Mere Humsafar By Mona Rizwan New Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Mere Humsafar By Mona Rizwan Complete Romantic Novel |
Novel Name: Mere Humsafar
Writer Name: Mona Rizwan
Category: Complete Novel
حال میں بیٹھے وہ سب محو گفتگو تھے۔۔ علاقے کے سب مرد وہاں موجود تھے۔۔۔ سامنے موجود بڑی
سی کرسی خالی پڑی تھی۔۔ سردار سلطان تشریف لا رہے ہیں۔۔
ملاذم نے آکر علان کیا تو سب لوگ سیدھے ہو کر بیٹھ گے۔۔
عین اسی وقت دروازے سے دراز قامت شخص داخل ہوا تو سب لوگ احتراماََ کھڑے ہو گے۔۔
سلام سردار۔۔۔
سب لوگوں نے بیک وقت کہا۔۔۔
وعلیکم سلام ۔۔ بیٹھ جاٸیں پلیز۔۔۔
سلطان نے سلام کاجواب دے کر انہیں بیٹھنے کا کہا۔۔
سفید شلوار قمیض پر کالے رنگ کی شال ڈالے پیروں میں پشاوری چپل پہنے وہ شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔۔۔
لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ اس خالی کرسی پر بیٹھ گیآ۔۔۔
جی فرماٸیے کیا مسلہ ہے سب خیریت؟
سلطان نے ٹانگ پر ٹانگ جماۓ سب سے سوالیہ انداذ میں پوچھا۔۔
سردار سیف اللہ کی بیٹی شہر سے تعلیم مکمل کر کے آ رہی ہے۔۔ اس نے مدرسے میں عالمہ کے کورس کے ساتھ ساتھ ایم اے کی ڈگری بھی اچھے نمبروں سے حاصل کی ہے۔۔
ایک ادھیڑ عمر شخص نے اٹھ کر تفصیلاََ کہا
تو؟؟ اس نے آٸ برو اچکا کر بے نیازی سے پوچھا۔۔
سرادار ہم ایک تقریب رکھنا چاہ رہے ہیں اس بچی کی منگنی اپنے خالہ زاد سے ہو رہی ہے تو اسی کی اجازت چاہیے تھی۔۔
اس شخص نے ادب سے کہا تو سلطان نے بے زارگی سے منہ کے زاویہ بگاڑے۔۔
اتنی ذرا سی بات کے لیے اجازت؟؟
چھوڑیں خیر آپ جب چاہیں تقریب رکھ لیں۔۔ ویسے بھی دادا ساٸیں کل تک لوٹ آٸیں گے تو اس بارے میں زیادہ بحث انہی سے کر لیجیے گا۔۔۔
وہ شان سے کہتا اٹھ کھڑا ہوآ۔۔
شمسو انہیں چاے کے بغیر مت جانے دینا۔۔
ملازم سے کہتا وہ کمرے سے نکل گیآ۔۔۔
***********
اے یہ کیا کر رہی ہے تو ؟؟
شاٸستہ نے تخت پوش پر بیٹھتے ہوے اپنی بگڑی اولاد ماہ نور سے پوچھا جو پیروں پر مہندی لگا رہی تھی۔۔۔
اماں فیشل کر رہی ہوں۔۔ اس نے سنجیدگی سے کہتے پیروں کو غور سے دیکھا
یہ فیشل ہے کیا آندھی ہے؟
شاٸستہ نے اپنی موٹی ناک کو مزید پھیلا کر کہا
وہی تو۔۔ آندھی ہو جو نظر نہیں آ رہا؟ مہندی لگا رہی ہوں۔۔
وہ بھی تنک کر بولی
اے مانو کنواری لڑکیاں مہندی نہیں لگاتیں۔۔
اب کی بار شاٸستہ نے غصے سے کہا
تو شادی کروا دو نا۔۔
مانو نے کندھے اچکاے
چل دفع ہو کمینی کیسے سر عام بے ہودگی کرتی ہے۔۔آنے دے تیرے ابے کو بتاتی ہوں کچھ بندوبست کرتے ہیں تیرا۔۔۔
شاٸستہ نے جوتی اتار کی اس کی جانب اڑاٸ مگر وہ بر وقت اٹھ کر ساٸیڈ پر ہو گٸ۔۔ جب وجہ سے اس کی ساری مہندی فرش پر اپنی چھاپ چھوڑ گٸ۔۔
حد ہے اماں ساری مہندی خراب کروا دی ۔۔
غصے سے کہتی وہ واش روم کی جانب بڑھی۔۔
چاچی امی جان کہاں ہیں۔۔ سلطان نے اندر داخل ہوتے ہی تپی ہوٸ شاٸستہ سے پوچھا
اپنے کمرے میں ہو گی کہاں جاۓ گی
شاٸستہ تنگی سے کہتی اٹھ گٸ۔۔
اے سریلی اے سریلی یہ فرش پر پوچھا لگا دے کم بخت ماری ساری مہندی لگا گٸ میرے فرش پر۔۔۔
ملازمہ کو گلہ پھاڑ کر آواذیں دینے لگیں نتیجہ ملازمہ ہاتھ میں جھاڑو پکڑے باہر آٸ۔۔
کیا ہوا باجی ؟؟
اے تو کیا کر رہی تھی یہ جھاڑو کتنا گندا ہے۔۔
شاٸستہ کی صاف شفاف طبیعت پر گندگی گراں گزری
وہ باجی میں واش روم دھو رہی تھ۔
سریلی کے الفاظ پر شاٸستہ مزید تپ گٸ۔۔
دفع ہو جا کر اسے گندے جھاڑو کو پھینک اور پہلی فرست میں سارا صحن صاف کر ۔۔
غصے سے کہتی وہ اندر چلی گٸ۔۔۔
سلطان جو کب سے کھڑا ان ک حرکتیں دیکھ رہا تھا سر جھٹک کر امی کے کمرے میں گھس گیا۔۔،
: ****************
کالے عبایا میں لپٹی ہاتھ میں دو پیگز اٹھاۓ وہ جوں ہی گاڑی سے اتری سیف اللہ نے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا
اس کے ہاتھ سے بیگ تھام لیے اور۔بیٹی کو لیے گھر کی جانب چل پڑا ۔۔۔۔
ارے انکل آپ چلیں میں یہ بیگ وغیرہ لے آتا ہوں۔۔
احمر نے سیف اللہ کے ہاتھ سے بیگ پکڑے۔۔
سیف اللہ تیزی سے آگے بڑھتا چلا گیا۔۔
جب کہ عبایا میں لپٹی وہ آہستہ آہستہ چلنے لگی۔۔
عاٸشہ۔۔
اپنے نام کی پکار پر وہ رکی۔۔یہ احمر کی آواذ تھی۔۔
دو دن میں ہماری منگنی ہے کیا تم اب بھی اپنا چہرہ نہیں دکھاو گی۔۔؟
احمر کے الفاظ پر عاٸشہ ٹھٹھکی۔۔ پھر غصے سے پلٹی۔۔
میں تم جیسے گھٹیا انسان سے کبھی شادی نہیں کروں گی۔۔۔ میں جانتی ہوں کہ تم کیوں مجھ سے شادی کرنا چاہ رہے ہو مگر یاد رکھنا تم مر کر بھی میری عزت پر حرف تک نہیں لا سکتے۔۔
دستانے میں چھپا اپنا ہاتھ آگے کر کے اس نے احمر سے بیگ چھینے اور وہاں سے چل پڑی۔۔
سالی تجھے تو میں چھوڑوں گا نہیں تو دیکھ پورے گاٶں میں تجھے رسوا نہ کیا تو میرا نام بھی احمر شیراز نہیں۔۔۔
دانت پیس کر کہتا وہ غصے سے وہاں سے ہی پلٹ گیا۔۔۔
*******
بابا یہ میں نے کیا سنا ہے؟ آپ میری منگنی احمر سے کرنا چاہ رہے ہیں۔؟
نہا کر وہ جب باہر نکلی تو باپ کو چاۓ بناتا دیکھ کر وہیں بیٹھ گٸ۔۔
دودھ جیسا سفید گول مٹول چہرہ اور گلاب جیسے سرخ گال۔۔ نفاست سے سیٹ کیا گیا حجاب ۔۔۔ وہ قدرتی حسن سے مالامال تھی۔۔۔
ہاں یہ سچ ہے مگر تجھے کس نے بتایا؟۔۔
سیف اللہ نے چاے پیالیوں میں انڈیلتے ہوے حیرت سے کہا
مگر بابا ایک بار پوچھ لیتے۔۔ آپ جانتے ہیں نا کہ میں اسے پسند نہیں کرتی۔۔
باپ سے چاے کی پیالی لے کر ساٸیڈ پر رکھتے اس نے کہا تو سیف اللہ نے گہرا سانس لیا
بیٹی تو جانتی ہے کہ مجھ پر تیرے خالو کا کتنا قرضہ ہے ۔۔۔ اور احمر تجھے پسند بھی کرتا ہے تجھے خوش رکھے گا۔۔
سیف اللہ نے چاے کی پیالی ہونٹوں سے لگا کر ایک گھونٹ بھرا۔۔
بابا آپ مجھے بیچ رہے ہیں؟؟
عاٸشہ کی بات پر سیف اللہ نے حیرت سے اسے دیکھا
وہ اچھا لڑکا نہیں ہے بابا۔۔۔ خدارا مجھے جہنم میں مت جھونکے آپ جانتے ہیں وہ کیسے لوگ ہیں۔۔
عاٸشہ نے باپ کو حیرت زدہ دیکھ کر اپنی بات کی وضاحت دی
مجھے یقین ہے کہ میری بیٹی میرا مان رکھے گی۔۔سیف اللہ سنجیدگی سے کہتا چاے کی پیالی وہیں چھوڑے باہر نکل گیا۔۔
عاٸشہ نے بے بسی سے دروازے کو دیکھا ۔۔۔ڈھیروں آنسوو اس کی بڑی سی آنکھووں میں بھر گے تھے۔۔۔
یا اللہ مدد۔۔۔
بے بسی سے اپنے رب کو پکارتی وہ اٹھ کر اپنی چاے گرم کرنے لگی جو ٹھنڈی ہو چکی تھی۔۔۔۔۔
ماں تو تھی نہیں اور نہ ہی کوٸ بہن بھای تھے۔۔ اس کی ماں اسے پیدا کرتے ہی دنیا سے چل بسی ۔۔۔ باپ نے کبھی ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی تھی مگر آج شدت سے اسے اپنی ماں یاد آ رہی تھی۔۔۔۔
**********
اس کی آنکھ کھلی تو صبح کے دس بج رہے تھے۔۔ رات وہ دیر تک ڈیرے پر بیٹھا رہا تھا اس لیے آنکھ دیر سے کھلی تھی۔۔ موباٸل اٹھا کر دیکھا تو پندرہ مسڈ کالز اور پچاس مسجز نے اس کی آنکھیں پوری کھول دیں۔۔
جلدی سے اسی نمبر پر کال بیک کی تو دوسری طرف سے فوراََ کال ریسیو کر لی گٸ۔۔ شاٸد وہ اسی کی کال کی منتظر تھی۔۔۔
کہاں تھے صبح سے فون کر رہی ہوں رات میں بھی بات نہیں کی۔۔۔
کال اٹھاتے ہی اس کے شکوے شروع ہو گے۔۔
ایم سوری جان آنکھ دیر کے کھلی سوری پلیز۔۔۔
سلطان نے بیڈ سے اٹھ کر پردے سرکاتے اس سے معذرت کی۔۔۔
شاید رات بارش ہوی تھی اس لیے موسم خوشگوار تھا۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے پھر مجھے کب ملو گے۔۔۔
اس نے فوراََ راضی ہوتے اس سے فرماٸش کی۔۔۔
بس ناشتہ کر کے نکلتا ہوں تقریباََ ایک گھنٹہ لگ جاے گا۔۔۔
سلطان نے مسکرا کر کہآ۔۔۔پھر اوکے کر کے کال کاٹ دی اور موباٸل بیڈ پر اچھالتا واش روم کی جانب بڑھ گیآ۔۔۔۔
ُٰ۔
اماں دیکھ لو باجی کو کتنے زور سے مار رہی ہے۔۔۔
مانو نے شاٸستہ کی جانب شکوہ کناں نظروں سے دیکھا تو شاٸستہ جو ملازمہ کو ہدایت دے رہی تھی غصے سے اس کی جانب مڑی۔۔
کم بخت ماری دفع ہو جا تم دونوں لڑ لڑ کے مرو گی۔۔۔
مانو اپنی بے عزتی پر منہ بنا کر رہ گٸ۔۔ جبکہ فاریہ نے فرضی کالر جھاڑے تھے۔۔۔
آپی تمہاری شادی ہونے دو دیکھنا دوبارہ یہاں قدم نہیں رکھنے دوں گی۔۔۔
مانو نے ہمیشہ کی رٹی ہوٸ دھمکی لگای اور پیر پٹکتی یہ جا وہ جا۔۔۔
سیڑھوں سے اترتے ریاض نے مانو کا آخری جملہ سنا تو مسکرا کر فاریہ کودیکھا
فاریہ اسے مسکراتا دیکھ چکی تھی۔۔۔ اسے بتاو کہ تم شادی کے بعد بھی یہی ہو۔۔ بس کمرہ بدلنا ہے۔۔
ریاض کی ذومعنی بات پر فاریہ غصے سے پلٹی۔۔
ہزار بار کہا ہے آپ سے۔۔ اس بار بھی کہہ رہی ہوں۔۔ میں آپ کی اوقات سے باہر ہوں۔۔
غصے سے کہتی وہ کچن کی جانب مڑ گٸ۔۔۔
یہ دونوں لڑکیاں چاچی پر گٸ ہیں۔۔ نخریلی۔۔نجانے چاچو نے کیسے پٹا لیا چاچی کو ۔۔۔۔
وہ خود سے بڑبڑاتا صوفے پر ڈھے گیا۔۔۔
ُُُُُُُٰٰٰٰٰ ٰٰ ٰ ٰ ُ ُ ۔
چھوڑ دو نا یہ سردار گری۔۔۔ کتنے مصروف ہوگے ہو تم۔۔تمہارے پاس میرے لیے وقت ہی نہیں ہے۔۔۔۔
رباب نے اس کے کندھے پر سر رکھے ہمیشہ کا گلہ کیا..اس وقت وہ دونوں گاٶں کے پاس ایک خوبصورت جھیل کے کنارے بیٹھے تھے۔
رباب تم جانتی ہو نا کہ دادا سردار نے مجھے کتنے مان سے کہا تھا۔۔ ان کے کہنے پر ہی میں نے سردار بننے کی حامی بھری ہے۔۔ ریاض بھاٸ تو بلکل اس معاملے میں خالی ہیں۔۔ اس لیے دادا سردار نے مجھے پگڑی سونپی ہے۔۔۔
اس نے اسے پیار کے سمجھایآ۔۔
رباب اور سلطان ایک سال سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔۔۔ان دونوں کی ملاقات اسی جھیل کے کنارے ہوی تھی۔۔۔ سلطان کسی کام سے یہاں آیا تھا رباب اپنی ماں کے مرنے کے بعد اکثر اسی جھیل کے کنارے بیٹھ کر وقت گزارتی تھی۔۔ سلطان اور اس کی دوستی ہوی اور پھر محبت ۔۔۔
اچھا سنا ہے تمہاری بھابھی آنے والی ہے۔۔۔۔
سلطان نے کچھ یاد آنے پر کہآ۔۔۔۔
ہاں دو دن بعد مگنی ہے بھای کی عاٸشہ کے ساتھ۔۔۔ میری خالہ زاد ہے مگر مجھے نہیں پسند وہ۔۔۔ احمر بھای ہی کی ضد پر منگنی ہو رہی ہے۔۔اور پتا ہے وہ ہر وقت خود کو ڈھانپے رکھتے ہے بقول اس کے وہ پردہ کرتی ہے۔۔۔ ہنہہ ایسا بھی کیا پردہ۔۔۔
رباب نے منہ بنا کر آخری جملہ طنزیہ کہا۔۔ تو سلطان نے سر جھٹکا۔۔۔۔
وہ خوبصورت آواذ میں قرآن کی تلاوت کرنے میں مصروف تھی۔۔اس کی دل موہ لینے والی آواذ ماحول کو پرسکون بنا رہی تھی۔۔ پھر اس نے قرآن کو چوم کر غلاف میں ڈالا اور الماری کے اوپر احترام سے رکھ دیا۔۔ بیڈ پر سے اپنا چھوٹا سا موباٸل اٹھا کر وقت دیکھا تو صبح کے چھ بج رہے تھے۔۔ باہر ہلکی روشنی پھیل چکی تھی ۔۔سیف اللہ نماذ پڑھتے ہی کھیتوں میں چلا گیا تھا۔۔ اس نے جلدی سے اپنے چھوٹے سے مکان کی صفاٸ شروع کر دی۔۔ مکان میں دو کمرے آمنے سامنے تھے درمیان میں چھوٹا سا صحن تھا ایک کونے میں باتھ روم تھا۔۔ صحن کے ہی ایک کونے میں چولہا وغیرہ رکھ کر کھانے پکانے کا بندوبست کیا گیا تھا۔۔ یہ چھوٹا سا مکان مٹی کا بنا تھا اور بہت پرسکون تھا۔۔ گاٶں والوں کے مکانوں سے ذرا ہٹ کر تھا۔۔ صفاٸ کرنے کے بعد اس نے ناشتہ بنایا۔۔۔ اسی دوران سیف اللہ بھی کھیتوں سے لوٹ آیا۔۔ ہاتھ منہ دھو کر وہ ناشتے کے لیے بیٹھ گیا۔۔ عاٸشہ نے جلدی سے گرم گرم پراٹھا رات کی بچی سبزی اور چاے کا پیالہ اس کے سامنے رکھ دیا۔۔
دوپہر تک اپنی ماں کے صندوق سے کوی اچھا سا جوڑا پہن کر تیار ہو جانا منگنی کی رسم کے لیے چند لوگ آٸیں گے۔۔
سیف اللہ نے ناشتہ کرتے ہوے اسے بتایا۔۔ عاٸشہ نے شکوہ کناں نظروں سے باپ کو دیکھا مگر وہ سر جھکاے ناشتے میں مگن تھا۔۔۔
بابا۔۔۔۔ سیف اللہ کے کانوں سے اس کی بے بس آواذ ٹکراٸ بہت مان تھا اس آواذ میں۔۔
سیف اللہ اس پر نظر ڈالے بغیر چاے کی پیالی اٹھا کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔
عاٸشہ نے بے بسی سے کمرے کے بند درواذے کو دیکھا۔۔ اپنا ناشتہ وہیں چھوڑے وہ مرے قدموں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آٸ۔۔ چارپاٸ کے نیچے سے لوہے کا صندوق کھینچ کر نکالا ۔۔اس پر بڑا سا تالا لگا تھا۔۔ کانپتے ہاتھوں سے چابی تالے میں لگاٸ اور صندوق کھول کر اس میں موجود چیزیں دیکھنے لگیں۔۔ اس میں اس کی ماں کے چند شادی کے جوڑے اور دو جوڑی چپل پڑی تھی۔۔ کچھ بناٶ سنگار کا سامان بھی تھا جو عاٸشہ نے خود ہی پیسے جوڑ کر اپنے لیے خریدا تھا۔۔ اس نے یہ صندوق بہت احتیاط سے سنبھال کر رکھا تھا۔۔ وہ زمین پر ہی بیٹھ کر ان سب چیزوں کو غور سے دیکھنے لگی۔۔۔آنسوو بند توڑ کر اس کے نرم اور گلابی گالوں پر بہنے لگے۔۔اپنی ماں کے کپڑوں کو سینے سے لگاے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔
”امی جان اگر آپ زندہ ہوتیں تو کم از کم مجھے تسلی تو دیتیں۔بابا نجانے مجھے کس غطی کی سزا دے رہے ہیں۔۔ایک بار بھی سر پر ہاتھ رکھ کر مجھے دلاسہ نہیں دیا۔۔ امی جان میں کیسے سمجھاوں انکو۔۔احمر میری عزت کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔۔ وہ بدلہ لے رہا ہے۔۔امی جان مجھے آپ کی بہت یاد آرہی ہے۔۔۔“
کپڑوں کو سینے سے لگاے وہ اپنی ماں کے لمس کو محسوس کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔رونے سے اسکی ہچکی بندھ گٸ تھی۔۔۔اپنی ماں کو مخاطب کر کے وہ اسے اپنا حال دل بیان کر رہی تھی۔۔۔
کمرے کے درواذے پر کھڑا سیف اللہ کنگ سا ہو کر اپنی اکلوتی بیٹی کو دیکھ رہا تھا۔۔وہ جو اس کاناشتہ یوں ہی پڑا دیکھ کر اسے ناشتہ دینے آیا تھا اسے اپنی ماں سے باتیں کرتا دیکھ کر شرمندگی کی اتھا گہرایوں میں چلا گیا تھا۔۔
کیسا باپ تھا ۔۔ اپنے مطلب کی خاطر اپنی بیٹی کو جہنم میں جھونک رہا تھا۔۔
عاٸشہ کی پیٹھ درواذے کی جانب ہونے کی وجہ سے وہ اسے دیکھ نہیں پای تھی۔۔وہ تڑپ کر اس کے پاس پہنچا اور اپنے سینے سے لگا لیا۔۔
بس کر میری بچی مت رو۔۔مجھے معاف کر دے میں نے غلطی کی ۔۔مت رو ۔۔
وہ اسے سینے سے لگاے خود بھی رو دیا تھا۔۔
بابا مجھے معاف کر دیں یں بہت بری بیٹی ہوں۔۔
عاٸشہ نے باپ کے آنسوو پونچھتے ہوے کہا تو سیف اللہ نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔۔
میری بیٹی بہت اچھی ہے ۔۔میری کل کاٸنات تم ہی ہو ۔۔
چلو اب ناشتہ کرو ۔۔میں ابھی زندہ ہوں۔۔تمہاری مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو گا۔۔
اس نے عاٸشہ کو تسلی دی اور ناشتے کی پلیٹ اس کے سامنے کی۔۔
اچھے سے ناشتہ کر لو اور جلدی سے گھر کے سارے کھڑکی درواذے بند کر کے اندر ہی رہنا میں آتا ہوں۔۔۔
اسے ہدایت کرتا وہ اٹھ کر باہر نکل گیا۔۔اس کا رخ اب شیراز کے گھر کی طرف تھا۔۔
چلتے ہوۓ وہ ماضی میں کھو گیا تھا۔۔
طاہرہ سے وہ بہت محبت کرتا تھا۔۔ وہ دونوں ایک دوسرے میں مکمل تھے۔۔مگر شادی کے چار سال بعد بھی اولاد کی کمی سے وہ دونوں ہی اداس رہتے۔۔ سیف اللہ کی خواہش تھی کہ اس کی کوٸ اولاد ہو۔۔اسے بچے بہت پسند تھے ۔۔۔انہوں نے اپنے بچوں کے نام تک سوچ رکھے تھے۔۔مگر اللہ کی مرضی کے آگے انسان بے بس ہے۔۔ آخر طاہرہ نے سیف اللہ کی خواہش پوری کرنے کی ٹھانی اور اس کے کہنے پر ایک دن سیف اللہ اسے شہر علاج کے لیے لے گیا۔۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعدصاف بتا دیا کہ چند پیچیدگیوں کی وجہ سے طاہرہ بچہ پیدا نہیں کر سکتی اگر وہ اس کا چھوٹا سا آپریشن کروا لیں تو بچہ تو پیدا ہو سکتا ہے مگر ایسے میں کسی ایک کی جان کو خطرہ لا حق رہے گا۔۔
سیف اللہ نے طاہرہ کو علاج کروانے سے منع کر دیا۔اسے کچھ نہیں چاہیے تھا۔۔ اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔۔ اس کا کھیتی باڑی کا کام بھی کافی اچھا تھا۔۔وہ دونوں میاں بیوی خوش تھے مگر طاہرہ نہ مانی ۔۔
سیف اللہ اس کی ضد کے آگے ہار گیا اور یوں چھوٹے سے آپریشن کے چار ماہ بعد ہی وہ امید سے ہو گٸ۔۔
سیف اللہ اس کا بہت خیال رکھتا۔ زمین پر پیر نہیں دھرنے دیتا تھا۔۔ پھل دودھ دہی مکھن ۔۔ وہ ہر طرح سے اسے اچھی خوراک دیتا اس کا دھیان رکھتا مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔
ڈیلیوری کے وقت طاہرہ ایک ننھی پری سیف اللہ کی گود میں ڈال کر خود اسے دغا دے گٸ۔۔۔ اس نے اپنی جان جوکھن میں ڈال کر سیف اللہ کی خواہش پوری کی تھی۔۔
سیف اللہ نے اس پری کا نام عاٸشہ رکھا۔۔۔ عاٸشہ کی خالہ یعنی احمر کی ماں اسے سنبھالے رکھتی جب سیف اللہ کھیتوں سے لوٹتا تو اپنی پری کو خود ہی سنبھالتا۔۔عاٸشہ ایک سال کی تھی جب شدید طوفان اور بارش کی وجہ سے سیف اللہ کی ساری فصل تباہ ہو گٸ۔۔ اس کی پورے سال کی کماٸ ایک رات مں تباہ ہو گٸ۔۔۔کچھ دن تو سیف اللہ کافی پریشان رہا پھر عاٸشہ کو نمونیا ہو گیا جس وجہ سے وہ مزید پریشان ہو گیا۔۔۔علاج کی خاطر پھوٹی کوڑی نہیں تھی۔۔اس لیے عاصمہ (احمر کی ماں)سے منت کی کہ وہ شیراز سے چند پیسے لے دے۔۔یوں علاج کا خرچہ نکل آیا۔۔۔ اور عاٸشہ کا علاج اچھی طرح ہو گیا۔۔۔
عاٸشہ کی عمر دو سال ہوی تو رباب پیدا ہوی ۔۔۔ عاصمہ نے کبھی عاٸشہ اور اپنی اولاد میں فرق نہیں کیا۔۔ اور پھر ایک دن۔۔۔کھیتوں سے گزرتے وقت عاصمہ کو ایک زہریلے سانپ نے ڈس لیا ۔۔۔کوشش کے باوجود بھی وہ زندہ نہ بچ سکی۔۔اور عاٸشہ ایک بار پھر ماں کی شفقت سے محروم ہو گٸ۔۔۔شیراز اپنی بیوی کے مرنے پر انتہای دکھی تھا۔۔ اس دن چند لوگوں کی باتوں میں آکر اس نے سیف اللہ کا گریبان پکڑ لیا۔۔
تیری بیٹی منحوس ہے۔۔پیدا ہوتے ہی ماں کو کھا گٸ۔۔پھر تیرا کاروبار تباہ ہوا اور اب میری بیوی۔۔۔۔
آٸیندہ مجھے یہ لڑکی یہاں دکھای نہ دے۔۔۔ سیف اللہ آنسو پونچھتا اپنی بیٹی سے لپٹ گیا۔۔۔ ایک ہی تو اولاد تھی جو اسے اتنی بڑی قربانی کے بعد ملی تھی۔۔ اس دن کے کچھ عرصے بعد چار سالہ عاٸشہ کو شہر ایک مدرسے میں داخل کروا کر سیف اللہ پر سکون ہو گیا تھا۔۔ کبھی کبھار ملنے چلا جاتا مگر گاٶں واپس نہیں لایا تھا۔۔۔
شیراز کے گھر کے پاس پہنچ کر وہ اپنی سوچوں سے باہر نکلا۔۔۔ آنسوو صاف کرتا وہ اندر داخل ہوا۔۔،۔
سامنے صحن میں شیراز اپنے چند دوستوں کے ساتھ بیٹھا کپیں ہانک رہا تھا۔۔۔وہ پچاس سالہ ادھیڑ عمر شخص تھا۔۔مگر کہیں سے بھی وہ پچاس سالہ نہیں لگتا تھا۔۔اس کی سوٹڈ بوٹڈ پرسینلٹی سے وہ تیس پینتیس برس کا مضبوط مرد تھا۔۔۔
مجھے ضروری کام ہے مہربانی کر کے ذرا میرے ساتھ آٸیے۔۔۔
سیف اللہ نے آتے ہی مدعے کی بات کی۔۔
کیا بات ہے یہیں بتاو۔۔۔ شیراز نے حقارت سے اس کے سادے سے پھٹے ہوے کپڑوں کو دیکھتے بے زارگی سے کہا۔۔
میری بیٹی اس رشتے سے خوش نہیں ہے اور میں اس کی مرضی کے خلاف نہیں جا سکتا ۔۔اس لیے منگنی کی رسم نہیں ہوگی۔۔
سیف اللہ نے سیدھی سیدھی بات کی۔۔ شیراز نے غصے سے اسے گھورا تھا مگر چار لوگوں کے سامنے وہ جزباتی ہو کر اپنی عزت خراب نہیں کر سکتا تھا۔۔
ٹھیک ہے پھر میرے پیسے لوٹا دو۔۔
شیراز نے نارمل رہ کر کہا
میں بہت جلد آپ کا قرضہ اتار دوں گآ۔۔
سیف اللہ مضبوط لہجے میں کہہ کر پلٹا مگر شیراز کی آواذ نے اس کے قدم روک لیے۔۔۔
بہت جلد نہیں آج شام تک۔۔
سیف اللہ بنا پلٹے ہی درواذے کی طرف بڑھ گیا۔۔ جو بھی تھا اس کی بیٹی کی زندگی کا سوال تھا وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتا تھا۔۔
درواذے پر کھڑے احمر کی طرف اس کی نظر پڑی جو قہر الود نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔۔وہ اسے نظر انداذ کرتا گھر سے نکل گیا۔۔
************
سلطان فریش ہو کر ڈاٸننگ ہال میں آیا تو دادا سردار کو وہیں بیٹھے پایا۔۔
سلام دادا سردار آپ کب آۓ۔۔۔
ان کے پاس بیٹھتے وہ گویا ہوا۔۔
وعلیکم سلام۔۔اٹھ گیا میرا شہزادہ۔۔ ہم تو رات ہی آ گے تھے مگر تم سو رہے تھے اس لیے تنگ نہیں کیا۔۔
دادا سردار نے اس کے کندھے پر تھپکی دیتے کہا۔۔۔
جی تھک گیا تھا تو جلدی سو گیا۔۔۔
اس نے وضاحت دی ۔۔۔
چلو اچھا ہے۔۔۔ اپنے باپ اور بھاٸیوں سے بھی مل لینا۔۔۔
دادا سردار کہتے ملازمہ کی طرف متوجہ ہوے جو ناشتہ سجا رہی تھی۔۔۔ جبکہ سلطان اٹھ کر اپنے بھاٸیوں کے کمرے میں گھس گیآ۔۔۔
کچھ دیر میں سلطان اپنی چھوٹے اور لاڈلے بھاٸیوں کو بھی کمرے سے باہر لے آیا تھا۔۔
وہ دونوں بھای جڑواں تھے مگر ان کی شکلیں مختلف تھیں۔۔۔
سب سے بڑا ریاض تھا اس کے بعد سلطان اور پھر ایاض اور فیاض تھے۔۔ان دونوں کی عمر سترہ برس تھی۔۔
دادا سردار کے دو بیٹے تھے۔۔۔ صفدر اور خضر۔۔۔ صفدر کی شادی ان کی خالہ زاد سے ہوی تھی اور خضر نے پسند کی شادی کی تھی۔۔
شاٸستہ یوں تو کافی اچھی عورت تھیں مگر تھوڑی مزاج کی تیز تھیں۔۔جبکہ صفدر کی بیوی کبریٰ سنجیدہ طبیعت کی مالک تھیں۔۔ وہ کسی سے زیاہ میل جول نہیں رکھتی تھیں۔۔
شاٸستہ کی دو بیٹیاں فاریہ اور ماہنور تھیں جبکہ کبریٰ کے چار بیٹے تھے۔۔ ریاض ،سلطان اور ایاض ،فیاض۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابا جان ہم دونوں ذرا گھوم گھام کر آتے ہیں کافی دن ہو گے گاٶں کو دیکھے ہوے۔۔
ایاض نے صفدر کو بتایا ساتھ ہی فیاض کو آنکھ ونک کی۔۔
ہاں ہاں جاو کیا پتا کوی نٸ لڑکی پیدا ہو گٸ ہو جو ان چند دنوں میں جوان ہو گٸ ہو۔۔۔
صفدر نے ان کے ٹھرک پن پر چوٹ کی تھی۔۔
بس کر دیں بابا جان ہم معصوم بچے ہیں آپ کو تو بہانہ چاہیے بس۔۔
فیاض نے معصومیت کی بھر پور اداکاری کی تھی۔۔
صفدر نے اس کی معصوم شکل دیکھ کر اسے زبردست گھوری سے نوازا تو وہ دونوں کھسیانے ہوتے باہر نکل گے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے فاریہ فاریہ ارے کمبخت ماری ادھر آ جا کچھ شرم کر لے جب دیکھو فون میں گھسی ہوتی ہے ادھر آ ۔۔شاٸستہ مسلسل فاریہ کو کوسنے دے رہی تھی۔۔
اماں آ رہی ہوں کیا ہو گیا۔۔
فاریہ بے زار سی ہوتی کمرے سے نکلی۔۔
چل میری چٹیا باندھ دے کھلے بالوں میں گرمی لگ رہی ہے۔۔۔
شاٸستہ نے کنگھا اسے پکڑاتے کہا
اماں کیا ہے سریلی سے کہو نا۔۔
فاریہ تنک گٸ۔۔
سریلی چھت پر جاڑو لگا رہی ہے تو آ جا میری بچی چل شاباش۔۔۔
شاٸستہ نے اس بار پیار سے کہا تو وہ بے دلی سے اس کی کنگھی کرنے لگی۔۔
ریاض کی وہاں سے گزرتے ہوے فاریہ پر نظر پڑی تو مسکرا کر آنکھ ونک کرنا نہیں بھولآ۔۔
ارے آرام سے گنجی کرے گی کیا۔۔؟
فاریہ نے ریاض کے آنکھ ونک کرنے پر غصہ شاٸستہ کے معصوم بالوں پر نکالا تھا۔۔۔
************
دادا سردار لوٹ تو آۓ ہیں اب بات کر لو نا ان سے ہماری شادی کی۔۔
وہ دونوں آج بھی جھیل پر بیٹھے تھے۔
دیکھو رباب میں مناسب وقت دیکھوں گا پھر بات کروں گا تمہیں پتا ہے نا دادا سردار کے موڈ کا۔۔۔
سلطان نے اسے تسلی سے بتایا۔۔
اچھا ٹھیک ہے مگر جلدی کرنا۔۔۔
رباب اس کے کندھے پر سر رکھے مسکرا کر بولی تو سلطان نے اس کے گرد بازو کا حلقہ بنا لیآ۔۔۔
وہ دونوں کافی دیر باتیں کرتے رہے پھر سلطان فاریہ کو گاوں میں چھوڑ کر خود دوسرے راستے سے گھر لوٹ آیا۔۔
اسے ہر طرف عجیب سی خاموشی محسوس ہوٸ تھی۔۔
حویلی میں داخل ہوتے ہی اس کے پیروں تلے سے زمین سرک گٸ۔۔۔
صحن میں چارپاٸ پر فیاض کی خون میں لت پت لاش پڑی تھی ارد گرد ساری عورتیں بیٹھی سینے پیٹ رہی تھیں۔۔
امی جان ی یہ کیا ہے۔؟ یہ کس نے کیا۔۔
وہ ایک دم ہوش میں آتا کبریٰ کے پاس پہنچا مگر وہ تو آنکھی پھاڑے ساکت سی لاش کو دیکھے جا رہی تھیں۔۔۔
چچی چچی کچھ بولیں بتاو کوی ۔۔ یہ کیسے ہوا۔۔
اب وہ شاٸستہ کے پاس گیا ۔۔ مگر سب خاموش ۔۔
غصے میں وہ گھر سے باہر نکل گیا۔۔۔ نجانے سب مرد کہاں مر گے تھے۔۔۔
کچھ دور پہنچ کر اسے سب لوگ بیٹھے دکھای دیۓ۔۔۔
وہ تیزی سے ان تک پہنچا۔۔
بابا جان۔۔دادا سردار ی.. یہ سب۔۔
اس نے آگے بڑھ کر نڈھال سے دادا سردار اور صفدر کو جھنجھوڑا۔۔
کس نے کیا یہ میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔
اس نے غصے سے دھاڑ کر کہا۔۔۔ سب لوگ سہم کر دو قدم پیچھے ہو گے۔۔
سردار سلطان۔۔ و وہ ۔۔ شیراز ملک کے بیٹے احمر نے جانے انجانے میں۔۔۔
ایک شخص نے ہمت کر کے کہا۔۔۔
احمر اپنے مقصد کو ناکام ہوتا دیکھ کر غصے سے بندوق لیے سیف اللہ کے پیچھے لپکا۔۔ ابھی وہ کچھ کرتا عین اسی وقت ایاض اور فیاض نے اسے جکڑ لیا۔۔
اے مجنوں ہمارے گاوں میں قتل و غارت نہیں چلے گآ
فیاض نے مسکرا کر اس کا کندھا تھپتھپایا۔۔۔ اے دور ہٹ جا یہاں سے ۔۔۔۔۔
احمر ہوش کھو بیٹھا تھا۔۔اس نے سیف اللہ کو گریبان سے پکڑ کر ایک طرف دھکا دیا۔۔ سیف اللہ زمین پر جا لگا۔۔ وہ آنکھیں پھاڑے احمر کو دیکھنے لگا۔۔
ادھر سے گزرنے والے لوگ بھی احمر کو روکنے لگے تھے۔۔
فیاض نے آگے آکر زوردار تھپڑ احمر کے منہ پر جڑ دیآ۔۔
اسے لے جاو بے غیرت کہیں کا ۔۔۔
فیاض نے لوگوں کو کہا مگر احمر غصے سے خود کو چھڑاتا اس کے پیچھے لپکا اور آناََ فاناََ چھے کی چھے گولیاں فیاض کا بدن چھلنی کر گٸیں۔۔
وہاں موجود سب لوگ ایک لمحے کے لیے ساکت ہو گے۔۔
احمر ہاتھ میں بندوق لیے حیرت سے سامنے پڑی لاش کو دیکھنے لگآ۔۔
لوگ بھاگ کر اس کے بے جان وجود کے پاس پہنچے۔۔
فیاض ساکت کھڑا اپنے بھای کی لاش دیکھ رہا تھا۔۔
ابھی تو وہ بلکل ٹھیک تھا ۔۔اور اب وہ زمین پر ڈھیر ہو چکا تھآ۔۔
احمر ہوش میں آتا بندوق وہیں پھینکے بھاگ گیا۔۔
لوگوں نے جب اسے دھونڈنے کی کوشش کی تو وہ کہیں نہ ملآ۔
لاش کو حویلی پہننچایا گیا ۔۔دادا سردار اور سب مرد گاڑی لیے سارا علاقہ چھان چکے تھے مگر احمر کو نہ ملنا تھا سو وہ نہ ملآ۔۔۔
سلطان غصے سے آگ بگولا ہو چکا تھآ۔۔
تم سب لوگ مر گے تھے کیا۔۔ کمینو ۔۔۔ تماشہ دیکھتے رہے۔۔مجھے وہ کمینہ ہر حال میں چاہیے ورنہ اس گاٶں کو آگ لگا دوں گآ۔۔
سلطان غصے سے پاگل ہوتا چلایا تھا۔۔
ریاض نے آگے بڑھ کر اسے پکڑا ۔۔۔ سلطان یہ وقت جوش کا نہیں ہے ۔۔ ہوش کرو۔۔ عقل سے کام لو تم سردار ہو یہاں کے۔۔ صبر رکھو میرے بھای۔۔
ریاض اسے ٹھنڈا کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگا مگر سلطان کسی طور برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔۔
وہ خود کو چھڑاتا حویلی کی طرف بھاگا تھا ریاض اور ایاض اس کے پیچھے بھاگے تھۓ۔۔۔
فیاض دیکھ اٹھ جا۔۔ فیاض میں تیرے قاتل کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔
وہ فیاض کی لاش کے سرہانے بیٹھا چیخا تھآ۔۔اسے دیکھ کر وہاں کی عورتیں خوف کھا رہی تھی۔۔۔
**************
ہر طرف فیاض کے قتل کی خبر پھیل چکی تھی۔۔احمر کو مسلسل تلاش کیا جا رہا تھا۔۔ شیراز بھی پریشان تھا کہ اب نجانے کیا ہو گا۔۔۔ سیف اللہ اور عاٸشہ مطمٸن تھے چلو احمر والے معاملے سے جان چھوٹی تھی مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ ابھی تو جان پھسنا باقی ہے۔۔۔
فیاض کی تدفین کو آج چوتھا دن تھا۔۔۔ سلطان غصے سے پاگل ہوا جا رہا تھا۔۔ اس نے غصے میں رباب سے رابطہ کرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔۔ہر وقت احمر کی تلاش میں سر گرداں رہتا مگر وہ آس پاس کے کسی بھی علاقے میں موجود نہیں تھا اچانک وہ غاٸب کیسے ہو گیا کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔۔
سلطان پتر ۔۔۔ کل پنچاٸت لگے گی۔۔ تو پھر تو نے کیا سوچا ہے۔۔
اس وقت وہ سب مرد حضرات لان میں بیٹھے گہری سوچوں میں غرق تھے جب دادا سردار نے سلطان کو مخاطب کیا تو وہ چونکا۔۔
فیصلہ کیا کرنا ہے دادا سردار۔۔۔ وہ کمینہ تو فرار ہو گیا ہے اسے ڈھونڈنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔۔
سلطان نے آہ بھر کر کہآ۔۔غصہ اس کے چہرے پر عیاں تھا۔۔۔
صفدر پتر تو بتا تیرا تو لخت جگر تھا۔۔۔
دادا سردار نے صفدر کو مخاطب کیا۔۔ان کی آواذ رندھی ہوی تھی۔۔ان کا لاڈلہ پوتا جو بچھڑ گیا تھآ۔۔۔
بابا جان۔۔میں کیا بتاٶں۔۔کسی کو مارنے سے میرا لال لوٹ تو نہیں آۓ گا نا۔
صفدر رندھی آواذ میں آنکھوں میں آٸ نمی کو صاف کرتے بولے۔۔
دادا سردار نے خضر کی جانب دیکھا اور پھر ریض اور ایاض کی طرف دیکھا مگر ان کے چہرے پر دکھ اور غصے کے علاوہ کچھ نہیں دکھای دیآ۔۔
اتنی عمر ہو گٸ مگر تم سب کو عقل نہیں آٸ۔۔ فیصلہ میں ہی کروں گا بور کسی کو کوٸ اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔۔۔
داداسردار تاسف سے کہتے اٹھ گے۔۔باقی سب لوگوں نے نظروں کا تبادلہ کیا نجانے کیا فیصلہ ہو گآ۔۔۔
***********
بابا ۔۔۔ کل پنچاٸت کیا فیصلہ کرے گی۔۔۔ ان کا تو وارث مرا ہے ۔۔ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ غصے میں غلط فیصلہ کر لیں۔۔
عاٸشہ نے سیف اللہ کو پانی کا گلاس تھماتے ہوے سوال کیا
پتہ نہیں کیا ہو گآ۔۔ آج سے پہلے گاٶں میں کبھی بھی قتل وہ غارت نہیں ہوا۔۔۔سردار نے کبھی گاٶں والوں کی خیر خبر نہیں لی مگر اس کے باوجود کبھی قتل یا زیادتی کا قصہ نہیں ہوا۔۔۔بس اللہ خیر کرے۔۔
سیف اللہ گلاس پکڑے سوچوں میں گم بولا۔۔
بابا ہم کہیں اور چلے جاتے ہیں ۔۔ میرا دل گھبراتا ہے بہت۔۔۔مجھے اس گاٶں میں گھٹن ہوتی ہے۔۔۔
وہ اپنے باپ کے پاس بیٹھتی اداسی سے بولی۔۔
میری بچی فکر مت کرو انشا۶اللہ میرا اللہ سب بہتر کرے گا۔۔۔
سیف اللہ نے اسے تسلی دی تو وہ گہری سانس لیے اٹھ گٸ۔۔۔
************
ہمیں خون بہا میں لڑکی چاہیے۔۔۔۔۔۔۔
دادا سردار کے فیصلے پر پوری پنچاٸت میں موت سا سناٹا چھا گیا۔۔۔ شیراز کے تو سر پر ساتوں آسمان ٹوٹ پڑے تھے۔۔سلطان بھی حیرت سے انہیں دیکھنے لگا۔۔
ی یہ کیا کہہ ر ہے ہیں آپ۔۔ایسا نہیں ہو س سکتا۔۔۔
وہ گلہ تر کرتا بولا تو دادا سردار نے خود آلود نظروں سے اسے گھورا۔۔
ہمیں خون بہا میں تین لڑکیاں چاہیے ہیں تمہارے خاندان کی اور جب وہ کمینہ ہمیں مل گیا اس دن اس کی زندگی بھی ختم کروں گآ۔۔۔
دادا سردار غصے سے دھاڑے تھے۔۔ سلطان نے پریشانی سے ماتھا مسلا مگر وہ کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔۔
م مگر م میری تو ایک ہی بیٹی ہے م میں ک کیسے۔۔۔۔
شیراز کی ہواٸیاں اڑ گٸیں تھیں۔۔
ہمیں کچھ نہیں پتا تیرے خاندان کی تین لڑکیاں کل شام تک تیار ہونی چاہیے ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔
دادا سردار نے غصے سے وارننگ دی ۔۔ وہاں کوٸ شخص ایسا نہ تھا جو کچھ کہنے کی ہمت کرتا۔۔
شیراز عجیب سی کشمکش میں مبتلا تھا۔۔
....
بابا کیا ہوا سب ٹھیک ہے نا۔۔ عاٸشہ نے سیف اللہ کو اداس بیٹھے دیکھا تو پوچھا
عاٸشہ میری سمجھ میں نہیں آرہا میں کیا کروں۔۔میں بری طرح پھنسا ہوا ہوں۔۔
وہ بے بسی سے گویا ہوا تھا۔۔
ہوا کیا ہے بابا۔۔۔؟ اس بار عاٸشہ بھی فکر مند ہوٸ تھی۔۔
پنچاٸت میں خون بہا میں تین لڑکیاں مانگی گٸیں ہیں۔۔۔ شیراز نے چند دور کے رشتہ داروں کی لڑکیوں کا انتظام کیا تھا مگر وہ لوگ ضد پر ہیں کہ انہیں رباب اور اس کے خاندان کی دو اور لڑکیاں ہی ونی میں چاہیے۔۔۔
سیف اللہ نے دکھ سے کہا
تو پھر کیا کہا خالو نے۔۔
عآٸشہ اب مزید فکر مند ھوی باپ کے چہرے کے تاثرات سےکچھ برا ہونے کا خدشہ پیدا ہوا تھآ۔۔
شیراز نے رباب کے ساتھ ساتھ تمہیں اور بریرہ کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔۔۔بریرہ عاٸشہ کی چچا زاد تھی جو والدین کی وفات کے بعد اپنے ننھیال میں رہتی تھی۔۔
بابا۔۔۔۔ عاٸشہ سکتے کی سی کیفیت میں وہیں جم گٸ۔۔
مجھے معاف کر دے بیٹا۔۔۔شیراز مج۶ پر بہت زور دے رہا ہے اور اب تو سردار تک بھی یہ بات پہنچ گٸ ہے اگر میں نے منع کیا تو مجھے اس کے بدلے میں یا تو زمین دینی پڑے گی یا پھر اپنی جان۔۔
سیف اللہ زارو قطار رو رہا تھا۔۔
میں تیرے فیصلے کے خلاف نہیں جاٶں گا اگر تم خوش نہیں تو میں یا تو زمین دے دوں گا یا اپنی جان۔۔۔ مگر تجھ پر زبردستی نہیں کروں گآ۔۔
۔
بابا ۔۔میں میں تیار ہوں۔۔
اسے اتنی آواذ کھآٸ سے آتی محسوس ہوی تھی۔۔ اپنے باپ کی خاطر اسے قربانی دینی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ سیف اللہ اسے سینے سے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا تھا۔۔ مگر عاٸشہ کی آنکھیں خشک تھیں۔۔اس نے ایک آنسوو تک نہ بہایآ۔۔۔
******
بابا یہ ممکن نہیں ہے میں۔۔ میں کیسے شادی کروں ا ور کیا ضمانت ہے کہ میری شادی کس سے ہو رہی ہے۔۔نجانے وہ لوگ کس کا نکاح کس سے پڑھوا دیں۔۔
رباب حلق کے بل چلاٸ تھی۔۔
آہستہ بولو رباب۔۔اور نکاح جس سے بھی ہونا تو ان کے ہی بیٹوں سے ہے نآ۔۔۔ تم فکر مت کرو وہ لوگ تمہارے ساتھ کوٸ زیادتی نیں کریں گے تم خوش رہو گی۔۔۔
شیراز نےاسے باور کروانا چاہا تھا۔۔
مگر میں سلطان کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کروں گی یہ بتا دیجیے گا انہیں۔۔
رباب کہتی یہ جا وہ جآ۔۔
شیراز پریشانی سے صوفے پر ڈھے گیا۔۔۔۔ سردار نے اسے بتا دیا تھا کہ نکاح کس کس کا ہے مگر اب وہ رباب کی بات پر پریشان ہو گیا تھا۔۔
کس مصیبت میں پہنسا دیا اس لڑکے نے۔۔
وہ بڑبڑاتا ہوا اٹھ گیآ۔۔
**************
بابا یہ سب کیا ہے؟ میں کوی شادی نہیں کروں گا آپ سلطان اور ایاض کا نکاح کروا دیں مگر مجھے رہنے دیں۔
ریاض صفدر کو دو ٹوک کہ گیا۔۔
شادی تو کرنی ہی ہے نا تو پھر اس میں کیا مسلہ ہے۔۔۔ ؟
صفدر نے بھنویں سکیڑی تھیں۔۔
بابا وہ ونی ہو کر آرہی ہے۔۔
اس نے کچھ باور کرواند چاہا تھآ۔۔
تم جانتے ہو ریاض کہ ہمارے ہاں ونی میں آٸ لڑکی پر ظلم کے پہاڑ نہیں توڑے جاتے۔۔وہ بھی اس گھر کے فرد جیسی ہی ہوتی ہیں۔ بابا جان نے کچھ سوچ کر ہی فیصلہ لیا ہے ۔۔۔
صفدر سختی سے گویا ہوے۔۔
مگر مجھے کوی اور پسند ہے۔۔۔
وہ اب بھی بضد تھا۔۔
تو بھول جاو اسے۔۔
غصے سے کہہ کر وہ اٹھ گے۔۔جبکہ ایاض مٹھیاں پینچ کر رہ گیا۔۔۔
**********
سرخ جوڑے میں ملبوس میک آپ سے پاک چہرے پر حجاب لیے ۔۔وہ شہزادی لگ رہی تھی۔۔ آنکھ سے ایک آنسو بھی نہ نکلا تھا۔۔ وہ ساکت سی آٸینے کے سامنے کھڑی تھی۔۔
سیف اللہ نے آ کر اس کے ماتھے پر بوسا دیا اور خوش رہنے کی دعا دی۔۔۔
بابا اپنا خیال رکھیے گا۔۔ وہ سپاٹ چہرہ لیے ان سے گویا ہوی۔۔
سیف اللہ نے سر ہلا کر اسے چارپای پر بٹھایا اور لمبی سی چادر اوڑھا دی۔۔
نکاح خواں کمرے میں داخل ہوا ۔۔اس کے ساتھ گواہان بھی تھے۔۔
ایجاب و قبول کے مراحل طے کر کے اب وہ کسی اور کے نام ہو چکی تھی۔۔اس کی آنکھ سے آنسو اب بھی نہیں نکلا تھا۔۔
........
وہ بہت من لگا کر تیار ہوی تھی۔۔اسے پورا یقین تھا کہ اس کا نکاح سلطان کے ساتھ ہی ہو گآ۔۔ کچھ ہی دیر میں نکاح خواں اندر داخل ہوے تو نکاح شروع ہوا۔۔۔
مولوی کے منہ سے سلطان کے علاوہ کسی اوع شخص کا نام سن کر وہ حیرت زدہ ہوی۔۔نظر اٹھا کر باپ کو دیکھا تو اس نے سر جھکا لیا۔۔۔ بابا۔۔۔ رباب نے باپ کو آواذ لگای۔۔
جلدی سے نکاح کریں وقت کم ہے۔۔
شیراز نے اسے نظرانداز کرتے مولوی صاحب کو مخاطب کیا ۔۔رباب ضبط کیے بیٹھی رہی۔۔ کانپتے ہاتھوں سے سآٸن کیے اور ایک شکوہ کناں نظر باپ پر ڈال کر رخ پھیر لیا۔۔
........
ماں باپ تو تھے نہیں ۔۔ مگر نانا نانی نے خوب پیار دیا تھآ۔۔۔
ان کی وفات کے بعد ماموں اور ممانیوں نے اپنے اصل چہرے دکھانے شروع کر دیے تھے۔۔ وہ ہر وقت اسے کوستے رہتے تھے۔۔وہ تنگ آ“ چکی تھی اپنی زندگی سے۔۔۔
مگر اپنی شادی کا سن کر وہ مطمٸن ہو چکی تھی۔۔چلو کم از کم اس جہنم سے تو جان چھوٹنے والی تھی۔۔آگے کی بعد میں سوچی جاۓ گی۔۔
سرخ لہنگا پہنے وہ کمرے میں بیٹھی تھی۔۔ نکاح کے بعد وہ عجیب سی کیفیت کا شکار ہو گٸ تھی۔۔
بریرہ او بریرہ اٹھ جا۔۔ اب جان چھوڑ ہماری۔۔چل تیریرخصتی کا وقت ہو گیا ہے۔۔۔
ممانی نے آکر غصے سے اسے گھورکر کہا تو وہ لہنگا سنبھالتی اٹھ کھڑی ہوی۔۔۔
*******
تینوں دلہنوں کو ہال میں بٹھایا گیا تھآ۔۔ وہ تینوں ہی گھونگٹ میں تھیں۔۔ ہال میں صرف گھر کی خواتین ہی موجود تھیں۔۔
بھابھی اب جلدی سے منہ دکھاٸ کی رسم پوری کریں کافی دیر ہو گٸ ہے ۔۔۔
شاٸستہ نے پرجوش سی ہو کر کبریٰ سے کہا تو وہ سر ہلاتی آگے بڑھیں۔۔۔
سب سے پہلے انہوں نے اپنے بڑے بیٹے ریاض کی دلہن کا گونگھٹ اٹھایآ۔۔
ماشا۶اللہ۔۔۔ انہوں نے مسکرا کر کہا۔ اور ایک سونے کی انگوٹھی اس کی انگلی میں پہناٸ۔۔
پھر انہوں نے سلطان کی دلہن کا گھونگھٹ اٹھایآ۔۔
ماشا۶اللہ۔۔۔ اس بار سب نے بیک وقت تعریف کی۔۔۔وہ تھی ہی اتنی خوبصورت میک اپ سے پاک چہرہ لیے نظریں جھکاے بیٹھی تھی۔۔
سونے کی انگوٹھی پہنا کر پھر وہ ایاض کی دلہن کے پاس گٸیں۔۔ گونگھٹ اٹھا کر دیکھا۔۔۔۔ ماشا۶اللہ۔۔ اس بار بھی سب نے مسکرا کر تعریف کی اور کبریٰ انگوٹھی پہنا کر پیچھے ہٹ گٸیں۔۔۔
چلو سریلی فاریہ اور مانو ۔۔۔تینوں بھابھیوں کو اندر لے جاو ان کے کمروں میں۔۔
شاٸستہ نے حکم دیا۔۔۔
فاریہ ایک نظر غصے سے تینوں دلہنوں کو دیکھتی اندر چلی گٸ۔۔ سب نے حیرت سے اسے دیکھا ۔۔
چلو سے دفع کرو۔۔تم دونوں چلو میرے ساتھ۔۔۔
شاٸستہ اسے دفع کرتی آگے بڑھیں۔
میں تو سلطان بھیا کی دلہن کو لے جاٶں گی قسم سے بہت سوہنی ہیں۔۔
مانو نے پر جوش ہو کر کہا۔۔۔
سریلی تو جا کچن میں۔۔۔ شاٸستہ تو ریاض کی دلہن کو لے چل میں ایاض کی دلہن کو لے چلتی ہوں۔۔
کبریٰ سریلی کو ساٸیڈ پر کرتی پھر شاٸستہ سے مخاطب ہوٸیں۔۔۔
.........................................
شآٸستہ اسے کمرے میں بٹھا کر چلی گٸ تھی۔۔ اس کی گردن میں مسلسل درد ہو رہا تھآ۔۔بیٹھے بیٹھے کمر اکڑ چکی تھی۔۔ انتظار کرتے کرتے تھک گٸ تو اٹھ کر آٸینے کے سامنے کھڑی ہو گٸ۔۔۔ دوپٹہ پن میں پھسا ہوا تھااس نے دوپٹہ ٹھیک کرنے کے لیے اسے پکڑآ۔۔۔ ۔۔۔۔ ابھی اس نے دوپٹہ کھینچا ہی تھا کہ درواذہ کھلنے کی آواذ پر چونکی۔۔۔ مڑ کر دیکھا تو ٹھٹھک گٸ۔۔
ریاض سفید شلوار قمیض میں ملبوس چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ لیے اندر داخل ہوا۔۔
اسلام و علیکم۔۔ مسکرا کر سلام کرتا وہ صوفے پر بیٹھ کر جوتے اتارنے لگا۔۔
بریرہ کو اس کی مسکراہٹ جھوٹی لگی تھی۔۔جیسے وہ کوی درد چھپانا چاہ رہا ہو۔۔
وعلیکم سلام۔۔۔ ہلکے سے جواب دے کر وہ سر جھکا کر کھڑی ہو گٸ۔۔ شرم سے وہ ہل بھی نہیں پآ رہی تھی۔۔
نظر بار بار بھٹک کر ریاض کی طرف جا رہی تھی۔۔ وہ بہت وجیہہ نوجوان تھا۔۔۔ جوتے اتار کر وہ ڈریسنگ روم میں گھس گیآ۔
بریرہ سر جھٹک کر رہ گٸ۔۔۔۔۔ کافی دیر جب وہ ڈریسنگ روم سے باہر نہ نکلا تو وہ کپڑے بدلنے لگی۔۔۔۔جو شاٸستہ صوفے پر ہی رکھ گٸ تھی۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ آرام دہ کپڑوں میں بستر میں موجود تھی۔۔
ریاض ڈریسنگ روم سے باہر نہیں نکلا تھا۔۔ وہ یوں نظر انداذ ہونے پر دکھی ہوی تھی۔۔۔۔ کچھ دیر بعد ڈریسنگ روم کا درواذہ کھلا اور ریاض سادے سے ہلکے کپڑوں میں باہر نکلا۔۔بریر کو جاگتے دیکھ کر اس کی طرف بڑھا اور گہری سانس لے کر اس کے قریب بیٹھ گیآ۔۔
میں جانتا ہوں کہ یہ شادی کسی کی مرضی کے ساتھ نہیں ہوٸ۔۔مگر میں کوشش کروں گا کہ آپ کو کبھی کسی چیز کی کمی نہ ہو۔۔
اس نے بریرہ کے معصوم چہرے کو دیکھتے ہوے کہا۔۔
بریرہ نے معومیت سے اسے دیکھآ۔۔
میں کسی اور سے محبت کرتا ہوں۔۔مگر مجھے کچھ وقت چاہیے اس رشتے کو قبول کرنے کے لیے۔۔۔ میں بہت ڈسٹرب ہو چکا ہوں۔۔۔
وہ اپنی بات سے بریرہ کو ساکت کر گیا۔۔یعنی اس کی آزماٸشیں ختم نہیں ہوی تھیں۔۔یہاں بھی وہ ایک ان چاہا وجود تھی۔۔۔
ریاض اسے ساکت چھوڑ کر بیڈ کے دوسرے کونے پر ٹک گیآ۔۔
وہ پھٹی پھٹی سی آنکھوں سے اس کی پشت دیکھنے لگی۔۔
**************
وہ بیڈ پر بیٹی انگلیاں مروڑنے میں مصروف تھی۔۔ سر جھکا کر وہ مسلسل درود پاک کا ورد کر رہی تھی۔۔دروازہ کھلنے کی آواذ پر اس کی تیز دھڑکنیں مزید تیز ہوٸیں ۔۔۔ جھکا سر مزید جھکا لیآ۔۔
سلطان نے بیڈ پر بیٹھے اس نازک وجود کو دیکھا۔۔۔ سر جھکا ہونے کی وجہ سے اس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا۔۔ گورے گورے ہاتھ جن کی انگلیاں مسلسل مروڑنے کی وجہ سے سرخ پڑ گٸ تھیں ۔۔۔۔ سلطان اسے نظر انداذ کرتا کپڑے لے کر ڈریسنگ روم میں چلا گیآ۔۔
عاٸشہ نے سر اٹھا کر ڈریسنگ روم کے بند درواذے کو دیکھا۔۔۔
تھوڑی دیر بعد درواذہ کھلنے کی آواذ پر اس کی دھڑکنیں تیز ہوی تھیں۔۔
چینج کر لو کافی رات ہو گٸ ہے۔۔۔ اسے بدستور دلہن بنے بیٹھے دیکھ کر وہ زچ ہوا ۔۔
جی۔۔۔۔ مدہم سے آواذ اس کے کانوں سے ٹکرآٸ تو اس نے بے اختیار اس کا چہرہ دیکھآ۔۔
بڑی بڑی خوبصورت کالی آنکھیں۔۔ گلابی گال اور لرزتے ہونٹ۔۔ وہ بے انتہا خوبصورت تھی۔۔ آج سے پہلے اتنا مکمل حسن سلطان کی نظروں میں نہیں آیا تھآ۔۔وہ بے اختیار سا اسے دیکھے گیا۔۔۔
عاٸشہ کو پہلی بار ایک مرد دیکھ رہا تھآ۔۔اس نے ہمیشہ خود کو نا محرم کی نظروں سے بچا کر رکھا تھآ۔۔اسے سکون سا ملا تھا سلطان کے دیکھنے پر۔۔۔
وہ اٹھ کر ڈریسنگ روم میں چلی گٸ۔۔ سلطان درواذہ بند ہونے کی آواذ پر ہوش میں آیا۔۔۔
اس کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گٸ۔۔لیکن اگلے ہی پل س کے چہرے پر سنجیدگی پھیل گٸ۔۔
وہ ایسا شخص نہیں تھا جو ایک عورت سے کسی اور کے گناہ کا بدلہ لیتا۔۔اس کی ماں نے ہمیشہ اسے بڑوں کی عزت کرند سکھایا تھا خاص کر عورت ذات کی عزت وہ سب سے زیادہ کرتا تھآ۔۔
وہ بیڈ کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔۔ موباٸل اٹھا کر دیکھا تو رباب کے کٸ مسجز آۓ ہوے تھے۔۔۔ اسے افسوس ہوآ۔۔ کاش وہ دادا سردار سے کہہ دیتا کہ رباب سے نکاح کر دیں۔۔۔آنا تو اسے اسی گھر میں تھا مگر اس نے دیر کر دی۔۔۔
وہ سوچوں میں گم تھا جب عاٸشہ سادہ سے گلابی رنگ کے سوٹ میں سر پر حجاب سیٹ کیے باہر نکلی ۔۔۔
وہ ایک بار پھر یک ٹک اسے دیکھنے لگآ۔۔
م میں ن نماذ پڑھنا چاہتی ہوں۔۔۔
عاٸشہ نے تزبذب سی ہو کر اس سے کہا
ہا ہاں پڑھ لو وہ رہی جاۓ نماذ۔۔
سلطان نے چونک کر کونے میں پڑی جاۓ نماذ کی طرف اشارہ کیا۔۔
عاٸشہ سر ہلاتی جاے نماذ بچھا کر نماذ پڑھنے لگی۔۔وہ اس وقت چاند کا ٹکڑا لگ رہی تھی۔۔۔ سلطان اپنی کیفیت پر قابو پاتے ہوے ساٸیڈ لیمپ آف کر کے آنکھیں موند گیا۔۔۔۔۔
*********
وہ بیڈ پر بیٹھی کب سے سلطان کو مسجز کر رہی تھی مگر کسی ایک مسج کا بھی ریپلاٸ نہیں آیا تھا۔۔بیٹھے بیٹھے وہ زچ ہو چکی تھی۔۔۔اس نے کچھ سوچ کر کال ملاٸ۔۔۔ بیل جا رہی تھی مگر سلطان کال ریسیو نہیں کر رہا تھا۔۔ ایک دو تین اور پھر چار کالز ۔۔مگر جواب ندارد۔۔۔۔۔۔۔ اس نے غصے سے موباٸل ایک طرف پٹخا ۔۔۔ عین اسی وقت درواذہ کھلا اور ایاض اندر داخل ہوا۔۔۔ سفید شلوار قمیض پر بلیک واسکٹ پہنے۔۔ وہ بہت خوبرو لگ رہا تھا۔۔۔ اس کی ہلکی ہلکی سی داڑھی سے رباب نے انداذہ لگایا کہ وہ سترہ اٹھارہ سال کا نوجوان ہے۔۔رباب کی عمر بیس سال تھی۔۔مطلب اس کا شوہر عمر میں اس سے چھوٹا تھا۔۔۔۔۔؟؟؟
اسلام و علیکم۔۔۔
ایاض نے مسکرا کر سلام کیا۔۔
وعلیکم سلام۔۔اس نے بے رخی سے جواب دیا۔۔۔
آپ تھگ گٸ ہیں تو چینج کر لیں۔۔
ایاض نے اس کے چہرے پر بے زارگی دیکھ کر کہا
ہاں تھک گٸ ہوں بہت۔۔۔
رباب بھی تھکان زدہ سی کہنے لگی۔۔۔
ڈریسنگ روم وہاں ہے۔۔ ایاض اسے اشارے سے بتاتا خود واش روم میں گھس گیا۔۔وہ لہنگا سنبھالتی اٹھی اور چینج کرنے چلی گٸ۔۔ واپس لوٹی تو وہ بیڈ کے ایک کونے پر بیٹھا موباٸل یوز کر رہا تھا۔۔رباب کو آتا دیکھ کر موباٸل ایک طرف رکھآ۔۔
سلطان کا کمرہ کہاں ہے؟؟
اس نے ایاض کے سامنے کھڑے ہوتے پوچھآ۔
جی؟؟ ایاض نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔۔۔
سلطان ۔۔کا ۔۔کمرہ کہاں ہے؟
رباب نے آٸ برو اچکا کر اپنا سوال دوہرایآ۔۔
کیوں آپ کیوں پوچھ رہی ہیں۔۔ کچھ چاہیے؟
ایاض کو کچھ سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔۔
مجھے سلطان سے ملنا ہے وہ میری کال نہیں اٹھا رہا۔۔نجانے وہ وہاں کیا کر رہا ہو گآ۔۔
رباب نے فکر مندی سے کہا۔۔
ایاض پریشانی سے اسے دیکھنے لگا۔۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا بول رہی ہے۔۔۔
رباب اس کی پریشان سمجھ گٸ۔۔
میں اور سلطان ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔۔ بس میں کچھ دنوں میں تم سے طلاق لے لوں گی اور ان دونوں کی بھی کروا کر شادی کروں گی۔سلطان سے۔۔
رباب بے نیازی سے کہہ کر مقابل کو ساکت کر گٸ۔۔ یہ کیسے ممکن تھا۔۔مطلب اس کی بیوی اس کے نکاح میں رہ کر اس کے بھای کے ساتھ۔۔۔۔
ایاض آنکھیں پھاڑے رباب کو دیکھنے لگا جو اب بیڈ کی دوسری جانب بیٹھی موباٸل میں بزی ہو چکی تھی۔۔
غصے سے لب بھینچے وہ اٹھ کر کمرے سے نکل گیآ۔۔۔۔
************
اس کی آنکھ اذان کی آواذ سے کھلی۔۔اٹھ کر واش روم میں گٸ۔۔وضو بنا کر باہر نکلی تو اسکی نظر بستر پر سوۓ سلطان پر پڑی۔۔وہ دھیرے سے چل کر اس کے پاس آٸ اور ہاتھ بڑھا کر اس کا کندھا تھپتھپایا۔۔مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس نے دوبارہ ایسا ہی کیا مگر بے سود۔۔ وہ پریشانی سے انگلیاں مروڑنے لگی۔۔ پھر ہمت کرکے ہاتھ بڑھایا اور تھوڑا زور سے کندھا ہلایا تو اس نے کھسمسا کر ہلکی سی آنکھیں کھول دیں۔۔ وہ تو سرے سے بھول گیا تھا کہ کل اس کا نکاح ہوا ہۓ۔۔ عاٸشہ کو سامنے دیکھ کر اس کی آنکھیں پوری کھل گٸیں۔۔۔ اس کی دراز پلکیں جو وضو کرنے کی وجہ سے گیلی تھی۔۔۔ چہرے پر جگہ جگہ پانی کی بوندیں اسے مزید حسین بنا رہی تھیں۔۔
نماذ پڑھ لیں قضا ہو جاے گی۔۔۔
خود کو ایسے تکتا پا کر وہ کنفیوز ہوتی بولی تو وہ ہوش میں آتا واش روم میں گھس گیا۔۔ وضو کر کے لوٹا تو وہ بہت انہماک سے نماذ پڑھ رہی تھی۔۔۔
اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گٸ۔۔مگر اگلے ہی لمحے وہ سر جھٹک کر خود بھی نماذ ادا کرنے مسجد چلا گیا۔۔۔
نمار سے فارغ ہو کر اس نے قرآن پاک کھولا اور تلاوت کرنے لگی۔۔وہ اس قدر مگن ہو گٸ کہ سلطان کی آمد کی خبر ہی نہ ہوٸ۔۔۔
وہ اتنی خوبصورت آواذ میں تلاوت سن کر سحر زدہ سا اس کے پاس بیٹھ گیا۔۔ اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک رات میں ہی وہ لڑکی اس پر اتنا گہرا اثر چھوڑے گی۔۔۔ وہ صوفے کی پشت سے سر ٹکاے پرسکون سا آنکھیں موند گیا۔۔
اس نے تلاوت مکمل کرکے قرآن اپنی جگہ پر چھوڑا اور سوۓ ہوے سلطان کے پاس آ کر بیٹھ گٸ۔۔ وہ تلاوت سنتے سنتے ہی سو گیا تھآ۔۔
عاٸشہ نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا۔۔۔
نظر اس کی مونچھوں پر آکر رک گٸ۔۔ دل نے بےاختیار اسے چھونے کی خواہش کی اور اس نے ہاتھ بڑھا کر اس چہرے پر ہاتھ رکھآ۔
اس کی نیند کسی کے ہاتھ لگنے پر ٹوٹی تھٸ۔۔وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔۔
عاٸشہ اس اچانک افتاد پر بوکھلا کر بیچھے ہٹی۔۔۔
سس سوری وہ۔۔اسے سمجھ نہ آیا وہ کیا کہۓ۔۔ جبکہ سلطان سر جھٹک کر بیڈ پر جا کر لیٹ گیا۔۔جبکہ عاٸشہ اپنی بے اختیاری پر خود کو کوس کر رہ گٸ۔۔۔
دستک کی آواذ پر وہ اٹھی۔۔ درواذے پر سریلی تھی جو ناشتہ کرنے کا کہتی چلی گٸ۔۔ عاٸشہ بڑی سی شال کو اپنے گرد لپیٹ کر اچھے سے چہرہ دھانپ کر باہر آ گٸ۔۔۔
***************
وہ رات غصے میں اپنے دوست کے گھر چلا گیا تھا۔ اسے صدمہ ہوا تھا اسکی بیوی شادی کے بعد بھی اس کے بھای کے ساتھ ۔۔ وہ کم عمر تھا مگر بے غیرت نہیں تھا۔۔آخر وہ مرد تھا۔۔اسے شدید غصہ تھا۔۔ اس نے اپنے دوست سے اس بارے میں بات کی۔۔وہ اس کا بچپن کا دوست تھا۔۔ اس نے اسے تسلی دی۔۔
تو جانتا ہے یہ شادی ان کی مرضی کے خلاف ہوی ہے۔۔ تو انہیں وقت دے ان کو عزت دے تا کہ وہ اپنا ماضی بھول جاٸیں جزباتی ہونے سے کام بگڑ سکتا ہے۔۔۔
اس کی بات ایاض کو درست لگی تھی تبھی وہ گھر لوٹ آیا اس نے فیصلہ کیا کہ وہ رباب کو وقت دے گا محبت دے گا تا کہ وہ اپنا ماضی بھول جاۓ۔۔
دستک کی آواذ پر وہ بے زار ہوتی اٹھٸ۔۔
نظر اپنے ساتھ سوے ایاض پر گٸ تو منہ کے زاویے بگڑے تھے۔۔
اتنی دیر سے دستک ہو رہی ہے مگر گدھے گوڑھے بیچ کر سوے ہیں۔۔
بڑبڑاتی ہوی جا کر درواذہ کھولا۔۔
ناشتہ لگ گیا ہے آ جاٸیں۔۔
سریلی بولتی ہوی آگے بڑھ گٸ۔۔
رباب منہ بناتی کمرے میں آٸ اور کچھ دیر بعد فریش ہو کر باہر نکل گٸ۔۔ ارے رباب چلو ساتھ چلتے ہیں۔۔
عآٸشہ نے اسے دیکھا تو مسکرا کر کہا۔۔
رباب جو سلطان سے ملنے کا سوچ رہی تھی اسے دیکھ کر بدمزہ ہوتی آگے بڑھ گٸ۔۔۔
*************
کسی کی آواذ پر وہ کھسمسایا تھا۔۔۔آنکھیں کھولیں تو سامنے کا منظر دیکھ کر ماتھے پر بل آۓ تھے۔۔
وہ جو نماذ پڑھ کر اب قرآن پڑھ رہی تھی۔۔ وہ ایک ایک لفظ آٹک آٹک کر بڑھ رہی تھی۔۔ بار بار ایک ہی آیت پڑھتی مگر سہی سے پڑھی نہیں جاتی۔۔ وہ پڑھی لکھی نہیں تھی اور نہ ماموں ممانیوں نے اسے قرآن پڑھایا تھا۔۔ نانی اسے نماذ اور نورانی قاعدہ پڑھاتی تھیں مگر ان کی وفات کے بعد یہ سب رہ گیا۔۔ اٹک اٹک کر ایک آیت پڑھی اور قرآن غلاف میں ڈال کر شیلف پر رکھا۔۔
ریاض اس کی ساری کارواٸ دیکھ رہا تھآ۔
وہ اب کھڑکی کے سامنے کھڑی تھی۔۔اس کا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔۔ ریاض کو محسوس ہوا وہ رو رہی ہے۔۔وہ سر جھٹک کر پھر سے کمفرٹر منہ پر رکھے سو گیآ۔۔۔مگر ذہن بار بار بھٹک کر بریرہ کی طرف جا رہا تھا۔۔
دستک کی آواذ پر وہ چونکی اور آنسو پونچھتی درواذے تک گٸ۔۔
سریلی ناشتے کا آرڈر دیتی جا چکی تھی وہ دوپٹہ ٹھیک کرتی باہر نکل آٸ۔۔۔۔
ڈاٸنگ ہال میں وہ سب خواتین بیٹھیں ناشتہ کر رہی تھیں۔۔ وقفے وقفے سے سب باتیں کر رہی تھیں مگر رباب سنجیدگی سے ناشتہ کرنے میں مگن تھی۔۔ وہ کسی قسم کی گفتگو میں حصہ نہیں لے رہی تھی۔۔اگر کوی اس سے سوال پوچھتا تو بس ہوں ہاں ہی کر دیتی۔۔۔
ارے یہ پراٹھا لو نا۔۔۔کبریٰ نے اس کے آگے پراٹھا رکھا۔۔
شکریہ مگر میں اتنا ہی کھاتی ہوں۔۔ رباب نے بمشکل مسکرا کر کہا
نہیں نہیں ۔۔ اتنا ہی کیوں ۔یہ پراٹھا کھاو۔۔
کبریٰ نے اسکے انکار کو خاطر میں نہ لایا۔۔
ان سب میں فاریہ بھی تھی جو ستا ہوا چہرہ لیے ناشتے میں مصروف تھی۔۔چھوٹے چھوٹے نوالے حلق سے بمشکل اتارتی وہ گہری سوچوں میں گم تھی۔۔
تجھے کیا ہوا ہے۔۔سہی سے کھاتی کیوں نہیں۔۔
شاٸستہ جو کب سے اسے نوٹ کر رہی تھی آخر بول پڑی۔۔۔
فاریہ ہڑبڑا اٹھی مگر ماہنور اس سے پہلے ہی بولی۔۔
یہ اداس ہے کیوںکہ سب کی شادی ہو گٸ مگر ان کا کسی کو خیال نہیں آیا۔۔عمر نکلتی جا رہی ہے۔۔۔
ماہ نور کی بات پر فاریہ نے رکھ کر اسے گھورا۔۔
بے شرم کہیں کی۔۔بڑی بہن ہے تیری شرم کرکچھ ۔۔اور کونسی عمر نکل گٸ اس کی۔۔ ابھی تو باٸیس کی ہی ہے۔۔۔
شاٸستہ نے مانو کو گھرکا۔۔
اماں وہ باٸیس کی ہے اور میں سترہ کی ہو گٸ ہوں۔ میرے راستے میں بھی کانٹا بن کے بیٹھی ہے شادی کرواو تا کہ میری باری بھی آۓ۔۔
مانو نے چہرے پر معصومیت سجاے کہا تو شاٸستہ نے زور دار دھموکہ اس کی کمر پر جڑ دیا۔۔
بے حیا کہیں کی۔۔
ارے بہت ظالم ہو اماں ایسا بھی کیا کہہ دیا اب۔۔
اس نے کمر سہلاتے ہوے دہای دی۔۔
سب عورتیں ان کی نوک جھوک پر مخظوظ ہو رہی تھیں مگر رباب کو عجیب سی بے زارگی محسوس ہو رہی تھی اس سب سے۔۔ وہ منہ بناے کرسی پر ہی ٹکی ہوی تھی۔۔۔
آنے دے تیرے ابے کو ۔۔ بندوبست کرتی ہو تیرا۔۔
شاٸستہ نے اسے دھمکی دی تھی۔۔
بس کہتی ہی رہنا بندوبست کرنا نہیں۔۔ ہر بار بس کہتی ہی ہو۔۔اب تک تو میرے دو بچے ہو جانے تھۓ۔۔
مانو انتہای ڈھٹای سے بے شرمی کی حدود کو چھو رہی تھی۔۔
صبر کر کمینی بے حیا۔۔ اس دن کے لیے پیدا ہوی تھی تو۔۔
شاٸستہ نے غصے میں سالن کے ڈونگے سے چمچہ اٹھا کر ہوا میں لہرایا۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ مانو کے سر پر لگ کر اس کی یاد داشت گم کرتا وہ بتیسی نکالتی ہوی وہاں سے تن فن کرتی بھاگ گٸ۔۔
شاٸستہ غصے میں بڑبڑاتی ہوی چمچہ دوبارہ ڈونگے میں پٹخ کر چاے کے گھونٹ بھرنے لگیں۔۔
یہ تو ہر وقت کا معمول ہے بہت شرارتی ہے مگر رونق ہے ہمارے گھر کی۔۔۔
کبریٰ نے مسکرا کر کہا
جی گھر کی سب سے چھوٹی اولاد شرارتی اور لاڈلی ہوتی ہے۔۔
عاٸشہ نے بھی ان کی تاکید کی۔۔جبکہ رباب کی اب بس ہوٸ تھی۔۔ وہ بے زار ہو کر اٹھ گٸ۔۔
میں واش روم سے آتی ہوں۔۔ وہ کہتی ہوی وہاں سے نکل گٸ۔۔۔
سیڑھیاں چڑھ کر وہ اپنے کمرے کے سامنے آٸ۔۔ لاٸن میں تین کمرے بنے ہوے تھے۔۔ پہلا کمرہ تو رباب اور ایاض کا تھا مگر آگے کے کمروں کا کنفرم نہیں پتا تھا کہ سلطان کہاں ہے۔۔
اس نے آہستہ سے آگے بڑھ کر دوسرے کمرے کا درواذہ کھولا تو اوندھے منہ پڑے ریاض پر نظر پڑی وہ گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا۔۔ وہ درواذہ بند کرتی اگلے کمرے کے سامنے پہنچی۔۔
ہولے سے درواذہ کھولا تو ٹھٹھک گٸ۔۔۔سلطان بنا شرٹ کے صرف ٹراٶزر پہنے آٸینے کے سامنے تولیے سے بال خشک کر رہا تھا۔۔غالباََ وہ نہا کر نکلا تھا۔۔
سلطآن۔۔۔ وہ خوش ہوتی ہوٸ بھاگ کر اس کی پشت سے حصار باندھ گٸ۔۔
رباب تم۔؟؟ یہاں؟؟
سلطان نے بوکھلا کر اسے خود سے دور کیا اور اپنی شرٹ دھونڈنے لگا۔۔
کل سے مسجز اور کالز کر رہی ہوں۔۔ کہاں بزی تھے۔۔ دلہن آتے ہی مجھے بھول گے۔۔
رباب نے دوبارہ اس سے چمٹتے ہوے گلہ کیا۔۔
رباب پلیز یہ کیا کر رہی ہو فاصلہ رکھو۔۔
سلطان ہونقوں بنا اسے دیکھنے لگا۔وہ ایسی تو نہیں تھی۔۔۔پچھلے ایک سال میں رباب نے اس طرح بے شرمی نہیں دکھاٸ تھی۔۔ایک ہی رات میں اسے کیا ہوگیا تھا۔۔
سلطان پلیز ۔۔کچھ کرو تم نے کتنے وعدےکیے تھے مجھ سے اب تم ایسے نہیں کر سکتے جلد سے جلد اس لڑکی کو طلاق دو اور پھر ہم دونوں شادی کریں گے ۔۔
رباب نے پل میں اسے اپنی ساری پلیننگ بتای تھی۔۔
رباب پلیز یہاں ہمیں کوی دیکھ لے گا پلیز جاو یہاں سے ۔۔۔
سلطان اس کی منت کرتا الماری سے کپڑے نکالنے لگا۔۔
سلطان ۔۔ ۔۔۔
رباب نے کچھ کہنا چاہا مگر سلطان نے اسکی بات کاٹ دی۔۔
یہاں سے جاو کوی دیکھ لے گا۔۔ میں تمہیں بعد میں بتاتا ہو ابھی جاو۔۔
اسے کہتا وہ ڈریسنگ روم میں گھس گیا جبکہ رباب پیر پٹختی کمرے سے نکل گٸ۔۔۔۔۔۔
***********
شاٸستہ اور کبریٰ کے منع کرنے کے باوجود عاٸشہ اور بریرہ نے مل کر برتن سمیٹے اور پھر مرد حضرات کا ناشتہ لگایآ۔۔۔ کچھ دیر بعد سب مرد ڈآٸننگ ہال میں ناشتہ کر رہے تھے۔۔
عاٸشہ ویسے میں نے نوٹ کیا ہے یہاں کے مرد اور عورتیں وقت کی پابندی کرتے ہیں۔۔ ماموں کے گھر تو سب کو شور کر کر کے جگانا پڑتا تھآ۔۔
بریرہ نے عاٸشہ سے کہا
جی آپی آپ سہی کہہ رہی ہیں۔۔ عآٸشہ نے بھی اس کی تاکید کی۔۔
مجھے ایک کام بھی ہے تم سے۔۔۔ بریرہ نے کہا تو عاٸشہ سے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔
تم پڑھ لکھ کر آ گٸ ہو اب مجھے بھی سکھا دو۔۔میں قرآن سیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔ بریرہ کے چہرے پر اک چمک سی تھی۔۔
یہ بھی کوی پوچھنے والی بات ہے یہ تو ثواب کا کام ہے۔۔۔
حدیث مبارکہ ہے۔۔۔
تم میں سے بہتر ہے وہ شخص جو قرآن سیکھے اور سکھاۓ۔۔
عاٸشہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے کہآ۔۔۔
اب تم یہ تبلیغ یہاں بھی شروع کر رہی ہو۔۔ تم کافی نہیں ہو ایک پردے دار جو اب سارے محلے کو ہی کالے جھنڈوں میں لپیٹو گی۔۔
رباب نے آتے ہی طعنہ کسا تھآ۔۔
میں کالے جھنڈوں میں نہیں لپیٹ رہی بلکہ صرف قرآن پڑھاوں گی اگر مجھ ناچیز سے کسی کوفاٸدہ پہنچتا ہے تو مجھے خوشی ہو گی۔۔۔
عاٸشہ نے اس کے طنز کا جواب خوش اخلاقی سے دیا تو وہ ہنکارا بھرتی صوفے پر بیٹھ کر موباٸل میں مصروف ہو گٸ۔۔
**********
وہ اداس سی لان میں بیٹھی گلاب کے پھولوں کو دیکھ رہی تھی۔۔ کیا ہوا اداس کیوں ہو؟
ریاض کی آواذ پر وہ چونکی اور پھر سیدھی ہو کر کھڑی ہو گٸ۔۔
کچھ نہیں میں اداس نہیں ہوں۔۔
اس نے بے رخی سے کہا تھا۔۔
میری شادی پر خوش نہیں ہو نآ۔۔
ریاض نے اس کے دل کی بات کہی تھی۔۔۔۔
میں خوش کیوں نہیں ہوں گی جب تم خوش ہو تو میں کیوں نا خوش ہوں۔۔
اس نے کندھے اچکا کر کہآ۔۔۔
تمہاری آنکھیں کچھ اور کہہ رہی ہیں۔۔
اس نے مسکرا کر شرارت سے کہآ۔۔
تمہیں کیا فرق پڑتا ہے ؟؟ مرد ذات تو ہوتے ہی بے وفا ہیں۔۔ میں ہی پاگل تھی جو تمہاری باتوں میں آگٸ۔۔۔ فاریہ سرخ آنکھووں سے بولی تھی۔۔
ریاض نے پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھآ۔۔
فاریہ؟۔۔۔۔
ت تم تو کہتی تھی کہ تم مجھے پسند نہیں۔۔کرتی۔
ریاض حیرت زدہ سا ہوا تھا۔۔
ہاں تو کبھی تم نے مجھ سے اظہار محبت کیآ؟ ہمیشہ چھیڑتے تھے شرارت کرتے تھے ۔۔ تم اماں ابا سے رشتہ کی بات بھی تو کر سکتے تھے نآ۔۔
فاریہ گویا پھٹ پڑی تھی۔۔ریاض ہونقوں بنا اسےدیکھ رہا تھا۔۔
یقین مانوفاریہ اگر مجھے ذرا سا بھی معلوم ہوتا کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو تو کب کا اپنا چکا ہوتا میں تو یہ چاہ رہا تھا کہ تمہیں راضی کر کے ہی رشتہ کی بات کروں گا۔۔مگر تم نے ہمیشہ یہی احساس دلایا کہ تم مجھے پسند نہیں کرتی۔۔۔
وہ صدمے سے بولا تھآ۔۔۔
اگر تم نکاح سے ایک دن پہلے بھی مجھے بتا دیتی تو دنیا سے لڑ کر میں تمہیں اپناتا مگر۔۔۔۔۔
مجھے نہیں معلوم جو ہو چکا بس ہو گیا مگر۔۔۔ اب بھی وقت ہے نآ۔۔اس لڑکی کی کیا اوقات ۔۔ ونی ہی تو ہے۔۔ تم۔۔۔
وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے بولی تھی مگر ریاض نے اس کی بات کاٹ دی۔۔
فاریہ خدا کے لیے مجھے اکیلا چھوڑ دو۔۔۔
وہ سرہاتھوں میں گراے وہیں کرسی پر ڈھے گیآ۔۔
فاریہ سر جھکآۓ۔۔ واپس مڑی ۔۔ سامنے بریرہ کو دیکھ کر دم بخود رہ گٸ۔۔۔
ریاض فاریہ کو یوں کھڑا دیکھ کر پلٹا ۔۔بریرہ منہ پر ہاتھ رکھے ساکت سی انہیں دیکھ رہی تھی۔۔ ریاض پھٹی آنکھوں سے وہیں کا وہیں رہ گیآ۔۔
وہ روتی ہوی واپس اندرکو بھاگی۔۔۔ ریاض بےبس سا ہو کر اسے جاتا دیکھنے لگا۔۔۔
یا اللہ کس آذماٸش میں ڈال دیا مجھے۔۔
************
دو ہفتے ہو چکے تھے شادی کو۔۔ رباب مسلسل سلطان کے یچھے پڑی تھی کہ وہ کچھ کرے۔۔ سلطان رباب کی وجہ سے کافی پریشان تھا۔۔ رات دیر سے گھر آتا۔۔ عاٸشہ سے کم ہی بات کرتا تھا۔۔دوسری طرف عاٸشہ اس کے رویے پر حیران تھٸ۔۔وہ اس سے کھنچا کھنچا سا رہنے لگا تھا۔۔
بریرہ ریاض اور فاریہ کے بارے میں جاننے کے بعد خاموش سی ہوگٸ تھی۔۔ عاٸشہ سے روزانہ قرآن پڑھنا سیکھتی اب اس کے تلفظ درست ہو گے تھے۔۔ ریاض کا ہر کام وہ خود کرتی تھی۔ اسے کچھ بھی چاہیے ہو وہ ہر وقت خاضر رہتی۔۔۔ ریاض کشمکش میں مبتلا تھآ۔۔ایک طرف اس کی محبت تھی ور دوسری طرف اسکے بھای کے قاتل کی رشتہ دار۔۔۔فاریہ اس کے ذہن میں بریرہ کے لیے نفرت انڈیل رہی تھی۔۔
ریاض وہ فیاض کے قاتل کے گھرانے سے ہے۔۔کیا تم اپنے بھای کے قاتل کو یوں ہی بخش دو گے۔۔
وہ اسے بہر کچھ کہتی مگر ریاض ہمیشہ یہی کہتا۔۔
فاریہ وہ احمر کی نہیں عاٸشہ کی خالہ زاد ہے اس کا کوی قصور نہیں اس سب میں۔۔ میں اس کی زندگی تباہ نہیں کر سکتآ۔۔ رہی بات فیاض کے قاتل کی تو اس کی تلاش جاری ہے۔۔ وہ جیسے ہی ملے گا اسے کتے کی موت ماروں گآ۔۔
مگر فاریہ کسی طور مطمٸن نہ ہوتی وہ مسلسل اسے زور دے رہی تھی کہ وہ بریرہ کو یا تو طلاق دے دے یا پھر نوکرانی کی حیثیت سے رکھے۔۔۔
ریاض بری طرح پھنسا ہوا تھا۔۔
تیسری طرف رباب نے ایاض کا دماغ سن کیا ہوا تھا۔۔
وہ کسی طور اس سے سیدھے منہ بات نہ کرتی اور اگر کرتی تو ہمیشہ زہر اگلتی۔۔ ایاض اپنی بیوی کے منہ سے اپنے بھای کے ساتھ عشق کے چکروں کے افسانے سن سن کر صبر کھوتا جا رہا تھا۔۔۔ پڑھاٸ تو اس نے میٹرک کے بعد ہی چھوڑ دی تھی۔مگر دادا سردار نے اسے کھیتوں کی رکھوالی کا کام سونپا تھا۔۔وہ صبح سے شام تک کھیتوں میں بیٹھا رہتآ۔۔
اس وقت بھی وہ درخت کی چھاٶں میں بیٹھا سوچوں میں غرق تھآ۔۔ اسے دوپہر کا کھانا دینے سریلی اب تک نہیں آٸ تھی ۔۔بھوک سے تنگ آ کر وہ اٹھا اور چپل پہن کر کھیتوں سے باہر نکل آیا۔۔
سامنے ہی اسے سریلی آتی دکھای دی تو وہ سر جھٹک کر دوبارہ کھیتوں میں آ گیآ۔
سریلی نے جلدی سے کھانا اس کے آگے رکھا ۔۔۔ وہ گھبراٸ سی لگ رہی تھی۔۔
کیا ہوا پریشان کیوں ہو۔۔ایاض نے اسکی اڑی رنگت دیکھ کرپوچھا۔۔
و وہ وہ صاحب وہ۔۔۔
کیا وہ وہ جلدی بولو۔۔
وہ سختی سے بولا
صاب وہ رباب بی بی آج گھر سے نکلی تھیں۔۔چھپ کر۔۔تو میں بھی یہیں آ رہی تھی۔۔ دیکھا تو وہ سلطان سردار کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے گاوں سے باہر والے راستے میں چلے گے ہیں۔۔ وہ مجھےکچھ ٹھیک نہیں لگا تو۔۔۔
سریلی کہتی چلی گٸ۔۔ایاض کا چہرہ غصے سے لال ہوا تھا۔۔ وہ مٹھیاں بینچے غصے کو کنٹرول کرنے لگآ۔۔
یہ بات کسی کو مت بتانا جاو گھر۔۔
سیریلی کو تنبیہہ کرتا وہ اٹھ کر کھیتوں سے نکل گیآ۔۔۔
***********
سلطان آخر اور کتنا وقت لو گے تم۔۔۔ ؟
رباب نے سلطان سے شکوہ کیا ۔۔وہ اس وقت جھیل کے کنارے تھے۔۔
رباب میں نے بہت سوچا ہے اور میں ایک فیصلے پر پہنچا ہوں۔۔
سلطان نے رسان سے کہا رباب نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھآ۔۔
میں اپنےی فیملی کے خلاف بھی نہیں جا سکتآ۔۔ اور نا ہی اس معصوم لڑکی کے ساتھ زیادتی کر سکتا ہوں۔۔ ہم اچھے دوست رہیں گے مگر اب تم میرے بھای کی عزت ہو۔۔۔ اگر میں نے عاٸشہ کو چھوڑ دیا اور تم سے شادی کر لی تو صرف گاٶں میں ہی نہیں ہر جگہ بدنامی ہو گی۔۔۔
سلطان نے بڑا دل کر کے اپنی بات کی تھی۔۔
سلطان تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔۔تم نے وعدہ کیا تھا نا مجھ سے۔۔۔ میں ۔۔میں خود کشی کر لوں گی۔۔اگر تم نے مجھے نا اپنایا تو میں جان دے دوں گی۔۔۔
وہ پاگلوں کی طرح چیختی ہوٸ جھیل کی طرف بھاگی تھی۔۔
رباب رکو۔۔رباب جشٹ سٹاپ ۔۔۔
وہ بوکھلا کر اس کی طرف بھاگآ۔۔۔ بازو سےپکڑ کر اسے پیچھے کھینچا۔۔۔
پاگل ہو تم۔۔یہ کیا کر رہی ہو۔۔۔
وہ غصے سے بولا تھآ۔۔
ہاں میں پاگل ہوں۔۔ میں تمہارے سوا کسی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔۔
رباب حلق کے بل چلاٸ تھی۔۔
اوکے جسٹ ریلیکس۔۔ میں کچھ کرتا ہوں بس تم ریلیکس کرو۔۔۔
وہ بمشکل اسے کنٹرول کرتا گاڑی تک لایآ۔۔
************
وہ غصے میں سیدھا احسن کے پاس آیا تھآ۔۔وہ اس کا بچپن کا دوست تھا۔۔۔ آجکل ایاض جس پریشانی سے گزر رہا تھا اسے احسن کے سوا کسی کو بتا بھی نہیں سکتا تھا۔۔
دیکھ میرے دوست۔۔ عورت ٹیڑھی پسلی ہے۔۔۔اگر سے سیدھا کرنے کی کوشش کی تو وہ ٹوٹ جاۓ گی سو جہاں تک نباہ ہو سکتا ہےوہاں تک کوشش کرنی چاہیے۔۔
تو بھابھی کو سمجھآ۔۔ ہمت کر برداشت رکھ ۔۔اور تو نہیں جانتا کہ سلطان بھای اسے کہاں لے گے ہیں کیوں لے گے ہیں۔۔ پورے جھوٹ سے زیادہ خطرناک آدھا سچ ہوتا ہے۔۔۔
بھابھی کو پیار سے سمجھا اگر نہیں مانتی توان کو اپنے حال پر چھوڑ دے لیکن۔۔ سلطان بھای سے بھی ایک باربات کر لے تا کہ تجھے حقیقت پتا چل جاۓ۔۔۔
احسن نے اسے سمھجایا تھا۔۔ایاض خود کو اب پرسکون محسوس کر رہا تھا۔۔۔
احسن خافظ قرآن تھا۔۔گاوں کی مسجد میں امامت کرواتا تھا اور ساتھ میں پڑھای بھی جاری رکھی ہوی تھی۔۔۔ایاض اور فیاض توپہلے پہل اسکی نصیحتوں کو مذاق میں اڑا دیتے مگر آجکل ایاض جس پریشانی میں تھے احسن کی باتیں اسے پرسکون کر دیتی تھیں۔۔۔
احسن یار وہ میرے بھای کے قاتل کی بہن ہے۔۔۔ میری ایسی تربیت نہیں ہے کہ میں ایک عورت سے بدلہ لوں۔۔مگر وہ ایسا کیوں کر رہی ہے۔۔۔ توجانتا ہے۔۔؟ مجھے وہ پہلی نظر میں اچھی لگی تھی۔۔سوچا تھا عزت دوں گا محبت دوں گآ۔۔ زندگی کی پہلی لڑکی ہے وہ میری مگر۔۔۔
ایاض افسردہ سا بولا۔۔
آذماٸشیں سب کی زندگی میں آتی ہیں یار ۔۔صبر کرنے والے ہی اللہ کو پسند ہیں۔۔ تیرے بھای کی موت ایسے ہی لکھی تھی۔۔ اس سب کو بھول کر اپنی زندگی پر توجہ دو۔۔
احسن نے اس کا کندھ تھپتھپایا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پورےدو گھنٹے بعدلوٹی تھی۔۔ حویلی میں وہ اکیلی ہی داخل ہوی تھی۔۔کمرے میں داخل ہوی تھی ایاض وہیں موجود تھآ۔۔
اسے نظر انداذ کرتی وہ واش روم میں گھس گٸ۔۔فریش ہو کر نکلی تو وہ ہنوز وہیں بیٹھا تھآ۔۔
جلدی آ گے۔۔؟
ناچاہتے ہوے بھی اس نے پوچھ لیا۔۔
میں تو جلدی آ گیا ہوں۔۔آپ کہاں تھیں۔۔
ایاض نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔
میں یہیں باہر تھی۔۔کہاں جاوں گی۔۔
وہ ہڑبڑا کر بولی۔۔۔
دوپہر کا وقت تھا سب اپنے کمروں میں آرام کر رہے تھے اس لیے اس کی کمی کسی نے محسوس نہیں کی تھی۔۔۔
یہاں بیٹھیں۔۔ میری بات غور سے سنیں۔۔
اسےبازو سے پکڑ کر اپنے سامنے بٹھا کر گویا ہوا۔۔
آپ کا ماضی جو بھی تھا۔۔ مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا۔۔۔ مگر اب آپ میری بیوی ہیں۔۔میری عزت کی حفاظت کرنا آپ پر فرض ہے۔۔ آپ جانتی ہیں۔۔کہ ایک غلطی آپ کو سب کے سامنے ذلیل کر کے رکھ دے گی۔۔۔ میں آپ کو عزت دوں گامحبت دوں گآ۔۔ مان دوں گآ۔۔مگر بدلے میں آپ سے صرف وفا مانگتا ہوں۔۔پچھلی سب باتوں کوبھلا دیں۔۔میں آپ کو اتنی عزت دوں گا جتنی کوی دوسرا نہیں دے سکتا۔۔
ایاض اسے دیکھتے ہوے نرمی سے کہتا چلا گیآ۔۔
ایاض تم بہت اچھے ہو۔۔۔ مگر میرا دل سلطان کے نام سے دھڑکتا ہے۔۔میں چاہ کر بھی اسے بھول نہیں سکتی ۔۔۔
رباب نے بے بسی سے کہا۔۔
جو ہے اسی کو مان لیں۔۔ کسی کی زندگی برباد کر کے اپ سکون میں نہیں رہیں گی۔۔۔ کوشش تو کریں۔۔ آپ بھول جاٸیں گی سب۔۔۔ اپ کہیں تو ہم شہر جا کر رہ لیں گے۔۔۔
ایاض نے اپنی پوری کوشش کی اس کو سمجھانے کی۔۔
رباب کچھ دیر سر جھکاے بیٹھی رہی۔۔۔
ایم سوری ایاض۔۔میں یہ نہیں کر سکتی۔۔۔
رباب کہہ کر اٹھ گٸ۔۔
۔۔ ایاض ساکت سا وہیں بیٹھا رہ گیا۔۔۔
************
وہ سیف اللہ سے ملنے آٸ ہوی تھی۔۔ سلطان صبح ہی اسے چھوڑ گیا تھا۔۔۔وہ کافی پریشان تھآ۔ پہلے سے زیاہ کمزور بھی ہو چکا تھآ۔۔ عاٸشہ باپ کی حالت پر بہت پریشان تھی۔۔وہ دو دن سے کھیتوں پر بھی نہیں جا رہا تھا۔۔
شام میں جب سلطان اسے لینے آیا تو وہ چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گٸ۔۔۔
کیا ہوا خیریت ہے؟۔ سلطان پورے راستے اسے اداس دیکھتا رہا تھا اب کمرے میں بھی وہ خاموش بیٹھی تھی تو اس نے اسے پریشان دیکھ کر پوچھ لیا۔۔
کچھ نہیں بس یوں ہی۔۔ مختصر جواب دے کر وہ اس کے کپڑے فولڈ کرنے لگی۔۔۔
سلطان صوفے پر بیٹھا سوچوں میں گم ہو گیآ۔۔ وہ بری طرح پھنسا ہوا تھآ۔۔دادا سردار کو اگر بھنک بھی پڑ گٸ تو نجانے وہ کیا کریں۔۔بات اب عزت کی تھی۔۔۔ رباب کی حرکتیں دن بدن اسے پریشان کرتی جا رہی تھیں۔۔
آپ خوش ہیں نا؟
اس نے ہمت کر کے سوچوں میں غرق سلطان سے پوچھآ۔۔۔
وہ چونکا اور سیدھا ہو کر بیٹھا
کس بات پر؟؟
ہماری شادی پر۔۔
اس کا لہجہ عجیب تھآ۔۔
ہ ہاں کیوں آپ کیوں پوچھ رہی ہیں۔۔
اس نے سر جھٹکتے کہا۔۔جیسے چوری پکڑے جانے کا ڈر ہو۔۔
ایک عورت کے پاس صرف عزت ۔۔۔ اور اس کا خاندان ہوتا ہے۔۔۔
میرے پاس عزت ہے۔۔جسے میں نے ہمیشہ اپنے شوہر کے لیے سنبھالا اپنے باپ کی خاطر سنبھالآ۔۔ پلیز میری عزت پر آنچ مت آنے دیجیے گا۔۔ میرے پاس خاندان کے نام پر صرف بابا ہیں۔۔وہ جیتے جی مر جاٸیں گے۔۔
عاٸشہ کی آنکھوں سے آنسوو بہہ رہے تھے۔۔
وہ بونچکا سا اسےدیکھ رہا تھا۔۔
اگر رباب شادی شدہ نہ ہوتی تو میں آپ کو اس سے شادی پر کبھی نہ روکتی مگر وہ آپ کے بھای کی عزت ہے۔۔ آپ کی ایک غلطی کٸ زندگیاں برباد کر دے گی۔۔۔
اس کے آنسو سلطان کو تکلیف دےرہے تھے۔۔
تم کیسے جانتی ہو؟
اس نے اچانک سوال کیا۔۔
میں آپ کے رباب کے تعلق کے بارے میں شادے کے پہلے دن سے جانتی ہوں۔۔اس رات جب آپ سو گے تھے آپ کے موبایل پر کال آتی دیکھ کر میں نےنظر دوڑای تو رباب کا نام دیکھ کر میں سب جان گٸ تھی۔۔ اج میں اپ کو اور رباب کو ساتھ گاڑی میں۔۔۔۔
وہ آنسوو پونچھ کر کہتی گٸ۔۔
مجھے معاف کر دو۔۔۔ میں نے بہت سمجھایا مگر وہ نہیں مانتی۔۔میں پھنس گیا ہوں بری طرح ۔۔خدا کے لیے کچھ کرو۔۔۔
سلطان بے سی سے سر پکڑےگویا ہوا۔۔۔
********
لاٸیں میں کر دیتی ہوں۔۔آپ بیٹھیں۔۔
عاٸشہ نے شاٸستہ کے ہاتھ سے چھری اور سلاد لیتے ہوۓ کہآ۔۔
ارے تم رہنے دو میں کر لوں گی۔۔ شاٸستہ نے اسے انکار کیا مگر وہ سنی ان سنی کرتی سلاد لے کر ہال میں چلی گٸ۔۔ شاٸستہ مسکرا کر کچن سمیٹنے لگی۔۔آج سریلی اپنی بیمار ماں کو ہسپتال لے گٸ تھی اسی لیے گھر کے کام شاٸستہ نمٹا رہی تھی۔۔آج سب مرد بھی گھر میں ہی تھے۔۔
ہنہہہ۔۔۔ بڑی نیک بہو بننے کی کوشش کر رہی ہو۔۔ تم زیادہ دن ٹکو گی نہیں سمجھی۔۔
رباب ہنکارا بھرتی طنزیہ انداذ میں کہنے لگی۔۔شاٸستہ نے حیرانگی سے کچن سے سرنکال کر اسے دیکھا اور پھر سر جھٹک کر کام کرنے لگی۔۔
عاٸشہ مسکرا کر اسے نظر انداذ کرگٸ۔۔
عاٸشہ سلطان سردار تمہیں بلا رہے ہیں یہ مجھے دو میں کرتی ہوں۔۔
بریرہ جلدی سے چھری اور پلیٹ اس کے ہاتھ سے لینے لگی۔۔عاٸشہ چادر درست کرتی اندر کو بھاگی۔۔رباب غصے سے دانت پیستی اٹھ کر اس کے پیچھے لپکی۔
آپ نے بلایا۔۔ وہ کمرے میں داخل ہوتی پوچھنے لگی۔
جی ۔۔وہ میری قمیض کا بٹن ٹوٹ گیا ہے جلدی سے ٹھیک کر دیں میں تب تک نہا کر آتا ہوں۔۔ وہ کہہ کر واش روم میں گھس گیا۔۔
رباب درواذے سے لگی عاٸشہ کو دیکھنے لگی۔۔اس نے سوٸ دھاگہ لیا اور جلدی سے بٹن جوڑنے لگی۔۔ رباب مسلسل کھڑی اسے گھور رہی تھی۔۔وہ سلطان کا رویہ عاٸشہ کے ساتھ اچھا ہوتا نوٹ کر چکی تھی۔۔۔
وہ فریش ہو کر باہر نکلا تو وہ بٹن لگا چکی تھی۔۔۔
عاٸشہ نے قمیض اس کی طرف بڑھاٸ تو شرم سے دوہری ہوگٸ۔۔وہ شرٹ لیس صرف ٹراوزر میں کھڑا تھا۔۔
سلطان اسے شرماتا دیکھ کر مسکرا اٹھآ۔۔اسے عجیب سی کشش اس کی طرف لے جا رہی تھٸ۔۔۔
اس نے سر جھکا کر قمیض اس کے سامنے کی۔۔سلطان نے بے اختیار ہو کر اس کا چہرہ اوپر اٹھایا اور اس کے گلابی گالوں کو چھوا۔۔
رباب کی برداشت آخری حد تک پہنچ چکی تھی۔۔ وہ غصے سے پیر پٹختی وہاں سے چلی گٸ۔۔
شرماتے ہوۓ بہت پیاری لگتی ہیں آپ۔۔۔
اس نے مسکرا کر قمیض پکڑی اور ڈریسنگ روم کی طرف چلا گیآ۔۔
اللہ جی۔۔۔یہ کیا تھا؟
عاٸشہ شرم سے لال ہوتی اپنی دھڑکنوں کو قابو میں لانے کی کوشش کرنے لگی۔۔
کچھ دیر بعد وہ دونوں ہی کمرے سے باہر نکلے۔۔۔ رباب جو کمرے میں بیٹھی غصے سے بیچ و تاب کھا رہی تھی کھلے درواذے سے انہیں گزرتے دیکھ کر مزید تپ گٸ۔۔
ملک سلطان صفدر۔۔۔تم اتنی آسانی سے مجھے نہیں بھول سکتے میں تمہیں سکون سے جینے نہیں دوں گی۔۔تم میری محبت تھے۔۔اب ضد بن چکے ہو۔۔
وہ غصے سے کہتی اپنے منصوبے پر مسکرا اٹھی۔۔اس کی مسکراہٹ میں عجیب وحشت تھی۔۔کوی اسے اس حال میں دیکھ لیتا تو ضرور پاگل تصور کرتآ۔۔۔
********
فاریہ ۔۔آپ کو چچی جان بلا رہی ہیں کچھ کام ہے۔۔ وہ فاریہ کے کمرے کے کھلے درواذے میں کھڑی اسے بتا کر پلٹنے لگی مگر اس کی پکار پر رک گٸ۔۔
ایک بات کان کھول کر سن لو۔۔ ریاض صرف میرا ہے۔۔۔ اور میرا ہی رہے گآ۔۔تمہیں بہت جلد میں اس گھر سے نکال باہر کروں گی۔۔
وہ اس کے قریب کھڑی وارن کرنے لگی۔۔
خدا کے لیے ایسا مت کریں۔۔۔ آپ کو جوچاہیے لے لیں۔۔لیکن مجھے اس گھر سے مت نکالیں۔۔ میں کسی کونے میں بھی رہ لوں گی۔۔
وہ خوفزدہ سی ہو کر اس کی منت کرنے لگی۔۔ اسے سوچ کر ہی خوف آرہا تھا ۔۔ اگر وہ واپس ماموں کے گھر چلی گٸ تو پھر وہی ظلم اور مار پیٹ خاص کر ماموں کے بیٹے کی وہ گندی نظریں۔۔نہیں نہیں وہ سب جھیلنا اب ممکن نہیں۔۔
فاریہ مسکرا کر باہر نکل گٸ۔۔وہ اسے خوفزدہ کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی۔۔ دور کھڑی رباب فاریہ کا یہ چہرہ دیکھ کر خوش ہوٸ تھی۔۔اس لڑکی کو وہ استعمال کر سکتی تھی۔۔
.........۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔........
ویسے ماننا پڑے گا ۔۔بڑا دل ہے تمہارا جو اپنی سوتن کو برداشت کر لیتی ہو۔۔
رباب نے لان میں یٹھی فاریہ کو مخاطب کیا
مطلب؟؟ وہ چونکی تھی۔۔
مطلب یہ کہ۔۔ میں جانتی ہوں کہ تم ریاض کوپسند کرتی ہو۔۔
رباب نے کرسی پر بیٹھتے ہوۓ کہا
آپ کو کیسے؟؟
وہ حیران ہوٸ تھی۔۔
یہ مت سوچو کہ کیسے پتا چلآ۔۔بس یہ سوچو کہ اپنی محبت کیسے پانی ہے۔۔
رباب اس کے دماغ میں خناس بھرنےلگی تھی۔۔
جب تک ایاض کچھ نہیں کرتے تب تک میں بھی مجبور ہوں۔۔
فاریہ اداسی سے گویا ہوی۔۔۔
ان مردوں پر اعتبار مت کرو۔۔تم نہیں جانتی یہ مرد ایک عورت پرنہیں ٹکتے۔۔۔چند دن تم سے عشق لڑاۓ گا پھر اپنی بیوی کا ہو جاے گا۔۔۔ یہ چالاک لڑکی اسے اپنی مٹھی میں قید کر لے گی۔۔اور تم دیکھتی رہ جاٶ گی۔۔۔
رباب نے ہاتھوں کی مٹھی بنا کر اس کے سامنے لہراٸ۔۔
پھر میں کیا کروں؟۔۔
فاریہ اس کی باتوں میں آ چکی تھی۔۔ تمہیں بس وہ کرنا ہے جو میں تم سے کہہ رہی ہوں۔۔
رباب نے شاطرانہ مسکراہٹ سے کہا
لیکن تم کیوں مجھ سے ہمدردی کر رہی ہو۔۔؟
فاریہ نے یک دم عقل کو استعمال کیا تھآ۔۔
کیوںکہ مجھے تم سے ہمدردی ہے۔۔ تم میری بہنوں جیسی ہو۔۔۔
رباب نے کمال مہارت سے اس کی برین وشنگ شروع کی تھی۔۔
تو مجھے کیا کرنا ہو گآ؟۔۔۔
فاریہ کی بات پر رباب کی مسکراہٹ گہری ہوٸ۔۔۔
***********
اے لڑکی ۔۔ یہ کیا سجی سنوری پھر رہی ہے تو؟
شاٸستہ جو اپنے شوہر خضر کوچاۓ دینے کمرے میں آٸ تھیں اسے اپنے باپ کے پاس سجی سنوری بیٹھا دیکھ کر تپ گٸ۔۔ ہاتھوں پیروں پر بھر بھر کر مہندی لگاٸ ہوی تھی۔۔ہونٹوں پرلالی آنکھوں میں سرما۔۔بازو بھر کے چوڑیاں اور بالوں میں پراندہ ڈالے وہ نٸ نویلی دلہن بنی بیٹھی تھی۔۔
بس یوں ہی آج دل کیا تو تیار ہو گٸ ہوں۔۔
اس نے لا پر واہی سے جواب دیا۔
چل جا کر بھابھی کے ساتھ کام کروا۔۔ بیٹھک میں مہمان آۓ ہیں انہیں چاے بھی دینی ہۓ۔۔۔
شاٸستہ حکم دیتی چاے خضر صاحب کو پکڑانے لگیں۔۔
ہماری بیٹی کو کچھ مت کہا کریں ابھی زندگی جینے کی تو عمر ہے اس کی۔۔
خضر نے بیٹی کے باہرجاتے ہی بیوی سے کہا
ساٸیں آپ نے حلیہ دیکھا ہے اس کا۔۔جوان ہو رہی ہے۔۔ اگلے مہینے اٹھارویں سال میں پڑ جاے گی مگر بچپنا ختم ہی نہیں ہوتآ۔۔ آجکل بے شرموں کی طرح شادی شادی لگا رکھی ہے اس نۓ۔۔،۔،
شاٸستہ نے خفگی سے کہا۔۔۔۔
کوی بات نہیں آہستہ آہستہ سدھر جاے گی۔۔
وہ مسکرا کر بولے۔۔
بھابھی کوی کام ہے تو بتا دیں۔
وہ مٹکتی ہوی۔کچن میں آٸ جہاں بریرہ چاے پیالیوں میں انڈیل رہی تھی۔۔
ہاں یہ چاے لے جاو بیٹھک میں۔۔
ٹرے میں دو پیالیاں رکھتے ہوے اس نے آگے کیں۔۔ سر ڈھانپ کر جانا مرد ہو گے۔۔۔
بریرہ کی تنبیہ پر اس نے سر ڈھانپا اور ٹرے لیے بیٹھک میں چلی گٸ۔۔ گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے اس پر کہیں آنے جانے کی روک ٹوک نہیں تھی۔۔
وہ بیٹھک میں داخل ہوٸ تو ایک نوجوان لڑکے کو بیٹھا پایا ۔۔ وہ خاموشی سے ٹرے رکھنے لگی۔۔
وہ لڑکا اسے دیکھ کر مسکرا دیا۔۔
آپ ہیں وہ ونی میں آٸ لڑکی۔۔ اس لڑکے نے اسےسجا سنورا دیکھ کر انداذہ لگایآ۔
جی نہیں۔۔میں اس گھر کی سب سے چھوٹی بیٹی ہوں۔۔آپ کون؟۔۔
اپنا تعارف کروا کر وہ اس سے پوچھنے لگی۔۔
میں ایاض کا کلاس فیلو ہوں ارشد۔۔کچھ کتابیں لینی تھیں وہی لینے آیا ہوں وہ بس آتا ہو گا ابھی۔۔
ارشد نے اس کا تفصیلی جآٸزہ لیتے ہوے کہا۔۔
مانو سر ہلا کر جانے لگی تو اس نے آواذ دی۔۔
آپ کا نام۔۔
ماہ نور۔۔۔بے نیازی سے کہہ کر پلٹ گٸ۔۔بہت خوبصورت ہیں آپ۔۔
اس کے تعریف کرنے پر ماہ نور نے پلٹ کر اسے دیکھا ۔۔
چھچھورا۔۔۔ بڑبڑاتی ہوٸ وہ بیٹھک سے باہر نکل گٸ۔۔۔
*************
سب خواتین نے کھانا کھا لیا تھا۔۔ مرد حضرات کا کھانا لگنے لگا تو فاریہ کچن میں آ گٸ۔۔۔
یہ کس لیے ہے؟۔
عاٸشہ سے ایک الگ پلیٹ میں رکھے چاولوں کے بارے میں پوچھآ۔۔
یہ ریاض بھای کے ہیں انہوں نے چاول بنواے ہیں باقی سب کے لیے روٹی ہے۔۔
وہ جواب دیتی پھر سے کام میں مصروف ہو گٸ۔۔ جبکہ بریرہ اس کے چہرے کی مسکراہٹ سے پریشان ہو گٸ۔۔۔
چاولوں کی پلیٹ اٹھا کر وہ باہر لے آٸ۔۔۔ دوپٹے کے پلو میں چھپی شیشی نکال کر اس میں سے سارا سیال چاولوں میں ڈال کر وہ چاول لیے ڈاٸننگ ٹیبل پر گٸ۔۔
آپ کے چاول۔۔۔ پلیٹ ریاض کے سامنے رکھتی وہ پلٹ گٸ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنو ۔۔۔ پہلے جا کر چاے بناو میرے لیے پھر سونے جانآ۔۔
بریرہ کو کمرے کی طرف جاتا دیکھ کر فاریہ نے اسے آواذ لگاٸ۔۔۔
جی ۔۔ وہ واپس کچن کیطرف چلی گٸ۔۔سب لوگ سونے چکے تھے۔۔ہر طرف خاموشی کا راج تھا۔۔
وہ کمرے میں بیٹھا لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا۔۔ اس کا جسم آگ کی طرح گرم تھا۔۔کھانا کھانے کی کچھ دیر بعد ہی اس کی حالت عجیب ہو چکی تھی۔۔
اس نے تنگ آکر قمیض اتار پھینکی۔۔ کھڑکی کھولے وہ اپنی گھٹن کم کرنے کی کوشش کرنے لگآ۔۔
تبھی درواذہ کھلنے کی آواذ پر چونکآ۔۔پلٹ کر دیکھا تو فاریہ مسکراتے ہوے آگے بڑھ رہی تھی۔۔۔
تم؟؟ وہ بمشکل خود پر قابو کیے کھڑا تھآ۔
وہ بنا کچھ بولے اس کے قریب آکر اس کے سینے سے لپٹ گٸ۔۔۔ کچن کا درواذہ وہ بند کر کے آچکی تھی۔۔ اس لیے بریرہ کی طرف سے اسے کوی پریشانی نہیں تھی۔۔
فاریہ یہاں سے جاو۔۔ ریاض اسے خود سے دور کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔۔
ریاض۔۔سب کچھ بھول جاو۔۔ صرف میں اور تم ہیں اور کوی نہیں۔۔ ہر حد پار کر دو۔۔
فاریہ مخمور سی ہوتی بولی۔۔۔تو وہ بے اختیار اس پر جھک گیآ۔۔۔
کچن کا درواذہ بند ہوتے ہی اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوآ۔۔ اس نے درواذہ کھٹکھٹایا مگر بے سود۔۔وہ اندربند ہو چکی تھی۔۔
یا اللہ اب کیا کروں میں ۔۔وہ وہیں بیٹھی آنسوو بہانے لگی۔۔۔ ۔ اچانک درواذہ کھلا اور عاٸشہ کچن میں داخل ہوی۔۔بریرہ کو یوں بیٹھےدیکھ کر چونکی۔۔
کیا ہوآ؟؟، تم یہاں۔۔
وہ حیران ہوی تھی۔۔
وہ میں غلطی سے بند ہو گٸ تھی۔۔
بریرہ اسے کہتی بمشکل مسکرا کر کچن سے نکل گٸ۔۔“۔عاٸشہ پریشانی سے سے جاتے دیکھ کر سلطان کے لیے چاے بنانے لگی۔۔۔
وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی کمرے میں داخل ہوی۔۔
سامنے کا منظر دیکھ کر وہ ساکت ہو گٸ۔۔
فاریہ ریاض کے سینے سے لگی تھی۔۔ ریاض اسے مخمور آنکھوں سے دیکھ رہا تھآ۔
اس پل اسے انداذہ ہو گیا کہ کیا ہوا ہے۔۔ اس نے جلدی سے آگے بڑھ کر فاریہ کو ریاض سے دو کیا اور غصے سے تھپڑ جڑ دیا۔۔
یہاں سے دفع ہو جاو۔۔ وہ زندگی میں پہلی بار اپنے حق کے لیے بولی تھی۔۔ اسے احساس ہوا تھا کہ وہ اپنے شوہر کو نہیں کھوے گی۔۔
فاریہ غصے سے اسے دیکھنے لگی۔۔
دفع ہو جاو ورنہ شور مچا دوں گی۔۔
بریرہ کی دھمکی پر فاریہ تن فن کرتی وہاں سے نکل گٸ۔۔۔
بریرہ نے جلدی سے درواذہ بند کر دیا۔۔
آپ ٹ ٹھیک ہیں۔۔
اس نے ریاض سے پوچھا جو صوفے پر بیٹھا لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا۔۔
وہ بنا کچھ کہے بریرہ کو بانہوں میں بھر کر بیڈ پر لے گیا۔۔
مجھے معاف کر دو میں اختیار کھو چکا ہوں۔۔
************
وہ کھیتوں کی رکھوالی پر تھا۔۔۔چکر پورا کر کے وہ آرام کی غرض سے درخت کی چھاوں میں بچھی چارپاٸ پر لیٹ گیآ۔۔
سلطان پلیز ایسا مت کرو۔۔
رباب کی زور دار آواذ سے وہ چونکا۔۔جلدی سے اٹھ کر چپل پہنی اور کھیتوں سے نکل آیا۔۔
رباب سلطان سے بحث کرنے میں مصروف تھی۔۔
رباب سمجھنے کی کوشش کرو۔۔پہلے کی بات اور تھی۔۔ اب میں شادی شدہ ہوں اور سب سے بڑی بات تم میرے بھاٸ کی عزت ہو۔۔ سلطان اسے سمجھانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔۔
تم مجھ سے محبت کرتے تھے نا ۔۔پھر تم میں اتنی ہمت بھی نہیں ہے کہ اپنی محبت کی خاطر لڑڑو۔۔ہم سب کچھ چھوڑ کر دور چلے جاٸیں گے تم کسی کو جواب دہ نہیں ہو گۓ۔۔
وہ پلاننگ کیے بیٹھی تھی۔۔
رباب مجھے تم سے محبت کبھی تھی ہی نہیں۔۔وہ صرف وقتی کشش تھی جو اس عمر میں ہر ایک کو ہوتی ہے۔میں تم سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن مجھے تم سے کوی جنونی عشق بھی نہیں تھا کہ تمہاری خاطر اپنی فیملی چھوڑ دوں۔۔میں اپنی بیوی سے محبت کرتا ہوں جو سکون حلال تعلق میں ہے وہ حرام تعلق میں نہیں ہے میں یہ بات سمجھ چکا ہوں بہتر ہے تم بھی اپنی زندگی برباد مت کرو۔۔
سلطان نے دو ٹوک کہا تھا۔۔
وقتی کشش؟ میں نے کتنے خواب سجاے تھے اور تم صرف وقت گزاری کر رہے تھے۔؟ نہیں سلطان تم ایسا نہیں کر سکتے۔۔
رباب صدمے میں چلی گٸ۔۔
رباب یہ ہماری قسمت کا کھیل ہے بہتر ہے آٸیندہ مجھ سے اس قسم کی کوٸ بات مت کرنا اور نا ہی مجھ سے کوی امید رکھنا ۔۔ نٸ زندگی کی شروعات کرو۔۔۔
سلطان کہتا وہاں سے چلا گیا جبکہ رباب غصے سے بیچو تاب کھا کر رہ گٸ۔۔
ایاض حیرت زدہ سا واپس کھیتوں میں لوٹ آیا مطلب اس کی بیوی غلط تھی۔۔۔ سلطان نے اسے صاف انکار کر دیا اسکے باوجود بھی وہ یہ سب۔۔۔۔
......c........c.......c.......c.....
بھاٸ کچھ بات کرنی ہے آپ سے۔۔
وہ حویلی کی پچھلی ساٸیڈ پر تھا جب ایاض اس کےپاس آیا۔۔
ہاں بولو کیا بات ہے؟
سلطان اس کےقریب آتا بولآ۔۔
اگر آپ کو رباب پسند تھی تو میری شادی کیوں کروای اس سے؟۔ کیوں میری زندگی عزاب بنا کر رکھ دی ہے۔۔
وہ بے بسی سے گویا ہوا
تمہیں کیسے؟
سلطان حیرت زدہ سا گویا ہوآ۔
آپ کی نام نہاد محبوبہ نے شادی کے پہلے دن ہی اپنی محبت کی داستان مجھے سنا دی تھی۔۔میری برداشت ختم ہو چکی ہے ۔۔۔
وہ ضبط سے گویا ہوآ۔۔
ایاض۔۔میں نے اسے بہت سمجھایا مگر وہ بہت ضدی ہے۔۔ وہ کسی طور مان نہیں رہی۔۔
سلطان نے سر جھکا کر کہا۔۔
تو میں کیا کروں؟ دادا سردار کو بتا دوں۔؟آخر ایک بیوی کو لے کر میری بھی خواہشات ہیں۔میں شادی شدہ ہو کر بھی کنوارہ ہوں۔۔اور سب سے بڑی بات میری انا پر وار ہوا ہۓ۔۔میری بیوی میرے ہوتے ہوے کسی نہیں میرے ہی بھای کے ساتھ۔۔چھیییی۔۔
وہ افسوس کرتا بولا۔۔
ایاض مجھے معاف کر دو۔مگر قسم لے لو۔۔شادی کے بعد سے میں اسے صرف سمجھا رہا ہوں کہ ماضی کو بھول جاے مگر وہ نہیں مان رہی میں خود عاجز آ چکا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلطان نے سر پکڑ کر کہا۔۔۔
**********
وہ قرآن پاک پڑھ کر فارغ ہوٸ تو ریاض کو کھسمساتے دیکھ کر اس کے قریب آٸ۔۔
وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔سر شدید بھاری ہو رہا تھا۔۔ دونوں ہاتھوں سے سر تھام کر وہ لمبی سانسیں لینے لگا۔۔
آپ ٹھیک ہیں؟ رات جو ہوا اس پر بریرہ شرم سے لال ہو رہی تھی مگر پھر ہمت کر کے پوچھ لیا۔۔
ہاں ٹہیک ہوں۔۔بس سر درد ہے۔۔
وہ سر دباتے ہوے بولا
میں ۔۔۔۔ میں سر دبا دوں۔۔اس نے اپنی خدمات پیش کیں۔۔
ن نہیں بس ٹھیک ہے۔۔۔پتا نہیں کیا ہو گیا۔۔۔
وہ اسے منع کر کے خود سے بڑبڑانے لگا۔۔
رات کھانا کھا کر کمرے میں آیا تھا پھر کچھ یاد نہیں کیا ہوا شاید سو گیا تھا۔۔طبیعت بھی خراب ہے۔۔
اس کی بڑبڑاہت بریرہ نے سن لی تھی۔۔۔وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔۔مطلب اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا۔۔ فاریہ نے کیا کیا پھر ان دونوں کے بیچ جو بھی ہوا۔۔وہ سب بھول چکا تھا؟؟ وہ اڑی ہوی رنگت لیے صوفے پر بیٹھ گٸ۔۔مطلب انہیں نہیں یاد کہ فاریہ نے کیا کیا تھا۔۔ اب کیا کروں۔۔۔رات اسے تھپڑ تو مارا تھا لیکن اب وہ بدلہ نہ لے لے۔۔
وہ پریشان سی سوچنے لگی تھی۔۔ رات کو اس نے نجانے کیسے ہمت آ گٸ اس نے فاریہ کو تھپڑ مار دیا ۔۔وہ یہ سوچ کر مطمٸن تھی ریاض کو معلوم پڑ چکا ہے تو وہ خود ہی فاریہ سے کنارے ہو جاے گا مگر اب اسے اپنے لالے پڑ گے تھے۔۔وہ صدا کی بزدل تھی۔۔۔
وہ کچن سے نکل کر لان کی طرف آٸ تو ٹھٹھک گٸ۔۔ ریاض وہیں بیٹھا تھا۔۔رات کا واقعہ یاد آیا تو پلٹنے لگی مگر ریاض کی پکار پر وہ اس طرف چلی گٸ۔۔
کیا ہوا ٹھیک ہو پریشان لگ رہی ہو۔۔
ریاض نے اسے دیکھ کر پوچھا
وہ وہ رات میں۔۔ جو کچھ بھی ہوا۔۔۔وہ
فاریہ اٹکتے ہوے کوی بات بنانے لگی تھی۔۔
ارے معاف کرنا۔۔میری طبیعت بہت خراب تھی۔۔ کھانا کھاتے ہی شاید سو گیا کچھ یاد نہیں رہا۔۔ صبح اٹھا تب بھی سر دکھ رہا تھا۔۔
ریاض نے مسکرا کر کہا تو فاریہ حیران رہ گٸ۔۔۔ مطلب اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا؟
وہ خوش ہوی تھی۔۔۔
کوی بات نہیں ۔۔ اب ٹھیک ہو نا۔۔میں چاے لاتی ہوں۔۔
وہ خوشی سے کہتی اندر کو بھاگی ۔۔ریاض کندھے اچکا کر رہ گیا۔۔۔
وہ تھکا ہارا سا کمرے میں داخل ہوا تو درواذے پر ہی ساکت ہو گیا۔۔عاٸشہ آٸینے کے سامنے کھڑی بال سلجھا رہی تھی۔۔اس کے لمبے گھنے سیاہ بال اس کی کمر پر آبشار کی مانند گرے ہوۓ تھے۔۔ وہ اپنی دھن میں بال سنوار رہی تھی۔۔
سلطان نے اس سے پہلے اسےہمیشہ حجاب میں دیکھا تھا آج پہلی بار بنا دوپٹے کے اسے دیکھ کر وہ بے اختیار اس کی طرف بڑھا۔۔
وہ اسے اچانک اپنے پیچھے دیکھ کر چونکی۔۔
آ آپ ۔۔ وہ بوکھلا کر کہتی دوپٹہ اٹھانے لگی مگر سلطان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا۔۔
عاٸشہ شرم سے لال ہو گٸ۔۔۔
سلطان نے اس کے آبشار جیسے بالوں میں ہاتھ پھیرا ۔۔وہ مزید انتظار نہیں کر سکتا تھا۔۔ خمار ذدہ سا وہ اس پر جھکتا چلا گیا۔۔
..................... ۔ ......................
امی جان۔۔دادا سردار کہاں ہیں؟؟ آج پورا دن وہ نہ کھیتوں پر رہے نا ہی پنچاٸت آۓ۔۔ بابا جان کہہ رہے تھے ان کی طبیعت خراب ہے؟
سلطان ماں کے پاس آکر بیٹھتا سوال کرنے لگا۔۔
ان کی طبیعت خراب ہے۔۔ ناشتہ اور دوای دی تھی۔۔وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہ رہے دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایآ۔۔
کبریٰ نے پریشان کن لہجے میں کہا تو سلطان سر ہلاتا دادا سردار کے کمرے کی طرف بڑھ گیآ۔۔
دادا سردار بیڈ سے ٹیک لگاۓ آنکھیں موندیں بیٹھے تھے۔۔
دادا سردار کیا ہوا آپ ٹھیک ہیں؟
سلطان پریشانی سے ان کی طرف بڑھا اور ان کا ماتھا چیک کیا۔۔
آپ کے تو ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ چکے ہیں۔۔ او میرے خدآ۔ وہ ان کے ہاتھ چیک کرتا پریشانی سے بولا۔۔دادا سردار نیم کھلی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔ان میں بولنے کی ہمت تک نہیں تھی۔۔
سریلی سریلی۔۔وہ سریلی کو آواذ لگاتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔۔
کیا ہوا خیریت ہے؟ عاٸشہ اس کی آواذ سن کر کچن سے باہر نکلی۔۔۔جلدی سے دودھ گرم کر کے لاو اور ساتھ میں کچھ کھانے کو بھی لانا ۔۔لگتا ہے دادا سردار کا بی پی لو ہو گیا ہے۔۔
سلطان اسے کہتا تیزی سے پلٹ گیا۔۔
دادا سردار کو ٹھیک سے بٹھا کر اس نے پانی پلایا اور ہاتھ پاٶں ملنے لگا۔۔۔ کچھ دیر میں عاٸشہ دودھ کا گلاس بریڈ کے پیس اور دو ابلے ہوۓ انڈے لے آٸ۔۔
سلطان ان کے پیر ملتا رہا اور عاٸشہ نے تھوڑا تھوڑا کر کے انہیں دودھ پلایا اور بریڈ کے چند ٹکڑے منہ میں ڈالے۔۔۔تھوڑی ہمت ہوٸ تو انہوں نے انڈے اپنے ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا۔۔۔
خوش رہو سلامت رہو بچو۔۔
دادا سردار نے ان دونوں کے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔۔
سلطان نے اٹھ کر جلدی سے ڈاکٹر کو فون ملایا۔۔۔دوسری طرف ڈاکٹر نے انہیں شہر سے باہر ہونے کی اطلاع دی۔۔ وہ شام تک لوٹنے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔چند دواٸیاں وغیرہ بتا کر اس نے فون رکھ دیا۔۔سلطان نے جلدی سے رامو کو ڈسپنسری دواٸیاں لینے بھیجا۔۔
سب لوگ کہاں ہیں۔۔ سب مر گے تھے کیا؟؟ دادا سردار کا خیال نہیں رکھ سکے۔۔۔وہ غصے سے دھاڑا تھا۔۔۔سب عورتیں پریشان سی دادا سردار کے کمرے میں بھاگیں۔۔مرد تو کوٸ تھا نہیں گھر پر۔۔
ہنہہہ بڈھے کے چونچلے تو دیکھو۔۔۔
رباب طنزیہ لہجے میں بڑبڑاٸ۔۔ اس کی بڑبڑاہٹ بریرہ نے سن لی تھی۔۔وہ سر افسوس سے جھٹک کر رہ گٸ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ٹھیک ہوں تم لوگ جاٶ سونے کے لیے۔۔
دادا سردار نے سب کو اپنے کمرے میں کافی دیر سے بیٹھے دیکھ کر مسکرا کر کہآ۔۔
میں یہیں رکتا ہوں آپ سب جاٸیں۔۔ سلطان نے باقی سب سے کہا۔۔
نہیں میں رکتا ہوں۔۔آپ آرام کریں دن بھر کے تھکے ہوۓ ہیں۔۔
ریاض نے اپنی خدمات پیش کیں۔۔
نہیں کوٸ نہیں رکے گآ۔۔رات کو رامو میرے ساتھ سو جاۓ گا تم سب جاو اپنے اپنے کمروں میں۔۔
دادا سردار نے انہیں ٹوکتے ہوے کہا
لیکن دادا سردار ۔۔۔۔
سلطان نے کچھ کہنا چاہا مگر انہوں نے اشارے سے منع کر دیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلطان ۔۔۔۔۔وہ کمرے میں جا رہا تھا جب رباب کی آواذ پر رک گیا۔۔
سلطان کیا تم واقعی مجھے بھول جاو گے؟
اس نے امید بھری نظروں سے اسے دیکھا
رباب ہم اس بارے میں بات کر چکے ہیں مجھے اب دوبارہ کچھ نہیں کہنآ۔۔
وہ دو ٹوک کہہ کر کمرے میں چلا گیا۔۔جبکہ رباب دانت پیس کر رہ گٸ۔
پریشان نہ ہوں۔۔وہ ٹھیک ہو جاٸیں گے بس موسمی بخار ہے۔۔۔
عاٸشہ نے پریشان بیٹھے سلطان سے کہا۔۔
اللہ انہیں صحت دے۔۔آمین۔آپ ان کے لیے دعا کیجیے گا اللہ آپ کی زیادہ سنتا ہو گآ۔۔
سلطان نے اس سے اپیل کی تو عاٸشہ مسکرانے لگی۔۔
اللہ سب کی دعا سنتا ہے۔۔آپ بھی دعا کریں۔۔اپنے لیے خود مانگیں اللہ کو مانگنا پسند ہے۔۔۔
مگر میں تو نماذ بھی باقاعدگی سے نہیں پڑتا ۔۔ میں تو بہت گناہگار ہوں۔۔ پتا ہے امی جان مجھے نماذ پڑھنے کے لیے کہتی ہیں مگر میں کبھی کبھار ناغہ کر جاتا ہوں۔۔
وہ بولا
نماذ انسان اپنے لیے پڑھتا ہے۔۔اس کا ثواب ہمیں ہی ہوتا ہے۔۔ مرنے کے بعد نماذ کام آتی ہے۔۔ اور آپ اداس کیوں ہوتے ہیں۔۔اللہ نے بن مانگے ہی اتنا دیا ہے۔یہ گھر دولت رشتے ۔۔ صحت ۔۔ پھر وہ مانگنے پر کیوں نہیں دے گآ؟
عاٸشہ نرمی سے اسے سمجھا رہی تھی اور وہ مگن ہو کر اسے سن رہا تھا۔۔
میں نے تو سواۓ اپنے بابا کے اور کسی کا پیار نہیں پایا۔۔ اور پھر اللہ نے آپ کو میری ذندگی میں بھیجا۔۔اس گھر میں آکر میں مکمل ہو گٸ ہوں۔۔سب رشتے مل گے ہیں۔۔
وہ مسکرا کر اسے بتانے لگی۔۔اس کے لہجے میں نمی تھی۔۔
ٹھیک ہے پھر تو میں اللہ سے خود ہی دعا مانگ لوں گا۔۔اس نے مجھے اتنی اچھی بیوی کم استانی صاحبہ زیادہ دی ہیں۔۔
سلطان نے اسے چھیڑتے ہوے کہا تو وہ ہنس پڑی۔۔۔
**********
ریاض بستر پر بے چینی سے کروٹیں لے رہا تھا۔۔ بریرہ اب تک کمرے میں نہیں آٸ تھی۔۔۔ اس کا دھیان بار بار اسی طرف جا رہا تھا۔۔ وقت دیکھا تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔۔ وہ ابھی اٹھتا اس سے پہلے ہی درواذہ کھلا اور بریرہ سست روی سے چلتی اندر داخل ہوٸ ۔۔ اور بنا کپڑے تبدیل کیے ہی بستر پر لیٹ گٸ۔۔ ریاض نے اسے غور سے دیکھا۔۔اس کی رنگت پیلی پڑی ہوی تھی۔۔مگر پھر سر جھٹک کر سو گیا۔۔۔
۔۔۔
دادا سردار کی طبیعت اب بہتر تھی۔۔ ڈاکٹر نے ان کا شہر سے مکمل چیک اپ کروانے کا مشورہ دیا تھا۔۔
ان کی ضد تھی کہ وہ ہسپتال نہیں جاٸیں گے ایسے کافی دن گزر گے مگر وہ ہسپتال جانے کو نامانے۔۔۔ بریرہ بھی دن بدن کمزور ہوتی جا رہی تھی۔۔عاٸشہ نے یہ بات نوٹ کی تھی۔۔
اس دن دادا سردار کی طبیعت پھر سے خراب ہو گٸ۔۔ صفدر خضر اور ریاض پنچاٸت میں تھے۔۔۔ عاٸشہ نے سلطان کو بریرہ کو ساتھ لے جانے کا مشورہ دیا کافی دنوں سے وہ سست سی ہو رہی تھی پوچھنے پر بہانہ کر دیتی تھی۔۔ سلطان نے عاٸشہ کو ساتھ چلنے کا کہآ۔۔یوں سلطان عاٸشہ اور بریرہ دادا سردار کو لیے شہر ہسپتال کی طرف روانہ ہو گے۔۔
ڈاکٹر نے دادا سردار کا مکمل چیک اپ کیا ۔۔کچھ کمزوری بتای ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ انہیں شوگر کی بیماری ہو چکی ہے اس لیے زیادہ احتیاط کرنی ہو گی۔۔۔
بریرہ کے جیک اپ کے بعد رپورٹس پڑھ کر ڈاکٹر نے مسکرا کر اسے خوشخبری سنای۔۔عاٸشہ نے تو خوشی سے اسے گلے لگا لیا جبکہ بریرہ سکتے میں آ گٸ۔۔۔
********
کس کا ہے یہ بچہ؟؟ میں پوچھتا ہوں کس کا بچہ ہے یہ۔۔؟
ریاض غصے سے بریرہ پر برس پڑا۔جب اس نے دراز میں پڑی رپورٹس دیکھیں۔۔
آپ آآ پ کا۔۔
بریرہ نے سہم کر اٹکتے ہوے کہا۔۔
جھوٹ مت بولو۔۔میں نے تمہیں ہاتھ تک نہیں لگایا۔۔اپنا گناہ میرے سر پر مت تھوپو۔۔
ریاض اس پر قدرے اونچی آواذ میں بولا تھآ۔۔بات عزت کی تھی اس لیے وہ کمرے میں ہی غصہ دباے اس سے باز پرس کر رہا تھا۔۔۔
آ آ پ کو یاد نہیں ۔۔وہ اس دن ۔۔اس دن ۔۔
وہ روتے ہوے بول رہی تھی الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔۔۔اس سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔۔اس کی ذات پر اتنا بڑا الزام لگا تھا۔۔
لڑکی۔۔ اس گناہ کو ختم کروا دو اسی میں بھلای ہے ورنہ زندہ گاڑ دوں گآ۔۔۔
اس کے بال پکڑ کر غصے سے تنبیہ کرتا وہ کمرے سے نکل گیا۔۔
ن ن نہیں نہیں م میں اپنا بچہ نہیں ماروں گی نہیں نہیں۔۔
وہ روتی ہوی وہیں بیٹھ گٸ۔۔۔
************
یہ دیکھو ۔۔
سلطان نے چند کاغذات عاٸشہ کے سامنے رکھے۔
یہ کیا ہے؟ اس نے حیرت سے اسے دیکھآ۔۔
دادا سردار کی چند زمینیں جو دوسرے شہر میں تھیں وہ انہوں نے بیچنے کا کہا تھآ۔۔پورے دس کروڑ کی بیچی ہیں۔۔
سلطان نے مسکرا کر بتایا
اب آپ ان پیسوں کا کیا کریں گے؟۔
اس نے اشتیاق سے پوچھا۔۔
بینک میں جمع کروا دوں گآ۔۔
سلطان نے کندھے اچکاے۔۔
آپ ایسا نہیں کر سکتے کہ ان پیسوں سے گاٶں کے لوگوں کی مدد کریں۔؟؟۔
عاٸشہ نے اسے ایک پل کے لیے حیران کیا۔
مگر گاٶں والے خود کچھ کریں ہم اپنا پیسا کیوں برباد کریں۔۔
سلطان نے لاپرواہی سے کہآ۔۔
یہ گاٶں والے اپنی بیٹیوں کے رشتے بھی آپ کی اجازت سے پکےکرتے ہیں۔۔آپ کے غلام بنے پھرتے ہیں۔۔اس پورے گاٶں میں نہ ہی ہسپتال ہے نہ ہی مسجد اور نہ ہی سکول۔۔
پیسہ ایسی جگہ لگاٸیں جہاں مرنے کے بعد ھی کام آۓ۔۔۔ انسان مرنے کے بعد اپنے ساتھ صرف اپنے اعمال لے کر جاے گا۔۔گھر پیسہ رشتے سب یہیں چھوٹ جآٸیں گۓ۔۔اور دیکھیں کل رات دادا سردار بیمار ہوے تو انہیں شہر لے جانا پڑآ۔۔ اگر یہیں ہسپتال ہوتا تو اتنے دور نہ جانا پڑتا۔۔آپ کے پاس تو گاڑی تھی سہولت تھی۔۔مگر گاٶں والے بیچارے۔۔ان میں سے اکا دکا کسی کے پاس باٸیک یا پھر رکشہ ہے ۔۔۔ کیا وہ انسان نہیں؟ آپ سربراہ ہیں سردار ہیں آپ کا کام ہے ان کا خیال رکھنا۔۔
وہ اسے محبت سے سمجھاتی رہی اور وہ فرصت سے اسے سنتا رہا۔۔اس کی باتیں درست تھیں۔۔اس کے سمجھانے کا انداذ ایسا تھا کہ سننے والےکا دل چاہتا بس اس کا کہا مانتا جاۓ۔۔۔
***********
بریرہ کی پریگنینسی کو دو ماہ گزر چکے تھے۔۔ اس دوران اس نے خود کی حفاظت بہت مشکل سے کی تھی۔۔ریاض اسے موقع ملتے ہی ابارشن کروانے کا کہتا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں اسے طلاق کی دھمکی دیتا یا پھر جان سے مارنے کی۔۔۔ بریرہ اپنی اولاد کی خاطر ڈٹی رہی۔۔ وہ ریاض سے کتراتی پھرتی تھی۔۔ صبح سویرے اٹھ جاتی اور کوشش کرتی کہ ریاض کی موجودگی میں نہ ہی کمرے میں جاۓ اور نہ ہی اس کے سامنے آۓ۔۔
ریاض اس کی یہ حرکت نوٹ کر چکا تھا۔۔دماغ اس کی پارساٸ کی گواہی دے رہا تھا۔۔
یہ لڑکی ایسی نہی ہو سکتٸ۔۔نہ ہی کبھی گھر سے نکلی اور نہ ہی کوٸ اور شخص گھر میں داخل ہو سکتا ہے۔۔ مگر پھر مجھے یاد کیوں نہیں آ رہا کہ میں نے کبھی اسے چھوا ہو۔۔۔
وہ عجیب کشمکش میں مبتلا ہر وقت سوچتا رہتا۔۔ آخر تنگ آکر اس نے یہ بات فاریہ کو بتا دی۔۔فاریہ پہلے تو سکتے میں آ گٸ لیکن پھر جلدی ہی خود کو کمپوز کر لیا۔۔ اس کے لیے یہ بات فاٸدہ مند ثابت ہوٸ تھی کہ اسے کچھ یاد نہیں تھا ورنہ اس کا بھانڈا پھوٹ سکتا تھا۔۔
میں نے خود اسے کٸ بار دوپہر میں حویلی سے باہر جاتے دیکھا ہے ۔۔اس وقت جب سب سو رہے ہوتے ہیں ۔۔میں نے یہ بات کبھی نوٹ تو نہیں کی تھی لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ یہ اسی وقت کہیں منہ کالا کروا آٸ ہے۔۔
فاریہ نے جلتی پر تیل ڈالا تھا۔۔ ریاض اس کی بات پر دانت پیستا سوچ میں ڈوب گیا۔۔
کیا تم اسے یوں چھوڑ دو گے۔۔وہ بچہ ضاٸع نہیں کرواتی تو گھر سے نکال باہر کرو۔۔طلاق دے دو۔۔ عزت اسی کی جاۓ گی۔۔تمہارے لیے کیا وہ آخری لڑکی ہے؟
اس کی بات پر ریاض نے ایک پل کو اسے دیکھا تھآ۔۔
فاریہ مجھے سمجھ نہیں آتی۔۔۔میرا دل نہیں مان رہا۔۔
ریاض بے بسی سے گویا ہوا
تو ٹھیک ہے پھر پالتے رہو کسی اور کے گناہ کو۔۔ مرد کو اتنا غیرت مند تو ہونا ہی چاہیے کہ وہ اپنی عزت پر ایک داغ بھی برداشت نہ کرے۔۔کیا تم میں غیرت نہیں ہے؟ جو کسی اور کی گند کو اس خاندان کا وارث بنانے چلے ہو؟۔
فاریہ نے اب کی بار اس کی انا پر وار کیا تھا۔۔وہ اپنی بات کہتی وہاں سے اٹھ گٸ۔۔ جبکہ ریاض مٹھیاں بھینچے وہیں بیٹھا رہا۔۔۔اس نے فیصلہ کیا تھا۔۔۔
آخری بار کہہ رہا ہوں اس گند کو ختم کروا دو ورنہ اسی کے پاس جاو جس کا گناہ میرے سر تھوپ رہی ہو تم۔۔۔
اس کے بال دبوچے وہ غصے سے ورننگ دے کر کمرے سے نکل گیا۔۔ اسے ڈر تھا کہ اگر وہ کچھ دیر یہاں رکا تو اس لڑکی کا قتل کر ڈالے گا۔۔
وہ روتی سسکتی وہیں بیٹھ گٸ۔۔یا اللہ یہ کیسی کشمکش میں مبتلا کر دیا۔۔میرے رب مجھے راستہ دکھا مجھے صبر دے۔۔
وہ ہچکیوں سے روتی اللہ سے دعا مانگنے لگی۔۔ اور اللہ کب اپنے بندوں کی نہیں سنتا۔۔وہ تو ہر پل اپنے بندوں کے ساتھ ہے بس کبھی کبھار وہ آذماتا ہے اپنے پسندیدہ بندوں کو۔۔۔۔
**************
یہ دیکھیں عآٸشہ ۔۔آپ کے کہنے پر میں نے ساری پرمیشنز کے ساتھ گاٶں میں ہسپتال ۔۔مسجد۔۔سکول۔۔اور ضروری اشیا۶ کے لیے کچھ سٹور تیار کروانے کا ارادہ کر لیا ہے۔۔
سلطان نے پرجوش ہو کر عاٸشہ کو بتایا۔۔
یہ بہت اچھا کیا آپ نے۔۔اب یہ کام شروع کب ہو گا؟
عاٸشہ نے مسکرا کر اسے سراہا
بس آج کل میں کام شروع ہو جاے۔۔کچھ رقم میں نے گاٶں کے غریب گھروں میں بھی پہنچا دی ہے۔۔ تا کہ ان کی مالی حالت ٹھیک ہو جاے۔۔
اس نے مزید بتایا۔۔
ایک بات پوچھوں؟
عاٸشہ نے اچانک سنجیدگی سے کہا
جی پوچھیں نا۔۔ سلطان نے مسکرا کر کہا
کیا آپ نے احمر کو معاف کر دیا ہے؟
اس کے غیر متوقع سوال پر سلطان حیران ہوا
کیا مطلب۔۔ یہ بھی کوی پوچھنے کی بات ہے؟؟ احمر کوی معاف کرنے والا انسان ہے؟
سلطان نے حیرت سے کہا
نہیں میرا مطلب ہے کہ اتنے عرصے سے اس کا ذکر نہیں سنا تو لگا شاید سب بھول گے ہیں۔۔
عاٸشہ نے وضاحت پیش کی
وہ میرا لاڈلا بھای تھا۔۔ لاڈلا بیٹا اور لاڈلا پوتا تھا۔۔ آپ کو پتا ہے؟ امی جان کمرے میں بیٹھی بس اسے یاد کر کے روتی رہتی ہیں۔۔ وہ بہت مظبوط ہیں کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتی اپنا دکھ ۔۔مگر میں ان کا بیٹا ہوں۔۔اور بابا جان۔۔وہ تو بس جوان بیٹے کی موت پر اذیت میں ڈوبے ہیں۔۔دادا سردار یوں ہی بیمار نہیں ہوے۔۔ وہ ہر وقت گھلتے رہتے ہیں۔ ہم سب اپنے طور پر کسی کو کچھ بتاتے نہیں ہیں۔۔ہر شخص خود سے لڑ رہا ہے۔۔
سلطان گم سم سا کہتا گیا۔۔اس کی آنکھوں میں نمی اور آواذ بھاری ہو رہی تھی۔۔
عاٸشہ نے خود کو کوسا کیوں ان سے پوچھ لیا میں نے دکھی کر دیا انہیں۔۔
میں نے احمر کی تلاش جاری رکھی ہے مگر خفیہ طور پر۔۔
سلطان نے پھر سے کہا۔۔
لیکن کیسۓ۔۔ وہ چونکی۔۔
اپنے چند مخبر اس کے پیچھے لگا رکھے ہیں۔۔ یہاں سے بھاگنے کے بعد وہ کسی ہوٹل میں ایک اور شخص کے ساتھ ٹھہرا تھآ۔۔ پھر وہ کٸ عرصہ شہر بدل کر رہتا رہا۔۔ اس کے بعد کہاں گیا وہ تو نہیں پتا مگر ہر طرف اے ایس کنگ کے نام سے ایک ڈون کا چرچہ ہو رہا ہے۔۔وہ ڈاکہ ڈال کر قتل کر کے فرار ہو جاتا ہے اور کوی سراغ تک نہیں چھوڑتا۔۔مجھے پورا یقین ہے وہ احمر ہی ہے۔۔جس دن میرے ہاتھ لگ گیا اس دن اذیت دے دے کر ماروں گا۔۔
وہ غصے سے دانت پیستا بولا یوں جیسے احمر اس کے دانتوں تلے ہو اور وہ اسے کچا چبا رہا ہو۔۔
کیا آپ اسے معاف نہیں کر سکتے؟
عاٸشہ کے الفاظ پر سلطان نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
معاف کرنا میرے اللہ کو پسند ہے۔۔آپ اسے قانون کے حوالے کر دیں۔۔ مگر اپنے ہاتھوں سے قتل کر کے گناہگار نہ ہوں۔۔
عاٸشہ نے اسے وضاحت دی۔۔
اگر میرے بھای کی جگہ آپ کا کوی اپنا اس کے ہاتھوں قتل ہوا ہوتا تو؟
سلطان نے ایک پل کے لیے اسے لا جواب کر دیا۔۔
ہاں میں معاف کر دیتی اسے ۔۔کیوںکہ معاف کرنا میرے رب کو پسند ہے۔۔شاید وہ اس کے بدلے قیامت کے روز میرے گناہ معاف کردے۔۔
اس نے مضبوط لہجے میں کہا۔۔۔
************
یہ لو اپنا سامان جو منگوایا تھا وہ میں لے آیا ہوں۔۔
ایاض شہر سے واپسی پر رباب کی منگوای چیزیں خرید لایا تھا ۔۔
شکریہ۔۔اس نے رسمی سا شکریہ ادا کیا۔۔
خیریت۔۔ کافی خوش لگ رہی ہو۔۔ اس نے رباب کے چہرے پر عجیب سے چمک دیکھی تو پوچھ لیا۔۔
ن نہ نہیں تو۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے بس ۔۔۔
ایاض نے اس کے بدلتا رنگ غور سے نوٹ کیا تھا۔۔اسے کچھ عجیب لگا تھا۔۔بہت عجیب۔۔ اور وہ تھی رباب کی عجیب سی مسکراہٹ جو اسے چہرے پر چپکی ہوی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
اس کی آنکھ فون کی واٸبریشن پر کھلی تھی۔۔موباٸل اٹھا کر دیکھا تو رباب کی کال تھی۔۔ایک نظر اپنے ساتھ سوۓ سلطان پر ڈالی جو گہری نیند میں سو رہا تھا۔۔اٹھ کر کھڑکی کے پاس گٸ۔۔
عاٸشہ پلیز یہاں آجاو۔۔ نیچے صحن میں۔۔ پلیز ایمرجنسی ہے۔۔۔
رباب کی گھبراٸ ہوٸ آواذ پر وہ فکر مند ہوی
کیا ہوا۔؟ اس نے ہولے سے اس سے پوچھا
تھوڑی پرسنل پروبلم ہے سلطان کو مت بتانا تم بس صحن میں آ جاو۔۔
رباب نے کہہ کر فون کاٹ دیا۔۔
وہ فکر مند سی کچھ دیر کھڑی سوچتی رہی پھر۔ دوپٹہ لپیٹ کر کمرے سے نکل آٸ۔۔۔
سیڑھیاں اتر کر ہال میں آٸ۔۔ہال اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔۔ہلکی سی روشنی جو ایک طرف لگے بلب کی پھیلی ہوی تھی اس میں عاٸشہ نے یہاں وہاں دیکھا اور صحن کی طرف بڑھ گٸ۔۔ صحن میں ایک ہیولہ سا دکھ رہا تھا۔۔۔ عاٸشہ اس ہیولے کی جانب بڑھی اچانک مردانہ آواذ پر چونکی۔۔۔
۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔
اس کی آنکھ کھٹکے پر کھلی تھی۔۔۔ اپنی دوسری جانب رباب کو نہ پا کر اس نے سر اونچا کر کے کمرے میں نظر دوڑاٸ تو وہ کھڑکی کے پاس کھڑی نظر آٸ۔۔ وہ کسی سے فون پر بات کر رہی تھٸ۔۔غور کرنےپر بھی اس کی آواذ ایاض تک نہیں پہنچی رہ تھی۔۔۔
کال کاٹ کر وہ پلٹی۔۔۔اس نے تیزی سے آنکھیں بند کر کے خود کو سوتا ظاہر کیا۔۔ ایک نظر اس پر ڈال کر وہ آہستہ سے درواذہ کھولتی باہر نکل گٸ۔۔ ایاض تیزی سے اٹھا اور بنا آہٹ پیدا کیے اس کے پیچھے درواذے سے نکل آیا۔۔۔ وہ سیڑھیوں کے قریب جا کر کھڑی ہو گٸ اور پھر سے کسی کو فون ملانے لگی۔
سنو وہ آ رہی ہے۔۔بس جیسا کہا ہے ویسا کرنا۔۔اسے چیخنے کا موقع مت دینا میں یہیں ہوں اپنا کام کر دوں گی۔۔
وہ کسی کو ہدایت دیتی کال کاٹ گٸ۔۔
ایاض پلرکی اوٹ میں کھڑا اس کی باتیں صاف سن رہا تھا۔۔۔ اس کی نظر صحن میں پڑی تو ایک ہیولہ سا نظر آیا۔۔اندھیرے کے باعث کچھ خاص نظر نہیں آ رہا تھا۔۔مگر۔۔۔مگر وہ ہیولہ عورت کا نہیں تھآ۔۔ایک مرد؟؟ یہاں؟؟
وہ حیرت زدہ سا کھڑا تھا جب درواذہ کھلنے کی آواذ پر پلٹآ۔۔ سلطان کے کمرے سے زنانہ ہیولہ باہر نکلا تھا۔۔وہ عاٸشہ تھی۔۔۔ ایاض کو اب سب سمجھ آ گٸ تھی کہ رباب کیا کرنا چاہ رہی ہے۔۔وہ پلر کی ساٸیڈ پر نظریں جھکاے کھڑا ہو گیا۔۔وہ اس پر نظر ڈال کر اس کا پردہ خراب نہیں کرنا چاہتا تھٸ۔۔
رباب دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گٸ۔۔عاٸشہ اندھیرے میں ان دونوں وجود کو نہ دیکھ سکی تھٸ۔۔وہ ہال کی طرف گٸ۔۔ تو ایاض دھیرے سے رباب کے پاس پہنچا اور اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ شور کیے بغیر کمرے میں جاو۔۔۔
اسے دیکھ کر رباب کی آنکھیں خووف سے پتھرا گٸیں۔۔ خلق سے آواذ تک نہ کل سکی۔۔۔اس سے موباٸل چھین کر کمرے کی طرف دھکیلا اور خود سیڑھیاں اتر کر صحن میں جاتی عاٸشہ کی طرف لپکا۔۔
بھابھی۔۔۔ اس کی آواذ پر عاٸشہ چونکی اور منہ اچھے سے لپیٹ کر پلٹی۔۔
اندر جاٸیں پلیز۔۔۔
اس نے نظریں جھکاے کہا
وہ وہ رباب صحن میں ہے۔۔۔مجھے بلایا اس نے۔۔
عاٸشہ نے صحن کی جانب اشارہ کیا
اپ پلیز کمرے میں جایں اور آٸندہ کسی کے کہنے پر رات میں اکیلی باہر مت آٸیے گا۔۔
وہ اسے تنبیہ کرتا صحن کی طرف لپکا۔۔۔وہ ایک نظر صحن میں دیکھتی تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر کمرے میں داخل ہوٸ۔۔
درواذہ ٹھک سے بند کرتی اپنی سانسیں بحال کرنے لگی۔۔۔ سلطان اتنی پکی نیند کا تھا کہ وہ اب تک سو رہا تھا۔۔
وہ جلدی سے واش روم گٸ وضو کیا اور تہجد پڑھنے لگٸ۔۔۔ اس کا دل گھبرا رہا تھا۔۔۔ قرآن کھولے وہ بیٹھ کر آنسوو سے روتی اور آیتیں پڑھ کر دل کو تسلی دیتی رہی۔۔
سلطان کی نیند اس کی سسکیوں کی آواذ پر ٹوٹی۔۔ عاٸشہ کیا ہوا آپ ٹھیک ہیں۔۔
وہ فکر مندی سے گویا ہوا تو وہ قران پاک الماری پر رکھتی اس کے سینے سے آ لگی۔۔
پتا نہیں کیا ہوا ہے سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔رونے سے اس کی ہچکی بندھ گٸ تھی۔۔
کیا ہوا بتآٸیں تو۔۔۔
اس کے اسرار پر عاٸشہ نےاسے پوری بات بتا دی۔۔ سلطان بھی پریشان ہو گیآ۔۔اسے سینے سےلگاےتسلی دینے لگا مگر اندر سے وہ بھی کافی پریشان ہو گیا تھا۔۔۔
**********
ایاض صحن میں گیاتو وہاں کوی نہیں تھا۔۔آواذ سن کر وہ شخص بھاگ چکا تھا۔۔۔مگر سوال یہ تھا کہ اتنی سیکیورٹی اور پہرے داروں کے باوجود کوی اندرآ جاےیہ کیسےہو سکتا ہے۔۔۔
وہ حویلی کے گیٹ پر آیا تو چوکیدار کو بے سدھ سوتا پایآ۔۔
کافی کوشش کے بعد بھی وہ نہ اٹھا تو پاس پڑا پانی کا جگ اس پر انڈیل دیا۔۔وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔۔
ج جی صاب ۔۔
کیا سوتے پڑے ہو ۔۔مر گے ہو کیآ؟وہ غصے سے بولا
معاف کرنا صاب کھانا کھاتے ہی آنکھ لگ گٸ پتا نہیں کیا ہوا۔۔۔
وہ ڈرتا ہوا وضاحت دینے لگا۔۔۔سب کو دیکھ کر آٶ۔۔ کہاں مرے پڑے ہیں۔۔
اسے کہا تو وہ بھاگتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔ کچھ دیر بعد لوٹا تو ہانپ رہا تھا۔۔۔صاب مجھے لگتا ہے سب پہرے دار بے ہوش پڑے ہیں۔۔ شاید کھانے میں کچھ ملاوٹ تھی۔۔۔سب کے سب بے ہوش ہیں۔۔۔
چوکیدار کی بات پر ایاض نے سر ہلایا۔۔۔اسے پورا یقین تھا یہ سب رباب کا کیا دھرا ہے۔۔ سب پر پانی انڈیل کر جگاو۔۔۔ جلدی۔۔
ایاض اسے حکم دیتا اندر چلا گیا۔۔
پاس کے کمرے سے ملازم کو بھی چوکیدار کی مدد کو بھیج کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔۔۔
رباب کمفرٹر منہ تک اوڑھے پڑی تھی۔۔۔وہ جانتا تھا کہ وہ جاگ رہی ہو گی۔۔۔آگے بڑھ کر کمفرٹر اس کے اوپرکھینچا اور بالوں سے پکڑ کر اپنے قریب کیا۔۔۔
بے غیرت بے حیآ۔۔بول کون تھا وہ جسے بلایا تھا۔۔
غصے سے غراتا مقابل کا سانس خشک کر گیا۔۔
م مجھے نہیں پتا۔۔م میں پانی پینے ج جا رہی تھی۔۔
وہ گلہ تر کرتی اٹک اٹک کر بولی۔۔
جھوٹ مت بولو۔۔میں نے سب اپنی آنکھوں سے دیکھا بول کیا کرنے والی تھی۔۔
سرخ آنکھیں اس پر گاڑھے وہ غصے سے گویا ہوا۔۔
م میں میں ک کچھ ن نہی۔
سچ بتا دو ورنہ جان سے مار دوں گآ۔۔بالوں پر گرفت سخت کر کے کہا
آہہہ میرے بال چھوڑو در درد ہو رہا ہے۔۔
وہ کراہ کر بولی۔۔
چل چھوڑ دیا اب بتا کیا کر رہی تھی۔۔
اس نے جھٹکے سے اسے چھوڑ کر کہا
میں بس اسے بدچلن ثابت کر رہی تھی۔۔شور مچا کر سب اکھٹا کر لیتی۔۔۔ وہ محلے کا لڑکا تھا جسے میں نے بلایا تھآ۔۔چند پیسے دے کر۔۔سلطان کو مجھ سے دور کر رہی تھی نا وہ۔۔۔وہ اس دو ٹکے کی لڑکی پر جان چھڑک رہا ہے مجھے بھول گیا اتنی جلدی۔۔۔۔
وہ غصے سے بولی ۔۔۔ ایاض ٹھٹھک گیا
کمینی عورت۔۔ بے غیرت۔۔۔تیری یہ جرت۔۔۔ زور دار تھپڑ رباب کا گال لال کر گیا۔۔
بس بہت ہوا اب وہی ہو گا جو میں چاہوں گآ۔۔۔
اپنی قمیض اتارتے اس نے غصے سے کہا تو رباب کی ہواٸیاں اڑ گٸیں
تم ایسا کچھ نہیں کرو گے سمجھے۔۔۔
رباب نے اسے روکنا چاہا مگر وہ ان سنی کرتا اس پر جھکآ۔۔کوشش کے باوجود وہ خود کوچھڑا نہ سکی۔۔ اسے آج احساس ہوا تھا۔۔ملک ایاض صفدر کو اس نےہلکے میں لے کر بہت بڑی بھول کی تھی۔۔۔
اپنا موباٸل دو۔۔
اسے موباٸل استعمال کرتے دیکھ ایاض نے سنجیدگی سے کہا۔۔
کیوں؟اس نے کندھے اچکاے
جواب میں ایاض نے اس کے ہاتھ سے موباٸل چھینا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر لے گیا۔۔
چھوڑو مجھے کہاں لے جا رہے ہو۔۔
وہ گھسٹتی ہوٸ اس کے ساتھ چلی جا رہی تھی۔۔ چپ چاپ میرے ساتھ چلو ۔۔اس کا ہاتھ چھوڑ کر کہتا وہ سیڑھیاں اترنے لگا۔۔وہ بھی نا چاہتے ہوۓ اس کے پیچھے چل دی۔۔ اس شخص کے ساتھ مقابلہ اس کے بس سے باہر ہے یہ بات وہ رات ہی جان چکی تھٸ۔۔
کہاں جا رہے ہو تم دونوں؟
کبریٰ نے انہیں دیکھ کر پوچھا
امی جان میں اپنی بیگم کو کھتوں پر لے جا رہا ہوں۔۔ گھوم گھام آٸیں گی۔۔
ایاض نے فرمانبردراری سے کہا۔۔
خوش رہو میرے بچو۔۔ جاٶ ۔۔
انہوں نے دونوں کے ماتھے پر پیار کیا۔۔۔
کھیتوں کے بیچوں بیچ درخت کے نیچے چارپاٸ پر وہ اسے لیے بیٹھا تھا۔۔۔
میں ماضی میں ہوے کسی بھی واقعے کو یاد نہیں رکھنا چاہتا۔۔ آپ بھی سب بھلا کر نٸ زندگی شروع کریں۔۔یہ میری آخری بار ہے اس کے بعد میں اتنا ظرف نہیں دکھا پاوں گا۔۔
اس نے بات کا آغاز کیا تو وہ چپ چاپ اسے سننے لگی۔۔
پتا ہے؟ میری دادی بھی ونی تھیں۔۔ اس کے اکشاف پر رباب نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
میرے دادا نے انہی کبھی بیوی نہیں مانا۔۔ دو بیٹے پیدا ہونے کے باوجود دادا اپنی بیوی کی عزت نہ کرتے اور اولاد کے سامنے مارنے سے بھی گریز نہ کرتے۔۔۔ میرے ابو اور چچا بہت چھوٹے تھے جب دادا نے دوسری شادی کر لی۔۔وہ مستقل وہیں رہتے ۔۔۔پانچ سال انہیں اپنی دوسری بیوی کے ساتھ ہو گے۔۔۔اور پانچ سال بعد وہ لوٹ آۓ۔۔۔ تب تک میری دادی بہت مضبوط ہو چکی تھیں۔۔انہوں نے اپنی اولاد کی تربیت بہت اچھی کی تھی۔۔۔ دادا سردار کے لوٹنے پر دادی نے انہیں وہی عزت دی جو شوہر کو دی جاتی ہے۔۔۔ دادا سردار کی دوبارہ دوسری بیوی سے کوی اولاد نہ ہو سکی تھی۔۔۔
وہ کہتا گیا اور رباب خاموشی سے سنتی گٸ۔۔۔
ان کی بیوی نے تمام جاٸیداد دھوکے سے اپنے نام کروای اور بھاگ گٸیں۔۔ دادا سردار ڈپریشن میں چلے گے ۔۔۔اور اس وقت میری دادی نے انہیں سنبھالآ۔۔دادا اپنے کیے پر بہت شرمندہ ہوے اور دادی سے معافی مانگی۔۔ میری دادی نے اپنے سرتاج سے کوی گلہ نہ کیا۔۔
جانتی ہو؟ میری دادی دادا کو تو نہ بدل سکی مگر بابا جان اور چچا جان کی تربیت بہت اچھی کی ۔۔۔ ان میں خون تو دادا کا ہے مگر تربیت میری دادی کی ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے گھروں میں باقی مَلکوں جیسے رواج نہیں ہے۔۔دادا آج بھی سخت دل ہیں مگر پہلے کے مقابلے میں بہت کم۔۔۔
وہ زمین پر رینگتی چیونٹوں کو یک ٹک دیکھتا کہتا جا رہا تھا۔۔۔
میری ماں بھی میری دادی جیسی ہیں۔۔انہوں نے ہمیں عورت کی عزت کرنا سکھایا ہے۔۔ تم جانتی ہو اگر میری جگہ کوی اور ہوتا تو غیرت کے نام پر تمہارا قتل کر دیتا۔۔۔
اس نے نظر اٹھا کر رباب کو دیکھا تو وہ نظریں جھکا گٸ۔۔۔
میں پہلی نظر میں ہی تم پر دل ہار گیا تھا۔باوجوداس کے کہ تم میری بھای کے قاتل کی بہن ہو۔۔
رباب نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔اس کی آنکھوں میں کرب تھا۔۔
ماضی بھلانا آسان نہیں ہوتا ۔۔۔ مگر میں چاہتا ہوں تم کوشش کرو ۔۔۔تم بھول جاو کہ تمہاری زندگی میں میرے علاوہ بھی کوی ہے۔۔۔ ۔۔
اس نے رباب کا ہاتھ تھاما تھا۔۔وہ اسے ہی دیکھتی رہ گٸ۔۔اتنا بڑا ظرف تھا اس انسان کا۔۔۔ اتنا سب جاننے کے بعد بھی وہ اسے کہہ رہا تھا کہ وہ ماضی کو بھول جاے گا۔۔۔ وہ بے غیرت نہیں تھا۔۔۔وہ ایک نیک ماں کی تربیت کا منہ بولتا ثبوت تھآ۔۔وہ اصل مرد تھا جو عورت جیسی ٹیڑھی پسلی کو بجاے سیدھا کرنے کے اسی ٹیڑھی پسلی کے ساتھ جینا چاہتا تھا۔۔
رباب نے سر جھکا لیا۔۔۔ مجھے وقت دیں ایاض۔۔۔۔
اس نے ہولے سے اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے چھڑا لیا۔۔
اس نے مسکرا کر سر ہلایا ۔۔۔
چلیں؟؟
**********
وہ سیف اللہ سے ملنے آٸ تھٸ۔۔ سلطان نے کھیتوں کی دیکھ بھال کے لیے چند آدمی رکھ لیے تھے اس لیے وہ اب اکثر گھر ہی ہوتا تھا۔۔ کھانا وغیرہ بنانے کے لیے بھی ملازمہ رکھ لی تھی۔۔ کچھ دیر اس کے پاس بیٹھ کر وہ سریلی کے ساتھ واپس لوٹ آٸ۔۔ سلطان کسی کام سے شہر گیا تھا۔۔۔شام تک لوٹنے کا کہا تھا۔۔۔ گاٶں میں تعمیراتی کام بھی شروع ہو چکا تھا۔۔۔
***********
اس کی آنکھ کھلی تو بریرہ الماری میں سے کپڑے نکال رہی تھی۔۔ کٸ دنوں سے ان دونوں کا سامنا نہیں ہوا تھا۔۔ وہ ایک دم اٹھا اور اس کے سر پر پہنچ گیا۔۔
وہ جو بنا آہٹ کیے کپڑے نکال رہی تھی اسے اپنے پاس دیکھ کر لرز اٹھی۔۔۔
لڑکی۔۔ مجھ سے اتنے دنوں سے گریز کر رہی ہے۔۔کیا لگتا ہے کہ اس طرح مجھ سے بچ جاو گی؟۔
ایک بات یاد رکھ لو ۔۔اگر یہ بچہ اس دنیا میں آیا تو میں خود تم دونوں کا گلہ دبا کر مار ڈالوں گا۔۔
اس کے بال جکڑے وہ غصے سے دانت پیستا بولآ۔۔
چ ھوڑیں مجھۓ۔۔ درد ہو رہا ہے۔۔ وہ اپنے بال چھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔۔
اس گند کو ختم کر دو بدکار عورت۔۔۔ وہ غصے سے اسے جھٹکا دیتا بولا۔۔بریرہ اپنے لیے بدکار لفظ سن کر برداشت نہ کر پای۔۔۔
اپنی حد میں رہیں ۔۔ اپ مجھ پر اتنا گھٹیا الزام نہیں لگا سکتے۔۔۔یہ بچہ آپ کا ہی ہے۔۔
وہ غصے سے چلای تھی۔۔
جھوٹی عورت اب تو مجھ سے زبان لڑاے گی۔۔۔وہ آپے سے باہر ہوتا چیخا تھا۔۔
میں اپنے بچے کو ہر گز نہیں ماروں گی ۔۔۔یہ آپ کی ہی اولاد ہے۔۔۔آپ سمجھتے کیوں نہیں۔۔وہ بے بسی سے گویا ہوی۔۔
گھٹیا عورت۔۔۔ کسی اور کے گناہ کو تم اپنے خاندان کا وارث بناو گے۔۔ غیرت مند مرد ایسے نہیں ہوتے۔۔ فاریہ کے الفاظ اس کے دماغ میں گھوم رہے تھے۔۔وہ غصے سے پاگل ہوتا اس کی جانب لپکا اور گھسیٹ کر کمرے سے باہر لے گیا۔۔
بدکار ۔۔۔تو میری بیوی نہیں ہے۔۔ونی ہے ونی۔۔ تیری کیا اوقات۔۔۔ وہ اسے گھسیٹتا ہوا سیڑھیوں تک لایا۔۔۔ فاریہ جو صحن میں شاٸستہ کے پاس بیٹھی تھی یہ سب دیکھ کر دنگ رہ گٸ۔۔
ریاض کیا کر رہا ہے تٶ۔۔ وہ پیٹ سے ہے۔۔
شاٸستہ بھاگتی وہاں پہنچی مگر اس سے پہلے وہ اپنا کام کر چکا تھا۔۔۔ سیڑھیوں سے گرتا لڑھکتا وجود فرش پر اب ساکت پڑا تھا۔خون کا ایک دریا تھا جو سفید ماربل کو سرخ کر گیا تھا۔۔۔
شاٸستہ سمیت فاریہ کی بھی چیخ نکل گٸ۔۔ کبریٰ شور سن کر کمرے سے بھاگتی باہر نکلی سامنے کا منظر دیکھ کر ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گٸیں۔۔
حویلی کے درواذے پر کھڑی عاٸشہ سکتے میں آ گٸ تھی۔۔۔
خون سے لتھڑا وجود دیکھ کر اسے ہوش آیا۔۔۔ یہ کیا ہو گیا۔۔ وہ یہ تو نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ بریرہ بریرہ ۔۔
وہ سب کو دھکیلتا اسے اٹھا کر گاڑی تک لے گیا۔۔
**********
وہ ایک ہفتہ ہسپتال میں داخل رہی تھی۔۔ بچہ ختم ہو چکا تھا اور خود بریرہ موت کے منہ سے واپس لوٹی تھی۔۔
ریاض کو دادا سردار نے گھر آنے سے منع کر دیا تھا۔۔۔کبریٰ اور شاٸستہ نے اس کی خوب خبر لی تھی۔۔۔ سلطان صفدر نے تو دو تھپڑ تک جڑ دیے تھے۔۔۔ فاریہ اپنے کمرے میں دبکی بیٹھی رہتی۔۔ریاض نے اسے کٸ دفع فون کرنے کی کوشش کی تو اس نے کال نہ اٹھاٸ۔۔ وہ خود اب پچھتا رہی تھی۔۔وہ ایسا تو نہیں چاہتی تھی۔۔اگر ریاض نے اس کا نام لے لیا تو۔۔؟؟؟ اس سے آگے وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔
اسے ہسپتال میں داخل ہونے سے بھی کبریٰ نے منع کر دیا تھآ۔ بریرہ سے ملنے کی تو قطعاََ اجازت نہ تھی۔۔ عاٸشہ نے کٸ بار بریرہ سے پوچھنے کی کوشش کی مگر وہ خاموش بت بنی بس چہرہ تکتی رہتی۔۔۔
۔۔۔۔
حویلی میں قدم رکھتے ہی اسے وہ سب یاد آیا تھا۔۔۔آنسو بند توڑ کر باہر ابل پڑے ۔۔ عاٸشہ اور شاٸستہ اسے سہارا دیتی ہال میں پڑے صوفے پر بٹھانے لگیں۔۔
ریاض بھی ان سب کے پیچھے حویلی میں داخل ہوا۔۔
اسے کہو یہاں سے دفعان ہو جاے۔۔ہمارے خاندان کا وارث اس کمینے کی وجہ سے ختم ہو گیا۔۔۔
دادا سردار غصے سے ریاض کو دیکھتے بولے۔۔
دادا سردار بس ایک بار موقع دے دیں بس ایک بار۔۔
وہ ان کے پیروں میں گر پڑا۔۔ سب نے رخ پھیر لیا۔۔
کیا میں نے تیری یہ تربیت کی تھی؟ عورت پر ہاتھ اٹھانے والا مرد ہوتا ہے؟؟
کبریٰ نے غصے سے اسے مخاطب کیا۔۔
امی جان میری بات سن لیں۔۔میں یہ سب نہیں چاہتا تھا۔۔۔لیکن مجھ سے برداشت نہیں ہوآ۔۔
کیا برداشت نہیں ہوا ایسا کیا کر دیا اس معصوم نے جو تجھ سے برداشت نہ ہوآ۔۔
شاٸستہ اب کی بار پھٹ پڑی تھی۔۔
ریاض سر جھکا گیا۔۔
بد کردار ہوں میں۔۔۔ بریرہ کی کرب سے بھری آواذ پر سب نے حیرت سے اسے دیکھآ۔۔
آپی۔۔۔ عاٸشہ نے حجاب سے جھانکتی سرخ آنکھوں سے اسے حیرت سے دیکھا۔۔۔
ہاں عاٸشہ انہوں نے مجھے بدکردار کہا۔۔۔یہ کہتے ہیں کہ یہ بچہ ان کا نہیں ہے۔
بریرہ پھٹ پڑی تھی۔۔۔ سہتی سہتی وہ اب تھک چکی تھی۔۔۔۔اس کی ہمت جواب دے گٸ تھی۔۔۔ اپنے بچے کو کھونے کا غم اسے پاگل کر رہا تھا۔
یہ بات سچ ہے؟؟ دادا سردار عضب ناک ہوتے ریاض کی جانب مڑے۔۔۔
ان سے کیا پوچھتے ہیں ۔۔ ان کی محبوبہ فاریہ سے پوچھیں۔۔۔
بریرہ نے فاریہ کو گھورتے ہوے کہا۔۔کیا ملا تجھے میرا بچہ مار کر ہاں؟ کہا تو تھا کہ کر لے ریاض سے شادی۔۔جو مرضی آۓ وہ کر۔۔مگر مجھے بخش دے۔۔مگر تجھے سکون نہیں آیا؟۔
فاریہ کا حلق تک خشک ہوا تھا۔۔وہ سوکھے ہونٹوں پر زبان پھیرتی سب کو دیکھنے لگی۔۔۔۔
و وہ وہ م میں نے ک کچھ نہی کیا۔۔
وہ اٹکتی بولی۔۔۔ اور پھر۔۔۔۔ بریرہ سب کچھ بتاتی چلی گٸ۔۔ایک ایک حرف۔۔جو کچھ آج تک ہوا وہ سب۔۔۔۔۔۔
ریاض نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔۔۔وہ اپنے ہی بچے کا قاتل بن گیا۔۔۔اس نے فاریہ کی جانب دیکھا تو اس نے سر جھکا لیا۔۔۔
ریاض کی سرخ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔۔۔
یہ یہ س سب رباب نے کہا تھا۔۔وہی مجھے کہتی تھی کہ بریرہ کو گھر سے نکلواو
فاریہ نے اپنی جان بچانے کے لیے رباب کا نام لیا تھا۔۔
خبردار جو میری بیوی پر اپنے گناہ تھوپنے کی کوشش کی۔۔۔ جان نکال لوں گا۔۔۔
ایاض نے انگلی اٹھا کر فاریہ کو وارن کیآ۔۔
رباب جو اپنا بھانڈا پھوٹنے کے ڈر سے کانپ رہی تھی ایاض کا اس کی ڈھال بننے پر وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔
اماں م میں نے کچھ نہیں کیا۔۔میں سچ۔۔۔۔
اس کے الفاظ منہ میں تھے اس پہلے ہی شاٸستہ نے اسے بالوں سے پکڑ کر گھوما کر رکھ دیا۔۔۔
اس دن کے لیے پالا پوسا تھا تجھے۔۔۔ وہ اسے روٸ کی طرح دھنک کر رکھ چکی تھیں۔۔۔
*********
پنچاٸت بیٹھ چکی تھی۔۔ بریرہ کی طرف سے سیف اللہ اور عاٸشہ تھے۔۔ سب لوگ حویلی کی بیٹھک میں موجود تھے۔۔اس بات کو گاٶں والوں سے مخفی ہی رکھا گیا تھا۔۔ریاض ایک طرف مجرموں کی طرح سر جھکاۓ کھڑا تھا۔۔ عاٸشہ حجاب کیے عورتوں والی صف میں موجود تھی۔۔ شاٸستہ کی قہربار نظریں فاریہ کو زمین میں گڑھنے کی دعا مانگنے پر مجبور کر رہی تھیں۔۔۔
ریاض اور فاریہ کیا تم دونوں اپنی صفاٸ پیش کرنا چاہو گے؟
دادا سردار کی رعب دار آواذ پر وہ دنوں آہستہ آہستہ قالین پر دادا سردار کے سامنے آکر بیٹھ گے۔۔۔یہ روایت تھی کہ ملزم یوں ہی زمین پر بیٹھ کر صفای پیش کرتا تھا۔۔
دادا سردار ۔۔جو بھی ہوا اس پر میں شرمندہ ہوں۔۔میں کبھی ایسا نہیں چاہتا تھا ۔۔ اشتعال میں آکر ۔۔۔ وہ شرمندگی سے سر جھکاے کہتا جا رہا تھا۔۔
تم نے صرف غصے میں آکر اور کسی اور عورت کی باتوں پر یقین کر کے ہمارے خاندان کا وارث قتل کر دیا؟۔
دادا سردار نےاس کی بات کاٹ کر غصے سے کہا
بریرہ نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا
وارث؟ مطلب لڑکا؟؟ کیا یہ لوگ ایک لڑکے کی امید کر رہے ہیں۔۔؟ اگر لڑکی ہوتی تو؟؟؟
وہ حیرانگی سے سوچنے لگی۔۔
دادا سردار ۔۔۔ معافی چاہتی ہوں۔۔ میں جذبات میں اندھی ہو گٸ تھی۔۔مگر میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اس بچے۔۔۔۔ فاریہ روتی ہوی کہنے لگی۔۔۔
تو کیا چاہا تھا تم نے کہ اس گھر کی بہو کو گھر سے نکلوا دوگی؟؟ اس پر بدکرداری کا الزام لگا کر؟
دادا سردار غصے سے بولے جا رہے تھے۔۔ سب لوگ دم سادھے بس فیصلے کے انتظار میں تھے۔۔
تمہارے اسی غصے اور جزباتی پن کی وجہ سے میں نے تمہیں سرداری نہیں سونپی۔۔اور بہت اچھا کیا ۔۔ کیوںکہ تم اس مقام کے قابل ہی نہیں ہو۔۔
اب وہ ریاض سے مخاطب تھے۔۔
فیصلہ اب بہو ہی کر گی۔۔ انہوں نے سب کچھ بریرہ پر چھوڑا تھا۔۔۔ سب کی نظریں اب بریرہ پر اٹھی تھیں۔۔۔
دادا سردار جو بھی ہوا وہ سب غلط فہمی میں ہوا تھا۔۔۔میں اپنے شوہر کو معاف کرتی ہوں۔۔۔
بریرہ نے مظبوط لہجے میں فیصلہ سنایا تو ریاض نے سکون بھری سانس لی۔۔۔
اور رہی بات فاریہ کی تو۔۔۔۔ وہ آٸیندہ کے توبہ کر لے ۔۔۔ اگر پھر بھی یہ دونوں چاہیں تو بے شک ان کی شادی کروا دی جاے مجھے کوی اعتراض نہیں۔۔
اس کی بات پر سب ہی حیران رہ گۓ۔۔ کتنا بڑا دل تھا اس لڑکی کا ۔۔۔۔
دادا سردار نے ریاض کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔
فاریہ امید بھری نظروں سے ریاض کو دیکھ رہی تھی۔۔
میری شادی ہو چکی ہے مجھے دوسری شادی میں کوی دلچسپی نہیں۔۔۔
سنجیدگی سے کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا جبکہ فاریہ کے اندر ایک شدید کرنٹ دوڑا تھا۔۔۔ اپنے ٹھکراے جانے کا ۔۔۔ حسد کا احساس اسے شدت سے ہوا تھا۔۔۔
********
آپی اماں بلا رہی ہیں۔۔ کچن میں کچھ کام ہے۔۔۔
مانو فاریہ کو کہتی اپنی چوٹی ہلاتی پلٹ گٸ۔
وہ منہ بسورتی کچن میں جا گھسی۔۔
لے فاریہ یہ کھانا اوپر بھابھی کو دے آ۔۔۔ وہ وہیں کھا لے گی اس کی طبیعت خراب ہے ابھی۔۔۔
شاٸستہ نے کھانے کی ٹرے اس کے ہاتھ میں تھماتے مصروف سے انداذ میں کہا۔۔
کون بھابھی؟؟
اس نے نا سمجھی سے کہا۔۔۔
بریرہ اور کون؟۔۔ شاٸستہ کے جواب پر فاریہ سکتے میں آ گٸ۔۔۔ ٹرے پکڑتے وہ پیر پٹخ پٹخ کر اوپر گٸ۔۔
درواذے پردستک دینے لگی مگر پھر رک کر درواذہ کھولا۔۔۔
یہ لو ۔۔۔ٹرے میز پر رکھتی وہ پلٹی۔۔۔ کمرے میں صرف بریرہ ہی تھی۔۔ ریاض واش روم میں تھا۔۔پانی گرنے کی آواذ سے فاریہ کو انداذہ ہو گیا تھا۔۔
میں نیچے ہی آ رہی تھی۔۔ تکلیف کے تم نے۔۔۔
بریرہ نے تکلف سے کہا تو پلٹی۔۔
کھا لو۔۔کھا لو۔۔آخر کو مہارانی جوہو۔۔ پنچاٸت میں فیصلے کرتی پھرتی ہو۔۔
فاریہ نے زہر خند لہجے میں کہآ۔۔۔ واشروم سے نکلتے ریاض نے اس کی یہ بات سن لی تھی۔۔۔ ایک جست میں اس تک پہنچ کر اس کا بازو دبوچ کر غرایآ۔۔
میری بیوی سے تمیز سے بات کرو سمجھی۔۔۔
بیوی؟؟ اچھا ۔۔ یہی تھی تمہاری محبت۔۔ بھول گے اس ونی میں آٸ لڑکی کے لیے مجھے۔۔
فاریہ غصے سے بازو چھڑا کر بولی۔۔
اپنی حد میں رہو۔۔ورنہ جو سزا پنچاٸت میں نہیں ملی وہ میں تمہں دے دوں گا۔۔
وہ غصے سے انگلی اٹھا کر وارن کرتا بولا تو فاریہ اس کا یہ روپ دیکھ کر سہمتی کمرے سے نکل گٸ۔۔
کھانا کھا لو پھر دواٸ بھی لینی ہے۔۔
مسکرا کر اب وہ بریرہ کے پاس بیٹھا تھا۔۔بریرہ نے کھانا شروع کیا اور کچھ دیر بعد دوای لے کر سو گٸ۔۔۔
ریاض نے اس کے سوتے ہوے معصوم چہرے کو دیکھا۔۔اس کے چہرے پر درد نمایاں تھا۔۔۔ کچھ عرصے میں ہی اس کی حالت کسی مستقل مریضہ جیسی ہو گٸ تھٸ۔۔۔
*********
عاٸشہ یہ لیں میں نے آپ کے لیے کیا لایا ہے۔۔
سلطان کمرے میں داخل ہوتے ہی خوش ہوتا بولآ۔۔ وہ شہر سے لوٹا تھا۔۔ ماتھے پر پسینے کی بوندیں نمایاں تھیں۔۔
اسلام و علیکم۔۔ کیا لآۓ۔
اس نے سلام کر کے اسے کچھ باور کروایا تھا۔۔
وعلیکم سلام۔۔یہ دیکھیں میں نے شہر سے کچھ خریداری کی تھی۔۔ سکول چونکہ تیار ہونے کے قریب ہے تو میں نے یونیفارم اور کتابیں خریدی تھیں۔۔ ایک دکان پر یہ سامان پسند آ گیا تو لے لیا۔۔
اس نے ایک ہی سانس میں ساری بات تفصیل سے بتای۔۔۔
ماشا۶اللہ یہ تو بہت خوبصورت ہے۔۔
بیگ کھولتے ہی کپڑوں کو چند جوڑے جو نہایت نفیس تھے اور چند جیولری وغیرہ کا سامان تھا۔۔۔
پسند آیا ؟؟ اس نے مسکرا کر پوچھا تو وہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔۔
بہت خوبصورت ہے بہت شکریہ ۔۔۔
چلو اب اسے پہن کر تیار ہو جاو۔۔ مجھے آپ کو دیکھنا ہے۔۔
سلطان نے دوسرے شاپر سے ایک خوبصورت جالی دار سرخ رنگ کی فراک نکال کر اسے تھای۔۔
لیکن ابھی؟؟ عاٸشہ نے فراک تھامتے سوال کیا تو اس نے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ اس فراک میں ملبوس واش روم سے باہر نکلی۔۔۔ ریڈ کلر کی جالی دار لانگ فراک جس کے بازو جھالر نما تھے ۔۔فراک لمبی ہونے کے باعث ا کے پیر چھپ گے تھے۔۔۔ سر پر سرخ دوپٹہ لیے وہ مسکرا کر اس کے قریب آٸ۔۔
ماشا۶اللہ۔۔ اللہ کی قدرت ہے۔۔۔سلطان نے مسکرا کرتعریف کی اور اس کے ماتھےپر لب رکھ دیے۔۔۔
*********
کیا ہوا آپ ٹھیک ہیں نآ؟
رباب کو نڈھال سا واش روم سے نکلتے دیکھ کر ایاض گھبرایآ۔۔
الٹی آ رہی ہیں بہت ۔۔چکر بھی آ رہا ہے۔۔۔ اس نے گھومتے سر کر پکڑتے ہوے بمشکل کہا۔۔
ایاض نے سہارا دے کر اسے بیڈ پر بٹھایا اور پانی کا گلاس بھر کر اس کے ہونٹوں سے لگایآ۔۔ چند گونٹ پی کر اس نے منہ ہٹا لیآ۔۔
میں امی جان کو بلاتا ہوں آپ آرام کریں۔۔
ایاض اس کی پیلی پڑتی رنگت دیکھ کر پریشان ہوا تھا۔۔۔کچھ دیر بعد کبریٰ اور شاٸستہ وہاں پہنچی اس کی حالت دیکھ کر وہ دونوں معنی خیزی سے مسکرانے لگیں۔۔
جا بیٹا پڑوس سے گلشن داٸ ہے نا اسے بلا لا جلدی کر۔۔۔
شاٸستہ نے ایاض کو دوڑایا اور رباب کا سر دبانے لگی۔۔۔کبریٰ بھی پاس ہی بیٹھ گٸ۔۔
کچھ دیر بعد جب گلشن داٸ آٸ تو اس نے ایاض کو باہر انتظار کرنے کا کہا۔۔۔
کچھ دیر بعد شاٸستہ مسکراتی ہوی باہر آٸ۔۔
خیال رکھنا اپنی بیگم کا خیر سے ماں بننے والی ہے۔۔مبارک ہو تجھے بھی۔۔
ایاض کی باچھیں مارے خوشی اور حیرت کے کھلی رہ گٸیں۔۔۔
وہ مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا۔۔۔
چل ابھی سو جاو دونوں۔۔کل مٹھای منگوا کر سب کو خوشخبری سنانا۔۔۔کبریٰ بیٹے کا ماتھا چومتی گلشن کو لیے باہر نکل آٸیں۔۔
باجی مٹھای لازمی بیجھنا اور ایک جوڑا کپڑوں کا بھی۔۔
گلشن نے فرماٸش دھری۔۔
چل ابھی تو جا کل دیکھوں گی۔۔رامو او رامو اسے گھر چھوڑ آ۔۔
شاٸستہ نے بے زارگی سے اسے ٹرکا کر راموکے ساتھ بھیج دیا۔۔۔
مبارک ہو۔۔۔ اس نے مسکرا کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا ۔۔۔وہ سہارے سے اٹھ بیٹھی۔۔۔
ایاض۔۔۔۔ مجھے معاف کر دیں۔۔میری ہر غلطی کے لیے مجھے معاف کر دیں۔۔
اس کی آنکھیں مینا برسانے لگی تھیں۔۔۔ایاض کی محبت اس پر حاوی ہو چکی تھی۔۔۔
ایسے کیوں کہتی ہو۔۔۔ میں نے تو تمہیں ہمیشہ چاہا ہے۔۔ سب کچھ بھول جاو۔۔۔ اب ہم دونوں اور ہمارا بچہ۔۔۔
ایاض نے محبت پاش نظروں سے دیکھتے اس کے آنسوو پونچھے۔۔۔وہ اس کی اتنی محبت پر سر شار سی ہو گٸ تھی۔۔۔۔
********
وہ کمرے میں بیٹھی رباب کو کوس رہی تھی۔۔۔ جب سے اسے پتا چلا تھا کہ وہ ماں بننے والی ہے اسے خود پر رہ رہ کر غصہ آ رہا تھا۔۔
خود تو مزے میں ہے مگر میرا جینا حرام ہو چکا ہے۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوٸ اٹھی اور کمرے سے باہر آ گٸ۔۔۔
رشتہ اچھا ہے مجھے تو پسند ہے میری فاریہ خوش رہے گی وہاں ۔۔۔ شام میں دادا سردار کوی فیصلہ سناٸیں پھر ہم تیاریاں شروع کریں۔۔۔
شاٸستہ کبریٰ سے باتوں میں مشغول تھٸ۔۔۔ فاریہ رک کر سننے لگی۔۔۔
شاٸستہ تیری یہ مانو کی حرکتیں بھی عجیب ہوتی جا رہی ہیں۔۔کچھ زیادہ ہی سنورتی رہتی ہے اور آجکل تو کچھ خاص نظر نہیں آتی بس کمرے میں یا پھر باغ میں بیٹھی نجانے کیا سوچتی رہتی ہے۔۔میں تو کہتی ہوں فاریہ کے ساتھ اسے بھی نمٹا۔
کبریٰ کافی دنوں کی کھٹکتی بات آخر زبان پر لے آٸیں۔۔
ہاں اس کا بھی کچھ کرتے ہیں۔۔وہ بھی تاکیدی انداذ میں بولیں۔۔
اماں میں شادی نہیں کروں گی۔۔ فاریہ نے اپنی شادی کی بات سن کر ٹکا سا جواب دیا۔۔
کیوں ؟؟ ساری زندگی کیا عشق کا روگ لگانا ہے یا اسی گھر میں رہ کر ہمارے سینوں پر مونگ دلے گی۔۔۔؟؟
شاٸستہ تو بپھر گٸ۔۔
جو بھی کروں مگر میں شادی نہیں کرنا چاہتی ابھٸ۔۔ اس نے بھی ہڈ دھرمی دکھاٸ۔۔۔
شاٸستہ نے اسکی چٹیا پکڑ کر وہ جھنجھورا کہ اس کا گھنٹنوں میں پڑا دماغ سیدھی جگہ پر آ گیا۔۔
خبردار جو دوبارہ بکواس کی تو۔۔شادی تو تیری اسی مہینے میں کروں گی چاہے بندوق کی نوک پر ہی کیوں نا کرنی پڑے۔۔۔
وہ بھی پھر شاٸستہ تھیں۔۔ فیصلہ سنا کر یہ جا وہ جا۔۔۔ صوفے پر بیٹھی مانو نے منہ بسورا تھآ۔۔
یہاں ہماری کسی کو پرواہ نہیں ہے اور یہ محترمہ ہیں کہ انہیں مار کر بیاہ کروایا جا رہا ہے۔۔۔
مانو کے دکھڑے پر روتی ہوی فاریہ اس پر جھپٹی تھی۔۔۔
تو ہی کر لے مجھے بخش دو۔۔ اس کے بال کھیچتی وہ چلای تو مانو اس زخمی شیرنی سے جان چھڑاتی باہر کو بھاگی۔۔اس وقت وہ پاگل ہوی پڑی تھی اس سے پنگا لینا مطلب اپنا میک اپ تباہ کروانا۔۔
وہ سر جھٹکتی چلی گٸ۔۔۔۔
**********
مانو میری جان ۔۔ کچھ نہیں ہو گا بس تم سہیلی سے ملنے کا بہانہ بنا کر آ جانا کچھ دیر گھومیں گے شوپنگ کریں گے پھر تم گھر چلی جانا میں تمہیں خود چھوڑ دوں گآ۔۔کہہ دینا کہ میں ڈراٸیور ہوں۔۔۔
فون کے اس پار سے وہ لڑکا اسے منانے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔۔۔
ٹھیک ہے میں کوشش کروں گی ۔۔ مگر تم مجھے سنگھار کا سب سامان لے کر دینا اور صرف دو گھنٹےمیں ہی واپس چھوڑ دینا۔۔۔
مانو نے اسے تنبیہ کی اور فون کاٹ کر موباٸل اپنی قمیض کے اندرونی جیب میں چھپا کر سیڑھیاں اترتی نیچے آ گٸ۔۔۔
اماں میں ذرا یسریٰ کے گھر سے ہو کر آتی ہوں۔۔
مانو نے دوپٹہ درست کرتے ماں کو بتایا
اتنی سج کر کیوں جا رہی ہے کتنی بار کہا ہے کہ گھر سے باہر نکلتے تو شکل درست رکھا کر۔۔
شاٸستہ نے سجا سنورا دیکھ کر ماتھا پیٹا۔۔وہ بے زارگی سے منہ بناتی نکل گٸ۔۔۔
چچی بارش آنے والی ہے چھت پر کپڑے تھے میں وہ لے آتی ہوں۔۔تب تک آپ یہ دودھ کو دیکھیے گا۔۔ بریرہ شاٸستہ سے کہتی چھت پر چلی گٸ۔۔کپڑے اتار کر استری والے کمرے میں رکھے ۔۔۔نیچے آتے وقت ریاض کے آواذ دینے پر وہ کمرے میں گٸ۔۔
جی آپ نے بلایا۔۔
اس نے رسمی سی بات کی ۔۔ ریاض اس سے تھوڑی بہت بات کرنے کی کوشش کرتا مگربریرہ اسے زیادہ موقع نہ دیتی تھی۔۔
ہاں وہ میری آنکھ میں کچھ چلا گیا ہے دیکھو ذرا۔۔
اس نے آنکھ ملتے کہا تو بریرہ نے کنفیوز ہو کر اسے دیکھا۔۔
دیکھو نا بہت جل رہا ہے۔۔اسے یوں ہی کھڑا دیکھ کر وہ بولا تو وہ اس کی طرف بڑھی۔۔۔
جھجھکتے ہوۓ اس کی آنکھ پر ہاتھ رکھ کر پھونک مارنے لگی۔۔
وقت جیسے تھم گیا ہو۔۔ریاض بت بنا اس کی سادگی میں بھی چمکتے حسن کو دیکھے جا رہا تھا۔۔۔وہ حسین تھی بہت حسین۔۔اور سب سے بڑھ کر وہ ریاض خان کی محرم تھی۔۔یہ انمول موتی اس کا اپنا تھا۔۔۔
اسے کچھ پتا ہی نہ چلا۔۔ بریرہ اسے خود کو تکتا پا کر پیچھے ہوٸ۔۔ وہ جانے لگی تو ریاض نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔
کب تک ناراض رہو گی؟ بس کر دو یار۔۔
بریرہ کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوی تھیں۔۔
اس نے کندھے سے پکڑ کر اسے صوفے پر بٹھایا اور خود اس کے پیروں میں بیٹھ گیا۔۔
غصہ کرنا ہے کر لو۔۔ جو کہنا ہے کہہ لو مگر ناراض مت رہو۔۔ مجھے تمہاری عادت ہو گٸ ہے۔۔۔
اب وہ بے بسی سے کہہ رہا تھا۔۔
کیا آپ کو پتا ہے کہ وہ بچہ آپ کا ہی تھآ۔۔۔؟
اس کے عجیب سوال پر حیران ہوا۔۔
م مجھے کچھ یاد نہیں ہے مگر میں جانتا ہوں کہ تم جھوٹ نہیں کہہ رہی۔۔
اس نے الجھن زدہ سا کہا۔۔
کیا آپ کو یاد نہیں کہ اس رات کیا ہوا تھا؟
نہیں مجھے یاد نہیں یقیناََ طبیعت خرابی کے باعث مجھے کچھ یاد نہیں رہا تھا۔۔
مجھے بتاو کیا ہوا تھا۔۔کیا میں نے زبردستی۔۔۔
اس نے بات ادھوری چھوڑی
نہیں۔۔زبردستی نہیں ۔۔۔مگر جو ہوا بھول جاٸیں گھڑے مردے اکھاڑنے سے کچھ نہیں ہو گا۔۔
وہ بتانا نہیں چاہتی تھی۔۔
نہیں مجھے جاننا ہے۔۔ کیا ہوا تھا ۔۔
وہ مصر ہوا۔۔۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا ہوا تھا ایسا جو وہ بتانا نہیں چاہتی۔۔
اور پھر وہ بتاتی گٸ۔۔اس کے اسرار پر اس نے اسے وہ سب بتا دیا۔۔۔اور جوں جوں وہ بتاتی گٸ ریاض کے چہرہ لال ہوتا گیا۔۔
اتنی گھٹیا سوچ۔۔۔وہ اس حد تک گر سکتی ہے۔۔ کہ دھوکے سے میرے ساتھ؟؟؟
اس نے نفرت امیز لہجے میں کہا۔۔
میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔
وہ اشتعال میں اٹھا مگر بریرہ نے اس کا بازو پکڑ لیا۔۔
آپ اپنے غصے پر قابو پانا سیکھیں۔۔ ہر کام غصے سے نہیں ہوتا۔۔
تو کیا کروں۔۔مجھ سے نہیں قابو ہوتا غصہ۔۔۔ میں پاگل ہو جاتا ہوں اگر غصہ نہ نکالوں۔۔
وہ سر پکڑے بولا۔۔
جب غصہ آۓ تو وضوکر لیا کریں۔۔یا پانی پی لیا کریں۔۔
اس نے پانی کا گلاس اس کے سامنے کیا جو وہ غٹا غٹ پی گیا۔۔
آپ جانتے ہیں آپ کے غصے نے ہمارا بچہ مار دیا۔۔ آپ کے غصے کی وجہ سے سب گھر والے آپ سے متنفر ہو سکتے ہیں۔۔۔ خود پر قابو پانا سیکھیں۔۔ ہر کام میں اعتدال کریں ۔۔آپ گھر کے بڑے بیٹے ہیں۔۔
وہ اسے سمجھا رہی تھی اور ریاض کا غصہ بلکل ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔۔۔
مجھے آج تک کسی نے ایسے نہیں سمجھایآ۔۔ مجھے معاف کر دو۔۔ میں نے غلط کیا تمہارے ساتھ۔۔
وہ اس کا ہاتھ پکڑے بولآ۔۔
آپ میرے شوہر ہیں۔۔ معافی مت مانگیں۔۔ بریرہ نے مسکرا کر کہا۔۔
وعدہ کرتا ہوں ہمیشہ خوش رکھوں گا۔۔ وہ کہتا نرمی سے اسے سینے سے لگا گیا۔۔۔
**********
کبریٰ باجی۔۔ہاۓ اللہ میں مر گٸ۔۔میری بچی میری مانو۔۔
شاٸستہ روتی پیٹتی ہال میں پہنچی۔۔
کیا ہوا؟ خیریت۔۔ کبریٰ سمیت عاٸشہ اور رباب بھی پریشان ہوٸیں۔۔
مانو صبح کی گٸ ہی ہے۔۔۔یسریٰ کے گھر کا کہہ گٸ تھی اب تک نہیں لوٹی۔۔ چھ گھنٹے ہو گے ہیں۔۔ میں نے چوکیدار سے کہہ کر پورا گاٶں چھان مارا وہ کہیں نہیں ہے یسریٰ تو دو ہفتے سے نانی کے گھر گٸ ہے نجانے مانو کہاں گٸ۔۔۔
وہ سینہ پیٹتی زور زور سے رو رہی تھیں۔۔
چچی یوں روٸیں مت ۔۔۔ اچھی بات نہیں ہے۔۔سینا پیٹنا جاٸز نہیں آپ صبر رکھیں مل جاۓ گی ادھر ہی ہو گی۔۔۔
عاٸشہ اسے چپ کرواتی اندر بھاگی۔۔ساری حویلی چھان ماری مگر مانو کو نہ ملنا تھا وہ نہ ملی۔۔۔
دو دن گزر گے۔۔۔ حویلی میں کہرام برپا تھا۔۔۔ مانو آخر گٸ تو کہاں گٸ۔۔۔ حضر شاٸستہ پر برس رہے تھے کہ اکیلی لڑکی کو جانے ہی کیوں دیا۔۔۔ ہر کوی پریشان ہر طرف اسے ڈھونڈ چکے مگر وہ نہ ملی۔۔۔
شاٸستہ رو رو کر بے حال ہو گٸ تھیں۔۔۔ فیاض کے بعد اب ان کی بچی ۔۔۔وہ اتنا بڑا دکھ نہیں سہہ پا رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابے یہ نہیں ہے وہ۔۔۔کسے اٹھا لایا تو۔۔
احمر نے غصے سے ارشد کو کہا جو ایک بے ہوش لڑکی کو اس کے سامنے صوفے پر لٹا رہا تھا۔۔۔
باس وہ لڑکی جس کا آپ نے کہا تھا۔۔وہ بھی جلد ہی ہمارے قبضے میں ہو گی۔۔ مگر یہ والی میری ہے۔۔دل آ گیا تھا اس پر۔۔دو دن مزے لوٹ کر واپس پھینک دوں گا۔۔۔
ارشد نے خباثت سے مانو کو دیکھتے کہا
اچھا۔۔مگر یاد رکھیو کوٸ گڑ بڑ نہ ہو ورنہ مارا جاے گا۔۔
اسے تنبیہ کرتا وہ کمرے سے نکل گیا۔۔۔
ارشد مسکراتا ہوا مانو کو ہوش میں لانے لگا۔۔۔
۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٍ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
مانو۔۔۔میری بچی۔۔۔یا االلہ یہ کیا ہو گیا۔۔
شاٸستہ سمیت باقی سب بھی حویلی میں داخل ہوتی مانو کو دیکھ کر دہل گے۔۔۔
وہ اجڑی حالت میں تھی۔۔بکھرے بال چہرے پر نیل کے نشان۔۔ لڑکھڑاتی ہوی وہ اندر آٸ تھی۔
یہ کیا ہے مانو۔۔ تو۔۔ توکہاں تھی۔۔۔
شاٸستہ حلق کے بل چلای۔۔
اماں میں برباد ہو گٸ۔۔اس نے مجھے لوٹ لیا۔۔
وہ رندھی آواذ پر بولی تھی۔۔ شاٸستہ کا زوردار تھپڑ اسے دور گرا گیا ۔۔۔
کمینی۔۔۔شرم نہ آٸ۔۔ تجھے۔۔ جھوٹ بول کر تو یہ سب ۔۔۔چھی۔۔
سب لوگ سکتے کے عالم میں زمین بوس مانو کو دیکھ رہے تھے۔۔
اماں مجھے معاف کر دو۔۔بابا۔۔آپی۔۔دادا سردار مجھے سے غلطی ہو گٸ۔۔مگر مجھے نہیں پتا تھا وہ میرے ساتھ ایسا کرے گا۔۔۔
وہ روتی ہوی چیخنےلگی۔۔۔ کبریٰ اور بریرہ نے اسے اٹھا کر صوفے پر بٹھایا اور پانی پلایآ۔۔
شاٸستہ روتی پیٹتی اسے کوسے جا رہی تھی۔۔
سلطان اسے گاڑی میں بٹھاے ہسپتال لے گیا۔۔ کچھ چیک اپ کے بعد دواٸیاں وغیرہ دی گٸ تھیں۔۔۔
کاش کے مر جاتی ۔۔ کیوں لوٹی یہ گھر۔۔۔شاٸستہ اسے کوستے کوستے تھک نہیں رہی تھی۔۔۔
چچی کیسی بات کر رہی ہیں۔۔ آپ کی بیٹی ہے وہ۔۔ اس حال میں اسے آپ کے سہارے کی ضرورت ہے۔۔۔آپ اسے تسلی دیں۔۔ وہ کہیں اپنے ساتھ کچھ غلط نہ کر لے۔۔۔
عاٸشہ انہیں تسلی دینے لگی۔۔۔
فاریہ اس کی حالت دیکھے صدمے میں چلی گٸ تھی۔۔۔وہ کسی اور پر بدکرداری کا الزام لگاتی رہی اور اسکی اپنی بہن کی صورت میں اسے سزا ملی۔۔۔
نہیں۔۔اللہ مجھے معاف کر دے۔۔مجھ سے غلطی ہو گٸ۔۔
وہ روتی ہوی مانو کو سینے سے لگا گٸ۔۔
میری جان مانو مت رو کچھ نہیں ہوا ۔تو بتا یہ کس نے کیا۔۔ جان سے مار دوں گا اسے۔۔۔
سلطان آگ اگلتا اس سے پوچھ رہا تھا۔۔۔
وہ وہ ۔۔ ارشد تھا۔۔ ایاض بھای کا دوست۔۔۔وہ مجھ سے حویلی کے باہر ملتا تھا۔۔اس نے مجھے موباٸل دیا پھر مجھے بھی اس سے محبت ہو گٸ۔۔شاپنگ کے بہانے وہ مجھے ساتھ لے گیا۔۔۔
میں روی بہت روی مگر اس نے مجھے روندھ دیا۔۔۔اور پھر۔۔۔۔ اللہ میں لٹ گٸ۔۔ وہ وہ احمر وہ احمر بھی تھا وہاں۔۔۔ بھای مجھے مار دیں میں نے آپ سب کی عزت تباہ کر ڈالی۔۔
وہ روتی چیختی بولتی جا رہی تھ۔۔سلطان کا غصہ سوا نیزے پر تھآ۔۔
اب کے وہ احمر کو بخشے گا نہیں۔۔۔
********
ہر طرف یہ بات پھیل چکی تھی کہ خان حویلی کی چھوٹی بیٹی منہ کالا کروا کر آٸ ہے۔۔۔نجانے یہ خبر باہر کیسے پہنچی مگر اب سب ہی عجیب نظروں سے انہیں دیکھتے تھے۔۔۔
سلطان نے مانو سے وہ موبایل جو ارشد نے دلوایا تھا ضبط کر لیا۔۔ نمبرز کی لوکیشن چیک کرنے پر اسے کافی کچھ معلومات ملیں مگر ارشد ابھی بھی ندارد تھا۔۔۔اسے ڈھونڈنا ہر قیمت پر لازمی تھا۔۔۔مگر اس سے پہلے مانو کو سنبھالنا تھا۔۔وہ خود کو ختم کرنے کی کوشش کرنے لگی تھی۔۔ وہ اب اس داغ کے ساتھ نہیں جینا چاہتی تھی۔شاٸستہ الگ بے حال ہوی پڑی تھی۔۔پوری حویلی میں موٹ جیسا سناٹا رہتآ۔۔۔
میں کروں گا مانو سے شادی۔۔
احسن نے سب کی سماعتوں پر بم گرایآ۔
مگر احسن تم کیسے۔۔۔
ایاض نے کچھ کہنا چاہا تو اس نے روک دیا۔۔
جو بھی ہوا اس میں مانو کی کوی غلطی نہیں تھی۔۔۔ میں اسے اپناوں گا عزت دوں گا سہارا دوں۔۔۔ میں یقین دلاتا ہوں میں کبھی اسے ماضی یاد نہیں کرنے دوں گا ۔۔۔
وہ سب کو حیران کیے جا رہا تھا۔۔
میں جانتا ہوں کہ حیثیت میں اپ جتنا نہیں ہوں مگر اسے عزت دوں گا دو وقت کی روٹی دوں گا۔۔وعدہ کرتا ہوں اسے خوش رکھوں گا۔۔
وہ بولا
کیا تم ہم پر ترس کھا رہے ہو؟ اپنی بیٹی کو ہم ساری عمر گھر بٹھا کر رکھ سکتے ہیں مگر یوں کسی کی بھی جھولی میں نہیں ڈالیں گے۔۔
دادا سردار نے کہا تو اس نے انہیں دیکھا۔۔۔
میں ترس کیوں کھاوں گآ۔۔مجھے خوشی ہو گی کہ میں ایک شریف گھر کی لڑکی سے شادی کر رہا ہوں۔۔اور جیسی اس کی حالت اسے آپ لوگ نہیں سنبھال سکتے۔۔اسے کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو اسے سمجھے اسے وقت دے اور میں یہ سب کروں گا اسے واپس زندگی کی طرف لاوں گآ۔۔
اس نے انہیں یقین دلایا تو سب نے پر سوچ ہو کر سر ہلایآ۔۔
وہ چپ ہو گی تھی نہ کسی سے بات کرتی نا کچھ کھاتی پیتی۔۔ شاٸستہ سمیت سب ہی اس کی حالت پر پریشان تھے۔۔۔ وہ سب اسے پہلے جیسا بنانا چاہتے تھے۔۔ ارشد اب تک لا پتہ تھا۔۔مگر بہت سے ثبوت دن بدن انہیں اس کے قریب کرتے جا رہے تھۓ۔۔۔ دادا سردار اور خضر کسی طور احسن کا رشتہ قبول کرنے پر راضی نہیں تھے مگر مانو کی حالت اور سلطان کی تسلی پر انہوں نے مجبوراََ حامی بھر لی۔۔
جمعے کو سادگی کے ساتھ ان دونوں کا نکاح ہو گیا تھا۔۔ وہ خاموشی سے اپنا وجود گھسیٹتی احسن کے ہمراہ آ چکی تھی۔۔۔
**********
وقت اپنی رفتار سے بڑھ رہا تھا۔۔۔رباب کی ڈیلیوری کے دن قریب آتے جا رہے تھے۔۔عاٸشہ بھی امید سے تھی۔۔ ان دونوں کا سب ہی خیال رکھتے تھے۔۔۔ رباب دن میں کٸ بار چیختی کہ اسے درد ہو رہا ہے مگر چیک کرنے پر پتا چلتا کوی مسلہ نہیں ہے۔۔اس کے لیے سب نیا تھا۔۔ذرا سے سر درد پر بھی واویلا کھڑا کر دیتی۔۔
مانو آہستہ آہستہ پہلے جیسی ہو رہی تھی مگر اپنی زندگی کے وہ دو سیاہ دن وہ بھول نہیں پا رہی تھی۔۔۔۔ احسن نے اسے بہت خوش رکھا تھا۔۔۔وہ اس کے سنگ سب بھول جاتی تھی۔۔۔
اور اس دن دو خوشیاں ایک ساتھ آٸ تھیں۔۔۔
رباب کے ہاں ایک پیاری سی پری اتری تھی اور گاوں میں جو کنسٹرشن کا کام تھا وہ بھی مکمل ہو چکا تھا۔۔سارے گاٶں میں مٹھایاں بانٹی گٸ تھیں۔۔سب ہی خوش تھے۔۔۔ مگر کوی تھا جو خوش نہیں تھا۔۔وہ تھے دادا سردار۔۔۔انہیں پوتا چاہیے تھا۔۔۔ وارث۔۔اس خاندان اور جاٸیداد کا وارث۔۔۔۔
********
دادا سردار یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے۔۔وہ انسان ہے ۔۔۔اور اللہ کے کاموں میں کوٸ دخل نہیں دے سکتا اگر بیٹی پیدا ہوی ہے تو بیٹا بھی ہو گا انشا۶اللہ۔۔
شاٸستہ سمیت سب گھر والے ہال میں بیٹھے دادا سردار سے محوگفتگو تھے جنہیں رباب کے ہاں بیٹی کی پیداٸش پر دکھ ہو رہا تھا۔۔۔
میں نے بھی دو بیٹے پیدا کیے ہیں۔۔وارث ہوتا ہے بیٹا اور بیٹیاں؟ وہ تو پرایا دھن ہوتی ہیں۔۔
دادا سردار نحوت سے بولے۔۔
ہمارے نبیﷺ کی بھی صرف بیٹیاں تھیں بیٹے تو بچپن میں ہی فوت ہو گے اور دیکھیں۔ان کی بیٹیوں سے نسل چلی ہے ہم سب انہیں کی اولاد ہیں۔۔
عآٸشہ کی حجاب سے جھانکتی آنکھوں میں دادا سردار کی سوچ پر افسوس تھا۔۔۔
مجھے وارث چاہیے مجھے یہ بوجھ نہیں چاہیے اس گھر میں بیٹا آنا چاہیے۔۔
وہ جوش سے کہتے عاٸشہ کو کچھ باور کروا رہے تھے۔۔عاٸشہ نے بے اختیار اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا۔۔۔
بس دادا سردار۔۔ وہ میری بیٹی ہے اگر آپ سے برداشت نہیں ہوتی تو میں اپنی بیوی اور بیٹی کو لے کر کہیں اور چلا جاوں گا۔۔
کب سے ضبط کیے بیٹھے ایاض کی بس ہوٸ تھی۔۔سب نے حیرت سے اسے دیکھا آج وہ باپ بن کر بول رہا تھا۔۔۔
اپ نے بیٹے پیدا کیے ہیں؟ یہ بیٹے دادی نے پیدا کیے ہیں وہ دادی جس نے آپ کی گالیاں اور مارپیٹ سہی اور پھر آپ کے جانے کے بعد اکیلے ان سب کو پالا۔۔۔
وہ کہتے جا رہا تھا اور دادا سردار کا چہرہ سرخ ہوتا جا رہا تھا۔۔
ایاض کس لہجے میں بات کر رہے ہو۔۔۔
ریاض اور صفدر اس اسے مسلسل گھور رہے تھے۔۔
میں معذرت خواہ ہوں اپنے سخت لہجے پر لیکن اب یہ فضول اور دقیانسی اصولوں کو ختم کر دیں۔۔بیٹیاں ہی ہوتی ہیں جو گھر کو جنت بنا دیتی ہیں۔۔یہی بیٹیاں اپنے بھای اور باپ کی کی غلطیوں کی سزا بھگتتی ہیں کبھی ونی کر دی جاتی ہیں کبھی کسی بھی ظالم کے ہتھے چڑ جاتی ہیں۔۔عورت کے کتنے روپ دیکھے ہیں آپ نے۔۔آپ کی ماں عورت تھی اپ کی بہن عورت تھی۔۔اپ کی بیوی جس نے سب کچھ سہہ کر بھی اپ سے گلہ تک نہیں کیا۔۔
وہ اپنی باتوں سے دادا سردار کا سر جھکاتا جا رہا تھا۔سب لوگ ہی خاموش تھے کیوںکہ وہ اپنی جگہ درست تھا۔۔۔ ایک آخری نظر سب پر ڈال کر وہ اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔۔۔۔
**********
کھڑکی کے پاس کرسی لگاے وہ ڈوبتے سورج کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ ایک دن زندگی کا سورج بھی یوں ہی ڈھل جاے گا ۔۔ گہری سانس لیے وہ سوچنے لگے۔۔اپنے جھریوں زدہ ہاتھوں کو دیکھا تو جوانی کے دن یاد آنے لگے۔۔۔وہ بھی کبھی جوان تھے خوبصورت تھے۔۔۔
ایاض کی باتوں نے انہیں اندر تک جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔۔وہ واقعی غلط تھے ۔۔انہوں نے خود سے زیادہ کبھی کسی کا سوچا ہی نہیں ۔۔وہ ہمیشہ سے ہی اپنے بناے اصولوں کو سب پر تھوپتے رہے تھۓ۔۔۔ انہیں کبھی فرق ہی نہیں پڑا کہ اس گھر اور اس گاوں کو صرف ان کی ضرورت ہے اور کچھ نہیں۔۔۔
ایک فیصلہ کر کے وہ پر سکون ہوتے آنکھیں موند گے۔۔۔
.............۔
ارے دادا سردار جی ۔آپ یہاں؟؟ ہمارے غریب خانے میں؟؟ مجھے بلا لیا ہوتا۔۔۔ احسن انہیں دیکھ کر بڑے جوش سے ملا تھا۔۔۔ ان کی انا کے خلاف بات تھی کہ وہ یوں کسی کم طبقے کے لوگوں کے گھر جایں چاہے وہ ان کی پوتی کا سسرال ہی سہی۔۔
کیوں بھٸ ہم نہیں آسکتے ہماری پوتی کا گھر ہے۔۔ ان کے لہجے میں پہلی بار نرمی پاٸ گٸ۔وہ رعب دار آواذ تو تھی ہی نہیں۔۔وہ وہیں موجود صوفے پر بیٹھ گے۔۔ احسن نے مسکرا کر سر ہلایآ۔۔
چند آدمی کھانے پینے کی اشیا۶ لیے اندر داخل ہوے۔۔۔
یہ سب ۔۔۔؟ احسن نے سوالیہ نظروں سے دادا سردار کو دیکھا۔۔
بھٸ پہلی بار آۓ ہیں پوتی کے گھر خالے ہاتھ آتے کیا؟ اور ویسے مانو ہے کہاں؟
انہوں نے وضاحت کرتے آخر میں مانو کا پوچھا
جی یہ سب یہاں رکھ دیں ۔۔میں بلاتا ہوں مانو کو۔۔
آدمیوں کو ہدایت دیتا وہ دادا کو بول کر اندر چلا گیا۔۔
دادا جی۔۔ مانو بھاگتی ہوی ان سے لپٹی تھی۔۔دادا نے اسے پیار دے کر اس کا جاٸزہ لیا۔۔وہ پہلے کی طرح سجی ہوی نہیں تھی مگر اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ احسن کی محبت نے اس پر روپ چڑھا دیا ہے۔۔۔
******
بابا ۔۔جان۔۔۔ دادا سردار آج گاوں موجود ہر گھر میں گے تھے۔۔ کھانے پینے کی اشیا۶ کا ڈھیر بھی ساتھ تھا۔۔ ان میں یہ تبدیلی؟؟؟ اب تو بات بھی بہت نرمی اور پیار سے کرتے ہیں
ریاض نے کہا۔۔وہ سب مرد اس وقت بیٹھک میں موجود تھے۔۔
ایاض کی باتوں کا ان پر کافی اثر ہوا ہے۔۔۔ چلو اچھا ہی ہے۔۔
صفدر بھی سر ہلاتے بولے۔۔
کیا ہوا سب یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟۔
دادا سردار کی آواذ پر سب چونک کر سیدھے ہوے۔۔
یوں ہی بس گپ شپ۔۔
خضر نے مسکرا کر کہآ۔۔
اچھا چلو۔۔پھر۔۔میں نے سوچا ہے کہ فاریہ کا رشتہ وہیں کر دیتے ہیں جہاں سے آیا تھا۔۔
دادا سردار نے انہیں یاد دلایا۔۔
وہ رشتہ جو آپ نے ٹھکرا دیا تھا اس لیے کہ وہ ہم سے تھوڑا لو سٹینڈرڈ کے تھے۔۔۔
ایاض کی زبان میں کھجلی ہوی۔۔
دادا سردار سمیت سب نے ہی اسے گھوری سے نوازا تو وہ کان کھجاتا ہنسنے لگآ۔۔
ٹھیک ہے جیسا آپ کو مناسب لگے ہم کل ہی چلیں گے۔۔
سلطان نے فرمانبرداری سے کہا۔۔
*********
آج فاریہ کا نکاح تھا۔۔دلہن بنی وہ شیشے میں خود کو دیکھ رہی تھی۔۔ عجیب سا محسوس ہو رہا تھا۔۔نجانے وہ اس رشتے کو نبھا پاۓ یا نہ۔۔
مانو کے اندر داخل ہونے پر اس کی سوچوں میں خلل آیا۔۔
آپی بہت پیاری لگ رہی ہیں۔۔
اس نے کندھا تھپتھپا کر تعریف کی تو وہ مسکرا کر اسے دیکھنے لگی۔۔بلیو کلر کی فینسی لانگ فراک میں سر پر حجاب سیٹ کیے اور کندھوں پر شال ڈالے وہ پہلے سے مختلف مگر پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔
تم کتنی بدل گٸ ہو ۔۔کیا احسن نے تم پر پابندیاں لگا رکھی ہیں؟
ہاہا نہیں ایسا نہیں ہے ۔بلکہ میں نے خود ہی سجنا سنورنا چھوڑ دیا ہے ۔۔عورت سادگی میں ہی اچھی لگتی ہے۔ اور میری زندگی کا وہ بھیانک واقعہ۔۔مجھے خود کو چھپانے پر مجبور کرتا ہے۔۔
وہ آخری جملے پر نم ہوتی آنکھوں کو صاف کرنے لگی۔۔۔
بہت سمجھدار ہو گٸ ہو۔۔دعا کرنا میرے لیے۔
فاریہ نے رندھی ہوی آواذ سے کہا۔۔
آپی آپ پریشان نہ ہوں۔۔اللہ بہتر کرے گا۔۔۔اللہ آپ کو خوش رکھے اور آپ کا نصیب اچھا کرے۔۔۔
مانو نے اسے گلے سے لگاتے دعا دی۔۔۔۔
نکاح کے بعد رخصتی کا وقت ہوا ۔۔ فاریہ کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔۔۔ وہ رونا چاہتی تھی۔۔ مگر خود کو روکا ہوا تھا۔۔۔ خضر نے جب آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگایا تو وہ ضبط نہ کر سکی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔
خضر صاحب سمیت سب آبدیدہ ہو گے۔۔۔شآٸستہ چہرہ چادر میں چھپاے ہچکیوں سے رو رہی تھیں۔۔
کبریٰ باجی میری دونوں بیٹیاں ہی مجھ سے دور ہو گٸیں۔۔رخصتی کے بعد بھی وہ رو رو کر بے حال ہو رہی تھیں۔۔
بیٹیاں ہوتی ہی پرایا دھن ہیں۔۔ان سے گھر میں کتنی رونق ہوتی ہے مجھے آج شدت سے احساس ہو رہا ہے۔۔
دادا سردار آنسو پونچھتے بولے۔۔رونے سے ان کی آواذ بھی بھاری ہو رہی تھی۔۔۔
اللہ ان دونوں کو ہی خوش اور آباد رکھے آمین۔۔۔ کبریٰ نے دعا دی تھی۔۔۔شاٸستہ نے بھی آنسوو پونچھتے آمین کہا۔۔۔
*****
وہ اسے آج گاوں کا وزٹ کروانے لایا تھا۔۔اس کا نواں مہینہ چل رہا تھا۔۔ایاض کی بیٹی رانیہ جو کہ چار ماہ کی ہو چکی تھی سلطان کی گود میں کہلکاریاں مار رہی تھی۔۔گاوں کا نقشہ ہی بدل چکا تھا۔۔۔ سب لوگ خوشحال تھے۔۔بچے سکول کے لیے بھاگ رہے تھے اور چند مدرسے میں جا رہے تھے۔۔۔ ہسپتال میں ڈاکٹرز کی بیسٹ ٹیم ہاٸیر کی گٸ تھی اب کسی بھی مریض کو مشکل پیش نہیں آتی تھی۔۔ عاٸشہ مطمٸن ہو کر سلطان کے ساتھ چلتی سب کچھ دیکھ رہی تھی اور سلطان اسے ساتھ ساتھ ہر چیز کے بارے میں تفصیل سے بتا رہا تھا۔۔
وہ لوگ تھکے ہارے گھر لوٹے تھے۔۔رانیہ بھی ماں کو یاد کرتی رو رہی تھی۔۔اسے رباب کی گود میں بٹھا کر عاٸشہ آرام کرنے کمرے میں چلی گٸ۔۔اس کی طبیعت کچھ گڑ بڑ کر رہی تھی۔۔
رانی بیٹا میری گڑیا۔۔ یہ دیکھو بابا کیا لاے۔۔
ایاض اپنی بیٹی کو گود میں اٹھاۓ پیار سے اسے کھلونے دکھانے لگا جو اپنے باپ کو دیکھ کر خوش ہوی جا رہی تھی۔۔
رباب ان دونوں باپ بیٹی کو دیکھ کر مسکرا دی۔۔۔
بیٹی کے آتے ہی مجھے بھول گے نا؟۔وہ منہ بسورے بولی تو ایاض اس کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔
رانی کو ایک طرف لٹا کر اس کے پاس آیا۔۔۔.
آپ کو کیسے بھول سکتے ہیں بیگم صاحبہ۔۔آپ تو ہماری جان ہیں۔۔ وہ اسے سینے سے لگاے محبت سے بولا۔۔
اچھا تو میرے لیۓ کیا لاے آپ۔۔ اس نے مان سے ہتھیلی اس کے آگے پھیلاٸ۔۔
ایاض نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔۔میں ہی تو ہوں آپ کا گفٹ۔۔
مذاق مت کریں۔۔مجھے چاہیے کچھ۔۔۔ اپنی بیٹی کے لیے یاد رہا مجھے بھول گے۔
وہ خفگی سے منہ بھلاے بولی تو ایاض نے مسکرا کر جیب سے ایک ڈبیا نکال کر اسے دی۔۔
اس نے خوشی سے ڈیبا کھولی تو سونے کی چمکتی انگوٹھی دیکھ کر اس کی آنکھیں چمک گٸ۔۔
اپنی محنت کی کمای سے لی ہے۔۔کیسی لگی؟۔
اس نے کہا تو وہ مسکرا کر اس کے سینے سے لگ گٸ۔۔
بہت پیاری ہے۔۔۔
*******
باس جو نوکر اس کے ساتھ رہتا ہے وہ صحن میں ہے۔۔۔ گھوڑے بیچ کر سو رہا ہے۔۔آپ اپنا کام شروع کریں۔۔
اس لڑکے نے اسے خبر پہنچای تو وہ الرٹ ہو کر اپنے پیچھے آتے آدمیوں کو اشارہ کر کے دبے پاوں صحن سے ہوتے ہوے کمرے میں داخل ہوا جہاں۔۔سیف اللہ کھانسی لگنے کی وجہ سے اٹھ کر پانی پی رہا تھا۔۔
تم۔۔۔اس پر نظر پڑتے ہی وہ چونکا۔۔۔
ہاں میں کیوں؟؟ حیران ہو گے؟ ہاہاہا موت کے فرشتے سے ڈرنا چاہیے حیران نہیں ہونا چاہیے۔۔
وہ قہقہہ لگا کر طنزیہ بولا۔۔
ڈر اور وہ بھی تجھ سے۔۔ ایک بھگوڑے سے ایک بزدل سے جس نے اپنی جان بچانے کے تین لڑکیوں پر ونی کا داغ لگا دیا؟ ہنہہہ
سیف اللہ نے بھی دوبدو جواب دیا۔۔۔
اس کے جواب پر احمر نے غصے سے اسے گھورآ۔
بڈھے اپنے آخری وقت میں موت کو مشکل مت بنا۔۔
زندگی اور موت میرے رب کے ہاتھ میں ہے۔۔مجھے مارنا چاہتا ہے تو مار دے۔۔اس سے زیادہ کی تیری اوقات نہیں ہے۔۔
سیف اللہ کا پر سکون رویہ اسے تیش دلا رہا تھا۔۔
تیری بیٹی کو قبضے میں لے کر وہ حال کروں گا کہ دنیا دیکھے گی۔۔
اب کے اس نے اپنے نادر خیالات بیان کیے تو سیف اللہ نے قہقہہ لگایا۔۔
جب تک میری بیٹی مجھ جیسے بوڑھے اور ضعیف باپ کے پاس تھی تب تک تو اسے ہاتھ تک نہ لگا سکا۔۔بلکہ دیکھ بھی نہ سکا۔۔اب تو وہ اپنے شوہر اور گاوں کے سردار کی پناہ میں ہے تو کیا بگاڑ لے گا اس کا۔۔۔میرا اللہ جب تک نہ چاہے تب تک ایک پتا تک نہیں ہلتا۔۔
وہ اپنے الفاظ سے اس کے تن بدن میں آگ لگا چکے تھے۔۔
وہ تیش میں آگے بڑھا اور ہاتھ میں موجود چاقو اس کے عین دل کے مقام پر گھوپ دیا۔۔۔
پیچھے کھڑے آدمیوں نے ساٶنڈ پروف گن سے ان کی چھاتی میں سوراخ کر ڈالے۔۔۔
سیف اللہ کلمہ شہادت پڑھتے ہی وہیں دم توڑ گے۔۔۔
************
یا اللہ خیر۔۔۔
وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔پسینے سے شرابور۔۔اس کی دھڑکنیں خطرناک حد تک تیز تھیں۔۔۔اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ ڈری کیوں ہے۔۔پیٹ میں درد کی ٹھیسیں اٹھنے لگی تھی۔۔اس کے یوں اٹھنے پر سلطان بھی گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔۔
عاٸشہ آپ ٹھیک ہیں۔۔؟
اسکی پیلی رنگت دیکھ کر سلطان پریشان ہوا۔۔۔
میں ٹ ٹھیک نہیں ہوں۔۔در درد ہو رہا ہے۔۔
وہ پیٹ پکڑے بمشکل بول پای تھی۔۔سلطان جلدی سے اٹھا اور پانی کا گلاس اسے تھماتے کمرے سے باہر بھاگا ۔۔تھوڑا سا پانی پی کر اس نے گلاس ٹیبل پر رکھااور پیٹ پر ہاتھ رکھے درد برداشت کرنے لگی۔۔
درد کی تیز لہر نے اس کے منہ سے چیخ نکال دی۔۔عین اسے وقت کبریٰ اور شاٸستہ بھی سلطان کے ساتھ کمرے میں داخل ہوٸیں۔۔ بریرہ جو پانی لینے کچن میں آٸ تھی۔۔ انہیں یوں پریشان دیکھ کر ان کے پیچھے ہی کمرے میں چلی آٸ۔۔
شآٸستہ نے سلطان کو گاڑی نکالنے کا کہا اور عاٸشہ کو سہارا دیے شال میں لپیٹ کر باہر لے آٸ۔۔ بریرہ بھی اپنی چادر اوڑھےان کے ساتھ چل دی۔۔کبریٰ کو آنے سے روک دیا تھا وہ گھر پر ہی رک گٸ۔۔
**********
ٹھیک ایک گھنٹے بعد ڈاکٹر نے نارمل ڈیلیوری سے بیٹے کی پیداٸش کی خوشخبری سنای اور بچہ اس کی جھولی میں ڈال دیا۔۔ سلطان نے خوشی سے اپنے بیٹے کو چوم ڈالا۔۔۔ فارم پر اس نے شہزادے کا نام۔۔ حامد سلطان خان لکھوایا۔۔
صبح قریب سات بجے وہ لوگ گھر آۓ تو سب لوگ خوشی سے پھولے بیٹھے تھے۔
کبریٰ نے اپنے پوتے کو گود میں لے کر خوب پیار کیا۔۔رانیہ بھی اپنے چھوٹے سے کزن کو دیکھ کر بہت خوش ہو رہی تھی۔۔۔
وہ سب ہی ہال میں بیٹھے تھے ۔۔ عاٸشہ کو آرام کے لیے کمرے میں بھیج دیا تھا۔۔بریرہ بھی اس کے ساتھ ہی تھی۔۔ رامو بھاگتا ہوا ہال کے اندر داخل ہوا۔۔
صاحب جی وہ وہ۔۔ اکبر آیا ہے۔۔ کہتا کہ سیف اللہ بابا کو کسی نے قتل کر دیا۔۔
اس نے سب کی سماعتوں پر بم پھوڑا تھا۔۔۔کچھ دیر میں ہی سارے گاوں میں قتل کی خبر پھیل گٸ تھی۔۔شک اکبر پر ہی جاتا مگر لاش کے پاس دیوار پر اے ایس کنگ۔۔(A s king) نقش ہوا دیکھ کر سلطان سمیت سب کو یقین ہو گیا کہ یہ کام کس کا ہے۔۔
بول کمینے کہاں ہے تیرا بیٹا۔۔تیرے سوا کون جانتا ہو گا۔۔۔
سلطان شیراز کا گریبان پکڑے غصے سے دھاڑا۔۔
مج مجے نہی معلوم۔۔
وہ نشے میں جھولتا ہوا بولا تو سلطان نے جھٹکے سے اسے دور پھینکا۔۔۔
صاحب جی وہ سردارنی جی کی طبیعت خراب ہو رہی ہے۔۔۔
رامو بھاگ کر آیا اور اسے بتانے لگا۔۔وہ پریشانی سے حویلی کی طرف بھاگآ۔۔
عاٸشہ بری طرح رو رو کر بے ہوش ہو چکی تھی۔۔ حامد بریرہ کی گود میں تھا جو خود بھی رو رہی تھی۔۔ کفن دفن کے بعد سلطان عاٸشہ کے پاس آیا جو خاموش سی بیٹھی ایک طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔
اگر احمر نے آپ کے کسی پیارے کی جان لی ہوتی تو کیا آپ معاف کر دیتی۔۔۔
کسی کونے سے سلطان کی آواذ گونجی تھی۔۔
ہاں ۔۔میں معاف کر دیتی کیوںکہ معاف کرنا میرے اللہ کو پسند ہے اور میں اپنے اللہ کو راضی کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہوں۔۔
اپنی ہی کہی ہوی بات اسے جھوٹ لگی تھی۔۔۔
عاٸشہ خود کو سنبھالیں۔۔بہت جلد ہی ہم اسے ڈھونڈ لیں گے۔۔قاتل کوی نہ کوی سراغ چھوڑ گیا ہوگا بہت جلد اس کی گردن میرے ہاتھ میں ہو گی۔
سلطان نے اسےپیار سے تسلی دی۔۔
وہ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔
قتل کی جگہ کو پولیس نے اچھی طرح چیک کر لیا تھا۔۔سلطان کے آدمیوں نے بھی پورا گھر چھان مارا۔۔ سیف اللہ کی چارپای کے نیچے سے ایک انگوٹھی برآمد ہوی تھی۔۔۔یوں تو وہ بے کار سی تھی۔۔۔مگر سلطان کی نظر اس پر ٹک گٸ۔۔یہ انگوٹھی پہلے بھی اس نے کہیں دیکھی تھی۔۔اس کا ڈیزاٸن عجیب سا تھا۔۔ سلطان نے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا انگوٹھی کے نیچے ایک سوراخ سا نظر آیا۔۔۔وہ بہت باریک سوراخ تھا۔۔۔ اس نے ایک پتلی سی لوہے کی تار کی مدد سے اس سوراخ کو کھولا تو انگوٹھی کا سرا ایک ڈھکن کی طرح کھل گیا۔۔۔انگھوٹھی خالی تھی اس میں کچھ نہیں تھا۔۔مگر کچھ تو تھا جو سلطان کی نظر میں نہیں تھا۔۔۔
ایک چھپاکے سے اسے یاد آیا ۔۔۔یہی انگوٹھی اس نے ایک بار کبیر کے ہاتھ میں دیکھی تھی۔۔وہ کبیر۔۔رامو کا بیٹا۔۔۔
وہ بیڈ پر بیٹھی اپنی گود میں موجود ہاتھوں کو گھور رہی تھی۔۔حامد اس کے پاس سو رہا تھا۔۔ ہفتہ بھر ہو چکا تھا سیف اللہ کو گے۔ مگر وہ خود کو نارمل نہیں کر پا رہی تھی۔۔ کوشش کے باوجود بھی وہ اپنے دکھ کو کم نہیں کر پا رہی تھی۔۔ ماں کا چہرہ تک نہ دیکھا تھا۔۔بہن بھای کزن ۔کوی رشتہ دار بھی نہیں تھا۔۔ساری زندگی ایک باپ ہی تو تھا جس نے ہر رشتے کی کمی پوری کی مگر اب وہ بھی دغا دے گیا۔۔ کیوں؟؟
سوچوں میں گھری اسے پتا ہی نہ چلا اس کا چہرہ آنسوو سے بھیگ گیا تھا۔۔ وہ گھر میں عام روٹین سے چلتی تھی مگر ایک مخصوص اداسی اس کے چہرے پر ہر وقت چھای رہتی تھی۔۔
سلطان کی آمد پر وہ چونکی۔۔وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔۔انگلیوں کے پوروں سے اس کے آنسو صاف کیے اور بے بسی کے اسے دیکھا۔۔
کیوں روتی ہیں آپ؟ کیوں اپنی جان ہلکان کر رہی ہیں؟ ہمارا خیال کر لیں اپنے بچے کا خیال کر لیں کب تک سوگ مناٸیں گی۔۔۔
وہ گہری سانس لیے بولا۔۔
مجھ سے نہیں ہو رہا میں کیا کروں۔۔بابا کو بھلانا بہت مشکل ہے۔۔
وہ رندھی آواذ میں بولی ۔۔
سوگ منانے سے گزرے لوگ واپس نہیں آتے۔۔آپ کے پاس ہم سب ہیں ہماری فیملی ہے۔۔وہ سب آپ کی ںجہ سے کتنے پریشان ہیں کچھ پتا ہے آپ کو؟؟ نہ کھاتی پیتی ڈھنگ سے ہو نہ ہی میرے بیٹے پر دھیان دے رہی ہو۔۔
کیا یہ سب ٹھیک ہے؟ کیا اللہ ایسے ناراض نہیں ہو گا؟۔اللہ نے ایک نعمت چھین لی اس کا دکھ ہے مگر اتنی ساری عنایتیں آپ کو نظر نہیں آتی۔
وہ اسے سمجھا رہا تھا اور وہ بے بسی سے اپنی ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
بریرہ بھابھی اکیلی گھر کی بھاگ دوڑ کر رہی ہیں۔۔آپ کو کیا لگتا ہیں سیف انکل کی موت کا دکھ صرف آپ کو ہی ہے۔۔اور کسی کو نہیں ہے؟؟
اس کی بات پر اس نے جھٹکے سے سر اٹھایا
وہ میرے سسر تھے بھابھی کے باپ جیسے تھے ۔۔رباب کے خالو تھے ہم سب کے وہ فیملی ممبر تھے۔۔ہمیں دکھ نہیں ہے۔۔؟
ہم سب نے خود کو سنبھالا ہے کیوںکہ جانے والوں کے سوگ میں زندہ لوگوں کو اگنور کر کے انہیں خود سے دور نہیں کرنا چاہیے۔
وہ اس کا گال تھتھپا کر اٹھ گیا۔۔جبکہ وہ حیرت سے اسے دیکھتی رہ گٸ۔۔
صحیح تو کہہ رہا تھا وہ۔۔اللہ نے اسے کتنا کچھ نوازا تھا اور وہ تھی کہ اللہ کی نا شکری کر رہی تھی۔۔اس نے روتے ہوے اپنے بیٹے کے سر پر بوسہ دیا۔۔یہ اولاد کتنی بڑی نعمت ہے ۔۔ اللہ نے اسے بیٹا دیا اور وہ اس سے لاپرواہی برت رہی تھی؟
اس نے جلدی سے اٹھ کر وضو کیا اور نوافل ادا کر کے اللہ سے خوب توبہ کٸ۔۔سلطان صوفے پر بیٹھا اسے دیکھتا رہا اور مسکرا کر سر جھٹک گیا۔۔۔
**********
کبیر گھر میں موجود نہیں تھا۔۔وہ شہر کسی کام سے گیا تھا۔۔اور کل تک واپسی تھی۔۔۔سلطان چاہتا تو اسے اسی وقت ڈھونڈ لاتا مگر جلد بازی مخالف کو شک میں مبتلا کر سکتی تھی اس لیے اس نے انتظار کرنا بہتر سمجھا۔۔
ماشا۶اللہ اللہ خوش رکھے۔۔۔
عاٸشہ کو پھر سے نارمل ہوتے دیکھ کر کبریٰ سمیت باقی سب بھی مطمٸن ہو گے تھے۔۔۔آج فاریہ بھی آٸ ہوی تھی۔۔۔ اس کا شوہر اسے وہاں چھوڑ کر خود لوٹ گیا تھا ۔۔شام میں ان لوگوں کی واپسی تھی۔۔فاریہ کافی مطمٸن تھی ۔۔ اس کے دل سے سارے خدشے نکل چکے تھے۔۔ اس کا شوہر اسے دل و جان سے محبت کرتا تھا۔۔ اسے خوش دیکھ کر شاٸستہ بھی سکھ میں ہو گٸ تھیں۔۔۔
چل فاریہ پتر ذرا یہ سلاد کاٹ دے میں چھت سے کپڑے اتارنے جا رہی ہوں بارش آنے والی ہے۔۔
وہ اسے چمچ اور پلیٹ پکڑاتی جلدی میں چھت پر چلی گٸیں۔۔
شادی ہو گٸ ہے لیکن اب بھی میری کوی قدر نہیں بھٸ مہمان ہوں اور مہمان سے کوی کام کرواتا ہے؟
وہ منہ بسور کر بولتی پٹخ پٹخ کر سلاد کاٹنے لگی۔۔
کیووں سسرال میں کیا سر پر بٹھاے رکھتے ہیں ؟ وہاں تو نوکر بھی نہیں ہوں گے۔۔
رباب نے اسے غصے میں دیکھ کر کہا تو وہ منہ کے زاویے بگاڑنے لگی۔۔
وہاں میری نند کرتی ہے۔۔ ابھی میں نٸ نویلی دلہن ہوں۔۔
رباب اس کے جواب پر سر جھٹک کر رہ گٸ۔۔جانتی تھی کام تو کرنے پڑتے ہیں کہیں بھی سر پر نہیں بٹھایا جاتا اور فاریہ جیسی کام چور کا تو اللہ کی حافظ ہے۔۔
بارش تیز ہو گٸ تھی۔۔ دوپہر کی گرمی اب کہیں غاٸب ہو گٸ تھی۔۔ساون کا مہینہ تھا سو کمروں میں حبس بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔عاٸشہ ننھے حامد کو لیے صحن میں بیٹھ گٸ ۔۔رانیہ بھی اپنے کزن کے ساتھ کھیلنے میں مگن تھی۔۔۔ بارش کی تیز بوندیں اور ٹھنڈی ہواٸیں اسے اندر تک پر سکون کر رہی تھیں۔۔۔ سب خواتین چاے پکوڑے لیے ہال میں بیٹھے تھے جبکہ گھر کے مرد صبح سے غاٸب تھے۔۔ سریلی کے بلانے پر وہ بھی حامد کو اٹھاۓ رانیہ کا ہاتھ پکڑے ہال میں آ گٸ۔۔
سب کے ساتھ بیٹھ کر پکوڑے کھاتے اس کا ذہن بھی مصروف ہو گیا تھا۔۔۔۔
سر پر گارڈ نے چھتری کی ہوٸ تھی مگر بارش اتنی تیز تھی کہ کپڑے پھر بھی بھیگ چکے تھے۔۔وہ تیزی سے اس گھر کے سامنے رکا۔۔۔اس کی اطلاع کے مطابق کبیر گھر لوٹ آیا تھا۔۔ ریاض اور ایاض گھر کی پچھلی جانب سے داخل ہو رہے تھی۔۔جبکہ صفدر اور دادا سردار گاڑی میں موجود تھۓ۔۔۔ خضر گودام میں اپنے آدمیوں سمیت ان سب کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔ اس نے درواذے پر دستک دی مگر بارش کے شور میں وہ دستک کہیں گم ہو گٸ۔۔ اس نے آدمی کو اشارہ کیا تو اس نے ایک ٹانگ مار کر درواذہ توڑ ڈالا۔۔گھر میں کبیر کا باپ اور دادی رہتی تھی۔۔اس کی ایک بہن تھی جوبیاہی گٸ تھی۔۔۔ وہ سب لوگ سلطان کو دیکھ کر پریشان ہو گے جبکہ کبیر خوفزدہ ہو گیا۔۔انگوٹھی گمنے پر وہ ویسے ہی پریشان تھا مگر سلطان کو وہاں دیکھ کر اسے اپنی جان خطرے میں محسوس ہوی تھٸ۔۔۔
لے چلو اسے۔۔۔
سلطان نے اپنے آدمی کو کہا تو وہ کبیر کو گھسیٹتا ہوا لے گیا۔۔
مجھے کہاں لے جا رہے ہیں سردار۔۔میں نے کیا کیآ۔۔ چھوڑیں مجھے ۔۔۔ ابا کچھ کریں۔۔
وہ چلاتا رہ گیا مگر آدمی اسے گھسیٹتا ہوا باہر لے گیا۔۔۔
آپ کے بیٹے پر شک ہے مجھے اس لیے لے جا رہا ہوں۔۔ بے فکر رہیں وہ بے گناہ ہوا تو نقصان نہیں پہنچایں گے اسۓ۔۔
سلطان نے اس کے باپ اور دادی کو وضاحت دی مگر ان لوگوں نے کوی خاص رد عمل نہیں دیا۔۔
لے جایں ہماری بلا سے مار دیں ۔۔۔ ایسی اولاد چاہتا ہی کون ہے۔۔
وہ کہہ کر بوڑھی ماں کو لیے کمرے میں چلے گے۔۔سلطان سر ہلاتا باہر نکل گیا۔۔۔
گودام پہنچ کر کبیر کی خوب دھلای کی۔۔وہ پچیس چھبیس سال کر نوجوان تھا اس لیے مار پیٹ سہتا رہا مگر زبان نہیں کھولی۔۔۔
سلطان نے کمرے میں اسے بند کر دیا اور ایک آدمی کو اس کے پاس کھڑا کر دیا۔۔۔
اس سے نہ ہی بات کرنی ہے نہ کھانے پینے کو دینا ہے۔اگر پیشاب کرنا چاہے تو مت کرنے دینا کچھ اگلنے لگے تو فوراََ مجھے بلانا میں یہیں پس ڈیرے میں ہی رکوں گا۔اسے ہدایت دیتا وہ چلا گیا۔ رات وہ ڈیرے پر ہی رک گیا تھا۔۔ باقی سب کو حویلی بھیج کر وہ کھانا کھا کر لیٹ گیا۔۔ تبھی اسے فون آگیا۔۔کبیر پیشاب برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔۔بھوک پیاس سے بھی نڈھال تھا۔۔صب سے بھوکا تھب اس لیے ہار مان گیا۔
سلطان مسکرا کر تیزی سے اٹھتا گودام پہنچا۔۔
اب بول کمینے کہاں ہے تیرا باس۔۔سیف اللہ انکل کو اسی نے قتل کیا نا؟۔۔سب کچھ بک۔۔۔
سے ٹھوکر لگاتا وہ غصے سے بولا۔۔ آدمی نے اس کے اشارے پر موبایل پر ویڈیو آن کر دی تھی۔۔
اور پھر ۔۔۔کبیر نے سب کچھ بتا دیا۔۔آخر کب تک مار ، بھوک پیاس برداشت کرتا ۔۔اپنی جان کی سلامتی کے لیے اگل گیا۔۔۔مگر۔۔۔۔۔ مجھے اس کے پکے ٹھکانے کا کھ علم نہیں ہے اور نہ ہی اس کا چہرہ دیکھا ہے میں بس ایک مہرہ ہوں۔۔۔اور اب تک اسے پتا چل گیا ہو گا کہ آپ مجھ تک پہنچ گے ہیں ۔۔وہ ضرور کچھ کرے گا۔۔۔
*********
ابھی وہ حامد کو سلا کر لیٹی ہی تھی جب موباٸل رنگ پر چونکی۔۔۔سلطان کی کال تھی۔۔اس نے جلدی سے موبایل کان پر لگایا۔۔۔
عاٸشہ حویلی کے درواذے پر میری شال لے کر آ جاٸیں میں نے ڈیرے پر رکنا ہے ضرورت پڑے گی جلدی آ جاٸیں۔۔
سلطان نے اسے آنے کا کہہ کر کال کاٹ دی۔۔ اس نے اچھنبے سے موباٸل کو دیکھا۔۔
سلطان کمرے میں کیوں نہیں آۓ۔۔۔ ڈیرے پر رکنا تھا تو کسی آدمی سے کہہ کر شال منگوا لیتے۔۔ شال کی اتنی بھی کیا ضرورت تھی انیہں۔۔۔۔
یہ سب سوچتی وہ اپنی چادر اوڑھے شال لے کر باہر نکلی۔۔۔بریرہ اسے ہال میں ہی مل گٸ۔۔
آپی پلیز میرے کمرے میں حامد کو دیکھیے گا میں ابھی آتی ہوں ان کو شال دے کر۔۔
وہ جلدی سے کہتی چلی گٸ ۔۔۔ بریرہ سر ہلا کر اس کے کمرے میں چلی گٸ۔۔
حامد کے پاس ہی بیڈ پر لیٹ گٸ۔۔ کافی دیر عاٸشہ نہیں آٸ تو وہ انتظار کرتی کرتی سو گٸ۔۔پورے دن کی تھکی ہوی ایسی نیند آٸ۔۔کہ کچھ ہوش نہ رہا۔وہ گیٹ پر پہنچی تو چوکیدار وہاں نہیں تھا۔۔اس نے دھیرے سے درواذہ کھولا تو اندھیرے میں ایک سایہ نظر آیا۔۔
آپ اندر کیوں نہیں آۓ؟ لیں یہ شال۔۔۔أ۔۔وہ بولتیہوی شال دینے لگی مگر مقابل نے پل میں اس کے منہ پر ہاتھ رکھا تھا اور کچھ ہی دیر میں ایک عجیب بو اس کے ناک سے ٹکرای۔وہ ہوش و خرد سے بےگانہ ہوگ
صبح اس کی آنکھ آذانوں کی آواذ سے کھلی۔۔چہرہ ملتے وہ اٹھی تو چونک گٸ۔۔
یا اللہ یہ کیا؟؟ عاٸشہ کہاں گٸ۔۔
وہ حیران سی ہوتی اٹھی تھی۔حامد بھی کھسمسایا تھا۔۔اس نے کمرے میں سب طرف عاٸشہ کو دیکھا مگر وہ ندارد تھی۔۔بھوک لگنے پر اب ننھا حامد بھی رونے لگا تھا۔۔وہ جلدی سے اسے اٹھا کر کمرے سے نکل آٸ۔۔ریاض بھی تھکن کی وجہ سے سو چکا تھا اس لیے بریرہ کی غیر موجودگی کو محسوس نہیں کر پایا تھا۔۔اس نے سارا گھر چھان مارا مگر عاٸشہ نہ ملی۔۔شاٸستہ نے شور مچا کر سب گھر والوں کو بھی جگا دیا تھا۔۔
وہ گٸ کہاں۔۔ کچھ تو پتا چلے۔۔
کبریٰ نے فکر مندی سے کہا
رات میں وہ گیٹ پر گٸ تھیں پھر لوٹی ہی نہیں۔۔۔بریرہ نے پھر رات والا واقعہ بیان کیا ۔۔اب تو سب ہی پریشان ہو گے۔۔۔آخر تھک کر سلطان کو فون لگایا۔۔مگر یہ کیا؟ اس کا فون ہی بند تھا۔۔۔
ایاض تنگ آکر خود ہی ڈیری پر پہنچا۔۔۔سلطان چارپاٸ پر بے خبر سو رہا تھا۔۔۔
بھاٸ اٹھیے۔۔اٹھیے۔۔۔
کیا ہواآ کیوں چلا رہے ہو؟۔
وہ آنکھیں ملتے ہوے اس کے جھنھوڑنے پر اٹھا۔۔
بھاٸ عاٸشہ بھابھی۔۔
اور پھر۔۔۔اس کی ایک ایک بات پر سلطان کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گٸ۔۔
اس نے جلدی سے اپنا موباٸل ڈھونڈا مگر وہ بھی ندارد۔۔۔
وہ بری طرح جھنجھلا گیا۔۔
تیزی سے جوتی پہنتا وہ حویلی پہنچا۔۔بریرہ سے پوچھنے پر اسے جو پتا چلا اس پر وہ مزید پریشان ہو گیا۔۔۔وہ تو رات گھر آیا ہی نہیں شال لینے ۔۔تو پھر۔۔وہ کس کو شال دینے گٸ تھی۔۔۔
آپ رات کہاں تھے۔۔۔گھر کی عورت رات کیسے غاٸب ہو گٸ۔۔
وہ اب چوکیدار پر چلایا تھا۔۔صاب وہ وہ ۔۔رات ایک مانگنے والا آیا تھا۔۔میں بس اپنے کواٹر سے پیسے لینے گیا تھا لوٹ کر آیا تو وہ جا چکا تھا۔۔
چوکیدار نے ڈرتے ہوے بتایا۔۔
چہرہ یاد ہے؟ کون تھا۔۔ سلطان نے جلدی سے پوچھا ۔۔
نھیں اس نے شال سے چہرہ ڈھکا ہوا تھا۔۔
سلطان غصے سے پاگل ہوتا گاڑی لیے نکل گیا۔۔
نجانے کہاں ہو گی وہ۔۔۔کیا کروں میں۔۔۔
ریاض اور ایاض بھی گاڑی لیے اس کے پیچھے لپکے۔۔ننھے حامد کو بریرہ نے سنبھالا ہوا تھا۔۔
*************
باس لڑکی آپ کے حکم کے مطابق کمرے میں بند ہے ۔۔
وہ آدمی موباٸل کان سے لگاے اسے رپورٹ دے رہا تھا۔۔
تم لوگوں نے اسے دیکھا تو نہیں نا کمینو۔۔
وہ جیسے تصدیق چاہ رہا تھا۔۔
نہیں باس ہم نے بس اسے ایک چادر میں لپیٹ کر رات ہی اس کمرے میں لاۓ تھے ۔۔وہ اپنی سکھاں ہے نا۔وہی کھانا وغیرہ دے رہے ہم نہیں گیا اندر۔۔
اس نے بھی تصدیق کی تو وہ مطمٸن ہوتا کال کاٹ گیا۔۔
آنٹی پلیز مجھے چھوڑ دیں میں نے کچھ نہیں کیا پلیز اللہ کے واسطے مجھے چھوڑ دیں۔۔
وہ سکھاں کے آگے پھر سے ہاتھ جوڑتی منت کرنے لگی۔۔
دیکھ لڑکی تجھے کوٸ تنگ نہیں کرے گا تو اس کمرے میں رہ بس شور شرابا مت کر۔۔
سکھاں اسے سختی سے کہتی کھانا پٹخ کر لوٹ گٸ۔۔
یا اللہ میری مدد کر۔۔۔وہ رات سے بھوکی تھی تھوڑا سا کھانا کھا کر اس نے ساتھ موجود واش روم سے وضو کیا اور نماذ پڑھنے لگی۔۔۔
کمرہ کافی آرام دہ تھا۔۔اسے پورا شک احمر پر ہی تھا مگر اسے اتنے آرام سے یہاں کیوں رکھا گیا تھا۔۔۔
یا اللہ میرا بیٹا ۔۔سلطان وہ سب گھر والے پریشان ہوں گے اللہ میری مدد کر ۔۔۔
وہ ہچکیوں سے رو پڑی تھی۔۔۔
*************
دو دن گزر گے تھے۔۔۔سلطان بے حال ہو گیا تھا۔۔نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا ہوش بس دن رات عاٸشہ کو ڈھونڈنے میں لگا دیے تھے۔۔ارد گرد کے ہر شہر میں ڈھونڈا ایک بھی سرا ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔۔نہ ہی کبیر سے کوٸ معلومات مل رہی تھی۔۔۔وہ نڈھال ہو گیا تھا۔۔۔اس سب میں وہ اپنے بیٹے تک کو بھول چکا تھا۔۔حامد کو پوری طرح سے بریرہ نے سنبھال رکھا تھا۔۔پورے گھر میں اداسی چھاٸ ہوی تھی۔۔۔ہر شخص عاٸشہ کے حق میں دعا گو تھا۔۔۔
کمینے سالے تو مل ۔۔اپنے ہاتھوں سے گردن توڑوں گا سالے۔۔۔
وہ دل ہی دل میں احمر کو گالیاں بکتا جا رہا تھا۔۔۔تھکا ہارا نڈھال سا وہ گھر لوٹا تھا۔۔۔تیسرا دن بھی ختم ہو گیا تھا۔۔۔پولیس بھی ناکام ہو رہی تھی۔۔ وہ بنا کسی سے بات کیے کمرے میں آکر بیڈ پر ڈھے گیا۔۔۔کمرے کا کونہ کونہ عاٸشہ کی گمشدگی پر نوحہ کناں تھا۔۔۔اسے بار بار اس کا عکس دکھای دے رہا تھا۔۔ کبھی آٸینے کے سامنے کھڑی مسراتی ہوی کبھی صوفے پر بیٹھی کھلکھلاتی ہوی۔۔
عاٸشہ ۔۔میری جان۔۔۔کہاں ہیں آپ خدارا لوٹ آٸیں۔۔میں سچ میں۔۔آٸیندہ کبھی آپ کو ایک پل کے لیے بھی دور نہیں ہونے دوں گا۔۔
وہ بے بسی سے کہہ رہا تھا۔۔آنکھوں سے آنسوو بہہ بہہ کر اس گالوں کو تر کر رہے تھے۔۔۔
میں یہیں ہوں سلطان۔۔۔آپ کے پاس ۔۔بہت قریب ۔۔بس تھوڑی ہمت کریں۔۔
وہ صوفے پر بیٹھی مسکراتی ہوی کہہ رہی تھی۔۔۔
عاٸشہ۔۔۔
اور وہ عکس ہوا میں تحلیل ہو گیا۔۔۔
سلطان ۔۔۔سلطان۔۔۔
درواذہ پیٹنے کی آواذ پر اس کی آنکھ کھلی۔۔ یا خدا۔۔۔یہ خواب تھا۔۔۔ وہ پسینہ صاف کرتا اٹھا۔۔۔
درواذے پر ریاض تھا۔۔۔
بھابھی۔۔بھابھی وہاں۔۔ شہر کے ایک گیسٹ ہاٶس میں ہیں۔۔۔
اس نے گویا سلطان کو زندگی کی نوید سناٸ تھی۔۔
***********
وہ بیڈ پر بیٹھی فکر مند سی اللہ سے دعا کر رہی تھی۔۔۔اس کمرے سے باہر نکلنا نا ممکن تھا۔۔سواے دعا کے وہ اب کچھ نہیں کر سکتی تھی۔۔تین دن ہو چکے تھے اب تو اس نے سکھاں کی منتیں کرنا بھی چھوڑ دی تھیں۔۔وہ اسے کھانا دے جاتی اور وہ چپ چاپ کھا لیتی۔۔
درواذہ کھلنے پر وہ چونکی۔۔اس کی پیٹھ درواذے کی طرف تھٸ۔۔یہ کھانے کا وقت نہیں تھا پھر ۔۔۔
وہ بدستور ویسے ہی بیٹھی رہی۔۔
عاٸشہ میری جان۔۔۔ بھاری مردانہ آواذ پر اس کے جسم میں سنسی پھیل گٸ۔۔اس نے شال سے چہرے کو اچھی طرح ڈھکا صرف آنکھیں کھلی چھوڑیں۔۔۔ پلٹ کر دیکھا تو وہ ۔۔۔
احمر۔۔۔۔۔ بلکل بدلے ہوے حلیے میں۔۔۔ چھٹا ہوا بدمعاش لگ رہا تھا۔۔
ارے جان من۔۔یہ چہرہ ڈھکنا چھوڑ دو اب تو تمہیں میرے پاس ہی آنا ہے۔۔۔
وہ خبثت سے مسکراتا صوفے پر بیٹھ گیا۔۔
عاٸشہ غصہ ضبط کیے زمین پر نظریں جماے کھڑی رہی۔۔۔
یہ لو کاغذات دستخط کرو ان پر ۔۔
اس نے جیب سے کاغذات نکال کر میز پر رکھے۔۔
یہ کیا ہے؟۔
اس نے سوالیہ انداذ میں سختی سے کہا
تمہاری اور سلطان کی طلاق کے کاغذات۔۔
دستخظ کرو اوغ پھر کل ہم شادی کر لیں گے۔۔۔
اس نے وضآحت دی۔۔اس کا مطمٸن انداذ ایک پل کو عاٸشہ کے اندر سنسی دوڑا گیا۔۔۔
مجھے عزت کے ساتھ میرے گھر جانے دو ورنہ میرے شوہر کو تم شاید جانتے نہیں ہو۔۔
وہ ہمت کرتی غصے سے بولی۔۔
کم آن اب تو یہ اک چھوڑ دو یہاں تمہیں بچانے کوی نہیں آۓ گا۔۔
عزت سے دستخ کر دو ورنہ میں شادی کرنا بھی بھول جاوں گا۔۔اور یقیناََ تم اس دو ٹکے کے سردار کے نکاح میں ہوتے ہوے میرے ساتھ سونا پسند نہیں کرو گی۔۔
وہ کمینگی سے کہتا عاٸشہ کو تیش دلا گیا۔۔۔
اس نے آگے بڑھ کر زوردار تھپڑ اس کے گال پر رسید کیا۔۔
گھٹیا انسان ۔۔زبان کو لگام دو۔۔تم ایک قاتل ہو ۔۔میرے باپ کے قاتل نجانے کس کس کا قتل کیا ہے تم نے لعین ۔۔
وہ غصے سے کہتی چلی گٸ۔۔
اپنی اتنی تذلیل پر وہ غصے سے اٹھتا اس کی جانب بڑھا۔۔۔۔
**********
امی جان یہ بہت رو رہا ہے دیکھیے نا ۔۔۔
بریرہ روتے ہوے حامد کو گود میں اٹھاۓ کبریٰ کے پاس آٸ۔۔ لاو مجھے دو میں دم کر دیتی ہوں۔۔۔
انہوں نے اپنے پوتے کو گود میں رکھتے کہا۔۔
صبح سے گے ہوے ہیں سلطان اور ان کے بھای۔۔اب تک کوی خبر نہیں ہے۔۔
وہ فکر مندی سے کہتی وہیں صوفے پر بیٹھ گٸ۔۔
اللہ خیر کرے گا۔۔۔دعا کرو۔۔بس عاٸشہ سلامت ہو۔۔
انہوں نے دعا دیتے ہوے حامد کے ماتھے پر پیار کیا جو اب پرسکون ہو کر سو رہا تھا۔۔
نظر لگ گٸ ہے اسے تھوڑا نیہارا کرو۔۔
انہوں نے بریرہ کو دیکھتے مسکرا کر کہا۔۔
بچے ہوتے ہی اتنے پیارے ہیں اور مجھے تو پہت اچھے لگتے ہیں۔۔
وہ اداسی سے بولی تو کبریٰ نے اس کے سر پر چپت لگای۔۔
اداس کیوں ہوتی ہے اللہ وقت پر سب کچھ دیتا ہے۔۔تو فکر مت کر اللہ تجھے بھی بہت جلد اولاد سے نوازے گا۔۔
ان کے تسلی دینے پر بریرہ مسکرا دی۔۔
*********
وہ چند آدمیوں سمیت اس گیسٹ ہاوس کے باہر کھڑا تھا۔۔۔خضر اور صفدر کچھ ہی فاصلے پر گاڑی میں موجود تھے۔۔ اس نے اشارہ کیا اور آرام سے چلتے ہوے درواذے پر پہنچا۔۔۔
ایک آدمی نے بڑھ کر درواذہ کھٹکھٹایآ۔۔کچھ دیر بعد دو آدمی درواذے پر کھڑے تھے۔۔۔
ان دونوں کو دبوچ کر سلطان کے آدمیوں نے بے ہوش کر کے باہر پھینکا اور دھیرے سے اندر چلے گے۔۔شام ہو رہی تھی۔۔سلطان صبح سے گیسٹ ہاوس کی نگرانی کر رہا تھا۔۔معلومات کے مطابق احمر کچھ دیر پہلے ہی اندر گیا تھا اس لیے اب یہی موقع تھا عاٸشہ کو چھڑوانے کا اور احمر کو بھی پکڑنے کا۔۔۔
گیسٹ ہاوس زیادہ بڑا نہیں تھا ایک کمرے سے ہلکے بولنے کی آواذیں آ رہی تھیں۔۔
سلطان نے درواذے کو باہر سے بند کر دیا۔۔اندر غالباََ احمر کے آدمی موجود تھے۔۔
دو آدمی وہیں کھڑے کر کے باقی کے تین کو لیے وہ دوسرے کمرے کی جانب بڑھا۔۔اندر سے زنانہ چیخ پر وہ تیزی سے درواذہ دکھیلتا اندر داخل ہوا۔۔
احمر عاٸشہ کو بالوں سے پکڑے زمین پر دھکا دے رہا تھا۔۔وہ اپنے چہرے کو مسلسل ڈھکے جا رہی تھی۔۔۔سلطان کے اندر داخل ہوتے ہی احمر بوکھلا گیا۔۔اسے اس کی امید نہ تھی۔۔
وہ تیزی سے بھاگا اور عاٸشہ کو کندھوں سے پکڑ کر اپنے ساتھ لگاے کھڑا ہوآ۔۔
آدمیوں نے احمر کو دبوچ لیا تھا۔۔کافی کوشش کے باوجود وہ ان سانڈ نما آدمیوں کے چنگل سے نہ نکل سکا ۔۔۔
********
عاٸشہ کو گاڑی میں بیٹھنے کا کہتا وہ احمر کی طرف لپکا۔۔
کمینے ۔۔کتے ذلیل۔۔۔۔۔۔۔
تو نے ان گندے ہاتھوں سے چھوا میری بیوی کو ۔۔مار ڈالوں گا۔۔
اس کی اچھی خاصی درگت بنا کر وہ غصے سے باہر نکلا۔۔احمر جسمانی لحاظ سے سلطان سے کمزور نکلا۔۔اس کی ساری طاقت اسلحہ اور اس کے آدمی تھے جو کہ فلحال اس کے پاس موجود نہیں تھے۔۔
۔۔۔
گھر داخل ہوتے ہی ہال میں بیٹھی بریرہ کے ہاتھ میں حامد دیکھ کر وہ اس کے پاس بھاگی ہوی پہنچی۔۔
میرا بچہ۔۔اس نے اپنے بیٹے کا منہ چوم ڈالا کبھی سینے سے لگاتی کبھی چہرہ چومتی اور روتی جاتی۔۔
بریرہ اسے دیکھ کر خوش ہوی تھی۔۔
۔عاٸشہ تم ٹھیک ہو نا؟؟ کہاں چلی گٸ تھی۔۔۔؟
وہ سب ہی عآٸشہ کی واپسی پر خوش تھے۔۔گھر کا اداس ماحول یک دم اچھا ہو گیا تھا۔۔
وہ حامد کو سلا کر چینج کرنے واش روم چلی گٸ۔۔واپس لوٹی تو سلطان حامد کے پاس لیٹا اسے پیار کر رہا تھا۔۔اسے دیکھ کر اٹھ کے اس کے قریب آیا۔۔
کہاں تھےآپ اتنے تھکے ہوے لگ رہے ہیں؟۔۔
اس کا تھکا ہوا چہرہ دیکھ کر وہ پریشانی سے بولی۔۔
آپ کہاں تھیں اتنے دنوں سے۔۔؟ یاد نہیں آٸ میری؟
اس نے الٹا سوال کیا۔۔
عاٸشہ کی آنکھوں سے آنسوو ٹپ ٹپ بہنے لگے۔۔
آپ اگر وقت پر نہ آتے تو نجانے۔۔۔۔
اس کی الفاظ اس کے منہ میں رہ گے۔۔۔
سلطان نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے چپ کروا دیا۔۔
میں وعدہ کرتا ہوں آٸیندہ کبھی خودسے دور نہیں ہونے دوں گا۔۔۔
وہ خمار ذدہ سا کہتا اس پر جھکا تھا۔۔۔
********
پولیس نے گیسٹ ہاوس کور کر لیا تھا۔۔اندر سے بھاری مقدار میں نشہ آور انجیکشن اور چند بے ہوش لڑکیاں ملی تھیں جن کے ساتھ زیادتی ہوی تھی۔۔۔یہ گینگ لڑکیوں کو سپلاے کرنے کا کام کرتا تھا۔۔ A S king کے نام سے مشہور احمر ڈان ندارد تھا۔۔۔ پولیس کو معلوم نہیں تھا کہ احمر کہاں ہے۔۔۔کسی انجان
نمبر سے انہیں اس گیسٹ ہاوس کا ایڈریس ملا تھا۔۔۔وہاں موجود احمر کے آدمی بھی کچھ بتانے سے قاصر تھے کیوںکہ ان کے مطابق انہیں کمرے میں بند کر کے بے ہوشی کی دوا سپرے کر دی گٸ تھی اس وجہ سے وہ بے ہوش تھے اور انہیں وہاں ہوا کوی بھی واقعہ معلوم نہیں ہے۔۔۔ان سب آدمیوں اور سامان کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔۔
سلطان نے احمر کی خوب درگت بنای تھی۔۔۔ عاٸشہ نے اس کے سوجے چہرے پر تھپڑوں کی برسات کر کے مزید سوجا دیا تھا۔۔۔بریرہ بھی اسے دیکھ کر ضبط کھو بیٹھی تھی ۔۔۔پاس بڑے ڈنڈے سے اپنی بھڑاس نکال ڈالی۔۔
رباب نے تو اس کے چہرے پر تھوکنا بھی گوارا نہ کیا۔۔۔
کاش کے میرا کوی بھای نہ ہوتا ۔۔۔
وہ چلاٸ تھی اور احمر اپنی بہن کے منہ سے یہ الفاظ سن کر سر جھکا گیا۔۔۔
**********
شہر کے قریب ایک سنسان سی جھیل پر ایک لاش ملی تھی۔۔۔تفتیش کرنے پر وہ احمر کی لاش معلوم ہوی۔۔۔اس کے ہاتھوں اور پیروں کو کاٹ دیا گیا تھا۔۔۔رات بھر وہاں بڑی رہنے سے لاش کو کتوں نے نوچ لیا تھا۔۔۔
چہرے پر گوشت باقی نہ تھا۔۔صرف بازو کو جلا کر اس پر ۔۔۔A s king..احمر شیراز خان لکھا ہوا تھا۔۔جس سے اس کی شناخت ہوی تھی۔۔۔نیوز چینلز پر یہی خبر گردش کر رہی تھی۔۔۔
لڑکیوں کو بیرون ملک سپلای کرنے والا درندہ ۔۔ڈاکو ۔۔چور ۔۔یہ لعین شخص جو As king کے نام سے مشہور تھا اسکی لاش پہچان میں نہیں آ رہی ہے۔۔۔کتوں نے اس کا جسم نوچ کر رکھ دیا۔۔۔
بند کرو اسے ایاض۔۔۔خدا کے لیے اس شخص کا نام بھی زہر لگتا ہے۔۔۔
ایاض جو کہ موبایل پر نیوز سن رہا تھا بریرہ کے کہنے پر موبایل بند کر کے ساٸیڈ پر رکھا۔۔۔
رانی سو چکی تھی۔۔۔ رباب اس پر کمبل درست کرتی آٸینے کے سامنے کھڑی ہوی گٸ۔۔
دن بدن خوبصورت ہوتی جا رہی ہو۔۔
ایاض نے شرارت سے کہا۔۔
کیوں؟؟ پہلے نہیں تھی کیا۔۔
اس نے ادا سے کہا
تھی ۔۔۔مگر اب زیاہ ہو گٸ ہو اور صبح تک مزید ہو جاو گی۔۔۔
اسے باہوں میں بھرتا شرارت سے کہنے لگا تو رباب کھکھلا کر ہنس دی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنیں۔۔آپ سے کچھ کہنا تھا۔۔
بریرہ نے بیڈ کے کونے پر بیٹھتے ریاض کو مخاطب کیا
بولیں محترمہ اجازت کیوں لیتی ہیں اس غلام سے۔۔
وہ سینے پر ہاتھ رکھے بولا تو بریرہ نے مسکرا کر اس کا ہاتھ اپنے پیٹ پر رکھا۔۔۔
۔۔۔ریاض نے حیرت سے اسے دیکھا
میں امید سے ہوں۔۔صبح ہی پتا چلا سوچا سرپراٸز دے دوں۔۔
اس نے اس کا کھلا منہ بند کرتے ہنس کر کہا
ماشا۶اللہ۔۔۔بیگم صاحبہ ۔۔۔ اتنی بڑی خوشی ۔۔۔
وہ جوش سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔ خوشی اس کے چہرے پر عیاں تھی۔۔۔
ریاض نے جھک کر اسے حصار میں لے لیآ۔۔
بہت شکریہ بریرہ میری زندگی میں آنے کے لیۓ۔۔۔
میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں۔۔۔
اس کے بالوں میں سر چھپاے وہ محبت کا اظہار کر رہا تھا۔۔۔وہ سرشار سی اس کے سینے میں چہرہ چھپا گٸ۔۔
**********
عاٸشہ بس کر دیں۔۔کتنا چومیں گی اسے۔۔سو گیا ہے وہ۔۔۔کب سے وہ سوتے ہوے حامد پر جھکی اسے پیار کر رہی تھی۔۔۔سلطان نے جھنجھلا کر کہا تو وہ اٹھ کر اس کے پاس صوفے پر آ گٸ۔۔
خفا مت ہوں۔۔یہ لیں آ گٸ۔۔۔وہ مسکرا کر اس کا ہاتھ پکڑ کر بولی۔۔۔
ہمممم۔۔۔۔ اچھا تو یہ بتاٸیں۔۔حامد زیاہ پیارا ہے یا میں۔۔
اس کے عجیب سوال پر عاٸشہ نے اسے گھورا۔۔
دونووں ہی پیارے ہیں۔۔میں آپ دونوں کے بغیر نہیں جی سکتی۔۔
اس نے مان سے اس کے کندھے پر سر رکھ کر کہا۔۔
کوی ثبوت۔۔۔۔
سلطان نے سنجیدگی کے کہا۔۔
ثبوت کہاں سے لاوں۔۔؟
وہ زچ ہوی تھی۔۔
لانا کہاں سے ہے۔۔۔بس ایک کس کر دیں۔۔جیسے ابھی اپنے بیٹے کو کر رہی تھیں۔۔
اس نے گال آگے کرتے کہا تو عاٸشہ نے ہلکا سا تھپڑ اس کے گال پر رسید کیا۔۔
آآآ ۔۔ظالم بیوی ۔۔۔اتنے زور سے مارا۔۔
وہ ایکٹنگ کرتا مصنوعی آنسوو صاف کرنے لگا۔۔
ہاہا۔۔ عآٸشہ ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گٸ۔۔ ڈرامے باز۔۔۔
سلطان اسے ہنستا دیکھ کر مسکرا دیا۔۔۔
اللہ یوں ہی خوش رکھے آپ کو۔۔۔میری جان
اس نے دل میں اسے دعا دی۔۔۔
*************
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Mere Humsafar Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mere Humsafar written by Mona Rizwan. Mere Humsafar by Mona Rizwan is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment