاں کھڑی ان چڑیلوں سے سو گُنا پیاری ہیں بھابھی جی ۔ اور ساتھ میں تجھے انٹرٹین بھی کرتی رہے گی۔ کککبیر ۔۔۔۔۔ جججی۔ وہ اس کے بولنے کے انداز کی نقل اُتارتا کمینگی سے بولا۔
پھر تو جیسے سب کے ہی نہ ختم ہونے والے قہقہے شروع ہوچکے تھے۔
مصفرہ نے بھیگی نظریں اُٹھا کر اپنے مجازی خدا کو دیکھا جو کسی کو منع کرنے کی بجائے خود بھی سب میں شامل تھا۔ اسے اپنی ذات کی اس کمی سے خود بھی نفرت تھی کیوں وہ سب کی طرح پرفیکٹ نہ تھی۔ کیوں اسے بولنے میں دِقت ہوتی تھی۔
بچپن سے ہی اُسے بولنے میں دقت ہوتی تھی۔ جب سب بچے اس کا مذاق اُڑاتے تو وہ روتی ہوئی اپنی ماما کے پاس جاتی تھی جو اسے ہر دفعہ ایک نۓ طریقے سے سمجھاتی تھی۔ جب وہ تھوڑی بڑی ہوئی تو وہ اپنی بات اپنے تک ہی محدود رکھنے لگی۔
اس کی ماما اکثر اس سے کہتی تھی کہ دیکھنا میری بیٹی کے لیے شہزادہ آۓ گا۔ ثم میں کوئی کمی نہیں لیکن اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم میں کمی ہے تو وہ تم میں موجود کمی کو دیکھ کر بھی تمہیں اپناۓ گا ۔ تم سے محبت کریں گا۔ اور جو تمہارا مزاق بناۓ گا تمہاری خاطر اُس سے لڑے گا۔
ماما دیکھ لیں شہزادہ تو آگیا میری لائف میں لیکن وہ بھی سب کے جیسا نکلا ۔ وہ کبیر کا حسین چہرہ تکتی ہوئی بڑبڑائی۔ ماما آپ نے غلط کہاں تھا۔ وہ آنکھوں میں نمی لیے اس کے کمرے کی کیا اس کے گھر کی دہلیز بھی پار کر گئ۔
عاجزی کے لباس میں
دلوں کے یزید ہیں لوگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاۓ ذی ! وہ بغیر ناک کیے اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔ ذوہان نے ماتھے پر بل ڈال کر اسے گھورا۔ تمہیں تمیز نہیں ہے منسا۔ کسی کے روم میں داخل ہونے سے پہلے پرمیشن لینی چاہیے۔ یہ بات تمہیں کب سمجھ آۓ گی۔ اور یہ ذی کیا ہوتا ہے۔ ہاں۔ میں تم سے کتنا بڑا ہوں ایسے اچھا لگتا ہے کہ تم مجھے نام سے بلاؤ۔
پر میں تو آپ سے ملنے آئی تھی۔ آپ ہمیشہ ہی ایسے ڈانٹتے ہیں مجھے۔ وہ جو یونی سے سیدھا اس کے کمرے میں آئی تھی ملنے اس کے یوں بُری طرح جھڑکنے پر منہ لٹکاتی ہوئی بولی۔ اوکے سوری ! اب نہیں آتی آپ کے روم میں۔ وہ منہ بسورتی دروازے کی طرف بڑھی۔
اسے یوں رونے والا منہ بنا کے واپس جاتا دیکھ کر وہ نرمی سے بولا۔ منسا میرا ارادہ آپ کو ڈانٹنا نہیں تھا میں تو بس سمجھا رہا تھا۔ چلو چھوڑو ان سب باتوں کو کیسی ہو۔
وہ فوراً چہکتی ہوئی بولی۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ اُسے کیا پتہ تھا وہ لڑکی پوری ڈرامہ کوئین تھی۔
وہ اپنے گروپ میں بیٹھا یونی کے آخری دنوں کو انجوۓ کر رہا تھا۔ ان کے لاسٹ سمسٹر کے پیپرز کا آج اختتام ہوچکا تھا۔ وہ سب مطمئن نظر آرہے تھے۔ شکر ہے آج اس آخری عذاب سے بھی جان چھوٹی۔ یہ علی تھا جسے پیپرز ختم ہونے کی کچھ زیادہ ہی خوشی تھی۔
اور بھئ پھر سب کا کیا پلان کب جارہے ہیں سب واپس۔ بلال سب کو اپنی طرف متوجہ کرتا اپنا سوال داغ چکا تھا۔
میں اور ارسم اس منتھ کے لاسٹ میں جارہے ہیں۔ ہارب اطمینان سے بولا۔ ابھی وہ مزید کچھ کہتا جب اپنے پیچھے سے باریک نسوانی آواز سُنائی دی۔
ایکسکیوزمی ! کیا میں آپ سے دو منٹ بات کرسکتی ہوں۔ وہ نظریں جھکاتی دھیمی آواز میں بولی۔
ہارب نے پیچھے مُڑ کر حیرانگی سے اِس لڑکی کی طرف دیکھا جو ان چار سالوں میں ایک دفعہ بھی اس سے مخاطب نہیں ہوئی تھی ہاں اس بات سے وہ بخوبی آگاہ تھا کہ وہ کلاس کے دوران اکثر اس کی طرف ہی دیکھتی پائی جاتی۔ آج نجانے کیا سوچ کر وہ اس کے قریب آکر اسے مخاطب بھی کر بیٹھی۔
جی کہیے میں سُن رہا ہوں۔ وہ اپنی حیرانگی پر قابو پاتا اس کی طرف متوجہ ہوا۔
کیا آپ اکیلے میں مجھ سے بات کرسکتے ہیں۔ وہ اس کے دوستوں کی موجودگی میں انگلیوں کو مڑوڑتی ہچکچاتی ہوئی بولی۔
وہ اپنے دوستوں کو اشارہ کرتا ذرا فاصلے پر ہوگیا۔
اس نے ہمت مجتمع کیے بولنا شروع کیا۔ جانے کب کیسے مجھے آپ اچھے لگنے لگے۔ جب پہلی دفعہ آپ کو دیکھا تھا شاید تب سے ہی آپ کو پسند کرنے لگی۔ اور یہ پسند کب محبت میں بدلی میں نہیں جانتی۔ بس اتنا جانتی ہوں آپ میری زندگی میں آنے والے پہلے شخص ہیں اور شاید آخری بھی۔ وہ آس بھری نظریں اس پر ٹکاتے ہوئی بولی۔
دوستوں اس احمق لڑکی کی بکواس سُنو اسے مجھ سے محبت ہے ۔ لائک سیریسلی۔ تمہاری اوقات ہے مجھ سے محبت کرنے کی۔ وہ تمسخر سے اس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔ یہ تم مڈل کلاس لڑکیاں اچھی ہو اپنے کالج ، یونی کے سب سے امیر لڑکے کو پھنسانے کی کوشش کرتی ہو۔ ہوتے ہونگے وہ احمق لڑکے جو تم جیسیوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔ پر مجھے اُن جیسا بےوقوف مت سمجھو۔
اس کی دھاڑ نما آواز پر وہ سب اس کی طرف متوجہ ہوگے۔
ارسم تو سہی کہتا ہے کہ کیسے انہیں محبت بھی اُس لڑکے سے ہوتی ہے جن کا بیک گراؤنڈ سٹرونگ ہو۔ کسی اپنے جیسے سے محبت کیوں نہیں ہوتی۔ وہ ذرا سا جھکتا اس کی بہتی آنکھوں میں دیکھ کر غُرایا۔
ماہنور نے بہتی آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔ اسے آنسو کے پار سب دُھندلاتا نظر آیا وہ شخص بھی۔ وہ اسے اسی کی اوقات بتا رہا تھا ۔
تمہاری اوقات نہیں ہے ہم سے برابری کرنے کی۔ تم جیسی لڑکیا مجھے زہر لگتی ہیں۔
وہ یہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی پر اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اس کے پیر منجمد ہوگۓ ہو۔ اس کا ایک ایک لفظ اس کے دل میں برچھی کی طرح کُھبا تھا۔ وہ اس شخص کی محبت سے پہلے عزت کرتی تھی۔ اس لمحے اس کے دل نے بے ساختہ گواہی دی تھی کہ یہ شخص عزت کے قابل تو بالکل بھی نہیں ہے۔
آئی ہیٹ یو۔ وہ روتے ہوۓ وہاں سے نکلتی چلی گئ۔
وہ جسے ایک سکینڈ کے لیے اس سے ہمدردی محسوس ہوئی ۔ اس کے جاتے ہی وہ اپنی سوچ پر لعنت بھیجتا اپنے دوستوں کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ پھر اپنی باتوں میں ایسے مشغول ہوگۓ جیسے ابھی ایک منٹ پہلے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل تم گئ تھی پھر اپنی چچی کی طرف آئرہ کتابیں سمیٹتی اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
اس کی بات پر مصفرہ کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرایہ۔ کل والا واقعہ اس کے دماغ میں گردش کرنے لگا۔ ہہمم ! گئ تھی وہ کھوۓ کھوۓ لہجے میں گویا ہوئی۔
کیا ہوا مصفرہ ! کیا کل پھر تمہارے اُس کزن نے کچھ کہا۔ اس کے لہجے میں کبیر کے لیے غصہ تھا۔
اس کی ہمدردی پاتے ہی موتی لڑیوں کی صورت میں اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔ جو بات کل سے وہ دل میں دباۓ بیٹھی تھی جیسے آئرہ کی ذرا سے ہمدردی سے پھر سے اپنی تذلیل یاد کرتے آنکھوں نے بھی احتجاج کیا۔
مصفرہ تم رہ کیوں رہی ہو۔ میرا دل کر رہا ہے اُس ذلیل انسان کا گلہ دبا دوں. جو بار بار تمہاری تکلیف کی وجہ بنتا ہے۔ اُس انسان سے زیادہ مجھے تم پر غصہ ہے اُس کی حرکتیں سب کو بتاتی کیوں نہیں ۔ اپنے لیے کوئی اسٹیپ لو ۔ اُسے یوں خود پر حاوی مت ہونے دو۔ وہ اسے سمجھانے والے انداز میں بولی۔
آئرہ ! میں اُس شخص سے نفرت کرتی ہوں۔ نفرت شاید چھوٹا لفظ ہے میری ناپسندیدگی ظاہر کرنے کے لیے۔ پوری زندگی تو دور کی بات ہے میں ایک لمحہ بھی اُس کے ساتھ نہیں گُزارنا چاہتی۔ جب وہ آس پاس ہوتا ہے مجھے یوں لگتا ہے میری سانسیں رُک رہی ہیں۔
آئرہ جو بہت غور سے اُس کی باتیں سُن رہی تھی اس کے لہجے میں واضح کرب کا محسوس کرسکتی تھی۔
وہ تو میرا محرم ہے ۔ ہے ناں آئرہ۔اس نے آئرہ سے تائید چاہی۔
آئرہ نے میکانکی انداز میں ہاں میں سر ہلایا۔
پھر اُس کے ساتھ کبھی مجھے تحفظ کا احساس کیوں نہیں ہوا۔ کیوں جب وہ مجھے دیکھتا ہے اُس کی آنکھوں میرے لیے عزت کیوں محسوس نہیں ہوتی صرف ہوس محسوس ہوتی ہے۔ آئرہ وہ ایسا کیوں ہے۔ وہ ہاتھوں میں چہرہ ٹکاۓ شدت سے رودی۔
آئرہ بے ساختہ آگے بڑھتی اسے خود سے لگا گئ۔
کچھ دیر آنسو بہانے کے بعد وہ پیچھے ہوتی سیدھی ہو کر بیٹھ گئ۔
اب تم کیا چاہتی ہو ؟ آئرہ نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
جو بھی ہو میں اُس شخص کے ساتھ نہیں رہوں گی۔ میں کہیں جاب کرلوں گی۔ کچھ بھی کر لوں گی۔ پر اُس انسان کی میری زندگی میں کوئی جگہ نہیں۔
سب ٹھیک ہوجائے گا پریشان مت ہو۔ وہ اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
تم میری چھوڑوں اپنی بتاؤ کیا فیصلہ کیا تم نے۔ وہ اس کی توجہ خود سے ہٹاتی ہوئی بولی۔
اس نے آئرہ کے چہرے کی طرف دیکھا جو اس کی بات پر سنجیدہ ہوچکا تھا۔
میں نے اُسے واپس آنے کی اجازت دے دی ہے۔ وہ گہرا سانس بھرتی ہوئی بولی۔
سچ ! کیا پتہ سب ٹھیک ہوجائے تم دونوں کے بیچ۔ وہ اس کے لیے خوش ہوتے ہوۓ بولی۔
کبھی نہیں۔۔۔ میں اپنی تذلیل کرنے والے کبھی معاف نہیں کرسکتی۔ وہ واپس تو آرہا پر میری زندگی میں ہر گز نہیں۔ اور شاید تم بھول رہی ہو اُس کی شرط۔ وہ استہزایہ انداز میں بولی۔
ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے نہیں بنے۔ کہاں وہ اور کہاں میں۔ اس کی نظروں میں میری کوئی اوقات نہیں۔ اپنی اوقات اُس کی نظروں میں مجھے اسی روز ہی سمجھ آگئ تھی جب اُس کی وہ شرط سُنی تھی۔ وہ جیسے پھر سے تین سال پیچھے جا چکی تھی۔
تین سال قبل
وہ چاۓ لیکر سٹڈی میں داخل ہونے والی تھی۔ جب بڑے پاپا اور اس کے بابا دونوں فون پر کسی سے محو کلام تھے۔ فون اسپیکر پر تھا۔ اس نے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر دروازہ کھولنا چاہا جب فون سے آنے والی آواز نے اسے منجمد کردیا۔
ڈیڈی! آپ سمجھ کیوں نہیں رہے میں اُس لڑکی کے ساتھ بالکل بھی خوش نہیں رہ سکتا۔ میری اپنے شریکِ سفر کو لیکر جو ڈیمانڈ ہے وہ اُس پر پورا نہیں اُترتی۔ آپ نا انصافی مت کریں مجھے صرف اُس کی ہائیٹ سے نہیں ہر چیز سے مسئلہ ہے۔ اُس کا وہ جا ہلوں والا حلیہ آپ کہی سے بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ کسی ہائی کلاس سے بلانگ کرتی ہے۔ وہ کبھی بھی میرے معیار پر پورا نہیں اُتر سکتی۔
باہر کھڑا وجود ایک بار پھر اپنے لیے اس کے منہ سے ایسے الفاظ سُن کر تکلیف سے دو چار ہوا تھا۔
بکواس بند کرو اپنی ۔ وہ دھاڑتے ہوۓ بولے۔ اپنے بیٹے کی بکواس پر وہ چھوٹے بھائی کے سامنے شرمندہ سے ہوگۓ۔
میری بات سُن لیں ڈیڈی ۔ میں واپس اُسی صورت میں آؤں گا جب آپ مجھ سے وعدہ کریں گے کہ آپ مجھے اس رشتے سے آزاد کر دیں گے۔
برخودار میری طرف سے تم کبھی بھی واپس مت آؤ۔ وہ دھاڑتے ہوۓ فون بند کر چکے تھے۔
وہ بھی وہی دروازے سے پلٹ گئ۔ اس شخص سے نفرت کچھ اور گہری ہوئی تھی۔ یہ وہ شخص تھا جو اس سے دوستی کا دعویٰ دار تھا آج وہ اُس کے لیے صرف وہ لڑکی بن کر رہ گئ تھی۔
وہ سوچوں سے نکلتی حال میں لوٹی تھی۔ مجھے فرق نہیں پڑتا وہ شخص میرے بارے میں کیا سوچتا ہے ۔ ایک پرسنٹ بھی نہیں۔ میرے اردگرد اتنے سارے اتنے مخلص رشتے موجود ہیں میں پاگل تھوڑی ہوں جو اُس ایک شخص کی باتوں کو دِل سے لگا کر بیٹھ جاؤں۔ وہ گہرا سانس بھرتی ہوئی بولی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج اپنی مما کے اصرار پر کچن میں ان کے ساتھ موجود تھی۔ ان کے ساتھ کچن میں ہاتھ بٹانے کی کوشش کر رہی تھی۔ جب آمنہ بیگم ہنستے ہوۓ کچن میں داخل ہوئی۔
سارہ میں آج بے حد خوش ہوں۔ وہ ہونٹوں پر مسکراہٹ لاتے ہوۓ بولی۔
ہمیں بھی بتاۓ خوشی کی خبر۔ سارہ بیگم کام چھوڑ کر ان کی طرف متوجہ ہوئیں۔
سارہ بات ہی خوشی کی ہے ۔ تمہیں پتہ ہے ذوہان شادی کے لیے مان گیا۔ بس اب جلد سے جلد ایک اچھی لڑکی دیکھ کر اُس کی شادی کروا دیتے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ اس دفعہ وہ اسلام آباد اکیلا نہ جاۓ۔
یہ تو اچھی بات ہے بھابھی ۔ چلو اسی بہانے گھر میں کچھ ہلہ گُلہ بھی ہوجائے گا۔
ہاں یہ تو صحیح کہا تم نے۔ اچھا یہ بتاؤ اس رشتے کے لیے میری بھانجی ہادیہ کیسی رہی گی۔ انہوں نے سوالیہ نظروں سے سارہ کی طرف دیکھا۔
جی بھابھی بہت اچھی لڑکی ہے ۔ سُلجھی ہوئی بھی ہے۔ ہمارے ذوہان کے ساتھ بہت اچھی لگے گی۔ وہ خوشدلی سے بولیں۔
وہ دونوں اپنی باتوں میں مصروف تھی اس بات سے انجان کے اُن کی باتوں سے پیچھے کھڑے وجود کی کیا حالت ہورہی ہے۔
منسا آمنہ بیگم کی بات سُن کر ساکت رہ گئ۔ کیسے وہ شادی کے لیے ہاں کر سکتے ہیں۔ ہر گز نہیں۔ وہ بپھری ہوئی شیرنی کی طرح کچن سے آندھی طوفان کی طرح نکلتی اوپر کی طرف بڑھ گئ۔
اسے کیا ہوا۔ ایسا بھاگی ہے جیسے زلزلہ آگیا ہو۔ آمنہ بیگم فکر مندی سے بولیں۔
چھوڑیے بھابھی وہ تو ہے ہی پاگل۔ پھر کوئی اوٹ پٹانگ حرکت یاد آگئ ہوگی۔ آپ چلیے۔ ہم یہ بات بھائی صاحب سے بھی کر لیتے ہیں۔ وہ ان کا ہاتھ تھامتی کچن سے نکل گئیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سیڑھیوں سے بھاگتی اس کے کمرے کے سامنے آکر رُکی۔ اس کشمکش میں تھی کے آیا اسے اندر جانا چاہئے یا نہیں اُس سے یہ بات کرنی چاہئے یا نہیں۔
پھر اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتی وہ دھاڑ کی آواز سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔
ذوہان جو لیپ ٹاپ پر بیزی تھا اس نے آنے والے کو ناگواری سے دیکھا۔ وہ سمجھ تو گیا تھا کہ آنے والا کون ہوسکتا ہے۔
منسا کتنی بار سمجھانا پڑے گا کہ کسی کے روم میں کیسے آتے ہیں۔ اس کے لہجے میں واضح ناگواری تھی۔ وہ اسے مزید باتیں سُناتا جب اس کی نظریں اس کی روئی روئی آنکھوں پر پڑی وہ اسے ڈانٹنے کا ارادہ ترک کرتا اس کے قریب آتا فکر مندی سے بولا۔
وٹ ہیپنڈ منسا ؟ وہ چلتا ہوا اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔
منسا نے شکوے بھری نگاہ اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ آپ کیسے کر سکتے ہیں یہ ؟
کیا کیا میں نے ؟ وہ حیرانگی سے اس کی طرف دیکھ کر بولا۔
آپ کیسے تائی امی کو رشتے کے لیے ہاں کر سکتے ہیں۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
او گوڈ ! اب تمہارا کیا خیال ہے میں پوری زندگی کنوارہ ہی رہوں گا۔ وہ قہقہ لگاتا ہوا بولا۔ پر دوسری طرف سے مسلسل خاموشی اور رونے کی آواز سُن کر سنجیدہ ہوا۔
آپ یہ شادی نہیں کرسکتے ۔ وہ روتے ہوۓ بولی۔
وجہ بتاؤ میں کیوں یہ شادی نہیں کرسکتا۔ وہ اس کا انداز دیکھ کر ٹھٹھکا ۔ لیکن پھر بھی اپنے لہجے کو نارمل کرتا ہوا گویا ہوا۔
کیونکہ آپ صرف میرے ہیں ۔ آپ کسی اور کے بارے میں سوچ بھی کیسے سکتے ہیں۔ وہ دو قدم اس کے قریب آتی اس کی آنکھوں میں دیکھتی براہ راست بولی۔
کیا مطلب ہے اس بکواس کا۔ تحمل کا مظاہرہ کرنے کے باوجود اس کی آواز بلند ہوگئ۔
اس کی آنکھوں میں وہ اپنے لیے غصہ دیکھ سکتی تھی اس کے باوجود وہ خاموش نہ رہی۔ میں نے اپنے ساتھ ہمیشہ سے صرف آپ کو سوچا ہے صرف آپ سے محبت کی ہے۔ آپ سمجھتے کیوں نہیں۔ وہ بے بسی سے بولی۔
تم اپنی بکواس بند کرو اور دفعہ ہوجاؤ یہاں سے ۔ فی الحال میں کسی بھی بکواس سُننے کے موڈ میں نہیں ہوں۔ وہ انگلی سے اسے باہر کی جانب اشارہ کرتا ہوا۔
میں نہیں جاؤں گی جب تک آپ میری بات نہیں مان لیتے۔ وہ ڈھٹائی سے گویا ہوئی۔
اس کی باتیں سُن کر اس کا غصہ سوا نیزے پر پہنچ چکا تھا۔ مجھے شرم آرہی ہے یہ سوچتے ہوۓ جسے ہمیشہ میں نے اپنی چھوٹی بہن سمجھا وہ کبھی آکر یوں میرے سامنے کھڑے ہوکر یہ باتیں بھی کر سکتی۔ اس سے پہلے میں کچھ غلط کر جاؤں چلی جاؤ یہاں سے اور یہ خرافات بھی اپنے دماغ سے نکال دو۔
اسے ٹس سے مس نہ ہوتے دیکھ ذوہان اسے کھینچ کر دروازے کے پاس لے گیا۔ تم یہ سمجھ لو ان سب کے بعد میرے دل میں تمہارے لیے جو عزت تھی جو مان تھا وہ سب ختم ہوچکا ہے۔ وہ اسے کمرے سے نکال کر دروازہ بند کر چکا تھا۔
وہ اُسے کمرے سے نکال کر خود سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اس نے تو کبھی اُسے خود سے گھلنے ملنے بھی نہ دیا تھا پھر کہاں پر اس سے غلطی ہوگئ جو وہ ایسی خرافات دماغ میں پال کر بیٹھ گئ۔ اگر اُس نے گھر والوں سے اس کے بارے میں بات کر لی تو وہ کیا سوچیں گے اس بارے میں۔ ایسی سوچیں مسلسل اس کے دماغ میں آرہی تھی۔
وہ چھٹانک بھر کی لڑکی پتہ نہیں کیا خرافات پال کر بیٹھی تھی۔ اسے بھنک تک نہ ہوسکی۔ اگر اسے بر وقت علم ہوجاتا تو وہ اُسی وقت اُسے ٹوک دیتا۔ جو بھی تھا اسے جلد سے جلد منسا سے بات کرنی تھی کہ وہ اپنی یہ اوٹ پٹانگ خواہشات گھر میں کسی سے بھی شو مت کرے۔ فی الحال اس کا کسی سے بھی بات کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔
مجھے یہاں آنے ہی نہیں چاہیے تھا آتے ہی یہ سب ہوگیا۔ اس سے اچھا تو تھا میں ماما کے کہنے پر بھی نہ آتا۔ وہ یہ سوچ سوچ کر جھنجھلا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں یوں اچانک بغیر بتاۓ آکر سب کو سرپرائز دینا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے کسی کو انفارم ہی نہ کیا تھا۔
دونوں نے چار سال کے بعد پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ دونوں کی دوستی مثالی تھی۔ تبھی ارسم کی اپنے گھر والوں کی ناراضگی کی وجہ سے ہارب بھی اکیلے پاکستان نہ آیا۔ ارسم کے ہزاروں دفعہ کہنے کے باوجود وہ نہ مانا۔
کیسا فیل ہورہا ہے واپس آکر۔ ارسم نے مسکراتے ہوۓ اس کی طرف دیکھا۔
ظاہری سی بات ہے اچھا فِیل ہورہا ہے کون اپنے وطن اپنے گھر اپنوں کے درمیان آکر اچھا فیل نہیں کرے گا۔ ہارب اردگرد ٹیکسی کی تلاش میں نظریں دوڑاتا ہوا بولا۔ جب کسی کو انفارم نہیں کیا تھا تو ظاہری سی بات تھی کے خود ہی جانا تھا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے ایک ٹیکسی روکی پھر ارسم کو اشارہ کرتا ٹیکسی کی طرف بڑھ گیا۔ ارسم بھی اس کے پیچھے ہولیا۔
دونوں کا گھر ایک ہی کالونی میں تھا۔ ان کی دوستی کی ایک بڑی وجہ دونوں کے والد کی دوستی تھی۔ ارسم اور اسکے والد آپس میں کزن ہونے کے ساتھ بزنس پارٹنر بھی تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلام بابا! وہ گارڈ کو سلام کرتا گیٹ کھولنے کا اشارہ کرگیا۔
ہارب بیٹا آپ ایسے اچانک۔ گھر پر بتا دیتے کوئی لینے آجاتا آپ نے کیوں زحمت کی۔ آپ کو دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ سب آپ کو بےحد یاد کرتے تھے۔ آپ بھی تو کتنے عرصے کے بعد آۓ ہیں۔
بس خان بابا میں تو آنا چاہ رہا تھا پر کچھ وجوہات کی وجہ سے نہیں آ پایا۔ وہ انہیں تفصیلات سے آگاہ کرتا اندر کی جانب بڑھ گیا۔
اس نے ہولے سے لاؤنج میں قدم رکھا ۔ خالی لاؤنج دیکھ کر اس نے برا سا منہ بنایا۔ بیگ نیچے رکھتا وہ اندر آگیا۔
گاؤں باسیوں ! کوئی ہے گاؤں میں! تو اس غریب مسافر کی مدد ہی کر دو۔ وہ شرارتی آواز میں بولا۔
منسا جو اس وقت نیچے ہی موجود تھی اس کی آواز سُن کر باہر آگئ۔
بھائی ! وہ اسے دیکھ کر خوشی سے چلائی۔ تقریباً سب ہی لاؤنج میں آگۓ تھے۔
منسا خوشی سے اس سے لپٹ گئ۔ بھائی میں نے آپ کو بےحد مس کیا۔ جب بھی میں نے آپ کو بلایا آپ آۓ کیوں نہیں۔ وہ شکوہ کرتی ہوئی بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
سوری گڑیا! وہ اس کا سر تھپتھپاتے ہوۓ بولا۔
کیسے ہو برو ؟ ذوہان جو سب کی آوازوں سے لاؤنج میں آگیا تھا اس سے پوچھتا ہوا بولا۔
منسا نے اس کی آواز سُن کر مزید اپنا منہ ہارب کے سینے میں دیا۔
میں بالکل ٹھیک بھائی آپ کیسے ہیں؟ گڑیا باقی سب سے تو ملنے دو۔ وہ محبت سے اس کے سر پر بوسہ دیتا ہوا بولا۔
وہ خاموشی سے نگاہیں جُھکاۓ سائیڈ پر ہوگئ۔
ہارب آگے بڑھتا ذوہان کے گلے لگ گیا۔ پھر باری باری سب سے مل کر کچھ دیر ان کے ساتھ وہی بیٹھ گیا۔
وہ جو کل سے ہی بخار میں پھنک رہی تھی جس کی وجہ سے سب گھر والے پریشان تھے۔ اب تھوڑی سی طبیعت سنبھلتے ہی وہ کمرے سے باہر آگئ تھی اور یہاں آکر اسے کتنا اچھا سرپرائز ملا تھا۔ اس کا پیارا بھائی انہیں سرپرائز دینے پہنچ گیا تھا۔
منسا میری جان طبیعت ٹھیک ہے جو یوں کمرے سے باہر آگئ ہو۔ سارہ بیگم فکر مندی سے اپنی لاڈلی کا چہرہ دیکھتی ہوئی بولی جو بخار کی وجہ سے اب بھی سُرخ ہورہا تھا۔
ذوہان نے بس ایک نظر اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ پھر ایکسکیوز کرتا وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔ منسا نے اس کا یوں خود کو اگنور کرنا اچھے سے محسوس کیا تھا۔
کیا ہوا میری گڑیا کو ؟ ہارب اسے حصار میں لیتا فکر مندی سے بولا۔
کچھ نہیں بھائی ہلکا سا بخار ہے یہ سب ایویں ٹینشن لے رہے ہیں۔ وہ فی الحال ساری سوچیں ذہن سے جھٹکتی ہوئی بُجھے بُجھے لہجے میں بولی۔ وہ چاہ کر بھی خود کو ہشاش بشاش ظاہر نہ کرسکی۔
تم نا اپنا خیال نہیں رکھتی۔ اب میں آگیا ہوں نا تمہارا خیال رکھنے کے لیے۔
منسا اس کی بات پر ہلکا سا مُسکرائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے معلوم تھا اس کے واپس آنے سے اگر گھر میں کوئی حقیقتاً خوش ہوگا تو وہ صرف اس کی ماں ہوگی۔ کیونکہ جاتے ہوۓ وہ جو ڈرامہ گھر پر لگا کے گیا تھا اُس کے بعد وہ کسی سے اُمید بھی نہیں رکھ سکتا تھا کہ وہ اس کے آنے پر خوش ہونگے۔
اس نے اندر قدم رکھ کر نگاہ اردگرد دوڑائی تھی سامنے ہی اس کی ماما کسی کو ڈانٹنے میں مصروف تھی۔
تاشا کیا کرتی ہو ؟ کب سے کہاں ہوا ہے کہ چاۓ اپنے بڑے صاحب کے کمرے میں دے آؤ پر تم کبھی کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرسکتی۔
وہ چپکے سے چلتا پیچھے سے ان کے گلے میں باہنیں ڈال گیا۔
آئرہ ابھی میں غصے میں ہوں۔ ابھی ذرا مجھے اس تاشا کی خبر لینے دو۔
وہ جیسے ہی پیچھے مُڑی وہ اپنی جگہ ساکت رہ گئ۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا کہ ان کا اکلوتا لختِ جگر واپس آگیا ہے اور ان کے سامنے کھڑا ہے۔
ارسم ! وہ کپکپاتے ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھامتی رُندھی ہوئی آواز میں بولی۔
وہ ان کی کیفیت سمجھتا انہیں خود سے لگا گیا۔ کیسی ہیں آپ ؟ وہ محبت سے اپنی جنت کو دیکھتا ہوا بولا۔ اُسے احساس تھا کہ ان سب کی وجہ سے اُس کی مما کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے۔
شدید ناراض ہوں تم سے۔ جھگڑا تمہارا تمہارے باپ سے تھا اور تم میرے کہنے پر بھی ایک بار بھی مجھ سے ملنے نہ آۓ۔ اب بھی نہ آتے۔ وہ اس سا ہاتھ جھٹکتی ہوئیں بولیں۔
سوری ماما ! وہ کان پکڑتا معصوم سا منہ بنا کر بولا۔ میں جانتا ہوں کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔ پلیز معاف کر دیں اپنے ارسم کو۔
انہیں وہی چار سال پُرانا ارسم یاد آگیا۔ جو انہیں یوں ہی مناتا تھا۔
وہ اس کے ہاتھ کان سا ہٹاتی ہوئی بولیں۔ صرف ایک شرط پر معاف کروں گی اگر تم مجھ سے وعدہ کرو کہ جو بھی ہو آئیندہ تم میری بات نہیں ٹالو گے ۔ گھر سے دُور نہیں جاؤ گے۔
پکا پرامیس ینگ لیڈی۔ وہ لاڈ سے ان کے کندھے پر سر رکھتا ہوا بولا۔
تم نے بتایا کیوں نہیں کہ تم آنے والے ہو۔
بس آپ کو سرپرائز دینا چاہتا تھا۔ وہ کندھے اچکاتا ہوا بولا۔
ابھی وہ باتوں میں مصروف تھے جب دروازے سے اسد چاچو اور اس کے ڈیڈ اندر آتے ہوۓ نظر آۓ۔ وہ اپنی بزنس کی گفتگو کرتے ہوۓ اندر آرہے تھے۔ جب ابراہیم صاحب اس کی پکار پر تھمے تھے۔
ڈیڈ! وہ انہیں پکارتا قدم قدم چلتا ان کے نزدیک آیا۔
اسد صاحب کے چہرے پر سنجیدگی چھا گئ۔ کبھی وہ وقت تھا کہ وہ ان کا لاڈلا تھا پر جب سے اس نے ان کی لاڈلی بیٹی کی تذلیل کی تھی اُس کا دل دُکھایا تھا تب سے وہ اس سے فاصلہ اختیار کرگۓ۔
کیسے ہیں ڈیڈ؟
میں ٹھیک ہوں۔ وہ یہ دو الفاظ ادا گرتے اس کا کندھا تھپتھپاتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گۓ۔
ان کے اس رُوکھے انداز پر ارسم کچھ مایوس سا ہوا۔ ان کے رشتے میں کتنی بڑی خلیج آگئ تھی۔ ان سب کی وجہ اسے صرف اور صرف آئرہ لگی۔ وہ سر جھٹکتا اسد صاحب کی طرف متوجہ ہوا۔ ابھی وہ کچھ کہتا کہ وہ بغیر اسے دیکھے وہاں سے نکلتے چلے گۓ۔ ارسم سب کے رویوں سے مایوس سا ہوا۔ لُبنا بیگم اس کا مایوس سا چہرہ دیکھتی اس کے نزدیک آگئ۔
تم فکر مت کرو دیکھنا سب ٹھیک ہوجائے گا۔ جاؤ تم جاکر فریش ہوجاؤ میں تمہاری پسند کا کھانا بنواتی ہوں۔
وہ اثبات میں سر ہلاتا سیڑھیاں چڑھتا اپنے رُوم کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابراہیم اور اسد صاحب دو بھائی تھے جو شہریار صاحب ( ہارب کے والد) اور وجاہت صاحب ( ذوہان کے والد ) کے کزن اور بزنس پارٹنر تھے۔
ابراہیم صاحب کی شریکِ سفر لُبنا بیگم تھی جن کی ایک ہی اولاد تھی ارسم جو چار سال بعد تعلیم مکمل کر کے لوٹا تھا۔ ابراہیم صاحب سے چھوٹے اسد صاحب تھے جن کی شریکِ حیات لائبہ بیگم تھی ان کی بھی ایک ہی اولاد تھی۔ آئرہ۔
آئرہ اور ارسم کا نکاح بچپن میں ان کے دادا کی خواہش پر کر دیا گیا تھا۔ چار سال پہلے تک وہ دونوں اس بات سے انجان تھے لیکن چار سال پہلے جب وہ اور ہارب اپنی تعلیم کے سلسلے میں یورپ جانا چاہتے تھے تب ان کی خواہش تھی کہ ان کے نکاح کا باقاعدہ اعلان کر دیا جائے تاکہ سب خاندان والے اس رشتے سے آگاہ ہوجائے پر وہ نکاح کی بابت سُنتا ہتھے سے اُکھڑ گیا۔
وہ سب گھر والوں سے ناراض ہوکر یہاں سے چلا گیا۔ ان سب میں وہ یہ بات بھول چکا تھا کہ جسے وہ سزا دے رہا تھا اُس کا اِن سب میں کوئی قصور نہیں تھا وہ بھی اس رشتے سے اُتنی ہی انجان تھی جتنا وہ تھا۔ پر اس سب کے باوجود وہ اُس کی بُری طرح ذلیل کر چکا تھا۔ بار بار اُس کی ذات کی نفی کرتا وہ اسے خود سے بے حد متنفر کر چکا تھا۔
اب یہ دیکھنا تھا کہ اُن کے رشتے کا کیا انجام ہونے والا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئرہ گھر نہیں چلنا۔ آخری پیریڈ ختم ہوتے ہی ساری کلاس تقریباً خالی ہوچکی تھی۔ مصفرہ ساری بُکس سمیٹتی اُسے وہی بیٹھا دیکھ کر بولی۔
آئرہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
کیا ہوا آئرہ ؟ مصفرہ اس کے ساتھ بیٹھتی اس کا ہاتھ تھامتی ہوئی بولی۔
کچھ نہیں بس یہ سوچ سوچ کر وحشت ہورہی ہے کہ اُسے وابس آنے کی اجازت مل گئ ہے وہ آج نہیں تو کل واپس تو آۓ گا۔ ایک دفعہ پھر میری ذات کی خامیاں گنوا کر اس رشتے سے رہائی چاہے گا۔
تو کیا تم اُس سے محبت کرتی ہو۔۔۔ مصفرہ جھجھکتی ہوئی اپنی بات مکمل کر گئ۔ اُسے لگا شاید وہ اس بات پر اُداس ہے کہ وہ آکر ان کے درمیان موجود اس پاکیزہ رشتے کو ختم نہ کر دے۔
ہر گز نہیں ۔ تمہیں لگتا ہے میں ایسے انسان سے محبت کرنے کی غلطی کر سکتی ہوں جو یوں سب کے درمیان میری تذلیل کر گیا۔ بس مجھے اُس انسان سے نفرت ہے بےتحاشہ نفرت۔میں کبھی اُسے اپنے دل میں جگہ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ وہ لہجے میں اُس انسان کے لیے نفرت سموۓ بولی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ یونی سے تھکی ہاری گھر میں داخل ہوئی۔ اسے معلوم تھا کہ اس وقت اس کی مما گھر نہیں ہونگی۔ اس نے ایک نظر اپنے بابا کے کمرے کی طرف دیکھا۔ یہ اطمینان کر لینے کے بعد کے وہ سو گۓ ہیں وہ خاموشی سے دروازہ بند کرتی باہر آگئ۔ جب اسے دروازہ کُھلنے کی آواز آئی۔ اسے حیرانی ہوئی کہ اس کی مما جلد واپس آگئ۔
وہ یہی سوچتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھی جب سامنے ہی کوئی انجان شخص بڑے دھڑلے سے دروازہ کھولتے اندر داخل ہورہا تھا جب پیچھے سے اس کی مما کی آواز آئی آنے والا شخص اُن کی طرف متوجہ ہوچکا تھا۔ وہ خاموشی سے اندر کی طرف بڑھ گئ۔
صاحب جی کچھ چاہیے۔ وہ جھجھکتی ہوئی بولیں۔ وہ اسے اندر گھر میں دیکھ چکی تھی کہ وہ اس گھر کا چھوٹا بیٹا ہے۔ ذوہان کو تو وہ جانتی تھی۔ وہ بھی چھ سات ماہ کے بعد چکر لگا تا تھا۔
وہ یہ بات تو جانتی تھی کہ اُن کا ایک بیٹا تعلیم کے سلسلے میں باہر تھا ۔ اس کا ذکر گھر میں اکثر ہوتا تھا۔ جو آج ہی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس آیا تھا۔
نہیں کچھ نہیں چاہیے وہ میں تو انیکسی کا چکر لگانے آیا تھا۔
وہ صاحب جی اب یہ انیکسی ہمارے زیر استعمال ہے۔ وہ بات کرتے کچھ جھجھک سی رہی تھی۔ کہی اُسے کسی بات پر غصہ نہ آجاۓ۔
اوو سوری ! مجھے نہیں پتہ تھا کیونکھ جب میں گیا تھا تب تک تو یہ انیکسی خالی تھی۔ مجھے لگا ابھی بھی یہ خالی ہی ہوگی۔ میں چلتا ہوں میں تو بس یوں ہی گھومنے آیا تھا۔ وہ خاموشی سے بات کرتا آگے کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما بہت بھوک لگی ہے۔ وہ دس منٹ پہلے ہی یونی سے واپس آئی تھی ۔ وہ فریش ہو کر سیڑھیوں سے اُترتی چلائی تھی۔
وہ تیزی سے سیڑھیاں اُترتی نیچے کی طرف آرہی تھی جب اوپر آنے والے وجود سے ٹکرائی تھی۔
کیا مسئلہ۔۔۔۔ سامنے والے وجود کو دیکھ اس کی بات درمیان میں رہ گئ تھی۔ اسے اپنے حواس منجمد ہوتے محسوس ہوۓ۔
سامنے والا وجود بھی اسے دیکھ کر تھم گیا تھا۔ اسے کہی سے بھی وہ پُرانے والی آئرہ نہ لگی۔ بے پرواہ حُلیے میں رہنے والی اس وقت مناسب سے ڈریس میں سادگی کے باوجود بھی بے حد اچھی لگ رہی تھی۔ جب آخری بار اُسے دیکھا تھا اسے یاد تھا اُس کے بال بمشکل کندھوں تک آتے جو اس وقت کمر کے نیچے تک لہرا رہے تھے۔
آئرہ خود پر قابو پاتی ایک سائیڈ سے ہوتی وہاں سے نکلتی چلی گئ۔ اس نے نوٹ کیا تھا وہ پہلے سے زیادہ خوبرو ہوگیا تھا۔ اس نے سر جھٹکتے اپنی سوچوں پر قابو پایا۔
ارسم کی نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری بےبسی کی کتاب کا۔۔۔
کوئی ورق تُو نے پڑھا نہیں
تجھے کیا خبر کہاں مر گئیں
میری خواہشیں تیرے شہر میں۔۔
وہ تیزی سے چلتی وہاں سے نکلتی کچن میں آگئ۔ اسے بالکل بھی یقین نہیں تھا وہ اتنی جلدی واپس آجائے گا۔ ابھی تو وہ خود کو ان سب کے لیے تیار کر رہی تھی اور وہ یوں اچانک آگیا تھا۔ اسے سامنے دیکھ کر اس شخص کے منہ سے اس کے خلاف ادا ہوا ایک ایک لفظ اس کے ذہن میں پھر سے تازہ ہوگیا تھا۔
آئرہ ابھی تم نے بھوک کی رٹ لگائی تھی اور اب میں کب سے تمہیں آوازیں دے رہی ہوں کہ کھانا کھا لو آکر ۔ لیکن تم ناجانے کن سوچوں میں گُم ہو۔ لائبہ بیگم اس کے قریب آتی کندھا ہلاتی ہوئی بولیں۔
وہ چونکتی ہوئی ان کی طرف متوجہ ہوئی۔ جی ماما ! کیا کہا آپ نے ؟ وہ اپنی سوچوں میں ایسی گُم تھی کہ اُن کی کوئی بھی بات سُن نہ سکی۔
کچھ نہیں میں کہہ رہی تھی کہ آکر کھانا کھا لو۔
جی آگئ۔ وہ خاموشی سے کھانا کھانے بیٹھ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج منسا کو خود چھوڑنے آیا تھا۔ منسا کب کی اُتر کر جاچکی تھی ۔ پر اس کی نظر ایک منظر پر جم سی گئ تھی۔ سفید ڈریس میں ملبوس وہ چھوٹی سی لڑکی چہرے پر اداسی سجاۓ اسی کی طرف آرہی تھی۔
سفید ڈریس میں اس کا چاند سا چہرہ دمک رہا تھا۔ نیلی آنکھیں ساری دُنیا سے خفا تھی۔ گاڑی سے اُترتے اس کے قدم خود بخود اس کی طرف اُٹھنے لگے وہ ٹرانس کی کیفیت میں قدم قدم چلتا اسی کی طرف جانے لگا۔
وہ لڑکی اس کے قریب سے ہوتی ہوئی یونی میں داخل ہوگئ۔ وہ وہی کھڑا یک ٹک اسی کو جاتا دیکھ رہا تھا یہاں تک کے وہ نظروں سے اوجھل ہوگئ۔ بیوٹی ۔۔۔۔ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا تھا۔اس کے جاتے ہی وہ جیسے کسی گہری نیند سے جاگا تھا۔ اس کا موبائل پچھلے پانچ منٹوں سے لگاتار بج رہا تھا پر وہ تو شاید کسی اور ہی دنیا میں گُم تھا۔ ایک بار پھر اس کا موبائل رِنگ ہوا جسے اس بار وہ جیب سے نکال گیا۔ اس نے موبائل پر نظر ڈالی جہاں ارسم کالنگ لکھا آرہا تھا ۔ وہ بغیر تاخیر کے کال پِک کر چکا تھا۔
اوۓ کدھر تھا کب سے تجھے کالز کر رہا ہوں۔ فون کے دوسری طرف سے ارسم کی چنگھاڑتی ہوئی آواز گونجی۔
یہی تھا وہ بس منسا کو یونیورسٹی چھوڑنے آیا تھا اس لیے کال کا پتہ نہیں چلا۔ وہ بات کو گول مول کرتا ہوا بولا۔
اچھا ٹھیک ہے ایک گھنٹے تک مجھے مل۔ ارسم اسے ملنے کا حکم دیتا کال بند کر چکا تھا۔
ہارب سر جھٹکتا کار کی طرف بڑھ گیا۔ اسے اپنی بے خودی پر حیرانی سے ہورہی تھی۔ کیسے وہ اتنا بے اختیار ہوگیا تھا۔ وہ ابنی بے اختیاری پر ہنستے ہوۓ بالوں میں ہاتھ چلاتا گاڑی میں بیٹھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سیڑھیاں اُترتا نیچے آیا جہاں سب لوگ ناشتے میں مصروف تھے وہ بھی سلام کرتا کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔
مما ڈیڈ اور چاچو نہیں نظر آرہے ۔ وہ املیٹ کا ٹکڑا منہ میں رکھتا ہوا بولا۔
وہ آج جلدی چلے گۓ اُن کی کوئی میٹنگ تھی۔
اس کے بیٹھتے ہی وہ کرسی دھکیل کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ارسم نے بے ساختہ نگاہ اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ ایک پل کے لیے وہ نظریں پلٹنا بھول گیا۔
نیوی بلیو کلر کے سٹائلش سے کُرتے میں اس کی گوری رنگت خوب چمک رہی تھی۔ سر پر ڈریس کے ہم رنگ سکارف لپیٹے وہ اسے چار سال پہلے والی آئرہ سے یکسر مختلف لگی۔ خود پر قابو پاتا وہ فوراً نظروں کا زاویہ بدل گیا۔
مما میرا ناشتہ ہوگیا ہے خان چاچا کو بولیں مجھے یونیورسٹی چھوڑ دے۔ اس کو دیکھ کر اس کا موڈ پل میں بگڑ چکا تھا ۔
بیٹا اُنہیں تو تمہارے پاپا نے کسی کام سے بھیجا ہے۔ وہ پریشانی سے بولیں۔
ماما مجھے دیر ہورہی ہے۔
اس کا سنجیدہ چہرہ دیکھ جانے کیسے اس کا لبوں سے پھسلا تھا۔ میں چھوڑ دیتا ہوں۔
وہ جو پریشان سی کھڑی تھی اس کی آفر پر مُڑے بغیر تڑخ کر بولی۔ میں اجنبیوں کا احسان لینا پسند نہیں کرتی۔ وہ اجنبی لہجے میں بولی۔
وہ اس کی بات پر لب بھینچ کر رہ گیا۔
ماما میں چلتی ہوں ۔ گارڈ انکل سے کہہ کر ٹیکسی کروالوں گی۔ وہ ماں کے گلے لگتی گال پر بوسہ دیتی باہر کی جانب بڑھ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جو کب سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔ بلآخر اسے آتا دیکھ کر پُر سکون سانس خارج کرتا ہوا بولا۔ بدتمیز انسان مجھے بُلا کر خود کتنا لیٹ آیا ہے۔ میں جانے ہی والا تھا اگر اور دو منٹ تو نہ آتا۔
سوری یار ٹریفک میں پھنس گیا تھا۔ اس لیے دیر ہوگئ۔ وہ عجلت میں اس کے قریب آتا معزرت کرتا ہوا بولا۔
دو دن ہوۓ ہیں ہمیں آۓ کو اور تجھے میری یاد بھی آنے لگی جو یوں ملنے کے لیے بلا لیا۔ چل بتا کیوں بلایا ۔ اب کیا ہوگیا ۔ہارب اسے دیکھتا ہوا بولا۔
کیا مطلب میں تجھے بغیر وجہ ملنے کے لیے نہیں بلا سکتا ۔ وہ ناراضگی سے بولا۔
چل اب نخرے چھوڑ اور کام کی بات پر آ۔ ہارب سکون سے بولا۔
یار کیا بتاؤ گھر میں سب مجھ سے ناراض ہیں۔ ڈیڈ تو میری طرف دیکھتے بھی نہیں۔ اور چاچو جہاں میں موجود ہوتا ہوں وہاں پر بیٹھنا تک گوارا نہیں کرتے۔ چچی بھی مجھ سے ناراض ہیں۔ ایسے میں مجھے لگتا ہے کہ میں علیحدگی کی بات کروں گا تو وہ ڈیڈ مجھ سے مزید ناراض ہوجائیں گے۔ تو ہی بتا ایسے میں میں کیا کروں۔
تجھے اتنی جلدی کیوں ہے علیحدگی کی ۔ ابھی تجھے آۓ دو دن ہوۓ ہیں ابھی گھر والوں کو منا اُن کے ساتھ ٹائم سپینڈ کر ۔ اور کیا پتا انکل خود تجھ سے یہ بات کرلیں۔ ہارب سادہ سے لہجے میں بولا۔
جلدی ہے مجھے یار تو نہیں جانتا میں جلد سے جلد اس ان چاہے رشتے سے آزاد ہونا چاہتا ہوں۔ جب تک یہ رشتہ قائم رہے گا مجھے یوں ہی محسوس ہوگا کہ میں اس ان چاہے بندھن کی قید میں ہوں۔
ہارب جو خاموشی سے اس کی باتیں سُن رہا تھا اسے خاموش ہوتا دیکھ کر بولا۔ اور تیری منکوحہ صاحبہ کا رویّہ تجھ سے کیسا ہے۔
وہ مجھے دیکھ کر ایسے راستہ بدلتی ہے جیسے میں اُسے کچا چبا جاؤں گا۔ وہ اُس کا صبح والا رویہ یاد کرتا ہوا بولا۔
ویسے تجھے ایک بات کہوں ارسم۔ وہ اس کی طرف دیکھتے سنجیدگی سے بولا۔
ارسم اثبات میں سر ہلاتا اجازت دے گیا۔
دیکھ یار تجھے ایک مخلص مشورہ دوں گا۔ میں ملا ہوں آئرہ سے اچھی لڑکی ہے۔ بس کچھ بچپنا ہے اُس میں اب ان چار سالوں میں وہ بھی شاید دور ہوگیا ہوگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان میچور ہوجاتا ہے۔ پھر تجھے اُس سے کیا مسئلہ ہے۔ تم ایک بار ٹھنڈے دماغ سے اس رشتے کو آگے بڑھانے کے بارے میں سوچ۔
تو اپنا منہ بند رکھ ۔ وہ اس کی بات پر جھنجھلاتا ہوا بولا۔
اگر میرے مشورے تجھے اتنے ہی بُرے لگ رہے ہیں تو میں اُٹھ کر چلا جاتا ہوں۔ میرا موڈ بہت اچھا اپنی بکواس سے خراب مت کر۔ وہ اسے گھوری سے نوازتا ہوا بولا۔
اچھا موصوف کا موڈ آج صبح صبح ہی اچھا ہے اور لگ بھی فریش رہا ہے ۔ کیا بات ہے؟ وہ آئیبرو اچکاتا ہوا بولا۔
کچھ خاص نہیں بس آج صبح صبح ایک پری کا دیدار ہوگیا تھا بس اُسے دیکھتے ہی موڈ خود بخود اچھا ہوگیا۔ وہ جیسے اس کا حسین چہرہ آنکھوں کے پردے پر لاتا ہوا بولا۔
اہہم اہہم ! اسے خیالوں میں کھوۓ دیکھ کر ارسم شرارتی انداز میں بولا۔ عشق وشق کا معاملہ تو نہیں برخودار۔
چل اوۓ منہ بند رکھ ایسا کچھ نہیں ہے میں تو مزاق کر رہا تھا۔ وہ ہری جھنڈی دکھاتا ہوا بولا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبیر بیٹا! وہ عجلت سے گھر میں داخل ہوا جب اپنے نام کی پکار پر اسے رُکنا پڑا۔
جی ماما۔ وہ مڑتا ہوا بولا۔
ادھر میرے پاس آؤ مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔ میں چاہ رہی تھی کہ مصفرہ کی رخصتی اب کروا لینی چاہیے۔ تم دونوں کے نکاح کو کافی ٹائم ہوچکا ہے۔ اور مجھے لگتا ہے اتنا وقت کافی ہوتا ہے ایک دوسرے کو سمجھنے میں۔ ویسے بھی مصفرہ بہت اچھی لڑکی ہے مجھے نہیں لگتا تمہیں اسے پرکھنے کی ضرورت ہے۔
نو مام ابھی بالگل نہیں۔ ابھی مجھے میرے کیریئر پر فوکس کرنے دیں ابھی مجھے ان سب جھنجھٹ میں نہیں پڑنا۔ وہ اٹل انداز میں بولا۔
تم بھی بات کو سمجھو ۔ اُس کی ماں کو بھی ٹینشن ہوگی ۔ تم تو جانتے ہو کہ اُن کے گھر کے کیا حالات ہیں ایسے میں ہم اُن کا احساس نہیں کریں گے تو کون کریں گا۔اور یہ مت بھولو اس رشتے میں تمہاری رضامندی بھی شامل تھی۔ تم سے پوچھ کر ہی یہ سب ہوا ہے۔ میں دیکھ رہی ہوں تمہارا رویہ دن بدن بچی کے ساتھ کیسا ہورہا ہے۔ جب سے تم نے جاپ شروع کی ہے تم جانے کس سمت چل نکلے ہو۔ تم اپنی حرکتوں سے مجھے یہ سوچنے پر مجبور مت کرو کہ تمہاری بات مان کر میں نے کوئی غلطی کر دی ہے۔ وہ جانچتی نگاہوں سے اسے دیکھتی ہوئی بولیں۔
ایسی کوئی بات نہیں ہیں موم۔۔۔ بس مجھے کچھ وقت دے دیں۔
ہہم ! وہ اس کی بات سُنتی ہنکار بھر گئ۔
کبیر نیازی کا نکاح مصفرہ سے اس کی رضامندی جاننے کے بعد ہوا تھا مگر اب اُسے لگتا تھا کہ اُس نے اپنی مام کی بات مان کر غلطی کر دی ہے اُسے مصفرہ سے بہتر لڑکی مل سکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ انیکسی کے پچھلی طرف خاموش کھڑی ڈوبتے سورج کو دیکھ رہی تھی۔ کبھی کبھی وہ سوچتی تھی کاش اسکا کوئی بھائی ہوتا جو اس مشکل وقت میں ان کی ڈھال بن سکتا۔ انہیں زمانے کے سرد و گرم سے بچاتا۔ وہ اپنی سوچوں میں اتنی محو تھی کہ آنے والے کی آہٹ بھی محسوس نہ کرسکی۔
وہ جو ارسم سے ملنے کے کے بعد گھر میں بیٹھا بور ہورہا تھا۔ گچھ دیر گارڈن میں بیٹھ گیا۔ گارڈن سے ہوتا ہوا اب وہ انیکسی کی بیک سائیڈ پر آچکا تھا۔ وہاں کسی لڑکی کی موجودگی اسے حیرانی میں مبتلا کر گئ۔
وہ اس کے نزدیک آتے سنجیدگی سے پوچھ بیٹھا۔ کون ہو تم اور تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟
وہ کسی کی آواز سُنتی اس کی طرف متوجہ ہوتی چونک کر اس کی طرف مُڑی۔ میں کیوں۔۔۔ بتاؤں ۔۔۔کون ہوں میں ؟ پہلے تم یہ بتاؤ ۔۔۔تم کون ہو اور اندر ۔۔۔۔کیسے آۓ ؟ وہ کمر پر ہاتھ ٹکاتی کڑے تیوروں سے گویا ہوئی۔
ہارب اسے دیکھتا فریز ہوچکا تھا۔ تم یہاں ۔ وہ کم از کم اس کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ وہ تو سُن ہی نہ سکا کہ اُس نے اس سے کیا کہا ہے وہ تو بس اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کہ نہار رہا تھا۔
میں۔۔۔ کچھ ۔۔۔ پوچھ ۔۔۔ رہی ہوں۔۔۔ میری بات ۔۔۔ کا جواب ۔۔دو۔
ہارب جو غور سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا اس کے بولنے کے انداز پر چونکا تھا۔ اس نے تو اب غور کیا تھا کہ وہ بولتے ہوۓ اٹکتی ہے۔ تھوڑی دیر پہلے دل جو اس کی موجودگی پر خوشگوار سا احساس ہوا تھا اب دل ہر چیز سے اچاٹ ہوچکا تھا۔
وہ خاموشی سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا ہے۔
مصفرہ نے اسے حیرانی سے وہاں سے جاتا دیکھا۔ وہ سر جھٹکتے پھر سے سامنے ڈوبتے سورج پر نظریں ٹکا گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ وہاں سے نکلتا اپنے رُوم میں بند ہوچکا تھا۔ اُسے اپنے گھر میں دیکھتا وہ کتنا خوش ہوا تھا اس سب میں وہ یہ بات بھی فراموش کر چکا تھا کہ وہ یہاں کیوں موجود تھی۔
اسے جانے کیوں اُسے ایسے اٹکتے ہوۓ بولتے دیکھ کر تکلیف ہوئی تھی۔ مجھے کیوں ان سب سے فرق پڑ رہا ہے۔ میں کیوں اُس کے بارے میں سوچ رہا ہوں ۔ کیا لگتی ہے وہ میری۔ میں ہر گز بھی اب اُس کے بارے میں نہیں سوچوں گا۔
وہ من ہی من میں یہ پلان بھی کر چکا تھا کہ وہ صبح پھر منسا کو چھوڑنے جاۓ کیا پتہ پھر اُس پری کا دیدار ہوجاۓ۔
اسے کہاں معلوم تھا کہ اس کے دل کی خواہش اتنی جلدی پوری ہوجاۓ گی وہ بھی ایسے۔ میں اب اُس کے بارے میں نہیں سوچوں گا جب مجھے اُس سے کوئی سروکار نہیں رکھنا یہ سب جاننے کے بعد تو بالکل بھی نہیں۔ وہ اٹل انداز میں خود کو ڈپٹتا ہوا بولا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارہ دو بجے تک تیار رہنا۔ میں نے بھابھی کو فون کرکے آگاہ کردیا تھا کہ ہم آرہے ہیں۔ میں نے سرسری سا ذکر کیا تھا میں چاہ رہی تھی وہاں جاکر مناسب طریقے سے بات کا آغاز کریں۔ کیا خیال ہے؟ وہ اپنی بات ان کے سامنے رکھتی ہوئیں بولیں۔
سہی کہا بھابھی ایسی باتیں فون پر اچھی نہیں لگتی ۔ آپ نے ٹھیک کیا۔ اور بے فکر رہیے میں ٹائم پر ریڈی ہوجاؤں گی۔ میں ذوہان کے لیے بے حد خوش ہوں بس خدا سے دُعا ہے کہ وہ دونوں ساتھ خوش رہے۔ وہ آمنہ بیگم کی بات کے جواب میں بولیں۔
منسا جو نقاہت کے باعث سارہ بیگم کی گود میں سر رکھ کر لیٹی تھی۔ آمنہ بیگم کی بات پر چونک سی گئ تھی۔ اس کی آنکھوں میں ہادیہ کی شبیہہ لہرائی۔ ایسا کیا خاص تھا اُس میں جو ذوہان اُس کو ترجیح دے رہا تھا۔ دو آنسو خاموسی سے ٹوٹ کر سارہ بیگم کی گود میں جذب ہوۓ۔
وہ خاموشی سے اُٹھتی کمرے سے باہر کو نکلنے کو تھی جب سارہ بیگم اسے باہر جاتا دیکھ کر بولیں۔ منسا بچے کدھر جارہی ہو۔
ماما میری طبیعت نہیں ٹھیک اپنے کمرے میں جارہی ہوں کچھ دیر آرام کروں گی۔ وہ مُڑے بغیر بولتی باہر نکل گئ۔ وہ دونوں اب بھی ذوہان اور ہادیہ کے رشتے کی بابت بات کر رہی تھیں پر وہ کان لپیٹتی وہاں سے نکلتی چلی گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بغیر دستک دیے دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا۔ اسے گہری سوچ میں ڈوبا دیکھ کر وہ دُھپ سے آکر صوفے پر بیٹھا۔
ذوہان چونکتے ہوۓ اس کی طرف متوجہ ہوا۔
واہ بھائی ! ابھی بھابھی آئی بھی نہیں ہیں اور آپ ابھی سے ان کی یادوں کے حصار میں کھوۓ ہیں۔ وہ چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ شرارتی انداز میں گویا ہوا۔ اس کا اشارہ ہادیہ کی طرف تھا۔ جن کی طرف آج گھر والے جا رہے تھے۔
کیا بکواس کر رہا ہے میں سمجھا نہیں ؟ وہ اس کی گول مول باتوں بر جھنجھلا کر بولا۔ وہ پہلے ہی منسا کی وجہ سے پریشان تھا۔ اس نے تو اُس سے بات کرنا بھی چھوڑ دیا تھا کہ وہ سمجھ جاۓ کہ وہ جو سوچ رہی ہے ایسا ممکن نہیں۔ پر دوسری طرف پچھلے کچھ دنوں سے اُس کی مسلسل خراب طبیعت اسے ٹینشن میں مبتلا کر رہی تھی۔
یہ دیکھے بھائی آپ پھر بھابھی کو سوچنے لگے پھر کہے گے کہ میں بکواس کر رہا ہوں۔ ہارب منہ بناتا ہوا بولا۔
تم مہربانی کرکے اپنا منہ بند رکھ اور یہاں سے نکل۔ وہ تقریباً اسے دفع ہو کا اشارہ کرتا ہوا بولا۔ بس منہ سے کہنے کی کسر باقی تھی۔
بھائی آپ کو ذرا بھی احساس نہیں ہیں میں اتنے سالوں بعد لوٹا ہوں ۔ میرا حال احوال پوچھے میرے ساتھ وقت گزاریں۔ اب آپ کو احساس نہیں ہے میں خود ہی آگیا اور آپ اب بھی مجھے باہر نکال رہے ہیں۔ دیٹس ناٹ فیئر۔ وہ مسکین شکل بناتا ہوا بولا۔
ذوہان کو اس کے انداز پر ہنسی آئی تھی۔ تو نا ایک نمبر کا نوٹنکی ہے۔ سب پتہ ہے مجھے ۔ میرے سامنے یہ مسکین شکل بنانے کی ضرورت نہیں ہے خوب اچھے سے آگاہ ہوں تیری چالاکیوں سے۔ وہ اسے آنکھیں دکھاتا ہوا بولا۔
ہارب نے منہ بناتے ہوۓ اس کی طرف دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبیر نیازی جس آفس میں کام کرتا تھا وہاں آج افراتفری مچی تھی وجہ باس کی بیٹی اپنی تعلیم مکمل کر کے لندن سے لوٹی تھی۔ آج وہ آفس جوائن کرنے والی تھی۔ سب کو یہی معلوم تھا کہ وہ نک چڑھی اور مغرور سی ہے۔
باہر سے انہیں اطلاع مل چکی تھی کہ نتاشہ غازی آچکی ہے۔ جیسے ہی ہیل کی ٹک ٹک کی گونجی سارہ سٹاف الرٹ ہوچکا تھا۔ اپنی نوکری سب کو پیاری تھی کوئی بھی غلطی کرکے وہ لوگ اپنی نوکری سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتے تھے۔
وہ مغرور سی چال چلتی کسی کو کو بھی مخاطب کیے بنا بے نیاز سی اپنے کیبن کی طرف بڑھ گئ۔
کبیر کافی حد تک اس کی پرسانیلٹی سے متاثر ہوچکا تھا۔ ابھی وہ انہی سوچوں میں گُم تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ اس کا بلاوا آچکا ہے۔ میم نتاشہ آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ ایک ورکر اسے آگاہ کر کے جا چکا تھا۔
وہ پریشان سا ہوگیا کہ اس نے ابھی ایسا کچھ کیا بھی نہیں پھر کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ بہرحال جو بھی تھا جانا تو اسے تھا وہ خود کو کمپوز کرتا نتاشہ کے کیبن کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے دروازہ نوک کر کے اندر آنے کی اجازت لی۔ اجازت ملتے ہی اندر داخل ہوا ۔ احمد غازی اس کے ساتھ ہی براجمان تھے۔ اسے دیکھتے ہی وہ اس کی طرف متوجہ ہوۓ۔
نتاشہ بیٹی اس سے ملو یہ ہے کبیر نیازی اسے کام کرتے ابھی کچھ ہی وقت ہوا ہے پر اس تھوڑے سے وقت میں ہی یہ اپنے آپ کو منوا چکا ہے۔ مجھے اس کے کام کرنے کا انداز پسند ہے۔
وہ نتاشہ کو اس کے حالیہ پراجکٹ کے بارے میں بتانے لگے۔ نتاشہ نے امپریس ہو کر اس کی طرف دیکھا۔
نتاشہ بچے ہم چاہ رہے ہیں کہ آپ کبیر کے ساتھ مل کر کام کرو تاکہ ان سے آپ بھی کچھ سیکھ سکے اوکے۔
نتاشہ اثبات میں سر ہلا کر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ آپ سے مل کر اچھا لگا اُمید ہے ہم ساتھ میں اچھا وقت گزاریں گے۔ اس نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا جسے کبیر خوشی خوشی تھام چکا تھا۔
وہ آفس سے باہر آکر لاشعوری طور پر نتاشہ کا موازنہ مصفرہ سے کرنے لگے اسے ہر طرح سے نتاشہ کا پلڑا بھاری ہوتا محسوس ہوا۔ وہ ہر لحاظ سے مصفرہ سے بہتر تھی یہ اس کی سوچ تھی۔ ہاں ایک چیز تھی کہ مصفرہ نتاشہ سے کئ زہادہ خوبصورت تھی۔ پر اس کا ماننا تھا کہ صرف خوبصورت ہونا کافی نہیں انسان میں خوبیاں بھی ہونی چاہیے۔ مصفرہ کا سوچتے ہی اس کا حلق تک کڑوا ہوچکا تھا۔ اسے ایک دفعہ پھر اپنی جلدی بازی پر افسوس ہوا جو وہ مصفرہ کے ساتھ نکاح کرکے کر چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ خوشی خوشی رشٹے کی بات کرتے گھر لوٹے تھے۔ انہوں نے سوچنے کا وقت مانگا تھا انہیں سو فیصد یقین تھا کہ اُن کی طرف سے مثبت جواب ہی ہوگا۔ وہ ابھی ریلیکس ہوکر بیٹھے ہی تھے جب صبورہ بھاگتی ہوئی آئی۔ بی بی جی ! وہ تقریباً چلاتی ہوئی نیچے آئی۔
کیا ہوگیا صبورہ ! کیوں شور مچا رہی ہو۔ سارہ بیگم اسے ڈپٹتے ہوۓ بولیں۔
بی بی جی وہ میں منسا بی بی کے کمرے میں کھانا دینے گئ تھی پر وہ تو زمین پر بے ہوش پڑی تھی میں نے انہیں اُٹھانے کی کوشش کی پر وہ بالکل بھی نہیں اُٹھ رہی۔
اس کے بولنے پر سب سے پہلے ہارب کو ہی ہوش آیا تھا وہ بھاگتا ہوا سیڑھیاں پھلانگتا منسا کی کمرے کی طرف بڑھا۔ باقی سب بھی اس کے پیچھے بھاگے۔ ایک منٹ پہلے ماحول کتنا خوشگوار تھا اور اب سب ہی ٹینشن میں تھے۔ ذوہان جو ان کی آواز سنتا لاؤنج میں آیا تھا منسا کی حالت دیکھتا لب بھینچ گیا۔ ہارب اسے لیکر فوراً گاڑی کی طرف بھاگا اس کا رُخ قریبی ہسپتال کی طرف تھا۔
ایک گھنٹہ وہاں پریشانی میں بیٹھنے کے بعد اس کی طبیعت سنبھلی تھی۔ ڈاکٹر کے باہر نکلنے کے بعد ہارب ان سے مخاطب ہوا۔ ڈاکٹر میری بہن کیسی ہے؟ وہ ٹھیک تو ہے کوئی پریشانی والی بات تو نہیں۔ اس کے لہجے میں واضح بے چینی تھی۔
جی اب وہ پہلے سے بہتر ہیں۔ انہوں نے کسی بات کی ٹینشن لی ہے بخار بھی بےحد تیز تھا لیکن اب ان کی کنڈیشن سٹیبل ہے۔ ان کی ڈرِپ کے مکمل ہوتے ہی آپ انہیں گھر لے جاسکتے ہیں بس اُن کی ڈائٹ کا خاص خیال رکھے اور ٹینشن ،پریشانی وغیرہ سے دُور رکھیں۔ اس کی طبیعت کی بہتری کا سُن کے سب نے سُکھ کا چین لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دروازے نوک کرتی اجازت ملتے ہی اندر آئی۔ سامنے ہی اس کے بابا اور بڑے پاپا دونوں ہی موجود تھے.
بڑے پاپا آپ نے بلایا ؟ وہ جھجھکتی ہوئی بولی۔
ہاں میری جان ادھر آؤ۔ وہ دونوں سامنے صوفے پر ہی براجمان جانے کیا راز و نیاز کرنے میں مصروف تھے اسے دیکھتے ہی اپنے نزدیک جگہ بنا گۓ۔ ابراہیم صاحب نرمی سے کہتے اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کر چکے تھے۔ وہ اپنے بابا سے زیادہ اپنے بڑے پاپا کی لاڈلی تھی۔ وہ اس کے بیٹھتے ہی اس کے گرد اپنا حصار قائم کر گۓ۔
میری بیٹی کی سٹڈی کیسی جا رہی ہے ؟کوئی پرابلم تو نہیں ہورہی ۔
اچھی جارہی ہے بڑے پاپا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
آئرہ میں نے آپ سے کچھ اہم بات کرنے کے لیے آپ کو یہاں بلایا ہے۔ وہ کچھ جھجھکتے ہوۓ بولے انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بات کا آغاز کہا سے کریں۔ ان کے بیٹے کی ہٹ دھرمی انہیں چھوٹے بھائی کے سامنے ذلیل کروا گئ تھی۔ یہ ٹو ان کا ظرف تھا کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی وہ ان سے کچھ نہیں بولے تھے۔ کوئی سوال کرنے نہیں آۓ تھے۔
میں کوئی تمہید نہیں باندھوں گا سیدھا مدعے کی بات پر آؤں گا۔ تم جانتی ہو یہ نکاح تمہارے مرحوم دادا حضور کی خواہش تھا۔ میں اور اسد دونوں ہی اس وقت نکاح کے لیے راضی نہیں تھے کیونکہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ آگے جا کر تم دونوں میں سے کوئی اس کی مخالفت کرے۔ خیر یہ نکاح تو ابا حضور کی خواہش پر ہوگیا۔ لیکن ہوا وہی جس کا ہمیں ڈر تھا۔ تم نہیں جانتی چار سال تک اس کی اس گھر سے دوری کی وجہ اس کی وہ شرط تھی جو میں نے ماننے کے انکار کر دیا تھا۔ میں نے اُسے چار سال سے وقت دیا کہ وہ سنبھل جاۓ مگر۔ وہ کچھ توقف کے لیے خاموش ہوۓ جب آئرہ کی بات انہیں پریشان کر گئ۔
میں جانتی ہوں وہ وجہ بڑے پاپا وہ سر جھکاتی دھیمے سے لہجے میں بولی۔
انہوں نے حہرانگی سے اسد صاحب کی طرف دیکھا ۔ وہ واحد انسان تھے جو ان کے علاوہ ساری حقیقت سے واقف تھے پر انہیں تو وہ منع کر چکے تھے۔ پھر کیسے وہ سب جانتی تھی۔ اسد صاحب نے ان کی طرف دیکھ کر نفی میں سر ہلایا جیسے کہنا چاہتے ہوں کہ وہ خود نہیں جانتے کہ اسے کیسے معلوم۔
وہ ان کی حیرانگی کو دیکھ کر بولی۔ مجھے اس بارے میں کسی نے نہیں بتایا میں نے خود آپ لوگوں کی باتیں سُنی ہیں۔ میں نے یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا یہ ایک غیر ارادی عمل تھا۔ وہ ہونٹ کاٹتی اپنی صفائی پیش کر رہی تھی۔
ابراہیم صاحب نے ایک گہرا سانس بھرا۔ تم جانتی ہوئی کہ وہ کیوں واپس آیا ہے۔
جانتی ہوں ۔
میں چاہتا تھا کہ تم دونوں کا یہ رشتہ برقرار رہے ۔ تمہیں ہمیشہ اپنی بیٹی مانا ہے اس لیے چاہتا تھا کہ اپنی بیٹی کو ہمیشہ کے لیے اپنے پاس روک لوں پر شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور ہے۔ تم جانتی ہو سب کچھ تو یہ سمجھ لو کہ میں چاہتا ہوں کہ اس بار پہل ہماری طرف سے ہو۔ میں اُسے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تو میری بیٹی کو بھی نہیں پڑتا۔ آپ ایسا چاہتی ہو۔ انہوں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
میں تو بہت پہلے سے یہ سب چاہتی تھی تب سے جب سے انہوں نے واپس آنے کی شرط رکھی تھی پر صرف آپ لوگوں کی وجہ سے خاموش تھی۔ پر اب جب میری راۓ جاننا چاہتے ہیں تو میری خوشی اس شخص سے علیحدگی میں کیونکہ میرے لیے میری سیلف ریسپیکٹ سب سے اہم ہے۔ وہ بول کر خاموش ہوئی۔
جو میری پیٹی چاہتی ہے ویسا ہی ہوگا تم فکر مت کرو۔ وہ اس کا سر تھپتھپاتے ہوۓ بولے۔ ہوسکے تو اپنے بڑے پاپا کو معاف کر دینا وہ غمزدہ سے اس کے سامنے اپنے ہاتھ جوڑ گۓ اس نے تڑپ کر ان کے ہاتھ کھولے۔ بڑے پاپا یہ کیا کر رہے ہیں آج کے بعد ایسا کرنے کی سوچیے گا بھی مت ورنہ میں ناراض ہوجاؤں گی۔ ان سب میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ وہ ان کے کندھے پر سر رکھتی لاڈ سے بولی ۔
کاش ان کا بیٹا اس عظیم لڑکی کی قدر کر لیتا۔ اس نے اتنی اچھی لڑکی گنوا دی ۔ انہوں نے یہ بات دل میں سوچی کہنے کی ہمت نہیں تھی۔ بار بار وہی بات دھرا کر وہ اسے تکلیف نہیں دینا چاہتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.....................
وہ آرام دہ حالت میں بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی۔ اُسے ہسپتال سے آۓ تین دن گزر چکے تھے۔ ان دنوں میں وہ خاموش سی ہوکر رہ گئ تھی۔ آنکھیں بند کیے وہ اب بھی اُسی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ بند آنکھوں سے آنسو موتیوں کی صورت میں بہہ رہے تھے۔ ان کچھ دنوں میں وہ مسلسل چہکنے والی لڑکی مرجھا سی گئ تھی۔ اُس کی سوچیں جانے کہاں پرواز کر رہی تھی جب کوئی اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر انر آیا تھا۔ وہ ہنوز آنکھیں بند کیے پڑی رہی۔
"یہ سب کر کے تم کیا ثابت کرنا چاہتی ہوں بولو۔ سب کی توجہ خود کی طرف دلوانا چاہتی ہو"۔ وہ چیختا ہوا بولا۔
اس کی دھاڑ نما آواز نے منسا کو آنکھیں کھولنے پر مجبور کر دیا۔ اس نے شکوہ کناں نظریں اُٹھا کر سامنے والے کی طرف دیکھا پر اُس پتھر پر جیسے کوئی اثر ہوا ہی نہیں۔ وہ اس پر سے نظر ہٹا کر رُخ موڑ گئ۔
اپنی بات کے جواب میں منسا کی خاموشی نوٹ کر کے اُس کا غصہ عود آیا۔ وہ خاموشی سے منہ موڑے بیٹھی تھی۔ اور اس کا منہ موڑنا بھی اس نے شدت سے نوٹ کیا تھا۔ وہ ہونٹوں پہ ایسے قفل لگائے بیٹھی تھی جیسے نہ بولنے کی قسم کھائی ہو۔
" تم یوں خاموش نہیں رہ سکتی میرے سوال کا جواب دو کیا مطب سمجھوں تمہاری اس خاموشی کا " وہ اپنی بات پر زور دیتا ہوا بولا۔
”یہی کے میں آپ سے بات نہیں کرنا چاہتی ” فی الحال آپ یہاں سے چلے جائیے۔ وہ آہستہ آواز میں سادہ سے لہجے میں بولی۔
”مگر میں بات کرنا چاہتا ہوں ” وہ دانت پیستا ہوا بولا۔
”کیوں آپ بار بار میرا ضبط آزمانے آجاتے ہیں۔ کیوں نظر نہیں آتی آپ کو میری محبت۔ جائیے یہاں سے ” آنکھوں سے قیمتی موتی بےمول ہونے لگے تھے پر سامنے والا یوں تھا جیسے اُس پر کوئی اثر ہی نہ ہورہا ہو۔
ذوہان نے اس کی گہرے پانیوں سے بھری شہد رنگ آنکھوں میں جھانکا تھا اس پل جانے کیوں ان آنکھوں میں یہ آنسو بُرے لگے تھے۔
”میں جانتی ہوں آپ کو کونسی چیز یہاں کھینچ لائی ہے آپ کو ڈر ہے کہ کہیں میں گھر والوں کے سامنے اپنی محبت کا اظہار نہ کر دوں۔ تو بے فکر رہیے ذی ! میں کسی سے بھی اس بات کا ذکر نہیں کروں گی ” وہ سانس لینے کے لیے لحظہ بھر رُکی۔
”آپ بے فکر ہوکر اپنی شادی کی تیاریاں کریے میں آپ کی راہ میں حائل نہیں ہونگی ” مجھے ہر چیز سے بڑھ کر آپ کی خوشیاں عزیز ہیں۔ اس کے لہجے میں واضح بے بسی تھی جو سامنے والا جیسے محسوس ہی نہیں کرنا چاہتا تھا۔
”واہ بہت خوب منسا شہریار” کیا کہنے آپ کے ۔ وہ استہزایہ انداز میں بولا۔
"میں تو تمہیں ایویں ناسمجھ اور معصوم سمجھتا رہا۔ تم تو پکی کھلاڑی نکلی۔ سب کر کے کہہ رہی ہو میں کچھ نہیں کروں گی"۔ تمہیں تو داد دینے کا دل چاہ رہا ہے۔ وہ باقاعدہ تالی بجا کر بولا۔
"میں سمجھی نہیں ” وہ رونا بھول کر ناسمجھی سے اُس کی طرف دیکھ کر بولی۔
”واہ کیا ہی کہنے آپ کے اگر میری جگہ کوئی اور ہوتا تو تمہاری اس معصوم شکل پر یقین کرلیتا“ پر میں تم سے اور تمہاری چالاکی سے اچھے سے واقف ہوں۔
”آپ یہ پہیلیاں کیوں بھجوا رہے ہیں“ سیدھی طرح سے بتاتے کیوں نہیں کہ میں نے کیا کیا ہے۔ وہ جھنجھلاتی ہوئی بولی۔
ہہننہ! تم نے ماما کو ان سب سے آگاہ کیا ہے۔ تبھی تو وہ مجھے انسسٹ کر رہی تھی کہ میں تم سے رشتے کی ہامی بھر دوں۔
میں نے ۔۔۔۔۔ انہیں کچھ نہیں بتایا۔ وہ بمشکل بولی تھی۔
”اوہ ریئلی ! تم نے کچھ نہیں بتایا تو انہیں الہام ہوا ہے تم نے مجھے بے وقوف سمجھا ہے جو تمہارے اس جھانسے میں آجاؤں گا تو یہ تمہاری بھول ہے “
”میں نے انہیں واقعی ہی کچھ نہیں بتایا “ آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ وہ ہونٹ کاٹتی نا چاہتے ہوۓ بھی اسے اپنی صفائی دے رہی تھی۔
”خاموش ! وہ اس کی بات درمیان میں ہی کاٹ چکا تھا۔ میں کچھ نہیں سُننا چاہتا بس تم کچھ بھی کرکے ماما کو انکار کرو گی اور میں نہیں جانتا تم انہیں کیسے انکار کروگی یہ تمہارا سر درد ہے۔ ” سمجھی تم۔۔۔
وہ اپنی بات پوری کرتا جانے کے لیے مُڑا جب آمنہ بیگم کو بیچ راستے میں ایستادہ پایا وہ ٹھٹھک کر رُکا۔ اُن کے چہرے سے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ انہوں نے کیا سُنا تھا کیونکہ وہ سپاٹ انداز میں کھڑی تھی نہ ان کے چہرے پر کوئی غصہ تھا نہ ناراضگی ۔ وہ سر جھٹکتا ان کے قریب سے ہوتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔
منسا نے بےبسی سے اُسے وہاں سے جاتے دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دن قبل
آمنہ بیگم اس کے سرہانے بیٹھی اس کے بالوں میں انگلیاں چلارہی تھی۔ انہوں نے محبت سے اس کا من موہنا چہرہ دیکھا تھا پچھلے کچھ دنوں سے وہ بجھی بجھی سی رہتی تھی۔ منسا سارہ بیگم سے زیادہ ان کے نزدیک تھی وہ ہمیشہ سے اپنی ہر بات ان سے شیئر کرتی آئی تھی۔
وہ اپنے سوچوں میں مگن تھی جب منسا کی آواز نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا۔
”ذی آپ یہ نہیں کرسکتے میرے ساتھ ” آمنہ بیگم نے چونک کر اس کی طرف دیکھا جو نیند میں بڑبڑا رہی تھی۔ اس کی بچپن سے عادت تھی اکثر وہ نیند میں بڑبڑاتی تھی۔ کچھ شاید دوائی کا اثر تھا ۔ اس کی باتوں سے بالکل اخذ نہ کرسکیں کہ وہ کس بارے میں بات کر رہی تھی انہیں کچھ سمجھ نہ لگی۔
”آپ ہادیہ سے شادی نہیں کرسکتے” اس کی نیند میں کی گئ بڑبڑاہٹ انہیں بہت کچھ سمجھا گئ۔ انہیں افسوس ہوا کہ وہ کیوں نہ سمجھ سکی کہ وہ اتنے دنوں سے کیا ٹینشن لے رہی تھی۔ اس کی حالت انہیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر گئ۔ وہ کسی فیصلے پر پہنچ چکیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ شدید طیش کے عالم میں اُس کے کمرے سے نکلا تھا اُسے سوچ سوچ کر غصہ آرہا تھا کہ وہ سب کچھ بتانے کے باوجود اس بات کو جھٹلا رہی تھی۔ اسے زیادہ غصہ اس بات پر آیا کہ وہ جھوٹ بول رہی تھی۔ اور جھوٹ سے اسے سخت نفرت تھی۔
اس کے دماغ میں بیک وقت مختلف باتیں گردش کر رہی تھی۔ اس کی سوچ دو دن پہلے ہونے واقعے کی طرف بھٹکی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دن قبل
”ذوہان تم فری ہو مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے” آمنہ بیگم اس کے نزدیک آتی سنجیدگی سے بولیں۔
”جی ماما میں فری ہوں آپ بتائیے کیا بات کرنی ہے ” وہ ان کے چہرے پر سنجیدگی دیکھتا پوری طرح ان کی طرف متوجہ ہوچکا تھا۔
”مجھے یقین ہے کہ تم تحمل سے میری بات سنو گے اور مجھے مایوس نہیں کرو گے” وہ تمہید باندھتی ہوئی بولیں۔
”آپ بتائیے آپ کیا چاہتی ہیں پہلے کبھی آپ کو مایوس کیا ہے ” وہ ان کے ہاتھ تھامتا محبت سے بولا۔
”میں چاہتی ہوں تمہاری شادی منسا سے ہو” وہ کچھ توقف کے لیے رُکی۔
ذوہان نے بےیقینی سے ان کی طرف دیکھا۔ ”ماما ایسا خیال آپ کے دل میں کیوں آیا ؟ حالانکہ آپ ہادیہ کے ساتھ رشتے کی بات کر چکی ہیں اور میں رضا مندی بھی دے چکا ہوں" وہ اپنی کیفیت پر قابو پاتا ہوا بولا۔
اسے منسا پر بے تحاشا غصہ آیا جو اس کے منع کرنے کے بعد بھی آمنہ بیگم سے بات کرچکی تھی۔ اس کا دل منسا سے بدگمان ہوا۔
”بس تم یہ جان لو میں یہ چاہتی ہوں تمہیں سوچنے کے لیے کچھ وقت دے رہی ہوں اگر تمہیں میری خوشی عزیز ہوگی تو تم انکار نہیں کرو گے تمہاری رضا مندی دیکھتے ہوۓ ہی میں باقی گھر والوں سے بات کروں گی ” وہ اٹل لہجے میں بولتی اس کے قریب سے اُٹھ کر جاچکی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کل سے مسلسل آئرہ کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا جتنا وہ اس کی سوچ سے پیچھا چھوڑوانا چاہ رہا تھا اتنا ہی وہ اس کے ذہن پر سوار ہوچکی تھی۔ کل سے اسے یہ بات بھی کنفیوژ کر رہی تھی وہ اس کے گھر میں کیوں تھی۔ جب سے اسے یہ معلوم ہوا تھا کہ وہ اس کے ڈیڈ کے ڈرائیور کی بیٹی ہے۔ اسے خود پر اور غصہ آرہا تھا کہ کیوں وہ اس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
گارڈن میں کھڑا اب بھی وہ اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا جب وہ اسے کل والی مخصوص جگہ( انیکسی کی بیک سائیڈ) پر جاتی ہوئی دیکھائی دی۔ اس کے قدم بےساختہ اُس کے پیچھے بڑھے۔ وہ آج بھی کل کی طرح اپنی مخصوص جگہ پر کھڑی کسی غیر مرئی نقطے کو گھورنے میں مصروف تھی۔ جب وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کے قریب پہنچا۔
”جادوگرنی ! " وہ اسے دیکھ کر بڑبڑایا۔
مصفرہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ کیا ۔۔۔۔ مطلب ہے۔۔۔ اس بب ۔۔۔۔ بات کا؟
"وہی جو تمہیں لگا وہی مطلب ہے۔ جب سے تم سے ملا ہوں تم میرے ذہن پر ایسے سوار ہو کے نکلنے کا نام نہیں لے رہی۔ ضرور تم نے ہی کچھ کیا ہے ورنہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ میں تم جیسی لڑکی کی طرف راغب ہوں”
"آپ۔۔۔۔ اپنی ۔۔۔ لِمٹ ۔۔۔۔ کراس کر رہے ۔۔۔ہیں" وہ اس کی طرف دیکھتی سنجیدگی سے بولتی وہاں سے جانے کے لیے مُڑی۔ اسے یہی لگا تھا کہ وہ ضرور سب کی طرح اس کا مزاق اُڑانے کا کوئی نیا طریقہ سوچ رہا ہے۔ اس کی آنکھوں میں سامنے والے کے لیے سرد مہری در آئی۔ اتنا تو وہ جان گئ تھی کہ جن کے گھر میں وہ رہتی ہے ان سے بدتمیزی کرکے نمک حرامی نہیں کرسکتی۔ اس لیے وہ خاموشی سے وہاں سے نکل جانا چاہتی تھی۔
اس کا سنجیدہ چہرے دیکھ کر ہارب کی زبان پر قفل لگا جو اسکی باتوں کی وجہ سے مزید سنجیدہ ہوگیا تھا۔
”کہا جارہی ہو ابھی میری بات مکمل نہیں ہوئی ” وہ اسے جاتا دیکھ کر سنجیدگی سے ٹوک گیا۔
وہ اس کی طرف مُڑ کر سنجیدگی سے اس سے مخاطب ہوئی۔ ” اگر آپ بھی باقی سب کی طرح میرا مذااق اُڑانا چاہتے ہیں تو آپ سے گزارش ہے کہ مجھ میں اب اور ہمت نہیں ہے سب کے حقارت بھرے لہجے سہنے کا۔ ہاں میں جانتی ہوں میری ذات میں کمی ہے پر ہر ایک کا مجھے اس بات کا احساس دلانا ضروری ہے۔ میں بھی انسان ہوں مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے ۔ میں تھک چکی ہوں لوگوں کے ان لہجوں کو برداشت کرتے کرتے” اتنے دنوں کا لاوا آج ہارب کے ذرا سے چھیڑنے پر پھٹ گیا تھا۔
”تم سب مجھے میرے حال پر کیوں چھوڑ نہیں دیتے” وہ ہر ممکن کوشش کر رہی تھی کہ وہ اس کے سامنے نہ روۓ آنسوؤں کو ضبط کرنے کے چکروں میں اس کا چہرہ سُرخ ہوچکا تھا۔ کوشش کے باوجود اس کی آنکھوں میں چمکتی نمی کو وہ دیکھ چکا تھا۔ وہ مزید اپنی ذات کا تماشہ نہیں لگانا چاہتی تھی اس لیے وہاں سے نکلتی چلی گئ۔
ہارب اپنی جگہ ساکت ہوا تھا۔ وہ تو کب کی وہاں سے نکل کر جاچکی تھی پر اسے ہوش ہی کہاں تھا وہ تو اس کے لفظوں میں چُھپی تکلیف محسوس کر کے تھم سا گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں موجود چمکتی نمی دیکھ اس کا دل زور سے دھڑکا تھا۔ اس پل اس کا وہ غرور ، ہر چیز میں سٹینڈرڈ ڈھونڈنا جیسے پاش پاش ہوا تھا۔ اس پل اپنے دل کی حقیقت اشکار ہوئی تھی۔ قدرت نے اس کے منہ پر ایسا تھپڑ مارا تھا کہ وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہ سکا۔ اسے اس پل ماہ نور یاد آئی تھی جسے اس نے یہ کہہ کر اگنور کیا تھا بلکہ اس کی انسلٹ کی تھی کہ تم میری حیثیت سے میل نہیں کھاتی۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ اردگرد موجود ہر چیز اس پر ہنس رہی ہے اس کا مزاق اڑا رہی ہے۔
اس نے اپنے حواس قابو کرنے کے لیے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ پھر ایک نظر اِدھر اُدھر گُھماتا گاڑی نکالتا گھر سے نکلتا چلا گیا۔
کتنا بےخوف ہو بےدرد نہ کیوں ہو آخر
آئینہ دیکھ کر اعمال سے ڈر جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بالکنی سے جانے کے لیے مُڑا ہی تھا جب اس کی نظر گارڈن میں آتی آئرہ پر پڑی جو فون پر کسی سے بات کررہی تھی۔ وہ اسے دیکھ کر وہی رُک گیا۔ اس نے غور سے اُس کا معائنہ کیا جو بلیو کلر کے سٹائلش سے ڈریس میں کافی جاذبِ نظر لگ رہی تھی۔
وہ فون بند کرکے اب سامنے لگے پھولوں کی طرف متوجہ ہوچکی تھی۔ اس نے ذرا سا جھک کر پھول کی خوشبو کو محسوس کیا۔ وہ بےساختہ ہلکا سا مسکرائی تھی۔ اس کی اس ادا پر ارسم کے ہونٹوں کو بھی مسکراہٹ نے چھوا تھا۔ اسے خود بھی اندازہ نہ تھا کہ وہ مسکرا رہا تھا۔
آئرہ نے کسی کی نظروں کی تپش خود پر محسوس کی اس نے ذرا سی نظریں اُٹھا کر اوپر دیکھا تھا اُس کی ہنسی کو فوراً بریک لگی۔ وہ بغیر ایک بھی لمحہ ضائع کیے وہاں سے جاچکی تھی۔
ارسم نے اس کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کیا تھا۔ اس کے جاتے ہی اُسے سارا نظارہ پھیکا پھیکا سا لگنے لگا تھا وہ بھی سر جھٹکتا بالکنی سے ہٹتا اندر روم کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آمنہ بیگم اس کے جاتے ہی کمرے میں آئی۔ جیسے وہ اس کے قریب بیٹھی وہ ان سے لپٹ کر آنسو بہانے لگی۔ آمنہ بیگم اس اچانک ہونے والی افتاد پر گھبرائی تھیں۔
”منسا میری جان کیا ہوا ؟ ” وہ اس کی کمر تھپتھپاتی ہوئیں بولیں۔ مگر دوسری طرف سے جواب ندار۔ وہ حقیقی معنی میں گھبرائی۔ ”منسا میری جان ۔۔۔۔ جب تک تم مجھے بتاؤ گی نہیں مجھے کیسے پتہ چلے گا "
”بڑی ماما ! آپ کو سب کیسے پتہ چلا ؟ میں نے تو آپ کو کچھ نہیں بتایا ” وہ آنسو صاف کرتی جھجھکتی ہوئی اپنی بات ان سے کہہ گئ۔
”میں اپنی بیٹی کے دل کی بات نہیں سمجھوں گی تو کون سمجھے گا ” وہ محبت سے اس کے بال سنوارتی ہوئیں بولیں۔
”بڑی ماما ! انہیں لگتا ہے میں نے آب کو سب بتایا ہے۔ وہ مجھ سے بدگمان ہوگۓ ہیں۔ بڑی ماما ! کیا میں اچھی نہیں ہوں ؟ کیا ہادیہ آپی مجھ سے زیادہ پیاری ہیں؟ وہ کیوں میرے ساتھ ایسا کر رہے ہیں ؟ ” وہ سسکتی ہوئی بولی۔
"کیسی باتیں کر رہی ہو منسا ؟ تم خود کا موازنہ کیوں کررہی ہو دوسروں سے ۔ میری بیٹی سب سے پیاری ہے تمہیں کوئی ضرورت نہیں دوسروں کے لیے خود کو ہلکان کرنے کی سمجھی تم ” وہ ذرا رُعب بھرے انداز میں اسے ڈپٹتی ہوئیں بولیں۔
”اگر تم ذوہان کی بات کر رہی ہو تو وہ بالکل پاگل ہے اُس نے پہلے تمہیں کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا تو ایسا برتاؤ کر رہا ہے۔ تم دیکھنا جلد ہی وہ تمہارے ساتھ بہتر ہوجائے گا ” وہ اسے تسلی دیتی ہوئیں بولیں۔
” بڑی ماما ! آپ میری بات مانیں گی ” وہ ان کا ہاتھ پکڑتی التجائیہ انداز میں بولی۔
” ہاں میری جان بولو نا ۔ بھلا کیوں نہیں مانوں گی اپنی بیٹی کی بات ” ان کے لہجے میں اس کے لیے محبت ہی محبت تھی۔
”اب آپ ذی سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کریں گی وہ جیسا چاہتے ہیں ویسا ہی ہوگا ” ” پلیز بری ماما۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ آپ کے دباؤ میں آکر لے۔ انہیں یہ نہ لگے کہ آپ نے میری وجہ سے انہیں مجبور کیا ہے ”
آمنہ بیگم اسے کچھ کہنا چاہتی تھی پر اُس کا اٹل انداز دیکھ کر خاموش ہوگئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج یونی میں نۓ آنے والے سٹوڈنٹز کی فیئر ویل تھی جس کے سلسلے میں مصفرہ اور آئرہ دونوں نے جانے کا پلان بنایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ وقت کے لیے دماغ فریش ہوجائے گا۔ دونوں نے ہی ایک جیسی ڈریسنگ کرنے کا سوچا تھا۔
وہ اس وقت سی گرین کلر کے سٹائلش سے شارٹ فراک میں ملبوس انتہائی حسین لگ رہی تھی۔ موقعے کے مناسبت سے کیا گیا لائٹ میک اپ اس کی گوری رنگت پر خوب جچ رہا تھا۔ ہیزل براؤن آنکھوں میں لگایا گیا کاجل اسے اور حسین بنا رہا تھا۔
اس نے ایک تنقیدی نظر اتنی تیاری پر ڈال کر پُرسکون سانس خارج کی۔ بیڈ سے اپنا موبائل اُٹھا کر مصفرہ کا نمبر ملایا۔ ” السلام علیکم ! مصفرہ ریڈی ہوگئ ”
دوسری طرف کی بات سُن کر گویا ہوئی۔ ” اوکے میں بس نکل رہی ہوں گھر سے تمہاری طرف ہی آرہی ہوں تم ریڈی رہنا تمہیں پِک کر لوں گی ایک ساتھ ہی جاۓ گے۔ ” خدا حافظ کہہ کر وہ فون رکھ چکی تھی۔
(آئرہ اور مصفرہ ایک ہی کالونی میں رہتی تھی اس وجہ سے انہیں کپھی کوئی مشکل پیش نہ آئی تھی۔ جب آئرہ کو پتہ لگا تھا کہ وہ شہریار انکل (ہارب کے والد ) کے گھر ان کی انیکسی میں رہتی ہے تو اسے بے تحاشہ خوشی ہوتی تھی ان کا جب دل کرتا وہ ایک دوسرے کی طرف آجاتی تھی۔ )
ایک آخری نظر آئینے پر ڈال کر وہ باہر بڑھ گئ۔ وہ سیڑھیاں اُترتی ہوئی کچن میں داخل ہوئی تاکہ اپنی مما کو اذنے جانے کے بارے میں آگاہ کر سکے۔
مما ! وہ ہوا کے جھونکے کی طرح مما کی پکار کرتی اندر داخل ہوئی جب اپنے دھیان میں کچن سے باہر آتے ارسم سے ٹکرائی۔ اس کا توازن بگڑا اس نے گرنے سے بچنے کے لیے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ارسم نے بھی بروقت اسے کمر تھام لیا۔
ارسم کا ایک ہاتھ اس کے گرد لپٹا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ سے اس کا بازو تھام رکھا تھا۔ اس وقت جیسے وہ پوری کی پوری اس کے حصار میں قید تھی۔ وہ اس کے ایک ایک نقوش کو نہار رہا تھا۔ ارسم نے کاجل سے لبریر اس کی ہیزل براؤن آنکھوں میں جھانکا تھا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب محبت اپنا آپ منواتی اس کے دل میں پورے طمطراق سے براجمان ہوئی۔ وہ دل کی اس بے ایمانی پر احتجاج بھی نہ کرسکا۔
تیری مُسکراتی یہ تابندہ آنکھیں
ہیں گہوارہ دو شیزہ صُبحِ نوکا
کہ آ کاش کے دو ستاروں کا سنگم
بھٹکتے ہوۓ جیسے دو نیلے شبنم
مجھے اُڑنے دے ان کی نیلی فضاء میں
یہاں تک کہ طے کر کے یہ ساری دنیا
میں ہوجاؤں گُم ان کی گہرائیوں میں
رو پہلی سنہری سی پرچھائیوں میں
تیری مسکراتی یہ تابندہ آنکھیں
وہ جو اس کی آنکھوں میں گُم اردگرد کا ہوش بُھولاۓ بیٹھا تھا۔ اس کے ہاتھ جھٹکنے پر ہوش میں آیا تھا۔ اُسے آئرہ کی آنکھوں میں خود کے لیے صرف سرد مہری، اجنبیت اور بیزارگی دِکھی۔ وہ اس کی آنکھوں میں موجود شکوے دیکھ کر تھم سا گیا تھا۔ وہ اسے پتھر کا کرکے جاچکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ وہاں سے نکلتی بنا اپنی ماما کو آگاہ کرتی یونی جانے کے لیے نکل گئ تھی۔ پہلے اس نے مصفرہ کو پِک کیا۔ مصفرہ کب سے اس کی خاموشی نوٹ کر رہی تھی۔ پر ابھی کچھ بھی پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ یونی تک کا سفر خاموشی سے کٹا۔ ڈرائیور انہیں ڈراپ کرکے جا چکا تھا۔
” آئرہ! کیا ہوا یار ؟ میں کب سے تمہیں ہی نوٹ کر رہی ہوں تم خاموش خاموش سی ہو۔ کیا وجہ ہے ؟ مجھے نہیں بتاؤ گی۔ ” مصفرہ اس کی چُپی کو نوٹ کرتی آخر کار اسے مخاطب کر بیٹھی۔ اس وقت وہ دونوں ایک سُنسان گوشے میں بیٹھی تھی۔
اس کی پکار پر جیسے وہ گہری نیند سے جاگی تھی۔ ” ہاں ! کیا کہا تم نے ” وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
” میں پوچھ رہی ہوں تم اتنی خاموش کیوں ہو ؟ کیا وجہ ہے ؟ ” وہ اس کا ہاتھ تھام گئ۔
” پتہ نہیں مصفرہ کیا لکھا ہے میری زندگی میں ؟ کل بڑے پاپا نے مجھے بلایا تھا۔ وہ میری رائے جاننا چاہتے تھے کہ میں کیا چاہتی ہوں اس رشتے کو نبھانا چاہتی ہوں یا نہیں ”
” پھر تم نے کیا کہا ؟ ” مصفرہ بےچینی سے بولی۔
” میں اس سے علیحدگی کے لیے اپنی رضامندی ظاہر کر چکی ہوں ” وہ لحظہ بھر کے لیے خاموش ہوئی۔
” پر کیوں آئرہ ؟ تم ایک دفعہ دل سے سوچوں تو سہی اس رشتے کو آگے بڑھانے کے لیے۔ کیا پتہ ارسم بھائی بھی یہی چاہتے ہو ” وہ اسے سمجھانے والے انداز میں بولی۔
” بالکل بھی نہیں میں جانتی ہوں اُسے وہ کتنا ہٹ دھرم ہے تم شاید بھول گئ ہو اس کی واپس آنے کی شرط ہی یہی تھی تو تم کیسے سوچ سکتی ہو کہ وہ اس رشتے کو آگے بڑھانا چاہتا ہوگا۔ بالفرض آگر وہ کبھی یہ چاہے گا بھی تو میری طرف سے انکار ہے ۔ میں کبھی نہیں بھول سکتی اُس کا پورے خاندان کے سامنے میری تذلیل کرنا۔ ہرگز نہیں۔ تم سوچ بھی نہیں سکتی میں اُس سے کتنی نفرت کرتی ہوں۔ وہ انسان عزت کے قابل ہے ہی نہیں۔ اُسے صرف خود کی ذات عزیز ہے۔ میں ایسے انسان کے ساتھ کوئی بھی رشتہ نہیں رکھنا چاہتی یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔ ” وہ اٹل انداز میں بولی۔
مصفرہ اس کا اٹل انداز دیکھ کر خاموش ہوگئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” کیا بات ہے آج بڑا خاموش ہے تو ۔ وہ ہارب کے چہرے پر نگاہیں جماتا ہوا بولا۔
” میری چھوڑ اپنی بتا تو بڑا خوش لگ رہا ہے۔ ” ہارب اس کے مسکراتے چہرے کی طرف دیکھ کر بولا۔
” ہاۓ ! کیا بتاؤ آج کا دن بڑا اچھا رہا میرے لیے۔ تو سہی کہتا ہے وہ اتنی بھی بُری نہیں ہے۔ انفیکٹ کافی اچھی ہے ” وہ آنکھوں کے پردے پر اس کا من موہنا چہرہ لاتا ہوا بولا۔
” کل تک تو تجھے وہ زہر لگتی تھی اب اچانک سے ایسا کیا ہوگیا کہ تجھے وہ اچھی لگنے لگی۔ ” وہ آئیبرو اچکاتے ہوۓ بولا۔
” کیا تجھے خوشی نہیں ہورہی کہ میں اُس کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ اس رشتے کو ایک موقع دینا چاہتا ہوں۔ ”
” مجھے کیوں خوشی نہیں ہوگی میرے لیے وہ بالکل منسا کی طرح ہے مت بھول وہ میری بھی کزن ہے بےشک سکینڈ کزن ہی ہے۔ لیکن میں نے ہمیشہ اُسے اپنی چھوٹی بہن ہی سمجھا ہے یہ الگ بات ہے کہ تیرے غلط فیصلوں میں نے ہمیشہ ہی تیرا ساتھ دیا ہے۔ کیونکہ تیرے ساتھ دل کا رشتہ ہے۔ ” وہ کوفی کا ایک سِپ لیتے ہوۓ بولا۔
” ہاں اتنا تو میرا ساتھ دینے والا۔۔۔۔۔ تو بھول گیا اسی وجہ سے تو پورے ہفتے مجھ سے ناراض رہا تھا مجھ سے بات تک نہیں کی تھی پاگل انسان ” ارسم نے اسے ایک گھوری سے نوازا۔
” چل چھوڑ تو یہ بتا تو اب کیا چاہتا ہے ” اس بار ہارب سنجیدگی سے اسے مین مسئلے کی طرف لاتا ہوا بولا۔
” پتہ نہیں پر میرا دل اُس کی طرف راغب ہونے لگا ہے۔ دل اُس کے ساتھ کی خواہش کرنے لگا ہے۔ جب وہ آس پاس ہوتی ہے سب اچھا لگتا ہے اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہوتی میری نظریں اُس کو ہی تلاش کرتی ہیں۔ میں اس رشتے کو ایک موقع دینا چاہتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے وہ مجھے اچھی لگنے لگی ہے۔ ” وہ کھوۓ کھوۓ انداز میں بولا۔
” مجھے تو لگ رہا ہے بات اچھی لگنے سے بہت آگے بڑھ چکی ہے ” ہارب شرارت سے گویا ہوا۔
” چل اوۓ بکواس بند کر ” ارسم اسے اچھی خاصی گوری سے نوازتا ہوا بولا۔
” ارسم ! تونے آئرہ سے پوچھا وہ کیا چاہتی ہے۔ کیونکہ جو تو کر چکا ہے میرا نہیں خیال وہ اتنی آسانی کے راضی ہوگی۔ اگر وہ تیرے ساتھ نہ رہنا چاہے پھر تو کیا کرے گا۔ ” ہارب نے اس کی توجہ دوسری جانب بھی مبذول کروائی۔
” میں جو چاہتا ہوں وہی ہوگا۔ میں ہر گز اسے خود سے دور جانے کی اجازت نہیں دوں گا۔ اسے ہر حال میں مجھے برداشت کرنا ہوگا۔ میں فیصلہ کر چکا ہوں۔ اور میں بہت جلد ڈیڈ سے اس بارے میں بات کرنے والا ہوں۔ ” اس کے لہجے میں آئرہ کے لیے محبت سے زیادہ پوزیسیونس تھی۔
ان سب میں ہارب تو بھول ہی گیا تھا کہ اُس نے ارسم کو خود کا مسئلہ ڈسکس کرنے کے لیے بلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذوہان اس وقت سٹڈی روم میں بیٹھا کچھ فائلز سٹڈی کر رہا تھا۔ جب سے وہ اسلام آباد سے آیا تھا اس کا اچھا خاصہ کام ڈسٹرب ہوچکا تھا۔
” اگر تمہارے پاس کچھ وقت ہے تو میں بات کر سکتی ہوں” آمنہ بیگم چہرے پر سنجیدگی طاری کیے اجازت لینے والے لہجے میں بولی۔
آمنہ بیگم کا لہجہ اسے ٹھٹھکنے پر مجبور کرگیا۔ ” کیسی بات کر رہی ہیں ماما؟ آپ کو مجھ سے بات کرنے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں۔ آپ حکم کریں ” ذوہان ان کے لہجے کو اگنور کرتا محبت سے بولا۔
” جان گئ ہوں کتنی ویلیو ہے میری بات کی تمہاری نظروں میں ۔ اگر میری بات کی اہمیت ہوتی تو تم منسا کو یوں دھمکانے نہ جاتے کہ وہ مجھے اس رشتے کے لیے انکار کرے۔ مجھے افسوس ہورہا ہے تم اس بچی کو اتنی باتیں سُنا کر آۓ ہو حالانکہ اُس نے مجھے کچھ نہیں بتایا اس سب کے بارے میں۔ خیر تم آزاد ہو اپنا فیصلہ لینے میں۔ اب میں تم پر اپنا کوئی بھی فیصلہ نہیں تھوپوں گی۔ تم جو کرنا چاہتے ہو کر لو۔ اگر یہاں سے جانا چاہتے ہو اسلام آباد واپس تو جا سکتے ہو میری طرف سے کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی۔ ” وہ اپنی بات کہتی اٹھتی ہوئی باہر کی طرف بڑھنے لگی جب ذوہان پُھرتی سے ان کا ہاتھ تھامتا انہیں روک چکا تھا۔
” ماما ! یوں تو مت کریں میرے ساتھ ۔ یوں ناراض مت ہو مجھے معاف کردیں۔ میں جانتا ہوں مجھے ایسے منسا سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی پر کیا کروں ماما آپ ہم دونوں کی عمروں کا تضاد بھی تو دیکھیں۔ میں نے کبھی اُسے اس نظریے سے نہیں دیکھا بس اس لیے غصہ میں یہ سب کر گیا۔ میں آپ کی ناراضگی نہیں برداشت کرسکتا آپ جیسا چاہے گی ویسا ہی ہوگا۔ ” وہ ان کا ہاتھ تھامتا التجائیہ انداز اپنا گیا۔
” نہیں ذوہان میں نہیں چاہتی تن جذبات میں آکر کوئی فیصلہ کرو ۔ اچھے سے سوچ لو پھر کسی نتیجے پر پہنچو۔ میں نہیں چاہتی تمہیں بعد میں کوئی پچھتاوا ہو۔ تمہیں لگے کے یہ سب تمہارے ساتھ زبردستی ہوا ہے۔ کیونکہ میں منسا کے ساتھ کوئی بھی ناانصافی برداشت نہیں کروں گی۔ ” ان کی باتوں سے اس کے چہرے پر سوچ کی لکیر اُبھری۔ وہ اسے خاموش دیکھ کر وہاں سے اُٹھ کر جا چکی تھی۔ وہ اسے سوچنے کا وقت دینا چاہتی تھی۔
وہ اس وقت اکیلا سٹڈی میں بیٹھا یہی سوچ رہا تھا۔ سوچ سوچ کر اس کا دماغ گھوم رہا تھا پر اُسے کچھ سمجھ نہیں لگ رہی تھی۔ اب دیکھنا یہ تھا ان کی زندگی میں آگے کیا لکھا تھا۔اسے فی الحال اپنی سارے پریشانیوں کی جڑ منسا لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ خوش باش سا گھر میں داخل ہوا۔ جب وہ اسے سامنے لاؤنج میں ہی نظر آگئ۔ وہ موبائل میں کچھ دیکھنے میں بیزی تھی۔وہ انہماک سی موبائل سکرین پر نظریں ٹکاۓ بیٹھی تھی۔ ارسم نے اس کے چہرے پر پھیلے تجسس کے رنگوں کو دیکھا۔ اسے دیکھ کر ارسم کی آنکھیں چمکیں۔ وہ خاموشی سے چلتا اس کے قریب آیا۔
اسکی آنکھوں میں شرارتی سی چمک اُبھری۔ وہ صوفے پر اس کے انتہائی نزدیک تقریباً اس سے چپک کر بیٹھ گیا۔ ایک ہاتھ صوفے کے پیچھے اس طرح سے گزارا کہ وہ مکمل اس کے حصار میں قید ہوچکی تھی۔ آئرہ نے اس اچانک ہونے والی افتاد پر چونک کر اسے دیکھا۔ وہ اس کی جسارت پر لمحہ بھر کے لیے حیران ہوئی۔ ابھی وہ اس سے سنبھل ہی نہ پائی تھی وہ مزید پھیلا۔ وہ شاید اسے مزید تنگ کرنے کے موڈ میں تھا۔
” ہے کیوٹی پائی ! کیا کر رہی تھی ؟ مجھے بھی دیکھاؤ۔ میں بھی دیکھو کہ اتنی توجہ سے تم دیکھ کیا رہی تھی۔ وہ اس کا گال کھینچتا ہوا بولا۔
منسا کو وہ چار سال پہلے کے ارسم کی یاد دلاگیا۔ وہ اکثر ہی اسے تنگ کرتا تھا۔ کبھی اس کے رخساروں کو کھینچ کر کبھی اس کے بالوں کو کھینچ کر۔ وہ ماضی کی بھول بھلیوں میں سفر کر رہی تھی جب اس کے کانوں میں ارسم کی آواز گونجی۔
” بڑی پیاری ہوگئ ہو رُو۔۔۔ خیر کیوٹ تو تم بچپن میں بہت تھی پر اب تو اور بھی پیاری ہوگئ ہو۔ وہ انگھوٹے سے اس کا گال سہلاتا ہوا بولا۔ آئرہ اس کی جسارتوں پر سُن ہوچکی تھی۔ وہ تو ایسا برتاؤ کررہا تھا جیسا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ جیسے ان کے درمیان یہ چار سال آۓ ہی نہ ہو۔ ابھی وہ مزید پیش قدمی کرتا وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر کھڑی ہوچکی تھی۔
” کیا سمجھتے ہیں اپنا آپ کو ؟ آپ کی ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی۔ اگر آپ کو کوئی دل بہلانے کا سامان چاہئے تو کہیں اور جاکر ڈھونڈیے خدایا مجھے بخش دیں. میں آپ کو پہلی اور آخری وارننگ دے رہی ہوں مجھ سے دور رہے ورنہ مجھ سے کسی بھی قسم کی توقع مت رکھیےگا۔ ” وہ چیختی ہوئی بولتی وہاں سے جاچکی تھی۔
ارسم کو اس کے لہجے پر کچھ خاص حیرانگی نہیں ہوئی تھی وہ جانتا تھا وہ اس سے شدید ناراض ہوگی۔ پر جس چیز نے اسے بےچین کیے تھا وہ تھی اس کی آنکھوں اور لہجے میں موجود اپنے لیے نفرت۔ یہ چیز اس کی برداشت سے باہر تھی.
اس کے جانے کے بعد وہ کچھ دیر وہی کھڑا رہا پھر خود کو تسلی دینے والے انداز میں بولا۔ ” ابھی وہ ناراض ہے اس لیے ایسا ریئکٹ کرکے گئ ہے میں منا لوں گا اُسے۔ ”
محبت آزماتی ہو تو بس اتنا ہی کافی ہے
ذرا سا روٹھ کر دیکھو منانے کون آتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ شان بے نیازی سے چلتا ہوا کچن میں داخل ہوا۔ اسے کوفی کی بڑی شدید طلب ہورہی تھی۔ موڈ بھی کچھ چڑچڑا سا ہو رہا تھا۔ مگر سامنے موجود دلکش نظارہ اس کی ساری بیزاریت کو خوشگواریت میں تبدیل کرگیا۔ وہ یک ٹک اسے کام میں منہمک دیکھ رہا تھا۔ جس جگہ وہ کھڑا تھا اسے آئرہ کی صرف ایک سائیڈ نظر آرہی تھی۔ وہ کچھ قدم چلتا ہوا اس کے نزدیک آیا۔ ایک قدم کے فاصلے پر آکر وہ ٹھہر گیا۔ کل والی اپنی عزت افزائی کا سوچ کر اس کے مسکراتے لب سُکڑے۔ پھر سر جھٹک کر ایک نئ امید کے ساتھ اس سے مخاطب ہوا۔
”کیوٹی پائی! ایک کپ کوفی بنا دو ”
وہ جو اپنے لیے چاۓ بنا کر فارغ ہوئی تھی اتنے قریب سے اس کی آواز سُن کر اچھلی۔ پھر ناگواری سے رُخ موڑ کر تڑخ کر بولی۔
” آپ کی نوکر نہیں ہوں سمجھے آپ ”
ارسم نے غور سے اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کی تھی اس ناک سکیڑنا ، اس کا رُخ موڑنا۔ جانے اسے کوئی بھی بات بُری کیوں نہ لگی تھی۔
”میں نے ایسا کب کہا کیوٹ لٹل گرل۔ ” وہ ایک قدم چلتا ہوا اس کے نزدیک ہوا۔ شیلف پر پڑا اس کا چاۓ کا کپ دیکھ اس کی آنکھیں شرارت سے چمکی۔
” کوئی بات نہیں میں اس چاۓ سے بھی کام چلا لوں گا ” وہ شیلف پر پڑا اس کا چاۓ کا کپ اچک چکا تھا۔
” یہ میری چاۓ ہے بدتمیز انسان واپس رکھو” وہ نادانستگی میں اس کے قریب آتی اس کے بازو پر ہاتھ رکھتی چیخ کر بولی۔
ارسم نے ایک نظر اپنے بازو پر موجود اس کے ہاتھ کو دیکھا۔ وہ اس کاہاتھ تھامتا ہونٹوں سے لگا چکا تھا۔
اس کی بے ساختہ حرکت پر وہ اپنی جگہ سے اچھلی۔ وہ تیزی سے اس سے دور ہٹی مگر غصے سے اسے دیکھنا نہ بھولی تھی۔ ”لگتا ہے کل والی وارننگ بھول گۓ ہو”
” ایکچولی جانم ! دراصل میری یاداشت بڑی کمزور ہے مجھے صبح کی بات شام تک یاد نہیں رہتی تم کل والی بات کر رہی ہو ۔ چاۓ اچھی ہے ویسے۔ ” وہ معصومیت سے اس کی طرف دیکھتا چاۓ کا ایک گھونٹ بھرتا ہوا بولا۔
وہ ایک ہاتھ اس کی طرف ہلاتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔ آئرہ نے اس کی پیٹھ کو ایسے گھورا جیسے سالم نگل جاۓ گی۔
”جانم ! ایسے نہ گھوروں بندہ بشر معصوم سا ہے تمہاری بڑی بڑی آنکھوں سے ڈر جاتا ہوں ” وہ مڑے بغیر بولتا اسے حیران کر گیا۔
آئرہ نے منہ کھول کر دسے دیکھا تھا۔ ” جن نہ ہو تو ” وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔ وہ کل سے اس کا بدلہ برتاؤ دیکھ رہی تھی اسے جانے کیوں اس کے رویے پر رتی برابر بھی خوشی نہ ہوئی تھی۔ اسے یہ بھی اس کا کوئی نیا پلان لگا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرایا تھا۔ دوبارہ چاۓ بنانے پر لعنت بھیجتی وہ خود بھی کچن سے باہر نکل گئ۔
وہ نفرتوں کے سوال کرکے
محبتوں کے جواب مانگے
کہ میرے حصے میں کانٹے لکھ کر
وہ مجھ سے تازہ گلاب مانگے
یہ چاہتوں کی کڑی مسافت
چلے ہیں تنہا شکست خوردہ
کوئی تو میرا بھی درد جانے
کوئی تو اس سے بھی حساب مانگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے جیسے کبیر کی نتاشا کے ساتھ نزدیکیاں دن بدن بڑھتی جارہی تھی ویسے ہی اس کا مصفرہ کو چھوڑنے کا فیصلہ شدت پکڑتا جا رہا تھا۔
” کبیر ! کہاں کھوۓ ہو ؟ میں کب سے تمہیں بلا رہی ہوں ” نتاشہ اس کا کندھا ہلاتے ہوۓ بولی۔
” کہی نہیں ادھر ہی ہوں تم بتاؤ کیا کہہ رہی تھی ” وہ اس کی آواز پر چونکتا ہوا اس کی طرف متوجہ ہوا۔
”تمہیں میں کیسی لگتی ہوں کبیر ” وہ اس کی طرف دیکھتی بے باکی سے بولی۔
” یہ کیسا سوال ہے ؟ ظاہری سی بات ہے اچھی لگتی ہو ” وہ غور سے اس کے ایک ایک نقوش کا معائنہ کرتا ہوا بولا۔ جدید ڈیزائن کے ڈریس میں چہرے پر کیے گۓ ڈارک میک اپ سے وہ کافی جاذب نظر لگ رہی تھی۔
” پر کیا فائدہ ۔۔۔۔ تم تو شادی شدہ ہو۔ کاش تم مجھے پہلے مل جاتے۔ ” وہ ٹھنڈی آہ بھرتی ہوئی بولی۔
کبیر اس کی بات پر چونک سا گیا تھا۔ وہ سمجھ تو گیا تھا وہ اسے اشاروں اشاروں میں کیا سمجھانا چاہ رہی ہے۔ اس کا دماغ بیک وقت مختلف تانے بانے بُن رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” تم روز یہاں آکر ہی کیوں کھڑی ہوتی ہو ” وہ اسے اپنی مخصوص جگہ پر کھڑا دیکھ کر بولا تھا۔
مصفرہ چونکتی ہوئی اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
” میں یہاں تنہائی میں اس لیے آتی ہوں تاکہ کچھ پل خود کو محسوس کر سکوں۔ کچھ لمحے سکون کے گزار سکوں اس خودغرض دنیا میں بسنے والے باشندوں سے دُور۔ آپ کے آنے سے پہلے تک تو یہاں صرف میں ہوتی تھی یا میری تنہائی پر اب لگتا ہے یہ جگہ بھی مجھ سے اُکتا گئ ہے اس لیے مجھے خود سے دُور کر رہی ہے ” وہ سرد سانس کھینچتی وہاں سے جانے کے لیے مُڑی۔
” تم ہمیشہ ہی ایسی باتیں کیوں کرتی ہو۔ میں نے جب بھی تمہیں دیکھا ہے اداس ہی دیکھا۔ وجہ جان سکتا ہوں۔ ” وہ پچھلے تین دن سے خود پر ضبط کے پہرے بٹھاۓ اس کو اگنور کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پر آج دل کے ہاتھوں وہ پھر اسی جگہ پر موجود تھا۔
” نہیں آپ وجہ نہیں جان سکتے کیونکہ آپ جاننے کا حق رکھتے ہی نہیں ” وہ یہ کہہ کر وہاں سے نکلتی چلی گئ۔ اس کے لیے سوچوں کے نۓ دوار کھول کر۔
ہارب نے اسے خود سے دور جاتے دیکھا۔ وہ یہ فاصلے سمیٹنا چاہ رہا تھا پر چاہ کر بھی وہ یہ نہ کر پارہا تھا۔
یہ جو زندگی کی کتاب ہے،
یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے
کہیں اک حسین خواب ہے
کہیں جان لیوا عذاب ہے
کبھی کھولیا، کبھی پالیا
کبھی رو لیا کبھی گالیا
کہیں رحمتوں کی ہیں بارشیں،
کہیں تشنگی بے حساب ہے
کہیں چھاؤں ہے کہیں دھوپ ہے ،
کہیں اور ہی کوئی روپ ہے
کہیں چھین لیتی ہے ہر خوشی ،
کہیں مہربان بے حساب ہے
یہ جو زندگی کی کتاب ہے،
یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذوہان کی رضامندی کے بعد آمنہ بیگم کا ارادہ باقی گھر والوں سے بات کرنے کا تھا۔ کل رات ہی ذوہان انہیں یہ خوشی کی نوید سُنا کر گیا تھا جس کے بعد سے ان کے پاؤں ہی زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔
سب کو ماسواۓ منسا کے ایک ہی جگہ لاؤنج میں جمع دیکھ کر انہوں نے ان سے بات کرنے کی ٹھانی۔ انہوں نے گلہ کھنکھار کے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
” مجھے آپ لوگوں اسے بہت ضروری بات کرنی ہے۔ ” وہ تمہید باندھتی ہوئی گویا ہوئیں۔
” جی بھابھی بولیے نا۔ ” شہریار صاحب احتراماً گویا ہوۓ۔
” میں بہت دنوں سے ایک بات سوچ رہی تھی۔ جیسے کے آپ سب جانتے ہیں کہ میں ذوہان کی شادی کروانا چاہتی ہوں ” وہ لمحے بھر کے لیے رُکی۔
ذوہان جو جانتا تھا کہ وہ وہی بات کرنے والی ہیں۔ اس نے بیزاریت کے سب کو دیکھا۔ رشتے کی بات پر ہارب نے ایک شرارتی مسکان اس کی طرف اچھالی۔ ذوہان نے گھور کر اسے دیکھا۔
”میں سوچ رہی تھی کہ جب گھر میں لڑکی موجود ہے تو ہم باہر کیوں ڈھونڈیں۔ منسا مجھے پہلے ہی اپنی بیٹیوں کی طرح عزیز ہے اب تو میں اُسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی بیٹی بنانا چاہتی ہوں ” وہ بات مکمل کرکے لیے ان کی طرف متوجہ ہوتی۔
” بھابھی مجھے تو آپ کی تجویز پسند آئی ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر میں منسا کی رضامندی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا۔ شہریار صاحب کو ان کی تجویز پسند آئی تھے پر وہ منسا سے بھی اس کی راۓ جاننا چاہتے تھے۔
آمنہ بیگم نے سمجھتے ہوۓ اثبات میں سر ہلایا۔
” شہریار ! کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ میری طرف سے اس رشتے پر اعتراض ہے آپ کیسے یہ سب سوچ سکتی ہیں بھابھی۔ مجھے اعتراض ہے کیونکہ منسا اور ذوہان کی عمروں میں کتنا فرق ہے جو آپ لوگوں کو نظر نہیں آرہا۔ میں ہرگز کسی کو اجازت نہیں دوں گی کہ وہ میری معصوم بیٹی کی زندگی برباد کرے۔ ” وہ بدتمیزانہ لہجے میں بولیں۔
آمنہ بیگم ان کا لہجہ اگنور کرتی تحمل سے گویا ہوئیں۔ ” سارہ کیسی باتیں کر رہی ہوں ہم کیوں چاہیں گے منسا کی زندگی برباد کرنا۔ اس کی رضامندی سے ہی ہورہا ہے یہ سب” ناچاہتے ہوۓ بھی وہ یہ انکشاف کر گئ۔
منسا ان سب کی آواز سنتی سیڑھیوں میں آکر کھڑی ہوئی۔ اس نے اپنی ماں کا لہجہ اور باتیں بخوبی سنی تھی۔ اسے تکلیف ہوئی کہ اس کی وجہ سے اس کی ماما اس کی بڑی ماما سے بدتمیزی کر رہی ہیں۔
” ایسا ہو ہی نہیں سکتا ضرور آپ نے ہی میری بیٹی کو ورغلایا ہوگا۔ ورنہ وہ تو ابھی بچی ہے اس کے ذہن میں ایسی باتیں ضرور آپ نے ہی بھری ہیں۔ بہرحال جو بھی ہو میری طرف سے انکار سمجھیں ” وہ سیڑھیوں پر کھڑی منسا کو اگنور کرتی ہوئیں بولیں۔
” بس ! چچی جان میں تب سے خاموش ہوں صرف اس لیے کیونکہ میں آپ کی عزت کرتا ہوں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ میری ماما کے ساتھ جو بھی رویہ اختیار کریں گی میں اسے چُپ چاپ اگنور کرلوں گا۔ اگر آپ کو اتنا ہی یقین ہے تو اپنی بیٹی سے پوچھیے یہ رشتہ اس کی منشا پر ہی ہورہا ہے خاموش کیوں کھڑی ہو بولو ” وہ منسا کو دیکھ دھاڑتا ہوا بولا۔
جو پہلے ہو کھڑی آنسو بہا رہی تھی اس کے لہجے کے ڈر سے آنسو میں روانی آگئ۔
” ذوہان تم دو منٹ چُپ کرو گے۔ ” آمنہ بیگم اسے روتا دیکھ تحمل سے بولیں۔
سارہ بیگم کو دوبارہ منہ کھولتا دیکھ شہریار صاحب دھاڑ کر بولے۔ ان کی دھاڑ نما آواز سارہ بیگم کو خاموش کرواگئ۔
” ابھی ہم بیٹھے ہیں سارے فیصلے لینے کے لیے آپ فی الحال خاموش رہیے ۔ مجھے ہر گز یہ امید نہیں تھی کہ آپ بھابھی سے یوں بدتمیزی بھی کر سکتی ہیں شاید آپ بھول گئ ہیں وہ ہماری بڑی ہیں ” انہوں نے اشارے سے منسا کو قریب بُلایا۔
وہ جھجھکتی ہوئی ان کے قریب آگئ۔ اسے اب بھی ذوہان کی نظریں خود پر محسوس ہورہی تھی وہ غصے سے اسے گھور رہا تھا۔
شہریار صاحب اسے بازو کے حلقے میں لے چکے تھے۔ ” کیا میری بیٹی اس رشتے پر راضی ہے ؟ ” وہ محبت سے اسے دیکھ کر بولے۔
ذوہان کی باتوں کو سوچ اس کا دل کیا انکار کردیں۔پر سامنے کھڑی اپنی بڑی ماما پر ایک نظر ڈال کر اس کا ارادہ ڈگمگایا۔ ان سب میں اُن کا قصور کہا تھا وہ تو اسی کی خاطر سب سے لڑ رہی تھی اس کی ماما کی باتیں سُن رہی تھی۔ ”
اس نے محض اثبات میں سر ہلایا بولنے کی ہمت نہیں تھی۔
” برخودار ! آج تو ہماری بیٹی سے اس لہجے میں بات کرلی آگے سے سوچنا بھی مت ”
اس کو سر ہلاتا دیکھ کر وہ خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھا جب شہریار صاحب کی بات پر وہ ایک منٹ رُکا پھر لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب کی باقاعدہ راۓ پر ذوہان اور منسا کی منگنی کا فنکشن دو ہفتوں بعد کا طے پایا تھا۔ دونوں گھروں میں افراتفری مچی ہوئی تھی۔
بس ایک وہ تھا جسے کسی چیز کی فکر نہیں تھی۔ اب بھی وہ بارہ بجے تک کان لپیٹ کر سویا رہا۔ تاشا اسے دو بار جگانے آچکی تھی۔ اب بارہ بجے کے قریب وہ اُٹھ کر فریش ہوا تھا۔ جب ایک بار پھر دروازے پر دستک ہوئی۔ تاشا اسے ابراہیم صاحب کا پیغام دے کر جا چکی تھی۔ وہ اسے اپنے کمرے میں بلا رہے تھے۔ اسے بے انتہا حیرانگی ہوئی تھی کیونکہ جب سے وہ آیا تھا انہوں نے اس سے سیدھے منہ بات تک نہیں کی تھی۔ وہ جلدی جلدی بال میں برش کرتا ان کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
دروازے پر دستک دیے بغیر وہ اندر داخل ہوا۔ وہ چیئر پر بیٹھے کسی گہری سوچ میں گُم تھا۔ اس کے آنے پر بھی وہ متوجہ نہ ہوۓ۔ اس نے گلہ کھنکھارتے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا۔
” ڈیڈ آپ نے بلایا تھا ” ارسم ان کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔
” ہہممم ! ” انہوں نے ہنکار بھرتے اسے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
وہ خاموشی سے سامنے بیٹھ کر ان کے بولنے کا انتظار کرتا رہا۔
وہ خاموشی سے اپنی جگہ سے اُٹھ کر الماری کی طرف بڑھ گۓ۔ وہاں سے ایک لفافہ نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔
ارسم نے حیرانگی سے ان کی طرف دیکھا۔ ” اس میں کیا ہے ؟ ” ان کی خاموشی کو دیکھ کر بلآخر وہ خود ہی پوچھ بیٹھا۔
” یہ تمہاری آزادی کا پروانہ ہے بقول تمہارے ” وہ سنجیدہ سے بولے۔
ان کے الفاظ سے اس کا ماتھا ٹھٹھکا۔ ” کیا مطلب ہے اس بات کا ” فی الحال وہ اس بارے میں سوچنا نہیں چاہتا تھا۔
” وہی جو تم چاہتے تھے یہ ڈائیورس پیپرز ہیں ان پر سائن کردو ” ان کا انداز سپاٹ تھا۔
اسے یوں لگا جیسے اس کا دماغ سُن ہوگیا ہو۔ ” ڈیڈ ! پر آپ نے مجھ سے پوچھا کیوں نہیں ؟ ” اسے اپنی آواز ہی بیگانی سی لگی تھی۔
” جب میں جانتا ہوں کہ تم یہی چاہتے ہو۔ خیر تم سائن کر دو تاکہ میں جلد سے جلد یہ وکیل صاحب کو دے دوں۔ آگے کی کاروائی میں بھی کچھ وقت درکار ہوگا۔ ” وہ خاموشی کو اس کی رضامندی تصور کرتے بولتے چلے گۓ۔
وہ غائب دماغی سے ان کی طرف دیکھتا رہا۔ اسے سمجھ نہ آیا کہاں سے بات کا آغاز کرے کیسے انہیں بتاۓ کو وہ اس رشتے کو دل سے نبھانا چاہتا ہے۔
” آپ نے آئرہ کی مرضی جانے بنا اتنا بڑا فیصلہ کر لیا۔ ” کہنا تو بہت کچھ چاہتا تھا مگر زبان سے محض یہ چند الفاظ ادا ہوۓ۔ جتنے زعم میں اس نے اس رشتے کو جھٹلایا تھا اب خود میں ہمت نہیں ہورہی تھی اپنے دل کی حقیقت ان پر آشکار کرنے کی۔
” تم بے فکر رہو آئرہ کی رضامندی سے ہی یہ سب ہورہا ہے۔ انفیکٹ وہ ان پر سائن بھی کرچکی ہے ” ان کے منہ سے نکلے یہ الفاظ اس کے حواس منجمد کرگۓ۔
وہ کیسے کرسکتی ہے یہ میرے ساتھ ۔ یا شاید وہ بھول رہا تھا کہ وہ خود بھی کبھی یہی چاہتا تھا۔ اس کے سائن کا سُن کر اس کا دماغ گھوما تھا۔ وہ ایک جھٹکے میں کھڑا ہوکر بڑے تحمل سے بولا تھا ورنہ اسے آئرہ پر بےتحاشہ غصہ آرہا تھا۔
” مگر میں یہ ڈائیورس نہیں چاہتا اور نہ ہی میں ان پر سائن کروں گا۔ کیونکہ میں اس نکاح کو ختم کرنے کے حق میں نہیں ہوں” وہ اپنی بات کہتا جانے کے لیے مُڑا جب ابراہیم صاحب کی تیز آواز اس کے پیروں میں قفل ڈال گئ۔
” کیا بکواس کر رہے ہو ؟ ضروری نہیں ہر بار تمہاری مرضی دیکھی جاۓ ہر بار وہ نہیں ہوگا جو تم چاہتے ہو۔ اس دفعہ میں آئرہ کے ساتھ ہوں وہ جو کہے گی وہی ہوگا۔ اس لیے تم خاموشی سے سائن کرو ” وہ غصہ میں اپنے سر پھرے بیٹے کو دیکھتے ہوۓ بولے۔
”ہرگز نہیں میں سائن نہیں کروں گا اور آپ کی بیٹی کی عقل میں خود ٹھکانے لگا لوں گا ۔ ” وہ ڈائیورس پیپر کو دو ٹکرے کرتا باسکٹ میں پھینکتا مزید ان کی کوئی بھی بات سُنتا غصے سے دروازہ دھکیلتا باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل رات سے جب سے وہ بڑے پاپا سے مل کر آئی تھی اسے ایک منٹ بھی نیند نہیں آئی تھی۔ ڈائیورس پیپرز پر وہ سائن تو کر آئی تھی پر تب سے ہی اسے گھبراہٹ سی ہورہی تھی۔ کبھی اُسے لگتا اس نے بالکل صحیح فیصلہ کیا ہے اب وہ بالکل آزاد ہوگی اس ان چاہے رشتے سے۔ کبھی ناجانے کیوں لگتا کہ وہ غلط فیصلہ کر چکی ہے۔
”نہیں میں نے بالکل ٹھیک فیصلہ کیا ہے آج نہیں تو کل یہ تو ہونا تھا۔ ” وہ خود سے مخاطب ہوئی۔
کل رات کا سارا واقعہ اس کی زہن میں گردش کر رہا تھا۔
وہ بڑے پاپا کے بلانے کے بعد اُن کے سامنے تھی۔ وہ خاموش بیٹھی ان کے بولنے کا انتظار کرتی رہی۔
”یہ ڈائیورس پیپرز ہے تم چاہو تو سوچنے کے لیے وقت لے سکتی ہو۔ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ” وہ مہربان مسکراہٹ اس کی جانب اچھالتے ہوۓ بولے۔
جانے اس کے دل میں کیا سمائی وہ ٹیبل پر جھکتی ایک جھٹکے میں ان پر سائن کرتی چلی گئ۔
”اب میں مزید نہیں سوچنا چاہتی۔ میں نہیں چاہتی کہ میں ایک فیصد بھی کمزور پڑوں۔”
ابراہیم صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔
وہ اپنی سوچ میں محو تھی جب کوئی تن فن کرتا کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے ناگواری سے آنے والے کو دیکھا۔
”تمہاری ہمت کیسے ہوئی ڈائیورس پیپرز پر سائن کرنے کی ۔” وہ اس کے سر پر پہنچ کر دھاڑا۔ غصے سے اس کے دماغ کی نسیں پھولی ہوئی تھی۔
اسے یوں اس کا غصہ ہونا سمجھ نہ آیا وہ بھی تو یہی چاہتا تھا۔ وہ سکون سے اس کا انداز ملاحظہ کرتی اس کے مقابل آتی ہوئی بولی۔
” جیسے آپ کی ہمت ہوئی تھی میری تذلیل کرنے کی۔ میں آپ کے سامنے ہر گز بھی جواب دہ نہیں ہو۔ جو مجھے ٹھیک لگا میں نے وہی کیا ہے” وہ دوبدو انداز میں گویا ہوئی۔
اس کی بات پر جیسے اس پر گڑھوں پانی پڑا۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی وہ۔ وہ کیوں اسے کسی بھی بات کا جواب دیتی یہ سب اس نے خود ہی خراب کیا تھا اسے ٹھیک بھی اسی کو کرنا تھا۔ وہ خود پر قاپو پاتا تحمل سے سے گویا ہوا۔
ایک قدم نزدیک آتا وہ اس کے کندھوں پر ہاتھ جماتا سمجھانے والے انداز میں گویا ہوا۔ ” دیکھو رُو ! میں جانتا ہوں میں نے تمہارے ساتھ غلط کیا ہے تمہیں ہرٹ کیا ہے اس کے لیے میں تم سے معافی مانگنے کے لیے بھی تیار ہوں۔ پر تم یقین مانو میں دل سے ہمارے اس رشتے کو نبھانا چاہتا ہوں تم مجھے ایک موقع تو دے کر دیکھو۔” وہ امید بھری نظریں اس پر جماتا ہوا بولا۔
” آپ نے مجھے سمجھ کیا رکھا کہ میں آپ کے ہاتھ کی کٹھ پتلی ہوں جب آپ کا دل کیا چھوڑ کر چلے گۓ اور جب دل کیا واپس آگۓ۔ بہت خوب ارسم صاحب۔۔۔۔۔ یہ ضرور آپ کا کوئی نیا ڈرامہ ہے پر اس بار میں آپ کے کسی بھی بہکاوے میں نہیں آنے والی۔ ” ناچاہتے ہوۓ بھی آخر میں اس کی آواز بھراگئ۔
”نہیں رُو ! یہ کوئی بھی ڈرامہ نہیں ہے یار ۔ تمہیں کیسے یقین دلاؤں۔ ” وہ اس کے چہرے کے گرد اپنی ہتھیلیاں زکھتا بے بسی سے بولا۔
آئرہ نے ناگواری سے اس کے عمل کو دیکھا۔ وہ اس کے ہاتھ جھٹکتی تڑپ کر پیچھے ہٹی۔
” کتنی بار آپ سے کہوں مجھ سے دور رہیں۔ آخری بار سمجھا رہی ہوں مجھ سے دور رہ کر بات کیا کریں۔ سمجھے آپ ” وہ انگلی اُٹھاتی وارننگ دینے والے لہجے میں بولی۔
” میں یہ کرنا چاہ رہا ہوں تم سے دور رہنا چاہتا ہوں پر نہیں کر پارہا یہ۔ بتاؤ کیا کروں۔ بس ایک بار یقین کرلو مجھ پر۔ ” وہ ڈھیٹائی سے اس کی ساری باتوں کو اگنور کرتا اس کے بےحد نزدیک آگیا۔
آئرہ نے ڈھیٹائی کی اس اعلٰی مثال کو غصے سے گھورا۔ پر اس کی آنکھوں میں پنپتے جذباتوں کو زیادہ دیر نہ دیکھ پائی۔ اس کی سانسوں کی تپش اپنے چہرے پر محسوس کرکے وہ گھبراہٹ سے بولی۔
” جائیے یہاں سے۔۔۔” اپنے لہجے کی کپکپاہٹ پر بمشکل قاپو پاتی لہجے کو مضبوط بناتی بولی۔
” مجھے پتہ ہے یہ سب بالکل اچانک ہوا ہے اس لیے تم کنفیوژ ہو اور شاید مجھ سے ناراض بھی۔ کوئی بات نہیں تم جتنا وقت لینا چاہتی ہو لو۔ ” اس کا انداز خود بخود محبت بھرا ہوگیا۔
” میں یہاں آیا تو اس لیے تھا تاکہ اس رشتے کو ختم کروا سکوں پر جب سے یہاں آیا ہوں جانے کونسی کشش ہے جو مجھے تمہاری طرف کھینچتی ہے۔ جب تم آس پاس ہوتی ہو سب اچھا اچھا لگتا ہے پر جب تم پاس نہیں ہوتی تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کچھ ادھورا ہے کہیں کوئی کمی ہے۔ میں نہیں جانتا یہ محبت ہے یا نہیں پر یقین مانو آج تک کسی لڑکی کے لیے یہ محسوس نہیں کیا جو تمہارے لیے ہوتا ہے۔ ” وہ یک ٹک اس کی ہیزل براؤن آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔
آئرہ اس کے اظہار محبت کو سُن کر اپنی جگہ فریز ہوگئ تھی۔ اسے اس شخص سے تو ہرگز بھی یہ اُمید نہ تھی۔
وہ اس کی خاموشی نوٹ کرتا مزید بولا۔ ” تمہیں پتہ ہے جب تم اداس ہوتی ہو تو تمہاری یہ آنکھیں بھی تمہارا ساتھ دیتی ہیں۔ اور جب تم خوش ہوتی ہو تو تمہاری آنکھوں میں جو چمک ہوتی ہے مجھے وہ بےحد پسند ہے۔ ” وہ اس کی آنکھوں کو ہلکے سے چھوتا ہوا بولا۔
ارسم نے اس کی بند آنکھوں پر ہولے سے ہونٹ ٹکاۓ تھے۔
آئرہ نے اس کے لمس پر گھبرا کر آنکھیں کھولیں۔ ارسم اس کے انداز پر ہلکے سے ہنسا۔
” یہ سب بہت اچانک ہوا ہے اس لیے تمہیں سوچنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ مجھے یقین ہے میں بہت جلد تمہارے دل میں جگہ بنا لوں گا۔ اور ایک بات اب اپنے ذہن سے یہ طلاق وغیرہ کی باتیں نکال دو۔ جتنا ٹائم لینا چاہتی ہو تم لے سکتی ہو پر مجھ سے دُور جانے کی بات مت کرنا۔ ” وہ شدت سے کہتا اس کا گال تھپتھپا کر باہر کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پچھلے دو دنوں سے اس کا انتظار کررہا تھا پر وہ اس دن کے بعد وہاں آئی ہی نہیں تھی۔ وہ جھنجھلاتا ہوا وہاں سے ہٹ گیا۔ وہ وہاں سے ہٹتا انیکسی کے قریب آیا جب وہ اسے اندر کی طرف جاتی ہوئی نظر آئی۔
” ہے مصفرہ ! سنو۔” وہ دور سے ہی اسے مخاطب کرتا ہوا بولا۔
مصفرہ نے چونک کر اسے دیکھا تھا وہ بھلا اسے کیوں بُلا رہا تھا۔
” تم آئی کیوں نہیں وہاں ۔ میں دو دنوں سے تمہارا انتظار کر رہا تھا۔ وہی تو وقت ہوتا ہے جب تم مجھے نظر آتی ہو۔ نہیں تو مجال ہے جو پورا دن تم کہیں نظر آجاؤ۔ وہ اس کے قریب آتا ہوا بولا۔
” ایکسکیوزمی ! آپ میرا انتظار کیوں کر رہے تھے ؟ میرے خیال سے ہمارے درمیان ایسا کوئی رشتہ نہیں جس کی بنا پر آپ مجھ سے ایسے سوال کرسکیں۔ ” وہ اس کی باتوں کے جواب میں بولی۔
” جانتا ہوں ایسا کوئی حق نہیں ہے تم پر۔ وہی حق حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ تمہارے اوپر سارے اختیارات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ تم سمجھ رہی ہو میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ ” وہ اسکے سپاٹ چہرے پر نظریں ٹکاۓ بولا۔
” دیکھئے ہارب سر ۔۔۔۔ ہمارے درمیان ایک ہی تعلق ہے مالک اور نوکر کا۔ اور اسے ہی قائم رہنے دیں آپ کی مہربانی ہوگی” وہ جان بوجھ کر سر کا لفظ ادا کرتی ہوئی اُس پر زور دیتی ہوئی بولی۔
” کیوں نہیں ہوسکتا یہ میں وجہ جاننا چاہتا ہوں ” وہ ماتھے پر بل ڈالتا ناگواری سے بولا۔
” میں بتانا فرض نہیں سمجھتی۔ ” وہ اس کی مزید کوئی بھی بات سنے بغیر اندر کی طرف بڑھ گئ۔
کچھ دُور کھڑا وجود ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھ اپنے دماغ میں شیطانی پلان بُن چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ عجلت میں گھر کے اندر داخل ہوا۔ اس کے انداز میں واضح بے چینی تھی۔ اس کے دماغ میں مسلسل مصفرہ کا انکار کرنا گھوم رہا تھا۔
” ہارب بیٹا! ” اسے عجلت میں اندر آتا دیکھ سارہ بیگم اسے اپنی طرف متوجہ کر گئ۔
وہ پریشانی سے سر مسلتا ان کی طرف متوجہ ہوا۔
” جی ماما۔ ”
وہ اس کا پریشان چہرہ دیکھ پوچھ بیٹھی۔ ”کوئی مسئلہ ہے بچے۔ ”
ہارب نے ماتھا مسلتے ہوۓ ان کی طرف دیکھا۔ جانے وہ کیسا ریئکٹ کریں گی۔ ” ماما ! مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی۔ ”
”ہاں بولو نا ہارب کیا بات ہے۔” وہ اس کا سنجیدہ چہرہ دیکھ کر پریشان ہوچکی تھیں۔
” مجھے کسی سے محبت ہوگئ۔ میں اُسے ہمیشہ کے لیے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی بار کوئی ایسی ملی ہے جسے دیکھ کر اس دل نے کہا ہے ہاں یہی ہے میری سول میٹ۔” وہ ان کا ہاتھ پکڑتا لجاعت سے گویا ہوا۔
” کون ہے وہ ؟ ” ان کا انداز یکدم سنجیدہ ہوگیا۔
” مصفرہ ۔۔۔ ڈرائیور چاچا کی بیٹی۔ ”
جس لڑکی کا اُس نے نام لیا اُسے سُنتی وہ ہتھے سے اُکھڑ گئ۔
” دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا۔ ” وہ اس کا ہاتھ جھٹکے ہوۓ بولیں۔
” تم نے کیا سوچ کر اُس دو ٹکے کی لڑکی کا نام لیا ہے۔ وہ کام والی کی بیٹی وہ مریضہ بنے گی اب اس گھر کی بہو۔ وہ لڑکی جو ایک لفظ کو دس ٹکڑ وں میں توڑ کر بولتی ہے تمہیں لگتا ہے میں اُسے اپنی بہو کے طور پر تسلیم کروں گی۔ تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ ”
وہ اس کے لیے ایسے القاب سُن کر تڑپ اُٹھا تھا۔ ” مما۔۔۔۔ ” وہ احتجاجاً بولا۔ وہ جو خود بھی یہی سوچ رکھتا تھا کہ دوستی اور رشتے داری ہمیشہ برابر والوں میں اچھی لگتی ہے۔ آج اپنی ماں کے منہ سے اُس کے لیے ایسے الفاظ اسے طماچے کی طرح لگے تھے۔
” مما میری محبت ہے وہ آپ پلیز اُس کے لیے یہ الفاظ استعمال مت کریں۔ ” وہ ایک دفعہ پھر تن کر ان کے سامنے گویا ہوا۔
” جانتی ہوں ایسی دو ٹکے کی لڑکیوں کو جو بڑے گھروں میں کام کے بہانے ایسے کام کرتی ہیں۔ ویسے تمہاری اطلاع کے لیے بتادوں کہ وہ نکاح شدہ ہے۔ یہ بات نہیں بتائی اُس نے تمہیں۔ ” وہ استہزایہ انداز میں مسکرائی۔
ایک لمحے کو وہ سُن ہوتا الجھن بھری نگاہوں سے ان کی طرف دیکھتا رہا۔ ان کی بات سُن کر اسے یوں محسوس ہوا کہ وہ اپنی جگہ سے ہِل نہیں پاۓ گا۔ اس کے کانوں میں صرف یہی بازگشت ہورہی تھی کہ وہ پہلے سے ہی کسی کے نکاح میں ہے۔
” یہ کیسے ہوسکتا ہے وہ تو صرف میری ہے۔” وہ ہولے سے بڑبڑایا۔
” آپ جھوٹ بول رہی ہیں۔ ” اپنی کیفیت پر قابو پاتا وہ سُرخ آنکھوں کو اُٹھا اُن کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
” مجھے کیا پڑی ہے جھوٹ بولنے کی۔ وہ دھوکے باز لڑکی تمہیں بےوقوف بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی میرے بیٹے کو تو ہر چیز پرفیکٹ چاہیے ہوتی ہے تو اُسے وہ دو ٹکے کی اٹک اٹک کر بولنے والی وہ مریضہ کیسے پسند آگئ۔ ” وہ اپنے بیٹے کی خاموشی سے جان چکی تھی کہ تیر بالکل نشانے پر لگا ہے۔ انہیں اِس وقت اپنے بیٹے کی بےوجہ خاموشی بھی نظر نہیں آرہی تھی۔ وہ جان کر بھی انجان بن رہی تھی کہ وہ اپنے الفاظ سے اُسے تکلیف پہنچا چکی ہیں۔
وہ جانے اُس لڑکی کے خلاف کیا کیا بول رہی تھی وہ خاموش سا اپنی سوچوں میں اُلجھا ان کی بات کہا سُن رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” آئرہ بیٹا! میں اندر آجاؤں۔ ” لائبہ بیگم دروازے کے پاس کھڑی اسے اپنی طرف متوجہ کرگئیں۔
” مما آپ وہاں کیوں کھڑی ہیں اندر آئیے نا۔” وہ کتابیں سمیٹتی ان کی طرف متوجہ ہوئی۔
لائبہ بیگم اس کے نزدیک ہی بیڈ پر بیٹھ چکی تھیں۔ ” کیا کر رہی تھی میری بیٹی۔ ” وہ اس کے بال سنوارتی ہوئیں بولی۔
” کچھ نہیں ماما کوئی کام تھا آپ کو ” وہ ان کے کندھے پر سر ٹکاتی ہوئی بولی۔
” ہہممم ! بات تو کرنی ہے تم سے۔ ” وہ ہنکار بھرتی ہوئی بولیں۔
”میری بات تحمل سے سُننا پھر کوئی فیصلہ کرنا میری جان۔ نمرہ کی شادی پر تمہیں وحید نے پسند کرلیا ہے۔ کافی اچھا لڑکا ہے ڈیسنٹ سا۔ اس نے تمہارے بابا سے رشتے کی بات کی ہے۔ وہ بار بار اصرار کررہے ہیں اس لیے ہم انہیں ڈنر پر انوائیٹ کرچکے ہیں۔ تاکہ تم دونوں کی ملاقات بھی ہوجاۓ۔ ” وہ اس کا سنجیدہ چہرہ دیکھتی ہوئیں بولیں۔
” پر ماما ابھی کیا جلدی ہے ان سب کی۔ ابھی تو میرا ڈائیورس بھی نہیں ہوا۔ ” اس کے لہجے میں واضح کرب تھا۔
” جانتے ہیں ہم۔ پر ہم کونسا ابھی شادی کر رہے ہیں۔ بس وہ آج دیکھنے آرہا ہے۔ اگر تمہیں وہ پسند ہوگا پھر ہی بات فائنل کی جاۓ کی۔ میری بات سمجھ رہی ہو نا تم۔ اگر تم انکار کرو گی تو بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ” وہ اسے سمجھانے والے انداز میں بولیں۔
” ٹھیک ہے ماما۔۔۔ پر اس کے بعد مجھے شادی کے لیے فورس نہ کیا جاۓ۔ ” وہ اپنی بات ان کے سامنے رکھ گئ۔
” فکر مت کرو میری جان جیسا تم کہو گی ویسا ہی ہوگا۔ ” وہ اس کا گال تھپتھپاتے اُٹھ کر جاچکی تھیں۔
وہ خاموشی سے بند دروازے پر نظریں ٹکاۓ بیٹھی تھی۔ یعنی ابھی اس کی آزمائش ختم نہیں ہوئی تھی ایک اور نیا امتحان۔ اس نے یہ سوچتے ہوۓ گہرا سانس بھرا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سکون سے سیڑھیاں اُترتا نیچے آیا۔ اس نے حیرانگی سے لاؤنج میں موجود مہمانوں کو دیکھا تھا۔ وہ شاید زندگی میں پہلی بار انہیں دیکھ رہا تھا۔ ان کے قریب آتا وہ فارمیلٹی کے لیے سلام کرچکا تھا۔
ایک نظر اپنی متاعِ حیات پر ڈالی جو ان کے درمیان خاموش سی جیسے ساری دنیا سے خفا بیٹھی تھی۔ اس کی آواز پر سب نے نظریں اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا۔ پر اس کی نظر تو صرف اپنی فیری کی طرف تھی۔ جب اس کے کانوں میں سامنے بیٹھی عورت کی آواز گونجی۔
” بھئ ہم تو کرتے ہیں سیدھی بات۔ آپ کی بیٹی کا قد چھوٹا ہے۔ اگر میرے بیٹے کی ضد نہ ہوتی تو کبھی اس رشتے کے بارے میں سوچتی بھی نہیں۔ ” وہ ناک چڑھاتے ہوۓ بولی۔
لمحے کے ہزارویں حصوں میں وہ سمجھ چکا تھا کہ بات اس کی زندگی کے بارے میں ہورہی ہے۔ اس نے بےیقین نظروں سے اپنی شریک حیات کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر اس عورت کی بات پر ایک سایہ سا آکر گزرا۔
اس نے بڑی مشکل سے خود کو تیار کیا تھا۔ اب ایک دفعہ پھر اس کی ذات پر اعتراض اسے چار سال پیچھے دھکیل گیا۔ اس نے کرب سے آنکھیں میچی ۔ کیا اس کا خود کا اختیار تھا جو بھی آتا اس کی ہائٹ پر چوٹ کرتا تھا۔
” کیا بکواس ہے یہ۔ کس کا رشتہ ہورہا ہے۔” وہ دھاڑتا ہوا بولا۔
” تم چُپ کرو برخودار۔” بڑے پاپا نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
” لو بھلا ہم نے کیا غلط کہا سہی تو کہہ رہے ہیں اب لڑکی میں کمی تو ہے بھئ۔ اگر اتنی ہی عزیز ہے تو گھر بٹھا کر رکھو۔ اگر ہم رحم کھا کر رشتے کے لیے ہاں کر رہے ہیں تو اسے غنیمت سمجھو۔” آنٹی جی نے اپنی ٹانگ پھنسانا ضروری سمجھا۔
ابراہیم صاحب نے ناگواری سے اس عورت کی بات سُنی۔
اس عورت کی باتیں ارسم کی برداشت سے باہر تھی۔
” کیا کمی کمی لگا رکھا ہے کوئی کمی نہیں ہے میری اینجل میں۔ اگر آپ کی جگہ یہ بات کسی مرد نے کی ہوتی تو گُدی سے اُس کی زبان کھینچ لیتا۔ اپنا بوریا بسترا سمیٹیے اور نکلیے یہاں سے اپنے اس چھچھوندر بیٹے کو لیکر۔ ” اُس کی دھاڑ نما آواز پر لاؤنج میں سکوت سا چھا گیا۔
وہ ایک ہی جست میں اس تک پہنچا جو خاموشی سے سر جھکاۓ آنسو بہانے میں مصروف تھی۔ اسے حیرانی ہوئی تھی اس کے ایسے رویے پر ۔ نہیں تو وہ خاندان کی سب سے دبنگ بندی کے نام سے مشہور تھی۔ پر وہ شاید بھول گیا تھا کہ جب زخم اپنوں سے ملے تو انسان واقعی کمزور پڑھ جاتا ہے۔
”پاپا سمجھئیے رُخصتی ہوگئ آپ کی بیٹی کی۔” وہ اُس کی کلائی جھکڑتا ہوا بولا۔
تم اُسے نہیں لے جا سکتے یہ میری ہونے والی بیوی ہے۔ رشتے کے لیے آیا لڑکا جس کا نام غالباً وحید تھا تن کر اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔
اس نے غصے سے پنچ بنا کر اُس کے ناک پہ مارا۔ ”میری بیوی کا نام آج سے اپنے ذہن میں بھی نہ لانا نہیں تو زندہ گاڑ دوں گا۔ سمجھے تم۔” آج اس کا یہ رُوپ سب کو حیران کر رہا تھا۔
”چلو اینجل۔ ” اس نے اپنے ہاتھوں میں مقید اس کی کلائی کو اپنی طرف کھینچا پر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اسے اپنی جگہ سے ہلتے نہ دیکھ وہ بغیر اردگرد کی پرواہ کیے ایک ہی جست میں اسے اُٹھا چکا تھا۔
وہ اتنے لوگوں کی موجودگی میں اس کی بےباقی پر کان تک سُرخ پڑی۔" نیچے اُتارو مجھے بے شرم انسان۔ " وہ غصے کی شدت سے چیخی۔
ابراہیم صاحب بھی اسے آوازیں دیتے رہے پر وہ سنی ان سنی کرتا لاؤنج پار کرتا سیڑھیاں چڑھتے ہوۓ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔ کمرے میں لاکر اسے نیچے اُتار دروازہ بند کرتے اس کی طرف غصے سے مُڑا۔
”کیا تھا یہ سب تم بتانا پسند کرو گی۔ کیا کرنے آۓ تھے وہ لوگ۔ تم میرے نکاح میں ہو ۔ تمہیں میرے علاوہ کسی کو سوچنے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ بات اپنے اس چھوٹے سے دماغ میں بٹھا لو۔” وہ دو انگلیوں سے اس کے سر پر نوک کرتا ہوا بولا۔
اسے اپنے قریب دیکھ کر اس کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ چکا تھا۔ دونوں بازو اس کے اردگرد رکھتا اسے اپنے حصار میں قید کرچکا تھا۔پھر کچھ سوچ کر وہ اس کے ماتھے پر جھکتا شدت بھرا لمس چھوڑ گیا۔
آئرہ کو اس کی سانسوں کی تپش اپنے چہرے پر پڑتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ اس کے لمس پر وہ دم سادھ چکی تھی۔ اب وہ اس کے کانوں میں کچھ سرگوشی کررہا تھا پر اسے تو اُس کے لمس سے وحشت ہورہی تھی۔ اس نے پوری شدت لگا کر لسے خود سے دور دھکیلا تھا۔ دور رہے مجھ سے ۔ مجھے نفرت ہے آپ سے ۔ آپ کے لمس سے مجھے وحشت ہورہی ہے۔
اس نے حیرانی سے نظر اُٹھا کر اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا جو اس کی بیسٹ فرینڈ تھی۔ آج وہ اس سے نفرت کی دعوٰی دار تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کمرے میں بیٹھی ہارب کی باتیں یاد کر رہی تھی۔ اسے یہی لگتا تھا کہ وہ جذباتی ہورہا ہے اس لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ جب ٹھنڈے دماغ سے سوچے گا تو اسے خود ہی اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہوگا۔ اپنی طرف سے وہ اسے انکار کرچکی تھی۔ اسے لگا تھا اب وہ اس کے آس پاس بھی نظر نہ آۓ گا۔
پر شاید وہ بھول گئ تھی کہ قسمت کے فیصلے اگر انسان کے خود کے ہاتھ میں ہوتے تو بات ہی الگ تھی۔ اوپر وہ کاتبِ تقدیر بیٹھا تھا سب کی قسمتوں کا فیصلہ کرنے کے لیے۔
” جانے میرے ساتھ ہی ہمیشہ کیوں غلط ہوتا ہے۔ میں ہی ہر بار کیوں آزمائی جاتی ہوں۔ کیا میرے زندگی کبھی سہل نہیں ہوگی؟ ” وہ ناچاہتے ہوۓ بھی شکوہ کر بیٹھی۔
وہ چلتی ہوئی کھڑکی کے پاس آکر کھڑی ہوچکی تھی۔ نظریں گہری رات میں دور پرے آسمان پر موجود چمکتے چاند پر ٹکاۓ وہ خود کے ماہ و سال کا حساب کر رہی تھی۔ کیا ملا اسے بچپن سے اب تک۔ لوگوں کے طعنے۔ کسی کا اسے حقارت بھری نظروں سے دیکھنا تو کسی کا ہمدردی بھری۔ اب تو اسے اس سب کی عادت ہوچکی تھی۔ وہ سر جھٹک کر ساری سوچوں کو بھی جھٹکنے کی کوشش کر رہی تھی۔
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” ذوہان ! ” اسے سیڑھیاں اترتے دیکھ آمنہ بیگم اسے مخاطب کر بیٹھی۔
” جی ماما ! کیا بات ہے ؟” وہ مکمل ان کی طرف متوجہ ہوتا ان کے نزدیک صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔
” میں چاہ رہی تھی تم منسا کو منگنی کے لیے اس کی پسند کی شاپنک کروا لاؤں۔ ”
” پر ماما میرے پاس فارغ وقت نہیں ہے۔ ” وہ منسا کے نام پر بیزاریت سے بولا۔
” ٹائم نکال کر اسے لے جانا۔ ” وہ اسے حکم صادر کرتی دو ٹوک لہجے میں بولیں۔
ذوہان نے جھنجھلاتے ہوۓ ان کی طرف دیکھا۔ اب اس بلا کو شاپنگ بھی کروانی پڑے گی۔ وہ ایسا منہ بناتا ہوا سوچ رہا تھا جیسے منہ میں کڑوا بادام ڈال دیا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں دو نفوس کی موجودگی پر بھی جامد خاموشی تھی۔ جب اس خاموشی کو چیرتی آئرہ کی آواز گونجی۔
” شاید آپ کو وہ لمحات بھول گۓ ہیں جب بہت شان سے پورے خاندان والوں کے سامنے مجھے دھتکار کر گۓ تھے سب کو میری خامیاں گنوا کر گۓ تھے۔ آپ کو یاد ہے یا بھول گۓ ہیں۔” وہ اس کی خاموشی نوٹ کرتی پھر سے بولی۔
” نہیں یاد کوئی بات نہیں میں یاد کروا دیتی ہوں۔ کیا بولا تھا آپ نے ؟ ہاں۔۔۔۔۔ یہ سامنے کھڑی لڑکی اور مجھ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کہاں سے آپ کو یہ میرے قابل لگتی ہے۔ ہر وقت جوکر بنی گھومتی رہتی ہے۔ میں ایسی لڑکی کو کبھی بھی اپنی لائف پارٹنر تصور بھی نہ کروں۔ ہہننہ۔ یاد ہے یہ سب۔ ” وہ ہذیانی سی ہوکر چلائی۔
ارسم کے دماغ میں اپنے کہے گۓ الفاظ کی ہی بازگشت ہونے لگی۔
(چار سال قبل)
سارے گھر والے اس وقت ایک ساتھ موجود تھے۔ ارسم اور ہارب دونوں کا رزلٹ کچھ دن پہلے ہی آؤٹ ہوا تھا۔ جس میں انکی شاندار کامیابی پر ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ سب گھر والے تقریباً ادھر ہی جمع تھے۔ ارسم کی ایک ہی پھپھو تھی رضیہ بیگم وہ بھی یہی موجود تھی۔ سمعیہ ان کی اکلوتی اولاد تھی جو بچپن سے ارسم کو پسند کرتی تھی لیکن وہ اس کی چپکنے والی عادت سے نالاں رہتا تھا۔ اس لیے ارسم کو اس سے چڑ سی تھی۔ رضیہ بیگم کی بھی یہی خواہش تھی ان کے مطابق سمعیہ کا حق تھا کہ اس کا نکاح ارسم سے ہوتا کیونکہ وہ آئرہ سے بڑی تھی۔ لیکن اپنے باپ کی مخالفت نہ کرسکی جو بچپن میں ہی ان کے نکاح کرنے کے بعد منوں مٹی تلے جا سوۓ تھے۔ ان کی یہ حسرت حسرت ہی رہ گئ۔ جب جب وہ آئرہ کو دیکھتی انہیں تب تب اپنے باپ کا کیا گیا وہ فیصلہ یاد آجاتا۔
آئرہ کو دو دن پہلے ہی اپنے نکاح کا پتہ چلا تھا اسے یہ جان کر بے انتہا خوشی ہوئی تھی کہ اس کا بیسٹ فرینڈ ہی اس کا ہمسفر بنے گا۔
چونکہ ارسم آگے سٹڈی کے لیے یورپ جانا چاہ رہا تھا تو سب گھر والوں کا یہ باہمی فیصلہ تھا کہ ان کے نکاح کو آفیشلی اناؤنس کردیا جاۓ۔ یہ ارسم کے لیے سرپرائز تھا پر شاید وہ نہیں جانتے تھے یہ سرپرائز ان پر بھاری پڑنے والا تھا۔
وہ ہارب اور ذوہان کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ جب ابراہیم صاحب نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
” ہے ایوری ون ! کیا میں آپ کا کچھ وقت لے سکتا ہوں۔ ” وہ اونچی آواز میں سب کو اپنی طرف متوجہ کر گۓ۔
” ادھر اؤ ارسم ” انہوں نے ارسم کو قریب آنے کا اشارہ کیا۔
ارسم خاموشی سے ان کے قریب آگیا۔
” آج میں نے آپ سب کو یہاں صرف ان کے رزلٹ کی خوشی میں نہیں بلایا بلکہ وجہ اس سے بڑی ہے۔ یہ فیصلہ ہم سے زیادہ ارسم کے مرحوم دادا کا ہے۔ ” ارسم نے الجھن بھری نظروں سے دیکھا اسے فی الحال ان کی ایک بھی بات پلے نہ پڑی تھی۔
وہ سب کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر مزید بولے۔
” ارسم اور آئرہ کا نکاح ان کے بچپن میں بابا صاحب کے فیصلے پر کردیا گیا تھا۔ہم چاہ رہے تھے کہ ارسم کے جانے سے پہلے سب کو اس رشتے سے آگاہ کردیا جاۓ اس پارٹی کا مقصد یہ بھی تھا۔ ” وہ اپنی بات کہتے خوشی سے اس کی جانب مڑے۔
ارسم ان کی بات سُن کر تھم سا گیا تھا۔ اسے ایک منٹ سمجھ نہ لگی اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ اس نے ایک نظر اُٹھا کر سامنے دیکھا جہاں ساری کزنز کے ہمراہ شرمائی سی کھڑی تھی۔ آج اس کا حلیہ باقی دنوں سے قدرے مختلف تھا۔ اس کے چہرے پر پل میں ناگواری چھائی۔
اس کے بدن میں شدید غصے کی لہر دوڑی وہ تو جیسا کسی کا لحاظ کیے بنا پھٹ پڑا۔
” کیا مزاق ہے یہ ؟ آپ لوگوں نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں خوشی خوشی ان سب پر راضی ہوجاؤں گا۔ ”
” پر وہ تو تمہاری بیسٹ فرینڈ ہے۔ تم دونوں کی کو تو ہمیشہ سے بنتی ہے پھر تم یہ کیا بول رہے ہو۔” ابراہیم صاحب سب کی موجودگی کا لحاظ کرتے ہوۓ تحمل سے بولے۔
” ہہننہ! دوستی کی حد تک ٹھیک ہے پر وہ میری بیوی بننے کے لائق ہرگز نہیں ہے۔ہر وقت جوکر بنی گھومتی رہتی ہے آپ چاہتے ہیں میں اسے ارنی بیوی بنا کر سب سے سامنے اپنا مذاق بنواؤں۔ آپ لوگوں جانے کیوں اپنے بچوں پر اپنے فیصلے تھوپتے ہیں بعد میں اس کا انجام بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ” وہ سب کی طرف دیکھتا بپھرا ہوا بولا۔
آئرہ نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔
” سہی تو کہہ رہا ہے بچہ تم لوگوں نے ناانصافی کی ہے اس کے ساتھ۔ کہا سے جوڑ بنتا ہے ان دونوں کا۔ کیسا اول جلول حلیہ بناۓ گھومتی ہے کوئی کیوں پسند کرے گا ایسی لڑکی کو۔ میں نے تو تب بھی آپ کو روکنا چاہا تھا پر آپ لوگوں نے میری اک نہ سُنی اب دیکھ لیجیئے انجام۔” رضیہ پھپھو ہمدرد بنتی اس کی حمایت میں بولی۔ انہیں تو آئرہ کی ذات میں خامیاں نکالنے کا اتنا اچھا موقع مل گیا تھا وہ ہرگز بھی یہ سنہری موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔
”رضیہ تم چپ کرو گی۔” ابراہیم صاحب نے تنبیہ کرتے لہجے میں انہیں پکارا۔ انہوں نے ایک نظر اپنے چھوٹے بھائی کے چہرے پر ڈالی جو اپنی تکلیف کو چھپانے کی سعی کررہے تھے کیونکہ یہاں بات ان کے جگر کے ٹکڑے کی ہورہی تھی۔
” کیا غلط کہا ہے پھپھو نے سہی تو کہہ رہی ہیں۔” ارسم فوراٌ ان کی حمایت میں بولا۔
” ارسم! اپنی بکواس بند کرکے دفعہ ہوجاؤ یہاں سے۔ ” وہ دھاڑ سے اسے چپ کروا گۓ۔ انہیں ذرا بھی اس کے ایسے ردعمل کی توقع ہوتی تو یوں اتنے لوگوں میں یہ ذکر تک نہ چھیڑتے۔ انہیں تو لگا تھا کہ اسے خوشی ہوگی کے اس کی بیسٹ فرینڈ ہی اس کی لائف پارٹنر بنے گی۔ پر ضروری نہیں سب کچھ ہمیشہ ہماری توقع کے مطابق ہو۔
ارسم نے ایک نظر سب پر ڈالی پھر قدم بڑھاتا پھپھو کے نزدیک آگیا۔
” پھپھو ! میں آپ سے سمعیہ کا رشتہ مانگتا ہوں میں واپس آکر اُس سے شادی کروں گا آپ میرا انتظار کیجیئے گا۔” وہ یہ سب ضد میں آکر کررہا تھا۔
آئرہ کی آنکھوں میں مرچیں سی بھرنے لگی وہ سمعیہ کو اس پر فوقیت دے رہا تھا۔
” جب تک آپ مجھے اس رشتے سے آزاد نہیں کریں گے میں گھر واپس نہیں آؤں گا۔ ” وہ ایک نظر سب پر ڈالتا گھر سے نکلتا چلا گیا۔
آئرہ نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اس کی پُشت کو دیکھا۔ وہ بخوبی سب کی ترحم بھری نظریں خود پر محسوس کرسکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” یاد آیا کچھ۔ ” آئرہ کا طنزیہ لہجہ کمرے میں گونجا جو اسے ماضی سے حال میں پٹک چکا تھا۔
اس نے اپنے تاثرات کنٹرول کرنے کے لیے منہ پر ہاتھ پھیرا۔
” میں جانتا ہوں کہ میں غلط کر چکا ہوں پر میں اب بھی یہی کہوں گا مجھے ایک موقع دے دو۔۔۔۔ پلیز۔۔۔” وہ پھر اس کے نزدیک آتا اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالوں میں بھرتا ہوا بولا۔
” شاید آپ کو بھولنے کی بیماری ہے آپ مجھے نیچا دکھانے کے لیے کسی کو امید کے جگنو تھما کر گۓ تھے۔ ” وہ ایک بار پھر اس کے ہاتھ ہٹاتی ہوئی بولی۔
” وہ میرا مسئلہ ہے میں ان سب کو ہینڈل کرلوں گا۔”
” آپ جو بھی کہے میرا جواب نہ ہی ہے۔ اگر آپ تنہائی میں مجھے یہ سب باتیں سناتے تو شاید میں ایک دفعہ آپ کو معاف کرنے کا سوچ لیتی۔ پر آپ نے سب خاندان والوں کے سامنے میری ذات کی نفی کی ہے۔ میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی ” وہ سر نفی میں ہلاتی بولی۔
” اب میرے قریب آنے کی دوبارہ کوشش بھی نہ کریے گا۔ ” وہ اسے پیچھے دھکیلتی باہر نکلتی چلی گئ۔
ارسم اسی جگہ نظریں جماۓ کھڑا تھا جہاں سے ابھی وہ گئ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آمنہ بیگم کے کہنے پر وہ اس کے ساتھ شاپنگ پر آئی تھی۔ منسا نے ایک بار پھر چور نظر اس پر ڈالی تھی جو ماتھے پر بل ڈالے خاموشی سے ڈرائیونگ میں مصروف تھا۔
منسا کا پارہ اسے دیکھ دیکھ کر چڑھ رہا تھا وہ یوں برتاؤ کررہا تھا جیسے وہ اسے شاپنگ پر لے جاکر احسانِ عظیم کررہا تھا۔ اس کی زبان پر کب سے کھجلی ہورہی تھی یہ تو اس کی برداشت تھی جو وہ پچھلے پندرہ منٹوں سے خاموش تھی۔ ورنہ مجال تھی جو وہ خاموش ہوکر بیٹھ جائے۔ وہ شدید جھنجھلاہٹ کے ساتھ باہر کے نظارے دیکھنے میں مگن تھی۔ جب اس کی نظر گول گپوں کے سٹال پر پڑی اسے پورا یقین تھا اگر وہ اسے کہہ بھی دے تو وہ گاڑی تک نہیں روکے گا گول گپے کھلانا تو بہت دور کی بات تھی۔ اس کی آنکھیں دماغ میں آنے والے شیطانی پلان پر چمکی۔
” ذوہان ! گاڑی روکیے۔ مجھے شدید گھبراہٹ ہورہی ہے۔ ” وہ گہرے گہرے سانس لیتی ہوئی بولی۔
ذوہان نے گھبراتے ہوئی گاڑی روکی۔ وہ شدید پریشانی میں اس کی طرف مُڑا۔
” کیا ہوا منسا ؟ تم ٹھیک تو ہو۔” اس کے لہجے میں واضح پریشانی تھی۔ وہ پل بھر میں اس کے لیے متفکر ہوچکا تھا۔
” مجھے گھبراہٹ سی ہورہی ہے آپ ایسا کرئیے سامنے سٹال سے میرے لیے گول گپے لے آئیے۔ کھٹا ٹھنڈا لائیے گا۔ جلدی جائیے۔” وہ مصنوعی نقاہت سے بولتی اسے اپنے مفید مشوروں سے نواز رہی تھی۔
” کیا بکواس ہے یہ؟ مجھے پاگل سمجھ رکھا ہے جو میں وہاں تمہارے لیے یہ سب خریدنے جاؤں۔ پچھلی سیٹ پر پانی پڑا ہے۔ چپ کر کے پی لو خود ہی طبیعت سیٹ ہوجاۓ گی۔” وہ اسے غصے سے گھورتا ہوا بولا۔
” کیا مطلب ہے اس بات کا یہاں میری طبیعت خراب ہورہی ہے اور آپ فضول کی ہانک رہے ہیں۔ اور مجھے پتہ ہے میری طبیعت کا پانی پینے سے ٹھیک نہیں ہوگی۔ اب جلدی جائیے میرا منہ کیا دیکھ رہے ہیں۔” وہ منہ کے زاویے بناتی ہوئی بولی۔
” میں نہیں جارہا چُپ کر کے بیٹھو۔”
” آآآآآآ۔۔۔۔۔ میں بڑی ماما کو بتاؤں گی کہ آپ کو میری بالکل بھی فکر نہیں ہے یہاں میری طبیعت خراب ہے اور آپ کو اپنی پڑی ہے۔” وہ روتی ہوئی بولی۔
ذوہان بوکھلاتا ہوا اس کی طرف متوجہ ہوا۔ ” اچھا چُپ کرو میں لا کر دیتا ہوں۔ ” وہ اسے روتا دیکھ کر جھنجھلاتا ہوا کار سے باہر نکل گیا۔
” یاہوہو۔۔۔! اس کے جاتے ہی منسا نے نعرہ لگایا۔
کچھ دیر بعد وہ ایک پلیٹ اس کی طرف بڑھا چکا تھا۔ منسا نے بغیر اس کی طرف دیکھے ساری پلیٹ منٹوں میں چٹ کی۔
” اب تو تمہاری گھبراہٹ ٹھیک ہوگئ ہوگی آخر اسی وجہ سے ہورہی تھی۔” وہ اس کی طرف دیکھتا طنزیہ لہجے میں بولا۔ اس کا اشارہ گول گپوں کی طرف تھا۔
منسا نے اس کی بات پر کان دھرنا ضروری نہ سمجھا۔ وہ خاموشی سے سیدھی ہوکر بیٹھ گئ۔
ذوہان سر جھٹک کر کار سٹارٹ کرچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے جب سے اس کے نکاح کی بابت معلوم ہوا تھا تب سے ہی وہ غصہ سے پاگل ہورہا تھا۔ کیسے ہوسکتا تھا یہ۔
” میں جان لے لوں گا ہر اس شخص کی جو ہمارے درمیان آیا۔ ” وہ غائبانہ مصفرہ کو مخاطب کرتا ہوا بولا۔
اب اس کا رُخ انیکسی کی طرف تھا۔ وہ تن فن کرتا ہوا انیکسی کا دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا۔ اسے وہ لاؤنج میں بیٹھی ہی مل گئ۔ اس کی ماما ابھی گھر نہیں تھی۔
مصفرہ نے چونک کر آنے والے کو دیکھا۔
” آپ یہاں کیوں آۓ ہیں ؟ ” وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔
ہارب خاموشی سے سُرخ آنکھوں سے اسے گھورتا رہا۔ ” تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے ہہ سب چھپانے کی۔ تم مجھے دھوکا دینا چاہتی تھی۔ ” وہ قدم قدم چلتا اس کے نزدیک آرہا تھا۔
مصفرہ اس کے لہجے پر ٹھٹھکی۔ لیکن وہ سمجھ نہ سکی کہ وہ کس بارے میں بات کر رہا ہے۔ اس کے عجیب سے رویے پر اسے گھبراہٹ سی ہوئی۔
” تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ تم کسی کے نکاح میں ہو۔ کیوں؟ ” وہ تقریباً اسے جھنجھوڑتا ہوا بولا۔
”کیوں بتاتی ؟ آپ لگتے کیا ہیں میرے جو میں آپ کو وضاحتیں دیتی پھروں۔ ” وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر چلائی۔
اس کی بات پر وہ خاموش سا ہوگیا۔
” میں محبت کرتا ہوں تم سے۔” اب اس کی لہجے میں واضح بےبسی تھی۔
” میری زندگی میں پہلے ہی بےحد پریشانیاں ہیں آپ کیوں مجھے میرے حال پر نہیں چھوڑ دیتے۔ کیوں میری مشکلوں کو بڑھا رہے ہیں؟ ” وہ اس کے سامنے بے بسی سے ہاتھ جوڑ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی زندگی کی آزمائشوں سے گزرا
کوئی عشق کا روگ لگا بیٹھا
کوئی قلم سے درد لکھنے لگا
کوئی شاعر خود کو بنا بیٹھا
” آپ میرا پیچھا چھوڑ دیں یہ مجھ پر آپ کا احسان ہوگا۔” اس کے لہجے میں بےبسی ہی بےبسی تھی۔
اس کا یوں منت کرنا ، ہاتھ جوڑنا ہارب کو ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔
” تم یہ کیا کر رہی ہوں۔ تمہارا یوں مجھ سے گزارش کرنا مجھے پسند نہیں آیا۔ تم حکم کرو تمہاری ہر بات مانوں گا بس اس ایک بات کے علاوہ۔ بس میری یہ ایک بات مان جاؤ اپنے اس شوہر کو چھوڑ دو وہ وعدہ کرتا ہوں ہمیشہ تمہاری ہر بات مانوں گا۔” وہ اس کے جُڑے ہاتھوں کو کھولتا اپنے ہاتھ میں مقید کر گیا۔
مصفرہ نے ٹڑپتے ہوۓ اس کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ نکالا۔ ”کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ۔ مجھے لگتا ہے آپ پاگل ہوچکے ہیں۔ آپ کی مہربانی ہوگی جائیے یہاں سے۔ مجھے کوئی بات نہیں کرنی آپ سے۔ ” وہ اسے باہر کی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی۔
” ابھی تو جارہا ہوں لیکن جلد ہی تمہیں لینے آؤں گا۔ تمہارے اس شوہر کا بھی کوئی بندوبست کرتا ہوں۔ تمہاری زندگی پر اور تم پر صرف میرا حق ہے جو میں بہت جلد لے کر رہوں گا۔ ” وہ اپنی باتوں سے اسے اچھا خاصہ ڈرا چکا تھا۔ وہ جیسے تن فن آیا تھا ویسے ہی نکلتا چلا گیا۔
مصفرہ نے گھبرا کر اسے دیکھا۔ اس کے جاتے ہی وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئ ایک ٹینشن ختم نہیں ہوتی تھی کہ دوسری نئ مصیبت منہ کھولے اس کا انتظار کر رہی ہوتی۔ جانے کب میری زندگی سہل ہوگی۔ اس نے کرب سے سوچا۔
جانے ہارب کیا کرنے والا تھا یہ نئ ٹینشن تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رضیہ بیگم اور سمعیہ کل ہی کراچی سے واپس آئی تھی۔ وہ ایک شادی کے سلسلے میں کراچی گئ تھیں۔ جیسے ہی انہیں ارسم کے آنے کا پتہ چلا وہ فوراً ادھر ہی آگئ تھی۔
” بھابھی آپ نے بتایا کیوں نہیں کہ ارسم واپس آگیا ہے۔” وہ لبنا بیگم کی طرف دیکھتی ناراضگی جتاتی ہوئیں بولی۔
” نہیں رضیہ ایسی کوئی بات نہیں بس تم گئ ہوئی تھی اگر میں بتادیتی تو آپ لوگ فوراً واپس آجاتے۔اور میں نہیں چاہتی تھی کہ آپ لوگ ٹھیک سے انجوائے بھی نہ کرسکیں۔” لبنا بیگم انہیں سمجھانے والے انداز میں بولیں۔
” ہہممم ! ” انہوں نے محض ہنکار بھرا۔
” تم مجھے یہ بتاؤ کہ ہارب اور آئرہ کی طلاق ہوگئ کہ نہیں کیونکہ اب میں مزید انتظار نہیں کروں گی۔ پہلے ہی بہت انتظار کرلیا۔ ” وہ نخوت سے بولی۔
سمعیہ خاموش بیٹھی اپنی ماں کی باتیں سُن رہی تھی۔ جب اس کی ماں اس کے حق میں بول رہی تھی تو اسے کیا ضرورت تھی۔
اپھی لبنا بیگم کچھ کہتی کہ ہارب کی آواز پر وہ خاموش ہوگئیں۔
” السلام علیکم ! کیسی ہیں پھپھو؟ ” وہ لاؤنج میں آتا انہیں دیکھ کر بلند آواز میں سلام کرتا ان کا حال احوال پوچھنے لگا۔ اسے کچھ کچھ تو ان کے آنے کے مقصد کا اندازہ ہورہا تھا۔
” پھپھو صدقے جائے ۔۔۔۔ پہلے سے زیادہ پیارا ہوگیا ہے۔ ” وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی خوشامدانہ لہجے میں بولی۔
” یہ بتا کیسا ہے تو ؟ تم تو ایسے گۓ پھر پلٹ کر نہ دیکھا میں نے تو تمہیں بہت یاد کیا۔ ہمارا کوئی دن ایسا نہ گزرا جس دن تمہارا ذکر نہ ہو۔ ہمارے گھر میں تو ہمیشہ تمہاری باتیں ہوتی رہتی تھی۔ سمعیہ بھی تمہیں کتنا یاد کرتی تھی۔ ” رضیہ بیگم نے اس کی توجہ سمعیہ کی طرف دلائی جس پر اس نے ایک بھی نظر ڈالنا گوارہ نہ کیا تھا۔
سمعیہ اچھے خاصے اہتمام کے ساتھ آئی تھی۔ مگر اب اس کا یہ سخت رویہ اور سنجیدہ انداز دیکھ کر دل مسوس کہ رہ گئ۔
” میں تو بھائی صاحب سے ناراض تھی۔ تمہاری ڈیمانڈ ایسی بھی کوئی غلط نہ تھی جو ایسے ریئکٹ کیا جاتا۔ تم چھوڑو یہ سب یہاں میرے پاس بیٹھو اور بتاؤ اتنے سال ہم لوگوں کے بغیر کیسے گزرے۔” وہ اس کا ہاتھ تھامتی اسے اپنے قریب بٹھا گئ۔
”ٹھیک” وہ یک لفظی جواب دیتا خاموش ہوگیا۔
لاؤنج میں آتی آئرہ نے انہیں دیکھ کر سلام کیا۔ جس کا جواب انہوں نے منہ ٹیڑھا کرکے دیا تھا۔ ان چار سالوں میں وہ اتنی نکھر گئ تھی کہ انہیں پہلے ہی وہ ناپسند تھی اب تو وہ انہیں ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔
انہیں ڈر تھا کہ کہی اس کا من موہنا روپ ارسم کو اپنی طرف مائل نہ کرلے۔ اس لیے وہ جلد سے جلد اس قصے کو تمام کرنا چاہتی تھی۔
”بھئ اب تم لوگوں کو آئرہ کے متعلق سوچنا چاہئے منسا اس سے چھوٹی ہے اس کی بھی کچھ دنوں میں منگنی ہے۔” پھپھو نے اسے دیکھ کر سنانا ضروری سمجھا۔
” پھپھو آپ کو آئرہ کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چار سال پہلے جو غلطی میں کرکے گیا تھا اسے سُدھارنا چاہتا ہوں۔ اور ڈیڈ نے بالکل سہی کیا میری بات نہ مان کے۔ واقعی اگر وہ اس وقت میری بات مان لیتے تو آج میں پچھتا رہا ہوتا۔ یہ حقیقت ہی ہے کہ ہمارے بڑے ہمارے لیے اچھا فیصلہ کرتے ہیں۔ بس ہم سمجھ نہیں پاتے۔” وہ مسلسل آئرہ پر نظریں ٹکاۓ بولا۔
” کیا مطلب ہے اس بات کا۔” وہ اس کی بات سمجھ تو گئ تھی پر ماننا نہیں چاہتی تھی۔
” وہی جو آپ سمجھنا نہیں چاہتی۔” وہ سکون سے بولا۔
اسد صاحب جو کب سے ان کی باتیں ملاحظہ کر رہے تھے۔ اپنی باتوں میں آئرہ کو گھسیٹنا انہیں ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔
” مہربانی کرکے میری بیٹی کو اپنے معاملات سے دور رکھیں۔ میں اس بار ہرگز یہ برداشت نہیں کروں گا کہ آپ لوگ میری بیٹی میں خامیاں نکالیں۔ رضیہ آپا میں آپ کے بڑے ہونے کا لحاظ کررہا ہوں آپ کو آئرہ کی فکر کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے اس کا باپ ابھی زندہ ہے۔” وہ کب سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے پر آئرہ کے ذکر پر خاموش نہ رہ سکے۔
” اور تم بھی میری بیٹی کا پیچھا چھوڑ دو تمہاری بڑی مہربانی ہوگی۔ جتنا تم اس کے ساتھ کر چکے ہو بہت ہے۔ایک بات تو میں سمجھ چکا ہوں تم میری بیٹی کے قابل نہیں ہو۔” اب ان کا رُخ ارسم کی طرف تھا۔
”پر چاچو میری بات تو سنیے۔” اس نے کچھ کہنا چاہا جب اسد صاحب ہاتھ اوپر کرکے اسے مزید بولنے سے روک گۓ۔
”آپ لوگوں کی چوائس بھی میں دیکھ چکا ہوں۔ کل جو لڑکا آیا تھا اس سے کرنا چاہتے ہیں آپ آئرہ کی شادی۔ کیا وہ قابل تھا آئرہ کے؟ ” ہارب بھی زیادہ دیر خاموش نہ رہ سکا۔
” تم سے زیادہ فکر ہے مجھے اپنی بیٹی کی۔ میں انہیں تب ہی انکار کرچکا ہوں۔ اگر مجھے ذرا بھی ان کی سوچ کا اندازہ ہوتا تو اس بات کا ذکر تک نہ چھیڑتا۔” وہ اس کا طنز بخوبی سمجھ چکے تھے۔
پچھلے کچھ دنوں سے اس کا آئرہ کی طرف جھکاؤ بخوبی محسوس کررہے تھے پر جانے کیوں دل کو یقین نہیں آرہا تھا۔
آئرہ نے ڈبڈبائی آنکھوں میں اپنے باپ کی طرف دیکھا جو سب کے سامنے اسے پروٹیکٹ کر رہے تھے۔
وہ اس کے قریب آکر اسے اپنے بازو کے حصار میں لے چکے تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ ان سب میں اس کا ساتھ زیادتی کر بیٹھے تھے۔ اسے ارسم بےحد عزیز تھا اس لیے انہوں نے آئرہ کو صرف اس رشتے کی بابت صرف اطلاع دی تھی اس کا رائے جاننا ضروری نہ سمجھا ان کا خیال تھا کہ وہ اس کے لیے اچھا فیصلہ کر رہے ہیں۔ تب بھی وہ ایک لفظ بھی نہ بولی تھی خاموشی سے ان کے فیصلے پر سر جھکا چکی تھی۔ لیکن ارسم کے رویے نے انہیں اس کے سامنے بری طرح شرمندہ کیا تھا انہیں ارسم پر خود سے زیادہ یقین تھا پر وہ ان کا یقین بری طرح توڑ چکا تھا۔ اب دل اس پر یقین کرنے سے قاصر تھا۔
”میری بیٹی کیوں رو رہی ہے۔ آپ کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہوگا۔ ” وہ اس کا ماتھا چومتے اسے وہاں سے لے کر نکلتے چلے گۓ۔
ارسم نے ماتھے پر شکن ڈالے انہیں جاتے ہوۓ دیکھا۔ وہ خود بھی مزید وہاں رُکے بغیر باہر کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تھکی ہاری ابھی یونی سے واپس آئی تھی آج آئرہ بھی نہیں آئی تھی اس لیے اسے بس سے آنا پڑا ورنہ اسے پک اینڈ ڈراپ کا کام وہی کرتی تھی۔
ابھی اسے بیٹھے کچھ دیر ہی ہوئی تھی جب حنا بیگم اسے دیکھ کر بولی۔
” مصفرہ بیٹا! جلدی سے ریڈی ہوجاؤ تمہاری چچی کا فون آیا تھا وہ بُلا رہی تھی۔ ابھی کچھ دیر میں ان کی طرف نکلنا ہیں۔وہ کہہ رہی کہ کچھ ضروری بات کرنی ہے۔مجھے لگتا ہے وہ لوگ رخصتی کی بات کرنا چاہتے تھے۔ ایک طرح سے یہ اچھا ہی ہے ویسے بھی تم لوگوں کے نکاح کو کافی وقت گزر چکا ہے اب رخصتی ہوجانی چاہیے۔” وہ اسے دیکھتی مسرور سی بولیں.
” پر ماما یوں اچانک۔ میں ابھی ریڈی نہیں ہوں اس سب کے لیے۔” وہ ہچکچاتی ہوئی بولی۔
” بیٹا انہوں نے ابھی ایسی کوئی بات نہیں کی یہ تو محض میرا خیال ہے۔ تم اُٹھ کر ریڈی ہوجاؤ پھر دیکھتے ہیں وہ کیا بات کرنا چاہتیں ہیں۔” وہ اسے اُٹھنے کا اشارہ کرتی خود بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔
مصفرہ بھی سر جھٹکتی اپنے روم کی طرف بڑھ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہیں آۓ کچھ دیر گزر چکی تھی پر وہ اس شخص کا سامنا بالکل بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ابھی اسے وہ کہی نظر بھی نہ آیا تھا۔ جب جب اپنے باپ کو وہیل چیئر پر دیکھتی خود کو اذیتوں میں گِھرا پاتی۔ اکثر اس کے دل میں خیال آتا کہ کاش کہ اس کے والد ٹھیک ہوتے تو وہ اپنی پریشانیاں ان سے شیئر کر لیتی۔
” پتہ نہیں کیا بات کرنی تھی کبیر نے اب خود جانے کہا رہ گیا۔ کل سے شور مچایا ہوا تھا اس نے کہ کوئی ضروری بات کرنی ہے۔ ” چچی ان کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔
” کوئی بات نہیں بھابھی آجاۓ گا کچھ دیر تک۔” حنا بیگم شفقت سے بولیں۔
ابھی انہیں بیٹھے کچھ وقت مزید گزرا تھا جب وہ لاؤنج سے اندر آتا دیکھائی دیا۔ مگر وہ اکیلا نہیں تھا اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی۔ سب نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا۔
” کون ہے یہ لڑکی کبیر ” چچی سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھتی ہوئیں بولیں
” بتاتا ہوں ماما اتنی جلدی بھی کیا ہے ” وہ چلتا ہوا مصفرہ کے سامنے آگیا۔
” تمہاری خامی کو جانتے بوجھتے میں نے تم سے نکاح کیا۔” وہ لمحہ بھر کے لیے خاموش ہوا۔
”پر تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ جلد ہی مجھ سے امیر انسان ڈھونڈ لیا۔”
” کیا مطلب اس بکواس کا۔” ضبط کے باوجود اس کی آواز بلند ہوگئ۔
”وہی جو تم سمجھنا نہیں چاہتی۔ میں پاگل نہیں ہوں جو اس لڑکے کا تمہارے اردگرد منڈلانا نہ دیکھ سکوں۔ کیا نام ہے اس لڑکے کا۔ ” وہ سوچنے کی اداکاری کرتا ہوا بولا۔
”ہاں ! ہارب۔کون ہے وہ ؟ ” وہ نخوت سے بولا۔
” آپ جانتے ہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ سب حرکتیں آپ کی فطرت میں شامل ہیں میری نہیں۔ پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں پھر دوسروں پر الزام لگائیے گا۔” وہ سب کچھ برداشت کرسکتی تھی مگر یوں سب کے سامنے اپنے کردار پر الزام ہرگز نہیں۔
چچی جو کب سے کبیر کی بکواس سُن رہی تھیں اب ان کی بس ہوئی تھی۔
” کبیر تم اپنی بکواس بند کرو۔ تم اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لیے مصفرہ کو بیچ میں مت لاؤ۔ پہلے مجھے یہ بتانا پسند کرو گے کہ یہ لڑکی کون ہے اور یہاں کیوں موجود ہے۔”
اپنی ہی ماں کا مصفرہ کی حمایت میں بولنا اسے ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔
” آپ کو مجھ سے زیادہ اس پر یقین ہے۔ ” وہ نفرت سے مصفرہ کو دیکھتا ہوا بولا۔
” بالکل ! تم سے زیادہ یقین ہے مجھے اس پر۔”
” ٹھیک ہے آپ جو بھی کہے لیکن میرا کہا ہوا ایک ایک لفظ سچ ہے اور میں ایسی لڑکی کے ساتھ بالکل نہیں رہ سکتا جس کے دل میں کوئی اور ہو۔ اور آپ جاننا چاہتی ہیں یہ کون ہیں؟ یہ میری بیوی ہے جو اس مصفرہ جیسی بالکل بھی نہیں ہے۔ ” وہ نتاشا کا ہاتھ تھامتا ہوا بولا۔
” کبیر یہ کیا بکواس ہے۔ اگر ہم تمہاری بکواس تحمل سے سن رہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمہارا جو دل کرے بولتے جاؤ۔” اب کی بار کبیر کے والد اس پر دھاڑتے ہوۓ بولے۔
” یہ کوئی بکواس نہیں ہے سچ ہے۔” وہ تحمل سے بولا۔
” یہ مصفرہ کے ساتھ ناانصافی ہے۔” اس بار چچی کے لہجے میں شرمندگی سی تھی۔ ان کا بیٹا انہیں ذلیل کروانے پر تُلا تھا۔
”بےفکر رہیے آپ کی بیٹی کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوگی۔” اس نے ایک لفافہ مصفرہ کی طرف اچھالا۔
” تمہاری آزادی کا پروانہ۔”
”کب ختم ہوگا یہ ڈرامہ۔” نتاشا اس کا بازو ہلاتی ہوئی بولی۔
”میں تمہیں کھر سے بےدخل کر دوں گا۔ ” چچا جان دھاڑتے ہوۓ بولے۔
” بےفکر رہیے ہم یہاں رُکے گے بھی نہیں۔” نتاشا کے پاپا کی یہی شرط تھی کہ وہ ان کے ساتھ رہے گا۔
وہ اس کا ہاتھ تھامتا وہاں سے نکلتا چلا گیا یہ دیکھے بغیر کے اس کے الفاظ کسی کو موت کے منہ میں دھکیل گۓ ہیں۔
مجید صاحب کی حالت پل میں بگڑی۔ وہ وہیل چیئر سے نیچے گرتے چلے گۓ۔ حنا بیگم اسے دیکھتی ہوئی چلائی۔
مصفرہ کو سمجھ نہ لگی اس رشتے کی ختم ہونے پر خوش ہو یا باپ کی حالت پر ماتم کناں۔
وہ سب چیزوں کو اگنور کرتی باپ کی طرف متوجہ ہوئی۔ وہ ان کو لیتی فوراً ہسپتال کی طرف بھاگی۔
انہیں فوراً ایمرجنسی وارڈ میں لیکر جایا گیا۔ چاچا اور چاچی ان سے نظریں چراۓ پھر رہے تھے۔
کچھ دیر بعد وارڈ کا دروازہ کھلا۔ ڈاکٹر انہیں تسلی دے کر جاچکا تھا۔ انہیں مائنر ہارٹ اٹیک آیا تھا جلد ہی ان کی کنڈیشن پر قابو پالیا گیا تھا۔ وہ اب خطرے سے باہر تھے۔
مصفرہ نے ان کی حالت کی بہتری کا سنتے تشکر بھری سانس خارج کی۔
اس انسان سے علیحدگی تو وہ خود چاہتی تھی مگر اُس نے اس کے کردار پر وار کرنے کی کوشش کی تھی یہ چیز اسے غصہ دلا گئ تھی بےشک کسی نے اُس پر یقین نہیں کیا تھا۔ سب کو اس پر یقین تھا۔
کبیر کو کیسے ہارب کے بارے میں پتہ چلا کہی یہ سب ہارب کا کیا دھرا تو نہیں۔ اسے اُس دن ہارب کی وہ دھمکی یاد آئی تھی۔
وہ دو دنوں سے دیکھ رہا تھا انیکسی خالی تھی۔ مصفرہ اور اس کے گھر والے جانے کہاں چلے گۓ۔ کہی وہ یہاں سے چلے تو نہیں گۓ اس کا دل ایک پل کے لیے گھبرایا۔
” نہیں ایسا کیسے ہوسکتاہے اگر وہ جاتے تو پاپا کو ضرور کوئی نا کوئی اطلاع دیتے۔ پھر کیا وجہ ہوسکتی تھی۔” اس وقت اس کے دماغ میں مختلف سوچیں گردش کر رہی تھی۔
سوچ سوچ کر اب اس کا سر درد کرنے لگا تھا۔ کل سے کتنے چکر ہی وہ انیکسی کے لگا کے آچکا تھا۔
وہ کل سے صرف اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ جانے ان کی قسمت میں کیا لکھا تھا یہ تو آنے والا وقت بتانے والا تھا۔
تم کیا جانو محبت کے میم کا مطلب
اگرمل جاۓ تو معجزہ اور نہ ملے تو موت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دنوں بعد آج وہ لوگ مجید صاحب کو ہسپتال سے ڈسچارج کروا کر لاۓ تھے۔ ان کی طبیعت اب پہلے سے کافی بہتر تھی۔
حنا بیگم ان سارے حالات کو دیکھتے ہوۓ ایک حتمی فیصلے کرچکی تھی۔
مصفرہ نے ایک بات نوٹ کی تھی کہ وہ اس سے بات نہیں کررہی تھیں۔ وہ کوئی بات پوچھتی بھی تو ہوں ہاں میں جواب دیتی وہاں سے ہٹ جاتی۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ اس سے ناراض ہیں۔
شاید کہی نہ کہی وہ اسے ان سب میں اسے قصوروار مان رہی تھیں۔ یہی بات مصفرہ کو بےچین کر رہی تھیں۔ وہ مجید صاحب کو کمرے میں لیٹا کر انہیں آرام کرنے کا بول کر باہر آچکی تھیں۔
حنا بیگم کمرے سے نکلتی کچن کی طرف جانے کے لیے مُڑی جب مصفرہ نے ان سے دو ٹوک بات کرنے کی ٹھانی۔
” مما ! کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں ؟” حنا بیگم اس کی بات پر رُکی مگر مُڑی نہیں۔
مصفرہ ان کو خاموش پاکر ان کے سامنے آتی ان کے ہاتھ تھام گئ۔
” مما ! پلیز بتائیے نا کیا آپ کو لگتا ہے ان سب میں ، میں قصوروار ہوں؟ کیا آپ کو لگتا ہے یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے؟ آپ کو لگتا ہے بابا کی اس حالت کی ذمہ دار بھی میں ہوں۔ بولیے نا مما۔۔۔۔” وہ ان کی کے چہرے پر نظریں ٹکاتی ہوئی بےچینی سے بولی۔
” نہیں ” وہ یک لفظی جواب دیتی اس کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ نکال گئیں۔
” مما ” اس نے تڑپ کر انہیں پکارا۔
” آپ کیوں کررہی ہیں میرے ساتھ ایسا ؟ آپ میرا یقین کریں کبیر کا کہا گیا ایک ایک لفظ جھوٹ ہے۔ مما ! وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ کیا آپ کو مجھ پر یقین نہیں ہے۔” وہ ان کے رویے پر تکلیف دہ لہجے میں بولیں۔
انہوں نے گہرا سانس بھر کر اس کی طرف دیکھا۔
” دیکھو مصفرہ ! مجھے تم پر پورا یقین ہے پر کچھ تو ایسا دیکھا ہوگا نا جو کبیر کے دماغ میں ایسی خرافات آئیں۔ غلطی کبیر کی ہو یا ہارب کی نقصان کس کا ہوا صرف تمہارا۔ کبیر کا تو کچھ نہیں گیا وہ شادی کر چکا ہے۔ اپنی زندگی میں آگے بڑھ چکا ہے۔ تمہاری زندگی کو بےرنگ کرکے۔ مجھے کسی کی فکر نہیں ہے سواۓ تمہارے علاوہ۔ ” وہ اسے گلے لگاتی شدت سے رودی۔ اتنے دنوں کا غبار آنسوؤں کی صورت میں نکلنے لگا۔
” مجھے معاف کردوں میری بچی کبیر ہمارا انتخاب تھا کاش ہم اس وقت اس رشتے پر راضی ہی نہ ہوتے۔” مصفرہ بھی اپنی ماں کی آغوش ملتے ہی بکھر گئ۔ ضبط کے باوجود آنسو خودبخود اس کا چہرہ بھگونے لگیں۔
” مما ! یہ سب کچھ اس ہارب کی وجہ سے ہوا ہے اس نے ہی کیا ہے۔” وہ اس دن ہونے والا سارا واقعہ ان کے گوش گزار کرگئ۔
اس کی باتیں سُن کر وہ تھوڑی دیر پہلے اپنے دماغ میں پنپنے والے فیصلے پر یقین کی مہر ثبت کرچکی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” اسد سنیے ! مجھے آپ سے بےحد ضروری بات کرنی ہے۔ ” لائبہ بیگم خاموش بیٹھے اسد صاحب کے نزدیک بیٹھتے ہوۓ انہیں مخاطب کرتے ہوۓ بولیں۔
” ہہمم! کہیے میں سُن رہا ہوں۔” وہ ان کی طرف مڑتے ہوۓ بولے۔
”میں نے آج ارسم کی باتیں سنی۔ مجھے لگتا ہے ہمیں ارسم کو ایک موقع دے دینا چاہئے۔ ” وہ ان کے تاثرات جاننے کے لیے خاموش ہوئیں جو ان کی بات تر سخت ہوچکے تھے۔
” ہرگز نہیں میں اب ارسم پر یقین کرنے کی غلطی نہیں کرسکتا۔ پہلے ایک دفعہ یہ غلطی کرچکا ہوں جس کا انجام بُگھت چکا ہوں۔ ویسے بھی اب اس فیصلے کا حق میں آئرہ پر چھوڑ چکا ہوں۔ وہ جو چاہے گی وہی ہوگا۔ ” وہ دوٹوک انداز میں بولے۔
” تھیک ہے اگر آپ ارسم کے لیے راضی نہیں تو اشعر کے بارے میں کیا خیال ہے۔ ” انہوں نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔
” کیا مطلب ہے اس بات کا اُس کا یہاں کیا ذکر۔ ” انہوں نے سوالیہ نظریں اُٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔
” ایک سال پہلے ہی وہ لندن سے اپنی تعلیم مکمل کرکے آیا ہے۔ اور پچھلے ایک سال سے وہ بہت اچھے سے سارا بزنس سنبھال رہا ہے۔ آپی مجھ سے کافی دفعہ آئرہ کے لیے اشعر کے رشتے کی بات کر چکی ہیں مگر میں نے ہر دفعہ ٹال مٹول سے کام لیا ہے۔ اگر آپ ارسم کے معاملے میں سریس نہیں ہیں تو اس بارے میں ایک دفعہ سوچا جاسکتا ہے۔ ” وہ امید بھری نظریں ان پر ٹکاتے ہوۓ بولیں۔
”مگر ہم کچھ خاص نہیں جانتے اُس کے بارے میں۔ ایسے میں کیسے میں اس رشتے کے بارے میں سوچ سکتا ہوں۔ ” وہ الجھن بھرے انداز میں بولے۔
ان کے لہجے می نیم رضامندی دیکھ کر وہ مزید بولیں۔
” ہہہم! یہ بات تو ہے ۔ وہ ایک بزنس ڈیل کے سلسلے میں کچھ وقت کے لیے یہاں آرہا ہے۔اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے ہمارے گھر انوائٹ کرلیتی ہوں جب تک وہ یہاں ہے وہ یہی رہے ایسے میں ہم بھی اُس کے بارے میں جان جائیں گے۔ قریب سے اُس کی شخصیت کو بھی پرکھ لیں گے۔ کیا کہتے ہیں آپ؟ ” وہ آنکھوں میں چمک لیے بولیں۔
” بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔ تم اجازت دے دو اُسے یہاں آنے کی۔ لیکن ہوگا وہی جو آئرہ کہے گی۔” وہ دو ٹوک لجے میں بولے۔
لائبہ بیگم نے سمجھتے ہوۓ اثبات میں سر ہلایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” بڑی بی بی جی ! مجھے صاحب جی سے ضروری بات کرنی ہے۔” حنا بیگم انہیں دیکھتی ہوئی مخاطب ہوئیں۔
” کوئی ضروری بات نہیں ہے تو تم مجھ سے شیئر کرسکتی ہو” آمنہ بیگم ان کے سنجیدہ چہرے پر نظریں ٹکاتے ہوۓ بولی۔
انہیں خاموش دیکھ کر وہ سمجھ گئ کہ وہ کچھ نہیں بتائیں گی۔
” ٹھیک ہے تم ایسا کرو تم یہ چاۓ سٹڈی روم میں لے جاؤ۔ وہ وہی ہیں۔ ” آمنہ بیگم نے چاۓ کی ٹرے اس کی طرف بڑھائی۔
وہ خاموشی سے ٹرے لیتی سٹڈی روم کی طرف سٹڈی کی طرف بڑھ گئ۔
دروازے پر پہنچ کر انہوں نے گہری سانس بھری۔ ہلکا سا دروازہ کھٹکھٹا کر اندر کی طرف بڑھ گئ۔
چاۓ ٹیبل پر رکھ کر وہ وہی کھڑی رہیں۔
” صاحب جی مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔ ” وجاہت صاحب نے شہریار صاحب کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا۔
” بولیے بہن جی۔ میں سُن رہا ہوں۔” انہوں نے بولنے کا اشارہ کیا۔
” آپ کا بےحد شکریہ آپ نے مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا۔ میں آپ کی بےحد مشکور ہوں کہ جن حالات میں آپ نے ہمارا ساتھ دیا اس کے لیے جتنا شکریہ کروں کم ہے۔ مگر اب ہم اور یہاں نہیں رہ سکتے۔ ” انہوں نے پلوں کے نیچے سے انیکسی کی چابی نکال کر ان کی جانب بڑھائی۔
انہوں نے چابی لینے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا۔ مختلف سوچوں کا جال ان کے ماتھے پر بکھرا۔
” کیوں کچھ ہوا ہے؟ کوئی مسئلہ ہے تو آپ شیئر کرسکتی ہیں۔” وہ متفکر لہجے میں بولے۔
” بس آپ سمجھ لیں اب ہمارا یہاں سے جانا ہی ٹھیک ہے۔ کیونکہ مجھ میں لوگوں کی باتیں سُننے کی ہمت نہیں ہے ” وہ بےبسی بھرے لہجے میں بولی۔
” کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ ؟ میں سمجھا نہیں۔ آپ کھل کر بتائیں ہوا کیا ہے۔”
” میں گھوما پھرا کر بات نہیں کروں گی۔ جب تک چھوٹے صاحب جی باہر تھا سب ٹھیک تھا لیکن جب سے وہ یہاں آۓ ہیں ہماری زندگیاں اُتھل پُتھل ہوگئ ہیں۔” وہ رنجیدہ لہجے میں بولیں۔
” کیا مطلب ہے کیا کیا ہے ہارب نے؟ ” ہارب کے ذکر پر شہریار صاحب بھی چونک سے گۓ تھے۔
” شاید آپ کو میری بات پر یقین نہ آۓ لیکن میں جو بھی بتانے جارہی ہوں بالکل سچ ہے۔” پھر وہ مصفرہ کی کہی ایک ایک بات انہیں بتاتی چلی گئ۔ مصفرہ کی طلاق کی بابت بتاتی ہوئیں وہ آبدیدہ سی ہوگئیں۔
ان کی باتوں پر شہریار صاحب کے چہرے پر سختی سی آگئ تھی۔ انہیں ہارب سے ہرگز بھی اس سب کی اُمید نہیں تھی۔
” اگر واقعی ہی ہارب نے یہ سب کیا ہے۔ اگر وہ ایک پرسنٹ بھی ان سب میں انوالو ہوا تو میں اسے ہرگز بھی معاف نہیں کروں گا۔وہ اٹل انداز میں گویا ہوۓ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تیزی سے گنگناتی ہوئی ہارب کے کمرے کی جانب بڑھی جب سامنے سے آتے ذوہان سے ٹکرائی۔
وہ آفس سے ایک اہم فائل لینے آیا تھا جو صبح جلدی جلدی میں لینا بھول چکا تھا۔ کچھ ہی دیر میں اس کی ایک ضروری میٹنگ تھی۔
وہ جو فون پر کسی سے بات کرتا اپنے دھیان سے جارہا تھا۔جب کوئی آندھی طوفان کی طرح اس کے وجود کا حصہ بنا۔ جس کے نتیجے میں اس کے ہاتھ میں پکڑی فائل اور موبائل زمین کو سلامی پیش کرچکا تھا۔
اس نے جھنجھلا کر خونخوار نظروں سے سامنے والے کو دیکھا۔
منسا نے سر سہلاتے نظر اُٹھا کر سامنے دیکھا مگر یہ کیا سامنے تو اسی کا کھڑوس تھا۔ جو اُسے ایسے گھور رہا تھا جیسے سالم نگل جاۓ گا۔ اسے دیکھ کر منسا نے زبان دانتوں تلے دبائی۔
اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا جب اس کی دھاڑ اسے خاموش گروا چکی تھی۔
” دماغ تو تمہارا پہلے ہی خراب ہے لگتا ہے اب نظر آنا بھی بند ہوچکا ہے۔ دماغ کے ساتھ آنکھوں کا استعمال بند کردیا ہے۔۔۔۔ سٹوپڈ گرل۔” وہ طنزیہ انداز میں اسے گھورتا ہوا بولا۔
منسا نے خاموشی سے اس کی بات سنی کیونکہ اس دفعہ واقعی ہی غلطی اس کی تھی۔ ورنہ وہ خاموشی سے کسی کا طنز برداشت کرجاۓ۔
وہ اس کو باتیں سُناتا اب فائل اور موبائل زمین سے اُٹھاتا تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔
منسا نے سر جھٹکتے اس کی پُشت سے نظریں ہٹائی۔ پھر کچھ یاد آنے پر اپنے سر پر چپت رسید کرتی ہارب کے روم کی طرف بڑھ گئ۔
ہارب ابھی کچھ دیر پہلے فریش ہوکر فارغ ہوا تھا۔ شہریار صاحب تو اسے کب سے آفس جوائن کرنے کا کہہ رہے تھے۔ پر اس کے کہنا تھا کہ یہ ماہ وہ انجواۓ کرنا چاہتا ہے اگلے مہینے سے سوچا جا سکتا۔
منسا بنا دروازہ کھٹکھٹاۓ اندر آئی جب وہ اسے صوفے پر بیٹھا مل گیا۔ جو موبائل میں مصروف تھا۔
” بھائی ! کیا کررہے ہیں ؟” وہ اس کے ساتھ براجمان ہوتے ہوۓ بولی۔
” کچھ نہیں ۔ تم بتاؤ صبح صبح میری یاد کیسے آگئ۔” وہ موبائل سے نظریں ہٹا کر بولا۔
” صبح بھائی سیریسلی۔۔۔ ذرا ایک نظر ٹائم پر دوڑائیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ صبح کب کی گزر چکی ہے۔ ویسے ان سب باتوں کو چھوڑیں۔ بڑے پاپا اور ڈیڈ آپ کا سٹڈی میں انتظار کر رہے ہیں۔ ویسے آپ کو بتادوں ڈیڈ کافی غصے میں لگ رہے تھے۔” اس نے جاتے جاتے اسے آگاہ کرنا ضروری سمجھا۔
” اچھا ! تم چلو میں آرہا ہوں۔ ”
وہ سر ہلاتی باہر کی طرف بڑھ گئ۔
وہ پانچ منٹ بعد سٹڈی میں ان کے سامنے موجود تھا۔ حنا بیگم کی موجودگی کو اس نے اچھنبے سے دیکھا۔
ان کے سنجیدہ چہرے دیکھ وہ تمام معاملات کا اندازہ لگانے کی کوشش کررہا تھا۔
” میں جو پوچھوں اس کا سیدھا جواب دینا۔کیونکہ اس وقت میں کسی مزاق کے موڈ میں بالکل نہیں ہوں۔” کمرے میں چار نفوس کی موجودگی کے باوجود خاموشی تھی۔ جب اس خاموشی کو شہریار صاحب کی آواز نے چیرا۔
” تم ان کی بیٹی مصفرہ کو تو جانتے ہی ہوگے۔ اپنی آئرہ کے ساتھ ہی پڑھتی ہے۔” وہ حنا بیگم کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ بولے۔
” جی۔” وہ مصفرہ کے ذکر پر ٹھٹھکا۔کہی مصفرہ نے میری دھمکی والی بات سب کو بتا تو نہیں دی۔اس نے ایک بار سب کے چہروں پر نظر ڈالتے ہوۓ سوچا۔
” تم جانتے ہو وہ نکاح شدہ ہے۔”انہوں نے موضوع گفتگو مزید آگے بڑھایا۔
” جی کچھ دنوں پہلے ہی پتا چلا ہے۔” وہ فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوۓ شاید یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ وہ کتنا معصوم ہے۔جب کے حقیقت تو شہریار صاحب بخوبی جانتے تھے۔
” تو یہ بتانا پسند کرو گے۔ کہ تم اُس بچی کو تنگ کیوں کر رہے ہو۔ کیا سوچ کر تم نے اسے دھمکی دی ہے کہ وہ اپنے شوہر کو چھوڑ تم سے شادی کرلیں۔ تم نے شادی بیاہ کو کھیل سمجھا ہے یا نکاح تمہارے لیے مزاق ہے۔” وہ طنزیہ نظروں سے اسے گھورتے ہوۓ بولے۔
” میں اُس سے محبت کرتا ہوں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں اس میں کیا برائی ہے۔” وہ زیادہ دیر صبر نہ کرپایا اس لیے فوراً اپنی بات ان کے سامنے رکھ گیا۔
” شادی میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن ایک ایسی لڑکی جو پہلے ہی گسی کے نکاح میں اسے بار بار شادے کے نام پر تنگ کرنا یہ برائی ہے۔” وہ جواباً بولے۔
یہ ایک ایسا موضوع تھا جس پر بات کرنے سے وہ خود کتراتا تھا اسے بالکل پسند نہیں تھا اس کا نام کسی کے نام کے ساتھ لیا جاۓ۔
ان کی بات پر وہ خاموشی سے سر جھکا گیا۔
” تم جانتے ہو تمہارا یہ پاگل پن اُس بچی کا کتنا نقصان کرگیا ہے۔ اس کا شوہر اسے طلاق دے چکا ہے جس کی وجہ صرف اور صرف تم ہو۔ تم کب سمجھو گے کہ ہر چیز جو آپ کو پسند آجاۓ وہ آپ کی ہو یہ ضروری نہیں۔ میں یہاں چیز کی بات کر رہا ہوں مگر وہ ایک جیتی جاگتی انسان ہے جس پر تم اپنے فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کررہے ہو۔” وہ بولنے پر آۓ تو بولتے چلے گۓ۔ بات کے اختتام پر ان کی آواز ہانپ سے گئ تھی۔
وہ محض سر جھکاۓ کھڑا رہا اس کے پاس کہنے کو واقعی ہی کچھ نہیں تھا۔
یہ تو اس کی بچپن کی عادت تھی کہ جو چیز اسے پسند آتی وہ ضد سے بھی حاصل کرلیتا مگر اس بار معاملہ الگ تھا وہ مصفرہ کو بھی کوئی پسندیدہ چیز سمجھ چکا تھا۔
” مجھے اس وقت ہے بےحد افسوس ہورہا ہے کہ تم میرے بیتے ہو۔تم نے میرا سر جھکا دیا ہارب۔ یہ سب کرتے ہوۓ تم بھول گۓ تمہاری بھی ایک بہن ہے۔” وہ کرب بھرے لہجے میں بولے۔
منسا کے ذکر پر وہ تڑپ اُٹھا تھا۔ مگر خاموشی سے لب بھینچے کھڑا رہا۔
” غلطی تمہاری ہے تو اسے سدھاروں گے بھی تم ہی۔ ” وہ حتمی لہجے میں بولے۔
ہارب نے سر اُٹھا کر ان کی طرف دیکھا جو نجانے اب کیا کرنے والے تھے۔
باپ بیٹے کی گفتگو میں وجاہت صاحب اور حنا بیگم خاموش تماشائی بنے کھڑے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دو دنوں سے دیکھ رہا تھا انیکسی خالی تھی۔ مصفرہ اور اس کے گھر والے جانے کہاں چلے گۓ۔ کہی وہ یہاں سے چلے تو نہیں گۓ اس کا دل ایک پل کے لیے گھبرایا۔
” نہیں ایسا کیسے ہوسکتاہے اگر وہ جاتے تو پاپا کو ضرور کوئی نا کوئی اطلاع دیتے۔ پھر کیا وجہ ہوسکتی تھی۔” اس وقت اس کے دماغ میں مختلف سوچیں گردش کر رہی تھی۔
سوچ سوچ کر اب اس کا سر درد کرنے لگا تھا۔ کل سے کتنے چکر ہی وہ انیکسی کے لگا کے آچکا تھا۔
وہ کل سے صرف اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ جانے ان کی قسمت میں کیا لکھا تھا یہ تو آنے والا وقت بتانے والا تھا۔
تم کیا جانو محبت کے میم کا مطلب
اگرمل جاۓ تو معجزہ اور نہ ملے تو موت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دنوں بعد آج وہ لوگ مجید صاحب کو ہسپتال سے ڈسچارج کروا کر لاۓ تھے۔ ان کی طبیعت اب پہلے سے کافی بہتر تھی۔
حنا بیگم ان سارے حالات کو دیکھتے ہوۓ ایک حتمی فیصلے کرچکی تھی۔
مصفرہ نے ایک بات نوٹ کی تھی کہ وہ اس سے بات نہیں کررہی تھیں۔ وہ کوئی بات پوچھتی بھی تو ہوں ہاں میں جواب دیتی وہاں سے ہٹ جاتی۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ اس سے ناراض ہیں۔
شاید کہی نہ کہی وہ اسے ان سب میں اسے قصوروار مان رہی تھیں۔ یہی بات مصفرہ کو بےچین کر رہی تھیں۔ وہ مجید صاحب کو کمرے میں لیٹا کر انہیں آرام کرنے کا بول کر باہر آچکی تھیں۔
حنا بیگم کمرے سے نکلتی کچن کی طرف جانے کے لیے مُڑی جب مصفرہ نے ان سے دو ٹوک بات کرنے کی ٹھانی۔
” مما ! کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں ؟” حنا بیگم اس کی بات پر رُکی مگر مُڑی نہیں۔
مصفرہ ان کو خاموش پاکر ان کے سامنے آتی ان کے ہاتھ تھام گئ۔
” مما ! پلیز بتائیے نا کیا آپ کو لگتا ہے ان سب میں ، میں قصوروار ہوں؟ کیا آپ کو لگتا ہے یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے؟ آپ کو لگتا ہے بابا کی اس حالت کی ذمہ دار بھی میں ہوں۔ بولیے نا مما۔۔۔۔” وہ ان کی کے چہرے پر نظریں ٹکاتی ہوئی بےچینی سے بولی۔
” نہیں ” وہ یک لفظی جواب دیتی اس کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ نکال گئیں۔
” مما ” اس نے تڑپ کر انہیں پکارا۔
” آپ کیوں کررہی ہیں میرے ساتھ ایسا ؟ آپ میرا یقین کریں کبیر کا کہا گیا ایک ایک لفظ جھوٹ ہے۔ مما ! وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ کیا آپ کو مجھ پر یقین نہیں ہے۔” وہ ان کے رویے پر تکلیف دہ لہجے میں بولیں۔
انہوں نے گہرا سانس بھر کر اس کی طرف دیکھا۔
” دیکھو مصفرہ ! مجھے تم پر پورا یقین ہے پر کچھ تو ایسا دیکھا ہوگا نا جو کبیر کے دماغ میں ایسی خرافات آئیں۔ غلطی کبیر کی ہو یا ہارب کی نقصان کس کا ہوا صرف تمہارا۔ کبیر کا تو کچھ نہیں گیا وہ شادی کر چکا ہے۔ اپنی زندگی میں آگے بڑھ چکا ہے۔ تمہاری زندگی کو بےرنگ کرکے۔ مجھے کسی کی فکر نہیں ہے سواۓ تمہارے علاوہ۔ ” وہ اسے گلے لگاتی شدت سے رودی۔ اتنے دنوں کا غبار آنسوؤں کی صورت میں نکلنے لگا۔
” مجھے معاف کردوں میری بچی کبیر ہمارا انتخاب تھا کاش ہم اس وقت اس رشتے پر راضی ہی نہ ہوتے۔” مصفرہ بھی اپنی ماں کی آغوش ملتے ہی بکھر گئ۔ ضبط کے باوجود آنسو خودبخود اس کا چہرہ بھگونے لگیں۔
” مما ! یہ سب کچھ اس ہارب کی وجہ سے ہوا ہے اس نے ہی کیا ہے۔” وہ اس دن ہونے والا سارا واقعہ ان کے گوش گزار کرگئ۔
اس کی باتیں سُن کر وہ تھوڑی دیر پہلے اپنے دماغ میں پنپنے والے فیصلے پر یقین کی مہر ثبت کرچکی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” اسد سنیے ! مجھے آپ سے بےحد ضروری بات کرنی ہے۔ ” لائبہ بیگم خاموش بیٹھے اسد صاحب کے نزدیک بیٹھتے ہوۓ انہیں مخاطب کرتے ہوۓ بولیں۔
” ہہمم! کہیے میں سُن رہا ہوں۔” وہ ان کی طرف مڑتے ہوۓ بولے۔
”میں نے آج ارسم کی باتیں سنی۔ مجھے لگتا ہے ہمیں ارسم کو ایک موقع دے دینا چاہئے۔ ” وہ ان کے تاثرات جاننے کے لیے خاموش ہوئیں جو ان کی بات تر سخت ہوچکے تھے۔
” ہرگز نہیں میں اب ارسم پر یقین کرنے کی غلطی نہیں کرسکتا۔ پہلے ایک دفعہ یہ غلطی کرچکا ہوں جس کا انجام بُگھت چکا ہوں۔ ویسے بھی اب اس فیصلے کا حق میں آئرہ پر چھوڑ چکا ہوں۔ وہ جو چاہے گی وہی ہوگا۔ ” وہ دوٹوک انداز میں بولے۔
” تھیک ہے اگر آپ ارسم کے لیے راضی نہیں تو اشعر کے بارے میں کیا خیال ہے۔ ” انہوں نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔
” کیا مطلب ہے اس بات کا اُس کا یہاں کیا ذکر۔ ” انہوں نے سوالیہ نظریں اُٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔
” ایک سال پہلے ہی وہ لندن سے اپنی تعلیم مکمل کرکے آیا ہے۔ اور پچھلے ایک سال سے وہ بہت اچھے سے سارا بزنس سنبھال رہا ہے۔ آپی مجھ سے کافی دفعہ آئرہ کے لیے اشعر کے رشتے کی بات کر چکی ہیں مگر میں نے ہر دفعہ ٹال مٹول سے کام لیا ہے۔ اگر آپ ارسم کے معاملے میں سریس نہیں ہیں تو اس بارے میں ایک دفعہ سوچا جاسکتا ہے۔ ” وہ امید بھری نظریں ان پر ٹکاتے ہوۓ بولیں۔
”مگر ہم کچھ خاص نہیں جانتے اُس کے بارے میں۔ ایسے میں کیسے میں اس رشتے کے بارے میں سوچ سکتا ہوں۔ ” وہ الجھن بھرے انداز میں بولے۔
ان کے لہجے می نیم رضامندی دیکھ کر وہ مزید بولیں۔
” ہہہم! یہ بات تو ہے ۔ وہ ایک بزنس ڈیل کے سلسلے میں کچھ وقت کے لیے یہاں آرہا ہے۔اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے ہمارے گھر انوائٹ کرلیتی ہوں جب تک وہ یہاں ہے وہ یہی رہے ایسے میں ہم بھی اُس کے بارے میں جان جائیں گے۔ قریب سے اُس کی شخصیت کو بھی پرکھ لیں گے۔ کیا کہتے ہیں آپ؟ ” وہ آنکھوں میں چمک لیے بولیں۔
” بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔ تم اجازت دے دو اُسے یہاں آنے کی۔ لیکن ہوگا وہی جو آئرہ کہے گی۔” وہ دو ٹوک لجے میں بولے۔
لائبہ بیگم نے سمجھتے ہوۓ اثبات میں سر ہلایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” بڑی بی بی جی ! مجھے صاحب جی سے ضروری بات کرنی ہے۔” حنا بیگم انہیں دیکھتی ہوئی مخاطب ہوئیں۔
” کوئی ضروری بات نہیں ہے تو تم مجھ سے شیئر کرسکتی ہو” آمنہ بیگم ان کے سنجیدہ چہرے پر نظریں ٹکاتے ہوۓ بولی۔
انہیں خاموش دیکھ کر وہ سمجھ گئ کہ وہ کچھ نہیں بتائیں گی۔
” ٹھیک ہے تم ایسا کرو تم یہ چاۓ سٹڈی روم میں لے جاؤ۔ وہ وہی ہیں۔ ” آمنہ بیگم نے چاۓ کی ٹرے اس کی طرف بڑھائی۔
وہ خاموشی سے ٹرے لیتی سٹڈی روم کی طرف سٹڈی کی طرف بڑھ گئ۔
دروازے پر پہنچ کر انہوں نے گہری سانس بھری۔ ہلکا سا دروازہ کھٹکھٹا کر اندر کی طرف بڑھ گئ۔
چاۓ ٹیبل پر رکھ کر وہ وہی کھڑی رہیں۔
” صاحب جی مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔ ” وجاہت صاحب نے شہریار صاحب کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا۔
” بولیے بہن جی۔ میں سُن رہا ہوں۔” انہوں نے بولنے کا اشارہ کیا۔
” آپ کا بےحد شکریہ آپ نے مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا۔ میں آپ کی بےحد مشکور ہوں کہ جن حالات میں آپ نے ہمارا ساتھ دیا اس کے لیے جتنا شکریہ کروں کم ہے۔ مگر اب ہم اور یہاں نہیں رہ سکتے۔ ” انہوں نے پلوں کے نیچے سے انیکسی کی چابی نکال کر ان کی جانب بڑھائی۔
انہوں نے چابی لینے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا۔ مختلف سوچوں کا جال ان کے ماتھے پر بکھرا۔
” کیوں کچھ ہوا ہے؟ کوئی مسئلہ ہے تو آپ شیئر کرسکتی ہیں۔” وہ متفکر لہجے میں بولے۔
” بس آپ سمجھ لیں اب ہمارا یہاں سے جانا ہی ٹھیک ہے۔ کیونکہ مجھ میں لوگوں کی باتیں سُننے کی ہمت نہیں ہے ” وہ بےبسی بھرے لہجے میں بولی۔
” کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ ؟ میں سمجھا نہیں۔ آپ کھل کر بتائیں ہوا کیا ہے۔”
” میں گھوما پھرا کر بات نہیں کروں گی۔ جب تک چھوٹے صاحب جی باہر تھا سب ٹھیک تھا لیکن جب سے وہ یہاں آۓ ہیں ہماری زندگیاں اُتھل پُتھل ہوگئ ہیں۔” وہ رنجیدہ لہجے میں بولیں۔
” کیا مطلب ہے کیا کیا ہے ہارب نے؟ ” ہارب کے ذکر پر شہریار صاحب بھی چونک سے گۓ تھے۔
” شاید آپ کو میری بات پر یقین نہ آۓ لیکن میں جو بھی بتانے جارہی ہوں بالکل سچ ہے۔” پھر وہ مصفرہ کی کہی ایک ایک بات انہیں بتاتی چلی گئ۔ مصفرہ کی طلاق کی بابت بتاتی ہوئیں وہ آبدیدہ سی ہوگئیں۔
ان کی باتوں پر شہریار صاحب کے چہرے پر سختی سی آگئ تھی۔ انہیں ہارب سے ہرگز بھی اس سب کی اُمید نہیں تھی۔
” اگر واقعی ہی ہارب نے یہ سب کیا ہے۔ اگر وہ ایک پرسنٹ بھی ان سب میں انوالو ہوا تو میں اسے ہرگز بھی معاف نہیں کروں گا۔وہ اٹل انداز میں گویا ہوۓ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تیزی سے گنگناتی ہوئی ہارب کے کمرے کی جانب بڑھی جب سامنے سے آتے ذوہان سے ٹکرائی۔
وہ آفس سے ایک اہم فائل لینے آیا تھا جو صبح جلدی جلدی میں لینا بھول چکا تھا۔ کچھ ہی دیر میں اس کی ایک ضروری میٹنگ تھی۔
وہ جو فون پر کسی سے بات کرتا اپنے دھیان سے جارہا تھا۔جب کوئی آندھی طوفان کی طرح اس کے وجود کا حصہ بنا۔ جس کے نتیجے میں اس کے ہاتھ میں پکڑی فائل اور موبائل زمین کو سلامی پیش کرچکا تھا۔
اس نے جھنجھلا کر خونخوار نظروں سے سامنے والے کو دیکھا۔
منسا نے سر سہلاتے نظر اُٹھا کر سامنے دیکھا مگر یہ کیا سامنے تو اسی کا کھڑوس تھا۔ جو اُسے ایسے گھور رہا تھا جیسے سالم نگل جاۓ گا۔ اسے دیکھ کر منسا نے زبان دانتوں تلے دبائی۔
اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا جب اس کی دھاڑ اسے خاموش گروا چکی تھی۔
” دماغ تو تمہارا پہلے ہی خراب ہے لگتا ہے اب نظر آنا بھی بند ہوچکا ہے۔ دماغ کے ساتھ آنکھوں کا استعمال بند کردیا ہے۔۔۔۔ سٹوپڈ گرل۔” وہ طنزیہ انداز میں اسے گھورتا ہوا بولا۔
منسا نے خاموشی سے اس کی بات سنی کیونکہ اس دفعہ واقعی ہی غلطی اس کی تھی۔ ورنہ وہ خاموشی سے کسی کا طنز برداشت کرجاۓ۔
وہ اس کو باتیں سُناتا اب فائل اور موبائل زمین سے اُٹھاتا تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔
منسا نے سر جھٹکتے اس کی پُشت سے نظریں ہٹائی۔ پھر کچھ یاد آنے پر اپنے سر پر چپت رسید کرتی ہارب کے روم کی طرف بڑھ گئ۔
ہارب ابھی کچھ دیر پہلے فریش ہوکر فارغ ہوا تھا۔ شہریار صاحب تو اسے کب سے آفس جوائن کرنے کا کہہ رہے تھے۔ پر اس کے کہنا تھا کہ یہ ماہ وہ انجواۓ کرنا چاہتا ہے اگلے مہینے سے سوچا جا سکتا۔
منسا بنا دروازہ کھٹکھٹاۓ اندر آئی جب وہ اسے صوفے پر بیٹھا مل گیا۔ جو موبائل میں مصروف تھا۔
” بھائی ! کیا کررہے ہیں ؟” وہ اس کے ساتھ براجمان ہوتے ہوۓ بولی۔
” کچھ نہیں ۔ تم بتاؤ صبح صبح میری یاد کیسے آگئ۔” وہ موبائل سے نظریں ہٹا کر بولا۔
” صبح بھائی سیریسلی۔۔۔ ذرا ایک نظر ٹائم پر دوڑائیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ صبح کب کی گزر چکی ہے۔ ویسے ان سب باتوں کو چھوڑیں۔ بڑے پاپا اور ڈیڈ آپ کا سٹڈی میں انتظار کر رہے ہیں۔ ویسے آپ کو بتادوں ڈیڈ کافی غصے میں لگ رہے تھے۔” اس نے جاتے جاتے اسے آگاہ کرنا ضروری سمجھا۔
” اچھا ! تم چلو میں آرہا ہوں۔ ”
وہ سر ہلاتی باہر کی طرف بڑھ گئ۔
وہ پانچ منٹ بعد سٹڈی میں ان کے سامنے موجود تھا۔ حنا بیگم کی موجودگی کو اس نے اچھنبے سے دیکھا۔
ان کے سنجیدہ چہرے دیکھ وہ تمام معاملات کا اندازہ لگانے کی کوشش کررہا تھا۔
” میں جو پوچھوں اس کا سیدھا جواب دینا۔کیونکہ اس وقت میں کسی مزاق کے موڈ میں بالکل نہیں ہوں۔” کمرے میں چار نفوس کی موجودگی کے باوجود خاموشی تھی۔ جب اس خاموشی کو شہریار صاحب کی آواز نے چیرا۔
” تم ان کی بیٹی مصفرہ کو تو جانتے ہی ہوگے۔ اپنی آئرہ کے ساتھ ہی پڑھتی ہے۔” وہ حنا بیگم کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ بولے۔
” جی۔” وہ مصفرہ کے ذکر پر ٹھٹھکا۔کہی مصفرہ نے میری دھمکی والی بات سب کو بتا تو نہیں دی۔اس نے ایک بار سب کے چہروں پر نظر ڈالتے ہوۓ سوچا۔
” تم جانتے ہو وہ نکاح شدہ ہے۔”انہوں نے موضوع گفتگو مزید آگے بڑھایا۔
” جی کچھ دنوں پہلے ہی پتا چلا ہے۔” وہ فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوۓ شاید یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ وہ کتنا معصوم ہے۔جب کے حقیقت تو شہریار صاحب بخوبی جانتے تھے۔
” تو یہ بتانا پسند کرو گے۔ کہ تم اُس بچی کو تنگ کیوں کر رہے ہو۔ کیا سوچ کر تم نے اسے دھمکی دی ہے کہ وہ اپنے شوہر کو چھوڑ تم سے شادی کرلیں۔ تم نے شادی بیاہ کو کھیل سمجھا ہے یا نکاح تمہارے لیے مزاق ہے۔” وہ طنزیہ نظروں سے اسے گھورتے ہوۓ بولے۔
” میں اُس سے محبت کرتا ہوں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں اس میں کیا برائی ہے۔” وہ زیادہ دیر صبر نہ کرپایا اس لیے فوراً اپنی بات ان کے سامنے رکھ گیا۔
” شادی میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن ایک ایسی لڑکی جو پہلے ہی گسی کے نکاح میں اسے بار بار شادے کے نام پر تنگ کرنا یہ برائی ہے۔” وہ جواباً بولے۔
یہ ایک ایسا موضوع تھا جس پر بات کرنے سے وہ خود کتراتا تھا اسے بالکل پسند نہیں تھا اس کا نام کسی کے نام کے ساتھ لیا جاۓ۔
ان کی بات پر وہ خاموشی سے سر جھکا گیا۔
” تم جانتے ہو تمہارا یہ پاگل پن اُس بچی کا کتنا نقصان کرگیا ہے۔ اس کا شوہر اسے طلاق دے چکا ہے جس کی وجہ صرف اور صرف تم ہو۔ تم کب سمجھو گے کہ ہر چیز جو آپ کو پسند آجاۓ وہ آپ کی ہو یہ ضروری نہیں۔ میں یہاں چیز کی بات کر رہا ہوں مگر وہ ایک جیتی جاگتی انسان ہے جس پر تم اپنے فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کررہے ہو۔” وہ بولنے پر آۓ تو بولتے چلے گۓ۔ بات کے اختتام پر ان کی آواز ہانپ سے گئ تھی۔
وہ محض سر جھکاۓ کھڑا رہا اس کے پاس کہنے کو واقعی ہی کچھ نہیں تھا۔
یہ تو اس کی بچپن کی عادت تھی کہ جو چیز اسے پسند آتی وہ ضد سے بھی حاصل کرلیتا مگر اس بار معاملہ الگ تھا وہ مصفرہ کو بھی کوئی پسندیدہ چیز سمجھ چکا تھا۔
” مجھے اس وقت ہے بےحد افسوس ہورہا ہے کہ تم میرے بیتے ہو۔تم نے میرا سر جھکا دیا ہارب۔ یہ سب کرتے ہوۓ تم بھول گۓ تمہاری بھی ایک بہن ہے۔” وہ کرب بھرے لہجے میں بولے۔
منسا کے ذکر پر وہ تڑپ اُٹھا تھا۔ مگر خاموشی سے لب بھینچے کھڑا رہا۔
” غلطی تمہاری ہے تو اسے سدھاروں گے بھی تم ہی۔ ” وہ حتمی لہجے میں بولے۔
ہارب نے سر اُٹھا کر ان کی طرف دیکھا جو نجانے اب کیا کرنے والے تھے۔
باپ بیٹے کی گفتگو میں وجاہت صاحب اور حنا بیگم خاموش تماشائی بنے کھڑے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبر کی حد بھی تو کچھ ہوتی ہے
کتنا پلکوں پہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سنبھالوں پانی
”یہ نکاح کا جوڑا ہارب کے گھر سے آیا ہے۔ دیکھ لو سب چیزیں اور انہیں سنبھال کر رکھ لو۔” حنا بیگم اس کی توجہ سامنے پڑے خوبصورت جوڑے کی طرف مبذول کرواتی ہوئیں بولیں۔
” مما! آپ سمجھ کیوں نہیں رہی ؟ آپ چاہتی ہیں یہ شادی کرکے میں کبیر کے الزامات کو سچ ثابت کردوں۔ اُسے تو یہی لگے گا کہ یہ سب سچ ہے۔میرا اور ہارب کا کوئی تعلق ہے۔ مما پلیز ۔۔۔۔ یہ مت کریں میرے ساتھ۔” وہ روتی ہوئی التجا کرتی ہوئی بولی۔
دو دن پہلے شہریار صاحب نے ہارب کا نکاح اس سے کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر حنا بیگم کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ جب انہوں نے یہ خبر مصفرہ کو آکر دی تو وہ ہتھے سے اکھڑ گئ تھی۔ پر انہوں نے اس کی کسی بات پر توجہ نہ دی۔ آج جب تین دن بعد متوقع نکاح کا جوڑا آیا تھا جسے دیکھ اس کا غصہ نۓ سرے سے عود آیا تھا۔
” مصفرہ میری جان سمجھنے کی کوشش کرو یہ وقت کا تقاضا ہے۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔” وہ اسے سمجھانے والے انداز میں بولیں۔
”آپ لوگ زبردستی اُن پر اپنا فیصلہ مسلط کررہے ہیں۔ یہ رشتہ جبراً جوڑا جارہا ہے۔ تو آپ خود ہی اندازہ لگا لیں اس رشتے کا کیا انجام ہوگا۔جو اب آپ کو وقت کا تقاضا لگ رہا ہے کل جب اس رشتے کا اختتام ہوگا تب آپ کو افسوس ہوگا۔” وہ کسی بھی طرح انہیں قائل کر لینا چاہتی تھی.
” کوئی زبردستی نہیں ہورہی اُس کے ساتھ۔ بقول اُس کے وہ تم سے محبت کرتا ہے۔” انہوں نے اس کی بات رد کی تھی۔
” ہہننہ! ان امیر لوگوں کی محبت سے میں اور آپ بخوبی آگاہ ہیں۔ صرف یہ چند دن ہیں پھر اسے یہ سب غلطی لگے گا۔ اور وہ بھی ایسی لڑکی سے جو ہکلاتی ہو اور طلاق شدہ بھی ہو۔ دیکھنا پھر اُسے پچھتاوا ہوگا۔” وہ استہزایہ انداز میں گویا ہوئی جیسے خود کا مزاق اُڑا رہی ہو۔
اس کے جواب میں ان کے پاس کچھ کہنے کو بچا ہی نہ تھا۔اس کا بار بار اپنی خامی کا ذکر کرکے خود کا مذاق اُڑانا انہیں گہری تکلیف میں مبتلا کرجاتا۔ مگر فی الحال وہ ہرگز نرم نہیں پڑنا چاہتی تھی۔
” چیزیں سمیٹ لو پھر نکاح والے دن ملیں گی نہیں۔” وہ اس سے نظریں چُراتیں اندر کی جانب بڑھ گئیں۔
مصفرہ نے اپنی بات کے یوں رد کیے جانے پر دھندلائی آنکھوں سے ان کی پُشت کو دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دن قبل
” غلطی تمہاری ہے تو اسے سدھاروں گے بھی تم ہی۔ تمہارا اور مصفرہ بیٹی کا نکاح کچھ دن بعد منسا کی منگنی کے ساتھ ہوگا۔ تمہیں کوئی اعتراض۔ ” وہ دو ٹوک انداز میں بولے۔
ہارب کو ایک پل لگا تھا سارے حالات کو سمجھنے میں۔ اس کا دل خوشی سے اُچھلا۔ پر سنجیدہ منہ بناۓ کھڑا رہا۔
”نہیں۔۔۔” ان کی بات پر اس نے نفی میں سر ہلایا۔
” ہونا بھی نہیں چاہیے۔ آخر یہ سب ہوا بھی تمہاری وجہ سے ہے۔” وہ اس پر سے نظریں ہٹا کر حنا بیگم کی طرف متوجہ ہوگے۔
” بہن جی ! آپ کو اس رشتے سے کوئی مسئلہ تو نہیں ہے۔ اس بات کی گارنٹی میں دیتا ہوں کہ وہ یہاں خوش رہے گی۔ اگر یہ نالائق کوئی ایسی ویسی حرکت کرے گا تو میں ہوں اور بھائی صاحب بھی ہیں اس کے کان کھینچنے کے لیے۔” انہوں نے خاموش کھڑے وجاہت صاحب کی طرف اشارہ کیا جنہوں نے اس کی بات پر اثبات میں سر ہلایا۔
” مگر یہ سب یوں اچانک مطلب کیسے۔۔۔” وہ یکدم اس فیصلے پر بوکھلا سی گئ تھی۔
ہارب نے مسکین سی شکل بنا کر ان کی طرف دیکھا کہیں وہ اس رشتے سے انکار ہی نہ کردیں۔
” کوئی مسئلہ ہے بہن جی۔۔” شہریار صاحب متفکر سے بولے۔
” نہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مجھے منظور ہے یہ رشتہ۔ مجھے بس مصفرہ کی خوشی چاہئے اور کچھ نہیں۔” وہ پل میں ہی حتمی فیصلے کرگئ۔
” آپ بےفکر رہیے اس بات کی گارنٹی میں دیتا ہوں وہ یہاں خوش رہے گی۔ ” شہریار صاحب انہیں یقین دلانے والے لہجے میں بولیں۔
” شکریہ صاحب جی ! آپ نے میری بات سُنی اور مجھے اپنے بیٹے پر ترجیح دی۔ ہمیشہ بُرے وقتوں میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔ میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی۔” وہ آبدیدہ لہجے میں گویا ہوئیں۔
” اس میں شکریہ والی کوئی بات نہیں۔غلطی میرے بیٹے کی تو سُدھارے گا بھی وہ۔ آپ ٹینشن مت لیں اور جاکر تیاریاں کریں نکاح میں بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ ” وہ خوشدلی سے بولے۔
حنا بیگم سر ہلاتی انیکسی کی طرف بڑھ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی کار خاموشی سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ جب اس نے موبائل سے نظر اُٹھا کر کار کے شیشے کے پار دیکھا۔ جب اس کی نظر سامنے کھڑے تین بچوں کو پر پڑی جو مل کر ایک بچی کو تنگ کررہے تھے۔
” ڈرائیور گاڑی روکو۔” اس نے ڈرائیور کو کار روکنے کا حکم دیا۔
وہ کار سے اُتر کر اُن بچوں کی جانب بڑھ گیا۔
لڑکے جن کی عمر تقریباً بارہ تیرہ برس تھی اسے قریب آتا دیکھ بھاگ نکلے۔
وہ اس بچی کے قریب آکر ٹھہرا۔ غور سے اس کے معصوم نقوش کو نہارا تھا۔وہ گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
” کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہو۔لٹل اینجل۔ چلو شاباش مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے؟” وہ اسے پچکارتا ہوا بولا۔
” انکل اُن گندے لڑکوں نے میری آئس کریم گرا دی۔” وہ روتے ہوۓ بولی۔
” بس اتنی سی بات۔ چلو میں آپ کو آئس کریم دلواتا ہوں۔”
بچی کا چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا۔مگر کچھ یاد آنے پر وہ مایوسی سے بولی۔
” مما نے منع کیا ہے کسی اجنبی سے لیکر کوئی چیز نہیں کھانی۔” وہ ماں کی بات اسے بتاتی ہوئی بولی۔
” مما کو بولنا انکل نے خود دلوائی تم نے نہیں مانگی۔ بولنا اچھے والے انکل تھے۔” وہ اس کی باتیں سنتا ہوا بولا۔
اس نے اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی۔پھر کچھ سوچتا سامنے آئس کریم والی دکان کی طرف بڑھ گیا۔
وہاں سے آئس کریم لا کر اُس بچی کو تھمائی۔ جسے کھول کر وہ کھانے لگی۔ اس بچی کی چہرے پر سچی خوشی دیکھ کر وہ ہلکا سا مسکرایا تھا۔ اس کی مسکراہٹ اسے کسی کی یاد دلا گئ۔
اپنی زندگی کی سچی خوشی تو وہ کب کی گنوا چکا تھا اب تو صرف پچھتاوا ہی باقی تھا۔
وہ اس کا گال تھپتھپاتا کار کی طرف بڑھ گیا۔ آنکھوں میں آئی نمی چھپانے کے لیے آنکھوں پر گلاسز چڑھا لیے۔
ایک مکمل زندگی خراب کردی
تمہارے ادھورے عشق نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے اسے اشعر کے آنے کا پتہ چلا تھا اسے بے انتہا خوشی ہوئی تھی۔ پچھلے سال وہ کچھ وقت کے لیے اشعر کی طرف رہنے گئ تھی جس دوران ان دونوں میں اچھی خاصی بانڈنگ ہوچکی تھی۔
وہ کبھی سریس تو کبھی مزاح کرنے والا انسان تھا۔ آئرہ نے اُس میں ہمیشہ ایک ہمدرد دوست کو پایا تھا جو اس کی مشکلوں کو منٹوں میں دور کردیتا تھا۔
وہ لاؤنج میں ہی بیٹھی تھی جب کار کے رُکنے کی آواز آئی۔ اس نے اُٹھ کر آنے والے کو دیکھا جو کوئی اور نہیں اشعر ہی تھا۔
” کیسی ہو لٹل فیری؟ ” وہ اس کی ناک کھینچتا ہوا بولا۔
میں ٹھیک ہوں اشعر بھائی۔ آپ کیسے ہیں؟ آنے میں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی۔” وہ اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
” میں بالکل ٹھیک ہوں دادی اماں۔۔۔ تم یہ بتاؤ باقی سب کدھر ہیں۔ اور لائبہ ماسی کہاں ہیں۔” وہ اسے چڑاتا ہوا بولا۔
” میں کوئی دادی اماں نہیں ہوں۔” وہ منہ بناتی ناراضگی سے بولی۔
اشعر نے اس کے منہ بسورنے پر قہقہ لگایا۔
” قسم سے چڑیل لگ رہی ہو۔ ” اس نے ایک دفعہ پھر فقرا کسا۔
آئرہ نے غصے سے اسے گھورا جو آتے ہی شروع ہوچکا تھا۔
اوپر کھڑے وجود نے یہ منظر حسد سے دیکھا تھا۔ وہ جو اس کے ساتھ سیدھے منہ بات تک نہیں کرتی تھی اپنے اس کزن کے ساتھ کیسے گفت و شنید میں مصروف تھی کہ اسے اردگرد کا بھی ہوش نہیں تھا۔
” جائیے میں نہیں بتارہی سب کہاں ہیں؟ ” وہ ناراضگی سے اس دیکھتی جاکر صوفے پر بیٹھ گئ۔
وہ بھی چلتا ہوا لاؤنج میں آگیا۔
” اچھا سوری رُو ! چلو بتاؤ سب کہاں ہیں؟ پکا اب کچھ نہیں بولوں گا۔ ” وہ منہ پر انگلی ٹکاتے ہوۓ بولا۔
ابھی وہ مزید کچھ کہتا ارسم سیڑھیوں سے اترتا ان کی طرف آگیا۔
اشعر نے نظریں ہٹا کر اس کی طرف دیکھا۔
”السلام علیکم! میں ارسم ابراہیم۔ آئرہ کا شوہر۔” ارسم نے اپنا ہاتھ اس کی جانب بڑھایا۔
اس کی بات پر اشعر نے اپنے لب بھینچے۔
آئرہ ہے خونخوار نظروں سے اسے گھورا۔
” وعلیکم السلام! آپ سے مل کر اچھا لگا۔باۓ دا وے ۔۔۔۔ میں اشعر شاہد۔ آئرہ کا کزن۔ ” اشعر اس کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام چکا تھا۔
لائبہ بیگم بھی ان کی آواز سُنتی کچن سے نکلتی اسی طرف آگئ۔
اشعر ان کی طرف متوجہ ہوگیا۔
ارسم نے اس کی غصے بھری نظروں کو بخوبی خود پر محسوس کیا تھا۔ اس نے ایک نظر لائبہ بیگم اور اشعر کی طرف ڈالی وہ اپنی باتوں میں مصروف تھے۔
اُن سے نظریں ہٹا کر اس نے آئرہ کی طرف دیکھ کر آنکھ دبائی۔ اس کی بدتمیزی پر آئرہ گڑبڑائی۔ اس نے بوکھلا کر لائبہ بیگم کی طرف دیکھا جو اس کی طرف متوجہ نہیں تھیں۔
وہ پیر پٹکتی وہاں سے ہٹتی روم کی طرف بڑھ گئ۔
ارسم نے ہنستے ہوۓ اس کی پُشت کو دیکھا۔
اشعر ان کے قریب آتا ان کے گلے لگ چکا تھا۔ ” کیسی ہیں آپ ماسی؟ ”
” میں بالکل ٹھیک ہوں تم سناؤ۔ تم کیسے اور گھر میں سب کیسے ہیں؟ آپی کیسی ہیں؟ انہیں بھی لے آتے ساتھ۔” لائبہ بیگم نے محبت بھری ایک نظر اس پر ڈالی۔
ارسم ان پر ایک نظر ڈالتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔ اس کا مقصد اشعر پر اپنا رشتہ ظاہر کرنا تھا جو وہ اچھے سے کر چکا تھا۔ اب اس کا یہاں کوئی کام نہیں تھا۔
ہارب کے نکاح کی بھی کچھ شاپنگ کرنی تھی۔اپنے اکلوتے جگری یار کے نکاح پر کوئی کثر نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر کار اس کے نکاح کا دن آہی گیا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا کہیں غائب ہوجاۓ۔ جانے کوئی اسے سمجھ کیوں نہیں رہا تھا۔
اسے اپنا آپ کسی بیکار شے کی طرح لگ رہا تھا جسے ایک نے ریجیکٹ کردیا تو دوسرے نے اپنا لیا۔
اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ایسا کیا کریں کہ سب ٹھیک ہوجاۓ۔ ابھی وہ ان سوچوں میں بیزی تھی جب دروازہ کھول کر کوئی وجود اندر آیا۔مگر وہ تو یوں بیٹھی تھی جیسے اردگرد کا کوئی ہوش ہی نہ ہو۔
آئرہ اپنی دوست کے لیے پےحد خوش تھی کہ اُس کی جان اس کبیر سے چھوٹ گئ تھی۔اس بات کی سے بے انتہا خوشی تھی۔ آئرہ دو دن پہلے آکر بھی اسے سمجھا کر گئ تھی مگر اُس پر رتی برابر بھی اثر نہ ہوا۔ وہ اپنے نکتے پر یوں ڈٹی تھی کہ اکے کسی کی بات ذرا بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔
” مصفرہ! میری جان جلدی سے ریڈی ہوجاؤ ہمیں پارلر کے لیے نکلنا ہے ہم آلریڈی لیٹ ہیں۔ منسا باہر کار میں ہمارا انتظار کررہی ہے۔” آئرہ اسے اپنی طرف متوجہ کرتی ہوئی بولی۔
” آئرہ ! تم ہی میری بات سمجھ جاؤ۔ میں یہ نکاح بالکل بھی نہیں کرنا چاہتی۔ مما تو سمجھنا ہی نہیں چاہتیں تم تو مجھے سمجھنے کی کوشش کرو۔تم ہی تو میری دوست ہو تم تو جانتی ہو کہ میں ان تین سالوں میں کبیر سے نکاح کرکے کس اذیت میں رہی ہوں تم چاہتی ہو میں پھر وہی تکلیف دوبارہ محسوس کروں۔” وہ بےبسی سے اس کا ہاتھ تھامتی ہوئی گویا ہوئی۔
” کیسی باتیں کررہی ہو مصفرہ؟ میں یہ کیوں چاہوں گی۔ کبیر اور ہارب بھائی میں بہت فرق ہے۔ ہارب بھائی تمہیں واقعی ہی خوش رکھے گے۔ وہ اُس کبیر جیسے ہرگز نہیں ہے۔ ” وہ اسے سمجھانے والے انداز میں بولی۔
مصفرہ اس کی بات درمیان میں ہی کاٹ گئ۔
” چلو منسا باہر انتظار کر رہی ہوگی۔” وہ بغیر اس کی بات سنتی باہر کی جانب بڑھ گئ۔
آئرہ نے اس کے انداز میں گہرا سانس بھرا اور بیڈ پر پڑا اس کا بیگ اُٹھا کر باہر مصفرہ کے پیچھے ہی بڑھ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منسا منگنی کی مناسبت سے وائٹ کلر کی خوبصورت کے میکسی میں ملبوس تھی۔ خوبصورتی سے کیے گۓ میک اپ میں وہ بےحد پیاری لگ رہی تھی۔ شہد رنگ آنکھیں مزید دوآتشہ لگ رہی تھی۔
اس کے برعکس مصفرہ شادی کی مناسبت سے بلڈ ریڈ رنگ کے بھاری لہنگے میں کوئی اپسرا ہی لگ رہی تھی۔ نیلی آنکھیں ساری دنیا سے خفا تھی۔ یہ اداسی بھرا روپ اسے مزید حسین بنا رہا تھا۔
آئرہ نے دونوں کی تیاری کو اطمینان سے دیکھا جو موقع کی مناسبت سے پرفیکٹ لگ رہی تھی۔ اس نے باری باری دونوں کی طرف دیکھا۔ منسا تہ پرسکون سی تھی بس کچھ گھبرا رہی تھی اس کے برعکس مصفرہ بار بار اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کررہی تھی۔
آئرہ نے افسوس سے اس کی طرف دیکھا جو یوں بیٹھی تھی جیسے ساری دنیا سے خفا ہو۔
آئرہ سر جھٹکتی ہوئی انہیں لیتی باہر کی جانب بڑھ گئ۔ جہاں ڈرائیور ان کا انتظار کررہا تھا۔ ان لوگوں نی یہاں سے ڈائریکٹ میرج ہال پہنچنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہارب بلیک کر کی شیروانی میں بےحد اچھا لگ رہا تھا اس کے چہرے پر ہی خوشی کی جھلک صاف ظاہرہ ہورہی تھی۔
وہ لوگ مقرہ وقت پر ہی ہال میں پہنچ چکے تھے۔ پہلے منسا اور ذوہان کی منگنی کا فنکشن گھر کے لاؤن میں ہی ہونا تھا۔ مگر ہارب کی یوں اچانک شادی کی وجہ سے ہال میں سارا انتظام افراتفری میں کیا۔
کچھ ہی دیر میں دلہن کے آنے کا شور مچا تھا۔ مصفرہ کہ لاکر برائیڈل روم میں بیٹھا دیا گیا۔
کچھ ہی دیر میں نکاح کا شور اُٹھا تھا۔ مولوی صاحب گواہان کے ساتھ اندر آۓ تھے۔
نکاح کے کلمات سُن کر اس کی ہچکی بندھ گئ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے تین سال پہلے کا منظر گھومنے لگا جب اس کا نکاح کبیر سے ہوا تھا۔
” مصفرہ مجید ولد مجید احمد آپ کا نکاح ہارب آفریدی ولد شہریار آفریدی پانچ لاکھ سکہ رائج الوقت میں طے پاپا کیا آپ نے قبول کیا۔ ”
یہ الفاظ ہتھوڑے کی طرح اس کی دماغ پر برسے۔ وہ کپکپاتی آواز میں قبول ہے گئ۔
یہی الفاظ تین دفعہ دہراۓ گۓ چس کا جواب وہ اقرار میں کر چکی تھی۔
ہارب سے بھی ایجاب وقبول کرنے کے بعد سب اسے مبارک باد پیش کرنے آرہے تھے۔ جسے وہ ہنس ہنس کر قبول کررہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” ذوہان ! میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تم دونوں کی منگنی کے بجاۓ نکاح کردیا جاۓ۔ منگنی ایسا کوئی مضبوط رشتہ نہیں ہے۔ نکاح ہی بہترین فیصلہ ہے۔” وجاہت صاحب اسے اپنے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوۓ بولے۔
” پاپا ! پر یوں اچانک۔۔۔ میرا مطلب ہے اتنی بھی کیا جلدی ہے نکاح کی۔ ” وہ جھنجھلاتا ہوا بولا۔
” ہارب تم سے چھوٹا ہے اب اُس کی شادی ہورہی ہے۔ تم کم از کم نکاح تو کرسکتے ہو۔” وہ اٹل انداز میں گویا ہوۓ۔
” منسا کے پیپر ہوجاۓ پھر اُس کی رخصتی کے بارے میں سوچتے ہیں پھر بےشک تم اُسے اپنے ساتھ لے جانا۔ اس کا ٹرانسفر ہم وہی اسلام آباد میں کروا دیں گے۔” وہ اسے اپنے لائحہ عمل سے آگاہ کرگۓ۔
” سب پہلے سے ڈیسائیڈ کرچکے ہیں اب بھی آگاہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ڈائریکٹ رخصتی والے دن آگاہ کردیتے۔” وہ نروٹھے انداز میں گویا ہوا۔
” چلو آجاؤ ۔۔۔۔ نکاح کا وقت ہوگیا ہے۔” وہ اس کی کسی بھی بات پر کان دھرے بغیر باہر کی طرف بڑھ گۓ۔
ذوہان کا دل کیا اپنے بال نوچ لے۔ یعنی عین وقت پر اسے ساری باتوں سے آگاہ کیا جارہا تھا۔ کہنے کو وہ اس گھر کا بڑا بیٹا تھا۔
فی الحال ! وہ سر جھٹکتا باہر ان کے پیچھے بڑھ گیا۔
مصفرہ کے نکاح کے کچھ دیر بعد آمنہ بیگم اندر آئیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک سُرخ رنگ کا ڈوپٹہ تھا۔
آئرہ اور منسا اسے چُپ کروانے میں مصروف تھی جو نکاح کے بعد مسلسل آنسو بہارہی تھی۔
آمنہ بیگم نے اندر آکر ایک نظر ان سب پر ڈالی تھی۔
” آئرہ یہ ڈوپٹہ منسا کو اوڑھا دو۔کچھ ہی دیر میں مولوی صاحب اندر آرہے ہیں نکاح کے لیے۔” وہ سنجیدگی سے ان کی طرف دیکھتی بولیں۔
منسا نے بوکھلا کر ان کی طرف دیکھا۔
” بڑی مما! پر آج تو صرف منگنی تھی۔ نکاح کہاں سے آگیا۔ اور مما بھی ابھی ناراض ہیں۔ ان کے راضی ہونے کا تو انتظار کرلیں۔وہ اور غصہ ہوجائیں گی۔” وہ یوں اچانک نکاح کے نام پر گھبرا سی گئ تھی۔
” ہہمم! منگنی ہی تھی پر کل رات ہی تمہارے بڑے پاپا اور پاپا نے مل کر نکاح کا فیصلہ کیا تھا۔اور رہی بات سارہ کی تو تم فکر مت کرو وہ مان جاۓ گی۔”
انہوں نے آئرہ کو ڈوپٹہ اوڑھانے کا اشارہ کیا اور خود باہر کی طرف بڑھ گئ۔
کچھ ہی دیر بعد وجاہت صاحب اور شہریار صاحب مولوی صاحب کے ساتھ اندر آۓ۔ آمنہ بیگم آکر منسا کے قریب ہی بیٹھ گئیں۔
منسا کو رہ رہ کر اس بات پر رونا آرہا تھا کہ اس کی مما کو اپنی ناراضگی اپنی بیٹی سے زیادہ عزیز تھی۔جو اس کے نکاح کے وقت بھی اس کے قریب نہیں تھی۔ وہ سر جھٹکتی مولوی صاحب کی طرف متوجہ ہوئی۔
” منسا شہریار ولد شہریار آفریدی آپ کا نکاح ذوہان آفریدی ولد وجاہت آفریں بعوض پانچ لاکھ حق مہر سکہ رائج الوقت طے پایا کیا آپ نے قبول کیا۔”
”قبول ہے۔” وہ آہستگی سے اقرار دے گئ۔
مولوی صاحب نے دوسری اور تیسری بار پھر کلمات دہراۓ۔جس کا اس نے مثبت جواب دیا۔
” قبول ہے۔”
”قبول ہے۔”
وہ کانپتے ہاتھوں سے نکاح نامے پر سائن کر گئ۔ شہریار صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔پھر آگے بڑھتے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔
” میری دُعا ہے تم ہمیشہ خوش رہو اور اپنی مما کی فکر مت کرو تمہیں تو پتہ ہے ان کی عادت ہے ہر معاملہ جو ان کے برعکس ہو اُس پر منہ پھلانے کی۔” وہ اس کا سر تھپتھپاتے مولوی صاحب کے پیچھے باہر کی طرف بڑھ گۓ۔
پیچھے آمنہ بیگم نے اس کے لرزتے وجود کو خود سے لگایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ منہ پھلاۓ ساری دنیا سے بیزار بیٹھا تھا جب مولوی صاحب اسٹیج پر اس کے ساتھ بیٹھے تھے۔
” ذوہان آفریدی ولد وجاہت آفریدی آپ کا نکاح منسا آفریدی ولد شہریار آفریدی سے بعوض پانچ لاکھ حق مہر سکہ رائج الوقت کے طے پایا کیا آپ نے قبول کیا۔”
سب لوگ اس کی طرف ہی متوجہ تھے جو ماتھے پر بل ڈالے بیٹھا تھا۔ وجاہت صاحب پریشانی سے اس کو دیکھ رہے تھے جو منہ سیئے بیٹھا تھا۔ انہیں ٹینشن تھی کہ کہی وہ انکار ہی نہ کردے۔
” قبول ہے۔” وہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اقرار دے گیا۔
وجاہت صاحب کی سانس میں سانس آئی۔ ہر طرف مبارک باد کا شور اُٹھا۔ وہ خود بھی اُٹھتے اسے خود میں بھینچ گۓ۔ آج وہ ان کا مان جو رکھ گیا تھا۔
”نکاح بہت بہت مبارک ہو میرے بچے۔ اللہ تم دونوں کو ایک ساتھ ڈھیروں خوشیاں نصیب فرماۓ۔” وہ اس کا کندھا تھپتھپاتے شہریار صاحب کی طرف متوجہ ہوگۓ۔
ان کے جاتے ہی ارسم اس کے قریب آیا۔
” حد ہو گئ بھائی! آپ اپنے ہی نکاح پر ایسی سڑی سی شکل بنا کر بیٹھے ہیں۔ میں تو یہاں آپ کو مبارک باد دینے آیا تھا پر آپ کی سڑی ہوئی شکل دیکھ کر مبارک دینا بنتی تو نہیں ہے۔ ” وہ مزاق اُڑانے والے انداز میں بولا۔
” منہ بند رکھ اور نکل یہاں سے۔ وہ دیکھ تیرے دوست کے تو دانت ہی نہیں اندر جارہے جیسے ہفت اقلیم کی دولت مل گئ ہو۔” وہ اس کا دھیان ہارب کی طرف کرواتا ہوا بولا جو سب سے ہنس ہنس کر مل رہا تھا۔
” اُس کی چھوڑیے وہ تو نیا نیا مجنوں بنا ہے ابھی کچھ وقت ایسا ہی حال رہے گا آپ اپنی بات کریں۔” وہ ہارب کے خلاف نیا شوشہ چھوڑتا ہوا بولا۔
” اپنے بارے میں جناب کا کیا خیال ہے جو کافی دنوں سے میری بہن کے پیچھے پاگل ہورہا ہے۔ اس بات کی مجھے بڑی خوشی ہے کہ وہ تجھے ناکوں چنے چبوا رہی ہے۔اچھا ہے تجھے اچھا خاصا خوار کرے تو تو ہے ہی اسی کے لائق۔” وہ اس کا آئرہ کے آگے پیچھا گھومنا نوٹ کرتا صاف گوئی سے بولا۔
ارسم نے بوکھلا کر اسے دیکھا تھا کہ اسے کیسے خبر ہوئی۔ مگر وہ اس کے سامنے ڈھیٹائی سے بولا۔
” منکوحہ ہے میری۔ اگر اُس کے آگے پیچھے نہیں پھروں گا تو کس کے پھروں گا۔ ویسے بھی میں کوئی خوار نہیں ہورہا ہے۔ وہ تو بس تھوڑی سی ناراض ہے تو اسے منانے کی کوشش کررہا ہوں۔ ” وہ منہ بناتا ہوا بڑبڑایا۔
ذوہان نے اس کی بات پر قہقہ لگایا تھا۔ اردگرد لوگوں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا تھا جو کچھ وقت پہلے منہ میں دہی جماۓ بیٹھا تھا اب یوں قہقہے لگا رہا تھا۔
” تھوڑی سی ناراض ۔۔۔ جا بھائی کام کر تو تو مجھے ایسے پاگل بنا رہا ہے جیسے میں کچھ جانتا نہیں۔تیرے جیسوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئے جو خود کو بڑا پھنے خان سمجھتے ہیں پھر منہ کے بل یوں ہی گرتے ہیں۔ میں تو آئرہ کو یہی مشورہ دوں گا کہ وہ تمہیں اچھا خوار کرے۔” وہ اسے سُلگا کر خود آرام سے بیٹھ چکا تھا۔
ارسم نے تپتے ہوۓ اسے گھورا۔
” میری بیوی کو آپ کے مشوروں کی ضرورت نہیں۔آپ مجھے اُس کے آس پاس بھی نظر نہ آۓ۔” وہ اسے دھمکی دینے والے انداز میں بولا۔
” اور تمہیں لگتا ہے میں تمہاری سُنوں گا۔میری بہن ہے جب دل کرے گا میں ملوں گا۔” وہ اسے تپاتے ہوۓ مسکرایا۔
ارسم نے جھنجھلا کر اس کی مسکراہٹ دیکھی پھر پیر پٹکتے اسٹیج سے ہی اُتر گیا۔ مجال ہے جو اس بندے سے کوئی باتوں میں جیت جاۓ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشعر کو ذوہان نے خود انوائٹ کیا تھا جس کی وجہ سے وہ بھی یہاں موجود تھا۔
وہ جیسے ہی اسٹیج سے اُترا اس نے ایک نگاہ اِدھر اُدھر دوڑائی تھی اور اسے سامنے ہی وہ نظر آگئ۔ جو زنک بلیو کلر کے لانگ فراک میں بے انتہا پیاری لگ رہی تھی۔ وہ ہنستی ہوئی کتنی پیاری لگتی ہے اس کے دل نے اقرار کیا۔
وہ جانے کتنی ہی دیر اسے ٹکٹکی باندھتے دیکھتا رہا اس نے ذرا سے نظر گھما کر دیکھا اس کے ساتھ ہی اشعر کھڑا تھا جو جانے اُس سے کیا کہہ رہا تھا۔جس پر وہ کھلکھلا رہی تھی۔ یہ منظر دیکھ اس کے تن بدن میں آگ لگ گئ۔
” حد ہوگئ شوہر یہاں کھڑا ہے جس سے سیدھے منہ بات کرنا پسند نہیں کرتی۔ اور اپنے اس پھٹیچر کزن کے ساتھ کیسے گپیں ہانک رہی ہے۔” وہ جیلس ہوتے ہوۓ بولا۔
لفظ پھٹیچر پر اس کے دماغ نے فوراً تردید کی تھی۔کیونکہ وہ پھٹیچر کہی سے نہیں لگ رہا تھا۔ بلکہ وہ اچھا خاصا ہینذسم تھا۔ وہ عام روٹین میں بھی ہمیشہ ٹپ ٹاپ نظر آتا تھا۔ اسے دیکھ کر ارسم نے منہ بسورا۔ پھر کچھ سوچتے ہوۓ ان کی طرف بڑھ گیا۔
” کیا باتیں ہورہی ہیں؟ ” وہ آئرہ کو نہارتے ہوۓ بولا۔
اس نے نوٹ کیا تھا کہ اسے دیکھتے ہی آئرہ کی مسکراہٹ سمٹ سی گئ تھی۔ وہ وہاں سے جانے کے پر تولنے لگی۔
وہ بھی ڈھیٹائی کا مظاہرہ کرتا ڈائریکٹ اس سے مخاطب ہوا۔
” اچھی لگ رہی ہو۔یہ رنگ تم پر اچھا لگ رہا ہے۔” وہ سمائل پاس کرتا ہوا بولا۔
آئرہ نے اشعر کے سامنے اس کی تعریف پر خجل سی ہوکر اسے دیکھا۔
” شکریہ۔” لٹھ مار انداز میں اس کا شکریہ ادا کرتی وہاں سے ہٹ گئ۔
” کیسے ہو ارسم؟ ” اشعر خوشدلی سے اسے دیکھ کر بولا۔
” میں ٹھیک ہوں۔ تم بتاؤ جس پراجیکٹ کے لیے یہاں آۓ تھے وہ کیسا چل رہا ہے۔ ” وہ بھی مروت میں اس سے پوچھ بیٹھا۔
” اچھا جارہا ہے۔” وہ ابھی مزید بات کرتا جب اس کا موبائل بجا وہ ایکسکیوز کرتا ایک سائیڈ پر چلا گیا۔
اس کے جاتے ہی اس نے آئرہ کو ڈھونڈنا چاہا جو اسے ہال میں کہی نظر نہ آئی۔شاید وہ برائیڈل روم کی طرف جا چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منسا کو لاکر اس کے ساتھ بٹھایا گیا۔ منسا نے نظر اُٹھا کے اس کی طرف دیکھا جو اس کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا۔
اس کے ایسے ریئکشن پر وہ پوری جان سے جلی تھی جس کو اتنی بھی توفیق نہ ہوئی تھی کہ وہ اسے اسٹیج پر چڑھنے میں ہی مدد دے دیتا۔
منسا نے بھی جان بوجھ کر بیٹھتے ہوۓ اسے کہنی ماری تھی پھر یوں بن گئ جیسے پتہ ہی نہ ہو کہ ہوا کیا ہے۔
ذوہان نے گھور کر اسے دیکھا جو اتنے لوگوں کی موجودگی میں پھی اس سے پنگے لینے سے باز نہ آئی تھی۔
دوسری طرف مصفرہ آئرہ کی ہمراہ اسٹیج تک آئی تھی۔ اس کو دیکھتا وہ تھم سا گیا تھا۔ وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی۔
حواس میں آتے وہ اس کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھتا اس کے قریب آیا اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔جسے وہ جھجھکتی ہوئی تھام چکی تھی۔
جانے ان کی زندگی میں آگے کیا لکھا تھا۔ ایک مشرق تھا تو دوسرا مغرب۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے وہاں سے واپس آۓ دو ماہ سے زیادہ کا وقت گزر چکا تھا۔ اس عرصے میں ملائکہ نے اسے بےحد سمجھایا تھا کہ اس سے دور رہے پر اس نے کبھی بھی اس کی نہ سُنی تھی۔ اور آج اسے اُس کے کہے ایک ایک لفظ کا احساس ہورہا تھا۔
پہلے جس دل میں اُس کے لیے محبت تھی آج وہاں اُس کے لیے صرف نفرت تھی۔ اُس کا یوں اسے اپنے دوستوں میں بےعزت کرنا اس کے لیے انتہائی تکلیف دہ عمل تھا۔ آج بھی جب اکیلے میں اُس کے رویے کے بارے میں سوچتی اس کی آنکھیں بھر آتی۔
اس کے دل میں یہ کسک تھی کہ کاش ملائکہ کی بات مان لیتی تو کم از کم وہ اسے یوں بےعزت نہ کرتا۔ اسے رہ رہ کر اس بات پر غصہ آتا تھا کہ یہ قدم اِس نے اٹھایا ہی کیوں؟
اس کم ظرف شخص کی محبت سے زیادہ اسے اپنا یوں بےعزت ہونا تکلیف دیتا تھا۔ اس بات کے لیے میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔ کبھی بھی نہیں۔
” کبھی کبھی یہ ڈر لگتا ہے کہ اگر تم مجھے کبھی راہ میں مل گۓ تو پھر میرا مزاق اُڑاؤ گے۔ زندگی میں پہلے کیا کم دُکھ تھے۔ ” اس نے آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کیا۔
”ماہنور۔۔۔ ” باہر سے آنے والی اپنے نام کی پکار پر وہ سر جھٹکتی باہر کی طرف بڑھ گئ۔ اس کی زندگی میں ماضی پر افسوس کرنے کے علاوہ بہت سے ضروری کام تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارے گھر والے سونے کے لیے جا چکے تھے وہ بھی کپڑے تبدیل کرکے کچن میں آگئ اسے چاۓ کی شدید طلب ہورہی تھی۔ وہ کب سے لاؤنج میں بیٹھا تھا وہ آئرہ پر کوئی شک نہیں کررہا تھا پر اشعر کے یہاں آنے کے مقصد سے وہ بخوبی آگاہ تھا۔
کچھ دن پہلے لائبہ بیگم اور اسد صاحب کے درمیان ہونے والی گفتگو وہ سُن چکا تھا تب سے اسے ایک پل بھی چین نہ تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی بھی طرح اسے سب سے دور لے جاۓ۔ اُس کے سارے درد، تکلیفیں ، اذیتیں خود میں سمیٹ لے۔ پر وہ تو موقع دینا ہی نہیں چاہتی تھی۔
وہ جب سے آیا تھا وہ یہی بیٹھا اسے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اسے جب جب اشعر کے ساتھ دیکھتا اسے بالکل بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ ابھی سوچیں ناجانے کہا تک پرواز کرتی جب اس کا موبائل بجا۔ وہ سوچوں کو جھٹکتا موبائل لیتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔ تقریباً دس منٹ وہ واپس آیا جب کچن سے کھٹکے کی آواز آرہی تھی۔ اور لائٹ بھی جل رہی تھی۔
وہ کچھ سوچتا کچن کی جانب بڑھ گیا۔ جہاں اس کی زندگی منہمک سے چاۓ بنانے میں مصروف تھی۔ صبح والے حلیے سے یکسر مختلف سادے سے ڈریس میں ملبوس تھی۔ وہ اس سادے سے حلیے میں بھی وہ اسے اپنے دل میں اُترتی محسوس ہورہی تھی۔ جب جب وہ اسے دیکھتا تھا اسے اُس کے چہرے پر صرف معصومیت ہی نظر آتی تھی۔
اسے دیکھ کر اُس کے چہرے پر جو غصہ آتا تھا اُس میں بھی وہ اسے کیوٹ ہی لگتی تھی۔ وہ ساری سوچیں جھٹکتا اس کے قریب آیا۔ ذرا سا جھک کر اس کے کان میں سرگوشی کی۔
” رُو مائی لائف! کب تک چلے گا یہ جانم؟ مجھے بتادو کب تک تمہاری ناراضگی کا انتظار کروں۔ مجھے بار بار خود سے دُور نہ کرو۔” ہلکے سے اس کے کان میں پھونک مار کر پیچھا ہٹا تھا۔
وہ جو اپنے دھیان میں مگن تھی اس کے یوں اتنا قریب آنے پر لرزی۔
” کیا کررہے ہیں؟ دُور رہیے۔” وہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتی بمشکل بولی۔
” کیا کررہا ہوں جانم؟ کچھ بھی نہیں ۔ بس یہ پوچھ رہا تھا کہ یہ ناراضگی کب دُور ہوگی۔ ” وہ دو قدم مزید نزدیک آیا۔
اس نے گھبرا کر قدم پیچھے کی طرف بڑھاۓ۔
” اپنے اُس کزن کو بولو تمہیں رُو مت کہا کریں بلکہ سب کو کہہ دو کہ اس نام سے تمہیں کوئی نہ پکارے اس نام سے تمہیں پکارنے کا حق صرف میرا ہے۔ ” وہ اس کے پسینے سے تر چہرے کو دیکھتا ہوا بولا۔
اس کے گھبرانے پر وہ ذرا سا مسکرایا تھا۔ جیب سے رومال نکال اس کے ماتھے پر آیا پسینا صاف کرگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کی سیاہی ہرسُو پھیلی تھی۔ اردگرد گہرا سناٹا طاری تھا۔ سب گھر والے سونے جاچکے تھے۔ ایسے میں دو نفوس کچن میں ایک دوسرے کے روبرو کھڑے تھے۔ایک وجود پر گھبراہٹ طاری تھی جو اس کے چہرے سے صاف واضح ہورہا تھا۔ دوسرا وجود سپاٹ چہرے کے ساتھ کھڑا اس کا ایک ایک نقش حفظ کرنے میں مصروف تھا۔
ایسے میں اِس تنہائی میں اس کے یوں اتنے نزدیک آنے پر وہ گھبرائی۔ آئرہ نے اس کے سینے پر دباؤ ڈال کر اسے پیچھے دھکیلنا چاہا۔ پر وہ اپنی جگہ کے ایک آنچ نہ ہلا۔ اسے ٹس سے مس نہ ہوتے تھے آئرہ کو اسے مخاطب کرنا پڑا۔
” پیچھے ہٹو بدتمیز انسان ! مجھے جانے دو۔” اس کی آواز میں جھنجھلاہٹ نمایاں تھی۔
” پہلے میری بات کا جواب دو۔ تمہارا وہ کزن کیا کرنے آیا ہے یہاں؟ کیا مقصد ہے اس کا؟” اپنے سوال پر وہ اس کے چہرے کے اُتار چڑھاؤ سے یہ جاننے کی کوشش کررہا تھا کہ وہ اس کے آنے کے مقصد سے آگاہ ہے یا نہیں۔ وہ بھی لائبہ بیگم اور اسد صاحب کے درمیان ہونے والی گفتگو کے بارے میں جانتی ہے یا نہیں۔
اس کے سوال پر آئرہ کے ماتھے پر بل پڑے۔
” بڑا ہی کوئی سٹوپڈ طریقہ ہے مجھے یہاں روکنے کا۔حالانکہ اس بات سے آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ اپنے آفس کے کسی کام سے آۓ ہیں۔ اب ہٹیے سامنے سے” وہ مزاق اُڑانے والے انداز میں بولتی جانے کے پر تولنے لگی۔
اس کے چہرے پر ایسا کچھ نہیں تھا جس وہ کچھ جان پاتا۔وہ سادگی سے جواب دیتی اب نظروں کا زاویہ موڑ گئ۔
اس کے رویے سے وہ یہی اخذ کر پایا تھا کہ وہ ان سب سے لاعلم ہے۔ اس کی لاعلمی پر اندر تر سکون اُترتا ہوا محسوس ہوا۔
” ہوگیا میرا پوسٹ مارٹم ! اب ہٹیے مجھے جانے دیں۔ ” وہ مسلسل اس کی نظروں کا ارتکاز خود پر محسوس کرتی چٹختی ہوئی بولی۔
” جاؤ پر ایک بات اپنے اس ننھے سے دماغ میں بٹھالو تم ازل سے میرے نام لکھ دی گئ ہو اور میری ہی رہو گی۔ چاہے جو بھی ہوجاۓ۔ اب تم مجھے اُس اشعر کے ساتھ گھومتی پھرتی نظر نہ آؤ۔ انڈرسٹینڈ۔ ” دوسری طرف اپنی بات کے جواب میں خاموشی محسوس کیے وہ سمجھا کہ وہ اس کی بات مان چکی ہے۔ ،وہ سرشار سا ہوگیا۔
اس کی باتیں آئرہ کو بالکل پسند نہیں آئی تھی۔ مگر اسے معلوم تھا کہ اگر وہ بحث کرے گی تو بات اور طویل ہوجاۓ گی اس لیے اس نے خاموش رہنا بہتر سمجھا۔
” گڈ نائٹ” وہ اس کا ماتھا چومتا کچن سے نکلتا چلا گیا۔
اس کی من مانی پر خود بھی کڑھتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے رگ و پے میں سما گیا وہ شخص
میری زندگی میں چھا گیا وہ شخص
میرے دل سے دل ملا گیا وہ شخص
مجھے خوش نصیب بنا گیا وہ شخص
مجھے دے گیا اپنی ہر خوشی
میری آنکھوں سے نیند چرا گیا وہ شخص
جانے کیا بات تھی اس میں ایسی
مجھے محبت کرنا سکھا گیا وہ شخص
آج اُس کے انگ انگ سے مسرت پھوٹ رہی تھی۔ اس کی محبت اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے اس کے نام لکھ دی جاۓ گی یہ بات ہی اسے سرشار کر رہی تھی۔
ان رسومات میں کافی وقت ہوگیا تھا ابھی کچھ دیر پہلے ہی مصفرہ کو اس کے کمرے میں پہنچا دیا گیا تھا۔ وہ بھی سرشار سا اندر کی طرف بڑھا۔
وہ شاید بھول گیا تھا دوسروں کا دل دُکھانے والے دوسروں کو تکلیف دینے والے خود بھی خوش نہیں رہتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ رسومات کے بعد بے حد تھک چکی تھی۔اس کے نہ نہ کرنے کے باوجود بھی وہ اس انسان کی زندگی میں شامل ہوچکی تھی۔ اس انسان کی وجہ سے اس کے کردار پر انگلی اٹھائی گئ تھی۔
اب اس کا دماغ یہ سب باتیں سوچ سوچ کر پھٹ رہا تھا وہ اپنی ماما سے اور آئرہ سے بھی ناراض تھی کسی نے بھی اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
انہیں شاید ہارب پر یقین تھا پر اسے اُس پر رتی برابر بھی یقین نہیں تھا۔ اسے یہی لگتا تھا کہ یہ اس کا وقتی فیصلہ ہے وہ فی الحال جذباتی ہورہا ہے پر جلد ہی اُسے بھی کبیر کی طرح یہ سب اس کی جلد بازی لگے گا۔
اسے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہارب نے یہ سب جان بوجھ کر کیا ہو۔ ورنہ کبیر کو اس بارے میں کیسے علم ہوسکتا ہے۔ سوچ سوچ کر اس کے دماغ پھٹنے لگا تھا۔ فی الحال وہ ساری سوچوں کو جھٹکتے ہوۓ ایک آرام دہ سوٹ نکال کر چینج کرنے چلی گئ۔ یہاں بیٹھ کر اُس شخص کا انتظار کرنا ہر گز نہیں۔
وہ چینج کرتی صوفے پر آکر بیٹھ چکی تھی۔
ایک بار پھر سوچیں اس شخص کے گرد گھومنے لگی تھی۔ بےشک وہ خود بھی کبیر سے علیحدگی چاہتی تھی مگر ایسے ہر گز نہیں۔
ہارب نے ہولے سے دروازہ کھولا۔ وہ اسے سامنے ہی صوفے پر بیٹھی نظر آگئ۔ اسے چینج کیے دیکھ اس نے منہ بسورا۔ ابھی تو ٹھیک سے اسے دیکھا بھی نہیں تھا ابھی تو اس کی تیاری کو سراہا بھی نہ تھا کہ وہ سب کچھ ملیامیٹ کرچکی تھی۔
وہ جو جانے کن سوچوں میں مگن تھی اس کا دروازہ کھولنا اور بند کرنا بھی نہ محسوس کرپائی۔
وہ اپنے پیچھے دروازہ بند کرتا اس کے نزدیک آیا جو کسی گہری سوچ میں گُم تھی۔ اس نے گلہ کھنکھار کر اسے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا۔
اس کی آواز پر وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ اسے دیکھ کر اس کا چہرہ بالکل سپاٹ ہوچکا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر اپنا منہ موڑ چکی تھی۔
ہارب نے اس کا منہ موڑنا شدت سے نوٹ کیا تھا پر اپنا وہم سمجھتے ہوۓ اس کے سامنے میز پر بیٹھ چکا تھا۔
” ناراض ہو مجھ سے اس دن کی وجہ سے۔ میں واقعی شرمندہ ہوں پتہ نہیں اُس دن جانے کیوں مجھے اتنا غصہ آرہا تھا کہ میں جانے کیا کیا بول گیا بعد میں مجھے احساس ہوا کہ میں کچھ زیادہ ہی بدتمیزی کرچکا ہوں۔ آئی ایم سوری ڈیئر۔” وہ اس کا ہاتھ تھامتا براہ راست اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔
” آپ کیا سمجھتے ہیں آپ کا جب دل کرے گا آکر باتیں سنا جاۓ گے اور جب دل کرے گا معافی مانگ لیں گے۔ ہرگز نہیں۔ اور آپ کو تو معاف کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی کیونکہ صرف اور صرف آپ کی وجہ سے میرے کردار پر الزام لگایا گیا ہے۔ ” وہ اس کا ہاتھ جھٹکتی صوفے سے اُٹھتی اس سے دُور جا کھڑی ہوئی۔
” مصفرہ ! میری بات سُنو یار۔ ہم بیٹھ کر بات کرتے ہیں ” اس کا ہاتھ جھٹکنا پھر اسے خود سے دُور کرنا اسے ایک آنکھ نہ بھایا تھا پر پھر بھی تحمل سے گویا ہوا۔
” کیا سُنوں؟ اچھے سے جانتی ہوں آپ جیسے امیرزادوں کو جن کے لیے دوسروں کی عزت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ انہیں بس اپنی ضد اہم ہے جو ہر حال میں پوری ہونی چاہیے۔ بس سمجھ لیں میں بھی آپ کی محبت نہیں بلکہ آپ کی ضد ہوں۔ جب میں نے آپ کو انکار کیا تو آپ کو اپنی توہین محسوس ہوئی۔اور آپ نے اپنی اس بےعزتی کا خوب بدلہ لیا ہے۔ میرے کردار پر وار کرکے۔ ” آخر میں اس کی آواز میں نمی سی گُل گئ۔
اس کی بات ہارب کو ساکت کرگئ۔ اسے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس حد تک اس سے بدگمان ہوگی۔ اس کی سوچ تھی کہ وہ ناراض ہوگی بس اسے اچھے سے منانا ہوگا۔ مگر یہاں تو وہ اسے بات کرنے کا موقع تک نہیں دینا چاہتی تھی کجا کہ اسے معاف کرنا۔
” مصفرہ ! میری بات سُنو۔ مجھے معلوم ہے کہ میں نے تمہارے ساتھ غلط کیا ہے پر تم میری غلطی معاف نہیں کرسکتی۔ ” وہ ایک دفعہ پھر ہمت باندھتا اس کے روبرو ہوا۔
” نہیں ہرگز نہیں کیونکہ میں تم سے نفرت کرتی ہوں۔صرف اور صرف نفرت۔ میں یہ شادی کسی بھی صورت نہیں کرنا چاہتی تھی پر آپ نے ہمیں اتنا مجبور کردیا کہ میری مما کو دوسرا کوئی راستہ نظر ہی نہیں آیا۔ مجبوراً انھیں مجھے اس ان دیکھے کنوئیں میں دھکیلنا پڑا۔ چلے جاۓ یہاں سے مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔” وہ آنکھوں میں آئی نمی صاف کرتی ہوئی بولی۔
اس کے منہ سے اپنے لیے نفرت کا اظہار سن کر وہ ساکت ہوچکا تھا۔ اسے حقیقتاً محسوس ہوا کہ واقعی جب کوئی آپ کی محبت کو دھتکارتا ہے تو کیسا محسوس ہوتا ہے۔ اسے ایک پل یقین نہ آیا کہ وہ اس سے اس قدر غصے میں بھی بات کرسکتی ہے۔
وہ فی الحال اسے وقت دینا چاہتا تھا اس لیے خاموشی سے کمرے سے نکلتا چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کمرے سے نکلتا باہر گارڈن میں آچکا تھا۔گارڈن میں آکر اس نے کھل کر سانس لیا اس کے منہ سے اپنے لیے نفرت بھرے کلمات سُن کر اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کا سانس بند ہورہا ہو۔
اس پل اسے ماہ نور سے کی گئ بدکلامی یاد آئی تھی۔ بےشک وہ اُس سے محبت نہیں کرتا تھا مگر وہ اس سے سیدھے سے بھی معذرت کرسکتا تھا۔ آج جب خود پہ بات آئی تھی جانے کیوں اُسے سوچ کر اس کی آنکھیں نم ہوئی تھی۔
جب آپ کے سکون کا آپ کی خوشیوں کا آپ کی زندگی کا ہر تعلق کسی شخص سے جڑا ہو تو یقین مانیے آپ سکون میں نہیں رہتے اس بات کا اسے احساس ہورہا تھا۔
ہمیں ہوگا کچھ اور درکار دیکھیں
اگر سامنے صورتِ یار دیکھیں
ہوئی ختم جاتی ہے اُمید اُلفت
ہم اپنی قضا کے ہی آثار دیکھیں
ہمیں بھی مٹاۓ گی تیری محبت
رہا شہر میں کیا ہے پندار دیکھیں
ہمہ دم یہ دل میرا مشتاق و مضطر
تمہیں ہم سدا ہم سے بیزار دیکھیں
چلیں چپکے چپکے سویرے ہی مرنے
ابھی ہوگا وہ شوخِ بیدار دیکھیں
ہے' سردار ' خواہاں ابھی تک اسی کا
کوئی ایسا اپنا زیاں کار دیکھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اسے اس وقت تیار ہوتا دیکھ حیران ہوا تھا کیونکہ اس نے باہر جانے کا اس سے تو کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔
وہ آئینے میں اپنی تیاری کو دیکھ کر مُڑی تھی۔ وہ جدید طرز کے ڈریس میں ملبوس اچھی لگ رہی تھی مگر اس کا لباس دیکھ کبیر کچھ جزبز ہوا تھا۔ مگر اگنور کرتا ہوا سادہ سے لہجے میں بولا۔
” اس وقت کہاں جانے کی تیاری؟ تم نے مجھے تو کچھ بتایا ہی نہیں۔ اگر تم مجھے بتا دیتی تو میں بھی تیار ہوجاتا۔”
” ہرگز نہیں یہ ہم دوستوں کی گیٹ ٹو گیدر ہے اس میں تمہارا کوئی کام نہیں۔ ویسے بھی یہ ضروری نہیں کہ میں ہر بات تمہیں بتاؤں۔میں نے اپنی زندگی میں کبھی باہر جانے کے لیے ڈیڈ سے اجازت نہیں لی۔ تم سے لینا تو بہت دُور کی بات ہے۔” وہ نخوت سے سر جھٹکتی ہوئی بولی۔
” میں اجازت لینے کی بات نہیں کررہا بس یہ کہہ رہا ہوں کہ تم مجھے بتا بھی سکتی تھی۔” وہ اس کے لہجے کو اگنور کرتا غصے پر قابو کرتا تحمل سے بولا۔
” مجھے دیر ہورہی ہے فی الحال تمہاری بکواس سننے کے موڈ میں نہیں ہوں۔” وہ ایک ادا سے بال جھٹکتی بدتمیزی سے بولتی باہر نکل گئ۔
اس کی بدتمیزی پر وہ جلتا کڑھتا اس پر دو حرف بھیجتا سونے کے لیے لیٹ گیا۔ اس کے ساتھ رہ کر اسے ایک بات پتہ چلی تھی کہ وہ بدتمیز اور بددماغ سی لڑکی ہے۔ جو اسے بھی نہیں بخشتی تھی۔
پہلے ہی شادی کے بعد اسے یہ جان کر نہایت افسوس ہوا تھا کہ وہ پہلے سے شادی شدہ تھی مگر اس کی وہ شادی زیادہ دیر نہ چل سکی۔ جب پہلی دفعہ اس نے یہ بات اسے بتائی تھی اسے اس لڑکی کے دھوکا دینے پر نہایت غصہ آیا تھا۔ پر وہ دولت کی چکاچوند دیکھ خاموش ہوگیا۔ اس نے سوچا اتنا تو وہ کمپرومائز کرسکتا تھا۔
ماں باپ کو دُکھ دینے والے انہیں تکلیفوں میں اکیلا چھوڑنے والے کبھی خوش نہیں رہتے. اس بات کا جلد ہی اسے احساس ہونے والا تھا۔
اور اس نے مصفرہ پر جھوٹا الزام لگایا تھا جو وہ بھول گیا تھا کہ کتنا سخت گناہ ہے۔
حضرت علیؓ نے فرمایا:
”کسی بے قصور پر بہتان لگانا یہ آسمانوں سے بھی زیادہ بھاری گناہ ہے۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل نکاح کے بعد وہ پہلی بار اس کے کمرے میں آئی تھی۔ بڑی ماما نے اسے بھیجا تھا کہ جا کر اسے ناشتے کے لیے بُلا لاۓ۔ وہ بہانے سے ان دونوں کو پاس لانے کی کوشش کررہی تھیں۔
اسے جانے کیوں آج جھجھک سی محسوس ہورہی تھی۔ اس نے جیسے ہی اندر قدم رکھا خالی کمرہ اس کا منہ چڑھا رہا تھا۔ باتھ روم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی یعنی وہ اندر شاور لے رہا تھا۔ وہ ابھی اسی کشمکش میں تھی کہ اندر جا کر اس کا انتظار کرے یا واپس چلی جاۓ جب بیڈ پر پڑا اس کا موبائل رِنگ ہوا۔
اس نے اگنور کرنا چاہا پر موبائل لگاتار بج رہا تھا۔ اس نے آگے ہوکر نام پڑا جہاں سکرین پر جاناں لکھا جگمگارہا تھا۔ نام دیکھ کر اس کا پارہ چڑھا ۔
” مجھ سے سیدھے منہ بات کرنا گوارہ نہیں کرتے اور یہاں اس چڑیل کا نام جاناں کے نام سے سیو کر رکھا ہے۔”
اس نے کچھ سوچ کر کال اُٹھالی جب دوسری طرف موجود وجود شروع ہوچکا تھا۔
”ذوہان ! پلیز میری کال مت کاٹنا۔ مجھے پتہ تم مجھ سے ناراض ہو۔میری بات تو سنو۔ میں تم سے محبت۔۔۔” اس کی بات بیچ میں ہی رہ گئ جب پیچھے سے کوئی فون اچک چکا تھا۔
” میرے رُوم میں کیا کررہی ہو۔اور میرے موبائل پر کیا جاسوسیاں کررہی ہو؟” وہ دوقدم چلتا اس کے قریب آیا۔
” مجھے کیا پڑی ہے جاسوسی کرنے کی۔ وہ تو موبائل بج رہا تھا تو میں نے اُٹھالیا۔ ویسے میں یہ بات اچھے سے سمجھ گئ ہوں کہ آپ یہ شادی کیوں نہیں کرنا چاہتے تھے۔” وہ یاسیت بھرے لہجے میں بولی۔
” اچھا ! ذرا مجھے بھی بتاؤ کیوں نہیں کرنا چاہتا تھا۔” وہ محظوظ ہوتا ہوا بولا۔ وہ جاناں کی کال دیکھ چکا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اب یہ آفت کی پرکالہ اپنے دماغ کے گھوڑے دور تک دوڑاۓ گی۔
” جب پہلے سے ہی جاناں رکھی ہوئی ہے پھر میں کہاں نظر آؤں گی۔” وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
” ہاں دیکھو! تم میری اور جاناں کی زندگی میں ولن بن کر آئی ہو۔ اگر تم نہ ہوتی تو اب تک ہماری شادی ہوچکی ہوتی۔” اس نے غور کیا تھا کہ اس کی بات پر اس کے چہرے پر سایہ سا لہرایا تھا۔
” بڑی ماما آپ کو ناشتے کے لیے بلا رہی ہیں۔” وہ اپنے لہجے پر کنٹرول کرتی وہاں سے بھاگتی ہوئی نکلتی چلی گئ۔
” منسا! میری بات سُنو یار ۔۔۔” اسے بھاگتے دیکھ وہ اسے روکنے کے لیے بولا۔مگر وہ ان سُنی کرتی ہوئی چلی گئ۔
” اُف خدایا! اب یہ پاگل لڑکی جا کر ماما کو شکایت ہی نہ لگا دیں۔ اسی لیے میں اس سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا کتنی امیچور ہے یہ ابھی بھی۔” وہ سر جھٹکتا ہوا ناشتے کی غرض سے نیچے کی طرف بڑھ گیا۔
وہ کمرے سے نکلتا سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔جب اپنے نام کی پکار پر اسے رُکنا پڑا۔ اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا جہاں سارہ چچی غصے سے اسے گھور رہی تھیں۔
” ذوہان! تمہیں ذرا شرم نہیں اپنے سے اتنی چھوٹی لڑکی سے شادی کرتے ہوۓ۔ میں ہرگز اپنی بیٹی کی زندگی برباد نہیں کرنے دوں گی۔ تم نے اچھا نہیں کیا میری بیٹی کو ورغلا کر۔ میری بیٹی سے دُور رہو بےشک نکاح ہوچکا ہے میں ہر گز بھی اس کی رخصتی نہیں ہونے دوں گی۔ یہ تمہاری بھول ہے کہ سب کچھ تمہاری سوچ کے مطابق ہورہا ہے۔ تم میں اگر ذرا بھی شرم ہے تو جہاں سے آۓ ہو چپ چاپ وہی واپس چلے جاؤ۔ ”
ان کی باتوں پر اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔ وہ بغیر ان کی بات کا جواب دیے وہاں سے کیا گھر سے باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی میٹنگ سے فارغ ہوتا آفس سے نکلتا شاپنگ کی غرض سے مارکیٹ کی طرف بڑھ گیا۔ اس کا ارادہ سب کے لیے کچھ شاپنگ کرنے کا تھا۔ وہ ایسے ہی ان کے گھر رہ رہا تھا اس لیے وہ سب کے لیے کچھ نہ کچھ خرید رہا تھا جب اسے کچھ دور کھڑے وجود کو دیکھ کسی جانے پہچانے چہرے کا احساس ہوا تھا۔
وہ ذرا سا آگے بڑھا۔اسے دیکھ کر اس کے لب بے آواز ہلے۔” ہادیہ”
اتنے سالوں بعد اسے سامنے دیکھ اس کے قدم منجمد ہوگۓ تھے۔ اس میں اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ اسے پکار بھی سکے۔ وہ وہی تھی ہاں وہی تھی وہی نقوش بس حجاب کا اضافہ ہوچکا تھا۔ وہ اپنے حواس پر قابو پاتا اس کی طرف بڑھا تھا مگر تب تک وہ رش میں غائب ہوچکی تھی۔
وہ تقریباً بھاگتا ہوا اسے ڈھونڈنے کی کوشش کررہا تھا۔
”ہادیہ” وہ رش کہ چیرتا آگے کی طرف بڑھا مگر اب دُور تک اس کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔
وہ سر تھام کر رہ گیا۔ ایک دفعہ پھر وقت ہاتھوں سے پھسلتا ہوا محسوس ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گھر سے نکلتا سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا رہا۔اسے رہ رہ کر سارہ بیگم کی باتیں یاد آرہی تھی۔ اس کی کسی بھی غلطی کے بغیر وہ اسے باتیں سُنا گئ تھیں۔ بار بار اپنی ذات پر الزام آتا دیکھ اسے بےحد دُکھ ہوا تھا۔ یہ اگر ایک دفعہ ہوتا تو وہ برداشت کرلیتا مگر بار بار ہی اسے دھوکے باز اور ناجانے کیا کیا پکارا جارہا تھا۔ اس نے کبھی بھی منسا کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش نہیں کی تھی تو پھر کیوں مانتا اپنی ذات پر دھرا ان کا الزام۔
” یہ سب اُس منسا کی وجہ سے ہورہا ہے نہ ہی اُس کے دماغ میں یہ سب خرافات آتی اور نہ ہی چچی کو کوئی باتیں کرنے کا موقع ملتا۔ ” اسے سارے فساد کی جڑ اس وقت صرف اور صرف منسا ہی لگ رہی تھی۔
چچی کی بات سُنتے اب اس کا مزید یہاں رہنے کا کوئی پلان نہیں تھا اس لیے وہ اسلام آباد کی ٹکٹ بُک کروا چکا تھا۔ کل نکاح کے بعد سے وہ بےحد تھکا ہوا تھا۔ اس لیے اس نے باۓ ایئر جانے کا فیصلہ کیا۔ ہارب کے ولیمے کی تقریب آج شام تھی جسے اٹینڈ کیے بنا وہ نہیں جانا چاہتا تھا اس لیے اس نے ٹکٹ کل کی بُک کروائی تھی۔
جانے ان کے رشتے کا کیا بننے والا تھا جب بھی وہ دماغ کو اس کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتا اس لڑکی کی وجہ سے کوئی نا کوئی الزام اس پر لگا دیا جاتا تھا۔
سارا بیگم ان کے اس نازک رشتے کے درمیان دیوار کی طرح حائل تھیں۔
کچھ دیر پہلے تک اس کا ارادہ منسا کی غلط فہمی دُور کرنے کا تھا مگر اب اس کا ایسا کوئی پلان نہ تھا۔ اس کی بلا سے وہ جو سوچتی تھی اس کے بارے میں سوچتی رہے۔ اس نے یہ کہتے ہوۓ دل کو اطمینان دلایا تھا۔ پر جیسے اس کی دلیلوں پر دل مطمئن نہیں ہوا تھا۔ لیکن وہ دل کی بات کو یکسر فراموش کرگیا۔ اب اس کا رُخ واپس گھر کی طرف تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ہم سفر تیری بے رُخی دلِ مُبتلا کی شکست ہے
اسے کس طرح میں کہوں فتح، یہ میری انا کی شکست ہے
تو چل گیا مجھے چھوڑ کر، میں نے پھر بھی تجھ کو صدائیں دی
میرے ہم سفر تو رُکا نہیں یہ میری صدا کی شکست ہے
تجھے لا کے دل میں بٹھا دیا, تجھے راز ہر کوئی بتادیا
تو نے پھر بھی کوئی وفا نہ کی, یہ میری وفا کی شکست ہے
میں چراغِ شبِ اُمید تھا، تجھے بجلیوں کی طلب رہی
مجھے آندھیوں نے بجھادیا، یہ میری ضیاء کی شکست ہے
مجھے کوئی تجھ سے گلہ نہیں، تو ملا تھا کب؟ کے بچھڑ گیا
میرے جرم کی ہے یہ سزا، یہ میری سزا کی شکست ہے
غمِ داستان حیات کے سبھی تذکرے ہوۓ رائیگاں
میرے چارہ گر، تیرا یہ ہنر، میری ہر دعا کی شکست ہے
وہ سکستے ہوۓ دل کے ساتھ بڑی ماما کو اس کے آنے کا بتاتی کمرے میں آگئ۔ اسے اُمید تھی کہ وہ ضرور اس کے پیچھے آۓ گا۔ یہ بتانے کے منسا تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے جیسا تم سوچ رہی ہو ویسا کچھ نہیں۔ تم نے مجھے غلط سمجھا ہے۔ میں تو صرف مزاق کر رہا تھا۔ پر اس کی اُمید اُمید ہی رہی اُسے نہیں آنا تھا وہ نہ آیا۔ اس کی اُمیدیں بُری طرح ٹوٹی تھیں۔
اب اسے احساس ہورہا تھا کسی کی زندگی میں زبردستی شامل ہونے پر آپ کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ اس کی گھٹی گھٹی سسکیاں کمرے میں گونجنے لگی۔ یہی سوچ ہی اسے تکلیف میں مبتلا کر رہی تھی کہ اگر واقعی اس کی زندگی میں کوئی لڑکی ہوئی تو وہ کیا کرے گی۔
” منسا ذوہان! کیا تم یہ تکلیف سہہ پاؤں گی اگر اس کی زندگی میں کوئی دوسرا وجود ہوا۔” اس نے جیسے خود کے سوال کیا تھا۔ جس کا صرف ایک ہی جواب آیا تھا۔
نہیں منسا تم اُسے کسی اور کے ساتھ برداشت نہیں کر پاؤ گی۔ ہر گز نہیں۔
اپنا احتساب کرنے پر اسے جو جواب موصول ہوا تھا اس پر اسے شدت سے رونا آیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تقریباً سب کے اُٹھنے سے پہلے ہی کمرے میں آگیا تھا۔ جب وہ سامنے اس کے بیڈ پر بڑے سکون سے محو استراحت تھی۔ وہ دو قدم چلتا دس کے قریب آیا تھا۔ ذرا سے فاصلے پر رُک کر اس کا من موہنا چہرہ دیکھا تھا۔ اس چہرے نے ہی تو اسے اپنی قید میں کیا تھا۔ اتنے بری طرح اس کے حواسوں کو جھکڑا تھا کہ وہ احتجاج تک نہ کر پایا۔
یہ عشق کس بلا کا نام تھا اس سے ملنے سے پہلے وہ بالکل ناواقف تھا جس سے یہ لڑکی اسے آگاہ کر گئ تھیں۔
وہ گہری سانس بھرتا صوفے کی طرف بڑھ گیا اس وقت اس کے اعضا شدید تھکاوٹ کا شکار تھا وہ پوری رات کمرے سے باہر ڈھیٹوں کی طرح بیٹھا رہا۔ اب اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اس کا جسم اکڑ گیا ہو۔ اس لیے اس نے کچھ دیر آرام کرنے کا فیصلہ کیا کچھ دیر بعد اس کے حسین سراپے سے نظریں چراتا ہوا صوفے کی طرف بڑھ گیا آرام کرنے کے غرض سے۔
صوفے پر لیٹتے ہی اس کے تھکے اعضا پُرسکون ہوۓ۔ وہ لیٹتے ہی نیند کی وادیوں میں کھوتا چلا گیا۔
ُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک پُرسکون نیند لے کر وہ اُٹھی تھی۔ رات کو بستر پر لیٹتے ہی ایسی نیند آئی تھی۔ کہ اُسے کوئی ہوش نہ تھا۔ پچھلے کچھ دنوں سے وہ ٹھیک سے سو بھی نہ پائی تھی اس نکاح کی ٹینشن میں۔
اس نے اُٹھ کر ایک نظر کمرے میں دوڑائی عجیب سا احساس تھا نئ جگہ نۓ لوگ۔ اس نے ایک نظر صوفے پر لیٹے وجود پر ڈالی۔ جو ناجانے رات کے کونسے پہر آکر لیٹا تھا۔
وہ سر جھٹکتی ہوئی الماری سے قدرے سادہ سا ڈڑیس لیے واش روم کی طرف بڑھ گئ۔
وہ شاور لے کر باہر آئی تو اسے ہنوز سوتا پایا۔ وہ بظاہر تو ڈریسنگ کے سامنے کھڑی بال بنا رہی تھی۔ مگر اس کی سوچیں جانے کہا پرواز کر رہی تھی۔
اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس کی زندگی یوں پلٹا کھاۓ گی۔ یکدم ہی وہ کبیر کی زندگی سے نکل ہارب کی زندگی میں شامل ہوچکی تھی۔
اس نے گھڑی پر نگاہ ڈالی جو ایک بجے کا وقت بتارہی تھی ٹائم دیکھ اسے حیرت کا جھٹکا لگا کہ وہ اتنی دیر سوتی رہی گھر والے ناجانے اس کے بارے میں کیا سوچیں گے۔ ایک نئ ٹینشن وہ دماغ پر سوار کرچکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ولیمے کی مناسبت سے پیچ کلر کی سادہ سی میکسی میں ملبوس تھی۔ وہ ریڈی ہوکر نیچے آئی تو سب گھر والے تقریباً جاچکے تھے۔ ارسم کچھ دیر پہلے ہی ولیمے کے انتظامات دیکھ کر آیا تھا۔ اسے یہی لگا تھا سب گھر والے جاچکے ہیں۔
وہ سیڑھیاں اُترتا نیچے آیا جب اس کے کانوں میں ہیل کے ٹک ٹک سنائی دی اس نے حیرانگی سے پیچھے مُڑ کر دیکھا اس کے حساب سے سب گھر والے جاچکے تھے۔
آئرہ بھی اس کی موجودگی پر کچھ کنفیوژ ہوئی۔ اس کے حساب سے تو اس کے بابا اسے لینے آنے والے تھے تو یہ کہا سے آگیا۔ وہ سکون سے سیڑھیاں اُترتی اسے اگنور کرتی صوفے پر جا کے بیٹھ گئ۔
اسے سامنے دیکھ ارسم کو خوشگوار حیرت ہوئی۔ وہ مسکراتا ہوا اس کے سامنے آکر بیٹھ گیا۔
” رُو ! تم گئ نہیں ابھی تک۔ مجھے لگا سب چلے گۓ ہیں میں ہی لیٹ ہوگیا ہوں۔” وہ اس کے نزدیک آتا ہوا بولا۔
” آپ سے مطلب میں جاؤں یا نہ جاؤں۔” وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔
ارسم نے غور سے اسے دیکھا جو اس وقت بےحد حسین لگ رہی تھی۔ اس نے آئرہ کی ہیزل براؤن آنکھوں میں جھانکا جس میں اسے خود کے لیے ناراضگی نظر آئی۔
” چلو آؤ چلتے ہیں۔” وہ اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہوا بولا۔
” میں آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گی۔ بابا مجھے لینے آرہے ہیں۔” وہ اس کے بڑھے ہوۓ ہاتھ کو اگنور کرتی ہوئی بولی۔
” میں انھیں کال کرکے منع کردیتا ہوں۔ خواہ مخواہ ان کا بھی چکر لگے گا۔” وہ اسے رسانیت سے سمجھاتا ہوا بولا۔
پر وہ ایسی بن گئ جیسے کچھ سُنا ہی نہ ہو۔
ارسم نے اس کا خود کو اگنور کرنا بڑے تحمل سے برداشت کیا۔
” ابھی اپنی ناراضگی ایک طرف رکھ کر میرے ساتھ چلو۔ ہمیں دیر ہورہی ہے۔ ”
” جائیے آپ میں نے آپ کو نہیں روکا۔ ” وہ اپنا دھیان موبائل کی طرف کرتی ہوئی بولی۔
ابھی ان کی بحث مزید طوالت پکڑتی۔ جب انہیں اشعر کی آواز آئی۔
” آئرہ ! چلو انکل نے مجھے تمہیں لینے بھیجا ہے۔ ” وہ اندر آتا بغیر اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا بولا۔
ارسم نے گھور کر اسے دیکھا۔ جب اس سے رہا نہ گیا تو بول پڑا۔
” تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں ہوں اپنی بیوی کے ساتھ تم جاسکتے ہو میں اسے لے آؤں گا۔” وہ اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورتا ہوا بولا۔
اشعر اس کی بات کا کوئی جواب دیتا جب آئرہ اُٹھتی ہوئی بولی۔ ” چلیں اشعر بھائی! میں آپ کے ساتھ چل رہی ہوں۔” وہ ارسم کو مکمل اگنور کرتی اس کی طرف بڑھی۔
ارسم نے غصے میں آکر اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ ” مسز ارسم ! اگر آپ ضدی ہیں تو میں آپ سے ڈبل ضدی ہوں۔ تم جاؤ گی تو صرف اور صرف میرے ساتھ۔ میں نے یہ حق کسی کو نہیں دیا کہ وہ تمہاری طرف دیکھے بھی۔ ” وہ اسے کھینچتا اپنے حصار میں قید کرچکا تھا۔ وہ اس کا گال تھپتھپاتا ہوا اسے لیے باہر کی طرف بڑھ گیا۔
آئرہ نے اشعر کے سامنے اس کی بےباکی پر اسے گھور کر دیکھا۔ اس نے مزاحمت کرتے اس کا حصار توڑنے کی کوشش کی جو کہ ناممکن س بات تھی۔
” ارسم ! چھوڑوں مجھے۔ مجھے تمہارے ساتھ کہیں نہیں جانا۔ ” وہ اس کے بازو پر ہاتھ مارتی چلائی۔
ارسم نے اس کی مزاحمت کو اگنور کرتا لاکر اسے اپنی گاڑی میں بٹھایا۔ خود دوسری طرف آتا گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔
آئرہ کو اپنی بےبسی پر رونا آیا۔ یعنی ہر دفعہ وہ اپنی من مانی کرے گا اور وہ یوں ہی دیکھتی رہ جاۓ گی۔
ارسم نے پہلے تو اس کا رونا اگنور کیا۔ مگر جب وہ چپ نہ ہوئی تو جھنجھلاتے ہوۓ بولا۔ ” رُو ! اپنے آنسو صاف کرلو یہ نہ ہو کہ جب میں اپنے طریقے سے صاف کروں تو تمہیں بالکل اچھا نہ لگے. ” وہ وارننگ دینے والے لہجے میں بولا۔ اس کے آنسو اسے اریٹیٹ کر رہے تھے۔
اس کی دھمکی پر وہ اور زور سے رونے لگی۔ یعنی اب اس کے رونے پر بھی پابندی تھی۔
ارسم نے ایک جھٹکے سے گاڑی روکی تھی۔ آئرہ گاڑی رُکنے پر بھی خاموش نہ ہوئی۔ اس نے مُڑ کر اس کی طرف دیکھا۔ جو اپنے ہاتھوں پر نظریں ٹکاۓ سسکنے میں مصروف تھی۔
” کس بات پر رونا آرہا ہے تمہیں ؟ تمہیں تمہارے اُس کزن کے ساتھ جانے نہیں دیا اس لیے۔“ وہ ماتھے پر بل ڈالتے ہوۓ بولا۔
اس کی بات پر آئرہ کا ہلتا وجود ساکت ہوا تھا اِس نے مُڑ کر حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا تھا یعنی وہ اس پر شک کررہا تھا۔
” آئی ہیٹ یو“ وہ آنکھوں غصہ لیے بولی۔
اس کی بات پر ارسم کے ماتھے پر بل نمایاں ہوۓ۔ وہ اس کا ہاتھ کھینچتا ہوا اس کا رُخ اپنی طرف موڑتا خود سے قریب کر چکا تھا۔
” آج تو یہ لفظ کہہ دیے آئندہ مت دوہرانا۔سمجھی تم“ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔
” ایک دفعہ نہیں ہزار دفعہ کہوں گی۔ میں آپ سے نفرت کرتی ہوں۔ آپ جو بھی کہہ لیں مجھ پر الزام لگائیں مجھ پر شک کریں مگر میں بولوں تک نہ۔ تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔” وہ اس کے کندھے پر ہاتھ مارتی چلائی تھی۔
اس کے پہلے جملے پر اس کا غصہ سوا نیزے پر جا پہنچا تھا۔ مگر جب اس کی بات سُنی تو اسے اپنی کہی ہوئی بات یاد آئی۔ وہ تو ویسے ہی غصے میں بول چکا تھا مگر وہ شاید وہ کچھ اور ہی سمجھ چکی تھی۔
” رُو ! ایم سوری یار۔ مگر میری بات کا ہرگز مطلب یہ نہیں تھا جو تم سمجھ چکی ہو۔ میں تو پاگل ہوں غصے میں جانے کیا بکواس کرجاتا ہوں۔ پر میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا میں مر کر بھی تم پر شک نہیں کرسکتا۔” وہ محبت سے اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھرتا اس کی بہتی آنکھوں کو ہونٹوں سے متعبر کرتا ہوا بولا۔
وہ اس کی بات پر وہ کچھ نہیں بولی تھی مگر اس کی آنکھوں میں سچائی دیکھ کر وہ سمجھ چکی تھی وہ واقعی سچ کہہ رہا تھا۔ اس کی بات پر وہ کچھ پُرسکون ہوئی تھی۔ مگر اس کی جسارت پر اسے پرے دھکیل گئ۔
ارسم اس کے پیچھے دھکیلنے پر ہوش میں آیا تھا۔ مگر پھر بھی وہ اس کے ماتھے پر بوسہ دیتا پیچھا ہٹا تھا۔ وہ سیدھا ہوتا گاڑی سٹارٹ کرچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جب سے یہاں آئی تھی اسے خود کو اگنور کرتا محسوس کررہی تھی۔ وہ کتنے دل سے تیار ہوئی تھی مگر یہاں آکر اس کا دل بُجھ سا گیا۔ ” کیا وہ ہمیشہ ہی مجھے ایسے اگنور کرتے رہے گے” اس نے خود سے سوال کیا تھا۔
وہ آئرہ کی ہم رنگ میکسی میں ملبوس تھی۔ چہرے پر چھائی اداسی اسے مزید حسین بنا رہی تھی۔ جس کے لیے تیار ہوئی تھی اُس نے ایک نظر بھی اس پر ڈالنا گوارہ نہیں کیا تھا۔
وو خاموشی سے ایک طرف بیٹھی سب کے ہنستے مسکراتے چہرے دیکھ رہی تھی۔ کیا فائدہ تھا ایسے رشتے کا جس میں وہ شخص آپ کا ہوکر بھی آپ کا نہیں تھا۔ اب تو اسے یقین ہوچلا تھا کہ ضرور اُس کی زندگی میں کوئی اور ہے۔
وہ شخص سب سے ہی ہنس کر بات کرتا مگر جب اس سے ہمکلام ہوتا تو کڑوے الفاظ بول کر اپنی ناپسندیدگی ہمیشہ ہی ظاہر کرجاتا تھا۔
”منسا ذوہان! دیکھ لو یہ انجام ہوتا ہے زبردستی کے رشتوں کا۔ تمہارے نام کے ساتھ تو اس کا نام جڑ چکا تھا پر اس کا دل کبھی تمہارے ساتھ نہیں جڑ پاۓ گا۔” وہ خود پر ہنستی ہوئی بولی۔
دل پہ اک طرفہ قیامت کرنا
مسکراتے ہوۓ رخصت کرنا
اچھی آنکھیں جو ملی ہیں اُس کو
کچھ تو لازم ہوا وحشت کرنا
جرم کس کا تھا سزا کس کو ملی
اب کسی سے نہ محبت کرنا
گھر کا دروازہ کھلا رکھا ہے
وقت مل جاۓ تو زحمت کرنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گرے میکسی میں بےحد حسین لگ رہی تھی۔ وہ اس وقت کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ جسے ذوہان ڈرائیو کررہا تھا۔ ہارب ذوہان کے ساتھ بیٹھا فرنٹ میرر سے وقتاً فوقتاً اس پر نگاہ ڈال رہا تھا۔ جس سے وہ بخوبی آگاہ تھی۔ وہ اس کے دیکھنے کے انداز پر انگلیاں مڑوڑ رہی تھی۔ وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی یا شاید اسے ہی بےحد حسین لگ رہی تھی وہ اس پر سے نظریں ہٹا نہیں پارہا تھا۔
گاڑی میں تین لوگوں کی موجودگی کے باوجود جامد خاموشی تھی۔ تینوں وجود اپنی اپنی سوچوں میں مگن تھے۔ ذوہان سر جھٹکتا ان کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ دونوں ہی خاموش سے تھے۔ اس کے حساب سے نۓ شادی شدہ جوڑے ایسے تو نہیں ہوتے۔ اُن کے چہروں سے مسکان جدا تک نہیں ہوتی۔ اور یہاں دونوں سپاٹ چہروں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ جیسے ایک دوسرے کو جانتے تک نہ ہو۔
گاڑی ایک جھٹکے سے رُوکی تو دونوں اپنی سوچ سے باہر آۓ۔ ہارب کار سے باہر آتا پچھلا دروازہ کھول اس کی طرف ہاتھ بڑھا چکا تھا۔ جسے وہ کچھ وقت بعد تھام گئ۔ اپنی وجہ سے وہ دوسروں کو کوئی بات کرنے کا مموقع ہرگز نہیں دینا چاہتی تھی۔
جیسے ہی وہ دونوں ہال میں داخل ہوۓ ساری لائٹیں بند کردی گئ۔ایک سپاٹ لیٹ جو ان دونوں کو نمایاں کررہی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے ہمراہ قدم اُٹھاتے مکمل لگ رہے تھے۔
آمنہ بیگم نے انہیں دیکھ کر دل ہی دل میں نظر اتاری تھی۔ وہ دونوں ساتھ لگ ہی اتنے پیارے رہے تھے۔ سارہ بیگم نے مصفرہ پر ایک نفرت بھری نگاہ ڈالی تھی۔ یہ لڑکی انہیں ایک آنکھ نہ بھاتی تھی اور اب وہ ان کے بیٹے کی بیوی کے رُوپ میں ان کے سامنے تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی کا راستہ آئرہ نے اسے چھیڑنے کی غلطی ہرگز نہیں کی تھی۔ تو باقی راستہ خاموشی سے کٹا۔
ارسم گاڑی پارک کرتا اس کا ہاتھ تھامتا ہال کی جانب بڑھا۔ تقریب کا آغاز ہوچکا تھا بس وہی لیٹ تھے۔
” ہاتھ چھوڑو میرا۔ میں خود بھی جاسکتی ہوں۔ ” وہ اس کے ہاتھ سے ہاتھ کھیچنے کی ناکام کوشش کرتی ہوئی دانت پیستی ہوئی بولی۔
ارسم اس کے بات سُنی ان سُنی کرتا اندر کی طرف بڑھ گیا۔ ہال میں سب کی نظر ان کی طرف اُٹھی تھی کچھ کی نظروں سے ان کو ساتھ دیکھ کر خوشی جھلک رہی تھی اور کچھ نفرت بھری نظریں ان پر ٹکاۓ کھڑے تھے جن میں سے ایک سمعیہ بھی تھی۔ لُبنا بیگم نے ان کو ساتھ دیکھ ان کے دائمی ساتھ کی دُعا مانگی تھی۔
آئرہ اس سے ہاتھ چھوڑاتی اسٹیج کی طرف بڑھ گئ۔ ارسم بھی اس کے پیچھے اسٹیج کی طرف بڑھا۔
مصفرہ اسے دیکھ کر منہ موڑ چکی تھی۔
” مصفرہ ! یار کیا ہوا ہے؟ تم ایسا بیہیو کیوں کر رہی ہو۔ کیا ہارب بھائی نے کچھ کہا ہے؟ ” وہ اس کے نزدیک بیٹھتی سرگوشی نما آواز میں بولی۔
” نہیں کچھ نہیں ہوا میں ٹھیک ہوں۔ بس تم لوگوں سے ناراض ہوں تم نے مما سے ایک بار بھی میری حمایت میں بات نہیں کی۔میری مرضی کے بغیر ہوا ہے یہ سب۔” وہ سنجیدہ چہرے سے بولی۔
” مصفرہ! تم یہ فضول کی ضد چھوڑ کر ایک دفعہ ہارب بھائی کو جاننے کی کوشش تو کرو۔ وہ اچھے انسان ہیں۔تم سے محبت کرتے ہیں۔تم اس رشتے کو اور انہیں ایک موقع دے کر تو دیکھو۔” آئرہ اسے سمجھانے والے انداز میں بولی۔
انہیں ایک ساتھ دیکھ ہارب ارسم کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔ ہارب نے قریب آتے ارسم کی کمر میں ایک مُکا جڑا تھا۔
” نکمے انسان! ولیمہ میرا ہے اور وی آئی پی کی طرح تو آرہا ہے۔ ابھی بھی نہ آتا جب تقریب کا اختتام ہوجاتا تب آتا۔” ہارب نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا۔
” اوۓ بےغیرت انسان! کمر توڑ دی میری۔ یہ کہی کا غصہ کہی پر اتار رہا ہے۔ اچھے سے دِکھ رہا ہے مجھے۔” وہ کمر سہلاتا ہوا بولا۔
” منہ بند رکھ اور یہ بتا اتنی دیر سے کیوں آیا ہے؟” اب کی بار وہ تحمل سے گویا ہوا۔
” یہی بات سکون سے نہیں پوچھ سکتا۔ وہ آئرہ کو پِک کرنے گیا تھا تو بس اسی میں دیر ہوگئ۔” وہ آدھی بات گول کرتا ہوا بولا۔
” ہہممم! “ ہارب نے سمجھتے ہوۓ اثبات میں سر ہلایا۔
” تو یہ بتا تیری ہڈیاں تو سلامت ہیں۔ کہی بھابھی نے کمرے سے تو نہیں نکال دیا تھا رات کو۔” وہ اُسے تپانے والی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوۓ بولا۔
اس کی بات پر ہارب نے جل کر اسے دیکھا۔ پھر اپنا حساپ برابر کرنے کے لیے بولا۔ ” چل اوۓ ! چُپ کر اپنا مستقبل نہ بتا۔ کیونکہ تیرے جو حالات لگ رہے ہیں تیرا یہی حساب ہونے والا ہے۔ ” وہ اس پر مسکراہٹ اُچھالتا مصفرہ کی طرف بڑھ گیا۔وہ آئرہ کو اسٹیج سے اُترتے دیکھ چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذوہان جیسے ہی ہال میں انٹر ہوا تھا دل نے پہلی خواہش ہی اسے دیکھنے کی تھی وہ دل کو ڈپٹ کر چُپ کروانے کی کوشش کرتا اس سے پہلے ہی اس کی نظر منسا پر پڑھ چکی تھی۔ وہ اپنے ہی بھائی کی شادی میں یوں اکیلی ایک کونے میں گُم سُم سی بیٹھی تھی۔ اُسے ایسے اداس دیکھ کر اس کے دل کو کچھ ہوا۔ مگر پھر سارہ بیگم کی باتوں کو یاد کرتا اسے اگنور کر گیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ انہیں باتیں بنانے کا اور موقع ملے۔
وہ گاہے بگاہے چور نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جو پیچ کلر کی میکسی میں دل میں اُتر رہی تھی۔ مگر یہ بات خود سے ماننا ناممکن تھی کجا کہ اُس کو جا کر بتانا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولیمے کا اختتام اچھے سے ہوچکا تھا۔آئرہ جان بوجھ کے اسے چڑانے کی خاطر اشعر کی گاڑی میں سوار ہوکر جاچکی تھی۔ ارسم تب سے انگاروں پر لوٹ رہا تھا۔ اسے رہ رہ کر اُس پر غصہ آرہا تھا۔ جو اس کی بات کو رد کرتی اپنی من مانی کرچکی تھی۔ ناراضگی اپنی جگہ وہ کتنی دفعہ معافی مانگ چکا تھا۔ مگر دوسری طرف جیسے اثر ہی نہیں ہورہا تھا۔
ہارب نے آئرہ کو اشعر کے ساتھ جاتے دیکھ اس کے چہرے پر جو غصہ دیکھا تھا اسے دیکھ ایک منٹ وہ خود بھی ٹینشن میں آگیا تھا۔ وہ اُن کے جاتے ہی اسے سمجھانے کے لیے اس کے نزدیک آیا۔
” ارسم! کول ڈاؤن یار۔ تم نے بھی تو اتنے کچھ غلط کیا ہے اُس کے ساتھ۔ ابھی اتنے غصے پر قابو رکھ۔ یہ نہ ہو معاملہ سنبھلنے کی بجائے مزید بگڑ جاۓ۔” ہارب اس کی طرف دیکھتا سمجھانے والے انداز میں بولا۔
” کتنا صبر رکھو۔ اب یہ سب کچھ حد سے بڑھ رہا ہے۔ ہاں میں مانتا ہوں میں نے غلطی کی ہے پر کتنی دفعہ اس بات کی معافی مانگ چکا ہوں۔ اب اور کیا کروں۔ سب باتیں ایک طرف مگر وہ اشعر کو ہمارے درمیان لاکر ٹھیک نہیں کررہی۔ میں اُس کمینے کا منہ توڑ دوں گا۔ ” وہ غصے سے پیچ و تاب کھاتا ہوا بولا۔
” ویسے دیکھا جاۓ شروعات تو نے ہی کی تھی سمعیہ کو بیچ میں لا کر۔ ویسے جہاں تک میرا خیال ہے وہ صرف تجھے تنگ کرنے کو تیری بات کی نفی کررہی ہے۔ جس چیز سے تو چِڑ رہا ہے وہی کرکے وہ تجھے چِڑا رہی ہے۔” ہارب کندھے اچکاتا اپنی راۓ کا اظہار کرتا ہوا بولا۔
” تو اپنی بکواس بند کر۔ آج تو میں اُس کے دو ٹوک بات کرکے رہوں گا۔” وہ کندھے سے اس کا ہاتھ جھٹکتا تن فن کرتا کار کی طرف بڑھ گیا۔
ہارب نے اس بپھرے شیر کی طرف دیکھ آئرہ کے لیے دُعا مانگی۔ خود بھی وہ سر جھٹکتا مصفرہ کی طرف بڑھ گیا جو منسا کے ساتھ سہج سہج کر قدم اُٹھاتی باہر کی طرف ہی آرہی تھی۔
اس نے گہرا سانس بھرا جانے اس کی رُوٹھی بیوی کب ماننے والی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشعر اسے چھوڑ کر کچھ ضروری کام کے لیے گھر سے جاچکا تھا۔ باقی ابھی پیچھے آرہے تھے۔ وہ جان بوجھ کر ارسم کو چڑھانے کی خاطر اشعر کے ساتھ آگئ۔ وہ جو کسی کام کی غرض سے ذرا جلدی نکل آیا تھا۔ اسے سر درد کا کہتی گھر چھوڑنے کا کہہ گئ۔ جسے وہ بغیر منت کے مان چکا تھا۔
اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ اس کا غصے سے سُرخ پڑتا چہرہ دیکھا۔ اس کی آنکھوں کے تاثرات پر وہ ایک پل کے لیے گڑبڑائی۔ پھر خود کو مضبوط کرتی کار میں بیٹھ گئ۔ اس کے تاثرات دیکھ کر یہ اندازہ ہورہا تھا جیسے وہ سالم ہی اسے نگل جاۓ گا۔ وہ ساری سوچوں کو جھٹک کر اندر کی طرف بڑھ گئ۔
ابھی اس نے ہیل اُتار کر اپنے پیروں کو ریلیکس کیا تھا کہ اسے گاڑی رُکنے کی آواز آئی۔ وہ پُرسکون سی ہوگئ یہ سوچ کر کہ گھر والے آگۓ ہیں۔اس نے الماری سے ایک آرام دہ سوٹ نکالا۔وہ الماری بند کرتی مُڑی تھی جب کوئی تن فن کرتا اس کے کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ آئرہ کا حلق خُشک ہوا۔ اسے دیکھ کر وہ واقعی ہی ڈر رہی تھی وہ اس کے غصے سے بخوبی آگاہ تھی جو غصے میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا تھا اس وقت تو کوئی تھا بھی نہیں اسے روکنے والا۔
ارسم تیز رفتار گاڑی ڈرائیو کرتا گھر پہنچا تھا اس وقت اس کا غصہ سوا نیزے پر جا پہنچا تھا۔ وہ گاڑی پارک کرتا اس کے کمرے کی جانب بڑھا تھا۔ وہ کمرے داخل ہوا جب وہ اسے سامنے الماری کے پاس ہی کھڑی مل گئ۔ وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا اس کی طرف بڑھا۔
اسے اپنی طرف بڑھتے دیکھ آئرہ کے سہی معنوں میں حواس اُڑے۔ اس نے بےساختہ ایک قدم پیچھے کی طرف بڑھایا۔ ارسم نے اس کے قریب رُکتے اس کے ہاتھ سے کپڑے لیکر بیڈ کی طرف اُچھالے۔ اسے بازو سے کھینچ اپنے حصار میں قید کرگیا۔
” میرے منع کرنے کے باوجود تم اپنے اُس کزن کے ساتھ واپس آئی۔ تمہیں ایک دفعہ سمجھ نہیں لگتی زہر لگتا ہے مجھے جب وہ تمہارے اردگرد ہوتا ہے۔” وہ اس کی آنکھوں میں اپنی سُرخ آنکھیں گاڑتا اسے بازو سے جھنجھوڑتا ہوا بولا۔
” میں کیوں مانوں آپ کی بات۔ جب میں آپ سے کوئی رشتہ رکھنا ہی نہیں چاہتی۔ کتنی دفعہ بتاؤں مجھے آپ زہر لگتے ہیں۔ چھوڑ کیوں نہیں دیتے مجھے میرے حال پر۔” وہ اس کے انداز پر آنسو بہاتی ہوئی بولی۔ اتنے دنوں سے اس کے نرم رویے کی عادت سی ہوگئ تھی اب اس کا یہ رویہ اسے بُری طرح ہرٹ کر گیا۔
” کیا بکواس کی؟ یہ رشتہ نہیں رکھنا چاہتی۔ کتنی دفعہ کہہ چکا ہے اس رشتے کو توڑنے کی بات ہرگز مت کرو مگر تم نہ ہی مجھے معاف کرنا چاہتی ہو نہ ہی اس رشتے کو دل سے قبول کرنا چاہتی ہوں۔ مانتا ہوں غلطی ہوگئ مجھ سے ۔ اُسے سُدھارنا چاہتا ہوں مگر تم ایک موقع تک نہیں دینا چاہتی۔ کیسے یقین دلاؤں کے میں واقعی اس رشتے کو نبھانا چاہتا۔ جب سے واپس آیا جانے کونسی کشش ہے جو بار بار مجھے تمہاری طرف کھینچتی ہے۔ محبت کرتا ہوں تم سے۔ تم سمجھتی کیوں نہیں. مجھے نہیں اچھا لگتا کسی کا بھی تمہارے اردگرد ہونا۔ ” وہ اُس کے ماتھے سے ماتھا ٹکاتا بےبسی سے بولا۔
اس کی اتنی سی قُربت پر وہ جیسے مرنے والی ہوئی تھی۔ اس کی سانسوں کی تپش اسے اپنے چہرے پر پڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ اسے پورا کا پورا خود میں قید کیے کھڑا تھا۔ آئرہ کو اس کا لہجہ بھیگا سا لگا تھا۔ اسے جانے کیوں اس کا اداس انداز بالکل نہ بھایا تھا۔ پھر بھی وہ اپنی کیفیت پر فابو پاتی اس کے ہاتھ پیچھے جھٹک گئ۔
” دُور رہیے مجھ سے۔ مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی آپ جاسکتے ہیں۔” وہ اس کا حصار توڑتی بیچھے ہوئی۔
” رُو ! کیوں کررہی ہو میرے ساتھ یہ سب۔” وہ یہ کہتا ہوا ایک قدم اس کی طرف بڑھا۔
آئرہ نے ہاتھ اوپر کیے اسے قریب آنے سے منع کیا۔
” میں اس لیے کر رہی ہوں کیونکہ میں آپ سے نفرت کرتی ہوں۔ سمجھے آپ۔ آپ جو بھی کرلیں میں کبھی آپ کو معاف نہیں کروں گی۔” آئرہ نے اس کی ضبط سے سُرخ پڑتی آنکھوں سے نظریں چرائی تھی۔
ارسم کا اس کی طرف اُٹھتا ہاتھ دوبارہ پہلو میں گرگیا۔ آج اس کا پھر سے اپنی نفرت کا اظہار کرنا اسے شدید تکلیف کی طرف دھکیل گیا۔ وہ جو اسے ہر حال میں منا لینا چاہتا تھا اس وقت اتنا مایوس ہوچکا تھا کہ جب وہ بولا تو آئرہ کے دل کو کچھ ہوا۔
” مجھے معاف کردو آئرہ۔ جب سے آیا خود کو ڑبردستی تم پر مسلط کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ضروری نہیں تمہیں لیکر جیسے میرے جذبات بدلیں ہو تمہارے بھی بدلیں ہو۔ واقعی میں تمہارے قابل بالکل نہیں ہوں۔ ہوسکے تو اتنے دنوں تک تمہیں تنگ کرتا رہا اُس کے لیے معاف کردینا۔ ” وہ اپنی بات کہتا اس کے حیران چہرے کو دیکھتا شکستہ قدموں کے ساتھ باہر بڑھ گیا۔
آئرہ نے اس کے قدموں میں واضح لڑکھڑاہت دیکھی۔ جانے اسے کیوں محسوس ہوا وہ بلکل اچھا نہیں کررہی۔
وقت گزاری کر دیکھیں گے
اک دن تم پہ مر دیکھیں گے
اتنی گرم مزاجی کیوں ہے
سورج اوپر چڑھ دیکھیں کے
پتھر ہونے کی خواہش میں
چلتے چلتے مُڑ دیکھیں گے
سوکھے خواب ہرے ہوں شاید
آنکھ میں آنسو بھر دیکھیں گے
ہجر سمندر جیسا دیکھا
وصل کو چلُو بھر دیکھیں گے
پیٹ کو دوزخ کیوں کہتے ہیں
بھوکے آٹھ پہر دیکھیں گے
پاکر تم کو سب کچھ کھو دوں
یہ بھی مشکل سر دیکھیں گے
کونسی بات سے لہجہ بدلہ
سب باتیں پھر کر دیکھیں گے
شاید دل کی حالت سنبھلے
اسکا ہاتھ پکڑ دیکھیں گے
اک اک نقش صہیفوں جیسا
کیسے اس کو پڑھ دیکھیں گے
ہارب نے گاڑی رُکتے ہی اس کی طرف کا دروازہ کھول اپنا ہاتھ اس کی جانب پھیلایا تھا۔ مصفرہ نے اس کے بڑھے ہوۓ ہاتھ کو یکسر فراموش کیا تھا۔
” شکریہ ! مگر مجھے آپ کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔" وہ دو ٹوک انداز میں کہتی گاڑی سے اُترتی گھر کی جانب قدم بڑھانے لگی۔
اس کی بات پر ہارب نے لب بھینچ کر اپنا ہاتھ پیچھے کیا تھا۔ شاید یہ اس کے عمل کا ہی نتیجہ تھا۔ خود وہ اکثر جان بوجھ کر دوسروں کو نیچا دکھاتا تھا۔ آج یوں کسی نے اسے ذرا سا نظر انداز کیا تھا تو اسے دوسروں کی تکلیف کا اندازہ ہوا تھا۔ وہ خاموشی سے اس کے پیچھے چلنے لگا۔
مصفرہ نے حیرانی سے اس کا انداز دیکھا تھا جو اس کی بات کے جواب میں ایک لفظ بھی نہ بولا تھا۔ وہ پل پل اپنے رویوں سے اسے حیران کررہا تھا۔ وہ اپنی سوچوں میں اس قدر اُلجھی تھی کہ اسے اندازہ بھی نہ ہوپایا تھا کہ کب اس کی ہیل اس کی میکسی میں پھنسی تھی جس کی باعث وہ اپنا توازن نہ رکھ پائی۔ یقیناً وہ بہت بری طرح زمین کو سلامی پیش کر جاتی اگر ہارب بروقت اسے تھام نہ لیتا۔
ہارب نے اسے گرنے سے بچانے کے لیے اپنی طرف کھینچا تھا جس کے باعث وہ اس کے وجود کا حصہ بنی۔ ہارب نے دونوں ہاتھ اس کے گرد لپیٹ کر اسے قید کر رکھا تھا۔ وہ اس کی دھڑکن کی ارتعاش صاف سُن رہا تھا۔ مصفرہ نے ذرا سا سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا۔جو اس کی طرف ہی متوجہ تھا۔ اس نے جھجھک کر پیچھے ہونا چاہا پر سامنے والے کا ایسے کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس کی سانسوں کی تپش اسے اپنے چہرے پر پڑتی معلوم ہورہی تھی۔ اس نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا تھا۔
” چھوڑیے مجھے” اس کی بات پر وہ ہوش میں آتا اسے اپنی گرفت سے آزاد کرگیا مگر اس کا ہاتھ ابھی بھی اس کے ہاتھ میں مقید تھا۔
” ہاتھ چھوڑیے میرا۔” وہ اس کی مضبوط گرفت سے اپنا ہاتھ چھوڑانے کو بےتاب تھی۔
" بےشک میں نے وعدہ کیا تھا کہ تمہاری ہر بات مانوں گا۔ پر ایسی کسی بھی ضد کو میں ہرگز بھی پورا نہیں کروں گا جس سے تمہیں ذرا سی بھی تکلیف ہو۔” وہ سنجیدگی سے بولتا اس کا ہاتھ تھامے اندر کی طرف بڑھ گیا۔
مصفرہ کو اس کا یہ مہربان سا روپ بےحد بھایا تھا۔ وہ اس کے ساتھ چلتی یک ٹک اسے دیکھنے میں مصروف تھی۔
” کیا یہ ہمیشہ یونہی مہربان رہے گے۔” وہ ایک حسرت لیے خود سے ہی مخاطب تھی۔
ہارب نے کمرے میں آکر اس کا ہاتھ چھوڑا تھا۔
”میں جانتا ہوں تم مجھے پسند نہیں کرتی۔ اس کے باوجود بھی میں تم سے محبت کرتا ہوں اور ہمیشہ کرتا رہوں گا۔ وہ اس کی طرف جھکتا اپنا حق استعمال کرتا اس کے ماتھے پر پہلا استحاق بھرا لمس چھوڑتا چینجگ روم کی طرف بڑھ گیا۔
مصفرہ فریز سی اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔ اس نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس کا لمس محسوس کرنا چاہا۔جو پورے آب و تاب سے چمک رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑا دشوار ہوتا ہے______ کسی کو یوں بھلا دینا
کہ جب وہ جذب ہو جاۓ رگوں میں خون کی مانند
وہ شکستہ حال سا اس کے کمرے سے نکلتا نیچے ہال کی طرف بڑھا جہاں سب بڑوں کی باتوں کی آوازیں آرہی تھیں جس کا مطلب تھا وہ گھر آچکے ہیں۔ وہ بغیر کسی کی طرف دیکھتا تیز تیز قدم اُٹھاتا گھر سے نکلتا چلا گیا۔ سب نے حیرانگی سے اس کا رویہ دیکھا تھا۔ لُبنا بیگم نے اسے پیچھے سے پُکارا تھا مگر وہ مُڑا تک نہیں۔ وہ اپنی سوچوں میں اس قدر گُم تھا کہ اُسے ان کی آواز تک سُنائی نہ دی۔
وہ گھر سے نکلتا سڑکوں پر بے مقصد گاڑی دوڑاتا رہا۔ اسے آئرہ کے الفاظوں کی باز گشت اب تک اپنے کانوں میں محسوس ہورہی تھی۔ اُس کا یوں نفرت کا اظہار کرنا بار بار دھتکارنا اسے اندر تک توڑ گیا تھا۔ وہ گاڑی روکتا سٹیرنگ ویل پر اپنا ماتھا ٹکا گیا۔ کیسے بھولتا اُسے اتنا آسان تھوڑی تھا اسے بھلانا۔ جو شخص آپ کی رُوح کا مکین ہو اسے کیسے خود سے دور کیا جاسکتا ہے۔ کیسا خود میں سے اُسے نکالا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئرہ نے خالی خالی نظروں سے اسے خود سے دُور ہوتا دیکھ رہی تھی۔ وہ تو کب کا جا چکا تھا مگر وہ وہی کھڑی اُس جگہ کو گھور رہی تھی جہاں کچھ دیر پہلے وہ کھڑا تھا۔ یہی تو وہ چاہتی تھی اسے خود سے دُور کرنا۔ پھر جانے ایسا کیوں لگ رہا تھا جیسے اندر سے سب خالی خالی ہوگیا ہو۔ بار بار اُس کا اداس چہرہ آنکھوں سامنے آکر اکے ڈسٹرب کررہا تھا۔ وہ بار بار سر جھٹک کر اسے بھولنے کی کوشش کررہی تھی۔ مگر جیسے اس کا چہرہ آنکھوں سے چِپک گیا تھا۔
” نہیں میں نے بالکل ٹھیک کیا۔وہ یہی سب ڈیزرو کرتے ہیں۔ وہ بھی تو میرے ساتھ اتنا سب کر چکے ہیں۔ ” اس نے جیسے خود کو یقین دلانا چاہا۔
تو تم اُس سے بدلہ لے رہی ہو اس کے دل نے صدا دی۔ اس نے گھبرا کر اپنے اندر سے آتی آوازوں کو جھٹکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ صبح صبح ہی اسلام آباد جانے کے لیے نکل چکا تھا۔ وہ کسی سے بھی ملے بغیر جاچکا تھا۔ آمنہ بیگم نے فون کرکے اس سے شکوے شکایت کیے مگر وہ یہاں آنے کے لیے نہ مانا۔ اس کا کہنا تھا کہ فی الحال وہ کچھ وقت کے لیے اکیلے رہنا چاہتا ہے۔
منسا کو یہی محسوس ہوا جیسے وہ صرف اس سے دُور جانے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ وہ دل ہی دل میں اس سے متنفر ہوچکی تھی۔ اگر انہیں میری کوئی پرواہ نہیں تو مجھے بھی نہیں ہے۔ وہ خود کو اپنے پیپرز میں اُلجھا چکی تھی۔ گھر والے ان کے رویوں سے پریشان تھے۔انہوں نے فی الحال انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا مگر وہ من ہی من میں کچھ فیصلہ کر چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ماہ بعد
وہ سیڑھیاں اُترتا نیچے آیا تھا جہاں سارے گھر والے موجود تھے۔ ان دو ماہ میں اس نے ایک بار بھی آئرہ سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔اب بھی وہ نظر انداز کرکے کرسی گھسیٹ کر بیٹھا۔ آئرہ اس کے انداز پر کڑھ کر رہ گئ۔
گھر والوں کو یہی لگ رہا تھا کہ ان دونوں کے درمیان سب کچھ ٹھیک ہورہا ہے پھر سے وہی سب۔ دونوں میں سے کوئی جھکنے کے لیے تیار نہ تھا۔ ابراہیم صاحب نے اسد صاحب کو اشارہ کیا تھا۔ اب انہیں ہی کچھ کرنا تھا۔
اسد صاحب نے گلہ کھنکھار کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔
” برخودار ! اور کتنی دیر اس رشتے کو لٹکانے کا پلان ہے۔ ” وہ اسے دیکھتے ہوۓ بولے۔ ان کی بات پر اس کا کھانے کی طرف جاتا ہاتھ رُکا۔
” جیسے آپ کی مرضی ویسا ہی ہوگا۔” وہ انہیں تسلی کروا کر ایک دفعہ پھر ناشتہ کرنے لگا۔
اس کی بات پر آئرہ کے چہرے پر سایہ سا لہرایا تھا۔ یعنی وہ اتنی آسانی سے اس چھوڑ رہا تھا۔
” پیپرز ریڈی ہیں بتاؤ کب سائن کرو گے۔” انہوں نے جان بوجھ کر اس کی دھکتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا انہیں لگا تھا کہ وہ آگے سے بھڑکے گا۔ورنہ پیپر تو انہوں نے بالکل بھی تیار نہیں کرواۓ تھے۔ کیونکہ اب گھر میں کوئی بھی ان کی علیحدگی نہیں چاہتا تھا۔
” ٹھیک ہے میں ایک ہی شرط پر سائن کروں گا۔ پیپرز لیکر میرے کمرے میں آئرہ کو بھیج دیں مجھے کچھ بات کرنی ہے۔” وہ کرسی دھکیلتا واپس اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ آج اتوار تھا جس کی وجہ سے سبھی گھر پر تھے۔
” میں نہیں جاؤں گی اس کے کمرے میں کیونکہ مجھے اس سے کوئی بات نہیں کرنی۔” اس کے رویے پر وہ کڑھتی ہوئی بولی۔
” پھر بھول جاۓ آپ لوگ کہ میں سائن کروں گا۔ ” وہ مُڑے بغیر مزے سے بولا۔
اسد صاحب اور ابراہیم صاحب دونوں حیران ہوۓ اس کے اتنی آسانی سے مان جانے پر۔
وہ اپنے ہاتھ میں ایک لفافہ تھامے اس کے کمرے کے باہر کھڑی تھی۔جسے کھولنے تک کی اس نے زحمت نہ کی تھی۔ وہ تن فن کرتی بغیر دروازہ کھٹکھٹاۓ اندر کی طرف بڑھی۔
وہ سکون سے بیڈ پر بیٹھا اسی کا انتظار کررہا تھا۔
وہ اس کا پُر سکون چہرہ دیکھ کر اندر تک جل گئ۔
” یہ لیجیے پیپرز اور سائن کریے۔” وہ ہاتھ میں تھاما لفافہ اس کی جانب بڑھاتی ہوئی بولی۔
” چلو اچھا ہمیں زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا۔ چاچو نے پیبرز پہلے سے ہی تیار کرواۓ تھے۔” اس نے لفافہ تھامنے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا تھا۔
” ہاں آپ کو جلدی ہوگی سمعیہ سے شادی کرنے کی۔” وہ طنزیہ مسکراہٹ اس کی طرف اچھالتی ہوئی بولی۔
” ہاں بالکل بیچاری کب سے میرا انتظار کررہی ہے اب کسی سے تو شادی کرنی ہے تو وہ کیوں نہیں۔” وہ پُرسکون مسکراہٹ سے بولا۔
”ہاں ٹھیک کہا آپ نے کہ بابا نے پیپرز ریڈی کرکے بالکل اچھا کیا۔ اب ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ ویسے بھی وہ آج کل میرے لیے کسی اچھے رشتے کی تلاش میں ہے۔” وہ جان بوجھ کر بولی۔
وہ جو اب تک سکون سے کھڑا تھا اس کی بات پر اندر تک جل گیا۔ پر اپنے غصے پر قابو پاتا وہ خود کو پُرسکون کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
” تم نے سائن کردیے۔ ” وہ اسے دیکھتے ہوۓ بولا۔ ایک سیر تھا تو دوسرا سوا سیر ۔
” نہیں پہلے آپ سائن کریں۔ میں بعد میں کردوں گی۔ یہ نہ ہو پچھلی بار کی طرح میرا سائن کرنا بیکار جاۓ اور آپ غصے میں آکر پیپرز پھاڑ دیں۔” وہ سکون سے اس کو پچھلی بار کا حوالہ دیتی ہوئی بولی۔
وہ چلتا ہوا اس کے نزدیک آیا۔” کیا تم واقعی چاہتی ہو میں ان پیپرز پر سائن کردوں۔” وہ اس کے نزدیک رُکتا ہوا بولا۔
” میرے چاہنے نہ چاہنے سے کیا ہوگا۔ ہوگا تو وہی جو آپ چاہے گے۔ ہمیشہ سے وہی تو ہوتا آیا ہے۔” ناچاہتے ہوۓ بھی اس کی آواز بھرا گئ۔
وہ ایک قدم مزید آگے ہوتا اس کے چہرے کے گرد ہاتھ رکھتا محبت سے گویا ہوا۔” میں وعدہ کرتا ہوں جو تم چاہو گی وہی ہوگا۔بس ایک بار کہہ دو کہ تم میرے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔باقی سب گھر والوں سے میں خود ہی نبٹ لوں گا۔” اس کی رخسار پر بہتے آنسوؤں کو اس نے اپنی پوروں پر چُنا۔
وہ اس کے ہاتھوں پر چہرہ ٹکاتے شدت سے رو دی۔ ” آپ بہت بُرے ہیں۔” وہ سُوں سُوں کرتی ہوئی بولی۔
” پر تم بہت اچھی ہو۔” وہ اسے خود سے نزدیک کرتا اپنے حصار میں قید کرگیا۔
آئرہ نے روتے ہوۓ اس کا حصار توڑنا چاہا۔ مگر وہ اور شدت سے اسے خود میں بھینچ گیا۔ اپنی کوشش کو ناکام ہوتا دیکھ وہ اس کے سینے سے سر ٹکا کر چا سالوں کا غبار نکالنے لگی۔
اس کے یوں تڑپ کے رُونے پر وہ بوکھلایا تھا۔ ” رُو ! ایم سوری یار پر یوں مت روؤں۔ مجھے بالکل اچھا نہیں لگ رہا یوں تمہارا رونا” وہ اس کے بالوں میں ہاتھ چلاتا اسے پُرسکون کرنا چاہ رہا تھا۔
” میں تم سے بے انتہا محبت کرتا ہوں۔ میں اب تمہیں کبھی بھی خود سے دُور نہیں جانے دوں گا۔” وہ اس کے بالوں پر ہونٹ رکھتا ہوا بولا۔
آئرہ نے بےاختیار ہوکر اسے پیچھے دھکیلا تھا۔
” بالکل جھوٹ آپ مجھ سے کوئی محبت نہیں کرتے۔ابھی کچھ دیر پہلے آپ ہی سمعیہ سے شادی کی خواہش کر رہے تھے۔ ” وہ اسے گھورتی ہوئی بولی۔
” یار بکواس کررہا تھا۔” وہ بےبسی سے اس کا ہاتھ تھامتا ہوا بولا جو مسلسل ضد کرکے چھوڑوا رہی تھی۔
” میری کچھ شرائط ہے اُس کے بعد ہی ہاں کروں گی۔” وہ اس کے سینے سے لگی ناز سے بولی جیسے اسے یقین تھا کہ دوسری طرف سے ہاں میں جواب آۓ گا۔
” یار تمہاری ساری شرائط منظور ہیں۔” وہ اس کا مان رکھتا لاڈ سے بولا۔
” گھر والے پوچھے گے تو کیا کہہ گے۔ بابا مجھ سے ناراض تو نہیں ہوجاۓ گے۔ میں نے اُن کی بات رد کردی۔” وہ چہرہ اُٹھاتی روہانسی لہجے میں بولی۔
” میں سب سنبھال لوں گا بس تم اب دوبارہ رونے مت بیٹھ جانا۔ کوئی تم سے ناراض نہیں ہوگا۔ ” وہ اس کے ہاتھ میں مقید وہ لفافہ تھامتا ہوا بولا۔
” چلو باہر چلے تاکہ سب کو اپنے فیصلے سے آگاہ کرسکیں۔” وہ اس کا ہاتھ تھامتا باہر کی جانب بڑھا۔
” مجھے ڈر لگ رہا ہے اگر بابا نے منع کردیا پھر۔” وہ ناخن چباتی اضطرابی کیفیت میں بولی۔
” اچھا انہوں نے منع کردیا پھر کیا کرو گی۔” وہ اس کی طرف مُڑتا ہوا بولا۔
” جو بابا کہے گے وہی کروں گی۔” وہ بے اختیاری میں بولی مگر اس کا چہرہ دیکھ وہ زبان دانتوں تلے دباگئ۔
” تمہاری جان نکال لوں گا جو اب تم نے مجھے چھوڑنے کا سوچا بھی کیونکہ اب تو سمجھو یہ ناممکن سی بات ہے۔” وہ سنجیدہ سے لہجے میں بول کر اسے لیے نیچے کی جانب بڑھ گیا۔
وہ دونوں سیڑھیاں اُترتے نیچے آۓ جب سامنے لاؤنج میں ہی انہیں اسد اور ابراہیم صاحب دونوں نظر آگۓ۔ ارسم سکون سے چلتا ان کے نزدیک آیا اور ہاتھ میں پکڑا لفافہ سامنے ٹیبل پر ٹکا چکا تھا۔
دونوں نے بیک وقت سر اُٹھا کر ان کی طرف دیکھا تھا۔ آئرہ جیسے اس کے پیچھے چُھپنے کی کوشش کررہی تھی۔
” ہاں تو برخودار ! سائن ہوگۓ۔” اسد صاحب آنکھوں پر لگایا چشمہ نیچے رکھتے ہوۓ بولے۔
” نہیں! اور اب سوچیے گا بھی مت کہ میں سائن کروں گا۔ ” وہ سکون سے ان کے چہروں کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
” کیوں میں وجہ جان سکتا ہوں۔” اسد صاحب نے غور سے اسے دیکھا تھا جس کا اطمینان قابلِ دید تھا۔
” ہاں بالکل آپ کو وجہ ہی تو بتانے آۓ ہیں۔ ہم دونوں علیحدگی نہیں چاہتے بلکہ اب تو آپ اپنی بیٹی کی رُخصتی کی تیاری کریے۔” آئرہ نے آخری بات پر اس کی کمر میں چُٹکی کاٹی یہ بات تو ابھی ان میں ڈیسائیڈ تک نہیں ہوئی تھی اور وہ کتنے دھڑلے سے رخصتی کا اعلان کررہا تھا۔ اس کی بات پر اس کا جُھکا سر مزید جُھک گیا۔ ارسم نے مُڑتے ہوۓ خونخوار نظروں سے اسے گھورا۔
” کیا ہے جنگلی بلی ؟ دیکھائی نہیں دے رہا کتنی اہم بات کررہا ہوں اور تمہیں مار دھاڑ کی پڑی ہے۔ فی الحال ہاتھوں کو کنٹرول کرو۔” وہ سرگوشی نما آواز میں اس کے قریب جُھکتا ہوا بولا۔
” تو آپ رخصتی کی بات کیوں کررہے ہیں یہ تو ہم نے ابھی ڈیسائیڈ نہیں کیا۔ ” وہ بھی اسی انداز میں بولی۔
” تو اور کیا تمہارا ارادہ بوڑھے ہوکر رُخصتی کروانے کا ہے۔”ارسم کی بات پر وہ جل بُھن گئ۔
” بوڑھے خود ہورہے ہیں۔ آپ شاید بھول گۓ ہیں میں آپ سے پورے چھ سال چھوٹی ہوں۔ اس حساب سے بوڑھے خود ہونگے۔” وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
” اس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔ پہلے مجھے ڈیڈ اور چاچو سے بات کرنے دو۔” وہ شاید بھول گیا تھا کہ لڑکیاں اپنی عُمر کو لیکر کتنی ٹچی ہوتی ہیں۔
اسد صاحب اور ابراہیم صاحب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکراہٹ اُچھالی وہ دونوں آئرہ کی حرکت اور ارسم کی بات سُن چکے تھے۔ مگر اس کے مُڑتے ہی سر جھکا کر اپنی مسکراہٹ چُھپا گۓ۔
” ہم کیسے یقین کرلیں کہ آئرہ بھی اس بات پر راضی ہے۔ کیا پتہ تم اسے ڈرا دھمکا کر لاۓ ہو۔ ” اس بار ابراہیم صاحب سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوۓ بولے۔
” آپ کو لگتا ہے آپ کی بیٹی ڈرنے والوں میں سے ہے۔ پھر بھی آپ اپنی تسلی کے لیے اسی سے پوچھ لیں۔ ” وہ اس کا ہاتھ تھامتا اسے آگے کرتا ہوا بولا۔
” ہاں بولو آئرہ ! کیا جو ارسم چاہتا ہے وہی آپ بھی چاہتی ہو۔ ” وہ اس کے چہرے پر گھبراہٹ دیکھتے ہوۓ بولے۔
آئرہ نے نظر اُٹھا کر اپنے بابا کی طرف دیکھا تھا جو اسی کی طرف متوجہ تھے۔ اس نے ہولے سے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
اسد صاحب نزدیک آتے اس کے سر پر پیار دے گۓ۔ اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اپنے باپ کی طرف دیکھا تھا۔وہ محبت سے اسے اپنے سینے سے لگا گۓ۔
” جو میری بیٹی کہہ گی وہی ہوگا۔ ” وہ اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوۓ بولے۔
” مجھے لگا آپ مجھ سے ناراض ہوجاۓ گے۔ ” وہ معصومیت سے سُوں سُوں کرتی ہوئی بولی۔
” میں اپنی بیٹی سے ناراض نہیں ہوسکتا۔” وہ اس کا گال تھتھپاتے ارسم کی طرف متوجہ ہوۓ۔
” صرف اور صرف اپنی بیٹی کی وجہ سے تمہیں ایک موقع دے رہا ہوں اگر اسے ذرا سی بھی تکلیف ہوئی تو تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔” وہ اسے دھمکانے والے انداز میں بولے۔
ان کی دھمکی پر ارسم نے منہ بگاڑا۔ یعنی کے ہر کوئی آئرہ کا حمایتی تھا۔ اس نے ایک نظر اسد صاحب کے ساتھ لگی آئرہ کو دیکھا جو اس کی درگت بننے پر ہنس رہی تھی۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔ ” آپ لوگ ذرا رخصتی کی ڈیٹ فائنل کرلیں میں ذرا آپ کی بیٹی کو گھوما کر لاتا ہوں۔” وہ اس کا ہاتھ کھینچتا اسے لیے باہر کی طرف بڑھ گیا۔
آئرہ نے خجل سی ہوکر ان کی طرف دیکھا تھا۔
” پاگل انسان کہی بھی شروع ہوجاتے ہو۔” وہ اس کے ہاتھ سے ہاتھ نکالتی اس سے پہلے آگے کی طرف بڑھ گئ۔
اسد صاحب نے افسوس سے سر ہلایا تھا جیسے کہہ رہے ہو کہ اس لڑکے کا کچھ نہیں ہوسکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منسا کے پیپرز ختم ہوۓ کچھ وقت گزر چکا تھا اب وہ کچھ دنوں کے لیے فری تھی۔
وجاہت صاحب کچھ سوچ کر ذوہان کو کال ملا کر واپس آنے کا کہہ چکے تھے وہ چاہ رہے تھے منسا کی رخصتی ہو جاتی وہ ذوہان کے ساتھ اسلام آباد جا کر وہی اپنی پڑھائی جاری رکھتی۔ کیونکہ یوں تو انہیں حالات سُدھرنے کے کوئی امکان نظر نہیں آرہے تھے۔ سب لوگ ان کی بار پر متفق تھے سواۓ سارہ بیگم کے۔
فی الحال انہوں نے رُخصتی کی بات ذوہان سے نہیں کی تھی۔ آمنہ بیگم کی طبیعت کچھ دنوں سے خراب تھی۔ انہیں موسمی بخار تھا مگر وہ یہی بہانہ بنا کر اسے واپس بُلا رہے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ ماں کی طبیعت خرابی کا سُن کر وہ دوڑا چلا آۓ گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی مما کی طبیعت کا سُن کر واقعی پریشان ہوچکا تھا۔ وہ اگلے دن ہی گھر کے سامنے موجود تھا۔ وہ عجلت میں گھر کے اندر بڑھا۔ جہاں اس کا پہلا ٹکراؤ ہی منسا سے ہوا۔ جو لاؤنج میں بیٹھی کسی سے فون پر بات کررہی تھی۔ اس کے آنے سے پہلے تک تو اس کے چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ تھی۔ جو اسے دیکھ کر تھم چکی تھی۔ ذوہان نے شدت سے یہ بات نوٹ کی تھی۔ پھر بھی سر جھٹکتا اس کی جانب بڑھا جو اسے اپنی طرف آتا دیکھ سپاٹ چہرے کے ساتھ وہاں سے ہٹتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئ۔ اس کے رویے پر ذوہان کے ماتھے کے بل گہرے ہوتے چلے گۓ۔
منسا فون پر اپنی دوست سے بات میں مگن تھی جب قدموں کی چاپ پر اس نے آنے والے کو دیکھا تھا۔ پہلے تو یہاں دیکھ اسے حیرانی ہوئی وہ یوں اچانک کیسے آگیا۔ گھر والوں کی کارستانی سے وہ یکسر انجان تھی۔ اسے دیکھ منسا کو اس کا رویہ یاد آنے لگا۔اس کی آنکھیں مرچوں سے بھر گئ یہ سوچ کر سامنے والے کو کوئی احساس ہی نہیں تھا کہ وہ اپنی وجہ سے کسی کو تکلیف دے چکا ہے۔ اسے قریب آتا دیکھ وہ اسے بات کرنے کا موقع دیے بغیر وہاں سے ہٹ گئ۔ کچھ اس شخص کو بھی تو پتہ چلے دوسروں کی تکلیف کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے یہاں کام کرتے مہینہ ہوچکا تھا۔ اب کافی حد تک وہ کام کو سمجھ چکی تھی۔ کمپنی کا باس کسی پراجیکٹ کے سلسلے میں شہر سے باہر گیا تھا۔ آج صبح آکر ہی اسے علم ہوا تھا کہ وہ کل ہی واپس آچکے ہیں اور آج آفس بھی ضرور آۓ گے۔ اپنے گولیگ سے بات کرکے اسے یہی اندازہ ہوا تھا کہ باس اپنے کام کے معاملے میں کافی سخت ہیں۔ وہ اس کے بارے میں سُن کر ذرا گھبرا رہی تھی۔ ویسے بھی یہ اس کے کام کا پہلا تجربہ تھا۔ اسے باہر سے واپس آۓ پانچ ماہ ہی ہوۓ تھے۔ دو ماہ پہلے ہی اسے ملائکہ کی شادی کے بارے میں معلوم ہوا تھا جسے جان کر اسے بےحد خوشی ہوئی تھی اس کے بےحد اصرار پر وہ اس کی شادی میں شرکت کرنے گاہور گئ تھی۔ اب تو اس کی گھر والے بھی شادی کا اصرار کررہے تھے لیکن جب بھی اپنی بہن کا بےبس چہرہ آنکھوں کے سامنے گھومتا وہ سختی سے منع کردیتی۔ ہادیہ کے بارے میں سوچ اس کر اس کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرنے لگی۔ جانے وہ کتنی دیر غائبی طور پر اس سے ہمکلام رہتی جب ثناء اس سے مخاطب ہوئی۔
” ماہ نور ! سر آچکے ہیں۔ وہ تمہیں اپنے کیبن میں بلا رہے ہیں۔ تم ایک بار ان سے مل لو تاکہ وہ اچھے سے تمہیں کام سے آگاہ کردیں۔تم ٹینشن مت لو میں نے سر کو یہی بتایا ہے کہ تمہارا کام بےحد اچھا ہے۔ سر بھی تمہارا کام دیکھ کر کافی حد تک مطمئن ہے۔” وہ اسے مطمئن کرکے اپنے ڈیسک کی جانب بڑھ گئ۔
ماہ نور اس کی بات پر اثبات میں سر ہلاتی سر کے کیبن کی طرف بڑھ گئ۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹا کر اندر آنے کی اجازت لی۔ سامنے والا لیپ ٹاپ پر جھکے کچھ ٹائپ کرنے میں مصروف تھا۔ کھٹکے کی آواز پر سامنے والے نے سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا وہ اسے دیکھ کر تھم چکا تھا۔ وہ بےیقینی کی کیفیت میں چلتا ہوا اس کے نزدیک آیا۔ اس کے ہونٹ بےآواز پھڑپھڑاۓ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارسم اسے لاکر برا پھنسا تھا اس کا پلان تو پہلے کوئی مووی دیکھنے کے بعد ہلکے پھلکے رومانٹک سے ڈنر کا تھا پر یہ لڑکی اس کے پلان پر بالٹی بھر کر پانی پھیر چکی تھی۔ پچھلے چار گھنٹوں سے وہ اسے بھی اپنے ساتھ شاپنگ پر خوار کررہی تھی۔ وہ کب سے ایک شاپ سے نکل کر دوسری شاپ کی طرف بڑھ جاتی۔ وہ دھڑا دھڑ ایسے شاپنگ کررہی تھی جیسے ارسم کی لوٹری نکل آئی ہو۔ وہ اسے کافی بار ٹوک چکا تھا۔ جس حساب سے اُس نے شاپنگ کی تھی اسے پورا یقین تھا اس کا کریڈٹ کارڈ خالی ہوجاۓ گا۔ وہ شاپنک کرنے کے ساتھ ساتھ دکانداروں کے سامنے ہی اُن کی چیزوں میں نقص نکال رہی تھی۔ اس کی اتنی دیدہ دلیری پر وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ دو جگہوں پر وہ خود اس کی طرف سے معذرت کرچکا تھا۔ اسے اب جیولری شاپ کی طرف بڑھتے دیکھ اس کی بس ہوئی وہ اس کا ہاتھ تھامتا شاپنگ مال سے باہر نکل گیا۔
” ارسم ! رُکیے نا ابھی مجھے جیولری بھی لینی ہے۔” وہ اس کی رونی صورت دیکھ کر معصوم منہ بناتی ہوئی بولی۔
” کیا مطلب ہے اس بات کا تم چار گھنٹے پہلے ہی اپنے ساتھ خوار کرچکی ہو۔ابھی تمہیں جیولری بھی چاہئے۔” وہ خونخوار نظروں سے اسے گھورتا ہوا بولا۔
” لو بھلا آپ ہی رخصتی کا اعلان کرکے آۓ ہیں۔ ابھی سے شاپنگ شروع کریں گے پھر ہی آخری دن تک مکمل ہوگی۔ اور خوب کہی آپ نے۔ جیولری تو بےحد ضروری ہے شادی کے لیے۔” وہ اس کا سُرخ پڑتا چہرہ دیکھ اپنی ہنسی روکنے کے لیے چہرہ جھکا گئ۔
” کوئی ضرورت نہیں ہے باقی شاپنگ ہم پھر کبھی کریں گے۔ ” وہ اس کا ہاتھ تھامتا گاڑی کی طرف بڑھا۔
وہ جان بوجھ کر اسے تنگ کررہی تھی۔ اس کی شکل دیکھ وہ کب سے ہنسی ضبط کرنے کے چکروں میں تھی۔ بالآخر اسے تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتی کھلکھلا کر ہنسی۔ اس کی ہنسی دیکھ کر وہ سمجھ چکا تھا وہ اسے تنگ کررہی تھی۔ وہ اسے گھوری سے نواز کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔
” ہم فی الحال گھر بالکل نہیں جارہے۔ پہلے مجھے اچھا سے لنچ کرواۓ کہی سے۔” وہ کمال بےنیازی سے بول کر اپنے شاپنگ بیگ سے کچھ کھنکھالنے لگی۔ ارسم نے اس آفت کی پرکالہ کو دیکھ منہ بسورا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کچھ دیر کھڑا اس کے رویے کے بارے میں سوچتا رہا پھر سر جھٹکتا آمنہ بیگم کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ وہ بخار کے باعث کمبل لپیٹ کر لیٹی تھی۔ ذوہان نے تشویش سے ان کا سُرخ چہرہ دیکھا تھا۔ وہ ان کے قریب آکر بیڈ پر بیٹھ ان کے ماتھے بر ہاتھ رکھ گیا جو بخار کے باعث تپ رہا تھا۔ آمنہ بیگم نقاہت کے باعث آنکھیں موندے لیٹی تھی اپنے نزدیک کسی کی موجودگی محسوس کرچکی تھی اس کے باوجود وہ ایسے ہی لیٹی رہی کیونکہ وہ جانتی تھی آنے والا کون ہے اب ناراضگی بھی تو جتانی تھی۔ جب کسی کا سرد ہاتھ ان کے ماتھے پر پڑا تو انہوں نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا تھا جو تشویش سے ان کی جانب دیکھ رہا تھا۔ وہ ناراضگی سے منہ موڑ گئ۔
” مما ! ایسے تو مت کریں مجھے پتہ ہے آپ مجھ سے اس وجہ سے ناراض ہیں کہ میں آپ کو بغیر بتاۓ چلا گیا۔ اور آپ کے فون کرنے پر بھی واپس نہیں آیا۔ میں تھوڑا سا ڈسٹرب تھا۔ پلیز مجھے معاف کردیں۔ پلیز دیک بار” وہ عقیدت سے ان کے ہاتھوں پر بوسہ دیتا ہوا بولا۔
” بالکل میں ناراض ہوں۔ تمہیں اب بھی آنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بھلا ایسے بھی کوئی کرتا ہے۔” وہ خفا خفا سی بولیں۔
” سوری کر تو رہا ہوں۔اب بہت سے دن رُکوں گا۔پرامس۔” وہ انہیں تسلی دینے والے انداز میں بولا۔
اس کی بات پر انہوں نے محض ہنکار بھرا۔
” مجھے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ چلیں اُٹھے ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔” وہ ان کا ہاتھ تھامتا بےصبری سے بولا۔
” ذرا صبر رکھو۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں تمہارے سہارے بیٹھی تھی کہ تم آؤ اور مجھے ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤ۔تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں تمہارے پاپا کے ساتھ ڈاکٹر کے ہو آئی ہوں۔ موسمی بخار ہے میڈیسن لوں گی تو ٹھیک ہوجاؤں گی۔” وہ اسے شرمندہ کرنے والے انداز میں بولیں۔
ان کی بات سے وہ واقعی شرمندہ ہوگیا تھا۔ اس کا شرمندہ سا چہرہ دیکھ اب ان سے رہا نہیں گیا۔وہ اپنی ناراضگی دُور کرتی محبت بھرے انداز میں بولیں۔
” جاؤ تم آرام کرو تھک گۓ ہوگے لمبے سفر سے آۓ ہو۔ میں بھی کچھ دیر ریسٹ کروں گی تو ٹھیک ہوجاؤں گی۔” وہ اس کا خوبرو چہرہ دیکھتی ہوئیں بولیں۔
وہ اثبات میں سر ہلاتا ان کے پاس سے اُٹھتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ وہ واقعی اس وقت بےحد تھکا ہوا تھا فی الحال وہ کچھ دیر آرام کرنا چاہتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان دو مہینوں میں اتنا ہوا تھا کہ وہ آپس میں تھوڑی بہت گفتگو کرنے لگے تھے۔ اس کا کیئرنگ انداز مصفرہ کو دھیرے دھیرے اس کی طرف راغب کررہا تھا۔ ان ماہ میں اس کے اندر بہت سی مثبت تبدیلیاں آئی تھیں۔ اجنبیت کی دیوار آہستہ آہستہ گر رہی تھی۔ جس میں زیادہ ہاتھ ہارب کا ہی تھا۔
مصفرہ نے اس کے ساتھ رہتے ہوۓ یہ بات نوٹ کی تھی کہ اس نے آج تک اسے اس کے ہکلانے کا کوئی طعنہ نہیں دیا تھا بلکہ اِس نے تو صرف اُس کا مہربان رُوپ دیکھا تھا۔ جو اس کی ذرا سی تکلیف پر بوکھلا جاتا تھا۔ وہ اب خود بھی ایک نارمل لائف گزارنا چاہتی تھی۔ وہ تو بس اس کی طرف سے پہل کا انتظار کررہی تھی۔ جس کے دُور دُور تک کوئی امکانات نظر نہیں آرہے تھے۔
اس نے نظر اُٹھا کر ہارب کی طرف دیکھا تھا جو ابھی ابھی کمرے میں آیا تھا۔ جو اب الماری سے جانے کیا نکال رہا تھا۔ وہ ایک سفری بیگ لاکر بیڈ پر کھول کے رکھ چکا تھا اب الماری سے کپڑے نکال وہ نفاست سے تہہ کرتا بیگ میں رکھ رہا تھا۔ بیگ کو دیکھ مصفرہ کا دل ڈوب کر ابھرا تھا کیا وہ کہی جارہا تھا۔ وہ حیرانی سے یک ٹک اسی کو دیکھ رہی تھی۔
وہ بیگ بند کرتا اس کی طرف مُڑا۔ ” وہ دراصل ذوہان بھائی کچھ وقت کے لیے واپس آۓ ہیں تو اسلام آباد والی برانچ کو دیکھنے والا بھی کوئی ہونا چاہیے۔ ڈیڈ تو ہمارے مینیجر کا نام سجسٹ کررہے تھے۔پر میں نے سوچا میں چلا جاتا ہوں ایسے میں تم کچھ دن سکون سے گزار لو گی۔ میری وجہ سے ویسے بھی تمہیں پرابلم ہوتی ہے۔” وہ اس کی حیرانگی دیکھ اسے سب بتاتا واش روم کی طرف بڑھ گیا۔
مصفرہ نے ٹینشن سے ناخن چباۓ تھے یعنی اُسے لگتا ہے میں اب بھی اسے ناپسند کرتی ہوں۔ تبھی وہ میری خاطر نجھ سے دُور جارہے ہیں۔ میں ہمیشہ ہی انہیں باتیں سُنائی ہیں انہیں برا بُھلا کہا ہے انہیں یہی لگتا ہے کہ میں اب بھی ان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی۔ اُف خدایا! کیسے رُوکوں انہیں۔ وہ دل ہی دل میں خود سے مخاطب تھی۔ ہاں ان کا بیگ چُھپا دیتی ہوں۔ جتنی دیر میں اس نے اپنے سوچوں کے گھوڑے دوڑاۓ وہ واش روم سے نکل کر بیگ اُٹھا کر الماری میں رکھتا سونے کے لیے لیٹ چکا تھا اُسے کل صبح نکلنا تھا۔
مصفرہ کو جب یقین ہوگیا وہ سو چکا ہے وہ دبے قدموں الماری کی طرف بڑھی الماری کھول کر اس میں سے بیگ نکال کر کمرے سے باہر کی طرف بڑھ گئ۔ اس کے بیگ کو سٹوروم میں چُھپا کر وہ مطمئن سی ہوتی سونے کے لیے لیٹ چکی تھی۔ بس اب اسے صبح کا انتظار تھا اسے پورا یقین تھا کہ اب ہارب نہیں جاۓ گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشعر نے حیرانگی سے اسے دیکھا تھا۔ اسے دیکھ کر وہ منجمد سا ہوگیا تھا ساڑھے چار سالوں بعد اسے دو ماہ قبل بازار میں دیکھائی دی تھی۔ اس نے کتنا ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی پر وہ اسے نہ ملی اور اب یوں اچانک وہ سامنے آچکی تھی۔ اسے دیکھ کر اس کے ہونٹ بے آواز ہلے تھے۔ ” ہادیہ”
وہ قدم قدم چلتا اس کے قریب آچکا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے چھونا چاہا جب ماہ نور پُھرتی سے پیچھے ہٹی۔
” سر یہ آپ کیا کررہے ہیں۔؟ ” وہ انگلیاں مڑوڑتی نروس سی بولی۔
اسے کچھ عجیب لگا اس کی ہادیہ ایسی تو نہیں تھی ہاں اُس کے نین نقش سامنے کھڑے وجود سے میل کھاتے تھے اُس کی آواز بھی لگ بھگ ایسی تھی پھر کیا تھا جو غلط تھا۔ کچھ ایسا تھا جو اس کی نظروں سے چھوٹ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”ہادیہ” اشعر اسے دیکھ کر بولا۔اس کی آنکھیں جذبات کی شدت سے سُرخ ہورہی تھی۔
اس کی بات پر ماہ نور کے چہرے پر سایہ سا لہرایا تھا۔ اُس نے حیرانی سے اُس کی طرف دیکھا تھا وہ کیسا جانتا تھا ہادیہ کو۔ مگر پھر اپنے جذبات پر قابو پاتی سپاٹ چہرے کے ساتھ بولی۔
” ماہ نور! سر میرا نام ماہ نور ہے ہادیہ نہیں۔میں آپ کی نئ ورکر ہوں ایک ماہ پہلے جوائن کیا ہے۔ ثناء نے مجھے بھیجا ہے تاکہ آپ اچھے سے مجھے کام سے آگاہ کردیں۔”وہ اس کی کی بات کاٹتی ہوئی بولی۔ اس کے لہجے میں واضح لڑکھڑاہٹ تھی۔
”ماہ نور” اشعر اسے دیکھ ہولے سے بڑبڑایا۔ یعنی ایک دفعہ پھر وہ تہی دامن رہ گیا تھا وہ اس کی ہادیہ نہیں تھی۔وہ تو کوئی اور تھی۔ اس کا چہرہ پل میں مایوس ہوا۔
” سوری مس انڈرسٹینڈنگ ہوگئ۔ میں آپ کو کوئی اور سمجھا۔ کیسی ہے آپ مس ماہ نور۔ کیسا تجربہ رہا ہمارے ساتھ کام کرکے۔ ” وہ اپنے چہرے کے تاثرات نارمل کرتا بمشکل ہلکی سی مسکراہٹ لیے بولا۔
” میرا پہلا تجربہ تھا پر یہاں سب بہت کاپریٹیو ہیں مجھے ذرا بھی مشکل نہیں آئی۔” وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
”ہہمم! اچھا لگا سُن کر ۔ اب جاکر اپنا کام کریں باقی وقتاً فوقتاً آپ کو کام سے آگاہ کردیا جائے گا۔” وہ واپس مُڑتا اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گیا۔ اس چہرے کو دیکھ جیسے اس کے زخم پھر سے کریدے گۓ۔
وہ اجازت پاتے ہی باہر کی جانب بڑھ گئ۔ اس نے مُڑتے ہی گہرا سانس بھرا۔ فی الحال وہ ہادیہ کے بارے میں بالکل بات نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے یکسر انجان بن گئ۔ جو اس شخص کے بارے میں سوچ رہی تھی اگر وہ صحیح تھا تو اسے واقعی اس شخص سے ہمدردی محسوس ہوئی۔اگر وہ کسی معجزے کے انتظار میں تھا تو یہ انتظار لاحاصل ہی رہنا تھا۔وہ ساری سوچوں کو جھٹکتی اپنے ڈیسک پر بیٹھ لیپ ٹاپ کھول کام میں مگن ہوچکی تھی۔ ایک یہی طریقہ تھا ان سب سے پیچھا چھوڑ انے کا۔
اس کے جاتے ہی وہ کرسی پر گر سا گیا تھا۔ آج پھر اُس ظالم محبوب کی سوچیں بُری طرح حاوی ہوئی تھی۔
اک جنوں بے معنی, اک یقین لاحاصل
کیا ملا ہمیں محسن اُس کی آرزو کرکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی ابھی آفس سے گھر آیا تھا۔ کام کے زیادتی کے باعث اس کے اعصاب بُری طرح تھکن کا شکار تھے اس کا ارادہ پہلے شاور لینے کا تھا تاکہ تھکاوٹ کا کچھ اثر زائل ہوسکے۔ ابھی وہ کپڑے لیتا الماری کی طرف بڑھتا جب کوئی دروازہ کھولتا آندھی طوفان بنا اندر آیا۔ سارہ بیگم کو سامنے دیکھ اس کے اعصاب جھنجھنا اُٹھے تھے اسے پورا یقین تھا وہ رخصتی کی خبر سُن جلد یا بدیر ضرور آۓ گی۔وہ اطمینان سے کھڑا ان کا غصے بھرا انداذ ملاحظہ کرتا رہا۔
” تم پھر سے آگۓ میری بیٹی کی زندگی برباد کرنے۔ تم کیوں اُس کا پیچھا نہیں چھوڑ دیتے۔ میں ماں ہوں مجھے پتہ ہے وہ تمہارے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی۔ تم سے بہتر اُس کے لیے عدیل ہے ( سارہ بیگم کا بھانجا) میں اُس سے اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہتی تھی کتنے اچھے لگتے ہیں دونوں ایک ساتھ۔ پر جانے تم بیچ میں کہاں سے آگۓ۔” وہ تنفر سے بولیں۔
” معاف کریے کا چچی میں کسی کے درمیان نہیں آیا بلکہ آپ اپنے بھانجے کو زبردستی درمیان میں لارہی ہیں۔ منسا میری منکوحہ ہے اور میری ہے بیوی بنے گی۔آپ یہ زبردستی کے رشتے جوڑنے چھوڑ دیں۔ اور جہاں تک آپ کے بھانجے کا ذکر ہے تو آپ بھی اچھی طرح جانتی ہیں وہ کس قماش کا انسان ہے اگر منسا کا نکاح مجھ سے نہ بھی ہوتا تو میں کسی بھی صورت آپ کے اُس بھانجے سے ہرگز نہیں ہونے دیتا۔خیر مجھے شاور لینا ہے اب آپ جاسکتی ہیں۔” وہ انہیں ہکا بکا چھوڑ کر سیٹی بجاتا واش روم کی جانب بڑھا جب ان کی آواز پر اسے رُک جانا پڑا۔
” ہہمم ! تم کہو گے تو میں مان لوں گی کہ عدیل اچھا لڑکا نہیں ہے۔ تم یہ جھوٹے الزام لگا کہ یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ تم منسا کے لیے پرفیکٹ ہو۔” وہ تقریباً چیختی ہوئی بولیں۔
” اپنی بیٹی سے بھی پوچھ لیں وہ کیا چاہتی ہے اُس کے دل میں کیا ہے۔” وہ مزید وہاں رُکے بنا وہاں سے ہٹ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئرہ کی رُخصتی کے ساتھ ساتھ دونوں گھروں نے منسا کی رُخصتی کا بھی فیصلہ کیا تھا۔ جہاں ایک طرف آئرہ اس خبر کے بعد ارسم سے کتراتی پھر رہی تھی۔ وہ دوسری طرف منسا ایک بار پھر اپنی ناقدری پر بکھری تھی۔ اس شخص کو یہاں آۓ کتنے دن گزر چکے تھے مگر اُس نے ایک دفعہ بھی اس سے ملنے کی یا اسے منانے کی کوشش نہیں کی تھی۔
دوسری طرف ذوہان اس خبر کو سُن کر پہلے خوب واویلا مچا چکا تھا پھر اپنے دل کی سُنتا وہ مطمئن ہوچکا تھا مگر سارہ بیگم کا اس کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اس کی ساری خوشیوں پر پانی پھیر رہا تھا۔ مگر اس بار وہ سوچ چکا تھا وہ سارہ بیگم کا غصہ ہر گز بھی اس پر نہیں نکالے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے جب سے رُخصتی کی خبر سُنی تھی جلے پیر کی بلی کی طرح ادھر اُدھر گھوم رہی تھی۔مجال تھی جو ایک پل بھی وہ سکون سے بیٹھی ہو۔ میں کوئی گری پڑی ہوں کہ جب اُن کا دل چاہا دھتکار کر چلے گۓ اور جب دل چاہا آکر اپنا لیا۔ اس دفعہ میں نے بھی انہیں ناکوں چنے نہ چبوا دیے تو میرا نام بھی منسا نہیں۔
اب تم جب تک خود چل کر نہیں آتے میرے پاس معافی مانگنے میں ہر گز بھی تمہیں معاف کرنے والی نہیں ہوں۔ وہ دل ہی دل میں پختہ عزائم باندھتی مطمئن ہوچکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے اس نے اسلام آباد جانے کا بتایا تھا تب سے وہ اس کی حرکات کا جائزہ لے رہا تھا۔ اس کا بے چین ہونا وہ نوٹ کر چکا تھا۔ وہ سویا ہر گز نہیں تھا بس آنکھیں موندے لیٹا تھا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ کب وہ اس کے قریب سے اُٹھ کر الماری کی طرف بڑھی۔ اسے حیرانی ہوئی کہ وہ اتنی رات کو الماری سے کیا تلاش کررہی تھی۔ اس کے ہاتھ میں اپنا بیگ دیکھ اسے کچھ کچھ اندازہ ہوچکا تھا۔ اس کا دل بلیوں اچھلا یعنی وہ چاہ رہی ہے کہ میں نہ جاؤں۔
اسے کمرے سے باہر جاتا دیکھ وہ سکون سے لیٹا رہا۔ اب تو پُرسکون نیند آنی تھی یہ سوچ کر مصفرہ آہستہ آہستہ ہی سہی اسے قبول کررہی تھی۔ وہ بازو سر کے نیچے ٹکاۓ اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کے دوبارہ روم میں آنے پر وہ پھر سے آنکھیں موند گیا۔
مصفرہ اب اپنی اس کارستانی سے مطمئن ہوکر آنکھیں موند گئ۔ اسے پورا یقین تھا کہ اب وہ نہیں جاسکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ناول پڑھنے میں اس قدر مگن تھی کہ رات کا ڈنر گول کرگئ۔ لائبہ بیگم اسے دو بار بلانے آچکی تھی پر اس نے یہ کہہ کہ ٹال دیا بھوک نہیں ہے۔ رات کے لگ بھگ ساڑھے گیارہ ہورہے تھے سب گھر والے سونے جاچکے تھے اب اسے بھوک بری طرح ستارہی تھی۔ وہ پاؤں میں چپل اڑستی کمرے سے باہر نکل گئ۔ سیڑھیاں اُترتے اس نے اردگرد گہرا سناٹا محسوس کیا۔ وہ جھرجھری لیتی کچن کی طرف بڑھ گئ۔ کچن کی لائٹ چلا اس نے فریج سے کھانا نکالا۔ بریانی دیکھ اس کا منہ پانی سے بھرا۔ اب اسے افسوس ہوا گرما گرم بریانی مس کردی۔ اس نے منہ بسور کہ بریانی کو اوون میں رکھا۔
وہ پلیٹ ٹیبل پر رکھ کر مُڑی جب وہ دروازہ پر ایستادہ محبت پاش نظروں سے اسے ہی تک رہا تھا۔ آئرہ نے اسے دیکھ نظریں چرائی تھی۔ جب سے رخصتی کا پتہ چلا تھا اسے ارسم سے جھجھک سی محسوس ہورہی تھی۔ وہ قدم قدم چلتا اس کے قریب آکر رُکا۔
” چُھپ کیوں رہی ہو مجھ سے جانم۔” وہ اس کے بےحد نزدیک آتا اس کے گال کہ سہلاتا ہوا بولا۔ اس کی اتنی سی نزدیکی پر آئرہ کا دل ایک سو بیس کی رفتار پر دوڑ رہا تھا
آئرہ نے سینے پر ہاتھ رکھ کر فاصلہ قائم کرنا چاہا جو کہ ناممکن سی بات تھی۔ وہ اپنیے سینے پر دھرا اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں مقید کرتا ہونٹوں سے لگا گیا۔
آئرہ نے سٹپٹا کر اسے دیکھا جو پھیلتا ہی جارہا تھا۔
” ارسم پیچھے ہٹیں بھوک لگی ہے مجھے میرا کھانا ٹھنڈا ہوجائے گا۔” وہ رونے والا منہ بناتی ہوئی بولی۔
” اتنی رات کو ڈنر خیر ہے۔” وہ اس کی طرف دیکھتا حیرت سے بولا۔
ارسم ابھی کچھ دیر پہلے ہی گھر لوٹا تھا۔ آج اس کے کالج کے سب دوستوں کا ملنے کا پلان تھا۔ ڈنر وہ ان کے ساتھ ہی کر کے آیا تھا۔
” جی وہ پہلے بھوک نہیں لگی تھی اس لیے ڈنر نہیں کیا۔اب بھوک محسوس ہورہی ہے تو سوچا کرلوں۔” وہ سادہ سے لہجے میں کہتی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ چکی تھی۔ ارسم بھی اس کے ساتھ ہی براجمان ہوگیا۔ وہ اس کے نزدیک بیٹھا اس کی کرسی کا رُخ اپنی طرف کرچکا تھا۔
” اب کیا ہے۔” وہ جھنجھلائی ہوئی سی بولی۔ یہاں بھوک سے اس کی جان نکل رہی تھی اور وہ اسے بےفضول تنگ کرنے میں مگن تھا۔
” تم جو بھی کام کررہی ہو اپنی صحت کے ساتھ کمپرومائڑ ہرگز نہیں کرو گی۔ سمجھی تم۔اس معاملے میں میں لاپرواہی ہرگز برداشت نہیں کروں گا۔ ” وہ سنجیدہ چہرے سے بولا۔
” ہہمم ! سمجھ گئ۔” وہ اس کی بات پر اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
وہ اس کا منہ میں جاتا ہاتھ تھام چکا تھا۔
” اب کیا ہے۔ ارسم جی بہت بھوک لگی ہے ابھی تنگ مت کریں۔” وہ معصوم سا منہ بناتی ہوئی بولی۔
کچھ نہیں سوچ رہا ہوں آج اپنی لٹل وائف کو اپنے ہاتھوں سے کھلاؤں۔” وہ کندھے اچکاتا ہوا بولا۔ وہ چمچ اس کے منہ کی طرف بڑھا چکا تھا۔
آئرہ نے پہلے سوچا وہ انکار کردیں مگر اس کا محبت بھرا انداز دیکھ کر منہ کھول گئ۔ یہی تو وہ چاہتی تھی اس کی توجہ، اس کی کیئر، اس کی محبت۔ اب جب یہ سب کچھ نصیب ہورہا تھا تو وہ ناشکری ہرگز نہیں کرسکتی تھی۔ آئرہ کو اس وقت اس کی آنکھوں میں خود کے لیے مان ، محبت اور عزت ہی نظر آئی تھی۔
ارسم کی نظریں مسلسل اس کے چہرے پر ٹکی تھی۔ اس کی نظروں کے ارتکاز پر وہ گھبرا بھی رہی تھی۔ کھانا ختم ہونے پر اس نے پلیٹ اُٹھا کر اس کے سامنے سے ہٹنا چاہا۔اس کی بولتی آنکھیں اسے ہمیشہ کنغیوز کرتی تھی۔ ارسم اس کی کوشش ناکام بناتا اس کے ہاتھ سے پلیٹ لیتا واپس ٹیبل پر رکھ چکا تھا۔ وہ اس کی کرسی گھسیٹ کر اسے اپنے نزدیک کر چکا تھا۔
” میں تم سے بڑے بڑے دعوے ہرگز نہیں کروں گا۔ بس اتنا کہوں گا کہ بہت سے خوبصورت لمحے میں اپنی بےوقوفی میں گنوا چکا ہوں۔پر میں اب تمہارے ساتھ زندگی کا ہر لمحہ جینا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں تم ہمیشہ ہنستی رہو۔ میری وجہ سے کبھی بھی تمہاری آنکھوں میں نمی نہ آۓ اور نہ ہی میں تمہاری کسی تکلیف کی وجہ بنوں۔” وہ اس کے ماتھے سے ماتھا ٹکاتا ہوا بولا۔
آئرہ نے چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔
” میں بھی ساری باتیں بھول کر صرف آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔” وہ نمی بھری آواز میں اس کے سینے پر سر ٹکا گئ۔
ارسم دونوں بازو اس کے گرد حمائل کرتا اسے خود میں بھینچ گیا۔
اپنی بے اختیاری اور اس کی لمحہ بہ لمحہ ہوتی مضبوط گرفت پر بوکھلائی تھی۔
” پیچھے ہٹیں کوئی کچن میں آگیا تو کیا سوچے گا۔” وہ اسے سچوئیشن کا اندازہ کرواتی ہوئی بولی۔
” کچھ نہیں سوچے گا بیوی ہو تم میری ۔” وہ اسے رُوبرو کرتا ہوا بولا۔
”ہٹیں پیچھے نیند آرہی ہے مجھے۔” وہ اس کے کندھے پر مارتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔
ارسم نے محبت سے اسے جاتے ہوۓ دیکھا۔
ہارب کی آنکھ الارم کی آواز سے کھلی اس نے الارم بند کرکے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا جو اس کی بازو سے چپکی مزے سے سو رہی تھی۔اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے پر آتے بالوں کو پیچھے کیا۔ وہ نیند میں اور بھی زیادہ معصوم لگ رہی تھی۔ اس کے پُرسکون چہرے کو دیکھ اس کے ہونٹوں کو ہلکی سی مسکان نے چھوا۔ ہارب نے ذرا سا جھک کر اس کی پیشانی پر اپنے پیار کی پہلی مہر ثبت کی۔
” دیکھنا بہت جلد تم بھی مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کرو گی۔ ” وہ اس کے پاس سے اُٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گیا۔
اس کی آنکھ کھٹکے کی آواز سے کُھلی اس نے مندی مندی آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا۔ جہاں وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑا نِک سِک سا تیار تھا۔ اس نے ایک نظر وال کلاک پر ڈالی جو آٹھ بجنے کا پتہ دے رہی تھی۔ دوبارہ نظروں کا زاویہ موڑ کر سامنے والے کو دیکھا ہارب نے بھی شیشے سے اس کی طرف دیکھا۔ اپنی چوری پکڑی جانے پر مصفرہ بوکھلاتی ہوئی نظروں کا رُخ موڑ گئ۔
” اچھا ہوا تم اُٹھ گئ۔ میں تمہیں ہی اُٹھانے والا تھا۔ وہ دراصل رات کو پیکنگ کرکے بیگ میں نے الماری میں رکھا تھا مگر اب وہاں نہیں ہے۔ مجھے لگا شاید تمہیں پتہ ہو۔” وہ سنجیدہ سا چہرہ بنا کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔
اس کی بات پر مصفرہ یکدم بوکھلائی۔اسے ڈر تھا کہ کہی اس کی چوڑی پکڑی نہ جاۓ۔ایسی بچگانہ حرکت آج سے قبل اس نے کب کی تھی۔ یہ چھوٹی چھوٹی شرارتیں، اس کی معصومیت سب لوگوں کے حقارت بھرے رویوں کے نیچے دب کے رہ گئ تھیں۔اب اس کا اعتماد آہستہ آہستہ کرکے بحال ہورہا تھا۔ ہارب کا اسے عزت و مان دینا یہی چیز اسے اُس کی طرف مائل کررہی تھی۔
ہارب نے اس کے فیس ایکسپریشن کو انجوائے کیا تھا۔
” مجھے کیسے پتہ ہوگا۔ میں نے تو نہیں دیکھا یہی کہی ہوگا آپ دھیان سے دیکھیں۔” وہ صاف انکار کرتی اسے مشورے سے بھی نواز گئ۔ وہ اپنے ایکسپریشن پر قابو پاتی بڑی دلیری سے بولی تھی۔
اُس نے مصفرہ کی بات سمجھتے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ ابھی وہ مزید کچھ کہتا کہ دروازے پر دستک ہوئی.
ہارب نے دروازہ کھولا تو دروازے پر صبورہ تھی وہ اندر آتی ایک بیگ ان کے سامنے کرتی ہوئی بولی۔
” وہ ہارب بابا ! میں اسٹور روم میں گئ تھی کچھ چیزیں لینے یہ بیگ وہی پڑا تھا اس میں تو آپ کے نۓ والے کپڑے تھے۔ تو مجھے لگا ایک بار آپ سے پوچھ لوں کہی آپ کو چاہیے نہ ہو۔ ”
صبورہ کے ہاتھ میں اپنا بیگ دیکھ اسے ہنسی تو بہت آئی۔ یعنی وہ اس کی معصوم بیوی کی پلاننگ پر پانی پھیر چکی تھی۔ اس نے ترچھی نظروں سے مصفرہ کو دیکھا جو خونخوار نظروں سے صبورہ کو گھور رہی تھی۔ جیسے اُسے کچا چبا جاۓ گی۔
” ہاں صبورہ یہ میرا ہی بیگ ہے یہی رکھ دو اور تم جاؤ۔” وہ اسے جانے کا اشارہ کرتا ہوا بولا۔
” یہ بیگ وہاں کیسا پہنچا ؟” وہ ٹھوڑی پر ہاتھ رکھتا پُر سوچ انداز میں بولا۔
” مجھے کیوں سُنا رہے ہیں مجھے کیا پتہ کیسے پہنچا وہاں۔” وہ پیر پٹکتی واش روم میں بند ہوئی۔
اس کے جانے کے بعد ہارب کا قہقہ کمرے میں گونجا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی
ہادیہ اور ماہ نور جڑواں بہنیں تھی۔ ان کے والد مڈل کلاس فیملی سے بلانگ کرتی تھی۔ دونوں نے پڑھائی بھی ایک ساتھ جاری رکھی تھی۔ دونوں بہنیں میں سے ہادیہ خاموش طبع اور سنجیدہ سی تھی اس کے برعکس ماہ نور لابالی اور شرارتی طبیعت کی مالک تھی۔ جہاں ایک طرف ہادیہ کو پڑھائی کا جنون تھا وہی دوسری طرف ماہ نور کی جان جاتی تھی پڑھنے سے۔ کچھ دنوں پہلے ان دونوں کا سیکنڈ ایئر کا رزلٹ آیا تھا جس میں ہادیہ تو بہت اچھے نمبروں سے پاس ہوئی تھی وہی دوسری طرف ماہ نور کی سپلی تھی۔جس پر اسے اپنے والد سے اچھی خاصی ڈانٹ پڑی تھی۔ ہادیہ اس کی وجہ سے آگے اڈمیشن نہیں لینا چاہتی تھی بچپن سے ہی دونوں نے ہر کام ایک ساتھ کیا تھا اب وہ اکیلے یونی جانے سے گھبرا رہی تھی۔ سب اس کو سمجھا سمجھا کر تھک چکے تھے مگر مجال تھی جو وہ ماہ نور کے بنا کوئی کام کرتی۔ ماہ نور ایک دفعہ پھر اسے سمجھانے کی خاطر اس کے سامنے تھی۔
” ہادیہ ! میری جان سمجھنے کی کوشش کرو۔ میں تو ٹھہری صدا کی نکمی۔ تم میری وجہ سے کیوں اپنا سال برباد کرنا چاہ رہی ہو۔میں تمہیں ایسا ہرگز نہیں کرنے دوں گی۔ تم کل ہی چل رہی ہو میرے ساتھ اڈمیشن کروانے۔” وہ دو ٹوک لہجے میں بولی۔
” ماہ ! تم سمجھنے کی کوشش کرو۔ ہم نے بچپن میں پرامس کیا تھا کہ ہم ہر کام ایک ساتھ کریں گے۔ ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہے گے۔ پھر میں کیسے اکیلی۔ سمجھو نا ماہ۔” وہ بےبسی سے بولی۔
” مجھے پتہ ہے تم گھبرا رہی ہو۔ پر تم فکر مت کرو میں وعدہ کرتی ہوں جو تین ماہ بعد سپلی پیپرز ہیں اس کے لیے میں بےحد تیاری کروں گی۔ دیکھنا میں جلد ہی تمہارے پاس ہونگی۔ میری وجہ سے ماما پاپا اور بھائی کتنے اُداس ہیں جب تم آگے اچھے نمبروں سے کامیاب ہوگی تو دیکھنا وہ سب کتنے خوش ہوجائیں گے۔تم نہیں چاہتی تم ان کی مسکراہٹ کی وجہ بنو ” وہ اس کا ہاتھ تھامتی سمجھانے والے انداز میں بولی۔
” تم ٹھیک کہہ رہی ہو پر تم وعدہ کرو کہ تم اچھے سے اپنا پیبر دو گی تاکہ تم بھی یونی میں آسکو۔ ” وہ معصوم سی شکل بناتی ہوئی بولی۔
” وعدہ میری جان وعدہ۔ ” اسے رضامند ہوتا دیکھ وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
وہ خوش تھی کہ اس کی وجہ سے اس کی بہن کا فیوچر خراب نہیں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سب کا ارادہ شادی کی شاپنگ کا تھا۔ ہارب بھی کچھ دیر پہلے آفس سے واپس آچکا تھا۔ سب تیار ہوکر گیراج میں آچکے تھے۔
”تم اور آئرہ میری کار میں آجاؤ۔ ہارب اور مصفرہ بھابھی دوسری کار میں آجاتے ہیں۔ ” ذوہان ارسم سے مخاطب ہوتا ہوا بولا۔
” ہرگز نہیں میں آپ لوگوں کے ساتھ یہ قیمتی پل یوں برباد نہیں کرسکتا اس لیے میں آئرہ کے ساتھ دوسری کار میں آجاتا ہوں۔ آپ لوگ اپنا دیکھ لیں۔ویسے بھی میں نہیں چاہتا کوئی کباب میں ہڈی بنے۔” وہ آئرہ کا ہاتھ تھامتا دل جلانے والے انداز میں مسکراتا اسے لیے کار کی جانب بڑھ گیا۔ ذوہان نے جل کر اس بدتمیز انسان کی پِیٹ کو گھورا۔ مجال تھی جو وہ کبھی اس کی بات مان لیتا۔
” تم بھی جاؤ اپنی بیوی کو لیکر تمہیں نہ لگے کہ میں روک رہا ہوں تمہیں۔ورنہ تمہیں بھی میں کباب میں ہڈی لگوں گا۔چلو منسا” وہ اسے لیے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
ہارب نے دونوں بددماغوں کو دیکھا تھا پھر سر جھٹکتا ہوا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ مصفرہ نے بھی اس کی تقلید کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاپنگ مال میں پہنچ کر بھی سب الگ الگ سمت میں بڑھ گۓ۔ آج ارسم نے اس کی ایک نہ چلنے دی بلکہ ساری شاپنگ اپنی مرضی سے کررہا تھا۔ آئرہ منہ پھلاۓ اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی جو اس سے اس کی مرضی جاننے کی بھی کوشش نہیں کررہا تھا۔کب سے اس کا ایٹیٹیوڈ دیکھ اب اس سے رہا نہیں گیا تو بول پڑی۔
” ارسم میرے خیال سے ہم شادی کی شاپنگ کرنے آۓ ہیں اور شاید آپ بھول گۓ ہیں کہ شادی صرف آپ کی نہیں ہے بلکہ میری بھی ہے۔آپ تو ایسے شاپنگ کررہے ویں جیسے یہ لڑکیوں والے ڈریس بھی آپ ہی پہنیں گے۔حد ہوگئ جس نے پہننے ہیں اس کی راۓ تو لے لیں۔” وہ غصے سے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواتی ہوئی بولی۔
” تو کیا ہوا کیا میری بیوی میری پسند کی ڈریسنگ نہیں کرسکتی۔کیا میں تمہارے لیے شاپنگ نہیں کرسکتا۔” وہ معصوم سا منہ بناتا اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
آئرہ اچھے سے آگاہ تھی اس معصوم چہرے کے پیچھے چُھپے ہوۓ چالاک انسان سے۔ وہ اس کی بات پر پیر پٹکتی ہوئی آگے بڑھ گئ۔
ارسم نے اس کا ناراض ناراض چہرہ دیکھا اس نے اب اپنے مزاق کو مزید طویل کرنے کا ارادہ ترک کیا۔اور اس کے پیچھے بھاگا۔ وہ ناراض سی منہ پھلاۓ ایک سائیڈ پر کھڑی تھی۔ ارسم نے اس کے کندھوں کے گرد بازو حائل کیے۔
” کچھ پسند آیا رُو؟ ” وہ سوالیہ نظریں اس پر ٹکاتا ہوا بولا۔
” میرے پسند کرنے سے کیا ہوگا کرنی تو آپ نے اپنی مرضی ہے۔” وہ نروٹھے لہجے میں گویا ہوئی۔
” نہیں باقی شاپنگ تم اپنی مرضی سے کرو گی۔ میں تو محض مزاق کرہا تھا۔ تمہیں اپنی من پسند چیز لینے کے لیے میری اجازت کی بھی ضرورت نہیں بلکہ اب تو میرا یہ فرض ہے تمہاری ساری خواہشات کو پورا کروں۔” وہ اس کا ماتھا چومتا ہوا بولا۔
آئرہ اس کی بےباکی پر گھبرائی۔ اس نے گھبرا کر اردگرد دیکھا یقین دہانی کرنے کے لیے کہ کسی نے دیکھا تو نہیں۔
” بےشرم انسان! یہ آپ کا گھر نہیں ہے۔ ہزاروں لوگ ہیں کیا سوچیں گے۔” اس نے ارسم کا ہاتھ ہٹایا۔
” جو سوچتا ہے سوچنے دو۔مجھے فرق نہیں پڑتا۔بس تم میرے لیے بےحد خاص ہو اس چیز کے اظہار کے لیے میں کبھی بھی جگہ کا پابند ہرگز نہیں ہوں۔میری محرم ہو تم۔” وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔ وہ اسے معتبر کیے اس کا ہاتھ تھام گیا۔
آئرہ نے چمکتی آنکھوں سے ساتھ چلتے ہوۓ اس شخص کو دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذوہان بار بار اس سے کوئی نا کوئی ایسی بات کررہا تھا تاکہ اُسے غصہ آۓ اور وہ اس سے بات کرے مگر وہ چپ شاہ کا روزہ ذکھے بیٹھی تھی۔ مجال تھی جو اُس نے ایک بھی لفظ بولا ہو۔ وہ خاموشی سی اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔
وہ کب سے اس کی باتوں پر کڑھ رہی تھی مگر بولی پھر بھی نہیں تھی ابھی بھی وہ انہی سوچوں میں گُم تھی جب ذوہان کی آواز اس کے کانوں میں گونجی اس نے حیرانی سے سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔
”جاناں! ” وہ ہولے سے بڑبڑایا۔
منسا نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو اسے سارا معاملہ سمجھ آگیا۔
اس کے ایکسپریشن دیکھ ذوہان کو شرارت سُوجھی۔
” تمہیں پتہ ہے یونی میں جاناں مجھے پرپوز بھی کرچکی ہے۔ تب تو میں نے منع کردیا مگر اب افسوس ہورہا ہے۔ کاش۔۔” وہ جملہ ادھورا چھوڑ اس کو دیکھنے لگا۔مگر وہ سر جُھکاۓ زمین پر جانے کیا ڈھونڈنے میں مگن تھی۔
ابھی وہ مزید کچھ کہتا کہ جاناں ان کی طرف متوجہ ہوتی اس طرف ہی آرہی تھی۔
” ہے ذوہان ! کیسے ہو؟ وٹ آ سرپرائز۔۔۔۔ تم یہاں کیسے؟ ” وہ منسا کو اگنور کرتی اس کو دیکھتی خوشدلی سے بولی۔
” کچھ نہیں شاپنگ کرنے آیا تھا۔ تمہیں یہاں دیکھ کر اچھا لگا۔” وہ دانتوں کی نمائش کرتا ہوا بولا۔ مقصد منسا کو تنگ کرنا تھا۔
” یہ کون ہے؟ ” جاناں کو اس کا خیال آ ہی گیا تھا۔ وہ اس کی طرف اشارہ کرتی ہوئی بولی۔
” یہ کزن ہے میری۔ میرے چاچو کی بیٹی۔ منسا ! اس سے ملو یہ میری یونی فرینڈ ہے۔ جاناں۔ اسے بھی شاپنگ کرنی تھی تو یہ بھی میرے ساتھ آگئ۔ ” وہ جاناں کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔ایک ترچھی نگاہ اس پر بھی ڈالی جو ان دونوں سے بےخبر باہر شیشے سے پار دیکھنے میں مگن تھی۔
” اوکے ذوہان اب میں چلتی ہوں۔ ابھی کچھ دن ادھر ہی ہوں جلد ہی لنچ ساتھ کرے گے۔” وہ اس کے دوستانہ رویے پر پھیلتی ہوئی بولی۔
” منسا! ذرا دیکھو تو سہی مجھے لگتا ہے وہ تم سے زیادہ خوبصورت ہے۔افسوس کرنا تو بنتا ہے۔” اُس نے پھر جاتی ہوئی جاناں کی پیٹھ کو دیکھ کر شوشہ چھوڑا تھا۔
اب کی بار منسا کی بس ہوئی تھی۔
” یہ کوئی نئ بات نہیں ہے آپ کو دنیا کی ہر لڑکی مجھ سے بہتر ہی لگتی ہے۔ میں بےشک سونے کی بھی بن جاؤں گی آپ کو تب بھی مجھ میں خامیاں ہی نظر آۓ گی۔ ” وہ اپنی بات کہہ کر رُخ موڑ چکی تھی۔
ذوہان کو جانے کیوں اب اپنا مزاق کرنا بھی بُرا لگنے لگا تھا وہ تو بس اس کا شیرنی والا رُوپ دیکھنا چاہتا تھا مگر جیسے اُس نے قسم کھائی تھی کہ وہ اس کی بات پر کچھ رسپونس شو ہی نہیں کرے گی۔اب بھی وہ اپنی بات تحمل سے کہتی ایک طرف ہوگئ۔ ذوہان کو اب خود پر غصہ آیا تھا۔ جو بات کو مزید بگاڑ چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سب میں سے اگر کوئی نارمل کپل کی طرح شاپنگ کررہا تھا تو وہ ان کا ہی کپل تھا۔ جو ایک دوسرے کے مشورے سے تقریباً آدھی سے زیادہ شاپنگ کرچکے تھے۔ وہ دونوں ایک ساتھ کھڑے مکمل لگ رہے تھے۔ دور کھڑے شخص نے حسد سے یہ منظر دیکھا تھا۔
ہارب فون پر آتی کال سُننے دوسری طرف جاچکا تھا۔ مصفرہ ہینگرز کو اُلٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی جب اس کے کانوں میں وہی آواز گونجی جو وہ کبھی بھی نہ سُننا چاہتی تھی۔
” مصفرہ! ” وہ ہارب کو دوسری طرف جاتا دیکھ اس کے نزدیک آکر اس کا نام پُکار چکا تھا۔
مصفرہ نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا۔
” مصفرہ ! مجھے معاف کردو۔ میں جانتا ہوں میں غلط تھا۔ مجھے پتہ ہے تم اب بھی مجھ سے محبت کرتی ہو تم اپنے اس سو کالڈ شوہر کے ساتھ خوش نہیں ہو۔ تم مجھے ایک موقع دو دیکھنا ہم ایک ساتھ بےحد خوش رہے گے۔” وہ زبردستی اس کا ہاتھ تھامتا جنونی انداز میں بولا۔
مصفرہ نے روتے ہوۓ اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھوڑانا چاہا جو مضبوط گرفت میں قید تھا۔ وہ اس کے یوں اچانک سامنے آنے سے بُری طرح گھبرا چکی تھی۔ وہ مسلسل مزاحمت کرتی اپنا ہاتھ کھینچ رہی تھی۔
” تم صرف میری ہو۔ سمجھ آئی۔ ” وہ اس کے آنسو دیکھ اس کے چہرے کی طرف ہاتھ بڑھا چکا تھا لیکن اس کا ہاتھ راستے میں ہی روکا جاچکا تھا۔
ہارب فون سُن کر پلٹا جب مصفرہ کے نزدیک اس ذلیل شخص کو کھڑا پایا۔ وہ تیر کی تیزی سے ان کے نزدیک پہنچا مصفرہ کے چہرے کی طرف جاتا اُس کا ہاتھ بُری طرح جھٹک چکا تھا۔بلکہ دوسرا ہاتھ بھی آزاد کرواتے وہ اسے اپنے پیچھے کرچکا تھا۔
” یو باسٹرڈ ! تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کو ہاتھ لگانے کی۔ تونے اسے چھونے کا سوچا بھی کیسے۔” وہ بری طرح اس پر جھپٹ چکا تھا۔
لوگ ان کے گرد جمع ہونے لگے تھے۔ ذوہان اور ارسم بھی اس طرف آچکے تھے۔ انہوں نے زبردستی اسے علیحدہ کیا تھا۔ اسے اتنے غصے میں وہ دونوں پہلی دفعہ ہی دیکھ رہے تھے۔
” کیا کررہا ہے؟ ہوا کیا ہے؟ اپنے آپ پر قاپو رکھ وہ مر جاۓ گا۔” ارسم اسے اپنی طرف متوجہ کرتا ہوا بولا۔
ہارب نے ایک نظر نیچے گرے کبیر کی طرف دیکھا پھر نظریں بھتکتی ہوئی مصفرہ کی طرف اُٹھی جو منسا اور آئرہ کے ساتھ کھڑی بُری طرح رو رہی تھی وہ ارسم کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ جھٹکتا مصفرہ کا ہاتھ تھامتا شاپنگ مال سے باہر نکلتا چلا گیا۔ مصفرہ اسے اتنے غُصے میں دیکھ کر گھبرا رہی تھی۔ اُسے سوچ سوچ کر ڈر لگ رہا تھا کہ کہی وہ اسے ہی غلط نہ سمجھ لے۔ مصفرہ نے غور سے اسے دیکھا جس کے چہرے پر چٹانوں سی سختی تھی۔
کبھی ناراض مت ہونا، گلے چاہے بہت کرنا
رُلانا اور بہت لڑنا
سُنو ناراض مت ہونا!
کبھی ایسا جو ہوجاۓ , کہ تیری یاد سے غافل
کسی لمحے جو ہوجاؤ
بنا دیکھے جو تیری صورت
کسی شب میں جو سوجاؤں
تو سپنوں میں چلے آنا، مجھے احساس دلا جانا
سُنو ناراض مت ہونا۔۔۔۔۔۔۔!
کبھی ایسا جو ہوجاۓ ، جنہیں کہنا ضروری ہو
وہ مجھ سے لفظ کھو جائیں
انا کو بیچ مت لانا ، میری آواز بن جانا
کبھی ناراض مت ہونا۔۔۔۔۔۔۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اسے گھر لاکر کمرے میں چھوڑ کر جا چکا تھا۔ اس کے یوں چلے جانے پر وہ کچھ اور ہی مطلب اخذ کرتی بُری طرح بکھری تھی۔ اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اسے پھر وقت کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہو۔ ہارب کے جانے سے وہ یہی مطلب اخذ کر کے بیٹھی تھی کہ وہ اسے جلد یا بدیر چھوڑ دے گا۔ اسے اس سب میں زیادہ اپنی غلطی ہی لگی شادی کے بعد سے کب ایسا موقع آیا تھا جب اس نے ہارب سے صحیح سے بات کی ہو۔ جب بھی وہ ان فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش کرتا مصفرہ نے ہر دفعہ اسے خود سے دُور دھکیلا تھا۔
رات کا اندھیرا آہستہ آہستہ پھیلتا شام کی لالی کو ختم کرگیا تھا۔ مگر وہ اُسی پوزیشن میں صوفے پر بیٹھی اپنی بےبسی پر رو رہی تھی۔ بار بار نگاہ بھٹک کر دروازے کی طرف جارہی تھی۔اسے گۓ ہوۓ تین گھنٹے گزر چکے تھے۔وہ صوفے سے اُٹھتی پریشانی سے اِدھر اُدھر ٹہل رہی تھی۔ اس کی آنکھیں بار بار نم ہورہی تھی. آخرکار کمرے کا دروازہ کُھلا اور وہ تھکا ہارا سا اندر آیا۔
مصفرہ اسے دیکھ کر بھاگتی ہوئی اس کے ساتھ جا لگی۔ ہارب نے اس عنایت پر حیرانی سے اسے دیکھا تھا۔ پھر اس کا رونا محسوس کرکے اپنا ایک بازو اس کے گرد حائل کیا تھا۔
” ہارب جی میرا یقین کیجیۓ میں نہیں جانتی وہ انسان اب ایسا کیوں کررہا ہے۔ کیوں میری زندگی تباہ کرنے آگیا ہے۔ میرا دل میں اُس کے لیے نہ کبھی کچھ تھا اور نہ ہی ہوگا۔وہ انسان جھوٹ بول رہا تھا میں اُس سے ہرگز محبت نہیں کرتی۔ میں صرف آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔” وہ اس کے سینے سے لگی روتی ہوئی بولی۔
ہارب نے اس کی باتیں سُن کر گہرا سانس بھرا تھا۔ وہ اس کے احساسات سمجھ سکتا تھا۔اس نے محبت سے اس کے بال سہلاۓ تھے۔
” سب ٹھیک ہے کچھ نہیں ہوا۔” وہ اس کا چہرا روبرو کرتا اس کی بہتی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔
” آپ مجھے چھوڑے گے تو نہیں ” اس نے جیسے پھر یقین دہانی چاہی تھی۔
”چھوڑنے کے لیے تھوڑی تھاما ہے یہ ہاتھ۔چاہے جو بھی ہوجاۓ تم ہر موقع پر مجھے اپنے ساتھ پاؤ گی۔” ہارب نے اس کے رخساروں پر بہتے موتیوں کو صاف کیا تھا۔
” مجھے یقین ہے تم نے اب تک کھانا نہیں کھایا ہوگا اسی ٹینشن میں۔ میں کھانا منگوا رہا ہوں۔ تم فریش ہوکر آجاؤ۔” وہ اس کے گال تھپتھپاتا کمرے سے نکل گیا۔
ابھی بھی دونوں میں جیسے ان دیکھی دیوار حائل تھی۔ جو شاید آہستہ آہستہ ہی گرنی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہمیشہ غلط فیصلے کرنے کے بعد اُن پر پچھتاتا تھا اب بھی اسے احساس ہورہا تھا مصفرہ کو چھوڑنا غلط فیصلہ تھا پر نتاشا کو اپنی زندگی میں شامل کرنا اُس سے بھی غلط ثابت ہوا تھا۔ ہمیشہ اس کی جلدبازی اسے پھنساتی تھی۔
وہ جملہ بالکل درست ہے۔' ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی۔' اس کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا دولت کی چکاچوند نے اسے اس قدر اندھا کردیا تھا کہ اسے نتاشا میں کوئی برائی نظر ہی نہ آئی تھی۔ بلکہ اُس وقت تو اِسے اُس میں صرف اچھائیاں ہی نظر آرہی تھی۔ مگر اُس کے ساتھ رہنے کے بعد اُسے سمجھ آیا تھا کہ وہ بالکل غلط تھا۔ وہ اپنی مرضی کی مالک تھی اُس کے آنے جانے کا کوئی حساب نہیں تھا۔ وہ اس قدر بدتمیز تھی کہ اکثر اوقات وہ بات کرتے اپنے باپ کا لحاظ بھی نہیں کرتی تھی۔لڑکوں کے ساتھ اس کی دوستیاں اسے ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ وہ اس سے پوری طرح بیزار ہوچکا تھا۔
” تم میری تھی اور بہت جلد تم واپس میری دسترس میں ہوگی۔تمہیں چھوڑ کر جو غلظی کرچکا ہوں بہت جلد اُسے سُدھار دُوں گا۔ ” وہ غائبانہ مصفرہ سے مخاطب تھا۔یہ بات سوچتے ہوۓ اس کے چہرے پر مکروہ سی ہنسی تھی۔
کیا ان دونوں کی خوشیوں میں کبیر ایک بار پھر گرہن بن کر اُترنے والا تھا۔ یہ تو آنے والے وقت نے بتانا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی
آج ہادیہ کا یونی میں پہلا دن تھا۔ اُسے تھوڑی گھبراہٹ تو ہوئی مگر وہ خود کو سمجھا چکی تھی کہ اب فی الحال کے لیے اسے اکیلے ہی یونی آنا ہے۔ اس نے یونیورسٹی میں داخل ہوکر ایک نگاہ اردگرد گُھمائی جہاں مختلف طرز کے لوگ اردگرد بکھرے ہوۓ تھے۔ اس کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوا۔اس نے یونیورسٹی میں ہونے والی ریگنگ کے بارے میں سُن تو رکھا تھا مگر فی الحال وہ یہ سب بالکل بھی افورڈ نہیں کرسکتی تھی۔
وہ تیز تیز قدم اُٹھاتی اپنے ڈیپارٹمنٹ کے راستے کی طرف چل پڑی۔ سادہ سی شلوار قمیض پر ڈوپٹہ اچھے سے خود پر پھیلاۓ وہ اپنی گوری رنگت اور تیکھے نین نقش کے ساتھ بےحد اچھی لگ رہی تھی۔ چہرے پر چھائی گھبراہٹ سب آنے جانے والے کو اس کے نیو ایڈمیشن ہونے کی بخوبی اطلاع دے رہی تھی۔ وہ اپنی کلاس میں داخل ہوتی جب چار لڑکوں کا گروپ اسے وہی روک چُکا تھا۔
” مس وائٹ ڈریس! رُکیے ذرا کہاں بھاگی جارہی ہیں۔” اُن میں سے ایک لڑکا اس کے سفید لباس کو دیکھتا ہوا بولا۔
ہادیہ نے مُڑ کر ان کی طرف دیکھا۔
” ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں نئ بیوٹی آئی ہے اور وہ بھی ہم سے ملے بغیر جارہی ہے ناٹ فیئر۔ میرے خیال میں پہلے کچھ انٹرو ہوجانا چاہیے۔ کیوں دوستوں۔ ” اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف نظر گھما کر ان سے تائید چاہی تھی۔
” بالکل ہونا چاہیے۔ ” اس کے دوستوں نے تائیدی انداز میں سر ہلایا۔
وہ کمینگی بھری مسکراہٹ سجا کر اس کی طرف بڑھا۔
” میں راشد ہوں۔ اور آپ” وہ ہاتھ اس کے نزدیک بڑھاتا ہوا بولا۔
ہادیہ نے گھبرا کر اردگرد دیکھا۔ ” دیکھیے ! مجھے جانے دیں۔” وہ گھبرا کر بولی۔
” لو بھلا ذرا سا نام ہی تو پوچھ رہے ہیں۔ آپ تو ایسے گھبرا رہی ہیں جیسے آپ سے آپ کا دل مانگ لیا ہو۔” وہ اپنے دوستوں کے ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہوا بولا۔
” کیا ہورہا ہے یہ۔” ابھی وہ ہادیہ کو مزید تنگ کرتے کہ پیچھے سے ایک بھاری آواز گونجی۔
ہادیہ نے نمی بھری آنکھوں سے آنے والے کو دیکھا تھا۔
اسے سامنے دیکھ کر ان چاروں کی ہوائیاں اُڑی۔ ” کچھ بھی تو نہیں اشعر بھائی ہم تو حال احوال پوچھ رہے تھے۔” وہ تمیز سے بولا۔ اشعر ان سب سے سینئر تھا یونیورسٹی میں سب ہی اس کے غصے سے آگاہ تھے۔اس لیے سب ہی اس سے دُور دُور رہتے تھے۔
” بکواس بند کرو جانتا ہوں تم چاروں کمینوں کو۔ اب نکلوں یہاں سے۔ اب تم مجھے کسی کو تنگ کرتے ہوۓ نظر نہ آؤ۔” وہ تیز آواز میں انہیں وارن کرتا ہوا بولا۔
وہ چاروں اس کی بات سُن کر رفو چکر ہوچکے تھے۔ ان کے جانے کے بعد اشعر نے مُڑ کر اس کی طرف دیکھا۔اس کی پلکوں پر ٹھہرے موتیوں نے اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔
” آپ جائیے اپنی کلاس میں۔ اگر کوئی تنگ کریں تو آپ مجھے بتاسکتی ہیں۔ویسے وہ اب آپ کو تنگ نہیں کریں گے اس بات کی گارنٹی میں دے سکتا ہوں۔ میں انہیں سمجھا دوں گا وہ اب آپ کے آس پاس بھی نظر نہیں آئیں گے۔اگر اس کے علاوہ بھی کوئی مسئلہ ہو تو آپ مجھ سے شیئر کرسکتی ہیں۔” اس کی نظریں ہادیہ کے چہرے پر ٹھہر سی گئ تھی وہ بےمقصد بات کو طویل دے رہا تھا۔
وہ تشکر سے اس کی طرف دیکھتی کلاس روم کی طرف بڑھ گئ۔
اشعر نے اسے جاتے ہوۓ دیکھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں گھروں میں آج افرتفری مچی ہوئی تھی۔ وجہ آج ہونے والا مہندی کا فنکشن تھا۔ دونوں اس وقت مہندی کے مناسبت سے ہلکا پھلکا میک اپ کیے ایک سے بڑھ کر ایک لگ رہی تھیں۔ دونوں کے لہنگے تقریباً ایک جیسے تھے مگر رنگ مختلف تھا۔ جہاں ایک طرف آئرہ شرمائی شرمائی سی بیٹھی تھی وہی دوسری طرف منسا سپاٹ چہرے کے ساتھ بیٹھی تھی جیسے اسے کسی سے کوئی غرض ہی نہ ہو۔ اس دن کے اس کے رویے کے بعد منسا نے اس سے کوئی بھی اُمید باندھنا بیکار سمجھا۔ آپ کی کچھ حماقتوں کی سزا آپ کو شاید عمر بھر ملتی ہے۔ شاید میری غلطی کی ہی سزا مل رہی ہے مجھے۔ میں نے ایک نامحرم سے محبت کی۔ محبت تک تو بات ٹھیک تھی پر میں نے کیا کیا اُس کے سامنے خود کو ارزاں کردیا۔ اپنی اس غلطی کے لیے شاید میں خود کو کبھی بھی معاف نہ کرسکوں۔ وہ جیسے خود سے ہی ناراض تھی اپنی غلطیوں کے بعد۔ جو اُس کی نظر میں تو اس کی ایسی غلطیاں تھی جس پر تاعُمر شاید اسے پچھتانا ہی تھا۔
” منسا گڑیا ! کہاں کھوئی ہو؟ ” مصفرہ اس کا کندھا ہلاتی ہوئی بولی۔ اسے یہ چھوٹی سی لڑکی ہارب کی توسط سے عزیز ہوگئ تھی۔ اس نے ایک بات نوٹ کی تھی کہ منسا سارہ بیگم سے زیادہ آمنہ بیگم سے نزدیک تھی۔ گھر میں تقریباً وہ ہر کسی کی لاڈلی تھی۔ ہارب بھی اکثر اس کے لاڈ اُٹھاتا نظر آتا تھا۔ مصفرہ نے محبت سے اس کا من موہنا چہرہ دیکھا تھا اسے تو لگا تھا کہ اکثر امیر لڑکیوں کی طرح وہ مغرور سی ہوگئ مگر وہ تو معصوم سی تھی۔ اسے کچھ ہی دنوں میں وہ بےحد عزیز ہوگئ تھی۔ اسے اب سمجھ لگی تھی کہ وہ ہر کسی کی لاڈلی کیوں تھی وہ اپنی معصوم حرکتوں سے ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنا لیتی تھی۔ اسے جانے کیوں اس کے چہرے پر خوشی کی رمق تک نہ دکھی۔
” کہی نہیں بھابھی اِدھر ہی ہوں۔” وہ چونکتے ہوۓ اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
” کوئی مسئلہ ہے گڑیا۔۔۔ تو تم مجھ سے شیئر کرسکتی ہو۔” مصفرہ اس کا ہاتھ تھامتی ہوئی بولی۔
” نہیں بھابھی ایسی تو کوئی بات نہیں وہ دراصل آپ سب سے دُور جارہی ہوں بس اس لیے دل اداس سا ہے اس کے علاوہ کوئی مسئلہ نہیں۔” وہ اسے تسلی دینے والے انداز میں بولی۔ وہ نہیں چاہتی تھی اس کی وجہ سے کوئی بھی ٹینشن میں آۓ۔
” بھابھی میں ذرا حفضہ کو فون کرلوں وہ آئی کیوں نہیں۔” وہ اس کے پاس سے اُٹھتی ایسکیوز کرتی ہوئی بولی۔
مصفرہ نے اس سے نظر ہٹا کر کچھ دُور کھڑی آئرہ کو دیکھا جو فون کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی جس کے چہرے پر الوہی چمک تھی۔ وہ اس وقت اس قدر حسین لگ رہی تھی کہ اس نے بے ساختہ اس کے چہرے سے نظریں ہٹائی تھی کہی اسے میری نظر ہی نہ لگ جاۓ۔ وہ تو ہمیشہ ہی یوں ہنستا مسکراتا دیکھنا چاہتی تھی۔ مصفرہ وے اس کے چہرے پر یہ مسکراہٹ صدا قائم رہنے کی دُعا مانگی۔ اس کے اور منسا کے رویے میں اتنا فرق کیوں تھا۔
”بڑا مسکرایا جارہا ہے۔” وہ آئرہ کے قریب آتی اُس کے کندھے سے کندھا مارتی ہوئی بولی۔
” نہیں تو۔” آئرہ فوراً سیدھی ہوکر بیٹھی۔ اس کے چہرے پر موجود شرم کی لالی کچھ اور گہری ہوئی۔
” بس بس لڑکی! میں ارسم بھائی نہیں ہوں جو تم یوں لال پیلی ہورہی ہو۔ ویسے سچ سچ بتانا فون پر ارسم بھائی کے ہی میسج آرہے تھے جسے دیکھ کر تم یوں اکیلے اکیلے مسکرا رہی تھی۔” مصفرہ اسے چھیڑتی ہوئی بولی۔
” تم زیادہ چالاک مت بنو۔ایسا کچھ نہیں ہے۔” وہ اسے گھوری سے نوازتی ہوئی بولی۔
” تم نے بالکل ٹھیک کیا۔ارسم بھائی اور اس رشتے کو ایک موقع دے کر۔ مجھے یقین ہے تمہارا یہ فیصلہ بالکل درست ثابت ہوگا۔ میں نے ارسم بھائی کی آنکھوں میں دیکھی ہے تمہارے لیے دیوانگی۔” وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
اس کی بات پر آئرہ نے بھی اس کی طرف مسکراہٹ اُچھالی۔” محبت تو تم سے ہارب بھائی بھی کرتے ہیں۔تم کیوں اُن کا ہاتھ نہیں تھام لیتی۔وہ تمہیں بےحد خوش رکھے گے۔” آئرہ اسے سمجھانے والے انداز میں بولی۔ اسے اپنی یہ دوست بےحد عزیز تھی۔
” صحیح کہہ رہی ہو تم۔ ہارب جی بےحد اچھے ہیں۔ میں بھی اپنی زندگی میں اب خوش رہنا چاہتی ہوں۔ اچھا! میں آتی ہوں۔ گھر میں دو دو شادیاں ہیں کچھ کمی نہ رہ جاۓ۔” وہ اس کا گال تھپتھپاتی ہوئی کمرے سے باہر بڑھ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کمرے سے باہر نکلتی کچن کی طرف برھ گئ جہاں مہندی کے تھال اور کچھ ضروری سامان موجود تھا۔ چیزیں پوری کرکے وہ تسلی کرکے مُڑی جب سامنے دروازے پر ہی وہ ایستادہ تھا اپنی پوری شان کے ساتھ۔ مصفرہ نے دل ہی دل میں اس کی نظر اُتاری جو بلیک شلوار قمیض میں اچھا خاصا وجیہہ لگ رہا تھا۔ وہ مسکراتے ہوۓ اور بھی پیارا لگتا تھا اس کے چہرے پر موجود ہلکی سی مسکراہٹ کو دیکھتے ہوۓ سوچا۔ وہ قدم قدم چلتا اس کے نزدیک آیا۔
” بیوٹیفل۔۔۔” وہ مبہوت سا اس کے چہرہ دیکھتا ہوا بولا۔
مصفرہ کی پلکیں جُھکتی چلی گئ۔ وہ مبہوت کردینے والا یہ نظارہ دیکھ کر مسمرائز ہوا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کی گرتی اُٹھتی پلکوں کو چھوا تھا۔ پھر وہ جھکتا ہوا اس کی آنکھوں کو ہونٹوں سے چھو گیا۔ اس کی اس بےباک حرکت پر وہ کانوں تک سُرخ پڑی تھی۔ وہ اس کے کان کے نزدیک جھکتا سرگوشی نما آواز میں بولا۔
ہیں آنکھیں جھیل سی، چہرہ کتاب جیسا ہے
کہ میرے یار کا ہر نقش خواب جیسا ہے
کسی بھی بات پر اب بھیگتی نہیں آنکھیں
کہ اپنا حال بھی سوکھے چناب جیسا ہے
یہ آرزو ہے کہ کبھی تو اندھیری شب میں ملے
وہ ایک شخص کہ جو مہتاب جیسا ہے
یہ سازِ جان تو خاموش ایک عُمر سے ہے
اگرچہ لہجہ ابھی تک رباب جیسا ہے
میں اُس کے حُسن کی تعریف کس طرح سے کروں؟
وہ آفتاپ سا ، وہ مہتاب جیساہے
تمہارے بعد میں کس چیز سے لگاؤں دل؟
مری نظر میں سب کچھ حباب جیسا ہے
ہر اک ذرّہ چمکدار کیوں نہیں ہوتا؟
ہر اک ذرّہ اگر آفتاب جیسا ہے
کسے سناؤں میں اس دل کی داستان واثق
شبِ فراق کا ہر اک پل عذاب جیسا ہے
وہ اس کے کانوں میں رس گھولتا اپنی محبت کے پھول اس کے چہرے پر کھلاتا اسے ہکا بکا چھوڑ کر جاچکا تھا۔
وہ دونوں بھی مہندی کی مناسبت سے کرتا شلوار پہنے ماحول پر چھاۓ ہوۓ تھے۔ ارسم نے بیزارگی سے اردگرد نظر دوڑائی تھی اسے تو اب بوریت ہونے لگی تھی۔اس نے کچھ دُور کھڑے ہارب کو اشارے سے پاس بلایا تھا۔
” یار بھابھی کو کہہ اب آئرہ کو لے بھی آئیں۔” وہ جھنجھلاتے ہوۓ بولا۔ اس کے لہجے میں بیزارگی سی تھی۔
” اوۓ ہوۓ ! ہمارے مجنوع سے انتظار نہیں ہورہا ہے۔” ہارب اسے دیکھتا شوخی سے بولا۔
” اپنی بکواس بند کر اور جو کہا ہے وہ کر۔” ارسم منہ بناتا ہوا بولا۔
” اتنی اکڑ کیوں دکھا رہا ہے۔ چل جا میں نہیں مان رہا تیری بات کیا کرلے گا۔” ہارب اسے گھوری سے نوازتا ہوا بولا۔
” اچھا میرا پیارا بھائی نہیں۔” وہ اسے پچکارتے ہوۓ بولا۔
” چل زیادہ مکھن نہ لگا کرتا ہوں کچھ۔” وہ اسے تسلی دینے والے الفاظ میں کہتا ہوا اسٹیج سے اُترتا ہوا مصفرہ کی طرف بڑھ گیا۔
پھر ناجانے اُس نے ایسا کیا کہا تھا واقعی ہی دس منٹ میں منسا اور آئرہ دونوں کو مہندی کے ڈوپٹے تلے باہر لایا گیا۔
ارسم تو اسے دیکھتا ہی مبہوت ہوا تھا وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی۔ اس کے منہ سے بے ساختہ ماشاءاللّٰه کے الفاظ ادا ہوۓ تھے۔دل ایک دم مغرور ہوا تھا یہ سوچ کے کہ وہ صرف اس کی ہے۔ وہ اپنی محویت پر ہنسا تھا پھر سر جھٹکتا اسٹیج سے نیچے اُتر کر اس کا ہاتھ تھام اُسے ہونٹوں سے لگا چکا تھا۔پھر ذرا سا جُھک کر اس کے کان میں کچھ سرگوشی کی۔ اس کی اتنی دیدہ دلیری پر سب نے ہوٹنگ کرکے اس کا ساتھ دیا تھا۔ آئرہ اس کی پیش قدمی پر سمٹ کر رہ گئ۔ارسم نے اس کا ہاتھ تھام کر اس کی خوبصورت آنکھوں میں جھانکا تھا جو شرم سے بوجھل ہورہی تھیں۔
”لوکنگ بیوٹیفل مائی گرل۔” وہ اس کے ایک ایک نقش کو حفظ کرتا ہوا بولا۔
اس کی آنکھوں میں اپنے لیے ستائش دیکھ کر وہ ذرا سا مسکرائی تھی۔ پھر اس کے ہمقدم ہوتے ہوۓ اسٹیج کی طرف بڑھ گئ۔
ذوہان نے غصے سے اسے گھورا تھا جو یہ سب کر کے ہیرو بن گیا تھا۔ منسا پہلے ہی اس سے خفا تھی یقیناً اس سب کے بعد وہ اپنی قسمت اس کے ساتھ پھوٹنے پر پچھتا رہی ہوگی۔
ارسم اس کی چُبھتی ہوئی نظریں اچھے سے خود پر محسوس کر سکتا تھا۔اسے ذوہان کے انداز پر ہنسی سی آئی تھی۔ اس نے جان بوجھ کر اس کی طرف چہرہ موڑ کر سمائل پاس کی۔ ذوہان اندر تک جل کے رہ گیا۔
دوسری طرف منسا نے واقعی ہی اس منظر کو حسرت سے دیکھا تھا۔ انہیں ایک ساتھ دیکھ کر اس نے بےساختہ دل میں ماشاءاللّٰه کہا تھا کہی اس کی خود کی ہی نظر نہ لگ جاۓ۔ وو دونوں ایک ساتھ مکمل کپل کی عکاسی کررہے تھے۔ وہ حسد بالکل بھی نہیں کررہی تھی۔ پر دل میں ایک کسک سی تھی۔
مصفرہ اور ہارب بھی ایک ساتھ کھڑے بےحد اچھے لگ رہے تھے۔ پورے فنکشن کے دوران وہ ہارب کی نظریں خود پر محسوس کرسکتی تھی۔ ان دونوں کو کوئی بڑی چُبھتی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ وہ کوئی اور نہیں بلکہ سارہ بیگم تھی۔ ان کے مطابق یہ لڑکی اُن کی بہو بننے کے لائق ہر گز نہیں تھی۔ وہ اس بات کا احساس اکثر اُسے دلاتی رہتی تھی شاید ایک وجہ یہ بھی تھی ان کی اس ادھورے نامکمل رشتے کی۔ہارب نے حسرت سے اسے اِدھر سے اُدھر ہوتے دیکھا تھا جانے کب ان کی زندگی ایک ٹریک پر آنی آتی تھی۔ اس نے بوجھل ہوتے دل سے سوچا۔
کاش تم پوچھو مجھ سے کیا چاہیے
میں پکڑو ہاتھ تیرا اور کہوں تیرا ساتھ چاہیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورے فنکشن میں ایک ہی جگہ بیٹھ بیٹھ کر وہ اکڑ سی گئ تھی۔ کمرے میں آتے ہی اس نے سارا زیور اُتارا تھا۔اور قدرے آرام دہ سوٹ لے کر چینج کرنے چلی گئ۔وہ چینج کرکے فریش فریش چہرے سے باہر آئی تھی جب اس کا موبائل رِنگ ہوا۔ ارسم کی کال آتے دیکھ اس کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے۔
” جی جناب بولیے۔” وہ کال اُٹھاتی ہوئی بولی۔
” رُو ! نیچے آؤ یار میں ویٹ کر رہا ہوں۔” وہ چھوٹتے ہی بولا۔
” میں کیوں آؤں؟ اور آپ میرا انتظار کیوں کررہے ہیں؟ میں تو نہیں آرہی۔” وہ اس کی بات کے جواب میں سکون سے بولی۔
” رُو یار! نیچے آؤ نا۔ مہندی میں بھی تم سے ٹھیک سے بات نہیں ہوپائی۔” وہ جھنجھلاتے ہوۓ بولا۔
” ارسم میں نہیں آرہی سب گھر والے کیا سوچیں گے۔” وہ بھی لال جھنڈی دکھاتی ہوئی بولی۔
” اچھا بولو آئس کریم کھاؤ گی یا میں اکیلے ہی چلا جاؤں۔” وہ آخری حربہ آزماتا ہوا بولا۔
” آئس کریم! ہاں چلوں گی۔ بس دو منٹ ویٹ کرے آرہی ہوں۔” وہ فون بند کرتی عجلت میں بولی۔
ارسم اس کی تیزی پر ذرا سا مسکرایا تھا۔اُسے پتہ تھا یہ حربہ ضرور کام کرے گا اور واقعی ہی تیر بالکل نشانے پر لگا تھا۔ وہ مسکراتے ہوۓ گارڈن میں چہل قدمی کرتے ہوۓ اس کا انتظار کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سارا کام ختم کرتی چہکتی ہوئی کمرے کی جانب بڑھی تھی۔ جب کسی نے اس کا بازو اپنی آہنی گرفت میں قید کرتے جھٹکا دیا تھا وہ گرتے گرتے بچی تھی۔ اس نے حیرانی سے سامنے والے کو دیکھا تھا جس کی گرفت میں اس کا بازو تھا۔
” ماما” وہ ہولے سے بڑبڑائی۔
” ڈونٹ کال می ماما۔نہیں ہوں میں تمہاری ماما۔ خوب جانتی ہوں تم جیسی لڑکیوں کو کہ کیسے امیر لڑکوں کو اپنے بھولے پن کے جھال میں پھنساتی ہو۔” وہ شعلہ بار نظروں سے اسے گھورتی ہوئیں بولیں۔
” ماما ! جیسا آپ سوچ رہی ہیں ویسا کچھ نہیں ہے۔” وہ منمناتی ہوئی بولی۔
” ہہننہ! تم یہ معصومیت کا ناٹک کر کے ہارب کو رجھا سکتی ہو پر مجھے نہیں۔ تم میرے بیٹے کا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ دیتی۔ پیسے چاہیے تمہیں یا جائیداد بولو۔ جو چاہو گی ملے گا بس میرے بیٹے کی زندگی سے نکل جاؤ۔سمجھی تم۔ تمہارا اور اُس کا کوئی جوڑ نہیں کبھی دیکھا ہے خود کو مجھے نفرت ہے تمہارے اس بولنے کے انداز سے۔ یقیناٍ ایک دن ایسا ضرور آۓ گا کہ ہارب خود اپنے اس فیصلے پر پچھتاۓ گا اور وہ دن دُور نہیں۔” وہ انگلی اُٹھاتی ہوئیں بولی ان کا انداز وارننگ دینے والا تھا۔
” مجھے نہ پیسے چاہیے اور نہ ہی کوئی جائیداد۔ مجھے بس ہارب جی کا ساتھ چاہیے۔ آپ نہیں سمجھ سکتی ہمارے رشتے کو یا آپ سمجھنا ہی نہیں چاہتی۔ میں ہر گز بھی اُنہیں نہیں چھوڑوں گی۔ اور مجھے پورا یقین ہے کہ ہارب جی کبھی بھی اس فیصلے پر نہیں پچھتاۓ گے۔” وہ ان کے ہاتھ سے اپنا بازو چھوڑواتی مضبوط انداز میں بولی۔
سارہ بیگم کا بس نہیں چل رہا رھا تھا کے اسے کہیں غائب کردیتی۔
” بہت جلد تمہارا بھی انتظام کرتی ہوں۔” وہ تن فن کرتی ہوئیں وہاں سے چلی گئیں۔
مصفرہ نے ان کا جاتے ہی سر جھٹکا وہ اکثر ہی ان کی باتوں پر ڈسٹرب ہوجایا کرتی تھی۔ اس نے ساری سوچوں کو جھٹکا اور اپنے رُوم کی طرف بڑھی جب ہاتھ میں پکڑا موبائل بجا۔ کوئی ان نون نمبر تھا۔ پہلے تو اس کا دل کیا کہ نہ اُٹھاۓ جانے کون ہوگا۔ پھر کوئی ضروری کال کا سوچ کر وہ کال پِک کرچکی تھی۔ جانے آگے سے کیا بات کہی گئ جسے سُن کر اس کے چہرے پر سایہ سا لہرایا۔ دوسری طرف سے کال ختم ہوچکی تھی مگر وہ تو اپنی جگہ جم سی گئ تھی۔ وہ بوجھل قدموں کے ساتھ تھکی ہاری اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سب سے چُھپ چُھپا کر گارڈن میں آئی تھی جب وہ اسے گارڈن میں ہی مل گیا وہ شاید اس کا ہی انتظار کررہا تھا۔
” کہا رہ گئ تھی رُو؟ کب سے انتظار کررہا تھا۔” وہ اسے نزدیک آتا دیکھ کر بولا۔
” آپ یہ سب باتیں چھوڑیے اور جلدی سے چلیے کہی کوئی دیکھ ہی نہ لے اور پھر آپ کے ساتھ جانے پر پابندی لگا دے۔” وہ اس کا ہاتھ تھامتی عجلت بھرے انداز میں بولی۔
” ریلیکس جانم ! کوئی نہیں روکے گا ہمیں۔میں ہوں نا تمہارے ساتھ بیوٹیفل۔” وہ اس کے گرد بازو کا حصار بناتے ہوۓ بولا۔
وہ اس کی بات سمجھتی اپنی جلد بازی پر جھجھکتی ہوئی اثبات میں سر ہلا گئ۔
” میں یہ کبھی نہیں چاہوں گا تم میرے آگے سر جھکاؤ بلکہ ہمیشہ مان سے حکم دیا کرو۔ ہاں تمہاری جھکی نظریں ہمیشہ مجھے اپیل کرتی ہیں جو تمہاری حیا کی نشانی ہے۔” وہ اسے جھجھک کر سر جھکاتے دیکھ کر بولا۔ وہ ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتا اس کا چہرہ روبرو کرتے اس کے ماتھے پر عقیدت بھرا بوسہ دے گیا۔
” شکریہ ! میری زندگی میں آنے کے لیے اور اسے اتنا حسین بنانے کے لیے۔” وہ ہلکا سا مسکراتی اس کے خود کے گرد پھیلے بازو پر اپنا ہاتھ جما گئ۔ اس کی باتوں پر آئرہ کی آنکھوں میں واضح ستائش بھری چمک تھی۔
” شکریہ میرا نہیں تمہارا رُو۔۔ جو تم نے مجھ پر بھروسہ کرکے ہمارے رشتے کو ایک موقع دیا۔جب سے تم زندگی میں شامل ہوئی ہو زندگی کا ہر پل حسین لگنے لگا ہے۔” وہ اس کے معصوم دلکش چہرے پر بھٹکنے لگا تھا۔ اس کی شدت بھری جسارتوں پر وہ اپنے آپ میں سمٹ کر رہ گئ۔
آئرہ نے اس کے سینے پر ہلکا سا دباؤ ڈال کر پیچھے دھکیلا تھا۔ وہ تو مزید بہکنا چاہتا تھا مگر اسے ہی ارسم کو جگہ کا احساس دلانا پڑا۔ ارسم بالوں میں ہاتھ پھیرتا پیچھا ہٹا۔ وہ اس کی جھجھک کم کرنے کو بولا۔ ” آئس کریم کھانے نہیں جانا۔” وہ ذرا سا جھکتا اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔
وہ محض اثبات میں سر ہلاتی اس کا ہاتھ تھام گئ۔ ان کی زندگی میں ایک دوسرے کے لیے محض محبت ہی نہیں بلکہ عزت،مان ،بھروسہ سب تھا۔
اُن کی پلکوں سے شروع ہوئی داستانِ محبت
جن کا جُھکنا بھی قیامت۔۔۔۔۔ جن کا اُٹھنا بھی قیامت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کب سے ایک زاویے پر بیٹھی کبھی اُس فون کال کے بارے میں سوچ رہی تھی تو کبھی سارہ بیگم کی باتوں کی طرف۔ اس دوران جانے کتنے ہی آنسو بےمول ہوچکے تھے۔ کیا میرا خوشیوں پر کوئی حق نہیں۔ ہر بار مجھے ہی کیوں کمپرو مائز کرنا پڑتا ہے۔ بس نے سسکتے ہوۓ دل سے سوچا۔
ہارب سارے کام نپٹا کر رات کو ذرا دیر سے کمرے میں آیا تھا۔ صبح بارات تھی جس کی کئ تیاریاں کرنی تھی۔ اسے لگا مصفرہ اب تک سو چکی ہوگی۔ مگر اسے خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ جاگ رہی تھی۔
” مصفرہ اب تک جاگ رہی ہو سوئی نہیں۔” وہ جوتا اُتارتا بغیر اسے دیکھے بولا۔مگر دوسری طرف جامد خاموشی محسوس کرکے اسے حیرت ہوئی تھی۔ وہ اس کی طرف مُڑا جب اس کا چہرہ دیکھ وہ سمجھ چکا تھا کہ وہ روئی ہے۔ وہ بے ساختہ اس کے نزدیک آیا تھا۔
” کیا ہوا مصفرہ ؟ رو کیوں رہی ہو؟ کسی نے کچھ کہا ہے۔ ” وہ اس کے نزدیک بیٹھتا اس کا ہاتھ تھام چکا تھا۔ اس کے انداز میں واضح بےچینی تھی۔
مصفرہ اس کا ہاتھ جھٹکتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔ہارب نے بےیقینی سے اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھا جس میں کچھ دیر پہلے اس کا ہاتھ مقید تھا۔ اسے حیرت ہوئی کہ وہ ایسا برتاؤ کیوں کررہی ہے کل تک تو وہ بالکل نارمل تھی۔
کمرے کی جامد خاموشی میں اس کی کانپتی آواز گونجی۔
”طلاق چاہیے مجھے آپ سے۔ مجھے اب نہیں رہنا آپ کے ساتھ۔” وہ کانپتی ہوئی آواز میں جان نکالنے والے انداز میں بولی۔
” مصفرہ ! ماما نے کچھ کہا ہے تو ان کی بات کا برا مت مناؤ وہ جلد ہی ٹھیک ہوجاۓ گی۔” اس کی بات پر اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے مگر وہ تحمل سے بولا تھا۔ اُسے یہی لگا تھا کہ سارہ بیگم کی باتوں کی وجہ سے یہ سب کررہی ہے۔ کیوں کہ پچھلے کچھ دنوں سے وہ اسے بھی مسلسل آئرہ کو طلاق دینے کا بول رہی تھیں.
” آپ مان جائیں اُن کی بات جو وہ چاہتی ہیں ویسا ہی کریں۔ آپ مجھے۔۔۔۔”
اس کی دھاڑ نما آواز پر اس کے الفاظ درمیان میں ہی رہ گۓ۔ ”مہربانی کرکے اپنی بکواس بند رکھو۔ اس کی بےتکی بات اسے غصہ دلا گئ۔ وہ مسلسل تحمل کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کررہا تھا مگر وہ اپنی بات پر ڈٹی ہوئی تھی۔
اس کی دھاڑ پر وہ سہم کر دو قدم پیچھے ہٹی۔ پھر ہمت مجتمع کرتی ہوئی بولی۔ ”مجھے نہیں رہنا آپ کے ساتھ یہ میری لائف ہے میں اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہوں۔ آپ کی یہ زور زبردستی اب نہیں چلے گی۔ ” وہ بھی چیختی ہوئی بولی۔
وہ اس کی اتنی دیدہ دلیری پر حیران ہوتا اس کی طرف سے نظریں ہٹا گیا۔ ” تمہارا دماغ خراب ہوچکاہے جب ٹھکانے پر آۓ گا تب بات کرنا۔” وہ اسے ہاتھ سے سائیڈ پر ہٹاتا آگے کی طرف بڑھا۔وہ اتنا تھک چکا تھا کہ وہ اب کچھ دیر آرام کرنا چاہتا تھا مگر اس کی مسلسل وہی تکرار اس کی اعصاب پر تھکن کو مزید بڑھا گئ۔
وہ بھاگتی ہوئی پھر سے اس کے سامنے آئی ۔ "میرا دماغ بالکل ٹھیک ہے مجھے ابھی آپ سے بات کرنی ہے۔ "
اس نے غصے سے سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے گھورا۔
وہ ایک پل سہم سی گئ تھی ۔ کیا اس نے یہ بات چھیڑ کے سہی کیا تھا۔ اسے صرف اپنی تکلیف نظر آرہی تھی ۔ سامنے کھڑے وجود کو اس کی باتوں سے کتنی تکلیف ہوئی ہوگی یہ تو اس نے سوچا ہی نہ تھا۔
”مجھے تم سے اس قسم کی کوئ امید نہیں تھی ۔ تم سوچ بھی نہیں سکتی تمہاری باتوں نے مجھے کتنی تکلیف دی ہے۔میں بار بار تمہارے سامنے بغیر کسی غلطی کے جُھک رہا ہوں جس کا صلہ مجھے بہت اچھے سے ملا ہے۔” وہ بغءر اس کی طرف دیکھے تلخی سے مسکرایا تھا۔
وہ بغیر اس کی مزید کوئ بات سنتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔
اس کے باہر نکلتے ہی وہ سسکتے ہوئے نیچے بیٹھتی چلی گئ۔ رفتہ رفتہ اس کی سسکیوں کی آواز بلند ہوتی چلی گئ۔
کوئ مجھے نہیں سمجھتا آپ بھی نہیں ۔
وہ روتی ہوئی خود سے شکوہ کناں تھی ۔ اس وقت جیسے وہ سب سے خفا تھی ۔
ان دونوں کی زندگی میں فاصلہ کم ہونے کی بجاۓ مزید بڑھتا جارہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کب سے یہاں سے وہاں ٹہلتا صرف اُس کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔ اس کا اداس چہرہ بار بار اُس کی آنکھوں میں سامنے آکر اس کا دل بوجھل کررہا تھا۔ وہ اپنی اس کیفیت پر بُری طرح پریشان تھا۔ ایسا اس کے ساتھ پہلی بار ہورہا تھا۔ دل بار بار اُس پری پیکر کی طرف ہمک رہا تھا۔جب سے اُس کی آنکھوں میں نمی دیکھی تھی تب سے ہی دل اکے ایک بار دیکھنے کو چاہ رہا تھا۔ اسے جلد ہی معلوم ہونے والا تھا کہ محبت کا آکٹوپس اسے بُری طرح جکڑ چکا تھا۔ جتنا وہ اس کی ذات کی نفی کرچکا تھا اتنا ہی وہ اس کے دل و دماغ پر چھاتی جارہی تھی۔
بلاآخر وہ ایک نتیجے پر پہنچتا وہ اپنے کمرے سے باہر نکلا۔ گھڑی کی سوئیاں رات کے تین بجنے کا پتہ دے رہی تھیں۔ اس خاموشی میں اس کے قدموں کی چاپ بھی شور پیدا کررہی تھی۔ وہ منسا کے کمرے کے باہر رُکا پھر گہرا سانس بھر کر وہ دروازے کی ناب گھما چکا تھا۔ کمرے میں اندھیرے نے اس کا استقبال کیا تھا۔اس نے بستر کی طرف دیکھا جہاں وہ اپنی دلکشی کی ساتھ محو استراحت تھی۔ وہ قدم قدم چلتا اس کے قریب آیا تھا۔ وہ اس کے نزدیک آکر گھٹنوں کے بل جھکتا بیڈ کے قریب بیٹھ چکا تھا۔
” سوری مائی ڈول ! اپنے ہان کو معاف کردو۔ بہت دل دکھایا ہے میں نے تمہارا۔” وہ اس کے چہرے سے بال ہٹا سرگوشی نما انداز میں بولا۔ وہ اکثر لاڈ میں کبھی اسے ہان تو کبھی ذی کہہ کر پکارتی تھی۔ جب سے ان کا نکاح ہوا تھا اس کی ساری شرارتیں کہی کھو گئ تھیں۔
لیمپ کی مدھم روشنی میں اس نے منسا کے ایک ایک نقوش کو نہارا تھا جس کے چہرے پر آنسو کے مٹے مٹے نشان تھے۔ جسے دیکھ اس کا دل مزید اُداس ہوا تھا۔ وو اس کی طرف جھکتا اس کی آنکھوں کو ہونٹوں سے متعبر کرچکا تھا۔
” جانے مجھے کیا ہورہا ہے۔ تمہاری ذرا سے تکلیف بھی برداشت سے باہر ہے پہلے کبھی تو ایسا نہیں ہوا۔ یہ جو پھی فیلنگ ہو مگر اب خود سے وعدہ کیا ہے کہ تمہاری کسی بھی تکلیف کا موجب نہیں بنوں گا۔ وہ اس کا ماتھا چومتا اُٹھ کھڑا ہوا۔ اب اسے دیکھ لیا تھا تو اس تڑپتے دل کو کچھ سکون آگیا تھا۔ وہ جیسے آیا تھا ویسا ہی خاموشی سے واپس چلا گیا۔
منسا اگر جاگ کر اس کے اتنے التفات دیکھتی تو کھڑی کھڑی ہی بےہوش ہوجاتی۔ اسے بھی جلد ہی معلوم ہونے والا تھا کہ وہ سنجیدہ سا دکھنے والا شخص اس کے سامنے بُری طرح سے ہار گیا تھا۔
ہادیہ کی یونیورسٹی میں داخلہ بند ہونے کی وجہ سے ماہ نور کو کسی اور یونی میں داخلہ لینا پڑا۔اس دوران ہادیہ اور اشعر ایک دوسرے کے نزدیک آچکے تھے۔ دوستی سے بڑھتے ان کا رشتہ محبت کے بندھن میں بندھ چکا تھا۔ جس کا ان دونوں میں سے کسی نے اظہار نہیں کیا تھا مگر دونوں ایک دوسرے کے جذبات سے بخوبی آگاہ تھے۔ جیسے جیسے یونی مکمل ہونے والی تھی ویسے ویسے ہی ان کی بےچینی بڑھ رہی تھی۔ بالآخر اشعر اس کے سامنے اظہار کرچکا تھا جسے وہ دل و جان سے قبول کرچکی تھی۔ اب ان کا پلان پڑھائی مکمل ہونے کے بعد اپنے گھر بات کرنے کا تھا۔ مگر وہ دونوں ہی نہیں جانتے تھے کہ قسمت کچھ اور ہی سوچے بیٹھی تھی۔
سب کچھ بالکل پرفیکٹ چل رہا تھا اصل ٹوسٹ تو تب آیا جب ہادیہ کے چچا اپنی فیملی کے ساتھ انگلینڈ سے آۓ۔ ان کے چچا کا اکلوتا عیاش بیٹا علی اس پر بُری طرح فدا ہوچکا تھا. ہادیہ نے انکار کی پوری کوشش کی مگر اپنے باپ کے سامنے اس کی ایک نہ چلی۔ وہ دل و جان سے اس رشتے پر راضی تھے۔ بیٹی کی محبت پر بھائی کی محبت غالب آچکی تھی۔ اپنے اس فیصلے پر وہ شاید عمر بھر پچھتانے والے تھے۔
وہ اپنے باپ کی خاطر یہ بےجوڑ رشتہ نبھانے کے لیے بھی تیار ہوچکی تھی۔ دل میں پنپتی اس نئ نئ محبت کو تھپک تھپک کر سُلا چکی تھی۔ یوں وہ علی کے سنگ اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر انگلینڈ چلی گئ۔ جب اشعر کو اس کی شادی کی خبر ہوئی وہ بری طرح ٹوٹا تھا۔ وہ اس کی خوشی کی خاطر اس کی زندگی سے دُور ہوگیا۔
دوسری طرف علی ایک شکی مزاج قسم کا انسان تھا وہ سائیکو شخص وقت گزرنے کے ساتھ اپنی اصلیت دکھانے لگا۔ اب تو اکثر ہادیہ کے ساتھ مار پیٹ کرنا اس پر الزام لگانا روز کا معمول بن گیا۔ وہ چھوٹی سی لڑکی اس کے رویوں سے بری طرح روز بکھرتی تھی۔ اپنے بیٹے کے پاگل پن کو جاننے کے باوجود اس کے چچا اسے اس جہنم میں جھونک چکے تھے۔ وہ تو جیسے جینے کی اُمنگ ہی چھوڑ چکی تھی۔ اس ایک سال میں وہ پاگل شخص اسے ذہنی مریضہ بنا چکا تھا۔ اس کی ماں بننے کی خبر بھی اُس پتھر شخص کو موم نہ کرسکی۔ وہ کہتے ہیں نا جو شخص جیسا ہوتا ہے اُسے دوسرے بھی ویسے ہی نظر آتے ہیں۔اُس کا خود کا کردار ویسا تھا اس لیے اُسے ہمیشہ اس میں خامیاں ہی دِکھی۔ ڈیلیوری سے پہلے ہی اس کی طبیعت اس قدر بگڑی تھی کہ وہ مردہ بچے کو جنم دے کر خود بھی ان سے روٹھ کر دنیا سے منہ موڑ گئ۔ اس کی حالت کے پیش نظر ڈاکٹر اسے خوش رہنے کے لیے کہتے تھے مگر خوشیاں تو جیسے اس سے روٹھ گئ تھی۔ اس کی موت کی خبر گھر والوں پر بجلی بن کر گری تھی۔ ہادیہ نے خود سے کبھی پاکستان فون نہیں کیا تھا وہ ان سب سے اس قدر ناراض تھی کہ اگر پاکستان سے فون آتا تو وہ صرف ماہ نور سے بات کرکے فون بند کردیتی تھی۔ اگر وہ علی کے سنگ خوش ہوتی تو شاید انہیں معاف بھی کردیتی مگر اُس کے رویوں نے اس کی ناراضگی مزید بڑھا دی تھی۔
اس کے مردہ وجود کو پاکستان بھیج دیا گیا تھا۔
ماہنور ہچکیوں کے درمیان بمشکل بولی تھی۔ وہ ساری کہانی اسے سنا کر جیسے دل کا بوجھ کم کررہی تھی۔ ثناء کے بےحد اصرار پر وہ اپنی زندگی کی یہ تلخ حقیقت اسے بتا گئ۔
” ثناء ! تم جانتی ہو بچپن میں ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم ہر کام ایک ساتھ کریں گے۔ پھر جانے کیوں وہ مجھے اتنی جلدے تنہا کر گئ۔” وہ انگلیوں کی پوروں سے آنسو پونچھتی ہوئی بولی۔
” ماہ نور ! ایک بات تو بتاؤ۔ اتنا سب ہونے کے بعد بھی تم لوگوں نے اُس جانور کو سزا نہیں دلوائی۔” ثناء کے لہجے میں علی کے لیے واضح نفرت تھی۔
ماہ نور نے گہری سانس لیکر اس کی طرف دیکھا تھا۔
” جب ہادیہ کی موت ہوئی ہم اس بات سے ناواقف تھے کہ علی کا رویہ اس کے ساتھ اتنا بُرا ہے۔ مگر خیر ہم کون ہوتے ہیں کسی کو سزا دینے والے جب وہ پاک ذات اُوپر بیٹھی ہے انصاف کرنے کے لیے۔ ہمیں تو ساری حقیقت اس وقت معلوم ہوئی جب اُس انسان کو اس کے کیے کی سزا مل چکی تھی۔ دو سال پہلے علی نے کسی لڑکی کو دھوکا دیا تھا جس کا بھائی اس سے بدلہ لے چکا تھا۔ اس بدلے کے چکر میں انہیں دو گولیاں لگی تھی ایک سال معذوری کی زندگی گزار کر وہ بھی سسک سسک کر اس دنیا سے چلے گۓ۔ علی کی وفات کے بعد چچا جی پاکستان آۓ تھے انہوں نے ہی ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کیا تھا وہ چاہ رہے تھے کہ ہم علی بھائی کو معاف کردیں پہلے تو بابا نے انہیں کہیں دفعہ دھکے دے کر گھر سے نکالا۔ مگر وہ بار بار اپنے بیٹے کی خاطر آتے رہے۔بلآخر بابا انہیں اللّہ کی رضا کے خاطر معاف کرچکے ہیں۔ لیکن وہ خود کو ابھی تک معاف نہیں کرپاۓ وہ آج بھی خود کو ہادیہ کا گنہگار سمجھتے ہیں۔” ماہ نور نے گہری سانس لیکر آنسو پونچھے تھے جب سامنے نگاہ پڑتے ہی وہ ٹھٹھک گئ تھی۔ جہاں اشعر سرخ آنکھوں کے ساتھ اسے گھور رہا تھا۔ وہ اس کی دل کی کیفیت سے بخوبی آگاہ تھی۔ وہ بغیر کچھ کہے وہاں سے ہٹتا آفس سے ہی باہر نکل گیا۔
ہادیہ نے ایک دو دفعہ اس کا ذکر کیا تھا مگر ماہ نور کی کبھی اس سے ملاقات نہیں ہوئی تھی اس لیے وہ اس لیے وہ اب تک اس بات سے بےخبر تھی کہ اشعر ہی وہی شخص ہے لیکن جب سے اس نے آفس جوائن کیا تھا اشعر کا پہلی نظر اسے دیکھ کر ٹھٹھکنا اس کے وجود میں کسی اور کو تلاشنا۔ تب سے ہی وہ سمجھ چکی تھی کہ یہ وہی شخص ہے جسے کبھی ہادیہ نے چاہا تھا۔ وہ آج بھی وہی کھڑا تھا جہاں سے ہادیہ آگے بڑھی تھی۔ وہ آج بھی لاحاصل کے انتظار میں تھا۔
ایک طرف سے تو یہ بہتر تھا کہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہوچکا ہے اب اس کے لیے آگے کا سفر کرنا آسان رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھی کچھ نہ جاننے میں ہی بھلائی ہوتی ہے
کچھ چیزوں کی آگاہی انسان کو اندر ہی اندر کھا جاتی ہے۔
اشعر کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ کاش وہ کبھی اس حقیقت سے آگاہ ہی نہ ہوتا تو کتنا اچھا تھا۔ یہ تلخ حقیقت اسے ناگ کی طرح ڈس رہی تھی۔
اشعر انتہائی غصے میں آفس سے نکلتا گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی بھگا چکا تھا۔ بےمقصد گاڑی سڑکوں پر دوڑاتے ہوۓ اسے یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے سانس تھم رہی ہو۔ اسے تو ہمیشہ سے یہی لگا تھا کہ وہ بےشک اس سے دُور ہے پر خوش ہے مگر اس چیز کی آگاہی اسے اندر ہی اندر ختم کررہی تھی۔
” کیوں کیوں ہمیشہ میرے ساتھ ہی یہ کیوں ہوتا ہے ؟” وہ آسمان کی طرف نگاہ اُٹھاتا ہوا بولا۔ وہ شکوہ نہیں کرنا چاہتا تھا مگر خود بخود دل سے آہ سی نکلی تھی۔
کل سے آئرہ کا کئ دفعہ فون آچکا تھا جو اسے اپنی شادی کے لیے انوائٹ کرچکی تھی مہندی کا فنکشن تو وہ پہلے سے ہی مس کر چکا تھا مگر اس کا آج جانے کا ارادہ تھا۔ مگر اب تو اسے محسوس ہورہا تھا جیسے جسم سے رفتہ رفتہ کوئی سانس کھینچ رہا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ رات سے ہی اس کی باتیں یاد کرتا بُری طرح کڑھ رہا تھا۔ کیا یہ صلہ ملا تھا اسے اتنی سپیس دینے کا۔ اس کی ہر بات کو آگے رکھنے کا۔ اس کی خواہشات کو اس کے کہے بنا پورا کرنے کا۔ کیا ساری عمر یوں ہی اُسے اپنی محبت کا یقین دلاتے ہی گزر جاۓ گی۔ کیونکہ ایک بات تو طے تھی وہ اسے طلاق تو ہر گز نہیں دے گا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا اُس بیوقوف لڑکی کی عقل ٹکانے لگا دیتا۔ وہ گھر سے تبھی نکل آیا تھا کیونکہ اسے مصفرہ پر بےتحاشہ غصہ آرہا تھا اسے ڈر تھا کہ کہی اپنا غصہ اُسی پر ہی نہ اُتار دیتا۔ اس لیے اس نے فی الحال وہاں سے ہٹ جانا ہی ٹھیک سمجھا۔ کچھ دیر تو وہ یونہی بےمقصد سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا رہا پھر اپنی گاڑی ارسم کے گھر کے سامنے رُوک کر اس کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ ارسم کا گھر سامنے ہی تو تھا اکثر وہ دونوں ذہلے کمرہ شیئر کرچکے تھے اس لیے نہ بغیر کسی سے اجازت لیے سیڑھیاں چڑھ گیا۔
ارسم سکون سے کمرے میں اندھیرا کیا سویا تھا وہ اُس کے ساتھ ہی لیٹ گیا تھا۔ اسے معلوم تھا نیند اسے کہا آنی تھی۔ سوچوں کا محور وہی تھی جو اسے ہمیشہ دھتکار کر تکلیف میں دھکیل دیتی تھی۔ وہ آنکھیں موند کر لیٹ گیا مگر نیند جیسے رُوٹھ سی گئ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وو کب سے بےچینی سے یہاں وہاں چکر کاٹ رہی تھی۔ آئرہ کب سے اس کی پیدل مارچ دیکھ رہی تھی اب وہ قدرے جھنجھلا چکی تھی.
” کیا مسئلہ ہے مصفرہ ؟ کچھ بتاؤ گی یا یونہی بیوقوفوں کی طرح یہاں سے وہاں گھومتی رہو گی۔” اس کے مسلسل ٹینشن میں گھومنے پر آئرہ کھڑی ہوتی ہوئی چلائی۔
مصفرہ رونے والی شکل بنا کر اس کے نزدیک ہی بیٹھ گئ۔
” آئرہ ! میری زندگی میں اتنی تکلیفیں کیوں ہیں؟ کیوں خوشیاں مجھے راس نہیں آتی۔” وہ اس کا ہاتھ تھامتی آنسو بہاتی ہوئی بولی۔
آئرہ اب صحیح معنی میں پریشان ہوچکی تھی۔ ” مصفرہ کچھ بتاؤ گی تو پتہ چلے گا یار۔” آئرہ اس کا ہاتھ تھامتی التجائی لہجے میں بولی۔
” آئرہ ! ہارب جی مجھ سے ناراض ہیں۔” وہ ہچکیوں کے درمیان بولی۔
” ضرور تم نے کوئی بیوقوفی کی ہوگی۔اب تم کچھ بتاؤ گی کے ہوا کیا ہے تو ہی میں کچھ مشورہ دے سکوں گی۔” آئرہ صاف گوئی سے بولی۔
” آئرہ ! سارہ آنٹی نہیں چاہتی میں ہارب کے ساتھ رہوں اس لیے میں اُن سے علیحدگی کی ڈیمانڈ کرچکی ہوں۔” وہ آئرہ کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔
” بالکل ٹھیک فیصلہ کیا تم نے علیحدگی کا۔” آئرہ اس کی باتوں کے جواب میں بولی۔
” آئرہ ! کیسی باتیں کررہی ہو؟ ” مصفرہ حیران نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔ اسے تو لگا تھا وہ اسے ڈانٹے کی مگر یہاں تک سین ہی کچھ اور تھا۔
” میں تو تمہارے فیصلے کہ سراہ رہی ہوں۔ ” آئرہ طنز کرتی ہوئی بولی۔
مصفرہ اس کے انداز پر شدت سے رو دی۔
” اب یہ سب چھوڑوں اور مجھے اس فیصلے کے پیچھے کی سہی وجہ بتاؤ۔ جہاں تک بات رہی سارہ آنٹی کی اُن کا رویہ تو پہلے دن سے تمہارے ساتھ یوں ہی ہے۔ تو میرے خیال سے تو وجہ کچھ اور ہے۔” آئرہ اس کی طرف دیکھتی پُرسوچ انداز میں بولی۔
آئرہ کے اتنے پُریقین انداز پر وہ اسے سب بتانے پر راضی ہوچکی تھی۔
” کل شام کبیر کا فون آیا تھا اُس نے مجھے دھمکی دی ہے کہ اگر میں نے ہارب کو نہ چھوڑا تو وہ انہیں جان سے مار ڈالے گا۔ آئرہ ! میں کیسے انہیں اپنی وجہ سے موت کے منہ میں دھکیل چکی ہوں۔ میں اُن سے محبت کرنے لگی ہوں کیسے اُن کی زندگی ختم ہونے کی وجہ بن سکتی ہوں۔” وو دھیمی آواز میں کل کی فون کال کے متعلق بتاتی چلی گئ جس کے بعد وہ یہ انتہائی فیصلہ لینے پر مجبور ہوئی تھی۔
” یار دل کررہا ہے تمہارے لیے تالیاں بجاؤں۔ مجھے یقین نہیں تھا میری دوست اتنی عقلمند ہے۔ یار دل کررہا ان ہاتھوں سے تمہارا گلہ دبا دوں۔ اب وہ چھچھوندر فیصلہ کرے گا کسی کی زندگی کا۔” آئرہ کا بس نہیں چل رہا تھا اسے دو لگا دے۔
” مجھے بتہ ہے مجھ سے غلطی ہوئی ہے یہی بات مجھے بےچین کیے ہوۓ ہے۔ اب میں کیا کروں۔” وہ اس کی باتوں کا غصہ مناۓ بغیر بولی۔
” حیرت ہے اتنے عظیم کام کرنے والی لڑکی مجھ سے مشورے مانگ رہی ہے۔” آئرہ مزے سے بولی تھی اس کی اُتری ہوئی شکل دیکھ کر اسے اب ہنسی آرہی تھی۔
” آئرہ ! اگر تم نے یونہی طنز کے تیر چلانے ہے تو مجھے بٹادو میں چلی جاؤں یہاں سے۔” اس کی باتیں سُن کر اب وہ دوبدو بولی۔
” میں کیا مشورہ دوں؟ تم اُن سے بات کرنے کی کوشش کرو ۔ اُن سے معافی مانگ لو۔” وہ کندھے اچکاتی سادگی کے بولی۔
” معافی تو میں مانگ لوں گی مگر میں نے کل رات سے انہیں نہیں دیکھا۔ کیسے بات کروں ؟ مجھے پورا یقین ہے وہ میری شکل تک نہیں دیکھنا چاہتے ہونگے تبھی گھر نہیں آۓ۔” اس کے اپنے ہی دکھ تھے۔ اس کی باتیں سُن کر وہ نفی میں سر ہلا کر رہ گئ۔
” جیسا تم سوچ رہی ہو ضروری نہیں ویسا ہی ہو۔ کیا پتہ انہیں یہ نہ لگ رہا ہو کہ کہی تم پھر یہی ذکر نہ چھیڑ لو۔ ہر چیز کو نیگیٹو میں لینا ضروری ہے۔ اور رہی ہارب بھائی کی بات وہ بارات پر تو ضرور آئیں گے تب بات کرلینا۔ اب جاکر تیاری کرو ہمیں پارلر بھی جانا ہے میں منسا کو دیکھتی ہوں۔ ” وہ اسے تصویر کا دوسرا پہلو دِکھا کر جاچکی تھی۔
پیچھے وہ اکیلی رہ گئ تھی اپنی بےتحاشہ سوچوں کے ساتھ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارسم نے آنکھیں مسل کر بیٹھا۔ اس کی محبت آج اس کی زندگی میں داخل ہورہی تھی یہی بات سوچ کر اسے پُرسکون نیند آئی تھی۔ آج کے دن کے بارے میں سوچ کر اس کی ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے۔ ابھی وہ مزید اُس پری پیکر کے بارے میں سوچتا جب ساتھ براجمان وجود کی ٹانگ آکر اس کے گود میں پڑی. اس نے حیرانگی سے پیچھے مُڑ کر دیکھا جہاں ہارب سکون سے لیٹا نیند کے مزے لے رہا تھا۔ جو رات بھر کروٹ بدلتا ابھی کچھ دیر پہلے سویا تھا۔ اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے یہ سوچ کر کہ وہ اپنے کمرے کی بجاۓ یہاں کیوں تھا۔ کل تک تو وہ بےحد خوش نظر آرہا تھا یہ بتاتے ہوۓ کہ اُس کے اور مصفرہ کے درمیان سب ٹھیک ہورہا تھا۔ پھر یہ سب۔
اس نے فی الحال اس کی نیند میں خلل ڈالنا ٹھیک نہ سمجھا اس لیے خاموشی کے اُٹھ کر واش روم کی جانب بڑھ گیا۔ اس کا ارادہ اس کے جاگنے کے بعد اس سے بات کرنے کا تھا۔ ان دونوں کی شادی کو کافی دیر ہوچکی تھی اب تک تو سب ٹھیک ہوجانا چاہیے تھے۔ کیا پتہ جو وہ سوچ رہا ہو ایسا نہ ہو۔اس نے خود ہی اپنی سوچوں کو جھٹکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارات کا فنکشن دن کا ہی تھا اس لیے سب صبح سویرے اُٹھتے ہی تیاریوں میں لگ چکے تھے۔
وہ رات بھر صرف منسا کے بارے میں سوچتا رہا تھا وہ اس سے اچھی خاصی ناراض تھی۔ جانے وہ مانے یا نہ۔ سب کی زندگیاں اُتھل پُتھل تھی جانے کب ان کی زندگیوں میں ٹھہراؤ آنا تھا۔
رات کو اس کا معصوم چہرہ دیکھنے کے بعد اسے ایک پل بھی سکون کا نصیب نہیں ہوا تھا۔ وہ اب تک اس کے ساتھ اپنا برتا جانے والا رویہ سوچ رہا تھا اسے خود ہی شرمندگی ہوئی تھی کہ وہ اپنے رویے سے اسے خود کے اچھا خاصا متنفر کرچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بھی صبح جلد ہی اُٹھ گئ تھی اب بھی وہ کب سے ایک زاویے پر بیٹھی اپنے ہاتھوں پر لگی مہندی کو دیکھ رہی تھی جس کا رنگ بےحد گہرہ آیا تھا۔ سب کا اسے بار بار ذوہان کے حوالے سے چھیڑنا اس کی آنکھیں نم کر گیا تھا اب بھی مہندی کا گہرا رنگ دیکھ کر اس کی آنکھیں پےساختہ نم ہوئی تھی۔ اپنی دوستوں سے وہ اکثر یہی سُنتی آئی تھی کہ مہندی کا گہرا رنگ شوہر کے محبت کی نشانی ہے۔ یہ بات اس وقت اسے سراسر غلط لگ رہی تھی۔
ایسی باتوں پر اسے شروع سے یقین نہیں تھا اسے یہ محض فضول لگتا تھا مگر اس وقت اسے یہ بات بھی رُولا رہی تھی۔ وہ اپنی پےبسی پر رو رہی تھی جس نے بھی یہ بات کہی تھی ایک دم غلط کہی تھی کیونکہ اس کا شوہر تو اس کی شکل دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا تھا۔ کجا کہ اس سے عشق، محبت۔ اس یک طرفہ محبت نے اسے پہلے بھی ذلیل کیا تھا اور شاید آگے بھی کروانے والی تھی۔ پہلے تو ساری بات آمنہ بیگم نے سنبھال لی تھی ساری بات خود پر لیتی وہ اس کی ڈھال بن کر کھڑی تھی۔ اسے آمنہ بیگم پر بےحد پیار آتا تھا جو اس کی ماں سے زیادہ اس کے دل کے حال کو سمجھ لیتی تھیں۔جانے وہ کن کن سوچوں کو خود پر حاوی کررہی تھی اور شاید مزید کرتی جب آئرہ اس کے کمرے کا دروازہ کھولتی اندر آئی۔
” منسا یار ! اپنی مہندی کو بعد میں دیکھ لینا ہم جانتے ہیں ذوہان بھائی تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔ جلدی سی تیاری پکڑو پارلر کے لیے نکلنا ہے۔ ” وہ ایک ہی جُست میں اس کا ہاٹھ تھامتی دلچسپی سے اس کی مہندی کو دیکھتی ہوئی بولی۔
” ہہمم ! آرہی ہوں آپی۔ آپ چلیں۔ ” وہ اس کی بات پر نظریں چُراتی ہوئی بولی۔
آئرہ اثبات میں سر ہلاتی باہر کی طرف بڑھ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں بلڈ ریڈ کلر کے لہنگے میں ملبوس تھی جس کا ڈیزائن ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھا۔ مگر دونوں ہی ایک سے بڑھ کر ایک لگ رہی تھیں۔ مصفرہ بھی نیلے رنگ کی شارٹ شرٹ اور کیپری میں ملبوس تھی جس میں اس کی گوری رنگت مزید دمک رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں وہ پارلر سے ہوتی ہوئیں میرج ہال کی طرف بڑھ گئ۔ جہاں تقریباً سارے مہمان پہلے سے موجود تھے۔
وہی دوسری طرف ارسم بالکل تیار کھڑا ہارب کے اُداس چہرے کو دیکھتا ہوا پوچھ بیٹھا جو اس کے سامنے خود کو ہشاش بشاش دیکھانے کی کوشش کررہا تھا۔
” ہارب ! کیا بات ہے کوئی مسئلہ ہے تو مجھ سے شیئر کر۔ تو مجھے اُداس لگ رہا ہے۔ کیا کوئی بات ہوئی ہے؟ ” وہ فکرمندی سے اسے دیکھتا ہوا بولا۔
” کوئی بات نہیں ہے ارسم۔ میں بالکل ٹھیک ہوں تو نکلنے کی تیاری کر۔” وہ اسے بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔
ارسم مزید کچھ کہتا جب انہیں بلانے ان کا کزن آچکا تھا۔ ہارب اس کے کندھے پر ہاتھ. جماتا اسے لیے باہر کی جانب بڑھ گیا۔ جہاں ذوہان بھی بالکل تیار کھڑا تھا۔ دونوں کی شیروانی کا رنگ ایک دوسرے سے مختلف تھا ارسم بلیک کلر کی شیروانی میں ملبوس تھا جو اس کے گورے رنگ پر خوب جچ رہی تھی اس کی آنکھوں میں کچھ پالینے کی چمک اسے مزید ممتاز بنا رہی تھی۔ دوسری طرف ذوہان سکن کلر کی شیروانی میں ملبوس تھا وہ بھی ارسم سے کم نہیں لگ رہا تھا خوش تو وہ بھی تھا کیونکہ آج منسا مکمل طور پر اس کے نام جو لکھ دی جانی تھی۔ یہ قافلہ جو دو باراتوں پر مشتمل تھا میرج ہال کی طرف بڑھا۔
بارات پوری شان و شوکت کے ساتھ ہال میں پہنچ چکی تھی۔ وہاں ان کا بہت اچھے سے استقبال کیا گیا۔ دونوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔
بڑوں کی باہمی رضامندی سے آئرہ اور ارسم کے دوبارہ نکاح کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مولوی صاحب اور گواہان کی موجودگی میں آئرہ ایک دفعہ پھر خود کو اس کے نام کرچکی تھی۔ جب ان کا نکاح ہوا تھا بچپن میں دونوں کو ہی وہ کچھ خاص یاد نہ تھا مگر دونوں نے اس دفعہ دل سے ایک دوسرے کو قبول کیا تھا۔ من چاہا ہمسفر ہونے کے باوجود اس کا دل جانے کیوں بھر آیا تھا۔ شاید یہ فطری عمل تھا۔ سب لوگوں کے باہر جاتے ہی لائبہ بیگم اس کے لرزتے وجود کو اپنی آغوش میں لے چکی تھیں۔ اسے روتے دیکھ ان کی آنکھیں خود بخود بہنے لگی تھیں۔ دونوں کچھ دیر یونہی ساتھ لگی رہیں بلآخر مصفرہ کو آگے آکر انہیں وقت کا احساس دلانا پڑا۔
وقت کی نزاقت کو دیکھتے ہوۓ دونوں کو باری باری باہر لایا گیا۔ پہلے منسا کزنوں کے جھرمٹ میں سہج سہج کر قدم اُٹھاتی اسٹیج کی طرف بڑھی اس کا چہرہ ڈوپٹے سے ڈھانپا گیا تھا۔ اسٹیج کے نزدیک آتے ذوہان اس کا ہاتھ تھام چکا تھا۔ ذوہان نے اس کا ہاتھ تھامتے اسٹیج پر چڑھنے میں مدد کی۔ ذوہان نے اپنے ہاتھ میں مقید اس کا لرزتا ہاتھ دیکھا۔جو گھبراہٹ سے سرد پڑھ رہا تھا۔اس نے منسا کا ہاتھ سہلا کر اسے ریلیکس کرنے کی کوشش کی۔ اب وہ دونوں آمنے سامنے موجود تھا۔ ذوہان آگے بڑھ کر اس کے گھونگھٹ کو اُلٹ چکا تھا۔ اسے دیکھ وہ اپنی جگہ منجمد رہ گیا تھا وہ اس کے پسند کیے گۓ لہنگے میں اس کی سوچ سے بڑھ کر حسین لگ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں میں چلتے جوت کچھ اور چمک اُٹھے تھے۔ ذوہان اس کی طرف جھکتا اس کے ماتھے پر بوسہ دے چکا تھا۔
منسا نے ذرا کی ذرا نظر اُٹھا کر اسے دیکھا تھا۔ جس کی آنکھوں میں الگ ہی چاہت کا جہاں آباد تھا۔وہ اس کی بےباک حرکت پر بری طرح کنفیوژ ہوتی پلکوں کی چلمن واپس گرا چکی تھی۔ اس کی گرتی اُٹھتی پلکوں کے رقص کو دیکھ وہ اس کے کان کے نزدیک جُھکا تھا۔
” ریلیکس! لٹل گرل۔ ” وہ اس کی خوبصورت شہد رنگوں آنکھوں میں دیکھ کر بولا تھا۔
اس کے اس طرح بھرے مجمع میں اس اقدام پر سب نے ہوٹنگ کرکے اس کا ساتھ دیا تھا۔وہ دلکشی سے مسکرا کر اس کا ہاتھ تھام چکا تھا۔ منسا نے ہاتھ چھوڑانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ مگر نہ چھوڑا سکی کیونکہ وہ اس کی مضبوط گرفت میں قید تھا۔ وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے نزدیک ہی بٹھا چکا تھا۔
اس کے بیٹھنے کے بعد آئرہ کو اسٹیج کی طرف لایا گیا۔وہ ابھی اسٹیج سے کافی دُور تھی جب ارسم اسٹیج سے اُتر کر اس کی طرف بڑھا۔ گھٹنوں کے بل جُھک کر اس کا ہاتھ وہ ہاتھ پھیلا چکا تھا جسے وہ کچھ جھجھکتی ہوئی تھام چکی تھی۔
کبھی یوں بھی آ میرے رُوبرو۔۔۔۔۔۔۔
تجھے پاس پاکے میں رو پڑ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے منزلِ عشق پہ ہو یقین۔۔۔۔۔۔۔
تجھے دھڑکنوں میں سُنا کروں۔۔۔۔۔۔
کبھی سجالوں تجھ کو آنکھوں میں۔۔۔۔۔۔۔
کبھی تسبیحوں پہ پڑھا کروں۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی چوم لوں تیرے ہاتھ کو۔۔۔۔۔۔۔
کبھی تیرے دل میں بسا کروں۔۔۔۔۔۔
اس کی آواز پورے مجمع میں گھونج رہی تھی۔ آئرہ تفاخر سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی جو شاید چار سال پہلے کیے گۓ اپنے فعل کا مداوا کررہا تھا۔اسے آج بھی وہ دن یاد تھا اُس وقت اس مجمع میں چند لوگ تھے مگر آج پورا خاندان یہاں موجود تھا جس کے سامنے وہ اسے متعبر کر گیا تھا۔آئرہ نے جھلمل کرتی آنکھوں سے اسے دیکھا تھا اس کا ارسم کو ایک موقع دینے کا فیصلہ بالکل درست تھا۔ اسے پورا یقین تھا اس کے سنگ زندگی حسین گزرنے والی تھی۔ آئرہ نے بھی اس کے ہاتھ پر گرفت مضبوط کی تھی اس کے اقدام پر ارسم نے محبت بھری نظریں اس کے من موہنے چہرے پر ڈالی تھی۔اس کے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامتا وہ اسٹیج کی طرف بڑھ گیا سب نے ستائش سے اس خوبصورت جوڑی کو دیکھا تھا۔ لائبہ بیگم اور اور اسد صاحب آئرہ کے خوشی سے کھلتے چہرے کو دیکھ کر ہی مطمئن ہوگۓ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہارب فون سُننے کی غرض سے ہال ایک سنسان گوشے کی طرف گیا تھا مصفرہ اسے اکیلا دیکھ کر اس کے پیچھے آئی تھی. وہ کال سُن کر مُڑا تھا جب وہ انگلیاں چٹخاتی اسی کی طرف متوجہ تھی۔ مصفرہ کو اس کی بےنیازی کِھل رہی تھی جو کب سے اسے بُری طرح اگنور کررہا تھا۔ ہارب نے سائیڈ سے ہوکر نکلنا چاہا جب وہ اس کے راستے میں حائل ہوئی تھی۔
” ہارب جی ! پلیز یہ مت کریں میرے ساتھ میں جانتی ہوں کہ میں نے ہمیشہ آپ کا دل دُکھایا ہے کبھی آپ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہمیشہ اپنی من مانی کی ہے۔ اپنی ذات کی خامیوں کا بدلہ میں آپ سے لیتی رہی۔ مجھے ہمیشہ یہی لگتا تھا کہ ایک نا ایک دن آپ اپنے اس فیصلے پر پچھتاۓ گۓ اور مجھے چھوڑ دیں گے۔ مگر میں غلط تھی۔ ایم سوری۔” وہ اس کا ہاتھ تھامتی ہوئی بولی۔
ہارب نے بےیقینی کی کیفیت سے اسے دیکھا تھا اسے ابھی بھی یہی لگا تھا کہ وہ کل والی بات دُہراۓ گی مگر یہ سب اس کی سوچ کے برعکس تھا۔اس کی آخری بات پر اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔
” کتنی دفعہ یقین دلاؤں اپنی محبت کا اور یہ چھوڑنے کی بات کریں ہی مت آپ کو میرے کس فعل سے یہ لگا کہ میں آپ کو چھوڑ دوں گا۔ ایک اور بات میری کان کھول کر سُن لیں کہ ہارب شہریار کبھی بھی اپنے فیصلوں پر پچھتاتا نہیں ہے۔ آپ نے بار بار میری محبت پر شک کر کے مجھے بہت مایوس کیا ہے اس چیز کے لیے میں آپ کو ہرگز معاف نہیں کروں گا۔ رات والے واقعے پر تو آپ کچھ بولیے ہی مت۔” وہ اسے کندھوں سے تھامتے شدت سے بولا تھا اس کا انداز اس کے غصے میں ہونے کا پتہ دے رہا تھا۔وہ اسے سائیڈ پر کیے وہاں سے نکلتا چلا گیا. وہ غصے میں بھی اس سے بدتمیزی کے بارے میں سوچ نہیں سکتا تھا۔ منسا بسے خود سے دُور جاتا دیکھ کر ایک دفعہ پھر شدت سے رودی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد رخصتی کا شور اُٹھا دونوں دلہنیں اپنے ہمسفر کے سنگ ایک نئ زندگی کی طرف گامزن ہوئی۔ منسا اور آئرہ دونوں ہی رخصتی کے وقت بےحد آبدیدہ تھی۔ آئرہ تو لائبہ بیگم اور اسد صاحب کے گلے لگ کر خوب روئی تھی. مگر منسا نے حسرت سے سارہ بیگم کی طرف دیکھا جن کے چہرے پر اس شادی کو لے کر واضح مخالفت تھی وہ بھی آئرہ کی طرح اپنی ماں کی آغوش میں چھپنا چاہتی تھی۔ منسا کو سارہ بیگم کی طرف دیکھتے پاکر ہارب آگے بڑھ کر اسے گلے لگا گیا تھا۔ اس وقت ہارب کو اپنی ماں پر شدید غصہ آیا تھا جو اس نازک وقت میں بھی اپنی انا کا پرچم بلند کیے بیٹھی تھی۔ وہ منسا کے احساسات کو سمجھ سکتا تھا وہ ایک بھائی ہونے کے ناطے اسے دلاسہ تو دے سکتا تھا ورنہ وہ بھی آگاہ تھا کہ ماں کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔
” گڑیا ! چلو شاباش رونا بند کرو آپ کونسا دُور جارہی ہو ہم اپنے گھر ہی جارہے ہیں۔” وہ اسے چُپ کرواتا گاڑی میں ذوہان کے سنگ بیٹھا چکا تھا۔ اس حقیقت سے وہ بھی آگاہ تھا کہ وہ بہت جلد ذوہان کے ساتھ اسلام آباد شفٹ ہونے والی تھی مگر اس وقت وہ اسے ٹینشن فری رکھنا چاہتا تھا۔ اس کی آنکھیں خود بار بار نم ہورہی تھی۔ اس کی چھوٹی سی گڑیا آج اتنی بڑی ہوگئ تھی۔ابھی کل کی ہی تو بات تھی کہ وہ بچوں کی طرح اس کے لاڈ اُٹھواتی تھی۔جو بھی تھا اسے پورا یقین تھا کہ ذوہان اس کی گڑیا کو سنبھال لے گا۔
دوسری طرف آئرہ بھی ارسم کے ہمراہ جاچکی تھی۔ کچھ دیر پہلے جو ہال مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا وہ بھی اس وقت خالی ہوچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد ذوہان کی گاڑی ان کے گھر کے سامنے رُکی تھی وہ گاڑی سے اُتر کر گھوم کر اس کی سائیڈ کا دروازہ کھول کر اس کی طرف ہاتھ بڑھا چکا تھا۔ وہ مہمانوں کی موجودگی کو مدنظر رکھتے ہوۓ اس کا ہاتھ تھام چکی تھی۔ وہ اسے لیے اندر کی طرف بڑھ گیا۔
مختلف رسموں کے بعد اسے ذوہان کے کمرے میں بٹھادیا گیا تھا۔ مصفرہ اور ساری کزنوں کے جانے کے بعد اس نے کمرے کا جائزہ لیا جو گلاب کے پھولوں سے آراستہ تھا۔ اس کا دل یہ سجاوٹ دیکھ کر زور سے دھڑکا تھا۔ کچھ دیر پہلے اس کا عمل سوچ کر اس کا چہرہ سُرخ ہوا تھا۔ جو بھی تھا اس نے ایک بار بھی اپنے سابقے رویوں کی معافی تک نہیں مانگی تھی تو وہ کیسے اُسے معاف کردیتی۔ وہ منہ بناتی اپنا لہنگا سنبھال کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔اس کا ارادہ اس بھاری لہنگے سے جان چھوڑانے کا تھا۔ ابھی وہ اپنی سوچ کو عملی جامہ پہناتی جب دروازہ کُھلا تھا اور کوئی اندر داخل ہوا تھا۔ منسا کا دل اُچھل کر حلق میں آیا تھا۔ اس کے غصے سے بھی وہ اچھے سے آگاہ تھی جب چیزیں اس کی مرضی سے نہیں ہوتی تھی تو اسے بےتحاشہ غصہ آتا تھا۔
اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر اس کا ارادہ بھاگ کر ڈریسنگ رُوم میں گُھس جانے کا تھا۔اس کا ارادہ جان کر وہ ایک جست میں اس تک پہنچ کر اسے اپنی مضبوط گرفت میں قید کر جکا تھا۔وہ اس کی گرفت میں پھڑپھڑا کے رہ گئ۔
” چھوڑیں مجھے” وہ اس کے کندھے پر مارتی ہوئی چلائی۔
” اچھا میری بات تو سُنو۔” وہ اسے قابو کرتے بےبسی سے بولا۔ جو اس کی گرفت سے نکلنے کی بھرپور کوشش کررہی تھی۔ وہ پہلے سے ہی خود کو تیار کرکے آیا تھا اسے پتہ تھا اس کا ریئکشن کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے۔
” نہیں سُننی مجھے آپ کی کوئی بھی بات۔چھوڑیے مجھے۔ یا ابھی بھی کوئی بات رہ گئ ہے سُنانے والی۔” وہ اس کی سُننے کے موڈ میں ہرگز نہیں تھی۔
ذوہان نے تنگ آکر اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں مقید کیا تھا۔ اس کی کمر پر گرفت مضبوط کرکے اسے اپنی طرف جھٹکا دیا تھا۔ منسا نے خفا نظر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ ذوہان نے ان نین کٹوروں میں جھانکا تھا۔جب جب وہ انہیں دیکھتا تھا ایک نۓ سِرے سے ان کا اسیر ہونے لگتا تھا۔ یہ انکشاف اس پر کچھ دنوں پہلے ہی ہوا تھا کہ وہ اس سے محبت کرنے لگا ہے۔
” ائی ایم سوری بیوٹیفل گرل۔جانتا ہوں تمہیں بےحد تنگ کیا۔ہمیشہ کسی اور کا غصہ تم پر نکالا ہے۔ پر اب احساس ہونے لگا ہے کہ میں کتنا غلط تھا۔ میری جانم تو معصوم سی ہے وہ بےفضول اس پر اپنا غصہ نکالتا رہا۔” ذوہان اس کی بھیگی بھیگی آنکھوں میں دیکھ کر بےچین ہوا تھا۔
اس کی باتوں پر وہ خاموش ہی رہی تھی۔ اب تو وہ مزاحمت بھی ترک کرچکی تھی۔بس خاموشی سے سر جُھکا کر آنسو بہانے میں مصروف تھی۔
” منوّں پلیز! رونا بند کرو۔ تم اگر کہو گی تو کان پکڑ کر بھی معافی مانگ لوں گا۔ جب جب اس رشتے کو مخلص ہوکر سوچنے لگتا سارہ چچی کچھ نہ کچھ ایسی بات کردیتی کہ میں تمہیں ان سب کا قصور وار سمجھتا۔اُن کا غصہ ہمیشہ تمہیں باتیں سُنا کر اُتارا ہے۔پر اب احساس ہوتا ہے کہ اُن میں تمہاری تو غلطی پھی نہیں تھی۔” وہ اس کی بہتی آنکھوں کو چوم کر بولا۔
اس کے منہ سے اپنی ماں کا نام سُن کر ٹھٹھکی تھی۔ یعنی وہ ہر طریقے سے اس رشتے سے ناپسندیدگی ظاہر کر چکی تھیں۔
”میں آپ کو بالکل بھی معاف نہیں کروں گی۔ وجہ جو بھی ہو آپ نے ہمیشہ مجھے باتیں سُنائی ہیں۔بار بار ڈانٹتے رہے۔ ” وہ سوں سوں کرتی ہوئی بولی۔
” یار منّوں معاف کردو۔ سچ میں وعدہ کرتا ہوں اب نہیں ڈانٹوں گا۔” وہ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر بولا۔
” نو! آپ تو اس جاناں سے محبت کرتے ہیں۔ پھر آپ کو میری معافی کی کیا ضرورت۔ ” وہ ناک چڑھاتی ہوئی بولی۔
ذوہان نے اُس دن کہے گۓ اپنے الفاظ پر لعنت بھیجی تھی۔
” یار میں بکواس کررہا تھا اور میں نے کب کہا ہے میں اُس سے محبت کرتا ہوں۔محبت تو میں صرف تم سے کرتا ہوں۔جانے تم نے ایسا کیا جادو کیا ہے کہ دل صرف اور صرف تمھارے ساتھ کی تمنا کررہا ہے۔ان آنکھوں نے ایسا اسیر کیا ہے کہ ان کے علاوہ کوئی نظارہ اچھا ہی نہیں لگتا۔ جب تمہیں آس پاس دیکھتا ہوں اردگرد کا ہوش بھولنے لگا ہوں۔” وہ اس کے چہرے کو نظریں کے حصار میں لیتا ہوا بےبسی سے بولا۔
” میری کچھ شرائط ہیں اُس کے بعد سوچوں گی کہ آپ کو معاف کرنا ہے یا نہیں۔” وہ اس کی آنکھوں میں براہ راست جھانکتی ہوئی ہوئی بولی۔
” آپ بس حکم کیجئے ملکہ عالیہ۔ اس بندہ بشر کو ہر شرائط منظور ہے۔” وہ سر کو ذرا سا خم دیتا ہوا بولا۔
” آپ مجھے ڈانٹیں گے نہیں۔اگر کبھی میری غلطی بھی ہوئی اُس کے بوجوض بھی ہمیشہ مجھ سے پیار سے بات کریں گے۔ ” وہ پہلی شرط سامنے رکھتی ہوئی بولی۔
” منظور ہے اور کچھ۔ ” وہ اس کے من موہنے چہرے کو مسلسل نظروں کے حصار میں رکھتے ہوۓ بولا
” دوسری شرط۔ آپ مجھے شاپنگ سے نہیں روکیں گے۔ تیسری شرط۔ مجھے کھانا بنانے کے لیے ہر گز نہیں کہیں گے۔ ” وہ انگلی پر گنواتی ہوئی بولی۔
” منظور ہے نہیں کہوں گا کھانے بنانے کو اور نہ ہی شاپنک سے رُوکوں گا۔ اب خوش۔ ” وہ اس کی شرائط پر مسکراہٹ دباتا ہوا بولا۔
” چوتھی شرط آپ مجھے پڑھائی کرنے کے لیے نہیں کہیں گے۔” وہ اپنی ساری شرطیں پوری ہونے پر اترا کر بولی۔
” اب تم زیادہ پھیلو مت۔ یہ والی شرط تمہاری ہرگز بھی پوری نہیں ہوگی۔” وہ اسے مصنوعی گھوری سے نوازتا ہوا بولا۔
اس کی آخری بات پر وہ منہ بنا کر رہ گئ۔
اس کے اظہارِ محبت پر وہ مطمئن سی ہوگئ تھی۔ یہ بات ہی اسے سکون دے گئ تھی کہ اس کی زندگی میں اس کے علاوہ کوئی لڑکی نہیں۔دل جیسے ہی مطمئن ہوا تھا اب اسے اپنی پوزیشن کا احساس ہوا تھا وہ اس کے حصار میں قید اس کے بےحد نزدیک کھڑی تھی۔ اس کا چہرہ شرم سے لال ہوا تھا۔گال تپتے ہوۓ محسوس ہوۓ۔وہ ہلکا سا کسمسائی تھی۔
ذوہان اس کے چہرے پر کھلتے رنگوں کو دیکھ کر مبہوت ہوا تھا۔
” یو آر مائن۔” وہ اس کے کان کے نزدیک جُھکتا شدت سے بھرپور لہجے میں بولا تھا۔ وہ اپنے کان پر اس کا لمس محسوس کرسکتی تھی۔ اس نے ذوہان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے دھکیلا تھا۔
ذوہان اسے دیکھ کر ذرا سا مسکرایا تھا۔ پھر اس کے چہرے پر جھکتا اپنا لمس چھوڑنے لگا۔
” میری زندگی میں خوش آمدید! ” وہ اس کے کان میں سرگوشیاں کرکے رس گھول رہا تھا۔
وہ اس کی رفتہ رفتہ بڑھتی شدتوں پر سمٹتی چلی گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ منسا کو اس کے کمرے میں بٹھا کر اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔ آج کا دن بہت تھکا دینے والا تھا۔کل بھی وہ اپنی بیوقوفی میں اسے خود سے ناراض کرکے ایک منٹ بھی نہیں سوئی تھی۔ تھکن جیسے اعصاب پر سوار تھی۔ وہ چہرے پر اداسی سجاۓ سوگوار سی کمرے کی طرف بڑھی۔ اسے ہارب اب بھی خود سے روٹھا لگ رہا تھا وہ کسی بھی حال میں اسے منالینا چاہتی تھی۔ وہ دل ہی دل میں فیصلہ کرتی کمرے کی بڑھ گئ۔ اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ دروازہ کھولا۔ کمرے میں آکر اس نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تھی مگر خالی کمرہ سائیں سائیں کررہا تھا۔بالکنی کا کھلا دروازہ دیکھ کر وہ سمجھ چکی تھی کہ وہ وہی ہوگا۔وہ دھیرے سے چلتی ہوئی بالکنی کی طرف بڑھ گئ۔ اس کی پشت مصفرہ کی طرف تھی۔ وہ گہری سانس بھرتی اس کے نزدیک آکر اس کا بازو تھام چکی تھی۔
ہارب نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تھا۔ایک نظر اس پر ڈالتا دوبارہ نگاہیں سامنے جما چکا تھا۔مصفرہ نے تڑپ کر اس کا سنجیدہ انداز دیکھا۔
” آپ مجھ سے اتنے ناراض ہیں کہ میری طرف دیکھے گے بھی نہیں۔” وہ اس کے کندھے پر سر ٹکاتی ہوئی بولی۔
اس کا انداز پل پل اسے حیران کررہا تھا۔وہ اس کا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹاتا اپنے ہاتھوں میں قید کرکے اس کی طرف مُڑا تھا۔
” اچھی بات ہے تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہوچکا ہے۔تم اس رشتے کو دل سے نبھانا چاہتی ہو۔ پر میرے لیے یہ بات ابھی بھی باعث تکلیف ہے کہ یہ رشتہ تمہارے لیے مجبوری ہے۔جسے تم ہر حال میں نبھانا چاہتی ہو مگر وجہ محبت نہیں مجبوری ہے۔” وہ اس کی آنکھوں میں اپنی شدت گریہ سے سُرخ ہوتی آنکھیں گاڑھتا ہوا بولا۔
” ہرگز نہیں یہ رشتہ میرے لیے مجبوری بالکل نہیں ہے۔” وہ جھٹ سے صفائی دینے والے انداز میں بولی۔
” مجبوری نہیں ہے تو تم اسے اپنا فرض سمجھ کر نبھا رہی ہو۔ ایک بات تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ تمہیں مجھ سے محبت تو ہرگز نہیں ہوسکتی۔ اس معاملے میں میں نہایت بدنصیب ہوں۔یا شاید یہ میری غلطیوں کی سزا ہے۔” وہ کرب زدہ لہجے میں بولا تھا۔
اس کے انداز پر وہ تڑپ سی گئ تھی۔
” ایسا بالکل نہیں ہارب جی۔ آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے مجھے آپ سے محبت نہیں ہوسکتی۔ ہاں میں جانتی ہوں کہ آپ کو میری بات پر یقین نہیں آرہا ہوگا یہ سوچ کر کہ کل تک تو یہ لڑکی علیحدگی کی ڈیمانڈ کررہی تھی آج ایسا کیا ہوگیا۔ ہے نا۔” وہ دوقدم اس کے مزید نزدیک ہوئی تھی۔
وہ خاموش کھڑا بس اس کی باتیں سُن رہا تھا۔
” میں ہمیشہ اپنے جلد بازی پر پچھتاتی ہوں۔اب بھی یہی ہورہا ہے آپ کہہ رہے مجھے آپ سے محبت نہیں ہوسکتی تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے بلکہ مجھے آپ سے محبت ہوگئ ہے۔ مگر اپنی بیوقوفی سے سب تباہ کرنے والی تھی۔ جانے کب آپ کی خود کے لیے عزت ، محبت اور فکر دیکھ کر یہ دل آپ کا اسیر ہوگیا۔ بس ایک بار مجھے معاف کردیں میں نے آپ کا دل دُکھایا ہے۔” وہ رُندھی ہوئی آواز میں بولی۔ ہمیشہ وہ ہی اپنی محبت کا یقین دلاتا رہا تھا آج اس کی باری تھی۔
بےخبر ہوتے ہوۓ بھی باخبر لگتے ہو تم
دُور رہ کر بھی مجھے نزدیک تر لگتے ہو تم
کیوں نہ آؤں سج سنور کر میں تمہارے سامنے
خوش ادا لگتے ہو مجھ کو خوش نظر لگتے ہو تم
تم نے لمس متعبر سے بخش دی وہ روشنی
مجھ کو میری آرزوؤں کی سحر لگتے ہو تم
جس کے ساۓ میں اماں ملتی ہے میری زیست کو
مجھ کو جلتی دھوپ میں ایسا شجر لگتے ہو تم
کیوں تمہارے ساتھ چلنے پر نہ آمادہ ہو دل
خوشبوۓ احساس میرے ہمسفر لگتے ہو تم
وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتی مضبوط لہجے میں بولی۔اس کے اظہار پر وہ اندر تک سرشار ہوا تھا۔
”مصفرہ ! سچ میں تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو۔” وہ اسے کندھوں سے تھامتے بےیقینی سے بولا۔خوشی سے اس کے منہ سے چند الفاظ ہی ادا ہوپاۓ تھے۔
وہ بھیگی آنکھوں سے محض سر ہلا گئ۔
وہ آگے بڑھ کر اسے خود میں شدت سے بھینچ گیا۔ یہ لمحہ دونوں کے لیے بےحد قیمتی تھا جب دونوں کی دلی کدورتیں مٹ گئ تھیں۔ مصفرہ بھی اس کے گرد اپنے دونوں ہاتھ باندھ گئ۔ یہ شخص اس کی زندگی میں کسی روشن صبح کی طرح آیا تھا اس کی زندگی سے سارے غم ، پریشانیاں ، تکلیفیں مٹا کر لے گیا تھا وہ کیسے نا اس شخص کی مشکور ہوتی جس نے اسے اس کی ہر خامی سمیت اپنایا تھا۔بلکہ اسے یقین دلایا تھا کہ وہ بالکل پرفیکٹ ہے خامی اس میں نہیں بلکہ دیکھنے والے کی نظروں میں ہے۔
ہارب نے اس کا چہرہ سامنے کرکے اس کے آنسو صاف کیے تھے۔ پھر محبت سے اس کے ماتھے پر مہکتا لمس چھوڑا تھا۔
” میں چاہتا ہوں تم گزرے ہوۓ سب اذیت بھرے لمحے بھول جاؤ۔ کیا تم زندگی کو ایک نۓ سرے سے شروع کرنے میں میرا ساتھ دو گی۔” وہ اُمید بھری نظریں اس کے حسین چہرے پر ٹکا کر بولا۔
” ہاں ! میں بھی وہ سارے پل بھول جانا چاہتی ہوں آپ کے ساتھ خوش رہنا چاہتی ہوں۔” وہ خود آگے بڑھ کر اس کے سینے پر سر ٹکا گئ۔
ہارب نے اس کے گرد گرفت مضبوط کی جو لمحہ با لمحہ مضبوط تر ہوتی چلی گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس کے کمرے میں بیٹھی دھڑکتے دل سے اس کا انتظار کررہی تھی۔ وہ اس کی بےباکیوں سے اچھے سے آگاہ تھی اس لیے تھوڑی سی گھبرا رہی تھی۔ اسے انتظار کرتے ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا جب کمرے کا دروازہ کُھلا تھا اور ارسم کمرے میں داخل ہوا تھا۔ اس نے نظر بھر کر اپنی شریکِ حیات کو دیکھا تھا جو اس کے پسندیدہ ڈریس میں اس کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ جب کچھ دیر تک کچھ محسوس نہ ہوا تو اس نے سر اُٹھا کر سامنے دیکھا جہاں وہ آنکھوں میں ہلکی سی نمی لیے اسے دیکھ رہا تھا۔ دونوں کی آنکھیں پل بھر میں چار ہوئی تھی وہ ہلکا سا مسکرایا تھا۔ پھر قدم اُٹھاتا اس کی طرف بڑھا۔ وہ اس کے نزدیک بیٹھتا اس کا ہاتھ تھام چکا تھا۔
” تم جانتی ہو اس پل میں اللّٰہ کا بےحد شکر گزار ہوں جس نے میری کوتاہیوں کے باوجود بھی تمہیں میری زندگی میں شامل کردیا۔ میں کیسے اتنی خوشیوں کے بعد اُس کا تشکر کرنا بھول سکتا ہوں۔ کیسے میں اُس کی نعمتوں کو جھٹلا سکتا ہوں۔ ہاں تم خدا کی طرف سے میرے لیے کوئی انعام ہی ہو جو جانے میری کس نیکی کے بدلے حاصل ہوا ہے۔ ” وہ اس کا ہاتھ ہونٹوں سے لگا کر بولا۔
اس کی اتنی محبت پر وہ جھلمل کرتی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی شاید خدا کو اس کا صبر اتنا پسند آیا تھا کہ وہ اسے سارے امتحانات سے نکال گیا تھا۔ سامنے بیٹھے حسین دل کے مالک شخص کو اس کی زندگی میں بھر گیا تھا۔
” آؤ اس خدا کا شکر ادا کرلیتے ہیں جس نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے۔ ” وہ اس کا ہاتھ تھامتا اسے بیڈ سے نیچے اُتار چکا تھا۔ پھر کچھ سوچتے ہوۓ الماری سے ایک آرام دہ سوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا چکا تھا۔ جسے وہ تھام چکی تھی۔
” جاؤ چینج کرلو پھر اللّٰہ کا سجدہ شکر ایک ساتھ ادا کریں گے۔ ” وہ اس کا گال تھپتھپاتا ہوا بولا۔ آئرہ اثبات میں سر ہلاتی باتھ روم کی طرف بڑھ گئ۔
کچھ دیر میں دونوں فریش ہوکر جاۓ نماز پر کھڑے تھے دونوں نے مل کر شکرانے کے نفل ادا کیے تھے۔ دونوں نے اپنی آنے والی زندگی میں خوشیوں کی دُعا مانگی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اب بھی اسے اپنے حصار میں قید کیے بالکُنی میں کھڑا تھا۔ وہ اپنی نئ زندگی کا آغاز اس سے کچھ بھی چُھپاۓ بنا کرنا چاہتا تھا۔
” مصفرہ ! جب سے تم زندگی میں آئی ہو مجھے لگتا ہے میں بدلنے ہوں۔ میری زندگی میں ہمیشہ کلاس ڈیفرینس میٹر کرتا تھا مگر میں غلط تھا انسانوں کی پہچان اُن کی امیری غریبی کو دیکھ کر نہیں بلکہ ان کے دل کو دیکھ کر ہوتی ہے ” وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا جو اس کی باتیں غور سے سُن رہی تھی۔
” میں اپنی زندگی کے کچھ واقعات تم سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔” پھر وہ ماہ نور کی بابت اسے سب بتاتا چلا گیا۔
” میں اب اپنے اس فعل پر پچھتارہا ہوں۔ کاش ! میں بغیر اُس کا دل دُکھاۓ اسے منع کرسکتا تھا مگر میں نے اس کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ یہ گِلٹ میرے ساتھ زندگی بھر رہے گا۔” وہ کرب زدہ لہجے میں بولا۔ وہ اپنی غلطی پر پچھتا رہا تھا۔
” آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہے بس یہی بات میرے لیے اہم ہے جہاں تک بات معافی کی ہے تو آپ اللّٰہ سے معافی مانگ لیں وہ اپنے بندوں سے زیادہ دیر ناراض نہیں رہتا۔ اور اگر کبھی زندگی نے موقع دیا تو کیا پتہ وہ آپ سے ٹکرا جاۓ تب ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر معافی مانگ لیجیئے گا۔ جہاں تک میرا خیال ہے کہ ان سب میں ساری غلطی آپ کی نہیں ہے کچھ غلطی ماہ نور کی بھی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ وہ غلط ہے پر مجھے ایسا لگتا ہے کہ ایک نامحرم سے اظہارِِ محبت غلط ہے وہ آپ کی عزت کا محافظ تو نہیں ہے پھر آپ کیسے یقین کرسکتی ہیں کہ وہ آپ کی عزت کرے گا۔ وہ جہاں بھی ہے خدا اُسے خوش رکھے۔ ” وہ اس کا گِلٹ کم کرنے کے لیے اپنا نقطہ نظر سامنے رکھ گئ۔
ہارب نے محض مُسکرا کر اسے دیکھا تھا۔
” میں بھی آپ سے کچھ شیئر کرنا چاہتی ہوں۔" وہ بھی ہمڑ مجتمع کیے بولی۔وہ بھی اپنی نئ زندگی کا آغاز سچ سے کرنا چاہتی تھی۔
”وہ اُس دن جب میں نے آپ سے طلاق کا مطالبہ کیا وہ یونہی نہیں کیا تھا بلکہ اس کے پیچھے ایک وجہ تھی۔ مہندی کی رات مجھے کبیر کا فون آیا تھا اُس نے مجھے دھمکی دی تھی کہ میں نے اگر آپ سے علیحدگی اختیار نہ کی تو وہ آپ کو جان سے مار دے گا۔ میں ڈر گئ تھی اس لیے اتنا انتہائی قدم اُٹھا گئ۔بعد میں مجھے احساس ہوا کہ زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ میں وہ کون ہوتا ہے کسی کی زندگی کا فیصلہ کرنے والا۔” وہ اس کے سینے سے لگتی آبدیدہ لہجے میں بولی۔
” تم نے مجھے تب کیوں نہیں بتایا۔ میں اُس انسان کا منہ توڑ دیتا۔” اس کی بات سُن کر اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔
” مجھے لگا کہی آپ مجھے ہی نہ غلط سمجھ لیں۔” وہ سُوں سُوں کرتی ہوئی بولی۔
” میں تمہیں کبھی غلط نہیں سمجھ سکتا میں جانتا ہوں کہ میری مصفرہ ایسی نہیں ہے۔” وہ اس کا چہرہ رُوبرو کرتا مان بھرے انداز میں بولا۔
” رونا بند کرو۔ان آنکھوں میں آنسو مجھے بالکل بھی پسند نہیں۔” وہ اس کے آنسو لبوں سے چُنتا ہوا بولا۔
مصفرہ اس کی پیش قدمی پر سمٹ کر رہ گئ۔ اس نے ہارب سے سینے پر ہاتھ رکھ کر فاصلہ بڑھانا چاہا جو ناممکن سی بات تھی۔ بلکہ وہ اسے مزید قریب کرگیا۔ اس کی بےباکیوں سے بچنے کے لیےآئرہ نے اس کے سینے میں جاۓ پناہ تلاشنی چاہی۔ جو شاید آج ناممکنات میں سے ایک تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئرہ دُعا مانگ کر اس کی طرف دیکھے گئ جو ناجانے رب سے کیا کیا مانگ رہا تھا۔ وہ منہ پر ہاتھ پھیرتا اُٹھ کھڑا ہوا۔
” کیا دیکھ رہی تھی؟” وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا ہوا بولا۔
” کچھ نہیں بس آپ بہت اچھے لگ رہے تھے تو بس دل کیا آپ کو دیکھتی جاؤ۔” وہ جھجھکتی ہوئی پولی۔
اس کی بات سُن کر وہ اسے سمائل پاس کرتا اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔
” ویسے آپ نے کیا مانگا؟ ” وہ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر بولی۔
” زندگی بھر تمہارا ساتھ۔ صرف زندگی میں نہیں بلکہ موت کے بعد بھی صرف اور صرف تمہارا ساتھ ہی مانگا۔” وہ اس کے ہاتھوں کو ہونٹوں سے لگاتا ہوا بولا۔
اس کی بات پر وہ محض مسکرا کر رہ گئ۔ اس کی شخص کی دیوانگی کبھی کبھی اسے بھی حیران کردیتی تھی۔ کچھ وقت پہلے تک یہی شخص اس کو ٹھکرا کر چلا گیا تھا اور آج کی اس کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ اُٹھتا تھا۔
وہ اس کے کھویا کھویا انداز ملاحظہ کررہا تھا اس کے چہرے پر شرارتی سی مسکان اُبھری۔ وہ اس کے سر کو خود پر جُھکا کر اس کے ماتھے پر شدت بھرا لمس چھوڑ چکا تھا. وہ جیسے ہوش کی دنیا میں آئی تھی۔
” کیا سوچ رہی تھی رُو ؟ مجھ سے بھی شیئر کرو۔” وہ اس کی ہاتھوں کی انگلیوں سے کھیلتا ہوا بولا۔
” کچھ خاص نہیں بس ہم دونوں کے اس رشتے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ کتنے کم وقت میں ہم ایک دوسرے کے کتنے قریب آگۓ ہیں۔ہے نا۔” وہ اس کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔
” ہہممم! ” وہ اس کی گود سے سر اُٹھا کر اس کے رُوبرو ہوا۔
” او شِٹ ! تمہیں منہ دکھائی دینا تو بھول ہی گیا۔” وہ الماری میں سے ایک مخملی کیس لا کر اس کے رُوبرو ہوا۔ جس میں سونے کا خوبصورت سے پینڈنٹ تھا۔وہ نکال کر اس کے گلے کی زینت بنا چکا تھا۔ آئرہ نے اسے دو انگلیوں سے چھوا تھا۔
” بیوٹیفل! ” وہ اس کی آنکھوں نیں اپنی مسکراتی آنکھیں گاڑھ کر بولی
” مگر میری زندگی سے زیادہ حسین ہرگز نہیں ہے۔ ” وہ اس کی ٹھوڑی کو چومتا ہوا بولا۔ پھر وہ اپنے لمس سے اس کے ایک ایک نقش کو متعبر کرتا چلا گیا۔ وہ شرم سے گلال ہوتا چہرہ اس کی مضبوط پناہوں میں چھپاگئ۔ ارسم نے اس کے گرد ہاتھ باندھے اسے اپنے ساتھ کا مان بخشا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ طاقت کے نشے میں اس قدر چُور تھا کہ شاید اپنا انجام بھول گیا تھا۔ مسلسل وہ کسی نا کسی کے لیے تکلیف کا باعث بن رہا تھا پھر وہ کیسے خود پُرسکون رہ سکتا تھا۔ جب سے اس کی شادی نتاشہ سے ہوئی تھی اس کا ایک بھی پل سکون سے نہیں گزرا تھا اب اس کا دل ان سب سے اُکتانے لگا تھا۔ وہ جلد ہی اس سب کو سمیٹنے کا سوچ چکا تھا۔ اس نے بہت سے پلان بناۓ تھے مصفرہ کو واپس حاصل کرنے کے ۔ اُس ہارب کو اس کی زندگی سے نکالنے کے۔ پر وہ بھول گیا تھا اوپر والا بہترین کارساز ہے وہ کیسے اپنے نیک بندوں کو تنہا کرسکتا تھا۔ اب تو یہ آنے والے وقت نے ہی بتانا تھا کہ آگے ان سب کی زندگیوں میں کیا لکھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مہندی والی رات کی بات تھی وہ اسے دھمکا کر اب پُرسکون ہوتا گاڑی چلا رہا تھا۔اسے لگا تھا جیسے اس نے چاہا سب ویسا ہی ہوگا وہ ہر چیز پلان کرکے بیٹھا تھا۔اب اس کے ہونٹوں پر اطمینان بھری مسکراہٹ تھی۔ یہ بات سچ تھی وہ مصفرہ کو چھوڑ کر پچھتایا تھا۔نتاشا بالکل اس جیسی تھی خود سر، بدتمیز اور مطلبی۔ تبھی وہ اسے ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔
”بس کچھ دن اور ہیں میں تمہیں واپس پالوں گا۔تم تو ہمیشہ سے میری تھی بس میں اپنی غلطی سے تمہیں گنوا دیا مگر خیر غلطیاں بھی انسانوں سے ہی ہوتی ہیں۔” وہ مصفرہ کے تصور سے ہم کلام ہوتا ہوا بولا۔ اس کے چہرے پر شاطرانہ سی مسکراہٹ تھی۔ وہ اپنی سوچوں کے تانے بانے بُننے میں مصروف تھا کہ سامنے سے آتی تیز رفتار کار کو نہ دیکھ پایا۔ جو اس سے بُری طرح ٹکڑا چکی تھی۔ وہ گاڑی کا توازن برقرار نہ رکھ پایا اور بُری طرح اس حادثے کا شکار ہوچکا تھا۔ رفتہ رفتہ لوگ ان کے گرد جمع ہونے لگے۔ وقت بُری طرح اس کے ہاتھوں سے پھسلتا جارہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھ ماہ بعد
کالے رنگ کی کار ایک جھٹکے سے آکر قبرستان کے سامنے رُکی۔ اندر بیٹھے دونوں وجود نے کرب سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا چاہے وہ زندگی میں کتنا آگے بڑھ جاتے مگر ان کی زندگی میں یہ خلیج ہمیشہ رہنا تھا۔
اشعر اپنی طرف کا دروازہ کھول کر باہر آیا اتنی دیر میں وہ اپنے تاثرات پر کنٹرول کرچکا تھا۔ اس نے آکر ماہ نور کی سائیڈ کا دروازہ کھولا پھر اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام چکا تھا۔ اس کے لمس میں ایک طمانیت تھی۔ وہ اس کو مسکرا کر دیکھتا اندر کی طرف بڑھ گیا۔ وہ دونوں ہادیہ کی قبر پر آۓ تھے۔ ماہ نور آج کافی دیر بعد یہاں آئی تھی وہ جب جب یہاں آتی تھی خود پر سے کنٹرول کھونے لگتی تھی اپنی جان سے عزیز بہن کو یوں منوں مٹی تلے سوۓ دیکھ کر۔
اب بھی سامنے اس کی قبر کو دیکھ اس کے آنکھوں سے موتی لڑیوں کی صورت بہنے لگے تھے۔ اس کے لرزتے وجود کو وہ اپنے حصار میں لے چکا تھا۔ تقریبا تین ماہ قبل وہ رشتہ نکاح کے پاک بندھن میں بندھ چکے تھے۔ اشعر کو اس کے چہرے میں ہادیہ کا چہرہ دکھتا تھا وہ اس کے وجود میں اُسے تلاش کرنے لگا تھا۔ کچھ سوچتے ہوۓ وہ ماہ نور کے گھر رشتہ بھیج چکا تھا۔
پہلے ماہ نور اس رشتے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھی اُسے لگتا تھا یہ جگہ صرف ہادیہ کی ہے اور وہ اس کی کسی بھی چیز پر قبضہ جمانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی یہ تو پھر جیتے جاگتے وجود کا سوال تھا مگر سب کے سمجھانے کے بعد وہ اس رشتے پر راضی ہوچکی تھی۔ تین ماہ سے دونوں ساتھ تھے۔ اشعر جو پہلے اس کے وجود میں ہادیہ کو تلاشتا تھا۔ رفتہ رفتہ ماہ نور کے رویے سے اس کے دل میں اس کے لیے علیحدہ جگہ بن چکی تھی. اسے ماہ نور کی عادت ہوچکی تھی۔ اس لیے وہ ماہ نور کو ایک ہفتے کی اجازت دینے کے بعد دو دنوں میں ہی بُری طرح جھنجھلا چکا تھا۔اس لیے وہ اسے فون پر اسے اپنے آنے کی اطلاع دے چکا تھا۔
ماہ نور ایک ہفتے کی اجازت لیکر اپنے گھر گئ تھی مگر اشعر دو دنوں بعد ہی اسے لینے آچکا تھا۔ اس کے اصرار پر وہ اسے یہاں لایا تھا۔
” چلیں۔” وہ اس کا رویا رویا گلابی چہرہ دیکھ کر بولا۔
ماہ نور نے محض اثبات میں سر ہلایا تھا۔ ماہ نور نے مسرور سی نظر اپنے ہمسفر پر ڈالی تھی جو اسے کسی آبگینے کی طرح سنبھال سنبھال کر رکھتا تھا۔ وہ مطمئن ہوکر اس کے کندھے پر سر رکھ چکی تھی۔
اشعر نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا تھا جو اسے کچھ وقت میں ہی بےحد عزیز ہوچکی تھی۔ نکاح کے بندھن میں واقعی ہی اتنی طاقت ہوتی ہے کہ دو اجنبیوں کو ایک دوسرے کی طرف مائل کردیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا تھا جہاں اس کی محبوب بیوی ناراض سی بیٹھی تھی۔
” منوں! میری جان آگئ یونیورسٹی سے۔” وہ مسکرا کر پوچھتا اس کے قریب ہی بیٹھ چکا تھا۔ مگر دوسری طرف نو لفٹ کا بورڈ دیکھ کر اس نے گہرا سانس بھرا۔
” اچھا میری طرف تو دیکھو میری جان جب تک بتاؤ گی نہیں تو کیسے پتہ چلے گا کہ ہوا کیا ہے۔” وہ اسے پچکارتا ہوا بولا۔
” سب پتہ ہے آپ کو۔” دوسری طرف سے روٹھی روٹھی سی آواز آئی تھی۔
” اچھا نا یار معاف کردو۔ اب سے لیٹ نہیں آؤں گا۔” وہ کان پکڑتے ہوۓ بولا۔
ذوہان اور منسا شادی کے کچھ عرصے بعد ہی وہ مری دوبارہ شفٹ ہوگۓ تھے۔ منسا کی یونی بھی یہی شروع ہوگئ تھی. پچھلے کچھ دنوں سے ذوہان آفس کے کام کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی دیر سے آرہا تھا منسا اکیلی رہ رہ کر بور ہوگئ تھی. کل تو وہ سب کو یاد کرکے بےتحاشہ روئی تھی۔ ذوہان اسے یوں دیکھ کر پریشان ہوچکا تھا۔آج اسی لیے وہ اس کے یونی سے آنے سے پہلے ہی گھر موجود تھا اب بیٹھا وہ اسے منانے کی ترکیب سوچ رہا تھا۔
” اچھا بات تو سُنو۔ میں وعدہ کرتا ہوں جلدی آنے کی کوشش کروں گا۔اور تمہارے سمسٹر کے ختم ہوتے ہی ہم گھر چلے گے۔ ” وہ اسے رُوبرو کرتا ہوا بولا۔
” پکا” وہ شاید یقین دہانی چاہتی تھی۔
ذوہان نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا تھا۔ وہ اس کے گرد بازو باندھتا اسے خود سے لگا چکا تھا۔
” آپ کو پتہ ہے کل میں کتنا ڈر گئ تھی۔ میں اکیلی تھی اوپر سے لائٹ بھی چلی گئ تھی۔ ” وہ شکوہ کرتی ہوئی بولی۔
” سوری جانم! مجھے احساس ہونا چاہئے تھا ساری میری غلطی ہے آگے سے ایسا کبھی نہیں ہوگا۔” وہ اس کے بالوں پر بوسہ دیتا ہوا بولا۔
منسا طمانیت سے اس کے سینے سے لگی مسکرا دی۔ شادی کے بعد شاید ہی کوئی ایسا لمحہ آیا ہو جس میں کبھی ذوہان نے اسے ڈانٹا ہوا اُس کا انداز ہمیشہ محبت بھرا ہی ہوتا تھا۔ وہ اپنی ماما سے ناراض تھی جو انہوں نے کیا ان سب پر ۔ مگر اس نے سوچ لیا تھا کہ اگر وہ اپنی غلطی تسلیم کرلیں گی تو وہ اُن سے ناراض نہیں رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بستر پر بیٹھا کچھ دنوں پہلے ماہ نور سے ہوئی اپنی ملاقات یاد کررہا تھا جو اشعر کے سنگ یہاں سب سے ملنے آئی تھی اسے اشعر کے ساتھ خوش دیکھ کر اسے کچھ سکون ہوا تھا۔ پہلے تو وہ اسے سامنے دیکھ کر گھبرائی تھی وہ اس کی توقع یہاں ہرگز نہیں کررہی تھی۔ لیکن جب ہارب نے اُس سے معافی مانگی تو وہ اسے اپنے اللّہ کی خاطر معاف کرچکی تھی۔
وہ اپنی سوچوں کو جھٹکتا سامنے متوجہ ہوا جہاں اس کی زندگی کھوئی کھوئی سی اندر داخل ہوئی۔ اس کے چہرے پر سوچ کی لکیریں بچھی تھی۔ ہارب نے اپنے سارے حواس اس کی طرف متوجہ کیے۔
” دھیان سے مصفرہ! ” وہ ایک ہی جست میں بیڈ سے اُترتا اس کی طرف بڑھا جس کا پاؤں صُوفے سے بُری طرح ٹکرایا تھا۔
” کہاں دھیان ہے تمہارا دیکھو لگ گئ نا چوٹ۔ ” وہ فکر مندی سے اسے تھامتا ہوا بولا۔
” نہیں زیادہ نہیں لگی آپ ٹینشن نہ لیں۔” وہ اسے تسلی دیتے لہجے میں بولی۔
” مجھے سمجھ نہیں آرہا کیا کروں۔اُس انسان نے مجھے اتنی تکلیفیں دی ہیں میں کیوں معاف کروں اُسے میرا دل نہیں مان رہا۔” پچھلے دو دنوں سے اس کے چچا چچی اس کی طرف آرہے تھے کبیر کی طرف سے معافی مانگنے۔ اُس ایکسیڈینٹ میں وہ ہمیشہ کے لیے معذور ہوچکا تھا مگر پھر بھی مصفرہ کا کوئی ارادہ نہیں تھا اسے معاف کرنے کا۔
” میں یہ نہیں کہتا اُسے ابھی معاف کرو جو تمہارا دل کہہ رہا ہے وہ کرو۔ ابھی تم اُسے معاف نہیں کرنا چاہتی مگر جب تمہیں لگا تم اُسے معاف کرسکتی ہو تب معاف کرنا۔ تم پر کوئی زبردستی نہیں۔ ” وہ اس کا گال تھپتھپاتا ہوا بولا۔
مصفرہ نے سمجھتے ہوۓ محض اثبات میں سر ہلایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کب سے یہاں سے وہاں ٹہلتی بےصبری سے اس کا انتظار کررہی تھی۔ اس کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئی تھی جب وہ دبے پاؤں چلتا اندر آیا تھا۔ یہ بھی ڈر تھا کہ گھر والے اُٹھ کر ان کے کارنامے نہ دیکھ لیں
” کتنی دیر لگا دی۔” وہ بےصبری کا مظاہرہ کرتی ہوئی اس کے ہاتھ میں موجود شاپر اچک چکی تھی۔
ارسم نے افسوس سے اس کی حرکت ملاحظہ کی۔
” دیر کی بچی رات کے دو بج رہے ہیں اور ساری مارکیٹ بند ہوچکی ہے۔ بڑی مشکل سے ساری دُکانیں گھوم کر پھر تمہارے لیے یہ گول گپے ملیں ہیں۔” وہ آنکھیں دکھاتا ہوا بولا۔
جب سے ان کے گھر ایک نۓ مہمان کی آمد کا پتہ چلا تھا ارسم اس کا بہت خیال رکھ رہا تھا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی خواہش بغیر کہے پوری کررہا تھا۔ اب بھی محترمہ اسے سوتے ہوۓ کو اُٹھا کر کچھ چت پٹا لانے کو بھیج چکی تھی۔ اب وہ مزے سے بیٹھی گول گپوں سے انصاف کررہی تھی۔ ارسم نے محبت سے اسے دیکھا تھا۔ پھر اس کا گال تھپتھپاتا سونے کے لیے لیٹ چکا تھا۔ وہ دونوں ایک ساتھ بہت خوش تھے۔ اس کی چاہت کو منزل مل ہی گئ تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Sartab E Ulfat Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Sartab E Ulfat written by Minal Meher. Sartab E Ulfat by Minal Meher is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment